Language: UR
خطبات مسرور خطبات جمعه فرموده امام جماعت احمدیه عالمگیر حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ₤2012 جلد دہم
پیش لفظ احمد اللہ، خطبات مسرور کی دسویں جلد پیش کی جارہی ہے جو امام جماعت احمد یہ عالمگیر حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب خلیفہ اسی الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بیان فرمودہ 2012ء کے خطبات جمعہ پر مشتمل ہے.یہ تمام خطبات الفضل انٹر نیشنل لندن میں شائع شدہ ہیں.ہماری خوش نصیبی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں وقت کے امام کو پہچاننے کی توفیق دی اور اس کا سراسر فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمیں خلافت کے نظام میں شامل کیا.ہمیں ایک خلیفہ عطا کیا جو ہمارے لئے در در کھتا ہے، ہمارے لئے اپنے دل میں پیار رکھتا ہے، اس خوش قسمتی پر جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے.اس شکر کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ ہم خلیفہ وقت کی آواز کو سنیں ، اس کی ہدایات کو سنیں اور ان پر عمل کریں کیونکہ اس کی آواز کوسنا باعث ثواب اور اس کی باتوں پر عمل کرنا دین و دنیا کی بھلائی اور ہمارے علم و عمل میں برکت کا موجب ہے.اس کی آواز وقت کی آواز ہوتی ہے.یہ لوگ خدا کے بلانے پر بولتے ہیں.خدائی تقدیروں کے اشاروں کو دیکھتے ہوئے وہ رہنمائی کرتے ہیں اور الہی تائیدات و نصرت ان کے شامل حال ہوتی ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی فرماتے ہیں:." خدا تعالیٰ جس شخص کو خلافت پر کھڑا کرتا ہے وہ اس کو زمانہ کے مطابق علوم بھی عطا کرتا ہے.اسے الفرقان مئی جون 1967ء صفحہ 37) اپنی صفات بخشتا ہے.“ حضرت مصلح موعود کا ایک ارشاد ان خطبات کی خیر و برکت اور اہمیت کو اور واضح کر دیتا ہے آپ نے فرمایا : ” خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں ، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم یا وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے.جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک خطبات رائیگاں، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں.“ (خطبہ جمعہ 24 جنوری 1936 ء مندرجہ الفضل 31 جنوری 1936ء) 2012ء کا سال جماعت احمد یہ عالمگیر کے لئے ایک اور تاریخ ساز سال ثابت ہوا.احمدیت کی تائید میں خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کے نشانات موسلا دھار بارش کی مانند برستے رہے.یہ خطبات ہمارے لئے ایک روحانی مائدہ بھی ہے ان میں انواع واقسام کے مضامین ہماری مادی
اور روحانی بھوک و پیاس کو مٹانے کے لئے شامل ہیں، انفاق فی سبیل اللہ ، وقف جدید اور تحریک جدید کی عظیم الشان عالمگیر تحریکات کے پھل ، ایم ٹی اے کی برکات اور اہمیت ،مغرب کے کچھ ناعاقبت اندیش ذہنوں کی اسلام مخالف مہم اور توہین رسالت مآب صلی ایم کے جواب میں تمام دنیا میں بسنے والے لاکھوں کروڑوں احمدیوں کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے ، اسوہ رسول صلیا ایلیم اپنانے اور آپ کی خوبصورت سیرت کو دنیا بھر میں کثرت سے پھیلانے کی تحریک ، دعاؤں اور خاص طور پر پاکستان کے لئے دعا کی تحریک، اپنی نمازوں اور عبادات میں حسن پیدا کرنے تلاوت قرآن کریم اور اپنے نفس کی اصلاح اور اپنے اندر نیک تبدیلیاں پیدا کرنے ، بنی نوع انسان سے محبت کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے ، دعوت الی اللہ کرنے ، آپس میں بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے ،میاں بیوی کے حقوق ادا کرنے اپنی اولادوں کی نیک تربیت کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے نیز راہ مولی میں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں اور نمایاں خدمت کاروں کا ذکر خیر بھی ان خطبات میں موجود ہے.خطبات مسرور کی اس جلد کی ترتیب و تکمیل میں جن جن ساتھیوں نے خاکسار کے ساتھ تعاون کیا ان کا شکر گزار ہوں خصوصاً محترم نصیر احمد قمر صاحب الفضل انٹر نیشنل لندن اور ان کا ادارتی عملہ ، یہاں دفتر میں خاکسار کے ساتھ عزیزان مکرم عامر سہیل اختر صاحب محمد افضال صاحب، جواد احمد صاحب اور رفیع ناصر صاحب.اسی طرح نظارت اشاعت کے کارکنان جنہوں نے اس کی طباعت میں حصہ لیا.اللہ تعالیٰ ان سب کو احسن جزاء سے نوازے اور ہم سب کو اپنی رضا کی راہوں پر چلائے اور انجام بخیر کرے.آمین فجزاهم الله احسن الجزاء فى الدنيا والآخرة | خاکسار
1 2 3 4 LO 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 فهرست خطبات مسرور 2012 ء جلد دہم خطبه فرموده صفحہ نمبر شمار خطبه فرموده خطبه جمعه فرموده 6/جنوری خطبه جمعه فرموده 13 / جنوری 17 خطبه جمعه فرموده 20 /جنوری | 32 خطبه جمعه فرموده 27 / جنوری | 49 خطبه جمعه فرموده 3 فروری خطبه جمعه فرموده 10 رفروری 60 خطبه جمعه فرموده 17 فروری خطبه جمعه فرموده 24 فروری خطبه جمعه فرموده 2 / مارچ خطبه جمعه فرموده 9 / مارچ خطبه جمعه فرموده 16 / مارچ خطبه جمعه فرمودہ 23 مارچ خطبه جمعه فرموده 30 /مارچ خطبه جمعه فرموده 6 / اپریل 15 1 16 17 18 19 67 20 80 21 97 22 111 22 23 125 24 141 22 25 158 26 174 27 194 209 صفحہ خطبہ جمعہ فرموده 13 / اپریل 224 خطبه جمعه فرموده 20 / اپریل 241 خطبه جمعه فرموده 27 / اپریل 258 خطبه جمعه فرموده 4 رمئی خطبه جمعه فرموده 11 رمئی خطبه جمعه فرموده 18 مئی خطبه جمعه فرموده 25 رمئی خطبه جمعه فرموده یکم جون خطبه جمعه فرموده 8/ جون خطبه جمعه فرموده 15 / جون خطبه جمعه فرموده 22 / جون 274 287 304 318 336 354 369 381 خطبه جمعه فرموده 29 جون 394 خطبہ جمعہ فرمودہ 6 جولائی 405 / 28 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 / جولائی 418
نمبر شمار خطبه فرموده صفحہ 29 خطبہ جمعہ فرمودہ 20 جولائی 433 نمبر شمار خطبه فرموده خطبہ جمعہ فرموده 12 / اکتوبر 616 30 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 / جولائی 449 31 32 33 خطبه جمعه فرموده 3 اگست | 464 خطبه جمعه فرموده 10 / اگست | 476 33 خطبه جمعه فرموده 17 / اگست 488 34 خطبه جمعه فرموده 24 /اگست 35 خطبه جمعه فرموده 31 / اگست | 522 36 37 خطبه جمعه فرموده 7 ستمبر 32 خطبه جمعه فرموده 14 / ستمبر 549 40 38 39 40 خطبه جمعه فرموده 21 /ستمبر خطبه جمعه فرموده 28 ستمبر خطبه جمعه فرموده 5 را کتوبر 41 42 43 44 45 46 506 47 48 534 49 50 562 51 579 52 59 593 خطبه جمعه فرموده 19 اکتوبر 636 خطبه جمعه فرموده 26 /اکتوبر خطبه جمعه فرموده 2 / نومبر خطبه جمعه فرموده 19 نومبر خطبه جمعه فرموده 16 / نومبر خطبه جمعه فرموده 23 / نومبر خطبہ جمعہ فرموده 30 / نومبر خطبه جمعه فرموده 17 دسمبر خطبه جمعه فرموده 14/ دسمبر خطبه جمعه فرموده 21 / دسمبر خطبه جمعه فرموده 28 / دسمبر 654 670 687 703 718 732 747 762 778 793
خطبات مسرور جلد دہم 1 1 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 6 جنوری 2012ء خطبه جمع سید نا امیرالمومنین حضرتمرز امرود احمدخلیفة السح الخامس اید اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 6 جنوری 2012 ء بمطابق 6 صلح 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح.مورڈن - لندن تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا هِمَا تُحِبُّونَ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ (آل عمران: 93) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ تم کامل نیکی کو ہرگز نہیں پاسکتے جب تک کہ اپنی پسندیدہ اشیاء میں سے ( خدا تعالیٰ کی راہ میں) خرچ نہ کرو.اور جو کوئی چیز بھی تم خرچ کرو اللہ اسے یقیناً خوب جانتا ہے.پر اعلیٰ قسم کی نیکی کو بھی کہتے ہیں اور بڑ کامل نیکی کو بھی کہتے ہیں.جیسا کہ ترجمہ میں بتایا ہے.پس ایک حقیقی مومن جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی تلاش میں رہتا ہے نیکیوں کے وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کرنی چاہئے جو اُس کو خدا تعالیٰ کے قریب کرنے والے ہوں.قرآنِ کریم میں جہاں اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے مختلف رنگ میں مختلف نیکیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور اُن کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال کے خرچ کو بھی اور اپنی مختلف صلاحیتوں کے خرچ کو بھی نیکی قرار دیا گیا ہے.اس آیت میں بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کو بہت بڑی نیکی قرار دیا گیا ہے.اور فرمایا کہ جس مال یا چیز سے تمہیں محبت ہے اگر وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو گے تو تب یہ بڑی نیکی ہوگی.بیشک اللہ تعالیٰ ہر اس نیکی کا بدلہ دیتا ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کی جاتی ہے لیکن بہترین جزا اُس وقت ملتی ہے جب بہترین چیز اُس کی راہ میں قربان کی جائے.یا خدا تعالیٰ کو وہ بندہ سب سے زیادہ پسند ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے نیکیوں کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اُس کے حصول کے لئے وہ اپنی پسندیدہ ترین اور محبوب ترین چیز بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں دینے سے گریز نہیں کرتا.
خطبات مسرور جلد دہم 2 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 6 جنوری 2012ء پس سچے ایمان، بچی نیکی اور قربانی کے اعلیٰ معیار کا اُس وقت پتہ چلتا ہے جب اُس چیز کو قربان کیا جائے جو اُسے سب سے زیادہ پسندیدہ ہو.ایمان کی مضبوطی اور سلامتی کے لئے بھی ہر قسم کی قربانی کے لئے مومن تیار رہتا ہے اور ایک حقیقی مومن کو (تیار) رہنا چاہئے.نیکیوں کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کے لئے بھی ہر وقت ایک حقیقی مومن بے چین رہتا ہے.احادیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ایک صحابی ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت سلیم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ میں اپنا سب سے پسندیدہ مال جو بیرحاء کے نام سے جانا جاتا تھا ، وہ اللہ کی راہ میں دیتا ہوں.آنحضرت صل للہ یہی تم نے اس پر بڑی خوشی کا اظہار فرمایا.پھر اُس کو فرمایا کہ اس کو تم نے کس طرح خرچ کرنا ہے.(بخاری کتاب التفسير باب لن تنالوا البر حتی...حدیث نمبر 4554) بہر حال صحابہ ہر وقت اس تڑپ میں رہتے تھے کہ کب کوئی نیکی کا حکم ملے اور ہم اسے بجالانے کے لئے ایمان، اخلاص ، وفا اور قربانی کا اظہار کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کو انتہائی قابلِ رشک فرمایا ہے.اور یہ معیار حاصل کرنے والے ہمیں صحابہ رضوان اللہ علیہم میں بے شمار نظر آتے ہیں جو سر ابھی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے تھے اور اعلانیہ بھی.چھپ کر بھی کرتے تھے اور ظاہری طور پر بھی کرتے تھے تا کہ وہ معیار حاصل کریں جو اللہ تعالیٰ ایک مومن سے چاہتا ہے.اُن کی قربانیوں کی نیت بھی خدا تعالیٰ جانتا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کو بے انتہا نوازا.معمولی کام کرنے والوں کو ایک وقت آیا کہ کروڑوں کا مالک بنا دیا.اور یہ مالی فراوانی اُن کے ایمان اور یقین کو مزید جلا بخشتی گئی.وہ آنے والے مال کو اور جائیداد کو بے دریغ ، بغیر کسی خوف وخطر کے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے چلے گئے.اُن کو اس بات کا عرفان اور ادراک حاصل تھا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے اللہ تعالیٰ بے انتہا نواز تا ہے.سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ نوازتا ہے.اللہ تعالیٰ کسی کا اُدھار نہیں رکھتا.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی نے اُن میں جو روحانی انقلاب برپا کیا تھا اُس وجہ سے وہ اس فکر میں ہوتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش کریں.یہی اُن کا مقصود تھا جس کے لئے وہ سر توڑ کوشش کرتے تھے.صحابہ کی زندگیاں اس بات کی شاہد ہیں کہ انہوں نے اس مقصود کو پا بھی لیا جس کے لئے وہ کوشش کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خوشنودی کی سند حاصل کی.
خطبات مسرور جلد دہم 3 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 جنوری 2012ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان صحابہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : کیا صحابہ کرام مفت میں اس درجہ تک پہنچ گئے جو اُن کو حاصل ہوا.دنیاوی خطابوں کے حاصل کرنے کے لیے کس قدر اخراجات اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں تب کہیں جا کر ایک معمولی خطاب جس سے دلی اطمینان اور سکینت حاصل نہیں ہو سکتی ، ملتا ہے.پھر خیال کرو کہ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ کا خطاب جو دل کو تسلی اور قلب کو اطمینان اور مولیٰ کریم کی رضامندی کا نشان ہے، کیا یونہی آسانی سے مل گیا ؟ فرمایا بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضامندی جو حقیقی خوشی کا موجب ہے، حاصل نہیں ہو سکتی.جب تک عارضی تکلیفیں برداشت نہ کی جاویں.خدا ٹھگا نہیں جاسکتا.مبارک ہیں وہ لوگ جو رضائے الہی کے حصول کے لیے تکلیف کی پروا نہ کریں کیونکہ ابدی خوشی اور دائی آرام کی روشنی اس عارضی تکلیف کے بعد مومن کو ملتی ( ملفوظات جلد اول صفحہ نمبر 47 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ) ہے.اس زمانے میں دنیا کی اصلاح کے لئے ، دنیا کو خدا تعالیٰ کے قریب کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا ہے.آپ علیہ السلام صحابہ کی مثال دے کر جب ہمیں کچھ بیان فرماتے ہیں تو اس لئے کہ یہ پاک نمونے ہمارے لئے اسوہ ہیں.ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرو.اور اگر کوشش کرو گے تو حقیقی نیکیاں سرانجام دینے والے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن سکو گے.اور پھر جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی براہ راست تربیت سے ایسے ہزاروں وجود دنیا کو دکھائے جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور اس ایمان کی حرارت اور قربانیوں کی وجہ سے جماعت ہر دن ایک نئی شان سے ترقی کی منازل طے کرتی چلی گئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی اُن لوگوں نے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت پائی، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس پیغام کو خوب سمجھا کہ نیکی کا دروازہ تنگ ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : ” نیکی کا دروازہ تنگ ہے.پس یہ امر ذہن نشین کر لو کہ کھی چیزوں کے خرچ کرنے سے کوئی اس میں داخل نہیں ہو سکتا.کیونکہ نص صریح ہے: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (آل عمران: 93) جب تک عزیز سے عزیز اور پیاری سے پیاری چیزوں کو خرچ نہ کرو گے، اس وقت تک محبوب اور عزیز ہونے کا درجہ نہیں مل سکتا.( ملفوظات جلد اول صفحہ نمبر 147ایڈیشن 2003 مطبوعدر بوہ ) صحابہ، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ تھے وہ اس بات کا ادراک حاصل کرنے کے بعد قربانیوں کے لئے بے چین رہتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں اعلیٰ معیار کی
خطبات مسرور جلد دہم 4 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 6 جنوری 2012ء نیکیاں حاصل کرنے کے لئے دعا کی درخواست کیا کرتے تھے.کوشش بھی کرتے تھے اور پھر اللہ تعالیٰ کے نظارے بھی دیکھتے تھے.یہاں میں آپ کو ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں.حضرت صوفی نبی بخش صاحب مہاجر قادیان بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں سالانہ جلسہ پر حاضر ہوا تو میں نے عرض کی کہ میں نے خلوت میں“ ( علیحدگی میں ) ” کچھ عرض کرنا ہے.“ ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اندر آ جاؤ.اتفاق سے وہ کھڑ کی کھلی رہی اور میرے ساتھ اور کئی احباب اندر آگئے.میں نے عرض کی کہ والد صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے لڑکے کو اچھی تعلیم دی.جب سے ملا زم ہوا ہماری کوئی خدمت نہیں کی.میں نے یہ عرض کیا حضور کی خدمت میں کہ والد تو یہ کہتے ہیں کہ میں نے بیٹے کو تعلیم دلوائی، ملازمت دلوائی ، ہماری خدمت نہیں کر رہا.” اور بیوی کہتی ہے کہ تو اچھا احمدی ہوا ہے کہ جو کچھ میرے پاس زیور تھا وہ بھی پک گیا ہے“.( باپ کو بھی شکوہ ہے، بیوی کو بھی شکوہ ہے ).پھر آگے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ ”اور یہاں میں دیکھتا ہوں کہ اس سلسلہ کی خدمت کے لئے آپ کے مرید ہزاروں روپیہ قربان کرتے ہیں.آپ دعا فرما ئیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے دگنی تگنی تنخواہ دے تو میں آپ کی خدمت کر سکوں.“ ایک طرف باپ کی طرف سے شکوہ ہے کہ میری خدمت نہیں کر رہے، اتنا لکھایا پڑھایا.بیوی کی طرف سے شکوہ ہے کچھ نہیں لے کے آتے مجھے اپنا زیور بیچنا پڑتا ہے اور ادھر جب میں نیکیاں دیکھتا ہوں جو یہاں ہو رہی ہیں، قربانیاں دیکھتا ہوں جو آپ کے پاس ہو رہی ہیں کہ لوگ آتے ہیں اور ہزاروں روپیہ دے جاتے ہیں، اس لئے میرے لئے بھی دعا کریں کہ مجھے بھی اللہ توفیق دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے یہ باتیں سن کے فرمایا کہ ” بہت اچھا ہم دعا کرتے ہیں.آپ یاد دلاتے رہیں.( تو یہ کہتے ہیں کہ ) اُس وقت میری تنخواہ 55 روپے تھی.پھر لاہور پہنچ کر ایک کارڈ یاد دہانی کے لئے لکھا ، یعنی دعا کے لئے خط لکھا ” تو اسی اثناء میں مجھے یوگنڈا ریلوے کی طرف سے 120 روپے تنخواہ اور 45 روپیہ بطور الاؤنس کی ملازمت مل گئی.جب مجھے پہلی تنخواہ ملی تو میں فوراً حضور کے آگے نذرانہ رکھ دیا جو کہ میرے دل میں تھا.“ (جماعت کے چندے کے لئے خرچ کے لئے ) ” اور اس کے بعد پھر میں افریقہ چلا گیا.میں جب تک وہاں رہا تین گنا تنخواہ ملتی رہی یہ آپ کی قبولیت دعا کا معجزہ ہے.“ 66.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 13 صفحہ نمبر 105 روایت حضرت صوفی نبی بخش صاحب) پھر ایک صحابی حضرت منشی ظفر احمد صاحب بذریعہ میاں محمد احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ
خطبات مسرور جلد دہم 5 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 جنوری 2012ء چوہدری رستم علی خاں صاحب مرحوم انسپکٹر ریلوے تھے.ایک سو پچاس روپیہ اُن کو ماہوار تنخواہ ملتی تھی.بڑے مخلص اور ہماری جماعت کے قابل ذکر آدمی تھے.وہ بیس روپیہ ماہوار اپنے گھر کے خرچ کے لئے اپنے پاس رکھ کر باقی کل تنخواہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیج دیتے تھے اور ہمیشہ اُن کا یہ قاعدہ تھا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 15 صفحہ نمبر 360 روایت حضرت منشی ظفر احمد صاحب) پھر دیکھیں دین کی خدمت کے لئے اور قربانی دینے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے غریبوں کے دلوں میں بھی شوق پیدا کیا تھا.اُن کو بھی تڑپ رہتی تھی جن کی کوئی آمد نہیں تھی.غربت تھی، بڑا خاندان تھا، بچے زیادہ تھے ، خرچ پورے نہیں ہوتے تھے وہ کس طرح قربانی دیا کرتے تھے.حضرت قاضی قمر الدین صاحب رضی اللہ عنہ سائیں دیوان شاہ صاحب کے بارے میں واقعات بیان کر رہے ہیں اُس کے بعد لکھتے ہیں کہ میں بھی سائیں صاحب سے کبھی دریافت کیا کرتا کہ آپ کو قادیان شریف جانا کوئی خاص کام کی وجہ سے ہے؟ کیونکہ جہاں ان کا گاؤں تھا، سائیں صاحب وہاں سے گزر کر جایا کرتے تھے اور رات بسر کیا کرتے تھے.سائیں دیوان شاہ نارووال کے رہنے والے تھے اور وہاں سے گزرتے ہوئے جاتے تھے.پیدل سفر کیا کرتے تھے.یہ، نارووال سے چلتے تھے اور قادیان آتے تھے جو کئی میل کا فاصلہ ہے.اگر بیچ میں سے بھی جائیں تو شاید کم از کم سو میل ہو.تو کہتے ہیں کہ قادیان شریف جانا کوئی خاص کام کی وجہ سے ہے یا شوق ملاقات سے جار ہے ہیں؟ تو کہتے ہیں سائیں دیوان شاہ فرمایا کرتے تھے کہ میں چونکہ غریب ہوں، چندہ تو دے نہیں سکتا اس لئے جارہا ہوں کہ مہمان خانے کی چار پائیاں بن آؤں تا کہ میرے سر سے چندہ اتر جائے.“ تو اس کی جگہ میں لنگر خانے کی جو چار پائیاں ہیں اُن کی بنائی کر کے مزدوری کا یہ کام کر آؤں.+66 (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 2 صفحہ نمبر 96 روایت حضرت قاضی قمر الدین صاحب) یہ دو تین مثالیں میں نے دی ہیں.پس یہ تھے ان لوگوں کی قربانیوں کے، اُن لوگوں کے معیار جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت سے فیض پایا اور روایات میں ایسی بے شمار مثالیں ہیں.لیکن میں وقت کی وجہ سے یہی چند ایک بیان کر رہا ہوں.اور اس بات کو پیش کرنا چاہتا ہوں اور اس بات پر ہمارے دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریز ہونے چاہئیں اور پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور ہمیں جھکتے چلے جانا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو دنیا میں لہرانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جس جماعت کا قیام فرمایا ہے اُس میں قربانی کے اعلیٰ
خطبات مسرور جلد دہم 6 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 جنوری 2012ء معیار، اپنی محبوب چیزوں کوخدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے معیار، صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگیوں کے ساتھ ہی ختم نہیں ہو گئے.یا زیادہ سے زیادہ صرف ایک دو نسلوں تک نہیں چلتے رہے بلکہ سو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی قربانی کے یہ ذوق و شوق اللہ تعالیٰ کے فضل سے قائم ہیں.بلکہ اس سے بھی بڑھ کر نئے آنے والے مختلف ممالک کے احمدیوں میں اپنا مال خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی لگتا ہے ایک دوڑ لگی ہوئی ہے.آج جب دنیا مادی عیش و آرام اور سہولتوں کے لئے اپنے مال خرچ کرتی ہے یا خواہش رکھتی ہے تو احمدی اُن کو ثانوی حیثیت دیتے ہوئے دین کی خاطر قربانیاں دیتے چلے جاتے ہیں.میں سمجھتا ہوں احمدیوں کی یہ قربانیاں ہی دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے ثبوت کے لئے کافی ہیں.ایشیا، یورپ، افریقہ، امریکہ ہر جگہ یہ قربانی کے نظارے نظر آتے ہیں.جو قربانیاں دینے والے لوگ ہیں.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو سمجھنے اور اس پر پوری طرح عمل کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں.پس جب تک ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے یہ کوشش جاری رکھیں گے، کوئی دشمن ہمارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا.انشاء اللہ.از د یاد ایمان کے لئے آجکل کی قربانیوں کے بھی چند واقعات میں پیش کرتا ہوں.یہ پہلا واقعہ میں نے انڈیا کے ناظم مال صاحب کی وقف جدید کی رپورٹ سے لیا ہے.کہتے ہیں خاکسار اور انسپکٹر وقف جدید بجٹ بنانے کے سلسلے میں جماعت کیرولائی، کیرالہ میں دورے پر گئے.جب پہنچے تو ایک مخلص دوست سے ملاقات ہوئی.انہوں نے کہا میں نے ابھی ابھی فرنیچر کا نیا کا روبار شروع کیا ہے.میرا نے سال کا وعدہ وقف جدید چارلاکھ روپے لکھ لیں.اس کے علاوہ اس بزنس سے جو بھی مجھے منافع ہوگا ، علاوہ اور چندوں کے اس کا بھی دس فیصد میں چندہ وقف جدید مزید ادا کروں گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا، اُن کا نیا بزنس چل پڑا.انہوں نے اپنی بیوی کو ہدایت کی تھی کہ روز کی کمائی سے چندہ جات کا، جتنے بھی چندے ہیں اُن کا الگ حساب نکال کر رکھ لیں.اور سال بھر کا جب حساب کیا گیا تو ساڑھے پانچ لاکھ روپیہ وقف جدید کا نکلا جو انہوں نے ادا کر دیا اور آئندہ سال کے لئے کہا کہ آئندہ سال میں دس فیصد کی بجائے منافع کا جو پچیس فیصد ہے وہ چندوں میں ادا کروں گا.پھر انڈیا سے ہی وقف جدید کے انسپکٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ مارچ 2011ء میں خاکسار جماعت احمد یہ نتھاری تشخیص بجٹ وقف جدید کے لئے پہنچا جہاں ایک خاتون کو جب تحریک کی اور احمدی اور مسلمان مستورات کی جانی اور مالی قربانیوں کے بارے میں واقعات سنائے تو انہوں نے اپنی ایک ماہ
خطبات مسرور جلد دہم 7 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 جنوری 2012ء کی تنخواہ کے برابر وعدہ لکھوا دیا.اور وہ معمولی ٹیچر تھی ، کوئی ایسی خاص آمدنی نہیں تھی کہ گزارہ بہت اچھا ہوتا ہو.پانچ ہزار روپیہ اُن کی تنخواہ تھی جو انہوں نے لکھوائی.کہتے ہیں میں پھر دوسری جگہ پہنچا جہاں اُس خاتون کے والد رہتے تھے.وہ صدر جماعت بھی تھے تو اُن کو بتایا گیا کہ آپ کی بیٹی نے بڑی قربانی کی ہے.اس پر وہ خوشی سے رو پڑے اور اپنی بڑی بیٹی کو بلایا اور اُس کو کہا کہ تمہاری بہن نے یہ قربانی دی ہے.تم اُس سے بڑی ہو تم کیا کہتی ہو.تو اُس نے فوراً اُس وعدے پر ایک ہزار روپیہ بڑھا کے اپنا وعدہ لکھوادیا کہ میں بڑی ہوں اس لئے زیادہ دوں گی.پھر یہ دیکھیں کہ چند سال پہلے جو لوگ احمدیت میں شامل ہوئے ہیں، اُن کے اخلاص کا اور قربانی کے جذبے کا کیا حال ہے؟ امیر صاحب مالی بیان کرتے ہیں کہ ہماری جماعت کے ایک دوست ترابرے صاحب یونین کونسل میں کام کرتے ہیں.موصوف چندوں میں با قاعدہ ہیں اور مالی قربانی میں پیش پیش رہتے ہیں.انہوں نے بتایا کہ مردم شماری کے کام کے لئے بتیس افراد پر مشتمل ایک ٹیم بنائی گئی اور کہا گیا کہ ایک مہینہ مسلسل کام کرنا ہے اور ایک دن بھی چھٹی نہیں کرنی.اس کے عوض ہر ایک کو ایک لاکھ فرانک سیفا بطور اجرت کے ملے گا.جو بھی ٹیم تھی ہر ایک کو اُس میں سے ایک لاکھ فرانک سیفا ملے گا.چنانچہ کہتے ہیں ہم نے معاہدہ کر لیا.ابھی کام کے دن ختم ہونے میں چھ دن باقی تھے کہ اُن کی ریجن ، فاناریجن کا جلسہ آ گیا.کہتے ہیں انہوں نے پہلے سوچا کہ جماعت سے معذرت کر لیتا ہوں اور جلسے میں شامل نہیں ہوتا لیکن پھر میرے دل نے فیصلہ کیا کہ میں نے بہر حال جماعتی کام کو فوقیت دینی ہے.میں نے یہ عہد کیا ہوا ہے.خدا کا کام اول ہے.اگر ایک لاکھ نہیں ملتا تو نہ ملے.چنانچہ کہتے ہیں میں نے کام چھوڑ کے جلسے پر جانے کا پروگرام بنالیا.باقی ساتھی مجھے بڑی ملامت کرنے لگے کہ کیوں پیسے ضائع کر کے جانے لگے ہو.کہتے ہیں جب میں جلسے سے فارغ ہو کر ایک ہفتے بعد واپس آیا تو علاقے کی میئر نے کہا کہ تم معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چلے گئے تھے لیکن میرے دل میں خیال آیا کہ تم خدا کی خاطر گئے ہو لہذا تمہارے لئے میں نے علیحدہ سے ایک لاکھ سیفا رکھا ہوا ہے وہ مجھ سے لے لو.اس کے بعد کہتے ہیں کہ نائب میئر نے بلایا جو کام کا نگران تھا.اُس نے بھی یہی کہا کہ گو تم چلے گئے تھے لیکن پتہ نہیں کیوں میرے دل میں خیال آیا کہ تمہیں رقم ملنی چاہئے.اُس نے بھی ایک لاکھ سیفا دے دیا کہ یہ میں نے رکھا ہوا تھا.پھرا کاؤنٹس کے انچارج نے بھی دفتر بلایا اور اس نے بھی اُن کو ایک لاکھ سیفا دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ تم موجود نہ تھے اس لئے میں
خطبات مسرور جلد دہم 8 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 جنوری 2012ء نے تمہارے لئے ایک لاکھ سیفا علیحدہ رکھ لیا تھا تو یہ لے لو لیکن کسی کو بتانا نہیں.تینوں نے یہی کہا کہ بتانا نہیں.کہتے ہیں کہ جب دیگر ساتھیوں سے پوچھا تو ہر ایک کے پیسوں میں کسی نہ کسی وجہ سے کچھ نہ کچھ کٹوتی ہوئی ہوئی تھی اور کسی ایک کو بھی پورا ایک لاکھ فرانک سیفا نہیں ملا تھا جبکہ مجھے تین لاکھ فرانک سیفا مل گیا اور ی محض دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے نتیجے میں تھا.انہوں نے اُسی وقت اُس میں سے ہیں ہزار فرانک چندہ بھی نکال کر دے دیا.پھر گیمبیا کی ایک اور مثال ہے.امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دن ایک دوست کو تو تر اولے صاحب (Kuto Trawally) میرے دفتر آئے اور کہا کہ وہ ایک ہزار ڈلاسی چندہ ادا کرنا چاہتے ہیں.انہوں نے کہا کہ میں لوگوں پر ادھار رکھ سکتا ہوں لیکن اللہ تعالیٰ پر ادھار نہیں رکھ سکتا.یہ دوست اپنی ذات میں غریب اور محتاج ہیں اور اپنے خاندان کو بہت مشکل سے سنبھالتے ہیں لیکن مالی قربانی کرنے میں ہمیشہ نظام کی اطاعت کرتے ہیں اور کچھ نہ کچھ دینے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں.انہوں نے کچھ عرصے بعد بتایا کہ جب انہوں نے ایک ہزار ڈلاسی چندہ ادا کیا تو اُس کے کچھ عرصے کے بعد ہی اُن کو اس سے زیادہ رقم کہیں سے مل گئی.وہ کہتے ہیں کہ میرا ایمان ہے کہ جب بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی کی جائے خدا تعالیٰ اس کے مطابق بلکہ اس سے بڑھ کر فضل فرماتا ہے.پس یہ ہے ذاتی محبت پر ، ذاتی خواہشات پر اللہ تعالیٰ کو تر جیح دینا.یہ چند ذکر میں نے مختلف ملکوں سے لئے ہیں.رپورٹوں میں بے شمار ذکر آتے ہیں.سیرالیون کا ایک ذکر ہے.مکینی کے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ کما را صاحب مخلص احمدی ہیں، مالی لحاظ سے کمزور ہیں.جب تحریک جدید کے چندے کی وصولی کے لئے ان کے گاؤں گیا تو پتہ چلا کہ ان کا کچھ بقایا تھا اور سال بھی ختم ہونے کو تھا.جب ان کے گھر گیا تو ( گھر کی حالت کا اندازہ لگائیں، ویسے یہاں بیٹھ کر ہم اندازہ نہیں کر سکتے ).انہوں نے بتایا کہ میرے پاس اس وقت صرف ہیں کپ چاول خریدنے کے لئے رقم ہے تا کہ کل شام تک گھر میں کھانے کا انتظام کیا جا سکے.جتنی رقم ہے وہ صرف اتنی ہے کہ کل شام تک میرے پاس گھر والوں کے لئے ایک دن کے کھانے کا خرچہ ہے اُس کے علاوہ رقم آنے کی کوئی امید بھی نہیں ہے.لیکن میں یہ رقم اپنا بقایا ادا کرنے کے لئے پیش کرتا ہوں.کوئی پرواہ نہیں کی.اور میں نے بیوی بچوں کو بتا دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ہی کھانے کا انتظام کرے گا.کہتے ہیں کہ اسی رات اُن کی ایک بہن نے دوسرے گاؤں سے ایک بوری چاولوں کی بطور تحفہ بھجوا دی اور اللہ تعالیٰ نے اس کا انتظام فرمایا.
خطبات مسرور جلد دہم 9 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 جنوری 2012ء آئیوری کوسٹ کے مبلغ بیان کرتے ہیں کہ ایک نو مبائع خادم ہارون صاحب جو کہ ساندرا شہر میں انڈوں کی تجارت کرتے ہیں، اُن کو جب مقامی معلم نے تربیتی سنٹر میں جا کر تربیت حاصل کرنے کی ترغیب دی تو یہ فوراً تیار ہو گئے اور اپنے ایک اور ساتھی کے ہمراہ اینگرو میں واقعہ تربیتی سنٹر میں پہنچ گئے اور تین ماہ کا کورس کیا اور احمدیت سے متعلق اپنی معلومات کو وسیع کیا اور یہ سوچ کر کہ اللہ تعالیٰ کے کام جارہا ہوں، اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے تجارت کو اپنے ایک چھوٹے بھائی کے سپر د کر گئے اور یہ امید تھی اور تو کل تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کو خراب نہیں ہونے دے گا.تین ماہ کا کورس مکمل کرنے کے بعد جب واپس لوٹے ہیں تو کہتے ہیں میری حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ ایک غیر معمولی منافع تھا جو اُن کو اس عرصے میں ہوا، جو اُن کے ہوتے ہوئے بھی کبھی ان کو نہیں ہوا تھا.اور پھر انہوں نے اپنا چندہ پانچ سو سے بڑھا کر ایک ہزار فرانک کر دیا اور پھر اُس میں اللہ تعالیٰ نے مزید برکت ڈالی تو چندہ اور بڑھا دیا اور اب یہ اللہ کے فضل سے چار ہزار فرانک ہر ماہ چندہ ادا کرتے ہیں.تحریک جدید، وقف جدید کے چندوں میں نہ صرف خودشامل ہوتے ہیں بلکہ اپنے مرحوم والدین جو شاید احمدی بھی نہیں تھے ، اُن کو بھی شامل کرتے ہیں.نومبائع ہیں والدین تو بہر حال احمدی نہیں ہوں گے، اُن کی طرف سے بھی دے دیتے ہیں.امیر صاحب برکینا فاسو بیان کرتے ہیں بو بوشہر کے ایک نو مبائع دوست تر اور ے(Traore) سلیمان صاحب کہتے ہیں کہ میں نے خطبہ جمعہ میں وقف جدید کی اہمیت کے بارے میں سنا تو میں ساری رات سو نہ سکا کہ جماعت اتنے بڑے بڑے کام کر رہی ہے اور ہم اس میں بھر پور حصہ نہیں لے رہے.چنانچہ اگلے دن ساڑھے چار ہزار فرانک سیفا چندہ وقف جدید ادا کر کے گئے مگر اگلی رات پھر بڑی بے چینی میں کائی تو اگلی صبح پھر مشن ہاؤس میں آئے اور پھر ساڑھے چار ہزار فرانک ادا کیا اور کہنے لگے اب میں کچھ پرسکون ہوں.سوئٹزر لینڈ کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ ہمارے ایک افریقن احمدی دوست اور میں صاحب جن کا تعلق نائیجیریا سے ہے، ایک انٹر نیشنل ادارے میں ملازم ہیں.جب یہ سوئٹزر لینڈ آئے تو انہوں نے ہے،ایک انٹرنیشنل یک مشت نو ہزار فرانک مسجد کے اکاؤنٹ میں بھجوائے اور ساتھ ہی نام کے ساتھ اپنا ٹیلی فون نمبر بھی لکھ دیا.کہتے ہیں مجھے لگا کہ یہ کوئی نیا نام ہے، بڑی حیرانی تھی کہ یہ کون ہے، فون پر جب رابطہ کیا تو پوچھا کہ آپ نے اتنی بڑی رقم اکاؤنٹ میں جمع کرائی ہے یہ کیا چیز ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ مجھے یہاں سوئٹزرلینڈ میں آئے تین مہینے ہو گئے ہیں تو اپنا چندہ بھجوایا ہے.مبلغ نے کہا کہ تین مہینے کا چندہ بھی اتنا نہیں بنتا تو انہوں
10 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 جنوری 2012ء خطبات مسرور جلد دہم نے کہا چھ مہینے پہلے میں ایک ایسے ملک میں رہا ہوں جہاں جماعت نہیں تھی اور وہ چندہ بھی میرے ذمے بقا یا تھا اس لئے میں نے یہ اتنی رقم کل نو ہزار سوئس فرانک بھجوائی ہے.تو یہ ان لوگوں میں ایمان کا معیار ہے کہ بندوں کوتو علم بھی نہیں ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کو تو علم ہے اس لئے اللہ تعالیٰ سے حساب ہر وقت صاف رکھ رہے ہیں.پھر ایک پاکستانی احمدی دوست ہیں، جو سوئٹزرلینڈ میں ایک کمپنی میں کام کرتے تھے.انہوں نے چندے کی ادائیگی کے لئے پانچ ہزا رسوئس فرانک کا وعدہ لکھوایا.کمپنی کی طرف سے پانچ ہزار کا بونس ملنے کی امید تھی.لیکن ساتھ اُن کو یہ بھی (خیال ) تھا کہ بونس ملے گا تو کچھ ذاتی ضروریات جو ہیں اُن پر خرچ کرنا ہے.پھر جب یہ پتہ لگا کہ چندہ ہے، وعدہ بھی اتنا لکھوایا ہوا ہے اور اُس کی ادائیگی کا وقت بھی قریب ہے تو انہوں نے اس کو چندے میں ادا کرنے کے لئے بتادیا کہ انشاء اللہ یہ چندہ ادا کر دوں گا.اور کر بھی دیا.اور اپنی جو ضرورت ہے وہ پیچھے پھینک دی.بعد میں انہوں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے اُس پر ایسافضل فرمایا کہ فرم نے اُن کو پانچ ہزار کے بجائے دس ہزار یورو، دو گنا کر کے بونس ادا کیا.اس طرح اُن کی ذاتی ضرورت بھی پوری ہوگئی اور وقف جدید کا وعدہ بھی پورا ہو گیا.پھر اسی طرح ہمارے بینن کے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ جماعت کے ہمارے معلم ایک جگہ تحریک جدید کا چندہ لینے گئے تو عبداللطیف صاحب نے اکتیس سو فرانک سیفا چندہ دیا اور کہا کہ دعا کریں اگر اللہ تعالیٰ مزید آمدن بھیج دے تو مزید چندہ بھجوا دوں گا.خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اسی ہفتے لطیف صاحب نے معلم کو بلوایا اور مزید سات ہزار فرانک سیفا چندہ دے دیا اور کہا کہ جس دن میں نے تمہیں اکتیس ہزار فرانک سیفا چندہ دیا تھا اُسی دن ایک مریض آگیا تھا جس کے علاج پر اُس نے پہلے مجھے چونتیس ہزار کی رقم دی لیکن پھر یہ کہتے ہوئے کہ میرے پاس واپسی کا کرایہ نہیں ہے، تین ہزار فرانک واپس لے لیا کہ اس کی مجھے ضرورت ہے اور اکتیس ہزار فرانک مجھے دے دیا.کہتے ہیں اس پر فوراً میرے دل نے یہ گواہی دی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے واقعی دس گنا بڑھا کر یہ رقم دی ہے، اکتیس سو کی جگہ اکتیس ہزار.اس لئے میں اپنا یہ چندہ بڑھا کر سات ہزار تمہیں بھجوا رہا ہوں.اسی طرح لائبیریا کے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک جگہ دورے پر گئے تو آٹھ سالہ طفل نے گھر کے جو چھوٹے موٹے کام ہوتے ہیں پانی لانا، بیگ رکھنا وغیرہ اُن کے چھوٹے چھوٹے کام کئے.بچے بھی وہاں بڑے جوش اور جذبے سے مبلغین کی خدمت کرتے ہیں.تو مربی صاحب نے خوش ہو کر ا سے پانچ
خطبات مسرور جلد دہم 11 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 جنوری 2012ء لائبیرین ڈالر انعام دیا اور لائبیرین ڈالر کی بڑی معمولی ویلیو (Value) ہے.نماز کے بعد جب مربی صاحب نے احباب جماعت کو تحریک جدید کے چندے کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی اور خاص طور پر زور دیا کہ بچوں کو بھی ضرور شامل کیا کریں تو وہی بچہ اُٹھا اور اپنے والد کے کان میں جا کے بتایا کہ میں نے بھی چندہ دینا ہے اور میرے پاس پیسے ہیں.باپ نے کہا کہ اگر تمہارے پاس ہیں تو دے دو.چنانچہ بچے نے وہی پانچ ڈالر جو اس کو ملے تھے چندے کے طور پر ادا کر دیئے.اس بچے کے اس جذبے کا باقی بچوں پر بھی اثر ہوا تو انہوں نے بھی اپنے والدین سے پیسے لے کے اس تحریک میں شامل ہونا شروع کیا.کرغزستان کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک نو مبائع دوست ضمیر صاحب (Zameer) نے تقریباً تین سال قبل بیعت کی تھی.اور 2008ء میں جب صد سالہ خلافت جو بلی کا جشن منایا گیا تو مرکزی ہدایات کی روشنی میں کچھ رقم مقامی سطح پر بھی اکٹھی کی گئی تھی.ان کی تنخواہ اس وقت چھیاسٹھ ڈالر تھی ، غریب ملک ہے.کہتے ہیں جب ہمارے مبلغ بشارت احمد صاحب نے اُن سے کہا کہ آپ بھی جو بلی کے جلسے کے لئے وعدہ لکھوائیں تو انہوں نے چوالیس ڈالر وعدہ لکھوایا اور جب اُنہیں تنخواہ ملی تو سیدھے مشن ہاؤس آئے اور یہ کہہ کر اپنا وعدہ ادا کر دیا کہ گھر جاؤں گا تو خرچ ہو جائیں گے.اس طرح وہ گھر صرف بائیس ڈالر لے کر گئے.چوالیس ڈالر و ہیں دے گئے.اللہ تعالیٰ نے اُن کے اخلاص کی بھی بہت قدر کی.تھوڑے عرصے میں اُن کو ایک اور اضافی کام مل گیا جہاں انہیں تقریباً ایک سو پچاس ڈالر اضافی ملنے شروع ہو گئے اور اب تقریباً تین ماہ سے ایک غیر ملکی کمپنی میں کام کر رہے ہیں اور اللہ کے فضل سے اب اُن کی تنخواہ سات سو ستر ڈالر ہے.اور انہوں نے اب وصیت بھی کر دی ہے.جب اُن کو مربی نے کہا کہ وصیت کے بعد اب آپ کو ایک بٹا سولہ (1/16) کے بجائے ایک بٹا دس (1/10) چندہ دینا پڑے گا تو انہوں نے کہا میں نے جس دن سے بیعت کی ہے میں تو اُس دن سے ہی ایک بٹا دس (1/10) دے رہا ہوں.اسی طرح کرغزستان کی ایک نو مبائع خاتون جلد ز صاحبہ (Jildiz) ہیں.بہت مخلص ہیں.اُن کو بیعت کئے ہوئے ایک سال ہوا ہے لیکن اس عرصے میں انہوں نے چندہ نہیں دیا تھا.جب اُن کو چندے کے بارے میں بتایا گیا ، اُس کی اہمیت واضح کی گئی اور بتایا کہ کون کونسے چندے لازمی ہیں.کون کو نسے اپنی مرضی سے آپ نے دینے ہیں.جب اُن کو مسجد میں تحریک کی جا رہی تھی تو فوراً وہاں سے اُٹھ کے گئیں اور اگلے دن صدر صاحب کو کہا کہ میں ابھی ملنا چاہتی ہوں.تو صدر صاحب نے کہا کہ میں تو ابھی کہیں کام جارہا ہوں لیکن انہوں نے کہا نہیں مجھے فورا ملنا ہے.چنانچہ وہ آئیں اور پندرہ ہزار کرغزسم اُن کو
خطبات مسرور جلد دہم 12 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 جنوری 2012ء چندہ دے دیا.صدر صاحب نے پوچھا کہ اتنی بڑی رقم.انہوں نے کہا میں نے پورا حساب کیا ہے اور میری سال کی آمد پر یہ چندہ بنتا ہے اور اس میں مختلف تحریکات کا چندہ بھی ہے.اس لئے میں دے رہی ہوں اور پورا ایک سال کا چندہ ادا کر رہی ہوں.تو یہ ہیں ان لوگوں کے بھی اخلاص و وفا کے قصے جو نئے احمدی ہو رہے ہیں.قربانیاں کرنے کے لئے کس طرح ان میں جوش اور جذبہ پیدا ہو رہا ہے.ان چند واقعات کے بعداب میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کرتا ہوں اور کچھ کوائف پیش کرتا ہوں.یکم جنوری سے وقف جدید کا سال بھی شروع ہوتا ہے.چؤنواں (54واں) ختم ہوا ہے.یہ پچپنواں (55 واں ) شروع ہو رہا ہے اور دنیا کی جور پورٹس موصول ہوئی ہیں، اُس کے مطابق (افریقن ملکوں کی بعض جگہوں سے بہت ساری رپورٹس نہیں بھی آتیں یا لیٹ آتی ہیں تو شامل نہیں کی جاتیں ).چھیالیس لاکھ ترانوے ہزار پاؤنڈ سے اوپر کی وصولی ہے.اور گزشتہ سال کی وصولی کے مقابلے پر اللہ کے فضل سے پانچ لاکھ دس ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے.الحمدللہ پاکستان حسب سابق پہلی پوزیشن میں ہی ہے اور باوجود اس کے کہ وہاں معاشی حالات بہت خراب ہیں، قربانیوں میں انہوں نے کمی نہیں آنے دی.اللہ تعالیٰ اُن کے اموال ونفوس میں بے انتہا برکت ڈالے.اپنی حفاظت میں رکھے اور ہر شر سے اُن کو پناہ میں رکھے.اُس کے بعد امریکہ ہے.امریکہ کے بعد پھر برطانیہ ہے.وکالت مال کا پہلے خیال تھا کہ برطانیہ دوسرے نمبر پر آرہا ہے.لیکن امریکہ والوں نے اپنی آخری رپورٹ جو مجھے بھجوائی اُس کے بعد برطانیہ کو انہوں نے تھوڑا سا پیچھے چھوڑ دیا ہے.اور یہ تقریباً گیارہ ہزار پاؤنڈ کا بڑا معمولی فرق ہے.جو پہلی لسٹ بنی تھی اُس میں برطانیہ نمبر دوہی تھا لیکن اس کے بعد جور پورٹ میرے پاس آئی اُس کے مطابق پھر ان کو نمبر تین کرنا پڑا لیکن برطانیہ کا جو اضافہ ہے یہ بھی غیر معمولی اضافہ ہے، بڑا حیرت انگیز ہے.اللہ تعالیٰ ان سب چندہ دینے والوں کے اموال ونفوس میں بے انتہا برکت ڈالے.حالانکہ یہاں بھی معاشی حالات خراب ہیں.پھر یہ کہ دوسرے اخراجات بھی ہیں، چندے بھی ہیں، مسجدیں بھی تعمیر کرنے کی طرف توجہ ہو رہی ہے.اُس کے باوجود تحریک جدید میں بھی اور وقف جدید میں بھی یو کے جماعت نے غیر معمولی اضافہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کیا ہے اور یہی چیز ہے جس سے لگتا ہے که حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ کی روح کی ان کو سمجھ آ رہی ہے.اللہ کرے یہاں کی جماعت باقی ہر قسم کی نیکیوں میں بھی آگے بڑھنے والی ہو اور اسی طرح دنیا کی ساری جماعتیں بھی.لجنہ یو کے نے بھی
خطبات مسرور جلد دہم 13 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 جنوری 2012ء اس میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے.بڑی اونچی چھلانگ لگائی تھی تحریک جدید میں بھی اور وقف جدید میں بھی.اللہ تعالیٰ سب بہنوں اور بچیوں کو بھی جزا دے.برطانیہ نمبر تین ہے.اُس کے بعد جرمنی نمبر چار پر ہے.پھر کینیڈا ہے.پھر انڈیا ہے.پھر آسٹریلیا ہے.پھر انڈونیشیا ہے.پھر بیلجیئم ہے اور سوئٹزر لینڈ ہے.اور مقامی کرنسی میں جو اضافہ ہے اُس کے لحاظ سے نمبر ایک پر انڈیا ہے جنہوں نے کافی غیر معمولی اضافہ کیا ہے تقریباً چھتیس فیصد.پھر بیلجیئم ہے باوجود چھوٹا سا ملک ہونے کے، چھوٹی سی جماعت ہونے کے انہوں نے بہت بڑا جمپ (Jump) لیا ہے.تقریباً تیس فیصد کا اضافہ ہے.پھر آسٹریلیا ہے.پھر برطانیہ ہے.پھر انڈونیشیا.اور چندوں کی ادائیگی کے لحاظ سے فی کس امریکہ پہلے نمبر پر ہے.پھر سوئٹزرلینڈ.پھر برطانیہ.پھر بیلجیئم.پھر آئر لینڈ.لگتا ہے امریکہ تو اپنے ایک ایسے پوائنٹ پر پہنچا ہوا ہے جہاں شاید مزید جب تک تعداد میں اضافہ نہ کریں اضافہ ممکن نہیں لیکن برطانیہ میں گنجائش موجود ہے اور پوزیشن بہتر ہوسکتی ہے.افریقہ میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے پہلی پانچ جماعتوں میں نمبر ایک گھانا ہے.پھر نائیجیریا ہے.پھر ماریشس ہے.پھر برکینا فاسو ہے.پھر یوگنڈا ہے.وقف جدید کا چندہ ادا کرنے والوں میں بھی اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے نوے ہزار افراد کا اضافہ ہوا ہے اور چھ لاکھ نوے ہزار تک تعداد پہنچ گئی ہے.ابھی اس میں بہت گنجائش ہے.افریقہ والوں کو میں نے کہا تھا کہ اس میں مزید اضافہ کریں.نئے آنے والوں کو شامل کرنا چاہئے.اب وکالت مال انشاء اللہ اُن کو اس تعداد میں اضافے کا بھی ٹارگٹ دے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی سختی سے فرمایا ہے کہ قربانی کی عادت شروع دن سے ڈالنی چاہئے اور افریقہ کی جماعتیں اگر اس طرف کوشش کریں تو یہاں بڑی گنجائش موجود ہے اور انشاء اللہ اس میں بہت خاطر خواہ اضافہ ہوسکتا ہے.اب وکالت مال کی طرف سے تعداد میں اضافے کے جو بھی ٹارگٹ اُن کو جائیں وہ اُس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں.چاہے معمولی رقم دیں.اور تعداد میں بھی اس سال نائیجیریا، نائیجر اور سیرالیون اور برکینا فاسو اور سینیگال اور بینن اور یوگنڈا وغیرہ نے زیادہ کوشش کی.گھانا کو میں نے کہا تھا انہوں نے بہت کم کوشش کی ہے.گھانا کو اپنی کوشش تیز کرنی چاہئے.بالغان کا جو چندہ ہے اُس میں پاکستان کی پہلی تین جماعتیں اول لا ہور ہے.دوم ربوہ ہے اور پھر کراچی ہے.
خطبات مسرور جلد دہم 14 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 جنوری 2012ء اضلاع میں پہلی دس پوزیشنوں میں پہلے سیالکوٹ ہے.پھر راولپنڈی ہے.پھر اسلام آباد ہے.پھر فیصل آباد ہے.پھر شیخو پورہ ہے.پھر سر گودھا ہے.پھر گوجرانوالہ ہے.پھر عمر کوٹ ہے اور گجرات ہے اور بہاول نگر.اطفال کی تین بڑی جماعتوں میں لا ہور نمبر ایک پر ہے.کراچی نمبر دو پر.ربوہ نمبر تین پر.اطفال میں اضلاع کی پوزیشن.سیالکوٹ نمبر ایک پر ہے.راولپنڈی نمبر دو.اسلام آباد نمبر تین.فیصل آباد نمبر چار.شیخو پورہ نمبر پانچ.گوجرانوالہ چھ.عمرکوٹ سات.سرگودھا آٹھ.نارووال نو اور گجرات دس.امریکہ کی پہلی پانچ جماعتیں وصولی کے لحاظ سے.لاس اینجلس ان لینڈ امپائر نمبر ایک پر.سلیکون ویلی نمبر دو پر.ڈیٹرائٹ تین پر.شکاگو چاراور سی انٹیل (Seatle ) پانچ.اور برطانیہ کی پہلی دس جماعتیں ہیں.رینیز پارک ایک نمبر پر.دو پر نیو مالڈن.تین ووسٹر پارک.نمبر چار پر فضل مسجد.پانچ پر ویسٹ کرائیڈ ن.چھ برمنگھم ویسٹ.سات لیمنگٹن سپا.آٹھ مانچسٹر ساؤتھ.نوجلنگھم اور دس ساؤتھ ہال.اور برطانیہ کے ریجنز کے لحاظ سے پانچ ریجنز ہیں.ساؤتھ ریجن نمبر ایک پر.پھر مڈلینڈ.لنڈن.اسلام آباد اور مڈل سیکس.جرمنی کی پہلی پانچ ریجنز ہیں.ہیمبرگ نمبر ایک پر.فرینکفرٹ نمبر دو گروس گیرا ؤ نمبر تین.ڈارمسٹڈ نمبر چار اور ویز بادن نمبر پانچ.جرمنی میں دس جو جماعتیں ہیں ان میں نمبر ایک پر رؤڈر مارک.کولون.فلوئرز ہائم.نوئیں.نیڈا.فلڈ ا، فرید برگ.روڈ با گو.مہدی آباد نمبر نو اور ہنا ؤ نمبر دس.کینیڈا کی پہلی جماعتیں.پیس ویلج نمبر ایک.ریکس ڈیل.ویسٹن ساؤتھ.ووڈ برج ، ایڈمنٹن.دفتر اطفال میں کینیڈا کی پہلی پانچ جماعتیں.ویسٹن ساؤتھ.پیس و پیج ساؤتھ ویسٹن نارتھ ویسٹ.ڈر ہم اور ہملٹن نارتھ.بھارت کی جماعتیں نمبر ایک پر کیرالہ ہے.پھر تامل ناڈو، جموں کشمیر، آندھرا پردیش ، ویسٹ بنگال، کرناٹک، پنجاب، اڑیسہ، اتر پردیش، مہاراشٹر اور دبلی ہیں.وصولی کے لحاظ سے انڈیا کی جماعتیں.کالی کٹ، کیرولائی، کنانور ٹاؤن، قادیان، حیدر آباد،
خطبات مسرور جلد دہم 15 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 6 جنوری 2012 ء کو متبور، کولکتہ، چنائی ، بینگلور، ریشی نگر اور کا رونا گا پلی ہیں.اللہ تعالیٰ ان تمام لوگوں کے، جنہوں نے وقف جدید کے چندے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، کے اموال ونفوس میں بے انتہا برکت ڈالے اور اس کے ساتھ ہی جیسا کہ میں نے کہا آئندہ سال کا بھی آج ہی اعلان کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ان سب کو پہلے سے بڑھ کر قربانیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان قربانیوں میں برکت بھی ڈالے.اور جماعت کا جو مال ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ بے انتہا برکت ڈالے.دنیا کے جو حالات ہورہے ہیں اُس میں اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے جو جماعت کو اپنے منصوبے جاری رکھنے اور اُن کو مکمل کرنے اور اُن میں مزید خوبصورتی پیدا کرنے کی توفیق عطا فرما رہا ہے اس کے بغیر تو کوئی گزارہ نہیں ہو سکتا.اس لئے دعاؤں میں، مال میں برکت کے لئے بھی بہت دعا کیا کریں.آخر میں آج نمازوں کے بعد میں ایک جنازہ بھی پڑھاؤں گا.یہ جنازہ ہمارے معروف شاعر اور بزرگ شاعر محترم عبدالمنان ناہید صاحب ابن حضرت خواجہ محمد دین صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے ، اُن کا جنازہ ہے.یکم جنوری 2012ء کو ترانوے سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے.إِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ منان صاحب ایک معزز کشمیری خاندان میں 1919ء میں پیدا ہوئے تھے.والد صاحب کا نام خواجہ محمد دین تھا جیسا کہ بتایا ہے.اور حضرت منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے صحابی تھے، ان کے نانا تھے.(ماخوذ از سیل غم.پبلشر: ایم.ٹی.اے انٹر نیشنل صفحہ ٹائٹل پیج نمبر 4) حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوئی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ناہید صاحب کی والدہ محترمہ حاکم بی بی صاحبہ کے پھوپھا تھے اور انہی کے گھر میں ان کی والدہ کی پرورش ہوئی ہے اور چونکہ قادیان میں قیام تھا اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر میں بھی بہت زیادہ آنا جانا تھا.اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت اماں جان کے پیار اور شفقت سے بھی ان کی والدہ نے خوب حصہ لیا.(ماخوذ از روزنامه الفضل جلد 97-62 نمبر 3 مورخہ 4 جنوری 2012 صفحہ 8) مکرم ناہید صاحب جیسا کہ جماعت کے بہت سارے صاحب ذوق لوگ جانتے ہیں (ویسے بھی لوگ جانتے ہیں ) بڑے معروف شاعر تھے اور ان کی نظمیں اور غزلیں بڑی گہری ہوا کرتی تھیں.ابتدائی تعلیم انہوں نے سیالکوٹ میں حاصل کی.1940ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی.اے کیا اور 41ء میں
خطبات مسرور جلد دہم 16 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 جنوری 2012ء ایم اے میں داخلہ تو لیا لیکن اس سے پہلے ہی ان کو ملازمت مل گئی.تو انہوں نے پڑھائی کو چھوڑ دیا.(ماخوذ از شعرائے احمدیت از سلیم شاہجہانپوری صاحب صفحہ 644 - ناشر : ابوالعارف مطبع : شریف سنز کراچی طبع اول) اور 1942 ء میں ملٹری اکاؤنٹس میں بھرتی ہوئے اور اسی محکمے سے 1978ء میں ڈپٹی کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس کے عہدے سے ریٹائر ہوئے.مختلف جگہوں پر خدمت کی ، کام کرنے کی توفیق ملی.(ماخوذ از ضلع راولپنڈی تاریخ احمدیت صفحه 535 مرتبہ خواجہ منظور صادق صاحب مطبع بلیک ایرو پرنٹرز لاہور 2004ء) اور جہاں جہاں بھی رہے وہاں جماعت کے کاموں میں بھی حصہ لیتے رہے.بڑے دھیمے مزاج اور عاجزی اور انکساری کے پیکر تھے.بڑے اچھے شاعر تھے لیکن جو اپنے جونیئر شعراء تھے، نوجوان شعراء تھے اُن کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے تھے.ادب اور احترام اور بڑے سلیقے کے ساتھ بات کرتے تھے.جماعتی مشاعروں کا لازمی حصہ ہوا کرتے تھے.بڑے نیک انسان تھے.یہاں بھی دو دفعہ آئے ہیں.مشاعروں میں حصہ لیا.خلافت رابعہ میں بھی اور میرے وقت میں بھی.شرائط بیعت پر عمل کرنے کی ان کی کوشش ہوتی تھی.امانت داری اور دیانت داری کی بڑی عمدہ مثال تھے.نماز ، روزے کے پابند اور باقاعدگی سے تہجد پڑھنے والے تھے.غرباء کے ساتھ ہمدردی اور عفو و درگزر کا سلوک بہت زیادہ تھا.خلفاء اور بزرگان سلسلہ کا بیحد احترام تھا.خلافتِ احمدیہ کے تو بہت زیادہ اطاعت گزار تھے.ان کو صف اول کے وفا داروں میں کہنا چاہئے.جماعتی مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے.غرض کہ بے نفس انسان تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ان کی اہلیہ کی وفات تو ان سے پہلے ہوگئی تھی اور اولا دان کی کوئی نہیں تھی.ایک بیٹا انہوں نے پالا تھا.اور جس بیٹے کو انہوں نے پالا تھا اللہ تعالیٰ اُس کو بھی ان کے زیر سایہ پلنے بڑھنے کا جو اثر ہے اُس پر ہمیشہ قائم رکھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُس کو بھی جماعت کی خدمت کی توفیق مل رہی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ اخلاص و وفا کے ساتھ ان کے اس لے پالک کو بھی ، اُن کے بچوں کو بھی توفیق دیتار ہے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 27 جنوری تا 2 فروری 2012 جلد 19 شماره 4 صفحه 5 تا 9)
خطبات مسرور جلد دہم 17 2 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جنوری 2012 ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت رزاسرود احمد خلیفہ امسح الامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 13 جنوری 2012 ء بمطابق 13 صلح 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح.مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: الَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللهَ إِنَّنِى لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرُ وَانِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوا إِلَيْهِ يُمَتَّعُكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ.(هود:3-4) یہ سورۃ ہود کی آیات تین اور چار ہیں.ان کا ترجمہ ہے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو.میں یقیناً تمہارے لئے اُس کی طرف سے ایک نذیر اور بشیر ہوں.نیز یہ کہ تم اپنے رب سے استغفار کرو.پھر اس کی طرف تو بہ کرتے ہوئے جھو تو تمہیں وہ ایک مقررہ مدت تک بہترین سامانِ معیشت عطا کرے گا.اور وہ ہر صاحب فضیلت کو اُس کے شایانِ شان فضل عطا کرے گا.اور اگر تم پھر جاؤ تو یقیناً میں تمہارے بارے میں ایک بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں.دنیا میں آجکل کسی نہ کسی رنگ میں تقریباً ہر جگہ ہی فساد برپا ہے اور یہ انسان کا اپنی پیدائش کے اصل مقصد یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کو بھولنے کا نتیجہ ہے.اللہ تعالیٰ کا قرب عبادت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا.اور عبادت کیا ہے؟ صرف پانچ فرض پورا کرنے کے لئے پانچ وقت نمازیں ادا کرنا یا پڑھ لینا ہی کافی نہیں ہے.ان نمازوں کو بھی سنوار کر پڑھنے کی ضرورت ہے اور پھر صرف نمازوں کے ظاہری سنوار سے ہی عبادت کا حق ادا نہیں ہو جاتا بلکہ اپنے ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کے وجود کو سامنے رکھنا بھی ضروری ہے.اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش کرنے کی بھی ضرورت ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کی ہر معاملے میں پیروی کرنے کی
خطبات مسرور جلد دہم 18 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جنوری 2012ء کوشش کرنا بھی ضروری ہے.اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے ان صفات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرنے کی ضرورت بھی ہے.حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا حق ادا کرنے کے لئے اپنی طرف سے بھر پور کوشش کرنا بھی ضروری ہے.جب یہ حالت ہوگی تو ایک انسان عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والا بن سکتا ہے، ایک مومن بن سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ ایک عجیب بات سوال مقدر کے جواب کے طور پر بیان کی گئی ہے یعنی اس قدر تفاصیل جو بیان کی جاتی ہیں.ان کا خلاصہ اور مغز کیا ہے؟ ” ( بے انتہا تفاسیر بیان کی گئی ہیں تفصیلیں بیان کی گئی ہیں، قرآن شریف میں احکامات ہیں، اُن کا خلاصہ اور مغز کیا ہے؟ فرمایا کہ ) أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا الله ( ہود : 3 ) خدا تعالیٰ کے سوا ہرگز ہرگز کسی کی پرستش نہ کرو.اصل بات یہ ہے کہ انسان کی پیدائش کی علت غائی یہی عبادت ہے.“ یہی اُس کی پیدائش کا بنیادی مقصد ہے.جیسے دوسری جگہ فرمایا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: 57) عبادت اصل میں اس کو کہتے ہیں کہ انسان ہر قسم کی قساوت کبھی کو دُور کر کے دل کی زمین کو ایسا صاف بنادے، جیسے زمیندار زمین کو صاف کرتا ہے.“ (فصل لگانے سے پہلے ) عرب کہتے ہیں مَوْرٌ مُعَبَّد - جیسے سُرمہ کو باریک کر کے آنکھوں میں ڈالنے کے قابل بنالیتے ہیں.اسی طرح جب دل کی زمین میں کوئی کنکر ، پتھر ، ناہمواری نہ رہے اور ایسی صاف ہو کہ گو یا روح ہی رُوح ہواس کا نام عبادت ہے؛ چنانچہ اگر یہ درستی اور صفائی آئینہ کی کی جاوے فرمایا کہ اگر یہ درستی اور صفائی شیشے کی کی جاوے ) ” تو اس میں شکل نظر آجاتی ہے.اور اگر زمین کی کی جاوے، تو اس میں انواع واقسام کے پھل پیدا ہو جاتے ہیں.پس انسان جو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اگر دل صاف کرے اور اس میں کسی قسم کی کبھی اور ناہمواری، کنکر، پتھر نہ رہنے دے تو اس میں خدا نظر آئے گا.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 346-347 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) پس یہ ہے عبادت کہ اپنی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی خاطر کر لو.اس طرح زمین ہموار کر وجس طرح ایک زمیندار فصل لگانے سے پہلے کرتا ہے.اس طرح اپنے دل کو چمکاؤ جس طرح ایک صاف شفاف شیشہ چمک رہا ہوتا ہے جس میں اپنا چہرہ نظر آتا ہے.جب ایسی صورت ہو گی تو جس طرح زمیندار کی اچھی طرح تیار کی گئی زمین میں پھل لگتے ہیں اور اچھے پھل لگتے ہیں، اُسی طرح دل میں بھی ، انسان کی روح میں بھی اچھے پھل لگیں گے.
خطبات مسرور جلد دہم 19 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جنوری 2012ء پھر آپ فرماتے ہیں کہ : جب تک ما سوی اللہ کے کنکر اور سنگریزے زمینِ دل سے دور نہ کر لو اور اُسے آئینے کی طرح مصفا اور سرمہ کی طرح باریک نہ بنالو، صبر نہ کرو.( ملفوظات جلد اول صفحہ 1348 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) پس یہ چیز ہے کہ مسلسل کوشش کرتے چلے جاؤ اور اُس وقت تک ایک مومن کو نہیں بیٹھنا چاہئے ، صبر نہیں کرنا چاہئے جب تک اپنی یہ حالت نہ کر لے.پس آجکل کے فساد سے بچنے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے کے لئے خالص ہو کر اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کی ضرورت ہے.اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان براہِ راست کسی فساد میں یا شر میں ملوث نہیں بھی ہوتا لیکن پھر بھی ماحول کے زیر اثر وہ فساد اور شر اُس پر بھی اثر انداز ہور ہے ہوتے ہیں.وہ اُن کا حصہ بن رہا ہوتا ہے اور کسی نہ کسی رنگ میں اُس میں ملوث ہو جاتا ہے.اور اس کی وجہ سے نہ صرف حقوق کی ادائیگی نہیں ہو رہی ہوتی بلکہ انسان لاشعوری طور پر ظلم میں بھی حصہ دار بن جاتا ہے.اس کی موٹی مثال تو آجکل احمدیوں کے ساتھ جو بعض ملکوں میں ہورہا ہے اُس کی ہے.بعض لوگ جو احمدیت کے بارے میں کچھ جانتے بھی نہیں وہ بھی مخالفین احمدیت کی وجہ سے اور خاص طور پر پاکستان میں ملکی قانون کی وجہ سے بے شمار جگہوں پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں.جہاں نازیبا الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں وہاں دستخط کرتے ہیں.پس ایسے لوگوں کی عبادتیں لاشعوری طور پر خدا تعالیٰ کے بجائے ان دنیا داروں کے قرب حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہیں.بظاہر وہ نمازیں ادا کر رہے ہیں لیکن دل میں نہ سہی لیکن لاشعوری طور پر وہ اُن نیکیوں کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہے جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے.اور یہ چیز کہ جب دین کو دنیا کے ساتھ ملا لیا جائے اور دین میں جب بگاڑ پیدا ہونا شروع ہو جائے تو پھر حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی پامالی ہوتی ہے.مذاہب کی تاریخ میں ہمیشہ اسی طرح سے ہوتا آیا ہے کہ ایک وقت میں آکے دین میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے.اور اسی لئے خدا تعالیٰ نے قوموں میں انبیاء کا سلسلہ جاری رکھا ہے کہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد جب دین اپنی اصل سے ہٹ جائے ، اُس کی روح ختم ہونی شروع ہو جائے تو پھر قوموں کو وارنگ کے لئے ، اُن کو صحیح دین کی طرف واپس لانے کے لئے ، عبادت کی روح قائم کرنے کے لئے، انبیاء براہ راست خدا تعالیٰ سے رہنمائی پا کر اپنا کردارادا کریں.اور جب خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تو جہاں آپ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے حقیقی اسلوب اور طریقے مسلمانوں کو سکھائے گئے ، ماننے والوں کو سکھائے گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو انسانِ کامل تھے
خطبات مسرور جلد دہم 20 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جنوری 2012 ء جن میں خدا تعالیٰ کی صفات جس حد تک ایک بشر میں کا ملیت کے ساتھ پیدا ہوسکتی ہیں، پیدا ہو گئیں تو پھر ہمیں حکم فرمایا کہ یہ رسول تمہارے لئے اسوہ حسنہ ہے.اس کی پیروی کرو گے تو مجھ تک پہنچو گے.یہ وہ رسول ہے جس کی نمازیں اور نوافل ہی عبادت نہیں تھے بلکہ ہر قول وفعل عبادت تھا.پس یہ عبادت کے معیار حاصل کرو.گودین اب تا قیامت اس پیارے نبی کی لائی ہوئی شریعت سے مکمل ہو گیا.لیکن اس کے با وجود خدا تعالیٰ نے خود بھی فرما دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کہلوایا کہ جس طرح ہمیشہ سے یہ طریق چلا آیا ہے کہ ایک عرصہ گزرنے کے بعد دین میں اپنی بنیاد سے دوری پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح مسلمانوں میں بھی حالت فساد اور دین سے دوری پیدا ہوگی.باوجود اس کے کہ آپ آخری نبی ہیں.کوئی نبی آپ کے بعد شریعت لے کر نہیں آسکتا.آپ کی کتاب آخری شرعی کتاب ہے.اُس کے باوجود فر مایا کہ یہ حالت پیدا ہوگی کہ دین سے دوری پیدا ہو جائے گی اور جب یہ دوری اپنی انتہا کوپہنچے گی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں آپ کا عاشق صادق دین کو دنیا پر قائم کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے گا اور عبادت کی حقیقت بیان کرے گا.اور وہ یہ سب کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام صادق ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں ہی کرے گا.لیکن افسوس ہے کہ ابھی تک مسلمانوں کی اکثریت اس بات کو نہیں سمجھ رہی.اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی حقیقی عبادت کی طرف بلا رہا ہے اُس سے دور رہ کر اپنے اپنے طریق پر مسلمانوں کا ہر فرقہ جو ہے وہ اپنا اپنا طریق اپنائے ہوئے ہے.جس سے دنیا میں ، خاص طور پر مسلمان دنیا میں ، سوائے فساد کے اور کچھ پیدا نہیں ہو رہا.اور یہی نہیں بلکہ ایسے لوگ اسلام کی بدنامی کا بھی موجب بن رہے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسے آج سے چودہ سو سال پہلے نذیر تھے، آج بھی ہیں.اللہ تعالیٰ نے پہلی آیت کے آخر میں فرمایا کہ : انني لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ.میں تمہارے لئے اُس کی طرف سے ایک نذیر اور بشیر ہوں.پس آپ کا زمانہ تا قیامت ہے.آپ تا قیامت نذیر و بشیر ہیں.اور آج بھی اپنوں کو بھی اور غیروں کو بھی ہوشیار کرنے والے ہیں.نذیر کا مطلب صرف خوف دلا نا نہیں ہے بلکہ اکثر خوف دلانا نذیر کا مطلب نہیں ہوتا بلکہ ہوشیار کرنا ہے تا کہ ہوشیار ہو جاؤ.ان خرابیوں سے بچو.برائیوں سے بچو.آپ یہی فرماتے ہیں کہ میں نذیر ہوں.اسلامی تعلیم کی حقیقت سے دور ہٹ کر دین و دنیا کے نقصانات کا مورد بنو گے.قطع نظر اس کے کہ تم کلمہ پڑھنے والے ہو، مجھ پر ایمان لانے والے ہو لیکن اگر دین پر پوری طرح کار بند نہیں تو پھر جو نقصانات ممکن ہو سکتے ہیں وہ تمہیں بھی ہوں گے.اور پھر یہ بھی ہے کہ اگر اس حقیقت کو سمجھ لو گے کہ آخرین میں مبعوث ہونے والا بھی قرآنی تعلیم کے مطابق اللہ تعالیٰ
خطبات مسرور جلد دہم 21 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جنوری 2012ء کا قرب دلانے کے لئے آیا ہے، عبادت کے طریقے سکھانے کے لئے آیا ہے تو پھر تمہیں دنیا و آخرت کی بشارتوں کی خوشخبری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے ذریعے کے بارے میں بیان فرماتے ہیں : ہاں یہ سچ ہے کہ انسان کسی مزگی النفس کی امداد کے بغیر اس سلوک کی منزل کو طے نہیں کرسکتا.اسی لیے اس کے انتظام و انصرام کے لئے اللہ تعالیٰ نے کامل نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھیجا اور پھر ہمیشہ کے لئے آپ کے سچے جانشینوں کا سلسلہ جاری فرمایا فرماتے ہیں جیسے یہ امر ایک ثابت شدہ صداقت ہے کہ جو کسان کا بچہ نہیں ہے.نلائی ( گوڈی دینے ) کے وقت اصل درخت کو کاٹ دے گا“ (پودوں کو کاٹ دے گا).اسی طرح پر یہ زمینداری جو روحانی زمینداری ہے کامل طور پر کوئی نہیں کرسکتا جب تک کسی کامل انسان کے ماتحت نہ ہو جو تخمریزی ، آبپاشی ، نلائی کے تمام مر حلے طے کر چکا ہو.اسی طرح سے معلوم ہوتا ہے کہ مُرشد کامل کی ضرورت انسان کو ہے.مُرشد کامل کے بغیر انسان کا عبادت کرنا اسی رنگ کا ہے جیسے ایک نادان و ناواقف بچہ ایک کھیت میں بیٹھا ہوا اصل پودوں کو کاٹ رہا ہے اور اپنے خیال میں سمجھتا ہے کہ وہ گوڈی کر رہا ہے.یہ گمان ہر گز نہ کرو کہ عبادت خود ہی آجائے گی.نہیں.جب تک رسول نہ سکھلائے انقطاع الی اللہ اور تبتل تام کی راہیں حاصل نہیں ہو سکتیں.“ ( اللہ تعالیٰ کی طرف پوری توجہ پیدا نہیں ہو سکتی.اُس کے آگے اُس کی پہچان نہیں ہو سکتی ).فرمایا کہ ” پھر طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مشکل کام کیونکر حل ہو.اس کا علاج خود ہی بتلایا.(ملفوظات جلد اول صفحہ 1348ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) اور اس کا علاج اللہ تعالیٰ نے کیا بتلایا ؟ علاج اس کا استغفار بتایا کہ استغفار کرو.خالص ہو کر استغفار کرو گے، اللہ تعالیٰ کے رسول کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے گناہوں سے معافی مانگو گے اور آئندہ کے لئے گناہوں سے دور رہنے کا عزم اور کوشش کرو گے تو وہ حقیقی استغفار ہوگا.لیکن یہ واضح ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ سچے جانشینوں کو بھیجتا ہے.اللہ تعالیٰ نے پہلے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا اور پھر اس کے بعد اس زمانے میں بلکہ آئندہ زمانوں تک کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے جانشین ہیں، جو خاتم الخلفاء ہیں.پس حقیقی استغفار کرنے والے اور عبادتوں کے معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے کی یقیناً خدا تعالی رہنمائی فرمائے گا اگر وہ سچے جانشین کی حقیقی اتباع بھی کرنے والا ہو اور اُس کے حکموں پر
خطبات مسرور جلد دہم 22 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جنوری 2012ء چلنے والا بھی ہو.وہ اُس کے بھیجے ہوئے فرستادے کو قبول کرے پھر اُس تعلیم پر عمل کرے جو دی جارہی ہے.بہر حال جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا علاج استغفار بتایا ہے.دوسری آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں استغفار کا طریق سکھایا گیا ہے.بتایا گیا ہے کہ استغفار کس طرح کرنی ہے.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ : نیز یہ کہ تم اپنے رب سے استغفار کرو پھر اس کی طرف تو بہ کرتے ہوئے جھکو تو تمہیں وہ ایک مقررہ مدت تک بہترین سامانِ معیشت عطا کرے گا اور وہ ہر صاحب فضیلت کو اُس کے شایانِ شان فضل عطا کرے گا.اور اگر تم پھر جاؤ تو یقیناً میں تمہارے بارے میں ایک بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں.پس جیسا کہ میں نے کہا کہ حقیقی استغفار کرنے والے کی اللہ تعالی رہنمائی فرماتا ہے.اس آیت کے شروع میں اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگو.اُس سے اُس کی مدد کے طالب ہو، اُس سے دعائیں کرو کہ وہ تمہارے دلوں کے زنگ دھو کر خالص بندہ بنا دے.تو اللہ تعالیٰ پھر اپنے وعدے کے مطابق مدد فرماتا ہے.لیکن اگر ایک شخص آج ایک راستہ اختیار کرتا ہے، کل دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے، استغفار میں مستقل مزاجی نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ استغفار نہیں ہے.پس حقیقی استغفار یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اُن جذبات و خیالات سے بچنے کی دعا مانگی جائے جو خدا تعالیٰ کو نا پسند ہیں اور خدا تعالیٰ تک پہنچنے میں روک ہیں اور جب یہ معیار حاصل ہو جائے گا، یہ جذبات دبانے کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی تو پھر تُوبُوا الیه کی حالت پیدا ہوگی.وہ حالت پیدا ہوگی جب انسان پھر مستقل مزاجی سے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر جب یہ حالت ہو تو بندہ اللہ تعالیٰ کا مقرب بن جاتا ہے.پس ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ حقیقی استغفار اور تو بہ صرف الفاظ دہرا لینا یا منہ سے اَسْتَغْفِرُ الله اسْتَغْفِرُ الله کہہ دینا کافی نہیں ہے بلکہ ساتھ ہی اپنی حالت کی تبدیلی کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتی ہے.جب انسان اپنی حالت میں تبدیلی پیدا کرتا ہے تو پھر انسان کے لئے جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا ہے دینی اور دنیاوی فائدے ملتے ہیں.دنیا و آخرت کے فائدے اسی میں ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مورد انسان بنتا ہے.اس آیت کی روشنی میں استغفار کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وَانِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ (هود: 4) یا درکھو کہ یہ دو چیزیں اس اُمت کو
خطبات مسر در جلد دہم 23 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جنوری 2012ء عطا فرمائی گئی ہیں.ایک قوت حاصل کرنے کے واسطے.دوسری حاصل کردہ قوت کو عملی طور پر دکھانے کے لئے.“ (ایک چیز جو ہے وہ قوت اور طاقت حاصل کرنے کے لئے ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جس سے انسان برائیوں اور گناہوں سے بچے.اور دوسری چیز یہ کہ جو قوت حاصل ہو گئی ، جو طاقت حاصل ہو گئی پھر اُس کا عملی اظہار بھی ہو.پھر انسان کا ہر قول و فعل اُس کے مطابق ہو جو اللہ تعالیٰ نے احکامات دیئے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے ہوں ) فرمایا: ” قوت حاصل کرنے کے واسطے استغفار ہے جس کو دوسرے لفظوں میں استمداد اور استعانت بھی کہتے ہیں.“ (اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا.استغفار جو ہے اُس کا دوسرے لفظوں میں نام اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا ہے ) ”صوفیوں نے لکھا ہے کہ جیسے ورزش کرنے سے مثلاً مگدروں اور موگریوں کے اُٹھانے اور پھیرنے سے جسمانی قوت اور طاقت بڑھتی ہے.اسی طرح پر رُوحانی مگدر استغفار ہے.(مسلسل استغفار کرنے سے انسان کی روحانی حالت بہتر ہوتی ہے، طاقت آتی ہے) فرمایا کہ اس کے ساتھ رُوح کو ایک قوت ملتی ہے اور دل میں استقامت پیدا ہوتی ہے.جسے قوت لینی مطلوب ہو وہ استغفار کرے.( جو چاہتا ہے کہ اپنی روحانی طاقت میں اضافہ کرے اُس کو زیادہ سے زیادہ استغفار کرنی چاہئے ) " غَفَر ڈھانکنے اور دبانے کو کہتے ہیں.استغفار سے انسان اُن جذبات اور خیالات کو ڈھانپنے اور دبانے کی کوشش کرتا ہے خدا تعالیٰ سے روکتے ہیں.‘“ (استغفار کرتے رہو تو ان جذبات اور خیالات کو انسان دبائے گا جو اس بات سے روکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی پیروی کی جائے.جو نیکیوں سے روکتے ہیں.اس کی تفصیل قرآنِ کریم میں سینکڑوں احکامات کی صورت میں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ اگر ایک آدھ حکم کو بھی اور نیکی کو بھی تم اہمیت نہیں دیتے تو اس کا مطلب ہے تم پوری کوشش نہیں کر رہے ) فرمایا ”پس استغفار کے یہی معنے ہیں کہ زہریلے مواد جو حملہ کر کے انسان کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں.اُن پر غالب آوے.“ (اب زہریلے مواد کیا ہیں؟ شیطان کے مختلف حملے ہیں.دنیا کی چکا چوند ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے جو حکم ہیں جن کے بارے میں نہ کرنے کا حکم ہے، اُن سے بچنا.یہ سب زہریلے مواد ہیں.تو جب استغفار کرے گا تو ان زہریلے مواد سے، ان بری باتوں سے، ان بدیوں سے انسان بچے گا اور نیکیاں جو ہیں ان برائیوں پر غالب آجائیں گی ) پھر فرمایا کہ ” خدا تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری کی راہ کی روکوں سے بچ کر انہیں عملی رنگ میں دکھائے.یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں دو قسم کے مادے رکھے ہیں.ایک ستمی مادہ ہے جس کا مؤکل شیطان ہے ( یعنی ایک زہریلا مادہ ہے جس کی ترغیب دینے والا ، جس کی طرف توجہ
خطبات مسرور جلد دہم 24 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جنوری 2012 ء دلانے والا ، جس سے کام لینے والا شیطان ہے، یہ زہریلا مادہ ہے ) اور دوسرا تریاقی مادہ ہے.“ (علاج کرنے کا مادہ ہے، برائیوں کا علاج کس طرح کیا جائے اور یہ دونوں چیزیں انسان کے اپنے اندر موجود ہیں، زہریلا مادہ بھی اور تریاقی مادہ بھی.برائیاں بھی انسان کے اندر موجود ہیں اور اچھائیاں بھی انسان کے اندر موجود ہیں.اگر اچھائیوں سے برائیوں کو نہیں دباؤ گے، نیکیوں سے برائیوں کو نہیں دباؤ گے، اللہ تعالیٰ کے غفران کے نیچے اُس کی مدد مانگتے ہوئے نہیں آؤ گے تو وہ برائیاں قبضہ جمالیں گی.) فرمایا کہ ”جب انسان تکبر کرتا ہے اور اپنے تئیں کچھ سمجھتا ہے اور تریاقی چشمہ سے مدد نہیں لیتا تو سمی قوت غالب آجاتی ہے“ ( پس جب استغفار نہیں ہوگا تو دلوں پر قبضہ کرنے والی جو چیز ہے وہ تکبر ہے جو استغفار سے بھی روکتی ہے.جب انسان تکبر کرتا ہے اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے اور جو تریاقی چشمہ ہے، جو استغفار ہے، اُس سے اگر مدد نہیں لیتا تو زہریلی قوت جو ہے وہ پھر انسان پر غالب آجاتی ہے).فرمایا: ”لیکن جب اپنے تئیں ذلیل و حقیر سمجھتا ہے اور اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت محسوس کرتا ہے اُس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک چشمہ پیدا ہو جاتا ہے جس سے اس کی روح گداز ہو کر بہت نکلتی ہے.اور یہی استغفار کے معنی ہیں.“ پس حقیقی استغفار کیا ہے؟ ایسی استغفار جس سے روح گداز ہوکر بہہ نکلے.اور یہ روح گداز ہونا زبانی منہ سے استغفار کرنا نہیں ہے بلکہ وہ استغفار ہے کہ دل سے ایک جوش کی صورت میں استغفار نکنی چاہئے.اور جب یہ نکلتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے آنکھ کے پانی کی صورت میں بہتی ہے تو پھر یہ ایک انسان میں انقلاب پیدا کرتی ہے اور تبدیلی لاتی ہے.فرمایا : ” یعنی یہ کہ اس قوت کو پا کر زہریلے مواد پر غالب آجاوے.“ (جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے کہ استغفار سے طاقت آتی ہے.اور وہ طاقت اُس استغفار سے آتی ہے جو دلی جوش سے نکل رہا ہو جیسا کہ بیان ہوا ہے اور آنکھ کے پانی کی صورت میں اُس کا اظہار ہو رہا ہو.وہ استغفارحقیقی استغفار ہے جو انسان میں ایک تبدیلی پیدا کرتا ہے ).پھر آپ فرماتے ہیں: ” غرض اس کے معنی یہ ہیں کہ عبادت پر یوں قائم رہو.اوّل رسول کی اطاعت کرو.دوسرے ہر وقت خدا سے مدد چاہو.فرمایا کہ ” ہاں پہلے اپنے رب سے مدد چاہو.جب قوت مل گئی تو تُوبُوا الیه یعنی خدا کی طرف رجوع کرو.( ملفوظات جلد اول صفحہ 348-349 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق رسول کی اطاعت ہے.اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنا ہے.پس اول رسول کی اطاعت ہے.پھر مسلسل اللہ تعالیٰ کی طرف اگر
خطبات مسرور جلد دہم 25 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جنوری 2012ء انسان جھکا رہے گا، اُس سے مدد مانگتا رہے گا تو تب وہ حالت پیدا ہوگی جو تُوبُوا الیہ کی حالت ہے تا کہ اللہ تعالیٰ پھر تو بہ قبول کر کے اُس کو برائیوں سے روکے.تُوبُوا إِلَيْهِ کو مزید کھولتے ہوئے ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ : استغفار اور تو به دو چیزیں ہیں.ایک وجہ سے استغفار کو تو بہ پر تقدم ہے.“ (یعنی استغفار تو بہ بہ به سے پہلے ہے اور اہم ہے کیونکہ استغفار مدد اور قوت ہے جو خدا سے حاصل کی جاتی ہے اور تو بہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے.(استغفار پہلے ہے کہ اس سے مدد اور قوت ملتی ہے، طاقت ملتی ہے.اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے آگے آنسو بہائے جاتے ہیں.دل ہر قسم کی ملونی سے صاف کیا جاتا ہے.تو یہ اس لئے پہلے ہے کہ جب یہ استغفار ہوگی اور اللہ تعالیٰ سے مانگو گے اور جب یہ ہو جائے گا تو پھر انسان کا دوسرا قدم جو ہے وہ تو بہ ہے جو اپنے پاؤں پر مستقل مزاجی سے کھڑا ہونا ہے.تو بہ کے لئے بھی پھر مستقل مزاجی سے استغفار کرتے ہوئے تو بہ کی حفاظت کرنی ہو گی.صرف کانوں کو ہاتھ لگا کر تو بہ تو بہ کرنا جس طرح آجکل بعض جگہوں پر رواج ہے یہ تو بہ نہیں ہے بلکہ پہلے استغفار سے قوت حاصل کرو.پھر اس مقام پر پہنچو جہاں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جائے ، نیکیوں کی طرف توجہ زیادہ پیدا ہو جائے.یہ تو بہ ہوگی اور جب یہ حاصل ہو گی تو پھر اس کو قائم رکھنے کے لئے استغفار ضروری ہے) فرماتے ہیں کہ عادۃ اللہ یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے مدد چاہے گا تو خدا تعالیٰ ایک قوت دے دے گا اور پھر اس قوت کے بعد انسان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاوے گا اور نیکیوں کے کرنے کے لئے اس میں ایک قوت پیدا ہو جاوے گی جس کا نام تُوبُوا إِلَيْهِ ہے.اس لئے طبعی طور پر بھی یہی ترتیب ہے.غرض اس میں ایک طریق ہے جو سالکوں کے لئے رکھا ہے کہ سالک ہر حالت میں خدا سے استمداد چاہے.سالک جب تک اللہ تعالیٰ سے قوت نہ پائے گا، کیا کر سکے گا.توبہ کی توفیق استغفار کے بعد ملتی ہے.اگر استغفار نہ ہو تو یقیناً یا درکھو کہ تو بہ کی قوت مرجاتی ہے.پھر اگر اس طرح پر استغفار کرو گے اور پھر تو بہ کرو گے تو نتیجہ یہ ہو گا.يُمَتِّعَكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُسَمَّى (هود: 4)‘ کہ ایک مقررہ میعاد تک اللہ تعالیٰ اچھی طرح والا سامان عطا کرے گا ).فرمایا کہ سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ اگر استغفار اور تو بہ کرو گے تو اپنے مراتب پالو گے.ہر ایک شخص کے لئے ایک دائرہ ہے.“ (یعنی ہر ایک چیز کو حاصل کرنے کی جو قوت ہے، کسی چیز کو دریافت کرنے کی قوت، حاصل کرنے کی جو قوت ہے، پانے کی قوت ہے، طاقت ہے، اُس کے لئے ایک دائرہ ہے جس میں وہ مدارج ترقی کو حاصل کرتا ہے.“ (اپنی اپنی استعداد کے مطابق ایک دائرہ ہے جس میں ہر انسان اپنی ترقی
خطبات مسرور جلد دہم 26 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جنوری 2012ء کے جو درجے جو ہیں وہ حاصل کرتا ہے ) فرمایا کہ ”ہر ایک آدمی نبی، رسول ، صدیق ، شہید نہیں ہوسکتا.( یہ بالکل ٹھیک ہے لیکن فرماتے ہیں کہ ) ' غرض اس میں شک نہیں کہ تفاضل درجات امرحق ہے.( یہ بالکل ٹھیک ہے کہ ہر ایک ہر مقام پر نہیں پہنچ سکتا اور جو درجوں میں فضیلت ہے وہ قائم ہے.فرمایا کہ ) اس کے آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان امور پر مواظبت کرنے سے ہر ایک سالک اپنی اپنی استعداد کے موافق درجات اور مراتب کو پالے گا.( مواظبت کا مطلب ہے کوشش کرتے چلے جانا اور مستقل مزاجی سے کام پر لگے رہنا، ان کا موں میں جو اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں اگر مستقل مزاجی سے لگا رہے گا ، کوشش کرتا رہے گا تو ہر انسان جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کو پانے کی جو بھی اپنی کوشش کر رہا ہے، اپنی استعداد کے مطابق جو بھی اُس کی استعداد ہے، وہ اپنے درجے اور مرتبے کو پالے گا یہی مطلب ہے اس آیت کا وَ يُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فضلة (هود:4)‘ ( کہ ہر ایک فضیلت والے شخص کو اپنا فضل عطا فرمائے گا.اور جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ اس فضیلت کی وجہ سے، دینی برکات روحانی برکات ہر ایک کو اس زمانے میں بھی ملتی ہیں ، اور اگلے جہان میں بھی ملتی ہیں.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ” لیکن اگر زیادت لے کر آیا ہے تو خدا تعالیٰ اس مجاہدہ میں اس کو زیادت دے دے گا یہ تواللہ تعالیٰ کا فضل ہے کس کو کتنا دینا ہے.وہ فضل بھی ساتھ چل رہا ہے.اگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بے انتہا بڑھا کر دینا چاہتا ہے تو اس تو بہ اور استغفار کی وجہ سے پھر اُس کو اللہ تعالیٰ بڑھا کر بھی دے دے گا لیکن پہلی شرط یہی ہے کہ مجاہدہ ہو اور استغفار ہواور تو بہ ہوتو پھر اللہ تعالیٰ بڑھائے گا) فرمایا کہ اور اپنے فضل کو پالے گا جو طبعی طور پر اس کا حق ہے.ذی الفضل کی اضافت ملکی ہے.“ (اللہ تعالیٰ کیونکہ مالک ہے، طاقتور ہے، اُس کی اپنی وجہ سے یہ اضافہ ہے.صرف محنت کا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ مالک ہونے کی وجہ سے اپنے فضل کو بڑھا کر جتنا مرضی چاہے دے سکتا ہے اور یہ بہر حال ہے کہ اللہ تعالیٰ استغفار کرنے والوں اور اپنی طرف بڑھنے والوں اور کوشش کرنے والوں کو اپنے فضل سے نوازتا ہے ) فرمایا کہ ذی الفضل کی اضافت ملکی ہے.مطلب یہ ہے کہ خدا تعالی محروم نہ رکھے گا.پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ” بعض لوگ کہتے ہیں کہ میاں ہم نے کوئی ولی بنا ہے؟ جو ایسا کہتے ہیں وہ دنی الطبع کافر ہیں.“ ( یعنی گناہگار ہیں، کافر ہیں ) ”انسان کو مناسب ہے کہ قانون قدرت کو ہاتھ میں لے کر کام کرے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 349-350 ایڈ یشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) اللہ تعالیٰ نے ایک قانون بنایا ہوا ہے، استغفار توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہوا ہے، اُس کو استعمال کرنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے.اپنی پوری کوشش کرو.باقی اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں.وہ ہر ایک کو اُس کے
خطبات مسرور جلد دہم 27 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جنوری 2012ء درجے کے مطابق ، اُس کی استطاعت کے مطابق نوازتا ہے.اس علمی اور روحانی باتوں کی جو بحث تھی اس کے ساتھ اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجالس کی کچھ باتیں بیان کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجالس میں لوگ سوال کرتے تھے، ایک ایسی مجلس میں آپ نے استغفار کی اہمیت آپ نے کس طرح واضح فرمائی ، اس بارے میں ایک روایت آتی ہے کہ ایک شخص نے پوچھا کہ میں کیا وظیفہ پڑھا کروں؟.اُس زمانے میں بھی رواج تھا، لوگوں کو وظیفہ پڑھنے کا بڑا شوق تھا.اب بھی ہے.تو آپ نے فرمایا کہ: استغفار بہت پڑھا کرو.انسان کی دو ہی حالتیں ہیں یا تو وہ گناہ نہ کرے یا اللہ تعالیٰ اس گناہ کے بد انجام سے بچالے.“ (دوانسان کی حالتیں ہیں یا گناہ نہ کرو اور اگر گناہ ہو گیا ہے اور غلطی کا احساس ہو گیا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس گناہ کے بد انجام سے انسان کو بچائے ).فرمایا کہ سواستغفار پڑھنے کے وقت دونوں معنوں کا لحاظ رکھنا چاہئے.“ (جب استغفار پڑھ رہے ہو تو دونوں معنوں کا لحاظ رکھو.یہ بہت بڑا وظیفہ ہے کہ ایک تو انسان گناہ نہ کرے، گناہ سے بچنے کی دعامانگے اور پھر یہ کہ اگر ہو گیا ہے تو اُس کا بد انجام ظاہر نہ ہو.فرمایا ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ سے گزشتہ گناہوں کی پردہ پوشی چاہئے.اور دوسرا یہ کہ خدا سے توفیق چاہے کہ آئندہ گناہوں سے بچائے.مگر استغفار صرف زبان سے پورا نہیں ہوتا بلکہ دل سے چاہئے.نماز میں اپنی زبان میں بھی دعا مانگو یہ ضروری ہے.“ (ملفوظات جلد اول صفحہ 525 مطبوعه ر بوه ) پس یہ ہے استغفار کا مقصد کہ گناہ کی معافی اور گناہ سے بچنا.اور گناہوں کی تفصیل جاننے کے لئے قرآن کریم کے احکامات پر غور کرنے کی ضرورت ہے.پھر ایک مجلس میں ایک شخص آیا.مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اُس مجلس میں بیٹھے تھے ، اُن کا واقف تھا.جب اُن کو آ کے ملا ، تو انہوں نے اُس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے پیش کیا کہ یہ شخص کئی پیروں ، فقیروں اور گدیوں میں پھرا ہے، بڑے مشائخ کے پاس سے ہو کے آیا ہے.اب یہ یہاں آیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُس سے فرمایا کہ کیا کہتے ہو؟ بتاؤ.تو کہنے لگا: حضور! میں بہت سے پیروں کے پاس گیا ہوں.مجھ میں بعض عیب ہیں.اول میں جس بزرگ کے پاس جاتا ہوں ،تھوڑے دن رہ کر پھر چلا آتا ہوں اور طبیعت اُس سے بداعتقاد ہو جاتی ہے.دوم مجھ میں غیبت کرنے کا عیب ہے.سوم عبادت میں دل نہیں لگتا.اور بھی بہت سے عیب ہیں.“ حضرت اقدس ( نے فرمایا کہ : میں نے سمجھ لیا ہے.اصل مرض تمہارا بے صبری کا ہے.باقی
خطبات مسرور جلد دہم 28 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جنوری 2012ء جو کچھ ہے اس کے عوارض ہیں.اصل مرض ، بیماری جو ہے وہ تمہاری بے صبری ہے.باقی تو اُس کی ذیلی مرضیں ہیں ).” دیکھو انسان اپنے دنیا کے معاملات میں جبکہ بے صبر نہیں ہوتا اور صبر و استقلال سے انجام کا انتظار کرتا ہے پھر خدا کے حضور بے صبری لے کر کیوں جاتا ہے.کیا ایک زمیندارا ایک ہی دن میں کھیت میں بیچ ڈال کر اُس کے پھل کاٹنے کی فکر میں ہو جاتا ہے؟ یا ایک بچہ کے پیدا ہوتے ہی کہتا ہے کہ یہ اسی وقت جوان ہو کر میری مدد کرے.خدا تعالیٰ کے قانونِ قدرت میں اس قسم کی عجلت اور جلد بازی کی نظیریں اور نمونے نہیں ہیں.وہ سخت نادان ہے جو اس قسم کی جلد بازی سے کام لینا چاہتا ہے.اُس شخص کو بھی اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھنا چاہئے جس کو اپنے عیب ، عیب کی شکل میں نظر آ جاویں.( وہ شخص بڑا خوش قسمت ہے جس کو اپنے اندر کی برائیاں اور عیب نظر آجائیں ورنہ شیطان بدکاریوں اور بداعمالیوں کو خوش رنگ اور خوبصورت بنا کر دکھاتا ہے.( یہ تو بہت بڑی خوبی ہے کہ اگر انسان کو احساس ہو جائے کہ میرے اندر یہ یہ برائیاں ہیں.کیونکہ شیطان تو اپنا کام کر رہا ہے وہ تو برائیوں کو بھی اچھا کر کے دکھاتا ہے ).فرمایا کہ پس تم اپنی بے صبری کو چھوڑ کر صبر اور استقلال کے ساتھ خدا تعالیٰ سے توفیق چاہو اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو.بغیر اس کے کچھ نہیں ہے.جو شخص اہل اللہ کے پاس اس غرض سے آتا ہے کہ وہ پھونک مار کر اصلاح کر دیں، وہ خدا پر حکومت کرنی چاہتا ہے.یہاں تو محکوم ہو کر آنا چاہئے.ساری حکومتوں کو جب تک چھوڑتا نہیں، کچھ بھی نہیں بنتا.جب بیمار طبیب کے پاس جاتا ہے تو وہ اپنی بہت سی شکایتیں بیان کرتا ہے.“ (ڈاکٹر کے پاس انسان جاتا ہے تو اپنے مرض بیان کرتا ہے ).مگر طبیب شناخت اور تشخیص کے بعد معلوم کر لیتا ہے کہ اصل میں فلاں مرض ہے.وہ اس کا علاج شروع کر دیتا ہے.اسی طرح سے تمہاری بیماری بےصبری کی ہے.اگر تم اس کا علاج کرو تو دوسری بیماریاں بھی خدا چاہے تو رفع ہوجائیں گی.ہمارا تو یہ مذہب ہے کہ انسان خدا تعالیٰ سے کبھی مایوس نہ ہو اور اُس وقت تک طلب میں لگا ر ہے جب تک کہ غرغرہ شروع ہو جاوے.“ ( آخری سانس تک لگا رہے.) ”جب تک اپنی طلب اور صبر کو اس حد تک نہیں پہنچا تا، انسان بامراد نہیں ہوسکتا.پس یہ مقام ہے صبر کا کہ آخری سانس تک انسان کوشش کرتا رہے.) فرمایا کہ اور یوں خدا تعالیٰ قادر ہے.وہ چاہے تو ایک دم میں بامراد کر دے.“ ( یہ ضروری بھی نہیں کہ آخری سانس تک ہو.اللہ تعالیٰ قادر ہے وہ ایک دم، پہلی دفعہ، ایک دعا سے ہی ، ایک سجدے سے ہی دعا قبول کر لیتا ہے.''مگر عشق صادق کا یہ تقاضا ہونا چاہئے کہ وہ راہِ طلب میں پویاں رہے.‘“ (یعنی مستقل مزاجی سے دوڑ تار ہے، چلتا رہے.سعدی نے کہا ہے.‘ ( ایک فارسی شعر ) :
خطبات مسرور جلد دہم 29 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جنوری 2012ء گر نباید بدوست راه بردن شرط عشق است در طلب مُردن که اگر دوست تک پہنچنا ممکن نہ ہو تو عشق کی بنیادی شرط اُس کی طلب میں ، خواہش میں مرنا ہے.اُس کو پانے کے لئے، اُس کی طلب میں، خواہش میں مرنا یہ بنیادی شرط ہے.) فرماتے ہیں کہ مرض دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک مرض مستوی اور ایک مرض مختلف.‘ ( دو قسم کے مرض ہیں ایک بیماری کا نام مستوی اور ایک مختلف.یہ نام نہیں بلکہ قسم ہے.بیماریاں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک مرض مستوی کہلاتا ہے، ایک مختلف ).مرض مستوی وہ ہوتا ہے جس کا درد وغیرہ محسوس ہوتا ہے.اُس کے علاج کا تو انسان فکر کرتا ہے اور مرض مختلف کی چنداں پرواہ نہیں کرتا.“ ( بعض چھپے ہوئے مرض ہوتے ہیں جن کا احساس نہیں ہوتا اُن کی پرواہ نہیں کرتا.اسی طرح سے بعض گناہ تو محسوس ہوتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ انسان اُن کو محسوس بھی نہیں کرتا.اس لئے ضرورت ہے کہ ہر وقت انسان خدا تعالیٰ سے استغفار کرتا رہے...خدا تعالیٰ نے تو اصلاح کے لئے قرآن شریف بھیجا ہے.اگر پھونک مار کر اصلاح کر دینا خدا تعالیٰ کا قانون ہوتا تو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ برس تک مکہ میں کیوں تکلیفیں اٹھاتے.ابو جہل وغیرہ پر اثر کیوں نہ ڈال دیتے ؟ ( دعا سے فوراً اثر ہو جاتا ).”ابو جہل کو جانے دو.ابو طالب کو تو آپ سے بھی محبت تھی (یعنی ابو طالب سے آپ کو محبت تھی لیکن اُس کے باوجود مسلمان نہیں ہوئے.غرض بے صبری اچھی نہیں ہوتی، اس کا نتیجہ ہلاکت تک پہنچاتا ہے.“ (ملفوظات جلد اول صفحہ 528-529 ایڈ یشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) ایک مرتبہ آپ کی مجلس میں ایک شخص نے قرض کے متعلق دعا کی درخواست کی کہ میرا قرض بہت چڑھ گیا ہے.آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ استغفار بہت پڑھا کرو.انسان کے واسطے غموں سے سُبک ہونے کے واسطے یہ طریق ہے غموں سے بچنے کے لئے ، اُن کو دُور کرنے کے لئے یہ طریق ہے کہ استغفار پڑھو.یعنی غموں کو ہلکا اور کم کرنے کے لئے استغفار کرنا چاہئے.پھر فرمایا ”استغفار کلید ترقیات ہے.یعنی تمہاری ترقیات کی چابی استغفار میں ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 1442ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ) پس یہ یادرکھنا چاہئے کہ یہ استغفار ترقیات کے دروازے تب کھولے گی ، وہ تالے تب کھلیں گے جب ویسی استغفار ہو جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ کس طرح انسان کو خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا چاہئے.ایک شخص کے یہ کہنے پر کہ میرے لئے دعا کریں میرے اولا د ہو جائے.آپ نے فرمایا کہ: استغفار بہت کرو.اس سے گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ اولا د بھی دے دیتا ہے.یادرکھو یقین بڑی چیز ہے.“ (یعنی جب استغفار کر رہے ہو تو خدا تعالیٰ پر کامل یقین بھی ہونا چاہئے.”جو شخص یقین
خطبات مسرور جلد دہم 30 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جنوری 2012 ء میں کامل ہوتا ہے خدا تعالیٰ خود اس کی دستگیری کرتا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 1444 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ انسان کو کمزوریوں سے بچنے کے لئے استغفار بہت پڑھنا چاہئے.گناہ کے عذاب سے بچنے کے لئے استغفار ایسا ہے جیسا کہ ایک قیدی جرمانہ دے کر اپنے تئیں قید سے آزاد کرا لیتا ہے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 507 ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) ایک موقع پر نصیحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ : ”بعض لوگوں پر دکھ کی مار ہوتی ہے اور وہ ان کی اپنی ہی کرتوتوں کا نتیجہ ہے.وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ (الزلزال:9) پس آدمی کو لازم ہے کہ تو بہ واستغفار میں لگا رہے اور دیکھتا ر ہے کہ ایسا نہ ہو، بداعمالیاں حد سے گزر جاویں اور خدا تعالیٰ کے غضب کو کھینچ لاویں.جب خدا تعالیٰ کسی پر فضل کے ساتھ نگاہ کرتا ہے تو عام طور پر دلوں میں اس کی محبت کا القاء کر دیتا ہے ( جب اللہ تعالیٰ کا فضل کسی پر ہوتا ہے تو لوگوں کے دلوں میں بھی اُس کے لئے محبت پیدا کر دیتا ہے ) لیکن جس وقت انسان کا شرحد سے گزر جاتا ہے، اس وقت آسمان پر اس کی مخالفت کا ارادہ ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کے منشاء کے موافق لوگوں کے دل سخت ہو جاتے ہیں ( جب اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر لیا کہ اس پر فضل کی نظر نہیں کرنی تو پھر لوگوں کے دل بھی اُس کے لئے سخت ہو جاتے ہیں ) ”مگر جونہی وہ تو بہ واستغفار کے ساتھ خدا کے آستانہ پر گر کر پناہ لیتا ہے تو اندر ہی اندر ایک رحم پیدا ہوجاتا ہے اور کسی کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ اس کی محبت کا بیج لوگوں کے دلوں میں بود یا جاتا ہے.( ہاں جب انسان سخت دل ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث نہ بنے، اللہ تعالیٰ کا اُس سے اپنی ناپسندیدگی کی وجہ سے پھر اظہار ہورہا ہو تو لوگوں کے دل سخت ہو جاتے ہیں.لیکن اگر وہ استغفار کرتا ہے، تو بہ کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ استغفار قبول کر لیتا ہے، تو بہ قبول کر لیتا ہے اور پھر اُس کے نتیجہ میں لوگوں کے دلوں میں اُس کے لئے رحم پیدا ہو جاتا ہے، محبت پیدا ہو جاتی ہے ) فرمایا ” اس کی محبت کا بیج لوگوں کے دلوں میں بو دیا جاتا ہے.غرض تو بہ واستغفار ایسا مجرب نسخہ ہے کہ خطا نہیں جاتا.( ملفوظات جلد اول صفحہ 196-197 ایڈیشن 2003 مطبوعہ ربوہ ) آج مختلف ملکوں میں ان دنیا داروں کی بد اعمالیاں ہی ہیں جنہوں نے ایک فتنہ اور فساد برپا کیا ہوا ہے.وہی لیڈر جو اپنے زعم میں اپنے آپ کو عوام کا محبوب سمجھتے تھے ،عوام کی نظر میں بدترین مخلوق ہو چکے ہیں اور جو اپنے خیال میں اپنے مقام کو قائم کئے ہوئے ہیں.ابھی بھی اُن کی نظر میں یہ ہے کہ ہم عوام کے بہت محبوب ہیں، پسندیدہ ہیں.آثار ایسے ظاہر ہورہے ہیں کہ اُن کی بھی باری آنے والی لگتی ہے.غرض کہ دنیا میں یہ ایک فساد پیدا ہوا ہوا ہے.اُس کے نتیجے میں جو حکومتیں بدلی ہیں اُس نے مزید فساد پیدا کر دیا
خطبات مسرور جلد دہم 31 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جنوری 2012ء ہے اور آئندہ مزید کتنے فساد پیدا ہونے ہیں یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے.اس لئے ہمیں بہت دعا کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ دنیا کو فسادوں سے بچائے.پس استغفار جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے مقصد کو پورا کرتا ہے،حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادا ئیگی کے حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے، اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرستادے کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کرنے کا ذریعہ بنتا ہے اور زمانے کے فسادوں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے انسان کو بچاتا ہے.اُن راستوں پر چلاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب پانے کے راستے ہیں جن سے دنیا و آخرت سنورتی ہے، وہاں انسان کی ذاتی ضرورتوں کو پورا کرنے اور مشکلات سے نکالنے کا بھی ذریعہ بنتا ہے جیسا کہ بہت سارے واقعات میں نے پڑھے ہیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نصیحت فرمائی.انسان استغفار سے اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کا بھی وارث بنتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہم احمدیوں پر فضل فرمایا کہ ہم نے اس زمانے کے امام کو مانا ہے جس نے ہمیں عبادتوں اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے اور اُس کے فضلوں کو سمیٹنے کی طرف رہنمائی فرمائی ہے.لیکن اس سے حقیقی فائدہ اُٹھانے کے لئے ہمیں مستقل استغفار کرتے چلے جانے کی بھی ضرورت ہے جسے ہر احمدی کو حرز جان بنانا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 3 فروری تا 9 فروری 2012 جلد 19 شماره 5 صفحه 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد دہم 32 3 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جنوری 2012ء خطبه جمع سید نا امیرالمومنین حضرت رزا مسرور احم خلیفہ امسح الامس ایدہ اللہ تعلی بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 20 جنوری 2012 ء بمطابق 20 صلح 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح.مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَأُولَئِكَ مِنَ الصَّلِحِينَ وَمَا يَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ يُكْفَرُوهُ وَاللهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ (آل عمران: 115-116) ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور یوم آخر پر اور اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نیکیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی ہیں وہ جو صالحین میں سے ہیں.اور جو نیکی بھی وہ کریں گے تو ہر گز اُن سے اس کے بارہ میں ناشکری کا سلوک نہیں کیا جائے گا.اور اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے.مومنوں کی نشانی نیکیوں کا حکم دینا، برائیوں سے روکنا، اپنی اصلاح اور نیک اعمال بجالانے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا ہے.پہلی آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اُس میں یہ باتیں بیان ہوئی ہیں.یہ سورۃ آل عمران کی آیت تھی اور اس سورت میں یہ باتیں دوسری جگہ بھی دہرائی گئی ہیں کہ یہی باتیں ہیں جو انسان کو صالحین میں شامل ہونے والا بناتی ہیں.یہ باتیں ایمان میں مضبوطی کی نشانی ہیں.اور یہی باتیں ہیں جو فلاح اور کامیابی سے ہمکنار کرتی ہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے دیئے گئے حکموں پر چلنے والوں کے عمل ضائع نہیں کرتا.اس لئے لازماً نیک اعمال کرنے والوں اور نیکیاں پھیلانے والوں کو، نیکیوں میں سبقت لے جانے والوں کو اللہ تعالیٰ نوازتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں جو میں نے تلاوت کی ، اس میں بتادیا کہ میں علیم ہوں ، عالم الغیب والشہادۃ ہوں، غیب کا علم بھی رکھتا ہوں، ظاہر کا علم بھی رکھتا
خطبات مسر در جلد دہم 33 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جنوری 2012 ء ہوں ، ہر عمل جو تم کرتے ہو اُسے میں جانتا ہوں کہ کس نیت سے کیا جارہا ہے.اگر تقویٰ پر چلتے ہوئے یہ کام ہیں تو یقیناً اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی آغوش میں لے لے گا.اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ بڑا احسان ہے کہ اُس نے اس فساد زدہ زمانے میں مسیح موعود و مہدی معہود کو بھیجا.زمانے کے امام کو بھیجا اور ہمیں یہ توفیق دی کہ اس کو مان کر اُس سے ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ ہم اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اپنے ایمان کو اُس معیار پر لائیں گے یا لانے کی کوشش کریں گے جس کی تصریح اور تفسیر آپ نے قرآنِ کریم اور سنت کی روشنی میں ہمیں بیان فرمائی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : زبان کو جیسے خدا تعالیٰ کی رضامندی کے خلاف کسی بات کے کہنے سے روکنا ضروری ہے.اسی طرح امر حق کے اظہار کے لئے کھولنا لازمی امر ہے.“ (یعنی اگر برائیوں سے زبان کو روکنا ضروری ہے تو حق بات کو کہنے کے لئے زبان کو کھولنا، منہ کھولنا، اُس کو استعمال کرنا بھی ضروری ہے) فرمایا کہ یأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (آل عمران: 115) مومنوں کی شان ہے.آمر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے سے پہلے ضروری ہوتا ہے کہ انسان اپنی عملی حالت سے ثابت کر دکھائے کہ وہ اُس قوت کو اپنے اندر رکھتا ہے (جب یہ باتیں کر رہے ہیں تو اپنی عملی حالت سے یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ نیکیاں جو میں کہہ رہا ہوں میرے پاس موجود ہیں ) فرمایا ” کیونکہ اس سے پیشتر کہ وہ دوسروں پر اپنا اثر ڈالے اس کو اپنی حالت اثر انداز بھی تو بنانی ضروری ہے.پس یاد رکھو کہ زبان کو آخر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے کبھی مت روکو.ہاں محل اور موقع کی شناخت بھی ضروری ہے اور انداز بیان ایسا ہونا چاہیے جو نرم ہو اور سلاست اپنے اندر رکھتا ہو اور ایسا ہی تقویٰ کے خلاف بھی زبان کا کھولنا سخت گناہ ہے.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 281 282 ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کے بعد ہماری ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں کہ ہم یہ معیار حاصل کریں اور ہمارا ہر قول اور فعل نیکیاں بکھیر نے والا اور برائیوں کو روکنے والا ہو.ورنہ ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنا کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ ہوسکتا ہے کہ ہم الٹا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے بن جائیں کہ ایک عہد کر کے پھر اُسے پورا نہیں کر رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : یں بار بار کہہ چکا ہوں کہ جس قدر کوئی شخص قرب حاصل کرتا ہے، اسی قدر مؤاخذہ کے قابل
خطبات مسرور جلد دہم 34 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جنوری 2012ء وہ لوگ جو دُور ہیں، وہ قابل مواخذہ نہیں ، لیکن تم ضرور ہو.اگر تم میں اور اُن میں کوئی ایمانی زیادتی نہیں، تو تم میں اور ان میں کیا فرق ہوا.( ملفوظات جلد 1 صفحہ 28ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) پس ہمیں اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ ہم نے زمانے کے امام کو مان لیا بلکہ اب اپنی حالتوں کی طرف پہلے سے زیادہ نظر رکھنے کی ضرورت ہے.ورنہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تمہارا مؤاخذہ ہو گا، تم پوچھے جاؤ گے.پس ہمیں اس بات کی بہت فکر کرنی چاہئے کہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیں.کسی کا دینی علم حاصل کر لینا اُسے مؤاخذہ سے بچا نہیں سکتا، اگر عمل اُس کے مطابق نہیں ہے.کسی کا جماعتی خدمت پر مامور ہونا کوئی عہدہ مل جانا اسے مؤاخذہ سے بچ نہیں سکتا اگر اُس کے عمل اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق نہیں ہیں.کسی کا کسی خاندان کا فرد ہونا، بزرگوں کی خدمات اُس کو مؤاخذہ سے بچا نہیں سکتیں ، اگر عمل اُس کے مطابق نہ ہوں جس کی اللہ تعالیٰ نے تعلیم دی ہے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اور جگہ بھی بڑا واضح فرمایا ہے کہ صرف بیعت کر لینے سے تم تبعین کے جو انعامات ہیں اُن کے وارث نہیں بن جاتے.آپ فرماتے ہیں کہ : یقیناً سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ لوگ پیارے نہیں ہیں جن کی پوشاکیں عمدہ ہوں اور وہ بڑے دولت مند اور خوش خور ہوں بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ پیارے ہیں جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں اور خالص خدا ہی کے لیے ہو جاتے ہیں.“ پھر آپ فرماتے ہیں کہ : منجملہ اس کے وعدوں کے ایک یہ بھی ہے، جو فرمایا وَ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ ، ثُمَّ إِلَى مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ قِمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَختَلِفُونَ (آل عمران: 56 ( یعنی جو تیرے پیرو ہیں انہیں ان لوگوں پر جو کافر ہیں یا منکر ہیں اُن پر قیامت تک بالا دست رکھوں گا، فوقیت دوں گا.فرمایا کہ یہ تو سچ ہے کہ وہ میرے متبعین کو میرے منکروں اور میرے مخالفوں پر غلبہ دے گا.لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ متبعین میں سے ہر شخص محض میرے ہاتھ پر بیعت کرنے سے داخل نہیں ہو سکتا جب تک اپنے اندر وہ اتباع کی پوری کیفیت پیدا نہیں کرتا متبعین میں داخل نہیں ہوسکتا.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 596 ایڈ یشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) پس ہمیں بہت غور کرنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے مومن کی تعریف فرمائی ہے که وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُسَارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ (آل عمران: 115).
35 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جنوری 2012ء خطبات مسرور جلد دہم اس کی حقیقی تصویر ہم تبھی بن سکتے ہیں، حقیقی مومن ہونے والے ہم تبھی کہلا سکتے ہیں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق ہیں ، ہم آپ کی نصائح اور ارشادات پر عمل کرنے والے ہوں.آپ کو جو ہمارے سے توقعات ہیں اُن پر پورا اترنے کی کوشش کرنے والے ہوں.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض نصائح لی ہیں جو ہماری دینی اور روحانی حالتوں کو سنوارنے کے لئے بلکہ دنیاوی ترقی کے لئے بھی ضروری ہیں.اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اگر ہم آپ کی باتوں پر پوری طرح توجہ کر کے اُن پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو ہم حقیقی متبع نہیں کہلا سکتے ، اتباع کرنے والے نہیں کہلا سکتے.اس زمانے میں ایک بہت بڑا کام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپر د ہوا ہے، وہ اسلام کا پیغام ساری دنیا کو دینا ہے اور یہی آپ کے ماننے والوں کا کام ہے.لیکن اس کے لئے ہمیں اپنے آپ کو نمونہ بنانے کی ضرورت ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے کہ اپنی حالتوں کو پہلے ایسا کرو کہ دوسروں پر اثر ڈال سکیں تبھی تمہارا اثر پڑے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ ہمیں اپنے قول و فعل کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : د اگر نرے قیل و قال اور ریا کاری تک ہی بات ہو تو دوسرے لوگوں اور ہم میں پھر کیا امتیاز ہوگا اور دوسروں پر کیا شرف ! تم صرف اپنا عملی نمونہ دکھاؤ اور اس میں ایک ایسی چمک ہو کہ دوسرے اس کو قبول کر لیں کیونکہ جب تک اس میں چمک نہ ہو کوئی اس کو قبول نہیں کرتا.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 116 ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) پس یہ نفس کی ظاہری و باطنی صفائی کی چمک ہے جو ہم نے اپنی حالتوں میں پیدا کرنی ہے تاکہ عہد بیعت کو نبھانے والے بن سکیں.آپ کی بیعت کا حقیقی حق ادا کر نے والے بن سکیں.پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ : اگر ہم نری باتیں ہی باتیں کرتے ہیں، تو یا درکھو کہ کچھ فائدہ نہیں ہے.فتح کے لئے ضرورت ہے تقویٰ کی.فتح چاہتے ہو تو متقی بنو ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 151-152 ایڈیشن 2003 ،مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ متقی کو پیار کرتا ہے.خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے سب ترساں رہو ( اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھو.اُس کا پیار اور اُس کی خشیت دل میں پیدا کرو ) فرمایا کہ اور یا درکھو کہ سب اللہ کے
خطبات مسرور جلد دہم 36 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جنوری 2012ء بندے ہیں.کسی پر ظلم نہ کرو.نہ تیزی کرو.نہ کسی کو حقارت سے دیکھو.جماعت میں اگر ایک آدمی گندہ ہے تو وہ سب کو گندہ کر دیتا ہے.اگر حرارت کی طرف تمہاری طبیعت کا میلان ہو ( یعنی غصہ جلدی آتا ہو ) تو پھر اپنے دل کو ٹولو کہ یہ حرارت کسی چشمہ سے نکلی ہے.( کہ اس غصے کی وجہ کیا ہے؟) فرمایا یہ مقام بہت نازک ہے.“ غصہ ایک فطری چیز ہے لیکن ایک مومن میں مغلوب الغضب ہو کے نہیں آنا چاہئے بلکہ جہاں بھی ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 6 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ) غصہ آئے اصلاح کی غرض سے آنا چاہئے.ایک جگہ فرمایا کہ: وو 9966 ہر ایک سے نیک سلوک کرو.برادری کے حقوق ہیں.ان سے بھی نیک سلوک کرنا 66 چاہیے.البتہ اُن باتوں میں جو اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے خلاف ہیں ان سے الگ رہنا چاہیے.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 304 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) پھر اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف کس میں ہے اور اُس کے معیار کیا ہونے چاہئیں یا کس طرح کا ہونا چاہیے.آپ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ ) کا خوف اسی میں ہے کہ انسان دیکھے کہ اس کا قول و فعل کہاں تک ایک دوسرے سے مطابقت رکھتا ہے.پھر جب دیکھے کہ اس کا قول و فعل برابر نہیں تو سمجھ لے کہ وہ مور د غضب الہی ہوگا.جو دل نا پاک ہے خواہ قول کتنا ہی پاک ہو وہ دل خدا کی نگاہ میں قیمت نہیں پاتا بلکہ خدا کا غضب مشتعل ہو گا.پس میری جماعت سمجھ لے کہ وہ میرے پاس آئے ہیں اسی لئے کہ تخم ریزی کی جاوے جس سے وہ پھل دار درخت ہو جائے.پس ہر ایک اپنے اندر غور کرے کہ اس کا اندرونہ کیسا ہے؟ اور اس کی باطنی حالت کیسی ہے؟ اگر ہماری جماعت بھی خدانخواستہ ایسی ہے کہ اس کی زبان پر کچھ ہے اور دل میں کچھ ہے تو پھر خاتمہ بالخیر نہ ہوگا.فرمایا: اللہ تعالیٰ جب دیکھتا ہے کہ ایک جماعت جو دل سے خالی ہے اور زبانی دعوے کرتی ہے.وہ غنی ہے، وہ پرواہ نہیں کرتا.فرمایا کہ "بدر کی فتح کی پیش گوئی ہوچکی تھی، ہر طرح فتح کی امید تھی لیکن پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رو رو کر دعا مانگتے تھے.حضرت ابوبکر صدیق نے عرض کیا کہ جب ہر طرح فتح کا وعدہ ہے تو پھر ضرورت الحاح کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ذات غنی ہے.یعنی ممکن ہے کہ وعدہ الہی میں کو ئی مخفی شرائط ہوں.( ملفوظات جلد 1صفحہ 8 ایڈیشن 2003 ،مطبوعہ ر بود) پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن سے اللہ تعالیٰ کے کامیابی کے وعدے تھے ، حدیث میں آتا ہے کہ وہ بھی بدر کے موقع پر اس طرح شات سے روتے تھے کہ آپ کے کندھے سے چادر اتر جاتی
خطبات مسرور جلد دہم 37 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جنوری 2012ء تھی.دعائیں کر رہے تھے کہ پتہ نہیں کوئی مخفی شرط نہ ہو جس کو ہم پورا نہیں کر رہے.(شرح العلامہ زرقاني على مواهب اللدنية جلدنمبر2صفحه 281تا 284 باب غزوہ بدر الكبرى دار الكتب العلميه بيروت 1996ء) اگر آپ کے ساتھ ترقی کے لئے مخفی شرائط ہیں، فتح کے ساتھ مخفی شرائط ہیں تو باقی اور کون ہے جس کے ساتھ یہ شرائط نہ ہوں.اس لئے اللہ تعالیٰ کے رازوں کا کسی کو علم نہیں.اپنے آپ کو پاک کرنے کی بہت ضرورت ہے.پھر آپ فرماتے ہیں: اہل تقویٰ کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں.یہ تقویٰ کی ایک شاخ ہے، جس کے ذریعہ سے ہمیں ناجائز غضب کا مقابلہ کرنا ہے.بڑے بڑے عارف اور صد یقوں کے لیے آخر کڑی منزل غضب سے بچنا ہی ہے.“ (غصے سے بچنا ضروری ہے) فرمایا کہ عجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے.“ ( تکبر اور غرور جو ہے غضب سے پیدا ہوتا ہے اور ایسا ہی کبھی خود غضب ،مجب و پندار کا نتیجہ ہوتا ہے.( کبھی غصہ تکبر کی وجہ سے آتا ہے.کبھی تکبر اور غرور کی وجہ سے غصہ آتا ہے اور کبھی تکبر اور غرور غصے کی وجہ بن جاتے ہیں ) فرمایا ” کیونکہ غضب اُس وقت ہوگا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے.میں نہیں چاہتا کہ میری جماعت والے آپس میں ایک دوسرے کو چھوٹا یا بڑا سمجھیں ، یا ایک دوسرے پر غرور کریں یا نظر استخفاف سے دیکھیں.خدا جانتا ہے کہ بڑا کون ہے یا چھوٹا کون ہے.یہ ایک قسم کی تحقیر ہے.جس کے اندر حقارت ہے (جس میں تکبر پایا جاتا ہے ) ڈر ہے کہ یہ حقارت بیچ کی طرح بڑھے اور اس کی ہلاکت کا باعث ہو جاوے.فرمایا کہ ” بعض آدمی بڑوں کو مل کر بڑے ادب سے پیش آتے ہیں.لیکن بڑا وہ ہے جو مسکین کی بات کو مسکینی سے سنے.اس کی دلجوئی کرے.اس کی بات کی عزت کرے.کوئی چڑ کی بات منہ پر نہ لاوے کہ جس سے دکھ پہنچے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَنَابَزُوا ط بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيْمَانِ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ (الحجرات : 12).( یعنی ایمان کے بعد فسق کا جو داغ ہے یہ لگنا بہت بری بات ہے.پہلے تو فرمایا له وَلَا تَنَابَزُوا بِالْألقاب ایک دوسرے کے نام بگاڑ کر نہ پکارو اور ایمان کے بعد فسق کا داغ لگنا بہت بری بات ہے اور فرمایا کہ جس نے توبہ نہ کی تو یہی ظالم لوگ ہیں ).فرماتے ہیں کہ تم ایک دوسرے کا چڑ کے نام نہ لو.یہ فعل فساق وفجار کا ہے.“ ( وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی
خطبات مسرور جلد دہم 38 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جنوری 2012ء کرتے ہیں، جو شیطان کے پیچھے چلنے والے ہیں یہ کام ان کا ہے ).”جو شخص کسی کو چڑاتا ہے وہ نہ مرے گا جبتک وہ خود اسی طرح مبتلا نہ ہو گا.اپنے بھائیوں کو حقیر نہ سمجھو.جب ایک ہی چشمہ سے گل پانی پیتے ہو تو کون جانتا ہے کہ کس کی قسمت میں زیادہ پانی پینا ہے.مکرم معظم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں ہوسکتا.خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ہے.اِنَّ اكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خبير - (الحجرات: 14) ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 22-23 ایڈ یشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) فرمایا کہ: ” سچی فراست اور سچی دانش اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کئے بغیر حاصل ہی نہیں ہوسکتی.“ ( عقل اور فکر اور فراست جو ہے اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے بغیر ، اُس کی طرف رجوع کئے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی ).فرمایا کہ اسی واسطے تو کہا گیا ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ نورالہی سے دیکھتا ہے.صحیح فراست اور حقیقی دانش کبھی نصیب نہیں ہو سکتی جب تک تقویٰ میسر نہ ہو.“ فرماتے ہیں کہ ”اگر تم کامیاب ہونا چاہتے ہو تو عقل سے کام لو.فکر کرو.سوچو.تدبر اور فکر کے لئے قرآن کریم میں بار بار تاکیدمیں موجود ہیں.کتاب مکنون اور قرآن کریم میں فکر کرو اور پارسا طبع ہو جاؤ.جب تمہارے دل پاک ہو جائیں گے اور ادھر عقل سلیم سے کام لو گے اور تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے.پھر ان دونوں کے جوڑ سے وہ حالت پیدا ہو جائے گی کہ رَبِّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلًا سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (آل عمران:192) تمہارے دل سے نکلے گا.اس وقت سمجھ میں آجائے گا کہ یہ مخلوق عبث نہیں بلکہ صانع حقیقی کی حقانیت اور اثبات پر دلالت کرتی ہے تا کہ طرح طرح کے علوم وفنون جو دین کو مدددیتے ہیں ظاہر ہوں.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 41-42 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) پھر یہ بات دل سے نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا ہے وہ جھوٹ نہیں ہے، وہ باطل نہیں ہے.اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پھر اُس سے دعا مانگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں آگ کے عذاب سے بچالے.فرماتے ہیں کہ جب یہ دعا دل سے نکلے گی تو اُس وقت سمجھ آئے گا کہ اللہ تعالیٰ کی جو ساری مخلوق ہے یہ بے فائدہ پیدا نہیں کی گئی.ہر چیز کا ایک مقصد ہے.اگر انسان ہے تو ہر انسان کا ایک مقام ہے.اُس کی عزت کرنا ضروری ہے.بلکہ اللہ تعالیٰ کی ہر مخلوق جو ہے اُس کا ایک مقصد ہے.اُس کو سمجھنے کی کوشش کرو تو پھر تمہیں سمجھ آئے گی کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بلا وجہ پیدا نہیں کی.پھر فرماتے ہیں : ” تا کہ طرح طرح کے علوم و فنون جو دین کو مدددیتے ہیں ظاہر ہوں.تمہاری عقل بڑھے گی تو تب مختلف قسم کے جو علوم ہیں، جو بھی دنیاوی علوم ہیں جو دین کے مددگار ہیں اُن کے بھید تم
خطبات مسرور جلد دہم 39 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جنوری 2012ء پر کھلیں گے اور ظاہر ہوں گے.پس نیکیوں میں آگے بڑھنے کی روح اُس وقت پیدا ہوگی جب قرآن کریم کا علم حاصل کرنے کی اور اُس کو سمجھنے کی اور اُس کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش ہوگی.اس لئے اگر حقیقی مومن بننا ہے اور اُن لوگوں میں شامل ہونا ہے جن کو حقیقی نیکیوں کا فہم و ادراک حاصل ہوتا ہے تو قرآن کریم کو بھی بہت غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے.اس سے علم ومعرفت بڑھتی ہے.پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : "اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں فلاح دارین حاصل ہو اور لوگوں کے دلوں پر فتح پاؤں تو پاکیزگی اختیار کرو عقل سے کام لو اور کلام الہی کی ہدایات پر چلو.خود اپنے تئیں سنوارو اور دوسروں کو اپنے اخلاق فاضلہ کا نمونہ دکھاؤ.تب البتہ کامیاب ہو جاؤ گے.کسی نے کیا اچھا کہا ہے.“ (فارسی میں ہے کہ ) سخن کز دل برون آید نشیند لاجرم بردل.( کہ جو بات دل سے نکلتی ہے وہ دل پر اترتی ہے ).پس پہلے دل پیدا کرو.فرمایا کہ ” پس پہلے دل پیدا کرو.اگر دلوں پر اثر اندازی چاہتے ہوتو عملی طاقت پیدا کرو.کیونکہ عمل کے بغیر قولی طاقت اور لسانی قوت کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی.زبان سے قیل وقال کرنے والے تو لاکھوں ہیں.بہت سے مولوی اور علماء کہلا کر منبروں پر چڑھ کر اپنے تئیں نائب الرسول اور وارث الانبیاء قرار دے کر وعظ کرتے پھرتے ہیں.کہتے ہیں کہ تکبر، غرور اور بدکاریوں سے بچو.مگر جو اُن کے اپنے اعمال ہیں اور جو کر تو تیں وہ خود کرتے ہیں ان کا اندازہ اس سے کر لو کہ ان باتوں کا اثر تمہارے دل پر کہاں تک ہوتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 42 ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) یقیناً جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان لیا، اُن کے دلوں پر تو ان مولویوں کا اثر نہیں ہوتا لیکن جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نہ ماننے والے ہیں ان میں جو پڑھے لکھے ہیں، کچھ عقل رکھنے والے ہیں، کچھ حد تک اُن میں شرافت بھی ہے، اُن سے اگر پوچھو تو وہ مولویوں کو برا بھلا ہی کہتے ہیں کہ کرتے کچھ ہیں، کہتے کچھ ہیں.سوائے فتنہ اور فساد کے انہوں نے کچھ نہیں برپا کیا ہوا.پس ہمارے قول و فعل ایک ہوں گے تو اسی سے ہمارے تبلیغ کے راستے بھی کھلیں گے اور دوسروں پر اثر بھی ہوگا.پھر نئے علوم کے بارے میں کہ اُن کو حاصل کرنا چاہئے ، آپ فرماتے ہیں کہ : یں ان مولویوں کو غلطی پر جانتا ہوں جو علوم جدیدہ کی تعلیم کے مخالف ہیں.وہ دراصل اپنی غلطی اور کمزوری کو چھپانے کے لئے ایسا کرتے ہیں.ان کے ذہن میں یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ علومِ جدیدہ کی تحقیقات اسلام سے بدظن اور گمراہ کر دیتی ہے اور وہ یہ قرار دیئے بیٹھے ہیں کہ گویا عقل اور سائنس اسلام سے بالکل متضاد چیزیں ہیں.چونکہ خود فلسفہ کی کمزوریوں کو ظاہر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اس لئے
خطبات مسرور جلد دہم 40 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جنوری 2012ء اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لئے یہ بات تراشتے ہیں کہ علومِ جدیدہ کا پڑھنا ہی جائز نہیں.اُن کی رُوح فلسفہ سے کانپتی ہے اور نئی تحقیقات کے سامنے سجدہ کرتی ہے.فرمایا کہ ”مگر وہ سچا فلسفہ ان کو نہیں ملا جو الہام الہی سے پیدا ہوتا ہے.دنیاوی فلسفہ کا جواب نہیں دے سکتے اس لئے کانپتے ہیں اور کہتے ہیں اس کو پڑھو ہی نہ، دیکھو ہی نہ.فرمایا کہ وہ سچا فلسفہ اُن کو نہیں ملا جو الہام الہی سے پیدا ہوتا ہے جو قرآن کریم میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے.وہ ان کو اور صرف انہیں کو دیا جاتا ہے جو نہایت تذلل اور نیستی سے اپنے تئیں اللہ تعالیٰ کے دروازے پر پھینک دیتے ہیں.“ ( اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی چوکھٹ پر رکھ دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہیں، اُس سے مدد مانگتے ہیں.فرمایا کہ جن کے دل اور دماغ سے متکبرانہ خیالات کا تعفن نکل جاتا ہے اور جو اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرتے ہوئے گڑ گڑا کر سچی عبودیت کا اقرار کرتے ہیں.“ (اگر یہ حالت ہوتی ہے تو پھر اُن کوعلم وعرفان عطا ہوتا ہے.(ملفوظات جلد 1 صفحہ 43 ایڈیشن 2003 ،مطبوعد ربوہ ) پھر آپ فرماتے ہیں: پس ضرورت ہے کہ آجکل دین کی خدمت اور اعلائے کلمتہ اللہ کی غرض سے علوم جدیدہ حاصل کرو ( دین کو پھیلانے کے لئے جو آجکل کے نئے علوم ہیں اُن کو حاصل کرو ) ” اور بڑے جدو جہد سے حاصل کرو.(اس میں محنت کرو.سائنس میں ترقی کرو.ریسرچ میں جاؤ.آجکل احمدی طلباء کو خاص طور پر میں کہتا ہوں کہ اس طرف کوشش کریں.یہ بھی تبلیغ کا ایک ذریعہ ہے اور یہ بھی نیکیاں پھیلانے کا ذریعہ ہے.جب علم حاصل ہوگا، ماڈرن علم جو آجکل دنیا کا علم ہے، سائنس کا علم ہے وہ حاصل ہو گا تو بہت سارے مزید رستے کھلتے ہیں) فرمایا کہ ”علوم جدیدہ حاصل کرو اور بڑے جدو جہد سے حاصل کرو.لیکن مجھے یہ بھی تجربہ ہے جو بطور انتباہ میں بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ جو لوگ ان علوم ہی میں یکطرفہ پڑ گئے اور ایسے محواور منہمک ہوئے کہ کسی اہل دل اور اہل ذکر کے پاس بیٹھنے کا ان کو موقعہ نہ ملا اور وہ خود اپنے اند ر الہی نور نہ رکھتے تھے وہ عموماً ٹھوکر کھا گئے اور اسلام سے دور جا پڑے.“ (علوم تو بیشک حاصل کر ولیکن ساتھ ساتھ قرآن کریم کا علم بھی پڑھو، وہ بھی حاصل کرو تا کہ صحیح راستے پر چلتے رہو اور پھر جن لوگوں کو قرآن کا علم ہے، ان سے تعلق جوڑو) پھر فرمایا اور بجائے اس کے کہ ان علوم کو اسلام کے تابع کرتے.الٹا اسلام کو علوم کے ماتحت کرنے کی بے سود کوشش کر کے اپنے زعم میں دینی اور قومی خدمات کے متکفل بن گئے.مگر یاد رکھو کہ یہ کام وہی کر سکتا ہے یعنی دینی خدمت وہی بجالا سکتا ہے جو آسمانی روشنی اپنے اندر رکھتا ہو.( ملفوظات جلد 1 صفحہ 43 ایڈیشن 2003, مطبوعہ ربوہ)
خطبات مسرور جلد دہم 41 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جنوری 2012 ء اور اس زمانے میں یہ روشنی ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملی ہے.اس لئے قرآن کریم کی تفسیر اور اُس کو سمجھنے کے لئے آپ کی کتب پڑھنا اور آپ کی تفسیریں پڑھنا یہ بہت ضروری ہے.پھر آپ سائنس کو دینی علوم کے ساتھ ملا سکتے ہیں اور کہیں کوئی ایسی بات نہیں ہوگی جہاں دنیاوی علوم دین پر غالب آجائیں.ہمیشہ دین ہی غالب رہتا ہے اور دین ان دنیاوی علوم کو ، سائنسی علوم کو اپنے تابع کر لیتا ہے.پھر آپ صَابِرُوا وَرَابِطُوا (ال عمران (201).اس کا مطلب یہ ہے کہ صبر کی تلقین کرو اور سرحدوں کی حفاظت کرو، کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : و جس طرح دشمن کے مقابلہ پر سرحد پر گھوڑا ہوناضروری ہے تا کہ دشمن حد سے نہ نکلنے پاوے.اسی طرح تم بھی تیار رہو ( سرحدوں کی حفاظت کے لئے فوجوں کی ضرورت ہے.پرانے زمانے میں گھوڑوں کی فوج بڑی اچھی سبھی جاتی تھی.اس زمانے میں ہر قسم کے جدید آلات ہیں، اگر ملکوں کی حفاظت کرنی ہے، سرحدوں کی حفاظت کرنی ہے تو وہ رکھنے ضروری ہوتے ہیں.جس طرح گھوڑا ہونا ضروری ہے تا کہ دشمن حد سے نہ نکلنے پاوے، تمہاری طرف حملہ نہ کرے، اسی طرح تم بھی تیار رہو.) فرمایا ”ایسانہ ہو کہ دشمن سرحد سے گزر کر اسلام کو صدمہ پہنچائے.میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ اگر تم اسلام کی حمایت اور خدمت کرنا چاہتے ہو تو پہلے خود تقویٰ اور طہارت اختیار کرو جس سے خود تم خدا تعالیٰ کی پناہ کے حصن حصین میں آسکو ( اللہ تعالیٰ کی پناہ کے محفوظ قلعے میں آسکو اور پھر تم کو اس خدمت کا شرف اور استحقاق حاصل ہو.تم دیکھتے ہو کہ مسلمانوں کی بیرونی طاقت کیسی کمزور ہوگئی ہے.قومیں ان کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھتی ہیں.( یہ صورتحال جیسے آج سے سو سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں تھی آج بھی اسی طرح ہے بلکہ بڑھ گئی ہے.مسلمانوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اُن کے غلط عمل کی وجہ سے دیکھا جاتا ہے.فرمایا اگر تمہاری اندرونی اور قلبی طاقت بھی کمزور اور پست ہو گئی تو بس پھر تو خاتمہ ہی سمجھو.“ ( تم لوگ جو اس زمانے کے مسیح موعود کو ماننے والے ہو، مہدی معہود کو ماننے والے ہو، تمہاری بھی اگر طاقتیں کمزور ہو گئیں اور دنیا داری میں پڑ گئے ، دین کو بھول گئے تو پھر خاتمہ سمجھو.) فرمایا تم اپنے نفسوں کو ایسے پاک کرو کہ قدسی قوت ان میں سرایت کرے اور وہ سرحد کے گھوڑوں کی طرح مضبوط اور محافظ ہو جائیں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہمیشہ متقیوں اور راستبازوں ہی کے شامل حال ہوا کرتا ہے.اپنے اخلاق اور اطوار ایسے نہ بناؤ جن سے اسلام کو داغ لگ جاوے.بدکاروں اور اسلام کی تعلیم پر عمل نہ کرنے والے مسلمانوں سے اسلام کو داغ لگتا ہے.کوئی مسلمان شراب پی لیتا ہے تو کہیں گئے کرتا پھرتا
خطبات مسرور جلد دہم 42 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جنوری 2012ء ہے.پگڑی گلے میں ہوتی ہے.موریوں اور گندی نالیوں میں گرتا پھرتا ہے.پولیس کے جوتے پڑتے ہیں.ہندو اور عیسائی اس پر ہنستے ہیں.اس کا ایسا خلاف شرع فعل اس کی ہی تضحیک کا موجب نہیں ہوتا بلکہ در پردہ اس کا اثر نفس اسلام تک پہنچتا ہے.مجھے ایسی خبریں یا جیل خانوں کی رپورٹیں پڑھ کر سخت رنج ہوتا ہے.جب میں دیکھتا ہوں کہ اس قدر مسلمان بد عملیوں کی وجہ سے مور دعتاب ہوئے.دل بے قرار ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ جو صراط مستقیم رکھتے ہیں اپنی بداعتدالیوں سے صرف اپنے آپ کو نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ اسلام پر ہنسی کراتے ہیں.“ ( اور یہ صورتحال آج بھی ہے.یہاں جو کئی مسلمان آتے ہیں انہیں آپ دیکھیں جب وہ خاص طور پر جہازوں پر سفر کر رہے ہوں جہاں شراب پینے کی آزادی ہے، پاکستان کے سفر کر رہے ہیں یا عرب ملکوں کے سفر کر رہے ہیں تو بے تحاشا شراب پی رہے ہوتے ہیں اور ساتھ والوں کو بھی تنگ کر رہے ہوتے ہیں.فرمایا ”پس اپنے چال چلن اور اطوار ایسے بنا لو کہ کفار کو بھی تم پر ( جو در اصل اسلام پر ہوتی ہے) نکتہ چینی کرنے کا موقعہ نہ ملے “ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 48-49 ایڈیشن 2003 ، مطبوعہ ربوہ ) پھر ایک بات کی نصیحت کرتے ہوئے کہ اصل بہادر کون ہے؟ ایک احمدی کو، مومن کو کس قسم کا بہادر ہونا چاہئے.فرمایا کہ: ”ہماری جماعت میں شہ زور اور پہلوانوں کی طاقت رکھنے والے مطلوب نہیں ( ہمیں وہ نہیں چاہئیں ) ” بلکہ ایسی قوت رکھنے والے مطلوب ہیں جو تبدیلِ اخلاق کے لئے کوشش کرنے والے ہوں.یہ ایک امر واقعی ہے کہ وہ شہ زور اور طاقت والا نہیں جو پہاڑ کو جگہ سے ہٹا سکے.نہیں نہیں.اصلی بہادر وہی ہے جو تبدیل اخلاق پر مقدرت پاوے.پس یاد رکھو کہ ساری ہمت اور قوت تبدیل اخلاق میں صرف کرو کیونکہ یہی حقیقی قوت اور دلیری ہے.(ملفوظات جلد 1 صفحہ 88-89 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) پھر صحیح عقائد اور اعمال صالحہ کو مدنظر رکھنے کے لئے آپ نصیحت فرماتے ہیں کہ : وو علاوہ ازیں دو حصے اور بھی ہیں جن کو مدنظر رکھنا صادق اخلاص مند کا کام ہونا چاہئے.ان میں سے ایک عقائد صحیحہ کا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا کمال فضل ہے کہ اس نے کامل اور مکمل عقائد صحیحہ کی راہ ہم کو اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بدوں مشقت و محنت کے دکھائی ہے.“ ( یہ سب کچھ ہمیں پکا پکا یا سامنے آ گیا.بنا بنا یا سامنے آ گیا.کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی ).وہ راہ جو آپ لوگوں کو اس زمانہ میں دکھائی گئی ہے بہت سے عالم ابھی تک اس سے محروم ہیں.پس خدا تعالیٰ کے اس فضل اور نعمت کا شکر کرو اور وہ شکر یہی ہے کہ سچے دل سے ان اعمال صالحہ کو بجالا ؤ جو عقائد صحیحہ کے بعد دوسرے حصہ میں آتے ہیں.اور اپنی
خطبات مسرور جلد دہم 43 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جنوری 2012ء عملی حالت سے مدد لے کر دعا مانگو کہ وہ ان عقائد صحیحہ پر ثابت قدم رکھے اور اعمال صالحہ کی توفیق بخشے.حصہ عبادات میں صوم ( عبادات میں جو بات ہے اُس میں صوم صلوۃ و زکوۃ وغیرہ امور شامل ہیں.اب خیال کرو کہ مثلاً نماز ہی ہے.یہ دنیا میں آئی ہے لیکن دنیا سے نہیں آئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلوة ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 94-95 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) کہ نماز دنیا میں تو آئی ہے، لیکن دنیا سے نہیں آئی یا دنیا والوں کی چیز نہیں ہے.وہی اس کا حق ادا کر سکتے ہیں جو حقیقی مومن ہیں.فرمایا ہماری جماعت کو آخرت پر نظر رکھنی چاہئے.”دیکھولوط وغیرہ قوموں کا انجام کیا ہوا.ہر ایک کو لازم ہے کہ دل اگر سخت بھی ہو، تو اُس کو ملامت کر کے خشوع و خضوع کا سبق دے.“ (اگر دل سخت بھی ہے تب بھی کوشش کرو اور بار بار کوشش کرو.اپنے آپ کو کوسو.دل کو کوسوتا کہ اس میں نرمی پیدا ہو.اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ پیدا ہو.عبادت کی طرف توجہ پیدا ہو اور وہ جھکے.) فرمایا کہ ”ہماری جماعت کے لئے بہت ضروری ہے، کیونکہ ان کو تازہ معرفت ملتی ہے.اگر کوئی دعویٰ تو معرفت کا کرے ،مگر اس پر چلے نہیں تو یہ لاف و گزاف ہی ہے.اس لئے ہماری جماعت دوسروں کی غفلت سے خود غافل نہ رہے اور ان کی محبت کو سر دیکھ کر اپنی محبت کو ٹھنڈا نہ کرے.انسان بہت تمنائیں رکھتا ہے.غیب کی قضا و قدر کی کس کو خبر ہے.“ غیب کی اور قضا و قدر کی کسی کو خبر ہے.کوئی نہیں جانتا کب ہونا ہے، کیا ہونا ہے؟) ''آرزؤوں کے موافق زندگی کبھی نہیں چلتی ہے.( جو تمہاری خواہشات ہیں اُن کے مطابق زندگی نہیں چلا کرتی.) فرمایا کہ آرزؤوں کا سلسلہ اور ہے اور قضا و قدر کا سلسلہ اور ہے اور یہی سلسلہ سچا ہے.یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے پاس انسان کے سوانح بچے ہیں.اُسے کیا معلوم ہے کہ اس میں کیا کیا لکھا ہے اس لئے دل کو جگا جگا کر متوجہ کرنا چاہیے.“ اللہ تعالیٰ کے پاس جو تمہاری زندگی کے حالات پہنچ رہے ہیں وہ بالکل صحیح پہنچ رہے ہیں.کوئی چیز بھی ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 96 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) اُس سے چھپی ہوئی نہیں ہے.اس لئے بار بار اپنے دل کو ٹولو اور اُسے جگاؤ اور اللہ کی طرف توجہ پیدا کرو.پھر فرماتے ہیں کہ : ” تقویٰ کی راہ اختیار کریں کیونکہ تقوی ہی ایک ایسی چیز ہے جس کو شریعت کا خلاصہ کہہ سکتے ہیں.اگر شریعت کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہیں تو مغز شریعت تقویٰ ہی ہو سکتا ہے.تقویٰ کے مدارج اور مراتب بہت سے ہیں لیکن اگر طالب صادق ہو کر ابتدائی مراتب اور مراحل استقلال اور خلوص سے طے کرے ، تو وہ اس راستی اور طلب صدق کی وجہ سے اعلیٰ مدارج کو پالیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.
خطبات مسرور جلد دہم 44 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جنوری 2012ء إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (المائده: 28) گویا اللہ تعالیٰ متقیوں کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے.یہ گویا اس کا وعدہ ہے اور اس کے وعدوں میں تختلف نہیں ہوتا.( کبھی وعدے کے خلاف نہیں کرتا).جیسا کہ فرمایا ہے اِنَّ اللهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ (الرعد: 32).پس جس حال میں تقویٰ کی شرط قبولیت دعا کے لیے ایک غیر منفک شرط ہے تو ایک انسان غافل اور بے راہ ہو کر اگر قبولیت دعا چاہے تو کیا وہ احمق اور نادان نہیں ہے.لہذا ہماری جماعت کو لازم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہر ایک ان میں سے تقویٰ کی راہوں پر قدم مارے، تا کہ قبولیت دعا کا سرور اور حظ حاصل کرے اور زیادتی ایمان کا حصہ لے.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 68 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) پھر ایک اور نصیحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ : بہت دفعہ خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ تم لوگ متقی بن جاؤ اور تقویٰ کی باریک راہوں پر چلو تو خدا تمہارے ساتھ ہو گا.فرمایا ” اس سے میرے دل میں بڑا درد پیدا ہوتا ہے کہ میں کیا کروں کہ ہماری جماعت سچا تقویٰ و طہارت اختیار کر لے.پھر فرمایا کہ ”میں اتنی دعا کرتا ہوں کہ دعا کرتے کرتے ضعف کا غلبہ ہو جاتا ہے اور بعض اوقات غشی اور ہلاکت تک نوبت پہنچ جاتی ہے.فرمایا ”جب تک کوئی جماعت خدا تعالیٰ کی نگاہ میں منتقی نہ بن جائے خدا تعالیٰ کی نصرت اُس کے شامل حال نہیں ہو سکتی.فرمایا تقوی خلاصہ ہے تمام صحف مقدسہ اور توریت و انجیل کی تعلیمات کا.قرآنِ کریم نے ایک ہی لفظ میں خدا تعالیٰ کی عظیم الشان مرضی اور پوری رضا کا اظہار کر دیا ہے.“ ( یعنی اس لفظ تقوی نے.) ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 200 ایڈ یشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) آپ نے ایک زمانے میں خاص طور پر جماعت کو یہ دعا پڑھنے کی تلقین فرمائی کہ ربَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة: 202) (ماخوذ از ملفوظات جلد 1 صفحہ 6 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) فرمایا کہ: ” تو بہ انسان کے واسطے کوئی زائد اور بے فائدہ چیز نہیں ہے اور اس کا اثر صرف قیامت پر ہی منحصر نہیں بلکہ اس سے انسان کی دنیا و دین دونوں سنور جاتے ہیں اور اسے اس جہان میں اور آنے والے جہان دونوں میں آرام اور خوشحالی نصیب ہوتی ہے.دیکھو قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة:202) اے ہمارے رب! ہمیں اس دنیا میں بھی آرام و آسائش کے سامان عطا فرما اور آنے والے جہان میں بھی آرام
خطبات مسرور جلد دہم 45 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جنوری 2012ء اور راحت عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.دیکھو در اصل ربنا کے لفظ میں تو بہ ہی کی طرف ایک بار یک اشارہ ہے کیونکہ ربنا کا لفظ چاہتا ہے کہ وہ بعض اور رتبوں کو جو اُس نے پہلے بنائے ہوئے تھے“ (یعنی انسان نے جو کوئی اپنے رب بنائے ہوئے ہیں ) اُن سے بیزار ہو کر اس رب کی طرف آیا ہے.اور یہ لفظ حقیقی درد اور گداز کے سوا انسان کے دل سے نکل ہی نہیں سکتا.رب کہتے ہیں بتدریج کمال کو پہنچانے والے اور پرورش کرنے والے کو.اصل میں انسان نے اپنے بہت سے ارباب بنائے ہوئے ہوتے ہیں.اپنے حیلوں اور دغابازیوں پر اُسے پورا بھروسہ ہوتا ہے تو وہی اُس کے رب ہوتے ہیں.اگر اُسے اپنے علم کا یا قوت بازو کا گھمنڈ ہے تو وہی اُس کے رب ہیں.اگر اُسے اپنے حسن یا مال یا دولت پر فخر ہے تو وہی اُس کا رب ہے.غرض اس طرح کے ہزاروں اسباب اُس کے ساتھ لگے ہوئے ہیں.جب تک اُن سب کو ترک کر کے اُن سے بیزار ہو کر اس واحد لاشریک، بچے اور حقیقی رب کے آگے سر نیاز نہ جھکائے اور رہنا کی پُر درد اور دل کو پگھلانے والی آوازوں سے اُس کے آستانے پر نہ گرے تب تک وہ حقیقی رب کو نہیں سمجھا.پس جب ایسی دل سوزی اور جاں گدازی سے اُس کے حضور اپنے گناہوں کا اقرار کر کے تو بہ کرتا اور اُسے مخاطب کرتا ہے کہ ربنا یعنی اصلی اور حقیقی رب تو تو ہی تھا.مگر ہم اپنی غلطی سے دوسری جگہ بہکتے پھرتے رہے.اب میں نے اُن جھوٹے بتوں اور باطل معبودوں کو ترک کر دیا ہے.اور صدق دل سے تیری ربوبیت کا اقرار کرتا ہوں.تیرے آستانے پر آتا ہوں.غرض بجز اس کے خدا کو اپنا رب بنانا مشکل ہے.( یہ حالت ہو گی تو تبھی حقیقی رب اللہ بن سکتا ہے.) جبتک انسان کے دل سے دوسرے ربّ اور اُن کی قدر و منزلت و عظمت و وقار نکل نہ جاوے تب تک حقیقی رب اور اُس کی ربوبیت کا ٹھیکہ نہیں اٹھاتا.بعض لوگوں نے جھوٹ ہی کو اپنا رب بنایا ہوا ہوتا ہے.وہ جانتے ہیں کہ ہمارا جھوٹ کے بڑوں گزارا مشکل ہے.بعض چوری و راہزنی اور فریب دہی ہی کو ہی اپنا رب بنائے ہوئے ہیں.اُن کا اعتقاد ہے کہ اس راہ کے سوا اُن کے واسطے کوئی رزق کا راہ ہی نہیں.سو اُن کے ارباب وہ چیزیں ہیں.دیکھو ایک چور جس کے پاس سارے نقب زنی کے ہتھیار موجود ہوں ، اور رات کا موقع بھی اُس کے مفید مطلب ہے اور کوئی چوکیدار وغیرہ بھی نہیں جاگتا ہے تو ایسی حالت میں وہ چوری کے سوا کسی اور راہ کو بھی جانتا ہے جس سے اُس کا رزق آسکتا ہے.وہ اپنے ہتھیاروں کو ہی اپنا معبود جانتا ہے.غرض ایسے لوگ جن کو اپنی ہی حیلہ بازیوں پر اعتماد اور بھروسہ ہوتا ہے اُن کو خدا سے استعانت اور دعا کرنے کی کیا حاجت ؟.“ ( وہ تو اپنی چیزوں کو ہی اپنا رب سمجھیں گے ).فرمایا کہ دعا کی حاجت تو اُسی کو ہوتی ہے جس کے سارے راہ بند ہوں اور کوئی راہ سوائے اُس
خطبات مسرور جلد دہم 46 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جنوری 2012ء در کے نہ ہو.اُسی کے دل سے دعا نکلتی ہے.غرض رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنيا....الخ ایسی دعا کرنا صرف انہیں لوگوں کا کام ہے جو خدا ہی کو اپنا رب جان چکے ہیں اور ان کو یقین ہے کہ اُن کے ربّ کے سامنے اور سارے ارباب باطلہ بیچ ہیں.فرمایا کہ آگ سے مراد صرف وہی آگ نہیں جو قیامت کو ہوگی.“ (وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ جو کہا ہے ) فرمایا کہ ” آگ سے مراد صرف وہی آگ نہیں جو قیامت کو ہوگی بلکہ دنیا میں بھی جو شخص ایک لمبی عمر پاتا ہے وہ دیکھ لیتا ہے کہ دنیا میں بھی ہزاروں طرح کی آگ ہے.تجربہ کار جانتے ہیں کہ قسم قسم کی آگ دنیا میں موجود ہے.طرح طرح کے عذاب،خوف ،خون ،فقر و فاقے ،امراض، ناکامیاں، ذلت واد بار کے اندیشے، ہزاروں قسم کے دکھ، اولا د بیوی وغیرہ کے متعلق تکالیف اور رشتے داروں کے ساتھ معاملات میں الجھن ، غرض یہ سب آگ ہیں.تو مومن دعا کرتا ہے کہ ساری قسم کی آگوں سے ہمیں بچا.جب ہم نے تیرا دامن پکڑا ہے تو ان سب عوارض سے جو انسانی زندگی کو تلخ کرنے والے ہیں اور انسان کے لئے بمنزلہ آگ ہیں بچائے رکھ“ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 144 - 145 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ) پھر حقیقی احمدیوں سے خدا تعالیٰ کا وعدہ.اس کا کچھ ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے تفصیلی ذکر یہ ہے کہ يوم آپ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے وَ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى الْقِيمَةِ (آل عمران : 56) یہ تسلی بخش وعدہ ناصرہ میں پیدا ہونے والے ابن مریم سے ہوا تھا.مگر میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ یسوع مسیح کے نام سے آنے والے ابن مریم کو بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں الفاظ میں مخاطب کر کے بشارت دی ہے ( کہ میں جو مسیح بن کر آیا ہوں، مسیح موعود مجھے بھی اللہ تعالیٰ نے یہی بشارت دی ہے.اب آپ سوچ لیں کہ جو میرے ساتھ تعلق رکھ کر اس وعدہ عظیم اور بشارت عظیم میں شامل ہونا چاہتے ہیں.کیا وہ وہ لوگ ہو سکتے ہیں جو تارہ کے درجے میں پڑے ہوئے فسق و فجور کی راہوں پر کار بند ہیں؟ نہیں.ہر گز نہیں.جو اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کی سچی قدر کرتے ہیں اور میری باتوں کو قصہ کہانی نہیں جانتے تو یا درکھو اور دل سے سن لو.میں ایک بار پھر ان لوگوں کو مخاطب کر کے کہتا ہوں جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور وہ تعلق کوئی عام تعلق نہیں بلکہ بہت زبر دست تعلق ہے اور ایسا تعلق ہے کہ جس کا اثر (نہ صرف میری ذات تک ) بلکہ اس ہستی تک پہنچتا ہے جس نے مجھے بھی اس برگزیدہ انسان کامل کی ذات تک پہنچایا ہے جو دنیا میں صداقت اور راستی کی روح لے کر آیا.میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر ان باتوں کا اثر میری ذات تک پہنچتا تو مجھے کچھ بھی اندیشہ اور فکر نہ تھا اور نہ ان کی پروا تھی.مگر اس پر بس نہیں ہوتی.اس کا اثر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خود خدائے تعالیٰ کی برگزیدہ ذات تک پہنچ جاتا ہے.پس ایسی صورت
خطبات مسرور جلد دہم 47 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جنوری 2012ء اور حالت میں تم خوب دھیان دے کر سن رکھو کہ اگر اس بشارت سے حصہ لینا چاہتے ہو اور اس کے مصداق ہونے کی آرزور کھتے ہو اور اتنی بڑی کامیابی ( کہ قیامت تک مکفرین پر غالب رہو گے، ) کی سچی پیاس تمہارے اندر ہے تو پھر اتنا ہی میں کہتا ہوں کہ یہ کامیابی اس وقت تک حاصل نہ ہوگی جب تک تو امہ کے درجہ سے گزر کر مطمئنہ کے مینار تک نہ پہنچ جاؤ.اس سے زیادہ اور میں کچھ نہیں کہتا کہ تم لوگ ایک ایسے شخص کے ساتھ پیوند رکھتے ہو جو مامور من اللہ ہے.پس اس کی باتوں کو دل کے کانوں سے سنو اور اس پر عمل کرنے کے لئے ہمہ تن تیار ہو جاؤ تا کہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو اقرار کے بعد انکار کی نجاست میں گر کر ابدی عذاب خرید لیتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 64-65 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) پس یہ اُن نصائح میں سے چند نصائح ہیں جو مختلف اوقات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت کو کیں.خوش قسمت ہیں وہ جنہوں نے براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت سے فیض پایا اور یہ باتیں سنیں.اور خوش قسمت ہیں ہم بھی جن تک یہ باتیں پہنچیں.اور ہمیں اُن لوگوں کا شکر گزار ہونا چاہئے جنہوں نے یہ باتیں ہم تک پہنچائیں تا کہ ہم اپنے عہد بیعت کی حقیقت کو سمجھنے والے بن سکیں.اُن لوگوں میں بن سکیں جو نیکیاں کرنے والے اور نیکیوں کی روح کو سمجھتے ہوئے انہیں پھیلانے والے ہوتے ہیں.اُن لوگوں میں بن سکیں جو ہر وقت نیکیاں اختیار کرنے میں آگے قدم بڑھانے کی کوشش کرنے والے ہوتے ہیں.ہمیں حقیقی تقویٰ کی راہ پر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ڈالا ہے اور اُس کا فہم و ادراک بھی عطا فر مایا.پس ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے تقویٰ پر قدم مارنے والا بنے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.اس وقت میں جمعہ کے بعد بعض جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا.پہلا ہے ہمارے مربی سلسلہ جو مرکز میں، ربوہ میں ہی کام کر رہے تھے، مکرم شیخ محمد نعیم صاحب ابن شیخ محمد اسلم صاحب.دنیا پور کے رہنے والے تھے.شعبہ ترتیب ریکارڈ جوانجمن کے ریکار ڈ وغیرہ کا انتظامی شعبہ ہے، یہ اس میں کام کر رہے تھے.دفتر تشریف لائے.وہاں کام کرتے ہوئے ان کو دل کا حملہ ہوا اور بے ہوش ہو گئے.ہسپتال لے جایا گیا لیکن ڈاکٹروں کی پوری کوشش کے باوجود زندگی نے وفانہ کی اور وفات پاگئے.اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.انا للہ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.ان کی عمر باسٹھ سال تھی اور بڑی خوش مزاج اور ہر دل عزیز شخصیت کے مالک تھے.محنت سے کام کرنے والے تھے.اٹھارہ سال کی عمر میں انہوں نے وصیت کی تھی.بطور مبلغ سلسلہ سیرالیون میں خدمات سرانجام دیں.پھر پاکستان میں
خطبات مسرور جلد دہم 48 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جنوری 2012ء مختلف اضلاع میں بطور مربی سلسلہ خدمات سرانجام دیتے رہے.اور جیسا کہ میں نے بتایا آجکل شعبہ تر تیپ ریکارڈ میں کام کر رہے تھے اور بڑی خوش اسلوبی سے اپنے کام سرانجام دے رہے تھے.یہ مکرم مولا نا رشید احمد صاحب چغتائی مرحوم مبلغ سلسلہ کے داماد تھے.ان کی اپنی اولاد تو کوئی نہیں تھی ایک لے پالک بیٹی ہے اور بیوہ ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو بھی صبر اور ہمت اور حوصلہ دے اور ان کے درجات بلند فرمائے.دوسرا جنازہ مکرم احسن کمال صاحب ابن مکرم مظفر اقبال صاحب حلقہ صدر کراچی کا ہے.ان کا تعلق پنجاب ضلع لیہ سے ہے اور ان کے پڑدادا احمدی ہوئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے.آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.اسی طرح ان کے دادا بھی حضرت خلیفہ امسیح الرابع سے بڑے قریبی تعلق رکھتے تھے.ان کی والدہ صاحبہ صدر حلقہ کے طور پر لجنہ کا کام کر رہی ہیں.یہ کراچی کے حلقہ محمود آباد میں تھے.یہاں جماعت کی کافی مخالفت ہے.پہلے وہاں تین شہادتیں ہو چکی ہیں.اس وقت یہ ایک کمپنی میں کام کر رہے تھے اور اٹھارہ جنوری کو حسب معمول اپنے کام میں مشغول تھے کہ ساڑھے چار بجے موٹر سائیکل پر دو نامعلوم افراد آئے اور ان سے موبائل چھینے کی کوشش کی.ان کی مزاحمت پر انہوں نے ان پر دو فائر کئے جس سے یہ موقع پر شہید ہو گئے.یہ اول تو احمدی ہونے کے لحاظ سے جماعتی شہادت کی وجہ بنتی ہے اور لگتا ہے کہ دراصل انہوں نے چھینے کا بہانہ بنایا.لیکن اگر جماعتی شہادت نہیں بھی تھی تو اپنے کام میں جہاں تھے وہاں کی حفاظت کے لئے بھی انہوں نے اپنی زندگی دی تو یہ بھی شہادت ہی ہے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.تیس سال ان کی عمر تھی.اور تیسرا جنازہ مکرم عرفان احمد صاحب اونچا مانگٹ ضلع حافظ آباد کا ہے جنہوں نے 9 جنوری کو وفات پائی تھی.اِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.یہ حضرت مولوی فضل دین صاحب صحابی کے بیٹے تھے.پاکستان بننے کے بعد فرقان فورس میں انہوں نے کام کیا.موصی تھے اور خلافت سے، جماعت سے بھر پور تعاون تھا.انہوں نے اہلیہ اور پانچ بیٹیاں اور پانچ بیٹے یاد گار چھوڑے ہیں.ایک بیٹے رضوان احمد شاہد صاحب مربی سلسلہ ہیں جو آج کل آئیوری کوسٹ میں خدمت کی توفیق پارہے ہیں.وہاں ہونے کی وجہ سے یہ جنازے میں شامل نہیں ہو سکے تھے.تینوں کے جنازے ادا ہوں گے.اللہ تعالیٰ ان سب سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان سب کے لواحقین کو صبر اور ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے.“ الفضل انٹر نیشنل مورخہ 10 فروری تا 16 فروری 2012 جلد 19 شماره 6 صفحه 5 تا 9 )
خطبات مسرور جلد دہم 49 4 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جنوری 2012 ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت رزاسرود احمد خلیفہ امسح الامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 27 جنوری 2012 ء بمطابق 27 صلح 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اذْكُرُوا مَحَاسِنَ مَوْتَاكُمْ اپنے وفات پا جانے والوں کی خوبیوں کا ذکر کرو.اور پھر اسی میں آگے فرمایا کہ اُن کی برائیاں بیان نہ کیا کرو.(سنن الترمذی کتاب الجنائز باب 34 حدیث (1019) ہرانسان میں اچھائیاں بھی ہوتی ہیں اور کمزوریاں بھی ہوتی ہیں لیکن وفات کے بعد کیونکہ انسان کا تعلق اس دنیا سے کٹ جاتا ہے اس لئے اب اس دنیا میں کسی کی کمزوریوں اور برائیوں کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں.ہاں اُس کی خوبیوں، اُس کی نیکیوں کو ضرور بیان کرنا چاہئے ، ان کا ضرور ذکر ہونا چاہئے.اس سے ایک تو نیکیوں کی تحریک پیدا ہوتی ہے اور دوسرے جب مرنے والے کی نیکیوں کا ذکر ہورہا ہوتو وفات شدہ کی مغفرت کے لئے دعا بھی نکلتی ہے.اور اُس کی مغفرت کے سامان ہوتے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا کہ اچھائیاں اور کمزوریاں ہر ایک میں پائی جاتی ہیں.یہ انسانی فطرت ہے کبھی نیکیوں کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے، کبھی بعض کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں.لیکن بعض انسان ایسے ہوتے ہیں جن کی خوبیاں اور نیکیاں ایسی چمک رہی ہوتی ہیں کہ بشری کمزوریوں کو بالکل نظروں سے اوجھل کر دیتی ہیں.اُن کی نیکیاں اس طرح وسیع تر اور پھیلی ہوئی ہوتی ہیں کہ کمزوریاں اُن کے پیچھے چھپ جاتی ہیں اور بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں ایسے لوگ کہ جن کی نیکیاں، جن کی خوبیاں ہر جاننے والے کی زبان پر ہوتی ہیں.اور ایک حدیث کے مطابق جب ایسی صورت ہو تو ایسے شخص پر جنت واجب ہو جاتی ہے.(صحیح بخاری کتاب الجنائز باب ثناء الناس على الميت حديث (1367)
خطبات مسر در جلد دہم 50 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جنوری 2012ء آج میں ایک ایسے شخص کا ذکر کروں گا جس کا ہر جاننے والا اُن کی خوبیوں کے بیان میں رطب اللسان تھا.ایک ایسا شخص جو پاکستانی یا ہندوستانی احمدی نہیں تھا.کسی صحابی کی اولا د یا پیدائشی احمدی نہیں تھا.لمبے عرصے کی بچپن سے لے کر جوانی تک اور پھر بڑھاپے تک خلفاء کے زیر اثر یا جماعت کے زیر سایہ اُس کی تربیت نہیں تھی.چند سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آیا اور بہتوں کو پیچھے چھوڑ گیا.یہ ہمارے بھائی مکرم را ویل بخاری صاحب تھے جو رشین تھے.جن کی وفات 24 جنوری کو ہوئی ہے.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.گو یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر روس میں ایمان لانے والے ابتدائی مٹھی بھر ذروں میں سے ایک ذرہ تھے لیکن اپنے علم وعرفان، اخلاص و وفاء بے نفسی ، خلافت سے بے انتہا تعلق ، عاجزی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو روس میں پہنچانے کی تڑپ کے لحاظ سے ایک روشن ستارہ تھے جس نے بہتوں کی رہنمائی کا کام کیا اور انشاء اللہ تعالیٰ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام کے پورا ہونے پر احمدیت روس میں ریت کے ذروں کی طرح پھیلے گی تو تاریخ انشاء اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو، راویل بخاری صاحب کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھے گی ،انشاء اللہ اس وقت میں مکرم را ویل صاحب مرحوم کا کچھ مزید ذکر کرتا ہوں.راویل صاحب جماعتی خدمات تو اُس وقت بھی بے انتہا کرتے تھے اور انہوں نے کی ہیں جب ابھی وہ احمدیت سے متعارف ہوئے تھے اور احمدی نہیں تھے.اُس وقت بھی انہوں نے ترجمے کے کام کئے ہیں.پھر یہاں بی بی سی میں رشین پروگراموں میں ملازمت کرتے رہے.وہاں سے فراغت حاصل کی ہے تو پھر اپنے آپ کو مکمل طور پر وقف کر دیا.ایسے لگتا تھا کہ رات دن ایک ہی تڑپ ہے کہ کسی طرح میں اپنا کوئی بھی لمحہ احمدیت کی خدمت کے بغیر نہ گزاروں.ہرلمحہ میرا احمدیت کی خدمت کی طرف ہو.وفات والے دن بھی اس خدمت کے جذبہ سے ہی مامور تھے اور ایم ٹی اے کے لئے ایک پروگرام بنانے کے لئے ایک میٹنگ میں آنے کے لئے تیاری کر رہے تھے.اس تیاری کے دوران میں ہی اُن کا فون آیا کہ اُن کی طبیعت خراب ہو گئی ہے اس لئے وہ نہیں آسکیں گے.اُنہیں بڑا سخت ہارٹ اٹیک ہوا، جو جان لیوا ثابت ہوا اور اس طرح وفات ہوئی.وفات کے وقت ان کی عمر اکسٹھ سال تھی.آپ کے لواحقین میں ایک اہلیہ ہیں اور اپنی اولا د نہیں تھی.اہلیہ کا پہلے ایک بیٹا تھا جو وفات پاچکا ہے.جماعت سے راویل صاحب کا تعارف 1990ء کے آغاز میں کلیم خاور صاحب کے ذریعے سے
51 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جنوری 2012ء خطبات مسرور جلد دہم ہوا تھا.یہ تا تارقوم پر تحقیق کے سلسلے میں لندن آئے تو یہیں ان کا رابطہ ہوا.پھر حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے ملاقاتوں کے نتیجے میں احمدیت میں داخل ہوئے.راویل صاحب ایک جگہ خود بیان کرتے ہیں کہ اگر چہ میں پیدائشی مسلمان ہوں لیکن دہر یہ معاشرہ کے باعث 1989 ء تک اسلام کے بارے میں علم نہ ہونے کے برابر تھا.جس معاشرے میں میری پرورش ہوئی اُس زمانے میں اسلام اور ہماری مادری زبان تاتاری پر مکمل پابندی تھی.تا تاری زبان بولنے پر بھی پابندی تھی.تاتاری زبان تدریسی نصاب سے بھی نکال دی گئی تھی.لیکن تاتاریوں میں اسلامی اثر قائم تھا.چاہے وہ پارٹی ورکر ہوں یا سکول کے اساتذہ ہوں ہر کام سے پہلے بسم اللہ ضرور کہتے تھے.تاتاری ثقافت جو کہ ایک ہزار سال پرانی ہے.اس پر ہمیشہ سے اسلام کا اثر رہا ہے.اس لئے دہریت کا جوز ور میرے والدین کے زمانے میں تھا، میری پرورش کے دوران وہ قدرے کم تھا.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں چھپا ہوا مسلمان تھا جسے ہمیشہ خیال رہتا ہے کہ وہ کسی طرح موقع پا کر مسجد جائے اور نماز میں ادا کرے.ایسا بالکل نہ تھا.میں ایک طالبعلم تھا.میں نوجوان تھا اور اس معاشرے کے مطابق جو بات میرے ذہن میں آتی وہ کرتا تھا.پھر کہتے ہیں کہ 1989ء میں حالات بہتر ہوئے.مذہب سمیت ہر قسم کی آزادی ملنا شروع ہوئی لیکن سچے مذہب تک پہنچنے کے لئے میں یہ جانتا تھا کہ مذہب کا عرفان صرف عقلی دلائل کی بنا پر حاصل نہیں ہوسکتا.ایمان کی نعمت خدا خود عطا کرتا ہے.میں ایک شش و پنج میں مبتلا تھا.عقلی طور پر میں سمجھ چکا تھا کہ یہ صرف اور صرف اسلام ہی ہے جو کہ بہترین تعلیم دیتا ہے لیکن اس کے باوجود میری روح بالکل خالی تھی اور واحد چیز جس نے مجھے ان شکوک و شبہات سے نجات دلائی وہ چند افراد تھے جو مجھے لندن میں ملے، جنہیں اب میں سچا اور حقیقی مسلمان سمجھتا ہوں اور یہ وہ جماعت تھی جو کہ عالم اسلام میں ملحد سمجھے جاتے ہیں یعنی احمد یہ مسلم جماعت.پھر لکھتے ہیں کہ احمد یہ جماعت کی تعلیم یہ ہے کہ کوئی اُس وقت تک خدا کی محبت حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ خدا کی مخلوق سے محبت نہیں کرتا.یہ جانتے ہی مجھے یقین ہو گیا کہ یہی میری منزل ہے.یہاں مجھے سب کچھ اکٹھ مل گیا یعنی میری تعلیم علم اور عقل عقلی دلائل کے لئے میری پیاس.سچے مذہب کی تلاش اور روحانی تجربات سب کچھ ایک ہی جگہ مل گیا.حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1993ء کے جلسہ کے موقع پر اپنے خطاب میں فرمایا تھا کہ اب اس نئے دور میں خدا تعالیٰ کے فضل سے دوبارہ ہنگری میں رابطے مکمل ہوئے ہیں“.پہلے
خطبات مسرور جلد دہم 52 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جنوری 2012ء ہنگری میں مشن خلافت ثانیہ میں قائم ہوا تھا، جو بعض حالات کی وجہ سے پھر ختم کرنا پڑا تھا.تو کہتے ہیں کہ نئے دور میں وہاں رابطے ہوئے ہیں اور سب سے پہلا پھل جو اس دور کا ہے وہ ہنگری کے مخلوص زُلا ئی ہیں، جو خود انگلستان تشریف لائے تھے.ہمارے ایک رشین احمدی دوست را ویل صاحب چونکہ علمی طبقوں میں بہت شہرت رکھتے ہیں اس لحاظ سے اُن کے ساتھ بھی مخلوص زُلائی صاحب کے تعلقات تھے ، وہ ان کو بار بار مسجد لانے لگے اور چند ملاقاتوں میں ہی میں نے دیکھا کہ ان کے دل کی کیفیت بدل رہی ہے اور ( پھر وہ) خدا کے فضل سے یہاں سے بیعت کر کے گئے.اب واپس جا کر انہوں نے وہاں ہنگری میں مزید تبلیغ کی بنیادیں استوار کیں.اور ر اویل صاحب نے جو وہاں گزشتہ دورہ کیا ہے اس کے نتیجے میں اب وہاں جماعتیں خدا کے فضل سے مستحکم ہو گئی ہیں اور وہاں جو آثار ظاہر ہو رہے ہیں اُس سے امید ہے اب وہاں جماعت کو جلد فروغ نصیب ہوگا.تاتارستان میں جو برادرم راویل کا اصل وطن ہے، وہاں سے دو تین سال پہلے مُرات ضیائوف صاحب جلسہ یو کے پر تشریف لائے تھے اور یہ ثابت قدم رہے اور وفا دار ثابت ہوئے.پس جا کر انہوں نے رابطہ رکھا اور اپنے آپ کو احمدی قرار دیتے رہے.اُن کی بیٹی نے بھی بہت ہی اخلاص کے ساتھ جماعت سے تعلق رکھا اور ایک دوسرے کے ایمان کو یہ تقویت دیتے رہے.پھر فرماتے ہیں کہ احمدیت کو قبول کرنا ان قوموں کے لئے اتنا آسان نہیں جوستر سال دہریت کے زہر سے مسموم رہے.اس کے نتیجے میں باوجود اس کے کہ اسلام سے تعلق ٹو ٹانہیں اور اسلامیت کا شعور اُن کے دلوں میں قائم رہا.لیکن عملاً اسلام کی تفاصیل سے کچھ آگاہی نہیں تھی اور بحیثیت مسلم نیشن کے تو اسلام کے اندر رہے لیکن بحیثیت مذہب اسلام کے یہ عملاً اسلام سے باہر ہی رہے.ان کو دوبارہ اسلام میں داخل کرنا اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور حقانیت کا یقین دلوں میں جاگزین کرنا محنت طلب ہے اور دعاؤں کا محتاج ہے اور اعجاز کا منتظر ہے.اس لئے دعائیں کریں.ہم جس حد تک محنت ہے کر رہے ہیں، دعائیں بھی کرتے ہیں، ساری جماعت دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اعجازی نشان دکھائے کیونکہ در حقیقت روحانی انقلابات کے لئے دعاؤں سے بہت بڑھ کر اعجازی نشان کام آتے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا کہ آپ پیدائشی احمدی تو نہیں تھے لیکن اُن کو دیکھ کر یہی محسوس ہوتا تھا کہ گویا وہ ہمیشہ سے ہی احمدی تھے.وہ صحیح معنوں میں احمدیت کے ایک سفیر تھے.جہاں بھی جاتے جماعت کا ذکر ضرور کرتے.جہاں ان کو خدشہ ہوتا کہ جماعت کے نام سے ری ایکشن ممکن ہے تو وہاں حکمت کے ساتھ اسلام کا پیغام دیتے اور جماعتی تعلیمات بیان کرتے.لوگ جب پوچھتے کہ یہ کن کے عقائد ہیں تو جماعت کا
خطبات مسرور جلد دہم 53 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جنوری 2012ء نام بتا دیتے اور پھر پورا تعارف کروایا کرتے.ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کرتے تھے کہ کس محفل میں کس طرح کی کتب دینا مناسب رہے گا، کس قسم کا لٹریچر دینا مناسب رہے گا.ان کے حلقہ احباب میں سیاستدان، ادیب، شاعر، ڈاکٹر ، کالج اور یونیورسٹیز کے اساتذہ اور طلباء ماہرین اقتصادیات نیز مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین شامل تھے.راویل صاحب خود بھی ایک بہت اچھے شاعر تھے.بہت اچھے ادیب تھے.جرنلسٹ تھے.مترجم تھے اور ایک داعی الی اللہ تھے.ان کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی خوبیوں سے نوازا ہوا تھا.ان کے جاننے والوں اور سراہنے والوں کا ایک وسیع طبقہ ہے.راویل صاحب کے ذریعے رشیا اور سابق روسی ریاستوں میں ایسے لوگوں تک جماعت احمدیہ یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچا ہے کہ جہاں تک عام طور پر ہمارے مبلغین اور معلمین کی رسائی نہ ہو سکتی اور اگر ہوتی بھی تو بہت دیر کے بعد.جب آپ ماسکو جاتے تو اکثر علمی وادبی شاعری محافل میں حصہ لیتے تھے اور اس قسم کے پروگراموں کے دوران ہمیشہ کسی نہ کسی رنگ میں جماعت کا ذکر کر دیا کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں یعنی احمدیوں کو پہلے ہی کہہ دیا کرتے تھے کہ آپ لوگ آج فلاں جگہ اتنے بجے جماعتی تعارفی کتب میں سے فلاں فلاں کتب کی اتنی تعداد لے کر پہنچ جائیں اور جو بھی پروگرام ہو تا تھا اُس کے آخر میں لوگ اُن کے جماعت کا تعارف کروانے کے بعد ضرور وہ کتب خرید لیا کرتے تھے یا لے لیتے تھے.جب سے یہاں لندن میں رشین ڈیسک کا قیام ہوا ہے ، راویل صاحب نہایت محنت ، اخلاص اور جوش کے ساتھ کام کر رہے تھے.کام کے دوران انہیں نہ بھوک کی فکر ہوتی تھی ، نہ کسی اور چیز کی پرواہ ہوتی تھی.ساری توجہ جماعت کے کاموں کی تکمیل کی طرف ہوتی تھی اور کبھی کوئی کام ادھور انہیں چھوڑا.ان کے ساتھ کام کرنے والے مبلغین کہتے ہیں کہ ہم بعض دفعہ کہا کرتے تھے کہ تھک گئے ہیں، ریسٹ (Rest) کر لیں تو ہنس کے کہتے تھے کہ تم لوگ بڑی جلدی تھک گئے ہو.کیونکہ وہ خطبات جمعہ کی رشین ڈبنگ (Dubbing) کرواتے تھے اس لئے ان کو اس کام کی ایک فکر لگی رہتی تھی.دو سال پہلے یہ کام بہت وسیع پیمانے پر شروع ہوا اور ایم ٹی اے پر اور اسی طرح انٹرنیٹ پر خطبہ آنے لگا.چنانچہ اپنے ساتھیوں سے ہفتہ کے روز ضرور پوچھا کرتے تھے کہ کیا آپ نے خطبہ کا ترجمہ مکمل کر لیا ہے؟ یا کب تک کرلو گے؟ اور پھر یہ پوچھتے ، کیا اتوار کی صبح یا ظہر سے پہلے ڈبنگ کروا سکو گے؟ بعض دفعہ تو جمعہ کے دن شام کو ہی پوچھ لیتے تھے کہ کب تک ترجمہ مکمل کر لو گے؟ غرضیکہ جبتک وہ خطبہ کی ڈبنگ مکمل نہ کروا لیتے ، بے چین اور بے قرار رہتے تھے.جلسہ سالانہ کے دنوں میں بھی اُن کی مصروفیت محنت اور لگن ایک الگ رنگ رکھتی تھی.تینوں
خطبات مسرور جلد دہم 54 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جنوری 2012ء دنوں کے دوران خدمت دین کے لئے ان کی قوت عمل اور جوش و جذ بہ خاص طور پر دیکھنے والا ہوتا تھا.وہ خلیفہ وقت کے خطابات کے علاوہ باقی مقررین کی تقاریر کا بھی ایم ٹی اے کے ناظرین یا جلسہ پر موجود جو شاملین ہوتے تھے، اُن کے لئے رشین ترجمہ کیا کرتے تھے.رشیا اور سابقہ روسی ریاستوں سے جو بھی مہمان جلسہ پر آتے اُن کو انتہائی خندہ پیشانی سے ملتے.اُن کو جماعت کی ترقیات کا بتاتے.ہمیشہ اُن کو ایسی باتیں بتاتے جو آنے والے مہمانوں کے لئے ازدیاد ایمان کا باعث ہوتیں.پھر مہمانوں کی ضروریات کا خیال رکھتے.انتظامیہ کو توجہ دلاتے کہ ان کی فلاں فلاں ضروریات پوری کرنی چاہئیں.جلسہ سالانہ کی برکات اور اہمیت کے حوالہ سے اکثر کسی نہ کسی رنگ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس بات کا ذکر کیا کرتے تھے کہ رشیا اور دیگر ریاستوں کے احمدیوں کو سالہا سال اگر تبلیغ کرتے رہیں تو وہ اتنا مفید اور مؤثر ثابت نہیں ہوتا جتنا کسی کو صرف ایک بار جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے دعوت دینا اور اس کی ملاقات خلیفہ وقت کے ساتھ کر وا دینا.اور اس کے لئے بہت کوشش کیا کرتے تھے تا کہ زیادہ سے زیادہ مہمان جلسے پر لے کر آئیں.آپ نے بہت سی جماعتی کتب کا رشین میں ترجمہ کیا ہے جو رشیا اور دیگر ریاستوں میں تبلیغ کے کام میں کافی مد اور معاون ثابت ہوتی ہیں.ان کتب کے علاوہ انہوں نے رشین ترجمہ قرآن کے لئے بھی بڑی نمایاں خدمت سرانجام دی ہے اور یہ بہت اہم کام ہے جو انہوں نے کیا ہے.خالد صاحب جو ہمارے رشین ڈیک کے مربی ہیں، لکھتے ہیں کہ میں نے اور رستم حماد ولی صاحب (ماسکو) نے 1999ء میں خلیفتہ اُمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے اردو ترجمہ قرآن کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے رشین ترجمہ قرآن کا کام شروع کیا تھا اور یہ 2004ء میں مکمل کیا.جس کے بعد اس کی چیکنگ اور تصحیح کا کام دونوں نے راویل صاحب کے ساتھ مل کر کیا اور یہ کام لندن میں مکمل ہوا.کام کے دوران میں دن رات ایک کر کے انہوں نے تقریبا تین مہینے کے دوران نہایت محنت اور لگن کے ساتھ اس کام کو پورا کروایا.قرآنِ کریم کے ترجمے کا کام چونکہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے، احتیاط کا متقاضی ہے اس لئے چیکنگ کے مرحلہ میں ہر ہر لفظ کے بارے میں تسلی کیا کرتے تھے کہ آیا قرآن کریم میں بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم نے ترجمہ کیا ہے.اس کے لئے رشین زبان میں سے سب سے زیادہ مناسب لفظ کیا ہوسکتا ہے، اُس کا استعمال کرنے کی کوشش کرتے تھے.کہتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک ایک آیت کی چیکنگ میں کئی کئی گھنٹے لگ جایا کرتے تھے.راویل صاحب پوری چھان پھٹک سے ترجمہ کیا کرتے تھے.ان کی اس کاوش کے نتیجے میں رشین ترجمہ قرآن کے اب تک تین ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں.لندن میں 2006ء میں ، ماسکو
خطبات مسرور جلد دہم 55 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جنوری 2012ء سے 2007ء میں، قازقستان سے 2008ء میں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ایک صدقہ جاریہ ہے جو راویل صاحب کی یاد دلاتا رہے گا.راویل صاحب جیسا کہ میں نے کہا بہت بڑے سکالر تھے، جرنلسٹ تھے، شاعر تھے.ان کو مختلف قسم کے اعزازات ملے.اُن کو تاتارستان کا ایک سب سے بڑا اعزاز موسی جلیل (Musa Jalil's) پرائز آف آنر ملا.یہ احمدیت سے پہلے 1986 ء کا ہے.پھر 2001ء میں پھر آرٹس میں خدمات کے سلسلے میں اُن کو ایک انعام ملا.2006ء میں تاتارستان میں اُنہیں اعلیٰ اعزاز ، نیشنل پرائز آف آنر“ سے نوازا گیا.پھر اپنی ایک کتاب پر اُن کو ایک بہت بڑا انعام ملا.2009ء میں ان کی کتاب نے رشیا بک فیئر میں ایوارڈ جیتا.پھر ایک اور اعزاز ان کو 13! اکتوبر کو دی آرڈر آف کلچرل ہیر پیج کا ملا.اسی طرح آپ مختلف سوسائٹیوں کے ممبر بھی تھے جس میں دنیا بھر کی بیشمار سوسائٹیاں ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا کہ بی بی سی رشین سروس میں یہ کام کرتے رہے ہیں.ان کے ساتھی اینڈریو اوستا سکی (Andrew Ostalski)، جو بی بی سی کی رشین سروس کے مدیر اعلیٰ رہے ہیں، انہوں نے ان کو وفات کے بعد خراج عقیدت اس طرح پیش کیا.لکھتے ہیں کہ : ایک لمبے عرصے تک بی بی سی رشین سروس میں ہمارے ساتھ کام کرنے والے ہمارے ساتھی راویل بخارایف صاحب اب ہم میں نہیں رہے.راویل بخارایف کے ساتھ تقریباً پندرہ سال سے زیادہ شانہ بشانہ کام کیا.میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ ایسے صلاحیتوں والے اور بچے ساتھی کے ساتھ کام کرنے کا مجھے موقع ملا.پھر یہ لکھتے ہیں کہ تعلیمی اعتبار سے تو را ویل صاحب ریاضی دان تھے لیکن ایک نہایت اعلیٰ شاعر، پختہ ایمان رکھنے والے مخلص مسلمان تھے.بلکہ اگر ان کو ایک مذہبی عالم کہا جائے تو غلط نہ ہوگا.راویل صاحب نے اپنی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا اور اُن سے متاثر ہونا غلط بھی نہیں کیونکہ وہ ایک اعلیٰ گفتگو کرنے والے ایسے انسان تھے جن کا علم مختلف جہتوں میں پھیلا ہوا تھا.اور جولوگ ان سے ملے ہوئے ہیں یہ جانتے ہیں کہ یقیناً اُن کے بولنے کا بڑا میٹھا اور پیارا انداز تھا.اپنا گرویدہ کر لیتے تھے.راویل صاحب اپنی کتاب ” دارو گا لوگ زنایت کو دا (رشین نام ہے ) یعنی وو یہ راہ کدھر لے جائے ؟ خدا ہی جانتا ہے، میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ کس طرح جماعت سے متعارف ہوئے ، لکھتے ہیں.خلاصہ اُس کا یہ ہے کہ شام کے وقت میں یہاں ٹی وی پر بیٹھا پروگرام من رہا تھا تو ٹیلیفون کی گھنٹی بجی اور گھر والی نے (جس کے گھر میں یہ تھے) ٹیلی فون اُٹھایا کہتے ہیں مجھے ٹیلیفون
خطبات مسرور جلد دہم 56 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جنوری 2012 ء 66 اُٹھانے کی ضرورت بھی نہیں تھی، کیونکہ میں کسی کو یہاں جانتا نہیں تھا.اسی سوچ میں تھا کہ کسی انگریز کا اپنے دوسرے انگریز دوست کو فون ہو گا.بہر حال جب اُس گھر والی نے گفتگو ختم کی تو اُس نے فون کرنے والے کو بتایا کہ میرے ہاں ایک رشین مہمان آیا ہوا ہے اور کہتے ہیں میں حیران تھا کہ انگریزی طریقے کے مطابق تو کوئی بتانے کی ضرورت بھی نہیں تھی.بہر حال اس لئے میں اس کو معجزہ سمجھتا ہوں جو ہوا اور اس نے ہونا ہی تھا کہ اچانک مجھے ٹیلیفون کے پاس بلایا گیا اور ٹیلیفون مجھے دے دیا گیا اور دوسری طرف جو شخص فون پر تھا اُس نے دلچسپی ظاہر کی کہ میں کہاں سے آیا ہوں اور اگلے دن مجھے جماعت احمدیہ کی مسجد میں آنے کی دعوت دی.اُس نے اپنی گفتگو میں لفظ ”احمدیت استعمال نہیں کیا.بہر حال مجھے گھر سے باہر جانے کو دل بھی چاہ رہا تھا.اس لئے میں نے رضا مندی ظاہر کی اور فون رکھ دیا.کہتے ہیں صبح مجھے گاڑی لینے آگئی.جس نے مجھے مسجد پہنچادیا جو پٹی کے علاقے میں واقع تھی.تو سب سے پہلی چیز جو میں نے وہاں دیکھی وہ جماعت احمدیہ کا سلوگن تھا محبت سب کے لئے ، نفرت کسی سے نہیں.“ کہتے ہیں مجھے شروع ہی سے اسلام میں دلچسپی تھی.اس کا پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے.اس لئے میں نے باقی تمام کام چھوڑ کر جماعت احمدیہ کی کتب کا رشین میں ترجمہ کرنا شروع کیا جس کے لئے مجھ سے درخواست کی گئی تھی.میں جماعت احمدیہ کے خلیفہ مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ سے ملا اور دو گھنٹے کی دلچسپ گفتگو کے بعد محسوس کیا کہ ہم دونوں دنیا کو تقریباً ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں.ہماری اس گفتگو میں میرے لئے بہت سی نئی باتیں تھیں.خیر کہتے ہیں اُس کے بعد میں اس کام میں محبت گیا اور اس بارے میں گو مجھے زیادہ سمجھ نہیں آئی لیکن بہر حال ٹرانسلیشن انہوں نے شروع کر دی.میں نے یہی سوچا تھا کہ بس کتابوں کا ترجمہ کروں گا لیکن ان کتابوں کا مضمون اس قدر صاف اور خوبصورت تھا اور با معنی تھا کہ تھوڑے ہی عرصے میں میں مطمئن ہو گیا.میرا جماعت میں شامل ہونا کوئی اتفاقی بات نہیں تھی.یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر تھی جو مجھے لے کے آئی.پھر اس ملاقات کے بعد جیسا کہ ہے ان کو تراجم کا کام دیا گیا.ان کو یہاں اسلام آباد ٹلفورڈ میں رہائش مہیا کی گئی.کہتے ہیں وہاں کھلی پر فضا جگہ تھی اور مجھے ایک کمرہ اور گھر وغیرہ دے دیا گیا.وہاں مجھے کام کرنے کا مزہ بھی آیا اور بڑی خوشی ہوئی.پھر لکھتے ہیں کہ اسلام آباد میں پہلے چار ہفتے میں نے دل و جان سے کام کیا.یہاں تک کہ بہت کم سونے کا موقع ملا اور چار کتابوں کا ترجمہ کیا.ان کتابوں کا ترجمہ کرتے ہوئے مجھے جماعت کے دعاوی بہت ہی زبر دست لگے اور سب سے پیارا دعویٰ جس کا اثر میں نے اپنے اوپر محسوس کیا وہ یہ تھا کہ مستقبل قریب میں اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے گا.
خطبات مسرور جلد دہم 57 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جنوری 2012ء پھر یہ لکھتے ہیں کہ جماعت احمد یہ اس بات کا دعویٰ کرتی ہے کہ وہی جماعت ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی ایسی جماعت نہیں جسے اس زمانے میں ایک روحانی انقلاب لانے کی ذمہ داری دی گئی ہو.(یہ انہوں نے رشینز (Russians) کے لئے کتاب لکھی ہے اُس میں لکھا ہے ) اور یہی جماعت ہے جو پوری دنیا کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا قائل کرے گی.انشاء اللہ.یہ جماعت دعوی کرتی ہے کہ اُسے بنانے والا وہ صحیح ہے جو پوری دنیا کے لئے مسیح موعود ہو کر آیا ہے.یہ جماعت پوری دنیا کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہے.دنیا کی مختلف اور طاقتور حکومتوں کو چیلنج دیتی ہے.اس چھوٹی سی جماعت نے جو چیلنج دیئے ہیں وہ صرف اسلام کی اُس تفسیر کے مطابق ہی نہیں دیئے جو اوائلِ زمانہ میں پائی جاتی تھی بلکہ دنیا کے ہر مذہب کو جس میں عیسائیت بھی شامل ہے، روحانی میدان میں کھلے چیلنج دے رکھے ہیں.پھر اپنی ایک خواب کا ذکر اپنی اس کتاب میں کرتے ہیں کہ خواب میں میں نے دیکھا کہ میں کازان کی مسجد مرجان کی دوسری منزل پر نماز پڑھ رہا ہوں.اس جگہ بہت سے لوگ ہیں جو سنتیں ادا کر رہے ہیں اور اُن کے آگے باجماعت نماز کے لئے صفیں باندھی جارہی ہیں.اُس وقت میں دیکھتا ہوں کہ باقی سارے لوگ تو محراب کی طرف رُخ کئے ہوئے ہیں، یعنی اس طرف جس طرف اُن کو رُخ کرنا چاہئے لیکن میں نے ایک کھڑکی کی طرف رُخ کیا ہوا ہے جس میں سے میرے اوپر سورج کی روشنی پڑ رہی ہے.میں اپنے آپ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ میرا رُخ اس طرف کیوں نہیں جس طرف باقی سب دیکھ رہے ہیں اور پھر خواب میں ہی کہتا ہوں کہ ہاں ! میں تو سفر میں ہوں اور اسلام کی تعلیم کے مطابق مسافر سفر میں نماز پڑھتے ہوئے اُسی طرف دیکھتا ہے جس طرف وہ سفر کر رہا ہوتا ہے.یعنی اس موقع پر وہاں دیکھنا میرے لئے صحیح تھا جہاں سے روشنی آرہی تھی.پھر خواب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نماز باجماعت کے لئے تکبیر کہی جاتی ہے اور میں باقی تمام لوگوں کے ساتھ صف میں کھڑا ہو جاتا ہوں.پھر یہ نظارہ بدلتا ہے.اچانک میں کیا دیکھتا ہوں کہ میں تو بالکل برہنہ ہوں اور صرف میرا سر ڈھکا ہوا ہے لیکن وہاں اتنے لوگوں کی موجودگی کے باوجود مجھے کوئی شرم محسوس نہیں ہو رہی.اس کے علاوہ مسجد کا ماحول بھی غیر معمولی تھا اور اوپر کی طرف گیلری میں تا تاری خواتین سفید رنگ کی چادریں لئے کھڑی تھیں.مجھے ان تمام لوگوں کے سامنے اپنی اس بر ہنہ حالت پر بالکل شرم محسوس نہیں ہو رہی.جیسا کہ ایک نوزائیدہ بچہ ہوتا ہے.میرے ذہن میں یہ بات بھی آئی کہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کس طرح اس برہنہ حالت میں کھڑا ہوں.کہتے ہیں میں نے یہ عجیب وغریب خواب حضرت خلیفہ مسیح الرابع کو سنائی تو مجھے جواب ملا کہ کوئی انسان بھی امید نہیں کر سکتا کہ وہ روحانی طور
خطبات مسرور جلد دہم 58 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جنوری 2012ء پر دوبارہ نئی زندگی پائے اور خدائے واحد کی طرف اپنا سفر شروع کرے جبتک کہ وہ اپنے پہلے کپڑے نہ اتارے اور اللہ تعالیٰ کے حضور ایک مفلسی کی اور برہنہ حالت میں نہ کھڑا ہو.لکھتے ہیں کہ پس اس خواب سے مجھے معلوم ہو گیا کہ اب میرے اندر کوئی وہم نہیں ہے.اس دفعہ مجھ پر ایک اور حقیقت کھلی کہ صرف روحانی طور پر دوبارہ پیدائش ہی ضروری نہیں بلکہ پچھلے تمام گناہوں سے پاک ہوتے ہوئے جن سے صرف اللہ تعالیٰ ہی پاک کر سکتا ہے ایک نئی زندگی کا آغاز کرنا بھی بہت اہم ہے.پھر کہتے ہیں کہ جب سے میں نے اس راستے پر چلنے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنی جماعت احمدیہ کے ساتھ چل رہا ہوں اور تمہیں اور باقی تمام لوگوں کو بھی اس کی طرف بلاتا ہوں یہ تبلیغ کر رہے ہیں اپنے رشین لوگوں کو) کہ میری بہت سی پوشیدہ خواہشات پوری ہوئیں اور میری زندگی اس طرح کے غیر معمولی واقعات سے بھری پڑی ہے جنہیں اتفاقات کا نام دیا جاتا ہے.پھر اپنی اسی کتاب میں اپنے بعض واقعات کا ذکر کیا ہے.66 راویل صاحب نے بعض جماعتی کتب کا خود رشین میں ترجمہ کیا اور بعض کتب کے تراجم کی چیکنگ اور اصلاح کا کام کیا.جو کتب انہوں نے ترجمہ کی ہیں اُن میں دعوۃ الامیر ہے، ”مذہب کے نام پر خون ہے.سٹوریز فرام ارلی اسلام Stories from early Islam) ہے اور مسلم فیسٹیولز (Muslim Festivals) ہے.ہولی مسلم (Holy Muslims) ہے.اسلام اور عصر حاضر کے مسائل“ ہیں.”ہولی پرافٹ کا ئنڈنس ٹو چلڈرن ( Holy Prophet's kindness to children) اور دیگر چھوٹے بچوں کے لئے کتابچے اور پمفلٹ شامل ہیں.اسی طرح جن کتابوں کی انہوں نے چیکنگ کی ہے اُن میں اسلامی اصول کی فلاسفی ، مسیح ہندوستان میں، ”ہماری تعلیم دیباچہ تفسیر القرآن، اسلام کا اقتصادی نظام اسلام میں عورت کا مقام “ اور ”لائف ، آف محمدم“ شامل ہیں.پھر اسی طرح میرے پیس (Peace) کا نفرنس میں یا مختلف جگہوں پر جو مختلف خطابات تھے ، اُن کا ترجمہ انہوں نے کیا جو خاص طور پر سمجھتے تھے کہ ہمارے رشین لوگوں کے لئے بھی بہت ضروری ہیں.لیکن بہر حال سب سے اہم کام جو ان کا ہے وہ قرآن کریم کا ترجمہ ہے جیسا کہ میں بتا چکا ہوں.بی بی سی یا مختلف ویب سائٹس نے راویل صاحب کی وفات کے بعد ان کو خراج تحسین پیش کیا ہے.ایک مضمون بی بی سی ڈاٹ رشین (BBC.Russian) والوں نے لکھا ہے.مضمون لکھنے والے کا نام ہے آندرے استلسکی.اُن کی خصوصیات لکھی ہیں کہ بڑا وقت پر کام کرتے تھے.کبھی لیٹ نہیں ہوئے
خطبات مسرور جلد دہم 59 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جنوری 2012ء تھے.ہمارے لئے ایک نمونہ ہوتے تھے اور سچے مسلمان تھے بلکہ مذہبی عالم تھے جیسا پہلے ذکر ہو چکا ہے.بی بی سی والوں نے کل رات آدھے گھنٹے کا پروگرام صرف آپ کے بارے میں نشر کیا جس میں آپ کی آواز سنائی گئی ، باتیں سنائی گئیں.اس میں ڈاکٹر عبد السلام کا بھی ذکر ہوا اور یہ بھی عبد السلام صاحب کے بارے میں بتایا کہ وہ احمدی مسلمان ہیں اور آپ نے قرآن کی وجہ سے نوبل انعام حاصل کیا.یہ بھی باتیں انہوں نے وہاں کیں.بی بی سی والوں نے کہا کہ پورے روس کا مصنف ہے نہ کہ تاتارستان کا.تاتارستان کے نیشنل ٹی وی نے بھی آپ کی وفات کی خبر دی اور اس میں آپ کی حب الوطنی کا ذکر کیا.آپ قازان اور تا تارقوم سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے.اس کاٹی وی والوں نے بھی ذکر کیا اور انٹرنیٹ پر بھی اور ویب سائٹ پر بھی یہ لکھا.آپ کے بارے میں انٹر نیٹ میں لکھا ہوا ہے کہ وہ احمدی مسلمان ہے اور آپ کے بارے میں اس یوکرائن ویب سائٹ میں، (24/54/http://new.tatari-kiev.com/content/view) آپ کا انٹرویو شائع ہوا ہے جس میں آپ نے احمدیت سے وابستگی کا کھلے طور پر ذکر کیا ہے جس میں ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ دنیا کا میرا سفر آسٹریلیا سے شروع ہوا جب مجھے وہاں سے عالمگیر جماعت احمدیہ نے لندن بلایا.یہ جماعت تجدید اسلام کے لئے بنائی گئی ہے.ان کا ماٹو ” محبت سب کے لئے ، نفرت کسی سے نہیں میرے من کے مطابق تھا اور ان میں کوئی ایسا کام نہ دیکھا جو مخالف اسلام کہا جا سکتا ہو.کہا جا سکتا ہے کہ حقیقی اسلام احمدیت ہی ہے اور اسلام صرف مولویوں کے لئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے ہے جو اسے اپنانے کی خاطر متلاشی رہتے ہیں اور اپنے ایمان سے محبت کرتے ہیں.لکھتے ہیں کہ جب مجھے اپنا راستہ مل گیا اور اسلام کی بنیادی تعلیم اور یہاں رہنے اور ترجموں کے دوران انگلش زبان بھی سیکھنے کا موقع ملا تو اس کے بعد جبکہ میں عام زندگی سے کٹ گیا، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ مجھے ہر طرف سے کام کرنے کے لئے دعوت نامے آنے شروع ہو گئے.پہلے کام نہیں ملتا تھا.احمدیت قبول کرنے کے بعد اور ترجموں کے بعد ایسی برکت پڑی کہ ہر طرف سے دعوت نامے آنے شروع ہو گئے اور مجھے روس میں کئی بار اسلامی کا نفرنس میں بھی بلایا گیا.ایک سوال پر کہ کیا آپ کا کوئی استاد ہے؟ آپ جواب میں فرماتے ہیں کہ والدین کے بعد میرے استاد جماعت احمدیہ کے خلیفہ ہیں.ایسا استاد مجھے بہت لیٹ ملا ہے.کاش کہ بیس سال قبل مجھے ایسا استاد مل جاتا تو میں بہت کچھ کر لیتا.راویل صاحب اگر چہ بہت سی خوبیوں اور صفات کے مالک تھے لیکن ان کی کچھ خوبیاں جو ان کو
خطبات مسرور جلد دہم 60 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جنوری 2012ء دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں وہ یہ تھیں کہ وہ ایک نہایت عاجز اور منکسر المزاج انسان تھے ، جن کو خلافت سے محبت اور عشق تھا.خلیفہ وقت کے ساتھ ایک مضبوط روحانی رشتہ تھا جس کے سامنے اُن کی نظر میں کسی دوسری چیز کی کوئی وقعت نہیں تھی.حال ہی میں پیش آنے والے ایک واقعہ کا ذکر کر دیتا ہوں.گزشتہ سال دسمبر کے آخر میں میرے ساتھ اُن کی میٹنگ تھی تو خالد صاحب کہتے ہیں کہ خاکسار اور راویل صاحب آپ کے دفتر میں ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تو را ویل صاحب نے یہ تجویز پیش کی ( مجھ سے انہوں نے پوچھا ) کہ اگر اجازت دیں تو رشین زبان میں ایک پوری کتاب تیار کی جائے جس میں جماعت کا مکمل تعارف اور اس کی تاریخ کا ذکر ہو.نیز اس میں اُن اعتراضات کی وضاحت کی جائے جو عامتہ المسلمین کی طرف سے وقتاً فوقتاً اُٹھائے جاتے ہیں کیونکہ ان کو مولویوں نے جماعت کے بارے میں غلط معلومات دی ہیں جن کی وجہ سے رشیا میں آئے دن ایسے اعتراضات مختلف ویب سائٹس پر نظر آتے رہتے ہیں.تو میں نے اُن کو کہا کہ ٹھیک ہے.پھر کتاب لکھیں.لیکن خاص طور پر ایک ایک کر کے ان اعتراضات کے جوابات چھوٹے چھوٹے مضامین کی شکل میں تیار کریں اور اُن کو شائع کریں اور پھر ویب سائٹس پر بھیجیں.یہ سن کے راویل صاحب نے فوراً کہا جی حضور ! خالد صاحب کہتے ہیں کہ میٹنگ کے بعد ہم باہر نکلے تو راویل صاحب کہنے لگے کہ اتنے دنوں سے میں سوچ رہا تھا کہ اس کام کو شروع کہاں سے کیا جائے.آج حضور نے میری مشکل کو آسان کر دیا اور اب میرے ذہن میں سارا نقشہ آ گیا ہے کہ اس کتاب کو ان مضامین کی شکل میں کیسے شائع کرنا ہے اور یہ صرف خلافت کی برکت سے ممکن ہوا اور کہنے لگے کہ یہ کام تو میں آج سے ہی شروع کرنے جارہا ہوں.اس کے علاوہ رشین ویب سائٹس کی تیاری کی تجویز تھی، اُس کو بھی جب میں نے کہا کہ جلدی جائزہ لے کر رپورٹ دیں اور کون بنائے گا اور کس طرح کام ہو گا اور اس کو آپ لوڈ کون کرے گا؟ آپ ڈیٹ کون کرتا رہے گا ؟ کیا طریقہ ہوگا؟ تو را ویل صاحب نے اس سلسلہ میں نسیم رحمت اللہ صاحب سے رابطہ کیا.پھر جرمنی کے ملک ثمر امتیاز صاحب ہیں اُن سے رابطہ کیا جن کے ذریعے سے پھر یہ کام شروع ہو گیا تھا.لیکن اس پر ابھی کام ہو ہی رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کو بلاوا آ گیا.بہر حال انہوں نے فوری طور پر جب یہ سنا کہ ویب سائٹ شروع کرنی ہے، کام شروع کرنا ہے تو اُس پر عمل کرنا شروع کر دیا.خالد صاحب ہی یہ لکھتے ہیں کہ راویل صاحب کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وقت ضائع کئے بغیر کام کرتے رہتے تھے.جو لوگ اُن کو قریب سے جانتے ہیں اور اُن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہو، وہ اس
خطبات مسرور جلد دہم 61 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جنوری 2012ء بات کی گواہی ضرور دیں گے کہ اُن کو ہمیشہ ہر کام میں بہت جلدی ہوتی تھی جیسے اُن کے پاس بہت کم وقت ہو.اور یہ میں نے بھی دیکھا ہے.بڑی جلدی جلدی ہر کام نمٹانے کی کوشش کرتے تھے اور اس کم وقت میں ہی انہوں نے ہزاروں کام ختم کرنے ہیں.کام کرتے ہوئے کئی بار ان کو کہنا بھی پڑتا تھا.خدا کا واسطہ ہے ذرا رک جائیں.تھوڑا سا وقفہ کر لیں تو ہنس کر کہتے تھے کہ کیا تم لوگ تھک گئے ہو؟ میں تو بالکل نہیں تھکا.کام کے دوران اگر کھانے کا وقت آ جاتا تو کھانا جلد سے جلد ختم کرنے کی کوشش کرتے تا کہ دوبارہ کام کو جاری رکھا جا سکے.ہمیشہ رشیا اور دیگر ریاستوں میں جماعت کی ترقی کی فکر رہتی تھی.وہ جب بھی لندن سے ماسکو تشریف لاتے تو ہمیشہ مختلف پروگرام بناتے اور تجاویز پیش کرتے کہ ہم جب تک رشیا میں یہ یہ امور مدنظر نہ رکھیں یا ان طریقوں سے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول نہ کریں تو جلد لوگوں تک احمدیت کا پیغام نہ پہنچ سکے گا.ماسکو اور قازان کے مشن ہاؤسز با قاعدہ ایک الگ گھر یا عمارت کی شکل میں نہیں ہیں بلکہ فلیٹس میں ہیں.اس لئے اکثر کہتے تھے کہ لوگ جماعتی سینٹر کا تصور کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں کوئی بڑی کشادہ بلڈنگ آتی ہے.ہمیں بھی چاہئے کہ جماعت کی ترقی کے لئے بجائے ان فلیٹس کے اب بڑی بڑی بلڈنگ خریدیں، اور جب بھی کوئی تجویز لے کر یہ میرے پاس آتے تھے تو میں نے دیکھا ہے کہ اگر اُس میں اخراجات زیادہ ہوں تو بعض دفعہ اس وجہ سے یا اور وجوہات سے اگر میں ر ڈ کر دیا کرتا تھا تو بڑے انشراح صدر کے ساتھ فوراً بات مان لیا کرتے تھے اور کبھی بھی اُن کے چہرے پر میں نے کسی طرح بھی انقباض نہیں دیکھا.اور پھر یہ نہیں ہے کہ اگر کوئی تجویز رد کر دی ہے تو مایوس ہو کے بیٹھ گئے.اس کے بعد پھر فوراً متبادل تجویز لے کے آتے تھے جو کم خرچ ہوتی تھی یا کسی اور طرز پر اُس کام کے کرنے کا طریق ہوتا تھا.غرض فکر یہ تھی کہ کسی نہ کسی طرح جلد سے جلد احمدیت کا پیغام پورے روس میں پہنچ جائے.ہمارے ایک مبلغ حافظ سعید الرحمن صاحب لکھتے ہیں کہ راویل صاحب کو احمدیت قبول کئے ہوئے صرف بیس بائیس سال کا ہی عرصہ گزرا تھا لیکن خلافتِ احمدیہ سے ان کا عشق و محبت اور مقام خلافت کا اور اک دیکھ کر ہمیشہ لگتا تھا جیسے وہ نسل در نسل احمدی چلے آتے ہیں.بعض باتیں اُن کی ایسی تھیں جو بہت سے احمدیوں کے لئے بھی ایک سبق ہیں.کہتے ہیں کہ رشیا میں جماعت کی ترقی اور فروغ کے لئے وہ ہمیشہ سے بہت درد اور جوش و جذبہ رکھتے تھے.رشیا میں تبلیغ کے کام کو زیادہ پھیلانے اور تیز کرنے کے لئے وہ خلافتِ رابعہ اور خلافت خامسہ کے دور میں خلفائے وقت کے سامنے اپنی تجاویز پیش کرتے رہتے تھے
خطبات مسرور جلد دہم 62 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جنوری 2012ء لیکن اگر کبھی خلفائے وقت اُن کی کسی تجویز کو کسی وجہ سے مناسب نہ سمجھتے یا وہی کام کسی اور رنگ میں کرنے کا کہتے تو کبھی بھی کسی قسم کا ملال یا کوئی تبصرہ نہ کرتے تھے بلکہ کہا کرتے تھے کہ اگر خلیفہ وقت نے کسی معاملے میں کوئی واضح ہدایت دے دی ہے تو اس بارے میں مزید رائے زنی کرنا میرے نزدیک بے ادبی اور گناہ ہے.اور جس معاملے کی بابت خلیفہ اسیح نے ہدایت عطا کر دی پھر اُس کے متعلق بالکل خاموش ہو جایا کرتے تھے.اُن کی یہ چیز مقام خلافت کے ادراک کے حوالے سے واقعی بہت سے پرانے احمدیوں اور نومبائعین کے لئے ایک بہترین نمونہ ہے.ہمارے ایک مخلص روسی احمدی بزرگ مکرم اور ال شریپو و صاحب، راویل صاحب کی وفات پر تعزیت کرتے ہوئے خط لکھتے ہیں کہ راویل صاحب بہت عظیم خیالات کے مالک تھے اور انہوں نے بہت زیادہ تخلیقی کارنامے سرانجام دیئے ہیں.وہ محنت کرنے ، اپنی قوم اور مذہب اسلام کی حکمت و دانش مندی سے خدمت کرنے کو اپنا ایمان سمجھتے تھے.اسی لئے انہوں نے مسلمانوں کی اصلاح پسند جماعت، جماعت احمدیہ کو چنا اور اس میں شامل ہوئے.پھر قازقستان سے ہمارے ایک معلم روفات تو کا موف صاحب نے تعزیت کے خط میں لکھا کہ راویل صاحب سے پہلا تعارف جماعتی کتب کے ذریعہ ہوا جو انہوں نے رشین زبان میں ترجمہ کی تھیں.راویل صاحب بہت اچھے اور شریف آدمی تھے.ہم نے سنا ہے کہ اپنے آپریشن سے پہلے انہوں نے کہا تھا کہ آپریشن کے بعد مجھے جینے کا موقع ملا تو میں اپنی زندگی وقف کر دوں گا.مکرم را ویل صاحب انتہائی مخلص اور اپنے قول کے پکے تھے.ایک دفعہ جب وہ ایم ٹی اے کی ٹیم کے ساتھ لندن جا رہے تھے تو یہ کہتے ہیں میں نے انہیں حضور کو ( یعنی مجھے ) دعا کے لئے کہنے کی درخواست کی تو وہاں پہنچ کے انہوں نے باقاعدہ خط لکھا کہ میں نے تمہاری دعا کی درخواست پہنچادی ہے.اکثر اس موضوع پر بات چیت کرتے تھے کہ وسطی ایشیا کے ممالک میں احمدیت کا پیغام تیزی کے ساتھ کس طرح پہنچایا جاسکتا ہے؟ پھر یہی معلم صاحب لکھتے ہیں کہ ان کی کتابیں پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح جلد احمدیت کا پیغام اپنی قوم تک اور ان تمام لوگوں تک پہنچا دیں جو رشین زبان بولنے اور سمجھنے والے ہیں.پھر لکھتے ہیں کہ راویل صاحب جب آپ کا خطبہ اپنی آواز میں ایم ٹی اے پر پڑھتے تھے (ایم ٹی اے پر ترجمہ جو ہوتا تھا) تو محسوس ہوتا تھا کہ وہ درد کے ساتھ اور خوبصورت طریقے سے اس لئے پڑھ رہے ہیں کہ لوگ ہمارے امام وقت کی آوازشن سکیں.
خطبات مسرور جلد دہم 63 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جنوری 2012ء رستم حماد ولی صاحب جو ماسکو کے صدر جماعت ہیں، اپنے تعزیت کے خط میں لکھتے ہیں کہ مکرم را ویل صاحب بہت وسیع العلم شخصیت تھے.اللہ تعالیٰ نے اُن کو بیحد علمی صلاحیتوں سے نوازا تھا جس سے انہوں نے کھلے دل سے لوگوں کو فائدہ پہنچایا.جماعت احمدیہ مسلمہ کو قبول کرنے کے بعد انہوں نے کامل طور پر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی عبودیت ، جماعت اور لوگوں کی خدمت کے لئے وقف کر دیا تھا جس کے بعد اُن کی شاندار انسانی خصوصیات مثلاً عاجزی، انسانیت سے پیار، نرمی اور شفقت، خلوص، عفو و درگز ر، ہمیشہ خدا سے ہی اپنے حاجات طلب کرنا، ہمیشہ سب کی مدد کے لئے کوشاں رہنا اور اپنی تمام بہترین صلاحیتوں میں دوسروں کو شریک کرنا ایک نمایاں شان کے ساتھ ابھریں.ہمارے ایک مبلغ بشارت صاحب ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ وہ لحہ بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے جب آپ کا خطبہ پہلی دفعہ رشین زبان میں نشر ہوا تھا.دو سال پہلے یہاں سے جانا شروع ہوا تھا، تو میرے ساتھ ساتھ ایک مقامی بزرگ مکرم تکتور بائیو ساگن بیک صاحب (Tokotorbaev Saghinbek ) بھی وہ خطبہ دیکھ رہے تھے ، جب خطبہ ختم ہوا تو سب کی آنکھیں خوشی اور مسرت سے پر نم تھیں اور سب نے ایک دوسرے کو گلے مل کر مبارک باد دی.یہ خطبہ بھی مکرم را ویل صاحب کی آواز میں ریکارڈ ہوا تھا اور پھر اُن کی آواز میں خطبات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا.اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سیدنا مسیح پاک کے خلیفہ کی آواز کورشین زبان بولنے والے بھائی بہنوں کو سب سے پہلے پہنچانے کا اعزاز بھی اُن کو ہی نصیب ہوا.اُن کو خلیفہ وقت کے دست و بازو بنے کی توفیق ملی.پھر لکھتے ہیں کہ بعد میں آئے مگر خلافت کی برکت سے خلافت کے سایہ عاطفت میں ہم سے آگے نکل گئے.اللہ تعالیٰ اُن سے پیار و محبت کا سلوک فرمائے.اللہ تعالیٰ ان جیسے بیشمار سلطان نصیر عطا فرمائے.ابھی نماز جمعہ کے بعد انشاء اللہ ان کا جنازہ حاضر ہے.میں جنازہ پڑھاؤں گا.جنازہ باہر آئے گا.میں باہر جا کے جنازہ پڑھاؤں گا.لوگ یہیں مسجد میں ہی صفیں درست کر لیں گے.اس کے علاوہ بھی دو تین غائب جنازے ہیں.ایک تو مکرم صاحبزادہ داؤ د احمد صاحب ابن مکرم صاحبزاده محمد شفیع صاحب سرائے نورنگ ضلع بنوں کا ہے.صاحبزادہ داؤ د احمد صاحب شہید کا تعلق ننھیال اور ددھیال دونوں کی طرف سے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کے ساتھ ہے.یہ جو صاحبزادہ داؤ د احمد صاحب ہیں ان کو 123 جنوری کو صبح پونے دس بجے نورنگ میں شہید کر دیا گیا.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ.شہید مرحوم کی والدہ محترمہ صاحبزادہ عبد السلام صاحب کی بیٹی تھیں جو حضرت صاحبزادہ
خطبات مسرور جلد دہم 64 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جنوری 2012ء عبداللطیف صاحب شہید کے بیٹے تھے.یوں آپ حضرت صاحبزادہ صاحب کے پڑنواسے تھے.اسی طرح ددھیال کی طرف سے مکرم داؤد صاحب کے دادا مکرم صاحبزادہ عبد الرب صاحب حضرت صاحبزادہ صاحب کی بہن کے بیٹے تھے جن کی شادی میراکبر صاحب سے ہوئی اور بعد میں یہ لوگ لاہوری جماعت میں شامل ہو گئے تھے.صاحبزادہ داؤ د احمد جو شہید ہوئے ہیں ان کا خاندان صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کی شہادت کے بعد افغانستان سے شفٹ ہو کر سرائے نورنگ میں آباد ہو گیا تھا اور آپ کی پیدائش ان کے ہاں 1955ء میں ہوئی.جیسا کہ میں نے کہا کہ ان کو 23 جنوری کو شہید کر دیا گیا.صبح کے وقت تقریباً پونے دس بجے کسی کام کی غرض سے بازار کے لئے نکلے تو سرائے نورنگ میں دو نامعلوم موٹر سائیکل سوار آئے اور آپ پر فائرنگ کر کے شہید کر دیا اور فرار ہو گئے.ان کی شہادت سے قبل مؤرخہ سترہ جنوری 2012ء بروز منگل کو سرائے نورنگ میں ختم نبوت والوں نے بہت بڑا جلسہ منعقد کیا تھا جس میں انہوں نے جماعت کے خلاف کافی زیادہ گالی گلوچ کی اور سامعین کو اشتعال دلایا.یہ شہادت اسی کا شاخسانہ لگتا ہے.شہید مرحوم کا ددھیال جیسا کہ میں نے کہا پیغامی احمدی ہو گیا تھا.خلافت سے ہٹ گئے تھے، غیر مبائع تھے.مرحوم نے آٹھ سال پہلے بیعت کی اور جماعت مبائعین میں شامل ہوئے اور اپنے گھر میں اکیلے احمدی تھے جبکہ دیگر تمام گھر والےلاہوری جماعت سے تعلق رکھتے ہیں.نہایت نیک اور تہجد گزار، پرہیز گار، زکوۃ اور چندوں میں با قاعدہ تھے.نیک اور اچھی شہرت کے حامل تھے.جماعتی تعاون ، لین دین اور عام اخلاق بہت ہی اچھا تھا.کسی سے دشمنی کا اندازہ نہیں تھا.ان کو 2004ء ، 2005ء میں دل کا عارضہ ہوا، تو بائی پاس آپریشن کروایا.اُس کے باوجود روزے با قاعدہ رکھتے تھے.اپنی نوکری سے انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی جس پر آپ کے بعض ساتھیوں نے آپ سے کہا کہ آپ کی پنشن بنتی ہے.آپ پنشن کے لئے اپلائی کریں.لیکن آپ نے انہیں کہا کہ نوکری کے دوران مجھ سے کئی کو تا ہیاں اور خامیاں رہ گئی ہوں گی.اس لئے میں اُن کو تاہیوں اور خامیوں کے بدلے یہ پنشن گورنمنٹ کو دیتا ہوں تا کہ گورنمنٹ کا میری طرف کوئی قرض نہ رہے.ریٹائرمنٹ کے بعد آپ اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کرتے تھے اور سرائے نورنگ کی ایک مارکیٹ میں موجود اپنی دکانوں کے کرایہ پر گزر بسر ہوتا تھا.شہید مرحوم کے لواحقین میں دو بھائیوں کے علاوہ ان کی اہلیہ امتہ الحفیظ صاحبہ ہیں.آپ کی اولا کوئی نہیں تھی.احمدیوں کو وقتا فوقتا جیسا کہ ہم سنتے رہتے ہیں پاکستان میں شہید کیا جارہا ہے لیکن کیا یہ جوشہادتیں ہیں ہمارے حوصلے پست کر رہی ہیں؟ کئی مرتبہ میں نے بیان کیا ہے کہ لا ہور کی مسجد میں جو واقعہ ہوا تھا.
خطبات مسرور جلد دہم 65 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جنوری 2012ء چوراسی (84) شہید ہوئے تھے تو ان لوگوں کا خیال ہو گا کہ شاید جماعت کے حوصلے پست ہوں گے.لیکن مردوں اور عورتوں اور بچوں کے مجھے خط آئے کہ ہمارے حوصلے پہلے سے بڑھے ہیں اور قربانیاں دینے کے لئے یہ درخواستیں تھیں کہ دعا کریں ہم بھی قربانی دینے والوں میں شامل ہوں اور صرف باتیں ہی نہیں ہیں بلکہ عملاً ہر جگہ سے اظہار کیا ہے.گزشتہ ماہ لیہ میں بھی ایک خاتون شہید ہوئی ہیں اُن کا میں نے جنازہ پڑھایا تھا اور یہ ایسی شہادت تھی کہ لوگوں نے مشن ہاؤس پر حملہ کیا ، اور وہاں کی جماعت والے جب دفاع کے لئے آگے آئے ہیں تو مردوں کے ساتھ یہ عورتیں بھی شامل تھیں اور یہ ایک جوان عورت جس کے چھوٹے چھوٹے بچے تھے اس موقع پر جب دشمنوں نے حملہ کیا تو یہ ہلاک ہوگئیں.کسی قسم کا کوئی خوف اور کوئی ڈر نہیں تھا اور بڑی خوشی سے مقابلہ کرتے ہوئے اس خاتون نے بھی جامِ شہادت نوش کیا.پس یہ وہ احمدی عورتیں ہیں اور مرد ہیں اور بچے ہیں جو قربانیوں سے کبھی نہیں ڈرتے.پس آج شہید ہونے والے یہ جو ہمارے صاحبزادہ داؤد صاحب ہیں، ان کی شہادت کو بھی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے.ان کی نیکیوں کو ، نیک فطرت کو ، قبول کرتے ہوئے ہی اللہ تعالیٰ نے ان کو جماعت مبائعین میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی تھی اور پھر یہ بھی توفیق دی کہ انہوں نے شہادت جیسار تبہ پایا.یہ اُس ایمان کی پختگی اور قربانی کا تسلسل ہے جو جماعت احمد یہ پچھلے ایک سوسال سے زائد عرصے سے دیتی چلی آرہی ہے.اور جس کی ابتداء اس شہید کے، جس کا جنازہ آج ہم پڑھ رہے ہیں ، اس کے پڑنا نا صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں کی تھی.پس آج حضرت صاحبزادہ صاحب کی روح اس بات پر ایک مرتبہ پھر خوش ہوگی کہ اُن کے خون نے سوسال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی اپنے فرض کو نبھایا ہے.پاکستان میں احمدیوں کے حالات آجکل بد سے بدتر ہو رہے ہیں، زیادہ سے زیادہ خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.اس لئے پاکستانی احمدیوں کے لئے بہت دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ اُن کو ہر لحاظ سے محفوظ رکھے.ہر شر سے بچائے اور دشمنوں کی جلد پکڑ کے سامان پیدا فرمائے.دوسرا جنازہ جو ہے ہمارے ایک مخلص دوست مکرم مرز انصیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور کا ہے جو 25 دسمبر کو فوت ہوئے تھے.إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.انہوں نے 1948ء میں بیعت کی تھی.پھر فرقان بٹالین میں شامل ہوئے.1974ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کی طرف سے بعض وکلاء کی جوٹیم بنائی تھی آپ اس کے ممبر تھے اور سپریم کورٹ میں وکیل کی حیثیت سے جماعت کی خدمت کی توفیق ملی اور بحیثیت صحافی ہفت روزہ لاہور میں اپنے کالموں کے ذریعے بھی جماعت
خطبات مسرور جلد دہم 66 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جنوری 2012ء کی خدمت سرانجام دیتے رہے.متعدد جماعتی کیسز میں خدمت کے علاوہ آپ کو 1984 ء کے ظالمانہ آرڈیننس کے خلاف جماعت کی طرف سے شرعی عدالت میں پیش ہونے والے پینل میں بھی شامل ہونے کا موقع ملا.لاہور میں مختلف جماعتی خدمات بھی آپ کی تھیں.سیکرٹری رشتہ ناطہ تھے.ممبر مجلس افتاء تھے.قاضی جماعت لاہور تھے.پھر اسی طرح ہیومن رائٹس کمیشن کی حیثیت سے بھی خدمت کی توفیق ملی.28 مئی 2010ء کو جو واقعہ ہوا ہے اُس دن بھی مسجد دارالذکر میں تھے اور ان کا بیٹا بھی ان کے ساتھ ہی تھا.ان کا بیٹا وہاں فائرنگ سے زخمی ہوا.آپ بڑی ہمت سے آپ وہاں بیٹھے رہے اور اُس کو بھی ہمت دلاتے رہے.دعا گو تھے.بڑے قناعت پسند تھے.صابر شاکر، ملنسار، مخلص انسان تھے.خلافت احمدیہ کی خاطر ہر قربانی کے لئے ہمیشہ مستعد رہتے تھے اور ہمیشہ ماحول کے مطابق گفتگو کرتے تھے.حسن مزاح بھی اُن میں کافی تھی.یہ موصی بھی تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے، مغفرت کا سلوک فرمائے.ایک اور جنازہ آسام انڈیا کی رابعہ بیگم صاحبہ کا ہے جو مکرم ماسٹر مشرق علی صاحب کی اہلیہ ہیں.20 جنوری کو کلکتہ میں ان کی وفات ہوئی ہے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.بنگال اور آسام کی صدر لجنہ کی حیثیت سے انہوں نے لمبا عرصہ خدمت کی توفیق پائی ہے.اپنے شوہر کے ساتھ سلسلے کے کاموں میں پوری طرح محمد اور معاون رہی ہیں.مشرق علی صاحب صوبائی امیر بنگال وآسام ہیں.بیمار ہونے کی حالت میں بھی لمبے سفروں میں ساتھ جایا کرتی تھیں.بڑی مخلص، نیک، باوفا خاتون تھیں.ان کے پسماندگان میں میاں کے علاوہ تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں.ایک ان کے بیٹے عصمت اللہ صاحب ہیں جو جلسے میں بھی نظمیں پڑھتے ہیں.ایم ٹی اے میں بھی اُن کی کافی نظمیں ہیں.آجکل جاپان میں ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ بھی مغفرت کا سلوک فرمائے.درجات بلند فرمائے.ان سب کا جنازہ جیسا کہ میں نے کہا، ابھی جمعہ کے بعد ادا ہوگا.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 17 فروری تا 23 فروری 2012 جلد 19 شماره 7 صفحه 5 تا 9 )
خطبات مسرور جلد دہم 5 10 67 خطبه جمعه فرموده مورخہ 3 فروری 2012ء خطبه جمع سید نا امیرالمومنین حضرت رزا مسرور احم خلیفہ امسح الامس ایدہ اللہ تعلی بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 3 فروری 2012ء بمطابق 3 تبلیغ 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَ الَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ (النحل : 129) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ یقینا اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور وہ جو احسان کرنے والے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : قرآن شریف میں تمام احکام کی نسبت تقویٰ اور پر ہیز گاری کے لئے بڑی تاکید ہے.“ ایام اصلح روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 342) پس یہ تقویٰ ہی وہ بنیادی چیز ہے جو خدا تعالیٰ کا قرب دلاتی ہے.اس آیت میں جو میں نے تلاوت کی جیسا کہ سب نے سن لیا اور ترجمہ بھی میں نے بیان کر دیا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا (النحل: 129) یقینا اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا، پہلی بات یہ بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کے ساتھ ہے جنہوں نے اُن راستوں کو اختیار کیا جو تقویٰ پر لے جانے والے راستے ہیں.پس اس بات سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ دنیا میں دو طرح کے انسان ہیں، ایک وہ جو تقویٰ پر چلنے والے ہیں اور خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اعمالِ صالحہ بجالانے والے ہیں اور ہر نیکی یا ہر ا چھے عمل کو کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کریں، تا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو.دوسرے وہ لوگ جو گو بعض اچھی باتیں اور نیک کام کر لیتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ اُن کے سامنے نہیں ہوتا، یا وہ ہر کام کرتے وقت اس بات کو نہیں سوچتے کہ خدا تعالیٰ ہر وقت ہماری نگرانی فرما رہا
خطبات مسرور جلد دہم ہے، ہمیں دیکھ رہا ہے.68 خطبه جمعه فرموده مورخہ 3 فروری 2012ء اس دوسری قسم میں وہ لوگ بھی ہیں جو خدا تعالیٰ پر یقین رکھتے ہیں یا کم از کم اتنا مانتے ہیں کہ ایک خدا ہے جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے.لیکن کوئی کام کرتے ہوئے ، کوئی عمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا اُن لوگوں کے پیش نظر نہیں ہوتی.کوئی نیک کام بھی کر رہے ہوں تو یہ مقصد نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ کو راضی کرنا ہے.اور دوسرے وہ جو سرے سے خدا تعالیٰ پر یقین ہی نہیں رکھتے.اللہ تعالیٰ کے وجود پر یقین نہیں رکھتے.اللہ تعالیٰ کے وجود کے منکر ہیں.ان دونوں قسم کے لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نہیں ہوتا.میں اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہوں جو پہلی قسم کے لوگ ہیں جو تقویٰ پر چلنے والے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت تقویٰ پر نہ چلنے والوں کو بھی بعض چیزوں سے، بعض نعمتوں سے اتناہی نواز رہی ہوتی ہے جتنا ایک متقی کو لیکن یہ صرف دنیاوی چیزوں میں حصہ ہے.مثلاً سورج کی روشنی ہے، ہوا ہے.ان چیزوں سے ایک مومن متقی بھی اُتنا ہی فیض پا رہا ہوتا ہے جتنا ایک دہر یہ.یا دنیاوی چیزیں ہیں مثلاً سائنس میں ترقی سے یا جونئی دنیاوی تعلیم ہے، تجربات ہیں، نئی ایجادات ہیں، اُن کے لئے دماغ لڑانے کے بعد اُن سے حاصل شدہ نتائج سے ایک دہر یہ بھی محنت کا اُتنا ہی پھل لے گا جتنا کہ ایک متقی اور پر ہیز گار.زمین کی کاشت کرنے میں مثلاً ایک زمیندار کی جو محنت ہے، اس سے ایک دہر یہ بھی فائدہ اُٹھاتا ہے اور متقی بھی.جو تقویٰ پر نہ چلنے والے ہیں یاد ہر یہ ہیں ، خدا تعالیٰ کو نہ ماننے والے ہیں، ان پر بھی اگر اللہ تعالیٰ کی صفتِ ربوبیت اور رحمانیت کام نہ کر رہی ہو تو ایک لمحہ کے لئے بھی ان کا زندگی گزارنا مشکل ہے اور وہ ایک لمحہ بھی اس دنیاوی زندگی کا نہیں گزار سکتے.پس جس انسان کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں پیدا کیا اس کے لئے دو راستے رکھے ، نیکی کا اور بدی کا.لیکن بعض معاملات میں دونوں طرح کے عمل کرنے والوں کو بعض نعمتوں سے مشترکہ طور پر نوازا ہے.بہر حال یہاں یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے لئے اپنا جو قانونِ قدرت ہے وہ ایک رکھتا ہے.لیکن یہاں میں اس بات کی بھی وضاحت کر دوں کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا جلوہ دکھانے کے لئے ایک ہی قسم کے حالات میں بعض دفعہ، بعض اوقات مومن متقی کی کوشش کو زیادہ پھل لگاتا ہے.مثلاً زمیندارہ میں بظاہر ایک جیسی نظر آنے والی فصل دعاؤں کی وجہ سے زیادہ پیدا وار دے جاتی ہے.
خطبات مسرور جلد دہم 69 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 3 فروری 2012ء حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب سندھ میں زمینیں آباد کیں تو نگرانی کے لئے شروع شروع میں بعض بزرگوں کو بھی بھیجا.اُن میں ایک حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری تھے.ایک دفعہ پہلے بھی میں بیان کر چکا ہوں کہ ایک دفعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ دورہ پر تشریف لے گئے.کپاس کی فصل دیکھ رہے تھے تو انہوں نے حضرت مولوی صاحب سے پوچھا، یہ صحابی بھی تھے کہ کیا اندازہ ہے، اس میں سے کتنی فصل نکل آئے گی.انہوں نے اپناجواندازہ بتا یاوہ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب وغیرہ جو ساتھ تھے، اُن کے خیال میں یہ غلط تھا.تو وہ یا غالباً درد صاحب دونوں باتیں کرنے لگے کہ حضرت مولوی صاحب کچھ زیادہ اندازہ بتا رہے ہیں.حضرت مولوی صاحب نے اُن کی باتیں سُن لیں.انہوں نے کہا کہ میاں صاحب ! جو اندازہ میں بتا رہا ہوں انشاء اللہ تعالی کم از کم اتنا ضرور نکلے گا کیونکہ میں نے ان کھیتوں کے چاروں کونوں پر نفل ادا کئے ہوئے ہیں.مجھے اس بات پر یقین ہے کہ میرے نفل اس پیداوار کو بڑھائیں گے.چنانچہ اتنی پیدا وار نکلی.(ماخوذ از سیرت احمد از حضرت قدرت اللہ صاحب سنوری صفحہ 2 مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ 1962) تو اللہ تعالیٰ ایک ہی طرح کے موسمی حالات میں ، ایک ہی طرح کے فصلوں میں جو ان پٹس (Inputs) ڈالے جاتے ہیں، جو کھاد، بیج وغیرہ چیزیں ڈالی جاتی ہیں، اُن کے باوجود دعاؤں کے طفیل اپنے ہونے کا ثبوت دیتا ہے اور پیداوار میں اضافہ کرتا ہے.دنیا کے معاملات میں بھی ایک متقی کو اللہ تعالیٰ کی معیت کا ثبوت مل جاتا ہے.لیکن اس ماڈی دنیا کے علاوہ خدا تعالیٰ پر یقین رکھنے والے، اُس پر کامل ایمان رکھنے والے شخص کی ایک روحانی دنیا بھی ہے جس کے فائدے، جس کی لذات دنیا والوں کو نظر نہیں آتیں اور نہ آسکتی ہیں.ان لوگوں کی سوچ بہت بلند ہوتی ہے جو تقویٰ پر چلنے والے ہیں.وہ اس دنیا سے آگے جا کر بھی سوچتے ہیں.غیب پر ایمان لاتے ہیں.آخرت پر یقین رکھتے ہیں.خدا تعالیٰ کے وعدوں پر کامل ایمان اور یقین ہوتا ہے.جب دعا کے لئے ہاتھ اُٹھاتے ہیں تو قبولیت کے نشان دیکھتے ہیں.اس زمانے میں خدا تعالیٰ سے یہ سچا تعلق جوڑنے کے یہ طریق اور اسلوب ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سکھائے.بہت سے احمدی ہیں جو اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کا تجربہ رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ سے بچے تعلق کی وجہ سے خواب، رویا، کشف وغیرہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ انہیں بتاتا ہے کہ اس طرح ہوگا اور اُس طرح بالکل ویسے ہو جاتا ہے.پھر اس معیت کا یہ مطلب بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرنے کے بعد کی زندگی کے انعامات کے جو وعدے فرمائے ہیں وہ بھی پورے رض
خطبات مسرور جلد دہم 70 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 3 فروری 2012ء ہوں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تقویٰ پر قائم رہے تو اس دنیا کے انعامات بھی حاصل کرو گے اور اخروی زندگی کے بھی.پس یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ متقی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جب کوئی عمل کرتا ہے تو دنیا و آخرت کی حسنات اُسے ملتی ہیں.جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اعمال صالحہ بجالانے والے متقی ہیں.یہ ایک بہت ضروری چیز ہے کہ ایسے نیک اعمال بجالانے والے، صالح اعمال بجالانے والے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر انہیں بجالاتے ہیں وہی ہیں جو تقویٰ پر چلنے والے ہیں.کئی دوسرے لوگ بھی ہیں جو نیکیاں کر جاتے ہیں، نیک عمل کرتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی خاطر نہیں کرتے.اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے نہیں کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے متقی کی جو تعریف بیان فرمائی ہے اس کے مطابق ہر بڑے اور چھوٹے گناہ سے بچنا ضروری ہے اور نہ صرف برائیوں سے بچنا ضروری ہے بلکہ نیکیوں میں اور اعلیٰ اخلاق میں ترقی کرنا بھی ضروری ہے اور پھر خدا تعالیٰ سے سچی وفا کا تعلق بھی ضروری ہے.یہ چیزیں ہوں گی تو ایک شخص متقی کہلا سکتا ہے.اور خدا تعالیٰ سے سچی وفا کیا ہے؟ یہی کہ اُس کی عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جائے اور حتی المقدور خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لایا جائے اور جب یہ حالت ہوگی تو پھر اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں تقویٰ سے آگے کے قدم کا ذکر فرمایا ہے.فرمایا.وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ محسن کا مطلب ہے.کسی کو انعام دینا.بغیر کسی کی کوشش کے اُس کو نواز نا یا کسی سے اچھا سلوک کرنا.ایسے جو نواز نے والے ہوتے ہیں وہ محسن کہلاتے ہیں.پھر محسن کا یہ مطلب بھی ہے کہ انسان کا اپنے کام میں کمال درجے کو حاصل کرنا.اپنے کام کا اچھا علم حاصل کرنا اور ہر عمل ایسا جو موقع اور محل کے لحاظ سے بہترین ہو.گویا محسن دو طرح کے ہیں.ایک وہ جو دوسروں کے لئے در در کھتے ہوئے اُن کی خدمت پر ہر وقت تیار رہتے ہیں.قطع نظر اس کے کہ کوئی کس مذہب اور فرقے سے تعلق رکھتا ہے، کون کس قوم کا ہے؟ اُس کی خدمت پر مامور ہیں، کوشش ہوتی ہے کہ ہم انسانیت کی خدمت کریں.اور پھر یہ بھی کہ وقت پڑنے پر دوسرے کے کام آکر اُس کی خدمت میں اس حد تک بڑھ جائیں کہ جس حد تک آسانیاں پیدا کر سکتے ہیں دوسرے کے لئے کی جائیں.پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس جذبے کے تحت اُسے انسانیت کی خدمت کرنی چاہئے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے احمدی ہیں جو اس جذبے کے تحت خدمت کرتے ہیں، کام کرتے ہیں.بیشک وہ محسن تو ہوتے ہیں لیکن احسان جتانے والے نہیں ہوتے.محسن وہ نہیں جو احسان کر کے احسان جتائے.
خطبات مسرور جلد دہم 71 خطبه جمعه فرموده مورخہ 3 فروری 2012ء کیونکہ اگر احسان جتا دیا تو پھر تقویٰ اور اچھے خلق کا اظہار نہیں ہوگا.تقویٰ تبھی ہے جب احسان کر کے پھر احسان جتایا نہ جائے.میں مثال دیتا ہوں.ہمارے انجینئر ز ہیں، ڈاکٹر ہیں یا دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان لڑکے ہیں، جب افریقہ میں والنٹیئر زجاتے ہیں جہاں بہت سارے پروجیکٹ شروع ہیں، وہ اُن میں کام کرنے کے لئے جاتے ہیں.مثلاً مقامی محروم لوگوں کو پینے کے پانی مہیا کرنے کے لئے ہینڈ پمپ لگا رہے ہیں.بجلی مہیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.اُن کے لئے سکول بنارہے ہیں تا کہ اُن کے لئے تعلیم کی سہولتیں آسان ہو جائیں.صحت کی سہولیات مہیا کرنے کے لئے کلینک اور ہسپتال بنارہے ہیں تا کہ اُن میں آسانیاں پیدا ہوں، اُن کی تکلیفوں کو دور کیا جائے.اور پھر ہمارے ٹیچر اور ڈاکٹر وہاں کئی کئی سال رہ کر خدمات سرانجام دیتے ہیں.نامساعد حالات میں وہاں رہتے ہیں.بعض ایسی جگہیں بھی ہیں جہاں بجلی نہیں، پانی نہیں، لیکن وہاں جا کر رہتے ہیں، خدمت کے جذبے کے تحت رہتے ہیں، اُن لوگوں میں شمار ہونے کے لئے وہاں جاتے ہیں جن کا شمار محسنین میں ہوتا ہے.تو یہ وہ خدمت اور نیک سلوک ہے جو کسی معاوضے کی لالچ میں نہیں ہوتا بلکہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کا تقویٰ دل میں رکھتے ہوئے انسانیت کی خدمت کے لئے ہوتا ہے.اسی طرح دنیا کے مختلف ممالک میں جو طوفان اور زلزلے وغیرہ آتے ہیں وہاں بھی ہمارے ڈاکٹر اور والنٹیئر جاتے ہیں.ہیومینٹی فرسٹ کے تحت خدمت سر انجام دیتے ہیں اور کسی لالچ کے لئے نہیں جاتے بلکہ خالصتنا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں.اور بھی بہت سارے لوگ ہیں جو خدمت کر رہے ہوں گے لیکن اُن کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی رضا نہیں ہوتی.تو جولوگ خدمت کر رہے ہیں ، نیک سلوک کر رہے ہیں ، اپنے علم اور عمل سے دوسروں کو فائدہ پہنچارہے ہیں اور صرف اس لئے کہ خدا تعالیٰ کو راضی کرنا ہے تو یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو متقی بھی ہیں اور محسن بھی ہیں.جیسا کہ میں پہلے بھی ایک خطبے میں بتا چکا ہوں کہ احمدی انجینئر جو ہیں انہوں نے برکینا فاسو میں ایک ماڈل ولیج بنایا جس میں بجلی پانی کی سہولت ہے.پکے فٹ پاتھ ،سٹریٹ لائٹس، کمیونٹی سنٹر ہے جو مقامی ضرورت کو پورا کرنے والا ہے، اُس میں جمع ہو کے وہ اپنے فنکشن کرتے ہیں.اسی طرح چھوٹے سے گرین ہاؤس ہیں جس میں سبزیاں وغیرہ لگائی جاتی ہیں جو مقامی ضرورت کو پورا کر سکیں.اُن کو اری گیشن (Irrigation) کے لئے پانی مہیا کرنا، اسی طرح ہمارے آدمی ہینڈ پمپ وغیرہ مختلف دیہاتوں میں لگا
خطبات مسرور جلد دہم 72 خطبه جمعه فرموده مورخہ 3 فروری 2012ء رہے ہیں.جب یہ کام کر رہے ہوتے ہیں اور جب کام مکمل ہو جاتا ہے تو وہاں کے مقامی لوگوں کی جو خوشی ہوتی ہے وہ دیکھنے والی ہوتی ہے.جب یہ تصویریں لے کے یہاں آتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ کتنا بڑا کام ہے.جس کو ہم تو معمولی سمجھ رہے تھے لیکن اُن لوگوں کے نزدیک اس کی کتنی اہمیت ہے.اُن کے چہروں پر کس طرح خوشی ہے.آٹھ دس سال کا بچہ جو پانچ پانچ میں سے ایک بالٹی سر پر اٹھا کر لے کے آ رہا ہو، اُس کے لئے تو یہ ایک نعمت ہے کہ اُس کو گھر میں پینے کا صاف پانی مل جائے.اب یہ سب کام جو ہے یہ کسی بدلے کے طور پر تو نہیں ہورہا اور نہ پھر کبھی احسان جتایا جاتا ہے.بلکہ ہمارے نو جوان اور انجینئر جب کام کر کے واپس آتے ہیں تو شکر گزار ہوتے ہیں کہ آپ نے ہمیں موقع دیا اور یہ بھی وعدہ کرتے ہیں کہ انشاء اللہ تعالی آئندہ بھی جائیں گے.اس سال پانچ ماڈل و تیج مختلف ملکوں میں بنائے جارہے ہیں ، انشاء اللہ.بعض ملکوں کی ذیلی تنظیموں نے ، مثلاً امریکہ، یو کے وغیرہ کے انصار اللہ نے خرچ پورا کرنے کی ذمہ واری اُٹھائی ہے.اسی طرح ہیومنٹی فرسٹ والوں نے بھی اس میں کچھ حصہ ڈالا ہے.جرمنی والوں کو بھی میں نے کہا ہے.تو یہ جذ بہ خدمت اِن کام کرنے والوں کو محسنین میں شمار کرتا ہے.اور اسی طرح جو اس خدمت کے لئے فنڈ مہیا کرتے ہیں وہ بھی اُن میں شمار ہوتے ہیں.ایک احمدی جس نے زمانے کے امام کو مانا ہے، تقویٰ پر چلنے کا عہد کیا ہے، وہ حتی المقدور اُس تقویٰ کے حصول کی کوشش بھی کرتا ہے اور محسنین میں شامل ہونے کی کوشش بھی کرتا ہے تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ایسے لوگوں کے ساتھ ہوں اور میں ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ رہتا ہوں.ہمارے لڑکے جن کا میں نے کہا جب یہ کام کر کے واپس آتے ہیں تو خود بھی بیان کرتے ہیں کہ ہمارے کاموں میں کس طرح بعض دفعہ بعض مشکلات پیش آئیں اور کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا جلوہ دکھایا اور نا معلوم طریقے سے، غیر محسوس طریقے سے ان مسائل کو حل کر دیا اور وہ کہتے ہیں کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ہمارا یقین مزید بڑھتا ہے.اسی طرح جیسا کہ میں نے کہا محسنین کا یہ مطلب بھی ہے کہ اپنی بھی فکر کرنا اور اپنے علم و عرفان کو بھی کمال تک پہنچانے کی کوشش کرنا اور یہ احسان اپنے پر بھی ہے.نیک صالح عمل کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا اور پھر اس میں بڑھنا یہ بھی اس کا ایک مطلب ہے.اور پھر یہ کہ علم ومعرفت سے خود بھی فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس کو اپنی زندگی پر لاگو کرنا اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچانا.جتنا جتنا علم ومعرفت زیادہ ہوگا اور پھر اس
خطبات مسرور جلد دہم 73 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 3 فروری 2012ء سے دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش بھی ہو گی تو پھر اس سے محسنین میں شامل ہونے کی ایک اور معراج ملتی ہے.قدم پھر آگے بڑھتے ہیں.ایک نئے راستے کا تعین ہوتا ہے جو مزید روحانی اور اخلاقی ترقی کی طرف لے کر جاتا ہے اور جب یہ روحانی اور اخلاقی ترقی ہوتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی معیت کے نئے زاویے بھی نظر آتے ہیں.اللہ تعالیٰ سے قرب کا تعلق بڑھتا ہے.اُس کی صفات کا مزید ادراک پیدا ہوتا ہے اور پھر تقویٰ میں بھی ترقی ہوتی ہے.گویا کہ ایک سائیکل (Cycle) ہے، ایک چکر ہے جو نیکیوں کے اردگرد گھومتے ہوئے ، تقویٰ کے اعلیٰ مدارج تک لے جاتے ہوئے خدا تعالیٰ تک لے جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے پھر تو فیق بڑھتی ہے.پھر مزید نیکیوں کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور پھر نتیجتا ان چیزوں سے، ان باتوں سے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا زیادہ عرفان حاصل ہوتا ہے.تو یہ وہ احسان ہے، محسن بننا ہے جو اللہ تعالیٰ ایک انسان کو بناتا ہے.جو احسان جتانے والے حسن نہیں ہوتے بلکہ دوسروں کی خاطر قربانی کر کے اپنے اوپر سختی وارد کرتے ہیں اور اپنے حقوق چھوڑتے ہیں ، پھر وہ اس اصول پر چلتے ہیں کہ اپنے حقوق لینے پر زور نہ دو بلکہ دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دو.میں اکثر غیروں کے سامنے، جو بھی لیڈر ملتے ہیں یا اسلام پر اعتراض کرنے والے بعض دنیا دارلوگ، یا اسلام کی تعلیم سے پوری طرح واقفیت نہ رکھنے والے، اُن کے سامنے یہ بات بھی پیش کرتا ہوں کہ دنیا والوں کا تمام زور اس بات پر ہے کہ ہمارے حقوق ادا کرو اور پھر اپنے حقوق کا ایک معیار قائم کر کے پھر اس کے حاصل کرنے کے لئے جو بھی بن پڑتا ہے وہ کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں نہ حقوق مانگنے والا انصاف سے اور تقویٰ سے کام لیتا ہے اور نہ حقوق دینے والا انصاف اور تقویٰ سے کام لیتا ہے، اس میں مسلمان بھی شامل ہیں، غیر مسلم بھی شامل ہیں.اور نتیجہ فساد پیدا ہوتا ہے.جبکہ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے اور مسلمانوں کو اس تعلیم پر عمل کرنا چاہئے اور اگر یہ عمل کریں تو جو بھی اس وقت حکومتوں میں اور ملکوں میں، دنیا میں فساد ہیں وہ کم از کم مسلمان ملکوں میں کبھی نہ ہوں.اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ دوسرے کے حقوق ادا کرو.اس سے پہلے کہ دوسرا اپنے حق کا مطالبہ کرے اُس کا حق ادا کرو.بلکہ اُس پر احسان کرتے ہوئے انسانیت کی قدروں کو قائم کرنے کے لئے محسنین میں شمار ہو جاؤ.اُن کی ضروریات کا اُن سے بڑھ کر خیال رکھو.مثلاً ملازمین کے بارے میں، خادموں کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ جو خود پہنو اپنے غریب ملازم کو پہناؤ.جو خود کھاؤ اُسے کھلاؤ.(بخاری کتاب العتق باب قول النبى الله العالم العبيد اخوانكم فاطعموهم مماتاكلون حدیث 2545) اس تعلیم کو اگر دنیا کے وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو کسی بھی ملک کے عوام بھو کے نہیں رہ سکتے ،
خطبات مسرور جلد دہم 74 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 3 فروری 2012ء اُن کے حقوق کبھی پامال نہیں ہو سکتے.وہ ننگے نہیں رہیں گے.ٹی وی پر مختلف افریقن ممالک کی تصویریں دکھائی جاتی ہیں.بچے فاقوں کی زندگی گزار رہے ہیں.بہت سارے خوراک کی کمی کی وجہ سے قریب المرگ ہیں یا بڑھوتری اُن کی صحیح نہیں ہے.مالنور شڈ (Malnourished) ہیں.مائیں بھوکی ہیں.چھوٹے بچوں کو دودھ نہیں پلا سکتیں.پس اگر وسائل پر قبضہ کرنے کی سوچ کے بجائے حقوق کی ادائیگی پر توجہ دی جائے محسنین بنتے ہوئے دوسروں کی صلاحیتوں کو بڑھایا جائے.خود غریبوں کو اُن کے پاؤں پر کھڑا کیا جائے تو یہ مسائل جو دنیا میں پیدا ہوئے ہوئے ہیں خود بخود ختم ہو جائیں گے.اگر مسلمان حکومتیں بھی اپنے ملکوں میں اس بات کا خیال رکھنے والی ہوں اور لیڈ ر اپنے بنک بیلنس بنانے کی بجائے عوام کا خیال رکھنے والے ہوں محسنین بننے کی کوشش کرنے والے ہوں، تقویٰ پر چلنے والے ہوں تو اس خوبصورت تعلیم کے بعد کبھی ہمارے مسلمان ملکوں میں بے چینی اور غربت اور افلاس کی یہ حالت نہیں ہوسکتی.لیکن بدقسمتی سے سب سے زیادہ مسلمان ملکوں میں یہ حال ہے اور پھر غیر بھی اُس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں.تو جب بھی میں نے لوگوں کے سامنے یہ بیان کیا کہ اگر یہ صورتحال ہو، اور تم لوگ بھی اگر انصاف سے کام لیتے ہوئے کام کرو تو یہ مسائل جو دنیا میں پیدا ہوئے ہوئے ہیں یہ خود بخود ختم ہو جا ئیں گے.اس پر اکثر یہی کہتے ہیں کہ اصل یہی چیز ہے اور یہ اسلام کی بڑی خوبصورت تعلیم ہے لیکن جب اپنی مجلسوں میں واپس جاتے ہیں تو پھر ذاتی مفادات آڑے آجاتے ہیں.یعنی ملکی اور قومی مفادات کی دوڑ شروع ہو جاتی ہے.ملکی مفادات ضرور ہونے چاہئیں اگر وہ حق اور انصاف پر قائم رہتے ہوئے ہوں.دوسروں کا حق مار کے نہ ہوں تو پھر ضرور اُن پر عمل ہونا چاہئے.اور ظاہر ہے کہ پہلے خود انسان اپنے آپ کو سنبھالتا ہے.اسی طرح ملکوں کا فرض ہے کہ اپنے آپ کو سنبھالیں.لیکن دوسروں کی دولت پر قبضہ کرنے کے لئے اپنے ملکی مفادات کی آڑ کے بہانے بنانا یہ چیز غلط ہے.دوسروں کے مفادات پامال کر کے اپنے نام نہاد حق کو حاصل کرنے کی کوشش کر نا یہ غلط ہے.یہ سب چیز میں خود غرضی دکھانے والی ہیں.یا ایسی باتیں ہیں جوصرف فسادات کو فروغ دیتی ہیں.بہر حال ہر احمدی کا کام ہے کہ وہ تقویٰ پر چلتے ہوئے اور محسنین میں شمار ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے قرب کے نظارے دیکھنے کی کوشش کرے.اللہ تعالیٰ کی معیت میں آنے کی کوشش کرے اور یہی ایک صورت ہے جس سے ہم اپنی اصلاح کرنے والے بھی ہو سکتے ہیں اور معاشرے کو بھی اپنے محدود دائرے میں فساد سے بچا سکتے ہیں.ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ صبغة الله بنتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی صفات اپنے
خطبات مسرور جلد دہم ق 75 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 3 فروری 2012ء دائرے میں ، اپنی استعدادوں کے مطابق اختیار کرنے کی کوشش کریں.حقوق العباد کی ادائیگی کیلئے تیار رہیں تو یہ دنیا کی نعمتیں ہماری خادم بن جائیں گی.ہماری زندگی میں ان دنیاوی چیزوں کی حیثیت ثانوی ہو جائے گی اور پھر وہی بات کہ جب خالصہ اللہ تعالیٰ کی خاطر انسان یہ کام کر رہا ہو گا تو پھر تقویٰ میں ترقی ہو گی.غرض کہ جس زاویے سے بھی ہم دیکھیں ، خدا تعالیٰ کی رضا ہماری سوچوں کا محور ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو کہ احسان کرنے والوں کو وہ کس طرح نوازتا ہے، قرآنِ کریم میں ایک جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے.فرماتا ہے تبلى " مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَةَ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ - وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة : 113 ) جان لو یہ سچ ہے کہ جو بھی اپنے آپ کو خدا کے سپر د کر دے اور وہ احسان کرنے والا ہو تو اس کا اجر اُس کے رب کے پاس ہے.اور اُن لوگوں پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میری ذات تمہارا محور ہو جائے گا،صرف میرے ارد گرد تم گھومو گے تو میری رضا کا حصول ہو جائے گا.کلیۂ جب ایک مومن، متقی بندہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سپر د کر دیتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ خود اس کا متکفل ہو جاتا ہے.اس کے تمام غم ختم ہو جاتے ہیں.اُس کی تمام فکریں اور خوف بے حیثیت ہو جاتے ہیں.جو شخص اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے سپر د کرتے ہوئے اُس کے آگے خالص ہو کر جھکنے والا بن جائے محسن ہوتے ہوئے اپنی تمام تر صلاحیتیں خدمت خلق اور خدمت انسانیت کے لئے صرف کر دے تو اُس کو کیا غم اور خوف ہوگا؟ یہ دونوں کام ایسے ہیں جو حقیقی تقویٰ کی پہچان ہیں.بندے کو خدا تعالیٰ کے پیار کی آغوش میں لے آتے ہیں.حضرت مسیح موعود ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : "متقی بننے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ بعد اس کے کہ موٹی باتوں جیسے زنا، چوری ، تلف حقوق ، ریاء، عجب، حقارت ، بخل کے ترک میں پکا ہو تو اخلاق رذیلہ سے پر ہیز کر کے اُن کے بالمقابل اخلاق فاضلہ میں ترقی کرے.لوگوں سے مروت، خوشی خلقی ، ہمدردی سے پیش آوے.خدا تعالیٰ کے ساتھ سچی وفا اور صدق دکھلاوے.خدمات کے مقام محمود تلاش کرے.ان باتوں سے انسان منتقی کہلاتا ہے.اور جو لوگ ان باتوں کے جامع ہوتے ہیں.وہی اصل متقی ہوتے ہیں.یعنی اگر ایک ایک خلق فردا فردا کسی میں ہوں تو اسے متقی نہ کہیں گے جب تک بحیثیت مجموعی اخلاق فاضلہ اس میں نہ ہوں ) اور ایسے ہی شخصوں کے لئے لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقره: 63) ہے.اور اس کے بعد ان کو کیا چاہئے.اللہ تعالیٰ ایسوں کا متولی ہو جاتا ہے جیسے کہ وہ فرماتا ہے
خطبات مسرور جلد دہم 76 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 3 فروری 2012ء وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّلِحِينَ (الاعراف: 197).یعنی وہ نیکوں کا ساتھ دیتا ہے،اُن کا متولی ہوجاتا ہے.فرمایا کہ ”حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ پکڑتے ہیں.ان کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتے ہیں.ان کے کان ہو جاتا ہے جن سے وہ سنتے ہیں.ان کے پاؤں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتے ہیں.اور ایک اور حدیث میں ہے کہ جو میرے ولی کی دشمنی کرتا ہے.میں اس سے کہتا ہوں کہ میرے مقابلہ کے لئے تیار رہو.ایک جگہ فرمایا ہے کہ جب کوئی خدا کے ولی پر حملہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس پر ایسے جھپٹ کر آتا ہے جیسے ایک شیرنی سے کوئی اس کا بچہ چھینے تو وہ غضب ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 680-681 ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) سے جھپٹتی ہے.“ پس کیا ہی خوش قسمت ہیں وہ جن کا ولی اللہ تعالیٰ ہو جاتا ہے.اور جن کا ولی خدا تعالیٰ ہو جاتا ہے اُن کے غم اور خوف تو ویسے ہی ختم ہو جاتے ہیں.آئندہ کے لئے نیک عمل کرنے کی طرف اُن کی توجہ ہو جاتی ہے.گزشتہ کے اگر کوئی برے عمل ہیں تو اُن سے معافی ہو جاتی ہے.انسان کو اپنے مستقبل کے بارے میں خوف رہتا ہے.یہاں مثلاً بہت سارے اسا علم سیکرز Asylum Seekers) آئے ہوئے ہیں، اُن کو ہر وقت فکر پڑی رہتی ہے کہ پتہ نہیں ہمارا کیا فیصلہ ہوگا ، کیا بنے گا؟ بعض میں نے دیکھے ہیں، اس خوف کی وجہ سے کئی کئی کلو اپنا وزن کم کر چکے ہیں.ملتے ہیں تو چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی ہوتی ہیں.کوئی اپنے بزنس کے حالات کی وجہ سے پریشان ہے.خوفزدہ رہتا ہے کہ پتہ نہیں آئندہ کیا ہو گا؟ طلباء ہیں تو اپنے امتحانوں کی وجہ سے خوفزدہ رہتے ہیں.غرض آئندہ آنے والی باتیں انسان کو ایک خوف کی حالت میں رکھتی ہیں جب تک کہ اُن کے نتائج اُن پر ظاہر نہ ہو جائیں.اسی طرح حزن ہے یا غم ہے جو گزری ہوئی باتوں کا ہوتا ہے.جتنا بڑا غم ہو انسان اتناہی زیادہ مگن رہتا ہے.بعض دنیا دار اپنے کاروباروں کے نقصان میں اس قدر غمگین ہو جاتے ہیں کہ اُس کا مستقل روگ لگا لیتے ہیں.بعض دماغی توازن کھو بیٹھتے ہیں ، بعض پر دل کے ایسے حملے ہوتے ہیں کہ مستقل بستر پر لیٹ جاتے ہیں یا دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں.بہر حال ایک متقی مومن اور احسان کرنے والے کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کو نہ کوئی خوف ہوگا، نہ غم.ایک دیندار انسان جس کو خدا تعالیٰ کی صفات کا صحیح ادراک ہے اور اُس کے مطابق وہ اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے، وہ کبھی بھی دنیا کے غموں کو اپنا روگ نہیں بناتا.بیشک نیک لوگوں کو خوف کی حالت بھی آتی ہے، غم کی حالت بھی آتی ہے لیکن وہ دنیا کے غم نہیں ہوتے ، وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے غم ہوتے ہیں.وہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے بچنے کا خوف ہوتا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے
خطبات مسرور جلد دہم 77 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 3 فروری 2012ء ایک شعر میں فرمایا کہ اسی فکر میں رہتے ہیں روز و شب که راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب نشان آسمانی روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 410) پس یہ دلدار کو راضی کرنے کی فکر اور خوف ہوتا ہے، اور یہ خوف جو ہے اُن کی توجہ دعاؤں اور ذکر الہی کی طرف مبذول کراتا ہے اور الا بذکر اللہ تطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد: 29) کی آواز اُن کو تسلی دیتی ہے.اللہ تعالیٰ کا ذکر ہی اُن کے لئے اطمینان قلب کا باعث بنتا ہے جو پرانے غموں کو بھی دور کر دیتا ہے اور آئندہ کے خوفوں کے دُور ہونے کی بھی اُن کو تسلی دلاتا ہے.تقویٰ پر چلنے والوں کا خوف پیار اور محبت کا خوف ہوتا ہے.تقویٰ کا مطلب ہی یہ ہے کہ ایسا خوف یا ایسی تڑپ جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے بے چین رکھے.پس یہ بے چینی دل کو تقویت دیتی ہے.اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بناتی ہے.دنیا دار کی بے چینی اس کے برعکس دلوں پر حملہ کرنے والی ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے والاء محسنین میں شمار ہونے والا، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ رکھتا ہے اور اپنے اعمال پر نظر رکھتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مورد بنتا ہے.پس دنیا دار اور دیندار کے غم اور خوف میں یہ فرق ہے.پس ایک احمدی کو اپنی حالتوں میں ایسی پاک تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے جوا سے تقویٰ پر چلائے رکھنے والی ہو اور محسنین میں شمار کروانے والی ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب ہمیں ہر آن حاصل رہے جو ہمیں دنیا اور آخرت کے خوفوں سے دور رکھے.ہمارے غم اگر کوئی ہیں تو صرف ایسے ہوں جو خدا تعالیٰ کی محبت کو دل میں بسانے کے لئے ہوں.اس سے اللہ تعالیٰ کے احسانات پھر مزید بڑھیں گے.اللہ تعالیٰ کی محبت کے معیار جب ہم حاصل کرنے والے ہوں گے تو پھر اللہ تعالیٰ یقیناً ہمارے ساتھ ہوگا اور پھر اللہ تعالیٰ جب دیکھ رہا ہو گا کہ میرا بندہ محسن بن رہا ہے اور میری رضا کی خاطر میری صفات اپنا رہا ہے تو پھر میں کیوں نہ اُس پر احسانات کی بارش کر دوں.اللہ تعالیٰ تو کئی گنا بڑھا کر دینے والا ہے.پس جب اللہ تعالیٰ کے احسانات کی بارش ہوتی ہے تو اس دنیا کی فکریں نہ صرف دور ہو جاتی ہیں بلکہ اُس کے احسانات اور انعامات کوسنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے.ایک مومن کو حقیقی تقویٰ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
خطبات مسرور جلد دہم 78 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 3 فروری 2012ء حقیقی تقویٰ کے ساتھ جاہلیت جمع نہیں ہو سکتی.حقیقی تقویٰ اپنے ساتھ ایک نور رکھتی ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ سيّاتِكُمْ (الانفال ( 30 ) وَ يَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِه (الحدید: 29) یعنی اے ایمان لانے والو! اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے اتقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کر وتو خدا تعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گا.وہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گا جس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے.یعنی وہ نور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قومی اور حواس میں آجائے گا.تمہاری عقل میں بھی نور ہو گا.تمہاری ایک انکل کی بات میں بھی نور ہو گا.اور تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہو گا.اور تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نور ہوگا.اور جن راہوں میں تم چلو گے وہ راہ نورانی ہو جائیں گی.غرض جتنی تمہاری را ہیں، تمہارے قومی کی راہیں تمہارے حواس کی راہیں ہیں وہ سب نور سے بھر جائیں گی اور تم سراپا نور میں ہی چلو گے.“ ( آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 177-178 ) پس جب ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ کا بندہ آجاتا ہے یا آنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر اُس کے مخالفین بھی اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آجاتے ہیں.اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم اس معیار کو حاصل کرنے والے ہوں جہاں ہم فیض پانے والے بھی ہوں، ہم فیض پہنچانے والے بھی ہوں اور مخالفین سے ہم بیچتے چلے جائیں.مخالفین کے ہر شر اُن پر الٹنے والے ہوں.اور جب یہ حالت ہو جائے گی تو جہاں ہم اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے والے ہوں گے، انسانیت کی خدمت کے لئے بے لوث ہوں گے، اسلام کا پیغام دنیا کو دینے والے ہوں گے، وہاں انشاء اللہ تعالیٰ ہم احمدیت کے مخالفین کی پکڑ بھی دیکھیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں ان دعاؤں کی اور اس مقام کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آج بھی میں ایک نماز جنازہ غائب پڑھاؤں گا جو مکرم ڈاکٹر محمد عامر صاحب ڈسپنسر کا ہے.(ڈاکٹر کہلاتے تھے، تھے یہ ڈسپنسر) ہرنائی بلوچستان کے رہنے والے تھے.ان کو یکم دسمبر 2011ء کو کلینک میں داخل ہو کر کچھ نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا.ان کی شہادت کی اطلاع بڑی لیٹ ملی ہے کیونکہ وہاں جماعت نہیں تھی اس لئے پتہ نہیں لگ سکا اور ان کی اہلیہ بھی ہرنائی ہسپتال میں ہی
خطبات مسرور جلد دہم 79 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 3 فروری 2012ء کام کر رہی تھیں.یہ قائد آباد ضلع خوشاب میں جماعت میں شامل ہوئے تھے.اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے اور ایک ایسی تنظیم سے ان کے خاندان کا تعلق تھا جو پاکستان میں اپنی شدت پسندی میں بڑی مشہور ہے اور وہ لوگ کبھی برداشت نہیں کر سکتے کہ اُن کا کوئی آدمی بیعت کر لے، احمدیت میں شامل ہو جائے.بہر حال یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے.یہ خاندان مظفر گڑھ کا رہنے والا تھا.1994ء میں انہوں نے بیعت کی تھی.98ء میں ان کی شادی ہوئی.دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں.بڑے نیک فطرت اور مخلص انسان تھے.اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت کا سلوک فرمائے.درجات بلند فرمائے.انہیں اپنی رضا کی جنتوں میں داخل فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 24 فروری تا یکم مارچ 2012 جلد 19 شماره 8 صفحه 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد دہم 80 6 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 فروری 2012ء خطبه جمع سید نا امیرالمومنین حضرت رزا مسرور احم خلیفہ امسح الامس ایدہ اللہ تعلی بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 10 فروری 2012 ء بمطابق 10 تبلیغ 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - مورڈن - لندن تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: سورۃ فاتحہ ایک ایسی سورۃ ہے جسے ہم ہر نماز میں پڑھتے ہیں.احادیث میں جہاں اس کے بہت سے نام اور فضائل بیان ہوئے ہیں وہاں ایک روایت میں اس کا نام ” سورۃ الصلواۃ بھی ہے.حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” میں نے صلوٰۃ یعنی سورۃ فاتحہ کو اپنے اور بندے کے درمیان نصف نصف کر کے تقسیم کر دیا ہے.“ (صحیح مسلم کتاب الصلوة باب وجوب قراءة الفاتحة في كل ركعة حديث: 878) یعنی آدھی سورۃ میں صفات الہیہ کا ذکر ہے اور آدھی سورۃ میں بندے کے حق میں دعا ہے.پس یہ اس کی ایسی اہمیت ہے جسے ہر نماز پڑھنے والے کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات پر بھی غور کرتے ہوئے اُن سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی جائے اور اسی طرح اس بات پر بھی غور کر کے جو اس میں دعائیں ہیں، اس کی دعاؤں سے بھی فیض پانے کے لئے ہر نماز کی ہر رکعت میں بڑے غور سے پڑھنا چاہئے.اسی طرح یہ بات بھی ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ اس سورۃ کا اس زمانے میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ ہے اس سے بھی بہت نسبت ہے.پرانے صحیفوں میں بھی اس حوالے سے اس کا ذکر موجود ہے اور خود سورۃ فاتحہ کا مضمون بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت کے انعامات اور اس کے حصول اور اس زمانے کے شر اور گمراہی سے بچنے کی طرف اشارہ کرتا ہے.پس اس لحاظ سے آجکل کے مسلمانوں کے لئے اس کی بڑی اہمیت ہونی چاہئے.لیکن بدقسمتی سے مسلمان علماء نے قوم کو اس حد تک اپنے قابو میں کر لیا ہے ، اس حد تک اُن کی غور کرنے کی
خطبات مسرور جلد دہم 81 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 فروری 2012ء صلاحیت کو ختم کر دیا ہے کہ وہ اس بات پر غور کرنے کی طرف توجہ دینے کی طرف تیار ہی نہیں ہیں.اکثریت اُن میں سے، اس کی وجہ سے عموماً عامتہ المسلمین یہ غور کرنانہیں چاہتی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک ایسی تعداد بھی ہے جو سوچتی ہے، غور کرتی ہے اور مسیح مہدی کی ضرورت کو بجھتی ہے.پس یہ لوگ جو مولوی کے ہاتھ چڑھے ہوئے ہیں انہیں یہ مولوی اور یہ نام نہاد علماء تو شر اور گمراہی کی طرف لے جارہے ہیں.پس جب ہر دردمند دل رکھنے والا انسان اس بات کا اظہار کرتا ہے اور ان میں یہ احساس تو ہے کہ شر، شرک اور گمراہی کا دور دورہ ہے اور یہ ہر جگہ ہمیں پھیلتی نظر آرہی ہے اور اس کے دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے کسی خاص بندے کی ضرورت ہے، تو پھر تلاش بھی کرنا چاہئے کہ وہ بندہ کہیں آتو نہیں گیا.یقیناً اللہ تعالیٰ کا وہ خاص بندہ آچکا ہے لیکن اکثریت جیسا کہ میں نے کہا علماء کے پیچھے چل کر اُسے ماننے کو تیار نہیں یا خوف کی وجہ سے مانے کو تیار نہیں.پس علماء کو بھی اور عوام الناس کو بھی خدا تعالیٰ سے رہنمائی لینی چاہئے اور اپنی ضد چھوڑ دینی چاہئے.بہر حال ہمارا کام پیغام پہنچانا ہے اور وہ ہم انشاء اللہ تعالیٰ پہنچاتے رہیں گے، اپنا کام کرتے چلے جائیں گے.لیکن اس کے ساتھ ہی ہم احمدیوں کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق کی طرف منسوب ہوتے ہیں، ہمیں بھی اپنا علم و عرفان بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے.سورۃ فاتحہ کے مضامین سے زیادہ سے زیادہ فیضیاب ہونے کی کوشش کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس طرح اس سورۃ کے مضامین کو مختلف جگہوں پر اپنی تحریرات میں کھول کر ہمارے سامنے بیان فرمایا ہے، یقیناً ہم پر یہ ذمہ داری ڈالتا ہے کہ ہم اُس کو سمجھنے کی کوشش کریں، اس کا ادراک حاصل کرنے کی کوشش کریں تا کہ ہم اپنی ذات پر اس مضمون کو جاری کر کے اس سے فیضیاب ہوسکیں.اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں آپ کی سورۃ فاتحہ کی دوسری آیت یعنی بسم اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ کے بعد جو آیت ہے، الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ، اس کے حوالے پیش کروں گا.آپ نے اس آیت کے اندر سموئے ہوئے مختلف مضامین کو مختلف رنگ میں بیان فرمایا ہے.یہ چند حوالے میں نے لئے ہیں، یہ آپ کے اس آیت کے بارے میں وہ چند پہلو ہیں جو آپ کے علمی وروحانی خزانے میں موجود ہیں، جن کی نشاندہی آپ نے فرمائی ہے اور اس کے علاوہ بھی صرف اس ایک آیت کے اور بے شمار حوالے بھی ہیں.یقیناً ان کو پڑھنے سے، سننے سے علم وعرفان بڑھتا ہے.لیکن نہ ہی ایک مرتبہ سننے سے اس کے گہرے مطالب تک انسان پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ پہنچا جا سکے.
خطبات مسرور جلد دہم 82 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 فروری 2012ء اس کو سمجھنے کے لئے اپنا مطالعہ بھی ضروری ہے تبھی ہم زمانے کے امام کے اُن روحانی خزائن کا صحیح فہم اور ادراک حاصل کر سکیں گے اور اس سے استفادہ کر سکیں گے.الحمد لله ربّ اللّمین کی مختصر وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس طرح فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ الحمد لله تمام محامد اس ذات معبود برحق متجمع جمیع صفات کا ملہ کو ثابت ہیں ( یعنی تمام جوحمد ہے، تعریف ہے، وہ اللہ تعالیٰ پر ہی ثابت ہوتی ہے جو تمام صفات کا جس میں تمام صفات جمع ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی ہے جس میں یہ صفات کامل طور پر پائی جاسکتی ہیں.فرمایا ” جمیع صفات کا ملہ کو ثابت ہیں جس کا نام اللہ ہے.ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ قرآن شریف کی اصطلاح میں اللہ اس ذات کامل کا نام ہے کہ جو معبود برحق اور تجمع جمیع صفات کا ملہ اور تمام رزائل سے منزہ ( تمام صفات کا مجموعہ ہے اور تمام قسم کی کمزوریاں، کمیاں، گھٹیا چیزیں اُن سے وہ پاک ہے ) اور واحد لاشریک اور مبدء جمیع فیوض ہے.( تمام فیض جو ہیں اُسی سے پھوٹتے ہیں ) ” کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اپنے کلام پاک قرآن شریف میں اپنے نام اللہ کو تمام دوسرے اسماء وصفات کا موصوف ٹھہرایا ہے ( یعنی اللہ تعالیٰ کا جو نام ہے اُس میں جو تمام دوسری صفات ہیں، وہ موجود ہیں.صرف ایک اللہ کے نام میں اللہ تعالیٰ کی جتنی بھی موجودہ صفات ہیں ، وہ پائی جاتی ہیں ) اور کسی جگہ کسی دوسرے اسم کو یہ رتبہ نہیں دیا.پس اللہ کے اسم کو بوجہ موصوفیت تامہ ( یعنی کامل طور پر ان صفات کا حامل ہونے کی وجہ سے ان تمام صفتوں پر دلالت ہے.جن کا وہ موصوف ہے.اور چونکہ وہ جمیع اسماء اور صفات کا موصوف ہے اس لئے اس کا مفہوم یہ ہوا کہ وہ جمیع صفات کاملہ پرمشتمل ہے.“ (یعنی اللہ کا جو نام اللہ ہے، تو اس لفظ میں تمام صفات ہیں یہ مکمل طور پر جمع ہوگئی ہیں ).فرمایا کہ ” پس خلاصہ مطلب الحمد للہ کا یہ نکلا کہ تمام اقسام حمد کے کیا باعتبار ظاہر کے اور کیا باعتبار باطن کے اور کیا باعتبار ذاتی کمالات کے اور کیا باعتبار قدرتی عجائبات کے اللہ سے مخصوص ہیں اور اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں.اور نیز جس قدر محامد صحیحہ اور کمالات تامہ کو عقل کسی عاقل کی سوچ سکتی ہے (یعنی جو کچھ بھی صحیح حمد اور تعریف ہوسکتی ہے، جو کوئی کمالات انتہا تک کوئی پہنچ سکتے ہیں ، جو کوئی عقل مند انسان سوچ سکتا ہے )’ یا فکر کسی متفکر کا ذہن میں لاسکتا ہے.وہ سب خوبیاں اللہ تعالیٰ میں موجود ہیں.اور کوئی ایسی خوبی نہیں کہ عقل اس خوبی کے امکان پر شہادت دے.مگر اللہ تعالیٰ بد قسمت انسان کی طرح اس خوبی سے محروم ہو.“ ( یہ نہیں ہو سکتا.کوئی خوبی جو انسان سوچ سکتا ہے یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ انسان کی عقل گواہی دے کہ یہ خوبی ہے
خطبات مسرور جلد دہم 83 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 فروری 2012ء اور اللہ تعالیٰ ایک انسان کی طرح اُس سے محروم ہو ) فرمایا بلکہ کسی عاقل کی عقل ایسی خوبی پیش ہی نہیں کر سکتی کہ جو خدا میں نہ پائی جائے.(انسان کی سوچ تو محدود ہے، وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتی ، ان صفات کا احاطہ بھی نہیں کر سکتی ) فرمایا ”جہاں تک انسان زیادہ سے زیادہ خوبیاں سوچ سکتا ہے وہ سب اس میں موجود ہیں اور اس کو اپنی ذات اور صفات اور محامد میں من گل الوجوہ کمال حاصل ہے اور رزائل سے بکلی منزہ ہے.“ ( براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 435 436 حاشیہ نمبر 1) اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک دعا سکھائی ہے اُس میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگی کہ جو صفات، تیرے جو نام میرے علم میں ہیں ، اُن کی بھی خیر چاہتا ہوں اور جو میرے علم میں نہیں اُن کی بھی خیر چاہتا ہوں.(الجامع لاحكام القرآن (تفسير القرطبی) صفحه 1760 تفسير سورة النحل زیر آیت نمبر 13 مطبوعه دار ابن حزم، بیروت (2004ء) پس انسان تو اللہ تعالیٰ کی صفات کا ، ناموں کا احاطہ کر ہی نہیں سکتا.پھر الحمد لله رب العلمین کی اس مختصر تشریح کے بعد الحمد کے معنے بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ واضح ہو کہ حمد اُس تعریف کو کہتے ہیں جو کسی مستحق تعریف کے اچھے فعل پر کی جائے.نیز ایسے انعام کنندہ کی مدح کا نام ہے جس نے اپنے ارادہ سے انعام کیا ہو.اور اپنی مشیت کے مطابق احسان کیا ہو.“ ( تعریف اُس کی کی جاتی ہے جو انعام دینے والا ہے جس نے اپنے ارادہ سے اور اپنی مشیت کے مطابق انعام دیا ہو، مشیت اور مرضی تو صرف خدا تعالیٰ کی ہی ہوتی ہے جو چلتی ہے، اُس کے مطابق احسان کیا ہو اور حقیقت حمد کما حقہ صرف اسی ذات کے لئے متحقق ہوتی ہے جو تمام فیوض و انوار کا مبدء ہو“ تمام فیض اُس سے پھوٹ رہے ہوں ) اور علی وجہ البصیرت کسی پر احسان کرے، نہ کہ غیر شعوری طور پر یا کسی مجبوری سے.“ (سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے علم رکھتے ہوئے پھر احسان کرتا ہے، غیر شعوری طور پر نہیں یا کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں ) اور حمد کے یہ معنی صرف خدائے خبیر و بصیر کی ذات میں ہی پائے جاتے ہیں.اور وہی محسن ہے اور اوّل و آخر میں سب احسان اسی کی طرف سے ہیں.اور سب تعریف اسی کے لئے ہے اس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں بھی.اور ہر حمد جو اس کے غیروں کے متعلق کی جائے اس کا مرجع بھی وہی ہے.“ اردو تر جمه عربی عبارت رساله اعجاز مسیح روحانی جلد 18 صفحہ 129، 130 حوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد 1 صفحہ 75.74)
خطبات مسرور جلد دہم 84 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 فروری 2012ء یعنی کوئی بھی تعریف جو اللہ کے سوا کسی دوسرے کی کی جاتی ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ہی ہے.غیر اللہ کی حد اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ خوبیوں اور صفات کی وجہ سے کی جاتی ہے، ان خصوصیات کی وجہ سے کی جاتی ہے یا کسی اچھے کام کی وجہ سے کی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہی صفات کا پر تو بنتے ہوئے اُس نے کی یا اللہ تعالیٰ کے رحیمیت یا رحمانیت نے اُس میں اپنا اثر ڈالتے ہوئے اُس کو اس قابل بنایا کہ وہ کسی کے کام آئے اور پھر وہ شخص اس قابل ہوا کہ جس کے وہ کام آیا اُس کی تعریف کر سکے.گویا کہ ہر کام کی بنیاد جو ہے کوئی بھی شخص دنیا میں جو کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے کر سکتا ہے.اس لئے پھر آخری تعریف جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتی ہے.پھر اس بارے میں آپ مزید فرماتے ہیں کہ : حمد اس تعریف کو کہتے ہیں جو کسی صاحب اقتدار شریف ہستی کے اچھے کاموں پر اس کی تعظیم و تکریم کے ارادہ سے زبان سے کی جائے اور کامل ترین حمد رب جلیل سے مخصوص ہے اور ہر قسم کی حمد کا مرجع خواہ وہ تھوڑی ہو یا زیادہ ہمارا وہ رب ہے جو گمراہوں کو ہدایت دینے والا اور ذلیل لوگوں کو عزت بخشنے والا ہے.اور وہ محمودوں کا محمود ہے.“ (اردو ترجمه عربی عبارت از کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 106 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد 1 صفحہ 76) یعنی وہ ہستیاں جو خود قابل حمد ہیں وہ سب اس کی حمد میں لگی ہوئی ہیں.پس جیسا کہ میں نے کہا، سب کچھ اُس کی طرف ہی لوٹتا ہے.آپ نے یہ فرمایا کہ گمراہوں کو ہدایت دینے والا ہے.جب گمراہوں کو ہدایت دیتا ہے تو نتیجہ ہدایت پانے والا خدا تعالیٰ کی طرف جھکے گا، اُس کی حمد کرے گا.دنیا کی نظر میں ذلیل لوگ ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں عزت پاتے ہیں.جیسا کے انبیاء کا طریق ہے.کہتے ہیں تمہارے ماننے والے تو ہمیں بادی النظر میں ذلیل لوگ نظر آتے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ ایک وقت میں ایسے حالات بدلتا ہے ، وہی فرعون زندگی کی بھیک مانگتا ہے، وہی مکہ کے سردارا اپنی جان کی امان ما نگتے ہیں اور یہ بات مومنین کو پھر ایک حقیقی حمد کی طرف متوجہ کرتی ہے، اُس کا ادراک دلاتی ہے.اسی طرح اس زمانے میں بھی جو آجکل سمجھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی حیثیت نہیں ہے، یہ ذلیل ہیں، حقیر سے لوگ ہیں ہم اُن سے یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے.تو اللہ تعالیٰ ساتھ ساتھ اپنی قدرت تو دکھا رہا ہے لیکن ایک وقت آئے گا جب یہ لوگ ختم ہو جائیں گے.خلاصہ اس کا یہ بنا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد میں یہ بھی اشارہ ہے کہ خدا تعالیٰ کامل تعریف کیا گیا ہے اور
خطبات مسرور جلد دہم 85 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 فروری 2012ء کامل تعریف کرنے والا ہے.اور خدا تعالیٰ کی حمد ہی ہے جو تمام عزتوں کا منبع ہے اور ایک مومن کا کام ہے کہ اس حمد کا ادراک حاصل کر کے اللہ تعالی کی پناہ میں آجائے.حمد کے لفظ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو حد سے کیوں شروع کیا؟ اس میں کیا حکمت ہے، آپ فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو حد سے شروع کیا ہے ، نہ کہ شکر اور مدح سے کیونکہ لفظ حمد ان دونوں الفاظ کے مفہوم پر پوری طرح حاوی ہے اور وہ ان کا قائمقام ہوتا ہے مگر اس میں اصلاح، آرائش اور زیبائش کا مفہوم ان سے زیادہ ہے.( خوبصورتی بھی ہے، حسن بھی ہے، اصلاح بھی ہے.چونکہ کفار بلا وجہ اپنے بتوں کی حمد کیا کرتے تھے اور وہ ان کی مدح کے لئے حمد کے لفظ کو اختیار کرتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ معبود تمام عطایا اور انعامات کے سرچشمہ ہیں اور سخیوں میں سے ہیں.اسی طرح اُن کے مردوں کی ماتم کرنے والیوں کی طرف سے مفاخر شماری کے وقت بلکہ میدانوں میں بھی ( مطلب بڑے فخر سے اُن کے ذکر کئے جاتے تھے ) اور ضیافتوں کے موقع پر بھی اسی طرح حمد کی جاتی تھی جس طرح اس رازق متوتی اور ضامن اللہ تعالیٰ کی حمد کی جانی چاہئے.اس لئے یہ ( الحَمدُ للهِ) ایسے لوگوں اور دوسرے تمام مشرکوں کی تردید ہے اور فراست سے کام لینے والوں کے لئے (اس میں ) نصیحت ہے.اور ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ بت پرستوں یہودیوں، عیسائیوں اور دوسرے تمام مشرکوں کو سر زنش کرتا ہے.گو یا وہ یہ کہتا ہے کہ اے مشرکو ! تم اپنے شرکاء کی کیوں حمد کرتے ہو اور اپنے بزرگوں کی تعریف بڑھا چڑھا کر کیوں کرتے ہو؟ کیا وہ تمہارے رب ہیں جنہوں نے تمہاری اور تمہاری اولاد کی پرورش کی ہے یا وہ ایسے رحم کرنے والے ہیں جو تم پر ترس کھاتے ہیں اور تمہاری مصیبتوں کو دور کرتے ہیں اور تمہارے دکھوں اور تکلیفوں کی روک تھام کرتے ہیں.یا جو بھلائی تمہیں مل چکی ہے اس کی حفاظت کرتے ہیں.یا مصائب کی میل کچیل تمہارے وجود سے دھوتے ہیں اور تمہاری بیماری کا علاج کرتے ہیں؟ کیا وہ جزا سزا کے دن کے مالک ہیں؟ نہیں.بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ ہی ہے جو خوشیوں کی تعمیل کرنے ، ہدایت کے اسباب مہیا کرنے ، دعائیں قبول کرنے اور دشمنوں سے نجات دینے کے ذریعہ تم پر رحم فرما تا اور تمہاری پرورش کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کو ضرور اجر عطا کرے گا.“ (اردو تر جمه عربی عبارت از کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد 7 صفحه 107 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد 1 صفحہ 77،76) پھر اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ ہمارا خدا کامل خدا ہے اور صفات کا ملہ اور تمام قسم کی
خطبات مسرور جلد دہم 86 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 فروری 2012ء تعریفوں کا اللہ تعالیٰ بھی مستحق ہے اور وہ اُس میں جمع ہیں ، آپ فرماتے ہیں: ”اور اس کے ساتھ ہی الحمد للہ میں ایک یہ اشارہ بھی ہے کہ جو معرفت باری تعالیٰ کے معاملہ میں اپنے بد اعمال سے ہلاک ہوا یا اس کے سوا کسی اور کو معبود بنالیا تو سمجھو کہ وہ شخص خدا تعالیٰ کے کمالات کی طرف سے اپنی توجہ پھیر لینے، اس کے عجائبات کا نظارہ نہ کرنے اور جو امور اس کی شایان شان ہیں ان سے باطل پرستوں کی طرح غفلت برتنے کے نتیجہ میں ہلاک ہو گیا.اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں کی ، کسی اور کو معبود بنالیا، کسی شخص کو خدا تعالیٰ کے کمالات کا حاصل کرنے والا بنالیا تو وہ ہلاک ہو گیا، اللہ تعالیٰ کی جوشان ہے وہ پوری طرح اُس کے سامنے نہیں آئی مخفی ہوگئی یا دوسرے کو اُس نے اللہ تعالیٰ کے مقابلے پر کر لیا تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا، یہی کہ ایسا شخص ہلاک ہو جائے گا.) فرمایا ” کیا تو نصاری کو نہیں دیکھتا کہ انہیں توحید کی دعوت دی گئی تو انہیں اسی بیماری نے ہلاک کیا اور ان کے گمراہ کرنے والے نفس اور پھسلا دینے والی خواہشات نے ان کے لئے ( یہ گمراہ کن ) خیال خوبصورت کر کے دکھا دیا اور انہوں نے ایک (عاجز) بندے کو خدا بنا لیا.اور گمراہی اور جہالت کی شراب پی لی.اللہ تعالیٰ کے کمال اور اس کی صفات ذاتیہ کو بھول گئے اور اس کے لئے بیٹے اور بیٹیاں تراش لیں.اگر وہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے شایان شان کمالات پر گہری نظر ڈالتے تو ان کی عقل خطا نہ کرتی اور وہ ہلاک ہونے والوں میں سے نہ ہو جاتے.پس یہاں اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اللہ جل شانہ کی معرفت کے بارہ میں غلطی سے بچانے والا قانون یہ ہے کہ اس کے کمالات پر پورا غور کیا جائے اور اس کی ذات کے لائق صفات کی جستجو کی جائے“ (اُس کی صفات کا ادراک حاصل کیا جائے ، اُس کو تلاش کیا جائے ) اور ان صفات کا ورد کیا جائے (بار بار دہرایا جائے ) '' جو ہر مادی عطیہ سے بہتر اور ہر مدد سے مناسب تر ہیں اور اس نے اپنے کاموں سے جو صفات ثابت کی ہیں.یعنی اس کی قوت ، اس کی طاقت، اس کا غلبہ اور اس کی سخاوت کا تصور کیا جائے.پس اس بات کو یا درکھو اور لا پرواہ مت بنو اور جان لو کہ ربوبیت ساری کی ساری اللہ کے لئے ہے اور رحمانیت ساری کی ساری اللہ کے لئے ہے اور رحیمیت ساری کی ساری اللہ کے لئے ہے اور جزا سزا کے دن کامل حکومت اللہ کے لئے ہے.پس اے مخاطب ! اپنے پرورش کنندہ کی اطاعت سے انکار نہ کر اور موحد مسلمانوں میں سے بن جا.پھر اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ وہ پہلی صفت کے زوال کے بعد کسی نئی صفت کو اختیار کرنے اور اپنی شان کے تبدیل ہونے اور کسی عیب کے لاحق ہونے اور نقص کے بعد خوبی کے پانے سے پاک ہے.“ ( یعنی کوئی نقص اُس میں پیدا ہو ہی نہیں سکتا اس لئے نئی
خطبات مسرور جلد دہم 87 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 فروری 2012ء خوبی کا سوال ہی نہیں ، اُس میں خوبیاں ہی خوبیاں ہیں، یہ نہیں ہو سکتا کہ پہلے کوئی خوبی تھی تو اُس میں بہتری آ گئی بلکہ اس کے لئے اول و آخر اور ظاہر و باطن میں ابدالاباد تک حمد ثابت ہے.اور جو اس کے خلاف کہے وہ حق سے برگشتہ ہو کر کافروں میں سے ہو گیا.“ (اردو تر جمه عربی عبارت از کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 109،108 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد 1 صفحہ 79-81) پس اللہ تعالیٰ تمام نقائص سے پاک ہے.جو اُس کی صفات کا صحیح ادراک نہیں کرتا، وہ تباہی کے گڑھے میں گرتا ہے.تمام پہلی قوموں کی تباہی اسی لئے ہوئی کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی صفات کو نہیں پہچانا اور شرک میں پڑ گئے اور اگر پہچان لیا تو بھول گئے.پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ان کا معبود وہ ہے جس کے لئے سب حمد ہے، آپ فرماتے ہیں کہ : الحمد للہ کے الفاظ میں مسلمانوں کو تعلیم دی گئی ہے کہ جب اُن سے سوال کیا جائے اور اُن سے پوچھا جائے کہ اُن کا معبود کون ہے؟ تو ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ یہ جواب دے کہ میرا معبود وہ ہے جس کے لئے سب حمد ہے اور کسی قسم کا کوئی کمال اور قدرت ایسی نہیں مگر وہ اس کے لئے ثابت ہے.پس تو بھولنے والوں میں سے نہ بن.“ (اردو تر جمه عربی عبارت از کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 100 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد 1 صفحہ 82) تو صرف الحمد للہ منہ سے کہہ دینا کافی نہیں ، جب بھی الحمد کہی جائے تو فورا خیال اس طرف پھرنا چاہئے کہ میرا ایک معبود ہے، ایک خدا ہے جس کی میں عبادت کرتا ہوں اور عبادت اس لئے کرتا ہوں کہ وہ میرا رب ہے، میرا اللہ ہے.پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : اس سورۃ کو الحمد للہ سے شروع کیا گیا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ ہر ایک حمد اور تعریف اس ذات کے لئے مسلم ہے جس کا نام اللہ ہے اور اس فقرہ الحمدُ للہ سے اس لئے شروع کیا گیا کہ اصل مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی عبادت روح کے جوش اور طبیعت کی کشش سے ہوا اور ایسی کشش جو عشق اور محبت سے بھری ہوئی ہو ہر گز کسی کی نسبت پیدا نہیں ہو سکتی جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ وہ شخص ایسی کامل خوبیوں کا جامع ہے جن کے ملاحظہ سے بے اختیار دل تعریف کرنے لگتا ہے.اور یہ تو ظاہر ہے کہ کامل تعریف دو قسم کی خوبیوں کے لئے ہوتی ہے.ایک کمال حسن اور ایک کمال احسان ( یعنی کسی میں خوبصورتی
خطبات مسرور جلد دہم 88 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 فروری 2012ء ہو، تب تعریف کی جاتی ہے یا کسی کا احسان ہو کسی پر ، تب اُس کی تعریف کی جاتی ہے ) اور اگر کسی میں دونوں خوبیاں جمع ہوں تو پھر اس کے لئے دل فدا اور شیدا ہو جاتا ہے.اور قرآن شریف کا بڑا مطلب یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دونوں قسم کی خوبیاں حق کے طالبوں پر ظاہر کرے تا اس بے مثل و مانند ذات کی طرف لوگ کھینچے جائیں اور روح کے جوش اور کشش سے اس کی بندگی کریں.اس نے پہلی سورۃ میں ہی یہ نہایت لطیف نقشہ دکھلانا چاہا ہے کہ وہ خدا جس کی طرف قرآن بلاتا ہے وہ کیسی خوبیاں اپنے اندر رکھتا ہے.سواسی غرض سے اس سورۃ کو الحمد للہ سے شروع کیا گیا جس کے یہ معنے ہیں کہ سب تعریفیں اس کی ذات کے لئے لائق ہیں جس کا نام اللہ ہے.“ ایام الصلح روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 247) پس اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ذات ہے جس میں حسن و احسان جمع ہیں اس لئے الْحَمدُ لِلہ سے شروع کیا گیا.اس میں بڑی وضاحت سے ایک جگہ آپ نے بیان فرمایا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حسن کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے احسان کیا ہیں لیکن وہ ایک مضمون علیحدہ ہے یہاں صرف مختصر بتا دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا حسن یہ ہے کہ تمام قسم کی خوبیاں اُس میں پائی جاتی ہیں جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ وہ تمام صفات کا ملہ کا جامع ہے، تمام صفات اُس میں جمع ہیں اور اُس کے احسان کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے چار بڑے بنیادی اصول اس سورۃ کے مطابق بتائے ہیں جن کا مختصر ذکر کرتا ہوں.اُس کا پہلا احسان یہ ہے کہ وہ رب ہے، یعنی پیدا کر کے پھر اُس کے مطابق اُس کے مطلوبہ مقام تک کی انتہا تک لے جاتا ہے، اُس کی پرورش کرتا ہے.دوسرا احسان یہ ہے کہ اُس کی صفت رحمانیت ہے جو دوسرا احسان ہے، جس کے مطابق اُس نے ہر جاندار کو طاقتیں عطا فرمائی ہیں اور اُس کی ضروریات کے مطابق اُس کی بقا کے سامان مہیا فرمائے ہیں.اور انسان کو اس میں سے سب سے زیادہ حصہ دیا ہے.تیسرا احسان یہ ہے کہ جو اُس کی صفت رحیمیت ہے کہ دعاؤں اور اعمالِ صالحہ کو قبول کرتا ہے اور بلاؤں اور آفات سے محفوظ رکھتا ہے، ان کا بدلہ دیتا ہے.چوتھا احسان اُس کا مالکیت یوم الدین ہے جس کے تحت وہ اپنے خاص فضل سے نوازتا ہے جس طرح چاہے اور جتنا چاہے عطا فرماتا ہے.اعمال کو پھل لگاتا ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کے فضل سے لگتے ہیں.(ماخوذ از ایام الصلح روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 248-251) تو یہ چار احسان ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائے ہیں جن کا مختصر ذکر میں نے کیا ہے.پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ رَبّ الْعَلَمِينَ میں یہ اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر
خطبات مسرور جلد دہم 89 خطبه جمعه فرموده مورخہ 10 فروری 2012ء گمراہی کے بعد ہدایت کا دور لے کر آتا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ: اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے قول رَبِّ الْعَلَمِينَ میں اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ وہ ہر چیز کا خالق ہے اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اسی کی طرف سے ہے اور اس زمین پر جو بھی ہدایت یافتہ جماعتیں یا گمراہ اور خطا کارگروہ پائے جاتے ہیں وہ سب عالمین میں شامل ہیں.کبھی گمراہی ، کفر فسق اور اعتدال کو ترک کرنے کا ( عالم ) بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ زمین ظلم و جور سے بھر جاتی ہے اور لوگ - خدائے ذوالجلال کے راستوں کو چھوڑ دیتے ہیں.نہ وہ عبودیت کی حقیقت کو سمجھتے ہیں اور نہ ربوبیت کا حق ادا کرتے ہیں.“ ( نہ بندگی کا حق اداء کی حقیقت اُن کے سامنے ہوتی ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کا حق ادا کیا جاتا ہے ) فرمایا کہ زمانہ ایک تاریک رات کی طرح ہو جاتا ہے اور دین اس مصیبت کے نیچے روندا جاتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ ایک اور عالم لے آتا ہے تب یہ زمین ایک دوسری زمین سے بدل دی جاتی ہے اور ایک نئی تقدیر آسمان سے نازل ہوتی ہے اور لوگوں کو عارف شنا سا دل اور خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لئے ناطق زبانیں عطا ہوتی ہیں.“ (بولنے والی زبانیں عطا کی جاتی ہیں ).” پس وہ اپنے نفوس کو خدا تعالیٰ کے حضور ایک پامال راستہ کی طرح بنا لیتے ہیں.اور خوف اور امید کے ساتھ اس کی طرف آتے ہیں.ایسی نگاہ کے ساتھ جو حیاء کی وجہ سے بیچی ہوتی ہیں اور ایسے چہروں کے ساتھ جو قبلہ حاجات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور بندگی میں ایسی ہمت کے ساتھ جو بلندی کی چوٹی کو دستک دے رہی ہوتی ہے.“ (اردو تر جمه عربی عبارت از کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 131 132 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد 1 صفحہ 93،92) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہاں ذکر کیا ہے کہ ایک اور عالم لے آتا ہے تب یہ زمین ایک دوسری زمین سے بدل دی جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام بھی ہوا تھا.کشفی رنگ میں آپ نے دیکھا کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے ایک نئی زمین اور نیا آسمان پیدا کیا ہے اور پھر میں نے کہا کہ آؤ اب انسان کو پیدا کریں.اس پر اُس زمانے میں مولویوں نے بڑا شور مچایا کہ دیکھو خدائی کا دعویٰ کر دیا ہے.تو آپ فرماتے ہیں کہ یہ خدائی کا دعوی نہیں ہے.مطلب یہ تھا کہ خدا تعالیٰ میرے ہاتھ پر ایک ایسی تبدیلی پیدا کرے گا کہ گویا آسمان اور زمین نئے ہو جائیں گے اور حقیقی انسان پیدا ہوں گے.“ (ماخوذ از چشمه مسیحی روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 376،375 حاشیہ ) وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کرنے والے ہیں.عبودیت کا حق ادا کرنے والے ہیں اور
خطبات مسر در جلد دہم 90 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 فروری 2012ء ربوبیت کی پہچان کرنے والے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ: ایسی نگاہ کے ساتھ جو حیا کی وجہ سے نیچی ہوتی ہیں اور ایسے چہروں کے ساتھ جو قبلہ حاجات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور بندگی میں ایسی ہمت کے ساتھ جو بلندی کی چوٹی کو دستک دے رہی ہوتی ہے.“ (انسان کی جو بندگی ہے، اُس میں لگ جاتے ہیں، اُس کا حق اس طرح ادا کرتے ہیں جو انتہائی درجے کا حق ہے.ایسے وقتوں میں اُن لوگوں کی سخت ضرورت ہوتی ہے جب معاملہ گمراہی کی انتہا تک پہنچ جاتا ہے اور حالت کے بدل جانے سے لوگ درندوں اور چوپایوں کی طرح ہو جاتے ہیں تو اُس وقت رحمت الہی اور عنایت از لی تقاضا کرتی ہے کہ آسمان میں ایسا وجود پیدا کیا جائے جو تاریکی کو دور کرے، اور ابلیس نے جو عمارتیں تعمیر کی ہیں اور خیمے لگائے ہیں انہیں منہدم کر دے.تب خدائے رحمان کی طرف سے ایک امام نازل ہوتا ہے تا کہ وہ شیطانی لشکروں کا مقابلہ کرے.“ (جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا تھا، آپ نے کشف میں دیکھا تھا) فرمایا اور یہ دونوں رحمانی اور شیطانی لشکر برسر پیکار رہتے ہیں.“ (ایک رحمانی لشکر ہوتا ہے، ایک شیطانی لشکر ہوتا ہے، آپس میں اُن کی جنگ جاری ہو جاتی ہے ) اور ان کو وہی دیکھتا ہے جس کو دو آنکھیں عطا کی گئی ہوں.“ ( یعنی کہ آنکھیں نظر سے دیکھنے والا بصیرت کی نظر رکھنے والا دیکھ سکتا ہے، خدا تعالیٰ کی صحیح بندگی ادا کرنے والا دیکھ سکتا ہے اُس کی ربوبیت کو پہچاننے والا دیکھ سکتا ہے ) یہاں تک کہ باطل کی گردنوں میں طوق پڑ جاتے ہیں اور امور باطلہ کی سراب نما دلیلیں معدوم ہو جاتی ہیں.پس وہ امام دشمنوں پر ہمیشہ غالب اور ہدایت یافتہ گروہ کا مددگار رہتا ہے.ہدایت کے علم بلند کرتا ہے اور پر ہیز گاری کے اوقات و اجتماعات کو زندہ کرنے والا ہوتا ہے.“ ( پر ہیز گاری، نیکی ، تقویٰ کی باتیں، زیادہ وقت اُس پر صرف ہوتے ہیں.ایسے اکٹھ ہوتے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کے ذکر ہورہے ہوں ، عبادت کی باتیں ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ کی صفات کا ذکر ہوتا ہے.) ” یہاں تک کہ لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ اس نے کفر کے سرغنوں کو قید کر دیا ہے.اور ان کی مشکیں کس دی ہیں اور اس نے جھوٹ اور فریب کے درندوں کو گرفتار کر لیا ہے اور ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں اور اس نے بدعات کی عمارتوں کو گرا دیا ہے اور ان کے گنبدوں کو توڑ پھوڑ دیا ہے اور اُس نے ایمان کے کلے کو اکٹھا کر دیا ہے اور اُس کے اسباب کو منظم کر دیا ہے اُس نے آسمانی سلطنت کو مضبوط کیا ہے اور تمام رخنوں کو بند کر دیا ہے.“ (اردو ترجمه عربی عبارت از اعجاز مسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 132-134 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد 1 صفحہ 93، 94) پس آج جو نئی زمین اور نیا آسمان جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وجہ سے پیدا ہوا ،جس
خطبات مسرور جلد دہم 91 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 فروری 2012ء سے فائدہ ہم بھی اُٹھا رہے ہیں، ہمیں خاص طور پر اس طرف توجہ کرنی چاہئے کہ تمام بدعات سے اپنے آپ کو بچانا ہے اور ایمانوں کو مضبوط کرنا ہے.اللہ تعالیٰ کی عبودیت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی ہے.اُس کی ربوبیت کی صحیح پہچان کرنی ہے.تبھی ہم اس نئی زمین اور نئے آسمان سے فیضیاب ہو سکتے ہیں.پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ جب بندہ اپنے رب کو حقیقی رنگ میں پہچان لیتا ہے، اُس کی عبادت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے لگتا ہے تو پھر وہ رب العلمین کا وہ ادراک پاتا ہے جوا سے دوسروں سے ممتاز کر دیتا ہے.اس کی تفصیل میں آپ فرماتے ہیں کہ : اللہ پاک ذات نے اپنے قول رَبِّ الْعَلَمِينَ میں یہ اشارہ فرمایا ہے کہ وہ ہر چیز کا خالق ہے اور آسمانوں اور زمینوں میں اُسی کی حمد ہوتی ہے اور پھر حمد کرنے والے ہمیشہ اُس کی حمد میں لگے رہتے ہیں اور اپنی یاد خدا میں محور ہتے ہیں اور کوئی چیز ایسی نہیں مگر ہر وقت اُس کی تسبیح و تحمید کرتی رہتی ہے.اور جب اُس کا کوئی بندہ اپنی خواہشات کا چولہ اُتار پھینکتا ہے، اپنے جذبات سے الگ ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ اور اُس کی راہوں اور اُس کی عبادات میں فنا ہو جاتا ہے.اپنے اس رب کو پہچان لیتا ہے جس نے اپنی عنایات سے اُس کی پرورش کی ، وہ اپنی تمام اوقات میں اُس کی حمد کرتا ہے اور اپنے پورے دل بلکہ اپنے ( وجود کے ) تمام ذرات سے اُس سے محبت کرتا ہے تو اس وقت وہ شخص عالمین میں سے ایک عالم بن جاتا ہے.“ (اردو تر جمه عربی عبارت از اعجاز مسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحه 137 138 حوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد 1 صفحہ 96) پھر آپ نے اس کی مثالیں دی ہیں اور فرمایا کہ عالمین سے ایک عالم وہ ہے جس میں..66 حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے.اور پھر آپ نے اپنے زمانے کی مثال بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے طالبوں پر رحم کر کے ایک اور گروہ پیدا کیا ہے جو مسیح موعود اور مہدی معہود کا گروہ ہے.پس جب ہم رب العالمین کے اس بھیجے ہوئے کے ساتھ منسلک ہو گئے ہیں تو ہمیں اس عالم کا حصہ بننے کے لئے اپنی ترجیحات خالصہ اللہ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے تا کہ ہم رب العالمین کے انعامات سے فیض پانے والے بن سکیں پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ عالمین میں کیا کچھ شامل ہے؟ عالمین کی تعریف کیا ہے؟ آپ فرماتے ہیں کہ : عالمین سے مراد مخلوق کو پیدا کرنے والے خدا کے سوا ہر ہستی ہے خواہ وہ عالم ارواح سے ہو یا عالم اجسام سے (روحیں ہیں یا جسم ہے، جو بھی ہے اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز جو ہے وہ عالمین میں شامل
خطبات مسرور جلد دہم 92 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 فروری 2012ء ہے خواہ وہ زمینی مخلوق ہے یا سورج اور چاند اور اُن کے علاوہ دیگر اجرام کی مانند کوئی چیز ہو.پس تمام عالم جناب باری کی ربوبیت کے تحت داخل ہیں.“ (اردو ترجمه عربی عبارت از اعجاز مسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 139 ، 140 حوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد 1 صفحہ 97) پس جب سب کچھ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے تحت ہے اور ہم جانتے بھی ہیں کہ خدا تعالیٰ ہی ہے جو سب عالموں کا پرورش کرنے والا ہے لیکن پھر بھی ایسے مواقع آ جاتے ہیں جب بعض اوقات بندہ بندوں کو اپنا رب اور رازق سمجھنے لگ جاتا ہے.معاشرے کے دباؤ میں آکر دنیا داری غالب آجاتی ہے، ایسے حالات میں ایک مومن کو فوراً اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور کوشش کرنی چاہئے اور جائزہ لیتے ہوئے تو بہ اور استغفار سے کام لیتے ہوئے رب العالمین کی طرف لوٹنا چاہئے تا کہ جس نئی زمین میں ہم آباد ہوئے ہیں اور جس نئے آسمان کی چھت ہمارے اوپر ہے اُس سے ہم فیض پاسکیں.پھر اس رب العلمین کی وضاحت میں اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ ظاہر ضرورتوں کے ساتھ روحانی ضرورتیں بھی اللہ تعالیٰ پوری فرماتا ہے، آپ فرماتے ہیں کہ : ”خدا تمام دنیا کا خدا ہے اور جس طرح اُس نے ظاہری جسمانی ضروریات اور تربیت کے واسطے مواد اور سامان تمام قسم کی مخلوق کے واسطے بلا کسی امتیاز کے مشترکہ طور پر پیدا کئے ہیں اور ہمارے اصول کے رو سے وہ رب العالمین ہے اور اُس نے اناج، ہوا، پانی، روشنی وغیرہ سامان تمام مخلوق کے واسطے بنائے ہیں اسی طرح سے وہ ہر ایک زمانے میں ہر ایک قوم کی اصلاح کے واسطے وقتا فوقتا مصلح بھیجتا رہا ہے، جیسا کہ قرآن شریف میں ہے وَ إِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيرٌ “ پس جو بھیجتارہا ہے تو اس زمانے میں بھی بھیجا.66 ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 619 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) پھر رب العالمین کے اس پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کا فیض کسی خاص قوم سے خاص نہیں ہے آپ فرماتے ہیں کہ : خدا نے قرآن شریف کو پہلے اسی آیت سے شروع کیا ہے جو سورۃ فاتحہ میں ہے کہ الحمد لله رَبّ العلمين - یعنی تمام کامل اور پاک صفات خدا سے خاص ہیں جو تمام عالموں کا رب ہے عالم کے لفظ میں تمام مختلف قومیں اور مختلف زمانے اور مختلف ملک داخل ہیں.اور اس آیت سے جو قرآن شریف شروع کیا گیا یہ درحقیقت اُن قوموں کا رد ہے جو خدا تعالیٰ کی عام ربوبیت اور فیض کو اپنی ہی قوم تک محد و در کھتے
93 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 فروری 2012ء خطبات مسر در جلد دہم ہیں اور دوسری قوموں کو ایسا خیال کرتے ہیں کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کے بندے ہی نہیں ہیں اور گو یا خدا نے اُن کو پیدا کر کے پھر ردی کی طرح پھینک دیا ہے.یا اُن کو بھول گیا ہے.یا ( نَعُوذُ بِاللہ ) وہ اُس کے پیدا پیغام صلح روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 440) کردہ ہی نہیں ہیں.پس جس طرح رب العالمین مادی سامان انسان کی پرورش کا مہیا فرماتا ہے، روحانی سامان بھی مہیا فرماتا ہے.یہ اُس کی ربوبیت ہے.جو اس سے انکار کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت سے انکار کرتا ہے.پس وہ لوگ جو اس زمانے میں سورۃ فاتحہ بھی پڑھتے ہیں اور پھر مسیح موعود کا انکار کر رہے ہیں، انہیں بھی سوچنا چاہئے اور ہمیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ بیعت کرنے کے بعد جیسا کہ میں نے کہا یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہم اپنی روحانیت اور تقویٰ میں ترقی کرنے والے ہیں.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : لفظ حمد میں ایک اور اشارہ بھی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے (میرے) بندو! میری صفات سے مجھے شناخت کرو اور میرے کمالات سے مجھے پہچانو.میں ناقص ہستیوں کی مانند نہیں بلکہ میری حمد کا مقام ) انتہائی مبالغہ سے حمد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے.اور تم آسمانوں اور زمینوں میں کوئی قابل تعریف صفات نہیں پاؤ گے جو تمہیں میری ذات میں نہ مل سکیں.اور اگر تم میری قابل حمد صفات کو شمار کرنا چاہو تو تم ہرگز انہیں نہیں گن سکو گے.اگر چہ تم کتنا ہی جان تو ڑ کر سوچو اور اپنے کام میں مستغرق ہونے والوں کی طرح ان صفات کے بارہ میں کتنی ہی تکلیف اٹھاؤ.خوب سوچو کیا تمہیں کوئی ایسی حمد نظر آتی ہے جو میری ذات میں نہ پائی جاتی ہو.کیا تمہیں ایسے کمال کا سراغ ملتا ہے جو مجھ سے اور میری بارگاہ سے بعید ہو اور اگر تم ایسا گمان کرتے ہو تو تم نے مجھے پہچانا ہی نہیں اور تم اندھوں میں سے ہو.بلکہ یقیناً میں (اللہ تعالیٰ ) اپنی ستودہ صفات اور اپنے کمالات سے پہچانا جاتا ہوں ( یعنی وہ صفات جن کی تعریف کی جاتی ہے اور اپنے کمالات جو ہیں اُن سے پہچانا جاتا ہوں) اور میری موسلا دھار بارش کا پتہ میری برکات کے بادلوں سے ہوتا ہے.پس جن لوگوں نے مجھے تمام صفات کا ملہ اور تمام کمالات کا جامع یقین کیا اور انہوں نے جہاں جو کمال بھی دیکھا اور اپنے خیال کی انتہائی پرواز تک انہیں جو جلال بھی نظر آیا انہوں نے اسے میری طرف ہی نسبت دی اور ہر عظمت جو ان کی عقلوں اور نظروں میں نمایاں ہوئی اور ہر قدرت جوان کے افکار کے آئینہ میں انہیں دکھائی دی ( ان کی فکروں کی سوچ جہاں تک تھی ، اُس میں دکھائی دی)‘ انہوں نے اسے میری طرف ہی منسوب کیا.پس یہ ایسے لوگ ہیں جو میری معرفت کی راہوں پر گامزن ہیں.
خطبات مسرور جلد دہم 94 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 فروری 2012ء حق ان کے ساتھ ہے اور وہ کامیاب ہونے والے ہیں.پس اللہ تعالیٰ تمہیں عافیت سے رکھے.اٹھو خدائے ذوالجلال کی صفات کی تلاش میں لگ جاؤ اور دانش مندوں اور غور وفکر کرنے والوں کی طرح ان میں سوچ و بچار اور امعان نظر سے کام لو.( یعنی گہری نظر اور سوچ سے کام لو اچھی طرح دیکھ بھال کرو اور کمال کے ہر پہلو پر گہری نظر ڈالو.اور اس عالم کے ظاہر میں اور اس کے باطن میں اس طرح تلاش کرو جیسے ایک حریص انسان بڑی رغبت سے اپنی خواہشات کی تلاش میں لگا رہتا ہے.پس جب تم اس کے کمال تام کو پہنچ جاؤ اور اس کی خوشبو پا لو تو گویا تم نے اسی کو پالیا اور یہ ایسا راز ہے جو صرف ہدایت کے طالبوں پر ہی کھلتا ہے.پس یہ تمہارا رب اور تمہارا آتا ہے جو خود کامل ہے اور تمام صفات کا ملہ اور محامد کا جامع ہے.اس کو وہی شخص پہچان سکتا ہے جو سورۃ فاتحہ میں تدبر کرے اور دردمند دل کے ساتھ خدا تعالیٰ سے مدد مانگے.وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے عہد باندھتے وقت اپنی نیت کو خالص کر لیتے ہیں اور اس سے عہد بیعت باندھتے ہیں اور اپنے نفوس کو ہر قسم کے بغض اور کینہ سے پاک کرتے ہیں ان پر اس سورۃ کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور وہ فوراً صاحب بصیرت بن جاتے ہیں.“ (اردو ترجمہ عربی عبارت از کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 107 ، 108 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد 1 صفحہ 77-79) پس جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آکر یہ وہ مقام ہے جس کی ہمیں ہمیشہ تلاش کرنی چاہئے اور اُس تک پہنچنا چاہئے.سورۃ فاتحہ کا تدبر بھی اور مکمل قرآن کریم پر تدبر کے رستے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رہنما اصولوں کے پیچھے چلنے سے ہی ہمیں مل سکتے ہیں.اللہ کرے کہ ہم آپ کی خواہش اور اشاعت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی صفات کا ادراک حاصل کر کے اپنی زندگیوں کو اُس کے احکامات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنے والے بن سکیں.آج میں نمازوں کے بعد دو جنازے بھی پڑھاؤں گا جو غائب جنازے ہیں.پہلا جنازہ ہے مکرمه فتح بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم مولا نا احمد خان نسیم صاحب مرحوم کا ہے جو ربوہ میں ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد، مقامی تھے.عرصہ ہوا مکرم احمد خان نسیم صاحب تو فوت ہو گئے ، اُن کی اہلیہ ہیں ان کی 4 فروری کو وفات ہوئی ہے، انَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.بڑی نیک، دعا گو، نمازوں کی پابند اور تہجد گزار تقویٰ شعار اور وفا شعار خاتون تھیں.قرآن کریم کی تلاوت بڑی باقاعدگی سے کرنے والی ، ان کے میاں جیسا کہ میں نے بتایا، مولانا احمد خان نسیم صاحب ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد تھے مقامی تھے، اُس میں عموماً دیہاتی جماعتیں یا بعض ایسے ضلعے شامل تھے ، جن میں زیادہ دیہاتی جماعتیں تھیں اور ضلع جھنگ اور سرگودھا کا ضلع
خطبات مسرور جلد دہم 95 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 فروری 2012ء ربوہ کے قریب ہونے کی وجہ سے احمدی اکثر ربوہ آجایا کرتے تھے اور حضرت مولوی احمد خان نسیم صاحب کا گھر اُن کو اپنا گھر ہی لگتا تھا.تو اُن کے بیٹے نے لکھا کہ بعض دفعہ مختلف جگہوں سے پچاس پچاس مردوزن کا قافلہ سفر کر کے پہنچ جاتا تھا اور بڑی خندہ پیشانی سے یہ اُنکی مہمان نوازی کیا کرتی تھیں، یہ لوگ بغیر اطلاع کے فورا آتے ، ہمارے معاشرے میں پتہ ہی ہے دیہاتی لوگ خاص طور پر اس طرح ہی کرتے ہیں، تو فوراً اُن کے لئے گرم گرم کھانا تیار کیا جاتا تھا.کبھی ان کے چہرے پر شکن نہیں آئی کہ یہ لوگ کس طرح آگئے اور پھر یہ کہ ان لوگوں سے ایک تعلق قائم ہو گیا تھا تو انہوں نے اس تعلق کو مولوی صاحب کی وفات کے بعد بھی جاری رکھا اور لوگ اُسی طرح ان کے گھر آتے رہے.غرباء کا بہت خیال رکھتی تھیں، کبھی اپنے بچوں سے کچھ نہیں لیا لیکن اُن کو یہ تلقین ضرور کیا کرتی تھیں کہ غریبوں کو دو.اپنی جو رقم پاس ہوتی ، غریبوں، فقیروں اور یتیموں کو تقسیم کر دیا کرتی تھیں، کہتے ہیں ان کے گھر میں غریبوں کا تانتا بندھا رہتا تھا، دکھ سکھ بانٹنے والی بھی ان کے پاس آجایا کرتی تھیں اور سب سے بڑی خوبی یہ کہ خلافت سے انتہائی وفا کا تعلق تھا، ہمیشہ بچوں کو بھی اس کی تلقین کی، ان کے دلوں میں محبت پیدا کروائی اور اس کے لئے کوشش کرتی رہتی تھیں.موصیہ تھیں، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ، درجات بلند فرمائے.ان کے پیچھے تین بیٹیاں اور تین بیٹے یادگار ہیں.جن میں سے ایک بیٹے ان کے پاس تھے ، ان کے دو بیٹے ،مکرم ناصر پروازی صاحب اور نیم مہدی صاحب باہر ہیں، جو امریکہ میں ہمارے مبلغ ہیں.پروازی صاحب بھی جنازے پر نہیں جاسکے اور نسیم مہدی صاحب بھی بعض وجہ سے نہیں جا سکے.اللہ تعالیٰ ان کو سب کو صبر اور حوصلہ دے.مہدی صاحب ہمارے مبلغ سلسلہ ہیں اور یقیناً اُن کے لئے اُن کی والدہ کی دعائیں میدان میں بڑی کام آتی رہیں.اللہ تعالیٰ کرے کہ آئندہ بھی یہ دعاؤں کے حامل بنتے رہیں.دوسرا جنازہ مکرمہ حاکم بی بی صاحبہ کا ہے جو مکرم مولوی غلام رسول صاحب معلم اصلاح و ارشاد پاکستان کی اہلیہ تھیں.9 فروری کو تقریباً سو سال کی عمر میں اُن کی وفات ہوئی ہے، إِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ یہ بھی بڑی نیک خاتون تھیں، دعا گو اور متوکل، انتہائی مالی تنگی کے حالات میں بھی بڑی وفا کے ساتھ اپنے خاوند کے ساتھ رہی ہیں.بڑی خود دار تھیں کبھی کسی حالت میں بھی ، مالی تنگی کی حالت میں بھی کسی آگے ہاتھ نہیں پھیلائے.خوش لباس تھیں، کوشش کرتی تھیں کہ کم میں زیادہ سے زیادہ اچھا گزارہ کریں.اٹھائیں سال تک رسول نگر میں رہی ہیں جو سینٹر وہاں کی جماعتوں کا تھا اور مرکزی مہمان بھی وہاں جایا کرتے تھے.دوسرے مہمان بھی آتے تھے ، اور ان کا گھر مہمان خانے کے طور پر استعمال ہوتا تھا بڑی
خطبات مسرور جلد دہم 96 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 فروری 2012ء خوش دلی سے اُن کی مہمان نوازی کیا کرتی تھیں.1974ء کے ہنگامے میں بچے اور عورتیں گھر میں تھے، کوئی مرد نہیں تھا تو یہ ساری ساری رات اپنی گھر کی شاہ نشین پر بیٹھ کر گھر میں جو ہتھیار موجود تھا اُس کے ساتھ پہرہ دیتی تھیں اور پھر جماعت کی غیرت، دین کی غیرت کا جذ بہ بھی ان میں بڑا تھا.اسی فسادوں میں لوگوں نے مشورہ دیا کہ ان کے گھر کے باہر احمد یہ لائبریری لکھا ہوا ہے اُس بینر کو ، بورڈ کو اتار دیں جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات بھی تحریر تھے تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ اسی طرح لگا رہے گا، ہم کسی سے ڈر کر اپنے ہاتھوں سے اُسے نہیں اُتاریں گے.اسی طرح لجنہ کی صدر اور سیکرٹری لجنہ کے طور پر انہوں نے 1947 ء سے 75 ء تک توفیق پائی.غیر احمدی بچوں اور احمدی بچوں کو قرآنِ کریم پڑھایا کرتی تھیں.نظامِ جماعت، نظام خلافت سے وابستہ رہنے کی خاص طور پر بہت تلقین کرتی تھیں.ان کے تین بیٹے ، اور دو بیٹیاں ہیں.اور ایک بیٹے ان کے ہمارے واقف زندگی مبارک احمد ظفر صاحب ہیں جو یہاں لندن میں ایڈیشنل وکیل المال ہیں اور دوسرے مبشر احمد ظفر صاحب بھی واقف زندگی ہیں انہوں نے سروس کے بعد وقف کیا ہے، اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر اور حوصلہ دے اور مرحومہ کے درجات بلند فرمائے.ابھی جیسا کہ میں نے کہا کہ نمازوں کے بعد ان کا جنازہ ادا کیا جائے گا.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 2 مارچ تا 8 مارچ 2012 ، جلد 19 شماره 9 صفحہ 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد دہم 97 7 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 فروری 2012ء خطبه جمع سید نا امیرالمومنین حضرت رزا مسرور احم خلیفہ امسح الامس ایدہ اللہ تعلی بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 17 فروری 2012 ء بمطابق 17 تبلیغ 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - مورڈن - لندن تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: زندہ مذہب وہی ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت نمائی کے جلوے ہمیشہ نظر آتے رہیں.اور آج زندہ مذہب ہونے کا صرف دعوی ہی نہیں بلکہ اس کا عملی ثبوت صرف اور صرف اسلام ہی دیتا ہے.اسلام کا خداوہ خدا ہے اب بھی وہ جس کو بھی چاہے کلیم بنا سکتا ہے.اُس سے اب بھی بولتا ہے، دعاؤں کو سنتا ہے اور جواب دیتا ہے اور اپنی قدرت کے جلوے دکھاتا ہے.اور اس زمانے میں اپنی قدرت کے اظہار کے لئے اپنے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا جس کے اس زمانے میں پورا ہونے کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی.پس مسلمانوں میں بھی آج جماعت احمدیہ ہی وہ فرقہ ہے جو آج بھی اللہ تعالیٰ کو اپنی تمام تر صفات کے ساتھ قادر و مقتدر یقین کرتا ہے.اس یقین پر قائم ہے کہ خدا تعالیٰ آج بھی وہی قدرتیں رکھتا ہے، وہی قدرتیں دکھاتا ہے جیسا کہ ازل سے دکھاتا چلا آ رہا ہے.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو خاتم الانبیاء ہیں، آپ کی بعثت کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ مقدر کر دیا ہے کہ اب تمام قسم کے انعامات کے حصول کا ذریعہ اور اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا راستہ حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی مل سکتا ہے اور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام، مسیح موعود و مہدی معہود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل عاشق صادق ہیں، جن کو خدا تعالیٰ نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے اس زمانے میں بھیجا ہے.اور پھر آپ سے تکمیل تبلیغ ہدایت کا بھی وعدہ فرمایا ہے.آپ علیہ السلام اس زندہ خدا کے بارے میں اپنی ایک تحریر میں فرماتے ہیں :
خطبات مسرور جلد دہم 98 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 فروری 2012ء اس قادر اور نیچے اور کامل خدا کو ہماری روح اور ہمارا ذرہ ذرہ وجود کا سجدہ کرتا ہے.جس کے ہاتھ سے ہر ایک روح اور ہر ایک ذرہ مخلوقات کا مع اپنی تمام قومی کے ظہور پذیر ہوا.اور جس کے وجود سے ہر ایک وجود قائم ہے.اور کوئی چیز نہ اس کے علم سے باہر ہے اور نہ اُس کے تصرف سے.نہ اُس کے خلق سے.اور ہزاروں درود اور سلام اور رحمتیں اور برکتیں اس پاک نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوں جس کے ذریعہ سے ہم نے وہ زندہ خدا پایا.جو آپ کلام کر کے اپنی ہستی کا آپ ہمیں نشان دیتا ہے اور آپ فوق العادت نشان دکھلا کر اپنی قدیم اور کامل طاقتوں اور قوتوں کا ہم کو چمکنے والا چہرہ دکھاتا ہے.سو ہم نے ایسے رسول کو پایا جس نے خدا کو ہمیں دکھلایا.اور ایسے خدا کو پایا جس نے اپنی کامل طاقت سے ہر ایک چیز کو بنایا.اس کی قدرت کیا ہی عظمت اپنے اندر رکھتی ہے جس کے بغیر کسی چیز نے نقش وجود نہیں پکڑا.اور جس کے سہارے کے بغیر کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی.وہ ہمارا سچا خدا بیشمار برکتوں والا ہے.اور بیشمار قدرتوں والا اور بیشمار حسن والا احسان والا اُس کے سوا کوئی اور خدا نہیں.(نسیم دعوت روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 363) پس یہ ہمارا زندہ خدا ہے جو ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام 66 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبی اور زندہ نبی اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبی صرف ایک مرد کو جانتے ہیں.یعنی وہی نبیوں کا سردار، رسولوں کا فخر ، تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمدمصطفی و احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کے زیر سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی.“ (سراج منیر روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 82) پھر آپ تمام دنیا کو دعوت اسلام دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ”اے تمام وہ لوگو جوزمین پر رہتے ہو! اور اے تمام وہ انسانی روحو جو مشرق و مغرب میں آباد ہو! میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذ ہب صرف اسلام ہے اور سچا خدا بھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے.اور ہمیشہ کی رُوحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کی رُوحانی زندگی اور پاک جلال کا ہمیں یہ ثبوت ملا ہے کہ اس کی پیروی اور محبت سے ہم رُوح القدس اور خدا کے مکالمہ اور آسمانی نشانوں کے انعام پاتے ہیں.تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحه 141) حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اسلام کے ایک فتح مند جرنیل کی حیثیت سے اسلام کے
خطبات مسرور جلد دہم 99 خطبه جمعه فرموده مورخہ 17 فروری 2012ء مخالفین کا منہ بند کروایا.نہ صرف براہین و دلائل سے بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاص تائیدات اور نشان دکھا کر بھی وہ باتیں دنیا کے سامنے رکھیں ، وہ پیشگوئیاں فرمائیں جو سوائے عالم الغیب خدا کے کوئی اور نہیں جان سکتا.اور پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ پیشگوئیاں جو خدا تعالیٰ سے خبر پا کر آپ نے کی تھیں، اللہ تعالیٰ کے کس قدر عظیم تائیدی نشانات کے ساتھ پوری ہوئیں.آپ کو اسلام کا کس قدر درد تھا اور اسلام کے مخالفین اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو گرانے والوں کو کس طرح آپ مخاطب کر کے سمجھاتے تھے اور پھر خدا کے حضور کس تڑپ سے ان مخالفین کا منہ بند کرنے کے لئے دعائیں کرتے تھے.اس کا اظہار آپ کی سیرت میں جو صحابہ نے لکھی ہے، اس سے بھی ملتا ہے.آپ کی کتب اور متفرق لٹریچر میں بھی اس کا خوب خوب اظہار ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کے حضور مخالفین کا منہ بند کرنے کے لئے تائیدی نشانوں کے لئے بھی آپ کی بیشمار دعائیں ملتی ہیں.اپنی بڑائی کے لئے نہیں بلکہ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برتری ثابت کرنے کے لئے آپ میں ایک تڑپ تھی ، ایک لگن تھی جس کی وجہ سے آپ دعائیں کیا کرتے تھے.انہی نشانوں میں سے ایک نشان یہ ہے کہ آپ کو آپ کی دعاؤں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرماتے ہوئے فرمایا کہ ہشیار پور جاؤ اور وہاں چلہ کشی کرو.(ماخوذ از تذکره صفحه 106 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ ) اس چلہ کشی کے دوران ایک نشان آپ کو اللہ تعالیٰ نے دیا جو ایک موعود بیٹے کا تھا جس کو ہر احمدی پیشگوئی مصلح موعود کے نام سے جانتا ہے.یہ بہت عظیم پیشگوئی ہے کہ ایک معین عرصے میں بیٹے کا پیدا ہونا اور اُس میں وہ خصوصیات پیدا ہونا ، جن کا پیشگوئی میں ذکر ہے.اُس کا لمبی عمر پانا.یہ جو ساری چیزیں ہیں ایک عظیم پیشگوئی پر دلالت کرتی ہیں اور بعد میں آنے والوں کے لئے تو یہ پیشگوئی یقیناً از دیادِ ایمان کا باعث ہے جنہوں نے حرف بہ حرف اس پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھا ہے.اور اُس موعود بیٹے کے مختلف نوع کے کارنامے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پیشگوئی میں بیان فرمائے تھے وہ مصلح موعود کی ذات میں پورا ہوتے دیکھے ہیں.بہر حال اس وقت میں اس پیشگوئی کے الفاظ پیش کرتا ہوں.کئی دفعہ ہم سنتے ہیں اور آئندہ جلسے جب ہوں گے 20 فروری کی مناسبت سے آج کل ہوں گے تو اُس میں بھی آپ سنیں گے جو مجموعہ اشتہارات میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ: بالہام اللہ تعالیٰ و اعلامہ عز وجل خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہر یک چیز پر قادر ہے جلشانه و عزّ اسْمه مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں
100 خطبات مسرور جلد دہم خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 فروری 2012ء اُسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا.سو میں نے تیری تضرعات کو سنا، تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپا یہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو ( جس کا میں نے ذکر کیا، ہشیار پور اور لدھیانے کا سفر تھا جو آپ نے چلہ کشی کا کیا) تیرے سفر کو تیرے لئے مبارک کر دیا.سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے.فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے.اے مظفر ! تجھ پر سلام.خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دینِ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں سو کرتا ہوں ( یعنی خدا تعالیٰ قادر ہے، جو چاہتا ہے کرتا ہے اور تاوہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے.سو مجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت و نسل ہوگا.خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے.اس کا نام عنمو ائیل اور بشیر بھی ہے اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے.وہ نوراللہ ہے،مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے پاک صاف کرے گا.وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت وغیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا.دوشنبہ ہے مبارک دوشنبه فرزند دلبند گرامی ارجمند مَظْهَرُ الْأَوَّلِ وَالْآخِرِ، مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاءِ كَانَ اللهَ نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اُس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اُس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.وَكَانَ أَمْرًا مَقْضِيًّا “ مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 95 96 اشتہار نمبر 33 اشتہار 20 فروری 1886ء مطبوعہ ربوہ)
خطبات مسرور جلد دہم 101 خطبه جمعه فرموده مورخہ 17 فروری 2012ء مجموعہ اشتہارات میں جلد اول میں یہ سارا لکھا ہوا ہے.اس پیشگوئی کے مصداق تو جیسا کہ میں نے کہا یقیناً حضرت خلیفۃ اسیح الثانی تھے.اس کا آپ نے 1944ء میں خود بھی اعلان فرما یا جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا کہ آپ ہی مصلح موعود ہیں.اور اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی خوشی میں یوم مصلح موعود کے جلسے بھی منعقد کئے جاتے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا، آئندہ چند دنوں میں یہ جلسے مختلف جماعتوں میں ہوں گے.اس لئے کہ جماعت کے ہر فرد کو پتہ چلے کہ یہ ایک عظیم پیشگوئی تھی جو بڑی شان سے پوری ہوئی.یہاں ضمناً میں اُن لوگوں کے لئے بھی جو دنیا کے ماحول کے زیر اثر ، جن کا دینی علم بھی ناکافی ہے، کئی دفعہ میں بیان پہلے بھی کر چکا ہوں لیکن پھر بھی سوال کرتے رہتے ہیں، کہ جو سالگرہ منانے کی خواہش رکھتے ہیں وہ سالگرہ پر سوال کرتے ہیں ، کہ ہماری بھی سالگرہ منائی جائے.اور جیسا کہ میں نے کہا دنیا کے زیر اثر بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم مصلح موعود کا دن مناتے ہیں تو باقی خلفاء کے دن کیوں نہیں مناتے اور پھر سالگرہ کیوں نہیں مناتے؟ یعنی باقی خلفاء کی سالگرہ کی آڑ میں اپنی سالگرہ کی طرف جانا چاہتے ہیں.تو یہاں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد کا یوم ولادت نہیں منایا جاتا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی پیدائش تو 12 جنوری 1889ء کی ہے.اور یہ پیشگوئی جو عظیم الشان تھی آپ کی پیدائش سے تین سال پہلے کی ہے.اُس پیشگوئی کے پورا ہونے کا دن منایا جاتا ہے جو 20 فروری 1886ء کو کی گئی تھی اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے یہ پیشگوئی تھی اور یہ پیشگوئی اس لحاظ سے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے.اس وضاحت کے بعد پھر میں اب یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس پیشگوئی کے بہت سارے پہلو بیان ہوتے ہیں، لیکن اس وقت میں دو باتیں بیان کروں گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کس کو مصلح موعود قرار دیا اور خود مصلح موعود کی اپنی حالت ، اسلام کے بارے میں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اور مسلم امہ کے بارے میں اُن کی دلی کیفیت کیا تھی؟ کیونکہ وقت نہیں ہے کہ باقی جو اس پیشگوئی کے الفاظ ہیں اُن کو ہر ایک کو لیا جائے اس طرح تو تقریباً کوئی باون پوائنٹ بنتے ہیں.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا یہ دو باتیں بیان کروں گا.خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کو مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق قرار دیا، آپ یہی سمجھتے تھے.آپ کی اپنی جو کتاب ہے تریاق القلوب“ جو روحانی خزائن کی جلد 15 ہے، اس کے صفحہ 219 میں فرماتے ہیں کہ :.
خطبات مسرور جلد دہم 102 خطبه جمعه فرموده مورخہ 17 فروری 2012ء محمود جو میرا بڑا بیٹا ہے اس کے پیدا ہونے کے بارے میں اشتہار دہم جولا ئی 1888ء میں“ ( یعنی 10 جولائی 1888ء کا جو اشتہار ہے ) اور نیز اشتہار یکم دسمبر 1888ء میں جو سبز رنگ کے کاغذ پر چھاپا گیا تھا پیشگوئی کی گئی اور سبز رنگ کے اشتہار میں یہ بھی لکھا گیا کہ اس پیدا ہونے والے لڑکے کا نام محمود رکھا جائے گا اور یہ اشتہار محمود کے پیدا ہونے سے پہلے ہی لاکھوں انسانوں میں شائع کیا گیا.چنانچہ اب تک ہمارے مخالفوں کے گھروں میں صدہا یہ سبز رنگ اشتہار پڑے ہوئے ہوں گے.اور ایسا ہی دہم جولائی 1888ء کے اشتہار بھی ہر ایک کے گھر میں موجود ہوں گے.پھر جب کہ اس پیشگوئی کی شہرت بذریعہ اشتہارات کامل درجہ پر پہنچ چکی اور مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں میں سے کوئی بھی فرقہ باقی نہ رہا جو اس سے بے خبر ہو.تب خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے 12 جنوری 1889ء کو مطابق 9 جمادی الاوّل 1306ھ میں بروز شنبہ ( یعنی ہفتہ کے دن) محمود پیدا ہوا.اور اس کے پیدا ہونے کی میں نے اس اشتہار میں خبر دی ہے جس کے عنوان پر تحمیل تبلیغ موٹی قلم سے لکھا ہوا ہے جس میں بیعت کی دس شرائط مندرج ہیں.اور اس کے صفحہ 4 میں یہ الہام پسر موعود کی نسبت ہے اے فیر رُسل قُرب تو معلومم شد دیر آمده زراه دور آمده تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 219) کہ اے رسولوں کے فخر تیرا خدا کے نزدیک مقام قرب مجھے معلوم ہو گیا ہے.تو دیر سے آیا ہے اور دور کے راستے سے آیا ہے.پھر اپنی کتاب ”سراج منیر “ جو روحانی خزائن کی جلد 12 میں ہے اُس کے صفحہ 36 پر تحریر فرماتے ہیں کہ : پانچویں پیشگوئی میں نے اپنے لڑ کے محمود کی پیدائش کی نسبت کی تھی کہ وہ اب پیدا ہوگا اور اس کا نام محمود رکھا جائے گا.اور اس پیشگوئی کی اشاعت کے لئے سبز ورق کے اشتہار شائع کئے گئے تھے جو اب تک موجود ہیں اور ہزاروں آدمیوں میں تقسیم ہوئے تھے.چنانچہ وہ لڑکا پیشگوئی کی میعاد میں پیدا ہوا اور اب نویں سال میں ہے.“ پھر اپنی کتاب حقیقۃ الوحی جو روحانی خزائن کی بائیسویں جلد ہے اُس کے صفحہ 373 میں فرماتے ہیں کہ : (سراج منیر روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 36 ) ایسا ہی جب میرا لڑکا فوت ہو گیا ( یعنی کہ ان سے پہلے جو بیٹا فوت ہوا تھا) ” تو نادان
خطبات مسرور جلد دہم 103 خطبه جمعه فرموده مورخہ 17 فروری 2012ء مولویوں اور ان کے دوستوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں نے اس کے مرنے پر بہت خوشی ظاہر کی اور بار باران کو کہا گیا کہ 20 فروری 1886ء میں یہ بھی ایک پیشگوئی ہے کہ بعض لڑکے فوت بھی ہوں گے.پس ضرور تھا کہ کوئی لڑکا خوردسالی میں فوت ہو جاتا.تب بھی وہ لوگ اعتراض سے باز نہ آئے.تب خدا تعالیٰ نے ایک دوسرے لڑکے کی مجھے بشارت دی.چنانچہ میرے سبز اشتہار کے ساتویں صفحہ میں اس دوسرے لڑکے کے پیدا ہونے کے بارے میں یہ بشارت ہے.دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا دوسرا نام محمود ہے وہ اگر چہ اب تک جو یکم تمبر 1888ء ہے پیدا نہیں ہوا مگر خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہو گا.زمین آسمان ٹل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں.یہ ہے عبارت اشتہار سبز کے صفحہ سات کی“ (اُس کا حوالہ دے رہے ہیں حقیقۃ الوحی میں ) جس کے مطابق جنوری 1889ء میں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام محمود رکھا گیا اور اب تک بفضلہ تعالیٰ زندہ موجود ہے اور سترھویں سال میں ہے.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 374،373) پھر تریاق القلوب جو روحانی خزائن کی جلد 15 ہے اُس کے صفحہ 214 پر آپ فرماتے ہیں: ”میرا پہلا لڑکا جو زندہ موجود ہے جس کا نام محمود ہے ابھی وہ پیدا نہیں ہوا تھا جو مجھے کشفی طور پر اس کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی اور میں نے مسجد کی دیوار پر اس کا نام لکھا ہوا یہ پایا کہ محمود.تب میں نے اس پیشگوئی کے شائع کرنے کے لئے سبز رنگ کے ورقوں پر ایک اشتہار چھاپا.جس کی تاریخ اشاعت یکم دسمبر 1888 ء ہے اور یہ اشتہار مورخہ یکم دسمبر 1888ء ہزاروں آدمیوں میں شائع کیا گیا اور اب تک اس میں سے بہت سے اشتہارات میرے پاس موجود ہیں.( تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 214) پھر ضمیمہ انجام آتھم میں روحانی خزائن کی جلد 11 کے صفحہ 299 میں آپ فرماتے ہیں: پھر ایک اور نشان یہ ہے جو یہ تین لڑکے جو موجود ہیں ہر ایک کے پیدا ہونے سے پہلے اس کے آنے کی خبر دی گئی ہے.چنانچہ محمود جو بڑا لڑکا ہے اس کی پیدائش کی نسبت اس سبز اشتہار میں صریح پیشگوئی مع محمود کے نام کے موجود ہے جو پہلے کی وفات کے بارے میں شائع کیا گیا تھا.جو رسالہ کی طرح کئی ورق کا اشتہا رسبز رنگ کے ورقوں پر ہے.“ (ضمیمہ رسالہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 299) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے بیٹے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کو موعود بیٹے کا مصداق سمجھتے تھے جس نے دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر دیا.آج بھی بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں اس لئے میں نے یہ وضاحت کی ہے.حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود کی باون سالہ خلافت
خطبات مسرور جلد دہم 104 خطبه جمعه فرموده مورخہ 17 فروری 2012ء کا دور اس عظیم پیشگوئی کے پورا ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے.آپ کی تحریرات، آپ کی تقریریں اُس درد سے بھری ہوئی ہیں جو اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو دنیا میں قائم کرنے کیلئے آپ کے دل میں تھا.آپ کا علم و عرفان اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو علومِ ظاہری و باطنی سے پر فرمایا.غرض جو باون یا بعض لحاظ سے اٹھاون خصوصیات پیش کی جاتی ہیں، ان کا جائزہ لیا جائے تو پیشگوئی میں جتنی بھی خصوصیات کا ذکر ہے، وہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی زندگی میں ہمیں نظر آتی ہیں.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ اس حوالے سے بھی میں بعض باتیں کروں گا تو آپ کے کچھ حوالے پیش کرتا ہوں جو آپ کی تقریر اور تحریر کے ہیں جن سے آپ کا عظیم عزم بھی جھلکتا ہے جو ہمیں آپ کے اولوالعزم ہونے کا بھی پتہ دیتا ہے.ایک تقریر میں آپ فرماتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ کے مرسل جب آتے ہیں اُس وقت ہر شخص جو اُن کی جماعت میں داخل ہوتا ہے یہ سمجھتا ہے کہ دین کا کام میرے سوا اور کسی نے نہیں کرنا.جب وہ یہ سمجھ لے تو وہ اس کی انجام دہی کے لئے اپنی ساری قوتیں صرف کر دیتا ہے.بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ وہ مجنوں بن جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب فوت ہوئے تو میں نے اس قسم کی آوازیں سنیں کہ آپ کی وفات بے وقت ہوئی ہے.ایسا کہنے والے یہ تو نہیں کہتے تھے کہ نعوذ باللہ آپ جھوٹے ہیں.“ ( کیونکہ یہ مانتے بھی تھے، احمدیوں میں سے ہی یہ آوازیں اُٹھ رہی تھیں مگر یہ کہتے تھے کہ وفات ایسے وقت میں ہوئی ہے جبکہ آپ نے خدا تعالیٰ کا پیغام اچھی طرح نہیں پہنچایا اور پھر آپ کی بعض پیشگوئیاں بھی پوری نہیں ہوئیں.“ فرماتے ہیں کہ ”میری عمر اس وقت انیس سال کی تھی.میں نے جب اس قسم کے فقرات سنے تو میں آپ کی لاش کے سرہانے جا کر کھڑا ہو گیا اور میں نے خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے دعا کی کہ اے خدا! یہ تیرا محبوب تھا جب تک یہ زندہ رہا اُس نے تیرے دین کے قیام کے لئے بے انتہا قربانیاں کیں.اب جبکہ اُس کو تو نے اپنے پاس بلا لیا ہے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس کی وفات بے وقت ہوئی ہے.ممکن ہے ایسا کہنے والوں یا ان کے باقی ساتھیوں کے لئے اس قسم کی باتیں ٹھوکر کا موجب ہوں اور جماعت کا شیرازہ بکھر جائے.اس لئے اے خدا! میں تجھ سے یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت بھی تیرے دین سے پھر جائے تو میں اس کے لئے اپنی جان لڑا دوں گا.اُس وقت میں نے سمجھ لیا تھا کہ یہ کام میں نے ہی کرنا ہے اور یہی ایک چیز تھی جس
خطبات مسرور جلد دہم 105 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 فروری 2012ء نے انیس سال کی عمر میں ہی میرے دل کے اندر ایک ایسی آگ بھر دی کہ میں نے اپنی ساری زندگی دین کی خدمت میں لگادی اور باقی تمام مقاصد کو چھوڑ کر صرف یہی ایک مقصد اپنے سامنے رکھ لیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جس کام کے لئے تشریف لائے تھے وہ اب میں نے ہی کرنا ہے.وہ عزم جو اُس وقت میرے دل کے اندر پیدا ہوا تھا، آج تک میں اُس کو نت نئی چاشنی کے ساتھ اپنے اندر پاتا ہوں اور وہ عہد جو اُس وقت میں نے آپ کی لاش کے سرہانے کھڑا ہو کر کیا تھا وہ خضر راہ بن کر مجھے ساتھ لئے جاتا ہے.میرا وہی عہد تھا جس نے آج تک مجھے اس مضبوطی کے ساتھ اس ارادے پر قائم رکھا کہ مخالفت کے سینکڑوں طوفان میرے خلاف اُٹھے مگر وہ اس چٹان کے ساتھ ٹکرا کر اپنا ہی سر پھوڑ گئے جس پر خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا تھا.اور مخالفین کی ہر کوشش ، ہر منصوبہ اور ہر شرارت جو انہوں نے میرے خلاف کی وہ خود انہی کے آگے آتی گئی اور خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل کے ساتھ مجھے ہر موقع پر کامیابیوں کا منہ دکھایا.یہاں تک کہ وہی لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے وقت یہ کہتے تھے کہ آپ کی وفات بے وقت ہوئی ہے، آپ کے مشن کی کامیابیوں کو دیکھ کر انگشت بدنداں نظر آتے ہیں.“ قومی ترقی کے دو اہم اصول انوار العلوم جلد 19 صفحہ 75،74) آپ کی مجلس کی یہ تقریر ہے جو میں نے بیان کی ہے، اس کے بعد پھر اس کا تسلسل چل رہا ہے.اس کے بعد آپ نے جماعت کو بھی تو جہ دلائی کہ : " جماعت کے ہر شخص کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس نے اپنے اندر یہ روح پیدا کرنی ہے کہ دین کا کام اُسی نے کرنا ہے.ہر کوئی سمجھے کہ اب دین کے کام کی ذمہ داری، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کو آگے لے جانے کی ذمہ داری میری ہے.اس لئے ایک عہد کریں اور جو یہ عہد کرے گا کہ ہر حالت میں میں نے دین کی خدمت کو مقدم رکھنا ہے.فرمایا کہ پھر یہ سمجھ لینا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان کر جس مقصد کو حاصل کرنا تھا، وہ آپ کرنے والے بنیں گے، کیونکہ وہ مقصد یہی ہے کہ آپ کے مشن کو آگے لے جانا.اور پھر مزید فرمایا کہ اگر ہم میں یہ روح پیدا ہو جائے گی تو کوئی مشکل ہمیں مشکل نظر نہیں آئے گی.رستے کی جو ساری مشکلات ہیں ہمیں معمولی نظر آئیں گی.“ (ماخوذ از قومی ترقی کے دو اہم اصول انوار العلوم جلد 19 صفحہ 75) پھر اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اپنے دل کا درد آپ نے ایک جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں کہ :
خطبات مسرور جلد دہم 106 خطبه جمعه فرموده مورخہ 17 فروری 2012ء صل چیز دنیا میں اسلامستان کا قیام ہے اسلام کے نام سے آپ نے فرمایا اصل چیز دنیا میں اسلامستان کا قیام ہے ).”ہم نے پھر سارے مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنا ہے.ہم نے پھر اسلام کا جھنڈا دنیا کے تمام ممالک میں لہرانا ہے.ہم نے پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام عزت اور آبرو کے ساتھ دنیا کے کونے کونے میں پہنچانا ہے.ہمیں پاکستان کے جھنڈے بلند ہونے پر بھی خوشی ہوتی ہے، ہمیں مصر کے جھنڈے بلند ہونے پر بھی خوشی ہوتی ہے، ہمیں عرب کے جھنڈے بلند ہونے پر بھی خوشی ہوتی ہے.ہمیں ایران کے جھنڈے بلند ہونے پر بھی خوشی ہوتی ہے مگر ہمیں حقیقی خوشی تب ہوگی جب سارے ملک آپس میں اتحاد کرتے ہوئے اسلامستان کی بنیاد رکھیں.ہم نے اسلام کو اُس کی پرانی شوکت پر پھر قائم کرنا ہے.ہم نے خدا تعالیٰ کی حکومت دنیا میں قائم کرنی ہے.ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم کرنی ہے.ہم نے عدل اور انصاف کو دنیا میں قائم کرنا ہے اور ہم نے عدل وانصاف پر مبنی پاکستان کو اسلامک یونین کی پہلی سیڑھی بنانا ہے.یہی اسلامستان ہے جود نیا میں حقیقی امن قائم کرے گا.“ ( تقریر جلسہ سالانہ 28 دسمبر 1947ء انوار العلوم جلد 19 صفحہ 388) کاش کہ پاکستان کے عوام اور جو پاکستان کو اوپر لے جانے والے آجکل کے لیڈر اور علماء بنے پھرتے ہیں، وہ اس بات کو سمجھ سکیں.فرماتے ہیں کہ : ہر ایک کو اُس کا حق دلائے گا.جہاں روس اور امریکہ فیل ہوا،صرف مکہ اور مدینہ ہی انشاء اللہ کامیاب ہوں گے ، فرماتے ہیں کہ یہ چیزیں اس وقت ایک پاگل کی بڑ معلوم ہوتی ہیں مگر دنیا میں بہت سے لوگ جو عظیم الشان تغیر کرتے ہیں وہ پاگل ہی کہلاتے رہے ہیں.اگر مجھے بھی لوگ پاگل کہہ دیں تو میرے لئے اس میں شرم کی کوئی بات نہیں.میرے دل میں ایک آگ ہے، ایک جلن ہے، ایک تپش ہے جو مجھے آٹھوں پہر بے قرار رکھتی ہے.میں اسلام کو اُس کی ذلت کے مقام سے اُٹھا کر عزت کے مقام پر پہنچانا چاہتا ہوں.میں پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانا چاہتا ہوں.میں پھر قرآن کریم کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہوں.میں نہیں جانتا کہ یہ بات میری زندگی میں ہوگی یا میرے بعد لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ میں اسلام کی بلند ترین عمارت میں اپنے ہاتھ سے ایک اینٹ لگانا چاہتا ہوں یا اتنی اینٹیں لگانا چاہتا ہوں جتنی اینٹیں لگانے کی خدا مجھے تو فیق دیدے.میں اس عظیم الشان عمارت کو مکمل کرنا چاہتا ہوں یا اس عمارت کو اتنا اونچا لے جانا چاہتا ہوں جتنا اونچالے جانے کی اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے.اور میرے جسم کا ہر ذرہ اور میری روح کی ہر طاقت اس کام میں خدا تعالیٰ کے فضل
خطبات مسرور جلد دہم 107 خطبه جمعه فرموده مورخہ 17 فروری 2012ء 66 سے خرچ ہوگی اور دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی میرے اس ارادے میں حائل نہیں ہوگی.“ ( تقریر جلسہ سالانہ 28 دسمبر 1947ءانوارالعلوم جلد 19 صفحہ 388) پس یہ وہ اولوالعزم موعود بیٹا تھا جس نے اپنے دل کی تڑپ کھول کر ہمارے سامنے رکھ دی.آج ہم جب یوم مصلح موعود مناتے ہیں تو حقیقی یو م مصلح موعود تب ہی ہو گا جب یہ تڑپ آج ہم میں سے اکثریت اپنے اندر پیدا کرے کہ ہمارے مقاصد بہت عالی ہیں، بہت اونچے ہیں، بہت بلند ہیں جس کے حصول کے لئے عالی ہمتی کا بھی مظاہرہ کرنا ہوگا.اور اپنے اندر اعلیٰ تبد یلیاں بھی پیدا کرنا ہوں گی ، پاک تبدیلیاں بھی پیدا کرنی ہوں گی.خدا تعالیٰ سے ایک تعلق بھی جوڑ نا ہوگا.اسلام کا درد بھی اپنے اندر پیدا کرنا ہوگا.دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا درد پیدا کرتے ہوئے اظہار بھی کرنا ہوگا.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو بیشمار خوبیوں کے مالک بیٹے کی خوشخبری عطا فرمائی تھی تو وہ یہ گہرا مطلب بھی اپنے اندر رکھتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فرمایا تھا کہ تیرا سلسلہ صرف تیرے ہی تک محدود نہیں ہو گا.جس مشن کو تو لے کر اُٹھا ہے وہ تیری زندگی تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ تیرا ایک بیٹا جو اولوالعزمی میں اپنی مثال آپ ہو گا جو اسلام کو دنیا میں پھیلانے کی تڑپ میں تیرا ثانی ہوگا.جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے کے لئے بے چین دل رکھتا ہوگا، اور پھر اُس بیٹے تک ہی محدود نہیں بلکہ بعد میں بھی اس مشن کو دنیا کے کونے کونے تک لے جانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے قدرت ثانیہ کا تا قیامت تسلسل جاری رہنے کا بھی وعدہ فرمایا ہے جو اس کام کو آگے بڑھاتا چلا جائے گا اور قدرت ثانیہ کو ایسے سلطان نصیر بھی عطا ہوں گے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے قدرت ثانیہ جو خلافت کی صورت میں جاری ہے اس کے مددگار بنیں گے.پس آج ہمیں پیشگوئی مصلح موعود جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی دلیل کے طور پر دکھائی دیتی ہے وہاں اس بات کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جس خوبیوں کے مالک بیٹے کی اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی تھی اور جس تڑپ اور عزم کے ساتھ اُس بیٹے نے جماعت کو آگے بڑھنے کے راستے دکھائے ، ایک خوبصورت نظام عطا فرمایا.جماعت کی تربیت کے نظام کے ساتھ دنیا کے کونے کونے میں اسلام کا خوبصورت پیغام پہنچانے کے لئے ایک ایسا نظام مستحکم کر دیا جس کے نتائج ہر روز نئی شان سے پورے ہوتے چلے جا رہے ہیں.اس نظام کو مزید مستحکم کرنے کے لئے ہر
خطبات مسرور جلد دہم 108 خطبه جمعه فرموده مورخہ 17 فروری 2012ء احمدی اپنا کر دار ادا کرنے والا بنے.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے عرب ممالک میں بھی یہ نظام قائم ہے.ایشیا کے دوسرے ممالک میں بھی یہ نظام قائم ہے.افریقہ میں بھی یہ نظام قائم ہے.یورپ میں بھی یہ نظام قائم ہے.امریکہ میں بھی یہ نظام قائم ہے.آسٹریلیا میں بھی یہ نظام قائم ہے اور جزائر میں بھی یہ نظام قائم ہے.پس جہاں جہاں بھی احمدی ایک جماعت قائم کر کے اس نظام کا حصہ بنے ہیں وہاں وہ اس بات کی طرف بھی خاص توجہ دیں کہ صرف اپنی ذات کی اصلاح تک ہم نے محدود نہیں رہنا، اپنی اگلی نسلوں کو بھی سنبھالنا ہے، اُن کے دل میں بھی یہ چیز راسخ کرنی ہے کہ تم نے اس نظام کا حصہ بنتے ہوئے اپنے عظیم مقصد کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں لہراتے ہوئے توحید کا قیام ہے، اُسے کبھی نہیں بھولنا اور اس کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہنا ہے.اور اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھنا جب تک اس مقصد کو حاصل نہ کر لو.اپنی اگلی نسلوں میں یہ روح پھونکتی ہے کہ اس عظیم مقصد کو کبھی مرنے نہیں دینا.پس جیسا کہ میں نے کہا آج دنیا کے ہر کونے میں جماعت احمدیہ کا قیام ہے اور قادیان سے اُٹھنے والی آواز دنیا کے کونے کونے میں پھیل چکی ہے اور اس کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانے میں باوجود نامساعد حالات کے بہت بڑا ہاتھ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے.تو جب مصلح موعود کی پیشگوئی کے پورا ہونے پر جلسے کرتے ہیں تو اپنے عزم اور اپنے پروگراموں کی ایک ایسی روح پیدا کریں کہ جو آپ کے جذبوں کی نئے سرے سے تجدید کرنے والی ہو اور اُن خواہشات کو بھی سامنے رکھیں جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمائی ہیں.اور جس کا میں نے ذکر کیا ہے کہ ہر مسلمان ملک کا رہنے والا احمدی یہ بھی کوشش کرے کہ ہم نے اسلامستان قائم کرنا ہے.وہ اسلامستان بنانا ہے جو ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم رحمةً لِلْعَلَمِينَ تھے وہ بنانا چاہتے تھے.وہ اسلامستان بنانا ہے جو اپنوں اور غیروں کے حقوق ادا کرتے ہوئے انسانیت کی قدریں قائم کرنے والا ہوتا دنیا کو یہ پتہ چلے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم محسن انسانیت تھے اور یہی ایک بہت بڑا کام ہے جو ہم نے دنیا کو بتانا ہے جو اس دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے.ہر اسلامی ملک کو یہ باور کرانا ہے.یہ بھی ہمارا مقصد ہے کہ یہ باتیں تھیں جن کو لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آئے تھے اور یہ وہ مشن ہے جس کی تکمیل کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا اور یہ کام ہے جو آج جماعت احمدیہ نے کرنا ہے اور ہم نے ہر مسلمان کو ، ہر اسلامی ملک کو یہ باور کرانا ہے کہ یہ ہمارے مقاصد ہیں.اگر ہماری مخالفت میں یہ لوگ ہماری بات نہیں سنتے تو تڑپ تڑپ کر ان کے لئے دعا کرنی ہے.دعا سے تو ہمیں کوئی نہیں روک سکتا کہ یہ اس بات کو سمجھنے
خطبات مسرور جلد دہم 109 خطبه جمعه فرموده مورخہ 17 فروری 2012ء والے بن جائیں.پاکستان ہو یا سعودی عرب ہو یا مصر ہو یا شام ہو یا ایران ہو یا انڈونیشیا ہو یا ملا ئیشیا ہویا سوڈان ہو یا کوئی بھی اسلامی ملک ہو، ان لوگوں کو یہ بتانا ہوگا کہ تمہاری علیحدہ علیحدہ رہ کر کوئی ساکھ نہیں بن سکتی.تمہاری ساکھ اُسی وقت بن سکتی ہے اور تمہاری بقا اسی میں ہے، ان ممالک کا رعب تبھی ہے جب وہ ایک ہو کر اسلام کی عظمت کے بارے میں سوچیں گے.جب وہ اپنے ملکوں کے اندر بھی اور اپنے ہمسایوں میں بھی فرقوں سے بالا ہو کر سوچیں گے.یہ پیغام ہے جو ہم نے ان ملکوں کو بھی دینا ہے.آج ہمیں مصر کے لئے بھی کوشش کرنی چاہئے اور شام کے لئے بھی کوشش کرنی چاہئے ، لیبیا کے لئے بھی یہ پیغام اُن کے ارباب حل و عقد کو پہنچانا چاہئے کہ اگر اپنے قبیلوں اور فرقوں کو فوقیت دیتے رہے اور اس کے لئے ظلم کرتے رہے تو خود اپنے ہاتھ سے اپنے ملکوں کو کھوکھلا کرنے والے بنتے رہو گے.تمہارے اندر نہ ہی ملکی لحاظ سے، نہ ہی مسلم امہ کے لحاظ سے کبھی طاقت آئے گی، بلکہ کمزوری بڑھتی ہی جائے گی اور غیر تمہیں پھر اپنے پنجے میں لے لیں گے.پھر اللہ نہ کرے، اللہ نہ کرے کہ غلامی کی زنجیروں میں بعض ملک جکڑے بھی جا سکتے ہیں.پس ان کو یہ پیغام دینا ہے کہ ہوش کرو اور صرف اپنے ذاتی مفادات کے حصول کی فکر نہ کرو.صرف اپنے قبائل اور فرقوں کی ناجائز طرفداری نہ کرو ورنہ سب کچھ ہاتھ سے کھو بیٹھو گے.ملکوں کی انفرادیت قائم رکھنے کی بجائے اسلام کی عظمت کو قائم کرنے کی کوشش کرو.اللہ تعالیٰ نے اس عظمت کو قائم کرنے کے لئے جس شخص کو بھیجا ہے اُس کی باتوں پر بھی غور کرو.پس یہ عظیم مقصد حاصل کرنے کے لئے موقع کے لحاظ سے سمجھا کر بھی اور دعاؤں سے بھی ہم نے یعنی ہر ملک میں رہنے والے احمدی نے اپنا یہ کردار ادا کرتے چلے جانا ہے.جیسا کہ میں نے گزشتہ سال بھی کہا تھا کہ ہم میں سے ہر احمدی کو دنیا کی اصلاح کی یہ کوشش کر کے مصلح بنے کا کردار ادا کرنے والا ہونا چاہئے تاکہ مصلح موعود کے مقاصد کو جو دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کی تکمیل ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے دنیا کو لانے کا ایک عظیم منصوبہ ہے اُسے ہم حاصل کر سکیں.پس یہ دور جو فساد میں بڑھتے چلے جانے کا دور ہے، جس میں بڑی طاقتوں کی نظریں بھی اسلامی ممالک کے وسائل پر لگی ہوئی ہیں.اس میں بہت زیادہ کوشش کر کے ہم احمدیوں کو ہر اسلامی ملک کو بھی اور مسلم امہ کو بھی ہوس پرستوں کی ہوس سے بچانے کے لئے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے اقدام کرنے چاہئیں اور اس کے لئے سب سے بڑھ کر جیسا کہ میں نے کہا دعا ہے.اللہ تعالیٰ مسلمان ملکوں کے سیاستدانوں اور لیڈروں کو بھی عقل اور سمجھ دے کہ وہ اپنے ذاتی مفاد
خطبات مسرور جلد دہم 110 خطبه جمعه فرموده مورخہ 17 فروری 2012ء سے بالا ہو کر سوچیں.علماء جن کو عوام الناس علوم اور روحانیت میں بڑھا ہوا سمجھتے ہیں وہ بھی عقل سے کام لیں اور اپنے مفادات کے بجائے قرآنی تعلیم کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اپنے مفادات کی خاطر عوام اور حکمرانوں کو لڑانے کی بجائے تقویٰ سے کام لیں اور جیسا کہ میں نے کہا، اس کا سب سے خوبصورت حل زمانے کے امام کی آواز کوسن کر اس پر عمل کرنا ہے.اور اللہ کرے کہ عوام الناس بھی اپنے نور فراست کو بڑھانے کی کوشش کریں اور زمانے کے حالات دیکھنے کے باوجود آنکھیں بند کر کے عقل اور حکمت سے عاری باتیں کرنے والوں کو چاہے وہ علماء میں سے ہوں یا لیڈروں میں سے ہوں، اُن کی اندھی تقلید نہ کریں.اللہ کرے کہ ہم جیسا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خواہش کا اظہار فرمایا تھا، ایک خوبصورت اسلامستان دیکھنے والے ہوں اور یہی ایک حل ہے جو دنیا کو فسادوں سے بچا سکتا ہے.اللہ کرے دنیا کو عقل آجائے.آج پھر ایک حاضر جنازہ ہے جو ابھی نمازوں کے بعد میں باہر جا کر پڑھاؤں گا، احباب یہیں مسجد میں رہیں.یہ جنازہ عزیزم شیخ مصور احمد ابن مکرم شیخ نصیر احمد صاحب جلنگھم کا ہے جو 14 فروری 2012ء کو ایک مختصر علالت کے بعد پچیس سال کی عمر میں وفات پاگئے.إِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ان کو مسکولر ڈسٹرافی (Muscular Destrophy) کی بیماری تھی جس میں عمر کے ساتھ مسلز کمزور ہوتے جاتے ہیں.انہوں نے باوجود معذوری کے جلنگھم جماعت میں مختلف عہدوں پر خدمت کی بھی توفیق پائی ، آپ کے سپر د جو بھی کام ہوتا تھا پوری توجہ اور ذمہ داری کے ساتھ مکمل کرتے تھے.ویل چیئر پر تھے لیکن اُس کے باوجود بڑی پھرتی اور تندہی سے اور ہمت سے اور محنت سے کام کیا کرتے تھے.چندہ جات اور تحریکات میں حصہ لینے والے تھے.نیک اور دین سے تعلق رکھنے والے.خلافت سے ایک خاص تعلق مخلص انسان تھے اور ذہین اور قابل تھے باوجود معذوری کے انہوں نے پڑھائی مکمل کی اور پھر بینک میں نوکری کی اور ترقی کرتے ہوئے اس وقت بینک میں اسسٹنٹ وائس پریذیڈنٹ کے عہدے پر کام کر رہے تھے.افسران بھی ان کے کام سے بہت خوش تھے.ان کے پسماندگان میں انہوں نے والدین کے علاوہ ایک بھائی یادگار چھوڑا ہے، وہ بھی مسلز کے لحاظ سے بیمار ہی ہے.یہ عزیز بچہ جو ہے شیخ مبارک احمد صاحب جو انگلستان کے مبلغ تھے ، اُن کے بھائی کا پوتا اور میرا خیال ہے شاید نواسہ بھی ہے.اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور اپنی رضا کی جنتوں میں جگہ دے.لواحقین کو، والدین کو اور بھائی کو صبر جمیل عطا فرمائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 9 مارچ تا 15 مارچ 2012 جلد 19 شماره 10 صفحه 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد دہم 111 8 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 فروری 2012ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 24 فروری 2012 ء بمطابق 24 تبلیغ 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الواحد فيلتهم (Felthum) لندن (یوکے) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: وَ أَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا (ابن :19) قُلْ آمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ وَ آقِيْمُوا وُجُوهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَ ادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الذِينَ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ (الاعراف:30) ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ اور یقیناً مسجدیں اللہ ہی کے لئے ہیں.پس اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو.یہ سورۃ الحجن کی آیت ہے.اور دوسری آیت سورۃ اعراف کی ہے.اس کا ترجمہ ہے کہ تو کہہ دے کہ میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے.نیز یہ کہ تم ہر مسجد میں اپنی تو جہات اللہ کی طرف سیدھی رکھو اور دین کو اُس کے لئے خالص کرتے ہوئے اُسی کو پکارا کرو.جس طرح اُس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ، اسی طرح تم مرنے کے بعد لوٹو گے.الحمد للہ آج اس علاقے میں ہمیں مسجد تعمیر کر کے اُس کے افتتاح کی توفیق مل رہی ہے.دنیا کے لئے بھی بتا دوں کہ یہ فیلتھم (Felthum) کا علاقہ کہلاتا ہے.ہونسلو بھی قریب ہے.اس لئے اس علاقے کی یہ مشتر کہ مسجد ہے.یہ دو جماعتیں ہیں ساؤتھ اور نارتھ.بلکہ یہاں کے ریجنل امیر صاحب کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید یہ علاقے کی جامع مسجد ہی ہو کیونکہ میرے خیال میں ابھی تک اس علاقے میں مساجد میں یہ بڑی مسجد ہے جس میں جمعہ اور نمازوں کے لئے احباب آیا کریں گے.یہی مسجد کا مقصد ہوتا ہے.
خطبات مسرور جلد دہم 112 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 فروری 2012ء اللہ کرے کہ یہاں ہر علاقے میں جماعت کو اپنی مسجد بنانے کی توفیق مل جائے تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش اور ارشاد کو پورا کرتے ہوئے ہماری مسجد میں اسلام اور جماعت کے تعارف کا ذریعہ بنیں تبلیغ کے نئے میدان کھلیں اور دنیا کو اسلام کی حقیقی تعلیم کا پتہ چلے.کیونکہ آج اس زمانے میں جماعت احمدیہ ہی ہے جو حقیقی اسلام دنیا کے سامنے پیش کر سکتی ہے.اور پھر ہمارے لئے مساجد کی تعمیر اس لئے بھی اہم ہے کہ ایک روایت میں آتا ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.بلکہ حکم دیا کہ قبیلوں یا محلوں میں یا گھروں میں مسجد میں بناؤ.(سنن ابن ماجه کتاب المساجد والجماعات باب تطهير المساجد وتطييبها حديث 758) اُس زمانے میں عموماً محلے قبیلوں کی صورت میں آباد ہوا کرتے تھے ، بلکہ آج کل بھی آپ دیکھیں.بعض قو میں دوسرے ملکوں میں جا کر ایک جگہ اکٹھا رہنے کو پسند کرتی ہیں.چینی لوگ جہاں بھی جاتے ہیں چائنا ٹاؤن بنا لیتے ہیں.بہر حال اس روایت میں ہے کہ ہر علاقے میں مسجد میں بناؤ اور پھر انہیں پاک وصاف بھی رکھو.اسی طرح قرآنِ کریم میں بھی متعدد جگہ پر مساجد کی تعمیر کا ارشاد ہے.پس مساجد کی بڑی اہمیت ہے.خاص طور پر ہمارے لئے جو احمدی مسلمان کہلاتے ہیں تا کہ جہاں ہم اپنی اجتماعی عبادتوں کے لئے ایک پاک صاف جگہ کا انتظام کریں اور اُس کے لئے خاص اہتمام کریں وہاں آجکل جبکہ اسلام کے خلاف بیشمار غلط فہمیاں پیدا ہو رہی ہیں اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کریں.گو اس علاقے میں ساؤتھ ہال اور ہونسلو میں ہمارے سینٹر ہیں، اور بھی جگہ مجھے انہوں نے بتایا کہ سینٹر ہیں جہاں نماز کے لئے سب جمع ہوتے ہیں.جماعتی پروگرام وغیرہ بھی ہوتے ہیں، غیروں کے ساتھ پروگرام بھی ہوتے ہیں لیکن باقاعدہ مسجد سے بہر حال نئے راستے کھلتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس علاقے میں اس ریجن میں ہی ہیز ( Hayes) کی جماعت نے بھی مسجد بنالی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ اگلے ہفتے اُس کا بھی افتتاح ہوگا.یہ مسجد جس میں اس وقت خطبہ دیا جا رہا ہے یہ عمارت گو خاص مسجد کے لئے، یعنی جسے purpose built مسجد کہتے ہیں، وہ تو نہیں ہے.ایک عمارت کو جو دفاتر کی عمارت تھی مسجد میں تبدیل کیا گیا ہے.اسی طرح ہیز (Hayes) میں بھی کمیونٹی سنٹر کو مسجد میں تبدیل کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ ان مساجد کو، جیسا کہ میں نے کہا مختلف عمارتوں کو مسجد میں تبدیل کیا گیا ہے، ان مساجد کو اسلام کی تعلیم کے پھیلانے
خطبات مسر در جلد دہم 113 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 فروری 2012ء کا بھی ذریعہ بنائے.ہمارے ایمانوں میں ترقی کا بھی ذریعہ بنائے.اور ایمانوں میں ترقی ہی ہے جو ہر مسجد کے ساتھ خاص طور پر وابستہ ہے.یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے مساجد کی اہمیت بیان فرمائی ہے کہ مسجد کی اہمیت اور اُس کے مقاصد کے بارے میں تمہیں کس طرح خیال رکھنا چاہئے.قرآنِ کریم میں دوسری جگہ بھی اس کا ذکر ملتا ہے.بہر حال ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مساجد ایسی جگہیں ہیں جو خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں.یہاں جو آئے خالص عبد بن کر آئے اور مسجدوں میں کبھی کوئی کفر، شرک بلکہ دنیاوی باتیں بھی نہ ہوں.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کاروباری باتیں بلکہ دنیاوی چیزوں کے گمشدہ چیزوں کے اعلان کرنے سے بھی منع فرمایا.(صحیح مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاة باب نهى عن نشد الضالة في المسجد حدیث 1260) ہاں جن باتوں کی اجازت ہے وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کے بعد اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے منصوبے، دنیا کو خدا تعالیٰ کے قریب کرنے کے منصوبے اور اس پر عمل کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا.اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی بہتری کے سامان کرنے کے لئے مشورے اور اس کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا ہے.یہاں اس پہلی آیت فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللهِ اَحَدًا میں اس بات کی بھی وضاحت ہو گئی کہ جب ہم یہ کہتے ہیں اور عموماً ہم یہی دنیا کو بتاتے ہیں کہ ہماری مساجد ہر ایک کے لئے کھلی ہیں تو اس کا ایک مطلب یہ ہے جس کا عموماً ہماری مساجد میں اظہار ہوتا ہے کہ کوئی شخص چاہے کسی بھی مذہب کا ہو یا لامذہب بھی ہو، یہاں آ سکتا ہے، آتا ہے اور اس کے پروگرام بھی ہوتے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنا ہو گا کہ مساجد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے ہیں.اگر ہم کسی دوسرے مذہب والے کو عبادت کرنے کی اجازت دیں تو اس بات کی کہ جو خدا تعالیٰ کی خالص عبادت کا حصہ ہے.کیونکہ ہر مذہب میں ایک خدا کا تصور بھی پایا جاتا ہے.تو جو خدا تعالیٰ کی خالص عبادت کا حصہ ہے وہ تو تم بیشک ہماری مسجد میں کر سکتے ہو اور جو بتوں کی عبادت کا حصہ ہے، جو شرک کے حصے ہیں وہ بہر حال مسجد سے باہر جا کر.پس اس شرط کے ساتھ کوئی بھی مذہب رکھنے والا مسجد میں آکر عبادت کر سکتا ہے.مسجدیں وہ جگہیں ہیں جہاں شرک کی بہر حال اجازت نہیں ہے.وَ آنَ الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا كہ يقيناً مسجدیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں.اُن کی تعمیر کا مقصد ہی ایک خدا کی عبادت کے لئے جمع ہونا ہے.یہ خدا تعالیٰ کا
خطبات مسرور جلد دہم 114 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 فروری 2012ء گھر ہیں اور خدا تعالیٰ نے ہی حکم فرمایا ہے کہ اگر میرے گھر میں عبادت کے لئے آنا ہے تو پھر میری اور صرف میری عبادت کرو اور جو میرے احکامات ہیں اُن پر عمل کرو.اس سے پہلی آیات میں بھی یہی مضمون چل رہا ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات ہی واحد و یگانہ ذات ہے اور اس سے دور جانے والے اپنے کئے کی سزا بھگت لیں گے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد تو یہ بات اور بھی زیادہ روشن اور واضح ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا کہ دنیا میں اپنی وحدانیت کو اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے قائم فرمائے گا اور مساجد اس مقصد کو پورا کرنے کا ایک ذریعہ ہیں.اور اب دنیا میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور سچائی صرف اور صرف مساجد کے ذریعہ ہی پھیلے گی.پس وہ لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا دعوی کرتے ہیں اور ہم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے آنے والے آپ کے غلام صادق کی جماعت میں بھی شامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں.ہمارا تو اب یہ اور صرف یہی کام ہے اور یہ مقصد ہونا چاہئے کہ جہاں خالص ہو کر ایک خدا کی عبادت کے لئے مسجدوں میں آئیں تا کہ ہماری عبادتوں کے معیار بڑھیں اور اللہ تعالیٰ سے ایک زندہ تعلق قائم ہو، وہاں اس سچائی کے نور کو دنیا میں پھیلانے کا بھی باعث بنیں.پس جب سچائی کے نور کو دنیا میں پھیلانا ہے تو ہمیں صرف ظاہری عبادت کا دعوی کافی نہیں ہو گا بلکہ اس نور سے اپنے آپ کو منور بھی کرنا ہو گا.میں نے جو دوسری آیت سورۃ اعراف کی تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے پہلے انصاف کا حکم دیا.فرما یا قُل اَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ.تو کہہ دے کہ میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے.یہ حکم جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا وہاں ہر اس حقیقی مومن کو بھی ہے جو آپ پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتا ہے.پس یہاں سب سے پہلے اس اعلان کا حکم ہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جن کو انصاف قائم کرنے، حقوق قائم کرنے ، ہر قسم کے امتیازی سلوکوں سے بالا تر ہونے اور تقویٰ پر چلنے کا حکم ہے.اور جن لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے وہی اللہ تعالیٰ کی طرف تمام تر توجہ پھیرتے ہوئے اُس کی عبادت کا بھی حق ادا کرتے ہیں.پس دلوں کے پاک لوگ ہی عبادت کا بھی حق ادا کرنے والے ہوتے ہیں.جن کی طبیعت میں نیکی، پاکیزگی اور انصاف نہیں وہ نہ تو حقوق العباد ادا کرتے ہیں اور نہ حقوق اللہ.ایک معاملے میں اگر نیکی اور انصاف کرتے ہیں تو دوسرے معاملے میں عدل وانصاف ایسے لوگوں میں نظر نہیں آتا.پس تقویٰ ہے جو انصاف قائم کرواتا ہے اور تقویٰ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف تمام تر توجہ پھیر نے
خطبات مسرور جلد دہم 115 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 فروری 2012ء کے لئے مائل کرتا ہے اور تقویٰ ہی ہے جو عبادت کا حق ادا کرواتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نماز کے وقت جب مسجدوں کا رُخ کرو تو اگر کسی بشری تقاضے کے تحت دنیا داری یا ذاتی مفادات نے تمہاری توجہ ادھر اُدھر کر بھی دی ہے تو نماز کے بلاوے کے ساتھ ہی تمہارے خیالات اللہ تعالیٰ کے احکامات کی طرف منتقل ہو کر تمہیں اللہ کا حقیقی عبد بنانے والے ہونے چاہئیں.ورنہ یہ عبادتیں بے فائدہ ہیں یا مسجد میں آنا بے فائدہ ہے.پس جب دین خالص کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کو پکارنے کا حکم ہے تو عبادتوں کے معیار کے حصول کے لئے جو الہی احکامات ہیں اُن احکام کی پابندی کی بھی شرط لگا دی.اللہ تعالیٰ کے احکامات پر بھی عمل کرنا ہو گا.اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت اور تقویٰ ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی بھی کرواتا ہے اور یہ سب چیزیں ہی ہیں جو پھر خدا تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے والی بھی ایک انسان کو بناتی ہیں.اور پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ.کہ جس طرح اُس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اس طرح تم مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹو گے.انسان کو یادرکھنا چاہئے کہ دنیا میں کئے گئے اعمال اگلے جہان کی جزا سزا کا باعث بنتے ہیں.پس اللہ فرماتا ہے تمہاری جسمانی پیدائش کے مختلف مرحلے اور پھر یہ زندگی گزارنا تمہیں اس بات کی طرف توجہ دلانے والا ہونا چاہئے کہ مرنے کے بعد کی زندگی کے بھی مختلف دور ہیں جن میں سے روح نے گزرنا ہے.پس اس اخروی زندگی اور روح کی بہتر نشوونما کے لئے صحیح نشو و نما کے لئے اس دنیا کے اپنے اعمال کے ذریعے فکر کرو.اور یہ فکر اُسی وقت حقیقی رنگ میں ہو سکتی ہے جب اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کیا جائے اور اپنی عبادتوں کو خالص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے بجالایا جائے.اُس کے احکامات پر پوری طرح عمل کرنے کی کوشش کی جائے.عبادت کے وقت یہ ذہن میں ہو کہ خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوں.اور یہ خالص عبادت ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ پھیرتے ہوئے مجھے اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والا بنائے گی اور اُخروی زندگی میں بھی.خالص عبادت کس طرح ہونی چاہیئے ؟ اس بات کا نقشہ کھینچتے ہوئے ایک سوال کرنے والے کے اس سوال پر کہ نماز میں کھڑے ہو کر اللہ جل شانہ کا کس طرح کا نقشہ پیش نظر ہونا چاہئے ؟ حضرت مسیح موعود نے اس سوال کے جواب میں فرمایا کہ: موٹی بات ہے قرآن شریف میں لکھا ہے وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ (الاعراف: 30) 66 اخلاص سے خدا تعالیٰ کو یاد کرنا چاہئے اور اُس کے احسانوں کا بہت مطالعہ کرنا چاہئے.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 335 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد دہم 116 خطبه جمعه فرموده مورخہ 24 فروری 2012ء انسان پر اللہ تعالیٰ کے بیشمار احسانات ہیں اور خاص طور پر جو یہاں رہنے والے ہیں جہاں مذہبی آزادی بھی ہے اور دنیاوی معاملات میں بھی اللہ تعالیٰ کے بہت فضل اور احسان ہیں.فرمایا کہ اُس کے احسانوں کا بہت مطالعہ کرنا چاہئے.چاہئے کہ اخلاص ہو ، احسان ہو اور اُس کی طرف ایسا رجوع ہو کہ بس وہی ایک رب اور حقیقی کارساز ہے.عبادت کے اصول کا خلاصہ اصل میں یہی ہے کہ اپنے آپ کو اس طرح سے کھڑا کرے کہ گویا خدا کو دیکھ رہا ہے اور یا یہ کہ خدا اُسے دیکھ رہا ہے.ہر قسم کی ملونی اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو جاوے اور اُسی کی عظمت اور اُسی کی ربوبیت کا خیال رکھے.ادعیہ ماثورہ اور دوسری دعا ئیں خدا سے بہت مانگے اور بہت توبہ استغفار کرے اور بار بار اپنی کمزوری کا اظہار کرے تا کہ تزکیۂ نفس ہو جاوے اور خدا سے سچا تعلق ہو جاوے اور اُسی کی محبت میں محو ہو ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 335 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) جاوے.66 پس یہ وہ حالت ہے جو ایک مومن کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور مسجد اس حالت کے پیدا کرنے اور اس کی یاد دہانی کروانے کا بہترین ذریعہ ہے.پس ہمیں ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ مسجد بننے سے ہماری ذمہ داری پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہے.جہاں ہم نے عبادتوں کے حق ادا کرنے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کے باقی احکامات کی پابندی کی طرف بھی توجہ کرنی ہے.پہلے سے بڑھ کر توجہ دینی ہے ورنہ ہم مُخلصين له الدين پر عمل کرنے والے نہیں ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اب یہ زمانہ ہے کہ اس میں ریا کاری، معجب ، خود بینی ، تکبر، نخوت، رعونت وغیرہ صفات رذیلہ تو ترقی کر گئے ہیں اور مُخلِصِينَ لَهُ الدِّين وغیرہ صفات حسنہ جو تھے وہ آسمان پر اٹھ گئے ہیں.” تو گل ، تفویض وغیرہ سب باتیں کالعدم ہیں.یعنی دنیا داری پر انحصار اور اپنی بڑائی تکبر وغیرہ بڑھتا چلا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ پر تو گل کم ہے.دنیا کے خداؤں کی طرف توجہ زیادہ ہے.اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی طرف توجہ کم ہے.عبادت کے حق بھی ادا نہیں کئے جاتے اور جو کام اللہ تعالیٰ نے سپرد کئے ہیں ، جن نیکیوں کا حکم دیا ہے اُن پر توجہ بالکل بھی نہیں ہے.فرماتے ہیں کہ ایسے لوگ مُخلِصِينَ لَهُ الدِّينَ کس طرح ہو سکتے ہیں؟ کس طرح یہ حق ادا کر سکتے ہیں؟ پھر آپ نے فرمایا کہ اب خدا کا ارادہ ہے کہ ان کی تخم ریزی ہو.“ ( البدر جلد 3 نمبر 10 مورخہ 8 مارچ 1904 ، صفحہ 3) یعنی ان نیک کاموں کی تخم ریزی ہو.خدا کا یہ ارادہ کس طرح ہے؟ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے
خطبات مسرور جلد دہم 117 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 فروری 2012ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیج کر اپنے اس ارادے کو عملی جامہ پہنایا ہے.پس ہم جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی طرف منسوب ہونے کا دعوی کرتے ہیں تو ہمیں دنیا داری سے ہٹ کر خالص ہونا ہو گا اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تب ہی مسجد بنانے کا ہمارا مقصد پورا ہوگا.عبادتوں کے ساتھ اپنے اعمال کی درستی کی طرف توجہ دینی ہوگی.جو یہ کرے گاوہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والا ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے یہ الفاظ کہ اب خدا کا ارادہ ہے کہ ان کی تخمریزی ہو یہ نرے الفاظ نہیں ہیں بلکہ طبیعتوں میں یہ انقلاب اس تخم ریزی سے پیدا ہوئے.آج سے ایک سو تئیس سال پہلے جو تخمریزی ہوئی تھی، اُس نے لاکھوں عبادالصالحین پیدا کئے.عبادالصالحین کے پھل آپ کو عطا کئے اور اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک آج بھی جاری ہے.نئے لوگ جو جماعت میں شامل ہوتے ہیں وہ اس سوچ کے ساتھ ہوتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا ہو.کس طرح عبادتوں کے معیار بلند کرنے کی کوشش کی جائے.کس طرح اعلیٰ معیار حاصل کئے جائیں جس سے بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بن جائے ؟ آپ لوگ جو اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں، آپ میں بہت بڑی تعداد ایسے احمدیوں کی ہے جن کے باپ دادا احمدی ہوئے.جنہوں نے خدا تعالیٰ کے ارادے کو سمجھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آئے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کے معیار قائم کئے.پس اُن بزرگوں کی عبادتوں کو مزید پھل لگانے کے لئے اگلی نسلوں کا فرض بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بچے تعلق کو نہ صرف قائم رکھیں بلکہ بڑھانے کی کوشش کریں.اور یہی چیز ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو دوسروں سے ممتاز کرنے والی ہو گی.ورنہ ظاہری نمازیں، ظاہری روزے، ظاہری طور پر قرآن کریم پڑھنا، اس کی تلاوت کرنا، یہ تو بہت سے دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں.ہم میں اور دوسروں میں فرق صرف اُسی وقت ظاہر ہو گا جب ہمارا ہر فعل خدا تعالیٰ کے لئے ہوگا اور جب ہم دنیاوی معاملات میں بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے پہلو تلاش کریں گے.تو اُس وقت مساجد میں جا کر عبادت کے وقت بھی ہماری تمام تر توجہات خدا تعالیٰ کی طرف ہوں گی اور دین کو اُس کے لئے خالص کرتے ہوئے اُسے ہی پکاریں گے.نمازوں میں ہماری توجہ ہمارے کاروباروں کی طرف نہیں ہوگی ، ملازمتوں کی طرف نہیں ہوگی ، دنیاوی خواہشات کے حصول کی طرف نہیں ہو گی، کسی دوسرے سے دنیا وی بدلے لینے کی طرف نہیں ہوگی بلکہ تمام معاملات خدا پر چھوڑ کر اُس کے حضور جھکیں گے.اللہ کرے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں.اُن باتوں پر عمل کرنے والے ہوں جن کا اللہ تعالیٰ
خطبات مسرور جلد دہم 118 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 فروری 2012ء نے قرآن کریم میں ہمیں حکم دیا ہے.نیکیوں میں بڑھنے والے ہوں.تقویٰ میں ترقی کرنے والے ہوں.گناہوں اور زیادتی سے بچنے والے ہوں اور اس کے خلاف جہاد کرنے والے ہوں.صرف بچنا ہی کام نہیں ہے بلکہ اس کے خلاف جہاد بھی کرنا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں سورۃ المائدہ میں ایک جگہ فرمایا ہے کہ: وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ اَنْ صَلُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَنْ تَعْتَدُوا وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (المائدة:3) کہ تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا تھا اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم زیادتی کرو.اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کرو.اور گنا ہوں اور زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو.اللہ سے ڈرو یقینا اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے.آج اسلام پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ یہ شدت پسند مذہب ہے اور جنگ کو پسند کرنے والا مذہب ہے اور یہ کہ اسلام نعوذ باللہ طاقت سے اور تلوار کے زور سے پھیلا ہے اور اسلام نے ہر مذہب کے خلاف، جو بھی اسلام کے مخالف مذہب تھا یا دوسرے مذاہب تھے ، ان سب کے خلاف اسلام نے تلوار اٹھائی ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسلام پر اس اعتراض کا بھی رد فرمایا ہے.آیت کے اس حصے میں کہ جو اللہ تعالیٰ کے خالص بندے ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ کی رضا مطلوب ہے، جن کی عبادتیں خدا تعالیٰ کی خاطر ہوتی ہیں، اُن کے تو دشمنوں سے یہ سلوک ہونے چاہئیں کہ کسی بھی طرح اُن پر زیادتی نہ ہو.جنہوں نے زیادتی کی ہے، اُن کا جواب بھی زیادتی سے نہیں دینا.پس ایک مسلمان، وہ حقیقی مومن جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتا ہے، نیکی اور تقویٰ کے معاملات میں اپنوں اور غیروں میں ہر ایک سے بھر پور تعاون کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہے.اور گناہوں اور زیادتی کے کاموں سے بیزار ہے.اور کبھی ایسے کاموں میں تعاون نہیں کر سکتا کیونکہ یہ تقویٰ کے خلاف ہے.یہ اپنی عبادتوں کو ضائع کر دینے کے مترادف ہے.جو نمازیں نیکی کے کاموں میں روک بن رہی ہوں، زیادتی کے کاموں میں مددگار ہوں ، تقویٰ سے عاری ہوں وہ صرف دکھاوے کی نمازیں ہیں.اُن نمازوں اور عبادتوں کا اللہ تعالیٰ کی نظر میں کوئی مقام نہیں ہے، کوئی حیثیت نہیں ہے.اور ایسی نمازیں پڑھنے والوں کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَوَيْلٌ لِلْمُصلين کہ ایسے نمازیوں کے لئے ہلاکت ہے.ہم جو زمانے
خطبات مسر در جلد دہم 119 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 فروری 2012ء کے امام کو مان کر اسلام کے احکامات پر چلنے کے عہد کی تجدید کرتے ہیں، ہم میں سے کسی سے یہ توقع کی ہی نہیں جاسکتی کہ وہ مسجد میں عبادت کے لئے آئے ، اس مقصد کے لئے آئے جس کے لئے مسجد تعمیر کی گئی ہے اور پھر گنا ہوں اور زیادتیوں میں ملوث ہو جائے.پس یہاں کے رہنے والے احمدیوں کو اس علاقے کے لوگوں کے ان تحفظات کو بھی دُور کرنا ہوگا.مسجد کی تعمیر کے ساتھ جہاں تبلیغ کے راستے کھلتے ہیں وہاں مخالفتیں بھی تیز ہوتی ہیں.مسلمانوں کی طرف سے مخالفت اس لئے ہوتی ہے کہ اُن کے علماء کی طرف سے احمدیت کی غلط تصویر پیش کی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ نعوذ باللہ احمدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت نبوت پر ڈاکہ مارنے والے ہیں.جبکہ احمدی ہمیشہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام خاتم النبین پر سب سے بڑھ کر یقین کرنے والے ہیں اور یہ فہم وادراک ہمیں آپ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیا ہے.بہر حال مسلمانوں کی بھی مخالفت کا ہمیں سامنا ہوتا ہے.اسی طرح غیر مسلم مقامی لوگ اسلام کی اپنے ذہن میں بنائی ہوئی غلط تصویر کی وجہ سے فکرمند ہو کر ہم سے زیادتی کرتے ہیں.کچھ ویسے ہی Racist لوگ ہیں جو غیر قوموں کے، غیر ملکیوں کے خلاف ہیں، اُن کی طرف سے بھی زیادتی ہوتی ہے.تو ہم تو ہر طرف سے زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں.پرسوں رات بھی یہاں مسجد کی دیوار پر جو غلط الفاظ لکھے گئے یا پینٹ وغیرہ پھینک کر گند کرنے کی کوشش کی گئی ، یہ دل میں بٹھائی گئی اسی دشمنی کا نتیجہ ہے جو اسلام کے خلاف غیر مسلموں میں ہے.پس ہم نے ہر قسم کے لوگوں کے شکوک وشبہات دور کرنے ہیں اور وہ اُسی وقت ہو سکتے ہیں جب ہماری عبادتیں خالصہ للہ ہوں گی.جب ہم مسجد کی تعمیر کے مقصد کا حق ادا کرنے والے ہوں گے.اسی طرح یہ بات بھی ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ جماعت کی خوبصورتی اسی میں ہے کہ اس میں آپس میں بھی نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے بڑھ کر اظہار پایا جائے.آپس کے تعلقات کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اس طرح بنایا جائے کہ ہر دیکھنے والا کہے کہ یہ آپس کی محبت اور بھائی چارہ اس جماعت کا ایک خاص وصف اور خاصہ ہے.نماز با جماعت کے لئے مسجد میں آنے کے حکم کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ ایک جماعت کا نظارہ پیش ہو.سب ایک وجود بن جائیں اور آپس کی محبتیں بڑھیں اور رنجشیں دور ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
خطبات مسرور جلد دہم 120 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 فروری 2012ء یہ دستور ہونا چاہیے کہ کمزور بھائیوں کی مدد کی جاوے اور ان کو طاقت دی جاوے.یہ کس قدر نا مناسب بات ہے کہ دو بھائی ہیں.ایک تیرنا جانتا ہے اور دوسرا نہیں.تو کیا پہلے کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ وہ دوسرے کو ڈوبنے سے بچاوے یا اس کو ڈوبنے دے؟ اس کا فرض ہے کہ اس کو غرق ہونے سے بچائے.اسی لیے قرآن شریف میں آیا ہے : تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوى (المائدة: 3) کمزور بھائیوں کا بار اُٹھاؤ.عملی ، ایمانی اور مالی کمزوریوں میں بھی شریک ہو جاؤ.بدنی کمزوریوں کا بھی علاج کرو.کوئی جماعت ، جماعت نہیں ہو سکتی جبتک کمزوروں کو طاقت والے سہارا نہیں دیتے.اور اس کی یہی صورت ہے کہ اُن کی پردہ پوشی کی جاوے.صحابہ کو یہی تعلیم ہوئی کہ نئے مسلموں کی کمزوریاں دیکھ کر نہ چڑو، کیونکہ تم بھی ایسے ہی کمزور تھے.اسی طرح یہ ضروری ہے کہ بڑا چھوٹے کی خدمت کرے اور محبت ملائمت کے ساتھ برتاؤ کرے.“ پھر فرماتے ہیں : ” دیکھو وہ جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جو ایک دوسرے کو کھائے اور جب چارل کر بیٹھیں تو ایک اپنے غریب بھائی کا گلہ کریں اور نکتہ چینیاں کرتے رہیں اور کمزوروں اور غریبوں کی حقارت کریں اور اُن کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھیں.ایسا ہر گز نہیں چاہیے بلکہ اجماع میں چاہئے کہ قوت آجاوے اور وحدت پیدا ہو جاوے جس سے محبت آتی ہے اور برکات پیدا ہوتے ہیں...کیوں نہیں کیا جاتا کہ اخلاقی قوتوں کو وسیع کیا جاوے.اور یہ تب ہوتا ہے کہ جب ہمدردی، محبت اور عفو اور کرم کو عام کیا جاوے.اور تمام عادتوں پر رحم اور ہمدردی، پردہ پوشی کو مقدم کر لیا جاوے.ذرا ذراسی بات پر ایسی سخت گرفتیں نہیں ہونی چاہئیں جو دل شکنی اور رنج کا موجب ہوتی ہیں....جماعت تب بنتی ہے کہ بعض بعض کی ہمدردی کرے.پردہ پوشی کی جاوے.جب یہ حالت پیدا ہو تب ایک وجود ہو کر ایک دوسرے کے جوارح ہو جاتے ہیں اور اپنے تئیں حقیقی بھائی سے بڑھ کر سمجھتے ہیں...خدا تعالیٰ نے صحابہ کو بھی یہی طریق و نعمت اخوت یاد دلائی ہے.اگر وہ سونے کے پہاڑ بھی خرچ کرتے تو وہ اخوت ان کو نہ ملتی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان کو ملی.اسی طرح پر خدائے تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اسی قسم کی اخوت وہ یہاں قائم کرے گا.( ملفوظات جلد 2 صفحہ 263 تا265 ایڈیشن 2003 ،مطبوعدر بوہ ) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ انقلاب پیدا کرنے کے لئے آئے تھے کہ تقوی کو دنیا میں دوبارہ قائم کریں اور حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والے عبادالرحمن کا خالص گروہ بنا ئیں.پس ہماری خوشی صرف مسجد کی تعمیر کے ساتھ نہیں ہے بلکہ مسجدوں کی تعمیر کے ساتھ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ پر عمل
خطبات مسرور جلد دہم 121 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 فروری 2012ء کرتے ہوئے حقیقی عبد بننے میں ہے.اس مادی دور میں جبکہ ہر طرف مادیت کے حصول کے لئے، دنیا داری کے لئے ایک دوڑ لگی ہوئی ہے، یہ معیار حاصل کرنا یقینا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کھینچنے والا بناتا ہے.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے حقیقی اسلام کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچ رہا ہے.جہاں غیر مسلم بھی اسلام قبول کر کے عبادالرحمن بن رہے ہیں وہاں مسلمان بھی بدعتوں سے دور ہٹ کر حقیقی اسلام کو سمجھ رہے ہیں اور آپ کی بیعت میں شامل ہو رہے ہیں.جیسا کہ میں نے شروع میں بھی کہا تھا کہ حقیقی اسلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نمائندگی میں پیش فرماتے ہیں.پرسوں کی ڈاک میں ہی میں ایک از بک احمدی کا خط دیکھ رہا تھا، جس میں اس بات کا اظہار تھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اُن کی کایا پلٹی ہے.تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ نیک فطرتوں کو جماعت کا حصہ بناتا چلا جارہا ہے اور بدعات سے پاک کر رہا ہے.اُزبک زبان میں انہوں نے لکھا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ زندگی جو ہم اس وقت گزار رہے ہیں، اس میں کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جن سے ہم مکمل بے خبر حال میں رہے ہیں.آج کے دن تک وہ الفاظ جو انسان نے کبھی نہ سنے تھے ، مثلاً یہ باتیں کہ وفات شدگان پر قرآن خوانی کرنا، (وہ اپنی بدعات کا ذکر کر رہے ہیں) یا عیسی علیہ السلام کو فوت شدہ تسلیم کرنا وغیرہ.لیکن صبر و تحمل سے ہم نے اُن کتب کا مطالعہ کیا یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی چند ایک کتابوں کا مطالعہ کیا جو اُن کی زبان میں ابھی لٹریچر مہیا ہوا.کہتے ہیں کہ جوں جوں ہم پڑھتے گئے ہمارے قلوب میں ، ہمارے دلوں میں روشنی اور نور داخل ہو کر ہمیں طاقت دیتا گیا.الحمد للہ ان کتب کو پڑھنے کے بعد ہمیں احساس ہوا کہ ہم تو لمبے عرصے سے اللہ تعالیٰ کی راہ سے بہت ہی دور جا چکے تھے.ہم آپ کی خدمت میں اپنے لئے درخواست کرتے ہیں کہ دعا کریں کہ جماعت سے لی گئی الہی قوت اور نور ہمارے پورے بدن میں سرایت کر جاوے.لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ پہلی بدعتوں بھری زندگی سے ہم نے چھٹکارا پا لیا.الحمد للہ.(آگے اپنے گاؤں کا نقشہ لکھتے ہیں کہ لیکن اگر آپ ہمارے گاؤں کے گلی کوچوں میں نکلیں تو انہی بدعتوں میں گرفتار انسانوں کو دیکھیں گے.پس نئے آنے والے کس طرح چھٹکارے پارہے ہیں اور آپ تو جیسا کہ میں نے ذکر کیا بہت سے بزرگوں کی اولادیں ہیں تو اس لئے ہمیں خاص طور پر بہت کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے اندر سے بدعتوں کو دور کریں.ظاہری رسم و رواج کو دور کریں.صرف زمانے کی رو میں نہ بہتے چلے جائیں نہیں تو یہ نئے آنے والے آگے نکلنے والے ثابت ہوں گے.
خطبات مسرور جلد دہم 122 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 فروری 2012 ء یہ رسول جان اپنا نام لکھ رہے ہیں.لکھتے ہیں کہ میرا تعلق آرشیکو و (Artikov) نامی خاندان سے ہے.68 سال کا ہوں.ہم سب اہلِ خانہ اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ مسیح موعود آچکے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ ہمیں گواہی دینے والوں کی صف میں شمار کیا جائے.اور اس کے ساتھ ہم آپ کی خدمت میں یہ بھی درخواست دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری آئندہ نسلوں میں علمائے اسلام اور مسلمان ڈاکٹر پیدا کرے.اُن کے ہاں ڈاکٹروں کی بھی کمی ہوگی.نام نہاد علماء تو پہلے بھی اُن کے ہیں، لیکن وہ حقیقی علماء کے لئے دعا کی درخواست کرتے ہیں کہ جو حقیقی عباد الرحمن ہوں.جو اللہ تعالیٰ کے صحیح احکامات پر چلنے والے ہوں.اُس کی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہوں تو ان کے بارے میں وہاں کے مبلغ نے تعارف لکھا ہے کہ موصوف احمدیت کے سخت مخالفت تھے.ان کا بیٹا پہلے احمدی ہو گیا اور یہ مخالفت کرتے رہے بلکہ اُس کو دھمکیاں دیتے رہے کہ تمہیں گھر سے نکال دوں گا.لیکن کسی طریقے سے 2008ء میں خلافت جو بلی کے جلسے میں شامل ہو گئے ، اور اس جلسے کے دوران ہی ان پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے بیعت کر لی اور اب مبلغ لکھتے ہیں کہ وفا میں اتنے آگے بڑھ چکے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کے صدقے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک خاص عشق ہو چکا ہے.کہتے ہیں احمدیت سے پہلے جب ہماری بحث ہوتی تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ان کو شدید نفرت تھی.لیکن اب یہ حال ہے کہ سیدنا مسیح موعود کے عاشق صادق اور فدائی ہو چکے ہیں.جب ان کو شروع میں جماعتی کتب دی گئیں تو بہت اعتراض کرتے تھے اور اب یہ حال ہے کہ اسلامی اصول کی فلاسفی کا از بک ترجمہ ہوا ہے تو کہتے ہیں پہلے میں نے ایک دفعہ پڑھی، پھر مجھے سمجھ آئی.پھر دوسری دفعہ پڑھی تو مجھے اور سرور حاصل ہوا.اب میں تیسری دفعہ پڑھ رہا ہوں.تو یہ ہے نئے آنے والوں کے ایمان کی حالت.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کرتے چلے جار ہے ہیں.یہ بھی رشین ملکوں میں شمار ہونے والی ایک سٹیٹ ہی ہے.اللہ تعالیٰ کرے کہ وہ وقت آئے جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام کو یہاں بھی پورا ہوتا دیکھیں کہ ہمیں وہاں ریت کے ذروں کی طرح احمدیت نظر آئے.پس اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے سے حقیقی اسلام کا دنیا کو پتہ چل رہا ہے.یہ وہ علاقے ہیں جہاں ہماری مسجد میں نہیں ہیں بلکہ کھل کے تبلیغ کی بھی اجازت نہیں اور تعارف بھی احمدیت کا اچھی طرح نہیں ہو سکتا.لیکن اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں
خطبات مسرور جلد دہم 123 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 فروری 2012ء کو قبول فرماتے ہوئے جنگ کی مہار اس طرف پھیر رہا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے خودلوگوں کی توجہ پیدا ہو رہی ہے اور احمدیت کی فتح بھی انشاء اللہ تعالیٰ دعاؤں سے ہی ہونی ہے.ہمیں جو دنیا کے ان ملکوں میں، مغربی ممالک میں رہتے ہیں یہاں مذہبی آزادی بھی ہے اور عبادت کرنے میں بھی کوئی روک نہیں، ان ملکوں کے رہنے والوں کے لئے بھی دعائیں کرنی چاہئیں اور جن رشین سٹیٹس کا میں نے ذکر کیا اور بعض دوسرے مسلمان ملکوں کا بھی ، جہاں ہمیں آزادی سے تبلیغ کی اجازت نہیں ہے ان کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پابندیوں اور روکوں کو بھی دور فرمائے اور وہ بھی آزادی سے مسیح موعود کی جماعت میں شامل ہونے والے بن سکیں.اپنی مسجدیں بنانے والے بن سکیں.یہاں میں نے ان ملکوں میں مذہبی آزادی کا ذکر کیا ہے لیکن اس کے باوجود یہاں کے قانون نے کونسل ہمسایوں کو ایسے اختیارات دیئے ہوئے ہیں جن سے اگر وہ چاہیں تو کسی بھی عمارت کی تعمیر میں روک ڈال سکتے ہیں.یہاں کی مسجد کی تعمیر میں بھی کونسل کی طرف سے پہلے اجازت ملنے کے بعد پھر روکیں ڈالی گئیں اور اس وجہ سے مسجد لیٹ بھی ہوئی.اجازت نامہ منسوخ کر دیا گیا.لیکن میں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ نے یہاں کے احمدیوں کی دعاؤں کو قبول فرما یا اور سنا اور جب عدالت میں یہ مقدمہ گیا تو ہمارے حق میں فیصلہ کر دیا بلکہ مقدمہ کا تمام خرچ بھی کونسل پر ڈال دیا.پس اس طرح یہاں کے احمدیوں کو عدالت سے انصاف ملا تو ان احمدیوں کو بھی عدالت کا بہت زیادہ شکر گزار ہونا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کا بھی اس کے فضل پر شکر گزار ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ کے آگے مزید جھکنے والا بنا چاہئے.اللہ کا حقیقی عبد بن کے اس مسجد کا حق ادا کرنا چاہئے.اور شکر گزاری کے لئے با قاعدہ مسجد میں پانچ وقت یہاں نمازیوں کو آنا چاہئے.ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ملائکہ تم میں سے ہر ایک کے لئے دعا مانگتے رہتے ہیں.جب تک کہ وہ اپنی نماز کی جگہ میں ٹھہرا رہتا ہے.جس نے کہا کہ اُس نے نماز پڑھی.فرشتے کہتے ہیں کہ اے اللہ ! اُسے بخش دے.اے اللہ ! اُس پر رحم کر.(صحیح مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلاة باب فضل صلاة الجماعة وانتظار الصلاة حديث 1508) کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے لئے فرشتے دعائیں کریں اور پھر ان کی دعاؤں کے ساتھ ایسے لوگوں کی اپنی دعا ئیں بھی شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والی ہوں.جس کو اللہ تعالیٰ کی بخشش اور اُس کا رحم مل گیا اُسے اور کیا چاہئے ؟ اللہ ہمیں اُن لوگوں میں شامل فرمائے جو اللہ تعالیٰ کی بخشش
خطبات مسرور جلد دہم 124 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 فروری 2012ء اور رحم کے حاصل کرنے والے بنتے ہیں.آخر میں مسجد کی تعمیر کے بارے میں جو مجھے معلومات دی گئی ہیں، اُن کا بھی مختصر ذکر کر دوں.کچھ ذکر تو شروع میں ہو گیا کہ کس طرح یہ مسجد بنی اور دفتری عمارت کو تبدیل کیا گیا.اس کی خرید پر اور تعمیر پر تقریباً نو لاکھ پاؤنڈ خرچ آیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے، میرا خیال ہے ہونسلو (Hounslow) کی دو جماعتوں نے ، یہی مجھے بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر خرچ اٹھایا اور ریجن میں بھی بعض جگہوں سے دوسری جماعتوں نے بھی چندے دیئے ہوں گے.اگر صرف ہونسلو کی اور فیلتھم (Felthum) کی جماعتوں کو شمار کیا جائے تو دوصد کے قریب یہاں چندہ دہند بنتے ہیں.کل تعداد تو ان کی چھ سو ہے.تو اس نے یہ خرچ اُٹھایا اور مسجد بنائی.اگر ریجن کو بھی شامل کر لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ چار سو کے قریب بن جائیں گے، پھر بھی یہ کافی بڑی رقم ہے.جو بھی صورتحال ہو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس جماعت نے بڑی قربانی دی ہے.اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے.اور خاص طور چھ اشخاص ایسے ہیں جن کی بڑی قربانیاں ہیں جنہوں نے تقریباً دولاکھ اسی ہزار کے قریب قربانی کی ہے.ایک نے ایک لاکھ سے او پر ادا ئیگی کی.باقی نے بیس ہزار سے لے کے پچاس ہزار کے قریب تک.اللہ تعالیٰ ان سب کے اموال ونفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے.آخر پر پھر یاد دہانی کے طور پر میں کہتا ہوں کہ مسجد کا حق اُس کی تعمیر سے یا دس، ہیں، پچاس ہزار یالا کھ پاؤنڈ کی قربانی سے حاصل نہیں ہوتا.اس طرح یہ مقصد کبھی حاصل نہیں ہوگا.اصل مقصد اس کو آباد کرنے سے حاصل ہوتا ہے.اور آبادی بھی ایسی جو خالصہ اللہ ہو.خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لئے ہو اور مسجد سے باہر نکل کر بھی اس عبادت کا ایسا اثر ہو کہ خدا تعالیٰ کے بندوں کا حق ادا کرنے والے بنیں.نیکی اور تقویٰ میں ترقی کرنے والے بنیں اور یہی چیز ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والا بنائے گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.ایک دعا کی بھی تحریک کرتا ہوں، پاکستان میں تو روز ہمارے ساتھ معاملات ہوتے ہی ہیں لیکن آجکل انڈیا میں بھی حیدر آباد دکن میں ہماری مسجدوں پر غیروں کی نظر ہے اور قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کیونکہ وہاں مسلمان کافی تعداد میں ہیں اس لئے اُن کے شور سے حکومت بھی کچھ اُن کے زیر اثر آرہی ہے.اللہ تعالیٰ ان کے شر سے ہمیں بچائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 16 مارچ تا 22 مارچ 2012 جلد 19 شماره 11 صفحه 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد دہم 125 9 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 مارچ 2012ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت مرزا سر وراحمدخلیفتہ مسیح الامس ایدہ اللہ تعالى نصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 2 مارچ 2012ء بمطابق 2 امان 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج میں پھر صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے کچھ واقعات پیش کروں گا جو ان کے احمدیت قبول کرنے کے بعد جرات اور شجاعت کے متعلق ہیں.نیز ان سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کتنی گہرائی میں وہ دین کو سمجھنے، قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرتے تھے اور جب ایک دفعہ سمجھ آ جاتی تھی اور قبول کر لیا تو پھر اس راہ کی ہر تکلیف اور ہر ظلم کو انہوں نے برداشت کیا.رجسٹر روایات صحابہ سے مختلف عنوانوں کے تحت میں نے واقعات اکٹھے کروائے ہیں جو مختلف وقتوں میں پیش کرتا رہوں گا.بہر حال اس وقت چند واقعات ہیں جن سے اُن کی شجاعت اور دلیری کا بھی اظہار ہوتا ہے.میاں عبد العزیز صاحب المعروف مغل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ”میں اور ایوب بیگ، مولوی عبد اللہ ٹونکی کے مکان پر گئے اور مولوی عبد اللہ ٹونکی کو مرزا ایوب بیگ صاحب نے پوچھا کہ آپ نے ہم کو اور ہمارے آقا کو یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کافر کیوں کہا ہے؟ مولوی صاحب اور مینٹل کالج میں عربی کے پروفیسر تھے اور فتویٰ کفر میں انہوں نے بھی اپنی مہر ثبت کی تھی.مرزا صاحب کے سوال پر ( یعنی مرزا ایوب بیگ کے سوال پر ) اُس نے کہا کہ چونکہ (فلاں فلاں مولوی ، مولوی غلام دستگیر قصوری، مولوی محمد حسین بٹالوی ، مولوی نذیر حسین دہلوی، مولوی عبدالجبار غزنوی نے فتویٰ دیا ہے اس لئے میں نے بھی لکھ دیا.تو حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب نے اس کو کہا بڑی دلیری سے کہ چونکہ یہ تمام جہنم میں جائیں اس لئے آپ بھی ساتھ ( جہنم میں ) جائیں.اس پر کہنے لگا میں نے غلطی کی ہے.میں نے مرزا صاحب کی کتابوں کو نہیں دیکھا.اس پر ہم دونوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطبات مسرور جلد دہم 126 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 مارچ 2012ء کی سب کتابیں جو اُس وقت لکھی جا چکی تھیں، اُس کے گھر جا کر دے آئے اور تین مہینے کے لئے اُس سے کہہ دیا کہ آپ ان کا مطالعہ فرمالیں.تین ماہ کے بعد ہم پھر گئے.پھر کہنے لگا کہ آپ بچے ہیں.( یہ دونوں نوجوان تھے.ان کو کہنے لگا کہ آپ بچے ہیں.) ابھی آپ نہیں سمجھ سکتے.( کہتے ہیں ) مرزا (ایوب بیگ) صاحب نے فرمایا کہ بی.اے پاس تو میں ہوں.(پڑھا لکھا ہوں ، بی.اے پاس ہوں.) اگر انگریزی آپ نے پڑھنی ہے تو مجھ سے پڑھ سکتے ہیں.اگر مجھے بھی عربی پڑھنے کی ضرورت ہوئی تو آپ سے پڑھ لوں گا.اگر ہم آپ کے خیال میں بچے ہی ہیں تو بچوں پر تو کوئی حساب کتاب ہی نہیں.کیا آپ ایسا ہمیں لکھ کر دے سکتے ہیں.( پھر ہم وہاں سے آگئے.کہتے ہیں ) تیسری دفعہ ( ہم ) پھر گئے اور خواجہ کمال الدین کے خسر خلیفہ رجب الدین کو ساتھ لے گئے کیونکہ وہ بوڑھا تھا.ہم اس خیال پر اسے ساتھ لے گئے کہ اگر وہ اب کے بھی کہے گا کہ تم ناسمجھ بچے ہو تو ہم خلیفہ صاحب کو پیش کر دیں گے.اس پر مولوی عبداللہ نے خلیفہ رجب الدین ( صاحب سے ادھر اُدھر کی) باتیں شروع کیں کہ بہت اچھا ہوا کہ مسلمانوں نے آٹے دال کی دکانیں کھول لی ہیں اور مٹی کے برتنوں کی دکانیں کھول لی ہیں.( لکھتے ہیں کہ ) ی لیکھرام کے قتل کے بعد کا واقعہ ہے.اس پر ایوب بیگ نے مولوی عبد اللہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ الہی قیامت کے دن میں خدا کے سامنے اسی طرح مولوی عبد اللہ کا ہاتھ پکڑ کر کہوں گا کہ الہی ! تین دفعہ ہم اس کے مکان پر چل کر گئے.اس نے ہم کو نہیں سمجھایا کہ ہم کیوں کا فر ہیں.اس پر مولوی عبد اللہ ٹونٹی نے کہا کہ مجھے اس کی پرواہ نہیں.اس پر ایوب بیگ صاحب نے فرمایا کہ اگر آپ خدا تعالی کی بھی پرواہ نہیں کرتے تو میں آپ کو عمر بھر کبھی السلام علیکم نہیں کہوں گا.پھر وہاں سے ہم اُٹھ کر چلے آئے.اور پھر آئندہ اس عہد کو مرزا ایوب بیگ نے اپنی زندگی بھر پورا کیا.اور میں نے مولوی عبد اللہ کی زندگی تک پورا کیا.رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ.جلدنمبر 9 صفحہ 26 تا28) ی ڈھٹائی جو ان نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں کی ہے، جو اُس وقت سے چلی آرہی ہے اور آج تک چلتی چلی جارہی ہے.کتابیں پڑھتے نہیں یا کچھ حصہ پڑھ لیں گے اور بغیر سیاق وسباق کے یا دیکھا دیکھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اعتراض کرنے شروع کر دیں گے بلکہ عرب ملکوں میں تو اکثر جو واقعات وہاں سے آتے ہیں وہ یہی ہے کہ پاکستان کے مولویوں نے متفقہ طور پر کیونکہ احمدیوں کو کافر کہہ دیا اس لئے اب یہ کافر ہیں ہمیں اور کچھ سوچنے سمجھنے کی ضرورت نہیں.تو احمدیت کی ابتدا سے یہ سلسلہ چل رہا ہے.آج تک اُسی طرح چلتا چلا جا رہا ہے.حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحب کچھ دن سکول نہیں گئے.یہ بیان کرتے ہیں کہ چوتھے روز
خطبات مسر در جلد دہم 127 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 مارچ 2012ء میں سکول گیا تو مجھے ایک شخص مرزا رحمت علی صاحب آف ڈسکہ جو انجمن حمایت اسلام میں ملازم تھے، (انہوں ) نے اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ تم چار دن کہاں تھے.میں نے صاف صاف اُن سے عرض کر دیا کہ میں قادیان گیا تھا.انہوں نے کہا کہ بیعت کر آئے ؟ میں نے کہا: ہاں.انہوں نے فرمایا کہ یہاں مت ذکر کرنا.میں بھی احمدی ہوں اور میں نے بھی بیعت کی ہوئی ہے مگر میں یہاں کسی کو نہیں بتا تا تا کہ لوگ تنگ نہ کریں.مگر میں نے اُن سے عرض کیا کہ میں تو اس کو پوشیدہ نہیں رکھوں گا چاہے کچھ ہو.چنانچہ ہمارے استاد مولوی زین العابدین صاحب جو مولوی غلام رسول قلعہ والوں کے بھانجے تھے اور ہمارے قرآن حدیث کے استاد تھے اُن سے میں نے ذکر کیا کہ میں احمدی ہو گیا ہوں.اس پر انہوں نے بہت برا منایا اور دن بدن میرے ساتھ سختی کرنی شروع کر دی.حتی کہ وہ فرماتے تھے کہ جو مرزا کو مانے ، سب نبیوں کا منکر ہوتا ہے.اور اکثر مجھے وہ کہتے تھے کہ تو بہ کرو اور بیعت فسخ کر لو.مگر میں اُن سے ہمیشہ قرآن شریف کے ذریعے حیات وفات مسیح پر گفتگو کرتا جس کا وہ کچھ جواب نہ دیتے اور مخالفت میں اس قدر بڑھ گئے کہ جب اُن کی گھنٹی آئے ، ( یعنی اُن کا پیریڈ جب آتا تھا ) تو وہ مجھے مخاطب کرتے تھے.اومرزائی ! بینچ پر کھڑا ہو جا.میں اُن کے حکم کے مطابق بینچ پر کھڑا ہو جاتا اور پوچھتا کہ میرا کیا قصور ہے؟ وہ کہتے کہ یہی کافی قصور ہے کہ تم مرزائی ہو اور کافر ہو.کچھ عرصے تک میں نے ان کی اس تکلیف دہی کو برداشت کیا.پھر مجھے ایک دن خیال آیا کہ میں پرنسپل کو جو نومسلم تھے اور اُن کا نام حاکم علی تھا کیوں نہ جا کر شکایت کروں کہ بعض استاد مجھے اس وجہ سے مارتے ہیں کہ میں احمدی کیوں ہو گیا ہوں.اس پر انہوں نے ایک سرکلر جاری کر دیا کہ مذہب کے اختلاف کی وجہ سے کوئی مدرس، ( کوئی ٹیچر ) کسی لڑکے کو کوئی سزا نہ دے.چنانچہ اس آرڈر کے آنے پر مولوی زین العابدین صاحب اور اُن کے ہم خیال استاد ڈھیلے پڑ گئے اور مجھ پر جو سختی کرتے تھے اُس میں کمی ہو گئی.“ یہ واقعات کوئی سو سال پرانے نہیں ہیں.اُس جہالت کے وقت کے نہیں ہیں بلکہ آج بھی پاکستان میں دہرائے جاتے ہیں.آج بھی بچوں سے یہی سلوک ہوتا ہے.گزشتہ دنوں ایک طالب علم کا مجھے خط آیا.اُس کے بڑے اچھے نمبر تھے.ان نمبروں کی بنا پر کالج میں داخلہ مل گیا.فیس جمع کروانے گیا تو وہاں انتظامیہ کے کچھ اور بھی افسر بیٹھے تھے.انہیں کہیں سے پتہ لگ گیا کہ یہ احمدی ہے تو انہوں نے پوچھا کہ تم احمدی ہو؟ اُس نے کہا کہ ہاں میں احمدی ہوں.انہوں نے کہا یہ لو پیسے اور تمہارا داخلہ کینسل اور آئندہ یہاں نظر نہ آنا نہیں تو تمہاری ٹانگیں توڑ دیں گے.66 ( رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.جلد نمبر 9 صفحہ 127 تا 129 )
خطبات مسرور جلد دہم 128 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 مارچ 2012ء اسی طرح چند دن ہوئے مجھے ایک لڑکی کا خط آیا.بڑے اچھے نمبر اُس کے آئے ، پڑھائی میں ہوشیار ہے لیکن بورڈ کے امتحان کا جو داخلہ فارم ہے.اب انہوں نے نیا فارم بنایا ہے، کمپیوٹرائز فارم ہے.جس پر ٹک (Tick) کرنا ہے، مسلم یا نان مسلم.پہلے تو ہمارے بچے احمدی لکھ دیا کرتے تھے اور اب وہ آپشن (Option) نہیں رہی.یہ بچی کہتی ہے کہ کیونکہ آپ نے کہا ہوا ہے کہ مسلمان لکھنا ہے تو میں مسلمان کے کالم پر ٹک کرتی ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دینے کی جو ڈیکلریشن ہے اُس پر بھی دستخط کرو.وہ جب ہم نہیں کرتے تو داخلہ کینسل ہو جاتا ہے.تو یہ سختیاں سکول کے بچوں پر اور اچھے بھلے ہوشیار بچوں پر آج بھی ہو رہی ہیں.وہاں تو پرنسپل انصاف پسند تھا.اُس نے کچھ انصاف کیا اُس نے اور ان پر یہ تختی بند ہوگئی.لیکن آجکل تو حکومتی قانون کے تحت یہ بے انصافی کی جارہی ہے اور انتہا تک کی جا رہی ہے اور کافی اور بچے بھی ہیں جو اس لحاظ سے متاثر ہورہے ہیں.بہر حال یہ ظلم چل رہا ہے لیکن اس ظلم کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو آجکل کے ہمارے نوجوان ہیں ان کے ایمان بھی مضبوط ہورہے ہیں.اسی طرح حضرت مہر غلام حسن صاحب اپنی بیعت کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ”میں اور مولوی فیض دین صاحب بیٹھے تھے (کہ) ایک شخص بنام رحیم بخش صاحب قوم درزی یہاں آیا.آکر کہنے لگا کہ مولوی صاحب ! آج طبیعت بہت پریشان ہے.میں نے اُس کی وجہ پوچھی تو وہ بیان کرنے لگے کہ حامد شاہ ایک فرشتہ اور باخدا آدمی ہے.ہندو مسلمان اُن کی تعریف کرتے ہیں.(سب اُس کی تعریف کر رہے ہیں، چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان ہو.آج اُن سے (ایک) بہت (بڑی) غلطی ہوئی ہے.آج انہوں نے اپنے ماموں عمر شاہ کو کہا ہے کہ ماموں جان! آپ کا حضرت ابن مریم کے متعلق کیا خیال ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ بیٹا! میرا تو یہی مذہب ہے کہ وہ زندہ آسمان پر ہیں.کسی زمانے میں امت محمدیہ کی اصلاح کے لئے آئیں گے.شاہ صاحب نے کہا کہ ماموں صاحب! آج سے آپ میرے امام نہیں ہو سکتے.کیونکہ یہ عقیدہ مشرکانہ ہے کہ ایک انسان کوحی و قیوم اور لازوال مانا جائے.دوسری بات یہ کہ سید و مولیٰ سرور کائنات (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اس عقیدے سے بڑی ہتک ہوتی ہے کہ وہ تو زمین میں مدفون ہوں اور حضرت عیسیٰ آسمان پر اُٹھائے جائیں.عمر شاہ نے اس پر کہا کہ اچھا بیٹا آپ آگے کھڑے ہوا کریں اور میں پیچھے پڑھا کروں گا.( کہتے ہیں اُن کی یہ باتیں سنتے ہی ) میں نے کہا کہ مولوی صاحب ! میں نے مان لیا ہے کہ مسیح مرگیا ہے.اگر مسیح زندہ رہیں تو توحید میں بڑا فرق آتا ہے.آپ یہ مت خیال کریں کہ احمدی ہوں.میں
خطبات مسرور جلد دہم 129 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 مارچ 2012ء ابھی تک احمدی نہیں مگر مرزا صاحب کی یہ بات ضرور سچی ہے.میں کبھی گوارا نہیں کر سکتا کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کی جائے.مولوی صاحب نے میرے منہ کے آگے ہاتھ رکھ دیا.میں نے کہا مولوی صاحب! کیوں روکتے ہیں؟ مولوی صاحب نے کہا کہ اگر آپ کا عقیدہ ہو گیا ہے کہ مسیح مرگیا ہے تو اتنا جوش و خروش دکھانے کی کیا ضرورت ہے؟ ( ٹھیک ہے.آپ نے مان لیا تو آرام سے چپ کر کے بیٹھے رہیں.کہتے ہیں ) میں نے کہا مولوی صاحب! مسجد سے نکلتے ہی میں منادی کرتا چلا جاؤں گا، (لوگوں کو بتا تا چلا جاؤں گا) کہ اگر حضرت عیسی آسمان پر ہے تو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ہتک ہے.یہ میری جان گوارا نہیں کر سکتی.میں نے جاتے ہی اپنے والد صاحب کو سمجھایا اور میرا بڑا بھائی غلام حسین جو عارف والے کا امیر جماعت ہے، (اُس وقت احمدی نہیں تھے ) وہ دونوں (میری بات سن کر ) جل کر آگ بگولہ ہو گئے.اور میرا نام دجال، ملعون وغیرہ رکھا.( کہتے ہیں) مجھے یہ خیال آیا کہ کل مجھ پر مولویوں کا حملہ ہو گا.میں نے رات کے وقت اس احمدی کو جس کو ہم نے مسجد سے روکا تھا، ایک نوکر کے ذریعہ بلایا (ابھی یہ احمدی نہیں ہوئے تھے لیکن اپنا عقیدہ بیان کر رہے ہیں.کہتے ہیں میں نے جب عقیدہ بیان کیا تو پھر مجھے خیال آیا کہ والدین سے بھی اور بھائی سے بھی ڈانٹ ڈپٹ ہو چکی ہے، اب مولوی بھی میرے پیچھے پڑیں گے تو میں نے اُس احمدی کو بلوایا جس کو ہم نے اس وجہ سے مسجد سے نکالا تھا.) میں نے اُسے پوچھا کہ کیا مرزا صاحب نے وفات مسیح پر کوئی دلیل بھی دی ہے یا یونہی کہ دیا ہے؟ اس نے کہا کہ تیس آیات پیش کی ہیں.میں نے حیران ہو کر کہا کہ ہم دن رات قرآن پڑھتے ہیں اور ہمیں معلوم نہیں.یہ کیا بات ہے؟ ایک ہی آیت ہمیں بتا دو.اُس نے ساتویں سپارے کی آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَني ( المائدہ:118) بتادی.میں نے کہا کہ اب میری تسلی ہو گئی.اب کوئی مولوی میرا مقابلہ نہیں کر سکے گا.فجر کے وقت مولوی غلام حسن صاحب اور مولوی فیض دین صاحب اور دو تین اور آدمی میرے بھائی کے ہمراہ آئے.میں مسجد کے دروازے میں کھڑا تھا کہ یہ جا پہنچے.مولوی غلام حسن نے کہا کہ مسیح کے آپ کیوں دشمن ہوئے ہیں؟ میں نے کہا مولوی صاحب! میں نے کیا دشمنی کی؟ وہ کہنے لگے کہ آپ کا بھائی کہتا ہے کہ یہ مسیح کی موت کا قائل ہو گیا ہے.( یعنی اس بھائی نے یہ شکایت کی تھی.تو ) میں نے کہا مولوی صاحب! کیا کریں وہ تو خودا اپنی موت کا اقرار کر رہا ہے اور آپ کی مثال مدعی ست اور گواہ چست کی ہے.مولوی صاحب نے کہا.( یہ ) کہاں لکھا (ہوا) ہے ( کہ مسیح نے اپنی وفات کا خود اقرار کیا ہے.) میں نے کہا قرآن میں.وہ کہنے لگے (کہ) کونسا قرآن؟ جو مرزا صاحب نے بنادیا؟ میں نے کہا مولوی صاحب ذرا ہوش سے بولیں.خدا پر
خطبات مسر در جلد دہم 130 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 مارچ 2012ء حملہ کر رہے ہیں.کیونکہ وہ (اللہ تعالیٰ ) تو فرماتا ہے کہ میرے قرآن کی کوئی مثل نہیں لاسکتا اور آپ یہ کہہ رہے ہیں ( کہ مرزا صاحب نے قرآن کریم بنا دیا، کچھ تو ہوش کر یں.) کہنے لگے کہاں لکھا ہے؟ میں نے ساتویں پارے کی آیت پڑھی.کہنے لگے ہم تمہیں ایک ہی گر بتاتے ہیں کہ ان بے ایمانوں (یعنی احمدیوں ) کے ساتھ بات نہ کی جائے، تبھی تم بیچ سکتے ہو اور کوئی گر نہیں ہے.بلکہ نظر کے ساتھ نظر نہ ملائی جائے.(اگر نظر ملاؤ گے ) تو بھی اثر ہو جاتا ہے.(ان دوگروں کو یا درکھو تو بیچ کر رہو گے.کہتے ہیں) میں نے کہا مولوی صاحب! سچائی کا اثر ایسے ہی ہوا کرتا ہے.( یہ جو آپ مجھے گر بتا رہے ہیں یہ تو سچائی کی نشانی ہے.مولوی صاحب واپس ہو کر چلے گئے.میرا بھائی جو مخالف تھاوہ نیروبی میں چلا گیا.میں نے بیعت کر لی.والد صاحب اور بیوی کو بھی سمجھا لیا.گویا سب کو سمجھا لیا.بھائی کو نیروبی میں جا کر سمجھ آئی.وہ دس ماہ کے بعد واپس چلے آئے اور آتے ہی بیعت کر لی.( لکھتے ہیں ) اب خدا کے فضل سے ( جب یہ واقعہ لکھ رہے تھے کہ ) ہمارے محلے میں سوڈیڑھ سو افرا داحمدی ہیں.آج بھی یہی لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ نہ ان سے بات کرو، نہ ان سے نظر ملاؤ.اور یہ صرف آج کی بات نہیں ہے.آج سے چودہ سو سال پہلے بھی یہی کہا جاتا تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوی فرمایا تھا.وہ مشہور واقعہ جو حضرت طفیل بن عمرو دوسی کا آتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں مکہ میں آیا، تو قریش نے مجھے کہا کہ تم ایک معز ز سر دار ہو اور سمجھ دار شاعر ہو.تم ہمارے ملک میں آئے ہو تمہیں بتانا چاہتے ہیں کہ ایک شخص نے ہمارے درمیان دعوی کیا ہوا ہے اور ہمارے اندر تفرقہ ڈال دیا ہے اور ہمیں پراگندہ کر دیا ہے.اس کے کلام میں جادو ہے جس سے باپ بیٹے اور بھائی بھائی اور میاں بیوی علیحدہ ہو جاتے ہیں.ہمیں ڈر ہے کہ آپ اور آپ کی قوم بھی ، اگر ان کی باتیں آپ نے سن لیں تو وہی حال نہ ہو جائے جو ہمارا ہو رہا ہے.لہذا اس شخص سے نہ بات کرنا، نہ اس کی بات سننا.کہتے ہیں کفار نے اس قدر اصرار کیا کہ میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں آپ کی بات نہیں سنوں گا.بلکہ جب مسجد، خانہ کعبہ میں گیا تو اس ڈر سے کانوں میں روئی ڈال لی کہ کہیں آپ کی کوئی بات میرے کانوں میں نہ پڑ جائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں نماز میں مشغول تھے.میں آپ کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا.لیکن خدا تعالیٰ کی تقدیر نے آپ کا کچھ کلام مجھے سنواہی دیا جو مجھے اچھا لگا.تو میں نے دل میں کہا کہ تمہارا برا ہو.تم ایک زیرک انسان ہو.عقل مند ہو.شاعر ہو.اچھے برے کی تمیز جانتے ہو.اس شخص کا کلام تو سنا چاہئے.اگر باتیں اچھی ہوں گی تو مان لینا.اگر بری ہو ئیں تو ترک کر دینا.کہتے ہیں بہر حال میں وہ ہیں ٹھہرا رہا یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز
خطبات مسرور جلد دہم 131 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 مارچ 2012ء ختم کی.گھر کی طرف روانہ ہوئے تو میں بھی آپ کے پیچھے چل پڑا.اور جب حضور گھر پہنچے تو میں آپ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی کہ اے محمد! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ کی قوم نے مجھے آپ کے بارے میں یہ باتیں بتائی ہیں اور انہوں نے مجھے اس قدر اصرار سے ڈرایا ہے کہ میں نے ڈر کے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی ہے.کہیں آپ کی کوئی بات میرے کانوں میں نہ پڑ جائے.لیکن خدا تعالیٰ کی تقدیر نے مجھے کچھ باتیں سنوا دی ہیں اور مجھے وہ اچھی لگیں.اب میں آپ کی باتیں سننا چاہتا ہوں.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے بارے میں بتایا اور قرآن کریم سنایا.اور کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ! میں نے اس سے خوبصورت کلام کبھی نہیں سنا تھا.اور اس سے زیادہ درست بات نہ سنی تھی.چنانچہ انہوں نے کلمہ پڑھا اور اسلام قبول کر لیا.(دلائل النبو پلکسی بتی جلد 5 صفحہ 360-361 باب قصته دوس و الطفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ.....دار الكتب العلمیة بیروت 2002ء) تو یہ ہمیشہ سے مخالفین کا طریقہ چلا آ رہا ہے.جادو گر ہوتا ہے تو مخالفین کی طرف سے ہوتا ہے.کبھی انبیاء کی طرف سے نہیں ہوا.اللہ تعالیٰ نے تو یہی دلیل دی ہے کہ جادو کبھی کامیاب نہیں ہوتا.اور اگر ان کے نزدیک یہ جادو کامیاب ہو رہا ہے تو پھر قرآنی دلیل کے مطابق یہ جادو نہیں بلکہ سچائی ہے جس کو ان کو بھی قبول کر لینا چاہئے.اسی طرح حضرت خلیفہ نورالدین صاحب سکنہ جموں ( یہ جموں کے رہنے والے تھے، خلیفہ نورالدین کہلاتے تھے ) یہ لکھتے ہیں کہ میں مولوی عبدالواحد صاحب غزنوی کو ایک سال تک سمجھا تا رہا.انہوں نے ایک بار مجھ سے کہا کہ مرزا صاحب پر علماء نے کفر کے فتوے لگائے ہوئے ہیں.میں نے کہا کہ تمہارے باپ پر بھی تو مولویوں نے کفر کا فتویٰ لگایا تھا.اس کے بعد انہوں نے ایک مولوی صاحب ( غالباً مولوی محمد لکھو کے والے) کے متعلق کہا کہ اُسے بھی الہام ہوتا ہے.اس سے لکھ کر پوچھتا ہوں کہ مرزا صاحب کے دعوی کے متعلق خدا کا کیا حکم ہے.ایک ماہ بعد اس مولوی کا یہ جواب آیا کہ میں نے دعا کی تھی ، (جواب سنیں ذرا مولوی صاحب کا ) میں نے دعا کی تھی ، خدا کی طرف سے جواب ملا ہے کہ ”مرزا صاحب کا فر“.میں بھدرواہ کام پر گیا ہوا تھا.جب جموں واپس آیا تو مجھے یہ خط دکھلایا گیا.میں نے کہا کہ الہام کرنے والا خدا نعوذ باللہ کوئی بڑا ڈرپوک خدا ہے جو مرزا صاحب کو کافر بھی کہتا ہے اور ساتھ ”صاحب“ بھی بولتا ہے.( یہ نکتہ بھی انہوں نے اچھا نکالا کہ کہہ رہا ہے کہ مرزا صاحب کا فر“.ایک طرف تو اللہ کہہ رہا ہے کہ کافر ہے اور دوسرے ”صاحب“ کا لفظ بھی استعمال کر رہا ہے جو بڑا عزت کا لفظ ہے.ایسے ڈرپوک خدا کا الہام قابل اعتبار نہیں.“ (رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.جلد نمبر 12 صفحہ 66تا67)
خطبات مسرور جلد دہم 132 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 مارچ 2012ء تو اس طرح بھی یہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے نکتے نکالا کرتے تھے.حکیم عبد الصمد خان صاحب ولد حکیم عبد الغنی صاحب دہلی کے تھے.انہوں نے 1905ء میں بیعت کی تھی یہ لکھتے ہیں کہ میں 1891ء میں ایک مولوی صاحب سے جلالین پڑھا کرتا تھا.اس میں يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى ( آل عمران : 56 ) والی آیت آگئی جس کی تفسیر میں لکھا تھا (کہ) میں حیران ہوا کہ مِنْ غَيْرِ مَوت کہاں سے آ گیا.یہ متن کی تفسیر ہو رہی ہے یا متن کا مقابلہ ہورہا ہے؟ رات غور کرتے کرتے دو بج گئے.اتفاقاً والد صاحب کی آنکھ کھلی.انہوں نے اتنی دیر جاگنے کا سبب دریافت کیا.میں نے اصل حقیقت کہ سنائی.فرمایا.میاں استاد کس لئے ہوتا ہے.تم صبح جا کر مولوی صاحب سے یہ معاملہ حل کروالینا.چنانچہ میں صبح مولوی صاحب کے پاس گیا اور سارا قصہ کہہ سنایا.مولوی صاحب کہنے لگے کہ میاں متقدمین سے لے کر متاخرین تک سب کا یہی مذہب چلا آتا ہے.اس میں جھگڑا مت کرو.( کہ شروع سے یہی مسئلہ چلا آ رہا ہے، چھوڑو اس کو.مگر میں نے کہا کہ جب تک میری سمجھ میں نہ آئے میں آگے ہرگز نہیں چلوں گا.اس پر وہ بہت ناراض ہوئے.میرے والد صاحب کو بھی بلوایا.مگر انہوں نے کہا کہ آپ استاد ہیں اور یہ شاگرد.(میرے استاد کو کہہ دیا کہ تم استاد ہو.یہ تمہارا شاگرد ہے.میں نے تمہارے پاس پڑھنے بھیجا ہے.) آپ جانیں اور آپ کا کام.میں اس میں دخل نہیں دیتا.اور یہ کہہ کر (والد صاحب تو اُٹھ کر) چلے گئے.اور مولوی صاحب نے پھر مجھے کہنا شروع کیا کہ پڑھو.میں نے کہا جب تک آپ سمجھا ئیں نہ، میں کیسے پڑھ سکتا ہوں.اس پر مولوی صاحب کو غصہ آیا.اور انہوں نے مجھے ایک تھپڑ مار کر کہا کہ ایک تجھے جنون ہوا ہے اور ایک مرزا کو.میں حیران ہوا کہ یہ مرزا کون ہے؟ ( اُن کی واقفیت بھی نہیں تھی.اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام بھی نہیں سنا تھا.کہتے ہیں میں حیران ہو گیا اس بات پر کہ مرزا کون ہے؟) ساتھ ہی میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں کسی اصل پر قائم ہوں؟ ( بہر حال یہ میرا خیال نہیں ہے بلکہ اس کی کوئی بنیاد ہے.میرے دل میں جو یہ خیال آیا تو اور لوگ بھی ہیں جو یہ خیال رکھتے ہیں.یونہی میں نے وقت ضائع نہیں کیا.اس پر میں نے مولوی صاحب کو کہا کہ آپ جب تک سمجھا ئیں گے نہیں میں آگے نہیں چلوں گا.یہ دین ہے اور دین میں جبر جائز نہیں.آج آپ تھپڑ مار کر مجھے اپنے مذہب پر کر لیں گے.کل کو کوئی اور مولوی صاحب دو تھپڑ مار کر اس کے مخالف کہلوالیں گے اور پرسوں کوئی تین تھپڑ مار کر ان کے بھی خلاف کہلوا لے گا.تو یہ کیا مذاق ہے؟ میں ہر گز نہیں پڑھوں گا.(اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ہر بات کو پُرانے لوگ یونہی نہیں مان لیا کرتے تھے.بڑی
خطبات مسرور جلد دہم 133 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 مارچ 2012ء گہرائی میں جایا کرتے تھے.کہتے ہیں ) اس جھگڑے میں گیارہ بج گئے مگر میں نے نہ پڑھنا تھا نہ پڑھا.شام کو دوسرے استاد کے پاس گیا.اُس نے بھی کہا کہ ایک تجھے جنون ہوا ہے اور ایک مرزا کو.( پھر اُس نے بھی یہی بات دہرائی کہ ایک تم یہ بات کر رہے ہو، اس کا مطلب پوچھ رہے ہو، دوسرا ایک اور شخص ہے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا حوالہ دیا.کہتے ہیں) اس سے میرا دل اور مضبوط ہو گیا کہ میری بات کمزور نہیں ہے.پھر تیسرے استاد مولوی عبدالوہاب صاحب کے پاس گیا.انہوں نے کہا کہ یہ تو بڑا قصہ ہے.اس کا تو مدعی موجود ہے جو کہتا ہے کہ حضرت عیسی فوت ہو گئے ہیں اور جس عیسی کی آمد کا لوگ انتظار کر رہے ہیں وہ میں ہوں.میں نے کہا پہلی بات تو میری سمجھ میں آگئی ہے مگر دوسری کا ابھی پتہ نہیں لگا.انہوں نے کہا کہ میں پنجاب میں گیا تھا.بائیس دن وہاں رہا.اُن کا ایک مرید مولانا نورالدین ہے.حکمت میں تو اُس کا کوئی ثانی نہیں اور میں نے اُس کے دینی درسوں کو بھی سنا ہے.بڑے بڑے مولوی اُسکے سامنے دم نہیں مار سکتے.انہوں نے اپنی بیعت کا ذکر نہ کیا.( گو یہ مولوی صاحب بیعت کر آئے تھے لیکن اس نوجوان کے سامنے بیعت کا ذکر نہیں کیا) کیونکہ وہ مخالفت سے ڈرتے تھے.مجھے کہنے لگے کہ اونچا مت بولو.مولوی عبد الغفور صاحب سُن لیں گے.( کوئی دوسرے غیر احمدی مولوی تھے جو وہاں بیٹھے ہوئے تھے.) میں نے کہا مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں.میں صداقت کے اظہار سے کیسے رک سکتا ہوں.خیر اسی طرح پڑھتے پڑھتے 1905 ء کا زمانہ آ گیا.) کہتے ہیں میں نے پڑھائی جاری رکھی.سال 1905ء آ گیا.) حضرت صاحب دہلی تشریف لے گئے اور الف خان صاحب سیاہی والے کے وسیع مکان میں فروکش ہوئے.ہزار ہا لوگ آپ کو دیکھنے کے لئے گئے.میں بھی گیا.میں مخالف مولویوں کے ساتھ گیا.اُن میں طلباء زیادہ تھے اور ہمارے سرغنہ مولوی مشتاق علی تھے.انہوں نے حضرت صاحب پر کچھ اعتراض کرنے شروع کئے جس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ آپ ٹھہر جائیں اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے کاغذ اور قلم دوات لے کر ایک مضمون لکھا اور وہ مولوی مشتاق علی صاحب کو دیا کہ آپ اُسے پڑھ لیں.اگر کوئی لفظ سمجھ نہ آئے تو مجھ سے دریافت کر لیں اور ساتھ ہی اس کا جواب بھی لکھ لیں.( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وہیں ایک چھوٹا سا مضمون لکھا، اُس غیر احمدی مولوی کو ہی دیا کہ اسے پڑھ لیں اور سمجھ نہ آئے تو مجھ سے پوچھ لیں اور ساتھ جو میں نے مضمون لکھا ہے اس کا جواب مجھے لکھ دیں.اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس غیر احمدی مولوی کو یہ کہا کہ پہلے آپ میرا مضمون سنا دیں (خود ہی پڑھ کے، ) اس کے بعد اس کا جواب (جو آپ لکھیں گے وہ) سنا دیں.(تو)
خطبات مسرور جلد دہم 134 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 2 مارچ 2012ء مولوی صاحب نے بغیر جواب لکھے حضرت صاحب ( مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) کا مضمون سنانا شروع کر دیا.حضرت صاحب نے پھر فرمایا کہ اگر جواب آپ لکھ لیتے تو اچھا تھا.( خود بھی اس کا جواب لکھ لیتے تا کہ وقت نہ ضائع ہوتا.) مگر انہوں نے کہا کہ نہیں.( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مضمون پڑھنا شروع کر دیا کہ ) میں زبانی جواب دے دوں گا.( مجھے آپ کے اس مضمون کا جواب لکھنے کی ضرورت نہیں.خیر انہوں نے حضرت صاحب کا مضمون پڑھ کر سنا دیا اور جب سارا مضمون پڑھ کے سنا دیا تو (اس کے بعد ) دیر تک خاموش کھڑے رہے.جواب نہیں دے سکے.ساتھ کے طلباء میں سے بعض نے کہا کہ اگر ہم کو یہ معلوم ہوتا کہ آپ جواب نہیں دے سکیں گے تو ہم کسی اور کو سرغنہ بنا لیتے.آپ نے ہمیں بھی شرمندہ کیا.اس پر مولوی صاحب نے ایک طالب علم کو تھپڑ مارا.( جواب تو آیا نہیں، غصے میں تھپڑ مار دیا.) اور اُس نے مولوی صاحب کو مارا.(اُس نے بھی جواب میں آگے سے مار دیا.ہمارے مفتی محمد صادق صاحب تھے، انہوں نے ان دونوں غیر احمدیوں کی لڑائی چھڑائی.) اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تقریر شروع ہو گئی اور حضرت صاحب کی تقریر میں لوگوں نے کچھ شور کیا.جماعت کے لوگوں نے حضرت صاحب کے گرد گھیرا ڈال دیا.اُس میں کچھ تھوڑی سی جگہ کھلی رہ گئی تھی.( کہتے ہیں ) میں وہاں (جا کے) کھڑا ہو گیا.(ابھی یہ احمدی نہیں ہوئے تھے.تو ) اکبر خان ایک احمدی چپڑاسی تھے ، انہوں نے مجھ کو مخالف سمجھ کر دھکا دے کر وہاں سے ہٹا دیا.تھوڑی دیر کے بعد پھر میں وہاں کھڑا ہو گیا.( دل میں تھوڑی سی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے ایک محبت پیدا ہو چکی تھی اس لئے وہ خالی جگہ دیکھ کر وہاں کھڑے ہو گئے کہ کوئی نقصان نہ پہنچائے.کہتے ہیں اُس نے پھر مجھے دھکا دیا.جب وہ دوبارہ) دھکا دینے کے لئے آگے بڑھے تو حضرت مولوی نورالدین صاحب حضرت خلیفہ اول نے اُن کو روکا کہ کیوں دھکا دیتے ہو؟ اکبر خان نے کہا کہ حضور ! یہ مخالف ہے.مولوی صاحب نے کہا کہ تم نے اُس کا دل چیر کر دیکھ لیا ہے؟ جو آتا ہے اُس کو آنے دو.اس کے بعد مولوی چھریاں والا کھڑا ہو گیا ( وہ بھی کوئی نام تھا، مولوی چھریاں والا ) اُس نے حضرت صاحب کے متعلق بعض بیہودہ الفاظ کہے.اس پر میں نے کہا کہ او چھریاں والے! زیادہ بکواس کی تو تیری زبان پکڑ کر کھینچ لوں گا.اس پر حافظ عبدالمجید نے اُس کو منع کیا کہ اس وقت اپنی فوج کی سپاہ بگڑ رہی ہے.(اس وقت خاموش رہو اور اخلاق کے دائرے سے باہر نہ نکلو کیونکہ اپنے ہی جو لوگ ہیں وہ بگڑ رہے ہیں ہمیں اپنوں سے ہی مار پڑ جانی ہے.اس لئے خاموش کھڑے رہو.) لہذا تم خاموش رہو.کہتے ہیں حضرت صاحب نے تقریر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مسیح موعود بنا کر بھیجا ہے اور
خطبات مسرور جلد دہم 135 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 مارچ 2012ء فرمایا کہ جو لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے میرے متعلق فیصلہ نہیں کر سکتے وہ اس دعا کو کثرت سے پڑھیں جو اللہ تعالیٰ نے اُن کی پنجوقتہ نمازوں میں بتلائی ہے کہ اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم (الفاتحة: 6).چلتے پھرتے ، اُٹھتے بیٹھتے ہر وقت کثرت سے پڑھیں.زیادہ سے زیادہ چالیس روز تک (اگر نیک نیتی سے پڑھیں گے تو اللہ تعالیٰ اُن پر حق ظاہر کر دے گا.( کہتے ہیں ) میں نے تو اُسی وقت سے شروع کر دیا.مجھ پر تو ہفتہ گزرنے سے پہلے ہی حق کھل گیا.میں نے دیکھا کہ حامد کے محلہ کی مسجد میں ہوں.( حامد محلے کا نام ہے اس کی مسجد میں ہوں.) وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے ہیں.(انہوں نے خواب میں دیکھا.میں حضرت صاحب کی طرف مصافحہ کرنے کے لئے بڑھنا چاہتا تھا کہ ایک نابینا مولوی نے مجھ کو روکا.دوسری طرف سے میں نے بڑھنا چاہا تو اُس نے اُدھر سے بھی روک لیا.پھر تیسری مرتبہ میں نے آگے بڑھ کر مصافحہ کرنا چاہا تو اُس نے مجھ کو پھر روکا.تب مجھے غصہ آگیا اور میں نے اُسے مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا.(خواب بتا رہے ہیں کہ) حضرت صاحب نے (خواب میں انہیں ) فرمایا کہ نہیں، غصہ نہ کرو.مارو نہیں.میں نے عرض کیا کہ حضور! میں تو حضور سے مصافحہ کرنا چاہتا ہوں اور یہ مجھ کو روکتا ہے.اتنے میں میری آنکھ کھل گئی.میں نے صبح میر قاسم علی صاحب اور مولوی محبوب احمد اور مستری قادر بخش کے سامنے یہ واقعہ بیان کیا.میر صاحب نے کہا کہ اسے لکھ دو.میں نے لکھ دیا.انہوں نے کہا کہ اس کے نیچے لکھ دو کہ میں اپنے اس خواب کو حضور کی خدمت میں ذریعہ بیعت قرار دیتا ہوں.میں نے لکھ دیا.مولوی محبوب احمد صاحب جو غیر احمدی تھے انہوں نے کہا کہ تم کو اپنے والد کا مزاج بھی معلوم ہے! وہ ایک گھڑی بھر بھی تم کو اپنے گھر نہیں رہنے دیں گے.میں نے کہا مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں.خیر حضرت صاحب نے بیعت منظور کر لی اور مجھے لکھا کہ تمہاری بیعت قبول کی جاتی ہے.اگر تم پر کوئی گالیوں کا پہاڑ کیوں نہ توڑ دے، نگاہ اُٹھا کر مت دیکھنا.( چاہے جتنی مرضی گالیاں پڑیں ، تو نے کوئی جواب نہیں دینا.) اب پھر ( کہتے ہیں ) میں اصل واقعہ کی طرف آتا ہوں.حضرت صاحب کی تقریر کے بعد حضرت مولانا نورالدین صاحب (حضرت خلیفہ اوّل) نے تقریر کی.آپ کی تقریر کے بعد میں نے آپ سے مصافحہ کیا.مولوی صاحب نے فرمایا کہ میاں تم نے دینیات میں کچھ پڑھا ہے؟ میں نے کہا حضور مشکوۃ اور جلالین پڑھی ہے.آپ نے پوچھا کہ فقہ میں کہاں تک پڑھا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ قدوری اور ( ایک اور نام صحیح طرح پڑھا نہیں جار ہاوہ پڑھی ہے.کیونکہ یہ روایات ساری ہاتھ سے لکھی ہوئی ہیں ، اس لئے بعض لکھائی پڑھی نہیں جاتی تو ) آپ نے دریافت کیا ( کہ ) منطق میں کہاں تک پڑھا ہے.
136 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 مارچ 2012ء خطبات مسر در جلد دہم میں نے کہا چھوٹے چھوٹے رسالے پڑھے ہیں.پھر میں نے حضرت صاحب سے مصافحہ کیا اور جب واپس لوٹا تو مولوی عبدالحکیم صاحب نے کہا کہ تم اپنے ہاتھ را اپنی جلد سے چھلواؤ ، ( چھوٹا رمبہ ہوتا ہے جس سے جوتے بنانے والے یا چمڑے کا کام کرنے والے چمڑے کو چھیلتے ہیں.تو کہتے ہیں کہ تم نے کیونکہ حضرت مرزا صاحب سے مصافحہ کر لیا ہے.اس لئے اپنے ہاتھوں کی جو کھال ہے اس کو ادھڑوا ؤ.تب صاف ہو سکتے ہیں اس کے بغیر صاف نہیں ہو سکتے.کیونکہ ان ہاتھوں سے تم نے مرزا صاحب سے مصافحہ کیا ہے.“ ( رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.جلد نمبر 12 صفحہ 13 تا 19 ) نعوذ باللہ.بہر حال یہ تو بیعت کر کے آگئے.اسی طرح حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی ایک واقعہ لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ وزیر آباد میں شمن راجگان کو جو وزیر آباد کے شمالی حصے میں موجود ہے ایک بڑا مکان جس میں ریاست را جوری کشمیر کے راجے مسلمان بستے ہیں، ایک شخص مسمی اللہ والے نے راجہ عطاء اللہ خان صاحب مرحوم سفیر کا بل کو جا کر کہا کہ یونہی لوگ غلام رسول کے پیچھے پڑ گئے ہیں.راجہ صاحب نے فرمایا تو پھر کیا ہے ( یہ احمدی ہو گئے تھے تو انہوں نے کہا یونہی پڑ گئے ہیں ) حافظ صاحب کو لاؤ.یہاں آکر بیان کر دیں کہ ہم مسیح کا رفع جیسا قرآن مجید میں موجود ہے مانتے ہیں اور نزولِ مسیح جیسا حدیثوں میں آیا ہے وہ بھی بیان کر دیں.چنانچہ شہر میں منادی کی گئی اور مسلمانوں کے تمام فرقے ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو گئے.میں جانتا تھا جو میں نے کہنا ہے ( یہ غلام رسول صاحب وزیر آبادی احمدی ہو چکے تھے ) کہتے ہیں میں جانتا تھا جو میں نے کہنا ہے اور یہ بھی جانتا تھا کہ میری بات کو کسی نے نہیں سمجھنا.(اشاروں میں بات کروں گا ) ،صرف ایک شخص ہے جس کا نام حکمت سلطان علی تھا، وہ میرے خاندان کا آدمی ہی تھا اگر کوئی سمجھا تو وہ سمجھے گا.الغرض جب میں پہنچا تو راجہ صاحب نے فرمایا کہ مسمی اللہ والے نے کہا ہے کہ حافظ صاحب مسیح کا رفع اور نزول مانتے ہیں، کیا یہ سچ ہے؟ میں نے کہا بے شک.لوگ سب خاموش ہو جائیں تو میں بیان کر دیتا ہوں.چنانچہ جب سب خاموش ہو گئے.ہزار ہا کے مجمع میں میں اکیلا ہی احمدی تھا.اُس وقت میں نے کہا سنولوگو ! جب قرآن مجید میں مسیح کا رفع آیا ہے اور جس طرح حدیث شریف میں نزول کا ذکر ( آیا ) ہے، میں اس کو برحق مانتا ہوں.جو اُس کو نہیں مانتا، میں اُس کو بے ایمان جانتا ہوں.اتنا لفظ کہنا تھا کہ مخلوق میں آفرین، مبارک بادی کے الفاظ بے ساختہ حاضرین کی زبان سے بآواز بلند شروع ہو گئے اور شور پڑ گیا.میں نے یرانی: چمڑا تراشنے کا اوزار ( فرہنگ آصفیہ زیر لفظ راپی، اردو لغت تاریخی اصول پر زیر لفظ راپی)
خطبات مسرور جلد دہم 137 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 مارچ 2012ء اُس وقت جلدی مجلس سے نکلنا غنیمت سمجھا اور نکل آیا.مگر میرے نکل آنے کے بعد اُس شخص حکیم سلطان علی نے میرے خیال کے مطابق جیسا کہ میں نے سوچا ہوا تھا راجہ صاحب کو کہہ دیا کہ تم لوگوں نے کچھ نہیں سمجھا، وہ تمہاری آنکھوں میں خاک جھونک کر چلا گیا.اُس کو پھر بلاؤ.چنانچہ شمن کے دروازے سے نکلتے ہی کچھ آدمی میری تلاش کے لئے آئے کہ مجھے واپس لے جائیں مگر میں کسی اور راہ سے نکل کر گھر پہنچ گیا.رات خیر خیر سے گزری تو بعد از نماز فجر راجہ صاحب کا ایک پیغامبر بابو فضل الدین صاحب میرے پاس پہنچا اور کہا کہ راجہ صاحب اور دیگر اہل مجلس کہتے ہیں کہ رفع اور نزول کے فقروں سے ہمیں اطمینان نہیں ہوا.میں نے کہا کہ پھر کس طرح اطمینان ہو.اُس نے کہا کہ راجہ صاحب وغیرہ کہتے ہیں کہ جب تک آپ مرزا صاحب کو کافر نہ کہیں ہم نہیں مانتے.میں نے کہا میں کافر کیوں کہوں.اُس نے کہا کہ مولوی جو کہتے ہیں.میں نے کہا کہ چونکہ مولوی مرزا صاحب کو کافر کہتے ہیں میں بھی اُن (مولویوں ) کو کافر کہتا ہوں ( یعنی دل میں کہا کہ مولویوں کو کا فرکہتا ہوں.اُن کو کا فرکہتا ہوں نیت میری یہی تھی کہ مولویوں کو کا فرکہتا ہوں ) اب و مطمئن ہو کر چلا گیا.جب اس مجلس میں جا کر کہا کہ لو جی اب تو مرزا صاحب کو بھی اُس نے کافر کہہ دیا ہے.پھر وہی سلطان علی بولا کہ میاں ! تم دوبارہ آنکھوں میں خاک ڈلوا آئے ہو.اُس نے تو مولویوں کو کا فرکہا ہے.یہ نہیں.پھر جاؤ، جا کے کہو کہ یہ لفظ لکھ دے کہ میں مرزا غلام احمد قادیانی ( علیہ السلام) کو کا فرکہتا ہوں (نعوذ باللہ ).پھر وہ آیا ، مجھ سے یہ کہلوانا چاہا.آخر دو دن گزر گئے تھے.میرا دل بھی کچھ دلیر ہو گیا تو پھر میں نے صاف کہہ دیا کہ بھائی جو کچھ میں نے کہا تھا وہی ٹھیک ہے.یعنی مرزا صاحب کو جو کافر کہتے ہیں میں اُن کو کافر سمجھتا ہوں.پس پھر تو وہ مایوس ہو گئے.الْيَوْمَ يَبِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ (المائده: 4 ).( قرآن شریف کی یہ آیت انہوں نے یہاں لکھی ہوئی ہے کہ آج کے دن وہ لوگ جو کافر ہوئے ، تمہارے دین سے مایوس ہو چکے ہیں، پس تم اُن سے نہ ڈرو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُن سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو ).کہتے ہیں.بس پھر مقدمات شروع ہو گئے.(ان کے خلاف مقدمے شروع ہو گئے.( یہاں تک کہ جن لوگوں پر کبھی بھی جھوٹ بولنے کی امید نہ تھی ، انہوں نے مجھے نقصان پہنچانے کے لئے کھلم کھلا عدالتوں میں جھوٹ بولے.مگر میں نے ان کی کوئی پرواہ نہ کی ، نہ کرتا ہوں.الغرض میں نے یہ واقعہ جو مرزا صاحب کو کافر کہتے ہیں میں اُن کو کا فرکہتا ہوں ، حضرت صاحب مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام) کے حضور بیان کیا تو حضور کھلکھلا کر ہنسے.حضور نے فرمایا کہ دیکھو کتمان ایمان کا بھی ایک درجہ ہوتا ہے، ( یعنی ایمان کو چھپانے کے لئے یا فساد سے بچنے کے لئے اختفاء رکھنا
خطبات مسر در جلد دہم 138 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 مارچ 2012ء ایک درجہ ہوتا ہے ) جیسا کہ سورۃ المؤمن میں.وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إيمانه (المومن: 29).آیا ہے.آپ نے بہت اچھا کیا کہ موقع شناسی کر کے شریروں سے اپنی جان بچا لی (رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.جلد نمبر 12 صفحہ 167 ، 170 تا 172 ) پس یہ داستانیں ہیں جو احمدیوں پر سختی کی داستانیں ہیں، انہیں حق سے ہٹانے کی داستانیں ہیں، انہیں خوفزدہ کرنے کی داستانیں ہیں.یہ پرانے قصے نہیں بلکہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا آج ایک سو تنمیں سال گزرنے کے بعد بھی یہی کچھ احمدیوں سے روا رکھا جا رہا ہے لیکن احمدیت کا قافلہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سب مخالفت کے باوجود آگے سے آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ بڑھتا چلا جائے گا.دنیا میں ہر جگہ احمدی اپنے ایمان کے اظہار میں پختہ تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور ایمان لانے کے بعد اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو سامنے رکھتے ہیں کہ فَلا تَخشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ خوف ہے تو خدا کا ، نہ کہ کسی مخلوق کا.اللہ تعالیٰ افراد جماعت میں ایمانوں کی مضبوطی اور زیادہ پیدا کرے، اور ہمیشہ نہ صرف قائم رکھے بلکہ بڑھاتا چلا جائے.آج پھر اسی طرح کا ایک واقعہ ہوا ہے کہ نوابشاہ کے ہمارے ایک بزرگ احمدی مکرم چوہدری محمد اکرم صاحب ابن مکرم محمد یوسف صاحب کو شہید کیا گیا ہے.یہ مضبوط ایمانوں والے جو خاص طور پر پاکستان میں اپنا نمونہ دکھاتے ہیں.إِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.مکرم چوہدری محمد اکرم صاحب کے خاندان کا تعلق گوکھو وال ضلع فیصل آباد سے ہے.آپ کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے دادا حضرت میاں غلام قادر صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت سے ہوا جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.چوہدری محمد اکرم صاحب کی پیدائش گوکھو وال ضلع فیصل آباد کی ہے.جب پرسوں آپ کی شہادت ہوئی ہے تو آپ کی عمرانی (80) سال تھی.آپ اپنے دیگر بھائیوں اور والد صاحب کے ساتھ آبائی زمین جو کہ جھول خانپور میں تھی ، وہاں زمیندارہ کرتے تھے.پھر 1960ء میں زمینیں بیچ کے نوابشاہ چلے گئے.2005ء میں آپ اہلیہ کے ساتھ آسٹریلیا شفٹ ہو گئے کیونکہ وہاں ان کے بچے تھے اور گزشتہ سال نومبر سے پاکستان آئے ہوئے تھے کہ یہ حادثہ پیش آیا.29 فروری 2012ء کو آپ اپنے نواسے عزیزم منیب احمد ابن مکرم رفیق احمد صاحب کے ساتھ دو پہر تقریباً ایک بجے جو ان کے داماد کی دکان تھی نوابشاہ میں ہی وہاں سے واپس
خطبات مسرور جلد دہم 139 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 2 مارچ 2012ء گھر آ رہے تھے.جب گھر کے نزدیک پہنچے ہیں تو ایک موٹر سائیکل پر دو نامعلوم افراد نے آپ پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں آپ زخمی ہو گئے.ہسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں راہ مولیٰ میں جان قربان کر دی - إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ آپ کے ساتھ آپ کے نواسے کو بھی کو لہے کے اوپر گولی لگی اور پھر وہاں سے گزر کے آنتوں میں چلی گئی.آنتوں کو متاثر کیا ہے.اس کا آپریشن ہو چکا ہے اور اس وقت ہسپتال میں آئی سی یو (ICU) وارڈ میں داخل ہے.اللہ تعالیٰ اُس کو صحت و سلامتی والی زندگی عطا فرمائے.شہید مرحوم نے 1960ء میں نوابشاہ شفٹ ہونے کے بعد اپنے کاروبار کے ساتھ جماعتی طور پر بھی بہت خدمت کی ہے.لمبا عرصہ انہوں نے خدمت کی توفیق پائی.تقریباً پینتیس سال تک بطور سیکرٹری مال نوابشاہ ضلع اور شہر کے فرائض انجام دیتے رہے.اسی طرح نائب امیر ضلع کے طور پر بھی خدمات بجالاتے رہے.شہید مرحوم اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے.عبادت گزار، تہجد کا با قاعدہ اہتمام کرنے والے، انتہائی زیرک اور معاملہ فہم انسان تھے.بعض لوگوں نے مجھے بتایا ہے کہ جب سیکرٹری مال رہے ہیں تو کبھی یہ نہیں ہوا کہ اگر کسی نے کہاناں کہ میں نے چندہ دینا ہے تو خواہ فون پر ہی اطلاع دی کہ آج میں نے چندہ دینا ہے تو بجائے اس کے کہ اُس کو کہتے کہ تم میرے پاس لے آؤ، خود اُس کے گھر پہنچ جاتے تھے اور فوری طور پر چندہ وصول کر کے رسید کا ٹا کرتے تھے.جماعت کا درد رکھنے والے تھے.فلاحی کاموں میں بڑا بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.خلافت سے عشق رکھنے والے، خطبات کو بڑے غور سے،شوق سے با قاعدہ سنتے تھے.صدر صاحب جماعت نوابشاہ شہر بیان کرتے ہیں کہ آپ میں عہدے داران کی اطاعت کا جذبہ بھی بہت زیادہ تھا.صدر صاحب کہتے ہیں کہ عمر میں بہت بڑے ہونے کے باوجود مجھ سے اطاعت اور ادب کے ساتھ پیش آتے تھے.اس دفعہ جب آسٹریلیا سے آئے ہیں تو مجھ سے نادار اور غرباء کی فہرست تیار کروائی جس میں احمدی اور غیر احمدی سب شامل تھے اور جتنی دیر وہاں رہے اُن کی با قاعدہ مدد کر تے رہے.اسی طرح نوابشاہ کا ایک سینٹر کافی عرصے سے بند تھا جو کہ آپ نے بڑی محنت اور کوشش کے ساتھ کھلوایا اور پھر اس کی تعمیر کے حوالے سے کہا کہ آپ لوگ اس کی جو مزید تعمیر و مرمت کرنی ہے، شروع کر دیں، میں آسٹریلیا واپس جا کے آپ کو تعمیر کے لئے رقم ضرور بھجواؤں گا.وہ تو اللہ تعالیٰ نے موقع ہی نہ دیا.اللہ کرے کہ جماعت خود اب وہاں اس کی تعمیر مکمل کر لے.ان کو شہادت کا بھی بہت شوق تھا.ان کی بہو کا بیان ہے کہ جب کسی کی شہادت کی خبر سنتے تو کہتے تھے کہ یہ اعزاز تو مقدر والوں کو ملتا ہے.آخر اللہ نے
خطبات مسرور جلد دہم 140 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 مارچ 2012ء ان کی یہ خواہش پوری کر دی.شہید مرحوم نے لواحقین میں اہلیہ کے علاوہ پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں.تمام بچے اللہ تعالیٰ کے فضل سے شادی شدہ ہیں.جیسا کہ میں نے کہا کہ بچے ( چار بچے اور ایک بچی ) آسٹریلیا میں رہائش پذیر ہیں، ایک بیٹا اور ایک بیٹی نوابشاہ پاکستان میں رہائش پذیر ہیں.اکرم صاحب کے نواسے عزیزم منیب احمد صاحب کے بارے میں میں نے کہا تھا، ان کی عمر اٹھارہ انیس سال ہے اور وہ سیکنڈ ایئر کا طالب علم ہے.اللہ تعالیٰ اُس کو شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے.ابھی نمازوں کے بعد انشاء اللہ اکرم صاحب کا نماز جنازہ غائب ہوگا.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 23 مارچ تا 29 مارچ 2012 جلد 19 شماره 12 صفحه 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد دہم 141 10 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 مارچ 2012ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 09 مارچ 2012ء بمطابق 9 0 امان 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح.مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: انبیاء دنیا میں بندے کو خدا کے قریب کرنے کے لئے، بندے کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا بنانے کے لئے، بندے کو اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم پر چلانے کے لئے آتے ہیں.اور ان سب انبیاء میں سے کامل اور مکمل تعلیم لے کر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے او پر اتری ہوئی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کا حق ادا کر دیا.جو پیغام لے کر آئے تھے اُس کو دنیا میں پھیلانے کا ایسا حق ادا کیا کہ جس کی کوئی مثال نہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے بدوؤں کو بھی پیغام حق پہنچایا.غلاموں کو بھی پیغام حق پہنچایا.رؤوساء مکہ کو بھی پیغام حق بغیر کسی خوف کے پہنچایا اور بڑے بڑے بادشاہوں کو بھی پیغام حق پہنچا کر خدا تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی.اور پھر اس عظیم کام کو آپ کے صحابہ نے بھی دنیا تک پہنچایا اور پھر چودہ سو سال بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا.جنہوں نے پھر اس عظیم کام کی تجدید کی اور دنیا کو خدا تعالیٰ کی طرف بلایا.دنیا کو بتا یا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ کس طرح تلاش کرنی ہے، کس طرح اُس تک پہنچا جا سکتا ہے.اور اگر اللہ تعالیٰ کی تلاش ہے، اُس تک پہنچنے کی خواہش ہے تو اب صرف اور صرف مذہب اسلام ہے جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے.پھر آپ نے غیر مذہبوں کو بھی یہی دعوت دی.اپنی ایک نظم کے ایک مصرعے میں آپ فرماتے ہیں: آؤ لوگو کہ یہیں نور خدا پاؤ گے آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 225 )
خطبات مسرور جلد دہم 142 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 مارچ 2012ء پھر ایک جگہ آپ اپنی نثر میں تحریر میں فرماتے ہیں کہ : دنیا کے مذاہب پر اگر نظر کی جائے تو معلوم ہوگا کہ بجز اسلام ہر ایک مذہب اپنے اندر کوئی نہ کوئی غلطی رکھتا ہے.اور یہ اس لئے نہیں کہ در حقیقت وہ تمام مذاہب ابتدا سے جھوٹے ہیں ( آجکل جو مذہبوں میں غلطی ہے فرمایا کہ اس لئے نہیں کہ شروع سے ہی وہ جھوٹے تھے بلکہ اس لئے کہ اسلام کے ظہور کے بعد خدا نے ان مذاہب کی تائید چھوڑ دی اور وہ ایسے باغ کی طرح ہو گئے جس کا کوئی باغبان نہیں اور جس کی آبپاشی اور صفائی کے لئے کوئی انتظام نہیں.اس لئے رفتہ رفتہ اُس میں خرابیاں پیدا ہو گئیں.تمام پھلدار درخت خشک ہو گئے اور اُن کی جگہ کانٹے اور خراب بوٹیاں پھیل گئیں.اور روحانیت جو مذہب کی جڑ ہوتی ہے وہ بالکل جاتی رہی اور صرف خشک الفاظ ہاتھ میں رہ گئے.“ (اسلام ( لیکچر سیالکوٹ ) روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 203) پھر آپ نے وضاحت سے فرمایا کہ اسلام کیونکہ آخری شریعت ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ساتھ ایسا نہیں کیا کہ اس کی تعلیم خشک ہو جائے.ہر صدی میں مختلف جگہوں پر مختلف وقتوں میں ،اس باغ کو ہرا رکھنے کے لئے اللہ تعالی نگران بھیجتا رہا اور اس زمانے میں آپ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اور میں آخری ہزار سال کا مجدد ہوں.پس اسلام کے خوبصورت باغ کا خوبصورت حصہ بننے اور پھلدار درخت بننے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق کے ساتھ جڑ نا اب ہر مسلمان کا بھی فرض ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق اب اسی ذریعہ سے پیدا ہوسکتا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی پہنچایا.اسی طرح آپ نے اپنے حلقہ بیعت میں آنے والے اپنے صحابہ کے دلوں میں بھی یہ روح پھونکی کہ دنیا کو یہ پیغام دو کہ خدا کی طرف آئیں ، اس سے تعلق جوڑ یں اور یہ تعلق اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے ساتھ جڑنے سے ہی حقیقی رنگ میں جڑ سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے والے غریب مزدور لوگ بھی تھے ، زمیندار بھی تھے ، کسان بھی تھے، ان پڑھ دیہاتی بھی تھے، ملازم پیشہ بھی تھے ، کاروباری لوگ بھی تھے اور پڑھے لکھے لوگ بھی تھے اور ہر ایک نے اپنی اپنی استعداد کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو سمجھا.آپ کی صحبت سے فائدہ اُٹھایا اور اس حقیقی پیغام کو، حقیقی اسلام کو سمجھ کر دنیا میں پھیلانے کی کوشش بھی کی.اپنے اپنے حلقہ میں پھیلانے کی کوشش بھی کی.دوسرے مذاہب پر اسلام کی بالا دستی کا حقیقی ادراک حاصل کیا اور پھر اُن لوگوں میں شامل ہو گئے جو اللہ تعالیٰ
خطبات مسرور جلد دہم 143 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 مارچ 2012ء کی طرف بلانے والے ہوتے ہیں.پس یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پھر بڑی تیزی سے اسلام کے حقیقی پیغام کو نہ صرف ہندوستان میں بلکہ باہر بھی پھیلانے کی کوشش کی.اس وقت ان لوگوں کے چند واقعات، تبلیغی واقعات میں بیان کروں گا.حضرت امام دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مولوی فتح دین صاحب نے ہمارے نام ایک خط لکھا کہ دھرم کوٹ میں (دھرم کوٹ ایک جگہ کا نام ہے ) مولوی عبدالسبحان مانیا نوالہ مباحثے کے لئے آیا ہوا ہے.قادیان سے کوئی مولوی لے کر بہت جلد پہنچیں.ہم مولوی عبداللہ صاحب کشمیری کو ہمراہ لے کر دھرم کوٹ پہنچ گئے.وہاں بہت دوست جمع ہو گئے.مولوی صاحب بہت جماعت دیکھ کر بھاگو والہ میں سردار بشن سنگھ کے پاس چلے گئے.ہماری تمام جماعت بھا گووالہ میں چلی گئی.( تبلیغ کا ایک شوق تھا وہاں پہنچ گئے.آخر مباحثہ زیر صدارت سردار بشن سنگھ کے قرار پایا اور وفات وحیات مسیح پر گفتگو ہوئی مگر فریق مخالف اس بات پر بیٹھ گیا ( یعنی کہ اس بات پر اڑ گیا اور اسی پرضد کرنی شروع کر دی.) کہنے لگا کہ میں تب مباحثہ کروں گا جب تک یہ اقرار نہ کر لیں کہ مرزا صاحب کا نام قرآن شریف میں دکھاویں گے.(اور پھر شرط یہ لگائی کہ اس طرح نام دکھا ئیں کہ مرزا غلام احمد ولد مرز اغلام مرتضی ( قرآن کریم میں لکھا ہو ، تب میں مانوں گا.نہیں تو میں بحث نہیں کروں گا.مولوی عبداللہ صاحب نے کہا کہ قرآن شریف سے دکھا دوں گا.تب سلسلہ گفتگو شروع ہو گیا.جب اُس (مولوی) نے مطالبہ کیا تو مولوی صاحب نے کہا ( کہ) اگر انبیاء سابقین کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں، پہلے آپ دکھا دیں کہ اُن کے نام مع ولدیت لکھے ہیں تو ہم بھی اسی طریق پر دکھا دیں گے.اگر پہلوں میں یہ طریق ثابت نہیں تو ہم پر یہ سوال کیوں کیا جاتا ہے؟ فریق مخالف نے اس کا معقول جواب نہ دیا.آخر شرمندہ ہو کر بیٹھ گیا.سردار بشن سنگھ نے کہا، (جن کی زیر صدارت یہ سب مباحثہ ہوا تھا.) یہ مولوی ( تو ) کچھ نہیں جانتا ( اور پھر اُس کو پنجابی میں کچھ گالیاں والیاں بھی دیں.) آخر ( کہتے ہیں کہ ) خدا نے فتح دی.اس مباحثے کا ذکر ہم نے حضرت صاحب ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام) کے پاس کیا تو آپ نے فرمایا مولوی صاحب نے یہ کیوں نہ کہا کہ میرا نام خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اِسْمُهُ أَحْمَد فرمایا ہے.(ماخوذ از جسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 5 صفحہ 57 روایت حضرت امام دین صاحب) حضرت پیر افتخار احمد صاحب اپنے والد ماجد پیر احمد جان صاحب کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ ” میرے والد صاحب نے حضرت صاحب کے اس دعویٰ کو قبول کر کے ( یہ بیعت سے پہلے آپ کا قصہ
خطبات مسرور جلد دہم 144 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 مارچ 2012ء ہے.اُس وقت اس بات کو قبول کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی اس زمانے کے مجدد ہیں.) اپنے دوستوں اور واقف اور ناواقفوں میں بڑی سرگرمی کے ساتھ اشاعت شروع کی اور ایک طویل اشتہار بھی چھاپا جس کی نقل زمانہ حال میں (جب وہ لکھ رہے ہیں کہتے ہیں ) اخبار الفضل میں شائع ہو چکی ہے.( لکھتے ہیں کہ ) میرے والد صاحب نے علاوہ تبلیغی اشاعت کے خود اور اپنے مریدوں سے مالی خدمت میں بھی حصہ لیا.ان کی زندگی کا آخری زمانہ اسی خدمت میں گزرا کہ جس قدر ہو سکے چندہ دیں اور اشاعت کریں.“ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحه 1 روایت حضرت پیر محمد افتخار احمد صاحب) اور یہی اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج علاوہ کتابوں کے، دوسرے لٹریچر کے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے بھی اللہ تعالیٰ مختلف زبانوں میں دین کی اشاعت کروا رہا ہے.ابتدا میں جب کبھی ایم ٹی اے کا سیٹیلائٹ شروع ہوا تو ایک سیٹیلائٹ تھا اور وہ چند گھنٹوں کے لئے تھا.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دس سیٹیلائٹس پر ایم ٹی اے کے پروگرام دنیا میں ہر جگہ نشر ہورہے ہیں.بلکہ انڈیا میں جہاں بڑے ڈشوں کی ضرورت پڑتی تھی ، اب وہاں بھی کوشش ہو رہی ہے اور ایک ایسا سیٹیلائٹ لے رہے ہیں کہ جہاں انشاء اللہ تعالیٰ جلد ہی چھوٹے ڈش سے، ڈیڑھ دوفٹ کے ڈش سے انشاء اللہ تعالیٰ ایم ٹی اے سنا جایا کرے گا.بہر حال اب روایتوں پر آتا ہوں.حضرت ماسٹر نذیر حسین صاحب ولد حکیم محمد حسین صاحب ( مرہم عیسی ) فرماتے ہیں کہ بچپن سے مجھے تبلیغ کا بہت شوق تھا.ستمبر 1903 ء تک میرے والد بزرگوار بھائی دروازہ لاہور پٹ رنگاں محلہ میں رہتے تھے.اس زمانے میں ایک دفعہ والد صاحب کے پاس ایک احمدی ابوسعید عرب بھی آیا تھا.اُس نے میرے دینی اور تبلیغ کے شوق کو دیکھ کر مجھے کچھ آسان رنگ کے دلائل وفات مسیح ناصری اور آمد مسیح موعود علیہ السلام کے سکھلائے تھے.میں ان دلائل کو اکثر مسجد کے اماموں کے سامنے جا کر پیش کرتا اور کہتا کہ ان کا جواب دو.ایک دفعہ انہی ایام میں بھائی دروازہ کی اونچی مسجد کے امام کے پاس گیا اور اُس کے سامنے بھی وہ دلائل پیش کئے تو اُس نے مجھے کہا کہ ہم تب تمہاری بات کا جواب دیں گے اگر تم مرزا صاحب کے ساتھ ایسے وقت کہ گرد اڑ رہی ہو، چلو، اور جب وہ گھر جانے لگیں تو دیکھو کہ کیا اُن کے چہرہ پر دوسرے لوگوں کی طرح گرد و غبار ہے یا نہیں؟ ( یعنی یہ شرط لگائی کہ سیر پر ساتھ جاؤ، باہر نکلو اور یہ دیکھو جب مٹی اڑ رہی ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چہرے پر وہ مٹی آ کے پڑتی ہے کہ نہیں).اگر تم خود مرزا صاحب کے متعلق اس کو دیکھ کر بتلاؤ تب میں تمہیں اس کا
145 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 مارچ 2012ء خطبات مسرور جلد دہم جواب دوں گا.( یہ نہیں کہا کہ میں مان لوں گا.بلکہ کہا کہ جواب دوں گا ) اور بتادوں گا کہ حقیقت کیا ہے؟ ( کہتے ہیں کہ ) چونکہ مجھے اس سے قبل کئی دفعہ حضرت اقدس کے ساتھ سیر کو جانے کا قادیان میں موقع ملتا رہا تھا.اس لئے اس کے بعد جلد والد صاحب کے ہمراہ قادیان آگیا اور حضور کے ساتھ صبح کو سیر کے لئے گیا.حضور سیر میں تیز رفتار چلا کرتے تھے اور میں حضور کے ساتھ ساتھ چلنے کے لئے بسا اوقات دوڑتا ہوا جاتا تھا.اتفاق کی بات ہے کہ اُس دن کچھ ہوا بھی چل رہی تھی اور ریت مٹی اڑ اڑ کر تمام احباب پر پڑتی تھی.جب حضور سیر سے واپس آئے اور حضور اپنے مکان کے گول کمرہ کے سامنے احباب سے رخصت ہونے کے لئے ٹھہرے.تمام احباب نے حضور کے گرد حلقہ بنالیا، (دائرے میں کھڑے ہو گئے ) اور خاکسار سب کو چیرتا ہوا حضور کے پاس جا کھڑا ہوا اور تمام احباب کے چہروں کو اور حضور کے چہرہ کو غور سے دیکھنے لگا تو میری حیرانی کی کوئی حد نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ حضور کے چہرہ پر گردوغبار کا کوئی نشان نہ تھا اور باقی تمام لوگوں کے چہروں پر گردوغبار خوب پڑا ہوا تھا.میں نے اس کا ذکر اُسی دن حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے بھی کیا تو حضور نے فرمایا کہ مسیح موعود کے لئے ایسا ہونا بطور نشان کے ہے.واپسی پر لاہور آ کر میں نے اونچی مسجد کے امام سے اس کا ذکر کیا اور ساتھ ہی اس کو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کرنے کا ذکر کیا اور بتلایا کہ انہوں نے فرمایا تھا کہ یہ مسیح کا نشان ہے.تو اُس مولوی نے جھٹ کہہ دیا کہ میں نہیں مانتا تم کو تو نورالدین نے یہ سب قصہ بنا کر سکھلایا ہے.الغرض وہ تو اس سعادت سے محروم رہا اور ہم نے خودا اپنی آنکھوں سے اس نشان کو دیکھا.“ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحه 62 روایت حضرت ماسٹر نذیر حسین صاحب) پھر حضرت شیر محمد صاحب بیان فرماتے ہیں کہ ”میں نے ایک دفعہ خواب دیکھا کہ ایک کنواں دودھ کا بھرا ہوا ہے اور میں نے بعض دوستوں کو کنویں میں سے بالٹیاں بھر بھر کر دودھ پلایا.لہذا وہ کنواں خشک ہو گیا.اس پر میں مولوی فتح دین صاحب کے پاس گیا اور اُن کو یہ خواب سنائی.انہوں نے فرمایا کہ تم مولوی عبد الکریم صاحب کے پاس جاؤ یا مولوی نورالدین صاحب کے پاس جاؤ.اس پر میں قادیان میں آیا اور مولوی عبد الکریم صاحب کو یہ خواب سنائی تو انہوں نے فرمایا کہ دودھ سے مراد علم ہے.میں نے کہا کہ میں تو ایک حرف تک پڑھا ہوا نہیں ہوں.انہوں نے فرمایا کہ اس علم سے مراد وہ علم ہے جو خدا سکھائے.اور جو بالٹیاں بھر بھر کے پلایا ہے، اس سے یہ مراد ہے کہ کئی دوست آپ سے مسیح موعود کے دعوی کے متعلق فیض اُٹھا ئیں گے.اور کنواں خشک ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جو تمہیں تبلیغ کرنے
خطبات مسرور جلد دہم 146 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 9 مارچ 2012ء سے روکتے تھے ) اور حضرت اقدس ( مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) کو مہدی کہنے سے روکتے تھے، وہ ایک دن تیرے سامنے مردہ ہو جائیں گے.لہذا یہ تینوں باتیں پوری ہو گئیں.( لکھتے ہیں کہ تینوں باتیں پوری ہوگئیں ) اور خان فتہ میں میری اتنی مخالفت کے باوجود تمام گاؤں کا گاؤں ہی میری تبلیغ اور خدا تعالیٰ کی مدد اور حضور کی دعاؤں سے احمدی ہو گیا.“ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 82 روایت حضرت شیر محمد صاحب) پھر حضرت قاضی محمد یوسف صاحب ( یہ مردان کے تھے ) فرماتے ہیں کہ : اپنے دوران سیاحت میں ہندوستان میں بمبئی ، کراچی، دہلی، آگرہ،شملہ اور کلکتہ کے دیکھنے کا موقع ملا.بلوچستان میں ستی ، کوئٹہ اور مستونگ دیکھے.افغانستان میں جلال آباد، کابل اور چارے کار نعمانی دیکھے.پنجاب میں کوہ مری ، قادیان، گورداسپور، امرتسر، راولپنڈی، سیالکوٹ، لاہور اور وزیر آباد دیکھے.سرحد تمام اور ایجنسیاں دیکھیں.اور پھر سوات اور جموں اور کشمیر دیکھا.روضہ بل میں حضرت یوز آسف، یسوع یوسف کی قبر دیکھی جو محلہ خانیار میں واقع ہے.جب خاکسار نے بیعت کی تو اُسی دن سے تمام اسلامیہ سکول کے طلباء میں ، شہر پشاور کے تمام محلوں کے طلباء میں قادیانی ، قادیان اور مرزا قادیان کے نام سے مشہور ہو گیا.“ ( یعنی جس دن بیعت کی اُسی دن ایسا اظہار کیا کہ سارے سکول میں مشہوری ہو گئی.کہتے ہیں کہ ) اگر فٹبال فیلڈ میں جاتا تو تمام شاہی باغ میں یہی چرچا ہوتا رہتا کہ احمدیت کی خوب شہرت ہوئی اور لوگوں نے سوالات کرنے شروع کئے اور روزمرہ مباحثات اور سوال و جواب کا اکھاڑہ جم جاتا.(سکول میں جاتے تھے تو ) سکول میں شاہی باغ میں اور جہاں بھی موقع پیش آ تا رفتہ رفتہ یہ چر چا عام ہوتا گیا اور میرے ایامِ ملازمت میں سکول اور شہر کے دائرے سے نکل کر اطراف پشاور اور پھر اطراف سرحد میں پھیل گیا.کیونکہ میں تمام اضلاع میں سرحد میں دوروں پر آنریبل چیف کمشنر صوبہ سرحد کے ساتھ جایا کرتا.اور سرحد کی ایجنسیوں میں بھی اتفاق ہوتا.اسلامیہ کالج اور مشن کالج میں سرحد کے تمام اضلاع کے لڑکے پڑھتے.اُن کو بورڈنگوں میں جا کر ملتا...( وہاں بھی تبلیغ کرتے.) میرے ذریعے احمدیت کو تمام سرحد میں اشاعت اور بذریعہ تحریر بھی اور بذریعہ تقریر بھی اور کثرت سے اور معمر لوگ داخلِ سلسلہ احمدیہ ہوتے گئے.لوگ جو میرے ذریعے احمدی ہوئے یا پھر اُن کے ذریعے احمدی ہوئے اُن کی تعداد کم از کم دو اڑھائی سو افراد پر مشتمل ہو گی.ان میں سے کچھ تو فوت ہو گئے ، کچھ زندہ ہیں.(لیکن کہتے ہیں کہ کچھ اُن میں سے خلافت ثانیہ میں ) پیغامی ہو گئے اور کچھ جماعت میں موجود ہیں.“ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 197-198 روایت حضرت قاضی محمد یوسف صاحب) 66
خطبات مسرور جلد دہم 147 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 مارچ 2012ء حضرت احمد دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد مانا صاحب فرماتے ہیں.میں نے ایک دفعہ خطبہ جمعہ میں مسیح موعود علیہ السلام کے منہ سے سنا.آپ نے فرمایا کہ میری جماعت کے بے علم بھی دوسروں پر غالب رہیں گے اور وہ ( یعنی غیر احمدی) اُن کا مقابلہ نہ کرسکیں گے.چنانچہ میں نے تجربہ سے دیکھا ہے کہ میں نے باوجود بے علم ان پڑھ ہونے کے غیر احمدی علماء کو بالکل ساکت اور مات کر دیا حتی کہ انہوں نے کہا کہ تو جھوٹ بولتا ہے کہ میں بے علم اور ان پڑھ ہوں.“ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 26 روایت حضرت احمد دین صاحب) یعنی مولویوں نے پھر یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ آپ پڑھے لکھے نہیں.حضرت ڈاکٹر محمد بخش صاحب ولد میاں کالے خان صاحب فرماتے ہیں کہ ”خاکسار نے 1903ء میں بذریعہ خط از چھاؤنی چتو گ ضلع شملہ بیعت کی تھی.حضور کی زیارت 1902ء میں کی.اُس وقت حضور نے ریش مبارک کو مہندی لگا کر اوپر کپڑا باندھا ہوا تھا.کمر میں نہ بند یعنی چادر بندھی ہوئی تھی.حضور مسجد مبارک کے قریب والے مکان میں صحن کے اندر چار پائی پر تشریف فرما تھے.اُس وقت چار پانچ آدمی تھے جن سے حضور نے مصافحہ کیا اور ہر ایک کے حالات دریافت کرتے رہے.خاکسار سے پوچھا.کہاں سے تشریف لائے ہو ؟ عرض کی موضع کھیر انوالی ریاست کپورتھلہ سے اور رخصت پر آیا ہوا ہوں.ئیں توپ خانہ میں ملازم ہوں.وہاں اکیلا میں احمدی ہوں اور فوج میں تبلیغ بڑی مشکل ہے.(شوق مجھے ہے لیکن تبلیغ مشکل ہے.) وہاں افسر تبلیغ نہیں کرنے دیتے.حضور نے فرمایا کہ تم اکیلے نہیں رہو گے.استقلال کے ساتھ تبلیغ احمدیت کرتے رہو.گھبراؤ نہیں.پھر حضور علیہ السلام نے دریافت کیا کہ ایک ہی جگہ چھاؤنی میں رہتے ہو ؟ عرض کی کہ ہر تین سال کے بعد چھاؤنی بدل جاتی ہے.فرمایا کہ جہاں بھی جاؤ وہاں کی جماعت سے ملتے رہا کرو.“ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 126 روایت حضرت ڈاکٹر محمد بخش صاحب) یہ بڑی اصولی اور ضروری ہدایت آپ نے فرمائی کہ جہاں جانا ہے، ہر احمدی کو جماعت سے ضرور رابطہ رکھنا چاہئے.حضرت ماموں خان صاحب ولد کالے خان صاحب فرماتے ہیں کہ ”میں نے 1902ء میں ایک خواب دیکھا کہ چاند میری جھولی میں آسمان سے ٹوٹ کر آ پڑا ہے.میں نے اس خواب کو سید محمد شاہ صاحب مرحوم ماچھی واڑہ کو جو کہ مخلص احمدی تھے ، سنایا.انہوں نے بتایا کہ تم کو عزت ملے گی یا کسی بزرگ
خطبات مسرور جلد دہم 148 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 مارچ 2012ء کی بیعت کرو گے.میری عمر اس وقت 24 سال کی تھی.میں اور سید محمد شاہ صاحب ماچھی واڑہ کے سکول میں ہر دو ملازم تھے.انہوں نے تبلیغ کا سلسلہ مجھ سے شروع کر دیا.ان دنوں پنڈت لیکھرام کی پیشگوئی کی شہرت تھی.میں نے شاہ صاحب سے عرض کی کہ یہ پیشگوئی جو کہ پنڈت لیکھرام کے متعلق ہے بچی ہوئی تو ضرور بیعت کرلوں گا.چنانچہ یہ پیشگوئی پوری ہوئی.میں نے فوراً بیعت کر لی.اُس وقت مولوی عبدالکریم صاحب زندہ تھے.سید محمد شاہ صاحب سے میں نے بیعت کا خط لکھوایا.حضور کے پیش ہوا.( یعنی جب خط حضرت مسیح موعود کی خدمت میں پیش ہوا تو حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے اپنے ہاتھ سے اس کا جواب دیا.کہتے ہیں) خط میرے نام پہنچا کہ بیعت منظور ہو گئی ہے اور آپ کے لئے حضرت صاحب نے دعا کی ہے.1904ء میں خط کے ذریعے بیعت کی تھی اور دستی بیعت 1906ء میں قادیان میں آکر کی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 149 روایت حضرت ماموں خان صاحب) حضرت میاں عبد الرشید صاحب بیان کرتے ہیں کہ لاہور میں ایک غیر احمدی کا لڑکا جو ریلوے میں ملازم تھا، آریہ خیالات کا ہو گیا.اُس کے والدین کو اس سے بڑی پریشانی ہوئی.اور وہ اُس کو بیگم شاہی مسجد کے ایک مولوی کے پاس لے گئے.اُس نے مولوی صاحب (کے) سامنے جب چند آریوں کے اعتراضات پیش کئے تو وہ بہت طیش میں آگیا اور اُس کو مارنے کے لئے دوڑا.( آریوں کے اعتراض پیش کئے.مولوی کے پاس جواب کوئی نہیں تھا.مولوی غصے میں آکر اُس کو مارنے لگا ) جس پر وہ نوجوان اپنی پگڑی وغیرہ وہیں چھوڑ کر بھاگ پڑا.لوگ بھی اُس کے پیچھے بھاگے.لوگوں کی یہ حالت دیکھ کر ایک احمدی احمد الدین صاحب جو رفوگری کا کام کرتے تھے وہ بھی ساتھ ہو لئے اور اُس کے مکان تک ساتھ گئے.اصل واقعہ معلوم کرنے کے بعد وہ میرے پاس آیا.(میاں عبدالرشید صاحب کے پاس وہ احمدی آیا ) اور مجھے اس کے حالات سے آگاہ کیا اور کہا کہ اُس کو ضرور ملنا چاہئے اور اس کے خیالات کی اصلاح کی کوشش ہونی چاہئے.( یہ درد تھا کہ ایک مسلمان کیوں آریہ ہو گیا.اور یہ احمد یوں میں ہی درد تھا.مولوی تو صرف مارنے پر تلے ہوئے تھے.) چنانچہ ( کہتے ہیں ) میں اُن کے ہمراہ اُس کے مکان پر گیا.پہلے تو وہ گفتگو ہی کرنے سے گریز کرتا تھا اور صاف کہتا تھا کہ میں تو آریہ ہو چکا ہوں.مجھ پر اب آپ کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا اور اُس نے گوشت وغیرہ ترک کر کے آریہ طریق اختیار کر لیا ہوا تھا.اُن کی مجالس میں جاتا اور اُن کی عبادات میں شریک ہوتا تھا.(خیر کہتے ہیں ) میرے بار بار جانے اور اصرار کرنے پر وہ کسی قدر مجھ سے مانوس ہوا.جب وہ سیر کو جاتا تو میں بھی اُس کے ہمراہ ہو جاتا.بعض اوقات میں اُس کے لئے انتظار
خطبات مسرور جلد دہم 149 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 مارچ 2012ء بھی کرتا کہ جب وہ سیر کو نکلے گا تو میں اُس کے ہمراہ ہو جاؤں گا.تھوڑے دنوں کے بعد ایسٹر کی تعطیلات آگئیں.میں نے اُسے کہا کہ میرے ساتھ قادیان چلومگر وہ اس کے لئے تیار نہ ہوتا تھا اور کہتا تھا کہ میں مولویوں کے پاس جانے کو تیار نہیں ہوں.اس پر میں نے اُس کو بہت سمجھایا کہ قادیان میں کسی تکلیف کا اندیشہ نہیں اور آپ سے کسی قسم کا بر اسلوک نہ ہوگا.جو چاہیں اعتراضات پیش کریں اور میں ہر قسم کی ذمہ داری لیتا ہوں.آخر بڑے اصرار کے بعد وہ اس پر آمادہ ہو گیا.( اور ہم قادیان گئے.) وہاں پر جا کر ہم حضرت مولوی صاحب سے ملے.( یعنی حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ امسیح الاول سے ملے.) آپ نہایت شفقت سے پیش آئے اور (اُس لڑکے کو ) فرمایا کہ آپ جو چاہیں اعتراض کریں جواب دیا جائے گا.میں نے آپ کی خدمت میں یہ عرض کیا تھا کہ حضور انہوں نے گوشت وغیرہ ترک کر دیا ہوا ہے.(حضرت خلیفہ اول کو کہا کہ یہ گوشت نہیں کھاتے.) اور ہندووانہ طریق اختیار کیا ہوا ہے.چنانچہ حضرت مولوی صاحب نے اپنے گھر سے مونگی کی دال اور چند روٹیاں مہمان خانہ میں اُس کے لئے بھجوا دیں.اس بات سے وہ بہت متاثر ہوا ( کہ میرے کھانے کا لحاظ رکھا گیا ہے.) اُس دن ظہر کی نماز کے لئے جب میں گیا تو اُس کو ساتھ لے گیا.نماز کے بعد حضور مسجد مبارک میں تشریف فرما ہوئے.اُن دنوں حضور ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) آریوں کے متعلق کوئی تصنیف فرما رہے تھے.چنانچہ اُس وقت حضرت صاحب نے آریہ لوگوں کے اعتراضات کا ذکر مجلس میں کر کے اُن کے جوابات دیئے.اس کا اُس (لڑکے ) پر بہت اثر ہوا.اور اس کے بہت سے اعتراضات خود بخو ددور ہو گئے اور اسلام سے بھی ایک گونہ چسپی پیدا ہوگئی.عصر کی نماز کے بعد میں اُن کو حضرت مولوی صاحب ( حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ امسیح الاول) کے درس القرآن میں لے گیا.( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بھی قرآنِ کریم کا درس دیا کرتے تھے.کہتے ہیں میں وہاں لے گیا) جو مسجد اقصیٰ میں ہوتا تھا.اُس کے بعد ہم دونوں مولوی صاحب کی خدمت میں گئے اور میں نے عرض کی کہ حضور ! انہیں کچھ سمجھا ئیں ،مولوی صاحب نے فرمایا کہ ان کو جو اعتراض ہے وہ کریں.اس پر اُس نے گوشت خوری کے متعلق دریافت کیا جس کا جواب مولوی صاحب نے نہایت عمدہ طریق پر اُسے دیا اور اُس کی اس سے تسلی ہو گئی.مغرب کی نماز کے بعد پھر ہم حضور علیہ السلام کی خدمت میں مسجد مبارک میں حاضر ہوئے.حضور علیہ السلام شہ نشین پر بیٹھ کر گفتگو فرماتے رہے.لوگ عموماً مولوی عبد الکریم صاحب کی معرفت سوال و جواب کرتے تھے.چنانچہ یہ (لڑکا جو تھا یہ گفتگو سنتا رہا.اس کے بعد اُس نے کوئی اعتراض نہیں کیا.دوسرے دن نماز ظہر کے وقت
خطبات مسرور جلد دہم 150 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 مارچ 2012ء اُس نے وضو کیا اور جا کر نماز ادا کی.اُس دن پھر مولوی صاحب کا درس سنا.اور تیسرے دن اس آریہ دوست نے حضور (علیہ السلام) کی بیعت کر لی اور پھر اسلام میں داخل ہوا.( آگے بیان کرتے ہیں کہ ) اور اب انہیں اسلام کے ساتھ ایسا انس پیدا ہوا کہ وہ آریہ سماج کی مجلسوں میں جا کر اسلام کی خوبیاں بیان کرتا اور آریوں کے اعتراضات کا جواب دیتا.“ (ماخوز از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 30 تا 32.روایت حضرت میاں عبدالرشید صاحب) تو یہ درد تھا اُن لوگوں میں کہ ایک ایسے شخص کو بھی جو مسلمان ہے، ضائع نہیں ہونے دینا چاہتے تھے.پھر حضرت میاں عبدالعزیز صاحب المعروف مغل صاحب بیان کرتے ہیں کہ ” نیلے گنبد میں ایک پٹھان مولوی ( یہ پٹھان مولویوں کا حال بیان کر رہے ہیں ) ادھیڑ عمر کا رہا کرتا تھا.اُس کو میں نے تبلیغ کی تو اُس نے تسلیم کیا کہ حضرت مسیح موعود (علیہ الصلوۃ والسلام ) سچے ہیں مگر آپ مجھ کو بے فائدہ آکر تبلیغ کرتے ہیں کیونکہ ہماری قوم میں یہ دستور ہے کہ اگر ہم ایک دفعہ انکار کر دیں تو پھر خدا بھی آکر کہے تو (ہم نہیں مانتے.اس کے بعد اُس مولوی کا انجام یہ ہوا ، سنا کہ وہ خود کشی کر کے مر گیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 9 صفحہ 28 روایت میاں عبدالعزیز صاحب) اور اسی طرح یہ ان کا دوسرا واقعہ ہے، یہ بھی ایک مولوی کا ہے ، وہ بھی اتفاق سے ایک پٹھان تھا، اور وہ بھی زہر کھا کے کسی کے عشق میں خود کشی کر کے مر گیا.وہ کہتے ہیں کہ لوہاری منڈی کے اندر اُس کی دکان تھی.جب ہم وہاں سے گزرتے تو اکثر ہم کو دیکھ کر کہا کرتا تھا کا فرجار ہے ہیں.میں نے ایک دفعہ اس کو کہا کہ آپ تحقیق تو کریں.آخر پر کھ کر تو دیکھیں.جب بھی ہم گزرتے ہیں آپ یونہی ہمیں کا فر کہہ دیتے ہیں.اُس نے کہا کہ اگر خدا بھی مجھے آکر کہے تو میں نہیں مانوں گا.وہ بھی وہی جواب.رض (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 9 صفحہ 28 روایت میاں عبدالعزیز صاحب ) حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحب بیان کرتے ہیں کہ ”میں نے میاں موسیٰ صاحب کو تبلیغ شروع کی.چنا نچہ اُن کو قادیان بھیجا مگر وہ شامت اعمال سے قادیان سے بغیر بیعت کے واپس آگئے.بعد ازاں میں اُن کو کبھی کبھی اخبار بدر سناتا رہا.پھر میں نے اُن کو ایک دن ایک حدیث کا ذکر سنایا کہ ایک بدوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کہا کہ کیا آپ خدا کی قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ آپ خدا کے رسول ہیں ؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھا کر کہا کہ میں خدا تعالیٰ کا رسول ہوں.تب اُس بدوی نے بیعت کر لی اور اپنے قبیلہ کو بھی بیعت کے لئے حاضر
خطبات مسرور جلد دہم 151 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 مارچ 2012ء کیا.یہ واقعہ جب میں نے حضرت میاں محمد موسیٰ صاحب کو سنایا تو اُن کے دل پر بھی اس کا خاص اثر ہوا.چنانچہ انہوں نے اس وقت ایک کارڈ (یعنی اُس زمانے میں خط کے لئے کارڈ ہوتے تھے ) حضرت صاحب کی خدمت میں لکھا کہ کیا آپ خدا کی قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ آپ مسیح موعود ہیں.یہ کارڈ جب حضرت صاحب کی خدمت میں پہنچا تو حضور نے مولوی عبد الکریم صاحب کو حکم دیا کہ لکھ دو میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں و ہی مسیح موعود ہوں جس کا وعدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کو دیا.اس کا رڈ میں مولوی عبد الکریم صاحب نے اپنی طرف سے بھی ایک دو فقرے لکھ دیئے.جن کا مطلب یہ تھا کہ آپ نے خدا کے مسیح کو قسم دی ہے.اب آپ یا تو ایمان لاویں یا عذاب خداوندی کے منتظر ہیں.وہ کارڈ جب پہنچا تو میاں محمد موسیٰ صاحب نے اپنی اور اہل و عیال کی بیعت کا خط لکھ دیا.اس طرح سے ( کہتے ہیں ) میں اب اکیلا نہ رہا بلکہ میرے ساتھ خدا تعالیٰ نے اُن کو بھی شامل کر دیا.“ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 9 صفحہ 136-137 روایت منشی قاضی محبوب عالم صاحب) پھر منشی قاضی محبوب عالم صاحب بیان کرتے ہیں کہ لاہور میں ایک وکیل ہوتے تھے اُن کا نام کریم بخش عرف بکرا تھا.( یہ پتہ نہیں کیا نام رکھا ہے ) وہ بڑی مخش گالیاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام) کو دیا کرتے تھے.(بڑی گندی گالیاں دیتے تھے.ایک دن دورانِ بحث اُس نے کہا کہ کون کہتا ہے مسیح مر گیا.میں نے جوابا کہا کہ میں ثابت کرتا ہوں کہ مسیج مر گیا ( یعنی حضرت عیسی علیہ السلام وفات پاگئے ہیں.) اُس نے اچانک ایک تھپڑ بڑے زور سے مجھے مارا.اس سے میرے ہوش پھر گئے اور میں گر گیا.جب میں وہاں سے چلا آیا تو اگلی رات میں نے رویا میں دیکھا کہ کریم بخش عرف بکرا ایک ٹوٹی ہوئی چار پائی پر پڑا ہے اور اُس کی چار پائی کے نیچے ایک گڑھا ہے.اُس میں وہ گر رہا ہے اور نہایت بے کسی کی حالت میں ہے.صبح میں اُٹھ کر اُس کے پاس گیا اور میں نے اُسے کہا کہ مجھے رویا میں بتایا گیا ہے کہ تو ذلیل ہو گا.چنانچہ تھوڑے عرصے کے بعد اُس کی ایک ( بیوہ) لڑکی کی وجہ سے جس کو ناجائز حمل ہو گیا اُسے بڑی ذلت اُٹھانی پڑی اور اُس کی جو ابارشن وغیرہ کرائی تو اُس کی وجہ سے بیٹی بھی اُس کی مرگئی.پولیس کو جب علم ہوا تو اس کی تفتیش ہوئی.اُس کا کافی رو پی بھی خرچ ہوا.کہتے ہیں اُس کی عزت برباد ہوئی.شرم کے مارے گھر سے نہیں نکلتا تھا.پھر میں نے اُس کو آواز دے کر ایک دن کہا کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گندی گالیاں دیا کرتے تھے یہ اس کا وبال چکھ لیا ہے.تو بہر حال اُس نے کوئی جواب نہ دیا.“ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 9 صفحہ 206 تا 207 روایت منشی قاضی محبوب عالم صاحب)
خطبات مسرور جلد دہم 152 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 مارچ 2012ء لیکن آجکل تو یہ حال ہے کہ اگر آپ پاکستان میں کسی مولوی کو صحیح طور پر بھی کچھ کہیں تو فوراً جیسا کہ پچھلی دفعہ میں نے بتایا تھا کہ قانون کا سہارا لے کر ایک قانونی کارروائی کی جاتی ہے.اپنی عزت و نام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کے ساتھ منسوب کر کے ناموسِ رسالت کا مقدمہ کروا دیتے ہیں.یہ تو آجکل ان کا حال ہے.حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحب بیان کرتے ہیں کہ جس وقت میرا نکاح حضرت صاحب کی دعا کی برکت سے ہو گیا تو میں نے اپنی ساس کو تبلیغ کی.وہ بہت متاثر ہوئی.(وہ احمدی نہیں تھی.تبلیغ سے متاثر تو ہوئی لیکن بیعت نہیں کی) ایک دن اُس نے مجھے اپنا زیور اتار کر دے دیا کہ یہ حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کر دو اور اُن سے عرض کرو کہ اس کا عوض مجھے قیامت کو ملے.چنانچہ میں وہ زیور لے کر قادیان گیا اور حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کیا کہ یہ میری ساس نے دیا ہے اور اُس نے عرض کیا ہے کہ اس کا عوض قیامت میں مجھے ملے.حضور نے وہ قبول فرمایا اور زبانِ مبارک سے فرمایا.انشاء اللہ تعالیٰ اس کا عوض ان کو مل جائے گا.ایک مدت کے بعد جب وہ فوت ہوگئیں اور میں نے اُن کا جنازہ نہ پڑھا.کیونکہ ( با قاعدہ) انہوں نے بیعت نہیں کی تھی.جب میں حضرت اقدس کی خدمت میں گیا.(1906ء کا واقعہ ہے، کہتے ہیں ) اور میں نے عرض کیا کہ وہ فوت ہو گئی ہیں مگر میں نے اُن کا جنازہ نہیں پڑھا.حضور نے فرمایا.اُن کا جنازہ پڑھ لینا چاہئے تھا کیونکہ انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ احمدی ہیں.“ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 9 صفحہ 265 تا 266 روایت منشی قاضی محبوب عالم صاحب) ہو سکتا ہے ماحول کی وجہ سے یا کم علمی کی وجہ سے بیعت نہ کی ہو لیکن عمل ایسا تھا جس سے ثابت ہوا کہ وہ احمدی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا ، اشاعت اسلام کا ، خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کا جو مقصد تھا کہ اشاعت اسلام کے لئے سب کچھ دے دو، اُس کے لئے تو انہوں نے جو اُن کی پیاری چیزیں تھیں، جن سے ایک عورت کو محبت ہوتی ہے اُس زمانے میں تو بہت زیادہ ہوتی تھی ، آج بھی ہے یعنی کہ زیور ، وہ دے دیا.قیامت کا خوف تھا.دل میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خواہش تھی.لیکن یہاں یہ بھی واضح ہو جائے کہ اس کے یہ معنی بھی نہیں لینے چاہئیں کہ جو کوئی یہ کہہ دے کہ احمدیوں کو برا نہیں سمجھتے تو اُن کو احمدیوں میں شمار کر لیا جائے.اس موقع پر جیسا کہ انہوں نے کہا ، انہوں نے اپنا مال، اپنی محبوب چیز اشاعت اسلام کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پیش کی جس کے لئے آپ آئے تھے.صرف دل میں برا منانا یا احمدیوں کو اچھا سمجھنا کافی نہیں تھا.کیونکہ ایک جگہ
خطبات مسرور جلد دہم 153 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 مارچ 2012ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بھی فرمایا ہوا ہے کہ اگر وہ کوئی برانہیں مناتے تو علی الاعلان پھر اس کا اظہار کر دیں.اظہار کیوں نہیں کرتے.اور پھر اگر کسی وجہ سے مجبوری نہیں ہے تو پھر بیعت میں بھی شامل ہونا چاہئے.صرف یہ کہہ دینا کہ ہم برا نہیں مناتے ، یہ کافی نہیں ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد 5 صفحہ 526 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) حالات کے مطابق ہر فیصلہ ہوتا ہے.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی بیان کرتے ہیں کہ میں نے بیعت کر لی.حضرت اقدس کی کتابیں پڑھیں.ایک جوش پیدا ہوا اور تبلیغ شروع کر دی.اُن ایام میں میری تبلیغ کا طریق یہ تھا کہ جہاں چار پانچ آدمی اکٹھے بیٹھے دیکھتا، جاتے ہی السلام علیکم کہ کر کہتا کہ مبارک ہو.لوگ متوجہ ہو کر پوچھتے کہ کیا بات ہے؟ میں کہتا کہ حضرت امام مہدی آگئے ہیں.اس پر کوئی ہنسی اڑاتا.کوئی محول کرتا.کوئی مزید تفصیل سے پوچھتا.غرضیکہ کسی نہ کسی رنگ میں بات شروع ہو جاتی اور میں تبلیغ کا موقعہ نکال لیتا.“ 66 (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 10 صفحہ 32 روایت حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی) تبلیغ کا موقع نکالنے کی بات ہے.آجکل جماعتیں اس طرح ہی بہت ساری جگہوں پر جو لیف لٹنگ (Leafletting) کر رہی ہیں تو اس کی وجہ سے دنیا میں اُن سے لوگ سوال جواب بھی کرتے ہیں.اور اُس سے بھی تبلیغ کے آگے موقع نکلنے چاہئیں.صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ کاغذ دے دیا کہ جماعت احمدیہ کا امن کا پیغام ہے اور بس فرض پورا ہو گیا.بلکہ اُس رابطے کو ، اُس تعلق کو پھر آگے بھی جس حد تک بڑھایا جاسکتا ہے بڑھانا چاہئے.اسی طرح جیسا کہ آجکل یہاں یو کے میں مساجد کے افتتاح ہورہے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین مساجد کے افتتاح ہو چکے ہیں اور تین کے اور انشاء اللہ تعالیٰ اگلے ایک مہینے میں ہونے ہیں.اب یو کے جماعت کو بھی اس طرف توجہ پیدا ہوئی ہے.اس سے بھی تبلیغ کے رستے کھلنے چاہئیں.رابطے پیدا ہونے چاہئیں اور زیادہ سے زیادہ تعلق وہاں کی مقامی جماعتوں کو اپنے ماحول میں پیدا کرنا چاہئے.کیونکہ مساجد سے جہاں مخالفت ہوتی ہے وہاں تو جہ بھی پیدا ہوتی ہے اور ابھی تک جن مساجد کے افتتاح ہوئے ہیں اُن کی رپورٹس یہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے جن لوگوں کے رابطے نہیں تھے، وہ بھی اب جماعت کے بارے میں معلومات لیتے ہیں اور جو معلومات لیں تو پھر ہمیں اُس سے بھر پور فائدہ اُٹھانا چاہئے.پھر حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی بیان کرتے ہیں کہ ”میاں غلام محمد صاحب جو قوم
خطبات مسرور جلد دہم 154 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 مارچ 2012ء کے ارائیں تھے اور موضع سعد اللہ پور تحصیل پھالیہ ضلع گجرات کے باشندہ تھے وہ میرے ذریعہ ہی خدا کے فضل سے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے تھے.ایسا ہی اُن کی برادری کے سب لوگ بھی بلکہ موضع سعد اللہ پور کے امام مسجد مولوی غوث محمد صاحب جو اہل حدیث فرقہ کے فرد تھے ، وہ بھی خدا کے فضل سے میری تبلیغ کے ذریعہ احمدی ہوئے تھے.“ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 10 صفحہ 63-64 روایت حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی) تو مولویوں میں بھی سعید فطرت ہیں جو دین کو سمجھتے ہیں ، آجکل بھی ایسے بعض لوگ ہیں.پاکستان میں بھی ہیں اور دوسری دنیا میں بھی جو باوجود مذہب کے معاملے میں بڑے سخت ہونے کے اور لوگوں کی سنی سنائی باتوں کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مخالفت کرنے کے باوجود جب اُن کو حقیقت کا علم ہوتا ہے، پڑھتے ہیں، سمجھتے ہیں تو پھر بیعت میں بھی شامل ہو جاتے ہیں.حضرت میاں محمد عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہمارے خاندان میں پہلے حاجی فضل الدین صاحب نے 1892ء میں قادیان جا کر بیعت کی تھی.حاجی صاحب میرے چچا زاد بھائی تھے.انہوں نے میرے والد صاحب اور دیگر میرے بھائیوں کو 1903 ء تک تبلیغ کی.میرے والد صاحب نے ایک رات خواب دیکھا کہ قادیان کی طرف سے ایک پورے قد کا چاند بہت خوشنما ( یعنی مکمل چاند جو تھا) روشنی دے رہا ہے.جس کی تعبیر میرے والد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت پر کی اور ہم سب نے اُسی دن بذریعہ خط بیعت کر لی.“ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 10 صفحہ 134 روایت میاں محمد عبد اللہ صاحب ) حضرت مولوی محمد عبد اللہ صاحب بیان کرتے ہیں.کہتے ہیں کہ تبلیغ میں بیعت سے پہلے بھی کیا کرتا تھا اور بیعت کے بعد تو میں نے اس قدر تبلیغ کی کہ سینکڑوں لوگ میرے ذریعے سے جماعت میں داخل ہوئے.‘“ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 10 صفحہ 219 روایت مولوی محمد عبد اللہ صاحب) یہ واقعات اور بھی کافی ہیں.انشاء اللہ آئندہ بیان کروں گا.اللہ تعالیٰ ان صحابہ کے درجات بلند فرمائے جنہوں نے بہت سوں کو زمانے کے امام کا پیغام پہنچایا اور پھر انہوں نے آگے تبلیغ کر کے اس پیغام کو آگے پہنچاتے چلے گئے اور یہ کام جاری رکھا.آج اُن کی نسلیں، انہی کی محنت ، نیکیوں اور تقویٰ کے پھل کھا رہی ہیں.پس اپنے بزرگوں کے لئے بھی دعائیں کریں جن کی نسلوں میں اُن صحابہ کے ذریعے سے احمدیت آئی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں تھے.اور ہمیں اُن کا بہت زیادہ شکر
خطبات مسرور جلد دہم 155 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 مارچ 2012ء گزار ہونا چاہئے اور حقیقی شکر گزاری یہی ہے کہ جہاں اُن کے لئے دعائیں کریں وہاں اپنا تعلق بھی جماعت سے مضبوط کریں اور اس پیغام کو آگے سے آگے پہنچاتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.اس وقت آج بھی ایک افسوسناک اطلاع ہے.ہمارے ایک بھائی کو نوابشاہ میں شہید کر دیا گیا.إِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.مکرم مقصود احمد صاحب ابن مکرم محمد اور میں صاحب جو پہلے تو کر ونڈی میں آباد تھے لیکن پچھلے چھپیں ستائیس سال سے دار الرحمت شرقی ربوہ میں رہائش پذیر تھے.مقصود صاحب کے خاندان کا تعلق قادیان کے قریب گاؤں ”بھٹیاں گوت“ سے ہے.ان کے خاندان میں احمدیت آپ کے دادا مولوی عبدالحق نور صاحب کی بیعت کے ذریعے سے آئی تھی.1934ء میں انہوں نے بیعت کی تھی.ان کے دادا کوزمیندارہ کا وسیع تجربہ تھا جس کی وجہ سے حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے شروع میں سندھ کی زمینوں کو آباد کرنے کے لئے انہیں بھجوایا تھا.ان کے دادا نا صر آباد، محمود آباد اور دوسری سٹیٹس میں بھی نگرانی پر مقرر رہے ہیں.پھر 1942ء میں جماعت کی سٹیسٹ سے نکل کر انہوں نے اپنی زمینیں لے لی تھیں اور خیر پور منتقل ہو گئے.21 دسمبر 1966ء کو آپ کے دادا مکرم عبدالحق نور صاحب کو بھی شہید کر دیا گیا تھا.اس وقت مقصود صاحب کی عمر بارہ سال کی تھی اور آپ اس شہادت کے عینی شاہد تھے.پرانے شہداء کا جب ذکر ہو رہا تھا تو جون 1999ء میں حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے اپنے خطبہ میں شہداء کی فہرست میں ان کے دادا کا بھی ذکر کیا تھا.1983 ء تک کرونڈی میں رہے.اُس کے بعد پھر وہاں سے ربوہ شفٹ ہو گئے.جب سے ربوہ میں شفٹ ہوئے ہیں اُس وقت سے ہومیو پیتھک کیوریٹو کمپنی جو راجہ نذیر صاحب کا ایک ادارہ ہے اُس میں کام کر رہے تھے.اور آپ کے سپر د کمپنی کی طرف سے سندھ کا علاقہ تھا جہاں آپ ہر مہینے دورے پر، دوائیوں کی فروخت کے لئے یا آرڈر لینے کے لئے سیلز مین کے طور پر جایا کرتے تھے.کہتے ہیں گزشتہ ماہ 27 فروری سے سندھ کے دورے پر تھے اور 7 مارچ 2012ء کو شہادت کے دن صبح تقریباً گیارہ بجے نوابشاہ پہنچے تھے جہاں سہ پہر تقریباً ساڑھے تین بجے نوابشاہ کے معروف موہنی بازار میں دو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے ان کو روکا اور ان پر فائر کر دیا جس سے ان کی شہادت ہوگئی.انَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - پولیس لاش ہسپتال لے گئی.وہاں جا کر پوسٹ مارٹم ہوا.جیسا کہ ہم جانتے ہیں ، نوابشاہ میں دس دن کے اندر یہ دوسری شہادت ہے.مرحوم موصی بھی تھے.شہید مرحوم کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ مرحوم نے آج سے دو تین ماہ قبل اس بات کا ذکر کیا تھا کہ انہیں
خطبات مسرور جلد دہم 156 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 مارچ 2012ء دھمکیاں مل رہی ہیں.نیز وہ ایک جگہ ہندو ڈاکٹر کی دکان پر دوائیوں کی سپلائی کے لئے جاتے تھے تو انتہا پسندوں نے اُس ہندو ڈاکٹر کو بھی دھمکی دی تھی کہ اگر اب یہ مرزائی تمہاری دکان پر آیا تو تمہیں بھی اور اس مرزائی کو بھی ہم ماردیں گے.پھر ان کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ شہید مرحوم اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے.نماز کے پابند، با قاعدگی سے نوافل ادا کرنے والے، باجماعت نماز ادا کرنے والے، اسی طرح مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے.اپنی اہلیہ کا چندہ بھی اس سال خودا دا کیا اور دورے پر جانے سے پہلے اپنا چندہ بھی مکمل ادا کر کے دورے پر گئے تھے.دعوت الی اللہ کا شوق آپ کو اپنے دادا کی طرف سے ورثہ میں ملا تھا.سفر کے دوران میں بھی ، چاہے چند دن کے لئے جاتے ہوں، جماعتی لٹریچر ہمراہ رکھتے تھے اور تقسیم کرتے اور فعال تبلیغ کرتے تھے.اور اسی تبلیغ کی وجہ سے یقیناً وہاں دشمنی بھی پیدا ہوئی ہوگی.بازار میں ان کا تعارف ایک احمدی کی حیثیت سے تھا اور جب یہ تعارف ہو گیا تو اس بہانے پھر آپ لوگوں کو لٹریچر وغیرہ بھی دیتے تھے.انتہائی ملنسار اور محبت کرنے والے اور صفائی پسند انسان تھے.خدمت خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے.ضرورتمندوں کو مفت ادویات دیا کرتے تھے.خلافت سے بے انتہا تعلق تھا.اسی طرح قرآنِ کریم سے بھی آپ کو خاص عشق تھا.ان کی اہلیہ مزید بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے مکرم مقصود احمد صاحب کو کہا کہ کیا ہم بھی شہداء کی فیملی میں شمار ہو سکتے ہیں؟ تو جوا با آپ نے کہا کہ کیوں نہیں.اگر اللہ تعالیٰ منتخب کر لے تو ہم بھی شامل ہو سکتے ہیں.پیچھے ان کی اہلیہ امۃ الرشید شوکت صاحبہ ہیں.اس کے علاوہ ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں.بیٹے ان کے یہیں مانچسٹر میں رہتے ہیں اور غیر شادی شدہ ہیں.بیٹیوں میں سے ایک شادی شدہ امریکہ میں ہے اور ایک وہیں ربوہ میں ہیں اور ہمارے ایک سکول میں ٹیچر ہیں.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان سب لواحقین کو صبر عطا فرمائے.دشمنوں کی پکڑ کے جلد سامان فرمائے.ایک دوسرا جنازہ جو ابھی جمعہ کی نماز کے بعد پڑھاؤں گا ہاجرہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم مستری محمد حسین صاحب درویش مرحوم قادیان کا ہے.یہ چار پانچ مارچ کی درمیانی رات کو اناسی (79) سال کی عمر میں وفات پاگئیں.انا للہ و انا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ مکرم منشی عبدالرحیم صاحب فانی آف امروہہ کی بیٹی تھیں جو قادیان میں رہائش کی خاطر ہجرت کر کے 1950ء میں قادیان آگئے تھے.مرحومہ کی شادی 1951ء میں ہوئی اور آپ نے اپنے شوہر کے ساتھ عرصہ درویشی نہایت صبر وشکر کے ساتھ گزارا.ان کے دس بچے تھے اور کثیر العیال
خطبات مسر در جلد دہم 157 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 مارچ 2012ء ہونے کے باوجود انہوں نے پانچ بیٹوں اور پانچ بیٹیوں کی بڑی اچھی رنگ میں پرورش کی.سب بچے شادی شدہ اور عیالدار ہیں.مرحومہ موصی تھیں.بہشتی مقبرہ قادیان میں ان کی تدفین عمل میں آئی ہے.اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت کا سلوک فرمائے.درجات بلند فرمائے.اپنی رضا کی جنتوں میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے لواحقین کو بھی صبر جمیل عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 30 مارچ تا 5 مارچ 2012 جلد 19 شماره 13 صفحہ 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد دہم 158 11 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 مارچ 2012ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت رزاسرود احمد خلیفہ امسح الامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 16 مارچ 2012 ء بمطابق 16 امان 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح.مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: گزشتہ خطبہ میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کے تبلیغ کے واقعات و تجربات بیان کئے تھے اور میں نے کہا تھا کہ کچھ واقعات رہ گئے ہیں وہ آئندہ بیان کروں گا، تو وہ آج ہی بیان کرتا ہوں.ان واقعات کے سنانے کا اصل مقصد تو جیسا کہ پہلے بھی میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں یہ ہے کہ ایک تو ان صحابہ کے لئے دعا ہو جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قبول کیا اور ہمیں اس زمانے کے انعامات سے حصہ لینے والوں میں بنایا.اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند فرماتا چلا جائے.ورنہ شاید ہم میں سے بہت سے اس نعمت سے محروم رہتے جو اللہ تعالیٰ نے اتاری ہے.دوسرے ان کی نیکیاں، اُن کی ایمانی جرات ، اُن کی دین کے لئے غیرت، اُن کا دین کی خدمت کا جذبہ اُن کی نسلوں میں بھی روح پھونکنے والا ہو اور جو براہ راست اُن سے خونی رشتہ نہیں رکھتے لیکن ایک روحانی رشتہ ان کے ساتھ ہے وہ اس تعلق کی وجہ سے اپنے اندر بھی ایک جوش اور ولولہ پیدا کر کے ان بزرگوں کے جذبات اور دلی تڑپ کو آگے بڑھانے والے ہوں اور اس فیض کو اپنی نسلوں میں بھی جاری رکھیں.تبھی ہم ان بزرگوں کے احسانوں کا حق ادا کر سکتے ہیں.بہت سے لوگ مجھے لکھتے ہیں، بعض دفعہ ملنے پر بتاتے بھی ہیں کہ فلاں بزرگ کا آپ نے ذکر کیا تھا اُن کے ساتھ میرا رشتہ داری کا، عزیز داری کا یہ یہ تعلق ہے.لیکن ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ ان رشتوں کا حق تبھی ادا ہوتا ہے جب اُن کے نقش قدم پر بھی چلا جائے.پس اس ذمہ داری کے نبھانے کے احساس اور کوشش کو ہمیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے.آج جو میں ذکر کر رہا ہوں اُن میں سے پہلی روایت حضرت میاں جمال الدین صاحب کی
خطبات مسرور جلد دہم 159 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 مارچ 2012ء ہے.آپ فرماتے ہیں کہ ایک مولوی بنام نواب الدین قوم آرائیں ، ساکن ایدرس ضلع امرتسر اپنے خیال میں یہ کہتا تھا کہ میں مرزائیوں کو درست کر رہا ہوں اور گاؤں گاؤں اور قصبے قصبے پھرتا تھا.کہتے ہیں موضع تارا گڑھ المشہو ر ” نواں پنڈ“ قوم ارائیاں جو اس (خاکسار ) کے گھر کے قریب شمال میں تھا، وہاں آتے ہی اُس نے شور مچایا کہ یہاں کوئی مرزائی ہے تو میرے سامنے آئے.کہتے ہیں کہ چونکہ مجھ سے پہلے اس گاؤں میں کوئی احمدی نہیں تھا.سب مخالف ہی تھے اور بعض آدمی میرے واقف بھی تھے.انہوں نے مشورہ کر کے ایک آدمی کو میرے پاس بھیجا کہ یہاں آ کر مولویوں کا مقابلہ کریں.ان کا گاؤں جو تھا اُس کے قریب ہی تھا.کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ یہ لوگ تماش بین ہوتے ہیں.حق اور حقیقت سے کچھ غرض نہیں ہوتی.آخر الامر فساد ہوتا ہے.میں نے کہا کہ مباحثات سے تو حضرت صاحب نے روکا ہوا ہے.بلا وجہ کے مباحثے اور بخشیں نہیں کرنی.یہ اُس زمانے کی بات ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے منع فرما دیا تھا کیونکہ ان لوگوں پر اثر نہیں ہوتا جو مولوی طبقہ ہے.تو کہتے ہیں میں نے کہا مباحثات سے تو روکا ہوا ہے.اگر ان لوگوں کو زیادہ شوق ہے تو فساد کے ذمہ دار ہو جا ئیں.ہم آپ کے گاؤں میں آجائیں گے.مولوی صاحب کے جو اعتراض ہوں گے وہ ایک دفعہ کہہ دیں اور ہم بجائے بحث کرنے کے اُس کے جواب ایک دفعہ بتا دیں گے.لوگ خود فیصلہ کر لیں گے یا ہم فساد کے ذمہ دار ہو جاتے ہیں.اور مولوی صاحب اور ان کے گاؤں والے یہاں آجائیں.کہتے ہیں وہ شخص پیغام لے کر اپنے گاؤں چلا گیا اور مولوی مذکور تین آدمی اُس گاؤں کے لے کر ہمارے گاؤں میں دوسرے راستے سے آ گیا اور ہمارے گاؤں کے چیف نمبر دار کو ملا جو مذہب کا ہندو تھا اور کہا کہ اگر کوئی یہاں مرزائی ہے تو میرا مقابلہ کراؤ.چیف نمبر دار نے میرے پاس ایک آدمی مجھے بلانے کے لئے بھیجا.مجھے آگے ہی اس کی خبر ہو چکی تھی.میں نے مولیٰ کریم سے دعا کی کہ الہی میں ایک نادان اور بے کس ہوں.کوئی اپنی خوبی پر گھمنڈ نہیں.محض تیر افضل درکار ہے.حق اور حقیقت واضح کر دے.یہ دعا مانگ کر جہاں مولوی تھا میں وہاں آ گیا اور بہت ہندو اور مسلمان جمع ہو گئے.فرش بچھایا گیا.میں اور مولوی درمیان میں بیٹھ گئے.تھوڑی دیر خاموشی رہی.پھر میں نے مولوی سے بات شروع کی اور کہا کہ مولوی صاحب! کس بات کے لئے آپ سیاحت کرتے پھرتے ہیں.تو مولوی صاحب کہنے لگے کہ امت محمدی میں بہت تفرقہ ہے.ان کی اصلاح کے لئے پھرتا ہوں.کہتے ہیں خاکسار نے اس پر کہا کہ آج تک کس قدر اصلاح کی اور کتنے سرٹیفکیٹ علماء و فضلاء کے اپنے مصلح ہونے کے متعلق حاصل کئے.مولوی صاحب
خطبات مسرور جلد دہم 160 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 مارچ 2012ء نے کہا کہ ہاں حاصل کئے ہیں.تو میں نے انہیں کہا کہ پھر مجھے دکھا ئیں.مولوی صاحب کہنے لگے کہ وہ میں گاؤں چھوڑ آیا ہوں اور جلدی سے یہ کہہ دیا کہ اصل غرض میری یہ ہے کہ مرزا نے جو فساد ڈالا ہے خود کافر ہے اور لوگوں کو بھی کا فر کرتا ہے (نعوذ باللہ ).ایسے لوگوں سے مباحثہ کرتا ہوں.تو اس پر کہتے ہیں.میں نے کہا کہ مجھے بھی وجوہ کفر بتا دیں.نیز بحث کس بات پر کرو گے؟ مولوی صاحب نے کہا تم اردو میں بات کر رہے ہو.میں عربی میں گفتگو کروں گا.تو میں نے کہا کہ میں عربی میں بول نہیں سکتا.پنجابی میں باتیں کر لو.مولوی نے اس پر کہا کہ اچھا پنجابی میں باتیں کر لیں.کہتے ہیں میں نے کہا کہ پھر تو بڑی اچھی بات ہے.مولوی صاحب کہنے لگے اپنا مذہب بتائیں.میں نے کہا پہلے آپ اپنا مذہب بتا ئیں.مولوی صاحب نے کہا کہ میرا مذہب حنفی ہے اور خدا کو وحدہ لاشریک جانتا ہوں اور محمد رسول اللہ کو سچا مانتا ہوں (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو نہیں آیات قرآنِ شریف سے اور حدیث صحیح کے ثبوت سے چہارم فلک پر اس وجود کے ساتھ زندہ مانتا ہوں.جو اس سے انکار کرے اُس کو کا فرسمجھتا ہوں اور تعلیم یافتہ ہوں.پھر کہنے لگے کے آپ اپنا مذ ہب اور تعلیم بتا ئیں.کہتے ہیں اس پر خاکسار نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کو وحدہ لا شریک جانتا ہوں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین مانتا ہوں.حضرت عیسی علیہ السلام بنی اسرائیل کو قرآن اور حدیث سے فوت شدہ مانتا ہوں اور جو آنے والا عیسیٰ علیہ السلام اور مہدی تھا وہ اس امت میں سے تھا جو اس وقت حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے دعویٰ مسیحیت اور مہدویت کیا ہے میں اس کو صدق دل سے سچا مانتا ہوں جو اس کو نہ مانے میں اُس کو حق پر نہیں سمجھتا.مجھے سندی علم کا دعوی نہیں ہے ( یعنی تعلیم کا ، دینی علم کا میرا کوئی سرٹیفکیٹ نہیں ہے ) اپنا ہی مطالعہ ہے نیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تاثیر صحبت سے اثر رکھتا ہوں.ہاں یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ حضرت ابن مریم بنی اسرائیل کو قرآن شریف کی صریح آیات اور حدیث متصل مرفوع سے کوئی شخص ثابت کر دے ( یعنی ایسی حدیثیں جن کا روایات کے سلسلے میں تسلسل اوپر تک با قاعدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہو.) کہ وہ چہارم فلک پر اسی وجو دعصری سے صعود فرما گئے ہوئے ہیں اور آج تک زندہ بیٹھے ہیں تو تو بہ کرنے کو تیار ہوں.( کہتے ہیں میں نے مولوی صاحب کو یہ کہا ).مولوی صاحب کہنے لگے.اچھا پھر اس اقرار نامے کی ایک تحریر لکھ کر مجھے اس پر دستخط کر دو.میں نے ایک کا غذ قلم منگوایا اور عبارت لکھ کے دستخط کر کے مولوی صاحب کو دے دیا.مولوی نے کاغذ مذکور ہاتھ میں لیا اور پوچھا کہ تفسیروں کو مانتے ہو.میں نے کہا اُن تفسیروں کو مانتا
خطبات مسرور جلد دہم 161 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 مارچ 2012ء ہوں جو قرآن شریف ، حدیث صحیحہ کے موافق ہوں.پھر مولوی صاحب کہنے لگے قرآنِ کریم جانتے ہو.میں نے کہا جانتا ہوں.پھر مولوی صاحب فرمانے لگے کہ قرآن کے معنی کیا ہوتے ہیں؟ مجھے پتہ تھا یہ بحث کرنا چاہتا ہے، تو اس پر میں نے کہا نہیں، میں یہ نہیں بتاؤں گا.پہلے پہلی بات کا فیصلہ کر لیں.پھر مولوی صاحب نے کہا کہ ذلِك الكتب کے کیا معنے ہیں.میں نے پھر کہا کہ جس بات کے لئے ہم آئے ہیں وہ پہلے کریں.سوال اکٹھے کریں.آپ نے جو اعتراض کرنے ہیں وہ کریں.میں نہیں بتاؤں گا.پھر مولوی صاحب نے اگلا سوال کر دیا کہ قرآن کریم کی آیات کتنی ہیں؟ پھر بھی میں نے کہا کہ آپ پھر وہی بات دہرائی جار ہے ہیں.پھر مولوی صاحب کہنے لگے میں کس طرح معلوم کروں کہ تم قرآنِ کریم جانتے ہو تو اس پر میں نے کہا کہ میں خدا کے فضل سے آپ سے بہتر قرآن جانتا ہوں.جو تم سوال کرتے ہو میں حلفیہ کہتا ہوں کہ آپ کو پیچھے اسی مجلس میں بتاؤں گا.( یعنی کہ اس مجلس میں ہی بیٹھ کر بتاؤں گا ) اور خلط مبحث نہیں کروں گا.بلا وجہ کی بحث میں نہیں جاؤں گا.مولوی صاحب: تفاسیر متقدمین اور احوال خلفاء کو نہیں مانتا.میں نے کہا بڑی خوشی سے، یعنی کہ میں مانتا ہوں، اقوال حضرت ابوبکر، عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی کو مانتا ہوں بلکہ بہت سمجھتا ہوں.جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِيْ وَ بِسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيَّيْن تم نے تو انہیں چار خلفاء پر خلافت کو محدود کر دیا ہے.ہم تو مرزا صاحب کو خلیفۃ اللہ مانتے ہیں.بلکہ اُن کے طریق کو نبی کریم کی سنت سمجھتے ہیں.غرض یہ کہ اس ہیر پھیر میں آدھا گھنٹہ لگا دیا.تو مولوی صاحب کہنے لگے کہ قرآن کو سوائے تفسیروں کے سمجھ نہیں سکتے.اس پر میں نے کہا کہ یہ غلط ہے کہ قرآن کا سمجھنا صرف تفسیروں پر ہوتا ہے.تفسیروں کا سلسلہ بند ہو تو یہ سمجھا نہیں جائے گا.خدا وند تعالیٰ کو یہ منظور نہیں تھا.قرآن کریم کا تو یہ دعویٰ ہے کہ وَلَقَد يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ (القمر: 18) اور أَفَلا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ (النساء: 83).کسی کا محتاج نہیں.خیر وہ مولوی صاحب جو اصل مدعا تھا اُس کی طرف نہیں آئے.ادھر ادھر ہاتھ پیر مارتے رہے.آخر چیف نمبر دار نے کہا کہ وہ آیت قرآن کی پیش کریں جس سے مسیح کا آسمان پر چڑھ جانا اسی وجود کے ساتھ ثابت ہو.مولوی صاحب نے کہا.نمبر دار صاحب! میں آیت تو پیش کروں گا لیکن انہوں نے ماننا نہیں.نمبر دار نے کہا کہ مولوی صاحب ! اگر یہ نہیں مانیں گے تو اور لوگ تو مانیں گے.مولوی صاحب مجبور ہوئے اور بولے کہ قرآن شریف منگا ؤ.اُس وقت ایک مترجم حمائل دہلی کے چھاپہ کی منگوائی گئی.مولوی صاحب کے ہاتھ میں دی گئی.ہاتھ میں لیتے ہی بولے کہ یہ مرزے کا قرآن ہے.اس کو میں نہیں لیتا.پھر اس کو میں نے کہا کہ ہرگز مرزا صاحب کا قرآن نہیں.
خطبات مسرور جلد دہم 162 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 مارچ 2012ء آنکھیں کھول کر دیکھیں.پھر مولوی صاحب نے یہی رٹ لگائی.خیر میں نے پھر کہا کہ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الکاذبین.تین دفعہ کہا.مولوی صاحب نے قرآن کریم ہاتھ میں لیا اور مکتبہ کا نام، پریس کا نام دیکھا اور پوچھا کہ اس کا مصنف کون ہے.میں نے پھر کہا نعوذ باللہ آپ اس کو خدا کا کلام نہیں مانتے تبھی مصنف پوچھتے ہیں.خیر مولوی کہتا ہے.نہیں نہیں.غلطی ہو گئی.یہ کس کی تالیف ہے.میں نے پھر کہا مولوی صاحب ہوش کریں اور حسب منشاء خود آیت نکالیں.مولوی صاحب نے قرآن شریف کھولا اور پھر ورق گردانی شروع کر دی.ہمیں منٹ ورق گردانی کرتے رہے.کوئی آیت نہ ملی.پھر آخر میں نے اُن کو کہا کہ مولوی صاحب آپ ہیں آیات قرآنی بتا رہے ہیں.اگر ایک نہیں تو دوسری نکال دیں.دوسری نہیں تو تیسری نکال دیں.آخر مولوی کہنے لگا کہ قرآن میں تو وہ آیات نہیں نکلتیں.مجھے نظر نہیں آرہیں.میں زبانی پیش کر دیتا ہوں.پھر مولوی صاحب کہنے لگے کہ يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ (آل عمران:56).ترجمہ مولوی صاحب نے اس کا یہ کیا کہ جب کہا اللہ تعالیٰ نے ، اے عیسی ! میں تیری روح کو مع جسم پورے کے آسمان پر اُٹھانے والا ہوں.تو اس پر کہتے ہیں کہ میں نے کہا مولوی صاحب! قرآن سے وہ آیت نکالیں اور الفاظ سامنے رکھ کر بحث ہوگی.مولوی صاحب نے پھر قرآن ہاتھ میں لیا.پھر دس منٹ تک ورق گردانی کرتے رہے.کوئی آیت نہ ملی.لوگوں نے اُن سے ٹھٹھا کرنا شروع کیا اور کہا کہ عجیب قرآن دانی ہے آپ کی کہ ایک مشہور آیت آپ کو نہیں ملی.لوگ اُن کا مذاق اُڑاتے وہاں سے اُٹھ گئے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 181 تا 185 روایت حضرت میاں جمال الدین صاحب) اسی سے ملتا جلتا ایک واقعہ پچھلی دفعہ بھی میں نے سنایا تھا لیکن وہ اور واقعہ تھا.بہر حال یہ عموماً علماء کی جو نام نہاد علماء ہیں اُن کی عادت ہے.پھر حضرت منشی محبوب عالم صاحب بیان کرتے ہیں کہ حکیم محمد علی صاحب موجد روح جیون بوٹی شاہی طبیب ریاست جموں وکشمیر تھے.وہ پنشن لے کر لاہور میں سکونت پذیر ہوئے.میں اُن کے ہاں ملازم تھا.وہ بھی اکثر مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کیا کرتا تھا اور بہت بدزبانی کیا کرتا تھا.چنانچہ ایک دن دوران گفتگو میں اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شانِ مبارک میں دیوث کا لفظ استعمال کیا.(نعوذ باللہ ).میں نے رات کو بہت دعائیں کی اور استغفار کیا کہ ایسے شخص سے میں نے کیوں گفتگو کی جس نے ایسی بے ادبی کی ہے.مگر رات کو مجھے خداوند کریم نے رویا میں دکھایا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میاں چراغ دین صاحب مرحوم کے مکان میں تشریف فرما ہیں اور میں حاضر خدمت ہوا
خطبات مسرور جلد دہم 163 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 مارچ 2012ء ہوں.جب میں نے حضور کو السلام علیکم کہا تو حضور نے جواب دیا وعلیکم السلام.اور مجھ سے پوچھا کہ وہ شخص جو ہمیں دیوث کہتا ہے کہاں ہے؟ میں نے باہر کی طرف دیکھا تو محمد علی آرہا تھا.میں نے عرض کیا کہ حضور وہ محمد علی حکیم ہے باہر آ رہا ہے.حضور نے فرمایا کہ اُس کو کہہ دو کہ ہم آپ سے ملاقات نہیں کرتے کیونکہ آپ دیوث ہیں.اللہ تعالیٰ کا انتقام دیکھیں.اس رؤیا کے بعد چند ہفتے گزرے تھے کہ اُس کی لڑکی ایک کلرک کے ساتھ بھاگ گئی اور گوجرانوالہ محکمہ پولیس کے خفیہ افسر نے اُس کو پکڑ لیا.کلرک نے کہا یہ میری بیوی ہے.لڑکی نے کہا یہ میرا ملازم ہے.دونوں کے متضاد بیانات تھے.پولیس کو شبہ ہو گیا.گوجرانوالہ کے اسٹیشن پر اُن کو گاڑی سے اتار لیا.ڈپٹی کمشنر کے پیش ہوئے.وہاں لڑکی نے بیان دیا کہ میرا باپ دیوث ہے اور میری شادی نہیں کرتا.(اب یہ حکیم صاحب کی بیٹی خود بیان دے رہی ہے ).میں مجبوراً اس آدمی کے ساتھ ایک نوابزادے کے پاس جا رہی ہوں.خیر اس نے اپنے واقعات سنائے.اُس ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ تمہارے باپ کی ہتک ہو گی اُس کے پاس چلی جاؤ مگر اس نے واپس جانے سے انکار کیا اور کہا باپ مجھے مار ڈالے گا.خیر ڈ پٹی کمشنر نے کہا ہم انتظام کر دیتے ہیں اور لڑکی کو لاہور کے ڈپٹی کمشنر کے پاس بھیج دیا کہ لڑکی کے باپ کے حوالے کیا جائے مگر اُس سے ضمانت لی جائے کہ اسے کوئی تکلیف نہ دے.چنانچہ ڈپٹی کمشنر نے کچہری میں حکیم صاحب کو طلب کیا.جاتے ہی حکیم صاحب کو ڈانٹا اور کہا کہ تم بڑے دیوث ہو.( دوسری دفعہ پھر ڈپٹی کمشنر نے وہی بات کہی.اپنی لڑکی کی حفاظت نہیں کرتے اور تم بڑے بے شرم ہو ، جوان لڑکی کا رشتہ نہیں کرتے.پانچ ہزار روپے کی ضمانت لاؤ تب لڑکی تمہارے حوالے کی جائے گی.اور اس طرح وہ بدلہ لیا.پھر اس پر اس کا مزید عبرتناک انجام یہ ہوا کہ کچھ عرصے کے بعد مولوی صاحب شہر میں دیوث مشہور ہو گئے.ہر ایک اُن کو دیوث کہنے لگا.اور کچھ عرصے کے بعد وہی لڑکی پھر بھاگ گئی اور عیسائی ہوگئی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 9 صفحہ 207 تا 209 روایت حضرت منشی محبوب عالم صاحب) حضرت امیر خان صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات پر جب میں نے سنا کہ چوہدری غلام احمد صاحب پیغامی ہو گئے ہیں تو میں وہاں پہنچا اور انہیں پیغامیوں کے حالات سے اطلاع دی.الحمد للہ کہ انہوں نے بہت اثر لیا اور پیغامی خیالات سے توبہ کر لی اور یہاں قادیان میں تشریف لائے.اسی طرح چوہدری نعمت خان صاحب سب حج کو میں نے موضع کھیڑی میں تبلیغ کی اور آپ اس کے تھوڑے عرصے بعد احمدی ہو گئے.پھر جب آپ اونہ میں تھے اور میں نے سنا کہ پیغامی خیالات رکھتے ہیں تو اُن سے میں ( نے ) خط و کتابت کی اور بہ عمل خود انہوں نے اپنے خیالات میں تبدیلی فرمائی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 146 - 147 روایت حضرت امیر خان صاحب)
خطبات مسرور جلد دہم 164 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 مارچ 2012ء اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تو پیغامیوں کی تعدا د ویسے بھی بہت تھوڑی رہ گئی ہے اور یہ جہاں جہاں تھے پچھلے دو تین سال میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی تعداد میں احمدی ہوئے ہیں، مبائع ہوئے ہیں.حضرت مولوی عبد اللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حضرت صاحب کی زیارت کے لئے حاضر ہوا.حضرت اُس وقت ایک جگہ کھڑے تھے.ایک صحابی حضرت صاحب کے پاس کھڑا تھا.اُس نے مجھ کو دیکھ کر حضرت صاحب کو کہا کہ یہ مولوی عبد اللہ کھیوے والا ہے.اس کے ساتھ بڑے مقابلے ہوئے ہیں.یعنی تبلیغی مقابلے بخشیں وغیرہ.لیکن ہر میدان میں اس کو اللہ تعالیٰ غلبہ دیتا رہا ہے.حضرت صاحب نے فرمایا: ہاں حق کو ہمیشہ غلبہ ہی ہوتا ہے.یہ کلمات مبارک اس برکت والے منہ سے سن کر میری تسلی ہوئی اور بڑی خوشی ہوئی اور مجھے یقین ہو گیا کہ اس منہ سے یہ کلمہ نکلا ہے.مجھے امید ہو گئی کہ میں حق پر رہوں گا اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ مجھے غلبہ ہی دے گا.تو اللہ تعالیٰ نے اُس وقت سے اب تک کسی مقابلے میں مجھے شکست نہیں ہونے دی ، غلبہ ہی بخشا ہے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 10 صفحہ 221-222 روایت حضرت مولوی عبداللہ صاحب ) حضرت چوہدری محمد علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے والد صاحب سیالکوٹ جلسہ میں شمولیت کے لئے تشریف لے گئے، جب واپس تشریف لائے تو انہوں نے آکر تبلیغ شروع کی.وہ خود بیعت کر کے آئے تھے.اُن کی تبلیغ سے گھٹیالیاں کے لوگ دھڑا دھڑ بیعت کرنے لگے.غالباً غلام رسول بسراء صاحب سے میں نے یہ سنا کہ حضرت صاحب نے جب یہ دیکھا کہ کثرت سے گھٹیالیاں کے لوگ بیعت کر رہے ہیں تو فرمایا یہ گھٹیالیاں کیا ہے؟ گاؤں ہے کہ شہر ہے.اس پر چوہدری محمد علی صاحب کے بھائی حاکم علی نے کہا کہ یہ روایت صحیح ہے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 10 صفحہ 235 روایت حضرت چوہدری محمد علی خان صاحب) یہ آگے اس روایت کی تصدیق ہو رہی ہے ) پھر حضرت شیخ عبدالرشید صاحب کی روایت ہے کہ مولوی محمد علی صاحب بو پڑی غیر احمدی یہاں آیا کرتے تھے.بڑے خوش الحان تھے.اُس کے وعظ میں بے شمار عورتیں جایا کرتی تھیں.( آواز بھی اچھی تھی.وعظ بھی بہت اچھا کیا کرتے تھے.attract کیا کرتے تھے لحن بھی اچھا تھا.تلاوت بھی اچھی کیا کرتے تھے.) کہتے ہیں کہ دو دو تین تین ماہ یہاں رہا کرتے تھے.اُس نے آکر حضرت کی مخالفت شروع کر دی.( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مخالفت شروع کر دی ).بد زبانی بھی
خطبات مسر در جلد دہم 165.خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 مارچ 2012ء کرتا تھا.اُس کے ساتھ بھی بحث مباحثہ ہو تا رہا.میرے والدین نے مجھے جواب دے دیا ( یعنی گھر سے نکال دیا ).والدہ زیادہ سختی کیا کرتی تھیں کیونکہ (مولوی) بو پڑی کا بڑا اثر تھا.والدین نے کہا ہم عاق کر دیں گے.کئی کئی ماہ مجھے گھر سے باہر رہنا پڑا.میرے والد صاحب میری والدہ کو کہا کرتے تھے کہ پہلے یہ دین سے بے پرواہ تھا.سویا رہتا تھا.اب نماز پڑھتا ہے.تہجد پڑھتا ہے.اسے میں کس بات پر عاق کروں.(ایک طرف مخالفت تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ، دھمکی تھی کہ عاق کریں گے لیکن ساتھ ہی یہ بھی اثر تھا کہ جب سے احمدی ہوا ہے اس کی کایا پلٹ گئی ہے ).وہ کہتے ہیں لیکن پھر بھی دنیاوی باتوں کو مدنظر رکھ کر مجھے کہا کرتے تھے کہ مرزائیت چھوڑ دو.میں یہی کہا کرتا کہ مجھے سمجھا دو.چنانچہ اس اثناء میں کئی دفعہ مولوی محمد حسین صاحب سے تبادلہ خیالات ہوا.مولوی محمد حسین صاحب ہمارے مقروض تھے.والد صاحب تقاضا کے لئے مجھے بھیجا کرتے تھے.اتفاق سے ایک دفعہ مولوی صاحب نے ایک اشتہار شائع کروایا جس میں خونی مہدی کا انکار تھا اور لکھا تھا کہ وضعی حدیثیں ہیں.یعنی خود بنائی ہوئی حدیثیں ہیں.ان کی کوئی صحت نہیں ہے.حضرت صاحب کو بھی یہ اشتہار پہنچ گیا.یہ اشتہار دیکھ کر حضرت صاحب نے ایک استفتاء تیار کیا اور ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب گوڑ گاؤں والے کو مولوی کے پاس بھیجا.وہ علماء کے پاس فتویٰ لینے کے لئے گئے.بعض علماء نے فتوے دیئے ، بعض نے انکار کیا.ڈاکٹر صاحب حضرت صاحب کو سنایا کرتے تھے.(جب مولوی محمد حسین کا یہ اشتہار پہنچا تو اس پر دوسروں سے، غیروں سے فتوے لینے کے لئے بھیجا کہ تم کیا کہتے ہو.کچھ نے تو اس کے خلاف فتویٰ دے دیا، کچھ نے اپنا پلو بچایا ).بہر حال کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب جن کو مولویوں کے پاس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھیجا تھا وہ حضرت صاحب کو سنایا کرتے تھے کہ میں بعض اوقات انگور یا دیگر پھل مولویوں کے پاس پیش کر دیتا تھا اور وہ حسب منشاء فتویٰ لگا دیا کرتے تھے.جا کے مولوی صاحب کو تحفہ دیا، کچھ پھل پیش کیا تو جیسا فتویٰ چاہو اُن سے لے لو.آج بھی ویسے یہ حال ہے لیکن آجکل ریٹس (Rates) زیادہ high ہو گئے ہیں.کہتے ہیں حالانکہ پہلے انکار کر چکے ہوتے تھے پھر بھی کچھ نہ کچھ لے کے فتویٰ دے دیتے تھے.حضرت صاحب یہ باتیں سن کے شملہ منہ کے آگے رکھ کر ( پگڑی کا کپڑا منہ کے آگے رکھ کے مسکرایا کرتے تھے.کہتے ہیں مجھے اس رسالے کا علم تھا جو مولوی محمد حسین صاحب نے شائع کیا تھا کہ اس میں مولوی صاحب نے یہ فتویٰ دیا ہے.چنانچہ جب مولوی محمد حسین صاحب کے ساتھ تبادلہ خیالات ہوتا تھا تو میں یہ ذکر کرتا تھا.ایک دن میں نے اُن سے کہا کہ آپ کا عقیدہ مہدی کے متعلق تو یہ ہے جو آپ نے شائع کیا ہے.خونی مہدی نہیں
خطبات مسرور جلد دہم 166 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 مارچ 2012ء آئے گا اور اس کے متعلق جو حدیثیں ہیں وہ ضعیف ہیں، کمزور ہیں، ظنی ہیں اور لوگوں کو آپ یہ کہتے ہیں کہ مہدی آئے گا.آپ دو طرف کیوں بیان دے رہے ہیں.ان کو اپنا اصلی عقیدہ کیوں نہیں بتاتے.لیکن وہ میری بات کا کوئی جواب نہیں دیتا تھا اور ہر دفعہ یہی کہتا تھا کہ جاؤ مرزائی ہو جاؤ تمہیں اس سے کیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 12 صفحہ 29 تا 31 روایت حضرت شیخ عبدالرشید صاحب) حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب ولد شیخ مسیتا صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عصر کی نماز سے فارغ ہو کر مسجد مبارک میں ہی تشریف فرما ہوئے تو ایک نئے دوست نے عرض کی کہ حضور ہمارے گاؤں میں ایک مولوی صاحب آئے اور رات کو کو ٹھے پر کھڑا کر کے غیر احمدیوں نے اُن سے وعظ کرایا.ہم بھی گئے تو اس مولوی نے لا نَبِيَّ بَعْدِي والی حدیث پڑھ کر اُس میں لوگوں کو خوب جوش دلا یا اور بار بار کہا دیکھولو گو! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور مرزا صاحب قادیان والے کہتے ہیں کہ میں نبی ہوں اور رسول ہوں.پھر پنجابی میں کہنے لگا ”دشواری کی کریئے تو کہتے ہیں کس طرح مرزا صاحب کو نبی رسول مان لیں؟ کہتے ہیں میں کھڑا ہو گیا اور اُس سے کہا مولوی صاحب! آپ یہ بتائیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کے بارے میں بھی یہ فرمایا ہے کہ اس کے بعد کوئی مسجد نہیں ہوگی.اس کے کیا معنی کریں گے.جو معنی آپ اس مسجد والی حدیث کے کریں گے وہی معنی ہم لا نبی والی حدیث کے کریں گے اور آپ کو یہ بتلا دیں گے کہ جو نبی آپ کی لائی ہوئی شریعت کو منسوخ کرے گا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کو منسوخ کرے گا، وہ نبی نہیں ہو سکتا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت تو آخری شریعت ہے.اس لئے اس کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا نبی نہیں آ سکتا.خیر وہ مولوی صاحب کہتے ہیں اس بات پر بھونچکا سا ہو گیا اور گالیاں دینے لگ گیا.جب جواب نہ ہو تو یہی ہوتا ہے.پھر میں نے کہا مولوی صاحب! آپ کی گالیوں کا جواب ہم نہیں دیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس دوست کی یہ باتیں سن کر بہت خوش ہوئے اور بڑے مسکرائے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 90-91 روایت حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب) آجکل بھی زیادہ تر یہی ایشو اٹھا یا جا رہا ہے.لوگوں کے دماغوں کو جو زہریلا کیا جاتا ہے تو اسی بات سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تو کوئی نبی نہیں آسکتا اور یہ مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں.احمدیوں کے خلاف پاکستان میں اصل جو مخالفت ہے وہ اسی ایشو کو لے کر اب زیادہ بھڑکائی جا رہی ہے.
خطبات مسرور جلد دہم 167 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 مارچ 2012ء مکرم میاں شرافت احمد صاحب اپنے والد حضرت مولوی جلال الدین صاحب مرحوم کے حالات بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ والد صاحب کو خدمت دین کا بہت شوق تھا اور اس پیرانہ سالی میں بھی ، بڑھاپے میں بھی آپ جوانوں سے بازی لے جاتے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے زمانے میں، 1934ء میں جہاں خطبہ جمعہ میں آپ کی وفات کو شہادت کی موت قرار دیا ہے، وہاں آپ نے اعتراف فرمایا کہ مولوی صاحب جوانوں سے بڑھ کر کام کرنے والے تھے.حضور نے فرمایا کہ تین آدمی میں نے دیکھے ہیں جو کہ تبلیغ میں دیوانوں کی طرح کام کرتے تھے، ایک حافظ روشن علی صاحب مرحوم، دوسرے یہ مولوی صاحب اور تیسرے مولوی غلام رسول صاحب را جیکی.یہ تینوں نہ دن نہ رات دیکھتے ہیں تبلیغ میں ہی لگے رہتے ہیں.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 12 صفحہ 274 روایت حضرت میاں شرافت احمد صاحب) پھر میاں شرافت احمد صاحب ہی اپنے والد صاحب مولوی جلال الدین صاحب مرحوم کے حالات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ والد صاحب تبلیغ سلسلہ کے متعلق اپنا ایک رؤیا بیان فرمایا کرتے تھے.وہ میں لکھتا ہوں.(والد صاحب) کہتے ہیں ایک دن میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمارے گھر میں یا گاؤں میں یہ مجھے یاد نہیں رہا تشریف لائے ہیں اور مجھ سے قلم مانگتے ہیں.اُس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.کچھ مدت کے بعد میں قادیان میں حاضر ہوا اور اپنے ساتھ دور بجے کھدر سفید دھوبی سے دھلا ہوا، اُس کے پانچ گز کے دوٹکڑے ( یعنی ریجے شاید پنجابی میں لمبی چادروں کے ٹکڑوں کو کہتے ہیں) لے کے رکھے اور دو ہولڈ مختلف رنگ کے لئے اور حضور کی خدمت میں پیش کئے اور حضور سے قلم مانگنے کی تعبیر دریافت کی.حضور نے از راہ ہمدردی میرے حقیر نذرانے کو قبول فرماتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے خواب کو پورا کر دیا.قلم سے مراد یہ ہے کہ آپ خدمت دین کریں، تحریری بھی اور تقریری بھی.والد صاحب بیان کرتے تھے کہ اس کے بعد میں نے اپنے سارے زور سے تبلیغ شروع کر دی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کی کوششیں بارآور ہوئیں.آپ کے دونوں بھائی بیعت میں شامل ہو گئے جن میں سے ایک اپنے علاقے میں مانا ہوا عالم تھا ( مولوی علی محمد صاحب سکنہ زیرہ ضلع فیروز پور.) جب مخالفوں کو معلوم ہوا کہ یہ دونوں بھائی مولوی جلال الدین صاحب اور مولوی علی محمد صاحب احمدی ہو گئے ہیں تو اُن کی کمریں ٹوٹ گئیں.ان کے احمدی ہونے پر محمد علی بوہریہ اور محمود شاہ واعظ یہ دونوں زیرہ سے روتے ہوئے چلے گئے.یہ غیر احمدی تھے اور فیروز پور تک ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈال کر ایسے روتے تھے جیسے
خطبات مسرور جلد دہم 168 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 مارچ 2012ء بہت قریبی رشتہ دار فوت ہو گیا ہو.پھر مولوی صاحب کی کوشش سے زیرہ ضلع فیروز پور، کھر پر لدھیکے، رتنے والا اور للیانی وغیرہ مقامات پر مخلص جماعتیں پیدا ہوئیں.اَلحَمدُ لِلهِ.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 12 صفحہ 274 تا 276 روایت حضرت میاں شرافت احمد صاحب) پھر میاں شرافت احمد صاحب ہی کی مولوی جلال الدین صاحب کے بارے میں ایک روایت ہے کہ والد صاحب 1924ء میں ملکانہ میں تبلیغ کی خاطر تشریف لے گئے اور وہاں بنجاروں اور ملکانوں میں تبلیغ اسلام کرتے رہے.ملکانوں اور بنجاروں کے علاوہ آپ نے معززین علاقہ سے بھی تعلقات پیدا کر لئے.حکام وقت سے بھی اپنے پھٹے پرانے کپڑوں میں جاملتے.وہ لوگ آپ کو اس رنگ میں دیکھ کر کہ ستر اتی سال کا بوڑھا اپنی گھڑی اُٹھائے پھر رہا ہے اور دن رات اس دھن میں ہے کہ لوگ مسلمان بن جائیں اور احمدیت قبول کر لیں ، بہت اچھا اثر لیتے تھے.آپ اُن سے کافی چندہ وصول کرتے تھے.وہ خوشی سے دیتے تھے کہ یہ جماعت کام کرنے والی ہے.اس علاقے میں بھی آپ کی سعی اور کوشش سے بہت سے لوگ سلسلہ حقہ میں داخل ہو گئے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 12 صفحہ 278-279 روایت حضرت میاں شرافت احمد صاحب) حافظ غلام رسول وزیر آبادی صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میاں بشیر احمد صاحب کے مکان میں جس کے دروازے دونوں مسقف گلیوں (چھتی ہوئی گلیاں تھیں) کے نیچے موجود ہیں، تشریف فرما ہوئے اور بہت دوستوں کو اس میں جمع کر کے فرمایا کہ میں نے ہائی سکول اس لئے قائم کیا تھا کہ لوگ یہاں سے علم حاصل کر کے باہر جا کے تبلیغ کریں گے.مگر افسوس کہ لوگ علم حاصل کرنے کے بعد اپنے کاروبار میں لگ جاتے ہیں اور میری غرض پوری نہیں ہوتی.کوئی ہے جو خدا کے لئے مجھے اپنا لڑ کا محض دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے دے دے.اُس وقت مولوی عبید اللہ مرحوم میرا بیٹا چھوٹی عمر کا میرے پاس موجود تھا.میں نے وہ حضرت صاحب کے سپر د کر دیا.حضرت صاحب نے اُس کا ہاتھ اپنے دست مبارک میں پکڑ لیا اور میاں فضل دین صاحب سیالکوٹی جو اُس وقت مدرسہ احمدیہ میں مددگار کارکن تھے اُس کے سپر د کر کے فرمایا کہ اس بچے کو مفتی محمد صادق صاحب کے سپر دکر آؤ.ان دنوں مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر مفتی صاحب تھے.الغرض وہ مدرسہ احمدیہ میں داخل ہو کر عالم فاضل بن گیا اور خلیفہ ثانی نے اپنے عہد خلافت میں اُس کو ماریشس میں مبلغ بنا کر بھیج دیا جو پونے سات سال تبلیغ کا کام کرتا رہا.آخر کسی حکمت کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے اُس کو وفات دے دی.اُس کے بعد اُس کی بیوی اور ایک لڑکی
خطبات مسرور جلد دہم 169 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 مارچ 2012ء اور ایک لڑکا چھوٹی عمر کے پیچھے رہ گئے جن کو بحکم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی میں جا کر 1924ء میں واپس لے آیا.دوسال کے بعد اُس کی اہلیہ فاطمہ بی بی جو میرے چھوٹے بھائی حافظ غلام محمد صاحب کی بیٹی تھی فوت ہوگئی.یہ بھی نہایت فصیح الزبان مبلغہ تھیں.( ان کی اہلیہ تھیں وہ بھی بہت اچھی مبلغہ تھیں) انہوں نے لکھا.اللّهُمَّ اغْفِرْلَهَا وَارْحَمْهَا.پھر کہتے ہیں کہ دونوں بچے بفضل خدا میرے زیر تربیت ہیں.( جب یہ لکھ رہے ہیں ) لڑکی کی شادی ہو گئی لڑکا جس کا نام بشیر الدین ہے میرے پاس ہے.اس وقت مدرسہ احمدیہ میں تعلیم پاتا ہے.میری دلی خواہش ہے کہ وہ تعلیم حاصل کر کے اپنے والد مولوی عبید اللہ شہید مرحوم کی جگہ جا کر تبلیغ کا کام کرے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 12 صفحہ 174 تا 176 روایت حضرت حافظ غلام رسول صاحب) اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو یہ موقع ملا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ان کو بھی ماریشس بھجوایا.یہ بھی لمبا عرصہ رہے ہیں.ان کے بچے شاید آجکل یہیں رہتے ہیں.آگے ان میں سے تو کوئی مبلغ نہیں بنا لیکن بہر حال انہوں نے بھی ماریشس میں بڑی تبلیغ کی ) جماعت کی لمبا عرصہ خدمت کی ہے.پھر میاں شرافت احمد صاحب اپنے والد حضرت مولوی جلال الدین صاحب مرحوم کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جمعہ کے دن آپ ایک جگہ موضع گھنو کا ننگلہ کو جارہے تھے کہ وہاں جمعہ پڑھائیں گے.راستے میں موضع گھرور میں بھوک کی وجہ سے دو پیسے کے چنے لئے.کپڑے وغیرہ صاف کر لئے اور چنے وغیرہ کھا کر سفر کی تیاری کی.گھاٹ سے نکلتے ہی کو لگ گئی.گرمی کے دن تھے.بیہوش ہو کر سڑک پر لیٹ گئے.کسی راہ گیر نے تھانہ گھرور میں جا کر کہا کہ قادیانی مولوی صاحب تو لو لگنے کی وجہ سے راستے میں پڑے ہیں.ایک سپاہی جو کہ آپ کا معتقد تھا بھاگا ہوا آیا.آپ کو راستے میں کوئی یکہ وغیرہ نہ ملا.ٹانگہ نہ ملا.وہ لاچار آپ کو اپنے سہارے آہستہ آہستہ قصبے کی طرف لایا.چونکہ کو آگے سے بھی بہت تیز تھی.گرم ہوا چل رہی تھی.آپ میں کوئی سکت نہ رہی.قصبے سے باہر بھی ایک دھر مسالہ تھا اُس کے چبوترے پر لیٹ گئے.لوگوں نے بہت کہا کہ آگے چلیں.مگر آپ نے کہا کہ بس پہنچ گیا جہاں پہنچنا تھا.لوگوں نے دوائی وغیرہ دی مگر کسی نے اثر نہ کیا.لوگوں نے بہت کہا کہ آپ کے لڑکے کو تار دے دیتے ہیں.آپ نے کہا کہ بچہ ہے گھبرا جائے گا.اب خدا کے سپرد.ان کلمات کے بعد وہ مرد باصفا اپنے آقا کے حکم کو کہ خدمت دین کریں، پوری اطاعت اور فرمانبرداری سے بجالاتا ہوا اپنے خالق حقیقی سے جاملا.انا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.کہتے ہیں کہ مرحوم کا جنازہ غیر احمدیوں نے ہی پڑھا.وہاں احمدی بھی کوئی نہیں تھا اور انہوں نے ہی دفن کیا.خدا تعالیٰ اُن کو جزائے خیر دے.دوسرے تیسرے دن احمدی دوستوں کو
خطبات مسرور جلد دہم 170 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 مارچ 2012ء معلوم ہوا.انہوں نے اس عاجز کو ( یعنی ان کے بیٹے کو ) اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کو اطلاع کی.حضور نے جمعہ میں آپ کا ذکر کیا اور نماز کے بعد جنازہ غائب پڑھایا.مرحوم کی وصیت بھی تھی ، اس لئے آپ کا کتبہ بہشتی مقبرہ میں لگ گیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 12 صفحہ 279-280 روایت حضرت میاں شرافت احمد صاحب) اللہ تعالیٰ ان تمام بزرگوں کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور اس روح کو ہمیشہ ہم میں بھی اور آئندہ نسل میں بھی جاری رکھے.اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند اقتباسات پڑھتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں : میں ان مولویوں کو غلطی پر جانتا ہوں جو علوم جدیدہ کی تعلیم کے مخالف ہیں.وہ دراصل اپنی غلطی اور کمزوری کو چھپانے کے لئے ایسا کرتے ہیں.ان کے ذہن میں یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ علوم جدیدہ کی تحقیقات اسلام سے بدظن اور گمراہ کر دیتی ہے اور وہ یہ قرار دیئے بیٹھے ہیں کہ گویا عقل اور سائنس اسلام سے بالکل متضاد چیزیں ہیں.چونکہ خود فلسفہ کی کمزوریوں کو ظاہر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے.اس لئے اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لئے یہ بات تراشتے ہیں کہ علوم جدیدہ کا پڑھنا ہی جائز نہیں.ان کی روح فلسفہ سے کانپتی ہے اور نئی تحقیقات کے سامنے سجدہ کرتی ہے.“ ( ملفوظات جلد اول.صفحہ 68.مطبوعہ لندن ) پھر آپ نے فرمایا کہ ”مگر وہ سچا فلسفہ ان کو نہیں ملا جو الہام الہی سے پیدا ہوتا ہے جو قرآن کریم میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے.وہ ان کو اور صرف انہیں کو دیا جاتا ہے جو نہایت تذلل اور نیستی سے اپنے تئیں اللہ تعالیٰ کے دروازے پر پھینک دیتے ہیں.جن کے دل اور دماغ سے متکبرانہ خیالات کا تعفن نکل جاتا ہے اور جو اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرتے ہوئے گڑ گڑا کر سچی عبودیت کا اقرار کرتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد اول.صفحہ 69-68 - مطبوعہ لندن) پھر آپ نے فرمایا کہ "پس ضرورت ہے کہ آجکل دین کی خدمت اور اعلائے کلمتہ اللہ کی غرض سے علوم جدیدہ حاصل کرو اور بڑے جدو جہد سے حاصل کرو.لیکن مجھے یہ بھی تجربہ ہے جو بطور انتباہ میں بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ جو لوگ ان علوم ہی میں یکطرفہ پڑ گئے (یعنی صرف وہیں پڑے رہے اور دین نہ سیکھا) اور ایسے محو اور منہمک ہوئے کہ کسی اہل دل اور اہل ذکر کے پاس بیٹھنے کا ان کو موقعہ نہ ملا اور وہ خود یہ دس جلدوں والا ایڈیشن ہے
خطبات مسرور جلد دہم 171 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 مارچ 2012ء اپنے اندر الہی نور نہ رکھتے تھے وہ عموماً ٹھوکر کھا گئے اور اسلام سے دور جا پڑے.اور بجائے اس کے کہ ان علوم کو اسلام کے تابع کرتے ، الٹا اسلام کو علوم کے ماتحت کرنے کی بے سود کوشش کر کے اپنے زعم میں دینی اور قومی خدمات کے متکفل بن گئے.مگر یاد رکھو کہ یہ کام وہی کر سکتا ہے یعنی دینی خدمت وہی بجالا سکتا.جو آسمانی روشنی اپنے اندر رکھتا ہو.“ پس یہ آسمانی روشنی حاصل کرنے کی کوشش ہو.پھر آپ فرماتے ہیں : ( ملفوظات جلد اول صفحہ 69.مطبوعہ لندن) ہے ” میری یہ باتیں اس لئے ہیں کہ تاتم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو اور اس تعلق کی وجہ سے میرے اعضاء ہو گئے ہو.“ ( اب یہ جو لفظ اعضاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے استعمال کیا ہے ایک ایسا بہت بڑا اعزاز ہے کہ تم میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو اور اس تعلق کی وجہ سے میرے اعضاء ہو گئے ہو.اعضاء بھی انسان کے خود تو کام نہیں کر سکتے ، جو دماغ حکم دیتا ہے اس کے مطابق چلتے ہیں.پس یہ ہر احمدی کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس توقع پر پورا اترنے کی کوشش کرے.ہمارے وہ کام ہوں جو اسلام کی ، قرآن کی حقیقی تعلیم کے مطابق ہیں.جن کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس زمانے میں ہمیں بار بار نصیحت فرمائی ہے.اس کے بغیر ہم اپنی بیعت کا حق ادا نہیں کر سکتے.فرمایا کہ ان باتوں پر عمل کرو.اور عقل اور کلام الہی سے کام لو تا کہ سچی معرفت اور یقین کی روشنی تمہارے اندر پیدا ہو اور تم دوسرے لوگوں کو ظلمت سے نور کی طرف لانے کا وسیلہ بنو.اس لئے کہ آجکل اعتراضوں کی بنیا طبعی اور طبابت اور ہیئت کے مسائل کی بناء پر ہے.اس لئے لازم ہوا کہ ان علوم کی ماہیت اور کیفیت سے آگاہی حاصل کریں تا کہ جواب دینے سے پہلے اعتراض کی حقیقت تو ہم پر کھل جائے.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 68 - مطبوعہ لندن) پھر آپ فرماتے ہیں :.تم میری بات سن رکھو اور خوب یاد کر لو کہ اگر انسان کی گفتگو سچے دل سے نہ ہو اور عملی طاقت اس میں نہ ہو تو وہ اثر پذیر نہیں ہوتی.( جو بھی بات کرنی ہے سچے دل سے ہونی چاہئے اور تمہارا عمل بھی اس کے مطابق ہونا چاہئے ، ورنہ وہ اثر نہیں کرتی.فرمایا) اسی سے تو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی صداقت معلوم ہوتی ہے کیونکہ جو کامیابی اور تاثیر فی القلوب آپ کے حصہ میں آئی اس کی کوئی نظیر بنی آدم کی تاریخ میں نہیں ملتی اور یہ سب اس لئے ہوا کہ آپ کے قول
خطبات مسرور جلد دہم 66 اور فعل میں پوری مطابقت تھی.“ 172 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 مارچ 2012ء ( ملفوظات جلد اول صفحه 67-68 - مطبوعہ لندن) پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی صحیح پیروی کی کوشش ہمارا ایک فرض بھی ہے اور وہ تبھی ہوگی جب ہمارے قول و فعل ایک ہوں گے اور تبھی ہماری کوششوں کو بھی انشاء اللہ تعالیٰ بہترین پھل لگیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس خواہش کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم دین کی اشاعت کرنے والوں میں سے ہو جائیں.لوگوں کو سیدھا راستہ دکھانے والے بنیں.آپ کے اعضاء ہونے کا حق ادا کرنے والے بنیں.اور ہمارے قول اور فعل میں کبھی تضاد نہ ہو کبھی دجالی طاقتوں اور دنیا وی علم سے مرعوب اور مغلوب نہ ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس بنیادی چیز کو، اس اصل کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.آج پھر میں ایک جنازہ غائب پڑھاؤں گا جو مکرم سلطان آف آگادیس (Agadez) نائیجر کا ہے.21 فروری کو پچہتر سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے.اإِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ان کا نام الحاج عمر ابراہیم تھا.ستمبر 2002ء میں ان کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی.یہ نائیجر کے سب سے بڑے سلطان تھے اور نائیجر کے تمام روایتی حکمرانوں یا Traditional Rulars جو ہیں اُن کے پریزیڈنٹ تھے اور صدر مملکت کی خصوصی کا بینہ کے چار افراد میں شامل تھے.نائیجر میں پندرھویں صدی سے آگا دیس کی سلطنت کا آغاز ہوا.مرحوم 1960ء سے آگا دیں کے سلطان منتخب ہوئے اور اکاونویں (51 ویں) سلطان تھے.اس طرح تقریباً اکاون باون سال یہ سلطان رہے.نائیجر میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.آگادیس کے علاقے میں جہاں شورشیں اُٹھتی رہتی تھیں وہاں امن کے قیام میں بڑا اہم کردار ادا کیا.گویا امن کا نشان تھے.2002ء میں جلسہ سالانہ بینن میں اپنے بارہ رکنی وفد کے ساتھ کوئی ڈھائی ہزار کلومیٹر کا سفر طے کر کے شامل ہوئے تھے اور جلسے کے بعد ایک ہفتہ بینن میں مقیم رہے.اور امیر صاحب بینن کے ساتھ مختلف جماعتوں میں گئے.احمدیت کو قریب سے دیکھا.نائیجر واپسی سے قبل اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں بیعت کر کے واپس جانا چاہتا ہوں.چنانچہ اپنے بارہ رکنی وفد کے ساتھ بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہوئے اور کہا کہ بینن کے جلسے میں ہزاروں افراد کو نماز پڑھتے دیکھ کر میرا دل خوشی سے اچھل رہا ہے.ہم مسلمان ملک سے آئے ہیں مگر وہاں کبھی بھی اس قدر بڑا اجتماع خالصہ اللہ ہو تے نہیں دیکھا.2003ء میں جلسہ سالانہ یو کے میں شریک ہوئے اور ان کی مجھ سے پہلی ملاقات تھی.بڑے خوش اخلاق، بہت ملنسار، بہت خوبیوں کے مالک تھے.جب حضرت خلیفہ امسیح الرابع
خطبات مسرور جلد دہم 173 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 مارچ 2012ء کی وفات کا ان کو پتہ لگا تھا تو خود وہاں نیا می مشن ہاؤس میں تشریف لائے.مبلغ انچارج کے ساتھ تعزیت کی.ان کی اولاد بھی ہے اٹھارہ بیٹے بارہ بیٹیاں.ان کی چار پانچ شادیاں تھیں.مبلغ انچارج نائیجرا کبر احمد صاحب بتاتے ہیں کہ انہیں دومرتبہ آگا دیں جانے کا موقع ملا اور بہت مہمان نواز تھے.مشنری انچارج کی بہت مہمان نوازی کرتے تھے ، عزت کرتے تھے.ملک کے دارالحکومت نیا می جب تشریف لاتے تھے.کہتے ہیں خاکسار کو پتہ چلتا تو اُن سے ملنے جاتا.بہت محبت سے ملتے اور ہمیشہ جماعت کے حالات پوچھتے.خلیفہ اسیح کے بارے میں پوچھتے.اپریل 2004ء میں جب میں بینن کے دورے پر گیا ہوں تو پھر یہ پرا کو تشریف لائے تھے.ہمسایہ ملک نائیجر ہے، وہاں سے باسٹھ افراد پر مشتمل وفد آیا تھا اور اس وفد میں مرحوم سلطان آف آگا دیں بھی تھے.گیارہ رکنی وفد کے ساتھ اُس میں شامل تھے.وہاں ان سے میری ملاقات ہوئی اور وہاں بھی انہوں نے مجھے بتایا کہ میں تقریباً تین چار دن اور رات کا سفر کر کے آیا ہوں.صحراء میں سفر بھی بہت مشکل ہے.یہ دو ڈھائی ہزار کلومیٹر کا سفر کر کے آئے تھے.وہاں اُن کے ساتھ مختلف باتیں ہوتی رہیں.تصویریں وغیرہ بھی انہوں نے کھنچوائیں مل کے بڑے خوش تھے.نائیجر کے احمدیوں میں بھی بہت زیادہ اخلاص و وفا ہے.اور باوجود اس کے کہ سلطان تھے اور بڑے سلطانوں میں سے تھے، بڑی عاجزی اور انکساری ان میں پائی جاتی تھی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 16 اپریل تا 12 اپریل 2012 جلد 19 شماره 14 صفحه 5 تا8 )
خطبات مسرور جلد دہم 174 12 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 مارچ 2012ء خطبه جمع سید نا امیرالمومنین حضرتمرز امرود احمدخلیفہ اسی الخامس اید اللہ تعالی بصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 23 مارچ 2012 ء بمطابق 23 امان 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح.مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج جماعت احمدیہ کے لئے انتہائی خوشی اور برکت کا دن ہے جس میں جمعہ کی برکات بھی شامل ہو گئی ہیں.کیونکہ آج کے دن آج سے قریباً 123 سال پہلے قرآن کریم کی ، اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے ایک عظیم پیشگوئی پوری ہوئی.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی، آپ کی بتائی ہوئی تفصیلات کے ساتھ پوری ہوئی اور مسیح موعود اور مہدی معہود کا ظہور ہوا اور بیعت کے آغاز سے پہلوں سے ملنے والی آخرین کی جماعت کا قیام عمل میں آیا.اور پھر ہم بھی اُن خوش قسمتوں میں شامل ہوئے جو اس سے فیض پانے والے ہیں.پس ہر احمدی کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کا دعویدار ہے اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنا ہم پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالتا ہے.اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا کام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ شروع ہوا، وہ آپ کے ماننے والوں پر بھی اپنے اندر ایک انقلاب پیدا کرنے کا تقاضا کرتا ہے تا کہ ہم اُن برکات سے حصہ پاتے رہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ وابستہ ہیں.پس ہر سال جب 23 مارچ کا دن آتا ہے تو ہم احمدیوں کو صرف اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ آج ہم نے یوم مسیح موعود منانا ہے، یا الحمد للہ ہم اس جماعت میں شامل ہو گئے ہیں.جماعت کے آغاز کی تاریخ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی سے ہم نے آگا ہی حاصل کر لی ہے، اتنا کافی نہیں ہے، یا جلسے منعقد کر لئے ہیں، یہی سب کچھ نہیں ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم
خطبات مسرور جلد دہم 175 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 مارچ 2012ء نے اس بیعت کا کیا حق ادا کیا ہے؟ آج ہمارے جائزہ اور محاسبہ کا دن بھی ہے.بیعت کے تقاضوں کے جائزے لینے کا دن بھی ہے.شرائط بیعت پر غور کرنے کا دن بھی ہے.اپنے عہد کی تجدید کا دن بھی ہے.شرائط بیعت پر عمل کرنے کی کوشش کے لئے ایک عزم پیدا کرنے کا دن بھی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے پورا ہونے پر جہاں اللہ تعالیٰ کی بے شمار تسبیح وتحمید کا دن ہے وہاں حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر ہزاروں لاکھوں درود وسلام بھیجنے کا دن ہے.پس اس اہمیت کو ہمیں ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے اور یہ اہمیت شرائط بیعت پر غور کرنے اور اس پر عمل کرنے سے وابستہ ہے.اس چیز کی یاد دہانی کے لئے میں آج پھر آپ کے سامنے شرائط بیعت اور ان شرائط کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں ہم سے آپ کیا چاہتے ہیں؟ اُس کی کچھ وضاحت پیش کروں گا.پہلی شرط جو بیعت کرنے والا کرتا ہے، احمدیت میں شامل ہونے والا کرتا ہے، جس پر عمل کرنے کا عہد کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ” بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اُس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو جائے ، شرک سے مجتنب رہے گا.شرک سے بچتا رہے گا.( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 159 اشتہار تحمیل تبلیغ ، اشتہار نمبر 51 مطبوعہ ربوہ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : توحید صرف اس بات کا نام نہیں کہ منہ سے لا اله الا اللہ کہیں اور دل میں ہزاروں بت جمع ہوں.بلکہ جو شخص کسی اپنے کام اور مکر اور فریب اور تدبیر کو خدا کی سی عظمت دیتا ہے یا کسی انسان پر بھروسہ رکھتا ہے جو خدا تعالیٰ پر رکھنا چاہئے یا اپنے نفس کو وہ عظمت دیتا ہے جو خدا کو دینی چاہئے.ان سب صورتوں میں وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک بت پرست ہے.بت صرف وہی نہیں ہیں جو سونے یا چاندی یا پیتل یا پتھر وغیرہ سے بنائے جاتے اور ان پر بھروسہ کیا جاتا ہے بلکہ ہر ایک چیز یا قول یا فعل ( کوئی بات، کوئی چیز ، کوئی عمل ) ” جس کو وہ عظمت دی جائے جو خدا تعالیٰ کا حق ہے وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بت ہے.یادر ہے کہ حقیقی تو حید جس کا اقرار خدا ہم سے چاہتا ہے اور جس کے اقرار سے نجات وابستہ ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں ہر ایک شریک سے خواہ بت ہو، خواہ انسان ہو، خواہ سورج ہو یا چاند ہو یا اپنا نفس یا اپنی تدبیر اور مکر فریب ہو منزہ سمجھنا اور اس کے مقابل پر کوئی قادر تجویز نہ کرنا.کوئی رازق نہ ماننا.کوئی معز اور مدل خیال نہ کرنا.( یعنی کوئی ایسا شخص خیال نہ کرنا جو عزت دینے والا ہے یا ذلیل کرنے والا ہے بلکہ
خطبات مسرور جلد دہم 176 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 مارچ 2012ء یہ سمجھنا کہ خدا تعالیٰ ہی عزتیں دیتا ہے اور ذلت دیتا ہے ) ” کوئی ناصر اور مددگار قرار نہ دینا.اور دوسرے یہ کہ اپنی محبت اسی سے خاص کرنا.اپنی عبادت اسی سے خاص کرنا.اپنا تذلل اسی سے خاص کرنا.اپنی امید میں اسی سے خاص کرنا.(اُسی سے وابستہ رکھنا ) اپنا خوف اسی سے خاص کرنا.پس کوئی تو حید بغیر ان تین قسم کی تخصیص کے کامل نہیں ہو سکتی.وہ کون سی تین قسم کی خاص باتیں ہیں.فرمایا) اول ذات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ اس کے وجود کے مقابل پر تمام موجودات کو معدوم کی طرح سمجھنا ( جو کچھ بھی دنیا میں موجود ہے اُس کی کوئی حیثیت نہیں تمام کو هالكة الذات اور باطلة الحقيقت خيال کرنا‘ ہر چیز جو ہے وہ ہلاک ہونے والی ہے اپنی ذات میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی ختم ہونے والی ہے اور اُس کی کوئی حقیقت نہیں، اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں سب جھوٹ ہے.)’ دوم صفات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ ربوبیت اور الوہیت کی صفات بجز ذات باری کسی میں قرار نہ دینا‘ ( کہ رب صرف ہمارا خدا ہے وہی ہمارا پالنے والا ہے اور وہی ہے جس کو خدائی طاقت حاصل ہے جو تمام طاقتوں کا سر چشمہ اور منبع ہے ).فرمایا اور جو بظا ہر رب الانواع یا فیض رساں نظر آتے ہیں یہ مختلف قسم کے جو پالنے والے نظر آتے ہیں یا جن سے ہم فائدہ اُٹھاتے ہیں ) یہ اُسی کے ہاتھ کا ایک نظام یقین کرنا یہ سب لوگ بھی ، جن سے ہمیں فائدہ دنیا میں مل رہا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ہی مل رہا ہے، اللہ تعالیٰ کے نظام کا ایک حصہ ہیں.) تیسرے اپنی محبت اور صدق اور صفا کے لحاظ سے توحید یعنی محبت وغیرہ شعار عبودیت میں دوسرے کو خدا تعالیٰ کا شریک نہ گرداننا.اور اسی میں کھوئے جانا.( یعنی عبادت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی کرنا.) سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 349-350) پھر بیعت کی دوسری شرط ہے.یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت اُن کا مغلوب نہیں ہوگا اگر چہ کیسا ہی جذ بہ پیش آوے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 159 اشتہار تحمیل تبلیغ ، اشتہار نمبر 51 مطبوعہ ربوہ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: سواصل حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسان ان نفسانی اغراض سے علیحدہ نہ ہو جو راست گوئی سے روک دیتے ہیں ( جو سچائی سے روکتے ہیں ) " تب تک حقیقی طور پر راست گو نہیں ٹھہر سکتا.کیونکہ اگر انسان صرف ایسی باتوں میں سچ بولے جن میں اس کا چنداں حرج نہیں ( کوئی حرج نہیں ) اور اپنی عزت یا مال یا
خطبات مسرور جلد دہم 177 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 مارچ 2012ء جان کے نقصان کے وقت جھوٹ بول جائے اور سچ بولنے سے خاموش رہے تو اس کو دیوانوں اور بچوں پر کیا فوقیت ہے.“ فرمایا : ” دنیا میں ایسا کوئی بھی نہیں ہوگا کہ جو بغیر کسی تحریک کے خواہ نخواہ جھوٹ بولے.پس ایسا سچ جو کسی نقصان کے وقت چھوڑا جائے حقیقی اخلاق میں ہرگز داخل نہیں ہوگا.سچ کے بولنے کا بڑا بھاری محل اور موقع وہی ہے جس میں اپنی جان یا مال یا آبرو کا اندیشہ ہو.اس میں خدا کی تعلیم یہ ہے کہ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوا قَوْلَ النُّورِ (الحج: 31) وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا (البقرة: 283) وَ لا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَ مَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ أَثِمٌ قَلْبُهُ (البقرة: 284) وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبى (الانعام: 153) كُونُوا قَوْمِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَ لَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَ الْأَقْرَبِينَ (النساء: 136) وَ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا (المائدة: 9) وَ الصَّدِقِينَ وَ الصدقتِ (الاحزاب : 36) وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (العصر : 4) لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ (الفرقان:73).اس کے ترجمہ میں آپ فرماتے ہیں کہ : ”بتوں کی پرستش اور جھوٹ بولنے سے پر ہیز کرو.یعنی جھوٹ بھی ایک بت ہے جس پر بھروسہ کرنے والا خدا کا بھروسہ چھوڑ دیتا ہے.سوجھوٹ بولنے سے خدا بھی ہاتھ سے جاتا ہے.اور پھر فرمایا کہ جب تم سچی گواہی کے لئے بلائے جاؤ تو جانے سے انکارمت کرو.اور سچی گواہی کو مت چھپاؤ اور جو چھپائے گا اس کا دل گنہ گار ہے.اور جب تم بولوتو وہی بات منہ پر لا و جو سراسر سچ اور عدالت کی بات ہے.“ (انصاف کی بات ہے اگر چہ تم اپنے کسی قریبی پر گواہی دو.حق اور انصاف پر قائم ہو جاؤ.اور چاہئے کہ ہر ایک گواہی تمہاری خدا کے لئے ہو.جھوٹ مت بولو.اگر چہ سچ بولنے سے تمہاری جانوں کو نقصان پہنچے.یا اس سے تمہارے ماں باپ کو ضرر پہنچے یا اور قریبیوں کو جیسے بیٹے وغیرہ کو.اور چاہئے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں سچی گواہی سے نہ روکے.بچے مرد اور سچی عورتیں بڑے بڑے اجر پائیں گے.ان کی عادت ہے کہ اوروں کو بھی بیچ کی نصیحت دیتے ہیں.اور جھوٹوں کی مجلسوں میں نہیں بیٹھتے.“ فرمایا کہ: (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 360-361) پھر آپ اس کے بارہ میں مزید فرماتے ہیں.دوسری شرط میں بہت ساری باتیں شامل ہیں.
خطبات مسرور جلد دہم 178 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 مارچ 2012ء زنا کے قریب مت جاؤ یعنی ایسی تقریبوں سے دور رہو جن سے یہ خیال بھی دل میں پیدا ہو سکتا ہو.اور ان راہوں کو اختیار نہ کرو جن سے اس گناہ کے وقوع کا اندیشہ ہو.جو زنا کرتا ہے وہ بدی کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے.( آج کل جو ٹی وی پروگرام ہیں، بعض چینلز ہیں، بعض انٹرنیٹ پر آتے ہیں یہ سب ایسی چیزیں ہیں جو ان برائیوں کی طرف لے جانے والی ہیں.نظر کا بھی ایک زنا ہے، اُس سے بھی بچنا چاہئے.ہرایسی چیز جو برائیوں کی طرف لے جانے والی ہے فرمایا کہ اُس سے بچو.) زنا کی راہ بہت بری ہے یعنی منزل مقصود سے روکتی ہے اور تمہاری آخری منزل کیلئے سخت خطر ناک ہے.“ اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحه 342) تمہاری منزل مقصود کیا ہونی چاہئے ، اللہ تعالیٰ کی رضا اور یہی آخری منزل ہے اور اس کے رستے میں یہ چیز روک بنتی ہے ) پھر اسی دوسری شرط کی جو دوسری باتیں ہیں، اُس میں مثلاً بدنظری ہے، اُس کے بارہ میں فرمایا: قرآن شریف نے جو کہ انسان کی فطرت کے تقاضوں اور کمزوریوں کو مدنظر رکھ کر حسب حال تعلیم دیتا ہے، کیا عمدہ مسلک اختیار کیا ہے قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ ازْلَى لَهُمْ (النور: 31) کہ تو ایمان والوں کو کہہ دے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں.یہ وہ عمل ہے جس سے اُن کے نفوس کا تزکیہ ہوگا.فروج سے مراد صرف شرمگاہ ہی نہیں بلکہ ہر ایک سوراخ جس میں کان وغیرہ بھی شامل ہیں اور ان میں اس امر کی مخالفت کی گئی ہے کہ غیر محرم عورت کا راگ وغیرہ سنا جاوے.پھر یا درکھو کہ ہزار در ہزار تجارب سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جن باتوں سے اللہ تعالیٰ روکتا ہے آخر کار انسان کو اُن سے رُکنا ہی پڑتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 105 ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ مزید فرماتے ہیں.”اسلام نے شرائط پابندی ہر دو عورتوں اور مردوں کے واسطے لازم کئے ہیں.پردہ کرنے کا حکم جیسا کہ عورتوں کو ہے ، مردوں کو بھی ویسا ہی تاکیدی حکم ہے.غض بصر کا.نماز ، روزہ، زکوۃ، حج ، حلال وحرام کا امتیاز، خدا تعالیٰ کے احکام کے مقابلے میں اپنی عادات، رسم و رواج کو ترک کرنا وغیرہ وغیرہ ایسی پابندیاں ہیں جن سے اسلام کا دروازہ نہایت ہی تنگ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر ایک شخص اس دروازے ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 614 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) میں داخل نہیں ہو سکتا.“
خطبات مسرور جلد دہم 179 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 مارچ 2012ء فسق و فجور سے بچنے کے لئے آپ فرماتے ہیں: جب یه فسق و فجور میں حد سے نکلنے لگئے (یعنی مسلمان یا دوسرے مذاہب کے لوگ ) ” اور خدا کے احکام کی ہتک اور شعائر اللہ سے نفرت ان میں آگئی اور دنیا اور اس کی زیب وزینت میں ہی گم ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی یہ مسلمانوں کے ذکر میں فرمایا ) اسی طرح ہلاکو ، چنگیز خان وغیرہ سے بر بادکروایا.لکھا ہے کہ اس وقت یہ آسمان سے آواز آتی تھی اَيُّهَا الْكُفَّارُ اقْتُلُوا الْفُجَارَ - ( یعنی اے کا فرو! فاجروں کو قتل کرو ) غرض فاسق فاجر انسان خدا کی نظر میں کافر سے بھی ذلیل اور قابل نفرین ہے.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 108 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ) پھر فساد سے بچنے کے بارے میں آپ فرماتے ہیں: تمہیں چاہیے کہ وہ لوگ جو محض اس وجہ سے تمہیں چھوڑتے اور تم سے الگ ہوتے ہیں کہ تم نے خدا تعالیٰ کے قائم کر دہ سلسلہ میں شمولیت اختیار کر لی ہے اُن سے دنگہ یا فساد مت کرو بلکہ اُن کے لیے غائبانہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی وہ بصیرت اور معرفت عطا کرے جو اس نے اپنے فضل سے تمہیں دی ہے.تم اپنے پاک نمونہ اور عمدہ چال چلن سے ثابت کر کے دکھاؤ کہ تم نے اچھی راہ اختیار کی ہے.دیکھو ئیں اس امر کے لیے مامور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت کروں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگامہ کی جگہوں سے بچتے رہو اور گالیاں سُن کر بھی صبر کرو.بدی کا جواب نیکی سے دو اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جاؤ اور نرمی سے جواب دو.جب میں یہ سنتا ہوں کہ فلاں شخص اس جماعت کا ہو کر کسی سے لڑا ہے.اس طریق کو میں ہرگز پسند نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ بھی نہیں چاہتا کہ وہ جماعت جو دنیا میں ایک نمونہ ٹھہرے گی وہ ایسی راہ اختیار کرے جو تقویٰ کی راہ نہیں ہے.بلکہ میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ یہاں تک اس امر کی تائید کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص اس جماعت میں ہو کر صبر اور برداشت سے کام نہیں لیتا تو وہ یادر کھے کہ وہ اس جماعت میں داخل نہیں ہے.نہایت کار اشتعال اور جوش کی یہ وجہ ہو سکتی ہے ( اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ مجھے لوگ گندی گالیاں دیں) کہ مجھے گندی گالیاں دی جاتی ہیں تو اس معاملہ کو خدا کے سپر د کر دو.تم 66 اس کا فیصلہ نہیں کر سکتے.میرا معاملہ خدا پر چھوڑ دو تم ان گالیوں کو سن کر بھی صبر اور برداشت سے کام لو.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 157 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) (دشمنوں کے مقابلے میں.اور یہی پاکستان میں احمدیوں کو بار بار کہا جاتا ہے کیونکہ وہاں اب
خطبات مسرور جلد دہم 180 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 مارچ 2012ء لوگوں نے غلیظ قسم کی گالیوں کی انتہا کر دی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیتے ہیں.اور اس کا صرف حل یہی ہے کہ دعائیں کی جائیں اور بہت دعائیں کی جائیں.) 66 پھر آپ نفسانی جوشوں سے بچنے کے لئے فرماتے ہیں: ”وہ بات مانو جس پر عقل اور کانٹس کی گواہی ہے اور خدا کی کتا بیں اس پر اتفاق رکھتی ہیں.“ فرمایا زنانہ کرو، جھوٹ نہ بولو اور بدنظری نہ کرو اور ہر ایک فسق اور فجو راور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کی راہوں سے بچو.اور نفسانی جوشوں سے مغلوب مت ہو اور پنج وقت نماز ادا کرو کہ انسانی فطرت پر پنج طور پر ہی انقلاب آتے ہیں اور اپنے نبی کریم کے شکر گزار رہو، اُس پر درود بھیجو، کیونکہ وہی ہے جس نے تاریکی کے زمانے کے بعد نئے سرے خدا شناسی کی راہ سکھلائی.“ (ضمیمه تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 525) پھر تیسری شرط بیعت کی یہ ہے: یہ کہ بلا ناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا.( با قاعدگی رکھے گا.) اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اُس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ ورد بنائے گا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 159 اشتہار تکمیل تبلیغ ، اشتہار نمبر 51 مطبوعہ ربوہ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”اے وے تمام لوگو ! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اُس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ سچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے.سوا اپنی پنج وقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو.اور اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو.ہر ایک جو زکوۃ کے لائق ہے وہ زکوۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے.نیکی کو سنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہو کر ترک کرو.یقیناً یا درکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہے.ہر ایک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے.جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہوگی وہ عمل بھی ضائع کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15) نہیں ہوگا.“ پھر آپ فرماتے ہیں کہ :
خطبات مسرور جلد دہم 181 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 مارچ 2012ء ”نماز ایسی شئے ہے کہ اس کے ذریعہ سے آسمان انسان پر جھک پڑتا ہے ( یعنی اللہ تعالیٰ بہت قریب آجاتا ہے اگر اُس کا حق ادا کیا جائے نماز کا حق ادا کرنے والا یہ خیال کرتا ہے کہ میں مر گیا اور اس کی روح گداز ہو کر خدا کے آستانہ پر گر پڑی ہے جس گھر میں اس قسم کی نماز ہوگی وہ گھر کبھی تباہ نہ ہوگا.حدیث شریف میں ہے کہ اگر نوع کے وقت میں نماز ہوتی تو وہ قوم کبھی تباہ نہ ہوتی.حج بھی انسان کے لیے مشروط ہے، روزہ بھی مشروط ہے، زکوۃ بھی مشروط ہے مگر نماز مشروط نہیں.سب ایک سال میں ایک ایک دفعہ ہیں مگر اس کا حکم ہر روز پانچ دفعہ ادا کرنے کا ہے.اس لیے جب تک پوری پوری نماز نہ ہوگی تو وہ برکات بھی نہ ہوں گی جو اس سے حاصل ہوتی ہے اور نہ اس بیعت کا کچھ فائدہ حاصل ہوگا.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 627 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) پھر تہجد کے بارے میں آپ فرماتے ہیں : راتوں کو اٹھو اور دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو اپنی راہ دکھلائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے بھی تدریجا تربیت پائی.وہ پہلے کیا تھے.ایک کسان کی تخمریزی کی طرح تھے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آبپاشی کی.آپ نے ان کے لیے دعائیں کیں.بیچ صحیح تھا اور زمین عمدہ تو اس آبپاشی سے پھل عمدہ نکلا.جس طرح حضور علیہ السلام چلتے اُسی طرح وہ چلتے.وہ دن کا یارات کا انتظار نہ کرتے تھے.تم لوگ سچے دل سے تو بہ کرو، تہجد میں اٹھو، دعا کرو، دل کو درست کرو، کمزوریوں کو چھوڑ دو اور خدا تعالی کی رضا کے مطابق اپنے قول و فعل کو بناؤ “ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 28 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ درود کے بارہ میں بتاتے ہیں کہ : انسان تو دراصل بندہ یعنی غلام ہے.غلام کا کام یہ ہوتا ہے کہ مالک جو حکم کرے اُسے قبول کرے.اسی طرح اگر تم چاہتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض حاصل کرو تو ضرور ہے کہ اس کے غلام ہو جاؤ.قرآن کریم میں خدا فرماتا ہے.قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ اسْتَرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ (الزمر:54) اس جگہ بندوں سے مراد غلام ہی ہیں نہ کہ مخلوق.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بندہ ہونے کے واسطے ضروری ہے کہ آپ پر درود پڑھو.اور آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہ کرو.سب حکموں پر کار بندر ہو“ (البدر جلد 2 نمبر 14.24اپریل 1903 صفحہ 109 ) پھر استغفار کے بارے میں آپ فرماتے ہیں: ” جب خدا سے طاقت طلب کریں یعنی استغفار کریں تو روح القدس کی تائید سے اُن کی کمزوری
خطبات مسرور جلد دہم 182 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 مارچ 2012ء دور ہوسکتی ہے اور وہ گناہ کے ارتکاب سے بچ سکتے ہیں جیسا کہ خدا کے نبی اور رسول بچتے ہیں اور اگر ایسے لوگ ہیں کہ گناہگار ہو چکے ہیں تو استغفار اُن کو یہ فائدہ پہنچاتا ہے کہ گناہ کے نتائج سے یعنی عذاب سے بچائے جاتے ہیں.“ (اگر غلطی سے گناہ ہو گیا تو انسان استغفار کرنے سے اُس کے بدنتائج سے بچ جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کی سزا سے بچ جاتا ہے ' کیونکہ نور کے آنے سے ظلمت باقی نہیں رہ سکتی.اور جرائم پیشہ جو استغفار نہیں کرتے ، یعنی خدا سے طاقت نہیں مانگتے ، وہ اپنے جرائم کی سزا پاتے رہتے ہیں.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحه 34) پھر چوتھی شرط بیعت کی یہ ہے یہ کہ عام خلق اللہ کوعموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا.نہ زبان سے، نہ ہاتھ سے ، نہ کسی اور طرح سے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 159 اشتہار تکمیل تبلیغ ، اشتہار نمبر 51 مطبوعہ ربوہ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: پہلا خلق ان میں سے عفو ہے ( معاف کرنا ہے ).یعنی کسی کے گناہ کو بخش دینا.اس میں ایصال خیر یہ ہے کہ جو گناہ کرتا ہے.وہ ایک ضرر پہنچاتا ہے اور اس لائق ہوتا ہے کہ اس کو بھی ضرر پہنچایا جائے.سزا دلائی جائے.قید کرایا جائے.جرمانہ کرایا جائے یا آپ ہی اس پر ہاتھ اٹھایا جائے.پس اس کو بخش دینا اگر بخش دینا مناسب ہو تو اس کے حق میں ایصالِ خیر ہے.اس میں قرآن شریف کی تعلیم یہ ہے.وَالْكُظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ (آل عمران:135)- وَ جَزُوا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةُ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ (الشورى: 41) یعنی نیک آدمی وہ ہیں جو غصہ کھانے کے محل پر اپنا غصہ کھا جاتے ہیں اور بخشنے کے محل پر گناہ کو بخشتے ہیں.بدی کی جزا اس قدر بدی ہے جو کی گئی ہو.لیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقعہ پر بخشے کہ اس سے کوئی اصلاح ہوتی ہو.کوئی شر پیدا نہ ہوتا ہو.یعنی عین عفو کے محل پر ہو.نہ غیر محل پر ( یعنی اس بخشنے کا کا فائدہ ہو ) تو اس کا وہ بدلہ پائے گا.“ پھر فرمایا کہ: اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحه 351) انسان کو چاہئے شوخ نہ ہو.بے حیائی نہ کرے.مخلوق سے بدسلوکی نہ کرے.محبت اور نیکی سے پیش آوے.اپنی نفسانی اغراض کی وجہ سے کسی سے بغض نہ رکھے.سختی اور نرمی مناسب موقع اور مناسب حال کرے.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 609 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
خطبات مسرور جلد دہم 183 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 مارچ 2012ء پھر عاجزی کے بارہ میں آپ فرماتے ہیں: "اس سے پیشتر کہ عذاب الہی آکر توبہ کا دروازہ بند کر دے، تو بہ کرو.جب کہ دُنیا کے قانون سے اس قدر ڈر پیدا ہوتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے قانون سے نہ ڈریں.جب بلا سر پر آپڑے تو اس کا مزا چکھنا ہی پڑتا ہے.چاہیے کہ ہر شخص تہجد میں اٹھنے کی کوشش کرے اور پانچ وقت کی نمازوں میں بھی قنوت ملا دیں.ہر ایک خدا کو ناراض کرنے والی بات سے تو بہ کریں.تو بہ سے مراد یہ ہے کہ ان تمام بدکاریوں اور خدا کی نارضامندی کے باعثوں کو چھوڑ کر ایک سچی تبدیلی کریں اور آگے قدم رکھیں اور تقویٰ اختیار کریں.اس میں بھی خدا کا رحم ہوتا ہے.عادات انسانی کو شائستہ کریں.“ (جو انسانی عادات ہیں انسان میں، اچھے اخلاق اُن میں اپنانے کی کوشش کرو) غضب نہ ہو.تواضع اور انکساری اس کی جگہ لے لے (غصہ کی جگہ عاجزی انکساری لے لے).اخلاق کی درستی کے ساتھ اپنے مقدور کے موافق صدقات کا دینا بھی اختیار کرو.وَ يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبّهِ مِسْكِيْنًا وَيَتِما و اسيرا (الدھر: 9) یعنی خدا کی رضا کے لئے مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھانا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خاص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہم دیتے ہیں اور اس دن سے ہم ڈرتے ہیں جو نہایت ہی ہولناک ہے.قصہ مختصر دعا سے ، تو بہ سے کام لو اور صدقات دیتے رہوتا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم کے ساتھ تم سے معاملہ کرے.“ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 134 - 135 ایڈیشن 2003 مطبوعہ ربوہ) پھر پانچویں شرط یہ ہے یہ کہ ہر حال رنج و راحت اور عسر اور میسر اور نعمت اور بلاء میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفا داری کرے گا اور بہر حالت راضی بقضا ہو گا.اور ہر ایک ذلت اور دکھ کے قبول کرنے کے لئے اُس کی راہ میں تیار رہے گا اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اُس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا.“ (اللہ تعالیٰ کے تعلق میں ).( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 159 اشتہار تکمیل تبلیغ ، اشتہار نمبر 51 مطبوعہ ربوہ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”یعنی انسانوں میں سے وہ اعلیٰ درجہ کے انسان جو خدا کی رضا میں کھوئے جاتے ہیں وہ اپنی جان بیچتے ہیں اور خدا کی مرضی کو مول لے لیتے ہیں.“ ( یعنی اپنی جان بیچ کر اللہ تعالیٰ کی رضا خریدتے ہیں، اپنی جان کی کچھ پرواہ نہیں کرتے ).یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا کی رحمت ہے.خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے ( اس آیت کو بیان نہیں کیا گیا لیکن بہر حال آپ آیت کی تشریح کر رہے ہیں کہ تمام دکھوں سے وہ شخص نجات پاتا ہے جو میری راہ میں اور میری رضا کی راہ میں جان بیچ دیتا ہے اور جانفشانی کے ساتھ اپنی اس حالت کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ خدا کا
خطبات مسرور جلد دہم 184 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 مارچ 2012ء ہے اور اپنے تمام وجود کو ایک ایسی چیز سمجھتا ہے جو طاعت خالق اور خدمت مخلوق کے لئے بنائی گئی ہے.“ اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحه 385 ) پھر خدا کا پیار حاصل کرنے کے لئے آپ فرماتے ہیں کہ : ” خدا کا پیارا بندہ اپنی جان خدا کی راہ میں دیتا ہے اور اس کے عوض میں خدا کی مرضی خرید لیتا ہے.وہی لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی رحمت خاص کے اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 421) مورد ہیں.66 پھر خدا تعالیٰ سے وفاداری کے تعلق میں فرماتے ہیں کہ : ” ہر مومن کا یہی حال ہوتا ہے کہ اگر وہ اخلاص اور وفاداری سے اُس کا ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اُس کا ولی بنتا ہے.لیکن اگر ایمان کی عمارت بوسیدہ ہے تو پھر بیشک خطرہ ہوتا ہے.ہم کسی کے دل کا حال تو جانتے ہی نہیں...لیکن جب خالص خدا ہی کا ہو جاوے تو خدا تعالیٰ اس کی خاص حفاظت کرتا ہے.اگر چہ وہ سب کا خدا ہے مگر جو اپنے آپ کو خاص کرتے ہیں ان پر خاص تجلی کرتا ہے.اور خدا کے لیے خاص ہونا یہی ہے کہ نفس بالکل چکنا چور ہوکر اس کا کوئی ریزہ باقی نہ رہ جائے.اس لیے میں بار بار اپنی جماعت کو کہتا ہوں کہ بیعت پر ہرگز ناز نہ کرو.اگر دل پاک نہیں ہے ہاتھ پر ہاتھ رکھنا کیا فائدہ دے گا (یعنی بیعت کے لئے ہاتھ آگے بڑھانا کیا فائدہ دے گا ) مگر جو سچا اقرار کرتا ہے اس کے بڑے بڑے گناہ بخشے جاتے ہیں اور اس کو ایک نئی زندگی ملتی ہے.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 65 ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) پھر چھٹی شرط یہ ہے.یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آجائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کر لے گا اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنے ہر ایک راہ میں دستور العمل قرار دے گا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 159 اشتہار تکمیل تبلیغ ،اشتہار نمبر 51 مطبوعہ ربوہ ) اس ضمن میں پہلے میں ایک حدیث پیش کرتا ہوں.حضرت عمرو بن عوف بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”جو شخص میری سنتوں میں سے کسی سنت کو اس طور پر زندہ کرے گا.( یہ قال الرسول کی بات ہورہی ہے ) کہ لوگ اُس پر عمل کرنے لگیں تو سنت کے زندہ کرنے والے شخص کو بھی عمل کرنے والوں کے برابر اجر ملے گا اور اُن کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس شخص نے کوئی بدعت ایجاد کی اور لوگوں نے اُسے اپنالیا تو اُس شخص کو بھی اُن پر عمل کرنے والوں کے گناہوں سے حصہ ملے گا اور ان بدعتی لوگوں کے گناہوں میں بھی کچھ کمی نہ ہوگی.(سنن ابن ماجه کتاب المقدمة باب من احيا سنة قداميتت حديث : 209)
خطبات مسرور جلد دہم 185 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 مارچ 2012ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ دیکھو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے: قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله آل عمران: 32).خدا کے محبوب بننے کے واسطے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہی ایک راہ ہے اور کوئی دوسری راہ نہیں کہ تم کو خدا سے ملا دے.انسان کا مدعا صرف اس ایک واحد لاشریک خدا کی تلاش ہونا چاہیے.شرک اور بدعت سے اجتناب کرنا چاہئے.رسوم کا تابع اور ہوا و ہوس کا معیت نہ بننا چاہیئے.دیکھو میں پھر کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی راہ کے سوا اور کسی طرح انسان کامیاب نہیں ہوسکتا.ہمارا صرف ایک ہی رسول ہے اور صرف ایک ہی قرآن شریف اُس رسول پر نازل ہوا ہے جس کی تابعداری سے ہم خدا کو پاسکتے ہیں.آج کل فقراء کے نکالے ہوئے طریقے اور گدی نشینوں اور سجادہ نشینوں کی سیفیاں اور دعائیں اور درود اور وظائف یہ سب انسان کو مستقیم راہ سے بھٹکانے کا آلہ ہیں.سو تم ان سے پر ہیز کرو.ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے کی مہر کو توڑنا چاہا گو یا اپنی الگ ایک شریعت بنالی ہے.تم یا درکھو کہ قرآن شریف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی پیروی اور نماز روزہ وغیرہ جومسنون طریقے ہیں ان کے سوا خدا کے فضل اور برکات کے دروازے کھولنے کی اور کوئی کنجی ہے ہی نہیں.بھولا ہوا ہے وہ جو ان راہوں کو چھوڑ کر کوئی نئی راہ نکالتا ہے.نا کام مرے گا وہ جو اللہ اور اس کے رسول کے فرمودہ کا تابعدار نہیں بلکہ اور اور راہوں سے اسے تلاش کرتا ہے.“ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 102-103 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) پھر ساتویں شرط یہ ہے کہ یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی 66 اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 159 اشتہار تکمیل تبلیغ ، اشتہار نمبر 51 مطبوعہ ربوہ) تکبر کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : میں سچ سچ کہتا ہوں کہ قیامت کے دن شرک کے بعد تکبر جیسی اور کوئی بلا نہیں.یہ ایک ایسی بلا ہے جو دونوں جہان میں انسان کو رسوا کرتی ہے.خدا تعالیٰ کا رحم ہر ایک موحد کا تدارک کرتا ہے مگر متکبر کا نہیں.اللہ تعالیٰ کا رحم ، جو بھی اللہ تعالیٰ کو ماننے والا ہے، اُس کو واحد سمجھنے والا ہے، اُس کی مدد کرتا ہے، اُس کے گناہوں کو معاف کرتا ہے لیکن تکبر کو اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرتا.فرمایا کہ شیطان بھی موحد ہونے کا دم مارتا تھا مگر چونکہ اس کے سر میں تکبر تھا اور آدم کو جو خدا تعالیٰ کی نظر میں پیارا تھا جب اس نے توہین کی نظر سے دیکھا اور اس کی نکتہ چینی کی اس لئے وہ مارا گیا اور طوق لعنت اس کی گردن میں ڈالا گیا.سو پہلا گناہ
خطبات مسرور جلد دہم 186 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 مارچ 2012ء ایک شخص ہمیشہ کیلئے ہلاک ہوا تکبر ہی تھا.آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن 5 جلد صفحہ 598) فرماتے ہیں کہ اگر تمہارے کسی پہلو میں تکبر ہے یار یاء ہے، یا خود پسندی ہے، یا کسل ہے تو تم ایسی چیز نہیں ہو کہ قبول کے لائق ہو.ایسا نہ ہو کہ تم صرف چند باتوں کو لے کر اپنے تئیں دھو کہ دو کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا کر لیا ہے.( بیعت کر لی یہی کافی ہے ) ” کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے.اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا.“ کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 12) پھر مسکینوں کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ : اگر اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنا ہے تو مسکینوں کے دل کے پاس تلاش کرو.اسی لیے پیغمبروں نے مسکینی کا جامہ ہی پہن لیا تھا.اسی طرح چاہئے کہ بڑی قوم کے لوگ چھوٹی قوم کو ہنسی نہ کریں اور نہ کوئی یہ کہے کہ میرا خاندان بڑا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میرے پاس جو آؤ گے تو یہ سوال نہ کروں گا کہ تمہاری قوم کیا ہے.بلکہ سوال یہ ہوگا کہ تمہارا عمل کیا ہے.اسی طرح پیغمبر خدا نے فرمایا ہے اپنی بیٹی سے کہ اے فاطمہ خدا تعالیٰ ذات کو نہیں پوچھے گا.اگر تم کوئی برا کام کرو گی تو خدا تعالیٰ تم سے اس واسطے در گزرنہ کرے گا کہ تم رسول کی بیٹی ہو.پس چاہئے کہ تم ہر وقت اپنا کام دیکھ کر کیا ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 370 ایڈ یشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) کرو پھر آٹھویں شرط یہ ہے کہ یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولا د اور اپنے ہر یک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 160 اشتہار تکمیل تبلیغ ، اشتہار نمبر 51 مطبوعہ ربوہ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے.وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا.یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی.مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے.اسی اسلام کا زندہ کرنا خدا تعالیٰ اب چاہتا ہے اور ضرور تھا کہ وہ اس مہم عظیم کے روبراہ کرنے کے لئے ایک عظیم الشان کارخانہ جو ہر ایک پہلو سے مؤثر ہوا اپنی طرف سے قائم کرتا.سواس حکیم وقدیر نے اس عاجز کو اصلاح خلائق کے لئے بھیج کر ایسا ہی کیا ہے.“ فتح اسلام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 10 تا 12 ) پس آپ کا مقصد دنیا کی اصلاح کرنا ہے اور ہم جو ماننے والے ہیں، ہمیں ان باتوں پر غور کرنے
خطبات مسرور جلد دہم کی ضرورت ہے.187 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 مارچ 2012ء پھر نویں شرط یہ ہے : یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض اللہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 160 اشتہار تکمیل تبلیغ ، اشتہار نمبر 51 مطبوعہ ربوہ ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : وو یا درکھو کہ خدا تعالیٰ نیکی کو بہت پسند کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق سے ہمدردی کی جاوے.اگر وہ بدی کو پسند کرتا تو بدی کی تاکید کرتا مگر اللہ تعالیٰ کی شان اس سے پاک ہے ( سبحانہ تعالیٰ شانه...پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو.یادرکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو، ہمدردی کرو اور بلا تمیز ہر ایک سے نیکی کرو کیونکہ یہی قرآن شریف کی تعلیم ہے.وَ يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبّهِ مِسْكِينًا وَيَتِمَا وَ آسِيرًا (الدھر: 9) وہ اسیر اور قیدی جو آتے تھے اکثر کفار ہی ہوتے تھے.اب دیکھ لو کہ اسلام کی ہمدردی کی انتہا کیا ہے.میری رائے میں کامل اخلاقی تعلیم بجز اسلام کے اور کسی کو نصیب ہی نہیں ہوئی.“ پھر آپ فرماتے ہیں: ” مجھے بہت ہی رنج ہوتا ہے جب میں آئے دن یہ دیکھتا اور سنتا ہوں کہ کسی سے یہ سرزد ہوا اور کسی سے وہ.میری طبیعت ان باتوں سے خوش نہیں ہوتی.فرماتے ہیں ، میں جماعت کو ابھی اس بچہ کی طرح پاتا ہوں جو دو قدم اُٹھتا ہے تو چار قدم گرتا ہے، لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس جماعت کو کامل کر دے گا.اس لیے تم بھی کوشش، تدبیر، مجاہدہ اور دعاؤں میں لگے رہو کہ خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے کیونکہ اس کے فضل کے بغیر کچھ بنتا ہی نہیں.جب اس کا فضل ہوتا ہے تو وہ ساری راہیں کھول دیتا ہے.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 219 ایڈ یشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ فرماتے ہیں: ”اس کے بندوں پر رحم کرو اور اُن پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو.اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو.اور کسی پر تکبر نہ کرو گو اپنا ماتحت ہو.اور کسی کو گالی مت دو گووہ گالی دیتا ہو.غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ...بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو نہ ان کی تحقیر.اور عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرو، نہ خود نمائی سے ان کی تذلیل.اور امیر ہو کر غریبوں کی خدمت کرو، نہ خود پسندی سے اُن پر تکبر.ہلاکت کی راہوں سے ڈرو.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 11-12)
خطبات مسرور جلد دہم 188 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 مارچ2012ء پھر دسویں شرط یہ ہے : یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض اللہ با قرار طاعت در معروف باندھ کر اُس پر تاوقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہوگا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 160 اشتہار تکمیل تبلیغ ،اشتہار نمبر 51 مطبوعہ ربوہ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ نبی ان باتوں کے لئے حکم دیتا ہے جو خلاف عقل نہیں ہیں.“ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں فرما رہے ہیں ) اور ان باتوں سے منع کرتا ہے جن سے عقل بھی منع کرتی ہے.اور پاک چیزوں کو حلال کرتا ہے اور نا پاک کو حرام ٹھہراتا ہے اور قوموں کے سر پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جس کے نیچے وہ دبی ہوئی تھیں اور ان گردنوں کے طوقوں سے وہ رہائی بخشتا ہے جن کی وجہ سے گرد نہیں سیدھی نہیں ہو سکتی تھیں.پس جولوگ اس پر ایمان لائیں گے اور اپنی شمولیت کے ساتھ اُس کو قوت دیں گے.اور اُس کی مدد کریں گے اور اس نور کی پیروی کریں گے جو اُس کے ساتھ اتارا گیا وہ دنیا اور آخرت کی مشکلات سے نجات پائیں گے.“ (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 420) یعنی یہ شرعی احکامات ہیں اور یہی معروف احکام ہیں جن پر عمل کرناضروری ہے اور ایک انسان کی دنیاوی طوقوں سے نجات بھی اسی میں ہے.پھر آپ فرماتے ہیں : ” اب میری طرف دوڑو کہ وقت ہے کہ جو شخص اس وقت میری طرف دوڑتا ہے میں اُس کو اس سے تشبیہ دیتا ہوں کہ جو عین طوفان کے وقت جہاز پر بیٹھ گیا.لیکن جو شخص مجھے نہیں مانتا.میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ طوفان میں اپنے تئیں ڈال رہا ہے اور کوئی بچنے کا سامان اُس کے پاس نہیں.سچا شفیع میں ہوں جو اس بزرگ شفیع کا سایہ ہوں ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ ہوں ) اور اس کا ظل جس کو اس زمانے کے اندھوں نے قبول نہ کیا اور اس کی بہت ہی تحقیر کی ، یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم “ دافع البلاء روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 233) پھر آپ فرماتے ہیں.اب ہمیں نصیحت کرتے ہوئے آخر میں بیان ہے اور تم اے میرے عزیزو! میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو اور اپنی زندگی ، اپنا آرام، اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہو.“ ( پھر فرماتے ہیں اس بارے میں کہ کون عزیز ہیں؟) فرمایا کہ ”میرا دوست کون ہے؟ اور میرا عزیز کون ہے؟ وہی جو مجھے
خطبات مسرور جلد دہم 189 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 مارچ 2012ء پہچانتا ہے.مجھے کون پہچانتا ہے؟ صرف وہی جو مجھ پر یقین رکھتا ہے کہ میں بھیجا گیا ہوں.اور مجھے اُس طرح قبول کرتا ہے جس طرح وہ لوگ قبول کئے جاتے ہیں جو بھیجے گئے ہوں.دنیا مجھے قبول نہیں کر سکتی کیونکہ میں دنیا میں سے نہیں ہوں.مگر جن کی فطرت کو اس عالم کا حصہ دیا گیا ہے وہ مجھے قبول کرتے ہیں اور کریں گے.جو مجھے چھوڑتا ہے وہ اُس کو چھوڑتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جو مجھ سے پیوند کرتا ہے وہ اُس سے کرتا ہے جس کی طرف سے میں آیا ہوں.میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے جو شخص میرے پاس آتا ہے ضرور وہ اُس روشنی سے حصہ لے گا.مگر جو شخص وہم اور بدگمانی سے دُور بھاگتا ہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جائے گا.اس زمانہ کا حصن حصین میں ہوں ( مضبوط قلعہ میں ہوں ، حفاظت میں رکھنے والا قلعہ میں ہوں ) ”جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا.مگر جو شخص میری دیواروں سے دُور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت در پیش ہے.اور اُس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی.مجھ میں کون داخل ہوتا ہے؟ وہی جو بدی کو چھوڑتا ہے اور نیکی کو اختیار کرتا ہے اور بھی کو چھوڑتا اور راستی پر قدم مارتا ہے اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہوتا اور خدا تعالیٰ کا ایک بندہ مطیع بن جاتا ہے.ہر ایک جو ایسا کرتا ہے وہ مجھ میں ہے اور میں اُس میں ہوں.مگر ایسا کرنے پر فقط وہی قادر ہوتا ہے جس کو خدا تعالیٰ نفس مزگی کے سایہ میں ڈال دیتا ہے.تب وہ اُس کے نفس کی دوزخ کے اندر اپنا پیر رکھ دیتا ہے تو وہ ایسا ٹھنڈا ہو جاتا ہے کہ گویا اُس میں کبھی آگ نہیں تھی.انسان جب پاک بنتا ہے، نفس کی دوزخ میں جب پاؤں رکھتا ہے جب انسان اپنے آپ کو ، اپنے نفس کو پاک کرتا ہے تو پھر جتنی بھی اُس کی نفس کی آگ تھی وہ ٹھنڈی ہو جاتی ہے) فرمایا: "تب وہ ترقی پر ترقی کرتا ہے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی روح اُس میں سکونت کرتی ہے اور ایک تجلی خاص کے ساتھ رب العالمین کا استویٰ اس کے دل پر ہوتا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ اُس کے دل پر اپنا عرش قائم کرتا ہے) تب پرانی انسانیت اس کی جل کر ایک نئی اور پاک انسانیت اُس کو عطا کی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ بھی ایک نیا خدا ہو کر نئے اور خاص طور پر اُس سے تعلق پکڑتا ہے اور بہشتی زندگی کا تمام 66 پاک سامان اسی عالم میں اُس کو مل جاتا ہے.(فتح اسلام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 34-35) پس یہ وہ تعلیم اور خواہشات ہیں جن پر چلنے اور پورا کرنے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم سے توقع کی ہے.حقیقی بیعت کنندہ کا یہ معیار مقرر کیا ہے.پس آج کے دن ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم ان شرائط پر اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہماری کمزور یوں اور غلطیوں کو معاف فرمائے، انہیں دور فرمائے اور ہمیں اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی
خطبات مسرور جلد دہم 190 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 مارچ 2012ء توفیق عطا فرمائے.اگر کوئی نیکیاں ہمارے اندر ہیں تو اُن کے معیار پہلے سے بلند ہوتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ اُن کو بلند کرنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی بیعت کے مقصد کو پورا کرنے والے بن سکیں.آج میں نے احتیاطاً پاکستان کے حوالے سے کچھ نوٹس رکھ لئے تھے.پاکستان میں بھی 23 مارچ کو یوم پاکستان منایا جا رہا ہے اور اس حوالے سے بھی پاکستانی احمدیوں کو میں کہوں گا کہ دعا کریں کہ جس دور سے آج کل ملک گزر رہا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے.اللہ تعالیٰ اس ملک کو بچائے.احمدیوں کی خاطر ہی اس کو بچائے.کیونکہ احمدیوں نے اس ملک کو بچانے کی خاطر بہت دعائیں کی ہیں لیکن پھر بھی یہی کہا جاتا ہے اس لئے چند حقائق بھی میں پیش کروں گا کہ احمدی کس حد تک اس ملک کے بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے؟ دور جدید “ ایک اخبار تھا، اُس نے 1923 ء میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے متعلق یہ لکھا کہ ”پنجاب کونسل کے تمام مسلمانوں نے (جو ) ( یقیناً مسلمانانِ پنجاب کے نمائندے کہلانے کا جائز حق رکھتے ہیں ) جبکہ یہ ضرورت محسوس کی کہ پنجاب کی طرف سے ایک مستند نمائندہ انگلستان بھیجا جانا چاہئے تو عالی جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ہی کی ذات ستودہ صفات تھی جس پر اُن کی نظر انتخاب پڑی.چنانچہ چوہدری صاحب نے اپنا روپیہ صرف کر کے اور اس خوبی اور عمدگی سے حکومت برطانیہ اور سیاسین انگلستان کے رو برو یہ مسائل پیش کئے جس کے مداح نہ صرف مسلمانانِ پنجاب ہوئے بلکہ حکومت بھی کافی حد تک متاثر ہوئی.(اخبار دور جدید لاہور 16 اکتوبر 1923 بحوالہ تحریک پاکستان میں جماعت احمدیہ کی قربانیاں از مرزا خلیل احمد مرصفحہ 11) یہ وہ واقعات ہیں اور وہ روشن حقائق ہیں جن سے کم از کم اخباری دنیا کا کوئی شخص کسی وقت بھی انکار نہیں کرسکتا.پھر ممتاز ادبی شخصیات میں سے مولانا محمد علی جو ہر صاحب ہیں.اپنے اخبار ” ہمدرد مؤرخہ 26 ستمبر 1927ء میں لکھتے ہیں کہ : نا شکری ہوگی کہ جناب میرزا بشیر الدین محمود احمد اور اُن کی اس منظم جماعت کا ذکر ان سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنے تمام تر توجہات ، بلا اختلاف عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کے لئے وقف کر دی ہیں.اور وہ وقت دور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظم فرقے کا طرز عمل سواداعظم اسلام کے لئے بالعموم اور
خطبات مسرور جلد دہم 191 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 مارچ 2012ء ان اشخاص کے لئے بالخصوص جو بسم اللہ کے گنبدوں میں بیٹھ کر خدمتِ اسلام کے بلند بانگ و در باطن پیچ دعاوی کے خوگر ہیں ،مشعل راہ ثابت ہوگا.“ اخبار ”ہمدرد مورخہ 26 ستمبر 1927ء حوالہ تعمیر وترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کا مثالی کردار صفحہ 7) یعنی مولا نا محمد علی جوہر صاحب بھی نہ صرف جماعت احمدیہ کی کوششوں کو سراہ رہے ہیں بلکہ جماعت احمدیہ کو مسلمان فرقہ میں شمار کر رہے ہیں.جبکہ آجکل تاریخ پاکستان میں سے احمدیوں کا نام نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے.اور آئینی لحاظ سے مسلمان تو وہ لوگ ویسے ہی تسلیم نہیں کرتے.پھر اسی طرح ایک بزرگ ادیب خواجہ حسن نظامی نے گول میز کانفرنس کے بارہ میں لکھا کہ : گول میز کانفرنس میں ہر ہندو اور مسلمان اور ہر انگریز نے جو چوہدری ظفر اللہ خان کی لیاقت کو مانا اور کہا کہ مسلمانوں میں اگر کوئی ایسا آدمی ہے جو فضول اور بے کار بات زبان سے نہیں نکالتا اور نئے زمانے کی پولیٹکس پیچیدہ کو اچھی طرح سمجھتا ہے تو وہ چوہدری ظفر اللہ خان ہے.“ ( اخبار ”منادی 24 اکتوبر 1934 بحوالہ تعمیر و ترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کا مثالی کردار صفحہ 24) پھر ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی صاحب لکھتے ہیں کہ ”گول میز کانفرنس کے مسلمان مندوبین میں سے سب سے زیادہ کامیاب آغا خان اور چوہدری ظفر اللہ خان ثابت ہوئے.“ اقبال کے آخری دو سال صفحہ 16 بحوالہ تعمیر و ترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کا مثالی کردار صفحہ 24) یہ بھی ایک کتاب ہے اقبال کے آخری دو سال اور اس کی ناشر ا قبال اکیڈمی پاکستان ہے.پھر حضرت قائد اعظم نے خود سیاست میں واپس آنے کے بارے میں ہندوستان واپس جانے کے بارے میں فرمایا کہ: ” مجھے اب ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں ہندوستان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا.“ ( جب یہ واپس چلے گئے تھے ہندوستان چھوڑ کے، انگلستان آگئے تھے ) نہ ہندو ذہنیت میں کوئی خوشگوار تبدیلی کرسکتا ہوں ، نہ مسلمانوں کی آنکھیں کھول سکتا ہوں.آخر میں نے لنڈن ہی میں بود و باش کا فیصلہ کر لیا.“ ( قائد اعظم اور ان کا عہد از رئیس احمد جعفری صفحہ 192 حوالہ تعمیر وترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کا مثالی کردار صفحہ 8) یہ رئیس جعفری صاحب کی کتاب ” قائد اعظم اور ان کا عہد میں یہ درج ہے.” تو اُس وقت جماعت احمدیہ نے ان کو واپس لانے کی کوشش کی ، حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے امام مسجد لنڈن مولا نا عبد الرحیم در دصاحب کو بھیجا کہ قائد اعظم پر زور ڈالیں کہ وہ واپس آئیں اور مسلمانوں کی رہنمائی کریں
خطبات مسرور جلد دہم 192 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 مارچ 2012ء تا کہ اُن کے حق ادا ہو سکیں.آخر قائد اعظم ہندوستان واپس گئے اور مسلمانوں کی خدمت پر کمر بستہ ہونے کی حامی بھر لی اور بے ساختہ انہوں نے یہ کہا کہ : "The eloquent persuasion of the Imam left me no escape." ( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 6 صفحہ 102 جدید ایڈیشن) یعنی امام مسجد لنڈن کی جو فصیح و بلیغ تلقین اور ترغیب تھی ، اُس نے بھی میرے لئے کوئی فرار کا رستہ نہیں چھوڑا.پھر مشہور صحافی جناب محمد شفیع جو میم شین کے نام سے مشہور ہیں، لکھتے ہیں کہ : وو یہ مسٹر لیاقت علی خان اور مولا نا عبد الرحیم در د امام لنڈن ہی تھے جنہوں نے مسٹرمحمد علی جناح کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنا ارادہ بدلیں اور وطن واپس آکر قومی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں.اس کے نتیجہ میں مسٹر جناح 1934ء میں ہندوستان واپس آگئے اور مرکزی اسمبلی کے انتخاب میں بلا مقابلہ منتخب ہوئے.پاکستان ٹائمز 11 ستمبر 1981ء میں یہ حوالہ درج ہے.( پاکستان ٹائمز 11 ستمبر 1981ء سپلیمنٹ 1 کالم نمبر 1 بحوالہ تعمیر ترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کا مثالی کردار صفحہ 8) پھر جو اشد مخالفین تھے انہوں نے بھی ایک اعتراف کیا.چنانچہ مجلس احرار نے مسلم لیگ اور مرزائیوں کی آنکھ مچولی پر مختصر تبصرہ “ کے عنوان سے ایک کتابچہ 1946ء میں شائع کیا جس میں صاف طور پر لکھا کہ مسٹر جناح نے کوئٹہ میں تقریر کی اور مرزا محمود کی مسلم لیگ کی حمایت کرنے کی جو پالیسی تھی اس کو سراہا.اس کے بعد جب سنٹرل اسمبلی کے الیکشن شروع ہوئے تو تمام مرزائیوں نے مسلم لیگ کو ووٹ دیئے.( مسلم لیگ اور مرزائیوں کی آنکھ مچولی پرمختصر تبصرہ صفحہ 18 حوالہ تعمیر وترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کا مثالی کردار صفحہ 10-11) مشہور اہلحدیث عالم مولوی میر ابراہیم سیالکوٹی اپنی کتاب ” پیغام ہدایت و تائید پاکستان مسلم لیگ“ میں لکھتے ہیں کہ احمدیوں کا اس اسلامی جھنڈے کے نیچے آ جانا اس بات کی دلیل ہے کہ واقعی مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے (پیغام ہدایت و تائید پاکستان مسلم لیگ صفحه 112 مطبوعہ 1946) یعنی ان کے نزدیک احمدی مسلمان بھی ہیں اور انہوں نے پاکستان میں بڑا کردارادا کیا ہے.پھر باؤنڈری کمیشن کے سامنے جو حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی خدمات ہیں اُن کو حمید نظامی صاحب نوائے وقت کے بانی تھے، بڑی مدحت بھرے الفاظ میں لکھتے ہیں.نوائے وقت آجکل تو جماعت کے خلاف بہت کچھ لکھتا رہتا ہے ، ان کی پالیسی بدل گئی ہے کیونکہ یہ لوگ دنیاوی فائدہ
خطبات مسرور جلد دہم 193 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 مارچ 2012ء زیادہ دیکھنے لگ گئے ہیں، لیکن بہر حال جناب حمید نظامی صاحب جو اس کے بانی تھے وہ لکھتے ہیں کہ : حد بندی کمیشن کا اجلاس ختم ہوا...کوئی چار دن سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے مسلمانوں کی طرف سے نہایت مدلل، نہایت فاضلانہ اور نہایت معقول بحث کی.کامیابی بخشنا خدا کے ہاتھ میں ہے.مگر جس خوبی اور قابلیت کے ساتھ سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے مسلمانوں کا کیس پیش کیا اس سے مسلمانوں کو اتنا اطمینان ضرور ہو گیا کہ اُن کی طرف سے حق و انصاف کی بات نہایت مناسب اور احسن طریقے سے ارباب اختیار تک پہنچا دی گئی ہے.سر ظفر اللہ خان صاحب کو کیس کی تیاری کے لئے بہت کم وقت ملا.مگر اپنے خلوص اور قابلیت کے باعث انہوں نے اپنا فرض بڑی خوبی کے ساتھ ادا کیا.ہمیں یقین ہے کہ پنجاب کے سارے مسلمان بلالحاظ عقیدہ ، اُن کے اس کام کے معترف اور شکر گزار ہوں گے.“ (نوائے وقت کیکم اگست 1947 ء بحوالہ تعمیر و ترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کا مثالی کردار صفحہ 104-105 ) پھر جب 53ء کے فسادات ہوئے ہیں.تحقیقاتی عدالت میں جماعت کا معاملہ پیش ہوا.جسٹس منیر بھی حج تھے، لکھتے ہیں کہ احمدیوں کے خلاف معاندانہ اور بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں کہ باؤنڈری کمیشن کے فیصلے میں ضلع گورداسپور اس لئے ہندوستان میں شامل کر دیا گیا کہ احمدیوں نے ایک خاص رویہ اختیار کیا اور چوہدری ظفر اللہ خان نے جنہیں قائد اعظم نے اس کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے پر معمور کیا تھا، خاص قسم کے دلائل پیش کئے لیکن عدالت ہذا کا صدر ( یعنی جسٹس منیر ) جو اس کمیشن کا ممبر تھا، (اُس وقت باؤنڈری کمیشن میں یا چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے ساتھ ) اس بہادرانہ جدوجہد پر تشکر وامتنان کا اظہار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے جو چو ہدری ظفر اللہ خان نے گورداسپور کے معاملے میں کی تھی.یہ حقیقت باؤنڈری کمیشن کے حکام کے کاغذات میں ظاہر و باہر ہے اور جس شخص کو اس مصلحت سے دلچپسی ہو وہ شوق سے اس ریکارڈ کا معائنہ کر سکتا ہے.چوہدری ظفر اللہ خان نے مسلمانوں کے لئے نہایت بے غرضانہ خدمات انجام دیں، ان کے باوجود بعض جماعتوں نے عدالتی تحقیقات میں ان کا ذکر جس انداز میں کیا ہے وہ شرمناک ناشکرے پن کا ثبوت ہے.رپورٹ تحقیقاتی عدالت المعروف منیر انکوائری رپورٹ‘ صفحہ 305 جدید ایڈیشن) اور یہ شرمناک ناشکراپن اب اکثر سیاسی جماعتوں میں بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے، اور پھر جو ملک کی حالت ہے وہ بھی ظاہر وباہر ہے.اس لئے آج کے ، اس دن کے حوالے سے پاکستانی اپنے ملک پاکستان کے لئے بھی بہت دعائیں کریں، اللہ تعالیٰ اس کو اس تباہی سے بچائے جس کی طرف یہ بڑھتا چلا جا رہا ہے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 13 اپریل تا 19 اپریل 2012 جلد 19 شماره 15 صفحه 5 تا 10 )
خطبات مسرور جلد دہم 194 13 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 مارچ 2012ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا سر در حد خلیفة المس الخامس ایده ال تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 30 مارچ 2012 ء بمطابق 30 امان 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں شرائط بیعت کے حوالے سے میں نے افراد جماعت کو ایک احمدی کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی تھی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مختلف اقتباسات سے ہی ہر شرط کی وضاحت بیان ہوئی تھی.ان شرائط کو پڑھ کر اور آپ علیہ السلام کی کتب اور ملفوظات کو پڑھ کر ، شن کر اور ان پر غور کر کے ہی پتہ چلتا ہے کہ آپ ہمارے اندر اسلام کی حقیقی تعلیم داخل کر کے، ہماری اعتقادی اور عملی اصلاح کر کے ہم میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کرنا چاہتے تھے.کیونکہ اس کے بغیر وہ عظیم مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا جو آپ کی بعثت کا مقصد تھا، جو زمانے کی اہم ضرورت تھی اور ہے.جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوسکتا ہے.آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : اس سلسلہ سے خدا تعالیٰ نے یہی چاہا ہے اور اُس نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ تقویٰ کم ہو گیا ہے.بعض تو کھلے طور پر بے حیائیوں میں گرفتار ہیں اور فسق و فجور کی زندگی بسر کرتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو ایک قسم کی ناپاکی کی ملونی اپنے اعمال کے ساتھ رکھتے ہیں.مگر انہیں نہیں معلوم کہ اگر اچھے کھانے میں تھوڑا ساز ہر پڑ جاوے تو وہ سارا زہریلا ہو جاتا ہے.اور بعض ایسے ہیں جو چھوٹے چھوٹے (گناہ) ریا کاری وغیرہ جن کی شاخیں باریک ہوتی ہیں اُن میں مبتلا ہو جاتے ہیں.“ اگر چہ ظاہری طور پر ہر انسان سمجھتا ہے کہ یہ بڑے دیندار ہیں لیکن نعجب اور ریا اور بار یک بار یک معاصی میں مبتلا ہیں جو کہ عارفانہ خوردبین سے نظر آتے ہیں.“
خطبات مسرور جلد دہم 195 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 مارچ 2012ء فرماتے ہیں کہ : ”اب اللہ تعالیٰ نے یہ ارادہ کیا ہے کہ دنیا کو تقویٰ اور طہارت کی زندگی کا نمونہ دکھائے.اسی غرض کے لیے اس نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے.وہ تطہیر چاہتا ہے اور ایک پاک جماعت بنانا اس کا منشاء ہے.66 ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 83 ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) پس اللہ تعالیٰ نے جو یہ جماعت قائم فرمائی تو وہ اس میں شامل ہونے والوں کو خاص طور پر پاک کرنا چاہتا ہے تا کہ پاک جماعت کا قیام ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں سے ہر ایک سے یہ چاہتے ہیں کہ یہ عارفانہ خوردبین ہم لگائیں.اس سے ہم اپنے نفس کو دیکھیں.اپنے نفس کا محاسبہ کریں.اپنی اعتقادی غلطیوں کی جہاں اصلاح کریں وہاں ہر قسم کی چھوٹی سے چھوٹی عملی غلطیوں کی بھی اصلاح کریں.اپنے اعمال کی طرف بھی نظر رکھیں.اور یہ عارفانہ خورد بین ہی ہے جو معمولی قسم کی غلطیوں کو بڑا کر کے دکھائے گی کیونکہ خوردبین کا یہی کام ہے کہ باریک سے بار یک چیز بھی بڑی کر کے دکھاتی ہے.پس اپنے گناہوں کو دیکھنے کے لئے، اپنی غلطیوں کو دیکھنے کے لئے، اپنی کمزوریوں کو دیکھنے کے لئے ہمیں وہ خوردبین استعمال کرنی پڑے گی جس سے ہم اپنے نفس کے جائزے لے سکیں.اسی سوچ کے ساتھ ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.پس ہمارا احمدی ہونے کا دعویٰ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قائم کردہ جماعت کوئی معمولی دعوئی اور یہ معمولی جماعت نہیں ہے.نہ ہی ہمارا احمدی ہونے کا دعوی معمولی دعویٰ ہے، نہ یہ جماعت ایک معمولی جماعت ہے.اللہ تعالیٰ اس جماعت کے افراد کو پاک کر کے ایک پاک جماعت بنانا چاہتا ہے جس کے لئے اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا ہے.ہر احمدی کو یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ یہ تقویٰ اور طہارت کی زندگی کے نمونے ہی ہیں جو وہ انقلابی تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں، اور یہ انقلابی تبدیلی ہمارے اعتقاد کی اصلاح اور اعمال کی اصلاح کے ساتھ وابستہ ہے.صرف اعتقادی اصلاح فائدہ نہیں دے سکتی جب تک کہ اعمال کی اصلاح بھی ساتھ نہ ہو.جب تک ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اعمال کی فکر نہ ہو.کیا عقیدہ ہمارا ہونا چاہئے اور کونسے اعمال ہیں جن کی طرف ہمیں تو جہ رکھنی چاہئے ، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباس میں میں نے پڑھا.ہم نے دیکھا کہ معمولی سے معمولی نیکی کی طرف بھی توجہ اور اُس کے بجالانے کی کوشش کی ضرورت ہے.یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.پھر مزید وضاحت سے اپنے عقیدے اور عملی حالت کی حقیقت کے معیار کے بارے میں جماعت کو بھی توجہ دلاتے ہوئے آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :
خطبات مسرور جلد دہم 196 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 مارچ 2012ء ”ہمارے مذہب کا خلاصہ ( کہ ہمارا عقیدہ کیا ہے؟ اس میں عقیدے کی بھی وضاحت ہو جائے گی اور اس عقیدے کے ساتھ جو ہمارے عمل وابستہ ہیں اُن کی بھی وضاحت ہو جاتی ہے.) فرماتے ہیں ”ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللَّهِ.ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گزران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین وخیرالمرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے.اور ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شعشہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اور احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہوسکتا اور نہ کم ہوسکتا ہے.اور اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہو سکتا جو احکام فرقانی کی ترمیم یا تنفسیخ یا کسی ایک حکم کے تبدیل یا تغییر کر سکتا ہو.اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اور ملحد اور کافر ہے.اور ہمارا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ ادنی درجہ صراط مستقیم کا بھی بغیر اتباع ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ راہ راست کے اعلیٰ مدارج بجز اقتدا اس امام الرسل کے حاصل ہو سکیں.کوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت اور قرب کا بجز سچی اور کامل متابعت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں سکتے.ہمیں جو کچھ ملتا ہے خلی اور طفیلی طور پر ملتا ہے.اور ہم اس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ جو راستباز اور کامل لوگ شرف صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف ہو کر تکمیل منازل سلوک کر چکے ہیں اُن کے کمالات کی نسبت بھی ہمارے کمالات اگر ہمیں حاصل ہوں بطور ظل کے واقع ہیں اور اُن میں بعض ایسے جز کی فضائل ہیں جو اب ہمیں کسی طرح سے حاصل نہیں ہو سکتے.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 169-170) یعنی وہ لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے ہیں اُن کے بعض فضائل ایسے ہیں جواب 66 نہیں مل سکتے.انہوں نے دیکھا ، وہ آپ کی صحبت میں رہے.پھر آپ فرماتے ہیں : جن پانچ چیزوں پر اسلام کی بناء رکھی گئی ہے وہ ہمارا عقیدہ ہے.اور جس خدا کی کلام یعنی قرآن کو پنجہ مار نا حکم ہے ہم اس کو پنجہ مار رہے ہیں.اور فاروق رضی اللہ عنہ کی طرح ہماری زبان پر حَسْبُنَا کتاب اللہ “ ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح اختلاف اور تناقض کے وقت جب حدیث اور 66 ،
خطبات مسر در جلد دہم 197 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 مارچ 2012ء قرآن میں پیدا ہو (یعنی آپس میں اختلاف ہو ) " قرآن کو ہم ترجیح دیتے ہیں.“ ( حدیث پر قرآن کو ترجیح ہے.فرماتے ہیں بالخصوص قصوں میں جو بالا تفاق نسخ کے لائق بھی نہیں ہیں.اور ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں.اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشر اجساد حق اور روز حساب حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے.اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اللہ جل شانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالا حق ہے.اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص اس شریعتِ اسلام میں سے ایک ذرہ کم کرے یا ایک ذرہ زیادہ کرے یا ترک فرائض اور اباحت کی بنیاد ڈائے ( یعنی اپنی مرضی سے جہاں ضروری ہو بدل لے، حلال حرام کے بارہ میں اپنے فیصلے کرنا شروع کر دے ) ” وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے.اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ سچے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ اور اسی پرمریں.اور تمام انبیاء اور تمام کتابیں جن کی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے ان سب پر ایمان لا دیں.اور صوم اور صلوۃ اور زکوۃ اور حج اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کاربند ہوں.غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالحین کو اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا اور وہ امور جو اہل سنت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں ان سب کا ماننا فرض ہے.اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے.“ ایام اصلح روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 323) پھر اس عقیدے کا اظہار فرماتے ہوئے کہ خدا تعالیٰ کی ذات کے سوا ہر شے فانی ہے آپ نے واضح فرمایا کہ حضرت عیسی علیہ السلام بھی ایک انسان تھے ، نبی اللہ تھے اور اس لحاظ سے اُن کی بھی ایک عمر کے بعد وفات ہوگئی.ہاں صلیبی موت سے اللہ تعالیٰ نے اُن کو بچالیا اور صلیب کے زخموں سے صحت یاب فرمایا اور پھر انہوں نے ہجرت کی اور کشمیر میں آپ کی وفات ہوئی.بہر حال حضرت عیسی علیہ السلام کے وفات پانے کے عقیدے کے بارے میں آپ ایک جگہ فرماتے ہیں.میں حضرت مسیح علیہ السلام کو فوت شدہ اور داخل موتی ایمان ویقیناً جانتا ہوں اور ان کے مرجانے پر یقین رکھتا ہوں.اور کیوں یقین نہ رکھوں جب کہ میرا مولیٰ ، میرا آقا اپنی کتاب عزیز اور قرآن کریم میں ان کو متوفیوں کی جماعت میں داخل کر چکا ہے اور سارے قرآن میں ایک دفعہ بھی ان کی خارق عادت
خطبات مسرور جلد دہم 198 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 مارچ 2012ء زندگی اور ان کے دوبارہ آنے کا ذکر نہیں بلکہ ان کو صرف فوت شدہ کہہ کر پھر چپ ہو گیا.لہذا اُن کا زندہ بجسده العنصری ہونا اور پھر دوبارہ کسی وقت دنیا میں آنا نہ صرف اپنے ہی الہام کی رُو سے خلاف واقعہ سمجھتا ہوں بلکہ اس خیال حیات مسیح کو نصوص بینہ قطعیہ یقینیہ قرآن کریم کی رو سے لغو اور باطل جانتا ہوں.“ آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 315) یعنی قرآن کریم کی جو بڑی یقینی اور قطعی اور کھلی کھلی آیات ہیں ، اُن کی رُو سے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ السلام کو فوت شدہ سمجھتا ہوں اور اُن کی حیات کے خیال کو لغو اور باطل سمجھتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ اعتقادی لحاظ سے تم میں اور دوسرے مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں ہے.ارکانِ اسلام کو ماننے کا اُن کا بھی دعوی ہے، تمہارا بھی ہے.ایمان کے جتنے رکن ہیں، جس طرح ایک احمدی اُن پر ایمان لانے کا دعوی کرتا ہے، دوسرے بھی منہ سے یہی دعوی کرتے ہیں، بلکہ یہاں تک ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے بعد ایک طبقہ حضرت عیسی کی وفات پر یقین کرنے لگ گیا ہے.پھر خونی مہدی کا جو نظریہ تھا کہ مہدی آئے گا اور قتل کرے گا اور اصلاح کرے گا، اُس کے بارے میں بھی نظریات بدل گئے ہیں.گزشتہ جمعہ سے پہلا جمعہ جو گزرا ہے، جس میں میں نے صحابہ کے واقعات سنائے تھے.اُن میں ایک صحابی نے جب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے پوچھا کہ آپ نے خونی مہدی کا انکار کیا ہے اور لوگوں کو آپ کچھ کہتے ہیں، ویسے سنا ہے انکار کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب یہ کہتے ہیں کہ خونی مہدی کوئی نہیں آئے گا تو اس پر آپ اعتراض کرتے ہیں.تو انہوں نے کہا کہ جاؤ تم نے مرزا صاحب کی بیعت کرنی ہے تو کرو.اس چکر میں نہ پڑو.جو میرا نظریہ تھا یا ہے.تو وہ ڈھٹائی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف چپ کھڑے ہوں گے تو یہی کہیں گے کہ خونی مہدی نے بھی آنا ہے اور مسیح نے بھی آنا ہے لیکن ویسے کئی ایسے ہیں جن کے نظریات بدل چکے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آنے سے مسلمانوں میں بعض عقائد میں بھی درستی پیدا ہوئی ہے بلکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آج سے چھہتر سال پہلے اعتقادی اور عملی اصلاح کے موضوع پر ، ایک خطبہ میں نہیں بلکہ اس موضوع پر خطبات کا ایک سلسلہ جاری کیا جس میں کئی خطبے تھے.اُن میں آپ نے یہاں تک فرمایا کہ ہندوستان میں پڑھے لکھے لوگوں میں سے شاید دس میں سے ایک بھی نہ ملے جو حیات مسیح کا قائل ہو.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 317 خطبہ جمعہ 22 مئی 1936 )
خطبات مسرور جلد دہم 199 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 مارچ 2012ء اسی طرح قرآنِ کریم کی آیات کی منسوخی کا جہاں تک سوال ہے عموماً اب اس میں ناسخ و منسوخ کا ذکر نہیں کیا جاتا ، وہ شدت نہیں پائی جاتی جو پہلے تھی.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 318 خطبہ جمعہ 22 مئی 1936 ) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بھی ثابت فرمایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے بعد بعض عقائد پر دوسرے مسلمان جو بڑی شدت رکھتے تھے ، وہ بھی اب دفاعی حالت میں آگئے ہیں ، وہ شدت کم ہوگئی ہے، یا مانتے ہیں یا خاموش ہو جاتے ہیں.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 329 خطبہ جمعہ 29 مئی 1936 ) اور یہی بات آج تک بھی ہے.بلکہ اب تو بعض علماء اور سکالرجن میں عرب بھی شامل ہیں، جہادی تنظیموں اور شدت پسندوں کے نظریہ جہاد کے خلاف کہنے لگ گئے ہیں.بلکہ جہاد کے بارے میں ہی کہنے لگ گئے ہیں کہ آجکل کا یہ جہاد جو ہے یہ غلط ہے.پس جن کو وہ اپنے بنیادی عقائد کہتے تھے، ان نظریات میں تبدیلی ، اُن عقائد میں تبدیلی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی کے بعد آئی ہے اور ان میں جو پڑھے لکھے لوگ کہلاتے ہیں، جن کا دنیا سے واسطہ بھی ہے، رابطہ بھی ہے، وہ یہ کہنے لگ گئے ہیں، مثلاً جہا دوغیرہ کے بارے میں کہ یہ غلط ہے.یہ تبدیلی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے بعد اور آپ کی جہاد کی صحیح تعریف کے بعد پیدا ہوئی ہے.چاہے وہ احمدیت کو مانیں یا نہ مانیں.یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ جماعت احمدیہ کے جہاں تک عقائد کا سوال ہے، اس کو غیروں میں سے بھی ایک بڑا طبقہ جو ہے وہ ماننے پر مجبور ہے.اب آجا کے زیادہ بحث اس بات پر ٹھہر گئی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مقام نبی کا ہے یا نہیں ہے؟ یہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن طے ہو جائے گا.اسی طرح جو ہمارا عمومی مؤقف ہے، تعلیم ہے، عقائد ہیں اُس کو سمجھنا نہیں چاہتے اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہیں.اُن کے پاس دلیل بھی کوئی نہیں ہے.ہمارے عقائد کے تعلق میں بحث پر جب لا جواب ہو جاتے ہیں تو مار دھاڑ اور قتل و غارت پر آجاتے ہیں اور یہی کچھ آجکل اکثر مسلمان فرقوں کی طرف سے احمدیت کے خلاف ہو رہا ہے اور خاص طور پر پاکستان میں یا بعض جگہ ہندوستان میں.اور یہ پھر اس بات کی دلیل ہے کہ اُن کے پاس ہمارے عقائد کو غلط ثابت کرنے کے لئے نہ ہی کوئی قرآنی دلیل ہے اور نہ ہی کوئی عقلی دلیل ہے.جب گھیرے جاتے ہیں، قابو میں آ جاتے ہیں تو ماردھاڑ پر اتر آتے ہیں.پس عقیدے کے لحاظ سے دلائل و براہین کی رو سے احمدی اُس مقام پر ہیں جہاں اُن کا کوئی
خطبات مسرور جلد دہم 200 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 مارچ 2012ء مقابلہ نہیں کرسکتا.جو کم علم احمدی ہیں اُن کو بھی چاہئے کہ اپنے علم میں اس لحاظ سے پختگی پیدا کریں.آجکل تو ایم ٹی اے پر بعض پروگرام مثلاً راہ ہدی وغیرہ اسی لئے دیئے جارہے ہیں کہ ان سے زیادہ سے زیادہ سیکھیں اور کسی قسم کے احساس کمزوری اور کمتری کا شکار نہ ہوں، اُس میں مبتلا نہ ہوں.بہر حال جماعت احمدیہ کی اکثریت بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے إِلَّا مَا شَاءَ اللہ سب ہی اپنے عقیدے میں پختہ ہیں.اگر کوئی کمزور بھی ہے تو وہ یادر کھے کہ جو عقیدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے پیش فرمایا ہے، وہی حقیقی اسلام ہے اور غیروں میں اس کو کسی بھی دلیل کے ساتھ ر ڈ کرنے کی طاقت نہیں ہے.پس چند ایک جو کمزور ہیں وہ بھی اپنے اندر مضبوطی پیدا کریں.کسی قسم کی کمزوری دکھانے کی ضرورت نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عقیدے اور علمی لحاظ سے ہمیں نہایت ٹھوس اور مدلل لٹریچر عطا فرمایا ہے.اسی طرح عملی باتوں کی طرف بھی بہت زیادہ توجہ دلائی ہے.جہاں تک عقیدے اور علمی لٹریچر کا تعلق ہے جس کا اثر جیسا کہ میں نے کہا احمدی نہ ہونے کے باوجود بھی غیروں پر ہے لیکن صرف عقیدے کی اصلاح کافی نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اعمال کی اصلاح کے لئے بھی آئے تھے.جب تک ہمارے عمل کی بھی اصلاح نہ ہو اُس وقت تک عقیدے کی اصلاح کا کوئی فائدہ نہیں.کیونکہ عمل ہی ہے جو پھر غیروں کو اس طرف مائل کرتا ہے کہ وہ جماعت میں بھی شامل ہوں ، ہماری باتیں بھی سنیں ، یا کم از کم خاموش رہیں.نیک عمل اور پاک تبدیلیاں ایک خاموش تبلیغ ہیں.بعض قریب آئے ہوئے اور بیعت کے لئے تیار صرف اس لئے دور ہو جاتے ہیں کہ کسی احمدی کا عمل اُن کے لئے ٹھوکر کا باعث بن گیا.پس اس زمانے میں جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت سے دُور ہو رہے ہیں، ہمیں اپنے عقیدے کے ساتھ اپنے اعمال کی حفاظت کی بھی بہت زیادہ ضرورت ہے اور شدت سے ضرورت ہے.عقیدے کے لحاظ سے تو ہم یقیناً جنگ جیتے ہوئے ہیں لیکن اگر عقیدے کے مطابق عمل نہ ہوں اور جو تعلیم دی گئی ہے اُس کے مطابق نہ چلیں، اُس کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش نہ ہو تو آہستہ آہستہ صرف نام رہ جاتا ہے.جیسا کہ مسلمانوں کی اکثریت میں ہم دیکھتے ہیں کہ غلط قسم کے کاموں میں ملوث ہیں.نمازوں کی اگر پڑھتے بھی ہیں تو صرف خانہ پری ہے.اکثریت تو ایسی ہے جس کو نمازوں کی پر واہ بھی نہیں ہے.جھوٹ عام ہے.اب تو بے حیائی بھی بلا جھجک اور کھلے عام ہے.گزشتہ دنوں ایک غیر از جماعت دوست ملے.کہنے لگے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ شدت پسند اور اسلام کے دعویدار جو مختلف جگہوں پر
خطبات مسرور جلد دہم 201 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 مارچ 2012ء اسلام کی غیرت کے نام پر حملے کرتے ہیں اور اسلامی نظام لانا چاہتے ہیں.سکولوں پر حملے کرتے ہیں، معصوم عورتوں اور بچوں کو مار رہے ہیں لیکن کہتے ہیں میں پاکستان گیا تو میں نے دیکھا کہ اسلام آباد میں ایک مین روڈ کے اوپر ہی سڑک پر ایک شراب کشید کرنے کی فیکٹری تھی ، Brewery جسے کہتے ہیں، اُس پر کبھی ان شدت پسندوں نے حملہ نہیں کیا.حالانکہ وہ کھلے عام ہے.اسی طرح کہنے لگے ٹی وی چینل ہیں، ننگے اور بیہودہ پروگرام پاکستان میں بھی آتے ہیں اور مسلمان چینلوں میں بھی آتے ہیں، ان کے خلاف کوئی آواز نہیں اُٹھا تا یا اُن پر حملہ نہیں ہوتا.بہر حال یہ اسلام پسندوں کی عملی حالت ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جہاں تک شراب کا تعلق ہے، شراب کشید کرنے والوں، رکھنے والوں، بیچنے والوں، پلانے والوں، پینے والوں، ان سب پر لعنت بھیجی ہے.(سنن ابی داؤد کتاب الاشربة باب العنب يعصر للخمر حديث 3674) یہ لعنت تو ان لوگوں کو برداشت ہے کہ وہاں شراب کی فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں لیکن احمدی کا کلمہ پڑھنا ان کو کبھی برداشت نہیں ہوسکتا.بہر حال میں کہ رہا تھا کہ جو معاشرہ ہے ہم بھی اس معاشرے میں رہتے ہیں اور اس کا اثر ہم پر بھی پڑسکتا ہے.ہمیں بھی احتیاط کی ضرورت ہے.ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعثت کے مقصد کو سمجھتے ہوئے اپنی عملی حالتوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے تبھی ہم احتیاط کے تقاضے پورے کر سکتے ہیں.خاص طور پر بڑوں کو بچوں اور نو جوانوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور نو جوانوں کو خود بھی محتاط ہونے کی ضرورت ہے.آجکل تو دشمن گھروں میں گھس کر اخلاق سوز حرکتیں کر کے ہر ایک کے اعمال کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے.جیسا کہ میں نے کہا ٹی وی چینلز نے اخلاقیات اور نیک اعمال کے زاویے ہی بگاڑ دیئے ہیں.اسی طرح انٹرنیٹ ہے اور دوسری چیزیں ہیں ، ان کے خلاف اگر ہم نے مل کر جہاد نہ کیا تو اعمال کی اصلاح تو ایک طرف رہی ، شیطانی اعمال کی جھولی میں ہم گر جائیں گے اور اس سے بچنے کے لئے پھر کوئی اور راستہ نہیں ، سوائے اس کے کہ ہم خاص طور پر جیسا کہ میں نے کہا جہاد کی صورت میں اللہ تعالیٰ سے مدد لیں.اس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی مدد بھی حاصل کرنے کی کوشش کریں.ہمیں اس کے لئے اللہ تعالیٰ کو پکارنا ہو گا تبھی ہم بچ سکتے ہیں.صرف اتنا کہنا کافی نہیں ہے کہ میں ایک خدا پر یقین رکھتا ہوں، بلکہ ایک خدا سے تعلق پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے تا کہ ان شیطانی حملوں سے بچا جا سکے جو ہمارے گھروں کے کمروں تک پہنچ چکے ہیں.ورنہ ان برائیوں اور ان بیماریوں
خطبات مسرور جلد دہم 202 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 مارچ 2012ء سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے.کہتے ہیں ایک بزرگ کا شاگرد تھا، اُس نے جب تعلیم مکمل کی اور واپس جانے لگا تو بزرگ نے اُس شاگرد سے پوچھا کہ کیا جس ملک میں تم جا رہے ہو، وہاں شیطان بھی ہوتا ہے؟ تو شاگرد نے حیران ہو کر کہا کہ شیطان کہاں نہیں ہوتا؟ شیطان تو ہر جگہ ہے.تو انہوں نے کہا کہ جو کچھ تم نے مجھ سے دین کے بارے میں ، اخلاقیات کے بارے میں سیکھا ہے، پڑھا ہے، اگر اس پر عمل کرنے لگو اور شیطان حملہ کر دے تو کیا کرو گے؟ اُس نے کہا مقابلہ کروں گا.انہوں نے کہا ٹھیک ہے.پھر تمہاری تو جہ دوسری طرف ہو اور وہ پھر حملہ کر دے تو پھر کیا کرو گے؟ اُس نے کہا پھر مقابلہ کروں گا.غرض دو تین دفعہ انہوں نے اس طرح ہی پوچھا.پھر وہ کہنے لگے کہ اگر تم اپنے کسی دوست کے پاس جاؤ اور اُس کے دروازے پر گتا بیٹھا ہو اور وہ تمہیں پکڑ لے، تم پر حملہ کرے اور کاٹنے لگے تو کیا کرو گے؟ اُس نے کہا میں اُس کو ڈرا کے دوڑانے کی کوشش کروں گا.پھر حملہ کرے تو پھر یہی کروں گا.انہوں نے کہا اگر تم اسی طرح لگے رہے تو پھر دوست تک تو نہیں پہنچ سکتے.تو کیا کرو گے تم ؟ اُس نے کہا کہ آخر میں دوست کو آواز دوں گا کہ آؤ اور اپنے گتے کو پکڑو.تو بزرگ کہنے لگے کہ شیطان بھی خدا تعالیٰ کا گنتا ہے.اس کے لئے تمہیں خدا تعالیٰ کو آواز دینی ہوگی.اُس کے در کو کھٹکھٹانا ہوگا تبھی شیطان کے حملوں سے بچ سکتے ہو.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 330-331 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 مئی 1936ء) اپنے زعم میں نہ رہنا کہ اب علم بھی ہمیں حاصل ہو گیا اور اخلاقیات پر بھی ہم نے بڑا عبور حاصل کر لیا اور نیکی کا بھی ہمیں پتہ ہے.نمازیں بھی ہم جیسی تیسی پڑھ لیتے ہیں.اس زعم میں اگر رہو گے تو شیطان تم پر حملہ کرتا جائے گا اور تم اُس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے.پس خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے کی ضرورت ہے.خالص ہو کر اُس کی عبادت کرنے کی ضرورت ہے.تبھی اس شیطان کے حملوں سے بچا جاسکتا ہے.اور اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لئے ، اُس کا قرب حاصل کرنے کے لئے صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنا اور اپنے عقیدے کی درستگی کر لینا یہ کافی نہیں ہے.اس کے لئے اللہ تعالیٰ کو مدد کے لئے پکارنا ہو گا.جیسا کہ میں نے کہا، اُس کے آگے جھکنا ہو گا.اُس کی عبادت خالص ہو کر کرنی ہوگی.جہاں عملی کوشش ہو، تو بہ اور استغفار کی طرف توجہ ہو، وہاں ایک انتہائی ضروری چیز نماز ہے.اللہ تعالیٰ نے بارہا قرآنِ کریم میں نماز کے قیام کی طرف توجہ دلائی ہے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نماز مومن کی
خطبات مسرور جلد دہم 203 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 مارچ 2012ء معراج ہے.(تفسیر روح البیان از شیخ اسماعیل حقی بروسوی جلد 8 صفحه 109 تفسیر سورة الزمر زیر آیت الله نزل احسن الحديث...مطبوعه بیروت ایڈیشن (2003) یعنی ایسی حالت ہے جب مومن خدا تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے اور اُس سے باتیں کرتا ہے.پس اگر شیطان سے بچنا ہے، زمانے کی بیہودگیوں سے اور لغویات سے بچنا ہے تو اپنی نمازوں کی حفاظت کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے کامیاب مومنین کی یہی نشانی بتائی ہے کہ وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں.اس لئے کہ اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَ الْمُنْكَرِ (العنكبوت: 46) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یقیناً نماز ، وہ نماز جو خالص ہو کر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے پڑھی جائے ، یقینی طور پر بے حیائی اور بیہودہ باتوں سے روکتی ہے.پس شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے خدا تعالیٰ کو مدد کے لئے پکارنے کا ایک بڑا ذریعہ نماز ہے.آجکل کے لغویات سے پر ماحول میں تو اس کی طرف اور زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.بچوں کی بھی نگرانی کی ضرورت ہے کہ انہیں بھی عادت پڑے کہ نمازیں پڑھیں.لیکن بچوں اور نو جوانوں کو کہنے سے پہلے بڑوں کو اپنا محاسبہ بھی کرنا ہو گا، اپنے آپ کو بھی دیکھنا ہوگا.اللہ تعالیٰ نے جب وَيُقِيمُونَ الصلوة (البقرة: 4) کہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ باجماعت نماز کی ادائیگی ہو، اس طرف توجہ ہو.میں نے دیکھا ہے کہ موسم بدلنے کے ساتھ جب وقت پیچھے جاتا ہے، راتیں چھوٹی ہو جاتی ہیں تو فجر میں حاضری کم ہونا شروع ہو جاتی ہے.گزشتہ دنوں ابھی پور اوقت پیچھے نہیں گیا تھا، پانچ بجے تک ہی نماز آئی تھی تو فجر کی نماز پر حاضری کم ہونے لگ گئی تھی.اب پھر ایک گھنٹہ آگے وقت ہوا ہے تو حاضری کچھ بہتر ہوئی ہے یا جمعہ والے دن کچھ بہتر ہو جاتی ہے.ابھی تو وقت نے اور پیچھے جانا ہے.تو بڑوں کے لئے بھی اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.اگر وقت کے پیچھے جانے سے پھر سستی شروع ہو جائے تو یہ تو ایک احمدی کے لئے صحیح نہیں ہے.اس لئے میں پہلے توجہ دلا رہا ہوں کہ وقت کے ساتھ فجر کی نماز میں حاضری میں کمی نہیں ہونی چاہئے.عہدیدار خاص طور پر نمازوں کی باجماعت ادا ئیگی میں اگر سستی نہ دکھا ئیں کیونکہ ان کی طرف سے بھی بہت ستی ہوتی ہے، اگر وہی اپنی حاضری درست کر لیں اور ہر سطح کے اور ہر تنظیم کے عہد یدار مسجد میں حاضر ہونا شروع ہو جائیں تو مسجدوں کی رونقیں بڑھ جائیں گی اور بچوں اور نو جوانوں پر بھی اس کا اثر ہوگا ، اُن کی بھی توجہ پیدا ہوگی.ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ کسی کا رتبہ کسی عہدے کی وجہ سے نہیں ہے.دنیا کے سامنے تو بیشک کوئی عہدیدار ہو گا، اور اُس کا رتبہ بھی ہو گا لیکن اصل چیز خدا تعالیٰ کے پیار کو
خطبات مسرور جلد دہم 204 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 مارچ 2012ء حاصل کرنا ہے اور وہ اس ذریعے سے حاصل ہو گا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نماز معراج ہے.اس معراج کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے.پس پہلے عہدیدار اپنے جائزے لیں اور پھر اپنے زیر اثر بچوں ، نو جوانوں اور لوگوں کو اس طرف توجہ دلائیں.ہماری کامیابی اُسی وقت حقیقت کا روپ دھارے گی جب ہر طرف سے آوازیں آئیں گی کہ نماز کے قیام کی کوشش کرو.ورنہ صرف یہ عقیدہ رکھنے سے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہو گئے، یا قرآنِ کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں ہے، یا تمام انبیاء معصوم ہیں یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وہی مسیح و مہدی ہیں جن کے آنے کی پیشگوئی تھی، تو اس سے ہماری کامیابیاں نہیں ہیں.ہماری کامیابیاں اپنی عملی حالتوں کو اُس تعلیم کے مطابق ڈھالنے میں ہیں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دی.جس میں سب سے زیادہ اہم نماز کے ذریعے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا ہے.ورنہ ہمارا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ شرک نہیں کروں گا.شرک تو کر لیا اگر اپنی نمازوں کی حفاظت نہ کی.اللہ تعالیٰ نے تو حکم دیا ہے کہ نمازیں پڑھو.نمازوں کے لئے آؤ.اگر نمازوں کی حفاظت نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ نماز کی جگہ کوئی اور متبادل چیر تھی جس کو زیادہ اہمیت دی گئی تو یہ بھی شرک خفی ہے.پھر جن نیک اعمال کی طرف ہمیں خدا تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے اس میں دوسروں کے حقوق بھی ہیں.دنیاوی لالچوں میں آکر حقوق غصب کئے جاتے ہیں.اُس وقت انتہائی شرمندگی ہوتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے جب میرے پاس غیر از جماعت لوگوں کے خطوط آتے ہیں کہ آپ کے فلاں احمدی نے میرے ساتھ دھو کہ کیا ہے.مجھے میرا حق دلوایا جائے.تو یہ باتیں جیسا کہ میں نے کہا کہ تبلیغ میں بھی روک بنتی ہیں، بلکہ بعض نئے احمدیوں کے لئے بھی ٹھوکر کا باعث بن جاتی ہیں.ابھی گزشتہ دنوں ایک عرب احمدی نے لکھا کہ وہ جماعت چھوڑ رہے ہیں، جب وجہ پتہ کی تو پتہ چلا کہ بعض احمدیوں کے عمل سے دل برداشتہ ہو کروہ یہ کہ رہے تھے لیکن عقیدے کے لحاظ سے اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام اپنے دعوے میں سچے ہیں.پس جہاں یہ اُن کی غلطی ہے کہ بعض احمدیوں کو دیکھ کر نظام جماعت سے دور ہٹ جائیں اور تعلق توڑلیں ، وہاں اُن احمدیوں کو بھی سوچنا چاہئے جن میں سے بعض عہد یدار بھی ہیں کہ کسی کی ٹھوکر کا باعث بن کر وہ کتنے بڑے گناہ سہیڑ رہے ہیں.ایک بات کی طرف خاص طور پر میں توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیشک مالی قربانی میں تو جماعت کے افراد بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں لیکن مالی قربانی کا ایک پہلوز کوۃ ہے.اُس طرف
خطبات مسرور جلد دہم 205 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 مارچ 2012ء بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے.خاص طور پر عورتوں کو جن کے پاس زیور وغیرہ بھی ہوتے ہیں.اسی طرح وہ لوگ جن کے رقمیں ایک سال سے زیادہ پڑی رہتی ہیں.اس طرف ویسی توجہ نہیں ہے جو ایک احمدی کو ہونی چاہئے.ایک تعداد تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یقیناً ایسی ہے جو ایک ایک پائی کا حساب رکھ کر چندے بھی دیتی ہے اور زکوۃ بھی دیتی ہے لیکن بعض لوگ ایسے ہیں جو چندوں کو کافی سمجھتے ہیں اور زکوۃ نہیں دیتے.یا سیکرٹریانِ مال جو ہیں اُن کو اس طرف توجہ نہیں دلاتے جس وجہ سے اُن کو اس کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے.پس اس طرف بھی توجہ کی بہت ضرورت ہے.پھر عملی حالتوں کی تبدیلی میں ہر برائی جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے اُس کو چھوڑنا اور ہر نیکی جس کا قرآنِ کریم میں ذکر ہے اس کا اختیار کر نا شامل ہے.پس ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد کو ہر وقت سامنے رکھنا ہو گا کہ قرآن کریم کے سات سو حکموں میں سے ایک حکم کی بھی نافرمانی نہ کرو.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 26 و28) پس ہمیشہ ہمیں اس کوشش میں رہنا چاہئے کہ بظاہر چھوٹے سے چھوٹے گناہ سے بھی بچنا ہے.شروع میں جو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اقتباس پڑھا ہے، اُس میں آپ نے یہی توجہ دلائی ہے کہ چھوٹے چھوٹے گناہوں میں مبتلا ہو کر یہ نہ سمجھو کہ یہ گناہ نہیں ہے.جو بظا ہر کسی کو نظر نہیں آ رہے، ان گناہوں کو اپنی عارفانہ خورد بین استعمال کر کے دیکھو،خود تلاش کرو، اپنے جائزے لو.پھر پتہ لگے گا کہ یہ حقیقت میں گناہ ہے.ریا کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دی ہے.اب یہ اکثر کسی کو بھی نظر نہیں آئے گی.خود انسان کو اگر وہ حقیقت پسند بن کے اپنا جائزہ لے تو پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ کام جو وہ کر رہا ہے یہ دنیا دکھاوے کے لئے ہے یا خدا تعالیٰ کی خاطر؟ اگر انسان کو یہ پتہ ہو کہ میرا ہر عمل خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہونا چاہئے اور ہو گا تو تبھی مجھے ثواب بھی ملے گا تو تبھی وہ نیک اعمال کی طرف کوشش کرتا ہے تبھی وہ اس جستجو میں رہے گا کہ میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کی تلاش کروں اور اُن پر عمل کروں.اور جب یہ ہوگا تو پھر نہ ریا پیدا ہوگی نہ دوسری برائیاں پیدا ہوں گی.اسی طرح قرآنِ کریم میں رشتہ داروں سے حسن سلوک کا حکم ہے.اس میں سب سے پہلے تو اپنے ماں باپ اور بیوی بچے ہیں.اسی طرح پھر آگے تعلق کے لحاظ سے.اس تعلق میں ایک بات کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ آجکل برداشت کی کمی مردوں اور عورتوں ، دونوں میں بہت زیادہ ہے.حالانکہ برداشت اور صبر کی بھی خدا تعالیٰ نے بہت تلقین فرمائی ہے.اور اس کمی کی وجہ سے رشتے ٹوٹنے کی تعداد بڑھ رہی
خطبات مسرور جلد دہم 206 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 مارچ 2012ء ہے.اور کسی کو یہ خیال نہیں رہتا کہ جن کے بچے ہیں، اس کے نتیجے میں بچوں پر کیا اثر ہوگا.پس دونوں طرف سے تقویٰ میں کمی ہے اور عملی حالتوں کی کمزوری کا اظہار ہوتا ہے.پھر ہر احمدی کو یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ ہماری سچائی دوسروں پر تب ظاہر ہوگی جب ہر معاملے میں ہمارے سے سچائی کا اظہار ہوگا.اگر ہمارے ذاتی معاملات میں اپنے مفادات میں ہمارے رویے خود غرضانہ ہو جا ئیں تو بیعت میں آنے کے بعد جو عملی اصلاح کا عہد ہے، اُس کو ہم پورا کرنے والے نہیں ہو سکتے.قرآن کریم تو کہتا ہے کہ اگر تمہیں سچائی اور انصاف کے لئے اپنے خلاف یا اپنے والدین کے خلاف یا اپنے قریبیوں کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے تو دو.لیکن عملاً ہمارے طریق اور عمل اس سے مختلف ہوں تو ہم کیا انقلاب لائیں گے.میں اکثر انصاف کے قیام کے لئے غیروں کو قرآنِ کریم کے اس حکم کا بھی حوالہ دیتا ہوں اور دعوی کرتا ہوں کہ جماعت احمدیہ ہی صحیح اسلامی تعلیم پر چلنے والی ہے.لیکن اگر کسی غیر کے تجربے میں احمدی کے عمل اس سے مختلف ہیں تو اس پر اس بات کا کیا اثر ہو گا ؟ ایسے احمدی احمدیت کی تبلیغ کے راستے میں روک ہیں.پس اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.اپنے محاسبے کی ضرورت ہے.اسی طرح قرآن کریم کے بے شمار حکم ہیں.پس ہماری عملی اصلاح تب مکمل ہو گی جب ہم ہر لحاظ سے، ہر پہلو سے اپنے جائزے لیں، اپنی برائیوں کو دیکھیں.جب ہماری عملی اصلاح ہوگئی تب ہم سمجھ سکیں گے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے.ورنہ صرف ماننے سے، آپ کے تمام دعاوی پر یقین کرنے سے ایک حصے کو تو ہم ماننے والے ہو گئے لیکن ایک حصہ چھوڑ دیا جو نہایت اہم ہے.پس جیسا کہ میں نے کہاہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی پر عمل کرنا بھی ضروری ہے.انسان کو نہیں پتہ کہ چھوٹی نیکی اُس کے لئے کیا ہے اور بڑی نیکی کیا ہے.احادیث سے ثابت ہے کہ ایک نیکی ایک کے لئے چھوٹی ہے اور دوسرے کے لئے بڑی، یا اس کی تعریف مختلف ہے.مثلاً ایک صحابی کے پوچھنے پر کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم.بڑی نیکی کیا ہے.آپ نے فرمایا کہ جہاد فی سبیل اللہ بڑی نیکی ہے.(صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان کون الایمان بالله تعالى افضل الاعمال (248) پھر ایک اور موقع پر ایک دوسرے صحابی کے پوچھنے پر کہ بڑی نیکی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ماں باپ کی خدمت کرنا.(صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلاة باب فضل الصلاة لوقتها 527) پھر ایک تیسرے موقع پر ایک تیسرے صحابی کے پوچھنے پر کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑی
خطبات مسرور جلد دہم 207 نیکی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا تہجد کی نماز ادا کرنا، تہجد کے نفل پڑھنا.خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 مارچ 2012ء (صحیح مسلم کتاب الصیام باب فضل صوم المحرم حدیث نمبر 2756) اس طرح آپ نے مختلف لوگوں کو بعض مختلف امور کی طرف توجہ دلائی.پس بڑی نیکی تین یا تین سے زیادہ تو نہیں ہو سکتیں اور بھی مختلف لوگوں کو ان کی کمزوریوں کے مطابق توجہ دلائی ہوگی.بڑی نیکی تو ایک ہی ہونی چاہئے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے بڑا کام اور نیکی وہ ہے جس کی کسی میں کمی ہے.پس اگر کوئی شخص ماں باپ کی خدمت نہیں کرتا یا بیوی بچوں کے حقوق ادا نہیں کرتا تو اُس کے لئے دین کی خدمت بڑی نیکی نہیں ہے.ہو سکتا ہے وہ یہ خدمت ذاتی مفاد کے لئے بھی کر رہا ہو یا نام ونمود کے لئے بھی کر رہا ہو.پس ایسے لوگ جن کے گھر والے اُن کے رویوں سے نالاں ہیں اور وہ عہد یدار بنے ہوئے ہیں، انہیں اپنی خدمت کا ثواب حاصل کرنے کے لئے دین کی خدمت کا ثواب حاصل کرنے کے لئے ، ماں باپ اور بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنا بھی ضروری ہے.اگر کوئی شخص چندوں میں بہت اچھا ہے لیکن نمازوں میں ست ہے، نوافل میں ست ہے تو اُس کے لئے نمازیں اور نوافل نیکی ہیں.اسی طرح بہت سی نیکیاں ہیں جو ایک کے لئے معمولی ہیں دوسرے کے لئے بڑی ہیں.پس چھوٹی بڑی نیکیوں کی کوئی فہرست نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ریا کی جو مثال دی ہے کہ چھوٹے چھوٹے گناہ مثلار یا تو یہاں بھی اس سے یہی مراد ہے کہ بظا ہر چھوٹا نظر آنے والا گناہ دراصل بڑا گناہ بن جاتا ہے.نماز پڑھنا بڑا ثواب کا کام ہے.اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کا ذریعہ ہے.دین کی معراج ہے لیکن دکھاوے کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں بلکہ الٹا دی جاتی ہیں.اسی طرح ایک انسان نمازی ہے لیکن دوسروں کے حقوق غصب کر رہا ہے تو یہ نماز نیکی نہیں ہے بلکہ بہتر ہوتا کہ وہ دوسروں کا حق ادا کرتا اور پھر نماز ادا کر کے نماز کا ثواب حاصل کرتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اقتباس میں نے پڑھا ہے جس میں آپ نے ارکانِ اسلام کا ذکر فر مایا.روزہ بھی ایک رکن ہے.مسلمان رمضان میں روزے کا اہتمام بھی بہت کرتے ہیں لیکن بہت سے روزہ دار ایسے ہوتے ہیں جو روزہ رکھ کر جھوٹ ، فریب، گالی گلوچ، غیبت وغیرہ کرتے ہیں، ان سے کام لیتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص روز ہ رکھ کر یہ سب کام کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُس کا روزہ روزہ نہیں ہے.(صحیح بخاری کتاب الصوم باب من لم يدع قول الزور ، والعمل به في الصوم حدیث نمبر 1903) پس روزے کا ثواب بھی گیا.تو اصل چیز یہ ہے کہ ان اعمال کو اس طرح بجالایا جائے جس طرح
خطبات مسرور جلد دہم 208 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 مارچ 2012ء اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.پس انسانی زندگی کا ہر قدم بڑا پھونک پھونک کر اٹھنا چاہئے جہاں خالص خدا تعالیٰ کی رضا مقدم ہو، جہاں عقیدے میں پختگی ہو وہاں اعمال کی بھی ایسی اصلاح ہو کہ دنیا کو نظر آ جائے کہ ایک احمدی اور دوسرے میں کیا فرق ہے؟ پس ہمیں اس بات پر نظر رکھنی چاہئے کہ تمام قسم کی برائیوں سے بچنا ہے.تمام قسم کی نیکیوں کو اختیار کرنا ہے تا کہ عملی طور پر اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کر یں.اپنے چھوٹوں کے لئے نمونہ بنیں.اپنے نوجوانوں کے لئے نمونہ بنیں.اپنے گھروں میں اپنے بیوی بچوں کے لئے نمونہ بنیں.اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے لئے نمونہ بنیں، اپنی عملی حالتوں میں ہر چھوٹا بڑا وہ معیار حاصل کرے کہ ہر قسم کی بدی اور برائی کا بیج ہم میں سے ہر ایک میں ختم ہو جائے ، اُس کی جڑ ہی ختم ہو جائے.اگر افراد جماعت میں سے ہر ایک نے اپنی مکمل اصلاح کی کوشش نہ کی تو جماعت میں ہر وقت کسی نہ کسی قسم کی برائی کا پیچ موجودرہے گا اور موقع ملتے ہی وہ پھلنے پھولنے لگ جائے گا ، پھوٹنے لگ جائے گا.پس ہر قسم کی برائیوں کی جڑوں کو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اندر سے ختم کرنے کی ضرورت ہے.تبھی ہم ہر قسم کی برائیوں کو جماعت میں سے ختم کر کے عملی اصلاح کی حقیقی تصویر بن سکتے ہیں اور تب پھر اللہ تعالیٰ ہمیں فتوحات کے نظارے دکھائے گا.تبھی ہماری دعائیں بھی قبول ہوں گی انشاء اللہ تعالیٰ.پھر اللہ تعالیٰ کا قرب ہم پاسکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 20 اپریل تا 26 اپریل 2012 جلد 19 شمارہ 16 صفحہ 5 تا8 )
خطبات مسرور جلد دہم 209 14 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 اپریل 2012ء خطبہ جمہ سید نا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احم خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 106اپریل 2012 ء بمطابق 06 شہادت 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ - فَرِحِينَ بمَا الهُمُ اللهُ مِن فَضْلِهِ * وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوَابِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ - يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ الله لا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُوْلِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمُ الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (آل عمران : 170 تا 174) ان آیات کا ترجمہ ہے کہ: اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے اُن کو ہرگز مُردے گمان نہ کر بلکہ وہ تو زندہ ہیں اور انہیں ان کے رب کے ہاں رزق عطا کیا جا رہا ہے.بہت خوش ہیں اس پر جو اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اور وہ خوشخبریاں پاتے ہیں اپنے پیچھے رہ جانے والوں کے متعلق جو ابھی ان سے نہیں ملے کہ ان پر بھی کوئی خوف نہیں ہوگا اور وہ تمکین نہیں ہوں گے.وہ اللہ کی نعمت اور فضل کے متعلق خوشخبریاں پاتے ہیں اور یہ خوشخبریاں بھی پاتے ہیں کہ اللہ مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرے گا.وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور رسول کو لبیک کہا بعد اس کے کہ انہیں زخم پہنچ چکے تھے، اُن میں سے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے احسان کیا اور تقویٰ اختیار کیا بہت بڑا اجر ہے.یعنی وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ تمہارے خلاف لوگ اکٹھے ہو گئے ہیں پس ان سے ڈرو تو اس بات نے ان کو ایمان میں بڑھا دیا.اور انہوں نے کہا ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے.
خطبات مسرور جلد دہم 210 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 اپریل 2012ء پاکستان میں خاص طور پر اور اُن کے اثر کے تحت بعض دوسرے ممالک میں ملاں اور حکومت سمجھتے ہیں کہ احمدیوں کے خلاف قانون بنا کر ، اُن کو شہری حقوق سے محروم کر کے، اُن کے لئے حقوق انسانی کے ہر قانون کو پس پشت ڈال کر ، اُن کو دہشتگردی کا نشانہ بنا کر ، احمدیوں کو قتل کرنے کی ہر ایک کو کھلی چھٹی دے کر یہ لوگ احمدیت کو ختم کر دیں گے.لیکن یہ ان کی بھول ہے.احمدیت خدا تعالیٰ کے ہاتھ کا گایا ہواوہ پودا ہے جس کو کوئی انسانی کوشش ختم نہیں کر سکتی.جس کے پھلنے پھولنے کی خدا تعالیٰ نے خوشخبری دی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے کہ بُشرى لَكَ أَحْمَدِيْ أَنْتَ مُرَادِيْ وَمَعِي غَرَسْتُ لَكَ قُدْرَتِي بِيَدِی کہ اے میرے احمد ! تجھے بشارت ہو.تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے.میں نے اپنے ہاتھ سے تیرا درخت لگایا ہے.( تذکرہ صفحہ نمبر 315 ایڈیشن چہارم 2004 ء مطبوعہ ربوہ ) پس یہ جماعت کو ختم کرنے کی انسانی کوششیں تو بیشک ہیں اور رہیں گی لیکن ان کوششوں سے جماعت احمد یہ ختم نہیں ہو سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب یہ الہام ہوا اس وقت آپ کے اردگرد چند ایک لوگ تھے جنہوں نے آپ کی بیعت کا شرف حاصل کیا تھا.آج اللہ تعالیٰ کے وعدے کو پورا ہوتے ہوئے ہم کس شان سے دیکھ رہے ہیں کہ جماعت احمد یہ دنیا کے دوصد ممالک تک پھیل چکی ہے.مخلصین کی ایسی جماعتیں قائم ہو چکی ہیں کہ جن کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.کیا اُس ابتدائی زمانے سے لے کر آج تک کی ترقی ، باوجود مخالفین کی تمام تر کوششوں کے جن میں حکومتوں کا بھی کردار ہے، انسانی کوششوں سے ہو سکتی ہے؟ اگر کسی میں عقل ہو اور آنکھوں پر تعصب کی پٹی نہ بندھی ہو تو یہی ایک بات احمدیت کی سچائی کے لئے کافی ہونی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس بات کو بیان کیا ہے کہ بعض لوگ اُٹھتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے خواب میں بتایا ہے یا ہمیں یہ الہام ہوا ہے کہ مرزا صاحب جھوٹے ہیں.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غیر مذہب والوں کی مثالیں بھی دی ہیں کہ وہ بھی کہتے ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اُن کا مذہب سچا ہے اور اسلام نعوذ باللہ جھوٹا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں لیکن بیشمار ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے بیعت کی ہے اور وہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے بتایا ہے، ہماری رہنمائی فرمائی ہے کہ اس شخص کا مسیح موعود ہونے کا دعوی سچا ہے.بلکہ آج بھی سینکڑوں بیعتیں خوابوں میں رہنمائی کے ذریعے ہو رہی ہیں اور اس زمانے میں ہم اس کے خود
خطبات مسرور جلد دہم 211 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 اپریل 2012ء گواہ ہیں.کئی واقعات میں پیش کر چکا ہوں.بلکہ شاید اس وقت بھی میرے سامنے بعض ایسے لوگ بیٹھے ہوں جن کی اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وضاحت فرمائی کہ خدا تو کئی نہیں ہو سکتے کہ کسی کو خدا کچھ بتارہا ہو اور کسی کو کچھ بتا رہا ہو.مختلف لوگوں کی مختلف رنگ میں رہنمائی کر رہا ہو.اس کا ایک معیار ہے.اگر کوئی اُس پر پرکھنا چاہے تو پرکھنا چاہئے اور یہی ایک معیار ہے.اور پھر فرمایا کہ میں بتاتا ہوں کہ وہ معیار کیا ہے؟ اور وہ یہ ہے کہ یہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کا فعل کیا کہتا ہے.خوا میں تو اس نے بھی دیکھ لیں، اس نے بھی دیکھ لیں.یہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کا فعل کیا کہتا ہے.جب یہ دیکھو گے تو جماعت کی ترقی بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت جماعت احمدیہ کے ساتھ ہے.آج خلافت کے ہاتھ پر جماعت احمدیہ کا جمع ہونا اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی فعلی شہادت ہے.بے نفس ہو کر جان، مال ، وقت کی قربانی دینا جس کو سب غیر مانتے ہیں، کیا اُن کے لئے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت نہیں ہے جس نے دلوں کو مضبوط باندھ کر ایک جگہ جمع کر کے ان قربانیوں پر باوجود دنیا کے ظلم سہتے چلے جانے کے آمادہ کیا ہوا ہے.پس جماعت کی طاقت اور اس کا پھیلنا اور ترقی کرنا مخالفین کی کوششوں سے نہیں رک سکتا.ہر جان جو احمدیت کی خاطر، کلمہ طیبہ کی خاطر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کی خاطر ، خدا تعالیٰ اور صرف خدا تعالیٰ کا عبد بننے کی خاطر قربان ہو رہی ہوتی ہے وہ اس بات کا اعلان کر رہی ہوتی ہے کہ تمہارے مکر اور تمہاری کوششیں اور تمہاری زیادتیاں جماعت احمدیہ کی ترقی کو روک نہیں سکتیں.جماعت احمدیہ کی تاریخ میں حضرت مولوی عبدالرحمن خان صاحب شہید اور صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کی شہادت سے جان کی قربانیوں کی ابتداء ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ: شہید مرحوم نے مرکز میری جماعت کو ایک نمونہ دیا اور درحقیقت میری جماعت ایک بڑے نمونے کی محتاج تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی کے ذکر میں پھر آگے فرماتے ہیں کہ ”خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ ایسے بھی ہیں (یعنی افراد جماعت میں سے ) کہ وہ سچے دل سے ایمان لائے اور سچے دل سے اس طرف کو اختیار کیا اور اس راہ کے لئے ہر ایک دکھ اُٹھانے کے لئے تیار ہیں.لیکن جس نمونہ کو اس جوانمرد ( یعنی صاحبزادہ صاحب) نے ظاہر کر دیا، اب تک وہ قو تیں اس جماعت کی مخفی ہیں.فرمایا ” خدا سب کو وہ ایمان سکھا دے اور وہ استقامت بخشے جس کا اس شہید مرحوم نے نمونہ پیش کیا.(تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 57-58) اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس دعا کو جو آخری فقرے میں ہے، قبولیت
خطبات مسرور جلد دہم 212 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 اپریل 2012ء عطا فرمائی اور بہت سوں کو وہ استقامت بخشی جس سے انہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے وقت آنے پر پیش کئے.اُن پہلے شہداء کی قربانیوں کے تسلسل کو پاکستان کے احمدیوں نے سب سے زیادہ جاری رکھا اور سینکڑوں میں اپنی قربانیاں پیش کیں.ہر شہید نے ایمانی حرارت اور استقامت کا مظاہرہ کیا.ہر شہید احمدیت کا اپنا اپنا ایک رنگ ہے جس کے ساتھ اُس نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، جس میں انڈونیشیا کے شہید بھی شامل ہیں، ہندوستان کے بھی اور دوسرے ممالک کے بھی.لیکن بعض نمایاں ہو جاتے ہیں.1974ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف جو فسادات ہوئے تھے ، اُن میں تیس پینتیس احمدی شہید کئے گئے تھے.لیکن بعض ایسی حالت میں شہید ہوئے کہ اُنہیں اذیت دے دے کر شہید کیا گیا.باپ اور بیٹے کو شہید کیا گیا.باپ کے سامنے بیٹے کو اذیت دی جاتی تھی.بیٹے کے سامنے باپ کو اذیت دے کر یہ کہا جاتا تھا کہ احمدیت سے تائب ہوتے ہو یا نہیں؟ اور یہ سب کچھ صرف لوگ نہیں کر رہے تھے بلکہ وہاں کی پولیس بھی سامنے کھڑی یہ تماشا دیکھ رہی ہوتی تھی.انڈونیشیا میں سر عام پولیس کی نگرانی میں اور ریاستی کارندوں کی نگرانی میں دہشتگردی کا نشانہ بنا کر اور اذیت دے دے کر احمدیوں کو شہید کیا گیا لیکن ایمان کی حفاظت کرنے والوں اور استقامت کے پتلوں نے اپنے جسم کے روئیں روئیں پر زخم کھا لیا، ایک ایک انچ پر زخم کھا لیا لیکن ایمان کو ضائع نہیں ہونے دیا.پس چاہے پاکستان کا قانون ہو یا انڈونیشیا کا یا کسی بھی اور ملک کا یہ احمدیوں کی زندگیوں کو تو چھین سکتا ہے لیکن اُن کی وفاؤں کو نہیں چھین سکتا.اب سنا ہے ملائشیا بھی اس قانون کے ذریعے اس صف میں آ رہا ہے بلکہ آچکا ہے.انہوں نے بھی ایک نیا قانون بنایا ہے جو ظاہر ہو رہا ہے.یہ بھی آزما کر دیکھ لیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ جب خدا کی تقدیر اپنا کام شروع کرے گی تو حساب چکانا مشکل ہو جائے گا.پھر کوئی ملاں اور کوئی قانون ان کو بچانے کے لئے آگے نہیں بڑھے گا بلکہ یہ نام نہاد علماء جورحمتہ للعالمین کے نام کو بد نام کرنے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں ، مجرموں کے کٹہرے میں سب سے پہلے کھڑے کئے جائیں گے اور احمدیوں کا ایمان اور صبر اور استقامت ایک شان کے ساتھ چمک رہا ہوگا.پس احمدیوں کو اس بات کی فکر نہیں.انہیں پتہ ہے کہ انجام کار انہی کی فتح ہے.قربانیاں تو قو میں دیتی ہیں، وہ بھی دے رہے ہیں.لیکن ان قربانیوں کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے.اس لئے یہ قربانیاں جو احمدی دیتے رہے ہیں، اب بھی دے رہے ہیں اور آئندہ بھی دیتے رہیں گے یہ کوئی بلا مقصد
خطبات مسرور جلد دہم 213 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 اپریل 2012ء اور معمولی قربانیاں نہیں.جیسا کہ میں نے کہا پاکستان میں سب سے زیادہ ظلم و بربریت کی داستانیں رقم ہو رہی ہیں.حکومت کے ارباب حل و عقد چاہے کہتے رہیں، لیکن آج بھی ریاستی کارندے اپنے زیر سایہ دہشتگر دی کر رہے ہیں.ان کارندوں کی دہشتگردی آج بھی احمدیوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنارہی ہے.گزشتہ دنوں ربوہ کے پولیس اہلکاروں نے جن میں تھانہ انچارج اور اُس کے اسسٹنٹ شامل تھے اور ایک اطلاع کے مطابق اُس سے بڑے افسر بھی ، ہمارے ایک انتہائی مخلص اور فدائی احمدی کو ایک ماہ کے قریب بغیر کسی قسم کا کیس رجسٹر کئے تھانہ میں رکھا اور پھر کسی نامعلوم جگہ لے جا کر آٹھ دس دن تک شدید تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں یہ مخلص اور فدائی احمدی جن کا نام عبدالقدوس تھا، صبر و استقامت سے یہ ٹارچر اور اذیت برداشت کرتے ہوئے اپنے خدا کے حضور حاضر ہو گئے.إِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.انہوں نے تو شہادت کا یہ رتبہ پالیا.اس واقعے کی تفصیل اس طرح پر ہے کہ ربوہ کے محلہ نصرت آباد کے رہائشی ایک شخص احمد یوسف اسٹام فروش جو عدالت کے باہر سٹیمپ پیپر بیچنے والے تھے ، اُن کو چار پانچ اکتوبر کی درمیانی رات کو کسی نے باہرسہ قتل کر دیا اور پولیس نے پھر مقتول کے بیٹے کے کہنے پر ، اُس کے ایماء پر مختلف احباب کو مختلف اوقات میں شک کی بنا پر گرفتار کر کے شامل تفتیش رکھا اور بعد میں ان تمام احباب کو جن کو پکڑا گیا تھا بے گناہ کر کے چھوڑ دیا گیا.اسی سلسلے میں مقتول کا بیٹا جو مدعی تھا، اُس کی طرف سے ماسٹر عبدالقدوس صاحب شہید کا نام بھی لیا گیا جس پر پولیس نے انہیں بھی تھا نہ بلا لیا.یہ محلہ نصرت آباد کے صدر جماعت تھے.اس کے بعد مدعی نے ماسٹر عبد القدوس صاحب جیسا کہ میں نے کہا صدرمحلہ تھے، اُن کو بغیر کسی وجہ کے اس کیس میں نامزدکر دیا.پھر ڈی پی او کو تحریری درخواست دی.پولیس نے ماسٹر صاحب کو 10 فروری کو مغرب کی نماز کے وقت مسجد میں آکے گرفتار کر لیا.پکڑ کے تو لے گئی لیکن با قاعدہ جو پرچہ کاٹا جاتا ہے، گرفتاری ڈالی جاتی ہے، وہ نہیں ڈالی.رابطہ کرنے پر پولیس والوں نے یہی کہا اور مسلسل یہی کہتے رہے کہ ہم جانتے ہیں یہ بھی بے گناہ ہے.بڑے افسران سب یہی کہتے رہے کہ جلد ہی معاملہ کلیئر (clear) ہو جائے گا.بعض مجبوریاں ہیں، یہ ہے وہ ہے، اس لئے ہم نے پکڑا ہوا ہے.اسی دوران 17 مارچ کو ماسٹر عبدالقدوس صاحب کو پولیس نے تھا نہ ربوہ سے کسی نامعلوم جگہ پر منتقل کر دیا.ان کو غائب کرنے کے کوئی دس دن کے بعد 26 مارچ کو پولیس انہیں تھانہ میں واپس لے آئی اور ماسٹر صاحب کے ایک دوست کو فون کر کے کہا کہ اپنا بندہ آکے لے جاؤ.اپنے آدمی کو لے جاؤ.جس پر وہ دوست وہاں گئے تو ماسٹر صاحب نے کہا کہ مجھے یہاں سے لے
خطبات مسر در جلد دہم 214 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16اپریل 2012ء جائیں.جس پر پولیس نے اُس دوست سے ایک سادہ کاغذ پر دستخط بھی لے لئے کہ یہ میں واپس لے کر جا رہا ہوں اور ماسٹر صاحب کو اُن کے حوالے کر دیا.کیونکہ ماسٹر عبدالقدوس صاحب کی حالت ٹھیک نہیں تھی اس لئے وہ دوست اُنہیں فوری طور پر وہاں سے ہسپتال لے گئے جہاں جا کے پھر پتہ لگا کہ پولیس نے غائب کرنے کے ابتدائی دو تین دن میں ماسٹر صاحب پر بہت زیادہ تشدد کیا جس کی وجہ سے اُن کی حالت خراب ہو گئی.انہیں پاخانے میں بھی خون آتا رہا ، خون کی الٹیاں بھی آتی رہیں، اسی طرح ان کے گردوں پر بھی کافی اثر ہوا.ویسے ہوش میں تھے لیکن اندرونی طور پر انتہائی شدید چوٹیں لگی تھیں.ماسٹر صاحب نے ملاقات کے دوران بتایا کہ 17 مارچ کو رات کے اندھیرے میں انہیں کچھ پولیس اہلکار تھا نہ ربوہ سے پانچ چھ گھنٹے کی ڈرائیو کے فاصلے پر ایک نامعلوم مقام پر لے گئے اور انتہائی تشد دکیا.کچی سڑکیں ہیں ، تھوڑا فاصلہ بھی ہو تو وہاں وقت زیادہ لگتا ہے.بالکل ویران جگہ تھی.پولیس والے انہیں مار مار کے یہ کہتے رہے کہ کسی عہدیدار کا نام بتاؤ جو اس قتل میں ملوث ہے.تم بھی عہدیدار ہو.نام بتا دو تو تمہیں چھوڑ دیں گے، اُس کو پکڑ لیں گے.اور ایک کاغذ پر دستخط کروانے کی کوشش کرتے رہے.ان عہد یداروں میں بعض ناظران کے نام بھی انہوں نے لئے ، اوروں کے نام بھی.جس پر ماسٹر صاحب نے دستخط نہیں کئے.یہ جب مارتے تھے اور جب تشدد کرتے تھے تو پولیس والوں کا کہنا تھا کہ پہلی بار کوئی جماعتی عہد یدار ہاتھ لگا ہے.پہلے تو یہ چھوٹ جایا کرتے تھے.اور پھر تشدد شروع کر دیتے تھے.اس دوران میں تشدد کرتے ہوئے یہ اہلکار جو ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلفاء کے نام لے کر جماعت کے خلاف بھی شدید بدزبانی کرتے رہے.تشدد کے نتیجے میں ماسٹر عبدالقدوس صاحب کی حالت بہت خراب ہوگئی.اور جیسا کہ میں نے بتایا خون کی الٹیاں آتی رہیں.جس پر پولیس والوں نے تشدد روک دیا.انہیں کچھ دوائیاں وغیرہ دیں.جب ان کی حالت قدرے بہتر ہوئی تو پولیس انہیں پھر تھا نہ واپس لے آئی اور اُس کے دوست کے حوالے کر دیا.ماسٹر عبدالقدوس صاحب کو فضل عمر ہسپتال میں داخل کر کے آئی سی یو (ICU) میں رکھا گیا.مسلسل خون کی بوتلیں لگائی گئیں تو ان کی الٹیاں رک گئی تھیں.لیکن شہادت سے ایک روز قبل 29 مارچ کو ایک دو روز کے وقفے کے بعد دوبارہ خون کی الٹیاں آئیں اور ان کی حالت دوبارہ زیادہ بگڑ گئی.پھیپھڑے بھی متاثر ہو گئے جس کی وجہ سے 30 مارچ کو گزشتہ جمعہ کو بے ہوش ہو گئے اور اُسی حالت میں اُن کی وفات ہو گئی.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.وفات سے پہلے طاہر ہارٹ میں بھی ان کو شفٹ کیا گیا تھا.ڈائیلیس (Dialisis) کا بھی پروگرام تھا.تیاری ہورہی تھی لیکن پولیس کا جو تشد دتھا،
خطبات مسرور جلد دہم 215 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 اپریل 2012ء اُس کی اندرونی چوٹوں کی وجہ سے بہر حال یہ جانبر نہ ہو سکے اور شہادت کا رتبہ پایا.اس کی مزید تفصیل ان کے برادر نسبتی نے لکھی ہے جو انہوں نے ان کو بتایا.یہ ان کے پاس ہسپتال میں رہتے رہے تھے کہ 17 مارچ کو ربوہ کے پاس، چنیوٹ سے آگے جا کے وہاں ایک جگہ ہے جھنگڑ گلوتراں، یہ اُن کو وہاں لے گئے اور شدید ظالمانہ تشدد کیا.( لکھتے ہیں کہ ساری باتیں جو میں بتا رہا ہوں بڑے وثوق سے بتا رہا ہوں مجھے انہوں نے خود بتائی ہیں.) امجد باجوہ صاحب کے ساتھ پیدل چل کے یہ پولیس تھانہ سے باہر آئے.اس کے بعد ہم ان کو ہسپتال لے گئے تو وہاں رستے میں انہوں نے کہا کہ مجھ پر بہت تشدد ہوا ہے.بڑا خوفناک تشد د تھا.اور یہ بھی بتایا کہ تھانیدار اور جو تفتیشی افسر تھا وہ اس تشدد میں شامل تھے.چنیوٹ سے پنڈی بھٹیاں روڈ پر لے گئے.وہاں سے پھر ہرسہ شیخاں سے آگے دریا کی طرف لے گئے.دریا کے اندر سے ہی کوئی راستہ نکلتا تھا، جس طرح کہ میں نے بتا یا جھنگڑ گلوتراں، وہاں لے گئے اور وہاں لے جا کے جو پولیس چوکی تھی وہاں مجھے حوالات میں بند کر دیا اور اُس کے بعد وہاں سے کچھ دیر بعد جب میں باہر آیا تو کرسیوں پر دائرہ کی صورت میں ربوہ کا تھانیدارہ تفتیشی افسر، وہاں کا لوکل تھانیدار اور جوڈی ایس پی تھے وہ بھی کرسیوں میں بیٹھے ہوئے دائرے کی شکل میں موجود تھے ، اور اُن کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا کہ یہ تمہارا بیان ہے اس پر دستخط کر دو.جیسا کہ میں نے بتایا کہ ربوہ کی مرکزی انجمن اور صدر عمومی وغیرہ کے خلاف بیان تھا، تو انہوں نے کہا کہ یہ غلط بیانی ہے میں کیوں کروں.اُس میں یہ بیان تھا کہ جو قتل ہوا ہے اُس میں یہ یہ لوگ ملوث ہیں اور انہوں نے یہ کروایا ہے.انہوں نے کہا کہ اگر تم یہ دستخط کر دو تو ہم تمہیں چھوڑ دیں گے.کہتے ہیں میں نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ میرا بیان ہی نہیں ہے اور ایسا ہوا بھی نہیں ہے.میں کس طرح دستخط کر سکتا ہوں؟ تو پھر انہوں نے مجھے دھمکیاں دیں کہ خود دستخط کر دو تو بچ جاؤ گے، ورنہ ہم تو تم سے اُگلوالیں گے.ماسٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے دو دفعہ انکار کے بعد ساتھ کھڑے ہوئے دو ہٹے کٹے لوگوں نے مجھے گر الیا اور مارنا شروع کر دیا.اس کے بعد مسلسل مجھ پر تشدد کرتے رہے اور اپنا مطالبہ دہراتے رہے.اور تشدد کے مختلف طریقے تھے.یہ بعض لفظ انہوں نے لکھے ہوئے ہیں، رستہ لگانا، منجی لگانا یا سر یہ لگانا، رولا پھیرنا.یہ تو مختلف چیزیں ہیں.بہر حال رُولا پھیرنا جو ہے وہ لکڑی کا ایک رولا ہوتا ہے، جو بڑا سارا اور کافی وزنی ہوتا ہے، وہ لٹا کے جسم پر پھیرا جاتا ہے.اور اسی طرح رستہ باندھ دیا.پھر رسہ باندھ کر گھسیٹتے رہے.اس کے علاوہ مسلسل جگائے رکھا اور جب آنکھ بند ہونے لگتی تو مجھے حوالات سے باہر نکال کے مارنا شروع کر دیتے.وہاں ایک نامی گرامی بدمعاش تھا
خطبات مسرور جلد دہم 216 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16اپریل 2012ء اور نامی ڈاکو اور چور ہے.کہتے ہیں وہ بھی ساتھ تھا.پولیس کا ایک چھتر ہوتا ہے چمڑے کا ایک بہت لمبا سارا، اُس کو لگا کر مارتے ہیں.اُس کو اگر پانچ مارتے تھے تو ماسٹر صاحب کہتے ہیں مجھے پچیس مارتے تھے.ایک دفعہ طبیعت خراب ہوئی تو پھر ہر سہ شیخاں لے گئے جو وہاں قریب ایک گاؤں ہے، وہاں سے کچھ انجکشن لگوائے، کچھ دوائیاں دیں، پھر طبیعت سنبھلی تو پھر تشدد کرنے لگ گئے اور یہ سب تھانیدار وغیرہ بیچ میں شامل تھے.غلیظ گالیاں بھی نکالتے رہے.کہتے تھے اب لندن سے بلوا ؤ جو تمہارے بڑے ہیں، اُن کو کہو وہ تمہیں چھڑ والیں.ربوہ سے بلاؤ ، پھر بزرگوں کو غلیظ گالیاں دیتے تھے.کہتے ہیں مجھے گالیاں سُن کے بڑی تکلیف ہوتی تھی.مار تو برداشت ہو رہی تھی لیکن گالیاں سننا مشکل تھا.کھانا کبھی کبھی کبھار دیتے تھے.انہوں نے بتایا کہ ایسا تشدد اور ظلم کبھی نہ میں نے سنا اور نہ کبھی دیکھا ہے.مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں برداشت کر سکتا.میں دعائیں کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے تشدد سہنے کی ، برداشت کرنے کی ہمت دے اور اللہ تعالیٰ نے پھر اپنے فضل سے ہمت دی کہ وہ اُس کو برداشت کر سکے.صدر عمومی صاحب نے مجھے لکھا کہ میں نے اُن کو کہا کہ انہوں نے اتنا کچھ تشدد کیا ہے، کچھ تو آپ سے لکھوالیا ہوگا؟ کہتے ہیں کہ انہوں نے بڑے جذباتی انداز میں مجھے کہا کہ وہ تو مجھ سے ایک نقطہ بھی نہیں ڈلوا سکے.پس یہ ہے ایمان کو سلامت رکھنے والے اور سچائی پر قائم رہنے والے کی کہانی.اس عزم اور ہمت کے پیکر نے جان دے دی مگر جھوٹی گواہی نہیں دی.اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو بھی شرک کے برابر قرار دیا ہے.پس اس عظیم شہید نے ہمیں جہاں بہت سے سبق دیئے وہاں یہ سبق بھی دیا جو جماعت احمدیہ کے قیام کی بنیادی غرض ہے کہ تو حید کے قیام کے لئے اپنی جان کی بھی کچھ پرواہ نہیں کرنی کیونکہ جھوٹ بھی شرک کے برابر ہے اور ہمارے سے شرک نہیں ہوسکتا.شہید مرحوم نے اپنے عہد بیعت کو بھی نبھایا اور خوب نبھایا.شہید مرحوم اگر اذیت کی وجہ سے پولیس کی من پسند سٹیٹمنٹ دے دیتے جیسا کہ وہ بتاتے رہے ہیں تو اس کے نتائج جماعت کے لئے مجموعی طور پر بھی بہت خطرناک ہو سکتے تھے.جس طرح مرزا غلام قادر شہید کو آلہ کار بنانا چاہا تھا ، وہ تو ایک نام نہاد تنظیم یا دہشت گرد تنظیم نے بنایا تھا لیکن یہاں تو پولیس نے بنانا چاہا.اور کیونکہ ضلع کے جو بڑے پولیس افسران ہیں ، وہ اس ظلم سے انکار ہی کر رہے ہیں اور اپنی معصومیت ظاہر کر رہے ہیں اس لئے یہ بھی بعید نہیں کہ اُن کو بائی پاس کر کے چھوٹے افسران کے ذریعہ سے حکومتی لیول پر اوپر سے کوئی حکم آتے رہے ہوں.اعلیٰ حکام بعض دفعہ ہدایات دیتے رہتے ہیں اور جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ضیاء صاحب خود تھانیدار کو
خطبات مسرور جلد دہم 217 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16اپریل 2012ء فون کر سکتے تھے تو یہاں بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے جہاں صوبائی حکومت بھی ہمارے خلاف ہے.اب جب ان پولیس افسران کے خلاف پرچہ کی کوشش ہو رہی ہے تو حکام بالا کی طرف سے صلح صفائی کے لئے دباؤ بھی ڈالا جارہا ہے کہ صلح کر لو.گو پاکستان میں مجرم جو ہیں وہی صاحب اقتدار بھی ہیں اور انصاف کی امید بظاہر نہیں ہے لیکن قانون کے اندر رہتے ہوئے جماعت تمام ذرائع استعمال کر رہی ہے اور انشاءاللہ کرے گی.بہر حال اگر یہ کسی قسم کی تحریر جو پولیس کی پسند کی تھی اُس پر دستخط کر دیتے تو یہ بہت خطر ناک ہوسکتا تھا.قتل کے جھوٹے مقدمے میں جیسا کہ میں نے بتایا مرکزی عہدیداران کو گرفتار کرنا تھا.مرکزی دفاتر پر پابندی ہو سکتی تھی.جماعت کی تعلیم اور کوششوں کو کہ ہم امن پسند جماعت ہیں بد نام کرنے کی کوشش ہو سکتی تھی.اور بھی بہت ساری ایسی باتیں ہو سکتی تھیں جن سے جماعت کو نقصان پہنچتا.نہ صرف ملکی طور پر بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی.بہر حال انہوں نے ایک فکر کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے مخلص کے ذریعہ جو عام زندگی میں انتہائی نرم دل تھا، جس کو اس قسم کی سختیوں کا تصور بھی نہیں تھا، اس کے ذریعے سے ان کے مکر کو توڑا اور وہ ان کے جھوٹوں اور مکروں کے سامنے ایک مضبوط چٹان کی طرح کھڑا ہو گیا اور جماعت پر آنچ نہیں آنے دی.پس اے قدوس! ہم تجھے سلام کرتے ہیں کہ تو نے اپنے آپ کو انتہائی اذیت میں ڈالنا تو گوارا کر لیالیکن جماعت کی عزت پر حرف نہیں آنے دیا.تو نے اپنی جان دے کر جماعت کو ایک بہت بڑے فتنے سے بچالیا.پس ماسٹر عبدالقدوس ایک عام شہید نہیں ہیں بلکہ شہداء میں بھی ان کا بڑا مقام ہے.اس عارضی دنیا سے تو ایک دن سب نے رخصت ہونا ہے لیکن خوش قسمت ہیں ماسٹر عبدالقدوس صاحب جن کو خدا تعالیٰ نے زندہ کہا ہے.اور وہ ایسے رزق کے پانے والے بن گئے ہیں جو دنیاوی رزقوں سے بہت اعلیٰ وارفع ہے.جس جماعت اور جس مقصد کی خاطر انہوں نے قربانی دی ہے اُس کے بارے میں حقیقی خوشخبریوں کا پتہ تو انہیں اُس جہان میں جا کر چلا ہوگا.لیکن شہید مرحوم ہمیں جو سبق دے گئے ہیں ہمیں اُسے ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِیل کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے.پس جیسے بھی حالات گزر جائیں اللہ تعالیٰ کا دامن نہ چھوڑنا.یہ سبق انہوں نے دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس طرح بیان فرمایا ہے کہ دنیا والے تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اگر اللہ تعالیٰ سے تمہارا مضبوط تعلق ہے.یہ لوگ جو اپنے زعم میں احمدیوں کو گالیاں نکال کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق
خطبات مسرور جلد دہم 218 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 اپریل 2012ء نازیبا الفاظ کہہ کر ہمارے دلوں کو چھلنی کرتے ہیں، اذیتیں دے کر خوش ہوتے ہیں، ایک دن انشاء اللہ آنے والا ہے جب خدا تعالیٰ ان میں سے ایک ایک سے حساب لے گا.شہید مرحوم احمدیوں کے لئے جو پاکستان میں رہنے والے ہیں بالعموم اور اہلِ ربوہ کے لئے بالخصوص یہ پیغام بھی چھوڑ کر گئے ہیں کہ قانون کا احترام اور حکومتی کارندوں کا احترام بیشک ہر احمدی کا فرض ہے لیکن کسی بھی انسان سے چاہے وہ کتنا ہی بڑا پولیس اہلکار ہو یا افسر ہو، خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے.چاہے جو ظلم بھی وہ ہم پر روار کھے ایک احمدی کو اگر خوف ہونا چاہئے تو صرف ایک ہستی کا، اور وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے.پولیس اہلکاروں کا زور صرف قانون کا احترام کرنے والوں پر چلتا ہے.دہشت گردوں کے سامنے ، ملاں کے سامنے جس نے توڑ پھوڑ اور شدت پسندی کرنی ہے، جس نے ان کا مقابلہ کرنا ہے، جس نے ان کو آگے سے بموں سے اڑانا ہے، اُن کے سامنے تو ان کی بھکھی بندھ جاتی ہے.گزشتہ دنوں غیر از جماعت دوستوں سے، جو مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے تھے، ایک مجلس ہوئی تو ایک صاحب مجھے کہنے لگے کہ آپ کی جماعت کی ایک خصوصیت ہے کہ ہر ایک نے عہد بیعت کیا ہوا ہے.اور جو آپ انہیں کہیں وہ مانتے ہیں اور مانے کو تیار ہو جاتے ہیں ،تو پاکستان کے حالات کے بدلنے میں آپ لوگ کوئی عملی قدم کیوں نہیں اُٹھاتے.انہیں میں نے بتایا کہ سیاسی نظام کا حصہ تو ہم نہیں بن سکتے.کیونکہ قانون احمدی کو کہتا ہے کہ سیاست میں آنے کے لئے پہلے اپنے آپ کو غیر مسلم کہو، پھر جمہوری نظام کا حصہ بنوجس میں ووٹ ڈالنے کا حق ہے اور یہ ہم کبھی نہیں کریں گے، ہم کر نہیں سکتے.دوسرے سڑک پرا اپنی طاقت کا اظہار ہے یا شدت پسندی ہے، یاد بہشتگردی ہے، ہم نے یہ بھی نہیں کرنی کیونکہ ہم قانون کے پابند لوگ ہیں اور یہی ہم نے اس زمانے کے ہادی کو مان کر سیکھا ہے اور جو صحیح اسلامی تعلیم ہے اس سے بھی ہم دُور نہیں جا سکتے.پس حکومتی ادارے تو اُن کا ساتھ دیتے ہیں جو شدت پسند ہیں یا اُن سے ڈرتے ہیں جو شدت پسند ہیں، جن کی سڑک کی طاقت ہے، جو سڑکوں پر آجاتے ہیں.اسی طرح سیاستدان بھی انہی کی سنتے ہیں تبھی تو احمد یوں کو اُن کے جائز حقوق سے بھی محروم کیا جاتا ہے.میں نے اُن کو کہا کہ جہاں تک بیعت کا تعلق ہے، یہ بیعت ہی تو ہے جس کی وجہ سے خاموشی سے احمدی اپنی جان مال کی قربانیاں دیتے چلے جارہے ہیں اور کوئی قانون ہاتھ میں نہیں لیتے.لیکن بہر حال ایک وقت انشاء اللہ آئے گا جب یہی لوگ احمدیوں کی عزت اور احترام کرنے پر مجبور ہوں گے.گو آج ہمیں ظلموں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن خدا
219 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 اپریل 2012ء خطبات مسرور جلد دہم تعالیٰ کے ہاں اندھیر نہیں.ہاں شاید کچھ دیر اور مہلت اُن کو مل جائے.پس صرف خدا تعالیٰ کے آگے جھکیں ، اُس سے مدد طلب کریں اور اللہ تعالیٰ کی غالب تقدیر کا انتظار کریں.عزیزم قدوس شہید کے معاملے میں بعض پولیس افسران نے کہا تو ہے کہ ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی لیکن دوسری طرف دباؤ بھی ڈالا جا رہا ہے.اللہ کرے کہ ان کی انصاف کی آنکھ روشن ہو جائے.ابھی تو یہ کہا جاتا ہے کہ ظلم و بربریت گو حکومتی اہلکاروں نے کیا ہے لیکن یہ اُن تک محدود ہے اور جب یہ شور پڑا تو اب یہ کہنے لگ گئے ہیں کہ حکومت کا یا افسران کا اس میں کوئی دخل نہیں.لیکن اگر انصاف نہ کیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پوری حکومتی مشینری اس حکومتی دہشتگردی میں شامل تھی.اور پھر جیسا کہ میں نے کہا خدا تعالیٰ کے ہاں شاید دیر تو ہو اندھیر نہیں ہے اور یقیناً یہ لوگ اپنے عبرتناک انجام کو پہنچیں گے.جماعت کو نقصان پہنچانے کی ان کی جو حسرت و خواہش ہے، اس میں یہ بھی کامیاب نہیں ہو سکتے.جماعت انشاء اللہ تعالیٰ ترقی کرتی چلی جائے گی.احمدیت کا دوصد ممالک میں پھیل جانا انہی جانی قربانی کرنے والوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے.پس احمدیوں کو ہر قربانی کے نتیجے میں اس بات پر اور زیادہ پختہ ہونا چاہئے کہ یہ ہماری ترقی کے دن قریب کر رہی ہے.جتنی بڑی قربانی ہے اتنی زیادہ جلد اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی امید ہے.اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو یاد رکھیں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ (ال عمران: 140) اور تم کمزوری نہ دکھاؤ، نہ غم کرو.اور تم ہی بالا ہو گے اگر تم مومن ہو.پس اپنے ایمانوں کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے.پس ہر شہادت ہر قربانی ہمارے ایمان میں ترقی کا باعث بننی چاہئے اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل انشاء اللہ تعالیٰ کس طرح نازل ہوتے ہیں.صبر، ہمت اور دعا سے کام لیتے چلے جائیں.بعض لوگ مجھے لکھ دیتے ہیں کہ صبر اور دعا کے علاوہ بھی کچھ کرنا چاہئے.میں پہلے بھی بتاتا رہتا ہوں اور بتا بھی آیا ہوں اور ہمیشہ کہتا رہتا ہوں کہ صبر اور دعا ہی ہمارے ہتھیار ہیں.اس کا صحیح استعمال ہر احمدی کرے تو پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کس تیزی سے نازل ہوتے ہیں.ابھی بھی اللہ تعالیٰ ہماری کوششوں اور ہماری دعاؤں سے کہیں زیادہ بڑھ کر پھل ہمیں عطا فرمارہا ہے.پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم مغموم ہوں یا بے دل ہوں.بظاہر دشمن کے بھی خوفناک منصوبے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَحْزَنُوا غم نہ کرو.انشاء اللہ تعالیٰ دشمن کے منصوبے ہوا ہو جائیں گے.دشمن کی حسرت کبھی پوری نہیں ہوگی کہ وہ جماعت کو ختم کر سکے.ہاں ان لوگوں کے کونے آہستہ آہستہ کٹتے رہیں گے اور کٹ رہے ہیں اور ان میں
خطبات مسرور جلد دہم 220 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 اپریل 2012ء سے ہی سعید فطرت جماعت احمدیہ میں شامل ہوتے چلے جائیں گے.پس ہر قربانی ہمیں اس طرف توجہ دلاتی ہے اور دلانی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری اقلیت کو اکثریت میں بدلنے کے لئے ہم سے ایک اور چھلانگ لگوائی ہے.اور قدوس شہید جیسی قربانیاں تو سینکڑوں چھلانگیں لگوانے کا باعث بنتی ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ بنیں گی.ہمارا رد عمل نہ مایوسی ہے، نہ شدت پسندی.ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر کامل یقین ہے بلکہ ہم پورا ہوتے بھی دیکھ رہے ہیں.آپ کو اور آپ کی جماعت کو اللہ تعالیٰ نے صبر اور دعا کے ساتھ اپنا کام کرتے چلے جانے کے لئے کہا ہے اور پھر کامیابی مقدر ہونے کا وعدہ کیا ہے.پس کون ہے جو ہمارے سے ہماری اس تقدیر کو چھین سکے جس کا خدا تعالیٰ نے فیصلہ کر لیا ہے.ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ ہماری بے صبری، ہمارے ایمان کی کمزوری ہم سے اُن کامیابیوں کو دور نہ کر دیں جو مقدر ہیں.یہ بھی یادرکھیں کہ جماعت احمدیہ نے ملک کے بنانے میں بھی اور اس کی تعمیر وترقی میں بھی کردار ادا کیا ہے.اور قربانیاں بھی دی ہیں.آج بھی ملک کو احمدیوں کی دعائیں ہی بچارہی ہیں اور بچا سکتی ہیں.ہم اپنے بڑوں کی قربانیوں کو جو انہوں نے ملک کے لئے دیں ان دکھوں ،تکلیفوں اور شہادتوں کی وجہ سے ضائع نہیں کریں گے.انشاء اللہ.پس ان ظلموں کو ختم کرنے کا ایک ہی علاج ہے.اس ملک کو بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پہلے سے زیادہ خدا تعالیٰ کے حضور جھک کر اُس کا فضل مانگیں.ہم مظلوم بننے کے ساتھ اگر پہلے سے بڑھ کر تقویٰ، صبر ، تو گل ، ثبات قدم، دعا اور استغفار سے کام لیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ فتح کے نظارے جلد تر دیکھیں گے.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو اور ہم پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک سے دین کے نام پر ظلم اور ہر قسم کے ظلم کو جلد تر ختم ہوتا دیکھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : مامورین اور اُن کی جماعت کو زلزلے آتے ہیں.ہلاکت کا خوف ہوتا ہے.طرح طرح کے خطرات پیش آتے ہیں.سن بوا “ کے یہی معنے ہیں.دوسرے ان واقعات سے یہ فائدہ ہے کہ کچوں اور پکوں کا امتحان ہو جاتا ہے.کیونکہ جو کچے ہوتے ہیں ان کا قدم صرف آسودگی تک ہی ہوتا ہے.جب مصائب آئیں تو وہ الگ ہو جاتے ہیں.میرے ساتھ یہی سنت اللہ ہے کہ جب تک ابتلا نہ ہو تو کوئی نشان ظاہر نہیں ہوتا.خدا کا اپنے بندوں سے بڑا پیار یہی ہے کہ ان کو ابتلا میں ڈالے جیسے کہ وہ فرماتا ہے: وبشر الطيرين.الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ (البقرة: 157-156) یعنی ہر ایک
خطبات مسرور جلد دہم 221 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 اپریل 2012ء قسم کی مصیبت اور دکھ میں ان کا رجوع خدا تعالیٰ ہی کی طرف ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کے انعامات انہی کو ملتے ہیں جو استقامت اختیار کرتے ہیں.خوشی کے ایام اگر چہ دیکھنے کو لذیذ ہوتے ہیں مگر انجام کچھ نہیں ہوتا.رنگ رلیوں میں رہنے سے آخر خدا کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے.خدا کی محبت یہی ہے کہ ابتلا میں ڈالتا ہے اور اس سے اپنے بندے کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے.مثلاً کسری اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کا حکم نہ دیتا تو وہ معجزہ کہ وہ اسی رات مارا گیا کیسے ظاہر ہوتا.اور اگر مکہ والے لوگ آپ کو نہ نکالتے تو فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا (الفتح:2)‘ کی آواز کیسے سنائی دیتی.ہر ایک معجزہ ابتلا سے وابستہ ہے.غفلت اور عیاشی کی زندگی کو خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے.کامیابی پر کامیابی ہو تو تضرع اور ابتہال کا رشتہ تو بالکل رہتا ہی نہیں ہے.حالانکہ خدا تعالیٰ اسی کو پسند کرتا ہے.اس لیے ضرور ہے کہ دردناک حالتیں پیدا ہوں.“ ( ملفوظات جلد نمبر 3 صفحہ 586-587 ایڈ یشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) اللہ تعالیٰ ہم سب کے ایمان میں ترقی عطا فرمائے اور عطا فرما تا چلا جائے اور ہمیں فتح اور نصرت کے نظارے بھی جلد دکھائے.ان قربانیوں کو قبول فرمائے اور شہید مرحوم کے بھی درجات بلند سے بلند تر فرماتا چلا جائے.جمعہ کی نماز کے بعد میں انشاء اللہ تعالیٰ شہید کا جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا.ان کے مختصر کوائف بھی بیان کر دیتا ہوں.ان کے والد کا نام میاں مبارک احمد صاحب ہے.ان کا تعلق سیالکوٹ سے ہے.ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے پڑدادا مکرم میاں احمد یا ر صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعے ہوا جو فیروز والا ، گوجرانوالہ کے رہنے والے تھے.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی اور صحابی کہلائے.اسی طرح آپ کی پڑدادی محترمہ مہتاب بی بی صاحبہ رضی اللہ عنہا بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحابیہ تھیں.ماسٹر عبدالقدوس صاحب شہید 1968ء میں پیدا ہوئے.پیدائشی احمدی تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے.شہادت کے وقت آپ کی عمر 43 سال تھی.آپ نے ایف اے تک تعلیم حاصل کی.پھر پی ٹی سی کا کورس کیا اور ٹیچر لگ گئے.ماسٹر صاحب شہید کی شادی 1997ء میں روبینہ قدوس صاحبہ بنت مکرم ماسٹر بشارت احمد صاحب امیر پارک گوجرانوالہ سے ہوئی.جیسا کہ میں نے بتایا کہ آپ سکول ٹیچر تھے.تقریباً بیس سال کی سروس تھی.گورنمنٹ سکول ٹیچر تھے لیکن ربوہ میں ہی دارالصدر شمالی میں پڑھاتے رہے.آپ کے ساتھی اساتذہ کے مطابق آپ کا شمار نہایت محنتی اور دیانتدار اساتذہ میں ہوتا تھا.محلہ نصرت آباد میں رہائش سے قبل محلہ دارالرحمت شرقی میں رہائش پذیر
خطبات مسرور جلد دہم 222 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 اپریل 2012ء تھے.محلہ دارالرحمت شرقی میں انہیں اطفال الاحمدیہ کے دور میں مجلس کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق ملی.پانچویں کلاس میں زیر تعلیم تھے جب سے جماعتی خدمات بجالا رہے تھے.مجلس خدام الاحمدیہ میں بطور منتظم اطفال ، بعد ازاں دس سال تک زعیم حلقہ کے عہدے پر فائز رہے.1994ء میں نصرت آباد شفٹ ہوئے تو یہاں بھی فوری طور پر جماعت کے کاموں میں شامل ہو گئے اور خدمت کی توفیق پائی.محلہ نصرت آباد میں زعیم حلقہ اور مجلس صحت کے زیر انتظام شعبہ کشتی رانی کے انچارج تھے.کشتی رانی اور سوئمنگ بھی ان کو بڑی اچھی آتی تھی.اڑھائی سال قبل صدرمحلہ منتخب ہو گئے تھے.بطور صدرمحلہ بڑے احسن رنگ میں خدمات بجالا ر ہے تھے.آپ کے محلے کے احباب کے مطابق شہید مرحوم بہت زیادہ حسنِ سلوک سے پیش آنے والے اور بلند حوصلے کے مالک تھے.ان کے ساتھ اگر کوئی شخص سخت لہجے میں بھی سخت الفاظ میں بھی بولتا تو اس بات کو ہنس کر ٹال دیا کرتے تھے.عہدے داروں کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہی رویہ ہر عہدے دار کا ہونا چاہئے.آپ کو مجلس خدام الاحمدیہ کے شعبہ حفاظت مرکز میں بھی ایک لمبا عرصہ خدمت کی توفیق ملی.2002ء سے شہادت تک حفاظت مرکز کے تحت علوم ب کے انچارج رہے.تمام ڈیوٹی دہندگان اور کارکنان کے ساتھ انتہائی شفقت سے پیش آیا کرتے تھے.اگر دیر تک ڈیوٹیاں ہیں تو اُن کے کھانے پینے ، چائے وغیرہ کے انتظام کرنا اور خود جا کر پہنچانا ان کا معمول تھا، خدام ان سے بڑے خوش تھے.ماسٹر عبدالقدوس صاحب شہید نہایت اچھے اور خوش مزاج طبیعت کے مالک تھے.خدمت خلق کا جنون کی حد تک شوق تھا.دریائے چناب میں جب کبھی کوئی ڈوب جاتا تو احمدی یا غیر احمدی کا فرق کئے بغیر اُس کی لاش تلاش کرنے میں اپنے ساتھیوں کی نگرانی کرتے ہوئے دن رات محنت کرنے لگ جاتے ، اور اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے تھے جب تک کہ نعش کو تلاش نہ کر لیں.بچپن سے وفات تک مختلف جماعتی عہدوں پر کام کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.شہید مرحوم اطاعت اور فرمانبرداری کا ایک نمونہ تھے اور جماعتی عہد یداران کی عزت و احترام کا بہت زیادہ خیال رکھنے والے تھے.طالب علمی کے دور سے ہی انہیں ورزشی مقابلہ جات میں حصہ لینے کا بہت شوق تھا.کبڈی ، ہاکی، فٹ بال، کرکٹ وغیرہ کے اور کشتی رانی کے اچھے پلیئر تھے.ڈیوٹی دینے کے دوران میں نے دیکھا ہے، میرے ساتھ بھی انہوں نے ڈیوٹیاں دی ہیں کہ کبھی سامنے آکر ڈیوٹی دینے کا شوق نہیں تھا.کوئی نام ونمود نہیں تھی.بڑھ بڑھ کے آگے آنے کا بعضوں کو شوق ہوتا ہے.باوجود انچارج ہونے کے پیچھے رہتے تھے ، اور اپنے ماتحتوں کو آگے رکھتے تھے.ان کی والدہ محترمہ کی خواہش تھی کہ جامعہ میں جائیں لیکن بہر حال وہ خواہش پوری نہیں
خطبات مسرور جلد دہم 223 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 اپریل 2012ء ہو سکی.مرحوم کی اہلیہ محترمہ نے بیان کیا کہ شہید نہایت ملنسار، محبت کرنے والے، شاکر ، ہمدرد اور دعا گو انسان تھے.ہم سب کا بہت خیال رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ سخت رویہ بھی نہیں اپنایا.باوجود تکلیف اور مشکل کے عزیزوں کی خوشیوں میں شامل ہوتے تھے.شہادت سے ایک روز قبل بچوں کو صبر ، ہمت اور خلافت سے وابست سے وابستگی کی تلقین کی.اللہ کرے یہ ان کی نسلوں میں جاری رہے.بلکہ ان کی اہلیہ نے جو خط مجھے لکھا اس میں انہوں نے لکھا کہ میرے میاں اکثر مجھے یہ کہا کرتے تھے.فیر میں تینوں یاد آواں گا“ یعنی ان کو پہلے کچھ اپنے بارے میں تھا اور آخری لمحات میں بھی یہی نصیحتیں کیں کہ میری والدہ کا خیال رکھنا، بچوں کا خیال رکھنا.تو یہ اُن کو تو خیر یاد آئیں گے ہی آئیں گے لیکن قدوس شہید سے ہمیں بھی یہ وعدہ کرنا چاہئے اور اہلِ ربوہ کو بھی کہ ہم احسان فراموش نہیں ہیں.یقیناً انہوں نے جماعت پر بہت زیادہ احسان کیا ہے اور محسنوں کو جماعت کبھی بھلایا نہیں کرتی.ہمیں بھی وہ انشاء اللہ ہمیشہ یادر ہیں گے.فون پر میری ان کی والدہ سے بھی اور بچوں سے بھی بات ہوئی تھی ، والدہ بوڑھی لیکن بڑی پرعزم ہیں.اور کوئی غم نہیں تھا.بچے ماشاء اللہ اپنے غم کی بجائے میرا حال پوچھ رہے تھے.اسی طرح اہلیہ سے بات ہوئی.وہ بھی بڑی صابر وشاکر تھیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر کی توفیق عطا فرمائے اور خود ان کا حافظ و ناصر ہو.والدین بوڑھے ہیں.ان کے والد تو یہاں بالینڈ میں ہی رہتے ہیں لیکن والدہ وہاں، ان کے ساتھ ، قدوس کے ساتھ ہی رہتی تھیں.اسی طرح ان کی اہلیہ ہیں جیسے میں نے بتایا.اس کے علاوہ ایک بیٹا عبد السلام چودہ سال کا ہے جو آٹھویں کلاس کا طالبعلم ہے.عبدالباسط تیرہ سال کا ساتویں کلاس میں ہے، عبدالوہاب پانچ سال کا پہلی کلاس میں اور ایک بیٹی عطیہ القدوس ہے دس سال کی جو چوتھی میں ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب بچوں کا بھی حافظ و ناصر ہو.ابھی نماز جمعہ کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ ان کی نماز جنازہ غائب پڑھاؤں گا.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 27 اپریل تا 3 مئی 2012 جلد 19 شماره 17 صفحہ 5 تا 9)
خطبات مسرور جلد دہم 224 15 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 اپریل 2012ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت مرز اسرود احمد خلیفہ امسح الامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 13 اپریل 2012 ء بمطابق 13 شہادت 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح.مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ” جب تک استقامت نہ ہو بیعت بھی نا تمام ہے.انسان جب خدا تعالیٰ کی طرف قدم اُٹھاتا ہے تو راستہ میں بہت سی بلاؤں اور طوفانوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے.جب تک اُن میں سے انسان گزر نہ لے منزل مقصود کو پہنچ نہیں سکتا.فرمایا کہ ”امن کی حالت میں استقامت کا پتہ نہیں لگ سکتا کیونکہ امن اور آرام کے وقت تو ہر ایک شخص خوش رہتا ہے اور دوست بنے کو تیار ہے.مستقیم وہ ہے کہ سب بلاؤں کو برداشت کرے.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 515 ایڈ یشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ نے ایک جگہ یہ تلقین فرماتے ہوئے کہ استقامت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے فرمایا کہ : ” درود شریف جو حصول استقامت کا ایک زبر دست ذریعہ ہے بکثرت پڑھو.مگر نہ رسم اور عادت کے طور پر بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اور احسان کو مد نظر رکھ کر اور آپ کے مدارج اور مراتب کی ترقی کے لیے اور آپ کی کامیابیوں کے واسطے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قبولیت دعا کا شیریں اور لذیذ پھل ٹم کو ملے گا“.( ملفوظات جلد 3 صفحہ 38 ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) پھر ایک موقع پر اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: ” دل کی استقامت کے لئے بہت استغفار پڑھتے رہیں.66 ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 183 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کی کچھ روایات جن میں اُن کے
خطبات مسرور جلد دہم 225 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 اپریل 2012ء صبر و استقامت پر روشنی پڑتی ہے اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا اُن کے ساتھ کیا پیار کا سلوک ہوتا تھا؟ کس طرح اُن کی دعا ئیں بھی قبول ہوتی تھیں؟ اُس کے بارے میں بیان کروں گا.حضرت نور محمد صاحب روایت کرتے ہیں کہ 7 جنوری 1906ء کو میں مع عیال خود بلوچستان چلا گیا.( بلوچستان میں تھے ) وہاں پہنچ کر جب میرے استاد مولوی محمد صاحب امام مسجد اہلحدیث نے سنا تو مجھ کو طلب کیا.( یعنی قادیان آئے تھے وہاں سے بیعت کر کے واپس گئے ) اور کہا کہ مرزا صاحب کتابوں میں تو اچھا لکھتے ہیں مگر در پردہ تلقین کچھ اور کرتے ہیں.(یعنی لکھتے کچھ اور ہیں اور کہتے اپنے مریدوں کو کچھ اور ہیں.کہتے ہیں چنانچہ حضرت اقدس کے حضور خط لکھ کے عرض کیا گیا تو حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے قلم سے جواب ملا کہ ہماری تلقین دین کو دنیا پر مقدم کرنا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور فعل پر کمی یا زیادتی کرنے والا لعنتی ہے.یہ جواب جب مولوی صاحب کو دکھایا گیا تو اس نے اور تو کچھ نہ کہا صرف یہ کہا کہ سناؤ تم کو بھی الہام ہوا ہے یا نہیں.( یعنی مذاق اڑانا شروع کیا) تو میں نے کہا کہ ہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اخبار میں یہ پڑھ کر کہ لوگوں کو ہمارے متعلق خدا سے پوچھنا چاہئے ، تو میں نے دعا کی تھی اور مجھے الہام ہوا تھا کہ ” صادق ہے، قبول کر لو.اس کے بعد کہتے ہیں میں جدھر جاتا ، بازار میں چلتا، بلکہ دفتر کے اندر باہر مجھے چڑانے کے لئے لوگ آوازیں کستے اور مجھے چھیڑنے کے لئے کہ میں مسیح موعود کی بیعت کر کے آیا ہوں تو چپڑاسی کو کوئی افسر کہ رہا ہے کہ حقہ موعود لے کر آؤ ، بلی موعود کو مارو، کا غذ موعود لاؤ.اس قسم کی بیہودہ قسم کی باتیں شروع کر دیں، وغیرہ وغیرہ.تو کہتے ہیں کہ میری اُس وقت کی دعائیں یہ ہوتی تھیں کہ اے مولیٰ کریم ! حضرت مسیح موعود کے طفیل میری فلانی دعا قبول فرما.اور ہر اتوار کو حضرت اقدس کے حضور عریضہ لکھ دیا کرتا.چنانچہ ایک دعا میری یہ تھی کہ بطفیل حضرت صاحب کوئٹہ سے ترقی پر میری تبدیلی فرما کیونکہ میرا افسر خان بہادر محمد جلال الدین سی آئی ای پولیٹیکل ایڈ وائز رقلات تھا اور وہ بھی احمدیت کا سخت مخالف تھا تو میں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کے دفتر سے تبدیل فرما دے اور تبدیلی بھی ترقی کے ساتھ ہو.کہتے ہیں تین روز نہیں گزرے تھے کہ میں مستوفی صاحب لا ڑی کا سرشتہ دار ہو کر تبدیل ہو گیا.وہاں پہنچتے ہی جب میں نے دیکھا کہ میں تنہا ہوں تو حضرت صاحب کے حضور روزانہ دعا کے لئے ایک کارڈ لکھنا شروع کیا.پھر خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے اُس کے نتیجے میں وہاں بارہ آدمی ایک سال کے اندر اندر احمدی بنائے اور اس کثرت سے مجھ پر الہامات کا دروازہ کھلا کہ کوئی رات نہ جاتی تھی کہ کوئی نہ کوئی الہام نہ ہوتا ہو.
خطبات مسرور جلد دہم 226 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 اپریل 2012ء روایت کے رجسٹر میں یہاں لکھنے والے نے کچھ آگے پیچھے لکھا ہوا ہے بہر حال پھر آگے روایت یہ چلتی ہے کہ شادی خان نامی ایک قصاب تھا جو احمدی ہو گیا اور وہاں ایک میاں گل صاحب بھی تھے جو بلوچوں کے سردار تھے اور اُن کو بھی جب پتہ لگا کہ شادی خان احمدی ہو گیا ہے تو انہوں نے اپنے لوگوں کو کہا کہ شادی خان کا گوشت جو قصائی کی دکان سے خریدتے تھے وہ پھینک دو اور یہ احمدی ہے اس کو مارو.چنانچہ وحشی مسلمانوں نے ایسا ہی کیا.اُس کے سر سے خون بہہ رہا تھا اور مقدمہ ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر سبی بلوچستان کے حضور دادرسی کی درخواست دی گئی تو مقدمہ دائر کرنے کے بعد کہتے ہیں مجھ کو الہام ہوا کہ شادی خان کا مکان بچایا جاوے گا.میں نے سب دوستوں کو اس سے اطلاع دی کہ سب مع بال بچوں کے جو تعداد میں چھتیں گس تھے سب شادی خان کے مکان میں چلے جاؤ.چنانچہ سب چلے گئے.نتیجہ کا انتظار تھا کہ شادی خان نے آدھی رات کے وقت کہا.شادی خان صاحب نے بھی خواب دیکھی کہ میں ایک بڑے دربار میں طلب کیا گیا.وہاں ایک شخص بڑی شان و شوکت سے خیمہ لگائے تخت پر بیٹھا ہے.اُس کے گرد اس اُمت کے اولیاء بیٹھے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دروازے پر کھڑے میرا انتظار کر رہے ہیں.میں نے جب پوچھا تو اس وقت میرے سر سے خون بہہ رہا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک ہاتھ میری ٹھوڑی پر رکھا اور دوسرے سے سر کو پکڑ کر اُس تخت کے پاس لے گئے ( یہ خواب اپنی بتارہے ہیں ) اور عرض کی کہ جب میرے مریدوں کا یہ حال ہو تو میں کیا کروں؟ تخت والے نے آواز دی کہ کوئی ہے.ایک بڑا جرنیل کہ تمغے اُس کے لگے ہوئے تھے حاضر ہوا.اُس کو حکم ہوا کہ شادی خان کے ساتھ جاؤ.چنانچہ میں آگے ہوا.میرے پیچھے جرنیل اور اُس کے پیچھے فوج ہے اس شہر میں داخل ہو گئی.( یہ انہوں نے خواب دیکھی ) اس کے بعد انہوں نے کہا اب میں مقدمہ نہیں کرنا چاہتا.میرا بدلہ خود خدا لے گا.چنانچہ اس کے بعد پانی کا ایک طوفانِ عظیم آیا اور شہر کے بیرونی حصے کو غرق کر دیا صرف شادی خان کا مکان بچ گیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 5 صفحه 77 تا 79) حضرت جان محمد صاحب ولد عبدالغفار صاحب ڈسکوی فرماتے ہیں کہ 1903ء میں ہم احمدیوں کی سخت مخالفت ہوئی اور خاص کر میری کیونکہ میں ڈسکہ میں پہلا احمدی تھا اور مجھے زیادہ تکلیف دیتے تھے.سقہ اور خاکروب کو بھی روکا گیا.یعنی پانی ڈالنے والے کو اور صفائی کرنے والے کو روکا گیا.سقہ نے یہ کہہ کر کہ مجھے تحصیلدار صاحب کہتے ہیں کہ مولوی صاحب کو پانی دیا کرو، ان کو کہا کہ اگر تم نے مجھے روکا تو میں تحصیلدار صاحب سے کہوں گا کیونکہ مجھے اُن کا حکم ہے کہ ان کا پانی نہیں روکنا.خیر اس سے تو وہ
خطبات مسرور جلد دہم 227 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 اپریل 2012ء رک گئے.اور خاکروب کو جب کہا ( خاکروب وہاں ہمارے پاکستان میں عموماً عیسائی یا ایسی cast کے ہوتے ہیں جس کو عموماً لوگ پسند نہیں کرتے ، حالانکہ کسی قسم کا کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہئے ) تو بہر حال کہتے ہیں اُس نے یہ کہا کہ نہ مولوی صاحب تمہارے ساتھ کھاتے ہیں نہ تم لوگ.( یعنی کھانا تو ا کٹھے تم لوگ کھاتے نہیں.نہ وہ تمہارے ساتھ کھا ئیں نہ تم کھاؤ) پھر انہوں نے اس میں یہ شرط رکھی کہ اگر تم ہمارے ساتھ کھا لو تو پھر مولوی صاحب کو چھوڑ دیں گے.وہ شرمندہ ہوئے لیکن مخالفت کرتے رہے.خاکسار نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت بابرکت میں لکھا کہ لوگ میرا پانی بند کرتے ہیں اور مسجدوں میں نماز پڑھنے سے روکتے ہیں.اگر مولوی فیروز دین اور چوہدری نصر اللہ خان صاحب پلیڈر احمدی ہو جائیں تو جماعت میں ترقی ہو جائے گی.حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے جواباً لکھا کہ آپ یہ خیال مت کریں کہ فلاں احمدی ہو جائے گا تو جماعت بڑھے گی.آپ صبر کریں اور نمازوں میں دعائیں کریں.یہ سلسلہ آسمانی ہے انشاء اللہ بڑھے گا اور زمین کے کناروں تک پہنچے گا اور سب سعید روحیں اس میں داخل ہوں گی.مسجد میں احمدیوں کی ہوں گی ، آپ گھبرا میں نہیں“.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحه 41) اور اللہ کے فضل سے جماعت وہاں پھیلی بھی.پس یہ مسجد میں احمدیوں ہی کی ہونی ہیں جتنی چاہے پابندیاں لگاتے رہیں یا وہاں آپ کی مخالفتیں کرتے رہیں.حضرت عبداللہ صاحب ولد اللہ بخش صاحب فرماتے ہیں کہ حضور انور کا وصال ہو گیا.میں وہیں موجود تھا.غیر احمدی وغیرہ مخالفین بطور تما شا بلڈنگ کے باہر تماشا دیکھ رہے تھے.ہم باہر دروازہ پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک دوست کی چیخیں نکلنے لگیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ میرا ایمان جیسا کہ پہلے تھا اب بھی ویسا ہی ہے.حضرت مرزا صاحب اپنا کام کر کے چلے گئے.یہ استقلال دکھانے کا موقع ہے نہ کہ رونے کا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 148) پھر ایک روایت ہے حضرت خیر دین صاحب ولد مستقیم صاحب کی.فرماتے ہیں کہ میرے استاد صاحب جن کا نام مولوی اللہ دیتا صاحب تھا وہ مولوی محمد حسین بٹالوی کے معتقد تھے.جس زمانے میں مولوی محمد حسین بٹالوی نے رسالہ اشاعۃ السنتہ لکھا تو انہوں نے وہ رسالہ پڑھا.پوچھا کہ وہ کون شخص ہیں جن کی آپ نے یہ تعریف لکھی ہے.کہاں رہتے ہیں؟ میرا دل چاہتا ہے کہ ان کی زیارت کروں.چنانچہ وہ جناب حضرت اقدس کی زیارت کے لئے قادیان آئے.جب وہ آئے تو حضور لیٹے ہوئے تھے.انہوں نے آکر
خطبات مسرور جلد دہم 228 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 اپریل 2012ء حضور کود با نا شروع کر دیا.دباتے دباتے حضرت اقدس کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھا تو عرض کی کہ حضور جو حدیثوں میں امام مہدی کا حلیہ بیان ہوا ہے وہ آپ پر چسپاں ہوتا ہے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیعت لینے سے پہلے کا واقعہ ہے.حضور مسکرا کر خاموش رہے.پھر مولوی اللہ دیتا صاحب کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ حضور ! میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کی بیعت کرلوں.حضور نے فرمایا مجھے ابھی حکم نہیں.معلوم ہوا کہ حضور نے جو کچھ بنا تھا، بن چکے تھے، صرف حکم کی انتظار تھی.کہتے ہیں میرے استاد صاحب حضرت اقدس کی محبت سے بھر گئے اور اپنے گاؤں واپس چلے گئے.جب حضور نے بیعت کا اشتہار دیا ، اُسی وقت انہوں نے بیعت کر لی.میں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کے ساتھ کوئی مخالفت نہیں کی اور اُن کے ساتھ ہی رہا.لوگوں نے انہیں بہت دکھ دیا تھا اور تکلیفیں پہنچائی تھیں.میں خوش اعتقاد تو رہا مگر صرف سستی سے 1906ء کا وقت آ گیا.1906ء میں خدا تعالیٰ کے فضل سے میں نے آکر دستی بیعت کی.ظہر کی اذان ہو چکی تھی.حضور مسجد مبارک کے محراب میں رونق افروز ہو گئے اور فرمایا کہ کوئی بیعت کرنے والا ہے تو بیعت کر لے.میں وضو کر کے نماز کے لئے آرہا تھا.جب سیڑھیوں کے قریب آیا تو کسی شخص نے آواز دی کہ حضور فرماتے ہیں جس نے بیعت کرنی ہو جلدی سے آکر کر لے.چنانچہ خاکسار نے فوراً خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کر لی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 153-154) پھر حضرت قاضی محمد یوسف صاحب فرماتے ہیں: ” قریباً ستائیس برس ملازمت سرکار کی کی اور پندرہ روپے ماہوار سے دوسو روپے ماہوار تک تنخواہ ملی بلکہ زیادہ بھی.ہر مشکل اور تکلیف میں جہاں کوئی دوست کام نہ آسکا وہاں صرف اللہ تعالیٰ ہی کام آتارہا اور میرے سب کام اُس کے فضل وکرم سے ہوئے.بڑے بڑے ابتلا آئے اور آسانی سے گزر گئے.بیگانوں نے تو کرنا ہی تھا خودا پنوں نے میرے ساتھ سالہا سال برادران یوسف کا سا سلوک روا رکھا.مگر خدا تعالیٰ نے ہر معاند و حاسد کو اُس کے حسد وعناد میں نا کام رکھا.خدا تعالیٰ نے ہمیشہ میری دعائیں سنیں.اللہ ہی کے حق میں میرا خیر مدنظر تھا.“ کہتے ہیں کہ اہل لاہور نے توہینِ رسول کا ایک بہتان میرے ذمہ باندھا اور احرار سرحد نے میرے قتل کے واسطے ایک بے گناہ شخص کو میرے سر بازار قتل پر آمادہ کیا.خدا تعالیٰ نے میری بریت کے واسطے پستول میں گولی ٹیڑھی کر دی اور پستول چل نہ سکا.قاتل کو ارباب محمد نجیب خان صاحب احمدی نے گرفتار کیا اور حوالہ پولیس ہوا اور گورنمنٹ سرحد نے اُس کو نو سال کے واسطے جیل میں بند کر دیا.دشمن ناکام ہوئے.خدا ہمارے ساتھ تھا اور اب بھی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام پورا ہوا کہ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ، آگ
خطبات مسرور جلد دہم 66 229 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 اپریل 2012ء ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.“ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 199-200) پھر حضرت میاں نظام الدین صاحب ٹیلر ماسٹر فرماتے ہیں کہ 1902 ء مارچ میں ہم جہلم سے انجمن حمایت اسلام کا جلسہ دیکھنے کے لئے لاہور آئے.ہم تین آدمی تھے.جلسہ گاہ کے باہر ایک مولوی کو دیکھا.وہ قرآنِ مجید ہاتھ میں لے کر کھڑا تھا اور کہتا تھا کہ میں قرآن اُٹھا کر کہتا ہوں کہ مرز انعوذ باللہ کو ہڑا ہو گیا ہے.“ ( یعنی اُن کو کوڑھ ہو گیا ہے ).وہ نبیوں کی ہتک کرتا تھا اور ساتھ ساتھ ایک چھوٹا سا اشتہار بھی بانٹ رہا تھا جس کا یہی مضمون تھا.میں نے اس سے اشتہار بھی لیا اور ساتھیوں سے کہا کہ چلو قادیان چل کر مرزا صاحب کی حالت دیکھ آویں تا کہ چشم دید واقعہ ہو جائے.ہم تینوں قادیان آئے تو مغرب کی نماز میں حضرت صاحب کو دیکھا تو وہ بالکل تندرست تھے.میرے ساتھی اور میں حیران ہوئے کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ ہمارے مولوی نے جھوٹ بولا ہے یا یہ آدمی جو ہمیں بتایا گیا ہے، مرزا صاحب نہیں کوئی اور ہے؟ رات گزر گئی.صبح ہم نے مولوی صاحب ( یعنی حضرت خلیفہ اول) سے جا کر دریافت کیا تو آپ نے فرمایا ” یہی مرزا ہے جس کو تم نے دیکھا ہے اور اشتہار بھی حضرت خلیفہ اول نے اپنی جیب سے نکال کر ہم کو دکھلایا کہ یہ ہمارے پاس بھی پہنچا ہے.اب تم جس کو چاہو سچا کہہ سکتے ہو، خواہ اپنے مولوی کو جس نے اتنا بڑا جھوٹ بولا ہے، قرآن اُٹھا کر یہ اعلان کر رہا ہے کہ مرزا کوڑھی ہو گیا خواہ مرزا کو جو تمہارے سامنے تندرست نظر آ رہا ہے.ظہر کی نماز کے وقت جب حضرت صاحب نماز کے لئے تشریف لائے تو میں نے حضور کو سارا حال بیان کیا تو حضور نے ہنس کر فرمایا کہ میری مخالفت میں مولوی لوگ جھوٹ کو جائز سمجھتے ہیں.حدیثوں میں ایسا لکھا تھا کہ مسیح موعود کے وقت علماء بدترین خلائق ہوں گے.مجھ کو حضور کی باتیں سن کر راحت ہوئی اور میں نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ میں تو بیعت کرتا ہوں اور یہ میرے ساتھی بھی اتنا جھوٹ دیکھ کر ہرگز برداشت نہیں کر سکتے.آپ ہمیں اسی وقت بیعت میں داخل فرما کر ممنون فرماویں.حضور نے فرمایا کہ اتنی جلد بیعت کرنا ٹھیک نہیں.ابھی تم نے ہماری باتیں نہیں سنیں.کچھ دن صحبت میں رہیں.باتیں سنیں.پھر اگر پورا یقین ہو تو بیعت کر لیں.ایسا نہ ہو کہ آپ لوگ بیعت کر جائیں اور مولوی لوگوں کے اعتراض سن کر پھر جائیں تو گنہگار ہوں گے.(اگر بیعت کر لی اور پھر اگر پھر گئے تو تم بہت زیادہ گنہ گار ہو گے ) اس لئے پہلے کم از کم ایک ہفتہ ضرور ہماری صحبت میں رہیں.ہم خاموش ہو گئے ، وہاں رہے.حضور نماز سے فارغ ہو کر اندر چلے گئے.اور پھر کچھ عرصہ بعد کہتے ہیں کہ میں چونکہ درزی تھا.کسی کے پاس بارہ روپے ماہوار پر ملازم تھا.اُس نے مجھے میرے احمدی ہونے کی وجہ سے مجھ کو جواب دے
خطبات مسرور جلد دہم 230 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 اپریل 2012ء دیا،نوکری سے فارغ کر دیا.اپنے اور بیگانے سب دشمن ہو گئے.ایک شخص جو ہمارا ساتھی تھا، وہ حلوائی کا کام کرتا تھا، سب مسلمانوں نے اتفاق کر لیا کہ اس کی دکان کا سودا کھانا حرام ہے.( آج بھی پاکستان میں بعض احمدی دکانداروں کے ساتھ یہی ہو رہا ہے اور تو اور لاہور ہائی کورٹ بار کے وکلاء نے ایک ریزولیوشن پاس کیا ہے کہ شیزان کیونکہ احمدیوں کا ہے اس کو پینا حرام ہے ).بہر حال دوکان کا سودا اُس نے کہا حرام ہے.اس سے مٹھائی نہیں کھانی.آٹھ دن تک برابر وہ بائیکاٹ کی تکلیف برداشت کرتا رہا، مگر آٹھویں روز اُس سے برداشت نہ ہوا اور اس نے بیعت چھوڑ دی اور مرتد ہو گیا.کہتے ہیں اب ہم دورہ گئے.ہم دونوں درزی تھے.ہم سب کچھ برداشت کرتے رہے.کہتے ہیں مجھے یاد ہے کہ ان دنوں مجھے کئی کئی دن فاقے کرنے پڑے.کئی دن کے بعد میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور حالات بیان کئے.حضور نے نہایت تسلی بخش الفاظ میں فرمایا اگر آپ نے استقلال دکھلایا تو اللہ تعالیٰ بہت جلد یہ دن آپ سے دور کر دے گا اور اچھے دن لے آئے گا.تو کہتے ہیں کہ پھر ایک سال تک بڑی مشکلات میں گزرتے رہے.پورا سال انہی مشکلات میں گزر گیا.روزی کی تکلیف کی وجہ سے کوئی کام نہیں تھا.اس تکلیف کی وجہ سے میں چند ماہ کے بعد پھر قادیان آیا اور حضور کی خدمت میں رو پڑا اور اپنی تکلیف بیان کی اور عرض کیا کہ حضور! اجازت دیں تو افریقہ چلا جاؤں.شاید اللہ تعالیٰ رحم فرمادے.اس پر حضور نے اول تو فرمایا کہ اس راستے میں مومن کو ابتلا آتے ہیں اور بعض دفعہ وہ سخت بھی ہوتے ہیں.میں ڈرتا ہوں تم وہاں جا کر کسی سخت ابتلاء میں نہ پڑ جاؤ.پھر میرے اصرار پر فرمایا.کل بتلاؤں گا دعا کرنے کے بعد.چنانچہ دوسرے روز شاید ظہر کی نماز کے وقت فرمایا.توکل الہی پر چلے جاؤ (افریقہ چلے جاؤ).مگر خیال رکھنا کہ سلسلہ کی خبر جہاں تک ہو سکے لوگوں کو پہنچاتے رہنا.( جہاں بھی جاؤ تبلیغ کا کام نہیں چھوڑنا.میں چونکہ ان پڑھ ہوں مگر سلسلہ کے عشق میں مجھ کو اس قدر تبلیغ کا شوق تھا کہ ہر وقت ، ہر آن تبلیغ کا خیال رہتا تھا.(وہاں بھی پھر تبلیغ کرتے رہے.) (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 410 تا418) پھر حضرت غلام محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے لاہور کے سفر کا حال بیان کرتے ہیں.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لاہور میں تشریف لائے تھے تو ان دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا لیکچر ہورہا تھا.لیکچر لاہور ہوتا تھا.اشتہارات چسپاں کئے جاتے تھے.چوہدری اللہ دتا صاحب مرحوم جو نمبر دار تھے موضع میانوالی خانہ والی تحصیل نارووال کے ، وہ لٹی کی دیچی سر پر اٹھائے ہوئے شہر میں ہر جگہ اشتہار چسپاں کرتے تھے اور اس کو دیکھ کر مخالفین نے اُن کو کئی دفعہ مارا پیٹا ، زدوکوب کیا.
خطبات مسرور جلد دہم 231 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 اپریل 2012ء چوہدری صاحب مرحوم اشتہار چسپاں کرتے تھے.مخالفین اُس کو پھاڑ دیتے تھے.گالیاں نکالتے تھے.کہتے ہیں کہ اُن دنوں کا واقعہ ہے.جن مکانات میں حضور علیہ السلام قیام فرما تھے اس کے پاس گول سڑک پر درخت لگے ہوتے تھے ٹاہلیوں کے شیشم کے.ایک مولوی مخالف جسے مولوی ٹاہلی کے نام سے پکارتے تھے ،صرف پاجامہ ہی اُس نے پہنا ہوا تھا ، نہ گلے میں اور نہ سر پر کوئی کپڑا ہوتا تھا.بدحواس گالیاں دیتا رہتا تھا اور درختوں پر چڑھ کر یہ بیہودہ بکواس کرتا رہتا تھا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 3 صفحہ 171) پھر حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی کی روایت ہے.وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے.وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں قادیان پہنچا.وہاں پہنچ کر اپنے مقدمات کا ذکر کیا کہ مخالفین نے جھوٹے مقدمات کر کے اور جھوٹیاں قسمیں کھا کھا کر میرا مکان چھین لیا ہے.حضور نے فرمایا کہ حافظ صاحب ! لوگ لڑکوں کی شادی اور ختنہ پر مکان برباد کر دیتے ہیں.آپ کا مکان اگر خدا کے لئے گیا ہے تو جانے دیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اور اس سے بہتر دے دے گا.“ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قسم ! یہ پاک الفاظ سنتے ہی میرے دل سے وہ خیال ہی جاتارہا بلکہ میرے دل میں وہ زلیخا کا شعر یاد آیا جمادے چند دادم جان خریدم بحمد الله عجب ارزان خریدم یہ مشہور ہے کہ زلیخا نے مصر کے خزانے دے کر یوسف علیہ السلام کو خریدا تھا.اُس وقت کہا تھا کہ چند پتھر دیئے ہیں اور جان خرید لی ہے، اللہ کا شکر ہے کہ بہت ہی سستا سودا خریدا ہے.کہتے ہیں میں بھی اللہ کا شکر کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اس مقدس بستی قادیان میں جگہ دی اور نتیجہ یہ ہوا کہ وہیں آگئے اور مکان اُس سے کئی درجہ بہتر دیا.بیوی بھی دی اور اولاد بھی دی.کہتے ہیں اسی ضمن میں ایک اور بات بھی یاد آئی ہے.لکھ دیتا ہوں کہ شاید کوئی سعید الفطرت فائدہ اُٹھائے.وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد ایک دن مسجد مبارک میں خواجہ کمال الدین صاحب نے کہا کہ مدرسہ احمدیہ میں جولوگ پڑھتے ہیں وہ ملاں بنیں گے، وہ کیا کر سکتے ہیں.تبلیغ کرنا ہمارا کام ہے.مدرسہ احمد یہ اُٹھا دینا چاہئے، ختم کر دینا چاہئے.اُس وقت حضرت محمود اولوالعزم ( یعنی حضرت مرزا محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی " بیٹھے تھے ) وہ کھڑے ہو گئے اور اپنی اس اولوالعزمی کا اظہار فرمایا اس سکول کو یعنی مدرسہ احمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قائم فرمایا ہے یہ جاری رہے گا اور انشاء اللہ اس میں علماء پیدا ہوں گے اور تبلیغ حق کریں گے.یہ سنتے ہی خواجہ صاحب تو مبہوت ہو گئے اور میں اُس وقت یہ خیال کرتا تھا کہ خواجہ صاحب کو یقین ہو گیا ہے کہ ہم اپنے مطلب میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے اور دیکھنے والے اب جانتے ہیں کہ اسی سکول کے
خطبات مسرور جلد دہم 232 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 اپریل 2012ء تعلیم یافتہ فضلاء دنیا میں تبلیغ احمدیت کر رہے ہیں.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 4 صفحہ 132-133) حضرت شیخ عبدالوہاب صاحب نو مسلم کے بارے میں حبیب احمد صاحب تحریر کرتے ہیں.حضرت شیخ صاحب دینی معاملے میں بڑے غیور واقع ہوئے ہیں.وہ السن بالسن پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.مقابلہ کی خاص سپرٹ (spirit) خدا تعالیٰ نے اُن میں رکھ دی ہے.مخالفین کے مقابلہ پر سینہ تان کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور بڑی دلیری سے مقابلہ کرتے ہیں.ہاں جب کوئی گالیاں دینے لگ جاتا ہے تو خاموش ہو جاتے ہیں اور حضرت مسیح موعود کے اس حکم پر عمل کرتے ہیں.گالیاں سن کر دعا دو پا کے دکھ آرام دو (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحه 266) حضرت میاں محمد ظہور الدین صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت اقدس ہماری بیعت لے کر اندر تشریف لے گئے جب وہ بیعت کرنے آئے تھے.ہم پہلی مرتبہ قادیان صرف ایک ہی دن ٹھہرے کیونکہ برادرم منشی عبد الغفور صاحب کی وجہ سے جلدی آنا پڑا کیونکہ وہ ڈرتے ڈرتے ہی گئے تھے کہ لوگوں کو پتہ نہ لگ جائے اُن کے گاؤں میں کہ قادیان گئے ہیں.کہتے ہیں لیکن بفضل خدا مجھے کسی کا ڈر نہ تھا.چاہے کتنے دن اور رہ کر آتا.اب جبکہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پہلی ملاقات کا وقت یاد آتا ہے تو بے حد رنج وافسوس ہوتا ہے کہ میں کیوں جلدی چلا آیا...جب لوگوں کو میرے احمدی ہونے کا پورا یقین ہو گیا تو مجھے بھی تکلیفیں پہنچے لگیں اور میرا پانی بند کر دیا گیا اور دوکانداروں سے لین دین بند کر دیا گیا اور بھنگی کوبھی منع کر دیا گیا یہاں تک کہ ہمیں دو دو تین تین دن کے فاقے ہونے لگے لیکن خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ مجھے اُس نے ثابت قدم رکھا.الحمد لله على ذالك (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 362) پھر حضرت میاں غلام محمد صاحب آرائیں بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میرے والد صاحب نے جبکہ میں بھی ایک مجلس میں اُن کے ساتھ بیٹھا تھا اور یہ بات آج سے ( جب انہوں نے یہ لکھوایا ہے، تحریر دی ہے) قریباً ساٹھ سال قبل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ عنوانات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام مہدی پیدا ہو چکا ہے یا ہونے والا ہے.جب بھی وہ ظاہر ہو تو فوراً اُن کو قبول کر لینا.کیونکہ انکار کا نتیجہ دنیا میں تباہی و بربادی ہوتی ہے.اور آخرت میں بھی اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا.تمام حاضرین کو بار بار
خطبات مسرور جلد دہم 233 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 اپریل 2012ء یہ نصیحت کی اور یہ بھی کہا کہ اگر مجھے وہ وقت ملا تو میں سب سے پہلے اُن پر ایمان لاؤں گا.مگر خدا کی مصلحت کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی کرنے سے پہلے ہی وفات پا گئے.اُس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوی کیا اور میرے بھانجے رحمت علی نے بیعت کی تو میں نے اُس کی سخت مخالفت کی اور کہا کہ وہ تو سیدوں کے گھرانوں میں سے ہو گا.جو نشانیاں عام زبان زدِخلائق تھیں، بتا ئیں اور کہا کہ تو تو مرزے کی بیعت کر آیا ہے.اس پر اُس نے مجھے کہا کہ اگر اس وقت آپ نے بیعت نہ کی تو بعد میں پچھتاؤ گے.ایک دفعہ جا کر انہیں دیکھو تو.اُن کے بار بار کہنے پر میں قادیان اس خیال سے گیا کہ ہو سکتا ہے یہ بچے ہوں اور میں رہ جاؤں.بلکہ میں خود حضرت مسیح موعود سے دریافت کروں گا.اگر تسلی ہو گئی تو بیعت کر لوں گا.ازاں بعد میں حضرت صاحب کے پاس گیا تو محمد حسن اوجلہ والے نے میرا حضرت صاحب سے تعارف کروایا.اس وقت میں حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور مسجد مبارک میں مفتی محمد صادق صاحب کے ساتھ باتیں کر رہے تھے.اُس وقت مسجد اس قدر چھوٹی تھی کہ اُس کی ایک صف میں صرف چھ آدمی کھڑے ہو سکتے تھے.میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس بیٹھ گیا اور آپ کے پاؤں دبانے لگا اور ساتھ ہی یہ بھی عرض کر دیا کہ میں نے امام مہدی کے متعلق علماء سے سنا ہوا ہے کہ وہ قرعہ شہر یمن میں ( یہ آگے مکہ لکھا ہوا ہے.شاید روایت میں غلط لکھا ہوا ہے ) مکہ کے منارے پر حضرت عیسی علیہ السلام اتریں گے اور امام مہدی جو سیدوں کے گھر پیدا ہوں گے نیچے اُن کو ملیں گے.اور آپ تو مغلوں کے گھر پیدا ہوئے ہیں.یہ کس طرح آپ امام مہدی ہو سکتے ہیں.آپ سمجھا دیں تو بیعت کرلوں گا.اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام نے میری پشت پر ہاتھ رکھا اور مفتی صاحب و مولوی محمد حسن صاحب کو کہا کہ ان کو سمجھا ئیں.مولوی صاحب مجھے لے کر چھاپے خانے ( پریس میں ) چلے گئے.(وہاں جا کے باتیں ہوئیں اور مجھے ساری باتیں سمجھ آگئیں ) تو میں نے سمجھ آنے پر مولوی صاحب کو کہا کہ فوراًمیری بیعت کروا دیں.وہ ظہر کا وقت تھا تو حضرت نے کہا کہ اور سمجھ لو.پھر حضور نے میری اور ایک اور شخص کی جو سکھ تھے اور دھرم کوٹ کے رہنے والے تھے، بیعت لی اور اُسی وقت میں نے حضرت مسیح موعود سے دریافت کیا کہ میری لڑکی جوان ہے اور اس کی منگنی اپنی ہمشیرہ کے لڑکے سے کی ہوئی ہے.( یہاں ایک اور بھی مسئلہ کا حل انہوں نے بتایا ہے جس کے بارہ میں عموماً سوال اٹھتے ہیں کہ ہمشیرہ کے لڑکے سے اُس کی منگنی پہلے ہی کی ہوئی ہے اور وہ غیر احمدی ہے تو اس کے متعلق کیا کروں ؟ ) تو حضور نے فرمایا کہ ایک پاک وجود کا ٹکڑا غیروں کو دینا اچھا نہیں.کیونکہ وہ میرے مخالف ہیں اور جونسل بھی
خطبات مسر در جلد دہم 234 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 اپریل 2012ء اس سے پیدا ہوگی وہ میری مخالف ہوگی.اس پر میں نے کہا کہ حضور منگنی کو ہوئے تو قریباً اٹھارہ سال ہو گئے تو یہ کس طرح ہوگا ؟ اس پر حضور نے فرمایا کہ میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا.اب تمہاری مرضی پر منحصر ہے.اُسی وقت حضور نے حکم دیا کہ اب تمہاری نماز بھی غیروں کے پیچھے نہیں ہوسکتی.اس کے بعد میں اپنے گھر آیا اور دوسرے دن اپنے گھر والوں کو ساتھ لے کر اپنے سسرال را چک گیا اور نماز علیحدہ پڑھنی شروع کی تو لوگوں نے کہا کہ یہ کیا مرزائی ہو گیا ہے؟ تو اس پر میں نے اُنہیں بتایا کہ میں احمدی ہو گیا ہوں.اس پر میرے سسر نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ کچھ عالم لاہور سے یہاں آئے ہیں.وہ مجھے کہتے ہیں کہ تیری لڑکی کا نکاح فسخ ہو گیا ہے.اس پر سسر نے اُس عالم کو کہا کہ میری لڑکی کا نکاح کیوں فسخ ہوا، تیری لڑکی کا ہو جائے.یہ لڑکا تو نیک ہے.کئی فرقے مسلمانوں میں ہیں اور سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں.پھر وہ مجھے اپنے گھر لے گئے کہ کہیں لوگ زیادتی نہ کریں اور میرے سالوں نے یعنی بیوی کے بھائیوں نے میری سخت مخالفت کی.میں نے یہ سمجھ کر کہ کہیں لڑائی نہ ہو جائے ، اپنی بیوی کو بتایا کہ مجھے نہ ڈھونڈیں میں اپنے گاؤں جا رہا ہوں.جب میرے سسر صاحب کو علم ہوا تو انہوں نے ایک آدمی بھیج کر مجھے واپس بلا لیا.میری بیوی نے کہا کہ تو کیوں چلا گیا؟ تو میں نے کہا کہ معلوم نہیں کہ تیرا کیا ارادہ ہے اور فتنہ کے ڈر سے چلا گیا تھا.اُس وقت میری بیوی نے اپنے بھائیوں کو مخاطب ہو کر کہا کہ اگر احمدیت کا جھگڑا ہے تو میں پہلے احمدی اور وہ یعنی خاوند جو ہے بعد میں احمدی ہے.جو تم میری امداد کر تے ہو مجھے اس پر کچھ پرواہ نہیں.ہمیں رزق خدا دیتا ہے اس کے ساتھ جاؤں گی.میرا خدا رازق ہے.وہ اُٹھ کر میرے ساتھ چل دی.اس کے باپ نے پکڑ لیا اور کہا کہ جب تک میں زندہ ہوں ، اُس وقت تک تو میں دوں گا یعنی اپنے گھر رکھوں گا ، جب بھائیوں سے مانگنا پڑے گا اُس وقت تو جانے یا وہ.پھر انہوں نے غلے کے دو گدھے لدوائے اور کپڑے وغیرہ دیئے اور ہمیں یہاں پہنچایا.اُس وقت میرے دولڑ کے ابراہیم ، جان محمد اور ایک لڑکی برکت بی بی تھی.کہتے ہیں کہ حضرت صاحب نے جس لڑکی کے متعلق دریافت کرنے پر کہا تھا کہ غیروں سے نکاح کرنا درست نہیں ، میں نے آتے ہی ایک رات میں سب بندوبست کر کے اُس کا نکاح اپنے گاؤں میں میاں سلطان علی صاحب سیکرٹری سے کر دیا.اُس کی وجہ سے میری بیوی کو میری ہمشیرہ کی طرف سے تکلیف پہنچنے کا خیال تھا مگر حضور کے حکم کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کام کی رضامندی کا اظہار کر دیا اور اُس کو بھیج دیا.یعنی احمدی گھر نکاح کر دیا.صبح ہوتے ہی لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ غلام محمد بے ایمان ہو گیا ہے اور میرے چند رشتہ داروں نے جو غیر احمدی تھے مجھے سخت ایذا ئیں دیں، بڑی تکلیفیں دیں
خطبات مسرور جلد دہم اور بہت زیادہ مارا پیٹا.235 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 اپریل 2012ء (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 1 صفحہ 82 تا 84) حضرت حافظ نبی بخش صاحب فرماتے ہیں کہ میرا بڑا لڑکا عبدالرحمن جو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کی ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا ، 1907ء میں سکول میں ہی فوت ہو گیا.اُس کی سخت بیماری کی خبر سن کر میں باہر سے آیا.حضرت مولوی نورالدین اعظم اس کا علاج فرما رہے تھے.میں حضرت صاحب کے پاس گیا.حضور نے اپنے پاس سے کچھ گولیاں دیں کہ دودھ میں گھس کر دو.( گھول کر دے دو.) ابھی یہ گولیاں نہ کھلائی تھیں کہ وہ فوت ہو گیا.میں نے نعش کو فیض اللہ چک لے جانے کی اجازت طلب کی جو دے دی گئی.دوسرے جمعہ پر میں جب پھر قادیان گیا تو مجھے دور سے دیکھ کر فرما یا میاں نبی بخش آ جاؤ.اُس وقت بڑے بڑے آدمی حضور کے پاس بیٹھے تھے لیکن حضور نے مجھے حقیر ناچیز کو اپنی دائیں طرف بٹھایا اور فرمایا میاں نبی بخش معلوم ہوتا ہے آپ نے بڑا صبر کیا ہے.میری کمر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا ہم نے آپ کے لئے بہت دعا کی ہے اور کرتا رہوں گا اور فرمایا اللہ تعالیٰ نعم البدل دے گا.(چنانچہ پھر اُن کی اولا د بھی (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 303-304) ہوئی.) وقت ہے تو کچھ دینی غیرت کے واقعات بھی ہیں جو پیش کرتا ہوں.حضرت ڈاکٹر محمد طفیل خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ شان تھی کہ جس کسی نے بھی حضور کی ذلت و رسوائی چاہی وہ سزا سے نہ بیچ سکا.ایک مولوی غوث محمد صاحب ساکن بھیرہ مشن سکول بٹالہ میں عربک ٹیچر تھے.ایک موقع پر انہوں نے اپنے مدرسے کے مسلم سٹاف کے رو بروسید نا حضرت صاحب کی شان میں سخت گستاخانہ کلمات منہ سے نکالے.مجھے اُن کی یہ حرکت سخت ناگوار گزری.میں اُن کی اس نازیبا حرکت کی شکایت کے لئے مسٹر بی ایم سرکار ہیڈ ماسٹر کے پاس گیا.لیکن وہاں پہنچنے پر برق کی طرح ( جب دروازے پر پہنچا تو کہتے ہیں بجلی کی طرح) میرے دل میں خیال آیا کہ ہیڈ ماسٹر صاحب تو مسیحی ہیں، عیسائی ہیں.باعتبار مذہب اُن کو مجھ سے کوئی ہمدردی نہیں ہو سکتی.دوسرے لوگوں سے بہر حال اُن کو زیادہ ہمدردی ہے کیونکہ اُن کے وجود سے اُن کے مذہب کو کوئی نقصان نہیں پہنچ رہا ہے.اس لئے وہ قصور میری طرف ہی منسوب کریں گے.میں رک گیا لیکن اُسی وقت میرا دل اللہ کریم سے دعا کی طرف مائل ہو گیا اور میں نے دعا کی کہ مولیٰ کریم ! اس شخص نے گو حضور کے...پیارے مرسل ( یعنی اللہ تعالیٰ کو کہا کہ تیرے پیارے مرسل) کے متعلق سخت گستاخی کے الفاظ استعمال کئے ہیں لیکن ہوسکتا ہے کہ جہالت اور عدم علمی کی وجہ سے اُس کے منہ سے ایسے الفاظ انکل گئے ہوں اور حقیقت
خطبات مسرور جلد دہم 236 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 اپریل 2012ء کے معلوم ہونے پر تائب ہو جائے.اس لئے اللہ کو درخواست کی کہ تیرے حضور ، تیری درگاہ سے یہ چاہتا ہوں کہ حضور اُن کو کوئی ایسا نشان دکھا ئیں جو ان کے لئے عبرت کا تو باعث ہو لیکن اس میں اُن کے لئے کوئی سزا مقدر نہ رکھی جائے.(عبرت بھی ہو لیکن سزا بھی نہ ہو یہ شرط رکھی.تو خدا تعالیٰ نے اُس کو یہ نشان دکھایا کہ ریل میں سفر کرتے اُن کا ڈیڑھ دو ماہ کا بچہ کئی دفعہ اپنی ماں کی گود سے گرا اور گر کر اُچھلا اور گاڑی کے فرش پر بھی گرا لیکن چوٹ سے محفوظ رہا.جب انہوں نے اس حادثے کا اپنے سفر سے واپسی پر احباب میں ذکر کیا تو میں نے اُن کو بتایا کہ آپ کے اُس دن کے واقعہ کے بعد میں نے دعا کی تھی کہ آپ کو کوئی ایسا نشان دکھایا جائے جس میں آپ مضرت سے محفوظ رہیں.یعنی کہ اُس کے نقصان سے محفوظ رہیں.اس دعا کے مطابق خدائے کریم نے آپ کو نشان دکھا تو دیا ہے اس کی قدر فرمائیں.لیکن انہوں نے شوخی سے جواب دیا کہ یہ اتفاق ہے.میں کسی نشان کا قائل نہیں ہوں.چونکہ اس نشان سے انہوں نے فائدہ نہ اُٹھایا.خدا نے اُن کو پھر اپنی گرفت میں لے لیا.وہ بخار میں اچانک مبتلا ہو گئے اور اسی بخار سے مر گئے لیکن مرنے سے پہلے ان کو واضح ہو گیا کہ یہ سزا اُن کو اُن کی بدزبانی کی وجہ سے ملی ہے.اس لئے اپنی خطرناک حالت میں انہوں نے مجھے بار بار بلایا اور میرے جانے پر وہ کہنے لگے کہ آخر آپ نے میری شکایت کر دی.حالانکہ آپ نے کہا تھا کہ میں شکایت نہیں کروں گا.لیکن مجھے اپنی غلطی کا پتہ لگ گیا ہے اور اب میں آپ کو بتا تا ہوں کہ آپ ہی سچے تھے اور میں جھوٹا تھا.( کم از کم یہ شرافت تو مرتے مرتے انہوں نے دکھائی.) (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 156ر) حضرت حافظ مبارک احمد صاحب لیکچرر جامعہ احمدیہ قادیان حضرت حافظ روشن علی صاحب کے الفاظ میں روایت بیان کرتے ہیں کہ مولوی خان ملک صاحب اپنی شہرت کے لحاظ سے تمام پنجاب بلکہ ہندوستان میں بھی مشہور تھے اور اکثر علماء اُن کے شاگرد تھے لیکن باوجود اس عزت اور شہرت کے نہایت سادہ مزاج اور صوفی منش تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق کوئی سخت لفظ نہیں سن سکتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ جلال پور شریف والے پیر مظفر شاہ صاحب نے اُن کو اپنے صاحبزادوں کی تعلیم کے لئے بلایا لیکن انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شان میں ایک سخت کلمہ کہا.اس پر آپ نے فرمایا کہ میں آپ کے بچوں کو پڑھانے کے لئے تیار نہیں.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 169) حضرت منشی امام الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے جب
خطبات مسرور جلد دہم 237 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 اپریل 2012ء مرزا نظام الدین اور مرزا امام الدین نے مسجد مبارک کے نیچے دیوار کھینچ کر راستہ بند کر دیا تو احمدیوں کو اس سے بہت تکلیف پیدا ہوگئی جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عدالت میں چارہ جوئی کا ارشاد فرمایا.اس موقع پر مجھے اور اخویم منشی عبد العزیز صاحب او جلوی کو بھی ارشاد فرمایا کہ تم اپنے حلقوں میں سے ایسے ذی عزت لوگوں کی شہادت دلواؤ جو دیوار کے گزرنے سے پہلے اس راستہ سے گزرتے ہوں.چنانچہ میں اپنے حلقہ سے فقیر نمبر دار لوہ چپ کو قادیان لایا کیونکہ یہاں ہی جیوری آئی ہوئی تھی.چنانچہ اس نے شہادت دی کہ بندوبست کے دنوں میں ہم یہاں آتے رہے ہیں اور اس راستہ سے گزرتے رہے ہیں.بعض دفعہ گھوڑوں پر سوار ہوا کرتے تھے.مرز انظام الدین نے اس سے شہادت سے پہلے دریافت کیا کہ تم شہادت کے لئے آئے ہو.فقیر نمبر دار نے جواب دیا ہاں.اس پر مرز انظام الدین نے اُس سے سخت کلامی کی جس کے جواب میں فقیر نے کہا کہ مرزا صاحب اگر آپ مجھے گالیاں دیں گے تو جب آپ ہمارے علاقہ میں شکار کے لئے نکلیں گے تو ہم اس سے بھی زیادہ سختی آپ پر کریں گے جس پر وہ خاموش ہو گئے.اُس واقعہ کے بعد مرزا نظام الدین جو کہ میرے پہلے سے واقف تھے بوجہ ناراضگی ایک سال تک نہ بولے.(ان سے بات نہیں کی ) ایک سال کے بعد میں اتفاقاً گورداسپور گیا ہوا تھا اور عدالت کے باہر ایک عرضی نویس کے پاس بیٹھا ہوا تھا.وہاں مرزا نظام الدین بھی آگئے اور کہنے لگے.منشی صاحب! آپ مجھ سے ناراض کیوں ہیں اور بولتے کیوں نہیں؟ میں نے کہا میں آپ کے ساتھ اگر بات کروں اور آپ ہمارے آقا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شان میں سخت کلامی کریں تو مجھے تکلیف ہوگی.کہنے لگے میں اُن کو بزرگ سمجھتا ہوں.اُن کی وجہ سے مجھے بہت فائدہ پہنچا ہے.میں نے اپنے باغ کی لکڑی ہزاروں روپے میں فروخت کی ہے اور اب سبزی سے ہزاروں روپے کی آمد ہوتی ہے.اُن کے یہ بھی الفاظ تھے کہ اب مجھے ولایت کی طرح آمد ہوتی ہے.(یعنی بہت زیادہ آمد ہوتی ہے.تو پھر ) میں نے کہا کہ ٹھیک ہے اگر آپ کے یہ خیالات ہیں تو میں صلح کرتا ہوں.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 319 تا 321) خلیفہ نورالدین صاحب سکنہ جموں فرماتے ہیں کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی احمدیت سے بہت پہلے کے میرے دوست تھے.ایک دفعہ وہ چینیاں والی مسجد لاہور میں نماز پڑھا رہے تھے کہ میں مسجد میں داخل ہوا اور اپنی علیحدہ نماز ادا کی.مولوی صاحب نماز سے فارغ ہو کر مجھے نماز پڑھتے دیکھ کر سمجھے کہ شاید میں نے اُن کے پیچھے نماز پڑھی ہے.اور بہت خوش ہوئے.میں نے کہا مولوی صاحب کیا
خطبات مسرور جلد دہم 238 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 اپریل 2012ء آپ سمجھتے ہیں کہ جو بھی مغرب کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے وہ آپ ہی کے پیچھے نماز پڑھتا ہے.غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنا تو الگ رہا مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ کوئی غیر احمدی میرے پیچھے نماز پڑھے.مولوی صاحب یہ سن کر بڑے متعجب ہوئے اور کہنے لگے کہ دوسرے احمدیوں کا تو یہ عقیدہ نہیں اور وہ تو اپنے پیچھے کسی غیر احمدی کو نماز پڑھنے سے نہیں روکتے.( ہر ایک کا اپنا اپنا مزاج اور سوچ ہوتی ہے.اچھا واقعہ ہے.میں نے کہا مولوی صاحب خدا فرماتا ہے مَا كَانَ لِلنَّبِي وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوا أولى قُربى (التوبة: 113) کہ نبی اور مومنوں کو چاہئے کہ وہ مشرکوں کے لئے مغفرت نہ طلب کیا کریں، اگر چہ وہ اُن کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں.کیا آپ کے عقائد مشرکانہ نہیں؟ مجھے تو آپ کے عقائد مشرکانہ لگتے ہیں اور یوں بھی میں بحیثیت امام اپنے غیر احمدی مقتدی کے لئے کیا دعا کروں گا کہ یا اللہ مجھے بخش اور اس کو بھی بخش دے جو تیرے مسیح کا منکر ہے اور اُسے گالیاں دیتا ہے.میں نے اس واقعہ کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا تو حضور ہنس پڑے.(ماخوذ از رجسٹروایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 12 صفحہ 81-82) محمد نذیر فاروقی صاحب بیان کرتے ہیں کہ کئی سال گزرنے کے بعد 1908ء میں خود اپنے گاؤں اور گردو نواح میں حکیم صاحب کی مخالفت نے زور پکڑا اور ایسی تکالیف رونما ہوئی کہ جن کی تفصیل کے لئے ایک اچھے خاصے وقت کی ضرورت ہے.لیکن اس امر کا اظہار موجب خوشی ہے کہ ہر ایسی تکلیف میں وہ ثابت قدم رہے اور اپنی خود داری اور غیرت کو کبھی بھی ملیا میٹ نہ ہونے دیا جس کے عوض میں اللہ تعالیٰ نے حکیم صاحب کی مالی حالت کو بہتر سے بہتر بنا دیا اور وہ ہمیشہ اللہ تعالی ، اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر یہ ادا کرتے تھے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 12 صفحہ 236) حضرت شیخ زین العابدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں قریب البلوغ تھا کہ حضرت صاحب کے پاس قادیان آیا.ابھی نیا نیا نو جوان تھا.بلوغت کی عمر کو پہنچ رہا تھا.حضور نے فرمایا میاں زین العابدین ! کیا ابھی تک آپ کی شادی کا کوئی انتظام ہوا ہے یا نہیں.میں نے عرض کیا کہ حضور! منگنی ہوئی تھی مگر میرے احمدیت کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے ٹوٹ گئی ہے.مسکرا کے فرمایا کہ تم نے تو ابھی تک بیعت نہیں کی پھر احمدیت کی وجہ سے کیسے رشتہ نہ ہو سکا.میں نے عرض کیا کہ حضور وہ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کو کافر کہو اور میں یہ کہہ نہیں سکتا.میں نے انہیں جواب دیا تھا کہ اگر تم ایک لڑکی کی بجائے دس لڑکیاں دو تو بھی میں مرزا صاحب کو ولی اللہ ہی کہوں گا.فرمایا اللہ تعالیٰ جو کچھ کرے گا بہتر کرے گا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ- 5960)
خطبات مسرور جلد دہم 239 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 اپریل 2012ء اللہ تعالیٰ ان تمام صحابہ کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسلوں میں بھی صبر اور استقامت اور ثبات قدمی جاری فرمائے اور احمدیت اور خلافت سے ہمیشہ ان کا پختہ تعلق رہے.آج ابھی نماز جمعہ کے بعد میں ایک دو جنازے پڑھاؤں گا جن میں سے ایک جنازہ حاضر ہے جو مکر مہ امتہ الحفیظ خانم صاحبہ اہلیہ مکرم شمس الحق خان صاحب مرحوم کا ہے.کچھ عرصہ ہوا وہ رہنے کے لئے یہاں آئی تھیں.اور ان کا کیس وغیرہ بھی پاس ہو گیا تھا، لیکن بہر حال 18اپریل کو اُن کی اکاسی سال کی عمر میں وفات ہوگئی - إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ یہ لمبا عرصہ کوئٹہ کی صدر لجنہ رہی ہیں.ان کو بڑی لمبی توفیق ملی ہے.پھر اُس کے بعد لاہور آئی ہیں تو وہاں اپنے حلقے کی صدر رہی ہیں.تبلیغ کا بڑا شوق تھا.یہاں بھی جب آئی ہیں تو اس عمر میں بھی کوشش ی تھی کہ انگریزی کے چند فقرے سیکھ لیں تاکہ تبلیغ کر سکیں.بڑی نیک، دعا گو، نمازوں کی پابند، نوافل کی پابند ، خدمت خلق کرنے والی اور اس کے جذبے سے سرشار خاتون تھیں.غریبوں کی ہمدرد تھیں.خلافت سے بھی غیر معمولی اور والہانہ محبت تھی.بڑی اخلاص اور وفا سے پر تھیں.بچوں کی تربیت کا بہت خیال رکھتی تھیں اور انہیں ہمیشہ خلافت اور نظام جماعت کی تلقین کرتی تھیں.ایک بٹا آٹھ (1/8) حصہ کی موصیہ تھیں.ان کی حالت تو میں نے دیکھی ہے جماعت سے اور خلافت سے جو وابستگی ہے اس میں یہ بہتوں کے لئے نمونہ تھیں.پسماندگان میں ان کی چار بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں.ڈاکٹر مجیب الحق خان صاحب جو ہمارے یہاں لندن ریجن کے زعیم اعلیٰ ہیں ان کی یہ بڑی ہمشیرہ تھیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی تربیت کی ہی وجہ ہے کہ ان کی اولاد کا بھی جماعت اور خلافت سے بے انتہا تعلق ہے.اللہ تعالیٰ اس تعلق کو بھی بڑھاتا چلا جائے اور اُن کی نسلوں میں بھی جاری رکھے تا کہ یہ جو تعلق ہے اور جماعت سے وابستگی ہے یہ اس وجہ سے مرحومہ کی روح کے لئے بھی تسکین کا باعث بنتا رہے.ان کا ابھی نماز جنازہ جمعہ کے بعد ہو گا.میں باہر جا کر پڑھاؤں گا.احباب یہیں صفیں درست کر لیں.دوسرا جنازہ مکرم سید محمد احمد صاحب کا ہے جو سید محمد افضل صاحب رضی اللہ عنہ صحابی کے بیٹے تھے اور ان کی والدہ استانی سردار بیگم صاحبہ نے بھی لمبا عرصہ سکول میں جماعت کی خدمت کی ہے.صحابیہ تو نہیں تھیں.بیعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں کر لی لیکن دیکھ نہیں تھا، بلکہ شاید اپنے خاوند سے پہلے بیعت کی تھی.سیدمحمد احمد صاحب حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے صاحبزادے مرزا خلیل احمد صاحب کے رضاعی بھائی بھی تھے اور حضرت ام طاہر کی بیٹی صاحبزادی امتہ الباسط ان کے دوسرے بھائی
خطبات مسرور جلد دہم 240 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 اپریل 2012ء کی رضاعی بہن تھیں.ان کے ایک بیٹے منور احمد صاحب ہیں جو صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب کے داماد ہیں اور ایک بیٹے ڈاکٹر سید مظفر احمد صاحب یہیں اسکنتھو رپ میں ڈاکٹر ہیں.ایک امریکہ میں ہیں.اسی طرح ان کے باقی بچے ہیں.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے.مغفرت کا سلوک فرمائے.ان کے بچوں کو بھی جماعت سے وابستہ رکھے اور نسلوں کو بھی خدمت کی توفیق دے.خود بھی یہ بائیس سال اپنے حلقہ ڈیفنس لاہور میں صدر رہے ہیں.انہوں نے جماعت کی خدمت کی ہے اور بڑی محنت سے انہوں نے وہاں گیسٹ ہاؤس کا ایک کمپلیکس خود نگرانی میں اور کم خرچ میں تعمیر کروایا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرما تا رہے.ان کا جنازہ غائب ہے جو حاضر جنازے کے ساتھ ہی پڑھا جائے گا.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 4 مئی تا 10 مئی 2012 جلد 19 شماره 19 صفحہ 5 تا 9)
خطبات مسرور جلد دہم 241 16 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 اپریل 2012ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت رزاسرود احمد خلیفہ امسح الامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 20 اپریل 2012 ء بمطابق 20 شہادت 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح.مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج بھی میں صحابہ کے کچھ واقعات پیش کروں گا.جن میں سے سب سے پہلے تو وہ واقعات ہیں جن میں اُن کی ثابت قدمی کا اظہار ہوتا ہے.حضرت میاں عبداللہ خان صاحب جنہوں نے بیعت تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں کر لی تھی لیکن آپ کو دیکھا نہیں تھا، وہ بیان کرتے ہیں کہ جس سال تحصیل ظفر وال طاعون پڑی ہے، اس سال میں پلیگ کلرک مقرر ہو کر سیالکوٹ سے ظفر وال گیا.صبح کے وقت چوہدری محمد حسین صاحب ساکن تلونڈی عنایت خان نے مجھے کہا کہ کیا تم حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر زندہ مانتے ہو.میں نے سائنس کے لحاظ سے کہا کہ نہیں.میرے دل میں کوئی تعصب کسی قسم کا نہیں تھا.آپ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی نے دعوی کیا ہے کہ وہ صحیح آنے والا میں ہوں اور مسیح بنی اسرائیل فوت ہو گیا ہے.میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں حضور کو نبی تسلیم کر کے بیعت کا خط اُسی وقت لکھ دیا.پھر میں ملازمت کے سلسلے میں کراچی اور پھر افریقہ چلا گیا.میرے والد غیر احمدی تھے.وہ بیعت کے وقت بالکل مخالف نہیں تھے لیکن علاقے کے وہابیوں میں سرکردہ آدمی تھے.لوگوں نے انہیں اکسا یا کہ آپ کا لڑکا مرزائی ہو گیا ہے.1911ء میں آپ نے مجھے افریقہ میں خط لکھ دیا کہ حضرت صاحب کو میرے الفاظ میں کہو ( یعنی جو کچھ انہوں نے لکھوایا تھا ) اگر نہیں کہو گے تو میں تم کو اپنی جائیداد سے عاق کر دوں گا.کہتے ہیں اُس وقت میں کینیا میں سلطان حمود سٹیشن پر سٹیشن ماسٹر تھا.میں نے آٹھ دس دن خط اپنے پاس رکھا.ایک رات کو اپنی بیوی سے عشاء کی نماز کے وقت اس کا ذکر کیا.بیوی
خطبات مسرور جلد دہم 242 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 اپریل 2012ء بالکل ان پڑھ تھی.اُس نے کہا کہ جب یہ لوگ حضرت صاحب کو مہدی ماننے کے لئے تیار نہیں تو ہم کو برا کہنے کے لئے کیوں کہتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے ہمارا انتظام پہلے ہی کر دیا ہے ( یعنی روزی کا بندو بست کر دیا ہے ) اس لحاظ سے بھی ہمیں کوئی فکر نہیں.آپ لکھ دیں کہ ہم ایسا کرنے کے لئے تیار نہیں.آپ بیشک ہمیں جائیداد سے عاق کر دیں.کہتے ہیں میں نے ایسا ہی لکھ دیا.میرے والد صاحب نے جواب دیا کہ تم میرے اکلوتے بیٹے ہو تم ہی میرے وارث ہو.میں نے لوگوں کے اکسانے سے ایسا لکھ دیا تھا.میں نے دوبارہ بھی لکھا مگر اُن کا یہی جواب آیا.میں جب رخصت پر آیا تو کوئی نو بجے کا وقت تھا.میں اور بھائی محمد حسین صاحب اور بھائی محمد عالم صاحب مرحوم والد صاحب کے ساتھ تبادلہ خیالات کر رہے تھے اور بحث گرما گرم تھی.میرے والد صاحب نے کہا کہ میں مرزا صاحب کو اُس وقت سے جانتا ہوں جب آپ سیالکوٹ میں ملازم تھے.میں آپ کو ملا کرتا تھا.آپ بہت نیک آدمی تھے.مجھے یاد ہے کہ میرے رو برو ایک مسلمان زمیندار سیالکوٹ کے مشرق کی طرف سے کسی گاؤں کا رہنے والا آپ کے پاس آیا اور مرزا صاحب کو کہنے لگا.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کہ مرزا جی! میں خیال کرتا ہوں کہ آپ وہ مہدی معلوم ہوتے ہیں جو آنے والا ہے.اُس وقت مرزا صاحب کی عمر میں بائیس سال کی تھی اور میری عمر بھی قریباً اتنی ہی تھی.کہتے ہیں جب میرے والد صاحب کی زبان سے یہ الفاظ نکلے تو میں نے اپنے والد صاحب سے عرض کیا کہ آپ کے رو برواس زمیندار کی زبان سے حضرت صاحب کی نسبت ایسے الفاظ نکلنے ، یہ آپ کے لئے اللہ تعالیٰ نے حجت قائم کی ہے.مگر والد صاحب فرمانے لگے کہ خواہ مرزا صاحب سچے ہوں.میں نہیں مانوں گا.اس پر ہم لوگوں نے استغفار پڑھا اور اُٹھ کر چلے گئے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.جلد 9 صفحہ 65 تا 67) پھر ایک روایت ہے حضرت شیخ عبدالرشید صاحب بیان فرماتے ہیں کہ مولوی محمد علی بو پڑی بٹالہ آیا ہوا تھا اور ہمارے مکان میں ہی اُس کی رہائش تھی اور میرے والدین نے مجھے گھر سے نکالا ہوا تھا.ایک دن مہر رلد و جو میرے والد کا دوست تھا ، مجھے ملا اور کہا کہ میرے ساتھ چلو.مولوی محمد علی سے بات کرتے ہیں تا کہ ہمیں بھی سمجھ آجائے کہ آپ کیا کہتے ہیں اور وہ کیا کہتے ہیں؟.( یعنی مولوی محمد علی جو غیر احمدی تھا اُس کا اور ان کا مقابلہ کرانے لگا.چنانچہ ان دنوں میں مجھے بہت جوش تھا.میں فوراً اُس کے ساتھ مولوی محمد علی کے پاس چلا گیا اور جب اُن کے سامنے ہوا تو مولوی صاحب کہنے لگے.مہر رلد و ! اس کا فر کو میرے سامنے کیوں لائے ہو ؟ مہر رلد و کو یہ بات ناگوار گزری اور مجھے بھی مگر میں چاہتا تھا کہ اس پر
خطبات مسرور جلد دہم 243 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 اپریل 2012ء اتمام حجت کر دوں اور مہر رلد و نے بھی میری بات کی تائید کی کہ مولوی صاحب اس بچے کو نہیں سمجھا سکتے تو کسی اور مرزائی کو کیا سمجھا ئیں گے.(اگر یہ بچہ ہی نہیں آپ سے سمجھ سکتا تو اور کون سمجھے گا.) چنانچہ اس بات کے کہنے سے اُس نے گیف أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ فِيْكُمْ والی حدیث پڑھنی شروع کر دی اور خود ہی واعظانہ طور پر اس کی تشریح شروع کر دی.جب وہ بہت سا وقت لے چکا تو میں نے کہا کہ میری بات بھی سن لو کہ اس حدیث کے الفاظ سے ثابت ہے کہ یہ تاویل طلب ہے اور پھر میں نے اس پر جرح کرنی شروع کر دی.میری جرح سے وہ تنگ پڑا.( جو حدیث ہے وہ بخاری کی حدیث بھی ہے، مسلم میں بھی ہے، مسند احمد میں بھی ہے.حضرت ابو ہریرۃ" سے روایت ہے.اس کے الفاظ یہ ہیں كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيْكُمْ وَاِمَامُكُمْ مِنْكُمْ.اور بعض روایات میں فَامَّكُم مِنْكُمْم ہے.یعنی تمہاری کیسی نازک حالت ہو گی جب ابن مریم یعنی مثیل مسیح مبعوث ہو گا جو تمہارا امام اور تم میں سے ہوگا.اور جیسا کہ میں نے کہا دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ تم میں سے ہونے کی وجہ سے تمہاری امامت کے فرائض انجام دے گا.اسی حدیث کو اُس مولوی نے پیش کیا لیکن میں نے اُس سے کہا کہ تم تشریح غلط کر رہے ہو ) اور میں نے آیات مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ ، اور پھر اس کے بعد وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُول والی آیات پیش کیں اور پھر فاقولُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحِ والی حدیث پڑھی.( یہ بھی ایک لمبی حدیث ہے ) اور اس کی تفسیر ذرا وضاحت سے بیان کی تو وہ بہت پریشان ہوا اور غیظ و غضب میں بھر گیا اور مہر رلد وکو مخاطب کر کے کہنے لگا کہ میں نے تم کو نہیں کہا تھا کہ اس نے سیدھا نہیں ہونا.یہ مرزائی بڑے سخت اور بے ادب ہوتے ہیں اور میں کوئی بات اور بیان نہیں کروں گا.چنانچہ مہر رلد و بھی بہت شرمندہ سا ہوا اور اُس کے چہرہ سے شرمندگی کے آثار ظاہر ہو رہے تھے.کیونکہ اس مولوی سے کوئی معقول جواب اور مجھے پوری تبلیغ نہ پہنچی.خیر ہم اُٹھ کر چلے آئے اور میرے والد صاحب کے سامنے مہر رلد و نے بیان کیا کہ مولوی محمد علی ، عبدالرشید کو پورے طور پر سمجھا نہیں سکا اور مولوی صاحب غصے میں بھر گئے تھے.بچہ ہے.سمجھ جائے گا.لیکن ان کا تو آج تک یہی حال ہے کہ مولویوں کے پاس جو علم ہے اس سے تو ہمارے جو بچے اللہ کے فضل سے علم رکھتے ہیں، اُن کا علم بھی ان مولویوں کے علم سے زیادہ ہے.اور ان بچوں کا بھی منہ بند نہیں کر سکتے.لیکن ڈھٹائی کا تو کوئی علاج نہیں ہے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.جلد 12 صفحہ 32-33) ایک واقعہ مجھے یاد آ گیا.مکرم ثاقب زیروی صاحب نے لکھا ہے.چند دہائیاں پہلے عطاء اللہ شاہ بخاری ایک مولوی ہوتے تھے.وہ ایک جگہ تقریر کر رہے تھے، کہتے ہیں کہ مجھے بھی کان میں آواز پڑ گئی
خطبات مسرور جلد دہم 244 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 اپریل 2012ء کیونکہ اتفاق سے میں اُس علاقے میں تھا.اور مولوی صاحب فرمانے لگے.یہ عطاء اللہ شاہ بخاری بڑے عالم تھے، کہ اگر خدا تعالیٰ بھی مجھے آکر کہے کہ مرزا صاحب سچے ہیں تب بھی میں نہیں مانوں گا.تو یہ تو ان کے ایمان کی حالت ہے.پھر ایک روایت ہے.علی محمد صاحب حضرت مولانا ابوالحسن صاحب کے حالات اس طرح بیان 66 کرتے ہیں کہ ” آپ بڑے پائے کے عالم تھے.حضرت اقدس کا نام اور پیغام تمام ڈیرہ غازی خان کے ضلع میں آپ کے ذریعے پہنچا.مخالفوں نے آپ کو بہت تکالیف دیں مگر آپ نہایت ثابت قدم رہے.“ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ.غیر مطبوعہ.جلد 12 صفحہ 126 ) اور مخالفت کی کبھی کوئی پرواہ نہیں کی.ہمیشہ تبلیغ کرتے رہے اور تکلیفیں اُٹھاتے رہے.حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں بہت گھبرایا ہوا مخالفت کا ستایا ہوا قادیان پہنچا تو حضور نے فرمایا حافظ صاحب! آپ کیوں گھبرائے ہوئے ہیں؟ اُس وقت حضور کے لہجہ کلام سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ حضور کچھ میری مالی مدد کرنا چاہتے ہیں.مگر میں اس خیال پر نہیں آیا تھا، ( یعنی کہ میں اس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا تھا ، مقصد تو یہ تھا کہ میر اقلب مطمئن ہو جائے.دل مطمئن ہو جائے اور مخالفوں کی مخالفت سے دل نہ گھبرائے.( کیونکہ نبی کی صحبت سے بہر حال انسان ایک قوت پاتا ہے.اُس کی قوت قدسی سے اللہ تعالیٰ اس وقت سے قوت عطا فرماتا ہے.بہر حال کہتے ہیں میں تو اپنے دل کو مضبوط کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں حاضر ہوا تھا.) کہتے ہیں اور نہ مامورین کے پاس اس لئے جانا چاہئے کہ اُن سے مال لیا جائے بلکہ حسب توفیق اُن کی خدمت میں کچھ نہ کچھ بطور ہدیہ پیش کیا جائے.حضور نے میرے لئے بہت دعا فرمائی اور بڑے تسلی بخش نصائح سے مطمئن کیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے دل میں حضور کی نسبت ایک منٹ بھی شک و شبہ صداقت کے متعلق پیدا نہیں ہوا.“ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.جلد 12 صفحہ 166-167 ) حضرت با بوعبد الرحمن صاحب فرماتے ہیں کہ میری انکساری اور غریب مزاجی کی وجہ سے میرے سب رشتہ دار اور دوست اور محلے والے اور شہر والے میرے سے خوش تھے اور تعریف کیا کرتے تھے مگراب ایک دم بیعت کی خبر سن کر سب رشتے دار ( علاوہ جڑی رشتہ داروں کے، کیونکہ جدی رشتہ دار بفضلِ خدا سب میرے ساتھ بیعت میں شامل تھے، اور دوست اور محلہ دار اور رشتے دار درہم برہم ہو گئے اور دشمن
خطبات مسرور جلد دہم 245 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 اپریل 2012ء ہو گئے.(اور یہی انبیاء کی جماعتوں سے سلوک ہوتا ہے.جب نبیوں کے ساتھ سلوک ہوتا ہے تو اُن کے ماننے والوں کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا ہے.سارے دشمن ہو جاتے ہیں.وہی لوگ جو تعریفیں کیا کرتے ہیں بلکہ اس بات کے قائل ہوتے ہیں کہ یہ نیک ہے، بڑا نیک ہے وہی دشمن ہوتے ہیں.میں پہلے بھی ایک دفعہ حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کے بارے میں سنا چکا ہوں.ایک دفعہ میں فیصل آباد کے ایک گاؤں میں گیا تو وہاں غیر احمدی بیٹھے تھے.اُن کی بڑی تعریف کرنے لگے کہ ایسا نیک اور پارسا اور تقویٰ شعار اور صحیح کیس لینے والا اور سچ بولنے والا وکیل ہم نے نہیں دیکھا.لیکن ایک نقص اُس میں ہے کہ وہ قادیانی ہے.تو یہی پھر انہیں سب سے بڑا نقص نظر آتا ہے.بہر حال یہ کہتے ہیں سب میرے دشمن ہو گئے ) اور طرح طرح کی تکلیف اور ایذا دہی کے درپے ہوئے.کبھی پنچائت کرتے اور حقہ پانی بند کرتے اور کبھی مولویوں کو بلا بلا کر ہمارے خلاف وعظ کراتے اور رشتہ داروں اور دوستوں اور پبلک کو ہمارے خلاف برانگیختہ کرتے.ایک دوکاندار شیر فروش ہمارے ساتھ تھا.( یعنی دودھ بیچنے والا.) اُس سے دودھ لینا بند کرادیا.مزدوروں سے مزدوری کرانی بند کرا دی اور ناطہ رشتہ بند کر دیئے اور لوگوں کو نصیحت کرتے کہ اگر کوئی احمدی کے مکان کے نیچے سے گزرے گا تو کافر ہو جائے گا.قدرت خدا کی ، ( اللہ تعالیٰ بھی کسی طرح بدلے لیتا ہے.کہتے ہیں ) جو مولوی نصیحت کرتے تھے، وہی میرے گھر پہ آ کر کھانا کھا لیا کرتے تھے.( یعنی عمل کچھ اور اور نصائح کچھ اور.جب مولوی کا یہ عمل دیکھا تو لوگ ان باتوں کو دیکھ کر بہت پشیمان ہوئے.پھر کہتے ہیں کہ ) بیعت کرنے کے بعد ہم نے نماز با جماعت چونکہ غیر احمدی امام کے پیچھے پڑھنی ترک کر دی تھی، یا تو علیحدہ علیحدہ نماز پڑھ لیتے یا اپنے میں سے کسی کو امام بنا لیتے.اس پر محلے والے تنازعہ اور جھگڑے کرنے لگے.ہم نے رفع شر کے لئے نماز با جماعت مسجد میں اپنے امام کے پیچھے بھی پڑھنی ترک کر دی.بلکہ اپنے مکان پر نماز باجماعت پڑھ لیتے.کہتے ہیں جو میں نے کرائے پر لیا ہوا تھا.یہ مکان بھی اس بات پر کہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں ) مالک مکان نے خالی کرالیا.پھر جب میں نے کرائے پر دوسرا مکان بے لیا اور نماز با جماعت وہاں پڑھنی شروع کر دی تو اس عرصہ میں کہتے ہیں کہ ہم نے تعمیر مسجد کے لئے ایک شخص مسمی رمضان سے جو احمدی تھا، تین دوکانات مع کچھ زمین کے خرید لیں اور اس دوران میں ڈاکٹر بشارت صاحب جو ایک احمدی تھے، وہ بھی وہاں پر بطور پروبیشنل اسسٹنٹ سرجن ہو کر آ گئے.جماعت کو ڈاکٹر صاحب موصوف کے آنے سے بڑی تقویت ہو گئی.وہ بڑے جو شیلے تھے.مغرب، عشاء،
خطبات مسر در جلد دہم 246 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 اپریل 2012ء فجر کی نماز با جماعت دوکان میں پڑھ لیتے.ڈاکٹر صاحب کو اپنا امام بنا لیتے.دوکانات لب سڑک تھیں.بلا خوف و خطر دوکان میں آتے اور نماز کی جماعت کراتے.ڈاکٹر صاحب ہر وقت تبلیغ میں مصروف رہتے.اور جوش میں فرمایا کرتے تھے کہ میرا دل تو یوں چاہتا ہے کہ ایک کپڑے پر موٹے موٹے حروف میں یہ لکھ کر کہ عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور اپنے سینے پر کوٹ میں لگا کر منادی کرتا پھروں کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.جلد 12 صفحہ 246-248) حضرت شیخ عطاء اللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قادیان سے بیعت کی منظوری بذریعہ خطوط پہنچی اور ساتھ ہی کچھ لٹریچر سلسلے کا جن میں اخبار الحکم بھی تھا ہم لوگوں کو بھیجا گیا.( یہ اخبار بھی منظوری کے ساتھ بھیجا گیا ) جس کی ہم نے اشاعت کی.لوگوں میں چرچا ہوا اور چرچے کے بعد مخالفت کا بازار شد ید طور پر گرم ہو گیا.جا بجا جلسے ہونے لگے جن میں ہم لوگوں کو پکڑ پکڑ کر جبراً کھینچ گھسیٹ کر لے جایا جاتا اور توبہ پر مجبور کیا جاتا.( تو بہ کرو کہ مرزا صاحب بچے نہیں.ہم اب مرید نہیں رہے.خیر کہتے ہیں کہ ) بعض کمزور لوگ جو تھے پھسلنے لگے، (سختی برداشت نہیں کر سکتے تھے.اُن میں استقامت نہیں تھی ) اور ہوتے ہوتے نوبت یہاں تک پہنچی کہ حضرت حافظ صوفی تصور حسین صاحب اور شیخ سعد اللہ صاحب جو کہ براہ راست صوفی صاحب کے مرید تھے اور یہ عاجز باقی رہ گئے اور دوسرے سبھی لوگ دشمنوں کے دباؤ کی برداشت کرنے سے خائف ہو کر پھر گئے.(اب تین آدمیوں کے علاوہ باقی سب احمدیت چھوڑ گئے.سختیاں برداشت نہ کر سکے.لیکن ان لوگوں نے سختیاں برداشت کیں.استقامت دکھائی.لکھتے ہیں کہ) صوفی صاحب کو اللہ تعالیٰ استقامت بخشے.وہ قادیان پہنچ کر نور نبوت سے حصہ پاچکے تھے.مگر اللہ تعالیٰ کی خاص الخاص حکمت اور مصلحت نے میرے دل کو غیب سے منور فرمایا.(صوفی صاحب تو قادیان جا کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھ آئے تھے.اُن کا ایمان مضبوط تھا، لیکن میں ابھی تک نہیں گیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر بھی فضل فرمایا اور میرے دل کو روشن رکھا.اپنی قدرت نمائی سے منور فرمایا.مجھے پر مخالفت کا کوئی اثر نہ ہوا.نہ میں اُن کے دباؤ سے دبا.بلکہ جتنا وہ دباتے اور ڈراتے ، میرا ایمان خدا کے فضل اور رحم سے زیادہ مستحکم ہوتا.اُن کے مطالبہ تو بہ کو میں یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دیا کرتا کہ تو بہ کس بات سے آپ کرواتے ہیں؟“ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ - جلد 12 صفحہ 313312) پھر ایک روایت حضرت میاں عبدالمجید خان صاحب کی ہے.فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ مخالفوں نے ایک بھاری جلسہ کر کے بہت شور مچایا اور ہنگامہ برپا کیا.جس میں نشانہ عداوت و بغض
خطبات مسرور جلد دہم 247 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 اپریل 2012ء صرف یہ عاجز تھا.( یعنی حضرت میاں عبدالمجید خان صاحب.اُن کو ساری دشمنی کا نشانہ بنایا.انہوں نے میرے خلاف بہت سی تجاویز کیں.بائیکاٹ کا خوف دلایا.پولیس تک کو میرے خلاف بھڑکا یا اور مجھے ایک فسادی اور باغی کے نام سے یاد کر کے جاہل لوگوں کو میرے خلاف اس رنگ میں بھڑ کا یا کہ میری جان کے لالے پڑ گئے.اُن حالات سے متاثر ہوکر ( اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک بیان کرتے ہیں کہ کیا تھا؟) کہ میں ایک رات جنگل میں نکل گیا.قبلہ رخ ہو کر دست بستہ کھڑا ہو گیا اور اپنے طریق سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عالم خیال میں مخاطب کر کے عرض کیا کہ حضور اس خطرناک موقع میں دست گیری اور رہنمائی کا کوئی سامان فرما ئیں.اور میں نے یہ التجا اور دعا اس الحاح اور سوز و گداز سے کی اور روروکر عرض حال اور مشکل پیش آمدہ کا ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے میری آہ و بکا کو سنا.(یہاں میں وضاحت کر دوں کہ یہ کوئی شرک والی حالت نہیں تھی جس طرح پیروں فقیروں پہ جا کے مانگا جاتا ہے، سجدے کئے جاتے ہیں یا اُن کے حوالے دیئے جاتے ہیں.بہر حال ان کا اپنا ایک انداز تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی ذہن میں لائے کہ ظلم سے اللہ تعالیٰ بچائے.اس بات کی وضاحت کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے نہیں مانگا جارہا تھا، اللہ تعالیٰ سے ہی مانگا جارہا تھا ، اُن کا یہ فقرہ ہے جو اس کی وضاحت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری آہ و بکا کو سنا.حضرت مسیح موعود کا حوالہ دیا تو یہ نہیں کہا کہ حضرت مسیح موعود نے سنا.جس طرح ہمارے ہاں عام طور پر لوگ پیروں فقیروں کی قبروں پر جا کر پھر یہ کہتے ہیں کہ فلاں پیر صاحب نے ہماری بات سن لی اور ہمیں فلاں چیز عنایت کر دی.فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری آہ و بکا کوسنا.خیر ) رات اُسی حالت میں اور فکر میں سو گیا.(خواب میں) کیا دیکھتا ہوں کہ مخالفوں نے میرے مکان کا گھیرا کر لیا ہے.اور چاروں طرف سے آوازیں کس رہے ہیں کہ اس شخص کو اب جان ہی سے مار ڈالو.اسی اثناء میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام مجھ پر نمودار ہوئے اور میرے بازؤوں کو اپنے دستہائے مبارک سے پکڑ کر میرا منہ آسمان کی طرف کرایا اور فرمایا کہ آسمان کی طرف اُڑ جاؤ.چنانچہ حضور کی قوت قدسیہ ہی کے سہارے میرے جیسا بے پر انسان زمین سے اُڑ کر آسمان کی طرف چلا گیا.مخالفین اپنے ارادے میں ناکام حیران کھڑے دیکھتے رہے.اُس وقت خواب کے بعد میری آنکھ خوشی کے مارے کھل گئی اور مجھے یقین کامل ہو گیا کہ واقعی سید نا حضرت اقدس خدا کے ایک راستباز اور صادق فرستادے ہیں.چنانچہ دوسرے روز صبح کو جب پھر مخالف لوگ میرے گرد جمع ہوئے تو میں نے اُن سے صاف کہہ دیا کہ خدا نے اپنی قدرت نمائی سے اب مجھے وہ طاقت بخش دی ہے کہ اگر تم لوگ آروں سے بھی میرے جسم کو چیر دو تو یہ
خطبات مسرور جلد دہم 248 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 اپریل 2012ء دل اور یہ منہ اس صداقت سے اب پھر نہیں سکتے.( کہتے ہیں ) دوسری رات کو پھر خواب میں دیکھتا ہوں کہ پولیس نے میرے مکان کا احاطہ کر رکھا ہے.یہ دشمنی تو ختم نہیں ہو رہی تھی.روز اُن کے خلاف جلسے جلوس ہورہے تھے.) اور پولیس والے کہہ رہے ہیں کہ پبلک سے تو یہ شخص بچ گیا مگر چونکہ اس نے ایک قسم کا فساد اور بدامنی پھیلا رکھی ہے، اب حکومت اُس کو اپنے انتظام سے دبائے گی اور اگر یہ باز نہ آیا تو اُس کو جان سے مار دیا جائے گا.پولیس کے اس حملے اور گھیرے سے میں (خواب میں ) سخت پریشان ہوا.( کہتے ہیں) مگر اچانک پھر کل رات کی طرح میرے آقاسید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مجھے پر ظاہر ہوئے اور اسی طرح میرے دونوں بازو اپنی شفقت سے پکڑے.میرا منہ آسمان کی طرف کیا اور فرمایا کہ آسمان کی طرف اُڑ جاؤ.چنانچہ میں پھر کل کی طرح زمین سے آسمان کو اڑنے لگا اور پولیس وغیرہ کے حملے سے نجات پا گیا.الحمدُ للهِ.چنانچہ دونوں رویا میں میرا ایمان میخ آہن کی طرح مضبوط اور پہاڑ کی چٹان کی طرح راسخ ہو گیا.اور حضور پرنور کی صداقت ایسے رنگ سے دل میں گڑ گئی کہ کاٹے کٹے نہ توڑے ٹوٹے.(اب اس کو کوئی نہ توڑ سکتا ہے نہ کاٹ سکتا ہے.( الحَمدُ لِلهِ - اَلْحَمْدُ لِلهِ ثُمَّ الْحَمْدُ لِلَّهِ ( کہتے ہیں کہ ) اب دل میں ایک جوش اور اُمنگ پیدا ہوئی کہ اس فرستادہ الہی کی زیارت سے بھی مشرف ہوسکوں.( اُس وقت تک آپ نے دیکھا نہیں تھا ) چنانچہ میں نے حضرت کے حضور خط لکھا جس کے جواب میں حضور نے رقم فرمایا کہ میاں عبدالمجید آپ فوراً قادیان چلے آئیں.“ تو اللہ تعالیٰ اس طرح بھی ایمانوں کو مضبوط کرتا ہے اور یہ کیفیت آج بھی بہت سارے لکھنے والے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن میں پیدا کرتا (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.جلد 12 صفحہ 313,314) حضرت امیر خان صاحب کی روایت ہے.اپنا واقعہ لکھتے ہیں کہ ”جب میں بیعت کر کے دارالامان قادیان سے واپس اپنے گاؤں اہرانہ آیا تو مسمی مہتاب خان جو ایک کھٹڑ پینچ تھا ( اور کچھ بڑا اپنے آپ کو سمجھتا تھا ) اور کچھ معمولی نوشت و خواند کی وجہ سے پرلے درجے کا مغرور تھا ( یعنی معمولی پڑھا لکھا آدمی تھا.اور ہمہ دانی کا مدعی تھا.( یعنی بہت کچھ اب اُس کو آتا ہے.ہر چیز میں اپنے آپ کو ماہر سمجھتا تھا) میری مخالفت پر تل گیا اور زبان درازی میں حد سے گزر گیا.مگر میں صبر سے کام لیتا رہا.آخر کا ر اُس کے کنبے میں طاعون پھوٹ پڑی اور اس قدر تباہی ہوئی کہ بہو اور بھابھی اور جوان لڑکا جو ایک ہی تھا وہ سب کے سب چند دنوں میں پلیگ کا شکار ہو گئے اور کوئی روٹی پکانے والا بھی نہ رہا.اُس کی ایک لڑکی جونز دیک ہی دوسرے گاؤں میں بیاہی ہوئی تھی، اُس کے جا کر وہ روزانہ روٹی کھاتا مگر شریکوں کی روٹی کھانا، (یعنی ہے.
249 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 اپریل 2012ء خطبات مسر در جلد دہم بیٹی کے سسرال میں جا کر روٹی کھانا ) اُس کے لئے موت سے بدتر تھا.مہتاب خان مذکور کی عمر اس وقت ساٹھ سال سے کچھ اوپر ہوگی اور جائیداد غیر منقولہ صرف ڈیڑھ گھماؤں کے قریب باقی ہوگی.( یہ ڈیڑھ گھماؤں ایکڑ سے بھی کم ہوتا ہے ) ایک دن صبح کے وقت نماز فجر کے بعد میں ایک مسجد میں قرآن کریم کی تلاوت کر رہا تھا کہ وہ میرے پاس آیا اور کہا کہ دیکھ میری حالت کیا ہے؟ اور کعبے کی طرف ہاتھ کر کے کہنے لگا کہ مجھے کوئی مرزا صاحب سے عناد نہیں ہے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ - جلد 6 صفحہ 126-127) کوئی دشمنی نہیں ہے.یہ حالت ہوئی تو تب اُس کو خیال بھی پیدا ہوا.) صحابہ کی استقامت کے یہ چند واقعات ہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایسی جماعت عطا فرمائی ہے جو ثابت قدمی اور استقامت میں آج بھی غیر معمولی نمونے دکھانے والی ہے.کئی خطوط مجھے آتے ہیں، کئی لوگ مجھے ملتے ہیں اور اپنے واقعات سناتے ہیں.یہ نمونے دکھانے والے جہاں مرد ہیں، وہاں عورتیں بھی ہیں.پس جو جاگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قوت قدسی کی وجہ سے صحابہ میں لگی تھی اللہ تعالیٰ نے اب تک اُسے جاری فرمایا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ اُن صحابہ کے بھی درجات بلند فرمائے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قبول فرمایا اور استقامت سے ثابت قدمی دکھائی اور اُن کی اولادوں کو بھی استقامت بخشے.اور اب شامل ہونے والوں ، جو ہم میں موجود ہیں اور آئندہ شامل ہونے والوں کے ایمانوں کو بھی قوت اور طاقت بخشے اور استقامت بخشے.استقامت کے علاوہ بھی کچھ واقعات ہیں جو میں پیش کرتا ہوں.ان میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کی جو معجزانہ حفاظت فرمائی اور اللہ تعالیٰ کا اُن سے جو خاص سلوک تھا، اُس کا ذکر ہے جو یقیناً ہمارے لئے از دیاد ایمان کا باعث بنتا ہے.حضرت مرزا برکت علی صاحب بیان فرماتے ہیں کہ بندہ 14اپریل 1905ء کے زلزلہ عظیم میں بھا گسو ضلع کانگڑہ بمقام ایر دھرم سالہ ایک مکان کے نیچے دب گیا اور بصد مشکل باہر نکالا گیا تھا.اس موقع کے چشم دید گواه با بوگلاب دین صاحب اوورسیئر منتشر جو ان ایام میں وہاں پر بطور سب ڈویژنل آفیسر تعینات تھے، آج سیالکوٹ میں زندہ موجود ہیں.اس واقعہ کے ایک دو ماہ قبل جب حضرت مسیح موعود علیہ ا ب الصلوة والسلام نے اس زلزلہ عظیم کی پیشگوئی شائع فرمائی تھی.(اُس سے چند ماہ پہلے اس زلزلہ کی پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی تھی) کہتے ہیں.بندہ خود بھی قادیان دارالامان موجود تھا
خطبات مسرور جلد دہم 250 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 اپریل 2012ء جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے ) اور حضور کے شائع فرمودہ اشتہارات ہمراہ لے کر دھرم سالہ چھاؤنی پہنچا اور وہ اشتہارات متعدد اشخاص کو تقسیم بھی کئے تھے.چونکہ بندہ وہاں بطور کلرک کام کرتا تھا اور عارضی ملازمت میں مجھے فرصت حاصل تھی.اس لئے بندہ وہاں وقتاً فوقتاً مرزا رحیم بیگ صاحب احمدی صحابی کو بھی ملنے جایا کرتا تھا.مرزا صاحب موصوف مغلیہ برا دری کے ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور اُن کے دوسرے بھائی احمدی نہ تھے.صرف اُن کی اپنی بیوی بچے اُن کے ساتھ احمدی ہوئے اور باقی تمام لوگ اُن کی سخت مخالفت کرتے تھے.اور جو احمد کی ہوئے یہ سب لوگ جو تھے وہ محفوظ رہے اور بعض اور احمدی بھی جو مختلف اطراف سے وہاں پہنچے ہوئے تھے.مختلف جگہوں سے آئے ہوئے وہاں رہتے تھے.یہ کہتے ہیں وہ بھی سب کے سب اس زلزلے کی تباہی میں بچ گئے.وہ لکھتے ہیں کہ حالانکہ میرے خیال میں جو اموات کا اندازہ تھانوے فیصد جانوں کا نقصان تھا.اور ایسے شدید زلزلے میں ہم سب احمدیوں کا بچ جانا ایک عظیم الشان نشان تھا.اس کی تفصیل اگر پوری تشریح سے لکھوں تو یقیناً ہر طالب حق خدا تعالیٰ کی نصرت کو احمدیوں کے ساتھ دیکھے گا.( یعنی جو حق کو جاننا چاہتا ہے وہ اس زلزلے کے واقعات کو سن کر ہی یقیناً یہ محسوس کرے گا کہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت احمدیوں کے ساتھ ہے.) کہتے ہیں کہ کیونکہ میرے اہل وعیال بلکہ خانصاحب گلاب خان صاحب کے اہل و عیال اور مستری اللہ بخش صاحب سیالکوٹی اور اُن کے ہمراہ غلام محمد مستری اور دوسرے احمدی احباب کے اس زلزلے کی لپیٹ سے محفوظ رہنے کے متعلق جو قدرتی اسباب ظہور میں آئے اُن میں ایک ایک فرد کے متعلق جدا جدا نشان نظر آتا ہے.خصوصاً مستری الہی بخش صاحب کی وہاں سے ایک دن قبل اتفاقی روانگی اور ہمارے اہل و عیال کا کچھ عرصہ قبل وہاں سے وطن کی طرف مراجعت کرنا (واپس آنا ) اور زلزلے سے پیشتر بعض احباب کا دوکان سے باہر نکل جانا اور زلزلے میں دب کر عجیب و غریب اسباب سے باہر نکلنا، یعنی جو دب گئے وہ سب باتیں بھی بطور نشان تھیں.اور میرا ارادہ ہے کہ اُس پر تفصیل سے ایک مضمون لکھ کر ارسال خدمت کروں.( پتہ نہیں بعد میں انہوں نے لکھا کہ نہیں لیکن بہر حال کہتے ہیں فی الحال مختصراً ان مقامات کا تذکرہ کیا گیا ہے ( جب انہوں نے روایت درج کروائی ہے ) جن کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے ملاقات کے سلسلے میں پیش آیا.کہتے ہیں اس زلزلے کے کچھ دن بعد جب خاکسار قادیان میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور ان ایام میں آم کے درختوں کے سائے میں مقبرہ بہشتی کے ملحقہ باغ میں خیمہ زن تھے.(خیمہ میں رہا کرتے تھے.جب بندہ نے حضور سے ملاقات کی تو حضور نے میرے
خطبات مسرور جلد دہم 251 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 اپریل 2012ء متعلق کئی سوال کئے کہ آپ مکان کے نیچے دب کر کس طرح زندہ نکل آئے.تو بندہ نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے مستری اللہ بخش صاحب احمدی کی چارپائی نے بچایا جو ایک بڑی دیوار کو اپنے اوپر اُٹھائے رکھے، ( جس نے بڑی دیوار کو اپنے اوپر اُٹھائے رکھا) اور مجھے زیادہ بوجھ میں نہ دینا پڑا.ایسے ہی حضور نے اور احمدیوں کے متعلق سوالات کئے اور بندہ نے سب دوستوں کے محفوظ رہنے کے متعلق شہادت دی.حالانکہ حضور اس سے قبل اشتہار میں شائع فرما چکے تھے کہ زلزلے میں ہماری جماعت کا ایک آدمی بھی ضائع نہیں ہوا.اور مجھے یقین ہے کہ حضور کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کا علم ہو چکا تھا.ورنہ مجھ سے قبل دھرم سالے سے کوئی احمدی حضور کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا تھا.( دھرم سالے سے کوئی احمدی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں نہیں آیا تھا.یہ پہلے آدمی آئے تھے اور ان سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ساری تفصیلات معلوم کیں.لیکن جو اشتہار تھا کہ اس زلزلے میں کسی بھی احمدی کو کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا، اس بارے میں آپ نے اشتہار فرما دیا تھا.تو کہتے ہیں پس حضور سے بندہ کی ملاقات جو زلزلہ کانگڑہ کے بعد ہوئی، اس میں احمدیوں کے بچ جانے کو حضور نے ایک نشان قرار دیا ہے اور خصوصاً میرا اپنا زلزلہ میں دب کر بچ جانا نشان ہے جس کا بذریعہ تحریر اعلان کر دیا گیا ہے.مبارک وہ جو اس چشم دید نشان سے عبرت پکڑیں اور خدا کے فرستادے پر ایمان لائیں.“ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.جلد 3 صفحہ 1 -3) حضرت چوہدری عبد الحکیم صاحب بیان کرتے ہیں کہ اتفاقاً میری ملاقات مولوی بدرالدین احمدی سے ہوئی جو شہر کے اندر ایک پرائمری سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے.انہوں نے مجھے اخبار الحکم پڑھنے کو دیا.مجھے یاد ہے کہ اخبار الحکم کے پہلے صفحے پر خدا تعالیٰ کی ” تازہ وحی“ اور ” کلمات طیبات امام الزمان لکھے ہوئے ہوتے تھے.( دو ہیڈنگ ہوتے تھے کہ تازہ وحی اور کلمات طیبات امام الزمان.پہلے صفحہ پر یہ دو عنوان ہوتے تھے.) کہتے ہیں میں ان کو پڑھتا تھا اور میرے دل کو ایک ایسی کشش آور محبت ہوتی تھی که فوراً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت اقدس میں پہنچوں.اللہ تعالیٰ کا فضل شاملِ حال ہوا اور باوجود اہل حدیث کے مولویوں کے بہکانے اور ورغلانے کے میں نے تھوڑے ہی عرصے میں قبول کر لیا.مولوی بدرالدین صاحب نے مجھے قادیان فوراً جانے کا مشورہ دیا اور میرے ساتھ ایک اور اہلِ حدیث مولوی بھی تیار ہو گئے.وہ مولوی سلطان محمود صاحب اہلِ حدیث کے شاگر دخاص تھے.لکھتے ہیں کہ میری تنخواہ اُس وقت پندرہ روپے تھی اور غربت کی حالت تھی.میں نے رخصت لے لی.چونکہ ریلوے پاس کا
خطبات مسرور جلد دہم 252 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 اپریل 2012ء ابھی حق نہ تھا.میں نے بمع دوسرے دوست کے امرتسر کا ٹکٹ لیا.کیونکہ ہمارے پاس قادیان کا کرایہ پورا نہ تھا.امرتسر پہنچ کر ہمارا ٹکٹ ختم ہو گیا اور ہم نے بٹالے والی گاڑی میں سوار ہونا تھا مگر ہمارے پاس صرف آٹھ آنے کے پیسے تھے.اس لئے ہم نے دو دو آنے کا ویر کے کا ٹکٹ لے لیا اور گاڑی میں سوار ہو گئے.ویر کہ سٹیشن پر جب گاڑی پہنچی تو ہمارا ٹکٹ ختم ہو چکا تھا مگر ہم نہ اُترے اور گاڑی روانہ ہوگئی.جب دوسرے سٹیشن کے درمیان گاڑی جا رہی تھی کہ ریلوے کا ایک ملازم ٹکٹ پڑتال کرنے آیا اور سب مسافروں سے ٹکٹ دیکھنا شروع کیا.چونکہ ہمارا ٹکٹ پچھلے سٹیشن کا تھا اور ہمارے پاس رقم بھی نہ تھی.ہم دونوں اپنی بے عزتی ہونے کی وجہ سے بہت پریشان اور ہراساں ہوئے اور سوائے اللہ تعالیٰ کا دامن پکڑنے کے اور کوئی چارہ نہ تھا.ہم دونوں نے مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ہم تیرے بچے مسیح کی خدمت میں جا رہے ہیں.ہمارے پاس کچھ نہیں ہے.اپنے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خاطر جو تیرا پیارا ہے ہماری پردہ پوشی فرما اور ہم کو بے عزتی اور رسوائی سے بچا.اللہ تعالیٰ نے ہماری دعا قبول فرمائی.جب ریلوے ملازم نے ہم سے ٹکٹ طلب کیا تو ہم نے وہی ٹکٹ جو پچھلے سٹیشن کے تھے اُس کو دے دیئے اور مجھے خوب یاد ہے کہ اُس نے وہ ٹکٹ اچھی طرح دیکھ کر ہم کو واپس دے دیئے اور ہمیں کچھ بھی نہ کہا اور دوسرے کمرے میں چلا گیا.یہ ہمارے لئے ایک معجزہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے سچے اور پاک مسیح کی خاطر ہماری پردہ پوشی فرمائی اور ہم کو رسوائی سے بچا لیا اور یہ واقعہ ہمارے لئے تقویت ایمان کا باعث ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی ہمارے لئے اظہر من الشمس ہوگئی.بٹالہ سے اتر کر ہم پیدل قادیان کے لئے روانہ ہوئے اور ظہر کے وقت دار الامان پہنچے.“ 66 (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ.غیر مطبوعہ.جلد 3 صفحہ 121-123) حضرت اللہ دتہ صاحب ہیڈ ماسٹر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ہزاروں موتوں اور آفات سے غیر معمولی فضل سے بچایا.میں نے سانپوں کو پکڑا.سانپوں پر چڑھ گیا اور سانپ مجھ پر چڑھے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر جگہ سے بال بال بچایا.“ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.جلد 7 صفحہ 121 ) حضرت ماسٹر ودھاوے خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ امرتسر کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ یہاں پر طاعون بہت زوروں پر تھی.میں ایک دن سکول سے گھر آیا تو میری اہلیہ صاحبہ دروازے پر کھڑی تھیں.میں نے دریافت کیا کہ کیا بات ہے.انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے اندر چوہے مرے پڑے ہیں اور گھبراہٹ کا اظہار کیا.میں نے بڑے یقین سے کہا کہ فکر نہ کر و.ہماری جماعت
خطبات مسرور جلد دہم 253 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 اپریل 2012ء طاعون سے محفوظ رہے گی اور کوئی اندیشہ نہیں.اس کے بعد میں نے جھاڑو دے کر مکان کو صاف کر دیا.دوسرے دن پھر ایسا ہی واقعہ ہوا اور چوہوں کے ساتھ کیڑے بھی بہت سے تھے.میں نے پھر اُن کو صاف کر دیا اور اہلیہ کو تسلی دی کہ کوئی فکر نہیں.ہماری جماعت اس سے محفوظ رہے گی.تیسرے چوتھے دن کے بعد رات کے بارہ بجے مجھے میری اہلیہ نے کہا کہ مجھے تو گلٹی نکل آئی ہے.( یعنی طاعون کی گلٹی ).میں نے بڑی تسلی اور یقین کے ساتھ کہا کہ گھبرائیں نہیں.میں صبح ہی حضرت صاحب کی خدمت میں دعا کا خط لکھ دوں گا.چنانچہ میں نے صبح ہی خط لکھ دیا اور میرا خیال ہے کہ وہ خط ابھی قادیان نہیں پہنچا ہو گا کہ وہ گلٹی نا پید ہوگئی (ختم ہو گئی ) اور میری اہلیہ بالکل تندرست ہو گئی.اسی طرح پھر دوسرے تیسرے دن میرے لڑکے عبد الکریم کو جو ایک سال کا ہو گا اُسے گلٹی نکل آئی.میں نے پھر حضور کی خدمت میں دعا کے لئے خط لکھ دیا اور گھر والوں کو بہت تسلی دی.چنانچہ و گلٹی بھی خود بخود ختم ہوگئی.اُس وقت پلیگ کا اس قدر ز ور تھا کہ روزانہ دواڑھائی صد آدمی بیماری سے مرتا تھا اور اس شرح موت کا ذکر کمیٹی کی طرف سے روزانہ ہوتا تھا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ - جلد 11 صفحہ 26) اس بارے میں یہ وضاحت کر دوں کہ جب طاعون پھیلی ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بعض ہدایات بھی جاری فرمائی تھیں، شاید اُن تک پہنچی نہ ہوں یا انہوں نے اُس کو صحیح طرح سمجھا نہیں ورنہ صحابہ تو جو بھی صورتحال ہو فورا عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے جو بھی ارشاد آئے ، وہ ارشاد یا آگے پیچھے ہو گیا ہو یا یہ واقعہ بعد کا ہے یا پہلے کا.بہر حال یہ ان کی ایمان کی مضبوطی تو ہے اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان کے ایمان کو مضبوط کیا بلکہ ان کے بیوی بچوں کو بھی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس وقت جب ہر محلے میں ہر جگہ یہ طاعون پھیل گئی ہے جو ہدایات فرمائی تھیں، وہ یہ تھیں.آپ نے ایک جگہ فرمایا تھا کہ یہ ہمارا حکم ہے.بہتر ہے کہ لاہور کے دوست اشتہار دے دیں کہ جس گھر میں چوہے مریں اور جس کے قریب بیماری ہو، فورا وہ مکان چھوڑ دینا چاہئے ( یا لوگ سمجھے کہ یہ صرف لاہور کے لئے ہے.لیکن بہر حال ایک عمومی حکم ہے کہ بیماریوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے اور جو دبائیں ہوں اُن کا بہر حال تدارک کرنا چاہئے.فرمایا کہ "فور وہ مکان چھوڑ دینا چاہئے اور شہر کے باہر کسی کھلے مکان میں چلا جانا چاہئے.یہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے.ظاہری اسباب کو ہاتھ سے نہیں دینا چاہئے.گندے اور تنگ و تاریک مکانوں میں رہنا تو ویسے بھی منع ہے خواہ طاعون ہو یا نہ ہو.ہر ایک پلیدی سے پر ہیز رکھنا چاہئے.کپڑے صاف ہوں.جگہ ستھری ہو.بدن پاک رکھا
خطبات مسرور جلد دہم 254 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 اپریل 2012ء جائے.یہ ضروری باتیں ہیں اور دعا اور استغفار میں مصروف رہنا چاہیئے.پھر آگے فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی طاعون ہوئی تھی.ایک جگہ مسلمانوں کی فوج گئی ہوئی تھی.وہاں سخت طاعون پڑی.جب مدینہ شریف میں امیر المومنین کے پاس خبر پہنچی تو آپ نے حکم لکھ بھیجا کہ فورا اس جگہ کو چھوڑ دو اور کسی اونچے پہاڑ پر چلے جاؤ.چنانچہ وہ فوج اُس سے محفوظ ہو گئی.اُس وقت ایک شخص نے اعتراض بھی کیا کہ کیا آپ خدا تعالیٰ کی تقدیر سے بھاگتے ہیں؟ فرمایا میں ایک تقدیر خداوندی سے دوسری تقدیر خداوندی کی طرف بھاگتا ہوں اور وہ کونسا امر ہے جو خدا تعالیٰ کی تقدیر سے باہر ہے.“ ( ملفوظات جلد نہم.صفحہ 248) تو یہ عمومی ہدایت ہے.یہ بھی نہیں کہ جان بوجھ کے اپنے آپ کو مشکلات میں ڈالا جائے.پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے دو وعدے اپنی وحی کے ذریعے سے کئے ہیں.ایک تو یہ کہ وہ اس گھر کے رہنے والوں کو طاعون سے بچائے گا جیسا کہ اُس نے فرمایا ہے کہ اِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ.دوسرا وعدہ اُس کا ہماری جماعت کے متعلق ہے کہ اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيْمَانَهُمْ بظُلْمٍ أُولئِكَ لَهُمُ الْآمْنُ وَهُمْ مَّهْتَدُونَ ( ترجمہ ) جن لوگوں نے مان لیا ہے اور اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کو نہ ملایا.ایسے لوگوں کے واسطے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں.اس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے وعدہ ہے کہ جماعت کے وہ لوگ بچائے جائیں گے جو پوری طرح سے ہماری ہدایتوں پر عمل کریں اور اپنے اندرونی عیوب اورا اپنی غلطیوں کی میل کو دور کر دیں گے.اور اپنے نفس کی بدی کی طرف نہ جھکیں گے.بہت سے لوگ بیعت کر کے جاتے ہیں مگر اپنے اعمال درست نہیں کرتے.صرف ہاتھ پر ہاتھ رکھنے سے کیا بنتا ہے؟ خدا تعالیٰ تو دلوں کے حالات سے واقف ہے.“ ( بدر جلد 6 نمبر 14 صفحہ 7 مؤرخہ 14 اپریل 1907ء) پس یہ دو باتیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے وعدے ہیں.ہر مشکل، ہر مصیبت، ہر وبا سے بچنے کے لئے ہمیں اپنے ایمانوں کی طرف دیکھنے کی ہر وقت ضرورت ہے کہ کس حد تک ہم اپنے ایمان میں کامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں؟ حضرت مولوی صوفی عطا محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اب ملنا میرے لئے مشکل تھا ( یعنی جن حالات میں وہ تھے ان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملنا مشکل تھا) کیونکہ رخصت تو ملتی نہیں تھی.اتفاق سے اخبار میں یہ پڑھا کہ حضرت اقدس جہلم تشریف لا رہے ہیں اور مجھے تو جہلم جانے کی بھی اجازت نہ مل سکتی تھی مگر میں بہت بیقرار تھا.گھر والوں کو میں نے کہا کہ کل اتوار ہے
خطبات مسرور جلد دہم 255 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 اپریل 2012ء اور حضرت اقدس جہلم تشریف لائے ہیں.آپ کسی کو بتائیں نہیں، میں جاتا ہوں.وقت گاڑی کا بالکل تنگ تھا اور تین میل پر سٹیشن تھا.رستہ پہاڑی ، رات کا وقت ، دن کو بھی لوگوں کو اُس طرف پر چلنا مشکل تھا.میں نے خدا پر توکل کیا اور چل پڑا.اتفاق سے کوئی بھی تمام راستہ میرے آگے چلتی گئی.شاید کوئی اور آدمی بھی جار ہا ہوگا.خدا خدا کر کے پہاڑی رستہ دوڑتے ہوئے طے کیا.جب سٹیشن پر پہنچا تو گاڑی بالکل تیار تھی.ٹکٹ لیا اور جہلم پہنچا اور حضور کی زیارت سے مشرف ہوا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ - جلد 11 صفحہ 209-210) حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں اس وقت بالکل نوجوان تھا.کپور تھلے میں ایک رات مجھے ایک خواب آیا کہ ایک ہاتھی ہے.میں اُس کے نیچے آ گیا ہوں اور اس کا پیٹ میرے اوپر ہے.جب صبح ہوئی تو خانصاحب عبدالمجید خان صاحب نے مجھے کہا کہ مولوی صاحب! آج دریائے بیاس میں طغیانی آئی ہوئی ہے اور ہم ہاتھیوں پر بغرض سیر و تفریح و ہاں دریا کا نظارہ دیکھنے کے لئے جانے کے لئے تیار ہیں.آپ بھی ضرور تشریف لے چلیں.میں نے عرض کیا کہ میں نہیں جا سکتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آج رات میں نے ایک سخت مندر خواب دیکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ میں ہاتھی کے نیچے آ گیا ہوں.لیکن وہ یہ خواب سن کر بھی برابر اصرار ہی کرتے رہے اور میں بار بارا نکار کرتا کیونکہ میرے قلب پر اس خواب کا بہت برا مہیب اثر مستولی ہورہا تھا.اور جب میں نے خانصاحب سے یہ فقرہ سنا کہ وہ فرماتے ہیں کہ دریا پر جانے کے لئے ہاتھیوں پر سوار ہو کر جانا ہے تو ہاتھیوں کا نام سن کر اور بھی میرے دل پر اس خواب کا شدید اثر محسوس ہوا.پھر تو میں نے شدت کے ساتھ انکار کیا اور ساتھ جانے سے اعراض کیا.پھر خانصاحب کے ساتھ اور کئی دوست بھی جانے کے لئے مصر ہوئے (اصرار کرنے لگے.) اُن دوستوں کے بے حد اصرار کی وجہ سے آخر میں نے سمجھا کہ قضا و قدر یہی مقدر معلوم ہوتی ہے کہ جو کچھ وقوع میں آنا ہے وہ ہو کر ر ہے.تب میں بادل نخواستہ اُن کے ساتھ تیار ہو گیا اور دوستوں نے کئی ہاتھی تیار کئے اور تین ہاتھی تھے یا چار جن پر دوست سوار ہوئے.مجھے بھی خانصاحب موصوف نے اپنی معیت میں ایک ہاتھی پر سوار کیا.جب دریا پر گئے تو قضاء و قدر نے ظاہری ہاتھیوں کی صورت میں تو اس مندرخواب کی حقیقت ظاہر نہ ہونے دی بلکہ اس کے لئے ایک دوسرا پیرا یہ اختیار کیا کہ جب ہم ہاتھیوں سے اتر کر برلپ در یا کھڑے ہوکر نظارہ کرنے لگے تو ایک نوجوان کو دیکھا کہ اس طغیانی کے موقع پر دریا کا پل جو اپنے نیچے کئی درے رکھتا تھا، وہ اس کے قریب کے ڈر سے پل کے اوپر سے چھلانگ لگا کر کود پڑتا، پھر پل کے نیچے سے قریب کے در سے
خطبات مسرور جلد دہم 256 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 اپریل 2012ء گزر کر دوسری طرف نکل آتا.میں بھی کچھ کچھ تیرا کی جانتا تھا.میں نے اُسے کہا کہ بھائی ! آپ قریب کے در سے گزرتے ہیں، بات تب ہو کہ آپ کسی دور کے ڈر سے گزریں.اُس نے کہا دریا زوروں پر ہے کیونکہ طغیانی کا موقع ہے.اس لئے کسی دور کے در سے پل کے نیچے سے گزرنا اس وقت بہت مشکل ہے.میں نے کہا تیرا کی آتی ہے تو پھر کس بات کا خوف ہے؟ اُس نے کہا کہ آپ تیرا کی جانتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں! کچھ جانتا ہوں.اُس نے کہا پھر آپ ہی گزر کے دکھا ئیں.میں نے کہا بہت اچھا.میں نے لنگوٹ پہن کر دور کے ڈر سے گزرنے کی غرض سے پل کے اوپر سے چھلانگ لگائی.پہلی دفعہ تو میں درے کے پل کے نیچے سے صاف گزر گیا لیکن دوسری دفعہ پھر اور دُور کے در سے گزرنے کے لئے چھلانگ لگانے لگا.جب پل کے اوپر سے میں نے چھلانگ لگائی تو اتفاق سے جہاں میں نے چھلانگ لگائی اور گرا وہ سخت بھنور اور گرداب کی جگہ تھی.(یعنی اُس جگہ میں بہت زیادہ بھنور تھا.جہاں پانی چکی کی طرح بہت ہی بڑے زور سے چکر کھا رہا تھا.میں گرتے ہی اس گرداب میں پھنس گیا اور ہر چند کوشش کی کہ وہاں سے نکل سکوں لیکن میری کوشش عبث ثابت ہوئی.آخر میں اسی گرداب میں کچھ وقت تک پانی کی زبر دست طاقت کے نیچے دب گیا اور میرے لئے بظاہر اس گرداب سے نکلنا محال ہو گیا.اور میری مقابلہ کی قوتیں سب کی سب بریکار ہونے لگیں اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ دو تین منٹ کے اندراندراب میری زندگی کا نظام درہم برہم ہوکر میرا کام تمام کر دیا جائیگا.اُس وقت سب احباب جو پل کے اوپر سے میری اس حالت کا نظارہ کر رہے تھے وہ شور کرنے لگے کہ ہائے افسوس! مولوی صاحب گرداب میں پھنس کر اپنی زندگی کے آخری دم توڑنے کو ہیں.اُس وقت عجیب بات قضاء و قدر کے تصرف کی یہ تھی کہ احباب باوجود واویلا کرنے اور شور مچانے کے کہ میں ڈوب رہا ہوں ، انہیں یہ بات نہ سوجھ سکی کہ وہ سر سے پگڑی اتار کے ہی میری طرف پھینک دیتے ، تا میں اس پگڑی کا ایک سرا پکڑ کر کچھ بچاؤ کی صورت اختیار کر سکتا.مگر یہ خیال کسی کی سمجھ میں نہ آسکا.اب میری حالت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ عالم اسباب کے لحاظ سے بالکل مایوس کن حالت ہو رہی تھی اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میری زندگی کا سلسلہ اب صرف چند لمحوں تک ختم ہو جانے والا ہے اور میں آخری سانس لے رہا ہوں.اتنے میں قضاء و قدر نے ایک دوسراسین بدلا اور حضرت خالق الاسباب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طفیل برکت، جن کی اجازت اور ارشاد کے تحت خاکسار نے کپور تھلے کا سفر اختیار کیا تھا، میری حفاظت اور بچاؤ کے لئے بالکل ایک نئی تجلی قدرت کی نمایاں فرمائی اور وہ اس طرح کہ میں جس گرداب میں غوطے کھار رہا تھا اور کبھی نیچے اور کبھی اوپر اور کبھی پانی کے اندر اور کبھی پانی سے باہر سر نکالتا
خطبات مسرور جلد دہم 257 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 اپریل 2012ء تھا اور جو کچھ یہ ہو رہا تھا میری طاقت اور اختیار سے باہر کی بات تھی ، اُس وقت پانی اپنی طغیانی اور طاقت کے ساتھ مجھ پر پورے طور پر متصرف نظر آتا تھا کہ ناگاہ کسی زبردست ہاتھ نے مجھے اُس گرداب کے چکر سے باہر پھینکا اور زور کے ساتھ اتنا دور پھینکا کہ میں کنارے کی طرف ایک ببول کا بہت بڑا درخت جو دریا کے کنارے سے دریا کے اندر دور تک گھرا پڑا تھا اُس کی شاخ میرے ہاتھ میں محض قدرت کے تصرف سے آگئی اور میں سنبھل گیا اور شاخوں کا سہارا لے کر دیر تک آرام کی خاطر وہاں خاموش کھڑا رہا.پھر خدا کے ، ہاں محض حضرت خیر الراحمین کے فضل و کرم سے میں باہر سلامتی کے کنارے تک پہنچ گیا.اُس وقت مجھے وہ خواب اور اُس کی یہ تعبیر آنکھوں کے سامنے آگئی.اور مجھے اُس وقت یہ بھی معلوم ہوا کہ قضاء وقدر رویا میں ہاتھی کے نیچے آنے کی تعبیر میں کبھی ہاتھی کی جگہ کوئی دوسری آفت بھی ظاہر کر دیتی ہے.حالانکہ اس سفر میں ہاتھی پر ہی ہم سوار ہوکر دریا پر پہنچے لیکن رویا کا انذاری پہلو ہاتھی کی جگہ دریا کے حادثہ کی صورت میں ظاہر ہوا.دوسرے مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ گرداب سے میرا بچ جانا بطفیل برکات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہوا تھا اور آپ کی اجازت اور ارشاد کے ماتحت میرا کپور تھلے میں آنا اور خدمتِ سلسلہ میں تبلیغ کا کام کرنا، اس کی وجہ سے میں ہلاکت سے بچایا گیا ورنہ اسباب کے لحاظ سے حالات بالکل مایوس کن نظر آتے تھے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.جلد 10 صفحہ 19 ، 25 تا 28) تو یہ واقعات بھی صحابہ کی ایمانی حالت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یقین کا اظہار کرتے ہیں.حضرت مولوی صاحب نے جس طرح بیان فرمایا ہے اگر کوئی دنیا دار ہوتا تو اس کو اتفاقی بات قرار دیتا کہ اتفاق ایسا ہوا کہ دریا نے مجھے پھینک دیا.لیکن حضرت مولوی صاحب نے دین کی خاطر سفر کو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کو اس کی وجہ قرار دیا.تو یہ ہے جو ایمانی حالت ہے جو ہم سب میں پیدا ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 11 مئی تا 17 مئی 2012 جلد 19 شماره 19 صفحه 5 تا 9)
خطبات مسرور جلد دہم 258 17 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 اپریل 2012ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت رزاسرود احمد خلیفہ امسح الامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 27 اپریل 2012 ء بمطابق 20 شہادت 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد دارالامان مانچسٹر تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْمعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ - رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةٌ مُسْلِمَةٌ لَّكَ وَارِنَا منَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُم يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايَتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۖ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقرة: 128 تا 130) ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ: اور جب ابراہیم اُس خاص گھر کی بنیادوں کو استوار کر رہا تھا اور اسماعیل بھی ( یہ دعا کرتے ہوئے ) کہ اے ہمارے رب ! ہماری طرف سے قبول کر لے.یقیناً تو ہی بہت سننے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے.اور اے ہمارے رب! ہمیں اپنے دوفرمانبردار بندے بنا دے اور ہماری ذریت میں سے بھی اپنی ایک فرمانبردار امت پیدا کر دے.اور ہمیں اپنی عبادتوں اور قربانیوں کے طریق سکھا اور ہم پر تو بہ قبول کرتے ہوئے جھک جا.یقینا تو ہی بہت توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.اور اے ہمارے رب ! تو ان میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کر جوان پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب کی تعلیم دے اور اس کی حکمت بھی سکھائے اور ان کا تزکیہ کردے.یقینا تو ہی کامل غلبہ والا اور حکمت والا ہے.ان آیات میں وہ عظیم نمونہ اور دعا بیان ہوئی ہے جس میں عاجزی اور انکساری ، قربانی و وفا، اپنی نسل کے خدا تعالیٰ سے جڑے رہنے کی فکر اور دعا، دنیا کی ہدایت اور رہنمائی اور عبد رحمان بننے کی فکر اور دعا کے اعلیٰ ترین معیار قائم کئے ہیں.پہلی آیت میں اُس قربانی کا ذکر ہے.بہت بڑی قربانی جو
خطبات مسرور جلد دہم 259 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 اپریل 2012ء حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کی تھی.یعنی ہر پتھر جو خانہ کعبہ کی دیواروں پر بچنا جار ہا تھا وہ اس بات کی طرف بھی توجہ دلا رہا تھا کہ اب اس گھر کے مکمل ہونے کے بعد باپ نے بیٹے اور اُس سے پیدا ہونے والی نسل کو اس بے آب و گیاہ جگہ میں ہمیشہ کے لئے آباد کرنا ہے.اور بیٹے کو توجہ دلا رہا تھا کہ تم نے اب اس بے آب و گیاہ جگہ میں اس گھر کی رونق قائم کرنے کے لئے یہیں رہنا ہے.ان دونوں بزرگوں کو، اللہ تعالیٰ کے ان فرستادوں کو خدا تعالیٰ کے وعدوں پر یہ تو یقین تھا کہ ایک روز اس گھر نے تمام دنیا کا محور بنتا ہے مگر یہ کیا پتہ تھا کہ یہ سب کچھ کب ہوگا ؟ اُس وقت تو صرف قربانی اور صرف قربانی ہی نظر آ رہی تھی لیکن اس کے باوجود عاجزی کی انتہا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کر رہے ہیں کہ ہم تیرے گھر کی تعمیر کا جو یہ کام کر رہے ہیں، یہ تیرے ہی فضل سے ہے.پس ہماری اس قربانی کو قبول فرما لے.کوئی اظہار بڑائی نہیں کہ ہم نے جو کام کیا ہے یہ ہمارا حق بنتا ہے کہ اس کا بدلہ ہمیں ملے اور جلد ملے.بلکہ اے خدا! اے سمیع و علیم خدا! جو دعاؤں کا سننے والا ہے، تو ہماری دعاؤں کو سن لے.ہمارے پاس جو قربانی کرنے کے لئے تھا وہ کر دیا اور آئندہ بھی عہد کرتے ہیں کہ قربانی کریں گے بلکہ ہم تو چاہتے ہیں کہ ہماری نسلیں بھی اس قربانی میں شامل ہوں.یہ وہ دعا تھی جوان دو بزرگوں نے کی.پھر یہ اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے دل کی حقیقت تیرے سامنے رکھ دی.تو علیم ہے جانتا ہے کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں ،صرف اور صرف تیری رضا کے حصول کے لئے کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں.تو ہماری اس قربانی کو قبول کر کے اب جلدا سے ایسا گھر بنادے جو تیرا گھر ہو اور تیرا گھر ہونے کی برکت سے یہ بیابان آباد ہو جائے.ہم تو تیرے حکم سے جو سمجھے اُس کی ظاہری تعمیل میں اس گھر کی تعمیر ہوگئی تا کہ آبادی کا مرکز بن جائے لیکن اس کی حقیقی آبادی اے اللہ! تیرے فضل پر منحصر ہے.اس گھر کو ظاہری طور پر آباد کرنے والوں کو بھی وہ بصیرت اور بصارت عطا فرما جو تجھ تک پہنچانے والی ہو اور روحانیت میں بڑھانے والی ہو.پس یہ وہ روح تھی جس کی تتبع میں مسلمانوں کی مساجد تعمیر ہوتی ہیں اور ہونی چاہئیں.ورنہ خوبصورت عمارات تو کوئی چیز نہیں ہیں.بڑی خوبصورت مساجد بنتی ہیں لیکن اُن میں روح مفقود ہوتی ہے.جو مقصد ہے وہ اُن میں نہیں پایا جاتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ مساجد میں نقش و نگار نہیں ہونے چاہئیں.(سنن ابن ماجه کتاب المساجد والجماعة باب تشييد المساجد حدیث (741) جس طرح دوسرے مذاہب والوں نے اپنی عبادت گاہوں میں نقش و نگار بنائے ہوتے ہیں.لیکن بہت سی مساجد ہمیں نقش و نگار والی نظر آتی ہیں جو بادشاہوں نے بنائیں، امراء نے بنائیں، بلکہ بعض
خطبات مسر در جلد دہم 260 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 اپریل 2012ء پر بادشاہوں نے سونے کا پانی بھی پھر وا یا.لیکن یہ اُن کا حسن نہیں ہے، نہ یہ سونے کا پانی، نہ ینقش ونگار.مساجد کا حسن تو اُن کی آبادی سے ہے.ایسی آبادی جو خالصہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جگہ ذکر کیا، غالباً مصر کا ذکر ہے کہ میں ایک عرب ملک میں ایک بہت بڑی اور خوبصورت مسجد میں جب گیا تو دیکھا کہ چار پانچ نمازی ایک کونے میں نماز پڑھ رہے تھے.جب اُن سے پوچھا کہ یہ کیا قصہ ہے؟ تو مسجد کا امام جواُن کو نماز پڑھا رہا تھا ، اُس نے کہا کہ لوگ نماز کے لئے نہیں آتے اور میں شرم کی وجہ سے محراب میں کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھا تا کہ کوئی نیا آنے والا یہ دیکھ کر کیا کہے گا کہ اتنی بڑی اور خوبصورت مسجد ہے اور نمازی چار پانچ ہیں.اس لئے ہم کونے میں نماز پڑھ لیتے ہیں تا کہ لوگ سمجھیں کہ اصل نماز ہو گئی ہے اور یہ بعد میں آنے والے نماز پڑھ رہے (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 5 صفحه 357) ہیں.لیکن دوسری صورت بھی ہے کہ مسجدوں میں لوگ جاتے بھی ہیں، کافی آبادی ہوتی ہے لیکن دل عموماً اُس روح سے خالی ہوتے ہیں جو ایک مسجد میں جانے والی کی ہونی چاہئے.دنیا داری نمازوں کے دوران بھی غالب رہتی ہے.توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف خالص نہیں ہوتی.پس ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم جب مسجد بناتے ہیں یا بنا ئیں تو خدا تعالیٰ کے حضور جھکنے اور اُس کی رضا کے حصول کے لئے بنانے والے ہوں اور مسجد بنانے کے لئے جو قربانی کی ہے، اُس پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کریں نہ کہ کسی قسم کا فخر.کیونکہ ہماری یہ جو قربانی ہے، جو ہم کرتے ہیں، یہ اُس قربانی کا لا کھواں حصہ بھی نہیں ہے بلکہ اس سے بھی بہت کم ہے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی تھی.صرف مال کی قربانی ہم کرتے ہیں اور وہ بھی عموماً اپنے وسائل کے مطابق.یقیناً آج کل کی دنیا میں یہ بھی بہت بڑی قربانی ہے کہ مالی قربانی کی جائے، نیک مقصد کے لئے قربانی کی جائے ، اپنی ترجیحات بدل کر مالی قربانی کی جائے اور مسجدوں کی تعمیر کرنا ایک قابل تعریف کام ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت مواقع پر اس کی طرف توجہ دلائی ہے.اللہ تعالیٰ کے حضور ایسے لوگ جزا پانے والے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو مغربی ممالک میں اس طرف بہت توجہ پیدا ہوئی ہے اور مساجد بن رہی ہیں اور اپنی ترجیحات بعضوں نے تو اس حد تک بدل لی ہیں کہ زائد پیسے میں سے نہیں بلکہ اپنے آپ کو مشکل میں ڈال کر پھر قربانیاں کرتے ہیں.لیکن پھر بھی ہمیں یادرکھنا چاہئے کہ ہمیں کبھی کوئی فخر نہیں ہونا چاہئے.اس مسجد کی تعمیر پر تقریباً بارہ لاکھ پاؤنڈ خرچ ہوئے ہیں یعنی ایک اعشاریہ دوملین پاؤنڈ اور
خطبات مسرور جلد دہم 261 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 اپریل 2012ء جماعت نے یہاں قریباً اتنی رقم کے وعدے کئے اور ادائیگی بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو رہی ہے.پچھتر (75) فیصد ادائیگی کر بھی دی.بعض نے بڑی بڑی قربانیاں بھی دیں.میں دیکھ رہا تھا کہ چوراسی (84) ہزار پاؤنڈ یا اٹھہتر (78) ہزار پاؤنڈ تک بھی ایک ایک آدمی نے قربانی دی ہے اور ایسے افراد بھی ہیں جنہوں نے پندرہ میں ہزار، تیس ہزار کی رقمیں دیں.تقریبا گیارہ آدمیوں کے گل وعدے میں دیکھ رہا تھا کہ تین لاکھ سے اوپر بنتے ہیں.تو یہ بہت بڑی قربانی ہے جو آجکل کے حالات میں جماعت کے افراد کرتے ہیں.لیکن پھر بھی ہر قربانی جو ہے وہ ہمیں عاجزی کی طرف متوجہ کرنے والی ہونی چاہئے.کیونکہ اس سب کے باوجود اللہ تعالیٰ نے جو نمونہ ہمارے سامنے پیش فرمایا وہ یہ ہے کہ ہماری قربانیاں حقیر ہیں اُن کی کوئی حیثیت نہیں.دوسرے ان قربانیوں کا فائدہ تبھی ہے جب اس گھر کی آبادی بھی ہو.ایک وہ بے آب و گیاہ جگہ تھی.بیابان تھا جہاں آبادی نہیں تھی اور وہاں اللہ تعالیٰ کا گھر بنایا گیا اور ان ممالک میں روحانی لحاظ سے یہ بنجر علاقے ہیں.ان علاقوں کو بھی آباد کرنا ہے اور سرسبز بنانا ہے اور اسی مقصد کے لئے ہم یورپ میں مساجد تعمیر کر رہے ہیں.پس یہ بہت بڑا کام ہے جس کو ہمیں ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھنا چاہئے.صرف جمعوں کی آبادی سے ہماری مسجد میں آباد نہیں ہو سکتیں بلکہ نمازوں کی حاضری بھی ہو.اور آج جب اس مسجد کا افتتاح ہم کر رہے ہیں تو یہ دعا کریں کہ رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ - پس ہماری مالی قربانیاں اُس وقت قبولیت کا درجہ پائیں گی جب ہم خدا تعالیٰ سے یہ عہد بھی کریں اور دعا بھی کریں کہ ان قربانیوں کو قبول فرماتے ہوئے ہماری روحانی ترقی کے بھی سامان فرما اور اس مسجد کو آباد رکھنے کی توفیق بھی عطا فرما.کیونکہ تو جانتا ہے کہ خالصتاً تیری عبادت کے لئے یہ مسجد کی تعمیر ہورہی ہے اور پھر اس علاقے میں ایسے لوگوں کی آبادی کر جو روحانیت میں ترقی کرنے والے ہوں.کیونکہ تیرے ذکر سے پررکھنے کے لئے یہ مسجد تعمیر کی گئی ہے.پس ہماری قربانی قبول کر کے ہمیں اُس روحانی مقام پر پہنچا جو تیرے قرب کا ذریعہ بنائے.تا کہ تیرے انعامات حاصل کرتے ہوئے ہم تیری جنتوں کے وارث بن جائیں.احادیث میں آتا ہے.مسند احمد بن حنبل کی ایک حدیث ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے روز رب عز و جل فرمائے گا کہ مجمع والے عنقریب جان لیں گے کہ کون بزرگی اور شرف والے ہیں.کسی نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! بزرگی اور شرف والے کون ہیں؟ آپ نے فرما یا مساجد میں ذکر
خطبات مسر در جلد دہم 262 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 اپریل 2012ء کی مجالس لگانے والے.(مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحه 173 مسند ابی سعید الخدری حدیث 11675 مطبوعه بيروت 1998ء) پھر بخاری کی ایک حدیث ہے جو حضرت ابوہریرۃ سے روایت ہے.روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”جو صبح و شام مسجد کو جاتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کے لئے جنت میں 66 مہمان نوازی کا سامان تیار کرتا ہے.“ (صحیح بخاری کتاب الأذان باب فضل من غدا الى المسجد ومن راح حديث (662) پس ہماری مساجد بزرگی اور شرف کے معیار قائم کرنے والی ہونی چاہئیں.اللہ کرے کہ یہ مسجد بھی اور اس میں آنے والے بھی، اللہ تعالیٰ کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ لوگ ہوں.جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں.جنت میں اللہ تعالیٰ کی مہمان نوازی سے حصہ پانے والے ہوں.پس کیا ہی خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس نیت سے مسجدیں بناتے ہیں اور اس نیت سے مسجدوں میں آتے ہیں اور صرف اس دنیا کی جنت نہیں بلکہ اُس دنیا میں بھی ، جو دوسری دنیا ہے وہاں بھی اُن کو جنتیں ملتی ہیں.یا یوں کہہ لیں کہ صرف اُس دنیا کی جنت کی تلاش نہیں کرتے جس کا ذکر حدیث میں ہے بلکہ اس دنیا کی جنت بھی تلاش کرتے ہیں.ہماری اکثر مساجد میں گنبد کے نیچے لکھا ہوتا ہے، یہاں بھی اس گولائی میں لکھا ہوا ہے کہ أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد: 29) کہ آگاہ ہو جاؤ.اللہ کے ذکر سے ہی دل اطمینان پاتے ہیں.پس جن کے دل اطمینان پا جائیں، اُن کے لئے اس سے بڑی جنت کونسی ہوگی ؟ آجکل دنیا میں جس قدر بے چینیاں پیدا ہو رہی ہیں وہ خدا تعالیٰ کو بھولنے کی وجہ سے ہیں.خدا تعالیٰ کو یاد رکھنے والے، اُس کے ذکر سے اپنی زبانوں کو تر کرنے والے تو تکلیفوں کو بھی خدا تعالیٰ کی خاطر برداشت کرتے ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ بنا کر اپنے دلوں کی تسکین کا باعث بناتے ہیں.دنیا میں سینکڑوں لوگ اس لئے خود کشیاں کرتے ہیں، روزانہ کرتے ہیں، کہ وہ دنیا وی صدمات برداشت نہیں کر سکتے یا بعضوں کو دنیاوی صدمات کا اتنازیادہ اثر ہوتا ہے کہ ویسے ہی اُن کو دل کے دورے پڑ جاتے ہیں.ابھی گزشتہ دنوں مجھے کسی نے پاکستان سے لکھا کہ وہاں شیخو پورہ کے علاقے میں شاید شدید طوفان اور ژالہ باری ہوئی اور لوگوں کی فصلیں تباہ ہوگئیں.ایک زمیندار اپنے کھیت میں گیا، خربوزے کی شاید فصل تھی.دیکھا تو سب ختم ہوا ہوا تھا.اُس کو اتنا صدمہ پہنچا کہ وہ چیز دیکھ کر ہی اُس کو دل کا حملہ ہوا اور وہ وفات پا گیا.تو یہ جود نیاوی صدمات ہیں وہ اللہ والوں کو دنیاوی نقصانوں سے نہیں ہوتے بلکہ وہ ہر صدمہ پر اللہ تعالیٰ سے کو لگاتے ہیں.
خطبات مسرور جلد دہم 263 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 اپریل 2012ء مومن ہمیشہ صدمات پر خدا تعالیٰ کی آغوش میں آتے ہوئے اطمینانِ قلب پاتا ہے.قرآنِ کریم میں ایک جگہ سورۃ رحمان میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّاتِنِ (الرحمن: 47) کہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اُس کے لئے دو جنتیں ہیں.پس جو اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ذکر، اُس کی عبادت کرنے والے ہیں وہ اطمینانِ قلب حاصل کر کے اس دنیا میں بھی جنت حاصل کرتے ہیں اور پھر اس دنیا کی جنت جو ایک بندے کو عبد رحمان بننے کی وجہ سے ملتی ہے، وہ اگلے جہان کی جنت کا بھی وارث بنادیتی ہے.پھر اگلی آیت جو میں نے تلاوت کی ہے.اس میں حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل یہ دعا مانگ رہے ہیں کہ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ کہ اے ہمارے رب ! ہم جو دو ہیں، ہمیں نیک بندے بنادے.یہ بھی دیکھیں ، پھر ایک اور دفعہ انتہائی عاجزی کا مقام ہے.سب قربانیاں کرنے کے باوجود، اللہ تعالیٰ کے فرستادے ہونے کے باوجود پھر بھی یہ دعا ہے کہ اے خدا! ہمیں تو اپنے نیک بندے بنادے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنی بیوی اور بیٹے کو بے آب و گیاہ جگہ میں خدا کے حکم کی تعمیل میں چھوڑنے کے باوجود یہ عرض ہے کہ مجھے اپنا فرمانبردار بنادے.سب کچھ اللہ تعالیٰ کی خاطر دے دیا.اولا د دے دی.بیوی دے دی.پھر بھی یہ ہے کہ ایسی فرمانبرداری عطا فرما کہ میں کامل اطاعت کرنے والا بن جاؤں.بیٹے کا گلے پر چھری پھروانے کے لئے تیار ہونے کے باوجود جو خالصتہ اللہ تعالیٰ کی خاطر تھا، پھر یہ عرض ہے کہ ہمیں ہر حکم کو ماننے والا اور فرمانبردار اور نیک بنادے.پس یہ مقام ہے جو ایک مومن کو حاصل کرنا چاہئے کہ کبھی اپنی نیکیوں پر فخر نہ ہو.نہ ہی اُن پر بھروسہ ہو.کبھی اپنی قربانیوں کا مان نہ ہو.خدا تعالیٰ کے حضور تو ڈرتے ڈرتے ہر وقت یہ عرض ہے کہ اے اللہ ! ہمارے عمل تو کچھ بھی نہیں ہیں.اگر تیرا افضل ہوگا تو ہم نیک بندے بن سکتے ہیں.عبد رحمن بن سکتے ہیں.پس ہماری استدعا ہے ، ہماری دعا ہے ، عاجزانہ درخواست ہے کہ ہمیں نیکیوں پر قائم رکھنا اور اپنے ساتھ وفا کا تعلق رکھنے والا بنانا.اپنی رضا پر چلنے والا بنانا کہ یہی وہ عظیم مقصد ہے جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے.اور پھر صرف اپنے لئے ہی نہیں بلکہ ہم اپنی نسل کے لئے بھی دعا کرتے ہیں.وہ دعا یہ ہے کہ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةٌ لَّكَ کہ اور ہماری ذریت میں سے بھی فرمانبردار اور تیرے احکام بجالانے والی امت پیدا کر.پس اللہ کا گھر بنا کر پھر اپنی زندگی تک ہی اُس کی آبادی کی فکر نہیں بلکہ عرض کی کہ اس کو آبادرکھنے
خطبات مسرور جلد دہم 264 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 اپریل 2012ء کے لئے ، اس سے روحانی فیض پانے کے لئے ، تیری کامل فرمانبرداری کرنے کے لئے ہماری نسلوں میں سے بھی ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں اور یہی ایک مومن کی بھی دعا ہونی چاہئے.پس یہی سبق ہے جو آج ہمارے لئے ہے کہ مسجد کے ساتھ صرف بڑے بوڑھوں کا تعلق قائم نہ ہو یا جو فارغ لوگ ہیں اُن کا تعلق قائم نہ ہو بلکہ اپنی مصروفیت میں سے بھی وقت نکال کر لوگ عبادت کے لئے یہاں آئیں اور آباد کریں.اپنی نسلوں کا تعلق پیدا کرنے کی بھی ہم کوشش کریں.ہماری نسلوں میں نو جوانوں اور بچوں میں بھی عبادت کی تڑپ پیدا ہو جائے.اس کے لئے جہاں عملی کوشش کی ضرورت ہے وہاں بہت بڑا ذریعہ دعا ہے.اللہ تعالیٰ جو دلوں کا حال جاننے والا ہے اور سننے والا ہے، نیک نیتی سے کی گئی دعاؤں کو سنتا ہے.اس لئے دعا مانگیں کہ جب یہ عبادتوں کی جاگ، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی جاگ لگتی ہے تو یہ ایک نسل کے بعد دوسری نسل میں لگتی چلی جائے.اگر خود عبادتوں میں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے میں سنتی ہو تو نسلوں میں بھی پھر ستی رہتی ہے.پس ہر مسجد کی تعمیر کے ساتھ جہاں ہمیں اپنی حالتوں کی طرف توجہ دینے کی اور دعاؤں کی ضرورت ہے وہاں اپنی اولاد کی تربیت کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے.حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جو یہ دعا ہے کہ وارنا مَنَاسِكَنَا وَ تُبْ عَلَيْنَا.یہ ہمیں اپنی تربیت اور عبادتوں کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے اور اپنی اولاد کی بہتر حالتوں کی طرف لے جانے کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے.مناسگنا کا مطلب ہے کہ عبادت اور حقوق اور وہ تمام باتیں جو خدا تعالیٰ کے حضور ہمیں ادا کرنی چاہئیں.پس عبادت کے ساتھ تمام حقوق اللہ ادا کرنے کی طرف ہمیں توجہ دلائی ہے اور پھر یہ بھی کہ ان عبادتوں اور حقوق اللہ کی ادائیگی کے بعد اپنے زعم میں کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں نے بہت کچھ کر لیا ہے.یہ دعا ہے کہ تب عليند ہماری توبہ قبول کر لے.ہماری طرف متوجہ ہو.اور ایسی توبہ قبول کر کہ اگر ہم چھوٹی موٹی غلطیاں کر بھی جائیں تو درگزر کر دیا کر.تو یقیناً تو بہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے.پس جب ایک تسلسل سے خود بھی یہ دعا کی جائے گی تو مسجد کی تعمیر کا مقصد بھی پورا ہو گا.اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کوشش کا حق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ ہو گی.اپنی اولادوں کو بھی اس راستے پر ڈالنے کی کوشش ہوگی اور اُن اعلیٰ ترین برکات اور رحمتوں کا فیض بھی ہمیں ملے گا جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعاؤں کی قبولیت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جاری فرمایا اور جن برکات نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر ایک ایسا انقلاب پیدا کیا کہ مُردے زندہ ہونے لگے.روحانیت
خطبات مسرور جلد دہم 265 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 اپریل 2012ء کے نئے نئے چشمے پھوٹنے لگے.عبادتوں کے ایسے معیار قائم ہوئے جو نہ کسی نے پہلے دیکھے، نہ سنے.اور وہ عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوا جس پر عبادتوں کی بھی انتہا ہوئی.جس پر وفاؤں کی بھی انتہا ہوئی.جس پر حقوق اللہ کی ادائیگی کی بھی انتہا ہوئی اور پھر اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ پاتے ہوئے یہ سب باتیں اُس مقام پر پہنچیں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے پیارے رسول حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اعلان کروایا کہ قُلْ اِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ العلمين (الانعام : 163 ).تو اعلان کر دے کہ یقیناً میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جو رب العالمین ہے.پس یہاں اللہ تعالیٰ کے نزدیک عبادتوں، قربانیوں اور ہر عمل کے وہ معیار قائم ہوئے جو نہ پہلے کبھی دیکھے گئے ، نہ سنے گئے ، جیسا کہ میں نے کہا.یہ وہ معراج تھی جو ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی.اللہ تعالیٰ نے دنیا کے لئے یہ اعلان کروا دیا کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اب اسی عظیم رسول کی اتباع سے مل سکتی ہے، اس کے بغیر نہیں مل سکتی.یہ اسوہ حسنہ ہے جس میں عبادتوں اور قربانیوں کے معیار قائم ہوئے ہیں.اور پھر جنہوں نے آپ کی قوت قدسی سے براہ راست فیض پایا اُن کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے فیض پانے کے نئے سے نئے راستے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے سے کھلتے چلے گئے.ساری ساری رات عبادتیں کرنے والے اور دن کے وقت دین کی خاطر قربانیاں کرنے والے پیدا ہوئے.جو روحانی لحاظ سے مردے تھے، وہ ایک اعلیٰ ترین زندگی پاگئے.یہ وہ عظیم رسول تھا جو تا قیامت تمام قوموں اور تمام زمانوں کے لئے آیا تھا.پس یہ فیض آج بھی جاری ہے.یہ اُسوہ حسنہ آج بھی اسی طرح روشن اور چمکدار ہے جس طرح پہلے دن تھا.جو عظیم تعلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری جو آپ لے کر آئے ، وہ آج بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہی ہے.اس عظیم نبی کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں وہ غلام صادق عطا فرمایا ہے جس کو آخرین میں مبعوث فرما کر پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کام جس میں آیات کی تلاوت بھی ہے، تزکیہ نفس بھی ہے، کتاب کی تعلیم بھی ہے اور احکامات کی حکمت بھی بیان ہوئی ہے، ان کاموں کو جاری فرما یا اور پھر اس غلام صادق کے ماننے والوں نے بھی اپنی عبادتوں اور اپنے اعمال کو اپنے آقا و مطاع کے اسوہ حسنہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی اور اسلامی تعلیمات کو اپنے اوپر اس طرح لاگو کیا کہ مخالفین احمدیت بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اسلامی شعائر کا عملی نمونہ دیکھنا ہے تو ان لوگوں میں دیکھو.پس یہ وہ معیار ہے جو ہمارے بڑوں نے قائم کر کے مخالفین کی زبانوں کو نہ صرف بند کیا بلکہ اُن
266 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 اپریل 2012ء خطبات مسرور جلد دہم سے اقرار کروایا کہ حقیقی اسلام کی عملی تصویر جماعت احمدیہ کے افراد میں دیکھو.آج بھی ہمارے لئے یہی بہت بڑا مقصد ہے جو ہمیں سامنے رکھنا چاہئے ، جس کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے ہم نے دنیا کے منہ بند کروانے ہیں.اپنے نیک اعمال سے دنیا کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کی طرف راغب کرنا ہے.اپنی عبادتوں اور اپنی نمازوں سے اپنی سجدہ گاہوں کو تر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنا ہے.اپنے ساتھ اپنی اولادوں کو بھی اس مقصد کا حق ادا کرنے والا بناتے ہوئے مسجدوں کے ساتھ جوڑنا ہے.تبھی ہم مسجد کی تعمیر کا حق ادا کر سکیں گے.تبھی ہم ربَّنَا تَقَبلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيْم کی دعا سے فیض پانے والے ہو سکیں گے تبھی ہم زمانے کے امام کی بیعت میں آنے کا صحیح حق ادا کرنے والا کہلا سکیں گے.تبھی ہم محبوب خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی پیروی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر کے اپنی دنیا و آخرت سنوار نے والے بن سکیں گے.پس آج اس مسجد کی تعمیر کے ساتھ جو کمز ور طبع لوگ ہیں وہ اپنے نئے راستے متعین کریں جو اپنے عہدوں کو پورا کرنے کے راستے ہیں.جو حُبّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے راستے ہیں.جو اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے کے راستے ہیں.اسی طرح جو بہتر معیار کے ہیں، جن کی نمازوں کی طرف توجہ رہتی ہے، جو مسجدوں میں آنے والے ہیں، اُن کی آبادی کی طرف توجہ رکھتے ہیں وہ بھی ان باتوں کے اعلیٰ مدارج حاصل کرنے کے لئے اپنی عبادتوں اور حقوق اللہ کی ادائیگی کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کریں.یہ مسجداب یہاں کی جماعت میں ایک انقلاب پیدا کرنے کا ذریعہ ہونی چاہئے.جو معلومات میں نے لی ہیں.اس بڑے ہال میں مردوں کے لئے اگر سات سو ساٹھ (760) نمازیوں کے لئے جگہ ہے تو اس کو ہر نماز میں جلد سے جلد بھرنے کی کوشش کریں.اسی طرح یہ بھی مجھے رپورٹ دی گئی کہ عورتوں کے لئے پانچ سو ساٹھ (560) نمازیوں کے لئے جگہ ہے.دو ہالوں میں بوقتِ ضرورت چھ سواشی (680) نمازیوں کی جگہ ہو سکتی ہے.یعنی اس مسجد میں کل تقریباً دو ہزار نمازی نماز پڑھ سکتے ہیں.اس 'پڑھ سکنے کے فقرے کو جلد سے جلد پڑھتے ہیں، میں بدلنے کی کوشش کریں.تبھی مسجد کی تعمیر اور عبادت کا حق ادا کر سکیں گے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یو کے جماعت سمیت پورے یورپ میں مسجدوں کی تعمیر کی طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے لیکن اس تعمیر کی خوبصورتی نمازیوں کے ساتھ ہے.ان مساجد کی خوبصورتی نمازیوں کے
خطبات مسرور جلد دہم 267 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 اپریل 2012ء ساتھ ہے.میں جائزہ لے رہا تھا، دیکھ رہا تھا کہ 2003ء میں جب مسجد بیت الفتوح کا افتتاح ہوا ہے تو اس سے پہلے با قاعدہ مسجد صرف ایک مسجد مسجد فضل تھی.اُس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جماعت یو کے کو چودہ نئی مساجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی جو باقاعدہ مساجد ہیں.اسی طرح گزشتہ سات آٹھ سالوں میں یورپ میں جو پہلے تیرہ مساجد تھیں اب تقریباً ستاون (57) ہیں.تقریباً اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ایک مکمل ہونے کے اپنے آخری مرحلے میں ہے.ستاون مساجد تیار ہو گئی ہیں اور یورپ کے مختلف ممالک میں چوالیس (44) مساجد کا سات آٹھ سال میں اضافہ ہوا ہے.جس میں جرمنی میں سب سے زیادہ ہیں.لیکن ان کی خوبصورتی ان کی تعمیر سے نہیں، ان کے نمازیوں سے ہے.اس لئے میں آج پھر ان یورپین ممالک کے احمدیوں کو بھی کہتا ہوں کہ ہمارا فخر مساجد بنانے میں نہیں.اس کی پیشگوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی کہ ایک وقت میں مساجد بنانے پر فخر کیا جائے گا، لیکن یہ فخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کی جماعت سے منسوب ہونے والوں کا کام نہیں ہے.دوسرے مسلمان بیشک یہ فخر کرتے پھریں.ہمارا تو مقصد تب پورا ہو گا جب ہماری ہر مسجد کی آبادی اتنی بڑھ جائے کہ وہ چھوٹی پڑ جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.میں اس وقت اس عاشقِ صادق سے براہ راست فیض پانے والے چندلوگوں کی عبادت کے لئے تڑپ اور ان کے معیار کے کچھ واقعات کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں جو میں نے روایات میں سے لئے ہیں.نمازوں میں محویت کا عالم ہے.یہ واقعہ نہیں.حضرت جان محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد عبد الغفار صاحب ڈسکوی فرماتے ہیں کہ مغرب کی نماز مسجد مبارک کی چھت پر ادا ہونے کے وقت ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں قادیان میں ) مسجد مبارک کے محراب کے مغرب صحن خانہ مرزا نظام الدین صاحب وغیرہ میں انہوں نے مع دیگر آٹھ نو اشخاص مجلس لگا رکھی تھی اور حقہ نوشی ہو رہی تھی یہ مخالف تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رشتہ دار تھے لیکن مخالفت میں بہت زیادہ بڑھے ہوئے تھے.دین سے ان کی بالکل بے رغبتی تھی.بلکہ خدا تعالیٰ سے انکاری تھے ) وہ کہتے ہیں انہوں نے مجلس لگائی ہوئی تھی اس میں حقہ نوشی ہو رہی تھی ، صفوں پر شراب بھی پڑی ہوئی تھی اور چار پائیوں پر اہل مجلس بیٹھے ہوئے تھے.تو جب ہم نماز پڑھنے لگے تو جتنے یہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے تکبیر اولیٰ کے ساتھ ہی سارنگی اور طبلے پر چوٹ لگائی اور مراثیوں نے گانا شروع کر دیا تاکہ مسجد میں نمازی ڈسٹرب ہوں.(لیکن کہتے ہیں ) مگر ہماری نماز میں غضب کی محویت
خطبات مسر در جلد دہم 268 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 اپریل 2012ء تھی.اس طرف خیال بھی نہیں جاتا تھا کہ کیا ہورہا ہے.وہ باجے بجاتے رہے لیکن ہمیں اپنی عبادتوں سے نہ روک سکے یا توجہ نہ ہٹا سکے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 48) حضرت حاکم علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیعت کے بعد کی تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ( بیعت کے بعد ) محبت نے مجھے اس قدر دیوانہ کر دیا کہ کوئی مہینہ ایسا نہ ہوتا کہ میں حاضر نہ ہوتا.پس میری زندگی گویا مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کے لئے تھی.میں نے اپنے گھر کے پاس ایک الگ چھوٹی سی مسجد بنالی اور میں تہجد کی نماز کے وقت اُس مسجد میں چلا جاتا اور عشاء کی نماز پڑھ کر میں مسجد سے آتا.اتنا وقت گویا 20 یا 22 گھنٹے مسجد میں رہتا تھا اور روزہ رکھتا تھا اور ایک وقت (میں) کھانا کھاتا تھا لیکن کوئی بھوک پیاس نہ لگتی تھی.بے تکلف میں اتنا وقت قرآن شریف نماز و دعا میں صرف کرتا تھا اور نہایت خوش رہتا تھا اور حالت ایسی ہو گئی کہ کسی معاملے کے متعلق دعا کروں اور توجہ کروں تو اُسی وقت اُس کی صحیح خبر مل جاتی یعنی بذریعہ کشف.اس وجہ سے مجھے خدا تعالیٰ کے ساتھ اور قرآن شریف کے ساتھ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت بڑھ گئی اور مسیح موعود علیہ السلام پر میرا ایسا ایمان مضبوط ہوا جولر ز ہ نہیں کھا سکتا تھا.بہت سارے لوگ ہیں.یہاں بھی آئے ہوئے ہیں.اسائیلم لینے والے ہیں.بڑی عمر کے (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحه 364) ہیں.فارغ بیٹھے رہتے ہیں.اُن کو چاہئے کہ بجائے وقت ضائع کرنے کے اپنی عبادتوں کی طرف توجہ کریں.یہ عبادتوں کا معیار ہے جو ہمارے لئے نمونہ ہے.پھر حضرت میر مهدی حسین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مسجد مبارک کے اندر اول ایام میں تین خانے تھے.یعنی چھوٹی سی مسجد تھی، تین دروں کے درمیان تھی.ہر ایک خانے میں دو صفیں کھڑی ہو سکتی تھیں.آگے پیچھے.اور ایک صف میں چھ آدمی آسکتے تھے.مسجد سے باہر دائیں جانب ایک چھوٹا سا صحن ہوتا تھا جو اس وقت حضرت ام المومنین علیہا السلام کی رہائشگاہ ہے.اس میں ملک غلام حسین صاحب نان پز ( نان پکانے والا ) اور محمد اکبر خان صاحب سنوری مرحوم علی الترتیب روٹیاں اور سالن لئے بیٹھے تھے.مجھے ملک صاحب نے پہلے ایک چھوٹی سی پلیٹ میں چاول نمکین ( کھانے کا ذکر کرتے ہیں ) ڈال کے دیا.روٹیاں دیں.کہتے ہیں میں نے پلیٹ سے دو تین لقمے لئے تھے کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے تکبیر کہلا کر نماز شروع کر دی.میں نے جلدی سے کھانا رکھ دیا اور مسجد میں داخل ہونے لگا تو نان پز جو تھے انہوں نے ذراسخت لہجے میں کہا ( روٹی دے رہے تھے وہ ) کہ میاں ! روٹی کھالے.نماز بعد میں
خطبات مسرور جلد دہم 269 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 اپریل 2012ء پڑھ لینا.پنجابی میں کہا نیں تے بھ کا مریں گا“.( کہتے ہیں ) اور کہا کہ کل دو پہر کو روٹی ملے گی پھر.میں نے کہا کہ یہاں روٹیاں کھانے نہیں آیا.نماز ہی تو اصل چیز ہے.اس کو نہیں چھوڑ سکتا.یہ کہ کر نماز عشاء (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحه 409) میں شامل ہو گیا.حکیم فضل الرحمن صاحب اپنے والد حافظ نبی بخش صاحب کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ آپ کے اندر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ایک عشق موجود تھا اور طبیعت میں احتیاط ایسی ہے کہ جب کبھی کوئی حضور علیہ السلام کے حالات سنانے کے لئے کہے تو یہی جواب دیتے ہیں کہ مجھے اپنے حافظے پر اعتبار نہیں.ایسا نہ ہو کہ کوئی غلط بات حضور کی طرف منسوب کر بیٹھوں.آپ محکمہ نہر میں پٹواری تھے اور گرداوری کے دنوں میں قریباً سارا سارا دن گھومنا پڑ تا حتی کہ جیٹھ ہاڑ کے مہینوں میں بھی.یعنی پنجاب میں گرمی کے جو شدید مہینے ہوتے ہیں، اُن میں بھی گھومنا پڑتا اور اس سے جس قدر تھکاوٹ انسان کو ہو جاتی ہے وہ بالکل واضح ہے.مگر رات کو آپ تہجد کے لئے ضرور اُٹھتے.اور ہم پر بھی زور دیتے (یعنی بچوں کو بھی زور دیتے.جوان بچے تھے ).جب رمضان کے دن ہوتے تو باوجود اس قدر گرمی کے روزے بھی باقاعدہ رکھتے.سردی کے دنوں میں تہجد کی نماز عموماً قراءت جہری سے پڑھ کر بچوں کو ساتھ شامل فرما لیتے ( یعنی اونچی آواز میں پڑھتے.آپ خدا کے فضل سے حافظ قرآن ہیں ( تھے اُس وقت ).ہمیں نماز روزے کی بہت تاکید فرماتے بلکہ کڑی نگرانی فرماتے اور شستی پر بہت ناراض ہوتے.قرآن کریم ہمیں خود پڑھایا.جب دن کو اپنے کاروبار میں مشغولیت کے باعث وقت نہ ملتا تو رات کو پڑھاتے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 12 صفحہ 1-2) والدین کے لئے یہ نمونہ ہے.بچوں کی تربیت کا یہ نمونہ ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے.اور اسی طرح اپنی عبادات جو ہیں وہ والدین کی ہوں گی تو بچے نمونہ پکڑیں گے.ان ملکوں میں جہاں دین سے لوگ دور ہورہے ہیں.ہمارے بعض بچے بھی متاثر ہورہے ہیں.اس لحاظ سے ان ملکوں میں تو بہت زیادہ کوشش کی ضرورت ہے.نہ صرف خود دین پر قائم رہنا ہے بلکہ اپنے معیار بڑھانے ہیں اور پھر اس سے بڑھ کر بچوں کی نگرانی بھی کرنی ہے اور تربیت کی طرف بھی توجہ دینی ہے.اگر چالیس پینتالیس سال کے لوگ بھی جو میں نے دیکھے کہ خود آدھی رات تک ٹی وی دیکھتے رہتے ہیں یا انٹرنیٹ پر بیٹھے رہتے ہیں، بعضوں کی شکایتیں اُن کی بیویوں کی طرف سے بھی آجاتی ہیں تو وہ بچوں کی کیا تربیت کریں گے؟ پس ان ملکوں میں رہنے والے احمدیوں کے لئے خاص طور پر اور تمام دنیا میں ہی احمدیوں کے
خطبات مسرور جلد دہم 270 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 اپریل 2012ء لئے عموماً ایک چیلنج ہے کیونکہ شیطان آج کل اپنی کارروائیوں میں حد سے زیادہ بڑھا ہوا ہے، اور ہم نے اس کا مقابلہ کرنا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا.اور اللہ تعالیٰ کی مددعبادتوں کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہے.پس اس طرف بہت زیادہ توجہ دیں.پھر شیخ نورالدین صاحب اپنی بیعت کے بعد کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.کچھ عرصے کے بعد امرتسر آ گیا.وہاں کا روبار کی وجہ سے غفلت پیدا ہوگئی اور دینی حالت اچھی نہ رہی.گرمیوں کے دن تھے اور دو پہر کا وقت تھا.میں سویا ہوا تھا.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جس طرح غرغرہ کی حالت ہوتی ہے.سوئی ہوئی حالت میں آخری وقت کی حالت پیدا ہو گئی اور خواب میں ( یہ اپنے آپ کو دیکھ رہے ہیں ) میں لوگوں کی گفتگو سنتا تھا لیکن جواب نہیں دے سکتا تھا.میں نے پورا نقشہ دیکھا کہ مجھے غسل دیا گیا.(یہ شاید میرا خیال ہے کشفی حالت تھی کہ مجھے غسل دیا گیا) اور کفن پہنایا گیا.پھر مجھے دفن کر دیا گیا.مٹی ڈال دی گئی.جب لوگ دفن کر کے واپس آگئے تو قبر نے دونوں پہلوؤں سے مجھے اس طرح دبایا کہ میں برداشت نہ کر سکا.اتنے میں دیکھا کہ عین سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کھڑے ہیں اور میری طرف انگلی کر کے فرمایا کہ کیا آپ نے ہمارے ساتھ یہی وعدہ کیا تھا؟ ایک طرف تکلیف تھی ، دوسری طرف حضرت صاحب کے الفاظ.میں بہت رویا اور عرض کیا حضور میں بھول گیا.مجھے معاف فرما دیں.میں تو بہ کرتا ہوں.آئندہ یہ کمزوریاں نہیں دکھاؤں گا.حضرت صاحب تشریف لے گئے.کہتے ہیں میری آنکھ کھل گئی.اُس حالت سے واپس آ گیا مگر اس طرح گھبرایا ہوا اور تکلیف میں تھا کہ بیان سے باہر.آنسونکل رہے تھے اور سخت مرعوب ہو رہا تھا.پھر قبلہ رو ہو کر نماز شروع کی.ایک عرصے تک میرے جسم پر اس واقعے کا اثر رہا.تکلیف بھی اور درد بھی ہوتا رہا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 12 صفحہ 9,10) پس اُس زمانے میں نیک لوگوں سے جو یہ بھول چوک ہوتی تھی تو اللہ تعالیٰ جن پر رحم کرنا چاہتا ہے اُن کو اس ذریعے سے بھی تنبیہ فرماتا ہے.تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک پیار کا سلوک ہے کہ بگڑنے نہیں دیتا.پھر عورتوں کے لئے بھی ایک مثال ہے.بعض اوقات مختلف عذر پیش کر کے نمازوں کے اوقات میں باقاعدگی نہیں ہوتی.عورتیں بعض دفعہ بہانے بنالیتی ہیں.بعض ایسی ہیں لیکن بعض میں نے دیکھا ہے کہ مردوں سے زیادہ نمازی ہیں اور نمازوں کی طرف توجہ ہے.حضرت مائی کا کوصاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ ہم چند عورتیں سیکھواں سے حضور کی ملاقات کے لئے آئیں.مولوی قمر الدین صاحب کی والدہ نے مجھے کہا کہ ہمیں مغرب کی نماز روز
خطبات مسرور جلد دہم 271 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 27 اپریل 2012ء عشاء کی نماز کے ساتھ پڑھنی پڑتی ہے ( کاموں کی مصروفیت کی وجہ سے ) کیا کریں.حضرت صاحب سے فتویٰ پوچھو.میں نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ عورتوں کو بچوں کی وجہ سے مغرب کی نماز میں دیر ہو جاتی ہے، کیا کریں.فرمایا میں تو نہیں سمجھتا کہ اگر پوری کوشش کی جائے تو دیر ہو جائے.لیکن اگر مجبوری ہو تو عورتوں کو چاہئے کہ عشاء کی نماز مغرب کے ساتھ جمع کریں کیونکہ جس طرح صبح کے وقت فرشتے اترتے ہیں، ویسے ہی مغرب کے وقت بھی اترتے ہیں.ایسے مغرب اور عشاء کی نماز کو اگر جمع کرنا پڑے تو مغرب کے وقت جمع کرنا بہتر ہے.مائی کا کو صاحبہ نے روایت کے وقت کہا کہ اس وقت سے لے کر آج تک ہم نے یہ انتظام کر رکھا ہے کہ مغرب کی نماز سے پہلے پہلے کھانا تیار کر کے بچوں کو کھلا دیتی ہیں اور پھر مغرب کی نماز کے لئے فارغ ہو جاتی ہیں.“ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 12 صفحہ 209) تو یہ ان لوگوں کے نمونے تھے.نماز جمع کرنے کی طرف توجہ نہیں ہوئی بلکہ نمازیں علیحدہ پڑھنے کے لئے کیا طریق اختیار کرنا چاہئے ، اس طرف توجہ کی.پس مائیں بھی جو بچوں کے لئے ایک نمونہ ہیں، اُن کو اس طرف توجہ دینی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : " اسلام نے وہ قادر اور ہر ایک عیب سے پاک خدا پیش کیا ہے جس سے ہم دعائیں مانگ سکتے ہیں اور بڑی بڑی امیدیں پوری کر سکتے ہیں.اسی واسطے اُس نے اسی سورۃ فاتحہ میں دعا سکھائی ہے کہ تم لوگ مجھ سے مانگا کرو.اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحة: 7-6) یعنی یا الہی ہمیں وہ سیدھی راہ دکھا جو اُن لوگوں کی راہ ہے جن پر تیرے بڑے بڑے فضل اور انعام ہوئے.اور یہ دعا اس واسطے سکھائی کہ تائم لوگ صرف اس بات پر ہی نہ بیٹھ رہو کہ ہم ایمان لے آئے بلکہ اس طرح سے اعمال بجالاؤ کہ ان انعاموں کو حاصل کر سکو جو خدا تعالیٰ کے مقرب بندوں پر ہوا کرتے ہیں.( ملفوظات جلد 5 صفحہ 386 ایڈیشن 2003 ، مطبوعہ ربوہ ) فرمایا کہ ”جو شخص بچے جوش اور پورے صدق اور اخلاص سے اللہ تعالیٰ کی طرف آتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا.یہ یقینی اور سچی بات ہے کہ جو خدا کے ہوتے ہیں خدا اُن کا ہوتا ہے اور ہر ایک میدان میں اُن کی نصرت اور مددکرتا ہے.بلکہ اُن پر اپنے اس قدر انعام و اکرام نازل کرتا ہے کہ لوگ اُن کے کپڑوں سے بھی برکتیں حاصل کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے یہ جو دعا سکھائی ہے ( یعنی اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی ) ” تو یہ اس واسطے ہے کہ تا تم لوگوں کی آنکھ کھلے کہ جو کام تم کرتے ہو دیکھ لو کہ اُس کا نتیجہ کیا ہوا ہے“.پھر فرمایا کہ اگر انسان ایک عمل کرتا ہے اور اُس کا نتیجہ کچھ نہیں تو اُس کو اپنے اعمال کی پڑتال کرنی چاہئے.
خطبات مسرور جلد دہم 272 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 اپریل 2012ء (دیکھنا چاہئے کہ میرے اعمال کیا ہیں ) کہ وہ کیسا عمل ہے جس کا نتیجہ کچھ نہیں.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 387 ایڈ یشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) پھر اصول عبادت کا خلاصہ بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”عبادت کے اصول کا خلاصہ اصل میں یہی ہے کہ اپنے آپ کو اس طرح سے کھڑا کرے کہ گویا خدا کو دیکھ رہا ہے اور یا یہ کہ خدا اُسے دیکھ رہا ہے.ہر قسم کی ملونی اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو جاوے اور اُسی کی عظمت اور اُسی کی ربوبیت کا خیال رکھے ( اور ) ادعیہ ماثورہ اور دوسری دعائیں خدا تعالیٰ سے بہت مانگے اور بہت توبہ استغفار کرے اور بار بارا اپنی کمزوریوں کا اظہار کرے تا کہ تزکیۂ نفس ہو جاوےاور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہو جاوے اور اسی کی محبت میں محو ہو جاوے.اور یہی ساری نماز کا خلاصہ ہے اور یہ سارا سورۃ فاتحہ میں ہی آجاتا ہے.دیکھو إيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحہ : 5 ) میں اپنی کمزوری کا اظہار کیا گیا ہے اور امداد کے لئے خدا تعالیٰ سے ہی درخواست کی گئی ہے اور خدا تعالیٰ سے مدد اور نصرت طلب کی گئی ہے اور پھر اُس کے بعد نبیوں اور رسولوں کی راہ پر چلنے کی دعا مانگی گئی ہے اور اُن انعامات کو حاصل کرنے کے لئے درخواست کی گئی ہے جو نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ سے اس دنیا پر ظاہر ہوئے ہیں اور جو انہیں کی اتباع اور انہیں کے طریقہ پر چلنے سے حاصل ہو سکتے ہیں.اور پھر خدا تعالیٰ سے دعا مانگی گئی ہے کہ اُن لوگوں کی راہوں سے بچا جنہوں نے تیرے رسولوں اور نبیوں کا انکار کیا اور شوخی اور شرارت سے کام لیا.اور اسی جہان میں ہی اُن پر غضب نازل ہوا یا جنہوں نے دنیا کو ہی اپنا اصلی مقصود سمجھ لیا اور راہ راست کو چھوڑ دیا.اور اصلی مقصد نماز کا تو دعا ہی ہے اور اس غرض سے دعا کرنی چاہیے کہ اخلاص پیدا ہو اور خدا تعالیٰ سے کامل محبت ہوا اور معصیت سے جو بہت بری بلا ہے اور نامہ اعمال کو سیاہ کرتی ہے طبعی نفرت ہو اور تزکیۂ نفس اور روح القدس کی تائید ہو.دنیا کی سب چیزوں جاہ و جلال، مال و دولت ، عزت و عظمت سے خدا مقدم ہو.(ان کے مقابلے میں سب سے مقدم خدا ہو ) اور وہی سب سے عزیز اور پیارا ہو اور اس کے سوائے جو شخص دوسرے قصے کہانیوں کے پیچھے لگا ہوا ہے، جن کا کتاب اللہ میں ذکر تک نہیں ، وہ گرا ہوا ہے اور محض جھوٹا ہے.نماز اصل میں ایک دعا ہے جو سکھائے ہوئے طریقہ سے مانگی جاتی ہے.یعنی کبھی کھڑے ہونا پڑتا ہے، کبھی جھکنا اور کبھی سجدہ کرنا پڑتا ہے.اور جو اصلیت کو نہیں سمجھتا وہ پوست ( اوپر والی جلد ) پر ہاتھ مارتا ہے“.( ملفوظات جلد 5 صفحہ 335 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) پھر فرمایا ” بعض لوگ مسجدوں میں بھی جاتے ہیں.نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور دوسرے ارکانِ
خطبات مسرور جلد دہم 273 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 اپریل 2012ء اسلام بھی بجالاتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی نصرت اور مدد اُن کے شامل حال نہیں ہوتی اور اُن کے اخلاق اور عادات میں کوئی نمایاں تبدیلی دکھائی نہیں دیتی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی عبادتیں بھی رسمی عبادتیں ہیں.حقیقت کچھ بھی نہیں ، کیونکہ احکام الہی کا بجالانا تو ایک بیچ کی طرح ہوتا ہے جس کا اثر روح اور وجود دونوں پر پڑتا ہے.ایک شخص جو کھیت کی آبپاشی کرتا اور بڑی محنت سے اُس میں بیج بوتا ہے اگر ایک دو ماہ تک اُس میں انگوری نہ نکلے ( یعنی بیج نہ پھوٹے ) تو مانا پڑتا ہے کہ بیج خراب ہے.یہی حال عبادات کا ہے.اگر ایک شخص خدا کو وحدہ لاشریک سمجھتا ہے، نمازیں پڑھتا ہے، روزے رکھتا ہے اور بظاہر نظر احکام الہی کو حتی الوسع بجالاتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی خاص مدد اس کے شامل حال نہیں ہوتی تو مانا پڑتا ہے کہ جو بیچ وہ بور ہا ہے وہی خراب ہے.یہی نمازیں تھیں جن کو پڑھنے سے بہت سے لوگ قطب اور ابدال بن گئے.مگرتم کو کیا ہوگیا جو باوجوداُن کے پڑھنے کے کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب تم کوئی دوا استعمال کرو گے اور اگر اس سے کوئی فائدہ محسوس نہ کرو گے تو آخر ماننا پڑے گا کہ یہ دوا موافق نہیں.یہی حال ان نمازوں کا سمجھنا چاہئے“.( ملفوظات جلد 5 صفحہ 386-387 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) اللہ کرے کہ ہم اس پیغام کو سمجھنے والے ہوں اور اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزار نے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی رنگ میں ہ عبادتوں کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی رضا کو حاصل کرنے والا بنائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 18 مئی تا 24 مئی 2012 جلد 19 شماره 20 صفحہ 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد دہم 274 18 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 4 مئی 2012ء خطبه جمع سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 4 مئی 2012 ء بمطابق 4 ہجرت 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کے وہ واقعات لئے ہیں جن میں انہوں نے اپنے ان جذبات و احساسات کا ذکر کیا ہے، اُس شوق کا ذکر کیا ہے جس کے تحت وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کے لئے جایا کرتے تھے اور زیارت کا شوق رکھتے تھے.حضرت میاں محمد ظہور الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز یونہی بیٹھے بیٹھے میرے دل میں قادیان شریف جانے کا ابال سا اُٹھا.میں نے برادرم مکرم منشی سراج الدین صاحب سے ذکر کیا کہ میرا یہ ارادہ ہے.اُس وقت میرے پاس خرچ کو ایک پیسہ بھی نہ تھا.برادرم منشی سراج الدین صاحب نے مجھے ایک روپیہ دے کر کہا کہ اس وقت میرے پاس بھی ایک ہی روپیہ ہے ورنہ اور دیتا.میں نے پھر قاضی منظور احمد صاحب سے ذکر کیا کہ میں تو قادیان جا رہا ہوں.انہوں نے کہا کہ میں ( بھی ) چلتا ہوں.دوسرے روز ہم دونوں قادیان روانہ ہو گئے.بٹالہ سے پیدل چل کر قادیان ظہر کے وقت پہنچے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کر کے طبیعت کو تسلی ہوئی.الحمد لله على ذالك “ (رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 11 صفحہ نمبر 363-364 روایت حضرت میاں محمد ظہور الدین صاحب ڈولی) پھر لکھتے ہیں ” حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ بھی کیا پر لطف زمانہ تھا کہ آپ کی خدمت میں پہنچ کر پیچھے کی کوئی خبر نہ رہتی تھی.دل نہ چاہتا تھا کہ آپ سے جدا ہوں.اُس دفعہ ہم جو قادیان پہنچے، آگے جا کر دیکھا کہ میرے خسر قاضی زین العابدین بھی پہنچے ہوئے تھے.ہم حضرت مسیح موعود کی ملاقات سے بہت خوش تھے.اب کی دفعہ ہم قادیان چار پانچ روز رہے اور اللہ تعالیٰ نے
خطبات مسرور جلد دہم 275 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 4 مئی 2012ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مل کر نمازیں پڑھنے کا موقع دیا.یہ محض اللہ کا فضل ہی تھا کہ ہمارے جیسے کمزوروں کو اُس نے اس مبارک زمانے میں پیدا کر کے مبارک وجود سے ملا دیا.والحمد لله على ذالك (رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 11 صفحہ 364 روایت حضرت میاں محمد ظہور الدین صاحب ڈولی ) پھر حاجی محمد موسیٰ صاحب بیان کرتے ہیں کہ اُس زمانے میں میرا کئی سال یہ دستور العمل رہا کہ نیاسٹیشن پر سٹیشن کا نام تھا) ایک جمعدار کے پاس ایک بائیسکل ٹھوس ٹائروں والا رکھا ہوا تھا ( یعنی وہ بائیسکل تھا جس کے ٹائروں میں ہوا کے بجائے صرف ربڑ چڑھا ہوا تھا ) جمعہ کے روز میں لا ہور سے بٹالہ تک گاڑی پر جاتا اور وہاں سے سائیکل پر سوار ہو کر قادیان جا تا اور جمعہ کی نماز کے بعد واپس سائیکل پر بٹالہ آ جاتا.جہاں سے گاڑی پر سوار ہو کر لاہور آ جاتا.“ (رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 11 صفحہ نمبر 11-12 روایت حضرت حاجی محمد موسیٰ صاحب) ( ہر جمعہ کا یہ اُن کا دستور تھا کہ لاہور سے با قاعدہ قادیان جمعہ پڑھنے جاتے تھے اور گیارہ بارہ میل کا سفر، بلکہ آنا جانا بائیس میل سائیکل پر کرتے تھے.) پھر حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ”جب میں پہلے پہلے فروری 1901ء میں قادیان آیا اور دستی بیعت کی، کیونکہ تحریری بیعت میں اگست 1900ء میں کر چکا تھا.تو میں نے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سے پوچھا کہ اپنے سلسلے کا کوئی وظیفہ بتا ئیں.فرمایا سلسلہ کا وظیفہ یہ ہے کہ بار بار قادیان آیا کرو.تو مجھے فوراً ہی خیال آیا کہ قادیان میں مکان بنایا جائے تا کہ والدین اور بیوی بچے یہاں رہیں اور جب کبھی رخصتیں آئیں تو سید ھے قادیان آ کر ہی رہیں.( قادیان میں مکان بنالیا جائے تا کہ جب بھی چھٹیاں ہوں یہیں آکر رہیں) لہذا واپس جاتے ہی میں نے افریقہ، مشرقی جہاں میں ملازم تھا.چھ صد روپیہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے نام بھیج دیا کہ میرے لئے مکان بنادیا جائے ،مگر تین سال کے بعد جب میں واپس آیا تو مولوی صاحب نے مجھے روپیہ واپس کر دیا اور معذرت کی کہ مجھے موقع نہیں ملا.مولوی صاحب حضرت اقدس کے بالا خانے پر رہتے تھے.روپیہ واپس دیتے وقت انہوں نے فرمایا کہ یہ سب بڑے بڑے مکانات احمدیوں کے ہی ہیں ( یعنی جو غیروں کے، ہندؤوں کے مکان تھے، کہنے لگے یہ سب احمدیوں کے ہیں).خاص کر ڈپٹی ہندو کے مکان کی طرف اشارہ کیا جس میں اب ہمارے دفاتر ہیں.لکھتے ہیں کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب عرفان کی چوٹیوں پر پہنچے ہوئے تھے.“ (رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 11 صفحہ نمبر 79-80 بقیہ روایات حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب)
خطبات مسرور جلد دہم 276 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 4 مئی 2012ء انہوں نے بات کی اور اللہ تعالیٰ نے پوری فرمائی.بہر حال وہ باتیں تو وہ تھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے.اُسی نے ان کے ایمان میں اس حد تک زیادتی کی کہ یہ یقین تھا کہ یہ سب کچھ ہمیں ملنے والا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے دکھایا کہ وہ ہل گیا.حضرت میاں ظہور الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میرے دل میں خیال آیا کہ بندہ خدا! اگر مرزا صاحب واقعی پیر ہیں اور ہم نے ان کو نہ مانا تو پھر ہمارا کیا حشر ہوگا؟ ایک روز میں نے اپنے پھوپھی زاد بھائی منشی عبدالغفور صاحب سے ذکر کیا کہ میں تو صبح یا شام قادیان جانے والا ہوں.( اب یہ ان کا بیعت سے پہلے کا قصہ ہے.انہوں نے سن کر کہا کہ کسی سے ذکر نہ کرنا.میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا.لہذا اُن کی اس بات سے مجھے خوشی ہوئی اور ہم دونوں علی اصبح دوسرے روز ہی قادیان کو چل دیئے.غالباً گیہوں گا ہے جا رہے تھے (یعنی گندم کی کٹائی ہو کر اُس میں سے اُس کی harvesting ہو رہی تھی).جب ہم دونوں اسٹیشن بٹالہ پر پہنچے تو یکہ پر سوار ہونے لگے تو آگے یکہ پر ایک سواری اور بیٹھی تھی.وہ میاں نور احمد صاحب کا بلی تھے.خیر ہم یکہ پر سوار ہوکر ظہر کے وقت قادیان پہنچے.وضو کر کے ہم دونوں مسجد مبارک میں پہنچے، اُس وقت مسجد مبارک بہت چھوٹی سی تھی.وہاں ہم سے پہلے پانچ چھ آدمی اور بھی بیٹھے تھے.میں نے اُن لوگوں کو خوب تاڑ تاڑ کر دیکھا ( یعنی بڑے غور سے دیکھا) تو مجھے کوئی ( اُن میں سے) ایسی شکل جس کو میں دیکھنا چاہتا تا نظر نہ آئی ( یعنی یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھنا چاہتے تھے لیکن بیٹھے ہوؤں میں سے کوئی ایسی شکل نظر نہ آئی کہتے ہیں) کوئی دس پندرہ منٹ کے بعد حضرت خلیفۃ اسیح الاول تشریف لائے جو تنگ سیڑھیوں کے دروازے میں آکر کھڑے ہو گئے.میں اُن کو دیکھ کر جلدی سے کھڑا ہوگیا.دل میں خیال آیا کہ اگر کوئی ہستی ہے تو یہی ہوسکتی ہے (یعنی حضرت خلیفہ اول).حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ آپ بیٹھیں.حضرت صاحب تشریف لاتے ہیں بڑی فراست تھی.سمجھ گئے کہ اس کو غلط فہمی ہوئی ہے.فرمایا کہ بیٹھیں ابھی حضرت مسیح موعود تشریف لاتے ہیں ) میں آپ کے فرمانے سے بیٹھ گیا اور سمجھا کہ اب جو تشریف لائیں گے وہ ان سے یعنی حضرت خلیفۃ اصبح الاول سے بڑھ کر ہی ہوں گے.پانچ چھ منٹ گزرنے کے بعد خادم حضرت مسیح موعود نے خبر دی کہ حضرت اقدس تشریف لا رہے ہیں.کوئی دو تین منٹ بعد مسجد مبارک کی کھڑ کی کھلی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اندر سے مسجد مبارک میں تشریف لائے کہ بس ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے سورج نصف النہار ہوتا ہے ( یعنی سورج پورا چڑھا ہوا دو پہر کے وقت ) جیسی صورت دیکھنے کی دل
خطبات مسرور جلد دہم 277 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 4 مئی 2012ء میں تمنا تھی بخدا اُس سے کہیں بڑھ کر آپ کو پایا.ہم سب لوگ جو وہاں پر موجود تھے حضرت اقدس کے تشریف لانے پر تعظیم کے لئے کھڑے ہو گئے.آپ کے نورانی چہرہ مبارک کو دیکھ کر دل میں اطمینان ہو گیا اور دوسری اچھی سے اچھی شکلیں آپ کے سامنے ماند ہو گئیں.(رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 11 صفحہ نمبر 360 تا 362 روایت حضرت میاں محمد ظہور الدین صاحب ڈولی) حضرت شیخ عبدالکریم صاحب فرماتے ہیں کہ میں 1903ء میں حکیم احمد حسین صاحب لائلپوری کے ذریعے احمدی ہوا تھا.حکیم صاحب گولا ہور کے باشندے تھے مگر چونکہ لائلپور میں حکمت کا کام کرتے تھے اور وہیں اُن کی وفات ہوئی اس لئے لائلپوری مشہور ہیں.وہ اپنے کام کے لئے کراچی تشریف لائے تھے.اُن کی تبلیغ سے میں احمدی ہو گیا تھا.1904ء میں جب میں لاہور گیا تو اُن کے مکان پر ہی ٹھہرا تھا.جب میں جمعہ پڑھنے گئی کی مسجد میں گیا تو وہاں اعلان کیا گیا کہ حضور تشریف لانے والے ہیں.حضور کا ایک لیکچر بھی یہاں ہو گا.چنانچہ یہ اعلان سن کر میں بھی ٹھہر گیا.جب حضور تشریف لائے تو میاں معراج الدین صاحب کا مکان تیار ہورہا تھا اور بعض کمرے مکمل بھی ہو چکے تھے.حضرت صاحب نے وہیں قیام کرنا پسند فرمایا تھا اور اس میں جمعہ کی نماز بھی پڑھی تھی.خطبہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے پڑھا تھا اور نماز بھی انہوں نے ہی پڑھائی تھی.میں دیوانہ وار پھر رہا تھا اور چاہتا تھا کہ حضرت اقدس سے کسی نہ کسی طریق سے ملاقات ہو جائے.اتنے میں ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ کر زور سے آگے گیا.میں پہلی صف میں حضرت اقدس کے ساتھ بائیں طرف کھڑا ہو گیا (بائیں طرف ) میں جب التحیات میں بیٹھا تو اپنے گناہوں کا خیال کر کے اور حضرت اقدس کے ساتھ اپنا کندھا لگنے کا خیال کر کے بے اختیار رو پڑا.چکی بھی بندھ گئی.حضرت اقدس نے میری یہ حالت دیکھ کر میری پیٹھ پر اپنا دست شفقت پھیرا اور تسلی دی.( نماز کے بعد ہوا ہو گا یا پہلے.التحیات پر بیٹھے تھے تو سلام پھیرنے کے بعد ہی شفقت کا ہاتھ پھیرا ہو گا.نماز کے دوران نہیں.بہر حال پھر لکھتے ہیں) جب حضرت اقدس قادیان روانہ ہوئے تو عاجز بھی ساتھ ہو گیا.قادیان میں پہنچے ہی تھے کہ تاریخ پر گورداسپور جانا پڑا.میں بھی ساتھ ہولیا.عصر کی نماز کے بعد ایک دفعہ حضور نے فرمایا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے مسیح موعود کو دیکھ لیا ہے اور بیعت کر لی ہے.ہماری بخشش کے لئے صرف یہی کافی ہے.( یعنی لوگوں کا خیال ہے کہ بیعت کر لی ہے تو بس سارے کام ہو گئے.فرمایا ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اصل چیز ايّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ہے.اس سے انسان کا بیڑا پار ہوسکتا ہے.ہم تو صرف راستہ دکھانے کے لئے آئے تھے ، سو ہم نے راستہ دکھا دیا.“ (رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 1 صفحہ نمبر 1-2 روایت حضرت شیخ عبدالکریم صاحب)
خطبات مسرور جلد دہم 278 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 4 مئی 2012ء (پس اس بات پر اللہ تعالیٰ کی جو عبادت اور مدد ہے، اس کی جستجو بھی ہونی چاہئے اور اس کے لئے کوشش بھی ہونی چاہئے اور یہی اصل چیز ہے جو اعلیٰ معیاروں کی طرف لے کر جاتی ہے اور اس مقصد کو پورا کرتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا مقصد ہے.) حضرت صاحب دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ ”غالباً 1904 ء کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق احمد یہ جماعت لا ہور کو اطلاع ملی کہ حضور فلاں گاڑی لاہور پہنچ رہے ہیں.ہم لوگ حضور کی پیشوائی کے لئے ریلوے اسٹیشن پر گئے.اُن دنوں دو گھوڑ افٹن گاڑی کا بہت رواج تھا.ہم نے فٹن تیار کر دی.جب حضور سوار ہوئے تو ہم نو جوانوں نے جیسا کہ عام رواج تھا ( یہ اخلاص و وفا کا نمونہ ہے ) گاڑی کے گھوڑے کھلوائے اور فٹن کو خود کھینچنا چاہا.ان لوگوں نے لگی سے گھوڑے علیحدہ کئے اور کوشش کی کہ خود کھینچیں.حضور نے ہمارے اس فعل کو دیکھ کر فرمایا کہ ہم انسانوں کو ترقی دے کر اعلیٰ مدارج کے انسان بنانے آئے ہیں.نہ کہ برعکس اس کے انسانوں کو گرا کر حیوان بناتے ہیں کہ وہ گاڑی کھینچنے کا کام دیں.مفہوم یہ تھا، الفاظ شاید کم و بیش ہوں.خیر ہم خدام نے فوراً اپنے فعل کو ترک کر دیا اور گھوڑے گاڑی لے کر چل دیئے.( گھوڑے آگے لگائے اور وہ اُن کو لے کر چل دیئے.) میں فورا فٹن کے پیچھے کھڑا ہو گیا اور حضور کو تمام راستہ چھتری تانے آیا گویا اس طرح مجھے چھتر برداری کی خدمت کرنے کا موقع ملا جس پر مجھے فخر ہے کہ حضور کا چھتر بردار ہوں.“ رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 1 صفحہ نمبر 10 روایت حضرت صاحب دین صاحب) حضرت چوہدری غلام رسول صاحب بسراء بیان کرتے ہیں کہ دسمبر 1907ء جلسہ سالانہ کا واقعہ ہے کہ جمعرات کی شام کو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صبح باہر سیر کو جائیں گے.اُس وقت دستور یہ تھا کہ جب بہت بھیڑ ہو جاتی تھی تو آپ کے گرد بازؤوں کا حلقہ باندھ دیتے تھے.( یہ واقعہ شاید پہلے بھی کہیں بیان ہو چکا ہے، کسی جگہ میں نے بیان کیا، لیکن بہر حال اس سے پھر اُن لوگوں کا ذوق اور شوق اور پھر خدمت اور ایک نظر آپ کو دیکھنے کا اظہار ہوتا ہے، کس طرح لوگ حلقہ باندھ لیتے تھے.کہتے ہیں کہ ) جب بہت بھیڑ ہو جاتی تھی تو آپ کے گرد بازؤوں کا حلقہ باندھ دیتے تھے اور آپ اس حلقے کے بیچ چلتے تھے.(ایک دائرے کی شکل میں لوگ ہاتھ پکڑ کے آپ کو بیچ میں لے لیتے تھے تا کہ زیادہ رش کی وجہ سے دھکے نہ لگیں.چنانچہ میں نے اپنے ہمرائیوں مولوی غلام محمد گوندل امیر جماعت احمد یہ چک نمبر 99 شمالی ، چوہدری میاں خانصاحب گوندل اور چوہدری محمد خانصاحب گوندل مرحوم سے صلاح کی کہ اگر خدا
خطبات مسرور جلد دہم 279 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 4 مئی 2012ء نے توفیق دی تو صبح جب آپ باہر سیر کو نکلیں گے تو ہم آپ کے گرد بازوؤں کا حلقہ بنائیں گے.اس طرح ہم حضور کا دیدار ا چھی طرح کر سکیں گے.اصل مقصد ایک پہرہ بھی تھا ایک دیدار بھی تھا.صبح جب ہم نماز فجر سے فارغ ہوئے تو تمام لوگ حضور کے انتظار میں بازار میں اکٹھے ہونے شروع ہو گئے.یہ کمل پتہ تو نہیں تھا کہ حضور کس طرف باہر سیر کو تشریف لے جائیں گے.لیکن جس طرف سے ذراسی بھی آواز اُٹھتی کہ آپ اُس طرف باہر سیر کو تشریف لے جائیں گے لوگ اس طرف ہی پروانہ وار دوڑ پڑتے.کچھ دیر اسی طرح ہی چہل پہل بنی رہی.آخر پتہ لگا کہ حضور شمال کی جانب ریتی چھلے کی طرف باہر سیر کو تشریف لے جائیں گے.ہم لوگوں نے بھی جو آگے ہی منتظر تھے، کپڑے وغیرہ کس لئے اور تیار ہو گئے کہ جس وقت حضور بازار سے باہر دروازے میں تشریف لے آئیں گے اُسی وقت ہم بازؤوں کا حلقہ بنا کر آپ کو بیچ میں لے لیں گے.ہم اس تیاری میں تھے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ آپ ایک بہت بڑے جم غفیر کے درمیان آ رہے ہیں.بہت زیادہ لوگ ہیں اور اس جمگھٹے نے ہمارے ارادے کو خاک میں ملا دیا اور روندتا ہوا آگے چلا گیا.اتنارش تھا کہ ہم قریب پہنچ ہی نہ سکے.ریتی چھلے کے بڑھ کے مغرب کی طرف ایک لسوڑی کا درخت تھا، آپ اس لسوڑی کے درخت کے نیچے کھڑے ہو گئے اور وہاں سے آپ لوگوں سے مصافحہ کرنے لگ پڑے.کسی نے کہا کہ حضرت صاحب کے لئے کرسی لائی جاوے تو آپ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ لوگ بڑی کثرت میں تیرے پاس آئیں گے.لیکن یہ پنجابی کا الہام ہے کہ) تو اکیں نہ اور تھکیں نہ.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 1 صفحہ نمبر 71 روایت حضرت چوہدری غلام رسول صاحب بسراء) یعنی گھبرانا بھی نہیں ہے، بیزار بھی نہیں ہونا اور لوگوں کے رش سے اور ملنے ملانے سے تھکنا بھی نہیں ہے.وہیں پھر ان کو بھی موقع ملا.پھر حضرت ڈاکٹر عمر دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجھے تو حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ مصافحہ کی اس قدر پیاس تھی کہ کئی دفعہ ہجوم کی لاتوں سے گزر کر مصافحہ کرتا رہتا پھر بھی طبیعت سیر نہ ہوتی.( بعض دفعہ دھکے بھی پڑتے.مشکل بھی پڑتی لیکن بہر حال کوشش کر کے مصافحے کی کوشش کرتے).(رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 1 صفحہ نمبر 184 روایت حضرت ڈاکٹر عمر الدین صاحب) حضرت ڈاکٹر عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ”جب میں قادیان بٹالہ سے جا رہا تھا تو اُسی وقت ایک بوڑھے نابینا احمدی بھی قادیان جانے والے تھے.انہوں نے کہا کہ کسی یکہ پر کچھ جگہ میرے لئے ہے؟ اُس پر میں نے کہا کہ آپ ہمارے یکہ میں آجائیں.انہوں نے کہا کہ نہیں میرے پاس ایک
خطبات مسرور جلد دہم 280 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 4 مئی 2012ء اٹھنی موجود ہے میں اپنے خرچ پر قادیان جاؤں گا.(یعنی انہوں نے اُن کو مفت آفر کی تھی کہ آجائیں.جگہ ہے.آپ ہمارے ساتھ بیٹھ جائیں تو انہوں نے کہا نہیں اس طرح نہیں.میرے پاس کرائے کے پیسے ہیں.میں پیسے دے کر جاؤں گا.اس سے منجملہ وقار اور غیرت اور سوال سے نفرت کے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ لوگ باوجود اس غربت کے اپنی زندگی اسی میں پاتے تھے کہ بار بار قادیان آئیں.“ (رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 2 صفحہ نمبر 109 - 110 روایت حضرت ڈاکٹر عبد اللہ صاحب) یعنی ایک تو نابینا شخص کی غیرت تھی ، کوئی سوال نہیں، یعنی سوال سے نفرت ہے.دوسرے یہ کہ کوشش کر کے پیسے جمع کرتے تھے اور پھر بار بار قادیان آنے کی کوشش کرتے تھے تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت سے فائدہ اُٹھا سکیں.حضرت میاں چراغ دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ حکیم احمد دین صاحب جب حضور کی ملاقات کے لئے لاہور جانے لگے تو میں نے انہیں محول کیا ( یعنی مذاق میں کہا ) حکیم صاحب نے کہا کہ یار! تم اپنے آدمی ہو کر مخول کرتے ہو.یہ بات سن کر مجھے کچھ شرم سی محسوس ہوئی اور میرا دل نرم ہو گیا.ان کے کہنے پر میں بھی حضور کو دیکھنے کے لئے ساتھ چل پڑا.(اُس وقت یہ احمدی نہیں تھے، انہوں نے مذاق کیا، حکیم صاحب کو کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھنے جارہے ہیں.کوئی ایسی بات کی ہو گی.خیر انہوں نے اُن کو کچھ احساس دلایا تو ان کو شرم آئی.کہتے ہیں بہر حال میں بھی پھر ساتھ چل پڑا) مگر بیعت کا ہر گز کوئی ارادہ نہیں تھا ( ساتھ تو چلا گیا لیکن بیعت کا ارادہ نہیں تھا ) جب خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت صاحب کی طبیعت علیل ہے.مخلوق بے شمار جمع تھی.حضور کی خدمت میں کسی نے عرض کیا کہ ہجوم بہت زیادہ ہے حضور کی زیارت کرنا چاہتے ہیں.حضور نے باری سے ( یعنی کھڑ کی سے سر نکالا.میں نے اندازہ لگایا کہ یہ چہرہ ہر گز جھوٹوں کا نہیں ہوسکتا.چنانچہ میں نے بیعت کر لی.“ (رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 9 صفحہ نمبر 336 روایت حضرت میاں چراغ دین صاحب) ملک برکت اللہ صاحب پسر حضرت ملک نیاز محمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ 1905ء میں ایک دن بوقت عصر ہم کو ڈرا ہوں، ضلع جالندھر میں ( یعنی جس جگہ یہ رہتے تھے، راہوں ضلع جالندھر میں ) وہاں ایک خط ، پوسٹ کارڈ ملا کہ حضور علیہ السلام دیلی تشریف لے جارہے ہیں اور صبح آٹھ یا نو بجے گاڑی پر سے پھگواڑہ سٹیشن پر سے گزریں گے.حاجی رحمت اللہ صاحب، چوہدری فیروز خان صاحب مرحوم نے میری
خطبات مسرور جلد دہم 281 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 4 مئی 2012ء ڈیوٹی لگائی کہ تم نوجوان ہو.اسی وقت جاؤ اور جماعت کر یام کو اطلاع کرو.چنانچہ میں مغرب کے بعد چل کر کر یام پہنچا.جماعت کو اطلاع کی گئی.وہاں سے بھی کچھ دوست ساتھ ہو لئے.ہم سب لوگ اسی طرح چل کر پھگواڑہ جو کہ راہوں سے تیس میل کے فاصلے پر تھا وہاں پہنچے صبح کی نماز پڑھی.وہاں سٹیشن پر منشی حبیب الرحمن صاحب مرحوم نے حاجی پوروالوں کی طرف سے احباب جماعت کے ٹھہرنے کا انتظام کیا ہوا تھا اور دن کے وقت انہی کی طرف سے کھانا آیا.جب گاڑی کا وقت آیا اور گاڑی آکر گزرگئی تو معلوم ہوا کہ روانگی کی تاریخ تبدیل ہو گئی ہے.جو اطلاع تھی اُس کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف نہیں لائے بلکہ تاریخ بدل گئی ہے.کسی اور دن آئیں گے جس سے ہم کو بہت صدمہ ہوا.لکھتے ہیں، یا تو راتوں رات وفور محبت کی وجہ سے اتنا لمبا سفر کیا تھا یا یہ حالت ہوئی کہ ایک قدم چلنا بھی دشوار ہو گیا.ملنے کا ، دیکھنے کا یہ شوق تھا، اُس وجہ سے ہم نے راتوں رات کئی میل کا سفر کیا.لیکن اب جب دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف نہیں لا رہے تو پھر پیروں پر جو چھالے پڑے ہوئے تھے وہ بھی یاد آنے لگ گئے.صدمہ بھی ہوا اور پھر کہتے ہیں اس صدمے کی وجہ سے واپسی پر ہم پھر یوں پر ، ( ٹانگوں پر ) واپس چلے گئے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 3 صفحہ نمبر 227-228 روایت حضرت ملک نیاز محمد صاحب معرفت ملک برکت اللہ صاحب) حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحب بیان کرتے ہیں.یہ ان کا احمدیت قبول کرنے سے پہلے کا واقعہ ہے.کہتے ہیں کہ میں جب طالب علم تھا، آٹھویں جماعت میں تو حنفی اور وہابی لوگوں کی یہاں لا ہور میں بہت بحث ہوا کرتی تھی.میں حنفی المذہب تھا.مجھے شوق پیدا ہوا کہ وہابیوں کی مجلس میں بھی جاؤں.چنانچہ میں نے چینیاں والی مسجد میں جانا شروع کیا.جب میں اُن کی مسجد میں بیٹھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ قال اللہ اور قال الرسول کے سوا کچھ نہیں کہتے.میری طبیعت کا رجحان پھر اہلحدیث کی طرف ہو گیا.بعض وقت وہابیوں کی مجلس میں حضرت صاحب کا بھی ذکر آجایا کرتا تھا کہ وہ کافر ہیں اور ان کا دعویٰ مسیحیت اسلام کے خلاف ہے.طبعا مجھے پھر اس طرف توجہ ہوئی.چنانچہ ایک شخص حضرت ولی اللہ صاحب ولد با باہدایت اللہ کو چہ چابک سواراں احمدی تھے میں اُن کی خدمت میں جانے لگا اور ان سے حضرت صاحب کے متعلق کچھ معلومات حاصل کیں.انہوں نے مجھے استخارہ کرنے کے واسطے توجہ دلائی.چنانچہ اُن سے میں نے طریق استخارہ سیکھ کر اور دعائے استخارہ یاد کر کے استخارہ کیا.رات کے دو بجے دوسرے روز میں ابھی استخارہ کی دعا پڑھ کر سویا ہی تھا کہ رویا میں مجھے کسی شخص نے کہا کہ آپ اُٹھ کر دوزانو بیٹھیں کیونکہ آپ
خطبات مسرور جلد دہم 282 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 4 مئی 2012ء کے پاس حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا رہے ہیں اور مجھے بھی زینے سے کسی آدمی کے چڑھنے کی آواز آئی.چنانچہ میں رویا ہی میں دوزانو بیٹھ گیا.اتنے میں میں نے دیکھا کہ ایک نہایت تبرک سفید لباس میں انسان آیا ہے اور انہوں نے ایک بازو سے حضرت مرزا صاحب کو پکڑ کر میرے سامنے کھڑا کر دیا اور فرمایا: هَذَا الرَّجُلُ خَلِيفَةُ اللهِ وَاسْمَعُوا وَاَطِيْعُوا “.پھر وہ واپس تشریف لے گئے اور حضرت صاحب میرے پاس کھڑے ہو گئے اور اپنی ایک انگلی اپنی چھاتی پر مار کر کہا.(انہوں نے خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا کہ انہوں نے پنجابی میں کہا ) ''ا یہورب خلیفہ کیتا ایس نوں مہدی جانو.پھر ایک اور نظم کی رباعی بھی پڑھی لیکن میں بھول گیا ہوں.اس کا مطلب بھی یہی تھا کہ میں مسیح موعود ہوں.میں پھر بیدار ہو گیا.صبح میں بجائے سکول جانے کے قادیان روانہ ہو گیا.گاڑی بٹالہ تک تھی اور قریباً شام کے وقت وہاں پہنچتی تھی.میں بٹالہ کی مسجد میں جو اڈہ کے سامنے چھوٹی سی ہے نماز پڑھنے کے لئے گیا.مغرب کی نماز پڑھ رہا تھا کہ لوگوں نے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں اور کہاں کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا لاہور سے آیا ہوں اور قادیان جانے کا ارادہ ہے.انہوں نے حضرت صاحب کو بہت گالیاں دیں اور مجھے وہاں جانے سے روکا.جب میں نے اپنا مصمم ارادہ ہی ظاہر کیا تو انہوں نے مجھے مسجد سے نکال دیا.میں اڈہ میں آ گیا مگر کچھ لوگ اڈے پر بھی میرے پیچھے آئے اور مجھے ہر چند قادیان جانے سے روکا.(بہت کوشش کی ) اور کہا کہ اگر تم طالب علم ہو تو ہم تمہیں یہاں بڑے میاں کے پاس بٹھا دیں گے اور تمہاری رہائش اور لباس کا بھی انتظام کر دیں گے.مگر میں نے عرض کیا کہ میں پہلے ہی لاہور میں پڑھتا ہوں.(اس کی مجھے ضرورت نہیں ہے.اس لئے مجھے یہاں پڑھنے کی ضرورت نہیں.میں قادیان میں حضرت صاحب کی زیارت کے لئے جا رہا ہوں.اس پر انہوں نے زیادہ مخالفت شروع کی مگر میں نے پرواہ نہ کی اور قادیان کی طرف شام کے بعد ہی چل پڑا.اندھیرا بہت تھا.رات کا کافی حصہ گزر چکا تھا اور راستہ پہلے دیکھا ہوا نہیں تھا.میں غلطی سے چراغ کو دیکھ کر جو دور جل رہا تھا مسانیاں چلا گیا.( قادیان کی طرف ہی ایک اور جگہ تھی ) وہاں نماز عشاء ہو چکی ہوئی تھی.ایک آدمی مسجد میں بیٹھا ذکر الہی کر رہا تھا.اس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں جائیں گے اور کہاں سے آئے ہیں؟ میں نے کہا لاہور سے آیا ہوں اور حضرت مرزا صاحب کو ملنا چاہتا ہوں.اس نے جوابا کہا کہ یہ تو مسانیاں ہے.قادیان نہیں.قادیان یہاں سے دور ہے اور تم یہاں سو جاؤ.صبح کے وقت جانا ( کیونکہ ) راستہ مخدوش ہے.چنانچہ میں وہاں مسجد میں
خطبات مسرور جلد دہم 283 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 4 مئی 2012ء لیٹ گیا اور چار بجے کے قریب جب چاند چڑھا (لیٹ نائٹ (Late Night) آخری وقت تھا ، چاند کے دن تھے، چاند نکلا ) تو میں نے اُس شخص کو کہا کہ مجھے راستہ دکھا دو.وہ مجھے وڈالہ تک چھوڑ گیا اور مجھے سڑک دکھا گیا.چنانچہ میں نے صبح کی نماز نہر پر پڑھی اور سورج نکلنے کے قریباً ایک گھنٹہ بعد قادیان پہنچ گیا.قادیان کے چوک میں جا کر میں نے ایک شخص سے پوچھا کہ بڑے مرزا صاحب کہاں ہیں؟ اس نے مجھے کہا کہ وہاں نہا کر سامنے مکان کی حویلی میں تخت پوش پر بیٹھے حقہ پی رہے ہیں.(مرزا نظام الدین کی طرف اشارہ کر دیا کہتے ہیں) میں سنتے ہی آگے بڑھا تو میں نے دیکھا کہ ایک معمر شخص نہا کر تخت پوش پر بیٹھا ہے اور بدن بھی ابھی اس کا گیلا ہی ہے اور حقہ پی رہا ہے.مجھے بہت نفرت ہوئی اور قادیان آنے کا افسوس بھی ہوا.(اتنا ر ڈ کیا، اتنی محنت کی ہسفر کیا، قادیان آیا ہوں تو میں اس شخص کو دیکھ رہا ہوں.کہتے ہیں ) میں مایوس ہو کروا پس ہوا.اللہ تعالیٰ نے رہنمائی کرنی تھی تو کہتے ہیں).موڑ پر ایک شخص شیخ حامد علی صاحب ملے.انہوں نے مجھے پوچھا کہ آپ کس جگہ سے تشریف لائے ہیں اور کس کو ملنا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا میں نے جس کو ملنا تھا اس کو میں نے دیکھ لیا ہے اور اب میں واپس لاہور جا رہا ہوں.میرے اس کہنے پر انہوں نے مجھے فرمایا کہ کیا آپ مرزا صاحب کو ملنے کے لئے آئے ہیں تو وہ یہ مرزا نہیں ہے ( جن کو آپ مل کر آئے ہیں ) وہ اور ہیں اور میں آپ کو ان سے ملا دیتا ہوں.تب میری جان میں جان آئی اور میں کسی قدر تسکین پذیر ہوا.حامد علی صاحب نے مجھے فرمایا کہ آپ ایک رقعہ لکھ دیں میں اندر پہنچا تا ہوں.چنانچہ میں نے ایک رقعے پر پنسل کے ساتھ ایک خط لکھا جس میں میں نے مختصراً یہ لکھا کہ میں طالب علم ہوں.لاہور سے آیا ہوں.زیارت چاہتا ہوں اور آج ہی واپس جانے کا ارادہ ہے.حضور نے اس کے جواب میں کہلا بھیجا کہ مہمان خانے میں ٹھہریں اور کھانا کھا ئیں اور ظہر کی نماز کے وقت ملاقات ہو گی.اس وقت میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.اس وقت میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں ) اور اس کا مضمون میرے ذہن میں ہے اگر میں اس وقت ملاقات کے لئے آیا تو ممکن ہے کہ وہ مضمون میرے ذہن سے اتر جائے.اس واسطے آپ ظہر کی نماز تک انتظار کریں.مگر مجھے اس جواب سے کچھ تسلی نہ ہوئی.میں نے دوبارہ حضرت کو لکھا کہ میں تمام رات مصیبت سے یہاں پہنچا ہوں اور زیارت کا خواہش مند ہوں.اللہ مجھے اسی وقت شرف زیارت سے سرفراز فرما ئیں.تب حضور نے مائی دادی کو کہا کہ ان کو مبارک مسجد میں بٹھاؤ اور میں ان کی ملاقات کے لئے آتا ہوں.مجھے وہاں کوئی پندرہ منٹ بیٹھنا پڑا.اس کے بعد حضور نے مائی دادی کو بھیجا کہ ان کو اس طرف بلا لاؤ.حضرت صاحب اپنے مکان سے گلی میں آگئے اور میں بھی اس گلی
خطبات مسرور جلد دہم 284 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 4 مئی 2012ء میں آ گیا.( دوسری طرف سے ) دور سے میری نظر جو حضرت صاحب پر پڑی تو وہی رؤیا میں (خواب میں جو دیکھا تھا) جوشخص مجھے دکھایا گیا تھا بعینہ وہی حلیہ تھا.حضرت صاحب کے ہاتھ میں عصا بھی تھا پگڑی بھی پہنی ہوئی تھی.سوئی ہاتھ میں تھی.گویا تمام وہی حلیہ تھا.اس سے قبل مجھے دادی کی معرفت معلوم ہوا تھا کہ حضرت صاحب کپڑے اتار کر تشریف فرما ہیں مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کو مجھے رو یا والا نظارہ دکھا نا منظور تھا.اس لئے حضور نے جو لباس زیب تن فرما یا وہ بالکل وہی تھا جو میں نے رویا میں دیکھا تھا.میں حضرت صاحب کی طرف چل پڑا تھا اور حضرت صاحب میری طرف آرہے تھے.گول کمرہ کے دروازہ سے ذرا آگے میری اور حضرت صاحب کی ملاقات ہوئی.میں نے حضرت صاحب کو دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہ خواب والے ہی بزرگ ہیں اور سچے ہیں.چنانچہ میں حضور سے بغلگیر ہو گیا اور زار زار رونے لگا.میں نہیں سمجھتا کہ وہ رونا مجھے کہاں سے آیا اور کیوں آ گیا مگر میں کئی منٹ تک روتا ہی رہا.حضور مجھے فرماتے تھے صبر کریں، صبر کریں.جب مجھے ذرا رونا تھم گیا اور مجھے ہوش قائم ہوئی تو حضور نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں؟ میں نے عرض کیا لا ہور سے.حضور نے فرمایا کیوں آئے ؟ میں نے کہا زیارت کے لئے.حضور نے فرمایا: کوئی خاص کام ہے؟ میں نے پھر عرض کیا کہ صرف زیارت ہی مقاصد ہے.حضور نے فرمایا.بعض لوگ دعا کرانے کے لئے آتے ہیں اپنے مقصد کے لئے.کیا آپ کو بھی کوئی ایسی ضرورت درپیش ہے؟ میں نے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی ضروت در پیش نہیں.تب حضور نے فرمایا کہ مبارک ہو.اہل اللہ کے پاس ایسے بے غرض آنا بہت مفید ہوتا ہے.( یہ غالباً حضرت صاحب نے مجھ سے اس لئے دریافت فرمایا تھا کہ ان ایام میں حضور نے ایک اشتہار شائع فرمایا تھا جس میں لکھا تھا کہ بعض لوگ میرے پاس اس لئے آتے ہیں کہ اپنے مقاصد کے لئے دعا کرائیں.(رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 9 صفحہ نمبر 120 تا 126 روایت حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحب) لیکن میری اس بات سے بہت خوش ہوئے ، مبارکباد دی کہ میرا تو مقصد صرف اور صرف آپ کو ملنا اور زیارت تھا.حضرت ملک غلام حسین صاحب مہاجر بیان فرماتے ہیں کہ ”جب ہم اپنے وطن پہنچے تو دو ماہ کے بعد پھر قادیان آنے کی تحریک پیدا ہوئی مگر خرچ نہیں تھا مگر دل چاہتا تھا کہ پیدل ہی چلنا پڑے تو چلنا چاہئے.دو روپے میرے پاس تھے.میں رہتاس سے جہلم باوجود گاڑی ہونے کے پیدل آیا.پھر خیال آیا کہ آگے بھی پیدل ہی چلنا چاہئے.جہلم کے پل سے گزرنے لگا تو چار پانچ سپاہی رسالے کے جن کے
خطبات مسرور جلد دہم 285 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 4 مئی 2012ء پاس دو دو گھوڑے تھے.میں نے انہیں کہا کہ گھوڑا مجھے پکڑا دو.وہ کہنے لگے کہ تم گجرات کے ضلع کے رہنے والے ہو.ہمیں ڈر ہے کہ کہیں گھوڑا لے کر بھاگ نہ جاؤ.خیر میں نے کہا کہ میں ضلع جہلم کا ہوں (گجرات کا نہیں ہوں.رہتاس سے آرہا تھا ) مگر انہوں نے نہ مانا مگر میں ان کے ساتھ رہا کیونکہ رات کا سفر بھی وہ کرتے تھے.( جو دوسپاہی تھے ) جب وہ مرالے میں اترے تو میں نے بھی وہیں بستر ا بچھا لیا.ایک سکھ کہنے لگا کہ میاں تم ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے.( اُن میں سے ایک سکھ بھی تھا ) ہمیں تمہارا ڈر ہے.جس وقت آدھی رات ہوئی وہ چل پڑے.میں بھی ساتھ ہولیا.پھر ایک سکھ نے کہا کہ ہمیں ڈر ہے کہ تم ہمارا کوئی گھوڑا نہ لے جاؤ.میں نے کہا کہ میں تو جلدی جانا چاہتا ہوں.ساتھ کی خاطر تمہارے ہمراہ چل پڑا ہوں.ایک سکھ نے کہا کہ یہ بھلا مانس آدمی معلوم ہوتا ہے اُسے ایک گھوڑا دے دو.چنانچہ تین میل میں نے گھوڑے پر سوار ہو کر سفر کیا.رات وزیر آباد پہنچے.پل پر سے گزرنے کا پیسہ بھی مجھے انہوں نے دیا اور رات کا کھانا بھی انہوں نے ہی کھلایا.( یعنی کوئی ٹول ٹیکس لگتا ہوگا، وہ بھی انہوں نے دیا، رات کا کھانا کھلا یا ) رات ایک بجے پھر تیار ہو گئے اور مجھے گھوڑا دے دیا.دوسری رات کا مونکی یا مرید کے میں بسیرا کیا.پھر انہوں نے کھانا مجھے کھلایا.پھر رات چل کر صبح سات یا آٹھ بجے لاہور پہنچے.( یہ تقریباً کوئی سوڈیڑھ سو میل کا سفر بنتا ہے ) لاہور پہنچے.پھر چونکہ ان کا راستہ الگ تھا اس لئے وہ علیحدہ ہو گئے.گیارہ بجے لاہور سے گاڑی چلنی تھی.میں آٹھ بجے پہنچا.اس لئے یہ خیال کر کے کہ کون تین گھنٹے انتظار کرے ( قادیان پہنچنے کا شوق تھا.تین گھنٹے انتظار کیا کرنا ہے.کہتے ہیں ) میں (پھر پیدل ) چل پڑا.ڈیڑھ گھنٹے میں جلو پہنچا.وہاں سٹیشن پر گاڑی کے متعلق پوچھا.انہوں نے کہا کہ پونے بارہ بجے چلے گی.پھر میں وہاں سے چل پڑا.اٹاری پہنچا.سٹیشن سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ سوا گھنٹہ گاڑی میں ہے.پھر چل پڑا.( کیا انتظار کرنا ہے.) ابھی دو میل خاصہ کا سٹیشن رہتا تھا کہ گاڑی نکل گئی.خاصہ سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ اب شام کے سات بجے گاڑی آئے گی.میں پھر پیدل چل پڑا اور کوئی شام سے قبل ہی امرتسر پہنچ گیا.وہاں ایک شیخ ہمارے شہر کے تھے ان کے پاس رات بسر کی.وہاں سے صبح گاڑی پر سوار ہوا اور چھ آنے دے کر بٹالہ پہنچ گیا.بٹالہ سے پھر پیدل چل کر چار پانچ بجے قادیان پہنچ گیا.دوسرے روز صبح حضرت صاحب سے ملاقات کی.چار پانچ دن آرام سے گزارے.پھر اجازت چاہی اور عرض کیا کہ ہم چھوٹے ہوتے یہ کہا کرتے تھے کہ یا اللہ ! امام مہدی کے آنے پر ہمیں سپاہی بنے کی توفیق عطا فرمانا.سفر کا واقعہ بھی تمام ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سنایا ( کہ کس طرح میں نے اکثر وقت جو ہے سفر کا پیدل
خطبات مسرور جلد دہم 286 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 4 مئی 2012ء طے کیا ہے.تھوڑ اسا عرصہ بیچ میں گھوڑے پر بھی سواری کی.یہ باتیں سن کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پر ) فرمایا آپ نے بڑی ہمت کی ہے اور فرمایا کہ آپ کوئی کام جانتے ہیں؟ میں نے کہا حضور سوائے روٹی پکانے کے اور کوئی کام نہیں کر سکتا اور وہ بھی معمولی طور پر.فرمایا نام لکھا دو.ضرورت پڑنے پر ہم ( آپ کو بلا لیں گے.(اس پر) میں نے نام لکھا دیا.”غلام حسین.رہتاس ضلع جہلم“.( رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 10 صفحہ نمبر 319 تا 321 روایت حضرت ملک غلام حسین صاحب مہاجر ) یہ تمام روایات اُن لوگوں کی ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملنے کا شوق تھا اور زیارت کا شوق تھا.اس کے لئے وہ تکلیفیں بھی برداشت کرتے تھے اور یہ تکلیفیں اُن کے لئے بہت معمولی ہوتی تھیں.اُس کے مقابلے میں جو فیض انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پایا اور جو ایمان میں اُن کی زیادتی ہوتی تھی.اللہ کرے ہم میں سے بھی ہر ایک یہ واقعات سن کر صرف 66 واقعات کے مزے لینے والے نہ ہوں بلکہ ہر واقعہ ہمارے ایمان میں بھی زیادتی پیدا کرنے والا ہو.“ الفضل انٹرنیشنل مورخہ 25 مئی 2012 تا 31 مئی 2012 جلد 19 شماره 21 صفحه 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد دہم 287 19 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مئی 2012ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت رزاسر د احمد خلیفہ امسح الامس ایدہ اللہ تعالى بصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 11 مئی 2012 ء بمطابق 11 ہجرت 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن - لندن تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شرائط بیعت کی دسویں شرط میں اپنے سے تعلق اور محبت اور اخوت کو اُس معیار تک پہنچانا لازمی قرار دیا ہے جس کی مثال دنیا کے کسی رشتے میں نہ ملتی ہو.یہ مقام آپ کی بیعت میں آنے کے بعد آپ کو دینا کیوں ضروری ہے؟ اس لئے کہ آپ ہی اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ عاشق صادق ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق ایمان کو ثریا سے زمین پر لے کے آئے.اسلامی تعلیم میں داخل ہونے والی بدعات کو دور فرما کر اسلام کی خالص اور چمکتی ہوئی تعلیم کو پھر سے ہمارے سامنے پیش فرمایا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی مقام اور مرتبے کی پہچان ہمیں کروائی اور بندے کو خدا تعالیٰ سے ملایا.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ : میں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفت کا ملہ کا حصہ پاسکتا ہے.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 64-65) پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی اور عشق میں فنا ہونا آپ کا خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا اور پہنچانے کا باعث بنا.اور پھر خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق کو بھی اپنے تک پہنچنے کے ذریعہ میں شامل فرما کر آپ علیہ السلام سے تعلق اور محبت کو اور اخوت کے رشتے کو ضروری قرار دے دیا.اللہ تعالیٰ نے آپ سے بھی محبت کے وہ نظارے دکھائے جس نے آخرین کو اولین سے ملا دیا.اللہ تعالیٰ کے اس سلوک کے بارے میں آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ” جب انسان سچے طور پر خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے تو خدا بھی اُس سے محبت کرتا ہے.تب
خطبات مسرور جلد دہم 288 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مئی 2012ء زمین پر اُس کے لئے ایک قبولیت پھیلائی جاتی ہے اور ہزاروں انسانوں کے دلوں میں ایک سچی محبت اُس کی ڈال دی جاتی ہے اور ایک قوتِ جذب اُس کو عنایت ہوتی ہے اور ایک نور اُس کو دیا جاتا ہے جو ہمیشہ اس 66 کے ساتھ ہوتا ہے.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 65).پس یہ مقام اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ملا.اس وقت میں آپ علیہ السلام سے سچی محبت کرنے والوں کے، آپ سے عشق کا تعلق رکھنے والوں کے کچھ واقعات پیش کروں گا.حضرت اللہ یار صاحب روایت کرتے ہیں کہ حضور کے ساتھ میری ملاقات بہت دفعہ ہمیشہ ہوتی رہی اور مجھے شوق تھا کہ حضور کو ہاتھوں سے دبایا کرتا تھا.الہام اور حضور کا کلام پاک سنا کرتا تھا ( یعنی مجالس میں بیٹھ کے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بعض الہامات وغیرہ کا ذکر فر ماتے تھے تو اُن کو سنا کرتا تھا).اسی شوق میں میں قادیان ہجرت کر کے آیا ( کہ ہمیشہ یہ باتیں سنتار ہوں ) تو یہاں آکر لکڑی وغیرہ کا کام شروع کیا carpentary) کا ).میرے پاس کافی روپیہ تھا جو کہ خرچ ہو گیا اور جو لے کے آیا تھا وہ بھی خرچ ہو گیا اور پاس کچھ نہ رہا.پھر کہتے ہیں میں نے ایک دن حلوہ بنا کر بیچنا شروع کیا اور حضور کے بیت الدعا کے نیچے پکارا کہ تازہ حلوہ.حضرت ام المؤمنین نے میری آوازوں کو سن لیا اور جانتی بھی تھیں.تو کہتی ہیں یہ ٹھیکیدار نے کیا کام شروع کیا ہے؟ حضور نے فرمایا کہ ” پروانے شمع پر گرتے ہیں اور کیا کریں؟ میر سی کام کے لئے یہاں آیا ہے.کچھ نہ کچھ تو انہوں نے گزارے کے لئے کرنا ہے.تو حضرت ام المومنین نے فرمایا کہ ٹھیکیدار ہے.( شاید ان کے زمانے میں ٹھیکیداروں کے پاس گدھے تھے.جن سے سامان ادھر اُدھر لے جایا جاتا تھا کہ گدھے لے کر باہر کیوں نہیں چلا جاتا؟ حضور نے فرمایا کہ وہ گدھے والا نہیں ہے.تو حضرت اماں جان نے فرمایا کہ کسی کی نوکری کر لے.حضور نے فرمایا کہ یہ اتنا پڑھا لکھا بھی نہیں ہے.خیر یہ گفتگو ہوتی رہی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ لکڑی کا کام ہی جانتا ہے وہی کر سکتا ہے.اُس میں خدا برکت دے.کہتے ہیں: میں نیچے یہ ساری باتیں سن رہا تھا.اس کے بعد حضور نے مجھے بلایا کہ آپ کے پاس کچھ لکڑی ہے؟ تو میں نے عرض کی بیری کی ہے.پیپل کی ہے.حضور نے فرمایا کہ مہمان خانے کے لئے چار پائیوں کے پائے چاہئیں.کیا پائے بن جاویں گے.تو وہ کہتے ہیں کہ اُسی وقت ایک مختار جو حضور کا تھا، اُس نے کہا کہ پیپل کے پائے زیادہ دیر نہیں چلتے.حضور نے فرمایا کہ جس کے لئے بنوانے ہیں وہ خود پیپل پیدا کرنے والا ہے.اس نے بریکار پیدا نہیں کیا اور مجھے ہیں جوڑی کا حکم دیا.( یعنی کسی کارکن نے کہا کہ نہ بنوائیں.آپ نے فرمایا نہیں.جو ہے بنا دو.یعنی دونوں طرف سے
خطبات مسرور جلد دہم 289 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مئی 2012ء یہ تعلق قائم تھا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 5 صفحہ 52-53 روایت حضرت اللہ یار صاحب) پھر حضرت ملک خان صاحب روایت کرتے ہیں کہ میں 1902ء میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ کے ہمراہ قادیان دارالامان میں آیا.یہ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ جب ہم آئے ،اسی دن بیعت کی یا دوسرے دن.ہاں یہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ظہر کی نماز کے بعد ہم بیعت کے لئے پیش ہوئے.حضرت شہید مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے اور پھر دوسرے نمبر پر خاکسار نے ہاتھ رکھے.بیعت کرنے کے بعد اس خاکسار نے غالباً دو تین یوم قادیان دار الامان میں گزارے ہوں گے کہ شہید مرحوم نے مجھے فرمایا کہ میں نے رؤیا دیکھی ہے کہ آپ کو خوست کے حاکم تکلیف دیں گے.اس لئے تم فور اواپس چلے جاؤ.چنانچہ میں دو تین یوم بعد وا پس چلا گیا.میرے ساتھ ایک ملا سپین گل صاحب بھی واپس چلے گئے.شہید مرحوم ہمیشہ فرمایا کرتے تھے ( حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کا یہ واقعہ ہے جو آپ سے عشق کا یہ بیان فرما رہے ہیں کہتے ہیں کہ فرمایا کرتے تھے ) میں نے اپنے سے زیادہ عالم نہیں دیکھا.یہ محض خداوند تعالیٰ کا فضل ہے.یعنی صاحبزادہ صاحب اپنے آپ کو فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے سے بڑا اس وقت تک کوئی عالم نہیں دیکھا ورنہ میں اُس کے پاؤں چومتا.چنانچہ کہتے ہیں جب یہاں آئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی تو کہتے ہیں.میں نے اپنی آنکھوں سے شہید مرحوم کو دیکھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاؤں مبارک چومے.اس طرح جو فر مایا تھا اس کی تصدیق فرمائی.(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 5 صفحہ 82 روایت حضرت ملک خان صاحب) حضرت مولوی سکندر علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دن قادیان میں آکر رہنے سے پہلے بندہ یہاں آیا ہوا تھا.یہ مستقل رہائش سے پہلے ایک دن یہاں آئے تھے ) صبح سیر کے لئے حضرت اقدس تشریف لے گئے تو بندہ بھی ساتھ ہولیا.کہتے ہیں بھینی بھا نگر کے مقابلے پر بسر اواں والے راستے جا رہے تھے کہ راستے میں جناب نے فرمایا کہ جو لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو چھوڑ نہیں سکتے ، جن کے چھوڑنے سے کوئی ناراض نہیں ہوتا، جیسے حقہ نوشی ، افیم ، بھنگ، چرس وغیرہ تو ایسا آدمی بڑی باتوں کو کس طرح چھوڑ سکے گا جس کے چھوڑنے سے ماں باپ، بھائی برادر، دوست، آشنا ناراض ہوں.جیسے مذہب کی تبدیلی.(یعنی احمدیت قبول کرنا کس طرح برداشت کریں گے.اس کے بعد تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں ) اگر ان چھوٹی تکلیفوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو بڑی تکلیفیں کس طرح برداشت کرو گے؟ کہتے ہیں کہ بندہ اُس
خطبات مسرور جلد دہم 290 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مئی 2012ء وقت حقہ پیا کرتا تھا.اسی جگہ سنتے ہی قسم کھالی کہ حقہ نہیں پیوں گا تو اس طرح حقہ چھوٹ گیا.پہلے میں زور لگا چکا تھا اور نہیں چھوٹا تھا.( تو یہ وہ تعلق اور محبت تھی جس نے مجبور کیا کہ اس برائی سے جان چھٹ گئی ).(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 1 صفحہ 18-19 روایت مولوی سکندر علی صاحب) حضرت شکر الہی صاحب احمدی بیان کرتے ہیں کہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ ابھی بچہ تھا،عمر تقریب بارہ یا تیرہ سال کی ہوگی.دین سے بالکل بے بہرہ تھا.غالباً پرائمری کی کسی جماعت میں گورداسپور ہائی سکول میں تعلیم پایا کرتا تھا.اُس وقت مولوی عبد الکریم مخالف پارٹی کا مقدمہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے اصحاب کے ساتھ ہائی سکول کے شمال کی جانب بالکل متصل تالاب تحصیل والے کے رونق افروز ہوا کرتے تھے اور خاکسار مدرسہ چھوڑ کر آپ کی رہائش کے پاس کھڑا رہتا تھا اور آپ کے چہرہ مبارک کو دیکھتا رہتا تھا.ایک آپ کے عاشق صادق کا نام بچہ ہونے کے باعث میں نہیں جانتا، لیکن یہ کہتے ہیں اس بات پہ مجھے حیرت تھی کہ ایسے ایک عاشق صادق تھے آپ کے کہ اُن کے دائیں ہاتھ میں بڑا پنکھا پکڑا ہوا ہوتا تھا اور بڑے زور سے ہلاتے رہتے تھے.( دیر تک کھڑا رہتا، اُن کو دیکھتا رہتا اور پنکھا اسی ہاتھ میں رہتا اور وہ چلاتے رہتے.حیران ہوتا کہ ہاتھ تھکتے نہیں ہیں).ہلاتے بھی آہستہ نہ تھے بلکہ بڑے زور سے جیسے بجلی کے کرنٹ زور سے ہلاتی ہے.کیونکہ موسم گرمیوں کا تھا.دوبارہ سہ بار آتا اور اسی صاحب کو دیکھتارہتا کہ کیا جادو ہے.پنکھا بڑا ہے اور سارا دن ایک ہی ہاتھ سے ہلا رہے ہیں.مگر اب معلوم ہوا ہے کہ وہ سچے عاشق ( رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 3 صفحہ 113 روایت شکر الہی صاحب) تھے.حضرت مدد خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے اپنے وطن میں رمضان المبارک کے مہینے میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اس دفعہ قادیان میں جا کر روزے رکھوں اور عید وہیں پڑھ کر پھر اپنی ملازمت پر جاؤں.اُن دنوں میں ابھی نیا نیا ہی فوج میں جمعدار بھرتی ہوا تھا.( یہ فوج میں جونیئر کمیشن افسر کا ایک رینک ہوتا تھا) تو میری اس وقت ہر چند یہی خواہش تھی کہ اپنی ملازمت پر جانے سے پہلے میں قادیان جاؤں تا حضور کے چہرہ مبارک کا دیدار حاصل کر سکوں اور دوبارہ آپ کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کروں.کیونکہ میری پہلے بیعت 1895 ء یا 96ء کی تھی.کہتے ہیں یہ بیعت جو تھی وہ ڈاک کے ذریعے ہوئی تھی.نیز میرا اُن دنوں قادیان میں آنے کا پہلا موقع تھا اس لئے بھی میرے دل میں غالب خواہش پیدا ہوئی کہ ہو نہ ہوضرور اس موقع پر حضور کا دیدار کیا جائے.اگر ملازمت پر چلا گیا تو پھر خدا جانے حضور کو دیکھنے کا شاید موقع ملے یا نہ ملے.لہذا یہی ارادہ کیا کہ پہلے قادیان ہی چلا جاؤں اور حضور کو
خطبات مسرور جلد دہم 291 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 مئی 2012ء دیکھ آؤں اور بعدہ وہاں سے واپس آکر اپنی ملازمت پر چلا جاؤں.میں قادیان کو جان کر یہاں آیا لیکن جو نہی یہاں آکر میں نے حضور کے چہرہ مبارک کا دیدار کیا تو میرے دل میں یکانت یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر مجھ کو ساری ریاست کشمیر بھی مل جائے تو بھی میں آپ کو چھوڑ کر قادیان سے باہر ہر گز نہ جاؤں.یہ محض آپ کی کشش تھی جو مجھے واپس نہ جانے پر مجبور کر رہی تھی.میرے لئے آپ کا چہرہ مبارک دیکھ کر قادیان سے باہر جانا بہت دشوار ہو گیا.یہاں تک کہ مجھے آپ کو دیکھتے ہی سب کچھ بھول گیا.میرے دل میں بس یہی ایک خیال پیدا ہو گیا کہ اگر باہر کہیں تیری تنخواہ ہزار روپیہ بھی ہوگئی تو کیا ہوگا؟ لیکن تیرے باہر چلے جانے پر پھر تجھ کو یہ نورانی اور مبارک چہرہ ہرگز نظر نہ آئے گا.میں نے اس خیال پر اپنے وطن کو جانا ترک کر دیا اور یہی خیال کیا کہ اگر آج یا کل تیری موت آجائے تو حضور ضرور ہی تیرا جنازہ پڑھائیں گے جن سے تیرا بیڑا پار ہو جائے گا.اور اللہ بھی راضی ہو جائے گا.اور قادیان میں ہی رہنے کا ارادہ کر لیا.میرا یہاں پر ہر روز کا یہی معمول ہو گیا کہ ہر روز ایک لفافہ دعا کے لئے حضور کی خدمت میں آپ کے در پر جا کر کسی کے ہاتھ بھجوا دیا کرتا مگر دل میں یہی خطرہ رہتا کہ کہیں حضور میرے اس عمل سے ناراض نہ ہو جا ئیں اور اپنے دل میں یہ محسوس نہ کریں کہ ہر وقت ہی تنگ کرتا رہتا ہے.لیکن میرا یہ خیال غلط نکلا.وہ اس لئے کہ ایک روز حضور نے مجھے تحریر جواب میں فرمایا کہ آپ نے بہت ہی اچھا رویہ اختیار کر لیا ہے کہ مجھے یاد کراتے رہتے ہو جس پر میں بھی آپ کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کرتا رہتا ہوں.انشاء اللہ پھر بھی کرتا رہوں گا.“ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 4 صفحه 95-96 روایت مددخان صاحب) حضرت محمد اسماعیل صاحب ولد مولوی جمال الدین صاحب بیان فرماتے ہیں کہ میں قریباً نہیں سال کا تھا کہ گورداسپور میں کرم دین جہلمی....کے مقدمے کا حکم سنایا جانا تھا.میں ایک دن پہلے اپنے گاؤں سے وہاں پہنچ گیا.وہاں پر ایک کوٹھی میں حضور علیہ السلام بھی اترے ہوئے تھے.گرمی کا موسم تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ادھر کے ایک کمرے میں بیٹھے تھے اور وہاں پر میرے والد صاحب میاں جمال الدین صاحب، میاں امام الدین صاحب سیکھوانی اور چوہدری عبدالعزیز صاحب بھی موجود تھے.میں نے جا کر حضور کو پنکھا جھلنا شروع کر دیا.حضور نے میری طرف دیکھا اور میرے والد میاں جمال الدین صاحب کی طرف اشارہ کر کے مسکرا کر فرمایا کہ میاں اسماعیل نے بھی آکر ثواب میں سے حصہ لے لیا.حضور کا معمولی اور ادنی خدمت سے خوش ہو جانا اب بھی مجھے یاد آتا ہے تو طبیعت میں سرور پیدا ہوتا ہے.(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 4 صفحہ 150 روایت محمد اسماعیل صاحب)
خطبات مسرور جلد دہم 292 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مئی 2012ء حضرت شیخ اصغر علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ عام طور پر حضرت اقدس علیہ السلام سے جب باہر سے آئے ہوئے دوست واپسی کی اجازت طلب کرتے تو بار بار آپ اُن کو جلدی جلدی آتے رہنے کی تاکید فرماتے اور بعض وقت فرمایا کرتے تھے کہ ابھی اور ٹھہرو.ایسے اصحاب کو جن کے متعلق حضور انور کو خیال ہوتا کہ وہ ابھی اور ٹھہرنے کی گنجائش رکھتے ہیں.(ہر ایک کو نہیں کہتے تھے ، جن کے بارہ میں خیال تھا کہ یہ ٹھہر سکتے ہیں اُن کو فرماتے تھے کہ ابھی اور ٹھہرو.گویا دوستوں کو حضور انور سے جدا ہونا بہت شاق گزرتا تھا.ہر ایک دوست کو رخصت ہونے سے پہلے مصافحہ کرنے کی تاکید ہوتی تھی اور سب دوست مصافحہ کر کے اور اجازت حاصل کر کے واپس ہوا کرتے تھے.خواہ کتنی بھی دیر ہو جائے.مصافحہ کر کے اجازت حاصل کئے بغیر جانا جہاں تک مجھ کو علم ہے کبھی کسی کا نہیں ہوتا تھا.بعض دوستوں کے ساتھ ایسا واقعہ بھی ہوا کہ مصافحہ کی باری بہت دیر سے آئی اور جب روانہ ہوئے تو انہیں امید نہ تھی کہ وہ اسٹیشن پر گاڑی کے وقت پہنچ سکیں گے لیکن الہی تصرف سے حضور انور کی دعاؤں کی برکت سے کئی دفعہ یہ واقعہ ہوا کہ گاڑی دیر سے بٹالہ پہنچی اور گاڑی پر چڑھ گئے.پھر اپنا واقعہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ خود میرے ساتھ یہ واقعہ ہوا کہ ہم دیر سے چلے اور اس روز یکہ بھی نہ ملا.ہم چند بھائی تھے سب پیدل روانہ ہوئے.شاید ان دنوں چھ بجے کے قریب گاڑی بٹالہ آیا کرتی تھی اس پر سوار ہونے کا خیال تھا مگر بہت کم وقت معلوم ہوتا تھا.دعائیں بھی کرتے رہے اور خوب تیز رفتار چلے حتی کہ کچھ راستہ دوڑتے بھی کاٹا.اللہ تعالیٰ نے خوب ہمت دی اور جب ہم تحصیل کے قریب والے حصہ میں پہنچے اور پتہ کیا تو پتہ لگا کہ گاڑی ابھی نہیں آئی اور پھر تھوڑی دیر بعد جب آئی تو ہم آرام سے سوار ہوئے.یہ محض حضرت اقدس کی توجہ کی برکت تھی.(ماخوز از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 4 صفحہ 172،171 روایت شیخ اصغر علی صاحب) ย حضرت ماسٹر نذیر حسین صاحب ولد حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی فرماتے ہیں : خاکسار کی عادت تھی کہ جب کبھی بھی خاکسار کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملتا یا حضور کا لیکچر سنتا تو خاکسار کاپی پینسل اپنے پاس رکھتا اور جب دیکھتا کہ حضور نے کوئی بات فرمائی ہے جو خاکسار کے نزدیک قابل عمل اور زندگی کے لئے مفید اور ضروری ہے تو خاکسار فوراً اُس کو اُس میں درج کر لیتا.(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحه 71 روایت حضرت ماسٹر نذیر حسین صاحب) حضرت اللہ دتہ صاحب ہیڈ ماسٹر ولد میاں عبدالستار صاحب فرماتے ہیں کہ : غالباً 1901 ء یا 1902ء میں ایک نواب صاحب مع اپنے خادمان کے علاج کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الاول کی خدمت
خطبات مسرور جلد دہم 293 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مئی 2012ء میں قادیان آئے.ایک دن جبکہ میں حضرت خلیفہ اسیح الاول کی خدمت میں حاضر تھا، نواب صاحب کے دو اہلکار ایک سکھ اور ایک مسلمان آئے اور عرض کیا کہ نواب صاحب کے علاقے میں وائسرائے آنے والے ہیں.آپ ان لوگوں کے تعلقات سے واقف ہیں.نواب صاحب کا منشاء ہے کہ چند روز کے لئے حضور ان کے ہمراہ چلیں (یعنی خلیفہ اول کو کہا ).انہوں نے (حضرت مولانا نورالدین صاحب حضرت خلیفہ اول نے ) فرمایا کہ میں اپنی جان کا آپ مالک نہیں.میرا ایک آقا ہے اُس سے پوچھو.چنانچہ ظہر کے وقت میں مسجد مبارک میں ان ملازمین نے حضرت نبی اللہ کی خدمت میں عرض کیا.حضور علیہ السلام نے فرمایا اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر ہم مولوی صاحب کو آگ میں ڈالیں انکار نہیں کریں گے.پانی میں ڈبوئیں تو انکار نہیں کریں گے.لیکن اُن کے وجود سے یہاں ہزاروں انسانوں کو فیض پہنچتا ہے.ایک دنیا دار کی خاطر ہم سے یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم اتنے فیضان بند کر دیں.اگر ان کو ( یعنی جو نواب صاحب تھے ) زندگی کی ضرورت ہے تو یہاں رہ کر علاج کرائیں اور یہ نہیں ہے کہ وائسرائے صاحب آرہے ہیں تو ان کی طرف چلے جاؤ، کیونکہ یہاں غریبوں کا فائدہ ہو رہا ہے اس لئے اولیت غرباء کی ہے.( آگے یہ حضرت خلیفہ اول کا اس پر جور د عمل، اظہار تھاوہ روایت کرتے ہیں.ایک تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اظہار تھا کہ پانی میں ڈالوں، آگ میں ڈالوں تو کود جائیں گے.خلیفہ اول کے اظہار کے بارے میں یہ بیان کرتے ہیں کہ ) اُسی دن بعدۂ صلوۃ عصر حضرت خلیفہ اول درس قرآن کے وقت فرمانے لگے ( نماز عصر کے بعد جو درسِ قرآن تھا اُس میں فرمانے لگے ) کہ آج مجھے اس قدر خوشی ہے کہ مجھ سے بولا تک نہیں جاتا.ایک میرا آقا ہے.مجھے ہر وقت یہی فکر رہتی ہے کہ وہ مجھ سے خوش ہو جائے.آج کس قدر خوشی کا مقام ہے کہ وہ میری نسبت ایسا خیال رکھتا ہے کہ اگر میں نورالدین کو آگ میں ڈالوں تو انکار نہیں کرے گا.پانی میں ڈبوؤں تو انکار نہیں کرے گا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابه غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 397-398 روایت حضرت اللہ دتہ صاحب ہیڈ ماسٹر ) حضرت ماسٹر ودھاوے خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ : ماسٹر اللہ دتہ صاحب ریٹائر ڈ سکول ماسٹر حال قادیان محلہ دارالرحمت نے جبکہ وہ گوجرانوالہ میں قلعہ دیدارسنگھ ( سکول ) میں نائب مدرس تھے، مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ قادیان میں میں گیا ہوا تھا تو مسجد مبارک میں حضور علیہ السلام احباب میں تشریف فرما تھے اور حضرت مولوی نورالدین صاحب بھی وہاں پر موجود تھے.حضور نے اُن کی طرف ( یعنی حضرت خلیفتہ اسی الاول حضرت حکیم مولانا نورالدین کی طرف ) اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ شخص میرا
خطبات مسرور جلد دہم 294 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مئی 2012ء سچا عاشق ہے.اس کے بعد جب مسجد سے باہر آئے تو مولوی صاحب نے چوک میں وعظ کے رنگ میں بیان کیا کہ جس شخص کو اُس کا معشوق یہ کہہ دے کہ میرا یہ عاشق ہے اس کو اور کیا چاہئے؟.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 26.روایت حضرت ماسٹر ودھاوے خاں صاحب) حضرت ماسٹر مولا بخش صاحب ولد عمر بخش صاحب فرماتے ہیں: ایک دفعہ یہاں ( قادیان ) آیا ہوا تھا.تعطیلات کے دو تین دن باقی تھے.میں حضور سے اجازت لے کر روانہ ہو کر جب خاکروبوں کے محلے کے باہر بٹالہ کے راستے پر چلا گیا تو آگے جانے کو دل نہ چاہا.وہیں کھیت میں بیٹھ گیا اور چلا چلا کر زارو زار رویا اور واپس آ گیا.( جانے کو دل نہیں کر رہا تھا، ایک بے چینی تھی اور بہر حال بیٹھ کر رو کے وہیں سے واپس آ گیا ) موسمی تعطیلات ختم کر کے پھر گیا.یہ حضور کی محبت کا اثر تھا.(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحه 147-146 روایت حضرت ماسٹر مولا بخش صاحب) حضرت مولوی محب الرحمن صاحب بیان فرماتے ہیں کہ : میں حضرت والد صاحب کے ہمراہ ننانوے (1899ء میں ) قادیان گیا.بٹالہ سے یکے پر سوار ہو کر ہم قادیان پہنچے، جس وقت یکہ مہمان خانے کے دروازے پر پہنچا تو والد صاحب یکہ پر سے کود کر بھاگتے ہوئے چلے گئے.یگے والے نے اسباب باہر نکالا ( سامان نکالا ) اور میں وہاں حیران کھڑا تھا کہ والد صاحب خلاف عادت اس طرح کو دکر بھاگ گئے ہیں.کیا وجہ ہے؟ تھوڑے عرصے میں حافظ حامد علی صاحب باہر آئے اور انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ یہ اسباب میاں حبیب الرحمن صاحب کا ہے؟ مجھ سے ہاں میں جواب سن کر وہ اسباب مہمان خانے میں لے گئے اور میں بھی ساتھ چلا گیا.کچھ دیر کے بعد والد صاحب واپس تشریف لے آئے.اگلے روز صبح کو بعد نماز فجر والد صاحب مجھے اپنے ہمراہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مکان پر لے گئے.کمرے کے دروازے پر پہنچنے پر حضرت صاحب نے دروازہ خود کھولا.ہم اندر کمرے میں داخل ہوئے جو بیت الفکر کے ساتھ والا کمرہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تخت پوش پر جس کے سامنے ایک میز رکھی تھی اور اس پر بہت ساری کتابیں تھیں، وہاں تشریف فرما ہوئے.ہم دونوں ایک چار پائی پر بیٹھ گئے جو قریب میں ہی تھی.والد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ بہت دیر تک باتیں کیں.اس کے بعد والد صاحب نے عرض کیا کہ میں محب الرحمن کو بیعت کے لئے لایا ہوں.آپ نے فرمایا اس کی تو بیعت ہی ہے.( یعنی باپ نے کر لی تو اُس کے ساتھ ہی بچے بھی شامل ہو گئے ، اس لئے بیعت تو پہلے ہی ہے ) والد صاحب نے عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ بیعت کر لے تو دعاؤں میں شامل ہو
خطبات مسرور جلد دہم 295 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مئی 2012ء جائے گا.فرمایا اچھا آج شام کو بیعت لے لیں گے.چنانچہ اُس دن شام کو بعد نماز مغرب خاکسار نے اور بھی بہت دوستوں کے ساتھ بیعت کی.بیعت کرنے کے بعد پھر ایک نیا احساس پیدا ہوا ہے.کہتے ہیں اُس وقت میں سمجھا کہ والد اُس روز جس دن ہم پہنچے تھے ، یکے سے والہانہ طریق پر اتر کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملنے ہی گئے تھے.یہی وجہ تھی.یہ عشق و محبت تھا جس نے انہیں بے چین کیا اور اترتے ہی سیدھے حضور کی خدمت میں حاضر ہو گئے.والد صاحب کا معمول تھا کہ قادیان پہنچتے ہی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے اور روزمرہ صبح کے وقت بھی علیحدگی میں حاضر خدمت ہوتے تھے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 9 صفحہ 84-85 روایت مولوی محب الرحمن صاحب) حضرت حاجی محمد موسیٰ صاحب بیان کرتے ہیں کہ : ایک دفعہ میرے لڑکے عبدالمجید نے جس کی عمر اس وقت قریباً چار برس کی تھی.اس بات پر اصرار کیا کہ میں نے حضرت صاحب کو چمٹ کر یعنی پھی“ ڈال کر مانا ہے.اُس نے مغرب کے وقت سے لے کر صبح تک یہ ضد جاری رکھی اور ہمیں رات کو بہت تنگ کیا.صبح اُٹھ کر پہلی گاڑی میں اُسے لے کر بٹالہ پہنچا اور وہاں سے ٹانگے پر ہم قادیان گئے اور جاتے ہی حضرت صاحب کی خدمت میں یہ پیغام بھیجا کہ عبدالمجید آپ کو ملنا چاہتا ہے.گلے ملنا چاہتا ہے یا پھی“ ڈالنا چاہتا ہے.( چھوٹا سا بچہ ہی تھا.چار سال عمر تھی ) حضور اس موقع پر باہر تشریف لائے اور عبدالمجید آپ کی ٹانگوں کو چمٹ گیا اور اس طرح اُس نے ملاقات کی اور پھر وہ چار سال کا بچہ کہنے لگا کہ ”ہن ٹھنڈ پے گئی ائے“.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 12 روایت حضرت حاجی محمد موسیٰ صاحب) حضرت میاں عبدالغفار صاحب جراح بیان کرتے ہیں کہ: ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت صاحب سیڑھیوں سے تشریف لائے اور احمد یہ چوک میں آکر کھڑے ہو گئے.مجھے یاد ہے کہ حضور نے اپنی سوٹی کمر کے ساتھ لگا کر اس پر ٹیک لگائی.میں اُس وقت حضرت خلیفہ اول کے شفا خانے پر کھڑا تھا.میں نے حضور کو دیکھ کر اپنے والد صاحب کو کہا کہ بابا! حضرت صاحب آگئے.والد صاحب نے کہا: اونچے مت بولو.لوگ آواز سن کر دوڑ آئیں گے اور جمگھٹا ہو جائے گا اور ہمیں حضور کی باتیں سننے کا لطف نہیں آئے گا.( یہ بھی عشق و محبت کی باتیں ہیں کہ ہمارے درمیان اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے درمیان اور لوگ حائل نہ ہو جائیں یا زیادہ لوگ نہ آ جائیں ، یا اتنے لوگ پہلے ہی اکٹھے ہو جائیں کہ ہم اُن تک پہنچ نہ سکیں ).چنانچہ کہتے ہیں وہ اٹھے.حضور سے مصافحہ کیا.حضرت صاحب نے میرے والد صاحب کو کہا کہ
296 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مئی 2012ء خطبات مسرور جلد دہم میاں غلام رسول! کوئی امرتسر کی باتیں بتائیے.والد صاحب نے کہا کہ حضور! لوگ درمیان میں اور باتیں شروع کر دیتے ہیں.(جب میں غریب آدمی بولنا شروع کروں گا تو اور لوگ آجائیں گے.دوسری باتیں شروع کر دیں گے.میری باتیں بیچ میں رہ جائیں گی ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ آج تمہاری ہی بات ہوگی اور کسی کی نہیں ہو گی.حضور اُس دن جس طرف محلہ دار الانوار ہے، سیر کے لئے تشریف لے گئے ، جہاں اب حضرت صاحب کی کوٹھی بھی ہے.جب وہاں پہنچے تو خواجہ کمال الدین صاحب کے سسر خلیفہ رجب الدین صاحب نے کشمیری زبان میں کہا کہ اب خاموش ہو جاؤ.ہم نے بھی باتیں کرنی ہیں.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ آج میاں غلام رسول کی بات ہوگی اور کسی کی نہیں ہوگی.اُن کو بھی چپ کرا دیا اور باتیں ملانوں کے متعلق ہوتی رہی تھیں.مجھے یاد ہے کہ والد صاحب نے سنایا کہ میں حضور کے ساتھ امرتسر کے ایک ملاں کی بات کر رہا تھا کہ اُس نے مجھے کہا کہ تم مرزا صاحب کو چھوڑ دو.ہم تمہیں بہت سارو پیہ جمع کر دیں گے.مگر میں نے کہا (سوچ ہے ناں، انہوں نے جواب دیا) کہ فلاں سوداگر نے ایک عورت رکھی ہوئی ہے مگر وہ اُس عورت کو نہیں چھوڑ سکتا تو میں خدا کے نبی کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں؟ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 39-40.روایت حضرت میاں عبدالغفار صاحب جراح ) (یعنی دنیا دار اپنے دنیاوی عشق کی خاطر دنیا بھی برباد کر رہا ہے اور آخرت بھی برباد کر رہا ہے.بدنامی بھی ہو رہی ہے تو میں تو خدا کی محبت کی خاطر خدا کے نبی کے تعلق اور عشق میں گرفتار ہوں ، اس کو کس طرح چھوڑ دوں.اسی سے تو میری دنیا بھی سنورنی ہے اور میری آخرت بھی سنورنی ہے.) حضرت شیخ زین العابدین صاحب بیان کرتے ہیں کہ: ایک میرے بھائی مہر علی صاحب آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے.وہ بیمار ہو گئے.چھ ماہ تک دست آتے رہے.ہم علاج کرتے رہے.جب کوئی افاقہ نہ ہوا اور ہم بالکل نا امید ہو گئے تو اُس کو قادیان لے آئے.حضرت صاحب کو الہام ہو چکا تھا کہ میں اس جگہ ایک پیارے بچے کا جنازہ پڑھوں گا اور حضور اس الہام کو اپنے بچوں میں سے ہی کسی ایک کے متعلق سمجھا کرتے تھے.مگر مہر علی کو یہاں لایا گیا تو حضور نے اُس کا مہینہ ڈیڑھ مہینہ علاج کیا.کچھ ٹھیک ہو گیا مگر حضور کو الہام ہوا کہ یہ بچہ بچ نہیں سکے گا.اس پر آپ نے حافظ حامد علی کو کہا کہ اس بچے کو یعنی اپنے بھائی کو گھر لے جاؤ.یہ بچ نہیں سکے گا.اور اگر یہاں فوت ہوا تو تمہارے رشتہ داروں کو یہاں آنے کی تکلیف ہوگی.ہم نے ڈولی تیار کروائی.اُسے ڈولی میں بٹھایا اور بازار تک لے گئے.مگر اُس نے کہا کہ میں ہرگز واپس نہیں جاؤں گا.بارہ تیرہ سال کا بچہ تھا.اُس بچے نے کہا کہ مرنا ہے تو یہیں مرنا ہے.میں تو
خطبات مسرور جلد دہم 297 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مئی 2012ء مرزا صاحب کی خدمت میں ہی رہوں گا.اور اگر تم نے واپس نہ کیا تو میں چھلانگ لگادوں گا جو مجھے اُٹھا کے لے جا رہے ہو.چنانچہ ہم اُسے واپس لائے اور حضرت صاحب کو اطلاع بھجوائی.فرمایا اچھا رہنے دو.یہ یہاں ہی فوت ہوگا.مگر یہ خیال رکھنا کہ چلتا پھرتا مرے گا.یہ نہ سمجھنا کہ بیمار ہو گا، لیٹا ہوا.اچانک وفات ہو جاتی ہے.لیٹا ہوا نہیں مرے گا.جس دن اُس نے مرنا تھا.بازار چلا گیا اور دودھ پیا اور شام کے قریب گھر آیا.ماں کو کہنے لگا کہ ماں اب دیا گل ہو چلا ہے.والدہ بھی کہتا ہے شام ہوگئی ہے.دیا جلاؤ.مگر اُس نے کہا کہ میرا مطلب یہ نہیں ، یہ مطلب ہے.اُس کو بھی خبر پہنچ گئی تھی.والدہ نے اُسے کھڑے کھڑے چھاتی سے لگایا.مگر اُسی حالت میں اُس کی جان نکل گئی.حضرت صاحب نے جنازہ پڑھایا اور یہیں تدفین کی.کہتے ہیں جنازہ اس قدر لمبا پڑھایا کہ ہم لوگ تھک گئے.لوگ رور ہے تھے.(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 66-67.روایت حضرت شیخ زین العابدین برا در حافظ حامد علی صاحب) حضرت میاں عبدالرزاق صاحب بیان کرتے ہیں.میں بڑی خواہش سے (وہ) مقدمہ سننے کے لئے ( جو جہلم کا مشہور مقدمہ ہے ) حضور کی تشریف آوری سے ایک دن پہلے جہلم پہنچ گیا.گاڑی کے آنے سے دو گھنٹے پیشتر سٹیشن پر پہنچ گیا تھا.میں نے سٹیشن پر نظارہ دیکھا ہے کہ دس دس فٹ پر پولیس کے سپاہی کھڑے تھے.لوگ دیواروں پر چڑھنے کی کوشش کرتے تھے مگر پولیس اندر نہیں جانے دیتی تھی.گاڑی آنے کے وقت اس قدر ہجوم ہو گیا کہ آخر پولیس کا میاب نہ ہوسکی.تمام خلقت دیوار میں پھاند کر اندر چلی گئی.جب حضرت صاحب گاڑی سے اترنے لگے تو ایک گلی باہر تک پولیس کی مدد سے احمدی دوستوں نے بنادی.اس گلی میں سب سے پہلے چوہدری مولا بخش صاحب جو سیالکوٹ کے مشہور احمدی تھے گزرے اور گاڑی تک گئے.اُن کے بعد حضرت صاحب تشریف لے گئے اور ساتھ ہی مولوی عبد اللطیف صاحب شہید کا بل والے اور مولوی محمد احسن صاحب بھی تھے اور بند گاڑی میں بیٹھ گئے.گاڑی کا چلنا ہجوم کے سبب سے بہت ہی مشکل ہو گیا.اُس وقت غلام حیدر تحصیلدار نے بہت ہی محبت کے ساتھ انتظام شروع کیا.ایک تو پولیس کو انتظام کرنے کے لئے زور دیا اور دوسرے خلقت کو باز رکھنے کی کوشش کی.وہ ہنٹر ہاتھ میں لے کر جلال کے ساتھ چکر لگا رہا تھا.ہمارا دل تو اس وقت غمگین تھا کہ خدا کرے حضور خیریت سے کوٹھی پر پہنچ جائیں.اُس وقت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی جو گاڑی کے آگے آگے ایک بیگ بغل میں دبائے ہوئے چل رہے تھے کسی وقت جوش میں آکر یہ بھی کہہ دیتے تھے.( کہتے ہیں مجھے واقعہ یاد ہے) کہ کیڑی کے گھر نارائن آیا حتی کہ حضرت صاحب کو ٹھی پر پہنچ گئے.
298 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 مئی 2012ء خطبات مسر در جلد دہم (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 158-159.روایت میاں عبدالرزاق صاحب ) حضرت میاں وزیر محمد خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ : میں جس روز آیا، ایک اور شخص بھی میرے ساتھ تھا جو یہاں آکر بیمار ہو گیا اور میں جو بیمار تھا تندرست ہو گیا.پہلے میری یہ حالت تھی کہ میں چند لقے کھاتا تھا اور وہ بھی ہضم نہ ہوتے تھے مگر یہاں آکر دو روٹی ایک رات میں کھا لیتا تھا.واپس امرتسر گیا.پھر وہی حالت ہوگئی.پہلی دفعہ جو حضرت صاحب کی زیارت ہوئی تو مسجد مبارک کے ساتھ کے چھوٹے کمرے میں وضو کر رہا تھا کہ حضرت اقدس اندر سے تشریف لائے.جو نہی حضور کا چہرہ دیکھا تو عقل حیران ہوگئی اور خدا کے سچے بندوں کی سی حالت دیکھ کر بے خود ہو گیا.جمعہ کے دن میں کچھ ایسی حالت میں تھا کہ حضرت صاحب کے نزدیک کھڑے ہو کر مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھی.اُس وقت حضرت صاحب کی ایک توجہ ہوئی.اُس کے بعد میں بہت سخت رویا.( یعنی ایک نظر سے دیکھا، توجہ سے دیکھا، اُس کا ایسا اثر ہوا کہ میں بہت سخت رویا، نماز میں بھی اور نماز سے پہلے بھی.) کہتے ہیں کہ صوفیاء کے مذہب میں یہ غسل کہلاتا ہے.عصر کے وقت جب حضور سے پھر ملاقات ہوئی تو حضور نے فرمایا کہ کیا حال ہے؟ میں نے عرض کیا حضور ! اب اچھا ہو گیا ہوں.پہلے وقت جب ہم قادیان آئے تو اُس وقت کوئی لنگر خانہ نہیں تھا.( یعنی پہلی دفعہ جب آئے ہیں ) حضرت صاحب کے گھر سے روٹی اور اچار آیا، وہ کھا یا.اُس وقت وہ کمرہ جس میں آجکل موٹر ہے اُس میں پریس تھا.مہمان بھی وہیں ٹھہر جاتے تھے.میں بھی وہیں ٹھہرا تھا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 189-190.روایت میاں وزیر محمد خاں صاحب) حضرت ڈاکٹر غلام غوث صاحب بیان کرتے ہیں کہ میر مہدی حسین فرماتے ہیں.ایک مرتبہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے برف لینے کے لئے امرتسر بھیجا.راستے میں ریل میں بیٹھے ہوئے میں نے سر جو باہر نکالا تو میری ٹوپی جو کمل کی تھی، سر نکالنے سے اُڑ گئی.امرتسر سے میں جب برف لے کر واپس آیا تو میر ناصر نواب صاحب نے کہا کہ کیا تم کو کسی نے مارا ہے؟ میں نے کہا نہیں.انہوں نے کہا کہ پھر ننگے سر کیوں ہو؟ میں نے کہا میری ٹوپی رستے میں اُڑ گئی ہے.انہوں نے جا کر حضرت صاحب سے ذکر کر دیا.حضرت صاحب نے فرمایا.ہاں ہم ٹوپی دیں گے.میں نے پھر مطالبہ نہ کیا بلکہ ایک دو آنے کی ٹوپی خرید لی.( دو آنے میں ایک ٹوپی ملتی تھی وہ لے لی اور سر پر رکھ لی.) کوئی چھ ماہ کے بعد حضرت صاحب نے ایک ٹوپی اور ایک الپا کا کا کوٹ اور ایک پاپوش عطا فرمائے.(الپا کا ایک جانور ہے ساؤتھ امریکہ میں ہوتا ہے جس کی اون سے بڑا نفیس عمدہ گرم کپڑا بنتا ہے تو اُس کا کوٹ اور ایک پاپوش ، جوتی عطا
خطبات مسرور جلد دہم 299 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 مئی 2012ء فرمائی.) کوٹ کوتو میں نے پہن لیا اور وہ جلدی پھٹ گیا اورٹوپی میں نے سر پر رکھ لی.جوتی جوتھی میں نے اپنے والد صاحب کو پہنا دی.گھر جاتے ہوئے رستے میں ایک شخص ڈپٹی رینجر نے مجھے کہا کہ میر صاحب! آپ کے سر پر جوٹوپی ہے وہ میلی ہو گئی ہے، میں آپ کو امرتسر سے نئی ٹوپی لا دیتا ہوں.میں نے کہا اس کے مرتبہ کی ٹوپی کہیں نہیں مل سکتی.نہ زمین میں نہ آسمان میں.کہنے لگا وہ کس طرح؟ میں نے کہا یہ مسیج پاک کے سر پر دو سال رہی ہے.اُس نے کہا اچھا.وہ نیک فطرت تھا.چنانچہ وہ بھی بعد میں پھر حضور کا مرید ہو گیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 179-180.روایت میاں وزیر محمد خاں صاحب) حضرت مولوی عزیز دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ جتنی دفعہ مجھے حضرت صاحب سے آکر ملاقات کا موقع ملا، قریباً پچاس ساٹھ یا ستر دفعہ کا واقعہ ہو گا.آتے ہی حضرت صاحب کے پاس اپنی پگڑی اتار کر رکھ دیتا تھا اور حضرت صاحب کے دونوں ہاتھوں کو اپنے سر پر ملتا تھا اور جب تک میں ہاتھ نہیں چھوڑتا تھا حضرت صاحب نے کبھی ہاتھ کھینچنے کی کوشش نہیں کی.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ میری عمر کا سی سال کی ہے، میں کبھی بیمار نہیں ہوا.البتہ قادیان میں ہی ایک دو چوٹیں معمولی سی لگی ہیں.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 218-219.روایت مولوی عزیز دین صاحب) حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب ولد شیخ مسیتا صاحب فرماتے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب مسجد مبارک میں نماز سے فارغ ہو کر تشریف رکھتے تو ہماری خوشی کی انتہا نہ رہتی، کیونکہ ہم یہ جانتے تھے کہ اب اللہ تعالیٰ کی معرفت کے نکات بیان فرما کر محبت الہی کے جام ہم پئیں گے اور ہمارے دلوں کے زنگ دور ہوں گے.سب چھوٹے بڑے ہمہ تن گوش ہو کر اپنے محبوب کے پیارے اور پاک منہ کی طرف شوق بھری نظروں سے دیکھا کرتے تھے کہ آپ اپنے رُخ مبارک سے جو بیان فرمائیں گے اُسے اچھی طرح ٹن لیں.یہ حال تھا آپ کے عشاق کا کہ آپ کی باتوں کو سننے سے کبھی ہم نہ تھکے اور حضرت اقدس کبھی اپنے دوستوں کی باتیں سننے سے نہ گھبراتے تھے اور نہ روکتے تھے.میں نے کبھی آپ کو سرگوشی سے باتیں کرتے نہیں دیکھا.(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحه 94 روایت حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب) بدرالدین احمد صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ کراچی.حضرت سراج بی بی صاحبہ دختر سید فقیر محمد صاحب افغان جو حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید مرحوم کے شاگردوں میں سے تھے، اُن کی روایت بیان کرتے ہیں (چھوٹی بچیوں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ محبت کیا تھی ؟ اُس
خطبات مسرور جلد دہم 300 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مئی 2012ء کا بیان ہورہا ہے ) کہ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود تنہا باغ میں اُس راستے پر چہل قدمی فرمار ہے تھے جو آموں کے درختوں کے نیچے جنو با شمالاً واقع ہے اور ایک کنویں کے متصل جواب متروک ہے ایک دروازے کے ذریعے جناب مرزا سلطان احمد صاحب کے باغ میں کھلتا ہے.میں بھی حضور کے پیچھے پیچھے چلتی تھی.( باغ میں چہل قدمی ہو رہی تھی ، سیر کر رہے تھے ، ہل رہے تھے، میں بھی حضور کے پیچھے پیچھے چلتی تھی ) اور جہاں جہاں حضور کا قدم پڑتا تھا بوجہ محبت کے انہی نقشوں پر میں بھی قدم رکھتی جاتی تھی.مجھے یہ پتہ تھا کہ ایسا کرنے میں برکت حاصل ہوتی ہے.کہتی ہیں میری آہٹ سن کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میری طرف دیکھا اور پھر دوبارہ چلنا شروع کر دیا.“ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 316-317 روایت حضرت سراج بی بی صاحبہ بزبان بدرالدین احمد صاحب) حضرت میاں محمد ظہور الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : ہم سب بھی قادیان شریف سے دوستوں کے جلسہ پر جانے سے دوسرے روز ہی اپنے گھر کو واپس آگئے.غالباً تین چار ماہ بعد یکا یک ہم لوگوں کو خبر لگی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا لا ہور میں وصال ہو گیا ہے.میرے خسر قاضی زین العابدین صاحب اس خبر کو سن کر دیوانوں کی طرح ہو گئے.ہمیں کچھ نہ سوجھتا تھا.ہم اسی حالت میں سٹیشن سرہند پر پہنچے.وہاں ایک اسٹیشن کے بابو نور احمد صاحب سے قاضی صاحب نے کہا کہ آپ لاہور کو تار دے کر دریافت کریں کہ کیا واقعی وہ بات درست ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وصال ہو گیا ہے؟ ہماری ایسی حالت کو دیکھ کر بہت سے غیر احمدی ہمارے پیچھے ہنسی مذاق کرتے ہوئے چلے آرہے تھے.جو جس کے دل میں آتا تھا بکواس کرتا تھا.ہم غم کے مارے دیوانوں کی طرح پھر اپنے گھر کو آگئے اور غیر احمدی بہت دور تک ہنسی مذاق کرتے ہوئے ہمارے پیچھے آئے.آخر جھک مار کر واپس چلے گئے.یہ واقعہ احمدی جماعت کے لئے بہت دردناک اور جان گھلا دینے والا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جانشین حضرت خلیفہ امسیح الاول مولانا نورالدین صاحب منتخب ہوئے.ہم سب نے اپنی اپنی بیعت کے خطوط روانہ کر دیے.جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد پہلے جلسہ سالانہ پر گئے تو جہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بیٹھے یا کھڑے دیکھا تھا، ان جگہوں کو خالی دیکھ کر دل قابو سے نکلا جا تا تھا.ہر وقت آنکھیں پرنم رہتی تھیں.یہ جلسہ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں ہوا تھا جو آجکل کے جلسوں کو دیکھتے ہوئے معمولی سا جلسہ تھا.اس میں خواجہ کمال الدین صاحب، مرزا یعقوب بیگ صاحب، مولوی صدرالدین صاحب، مولوی محمد علی صاحب پیش پیش نظر آتے تھے اور سب کی نظریں انہیں پر پڑتی
خطبات مسرور جلد دہم 301 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مئی 2012ء تھیں.( یعنی جماعت کے افراد کی نظریں اُنہی پر پڑتی تھیں) واقعی اُس وقت سوائے اُن لوگوں کے کوئی دوسرا قابل نظر ہی نہیں آتا تھا اور یہی لوگ منتظم تھے.شروع جلسے پر پہلے تلاوت قرآن ہوئی.پھر ایک نظم برادرم منشی سراج الدین صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں پڑھی.پھر ایک نظم ایک شخص نے پڑھی.اُس کے بعد حضرت مرز امحمود احمد صاحب نے تقریر کی.خلیفہ اول کے زمانے کی بات ہے.(خلیفہ اسیح الثانی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد پہلے جلسے میں تقریر کی ) اُس میں آپ نے بیان فرمایا کہ فرعون کے ظلم و ستم کی وجہ سے جو بنی اسرائیل کے آنسو نکلے تھے ایک دن وہ آنسو دریا بن کر فرعون کو لے ڈوبے.(پس اضطراری حالت میں اور تکلیف کی حالت میں جو آنسو نکلتے ہیں، وہ پھر بڑے نتائج بھی نکالنے والے ہوتے ہیں.جماعت کو بھی خاص طور پر پاکستان کی جماعتوں کو یہ یادرکھنا چاہئے کہ آجکل ایسے ہی آنسون کالنے کا وقت ہے) کہتے ہیں جو بنی اسرائیل کے آنسو نکلے تھے ایک دن وہ آنسو دریا بن کر فرعون کو لے ڈوبے.حضور عالی نے یہ تقریر ایسی عمدگی ہے ادا کی کہ سامعین پر وجدانی کیفیت طاری تھی.جب آپ کی یہ تقریر ختم ہوئی تو حضرت امیر المومنین خلیفہ امسیح الا ول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی تقریر شروع کرنے سے قبل فرمایا کہ میاں محمود احمد صاحب نے تو ایسی تقریر کی کہ میرے ذہن میں بھی کبھی یہ مضمون نہیں آیا.پھر فرمایا دوستوں کو چاہئے کہ قدرت ثانی کے لئے دعا فرمائیں یعنی ہمیشہ یہ قدرت ثانی جاری رہے.چنانچہ اُسی وقت دعا کی گئی اور آپ نے اُس وقت یہ بھی فرمایا کہ میاں صاحب کے لئے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ انہیں نظر بد سے محفوظ رکھے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 367 تا 369.روایت میاں محمد ظہور الدین صاحب ڈولی) حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب فرماتے ہیں.میں جب مسجد مبارک میں جا کر نماز ادا کرتا ہوں تو نماز میں وہ حلاوت اور خشیت اللہ دل میں پیدا ہوتی ہے کہ دل محبت الہی سے سرشار ہو جاتا ہے.مگر میرے دوستو ! جب اس نور الہی کے دیکھنے سے آنکھیں محروم رہتی ہیں تو مجھے کرب بے چین کر دیتا ہے اور وہ صحبت یاد آ کر دل درد سے بھی پر ہو جاتا ہے.اللہ اللہ اُس نور الہی کو دیکھ کر دل کی تمام تکلیفیں دور ہو جاتی تھیں اور حضرت اقدس کے پاک اور منور چہرے کو دیکھ کر نہ کوئی غم ہی رہتا ہے اور نہ کسی کا گلہ شکوہ ہی رہتا تھا.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اب ہم جنت میں ہیں اور آپ کو دیکھ کر ہماری آنکھیں اُکتاتی نہ تھیں.ایسا پاک اور منور رخ مبارک تھا کہ ہم نوجوان پانچوں نمازیں ایسے شوق سے پڑھتے تھے کہ ایک نماز کو پڑھ کر دوسری نماز کی تیاری میں لگ جاتے تھے تا کہ آپ کے بائیں پہلو میں ہمیں جگہ مل جاوے اور ہم نوجوانوں میں
خطبات مسرور جلد دہم 302 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مئی 2012ء یہی کشمکش رہتی تھی کہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ہی جگہ نصیب ہو اور آپ کے ساتھ ہی کھڑے ہو کر نماز پڑھیں.پھر آپ لکھتے ہیں کہ اللہ اللہ ! وہ کیسا مبارک اور پاک وجود تھا جس کی صحبت نے ہمیں مخلوق سے مستغنی کر دیا اور ایسا صبر دے دیا کہ غیروں کی محبت سے ہمیں نجات دلا دی اور ہمیں مولیٰ ہی کا آستانہ دکھا دیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابه غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 82-89,83 روایت حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب) اللہ تعالیٰ ہمیں بھی آپ کی بیعت کا حق ادا کرنے کی توفیق دیتے ہوئے آپ کے ساتھ اخوت اور تعلق اور محبت کے رشتے کو مضبوط سے مضبوط تر کرتے چلے جانے کی توفیق عطا فرمائے ، اور اس رشتے کی وجہ سے ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے والے بھی ہوں.اس وقت میں نماز جمعہ کے بعد دو جنازے غائب بھی پڑھاؤں گا، دونوں قادیان کی دو بزرگ خواتین کے جنازے ہیں.پہلا جنازہ جو ہے مکرمہ رشیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم مستری محمد دین صاحب درویش مرحوم قادیان کا ہے.4 مئی کو پچاسی سال کی عمر میں اُن کی وفات ہوئی ہے.إِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.آپ مستری ناظر الدین صاحب کی بیٹی اور حضرت میاں فتح دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نواسی تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان میں حضرت اتاں عائشہ جو معروف ہیں.اماں جان نے حضرت اماں عائشہ کو بیٹی بنایا ہوا تھا، ان کی بھانجی تھیں.قادیان میں حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم صاحب کی بیگم صاحبہ سے بڑا خاص تعلق تھا اور انہوں نے بھی اپنے خاوند کے ساتھ ، بڑی تکلیف کے ساتھ، لیکن خوشی سے اور بشاشت سے درویشی کا زمانہ گزارا ہے.مرحومہ نے 1944ء میں وصیت کرنے کی توفیق پائی تھی.آپ کو لمبا عرصہ لجنہ میں بطور سیکرٹری خدمت خلق کام کرنے کا موقعہ ملا.مرحومہ کے چار بیٹے تھے جن میں سے بڑے بیٹے حمید الدین صاحب شمس مرحوم مبلغ سلسلہ تھے جو سینتالیس سال کی عمر میں ان کی زندگی میں وفات پاگئے تھے.ان کے دوسرے بیٹے وحیدالدین صاحب بھی واقف زندگی ہیں.اسی طرح ایک بیٹے رشید الدین صاحب بھی صدر عمومی کے طور پر کام کرتے رہے.اسی طرح نصیر الدین صاحب بھی ان کے ایک بیٹے ہیں وہ بھی وہیں کام کر رہے ہیں.ان کے دامادوں میں سید عبد اللہ صاحب بھاگلپور کے زون کے امیر ہیں.داماد عبدالنقی صاحب امور عامہ میں کام کرتے ہیں.
خطبات مسرور جلد دہم 303 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 مئی 2012ء مرحومہ صوم وصلوۃ اور نماز تہجد اور روزانہ تلاوت قرآن کریم کی بہت پابند تھیں.قادیان میں خالہ رشیدہ کے نام سے معروف یہ خاتون بیگم مرزا وسیم احمد کے ساتھ ہر جگہ ہر خوشی و غمی میں لوگوں کے گھروں میں جایا کرتی تھیں.میاں وسیم احمد صاحب کی چھوٹی بیٹی نے مجھے لکھا کہ بڑی سادگی سے انہوں نے تمام زندگی گزاری.ان کے خاوند کو جب انجمن سے ریٹائر منٹ ہوئی تو اُس وقت ایک بڑی رقم جو پراویڈنٹ فنڈ وغیرہ کی ہوتی ہے وہ لی.انہوں نے سوچا کہ میں نے کبھی اپنی بیوی کو کچھ بن کے نہیں دیا.زیور کچھ چوڑیاں بنا کے دیں یا سونے کے ٹاپس بنا کے دیئے اور اسی وقت چند ہفتوں بعد حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے نئے مراکز کی تحریک کی تو آپ نے وہ لا کے دے دیئے اور حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی بیگم کو کہا کہ میں نے ساری عمر سونا نہیں پہنا تو اب پہن کے میں نے کیا کرنا ہے اور یہ رکھ لیں.اس چندے کا جو انتظام تھا اور جو زیورات وغیرہ آ رہے تھے ، وہ ان کے خاوند کے سپر د تھا.انہوں نے جب دیکھا یہ ٹا پس میری بیوی کی طرف سے آئے ہیں تو انہوں نے انتظامیہ سے کہہ کے خود قیمت ادا کر دی.کچھ رقم اُن کے پاس تھی کہ میں نے بیوی کو بنا کے دیئے تھے اور قیمت ادا کر کے پھر واپس اپنی بیوی کو دے دیئے.چند ہفتوں کے بعد دوبارہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے تحریک کی تو پھر انہوں نے وہی ٹاپس پیش کر دیئے.اُس وقت ان کے خاوند کے پاس بھی گنجائش نہیں تھی.تو بہر حال جو انہوں نے کہا تھا کہ ساری عمر میں نے کچھ سونا نہیں پہنا.کبھی نہیں پہنا تو اب بھی نہیں پہنوں گی.اللہ کی راہ میں دے دیا.دوسرا جنازه مکرمه نذر النساء صاحبہ اہلیہ مکرم محمد سیف خان صاحب انڈیا کا ہے.یہ 9 مئی کو 75 سال کی عمر میں وفات پاگئیں.اِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ان کے خاوند نے 1962ء میں قبول احمدیت کا شرف حاصل کیا.بڑے مخلص تھے.مخالفت کے باوجود یہ دونوں احمدیت پر قائم رہے.نمازوں کی پابند، ملنسار، غریب پرور خاتون تھیں.سادگی سے زندگی گزاری.ایک درجن سے زائد یتیم اور نادار بچوں کی کفالت اور پرورش کی.مرکزی نمائندگان کی بڑی خاطر مدارات کیا کرتی تھیں.موصیہ تھیں.بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی ہے.آپ کے تین بیٹے سلسلہ کے خادم اور واقف زندگی ہیں.بڑے بیٹے سیم خان صاحب قادیان میں ناظر امور عامہ ہیں.دوسرے بیٹے کلیم خان صاحب مبلغ ہیں.اسی طرح وسیم خان صاحب ہیں.یہ سب واقفین زندگی ہیں.اللہ تعالیٰ ان ہر دو مرحومین کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسلوں کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.ہمیشہ وفا کا تعلق اور اخلاص کا تعلق رہے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ یکم جون تا 7 جون 2012 جلد 19 شمارہ 22 صفحہ 5 تا9)
خطبات مسرور جلد دہم 304 20 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 مئی 2012ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت رز امرود احمد خلیفہ امسح الامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 18 مئی 2012 ء بمطابق 18 ہجرت 1391 ہجری شمسی بمقام ننسپیٹ.ہالینڈ تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ ہالینڈ کا جلسہ سالانہ شروع ہورہا ہے.اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ پھر مجھے تو فیق عطا فرمائی کہ یہاں ہالینڈ کے جلسے میں شامل ہوں.یہ جلسہ اصل پروگرام کے مطابق تو اگلے ہفتے ہونا تھا لیکن پھر میری شمولیت کی خواہش کی وجہ سے میرے پروگرام کو دیکھتے ہوئے ہالینڈ کی جماعت نے ایک ہفتہ پہلے کا پروگرام بنالیا اور بڑے مختصر نوٹس (Notice) پر یہ پروگرام بنایا.بیشک ہالینڈ چھوٹا ملک ہے اور جماعت بھی چھوٹی ہے اور بڑی جلدی اطلاعیں بھی ہوسکتی ہیں لیکن پھر بھی اس پروگرام میں تبدیلی آپ لوگوں نے بڑی خوش دلی سے کی اور بڑی آسانی سے کر دی.جگہ کا مسئلہ تھا.یہ جگہ کافی تنگ ہے.ہال جو کرائے پر لئے ہوئے تھے وہ ان تاریخوں پر مل نہیں رہے تھے لیکن بہر حال اچھا انتظام ہو گیا ہے.لیکن بعض عملی دقتیں اور مسائل بھی پیدا ہوئے ہوں گے یا ہوسکتا ہے کہ پیدا ہوں جس میں آپ لوگوں کو کسی معمولی تکلیف سے گزرنا پڑے.تو اگر ایسی صورت ہو تو ان تکلیفوں کو برداشت کریں.اوّل تو مجھے امید ہے کہ ماشاء اللہ کام کرنے والے کارکنان ہر طرح آرام پہنچانے کی اپنی بھر پور کوشش کرتے ہیں اور اب دنیا میں چاہے چھوٹی جماعتیں ہوں یا بڑی جماعتیں، اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ سالانہ اور بڑے اجتماعات کے تمام انتظامات سنبھالنے کے لئے ہر جگہ بے غرض اور بے نفس کارکنان کی ٹیمیں تیار ہو چکی ہیں جو خوشی سے مہمانوں کی ہر طرح خدمت کے لئے ہر وقت مستعد رہتے ہیں.اور جو مہمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہوں آپ کے جاری نظام کے بلانے پر آنے والے مہمان ہوں ، اُن کی خدمت تو خاص طور پر بڑے بے نفس ہو کر ہمارے کارکنان کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ تمام
خطبات مسرور جلد دہم 305 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 مئی 2012ء کارکنان کو آئندہ بھی اور ہمیشہ اس بے نفس خدمت کی توفیق دیتا چلا جائے اور انہیں بہترین جزا دے اور اگر کہیں کوئی کمیاں رہ گئی ہیں تو اُن کی پردہ پوشی فرمائے اور مہمانوں کو شاملین جلسہ کو بھی چاہئے کہ بجائے کمیوں اور کمزوریوں کو دیکھنے کے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے اصل مقصد اور جلسہ سالانہ کی غرض کو سامنے رکھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود بیان فرمائی ہے اور یہ غرض وہی ہے جو بیعت کی غرض ہے.بیعت کرنے کے بعد دنیاوی دھندوں میں پڑکر انسان عموماً اپنے اصل مقصد کو بھول جاتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے بار بار نصیحت کرنے کو ضروری قرار دیا ہے کہ اس سے ہر اُس شخص کو جس کے دل میں ایمان ہے، فائدہ ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَإِنَّ الكُرَ تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (الذاريت: 56) پس یقینا نصیحت مومنوں کو فائدہ پہنچاتی ہے.پس یہ جلسہ بھی نصیحت کرنے ، یاد دہانی کروانے کے لئے منعقد کیا جاتا ہے یا یہ جلسے دنیا میں ہر جگہ منعقد کئے جاتے ہیں.یہ بتانے کے لئے منعقد کئے جاتے ہیں کہ اس زمانے کے امام کی بیعت میں آکر پھر اپنے عہد کو یاد کرو، اپنے عہد بیعت کو یاد کرو.اگر دنیاوی مصروفیات کی وجہ کچھ کمزوریاں پیدا ہوگئی ہیں تو اب نئے سرے سے نصائح سن کر علمی اور تربیتی وعظ و نصائح اور تقاریر سن کر پھر اپنی دینی حالتوں کی طرف توجہ کرو.اکٹھے مل بیٹھ کر ایک دوسرے کی نیکیاں جذب کرنے کی کوشش کرو اور برائیوں کو دور کرو.ہمیشہ یا درکھیں کہ جلسے کے دوران اپنی ذاتی باتوں کی طرف توجہ نہ ہو بلکہ تمام پروگرام، جتنے بھی ہیں، ان کو سننے کے دوران بھی اور ان کے بعد بھی زیادہ تر وقت دعاؤں اور ذکر الہی میں گزارنے کی کوشش ہونی چاہیئے.یہ سوچ کر شامل ہونا چاہئے کہ ہم اس روحانی ماحول میں دو تین دن گزار کر اپنے عہد بیعت کی تجدید کر رہے ہیں تا کہ ہمارے ایمان مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جائیں.تا کہ ہم تقویٰ میں ترقی کریں اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھیں.آپ فرماتے ہیں کہ :.تمام مخلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آجائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائے جس سے سفر آخرت مکر وہ معلوم نہ ہو.“ آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 351) پس ہم میں سے ہر ایک کو یہ یا درکھنا چاہئے کہ یہ جلسہ ہمارے لئے اس معیار کے حاصل کرنے کا
خطبات مسر در جلد دہم 306 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 مئی 2012ء ذریعہ ہونا چاہئے.اس جلسہ میں دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی سوچ کو مزید صیقل کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت اس صورت میں سب محبتوں پر غالب آ سکتی ہے جب ہمیں یہ پتہ ہو کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے؟ رسول ہم سے کیا چاہتا ہے؟ اور اس کا صرف یہی مطلب نہیں کہ ہمیں پتہ ہو ، ہمارے علم میں ہو کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کا رسول ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ بلکہ ان باتوں کو علم میں لا کر اُس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے اور پھر اس کے حصول کے لئے بھر پور کوشش ہونی چاہئے ، مستقل کوشش ہونی چاہئے.اور جب ان باتوں پر عمل ہوگا تو تبھی وہ حالت پیدا ہوگی جب انسان کو سفر آخرت مکر وہ معلوم نہ ہو.ایک نہ ایک دن ہر انسان نے اس دنیا سے جانا ہے.خوش قسمت ہوں گے ہم میں سے وہ جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کی محبت کے ساتھ اس دنیا سے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے.پس اس بات کو ہم میں سے ہر ایک کو سامنے رکھنا چاہئے کہ انسان میں نیکیوں پر چلنے اور برائیوں سے رکنے کا خیال اُس وقت ہی شدت سے پیدا ہوتا ہے جب اُسے یہ یقین ہو کہ میں نے ایک نہ ایک دن اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے اور وہاں میں اپنے اعمال کے بارے میں پوچھا جاؤں گا.اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوَاللَّهَ إِنَّ الله خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (الحشر: 19) کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.اور چاہئے کہ ہر جان اس بات پر نظر رکھے کہ اُس نے کل کے لئے آگے کیا بھیجا ہے؟ اور تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، اللہ تعالیٰ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے خوب باخبر ہے.پس اللہ تعالیٰ نے یہاں کھول کر بیان فرما دیا ہے کہ تمہارا ایمان تب کامل ہو گا جب تم خالص اللہ تعالیٰ کے ہو جاؤ گے اور اُس کا تقویٰ اختیار کرو گے.اور یہ تقویٰ اُس وقت ایک حقیقی مومن کہلانے والے کو حاصل ہوتا ہے جب وہ یہ دیکھے کہ اُس نے اگلے جہان کے لئے کیا بھیجا ہے.اُس حقیقی اور دائمی زندگی کے لئے کیا کوشش کی ہے؟ اس دنیا کے لئے تو انسان کوشش کرتا ہے.بڑے تر ڈد سے ملا زمتوں کی تلاش کرتا ہے.کاروبار کے لئے محنت کرتا ہے.جائیدادیں بنانے کے لئے محنت اور کوشش کرتا ہے.اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم کے لئے فکر مندی کے ساتھ کوشش کرتا ہے اور بہت سے دنیاوی دھندوں کے لئے کوششیں ہو رہی ہوتی ہیں.ان دنیاوی کاموں کے لئے ایک شخص جس کو خدا تعالیٰ پر یقین ہو اس کوشش کے ساتھ کچھ حد تک دعا بھی کرتا ہے یا دوسروں سے دعا کرواتا ہے.مجھے روزانہ بیشمار خطوط ان دنیاوی مقاصد کے حصول کے لئے دعا کے آتے ہیں.بعض ایسے بھی ہیں جو خود تو صرف دنیا داری کے کاموں میں پڑے رہتے ہیں.
خطبات مسرور جلد دہم 307 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 مئی 2012ء نمازیں بھی پانچ پوری نہیں پڑھتے.اگر پڑھتے ہیں تو جلدی جلدی ٹکریں مار کر پڑھ لیتے ہیں لیکن دعا کے لئے بڑی درد ناک حالت بنا کر خط لکھ رہے ہوتے ہیں اور وہ بھی دنیاوی چیزوں کے لئے.بہر حال اس بارے میں آگے میں ذکر کروں گا کہ دعاؤں کی کیا اہمیت ہے؟ تو یہاں میں یہ بیان کر رہا تھا کہ انسان دنیاوی کاموں کے لئے تو بہت کچھ کرتا ہے.یہ ایک احمدی کا دعوی بھی ہے کہ میں نے اس زمانے کے امام کو مانا ہے جنہوں نے مجھے پھر اسلام کی خوبصورت تعلیم سے روشناس کروایا ہے لیکن تقویٰ کا وہ معیار حاصل نہیں کرتا یا حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا جو ایک احمدی مسلمان کا ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرنے کے بعد تمہاری دنیاوی ترقیات کے بارے میں پوچھا جائے گا، بلکہ فرمایا کہ تقویٰ اختیار کرو اور یہ دیکھو کہ تم نے کل کے لئے ، اُس کل کے لئے ، اُس آئندہ کی زندگی کے لئے جو تمہارے مرنے کے بعد شروع ہونی ہے، جو ہمیشہ کی زندگی ہے، اُس کے لئے تم نے کیا آگے بھیجا ہے؟ اس دنیا کی کمائی ، اس دنیا کے بینک بیلنس ، اس دنیا کی جائیداد، اولا د اور عزیز رشتے دار سب یہیں رہ جانے ہیں.ان کے بارے میں خدا تعالیٰ کچھ نہیں پوچھے گا.اللہ تعالیٰ پوچھے گا تو یہ کہ جن نیک اعمال کرنے کی میں نے تلقین کی تھی وہ تم نے کتنے کئے ہیں؟ اور جو بھی نیک عمل ہم نے خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کئے ہوں گے ، جو کام بھی تقویٰ پر چلتے ہوئے ہم نے کیا ہو گا، جس حد تک بھی حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے کی ہم نے کوشش کی ہوگی وہ اللہ تعالیٰ کے حضور موجود ہوں گے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھ تک تمہارے یہ اموال نہیں پہنچیں گے بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے.اس لئے ہمیشہ اس بات کو سامنے رکھو کہ جو عمل بھی تم کر رہے ہو، چاہے وہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی سوچ کے ساتھ ہو یا اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا حق ادا کرنے کی سوچ کے ساتھ ہو.جو عمل خالص تقویٰ پر چلتے ہوئے ہوگا، وہی عمل ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دیکھو کہ تم نے کل کے لئے کیا آگے بھیجا ہے.وہی عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کا درجہ رکھتا ہے.جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ کا تقویٰ مدنظر رکھتے ہوئے ایک بندہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کے حضور اس کا بدلہ پاتا ہے.اللہ تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا.اللہ تعالیٰ ہمارے ہر عمل کی نیت اور ہر عمل سے باخبر ہے اور وہ جانتا ہے کہ ہمارے عمل کیا ہیں؟ اور اُن اعمال کرنے کی ہماری نیت کیا ہے؟ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے.پس ہمارا وہی عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہے جس کے کرنے کی نیت نیک ہو اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ دل میں رکھتے ہوئے کیا گیا ہو.حقوق اللہ کی ادائیگی میں سب سے اہم چیز نماز ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے پر ایمان لانے کے بعد
خطبات مسرور جلد دہم 308 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 مئی 2012ء دوسری اہم شرط جو ہے وہ نماز کا قیام رکھی ہے.لیکن دوسری جگہ نماز پڑھنے والوں کو بڑی سخت تنبیہ بھی کی ، یہ اندار بھی کیا.فرماتا ہے فَوَيْلٌ لِلْمُصَدِّينَ ( الماعون : 5 ) کہ نمازیوں کے لئے ہلاکت ہے، یعنی اُن نمازیوں کے لئے جو نماز کا حق ادا نہیں کرتے ، جو تقویٰ کے بغیر نمازیں پڑھنے والے لوگ ہیں.اللہ تعالیٰ جو عالم الغیب ہے، جو خبیر ہے، جو علیم ہے اُسے ہر چھپی ہوئی بات کی بھی خبر ہے، اُسے ہر بات کا بھی علم ہے.نتیوں کو بھی جانتا ہے، نمازیں پڑھنے کی کیفیت کو بھی جانتا ہے.وہ ایسی نمازیں الٹا دیتا ہے جو تقویٰ سے عاری ہوں.پس ہم میں سے ہر ایک کو بڑے خوف سے اپنی نمازوں کی ادائیگی کی کوشش کرنی چاہئے ، کیونکہ نمازیں ہماری زندگی کا مقصد خدا تعالیٰ نے قرار دی ہیں اور جو مقصد ہو، اُس کے حصول کے لئے کوشش بھی بہت کرنی پڑتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات : 57) کہ اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف عبادت کے لئے پیدا کیا ہے.اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ نماز عبادت کا مغز ہے.جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ دنیا دار دنیا کمانے کے لئے کتنے ہاتھ پیر مارتا ہے، کتنی محنت کرتا ہے، کتنی تکلیفیں برداشت کرتا ہے، اتنی فکر کرتا ہے کہ اپنی صحت برباد کر لیتا ہے.بعض لوگوں کو دنیاوی مال کا ، جائیداد کا نقصان ہو جائے تو دل کے دورے پڑنے لگ جاتے ہیں.بعض لوگ خاطر خواہ نتائج نہ دیکھ کر اس طرح ڈیپریشن میں چلے جاتے ہیں کہ اُن کو ساری عمر کا روگ لگ جاتا ہے.صرف اس دنیا کی زندگی کے لئے یہ سب کچھ ہورہا ہوتا ہے.جو اگر دیکھیں تو ایک انسان کی فعال زندگی، ایک ایکٹو (Active) زندگی کی جو زیادہ سے زیادہ عمر ہے ساٹھ ستر سال تک کی ہوتی ہے.اس کے بعد کی زندگی عموماً فعال نہیں ہوتی.پھر عموماً بچوں کے یادوسروں کے رحم وکرم پر انسان پڑا ہوتا ہے.یہاں بھی ان ملکوں میں دیکھیں تو بچے بھی نہیں سنبھالتے.اکثر لوگ اولڈ پیپل ہاؤس ( Od People House) میں بھیج دیئے جاتے ہیں.ہفتے کے بعد بچے مل آتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے بڑا احسان کر لیا.اُس وقت کوئی نہیں پوچھتا.وہاں سب نرسوں کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں.تو اس عمر کو پہنچ کر جن کو خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین ہوتا ہے انہیں پھر خدا تعالیٰ کی یاد بھی آجاتی ہے.اُس وقت بعض کو اخروی زندگی کی فکر بھی پیدا ہو جاتی ہے.انجام بخیر ہونے کے لئے دعائیں بھی کرتے ہیں اور کرواتے بھی ہیں لیکن حقیقی مومن وہ ہے جو اس عمر پر پہنچنے سے بہت پہلے اپنے انجام بخیر ہونے کی فکر کرے اور اپنی زندگی کے اصل اور بنیادی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کرے.اپنی عبادت کا حق ادا کرے.دنیا کی دلچسپیاں ، دنیا کی رنگینیاں اُسے عبادت سے غافل کرنے والی نہ ہوں.نمازوں سے
خطبات مسرور جلد دہم 309 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 مئی 2012ء غافل کرنے والی نہ ہوں.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احمدی گھرانوں پر احسان ہے کہ عموماً خاوند یا بیوی میں سے ایک اگر عبادت کا حق ادا کرنے والا نہیں تو دوسرا تو جہ دلانے کی کوشش کرتا ہے.کئی لوگ ملاقاتوں میں بھی اور خطوط کے ذریعے بھی مجھے کہتے ہیں کہ ہمارے خاوند یا بیوی کے لئے دعا کریں، انہیں نمازوں کی طرف توجہ نہیں ہے.یہ توجہ پیدا ہو جائے.عموماً عورتیں زیادہ کہتی ہیں.یہ بات اس لحاظ سے جہاں خوشگن بھی ہے کہ عورتوں کو نمازوں کی طرف توجہ زیادہ ہے اور امید کی جاتی ہے اُن کی اس توجہ کی وجہ سے بچوں کی توجہ بھی رہے گی اور صحیح تربیت کر سکیں گی.وہاں یہ امر قابل فکر بھی ہے کہ مرد جو قوام بنایا گیا ہے، جو گھر کا نگران بنایا گیا ہے، وہ نمازوں میں ست ہے.وہ گھر کا سر براہ جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ گھر والوں کے لئے نمونہ بنے، بلکہ نمونہ بنا ضروری قرار دیا گیا ہے، وہ اگر اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا جو اُس کی زندگی کا مقصد ہے تو اولا د کیا نمونہ لے گی؟ اور عملاً یہ ہوتا بھی ہے کہ بڑے بچے ،لڑکے جب جوان ہوتے ہیں، جوانی میں قدم رکھتے ہیں تو باپ اگر نمازیں نہیں پڑھ رہا ہوتا تو ماں کے توجہ دلانے کے باوجود کہہ دیتے ہیں کہ ہم کیوں پڑھیں.نماز جو عبادت کا مغز ہے، اُس کا حق ادا کرنے کا طریق تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ اگر مسجد یا نماز سینٹ گھر سے دور ہے تو گھروں میں نماز باجماعت ادا کی جائے تا کہ نمازوں کی برکات سے گھر بھر جائیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل گھروں پر نازل ہوں.مردوں کو خاص طور پر قیام نماز کا حکم ہے اور قیام نماز کا مطلب ہی یہ ہے کہ سوائے اشد مجبوری کے نماز میں باجماعت ادا کی جائیں.پس یہاں جلسہ کے دنوں میں جو تین دن ہیں جن میں ہماری روحانی علمی، اخلاقی ترقی کے لئے پروگرام ترتیب دیئے گئے ہیں، اس میں اکثر لوگ تہجد کی طرف بھی توجہ کرتے ہیں اور فرض نمازیں بھی باجماعت ادا کرتے ہیں اس کو اپنی زندگیوں کا مستقل حصہ بنانے کا عہد کریں تبھی تقویٰ کے سب سے اہم پہلو پر چلنے والے کہلا سکیں گے اور تبھی جلسے کے انعقاد کے مقصد کو حاصل کرنے والے بن سکیں گے.جلسہ کے انعقاد کا اعلان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تقویٰ کی ترقی کی طرف توجہ اور اُس کے لئے کوشش کو ہی اہم قرار دیا ہے.آپ جلسے کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں اور ان کے اندر ( یعنی شامل ہونے والوں کے اندر جو جلسے میں شامل ہورہے ہیں ) ” خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پر ہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مؤاخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور
خطبات مسرور جلد دہم 310 راستبازی ان میں پیدا ہو، اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں.“ خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 مئی 2012ء (شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحه 394) پس پہلی بات تو آپ نے یہی بیان فرمائی ہے کہ آخرت کی طرف مکمل جھک جاؤ.وہی قرآن کریم کا حکم ہے کہ یہ دیکھو کہ تم نے کل کے لئے کیا بھیجا ہے؟ اس دنیا کی فکر کی بجائے آخرت کی زیادہ فکر رکھو.اور یہ حالت اُسی وقت پیدا ہوتی ہے جب تقویٰ ہو.تقویٰ ہوگا تو یہی چیز خدا خوفی کی طرف بھی مائل رکھے گی.جہاں حقوق اللہ ادا ہوں گے، وہاں حقوق العباد بھی ادا ہوں گے یا اُن کے ادا کرنے کی طرف کوشش ہوگی اور اس کے لئے آپ نے ضروری قرار دیا کہ حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے آپس کی محبت اور بھائی چارہ دلوں میں پیدا کرو.پھر صرف آپس کی محبت اور بھائی چارہ ہی نہیں بلکہ معاشرے پر بھی اس کا نیک اثر قائم ہونا چاہئے.تمہاری عاجزی اور انکساری اور نیکی اور دوسروں کا خیال رکھنا ایسا ہو کہ دنیا کہے کہ یہ احمدی ہیں جو دنیا کے دوسرے لوگوں سے مختلف نظر آتے ہیں.حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں اگر کسی نے نمونہ دیکھنا ہو تو ان احمدیوں میں دیکھو.پھر آپ نے فرمایا کہ دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کرو.دینی مہمات میں دین کی اشاعت کے لئے مالی قربانی بھی ہے.مساجد کی تعمیر کی طرف توجہ اور کوشش بھی ہے.تبلیغ کی منصوبہ بندی بھی ہے اور اس منصوبہ بندی کے ساتھ ہر احمدی کا اپنا وقت اس مقصد کے لئے دینا بھی ہے.پس جلسے میں آکر جب ہم مختلف موضوعات پر تقریریں سنتے ہیں، تو جو تقریریں یہاں کی جاتی ہیں ، ان کو سن کر ہمیں جن مقاصد کے حصول کی طرف یہاں بیٹھے ہوئے توجہ پیدا ہوتی ہے، وہ مستقل ہماری زندگی کا حصہ ہونے چاہئیں.پس ہر احمدی جہاں جلسے میں شامل ہو کر اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرے اور خدا تعالیٰ کے دوسرے حق ادا کرے، وہاں بندوں کے بھی حق ادا کرے.معاشرے کے بھی حق ادا کرنے کی طرف توجہ کرے.آپس میں اگر کوئی رنجشیں ہیں تو جلسے کی برکات سے انہیں بھی دور کرنے کی کوشش کریں.گویا اس جلسے میں شامل ہونے کے مقصد کو بھی حاصل کیا جاسکتا ہے جب ہر قسم کی برائیوں کو دور کرنے کا عہد کریں اور اس کے لئے کوشش کریں.اس معاشرے میں رہتے ہوئے جہاں ایک بہت بڑی تعداد خدا تعالیٰ کے وجود سے ہی انکاری ہے اور دنیا کو ہی سب کچھ سمجھا جاتا ہے اور اس کے حاصل کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے.اس معاشرے میں رہتے ہوئے دین پر قائم رہنا، دین کی خاطر قربانی کے لئے تیار رہنا ، تقویٰ پر چلنے کی کوشش کرنا ، بہت بڑا کام ہے.اور اس لئے یہ مومن کے لئے بہت اہم
خطبات مسر در جلد دہم 311 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 مئی 2012ء قرار دیا گیا ہے.بہت سے لوگ ہم دیکھتے ہیں یہاں آکر یہاں کی رنگینیوں میں گم ہو جاتے ہیں.یہاں کے لوگوں کی اکثریت کے عمل جو حقیقت میں شیطانی عمل ہیں وہ یہاں نئے آنے والوں کے لئے دلچپسی کا باعث بن جاتے ہیں.نئے آنے والے لوگ یا جن کو کسی قسم کا کمپلیکس (Complex) ہوتا ہے، احساس کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں سمجھتے ہیں کہ شاید ہماری ترقی کا راز اسی میں ہے کہ ان لوگوں کے پیچھے چلا جائے اور دین کو پیچھے کر دیا جائے اور دنیا کو مقدم رکھا جائے.حالانکہ اس میں ترقی نہیں ہے بلکہ اس میں تباہی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَاتَّقُوا اللهَ يَأُولى الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (المائدة: 101) کم پس اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اے عقل والو! تاکہ تم فلاح پاؤ.اب یہاں کامیاب اللہ تعالیٰ نے انہیں قرار دیا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں بلکہ عقل والے بھی یہی لوگ ہیں جنہوں نے عارضی خواہشات کو سب کچھ نہیں سمجھا، اس دنیا کی خواہشات کو کچھ نہیں سمجھا اور ان کو سمجھ کر اپنی ہمیشہ کی زندگی کو برباد نہیں کر لیا.ایسے لوگ عقل والے ہیں جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہیں، جنہوں نے اس دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھ لیا انہوں نے تو اپنی ہمیشہ کی زندگی کو برباد کر لیا اور جو ہمیشہ کی زندگی کو برباد کرنے والا ہو ، اسے عقل مند تو نہیں کہا جا سکتا.عقلمند وہی کہلاتا ہے جو چھوٹی چیز کو بڑی چیز کے لئے قربان کرتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے دنیا کو قربان کرنا یہی عقلمندی ہے.پس انسان کو ایک صحیح مؤمن کو حقیقی مؤمن کو اسے ہی اپنی زندگی کا مقصد بنانا چاہئے اور یہ مقصد کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وهذا كتب أَنزَلْنَهُ مُبْرَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الانعام: 156 ) اور یہ کتاب یعنی قرآنِ کریم ایسی کتاب ہے جسے ہم نے اتارا ہے.یہ برکت والی ہے.پس اس کی پیروی کرو اور تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے.66 پس اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننا ہے تو قرآن کریم کے احکامات کی پیروی کرنی ہو گی جس کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں تلقین فرمائی ہے.اور یہ پیروی ہی تقویٰ کے راستوں کی نشاندہی کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم پر اللہ تعالیٰ رحم فرماتا رہے گا.یہ رحم ختم نہیں ہو جا تا بلکہ فرما تا چلا جائے گا.کیونکہ یہاں مُبارك “ جولکھا ہوا ہے، بَرَكَ کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہراچھی چیز جو نہ صرف یہ کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے بلکہ اُس میں ہر آن اور ہرلمحہ اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا رحم ہے کہ اگر اُس کی رضا حاصل کرنے کے لئے انسان ایک نیکی کرتا ہے، اس کی رحمانیت ہی ہے نہ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں اُسے دس گنا کر دیتا ہوں، بلکہ سات سو گنا تک بڑھا دیتا ہوں اور یہیں پر بس نہیں ہے بلکہ فرما یا کہ
خطبات مسرور جلد دہم 312 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 مئی 2012ء میں اس سے بھی زیادہ بڑھا سکتا ہوں اور بڑھا دیتا ہوں.پس تقویٰ پر چلنے والا جو ہے وہ دیکھے کیسے کیسے پھل کھا رہا ہے اور پھر ایک عمل کے کئی گنا کر کے کھا رہا ہے، بے حد و حساب کھا رہا ہے.پس ہم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ قرآن کریم کے احکامات کی پیروی کی کوشش کریں تبھی حقیقی تقویٰ پر چلنے والے ہم کہلا سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تقویٰ کی وضاحت بیان فرماتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے.تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط و خال ہیں.اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہد کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قومی اور اعضاء ہیں جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قو تیں اور اخلاق ہیں.ان کو جہاں تک طاقت ہو ٹھیک ٹھیک محلِ ضرورت پر استعمال کرنا اور نا جائز مواضع سے روکنا اور ان کے پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 209-210) یہ ہے اللہ تعالیٰ کے حق کی ادائیگی.جو امانتیں اللہ تعالیٰ نے دی ہیں، عہد جو اللہ تعالیٰ سے کئے ہیں ، اُن کو ہر وقت پورا کرنے کی کوشش کرنا.تمام اعضاء سے اُن کی ادائیگی کرنا.ہاتھ ہے تو وہ کام کرے، جس کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، تمام برے کاموں سے بچنا.پاؤں ہیں تو ان نیکیوں کی طرف جانے والے ہوں جن کا اللہ تعالیٰ نے کرنے کا حکم دیا ہے.حدیث میں آیا ہے ناں ہر قدم جو مسجد کی طرف اُٹھتا ہے اُس کا ثواب دیا جاتا ہے.(صحیح مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاة باب المشى الى الصلاة تمحى به الخطايا......حديث : 1521) پس ہر قدم جو دنیا کے دھندوں کو چھوڑ کے مسجد کی طرف ، نماز پڑھنے کے لئے جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والا ہے.اسی طرح انسان کے اندر چھپی ہوئی جتنی صلاحیتیں ہیں اُن کا بھی حق ادا کرنا اللہ تعالیٰ کی خاطر اُن کا استعمال کرنا اور پھر شیطان جو حملے کرتا ہے اُن سے بھی بچنے کی کوشش کرنا.فرمایا کہ پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا، اُن سے ہوشیار رہنا ہے کہ شیطان کس طرح کے حملے کر سکتا ہے.اور پھر فرما یا کہ اس کے مقابل پر حقوق عباد کا بھی لحاظ رکھنا.یہ تو اللہ تعالیٰ کے حقوق ہو گئے.پھر بندوں کے جو حقوق ہیں اُن کا بھی لحاظ رکھنا ضروری ہے.اور یہ وہ طریق ہے کہ انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے.اور خدا تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے
خطبات مسرور جلد دہم 313 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 مئی 2012ء موسوم کیا ہے.چنانچہ لِبَاسُ التَّقْوى (الاعراف: 27) قرآن شریف کا لفظ ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے.اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہدوں اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے.یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تا بمقدورکار بند ہو جائے.“ ( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 210) یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تمام ذمہ داریاں جو باریک سے باریک ہیں ، اُن کو پورا کرنے کی کوشش کرے.کاروباری لوگ ہیں، زندگی کے روز مرہ کے معاملات ہیں وہاں جو وعدے وعید ہوتے ہیں، جو بھی عہد کئے جاتے ہیں، جو بھی معاہدے کئے جاتے ہیں، اُن کو پورا کرنا ہے.اپنا کام ہے تو اُس کو انصاف کے ساتھ ادا کرنا ہے.طالبعلم ہیں تو علاوہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے حق کے، وہ اپنی پڑھائی کا حق ادا کریں.ہر قسم کے حقوق کی ادائیگی جو ہے وہی تقویٰ پر چلنے والی کہلا سکتی ہے.پھر آپ ایک اور جگہ فرماتے ہیں :.متقی بننے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ بعد اس کے کہ موٹی موٹی باتوں جیسے زنا، چوری ، تلف 66 حقوق، ریا ، عجب، حقارت، بخل کے ترک میں پکا ہو تو اخلاق رذیلہ سے پر ہیز کر کے.“ یہ بڑی بڑی باتیں، چوری، زنا وغیرہ جو ہیں ان سے تو انسان بچتا ہے.پھر یہ جو بناوٹ ہے، کنجوسی جو ہے، تکبر جو ہے، دکھاوہ جو ہے یہ بھی بڑی باتیں ہیں.یہ سب چیزیں جو ہیں انسان نے ان کو چھوڑنا ہے.اور پھر جو گھٹیا قسم کے اخلاق ہیں اُن سے بھی بچنا ہے اور پھر صرف بچنا نہیں ہے بلکہ ان کے بالمقابل اخلاق فاضلہ میں ترقی کرے.جو اچھے اخلاق ہیں اُن میں ترقی کرو.اچھے اخلاق کیا ہیں؟ کہ ”لوگوں سے مروت ، خوشی خلقی ، ہمدردی سے پیش آوے.خدا تعالیٰ کے ساتھ سچی وفا اور صدق دکھلا دے.خدمات کے مقام محمود تلاش کرے“.(یعنی اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے لئے ، دین کی خدمت کے لئے بھی وہ کوشش کرے جو انتہائی اونچے مقام ہوتے ہیں، یا جو تعریف کے قابل ہوں ) ان باتوں سے انسان متقی کہلاتا ہے اور جولوگ ان باتوں کے جامع ہوتے ہیں (یعنی اُن میں وہ سب موجود ہوتی ہیں ) وہی اصل متقی ہوتے ہیں.( یعنی اگر ایک ایک خُلق فرداً فرداً کسی میں ہوں تو اسے متقی نہ کہیں گئے“.( بہت سارے اخلاق ہیں، بہت ساری نیکیاں ہیں ، بہت سارے اعمالِ صالحہ ہیں، اگر کسی میں ایک ایک دو دو، تین تین ہیں تو وہ کامل منتقی نہیں کہلا سکتا.فرمایا کہ متقی وہی ہو گا جس میں یہ سب اخلاق موجود ہوں.گھٹیا قسم کی جو
خطبات مسرور جلد دہم 314 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 مئی 2012ء باتیں ہیں اُن کو ختم کیا جائے اور اعلیٰ قسم کے جو اخلاق ہیں اُن کو اختیار کیا جائے.اور ہر خلق جو ہے اُس کو اپنایا جائے تبھی اُس کو متقی کہیں گے.فرمایا کہ اگر فرداً فرداً کسی میں اخلاق ہیں اُس کو متقی نہیں کہیں گے ) جب تک بحیثیت مجموعی اخلاق فاضلہ اس میں نہ ہوں.اور ایسے ہی شخصوں کے لئے لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاهُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة :63) ہے.اور اس کے بعد ان کو کیا چاہئے.اللہ تعالیٰ ایسوں کا متوتی ہو جاتا ہے“ ( یعنی جب انسان ایسے مقام کو پہنچ جاتا ہے تو اس کو کوئی خوف نہیں رہتا اور نہ وہ ٹمگین ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ پھر اُن کے ساتھ ہو جاتا ہے ) جیسے کہ وہ فرماتا ہے.وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّلِحِينَ (الاعراف: 197) حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ پکڑتے ہیں.ان کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتے ہیں.ان کے کان ہو جاتا ہے جس سے وہ سنتے ہیں.ان کے پاؤں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتے ہیں.اور ایک اور حدیث میں ہے کہ جو میرے ولی کی دشمنی کرتا ہے میں اس سے کہتا ہوں کہ میرے مقابلہ کے لئے تیار رہو.ایک جگہ فرمایا ہے کہ جب کوئی خدا کے ولی پر حملہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس پر ایسے جھپٹ کر آتا ہے جیسے ایک شیرنی سے کوئی اس کا بچہ چھینے تو وہ غضب سے جھپٹتی ہے.“ ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 680-681 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) پس یہ تقویٰ کا مقام ہے جس کو ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.پھر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پہلے اقتباس میں جس میں جلسے کی غرض لکھی تھی ، میں نے پڑھا تھا ، آپ نے توجہ دلائی ہے کہ جلسے میں آکر اپنی دینی مہمات کی طرف بھی توجہ کرو.ہمیں ہمیشہ یا درکھنا چاہئے جیسا کہ مختصر پہلے بھی میں ذکر کر چکا ہوں کہ یہ دینی مہمات ، دین کی تبلیغ اور اس کے لئے قربانیاں دینا ہے.آپ میں سے اکثریت وہ ہے جو پاکستان سے ہجرت کر کے یہاں اس لئے آئے ہیں کہ آپ کو پاکستان میں دین کی اشاعت اور تبلیغ کا کام تو ایک طرف رہا، دین پر عمل کرنے کی بھی اجازت نہیں.نماز ہم وہاں سر عام کھلے طور پر پڑھ نہیں سکتے.کلمہ لکھنے سے ہمیں روکا جاتا ہے.آئے روز ہماری مساجد سے کلمہ مٹانے کے لئے حکومتی کارندے اور پولیس والے مولویوں کے کہنے پر آجاتے ہیں اور اب تو بڑے شہروں میں بھی بڑی مساجد کی طرف بھی ان کی نظر ہے.تو بہر حال دین کے معاملے میں احمدیوں پر تنگیاں وارد کی جارہی ہے.اس لئے آپ میں سے اکثریت یہاں آئی ہے.گزشتہ کچھ دنوں میں تھائی لینڈ سے بھی کافی پاکستانی فیملیاں یہاں آئی ہیں.جو پاکستانی وہاں پھنسے ہوئے تھے، اُن کے کیس یو این او (UNO) کے ذریعے سے وہاں پاس کئے گئے، اور وہ یہاں بھیج دیئے گئے.بعض جو آنے والے ہیں ان میں سے براہ راست پاکستان میں
خطبات مسرور جلد دہم 315 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 مئی 2012ء تنگیوں سے گزر رہے تھے.بعض ماحول کی وجہ سے پریشان تھے.بہر حال یہاں آپ آئے ہیں اور آزاد ہیں.اس لئے ایک تو پاکستانی احمدی بھائیوں کے لئے باہر رہنے والے احمدیوں کو بہت دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ جلد اُن کے بھی دن پھیرے اور انہیں مذہبی آزادی حاصل ہو.دوسرے پاکستان سے باہر رہنے والے احمدیوں پر جو بہت بڑی ذمہ داری پڑتی ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ دینی مہمات کے لئے آگے آئیں.ہالینڈ ایک چھوٹا سا ملک ہے یہاں کے ایک سیاستدان نے اسلام کو بدنام کرنے کی بڑی کوشش کی.یہاں اگر احمدی ایک مہم کی صورت میں مستقل مزاجی سے تبلیغ کے کام کو وسعت دیتے تو بہت حد تک اسلام کے بارے میں منفی رویے کو زائل کر سکتے تھے ، بلکہ اسلام کی خوبیاں اجاگر کرنے کا موقع بھی مل سکتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا ایک مقصد بلکہ بہت بڑا مقصد اس ہدایت اور شریعت کی اشاعت کا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے اور جو قرآن کریم کی صورت میں ہمارے پاس محفوظ ہے.اس پیغام کو دنیا تک پہنچانے کا کام بھی ہمارا ہے، اس بارے میں بھی بھر پور کوشش ہونی چاہئے.یہاں اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف قوموں کے لوگ آباد ہیں اور ان میں احمدی بھی ہیں، ان قوموں میں تبلیغی سرگرمیوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جہاں بھی دنیا میں جماعتوں نے اس اہمیت کو سمجھا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا سلطان نصیر بنتے ہوئے خلافت کا دست و بازو بنے ہوئے تبلیغ کے کام کو وسعت دی ہے، وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جہاں جماعت کا تعارف وسیع ہورہا ہے وہاں سعید فطرت لوگوں کو بھی جماعت کی طرف توجہ پیدا ہورہی ہے اور بڑی کثرت سے ہو رہی ہے.بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہاں کی اکثریت کو دین سے دلچسپی نہیں ہے تو یہ تو یورپ میں اکثر ملکوں میں یہی حال ہے بلکہ مغربی ممالک میں یہی حال ہے، بلکہ کہنا چاہئے تمام عیسائی دنیا میں یہی حال ہے اور یہی نہیں بلکہ مسلمانوں کو بھی، نام نہاد مسلمان ہیں، مذہب سے دلچسپی کوئی نہیں ہے.اللہ تعالیٰ پر وہ یقین نہیں ہے.اگر اللہ تعالیٰ پر یقین ہوتا تو جو ظلموں کے بازار گرم کئے ہوئے ہیں، علماء نے بھی اور اُن کے پیچھے چلنے والوں نے بھی ، وہ کبھی نہ ہوتے.تو بہر حال یہ کہتے ہیں جی ان کو مذہب سے دلچسپی نہیں ہے.خدا تعالیٰ پر یقین نہیں ہے، تو یہ بھی ہمارا کام ہے کہ خدا تعالیٰ پر یقین پیدا کروائیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم کی پیروی کرو اور تقویٰ اختیار کرو.اگر ہم حقیقت میں اپنے ہر عمل سے اس کامل اور مکمل کتاب کی پیروی کرنے والے بن جائیں گے، متقی کی اُس تعریف کے نیچے آجائیں گے جو
خطبات مسرور جلد دہم 316 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 مئی 2012ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہے، تو ہمارے نمونے جو ہیں یہی ہماری تبلیغ کے راستے کھولنے کا باعث بن جائیں گے.بہر حال یہ توجہ کی بات ہے، اگر توجہ ہوگی تو انشاء اللہ تعالیٰ ، اللہ تعالیٰ بھی حالات بدلے گا.پس تبلیغ کے راستوں کو تلاش کرنے کے لئے بھی تقویٰ ہی شرط ہے جس پر چلنے کی ہر احمدی کو ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آکر ہم نے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کا جو عہد کیا ہے اس کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے.اس کو ہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے.ہمارے عمل، ہماری کوششیں، ہماری دعائیں ہی دنیا کو راستہ دکھانے کا باعث بن سکتی ہیں ورنہ آج اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے علاوہ کوئی اور جماعت نہیں ہے جو حقیقی اسلام دنیا کے سامنے پیش کر سکے.پس اس جلسے میں آکر ہر احمدی کو اپنے ان تین دنوں میں جائزے لینے کی طرف جہاں توجہ کی ضرورت ہے وہاں اس عہد کی بھی ضرورت ہے کہ ہم نے آئندہ سے خدا تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی بھی بھر پور کوشش کرنی ہے، اپنے بھائیوں کا حق ادا کرنے کی بھی بھر پور کوشش کرنی ہے اور معاشرے کا حق ادا کرنے کی بھی بھر پور کوشش کرنی ہے اور اس ملک کا حق ادا کرنے کی بھی بھر پور کوشش کرنی ہے جنہوں نے ہمیں آزادی سے رہنے کے مواقع مہیا فرمائے.اور یہ حق تبلیغ کے ذریعے سے ادا ہوسکتا ہے.یہ حق اسلام کا خوبصورت پیغام پہنچانے کے ذریعے سے ادا ہو سکتا ہے.یہ حق اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں دور کر کے ادا کیا جا سکتا ہے.پس تمام مرد، عورتیں ، جوان، بوڑھے اس حق کو ادا کرنے کی کوشش کریں تبھی اس طرف توجہ پیدا ہوگی اور تبھی انقلاب آئے گا.دعاؤں میں لگیں ، اللہ تعالیٰ دعاؤں کی وجہ سے نشانات دکھاتا ہے.بہت سے کام جو انسان نہیں کر سکتا، جو عمومی تبلیغ کا طریق ہے، اُس سے نہیں ہوتے.تو اللہ تعالیٰ کے حضور ہم جھکیں، ایک ہو کر دعائیں کریں تو اللہ تعالیٰ خود نشانات بھی دکھاتا ہے اور وہ نشانات ہی انقلاب کا باعث بھی بنتے ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.ان دنوں میں خدا تعالیٰ جلسہ میں شامل ہونے والے ہر شخص کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ اپنی زندگی ، اپنے یہ دن، اپنا وقت دعاؤں میں گزارنے والا ہو.اللہ تعالیٰ سب کو پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.جمعہ کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو ہمارے بہت پرانے اور مخلص کارکن مکرم ناصر احمد صاحب جو سابق محاسب اور افسر پراویڈنٹ فنڈ تھے، صدرانجمن احمد یہ پاکستان کا ہے.13 مئی
خطبات مسرور جلد دہم 317 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 مئی 2012ء 2012ء کو بڑی لمبی بیماری کے بعد 74 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی.إِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ.مہروں کی تکلیف کی وجہ سے کچھ عرصہ یہ صاحب فراش تھے.آپ کے خاندان کا تعلق سیکھواں ضلع گورداسپور انڈیا سے ہے.مرحوم کے دادا میاں الہی بخش صاحب سیکھوانی رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے.آپ کے والد مکرم میاں چراغ دین صاحب نے 1908ء میں حضرت خلیفہ اسیح الاول کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور بعد ازاں سیکھواں سے منتقل ہو کر قادیان آگئے تھے.ناصر صاحب قادیان میں اگست 1938ء میں پیدا ہوئے.کچھ ابتدائی تعلیم قادیان سے حاصل کی ، پھر پاکستان ہجرت کے بعد ٹی آئی سکول چنیوٹ میں میٹرک پاس کیا.پھر بی.اے تک تعلیم حاصل کی.جون 1956 ء سے صدر انجمن احمد یہ ربوہ میں مختلف حیثیتوں سے ، کارکن کی حیثیت سے کام کیا اور دفتر خزانہ میں ، پھر وصیت کے دفتر میں، پھر اسسٹنٹ سیکرٹری مجلس کار پرداز بھی رہے، پھر 1990ء میں نائب ایڈیٹر کے طور پر ان کا تقرر ہوا.1993ء سے 2008 ء تک بطور محاسب افسر پراویڈنٹ فنڈ خدمات سرانجام دیتے رہے.لمبا عرصہ ناظم تنقیح حسابات دفتر جلسہ سالا نہ بھی خدمت کی توفیق ملی.آپ بہت سی خوبیوں کے اور اوصاف کے مالک تھے.بڑی باقاعدگی سے نمازوں پر جانے والے، بیماری میں بھی میں نے دیکھا ہے مسجد میں ضرور آتے تھے.تہجد گزار، دعا گو، بہت منکسر المزاج، ہنس مکھ ، وفا شعار، مہمان نواز ، اپنے مہمانوں اور ساتھیوں سے بڑے پیار اور شفقت سے پیش آنے والے.یادداشت اور حافظہ بھی بڑا اچھا تھا.محلے کے بہت سارے بچوں کو قرآنِ کریم پڑھایا.خلافت سے بھی بے پناہ محبت اور عقیدت تھی.موصی تھے اور اپنی زندگی میں ہی تمام جائیداد کا حصہ بھی ادا کر دیا تھا.اہلیہ کے علاوہ ان کی دو بیٹیاں یادگار ہیں.اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور اپنی رضا کی جنتوں میں اعلیٰ مقام دے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 8 جون تا 14 جون 2012 جلد 19 شماره 23 صفحه 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد دہم 318 21 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 مئی 2012ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت رز امرود احمد خلیفہ امسح الامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 25 مئی 2012 ء بمطابق 25 ہجرت 1391 ہجری شمسی بمقام فرینکفرٹ.جرمنی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں: میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک مخلص اور وفادار جماعت عطا کی ہے.میں دیکھتا ہوں کہ جس کام اور مقصد کے لئے میں ان کو بلاتا ہوں نہایت تیزی اور جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے پہلے اپنی ہمت اور توفیق کے موافق آگے بڑھتے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ ان میں ایک صدق اور اخلاص پایا جاتا ہے.میری طرف سے کسی امر کا ارشاد ہوتا ہے اور وہ تعمیل کے لئے تیار “ فرمایا: ” حقیقت میں کوئی قوم اور جماعت تیار نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس میں اپنے امام کی اطاعت اور اتباع کے لئے اس قسم کا جوش اور اخلاص اور وفا کا مادہ نہ ہو.فرمایا کہ حضرت مسیح کو جو مشکلات اور مصائب اٹھانے پڑے، ان کے عوارض اور اسباب میں سے جماعت کی کمزوری اور بید لی بھی تھی (یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا).فرماتے ہیں کہ اس کے برخلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے وہ صدق و وفا کا نمونہ دکھایا جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی.انہوں نے آپ کی خاطر ہر قسم کا دکھ اٹھا نا سہل سمجھا.یہاں تک کہ عزیز وطن چھوڑ دیا.اپنے املاک و اسباب اور احباب سے الگ ہو گئے اور بالآخر آپ کی خاطر جان تک دینے سے تامل اور افسوس نہیں کیا.یہی صدق اور وفاتھی جس نے ان کو آخر کار با مراد کیا.اسی طرح میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میری جماعت کو بھی اس کی قدر اور مرتبے کے موافق ایک جوش بخشا ہے اور وہ وفاداری اور صدق کا نمونہ دکھاتے ہیں.( ملفوظات جلد اول صفحہ نمبر 223-224 ایڈیشن 2003 ، مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد دہم 319 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 مئی 2012ء پھر آپ اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں اپنے لئے خدا تعالیٰ کے نشانات کا ذکر فرماتے ہوئے چھہترویں نشان میں فرماتے ہیں کہ : براہین احمدیہ میں میری نسبت خدا تعالیٰ کی یہ پیشگوئی ہے الْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِنِّي وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي یعنی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تیری محبت لوگوں کے دلوں میں ڈالوں گا.اور میں اپنی آنکھوں کے سامنے تیری پرورش کروں گا.یہ اُس وقت کا الہام ہے جب ایک شخص بھی میرے ساتھ تعلق نہیں رکھتا تھا.پھر ایک مدت کے بعد یہ الہام پورا ہوا اور ہزار ہا انسان خدا نے ایسے پیدا کئے کہ جن کے دلوں میں اُس نے میری محبت بھر دی.بعض نے میرے لئے جان دی اور بعض نے اپنی مالی تباہی میرے لئے منظور کی اور بعض میرے لئے اپنے وطنوں سے نکالے گئے اور دُکھ دیئے گئے اور ستائے گئے اور ہزار ہا ایسے ہیں کہ وہ اپنے نفس کی حاجات پر مجھے مقدم رکھ کر اپنے عزیز مال میرے آگے رکھتے ہیں“.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 239-240) یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ایک مخلص صحابی حضرت سید ناصر شاہ صاحب اوورسیئر کے ایک خط کا ذکر فرمایا.فرماتے ہیں کہ جنہوں نے لکھا ہے کہ ) ”میری بڑی تمنا یہ ہے کہ قیامت میں حضور والا کے زیر سایہ جماعت بابرکت میں شامل ہوں جیسا کہ اب ہوں.آمین.حضور عالی ! اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ خاکسار کو اس قدر محبت ذات والا صفات کی ہے کہ میرا تمام مال و جان آپ پر قربان ہے اور میں ہزار جان سے آپ پر قربان ہوں.میرے بھائی اور والدین آپ پر نثار ہوں.خدا میرا خاتمہ آپ کی محبت اور اطاعت میں کرے.آمین.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 240 حاشیہ ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ” جب میں اس درجہ کا صدق اور ارادت اکثر افراد اپنی جماعت میں پاتا ہوں تو بے اختیار مجھے کہنا پڑتا ہے کہ اے میرے قادر خدا! در حقیقت ذرہ ذرہ پر تیرا تصرف ہے.تو نے ان دلوں کو ایسے پر آشوب زمانہ میں میری طرف کھینچا اور اُن کو استقامت بخشی ، یہ تیری قدرت کا نشانِ عظیم الشان ہے.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 240) اس وقت میں بعض ایسے مخلصین کی اپنی روایات پیش کروں گا جو وفا اور عقیدت اور محبت اور اطاعت کے جذبے سے پر ہیں.بعض باتیں بظاہر معمولی لگتی ہیں، بہت چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں.انسان سمجھتا ہے کہ یہ کونسی اطاعت ہے ، ذراسی معمولی بات ہے.لیکن ہر اطاعت کا جو واقعہ ہے اس میں ایک گہرا سبق ہے.اس عشق و وفا کی وجہ سے جو ان صحابہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تھا، کس طرح
خطبات مسرور جلد دہم 320 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 مئی 2012ء خوش دلی سے وہ آپ کی کامل اطاعت کیا کرتے تھے.یہ سب باتیں جو ہیں ہم سب کے لئے نمونہ بھی ہیں.حقیقت میں یہی سچی فرمانبرداری اور تعلق ہے جو پھر تقویٰ میں بھی ترقی کا باعث بنتا ہے اور جماعت کی اکائی اور ترقی کا بھی باعث بنتا ہے.حضرت فضل الہی صاحب ریٹائر ڈ پوسٹ مین فرماتے ہیں.حکومت کی طرف سے میری ترقی کا حکم صادر ہوا تو میں نے حضرت صاحب سے ذکر کیا کہ حضور میری ترقی ہوگئی ہے اور میں یہاں سے (اب) جارہا ہوں ، اب ٹرانسفر بھی ہو جائے گی.حضور نے فرمایا کہ دیکھو فضل الہی ! یہاں لوگ ہزاروں روپیہ خرچ کر کے آرہے ہیں ( یعنی قادیان میں ) اور تم ترقی کی خاطر یہاں سے جار ہے ہو.یہیں رہو، ہم تمہاری کمی پوری کر دیں گے.چنانچہ کہتے ہیں کہ حضور کے حسب ارشاد میں نے جانے سے انکار کر دیا.اور پھر وہیں رہا اور مالی منفعت جو تھی اُس کو قربان کر دیا.( رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 315 روایات حضرت فضل الہی صاحب) حضرت مفتی فضل الرحمن صاحب فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام گورداسپور مقدمے کی تاریخوں پر تشریف لے جاتے تھے تو مجھ کوضرور اردل میں رکھا کرتے تھے، اُس زمانے میں لگے ہوتے تھے.جب آپ صبح کو روانگی کے لئے تشریف لاتے تو فرماتے ، میاں فضل الرحمن کہاں ہیں؟ اگر میں حاضر ہوتا تو بولتا ورنہ آدمی بھیج کر مجھے گھر سے طلب فرماتے کہ جلدی آؤ.حضور کا یکہ ہمیشہ میں ہی چلاتا.یکہ بان کو حکم نہ تھا کہ چلائے.میں یکہ بان کی جگہ بیٹھ جاتا اور میاں شادی خان صاحب مرحوم میرے آگے ساتھ بیٹھ جاتے اور یکہ کے اندرا کیلے حضور ہی تشریف رکھتے.مقدمے کے دوران جب یہ سفر ہوا کرتا تھا اس دوران میں میرا دوسرا بچہ بیمار ہو گیا اور اُس کو ٹائیفائیڈ ہو گیا.حضور اکثر اُس کو دیکھنے کے لئے تشریف لاتے تھے.تاریخ مقدمہ سے ایک دن قبل میری بیوی نے کہا کہ حضور کو دعا کے لئے لکھو.میں نے کہا جبکہ آپ ہر روز دیکھنے کو تشریف لاتے ہیں تو لکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ مگر اُس نے اصرار کیا تو میں نے عریضہ لکھ دیا، خط لکھ کے ڈال دیا.حضرت نے اس پر تحریر فرمایا کہ میں تو دعا کروں گا پر اگر تقدیر مبرم ہے تو ٹل نہیں سکتی.یہ الفاظ پڑھ کر میرے آنسو نکل آئے.بیوی نے پوچھا: کیوں؟ میں نے کہا اب یہ بچہ ہمارے پاس نہیں رہ سکتا.اگر اس نے اچھا ہونا ہوتا تو آپ یہ نہ لکھتے.خیر دوسرے دن صبح کو روانگی تھی ، سب لوگ چوک میں کھڑے تھے منتظر تھے کہ حضور برآمد ہوئے اور کسی سے کوئی بات چیت نہیں کی اور سیدھے میرے گھر تشریف لے آئے.بچے کو دیکھا، دم کیا اور مجھے فرمایا کہ آج تم یہیں رہو.میں کل آ جاؤں گا.بچے کی
321 خطبات مسرور جلد دہم خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 مئی 2012ء حالت تشویشناک ہے.چنانچہ میں رہ گیا.حضور کے سارے سفروں میں صرف یہ ایک دن تھا کہ میں معیت میں نہ جاسکا.(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 446-447 روایات حضرت مفتی فضل الرحمان صاحب) بچے کا جو افسوس تھا وہ تو ہے لیکن ایک دن نہ جانے کا سفر میں معیت نہ ہونے کا بھی بڑا واضح افسوس نظر آتا ہے.حضرت حافظ عبدالعلی صاحب ولد مولوی نظام الدین صاحب فرماتے ہیں کہ زبانی حضرت میر محمد اسمعیل ریٹائرڈ (جو اُس وقت طالبعلم تھے ) سول سرجن معلوم ہوا کہ آپ جب لاہور میڈیکل کالج میں پڑھنے تشریف لائے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ آپ لاہور میں مکان میں اکیلے نہ رہیں بلکہ اپنے ساتھ کسی کو ضرور رکھیں.اس ارشاد کے ماتحت حضرت میر صاحب اکیلے کبھی کسی شہر میں ( جہاں تک میں دیکھتا رہا) نہ رہے، اُس وقت بورڈنگ میڈیکل کالج کوئی نہ تھا.میر صاحب کرایہ کا مکان لے کر رہتے تھے.(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 217 روایات حضرت حافظ عبد العلی صاحب) اور پھر صرف ایک دفعہ حکم نہیں سمجھا بلکہ کہتے ہیں زندگی میں ہمیشہ جب بھی میں نے دیکھا ، جہاں بھی رہنا پڑا، کسی نہ کسی کو ضرور ساتھ رکھا کرتے تھے.حضرت ملک شادی خان صاحب ولد امیر بخش صاحب فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ میاں جمال دین صاحب مرحوم کے ساتھ قادیان میں آیا اور مسجد مبارک میں جب ہم آئے تو ظہر کا وقت تھا.حضرت صاحب نماز کے لئے جو تشریف لائے تو میں نے حضرت صاحب سے مصافحہ کیا.میرے کانوں میں مرکیاں پڑی ہوئی تھیں (چھوٹے چھوٹے چھلے تھے ) تو حضور نے فرمایا کہ یہ مرکیاں کیسی ہیں، مسلمان تو نہیں ڈالتے.میاں جمال دین صاحب نے کہا : حضور! دیہاتی لوگ ایسے ہوتے ہیں کیونکہ ایسے مسائل سے کچھ خبر نہیں ہوتی.فرمایا ان کو کانوں سے اُتار دو.تو میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے بھی کہا کہ جلدی اُتار دو کیونکہ حضرت صاحب نے حکم فرمایا ہے.میں نے اُسی وقت اُتار دیں.جب نماز عصر کے وقت نماز پڑھنے کے لئے آیا تو حضور نے فرمایا کہ اب مسلمان معلوم ہوتا ہے.اُس کے بعد میں نے بیعت کر لی (اُس وقت بیعت نہیں کی تھی).(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 169 روایات حضرت ملک شادی خاں صاحب) آجکل بھی بعض لڑکے فیشن میں بعض اوٹ پٹانگ چیزیں ڈال لیتے ہیں.بعضوں نے گلے میں سونے کی چینیں ڈالی ہوتی ہیں.یہ ساری چیزیں منع ہیں.سونا پہنا تو ویسے ہی مردوں کے لئے منع
خطبات مسرور جلد دہم 322 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 مئی 2012ء ہے.یہاں کے ماحول کا بعض دفعہ اثر ہو جاتا ہے.میں نے دیکھا ہے بعض احمدی لڑکے بھی اس قسم کے فیشن کر لیتے ہیں.جناب والدہ بشیر احمد صاحب بھٹی ولد عبدالرحیم صاحب بھٹی فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ حضرت اقدس علیہ السلام نے گھر میں تھوڑے سے چاول پکوائے ( یعنی پلاؤ ) اور حضرت کے حکم سے حضرت ام المومنین نے اُن دنوں یہاں قادیان میں جتنے احمدی گھر تھے سب گھروں میں تھوڑے تھوڑے بھیجے.وہ چاول برکت کے چاول کہلاتے ہیں اور حضور کا حکم تھا کہ گھر میں جتنے افراد ہیں اُن سب کو کھلائیں.( یعنی کہ جس جس گھر میں بھیجے تھے اُن کو کہا کہ ہر گھر والا چاول کھائے ) چنانچہ کہتے ہیں.بڑے قاضی صاحب نے اپنے بڑے لڑکے بشیر احمد کے والد عبدالرحیم صاحب کو جو ان دنوں جموں میں ملازم تھے لفافے میں چند دانے کاغذ کے ساتھ چپکا کر بھیج دیئے.اب گھر کے افراد کے لیئے حکم تھا کہ اُن کو یہ چاول کھلا ؤ اور اس حکم کی اتنی حد تک تعمیل کی کہ کیونکہ میرا بیٹا ہے اور وہ وہاں موجود نہیں تھا تو اُس کو ایک لفافے میں کاغذ کے ساتھ چپکا کر بھیج دیئے اور خط میں لکھ دیا کہ اتنا کو نہ جس میں چاول چپکائے ہوئے ہیں، کھالینا “ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 350 روایات جناب والدہ بشیر احمد صاحب بھٹی ) ی تھی اطاعت اور محبت.حضرت میاں عبدالغفار صاحب جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضور آخری بار لاہور تشریف لے گئے تو میرے والد صاحب کو خط لکھ کر منگوالیا.والد صاحب جب لاہور پہنچے تو خواجہ کمال الدین صاحب نے اُن کو کہا کہ میاں غلام رسول ! تم ہمارا یہاں کیا سنوار رہے ہو، ( یعنی کیوں آئے ہو تم ) والد صاحب نے حضرت صاحب کا خط نکال کر دکھایا اور فرمایا کہ اس شخص سے پوچھو جس نے خط لکھ کر مجھے بلایا ہے.پھر حضور سے ملاقات کی اور حضور کی حجامت بھی بنائی ، مہندی بھی لگائی نیز خواجہ صاحب کی بات کا بھی ذکر فرما دیا.حضرت صاحب نے ایک پر چہ لکھ کر دیا جس پر وہ پرچہ والد صاحب نے نیچے جا کر دکھایا اور تمام لوگ خاموش ہو گئے پھر کسی نے ذکر نہیں کیا.پھر حضور نے یہ بھی پیار کا اظہار کیا کہ میرے والد صاحب کو پانچ روپے بھی دیئے اور فرمایا کہ آپ کو تو میں نے بلایا ہے، آپ ان کی باتوں کی پرواہ نہ کریں.(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 41-42.روایات حضرت میاں عبدالغفار صاحب جراح ) یعنی یہ محبت کا جذبہ صحابہ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تھا ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی اُس سے بڑھ کر سلوک فرما یا کرتے تھے.
خطبات مسرور جلد دہم 323 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 مئی 2012ء حضرت شیخ زین العابدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حافظ صاحب جب قادیان آئے تو حقہ بہت پیا کرتے تھے اور چوری چوری میاں نظام الدین صاحب کے مکان پر جا کر پیا کرتے تھے.یہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے رشتہ دار تھے لیکن بڑے سخت مخالف تھے.حضرت صاحب کو بھی پتہ لگ گیا.فرمایا میاں حامد علی ! یہ پیسے لو اور بازار سے ایک حقہ خرید لا ؤ اور تمبا کو بھی لے آؤ اور جب ضرورت ہو، گھر میں پی لیا کرو.ان لوگوں کے پاس نہ جایا کرو.( کیونکہ یہ لوگ تو اسلام کے بھی منکر تھے ).چنانچہ وہ حقہ لائے اور پیتے رہے.مہمان بھی وہی حقہ پیتے تھے.چھ سات ماہ کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا میاں حامد علی ! یہ حقہ اگر چھوڑ دو تو کیا اچھی بات ہے.حافظ صاحب نے کہا کہ بہت اچھا حضور، چنانچہ انہوں نے حقہ چھوڑ دیا فوراً.(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 72-73.روایات حضرت شیخ زین العابدین برا در حافظ حامد علی صاحب) پہلے بری صحبت سے بچانے کے لئے ایک عارضی ترکیب یہ کی کہ عارضی انتظام کر دیا کہ جاؤ ، اپنا حقہ لے آؤ اور گھر میں پی لیا کرو.اور جب ایک وقت گزر گیا پھر فرمایا کہ کیونکہ یہ ایسی چیز ہے جو صحت کے لئے بھی مضر ہے اور بد عادات میں مبتلا کر دیتی ہے اس لئے اس کو چھوڑ دو تو بہتر ہے.اس سے کوئی یہ مطلب نہ لے لے کہ کیونکہ ایک دفعہ انتظام کر دیا تھا اس لئے بات جائز ہوگئی.سگریٹ نوشی اور یہ چیزیں جو ہیں عموماً ایسی بری عادتیں ہیں جن کو چھوڑنا بہتر ہے.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ یہ فرمایا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ تمباکو وغیرہ ہوتا تو یقینا اس سے آپ منع فرماتے.حضرت ملک غلام حسین صاحب مہاجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ایک سیٹھ صاحب تھے ، اُن کا ذکر کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ ایک دفعہ جب وہ تشریف لائے تو حضرت اقدس نے مجھے بلا کر فرمایا کہ میاں غلام حسین ! سیٹھ صاحب کی خدمت کے لئے پیرا اور میاں کر مداد کو تو میں نے لگایا ہوا ہے مگر وہ سیدھے سادے آدمی ہیں، اس لئے آپ بھی خیال رکھا کریں.پیرا کے سپرد یہ خدمت تھی کہ وہ بازار سے اُن کے لئے اشیاء خریدلا یا کرے اور چونکہ وہ تمبا کو پیتے تھے کر مدادان کو حقہ تازہ کر دیا کرتا تھا.مجھے حضور نے ان دونوں کی نگرانی کے لئے مقرر فرمایا اور فرمایا کہ آپ بھی ان کا بہت خیال رکھا کریں.بڑے معزز آدمی ہیں اور دور سے بڑی تکلیف اُٹھا کر آتے ہیں.سیٹھ صاحب مجھے فرمایا کرتے تھے کہ میاں غلام حسین !ٹھنڈا پانی چاہئے.میں دوڑ کر بڑی مسجد سے اُن کے لئے تازہ پانی نکال کر لے آتا.اُن کا کھانا بھی اندر سے پک کر آیا کرتا تھا.میں ہی انہیں کھلایا کرتا تھا.وہ قریباً ایک ماہ سے لے کر ڈیڑھ ماہ تک رہا
خطبات مسرور جلد دہم 324 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 مئی 2012ء کرتے تھے.حضرت صاحب وقتاً فوقتاً خاکسار سے پوچھا بھی کرتے تھے کہ سیٹھ صاحب کو کوئی تکلیف تو نہیں؟ ایک دفعہ حضرت صاحب نے مسجد میں مسکرا کر سیٹھ صاحب سے دریافت کیا کہ سیٹھ صاحب! آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ حضور! کوئی تکلیف نہیں.میاں غلام حسین تو پانی بھی مسجد سے لا کر دیا کرتے ہیں.حضرت صاحب سیٹھ صاحب کو رخصت کرنے کے لئے دارالصحت تک تشریف لے جایا کرتے تھے اور جب حضرت صاحب واپس لوٹتے تو مجھے، پیراں دتہ اور کر مداد کو بلا کر دو دو روپے ان دونوں کو اور مجھے پانچ روپیہ دیا کرتے تھے.(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 89-90.بقیہ روایات ملک غلام حسین صاحب مہاجر ) خدمت اور اکرام ضیف مہمان کی خدمت جو ہے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کی تعمیل میں تو سب کرتے ہی تھے.ایک تو ویسے بھی حکم ہے کہ مہمان کی مہمان داری کرنی چاہئے لیکن یہاں خدمت کا ثواب کمانے کے لئے اور دوسرے محبت اور اطاعت کا اظہار کرنے کے لئے ایک اور فرض بھی بن گیا تھا.حضرت مولوی عزیز دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے مفتی محمد صادق صاحب نے جو اُس وقت لاہور میں ملازم تھے، صبح کے وقت جانے کی اجازت مانگی.حضرت صاحب نے فرمایا : آپ نہ جائیں، آج یہیں رہیں.پھر مفتی صاحب نے دو پہر کے وقت عرض کی کہ حضور! نوکری کا کام ہے.آج پہنچنا ضروری تھا.اب تو وقت بھی گزر گیا ہے.حضرت صاحب نے فرمایا: وقت کی کوئی فکر نہ کریں، آپ ابھی چلے جائیں انشاء اللہ ضرور پہنچ جائیں گے.مفتی صاحب بٹالہ کی طرف روانہ ہو گئے اور میں بھی ان کے ساتھ بٹالہ چلا.وقت چار بجے کا ہو گیا.ان ایام میں بٹالہ سے لاہور کو دو بجے گاڑی جایا کرتی تھی.مایوس تو سبھی تھے مگر جب اسٹیشن پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ گاڑی دو گھنٹے لیٹ ہے.چنانچہ وہ گاڑی آئی اور ہم سوار ہو کر لاہور کی طرف روانہ ہو گئے.یہ جلسہ کے ایام کی بات نہیں ، بلکہ کوئی اور وقت تھا.(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 215-216.روایات مولوی عزیز دین صاحب) حضرت میاں عبدالعزیز صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میاں چراغ دین صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ اتوار کے دن میں نے حضرت صاحب سے اجازت مانگی کہ حضور ! مجھے دفتر حاضر ہونا ہے.حضرت صاحب اکثر اجازت دے دیا کرتے تھے مگر اُس دن اجازت نہ دی.پیر کے دن
خطبات مسرور جلد دہم 325 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 مئی 2012ء صبح اجازت دی.یہاں سے گیارہ بجے گاڑی پر سوار ہو کر تین بجے لاہور پہنچے اور سید ھے ٹم ٹم میں بیٹھ کر ساڑھے تین بجے دفتر پہنچے.کرسی پر بیٹھے ہی تھے.(اب یہاں دیکھیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حکم اور اطاعت کی وجہ سے رُکے تھے، اللہ تعالیٰ نے کس طرح یہ سلوک کیا اور عجیب معجزانہ واقعہ ہوا ہے ) کرسی پر بیٹھے ہی تھے کہ دفتر کا کوئی کلرک آیا اور کہنے لگا کہ بارہ بجے آپ کو کاغذ دیئے تھے ، وہ کام آپ نے کیا ہے یا نہیں.(حالانکہ یہ پہنچے ہی تین بجے تھے ) پھر ایک افسر آیا.اُس نے کہا چراغ دین! گیارہ بجے جو آپ نے چٹھی دی تھی یہ اُس کا جواب ہے.( یعنی اُس افسر کے پاس ایسا انتظام اللہ تعالیٰ نے کیا، کوئی بھی چٹھی لے کر گیا تھاوہ سمجھے کہ چراغ دین لے کے آئے ، یا بہر حال اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے کام کیا).فرمانے لگے کہ دفتر کا ہر شخص یہی سمجھتا تھا کہ میں دفتر میں ہی ہوں ، چنانچہ چار بجے شام میں دفتر سے گھر چلا گیا.(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 234.روایات میاں عبد العزیز صاحب آف لاہور ) یہ بھی اطاعت اور فرمانبرداری اور پھر صحابہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جو سلوک تھا، اُس کی ایک مثال ہے.حضرت میر مہدی حسین صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضور نے مجھے بلایا اور حکم دیا کہ ہمارے لنگر میں ایندھن نہیں ہے.تم دیہات سے او پلے خرید کر لاؤ اور آج شام تک پہنچ جائیں.کیونکہ کل کے لئے لنگر خانے میں ایندھن نہیں ہے.اور چار روپے مجھے خریدنے کے لئے دیئے.میں وہ روپیہ لے کر سیدھا مسجد مبارک کی چھت پر چڑھ گیا اور موجودہ منار جو علیحدہ مسجد سے کھڑا ہے اُس کے قریب کھڑے ہو کر دعا کی کہ الہی! تیرے مسیح نے مجھے ایک کام کے لئے فرمایا ہے اور میں اس سے بالکل ناواقف ہوں.مجھے ایسی سمت بتلائی جائے جہاں سے میں شام تک او پلے لے کر یہاں پہنچ جاؤں.مجھے منارے کے تھوڑی بلندی کے اوپر سے ایک آواز آئی ، آواز سنائی دی کہ ریگستان ہے.میں نے سمجھا کہ میرے پاؤں میں زخم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مجھے جانے سے روکا ہے.میں نے دوبارہ عرض کی کہ حضور ! ( یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کی کہ ) میں لنگڑا ہی چلا جاؤں گا لیکن تیرے مسیح کا حکم شام تک پورا ہو جائے.دوبارہ جواب آیا کہ یہیں آ جائے گا، کہیں جانے کی ضرورت نہیں.میں نے سجدہ شکر ادا کیا اور کہا کہ اسی طرح مسیح کے کام ہوں گے تو دنیا فتح ہو سکے گی.میں اسی جگہ بیٹھ گیا اور دعا کرتا رہا کہ الہی ! ایسا نہ ہو کہ مجھے شام کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے شرمندہ ہونا پڑے.پھر دل میں خیال آیا کہ میں نبی نہیں ہوں، کوئی ولی نہیں ہوں جس کے الہامات ایسے جلدی سچے نکلیں.مجھے کہیں جانا چاہئے.لیکن پھر خیال آیا کہ اگر کوئی شخص کسی کی دعوت 66
خطبات مسرور جلد دہم " 326 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 مئی 2012ء کرے کہ شام کو ہمارے گھر کھانا کھا لوتو وہ تر در نہیں کرتا.مجھے خدا تعالیٰ کے وعدے پر یقین ہونا چاہئے.وہ ضرور یہاں ایندھن پہنچا دے گا.اس پر میں مطمئن ہو کر مسجد کی چھت پر ہی بیٹھ رہا.ظہر کا وقت قریب ہوا ، نیچے اُترتے ہی خادمہ نے جس کے سامنے مجھے حضور نے روپیہ دیا تھا، دیکھ لیا اور کہنے لگی کہ تو ابھی تک بالن ( یعنی ایندھن ) لینے نہیں گیا.میں نے جی میں سوچا کہ یہ حضور کے پاس ہے، اُسے پتہ ہوگا کہ حضور کو الہامات ہوتے ہیں اور پورے بھی ہو جاتے ہیں، اُسے کہا کہ فکر کی بات نہیں، مجھے خدا تعالیٰ نے الہام کیا ہے کہ بالن ( یعنی ایندھن ) یہیں پہنچ جائے گا.اس پر وہ برہم ہو کر کہنے لگی کہ تو یہ کہتا ہے کہ جب تک مجھے الہام نہ ہوگا میں کہیں نہیں جاؤں گا ؟ دیکھو ئیں ابھی جا کے حضرت صاحب سے کہتی ہوں.(اس بات کو اُس نے اور رنگ میں لے لیا.انہوں نے کہا تھا کہ وہاں پہنچ جائے گا.اُس نے کہا کہ نہیں جب تک الہام نہیں ہو گا نہیں جاؤں گا ).خیر باوجود میرے روکنے کے اُس نے جاکے حضور کو سنا دیا کہ وہ کہتا ہے کہ جب تک مجھے الہام نہ ہو گا میں کہیں نہیں جاؤں گا.مجھے یہ فکر ہوئی کہ حضور اب ضرور مجھ سے بلا کر دریافت کریں گے تو مجھے اپنے الہام کا ذکر کرنا پڑے گا.ایک فقیر عاجز ، بادشاہ کے سامنے کہاں کہہ سکتا ہے کہ میں بھی مالدار ہوں ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تو الہام ہوتے ہیں، میں کس طرح کہہ سکتا ہوں کہ مجھے الہام ہوا ہے ) اس لئے میں مسجد کی سیڑھیوں سے اتر کر بٹالے والے دروازے کی طرف بھاگا اور پیچھے مڑ کر دیکھا کہ کوئی مجھے بلانے والا تو نہیں آیا.بٹالے والے دروازے پر پہنچ کر میں نے قصد کیا کہ سیکھواں جا کر ایندھن کی تلاش کروں اور مولوی امام الدین اور خیر الدین صاحبان سے امداد لے کر یہ کام کروں.تھوڑی دور چل کر مجھے پھر خیال پیدا ہوا کہ خدا تعالیٰ کا تو حکم ہے کہ یہاں آجائے گا، مگر میں تو اگر باہر چلا گیا تو روپیہ بھی میرے پاس ہے تو یہ کام کس طرح ہو گا ؟ اس لئے میں واپس آکر مسجد کی چھت پر پھر بیٹھ گیا اور دعا کرتا رہا کہ خدا تعالیٰ اپنا وعدہ پورا کرے.پیراں دیتہ ایک ملازم حضرت اقدس کا جو پہاڑ یہ کہلاتا تھا مجھے دیکھ کر آواز دینے لگا کہ بالن کے ( یعنی ایندھن کے ) گڈے پہاڑی دروازے پر آئے ہیں، چل کر خرید لو.میں نے سجدہ شکر ادا کیا اور اُس کے ساتھ جا کر دیکھا تو ایک گڈا اوپلوں کا تھا، باقی لکڑی تھی اور اس گڑے کے لئے بارہ شخص گا بک موجود تھے.اور وہ ایک دوسرے سے دو دو آ نے بڑھ کر بولی دے رہے تھے اور ایک روپیہ بارہ آنے تک بولی ہو چکی تھی.میاں نجم الدین صاحب نے دو آنے بڑھا کر لینا چاہا، میں نے ایک آواز دی کہ میں دیکھ لوں کہ اس میں کتنا ایندھن ہے اور گڈے کے گرد پھر کر کہا کہ ایک روپیہ بارہ آنے سے زیادہ اس میں ایک پیسے کا ایندھن نہیں ہے ( یا لکڑی او پلے نہیں ہیں ) جس کی مرضی ہو وہ
خطبات مسرور جلد دہم 327 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 مئی 2012ء خرید لے.یہ کہہ کر میں چلا آیا اور جی میں کہتا تھا کہ الہی ! بغیر تیرے فضل کے یہ مجھے نہیں مل سکتا.میرے چلے آنے پر سب گا ہک منتشر ہو گئے اور پیراں دتہ وہاں کھڑا رہا، جب گڑے والا حیران ہوا کہ کوئی لینے والا نہیں تو پیراں دتہ نے کہا کہ میرے ساتھ گڈا لے چلو میں تم کو ایک روپیہ بارہ آنے دلواؤں گا.گڑے والا اُس کے ساتھ ہولیا.میں اُس وقت مسجد مبارک پر دعا کر رہا تھا.جو میں نے سنا کہ پیراں دیتہ کہتا ہے کہ گڈا آ گیا ، اس کو سنبھال لیں.گڈانگر خانے میں پہنچا کر میں نے سوچا کہ حضرت صاحب کو اطلاع کر دی جائے کہ حکم کی تعمیل ہوگئی ہے.مگر دل میں پھر خیال آیا کہ یہ کیا کام ہے جس کی اطلاع دینی واجب ہو گی.خود خدا تعالیٰ حضرت اقدس کو بتلا دے گا.میرے اطلاع دینے کی ضرورت نہیں.صبح کو حضرت اقدس سیر کے لئے تشریف لے گئے.جب ڈھاب کی طرف سے ایک سڑک کا معائنہ کر کے جو میر صاحب نے بنوائی تھی ، واپس تشریف لائے تو بطور لطیفے کے حضور نے فرمایا کہ یہاں ایک مہدی حسین آیا ہوا ہے، ہم نے اُس کو ایندھن لانے کے لئے کہا تھا مگر وہ شخص کہتا ہے کہ جب تک مجھے الہام نہیں ہو گا ( جس طرح اُس عورت نے سنایا جا کے ) میں یہ کام نہیں کروں گا.اس پر سب لوگ ہنس پڑے.(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوع رجسٹر نمبر 1 صفحہ 282 تا 287.روایات میر مہدی حسین صاحب خادم مسیح) لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ کا سلوک دیکھیں، کچھ اُن کی مجبوریاں تھیں اور اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی ذات کا ثبوت دینا تھا.کس طرح ان کی دعا کی بھی قبولیت ہوئی اور سارا انتظام بھی ہو گیا.حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں دارالامان میں ہی تھا.یہ غالباً 1905 ء کا واقعہ ہے کہ میاں عبدالحمید خان صاحب کپور تھلوی جو خان صاحب میاں محمد خان صاحب کے فرزند اکبر ہیں.وہ میاں محمد خان صاحب جن کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے ازالہ اوہام میں خاص الفاظ میں تعریف فرمائی ہے.خان صاحب عبد الحمید خان نے مجھے کہا کہ آپ کپور تھلے میں چلیں اور وہاں کچھ روز ہمارے پاس بغرض درس و تدریس اور تبلیغ قیام کریں.میں نے عرض کیا کہ میں در الامان میں ہی قیام رکھوں گا اور جانا پڑا تو واپس وطن کو جاؤں گا.اس پر انہوں نے کہا کہ اگر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عریضہ لکھ کر آپ کے نام حکم لکھا دوں تو کیا آپ پھر بھی نہ جائیں گے.میں نے کہا پھر میں کیسے نہیں جاؤں گا.پھر تو مجھے ضرور جانا ہوگا.چنانچہ انہوں نے ایک رقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں لکھا کہ مولوی غلام رسول را جیکی کو ارشا د فر ما یا جائے کہ وہ میرے ساتھ کپورتھلہ جائیں اور وہاں درس و تدریس اور تبلیغ کے لئے کچھ روز قیام کریں.حضرت اقدس
خطبات مسرور جلد دہم 328 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 مئی 2012ء علیہ الصلوۃ والسلام نے اس رقعہ کے جواب میں زبانی ہی کہلا بھیجا کہ ہاں وہ جاسکتے ہیں.میری طرف سے اجازت ہے.پھر میں اُن کے ساتھ کپورتھلہ گیا اور وہاں چھ مہینہ کے قریب درس و تدریس اور تبلیغ کا کام کرتا رہا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اجازت اور حضور کے ارشاد سے یہ پہلا موقع تھا جو مجھے میسر آیا جس میں میں نے محض اسلام کی خدمت کے لئے سفر کیا.(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 10 صفحه 18 تا 19 روایات حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب) حضرت میاں خیر الدین صاحب بیان کرتے ہیں کہ کرم دین والے مقدمہ کے دوران میں گورداسپور تھا.مغرب کا وقت تھا.حضور نے فرمایا کہ فیروز الدین صاحب ڈسکوی نہیں آئے.( کیونکہ اُن کی صبح شہادت تھی ، وہ احمدی نہیں تھے مگر اخلاص رکھتے تھے ).پھر حضور نے مولوی صاحب سے فرمایا کہ کوئی ایسا شخص بلاؤ جو مولوی نور احمد لودھی منگل والے کو جانتا ہو.میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضور! میں جانتا ہوں.فرمایا ابھی جاؤ اور کل نو بجے سے پہلے اُن کو ساتھ لاؤ.میں رات رات پہنچا اور کچھ دیر ایک کھالی پر ( پانی کا نالہ جو تھا.یہ زمینوں پر پانی لگانے کے لئے ہوتے ہیں ) آرام کیا.علی الصبح گاؤں میں پہنچا.مولوی صاحب نماز کے بعد طالبعلم کو سبق پڑھا رہے تھے.مجھے دیکھ کر دور سے ہی خیریت پوچھی اور فرمایا کیسے آئے؟ میں نے کہا گورداسپور سے آیا ہوں.حضور نے بلایا ہے.مولوی صاحب نے فوراً کتاب بند کر دی اور یہ آیت پڑھی.يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَ لِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُخييكُمْ (الانفال : 25) یعنی اے مومنو! اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کی بات سنو، جب وہ تمہیں زندہ کرنے کے لئے پکارے.کہتے ہیں گھر بھی نہیں گئے.سیدھے میرے ساتھ چل پڑے اور نو بجے کے قریب ہم پہنچ گئے.( رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 12 صفحہ 23 روایات میاں محمد خیر الدین صاحب ولد میاں جھنڈا خاں ) حضرت خلیفہ نورالدین صاحب سکنہ جموں فرماتے ہیں کہ جن دنوں میں شہر کی گشت کی ملازمت پر تھا تو جہاں جاتا، قبور کے متعلق وہاں کے لوگوں اور مجاوروں سے سوال کرتا اور حالات معلوم کرتا اور بعض اوقات اُن کا ذکر حضرت مولانا نورالدین صاحب ( یعنی حضرت خلیفہ اول) سے بھی کرتا.ایک دفعہ میں محلہ خانیار ( سرینگر) سے گزر رہا تھا کہ ایک قبر پر میں نے ایک بوڑھے اور بڑھیا کو بیٹھے دیکھا.میں نے اُن سے پوچھا کہ یہ کس کی قبر ہے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ ”نبی صاحب کی ہے.اور یہ قبر یوز آسف شہزادہ نبی اور پیغمبر صاحب کی قبر مشہور تھی.میں نے کہا یہاں نبی کہاں سے آیا.تو انہوں نے کہا یہ نبی بہت دور سے آیا
خطبات مسرور جلد دہم 329 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 مئی 2012ء تھا اور کئی سو سال قبل آیا تھا.نیز انہوں نے بتلایا کہ اصل قبر نیچے ہے.اس میں ایک سوراخ تھا جس سے خوشبو آیا کرتی تھی لیکن ایک سیلاب کا پانی آنے کے بعد یہ خوشبو آنی بند ہو گئی.میں نے یہ تذکرہ بھی حضرت مولوی صاحب سے کیا ( یعنی حضرت خلیفہ اسیح الاول سے ) اس واقعہ کو ایک عرصہ گزر گیا اور جب مولوی صاحب ملا زمت چھوڑ کر قادیان تشریف لے گئے تو ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی مجلس میں جس میں حضرت مولوی صاحب بھی موجود تھے، حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ مجھے وَ أويلهما إلى رَبُوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ (المؤمنون : 51) سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کسی ایسے مقام کی طرف گئے جیسے کہ کشمیر ہے.اس پر حضرت خلیفہ اول نے خانیار کی قبر والے واقعہ کے متعلق میری روایت بیان کی.حضور نے مجھے بلایا اور اس کے متعلق مجھے مزید تحقیقات کرنے کا حکم دیا.چنانچہ میں نے مزید تحقیق کر کے اور کشمیر میں پھر کر پانچ سوساٹھ علماء سے اس قبر کے متعلق دستخط کروا کر حضور کی خدمت میں پیش کئے ، جسے حضور نے پسند فرمایا.(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 12 صفحہ 70 ، 71 روایات حضرت خلیفہ نورالدین صاحب سکنہ جموں ) حضرت سید تاج حسین بخاری صاحب فرماتے ہیں کہ جب حضرت اقدس سیالکوٹ میر حامد شاہ صاحب کے مکان پر فروکش تھے تو میں حضور کی خدمت میں بوساطت اپنے نانا جان حضرت سید امیر علی شاہ صاحب حاضر ہوا.حضور نے اپنی بیعت میں لیا اور فرمایا : قادیان آکر تعلیم حاصل کرو تم ولایت کا تاج ہو گے.چنانچہ میں 1906ء میں قادیان تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخل ہو گیا اور اکثر حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوتارہا اور کئی بارسیر میں بھی شامل ہوا.(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 12 صفحه 152 روایات سید تاج حسین صاحب بخاری بی اے، بی ٹی ) حضرت میاں سوہنے خان صاحب فرماتے ہیں کہ کمترین 1899ء میں ریاست پٹیالہ میں محکمہ بندو بست میں ملازم ہوا اور کام پیمائش کا کرتا رہا.شیخ ہاشم علی سنوری گرد اور قانون گو تھے.ہماری پڑتال کو آیا اور کام دیکھ کر بہت راضی ہوا.انہوں نے بیان کیا کہ تمہارے سے قادیان کتنی دور ہے؟ میں نے عرض کیا کہ تیس کوس ہے.شیخ صاحب موصوف نے فرمایا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خادم ہوں.میں نے جواب دیا ( یعنی اُس وقت یہ احمدی نہیں تھے ناں تو ان کا لہجہ کیا تھا ) کہ ایک مرزا صاحب چوہڑوں کا پیر ہے.ایک عیسی بن گیا.(نعوذ باللہ ) اور دولت اکٹھی کر رہے ہیں.چند روز گزرے تو موضع ہٹ میں ایک بزرگ ولی اللہ کی مزار دیرینہ ہے (پرانا مزار ہے ) جس کا نام فتح علی شاہ ہے.میری خواب
خطبات مسرور جلد دہم 330 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 مئی 2012ء میں اس بزرگ کی مزار میں جناب مسیح موعود آئے.میں نے مسیح موعود کولوئی بچھا دی.حضرت صاحب او پر بیٹھ گئے.میں اُن کی خدمت میں حاضر رہا ( یہ اپنی خواب کا ذکر کر رہے ہیں ) اور خدمت کرتا رہا.ایک ماہ لگا تار یہی حالت رہی.اس کے بعد میری خواب میں شاہ فتح علی صاحب مزار والے آئے اور فرمایا کہ امام وقت پیدا ہو گیا قادیان میں.میں نے عرض کیا کہ مرزا غلام احمد ! اس بزرگ نے فرمایا.مرزا غلام احمد صاحب.میں ایسا خواب خیال سمجھ کر چپ رہا.تھوڑے دنوں کے بعد میری خواب والے بزرگ آئے اور فرمایا کہ تم کیوں نہیں قادیان گئے اور کیوں نہیں بیعت کی.جلدی جا کر بیعت کرو.میں ارادہ مستقل کر کے رخصت لے کر گھر آیا.کچھ خانگی معاملات کی وجہ سے مجھے دیر ہو گئی کہ وہی ولی اللہ پھر خواب میں ملے کہ ہم نے تم کو گھر بیٹھنے کے لئے نہیں کہا تھا.تم جلد ہی قادیان جا کر بیعت کرلو.اس دن کمترین گھر سے روانہ ہوکر موضع راسگو میں رات جا رہا.( وہاں ٹھہرے) اُس جگہ میرے رشتہ دار تھے.انہوں نے کہا: ماہ پوہ کے بعد چلیں گے.میں نے اُن کی بات کو مان لیا.رات کو مجھے خواب میں شاہ فتح علی صاحب ملے اور فرمایا.پندرہ کوس آگئے ہو اور سترہ کوس باقی ہے.ہم تمہارے ساتھ ہیں.کونسا تم کو خوف ہے.پھر صبح کو روانہ ہوا.قادیان میں پہنچ گیا.جناب مسیح موعود علیہ السلام صاحب جنوب کی طرف بہت سے آدمیوں کے درمیان سیر کو گئے تھے.میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ لوگ جنگل میں کیوں جمع ہو گئے.لوگوں نے بتلایا کہ مرزا صاحب سیر کو جار ہے ہیں.اُن کے ساتھ جاتے ہیں.میں اُن لوگوں کے ساتھ ہو کر جاملا اور جا کر حضرت صاحب کے ساتھ السلام علیکم کہا اور مصافحہ کیا.مرزا صاحب نے مجھے فرمایا کہ کس جگہ سے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا ضلع ہوشیار پور اور موضع میٹیانہ سے آیا ہوں.فرما یا تمہارا نام کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: سو ہنے خان.فرمایا تم وہی سوہنے خان ہو، خوابوں والے.( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی لگتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں بتا دیا تھا).میں نے عرض کیا کہ میں وہی آپ کا غلام ہوں.فرمایا تین دن تک رہو.تین دن کے بعد بیعت لے لیں گے.تین دن کے بعد بیعت لی.فرمایا کہ پہلے مسیح ناصری کے بھی بیعت غریب لوگ ہوئے تھے.( انہوں نے کہا تھا ناں کہ بہت سے غریب لوگ اور چوہڑے چمار بیعت کر رہے ہیں، مسیح بن گئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کے اس جواب میں فرمایا جو انہوں نے خود تو نہیں کہا ہوگا ، یا ہو سکتا ہے خبر پہنچی ہو کہ پہلے مسیح ناصری کی بیعت بھی غریب لوگوں نے کی تھی.میرے بھی پہلے غریب لوگ ہوئے ہیں.بعد ازاں فرمایا : مجھے سچا جانو.( جو نصائح فرمائیں ایک یہ کہ کامل یقین ہو میری سچائی پر ) دوسرے پنج وقت نماز ادا کرو
خطبات مسرور جلد دہم 331 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 مئی 2012ء اور تیسری بات کبھی جھوٹ نہیں بولنا.اور یہ فرما کر مجھے اجازت دے دی.(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 12 صفحہ 193 تا 195 روایات میاں سوہنے خاں صاحب سکنہ میٹیانہ ) تو یہ تین نصیحتیں ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنی چاہئیں.حضرت فضل الہی صاحب ولد محمد بخش صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور اماں جان سیر کرتے ہوئے ہمارے گاؤں آئے.جب واپس جانے لگے تو حکم کیا کہ پانی پلاؤ.( حضرت اماں جان کو پیاس لگی.اُن کی بھی اطاعت کا چھوٹا سا واقعہ ہے ).میری والدہ صاحبہ نے مجھے گلاس میں پانی ڈال کر دیا اور کہا کہ لے جاؤ.میں جلدی سے اُن کے پاس پانی لے گیا اور اماں جان اور حضرت صاحب راستے میں کھڑے تھے.اماں جان کو میں نے پانی دیا.انہوں نے پکڑ کر پینا شروع کیا.حضرت صاحب نے صرف اتنا لفظ کہا کہ پانی بیٹھ کر پینا چاہئے.اماں جان نے صرف ایک گھونٹ پانی پیا تھا.یہ بات سن کر فورا بیٹھ گئے اور باقی پانی بیٹھ کر پیا.(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 353 روایات حضرت فضل الہی صاحب) حضرت نظام الدین صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ اُس زمانے میں دستور تھا کہ پہلے سب مہمان گول کمرہ میں جمع ہو جایا کرتے تھے.حضرت اقدس فداہ ابی واقی کو اطلاع پہنچائی جاتی کہ حضور تمام خادم حاضر ہیں.ایک دن حضرت اقدس پہلے ہی تشریف فرما ہو گئے تو حضرت خلیفہ اول حضرت مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابھی تشریف نہ لائے تھے.اس غلام کو حضور نے فرمایا کہ جاؤ مولوی صاحب کو بلا لاؤ.بندہ دوڑتا ہوا مطب میں گیا اور حضرت اقدس کا ارشاد عرض کیا.حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے (سوال کیا ) کہ حضرت صاحب تشریف لے آئے ہیں؟ بندے نے کہا: ہاں اور کہا کہ جناب کو یاد فرمایا ہے.اس پر حضرت خلیفہ اول مطب سے دوڑ پڑے اور گول کمرہ تک دوڑتے ہوئے حاضر ہوئے.مجلس میں حضرت خلیفہ اول عموماً سرنگوں رہتے تھے (نیچا سر کئے بیٹھے رہتے تھے ) سوائے اس صورت کے کہ حضرت اقدس خود مخاطب فرما ئیں ورنہ دیر تک سرنگوں رہتے تھے.(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 3 صفحہ 106 تتمہ روایات نظام الدین صاحب) حضرت حافظ جمال احمد صاحب فرماتے ہیں کہ بیان کیا مجھ سے مولوی غلام محمد صاحب مرحوم نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود کی طرف سے رات کے گیارہ بارہ بجے کوئی حضرت خلیفہ اول کے گھر دودھ مانگنے آیا.مولوی صاحب نے مجھے فرمایا کہ ہمارے گھر میں تو دودھ نہیں، مگر جس طرح بھی ہو کہیں سے جلد
خطبات مسرور جلد دہم 332 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 مئی 2012ء دودھ مہیا کرو، چاہے کتنا ہی خرچ ہو.میں نہیں چاہتا کہ حضرت صاحب کا آدمی خالی ہاتھ جائے.(وہاں ہو سکتا ہے کوئی مہمان آیا ہو، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس کے لئے منگوا یا ہو ) میں دوڑا اور مہمان خانے کے سامنے جو گھر ہیں اُن میں سے ایک کو جگایا.اُس نے بھینس سے دودھ نکالنے کی کوشش کی اور خدا نے کیا دودھ نکل آیا ( عموماً لوگ شام کو بھینسیں دوہ لیتے ہیں لیکن رات کو پھر دوبارہ دوہا تو دودھ نکل آیا) اور مولوی صاحب بہت خوش ہوئے.رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 385 روایات حضرت حافظ جمال احمد صاحب) حضرت حافظ جمال احمد صاحب فرماتے ہیں کہ مولوی غلام محمد صاحب مرحوم نے بیان کیا کہ ایک دفعہ بٹالہ کے ایک صاحب ( میں اُن کا نام بھول گیا ہوں ).حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اجازت سے حضرت خلیفہ اول کو اپنا ایک بیمار دکھانے کے لئے بٹالہ لے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب ! شام تک تو آپ واپس آجائیں گے.مولوی صاحب نے فرمایا جی حضور ! آ جاؤں گا.خدا کی شان بٹالہ پہنچ کر ایسی بارش ہوئی کہ ہر طرف پانی ہی پانی ہو گیا.اسی ہی حالت میں شام کو مولوی صاحب قادیان پہنچ گئے.گھٹنے گھٹنے پانی چلنا پڑا.پاؤں میں کانٹے بھی چھ گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو علم ہوا تو افسوس کیا اور فرمایا: مولوی صاحب! میرا منشاء یہ تو نہ تھا.آپ نے اتنی تکلیف کیوں اُٹھائی.(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 386 روایات حضرت حافظ جمال احمد صاحب) حضرت میاں عبدالعزیز صاحب المعروف مغل صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مولوی نور الدین صاحب اپنے مطب میں بیٹھے ہوئے تھے.قریب بارہ ایک بجے کا وقت تھا.گرمیوں کے دن تھے.حضرت ام المومنین نے اندر سے ایک خادم بھیجا اور اُس نے آکر کہا کہ مولوی صاحب ! حضرت ام المومنین فرماتی ہیں کہ آکر میرا فصد کھول دو.فرمایا کہ اماں کو جا کر کہہ دو کہ اس بیماری میں اس وقت فصد کھولنا طب کی رو سے سخت منع ہے.پھر وہ کچھ دیر کے بعد اندر سے آئی.پھر اُس نے یہی کہا.حضرت مولوی صاحب نے پھر بھی یہی جواب دیا.پھر کچھ دیر کے بعد حضرت میاں محمود احمد صاحب تشریف لے آئے.اُن کو حضرت مولوی صاحب نے گود میں لے لیا اور پوچھا میاں صاحب! کس طرح تشریف لائے؟ فرمایا کہ اتنا کہتے ہیں کہ آکر فصد کھول دو.تو مولوی صاحب اُسی وقت چلے گئے اور آکر فصد کھول دیا.جب جانے لگے تو ایک شخص غلام محمد صاحب نے کہا کہ آپ تو فرماتے تھے منع ہے.فرمایا : اب طب نہیں اب تو حکم ہے.(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 9 صفحہ 45 تا 46 روایات میاں عبدالعزیز صاحب)
خطبات مسرور جلد دہم 333 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 مئی 2012ء میاں شرافت احمد صاحب اپنے والد حضرت مولوی جلال الدین صاحب مرحوم کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے والد صاحب کی بہت عقیدت تھی اور حضور بھی اُن پر خاص نظر شفقت فرمایا کرتے تھے.حضرت مولوی صاحب کی والدہ صاحبہ اعوان قوم سے تھیں، اور مولوی صاحب بھی اس قوم سے تھے.(مولوی جلال الدین صاحب بھی اعوان قوم سے تھے ) اس لئے حضرت مولوی صاحب ان سے محبت کا سلوک فرمایا کرتے تھے.آپ کو حضرت خلیفہ امسیح الاول کی طرف سے یہ حکم تھا کہ جب قادیان آؤ تو یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں بیٹھو، اور اُس کے بعد میرے پاس بیٹھو.اس کے سوا کسی اور جگہ جانے کی تم کو اجازت نہیں ہے.والد صاحب بیان کیا کرتے تھے کہ میں ایسا ہی کیا کرتا تھا.والد صاحب بیان کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے رمضان شریف بھی قادیان میں گزارا.رض رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 12 صفحہ 277 حالات مولوی جلال الدین صاحب مرحوم ) حضرت سر محمد ظفر اللہ خان صاحب ولد چوہدری نصر اللہ خان صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُن دنوں علاوہ مطب کے کام کے اس کمرے میں جہاں اب حکیم قطب الدین صاحب کا مطب ہے مثنوی مولانا روم کا درس دیا کرتے تھے.مجھے اپنے والد صاحب کے ہمراہ آپ کی صحبت کا بھی اُن ایام میں موقع ملتا رہا.مجھے خوب یاد ہے کہ بعض دفعہ اس درس کے دوران میں کوئی آدمی آکر کہہ دیتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام باہر تشریف لے آئے ہیں تو یہ سنتے ہی حضرت خلیفۃ اسبح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ درس بند کر دیتے اور اُٹھ کھڑے ہوتے اور چلتے چلتے پگڑی باندھتے جاتے اور جوتا پہنے کی کوشش کرتے ، اور اس کوشش کے نتیجے میں اکثر آپ کے جوتے کی ایڑیاں دب جایا کرتی تھیں.جب آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں تشریف فرما ہوتے تو جب تک حضور آپ کو مخاطب نہ کرتے آپ کبھی نظر اٹھا کر حضور کے چہرہ مبارک کی طرف نہ دیکھتے.( رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 248-249 روایات حضرت سر محمد ظفر اللہ خان صاحب) حضرت صوفی غلام محمد صاحب فرماتے ہیں ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد روایت لکھنے والے نے لکھا ہے ) کہ سب نے مولوی نور الدین صاحب کی بیعت کر لی اور مولوی صاحب نے فرمایا.”کل میں تمہارا بھائی تھا.آج میں تمہارا باپ بن گیا ہوں.تم کو میری اطاعت کرنی ہوگی.امۃ الحفیظ سب سے چھوٹی تھی، حضور کی اولاد میں سے ، ( یعنی حضرت خلیفہ اول امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا
خطبات مسر در جلد دہم 334 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 مئی 2012ء ذکر کر کے فرماتے ہیں کہ امتہ الحفیظ حضور کی اولاد میں سے سب سے چھوٹی تھی ) فرمایا کہ اگر امۃ الحفیظ کی بیعت کی جاتی تو میں اُس کی ایسی ہی اطاعت کرتا جیسی کہ مسیح موعود علیہ السلام کی.“ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 283 روایات حضرت صوفی غلام محمد صاحب) اللہ تعالیٰ ان تمام صحابہ کے درجات بلند سے بلند تر فرما تا چلا جائے اور جس طرح ان کی خواہش تھی کہ یہ اگلے جہان میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ہوں، یہ خواہشات بھی پوری فرمائے.ان کی نسلوں کو بھی وفا اور اطاعت کے طریق پر قائم رکھے.ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم کامل اطاعت کے ساتھ اس زمانے کے امام کے ساتھ تعلق قائم رکھنے والے ہوں.آپ نے اپنے مخلصین کے لئے جو دعائیں کی ہیں، اُن کے بھی ہم وارث بنیں.اور آپ کے بعد آپ کے ذریعے سے قائم ہونے والی قدرت ثانیہ کے ساتھ بھی وفا، محبت اور اطاعت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوں.جیسا کہ حضرت خلیفہ اسیح اول کا ارشاد میں نے پڑھ کر سنایا کہ کامل اطاعت کرنی ہوگی.اور خلافت کے ساتھ بجڑ کر اُس جماعت کا حصہ بنیں جس نے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننا ہے کیونکہ اس کے بغیر اللہ تعالیٰ کے فضل نہیں ہو سکتے.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.ابھی میں جمعہ کی نماز اور نماز عصر کے بعد دو جنازے پڑھاؤں گا.ایک جنازہ تو ایک شہید مکرم طارق احمد صاحب ابن مبارک احمد صاحب کا ہے.ان کی پیدائش لیہ کے ایک گاؤں کی ہے.طارق صاحب کی پیدائش سے دو مہینے پہلے ان کے والد مبارک صاحب وفات پاگئے تھے.مکرم طارق صاحب کی عمر اکیالیس (41) سال تھی.بڑے ذہین اور قابل انسان تھے.17 مئی 2012ء کو طارق صاحب سودا سلف لینے کے لئے کہروڑ ضلع لیہ میں گئے اور کچھ جو کاروباری لوگ تھے اُن کے پیسے بھی واپس کرنے تھے.واپسی پر تقریباً چار بجے فون کیا کہ سبزی وغیرہ لے لی ہے کوئی اور چیز تو نہیں لینی ؟ اُس کے بعد ان سے پھر کوئی رابطہ نہیں ہوا.شام تک رات تک گھر نہیں پہنچے.فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی کوئی رابطہ نہیں ہو سکا.بہر حال بعد میں یہ پتہ لگا کہ اُن کو واپسی پر آتے ہوئے کچھ نامعلوم افراد نے اغواء کر لیا اور کسی نامعلوم جگہ پر لے گئے اور ہاتھ پاؤں باندھے ہوئے تھے اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا.تشدد کے دوران مرحوم کا ایک پاؤں بھی تو ڑ دیا.ایک کندھا اور پسلیاں بھی توڑی ہوئی تھیں.دونوں گھٹنوں پر کیلوں کے نشان تھے.آنکھ پر بھی بڑی کاری ضرب تھی.سر پر بھی بے انتہا تشدد تھا اور تشدد کے بعد پھر سر پر انہوں نے فائر کیا اور ان کو شہید کر دیا انا لله وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.پھر ظلم کی اور بربریت کی انتہا یہ ہے، وہ تو خیر
خطبات مسرور جلد دہم 335 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 مئی 2012ء پہلے بھی انتہا ہی ہے، کہ پھر اس کے بعد ایک ڈرم میں ڈال کر راجن شاہ میں نہر میں پھینک دیا.اتفاق سے نہر بند تھی، ورنہ تو نہر میں لفش کا پتہ ہی نہیں لگتا تھا.اگلے روز پولیس نے بتا یا کہ نعش ملی ہے اور پھر لواحقین چہرہ سے تو پہچان نہیں سکے تھے.اتنی زیادہ بری حالت کی ہوئی تھی کہ مسخ کیا ہوا تھا.اُن کے کپڑوں سے اور اور نشانیوں سے لواحقین نے پہچانا.امیر صاحب کی رپورٹ کے مطابق کہتے ہیں کہ جماعتی مخالفت نہیں ہے لیکن میرا خیال ہے کہ جماعتی مخالفت ہی تھی کیونکہ شریف النفس تھے.کسی سے کوئی ایسا واسطہ نہیں تھا اور اس سے پہلے ان کے کسی رشتہ دار کو بھی فائر کر کے اسی طرح زخمی کیا گیا تھا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان دشمنوں کو بھی جلد عبرت کا نشان بنائے اور احمدیت کے حق میں بڑے واضح نشانات ظاہر فرمائے اور جلد ظاہر فرمائے.ہمیشہ یادرکھیں کہ ایسی حالت میں جب تک دعاؤں کی طرف توجہ نہیں کریں گے اور اللہ تعالیٰ سے نشان نہیں مانگیں گے اُس وقت تک وہ کامیابیاں ہمیں نظر نہیں آئیں گی جن کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے.عموماً جو کامیابیاں نشانوں کے بعد ملتی ہیں وہی ایک واضح اور ایسی کامیابیاں ہوتی ہیں جو دشمن کو بھی نظر آ رہی ہوں تو پھر ہی دشمن حق کو تسلیم کرتا ہے.ایک خارق عادت قسم کی کامیابیاں تب ملتی ہیں جب ہم لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور انتہائی عاجزی سے جھکنے والے ہوں گے، دعائیں مانگنے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اور اُس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق بھی عطا فرمائے.مرحوم کے برادر نسبتی عارف احمد گل صاحب مربی سلسلہ ہیں، انہوں نے بھی ان کی بڑی خوبیاں بیان کی ہیں اور بڑی محبت کرنے والے تھے.ان کی اہلیہ محترمہ کے علاوہ چھ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں.بڑے بیٹے کی عمر اٹھارہ سال ہے اور چھوٹے بچے کی عمر دو سال ہے.اس کے درمیان باقی بچوں کی عمریں ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو بھی اپنی حفاظت میں رکھے.دوسرا جنازہ امتہ القیوم صاحبہ کا ہوگا جور بوہ کی رہنے والی تھیں اور شیخ عبدالسلام صاحب کی اہلیہ تھیں.جو 3 مئی کو وفات پاگئیں.إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.یہ ربوہ میں آبادا بتدائی خاندانوں میں سے ایک تھیں.موصیہ تھیں.ان کے پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں.اُن کے ایک بیٹے عبدالحفیظ صاحب یہاں ہیں اور اسی طرح ہالینڈ میں بھی ہیں ، ربوہ میں بھی ہیں.ان کے دونو اسے جامعہ احمدیہ یو کے میں پڑھ رہے ہیں.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے.“ الفضل انٹر نیشنل مورخہ 15 جون تا 21 جون 2012 جلد 19 شماره 24 صفحه 5 تا9)
خطبات مسرور جلد دہم 336 22 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جون 2012ء خطبہ جمہ سید نا امیرالمومنین حضرت مرزا سر در حد خلف المسح الامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ یکم جون 2012 ء بمطابق یکم احسان 1391 ہجری شمسی بمقام کا لسروے (Karlsruhe).جرمنی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: الحمد للہ آج جماعت احمد یہ جرمنی کا جلسہ سالانہ شروع ہورہا ہے.اس سال جلسے کی انتظامیہ نے گزشتہ سال کی کمیوں کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ بہتری پیدا کرنے کی کوشش کی ہے.اس میں سب سے پہلے تو آواز تھی.آج پتہ لگے گا کہ اس میں کس حد تک بہتری ہوئی ہے؟ کیونکہ گزشتہ سال اس کا لسروئے میں اس ہال میں پہلا جلسہ تھا.اس لئے ظاہر ہے کہ بعض مشکلات یا کمیاں جو کہ نئی جگہ میں پیدا ہوتی ہیں، ہوئیں اور یہ کوئی ایسی بات نہیں جس پر انتظامیہ پر بہت زیادہ انگلیاں اُٹھائی جائیں یا اعتراض کیا جائے.ہاں ایک صورت میں انتظامیہ قابل اعتراض ہو سکتی تھی کہ اگر وہ اپنی غلطیوں اور کمیوں کی طرف توجہ نہ دیتی اور اصلاح کی کوشش نہ کرتی.لیکن جیسا کہ میں نے کہا انتظامیہ نے اپنی کمزوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے بعض کمیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے.اسی طرح گزشتہ سال بعض غلط اندازوں اور نئی جگہ کی وجہ سے جو زیادہ اخراجات ہو گئے تھے، اُن میں بھی کمی کی کوشش کی ہے.لیکن ابھی بھی یقیناً اصلاح اور بہتری کی گنجائش موجود ہے جس پر انتظامیہ کو نظر رکھنی چاہئے کہ ترقی کرنے والی قومیں بعض دفعہ اپنے تجربات سے اور بعض دفعہ دوسروں کے تجربات سے فائدہ اُٹھا کر آگے بڑھتی ہیں اور ترقی کرتی ہیں.اور ہر اچھا مشورہ اور ہر اچھی چیز اپنانے کی کوشش کرتی ہیں.اور یہی بات ہمیں ہمارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہے کہ ہر اچھی اور حکمت کی بات مومن کی گمشدہ میراث ہے.جہاں سے بھی یہ ملے ، اسے لے لو.(سنن الترمذی کتاب العلم باب ماجاء فی فضل الفقه على العبادة حديث : 2687) کہ اسی میں روحانی اور مادی ترقی کا راز مضمر ہے.گزشتہ سال جب میں جرمنی آیا تو میں نے یہی
خطبات مسرور جلد دہم 337 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جون 2012ء حدیث برلن کے لارڈ میئر یا جو بھی وہاں صوبے کے بڑے میئر ہیں ، گورنر کا ہی درجہ رکھتے ہیں.اُن کے سامنے کی تو کہنے لگے کہ اگر تم لوگوں کی تعلیم اور تمہارا عمل یہی ہے تو تم بہت جلد دنیا کو اپنے ساتھ ملا لو گے یا دنیا جیت لو گے.کم و بیش اُن کے الفاظ کا یہی مضمون تھا اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ تو ہونا ہے.بہر حال اگر ہم ترقی کرنے والی قوم ہیں اور یقیناً ہیں تو پھر ہمیں اپنی کمزوریوں پر آنکھیں بند نہیں کر لینی چاہئیں بلکہ نظر رکھنی چاہئے اور اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہئے اور پھر یہی نہیں کہ صرف دنیاوی نظر سے ہم نے دیکھنا ہے بلکہ ہم تو اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ ہم نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا ہے جو اس روئے زمین پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے عاشق صادق تھے، جو ہمیں اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانے آئے تھے، جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانے آئے تھے.پس یہ سب چیزیں تقاضا کرتی ہیں کہ ہم نے ہر چیز کو ہر بات کو تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اور تقویٰ کی نظر سے دیکھنا ہے.اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت اپنے دل میں پیدا کرنی ہے اور اُس عہد بیعت کو نبھانا ہے جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ہاتھ پر کیا ہے.پس ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے اپنی تمام تر کمزوریوں کو دور کرنا ہے اور اس کے لئے کوشش کرنی ہے.صرف انتظامی کمزوریاں نہیں بلکہ ذاتی کمزوریاں بھی ( دُور کرنی ہیں ).اور جب اس سوچ کے ساتھ جلسے پر شامل ہونے والا ہر شخص جلسے پر آئے گا، شامل ہوگا ، اور ہر مرد اور عورت اپنے خیالات کی ، اپنی سوچوں کی یہ بلندی رکھے گی اور اسی طرح انتظامیہ بھی ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے یا یوں کہہ لیں کہ تقویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے انتظامات کو چلائے گی تو پھر جلسے کی برکات سے شامل ہونے والے بھی اور کارکنان بھی فائدہ اُٹھائیں گے اور من حیث المجموع جماعت کا قدم بھی آگے سے آگے بڑھتا چلا جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ یادرکھیں کہ جلسہ کے مقاصد بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاں عبادتوں تبلیغ، تقویٰ اور بہت سے دوسرے مقاصد کی طرف توجہ دلائی ہے، وہاں خاص طور پر بندوں کے حقوق اور اُن میں سے پھر ہمدردی خلق کی طرف خاص طور پر بہت کچھ کہا ہے.تو دراصل حقیقی رنگ میں ہمدردی خلق کا جذ بہ انسان میں پیدا ہو جائے تو حقوق العباد کی ادائیگی خود بخود ہوتی چلی جاتی ہے.پس اس طرف ہر احمدی کو تو جہ دینے کی ضرورت ہے.
خطبات مسرور جلد دہم 338 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جون 2012ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسے کے بارے میں جب بھی اشتہار دیا اور اعلان فرمایا تو اس پہلو کو خاص طور پر بیان فرمایا.آپ نے جہاں خدا تعالیٰ کا خوف ، تقویٰ، زہد وغیرہ کی طرف توجہ دلائی وہاں نرم دلی ، آپس کی محبت، بھائی چارہ ، عاجزی، انکساری کی طرف بھی اُسی شدت سے توجہ دلائی کہ صرف عبادتیں تقویٰ نہیں ہیں، صرف جماعت کی خدمت کر دینا تقویٰ نہیں،صرف اللہ اور رسول سے محبت کا اظہار کر دینا تقویٰ نہیں ، صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلافتِ احمدیہ سے تعلق تقویٰ نہیں بلکہ تقویٰ تب کامل ہوتا ہے جب ماں باپ کے حقوق بھی ادا ہور ہے ہوں ، جب بیوی بچوں کے حقوق بھی ادا ہو رہے ہوں، جب خاوندوں اور بچوں کے حقوق بھی ادا ہو رہے ہوں، جب عزیز رشتے داروں کے حقوق بھی ادا ہور ہے ہوں، جب دوستوں کے حقوق بھی ادا ہور ہے ہوں، جب ہمسایوں کے حقوق بھی ادا ہورہے ہوں، جب بہن بھائیوں کے حقوق بھی ادا ہورہے ہوں ، جب افرادِ جماعت کے حقوق بھی ادا ہو رہے ہوں، یہاں تک کہ جب دشمنوں کے حقوق بھی ادا ہور ہے ہوں تب تقوی کامل ہوتا ہے.اور یہ سب تعلیم قرآنِ کریم میں موجود ہے.ہم جلسے میں شامل ہونے آئے ہیں تا کہ اپنی روحانی ترقی کے سامان کریں.پس جہاں پر شامل ہونے والا اپنی عبادتوں اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کی طرف نظر رکھے ، وہاں یہ بھی دیکھے کہ جہاں عبادتوں، نمازوں، دعاؤں اور ذکر الہی کی طرف آپ توجہ کریں گے، وہاں آپس کی محبت اور تعلق اور ہمدردی کی طرف توجہ کرتے ہوئے اپنے جائزے لیں، ورنہ آپ ایک ایسی جگہ تو آگئے جہاں لوگوں کا اکٹھ ہے، اجتماع ہے.ایسی جگہ تو آپ آگئے جہاں آپ کے عزیز رشتے دار اور بعض ہم مزاج لوگ آئے ہوئے ہیں.ایک ایسی جگہ تو آپ آگئے جہاں بعض علمی اور شاید تربیتی تقاریر سے آپ حفظ بھی اٹھا لیں.آپ اُس سے لطف اندوز بھی ہو جائیں گے لیکن جو مقصد ہے اُسے حاصل کرنے والے نہیں بن سکیں گے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حقوق العباد اور خاص طور پر اپنے بھائیوں سے ہمدردی کی طرف بہت توجہ دلائی ہے.(انتظامیہ مجھے یہ بھی بتادے کہ آخر میں آواز کی جو گونج واپس آرہی ہے تو کیا وہاں لوگوں کو آواز پہنچ بھی رہی ہے کہ نہیں ؟ چیک کر کے بتا ئیں ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب ایک مرتبہ بعض حالات اور ایک حصہ جماعت کے رویے کی وجہ سے جلسہ سالانہ ملتوی فرما یا تو فرمایا:
خطبات مسرور جلد دہم 339 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم جون 2012ء مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض حضرات جماعت میں داخل ہو کر اور اس عاجز سے بیعت کر کے اور عہد تو بہ نصوح کر کے پھر بھی ویسے سج دل ہیں کہ اپنی جماعت کے غریبوں کو بھیڑیوں کی طرح دیکھتے ہیں.وہ مارے تکبر کے سیدھے منہ سے السلام علیک نہیں کر سکتے.چہ جائیکہ خوش خلقی اور ہمدردی سے پیش آویں اور انہیں سفلہ اور خود غرض اس قدر دیکھتا ہوں کہ وہ ادنی ادنی خود غرضی کی بنا پر لڑتے اور دوسرے سے دست بدامن ہوتے ہیں اور ناکارہ باتوں کی وجہ سے ایک دوسرے پر حملہ ہوتا ہے.بسا اوقات گالیوں تک نوبت پہنچتی ہے اور دلوں میں کینے پیدا کر لیتے ہیں.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 361 اشتہار التوائے جلسہ 27 دسمبر 1893ء، اشتہار نمبر 117 مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ فرماتے ہیں : میں حیران ہوتا ہوں کہ خدایا یہ کیا حال ہے یہ کونسی جماعت ہے جو میرے ساتھ ہے نفسانی لالچوں پر کیوں ان کے دل گرے جاتے ہیں اور کیوں ایک بھائی دوسرے بھائی کوستا تا اور اُس سے بلندی چاہتا ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہوسکتا جبتک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہر اوئے“.آپ نے فرمایا: ” جب تک خدا تعالیٰ ہماری جماعت میں اپنے خاص فضل سے کچھ ماڈہ رفق اور نرمی اور ہمدردی اور جفاکشی کا پیدا نہ کرے، تب تک یہ جلسہ قرین مصلحت معلوم نہیں ہوتا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 361-362 اشتہار التوائے جلسہ 27 دسمبر 1893ء اشتہار نمبر 117 مطبوعہ ربوہ ) پس دیکھیں افراد جماعت کے آپس کے پیار محبت اور ہمدردی اور ایک دوسرے کی خاطر قربانی کے جذبات اور احساسات نہ ہونے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کس قدر دکھ ، رنج اور تکلیف کا اظہار فرمارہے ہیں اور سزا کے طور پر جلسہ بھی ملتوی فرما دیا.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ انتظامات کی کمی اور وسائل کی کمی کی وجہ سے جلسہ نہ کروایا، حالانکہ اس کے پیچھے ہمدردی کی کمی اور بعض لوگوں کی طرف سے اپنے بھائیوں کے لئے تکبر کا وہ اظہار ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو شدید تکلیف میں مبتلا کر دیا.مجھے یاد ہے کہ چند سال پہلے میں نے یہاں جرمنی میں ایک ہنگامی شوریٰ بلا ئی تھی تو وہاں جب جلسے کے معاملات پیش ہوئے تو ایک صاحب نے جو بات کی اُس سے مجھے تاثر ملا کہ شاید ان کے خیال میں یا اور لوگوں کے خیال میں بھی ایک سال جلسہ کا التواء یا نہ ہونا وسائل کی کمی کی وجہ سے تھا حالانکہ یہ وسائل کی
خطبات مسرور جلد دہم 340 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جون 2012ء کمی ایک ضمنی چیز تھی ، اصل چیز وہ دُکھ تھا جو ایک دوسرے کے لئے ہمدردی کا جذبہ نہ رکھنے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پہنچا تھا.پس ہمیشہ یادرکھیں کہ ایک دوسرے کے لئے ہمدردی کے جذبات نہ رکھنا، ایک دوسرے کی عزت اور احترام نہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے.ہر احمدی کو جب وہ دوسرے کے حقوق ادا نہیں کر رہا ہوتا یا کسی سے ہمدردی کے جذبات نہیں رکھتا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس فقرے کو سامنے رکھنا چاہئے کہ میں حیران ہوتا ہوں کہ خدایا یہ کیا حال ہے؟ یہ کونسی جماعت ہے جو میرے ساتھ ہے؟ جیسا کہ میں نے کہا تھا اس جلسے کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنا نہیں بلکہ حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے بھی پاک تبدیلی پیدا کرنا ہے اور یہ ضروری ہے.آپ نے بڑے دُکھ سے فرمایا کہ : ”نماز پڑھتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ نماز کیا شئے ہے؟ جب تک دل فروتنی کا سجدہ نہ کرے، صرف ظاہری سجدوں پر امید رکھنا طمع خام ہے“.(فضول خواہش ہے، بات ہے).( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 364 اشتہار التوائے جلسہ 27 دسمبر 1893ء، اشتہار نمبر 117 مطبوعہ ربوہ ) پس نہ کسی کو اپنی نمازوں پر خوش ہونا چاہئے.نہ کسی کو اپنی جماعتی خدمات پر خوش ہونا چاہئے.نہ کسی کو کوئی خاص عہدہ ملنے پر خوش ہونا چاہئے.نہ کسی کو کسی مالی قربانی پر خوش ہونا چاہئے جب تک کہ عاجزی، انکساری اور اپنے بھائیوں سے ہمدردی اُس میں نہ ہو.اور جب حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کے جذبات ایک انسان میں موجزن ہوتے ہیں تو پھر وہ حقیقی تقویٰ پر قدم مار رہا ہوتا ہے اور حقیقی تقویٰ پر چلنے والا پھر کسی نیکی پر خوش نہیں ہوتا.اُس میں فخر نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کا خوف اور اُس کی خشیت اُس میں بڑھتی چلی جاتی ہے.ہر نیکی کرنے کے بعد یہ فکر دامنگیر رہتی ہے کہ پتہ نہیں یہ نیکی خدا تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ بھی پاتی ہے کہ نہیں.پس حقیقی نیکیاں تقویٰ پیدا کرتی ہیں اور تقویٰ انسان میں عاجزی اور انکساری پیدا کرتا ہے.اور یہی چیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس زمانے میں ہم میں پیدا کرنے آئے ہیں.دوسروں کے لئے ہمدردی کے جذبات رکھنے کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگالیں کہ شرائط بیعت جو ایک احمدی کے حقیقی احمدی مسلمان کہلانے کے لئے بنیادی چیز ہے، اس کی چوتھی شرط میں آپ فرماتے ہیں کہ : یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف
خطبات مسرور جلد دہم 341 نہیں دے گا، نہ زبان سے ، نہ ہاتھ سے ، نہ کسی اور طرح سے.“ خطبه جمعه فرموده مورخہ یکم جون 2012ء ( مجموعہ اشتہارات جلد اول 159 اشتہار تکمیل تبلیغ، اشتہارنمبر 51 مطبوعہ ربوہ ) پس ایک احمدی مسلمان سے نہ صرف احمدی مسلمان بلکہ ہر مسلمان ، ہر قسم کی ناجائز تکلیف سے محفوظ ہونا چاہئے اور نہ صرف مسلمان بلکہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق کا محفوظ رہنا ضروری ہے.بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتے.اپنے کام سے کام رکھتے ہیں.تکلیف پہنچانے کی برائی سے وہ پاک ہوتے ہیں تو کوئی یہ نہ سمجھے کہ پھر اُس نے بھی نیکی کے اعلیٰ معیار کو پالیا.مومن کا تو ہر قدم آگے سے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور بڑھنا چاہئے ، ورنہ تقویٰ اور ایمان میں ترقی نہیں ہو سکتی.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شرائط بیعت کی نویں شرط میں فرمایا کہ: یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض اللہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چلتا ہے، اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 160 اشتہار تحمیل تبلیغ اشتہارنمبر 51 مطبوعہ ربوہ) پس حقیقی نیکی اُس وقت ہوگی جب اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہوگی اور اس رضا کے حصول کے لئے اپنی تمام تر طاقتوں اور استعدادوں کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی میں ایک شخص استعمال کرتا ہے.اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے سب سے بڑھ کر انسان ہے جو اشرف المخلوقات ہے.پس حقیقی انسان اُس وقت بنتا ہے جب حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہو.دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی طرف تو جہ دے.میں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ غیروں کو، غیر مسلموں کو جو انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو میں اُن کے سامنے اسلام کی یہ خوبی رکھتا ہوں کہ تمہارا جود نیاوی نظام ہے، بعض حقوق کا تعین کر کے یہ کہتا ہے کہ یہ ہمارے حقوق ہیں اور یہ ہمیں دوور نہ طاقت کا استعمال ہوگا.جبکہ اسلام کہتا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہو تو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرو.اور اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اُن حقوق کو بیان فرما دیا جو ایک انسان کو دوسرے انسان کے ادا کرنے چاہئیں.پس یہ فرق ہے دنیاوی نظاموں میں اور خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام میں.دنیاوی نظام اکثر اوقات حقوق حاصل کرنے کی باتیں کرتا ہے.اس کے لئے بعض اوقات ناجائز طریق بھی استعمال کئے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ مومنوں کو کہتا ہے کہ اگر حقیقی مومن ہو، اگر میری رضا کے طلبگار ہو تو نہ صرف یہ کہ کسی مطالبے پر حقوق ادا کرو بلکہ حقوق کی ادائیگی پر نظر رکھ کر حقوق ادا کرو.اور انصاف سے کام لیتے ہوئے یہ حقوق ادا کرو.انسانی ہمدردی کے جذبے سے یہ حقوق ادا کرو.
خطبات مسرور جلد دہم 342 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جون 2012ء اب دیکھیں اگر یہ جذبہ ہمدردی ہر احمدی میں پیدا ہو جائے اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے وہ حقوق ادا کرنے کی کوشش کرے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ جماعت میں جھگڑوں اور مسائل کا سامنا ہو.نظامِ جماعت کے سامنے مسائل پیدا کئے جائیں.خلیفہ وقت کا بہت سا وقت جو ایسے مسائل کو نپٹانے، یا مہینہ میں کم از کم سینکڑوں خطوط اس نوعیت کے پڑھنے اور اُن کا جواب دینے یا اُنہیں متعلقہ شعبے کو مارک کرنے میں خرچ ہوتا ہے وہ کسی اور تعمیری کام میں خرچ ہو جائے جو جماعت کے لئے مفید بھی ہو.خلیفہ وقت کے پاس جب ایسے معاملات آتے ہیں تو اُس نے تو ایسے معاملات کو بہر حال دیکھنا ہی ہے.انتظامی بہتری کے لئے بھی دیکھنا ہے.اصلاح کے لئے بھی اور ہمدردی کے جذبے کے تحت بھی کہ کہیں کوئی احمدی خود غرضی میں پڑ کر اپنے حقوق کی فکر کر کے اور دوسرے کے حقوق مار کر ابتلاء میں نہ پڑ جائے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب نہ بن جائے یا کسی ظلم اور زیادتی کا نشانہ کوئی مظلوم نہ بن جائے.بعض مرتبہ ایسے معاملات بھی ہوتے ہیں کہ لوگ فیصلہ کو مانتے نہیں.جماعتی فیصلہ یا خلیفہ وقت کے فیصلہ کو مانتے نہیں ہیں.مشورے کو مانتے نہیں ہیں.سمجھانے پر راضی نہیں ہوتے.ہٹ دھرمی اورضد دکھاتے ہیں.اُن کو پھر سختی سے جواب دینا پڑتا ہے.اور میں بعض اوقات ایسے لوگوں کو جواب دیتا ہوں کہ پھر ٹھیک ہے، اگر تم یہ فیصلہ ماننے کو تیار نہیں تو پھر جماعت بھی تمہارے معاملات سے کوئی تعلق نہیں رکھے گی یا بعض دفعہ بختی بھی کی جاتی ہے اور سزا بھی دی جاتی ہے لیکن جذ بہ ہمدردی ایسے لوگوں کے لئے دعا پر بھی مجبور کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے اور یہ دنیاوی معاملات کی وجہ سے دین کو پس پشت ڈال کر اپنی عاقبت خراب نہ کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ فرمایا ہے کہ ناجائز تکلیف نہیں دے گا اس سے یہی مراد ہے کہ بعض اوقات معاملات میں دوسرے کو تکلیف تو پہنچ سکتی ہے اور وہ جائز ہوتی ہے.جیسا کہ میں نے کہا اس کا ایک تو مطلب یہی ہے کہ جان بوجھ کر اور ارادہ کسی کو تکلیف نہیں پہنچانی اور یہی ایک مومن کی شان ہے کہ کبھی ارادہ کسی کی تکلیف کا باعث نہ بنے اور کبھی بنا بھی نہیں چاہئے.دوسرے یہ کہ بعض اوقات بامر مجبوری بعض ایسے اقدام جو نظام جماعت کو یا خلیفہ وقت کو کرنے پڑتے ہیں جو دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث بنتے ہیں لیکن یہ تکلیف اصلاح کی غرض سے ہوتی ہے.یہ تکلیف اصلاح کی غرض سے دی جاتی ہے اور یہ ناجائز نہیں ہوتی.لیکن اس صورت میں بھی ہمدردی کے جذبہ کے تحت جس کو کسی سزا یا
خطبات مسرور جلد دہم 343 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم جون 2012ء تکلیف سے گزرنا پڑ رہا ہو اُس کے لئے دعا ضرور کرنی چاہئے.اور خلیفہ وقت کو تو سب سے زیادہ ایسے حالات سے گزرنا پڑتا ہے جہاں وہ یہ دیکھتا ہے کہ کہیں مجھ سے کسی کو تکلیف تو نہیں پہنچ رہی، کہیں میں جان بوجھ کر جتنی بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے صلاحیت دی ہے اُس کے مطابق کسی سے بے انصافی کا باعث تو نہیں بن رہا.میرے کسی عمل سے کسی کے گھر کا ناجائز طور پر سکون تو بر باد نہیں ہورہا؟ اور پھر یہی نہیں بلکہ یہ بھی کہ ایسا طریق اختیار کیا جائے کہ اُس سے ہمدردی کا اظہار ہو، اُس کی بہتری کے سامان کئے جائیں ، اس کی اصلاح کی صورت ہو.یہ انصاف اور ہمدردی کے تقاضے ہیں جو خلیفہ وقت نے پورے کرنے ہوتے ہیں اور ظاہری اسباب کو سامنے رکھتے ہوئے خلیفہ وقت کا کام ہے کہ یہ تقاضے پورے کرے.اور پھر جو نظام جماعت ہے، جو عہد یدار ہیں، جو خلیفہ وقت کی طرف سے مقرر کئے جاتے ہیں ، اُن کا کام ہے کہ اس انصاف اور ہمدردی کے جذبے سے اپنے کام سرانجام دیں.جو ایسا نہیں کرتے ، جان بوجھ کر اپنی ذمہ داری کا حق ادا نہیں کرتے ، وہ امانت میں خیانت کرنے والے ہیں اور یقیناً خدا تعالیٰ کے حضور پوچھے جائیں گے.پس عہدیداران کے لئے بھی بڑے خوف کا مقام ہے.جماعت کے عہدے دنیاوی مقاصد کے لئے نہیں ہوتے ، بلکہ اس جذبے کے تحت ہونے چاہئیں کہ ہم نے ایک پوزیشن میں آکر پہلے سے بڑھ کر افراد جماعت کی خدمت کرنی ہے اور اُن سے ہمدردی کرنی ہے اور اُن کی بہتری کی راہیں تلاش کرنی ہیں اور انہیں اپنے ساتھ لے کر چلنا ہے تا کہ جماعت کے مضبوط بندھن قائم ہوں اور جماعت کی ترقی کی رفتار تیز سے تیز تر ہو.پس یہ ہمدردی کا جذبہ ہر عہدیدار میں پیدا ہونا چاہئے.ہر جماعتی کارکن میں پیدا ہونا چاہئے.جب عہدیداران کے اپنے نمونے قائم ہوں گے تو پھر ہی عہدیدار بھی اپنی خدمات کا حق ادا کرنے والے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : "خادم القوم ہونا مخدوم بننے کی نشانی ہے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 362 اشتہار التوائے جلسہ 27 دسمبر 1893ء، اشتہار نمبر 117 مطبوعہ ربوہ ) یعنی قوم کے خادم بنیں گے تو پھر بزرگی اور سرداری اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے گی.اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ملتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ سَيِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُهُمْ (کنز العمال في سنن الاقوال والافعال الجزء السادس صفحه 302 كتاب السفر من قسم الأقوال الفصل الثاني في آداب السفر الوداع حدیث: 17513 مطبوعه دار الكتب العلميه بيروت 2004ء)
خطبات مسرور جلد دہم 344 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جون 2012ء کہ قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے اور ہونا چاہئے.حدیثیں پڑھنے ، سنانے اور سنے کا فائدہ تبھی ہے جب اُن پر عمل کرنے کی بھی پوری کوشش ہو.عہدیداروں کو اپنا کردار بہر حال بہت بلند رکھنا چاہئے.لوگ باتیں بھی کرتے ہیں لیکن ایک عہدیدار کا کام ہے کہ حو صلے سے کام لے اور کبھی ایسے شخص کے لئے بھی اپنے جذبۂ ہمدردی کو نہ مرنے دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” غصہ کو کھا لینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے.( مجموعہ اشتہارات جلد اول 362 اشتہار ” التوائے جلسہ 27 دسمبر 1893ء، اشتہار نمبر 117 مطبوعہ ربوہ) اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی بھی وضاحت ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ پہلوان وہ نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دے.پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے غصہ کو قابو میں رکھے.“ (صحیح بخاری کتاب الادب باب الحذر من الغضب حديث:6114) غصہ قابو میں ہو تبھی انصاف کے تقاضے بھی پورے ہوتے ہیں اور تبھی ہمدردی کے ساتھ فیصلے بھی ہوتے ہیں.پس یہ معیار ہے جو ہمارے عہدیداران کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے.یہ باتیں جو میں کہہ رہا ہوں، صرف جرمنی کے عہدیداران کے لئے نہیں ہیں بلکہ میرے مخاطب تمام دنیا کے جماعتی عہدیداران ہیں.انگلستان کے بھی ، پاکستان کے بھی ، ہندوستان کے بھی اور امریکہ اور کینیڈا کے بھی اور آسٹریلیا اور انڈونیشیا کے بھی اور افریقہ کے بھی.یہ وضاحت میں اس لئے کر رہا ہوں کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جہاں خطبہ دیا جا رہا ہے وہیں کے لوگوں کی ایسی حالت ہے.جبکہ جیسا عام خطبات میں جماعت کا ہر فرد مخاطب ہوتا ہے اسی طرح اگر کسی مخصوص طبقے کے بارے میں بات ہے تو وہ دنیا میں جہاں بھی ہیں وہ سب مخاطب ہیں.کیونکہ اب اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے کے ذریعے سے بھی خلیفہ وقت کو اپنی بات پہنچانے کا ایک آسان ذریعہ مہیا فرما دیا ہے اور یہ سہولت مہیا فرما دی ہے.اس لئے مختلف جگہوں پر مختلف باتیں ہوتی رہتی ہیں اور مخاطب تمام دنیا کی جماعتیں ہوتی ہیں.ہاں یہ یقیناً اُس ملک کی سعادت ہے.اگر میں جرمنی میں مخاطب ہوں تو جرمنی والوں کی سعادت ہے یا اُن لوگوں کی سعادت ہے جو میرے سامنے بیٹھے ہوں اور براہ راست بات سُن رہے ہوں اور وہ اپنے آپ کو سب سے پہلا مخاطب سمجھیں.لیکن ہمیشہ یادرکھیں کہ جو شرائط بیعت میں نے پڑھی ہیں وہ کسی خاص طبقے کے لئے نہیں یا کسی مخصوص قسم کے لوگوں کے لئے نہیں ہیں بلکہ ہر احمدی ان کا مخاطب ہے.ہر وہ شخص مخاطب ہے جو اپنے آپ کو نظامِ
خطبات مسرور جلد دہم 345 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جون 2012ء جماعت سے منسلک سمجھتا ہے.میں نے وضاحت کی خاطر عہدیداروں کے بارے میں بتایا ہے کیونکہ اُن کو جماعت کے سامنے نمونہ ہونا چاہئے.اس لئے ان کو اپنی حالتوں کا دوسروں سے بڑھ کر جائزہ لینے کی ضرورت ہے.پس یہ کوئی محدود حکم یا شرط نہیں ہے بلکہ افراد جماعت کے لئے ، سب کے لئے ضروری ہے.پس ہمیشہ ان شرائط کے الفاظ پر غور کرتے ہوئے اس کا پابند رہنے کی کوشش کریں.اس کے کیا معیار ہونے چاہئیں؟ اس کی میں مزید وضاحت کر دیتا ہوں.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کہ چوتھی شرط میں ایک احمدی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ کبھی بھی کسی کو اپنے ہاتھ سے یا زبان سے تکلیف نہیں دینی.یہ معیار انسان تبھی حاصل کر سکتا ہے جب تقویٰ پر چلنے والا ہو.دل اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت سے پر ہو.ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپس میں حسد نہ کرو.آپس میں نہ جھگڑو.آپس میں بغض نہ رکھو اور ایک دوسرے سے دشمنیاں نہ رکھو.اور تم میں سے کوئی ایک دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرے.اے اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ.مسلمان مسلمان کا بھائی ہے.وہ اُس پر ظلم نہیں کرتا.اُسے ذلیل نہیں کرتا اور اُسے حقیر نہیں جانتا.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ اپنے دل کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ” تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے“.فرمایا کسی آدمی کے شر کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے.ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون ، مال اور عزت حرام ہے.“ (صحيح مسلم كتاب البر والصلة والآداب باب تحريم ظلم المسلم و خذله....حديث : 6541) آج آپ دنیا پر نظر دوڑا کر دیکھ لیں.جو ظلم ہورہے ہیں ، جو حقوق غصب کئے جارہے ہیں، جو مسلمان مسلمان کی گردنیں کاٹ رہے ہیں، جو ظلم و بربریت کے بازار ہمیں ہر طرف گرم ہوتے نظر آتے ہیں ، اُن کی بنیاد یہی حسد ہے اور تقویٰ میں کمی ہے.ہم خوش نصیب ہیں کہ ہم نے اس زمانے کے امام کو مانا ہے اور انتہا پسندی سے بچے ہوئے ہیں.لیکن چھوٹے پیمانے پر ہمارے گھروں میں بھی ، ہمارے ماحول میں بھی یہ بیماریاں موجود ہیں جن کا حدیث میں ذکر کیا گیا ہے.اگر ہم میں سے ہر ایک حقیقت پسندی سے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے جائزے لے تو خود سے نظر آ جائے گا کہ میں آپ کو یہ غلط باتیں نہیں کہہ رہا.بھائیوں بھائیوں میں حسد کی بنیاد پر رنجشیں ہیں.افراد جماعت میں حسد کی بنیاد پر رنجشیں ہیں.عورتوں میں حسد کی بنیاد پر رنجشیں ہیں.اس بات پر حسد شروع ہو جاتی ہے کہ فلاں کو فلاں خدمت
خطبات مسرور جلد دہم 346 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جون 2012ء کیوں سپر د ہو گئی ہے؟ میرے سپرد کیوں نہیں ہوئی ؟ اگر ہم میں سے ہر ایک کو اس بات پر یقین ہے کہ جماعت احمد یہ ایک الہی جماعت ہے اور یقیناً ہے تو پھر بجائے عہدہ کی خواہش رکھنے کے استغفار کی طرف توجہ دینی چاہئے کہ اگر کسی وقت بھی میرے سپرد یہ خدمت ہوئی تو میں اس کو احسن رنگ میں سرانجام دے سکوں.عہدہ کی خواہش رکھنے والے کے بارے میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایسے شخص کو پھر عہدہ ہی نہ دو.اور پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ امانتوں کی حفاظت کرو تم اس بارے میں پوچھے جاؤ گے.عہدے اور جماعتی خدمت بھی امانتیں ہیں.اگر انسان کے دل میں تقویٰ ہو تو وہ ہر وقت خوفزدہ رہے کہ جو خدمت میرے سپر د ہے اُس کا حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے میری جواب طلبی ہوگی اور کسی بندے کے سامنے جواب طبلی نہیں ہوگی جس کو باتوں میں چرا کر دھوکہ دیا جا سکتا ہو بلکہ اُس عالم الغیب، علیم وخبیر خدا کے سامنے جواب دہی ہوگی جس سے کوئی بات چھپی ہوئی نہیں ، جسے دھو کہ نہیں دیا جاسکتا.پس اگر یہ بات سب عہدیدار بھی سامنے رکھیں اور عہدوں کی خواہش رکھنے والے بھی سامنے رکھیں تو نفسانی خواہشات کے بجائے تقویٰ کی طرف قدم آگے بڑھیں گے.پھر یہ تقویٰ کی کمی ہے جو معمولی باتوں پر رنجشوں کو بڑھاتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ یہ منصوبہ بندی ہو رہی ہوتی ہے کہ فلاں کو دُکھ کس طرح پہنچایا جائے.فلاں کو نظام جماعت اور خلیفہ وقت کے سامنے کس طرح گھٹیا اور ذلیل ثابت کیا جائے یا کم تر ثابت کیا جائے یا اُس کی کوئی کمزوری اُس کے سامنے لائی جائے.یہاں تک کہ مجالس میں اُس کے بیوی بچوں کو کس طرح ذلیل کرنے کی کوشش کی جائے.پورا خاندان بعض دفعہ اس میں involve ہو جاتا ہے.پس کجا تو اس شرط پر بیعت ہو رہی ہے کہ نہ صرف یہ کہ کسی کو تکلیف نہیں پہنچاؤں گا بلکہ ہمدردی کے راستے تلاش کروں گا.فائدہ پہنچانے کی ترکیبیں سوچوں گا اور کجا یہ عمل ہے.پس جیسا کہ میں نے کہا، اس معیار کو حاصل کرنے کے لئے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.ان دنوں میں اپنے یہ جائزے لیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ دن اس راہ کے لئے مہیا فرمائے ہیں.میں یہ سب باتیں کسی مفروضے پر بنیاد کر کے نہیں کہ رہا بلکہ حقیقت میں ایسے معاملے سامنے آتے ہیں جو میرے لئے پریشانی کا موجب ہوتے ہیں ، شدید شرمندگی کا باعث بنتے ہیں کہ میں تو دنیا کو یہ بتاتا ہوں کہ جماعت احمد یہ وہ جماعت ہے جو حقوق کی ادائیگی کی راہیں تلاش کرتی ہے.اُس مسیح موعود کو ماننے والی ہے جو تقویٰ کی باریک راہوں پر چلانے
خطبات مسرور جلد دہم 347 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم جون 2012ء کے لئے اس زمانے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوا اور ہمارے بعض افراد کی کیا حالت ہے.اُن کو دیکھ کر غیر کیا کہیں گے کہ تمہارے دعوے کیا ہیں اور تمہارے لوگوں کے عمل کیا ہیں؟ پس اگر ہم نے دنیا میں انقلاب کا ذریعہ بنا ہے تو پھرا اپنی زندگیوں میں بھی ، اپنی حالتوں میں بھی وہ انقلابی کیفیت طاری کرنی ہوگی جس کی زمانے کے امام نے اسلام کی خوبصورت تعلیم کی روشنی میں ہم سے توقع کی ہے.پھر اس حدیث میں ایک نصیحت ( باقیوں کو میں چھوڑتا ہوں ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ فرمائی ہے کہ ایک دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرو اس کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ سودے کو خراب کرنے کے لئے ، اپنے دلی بغض اور کینے کا اظہار کرنے کے لئے سودا بگاڑنے کی کوشش نہ کرو.اپنے بہتر وسائل اور ذرائع کی وجہ سے سودا خراب کرنے کی نیت سے کسی چیز کی زیادہ قیمت نہ لگالو.بلکہ اس ارشاد میں بڑی وسعت ہے.بعض دفعہ دیکھنے میں آتا ہے کہ مثلاً کسی نے ایک جگہ رشتہ کیا ہے.وہ بات چل رہی ہوتی ہے تو اُس پر اور رشتہ لے کر دوسرا فریق پہنچ جاتا ہے.ایک تو اگر علم میں ہو تو رشتے پر رشتہ کسی احمدی کو نہیں بھیجنا چاہئے ، نہ لڑکی والے کو لے جانا چاہئے ، نہ لڑکے والوں کو.دوسرے جس لڑکی اور لڑکے کے رشتے کی بات چل رہی ہے انہیں بھی اور اُن کے گھر والوں کو بھی پہلے آئے ہوئے رشتے کے بارے میں دعا کر کے فیصلہ کرنا چاہئے اور بعد میں آنے والے رشتے کو سوچنا بھی نہیں چاہئے ، سوائے اس کے کہ دعاؤں کے بعد پہلے رشتے کی دل میں تسلی نہ ہو.پھر بعض دفعہ یہ صورتحال بھی بنتی ہے کہ ایک لڑکی کا رشتہ کسی لڑکے سے آیا ہے اور لڑکے یا اُس لڑکی کے گھر والوں سے کسی تیسرے شخص کو رنجش ہے تو لڑکی کے گھر والوں کے پاس پہنچ جاتے ہیں کہ اُس میں فلاں فلاں نقص ہے اور اس سے بہتر رشتہ میں تمہیں بتا دیتا ہوں ، اس کا انکار کر دو.اور وہ بہتر رشتہ کبھی پھر بتایا ہی نہیں جاتا.اور یوں حسد، کینے بغض اور تقویٰ میں کمی کی وجہ سے دو گھروں کو برباد کیا جاتا ہے.پھر بعض دفعہ لڑکی والوں اور لڑکی کو بدنام کرنے کے لئے اس طرح کے حربے استعمال کئے جاتے ہیں اور بیچاری لڑکیوں کو بدنامی کے داغ لگائے جاتے ہیں اور یہ سب حسد کا نتیجہ ہے.گویا ایک گناہ کے بعد دوسرا گناہ پیدا ہوتا چلا جاتا ہے.لڑکیوں پر الزام تراشی کی جاتی ہے.پس اللہ تعالیٰ کے رسول کے اس حکم پر عمل کریں کہ اپنے دلوں کو تقویٰ سے پر کرو.ہر معاملے میں تقویٰ کا اظہار اور استعمال کرو اور تقویٰ کا معیار تمہارے لئے وہ اسوہ حسنہ ہے جس کے بارے میں قرآنِ کریم میں خدا تعالیٰ نے تمہیں بتادیا ہے کہ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب: 22).
خطبات مسرور جلد دہم 348 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جون 2012ء یقینا تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے رسول میں اسوہ حسنہ ہے.آپ نے صرف مومن کی یہی تعریف نہیں کی کہ اُس کے شر سے مسلمان محفوظ رہے بلکہ فرمایا مومن وہ ہے جس سے دوسرے تمام انسان امن میں رہیں.اور آپ وہ ہستی تھے جو ہمدردی خلق میں بھی اپنے نمونے کے لحاظ سے انتہا کو پہنچے ہوئے تھے.شفقت اور رافت میں بھی آپ انتہا کو پہنچے ہوئے تھے.اور کوئی خلق ایسانہ تھا جس کی انتہائی حدود کو بھی آپ نے نہ پا لیا ہو.پس آج جب ہم اپنے آپ میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں تو ان نمونوں کی جگالی کرنے کی ضرورت ہے.اُن نصائح کو سننے کی ضرورت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک نمونے اور آپ کے حوالے سے ہم تک پہنچیں.آپ نے فرمایا.دین خیر خواہی کا نام ہے.جب عرض کیا گیا کس کی خیر خواہی؟ تو آپ نے فرمایا اللہ ، اُس کی کتاب، اُس کے رسول ، مسلمان ائمہ اور ان کے عوام الناس کی خیر خواہی.“ (صحیح مسلم كتاب الايمان باب بيان أن الدين النصيحة حديث: 196) پس ایک حقیقی مومن کے لئے کوئی راہ فرار نہیں ہے.عوام الناس کی خیر خواہی کے مقام کو بھی اُس مقام تک پہنچا دیا جس کی ادائیگی کے بغیر نہ خدا تعالیٰ کا حق ادا ہوسکتا ہے، نہ اُس کی کتاب کا حق ادا ہوسکتا ہے، نہ اُس کے رسول کا حق ادا ہو سکتا ہے.اس بات کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی بیان فرمایا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ حقیقی تقویٰ صرف ایک قسم کی نیکی سے حاصل نہیں ہوتا جب تک کہ تمام قسم کی نیکیوں کو بجالانے کی کوشش نہ ہو.(ماخوذ از ملفوظات جلد 2 صفحہ 680 ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) پھر دیکھیں ہمارے آقا و مطاع صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کے حصول کے لئے عاجزی کی انتہائی حدوں کو پہنچی ہوئی دعا.وہ نبی جو ہر وقت اپنی جان کو دشمنوں کے لئے بھی ہمدردی کے جذبے کے تحت ہلکان کر رہا تھا، جس کا رواں رواں اپنوں کے لئے سراپا رحمت و شفقت تھا ، اپنے رب کے حضور عاجزی اور بیقراری سے یہ دعا کرتا ہے کہ اے میرے اللہ ! میں بُرے اخلاق اور برے اعمال سے اور بری خواہشات سے تیری پناہ چاہتا ہوں.(سنن الترمذی ابواب الدعوات.باب دعاء امّ سلمة حديث: 3591) پس یہ وہ تقویٰ ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل کی طرف اشارہ کر کے فرما یا تھا کہ وہ یہاں ہے اور یہ وہ کامل اسوہ ہے جس کی پیروی کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم فرمایا ہے.پس ہمیں کس قدر اس دعا کی ضرورت ہے.کس قدر اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.کس قدر ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر شرمندہ ہونے کی ضرورت ہے.پھر آپ فرماتے ہیں ”جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی بے چینی اور تکلیف کو دور کیا اللہ تعالیٰ
خطبات مسرور جلد دہم 349 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جون 2012ء قیامت کے دن اُس کی بے چینی اور تکلیفوں کو اُس سے دور کر دے گا اور جس نے کسی تنگدست کو آرام پہنچایا اور اُس کے لئے آسانی مہیا کی ، اللہ تعالیٰ آخرت میں اُس کے لئے آسانیاں مہیا کرے گا.جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی ، اللہ تعالیٰ آخرت میں اُس کی پردہ پوشی کرے گا.اللہ تعالیٰ اُس بندے کی مدد کے لئے تیار رہتا ہے جو اپنے بھائی کی مدد کے لئے تیار ہو.“ 66 (مسلم كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن وعلى الذكر حديث:6853) پس کون ہے جو یہ دعوی کرے کہ میں قیامت کے دن تمام قسم کی بے چینیوں سے پاک رہوں گا.کون ہے جو اپنے عمل پر نازاں ہو کہ میں نے بہت نیک اعمال کو کمالیا ہے، بہت نیک عمل کر لئے ہیں.پس یہ دنیا تو بڑے خوف کا مقام ہے.ہر دم، ہر لمحہ اس فکر میں ایک مومن کو رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے رستے پر چلتے ہوئے نیکیوں کی توفیق پاؤں.پتہ نہیں کونسی چیز مجھے خدا تعالیٰ کے قریب کر دے.میری بخشش کا سامان کر دے.کتنا پیارا ہمارا خدا ہے اور کتنا پیارا ہمارا رسول ہے جس نے ہر عمل کے بارے میں کھول کر بتا دیا.کسی عمل کو بھی کم اہمیت نہیں دی.پس کتنے خوش قسمت ہیں وہ جو اپنے خدا کو راضی کرنے اور اپنی عاقبت کو سنوارنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں.اس کوشش میں لگے رہتے ہیں تا کہ خدا تعالیٰ اُن کی بے چینیوں کو دور فرمائے ، تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دوسرے سے ہمدردی اور شفقت کے بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں.” نوع انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے یہ ایک زبر دست ذریعہ ہے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس پہلو میں بڑی کمزوری ظاہر کی جاتی ہے.دوسروں کو حقیر سمجھا جاتا ہے.ان پر ٹھٹھے کیے جاتے ہیں.ان کی خبر گیری کرنا اور کسی مصیبت اور مشکل میں مدد دینا تو بڑی بات ہے.“ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 438-439.ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) ( یہ تو بہت بڑی بات ہے کہ خبر گیری کی جائے ، اُن کا تو مذاق اُڑایا جاتا ہے، ٹھٹھے کئے جاتے ہیں.) پھر آپ فرماتے ہیں: "پس مخلوق کی ہمدردی ایک ایسی شئے ہے کہ اگر انسان اُسے چھوڑ دے اور اس سے دور ہوتا جاوے تو رفتہ رفتہ پھر وہ درندہ ہو جاتا ہے.انسان کی انسانیت کا یہی تقاضا ہے اور وہ اسی وقت تک انسان ہے جبتک اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ مروت ،سلوک اور احسان سے کام لیتا ہے اور اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 216-217.ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد دہم 350 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جون 2012ء پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دوسرے مذاہب کے مقابلے میں اسلام کی خوبی بیان کرتے ہوئے ،مسلمانوں کی خوبی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : قرآن شریف نے جس قدر والدین اور اولا داور دیگرا قارب اور مساکین کے حقوق بیان کئے ہیں میں نہیں خیال کرتا کہ وہ حقوق کسی اور کتاب میں لکھے گئے ہوں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتى وَالْمَسْكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجُنُبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُختَالًا فَخُورًا (النساء: 37) تم خدا کی پرستش کرو اور اُس کے ساتھ کسی کو مت شریک ٹھہراؤ، اور اپنے ماں باپ سے احسان کرو اور اُن سے بھی احسان کرو جو تمہارے قرابتی ہیں.(اس فقرہ میں اولاد اور بھائی اور قریب اور دور کے تمام رشتے دار آ گئے ) اور پھر فرمایا کہ یتیموں کے ساتھ بھی احسان کرو اور مسکینوں کے ساتھ بھی اور جو ایسے ہمسایہ ہوں جو قرابت والے بھی ہوں اور ایسے ہمسایہ ہوں جو محض اجنبی ہوں اور ایسے رفیق بھی جو کسی کام میں شریک ہوں یا کسی سفر میں شریک ہوں یا نماز میں شریک ہوں یا علم دین حاصل کرنے میں شریک ہوں اور وہ لوگ جو مسافر ہیں اور وہ تمام جاندار جو تمہارے قبضہ میں ہیں سب کے ساتھ احسان کرو.خدا ایسے شخص کو دوست نہیں رکھتا جو تکبر کرنے والا اور شیخی مارنے والا ہو، جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا.“ چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 208-209) پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں: اُس کے بندوں پر رحم کرو اور اُن پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو.اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو.اور کسی پر تکبر نہ کرو گو وہ اپنا ماتحت ہو.اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو.غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ......بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو، نہ اُن کی تحقیر.اور عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرو، نہ خود نمائی سے اُن کی تذلیل.اور امیر ہوکر غریبوں کی خدمت کرو، نہ خود پسندی سے اُن پر تکبر.ہلاکت کی راہوں سے ڈرو.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 11-12) پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنی جماعت کے افراد کے لئے تعلیم اور دلی کیفیت کا اظہار ہے تا کہ نہ صرف یہ کہ دنیا کے سامنے ایک پاک نمونہ قائم کرنے والے ہوں بلکہ ہم اللہ تعالیٰ کا رحم حاصل کرنے والے بھی بن جائیں.ایک حدیث میں آتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رحم
خطبات مسرور جلد دہم 351 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جون 2012ء کرنے والوں پر رحمان خدا رحم کرے گا.تم اہلِ زمین پر رحم کرو.آسمان والا تم پر رحم کرے گا.(سنن الترمذى كتاب البر والصلة باب ماجاء فى رحمة المسلمین حدیث_ :1924) پس جب ہم اللہ تعالیٰ کا رحم ما نگتے ہیں، اُس سے اُس کی رحمت کے تمام چیزوں پر حاوی ہونے کا واسطہ دے کر اُس سے دعا مانگتے ہیں تو پھر ہمیں اپنی ہمدردی خلق کے جذبے کو بھی پہلے سے بڑھ کر دکھانا ہو گا، اُس میں بھی وسعت دینی ہوگی.پس ان دنوں میں جہاں احمدی اپنی عبادتوں اور ذکر الہی کے ذریعے سے خدا تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرنے کی کوشش کرے، وہاں ہمدردی خلق اور رنجشوں کو دور کرنے اور اخلاق کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے.خالصہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دینی چاہئے اور یہ اُس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک دلوں کی کدورتیں اور نجشیں دور نہ ہوں.اصل ہمدردی خلق کا جذبہ تو وہیں ظاہر ہوتا ہے جہاں ہر ایک سے بلا امتیاز اور بلاتخصیص ہمدردی کا جذبہ ہو اور یہی ہمدردی کا جذبہ پھر ایک دوسرے کے لئے دعاؤں کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے.اور پھر آپس کی دعاؤں سے تقویٰ کا قیام عمل میں آتا ہے.دلوں اور روحوں کی پاکیزگی کے سامان ہوتے ہیں اور حقوق العباد کی ادائیگی کے نئے معیار قائم ہوتے ہیں.پس جس بات پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم سے عہد بیعت لیا ہے، یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے.یہ ہماری حالتوں میں انقلاب لانے کے لئے بھی بہت ضروری ہے.اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بھی ضروری ہے اور معاشرے میں اسلام کی خوبصورت تعلیم پھیلانے اور انقلاب لانے کے لئے بھی ضروری ہے.پس ان دنوں میں اس جذبے کو بڑھانے اور بڑھاتے چلے جانے کی کوشش کریں.اور دعائیں بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی تو فیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ سب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کا وارث بنائے.ہم میں سے ہر ایک جلسہ کی برکات کو سمیٹنے والا ہو.ہماری نسلیں بھی احمدیت کے ساتھ مضبوطی سے جڑی رہیں اور ایک روحانی انقلاب اپنی حالتوں میں پیدا کرنے والی ہوں.اللہ تعالیٰ ان دنوں میں اور آئندہ بھی ہمیشہ جماعت کو، جماعت کے افراد کو دشمنوں کے ہر شر سے محفوظ رکھے.ہمدردی کے جذبے کے تحت یہ بھی دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ اُس تباہی سے دنیا کو بچالے جس کی طرف یہ بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے.مسلم امہ کے اور مسلمان حکومتوں کے لئے بھی دعائیں کریں یہ بھی آجکل بڑے ابتلا میں آئی ہوئی ہیں اور اپنے جائزے لینے کی کوشش نہیں کرتیں کہ کس وجہ سے یہ ابتلا میں
خطبات مسرور جلد دہم 352 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم جون 2012ء آئی ہوئی ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائے.اسی طرح ایک دو اور باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ نمازوں کی طرف بھی خاص تو جدان دنوں میں رکھیں.صبح فجر کی نماز میں میں نے دیکھا تھا لوگ یہاں ہال میں سوئے ہوئے تھے اور نماز بھی ہو گئی تو سوئے رہے تھے.حالانکہ تہجد بھی یہاں پڑھی گئی تھی ، پھر نماز بھی پڑھی گئی لیکن اُن میں سے بعض جوان بھی تھے ،ہوئے ہوئے تھے.اگر کوئی بیمار بھی ہے تو نماز پڑھنا تو بہر حال ضروری ہے.اُٹھ کے نماز پڑھیں اور پھر سوئیں.لیکن یہ نمونہ آئندہ یہاں ہال میں قائم نہیں ہونا چاہئے.انتظامیہ کو بھی یہ دیکھنا چاہئے.شعبہ تربیت جو ہے اُن کو ہر ایک کو جگانا چاہئے.اسی طرح میں نے کل کارکنان کو کہا تھا، سب کو کہتا ہوں کہ سیکیو رٹی پر نظر رکھنا.یہ نہ سمجھیں کہ ہم ایک ہال میں بند ہیں تو بڑے اچھے سیکیورٹی کے انتظامات ہیں.بیشک ہیں لیکن تب بھی ہر ایک کو اپنے ماحول پر دائیں بائیں نظر رکھنی چاہئے.کسی قسم کی شرارت سے اللہ تعالیٰ ہر ایک کو محفوظ رکھے.دوسرے اب جمعہ کے بعد، نمازوں کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکر مہ سیدۃ امتہ اللہ بیگم صاحبہ کا ہے جو حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی بیٹی تھیں، جن کی کل بانوے سال کی عمر میں وفات ہوئی ہے.إِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ حضرت سیدۃ چھوٹی آپا ام متین صاحبہ سے چھوٹی تھیں.دوسرے نمبر پر تھیں اور میٹرک کی تعلیم کے بعد دینیات کلاس پاس کی.یہ مکرم پیر صلاح الدین صاحب مرحوم کی اہلیہ تھیں جو حکومت نے ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر رہے یا بہر حال بڑے سرکاری عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے تھے.1943ء سے لے کر 44 ء تک ملتان کی لجنہ کی صدر کے طور پر خدمات کی توفیق ملی.پارٹیشن کے فوراً بعد راولپنڈی میں سیکرٹری مال اور دیگر جماعتی عہدوں پر فائز رہیں.1971ء میں آپ کو اپنے خاوند کے ساتھ حج کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی.اور ان کی یہ خوبی جوتھی جو ہر ایک نے ان کے بارے میں لکھی ہے، وہ یہ تھی کہ گوانہوں نے بعض حادثات بھی دیکھے.ایک جوان بیٹے کی موت بھی ہوئی.خاوند کی موت کے بعد جوان بیٹے کے ساتھ رہتی تھیں کہ اچانک اُس کی وفات ہوگئی.لیکن ہمیشہ صبر سے کام لیا.انہوں نے کبھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا.بہت دعا گو اور عبادت گزار تھیں.بچوں کو اکثر یہ نصیحت کرتی تھیں کہ عبادت کی طرف توجہ کرو اور نماز کو نہ چھوڑو.صدقہ خیرات بہت کرتی تھیں.بعض خواتین کے باقاعدہ وظیفے لگائے ہوئے تھے.اسی طرح مطالعہ کا بھی بڑا شوق تھا.صلہ رحمی اور رشتہ داروں سے حسنِ سلوک میں بے مثال تھیں.اپنے خاندان کے ساتھ ، سسرال کے ساتھ جن میں سے بہت سے
خطبات مسرور جلد دہم 353 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم جون 2012ء غیر احمدی تھے ، بہت عزت سے پیش آتی تھیں.سسرال والے بھی آپ کی نصائح اور باتوں کا بہت احترام کیا کرتے تھے.اسی طرح قرآن کریم پڑھانے کا بہت شوق تھا.جہاں بھی آپ رہی ہیں وہاں قرآنِ کریم بچوں کو پڑھایا کرتی تھیں.قرآن کریم پڑھانے سے قبل پوری تیاری کیا کرتی تھیں.اُس کے نوٹس لیا کرتی تھیں اور اپنے بچوں کو اکثر تکبر سے بچنے کی تلقین کیا کرتی تھیں.جو رشتے دار کم تعلیم یافتہ ہیں ان ا کے بارے میں کہا کرتی تھیں کہ ان کے ساتھ کبھی تکبر سے پیش نہ آؤ.اور فرماتی تھیں کہ بوریا نشینوں کے ساتھ بوریا نشین ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولا د کو بھی خلافت سے وابستہ رکھے ، جماعت سے وابستہ رکھے اور نیکیوں کی توفیق عطا فرمائے.امیر صاحب کی رپورٹ کے مطابق تو آواز اچھی رہی.لجنہ میں بھی اچھی رہی اور مردوں میں بھی بہت اچھی رہی لیکن پتہ نہیں echo کیوں واپس آ رہی تھی.دوبارہ میرے الفاظ واپس آ رہے تھے.بہر حال اگر اچھی رہی تو الحمد للہ اور اگر بہتری کی ضرورت ہے تو مزید بہتری کریں.“ الفضل انٹرنیشنل مورخہ 22 جون تا 28 جون 2012 جلد 19 شماره 25 صفحه 5 تا9)
خطبات مسرور جلد دہم 354 23 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 8 جون 2012ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفة اسم الخامس ایدہ الہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 8 جون 2012 ء بمطابق 8 احسان 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح.مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ خدا تعالیٰ کے آپ کی جماعت کی ترقی کے جو وعدے ہیں وہ ہر احمدی بلکہ مخالفین احمدیت بھی پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے کسی بھی ملک میں چلے جائیں وہاں احمد ی نظر آتے ہیں.چاہے چند ایک ہی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ”اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کے لئے وعدہ فرمایا ہے وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ “ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 454 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) اس حصہ آیت کا آپ کا اور الہام بھی تھا.آپ نے اس کی وضاحت براہین احمدیہ میں یوں فرمائی ہے کہ ”اور جولوگ تیری متابعت اختیار کریں ، یعنی حقیقی طور پر اللہ ورسول کے متبعین میں داخل ہو جائیں، اُن کو اُن کے مخالفوں پر کہ جو انکاری ہیں قیامت تک غلبہ بخشوں گا.یعنی وہ لوگ حجت اور دلیل کے رو سے اپنے مخالفوں پر غالب رہیں گے.“ براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 620-621 بقیه حاشیه در حاشیہ نمبر 3) یہ پہلا حصہ جو میں نے پڑھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کے لئے وعدہ فرمایا ہے یہ بیان کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اور خدا کے وعدے بچے ہیں.ابھی تو تخم ریزی ہو رہی ہے“.( یہ ارشاد آپ کا اکتوبر 1902ء کا ہے، جب آپ نے فرمایا کہ ابھی تو تخم ریزی ہو رہی ہے) فرمایا ” ہمارے مخالف کیا چاہتے ہیں؟ اور
خطبات مسرور جلد دہم 355 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 جون 2012ء خدا تعالیٰ کا کیا منشاء ہے.یہ تو اُن کو ابھی معلوم ہو سکتا ہے اگر وہ غور کریں.اللہ تعالیٰ کے منشاء کو معلوم کرنا چاہتے ہیں تو غور کریں تو فوری طور پر ہر ایک کو معلوم ہو سکتا ہے.فرمایا اگر وہ غور کریں کہ وہ اپنے ہر قسم کے وو منصوبوں اور چالوں میں ناکام و نامرادرہتے ہیں.پھر آپ فرماتے ہیں.اگر یہ مخالف نہ ہوتے تو ایسی اعجازی ترقی یہاں بھی نہ ہوتی.یعنی اس ترقی میں اعجازی رنگ نہ رہتا.کیونکہ اعجاز تو مقابلہ اور مخالفت سے ہی چمکتا ہے“.فرمایا ” ایک طرف تو ہمارے مخالفوں کی یہ کوششیں ہیں کہ وہ ہم کو نابود کر دیں.ہمارا سلام تک نہیں لیتے اور غائبانہ ذکر بھی نفرت سے کرتے ہیں.بلکہ اب تو ان نفرتوں کی انتہا ہو چکی ہے.اور دریدہ دہنی اور مغلظات کی کھلے عام یہ تمام حدود پھلانگ چکے ہیں.بہر حال یہ مخالفین کا کام ہے.آپ فرماتے ہیں کہ دوسری طرف اللہ تعالیٰ حیرت انگیز طریق پر اس جماعت کو بڑھا رہا ہے.یہ معجزہ نہیں تو کیا ہے؟ فرمایا’ کیا یہ ہمارا فعل ہے یا ہماری جماعت کا ؟ نہیں یہ خدا تعالیٰ کا ایک فعل ہے جس کی تہ اور سر کو کوئی نہیں جان سکتا “ فرمایا.یہ خدا کا کام ہے اور اُس کی باتیں عجیب ہوتی ہیں“.( ملفوظات جلد دوم صفحہ نمبر 454.ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) پس خدا تعالیٰ کی اس عجیب تائید و نصرت کے نظارے ہم روز دیکھتے ہیں.نہ صرف یہ کہ سعید فطرت لوگ جماعت میں داخل ہو رہے ہیں، روزانہ جماعت کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، جماعت کے نفوس میں بھی برکت پڑ رہی ہے اور اموال میں بھی برکت پڑ رہی ہے.اور یہ چیز مخالفین احمدیت کو حسد کی آگ میں اور زیادہ جلاتی چلی جارہی ہے.ہر روز پاکستان سے یہی خبریں آتی ہیں.نفرتوں اور کینوں اور بغضوں اور حسد نے اس حد تک اندھا کر دیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصاویر کو بگاڑ کر پیش کیا جاتا ہے.گالیاں اُس پر لکھی جاتی ہیں.پاؤں کے نیچے روندا جاتا ہے.ایک بد بخت نے اپنی دکان کے دروازے پر پائیدان پر یہ تصویر رکھ دی کہ جو آئے وہ پاؤں رکھ کر آئے.بہر حال یہ تو ان کے کام ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ انتظامیہ میں سے بھی بعض شریف النفس لوگ ایسے ہیں جن کو کھڑا کر دیتا ہے اور اُن میں سے اس موقع پر بھی ایک شخص نے، انتظامی افسر نے سختی کی اور آپ کی تصویر وہاں سے اُٹھوائی.لیکن ان مخالفین کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے.اللہ تعالیٰ اپنے پیارے کی تائید و نصرت فرماتا ہے اور اُس کی غیرت بھی رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ کی غیرت اپنے پیارے کے ساتھ خبیث فطرتوں کے اس سلوک کا بدلہ لے گی اور ضرور لے گی.یقینا یہ لوگ بھی اور ان کے سردار بھی عبرت کا سامان بنیں گے اور یہ لوگ ایک وقت آئے گا نہ صرف تصویریں بلکہ یہ لوگ خود اس سے بڑھ کر روندھے جائیں گے.احمدی تو صبر اور دعا
خطبات مسرور جلد دہم 356 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 جون 2012ء سے کام لے رہے ہیں اور یہی ہماری تعلیم ہے.جو بھی انہوں نے کرنا ہے، اپنے زعم میں ہمارے دلوں کو چھلنی کرنے کے لئے جو بھی طریقے استعمال کرنے ہیں یہ کر لیں ، ہم تو قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے، نہ لیتے ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے کہا صبر اور دعا سے کام لیتے ہیں.اور لیتے رہیں گے انشاء اللہ تعالیٰ.اور یہی ایک احمدی کی شان ہے.پس اس شان کو دنیا کے ہر احمدی کو اور خاص طور پر پاکستان کے احمدیوں کو نکھارتے چلے جانے کی ضرورت ہے.اپنی دعاؤں میں بہت زیادہ شدت پیدا کریں کہ یہی ہمارے ہتھیار ہیں.اس کے علاوہ کوئی اور ہتھیار ہمارے کام نہیں آسکتا.بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہ بھی کیا جائے وہ بھی کیا جائے.اپنی دعاؤں کی تو پہلے انتہا کریں.بہر حال میں جماعت کی ترقی کے بارے میں بات کر رہا تھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ تائید و نصرت فرماتا ہے اور کس طرح سعید فطرت لوگوں میں ایک انقلاب آ رہا ہے.جن کو اسلام سے ذرا بھی محبت ہے، جن کو دین سے ذرا بھی لگاؤ ہے وہ بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کی رہنمائی فرماتا ہے.لیکن دنیا دار جن کو مذہب سے تو کوئی دلچسپی نہیں ہے، جن میں سے بعض خدا کے وجود پر بھی یقین نہیں کرتے وہ بھی یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ یہ ایسی جماعت ہے جن کے قدم ہر آن ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں.یہ لوگ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ تم جو اسلام کی تعلیم پیش کرتے ہو، ی تعلیم تو لگتا ہے ایک دن دنیا پر غالب آجائے گی.پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ خدا کا فعل ہے اور یہ اُس کا کام ہے کہ عجیب عجیب باتیں ظاہر ہوتی ہیں.افراد جماعت اللہ تعالیٰ کی خاطر جماعت کے کام میں انگلی لگاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہزاروں ہاتھوں کے کام جتنے اُس کے نتائج پیدا فرما دیتا ہے.اور یہی چیز ہے جو دشمن کو حسد کی آگ میں اور زیادہ جلاتی ہے.پس ان لوگوں کو یہ حسد ہمارے سے نہیں، یہ خدا تعالیٰ کے فعل سے ہے جو ایسے نتائج فرماتا ہے جو جماعت کی تائیدات کے لئے واضح اور بین ثبوت ہیں.پس ان دشمنوں کو مخالفین کو بھی میں کہتا ہوں، کہ تمہارا مقابلہ خدا تعالیٰ سے ہے اور خدا تعالیٰ سے کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.اس لئے خوف کرو اور خدا سے ڈرو.پھر خدا تعالیٰ کا مقابلہ کرنے والوں کی خاک کا بھی پتہ نہیں چلتا.ہم تو اس حسد کے نتیجے میں جو دشمنوں کا مخالفین کا ہمارے ساتھ ہے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش ہر آن نازل ہوتی دیکھتے ہیں.اور یہ لوگ جو ہیں مسلمان کہلانے کے باوجود یہ سوچتے نہیں کہ جماعت احمدیہ کے ہر کام کا نتیجہ تو اسلام کی خوبصورت تعلیم کے غیروں پر ظاہر ہونے کی صورت میں نکل رہا
خطبات مسرور جلد دہم 357 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 8 جون 2012ء ہے.پس یہ نام نہاد علماء اسلام سے محبت کرنے والے نہیں.صرف اپنے بندوں سے محبت کرنے والے ہیں اور اپنے مفادات کو چاہنے والے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا کہ غیروں پر بھی ہماری باتوں کا اللہ تعالیٰ نیک اثر ظاہر فرماتا ہے جس کا اظہار یہ لوگ برملا ہمارے پروگراموں میں شامل ہو کر کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب بھی میں مختلف ممالک کے دوروں پر گیا ہوں اور جماعتوں کے دوروں پر جاتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کے ذریعے اسلام کی نئی شان غیروں پر ظاہر ہوتے دیکھتا ہوں.جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ دنوں بھی میں ہالینڈ اور جرمنی کے جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے گیا ہوا تھا، جن میں شامل ہو کر جہاں افراد جماعت سے ملنے اور انہیں کچھ کہنے کا موقع ملا وہاں غیروں کے ساتھ بھی کچھ پروگرام ہوئے، اور ان پروگراموں کا اُن غیروں پر بھی نیک اثر قائم ہوا.پھر وہ غیر جو جلسہ دیکھنے کے لئے اپنے دوستوں کے کہنے سے شامل ہو جاتے ہیں، اُن پر بھی جماعت کی تعلیم اور نظام کا بہت اثر ہوتا ہے.عموماً اپنی روایت کے مطابق سفر کے بعد میں مختصر أسفر کے حالات سناتا ہوں اور جلسوں کے انتظامی معاملات کے بارے میں بھی کچھ کہتا ہوں.سو آج پہلے میں اپنی بات غیروں کے پروگرام سے شروع کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی جو بارش ہے، یہ اُس کی چند جھلکیاں ہیں جن کو میں نے اس سفر میں دیکھا.جیسا کہ میں نے بتایا کہ ہالینڈ کے جلسے میں بھی شمولیت کی.کافی سالوں کے بعد ان کے جلسے میں میں نے شمولیت کی ہے.یہاں سے روانہ ہونے سے پہلے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے امیر صاحب ہالینڈ کا ، اُن کے جلسے میں شمولیت کے لئے خط آیا تھا کہ آپ آرہے ہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ وہاں کے مقامی ڈچ لوگوں کے ساتھ بھی ایک تقریب ہو جائے.پہلے تو میں نے انکار کر دیا.اس کی ضرورت نہیں.کیونکہ مجھے خیال تھا کہ جماعت کے افراد کے پڑھے لکھے اور سنجیدہ طبقے سے اتنے زیادہ رابطے نہیں ہیں.پھر چند دن کے بعد مجھے خود ہی خیال آیا کہ یہ علاقہ جہاں ہمارا سینٹر ہے اور جہاں جلسہ منعقد ہونا ہے، یہ اُس دشمن اسلام کے علاقے میں ہے جو آئے دن اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بیہودہ گوئی کرتا رہتا ہے.اور یہ بڑا اچھا موقع ہے اگر اس علاقے میں سے کچھ سیاستدان اور پڑھے لکھے لوگ، اخباری نمائندے ہمارے فنکشن میں شامل ہو جا ئیں.میرا خیال تھا کہ جماعت چھوٹی سی ہے اس لحاظ سے پندرہ ہیں لوگوں کو تو یہ شامل کر ہی لیں گے.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے سوا سو سے زیادہ لوگ اس میں شامل
358 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 8 جون 2012ء وہ خطبات مسرور جلد دہم ہوئے جن میں علاقے کے ممبر آف پارلیمنٹ بھی تھے ، شہر کے میئر بھی تھے، سیاستدان بھی تھے ، پڑھے لکھے لوگ بھی تھے اور حیران کن طور پر علاوہ چھوٹے اخباروں کے نیشنل اخبار کے نمائندے بھی تھے.ان کے سامنے اسلام کی خوبصورت تعلیم کے چند پہلو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ اور قرآن کریم کی تعلیم کے حوالے سے پیش کئے.کیونکہ یہ جو وہاں کا اعتراض کرنے والا سیاستدان ہے ان چیزوں پر ہی و اعتراض کرتا ہے.وہاں کے میئر نے اور ایم پی نے بھی مختصر خطاب کیا اور مذہبی رواداری اور برداشت کی باتیں کیں.بعد میں جیسا کہ میں نے کہا، جب میں نے اسلام کی خوبصورت تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ پیش کیا تو ایم پی نے جو بعد میں مجھ سے باتیں کیں، اُس نے اسلام کی خوبصورت تعلیم سے کافی متاثر ہو کر اس کا ذکر کیا.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ میرے خیال میں ہالینڈ جماعت کے سیاستدانوں سے رابطے نہیں.ایم پی کی باتوں سے اس بات کا بھی اظہار ہوا اور تصدیق ہو گئی.کہنے لگے آپ لوگ سیاستدانوں اور پڑھے لکھے طبقے سے زیادہ سے زیادہ رابطے میں رہیں.اُن کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کے بارے میں بتائیں اور پھر اخباروں اور ویب سائٹس پر بھی اس کا ذکر کریں.اس طرح انہوں نے نام لئے بغیر یہ اشارہ کیا کہ اگر یہ کا روائی آپ لوگ کریں گے تو ولڈر (Wilder) جیسے اسلام دشمن لوگوں کے بھی منہ بند ہو جائیں گے اور عوام الناس کو بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم کا پتہ چلے گا.پس دیکھیں یہاں بھی کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ پورے ہو رہے ہیں کہ خدا کے کام بھی عجیب ہیں.یہ خدا کا فعل ہے کہ ایک شخص جو عیسائی ہے، اسلام کی خوبصورت تعلیم اپنے ہم وطنوں کو بتانے کے طریقے بتارہا ہے.پھر اس شریف النفس ایم پی نے جو بڑے پرانے اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں، بہت لمبے عرصے سے ممبر آف پارلیمنٹ چلے آرہے ہیں، اپنی ویب سائٹ پر بھی میری اور اپنی تصویر کے ساتھ اس فنکشن اور میٹنگ کی تفصیل بیان کی ، جو بعد میں ان سے پرائیویٹ ملاقات ہوئی اُس کی بھی تفصیل انہوں نے لکھی اور اس بارے میں مجھے کہہ کر گئے تھے کہ میں یہ سب دوں گا تا کہ اسلام کے بارے میں ہمارے ہم وطنوں کی غلط فہمیاں دور ہوں اور جو بعض مفاد پرست لوگ اور سیاستدان اور اسلام دشمن ملک میں یہ نفرتیں پھیلا رہے ہیں، وہ دور ہوں.پھر اخبارات نے بھی بڑے اچھے انداز میں اس فنکشن کی تفصیلات اور جو کچھ میں نے کہا تھا، وہ لکھیں.وہاں ملک کے دو بڑے نیشنل اخبارات کے نمائندے آئے ہوئے تھے.ایک نے تو میرے
خطبات مسرور جلد دہم 359 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 8 جون 2012ء سے چند منٹ کا انٹرویو بھی لیا.وہاں جب وہ نمائندہ اخبار کا اپنے سوال ختم کر چکا ، تو میں نے اُسے کہا کہ میرے پاس بھی ایک سوال ہے.یا میرے سوال یہ ہیں کہ یہ علاقہ جس میں نن سپیٹ ہے، ہمارا سینٹر، مرکز ہے.ہالینڈ میں یہ علاقہ بائبل بیلٹ کہلاتا ہے.دین کا علم رکھنے والے یہ لوگ ہیں.باقی ہالینڈ کی نسبت زیادہ تعداد چرچ جانے والوں کی ہے.حضرت عیسی کی آمد اور آمد ثانی کے بھی تم لوگ منتظر ہو، اُس کی نشانیاں بھی تم لوگوں کے مطابق کچھ نہ کچھ ہیں اور تمہارے مطابق یہ وقت آچکا ہے بلکہ گزر گیا ہے.تو حضرت عیسی تو نہیں آئے ، جو آیا ہے جس کو ہم سیح موعود مانتے ہیں ، اب اس کی آمد پر غور کرو.میری اس بات پر اُس کے چہرے پر ذرا سرخی آئی لیکن مسکرا کر چپ ہو گیا.اُس نے کچھ کہا نہیں.اس بات کے بعد میرا خیال تھا کہ وہ شاید ہمارے فنکشن کے بارے میں خبر نہ لگائے اور اگر لگائے گا بھی تو شاید صحیح حقائق پیش نہ کرے.لیکن اگلے دن میرے لئے بھی اور وہاں کی جماعت کے لئے بھی یہ بات حیران کن تھی کہ نہ صرف اُس نے خبر لگائی بلکہ اخبار کے پہلے صفحے پر، پورے پہلے صفحے پر میری تصویر بھی دے دی اور اندر بھی تقریباً ڈیڑھ صفحہ کی اس فنکشن کی خبر ، تصویروں کے ساتھ شائع کی.اور جلسے کے حوالے سے بڑی تفصیلی باتیں کیں.اسلام کی تعلیم کے حوالے سے خبر دی.یہ اخبار وہاں کا نیشنل اخبار ہے جو لاکھوں کی تعداد میں پڑھا جاتا ہے.پس اس سے اسلام کی خوبصورت تعلیم اس ملک کے لوگوں میں بھی پہنچی.اس طرح جیسا کہ میں نے کہا ایک اور نیشنل اخبار ہے اُس نے بھی خبر دی.لوکل اخباروں نے بھی کوریج دی.ان کے چند حصے میں پیش کر دیتا ہوں.جو پہلا اخبار ہے ہالینڈ کا نیشنل اخبار داگ بلاد Dagblad اس کا نام ہے، اُس نے پہلے تو یہ خبر شائع کی کہ ”امن لانے والا خلیفہ“.اور اس کے بعد پھر میرے حوالے سے لکھا کہ حضرت عیسی کی واپسی کے متعلق جماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ آپ وفات پاچکے ہیں اور واپس نہیں آئیں گے.حضرت مرزا غلام احمد کی آمد ہی عیسی کی آمد ثانی ہے.پھر کافی لمبی تفصیل مختصر چند فقرے میں پڑھ دیتا ہوں.پھر اُس نے لکھا کہ جماعت دنیا میں اپنی تبلیغی مساعی کے نتیجے میں پھیل رہی ہے.احمدیوں کے بیانات میں کبھی بھی شدت آمیز الفاظ کا استعمال نہیں کیا جاتا.مغربی ممالک میں جماعت کے قیام کی وجہ صرف مشنریز کے ذریعے ہی نہیں بلکہ اپنے آبائی وطنوں میں پیش آنے والے مسائل بھی ہیں.اور پھر اُس نے پاکستان سے ہجرت کر کے آنے والے احمدیوں کا ذکر کیا.پھر لکھتا ہے کہ افراد جماعت کا جماعت کے ساتھ اور آپس میں ایک بہت گہرا تعلق ہے.پھر اس نے جلسہ کی بڑی تفصیلی خبریں دیں.پھر یہ میرے حوالے سے لکھتا ہے کہ میں نے کیا کہا.”انہوں نے حاضرین کا دلی شکر یہ ادا کیا
خطبات مسر در جلد دہم 360 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 8 جون 2012ء اور کہا کہ اس بات کے باوجود کہ ہالینڈ میں ایک گروہ ہے جو اسلام کے بارے میں بہت ہی ناز یبا باتیں کرتا ہے اور پراپیگنڈہ کرتا ہے لیکن پھر بھی آپ لوگوں نے خود یہاں آکر اسلام کے بارے میں جاننے کا فیصلہ کیا.اصل حقیقت عزت کرنا اور امن قائم کرنا ہے.پھر یہ لکھتا ہے انہوں نے کہا ( میرے حوالے سے ) کہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہم کبھی بھی بدلہ لینے کا رجحان نہیں رکھتے.ہاں کچھ مسلمان گروہ ایسے ہیں جو اس قسم کے شدت آمیز خیالات رکھتے ہیں“.خلیفہ کو اس بات کا اچھی طرح ادراک ہے اور ان مسلمانوں کا یہ عمل مکمل طور پر غلط ہے.اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے بالکل برخلاف ہے.پھر لکھتا ہے خلیفہ نے بتایا کہ ان کو ہالینڈ میں ایک دوسرے کے لئے کم ہوتی respect پر تشویش ہے.خاص طور پر اگر ایسے لوگ حکومت میں آجائیں جو دوسروں کے لئے عزت نہ رکھتے ہوں تو پھر مسائل اور کھڑے ہوں گے.یہ ایک اخبار کی رپورٹ تھی.وہاں دوسرا نیشنل اخبار ہے ، تراؤ (Trouw ).اُس نے بھی یہی سرخی جمائی کہ خلیفہ آئے اور انتہا پسندی کی مذمت کی.پھر میرے حوالے سے لکھتا ہے اور بڑا موٹا اُس نے لکھا کہ رسول کریم کا صلی اللہ علیہ وسلم کو الزام نہ دیں ( اس دہشتگردی اور شدت پسندی کا ).پھر لکھا کہ جماعت احمد یہ کے عقائد کی رو سے حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود ہیں.اُن کے پیرو کارا نہیں عیسی کی آمد ثانی کے مظہر مانتے ہیں.احمدی کہتے ہیں کہ مرزا غلام احمد عیسی کی خصوصیات لئے ہوئے ہیں.اس طرح اسلام کا پیغام بھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد بھی ان لوگوں کے سامنے بڑے کھلے طور پر ، واضح طور پر بیان ہو گیا.یہ فصیلی خبریں ہیں.پس یہ دیکھیں خدا تعالیٰ کے کام.ایک طرف تو ولڈر جو اسلام دشمنی میں بڑھا ہوا ہے، دنیا میں اسلام کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنی کتاب کی رونمائی کرتا پھر رہا ہے اور اس کے ملک میں اور نہ صرف ملک میں بلکہ اس کے اپنے علاقے میں، جہاں سے یہ ایم پی بنا ہوا ہے، جماعت احمدیہ کے ذریعے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبصورت امن پسند تعلیم کے بیان سے غلط فہمیاں دور ہورہی ہیں.جہاں تک میری اطلاع ہے اُس کی کتاب کو تو کوئی خاص پذیرائی نہیں ملی.لیکن اُس کے اپنے ملک میں اخبارات اور ایم پی کی ویب سائٹ کے ذریعے سے لاکھوں لوگوں تک اسلام کی حقیقی اور خوبصورت تعلیم پہنچی ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ ہالینڈ کی جماعت کو بھی اس قدر کوریج کی امید نہ تھی.پس یہ اللہ تعالیٰ کا کام
خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 8 جون 2012ء خطبات مسرور جلد دہم 361 ہے لیکن شکرانے کے طور پر ہمارا بھی کام ہے.اب ہالینڈ کی جماعت کو اپنے رابطوں کو مزید بڑھانا چاہئے، ان کو وسعت دینی چاہئے.اور جو بھی غلط فہمیاں اسلام کے خلاف پیدا کی گئی ہیں، انہیں دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ولڈر کے جھوٹ اور کینہ کو کھول کر اُس کے ہم وطنوں کے سامنے رکھنا چاہئے.آج اسلام کا دفاع اور غیروں پر دلائل کے ساتھ بھر پورحملہ صرف اورصرف جماعت احمد یہ کر سکتی ہے.اس فنکشن میں شامل ہونے والے مہمانوں کے عمومی تاثرات بھی بہت اچھے تھے.ہمارے ایک مبلغ جو ناروے سے وہاں گئے ہوئے تھے ، اُن کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ اسلام کی یہ باتیں تو ہم اور بھی سنا چاہتے ہیں ، آپ کے خلیفہ نے تو جلدی اپنا خطاب ختم کر دیا.ایک بوڑھے شخص نے کہا کہ جو تعلیم آپ دے رہے ہیں، عیسائیت کو تو یہ تعلیم دینے کا بہت دیر سے خیال آیا تھا.بلکہ کہنے لگا کہ دو ہزار سال کے بعد خیال آیا تھا.اُس کا مطلب یہ تھا کہ عیسائی بھی ایک لمبا عرصہ مختلف فرقے آپس میں لڑتے رہے ہیں اور جنگیں بھی ہوتی رہیں، فساد بھی ہوتے رہے.اب آکر مختلف فرقوں میں اور ملکوں میں امن قائم ہوا ہے.لیکن آپ نے تو امن کے لئے بہت جلد یہ کوششیں شروع کر دی ہیں اور دنیا کو بتانا شروع کر دیا ہے.بہر حال اُس نے اپنی نظر سے دیکھا.اُس کو یہ تو پتہ ہی نہیں کہ ہم نے آج سے نہیں شروع کیا بلکہ یہ تعلیم تو چودہ سو سال پہلے سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے، اُس وقت ہی اس کی بنیاد میں قائم ہو چکی ہیں.بہر حال اسلام کی غلط تصویر جو ان لوگوں کے سامنے پیش کی جاتی ہے، اس فنکشن سے اُس کا اثر زائل ہوا ہے.اللہ تعالیٰ آگے بھی اس کے نیک نتائج پیدا فرمائے اور یہ قوم اسلام قبول کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے آ جائے.لیکن اس کے لئے جیسا کہ میں نے کہا افراد جماعت کو بہت زیادہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے.ہالینڈ کے بعد پھر جرمنی کا بھی جلسہ ہوا.یہ بھی آپ لوگوں نے ایم ٹی اے پر دیکھ لیا.جرمنی میں جہاں جلسہ کی مصروفیات ہوتی ہیں وہاں جماعت ہر دورے پر مسجدوں کے افتتاح یاسنگ بنیاد میں بھی مصروف رکھتی ہے.اس دورے میں بھی ایک مسجد کا افتتاح ہوا اور تین کاسنگ بنیا درکھا گیا.عموماً بنیادرکھنے کے بعد ایک سال کے اندر مسجد کی تعمیر ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ جرمنی کی جماعت کی یہ توفیق بھی بڑھاتا چلا جائے.اب جو مسجدوں کے افتتاح اور سنگ بنیاد کے موقع پر وہاں جماعت میں ایک اچھی چیز پیدا ہورہی
خطبات مسرور جلد دہم 362 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 جون 2012ء ہے، وہ یہ ہے کہ ہر فنکشن میں مقامی لوگ، جن میں پڑھا لکھا طبقہ بھی ہوتا ہے، اسی طرح میئر یا ڈپٹی میئر یا سیاستدان اور افسران وغیرہ اُن کو بھی بلاتے ہیں.پہلے یہ چیز وہاں نہیں تھی، یہاں تو خیر جو بھی مسجدیں بنتی ہیں ہوتا ہی ہے.لیکن جرمنی میں پہلے اس طرح نہیں تھا.بہر حال اب ان کو یہ توجہ پیدا ہوئی ہے، اور یہ جماعت احمدیہ کے تعارف کے لئے اسلام کی خوبصورت تعلیم بتانے کے لئے اور تبلیغ کے لئے بڑی اہم چیز ہے.ہمارا اصلی کام اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے.دنیا کو حق کی طرف آواز دینا ہے.پس مساجد کی تعمیر کے ساتھ تبلیغ میں بھی وسعت پیدا ہو رہی ہے اور میں ہمیشہ افراد جماعت کو یہ کہا کرتا ہوں کہ اس تعارف اور تبلیغ کی وسعت کے ساتھ اُن کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں.اپنی حالتوں کو اسلامی نمونے کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے.اس دفعہ جماعت کے تعارف کی وجہ سے وہاں جو مزید تعلقات پیدا ہورہے ہیں ، ایک ادارہ جس میں فوجی افسران کی خاص طور پر اخلاقی، سیاسی اور قانونی بنیادوں پر تشکیل اور تربیت کے پروگرام بنائے جاتے ہیں ، اُس میں بھی جانے کا موقع ملا.اسی طرح ان لوگوں کا جو کام ہے، جرمن معاشرے میں ان کا کیا کردار ہونا چاہئے ، پھر یہ لوگ دنیا کے بارے میں بھی معلومات اکٹھی کرتے ہیں ، بین الاقوامی ثقافت اور مذہب کے بارے میں بھی وہاں معلومات ہوتی ہیں، اُس کے لئے وہاں لیکچر دیئے جاتے ہیں سیمینارز ہوتے ہیں.اسی طرح سول انتظامیہ بھی، افسران وغیرہ پروگراموں میں ان کے ساتھ شامل ہوتی ہے.تو اس میں بھی وہاں پروگرام ترتیب دیا گیا تھا، جس میں شامل ہونے کی توفیق ملی.ان پروگراموں میں لیکچروں کے لئے بیرونی شخصیات کو بلایا جاتا ہے.قانون دان بھی آتے ہیں، مختلف مذاہب کے لوگ بھی آتے ہیں، اور مختلف قسم کے مضامین کے ماہرین بھی آتے ہیں.جرمنی کی مسلمانوں کی مرکزی تنظیم کے سر براہ ایمان مازک صاحب ان کو بھی یہاں بلایا گیا تھا انہوں نے وہاں لیکچر دیا تھا.تو جب مجھے بھی انہوں نے لیکچر دینے کا کہا، کچھ تھوڑا سا مختصر خطاب کرنے کا کہا، تو میں نے وہاں ملک سے وفاداری کی اسلامی تعلیم پر ایک مختصر تقریر کی ، اس کے بعد دس پندرہ منٹ کے لئے سوال جواب بھی ہوئے.یہاں علاوہ اعلیٰ فوجی افسروں کے شہر کے میئر اور پڑھا لکھا طبقہ عیسائی پادری اور یہودی وغیرہ بھی شامل تھے.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس لیکچر کا اچھا اثر ہوا.اسلام کی خوبصورت تعلیم اُن لوگوں تک پہنچی.جرمنی کے ہماری جماعت کے سیکرٹری خارجہ داؤد مجو کہ صاحب، انہوں نے مجھے بعد میں ایک دو تبصرے بھجوائے کہ ایک شخص نے کہا کہ مجھے اس بات پر بہت تعجب ہوا کہ کوئی شخص دنیا کو در پیش مسائل کا حل اس طرح آسان طریق پر سمجھا
خطبات مسرور جلد دہم 363 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 8 جون 2012ء سکتا ہے.تو یہ تو اسلام کی خوبصورت تعلیم ہے جس کو صحیح طرح بیان کیا جائے تو ہر ایک کو سمجھ آ جاتی ہے.پھر ایک نے کہا کہ آپ کے خلیفہ کی تقریر نے کئی باتیں واضح کر دیں.آپ کا اسلام کے متعلق جو تصور ہے اُس کے پیش نظر مسلمانوں کی انٹیگریشن ضرور ممکن ہے.( یہ سوال آجکل یورپ میں ہر جگہ اُٹھتا ہے کہ مسلمان ہمارے درمیان انٹیگریٹ نہیں ہو سکتے.ہمارے اندر، ان کی ایک علیحدگی ہے ) تو یہ سننے کے بعد کہتا ہے، یہ تو بالکل غلط تصور ہے جولوگوں میں، مغربی معاشرے میں پیدا ہو گیا ہے.اسی طرح بعض نے اسلام کی خوبصورت تعلیم پر حیرت کا اظہار کیا.پس اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے ماننے والوں کا ہی کام ہے کہ اسلام کی حقیقی اور خوبصورت تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور اسلام پر اعتراض کرنے والوں کے منہ بند کرائیں.اکثر افسران نے مجھے بھی اور ہمارے ساتھیوں کو بھی کہا کہ اس تقریر کو تحریری صورت میں ہمیں مہیا کرو.جرمن جماعت اس کا جرمن زبان میں ترجمہ کر رہی ہے ، پھر اُن کو بھیج دے گی.پھر جرمنی کے جلسہ میں ایک جو اُن کی مستقل روایت بن چکی ہے، جرمن یا غیر احمدی ، غیر مسلم مہمانوں کے ساتھ ایک پروگرام ہوتا ہے.اس میں بھی پانچ چھ سوافراد عورتیں مردا کٹھے ہو جاتے ہیں، جمع ہو جاتے ہیں.یہاں مجھے بھی کچھ کہنے کا موقع ملتا ہے.اس دفعہ بھی اسلام کی تعلیم ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد ، حالات حاضرہ اور دنیا جو خدا کو بھولنے لگی ہے، اور اس وجہ سے تباہی کی طرف جا رہی ہے، اُس کے بارے میں بتانے اور اُس سے ہوشیار کرنے کی توفیق ملیں اور پھر ہ شخص کا اس تباہی کے بچنے کے لئے کیا کردار ہونا چاہئے؟ اس بارے میں بھی بتایا.یہ تقریر براہ راست ایم ٹی اے پر آ چکی ہے.آپ نے سن لی ہو گی.اس پروگرام میں بھی جیسا کہ میں نے کہا پانچ سو سے اوپر جرمن اور دوسرے غیر مسلم، غیر از جماعت افراد شامل ہوئے جن پر اس کا کافی اچھا اور نیک اثر ہوا.پھر مختلف ممالک سے آئے ہوئے غیر از جماعت احباب سے بھی ملاقاتیں ہوئیں.اُن میں سب سے بڑا وفد بلغاریہ سے آیا تھا، جہاں سے تقریباً اسی (80) احباب وخواتین آئے تھے ، جن میں صرف تیرہ یا چودہ احمدی تھے باقی اکثریت دوسرے مسلمانوں کی تھی.چند ایک اُن میں سے عیسائی تھے.تمام لوگ جلسہ کی کارروائی ، تقاریر، ڈسپلن وغیرہ سے بہت متاثر تھے.ہر سال کافی تعداد میں نئے لوگ مختلف ملکوں سے آتے ہیں.اور بلغاریہ سے بھی آتے ہیں اور عموماً جلسہ دیکھ کر متاثر ہو کر جاتے ہیں.اور بعض کے لئے یہ جلسہ سینے کھولنے کا باعث بھی بن جاتا ہے.بلغاریہ سے آئے ہوئے وفد سے جو باتیں ہورہی تھیں تو اُن
خطبات مسرور جلد دہم 364 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 8 جون 2012ء میں سے ایک نوجوان نے مجھے کہا کہ آپ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کا خوف رکھو اور اس خوف کے تحت ہم کام کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی خاطر کام کرنا چاہئے اور اس کے لئے ہم کام کرتے ہیں تو آپ کے پاس اس کا کیا ثبوت ہے.تو میں نے کہا باقی باتیں تو ایک طرف ہیں، افریقہ میں ہم مختلف علاقوں میں اور دور دراز دیہاتوں میں جا کر بلا تخصیص مذہب اور قوم کے وہاں کے لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں.اور اس کی معلومات دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں، اگر تم چاہو تو تمہیں مل سکتی ہیں.یہی کافی ثبوت ہے.ہم نے ان لوگوں سے کچھ لینا تو نہیں.ہاں ایک کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح یہ لوگ خدائے واحد کے حقیقی عبادت گزار بن جائیں.تو ہماری تو یہی کوشش ہے جس کے لئے ہم کام کر رہے ہیں.بلغاریہ وہ ملک ہے جہاں چند سال سے جماعتی تبلیغ اور ہر قسم کی ایکٹویٹیز (Activities) پر پابندی ہے، وہاں جماعت رجسٹر ڈ بھی نہیں.حکومت ملاں کے زیر اثر ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ مسلمانوں کے اندرونی فتنے کوختم کرنے کے لئے اور فسادوں کو ختم کرنے کے لئے ہم ایسا کرتے ہیں کہ ایک ہی خطبہ پڑھا جائے اور سارے ایک فرقے کے لوگ ہوں.حالانکہ وہاں اس پر عملاً ایسی صورتحال نہیں ہے.اصل میں یہی ہے کہ بعض عرب ملکوں سے جو امداد یہ لیتے ہیں، اُس کی وجہ سے اُن کو برداشت نہیں کہ احمدیوں کو تبلیغ کا موقع دیں اور اس سے ان کی چوہدراہٹ ختم ہو جاتی ہے.لیکن اس کے باوجود بھی وہاں ہر سال بیعتیں ہوتی ہیں.اسی طرح مالٹا، سپین ، ترکی ، بوسنیا وغیرہ کے آئے ہوئے احمدیوں اور غیر از جماعت افراد سے بھی ملاقاتیں ہوئیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان سب پر جلسہ کا بہت اچھا، گہرا اور نیک اثر تھا.اس مرتبہ میں نے نو مبائعین کی بیعت بڑے ہال میں کروائی تھی.ہر سال وہاں نو مبائعین آتے ہیں اور بیعت کرتے ہیں لیکن عموماً جب اُن سے علیحدہ میٹنگ ہوتی تھی تو وہاں بیعت ہوا کرتی تھی.اس دفعہ میں نے کہا کہ بڑے ہال میں بیعت کر لیں تاکہ دوسرے بھی شامل ہو جائیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بیعت کا نظارہ بھی بڑا ایمان افروز ہوتا ہے.ایک صاحب جن کا کافی عرصے سے جماعت سے رابطہ تھا، غالباً ایران کے ہیں، وہاں بیٹھے ہوئے تھے.سب میٹنگوں میں شامل ہوئے.بیعت کا ان کا ارادہ نہیں تھا.لیکن جب بیعت شروع ہوئی تو کہتے ہیں کہ کسی قوت نے میرا ہاتھ آگے بڑھا دیا اور میں نے بھی آگے بڑھ کے ہاتھ رکھ دیا اور بیعت کر لی.اُس کے بعد کہنے لگے کہ یہ وقتی جذ بہ نہیں تھا.اب میں پکا احمدی ہوں اور انشاء اللہ تعالیٰ اپنے عہد بیعت پر قائم رہوں گا اور اس کو نبھاؤں گا.کہتے ہیں ایک نیا جوش اور ولولہ
خطبات مسرور جلد دہم 365 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 8 جون 2012ء میرے اندر ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کے ایمان وایقان میں ترقی دے اور جو برکات جلسہ کی ہر ایک نے حاصل کی ہیں ، وہ دائمی برکات ہوں.بہر حال جرمنی کا جلسہ عمومی طور پر بہت اچھا رہا.جہاں تک میں نے بیچ بیچ میں سے بعض دفعہ ایم ٹی اے پر تقریریں سنی ہیں، تقریروں کا معیار بھی بہت اچھا تھا.بڑی برکتوں کو سمیٹنے والا اور سمیٹ کر پھر بکھیر نے والا یہ جلسہ تھا.جلسہ کی تیاری کے لئے سارا سال انتظامیہ مصروف رہتی ہے اور باوجود اس کے کہ جرمنی کا جلسہ جو ہے اُس کے تمام انتظامات تقریباً ایک چھت کے نیچے ہی ہوتے ہیں پھر بھی وقار عمل اور کام کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے.اس سال پاکستان سے آئے ہوئے نئے اسائلم سیکرز ( Assylum Seakers) نے بھی بڑے جوش سے کام کیا.انتظامیہ نے بتایا کہ اگر انہیں دوسو کی ضرورت ہوتی تھی، بلواتے تھے تو چارسو والنٹیئر کام کرنے کے لئے آجاتے تھے.اللہ کرے کہ کیس پاس ہو جانے کے بعد بھی اُن کا یہ جوش و جذ بہ اس طرح ہی قائم رہے.ابھی تو پاکستان کے حالات اور ایک عرصے سے محرومی کا بھی اثر ہے.لیکن کیس پاس ہونے کے بعد بھی حقیقی شکر گزاری خدا تعالیٰ کی یہی ہے کہ ایک تو اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل نہ ہوں اور دوسرے دنیا کی خاطر جماعت کے کام کو پس پشت نہ ڈالیں.خلافت سے وفا اور محبت کا تعلق رکھیں.اس کا بھی تجربہ ہر سال نیا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ اس تعلق کو بھی بڑھاتا چلا جائے.انتظامات کے تعلق سے بھی بعض باتیں بیان کر دیتا ہوں کیونکہ مجھے بعد میں وہاں ان کو بیان کرنے کا موقع نہیں ملا.اس کا فائدہ باقی دنیا کو بھی ہو جاتا ہے.انتظامی لحاظ سے عموماً تو تمام انتظامات اچھے ہی رہے ہیں.لیکن جیسا کہ بڑے انتظامات میں ہوتا ہے، بعض شکایات بھی پیدا ہوتی ہیں.میں نے جرمنی میں بھی اپنے اس جلسہ کے پہلے خطبہ میں بھی اس کا ذکر کیا تھا.شکایات بعض شعبہ جات کے متعلق زیادہ ہیں جن میں سے ایک ضیافت کا شعبہ بہت اہم شعبہ ہے.کھانے میں یا تو کمی رہی ہے یا کھانا کھلانے کا انتظام صحیح نہیں تھا.لوگوں کو لمبا انتظار کرنا پڑا اور بعض تنگ آکر ، بجائے اس کے کہ لمبی لائنوں میں لگیں بازار سے ہی کچھ کھا لیتے تھے.عورتوں میں بھی یہی صورتحال تھی.بچوں کو بھی اس وجہ سے پریشانی ہوئی.کارکنان اور کارکنات کو بھی بعض دفعہ کھانا نہیں ملتارہا.اکثر عورتوں میں بھی خاص طور پر اپنے طور پر انتظام کرنا پڑا.جب پہلے دن یا ایک وقت میں یہ صورت پیدا ہوئی تھی تو افسر جلسہ سالانہ کا اور اُن کی انتظامیہ کا کام تھا کہ فوری اقدام کرتے.وجہ معلوم کرتے کہ کیا وجہ ہو رہی ہے؟ شاید انہوں نے اس بارے میں کوشش کی بھی ہو لیکن اس کے بہتر نتائج
خطبات مسرور جلد دہم 366 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 8 جون 2012ء بہر حال نہیں نکلے اور آخری دن تک یہی کمی محسوس ہوتی رہی.انتظامیہ کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے اور یہ پاکستان میں بھی ہمیشہ طریق رہا ہے اس طرح ہی ہوتا تھا کہ روزانہ رات کو افسر جلسہ سالا نہ تمام نائب افسران اور ناظمین کے ساتھ میٹنگ کرتا ہے، جس میں ہر شعبہ کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ کہاں کہاں کمیاں رہ گئی ہیں.اُن کو کس طرح اگلے دن پورا کرنا ہے.لنگر خانے کا جائزہ ہوتا ہے کہ کتنا کھانا پکا اور کتنے مہمانوں نے کھایا؟ کمی ہوئی یا زائد پکانا پڑا یا زائد بچ گیا؟ اس کے مطابق پھر اگلے دن کا حساب ہوتا ہے.شعبہ مہمان نوازی کا کام ہے کہ بجائے باتوں کو ٹالنے کے افسر جلسہ سالانہ کے علم میں لائے کہ آج اتنے لوگوں اور مہمانوں نے یا کارکنوں نے کھانا کھایا اور اتنوں کو کھانا نہیں مل سکا.وجوہات کیا ہوئیں؟ یہ تو پھر انہوں نے ، بعض دوسرے شعبوں نے طے کرنی ہیں.باقاعدہ اس کا ریکارڈ رکھنا چاہئے.اس جائزے سے پھر اگلے دن یا اگلے وقت کھانے میں بہتری پیدا کی جاسکتی ہے.اگر یہ با قاعدہ میٹنگ اور اگلے دن کی پلاننگ ہوتی تو فوری طور پر بہتر صورت پیدا ہوسکتی تھی.اسی طرح ایک شعبہ معائنہ بھی ہوتا ہے اور افسر جلسہ سالانہ کا اپنا بھی شعبہ ہوتا ہے اور معاونین ہوتے ہیں، جو مختلف جگہوں میں جا کر معائنہ کرتے ہیں اور جائزہ لیتے ہیں کہ صحیح کام ہورہا ہے یا نہیں.اگر ہنگامی نوعیت کا معاملہ ہو تو اُسی وقت اصلاح کی کوشش کی جاتی ہے.تو بہر حال اس شعبہ کو زیادہ بہتر کرنے کی ضرورت ہے.اسی طرح جلسہ گاہ میں غسل خانوں ، ٹائلٹس وغیرہ کی کمی کو بھی محسوس کیا گیا حالانکہ اس کمپلیکس (Complex) میں بیشمار غسل خانے اندر بنے ہوئے ہیں لیکن شاید کسی وجہ سے کھولے نہیں گئے.بعض بوڑھی عورتوں اور مردوں کو بھی تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا، مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.حالانکہ بیماروں اور معذوروں کے لئے علیحدہ اور بہتر انتظام ہوسکتا تھا اور ہونا چاہئے تھا اور ان ملکوں میں تو ہوتا ہے.ڈیوٹی والوں اور ڈیوٹی والیوں کو بھی چاہئے کہ ان جگہوں پر خاص طور پر اصولوں کی اتنی سختی نہ کیا کریں.آپ کا کام ہر ایک کو سہولت مہیا کرنا ہے.انتظامیہ کو چاہئے تھا کہ اگر پہلے غسل خانے کھولنے کی اجازت نہیں لی تھی تو حالات کے پیش نظر فوری طور پر اجازت لے لیتے.اگر کرائے کا مسئلہ تھا، پیسہ بچانا تھا تو پیسہ بچانا بہت اچھی چیز ہے لیکن ہمیشہ ہمیں یا درکھنا چاہئے کہ مہمانوں کی مہمان نوازی کی کمی کی قیمت پر ہم پیسہ نہیں بچا سکتے.یہ نہیں ہے کہ مہمان نوازی میں کمی کر کے پیسہ بچایا جائے.مہمانوں کی مہمان نوازی بہر حال ہر چیز پر فوقیت رکھتی ہے.اگر افسر جلسہ سالانہ کی ایک خاص ٹیم جائزے لیتی رہتی تو یہ جو کی یہاں پیدا ہوئی ہے یا
خطبات مسرور جلد دہم 367 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 جون 2012ء بعضوں کو مشکلات سامنے آئیں ، وہ نہ آتیں.اسی طرح بعض غیر ملکی مہمانوں کی طرف سے بھی شکایت ہے.بعض غیر ملکی یورپ کے دوسرے ملکوں سے نو مبائع آئے ، اُن کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا جس کی وجہ سے ایک آدھ تو ناراض ہو کر واپس بھی چلے گئے.اول تو جس ملک سے آئے تھے، اُن کے امیر اور مربی کا یا نگر ان کا کام تھا کہ ساتھ لائے تھے تو پوری مدد کرنی چاہئے تھی.اور اگر ساتھ نہیں آئے تھے تو پھر ملنے کی جگہ اور انتظامات کی مکمل معلومات انہیں فراہم کرنی چاہئیں تھیں.پھر شعبہ استقبال اور مہمان نوازی کا بھی کام ہے.رہائش کے شعبہ کا بھی کام ہے کہ پارکنگ وغیرہ میں مکمل رابطہ ہوتا اور رہنمائی کا انتظام ہوتا.اسی طرح نو مبائعین یا مہمان جو لائے گئے اُن کی جلسہ کے بعد واپسی کا ٹرانسپورٹ کا بھی باقاعدہ انتظام نہیں تھا.بعض کو رات دس بجے تک انتظار کرنا پڑا.حالانکہ شعبہ استقبال کو واپسی کے لئے ٹرانسپورٹ کا انتظام کرنا چاہئے تھا.بہر حال اگر چند ایک کو بھی ان انتظامی کمزوریوں کی وجہ سے کسی بھی قسم کی تکلیف سے گزرنا پڑا تو یہ قابل توجہ ہے.اس کی اصلاح کی آئندہ کوشش ہونی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مہمانوں کی مہمان نوازی کا واقعہ تو ہم سناتے ہیں کہ کس طرح منی پور سے مہمان آئے ہنگر خانے میں آکر اُترے اور وہاں خدمتگاروں نے اُن کا سامان نہیں اُتارا.کہہ دیا کہ خود ہی سامان اتارو یا اور کچھ باتیں ہوئیں.وہ ناراض ہو کر چلے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علم میں جب آیا تو آپ بڑی تیزی سے اُن کے پیچھے پیچھے گئے اور بڑے فاصلے پر جا کر، کہتے ہیں نہر کے قریب جا کر ، ٹانگے میں جارہے تھے اُن کو روکا اور وہاں جا کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام واپس لے کر آئے ، اور وہاں آکے خود ہی اُن کا سامان اُتارنے لگے.(ماخوذ از سیرت المہدی جلد دوم حصہ چہارم صفحہ نمبر 56-57 روایت نمبر 1069) تو یہ نمونے ہیں مہمان نوازی کے جو ہمارے سامنے ہیں.اس کو ہمیشہ جماعتی شعبوں کو جماعتی نظام کو اور ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے.پس ہمیں اپنے معیاروں کو بلند کرنے کی ضرورت ہے.میں نے شروع میں بھی پہلے خطبہ میں وہاں جرمنی میں ان باتوں کی طرف مختصراً توجہ دلائی تھی.اگر کچھ نہ کچھ اس پر غور کیا ہوتا تو بعض جگہ جو کمیاں ہوئی ہیں یا بعضوں کو جو تکلیف پہنچی ہے، یہ نہ ہوتی.ان چیزوں سے انتظامیہ کے جو دوسرے اچھے کام ہوتے ہیں ، اُن کا بھی اثر زائل ہو جاتا ہے.تمام دنیا میں جلسے ہوتے ہیں.یہاں یو کے میں بھی انشاء اللہ تعالیٰ جلسہ ہوگا جواب تقریباً مرکزی
خطبات مسرور جلد دہم 368 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 8 جون 2012ء جلسہ کہلاتا ہے.تو اسی طرح ان کو بھی اور تمام ملکوں کی جو جلسہ کی انتظامیہ ہے، اُن کو بھی گہرائی میں جا کران باتوں کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے.یہ نہ سمجھیں کہ ایک ملک میں یہ واقعہ ہو گیا اور ہمارے ساتھ نہیں ہے.ہر جگہ جہاں جہاں جس جس شعبہ میں کمزوریاں اور کمیاں ہیں ، وہاں پوری ہونی چاہئیں تا کہ جلسہ کے نیک اثرات جو ہیں وہ ہر جگہ قائم رہیں.خواتین کے ضمن میں بھی بتا دوں کہ عمومی طور پر مین ہال (Main Hall) میں تو خاموشی تھی لیکن بچوں کے ہال میں یہی رپورٹ ملتی رہی جس کا میں نے وہاں ذکر بھی کیا تھا کہ بچوں کے شور کے بہانے عورتیں خود بھی زیادہ بولنے لگ جاتی ہیں جو نہیں ہونا چاہئے.آئندہ سے اس کی احتیاط ہونی چاہئے.بہر حال ان سب کے باوجود جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ جلسہ عمومی طور بہت اچھا تھا.پروگرام بھی بڑے اچھے ہوئے.تقریریں بھی اچھی ہوئیں.لوگوں کا جوش وجذ بہ بھی اچھا تھا.اللہ تعالیٰ اس کی برکات بھی ہمیشہ قائم رکھے.سب شامل ہونے والوں کو اُن کارکنان کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہئے جنہوں نے اُن کی خاطر ڈیوٹیاں دیں، وقت دیا، محنت کی.اللہ تعالیٰ اُن سب کو جزا دے اور کارکنان اور کارکنات کو بھی خدا تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کا موقع دیا.اللہ تعالیٰ ان سب کو ہمیشہ اور ہر احمدی کو ہمیشہ ایک دوسرے کی ہمدردی اور خدمت کے جذبے سے سرشار رکھے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 29 جون تا 5 جولائی 2012 جلد 19 شمارہ 26 صفحہ 5 تا 9)
خطبات مسرور جلد دہم 369 24 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 جون 2012ء خطبه جمع سید نا امیرالمومنین حضرتمرز امرود احمدخلیفة المس الخامس اید اللہ تعالی بصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 15 جون 2012 ء بمطابق 15 احسان 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - مورڈن - لندن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دعا کی حقیقت بیان فرماتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : یہ بھی لازم ہے کہ (ایک انسان) جیسے دنیا کی راہ میں کوشش کرتا ہے، ویسے ہی خدا کی راہ میں بھی کرے پنجابی میں ایک مثل ہے جو منگے سومر رہے مرے سومنگن جا.فرمایا: ”لوگ کہتے ہیں کہ دعا کرو.دعا کرنا مرنا ہوتا ہے.اس پنجابی مصرعہ کے یہی معنی ہیں کہ جس پر نہایت درجہ کا اضطراب ہوتا ہے وہ دعا کرتا ہے.دعا میں ایک موت ہے اور اس کا بڑا اثر یہی ہوتا ہے کہ انسان ایک طرح سے مرجاتا ہے.مثلاً ایک انسان ایک قطرہ پانی کا پی کر اگر دعوی کرے کہ میری پیاس بجھ گئی ہے یا یہ کہ اسے بڑی پیاس تھی تو وہ جھوٹا ہے.ہاں اگر پیالہ بھر کر پیوے تو اس بات کی تصدیق ہوگی.پوری سوزش اور گدازش کے ساتھ جب دعا کی جاتی ہے حتی کہ روح گداز ہو کر آستانہ الہی پر گر جاتی ہے اور اسی کا نام دعا ہے اور الہی سنت یہی ہے کہ جب ایسی دعا ہوتی ہے تو خداوند تعالیٰ یا تو اسے قبول کرتا ہے اور یا اسے جواب دیتا ہے.66 ( ملفوظات جلد نمبر 2 صفحہ 630.ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) یعنی اس دعا کی قبولیت ہوگی یا پھر اللہ تعالیٰ بتادیتا ہے کہ نہیں، یہ دعا اس رنگ میں قبول نہیں ہوگی.پس یہ دعا کی حقیقت ہے.خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو صرف سطحی دعا نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہوئے ، یہ ایمان رکھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ دعائیں قبول کرتا ہے اور پھر اس ایمان کے ساتھ مکمل طور پر ڈوب کر دعا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ سے کسی معاملے میں مدد اور رہنمائی چاہتی ہو، یا اپنی پر یشانیوں کا حل کروانا ہو، یا خدا تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننا ہو تو یہ سب باتیں اُسی وقت ہوتی ہیں جب اپنی تمام تر طاقتوں اور استعدادوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے آگے جھکا جائے ، اُس کے حضور دعائیں کی
خطبات مسر در جلد دہم 370 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 جون 2012ء جائیں.آج تک ہمارا یہی تجربہ ہے کہ پھر خدا تعالیٰ ایسی دعاؤں کو سنتا ہے، یا ایسی رہنمائی فرما دیتا ہے جو اگر دعا مانگنے والے کی خواہش کے مطابق نہ بھی ہو تب بھی تسلی اور تسکین کے سامان پیدا فرما دیتا ہے.پھر آداب دعا کی وضاحت کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : دعا بڑی عجیب چیز ہے مگر افسوس یہ ہے کہ نہ دعا کرانے والے آداب دعا سے واقف ہیں اور نہ اس زمانہ میں دعا کرنے والے ان طریقوں سے واقف ہیں جو قبولیت دعا کے ہوتے ہیں“.فرمایا ” بلکہ اصل تو یہ ہے کہ دعا کی حقیقت ہی سے بالکل اجنبیت ہو گئی ہے.بعض ایسے ہیں جو سرے سے دعا کے منکر ہیں اور جو دعا کے منکر تو نہیں مگر ان کی حالت ایسی ہو گئی ہے کہ چونکہ ان کی دعائیں بوجہ آداب دعا سے ناواقفیت کے قبول نہیں ہوتی ہیں.کیونکہ دعا اپنے اصلی معنوں میں دعا ہوتی ہی نہیں“.(یعنی دعا کے آداب نہیں آتے اور جب دعا کے آداب نہیں آتے تو دعائیں قبول نہیں ہوتیں لیکن فرمایا کہ اصل تو یہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ جو دعا کے اصل معنی ہیں اُس طرح دعا کی نہیں جاتی.) فرما یا اس لئے وہ منکرین دعا سے بھی گری ہوئی حالت میں ہیں.ان کی عملی حالت نے دوسروں کو دہریت کے قریب پہنچا دیا ہے.دعا کے لئے سب سے اوّل اس امر کی ضرورت ہے کہ دعا کرنے والا کبھی تھک کر مایوس نہ ہو جاوے اور اللہ تعالیٰ پر یہ سوءظن نہ کر بیٹھے کہ اب کچھ بھی نہیں ہو گا “.(اللہ تعالیٰ پر بدظنی نہیں ہونی چاہئے کہ بہت لمبا عرصہ میں نے دعا کر لی اب کچھ نہیں ہوگا ).( ملفوظات جلد نمبر 2 صفحہ 692-693 ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا کی حقیقت و آداب کا یہ ادراک ہمیں عطا فرمایا اور سب سے بڑھ کر اپنے اُن صحابہ کو عطا فرمایا جن کی براہ راست تربیت آپ نے فرمائی.بلکہ آپ کی آمد سے جو دنیا میں ایک ہلچل مچی ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی جو تحریک چلی ، اُس نے بھی بہت سے ایسے لوگوں کو جن کی اللہ تعالیٰ اصلاح کرنا چاہتا تھا، اُن میں بھی دعا کی حقیقت اور آداب کا ادراک پیدا فرما دیا.اور یوں اُن لوگوں کا آپ پر ایمان اور بھی مضبوط ہو گیا.اس وقت میں آپ کے زمانے کے اور آپ سے فیض پانے والے چند صحابہ کا ذکر کروں گا جنہوں نے دعا کی حقیقت کو جانا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اُن کی دعاؤں کی قبولیت کے نظارے دکھائے جس سے اُن کے ایمان بھی مضبوط ہوئے اور وہ لوگ دوسروں کی ہدایت کا بھی باعث بنے.
خطبات مسرور جلد دہم 371 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 جون 2012ء حضرت میاں محمد نواز خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ 1906ء میں یہاں سیالکوٹ میں طاعون کا از حد زور و شور تھا.رسالہ بند ہو گیا.ہر طرف مردے ہی مردے نظر آتے تھے.مولوی مبارک صاحب صدر میں مولا بخش (صاحب) کے مکان پر درس (دے) رہے تھے.میں لیٹا ہوا تھا.مجھے بھی طاعون کی گلٹی نکل آئی.میں نے دعا کی کہ یا مولا! میں نے تو تیرے مامور کو مان لیا ہے اور مجھے بھی گلٹی نکل آئی ہے.پس اب میں تو گیا.مگر خدا کی قدرت کہ صبح تک و گلٹی غائب ہو گئی اور میرا ایک ساتھی محمد شاہ ہوا کرتا تھا، اُسے میں نے دیکھا کہ مرا پڑا ہے.محمد شاہ اور میں دونوں ایک کمرے میں رہتے تھے.(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 10 صفحہ نمبر 143 روایت حضرت میاں محمد نواز خان صاحب) پھر حضرت خلیفہ نور الدین صاحب سکنہ جموں فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ جموں سے پیدل براہ گجرات کشمیر گیا.راستہ میں گجرات کے قریب ایک جنگل میں نماز پڑھ کر اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُبِكَ مِنَ الْهَةِ وَالْحُزْنِ والی دعا نہایت زاری اور انتہائی اضطراب سے پڑھی.اللہ تعالیٰ میرے حالات ٹھیک کر دے.کہتے ہیں اُس کے بعد اللہ تعالیٰ نے میری روزی کا سامان کچھ ایسا کر دیا کہ مجھے کبھی تنگی نہیں ہوئی اور باوجود کوئی خاص کا روبار نہ کرنے کے غیب سے ہزاروں رو پے میرے پاس آئے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 12 صفحہ نمبر 68 روایت حضرت خلیفہ نورالدین صاحب) حضرت امیر خان صاحب فرماتے ہیں کہ 1915ء کو میرے بچے عبداللہ خان کو جبکہ میں بمع عیال قادیان میں تھا طاعون نکلی اور دو دن کے بخار نے اس شدت سے زور پکڑا کہ جب میں دفتر سے چار بجے شام کے قریب گھر میں آیا تو اُس کی نہایت خطرناک اور نازک حالت تھی.اُس وقت میرے یہی ایک بچہ تھا.والدہ یعنی بچے کی ماں جو کئی دنوں سے اُس کی تکلیف کو دیکھ دیکھ کر جاں بہ لب ہورہی تھی ، مجھے دیکھتے ہی زار زار رو دی اور بچے کو میرے پاس دے دیا.سخت گرمی کا موسم اور مکان کی تنگی اور تنہائی اور بھی گھبراہٹ کو دو بالا بنارہی تھی.( مکان بھی تنگ ، گرمی کا بھی موسم، اکیلے اور اس پر یہ کہ بچہ بھی بہت زیادہ بیمار، توگھبراہٹ اور بھی زیادہ بڑھ رہی تھی) کہتے ہیں میں نے بچے کو اُٹھا کر اپنے کندھے سے لگالیا.بچے کی نازک حالت اور اپنی بے کسی ، بے بسی کے تصور سے بے اختیار آنکھوں سے آنسو بہنے لگے.اس اضطراری حالت میں بار باران دعائیہ الفاظ کا اعادہ کیا کہ اے خدا! اے میرے پیارے خدا! اس نازک وقت میں تیرے سوا اور کوئی غمگسار اور حکیم نہیں ،صرف ایک تیری ہی ذات ہے جو شفا بخش ہے.غرضیکہ میں اس خیال میں ایسا مستغرق
خطبات مسرور جلد دہم 372 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 جون 2012ء ہوا کہ یکا یک دل میں خیال ڈالا گیا کہ تو قرآنِ کریم کی دعا قُلْنَا يُنَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى ابراهیم پڑھ کر بچے کے سر پر سے اپنا ہاتھ پھیرتے ہوئے نیچے کی طرف لا اور بار بار ایسا کر.چنانچہ میں نے بچشم تر ( روتے ہوئے ) اسی طرح عمل شروع کیا.یہاں تک کہ چند منٹوں میں بچے کا بخار اتر گیا.صرف گلٹی باقی رہ گئی جو دوسرے دن آپریشن کرانے سے پھوٹ گئی اور چار پانچ روز میں بچے کو بالکل شفا ہو (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 6 صفحہ نمبر 150-151 روایت حضرت چوہدری امیر خان صاحب) حضرت چوہدری امیر محمد خان صاحب فرماتے ہیں کہ جب مجھے شفا خانہ ہوشیار پور میں علاج کراتے ایک عرصہ گزر گیا اور باوجود تین دفعہ پاؤں کے آپریشن کرنے کے پھر بھی پاؤں اچھا نہ ہوا تو ایک دن مس صاحبہ نے (یعنی انگریز نرس تھی) جو بہت رحمدل تھی اور خلیق تھی ، مجھے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو پاؤں کو ٹخنے سے کاٹ دیا جائے کیونکہ اب یہ ٹھیک نہیں ہو رہا.کیونکہ گینگرین کی طرح کی صورت پیدا ہو رہی ہے تا کہ مرض ٹخنے سے اوپر سرایت نہ کر جائے.میں نے گھر والوں سے مشورہ کر کے اجازت دے دی.اُس پر مس صاحبہ بیوی کو دوسرے کمرے میں لے گئی جس کمرے میں پاؤں کاٹنا تھا.( یہ آپریشن بیوی کا ہونا تھا ) میں نے ساتھ جانے کے لئے میں صاحبہ سے اجازت چاہی مگر اُس نے کہا کہ آپ یہیں رہیں.لہذا میں وہیں وضو کر کے نفلوں کی نیت کر کے دعا میں مصروف ہو گیا.( بیوی کا آپریشن کرنے کے لئے وہ لے گئی ).میں وہیں نفلوں میں دعا میں مصروف ہو گیا اور دل اس خیال کی طرف چلا گیا کہ اے خدا! تیری ذات قادر ہے تو جو چاہے سو کر سکتا ہے.پس تو اس وقت پاؤں کو کاٹنے سے بچالے.کیونکہ اگر پاؤں کٹ گیا تو عمر بھر کا عیب لگ جائے گا.تیرے آگے کوئی بات انہونی نہیں.اور اسی خیال میں سجدہ کے اندر سر رکھ کر دعا میں انتہائی سوز و گداز کے ساتھ مستغرق ہوا کہ عالم محویت میں ہی ندا آئی ، یہ آواز آئی کہ لا تَقْنَطُوا من رحمة اللہ اور جب اس آواز کے ساتھ ہی میں نے سجدہ سے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ مس صاحبہ (وہ نرس جو تھی میری طرف دوڑی آرہی ہے اور آتے ہی یہ کہا کہ سول سرجن صاحب فرماتے ہیں کہ اس دفعہ میں خود زخم کو صاف کرتا ہوں اور پاؤں نہیں کاٹتا، اس لئے کہ پاؤں کو ہر دفعہ کا ٹا جاسکتا ہے ( یعنی کہ پاؤں کو تو پھر بھی کاٹا جاسکتا ہے ) مگر کاٹا ہوا پاؤں ملنا محال ہے.میں خدا کی اس قدرت نمائی اور ذرہ نوازی کے سو جان سے قربان جاؤں جس نے کرم خاکی پر ایسے نازک وقت میں لا تقنطوا کی بشارت سے معجز نمائی فرمائی.اور وہ پاؤں کٹنے سے بچ گیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 6 صفحہ نمبر 121-122 روایت حضرت چوہدری امیر خان صاحب)
خطبات مسرور جلد دہم 373 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 جون 2012ء حضرت امیر خان صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ 1925ء میں جبکہ بوجہ زیادتی اخراجات کے انجمن میں تخفیف ہوئی اور میں بھی تخفیف میں آگیا اور اخراجات خانگی نے مجھے از حد پریشان کیا تو میں نے اس تنگی میں سوائے خدا کے آستانے کے اور کوئی چارہ کار نہ دیکھا.لہذا میں اُس کی جناب میں جھک گیا.یہاں تک کہ رمضان المبارک آ گیا اور اس میں مزید دعاؤں کی توفیق ملی اور پھر جب اعتکاف میں اور بھی سوز و گداز کے ساتھ دعاؤں کا موقع میسر آیا تب پنجابی میں اُن کو الہام ہوا کہ ہم وٹ زمانہ کٹ، بھلے دن آون گئے لیکن جب اس بشارت پر بھی عرصہ گزر گیا اور تنگی نے بہت ستایا تو فارسی میں بشارت ہوئی.در غم مخور زانکه در این تشویش خور می وصل یار می بینم.چنانچہ اس بشارت کے چند دن بعد خدا تعالیٰ نے مجھے لڑکا عطا کیا جس کا نام محمود احمد ہے.اور اس کے بعد میں اگست 1926ء کو محکمہ اشتمال اراضیات میں بمشاہرہ ( تنخواہ ) نوے روپے ماہوار سب انسپکٹر ہو گیا.یعنی خدا تعالیٰ نے تیس روپیہ ماہوار کی بجائے نوے روپیہ ماہوار عطا فرما دیئے.رض (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 6 صفحہ نمبر 152 - 151 روایت حضرت چوہدری امیر خان صاحب) حضرت بابو عبد الرحمن صاحب ، حضرت چوہدری رستم علی صاحب کے ساتھ اپنے ایک سفر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں اور چوہدری صاحب اور دو تین اور احمدی ایک تانگے میں بیٹھ کے قادیان پہنچ گئے.یہ سڑک اول دفعہ دیکھی تھی.اتنے دھکے لگتے تھے کہ بس الامان.بدن چور ہو جا تا تھا.سارے رستے میں گڑھے پڑے ہوئے تھے.سڑک کیا مثل ایک کچھی گوہر کے تھی.پھر اس کے بعد تو جب تک ریل تیار ہوئی اسی راستے سے کبھی تانگے میں اور کبھی پا پیادہ قادیان آتے رہے.ہاں تو قادیان پہنچ کر مہمان خانے میں ہم ٹھہرے.بعدہ میں اور چوہدری صاحب حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضرت صاحب مسجد مبارک کی چھت پر جو موجودہ مسجد مبارک کی شمال کی طرف مختصر سی جگہ بشکل مسجد تھی ، تشریف فرما تھے اور تقریباً دس بارہ دوسرے احباب حاضر تھے جن میں مولوی حکیم نور الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب " بھی تھے.بعد مصافحہ چوہدری صاحب نے میرا تعارف کرایا.میں نے حقیرسی رقم جو ایک رومال میں بند تھی حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کی.حضور نے رومال لے کر رکھ لیا.تھوڑی دیر کے بعد میری درخواست پر حضور نے بیعت لی اور بعد بیعت ہونے کے سب حاضرین نے دعا کی.پھر حضرت صاحب سے رخصت ہو کر ہم کچے رستے سے بٹالہ پہنچے.پھر بٹالہ سے بذریعہ ریل اپنے گھر پر بٹالہ شہر میں پہنچ گئے.چونکہ تعمیر مکان کے دوران میں ہم اس کام کو بیچ میں چھوڑ کر قادیان چلے
خطبات مسرور جلد دہم 374 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 جون 2012ء گئے تھے، ( یعنی اُن دنوں میں وہ اپنا مکان بنارہے تھے ) اس لئے واپس آکر پھر یہ تعمیر مکان کا کام شروع کیا.جب نیچے کی منزل تیار ہو چکی اور اوپر کی منزل تعمیر ہونا شروع ہوئی تو میں دفعتہ بیمار ہو گیا.بخار کی حرارت 104 درجہ تک پہنچ جاتی.اس طرح کئی روز گزر گئے.چوہدری رستم علی صاحب روز مرہ دریافت حال کے لئے تشریف لاتے اور تسلی دیتے اور فرماتے کہ میں حضرت صاحب کو روزمرہ دعا کے لئے لکھتا رہتا ہوں.ایک روز دن کا وقت تھا مجھے خواب میں معلوم ہوا کہ میری ہمشیرہ مرحومہ کہہ رہی ہیں کہ دعا قبول ہو گئی.آنکھ کھلنے پر میں نے اپنی بیوی اور اپنے بھائی اور لڑکوں سے کہا کہ ہمشیرہ ابھی یہاں پر کھڑی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ دعا قبول ہوگئی لیکن ہوا کیا؟ اُس کے بعد بخار کی حرارت زیادہ سے زیادہ ہوتی گئی اور میں کئی روز تک بیہوش رہا.سب گھر والوں کو مایوسی ہو گئی.بالخصوص چوہدری رستم علی صاحب مرحوم کو بہت تشویش ہوئی کہ خدانخواستہ اگر اس وقت وفات کا واقعہ ہو گیا تو سب کہیں گے کہ یہ بیعت کرنے کا نتیجہ ہے اور بہت خراب اثر گھر والوں پر پڑے گا اور دوستوں پر بھی جنہوں نے اس کے ساتھ بیعت کی ہے.چوہدری صاحب مرحوم دعا میں لگے رہے اور صحت کے لئے روز مرہ حضرت صاحب کی خدمت میں لکھتے رہے.خدا کا شکر ہے کہ مجھے آرام ہونا شروع ہو گیا اور ایک مہینے کے اندر بالکل آرام ہو گیا.ہم نے عید کی نماز دکانوں میں پڑھی.الحمد للہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خواب میں دکھلایا تھا دعا قبول ہوگئی.وہ بات پوری ہو گئی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 12 صفحہ نمبر 249 تا 251 روایت حضرت با بوعبدالرحمن صاحب) حضرت حافظ مبارک احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول ”مولوی صاحب، (مولوی خان ملک صاحب) کی خاص عزت کیا کرتے تھے.اس کی وجہ یہ مولوی خان ملک صاحب خود فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مولوی صاحب مجھ سے طالب علمی کے زمانے میں کہا کرتے تھے کہ آپ دعا کریں کہ میں بہت بڑا آدمی بن جاؤں.( بڑا آدمی ہونے سے مراد دین میں ترقی کرنا تھا).فرماتے تھے کہ حضرت خلیفہ اول کی یہ باتیں سن کے میں اُن کے لئے بہت دعا کیا کرتا تھا.تو میں نے حضرت مولوی صاحب کے لئے دعا کی اور قبولیت کے آثار دیکھ کر اُن کو بتا بھی دیا کہ آپ بڑے دینی عالم بن جائیں گے.(اور یہی مراد تھی اُن کی دعا کرنے سے کہ دین کا بڑارتبہ مجھے حاصل ہو جائے ).(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ نمبر 169 روایت حضرت حافظ مبارک احمد صاحب) حضرت عبد الستار صاحب ولد عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ حضور کی پیشگوئی عَفَتِ الدِّيَارُ
خطبات مسرور جلد دہم 375 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 جون 2012ء مَحِلُّهَا وَ مَقَامُهَا ( یعنی عارضی رہائش کے مکانات بھی مٹ جائیں گے اور مستقل رہائش کے بھی.یہ الہام تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ).کہتے ہیں کہ اس کے بعد زلزلہ سے تین دن پہلے مجھے خواب آئی کہ حضور ہمارے گھر ہماری چار پائی پر بیٹھے ہوئے ہیں.اُس پر میں نے عرض کیا کہ ہمارے گاؤں والے مجھے سخت تکلیف دے رہے ہیں ، آپ میرے لئے دعا فرمائیں.اس پر حضور نے پنجابی میں ہی فرمایا.” میں تے ایہوای کم کرناں ہونا.( یعنی میں تو یہی کام کرتا ہوں.یہ خواب میں ان کو بتایا گیا.) اس پر دوبارہ میں نے عرض کی.میرے واسطے علیحدہ دعا کی جائے تو حضور نے (خواب میں ) میرے بائیں بازو کو پکڑ کر ایک ہاتھ سے ہی دعا کرنی شروع کر دی.میں نے دونوں ہاتھ سے دعا کرنی شروع کر دی.دعا کر ہی رہے تھے کہ بہت سخت زلزلہ آ گیا.میں گرنے کو ہوا ہی تھا کہ حضور کو میں نے زور سے پکڑ لیا، بغل گیر ہو گیا اور کہتے ہیں بھی پڑے پڑے ہی مجھے جاگ آگئی.صبح سویرے میں قادیان آیا تو حضور نے بڑے باغ میں خیمہ لگایا ہوا تھا.جب میں خیمہ کی طرف گیا تو حضور باہر ٹہل رہے تھے.میں نے سلام و آداب کیا اور مصافحہ کیا.میں نے عرض کی کہ حضور میں ایک خواب سنانا چاہتا ہوں.اس پر حضور نے اجازت دی اور یہی خواب میں نے حضور کو سنائی کہ حضور نے یہ لفظ " تم بچائے جاؤ گے قریباً تین دفعہ دہرائے.کہتے ہیں.اُس کے بعد کیا ہوا کہ طاعون آ گیا.میری بیوی اور لڑکی دونوں کو طاعون ہو گئی تو لوگوں نے کہا کہ یہاں دس دس بارہ بارہ آدمی روز مرتے ہیں ، اگر تم مر گئے تو تمہاری قبر کون کھو دے گا ؟ ( کیونکہ احمدیوں کے قریب کوئی نہیں آئے گا.) تمہاری میت کو کون اُٹھائے گا اور غسل دے گا ؟ اس پر میں نے جواب دیا کہ ہم کو خدا کو سونپو.میری بیوی قریب المرگ ہو گئی.میں نے خدا کے حضور وضو کر کے یہی دعا کی کہ اے مولیٰ ! ہماری قبر بھی کوئی کھودنے والا نہیں ہے اور اُٹھانے والا اور غسل دینے والا بھی کوئی نہیں.اُس وقت میرے پاس سنگترے تھے تو وہ میں چھیل کر اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتا رہا.جب اُس نے کھالئے تو میری بیوی کو دست آئے اور ساتھ ہی بخار بھی ٹوٹ گیا.میری لڑکی کے پھوڑے پر آک کا دودھ ( آک ایک پودہ ہوتا ہے اُس کا دودھ ) لگایا تو اُس کو بھی آرام آ گیا.اور پھر خدا کے آگے میں دعا کرنے لگا اور پنجابی میں ہی دعا کی کہ میں الحمد پڑھتا تھا تو یہ لفظ خود بخود میری زبان سے رواں تھے کہ قُل سِيرُوا فِي الْأَرْضِ كَيْفَ كَانَ حَافِظ عَلَيْهِ.اس پر میری بیوی اور لڑکی بچ گئی.اُس وقت مجھے حضور کی بات یاد آئی کہ تم بچائے جاؤ گئے.( تین دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ تم بچائے جاؤ گے.تم بچائے جاؤ
خطبات مسرور جلد دہم 376 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 جون 2012ء گے.اور اللہ کے فضل سے وہ بچائے گئے ).(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 6 صفحہ نمبر 183 - 184 روایت حضرت عبدالستار صاحب) حضرت میر مهدی حسین صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک روز کا ذکر ہے کہ میں صبح کی نماز پڑھ کر مسجد مبارک سے پیر سراج الحق صاحب کے ساتھ اُن کے مکان کے زینے پر کھڑا ہو گیا.پیر صاحب کوئی لمبا قصہ کسی کا ذکر کر رہے تھے.مجھے ایک غیبی تار کے ذریعے معلوم ہوا کہ میری جان خطرے میں ہے ( یعنی ایک احساس ہوا ).میں ان ایام میں حضرت صاحب کے دروازے پر دربان تھا.میں وہاں سے بھاگا.میرے سے پیش پیش محمد اکبر خان سنوری کچھ سودا بازار سے لے کر ڈیوڑھی میں داخل ہوئے.آگے سے حضرت اقدس اوپر سے نیچے تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ میاں مہدی حسین ہے؟ اکبر خان نے کہا کہ نہیں، دکانوں پر کھڑا ہو گا.میں نے معا آواز دی کہ حضور میں حاضر ہوں.اکبر خان صاحب نے کہا کہ اب کہیں سے آ گیا ہو گا.اس پر حضور نے مجھے حکم دیا کہ یہ قرآن شریف لے جاؤ اور فلاں مضمون کی آیت دریافت کر کے اُس پر نشان کر کے لے آؤ.کہتے ہیں اس وقت میں ایسی حالت میں غرق ہوا کہ میں چاہتا تھا کہ میں خود ہی وہ آیت نکال کر پیش کر دوں، جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تلاش تھی.لیکن یہ ممکن معلوم نہ ہوتا تھا.میں نے جناب الہی میں دعا کی.اللہ تعالیٰ نے فوری دعا کس طرح قبول کی.کہتے ہیں وہیں میں نے کھڑے کھڑے جناب الہی میں دعا کی کہ وہ آیت مجھے ہی بتلا دی جائے.یہ دعا کر کے میں نے قرآن شریف کھولا تو میری پہلی نظر ہی اُس آیت پر پڑی جو حضرت اقدس کو مطلوب تھی.میں نے عرض کی کہ حضور! آیت یہ موجود ہے.فرمایا ہاں حکیم فضل دین صاحب سے پوچھ کر آؤ.یعنی حکیم فضل دین صاحب کے پاس بھیجا تھا کہ ان سے نکل الاؤ تو میں نے عرض کی حضور! آیت یہ موجود ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ ہاں حکیم فضل دین صاحب سے پوچھ کے آؤ.میں نے پھر عرض کیا کہ حضور! آیت تو یہ موجود ہے حکیم فضل دین صاحب سے کیا پوچھنا ہے.حضور نے پھر میرے ہاتھ سے قرآن شریف لے کر اس آیت کو دیکھا اور فرمایا کہ ہاں یہی ہے.پھر آپ او پر تشریف لے گئے.ย (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ نمبر 274-275 روایت حضرت میر مهدی حسین صاحب) حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی بیان کرتے ہیں کہ مجھے مسلسل اور منظم طور پر یاد نہیں، متفرق طور پر یہ بات یاد آئی ہے کہ گزشتہ مذکور مباحثے کے بعد ایک اشتہار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے نکلا، یہ جلسہ مہوتسو کے متعلق تھا ، اُس میں اسلامی اصول کی فلاسفی کے بارے میں حضرت صاحب کا یہ الہام درج تھا کہ میرا مضمون بالا رہا.کہتے ہیں اس وقت کسی وجہ سے میں کچھ
خطبات مسرور جلد دہم 377 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 جون 2012ء بیمار تھا.اور بیماری بھی ایسی تھی کہ بہت زیادہ کمزوری تھی.دعویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بڑا بھاری تھا کہ " میرا را مضمون سب پر بالا رہے گا.بجز تائید الہی یہ بات کون کہہ سکتا ہے.کہتے ہیں کہ میں ایک اپنے اہلحدیث مولوی کو جو لاہور میں تھا ، افتان و خیزاں (بڑی مشکل سے گرتے پڑتے ) اُس کو ساتھ لے کر جلسہ گاہ میں پہنچا.مولوی ثناء اللہ اور مولوی محمد حسین بٹالوی وغیرہ کے لیکچر بھی سنے مگر سب پھیکے اور بے اثر لیکن جب حضرت مرزا صاحب کا مضمون شروع ہوا تو تیل رکھنے کی جگہ نہ تھی اور سامعین پر ایسا سکوت تھا کہ ذرا بھنک نہیں آتی تھی.یہاں تک کہ بعض اور لوگوں نے بھی اپنے اوقات حضرت مرزا صاحب کا مضمون سننے کے لئے وقف کر دیئے.اور دو دن ایام مقررہ سے زائد کئے گئے.جب یہ مضمون آخر میں پہنچا تو میں نے اُسی وقت اسی جگہ ہاتھ اُٹھا کر جناب الہی میں دعا کی ( یہ دیکھیں اللہ تعالیٰ پھر سعید فطرت لوگوں کی رہنمائی کس طرح فرماتا ہے ) کہ یا اللہ ! اگر یہ تیرا وہی بندہ ہے جس کی نسبت تیرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی ہے تو اُس کی برکت سے مجھے اس بیماری سے شفا بخش دے.الغرض جلسہ ختم ہونے کے بعد جب میں جلسہ گاہ کے بڑے دروازے سے باہر نکلا تو اللہ کی قسم ! مجھے ایسا معلوم ہوا کہ مجھے کوئی بیماری نہ تھی.اُس دن سے آج تک پھر اس بیماری نے عود نہیں کیا.( دوبارہ نہیں آئی ).اور چنانچہ یہ احمدی بھی ہوئے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ نمبر 247-248 روایت حضرت میر مهدی حسین صاحب) حضرت اللہ بخش صاحب بیان کرتے ہیں کہ کرم دین کے مقدمے میں پہلے چند ولال آریہ منصف تھا.کہتے ہیں میرا ایک آریہ دوست تھا ، گردھاری لال، اکا ؤنٹنٹ تھا، اس نے آکر مجھے یہ خبر دی کہ ہماری کمیٹی میں فیصلہ ہو چکا ہے کہ مرزا صاحب کو سخت سزا دی جائے.میں نے خبر سن کر حضرت صاحب کی خدمت میں بیان کی.آپ نے فرمایا کہ دعا کرو.( کہتے ہیں ) خیر میں واپس آ گیا.جب امرتسر گیا تو صبح کی نماز کا وقت تھا.میں مسجد گیا اور مسجد کی ڈاٹ میں بیٹھا ہوا تھا اور غالباً درود شریف پڑھ رہا تھا کہ میرے دائیں کان میں جو قریباً بند ہے، ان کا دایاں کان بند تھا اور کہتے ہیں ) اُس وقت بھی بند تھا زور سے آواز آئی کہ چند ولال فیصلہ سنانے سے پہلے مرجائے گا.پھر میں حضرت صاحب کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ حضرت ! یہ آواز مجھے اس کان میں بہت زور سے پڑی ہے کہ چند ولال فیصلہ سنانے سے پہلے مارا جائے گا.آپ نے فرمایا کہ یہ مبشر خواب ہے اور دعا کرو....اس کے بعد میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک مسلمان مجسٹریٹ ہے جس نے آتما رام کو سفید گلاس میں پانی پلایا ہے.جو شکل مجھے آتما رام کی خواب
خطبات مسرور جلد دہم 378 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 جون 2012ء میں دکھائی گئی اُس میں وہ ٹانگ سے کچھ معذور تھا.اس کے بعد مقدمے کی تاریخ جب آئی تو میں گورداسپور میں تھا.کوئی شخص رخصت پر جارہا تھا یا تبدیل ہو کر جارہا تھا، اُس کو گاڑی پر سوار کرنے کے لئے چند اور لوگوں کے ساتھ آتما رام بھی آیا ہوا تھا.میں نے اس خواب والے حلیہ کے مطابق اُس کو دیکھا اور پھر میں وہاں گیا جہاں حضرت صاحب تشریف رکھتے تھے.دری بچھی ہوئی تھی اور احباب بیٹھے تھے.میں بھی بیٹھ گیا.اس وقت پھر آ تمارام سٹیشن سے واپس عدالت میں آیا تو جہاں ہم بیٹھے تھے ، عدالت کے کمرے کا وہی راستہ تھا.میں نے کسی دوست سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے.اُس نے کہا کہ اس کے پاس حضرت صاحب کا مقدمہ ہے.میں نے کہا مجھ کو اس کی شکل پہلے ہی دکھائی گئی ہے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ نمبر 145 تا 147 روایت حضرت اللہ بخش صاحب) اور چندو لال کے بارے میں یہ بھی بتا دوں کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اللہ تعالیٰ سے اطلاع پائی تھی.ایک دفعہ جب کسی نے کہا کہ چندو لال مجسٹریٹ کا ارادہ ہے کہ آپ کو قید کر دے تو آپ دری پر لیٹے تھے، اٹھ بیٹھے اور فرمایا کہ میں چند ولال کو عدالت کی کرسی پر نہیں دیکھتا.چنانچہ آخر اس عہدہ سے اُس کی تنزلی ہو گئی ( نیچے چلا گیا ) اور ملتان میں اُس کی تبدیلی ہو گئی.پھر پنشن پاکے لدھیانہ آ گیا اور آخر انجام بھی اُس کا بڑا بھیا نک ہوا کہ پھر پاگل ہو کر وہ مرا.(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 286 مطبوعہ ربوہ ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جب ایسے موقع آتے تھے خود بھی دعا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے تسلی بھی ہوتی تھی لیکن پھر بھی اپنے صحابہ کو یہ کہا کرتے تھے کہ دعا کرو اور پھر اگر کوئی خواب وغیرہ آئے تو وہ سن کے اُس پر اپنا اظہار بھی فرمایا کرتے تھے.حضرت مرزا غلام نبی صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے بیعت کی تو حضرت صاحب کے الہامات پڑھنے کا مجھے بہت شوق تھا.اُن دنوں اخبار زمیندار اور کئی اخباروں میں حضرت اقدس کے الہامات کے خلاف تحریر میں نکلا کرتی تھیں اور میں بھی اکثر ان کو پڑھا کرتا تھا.اُن کے پڑھنے کا مجھ پر یہ اثر ہوا کہ الہامات کی کیفیت کے بارے میں مجھے پریشانی پیدا ہوئی.کیونکہ جب الہامات کا ذکر ہوتا تھا یا مخالفین کے جو اخبارات تھے یہ اپنے اخباروں میں الہامات کا ذکر کرتے تھے اور پھر اس پر اوٹ پٹانگ تبصرے ہوتے تھے.تو کہتے ہیں اس سے مجھے پریشانی پیدا ہوتی تھی.کہتے ہیں ایک دن میں نے خدا کے حضور دعا کی کہ اے خدا! میں اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکتا، مجھے اپنے فضل سے سمجھا.اس کے بعد اچانک
خطبات مسرور جلد دہم 379 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 جون 2012ء دو پہر کے وقت مجھ پر ایک نئی حالت غنودگی کی طاری ہوئی اور اس حالت میں آسمان سے ایک نیلگوں رنگ کا گھوڑا اتر تا ہوا معلوم ہوا.جوں جوں وہ زمین کے نزدیک آتا تھا اُس کا رنگ شوخ ہوتا جاتا تھا.اُس کی گردن سے بجلی کی طرح ایک شعلہ نکلتا تھا.میرے دل پر یہ القاء ہوا کہ یہ تمہارے مرشد کا نشان ہے.عنقریب یہ روشنی زمین تک پہنچے گی اور دشمنوں کا رنگ زرد کر دے گی.اس کے چند ماہ بعد حضرت صاحب کا روشن ستارے والا نشان جو حقیقۃ الوحی میں درج ہے ، وہ نمودار ہوا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ نمبر 225 روایت حضرت مرزا غلام نبی صاحب) اس نشان کے بارے میں تھوڑ اسا مختصر ذکر میں بتا دوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ: اس کے بعد جس رنگ میں یہ پیشگوئی ظہور میں آئی ( یہ روشن ستارے والی ) ”وہ یہ ہے کہ ٹھیک 31 مارچ 1907ء کو جس پر 7 مارچ سے 25 دن ختم ہوتے ہیں ایک بڑا شعلہ آگ کا جس سے دل کانپ اٹھے ، آسمان پر ظاہر ہوا اور ایک ہولناک چمک کے ساتھ قریباً سات سو میل کے فاصلہ تک (جواب تک معلوم ہو چکا ہے ( جب یہ لکھا گیا تھا یا اس سے بھی زیادہ ) جا بجازمین پر گرتا دیکھا گیا اور ایسے ہولناک طور پر گرا کہ ہزارہا مخلوق خدا اس کے نظارہ سے حیران ہو گئی اور بعض بیہوش ہو کر زمین پر گر پڑے اور جب ان کے منہ میں پانی ڈالا گیا تب ان کو ہوش آئی.اکثر لوگوں کا یہی بیان ہے کہ وہ آگ کا ایک آتشی گولہ تھا جو نہایت مہیب اور غیر معمولی صورت میں نمودار ہوا اور ایسا دکھائی دیتا تھا کہ وہ زمین پر گرا اور پھر دھواں ہو کر آسمان پر چڑھ گیا.بعض کا یہ بھی بیان ہے کہ دم کی طرح اس کے ایک حصہ میں دُھواں تھا.اور اکثر لوگوں کا بیان ہے کہ وہ ایک ہولناک آگ تھی جو شمال کی طرف سے آئی اور جنوب کو گئی.اور بعض کہتے ہیں کہ جنوب کی طرف سے آئی اور شمال کو گئی.اور قریباً ساڑھے پانچ بجے شام کے اس وقوعہ کا وقت تھا.“ (یعنی یہ وقوعہ ہوا ).تو اس طرح اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کو دعا کے بعد نشانات کی طرف اشارہ کرتا تھا اور پھر وہ نشانات ظاہر بھی ہوئے اور اس طرح یہ اُن کے ایمان میں ترقی کا باعث بنتے تھے.پس دعاؤں کی قبولیت اور روشن نشانوں سے اللہ تعالیٰ نے اُن صحابہ کے ایمانوں کو مزید مضبوط اور مینقل کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ دعاؤں کی حقیقت اور آداب کا جو ادراک صحابہ کو حاصل ہوا، یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ وہ ہم میں سے ہر ایک کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ہمیں (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 518)
خطبات مسرور جلد دہم 380 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 جون 2012ء بھی روشن نشانوں کے ذریعہ قبولیت دعا کے نشان دکھائے.ہم میں سے ہر ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان میں مضبوط ہواور اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق پیدا کرنے والا ہو.پس آجکل بھی ہر احمدی کو یہ دعا کرنی چاہئے.یہ الہام جو میں نے بتایا کہ نہ کوئی عارضی رہائش باقی رہے گی نہ مستقل.دنیا کے جو حالات ہورہے ہیں اور جس طرح جنگ عظیم کا خطرہ ہے ، اس بارے میں بھی دعا کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس سے محفوظ رکھے بلکہ انسانیت کو اس سے محفوظ رکھے.اور یہ بلائیں جو آنے والی ہیں وہ ٹل جائیں.انشاء اللہ تعالیٰ میں چند ہفتوں کے لئے پھر سفر پر جا رہا ہوں.دعا کریں اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے با برکت فرمائے.امریکہ اور کینیڈا کے جلسے ہر لحاظ سے بابرکت ہوں.دنیا کے بعض ممالک میں پاکستان کے علاوہ بھی احمدیوں پر زندگی تنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.اللہ تعالیٰ ان شر پیدا کرنے والوں کو جن میں حکومتیں بھی شامل ہیں اپنی قدرت کا نشان دکھاتے ہوئے ان کے شر دور فرمائے اور احمدیت کی سچائی ظاہر فرمائے اور احمدیوں کو ہر جگہ ہر قسم کے شرور سے محفوظ فرمائے.آمین الفضل انٹر نیشنل مورخہ 6 جولائی تا 12 جولائی 2012 جلد 19 شمارہ 27 صفحہ 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد دہم 381 25 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 جون 2012ء خطبه جمع سید نا امیرالمومنین حضرتمرز امرود احمدخلیفة المس الخامس اید اللہ تعالی بصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 22 جون 2012ء بمطابق 22 احسان 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الرحمن.واشنگٹن.امریکہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ احسان ہے کہ اُس نے اس زمانے میں جس شخص کو دنیا کی اعتقادی اور عملی اصلاح کے لئے بھیجا، ہم اُس کے ماننے والے ہیں.لیکن اس ایمان لانے کے باوجود ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کے قول و فعل میں تضاد ہے.افراد جماعت کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جن کے قول اور فعل ویسے نہیں جیسے ہونے چاہئیں.بیشک اُن کی گھٹی میں احمدیت رچی ہوئی ہے.یعنی اگر ان سے پوچھو کہ تم احمدی ہو تو بتائیں گے کہ ماشاء اللہ ہمارے دادا پڑدادا احمدی ہوئے تھے، صحابی تھے اور فلاں واقعات اُن کے ایمان اور ایقان کے تاریخ احمدیت اور صحابہ میں درج ہیں.بلکہ بعض مجھے بھی بتا ئیں گے کہ فلاں صحابی کا جو واقعہ آپ نے بیان کیا ( گزشتہ کئی خطبوں میں میں صحابہ کے واقعات بیان کرتا رہا ہوں ) وہ میرے نانا تھے یا پڑ نانا تھے یا دادا تھے یا پڑدادا تھے.احمدیت پر اُن کا ایمان ایسا ہے کہ دشمن کے حملے اور واران کو احمدیت سے دور نہیں کر سکے.جان، مال کی قربانی بھی انہوں نے دی اور اُن کے باپ دادا نے بھی دی.اُن میں سے بہت سے آپ میں بھی یہاں بیٹھے ہوں گے لیکن اس سے بھی ہم انکار نہیں کر سکتے کہ قوموں کی ترقی کبھی نہیں ہو سکتی جب تک ہم اپنی آنکھیں کھلی نہ رکھیں، جب تک ہم خود اپنے جائزے نہ لیتے رہیں.پس اس بات سے ہم انکار نہیں کر سکتے کہ احمدیت میں شامل انہی لوگوں میں بعض عملی کمزوریاں بھی ہیں.حقوق اللہ کی ادائیگی میں کمزوریاں ہیں، حقوق العباد کی ادائیگی میں کمزوریاں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد تو طبیعتوں میں ایک انقلاب پیدا کر کے چودہ سوسال کے عرصے میں
382 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 جون 2012ء خطبات مسرور جلد دہم جن اندھیروں نے دلوں پر قبضہ کرلیا تھا، انہیں روشنیوں میں بدلنا تھا.یہ مقصد تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا.اور ہمارے آباؤ اجداد نے یہ انقلاب اپنے اندر پیدا کیا.اندھیروں سے روشنیوں میں آئے.ایک انقلابی تبدیلی اپنے اندر پیدا کی، اپنی اعتقادی اور عملی حالتوں میں ہم آہنگی پیدا کی.لیکن اگلی نسلوں کے وہ معیار نہیں ہیں.پس ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اپنی عملی حالتوں کے معیار اونچے رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اُن معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ جو ہمارے بڑوں نے کئے ، چاہے وہ صحابہ تھے یا اُن کے بعد ہونے والے احمدی تھے.یہاں امریکہ میں ایک بہت بڑی تعداد الیفر وامیریکن (Afro-American) کی بھی ہے.ان کے بڑوں نے بھی جب احمدیت قبول کی تو بڑی قربانیاں کیں اور اپنی حالتوں میں تبدیلیاں پیدا کیں.لیکن آگے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ حالتیں قائم ہیں؟ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارے عمل اور اعتقاد میں کوئی تضاد تو نہیں؟ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد اور نعرے صرف وقتی جذبات تو نہیں؟ جن شرائط پر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی ہے اُن کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کے لئے ہم عملی کوشش بھی کر رہے ہیں کہ نہیں ؟ پس یہ جائزے ہیں جو ہمیں اپنے ایمان میں ترقی کی طرف لے جانے اور ہمارے اعتقاد اور عمل میں ہم آہنگی پیدا کرنے والے ہوں گے.اس وقت میں انہی جائزوں کی طرف توجہ دلانے کے لئے شرائط بیعت میں سے ایک اہم امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جو اسلام کے بنیادی ارکان میں سے بھی دوسرا اہم رکن ہے.قرآن کریم میں بھی اس کی بار بار تاکید کی گئی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی اہمیت کی طرف بار بار توجہ دلائی ہے اور یہ اہم چیز ہے نماز.شرائط بیعت کی تیسری شرط میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے حق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے سب سے پہلے اس بنیادی رکن کو لیتے ہوئے فرمایا ہے کہ میری بیعت میں آنے والے یہ عہد کریں کہ بلا ناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا“.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) یہاں صرف یہی نہیں فرمایا کہ عہد کرو کہ نمازیں ادا کرو گے، بلکہ پنجوقتہ نماز اور ان کی ادائیگی موافق حکم خدا اور رسول ہے.اس کی ادائیگی اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق ہونی چاہئے.نماز کے بارے میں خدا تعالیٰ کا کیا حکم ہے؟ فرمایاوَأَقِيمُوا الصَّلوةَ (البقرة:44) اور
خطبات مسرور جلد دہم 383 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 جون 2012ء نمازوں کو قائم کرو.نماز کے قیام کا حکم قرآنِ کریم میں بہت سی جگہوں پر ہے، بلکہ سورۃ بقرہ کی ابتدا میں ہی ایمان بالغیب کے بعد اس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : انسان کبھی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کرتا جب تک کہ اقام الصلوۃ نہ کرے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 346 ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) اور اس زمانے میں قیام نماز کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب خدا تعالیٰ نے خلافت کے وعدے کے ساتھ اس طرف توجہ دلائی ہے کہ خلافت کے انعامات اُن لوگوں کے ساتھ ہی وابستہ ہیں جو نماز کے قیام کی طرف نظر رکھیں گے.قیام نماز کیا ہے؟ نماز کی باجماعت ادا ئیگی ، با قاعدہ ادا ئیگی اور وقت پر ادا ئیگی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ اَقِيْمُوا الصَّلوةَ وَآتُوا الزَّكوةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ (البقرة: 44) اور نماز کو قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو.یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور ا کٹھے ہو کر جھکنے والوں کے ساتھ جھکو.پس نماز قائم کرنے والوں اور مالی قربانیاں کرنے والوں کی یہ خصوصیت بیان فرمائی ہے اور فرمایا کہ یہ خصوصیت اُن میں ہونی چاہئے کہ وہ ایک جماعتی رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں ، اور یہی انہیں حکم ہے کہ جماعت بنا کر عبادت کرو اور جماعتی طور پر مالی قربانیوں کا بھی ذکر ہے کہ وہ کرو تا کہ اُس کام میں اُس عمل میں جو ایک جماعت پیدا ہونے کی وجہ سے ہوگا، برکت پڑے.نمازوں کے باجماعت ثواب کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ باجماعت نماز پڑھنے والے کو ستائیس گنا ثواب ملتا ہے.(صحیح بخاری کتاب الاذان باب فضل صلاة الجماعة حديث:645) ہم درسوں میں سنتے ہیں، تقریروں میں سنتے ہیں، بچوں کو بھی تقریریں تیار کرواتے ہیں اُس میں بیان کرتے ہیں لیکن جب عمل کا وقت آتا ہے تو اس پر پوری توجہ نہیں دی جارہی ہوتی.پس سوائے اشد مجبوری کے اپنی نمازوں کو باجماعت ادا کرنا چاہئے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ اگر جائزے لیں تو یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ نماز با جماعت کی طرف وہ تو جہ نہیں جو ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے امریکہ میں مساجد بنانے کی طرف بہت توجہ پیدا ہوئی ہے لیکن مساجد بنانے کا فائدہ تو تبھی ہے جب اُن کے حق بھی ادا ہوں.اور مساجد کے حق اُن کو آباد کرنا ہے.اور آبادی کے لئے خدا تعالیٰ نے جو معیار رکھا ہے وہ پانچ وقت مسجد میں آکر نماز ادا کرنا ہے.بہت سے لوگ بیشک ایسے ہیں جن کو کام کے اوقات کی وجہ سے پانچ وقت مسجد میں آنا مشکل ہے.لیکن فجر ، مغرب اور عشاء میں تو یہ
خطبات مسرور جلد دہم 384 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 جون 2012ء عذر نہیں چلتا، اُس پر تو حاضر ہو سکتے ہیں.میں جانتا ہوں دنیائے احمدیت میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ان مغربی ممالک میں رہتے ہیں اور مسجد سے پندرہ بیس میل کے فاصلے پر رہتے ہیں.لیکن نمازوں کے لئے مسجد میں آتے ہیں.اگر ظہر، عصر کی نمازیں نہ پڑھ سکیں ، تو جیسا کہ میں نے کہا ، یہ لوگ فجر ، مغرب اور عشاء پر ضرور شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں.یہاں تو تقریباً ہر ایک کے پاس سواری ہے، اپنے دنیاوی کاموں کے لئے سواریاں استعمال کرتے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اور اُس کی عبادت کے لئے یہ سواریاں استعمال کریں گے تو ان سواریوں کا مقصد دین کی خدمت بھی بن جائے گا اور آپ کے بھی دین و دنیا دونوں سنور جائیں گے.جہاں بہت زیادہ مجبوری ہے وہاں اگر قریب احمدی گھر ہیں تو کسی گھر میں جمع ہو کے گھروں میں باجماعت نماز کی ادائیگی ہو سکتی ہے.جہاں اکیلے گھر ہیں وہاں اپنے گھر میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ باجماعت نماز کی ادائیگی کی کوشش ہونی چاہئے تا کہ بچوں کو بھی نماز باجماعت کی اہمیت کا پتہ چلے.بچوں کو ماں باپ اگر فجر کی نماز کے لئے اُٹھا ئیں گے تو اُن کو جہاں نماز کی اہمیت کا اندازہ ہو گا وہاں بہت سی لغویات سے بھی وہ بچ جائیں گے.جن کو شوق ہے، بعضوں کو رات دیر تک ٹی وی دیکھنے یا انٹرنیٹ پر بیٹھے رہنے کی عادت ہوتی ہے، خاص طور پر ویک اینڈ (Weekend) پر تو نماز کے لئے جلدی اُٹھنے کی وجہ سے جلدی سونے کی عادت پڑے گی اور بلا وجہ وقت ضائع نہیں ہوگا.خاص طور پر وہ بچے جو جوانی میں قدم رکھ رہے ہیں، اُن کو صبح اٹھنے کی وجہ سے ان دنیاوی مصروفیات کو اعتدال سے کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوگی.بعض مجبوریاں بھی ہوتی ہیں، اچھی دیکھنے والی چیزیں بھی ہوتی ہیں، معلوماتی باتیں بھی ہوتی ہیں، اُن سے میں نہیں روکتا، لیکن ہر چیز میں ایک اعتدال ہونا چاہئے.نمازوں کی ادائیگی کی قیمت پر ان دنیاوی چیزوں کو حاصل کرنا انتہائی بے وقوفی ہے.پھر یہ بھی ہے کہ چھٹی کے دن بعض مجبوریاں ہوتی ہیں، بعض فیملی کے اپنے پروگرام ہوتے ہیں، چھٹی کے دن اگر فیملی کا کہیں باہر جانے کا پروگرام ہے تو اور بات ہے لیکن اگر نہیں ہے تو پھر مسجد میں زیادہ سے زیادہ نمازوں کے لئے آنا چاہئے اور بچوں کو ساتھ لانا چاہئے.بہت سے لوگ کہتے ہیں جی بچوں کو مسجد میں آنے کی عادت نہیں ہے، بعض بچے بگڑ رہے ہیں.اُن کا علاج تو اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ بچپن سے اُن کو اس بات کی عادت ڈالیں کہ وہ خدا کا حق ادا کریں اور وہ حق نمازوں سے ادا ہوتا ہے.بچوں کو بچپن سے اگر یہ احساس ہو کہ نماز ایک بنیادی چیز ہے جس کے بغیر مسلمان مسلمان کہلا ہی نہیں سکتا تو پھر جوانی میں یہ عادت پختہ ہو جاتی ہے اور پھر یہ شکوے بھی نہیں رہیں گے کہ بچے بگڑ گئے.تفریح کے لئے بھی اگر جائیں، اگر کوئی پروگرام ایسا ہے تو
خطبات مسرور جلد دہم 385 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 جون 2012ء جہاں دنیاوی دلچسپی کے سامان کر رہے ہیں، وہاں خدا کی رضا کے حصول کے لئے ، جہاں بھی ہوں، پوری فیملی وہاں پر باجماعت نماز ادا کرے.میرا تو یہ تجربہ ہے اور بہت سے لوگوں کے یہ تجربے ہیں جو مجھے بتاتے ہیں کہ تفریح کی جگہوں پر جب اس طرح میاں بیوی اور بچوں نے نماز کے وقت نماز باجماعت ادا کی تو اردگرد کے لوگوں میں دلچسپی پیدا ہوئی اور اُن کو دیکھنے لگے اور پھر تبلیغ کے راستے کھلتے ہیں ، تعارف حاصل ہوتا ہے.عموماً عام دنیا دار کو مسلمانوں کے بارے میں یہی تصور ہے کہ مسلمانوں میں نماز وہی پڑھتے ہیں جو شدت پسند ہیں.جب یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ یہ تفریح کرنے والے بچے اور بڑے نماز پڑھ رہے ہیں اور لباس بھی اُن کے یہاں کے لوگوں کے لباس کے مطابق پہنے ہوئے ہیں لیکن عبادت میں انہماک ہے تو ضرور توجہ پیدا ہوتی ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ کئی ایسے ہیں جو اپنے تجربات بیان کرتے ہیں کہ کس طرح نماز کی وجہ سے بعض غیروں کی اُن کی طرف توجہ پیدا ہوئی اور یوں تبلیغ کے راستے کھلے.پس کسی قسم کے احساس کمتری میں ہمیں مبتلا نہیں ہونا چاہئے ، نہ بچوں کو ، نہ بڑوں کو.ہمارا دعوی ہے کہ دنیا میں دینی اور روحانی انقلاب ہم نے پیدا کرنا ہے، تو یہ دینی اور روحانی انقلاب وہی لوگ پیدا کر سکتے ہیں جو ہر قسم کے احساس کمتری سے آزاد ہوں اور اپنے اندر سب سے پہلے دینی اور روحانی انقلاب پیدا کرنے والے ہوں.اور یہ دینی اور روحانی انقلاب بغیر عبادت کا حق ادا کئے پیدا نہیں ہوسکتا اور عبادت کے حق کے لئے سب سے اہم اور ضروری چیز نماز ہے.پس اپنی نمازوں کی حفاظت کریں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.حفِظُوا عَلَى الصَّلوت (البقرة:239) اپنی نمازوں کی حفاظت کرو.حفظ کے معنی ہیں کہ باقاعدگی اختیار کرنا اور پھر اُس کی نگرانی کرنا.اور پھر فرمایا ہر اُس نماز کی خاص طور پر نگرانی کرو اور اُس کی حفاظت کرو جو صلوۃ وسطی ہے، یعنی جو نماز تمہاری مصروفیات کے درمیان میں آتی ہے، یا وہ نماز جو کسی بھی وجہ سے، دنیاوی مصروفیات کی وجہ سے، وقت پر اور اہتمام کے ساتھ ادا نہ کی جا سکے اُس کی بہر حال خاص طور پر حفاظت کرنی ہے.کیونکہ نمازوں کی سستی تمہیں فرمانبرداروں کی فہرست سے باہر نکال دیتی ہے.اس لئے نمازوں کی حفاظت کی طرف خدا تعالیٰ تو جہ دلاتا ہے اور پھر خاص طور پر ان نمازوں کی حفاظت اور ادائیگی کی طرف توجہ دلاتا ہے جو تمہارے نفس کی سستی اور دنیاوی مصروفیات کی وجہ سے ادا نہیں ہورہیں یا اُن کا حق ادا کرتے ہوئے ادا نہیں ہو رہی.بعض جلدی جلدی نماز پڑھ لیتے ہیں یہ نماز کا حق ادا کرنا نہیں ہے.کیونکہ آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَقُوْمُوا لِلهِ قُنِتِينَ (البقرة:239)
386 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 جون 2012ء خطبات مسر در جلد دہم اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہو کر کھڑے ہو جاؤ.یعنی مکمل توجہ نماز پر ہو.پھر دنیاوی خیالات اور خواہشات ذہن پر قبضہ نہ کریں.ذہن میں یہ ہو کہ جس خدا کے سامنے میں کھڑا ہوں اُس کے احکامات کی کامل اطاعت کرنی ہے.پس جب یہ حالت ہوتی ہے تو پھر ایسے نمازیوں کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نمازیں بھی تمہاری حفاظت کرنے والی ہوں گی اور تمہاری نگران بن جائیں گی تمہیں برائیوں سے روکیں گی تمہارے گھروں کو برکتوں سے بھر دیں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : میں نے اپنی جماعت کو یہی نصیحت کی ہے کہ وہ بے ذوقی اور بے حضوری پیدا کرنے والی نمازیں نہ پڑھیں، بلکہ حضور قلب کی کوشش کریں جس سے اُن کو سرور اور ذوق حاصل ہو.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 345 - 346 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الصَّلوةَ تنهى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ (العنكبوت:46) کم یقیناً نماز ناپسندیدہ اور بری باتوں سے روکتی ہے.پس ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ نماز لغویات اور بری باتوں سے روکتی ہے لیکن ہر نماز نہیں اور ہر نمازی کو نہیں.ہر نمازی برائیوں سے نہیں رک سکتا، صرف وہ نمازی اپنی اصلاح کر سکتا ہے یا نماز اُس نمازی کی اصلاح کرتی ہے جو کامل فرمانبرداری سے ادا کی جائے.یہ سمجھ کر ادا کی جائے کہ خدا تعالیٰ میری ہر حرکت و سکون کو دیکھنے والا ہے اور اُس خدا کے سامنے میں کھڑا ہوں جو میری ہر حرکت و سکون کو دیکھ رہا ہے.یہ کامل فرمانبرداری والی نمازیں ہیں جو انسان کی حفاظت کرتی ہیں اور نگرانی کرتی ہیں، اور جن گھروں میں پڑھی جاتی ہیں، اُن گھروں کے رنگ ہی کچھ اور ہو جاتے ہیں.پس ایسی نمازوں کی تلاش ہمیں کرنی چاہئے تبھی ہم اپنے عہد بیعت کو حقیقی طور پر نبھا سکتے ہیں.یہ نہیں کہ نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو تو جہ اپنے دنیاوی کاموں اور خواہشات کی طرف ہو.یا کبھی نماز پڑھ لی کبھی نہ پڑھی.پس میں پھر کہتا ہوں کہ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.ان ملکوں میں رہنے والے دنیاوی مصروفیات کی وجہ سے نمازوں کی طرف توجہ نہیں دیتے.گواب تیسری دنیا میں بھی شہروں میں رہنے والوں کا یہی حال ہے.لیکن بہر حال پھر بھی کچھ نہ کچھ ایک ایسی تعداد ہے جو مسجدوں میں جانے والی ہے.باوجود اس کے کہ اسلام کے اس اہم دینی فریضہ کی طرف میں بار بار توجہ دلاتا ہوں، میرے سے پہلے خلفاء بھی اس طرف بہت توجہ دلاتے رہے.اب تو اس زمانے میں خدا تعالیٰ نے ہمیں ایم ٹی اے کی نعمت سے نواز دیا ہے.پہلے اگر خلیفہ وقت کی آواز دنیا کے ہر خطے میں فوری طور پر نہیں پہنچ رہی تھی تو اب تو فوری طور پر یہ آواز اور اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کا پیغام ہر جگہ فوری طور پر پہنچ رہا ہے.اگر ہم
خطبات مسرور جلد دہم 387 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 جون 2012ء میں سے بعض لوگ یا خطبات اور تقاریر نہیں سنتے یا سنتے ہیں اور بے دلی سے سنتے ہیں، ایک کان سے سنا اور دوسرے سے نکال دیا تو اُس عہد بیعت کو پورا کرنے والے نہیں ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا، جو بھی معروف فیصلہ فرمائیں گے، اُس کی پابندی کروں گا، اُس کی کامل اطاعت کروں گا.یہ اطاعت سے نکلنے والے عمل ہیں کہ ایک کان سے سنا اور دوسرے سے نکال دیا.یہ کامل فرمانبرداری سے دور لے جانے والے عمل ہیں.ایسے لوگوں کو خدا تعالیٰ نے بڑا انذار فرمایا ہے.فرماتا ہے فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ (الماعون : 5).پس اُن نمازیوں کے لئے ہلاکت ہے جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں.یہ غفلت نماز با جماعت کی طرف توجہ نہ دینے سے بھی ہے، باقاعدگی سے نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے بھی ہے.پوری توجہ نماز میں رکھنے کی کوشش نہ کرنے کی وجہ سے بھی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز میں بعض دفعہ تو جہ قائم نہیں رہتی لیکن بار بارا اپنی توجہ کو نماز کی طرف لانا ضروری ہے اور یہ بھی ایک مطلب ہے اقامت الصلوۃ نماز کے کھڑی کرنے کا ، نماز کے قیام کا.پس بڑے خوف کا مقام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے ہمیں اس طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص جس نے مجھے نہیں مانا غلطیاں کرتا ہے تو بیشک وہ گناہگار ہے.لیکن مجھے ماننے والے جو ایک عہد بیعت کرتے ہیں اور پھر اُس کی تعمیل نہیں کرتے ، زیادہ پوچھے جائیں گے.(ماخوذ از ملفوظات جلد چہارم صفحه 182 ایڈیشن 2003 ، مطبوعہ ربوہ ) پس ہر احمدی پر بہت بڑی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری ادا نہیں ہوسکتی جب تک یہ خیال نہ رہے کہ میں نے جو خدا تعالیٰ کو گواہ ٹھہرا کر ایک عہد بیعت باندھا ہے اس کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے آگے جواب دہ ہوں.پس یہ خیال رہے تبھی ذمہ داری ادا ہو سکتی ہے.پس بڑے بھی اپنی ذمہ داریاں سمجھیں اور چھوٹے بھی ،مرد بھی اور عورتیں بھی.یہاں بہت سے گھروں میں بے سکونی کے جو حالات ہیں وہ اس لئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ نہیں ہے ، جس طرح توجہ ہونی چاہئے.بعض لوگ میرے سے جب ملاقات کرتے ہیں اور دعا کے لئے کہتے ہیں تو میں عموماً کہا کرتا ہوں کہ اپنے لئے خود بھی دعا کرو اور نمازوں کی طرف توجہ دو.اور جب پوچھو کہ با قاعدگی سے نمازیں پڑھتے ہیں؟ تو بعض لوگوں کا جواب نفی میں ہوتا ہے.ایسے لوگوں سے میں عموماً یہ کہا کرتا ہوں کہ دین کے ساتھ مذاق نہ کریں.دین کو مذاق نہ سمجھیں کہ خود تو نمازوں اور دعاؤں کی عادت نہیں ہے، اُس طرف کوئی توجہ نہیں ہے اور اپنے مسائل اور دنیاوی معاملات کے لئے دعا کے لئے
خطبات مسرور جلد دہم 388 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 جون 2012ء کہہ رہے ہیں.پہلے خود تو اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کریں، پھر کہیں.جب تک خود اپنی حالتوں میں تبدیلی پیدا نہیں کریں گے، یا تبدیلی پیدا کرنے کے لئے اپنی انتہائی کوشش نہیں کریں گے، دوسرے کی دعا ئیں بھی پھرا ثر نہیں کریں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو جماعت قائم کرنے آئے تھے وہ ایسے لوگوں کی جماعت تھی جو خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والے ہیں اور اپنی عبادتوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ، اس لئے آپ نے فرمایا کہ میں پیر پرستی کو ختم کرنے آیا ہوں.فرمایا کہ تم پیر بنو، پیر پرست نہ بنو.(ماخوذ از ملفوظات جلد 2 صفحہ 139 ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) لیکن جس قسم کے پیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ماننے والوں کو بنانا چاہتے ہیں وہ آجکل کے نام نہاد دنیا پرست پیر نہیں ہیں جو ہاتھ میں تسبیح لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہماری عبادتوں اور دوسرے حقوق کی ادائیگی کا حق ادا ہو گیا.نہ نمازوں کی ضرورت ہے، نہ عبادتوں کی ضرورت ہے.نمازوں سے یہ لوگ کوسوں دور ہوتے ہیں.خود نمازیں نہیں پڑھتے اور اپنے مریدوں کو بھی نمازوں کے لئے یہی کہتے ہیں کہ کوئی ضرورت نہیں.بہت سے لوگ ایسے ہیں.ایسے پیر اور ایسے سید ہدایت کی طرف لے جانے والے نہیں، بلکہ گمراہی کی طرف لے جانے والے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے حضرت خلیفہ اسیح الاول کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کیا ہے، اُن کی ایک ہمشیرہ تھیں، رشتہ دار، کسی پیر صاحب کی مرید تھیں ، پیر صاحب نے ان کی ہمشیرہ کے دماغ میں یہ بٹھا دیا تھا کہ میرے مریدوں کونمازوں اور عبادتوں کی ضرورت نہیں.پس میری مریدی اختیار کر لو.کچھ وظائف میں نے بتادیئے ہیں وہ کرلو، یہ کافی ہیں، بخشے جاؤ گے.تو حضرت خلیفہ اول نے انہیں ایک دن کہا کہ پیر صاحب سے پوچھو کہ حساب کتاب والے دن جب خدا تعالیٰ نیکیوں اور عبادتوں کے بارے میں پوچھے گا تو کیا جواب دوں؟ جب فرشتے میرا جنت کا راستہ روکیں گے، میری نیکیوں کے بارے میں سوال ہو گا تو کیا جواب دوں؟ خیر انہوں نے اپنے پیر صاحب سے پوچھا تو کہنے لگے کہ فرشتے تمہارا راستہ روکیں تو کہہ دینا کہ میں فلاں پیر اور سید زادے کی ماننے والی ہوں تو وہ تمہارا راستہ صاف کر دیں گے.اور رہا میرا اسوال ( پیر صاحب کا ) تو جب مجھ سے پوچھیں گے تو میں کہوں گا کہ کربلا کے میدان میں میرے بڑوں نے جو قربانیاں دی ہیں، اُن کو بھول گئے ہو؟ نواسہ رسول نے جس کی نسل سے میں ہوں، جو قربانی دی ہے، اُس کو بھول گئے ہو؟ تو فرشتے اس بات پر شرمندہ ہو جائیں گے اور راستہ چھوڑ دیں گے اور میں اکڑتا ہوا جنت میں چلا جاؤں گا.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 208)
خطبات مسرور جلد دہم 389 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 جون 2012ء تو یہ ہے ان لوگوں کے پیروں کا حال.ہم نے یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والوں نے ایسا پیر نہیں بننا.ہم نے تو اپنے اندر وہ انقلابی تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں جو ہماری حالتوں میں انقلاب لانے والی ہوں ، ہمارے بچوں اور ہماری نسلوں کی حالتوں میں انقلاب لانے والی ہوں اور اس معاشرے میں روحانی انقلاب لانے والی ہوں.پس ہمیشہ یادرکھیں کہ صرف ہمارا اعتقاد ہمیں نہیں بچائے گا، نہ ہمارا اعتقاد انقلابی تبدیلیاں لائے گا بلکہ ہمارے عمل ہیں جو انقلاب لائیں گے انشاء اللہ.اور سب سے بڑھ کر ہماری دعائیں ہیں جو جب اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا تو دنیا میں ایک انقلاب برپا ہوگا اور دعائیں کرنے کا بہترین ذریعہ نمازیں ہی ہیں.پس اپنی نمازوں کی حفاظت ہر احمدی کا فرض ہے اور جب مجموعی طور پر تمام دنیا کے رہنے والے احمدیوں کا رُخ ایک طرف ہوگا تو یہ دعاؤں کے دھارے ایک انقلاب لانے کا باعث بنیں گے.پس خلافت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ اپنی نمازوں کی طرف توجہ دے تا کہ وہ انقلاب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ وابستہ ہے، جس کے نتیجے میں دنیا کی اکثریت نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہونا ہے، وہ جو دعاؤں کے ذریعے سے عمل میں آنا ہے، وہ عمل میں آئے.پس ہر احمدی اس بات کو ہمیشہ یادر کھے اور اپنی نمازوں کی حفاظت، اپنی اولاد کی نمازوں کی حفاظت کی طرف توجہ دے تا کہ ہم جلد تمام دنیا پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا لہراتا ہوا دیکھیں.اللہ تعالیٰ کے رحم کو ہم بھی اور ہماری نسلیں بھی جذب کرنے والی ہوں.اللہ تعالیٰ کا رحم بھی نمازوں کا حق ادا کرتے ہوئے اور نماز پڑھنے والوں کے ساتھ جو خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے، اُن پر ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَأتُوا الزَّکٰوةَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (النور: 57) اور نماز کو قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے.پس ہم نے اگر اللہ تعالیٰ کے رحم حاصل کرنے والا بننا ہے تو اپنی نمازوں کی حفاظت اور اُس کے قیام کی بھی کوشش کرنی ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار بار مختلف رنگ میں اپنے ماننے والوں کو نمازوں کی طرف توجہ دلائی ہے تا کہ جہاں ہم بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں ، خدا تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں، وہاں اللہ تعالیٰ کے رحم سے حصہ لے کر اپنی دنیا و آخرت سنوارنے والے بھی ہوں.آپ فرماتے ہیں.”اے دے تمام لوگو ! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو، آسمان پر تم اُس وقت میری
خطبات مسرور جلد دہم 390 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 جون 2012ء جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ سچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے.سوا اپنی پنج وقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو“.فرمایا: "یقیناً یاد رکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہے.ہر ایک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے.جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہوگی وہ عمل بھی ضائع نہیں کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15) ہوگا.پھر آپ فرماتے ہیں: ”نماز کیا چیز ہے وہ دُعا ہے جو تسبیح تمھید ، تقدیس اور استغفار اور درود کے ساتھ تضرع سے مانگی جاتی ہے.سو جب تم نماز پڑھو تو بے خبر لوگوں کی طرح اپنی دعاؤں میں صرف عربی الفاظ کے پابند نہ رہو.کیونکہ اُن کی نماز اور اُن کا استغفار سب رسمیں ہیں جن کے ساتھ کوئی حقیقت نہیں.لیکن تم جب نماز پڑھو تو بجز قرآن کے جو خدا کا کلام ہے اور بجر بعض ادعیہ ماثورہ کے کہ وہ رسول کا کلام ہے، باقی اپنی تمام عام دعاؤں میں اپنی زبان میں ہی الفاظ متضرعانہ ادا کر لیا کرو تا کہ تمہارے دلوں پر اس کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 68-69) عجز و نیاز کا کچھ اثر ہو.“ پس یہ کیفیت ہے جو نمازوں میں ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ عجز و نیاز پھر خدا تعالیٰ کی رحمت کو کھینچنے کا باعث بنتا ہے.پھر ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے ہو جاتے ہیں.اور ایسی ہی نمازیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہماری دیکھنا چاہتے ہیں.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ : ”نماز ایسی شئے ہے کہ اس کے ذریعہ سے آسمان انسان پر جھک پڑتا ہے“.( یعنی اللہ تعالیٰ پھر قبولیت دعا کے نظارے دکھاتا ہے ) فرمایا ” نماز کا حق ادا کرنے والا یہ خیال کرتا ہے کہ میں مر گیا اور اس کی روح گداز ہو کر خدا کے آستانہ پر گر پڑی ہے.......جس گھر میں اس قسم کی نماز ہوگی وہ گھر کبھی تباہ نہ ہو گا.حدیث شریف میں ہے کہ اگر نوع کے وقت میں یہ نماز ہوتی تو وہ قوم کبھی تباہ نہ ہوتی.فرمایا ” حج بھی انسان کے لیے مشروط ہے، روزہ بھی مشروط ہے، زکوۃ بھی مشروط ہے مگر نماز مشروط نہیں“.( یعنی باقی سب عبادتیں جو ہیں اُن کی بعض شرائط ہیں.وہ شرائط پوری ہوتی ہوں تو ادائیگی ہوگی ، دور نہ فرض نہیں ہیں.لیکن نماز ہر صورت میں لازمی ہے.انسان مسافر ہے، مریض ہے، کیسی بھی حالت ہے، اگر ہوش و حواس میں ہے تو نماز فرض ہے ) فرمایا ”سب ایک سال میں ایک ایک دفعہ ہیں“ یہ مشروط بھی ہیں اور ایک سال میں ایک دفعہ ہیں) مگر اس کا حکم ( یعنی نماز کا حکم ) ہر روز پانچ دفعہ ادا کر نے کا ہے.( ملفوظات جلد 3 صفحہ 1627 ایڈیشن 2003 ، مطبوعہ ربوہ ) اس لئے جب تک پوری پوری نماز نہ ہو گی تو وہ برکات بھی نہ ہوں گی جو اس سے حاصل ہوتی ہیں
خطبات مسرور جلد دہم 391 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 جون 2012ء اور نہ اس بیعت کا کچھ فائدہ حاصل ہوگا.پس یہ قیام نماز اور حفاظت نماز کے اس الہی ارشاد کی کچھ وضاحت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ اصلاۃ والسلام نے فرمائی ہے اور جس کی آپ نے ہر احمدی سے توقع رکھی ہے.فرمایا کہ، ورنہ بیعت کرنے کا کچھ فائدہ نہیں.پس جیسا کہ میں نے کہا، اس کی اہمیت کو ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے تا کہ ہم اپنے عمل سے ثابت کریں اور دنیا کو بتائیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آکر ہم میں وہ پاک تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں جس نے ہمیں خدا سے ملایا ہے.اب بہت سارے نئی بیعت کرنے والے میں نے دیکھے ہیں، اُن کے خطوط آتے ہیں، اُن میں ان نمازوں کی وجہ سے ایک انقلاب اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دیا ہے.پس ہر احمدی کو خاص طور پر پر انے احمدیوں کی اولا دوں کو اس کو یا درکھنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ نمازوں کے ایسے ذوق اور حضور کی کیفیت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی ملتی ہے، اس لئے تم سب سے پہلے یہی دعا خدا تعالیٰ سے کرو کہ اے اللہ ! مجھ میں قرب کی یہ حالت پیدا ہو جائے.اس کے لئے آپ نے ہمیں ایک دعا سکھائی.فرماتے ہیں کہ یہ دعا کیا کرو کہ اے اللہ تو مجھے دیکھتا ہے کہ میں کیسا اندھا اور نابینا ہوں اور میں اس وقت بالکل مردہ حالت میں ہوں.میں جانتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز آئے گی تو میں تیری طرف آجاؤں گا“.( یعنی اس دنیا سے رخصت ہونے کا بلاوا آ جائے گا) ''اس وقت مجھے کوئی روک نہ سکے گا.لیکن میرا دل اندھا اور نا شناسا ہے.تو ایسا شعلہ نور اس پر نازل کر کہ تیرا اُنس اور شوق اس میں پیدا ہو جائے.تو ایسا فضل کر کہ میں نابینانہ اٹھوں اور اندھوں میں نہ جاملوں“.فرمایا ”جب اس قسم کی دعا مانگے گا اور اس پر دوام اختیار کرے گا ( با قاعدگی اختیار کرے گا ) تو وہ دیکھے گا کہ ایک وقت اس پر ایسا آئے گا کہ اس بے ذوقی کی نماز میں ایک چیز آسمان سے اس پر گرے گی جو رفت پیدا کر دے گی.( ملفوظات جلد 2 صفحہ 1616 یڈیشن 2003، مطبوعد ربوہ ) اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسی نمازیں نصیب فرمائے.جمعہ کے بعد میں دو جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا.ایک ہمارے مربی سلسلہ جو انڈونیشیا کے رہنے والے تھے، اُن کا ہے، جن کا نام امر معروف عزیز صاحب تھا.16 جون کو بقضائے الہی وفات پاگئے ،انّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.یہ 6 دسمبر 1962 ء کو پیدا ہوئے تھے.پیدائشی احمدی تھے.1979 ء میں جامعہ میں داخل ہوئے اور 1987ء میں مبشر کا کورس کر کے جامعہ ربوہ سے فارغ ہوئے اور انڈونیشیا گئے.مختلف جگہوں پر ان کو اللہ تعالیٰ نے خدمت کی توفیق دی.2011 ء تک جامعہ انڈونیشیا میں تھے.
خطبات مسرور جلد دہم 392 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 جون 2012ء اُس کے بعد ایسٹ کلمتان کے ریجنل مبلغ تھے، اور علمی آدمی تھے ماشاء اللہ.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب ” توضیح مرام کا انڈونیشین ترجمہ کرنے کی انہوں نے سعادت پائی.اس کے علاوہ یہ میرے خطبات کا باقاعدگی سے ترجمہ کیا کرتے تھے.مرحوم موصی بھی تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے.ان کی اہلیہ اور ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں.دوسرا جنازہ ہماری لندن کی رہنے والی ایک پرانی خدمتگار خاتون مکرمہ طاہرہ ونڈرمین صاحبہ اہلیہ مکرم نواب محمود ونڈرمین صاحب مرحوم کا ہے.ان کی بھی 18 جون 2012ء کو 84 سال کی عمر میں وفات ہوگئی إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ مکرم غلام یسین صاحب کی صاحبزادی تھیں.آپ کے نانا حضرت غلام دستگیر صاحب اور اُن کے بھائی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے.ان کے والد انڈین حکومت کے سرونٹ تھے.بچوں کی اچھی تربیت کی.قادیان میں مرحومہ نے تعلیم پائی اور پھر 1947ء سے کراچی میں رہائش پذیر تھیں.1949ء میں ان کی شادی ہوئی محمود ونڈر مین صاحب سے، انگلستان آگئیں.حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی لندن ہجرت کے بعد پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں انہوں نے اپنی خدمات پیش کیں اور انگلش ڈاک ٹیم میں ایک لمبا عرصہ خدمت سرانجام دی اور جلسہ سالانہ میں خلیفہ رابع " نے ان کا نام لے کے ان کے کام کی تعریف بھی کی تھی.بڑی مستعدی سے خدمت کرتی تھیں.کبھی کام کو بوجھ نہ سمجھتی تھیں، جتنا بھی دیا جاتا وہ کر کے لے آتیں.وفات سے چندروز پہلے بھی اپنے عزیز کو دفتر بھجوایا کہ کام بھجوائیں.ہمیشہ یہ مطالبہ ان کا ہوتا تھا کام زیادہ دیا جائے.باوجود بیماری اور کمزوری کے بڑی محنت سے کام کرتی تھیں اور کسی وجہ سے اگر کام کم دیا جاتا تو بے چین ہو جایا کرتی تھیں.اور میری ڈاک کا بھی انہوں نے لمبا عرصہ کام کیا ہے، یعنی گزشتہ بیس بائیس سال سے یہ کام کر رہی تھیں.نو سال میں میں نے ان کو دیکھا ہے، ان کے ڈاک کے خلاصے ایک تو بڑے اچھی طرح بناتی تھیں جو اہم پوائنٹ ہوتے تھے اُن کو ہائی لائٹ کر دیتی تھیں اور ان کا خلاصہ پڑھتے ہوئے وقت نہیں ہوتی تھی اور نفس مضمون جو تھا خط لکھنے والے کا وہ بھی پہنچ جاتا تھا.یہ ان کی بڑی خوبی تھی کہ خلاصہ بناتے ہوئے جہاں ضروری سمجھتی تھیں کہ اس پر ضرور نظر پڑنی چاہئے ، اُس کو ضرور ہائی لائٹ کرتی تھیں.اور ان کے خلاصے مجھے اس لحاظ سے سب سے زیادہ اچھے لگتے تھے اور اُن کا جواب دینا بھی آسان ہوتا تھا.اسی طرح ان کو اللہ تعالیٰ نے بیس سال تک بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کی توفیق بھی عطا فرمائی.اخبار احمد یہ کے لئے اردو مضامین کو انگریزی میں ترجمہ بھی کیا کرتی تھیں.ان کے پسماندگان میں تین بیٹیاں اور دو بیٹے اور
خطبات مسرور جلد دہم 393 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 جون 2012ء پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کو بھی خلافت اور جماعت سے جڑا رکھے اور خدمت کی توفیق دیتار ہے.ان کے بیٹے ندیم ونڈرمین صاحب اخبار احمدیہ کے انگلش سیکشن میں ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے.جیسا کہ میں نے کہا ان دونوں کی نماز جنازہ غائب نمازوں کے بعد ادا کروں گا.“ الفضل انٹر نیشنل مورخہ 13 جولائی تا 19 جولائی 2012 جلد 19 شمارہ 28 صفحہ 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد دہم 394 26 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 جون 2012ء خطبہ جمہ سید نا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احم خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 29 جون 2012ء بمطابق 29 احسان 1391 ہجری شمسی بمقام ہیرس برگ (Harrisburg) پنسلوینیا (Pennsylvania)امریکہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: الحمد للہ کہ آج جماعت احمدیہ امریکہ کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے اور مجھے آج دوسری مرتبہ اس میں شامل ہونے کا موقع مل رہا ہے.یہ جلسے جو ہر سال دنیا کے مختلف ممالک میں وہاں کی جماعتیں منعقد کرتی ہیں اُس جلسے کی تنتبع میں ہیں جن کا آغاز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا.جس کا مقصد افراد جماعت کو اُن حقیقی برکات کا وارث بنانا تھا جو افراد جماعت کی دنیا و عاقبت سنوارنے کا باعث بنیں اور جن کو وہ اپنی زندگیوں کا مستقل حصہ بنا کر ان برکات کے وارث بنتے چلے جائیں اور یہ برکات حقیقی تقوی اختیار کرنے سے حاصل ہوتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ میں شامل ہونے والے ہر احمدی سے اس معیار کے حاصل کرنے کی توقع کی ہے اور ان معیاروں کو حاصل کرنے کی طرف توجہ نہ دینے والوں سے سخت بیزاری کا اظہار فرمایا ہے.پس یہ جلسہ جہاں برکتوں کا سامان لے کر آتا ہے وہاں ایک سچے احمدی کے لئے بڑے خوف کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے سال میں ایک مرتبہ ایک خاص ماحول میں رہ کر اپنی اصلاح کرنے کا موقع دیا، اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کا موقع دیا، نئے سرے سے اپنے ایمان و ایقان اور روحانیت کوصیقل اور مضبوط کرنے کا موقع دیا لیکن ان کے حصول کا حق ادا کرتے ہوئے کوشش نہیں کی گئی.اگر کوشش کی بھی تو آئندہ اُس کو اُس مقام تک قائم نہ رکھ سکے جس پر رکھنا چاہئے تھا.اگر جلسہ کی برکات اور فیض کا صحیح ادراک ایک احمدی کو ہو جائے اور اُس کے حصول کی کوشش بھی کرے اور پھر ہر سال جلسہ میں شامل ہونے کی وجہ سے ان برکات اور پاک تبدیلیوں کو جمع کرتا چلا جائے تو ہر سال تقوی میں ترقی کی نئی منزلیں ہم ہر احمدی
خطبات مسرور جلد دہم 395 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 جون 2012ء میں دیکھیں گے اور ترقی کی یہ منزلیں ہیں جو ہمیں اُس مقام تک پہنچائیں گی جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں.پس ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اُس دلی خواہش کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جو جلسہ میں شامل ہونے والوں کی حالت کے بارے میں آپ کے دل میں تھی ، اُس مقصد کے حصول کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے جو جلسہ سالانہ کے منعقد کرنے کا آپ کے دل میں تھا اور جس کا اظہار آپ نے ان الفاظ میں بھی کیا ہے کہ اس دنیا سے زیادہ آخرت کی طرف توجہ ہو.(ماخوذ از شهادة القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحه 394) اور توجہ کا اپنی ترجیحات کا یہ معیار حاصل کرنے کے لئے آپ نے اس بات پر شدت سے زور دیا کہ اپنے اندر تقویٰ پیدا کرو.اور تقویٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی اُس کا خوف اور خشیت دل میں رکھتے ہوئے ادا کرو اور بندوں کے حقوق بھی اللہ تعالیٰ کا خوف اور اُس کی خشیت دل میں رکھتے ہوئے ادا کرو.اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سے سب سے بڑا حق عبادت کا ہے اور عبادت میں سب سے اہم چیز نماز ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ عبادت کا مغز ہے.ایک حقیقی مومن کے اس اہم فرض اور اللہ تعالیٰ کے اس حق کے بارے میں میں نے گزشتہ خطبہ میں کچھ روشنی ڈالی تھی.پس جنہوں نے وہ نہیں سنا وہ اُس کو سنیں اور اپنی عبادت کے کم از کم یہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کریں.اس جلسہ میں جب آپ کو نمازوں کی طرف توجہ رہے گی یا ماحول کی وجہ سے بہر حال باجماعت نماز میں پڑھنی پڑیں گی تو پھر ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنالیں.جلسہ کے دنوں میں خاص طور پر یہ دعا کریں اور اس کے لئے کوشش کریں کہ خدا تعالیٰ سب کو اپنے اس فرض اور اللہ تعالیٰ کے اس حق کو حقیقی رنگ میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.یہاں ایک وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ یہاں جلسہ کے پروگراموں اور دور سے آئے ہوئے مسافروں کے لئے نمازیں جمع کر کے پڑھائی جاتی ہیں اور شریعت اس کی اجازت دیتی ہے.لیکن اپنے گھروں میں اور بغیر مجبوری کے نمازیں جمع کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے.بعض گھروں میں لگتا ہے کہ مستقل نمازیں جمع کی جاتی ہیں.کیونکہ بچوں سے جب پوچھو کہ ایک دن میں کتنی نمازیں ہیں تو بعض کا جواب یہ ہوتا ہے کہ تین نمازیں ہیں.جس سے صاف پتہ چل جاتا ہے کہ ان گھروں میں نمازوں کا اہتمام نہیں ہے.قرآن کریم نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت سے ہمیں پانچ نمازوں
خطبات مسرور جلد دہم 396 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 جون 2012ء کے اوقات بھی بتائے اور انہیں کس طرح پڑھنا ہے یہ بھی کر کے دکھایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار بار اس طرف توجہ دلائی ہے.گزشتہ خطبہ میں میں نے اس کی تفصیل بھی کچھ حد تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات کی روشنی میں بیان کی تھی.پس اس اہم فریضے کی طرف بہت توجہ دیں اور پھر تقویٰ کے معیار اونچے کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے لئے صرف نمازوں پر ہی اکتفا نہ ہو بلکہ بعض دوسری عبادتیں بھی فرض ہیں وہ بھی ادا کرنا ضروری ہیں.پھر نوافل ہیں وہ ادا کرنے بھی ضروری ہیں.اپنی نمازوں کو نوافل سے بھی سجائیں.تہجد اور دوسرے نوافل کی طرف توجہ دیں.ان تین دنوں میں بہت سوں کی تہجد کی طرف توجہ ہوگی.جب تو جہ ہو تو پھر اسے زندگی کا حصہ بنائیں کیونکہ فرائض کی کمیاں نوافل سے پوری ہوتی ہیں اور نوافل میں تہجد کی بڑی اہمیت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اس طرف جماعت کو بہت توجہ دلائی ہے.فرماتے ہیں: ”ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ تہجد کی نماز کو لازم کر لیں.جو زیادہ نہیں وہ دو ہی رکعت پڑھ لے کیونکہ اُس کو دعا کرنے کا موقع بہر حال مل جائے گا.اُس وقت کی دعاؤں میں ایک خاص تاثیر ہوتی ہے کیونکہ وہ بچے درد اور جوش سے نکلتی ہیں.فرمایا کہ جب تک ایک خاص سوز اور درد دل میں نہ ہو اُس وقت تک ایک شخص خواب راحت سے بیدار کب ہو سکتا ہے؟ نیند سے اٹھنا یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے کے لئے انسان اپنی نیند کی یہ قربانی کر رہا ہے.فرمایا ”پس اس وقت کا اُٹھنا ہی ایک درد دل میں پیدا کر دیتا ہے جس سے دعا میں رقت اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور یہی اضطراب اور اضطرار قبولیت دعا کا موجب ہو جاتے ہیں.( ملفوظات جلد 2 صفحہ 182 ایڈیشن 2003 مطبوعہ ربوہ ) پس تہجد کی یہ اہمیت ہے کہ اس کے لئے اُٹھنا ہی انسان میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا کر دیتا ہے.آجکل کی دنیا میں مختلف ترجیحات ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے اکثر لوگ رات دیر سے سوتے ہیں.تہجد کا مجاہدہ یقیناً ان حالات میں تقویٰ میں ترقی اور پاک تبدیلی پیدا کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے.پس یہ عبادت کے حق کی ادائیگی انسان کو جہاں اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتی ہے وہاں انسان کے اپنے فائدے کا بھی بڑاز بردست ہتھیار ہے.حقیقی مومن پر اللہ تعالیٰ کے حق کے بعد ایک بہت بڑا حق اُس کے بھائیوں کا حق ہے یا کہنا چاہئے کہ انسانیت کا حق ہے اور قطع نظر اس کے کہ کون کس قوم کا ہے اور کس مذہب کا ہے، انسانیت کے
خطبات مسرور جلد دہم 397 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 جون 2012ء ناطے ایک دوسرے کے حق ادا کرنے کی اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار تلقین کی اور جو مومن ہے اُس کا دوسرے مومن پر تو اور بھی بہت زیادہ حق ہے.اس کے بارے میں خاص طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شدت سے تلقین فرمائی ہے جس کی ادائیگی کی کوشش کرنی چاہئے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ کے مقاصد بیان کرتے ہوئے حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی بہت توجہ دلائی ہے.فرمایا کہ دوسروں کے لئے اپنے دل میں رفق اور نرمی پیدا کرو.(ماخوذ از ملفوظات جلد 2 صفحہ 69 ایڈیشن 2003 ، مطبوعہ ربوہ ) ہمدردی پیدا کرو اور صرف یہ جلسوں تک ہی محدود نہ ہو بلکہ پھر عام زندگی میں بھی اُس کا اظہار ہو.بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھائی بھائی ایک دوسرے سے ناراض ہو جاتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے کئی کئی سال ناراض رہتے ہیں اور یہ ناراضگیاں پھر دوسرے رشتوں میں بھی آگے ٹرانسفر ہوتی چلی جاتی ہیں.پھر یہ رفق ، نرمی اور ہمدردی اور ایک دوسرے کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنے میں جو کمی ہے اس سے پھر بعض دفعہ گھروں میں جب ہمدردی کی کمی ہو جاتی ہے، پیار اور محبت کی کمی ہو جاتی ہے تو اس سے گھر بھی ٹوٹ رہے ہوتے ہیں.ایک وقت تھا جب ہم کہا کرتے تھے کہ مغربی دنیا میں آزادی کی وجہ سے گھروں میں بے سکونی ہے اور طلاقوں کی شرح یہاں بہت زیادہ ہے.خاوند اور بیوی ایک دوسرے کے جذبات اور احساسات کا خیال نہیں رکھتے.نرمی اور پیارو محبت سے ایک دوسرے سے بات کرنا گوارا نہیں کرتے.شروع میں جو محبتیں ہوتی ہیں ایک سٹیج کے بعد آخر میں وہ دشمنیوں پر منتج ہورہی ہوتی ہیں.وجہ یہی ہے کہ اس ماحول کی وجہ سے ایک دوسرے پر اعتماد نہیں رہتا، اعتماد میں کمی ہوتی چلی جاتی ہے اور پھر اس کا آخری نتیجہ گھر ٹوٹنے کی صورت میں نکلتا ہے.اب ہمارے لئے بھی یہ لمحہ فکر یہ ہے کہ احمدی گھروں میں بھی بے سکونی بڑھتی چلی جارہی ہے اور نتیجتاً گھر ٹوٹ رہے ہیں.جہاں سے بھی مجھے قضاء کی رپورٹیں آتی ہیں یا جماعت کی اصلاحی کمیٹیوں کی رپورٹیں آتی ہیں اُن اکثر جگہوں پر طلاقوں اور خلع کی شرح بہت بڑھتی چلی جا رہی ہے.پس ایک احمدی کو رفق ، نرمی اور ہمدردی کے ہر پہلو پر حاوی ہونے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے ، اپنے دائرے کو وسعت دینے کی ضرورت ہے تبھی ہم حقیقی احمدی بن سکتے ہیں.پس اس جلسہ میں اس پہلو کی طرف بھی توجہ دیں اور اس کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کریں اور پھر اس پر قائم رہنے کا عہد بھی کریں.
خطبات مسرور جلد دہم 398 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 جون 2012ء ہمیں یادرکھنا چاہئے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر کامل اطاعت کا عہد کیا ہے.پاک تبدیلیاں پیدا کرنے اور تقویٰ پر قائم رہنے کا تجدید عہد کیا ہے.اسے ہمیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے ، ورنہ نہ ہم عہد بیعت نبھانے والے ہیں اور نہ ہی ہم جلسہ کی برکات سے فیض اٹھانے والے ہیں.جلسے ہوتے ہیں تو آپ ترانے اور نظمیں پڑھتے ہیں ، ایم ٹی اے پر اس کو دکھانے کی وجہ سے اس میں رنگینیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.بڑے زور شور سے برکتوں کے دن آنے کے ترانے گائے جاتے ہیں.پس برکتوں کے دن سے فائدہ اُٹھانے کے لئے تقویٰ کا حصول ضروری ہے.اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کی تعلیم کی کامل پیروی کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عہد بیعت نبھانا ضروری ہے ورنہ دن بیشک برکتوں کے ہوں ہم ان برکتوں سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ کوئی دنیاوی میلہ نہیں ہے جہاں تم آئے ہو جو دنیاوی فائدہ اُٹھانا تھا تم نے اُٹھالیا اور چلے گئے.بلکہ اس کی حقیقی برکات سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرو.(ماخوذ از شهادة القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 395) اور اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے کیا چاہتے ہیں، اس بارے میں میں آپ کی چند باتیں آپ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہر بات بلکہ ہر ہر بات وہ ہے جس پر عمل کرنے والے باخدا انسان بن سکتے ہیں اور یہی آپ کی بعثت کا مقصد تھا کہ اپنے آقاو مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انسانوں کو باخدا انسان بنا ئیں.پس سب سے پہلے تو میں آپ کے الفاظ میں آپ کا مقام اور اُس کی اہمیت اور آپ کی کامل اطاعت کے بارے میں بیان کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: تم نے میرے ہاتھ پر جو بیعت کی ہے اور مجھے مسیح موعود حَكَم عَذل مانا ہے تو اس ماننے کے بعد میرے کسی فیصلہ یا فعل پر اگر دل میں کوئی کدورت یا رنج آتا ہے تو اپنے ایمان کا فکر کرو.وہ ایمان جو خدشات اور تو ہمات سے بھرا ہوا ہے کوئی نتیجہ پیدا کرنے والا نہیں ہوگا.لیکن اگر تم نے سچے دل سے تسلیم کر لیا ہے کہ مسیح موعود واقعی حکم ہے تو پھر اس کے حکم اور فعل کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دو اور اس کے فیصلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھو تا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک باتوں کی عزت اور عظمت کرنے والے ٹھہر و.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کافی ہے.وہ تسلی دیتے ہیں کہ وہ تمہارا امام ہو گا.وہ حگم عدل ہوگا.( ملفوظات جلد 2 صفحہ 52 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد دہم 399 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 جون 2012ء پس آپ کے فیصلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے والے ہم تبھی ٹھہر سکتے ہیں جب آپ کی ہر بات کی ہم کامل پیروی کرنے کی کوشش کریں.آپ نے واضح فرما دیا کہ آپ کی باتوں اور فیصلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے والے اور اُن پر عمل کرنے والے صرف آپ کی باتوں کی عزت کرنے والے نہیں ہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو عزت و عظمت سے دیکھنے والے ہیں.پس یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے اُس امام کو مان لیا جس نے ہر بات کھول کر ہمارے سامنے رکھ دی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی تھی تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں سمجھنے میں غلطی لگی ہے.پس ایک احمدی جب بیعت کرتا ہے تو اپنی ذمہ داریوں پر ہمیشہ نظر رکھنے کی ضرورت ہے.دنیاوی خواہشات اور دنیاوی ترجیحات اُسے عہد بیعت سے دور لے جاتی ہیں اور حقیقت میں ایسے شخص کا عہد بیعت، عہد بیعت نہیں رہتا.پس اس جلسے کے دنوں میں اس پہلو سے بھی ہر احمدی کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.جماعت کو نصائح کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ : ” خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اس کی تائید میں صد ہا نشان اُس نے ظاہر کئے ہیں.اس سے اُس کی غرض یہ ہے کہ یہ جماعت صحابہ کی جماعت ہو اور پھر خیر القرون کا زمانہ آجاوے“.یعنی پہلی صدیوں کا وہ زمانہ آ جائے جو بہترین زمانہ تھا.”جو لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں چونکہ وہ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ (الجمعة: 4) میں داخل ہوتے ہیں اس لئے وہ جھوٹے مشاغل کے کپڑے اتار دیں اور اپنی ساری توجہ خدا تعالیٰ کی طرف کریں.“ ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 67 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) پس جب ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری دی ہے کہ مسیح موعود کے بعد دائمی خلافت کا سلسلہ بھی قائم رہنا ہے تو ہمیں اس سے فیض اٹھانے کے لئے خیر القرون کے زمانے کو بھی قائم رکھنے کی کوشش کرتے چلے جانا چاہئے.ایک نسل کے بعد دوسری نسل میں وہ روح پھونکنی ہوگی اور پھونکتے رہنا چاہئے کہ ہم نے اپنے ہر قول و فعل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنا ہے.اگر یہ نہیں ہو گا پھر ہم اُس عمدہ زمانے کی خواہش رکھنے والے نہیں ہوں گے جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا ہے، بلکہ اندھیرے دور میں پھر ڈوبتے چلے جائیں گے.پس اس کے لئے کوشش کرنے کی بھی بہت ضرورت ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ جہاں میرے ماننے والوں میں ذکر الہی میں خاص رنگ ہو وہاں آپس کے محبت و پیار میں بھی خاص رنگ ہو.(ماخوذ از ملفوظات جلد 2 صفحہ 67 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) صرف ذکر الہی کا خاص رنگ نہیں ہے بلکہ آپس کے رشتوں میں ، آپس کے تعلقات میں جماعت
خطبات مسرور جلد دہم 400 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 جون 2012ء کے اندر ایک محبت اور پیار کا بھی خاص رنگ ہونا چاہئے.یہ آپ نے اپنے ماننے والوں سے توقع کی.اور جب یہ رنگ پیدا ہوگا تو پھر ہی ہم وہ جماعت بن سکتے ہیں جو آخرین کی جماعت ہے.پھر اس محبت کو مزید وسعت دیتے ہوئے آپ نے حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی.جس طرح آپ نے توجہ دلائی ہے اگر ہم میں سے ہر ایک اس طرح حقوق کی ادائیگی شروع کر دے تو ہم چند سالوں میں ایک انقلاب پیدا کر سکتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ : ” بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے دعانہ کی جاوے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتا.“ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 68 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) پس دیکھیں ہم میں سے کتنے ہیں جو اس سوچ کے ساتھ اپنی دعاؤں کو وسعت دیتے ہیں؟ جماعت میں جو بعض مسائل پیدا ہوتے ہیں اگر یہ سوچ ہو تو کبھی مسائل پیدا ہو ہی نہیں سکتے.جب ایک مومن اپنے مخالف اور دشمن اور غیر مومن کے لئے دعائیں کر رہا ہوگا تو اپنوں کے لئے تو ان دعاؤں میں ایک مزید اضافہ ہو گا.ایک شدت پیدا ہو رہی ہوگی.اور جب ایسی دعائیں ہوتی ہیں تو خدا تعالیٰ کے پیار کی نظر بھی ایسے پیار کرنے والوں اور دوسروں کے جذبات کا اور احساسات کا خیال رکھنے والوں پر پڑتی ہے اور جس پر خدا تعالیٰ کے پیار کی نظر پڑ جائے ، اُس کی دین و دنیا دونوں سنور جاتے ہیں.آپ کی اس اہم نصیحت کو بھی ہمیشہ ہمیں سامنے رکھنا چاہئے.آپ نے فرمایا ” تم پر یہ خدا تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اُس نے تمہیں یہ قوت عطا کی اور شناخت کی آنکھ دی.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا، آپ کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی.فرمایا ” اگر وہ یہ فضل نہ کرتا تو جیسے اور لوگ گالیاں دیتے ہیں تم بھی اُن میں ہی ہوتے“.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جس طرح لوگ گالیاں دیتے ہیں تم لوگ بھی اُن میں ہوتے اگر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تم پر نہ ہوتا.فرمایا ”جس چیز نے تم کو کھینچا ہے وہ محض خدا کا فضل ہے.فرمایا یہ خیال مت کرو کہ ہم مسلمان ہیں.اسلام بڑی نعمت ہے اس کی قدر کرو اور شکر کرو.پس نام کا مسلمان ہونا اور احمدی ہونا کوئی چیز نہیں ہے.اصل چیز جو فضل اللہ تعالیٰ کا اسلام اور احمدیت کے قبول کرنے کی صورت میں ہوا ہے، اُس کی قدر کرنے کی ضرورت ہے.اور قدر کس طرح ہو سکتی ہے؟ فرمایا کہ اس کے اندر فلاسفی ہے جو زبان سے کہہ دینے سے حاصل نہیں ہوتی.اسلام اللہ تعالیٰ کے تمام تصرفات کے نیچے آجانے کا نام ہے.یعنی اسلام نام ہے اللہ تعالیٰ کے جتنے بھی احکامات ہیں اُن کے نیچے آنے کا.اور اس کا خلاصہ خدا کی سچی اور کامل اطاعت ہے.مسلمان وہ ہے جو
401 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 جون 2012ء خطبات مسرور جلد دہم اپنا سارا وجود خدا تعالیٰ کے حضور رکھ دیتا ہے.( ملفوظات جلد 2 صفحہ 133 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) اور جب اس حالت پر ایک مومن پہنچ جاتا ہے تو پھر قرآنِ کریم کی یہ آیت آپ نے پیش فرمائی جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَةَ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة : 113) کیوں نہیں ، جو بھی اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دے اور وہ احسان کرنے والا ہو تو اُس کا اجر اُس کے رب کے پاس ہے اور اُن لوگوں پر کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے.پس اللہ تعالیٰ یہ وعدہ فرماتا ہے کہ جو بھی اپنی تمام تر توجہ اللہ تعالیٰ پر رکھے، اللہ تعالیٰ کی رضا ہر دوسری چیز پر مقدم کر لے، اُن کے خوف اور غم کی حالت کو اللہ تعالیٰ دور فرما دیتا ہے.احسان کا مطلب ہے کہ دوسروں سے نیک سلوک کرنا، ایسا سلوک جس میں کوئی ذاتی مفاد نہ ہو.اور پھر یہ بھی مطلب ہے کہ اپنے علم اور عمل میں نیکی مد نظر ہو.ایک انسان کا اپنا ہر عمل اور علم جو ہے اُس کا استعمال نیک باتوں کے لئے ہو اور کسی بھی صورت میں اُس میں بدی داخل نہ ہو اور یہی حالت حقیقت میں وہ حالت ہے جس کو کہہ سکتے ہیں کہ تو جہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے.پس یہ مقام ہے جو ہر احمدی کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ حالت ہی ہمیں حقیقی مسلمان بناتی ہے.پس ہمیں اپنے آپ کو بیعت میں شامل کرنے کے بعد اسی پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے ، اسی پر اکتفا نہیں کر لینا چاہئے کہ ہم احمدی ہو گئے بلکہ اپنے معیار بڑھاتے چلے جانے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے.بیعت کرنے والوں کی خوش قسمتی کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ : ”میں سچ کہتا ہوں کہ یہ ایک تقریب ہے جو اللہ تعالیٰ نے سعادتمندوں کے لئے پیدا کر دی ہے“.یعنی وہ لوگ جو احمدیت میں داخل ہو گئے.”مبارک وہی ہیں جو اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں.تم لوگ جنہوں نے میرے ساتھ تعلق پیدا کیا ہے اس بات پر ہرگز ہرگز مغرور نہ ہو جاؤ کہ جو کچھ تم نے پانا تھا پا چکے.یہ سچ ہے کہ تم ان منکروں کی نسبت قریب تر بہ سعادت ہو.یعنی تم اُن انکار کرنے والوں کی نسبت سعادت کے قریب تر ہو.” جنہوں نے اپنے شدیدا نکار اور توہین سے خدا کو ناراض کیا.اور یہ بھی سچ ہے کہ تم نے حسن ظن سے کام لے کر خدا تعالیٰ کے غضب سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کی.لیکن سچی بات یہی ہے کہ تم اس چشمہ کے قریب آ پہنچے ہو جو اس وقت خدا تعالیٰ نے ابدی زندگی کے لئے پیدا کیا ہے.ہاں پانی پینا ابھی باقی ہے.پس خدا تعالیٰ کے
خطبات مسر در جلد دہم 402 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 جون 2012ء فضل و کرم سے توفیق چاہو کہ وہ تمہیں سیراب کرے.کیونکہ خدا تعالیٰ کے بڑوں کچھ بھی نہیں ہوسکتا“.جب تک خدا تعالیٰ نہیں چاہے گا کچھ نہیں ہو سکتا.تم پانی نہیں پی سکتے ، احمدیت میں داخل ہو کر اُس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.فرمایا یہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ جو اس چشمہ سے پٹے گا وہ ہلاک نہ ہوگا کیونکہ یہ پانی زندگی بخشتا ہے اور ہلاکت سے بچاتا ہے اور شیطان کے حملوں سے محفوظ کرتا ہے.اس چشمہ سے سیراب ہونے کا کیا طریق ہے؟ یہی کہ خدا تعالیٰ نے جو دو حق تم پر قائم کئے ہیں اُن کو بحال کرو اور پورے طور پر ادا کرو.ان میں سے ایک خدا کا حق ہے دوسر امخلوق کا.( ملفوظات جلد 2 صفحہ 135 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ) پس یہ وہ حالت ہے اور وہ مقام ہے جس کو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اندر پیدا کرنے اور اپنانے کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ بھی ہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ حقوق کے معیاروں کے حصول کے لئے جلسہ کی صورت میں ایک تقریب پیدا کر دی جہاں ہم نیک باتیں سُن کر اور ایک دوسرے کے نیک اثرات کو جذب کر کے اُن معیاروں کو حاصل کرنے کی طرف توجہ کرتے ہیں جو آپ ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں.پھر ایک بہت ہی اہم بات کی طرف آپ نے توجہ دلائی ہے اور ہر احمدی کو اس طرف بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے اور وہ ہے اپنی علمی حالت کو بہتر کرنا.آج کل کے معاشرے میں دنیاوی علم کی طرف بہت توجہ ہے اور دین سیکھنے کی طرف کم.آپ فرماتے ہیں کہ سچی تبدیلی تقویٰ اور طہارت پیدا کرنے کے لئے اپنے دینی علم کو بھی بڑھانے کی ضرورت ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد دوم صفحه 141-142 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) اور یہ دینی علم آج ہمیں صرف اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہی مل سکتا ہے.آپ نے اپنی کتابوں کا بے شمار خزانہ ہمارے لئے چھوڑا ہے جو علم و عرفان کے موتیوں سے بھری پڑی ہیں.پس انہیں پڑھنے کی طرف بھی بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے.جو جو کتب انگلش میں ترجمہ ہو چکی ہیں، انہیں اردو نہ جاننے والے انگلش میں پڑھنے کی کوشش کریں.کچھ اقتباسات ہیں اُن کی طرف توجہ دیں.وہ چار پانچ volumes کی صورت میں شائع ہو چکے ہیں.جوار دو پڑھنا جانتے ہیں وہ اُردو میں پڑھیں کہ یہ باتیں ہیں جو ہمارے علم و عرفان کو بڑھانے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں.کیونکہ جو کچھ آپ نے بیان فرمایا ہے، وہ قرآن کریم کی تفسیر ہے.اس زمانے میں سب سے زیادہ قرآن کریم کا ادراک خدا تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا.قرآن کریم کے بکثرت پڑھنے کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ : ”خدا تعالیٰ نے اپنے فضل
خطبات مسرور جلد دہم 403 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 جون 2012ء سے ہم پر کھول دیا ہے کہ قرآن شریف ایک زندہ اور روشن کتاب ہے.فرمایا میں بار بار اس امر کی طرف اُن لوگوں کو جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلے کو کشف حقائق کے لئے قائم کیا ہے کیونکہ بڑوں اس کے عملی زندگی میں کوئی روشنی اور نور پیدا نہیں ہوسکتا“.حقائق اُسی وقت کھلتے ہیں جب قرآنِ کریم کا علم ہو.اس کے بغیر زندگی میں کوئی روشنی اور نور پیدا نہیں ہوسکتا، دینی علم حاصل نہیں ہوسکتا.فرمایا اور میں چاہتا ہوں کہ عملی سچائی کے ذریعے اسلام کی خوبی دنیا پر ظاہر ہوجیسا کہ خدا نے مجھے اس کام کے لئے مامور کیا ہے.اس لئے قرآن شریف کو کثرت سے پڑھو مگر نرا قصہ سمجھ کر نہیں بلکہ ایک فلسفہ سمجھ کر “ 66 ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 113 ایڈ یشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) پس جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی ماموریت کے اس اہم کام کے ساتھ اپنے ماننے والوں کو بھی اس طرف توجہ دلائی ہے تو اس کے لئے ہمارا بھی کام ہے کہ ہم بھی قرآن کریم کو سمجھیں، پڑھیں اور اس کے حسن و خوبی کو ان لوگوں پر ظاہر کریں، ان تک پہنچائیں.اس وقت تبلیغ کا سب سے بڑا ہتھیار ہمارے پاس قرآن کریم ہے.اور نہ نو جوانوں کو اور نہ کسی اور کوکسی بھی قسم کے احساس کمتری میں، complex میں مبتلا ہونے کی ضرورت ہے کہ شاید مسلمانوں کے خلاف یا قرآنِ کریم کے خلاف باتیں ہوتی ہیں تو ہم یہ ہتھیار کس طرح استعمال کریں.یہی ہتھیار ہے جو تمام دینوں پر غالب آنے کا ہتھیار ہے.پس اس کو ہمیں سیکھنا چاہئے اور آگے پہنچانا چاہئے.اس کو پڑھنا اور مجھنا اور اس کے ذریعے سے معترضین کے منہ بند کروانا آج ہماری ذمہ داری ہے.یہاں آئے دن جو قرآنِ کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق غلیظ اعتراضات کئے جاتے ہیں، انہیں دور کرنا آج ہماری ذمہ داری ہے.اور یہ صرف چندلوگوں کا ہی کام نہیں ہے کہ خدام الاحمدیہ کے ذریعے سے یا کچھ اور چند لوگوں کے ذریعے سے مجلس انصار سلطان القلم قائم ہوگئی تو ہم کافی سمجھ لیں.بلکہ ہر احمدی، بچے بڑے، مرد، عورت کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے تا کہ ہم میں سے ہر ایک اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے والوں میں شامل ہو سکے.آپ فرماتے ہیں.اس سلسلے میں داخل ہو کر تمہارا وجود الگ ہو اور تم بالکل ایک نئی زندگی بسر کرنے والے انسان بن جاؤ.جو کچھ تم پہلے تھے وہ نہ رہو.یہ مت سمجھو کہ تم خدا تعالیٰ کی راہ میں تبدیلی کرنے سے محتاج ہو جاؤ گے یا تمہارے بہت سے دشمن پیدا ہو جا ئیں گے.نہیں.خدا کا دامن پکڑنے والا ہرگز محتاج نہیں ہوتا.اُس پر کبھی برے دن نہیں آسکتے.خدا جس کا دوست اور مددگار ہو، اگر تمام دنیا اُس کی دشمن ہو جاوے تو کچھ پرواہ نہیں.مومن اگر مشکلات میں بھی پڑے تو وہ ہرگز تکلیف میں نہیں ہوتا“.یعنی
خطبات مسرور جلد و هم 404 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 جون 2012ء مشکلات اگر اللہ تعالیٰ کی خاطر آتی ہیں تو وہ اُس کو محسوس ہی نہیں کرتا بلکہ وہ دن اُس کے لئے بہشت کے دن ہوتے ہیں.خدا کے فرشتے ماں کی طرح اُسے گود میں لے لیتے ہیں“.( ملفوظات جلد 2 صفحہ 195 ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) اُن تکلیف کے دنوں میں اللہ تعالیٰ سے ایک خاص تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور اس تعلق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ ایسے شخصوں کو اپنی گود میں لے لو.پس یہ چند باتیں اُن نصائح میں سے میں نے بیان کی ہیں جو وقتاً فوقتاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں فرمائی ہیں.ہمیں چاہئے کہ ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں، اپنی زندگیوں میں ایک ایسی تبدیلی پیدا کریں.جو خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والی ہو.جیسا کہ میں نے کہا کہ جلسہ ہماری عملی ، روحانی ، دینی اور علمی حالتوں میں تبدیلی پیدا کرنے کے لئے منعقد ہوتا ہے.پس جلسے کے دنوں میں جلسے کے ماحول اور یہاں کی جانے والی تقریروں سے بھر پور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں اور ہر ایک اپنی حالتوں کے جائزے لے کہ کیا ہم وہ معیار حاصل کر رہے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے چاہتے ہیں؟ تبھی ہم جلسہ میں شامل ہونے کا صحیح فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور اس کی برکات سے فیضیاب ہو سکتے ہیں ورنہ یہ بھی دنیاوی میلوں کی طرح کا ایک میلہ ہی ہو گا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس مقصد کے حصول کی توفیق عطا فرمائے.ایک بات انتظامی لحاظ سے بھی میں کہنا چاہتا ہوں کہ ہر شامل ہونے والے کو اپنے ارد گرد ماحول میں بھی نظر رکھنی چاہئے.یہ جلسہ کے ماحول کی حفاظت کے لئے بھی ضروری ہے اور آپ کی حفاظت کے لئے بھی ضروری ہے.کارکنان کے لئے خاص طور پر یہ ہدایت یاد رکھیں کہ ڈیوٹیوں کے دوران بعض نمازوں کی طرف توجہ نہیں دیتے.نمازوں کی ادائیگی کی طرف با قاعدہ انتظام ہونا چاہئے اور جو ان کے نگران ہیں وہ اس طرف توجہ دیں اور اسی طرح جلسے کے دوران تمام احباب ذکر الہی کی طرف توجہ دیں.یہی جلسے کا ایک بہت بڑا مقصد ہے.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 13 جولائی تا 19 جولائی 2012 جلد 19 شمارہ 28 صفحہ 5 تا8 )
خطبات مسرور جلد دہم 405 27 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 جولائی 2012ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احم خلیفة اسم الخامس اید اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 06 / جولائی 2012ء بمطابق 06 وفا 1391 ہجری شمسی بمقام انٹر نیشنل سینٹر.مس سا گا ( کینیڈا) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: الْحَمْدُ لِله ! آج جماعت احمدیہ کینیڈا کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے.یہ جلسے ایک احمدی کے لئے برکات کا موجب بنتے ہیں اور بننے چاہئیں کیونکہ ایک خاص ماحول میں اور صرف دینی اغراض کے لئے جمع ہونا، اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے جمع ہونا، اُس کی رضا کے حصول کے لئے جمع ہونا یقینا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کھینچتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بڑا کھول کر بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے منعقدہ مجالس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بناتی ہیں، اُس کی جنتوں کی طرف لے جاتی ہیں.آپ نے فرمایا کہ اے لوگو! جنت کے باغوں میں چرنے کی کوشش کرو.جب صحابہ نے اس بارے میں وضاحت چاہی کہ جنت کے باغ کیا ہیں؟ تو آپ نے فرمایا : ذکر کی مجالس جنت کے باغ ہیں.(سنن الترمذى كتاب الدعوات باب 86 حدیث 3510) پس جن مجلسوں سے جنت کے باغوں کے راستے ملیں وہ یقیناً برکتوں والی مجالس ہوتی ہیں.اور ہمارے جلسوں کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کی محبت میں بڑھنے کی باتیں سنیں ، دعاؤں اور عبادات کی طرف توجہ ہو اور اس کے حصول کے طریقے بھی سیکھیں.اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا کریں.اور پھر یہ نیکیوں کی طرف توجہ، حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ خدا تعالیٰ کا شکر گزار بناتے ہوئے ہماری زبانوں کو اس کے ذکر سے تر کرتے ہوئے جنت کے باغوں کی طرف رہنمائی کرتی ہے بلکہ بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی وجہ سے جس کا حق ادا کیا جارہا ہو ، وہ جب دیکھتا ہے کہ ادائیگی حقوق کی توجہ اس مجلس کی وجہ سے ہو رہی ہے تو جس کا حق ادا کیا جا رہا ہو ، وہ بھی اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کرتا ہے اور یہی مومنین کی
خطبات مسرور جلد دہم 406 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 جولائی 2012ء مجالس اور آپس کے تعلقات اور خدا تعالیٰ کی شکر کی ادا ئیکی کا حال ہونا چاہیئے.پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو اس روح کے ساتھ یہاں آتے ہیں ، اس کے مطابق عمل کرتے ہیں اور نتیجتاً نہ صرف اپنے لئے جنت کے باغوں کے دروازے کھولتے ہیں بلکہ حقوق العباد کی ادائیگی کی وجہ سے دوسروں کے لئے بھی جنت کے باغوں میں چرنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور پھر مزید برکتوں کے سامان ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والا ایک مومن بنتا ہے کیونکہ دوسروں کو نیکی کا راستہ دکھانے والا یا کسی پر نیکی کر کے اُسے اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کی طرف توجہ دلانے والا بھی اُسی قدر نیکی کے ثواب کا مستحق بن جاتا ہے جتنا نیکی کرنے والا.گویا ایک نیکی نیک نتائج کی وجہ سے کئی گنا نیکیوں کا ثواب دلوا کر پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کا وارث بناتی چلی جاتی ہے.پس یہ ہے ہمارا پیارا خدا جو نیکیوں کو سینکڑوں گنا، ہزاروں گنا پھل لگاتا ہے اور اپنے بندے کی معمولی کوشش کو بھی اس قدر بڑھا دیتا ہے کہ جو انسانی تصور سے بھی باہر ہے.پس اس پیارے خدا کے پیار کی تلاش ہر ایک کو کرنی چاہئے.اور جیسا کہ میں اکثر کہتا رہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسوں کا انعقاد کر کے ہمارے لئے برکات کے راستے کھولے ہیں، جنت کے باغوں کی سیر کے لئے ایک وسیع اور بہترین انتظام فرما دیا ہے.پس خوش قسمت ہوں گے ہم میں سے وہ جو اس مجلس اور اس ماحول سے فائدہ اُٹھا کر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حاصل کرنے والے بن جائیں.پس اس رضا کے حصول کے لئے جلسے میں شامل ہونے والے ہر مرد، عورت، جوان، بوڑھے اور بچے کو کوشش کرنی چاہئے.افراد جماعت کو یہ مقام حاصل کرنے والا بنانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل میں کتنا درد تھا اور آپ کس تڑپ کے ساتھ اس کے لئے دعا کرتے تھے، اس کا اندازہ آپ کے ان الفاظ سے ہوتا ہے.فرمایا: دعا کرتا ہوں اور جب تک مجھ میں دم زندگی ہے کئے جاؤں گا اور دعا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ میری اس جماعت کے دلوں کو پاک کرے اور اپنی رحمت کا ہاتھ لمبا کر کے اُن کے دل اپنی طرف پھیر دے اور تمام شرارتیں اور کینے اُن کے دلوں سے اٹھا دے اور باہمی سچی محبت عطا کر دے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ دعا کسی وقت قبول ہوگی اور خدا میری دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا.ہاں میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ اگر کوئی شخص میری جماعت میں خدا تعالیٰ کے علم اور ارادہ میں بدبخت از لی ہے جس کے لئے یہ مقدر ہی نہیں کہ سچی پاکیزگی اور خدا ترسی اس کو حاصل ہو تو اس کو اے قادر خدا میری طرف سے بھی منحرف کر دے جیسا کہ وہ تیری طرف سے منحرف ہے اور اس کی جگہ کوئی اور لاجس کا دل نرم اور جس کی جان میں تیری طلب ہو.“ شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 398 )
خطبات مسرور جلد دہم 407 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 جولائی 2012ء پس یہ الفاظ آپ کے دلی درد کا ایسا اظہار ہے جو دل کو ہلا دیتا ہے.رونگٹے کھڑے کرنے والا ہے، تو بہ اور استغفار کی طرف مائل کرنے والا ہے.اور حقیقی رنگ میں خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور بخشش کا طلبگار بنانے والا ہے.حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانے والا ہے.پس ان دنوں میں ہم میں سے ہر ایک کو تو بہ اور استغفار، درود اور ذکر الہی کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نہ صرف ہمارے ایمانوں کو سلامت رکھے بلکہ ایمان وایقان اور تقویٰ میں ترقی کرنے والا بناتا چلا جائے.ہمارے استغفار خالص استغفار بن جائیں.ہماری نمازیں اور عبادتیں حقیقی نمازیں اور عبادتیں بن جائیں.ہماری حقوق العباد کی ادائیگی خالصتہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد کو بھی ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے.آپ فرماتے ہیں:.” جب تک دل فروتنی کا سجدہ نہ کرے صرف ظاہری سجدوں پر امید رکھنا طمع خام ہے“.یونہی جھوٹی خواہش ہے کہ ہم بڑے سجدے کر رہے ہیں اور ہماری دعا ئیں اللہ تعالیٰ قبول کر لے.فرمایا: ” جیسا کہ قربانیوں کا خون اور گوشت خدا تک نہیں پہنچتا صرف تقویٰ پہنچتی ہے، ایسا ہی جسمانی رکوع و سجود بھی بیچ ہے جب تک دل کا رکوع و سجود و قیام نہ ہو.فرمایا ” دل کا قیام یہ ہے کہ اس کے حکموں پر قائم ہو اور رکوع یہ کہ اس کی طرف جھکے اور سجود یہ کہ اس کیلئے اپنے وجود سے دست بردار ہو.“ شهادة القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 398 ) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہم سے، اپنے ماننے والوں سے، اپنی جماعت سے یہ خواہش ہے کہ تقویٰ کا مقام حاصل ہو اور اس کے لئے بڑے درد سے آپ نے یہ دعا فرمائی.اللہ کرے ہم اس مقام کو حاصل کرنے والے بنیں.ہمارے دنیا کے دھندوں میں بہت زیادہ پڑ جانے اور تقویٰ سے دور ہونے کی وجہ سے ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے انقلابی مشن میں روک پیدا کرنے والے نہ بن جائیں.ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پامالی کرنے والے نہ بن جائیں.ہم آپ کی روح کے لئے تکلیف کا باعث نہ بن جائیں.پس اس جلسے کی برکات سے بھر پور فائدہ اُٹھانے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہشات اور دعاؤں کا وارث بننے کے لئے ہر احمدی کو ایک نئے عزم کے ساتھ یہ عہد کرنا چاہئے اور اس کے لئے بھر پور کوشش کرنی چاہئے کہ ہم اپنے معیار تقویٰ کو بڑھاتے چلے جانے کی کوشش کرتے چلے جائیں گے.
خطبات مسرور جلد دہم 408 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 جولائی 2012ء تقویٰ کے راستوں کی تلاش کے لئے قرآن کریم نے جو ہمیں تعلیم دی ہے اور ایک حقیقی مومن کا جو معیار بیان فرمایا ہے اُس کی تلاش کر کے اور اُس پر عمل کر کے ہی ہم یہ معیار حاصل کر سکتے ہیں جس کی توقع حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم سے کی ہے.قرآنِ کریم میں تقویٰ پر چلنے کے بارے میں مختلف حوالوں سے مختلف نہج سے بیشمار جگہ ذکر ہے جن میں سے بعض کا میں یہاں ذکر کروں گا تا کہ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی طرف توجہ رہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا انا فَاتَّقُونِ (النحل: 3) میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس میرا تقویٰ اختیار کرو.تقویٰ کا مطلب ہے بچاؤ کے لئے ڈھال کے پیچھے آنا، گناہوں سے بچاؤ کے سامان کرنا ، مشکلات سے بچنے کےسامان کرنا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری عبادت اگر اُس کا حق ادا کرتے ہوئے کرو گے تو یہی تقویٰ ہے جو تمہاری ہر طرح سے حفاظت کرے گا، تمہیں گناہوں سے بچائے گا، تمہیں مشکلات سے نکالے گا.واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت جب اُس کے حق کے ساتھ کی جائے تو یہ وہ مقام ہے جہاں خدا تعالیٰ کا خوف اور خشیت پیدا ہوتی ہے لیکن یہ خوف اُس پیار کی وجہ سے ہے جو ایک حقیقی عابد اور ایک حقیقی مؤمن کو خدا تعالیٰ سے ہے اور اس کو دوسرے لفظوں میں تقویٰ کہتے ہیں.پس ان عبادتوں کا حق ادا کرنے کی کوشش ایک حقیقی احمدی کو کرنی چاہئے تا کہ تقویٰ پر چلنے والا اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا کہلا سکے اور یہی انسانی پیدائش کا بہت بڑا مقصد ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ب وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات: (57) اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اگر چہ مختلف الطبائع انسان اپنی کوتاہ فہمی یا پست ہمتی سے مختلف طور کے مدعا اپنی زندگی کے لئے ٹھہراتے ہیں.اور ہم دیکھتے ہیں کہ آجکل بلکہ ہمیشہ سے ہی یہ اصول رہا ہے کہ انسان اپنی زندگی کے مقصد خود بناتا ہے یا سمجھتا ہے کہ میں نے یہ مقصد بنائے ہیں اور یہی میری کامیابی کا راز ہیں.اور اُس اصل مقصد کو بھول جاتا ہے جو خدا تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا انسان کو بتایا ہے.فرماتے ہیں ” پست ہمتی سے مختلف طور کے مدعا اپنی زندگی کے لئے ٹھہراتے ہیں.اور فقط دنیا کے مقاصد اور آرزوؤں تک چل کر آگے ٹھہر جاتے ہیں.مگر وہ مدعا جو خدائے تعالیٰ اپنے پاک کلام میں بیان فرماتا ہے وہ یہ ہے.جیسا کہ وہ فرماتا !.ب وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات: 57) یعنی میں نے جن اور انسان کو اسی
خطبات مسرور جلد دہم 409 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 جولائی 2012ء لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری پرستش کریں.پس اس آیت کی رُو سے اصل مدعا انسان کی زندگی کا خدا تعالیٰ کی پرستش اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور خدا تعالیٰ کے لئے ہو جانا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 414) یہ تو ظاہر ہے کہ انسان کو تو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہے کہ اپنی زندگی کا مدعا اپنے اختیار سے آپ مقرر کرے کیونکہ انسان نہ اپنی مرضی سے آتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے واپس جائے گا بلکہ وہ ایک مخلوق ہے اور جس نے پیدا کیا اور تمام حیوانات کی نسبت عمدہ اور اعلیٰ قومی اس کو عنایت کئے ، اُس نے اس کی زندگی کا ایک مدعا ٹھہرا رکھا ہے، خواہ کوئی انسان اس مدعا کو سمجھے یا نہ سمجھے مگر انسان کی پیدائش کا مدعا بلا شبہ خدا کی پرستش اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور خدا تعالیٰ میں فانی ہو جانا ہی ہے.پس یہ وہ مقام اور معیار ہے جسے ہر احمدی نے حاصل کرنا ہے اور کرنا چاہئے ، اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے.انسان خود جتنا چاہے اپنا مقصد بنالے اور اس کے حصول کے لئے کوشش کرے، اُس کی زندگی بے معنی ہے.آجکل اپنے سکون کے لئے انہی اغراض کو پورا کرنے کے لئے دنیا میں اور خاص طور پر مغربی ممالک میں تو بیشمار طریقے ایجاد کرنے کی انسان نے کوشش کی جن کا ماحصل صرف بے حیائی ہے.انسانی قدریں بھی اس قدر گر گئی ہیں کہ انسان ہر قسم کے نگ اور بیہودگی کولوگوں کے سامنے کرتا ہے بلکہ ٹی وی پر دکھانے پر بھی کوئی عار نہیں سمجھا جاتا.بلکہ بعض حرکات جانوروں سے بھی بدتر ہیں اور اسی کو فن اور سکون کا نام دیا جاتا ہے.انہی کی حالت کا اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ یوں نقشہ بھی کھینچا ہے.فرمایا وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِنَ الْجِنَّ وَالْإِنْسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَذَانْ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَفِلُونَ (الاعراف: 180) اور یقیناً ہم نے جنوں اور انسانوں میں سے ایک بڑی تعداد کو جہنم کے لئے پیدا کیا ہے، اُن کے دل تو ہیں مگر ان کے ذریعہ سے وہ سمجھتے نہیں ، یعنی روحانی باتیں سمجھنے کے قائل ہی نہیں ، اُن کی آنکھیں تو ہیں مگر اُن کے ذریعہ سے وہ دیکھتے نہیں ، اُن کے کان تو ہیں مگر ان کے ذریعے سے وہ سنتے نہیں ، نہ ان کے دلوں میں روحانیت بیٹھتی ہے، نہ اُن کے کان روحانیت کی باتیں، دینی باتیں سننے کے قائل ہیں نہ نیک چیزیں اور وہ چیزیں دیکھنے کی طرف توجہ دیتے ہیں جس کی طرف خدا تعالیٰ نے دیکھنے کا کہا ہے اور نہ اُن سے دیکھنے سے رُکتے ہیں جن سے خدا تعالیٰ نے رکنے کا کہا ہے.گو یا مکمل طور پر دنیاوی خواہشات نے اُن پر غلبہ حاصل کر لیا ہے.فرمایا کہ وہ لوگ چارپایوں کی طرح ہیں بلکہ اُن سے بھی بدتر ، اور ط
خطبات مسرور جلد دہم 410 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 جولائی 2012ء بھٹکے ہوئے ہیں، یہی لوگ ہیں جو غافل ہیں.پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَرعَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَواهُ (الفرقان: 44) کیا تُو نے اُسے دیکھا جس نے اپنی خواہش کو ہی اپنا معبود بنالیا.یہ لوگ صرف اپنی خواہشات کی ہی عبادت کرنے والے ہیں.پھر فرماتا ہے.آم تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَ هُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ إِنْ هُمْ إِلَّا ا لأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا (الفرقان: 45) کیا تو گمان کرتا ہے کہ ان میں سے اکثر سنتے ہیں یا عقل رکھتے ہیں، ان میں سے اکثر جانوروں کی طرح ہیں بلکہ اُن سے بھی زیادہ بدتر.ان آیات میں ان لوگوں کا نقشہ ہے جو اپنے مقصد پیدائش کو نہیں سمجھتے اور اپنی خواہشات کے پیچھے چل پڑے ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جس نے پیدا کر کے پھر اُس پیدائش کا مقصد بتایا ہے، اُسے تو بھول گئے ہیں اور اپنے مقاصد خود تلاش کر رہے ہیں.پھر ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے.جانوروں کے تو اعمال کا حساب نہیں ہے، ان بھٹکے ہوؤں کے اعمال کا حساب جو ہے یقیناً انہیں جہنم میں لے جائے گا.یہاں یہ بات واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ کہا کہ ہم نے بڑی تعداد کو جہنم کے لئے پیدا کیا ہے تو اس سے غلط فہمی نہ ہو کہ خدانخواستہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں اختلاف ہے.ایک طرف تو کہہ رہا ہے کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو عبادت کے لئے بنایا دوسری طرف فرماتا ہے کہ جہنم کے لئے پیدا کیا.اس کا مطلب یہ ہے کہ باوجود خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کے سامانوں کے، باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ کی رحمت وسیع تر ہے اکثریت اس سے فائدہ نہیں اُٹھاتی اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کر کے اپنی دنیا و آخرت کے سنوارنے کے سامان نہیں کرتی اور اس کی بجائے اپنی خواہشات کی پیروی کر کے جہنم کے راستوں کی طرف چل رہی ہے.اہل لغت اس کی وضاحت اس طرح بھی کرتے ہیں کہ جہنم کے لفظ سے پہلے لام کا اضافہ ہوا ہے لِجَهَنَّم “استعمال ہوا ہے.یہ اضافہ اُن کے انجام کی طرف اشارہ کرتا ہے نہ کہ مقصد کی طرف.(تفسير البحر المحيط جلد 4 صفحه 425 تفسير سورة الاعراف زیر آیت 180 دار الکتب العلمية بيروت 2010ء) پس اپنے بد انجام کو انسان خدا تعالیٰ سے دوری اختیار کر کے، اُس کی عبادت کا حق ادا نہ کر کے پہنچتا ہے، اُس کے حکموں پر عمل نہ کر کے پہنچتا ہے.آجکل جیسا کہ میں نے کہا، اپنی بیہودہ خواہشات نے انسان کا یہ انجام بنادیا ہے کہ انسان جانوروں سے بھی بدتر حرکتیں کرنے لگ گیا ہے اور کھلے عام بیہودہ
خطبات مسرور جلد دہم 411 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 جولائی 2012ء حرکتیں ہوتی ہیں.گندی اور زنگی حرکات دیکھی جاتی ہیں، کی جاتی ہیں.پورنوگرافی کی ویڈیو اور فلمیں کھلے عام مہیا ہو جاتی ہیں ، انہیں دیکھ کر یہ لوگ ایسی حرکتیں کرنے والے جانوروں سے بھی بدتر ہو گئے ہیں.اور میں افسوس کے ساتھ کہوں گا ، بعض شکایتیں مجھے بھی آ جاتی ہیں کہ ہمارے احمدی نوجوان بلکہ درمیانی عمر کے لوگ بھی اس قسم کی لغو یا اس سے ذرا کم لغو فلمیں دیکھنے کے شوق میں مبتلا ہیں اور اسی وجہ سے بعض گھر بھی ٹوٹ رہے ہیں.پس ہر ایک کو خدا کا خوف کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ ایسے بھٹکے ہوئے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی واضح فرمایا ہے کہ اگر میرے ساتھ رہنا ہے تو ان لغویات اور ذاتی خواہشات کو چھوڑو ورنہ مجھ سے علیحدہ ہو جاؤ.ایسے لوگ عموماً جلسوں پر تو نہیں آتے ، جماعت سے بھی بڑے ہٹے ہوئے ہوتے ہیں، دور ہوئے ہوتے ہیں لیکن اگر آئیں یا اُن کے کان میں یہ باتیں پڑ جائیں، یا اُن کے عزیز اُن تک پہنچا دیں تو ایسے لوگوں کو اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے.یا پھر اس سے پہلے کہ نظام جماعت کوئی قدم اُٹھائے خود ہی جماعت سے علیحدہ ہو جائیں.اسی طرح نو جوانوں کو بھی جو نو جوانی میں قدم رکھتے ہیں، اچھے اور برے کی صحیح طرح تمیز نہیں ہوتی.گھر والوں نے بھی نہیں بتایا ہوتا.جماعت کے نظام سے بھی اتنا زیادہ منسلک نہیں ہوتے ، اُن کو بھی میں کہوں گا کہ بیہودہ چیزیں دیکھنا،فلمیں دیکھنا وغیرہ یہ بھی ایک قسم کا ایک نشہ ہے.اس لئے اپنی دوستی ایسے لوگوں سے نہ رکھیں جوان بیہودگیوں میں مبتلا ہیں کیونکہ یہ آپ پر بھی اثر ڈالیں گی.ایک مرتبہ بھی اگر کسی بھی قسم کی غلاظت میں پڑ گئے تو پھر نکلنا مشکل ہو جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان آیات کی وضاحت میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ” خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے جہنم کے لئے اکثر انسانوں، جتوں کو پیدا کیا ہے اور پھر فرمایا کہ وہ جہنم انہوں نے خود ہی بنا لیا ہے.اللہ تعالیٰ نے وہ جہنم نہیں بنا کر دیا بلکہ جہنم انہوں نے خود بنالیا ہے.ان کو جنت کی طرف بلایا جاتا ہے.فرماتے ہیں : ” اُن کو جنت کی طرف بلایا جاتا ہے.پاک دل پاکیزگی سے باتیں سنتا ہے اور ناپاک خیال انسان اپنی کو رانہ عقل پر عمل کر لیتا ہے.بلایا جاتا ہے اُن کو جنت کی طرف لیکن وہ سنتے نہیں.جو پاک دل ہیں اُن پر تو پاکیزہ باتوں کا اثر ہوتا ہے لیکن جو اپنے آپ کو عقلمند سمجھتے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ اس دنیا کی روشنی سے فائدہ اُٹھانا چاہئے وہ اپنی عقل پر انحصار کرتے ہیں.اُن کا نتیجہ پھر جہنم ہوتا ہے.فرمایا ایسے لوگوں کے لئے ” پس آخرت کا جہنم بھی ہوگا اور دنیا کے جہنم سے بھی
خطبات مسرور جلد دہم 412 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 جولائی 2012ء مخلصی اور رہائی نہ ہوگی کیونکہ دنیا کا جہنم تو اُس جہنم کے لئے بطور دلیل اور ثبوت کے ہے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 372.ایڈیشن 2003ء.مطبوعہ ربوہ ) ایسے لوگوں کو پھر بعض بیماریوں کی وجہ سے بعض اور چیزوں کی وجہ سے اس دنیا میں بھی ایک جہنم نظر آتی ہے.پھر دنیاوی جہنم کا نقشہ کھینچتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ: یہ خیال مت کرو کہ کوئی ظاہر دولت یا حکومت، مال وعزات ، اولاد کی کثرت کسی شخص کے لئے کوئی راحت یا اطمینان ، سکینت کا موجب ہو جاتی ہے اور وہ دم نقد بہشت ہی ہوتا ہے؟ ہرگز نہیں.وہ اطمینان اور وہ تسلی اور وہ تسکین جو بہشت کے انعامات میں سے ہے ان باتوں سے نہیں ملتی.وہ خدا ہی میں زندہ رہنے اور مرنے سے مل سکتی ہے.فرمایا: ” الذات دنیا تو ایک قسم کی ناپاک حرص پیدا کر کے طلب اور پیاس کو بڑھا دیتی ہیں.استقاء کے مریض کی طرح پیاس نہیں بجھتی.جس کو پانی پینے کا مرض ہوتا ہے اُس مریض کی طرح، اُس کی پیاس نہیں بجھتی.یہاں تک کہ وہ ہلاک ہو جاتے ہیں.پس یہ بے جا آرزؤوں اور حسرتوں کی آگ بھی منجملہ اس جہنم کی آگ کے ہے جو انسان کے دل کو راحت اور قرار نہیں لینے دیتی بلکہ اس کو ایک تذبذب اور اضطراب میں غلطاں و پیچاں رکھتی ہے.اس لئے میرے دوستوں کی نظر سے یہ امر ہرگز پوشیدہ نہ رہے.فرمایا: ” اس لئے میرے دوستوں کی نظر سے یہ امر ہرگز پوشیدہ نہ رہے.یعنی ان باتوں کا خیال رکھیں جو آپ فرماتے ہیں.".پس یہ آگ جو انسانی دل کو جلا کر کباب کر دیتی ہے اور ایک جلے ہوئے کوئلے سے بھی سیاہ اور تاریک بنادیتی ہے، یہ وہی غیر اللہ کی محبت ہے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 371.ایڈیشن 2003 ء.مطبوعہ ربوہ ) پس ایک حقیقی مومن کو تقویٰ پر چلنے والے اور تقویٰ کی تلاش کرنے والے کو اپنے ہر عمل کو خالصہ اللہ کرنا ہوگا.دل میں سے خواہشات اور نام نہاد تسکین کے دنیاوی بتوں کو نکال کر باہر پھینکنا ہو گا تبھی ایک مومن حقیقی مومن بن سکتا ہے.پس ان دنوں میں اللہ تعالیٰ نے اصلاح کا جو موقع میسر فرمایا ہے اس میں ہر ایک کو اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہئے.ضروری نہیں ہے کہ انتہائی برائیوں میں ہی انسان مبتلا ہو، چھوٹی چھوٹی برائیوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ یہ چھوٹی برائیاں ہی بعض دفعہ تقویٰ سے دور لے جاتی ہیں اور برائیوں میں مبتلا کرتی چلی جاتی ہیں.ذکر الہی سے اپنی زبانوں کو تر رکھیں، استغفار اور درود سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کریں.اپنے دلوں کو غیر اللہ کی محبت سے پاک کریں.اللہ تعالیٰ کے.
خطبات مسر در جلد دہم 413 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 جولائی 2012ء شکر گزار بندے بنیں کہ یہ شکر گزاری پھر خدا تعالیٰ کی محبت کو جذب کرنے کا ذریعہ بنتی ہے.اس ملک میں آ کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دنیاوی لحاظ سے جو دروازے کھلے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کے انعامات کے حصول کا ذریعہ بنائیں نہ کہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا.اللہ تعالیٰ نے تو یہ فرمایا ہے کہ تمہارا تقویٰ تمہارے لئے عزت کا مقام ہے.یہ نہیں فرمایا کہ تمہارا پیسہ، تمہاری دولت تمہارے لئے عزت کا مقام ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ اكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ (الحجرات: 14) کہ اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے.ہم اکثر سنتے ہیں، اکثر ہماری تقریروں میں ذکر کیا جاتا ہے، مقررین اس کا ذکر کرتے ہیں لیکن جس طرح اُس پر عمل ہونا چاہئے وہ عمل نہیں ہوتا.اگر صحیح طرح عمل ہو تو بہت سارے مسائل ، بہت ساری جھگڑے جو جماعت کے اندر پیدا ہو جاتے ہیں وہ خود بخود حل ہوجائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : وو " إِنَّ اكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ انْقَكُمْ (الحجرات: 14) یعنی جس قدر کوئی تقویٰ کی دقیق را ہیں اختیار کرے اُسی قدر خدا تعالیٰ کے نزدیک اُس کا زیادہ مرتبہ ہوتا ہے.پس بلا شبہ یہ نہایت اعلیٰ مرتبہ تقویٰ کا ہے کہ قبل از خطرات، خطرات سے محفوظ رہنے کی تدبیر بطور حفظ ماتقدم کی جائے.“ ہے 66 ( نور القرآن نمبر 2 روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 446) خطرہ آنے سے پہلے ہی خطرات سے بچنے کا طریقہ کیا جائے.پھر فرمایا.معظم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں ہوسکتا.خدا کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ود کردم و ( تحفۂ سالانہ یار پورٹ جلسہ سالانہ 1897ء مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب صفحہ 50) پھر آپ فرماتے ہیں دینی غریب بھائیوں کو کبھی حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھو.مال و دولت یا نسبی بزرگی پر بے جا فخر کر کے دوسروں کو ذلیل اور حقیر نہ سمجھو.خدا تعالیٰ کے نزدیک مکرم وہی ہے جو شفی ہے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 135.ایڈیشن 2003 ء.مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ نے فرمایا کہ نجات نہ قوم پر منحصر ہے نہ مال پر، بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے“ اور فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے حاصل کرنے کیلئے کیا کرنا ہے اور اس کو اعمالِ صالحہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل اتباع اور دعائیں جذب کرتی ہیں.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 445.ایڈیشن 2003ء.مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد دہم 414 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 جولائی 2012ء یعنی خدا تعالیٰ کا فضل جو ہے اس کو اعمالِ صالحہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی اور اتباع اور دعائیں جذب کرتی ہیں.پھر ایک جگہ آپ نے بڑی سختی سے تنبیہ فرمائی ہے اور الفاظ بڑے سخت ہیں.فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی معزز و مکرم ہے جو متقی ہے.اب جو جماعت اتقیاء ہے خدا اُس کو ہی رکھے گا اور دوسری کو ہلاک کرے گا.یہ نازک مقام ہے اور اس جگہ پر دو کھڑے نہیں ہو سکتے کہ متقی بھی وہیں رہے اور شریر اور نا پاک بھی و ہیں.ضرور ہے کہ متقی کھڑا ہو اور خبیث ہلاک کیا جاوے.اور چونکہ اس کا علم خدا کو ہے کہ کون اُس کے نزدیک متقی ہے.پس یہ بڑے خوف کا مقام ہے.خوش قسمت ہے وہ انسان جو متقی ہے اور بد بخت ہے وہ جو لعنت کے نیچے آیا ہے.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 177.ایڈیشن 2003 ء.مطبوعہ ربوہ) پس یہ تمام ارشادات جو میں نے پڑھے ہیں ایک حقیقی احمدی کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہیں.آپ نے فرمایا خطرات سے پہلے اُن خطرات سے بچنے کی کوشش کرو اور خطرات سے بچنا یہی ہے کہ اپنے ہر قول و فعل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنایا جائے تا کہ پھر انسان نجات یافتوں کی فہرست میں بھی شامل ہو جائے.اس فہرست میں شامل ہونے کے تین طریقے آپ علیہ السلام نے بتائے ہیں.ایک یہ کہ نیک اعمال بجالاؤ.نیک اعمال کی وضاحت یہی ہے کہ ہر قدم جو ہے وہ نیکیوں کے حصول کے لئے ہو.اور پھر ان نیک اعمال کی نشاندہی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے ہوسکتی ہے اُس کو دیکھو، وہاں سے ملے گی.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے بارے میں حضرت عائشہ نے فرمایا تھا کہ آپ کے اخلاق قرآنِ کریم ہے.(مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحه 144 مسند عائشة " حديث 25108 مطبوعه دار الكتب العلمية بيروت 1998ء) پس قرآن کریم کی طرف توجہ کرنی ہوگی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی کرو تو پھر حاصل ہوگا.پھر اپنے اعمال اور سنت نبوی پر چلنے کے عمل کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اور دعاؤں سے مزید خوبصورت بناؤ.فرمایا یہی جماعت ہے جس کے مقدر میں کامیابی مقدر ہے.یہی تقویٰ پر چلنے والے لوگ ہیں جنہوں نے دنیا پر غالب آنا ہے.پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو اس اصل کو سمجھ جائیں ، اس بات کو سمجھ جائیں ، اس بنیادی
خطبات مسرور جلد دہم 415 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 جولائی 2012ء چیز کو سمجھ جائیں اور اپنی ترجیحات دنیا وی دولت کو نہ سمجھیں بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول اور تقویٰ کے لئے کوشش کریں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیوں کی ایک بڑی تعداد اس کے لئے کوشش کرتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں جس کا اظہار افراد جماعت کے رویوں اور قربانیوں سے ہوتا ہے.لیکن ابھی بہت کچھے اس میدان میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے.خدا تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس اہم بات کو سمجھنے والے ہوں.تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنی زندگیوں کو گزارنے والے ہوں.اور اللہ تعالیٰ نے ایک متقی سے جو وعدے فرمائے ہیں، اُن سے حصہ پانے والے ہوں.اللہ تعالیٰ نے بہت سے وعدوں کے ساتھ متقیوں سے یہ وعدہ بھی فرمایا ہے کہ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِین کہ انجام متقیوں کا ہی ہے، یعنی کامیابی اور اچھا انجام متقیوں کا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ہر قسم کے حسد، کینہ، بغض، غیبت اور کبر اور رعونت اور فسق و فجور کی ظاہری اور باطنی راہوں اور کسل اور غفلت سے بچو اور خوب یا درکھو کہ انجام کار ہمیشہ متقیوں کا ہوتا ہے.جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (الاعراف: 129) اس لیے متقی بنے کی فکر کرو.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 212.ایڈیشن 2003 ء.مطبوعہ ربوہ ) پس یہ ماحول جو جلسے کا ہمیں مل رہا ہے اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنی برائیوں پر نظر رکھتے ہوئے ہر قسم کی برائیوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ہر قسم کی نیکیوں کو اختیار کرنے کی طرف بھر پور توجہ دینی چاہئے تا کہ ہم اُس انجام کو حاصل کرنے والے ہوں جو ہمیں کامیابی سے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بنا دے.اور پھر اللہ تعالیٰ نے صرف انفرادی انجام پر ہی بس نہیں کی بلکہ افراد جماعت کی جتنی بڑی تعداد ایک کوشش کے ساتھ نیکیوں کو اختیار کرنے اور تقویٰ پر چلنے کی کوشش کرے گی من حیث الجماعت بھی جماعت پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش میں اضافہ ہوگا.اللہ تعالیٰ کے فضل بڑھتے چلے جائیں گے.اور وہ وعدے جو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے فرمائے ہیں انہیں اپنی زندگیوں میں ہم پورا ہوتا دیکھیں گے.یقیناً یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی یہ وعدہ ہے جیسا کہ اپنی سنت کے مطابق خدا تعالیٰ تمام انبیاء سے وعدہ فرماتا ہے کہ كتب الله لا غُلِبَنَ آنَا وَرُسُلِى (المجادله (22) اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب آئیں گے.پس غلبہ احمدیت اور غلبہ اسلام تو ہونا ہی ہے لیکن اگر ہم تقویٰ پر ترقی
خطبات مسرور جلد دہم 416 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 جولائی 2012ء کرنے والے ہوئے تو ہم اپنی زندگیوں میں انشاء اللہ تعالیٰ ان ترقیات اور غلبہ کو دیکھنے والے ہوں گے.یہ انجام جو جماعت کا مقدر ہے اس کی شان انشاء اللہ ہم خود دیکھیں گے.پس اس شان کو دیکھنے کے لئے ، اس غلبے کو دیکھنے کے لئے اپنے تقویٰ کو، تقویٰ کے معیار کو بلند تر کرتے چلے جانے کی کوشش ہر احمدی کو کرتے رہنا چاہئے.جماعتی ترقی اور انجام کے بارے میں اس حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : وو یہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ حکم خواتیم پر ہے“.یعنی جو انجام ہے.”خدا تعالیٰ نے بھی (یہی) فرمایا ہے کہ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (الاعراف : 129) “.فرمایا کہ ”سنت اللہ اسی طور پر جاری ہے کہ صادق لوگ اپنے انجام سے شناخت کئے جاتے ہیں.آپ فرماتے ہیں.اوائل میں نبیوں پر ایسے سخت زلازل آئے کہ مدتوں تک کوئی صورت کامیابی کی دکھلائی نہ دی اور پھر انجام کا رنیم نصرت الہی کا چلنا شروع ہوا.اپنی جماعت کی ترقی کے بارے میں آپ نے اس انجام اور الہی بشارتوں کا ذکر اس طرح فرمایا ہے، فرماتے ہیں : مواعید صادقہ حضرت احدیت سے بشارتیں پاتا ہوں.یعنی کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سچے وعدوں کی خوشخبریاں پا رہا ہوں.” تو میراغم و درد بالکل دور ہو جاتا ہے اور اس بات پر تازہ ایمان آتا ہے.( مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 62-63 مکتوب بنام حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ) یعنی جماعت کی ترقی کے انجام پر آپ کو خبریں اللہ تعالیٰ دیتا ہے تو فرماتے ہیں میرا ایمان تازہ 66 ہوتا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں : ” مجھے تو خوشبو آتی ہے کہ آخر کا ر فتح ہماری ہے“.(انشاء اللہ ) (البدر جلد 1 نمبر 3 مؤرخہ 14 نومبر 1902 صفحہ 20) پس یہ ترقی اور فتح تو جماعت احمدیہ کا مقدر ہے.ہمیں اس ترقی کا حصہ بننے کے لئے اپنے تقویٰ کے معیار اونچے کرنے کی ضرورت ہے.ان جلسے کے دنوں میں اور پھر انشاء اللہ کچھ دنوں بعد رمضان بھی شروع ہو رہا ہے، اس سے بھی بھر پور فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے تقویٰ کے معیار ہر احمدی کو بلند تر کرتے چلے جانے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کے حصول کی توفیق عطا فرمائے.ہر ایک کو جلسے کے ان دنوں سے بھر پور فائدہ اُٹھانے کی توفیق عطا فرمائے.وہ تمام برکات ہم میں سے ہر ایک سمیٹنے والا ہو جو اس جلسے سے وابستہ
خطبات مسرور جلد دہم 417 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 جولائی 2012ء ہیں.ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اُن دعاؤں کے وارث بنیں جو آپ نے جلسے میں شامل ہونے والوں کے لئے کی ہیں اور جو آپ نے اپنی جماعت کے افراد کے لئے کیں.بعض انتظامی باتیں بھی ہیں.جلسے کے تمام پروگراموں کو خاموشی سے تمام لوگوں کو سنا چاہئے اور حاضری بھی صحیح رہنی چاہئے اور جو بھی علمی، روحانی تربیتی مضامین ہوں، انہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی تو فیق بھی عطا فرمائے.پھر انتظامی لحاظ سے ہی یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہر لحاظ سے، ہر شامل ہونے والے کو جو یہاں انتظامیہ ہے، اُس سے تعاون کرنا چاہئے.اور انتظامیہ کو بھی ، ڈیوٹی دینے والوں کو بھی اپنی مہمان نوازی کا پورا پورا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اسی طرح ڈیوٹی دینے والے بھی اور ہر شامل ہونے والا بھی اپنے ماحول پر بھی نظر رکھیں.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ہر شر سے محفوظ رکھے اور اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے اس جلسے کو با برکت فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 27 جولائی تا 2 اگست 2012 جلد 19 شماره 30 صفحه 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد دہم 418 28 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جولائی 2012ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت رز امرود احمد خلیفة السح الامس ایدہ اللہ تعالى نصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 13 / جولائی 2012ء بمطابق 13 روفا 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الاسلام.ٹورانٹو ( کینیڈا) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں عموماً جلسوں کے بعد جلسوں کے بارے میں کچھ کہا کرتا ہوں یا اللہ تعالیٰ کے شکر اور احسان کا مضمون بیان کیا کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے امریکہ اور کینیڈا کے جلسے ایک ہفتہ کے وقفے سے گزشتہ دو ہفتوں میں منعقد ہوئے اور اختتام کو پہنچے.مجھے جہاں ان جلسوں میں شمولیت کی وجہ سے متعلقہ جماعت کو براہ راست مخاطب ہونے کی توفیق ملتی ہے وہاں احباب جماعت سے ملنے کی وجہ سے بہت سی باتوں کا بھی علم ہو جاتا ہے.اُن کے مسائل کا علم ہو جاتا ہے.جماعت کی اخلاقی اور دینی حالت کے بارے میں پتہ چل جاتا ہے جس سے جماعت کی رہنمائی کرنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے، بلکہ رہنمائی مل جاتی ہے.پس اس لحاظ سے میرا امریکہ اور کینیڈا کا دورہ میرے لئے مفید رہا اور میں امید کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اس دورہ سے جماعت کے احباب وخواتین کو بھی فائدہ ہوا ہو.اس کے علاوہ دورہ سے غیر از جماعت یا غیر مسلم اور بعض معروف ملکی شخصیات سے مل کر بھی جماعتی تعارف کی توفیق ملتی ہے اور اس لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے دونوں جگہ یہ موقع ملا اور دونوں جگہ اس لحاظ سے اچھا کام ہورہا ہے اور دونوں جماعتوں نے اپنے بیرونی رابطوں کو وسعت دی ہے.بہر حال پہلے تو میں آپ کے سامنے آج اس حوالے سے اس مضمون کو رکھنا چاہتا ہوں جو جلسے کے بعد میں عموماً بیان کرتا ہوں.جیسا کہ میں نے شروع میں کہا وہ شکر گزاری کا مضمون ہے اور اس کے لئے مجھے بھی اور آپ سب کو بھی خدا تعالیٰ کا انتہائی شکر گزار ہونا چاہئے کہ اُس نے ہمیں توفیق عطا فرمائی کہ سالانہ جلسے منعقد کریں، اُن میں شامل ہوں.پھر اللہ تعالیٰ نے اس میں برکت بھی ڈالی اور ہر طرح
خطبات مسر در جلد دہم 419 خیر و برکت کے ساتھ یہ اپنے اختتام کو پہنچے.الحمد للہ.خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جولائی 2012ء لیکن جیسا کہ میں امریکہ کے جلسہ میں بھی اور کینیڈا کے جلسہ میں بھی بیان کرتا رہا ہوں کہ جلسوں کا اصل مقصد اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنا ہے.یہ خیر و برکت جو جلسے کے ذریعہ سے ملتی ہے حقیقت میں اُس وقت ہے جب ہمارے اندر پاک تبدیلیاں پیدا ہوں.اور پھر یہ عارضی تبدیلیاں نہ ہوں بلکہ مستقل کوشش اور ہمت کے ساتھ ان تبدیلیوں کو زندگی کا حصہ بنایا جائے.بار بار میں یہ چیز دہراتا رہتا ہوں.اور یہ چیزیں پھر خدا تعالیٰ کا شکر گزار ہونے کے مضمون کو بھی کھولتی ہیں اور جب یہ شکر گزاری کا مضمون واضح ہوتا ہے تو پھر ایک مومن اللہ تعالیٰ کے مزید فضلوں کا وارث بنتا چلا جاتا ہے اور اس طرح ایک فضل کے بعد دوسرا فضل انسان پر ہوتا چلا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ جو سچے وعدوں والا ہے وہ اپنے شکر گزار بندوں سے یہ وعدہ فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا کہ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراهیم : 8) کہ اگر تم شکر گزار بنے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا.پس اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں اور احسانات کو اُن لوگوں کے لئے مزید بڑھا دیتا ہے جو اُس کے شکر گزار ہیں.اور ایک احمدی مسلمان کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا بڑا انعام اور احسان ہے کہ اُسے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے امام کو مانے کی توفیق عطا فرمائی ہے جس نے نیکیوں کے بجالانے اور پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف رہنمائی کی ہے.پس ہر احمدی کو شکر گزاری کے اس مضمون کو سمجھنا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کا حاصل کرنے والا بنے.نہ کہ اُن لوگوں میں شامل ہو جو اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرنے والے ہیں اور یوں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بنتے ہیں.ان ملکوں میں آکر دنیاوی لحاظ سے بھی خدا تعالیٰ نے آپ پر بے انتہا فضل فرمایا ہے اور بعض پر یہ فضل بہت زیادہ ہوا ہے.اکثریت کے حالات بھی اُن کے پہلے حالات سے بہتر ہوئے ہیں اور جیسا کہ میں نے جلسے میں بھی اپنی تقریر میں کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو بہت سوں کے لئے یہاں لانے کے سامان کئے ہیں اور اُس کے نتیجے میں آپ کے دنیاوی حالات بہتر ہوئے ہیں.یہ بھی احمدیت کی برکت ہے.وہ لوگ یقیناً ناشکرے اور خدا تعالیٰ کی نظر میں گرے ہوئے ہیں جو یہاں آئے ، احمدیت کی بنیاد پر یہاں پاؤں نکائے، اسائلم لیا اور جب حالات بہتر ہوئے تو جماعت پر اعتراض شروع کر دیا، جماعت سے علیحدہ ہو گئے.بہر حال جماعت کو تو ایسے لوگوں کی رتی بھر بھی پرواہ نہیں ہے.یہ جو محاورہ ہے کہ خس کم جہاں پاک“ یہ ایسے ہی لوگوں پر صادق آتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو علیحدہ کر کے جماعت پر بھی یہ ایک
خطبات مسرور جلد دہم احسان کیا ہے.420 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جولائی 2012ء لیکن ہر احمدی کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اُس کی شکر گزاری بھی تبھی ہو گی جب وہ حقیقت میں خدا تعالیٰ کی اس بات کو سامنے رکھے کہ اُس کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرے.ایک احمدی اپنے مقصد پیدائش کو پہچانے اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے پھر اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرے.اپنے آپ کو اُس اسوہ کے مطابق چلانے کی کوشش کرے جو ہمارے سامنے ہمارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا.روایات میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو سونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے دن بھر کے فضلوں کو یاد کرتے.اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے اور فرماتے کہ تمام حمد اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جس نے مجھ پر فضل و احسان کیا، مجھے عطا فر مایا اور مجھے بہت دیا.(مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحه 495 مسند عبد الله بن عمر حدیث 5983 دار الكتب العلميه بيروت 1998ء) بہر حال اللہ تعالیٰ ہی کی حمدوثنا ہے.اور پھر آپ کا عبادتوں کا یہ حال تھا کہ عبادت کرتے کرتے ( روایات میں آتا ہے کہ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں سوج جاتے تھے.اور یہ عرض کرنے پر کہ یا رسول اللہ ! آپ اتنی مشقت کیوں اُٹھاتے ہیں؟ فرماتے : کیا میں خدا تعالیٰ کا عبد شکور نہ بنوں؟ (صحیح البخارى كتاب التفسير سورة الفتح باب قوله ليغفرك الله ما تقدم من ذنبک و ماتاخر...4837) پس اس عبد شکور کے ماننے والوں کا اور اُس کی امت کا بھی فرض ہے کہ اپنی استعدادوں کے مطابق اس اُسوہ کی پیروی کرنے کی کوشش کرے تا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق اللہ تعالیٰ کے پیار سے حصہ پانے والے بنیں.جیسا کہ خدا تعالیٰ آپ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ آپ اعلان فرما دیں کہ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران : 32) “ کہ تم میری پیروی کرو، میرا اسوہ حسنہ اپنانے کی کوشش کرو تو اللہ تعالیٰ کے پیارے ہو گے ، اُس کا پیار حاصل کرنے والے بنو گے.اور اللہ تعالیٰ کا پیار پھر اور نعمتوں اور فضلوں سے حصہ پانے والا بناتا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف نعمتوں کے ملنے پر ہی شکر گزاری نہیں فرماتے تھے بلکہ کسی مشکل سے بچنے پر بھی اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوتے تھے.حتی کہ روز مرہ کے کاموں میں، چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی آپ کی سیرت میں شکر گزاری کی انتہا نظر آتی ، اور اس کے علاوہ بھی شکر گزاری ہر وقت اللہ تعالیٰ کی تھی.پس یہ وہ حقیقی شکر گزاری ہے جس کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے اور یہ ایسی شکر گزاری ہے جس پر اللہ تعالیٰ مزید فضل فرماتا ہے.اپنے انعامات اور احسانات کئی گنا بڑھادیتا ہے.پس یہ شکر گزاری انسان کے اپنے فائدہ کے لئے ہے.اللہ تعالیٰ کو ہماری شکر گزاری کی
خطبات مسرور جلد دہم 421 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جولائی 2012ء ضرورت نہیں ہے.وہ ہماری شکر گزاری کا حاجتمند نہیں.اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے.وَمَنْ يَشْكُرُ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ (لقمان: 13) اور جو بھی شکر کرتا ہے،اُس کے شکر کا فائدہ اُسی کی جان کو پہنچتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے وہ یادرکھے کہ اللہ تعالیٰ سب قسم کے شکروں سے بے نیاز ہے.پس ایک احمدی اس قسم کا شکر گزار ہونا چاہئے.پھر شکر گزاری کے بھی کئی طریقے ہیں.اُن طریقوں کو ہمیشہ روزانہ اپنی زندگی میں تلاش کرتا رہے.ایک احمدی جو ہے، حقیقی مومن جو ہے وہ شکر گزاری کے ان طریقوں کو تلاش کرتا ہے تو پھر دل میں بھی شکر گزاری کرتا ہے.پھر شکر گزاری زبان سے شکریہ ادا کر کے بھی کی جاتی ہے.جب انسان اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہے یا کسی دوسرے کی شکر گزاری بھی کرتا ہے تو زبان سے شکر گزاری ہے.اور پھر اپنے عمل اور حرکت وسکون سے بھی شکر گزاری کی جاتی ہے.گویا جب انسان شکر گزاری کرنا چاہے تو اُس کے تمام اعضاء بھی اس شکر گزاری کا اظہار کرتے ہیں یا انسان کے تمام جسم پر اُس شکر گزاری کا اظہار ہونا چاہئے.اور اللہ تعالیٰ جب بندوں کا شکر کرتا ہے، یہاں شکر گزاری کا جو لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہوا ہے، تو یا درکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری ، انسان پر انعامات اور احسانات ہیں.یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری جب انسان کرتا ہے تو ان باتوں کا اُسے خیال رکھنا چاہئے کہ انتہائی عاجزی دکھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکا جائے.دوسرے اللہ تعالیٰ سے پیار کا اظہار کرنا اور اُس کے پیار کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنا ، یہ بھی اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری ہے.پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کو علم میں لانا.ہر فضل جو انسان پر ہوتا ہے اُس کو یہ سمجھنا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے.یہ علم ہونا چاہئے کہ ہر نعمت جو مجھے ملی ہے وہ اللہ کے فضلوں کی وجہ سے ملی ہے.یہ احساس پیدا ہونا چاہئے.یہ بھی اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری ہے.پھر اُس کے انعامات اور احسانات کا منہ سے اقرار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا، اپنی زبان کو اللہ تعالیٰ کی حمد سے، اُس کے ذکر سے تر رکھنا.پھر یہ بھی کہ اُس کی مہیا کردہ نعمتوں کو اس رنگ میں استعمال کرنا جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حاصل کرنے والی ہوں ، جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے.ان باتوں کے کرنے کے نتیجے میں پھر ایک شکر گزاری حقیقی رنگ میں شکر گزاری بنتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے.اور جیسا کہ میں نے کہا اس کے نتیجے میں پھر اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا یہ ہے کہ وہ اپنے ایسے شکر گزار بندوں کو مزید انعامات اور احسانات سے نوازتا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا
خطبات مسرور جلد دہم 422 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جولائی 2012ء ہے کہ اگر تم اس طرح شکر گزار ہو گے تو رازِيدَنَّكُمْ میں تمہیں اور دوں گا، اس کو حاصل کرنے والے بنو گے.پس جب لوگ مجھے لکھتے ہیں اور ملاقاتوں میں بتاتے ہیں کہ جلسہ گاہ میں بڑا فائدہ ہوا، بڑا لطف آیا تو یہ لطف اور فائدہ بھی فائدہ مند ہے جب اس کے نتیجے میں ہر احمدی پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والا اور اُس کی عبادت کرنے والا بنتا چلا جائے.اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے کے لئے پہلے سے زیادہ کوشش کرے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں اور انعاموں کی ایک فہرست بنائے اور اپنے سامنے رکھے.جن نیکیوں کے کرنے کی توفیق ملتی ہے، پکا ارادہ کرے کہ اب ان پر میں نے قائم رہنا ہے.برائیوں کی فہرست بنا کر پھر ان سے بچنے کی کوشش کرے.اپنی تمام تر صلاحیتوں اور قوتوں کے ساتھ یہ کوشش ہونی چاہئے.اور پھر اللہ تعالیٰ کے ان احسانوں اور انعاموں کو یاد کر کے اللہ تعالیٰ کی حمد سے اپنی زبان کو تر کرتا چلا جائے اور ہمیشہ اس بات پر قائم رہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور انعاموں کا غلط استعمال نہیں کرنا.اللہ تعالیٰ نے اگر اس ملک میں آکر بہتر حالات کر دیئے ہیں ، مالی کشائش دے دی ہے تو اس مالی کشائش کو بجائے غلط کاموں میں استعمال کرنے کے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے استعمال کرنا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے امریکہ میں تو ایسے لوگ بہت ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بے انتہا مالی کشائش سے نوازا ہے.اُن میں سے بعض ایسے ہیں جو انتہائی فراخ دلی سے جماعتی منصوبوں پر خرچ کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کے اموال ونفوس میں برکت عطا فرمائے.اُنہیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کو یاد رکھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بننے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے.صرف مالی قربانی کو ہی اپنی شکر گزاری کی انتہا نہ سمجھیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والا بننے کی بھی بے انتہا کوشش کرنی چاہئے.حقیقی شکر گزار اور عبد رحمان بننے کے لئے عبادت گزار ہونا بھی ضروری ہے.کینیڈا میں اس حد تک مالی کشائش رکھنے والے لوگ کم ہیں یا یوں کہنا چاہئے کہ مالی کشائش میں اُس حد تک نہیں پہنچے ہوئے جتنے امریکہ میں ہیں یا کم از کم میرے علم میں نہیں لیکن یہاں مجموعی طور پر مالی قربانیوں کا معیار اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی بلند ہے.لیکن اس کے ساتھ ہی بعض اور عملی کمزوریاں اور عبادتوں میں کمزوریاں بھی کافی ہیں.اگر خدا تعالیٰ کا حقیقی شکر گزار بننا ہے تو ان کمزوریوں کو دور کرنا بھی ضروری ہے.پس چاہے امریکہ کے رہنے والے احمدی ہیں یا کینیڈا کے رہنے والے احمدی ہیں یا دنیا میں کہیں
خطبات مسرور جلد دہم 423 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جولائی 2012ء بھی رہنے والے احمدی ہیں، اُن کی حقیقی شکر گزاری تبھی ہوگی جب مکمل طور پر اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے.مرد ہوں یا عورتیں ، جب تک قرآنِ کریم کی حکومت کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش نہیں کریں گے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے عہد بیعت کی شرائط پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے، اللہ تعالیٰ کے حقیقی شکر گزار نہیں بن سکتے.اللہ تعالیٰ شکر گزاری کے یہ معیار حاصل کرنے کی ہر احمدی کو تو فیق عطا فرمائے.پس اپنے جائزے لیں ، اپنے ماحول پر نظر ڈالیں ، اپنے گھر پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ یہ شکر گزاری کس حد تک آپ کے ماحول میں، آپ کے گھر میں ، آپ کے اندر قائم ہے؟ اگر خاوند بیوی کا حق ادا نہیں کر رہا تو بیشک وہ دوسری نیکیاں کر بھی رہا ہے ، وہ حقیقی شکر گزار نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے اُسے بیوی دی ، بچے دیئے ہیں، اُن کا حق ادا کرنا اس کی ذمہ داری ہے.ایسی ذمہ داری ہے جو خدا تعالیٰ نے اُس پر ڈالی ہے.یہ کوئی دنیاوی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈالی گئی ذمہ داری ہے.اسی طرح اگر بیویاں اپنے خاوند کے حقوق ادا نہیں کر رہیں تو وہ بھی خدا تعالیٰ کی نعمتوں کی شکر گزاری کی نفی کر رہی ہیں یا نعمتوں کی نفی کر رہی ہیں اور یہ فی اُنہیں پھر شکر گزاروں کی فہرست سے نکال رہی ہے.پس جیسا کہ میں نے کہا، ہر فرد اور ہر گھر کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.پس جس دن ہم نے ہر سطح پر اپنے قول و فعل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنالیا اُس دن حقیقی شکر گزاری کی حقیقی صورت پیدا ہو جائے گی.اور پھر ہر انسان پر، دینی طور پر بھی اور دنیاوی طور پر بھی خدا تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا.صرف دنیاوی کشائش کو کافی نہ سمجھیں، ایک احمدی کا فرض ہے کہ اُس کو روحانیت میں بھی ترقی کرنی چاہئے.میں شکر گزاری کے اُس مضمون کا جس کا مجھ سے تعلق ہے، اُس کا بھی اظہار کرتا ہوں، کیونکہ یہ بھی ضروری ہے.سب سے پہلے تو میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو ایسی جماعت عطا فرمائی ہے جس کا خلافت سے انتہائی وفا کا تعلق ہے.اخلاص و وفا کے جس تعلق کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے براہ راست فیض پانے والے لوگوں نے شروع کیا تھا اور جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ افرادِ جماعت کے اخلاص و وفا کو دیکھ کر ہمیں حیرت ہوتی ہے.یہ الفاظ میرے ہیں.کم و بیش انہی الفاظ میں آپ نے فرمایا تھا.پس یہ حیرت انگیز اخلاص و وفا (ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 39.ایڈیشن 2003ء.مطبوعہ ربوہ )
424 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جولائی 2012ء خطبات مسرور جلد دہم کا سلسلہ جو تقریباً سوا سو سال پر پھیلا ہوا ہے، آج بھی اپنی خوبصورتی دکھا رہا ہے.پس اس اخلاص و وفا کو کبھی مرنے نہ دیں.اپنی نسلوں میں بھی جاری رکھنے کی کوشش کریں.یہ اخلاص و وفا جہاں مجھے خدا تعالیٰ کا شکر گزار بناتے ہوئے اُس کی حمد کی طرف توجہ دلاتا ہے، اور آئندہ آنے والے خلفاء کو بھی انشاء اللہ تعالیٰ دلاتا رہے گا ، وہاں افراد جماعت کو بھی شکر گزاری کی طرف متوجہ کرنے والا ہونا چاہئے تا کہ خلافت سے تعلق کا مضبوط اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والا رشتہ نسلاً بعد نسل قائم ہوتا چلا جائے.پس جیسا کہ میں نے کہا، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اُس نے جماعت کے اخلاص و وفا کو قائم رکھا ہوا ہے اور دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں یہ تعلق ہر احمدی میں نظر آتا ہے.اس کے نظارے اس دورہ میں میں نے امریکہ میں بھی دیکھے اور یہاں بھی.بچوں میں بھی اور بڑوں میں بھی ، مردوں میں بھی اور عورتوں میں بھی نوجوانوں میں بھی ، بوڑھوں میں بھی دیکھ رہا ہوں.امریکہ کو دنیا سمجھتی ہے کہ وہاں صرف مادی سوچ رکھنے والے لوگ رہتے ہیں اور دین سے اتنا تعلق نہیں ہے.لیکن جس اخلاص و وفا کے ساتھ میرے دو ہفتے کے قیام کے دوران وہاں کے احمدیوں نے ، جہاں بھی میں ہوتا تھا ، وہاں پہنچ کر اخلاص و وفا کا اظہار کیا ہے.نوجوان ڈیوٹی دینے والوں نے دو ہفتے مستقل میرے ساتھ رہ کر اور سفر میں بھی ساتھ رہ کر اپنے کاروباروں اور نوکریوں کو بھی بعضوں نے داؤ پر لگا دیا یا بالکل پرواہ نہیں کی.ایسے بھی تھے جنہوں نے مجھے بتایا کہ ہماری نوکری نئی شروع ہوئی تھی اور جلسے کے لئے اور آپ سے ملاقات کے لئے رخصت نہیں مل رہی تھی تو ہم چھوڑ کر آگئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان تمام کے لئے بھی آسانیاں پیدا فرمائے اور ان کے اموال و نفوس اور اخلاص میں بے انتہا برکت عطا فرمائے.پس یہ اخلاص و وفا اللہ تعالیٰ کی حمد کی طرف لے جاتا ہے اور ساتھ ہی میں ان لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے جلسے کے دوران امریکہ میں بھی، کینیڈا میں بھی مختلف شعبہ جات میں بڑے اخلاص و وفا کے ساتھ اپنی ڈیوٹیاں دی ہیں اور تمام جلسے میں شامل ہونے والوں کو بھی شکریہ ادا کرنا چاہئے.اور ان کے لئے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان سے ایسا سلوک فرمائے کہ بجائے کسی قسم کی بے چینی پیدا ہونے کے اُن کو ایسا سکون ملے، اُن پر ایسا فضل نازل ہو کہ انہیں پہلے سے بڑھ کر خدمت دین کی توفیق ملے اور اس کی طرف توجہ پیدا ہو.امریکہ کے مختلف شہروں میں میں گیا ہوں اور بڑے یقین سے میں کہہ سکتا ہوں کہ ان تمام جگہوں پر پرانے مقامی امریکنوں نے بھی اور نئے آنے والوں نے جو باہر سے آ کر آباد ہوئے ہیں،انہوں نے
خطبات مسرور جلد دہم 425 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جولائی 2012ء بھی اخلاص و وفا دکھایا.لیکن ان تمام لوگوں کو میں پھر اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو میں نے شروع میں کی تھی کہ آپ کی شکر گزاری اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنا تب صحیح ہوگا ، آپ کے اخلاص و وفا کا اظہار تب حقیقی ہوگا جب اس اظہار کو خدا تعالیٰ کے ذکر اور اُس کی عبادت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے میں ڈھال لیں.پس میں نے جو اپنی شکر گزاری کا مضمون شروع کیا تھا اُس کی انتہا یہی ہے کہ خلیفہ وقت اور افراد جماعت اللہ تعالیٰ کے حقیقی عابد بن کر اُس کی شکر گزاری کا حق ادا کریں.امریکہ میں اس مرتبہ مجھے خاص طور پر نوجوانوں میں جماعت کو مختلف طبقات میں متعارف کروانے اور اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے کی طرف بھی توجہ نظر آئی ہے اور اللہ تعالی کے فضل سے اچھے تعلقات بنائے ہیں، لیکن ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ تعلقات اس مقصد کے لئے نہ بنائے جائیں کہ ہم نے کوئی دنیاوی مفاد ان تعلقات سے حاصل کرنا ہے، بلکہ اس لئے ہوں کہ ہم نے تمام دنیا کو اسلام کی خوبصورت تعلیم سے روشناس کروانا ہے اور دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لے کر آنا ہے.انشاء اللہ تعالی.وہاں میرے سے پریس میں بھی گفتگو ہوئی.سی این این (CNN) کے نمائندہ نے سوال کیا تھا کہ امریکہ میں اسلام کے پھیلنے کے کیا امکانات ہیں؟ اس پر میں نے یہی کہا تھا کہ حقیقی اسلام جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے اور اُس کے نہ صرف امریکہ میں بلکہ تمام دنیا میں پھیلنے کے امکانات ہیں کیونکہ یہ شدت پسندی سے نہیں بلکہ دلوں کو فتح کرنے سے پھیلنا ہے.اسلام کی خوبصورت تعلیم کے بتانے سے پھیلنا ہے.پس ہمارے نوجوانوں کو بھی ، مردوں کو بھی اور عورتوں کو بھی جو خلافت کے ساتھ اخلاص و وفا کا تعلق رکھتے ہیں اور اس کا اظہار کرتے ہیں، یا درکھنا چاہئے کہ ہمارے مقاصد دنیاوی نہیں بلکہ ہر تعلق جو دنیاوی ہے اور ہر بات جو ہم کرتے ہیں اُس کا راستہ اسلام کی فتح کی طرف لے جانے کی سوچ رکھنے والا ہونا چاہئے.اور یہ اُس وقت ہو گا جب ہم اصل وفا اپنے پیدا کرنے والے واحد و یگانہ خدا سے کریں گے.اور میں عموماً ہر جگہ چاہے وہ دنیاوی لیڈر ہوں یا کوئی بھی ہو ان کو یہی بات کہتا ہوں کہ ہمارا اصل مقصد تو یہی ہے.بہر حال مجموعی طور پر امریکہ کا دورہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا اچھا رہا.اللہ تعالیٰ اس کے نیک نتائج بعد میں بھی پیدا فرما تا ر ہے.بعض جگہ نئی مساجد اور نئے سینٹر جو خریدے گئے ہیں، اُن کا بھی افتتاح ہوا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے امریکہ کی جماعت کو بھی مسجدوں کی تعمیر کی طرف کافی توجہ پیدا ہوئی ہے.اُن
خطبات مسرور جلد دہم 426 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جولائی 2012ء کو اسے جاری رکھنا چاہئے.دوسری بات یہ کہ ترقی کرنے والی قومیں صرف یہی نہیں دیکھتیں کہ ہم نے یہ یہ کر لیا ہے بلکہ جو کمیاں رہ جائیں اُن پر بھی نظر رکھتے ہیں اور جو نقائص ہیں اُن پر نظر رکھنا ضروری ہے تبھی صحیح راستوں کا تعین ہوتا ہے تبھی صحیح رہنمائی ملتی ہے.اور چاہے امریکہ ہے یا کینیڈا ہے، جلسے کے دنوں میں خاص طور پر ایک لال کتاب ہونی چاہئے.جہاں جن کے پاس نہیں ہے وہ رکھیں.جس میں ہر جگہ جو جو کمیاں اور کمزوریاں رہ جائیں ان کمیوں کا ذکر ہو.مثلاً میں عرصہ سے دنیا کو ہوشیار کر رہا ہوں کہ بعض سیاسی ، جنگی اور معاشی حالات ایسے ہو سکتے ہیں کہ جس میں پریشانی سے بچنے کے لئے گھروں میں بھی اور جماعتی سطح پر بھی بعض انتظامات ہونے چاہئیں.امریکہ میں تو اکثر قدرتی آفات اور طوفان اور ہریکین (Haricane) بھی آتے رہتے ہیں.وہاں تو جہاں جہاں بھی مسجدیں بن رہی ہیں، سینٹرز ہیں ، وہاں کم از کم ایسے انتظام ہونے چاہئیں جہاں پانی اور بجلی کا انتظام با قاعدہ رہے کیونکہ اس کے بغیر آ جکل گزارا نہیں ہو رہا.اب گزشتہ دنوں جب میں وہاں تھا ہم جلسہ پر ہیرس برگ گئے ہوئے تھے، پیچھے سے طوفان آیا اور بیت الرحمن کی مشن ہاؤس کی اُس علاقے کی تمام بجلی بند ہوگئی ، پانی بند ہو گیا اور بجلی ، پانی کا کوئی انتظام نہیں تھا.حالانکہ جماعتی سطح پر جزیٹرز ایسی جگہوں پر ہونے چاہئیں کہ فوری طور پر جماعتی عمارات کو روشن کر سکیں اور پانی وغیرہ کی کمی پوری کر سکیں.شاید یہ الہی تقدیر بھی ہو.بعضوں کا خیال ہے کہ ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے کیونکہ پہلے وارننگ آجایا کرتی ہے اور یہ سب کچھ بغیر وارنگ کے ہوا.کہیں کسی جگہ کوئی شرارت کا امکان ہوسکتا تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح ٹال دیا.اللہ بہتر جانتا ہے کیا تھا.لیکن ہمیں بہر حال کچھ حد تک، دنیا میں ہر جگہ اپنے انتظامات مکمل رکھنے چاہئیں.اب کینیڈا کی طرف آتا ہوں شاید وہ سوچ رہے ہوں کہ خطبہ کینیڈا میں دیا جا رہا ہے اور باتیں امریکہ کی ہورہی ہیں.ساری تعریفیں یا نقائص امریکہ کے بیان ہو گئے ، آپ کے بھی بیان کر دیتا ہوں.ایک تو مشترک باتیں ہیں جیسا کہ میں نے کہا.تمام جماعت کو ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنیں اور اس سے تعلق جوڑیں.نہ صرف کینیڈایا امریکہ کا بلکہ دنیا کے ہر احمدی کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق جوڑے.اس کے لئے بار بار میں کہتا رہتا ہوں.دوسرے جیسا کہ میں نے کہا، اخلاص و وفا کے یہ نظارے کینیڈا میں بھی نظر آتے ہیں اور آرہے ہیں، ابھی تو میں یہیں ہوں.جس دن میں یہاں پہنچا تھا، اُس دن پاکستان سے آئی ہوئی ہماری ایک عزیزہ جو امریکہ سے بھی ہو کر آئی تھی ، ان کو امریکہ سے کسی کا فون آیا کہ
427 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جولائی 2012ء خطبات مسرور جلد دہم کیسا استقبال ہوا ؟ امریکہ کا اچھا تھا یا یہاں.تو انہوں نے اُس کو یہ جواب دیا تھا کہ کینیڈا والوں نے تو امریکہ کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے.بہر حال یہ تو چھوڑنا ہی تھا.آپ کی تعداد زیادہ ہے.آپ کا یہاں Peace Village میں ماحول ایسا ہے.یہاں اکثریت احمدی گھرانوں کی ہے.مسجد ساتھ ہے.لیکن اس کا فائدہ اُٹھانے کے لئے صرف ظاہری استقبال کافی نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے مضمون کو سامنے رکھیں.اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ مہیا کی ہے جس میں آپ اکٹھے رہتے ہیں.مسجد بھی ساتھ ہے جیسا کہ میں نے کہا.اس مسجد کو آباد کریں تبھی اس کی خوبصورتی اور اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کا اظہار ہوگا.بوڑھے تو یہاں آ ہی جاتے ہیں اور اکثر بوڑھے ریٹائر ہیں.انہیں کوئی کام نہیں تو وہ شاید پانچ وقت نمازوں پر آ جاتے ہوں.لیکن اصل مقصد تب پورا ہو گا جب بچے اور نوجوان عبادت کے حقیقی مقصد کو سمجھتے ہوئے یہاں آئیں گے.مسجد کو آباد کریں گے.جماعتی روایات کو قائم کریں گے.لڑکیاں اور عورتیں بھی اس ماحول میں رہتے ہوئے اپنے تقدس کی اور اپنی حیا کی اور اپنی اقدار کی حفاظت کریں گی.نوجوان لڑکے بھی اپنی قدروں کو پہچاننے والے ہوں گے.اس ماحول میں ڈوب جانے والے نہیں ہوں گے.اور جب یہ مقصد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو تبھی اللہ تعالیٰ کے حقیقی شکر گزار بن سکیں گے.ورنہ صرف نعرے لگا دینے سے یا سڑکوں پر استقبال کرنے سے ایک حد تک تو اخلاص و وفا کا اظہار ہو جاتا ہے لیکن اصل مقصد حاصل نہیں ہوتا.یہاں کے مقامی لوگ ، میئر بھی مجھے ملے اور دوسرے سیاستدان بھی ملے ، ہماری جماعت سے عموماً بہت متاثر ہیں اور کئی مجھے کہتے ہیں کہ تمہیں اپنی جماعت پر فخر ہونا چاہئے کہ کیسے کیسے لوگ تمہاری جماعت میں شامل ہیں.بڑے قانون کے پابند ہیں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ یہ سب کچھ ملا ہوا ہے.یہ لوگ تو دنیاوی نظر سے دیکھتے ہیں اور اُنہیں اچھا معیار نظر آتا ہے لیکن ہم نے اُس نظر سے دیکھنا ہے جو قرآن کریم ہمیں دکھاتا ہے، جو اس زمانے میں قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں کھول کر بتایا ہے.ہماری اعلیٰ اخلاقی قدروں اور دین پر قائم ہونے کے معیار دنیا داروں کے بنائے ہوئے معیار نہیں ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے اور اُس کا شکر گزار ہونے کے لئے ضروری ہے کہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ ہمیں قرآنی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنا ہوگا اور اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے.پس آپ زمین کی طرف اور زمینی لوگوں کی طرف نہ دیکھیں بلکہ آسمان کی طرف اور زمین و آسمان کے مالک کی طرف دیکھیں اور جب یہ ہو گا تب ہی ہم حقیقی شکر گزار بن سکیں گے.تب ہی آپ کے استقبال اور نعرے اور ہر
428 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جولائی 2012ء خطبات مسرور جلد دہم عمل خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا ہوگا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے دورے کے مثبت نتائج بھی یہاں نکلے ہیں.امریکہ میں بھی اور یہاں بھی اور نکل رہے ہیں.بعض بچیوں نے امریکہ میں مجھے لکھا جو وہیں پیدا ہوئیں اور پلی بڑھی ہیں اور یہاں کی بچیوں نے بھی لکھا اور خطوط اب بھی آ رہے ہیں کہ آپ کی باتیں سن کر ہمیں عورت کے تقدس کا لڑکی کے تقدس کا، اُس کی حیا کا احساس ہوا ہے.اب ہمیں اپنی اہمیت پتہ لگی ہے.پردہ کی اہمیت پتہ لگی ہے.ایک احمدی لڑکی کے مقام کا پتہ لگا ہے.اسی طرح نو جوانوں نے یہ بھی لکھا کہ نماز کی اہمیت کا پتہ چلا ہے.بعض لڑکیوں نے لکھا کہ ہم مجھتی تھیں کہ اس ماحول میں رہتے ہوئے برقع اور حجاب کی ہمت ہم میں کبھی پیدا نہیں ہو سکتی.لیکن آپ کی باتیں سننے کے بعد جب ہم آپ کے سامنے حجاب اور برقعہ اور کوٹ پہن کر آئی ہیں تو اب یہ عہد کرتی ہیں کہ کبھی اپنے برقعہ نہیں اتاریں گی.پس یہ سوچ ہے.اللہ تعالیٰ اس سوچ کو عملی رنگ میں ہمیشہ قائم رکھے اور وہ اپنے تقدس کی حفاظت کرنے والی ہوں جیسا کہ انہوں نے یہ عہد کیا ہے کہ ہم اپنے تقدس کی حفاظت کریں گی.اسی طرح بعض نے ملاقات میں نمازوں کی طرف توجہ کا وعدہ کیا کہ آئندہ ہمارے سے کوئی شکایت نہیں پہنچے گی.خطوط میں بھی لکھ کے دیا.یہ بات مجھے خدا تعالیٰ کی حمد اور شکر کی طرف لے جاتی ہے کہ وہی ہے جو دلوں پر قبضہ رکھتا ہے.وہی ہے جو دلوں کو پھیرنے کی طاقت رکھتا ہے.وہی ہے جو زبان میں اثر قائم کرتا ہے.اُس نے کس طرح ان بچیوں اور افراد کو خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف مائل کیا ہے اور ایک عزم کے ساتھ وہ معاشرے میں اپنے مقام کی پہچان کروانے کے لئے اب کھڑی ہو گئی ہیں.حالانکہ یہی چند دن پہلے جھجکنے والی اور شرمانے والی تھیں.بعض سکولوں میں پریشان ہو جاتی تھیں.پس جن میں یہ تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں، انہیں بھی اب اللہ تعالیٰ کے ساتھ شکر گزاری کا اظہار اس عہد کے ساتھ کرنا چاہئے کہ وہ اب اپنی اس پاک تبدیلی کو قائم رکھیں گی اور اس کے لئے خدا تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اُس کے آگے جھکیں گی تاکہ یہ خصوصیت جو اُن میں پیدا ہوئی ہے وہ ہمیشہ قائم رہے.اسی طرح جن مردوں اور نو جوانوں میں کوئی تبدیلی پیدا ہوئی ہے ، وہ بھی اس سوچ کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں کہ یہ پاک تبدیلی ہمیشہ اپنے اندر قائم رکھتی ہے.پہلے بھی میں نے مختصر أخاوندوں کو بیویوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی ہے اور بیویوں کو خاوندوں کے حقوق کی طرف.اس کے لئے یہ بھی یا درکھیں کہ آپس میں اعتماد کی فضا گھروں میں پیدا ہونی چاہئے.کیونکہ آجکل گھروں میں جو بدمزگیاں پیدا ہو رہی ہیں ، رشتے ٹوٹ رہے ہیں وہ اعتماد کی فضاء میں
خطبات مسرور جلد دہم 429 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جولائی 2012ء کمی ہے اور سچائی سے کام نہ لینا ہے.پس سچائی سے کام لیتے ہوئے میاں بیوی کو آپس میں ایک دوسرے کو اعتماد میں لینا چاہئے.نوجوانوں میں آج کل جو نئے رشتے ہو رہے ہیں، اگر ماں باپ کے کہنے پر وہ شادی کرتے ہیں تو پھر وفا سے نبھا ئیں اور اگر کہیں اور دلچسپی ہے تو نہ لڑکا لڑکی کی زندگی برباد کرے اور نہ لڑکی لڑکے کی زندگی برباد کرے.شادی سے پہلے کھل کر اپنے والدین کو بتا دیں کہ ہم یہاں شادی نہیں کرنا چاہتے کہیں اور کرنا چاہتے ہیں.ہمیشہ یادرکھیں کہ اسلام میں شادی کی بنیاد پاکیزگی پر ہے، دنیاوی باتوں پر نہیں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرد کولڑ کی سے شادی کرنے کے لئے جو چار خصوصیات بتائی ہیں اُس میں سب سے زیادہ اہمیت آپ نے یہی دی کہ اُس کا دین دیکھو.خوبصورتی نہ دیکھو، دولت نہ دیکھو، خاندان نہ دیکھو، دین دیکھو.(صحیح البخاری کتاب النکاح باب الاكفاء في الدين حديث...5090) پس جب لڑکے دین دیکھتے ہیں یا چاہتے ہیں کہ دیندار لڑ کی ہو تو لڑکوں کو خود بھی دیندار ہونے کی ضرورت ہے.اس کا ذکر میں مختلف خطبات نکاح میں بھی کرتا رہتا ہوں.اگر لڑ کے دیندار ہوں گے، لڑکیاں دیندار ہوں گی تو تبھی ہم اُس حقیقی خوشی اور شکر گزاری کو حاصل کرنے والے بنیں گے جو جماعت احمدیہ کے قیام کا مقصد ہے.ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہماری بنیاد پاکیزگی پر ہے.دنیاوی چیزوں پر، دنیاوی باتوں پر نہیں.یہاں کے آزاد ماحول کا اثر لے کر اپنی زندگیوں کو بے چین نہ کریں.یہ نہ سمجھیں کہ یہ لوگ بڑے خوش ہیں.یہ عارضی طور پر چند سالوں کے لئے تو خوش رہتے ہیں.اس کے بعد ان میں بھی بے چینیاں پیدا ہو جاتی ہیں.پس آخری نتیجہ بے چینی کی صورت میں نکلتا ہے.اس لئے شروع ہی سے اپنی سوچوں کو پاک اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق چلانے والا بنائیں.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ دنیاوی لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے خاندانوں میں، گھروں میں بہتری آئی ہے.پس اللہ تعالیٰ کے اس فضل کو بھی یادرکھیں.دنیا میں اور اس کی چکا چوند میں نہ پڑ جائیں بلکہ ہمیشہ یادرکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فضل آپ پر فرمایا ہے.اپنی بنیاد کو ہمیشہ یادرکھیں.اپنی اصل کو ہمیشہ یادرکھیں.اپنے ماضی پر ہمیشہ نظر رکھیں اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو فضل فرمائے ہیں وہ کیا کیا ہیں.اور یہ فضل پھر آپ کو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنانے والے ہونے چاہئیں.ایک حقیقی مومن وہی ہے جو ان باتوں کو یادرکھ کر پھر اللہ تعالی کے فضلوں کا شکر گزار بنتا ہے.اسی طرح اب اگر شکر گزاری کے مضمون پر عمل شروع کیا ہے تو یہ بھی یادرکھیں کہ بھائیوں بھائیوں، دوستوں، قرابت داروں میں جو رنجشیں ہیں اُن کو بھی دور کریں کہ یہ رنجشیں دور کرنا اور
خطبات مسر در جلد دہم 430 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جولائی 2012ء صلح کی طرف قدم بڑھانا یہ چیز بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والی ہے، انسان کو عبد شکور بنانے والی ہے.پس یہ باتیں ہمیشہ ہر ایک کو یا درکھنی چاہئیں.اس ماحول میں یہاں جب میں گھر سے باہر نکلتا ہوں تو بڑی تعداد میں بچے سڑکوں پر کھڑے ہوتے ہیں اور سلام سلام کی آوازیں ہر طرف سے آ رہی ہوتی ہیں.نعرہ تکبیر بلند ہو رہے ہوتے ہیں تو یہ ماحول جو سلام اور سلامتی پھیلانے کا ہے یہ تو جنت کے ماحول کی طرف اشارہ ہے.پس اس کو صرف ظاہری سلام تک نہ رکھیں بلکہ اس کو حقیقی اور گہری سلامتی کا ذریعہ بنائیں تا کہ یہ دنیا بھی جنت بنے اور آئندہ کی جنتوں کے بھی سامان پیدا ہوں.بچے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہیں، اخلاص و وفا کے کے مختلف اظہار ہور ہے ہوتے ہیں اور بچوں میں عموماً یہ جوش زیادہ نظر آ رہا ہوتا ہے.پس اس جوش و خروش کو قائم رکھنے کے لئے بڑے کوشش کریں اور کوشش یہی ہے کہ انہیں خود بھی اور بچوں کو بھی اس حقیقی روح کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.بچوں کو بھی بتائیں کہ اس کی حقیقی روح کیا ہے؟ سلام کی اور نعروں کی روح اور حقیقت اُس وقت واضح ہوگی جب بڑوں کے عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوں گے.اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے لئے اور اپنے بھائیوں بہنوں کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا کرنے والے ہوں گے.پس اس ذمہ داری کو سب کو سمجھنا چاہئے.انتظامیہ کو بھی انتظامی لحاظ سے میں توجہ دلانی چاہتا ہوں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا.یہ صرف امریکہ کے لئے نہیں ہے بلکہ آپ کے لئے ، کینیڈا کے لئے بھی ہے کہ اپنی کمیوں اور کمزوریوں پر غور کر کے ایک فہرست بنائیں اور اُسے لال کتاب میں درج کریں اور اگلے سال کا پروگرام بناتے ہوئے ان باتوں کو مد نظر رکھیں.اس مرتبہ مثلاً بہت سے خطوط مجھے اور بھی مختلف شکایتوں کے آ رہے ہیں کہ فلاں جگہ یہ کمی تھی ،عورتوں میں کھانے میں یہ کمی تھی، طریقے میں کمی تھی ، اٹیکیٹس (Etiquates) میں کمی اور کمزور یاں تھیں لیکن ایک چیز جس نے جلسہ کے پروگراموں کو بھی بعض جگہ بہت خراب کیا وہ یہ ہے کہ اس مرتبہ آواز کا تقریباً تینوں دن کہیں نہ کہیں مسئلہ رہا ہے.مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اتنے عرصہ سے آپ لوگ اُس جگہ پر جو جلسے منعقد کر رہے ہیں تو پھر یہ مسئلہ کیوں پیدا ہوا ہے؟ صرف آرام سے، بھولے منہ سے یہ کہہ دینا کہ غلطی ہو گئی اور یہ نہیں تھا اور وہ نہیں تھا، یہ کافی نہیں ہے.اس کی وجوہات تلاش کریں تا کہ آئندہ یہ غلطیاں نہ ہوں.مجھے تو یہ لگتا ہے کہ انتظامیہ کے بعض عہدیداروں کا آپس میں تعاون نہیں ہے اور کو آرڈی نیشن (Coordination) نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ سب صورتحال پیدا ہوئی ہے.اگر یہی صورتحال رہے
خطبات مسرور جلد دہم 431 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جولائی 2012ء یا تعاون نہ ہو تو پھر کاموں میں کبھی برکت نہیں پڑتی.جماعت کے افراد کے اخلاص میں کوئی شبہ نہیں لیکن عہد یداروں کو بھی اپنی طرف نظر رکھنی ہو گی اور دیکھیں کہ کس نیت سے وہ کام کر رہے ہیں؟ پس امیر صاحب بھی اس بارے میں نظر رکھیں.گہرائی میں جا کر نظر رکھنی چاہئے اور بلاوجہ ہر ایک پر غیر ضروری اعتماد بھی نہیں کرنا چاہئے.میں نے اُس دن عورتوں کے جلسہ میں ذکر کیا کہ بہتر ہے کہ یہاں جلسہ نہ کیا جائے.اگلا فقرہ میں نے نہیں کہا تھا کہ میں سوچ یہ رہا تھا کہ اگر یہاں انتظامیہ نہیں سنبھال سکتی تو جس سال میں نے آنا ہو تو نارتھ امریکہ، کینیڈا اور امریکہ کا جو جلسہ ہے تو وہ امریکہ میں کر لیا جائے.آپ لوگوں کے خرچ بھی بیچ جائیں گے.مسائل بھی کم ہو جائیں گے.دونوں ملکوں کو اپنی اصلاح کی طرف بھی توجہ پیدا ہو جائے گی.بہر حال جب میں کینیڈا کے افراد جماعت کے اخلاص کو دیکھتا ہوں تو پھر مجھے خیال آتا ہے کہ عہد یداروں کو ایک اور موقع دے دینا چاہئے کہ اپنی اصلاح کرلیں.وہ عہدیدار جن کے ذہنوں میں صرف دنیا سمائی ہوئی ہے وہ خاص طور پر اپنی اصلاح کریں.اگر چاہتے ہیں کہ اُن کو خدمت کا موقع ملتا رہے تو اپنے خود جائزے لیں.کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں.مردوں میں بھی اور عورتوں میں بھی ، دونوں جگہ یہ صورتحال ہے.ہمیشہ یاد رکھیں کہ نیک نیتی ہے جو کاموں میں برکت ڈالے گی.خود غرضیاں اور خود پسندیاں اگلی نسلوں کو بھی خراب کریں گی اور آپ کو بھی نا شکر گزار بنائیں گی اور اس کی وجہ سے پھر اللہ تعالیٰ کے انعاموں اور احسانوں کا وارث ہونے کے بجائے خدا نہ کرے، خدا نہ کرے آپ کبھی اُس کی سزا کے باعث بن جائیں.لیکن نئی نسل سے میں کہتا ہوں کہ وہ بڑوں کی اچھائیاں تو دیکھیں، اُن کی برائیاں نہ دیکھیں.یہ نہ سمجھیں کہ جو وہ کر رہے ہیں وہ ہر چیز اچھی کر رہے ہیں.پس نو جوانوں کو خاص طور پر ہمیشہ اچھائیوں کو دیکھنا چاہئے اور اسی طرف نظر رکھنی چاہئے.تعلقات اور رابطوں میں کینیڈا میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے بہتری نظر آئی یا وہی تعلقات جو پہلے سے بنے ہوئے تھے اور چلے آ رہے ہیں بلکہ بڑھے ہیں اُن کو انہوں نے قائم رکھا ہے اور اس دفعہ زیادہ سلجھے ہوئے لوگوں سے یہاں میری ملاقات بھی کروائی گئی.اللہ تعالیٰ کرے کہ اس کے بھی مثبت نتائج نکلیں اور جیسا کہ میں نے کہا یہاں بھی اور امریکہ میں بھی نوجوانوں کی محنت کی وجہ سے یہ رابطے ہوئے اور امریکہ میں تو خاص طور پر نوجوانوں نے کافی کام کیا ہے.ان تعلقات کو اور اپنے ہر عمل کو ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ اس طرح استعمال کرے اور انجام دے کہ جس کے نتیجے میں احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام
خطبات مسرور جلد دہم 432 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جولائی 2012ء پہنچانے کے راستے کھلیں اور یہی ہمارا مقصد ہے جس کے حصول کے لئے ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور تبھی شکر گزاری کے جذبات کا اظہار بھی خدا تعالیٰ کے حضور عملی رنگ میں ہو گا.اخلاص و محبت کا ایک عارضی اظہار ہے جو آپ لوگ کر رہے ہیں جیسا کہ گھروں کے چراغاں ہیں، سڑکوں کی رونقیں ہیں، ڈیوٹیوں کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا ہے لیکن مستقل اظہار یہ ہے کہ خلیفہ وقت کی ہر بات پر لبیک کہتے ہوئے اس پر عمل کریں.یہ سوال نہ اُٹھا ئیں کہ ان مغربی ممالک میں یہ مشکل ہے اور وہ مشکل ہے.اگر پکا ارادہ ہے تو کوئی مشکل سامنے نہیں آتی اور ترقی کرنے والی قومیں، انقلاب لانے والی قو میں مشکلات کو نہیں دیکھا کرتیں بلکہ اپنے منصوبوں کو اپنے پروگراموں کو دیکھا کرتی ہیں.صرف سوچ بدلنے کی بات ہے.اور یہی چیز ہے جو ہمیں دنیا میں انقلاب لانے کا باعث بنائے گی.اللہ کرے کہ آپ سب اس سوچ کے ساتھ اپنی زندگیوں کو گزارنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق عطا فرمائے کہ افراد جماعت کا جو مجھ پر حق ہے میں اس کو ادا کرتا چلا جاؤں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 3 اگست تا 9 اگست 2012 جلد 19 شماره 31 صفحه 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد دہم 433 29 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جولائی 2012ء خطبہ جمہ سید نا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفة اسم الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 20 جولائی 2012 ء بمطابق 20 روفا 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: عموماً ہم جب اللہ تعالیٰ کے فضل اور انعام کو دیکھتے ہیں تو اکثریت کے منہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل اور انعام کے ذکر پر الحمد لله نکلتا ہے، چاہے اُسے الحمد کے گہرے معنی کا علم ہو یا نہ ہو.ایک ماحول میں اُٹھان کی وجہ سے یہ احساس ضرور ہے کہ چاہے تکلف ہی کہا جائے ، الحمد للہ ضرور کہنا ہے.کم علم سے کم علم کو بھی یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ یہ الفاظ ضرور کہے جائیں جو اللہ تعالیٰ کی تعریف کی طرف اشارہ کرتے ہیں.پس ایک احمدی کے منہ سے ہر ایسے موقع پر جس سے خوشی پہنچ رہی ہو ، جس پر جب اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہورہے ہوں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی انعام مل رہا ہو، یا کسی بھی طریقے سے یہ احساس ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے نواز رہا ہے تو الحمد للہ ضرور نکلتا ہے، چاہے وہ کسی کی ذاتی خوشی ہو یا جماعتی طور پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہو.اور یہ الحمد للہ کے الفاظ کی ادائیگی ہر ایسے موقع پر ایک احمدی کے منہ سے ہوئی بھی چاہئے.لیکن ان الفاظ کی ادائیگی کا اظہار الفاظ کہنے والے کے لئے اور بھی زیادہ برکت کا موجب بن جاتا ہے جب وہ سوچ سمجھ کر ، اُس کی روح کو جانتے ہوئے یہ الفاظ کہے.ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ ہم نے اس زمانے کے امام اور مسیح موعود کو مانا ہے، مہدی موعود کو مانا ہے اور اس ایمان کی وجہ سے ہمیں الحمد لله یا کسی بھی قرآنی لفظ کے معانی اور روح کو سمجھنے میں دقت نہیں ہے، بشرطیکہ ہماری اس طرف توجہ ہو.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر اس کی روح سے ہمیں روشناس کروایا ہے.الحمد لله کی مختلف رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وضاحت فرمائی ہے.اس وقت میں ایک مختصر وضاحت حَمد کے لفظ کی آپ کے الفاظ میں بیان کرتا ہوں.
خطبات مسرور جلد دہم 434 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 جولائی 2012ء آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : واضح ہو کہ حمد اس تعریف کو کہتے ہیں جو کسی مستحق تعریف کے اچھے فعل پر کی جائے.نیز ایسے انعام کنندہ کی مدح کا نام ہے جس نے اپنے ارادہ سے انعام کیا ہو اور اپنی مشیت کے مطابق احسان کیا ہو.اور حقیقت حد کماحقہ صرف اُسی ذات کے لئے متحقق ہوتی ہے جو تمام فیوض وانوار کا مبدء ہواور علی وجہ البصیرت کسی پر احسان کرے نہ کہ غیر شعوری طور پر یا کسی مجبوری سے.اور حمد کے یہ معنی صرف خدائے خبیر و بصیر کی ذات میں ہی پائے جاتے ہیں.اور وہی محسن ہے اور اول و آخر میں سب احسان اُسی کی طرف سے ہیں.اور سب تعریف اُسی کے لئے ہے، اِس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں بھی.اور ہر حمد جو اُس کے غیروں کے متعلق کی جائے ، اُس کا مرجع بھی وہی ہے.“ (اردو تر جمه عربی عبارت از اعجاز مسیح بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول.سورۃ فاتحہ.صفحہ 75-74_مطبوعدر بوده) پس یہ وہ تفصیل ہے جس کا لفظ حمد حامل ہے.اور جب ان باتوں کو سامنے رکھ کر الحمد للہ کہا جائے تو وہ حقیقی حمد بنتی ہے جو ایک مومن کو خدا تعالیٰ کی کرنی چاہئے.قرآن کریم میں یہ لفظ حمد بہت سی جگہوں پر اللہ تعالیٰ کی حمد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے استعمال ہوا ہے.بہر حال اس وقت میں اس اقتباس کے حوالے سے بات کروں گا، اس کی تھوڑی سی وضاحت کروں گا.اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حمد کی وضاحت کے حوالے سے جن باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے وہ یہ ہیں.ایک تو یہ بات کہ ایسی تعریف جو کسی مستحق تعریف کے اچھے فعل پر ہو.اور انسانوں میں سے بھی مختلف لوگوں کی تعریف ہوتی ہے.لیکن فرمایا کہ جو تعریف کا مستحق ہے اور تعریف کا سب سے زیادہ مستحق اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے؟ پس ایک بات تو یہ ذہن میں رکھنی چاہئے کہ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کی اس لئے ہیں کہ وہی سب سے زیادہ تعریف کا حقدار ہے.آپ فرماتے ہیں کہ ایسے انعام دینے والے کی تعریف جس نے اپنے ارادے سے انعام دیا ہو.پس اللہ تعالیٰ کے انعام جب نازل ہوتے ہیں تو انعام حاصل کرنے والے کے اپنے عمل سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے ارادے سے ملتے ہیں.اللہ تعالیٰ بعض دفعہ رحمانیت کا جلوہ دکھاتے ہوئے بغیر کسی عمل کے بھی نواز دیتا ہے یا اُس عمل سے ہزاروں گنا زیادہ بڑھا کر نوازتا ہے جتنا کہ عمل کیا گیا ہو یا پھر رحیمیت کے جلوے کے تحت اگر انعام دیتا ہے تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کے ارادے سے ہے.اللہ تعالیٰ ہی بندے کو توفیق دیتا ہے کہ وہ کوئی کام کرے یا دعا کرے اور اُس کے نتیجے میں نیک نتائج ظاہر ہوں اور پھر اللہ تعالیٰ بندے کو
خطبات مسر در جلد دہم نوازے.435 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 جولائی 2012ء اور پھر تیسری چیز یہ فرمائی کہ اپنی مشیت کے مطابق احسان کیا ہو.اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کرکون ہے جو اپنی مشیت کے مطابق کوئی احسان کرتا ہے یا کوئی بھی کام کرتا ہے، اپنے بندوں پر احسان کرتا ہے.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اپنے بندوں پر احسان کرے.اس لئے اُس نے اپنی رحمت کو وسیع تر کیا ہوا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے وعدے اُس کی مشیت کے ساتھ شامل ہو جائیں تو پھر انعاموں اور فضلوں اور احسانوں کی ایسی بارش ہوتی ہے جس کا انسان احاطہ بھی نہیں کر سکتا.اور یہ صورتحال اس دور میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے ساتھ نظر آتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے وعدے اور فیصلہ آپ کے غلبہ کا اعلان کرتا ہے.پھر اگلی بات آپ نے یہ فرمائی کہ حمد کی حقیقی حقدار وہ ذات ہوتی ہے جس سے تمام فیض اور نور کے چشمے پھوٹ رہے ہوں.پس جب انسان الحمد للہ کہے تو یہ سوچ کر کہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس سے انسان کو سب فیض پہنچ رہے ہیں اور وہی ذات ہے جو زمین و آسمان کا نور بھی ہے.اللہ تعالیٰ یہی فرماتا ہے - اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ (النور: 36) جب وہ نور ہے تو اُسی کی طرف انسان رجوع کرے.اُس کی طرف بڑھے.اُس کے آگے جھکے اور یوں پھر ایسا انسان حقیقی حمد کرنے والا بن کر اندھیروں سے روشنیوں کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے.اور یہاں پھر اللہ تعالیٰ کے احسان کا ایک اور مضمون شروع ہو جاتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے اللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّوْرِ (البقرة: 258) کہ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کا دوست ہو جاتا ہے جو ایمان لاتے ہیں اور انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے.اور جس بندے کا اللہ تعالیٰ دوست اور ولی ہو جائے پھر اسے الحمدُ للهِ کا بھی ایک نیا ادراک حاصل ہوتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا بھی ایک نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.گویا حقیقی حمد کرنے والا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنتا ہے اور پھر اس وارث بننے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.ایک کے بعد دوسرافضل ہوتا چلا جاتا ہے.پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ بھی یادرکھنے والی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ کسی پر غیر شعوری طور پر احسان کرتا ہے ، نہ کسی مجبوری کے تحت بلکہ علی وجہ البصیرت یہ احسان ہے.جانتا ہے کہ میں یہ احسان کر رہا ہوں اور اس احسان کا بدلہ بھی نہیں لینا لیکن بندے کو یہ بھی بتادیا کہ اگر تم شکر گزار بنو گے حقیقی حمد کرتے رہو گے، بندگی کا حق ادا کرو گے تو لازِيدَنَّكُمْ اور بھی زیادہ تمہیں ملے گا.میرے یہ انعامات اور احسانات
خطبات مسرور جلد دہم 436 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جولائی 2012ء بڑھتے چلے جائیں گے اور نہ صرف یہ انعامات اور احسانات اس دنیا میں تم پر ہوتے رہیں گے بلکہ اُس دنیا میں بھی یہ انعامات اور احسانات تم پر ہوں گے اور حقیقی حمد کے نہ ختم ہونے والے پھل تم کھاتے چلے جاؤ گے.پھر یہ بھی فرمایا کہ اس بات کو بھی یاد رکھو کہ اس دنیا میں جو تعریف اللہ تعالیٰ کے غیر کی یا اُس کی مخلوق کی تم کرتے ہو وہ بھی خدا تعالیٰ ہی کی طرف لے جاتی ہے اور لے جانے والی ہونی چاہئے.اور ایک حقیقی مومن کو اس بات کا ادراک اور فہم ہونا چاہئے کہ تمام تعریف کا مرجع اللہ تعالیٰ ہے.کیونکہ وہ تمام قدرتوں کا مالک ہے.زمین و آسمان اور اس کی ہر چیز پیدا کرنے والا خدا ہے، چاہے وہ جاندار مخلوق ہے یا غیر جاندار مخلوق.نباتات ہیں، حیوانات ہیں، انسان ہے، سب کا پیدا کرنے والا اور اُن میں وہ خصوصیات پیدا کرنے والا خدا تعالیٰ ہے جس سے ایک انسان فائدہ اُٹھا سکتا ہے.پس کسی بھی چیز کی اور کسی بھی انسان کی اپنی ذاتی اہمیت کوئی نہیں جب تک کہ خدا تعالیٰ اُس میں وہ خصوصیت یا طاقت پیدا نہ کرے جو انسان کو فائدہ پہنچانے والی ہے.اس زمین پر بھی بیشمار چیز میں جو ہم دیکھتے ہیں اُن سے فائدہ پہنچانے کی خاصیت خدا تعالیٰ نے ہی اُن میں رکھی ہے اور انسان اُن سے فائدہ حاصل نہیں کر سکتا جب تک اللہ تعالیٰ نہ چاہے کہ یہ فائدہ حاصل کیا جائے.پس جب ہر ایک کو ہر خصوصیت خدا تعالیٰ کی مرضی اور اُس کے ارادے اور اُس کے قانونِ قدرت سے مل رہی ہے تو پھر غیر اللہ سے فائدہ اُٹھانے کے بعد حقیقی شکر گزاری بھی خدا تعالی کی ہونی چاہئے اور حمد اُسی کی کرنی چاہئے کہ اُس نے یہ اسباب اور سامان پیدا فرمائے جس کی وجہ سے اللہ کے بندے نے فائدہ اُٹھایا، ایک مومن نے فائدہ اُٹھایا.ہاں یہ بھی حکم ہے کہ شکر گزاری بندوں کی بھی کرنی چاہئے.اگر تم کسی دوسرے انسان سے فائدہ اُٹھاتے ہو تو اُس کے بھی شکر گزار بنو.اگر بندوں کی شکر گزاری اس نیت سے کی جائے کہ خدا تعالیٰ نے اسے میرے فائدے کے لئے بھیجا ہے، اُسے مجھے فائدہ پہنچانے کا ایک ذریعہ بنایا ہے، میری بہتری کا ذریعہ بنایا ہے تو یہ بھی خدا تعالیٰ کی شکر گزاری ہے.اور یہ شکر گزاری اُس رب العالمین کی ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے جس نے ہمیں بھی پیدا کیا اور ہماری پرورش کے سامان کئے اور باقی چیزوں کے لئے بھی.پھر کسی بندے کو انسان رب نہیں بناتا.یہ نہیں سمجھتا کہ اس بندے کی وجہ سے میرے یہ کام ہوئے ہیں یا مجھے سب کچھ ملا ہے.پھر حقیقی رب اللہ تعالیٰ ہوتا ہے جو رب العالمین ہے.پس یہ ایک مومن کی شان ہے کہ جب وہ بندوں کے احسانوں کا بھی شکر گزار ہوتا ہے تو احسان کا منبع خدا تعالیٰ کی ذات کو سمجھتا ہے بلکہ جب کسی کی طرف سے نیک سلوک دیکھتا ہے تو اس نیک سلوک کی وجہ
خطبات مسرور جلد دہم 437 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جولائی 2012ء بھی خدا تعالیٰ کی ذات کو سمجھتا ہے کہ اُس نے دوسرے کے دل میں نیک سلوک کرنے کا خیال ڈالا.پس ایک حقیقی مومن کی سوچ ہر فائدہ پر چاہے وہ کسی بھی ذریعے سے پہنچ رہا ہوا سے خدا تعالیٰ کی ذات کی طرف لے جاتی ہے.اور جب یہ صورت ہو تو وہی حقیقی حمد ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں توجہ دلوائی ہے اور توجہ قائم کرنے کا فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے افراد جماعت کی اکثریت تو اس سوچ سے اللہ تعالیٰ کی حمد کرتی ہے اور کرنی چاہئے کہ ایمان بھی اس حقیقی حمد کے ساتھ ہی ترقی کرتا ہے لیکن من حیث الجماعت بھی ہمیں یہی سوچ رکھنی چاہئے کہ ہر موقع پر اللہ تعالیٰ جو جماعت کو مختلف نہج پر آگے بڑھتا ہوا دکھاتا ہے تو اس کے لئے ہم اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے والے بنیں اور ہمیشہ الحمد للہ کی حقیقی روح کو جاننے والے ہوں.اور جب اس طریق پر ہر طرف حمد ہو رہی ہوگی تو یقینا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش بھی پہلے سے کئی گنا بڑھ کر برسے گی.یہ حقیقی حمد انسان کے اندر ایک روحانی انقلاب بھی پیدا کرتی ہے.باریک تر شرک سے بھی بچاتی ہے.ایک انسان کو حقیقی عابد بناتی ہے اور پھر اُن حکموں کی تلاش کر کے اُن پر عمل کرنے کی طرف توجہ دلاتی ہے جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.انسانی قدروں کو اپنانے اور اعلیٰ اخلاق دکھانے کی طرف توجہ دلاتی ہے.پس یہ حمد ہے جس کے کرنے کی ہمیں تلاش رہنی چاہئے.گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں جو میں نے کینیڈا میں دیا تھا، امریکہ اور کینیڈا کے نوجوانوں کا ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تو فیق دی ہے کہ وہ جماعتی کاموں میں کافی ایکٹو (Active) ہوئے ہیں اور خاص طور پر تعلقات بڑھانے میں غیروں سے کافی آگے بڑھے ہیں.اور پھر تعلقات کے بہتر نتائج بھی نکلے ہیں اور بہت سے پڑھے لکھے لوگوں سے اُن کے رابطے ہوئے ہیں.اُن ملکوں کی بڑی شخصیات سے اُن کے رابطے ہوئے ہیں.اور ان رابطوں کی وجہ سے جب میں وہاں گیا تو مختلف لوگوں سے بھی مجھے ملایا گیا.اُن سے ملنے کا موقع بھی دیا اور اکثر ہمارے مشن ہاؤس میں آکے وہیں ملتے رہے.عموماً بڑے بڑے لوگ جن کے بارے میں خیال ہوتا ہے کہ نہیں آئیں گے ، وہ لوگ جو ملکوں کی پالیسیز بناتے ہیں، جو دنیا پر حکومت کر رہے ہیں اور دنیا کے بارے میں پالیسیز بناتے ہیں، اُن کو بھی کچھ بتانے اور سمجھانے کا اور کہنے کا موقع ملا.ان تعلقات کی وجہ سے یہ فائدہ ہوا.اور اس میں جیسا کہ میں نے کہا، بڑا کر دار نو جوانوں نے ادا کیا.لیکن ان نوجوانوں کو جو خواہ امریکہ کے ہوں یا کینیڈا کے ہوں یا دنیا میں کسی بھی ملک کے ہوں ، میں یہ توجہ بھی دلانی چاہتا ہوں کہ کسی دنیاوی تعلق کو اپنی بڑی کامیابی نہ سمجھیں.ہاں ایک موقع اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا کہ ان دنیا وی لوگوں تک آپ کی پہنچ ہو اور اُن تک حقیقی اور انصاف پر مبنی اسلام کی تعلیم پہنچے یا اگر آپ لوگوں
خطبات مسرور جلد دہم 438 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جولائی 2012ء نے اُن لوگوں سے مجھے ملوایا یا کوئی فنکشن ارینج (Arrange ) کیا تو مجھے خدا تعالیٰ نے توفیق دی کہ انہیں اسلام کی خوبصورت تعلیم بتاؤں اور حکمت سے ان ملکوں کے بڑوں کو جو دنیا کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں بتاؤں کہ دنیا کی رہنمائی کس طرح ہو سکتی ہے.پس پہلی بات تو میں ہر جگہ کے نوجوانوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کیونکہ ابھی میں امریکہ اور کینیڈا کا دورہ کر کے آیا ہوں اس لئے وہاں کے نوجوانوں کو خاص طور پر کہ اپنے تعلقات کو ، اپنی کامیابیوں کو اپنی کسی خوبی پر محمول نہ کریں بلکہ خدا تعالیٰ کا فضل سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی تعریف کریں کہ اُس نے آپ کو یہ موقع دیا کہ تعلقات بنا ئیں.اور ان تعلقات سے ہمارا مقصد اپنا ذاتی مفاد اُٹھانا نہیں ہے، نہ کبھی یہ ہونا چاہئے.مقصد یہ ہے کہ دنیا کی رہنمائی ہو، دنیا کو حتی الوسع کوشش کر کے سیدھے راستے پر چلنے کے طریقے بتائے جائیں.اگر وہ مان لے تو ٹھیک نہیں تو پھر کم از کم ہمارا فرض پورا ہو جاتا ہے.دنیا کو فسادوں اور تباہی سے بچایا جائے کیونکہ جس نہج پر دنیا چل رہی ہے، اگر یہ جاری رہا تو یقیناً بہت بڑی تباہی آگے نظر آ رہی ہے.دنیا کو خدا تعالیٰ کی طرف لایا جائے.اگر کسی کے دل میں یہ خیال ہے کہ شاید ان تعلقات سے ہمارا کوئی مفاد وابستہ ہے یا ہماری کوئی اپنی قابلیت ہے جس کی وجہ سے یہ تعلقات بنے یا جماعت احمدیہ کی ترقی اس سے وابستہ ہے تو وہ بالکل غلط ہے.جیسا کہ میں نے حمد کے مضمون میں وضاحت کی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو ترقیات سے نوازے.ان ترقیات کے حصول میں ہماری تو ادنی کوشش ہوتی ہے اور باقی جو نتائج حاصل ہو رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے احسان کے رنگ میں ہور ہے ہوتے ہیں.پس ہر کوشش کے پھل کسی کی ذاتی خوبی اور محنت سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وجہ سے ہیں، بلکہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وجہ سے ہی ہیں.اگر ہم اس سوچ کو قائم رکھیں گے تو فضل بڑھتے جائیں گے.باقی ان دنیا داروں سے نہ ہم نے کچھ لینا ہے، نہ ہمارا یہ مقصد ہے.میرے امریکہ کے دورے کی رپورٹس الفضل میں پڑھنے والوں نے تو پڑھ لی ہوں گی.امریکہ میں اُس جگہ اور عمارت میں جو کیپیٹل بیل بل(Capital Hill) کہلاتی ہے، جہاں امریکی کانگریس اور سینیٹ (Senate) بیٹھ کر اپنے ملکی اور دنیا کے فیصلے کرتی ہیں، جہاں اُس ملک کے اور بھی مختلف دفاتر ہیں ، وہاں ایک ہال میں فنکشن بھی ہوا تھا، جہاں میں نے انہیں مختصر خطاب کیا تھا.ہمارے بعض مخالفین نے ، خاص طور پر پاکستان میں اسے
خطبات مسرور جلد دہم 439 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 جولائی 2012ء ہمارے خلاف، جماعت کے خلاف اُچھالنے کی کوشش کی تاکہ احمدیوں کے خلاف مزید بھڑ کا یا جائے لیکن بہر حال ان کو کوئی ایسی خاص پذیرائی تو نہیں ملی.ان کا یہ موقف تھا کہ میں احمدیوں کے لئے امریکی حکومت سے کوئی مدد مانگنے گیا ہوں یا نعوذ باللہ ملک کے خلاف، پاکستان کے خلاف کوئی سازش کرنے گیا ہوں.یہ تو جو کچھ میں نے وہاں کہا اُسے سن کر، اگر ان کی انصاف کی آنکھ ہو، جو نہیں ہے تو خود ہی انصاف سے فیصلہ کر لیں گے اور ہر عقلمند فیصلہ کر سکتا ہے کہ میں لینے گیا تھا یا انہیں کچھ دینے اور بتانے گیا تھا.ہمارا انحصار خدا تعالیٰ کی ذات پر ہے.جماعت کی ترقی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہے، کسی حکومت کی مدد سے نہیں.اور نہ کبھی ہمارے دل میں یہ خیال آیا ہے.ملک کے خلاف سازش کا سوال ہے تو ہم ان لوگوں سے زیادہ وطن سے محبت کرنے والے ہیں جن کا نہ پاکستان کے بنانے میں کوئی کردار ہے، نہ اس کے قائم رکھنے میں کوئی کردار ہے، بلکہ یہ لوگ تو دونوں ہاتھوں سے ملک کولوٹ رہے ہیں اور تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں.جہاں تک لینے کی بات ہے تو یہ بھی بتا دوں کہ 2008ء میں جو بلی کے جلسہ پر جب میں وہاں گیا تھا تو وہاں ایک ریسپشن (Reception) بھی تھی جس میں مقامی لوگ آئے ہوئے تھے لیکن اس میں صرف ایک سینیٹر تھوڑی دیر کے لئے آئے.وہ پانچ منٹ بیٹھے اور چلے گئے اور وہ بھی فنکشن سے پہلے.اور جہاں تک مجھے یاد ہے کوئی سینیٹر (Senator) یا کانگریس مین (Congressman) وغیرہ نہیں تھے.اور اُن سے دومنٹ بات ہوئی تو مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ یہ انداز مجھے ایسے لگا جیسے یہ کہہ رہے ہوں کہ کیا مانگنے آئے ہو؟ کیونکہ پاکستانیوں کے متعلق اُن کا شاید یہی تصور ہے کہ مانگنے آتے ہیں.تو اُسے میں نے کہا کہ میں تمہارے سے کچھ لینے نہیں آیا.اُس وقت بھی میں نے اُس کو کہا تھا کہ تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ اگر تم دنیا میں امن قائم کرنا چاہتے ہو تو تمہیں کیا طریقے اختیار کرنے چاہئیں اور کس طرح اپنی پالیسیز بنانی چاہئیں.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا یہ واحد سینیٹر تھے جو آئے.چند منٹ کی گفتگو مجھے سے کی اور چلے گئے.لیکن اس خطاب یا فنکشن کا جہاں تک تعلق ہے جو کیپیٹل ہل میں ہوا اس کی اہمیت میرے لئے صرف اتنی تھی کہ اگر یہ لیڈ راکٹھے ہو جائیں اور پڑھا لکھا طبقہ وہاں آ جائے تو ان کو اسلام کی تعلیم کے کچھ پہلو بتائے جائیں اور دنیا کے امن کے لئے شاید یہ سن کے پھر دنیا کے امن کے لئے ان کو صحیح قدم اُٹھانے کا خیال پیدا ہو جائے.
خطبات مسرور جلد دہم 440 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جولائی 2012ء اس فنکشن سے ایک دن پہلے سی این این (CNN) کے نمائندہ نے میرا انٹرو یولیا تھا.وہ اور باتوں کے علاوہ کہنے لگا کہ تمہارے لئے یہ بڑا اہم موقع پیدا ہو رہا ہے تو کیسا محسوس کر رہے ہو.میں نے اُسے کہا اور ایک دم میرے منہ سے یہی نکلا کہ میرے لئے تو یہ کوئی ایسا زیادہ اہم موقع نہیں ہے.اُس کے الفاظ کچھ ایسے تھے جیسے کوئی بڑی ایکسائٹمنٹ (Excitement) ہوگی یا کچھ ہوگا.تو بہر حال میں نے کہا کہ کوئی ایسا موقع نہیں ہے جس کی وجہ سے میں ضرورت سے زیادہ ایکسائٹڈ (Excited) ہو جاؤں.اس دورے پر جو امریکہ میں آیا ہوں میرا اصل مقصد تو اپنے لوگوں سے ملنا اور اُن کی دینی ، اخلاقی ، روحانی حالت کی بہتری کی طرف انہیں توجہ دلانا ہے.اس پر وہ کہنے لگا کہ تمہاری یہ بات جو ہے یہ تو امریکی سیاستدانوں کے لئے بڑی دھچکے والی بات ہے کہ تم اُسے کوئی اہمیت نہیں دے رہے.اور پھر ہنس کے کہنے لگا کہ میں تمہاری یہ بات بہر حال ان سیاستدانوں کو نہیں بتاؤں گا.بہر حال ایک دنیا دار کی نظر میں تو اس کی کوئی اہمیت ہوگی لیکن ہمارے نزدیک نہ ہے اور نہ ہونی چاہئے.ہاں ہم اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُن کا شکریہ ضرور ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے ہماری باتیں سنیں.اسی طرح اس فنکشن سے پہلے جب مختلف ملاقاتیں ہورہی تھیں ، وہاں کے فوجوں میں جو مختلف فرقوں کے چیپن (Chaplain) ہیں وہ بھی ہمارے ایک احمدی کے تعلق کی وجہ سے مجھے ملنے آئے.چار پانچ آدمی تھے تو اُن میں سے ایک نے مجھے کہا کہ کل تم نے کانگریس میں جا کر کانگریس مین اور سینیٹر سے خطاب کرنا ہے تو نروس (Nervous) تو نہیں ہو رہے ہو گے.میں نے اُسے کہا کہ بالکل نہیں.میں نے تو قرآن اور اسلام کی باتیں کرنی ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ اس میں کوئی نروس ہونے والی بات ہے اور اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے.مختلف جگہوں پر لیکچر ز دینے کا موقع بھی ملتا رہتا ہے.پھر خود ہی کہنے لگا کہ ہمیں اگر کوئی ایسا موقع آئے تو بڑی دقت ہوتی ہے اور بعض دفعہ نروس ہو جاتے ہیں حالانکہ ہم بہت زیادہ لیکچر دینے والے ہیں.یہ اس لئے کہ یہ لوگ بیشک چیپن تو ہیں، یا مذہبی لیڈر سمجھ لیں اور اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں لیکن دنیا داری ان پر غالب ہے اور کیپیٹل ہل کا جو نام ہے وہی اُن کے لئے ایک ہو ا ہے چاہے وہ امریکن ہی ہوں.لیکن خدائے واحد کو ماننے والے کے لئے خدا ہی سب کچھ ہے اور ہونا چاہئے.جماعت پر اعتراض کرنے والے بھی اسی طرح دنیا داروں سے متاثر ہوتے ہیں جس طرح یہ لوگ ہورہے ہیں ان کی بھی میٹنگیں ہوتی ہوں گی.بعض جاکے ملتے بھی ہوں گے اور ان لوگوں کو متاثر ہونے کی وجہ سے کبھی یہ توفیق نہیں ملی کہ اسلام کا پیغام پہنچا ئیں، اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا ئیں،
خطبات مسرور جلد دہم 441 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 جولائی 2012ء قرآنِ کریم کا پیغام پہنچائیں.جب فنکشن ہو گیا تو ایک کانگریس مین نے جو ایک دوسرے( کانگریس مین ) سے بات کر رہا تھا جو ہمارے ایک احمدی نے سن لی کہ مسلمان لیڈروں کو اس طرح ہونا چاہئے کہ کھل کر بات کیا کریں اور حقیقت بیان کریں اور پر زور الفاظ میں کریں.تو یہ بہر حال ایک تاثر تھا.ان لوگوں کو بھی ، آج تک کسی مسلمان لیڈر کو، بلکہ حکومتوں کے سربراہوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے توفیق نہیں دی.اس لئے نہیں دی کہ ان کو دین سے زیادہ دنیا کی طرف رغبت ہے.پس نوجوان ہمیشہ اس سوچ کے ساتھ تعلقات رکھیں کہ ہم نے ان دنیا وی لیڈروں سے کچھ لینا نہیں بلکہ دینا ہے.شکر گزاری کے جذبات سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے لئے ہوں اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کس طرح بڑھتے رہیں گے.یادرکھیں جماعت کے کاموں میں کبھی دنیا داری راس نہیں آتی.اگر دنیا داروں کو اپنا سب کچھ سمجھ لیا تو جو خدا تعالیٰ ہے، جو انعام دینے والا ہے وہ ان انعاموں کو واپس لینے کی طاقت بھی رکھتا ہے.پس ہمارا مقصد تو ہمیشہ خدا تعالیٰ کی حمد اور اُس کی رضا ہونا چاہئے اور ہے، نہ کہ کسی دنیا دار سے تعلقات ہماری انتہاء ہے.یہ کبھی نہ ہماری انتہا ہوئی ہے نہ ہے نہ انشاء اللہ ہوگی.اور نہ ہی ہماری زندگی کا مقصدان دنیا داروں سے کچھ حاصل کرنا اور ان تک پہنچنا ہے اور چاہے وہ امریکہ کا لیپیٹل ہل ہو یا کوئی اور ایوان ہو، وہاں کا فنکشن نہ کبھی ہماری زندگی کا مقصد رہا ہے اور نہ ہوگا اور نہ ہونا چاہئے.یہ ہماری انتہا نہیں.ہماری انتہا ہر احمدی کو ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے.وہ جتنا بھی پڑھا لکھا ہے اور لوگوں سے تعلقات ہیں کہ خدائے واحد کے آگے جھکنے والا دنیا کو بنانا ہے، یہ ہمارا انتہائی مقصود ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو تمام ایوانوں اور ملکوں کے جھنڈوں سے اونچا کرنا ہے.یہ ہمارا مقصد ہے.ایم ٹی اے پر اکثر آپ نے دیکھا ہوگا اور رپورٹس میں بھی پڑھا ہوگا کہ جو کچھ میں نے وہاں کہا وہ قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں کہا ہے اور اسلام کی تعلیم جو حق اور سچائی کی تعلیم ہے، وہ کہنے کی کوشش کی ہے.اس میں بھی میری کوئی خوبی نہیں.میں تو اپنے آپ کو کم علم اور عاجز انسان سمجھتا ہوں لیکن جس مسیح موعود کی نمائندگی میں میں اس خطاب کے لئے گیا تھا، اُس کے ساتھ اور آپ کے آقا اور ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ نصرتَ بِالرُّعْبِ.وہاں جاتے ہوئے کار میں جب میں دعا کر رہا تھا تو یہی خیال مجھے آیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ بڑا اونچا ایوان ہے اور اس
خطبات مسرور جلد دہم 442 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جولائی 2012ء سے پہلے تو کبھی سوچنے کا موقع بھی نہیں ملا تھا، اُسی وقت مجھے جاتے جاتے یہ خیال آیا کہ میں تو تیرا ایک عاجز بندہ ہوں اور تیرے پیغام کو لے کر وہاں جا رہا ہوں.تیرے مسیح موعود کی نمائندگی میں جارہا ہوں.اس لئے نُصِرْتَ بِالرُّغب کا جو وعدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہے اُس کا نظارہ آج بھی دکھا دے.اور اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول کی اور یہ ذوق رکھنے والے احمدیوں نے دیکھا اور اس کا اظہار بھی کیا بلکہ دوسروں نے بھی اظہار کیا کہ نُصِرْتَ بِالرغب کا نظارہ ہم نے وہاں دیکھا.انور محمود خان صاحب جو مولا نا عبدالمالک خان صاحب کے بیٹے ہیں، وہیں رہتے ہیں، وہاں کی مرکزی عاملہ میں شامل ہیں، انہوں نے ان سیاستدانوں کے وہاں کے حالات کے بارے میں اور ان سیاستدانوں کے مختصر تبصروں کے بارے میں ایک مختصر سا مضمون بھی لکھا ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ اُن کو الفضل اور دوسرے رسالوں میں چھپوا بھی دینا چاہئے کہ کس طرح اُن پر اثر ہورہا تھا.اس فنکشن میں انتیس (29) کانگریس مین اور سینیٹرز آئے ہوئے تھے.تھنک ٹینک (Think-tank) سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے.پینٹا گون (Pentagon) سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے.این جی اوز (NGO'S) سے کچھ لوگ تھے.پروفیسر ز تھے اور ان ساروں کی تعداد تقریباً ایک سو دس تھی.عموماً وہاں کی روایت بھی ہے اور یہی کہا جاتا ہے کہ کانگریس مین اور سینیٹر ز کسی فنکشن میں جائیں تو زیادہ دیر بیٹھا نہیں کرتے تھوڑی دیر بعد اُٹھ کے چلے جاتے ہیں.بہر حال یہ کہ اُن کے اخلاق کا کیا معیار ہے یہ تو وہ جانتے ہیں.لیکن ہر کوئی وہاں جانتا ہے کہ بیٹھا نہیں کرتے ، اُٹھ جاتے ہیں.لیکن اس فنکشن میں دو تین کے علاوہ جنہوں نے پہلے اجازت لے لی تھی.باقی سب جو ہیں پورا وقت بیٹھے رہے ہیں، بلکہ کیپیٹل ہل کے ہی ایک پرانے بیوروکریٹ جو وہاں کام کرتے ہیں کہتے ہیں کہ میں پندرہ سال سے یہاں ہوں اور ایک پہلی بات تو یہ کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ دس سے زیادہ کانگریس مین یا سینیٹر کبھی کسی فنکشن میں اکٹھے آئے ہوں.دوسری بات یہ کہ چاہے جس کا مرضی پروگرام ہو کوئی پانچ سات دس منٹ سے زیادہ نہیں بیٹھتا، اُٹھ کے چلے جاتے ہیں، چاہے ملکی سر بر اہان آئیں بلکہ ہمارے اپنے فنکشنوں میں بھی نہیں بیٹھتے.اور پھر وہ کہنے لگا کہ یہ بات تو میرے لئے بالکل ہی عجیب تھی کہ مختلف پارٹیوں کے لیڈر، اپوزیشن اور جو حکومتی سیاستدان تھے دونوں بیٹھے ہوئے تھے اور پھر بیٹھے رہے.جس سینیٹر کا میں نے ذکر کیا ہے کہ 2008ء میں مجھے ملا اور بڑا متکبرانہ رویہ تھا.وہ بھی نہ صرف وہاں آیا ہوا تھا بلکہ سٹیج پر آ کر بولا اور جتنی دیر میری تقریر تھی وہ پورا وقت بیٹھا رہا اور سن کے گیا.بعض سینیٹرز
خطبات مسرور جلد دہم 443 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جولائی 2012ء اور کانگریس مین ایسے بھی تھے جو سیٹوں کی کمی کی وجہ سے کھڑے رہے ہیں.ان کا وہاں بڑے سے بڑا ہال جو میٹر تھا اس میں کچھ ہمارے لوگ تھے اور کچھ یہ لوگ.بڑے ہال تو وہاں اس طرح ہوتے نہیں.یہ جو سب سے بہتر اور بڑا ہال ہے اور اس میں اچھے فنکشن ہوتے ہیں.یہ ان کا گولڈ روم کہلا تا ہے.سیٹوں کی کمی کی وجہ سے یہ لوگ کھڑے بھی رہے ہیں اور باقاعدہ وہ باتیں سنتے رہے ہیں جو شاید اُن کے مزاج کی نہیں تھیں کہ انصاف کرو.جو میں نے باتیں کہیں وہ یہی تھیں کہ انصاف کرو.انصاف کو اگر صحیح طرح سے قائم نہ کیا تو پھر تم لوگوں کی جتنی مرضی طاقت ہو سنبھال نہیں سکتے.بڑی تو میں چھوٹی قوموں کا خیال رکھیں.یہ چیز امن قائم کرنے کے لئے انتہائی ضروری ہے.سلامتی کونسل اور یو این او میں برابری پر تمام قوموں کو بیٹھنا چاہئے.دوسرے ملکوں کی دولت پر نظر نہ رکھیں.تو یہ باتیں میں نے اُن کو کہیں تھیں اور یہ ایسی نہیں کہ جو کہا جائے کہ اُن کے مزاج کے بڑے مطابق تھیں اور یہ سب کچھ قرآنِ کریم کی تعلیم سے میں نے اُن کو بتایا.میری تقریر کے بعد پہلے وہاں جو مسلمان کانگریس مین ہیں ، جو افریقن امریکن ہیں، وہ مجھے کہنے لگے کہ مجھے تمہاری یہ بات بڑی اچھی لگی ہے کہ دوسروں کی دولت کو حرص کی نظر سے نہ دیکھو.وہ لوگ بھی جانتے ہیں کہ کیا پالیسیز ہیں اور کس طرح دیکھا جاتا ہے.انہوں نے کہا کہ اس لیکچر کو جلدی چھپوا کے سب تک پہنچانا چاہئے.اور ایک کانگریس مین کا تبصرہ یہ تھا کہ یہ پیغام ایسا ہے جس کی امریکہ کو آج ضرورت ہے.پس ان لوگوں تک اسلام کی خوبصورت تعلیم پہنچا دیا محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوا ہے.اثر ہوتا ہے یا نہیں ، یا عارضی طور پر اثر ہوا ہے تو کب زائل ہو جائے ، بات پر کان دھرتے ہیں یا نہیں لیکن ان پر اسلام کی خوبصورت تعلیم بہر حال واضح ہوگئی ہے.پس اصل حمد اللہ تعالیٰ کی ہے جس نے یہ سامان پیدا فرمائے اور اس بات کو ہر احمدی کو یا درکھنا چاہئے.اسی طرح ان کے سیاستدانوں کو بھی مختلف ملاقاتوں میں میں نے انصاف قائم کرنے کی طرف توجہ دلائی.اگر توجہ کر لیں گے تو دنیا بھی فسادوں سے محفوظ رہے گی اور یہ بھی.اگر نہیں تو پھر خدا تعالیٰ کی تقدیر بھی اپنا کام کرے گی.کینیڈا میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے سیکرٹری خارجہ نو جوان ہیں.اُن کے اور اُن کی ٹیم کے اچھے تعلقات ہیں.نئے لوگوں سے بھی اور پرانے تعلقات کو بھی انہوں نے قائم کیا ہے.پس اُن کو بھی اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اُس نے انہیں موقع دیا کہ جماعت کے کسی کام آ سکیں اور حق اور انصاف کی باتیں اُن تک پہنچا سکیں.کئی پارٹی لیڈر اور سیاستدان وہاں آئے جن سے انہوں نے میری
خطبات مسرور جلد دہم 444 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جولائی 2012ء ملاقاتیں کروائیں.دنیا کو پرامن بنانے کے لئے ان بڑے ملکوں کے سیاستدانوں کو سمجھانا بھی ضروری ہے.اسی طرح پڑھے لکھے طبقے کو بھی سمجھانا ضروری ہے.اس مرتبہ کینیڈا میں ایسی دو تقاریب پیدا ہوگئیں.ایک تو ریسپشن ہوئی یا یہ کہہ لیں کہ وہاں انہوں نے طاہر ہال نیا بنایا جس کا افتتاح تھا جس میں مقامی کینیڈین کی خاصی تعداد تھی، سیاستدانوں کی بھی اور دوسرے پڑھے لکھے لوگوں کی بھی، جنہیں اسلامی تعلیم کی روشنی میں کچھ کہنے کا موقع ملا.بعض مہمانوں کے جو تبصرے مجھ تک پہنچے ہیں وہ بڑے مثبت ہیں.اللہ کرے کہ یہ مثبت تبصرے اُن کے ذہنوں کو بدلنے والے اور اُن کی پالیسیز کو بدلنے والے بھی ہوں.اسی طاہر بال کے بارے میں یہ بھی بتا دوں کہ پہلے ایک حکومتی ادارے نے جو بعض چیریٹی اداروں اور این جی اوز کی مدد کرتے ہیں، تقریباً دو اڑھائی ملین ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا کہ اس کی تعمیر میں کچھ حصہ جماعت ڈالے اور کچھ یہ دیں گے.جب مجھے پتہ لگا تو میں نے کہا بہتر یہ ہے کہ شکریہ کے ساتھ ان کی رقم واپس کر دی جائے اور جماعت اگر بناسکتی ہے تو خود بنائے ،تو اللہ تعالیٰ نے فضل فرما یا اور جماعت کو توفیق دی اور کئی ملین ڈالر خرچ کر کے جماعت نے یہ ہال اور اس کے ساتھ جامعہ احمدیہ کی عمارت بنائی ہے.باوجود اس کے کہ کینیڈا کی جماعت کی مساجد کے بھی بڑے منصوبے ہیں اور کئی کئی ملین ڈالر کے منصوبے ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ منصوبوں پر عملدرآمد کر رہی ہے اور قربانی کرنے والی جماعت ہے.اللہ تعالیٰ ان کے اموال و نفوس میں برکت ڈالے.جامعہ کے لئے جو ابھی تک عمارت استعمال ہو رہی تھی، گو وہ ایک خریدی ہوئی عمارت تھی لیکن وہ چھوٹی پڑ گئی تھی.اب اچھے کلاس رومز، دفاتر وغیرہ اس کے ساتھ بن گئے ہیں اور پیس ولیج (Peace Village) میں ہی یہ جامعہ ہے جہاں کنٹرول وغیرہ بھی نسبتاً آسان ہے.اس سال انشاء اللہ وہاں جامعہ شروع ہو جائے گا.پس ان ترقیات کو دیکھ کر بھی اللہ تعالیٰ کی حمد سے دل بھر جاتا ہے.اللہ تعالیٰ جماعت کے ہر فر دکو حقیقی شکر گزار اور حمد کرنے والا بنائے.جماعت کے تعلقات کی وجہ سے وزیر اعلیٰ اونٹاریو (Ontario) نے بڑا زور دے کر ایک ریسیپشن کا انتظام کیا تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے وہاں ہر لیول پر اچھے تعلقات ہیں.جب میرے کینیڈا آنے کا پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ وہ میری ریسیپشن کرنا چاہتے ہیں اور میرے اس وجہ سے انکار پر کہ وقت تھوڑا ہے اور شہر میں جہاں وزیر اعلیٰ کا دفتر ہے، سیکرٹیریٹ ہے یا جہاں بھی انتظام کرنا تھا انہوں نے اپنے گیسٹ ہاؤسز وغیرہ میں یا وزیر اعلیٰ ہاؤس میں تو وہاں آنا جانا بہت مشکل ہو جائے گا، وقت
خطبات مسرور جلد دہم 445 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جولائی 2012ء ضائع ہوگا.تو انہوں نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو میں آپ لوگوں کی رہائش کے قریب ایک بڑے ہوٹل میں ریسپشن کر دوں گا لیکن آپ نے آنا ضرور ہے.بہر حال پھر اس وجہ سے انکار کی گنجائش بھی نہیں تھی.چنانچہ انہوں نے دعوت کی اور بڑے اچھے الفاظ میں جماعت کا ذکر کیا، جماعت کے تعلقات کا ذکر کیا، جماعت کے کاموں کا ذکر کیا.وہاں ان کے جو بھی لوگ آئے ہوئے تھے انہیں بھی وہاں دس پندرہ ہیں منٹ اسلام کی خوبصورت تعلیم بتانے کی توفیق ملی.پس تعلقات کے لحاظ سے کینیڈا جماعت کے بعض عہدیداروں کے بھی اور عام لوگوں کے بھی اچھے تعلقات ہیں.اور وہ تعلقات جو پہلے قائم ہوئے تھے، نہ صرف قائم ہیں بلکہ بڑھتے جارہے ہیں.پس جیسا کہ میں نے کہا، ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کی وجہ سے ہے نہ کہ کسی نوجوان یا کسی بھی شخص کی ذاتی وجہ سے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے کینیڈا جماعت عمومی طور پر اخلاص و وفا میں بڑی بڑھی ہوئی ہے.میں نے گزشتہ خطبہ میں وہاں اُن کے انتظامات میں بعض خرابیوں کی وجہ سے کچھ ناراضگی کا اظہار کیا تھا تو افراد جماعت سے جب وہاں ملاقاتیں ہو رہی تھیں تو اُنہوں نے رو رو کر بھی اور خطوط کے ذریعے سے بھی بڑی معافی مانگی.حالانکہ میری ناراضگی کا اظہار اگر کچھ تھوڑا سا تھا تو وہ متعلقہ شعبہ جات کے بارے میں تھا، اُن کے عہد یداران سے تھا نہ کہ افرادِ جماعت سے.یہ افراد جماعت کی محبت اور اخلاص ہی تھا جو میں نے اُن کو یہ کہا تھا کہ اگر ان کا خیال نہ ہوتا تو جلسہ امریکہ میں منتقل کر دیا جاتا.پس مجھے وہاں افراد جماعت سے عموماً تو کوئی شکوہ نہیں.ہاں جلسہ کے دوران جو بعض غلطیاں ہوئی ہیں.عہد یداران کی طرف سے بھی ہوئیں یا اگر افراد میں سے ہوئیں تو جس طرح کہ عموماً خواتین کے ایک حصے سے ہر جگہ شکوہ رہتا ہے کہ وہاں کافی شور پڑتا رہا ہے اور انہوں نے توجہ سے جلسہ نہیں سنا لیکن ان تمام باتوں کی اصلاح عہد یداروں اور ڈیوٹی دینے والوں اور ڈیوٹی دینے والیوں کی صحیح رنگ میں ڈیوٹی کی طرف توجہ سے ہو سکتی ہے.پس اگر معافی مانگنی چاہئے تھی تو عہد یداروں اور بعض ڈیوٹی دینے والوں کو ،جس کا انہیں تو خیال نہیں آیا لیکن عام احمدی مرد اور عورتیں اس بات پر بے چین ہورہے تھے کہ میں نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے کینیڈا جماعت کے اخلاص و وفا کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد سے دل بھر جاتا ہے.ایک تو وہاں پیں ویلج میں پہلی آبادی تو تھی لیکن اب ارد گرد اور بھی جگہ بن گئی ہے.پیس ویج
خطبات مسرور جلد دہم 446 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جولائی 2012ء (Peace Village) کا ایک اور حصہ آباد ہو گیا ہے.اسی طرح سڑک کی پار دوسری طرف بھی آبادی ہو گئی ہے.میرا اندازہ ہے کہ تقریباً ہزار کے قریب گھر ایسے احمدیوں کے ہو گئے ہیں.اس لئے ایک تو وہاں بڑی رونق رہتی ہے اور ہر وقت وہاں یہی تھا کہ جیسے احمدی ماحول ہی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے کینیڈا کی جماعت کے اخلاص و وفا کو دیکھ کر جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد سے دل بھر جاتا ہے کہ کیسے کیسے لوگ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو عطا فرمائے ہیں.یہ کیسی پیاری جماعت ہے جس نے خلافت سے محبت کی بھی انتہا کی ہوئی ہے تو جیسا کہ میں نے کہا روزانہ پیس ولیج میں رونق رہتی تھی.اور بلکہ دن تھوڑے تھے اور رمضان تھا ورنہ اُن کے اخلاص و وفا کو دیکھ کر میرا تو دل چاہتا تھا کچھ دن اور وہاں رہوں.اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے یہ بھی فضل ہے کہ جلسہ کی جگہ بعض انتظامات کے لحاظ سے تنگ پڑ رہی ہے.پارکنگ وغیرہ کی بھی بہت تنگی ہو رہی تھی.اس لئے کینیڈا جماعت کو اپنے جلسہ کی وسعت کے بارہ میں بھی ، جگہ کے بارہ میں بھی سوچنا چاہئے.اس بات کی فکر نہیں ہونی چاہئے کہ کس طرح انتظام ہوگا.اللہ تعالیٰ جب ضرورت بڑھا رہا ہے تو انتظامات بھی فرما دے گا انشاء اللہ.بشرطیکہ حقیقی شکر گزار بندے بنیں اور حمد کرنے والے بنیں.ایک اور بات میں کینیڈا والوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں ، کینیڈا میں بھی اور امریکہ میں بھی اور اب یہاں بھی پاکستان کے ریفیوجی یا اسائلم سیکر ز بہت سے نئے آئے ہیں، آج کل آ رہے ہیں، انہیں بھی یادرکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر فضل فرما دیا ہے تو اس کے فضلوں کو مزید جذب کرنے کے لئے وہ اپنے آپ کو دنیا میں گم کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے جوڑیں، اُس کے احکامات کو سامنے رکھیں، اُس کی رضا کو سامنے رکھیں.نوجوان خاص طور پر یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا جس قدر شکر گزار ہوتے ہوئے آپ اُس کی حمد کریں گے، اللہ تعالیٰ کے فضل بڑھتے چلے جائیں گے.پاکستان سے جن تکالیف کی وجہ سے آئے ہیں انہیں ہمیشہ یادرکھیں تو خدا تعالیٰ بھی ہمیشہ یادر ہے گا.نئے آنے والوں کو ، عورتوں کو بھی اور مردوں کو بھی ہمیشہ اپنے نیک نمونے قائم کرنے کی طرف توجہ رکھنی چاہئے تا کہ جہاں خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں وہاں لوگوں کے لئے بھی اور یہاں رہنے والے احمدیوں کے لئے بھی ایک نمونہ بنیں.پس اس بات کو ہمیشہ یا درکھیں کہ یہاں آنا صرف دنیا کے لئے نہ ہو، بلکہ دین بھی مدنظر رہے.اب انشاء اللہ تعالیٰ دو دن تک رمضان بھی شروع ہو رہا ہے اور امریکہ اور کینیڈا میں تو شاید کل
خطبات مسرور جلد دہم 447 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جولائی 2012ء سے شروع ہو رہا ہے.اس رمضان سے بھی ہر احمدی کو خوب فائدہ اُٹھانا چاہئے.اپنی دعاؤں اور عبادتوں کو بھی انتہا تک لے جانے کی کوشش کرنی چاہئے.یہ دن اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے اور کھینچنے کے دن ہیں.ان سے بھر پور فائدہ اُٹھانے کی ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق بھی عطا فرمائے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پہلے سے بڑھ کر اپنے اوپر نازل ہوتا ہوا دیکھیں.اللہ کرے کہ اس طرح ہی ہو.اب جمعہ کی نماز کے بعد میں دو جنازے بھی پڑھاؤں گا.ایک جنازہ تو ہمارے ایک شہید چوہدری نعیم احمد گوندل صاحب کا ہے جن کو کل شہید کیا گیا ہے جو چوہدری عبدالواحد صاحب اورنگی ٹاؤن ضلع کراچی کے بیٹے تھے.ان کی کل ہی شہادت ہوئی ہے.انا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ کے دادا مکرم خورشید عالم صاحب مرحوم تھے.شہید مرحوم 1961ء میں پیدا ہوئے.چک 99 شمالی سرگودھا کے تھے.پھر 1971ء میں گوندل فارم کوٹری میں شفٹ ہو گئے ، پھر اورنگی ٹاؤن میں آگئے.1914ء میں ان کی دادی نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور دادا نے پھر بعد میں بیعت کی.شہید مرحوم نے ایم اے اکنامکس اور ایم بی اے تک تعلیم حاصل کی.سٹیٹ بنک آف پاکستان میں بطور اسسٹنٹ ڈائر یکٹر کام کر رہے تھے.ان کا شہادت کا واقعہ اس طرح ہے کہ یہ 19 جولائی کی صبح کو سوا آٹھ بجے حسب معمول دفتر سٹیٹ بینک جانے کیلئے گھر سے نکلے.آپ عموماً گھر کے سامنے ایک تنگ گلی سے گزر کر بڑی سڑک پر جاتے تھے جہاں سے آپ کو بینک کی گاڑی آکر دفتر لے جایا کرتی تھی.موصوف جب گلی میں داخل ہوئے ہیں تو سامنے سے دو نو جوانوں نے آکر کنپٹی پر فائر کیا ہے.گولی دائیں جانب سے لگی اور بائیں سے نکل گئی جس سے نعیم احمد گوندل صاحب موقع پر شہید ہو گئے.إِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.گیارہ سال سے شہید مرحوم صدر حلقہ اورنگی ٹاؤن کی خدمت پر مامور تھے.اس سے قبل چار سال بطور قائد مجلس اورنگی ٹاؤن اور اس سے قبل انہوں نے زعیم حلقہ، سیکرٹری وقف نو ، مربی اطفال اور مختلف حیثیتوں سے جماعت کی خدمات سرانجام دیں.نہایت خوش اخلاق ، ملنسار، حلیم الطبع تھے.اہل علاقہ بھی ان کے بارہ میں یہی رائے رکھتے تھے.کچھ عرصہ سے اورنگی ٹاؤن کے حالات خراب تھے اور مخالفانہ وال چاکنگ وغیرہ کا سلسلہ جاری تھا لیکن ہمیشہ آپ بڑی بہادری سے سب چیزوں کا مقابلہ کیا کرتے تھے.دلیر اور بہادر شخص تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی بھی تھے.کچھ غیر احمدی تعزیت کے لئے آئے تو انہوں نے بھی آپ کے اوصاف
خطبات مسرور جلد دہم 448 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جولائی 2012ء کا تذکرہ کیا.یہاں بھی جلسے پر کئی سالوں سے آ رہے تھے اور جن کے گھر ٹھہرتے تھے اُن کی بچیوں نے کہا کہ ہمارے گھر بہت سارے مہمان ہوتے تھے تو ہم نے دیکھا کہ جلسے کے مہمان کی بجائے خود ان کے میز بان بن جایا کرتے تھے.بلکہ عاجزی یہاں تک تھی کہ جب اپنے بوٹ پالش کرنے لگے ہیں تو ساتھ مہمانوں کے بھی بوٹ پالش کر دیا کرتے تھے.ایک جلسے پر آئے ہیں جب بارشیں زیادہ تھیں تو کہتے ہیں کہ گھر والوں نے کیچڑ سے لدے ہوئے جولانگ بوٹ پہنے ہوئے تھے اُنہوں نے آ کر انہیں اتار دیا.صبح اُٹھ کر دیکھا تو ساروں کے بوٹ بڑے سلیقے سے صاف ستھرے ایک لائن میں پڑے تھے.انہوں نے رات کو جلسے کے سارے مہمانوں کے بوٹ ، جو بھی ان کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے ،مٹی اتار کے صاف کر کے، پالش کر کے، جو دھونے والے تھے دھودھا کے رکھے ہوئے تھے.انتہائی عاجز طبیعت تھی.اولا دتوان کی کوئی نہیں تھی لیکن اہلیہ بھی کہتی ہیں کہ اس طرح انہوں نے میرا خیال رکھا کہ مجھے خیال آتا ہے کہ شاید میرے ماں باپ نے مجھے زندگی میں اتنا آرام نہیں دیا اور پیار نہیں دیا جتنا اس شخص نے دیا.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور یہ بختی کے دن بھی اللہ تعالیٰ جلد سے جلد پاکستان میں ختم کرے.جیسا کہ میں نے کہا ہمیں بہت زیادہ دعاؤں کی طرف توجہ دینی چاہئے اور خاص طور پر اس رمضان میں اس لحاظ سے بھی پاکستانی اور دنیا میں ہر جگہ احمدیوں کو خاص طور پر بہت دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ یہ جو سختیوں کے دن ہیں یہ جلدی بدلے.دوسرا جنازہ مکرم صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب کا ہے جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے بیٹے تھے.چھیاسی سال کی عمر میں چودہ پندرہ جولائی کی درمیانی شب کو ان کی وفات ہوئی ہے.حضرت ام ناصر کے بطن سے یہ پیدا ہوئے تھے اور بڑے نرمی سے بات کرنے والے، غریبوں سے حسن سلوک کرنے والے تھے.انہوں نے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.اُس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے سنڈیکیٹ جو سندھ میں زمینوں کا اپنا ادارہ تھا وہاں ان کو بھیج دیا تھا.تو اُس کے بعد پھر وہی کام کرتے تھے.جب یہ بند ہو گیا تو پھر یہ اپنا ہی کاروبار کرتے رہے.خلافت سے بھی ان کا بڑا تعلق تھا.مجھے باقاعدگی سے خط بھی لکھا کرتے تھے اور بڑے اخلاص و وفا کا تعلق انہوں نے ہمیشہ ظاہر کیا.میرے ماموں تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اب نماز کے بعد نماز جنازہ ادا ہو گا.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 10 اگست تا 16 اگست 2012 جلد 19 شماره 32 صفحه 5 تا 9)
خطبات مسرور جلد دہم 449 30 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جولائی 2012ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احم خلیفة اسم الخامس اید اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 27 جولائی 2012 ء بمطابق 27 روفا 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم آجکل رمضان کے مبارک مہینہ سے گزر رہے ہیں.خوش قسمت ہیں وہ جو اس بابرکت مہینہ سے فائدہ اُٹھائیں گے.اور یہ برکتیں روزے کی حقیقت کو جاننے اور اس سے بھر پور فائدہ اُٹھانے سے ملتی ہیں.بیشک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد برحق ہے کہ رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطان کو جکڑ دیا جاتا ہے.(صحیح مسلم کتاب الصيام باب فضل شهر رمضان حدیث نمبر 2495) لیکن کیا ہر ایک کے لئے یہ دروازے کھول دیئے جاتے ہیں؟ کیا ہر ایک کے شیطان کو جکڑ دیا جاتا ہے؟ کیا ہر ایک کے لئے دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں؟ یقیناً ہر ایک کے لئے تو ایسا نہیں ہوسکتا بلکہ یہاں مومنین کو مخاطب کیا.لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف ظاہری ایمان لانے سے، مسلمان ہونے سے اور روزہ رکھنے سے یہ فیض انسان حاصل کر لے گا اور کیا صرف اتناہی ہے.اگر صرف اتناہی ہے تو اللہ تعالیٰ نے بار بار ایمان لانے کے ساتھ اعمالِ صالحہ بجالانے کی طرف بہت زیادہ توجہ دلائی ہے، بہت زیادہ تلقین کی ہے.بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو کسی بھی انسان کے لئے چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو،اگر وہ نیک اعمال بجالانے والا ہے تو نیک جزا کا بتایا ہے.پس یقیناً صرف روزے رکھنا یا رمضان کے مہینہ میں سے گزرنا انسان کو جنت کا وارث نہیں بنا دیتا بلکہ اس کے ساتھ کچھ لوازمات بھی ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہے.کچھ شرائط بھی ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے.اعمالِ صالحہ کی طرف بھی توجہ ضروری ہے جنہیں بجالانا ایک مومن کا فرض بھی ہے.ورنہ صبح
خطبات مسرور جلد دہم 450 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جولائی 2012ء کھانا کھا کر پھر شام تک کچھ نہ کھانا، ایسے لوگ تو بہت سارے دنیا میں ہیں جو صبح کھاتے ہیں اور شام کو کھاتے ہیں، بلکہ بعض نام نہاد فقیر جو ہیں وہ اپنے آپ کو ایسی عادت ڈالتے ہیں، مجاہدہ کرتے ہیں کہ کئی کئی دن کا فاقہ کر لیتے ہیں لیکن عبادت اور نیکی اُن میں کوئی نہیں ہوتی.کچھ ایسے بھی دنیا میں ہیں جو بعض دفعہ مجبوری کی وجہ سے نہیں کھا سکتے.بعض کے حالات ایسے ہیں انہیں مشکل سے ایک دفعہ کی روٹی ملتی ہے.کچھ کو ڈا کٹر بعض خاص قسم کے پر ہیز کی ہدایت کرتے ہیں اور سارا دن تقریباً نہ کھانے والی حالت ہی ہوتی ہے.اور بعض لوگ ، خاص طور پر عورتیں، ڈائٹنگ کے شوق میں بھی سارا سارا دن نہیں کھاتیں.ابھی دودن پہلے میرے پاس ایک ماں آئی کہ میری بیٹی نے جوانی میں قدم رکھا ہے تو یہ دماغ میں آ گیا ہے، اس کو Craze ہو گیا ہے کہ میں نے دُبلا ہونا ہے اور وزن کم کرنا ہے کیونکہ آج کل یہ بہت رو چلی ہوئی ہے اس لئے اُس نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے اور مجھے پریشان کیا ہوا ہے اور ایک وقت کھاتی ہے اور وہ بھی بہت تھوڑا سا، اور مہینہ میں یا کم و بیش ایک ڈیڑھ مہینہ میں چودہ پندرہ پاؤنڈ اُس نے وزن کم کر لیا ہے.تو یہ ماں کی فکر تھی اور شاید وہ لڑکی اب سمجھے کہ رمضان کا مہینہ آ گیا ہے، اگر میں آٹھ پہرے روزے رکھ لوں تو نیکی بھی ہو جائے گی اور رمضان کا مہینہ ہے، شیطان تو جکڑا ہوا ہے ، ثواب بھی مل جائے گا اور دونوں کام میرے بھگت جائیں گے.بعض ایسے بھی میرے علم میں ہیں جو روزہ رکھتے ہیں اور پھر سارا دن اور کوئی کام نہیں ہے.سوئے رہتے ہیں کہ روزہ نہ لگے اور سمجھ لیا کہ نیکی کا ثواب مل گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمایا کہ روزہ رکھو، رمضان آیا، شیطان جکڑا گیا، جنت کے دروازے کھول دیئے گئے ، دوزخ کے دروازے بند کر دیئے گئے تو یہ بھی ہے کہ تم نے نیک اعمال بھی کرنے ہیں.بیشک تمہارا یہ عمل ہے کہ تم صبح سحری کھاتے ہو.اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کھاؤ اور شام کو افطاری کر لیتے ہو.جیسا کہ میں نے بتایا کہ بعض آٹھ پہرے روزے بھی رکھ لیتے ہیں.اگر مجبوری ہو تو بعض اٹھ پہرے روزے بھی رکھتے ہیں لیکن اس سے یہ نہ سمجھو کہ تمہیں روزے کا ثواب مل گیا یا تمہارا شیطان جکڑا گیا یا جنت کے دروازے تم پر کھول دیئے گئے اور دوزخ حرام ہوگئی.روزے کے مہینے میں اس سے وہی فیضیاب ہو گا جو اعمالِ صالحہ بھی بجالائے گا.جو اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت دل میں رکھتے ہوئے روزے رکھے اور اس کے ساتھ اپنے ہر عمل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ جو ایمان کی حالت میں اور اپنا محاسبہ کرتے ہوئے روزے رکھے گا اُس کا روزہ قبول ہوگا.(صحیح بخاری کتاب الصوم باب من صام رمضان ايمانا واحتسابا ونيةحديث 1901)
خطبات مسرور جلد دہم 451 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جولائی 2012ء اُس کے لئے جنت قریب کی جائے گی ، اُس کا شیطان جکڑ ا جائے گا.پس یہ چیزیں یا روزہ رکھنا جہاں نیکیوں کے کرنے کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ دلانے والا ہو گا.وہاں اپنی برائیاں ترک کرنے کے لئے بھی ایک مومن کو تو جہ دلائے گا اور اس کے لئے وہ مجاہدہ کرے گا.ایک مومن اپنی عبادات کے معیار بھی بلند کرنے کی کوشش کرے گا.صرف فرائض کی طرف توجہ نہیں دے گا، اُن کے ادا کرنے کی کوشش نہیں کرے گا بلکہ نوافل کی طرف بھی توجہ ہوگی اور ایک مومن پھر اُن کی ادائیگی کا بھی بھر پور حق ادا کرنے کی کوشش کرے گا.بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ ہوگی.مالی قربانیوں کی طرف بھی توجہ ہوگی.غریبوں کا حق ادا کرنے کی طرف بھی بھر پور کوشش ہوگی تو تبھی ماہ صیام سے صحیح فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے.مالی قربانی کے ضمن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ آپ تو رمضان کے علاوہ بھی سارا سال بے انتہا صدقہ اور خیرات کرتے تھے، قربانی دیتے تھے.اور یہ قربانی اور دوسروں کی یہ مدد آپ اس طرح فرماتے تھے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں ، جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.لیکن رمضان کے مہینہ میں تو لگتا تھا کہ اس طرح صدقہ و خیرات ہو رہا ہے جس طرح تیز آندھی چل رہی ہو.(صحیح بخاری کتاب الصوم باب اجود ما كان النبي يكون في رمضان حدیث نمبر 1902) عبادات کے معیارا اپنی انتہاؤں سے بھی اوپر نکل جاتے تھے.ایک تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات کی کوئی انتہا نہیں لیکن رمضان میں وہ اُن انتہاؤں سے بھی اوپر چلے جاتے تھے.پس آپ نے ہمیں یہ فرمایا کہ یہ نہ سمجھو کہ رمضان آیا اور بغیر کچھ کئے صرف اس بات پر کہ تم نے روزہ رکھ لیا، سب کچھ پل گیا.آپ اس طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ تم اس سے حقیقی فیض کس طرح اُٹھا سکتے ہو؟ ایک بات تو میں نے پہلے بتائی ہے کہ ایمان کی حالت میں ہو اور اپنا محاسبہ کرنے والا ہو، اور اس بات کی طرف بھی خاص طور پر میں توجہ دلانا چاہتا ہوں.پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص جھوٹ بولنے اور جھوٹ پر عمل کرنے سے نہیں رکتا، اللہ تعالیٰ کو اُس کا بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں.یعنی ایسا روزہ پھر بے کار ہے.(صحیح بخارى كتاب الصوم باب من لم يدع قول الزور والعمل به في الصوم حدیث نمبر 1903) پس ہمیں اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ شیطان جکڑا گیا بلکہ روزوں کے معیار بلند کر نیکی بھی ضرورت ہے.روزوں کا حق ادا کرنے کی بھی ضرورت ہے.اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو
خطبات مسرور جلد دہم 452 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جولائی 2012ء اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جھوٹ بولنے سے اور جھوٹ پر عمل کرنے سے جو نہیں رکتا اُس کا روزہ نہیں.ان الفاظ میں چھوٹی سے چھوٹی برائی سے لے کر بڑی سے بڑی برائی تک کی طرف توجہ دلا دی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ہر حالت میں سچائی پر قائم رہنے کا کہہ کر اُسے اُس کی تمام کمزوریوں، غلطیوں اور گناہوں سے پاک کروا دیا.یہ بھی مثالیں ملتی ہیں کہ جس کو یہ کہا کہ تم نے سچائی پر قائم رہنا ہے! س شخص کی تمام اخلاقی اور روحانی کمزوریاں سچائی پر قائم رہنے کے عہد سے دور ہو گئیں.(التفسير الكبير لامام رازی جلد 8 جزو 16 صفحه 176 تفسير سورة التوبة زير آيت نمبر 119 دار الكتب العلمية بيروت 2004ء) اور پھر یہ بھی دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو شرک کے برابر قرار دیا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے فَاجْتَنِبُوا الرَّجُسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ النُّورِ (الحج: 31) اس کی وضاحت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : یعنی بتوں کی پلیدی اور جھوٹ کی پلیدی سے پر ہیز کرو.“ یہ اس کا ایک بامحاورہ ترجمہ ہے.( نور القرآن نمبر 2 روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 403) پھر آپ فرماتے ہیں ”بتوں کی پرستش اور جھوٹ بولنے سے پر ہیز کر و.یعنی جھوٹ بھی ایک بت ہے جس پر بھروسہ کرنے والا خدا کا بھروسہ چھوڑ دیتا ہے.سوجھوٹ بولنے سے خدا بھی ہاتھ سے جاتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحه 361) پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ جھوٹ بولنے اور جھوٹ پر عمل کرنے والے کا روزہ نہیں تو اس لئے کہ ایک طرف تو روزہ رکھنے والے کا دعوی ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے حکم سے روزہ رکھ رہا ہوں.اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے.قرآن کریم میں آتا ہے جہاں روزوں کے فرائض کا حکم آیا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصَّيَامُ (البقرة: 184) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تم ا پر روزوں کا رکھنا فرض کیا گیا ہے، اس لئے تم روزے رکھو.تو ایک طرف تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے روزے رکھ رہا ہوں لیکن دوسری طرف یہ کہ جس کے حکم سے روزہ رکھا جا رہا ہے اُس کے مقابلے پر جھوٹ کو خدا بنا کر کھڑا کیا جارہا ہے.پس یہ دو عملی نہیں ہوسکتی.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انسان کے سب کام
خطبات مسرور جلد دہم 453 اپنے لئے ہیں مگر روزہ میرے لئے ہے اور میں خود اس کی جزا بنوں گا.خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جولائی 2012ء (صحیح بخاری کتاب الصوم باب هل يقول اني صائم اذاشتم حدیث نمبر 1904) پس یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ایک کام خدا تعالیٰ کے حکم سے بھی کیا جارہا ہو پھر خدا تعالیٰ کے لئے اور اُس کے پیار کو جذب کرنے کے لئے بھی کیا جا رہا ہو اور یہ بھی امید رکھی جارہی ہو کہ میرے اس روزے کی جزا بھی خدا تعالیٰ خود ہے.یعنی اس جزا کی کوئی حدود نہیں.جب خدا تعالیٰ خود جزا بن جاتا ہے تو پھر اس کی حدود بھی کوئی نہیں رہتیں.اور پھر عام زندگی میں اپنی باتوں میں جھوٹ بھی شامل ہو جائے عمل میں جھوٹ شامل ہو جائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ زبان سے جھوٹ نہیں بولنا، بلکہ عمل کے جھوٹ کو بھی ساتھ رکھا ہے اور عمل کا جھوٹ یہ ہے کہ انسان جو کہتا ہے وہ کرتا نہیں.روزے میں عبادتوں کے معیار بلند ہونے چاہئیں.نوافل کے معیار بلند ہونے چاہئیں.لیکن اُس کے لئے اگر ایک انسان کوشش نہیں کر رہا، عام زندگی جیسے پہلے گزررہی تھی اُسی طرح گزر رہی ہے تو یہ بے عملی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ دار سے اگر کوئی لڑائی کرتا ہے تو وہ اُسے کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں.(صحیح بخاری کتاب الصوم باب هل يقول اني صائم اذاشتم حدیث نمبر 1904 اور جواب نہ دے تو یہ روزے کا حق ہے جو ادا کیا گیا ہے.لیکن اگر آگے سے بڑھ کر لڑائی کرنے والے کا جواب لڑائی سے دیا جائے تو یہ عملی جھوٹ ہے.اپنے کاموں میں اگر حق ادا نہیں کیا جارہا تو یہ عملی جھوٹ ہے.دوسروں کے حق ادا نہیں کئے جار ہے تو یہ عملی جھوٹ ہے.خاوند کی اور بیوی کی لڑائیاں جاری ہیں اور اپنی طبیعتوں میں رمضان میں اس نیت سے تبدیلی پیدا نہیں کی جا رہی کہ ہم نے اب اس مہینہ کی وجہ سے اپنے تعلقات کو بہتری کی طرف لے جانا ہے اور آپس کے محبت پیار کے تعلق کو قائم کرنا ہے کہ رمضان میں خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ خود ہماری جزا بن جائے تو بیشک منہ سے یہ دعوی ہے کہ ہمارا روزہ ہے اور خدا تعالیٰ کی خاطر ہے لیکن عمل اسے جھوٹا ثابت کر رہا ہے.اور پھر عملی جھوٹ کی اور بھی بہت ساری باتیں ہیں.انتہا اُس کی یہ بھی ہے کہ کاروباروں کو ، اپنے دنیاوی مقاصد کو، اپنے دنیاوی مفادات کو روزے کے باوجود اپنی عبادات اور ذکر الہی اور نوافل کی ادائیگی اور قرآن کریم پڑھنے کی طرف توجہ پر فوقیت دی جائے.اور پھر اس سے بھی بڑھ کر بعض لوگ اپنے منافع کے لئے، دنیاوی فائدے کے لئے کاروباروں میں جھوٹ بولتے ہیں، گویا کہ خدا کے مقابلے پر جھوٹ کی اہمیت ہے.پس
خطبات مسرور جلد دہم 454 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جولائی 2012ء یہ عملی اور قولی جھوٹ شرک ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسے روزے دار کا روزہ در حقیقت فاقہ ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُس کی کوئی اہمیت نہیں.پس یقیناً رمضان انقلاب لانے کا باعث بنتا ہے.شیطان بھی اس میں جکڑا جاتا ہے.جنت بھی قریب کر دی جاتی ہے لیکن اُس کے لئے جو اپنی حالت میں پاک تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرے.اپنے ہر قول و فعل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے.خدا تعالیٰ کے قریب ہونے کی کوشش کرے.خدا تعالیٰ کی حکومت کو اپنے پر قائم کرنے کی کوشش کرے تا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت اور بخشش جو عام حالات کی نسبت کئی گنا بڑھ جاتی ہے اُس سے بھر پور فائدہ اُٹھائے اور اپنے نفس کے بتوں اور جھوٹے خداؤں کو جو لا محسوس طریق پر یا جانتے بوجھتے ہوئے بھی بعض دفعہ خدا تعالیٰ کے مقابلے پر کھڑے ہو جاتے ہیں، اُن کو ریزہ ریزہ کر کے ہوا میں اُڑا دے، جب یہ کوشش ہو تو پھر ایک انقلاب طبیعتوں میں پیدا ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کی حکومت کے لئے جہاں روزوں کے ساتھ عبادتوں کے معیار حاصل کرنا ضروری ہے، قرآن کریم کو زیادہ سے زیادہ پڑھنا، اُس کی تلاوت کرنا، اس پر غور کرنا ضروری ہے.وہاں ان عبادتوں کا اثر ، قرآن کریم کے پڑھنے کا اثر ، اپنی ظاہری حالتوں اور اخلاق پر ہونا بھی ضروری ہے تا کہ عملی سچائی ظاہر ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : مجھے اس وقت اس نصیحت کی حاجت نہیں کہ تم خون نہ کرو کیونکہ بجز نہایت شریر آدمی کے کون ناحق کے خون کی طرف قدم اٹھاتا ہے.مگر میں کہتا ہوں کہ نا انصافی پر ضد کر کے سچائی کا خون نہ کرو.حق کو قبول کر لو اگر چہ ایک بچہ سے.اور اگر مخالف کی طرف حق پاؤ تو پھر فی الفور اپنی خشک منطق کو چھوڑ دو.“ یہ نہیں ہے کہ میرا کوئی مخالف ہے، وہ سچی بات بھی کہہ رہا ہے تو میں نے ضد میں آ کر قبول نہیں کرنا.پھر دلیلیں نہ دو، بخشیں نہ کرو بلکہ اس کو چھوڑ دو اور سچائی کو قبول کرو.پھر فرمایا ”سچ پر ٹھہر جاؤ اور سچی گواہی دو.جیسا کہ اللہ جلشانہ فرماتاہی فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ النُّورِ (الحج: 31) یعنی بتوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹ سے بھی کہ وہ بت سے کم نہیں.فرمایا ”جو چیز قبلہ حق سے تمہارا منہ پھیرتی ہے وہی تمہاری راہ میں بت ہے.سچی گواہی دو.اگر چہ تمہارے باپوں یا بھائیوں یا دوستوں پر ہو.چاہئے کہ کوئی عداوت بھی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو کسی بھی قسم کی دشمنی ہو تمہارے بیچ پر روک نہ ڈالے.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 550)
خطبات مسرور جلد دہم 455 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جولائی 2012ء پھر آپ فرماتے ہیں : زبان کا زیان خطرناک ہے.اس لئے متقی اپنی زبان کو بہت ہی قابو میں رکھتا ہے.اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہیں نکلتی جو تقویٰ کے خلاف ہو.پس تم اپنی زبان پر حکومت کرو، نہ یہ کہ زبانیں تم پر حکومت کریں اور اناپ شناپ بولتے رہو.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 281.ایڈیشن 2003 ء.مطبوعہ ربوہ) پس تقویٰ یہ ہے اور تقویٰ پر قدم مارنے کی ، اس پر چلنے کی اس رمضان میں زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہئے تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکیں.تا کہ اُن جنتوں میں جن کے دروازے کھولے گئے ہیں، ہمارے داخل ہونے میں آسانیاں ہوں.اب اگر ہم میں سے ہر ایک اپنے جائزے لے تو خود ہی احساس ہو جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس درد بھرے پیغام اور نصیحت پر کتنے عمل کر رہے ہیں.یہ ازالہ اوہام میں اپنے ماننے والوں کو اور خاص طور پر اپنی جماعت والوں کو یہ نصیحت کی ہے.اگر ہم میں سے ہر ایک انصاف پر قائم ہوتے ہوئے سچائی کا خون ہونے سے بچائے تو ہمارے گھروں کے مسائل بھی حل ہو جائیں.ہمارے ہاں جو بھائیوں بھائیوں کی رنجشیں پیدا ہوتی ہیں اور وقتاً فوقتاً قضا میں مقدمے آتے رہتے ہیں، وہ بھی دور ہو جائیں.کم از کم ہمارے اپنے اندر، ایک احمدی معاشرے میں لین دین کے جو بہت سارے مسائل چلتے رہتے ہیں، وہ ختم ہو جا ئیں.یہ سب مسائل سچ پر عمل نہ کرنے سے اور اپنی اناؤں کو فوقیت دینے سے پیدا ہوتے ہیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اگر اپنے حق کے معیار اتنے بلند کر لو کہ اگر کوئی بچہ بھی کہہ رہا ہے تو اُسے قبول کرنا ہے تو تم بہت سی برائیوں سے بچ جاؤ گے.پھر انا کی ناک اونچی نہیں ہوگی کہ یہ چھوٹا بچہ مجھے نصیحت کر رہا ہے.یہ رتبہ میں کم تر مجھے حق کی طرف رہنمائی کر رہا ہے.یہ غریب آدمی مجھے سچی بات بتا رہا ہے.پس سچائی اختیار کرنے کے لئے بھی عاجزی چاہیئے اور یہ عاجزی پھر ایک ایسی نیکی ہے جو خدا تعالیٰ کو بہت پسند ہے.پس دیکھیں سچائی کی نیکی کے ساتھ اور کتنی نیکیاں جنم لے رہی ہیں.ایک نیکی کے بعد دوسری نیکی نیچے دیتی چلی جاتی ہے اور یہی چیز جو ہے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بناتی ہے.بعض جزئیات کے ساتھ جو اقتباس میں بیان ہوئی ہیں، سب سے اہم بات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں نصیحت فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ جو چیز قبلہ حق سے تمہارا منہ پھیرتی ہے وہ تمہاری راہ میں بت ہے.پس اگر ہم نے رمضان سے بھر پور فائدہ اُٹھانا ہے، اگر ہم نے شیطان کے جکڑے جانے، دوزخ کے دروازے بند ہونے اور جنت کے دروازے کھلنے سے بھر پور استفادہ کرنا ہے تو ہمیں
خطبات مسرور جلد دہم 456 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جولائی 2012ء اپنے حق بات کے قبلوں کو بھی درست کرنا ہوگا.ہمارا قبلہ خدا تعالیٰ کی طرف ہوگا تو ہم اللہ تعالیٰ کے اس اعلان سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں کہ میں نے تمہارے لئے جنت کے دروازے رمضان کی برکات کی وجہ سے کھول دیئے ہیں.ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر غور کر کے اور عمل کر کے ہی جنت کے دروازے ملیں گے کہ اپنے قول و عمل کی سچائی کے معیار اونچے کرو ورنہ اگر اس طرف توجہ نہیں تو خدا تعالیٰ کو تمہارے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے.یہ تو خدا تعالیٰ کی اپنے بندے پر کمال مہربانی اور شفقت ہے کہ عبادتوں اور مختلف قسم کی نیکیوں کے راستے بتا کر ان پر چلنے والے کے لئے انعام مقرر کئے ہیں اور رمضان کے مہینے میں تو ان عبادتوں اور نیکیوں کے ذریعے ان انعاموں کو حاصل کرنے کی تمام حدود کو ہی ختم کر دیا ہے.بے انتہا انعاموں کا سلسلہ جاری فرما دیا.اور فرمایا ہے کہ آؤ اور میری رضا کی جنتوں میں داخل ہو جاؤ.لیکن یاد رکھو کہ اس میں داخل ہونے کے لئے قولی اور عملی سچائی کا راستہ اپنا نا ہوگا.اگر اس قبلے کی پیروی کرو گے تو جس طرح آج کل ہر گاڑی میں نیوی گیشن (Navigation) لگا ہوتا ہے اور اس نیوی گیشن (Navigation) کے ذریعے سے تم صحیح مقام پر پہنچ جاتے ہو، اس طرح صحیح جگہ پر پہنچو گے ور نہ رمضان کے باوجود بھٹکتے پھرو گے.بلکہ دنیاوی نیوی گیشن جو ہیں اس میں تو بعض دفعہ غلطی بھی ہو جاتی ہے، بعض دفعہ صحیح فیڈ (Feed) نہیں ہوتا، نئی سڑکیں بن جاتی ہیں ، نظر بھی نہیں آ رہی ہوتیں.بعض دفعہ دو راستوں میں سے ایک راستے کی طرف رہنمائی ہوتی ہے، لمبا چکر پڑ جاتا ہے یا چھوٹے رستے کی تلاش میں انسان گلیوں میں گھومتا پھرتا ہے، ٹریفک مل جاتا ہے.لیکن خدا تعالیٰ کی طرف اگر قبلہ درست ہوگا تو سیدھے جنت کے دروازوں کی طرف انسان پہنچتا ہے.پس اس رمضان میں ہم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے قبلے درست کرے.اپنی قولی اور عملی سچائیوں کے معیار بلند کرے اور خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں جانے کی کوشش کرے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.اس مضمون کو میں نے تھوڑا سا مختصر کیا ہے.اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہوسکتا ہے باقی اگلے جمعہ میں بیان کر دوں.مختصر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت میں سلسلے کے ایک دیرینہ بزرگ کا کچھ ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کی گزشتہ دنوں وفات ہوئی ہے.یہ بزرگ مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب ہیں.پاکستان میں تو ہر احمدی اگر نہیں تو ہر جماعت کی اکثریت انہیں جانتی ہے یا جانتی ہوگی اور پرانے لوگ تو بہر حال جانتے ہیں.ایک لمبا عرصہ بطور وکیل المال اوّل انہیں خدمات سلسلہ بجالانے کی توفیق ملی.یہ وہ بزرگ ہیں جنہوں نے جماعتی نظام میں، موجودہ نظام جو جماعتی ہے، اس میں اگر بنیادی اینٹیں نہیں تو کم از کم درمیانی
خطبات مسرور جلد دہم 457 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جولائی 2012ء اینٹوں کا ضرور کردار ادا کیا ہے جنہیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تربیت سے فیض پانے کی توفیق عطا ہوئی ہے اور ان لوگوں نے بے نفس ہو کر جماعت کی خدمت کی توفیق پائی ہے.آج جو ہم پھل کھا رہے ہیں اس میں ان پرانے لوگوں کی خدمات کا بہت بڑا حصہ ہے، بے نفس خدمات کا بہت بڑا حصہ ہے.اس کے علاوہ بھی کچھ وفات یافتگان ہیں اُن کا بھی ذکر ہو گا.مختصراً کچھ پہلو میں مکرم و محترم چوہدری شبیر احمد صاحب کے بیان کر دیتا ہوں.22 جولائی 2012ء کو 95 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ کے والد حضرت حافظ عبدالعزیز صاحب اور والدہ حضرت عائشہ بیگم صاحبہ دونوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ میں سے تھے.لیکن ان کے دادا نے خلافت ثانیہ میں بیعت کی تھی.ان کے دادا چوہدری نبی بخش صاحب ریاست جموں کے باوقار زمیندار تھے اور مسلمانوں پر بعض پابندیوں کے باعث ملکہ وکٹوریہ کے زمانے میں یہ ہجرت کر کے سیالکوٹ آگئے.چوہدری شبیر صاحب کے والد جو تھے وہ بھی بلند اخلاق فاضلہ والی شخصیت تھے.حافظ قرآن ہونے کی وجہ سے اپنے علاقے میں بڑے نمایاں تھے.اس لئے اپنے بچوں کی تربیت بھی انہوں نے بڑے دینی ماحول میں کی ہے.چوہدری شبیر صاحب نے ابتدائی تعلیم سکاچ مشن مڈل سکول سیالکوٹ سے حاصل کی اور 1931ء میں آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کیا تو والد صاحب نے تربیت کی خاطر ان کو قادیان بھیج دیا.میٹرک انہوں نے تعلیم الاسلام سکول قادیان سے کیا.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی صحبت میں رہے، فائدہ اُٹھا یا نظمیں پڑھنے کا بھی خوب شوق تھا، بڑا موقع ان کو ملتا رہا.علاوہ اور نظموں کے پہلی دفعہ انہوں نے قادیان میں سیرت النبی کے موقع پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقریر سے پہلے نظم پڑھی.پھر جب انہوں نے میٹرک کر لیا تو چونکہ قادیان میں کالج نہیں تھا مرے کالج سیالکوٹ سے بی اے کا امتحان پاس کیا.کچھ دیر آپ قادیان میں رہے.اُس کے بعد حضرت مولوی شیر علی صاحب کے ساتھ دفتر میں کام کیا.جبکہ حضرت مولوی شیر علی صاحب ترجمہ قرآن انگریزی میں مصروف تھے تو آپ ٹائپنگ کا کام اُن کے ساتھ کرتے رہے.پھر ملازمت کی تلاش میں لا ہور آئے.کچھ صحافت میں بھی وقت گزارا.اچھے معروف شاعر بھی تھے اور آواز بھی اچھی نظمیں اپنی لے میں پڑھا کرتے تھے.گفتگو میں بڑی شائستگی محنت کے عادی.بہر حال نیکیوں کا ایک مجموعہ تھے.1940ء میں ملٹری اکاؤنٹس کا امتحان پاس کیا اور یہ منتخب ہو گئے اور وہاں گیارہ سال کام کیا.لیکن 1944ء میں اس عرصے کے دوران ہی انہوں نے اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کر دیا تھا.لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے
خطبات مسرور جلد دہم 458 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جولائی 2012ء ان کو 1950 ء میں بلایا اور ان کا خود انٹرویو لیا اور یہ اپنی ملازمت سے استعفیٰ دے کر پھر ربوہ آگئے اور پہلے نائب وکیل کے طور پر، اُس کے بعد 1960ء میں وکیل المال اول کے طور پر وفات تک خدمات سرانجام دیں.باون سال وکیل المال اول رہے اور اس سے پہلے بھی انہوں نے دس سال کام کیا.خلافت ثانیہ سے لے کر اب تک ان کو اللہ تعالیٰ نے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی.ذیلی تنظیموں میں بھی بھر پور خدمات سرانجام دیتے رہے.ربوہ میں پہلے معتمد مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ بنے.اس کے علاوہ بھی خدام الاحمدیہ کے مختلف کاموں میں خدمات پر مامور رہے.نائب صدر صف دوم انصار اللہ بھی رہے.پھر رکن خصوصی تو لمبا عرصہ رہے.مجلس کار پرداز کے ممبر بھی تھے.قاضی بھی تھے.1960ء میں ان کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیگم کی طرف سے حج بدل کی توفیق بھی ملی.مختلف ممالک میں دوروں پر جاتے رہے.ان کے کئی شعری مجموعے ہیں.1965ء سے 1983 ء تک جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر ان کو دریمین سے نظمیں پڑھنے کا موقع ملا.اور یہاں یو کے کے جلسہ میں بھی دو دفعہ چھیاسی (1986ء) اور اٹھانوے (1998ء) میں ان کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے وقت میں نظم پڑھنے کا موقع ملا.بلکہ ایک دفعہ حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے ان کی نظم سننے کے بعد کہا تھا کہ آپ نے پرانے جلسوں کی یاد تازہ کر دی جور بوہ اور قادیان کے ہوتے تھے.ان میں ایک خوبی یہ تھی کہ جب دورے پر جاتے تھے تو پروجیکٹر اور تصویروں کی سلائڈز جو ہیں وہ لے جایا کرتے تھے جو مختلف بیرونی ممالک کے مشن کی ہوتی تھیں اور بجائے اس کے کہ لمبی چوڑی تقریریں کریں یہ دکھایا کرتے تھے کہ دنیا میں یہ ہمارے مشن قائم ہورہے ہیں، یہ سکول بن رہے ہیں، یہ ہسپتال بن رہے ہیں، مساجد بن رہی ہیں اور یہ سلائڈ ز دکھاتے تھے.ایک تبلیغی موقع بھی میسر آ جاتا تھا جو اپنوں کے لئے تربیت کا باعث بنتا تھا.یہ بات جہاں ان کو قربانیوں کی طرف توجہ دلاتی تھی وہاں بعض دفعہ چھوٹے چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں میں غیر احمدی بھی آ جاتے تھے اور یہ دیکھ کر کہ جماعت احمدیہ اس طرح اسلام کی خدمت کر رہی ہے.گویا بجائے اس کے کہ بحث و تمحیص اور دلائل ہوں، پروجیکٹر کے ذریعہ سے انہوں نے تبلیغی بھی اور تربیتی بھی بہت کام کیا.جب تک ان میں ہمت رہی، ہمیشہ یہی کرتے رہے.یہاں 2009 ء کے جلسہ میں آئے تھے اور خلافت جو بلی کے اظہار تشکر کی جور پورٹ تھی وہ ان کو پیش کرنے کی توفیق ملی.جماعت کی طرف سے مجھے،خلیفہ وقت کو، جو ایک رقم جوبلی کی دی گئی تھی کہ مختلف جماعتی مقصد پر خرچ لیں ، وہ بھی ان کو پیش کرنے کی توفیق ملی.ان کے ایک بیٹے امریکہ میں مبلغ سلسلہ ہیں ، واقف زندگی ہیں، دوسرے واقف زندگی بیٹے ربوہ میں ہیں.رشتہ ناطہ کے
خطبات مسر در جلد دہم 459 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جولائی 2012ء نائب ناظر ہیں.تیسرے نے بھی کچھ عرصہ وقف کیا تھا.ان کا عارضی وقف تھا، افریقہ میں کیا پھر یہاں آگئے.فضل احمد طاہر یہیں یو کے جماعت کے سیکرٹری تعلیم ہیں.تو یہ ان کے تین بیٹے ہیں.بیٹیاں بھی ہیں ان کے خاوند بھی سارے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھے جماعتی نظام سے منسلک ہیں.پھر ان میں یہ خوبی بھی تھی کہ اپنے غیر احمدی رشتہ داروں کو اس طرح تبلیغ کرتے تھے کہ جو بھی رسالے ان کے آتے تھے یا اختلافی مسائل کے بارے میں جو بھی لٹریچر ہوتا تھا، وہ سیالکوٹ یا جہاں بھی وہ ہوتے تھے پوسٹ کرتے رہتے تھے.اور سب رشتہ داروں کے ایڈریسز ان کو یاد تھے.اس طرح الفضل یا کوئی رسالے بھیجتے رہتے تھے.دفتر والوں کے ساتھ بڑا حسنِ سلوک تھا.ان کے ایک کارکن لکھتے ہیں کہ اول تو سائیکل پر دفتر آیا کرتے تھے لیکن جب بہت بیمار ہو گئے تو میں نے ہی کہا تھا کہ ان کے لئے گاڑی جانی چاہئے ، اس سے پہلے بھی شاید استعمال ہوتی تھی.بہر حال ایک دفعہ دفتر کے کارکن نے ان کو لینے کے لئے گاڑی بھجوانے میں دیر کر دی تو بجائے اس کے کہ کچھ کہتے ، انداز ان کا اپنا ہی تھا، بڑی نرم گفتاری سے نصیحت کیا کرتے تھے.کارکن کہتے ہیں کہ مجھے بجائے کچھ کہنے کے کہ گاڑی لیٹ کیوں آئی ، ایک لفافے میں تھوڑے سے بادام ڈال کر بھیج دیئے کہ آپ کی یادداشت کے لئے ہیں.اسی طرح ان کی بیٹی بھی کہتی ہیں ، گھر میں بھی بجائے اس کے کہ بہت زیادہ وعظ ونصیحت کریں ، ڈانٹ ڈپٹ کریں، اپنا عملی نمونہ پیش کیا کرتے تھے جسے دیکھ کے ہم خود ہی اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کرتے تھے یا پھر بعض دفعہ ایسے رنگ میں کوئی کہانی سنا دیتے تھے جس سے اصلاح کی توجہ پیدا ہو جاتی تھی.ان کی ایک بیٹی کہتی ہیں کہ آخری بیماری میں ابھی چند دن پہلے کہتے ہیں کہ شعر نازل ہو رہے ہیں لکھو.اور اللہ تعالیٰ کے مناجات وہ شعر یہ تھے.یہ ان کے تقریباً آخری، بستر مرگ کے شعر کہہ لیں.خدمت دین کی خاطر میرے مولیٰ خدمت دین کی خاطر مجھے قرباں کر دے وقت رخصت میرے واسطے وقت راحت وقت رخصت میرے واسطے آساں کر رخصتی کو میرے واسطے شاداں کر دے پھر یہ خوبی تھی کہ ہمیشہ شکر کے جذبات کے ساتھ حمد ثنا کیا کرتے تھے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب ان کا وقف قبول کیا تو انہیں یہ نصیحت فرمائی تھی اور ہر واقف زندگی کو یہ نصیحت یاد رکھنی چاہئے کہ جماعت کے کاموں کی اس طرح فکر کرنا جیسے ایک ماں اپنے بچے کی فکر کرتی ہے.اور پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس نصیحت کو ہمیشہ پلے باندھے رکھا اور ہمیشہ باوجود اس کے کہ کوئی بیماری ہواس
خطبات مسرور جلد دہم 460 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جولائی 2012ء میں خوب نبھایا.ان کے گھر کے تعلقات اچھے تھے، بیوی کا بڑا خیال رکھنا، لیکن جہاں دین کا سوال آجاتا تھا، دورے وغیرہ پر جانا ہوتا تھا ، کئی دفعہ ایسے مواقع آئے کہ ان کی اہلیہ بیمار ہیں یا بچے کی پیدائش ہونے والی ہے، تشویش ہے، تو وہاں یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ میں خدا کے دین کے کاموں سے جاتا ہوں، خدا تعالیٰ میرے باقی کام سنوار دے گا.اور اللہ تعالیٰ سنوار بھی دیا کرتا تھا.اب یہ بھی بعض بظاہر معمولی معمولی باتیں ہیں لیکن پرانے لوگوں کی ان باتوں سے آجکل کے ہر واقف زندگی کو بھی اور کارکن کو بھی سبق سیکھنا چاہئے بلکہ ہر جماعتی عہد یدار کو بھی.ان کے ایک انسپکٹر کہتے ہیں کہ کچھ کتا بیں دیکھ رہے تھے جو دفتر کی طرف سے جلد کرائی گئی تھیں ، اُن میں ایک در شمین نکل آئی تو اس در یشمین کو لے کرا کا ؤنٹنٹ صاحب کو بلایا اور فرمانے لگے کہ یہ تو میری ذاتی در ثمین ہے اس کو بھی آپ نے جلد کروادیا ہے.اس پر بتائیں کتنے پیسے خرچ ہوئے ہیں.اکا ؤنٹنٹ نے یہ کہا کہ سب کتابیں اکٹھی جلد ہو گئی ہیں لیکن آپ نے کہا نہیں پتہ کرو.آخر پتہ کروایا.غالباً آٹھ دس روپے جو خرچ ہوئے تھے، وہ جب تک اکا ؤنٹنٹ کے حوالے نہیں کر دیئے ،سکون نہیں آیا.اور اسی طرح کا رکن بھی یہی کہتے ہیں کہ بڑے دلنشین انداز میں نصیحت کرتے جو ہمیں گراں نہ گزرتی.ہماری تربیت فرماتے.اکثر نصیحت فرماتے اور یہ بڑی نصیحت ہے جو ہر ایک کو یا درکھنی چاہئے کہ خدمت دین کو شوق اور محبت سے کرنا چاہئے اور اس کے بدلے میں کسی طرح بھی طالب انعام نہیں ہونا چاہئے.ہمیشہ خیال رکھیں کہ آپ کو خدا نے خدمت کا موقع دیا ہے اور آپ نے اپنے رب کو راضی کرنا ہے.اسی طرح آنے والے مہمانوں کو دفتر میں بڑے عزت سے احترام سے ان کو ملتے کھڑے ہو کر ملتے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ مرکز میں آنے والے مہمان جو ہیں وہ کچھ تو قعات لے کر آتے ہیں اور ان کے ساتھ اچھی طرح ملنا چاہئے.پانی پوچھنا چاہئے ، اپنا کام چھوڑ کے اُن کی طرف توجہ کیا کرتے تھے اور جتنا وقت مرضی لگ جائے یا دفتر بند بھی ہو جائے تو جب تک اُن کا کام نہ کر لیتے گھر نہ جاتے.اگر ہوسکتا تھا تو بتا دیا کرتے تھے.اگر نہیں تو کہہ دیا کرتے تھے آپ کو بعد میں اطلاع ہو جائے گی.دفتر میں چندوں کا معاملہ ہے، یہاں بھی سیکرٹریان مال کو تجربہ ہو گا کہ بعض دفعہ اگر چندے کا حساب صحیح نہ ہو یا اندراج صحیح نہ ہو تو لوگ غصہ میں آ جاتے ہیں ، تو ان کے ساتھ بھی اگر کوئی غصہ میں آ جا تا تھا تو خاموشی سے سنتے تھے اور آخر وہ خود ہی شرمندہ ہو کر معافی مانگ لیتا تھا.اسی طرح کارکنوں کو بھی ، اپنے بچوں کو بھی صدقہ و خیرات کی طرف توجہ دلاتے رہتے تھے جو بلاؤں کو ٹالنے کا ذریعہ ہے اور پھر ایک خوبی یہ تھی کہ خلیفہ وقت کو دعا کے لئے لکھو.اپنے انسپکٹر ان کو بھی کہا کرتے تھے کہ جب باہر دوروں میں جاؤ تو
خطبات مسرور جلد دہم 461 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جولائی 2012ء جماعتوں میں خلیفہ وقت کا پیغام پہنچاؤ بجائے اس کے کہ اپنی زبان میں کچھ کہو.پھر یہ بھی تھا کہ جب باہر جاتے ، یا جب اپنے نائین کو یا انسپکٹر ان کو دورے پر بھیجتے تھے تو یہ کہتے کہ آپ مرکز کے نمائندہ ہیں اس لئے اپنے ہر قول و فعل کا خیال رکھیں.بعض دفعہ دفتر میں زائد وقت گزارنا ہوتا تو خیال کرتے کہ دفتر بند ہو گیا ہے اور کارکن برا نہ سمجھیں تو ان کو بڑے اچھے انداز میں کہا کرتے تھے کہ آپ لوگ یہ نہ سمجھا کریں کہ دفتر والے باقی تو آرام سے گھر چلے گئے ہیں اور ہم دفتر میں کام کر رہے ہیں بلکہ یہ خیال کریں کہ وہ تو اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں، چلے گئے ہیں اور خدا تعالیٰ ہمیں اضافی خدمت کا موقع دے رہا ہے.تو یہ خدمت دین کو فضل الہی جاننے کا ایک عملی ثبوت تھا.ان کے ایک کارکن کہتے ہیں کہ وفات سے چار پانچ دن پہلے ان کی تیمارداری کے لئے خاکسار گیا تو مجھے کہنے لگے کہ کوئی ناصر احمد نام کارکن تیمارداری کے لئے آیا تھا آپ اُسے جانتے ہیں؟ کہتے ہیں میں نے انہیں کہا کہ تحریک جدید میں ناصر نام کے تین چار کارکن ہیں.اس پر وہ کہنے لگے کہ کل جو ناصر احمد ملنے مجھے آیا تھا اور بچے نے کہہ دیا کہ میں سورہا ہوں اور اُن کو واپس جانا پڑا.آپ اُن کا پتہ کریں کہ وہ کون ہے اور میری طرف سے معذرت کر دیں کہ بچے کو غلطی لگی تھی.شاید آنکھیں بند دیکھ کے اُس نے کہہ دیا کہ میں سورہا ہوں ، میں سونہیں رہا تھا.تو اس حد تک بار یکی سے خیال رکھا کرتے تھے.باقاعدگی سے صدقہ دینے والے تھے.پس میں نے ان کا کچھ مختصر ذکر کیا ہے.میں نے بھی ان کے ساتھ کام کیا ہے اور یہ بہت کم خصوصیات ہیں جو ابھی لکھی گئی ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی خصوصیات کے حامل تھے اور کام انتھک اور خوش مزاجی سے کیا کرتے تھے.خلافت سے بھی بے انتہا وفا کا تعلق تھا.بہر حال یہ بزرگ تھے جو وفا کے ساتھ جہاں اپنے کام میں مگن تھے وہاں خلیفہ وقت کے بھی سلطان نصیر تھے.اور پھر اس کے ساتھ ہی خلیفہ وقت کے لئے دعا ئیں بھی بے انتہا کیا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ایسے کام کرنے والے کارکن ہمیشہ جماعت کو مہیا فرما تار ہے.اس کے علاوہ کچھ اور بھی وفات یافتگان ہیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے.چوہدری شبیر صاحب کا جنازہ جمعہ کی نماز کے بعد اور باقی جن کا میں ذکر کرنے لگا ہوں ان کا بھی جنازہ غائب جمعہ کی نماز کے بعد ہی میں پڑھاؤں گا.ان میں سے ایک ہمارے مربی سلسلہ مقبول احمد ظفر صاحب ہیں جو آجکل نظارت اصلاح وارشاد میں تھے.ان کو پرانی انتریوں کی تکلیف تھی جو بگڑ گئی اور آخران کی 25 جولائی کو وفات ہوگئی.اِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.یہ کوٹ محمد یار چنیوٹ کے قریب رہنے والے تھے.اس کے بعد انہوں
خطبات مسرور جلد دہم 462 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جولائی 2012ء نے 1997ء سے 2001 ء تک عربی میں تخصص کیا اور پھر نظارت اشاعت میں کام کیا.جامعہ احمدیہ میں عربی کے استاد رہے.پھر یہ 2007ء میں شام چلے گئے ، وہاں عربی زبان میں ڈپلومہ کیا.اسی طرح ہومیو پیتھک میں بھی ان کو کچھ درک تھا.پھر واپس آئے ہیں تو اصلاح وارشاد مرکز یہ میں تعینات ہوئے.بڑے علم دوست آدمی تھے، نہ صرف علم دوست تھے بلکہ ایک مربی کی جو خصوصیات ہیں وہ بھی ان میں تھیں.وقف زندگی کی خصوصیات بھی ان میں تھیں.اور پھر اسی طرح جیسا کہ میں نے کہا ہومیو پیتھک میں بھی انہوں نے ڈپلومہ کیا ہوا تھا.غریبوں کی مدد کیا کرتے تھے اور بے وقت بھی اگر کوئی آ جاتا تھا تو ہمیشہ اُس کو آپ نے دوائیاں دیں، خوش مزاجی سے اس سے ملے.اپنے ساتھیوں سے کارکنوں سے بڑا اچھا سلوک تھا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ان کے جو بچے ہیں اُن کو بھی اللہ تعالیٰ صبر اور حوصلہ دے.تیسرا جنازہ معراج سلطانہ صاحبہ اہلیہ حکیم بدرالدین صاحب عامل درویش قادیان کا ہے.ان کی چھیاسی سال کی عمر میں 19 جولائی کو وفات ہوئی ہے.انا للہ و إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.نہایت خلوص اور وفا کے ساتھ انہوں نے بھی درویشی کا زمانہ گزارا.سکول ٹیچر بھی تھیں.ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہیں پڑھاتی رہیں.بڑی نیک دل، صابر شاکر اور حوصلہ مند خاتون تھیں.لجنہ اماءاللہ قادیان کی جنرل سیکرٹری رہی ہیں اور بھی مختلف خدمات پر مامور رہیں.غریب بچوں کو اپنے گھر میں رکھ کر تعلیم دلواتی رہیں.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے.اسی طرح چوتھا جنازہ مریم سلطانہ اہلیہ ڈاکٹر محمد احمد خان صاحب شہید کا ہے.ان کے خاوند محمد احمد خان صاحب ٹل ضلع کوہاٹ میں شہید ہوئے تھے.مریم سلطانہ صاحبہ کی وفات 18 جولائی 2012ء کو ہوئی ہے.انا للہ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.بڑی محنت کرنے والی خاتون تھیں.دعوت الی اللہ کا بڑا شوق تھا.قربانی کرنے والی تھیں اور بڑے مضبوط ارادے کی مالک تھیں.ان کے ہمت اور مضبوط ارادے کا اس طرح پتہ لگتا ہے کہ ان کے خاوند ڈاکٹر محمد احمد خان صاحب کو 1957ء میں کوہاٹ میں شہید کر دیا گیا.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے زمانے کی بات ہے.مریم سلطانہ صاحبہ کے والد کا نام عنایت اللہ افغانی تھا اور ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے والد عنایت اللہ افغانی صاحب کی بیعت سے ہوا جنہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.عنایت اللہ افغانی صاحب کا تعلق افغانستان کے علاقہ خوست سے تھا اور آپ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کے مریدوں میں سے تھے.پھر ان کا جو خاندان ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد افغانستان سے قادیان
خطبات مسرور جلد دہم 463 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جولائی 2012ء شفٹ ہو گیا اور یہیں انہوں نے حضرت خلیفہ اول کی بیعت کی.مریم سلطانہ صاحبہ پیدائشی احمدی تھیں اور 1949ء میں ان کی ڈاکٹر محمد احمد خان صاحب سے شادی ہوئی تھی ، جو خان میر خان صاحب جو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے باڈی گارڈ تھے اُن کے بیٹے تھے.پھر یہ لوگ کو ہاٹ چلے گئے.وہاں ایک دفعہ ایک معاند مولوی ان کے پاس آیا کہ ایک مریض بیمار ہے اور بلایا اور لے گیا.وہاں جا کے ان کو گولی مار کے شہید کر دیا اور پھر جب ان کی لاش آئی تو اور کوئی احمدی نہیں تھا.احمدیوں کا یہ ایک اکیلا گھر تھا، چھوٹے چھوٹے بچے تھے.ان کے خاوند موصی بھی تھے.اب لاش گھر میں پڑی ہے، چھوٹے بچے بلک رہے ہیں کہ کیا کریں.اور دلاسا دینے والا بھی کوئی نہیں.مشورہ دینے والا بھی کوئی نہیں.کمیونیکیشن کا نظام کوئی نہیں تھا.فون دون بھی کوئی نہیں تھا.پھر ان کو یہ بھی تھا کہ میرا خاوند موصی ہے.ان کو ربوہ لے کر جانا ہے.بہر حال انہوں نے بڑی ہمت کی اور کسی طرح ایک ٹرک کرائے پر لیا اور اس میں نعش بھی رکھی، بچے بھی بٹھائے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ان دنوں نخلہ میں تھے تو وہاں پر لے آئیں.وہاں اُن کا جنازہ پڑھا گیا.پھر ربوہ لے کر آئیں اور پھر بڑی محنت سے اپنے بچوں کی تربیت کی.کوشش کی کہ ان کو پڑھا ئمیں لکھا ئیں اور ان کی صحیح تربیت ہو جائے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس میں وہ سرخرو ہوئیں.ان کی جو خواہش تھی کہ بچے بھی نیکیوں پر قائم رہیں اور اس وجہ سے وہ ان کو اس ماحول سے بچا کر لائیں تھی.اللہ تعالیٰ ان کی اولاد در اولاد اور نسلوں میں احمدیت کے خادم پیدا کرتا رہے اور حقیقی وفا کے ساتھ احمدیت کے ساتھ جڑے رہنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ان کے بھی درجات بلند فرمائے.جیسا کہ میں نے کہا ابھی نماز جمعہ کے بعد ان سب کی نماز جنازہ غائب ادا کروں گا.الفضل انٹرنیشنل مورخه 17 اگست تا 23 اگست 2012 جلد 19 شماره 33 صفحه 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد دہم 464 31 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 3 اگست 2012ء خطبه جمع سیدنا امیرالمومنین حضرت مرز اسر وراحمد خلیفة اسم الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 3 اگست 2012 ء بمطابق 3 رظہور 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: إنَّ الَّذِينَ هُمْ مِّنْ خَشْيَةِ رَبِّهِم مُّشْفِقُونَ وَالَّذِينَ هُمْ بِأَيْتِ رَبِّهِمُ يُؤْمِنُونَ وَالَّذِينَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِكُونَ وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا أَتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَّةٌ أَنَّهُمْ إلى تهمُ رُجِعُوْنَ - أُولَئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَبِقُونَ.(المومنون: 58 تا 62) جَزَاؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّتُ عَدْنٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَرُ خُلِدِينَ فِيهَا أَبَدًا رضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّه.(البينة: 9) ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ یقیناً وہ لوگ جو اپنے رب کے رعب سے ڈرنے والے ہیں.اور وہ لوگ جو اپنے رب کی آیات پر ایمان لاتے ہیں.اور وہ لوگ جو اپنے رب کے ساتھ شریک نہیں ٹھہراتے.اور وہ لوگ کہ جو بھی وہ دیتے ہیں اس حال میں دیتے ہیں کہ ان کے دل اس خیال سے ڈرتے رہتے ہیں کہ وہ یقیناً اپنے رب کے پاس لوٹ کر جانے والے ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جو بھلائیوں میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور وہ ان میں سبقت لے جانے والے ہیں.یہ سورۃ المومنون کی آیات ہیں.اگلی آیت سورۃ البيئة کی ہے.اس کا ترجمہ یہ ہے.ان کی جزا ان کے رب کے پاس ہمیشہ کی جنتیں ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں.وہ ابدالآباد تک ان میں رہنے والے ہوں گے.اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہو گئے.یہ اس کے لئے ہے جو اپنے رب سے خائف ہے.
خطبات مسرور جلد دہم 465 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 3 اگست 2012ء گزشتہ خطبہ میں رمضان کے حوالے سے یہ باتیں ہوئیں تھیں کہ رمضان سے بھر پور فائدہ اُٹھانے کے لئے اپنے قول اور عمل کی اصلاح ضروری ہے.تبھی خدا تعالیٰ کے نزدیک روزے اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کا ذریعہ بنتے ہیں.میں نے یہ بھی ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی خشیت دل میں رکھتے ہوئے جو روزے رکھے جائیں وہی رمضان کے فیض سے فیضیاب بھی کرواتے ہیں.کیونکہ رمضان کے حوالے سے بات ہو رہی تھی اس لئے روزوں کو خشیت کے ساتھ جوڑا گیا تھا.اس تعلق کا اظہار کیا گیا تھا ورنہ ہر نیکی جو انسان کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ حقیقی نیکی اُس وقت بنتی ہے جب دل میں خشیت بھی ہو.اُس وقت میں نے کہا تھا کہ کچھ حصہ باقی رہ گیا ہے اور وہ میں خشیت کی وضاحت کرنا چاہتا تھا.لیکن بہر حال اب اُس مضمون میں تھوڑا سا مزید اضافہ ہو گیا ہے تو اس کو میں آج بیان کروں گا.یہ خشیت کا لفظ ہم عموماً استعمال کرتے ہیں.اگر اس کی روح کا پتہ چل جائے تو ہمارا نیکیاں بجالانے کا معیار بھی بڑھ جائے.اس لئے اس لفظ کے لغوی معنی بھی میں آج بیان کرنا چاہوں گا.خشیت کے عام معنی خوف کے کئے جاتے ہیں.بیشک یہ معنی بھی ٹھیک ہیں اور اللہ تعالیٰ کا خوف جس میں ہو پھر یہ خوف اُسے نیکیوں کی طرف توجہ دلاتا ہے.لیکن یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کا خوف کسی عام خوف اور ڈر کی طرح نہیں ہے.اس لئے اہل لغت نے اس کی وضاحت بھی کی ہے.مثلاً ایک لغت کہتی ہے کہ خشیت میں ڈر کا لفظ خوف کی نسبت زیادہ پایا جاتا ہے.پھر خشیت اور خوف میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ خشیت میں اُس ڈر کے معنی پائے جاتے ہیں جو اُس ذات کی عظمت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جس سے ڈرا جائے.اور خوف میں اُس ڈر کا مفہوم پایا جاتا ہے جو ڈرنے والے کی اپنی کمزوری پر دلالت کرتا ہے.اس کے بارہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لغات کے حوالے سے بڑی وضاحت فرمائی ہے.(اقرب الموارد زیر ماده خشی ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 1 صفحه 525) پھر امام راغب اپنی لغت مفردات القرآن میں لکھتے ہیں کہ الْخَشِيَةُ اُس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہو جائے.یہ چیز عام طور پر اُس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان عام طور پر ڈرتا ہے.یہی وجہ ہے کہ آیہ کریمہ انما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا (فاطر : 29).اور اللہ تعالیٰ سے اُس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں.وہ لکھتے ہیں کہ اس آیت میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا گیا ہے.امام راغب کا طریق یہ ہے کہ قرآنی آیات کے حوالے سے الفاظ کے معنی کی مختلف صورتیں بیان کرتے ہیں تو اس میں انہوں نے اس آیت کا ذکر کیا
خطبات مسرور جلد دہم 466 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 3 اگست 2012ء ہے.اسی طرح وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی عظمت سے وہ لوگ بھی ڈرتے ہیں جن کے بارے میں قرآنِ کریم میں آتا ہے کہ مَن خَشِيَ الرَّحْمَنِ بِالْغَيْبِ (سورۃ ق:34).جو خدا تعالیٰ سے غیب میں ڈرتے ہیں.(معجم مفردات الفاظ القرآن لامام راغب زیر ماده خشی) یعنی یہ غیب کا ڈرنا اُس وقت ہو سکتا ہے جبکہ دل میں ایسا خوف ہو جو معرفتِ الہی کا تقاضا ہے.پس یہ خشیت کی وضاحت ہے کہ خشیت اُس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے پیدا ہو اور صرف کسی کی اپنی کمزوری کی وجہ سے یہ ڈر پیدا نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی خشیت یقیناً ایسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اظہار بھی ہے اور ایک کمزور بندے کی اپنی کم مائیگی کا اظہار بھی ہے.اللہ تعالیٰ کی عظمت کیا ہے؟ یہ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ سب طاقتوں کا مالک ہے اور اُس نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے.ہر چیز اُس کی پیدا کردہ ہے اور اُس کے ذریعہ سے قائم ہے.اُسی کی ملکیت ہے اور اُس کے چاہنے سے ہی ملتی ہے.پس جب ایسے قادر اور مقتدر خدا پر ایمان ہو اور اُس کی خشیت دل میں پیدا ہو تو پھر ہی انسان اُس کی قدرتوں سے حقیقی فیض پاسکتا ہے.یہاں یہ بھی سوال ذہن میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حقیقی خشیت علماء میں ہی ہوتی ہے تو کیا ہر عالم کہلانے والا یا اپنے زعم میں عالم اللہ تعالیٰ کی خشیت رکھتا ہے.اور یہ بھی کہ شاید جو غیر عالم ہیں وہ اُس معیار تک نہیں پہنچ سکتے جس خشیت کا معیار اللہ تعالیٰ چاہتا ہے.اگر یہی معیار ہے کہ صرف عالم اُس تک پہنچ سکے تو پھر آجکل تو ہم ایسے ہزاروں لاکھوں علماء دیکھتے ہیں جن کے قول و فعل میں تضاد ہے.جو قرآن کریم کو بھی صحیح طرح نہیں سمجھتے ، جنہوں نے اس زمانے کے امام کو نہ صرف مانانہیں بلکہ مخالفت میں گھٹیا ترین حرکتوں کی بھی انتہا کی ہوئی ہے اور وہ کہلاتے عالم ہیں.پس یقیناً یہ باتیں اس بات پر سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ علماء کی تعریف کچھ اور ہے.اللہ تعالیٰ جن علماء کا یہاں ذکر فرما رہا ہے اور اللہ تعالیٰ جن کو علماء کہتا ہے وہ کچھ اور لوگ ہیں.اگر ہر ایک کو ہی عالم سمجھ لیا جائے جو دینی مدرسہ میں واجبی تعلیم حاصل کر کے فارغ ہوا ہے، جس طرح آجکل عموماً ہمارے ملکوں میں پھرتے ہیں یا جس کو عام دنیا دار یا اُس کے ارد گرد کے طبقے کے لوگ عالم سمجھتے ہیں یا جس نے دنیاوی تعلیم حاصل کی ہے، عالم کی ایک اور صورت بھی ہوتی ہے کہ دینی نہ سہی اپنی دنیاوی تعلیم کی بھی انتہا کو پہنچا ہوا ہے.بڑے بڑے سائنسدان ہیں، سائنسی تجربات کرنے والے ہیں.دنیاوی علوم میں اُن کا کوئی ہم پلہ نہیں ہے.تو یہ بات بھی غلط ہوگی کہ صرف دنیاوی عالم کو عالم سمجھا جائے.دنیاوی علوم حاصل کرنے والے
خطبات مسرور جلد دہم 467 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 3 اگست 2012ء تو بعض ایسے بھی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے وجود کے ہی منکر ہیں کجا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی خشیت اُن کے دلوں میں پیدا ہو.تو یہاں عالم کی تعریف کی تلاش کرنی ہوگی کہ حقیقی عالم کون ہے؟ نہ نام نہاد د نیا کے لالچوں میں گھرے ہوئے دینی عالم یہاں مراد ہیں اور نہ ہی دنیاوی عالم.یہاں اس بات کی وضاحت بھی کر دوں کہ بیشک اسلام دینِ کامل ہے اور یہ دینی علم رکھنے والے دعوی بھی کرتے ہیں کہ ہم نے یہ دین کا علم حاصل کیا ہے.بعض لوگ اسلام کا پیغام بھی پہنچاتے ہیں.اسلام کا پھیلنا بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیروں میں سے ایک تقدیر ہے لیکن یہ ایسے علماء کے ہاتھوں سے نہیں ہو گا جن کے دنیاوی مفادات ہیں یا جن کے دنیاوی مفادات زیادہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی خشیت نام کی کوئی چیز اُن میں نہیں ہے.شاید میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا، اس دفعہ امریکہ کے دورہ میں جب ٹی وی کے نمائندے نے مجھ سے سوال کیا کہ امریکہ میں اسلام کے پھیلنے کے کیا امکانات ہیں؟ تو اس کو میں نے یہی کہا تھا کہ اسلام تو انشاء اللہ نہ صرف امریکہ میں بلکہ تمام دنیا میں پھیلے گا مگر ان نام نہا د اسلام کے ٹھیکیداروں اور ان علماء کے ذریعے سے نہیں پھیلے گا بلکہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے پھیلے گا اور دلوں کو فتح کر کے اور امن اور پیار اور محبت کی تعلیم دے کر، نہ کہ دہشت گردی اور شدت پسندی سے جس کی تعلیم آجکل یہ علماء اکثر دیتے رہتے ہیں کیونکہ یہ قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہے.حقیقی اسلام اب صرف اور صرف جماعت احمدیہ کے پاس ہے جو اس زمانے کے امام اور مسیح موعود اور مہدی معہود نے ہمیں کھول کر بتایا ہے اور سکھایا ہے.قرآن کریم کی تعلیم کا حقیقی فہم و ادراک ہمیں حاصل کروایا ہے.اللہ تعالیٰ کی خشیت کی حقیقت کھول کر بیان فرمائی ہے اور واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی حقیقی خشیت پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے.علماء صرف ایک طبقے کا نام نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کی خشیت کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو محدود ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے ہر انسان کو خدا تعالیٰ سے ملانے کے لئے تشریف لائے تھے.انسانوں کو باخدا انسان بنانے کے لئے تشریف لائے تھے اور انسان با خدا انسان نہیں بن سکتا جب تک کہ اُس میں خدا تعالیٰ کی خشیت پیدا نہ ہو.اسلام میں آ کر تو بڑے بڑے چور ڈاکو صرف اس لئے ولی بن گئے کہ اُن میں اللہ تعالیٰ کی خشیت کا فہم و ادراک پیدا ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ارشادات میں بہت جگہ پر تذکرۃ الاولیاء کے واقعات بھی بیان فرماتے ہیں، کئی جگہ ذکر آتا ہے.ایک مثال میں اس وقت تذکرۃ الاولیاء کی لیتا ہوں.فضیل بن عیاض کے متعلق تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ہرات میں کوئی قافلہ آ کر ٹھہرا اور اس میں ایک شخص یہ آیت تلاوت کر رہا تھا کہ آلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ الله (الحديد : 17) -
خطبات مسرور جلد دہم 468 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 3 اگست 2012ء یعنی کیا اہل ایمان کے لئے وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے قلوب اللہ تعالیٰ کے ذکر سے خوفزدہ ہو جا ئیں.اس آیت کا فضیل کے قلب پر ایسا اثر ہوا جیسے کسی نے تیر مار دیا ہو اور آپ نے اظہار تأسف کرتے ہوئے کہا کہ یہ غارتگری کا کھیل کب تک جاری رہے گا اور وقت آچکا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں چل پڑیں.لکھا ہے کہ یہ کہہ کر وہ زار و قطار رو پڑے اور اس کے بعد سے ریاضت میں مشغول ہو گئے.پھر ایک ایسے صحراء میں جا نکلے جہاں کوئی قافلہ پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا اور اہل قافلہ میں سے کوئی کہہ رہا تھا کہ اس راستے میں فضیل ڈاکے مارتا ہے.لہذا ہمیں راستہ تبدیل کر دینا چاہئے.یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ اب قطعاً بے خوف ہو جاؤ.اس لئے کہ میں نے راہزنی سے توبہ کر لی ہے.پھر ان تمام لوگوں سے جن کو آپ سے اذیتیں پہنچی تھیں، معافی طلب کر لی.پھر یہی ڈاکے ڈالنے والے رحمتہ اللہ علیہ کے لقب سے مشہور ہو گئے.(ماخوذ از تذکرۃ الاولیاء از حضرت شیخ فریدالدین عطار صفحه 75-74 مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور ) پس یہ ہے اللہ تعالیٰ کی خشیت کا اعجاز کہ جب احساس ہو جائے تو ایک لمحے میں ایک عام انسان کو بلکہ بدترین انسان کو بھی جو اُس زمانے میں بدترین کہلاتا ہو، جس کو لوگ پسند نہ کرتے ہوں علماء کی صف میں لاکھڑا کر دیتا ہے.جبکہ بڑے بڑے نام نہاد اور جبہ پوش تکبر میں مارے ہوئے نظر آتے ہیں.باوجوداس کے کہ عام دنیا ان کو بڑا نیک سمجھ رہی ہوتی ہے لیکن اُن میں خشیت نہیں ہوتی.اور جو انسانوں سے تکبر کرنے والے ہیں وہ کبھی اللہ تعالیٰ کی خشیت دل میں لئے ہوئے نہیں ہوتے.پس یہاں علماء کی خشیت سے مراد کچھ اور ہے.علماء کی خشیت کی یا یہ کہ عالم کون ہے اور خشیت کیا ہے؟ اس کی حقیقی تعریف کچھ اور ہے.ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے کی وجہ سے اس حقیقی تعریف کا پتہ چلا ہے.اس تعریف کو میں آپ کے الفاظ میں پیش کرتا ہوں جو آپ نے مختلف مواقع پر بیان فرمائی ہے.پہلے میرا خیال تھا کہ ایک دو حوالے لوں گا.لیکن یہاں میں نے جو چند حوالے لئے ہیں وہ سارے ہی ایسے ہیں کہ بیان کرنے ضروری ہیں.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اللہ جل شانہ سے وہ لوگ ڈرتے ہیں جو اس کی عظمت اور قدرت اور احسان اور حسن اور جمال پر علم کامل رکھتے ہیں خشیت اور اسلام در حقیقت اپنے مفہوم کے رُو سے ایک ہی چیز ہے کیونکہ کمال خشیت کا مفہوم اسلام کے مفہوم کو مستلزم ہے“.( یعنی لازمی ہے ) پس اس آیت کریمہ کے معنوں کا مال اور ماحصل یہی ہوا کہ اسلام کے حصول کا وسیلہ کا ملہ یہی علم عظمت ذات وصفات باری ہے.“ 66 آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 185)
خطبات مسرور جلد دہم 469 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 3 اگست 2012ء یعنی اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ کی صفات کا اور ذات کا علم ہو جائے وہی عالم بن جاتا ہے.پس ایک حقیقی مسلمان بننے کے لئے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اُس کی صفات کا علم ضروری ہے اور یہ بغیر خشیت کے نہیں ہو سکتا اور اس کے لئے کوئی تخصیص نہیں کہ یہ خاص گروہ حاصل کرے اور باقی نہ کریں.اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق ہر مومن کے لئے اُس کے حصول کی کوشش ضروری ہے، تبھی ایمان میں ترقی ہوتی ہے تبھی اللہ تعالیٰ کے تعلق میں ترقی ہوتی ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خشیت اور اسلام کو ایک چیز قرار دے کر ایک حقیقی مسلمان کو عالم کی صف میں کھڑا کر دیا.ساتھ ہی ہم پر ذمہ داری بھی ڈال دی کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا علم حاصل کرو اور پھر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ان صفات کا اپنی حالتوں میں اظہار بھی کرو.جب یہ صورت ہوگی پھر فضلوں کے مزید دروازے بھی کھلیں گے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”انسان کی خاصیت اکثر اور اغلب طور پر یہی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی نسبت علم کامل حاصل کرنے سے ہدایت پالیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انّما يَخشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا (فاطر:29).ہاں جو لوگ شیطانی سرشت رکھتے ہیں وہ اس قاعدہ سے باہر ہیں.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن.جلد 22 صفحہ 122) جن کی فطرت میں ہی شیطانیت گھسی ہوئی ہے وہ تو بہر حال اس سے باہر ہیں.پس جو علم پانے کا دعوی کر کے ہدایت کے راستے پر نہیں چلتا وہ عالم نہیں ہے، اُس کو بظا ہر جتنا مرضی ظاہری علم ہو.اگر کوئی کہے کہ اُس شخص نے قرآن کریم پڑھا ہے تو قرآن کریم تو بہر حال غلط نہیں ہے.اُس کو سیکھنے والے کا دعویٰ غلط ہے.اُس نے اُس روح کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی.قرآن یقیناً خشیت لئے ہوئے دل کو علم و عرفان عطافرماتا ہے لیکن متکبر اور خشیت سے خالی دل کو اور ظالموں کو سوائے خسارہ کے قرآنِ کریم کچھ نہیں دیتا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : علم سے مراد منطق یا فلسفہ نہیں ہے بلکہ حقیقی علم وہ ہے جو اللہ تعالی محض اپنے فضل سے عطا کرتا ہے.یہ علم اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ ہوتا ہے اور خشیت الہی پیدا ہوتی ہے.جیسا کہ قرآن شریف میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.انَّمَا يَخْشَى اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا (فاطر:29).اگر علم سے اللہ تعالیٰ کی خشیت میں ترقی نہیں ہوتی تو یا درکھو کہ وہ علم ترقی معرفت کا ذریعہ نہیں ہے.( ملفوظات جلد 1 صفحہ 195.ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد دہم 470 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 3 اگست 2012ء پس جن کی زبانوں سے جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا، جن کے عمل دنیاوی لالچوں سے باہر نہیں آتے.جن کی زبانیں گند کے علاوہ کچھ نہیں بولتیں.آجکل تو پاکستان میں دیکھ لیں بلکہ یہاں بھی اکثر مسجدوں میں خطبات کے دوران میں جماعت کے خلاف اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف مغلظات کے علاوہ یہ کچھ نہیں بولتے.تو کیا یہ وہ علماء ہیں جن کے دل میں اللہ تعالیٰ کی خشیت ہے؟ یقیناً اس کا جواب نہیں میں ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : یا د رکھو لغزش ہمیشہ نادان کو آتی ہے.شیطان کو جو لغزش آئی وہ علم کی وجہ سے نہیں بلکہ نادانی سے آئی.اگر وہ علم میں کمال رکھتا تو لغزش نہ آتی.قرآنِ شریف میں علم کی مذمت نہیں بلکہ إِثْمَا يَخْشَى اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا (فاطر: 29) ہے.پھر فرمایا: ” اور نیم مُلاں خطرہ ایمان مشہور مثل ہے.پس میرے مخالفوں کو علم نے ہلاک نہیں کیا بلکہ جہالت نے ( ہلاک کیا ہے ).( ملفوظات جلد 2 صفحہ 223.ایڈیشن 2003 ء.مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ فرماتے ہیں :.عالم ربانی سے یہ مراد نہیں ہوا کرتی کہ وہ صرف ونحو یا منطق میں بے مثل ہو بلکہ عالم ربانی سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور اُس کی زبان بیہودہ نہ چلے.مگر موجودہ زمانہ اس قسم کا آ گیا ہے کہ مردہ شو تک بھی اپنے آپ کو علماء کہتے ہیں ( یعنی مردے نہلانے والے جو ہیں ، وہ بھی اپنے آپ کو علماء کہتے ہیں کیونکہ برصغیر میں بعض جگہ رواج ہے کہ نہلانے کے لئے خاص لوگ تلاش کئے جاتے ہیں.ہر ایک مردہ کو نہیں نہلاتا.تو انہوں نے بھی اپنے آپ کو علماء کہنا شروع کر دیا ہے ).فرماتے ہیں اور اس لفظ کو اپنی ذات میں داخل کر لیا ہے.اس طرح پر اس لفظ کی بڑی تحقیر ہوئی ہے اور خدا تعالیٰ کے منشاء اور مقصد کے خلاف اس کا مفہوم لے لیا گیا ہے.ورنہ قرآن شریف میں تو علماء کی یہ صفت بیان کی ہے انما يخشى اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا (فاطر: 29).یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے اللہ تعالیٰ کے وہ بندے ہیں جو علماء ہیں.اب یہ دیکھنا ضروری ہوگا کہ جن لوگوں میں یہ صفات خوف و خشیت و تقویٰ اللہ کی نہ پائی جائیں وہ ہر گز ہرگز اس خطاب سے پکارے جانے کے مستحق نہیں ہیں.“ پھر فرماتے ہیں: ”اصل میں علماء عالم کی جمع ہے اور علم اُس چیز کو کہتے ہیں جویقینی اور قطعی ہو اور سچا علم قرآن شریف سے ملتا ہے.یہ نہ یونانیوں کے فلسفہ سے ملتا ہے، نہ حال کے انگلستانی فلسفے سے.بلکہ یہ سچا
خطبات مسرور جلد دہم 471 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 3 اگست 2012ء ایمانی فلسفه قرآن کریم کے طفیل سے ملتا ہے.مومن کا کمال اور معراج یہی ہے کہ وہ علماء کے درجہ پر پہنچے.(اب یہاں تخصیص نہیں کی.” مومن کا کمال اور معراج یہی ہے کہ وہ علماء کے درجے تک پہنچے اور اسے حق الیقین کا وہ مقام حاصل ہو جو علم کا انتہائی درجہ ہے.“ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 231 ایڈیشن 2003، مطبوعه ر بوه) اب ہر مومن، ہر ایمان لانے والا مسلمان ایمان میں ترقی کرتا ہے تو مومن کہلاتا ہے.ضروری نہیں کہ عالم ہونے کی ڈگری پاس ہو.فرمایا وہ علماء کے درجے پر پہنچے.وہ حق الیقین کا مقام اُسے حاصل ہو جو علم کا انتہائی درجہ ہے.لیکن جو لوگ علوم حقہ سے بہرہ ور نہیں ہیں اور معرفت اور بصیرت کی راہیں اُن پر کھلی ہوئی نہیں ہیں وہ خود عالم کہلا ئیں مگر علم کی خوبیوں اور صفات سے بالکل بے بہرہ ہیں اور وہ روشنی اور نور جو حقیقی علم سے ملتا ہے اُن میں پایا نہیں جاتا.بلکہ ایسے لوگ سراسر خسارہ اور نقصان میں ہیں.یہ اپنی آخرت دخان اور تاریکی سے بھر لیتے ہیں جن لوگوں کو سچی معرفت اور بصیرت دی جاتی ہے اور وہ علم جس کا نتیجہ خشیت اللہ ہے عطا کیا جاتا ہے وہ وہ لوگ ہیں جن کو حدیث میں انبیاء بنی اسرائیل سے تشبیہ دی (ماخوذ از ملفوظات جلد 1 صفحہ 231-232.ایڈیشن 2003ء - مطبوعہ ربوہ) گئی ہے.پس اصل عالم ایسے لوگ ہیں.آجکل کے علماء کے بارے میں تو حدیث میں آتا ہے.یعنی وہ علماء جو صرف اپنے زعم میں عالم ہیں اور عمل اُن کے کچھ نہیں ہیں.حدیث میں آیا ہے، فرمایا.عُلَمَاؤُهُمْ شَرٌّ مَنْ تَحْتَ آدِيْمِ السَّمَاءِ مِنْ عِنْدِهِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَفِيْهِمْ تَعُودُ (الجامع لشعب الايمان جزء 3 صفحه 17-3-318 فصل قال وينبغى لطالب علم أن يكون تعلمه...1763 مكتبة الرشدالسعودية2004) یعنی اُن کے علماء ( اس زمانے کے جو علماء ہیں ) آسمان کے نیچے بسنے والی بدترین مخلوق میں سے ہوں گے کیونکہ اُن میں سے ہی فتنے اُٹھیں گے اور اُن میں ہی لوٹ جائیں گے.اور آجکل آپ یہ دیکھ لیں کہ جتنے جھگڑے فساد ہیں، ان علماء کی وجہ سے ہی پیدا ہوئے ہوئے ہیں جو نام نہاد علماء ہیں.پس اس حدیث سے بھی واضح ہو گیا کہ ہر عالم یا عالم کہلانے والا ء اللہ تعالیٰ کی خشیت رکھنے والا نہیں ہے اور آجکل جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے ہم دیکھ رہے ہیں کہ فتنہ اور فساد کا باعث یہ نام نہاد علماء کی اکثریت ہی ہے جو بن رہی ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: تقویٰ اور خدا ترسی علم سے پیدا ہوتی ہے.جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انما يخشى الله مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا (فاطر : 29) یعنی اللہ تعالیٰ سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو عالم ہیں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی علم خشية الله کو پیدا کر دیتا ہے.اور خدا تعالیٰ نے علم کو تقویٰ سے وابستہ کیا ہے کہ جو شخص پورے طور پر عالم ہوگا اُس میں ضرور خشی اللہ پیدا ہوگی“.فرمایا علم سے مراد میری دانست میں
خطبات مسرور جلد دہم 472 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 3 اگست 2012ء علم القرآن ہے.اس سے فلسفہ، سائنس یا اور علوم مروجہ مراد نہیں.کیونکہ اُن کے حصول کے لئے تقویٰ اور نیکی کی شرط نہیں.بلکہ جیسے ایک فاسق فاجر اُن کو سیکھ سکتا ہے ویسے ہی ایک دیندار بھی.لیکن علم القرآن بجز حر متقی اور دیندار کے کسی دوسرے کو دیا ہی نہیں جاتا.پس اس جگہ علم سے مراد علم القرآن ہی ہے جس سے تقویٰ اور خشیت پیدا ہوتی ہے“.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : علماء کے لفظ سے دھو کہ نہیں کھانا چاہئے.عالم وہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 599.ایڈیشن 2003 ء.مطبوعہ ربوہ) إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا (فاطر: 29) یعنی بیشک جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں ، اُس کے بندوں میں سے وہی عالم ہیں.ان میں عبودیت تامہ اور خشیة اللہ اس حد تک پیدا ہوتی ہے کہ وہ خود اللہ تعالیٰ سے ایک علم اور معرفت سیکھتے ہیں اور اُسی سے فیض پاتے ہیں اور یہ مقام اور درجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع اور آپ سے پوری محبت سے ملتا ہے یہاں تک کہ انسان بالکل آپ کے رنگ میں رنگین ہو جاوے.“ پس یہ عالم کی حقیقت ہے اور یہ ہے علماء کی خشیت اللہ ہونے کا مطلب.ان اقتباسات میں جہاں حقیقی اور نام نہاد علماء کا فرق ہمیں معلوم ہو گیا وہاں ہماری توجہ بھی اس طرف پھیری گئی ہے کہ تم حقیقی تقویٰ اختیار کرو اور خَشْيَةُ الله پیدا کرو.کیونکہ ایک مومن کے لئے یہ ضروری ہے تا کہ حقیقی مومن اور مسلمان بن سکو.پس ان (اقتباسات) میں یہ ذمہ داری بھی ہم پر ڈالی گئی.پس یہ کسی مخصوص طبقہ کے ساتھ خاص نہیں ہے.تقویٰ پر چلنے کا حکم ہر مومن کو ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر چلنا ہر ایک کے لئے ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر خدا کا پیار مل ہی نہیں سکتا.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 433-434.ایڈیشن 2003ء.مطبوعہ ربوہ ) پس اس رمضان میں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی قربت کے دروازے کھول دیئے ہیں اور ایسا ماحول بھی پیدا کر دیا ہے جو تقویٰ میں ترقی کرنے کے لئے مددگار اور معاون ہے.جو اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چلنے کے لئے ہماری توجہ پھیر نے والا ہے.درس وغیرہ بھی ہوتے ہیں.حدیث کا درس بھی ہے.قرآن کا درس بھی ہوتا ہے.ہم سنتے بھی ہیں، تو ہمیں اس سے بھر پور فائدہ اُٹھانا چاہئے.قرآنِ کریم پڑھ کر سن کر علم و معرفت کے اُن راستوں کی تلاش کرنی چاہئے جو تقویٰ میں بڑھاتے ہیں، جو خَشْیہ اللہ پیدا کرتے ہیں.جو آیات میں نے شروع میں تلاوت کی ہیں، ان کے حوالے سے بھی کچھ تھوڑا سا بیان کر دوں.پہلی پانچ آیات جیسا کہ میں نے کہا سورۃ المومنون کی ہیں جن میں ایک حقیقی مسلمان کی خصوصیات کا
خطبات مسرور جلد دہم 473 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 3 اگست 2012ء ذکر کیا گیا ہے.پہلی آیت میں بتایا کہ حقیقی مومن اپنے رب کے ڈر سے کانپتے ہیں، لرزتے ہیں اور یہ وہ خشیت ہے جو ایک حقیقی مومن میں ہونی چاہئے.یعنی اللہ تعالیٰ کی عظمت ، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے، کا اقرار کرنا اور اللہ تعالیٰ کو تمام طاقتوں کا مالک سمجھ کر اُس سے لرزاں رہنا.پھر اللہ تعالیٰ کی آیات پر ایمان لانے والے ہیں.وہ حقیقی مومن ہے.وہ حقیقی مسلمان ہے.اور آیات کیا ہیں؟ اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات، تمام نشانات، تمام معجزات جو قرآنِ کریم میں بیان ہوئے ہیں.تمام آیات جو قرآنِ کریم کی ہیں.ہر حکم جو ہے یہ سب آیات ہیں.پس ان پر عمل ایک مومن کے لئے ضروری ہے.اور جب ایمان ہوگا تو کامل ایمان اُس وقت ہوتا ہے جب اُس پر عمل بھی ہو.اور یہ عمل پھر ایمان میں ترقی کا باعث بنتا ہے.خشیت اللہ میں ترقی کا باعث بنتا ہے.پھر فرمایا کہ حقیقی مسلمان اپنے رب کے ساتھ شریک نہیں ٹھہراتا.جس میں خشیت ہو، جس کو آیات پر ایمان ہو وہ شرک تو نہیں کرتا لیکن بعض دفعہ اگر بظاہر ایسا شرک نہ بھی ہو تو مخفی شرک بھی انسان سے ہو جاتے ہیں.اس لئے باریک بینی سے اپنے پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے تب ہی ایک حقیقی مسلمان بن سکتا ہے.اپنے قول و فعل کو ہرلحہ سچائی پر قائم رکھنے کی ضرورت ہے.اس لئے چوتھی بات ان آیات میں یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ خدمت دین بھی کرتے ہیں، مال بھی خرچ کرتے ہیں ، وقت بھی خرچ کرتے ہیں، احکامات پر عمل کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں پھر بھی جو حقیقی مومن ہیں ان کے دل اس بات سے اس لئے ڈرتے رہتے ہیں کہ سب کچھ تو کیا ہے، اللہ تعالیٰ پتہ نہیں قبول بھی فرماتا ہے یا نہیں.کہیں کوئی مخفی غلطی ایسی نہ ہو جائے جو خدا تعالیٰ کی رضا سے دور لے جائے.کہیں کو ئی مخفی شرک شامت اعمال کی وجہ نہ بن جائے.کہیں کسی حکم پر عمل نہ کرنا یا کمزوری دکھا نا ایمان میں کمی کا باعث نہ بن جائے.کہیں اللہ تعالیٰ کی خشیت صرف ظاہری دکھاوا ہی نہ ہو.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا کہ یا رسول اللہ ! کیا وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا أَتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ (المومنون: 61) کا مطلب یہ ہے کہ انسان جو کچھ چاہے کرے مگر خدا تعالیٰ سے ڈرتا رہے؟ تو آپ نے فرما یا : نہیں.اس کا یہ مطلب نہیں ہے.بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان نیکیاں کرے مگر اس کے ساتھ خدا تعالیٰ سے بھی ڈرتا رہے.(ماخوذ از مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحه 296-297 مسند عائشہ حدیث: 25777 مطبوعه عالم الكتب بيروت 1998ء) پس ہمیشہ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز بھی ہے.کسی نیکی کو قبول کرتا ہے اور کسی کو نہیں.
خطبات مسرور جلد و هم 474 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 3 اگست 2012ء یہ اُس کی مرضی ہے کس کو چاہے قبول کرے.کس کو چاہے نہ کرے.اس لئے ہر وقت خوف رہنا چاہئے کہ جب ہم اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوں تو ہمارے سے بخشش کا سلوک ہو.کسی نیکی پر کسی کو فخر نہیں ہونا چاہئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعاؤں میں یہ دعا بھی شامل فرماتے تھے.روایت میں آتا ہے حضرت شهر بن حوشب بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت اُم سلمہ سے پوچھا کہ اے اُم المومنین ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آپ کے ہاں ہوتے تھے تو زیادہ تر کونسی دعا کرتے تھے.اس پر حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بتایا کہ حضور علیہ السلام یہ دعا پڑھتے تھے.يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ.یعنی اے دلوں کے پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ.حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دعا پر مداومت کی ، با قاعدگی کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا.اے اُم سلمہ ! ہر انسان کا دل خدا تعالیٰ کی دوانگلیوں کے درمیان ہے وہ جسے چاہتا ہے ثابت قدم رکھتا ہے اور جسے چاہتا ہے ٹیڑھا کر دیتا ہے.(سنن الترمذى كتاب الدعوات باب 89/94 حدیث : 3522) پس آپ جو ہمیں ہدایت دینے آئے تھے ، ان کے اُسوہ پر چل کر حقیقی تقویٰ اور خشیت کا پتہ چلتا ہے، جن کی پیروی اللہ تعالیٰ کا محبوب بناتی ہے اُن کی خشیت کا یہ معیار ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے لرزاں ہیں اور ہمیں کس قدر اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو اپنی یہ حالت رکھتے ہیں وہی ہیں جو نیکیوں اور بھلائیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں.ہر طرف ہر وقت اپنی حالت پر غور ہوگا یا یہ کہ وہ ایسی حالت رکھنے والے ہیں تو پھر ہی نیکیوں اور بھلائیوں کی طرف سب کی توجہ پیدا ہوگی اور انسان کوشش کرتا رہے گا.تو پھر ان کے قدم نیکیوں کی طرف آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں.وہ کوشش یہ کرتے ہیں کہ تمام قسم کی نیکیوں کو اپنائیں.تقویٰ میں ترقی کریں لیکن اس بات پر بھی فخر نہیں.ہر حالت میں ہر وقت اُن کے دل خدا تعالیٰ کی طرف جھکے رہتے ہیں.اور یہی حالت ہے جو خدا تعالیٰ کا قرب دلواتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانوں میں سے ہم پر ایک بہت بڑا احسان یہ بھی ہے کہ دعاؤں کو مانگنے کے طریقے بھی ہمیں سکھائے.ایک دعا کا ذکر احادیث میں اس طرح ملتا ہے جو دراصل تو ہمارے لئے ہی ہے.ہم میں سے ہر ایک کو یہ دعا کرنی چاہئے.حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوں دعا کیا کرتے تھے کہ اللهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنْ قَلْبٍ لَّا يَخْشَعُ وَدُعَاءٍ لَّا يُسْمَعُ وَ مِنْ نَّفْسٍ لَّا تَشْبَعُ وَمِنْ عِلْمٍ لَّا يَنْفَعُ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَؤُلَاءِ الْأَرْبَعِ کہ اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ایسے دل سے جو خشوع نہیں کرتا.اور ایسی دعا سے جو سنی نہیں جاتی.
خطبات مسرور جلد دہم 475 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 3 اگست 2012ء اور ایسے نفس سے جو سیر نہیں ہوتا.اور ایسے علم سے جو نفع رساں نہیں ہے.میں تجھ سے ان چاروں سے پناہ چاہتا ہوں.(سنن الترمذى كتاب الدعوات باب 68 حدیث: 3482) اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم اس دعا کو سمجھنے والے بھی ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور دعا بھی پیش کرتا ہوں.یہ جو دعا ہے عاجزی اور خشية الله کی اُن بلندیوں تک پہنچی ہوئی ہے جو آپ کی خشیت کا ایک کامل نمونہ ہے.حجتہ الوداع کے موقع پر دعا کرتے ہوئے آپ نے اپنے مولیٰ کے حضور عرض کیا کہ اے اللہ ! تو میری باتوں کو سنتا ہے اور میرے حال کو دیکھتا ہے.میری پوشیدہ باتوں اور ظاہری امور سے تو خوب واقف ہے.میرا کوئی بھی معاملہ تجھ پر کچھ بھی تو مخفی نہیں.میں ایک بدحال فقیر اور محتاج ہوں.تیری مدد اور پناہ کا طالب،سہا اور ڈرا ہوا، اپنے گناہوں کا اقراری ہوں اور معترف ہو کر میں تیرے پاس آیا ہوں.میں تجھ سے ایک عاجز مسکین کی طرح سوال کرتا ہوں.تیرے حضور میں ایک ذلیل گنہ گار کی طرح زاری کرتا ہوں.ایک اندھے نابینا کی طرح خوفزدہ تجھ سے دعا کرتا ہوں.میری گردن تیرے آگے جھکی ہوئی ہے.میرے آنسو تیرے حضور بہ رہے ہیں.میرا جسم تیرا مطیع ہو کر سجدے میں گرا پڑا ہے اور ناک خاک آلودہ ہے.اے اللہ ! تو مجھے اپنے حضور دعا کرنے میں بد بخت نہ ٹھہرا دینا.میرے ساتھ مہربانی اور رحم کا سلوک فرمانا.اے وہ جو سب سے زیادہ التجاؤں کو قبول کرتا ہے اور سب سے بہتر عطا فرمانے والا ہے، میری دعا قبول کر لینا.(المعجم الكبير للطبراني جلد 11 صفحه 140 عطاء عن ابن عباس حدیث : 11405 مطبوعه داراحیاء التراث العربی) پس یہ وہ عظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے خشیۃ اللہ کا عظیم نمونہ ہر آن اپنی اُمت کے سامنے پیش فرمایا.ہر بات دیکھ لیں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل دیکھ لیں اس خشیت سے بھرا پڑا ہے.خدا تعالیٰ کے خوف سے لرزاں و ترساں ہیں.باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ کے مقرب ترین آپ ہیں.ان کے ساتھ جڑنے والوں نے بھی رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ کی خوشخبری سنی ہے.پس یہ اسوہ حسنہ ہے ور یہ خشية اللہ ہے.اگر ہم نے اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی اور اس چیز کو اپنا یا، اپنے اندر پیدا کیا تو ہم بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے بن سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اس رمضان میں اللہ تعالیٰ کی خشیت کی روح کو سمجھتے ہوئے اس کے مطابق زندگی گزارنے والے ہوں.اللہ کرے یہ رمضان ہمارے لئے روحانی انقلاب پیدا کرنے والا بن جائے.الفضل انٹر نیشنل مورخه 24 اگست تا 30 اگست 2012 جلد 19 شماره 34 صفحه 5 تا8 )
خطبات مسرور جلد دہم 476 32 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اگست 2012ء خطبه جمع سیدنا امیرالمومنین حضرت مرز اسر وراحمد خلیفة اسم الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 10 اگست 2012 ء بمطابق 10 رظہور 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح.مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: ط وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَلَى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (البقرة: 187) فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ اس آیت کا ترجمہ ہے اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً میں قریب ہوں.میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے.پس چاہیے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پائیں.رمضان المبارک کا مہینہ آیا اور دو عشرے گزر بھی گئے اور احساس بھی نہیں ہوا کہ کس تیزی سے یہ ہیں دن گزرے ہیں، یوں لگتا ہے دوڑتے ہوئے گزر گئے.اب آخری عشرہ شروع ہو رہا ہے بہت سے خطوط مجھے آتے ہیں جن میں رمضان کے حوالے سے فیض پانے کے لئے دعا کا ذکر ہوتا ہے.لوگ ملتے ہیں تو وہ ذکر کرتے ہیں.ایک مومن کو یقینا یہ فکر ہونی چاہئے کہ ہم رمضان سے زیادہ سے زیادہ فیض پانے والے بن سکیں.ایک احمدی کو اگر یہ فکر نہ ہو تو مسیح موعود اور مہدی معہود کو ماننے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے.ایک انقلاب ہی ہے جو ہمارے اندر پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے تھے.ایک ایسا انقلاب جو بندے کو خدا سے ملانے والا ہو.جو ہماری سوچوں اور فکروں کو اس طرف لے جانے والا ہو کہ ہم نے خدا تعالیٰ سے ایک تعلق پیدا کرنا ہے.جو ہمیں اس طرف توجہ دلانے والا ہو کہ ہم نے اپنے ایمانوں کو مضبوط کرتے ہوئے اُس کے اعلیٰ معیار قائم کرنے ہیں.جو ہمیں اس طرف توجہ دلانے والا ہو کہ ہم نے اپنی روحانی حالتوں میں بہتری کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی لا
خطبات مسرور جلد دہم 477 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 اگست 2012ء توجہ دینی ہے.جو ہماری توجہ ہر وقت اس طرف مبذول کروانے والا ہو کہ ہم نے اپنی حالتوں میں پاک تبدیلی پیدا کرنے کے لئے ہر وقت اپنے جائزے لینے ہیں.جو اس طرف توجہ دلائے کہ ان باتوں کے حصول کے لئے جو بیان کی گئی ہیں، ہم نے کیا طریق اور ذرائع اختیار کرنے ہیں.جب یہ باتیں ہوں گی تبھی ہم حقیقت میں اس زمانے کے امام کو ماننے کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ دینے والے کہلا سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ ہمیں وقتاً فوقتاً مختلف طریقوں سے اُن نیکیوں کے حصول کی طرف توجہ دلانے کے مواقع فراہم فرماتا رہتا ہے جو اُس نے بیان فرمائی ہیں یا چند ایک کا میں نے ذکر کیا ہے.اور رمضان المبارک ان مواقع میں سے ایک انتہائی اہم عظیم اور بابرکت موقع ہے.پس یہ یقیناً ہماری خوش قسمتی ہے کہ رمضان کے مہینے میں اپنے اندر ایک انقلاب پیدا کرنے کی ایک خواہش ہمارے اندر پیدا ہو اور پھر اس کے لئے ہم کوشش بھی کریں.لیکن ہماری کوشش اُس وقت بار آور ہو سکتی ہے، اُس وقت ہمیں فائدہ دے سکتی ہے جب اُس کے حصول کے لئے ہم وہی طریق بھی اختیار کریں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے.ہم اپنی مرضی سے اپنے بنائے ہوئے طریق سے رمضان سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی ایک خطبہ میں کہا تھا کہ روزے رکھ کر یا صرف ظاہری نمازوں پر انحصار کر کے ہم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کر سکتے.گو بیشک یہ ظاہری عمل بھی ضروری ہیں ، یہ حرکات وسکنات بھی ضروری ہیں، سحری اور افطاری کھانا بھی ضروری ہے.بیشک ان کے بغیر خدا تعالیٰ تک پہنچانہیں جاسکتا کیونکہ ان کے کرنے اور اس طرح کرنے کا حکم بھی خدا تعالیٰ نے ہی دیا ہے.بیشک یہ تمام چیزیں، ظاہری حرکات اور عمل فرائض میں داخل ہیں اور جو ان کو نہیں بجالا تا وہ خدا تعالیٰ کے حکم کی نفی کرتا ہے.یقیناً وہ لوگ غلط ہیں جو کہتے ہیں کہ ذکر اذکار کی محفلیں لگا کر یا چند ورد کر کے خدا تعالیٰ مل جاتا ہے یا بندگی کا حق ادا ہو جاتا ہے یا عبادت کا مقصد پورا ہو جاتا ہے.نہیں یہ سب کچھ کرنے کے لئے وہ عمل بہر حال کرنے ضروری ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت سے قائم فرمائے ہیں اور جن کی امت کو تلقین فرمائی کہ اس طرح کرو.لیکن ان ظاہری اعمال اور حرکات کے ساتھ اپنے دلوں کی حالت میں پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے ان کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی بھی ضرورت ہے اور اس کا بھی حکم ہے اور انتہائی ضروری حکم ہے.پس اس کے حصول کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے.اس کے حصول کے لئے ہمیں اپنے اندر ایک لگن پیدا کرنی چاہئے.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے، اس میں خدا تعالیٰ نے ہمیں اپنے پیار کے حصول کا طریق
خطبات مسرور جلد دہم 478 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اگست 2012ء بتایا ہے.اس مقام کی طرف نشاندہی فرمائی ہے جس پر پہنچ کر ایک انسان حقیقی مومن بنتا ہے اور خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنے والا بنتا ہے.رمضان کے روزوں سے فیض پانے والا بنتا ہے.اس آیت پر غور کریں تو اس میں جہاں اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے لئے پیار جھلکتا ہے اور اس حدیث کا مزید فہم حاصل ہوتا ہے جس میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص مجھ سے بالشت بھر قریب ہوتا ہے میں اُس سے گز بھر قریب ہوتا ہوں.اگر وہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے تو میں اُس سے دو ہاتھ قریب ہوتا ہوں.اور جب وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اُس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں.(صحیح بخاری کتاب التوحید باب قول الله تعالى: ويحذركم الله نفسہ.حدیث 7405) تو خدا تعالیٰ اس طرح پیار کرتا ہے اپنے بندے سے، اپنے اُن بندوں سے جو حقیقت میں بندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اُن لوگوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بندے کہلانے والے ہیں.پس جیسا کہ میں نے کہا جہاں اس آیت سے اور خاص طور پر عِبَادِی یعنی ”میرے بندے“ کے لفظ سے اللہ تعالیٰ کے جس پیار کا اظہار ہو رہا ہے، وہاں اس بات کا بھی پتہ چل رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کے سوال پر یہ جواب نہیں دے رہا کہ میں قریب ہوں.خدا تعالیٰ کی طرف چل کر جانا تو دور کی بات ہے جو ایک بالشت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنا نہیں چاہتا، وہ لوگ عبادی کے زمرہ میں نہیں آتے.اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مخاطب کر کے یہ نہیں کہا یا بشر کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ اُس عبد کو مخاطب کیا ہے جو عبد بننے کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ رکھتا ہے اور اس کے لئے کوشش کر رہا ہے.اور عبد بننے کا حق کس طرح ادا ہوتا ہے؟ اُس کے لئے ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی طرف توجہ کرنی ہو گی جس میں ہمیں اپنے مقصد پیدائش کو سامنے رکھنے کی اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے وہ ہیں جو اپنے مقصد پیدائش کو پہچاننے والے ہیں اور پھر صرف پہچاننے والے ہی نہیں بلکہ اُس کے حصول کے لئے دن رات کوشش کرنے والے ہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے وہ ہیں جو اس طرف توجہ کریں جس کے بارے میں ارشاد ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: 57) اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں.پس اللہ تعالیٰ کا عباد بننے کا معیار اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرتے چلے جانے کو رکھا ہے.اور یہ نہیں فرمایا کہ اب سے مقصد پیدائش کو صرف
خطبات مسرور جلد دہم 479 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اگست 2012ء رمضان میں یادرکھنا اور عام دنوں میں بیشک اس طرف توجہ نہ ہو.فرمایا یہ مقصد پیدائش تو اللہ تعالیٰ کے حقیقی عبد کو ہر وقت سامنے رکھنا چاہئے یا اُس شخص کو سامنے رکھنا چاہئے جوحقیقی عبد بنا چاہتا ہے.روزوں کی برکات سے جب روحانیت میں مزید ترقی ہو رہی ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے قرب کی تلاش پہلے سے بڑھ کر کرنے کی کوشش ہو رہی ہے تو پھر میرے بارے میں پوچھنے والوں کو بتا دو کہ میں رمضان میں اور بھی قریب آ گیا ہوں جیسا کہ پہلے بھی میں نے حدیث کا ذکر کیا تھا کہ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں.(صحیح بخاری کتاب الصوم باب هل يقال رمضان او شهر رمضان......حديث 1898) اور اللہ فرماتا ہے کہ جو لوگ پہلے توجہ کرنے والے ہیں کہ میرا عبد بنیں اُن کو بتا دو کہ ان دنوں میں خاص طور پر میں بندوں کے قریب ہوں.پس اللہ تعالیٰ جو اپنے بندوں کے قریب ہے بلکہ ہمیشہ ہی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، عام دنوں میں بھی حق بندگی ادا کرنے کی کوشش کرنے والوں کیلئے اُن کے لئے جو رات کو تہجد کی نمازوں کے لئے جاگتے ہیں، اللہ تعالیٰ نچلے آسمان پر آ جاتا ہے.(صحیح بخاری کتاب التجهد باب الدعاء والصلاة من أخر الليل حديث (1145) رمضان میں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور شفقت اور بھی بڑھ جاتی ہے.پس خوش قسمت ہوں گے وہ جو اس سے بھر پور فائدہ اُٹھا ئیں اور یہ عہد کریں کہ رمضان میں خدا تعالیٰ کا عبد بننے کی جو کوشش کی ہے یا کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کی قربت کے نظارے دیکھنے کے لئے اپنی کوشش کی ہے یا ان دنوں میں دیکھتے ہیں، روزوں کی وجہ سے ان میں صبح کے نوافل کی طرف بھی توجہ پیدا ہوئی ہے، تہجد پڑھنے کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے، نمازوں میں جو باقاعدگی کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے، قرآنِ کریم پڑھنے اور سمجھنے کی طرف جو توجہ پیدا ہوئی ہے، درسوں میں بیٹھنے اور درس سننے کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے اُسے جاری رکھیں تو اللہ تعالیٰ جو اپنے بندوں کے دلوں کا حال جانتا ہے، اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ میرے ان بندوں سے کہہ دو کہ اس عہد کے ساتھ مانگو کہ حق بندگی ادا کرنے کی اس کوشش کو جاری رکھو گے تو میں نہ صرف رمضان میں بلکہ ہمیشہ تمہارے قریب ہوں اور رہوں گا.اگر تم صرف عارضی طور پر اس مقصد کی طرف توجہ کر رہے ہو تو تمہاری زندگی بے فائدہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: خدا تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کی معرفت اور قرب حاصل کرے.مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات : 57) فرماتے ہیں کہ ” جو اس اصل غرض کو مدنظر
خطبات مسرور جلد دہم 480 خطبه جمعه فرموده مورخہ 10 اگست 2012 ء نہیں رکھتا اور رات دن دنیا کے حصول کی فکر میں ڈوبا ہوا ہے کہ فلاں زمین خریدلوں، فلاں مکان بنالوں، فلاں جائیداد پر قبضہ ہو جاوے.تو ایسے شخص سے سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کچھ دن مہلت دے کر واپس بلالے اور کیا سلوک کیا جاوے.“ فرماتے ہیں : ” انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کا ایک درد ہونا چاہیے جس کی وجہ سے اس کے نزدیک وہ ایک قابل قدر شئے ہو جاوے گا.اگر یہ در داس کے دل میں نہیں ہے اور صرف دنیا اور اس کے مافیہا کا ہی درد ہے تو آخر تھوڑی سی مہلت پا کر وہ ہلاک ہو جائے گا.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 222.ایڈیشن 2003 ء.مطبوعہ ربوہ ) اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ دنیا کے کام نہیں کرنے چاہئیں.ایک جگہ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جس کی زمین ہے، اُس پر وہ محنت نہیں کرتا، جس کا کاروبار ہے اس پر وہ محنت نہیں کرتا تو وہ بھی اُس کا حق ادا نہیں کر رہا.اس لئے جود نیاوی کاروبار ہیں، دنیاوی کام ہیں وہ بھی ساتھ ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ بھی رہے اور اس مقصد پیدائش کو کبھی نہ بھولے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کیلئے رکھا ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد پنجم صفحه 550.ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) فرمایا: اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کیلئے ایک درد ہونا چاہئے.پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اپنے مقصد پیدائش کو جاننے کے لئے اللہ تعالیٰ کی معرفت اور قرب حاصل کرنا ضروری ہے اور اس طرف کوشش کرنی چاہئے لیکن یہ قرب اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب اُس کے حصول کا درد انسان میں پیدا ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! جو اس درد کے حصول کی کوشش رکھتے ہو، تمہاری خواہش تب خواہش سے نکل کر عمل کا روپ دھارے گی جب تمہارا ایمان ترقی کی منازل طے کرتا چلا جائے گا.اس میں ترقی ہوتی چلی جائے گی.جب تم میری ہر بات پر لبیک کہنے والے بنو گے یا کم از کم نیک نیتی سے اس کے لئے کوشش کرو گے.عبد بننے کے لئے عبادات کے ساتھ باقی احکامات پر عمل کرنا بھی ضروری ہے.انسان کمزور ہے، بشری تقاضے کے تحت اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے لیکن اس اونچ نیچ کا احساس فوری طور پر پیدا بھی ہونا چاہئے.کسی ایک عمل میں کمزوری کا احساس ہوتے ہوئے اُس کے مداوے کی پھر کوشش بھی کرنی چاہئے.تو بہ استغفار کی طرف توجہ کرتے ہوئے فوری ان کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش بھی ہونی چاہئے.یہ نہیں کہ ٹھیک ہے اس رمضان میں نیکیوں کے کرنے کی طرف توجہ کر لو پھر سارا سال دنیا کے حصول کی ہی فکر ر ہے.
خطبات مسرور جلد دہم 481 خطبه جمعه فرموده مورخه 10 اگست 2012 ء انسان دنیاوی کاموں میں پڑا رہے اور اپنے مقصد پیدائش کو بھول جائے اور سمجھے کہ آئندہ رمضان آئے گا تو پھر عبد بننے کی کوشش کر لیں گے.پھر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ کر لیں گے.اللہ تعالیٰ نے روزوں کے ساتھ اس حکم کو رکھا ہے کہ میری باتوں پر لبیک کہو اور اپنے ایمانوں کو مضبوط کرو تو ٹھیک ہے.یہ نہیں کہ جب اگلا رمضان آئے گا تو پھر ہم کوشش کر لیں گے.اگر اس بات پر توجہ رکھو گے کہ اگلے رمضان کے آنے تک ہم نے اس رمضان کی نیکیوں کو جاری رکھنا ہے تو تبھی فائدہ ہوگا.ورنہ اس کا کوئی فائدہ نہیں کہ اس رمضان میں نیکیاں کر لیں اور بس.پھر جب اگلا رمضان آئے گا تو پھر کر لیں گے.اگر یہ ہماری سوچ ہوگی تو ہم نے اپنے مقصد کو پانے کی کوشش نہیں کی، اُن نیک لوگوں کے زمرہ میں شامل نہیں ہوئے جنہیں اللہ تعالیٰ نے عِبَادِئ کہہ کر مخاطب کیا ہے.پس عبد بننے کا عمل چند دن یا ایک مہینے کا عمل نہیں ہے.عبد بننے کے لئے مسلسل کوشش کی ضرورت ہے اور رمضان میں کیونکہ ایک مومن بندے کی اس طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے اس لئے خاص طور پر روزوں کے ساتھ اس طرف توجہ دلائی کہ جب اپنی اصلاح کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے تو اس میں ترقی ہوتی رہنی چاہئے.اور یہ ترقی کس طرح ہو گی ، اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد انسان کس طرح بنے گا؟ اپنے مقصد پیدائش کو کس کس طرح حاصل کرنے کی کوشش کرے گا؟ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبْغَةٌ وَنَحْنُ لَهُ عَبدُونَ (البقرة: 139) کہ اللہ کا رنگ پکڑو اور رنگ میں اللہ سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے اور ہم اُسی کی عبادت کرنے والے ہیں.پس مقصد پیدائش کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کا رنگ پکڑنے ،اُس کی صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے تبھی انسان حقیقی عبد بن سکتا ہے.دنیا وی رشتوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ پیار کا یہ رشتہ تو ایک طرف رہا، خونی رشتے تو ایک طرف رہے، آقا اور غلام کے رشتوں میں بھی غلام اپنے آقا کی پسند اور ناپسند کو اپنے اوپر طاری کر لیتا ہے یا اس کی کوشش کرتا ہے.ان رشتوں میں تو بعض دفعہ دکھاوا اور جھوٹ بھی شامل ہو جاتا ہے اور فائدہ بھی یقینی نہیں ہوتا.جیسا کہ مختلف قصے آتے ہیں ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک بادشاہ کا درباری تھا، بادشاہ کو کہیں سے بینگن تحفہ آئے اور اُس کی بڑی تعریف ہوئی تو اس نے روزانہ وہی کھانے شروع کر دیئے.درباری نے بے تحاشہ اُس کی تعریفیں کیں، اتنی زیادہ مبالغہ آمیز تعریفیں کہ حد کر دی.آخر بادشاہ نے ہر کھانے پر جب اُسے کھانا شروع کیا تو بیمار ہو گیا.اُس بادشاہ نے جب اس کی بد تعریفی کی تو اُسی درباری نے اُس کی بد تعریفیں شروع کر دیں.تو بادشاہ نے پوچھا پہلے تم
خطبات مسرور جلد دہم 482 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 اگست 2012ء تعریف کر رہے تھے اب تم بد تعریفیں کر رہے ہو.اس نے کہا جی حضور میں تو آپ کا غلام ہوں ، ان بینگنوں کا غلام تو نہیں.تو یہ رنگ نہیں چڑھتا.اُس نے تو اپنے پر وہ رنگ چڑھانے کی کوشش کی تھی کہ جو مالک کہہ رہا ہے میں بھی وہ کہتا جاؤں لیکن اللہ تعالیٰ کا رنگ ایسا ہے جو انسان جب چڑھاتا ہے تو اپنی دنیا و عاقبت سنوار لیتا ہے.خدا تعالیٰ جوزمین و آسمان کا مالک ہے، اُس کے رنگ میں رنگین ہونے والا تو اپنی دنیاو عاقبت سنوار رہا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنا کر ایک بندہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے.یہی رنگ ہے جو مومن اپنے اوپر چڑھاتا ہے تو اپنی پیدائش کے حقیقی مقصد کو حاصل کر لیتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کا عبد بننے کے لئے اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کی بھی ایک مومن کو کوشش کرنی چاہئے.اُن چیزوں کو کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ، وہ اعمال بجالانے کی کوشش کرنی چاہئے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں.اُن باتوں سے رکنا چاہئے جو اللہ تعالیٰ کو نا پسند ہیں.تبھی صحیح رنگ میں انسان اللہ تعالیٰ کا عبد بن سکتا ہے.جب اللہ تعالیٰ نے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ کا رنگ اختیار کرنے کی کوشش کرو، اُس کی صفات کا مظہر بننے کی کوشش کرو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت انسان کو عطا فرمائی ہے کہ وہ یہ صفات اپنا سکے.اور پھر اپنے دائرہ کے اندر ان صفات کا اظہار بھی کر سکے.انسان اپنے دائرہ میں مالکیت کا رنگ بھی اختیار کرسکتا ہے، رحمانیت کا رنگ بھی اختیار کر سکتا ہے، رحیمیت کا رنگ بھی اختیار کرسکتا ہے، ربوبیت کا رنگ بھی اختیار کر سکتا ہے، ستار ہونے کا رنگ بھی اختیار کر سکتا ہے، وہاب ہونے کا رنگ بھی اختیار کر سکتا ہے بلکہ ایک عام انسان کی زندگی میں بسا اوقات ان باتوں کے اظہار ہو بھی رہے ہوتے ہیں.بہت سے لوگ ہیں جوان صفات کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں لیکن اس نیت سے نہیں کہ خدا کے رنگ میں رنگین ہوں لیکن ایک حقیقی مومن جو ہے، وہ مومن جو خدا تعالیٰ کی رضا اور اُس کے پیار کو چاہتا ہے، اُس کی نشانی یہ ہے کہ ان صفات کا اظہار اس لئے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے کے لئے ان صفات کا اظہار ضروری ہے.اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے ان صفات کا اظہار ضروری ہے.انسانیت کو برائیوں سے بچانے کے لئے ان صفات کا اظہار ضروری ہے.اپنے مقصد پیدائش کے حصول کے لئے ان صفات کا اظہار ضروری ہے.تو یہ رنگ اپنا نا اور ان کا اظہار کرنا پھر ثواب بن جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے والا بن جاتا ہے.یہ حکم دینے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ کا رنگ اختیار کرو، فرمایا کہ اے مومنو! اے میرے بندو! یہ اعلان بھی کرو کہ وَنَحْنُ له عبدُونَ (البقرة: 139) کہ ہم اُس کی عبادت کرنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ کی صفات
خطبات مسرور جلد دہم 483 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اگست 2012ء کو اختیار کرنا اور اُس کا رنگ پکڑنا اس لئے ہے کہ ہم اُس کے عبد ہیں اور ہمیں اُس کی رضا چاہئے.ہمیں اُس کی بندگی سب سے زیادہ قیمتی ہے اور اُس کی عبادت کرنے والے ہیں.اُس کے حکموں کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے والے ہیں اور گزارنا چاہتے ہیں.پس ہم نے یہ زندگی صرف ایک ماہ اُس کے حکم کے مطابق نہیں گزارنی بلکہ ہماری زندگی کا ہر لمحہ اُس کے حکموں کے مطابق گزرے گا.پس اس بات پر ہمیں غور کرنا چاہئے کہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں لاتے ہوئے ہم نے اس رمضان سے گزرنا ہے انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ کی صفات پر غور کرتے ہوئے ہم نے اس رمضان میں سے گزرنا ہے.اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنی زندگیوں پر لاگو کرتے ہوئے ہم نے اس رمضان میں سے گزرنا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ہم نے اس رمضان میں سے گزرنا ہے اور پھر اس سارے عمل کو اگلے رمضان سے ملانے کا عہد کرتے ہوئے اُس کی کوشش کرنی ہے.جب یہ سب کچھ ہو گا تو فاتح قريب (البقرة: 187) کی خوشخبری بھی ہم سننے والے بن سکیں گے.اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (البقرة: 187) کہ میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں کو بھی ہم مشاہدہ کر سکیں گے.پس اس مقام کے حصول کے لئے ہمیں کوشش بھی کرنی چاہئے اور دعا بھی کرنی چاہئے.ہماری دعاؤں کا محور صرف ہماری اپنی دنیاوی خواہشات نہ ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے اوپر لاگو کرتے ہوئے حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ ہو ، ان نیکیوں کے کرنے کی طرف بھی توجہ ہو جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر کہ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي (البقرة:187) کہ وہ میری بات پر لبیک کہیں ، ایک مومن کی توجہ اپنے احکامات کی طرف بھی مبذول کروائی ہے.اس بات کی تاکید فرمائی کہ ایک مومن کو اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہئے تبھی وہ کامل مؤمن ہوسکتا ہے.اس وقت میں اس حوالے سے بھی کچھ کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ کی باتوں پر لبیک کہنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے جو اخلاقی ذمہ داریاں اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی ذمہ داریاں ڈالی ہیں، وہ کیا ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مثلاً کہ جو مومن ہیں تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (آل عمران:111) کہ اللہ تعالیٰ کے حقیقی بندے وہ ہیں جو نیکیوں کا حکم دینے والے ہیں اور برائیوں سے روکنے والے ہیں.اور ظاہر ہے اس پر حقیقی رنگ میں عمل کرنے والے وہی لوگ ہوں گے اور ہونے چاہئیں جو خود بھی نیکیوں پر عمل کرنے والے اور برائیوں سے بچنے والے ہوں.پس جب ایک حقیقی مومن بننے کی کوشش ہو گی تو اپنے
خطبات مسرور جلد دہم 484 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اگست 2012ء محاسبہ کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی اور حقیقت یہی ہے کہ اپنے محاسبے کی طرف نظر ہی خدا تعالیٰ کی صفات کو اپنانے اور اُس کے اظہار کی طرف متوجہ بھی رکھتی ہے.پس ایک بہت بڑی ذمہ داری مومنوں پر ڈالی گئی ہے کہ تم نے یہ کام کرنے ہیں.رمضان میں جب دلوں میں عام دنوں کی نسبت زیادہ خشیت ہوتی ہے اور انسان بعض اوقات اپنے جائزے بھی لیتا ہے تو جب وہ اس طرف توجہ کرے کہ خدا تعالیٰ نے ایک مسلمان کا، ایک حقیقی مومن کا ، اُس شخص کا جو اللہ تعالیٰ سے اُس کا عبد بننے کی دعا مانگتا ہے، کیا معیار مقرر کیا ہے تو پھر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی طرف توجہ رہے گی.اُسے ہمیشہ خدا تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی سامنے رکھنا چاہئے کہ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ (الصف: 4) کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک اس بات کا دعویٰ کرنا اور ایسی بات کہنا جو تم کرتے نہیں ، بہت بڑا گناہ ہے.پس ان دنوں میں ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور خاص طور پر ہر سطح کے ذیلی تنظیموں کے بھی اور مرکزی عہدیداروں کو بھی میں کہتا ہوں کہ اپنے جائزے لیں.واقفین زندگی کو بھی اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور عمومی طور پر ہر احمدی کو تو ہے ہی کہ جب ہم نصیحت کرتے ہیں تو خود ہماری اپنی زندگیوں پر بھی اُن کے اثرات ظاہر ہوں.اگر ایک عام مسلمان کا یہ فرض ہے، ایک عام مومن کا یہ فرض ہے اور وہ اس کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے کہ نیکیوں کو پھیلائے اور برائیوں کو روکے تو جولوگ اس کام کے لئے مقرر ہیں اُن کا تو سب سے زیادہ فرض بنتا ہے اور یہ فرض پورا بھی اُس وقت ہو گا جب ہماری اپنی نیتیں بھی صاف اور پاک ہوں گی.جب خود ہر حکم پر عمل کرنے کی بھر پور کوشش ہوگی.اگر عہد یداروں کے عبادتوں کے معیار بھی صرف رمضان میں بہتر ہوئے ہیں اور عام دنوں میں نہیں تو وہ بھی قول وفعل میں تضا در رکھتے ہیں اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے.میں اکثر مختلف میٹنگوں میں عہد یداران کو یہ توجہ دلاتا ہوں کہ اگر ہر سطح پر اور ہر تنظیم کے عہدیدار اپنی عبادتوں کے معیار کو ہی بہتر کر لیں اور مسجدوں کو آباد کرنا شروع کر دیں تو مسجدوں کی جو آبادی ہے وہ موجودہ حاضری سے دو تین گنا بڑھ سکتی ہے.پس اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے باقی احکامات ہیں.اُن کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تو اس سے بہت سے مسائل خود بخو دل ہو جاتے ہیں.پھر اسی طرح جیسا کہ میں نے کہا دوسرے احکام ہیں ان پر عمل ضروری ہے.قرآن کریم کا ایک حکم یہ بھی ہے کہ انصاف کو اس طرح قائم کرو کہ اپنے خلاف بھی گواہی دینی پڑے یا اپنے پیاروں والدین
خطبات مسرور جلد دہم 485 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اگست 2012ء اور قریبیوں کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے تو دو.اگر جائزے لیں تو ہم میں عموماً وہ معیار نظر نہیں آتے.پس ایک طرف تو ہم دعاؤں کی قبولیت کے نشان مانگتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے بندوں میں شامل ہونے کی خواہش رکھتے ہیں اور پھر گواہی کے وقت راستے تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس طرح اپنے قریبیوں کو مجرم ہونے سے بچالیں.بلکہ بعض دفعہ کوشش ہوتی ہے کہ ہم اور ہمارے قریبی بچ جائیں اور دوسرے کو کسی طرح ملزم بنا دیا جائے.بعض دفعہ عہدیداروں کے متعلق یہ شکایات بھی آ جاتی ہیں، مجھے لکھنے والے لکھتے ہیں کہ آپ نے توجہ دلائی ہے کہ جماعت میں فلاں فلاں عہدیدار کے متعلق یہ شکایت ہے یا بعض دفعہ جلسوں وغیرہ میں بعض کمزوریوں کی طرف نشاندہی کی جاتی ہے تو بجائے اس کے کہ وہ عہد یدار یا متعلقہ شعبہ جو ہے یا مجموعی طور پر جس کو بھی کہا جائے اپنی اصلاح کرے، اس بات کی تحقیق شروع کر دیتے ہیں کہ یہ شکایت کس نے کی ہے؟ حالانکہ اُن کا یہ کوئی مقصد نہیں ہے.تمہیں تو چاہئے تھا کہ اس پر غور نہ کرو کہ شکایت کس نے کی ہے؟ تمہارا اس سے کوئی کام نہیں.اگر یہ کمزوری ہے تو دور کرو اور اگر نہیں ہے تو پھر بھی استغفار کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ناکردہ گناہوں کی سزا سے بھی بچائے اور پھر جو صحیح رپورٹ ہے وہ دے دی جائے کہ اصل حقیقت اس طرح ہے.باقی یہ میرا کام ہے کہ شکایت کرنے والے کو کس طرح جواب دینا ہے یا جواب دوں کہ نہ دوں؟ اگر بغیر نام کے کوئی شکایت کرتا ہے تو وہ تو ویسے بھی قابل توجہ نہیں ہوتی.اُس کی جماعت میں کوئی پذیرائی نہیں ہوتی.بہر حال یہ بات عہد یداروں سے اپنے عہدوں اور اپنی امانتوں کے پورا کرنے کا تقاضا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے سپر د جو یہ کام کیا ہے اُس کو صحیح طرح نبھا ئیں اور اسی طرح سچی گواہی کا تقاضا ہے کہ وہ اصلاح کی طرف توجہ دیا کرے، نہ کہ شکایت کنندہ کی تلاش کرنے کی طرف.اگر شکایت کرنے والے کا نام میں نے بتانا ہوگا تو خود ہی بتا دوں گا اور اکثر بتا بھی دیا کرتا ہوں.لیکن یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس صورت میں پھر بعض دفعہ شکایت کرنے والے پر زمین تنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ بھی تقویٰ سے دور بات ہے.یہ پھر امانتوں اور عہدوں کی صحیح ادا ئیگی نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کی ہدایات پر ، احکامات پر صحیح عمل نہیں ہے.پس اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنا ہے تو ہر معاملے میں، ہر سطح پر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق چلانے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے.صرف عہدیداروں تک ہی میری بات محدود نہیں ہے ہر احمدی کو اس بات کی طرف توجہ دینی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا عبد بننے کے لئے ہم تمام احکامات کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش کریں.اپنے ایمان کو کامل کرنے کی کوشش کریں.اپنے اندر عاجزی پیدا کریں.اپنے اندر کے فخر اور تکبر
خطبات مسرور جلد دہم 486 خطبه جمعه فرموده مورخہ 10 اگست 2012 ء کے بتوں کو توڑ دیں.سچائی کے اعلیٰ معیار قائم کریں.عفو اور درگزر کی عادت ڈالیں.غیبت اور چغلی سے بچیں.امانتوں کے حق ادا کرنے کی کوشش کریں.عدل کو قائم کریں اور نہ صرف عدل کو قائم کریں بلکہ اُس سے بڑھ کر احسان کریں اور پھر اِیتَاءِ ذِي الْقُرْبى (النحل : 91) کا سلوک کریں.بغیر کسی انعام کے خدمت کا جذ بہ ہو.اپنے ماحول میں اپنے ملنے والوں سے، اپنے ہمسایوں سے حسن سلوک کریں کہ یہ بھی اسلام کی ایک بہت اہم تعلیم ہے.قرآنِ کریم کی بہت اہم تعلیم ہے.ہمسایوں کی جو تعریف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہے اور جس طرح ہمسائیگی کے حق کو آپ نے وسعت دی ہے اگر ہم اُس طرح اس کو وسعت دیں تو ہماری آپس کی رنجشیں جو ہیں بالکل ختم ہو جا ئیں.ایک گھر نہیں، سو گھر نہیں اگلے شہر تک، ملک تک یہ وسعت پھیلتی چلی جاتی ہے اور اس سے پھر ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہو جائے گی.عیب چینی سے بچنے لگ جائیں گے.غیبت کی عادت ختم ہو جائے گی کیونکہ یہ بھی اتنی بڑی برائی ہے کہ اس کو مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے اللہ تعالیٰ نے تشبیہ دی ہے.پس یہ غیبت کس قدر کراہت والی چیز ہے.لیکن ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو بغیر سوچے سمجھے غیبت کرتے چلے جاتے ہیں اور پھر توجہ دلانے پر کہتے ہیں کہ یہ چیزیں تو اس میں پائی جاتی ہیں.بعض مجلسوں میں گھروں میں بیٹھ کر عہدیداروں کے بارے میں باتیں کی جاتی ہیں، اُن کی برائیاں ظاہر کی جاتی ہیں.یہ چیزیں بھی غلط ہیں.یہ غیبت شمار ہوتی ہے اور کہا یہ جاتا ہے یہ برائیاں اُن میں موجود ہیں.ہم جھوٹ تو نہیں کہہ رہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تمہارے بھائی میں اگر یہ برائیاں ہیں اور تم اُس کی پیٹھ پیچھے اُن کا ذکر کرتے ہو تو یہی غیبت ہے.اگر برائیاں نہیں ہیں اور پھر بھی تم ذکر کر رہے ہو تو پھر تو یہ بہتان ہے.سنن ترمذی کتاب البر والصلة باب ما جاء في الغيبة- حدیث (1934) پس ان برائیوں سے بچنا بھی ہمارا فرض ہے.نیکیوں کو اختیار کرنا ہمارا فرض ہے.تبھی ہم اُن لوگوں میں شمار ہو سکتے ہیں جو نیکیوں کی تلقین کرنے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہیں.پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی باتوں پر لبیک کہنا اُس وقت حقیقی ہوگا جب ہم تمام قسم کے احکامات کو اپنے اوپر لاگو کریں گے.سب سے پہلے اپنی اصلاح کریں گے اور پھر دنیا کی اصلاح کریں گے جو ہمارا کام ہے تبھی ہم وَلْيُؤْمِنُوا بی کہ مجھ پر ایمان لاؤ کے مصداق بنیں گے، ورنہ ہمارا ایمان کامل نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي کے بعد يُؤْمِنُوا ہی کہہ کر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرو اور ہر قسم کے اعلیٰ اخلاق ہی ایمان میں کامل کریں گے.اور عبدیت
خطبات مسرور جلد دہم 487 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اگست 2012ء میں طاق کریں گے.پس ہمیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی بھی پوری کوشش کریں.اس رمضان کے ان آخری دنوں میں یہ عہد کریں کہ ہم نے اپنی روحانی اور اخلاقی حالتوں کو اعلیٰ معیار تک پہنچانے کی کوشش کرنی ہے اور پھر اس پر قائم بھی رہنا ہے، انشاء اللہ.جن برکتوں کو اس رمضان میں ہم نے مشاہدہ کیا ہے اُن کو ہمیشہ قائم رکھنے کے لئے کوشش کرنی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کی کوشش کرنی ہے اور کرتے چلے جانا ہے.اس بابرکت مہینے میں اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق حقیقی عبد بننے کی کوشش کرنی ہے.جو چند دن بقایارہ گئے ہیں اُس میں بھر پور کوشش کی جائے اور پھر قرب الہی کی اس.کوشش کو رمضان کے بعد بھی انشاء اللہ تعالیٰ جاری رکھنا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 31 اگست تا 6 ستمبر 2012 جلد 19 شماره 35 صفحه 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد دہم 488 33 خطبه جمعه فرموده مورخه 17 اگست 2012 ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرز اسر وراحمد خلیفة اسم الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 17 اگست 2012 ء بمطابق 17 ظہور 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: لَقَد كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيرًا (الاحزاب (22) ط قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ * وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (آل عمران: 32) ان آیات کا ترجمہ یہ ہے.پہلی آیت سورۃ احزاب کی ہے کہ یقیناً تمہارے لئے اللہ کے رسول میں نیک نمونہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتا ہے.دوسری آیت آل عمران کی ہے.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ تو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو.اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا.اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلوں، احسانوں اور انعاموں کا وارث بننے کے لئے ہمیں بتایا کہ میرا عبد بنو.میرے وہ بندے بنو جو میرے حکموں پر چلتے ہیں.گزشتہ خطبہ میں یہی ذکر ہورہا تھا کہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر چلنا ایک انسان کو حقیقی عبدیت کے زمرہ میں شامل کرتا ہے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے بیشمار احکام اتارے ہیں جن پر چلنے کی انسان کو کوشش کرنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا في (البقرة: 187) ( کہ پس چاہئے کہ وہ میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں) کا مصداق بن کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث ایک مومن بن سکے.اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بنے.اللہ تعالیٰ کی
خطبات مسرور جلد دہم 489 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اگست 2012ء خوشنودی حاصل کرنے والا ہو.دعاؤں کی قبولیت کے نظارے دیکھنے والا ہو.اللہ تعالیٰ کے ارشادات، احکامات تو قرآن کریم میں ہیں جن کو پڑھتے ہیں، سنتے ہیں لیکن انسان کی فطرت اللہ تعالیٰ نے ایسی رکھی ہے کہ وہ عملی نمونوں سے عموماً پڑھنے اور سننے کی نسبت زیادہ متاثر ہوتا ہے.ایک شوق اور لگن اُس میں پیدا ہوتی ہے.اور جب کسی سے محبت کا دعوئی ہو تو محبوب کی ہرادا اور ہر عمل کو ایک انسان خود بھی اپنانے کی کوشش کرتا ہے اور عمل کا رنگ پھر کچھ اور ہی ہو جاتا ہے.لیکن جب محبت کا اظہار اور اس محبت کی وجہ سے محبوب کو اپنے لئے نمونہ بنانا ایمان بھی شمار ہونے لگ جائے تو پھر ایک مومن کی اس سے بڑھ کر کوئی خواہش نہیں ہوتی اور نہیں ہونی چاہئے کہ وہ محبوب کی خوشی کے ساتھ اپنے ایمان کو بھی سلامت رکھے اور اس میں ترقی کرے.ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے بنایا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان تمام احکامات کا جو قرآن کریم کی صورت میں آپ پر اترے ہیں ایک عملی نمونہ بنا دیا، ایک ایسا عملی نمونہ جو کامل تھا، جس نے آپ کو عبد کامل بنا دیا.یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں اسی بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے بلکہ حکم دیا گیا ہے کہ ایک مسلمان کا ، ایک ایمان لانے کا، دعوئی کرنے والے کا ایمان اُس وقت مکمل ہو گا، وہ تب خدا تعالیٰ کا قرب پاسکے گا جب میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلے گا.اس کے بغیر ایمان ادھورا ہے.اُس اُسوہ پر چلے بغیر آخرت کی نعماء کی امید فضول ہے.اُس اُسوہ پر چلے بغیر نیکی، نیکی نہیں کہلا سکتی.اس اسوہ پر چلے بغیر اللہ تعالیٰ کی عبادت ،عبادت نہیں ہے.اس اُسوہ پر چلے بغیر اللہ تعالیٰ کی یاد اور اُس کا ذکر وہ مقام نہیں دلا سکتا جواللہ تعالیٰ کا قرب دلائے.اس اُسوہ پر چلے بغیر گناہوں سے نجات ممکن نہیں ہے.اس اُسوہ پر چلے بغیر تم اللہ تعالیٰ کی رحیمیت سے وہ حصہ نہیں پاسکتے جس کے لئے تم اللہ تعالیٰ کو پکار رہے ہو.اُس اُسوہ پر چلے بغیر اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے والے نہیں بن سکتے کہ یہ خدا تعالیٰ کا محبوب ترین بندہ ہے.اگر اُس کی پیروی نہیں کی تو اللہ تعالیٰ کی محبت بھی نہیں ملے گی.پس جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم مسلمان ہیں لیکن آپ کی اُمت میں سے ہونے اور مسلمان ہونے کے فیض ہم تبھی اُٹھا سکتے ہیں جب ہم آپ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں.جب ہم اُن احکامات کو اپنے اوپر لاگو کرتے ہوئے اس طرح بجا لانے کی کوشش کریں جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کر کے دکھایا.الْاِمَامُ جُنَّةٌ.(صحيح البخارى كتاب الجهاد والسير باب يقاتل من وراء الامام ويتقى به حدیث 2957)
خطبات مسرور جلد دہم 490 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اگست 2012ء کہہ کر ہمیں اس آیت کی یاددہانی کروادی کہ میرے نمونے تمہیں شیطان سے بچا کر حقیقی عبد بنا سکتے ہیں نہ کہ تمہاری کوششیں.میری ڈھال کے پیچھے رہو تو شیطان سے بچے رہو گے.عبادت کا سوال ہے تو یہ نہ سمجھو کہ ایسے عمل کر کے جو میں نے نہیں کئے تم عبادت کا حق ادا کر سکو گے یا اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرسکو گے نہیں، یہ نہیں ہو سکتا.اس زمانے میں ہم پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا احسان ہے جو آپ کے عاشق صادق ہیں کہ ہمیں آپ کے حقیقی اُسوہ اور اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی طرف رہنمائی فرمائی ہے.عبادتوں کے لئے جو نئے نئے ذکر اور محفلیں منعقد کرنے کی بدعات رواج پا گئی ہیں آپ نے فرمایا کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے ثابت نہیں ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ کا قرب کبھی نہیں دلا (ماخوذ از ملفوظات جلد 3 صفحہ 162.ایڈیشن 2003 ء.مطبوعہ ربوہ ) ہیں.پس قرب کے حصول کے لئے اسوہ پر عمل کرنا ضروری ہے.اس وقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کی، آپ کے عملی نمونے کی چند مثالیں پیش کروں گا.لیکن اس سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات اور دوسرے اخلاق کے نمونے پیش کروں گا جو ہمارے لئے رہنما ہیں جن کے کرنے سے ہم اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بن سکتے ہیں اور اُس کا پیار حاصل کر نے والا بن سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کے بارے میں جو کچھ بیان فرمایا ہے، اس حوالے سے آپ کی نظر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مقام ہے اور جو ہمارے سامنے آپ نے پیش فرمایا ہے وہ میں پہلے بیان کروں گا.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : "قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ اسْتَرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا.....( الزمر : 54) یعنی کہہ اے میرے غلامو! جنہوں نے اپنے نفسوں پر زیادتی کی ہے کہ تم رحمت الہی سے نا امید مت ہو.خدا تعالی سارے گناہ بخش دے گا.فرماتے ہیں کہ اب اس آیت میں بجائے قُلْ يَا عِبَادَ الله کے، جس کے یہ معنے ہیں کہ کہہ اے خدا تعالیٰ کے بندو! یہ فرمایا کہ قُلْ يُعِبَادِی یعنی کہہ اے میرے غلامو.اس طرز کے اختیار کرنے میں بھید یہی ہے کہ یہ آیت اس لئے نازل ہوئی ہے کہ خدا تعالیٰ بے انتہا رحمتوں کی بشارت دیوے اور جو لوگ کثرت گناہوں سے دل شکستہ ہیں اُن کو تسکین بخشے.سو اللہ جلشانہ نے اس آیت میں چاہا کہ اپنی رحمتوں کا ایک نمونہ پیش کرے اور بندہ کو دکھلاوے کہ میں کہاں تک اپنے وفادار بندوں کو انعامات خاصہ سے مشرف کرتا ہوں“.(وہ لوگ جو گناہوں کی وجہ سے بالکل مایوس ہو گئے ہیں اُن کو بتائے
خطبات مسرور جلد دہم 491 خطبه جمعه فرموده مورخه 17 اگست 2012 ء کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کس قدر وسیع ہے اور کس طرح انعامات سے نوازتا ہے.) فرمایا ” سو اس نے قُل يُعبَادی کے لفظ سے یہ ظاہر کیا کہ دیکھو یہ میرا پیارا رسول ، دیکھو یہ برگزیدہ بندہ کہ کمال طاعت سے کس درجہ تک پہنچا کہ اب جو کچھ میرا ہے وہ اس کا ہے.جو شخص نجات چاہتا ہے وہ اس کا غلام ہو جائے.یعنی ایسا اس کی طاعت میں محو ہو جاوے کہ گویا اس کا غلام ہے.تب وہ گو کیسا ہی پہلے گنہ گار تھا بخشا جائے گا“.فرمایا کہ جاننا چاہئے کہ عبد کا لفظ لغت عرب میں غلام کے معنوں پر بھی بولا جاتا ہے.جیسا کہ اللہ جلشانہ فرماتا ہے وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنْ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ (البقرة : 222) اور اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص اپنی نجات چاہتا ہے وہ اس نبی سے غلامی کی نسبت پیدا کرے.یعنی اس کے حکم سے باہر نہ جائے اور اس کے دامن طاعت سے اپنے تئیں وابستہ جانے جیسا کہ غلام جانتا ہے“.( یعنی اس طرح اطاعت کرو اس نبی کی جس طرح ایک غلام اپنے مالک کی اطاعت کرتا ہے ) ” تب وہ نجات پائے گا.فرمایا ” اس مقام میں ان کور باطن نام کے موحدوں پر افسوس آتا ہے ( بعض لوگ کہتے ہیں کہ بعض نام نہیں رکھنے چاہئیں ) کہ جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یاں تک بغض رکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ نام کہ غلام نبی ، غلام رسول، غلام مصطفیٰ ، غلام احمد ، غلام محمد شرک میں داخل ہیں“.فرمایا کہ اور اس آیت سے معلوم ہوا کہ مدار نجات یہی نام ہیں.(یعنی اگر محبت سے اور حقیقت میں ان ناموں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے عمل ٹھیک کئے یا اپنے ناموں کو اُن صفات کا حامل بنایا تو پھر اس سے نجات بھی حاصل ہوتی ہے.ورنہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نام رکھنے سے نجات مل جائے گی کہ نام رکھ لیا اور پھر جتنی مرضی برائیاں کرتے رہے تو انسان نجات پا جائے گا.یہ نہیں ہے.یہ جو فرمایا کہ حکم سے باہر نہ جائے گا.جو احکامات ہیں اُس سے باہر نہ جائے ، یہ جو فقرہ ہے یہ خاص طور پر بڑا ضروری ہے.اس فقرہ پر بھی غور کرنا چاہئے.) پھر آپ مزید فرماتے ہیں اور چونکہ عبد کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ ہر ایک آزادگی اور خودروی سے باہر آ جائے ( یعنی عبدیت اُس وقت ہوتی ہے جب نہ اپنی آزادی رہے، نہ خود اپنے بارے میں فیصلے کر کے خود ہی جو چاہے کرتا رہے، اس سے باہر آئے ) اور پورا متبع اپنے مولیٰ کا ہو.اس لئے حق کے طالبوں کو یہ رغبت دی گئی کہ اگر نجات چاہتے ہیں تو یہ مفہوم اپنے اندر پیدا کریں.اور درحقیقت یہ آیت اور یہ دوسری آیت قُل اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ (آل عمران: 32).از روئے مفہوم کے ایک ہی ہیں“.( جو پہلی آیت پڑھی گئی تھی اور یہ آیت، فرمایا کہ
خطبات مسرور جلد دہم 492 خطبه جمعه فرموده مورخه 17 اگست 2012ء مفہوم دونوں کا ایک ہے ) ” کیونکہ کمال اتباع اس محویت اور اطاعت تامہ کو مستلزم ہے ( یعنی جو کسی کی پیروی کا اور اتباع کا جو انتہا ہے، وہ مکمل طور پر اطاعت کے لئے لازمی ہے، اطاعت ہوگی تو اتباع ہوگی، پیروی ہوگی ) فرمایا کہ ”جو عبد کے مفہوم میں پائی جاتی ہے“.(پورا فقرہ یوں بنے گا کہ ) ” کیونکہ کمال اتباع اس محویت اور اطاعت تامہ کو مستلزم ہے جو عبد کے مفہوم میں پائی جاتی ہے.یہی سر ہے کہ جیسے پہلی آیت میں مغفرت کا وعدہ بلکہ محبوب الہی بننے کی خوشخبری ہے گویا یہ آیت کہ قُل يُعِبَادِی دوسرے لفظوں میں اس طرح پر ہے کہ قُلْ يَا مُتَّبعی.یعنی اے میری پیروی کرنے والو جو بکثرت گناہوں میں مبتلا ہورہے ہو ، رحمت الہی سے نومید مت ہو کہ اللہ جلشانہ بہ برکت میری پیروی کے تمام گناہ بخش دے گا.اور اگر عباد سے صرف اللہ تعالیٰ کے بندے ہی مراد لئے جائیں تو معنے خراب ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ ہرگز درست نہیں کہ خدا تعالیٰ بغیر تحقق شرط ایمان اور بغیر تحقق شرط پیروی تمام مشرکوں اور کافروں کو یونہی بخش دیوئے.یعنی اگر ایمان میں کامل نہیں ہے اور پیروی اور اتباع میں کامل نہیں ہے تو بخشا نہیں جاسکتا، پھر تو اللہ تعالیٰ مشرکوں کو اور کافروں کو یونہی بخش دے گا.فرمایا ” ایسے معنے تو نصوص بینہ قرآن سے صریح مخالف آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 189 تا 193 ) پس یہ خوشخبری ہر اُس شخص کے لئے ہے جو کہ کامل اطاعت کرتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں.پیروی کرتا ہے کہ اس کامل پیروی سے شدید ترین گناہ بھی دھل جاتے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا اب میں اُسوہ کے نمونے پیش کروں گا.اس رمضان میں خدا تعالیٰ نے جو ایسا ماحول پیدا فرمایا ہے اور ہر سال جب.رمضان آتا ہے تو جو ماحول پیدا ہوتا ہے اور نیکیوں اور عبادتوں کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور اب بھی ہوئی ہے تو اگر حقیقت میں خدا تعالیٰ کا عبد اور پیارا بننا ہے تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کی پیروی کو جاری رکھنا بھی ضروری ہے.یہی نہیں کہ ایک دفعہ عمل کر لیا.آپ کا عمل یا نمونہ کسی ایک چیز کے بارے میں نہیں تھا، نہ ہی رمضان کے لئے مخصوص تھا بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بقول كَانَ خُلُقُهُ القرآن تھا اور تمام زندگی پر حاوی تھا.آپ کا خلق قرآن عظیم تھا.(مسند احمد بن حنبل مسند عائشة من الله جلد 8 صفحه 144 - 145 حدیث نمبر 25108) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو فرمایا کہ اس سے گنا ہوں سے دل شکستوں کو امید کی کرن دکھائی دیتی ہے تو وہ تبھی ہے جب اس اُسوہ پر عمل کا مصمم ارادہ ہو اور پھر نہ صرف ارادہ ہو بلکہ عمل بھی ہو اور پھر با قاعدگی بھی ہو.
خطبات مسر در جلد دہم 493 خطبه جمعه فرموده مورخه 17 اگست 2012ء پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں: اس جگہ یہ بھی یادر ہے کہ ماحصل اس آیت کا یہ ہے ( اس آیت کا خلاصہ یہ بنے گا یا اصل مضمون یہ بنے گا، مقصد یہ بنے گا کہ جو لوگ دل و جان سے تیرے، یا رسول اللہ ! غلام بن جائیں گے.ان کو وہ نور ایمان اور محبت اور عشق بخشا جائے گا کہ جو اُن کو غیر اللہ سے رہائی دے دے گا اور وہ گناہوں سے نجات پا جائیں گے اور اسی دنیا میں ایک پاک زندگی ان کو عطا کی جائے گی، اور نفسانی جذبات کی تنگ و تاریک قبروں سے وہ نکالے جائیں گے“.(اب رمضان کا ایک مقصد خدا تعالیٰ کی رضا چاہنا، اُس کا بننا، اُس کی عبادت کرنا بھی ہے.اور یہی غیر اللہ سے نجات ہے تو اس کو پورا کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی پیروی ضروری ہے.فرمایا کہ ) اور اسی دنیا میں ایک پاک زندگی ان کو عطا کی جائے گی اور نفسانی جذبات کی تنگ و تاریک قبروں سے وہ نکالے جائیں گے“.( جو یہ پیروی کریں گے ) اسی کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے.آنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِي یعنی میں وہ مردوں کو اٹھانے والا ہوں جس کے قدموں پر لوگ اٹھائے جاتے ہیں.( قدموں پر اٹھائے جانے کا یہی مطلب ہے کہ میری پیروی کرنے والے ہیں، میرے نقشِ قدم پر چلنے والے ہیں ) فرماتے ہیں ” واضح ہو کہ قرآن کریم اس محاورہ سے بھرا پڑا ہے کہ دنیا مرچکی تھی اور خدا تعالیٰ نے اپنے اس نبی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج کر نئے سرے دنیا کو زندہ کیا.جیسا کہ وہ فرماتا ہے اِعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الحدید : 18) یعنی اس بات کو سن رکھو کہ زمین کو اس کے مرنے کے بعد خدا تعالیٰ زندہ کرتا ہے.پھر اسی کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے حق میں فرماتا ہے وَأَيَّدَهُمْ بِرُوجِ مِنْهُ (المجادلہ: 23) یعنی ان کو روح القدس کے ساتھ مدد دی.اور روح القدس کی مدد یہ ہے کہ دلوں کو زندہ کرتا ہے اور روحانی موت سے نجات بخشتا ہے اور پاکیزہ قو تیں اور پاکیزہ حواس اور پاک علم عطا فرماتا ہے اور علوم یقینیہ اور براہین قطعیہ سے خدا تعالیٰ کے مقام قرب تک پہنچادیتا ہے.“ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 193 تا 195) روحانی موت سے نجات کیا ہے؟ یہ دنیاوی خواہشات کو قربان کرنے کا نام ہے.یہ اپنے نفس کو قربان کرنے کا نام ہے، جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار توجہ دلائی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کرنے کا نام ہے.پس صحابہ رضوان اللہ علیہم نے یہ سب کچھ کیا تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلوں کو روحانی زندگی عطا فرمائی.اُن کو پاکیزہ قوتیں عطا فرمائیں جن سے انہوں نے شیطان کا مقابلہ کیا.اُن کی
خطبات مسرور جلد دہم 494 خطبه جمعه فرموده مورخه 17 اگست 2012 سوچوں کو پاک کیا.اُن کو قرآن کا علم عطا فرمایا جس نے اُن کے یقین اور ایمان کو انتہائی مدارج تک پہنچا دیا.اللہ تعالیٰ کی ذات پر اُن کو عین الیقین ہو گیا.اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نظارے اُنہوں نے خود دیکھ لئے جس نے انہیں اللہ تعالیٰ کا قرب عطا فرمایا.یہ سب کچھ انہیں اپنے آقا ومطاع صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے کی وجہ سے ملا اور انہیں اللہ تعالیٰ کے اس حکم کہ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت: 70) کہ اور جو لوگ ہمیں ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ضرور انہیں اپنے راستوں کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، اس کا مزید ادراک حاصل ہوا اور یہ سب کچھ جیسا کہ میں نے کہا اُن کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ پر چلنے کی کوشش سے ہوا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” اور یہ علوم جو مدار نجات ہیں یقینی اور قطعی طور پر بجز اُس حیات کے حاصل نہیں ہو سکتے جو بتوسط روح القدس انسان کو ملتی ہے اور قرآن کریم کا بڑے زورشور سے یہ دعویٰ ہے کہ وہ حیات روحانی صرف متابعت اس رسول کریم سے ملتی ہے.یعنی یہ جو علوم کا ذکر ہوا ہے کہ روحانی عملوں سے نجات ہوتی ہے، پاکیزہ قوتیں عطا ہوتی ہیں، پاکیزہ حواس عطا ہوتے ہیں، پاک علم عطا ہوتا ہے.فرمایا یہ جو مدار نجات ہیں، نجات کا باعث بننے والے علوم ہیں، یہ صرف اس طرح حاصل نہیں ہو سکتے کہ خود اس زندگی میں انسان کوشش کر لے بلکہ انسان کو یہ روح القدس سے ملتے ہیں.اور فرمایا کہ ” قرآنِ کریم کا بڑے زور شور سے یہ دعویٰ ہے کہ حیات روحانی صرف متابعت اس رسول کریم سے ملتی ہے.( یہ جسمانی زندگی نہیں ہے ، روحانی زندگی ہے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چلنے اور آپ کی پیروی سے ملتی ہے.اور تمام وہ لوگ جو اس نبی کریم کی متابعت سے سرکش ہیں وہ مردے ہیں“.فرمایا ” تمام وہ لوگ جو اس نبی کریم کی متابعت سے سرکش ہیں وہ مُردے ہیں جن میں اس حیات کی ( یعنی یہ روحانی حیات کی روح نہیں ہے.پھر فرمایا اور حیات روحانی سے مراد انسان کے وہ علمی اور عملی قومی ہیں جو روح القدس کی تائید سے زندہ ہو جاتے ہیں.اور قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ جن احکام پر اللہ جلشانہ انسان کو قائم کرنا چاہتا ہے وہ چھ سو ہیں.ایسا ہی اس کے مقابل پر جبرائیل علیہ السلام کے پر بھی چھ سو ہیں.اور بیضہ بشریت جب تک چھ سوحکم کو سر پر رکھ کر جبرائیل کے پروں کے نیچے نہ آوے اس میں فنافی اللہ ہونے کا بچہ پیدا نہیں ہوتا“.( یعنی مثال دی گئی ہے کہ انسان کا جو خول ہے، پیدائش کا جو انڈہ ہے، جب تک انسان ان چھ سو احکامات کو اپنے اوپر طاری نہ کرے، لاگو نہ کرے اُس وقت تک وہ فنا فی اللہ نہیں ہوسکتا.وہ بچہ پیدا نہیں ہو سکتا جس سے انسان اللہ تعالیٰ کے قریب ترین ہو جائے.
خطبات مسر در جلد دہم 495 خطبه جمعه فرموده مورخه 17 اگست 2012 ء فرما یا اورانسانی حقیقت اپنے اندر چھ سو بیضہ کی استعدا درکھتی ہے.یہ نہیں ہے کہ کوئی مشکل چیز ہے.انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت دی ہے کہ اگر وہ چاہے اور کوشش کرے تو ان احکامات کو اپنے او پر طاری کرنے کی طاقت رکھتی ہے، استعداد رکھتی ہے.فرمایا’ پس جس شخص کا چھ سو بیضۂ استعداد جبرائیل کے چھ سو پر کے نیچے آ گیا وہ انسان کامل اور یہ تولد اس کا تولید کامل اور یہ حیات حیات کامل ہے“.یعنی یہ چیزیں حاصل ہو جا ئیں تو تبھی حقیقی روحانی پیدائش بھی ہوتی ہے اور حقیقی روحانی زندگی بھی ملتی ہے.پس ان چھ سو احکامات کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش کرو.فرمایا کہ اور غور کی نظر سے معلوم ہوتا ہے کہ بیضہ بشریت کے روحانی بچے جو روح القدس کی معرفت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کی برکت سے پیدا ہوئے وہ اپنی کمیت اور کیفیت اور صورت اور نوع اور حالت میں تمام انبیاء کے بچوں سے اتم اور اکمل ہیں.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے انسان کے اندر جو یہ روحانی بچے پیدا ہوئے ہیں، جوروحانی صفات پیدا ہوئی ہیں وہ اپنی کمیت کے حساب سے بھی ، اپنی کیفیت کے حساب سے بھی ، اپنی شکل صورت کے حساب سے بھی ، اپنی نوع اور قسم کے حساب سے بھی ، ہر حالت میں دوسرے انبیاء کے ذریعے سے جو روحانی انقلاب آیا اُس سے بہت بڑھ کر ہیں.اور فرماتے ہیں اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جل شانہ فرماتا ہے.كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران: 111) یعنی تم سب اُمتوں سے بہتر ہو جولوگوں کی اصلاح کے لئے پیدا کئے گئے ہو“.آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 195 تا 197 ) جب خیر امت قرار دیا گیا، جیسا کہ اکثر ہم تقریروں میں ”خیر امت سنتے ہیں تو اس خیر امت بننے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے اندر وہ تمام روحانی انقلاب پیدا کرنے کی کوششیں کی جائیں ، وہ حالتیں طاری کرنے کی کوششیں کی جائیں جن کی ہمیں تعلیم دی گئی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کا ذکر فرمایا.قرآنِ کریم میں جن کا ذکر ہے.اور پھر جب اس طرح اپنی اصلاح ہوگی ، جب اس مقام پر انسان پہنچے گا تو پھر ہی دوسروں کی اصلاح کا کام کر سکتے ہیں.اور یہ اصلاح کا کام پھر بارآور ہوتا ہے.تبھی یہ پھل لگاتا ہے جب اس اسوہ رسول پر ہم چلنے کی کوشش کریں گے ، اپنی زندگیاں اس کے مطابق ڈھالیں گے، اپنے جائزے ہر وقت لیتے رہیں گے، اپنی روحانی ترقی کی طرف قدم بڑھاتے رہیں گے یا بڑھانے کی کوشش کرتے رہیں گے.یہ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو احکامات دیئے ہیں ہم کہاں اور کن معاملات میں اور کس طرح اور کس حد تک اُن پر عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.تو تبھی ہم اپنے اندر
خطبات مسرور جلد دہم 496 خطبه جمعه فرموده مورخه 17 اگست 2012ء بھی انقلاب پیدا کریں گے.تبھی ہم اسلام کا حقیقی پیغام بھی دنیا تک پہنچا سکیں گے.پس بیشک گنہ گار بھی اللہ تعالیٰ کا ایک عبد بن سکتا ہے.لیکن اسوہ رسول پر چلنے سے اور اس کے لئے کوشش کرنے سے اور اپنی تمام تر طاقتوں سے اس کی کوشش کرنے سے اس کے تمام گناہ معاف ہو سکتے ہیں.اب ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مختلف پہلو ہیں.آپ کا اُسوہ ہے جس کی پیروی کا خدا تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے اور جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بیان فرمایا ہے کہ کس طرح اور کس حد تک انسان حاصل کر سکتا ہے.اور اس اُسوہ پر چلنے سے پھر اللہ تعالیٰ کی محبت بھی ملتی ہے جس سے بندہ اپنے پیار کرنے والے خدا کی آغوش میں آ جاتا ہے.سب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ سے محبت، اُس کی شکر گزاری اور اس کی عبادت کے کیا نمونے آپ نے قائم فرمائے ہیں.وہ عظیم نبی جو تمام دن حکومتی معاملات اور اپنے ماننے والوں کی اصلاح اور تربیت اور اُن کو روحانی ترقی کی راہیں دکھانے میں مصروف رہتا تھا.عام دنوں میں بھی آپ کی مصروفیت ہوتی تھی اور جنگوں میں اور ہنگامی حالات میں تو دن کی مصروفیت کے ساتھ ساتھ آپ کی جسمانی مشقت کی بھی انتہا ہو جاتی تھی.لیکن ہمیں نہ آپ کی دن کی عبادتوں میں اور نہ ہی رات کی عبادتوں میں کوئی رخنہ نظر آتا ہے.رات کو عبادت کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو پاؤں سوج جاتے تھے.(صحیح البخاری کتاب التفسير باب قوله ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبک...حدیث 4836) اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ رات کو عبادت کرو.آپ کی رات کی عبادت نصف رات سے بڑھ کر بھی تھی اور نصف رات کی بھی تھی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان نَاشِئَةَ الَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْأً وَأَقْوَمُ قِيلًا (المزمل: 7) کہ رات کو جاگنا یقینا نفس کو پاؤں تلے کچلنے کے لئے شدید اور قولی لحاظ سے زیادہ مضبوط ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک دفعہ عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم.آپ تو پہلے ہی خدا تعالیٰ کے مقرب ہیں.آپ اپنے نفس کو اتنی تکلیف میں کیوں ڈالتے ہیں؟ فرمایا اے عائشہ! أَفَلَا اكُوْنَ عَبْدًا شَكُورًا.(صحیح مسلم کتاب صفات المنافقين و احكامهم باب اكثار الاعمال...حديث 7125) کہ اگر میں اللہ تعالیٰ کا مقرب ہوں اور اللہ تعالیٰ نے اتنے فضل فرمائے ہیں تو پھر کیا میرا یہ فرض نہیں بنتا کہ اس کا شکر گزار بندہ بن جاؤں.شکر تو احسان کے مقابلے پر ہوا کرتا ہے.اور آپ ہمیشہ اللہ تعالیٰ
خطبات مسرور جلد دہم 497 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اگست 2012ء کے فضلوں اور احسانوں کو یاد کرتے تھے اور شکر ادا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ احسان ہے کہ نہ صرف ہمیں مسلمان بنایا بلکہ آپ کے غلام صادق کو آپ کا سلام پہنچانے کی توفیق بھی عطا فرمائی ہے.یہی احسان اتنا بڑا ہے کہ اس کا ہم شکر ادا نہیں کر سکتے.ایک احمدی اس کا بھی شکر ادا نہیں کرسکتا.جو بھی کوشش ہو تب بھی ہم اس کا شکر ادا نہیں کر سکتے.پس ہر احمدی کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ہم اپنی اپنی بساط اور استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں.رمضان میں جو نفلوں کی عادت ڈالی ہے تو یہ عارضی عادت نہ ہو اور ہمارے دنیوی مقاصد کے لئے نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی شکر گزاری کا اکثر حصہ اس میں ہو اور پھر اس عبادت کا اثر ہمارے قول و فعل کی سچائی پر بھی ظاہر ہو.ہم خیر امت بن کر جب دنیا کی اصلاح کی کوشش کریں گے تو ہماری باتوں میں بھی تبھی اثر ہو گا جب ہماری یہ حالت ہوگی.جیسا کہ میں نے کہا یہ تو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ اُسوہ ہے جو نفلوں کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ کس طرح رات کو عبادت کرتے تھے.فرض نمازوں کی پابندی کا بھی آپ کو کتنا خیال تھا.سخت شدید بیماری میں بھی جبکہ نمازیں بیٹھ کر اور لیٹ کر اور گھر میں پڑھنے کی اجازت ہے، آپ سہارے لے کر مسجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی کے لئے تشریف لاتے (صحیح البخاری کتاب الاذان باب انما جعل الامام ليؤتم به حديث 687) لیکن ان سب باتوں کے باوجود کہ عبادت کے بارے میں اتنی سختی ہے، اتنی شدت ہے، اور آپ نے عبادت کو اتنی اہمیت دی ہے.لیکن عبادت کے بارے میں آپ کو تصنع اور بناوٹ پسند نہیں تھی.جب آپ نے گھر میں رتی لٹکی ہوئی دیکھی اور اُس کا مقصد پوچھا تو پتہ چلا کہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا جب عبادت کرتے کرتے تھک جاتی ہیں تو اس رہتی کے سہارے کھڑی ہو جاتی ہیں تو آپ نے یہ نا پسند فرمایا اور فرمایا جتنی دیر خوشی سے، بشاشت سے، آسانی سے عبادت ہو سکے کرو.جب تھک جاؤ تو بیٹھ جاؤ.(صحيح البخارى كتاب التهجد باب ما يكره من التشديد في العبادة حديث 1150) آپ کو تو خدا تعالیٰ نے اتنی طاقت عطا فرمائی تھی کہ پاؤں متورم ہو جائیں تب بھی کھڑے رہیں لیکن دوسروں کے لئے آپ نے سہولت بھی دی ہے.لیکن اس سہولت کا یہ مطلب بھی نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں کو عادت ہو جاتی ہے کہ صرف بیٹھ کر نمازیں پڑھتے ہیں.بعضوں کو عادت ہے کہ صبح فجر کی نماز پر اُٹھے، بغیر وضو کے بستر پر ہی لیٹے لیٹے تیم کیا اور بیٹھے بیٹھے نماز پڑھ لی، یہ چیزیں بھی غلط ہیں.اس طرح سے ناجائز فائدہ بھی نہیں اُٹھانا چاہئے کیونکہ پھر یہ عبادت نہیں ہے.اپنی طاقتوں اور استعدادوں کو انتہا تک
خطبات مسرور جلد دہم 498 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اگست 2012ء پہنچانے کی ضرورت ہے.اپنی طاقتوں کے مطابق ہر بندہ اندازہ لگائے، ہر شخص اندازہ لگائے اور جب یہ ہوگا تو تب ہی ہر شخص کہہ سکتا ہے کہ میں اُسوہ حسنہ پر چلنے کی کوشش کر رہا ہوں.عبادتوں اور شکر گزاری کے معیار ہم نے دیکھے جس کے نمونے آپ نے ہمارے سامنے قائم فرمائے ، اور جو میں نے بیان کئے ہیں.لیکن اس کے باوجود ایک موقع پر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ کوئی شخص اپنے عملوں سے جنت میں داخل نہیں ہوگا.تو حضرت ابوہریرۃ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! کیا آپ بھی اپنے اعمال سے جنت میں داخل نہیں ہوں گے؟ آپ تو ساری ساری رات عبادت کرنے والے ہیں.ایسی فنا کی حالت ہوتی ہے کہ پاؤں متورم ہو جاتے ہیں.آپ نے فرمایا.ہاں میں بھی اپنے اعمال کے زور سے جنت میں داخل نہیں ہو سکتا.ہاں خدا تعالیٰ کا فضل اور اُس کی رحمت ہی مجھے جنت میں داخل کرے گی.یہ کیا ہی خوف اور خشیت کی حالت ہے.وہ لوگ جو ذرا ذراسی نیکی پر اتراتے پھرتے ہیں اُن کے لئے کس قدر خوف کا مقام ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی مغفرت کی اور فضل کی چادر میں ڈھانپے رکھے اور ہمیں حقیقت میں عبادت کا حق ادا کرنے کی توفیق دے اور عاجزی اور انکساری کی بھی توفیق دے.آپ نے فرمایا: ” اپنے کاموں میں نیکی اختیار کرو اور خدا تعالیٰ کے قرب کی راہیں تلاش کرو“.فرمایا کہ کوئی شخص موت کی خواہش نہ کیا کرے کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو نیکیوں میں بڑھے گا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث ہوگا اور اگر بد ہے تو تو بہ کی تو فیق مل جائے گی“.(صحیح البخاری کتاب المرضى باب تمنى المريض الموت حدیث 5673) یہ تو بہ کی توفیق بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی ملتی ہے.اس کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے ورنہ دنیا میں اکثریت تو ایسے لوگوں کی ہے جو برائیوں میں مبتلا ہیں اور اس میں بڑھتے چلے جاتے ہیں.یہ جو آپ نے فرمایا یہ مومنوں کے لئے فرمایا اور ان معمولی بدیوں کے بارے میں فرمایا کہ پھر اپنی کمزوریاں دور کرنے کی توفیق ملے گی.پس رمضان میں بھی انسان کوشش کرتا ہے کہ اپنی کمزوریاں دور کرے، بدیوں کو دور کرے، تو اس لئے بھی اس کوشش میں بڑھنا چاہئے اور پھر اس کو جاری بھی رکھنا چاہئے.آپ کا یہ فرمانا اُن لوگوں کے لئے ہے جو تو بہ کی طرف توجہ کریں اور پھر توجہ کر کے نیکیوں میں بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ دعا کرتے ہیں کہ موت تو مقدر ہے لیکن اُس وقت آئے جب اے اللہ ! تو راضی ہو.آپ نے فرمایا کہ اپنی صلاحیتوں اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کا صحیح استعمال نہ کرنا بھی گستاخی ہے.اور ان صلاحیتوں کا صحیح استعمال جو ہے وہ اب عبادت میں ہے.یا کہہ سکتے ہیں کہ ان صلاحیتوں کا صحیح استعمال جو ہے وہ بھی عبادت ہے.
499 خطبات مسرور جلد دہم خطبه جمعه فرموده مورخه 17 اگست 2012 ء اللہ تعالیٰ نے جو اعضاء دیئے ہیں، کان، آنکھ، زبان، ہاتھ ، پاؤں وغیرہ ان سے نیکی کے کام کرنا بھی عبادت بن جاتا ہے.کانوں سے نیکی کی باتیں سنا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بناتا ہے.لیکن لوگوں کی غیبتیں اور چغلیاں سننا گناہ ہے.لیکن اگر کوئی اپنے کان اس لئے بند کر لے اور مستقل بند رکھے کہ میں برائی کی باتیں نہ سنوں تو یہ بھی اُن کا صحیح استعمال نہیں ہے بلکہ ایک طرح کی گستاخی بن جاتی ہے.اسی طرح آنکھ ہے، زبان ہے، ہاتھ ہیں اور باقی اعضاء ہیں اُن کے استعمال کا بھی یہی حال ہے.آجکل ہم رمضان سے گزر رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ سحری کھاؤ اور افطاری کرو.آپ نے اپنے عمل سے ہمیں یہ کر کے دکھایا کہ اگر کوئی سوائے مجبوری کے اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر نہیں چلتا تو یہ بھی گستاخی اور گناہ ہے.بعض مجبوریاں ہو جاتی ہیں جب آدمی کو فوری طور پر افطاری بھی نہیں ملتی یا سحری نہیں کھائی جاسکتی.اور اگر پھر کوئی صحت کے باوجو د روزہ نہیں رکھتا تو یہ بھی گستاخی اور گناہ ہے.گویا خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا جو کسی بھی صورت میں مہیا ہیں، خدا تعالیٰ کے حکم سے فائدہ اُٹھانا اور جائز طریق سے فائدہ اُٹھانا نیکی بن جاتی ہے اور اُن کا ناجائز استعمال یا بے وقت استعمال گناہ ہے.اور یہی آپ نے ہمیں اپنے عمل سے کر کے دکھایا.آپ کا تحمل بھی انتہا کو پہنچا ہوا تھا.شراب کی حرمت سے پہلے ایک صحابی نے نشہ میں آپ کو بہت کچھ کہہ دیا.آپ خاموشی سے سنتے رہے.اُسے کچھ نہیں کہا.(ماخوذاز صحیح البخارى كتاب المساقاة باب بيع الحطب والكلأحديث 2375) جب آپ کو اللہ تعالیٰ نے بادشاہت بھی عطا فرما دی.مدینہ آگئے ، حکومت بھی قائم ہوگئی تو اس وقت بھی اس تحمل کی اعلیٰ مثالیں ہمیں ملتی ہیں.دنیا میں تو ہم دیکھتے ہیں کہ کسی کے پاس چار پیسے آجائیں یا تھوڑا سا عہدہ مل جائے تو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتا.طبیعت کے خلاف کوئی بات ہو جائے تو ناک منہ چڑھانے لگ جاتا ہے.لیکن آپ کا رویہ کیا ہوتا تھا؟ ایک مرتبہ ایک یہودی آیا اور آ کر آپ سے بحث شروع کر دی اور دوران بحث بار باراے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کہہ کر بات کرتا تھا.وہ تو صرف اے محمد ہی کہتا تھا.یہ وہ زمانہ تھا جب آپ نہ صرف مدینہ کے حاکم تھے بلکہ اردگر داور دور تک آپ کی بادشاہت اور حکومت پھیل چکی تھی.صحابہ کو یہودی کا یہ طرز گفتگو پسند نہیں آیا کیونکہ صحابہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو 'یا رسول اللہ کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے.اور جو غیر مسلم تھے وہ آپ کو آپ کی کنیت ابوالقاسم سے پکارتے تھے.تو یہودی کے اس طرح بار بار اے محمدؐ کہنے پر صحابہ نے اُسے غصہ سے ٹوکا کہ اگر رسول اللہ نہیں کہہ
خطبات مسرور جلد دہم 500 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اگست 2012ء سکتے تو آپ کی کنیت سے پکارو اور ابوالقاسم کہو.یہودی نے کہا کہ میں تو اسی نام سے بلاؤں گا جو آپ کے ماں باپ نے آپ کا رکھا ہے.اس پر آپ مسکرائے اور فرمایا یہ ٹھیک کہتا ہے میرے ماں باپ نے میرا نام محمد ہی رکھا ہے.اسی طرح اس کو مخاطب کرنے دو اور غصہ نہ کرو.(ماخوذاز صحیح مسلم کتاب الحيض باب بيان صفة منى الرجل والمرأة...حديث 716) بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ لوگ آپ کا ہاتھ پکڑ کر کھڑے ہو جاتے.بسا اوقات آپ کے ضروری کاموں میں روک پیدا ہو رہی ہوتی ، آپ کا وقت ضائع ہور ہا ہوتا لیکن بڑے صبر اور تحمل سے آپ اُن کی باتیں سنتے اور اُن کی حاجتیں پوری فرماتے.(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب قرب النبى الله الله من الناس...حديث 6044) انصاف کے معیار کا یہ حال تھا کہ اگر کسی نے جرم کیا ہے تو یہ نہیں دیکھنا کہ امیر ہے یا غریب ہے یا اعلیٰ خاندان کا ہے یا عام آدمی ہے.جب ایک امیر عورت نے کسی دوسرے کے مال کو ہتھیانے کی کوشش کی اور اُس پر قبضہ کیا تو اُس کو سزا ہوئی.تو ان کے جو قبائل تھے اُن میں سے بعضوں میں، خاص طور پر اُن لوگوں میں جو اس کے قریبی تھے، اس سے بڑی بے چینی پیدا ہوگئی کہ یہ بڑے خاندان کی عورت ہے،اس کو کیوں سزا ہوئی ہے؟ آپ کی خدمت میں اُسامہ کو سفارش کے لئے بھیجا گیا کہ اس کی سزا معاف کر دیں.آپ نے یہ سنا تو غصہ کا اظہار فرمایا.حالانکہ آپ وہ ہستی تھے جو سرا پا شفقت اور عفو سے کام لینے والے تھے ، خوش اخلاقی سے بات کرنے والے تھے اور آپ کو کبھی غصہ نہیں آتا تھا لیکن اس موقع پر آپ کو غصہ آیا کہ میرے پاس خدائی حکم کے مخالف سفارش کرنے آئے ہو.فرما یا پہلی قو میں اس لئے تباہ ہوئیں کہ بڑوں کا لحاظ کرتی تھیں اور چھوٹوں پر ظلم کرتی تھیں.اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا.خدا کی قسم ! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی جرم کرتی تو میں اُسے سزا دئے بغیر نہ چھوڑتا.(صحیح البخاری کتاب احادیث الانبیاء باب 54/52 حدیث 3475) آجکل ہم دیکھتے ہیں کہ انصاف مسلمانوں میں مفقود ہے اور یہی ان کے زوال کا سبب بن رہا ہے.پس ہمیں بھی بہت زیادہ اس بارے میں احتیاط کرنی چاہئے.ہمارے عہدیداروں کو بھی انصاف کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں اور ایسے معیار قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ یہ بہت خطرناک چیز ہے جوز وال کا باعث بنتی ہے.پھر دشمن سے انصاف کا قرآنی حکم ہے.تو اس کا کیا نمونہ دکھا یا ؟ اس کی بھی ایک مثال دیتا ہوں.
خطبات مسرور جلد دہم 501 خطبه جمعه فرموده مورخه 17 اگست 2012 ء آپ نے صحابہ کو مکہ کی طرف کسی جگہ خبر رسانی کے لئے بھجوایا.جب یہ حرم کی حدود میں پہنچے تو وہاں ان کو کچھ آدمی مل گئے جو ان کو جانتے تھے یا ان کو شک ہوا کہ یہ لوگ مکہ والوں کو جا کر خبر کر دیں گے.چنانچہ اس بنا پر اُن صحابہ نے اُن پر حملہ کر دیا اور اُن میں سے ایک کو قتل کر دیا.جب یہ صحابہ مدینہ واپس پہنچے تو پیچھے پیچھے مکہ والوں کی طرف سے بھی ایک وفد شکایت لے کر آ گیا کہ اس طرح حرم کی حدود میں انہوں نے قتل کیا ہے.اُن کو جواب دیا جا سکتا تھا کہ تم نے جو مسلمانوں پر اتنے ظلم کئے ہیں اور حرم کی حدود میں بھی جرم کئے ہیں وہ بھول گئے ہو؟ لیکن آپ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے ، شاید ان لوگوں نے ان صحابہ کا اس وجہ سے مقابلہ نہ کیا ہو کہ حرم میں پناہ لے لیں گے اور ان کی جان محفوظ ہو جائے گی.ہمارے آدمیوں سے زیادتی ہوئی ہے.اور آپ نے ان کو فرمایا کہ ٹھیک ہے تمہیں اس کا خون بہا دیا جائے گا.چنانچہ عرب کے رواج کے مطابق اُن کا خون بہا ادا کیا گیا.اللَّهِ عَلِيهِ (ماخوذاز السيرة الحلبيه جلد 3 صفحه 217 تا 221 باب سراياه الله و بعوثه، سرية عبدالله بن جحش رضى الله عنه...دار الكتب العلميه بيروت 2002ء) پس یہ وہ انصاف کے معیار تھے جو مُنصف اعظم نے ہر جگہ قائم فرمائے.دوسروں کے جذبات کے احترام کی بھی انتہا دیکھیں.ایک یہودی آپ کے پاس شکایت کرتا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرا دل دکھایا ہے اور کہا ہے کہ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ سے افضل بنایا ہے.اس بات کوسن کر یہودی نے کہا مجھے تکلیف پہنچی ہے.اب یہ حقیقت بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے افضل ہیں.قرآن کریم اس کی گواہی دیتا ہے.لیکن آپ نے حضرت ابو بکر کو بلا کر جب پوچھا اور انہوں نے بتایا کہ ابتدا اس شخص نے کی تھی اور کہا تھا کہ میں موسیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کو خدا نے تمام دنیا پر فضیلت دی ہے.تو آپ نے فرمایا کہ پھر بھی ایسا نہیں کرنا چاہئے.دوسروں کے جذبات کا احترام کرنا چاہئے.(ماخوذ از شرح العلامة الزرقاني على المواهب اللدنية جزء 8 صفحه 287-288 النوع الأول في ذکر آیات...مطبوعه دار الكتب العلمية بيروت 1996ء) پس یہ تھا دوسروں کے جذبات کا احترام.بنی نوع انسان کی خدمت کرنے والوں کا کس طرح آپ احترام فرماتے تھے، روایات میں آتا ہے جب طئی قبیلے کے لوگوں نے مسلمانوں سے لڑائی کی اور ان میں سے کچھ لوگ گرفتار ہوئے تو اُن میں
خطبات مسرور جلد دہم 502 خطبه جمعه فرموده مورخه 17 اگست 2012 ء حاتم جو مشہور سخی عرب گزرا ہے اُس کی بیٹی بھی تھی.آپ کو جب علم ہوا تو اس سے حسنِ معاملہ کیا اور اس کی سفارش پر اُس کی قوم کی سزاؤں کو بھی معاف کر دیا.پس یہ تھا محسن انسانیت کا انسانیت کی خدمت کرنے والوں کے ساتھ عزت و احترام کا سلوک.آپ نے عورتوں کی عزت و احترام کس طرح قائم فرمائی ؟ عرب اپنے رواج کے مطابق عورتوں کو مار پیٹ دیا کرتے تھے، آپ کو پتہ چلا تو آپ نے فرمایا.عورتیں خدا کی لونڈیاں ہیں تمہاری لونڈیاں نہیں.(سنن ابی داؤ د کتاب النکاح باب فی الضرب النساء حدیث 2145) ایک صحابی نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ بیویوں کے ہم پر کیا حق ہیں؟ تو آپ نے فرمایا جو خدا تمہیں کھانے کے لئے دے اُسے کھلاؤ اور جو تمہیں پہنے کے لئے دے، اُسے پہناؤ.اور اُس کو تھپڑ نہ مارو اور اُسے گالیاں نہ دو اور اُسے گھر سے نہ نکالو.(ماخوذ از سنن ابی داؤ د کتاب النکاح باب في حق المرأة على زوجها حديث (2142) آجکل بھی اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں بعض شکایتیں آتی ہیں، ایسے لوگوں کو غور کرنا چاہئے.ایک طرف تو اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے ہیں.دوسری طرف ان حکموں کی خلاف ورزی بھی کر رہے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ حسنِ سلوک میں سب سے بہتر ہے.اور میں تم سب سے بڑھ کر یہ حسنِ سلوک کرنے والا ہوں.(سنن الترمذی کتاب المناقب باب فضل ازواج النبی حدیث 3895) جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ آپ حکومتی اور تربیتی مصروفیات کی وجہ سے انتہائی معمور الاوقات تھے.عبادات کی مصروفیت تھی لیکن اس کے باوجود گھر کے کام کاج اور ذمہ داریوں کو باحسن انجام فرماتے تھے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جتنا وقت آپ گھر میں ہوتے ، گھر والوں کی مدد اور خدمت میں مصروف رہتے.(صحیح البخاری کتاب الایمان باب من كان في حاجة اهله حدیث (676) آپ کی دوسری ذمہ داریاں گھریلو کاموں میں حارج نہیں ہوتی تھیں.کپڑوں کو پیوند لگا لیتے ( مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 313 مند عائشة حديث 25855) بکری کا دودھ دوہ لیتے تھے.(مسنداحمد بن حنبل جلد 8 صفحه 797 مسندابو بصرة الغفاري ماله حدیث 27768)
خطبات مسرور جلد دہم 503 خطبه جمعه فرموده مورخه 17 اگست 2012ء اگر دیر سے گھر تشریف لاتے تو کھانا یا دودھ خود ہی تناول فرما لیتے تھے اور گھر والوں کو نہیں جگاتے تھے.(صحیح مسلم کتاب الاشربة باب اكرام الضيف و فضل ایثارہ حدیث 5362) پس یہ اُن لوگوں کے لئے اسوہ حسنہ ہے جو سمجھتے ہیں کہ اگر ہم گھر کا کام کر لیں گے تو گناہ ہو جائے گا.اگر لیٹ گھر آئے ہیں تو بیوی کا فرض ہے کہ ضرور اُٹھ کے ہمیں کھانا گرم کر کے دے.اگر نہیں کریں گے تو گھر والوں پر ہمارا رعب جاتا رہے گا.جب تک ایسے لوگ بیویوں پر چیخنم دھاڑ نہ کر لیں اُن کو چین نہیں آتا.بعض لوگ ایسے ہیں جن کے بارے میں شکایات آتی ہیں کہ باہر جماعتی کام بھی کر رہے ہوتے ہیں.ان کا باہر تو بڑا اچھا سلوک ہوتا ہے لیکن گھروں میں بیویوں پر ایسی سختیاں ہیں کہ جن کائن کے بھی انسان حیران رہ جاتا ہے کہ یہ انسان باہر کیا ہے اور اندر کیا ہے؟ یہ دو عملی ہے.پھر بعض مردوں کو اُن کے قریبی ، بہنیں ہیں، مائیں ہیں، خراب کرنے والی ہوتی ہیں.اگر کسی مہمان کے لئے کوئی مرد چائے بنا کر لے آیا ہے تو کہا جاتا ہے کہ بیوی کا غلام ہو گیا یا یہ کیا ہو گیا؟ اس کی بیوی کیسی ہے کہ ہمارے بھائی سے یا بیٹے سے کام کروا رہی ہے.بیچارہ بھائی، بیچارہ بیٹا گھر کے کام کر رہا ہے اور یوں خاوندوں کا ،لڑکوں کا دماغ خراب ہو جاتا ہے.ایسے لوگ پھر بیویوں پر سختیاں شروع کر دیتے ہیں.حالانکہ وہ لوگ یہ کام کر کے بیچارے نہیں ہیں.یہ تو اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس پر عمل کر کے وہ ثواب کما رہے ہیں، اپنی عاقبت سنوار رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بننے کی کوشش کر رہے ہیں.بیچارے تو یہ اُس وقت ہوں گے جب بیویوں پر ظلم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آئیں گے.جب اُن سے پوچھا جائے گا کہ کیا یہ اعلیٰ اخلاق تم نے ایمان کا دعوی کر کے اپنائے ہیں؟ یہ اظہار کیا ہے تم نے؟ ایک طرف یہ دعویٰ اور ایک طرف یہ اظہار؟ پس ایسے مردوں کو بھی اپنی فکر کرنی چاہئے.آپ کا بچوں سے محبت اور شفقت کا کیا نمونہ ہے؟ اس بارہ میں ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ اپنے بچوں اور ساتھ رہنے والے بچوں کے لئے یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر.(صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبى باب ذکر اسامة بن زيد حدیث 3735) بچوں کو کبھی سزا نہیں دی، ہمیشہ محبت اور دعا کے ذریعہ سے تربیت کی.حضرت ابوہریرۃ روایت کرتے ہیں کہ جب بھی کوئی پہلا پھل آتا تو پھلوں میں برکت کی دعا کرتے اور پھر پہلے وہ پھل مجلس میں موجو دسب سے چھوٹے بچے کو عنایت فرماتے.(صحیح مسلم کتاب الحج باب فضل المدينة و دعاء النبي...حديث (3334)
خطبات مسر در جلد دہم 504 خطبه جمعه فرموده مورخه 17 اگست 2012 بچوں سے کھیلنے کا ذکر بھی روایات میں ملتا ہے.اکثر ماں باپ اپنے بچوں سے تو پیار کرتے ہیں لیکن بعض ایسے بھی ہیں جو بچوں کو بلا وجہ سزا دیتے ہیں.ابھی چند دن پہلے ہی مجھے ایک نو جوان ملا جس نے کہا کہ میں ہر وقت خوفزدہ رہتا ہوں اور ڈپریشن کا مریض ہوں ، ( وہ نفسیاتی مریض بن گیا تھا.) اس لئے کہ میرا باپ مجھے ہر وقت مارتا رہتا تھا.اور جب اُسے کسی نے پوچھا کہ کیوں بعض دفعہ بلا وجہ مارتے ہو تو کہتا ہے کہ بچوں پر رعب ڈالنے کے لئے ضروری ہے.تو یہ بھی بعض والدین کا حال ہے.ایسے بھی ظالم باپ ہوتے ہیں.بلکہ یہاں تو ہم دیکھتے ہیں کہ آجکل خبروں میں کچھ زیادہ ہی ایسے واقعات آنے لگ گئے ہیں کہ ایسے ماں باپ بھی ہیں جو اپنی ذاتی عیاشیوں کے لئے اپنے بچوں کو قتل کر دیتے ہیں.پھر ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے بچوں کو تو پیار کر لیتے ہیں لیکن دوسروں کے بچے اُن کو برداشت نہیں ہوتے ، اُن کو پیار نہیں کرتے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہر بچہ کے ساتھ پیار اور شفقت کا تھا.ہمسایوں سے حسنِ سلوک کا اگر قرآنِ کریم میں حکم ہے تو اس کے بھی اعلیٰ نمونے آپ نے قائم فرمائے اور بار بار اپنے ماننے والوں کو اس کی نصیحت فرمائی ہے.ایک دفعہ آپ تشریف فرما تھے.فرمایا خدا کی قسم وہ ہرگز مومن نہیں ، وہ ہر گز مومن نہیں ہے ، وہ ہر گز مومن نہیں ہے.صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کون مومن نہیں ہے؟ فرمایاوہ جس کا ہمسایہ اُس کے ضرر اور بدسلوکی سے محفوظ نہیں ہے.(صحیح البخاری کتاب الادب باب اثم من لا يأمن جاره بوائقه حدیث 6016) پس یہ چند باتوں کا میں نے ذکر کیا ہے.رشتہ داروں سے حسنِ سلوک ہو یا تعاون باہمی کا معاملہ ہو یا چشم پوشی کا معاملہ ہو یا تجس سے بچنے کا معاملہ ہو.نیک ظنی کا معاملہ ہو یا کسی بھی اعلیٰ اخلاق کا ، آپ کے نمونے اور آپ کی نصائح ہمیں ہر جگہ ملتی ہیں.پس یہ عبد کامل تھا جس نے ہر معاملہ میں کامل نمونہ دکھا کر ایک انقلاب اُس زمانے کے جاہل لوگوں میں پیدا کر دیا اور انہیں باخدا انسان بنادیا.پس آج بھی اگر ہم نے ان برکات سے فائدہ اُٹھانا ہے جو آپ کی امت میں آنے سے وابستہ ہیں اور عبد بنے کا حق ادا کرنا ہے تو اپنے آپ کو اس اسوہ پر چلانا ہوگا تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن کر ہم اپنی دنیا و عاقبت سنوار سکیں.اس لئے آج بھی اور رمضان کے جو بقیہ دو تین دن ہیں اُن میں بھی دعائیں کریں کہ دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے اور زندگی بھر دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی مومن بنائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر ہم چلنے والے ہوں.آخر میں میں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات رکھتا ہوں.
خطبات مسرور جلد دہم 505 خطبه جمعه فرموده مورخه 17 اگست 2012 ء آپ فرماتے ہیں کہ ”خداوند تعالیٰ مسلمانوں کو حکم کرتا ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے پر چلیں اور آپ کے ہر قول اور فعل کی پیروی کریں.چنانچہ فرماتا ہے لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب:22 ).پھر فرماتا ہے اِن كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله (آل عمران: 32).اگر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اور افعال عیب سے خالی نہ تھے تو کیوں ہم پر واجب کیا کہ ہم آپ کے نمونے پر چلیں.“ ریویو آف ریلیچر، جلد 2 نمبر 6 صفحہ 245-246 بابت ماہ جون 1903ء) پھر آپ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ کی محبت کامل طور پر انسان اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور طرز عمل کو اپنا رہبر اور بادی نہ بناوے.چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے اس کی بابت فرمایا ہے قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران: 32) یعنی محبوب الہی بننے کے لئے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی جاوے.سچی اتباع آپ کے اخلاق فاضلہ کا رنگ اپنے اندر پیدا کرنا ہوتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 62.ایڈیشن 2003 ء.مطبوعہ ربوہ ) فرمایا: ”نجات اپنی کوشش سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوا کرتی ہے.اس فضل کے حصول کے لئے خدا تعالیٰ نے جو اپنا قانون ٹھہرایا ہوا ہے وہ اُسے کبھی باطل نہیں کرتا.وہ قانون یہ ہے اِن كُنتُم تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران: 32) اور وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ (آل عمران: 86)“.( ملفوظات جلد 2 صفحہ 518.ایڈیشن 2003ء.مطبوعہ ربوہ ) یعنی پہلے یہ اعلان کروایا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت چاہتے ہو تو میری پیروی کرو تو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا.اور دوسری آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو کوئی اسلام کے سوا کسی دین کو اختیار کرنا چاہتا ہے پس وہ کبھی اُس سے قبول نہیں کیا جائے گا.اسلام ہی ایک دین ہے جس پر چلنا چاہئے.اور اسلام کیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول و فعل.اللہ تعالیٰ ہمیں اس حقیقت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.یہ رمضان ہمیں اس بات کا صحیح ادراک دلا کر رخصت ہو اور آئندہ آنے والے رمضان تک ہم اس اُسوہ پر چلتے ہوئے نئی منزلیں طے کرنے والے بن جائیں.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 7 ستمبر تا 20 ستمبر 2012 جلد 19 شماره 36 - 37 صفحه 5 تا 9 )
خطبات مسرور جلد دہم 506 34 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اگست 2012ء خطبه جمع سیدنا امیرالمومنین حضرت مرز اسر وراحمد خلیفة اسم الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 24 اگست 2012 ء بمطابق 24 رظہور 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح.مورڈن - لندن تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیعت کے واقعات پیش کروں گا.خاص طور پر عرب احمدیوں کی طرف سے اس بات کا اکثر مطالبہ اور اظہار ہوتا ہے کہ ہمیں صحابہ کے واقعات سنائیں کیونکہ اُن کے ہر واقعہ کے ساتھ ہمیں جہاں صحابہ کے اخلاص و وفا اور قربانیوں اور احمدیت قبول کرنے کے بعد مشکل حالات سے گزرنے کا پتہ چلتا ہے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی مجلس کی صحبت بھی میسر آ جاتی ہے.کسی بھی عنوان کے تحت کوئی بھی واقعہ ہو، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت کے اعلیٰ پہلو سامنے آ جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجالس کی کیفیت کا پتہ چلتا ہے.ہمارے سامنے یہ صحابہ بھی اس زمانے میں نمونہ ہیں، کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو آخَرِينَ مِنْهُمُ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة: 4) کے براہ راست اور حقیقی مصداق ہیں.اس زمانے میں ان لوگوں نے ہمارے لئے روحانی منازل کو طے کرنے کے راستے اپنا نمونہ قائم کر کے آسان کئے ہیں، یا پیش کئے ہیں.پس یہ واقعات اُن خاندانوں کے لئے بھی اہم ہیں جن کے یہ بزرگ تھے اور قابل تقلید نمونہ ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ ہر آنے والے احمدی کے ایمان میں ترقی اور استقامت کا نمونہ ہیں.اس لئے نو مبائعین بھی خاص طور پر اس کا مطالبہ کرتے ہیں اور پھر جیسا کہ میں نے کہا اس ذریعہ سے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت کا بھی پتہ چلتا ہے جو ہمارے ایمان کو جلا بخشتا ہے.پہلی روایت حضرت نظام الدین صاحب کی ہے.یہ پہلے بھی ایک دفعہ اور رنگ میں بیان ہوئی تھی.کہتے ہیں کہ ہم اہلحدیث اپنے آپ کو متقی اور ہر ایک حرام اور جھوٹ سے پر ہیز کرنے والا خیال
خطبات مسرور جلد دہم 507 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اگست 2012ء کرتے تھے.ایک دفعہ مارچ کا مہینہ تھا.غالباً 1902 ء کا ذکر ہے.ہم چند اہلحدیث جہلم سے لاہور بدیں غرض روانہ ہوئے کہ چل کر انجمن حمایت اسلام لاہور کا جلسہ دیکھیں جو سال کے سال ہوا کرتا تھا.ہم لاہور پہنچ کر جلسہ گاہ جا رہے تھے کہ پنڈال کے باہر دیوار کے ساتھ ایک مولوی صاحب کھڑے ہوئے وعظ فرما رہے تھے.ایک ہاتھ میں قرآن مجید تھا، دوسرے ہاتھ سے چھوٹے چھوٹے اشتہارات بانٹ رہے تھے اور منہ سے یہ کہتے جاتے تھے کہ مرزا نعوذ باللہ کوڑھی ہو گیا ہے اس لئے کہ نبیوں کی ہتک کرتا تھا اور خود کو عیسیٰ کہتا تھا.اور ساتھ ہی خدا تعالیٰ کی قسم اُٹھا کر یہی الفاظ مذکورہ بالا دہراتا جاتا تھا.کہتے ہیں ہم یہ سن کر حیران ہو گئے اور اپنے دل میں کبھی و ہم بھی نہ گزرا تھا کہ کوئی شخص اس قدر بھی جرأت کر سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر جھوٹ بولتا ہے اور قرآن مجید اٹھا کر جھوٹ بولتا ہے.کہتے ہیں ہم تین آدمی تھے.میں نے اس سے اشتہار لے لیا اور پڑھنے لگا.اس پر بھی یہی مضمون تھا کہ نعوذ باللہ مرزا کوڑھی ہو گیا، نبیوں کی ہتک کرتا تھا وغیرہ وغیرہ.میں نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ چلو قادیان چلیں.( اللہ تعالیٰ نے ان کو سیدھے راستے پر لانا تھا، بیعت کا موقع دینا تھا، تو یہ مولوی کا اعلان ہی تھا جو ان کے لئے قادیان جانے کا ذریعہ بن گیا) تا کہ مرزا صاحب کا حال آنکھوں سے دیکھ کر اپنے شہر کے مرزائیوں کو کہیں گے جو ہر روز ہمارے ساتھ گفتگو کرتے رہتے ہیں اور جو اعتراض ہمارے علماء کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ تمہارے چودھویں صدی کے علماء جھوٹ بولتے ہیں.( یعنی احمدی یہ کہتے ہیں.) ہمارا بیان تو چشمد ید ہو گا اور پھر ہم اس طرح احمدیوں کو خوب جھوٹا کریں گے.( کہتے ہیں ) میرے ساتھیوں نے پہلے تو انکار کیا مگر میرے زور دینے پر پھر راضی ہو گئے.ہم تینوں لاہور سے سوار ہوئے.بٹالہ گئے اور وہاں سے عصر اور شام کے درمیان قادیان پہنچ گئے.مہمان خانہ میں گئے، مغرب کی نماز کا وقت قریب تھا تو میں نے کسی سے پوچھا کہ مرزا صاحب جہاں نماز پڑھتے ہیں وہ جگہ ہمیں بتاؤ کہ ہم اُن کے پاس کھڑے ہو کر اُن کو دیکھنا چاہتے ہیں.ایک شخص شاید وہی تھا جس سے ہم نے پوچھا تھا میرے ساتھ ہولیا اور وہ جگہ بتائی جہاں حضور کھڑے ہو کر نماز ادا کیا کرتے تھے.چونکہ وقت قریب ہی تھا میں وہیں بیٹھ گیا جہاں حضور نے میرے ساتھ داہنے ہاتھ آ کر کھڑا ہونا تھا، باقی دونوں دوست میرے داہنے ہاتھ کی طرف بیٹھ گئے.یہ مسجد حضور کے گھر کے ساتھ ہی تھی جس کواب مسجد مبارک کہتے ہیں.یہ اُس وقت اتنی چھوٹی ہوتی تھی کہ بمشکل اس میں چھ یا سات صفیں لمبائی میں کھڑی ہو سکتی تھیں ( یعنی چھ سات صفیں بنتی تھیں ) اور ایک صف میں قریباً چھ آدمی سے زیادہ نہیں کھڑے ہو سکتے تھے، یعنی پینتیس چالیس آدمی کی جگہ تھی.کہتے ہیں چند منٹ کے بعد مغرب کی اذان ہوئی اور پھر
خطبات مسرور جلد دہم 508 خطبه جمعه فرموده مورخه 24 اگست 2012 ء چند منٹ بعد حضرت اقدس تشریف لے آئے.ہمارے قریب ہی دروازہ تھا اس میں سے حضور نکل کر میرے ساتھ کھڑے ہو گئے.مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم آگے کھڑے ہو گئے.مؤذن نے تکبیر شروع کر دی.تکبیر کے ختم ہونے تک میں نے حضور کے پاؤں سے لے کر سر تک سب اعضاء کو دیکھا.حتی کہ سر مبارک کے بالوں اور ریش مبارک کے بالوں پر جب میری نگاہ پڑی تو میرے دل کی کیفیت اور ہو گئی.میں نے دل میں کہا کہ الہی ! اس شکل اور صورت کا انسان میں نے آج تک کبھی نہیں دیکھا.بال کیا تھے؟ جیسے سونے کی تاریں تھیں اور آنکھیں خوابیدہ، گویا ایک مکمل حیا کا نمونہ پیش کر رہی تھیں.ہاتھ اور پیروں کی خوبصورتی علیحدہ دل کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی.اسی عالم میں محو تھا کہ الہی یہ وہی انسان ہے جس کو ہمارے مولوی جھوٹا اور نبیوں کی ہتک کرنے والا بتاتے ہیں.میں اسی خیال میں غرق تھا کہ امام نے اللہ اکبر کہا اور نماز شروع ہو گئی.گوئیں نماز میں تھا مگر جب تک سلام پھر ائیں اس حیرانی میں رہا کہ الہی ! وہ ہمارا مولوی جس کی داڑھی بڑھی ہوئی اور شرعی طور پر لہیں تراشی ہوئیں، قرآنِ مجید کو ہاتھ میں لئے ہوئے قسمیں کھا رہا ہے اور سخت توہین آمیز الفاظ میں حضور کا نام لے لے کر کہہ رہا ہے کہ مرزا انعوذ باللہ کوڑھی ہو گیا.اسی خیال نے میرے دل پر شبہ اور شکوک کا ایک اور دریا پیدا کر دیا.کبھی تو دل کہتا کہ قرآن اٹھا کر اور خدا کی قسم کھا کر بیان کرنے والا کبھی جھوٹ کہہ سکتا ہے؟ (یعنی ایسا تصور ہی نہیں تھا کہ اُن کے مولوی کیا کچھ کہہ سکتے ہیں.) شاید یہ شخص جو نماز میں کھڑا ہے مرزا نہ ہو کوئی اور ہو.نئے آدمیوں کو دھوکہ دینے کے لئے ایسا کیا جاتا ہو.اور پھر جس وقت حضور کی صاف اور سادہ نورانی شکل سامنے آئی تو دل کہتا کہ کہیں وہ قسم اٹھانے والا دشمنی کی وجہ سے جھوٹ نہ بول رہا ہو کہ لوگ سن کر قادیان کی طرف نہ جائیں.خیر نماز ہوگئی.حضور شاہ نشین پر بیٹھ گئے.اول تو آواز دی کہ مفتی صاحب ہیں تو آگے آجاو ہیں.جب مفتی صاحب آگے آئے تو پھر حضور نے فرمایا کہ مولوی صاحب کہاں ہیں؟ میں نے دیکھا کہ مولوی صاحب حضرت خلیفتہ اسیح الاول مولوی نور الدین صاحب سب سے آخری صف میں سے اُٹھ کر تشریف لائے.حضور نے باتیں شروع کر دیں جو طاعون کے بارے میں تھیں.فرمایا ہم نے پہلے ہی لوگوں کو بتا دیا تھا کہ میں نے فرشتوں کو پنجاب میں سیاہ رنگ کے پودے لگاتے دیکھا اور پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا یہ طاعون کے درخت ہیں جو آئندہ موسم میں پنجاب میں ظاہر ہونے والے ہیں.مگر لوگوں نے اس پر تمسخر کیا اور کہا کہ طاعون ہمیشہ سمندر کے کناروں تک رہی ، اندر ملک میں وہ کبھی نہیں آئی.مگر اب دیکھو کہ وہ پنجاب کے بعض شہروں میں پھوٹ پڑی ہے.غرض عشاء تک حضور باتیں کرتے رہے.عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد حضور اندر
خطبات مسرور جلد دہم 509 خطبه جمعه فرموده مورخه 24 اگست 2012 ء تشریف لے گئے.ہم بھی آکر سور ہے.آپس میں باتیں کرتے رہے کہ یہ کیا بھید ہے؟ ہمارا مولوی تو قرآن اُٹھا کر اور خدا کی قسم کھا کر کہتا تھا اور یہاں معاملہ برعکس نکلا.خیر صبح ہم لوگ اٹھے تو ارادہ یہ ہوا کہ مولوی نور الدین صاحب سچ بولیں گے، ان سے دریافت کرتے ہیں کہ یہی مرزا صاحب ہیں یا کوئی اور.جب اُن کے مطب میں گئے تو ایک مولوی صاحب نے اعتراض پیش کیا کہ پہلے جتنے نبی ولی گزرے ہیں وہ تو کئی کئی فاقوں کے بعد بالکل سادہ غذا کھاتے تھے اور مرزا صاحب سنا ہے کہ پلاؤ زردہ بھی کھاتے ہیں.حضرت خلیفہ اول نے ان کو جواباً کہا کہ مولوی صاحب! میں نے قرآنِ مجید میں زردہ اور پلاؤ کو حلال ہی پڑھا ہے.اگر آپ نے کہیں دیکھا ہے کہ حرام ہے تو بتا دیں.اس مولوی نے تھوڑی دیر جو سکوت کیا تو میں نے جھٹ وہ اشتہار نکال کر مولوی صاحب کے آگے رکھا کہ ہمارا ایک مولوی قسم بھی قرآن کی اٹھا کر کہتا تھا کہ مرزا نعوذ باللہ کوڑھی ہو گئے ہیں اور ہم کو جو بتایا گیا ہے کہ یہی مرزا صاحب ہیں وہ تو تندرست ہیں.آپ بتائیں کہ یہی مرزا صاحب ہیں جن کو ہم نے نماز میں دیکھا ہے یا کوئی اور.تو خلیفہ اول نے بھی جھٹ جیب میں ہاتھ ڈال کر وہی اشتہار نکال کر بتلایا کہ دیکھو ہم کو تمہارے مولویوں نے یہ اشتہار روانہ کیا ہے.اب یہ مرزا ہے اور وہ تمہارے مولوی جس نے قرآن ہاتھ میں پکڑ کر جھوٹ بولا.جس کو چاہو سچا مان لو.بس پھر کیا تھا میرے آنسونکل گئے.میں نے دل میں کہا کہ کمبخت اب بھی تو بیعت نہ کرے گا.واقعی یہ مولوی زمانے کے دقبال ہیں.ہم تینوں نے ظہر کے وقت حضور کی خدمت میں عرض کی کہ ہم کو بیعت میں لے لیں.حضور نے کہا جلدی مت کرو.کچھ دن ٹھہر و.ایسا نہ ہو کہ پھر مولوی تم کو پھسلا ویں اور تم زیادہ گناہگار ہو جاؤ.میں نے رو رو کر عرض کی کہ حضور! میں تو اب کبھی پھسلنے کا نہیں.خیر دوسرے روز ہم تینوں نے بیعت کر لی اور گھر واپس آگئے.(ماخوذ از رجسٹر ز روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 5 صفحہ 45 تا49.روایت حضرت نظام الدین ٹیلر صاحب) حضرت میاں عبدالعزیز صاحب کی روایت ہے کہ "جب 1891ء میں میری تبدیلی حلقہ سیکھواں میں ہوئی اور میاں جمال الدین صاحب اور میاں امام الدین صاحب ومیاں خیر دین صاحب سے واقفیت ہوئی تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعویٰ مسیحیت اور مہدویت کا ذکر کیا تو چونکہ میرے دل میں حضور کی نسبت کوئی بغض اور عداوت نہ تھا ، میں نے اُن کے کہنے کو بُرا نہ منایا.صرف یہ خیال آیا کہ مولوی لوگ کیوں ایسا کہتے ہیں؟ اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ خاکسار کے آباؤاجداد اکثر مولوی لوگوں سے بوجہ اپنے دیندار ہونے کے محبت رکھا کرتے تھے اور یہی وجہ خاکسار کی بھی مولویوں سے ان کی
خطبات مسرور جلد دہم 510 خطبه جمعه فرموده مورخه 24 اگست 2012 ء بات ماننے کی تھی.کہتے ہیں انہوں نے (یعنی میاں امام دین وغیرہ نے ) جب مجھے کتاب ازالہ اوہام دیکھنے کو دی تو میں نے کتاب دیکھنے سے پہلے دعا کی کہ خداوندا! میں بالکل نادان اور بے علم ہوں.تیرے علم میں جو حق ہے اُس پر میرے دل کو قائم کر دے.یہ دعا ایسی جلد قبول ہوئی کہ جب میں نے ازالہ اوہام کو پڑھنا شروع کیا تو اس قدر دل کو اطمینان اور تسلی شروع ہوئی کہ حضور کی صداقت میں کوئی شک وشبہ باقی نہ رہا اور زیادہ سے زیادہ ایمان بڑھتا گیا.اور جب پھر میں پہلی بار قادیان میں حضور کی زیارت کو میاں خیر الدین کے ساتھ آیا اور حضور کی زیارت کی تو میرے دل نے ایسی اطمینان اور تسلی کی شہادت دی کہ یہ شکل جھوٹ بولنے والی اور فریب والی نظر نہیں آتی.چنانچہ اُس وقت میں نے میاں خیر الدین صاحب کو کہا کہ اول تو میں نے حضور کی نسبت کوئی لفظ بے ادبی اور گستاخی کا کبھی نہیں کہا اور اگر خدانخواستہ کبھی ایسا ہو گیا ہو تو میں تو بہ کرتا ہوں.یہ شکل جھوٹ بولنے والے کی نہیں“.(ماخوذ از رجسٹر ز روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 5 صفحہ 69.روایت حضرت میاں عبدالعزیز صاحب ) اور یہی پھر ان کی بیعت کا ذریعہ بن گئی.اصل چیز یہی نیک نیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی جائے اور اسی کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بارہا ارشاد فرمایا ہے کہ میری کتابیں نیک نیتی سے پڑھو.پڑھتے تو یہ مولوی لوگ بھی ہیں لیکن اعتراض کرنے کے لئے اور ان کے ذہنوں میں سوائے گندی ذہنیت کے اور کچھ نہیں ہوتا.جب قرآن کریم بھی یہ دعویٰ کرتا ہے، اعلان کرتا ہے کہ اس کی سمجھ پاک ہونے والوں کو ہی آئے گی تو پھر باقی اور کسی کتاب کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے.بہر حال ان مولویوں کا یہ حال جو آج سے سو سال پہلے یا ڈیڑھ سو سال پہلے یا ہمیشہ سے تھا وہ آج بھی ہے.حضرت ڈاکٹر محمد عبد اللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ”میری عمرقریباً اٹھارہ یا انیس برس کی تھی جبکہ دسمبر 1903ء میں خواب میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کی.اس سے پہلے میں نے حضور کو کبھی نہیں دیکھا تھا.حضور نے دریافت فرمایا کہ تم کس کے مرید ہو؟ میں نے عرض کیا کہ جناب ! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرید ہوں.اس کے بعد مجھے آئینہ کمالات اسلام اور تریاق القلوب پڑھنے کا اتفاق ہوا جن کے مطالعہ سے میری طبیعت کا رجوع سلسلہ احمدیہ کی طرف ہوا.1906ء میں میں نے استخارہ کیا.گوجرہ ضلع لائل پور میں میری ملازمت تھی.صبح کی نماز کے بعد مجھے کشفی طور پر مین بیداری کی حالت میں سیڑھیاں دکھائی گئیں.ہر ایک سیڑھی پر بورڈ لگا ہوا تھا.آخری سیڑھی کے درمیان سرخ زمین پر سفید لفظوں میں ایک بورڈ نظر آیا جس پر موٹے حروف میں لکھا ہوا تھا.مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود.( کہتے ہیں) "
خطبات مسرور جلد دہم 511 خطبه جمعه فرموده مورخه 24 اگست 2012 ء ستمبر 1907ء میں رعیہ ضلع سیالکوٹ میں اپنے سسر کو ملنے گیا جہاں وہ جمعدار تحصیل تھے ، میری ملاقات مکرمی حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب مرحوم انچارج ہسپتال رعیہ سے ہوئی.اُن کے ہمراہ میں قادیان گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ظہر کی نماز کے وقت زیارت کی.جو حلیہ حضور کا 1903ء کی خواب میں میں نے دیکھا تھا ، وہ حلیہ اُس وقت تھا اور کپڑے بھی ویسے ہی تھے.پس یہ چیز پھر بیعت کا باعث بن گئی.(رجسٹر ز روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 1 صفحہ 33.روایت حضرت ڈاکٹر محمد عبد اللہ صاحب) حضرت ملک عمر خطاب صاحب سکنہ خوشاب بیان کرتے ہیں کہ خاکسار جب سن بلوغت کو پہنچا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعویٰ مامور من اللہ سننے میں آیا.شوق پیدا ہوا کہ جس قدر جلدی ہو سکے خدمت میں پہنچ کر بیعت کا شرف حاصل کرے.بفضل ایزدی سال 1905ء میں اپنے دلی ارادہ کے ماتحت قادیان پہنچا.ایک چھوٹی سی بستی اور کچی دیواروں کا مہمان خانہ اور چند طالبعلموں کا درس جس کی تدریس مولانا حضرت حکیم نورالدین اعظم رضی اللہ عنہ کر رہے تھے، نظر سے گزرے.یہ قادیان کا نقشہ کھینچ رہے ہیں.چھوٹی بستی ہے، کچی دیواروں کا مہمان خانہ ہے، چند طالبعلم ہیں اور اُس وقت حضرت مسیح موعود کا دعویٰ پہنچا.( کہتے ہیں اس قدر دعوئی اور موجودہ بستی پر حیرانگی کا ہونا ممکنات سے تھا.“ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس قدر بڑا دعویٰ ہے اور بستی کی یہ حالت ہے.اس پر حیرانگی ہوئی.یہ تو ظاہر ہے حیرانگی ہوئی تھی کیونکہ یقین نہیں آ سکتا تھا.لیکن کہتے ہیں ) مگر باوجود اس کے قلب صداقت پر شاہد تھا.“ ساری چیزیں دیکھنے کے باوجود اس بات پر یقین ہو رہا تھا کہ یہ جو دعویٰ ہے وہ ضرور سچا ہے.کہتے ہیں کہ لبیک کہتے ہوئے بغیر ملنے مولوی صاحب موصوف کے جو ہم وطن تھے ( یعنی حضرت خلیفہ اسی الاول کے ) ایک عریضہ حضور کی خدمت میں اندر بھیجا.اُس میں عرض ہوا کہ حضور باہر تشریف لائیں، بیعت کرنی ہے.یہ لکھا کہ حضور باہر تشریف لائیں.میں نے بیعت کرنی ہے) اور آج ہی واپس جانا ہے.حضور نے تحریری جواب بھیجا کہ وسمہ لگایا ہوا ہے.ابھی ایک بجے اذان ہوگی.مسجد مبارک میں آ جاؤں گا.اسی اثنا میں دو شخص قوم سکھ مہمان خانے میں دوڑتے ہوئے آگئے.وہاں سوائے خاکسار کے اور کوئی نہ تھا.کہنے لگے حجام کو جلدی بلوا دیں.کیس کٹوانے ہیں.یعنی اپنے بال کٹوانے ہیں اور بیعت کرنی ہے.خاکسار نے ناواقفی کا اظہار کیا.حجام کا ملنا بہت مشکل تھا.اس آمد کی اطلاع بھی حضور کو خاکسار نے بذریعہ عریضہ بھیجی.حضور نے اس پر بھی مندرجہ بالا جواب دیا.خاکسار نے اُن کی گھبراہٹ کی نسبت دریافت کیا تو
خطبات مسرور جلد دہم 512 خطبه جمعه فرموده مورخه 24 اگست 2012 ء (انہوں نے بتلایا کہ ہم دونوں بھائی قادیان کے نزدیک رہنے والے ہیں اور چھاؤنی میاں میر فوج میں ملازم ہیں.باپ کے بیمار ہونے پر گھر آئے.اُن کو سخت تکلیف ہورہی تھی.سکھ قوم کے ایک بزرگ نے ہمارے باپ کو کہا کہ لا الهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ پڑھو تا کہ تمہاری جان بحق ہو.ہمارے باپ نے ایسا ہی کیا اور جان بحق ہو گئے.ہم پر اس کا یہ اثر ہوا کہ بجائے اخیر وقت کے پہلے اس کلمہ کو پڑھ لینا چاہئے.مرزا صاحب نے دعویٰ کیا ہوا تھا.دوسرے دن ( ان سکھوں نے ) مستورات کو اپنے ارادہ کے ساتھ ملانے کے لئے کہا.مگر انہوں نے شور مچا دیا.قوم سکھ جمع ہوگئی.ہم نے اُن سے قادیان کی طرف فرار اختیار کیا.وہ ڈانگ سوٹا لئے (ہمارے ) تعاقب کو آ رہے ہیں.جلدی کی ضرورت ہے.( خیر کہتے ہیں) اس اثنا میں اذان ہوگئی.خاکسار مع ان کے مسجد مبارک پہنچا.چھوٹی سی مسجد اس قدر بھری ہوئی تھی کہ تیل دھرنے کی جگہ نہ تھی.( یہ دونوں سکھ بھائیوں کا واقعہ انہوں نے بیان کیا ہے اس کے بارہ میں میں نے کہا ہے کہ تحقیق کر کے پتہ کریں یہ کون تھے اور پھر احمدی ہوئے بھی کہ نہیں ، بہر حال انہوں نے اپنے واقعہ میں یہ لکھا ہے.کہتے ہیں کہ جب ہم مسجد پہنچے ہیں تو کہیں جگہ نہیں تھی.) جو تیوں میں حیران کھڑا ہو گیا.واقفیت بھی کسی سے نہ تھی.معا حضرت صاحب نے محراب والا دروازہ کھولا اور لوگ کھڑے ہو گئے.خاکسار لوگوں کی ٹانگوں سے گزرتا ہوا حضور کے آگے جا کھڑا ہو گیا.حضور بیٹھ گئے.خاکسار حضور کے آگے بیٹھ گیا.حضور نے پوچھا تم کون ہو؟ عرض کیا بیعت کے لئے آیا ہوں.عریضہ خاکسار نے بھیجا تھا.مولوی صاحب نے دیگر لوگوں کے لئے جو خاکسار سے پہلے بیعت کے لئے بیٹھے تھے، بیعت کرنے کو عرض کی.حضور نے خاکسار کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہاتھ پر رکھ لیا اور فرمایا کہ اس بچے پر ہاتھ رکھو.چنانچہ حضور کے حکم کے مطابق سب نے خاکسار کی پشت پر ہاتھ رکھا.بیعت ہوئی.حضور نے دعا فرمائی.پھر نماز ہوئی.(رجسٹر ز روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 3 صفحہ 53 تا 55.روایت حضرت ملک عمر خطاب صاحب) حضرت رحمت اللہ صاحب احمدی پنشنر بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے چند ماہ لدھیانہ میں قیام فرمایا.میری عمر اس وقت قریباً سترہ اٹھارہ برس کی ہوگی اور طالبعلمی کا زمانہ تھا.میں حضور کی خدمت اقدس میں گا ہے لگا ہے حاضر ہوتا.مجھے وہ نور جو حضور کے چہرہ مبارک پر ٹپک رہا تھا نظر آیا جس کے سبب سے میرا قلب مجھے مجبور کرتا کہ یہ جھوٹوں کا منہ نہیں ہے، مگر گردونواح کے مولوی لوگ مجھے شک میں ڈالتے.اسی اثنا میں حضور کا مباحثہ مولوی محمد حسین بٹالوی سے لدھیانہ میں ہوا جس میں میں شامل تھا.اس کے بعد خدا نے میری ہدایت کے لئے ازالہ اوہام کے ہر دو حصے بھیجے.وہ سراسر نور و ہدایت
خطبات مسرور جلد دہم 513 خطبه جمعه فرموده مورخه 24 اگست 2012ء سے لبریز تھے.خدا جانتا ہے کہ میں اکثر اوقات تمام رات نہیں سویا.اگر کتاب پر سر رکھ کر غنودگی ہوگئی تو ہوگئی ، ور نہ کتاب پڑھتا رہا اور روتا رہا کہ خدا یہ کیا معاملہ ہے کہ مولوی لوگ کیوں قرآن شریف کو چھوڑتے ہیں؟ ( تقویٰ ہو تو پھر انسان اس حالت میں کتاب پڑھتا ہے ) کہتے ہیں ”خدا جانتا ہے کہ میرے دل میں شعلہ عشق بڑھتا گیا.میں نے مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو لکھا کہ حضرت مرزا صاحب عیسی علیہ السلام کی وفات تیس آیات سے ثابت کرتے ہیں.آپ براہ مہربانی حیات کے متعلق جو آیات اور احادیث ہیں تحریر فرما دیں، اور ساتھ جو میں آیات قرآنی جو حضرت مرزا صاحب لکھتے ہیں ( کی ) تردید فرما کر میرے پاس بھیجوا دیں، میں شائع کروا دوں گا.جواب آیا کہ آپ عیسی کی حیات و ممات کے متعلق حضرت مرزا صاحب یا اُس کے مریدوں سے بحث مت کرو کیونکہ اکثر آیات وفات ملتی ہیں، یہ مسئلہ اختلافی ہے.اس امر پر بحث کرو کہ مرزا صاحب کس طرح مسیح موعود ہیں؟ ( اس پر بحث نہ کرو کہ عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے یا زندہ ہیں، اس پر بحث کرو کہ مرزا صاحب کس طرح مسیح موعود ہیں؟ کیونکہ قرآن کریم تو وفات مسیح کی تائید کرتا ہے.کہتے ہیں میں نے ) جواب میں عرض ہوا کہ اگر حضرت عیسی فوت ہو گئے ہیں تو حضرت مرزا صاحب صادق ہیں.جواب ملا کہ آپ پر مرزا صاحب کا اثر ہو گیا ہے، میں دعا کروں گا.( کہتے ہیں ) جواب میں (میں نے ) عرض کیا گیا کہ آپ اپنے لئے دعا کرو.آخر میں آستانہ الوہیت پر گرا اور میرا قلب پانی ہو کر بہہ نکلا.گویا ئیں نے عرش کے پائے کو ہلا دیا.( عرض کی ) خدایا مجھے تیری خوشنودی درکار ہے.میں تیرے لئے ہر ایک عزت کو شمار کرنے کو تیار ہوں اور ہر ایک ذلت کو قبول کروں گا.تو مجھ پر رحم فرما.تھوڑے ہی عرصے میں میں اس ذات کی قسم کھاتا ہوں جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ بوقت صبح قریباً چار بجے پچیس دسمبر 1893ء بروز سوموار جناب سید نا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی.تفصیل اس خواب کی یہ ہے کہ خاکسار موضع بیرمی میں نماز عصر کا وضو کر رہا تھا ( یہ خواب کی تفصیل بتا رہے ہیں ).کسی نے مجھے آ کر کہا کہ رسول عربی (صلی اللہ علیہ وسلم ) آئے ہوئے ہیں اور اسی ملک میں رہیں گے.میں نے کہا کہاں؟ اُس نے کہا یہ خیمہ جات حضور کے ہیں.میں جلد نماز ادا کر کے گیا.حضور چند اصحاب میں تشریف فرما تھے.بعد سلام علیکم مجھے مصافحہ کا شرف بخشا گیا.میں باادب بیٹھ گیا.حضور ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) عربی میں تقریر فرما رہے تھے.خاکسارا اپنی طاقت کے موافق سمجھتا تھا اور پھر اردو بولتے تھے.فرمایا میں صادق ہوں.میری تکذیب نہ کرو.وغیرہ وغیرہ.میں نے کہا امَنَّا دَ صَدَّقْنَا يَا رَسُولَ الله.تمام گاؤں مسلمانوں کا تھا مگر کوئی نزدیک نہیں آتا تھا.میں (خواب میں)
خطبات مسرور جلد دہم 514 خطبه جمعه فرموده مورخه 24 اگست 2012 ء حیران تھا کہ خدایا! یہ کیا ماجرا ہے؟ آج مسلمانوں کے قربان ہونے کا دن تھا، گویا حضور کا ابتدائی زمانہ تھا، گو مجھے اطلاع دی گئی تھی کہ حضور اسی ملک میں تشریف رکھیں گے مگر حضور نے کوچ کا حکم دیا.میں نے روکر عرض کی (کہ) حضور جاتے ہیں.میں کس طرح مل سکتا ہوں.میرے شانہ پر حضور نے اپنا دستِ مبارک رکھ کر فرمایا.گھبراؤ نہیں ہم خود تم کو ملیں گے.(اس خواب کی تفہیم ہوئی کہ حضرت مرزا صاحب رسول عربی ہیں.مجھے فعلی رنگ ( میں ) سمجھایا گیا.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ ثُمَّ الْحَمْدُ لِلَّهِ.میں نے بیعت کا خط لکھ دیا مگر بتاریخ 27 / دسمبر 1898 ء بروز منگل قادیان حاضر ہو کر بعد نماز مغرب بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا.خدا کے فضل نے مجھے وہ استقامت عنایت فرمائی کہ کوئی مصائب مجھے تنزیل میں نہیں ڈال سکا مگر یہ سب حضور کی صحبت کا طفیل تھا جو بار بار حاصل ہوئی اور ان ہاتھوں کو حضور کی مٹھیاں بھرنے کا (یعنی دبانے کا) فخر ہے.گو مجھے اعلان ہونے پر رنگا رنگ کے مصائب پہنچے مگر خدا نے مجھے محفوظ ہی نہیں رکھا بلکہ اس نقصان سے بڑھ کر انعام عنایت کیا اور میرے والد اور بھائی اور قریبی رشتہ دار احمدی ہو گئے ، الحمد للہ.لکھتے ہیں کہ اگر طوالت کا خوف نہ ہو تو میں چند واقعہ اور تحریر کرتا اور یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ درود تاج احمدی ہونے کے بعد بھی پڑھا کرتا تھا.“ یہ بھی درود کی ایک قسم ہے.انہوں نے جو مختلف جو درود بنائے ہوئے ہیں.” میرے استاد مولوی عبدالقادر صاحب لدھیانوی جو میرے بعد احمدی ہو گئے تھے.مجھے منع فرماتے تھے کہ شرک ہے.مت پڑھا کرو.میں نے کہا کہ مسیح موعود سے کہلا دو پھر چھوڑ دوں گا.اتفاقاً کسی جلسہ سالانہ پر خاکسار اور مولوی صاحب بھی موجود تھے.حضور ہوا خوری کے لئے (سیر کے لئے ) نکلے، مولوی صاحب نے اس موقع پر عرض کیا کہ حضور منشی رحمت اللہ صاحب درود تاج پڑھتے ہیں، میں نے منع کیا کہ یہ شرک ہے.حضور نے میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا ( کہ ) کیا ہے؟ درود تاج پڑھو.( مجھے بتاؤ یہ کونسا درود ہے جو تم پڑھتے ہو؟ میں نے پڑھ کر سنایا.فرمایا اس میں تو شرک نہیں.مولوی صاحب نے عرض کیا کہ اس میں یہ الفاظ ہیں.دَافِعُ الْبَلَاءِ وَالْوَبَاءِ وَالْقَحْطِ وَالْمَرَضِ والالم.تو حضور نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ کو لوگوں نے سمجھا نہیں.اس میں کیا شک ہے کہ حضور کا نام دافع البلاء اور وباء ہے.بہت لمبی تقریر فرمائی.مولوی صاحب خوش ہو گئے اور فائدہ عام کے لئے تحریر کیا گیا.(پھر بعد میں مضمون لکھا) ( رجسٹر ز روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 3 صفحہ 58 تا60.روایت حضرت رحمت اللہ صاحب) حضرت سید محمود عالم صاحب بیان کرتے ہیں کہ 1903ء میں میرے بڑے بھائی سید محبوب
خطبات مسرور جلد دہم 515 خطبه جمعه فرموده مورخه 24 اگست 2012 ء عالم پٹنہ شہر میں کسی طرف جارہے تھے کہ دو شخص یہ کہتے ہوئے گزر گئے کہ پنجاب میں کسی شخص نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے.بھائی صاحب کو بچپن سے قرآن شریف سے محبت ہے.اس لئے یہ سن کر حیران سے رہ گئے کہ پوچھوں تو کس سے پوچھوں ( کہ دعوی کیا ہے؟) کہنے والے تو چلے گئے.شاید اسٹیشن ماسٹر کو معلوم ہو.چنانچہ اُن کا خیال درست نکلا.( سٹیشن ماسٹر کے پاس گئے.) نام و پستہ وغیرہ دریافت کر کے مکان پر آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک خط لکھا کہ مجھے آپ کے حالات معلوم نہیں.صرف نام سنا ہے.اگر براہ کرم اپنی تصانیف بھیج دیا کریں تو پڑھ کر واپس کر دیا کروں گا.چنانچہ مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کتا بیں بھجواتے رہے اور بھائی صاحب پڑھ پڑھ کر واپس کرتے رہے.لوگوں نے اُسی وقت سے مخالفت شروع کر دی مگر بھائی صاحب نے استقلال سے کام لیا اور کچھ عرصہ بعد بیعت کر لی.میں نے بھی کچھ عرصے بعد بھائی صاحب کے ذریعے کتابیں پڑھیں اور بیعت کر لی.احمدیت سے کچھ عرصہ پہلے ( یعنی احمدیت قبول کرنے سے پہلے میں شہر سے ) گھر گیا.اور اتفاق سے والد صاحب کے ساتھ سویا.خواب میں والد صاحب کو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تیرا یہ لڑ کا جو تیرے ساتھ سویا ہوا ہے.بہت بڑا وکیل ہوگا.لیکن جب احمدی ہو گیا تو اُس وقت والد صاحب سے کہا کہ آپ کے خواب کی تعبیر میرا احمدی ہونا ہے.( تب میں نے والد صاحب کو کہا.آپ نے جو خواب میں بڑا آدمی دیکھا تھا یہ اس طرح پوری ہوئی ہے.) کہتے ہیں کہ ابھی دوسال کی متواتر اور خطرناک بیماری سے ( کچھ عرصہ بعد یہ بیمار ہو گئے اور بڑا لمبا عرصہ دوسال کے قریب بیماری چلی، اور خطر ناک بیماری تھی.کہتے ہیں ) پوری طرح صحت یاب بھی نہیں ہوا تھا کہ قادیان آنے کا شوق بلکہ جنون پیدا ہوا.اے محبت عجب آثار نمایاں کر دی زخم و مرهم براہِ یار تو یکساں کردی کہ محبت نے ایسے آثار نمایاں کئے ہیں کہ یار کی محبت میں زخم اور مرہم برابر ہو گئے ہیں.کہتے ہیں کہ ) بھائی صاحب نے اصرار کیا کہ قادیان میں خزانہ نہیں رکھا ہوا.( جب میں نے قادیان جانے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کہا کہ وہاں خزانہ نہیں ہے اس لئے اگر تم نے جانا ہی ہے تو ) کم از کم میٹرک کا امتحان پاس کر کے جانا تا کہ وہاں تکلیف نہ ہو.والدین غیر احمدی تھے ( اُن سے تو کوئی امید نہیں تھی.) الغرض کسی نے زاد راہ نہیں دیا.( نہ بھائی مانا نہ والدین سے لے سکا.) بیماری کی وجہ سے میرا جسم بہت ہی کمزور اور ضعیف ہو رہا تھا.مجھ میں دو چار میل بھی چلنے کی طاقت نہ تھی.بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک میل چلنے کی بھی
خطبات مسرور جلد دہم 516 خطبه جمعه فرموده مورخه 24 اگست 2012 ء طاقت نہ تھی مگر خدا تعالیٰ نے دل میں جوش ڈال دیا اور پیدل سفر کرنے کے لئے تیار ہو گیا.اُس وقت میں پٹنہ میں تھا.چلتے وقت لوگوں نے مشورہ دیا کہ والدین سے مل کر جاؤ.میں نے انکار کر دیا کہ ممکن ہے والدہ کی نوحہ و فریاد سے میری ثبات قدمی جاتی رہے اور قادیان جانے کا ارادہ ترک کر دوں.بہر حال چلا اور چلا.چلتے وقت ایک کارڈ حضرت مسیح موعود کولکھا کہ میرے لئے دعا کی جائے.میرے حالاتِ سفر یہ ہیں.( پیسہ پاس نہیں ، کمزور صحت لیکن میں نے سفر کا ارادہ کر لیا.میں بہت کمزور اور نحیف ہوں اور ایک کارڈ بھائی صاحب کو لکھا کیونکہ اس وقت وہ دوسری جگہ پر تھے کہ میں جارہا ہوں.اگر قادیان پہنچا تو خط لکھوں گا.اور اگر راستے میں مر گیا تو میری نعش کا بھی کسی کو پتہ نہ لگے گا.( کہتے ہیں ) میں نے سفر کے لئے احتیاطی پہلو اختیار کر لئے تھے.ریلوے لائن کا نقشہ رکھ لیا تھا.پس جلدی جلدی چند درسی کتب فروخت کر کے کچھ پیسے رکھ لئے تھے.( کہتے ہیں ) میں کمزور بہت تھا اور مسافت دور کی تھی.(اس لئے ) پچاس ساٹھ میل تک ریل کا سفر کیا تا کہ اگر صحت ) کی کمزوری کی وجہ سے میں نے ) کمزوری دکھائے تو لوٹنے کی ہمت نہ ہو.( کیونکہ پھر ساٹھ ستر میل کا فاصلہ ہو چکا ہو گا اور کوٹنے کی ہمت نہیں ہوگی.) اور بجائے واپس ہونے کے آگے ہی آگے چلتا رہوں گا.( کہتے ہیں ) میں اس سفر میں تھیں تھیں میل روزانہ چلتا رہا.جہاں رات ہوتی ٹھہر جاتا، کبھی سٹیشن پر اور کبھی گمٹیوں میں.پاؤں کے دونوں تلوے زخمی ہو گئے تھے.( یہ دعا کرتا تھا ” خدایا آبرورکھیو میرے پاؤں کے چھالوں کی.“ جب رات بسر کرنے کے لئے کسی جگہ ٹھہرتا تو شدت درد کی وجہ سے پاؤں اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتا تھا.صبح ہوتی نماز پڑھتا اور چلنے کے لئے قدم اُٹھاتا تو پاؤں اپنی جگہ سے ہلتے نہیں تھے.باہزار دشواری انہیں حرکت دیتا اور ابتدا میں بہت آہستہ آہستہ قدم اُٹھا تا اور چند منٹ بعد اپنی پوری رفتار میں آ جا تا.پاؤں جوتا پہننے کے قابل نہیں رہے تھے کیونکہ چھالوں سے پر تھے بلکہ چمڑہ اُتر کر صرف گوشت رہ گیا تھا ( لیکن قادیان جانے کا شوق تھا اس لئے چلتے چلے جارہے تھے.کہتے ہیں ) کہ اس لئے کبھی روڑے اور کبھی ٹھیکریاں چبھ چبھ کر بدن کولرزا دیتی تھیں.کبھی ریل کی پٹڑی پر چلتا اور کبھی عام شاہراہ پر اتر آتا.بڑے بڑے ڈراؤنے راستوں سے گزرنا پڑا.ہزاروں کی تعداد میں بندروں اور سیاہ منہ والے لنگوروں سے واسطہ پڑا جن کا خوفناک منظر دل کو ہلا دیتا.علی گڑھ شہر سے گزرا مگر مجھے خبر نہیں کہ کیسا ہے؟ ( گزر تو گیا اُس شہر سے لیکن مجھے نہیں پتہ کیسا ہے کیونکہ میرا مقصد تو صرف ایک تھا اور میں چلتا چلا جارہا تھا.) اور کالج وغیرہ کی عمارتیں کیسی ہیں؟ البتہ چلتے چلتے دائیں بازو پر کچھ فاصلے پر سفید عمارتیں نظر آئیں اور پاس سے گزرنے والے سے پوچھ کر کہ یہ عمارت
خطبات مسرور جلد دہم 517 خطبه جمعه فرموده مورخه 24 اگست 2012 ء کیسی ہے؟ اور اُس کے یہ کہنے پر کہ کالج کی عمارت ہے، آگے چل پڑا.دہلی شہر سے گزرا اور ایک منٹ کے لئے بھی وہاں نہ ٹھہرا کیونکہ میرا مقصود کچھ اور تھا.وہاں کے بزرگوں کی زیارت میرا مقصود نہ تھا.اس لئے میں ایک سیکنڈ کے لئے بھی اپنے مقصود سے باہر نہیں ہونا چاہتا تھا.زخمی پیروں کے ساتھ قادیان پہنچا اور مہمان خانے میں ٹھہرا.چند منٹ کے بعد حضرت حافظ حامد علی صاحب مرحوم (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے دودھ کا ایک گلاس دیا.میری جیب میں پیسے نہیں تھے.اس لئے لینے سے انکار کر دیا.آخر ان کے کہنے پر کہ خرچ سے نہ ڈریں.آپ کو پیسے نہیں دینے پڑیں گے.(دودھ پی لیں دودھ ) پی لیا.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ کہ قادیان میں سب سے پہلی غذا دودھ ملی.میری موجودگی میں بہت سے لوگ آئے مگر کسی کو بھی دودھ کا گلاس نہیں دیا گیا ( صرف مجھے ہی دودھ کا گلاس پیش کیا گیا.کہتے ہیں ) اسی روز سے میں اب تک ( ہر چیز کا ) نا واقف ہوں.پھر حضرت مسیح موعود سے ملا.حضور حالات دریافت کرتے رہے.لوگ بیعت کرنے لگے تو حضور نے خود ہی مجھے بھی بیعت کے لئے کہا.میں اُس وقت حضور کے پاؤں دبارہا تھا.یہی ایک جنون تھا جو کام آ گیا اور نہ آج صحابیوں کی فہرست میں میرا نام کس طرح آتا ؟ اے جنوں گرد تو گردم کہ چہ احساں کر دی اللّهُمَّ مُلِكَ الْمُلْكِ تُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ (پھر آگے بیان کرتے ہیں کہ ) خلیفہ اول نے زخموں کا علاج کیا اور حافظ روشن علی صاحب مرحوم کو تعلیم کے لئے مقرر کر دیا اور بعد میں خود تعلیم دیتے رہے.( پیروں کے جو زخم تھے اُن کا علاج حضرت خلیفہ اول نے کیا اور حضرت حافظ روشن علی صاحب اور خلیفہ مسیح الاول " پھر تعلیم دیتے رہے.پھر آگے لکھتے ہیں کہ مئی 1908ء میں یہ قادیان کے ہور ہے.) مئی 1908 ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور تشریف لے گئے اور بعد میں حضرت خلیفہ اول کو بھی بلوا بھیجا تو حضرت خلیفہ اول " مجھے بھی ساتھ لے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت میں آپ کے دائیں بازو میں کھڑا تھا.لاہور سے جنازہ کے ساتھ قادیان آیا.جب حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باغ میں لوگوں سے بیعت لی.میں اُس وقت چار پائی پر آپ کے ساتھ بیٹھا تھا.حضرت خلیفہ اول نے اُس وقت جو تقریر کی اور حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے روروکر جو معافی مانگی وہ میرے دماغ میں اب تک گونج رہا ہے.بیعت کے بعد نماز جنازہ ادا کی گئی.پھر باغ والے مکان میں حضرت کا تابوت زیارت کے لئے رکھا گیا اور چہرے سے کپڑا اتار دیا گیا.لوگ مغربی دروازہ سے گزر کر زیارت کرتے ہوئے مشرقی دروازہ سے نکل جاتے.“ (رجسٹر ز روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 4 صفحہ 25 تا 28.روایت حضرت سید محمود عالم صاحب)
خطبات مسرور جلد دہم 518 خطبه جمعه فرموده مورخه 24 اگست 2012 ء تو یہ ان بزرگوں کے چند واقعات تھے جنہوں نے ایک تڑپ اور لگن سے آنے والے مسیح موعود کو مانا.سید محمود عالم صاحب کا جو واقعہ ہے یہ بھی دراصل حدیث میں جو آیا ہے ناں کہ گھسٹتے ہوئے گھٹنوں کے بل بھی چل کے جانا پڑے تو جانا، اُسی کی ایک شکل بنتی ہے.کس قدر تکلیف اُٹھائی ہے لیکن ایک عزم تھا جس سے وہ چلتے رہے اور آخر کا را اپنی منزل مقصود تک پہنچے.اللہ تعالیٰ ان صحابہ کے درجات کو بلند فرماتا چلا جائے اور ہمیں بھی اپنے ایمان وایقان میں ترقی عطا فرمائے.اور عامتہ المسلمین کے بھی سینے کھولے کہ وہ مسیح موعود کو پہچاننے والے ہوں تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بہنیں اور یہ جو آفات آجکل ان پر ٹوٹی پڑ رہی ہیں ان سے بھی بچنے والے ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا حق ادا کرنے والے ہوں.اب میں ایک افسوسناک اطلاع بتاؤں گا.مکرم محمد ہاشم سعید صاحب جو یہاں کے پرانے احمدی تھے، اُن کی گزشتہ دنوں سعودی عرب میں وفات ہو گئی ہے.انّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.(حضور نے دریافت فرمایا : ان کا جنازہ آ گیا ہے ) آج ہی اُن کا جنازہ پہنچا ہے.ابھی یہاں آیا ہے تو اب نماز جمعہ کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ اُن کی نماز جنازہ پڑھاؤں گا.یہاں آتے جاتے تھے.بہت زیادہ سفر کرتے تھے.11 اگست کو یہاں سے گئے ہیں اور سعودی عرب ائر پورٹ پر اترے ہیں تو وہاں اُن کو دل کی تکلیف شروع ہوئی ہے.سید ھے کلینک چلے گئے اور وہیں اچانک ہارٹ اٹیک ہوا اور وفات پاگئے.إِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - 2000 ء میں آپ سعودی عرب منتقل ہوئے تھے.اُس سے پہلے آپ یہیں تھے.اور متواتر کئی سال تک آپ کو وہاں بھی مختلف اہم جماعتی خدمات سرانجام دینے کی توفیق ملی.جماعت کے جو روٹین کے خدمات کے عہدے ہیں وہ آپ کے پاس رہے.لیکن اس کے علاوہ بھی میں اُن سے وہاں بعض اہم جماعتی کام لیتا رہا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے بڑے احسن طریقے پر سب کام سرانجام دیئے.بہت سی خوبیوں کے مالک تھے.ان میں بہت صلاحیتیں تھیں.انتظامی امور میں بڑا درک رکھتے تھے.تکنیکی پیچیدگیاں جو تھیں ان کے بارے میں علم تھا.اُن کا دینی علم بھی بڑا تھا.بلکہ کہنا چاہئے زندگی کے ہر شعبہ میں ان کی ذہانت اور مہارت قابل ستایش تھی.لیکن انتہائی منکسر المزاج، ملنسار، شفیق ، دھیمے لہجے میں بات کرنے والے عاجز انسان تھے.بڑے ہمدرد اور مخلص تھے اور ہر ایک سے اُن کا اخلاص کا تعلق تھا.چندہ جات اور مالی تحریکات میں بڑا بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے، حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دینے والے تھے.کسی کو ذراسی بھی تکلیف میں دیکھتے تھے تو بے چین ہو جاتے
خطبات مسرور جلد دہم 519 خطبه جمعه فرموده مورخه 24 اگست 2012 ء تھے اور جب تک مدد نہ کر لیتے چین نہیں آتا تھا.ان کا لندن میں گھر ہے.ان کے ایک واقف زندگی ہمسائے نے مجھے بتایا کہ یہاں لکڑی کی پارٹیشنز ہوتی ہیں تو آندھی طوفان سے ان کی بیچ کی دیوار گر گئی تو ایک دن وہ خود ہی آئے ، انہوں نے کہا کہ آپ فکر نہ کریں میں خود ہی آکے ٹھیک کروا دوں گا.اُس نے سفر پر جانا تھا تو دو دن بعد خود ہی دیوار ٹھیک کروا دی.بہر حال انتہائی مخلص، نافع الناس وجود تھے.خلافت کے شیدائی، نظام جماعت کی بقا اور خدمت کے لئے عملاً ہر وقت تیار.ان کے پسماندگان میں اہلیہ اور ایک بیٹی ہیں.بعضوں نے لکھا ہے.مثلاً یہاں عربی ڈیسک میں ہمارے عکرمہ صاحب میرے سامنے بیٹھے ہیں.انہوں نے بھی مجھے لکھا کہ جماعت کے اموال و نفوس کا بہت خیال رکھنے والے صاحب بصیرت انسان تھے اور یہ حقیقت ہے.جماعتی لحاظ سے ملک کے اندرونی اور بیرونی حالات پر آپ کی بڑی گہری نظر تھی اور بڑے بہادر انسان تھے.خدا کی راہ میں کسی بھی کام کی انجام دہی کے لئے کسی چیز کی پرواہ نہیں کیا کرتے تھے.بہت کریم ، با اخلاق، بہادر اور مہربان تھے.یہ لکھتے ہیں کہ نو احمدیوں کے لئے مہربان باپ کی طرح تھے اور یہ واقعی حقیقت ہے.مجھے کئی نواحمدی بھی لکھتے رہے ہیں.آپ بسا اوقات نو احمد یوں کو ملنے اور خلافت سے ان کا تعلق جوڑنے کے لئے پانچ پانچ سو میل تک سفر کرتے تھے.آپ کو حج اور عمرہ کی سعادت بھی نصیب ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک کر تہ آپ کے پاس تھا.انہوں نے حج یا عمرہ کے دوران اس کو پہنا اور خانہ کعبہ کے ساتھ اس کو مس کیا.ان کی اہلیہ لکھتی ہیں کہ میرا ان کا بتیس سال کا ساتھ رہا لیکن سارے عرصہ میں میں نے ان کو ایک منٹ بھی ضائع کرتے ہوئے نہیں پایا.ایک نہایت شفیق، ہر ایک سے محبت کرنے والے، اسلام احمدیت کے سچے خادم، خلافت سے بے انتہا عقیدت اور اس پر جاں نثار کرنے والے، دعا گو اور ایک سچے انسان تھے.اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں جو کچھ انہوں نے لکھا ہے.انہوں نے اپنی زندگی نہایت منظم با اصول اور وقت کی پابندی کے ساتھ گزاری.چالیس سال سے زائد عرصے سے 1/9 حصہ کے موصی تھے.کہتی ہیں کہ مجھے کہا کرتے تھے کہ زندگی میں میرے لئے سب سے پہلے خلافت، پھر فیلی اور اس کے بعد دوسری چیزیں آتی ہیں.انہوں نے ہاشم صاحب کی ڈائری اُن کی وفات کے بعد دیکھی تو اس میں ان کی چند خوا میں بھی لکھی ہوئی تھیں.ایک خواب میں وہ لکھتے ہیں کہ ایک رات چار مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی.جس میں پہلی مرتبہ آپ کا چہرہ آفتاب کی طرح چمک رہا تھا.آپ نے ہاتھ میں ایک انگوٹھی پہنی ہوئی تھی جس میں سے نہایت روشن شعاعیں نکل رہی تھیں.آپ تکیے کا سہارا لے کر بیٹھے کچھ پڑھ رہے تھے اور اسی انگوٹھی سے بہت تیز شعاعیں نکل رہی تھیں.پھر دوسری خواب وہاں لکھی ہے کہ میں ایک مکان میں ہوں جس میں گویا
520 خطبات مسرور جلد دہم خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اگست 2012ء حضرت اماں جان رہائش پذیر ہیں.وہ مجھے بہت پیار اور شفقت سے ملتی ہیں.نہایت لطف و کرم سے خوش آمدید بھی کہتی ہیں.( حضرت اماں جان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیگم ہیں ) دن کا اول حصہ میں اُن کے ساتھ گزارتا ہوں.اس سارے عرصے میں حضرت اماں جان مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے بیشمار واقعات اور حالات سناتی ہیں.اس کے بعد جب خواب میں ہی پانچ چھ گھنٹے گزر گئے تو میں حضرت اماں جان اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مکان پر پہنچ جاتا ہوں اور سارا دن وہاں ان کے ساتھ گزارتا ہوں.اس دوران حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی حیات مبارکہ کے بیشمار واقعات سنائے اور بعض مقدمات کے بارے میں فرمایا کہ جب یہ بات ہوئی تو خدا نے مجھے یہ الہام کیا اور یہ وحی کی.اور پھر وحی کے نزول کا طریق اور سارا حال سنایا.اور وحی کے الفاظ بھی بتائے.پھر اس خواب میں ہی شام کو میں وہاں سے رخصت ہوا.خواب میں یہ گفتگو الفاظ کے رنگ میں نہیں اور نہ ہی کوئی شکل نظر آئی بلکہ ایک احساس کی شکل میں ہوئی.اسی طرح انہوں نے مجھے خواب میں دیکھا.مجھے کہتے ہیں کہ میں فوت ہو گیا ہوں اور آپ نے میرا جنازہ پڑھا ہے.اس پر میں نے انہیں کہا کہ ہاں یہ سچ ہے.جاؤ اور اب کھانا کھاؤ.اس کے بعد کہتے ہیں کہ میری آنکھ کھل گئی.اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اپنی مہمانی سے نوازے.جیسا کہ میں نے کہا ایک لمبا عرصہ یہاں یو کے میں رہے ہیں.جماعتی خدمات بھی سرانجام دیتے ہے.پہلے تو حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے باوجود یکہ مختلف جگہوں پر ان کو اچھی ملازمتوں کی پیشکش ہوتی رہی ہے ان کو انگلستان سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی تھی کہ یہیں انگلستان میں رہیں.پڑھے لکھے بھی تھے.اپنے کام میں بھی ماہر تھے لیکن پھر آپ کو 2000ء میں اجازت دے دی تھی لیکن باوجود اس کے کہ پڑھے لکھے تھے، اپنے فن میں بھی مہارت تھی لیکن کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ میں بہت پڑھا لکھا ہوں تا کہ تکبر پیدا نہ ہو.میرا ان سے پہلا رابطہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی وفات پر جنازے سے پہلے ہوا.جب میں پاکستان سے یہاں آیا ہوں تو ایک ایسا شخص جو نہایت عاجزی سے مختلف اعلانات کے مضمون بنا کر لا رہا تھا.کیونکہ اُس وقت کام ہو رہے تھے اعلان شائع کرنے تھے، ایم ٹی اے پر دینے تھے.جب بھی ان کو کہا کہ اس فقرہ کو اس طرح کر دیں یا یہ یہ لفظ مناسب ہے تو بغیر کسی چوں چرا کے فوراً تبدیلی کر دیتے تھے.کبھی یہ نہیں کہا کہ میں تمام عمر یہاں گزار چکا ہوں، پڑھا لکھا ہوں اور مجھے زبان میں بھی مہارت ہے اس لئے میرا مضمون ہی بہتر ہے.جس طرح کہا گیا اُس طرح تبدیلی کر دی.ان کی عاجزی بھی ہر ایک کے لئے ایک نمونہ تھی.ان کا خدمت کا جذ بہ بھی ہر ایک کے لئے نمونہ تھا.خلافت
خطبات مسرور جلد دہم 521 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اگست 2012ء کی اطاعت اور محبت بھی مثالی تھی اور ایک نمونہ تھی.جب ریٹائر ہونے لگے تو اس سے پہلے انہوں نے مجھے کہا کہ یہ نوکری تو میں کر رہا ہوں لیکن بہت عرصہ سے میری یہ خواہش ہے کہ میں وقف کروں اور حقیقت بھی یہی تھی.کئی مرتبہ پہلے بھی مجھے کہہ چکے تھے کہ میں اپنے آپ کو وقف کرنا چاہتا ہوں.لیکن میں اُن کو ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ آپ اس وقت جہاں ہیں وہاں آپ کی ضرورت ہے اور اپنے آپ کو وقف ہی سمجھیں.بلکہ جس طرح یہ کام کر رہے تھے ایک واقف زندگی سے بڑھ کر کر رہے تھے.ہر سال یہ مجھے یاد دہانی بھی کرواتے رہتے تھے.اب ان کی ریٹائر منٹ بھی ہو گئی تھی.پھر دوبارہ بھی ان کو کنٹریکٹ مل گیا تھا.میں نے یہی کہا کہ جب تک ملازمت ہے وہیں رہیں.وہیں آپ کی ضرورت ہے.بڑی جرأت اور حکمت سے ماشاء اللہ تمام کام سرانجام دیتے تھے.بیعتوں پر ان کی خوشی دیدنی ہوتی تھی.ان کے ذریعہ سے کئی بیعتیں بھی وہاں ہوئیں.مڈل ایسٹ کے ملکوں کے درمیان یہ رابطے کا کام بھی ادا کرتے رہے.حساب دانی اور اکا ؤنٹس کے ماہر تھے.اس لحاظ سے بھی ان کی وجہ سے مجھے وہاں جماعتوں کے حساب کتاب کی کوئی فکر نہیں ہوتی تھی.اس کے علاوہ بھی بہت سے اہم کام اور اہم مسائل کو حل کرنے کے بارے میں جب بھی ان کو بھیجا گیا، انہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے وہ تمام کام کئے.جب بھی یہاں آتے اور اکثر آتے رہتے تھے.آتے ہی یہ نہیں کہ تھکے ہوئے ہیں تو آرام کر لیں ، مسجد پہنچ جاتے تھے اور جتنے دن یہاں رہتے تمام نمازیں مسجد فضل میں ادا کرتے ، اس لئے انہوں نے گھر بھی یہاں قریب لیا ہوا تھا.خلاصہ یہ کہ یہ خلافت کے اُن مددگاروں میں سے تھے جو حقیقی سلطان نصیر ہوتے ہیں.ان کے رخصت ہونے سے ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ ایسے تقوی شعار اور کام کرنے والے کارکن ہمیشہ خلافت کو عطا فرما تار ہے.اپنے پیار کرنے والے خدا پر بھروسہ ہے کہ ان جیسے لاکھوں سلطان نصیر عطافرمائے گا.انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند تر فرماتا چلا جائے اور اُن کو اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ دے.ان کی خدمات کی تفصیل اور ان کی سیرت کی تفصیل بہت لمبی ہے.اُن کے جانے والے امید ہے ان کے بارہ میں لکھیں گے.اللہ تعالیٰ یو کے جماعت کو بھی ان جیسے بے نفس کا رکن عطا فرمائے اور ان کی بیوی اور بیٹی کا حامی و ناصر ہو.خطبہ ثانیہ سے قبل حضور نے فرمایا: ایم ٹی اے والوں کی اطلاع تھی کہ یہ ٹرانسمیشن ایک بج کے اکیس منٹ سے، ایک بج کے چالیس منٹ تک ہیں منٹ صحیح نہیں رہی تو جو خطبہ نہیں دیکھ سکے وہ پھر Repeat دیکھ لیں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 7 ستمبر تا 20 ستمبر 2012 جلد 19 شماره 36 - 37 صفحہ 15 تا 19 )
خطبات مسرور جلد دہم 522 35 خطبه جمعه فرموده مورخه 31 اگست 2012ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة اسم الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 31 اگست 2012 ء بمطابق 31 رظہور 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے یو کے جلسہ سالانہ کی آمد آمد ہے اور انشاء اللہ اگلے جمعہ سے جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے، انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف شعبہ جات کے کارکنان حسب سابق بڑا وقت دے رہے ہیں اور جلسہ سالانہ کی تیاری کے لئے بڑی محنت اور قربانی کر رہے ہیں.یہاں آنے والے، جلسہ میں شامل ہونے والے غیر از جماعت مہمان جو اکثر آتے ہیں اور ہر سال آتے ہیں وہ حیران ہوتے ہیں کہ ایک چھوٹا سا شہر ہی عارضی طور پر آباد کر دیا جاتا ہے جس میں تمام سہولتیں موجود ہوتی ہیں اور یہ کام صرف دس پندرہ دن میں ہو جاتا ہے.بعض غیر سمجھتے ہیں کہ شاید بعض کاموں کی پیشہ وارانہ مہارت رکھنے والوں سے یہ کام لیا جاتا ہے اور وہ یہ کام کرتے ہیں اور شاید اس پر کثیر رقم خرچ ہوتی ہوگی.لیکن جب اُنہیں یہ بتاؤ کہ یہ سب کچھ احمدی والنٹیئر ذکرتے ہیں اور ایسے لوگ کرتے ہیں جن کا اپنی عملی زندگی میں ان کاموں سے کوئی تعلق نہیں تو یہ بات جیسا کہ میں نے کہا، اُن کے لئے بہت بڑی حیرانی کا باعث بنتی ہے.بیشک کچھ خرچ کر کے کچھ کام جو ہے غیروں سے بھی کروایا جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ستر چھہتر فیصد کام اُن کارکنوں کے ذریعہ انجام پاتا ہے جن میں بڑی عمر کے مرد بھی ہیں، نوجوان بھی ہیں، بچے بھی ہیں، عورتیں بھی ہیں.اور پھر جلسہ کے دنوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی کارکن پورے نظام کو، یہ جو جلسہ کا نظام ہے، اُسے سنبھالتے ہیں اور ایک جوش اور جذبہ کے تحت سنبھالتے ہیں، ان کو کوئی مجبوری نہیں ہوتی.وہ اس لئے سنبھالتے ہیں اور ہر قسم کا کام بغیر کسی عار کے کر لیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کی جائے.پس یہ اُن لوگوں کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے جو یہ سب کام کرتے ہیں
خطبات مسرور جلد دہم 523 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 اگست 2012ء اور سالہا سال سے کرتے چلے جارہے ہیں اور احسن رنگ میں کرتے ہیں.حسب روایت جلسہ سے ایک ہفتہ پہلے میں کیونکہ کارکنان کو ان کے کام کی اہمیت اور مہمان نوازی کی اہمیت کے بارے میں بتا تا ہوں، اس طرف توجہ دلاتا ہوں، اس لئے آج اس بارے میں کچھ کہوں گا.اس لئے کہ یاد دہانی سے مزید توجہ پیدا ہوتی ہے اور بعض دفعہ بعض واقعات اور نصیحت نیا جوش اور جذ بہ بھی پیدا کر دیتے ہیں.یہ خصوصیت بھی اس وقت صرف یو کے کے جلسہ سالانہ میں کام کرنے والے کارکنان کو حاصل ہے کہ مہمانوں کی خدمت کرنے والوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کی اہمیت کے بارے میں خاص طور پر کچھ کہا جاتا ہے.یہ اس لئے نہیں کہ یوکے میں کام کرنے والے کارکنان کے جوش و جذبے میں کوئی کمی ہے اور دنیا کے دوسرے ممالک کے کارکنان زیادہ جوش اور جذبے سے کام کرتے ہیں.نہیں، بلکہ اس لئے کہ یوکے کے جلسہ کی اہمیت دنیا کے کسی بھی ملک کے جلسہ سالانہ کی اہمیت سے اس وقت زیادہ ہے.یعنی فی الحال گزشتہ ستائیس اٹھائیس سال سے یہ اہمیت زیادہ ہے کیونکہ یہ جلسہ اب عالمی جلسہ کی صورت اختیار کر گیا ہے.دنیا کے کسی بھی ملک کے جلسہ سالانہ میں خلیفہ وقت کی شمولیت ضروری نہیں ہوتی لیکن جب سے پاکستان میں جلسوں پر پابندی لگائی گئی ہے، اس وجہ سے یہاں جلسے منعقد ہو رہے ہیں.پاکستان میں جلسہ پر پابندی کی وجہ سے احمدیوں پر ، پاکستانی احمد یوں پر - زمین تنگ کی جانے کی وجہ سے، خلیفہ وقت کے یہاں آنے اور یو کے کوفی الحال یا لندن میں فی الحال مرکز بنانے کی وجہ سے، جیسا کہ میں نے کہا، گزشتہ تقریباً اٹھائیس سال سے خلیفہ وقت کی جلسہ سالانہ میں یہ شمولیت ایک لازمی حصہ بن چکی ہے.اور اسی وجہ سے دنیا کے کونے کونے سے جلسہ میں شمولیت کے لئے احمدی بھی اور غیر از جماعت بھی مہمان آتے ہیں.دنیا کے احمدیوں کے نزدیک اور ہمارے غیر از جماعت مہمانوں کے نزدیک یو کے کا جلسہ سالانہ اب صرف یو کے کا جلسہ سالا نہ نہیں رہا بلکہ جیسا کہ میں نے کہا مرکزی جلسہ سالانہ ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ خلیفہ وقت کی یہاں رہائش ہے.پس اس لحاظ سے یہاں کے انتظامات کی وسعت بھی زیادہ ہو چکی ہے اور یہاں آنے والے مہمانوں کی توقعات بھی کچھ زیادہ ہوتی ہیں اور اس وجہ سے مجھے بھی اور یہاں کی انتظامیہ کو بھی زیادہ فکر ہوتی ہے کہ مہمانوں کی صحیح طرح مہمان نوازی کی جاسکے.جلسہ کے انتظامات ہر لحاظ سے صحیح ہوں اور اس کے لئے کوشش بھی ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ انتظامات میں جس حد تک بہتری کی جاسکتی ہے، کی جائے.اسی وجہ سے بعض دفعہ اخراجات بھی زیادہ ہو جاتے ہیں اور یو کے جماعت کا بجٹ اس کا متحمل نہیں ہوتا
524 خطبه جمعه فرموده مورخه 31 اگست 2012 ء خطبات مسرور جلد دہم یا نہیں ہوسکتا.گو کہ اکثر حصہ جلسہ سالانہ کے اخراجات کا یو کے جماعت ہی برداشت کرتی ہے لیکن بہر حال مرکز کو بھی اخراجات میں تیس پینتیس فیصد حصہ یا بعض دفعہ زیادہ ڈالنا پڑتا ہے.یہ اخراجات کچھ مرکز کو بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں.یہ میں اس لئے بتا رہا ہوں کہ بعض طبائع بعض دفعہ یہ اظہار کر دیتی ہیں کہ یو کے جماعت پر مرکز بہت بوجھ ڈال دیتا ہے.گو کہ یہاں کی جماعت کی اکثریت قربانی کرنے والوں کی ہے اور جلسہ کی برکات کی وجہ سے یہی چاہتی ہے یا چاہے گی اور میں امید رکھتا ہوں یہی چاہتے ہوں گے کہ وہی سب خرچ برداشت کریں لیکن چند بے چینیاں پیدا کرنے والے بے چینی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اور پھر جیسا کہ میں نے کہا کیونکہ مرکزی جلسہ کی حیثیت ہے اس لئے مرکز بھی اپنا فرض سمجھتا ہے کہ کچھ حصہ اس میں ڈالا جائے.بہر حال میں یہ ذکر کر رہا تھا کہ یو کے کا جلسہ سالانہ دنیا کی نظر میں ایک مرکزی جلسہ ہے اس لئے یہاں کے کارکنوں اور انتظامیہ کی ذمہ داری بھی بہت بڑھ جاتی ہے اور مجھے بھی اس کی فکر ہوتی ہے.اس لئے جلسہ سے پہلے اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے کہ کارکنان ہمیشہ یادرکھیں کہ تمام دنیا کے احمدیوں کی نظر اور اس حوالے سے اُن احمدیوں سے تعلق رکھنے والوں کی نظر، یعنی غیر از جماعت کی نظر بھی جو مختلف ممالک سے بطور مہمان آئے ہوتے ہیں، بعض سرکردہ لیڈر اور معززین ہوتے ہیں، اُن کی نظر جلسہ کے انتظامات اور کارکنان پر ہوتی ہے.اس لئے کارکنان کے رویے، اُن کے کام کے طریق ، اُن کے اخلاق ، اُن کی مہمان نوازی کے معیار انسانی استعدادوں کے مطابق بہتر سے بہتر ہونے چاہئیں جس کے لئے ہر کارکن کو، مرد کو عورت کو ، بچے کو جو مختلف ڈیوٹیوں پر مقرر کئے گئے ہیں، اپنی بھر پور کوشش کرنی چاہئے اور ہمیشہ جلسہ کے بعد جس طرح خاص طور پر باہر سے آنے والے غیر مہمان یہاں کے کارکنان کی مہمان نوازی کی تعریف کرتے رہے ہیں.اس سال بھی اور ہمیشہ یہی کوشش ہونی چاہئے کہ یہ معیار کبھی گرنے نہ پائیں بلکہ ہر سال معیار بلند ہونا چاہئے.مومن کا قدم پیچھے نہیں ہٹتا بلکہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے.ہمیشہ ترقی کی طرف جانا چاہئے.مہمان نوازی کوئی معمولی وصف یا عمل نہیں ہے بلکہ ایسی نیکی ہے جس کا قرآن کریم میں بھی ذکر ہے اور مومنوں کو یہ حکم ہے کہ نیکیوں میں آگے بڑھو.ایک مہمان نوازی ہوتی ہے جو عام دنیا دار بھی کرتے ہیں.ہرا چھے اخلاق والا ایسی مہمان نوازی کر رہا ہوتا ہے.اُس کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور اللہ کی مخلوق کی خدمت کی وجہ سے یقیناً ایسا شخص ثواب کا بھی مستحق ہوتا ہو گا.لیکن جب ایک عمل خالصتاللہ کیا جائے
خطبات مسرور جلد دہم 525 خطبه جمعه فرموده مورخه 31 اگست 2012ء اپنے ذاتی مہمان نہ ہوں ، کوئی عزیز رشتہ دار نہ ہوں ، کوئی دنیاوی غرض نہ ہو بلکہ بے نفس ہو کر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے مہمان نوازی ہو تو پھر یقیناً ایسی مہمان نوازی اللہ تعالیٰ کے ہاں دوہرا اجر پانے والی ہوتی ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بھی مہمان نوازی کی طرف توجہ دلائی ہے.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا واقعہ بھی بیان ہوا ہے.اُن کی مہمان نوازی کی خصوصیت کو بھی اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر بیان فرمایا ہے کہ مہمان کے آتے ہی پہلا کام جو انہوں نے کیا وہ یہ تھا کہ جو بھی وہاں کا انتظام تھا اُس کے مطابق ایک پر تکلف کھانا اُن کے سامنے چن دیا گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب پہلی وحی ہوئی اور آپ کو اس سے خوف پیدا ہوا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ کی بات سن کر فوری طور پر اور بے ساختہ آپ کی جن خوبیوں کا ذکر کیا اور کہا کہ ایسی خوبیوں والے کو خدا تعالیٰ کس طرح ضائع کر سکتا ہے یا اُس سے کس طرح ناراض ہو سکتا ہے، اُن میں سے ایک اعلیٰ وصف اور خوبی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہمان نوازی بتائی تھی.(صحیح بخاری کتاب بدء الوحي باب كيف كان بدء الوحي الى رسول الله حدیث 3) پس مہمان نوازی کوئی معمولی بات نہیں ہے.انبیاء کے اوصاف میں سے ایک وصف ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تو خاص طور پر جو کام دیئے گئے ہیں اُن میں سے ایک اہم کام مہمان نوازی کا بھی ہے.فرمایا تھا مہمان آئیں گے تو نہ پریشان ہونا ہے، نہ تھکنا ہے.(ماخوذ از تذکرہ صفحہ 535 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ ) پس جماعت بھی من حیث الجماعت اور جماعت کا ہر فرد بھی اس اہم فریضہ کی ادائیگی کاذمہ دار ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مہمان کی کس طرح عزت افزائی فرما یا کرتے تھے، کس طرح اُس کا خیال رکھا کرتے تھے؟ اس کا اظہار ایک واقعہ سے ہی بخوبی ہو سکتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ بیمار تھے، طبیعت بہت ناساز تھی.آپ کو مہمان کے آنے کی خبر ہوئی تو فوری طور پر باہر تشریف لے آئے اور فرمایا کہ آج میں باہر آنے کے قابل نہ تھا لیکن مہمان کا کیونکہ حق ہوتا ہے، وہ تکلیف اُٹھا کر آتا ہے اس لئے میں اس حق کو ادا کرنے کے لئے باہر آ گیا ہوں.(ماخوذ از ملفوظات جلد پنجم صفحہ 163.ایڈیشن 2003ء.مطبوعہ ربوہ ) وہ مہمان جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے، آپ کی صحبت
خطبات مسرور جلد دہم 526 خطبه جمعه فرموده مورخه 31 اگست 2012 سے فیض پانے کے لئے حاضر ہوتے تھے اور آپ کے حکم سے آتے تھے کیونکہ آپ بار بار تلقین فرمایا کرتے تھے کہ میرے پاس آؤ.(ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ 480-479.ایڈیشن 2003ء.مطبوعہ ربوہ ) آج جو ہمارے مہمان آرہے ہیں یا آئیں گے وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حکم سے آپ کے قائم کردہ تربیتی نظام سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ہی آرہے ہیں اور آئیں گے.اُس جلسہ میں شمولیت کے لئے آ رہے ہیں جس کا اجراء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اور احباب جماعت کو جو وسائل رکھتے ہیں، اس میں شامل ہونے کی نصیحت فرمائی.پس یہ آنے والے مہمان اس لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان ہیں اور ہمارے لئے یہ اعزاز ہے، ہر کارکن کے لئے یہ اعزاز ہے کہ ان مہمانوں کی بھر پور خدمت کریں، انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے دیں.جن تو قعات کو لے کر وہ یہاں آتے ہیں انہیں پورا کرنے کی کوشش کریں.جلسہ پر آنے والے مہمان تو عموماً آتے ہی جلسہ کے لئے ہیں اور چند دن کے لئے اور پھر واپس چلے جاتے ہیں.آجکل جیسا کہ میں نے کہا مرکزی جلسہ ہونے کی حیثیت سے دنیا کے کونے کونے سے آتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے مہمان کا اُس کو جائز حق دو اور آپ نے فرمایا کہ یہ جائز حق تین دن کی مہمان نوازی ہے یا چند دنوں کی مہمان نوازی ہے.(ماخوذاز صحیح بخاری کتاب الادب باب اکرام الضيف و خدمته اياه بنفسه حدیث:6135) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان نوازی کے اپنے معیار کیا تھے؟ چند دن کی مہمان نوازی نہیں تھی بلکہ مستقل مہمان نوازی ہوتی تھی.روایات میں آتا ہے کہ وہ لوگ جو دین سیکھنے کی غرض سے ہر وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے در پر پڑے رہتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس لحاظ سے مستقل مہمان ہوتے تھے ، اُن کی ضروریات کا کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خیال رکھا کرتے تھے اور آپ کس طرح اُن کی مہمان نوازی فرماتے تھے.مالک بن ابی عامر کی ایک لمبی روایت ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص طلحہ بن عبید اللہ کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ اے ابو حمد ! تم اس بیمانی شخص یعنی ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہیں دیکھتے کہ تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو جانے والا ہے.ہمیں اس سے ایسی ایسی احادیث سنے کو ملتی ہیں جو ہم تم سے نہیں سنتے.اس پر انہوں نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ باتیں سنی ہیں جو ہم نے نہیں سنیں.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مسکین تھے.
خطبات مسرور جلد دہم 527 خطبه جمعه فرموده مورخه 31 اگست 2012 ء ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان بن کر پڑے رہتے تھے.اُن کا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کے ساتھ ہوتا تھا.ہم لوگ کئی کئی گھر والے اور امیر لوگ تھے اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دن میں کبھی صبح کو اور بھی شام کوجایا کرتے تھے.(سنن الترمذی کتاب المناقب باب مناقب ابى هريرة حديث 3837 پس یہ لوگ تھے جنہوں نے دین کو دنیا پر اس طرح مقدم کر لیا کہ سب کچھ بھول گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مستقل مہمان بن گئے.اس مہمان نوازی کے بارے میں بھی روایات ملتی ہیں کہ ان کا کس طرح اور کیا حال ہو تا تھا.یہ نہیں کہ مہمانوں کی بھی کوئی ڈیمانڈ ہوتی تھی، بلکہ وہ تو پڑے ہوئے تھے.مہمان نوازی کا حق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ادا فرمایا کرتے تھے.حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کا ذکر آیا ہے، ان کے بارے میں ایک روایت ہے کہ ایک موقع پر کئی دن کے فاقے سے بھوک کی شدت سے بے تاب تھے.لمبی روایت ہے.بہر حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ حالت دیکھی تو گھر تشریف لے گئے.حضرت ابوہریرۃ ساتھ تھے.وہاں گھر میں گئے.ایک دودھ کا پیالہ کہیں سے تحفہ آیا ہوا تھا، تو آپ نے حضرت ابوہریرۃ کو فرمایا کہ جاؤ جتنے بھی اصحاب صفہ بیٹھے ہیں اُن سب کو بلا لاؤ.ان کی بھوک سے بری حالت تھی.کہتے ہیں میں گیا اور ایک دائرہ کی صورت میں سب بیٹھ گئے اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کہا کہ دائیں طرف سے ان کو یہ دودھ پلانا شروع کرو.یہ خود بیان فرماتے ہیں کہ میری بھوک کی ایسی حالت تھی کہ میں سمجھتا تھا کہ سب سے زیادہ پہلا حق میرا ہے.اور جس طرح میں دودھ دیتا جاتا تھا، ہر اگلے شخص کو دودھ دیتے ہوئے میرے دل کی یہ کیفیت ہوتی تھی کہ اب یہ ختم ہو جائے گا اور میں بھوکا رہ جاؤں گا.اتنی بے چینی تھی بھوک کی.لیکن بہر حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیونکہ اس سے ایک دو گھونٹ لئے ہوئے تھے ، برکت پڑی ہوئی تھی ، دعا تھی ، اس برکت سے اُن سب نے دودھ پی لیا.(ماخوذاز صحیح بخاری کتاب الرقاق باب كيف كان عيش النبى الله و اصحابه وتخليهم عن الدنيا حديث 6452) تو یہ تھے مہمان اور اس طرح مہمان نوازی ہوتی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنا بھی خیال نہیں فرماتے تھے بلکہ ان لوگوں کا پہلے خیال فرمایا کرتے تھے.پس یہ وہ لوگ تھے جو دین کا علم سیکھنے کی خواہش کی وجہ سے اپنا سب کچھ قربان کر چکے تھے اور مستقل مہمان تھے.آج ہمارے پاس اس طرح کے مستقل مہمان تو نہیں ہیں ہمارے پاس لیکن دینی اغراض کے لئے، دین سیکھنے کے لئے آنے والے
خطبات مسرور جلد دہم 528 خطبه جمعه فرموده مورخه 31 اگست 2012 ء مہمان ہمارے سپرد ہوئے ہیں اس لئے ان کی بھر پور مہمان نوازی بھی ہمارا فرض ہے.پس جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ میں شمولیت کو بھی دینی غرض ہی بیان فرمایا ہے تا کہ دین سیکھ کر ، دین حاصل کر کے یہ حقیقی مومن اور مسلمان بننے والے ہوں.(ماخوذ از آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 606) پس یہ مہمان جو ہیں ان کی خدمت کرنا ہمارا فرض ہے اور اس لئے بھی فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور سنت پر عمل کرنے کا بھی ہمیں اللہ تعالیٰ کا ہی حکم ہے.اس زمانے میں جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپر د بھی یہ بڑا اہم کام کیا گیا ہے کہ مہمانوں کی مہمان نوازی کرو.پس اس لحاظ سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کاموں کی سرانجام دہی کے لئے، آپ کے ہر طرح سے مددگار بننے کے لئے ہمارا یہ بھی فرض بنتا ہے کہ مہمان نوازی کا جو کام ہمارے سپر د کیا گیا ہے اُس کو بھی احسن رنگ میں بجالائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کی مہمان نوازی کے بھی ایک دو واقعات پیش کرتا ہوں.بیشک پہلے سنے بھی ہوں لیکن ہر مرتبہ ان کو پڑھنے کے بعد یا سننے کے بعد کوئی نہ کوئی خوبصورت اور ایک نیا پہلوا بھر کے سامنے آتا ہے.کارکنان کے لئے بعض واقعات میں سبق بھی ہوتا ہے.بعض دفعہ وقت کی قلت کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے کام کرنے والے کارکنان کو جلدی ہوتی ہے.خاص طور پر جب مہمان کھانا کھا رہے ہوں تو ان کے سامنے ایسا اظہار ہو جاتا ہے جو مہمان کو یا برا لگتا ہے یا اُس کے سامنے بہر حال مناسب نہیں ہوتا.بعض دفعہ جلسہ کے پروگرام شروع ہونے کی وجہ سے بھی کارکن کو جلدی ہوتی ہے کہ جلسہ کا پروگرام شروع ہونے والا ہے اس لئے کھانے کی مارکی میں یا ڈائننگ کی مارکی میں جو کارکن ہیں وہ جلدی کر رہے ہوتے ہیں کہ مہمان جلدی کھانا کھا ئیں اور جائیں.تو جو واقعہ میں بیان کرنے لگا ہوں، اُس میں یہ کھانا کھلانے والے کارکنان کی مہمان نوازی کا جو اخلاق ہونا چاہئے ، جو معیار ہونا چاہئے اُس کے بارے میں بیان ہوا ہے.حضرت میاں خیر دین صاحب سیکھوانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں اپنے گاؤں سیکھواں سے قادیان پہنچا.جب میں گول کمرے کے سامنے ہوا تو حضرت صاحب گول کمرے میں مع چند ا حباب کھانا تناول فرما رہے تھے.میں نے اندر جا کر سلام کیا تو حضور نے نہایت
خطبات مسرور جلد دہم 529 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 اگست 2012ء بشاشت کے ساتھ فرمایا.آئیے میاں خیر دین صاحب، آئیں کھانا کھا ئیں.میں اس وقت کھانا کھا چکا تھا.میں نے عرض کیا کہ حضور میں کھانا کھا چکا ہوں.فرمایا نہیں ، کھانا کھاؤ.میں بیٹھ گیا.کھانا چونکہ ختم تھا، لوگ کھانا کھا چکے تھے خود بھی فارغ ہو چکے تھے ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود بھی فارغ ہو چکے تھے ) لیکن میرے لئے حضور نے کوشش فرما کر روٹی سالن مہیا کر دیا.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی " چھوٹی عمر کے تھے اور حضور کے ساتھ کھانے میں شامل تھے، اُن کا سالن والا برتن بھی میرے سامنے رکھ دیا.میں نے کھانا شروع کر دیا.ابھی چند لقمے کھائے تھے کہ میاں غلام محی الدین صاحب مرحوم جو حضرت خلیفہ اول کے رضاعی بھائی تھے، انہوں نے دستر خوان سے برتن سالن وغیرہ اُٹھانا شروع کر دیا اور کہتے ہیں کہ جلدی میں جو میرے آگے برتن تھا وہ بھی اُٹھا لیا.جب حضور کی اس پر نظر پڑی تو بڑے سخت الفاظ میں میاں غلام محی الدین صاحب کو تنبیہ کی کہ وہ بیچارہ پریشان ہو گیا کہ کیوں تم نے ان کے آگے سے یہ برتن اُٹھائے.کہتے ہیں مجھ میں بھی یہ طاقت نہیں تھی کہ میں کہوں کہ حضور کوئی بات نہیں ، میرا پیٹ بھر چکا ہے، سیر ہو چکا ہوں.کہتے ہیں کہ برتن تو اُس غریب بیچارے نے میرے سامنے رکھ دیا اور پھر میں نے بھی کھانا شروع کر دیا.لیکن یہ بھی فرمایا کہ جب تک میں نہ کہوں ، دستر خوان نہیں اُٹھانا.کہتے ہیں آخر میں نے چند لقمے کھائے اور کہا کہ دستر خوان اُٹھا لو.تب وہ اُٹھایا گیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات (غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 13 صفحہ 454-455 روایات حضرت میاں خیر الدین صاحب) تو یہ ایک واقعہ ہے کہ مہمان اگر کھانا کھا رہا ہے تو اُس کو آرام سے کھانے دینا چاہئے.اگر نماز یا جلسہ کا وقت قریب ہے ، کارکنوں کو بھی جلدی ہوتی ہے اور تربیتی شعبہ جو ہے وہ بھی کوشش کر رہا ہوتا ہے کہ جلدی جلدی اُن کو وہاں سے نکالا جائے تو کھانے میں پہلے ہی کافی وقت ملنا چاہئے.اگر کوئی لیٹ آ بھی گیا ہے تو پھر اُس کو تسلی سے کھانا کھانے دینا چاہئے.ہاں یہ بتا دیا جائے کہ نماز میں اتنا وقت رہ گیا ہے یا جلسہ شروع ہونے میں یہ وقت رہ گیا ہے.لیکن کسی کے پیچھے پڑ کر یہ نہ کرنا چاہئے کہ جلدی اُٹھو، جاؤ، ہم نے سامان سمیٹنا ہے اور پلیٹیں اُٹھالی جائیں.اس سے مہمان نوازی کا حق ادا نہیں ہوتا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنی مہمان نوازی کے معیار کیا تھے؟ یہ تو ہم نے دیکھا، اپنے ماننے والوں سے کیا توقعات وابستہ تھیں جن کا ہمیں آج بھی خیال رکھنا چاہئے.اس کا اظہار آپ کے اس ارشاد سے ہوتا ہے.فرمایا: "میرا ہمیشہ خیال رہتا ہے کہ کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو، بلکہ اس کے لئے ہمیشہ تاکید کرتارہتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے مہمانوں کو آرام دیا جاوے، مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے اور ذراسی
خطبات مسرور جلد دہم 530 خطبه جمعه فرموده مورخه 31 اگست 2012 ء ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے.اس سے پیشتر میں نے یہ انتظام کیا ہوا تھا کہ خود بھی مہمانوں کے ساتھ کھانا کھاتا تھا.مگر جب سے بیماری نے ترقی کی اور پر ہیزی کھانا کھانا پڑا تو پھر وہ التزام نہ رہا.ساتھ ہی مہمانوں کی کثرت اس قدر ہو گئی کہ جگہ کافی نہ ہوتی تھی.اس لئے یہ مجبوری علیحدگی ہوئی.ہماری طرف سے ہر ایک کو اجازت ہے کہ اپنی تکلیف کو پیش کر دیا کرے.بعض لوگ بیمار ہوتے ہیں، اُن کے واسطے الگ کھانے کا انتظام ہوسکتا ہے.اس ارشاد میں جن باتوں کی طرف آپ نے توجہ دلائی ہے، اُن میں سے دواہم باتیں ہیں اور ہر ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 292.ایڈیشن 2003 ء.مطبوعہ ربوہ ) کارکن کو ان باتوں کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے.صرف کھانا کھلانے والے کارکن نہیں بلکہ ہر کارکن جس کا جلسہ کے انتظام کے ساتھ کچھ نہ کچھ تعلق ہے اس کے لئے اس میں نصیحت ہے.پہلی بات یہ فرمائی کہ جہاں تک ہو سکے مہمانوں کو آرام دیا جائے، مہمانوں کو آرام دینے کا معاملہ صرف کھانا کھلانے کی حد تک نہیں ہے.اس میں آنے والے مہمان کی رہائش کے بارے میں بھی ہدایت ہے.ٹریفک کنٹرول اور پارکنگ کے بہتر انتظام کی طرف بھی اشارہ ہے کیونکہ اس سے بھی مہمانوں کو بعض اوقات کوفت اُٹھانی پڑتی ہے اور بعض دفعہ اس طرح کی شکایات آتی رہتی ہیں کہ بڑی دور سے آنا پڑا.کاروں کی پارکنگ دور تھی ، چل کر آنا پڑا یا وہاں سے جو بس سروس چلائی گئی اُس میں باقاعدگی نہیں تھی، یا ہم اتنے لیٹ ہو گئے.اسی طرح غسل خانوں اور ٹائلٹس کا کافی انتظام ہونا چاہئے ، اچھا انتظام ہونا چاہئے اور صفائی کی طرف توجہ بھی ہونی چاہئے.گزشتہ سال کی کمیوں کو سامنے رکھ کر یہ انتظام دیکھ لینا چاہیے.ٹکٹ کی چیکنگ کا انتظام ہے یا راستوں سے گزرنے کا انتظام ہے، خاص طور پر جو غیر مہمان آتے ہیں اور معذور افراد کیلئے تو ایسا انتظام ہو کہ انہیں زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑے.اسی طرح چھوٹے بچوں والی ماؤں کے لئے بھی بہتر انتظام ہونا چاہئے تا کہ خاص طور پر بارش یا تیز دھوپ میں وہ جلدی جلدی گزرجائیں.پھر ایک یہ بات بھی آپ نے اس میں فرمائی ہے جس کا ہر ایک سے تعلق ہے کہ مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے.مہمان کا دل شیشہ کی طرح نازک ہوتا ہے.پس اس نازک دل کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے.اگر خیال رکھا جائے اور باقاعدہ سہولتیں مہیا کی جائیں تو عموماً شکوے پیدا نہیں ہوتے.لیکن پھر بھی اگر کوئی مہمان اپنی طبیعت کی وجہ سے شکوہ کرتا ہے اور ایسی بات کرتا ہے جو مناسب نہیں ، تو کارکنان کا کام ہے کہ صبر اور حوصلہ سے اسے برداشت کریں، نہ کہ آگے سے جواب دیں.
خطبات مسرور جلد دہم 531 خطبه جمعه فرموده مورخه 31 اگست 2012ء خاص طور پر سیکیورٹی کے کارکن جب ڈسپلن کریں تو پیار محبت سے سمجھا ئیں.بیشک جلسہ کی مارکی کے اندر بھی اور باہر بھی ڈسپلن ضروری ہے.اسی طرح سیکیورٹی بڑی ضروری ہے اور آجکل کے حالات میں توسیکیورٹی کی طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے.لیکن ایسا انداز اختیار کیا جائے جو کسی کے جذبات کو انگیخت نہ کرے، کوئی اس سے برا نہ منائے.خاص طور پر غیر مہمانوں کے ساتھ اگر کوئی معاملہ ایسا سنجیدہ ہو تو جو اپنے افسرانِ بالا ہیں اُن تک پہنچایا جائے، بجائے اس کے کہ وہاں تو تکار ہو جائے اور معاملہ اور بگڑ جائے.عموماً تو غیر مہمانوں کا پتہ ہی ہوتا ہے اور اچھا رویہ ہوتا ہے لیکن بعض دفعہ بعضوں کو لوگ نہیں بھی جانتے ، اُن کے ساتھ بھی بہت ہی مہذب رویہ ہونا چاہئے اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہر ایک کے ساتھ مہذب رو یہ ہوگا.کیونکہ جلسہ دیکھنے بہت سے لوگ ایسے بھی آتے ہیں جب وہ آپ کے اخلاق دیکھتے ہیں تو اُس کی وجہ سے ہی وہ متاثر ہو جاتے ہیں.پس اچھے اخلاق، اچھی تبلیغ بھی ہے.پہلے تو جب تعداد تھوڑی تھی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود مہمانوں کی مہمان نوازی کا اہتمام بھی فرماتے تھے اور اُن کے ساتھ کھانا بھی کھاتے تھے.لیکن پھر تعداد کی زیادتی ایک وجہ بنی اور کچھ پر ہیزی کھانے اور طبیعت کی وجہ سے علیحدہ کھانا پڑا اور اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی تعداد بہت وسعت اختیار کر چکی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نمائندگی میں خلیفہ وقت کے لئے ممکن نہیں ہے کہ اس طرح ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا جائے یا ہر ایک کا انفرادی طور پر براہ راست خیال رکھا جائے.پھر اس طرح اور بھی زیادہ مصروفیات ہو گئی ہیں.مہمانوں سے ملنا، یہ بھی ایک کام ہوتا ہے.دوسرے کام بھی ہیں.اس لئے یہ نظام قائم کیا گیا ہے کہ ہر شعبہ جو ہے وہ مہمانوں کے لئے زیادہ سے زیادہ سہولت پیدا کرنے کی کوشش کرے اور اپنی ذمہ واری کو پورے احساس سے ادا کرے.خلیفہ وقت کا کارکنان پر یہ اعتماد ہوتا ہے کہ مہمانوں کے حق کو اچھی طرح ادا کر رہے ہوں گے.اور اس اعتماد پر ہر کارکن کو پورا اترنے کی کوشش کرنی چاہئے.پس ہر کارکن اپنے اعلیٰ اخلاق کے نمونے دکھانے کی کوشش کرے اور اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے.آنے والوں کو بہر حال یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ لوگ خلیفہ وقت کے قریب رہنے والے ہیں، اس لئے ان کے ہر قسم کے معیار، عبادتوں کے معیار بھی ، نیکی کے معیار بھی ، اعلیٰ اخلاق کے معیار بھی، اونچے ہوں گے اور ہونے چاہئیں.پس ہر کارکن یہ خیال رکھے کہ صرف اپنی ڈیوٹی ادا کرنا ہی اُس کا فرض نہیں ہے بلکہ خاص طور پر ان دنوں میں نمازوں اور عبادت کی طرف توجہ اور با قاعدگی بھی انتہائی اہم ہے.عموماً تو ہے ہی ، اور اس کا خاص طور پر اہتمام ہونا چاہئے.اسی طرح دوسری نیکیوں کی طرف بھی توجہ ہو.اعلیٰ اخلاق ہوں، یہ تو ایک عہدیدار کا، جماعت کے کام کرنے والے کا، ایک مستقل پہلو ہے
خطبات مسرور جلد دہم 532 خطبه جمعه فرموده مورخه 31 اگست 2012 ء اور ہونا چاہئے لیکن جلسہ کے دنوں میں مزید نکھر کر اس کو سامنے آنا چاہئے.جب میں یہ نصیحت کر رہا ہوں تو ربوہ کے جلسوں کی تصویر بھی سامنے گھوم جاتی ہے.جب وہاں یہ جلسے ہوتے تھے اور ایک دو جمعہ پہلے خلیفہ وقت کی طرف سے اس طرح نصیحت کی جاتی تھی.اور ربوہ کا رہنے والا ہر احمدی چاہے اس نے خدمت کے لئے اپنا نام پیش کیا ہے یا نہیں کیا، ان نصائح پر عمل کرتا تھا اور بھر پور کوششیں ہوتی تھیں اور تیاریاں ہو رہی ہوتی تھیں.لیکن بہر حال اب حالات کی وجہ سے وہاں جلسے نہیں ہوتے.اُن احمدیوں کو ، ربوہ کے احمدیوں کو اور پاکستان کے احمدیوں کو بھی دعاؤں میں یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کی کمیاں بھی پوری کرے.جیسا کہ میں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ انگلستان کی جماعت ہر سال جلسہ پر مہمان نوازی کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتی ہے.ہر کارکن اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے.ایک وقت تھا جب کہا جاتا تھا کہ یو کے کی جماعت کو جلسہ سالانہ کے انتظامات سنبھالنے کی طاقت اور استطاعت نہیں ہے اور حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہجرت کے شروع کے چند سالوں تک اس نظام کو چلانے کے لئے مرکز سے مدد لی جاتی تھی.وہاں سے بعض عہدیداران افسران آتے تھے جو آپ لوگوں کی مدد کرتے تھے.لیکن اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے افسران بھی اور کارکنان بھی تربیت یافتہ ہیں اور احسن رنگ میں کام سرانجام دینے والے ہیں.اس لحاظ سے یہ جو کمی تھی وہ تو پوری ہو چکی ہے لیکن اس کمی کی دوری کی وجہ سے اور بہتری کی وجہ سے اور مہارت حاصل کرنے کی وجہ سے ہر کارکن میں اور ہر عہد یدار میں مزید عاجزی پیدا ہونی چاہئے.پس اس کی طرف ہمیشہ توجہ رکھیں.اللہ کے فضل سے افسر جلسہ سالانہ کی طرف سے انتظامات کی جو روزانہ رپورٹ آتی ہے، اُس سے پتہ لگتا ہے کہ بڑی گہرائی میں جا کر ماشاء اللہ ہر چیز کا خیال رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے اور کام ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ سب کارکنوں کو ، مردوں ، عورتوں اور بچوں کو بھی توفیق عطا فرمائے کہ وہ احسن رنگ میں اپنی ڈیوٹیاں ادا کرنے والے ہوں.ایک بات آج یہاں یہ بھی میں کہنا چاہتا ہوں ، جیسا کہ میں نے کہا کہ سیکیورٹی کی طرف آجکل حالات کی وجہ سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور یہ انتہائی اہم چیز ہے، اس میں کسی قسم کی کمی نہیں ہو سکتی نہ کمپرومائز (Compromise) ہوسکتا ہے، نہ ہونا چاہئے.لیکن ساتھ ہی جو جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آتا ہے اس کے جذبات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے.کارکنوں کو جو سیکیورٹی کارکن ہیں قانون تو بہر حال ہاتھ میں نہیں لینا.جب کوئی ایسا معاملہ ہو تو اس کو حکمت سے سنبھالنا ہے.اس ضمن میں اُن احمدیوں کو جو اپنے ساتھ مہمان لاتے ہیں یالا نا چاہتے ہیں، یا انتظام کرواتے ہیں، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جن مہمانوں کو لانا ہے اُن کے بارے میں پہلے بتا دینا چاہئے اور انتظامیہ سے معاملات طے کر لینے چاہئیں
خطبات مسرور جلد دہم 533 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 اگست 2012ء تا کہ بعد میں نہ مہمان لانے والے احمدیوں کو شکوہ ہو کہ سیکیورٹی چیک بہت زیادہ ہو گیا ہے،شامل ہونے سے روکا گیا یا بلا وجہ دیر لگائی گئی یا بعض وجوہات کی بنا پر انکار کر دیا گیا.آنے والا جو مہمان ہے اُس کے لئے بھی یہ چیز پریشانی اور Embarrassment کا باعث بن جاتی ہے.تو اس بات کا خیال رکھیں کیونکہ آپ جس کو نہیں جانتے اُن کے لئے بہر حال پھر ضرورت سے زیادہ تفتیش بھی کرنی پڑتی ہے.اس لئے پہلے سے ہی انتظامات مکمل ہونے چاہئیں.جس کو بھی ساتھ لا نا ہو، اور وہ بھی اس صورت میں جب یہاں باقاعدہ انتظام ہو، اور یا جو بھی پراسیس (Process) ہے اس میں سے پہلے ہر احمدی کو گزرنا چاہئے.یہ ہدایت گو کہ کارکنان کے لئے نہیں ہے لیکن یہ ایسی تھی کہ ان ہدایات کے ساتھ دینا ضروری تھی اس لئے کہ یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہئے.اب ایک ہفتہ باقی ہے، اگر کسی نے کسی مہمان کو لانا ہے تو اس کا پہلے انتظام کر لیں کیونکہ بعد میں مجھے ایسے بعض خطوط بھی آتے ہیں.اور انتظامیہ کسی وجہ سے انکار کرتی ہے تو پھر انتظامیہ کی مجبوری کو بھی لوگوں کو سمجھنا چاہئے اور شکوہ نہیں کرنا چاہئے.اور انتظامیہ کو بھی ایسے معاملات کو بڑی حکمت سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ کسی کو شکوہ پیدا نہ ہو، اور یہی اعلیٰ اخلاق ہیں جن کو ہمیں دکھانا چاہئے.نیز یہ بھی کھول کر بتانا چاہتا ہوں کہ غیر مہمانوں کو لانے والے احمدیوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ دنیا کے عمومی حالات بھی اور خاص طور پر جماعت کے بارے میں بعض طبقے کی جو سوچ ہے اور جو حالات ہیں ، شرارتی عنصر جو ہے، بڑا ایکٹو (Active) ہوا ہوا ہے.نقصان پہنچانے کی بعض دفعہ کوشش ہوتی ہے.اس لئے غیر مہمانوں کو لانے والے بھی صرف ابتدائی اور سرسری واقفیت کی بنا پر ان کو مہمان نہ بنا لیا کریں.اس بارے میں بھولے پن کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ ہر طرح سے تسلی کے بعد اور پرانے تعلقات والے جو ہیں، اُن کو ہی اگر مہمان لانا ہو تو جیسا کہ میں نے کہا کہ انتظامیہ سے پہلے رابطہ کر کے اور تمام معاملات طے کر کے پھر لے کر آئیں.آخر میں پھر اس بات کی طرف توجہ دلا دوں کہ مہمانوں کی اور خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی مہمان نوازی کو فضل الہی سمجھیں اور اس کے لئے پہلے سے بڑھ کر قربانی کے جذبے کے تحت اپنی خدمات پیش کریں اور بجالائیں.اللہ تعالیٰ سب کارکنان کو اس کی توفیق عطا فرمائے.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دعاؤں پر بہت زور دیں، اللہ تعالیٰ جلسے کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور تمام انتظامات بروقت مکمل بھی ہو جائیں.اور جو جو انتظامات ہیں، وہ کارکنان اُن کو احسن رنگ میں سر انجام دینے والے بھی ہوں.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 21 ستمبر تا 27 ستمبر 2012 جلد 19 شماره 38 صفحه 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد دہم 534 36 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 ستمبر 2012ء وراحمدخلیفةالمسح خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة اسم الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 7 ستمبر 2012 ء بمطابق 7 رتبوک 1391 ہجری شمسی بمقام حدیقۃ المہدی.آلٹن ہیمپشائر تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے.گورسما یہ شام کو شروع ہوگا لیکن حقیقت میں تو یہ جمعہ جلسہ کا ہی حصہ ہے اور یہی افتتاح ہوتا ہے.پس اس حوالے سے ہی میں چند باتیں کہوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ کے قیام کا بنیادی مقصد یہ بیان فرمایا ہے کہ ایسی جماعت تیار ہو جو خدا تعالیٰ کی معرفت میں ترقی کرنے والی ہو.خدا تعالیٰ کا خوف اُن میں پیدا ہو.زہد اور تقویٰ اُن میں پیدا ہو.خدا ترسی کی عادت اُن میں پیدا ہو.آپس کا محبت اور پیار اُن میں پیدا ہو.وہ نرم دلی اور باہم محبت کا اعلیٰ معیار حاصل کرنے والے ہوں.بھائی چارے کی مثال بن کر رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ کا نمونہ بن جائیں.انکسار، عاجزی اُن کا شیوہ ہو.سچائی کے ایسے اعلیٰ معیار قائم ہوں جس کی مثال نہ مل سکے.اسلام کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کے لئے اُن کے دل میں ایک تڑپ ہو جس کے لئے جان ، مال ، وقت اور عزت کی قربانی کے لئے ہر وقت تیار ہوں.(ماخوذ از شهادة القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 394) پس ہم جو آج یہاں جمع ہوئے ہیں.ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ سفر کی مشکلات برداشت کر کے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں.بیشک آج اس زمانے میں سفر کی سہولتیں مہیا ہیں لیکن مزاج بھی ویسے ہی بن چکے ہیں.اس لئے راستے کی مشکلات سفر کی مشکلات بہر حال سفر کا ایک احساس دلاتی ہیں.سفر کی مشکلات کی نوعیت گو بدل گئی ہے لیکن سفر بہر حال سفر ہی ہے.پس جو لوگ جلسہ میں شمولیت کے لئے آئے ہیں، انہیں ان باتوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی
خطبات مسرور جلد دہم 535 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 ستمبر 2012ء خواہشات کا احترام کرتے ہوئے جلسہ کے اس مقصد کو پورا کر رہے ہیں؟ جلسہ کی کارروائی اور ان تین دنوں کے دوران جب ہر شامل جلسہ یہ باتیں اپنے پیش نظر رکھے گا تو تبھی اس طرف توجہ پیدا ہوگی کہ ہمارا جلسہ میں شامل ہونے کا مقصد کیا ہے؟ تبھی وہ جماعت قائم ہوگی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بنانا چاہتے ہیں، تبھی طبیعتوں میں وہ انقلاب پیدا ہو گا جو دنیا میں ایک روحانی انقلاب لانے کا باعث بنے گا.اگر اس نہج پر ہم اپنی سوچوں کو ، اپنے عملوں کو نہیں لے جائیں گے تو جلسہ میں شمولیت بے فائدہ اور رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ کوئی دنیاوی میلہ نہیں ہے.(ماخوذ از شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحه 395) جس میں آئے ، بیٹھے، دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں کچھ وقت گزارا، بازار میں جا کر فالودہ اور پکوڑے وغیرہ کھالئے یا چائے اور جوس اور کافی پی لی، یا پاکستانی اور انڈین سامان کی خریداری کر لی.کیونکہ یہ سب چیزیں جلسہ کے دنوں میں ایک جگہ مہیا ہو جاتی ہیں اس لئے فائدہ اٹھا لو.یا بعض کہتے ہیں کہ ہم تو سال کا خشک راشن دالیں، چاول وغیرہ بھی جلسہ میں خرید کر لے کر جاتے ہیں کیونکہ یہ چیزیں یہاں اچھی اور نسبتا سستی قیمت میں مل جاتی ہیں، یا زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا.اگر یہ مقصد ہے تو پھر تو جلسہ میں شامل ہونے کا ثواب ضائع کر دیا.یہ چیزیں تو کم و بیش قیمت میں بازار سے بھی مل جاتی ہیں.یہاں آنے والے اس دنیاوی مائدہ کے حاصل کرنے کے لئے نہیں آتے اور نہ انہیں آنا چاہئے ، بلکہ اس روحانی مائدہ کے لئے آتے ہیں اور آنا چاہئے جو کسی اور بازار سے نہیں ملتا، جو آج ایک بیش بہا خزانہ ہے، جو صرف روحانی بھوک پیاس نہیں مٹا تا بلکہ حقیقی رنگ میں اس سے فیض پانے والے ہر شخص کو غریب سے امیر ترین بنادیتا ہے اور پھر یہ خزا نے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عطا فرمائے اور جن کی تقسیم جلسہ کے دنوں میں مختلف پروگراموں کے دوران ہوگی یا کی جاتی ہے، ایک حقیقی احمدی کو ان کے حاصل کرنے کے بعد دوسروں کی بھوک پیاس اور غربت مٹانے کا باعث بھی بنا دیتے ہیں.پس ہر احمدی کا فرض ہے، ہر شامل ہونے والے کا فرض ہے کہ اگر اُس کی سوچ میں کوئی کمی تھی ، جلسہ کی حقیقت کا صحیح فہم اور ادراک نہیں تھا تو اب اپنی سوچ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق ڈھال کر جلسہ سے بھر پور استفادہ کرنے کی کوشش کریں.اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جلسہ میں شامل ہونے والوں اور جماعت کے متعلق آپ کی خواہش کے متعلق کچھ کہوں گا کہ کیسے احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چاہتے
خطبات مسرور جلد دہم 536 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 ستمبر 2012ء ( ملفوظات جلد اول صفحہ 7 ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ) ہیں اور جماعت کے معیار کیا ہوں اور کیا ہونے چاہئیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ارشادات کو سامنے رکھتے ہوئے گو مکمل الفاظ تو آپ کے نہیں ہوں گے لیکن بہر حال خلاصہ کچھ پیش کروں گا.وہ ارشادات جو جلسہ میں شامل ہونے والوں کو آپ نے فرمائے.آپ نے ایک ایسا لائحہ عمل دیا تھا جو انسانی زندگی کی دنیا و عاقبت سنوارنے کے لئے ضمانت بن سکتا ہے.آپ إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا وَالَّذِينَ هُمْ تُحْسِنُونَ، کہ اللہ یقیناً اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا اور وہ نیکیاں بجالانے والے ہوں، کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”بجر تقویٰ کے اور کسی بات سے خدا تعالیٰ راضی نہیں ہوتا.“ پس جب ایک مومن کا مقصود یہ ہو کہ خدا تعالیٰ کو راضی کرنا ہے تو پھر اُس کے لئے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ تقویٰ پر چلے.اور تقویٰ کیا چیز ہے؟ اور کن کن راستوں پر انسان تقوی حاصل کر سکتا ہے؟ اور ایک احمدی مسلمان کو تقویٰ پر چلنے کی کیوں ضرورت ہے؟ کیوں اس کے لئے ضروری ہے؟ اس کی وضاحت فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ جماعت کے افراد کے لئے تقویٰ پر چلنا اس لئے ضروری ہے کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اُس کے سلسلہ بیعت میں شامل ہیں جس کا دعوی ماموریت کا ہے اور اس مامور کی بیعت میں شامل ہونے کا فائدہ تبھی ہو گا جب شامل ہونے والے جو کہ شامل ہونے سے پہلے رو بہ دنیا تھے، ہر قسم کی برائیوں میں مبتلا تھے، ہر قسم کی برائیوں سے نجات پائیں.اور برائیوں سے نجات بجر تقویٰ پر قدم مارنے کے پائی نہیں جاسکتی.آپ ایک مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر کوئی بیمار ہو جائے خواہ بیماری چھوٹی ہو یا بڑی، اگر اُس کا علاج نہ کیا جائے اور بعض دفعہ علاج بذاتِ خود ایک تکلیف دہ امر ہوتا ہے لیکن کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس کے بغیر تکلیف بڑھتی چلی جاتی ہے اور صحت نہیں ہو سکتی.فرمایا کہ مثلاً اگر چہرہ پر سیاہ داغ بن جائے تو فکر پیدا ہوتی ہے کہ کہیں یہ بڑھتا بڑھتا پورے چہرہ کو سیاہ نہ کر دے.اور کئی دفعہ ایسا ہوا ہے میرے پاس بھی کئی لوگ آتے ہیں اُن کے ایسے داغ پڑتے ہیں جس سے ان کو بڑی فکر ہوتی ہے.فرمایا کہ اسی طرح تم کسی چھوٹی سے چھوٹی برائی کو بھی معمولی نہ سمجھو کہ یہ تقویٰ سے دور لے جاتی ہے اور پھر یہ چھوٹی برائی بڑا گناہ بن جاتی ہے اور دل کو سیاہ کر دیتی ہے.اس لئے فکر کرو اور بہت فکر کرو.آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جیسے رحیم و کریم ہے ویساہی قہار اورمنتقم بھی ہے.ایک جماعت کو دیکھتا ہے کہ اُن کا دعویٰ اور لاف گزاف تو بہت کچھ ہے اور اُس کی عملی حالت ایسی نہیں تو اُس کا غیظ و غضب بڑھ جاتا ہے.پس اپنی عملی حالتوں کو ٹھیک کرنے کی ہر احمدی کوشش کرے اور اسے کرنی چاہئے.
خطبات مسرور جلد دہم 537 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 ستمبر 2012ء یہ بہت بڑا انذار ہے جو آپ نے فرمایا ہے.ان دنوں میں بہت دعائیں کریں دعاؤں کا موقع بھی اللہ تعالیٰ نے میسر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقت میں وہ بنائے جو وہ چاہتا ہے.آج ہم مسلمانوں کی حالت دیکھتے ہیں تو اور بھی زیادہ خوف پیدا ہو جاتا ہے کہ کہیں ہماری کسی نا اہلی اور بد عملی سے ناراض ہو کر خدا تعالیٰ ہمیں اپنے غضب کے نیچے نہ لے آئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مثال دی ہے کہ جب بدعملیاں شروع ہو جائیں ، قول وفعل میں تضاد شروع ہو جائے تو پھر خدا تعالیٰ مومن کہلانے والوں کو کافروں کے ذریعہ سے سزا دلواتا ہے.آپ نے فرمایا کہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ کئی دفعہ مسلمان کافروں سے تہ تیغ کئے گئے.جیسے چنگیز خان اور ہلاکو خان نے مسلمانوں کو تباہ کیا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے حمایت اور نصرت کا وعدہ کیا ہے.آپ نے فرمایا کہ اس کی وجہ یہی ہے کہ زبان تو لا اله الا اللہ پکارتی ہے لیکن دل کسی اور طرف ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ 7 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) عمل دنیا میں ڈوبے ہوئے ہیں.پس ہمارے لئے بڑے خوف کا مقام ہے.ہمیں بھی ہر وقت اپنے جائزے لیتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے احسان کرتے ہوئے اس زمانے کے ہادی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو زمانے کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے اور پھر ہم پر مزید احسان کرتے ہوئے اس مامور زمانہ کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے.اگر ہم نے اپنی توجہ خدا تعالیٰ کی طرف نہ رکھی تو خدانخواستہ خدانخواستہ، ہم بھی اُس قانونِ قدرت کی چکی میں نہ پس جائیں جو قول و فعل میں تضاد رکھنے والوں کے لئے چلتا ہے.آپ نے فرمایا اپنے یہ جائزے خودلو، دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کا خوف کس حد تک ہے.دیکھو کہ کہاں تک قول و فعل ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں.اگر دیکھو کہ قول وفعل برابر نہیں تو فکر کرو.آپ نے فرمایا کہ جو دل نا پاک ہے، خواہ قول کتناہی پاک ہو وہ دل خدا تعالیٰ کی نگاہ میں قیمت نہیں پاتا، بلکہ خدا تعالیٰ کا غضب مشتعل ہو گا.آپ نے فرمایا پس میری جماعت سمجھ لے کہ وہ میرے پاس اس لئے آئے ہیں کہ تخم ریزی کی جاوے جس سے وہ پھل دار درخت ہو جاویں.پس ہر ایک اپنے اندر خود غور کرے کہ اُس کا اندرونہ کیسا ہے؟ اور اس کی باطنی حالت کیسی ہے؟ فرمایا اگر ہماری جماعت بھی خدانخواستہ ایسی ہے کہ اُس کی زبان کچھ اور ہے اور دل میں کچھ ہے تو پھر خاتمہ بالخیر نہ ہوگا.آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے.ایک جماعت جو دل سے خالی ہے اور زبانی دعوے کرتی ہے، تو پھر وہ غنی ہے اور وہ پرواہ نہیں کرتا.فرمایا کہ تاریخ پر نظر ڈالو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے
خطبات مسرور جلد دہم 538 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 ستمبر 2012ء میں جاؤ.بدر کی جنگ کا نقشہ اپنے سامنے لاؤ.بدر کی فتح کی پیشگوئی ہوچکی تھی ، ہر طرح سے فتح کی امید تھی لیکن پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم روروک گڑ گڑا کر دعائیں مانگتے تھے.حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا جب ہر طرح فتح کا وعدہ ہے تو پھر ضرورت الحاح کیا ہے؟ اس قدر درد اور تڑپ کے ساتھ دعائیں مانگنے کی ضرورت کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یاوہ ذات غنی ہے.ممکن ہے وعدہ الہی میں کو ئی مخفی شرائط ہوں.(ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ 8 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) پس یہ وہ تقویٰ کا مقام ہے جس کا اُسوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا اور اگر اسی خوف اور تقویٰ کو ہم سامنے رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے حصول کی کوشش کرتے رہیں گے تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ کامیابی ہماری ہے.یا وہ لوگ کامیابی دیکھنے والے ہوں گے جن کے قول و فعل ایک ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مسلمانوں کی حالت کا ہلاکو خان اور چنگیز خان کی مثال دے کر جو نقشہ کھینچا ہے تو آج بھی اگر ہم نظر دوڑائیں تو یہی کچھ نظر آتا ہے.مسلمانوں کی طاقت کوئی نہیں رہی.غیروں کے لائحہ عمل پر عمل کر رہے ہیں.قرآنی تعلیم کو بھلا بیٹھے ہیں.اپنے ہی ملکوں میں اپنے تخت اور کرسیاں بچانے کے لئے مسلمان کہلانے والوں پر بے انتہا ظلم ہورہا ہے.عوام الناس کا بے دریغ قتل ہورہا ہے.سمجھتے ہیں کہ ان کے تخت محفوظ ہو جائیں گے، یہ ان کی خوش نہی ہے.ظلم کی سزا بھی ان لوگوں کو ملے گی اور تخت بھی ان کے جاتے رہیں گے.جن ملکوں میں حکومتیں الٹی ہیں اور عوام کے نام پر نئی حکومتیں آئی ہیں، اُن کا بھی یہی حال ہے کہ وہ بھی ظلم کی پالیسی پر ہی عمل کر رہے ہیں اور نتیجہ ا پنی طاقت کمزور کر رہے ہیں اور شعوری طور پر یالا شعوری طور پر غیروں کی ، دشمنوں کی خواہش پوری کر رہے ہیں کہ مسلمان کمزور ہوں اور کمزور رہیں اور مسلمانوں کے جو وسائل ہیں ان پر جو غیر ہیں وہ قبضہ کئے رہیں.اللہ تعالیٰ ہی ہے جو مسلم امہ کو عقل دے.اس کے لئے بھی دعا کریں.بہر حال میں یہ بات کر رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ماننے والوں کا کیا مقام دیکھنا چاہتے ہیں؟ اور اس کے لئے کیا کیا ارشادات فرمائے ہیں اور جیسا کہ بیان ہوا کہ اس معیار کو حاصل کرنے کی اصل بنیاد تقویٰ ہی ہے.اس مضمون کو مزید آگے بیان کرتا ہوں.فرمایا کہ ہمیشہ دیکھنا چاہئے کہ ہم نے تقویٰ و طہارت میں کہاں تک ترقی کی ہے؟ فرمایا کہ اس کا معیار قرآن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے متقی کے نشانوں میں سے ایک یہ بھی نشان رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو مکروہات دنیا سے آزاد کر کے اُس کے کاموں کا خود متکفل ہو جاتا ہے.جیسے کہ فرمایا وَ مَن يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ
خطبات مسرور جلد دہم 539 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 ستمبر 2012ء حَيْثُ لا يَحْتَسِبْ.جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، اللہ تعالیٰ ہر ایک مصیبت میں اُس کے لئے مخلصی کا راستہ نکال دیتا ہے اور اُس کے لئے ایسے روزی کے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ اُس کے علم و گمان میں بھی نہیں ہوتا.فرمایا یہ بھی ایک علامت متقی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کون بکار ضرورتوں کا محتاج نہیں کرتا.مثلاً ایک دوکاندار یہ خیال کرتا ہے کہ دروغ گوئی یا جھوٹ کے سوا اُس کا کام نہیں چل سکتا.اس لئے وہ دروغ گوئی سے باز نہیں آتا اور جھوٹ بولنے کی مجبوری ظاہر کرتا ہے.لیکن یہ امر ہرگز سچ نہیں.اللہ تعالیٰ متقی کا خود محافظ ہو جاتا ہے اور اُسے ایسے مواقع سے بچالیتا ہے جو خلاف حق پر مجبور کرنے والے ہوں.فرمایا کہ یا درکھو، جب اللہ تعالیٰ کو کسی نے چھوڑا تو خدا نے اُسے چھوڑ دیا.جب رحمان نے چھوڑ دیا تو ضرور شیطان اپنا رشتہ جوڑے گا.“ (ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ 8 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) پس ایک احمدی کو ہر سطح پر اور ہر جگہ پر اپنے سچائی کے معیار بھی قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.مثلاً آجکل بہت سے احمدی اسائلم کے لئے یورپین ملکوں میں آرہے ہیں اور بعض دفعہ بعض لوگ غلط بیانی بھی کرتے ہیں.حالانکہ اگر سچی بات بتائی جائے ، پاکستان میں احمدیوں کے حالات بتا کر پھر اپیل کی جائے تو تب بھی اثر پیدا ہوتا ہے.میں نے تو جنہیں بھی سچ بات کہنے کے لئے کہا ہے اور مشورہ دیا ہے کہ وکیلوں کو کہانیاں نہ بنانے دینا بلکہ سچی بات اور جو تمہارے جذبات اور احساسات، اور جو حالات ہیں وہ بتانا.تو اُن لوگوں کے کیس بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاس ہوئے ہیں.پاکستانی احمد یوں پر ظلم ہورہے ہیں اور یقیناً ہورہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں اور ظلموں کی اب تو انتہا ہوئی ہوئی ہے.لیکن ان ظلموں کی کہانی اگر سچ کی شکل میں بھی سنائی جائے اور غلط بیانی سے کام نہ لیا جائے اور پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کیا جائے تو تب بھی مقصد حاصل ہو جاتا ہے.اس قوم میں اکثریت میں ہمدردی کا جذبہ بہر حال ہے جس کے تحت یہ مدد کرتے ہیں.پس ہر موقع پر ہمیں اپنے سچ کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.پھر آپ نے جماعت کو نصائح کرتے ہوئے فرمایا کہ انسان کی نیکیوں کے دو حصے ہیں ایک حصہ فرائض کا ہے اور دوسرا حصہ نوافل کا ہے.وہ فرائض جو حقوق اللہ سے تعلق رکھتے ہیں، اُن کے علاوہ آپ نے اُن کی بھی مثال دی ہے جو حقوق العباد سے تعلق رکھتے ہیں.اس میں بھی فرائض اور نوافل ہیں.اور ان فرائض میں فرمایا کہ ایسے فرائض جو انسان پر فرض کئے گئے ہیں ،مثلاً قرض کا اتارنا کسی نے قرض لیا ہے تو اُس کا اتارنا اُس پر فرض ہے.یا نیکی کے مقابل پر نیکی کرنا، یہ ایک مسلمان پر اور احمدی مسلمان پر فرض
خطبات مسرور جلد دہم 540 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 ستمبر 2012ء ہے.فرمایا ان فرائض کے علاوہ ہر نیکی کے ساتھ نوافل بھی ہوتے ہیں.یعنی ایسی نیکی جو کسی کے حق سے فاضل اور زائد ہو.نیکی کا بدلہ اتارا.قرض لیا قرض کا بدلہ اتارا، اپنا قرض ادا کیا یہ تو بہر حال فرض ہے.لیکن اس کے نفل یہ ہیں کہ اُن سے زائد بھی کچھ ادا ہو اور انبیاء ہمیشہ اس سنت پر عمل کرتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہمارے سامنے ہے جو سب سے بڑھ کر اس پر عمل کرنے والے تھے.جیسے کہ فرمایا احسان کے مقابل احسان کے علاوہ اور احسان کرنا یہ نفل ہے.اب اگر کوئی کسی پر احسان کرے تو احسان کا بدلہ تو احسان کر کے اتارا ہی جا سکتا ہے اور اتارنا چاہئے.یہ تو فرض ہے.اللہ تعالیٰ نے بھی ( یہی ) فرمایا ہے کہ احسان کا بدلہ احسان ہی ہے.لیکن اس فرض پر نفل تب ہو گا جب احسان سے بڑھ کر احسان کیا جائے.فرمایا اگر یہ ہو گا تو یہ وہ عمل ہے جو فرائض کو مکمل کرتا ہے اور زائد ثواب کا مورد بناتا ہے.فرمایا کہ حدیث کے مطابق یہ وہ لوگ ہیں جو اتنا مقام حاصل کر لیتے ہیں کہ جن کے ہاتھ پاؤں اللہ تعالیٰ ہو جاتا ہے.حتی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اُن کی زبان ہو جاتا ہوں جس سے وہ بولتے ہیں.یعنی اُن کا ہر قول و فعل خدا تعالیٰ کی رضا کی تڑپ کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے لئے اور خدا تعالیٰ کا ہو جاتا ہے.ایسا کام اُن سے سرزد ہی نہیں ہوتا جو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بنے.(ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ 9 مطبوعہ ربوہ ) پس یہ ٹارگٹ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں اپنی بیعت میں آنے کے بعد دیا ہے.اور بیعت کا حق ہم بھی ادا کر سکیں گے جب اس ٹارگٹ کے حصول کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں.آپ نے فرمایا کہ اس کے حصول کے لئے مجاہدہ کرنا پڑتا ہے.ایک رات میں یہ مقام حاصل نہیں ہو جاتا.اس کے لئے جذبات نفس سے پاک ہونا ہوگا.نفسانیت کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ کے ارادہ کے مطابق چلنا ہوگا.کوشش کرنی ہوگی کہ میرا کوئی فعل نا جائز نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے تابع ہو.جب یہ ہوگا تو روز مرہ کی بہت سی مشکلات سے انسان بچ رہے گا.آپ نے واضح فرمایا کہ لوگ مشکلات میں پڑتے ہی اُس وقت ہیں جب اللہ تعالیٰ کی رضا کے برخلاف کوئی کام کرتے ہیں.اُس وقت یہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے نیچے نہیں آتے بلکہ اپنے جذبات کے نیچے آ کر عمل کر رہے ہوتے ہیں.مثلاً غصہ میں آکر کوئی ایسا فعل سرزد ہو جائے جس سے مقدمات بن جائیں ، کوٹ کچہری کے چکر لگانے پڑ جائیں ، جیل جانا پڑ جائے.لیکن اگر کوئی یہ ارادہ کر لے کہ کتاب اللہ کی مرضی کے بغیر ، اُس کے استصواب کے بغیر کوئی حرکت وسکون نہیں کرنا، کوئی عمل نہیں کرنا اور ہر بات پر اللہ تعالیٰ کی کتاب کو دیکھنا ہے تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی کتاب
خطبات مسرور جلد دہم 541 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 ستمبر 2012ء بد عملیوں سے بچنے کا مشورہ دے گی.ورنہ اگر اللہ تعالیٰ کی کتاب کو چھوڑ کر اپنے جذبات کا تابع ہونے کی کوشش کرو گے تو نقصان اُٹھاؤ گے.ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحه 10-9 مطبوعہ ربوہ ) پس مامور من اللہ کی بیعت کر کے ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہر معاملے میں ہم کتاب اللہ سے مشورہ لیتے ہیں یا اپنے نفس سے.اگر ہمارا نفس ہمیں کتاب اللہ کے مشورے پر عمل کرنے سے روکتا ہے تو ہمیں اپنی فکر کرنی چاہئے.ان دنوں میں خاص طور پر یہ جو جلسہ کے دن ہیں ہمیں درود، استغفار پر زور دینا چاہئے تا کہ ہم اپنی اصلاح کی طرف زیادہ سے زیادہ مائل ہوں.اپنی خواہشات اور جذبات کو خدا تعالیٰ کی خواہشات اور احکامات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش اور دعائیں کریں تا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والے بن سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت کے اعلیٰ معیاروں کے حصول کے لئے جو ارشادات فرمائے ہیں اُن سب کا احاطہ تو اس وقت ممکن نہیں، ایک اہم بات جو میں اس وقت آپ کے حوالے سے یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں، وہ ایسی ہے کہ اگر ہم اس کو اپنالیں تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہمارے قدم بڑھتے چلے جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ راتوں کو اُٹھو اور دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو اپنی راہ دکھلائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے بھی تدریجا تربیت پائی.وہ پہلے کیا تھے؟ ایک کسان کی تخمریزی کی طرح تھے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آبپاشی کی.آپ نے اُن کے لیے دعا ئیں کیں.بیج صحیح تھا اور زمین عمدہ تو اس آبپاشی سے پھل عمدہ نکلا.جس طرح حضور علیہ السلام چلتے اسی طرح وہ چلتے.وہ دن کا یارات کا انتظار نہ کرتے تھے.تم لوگ سچے دل سے تو بہ کرو.تہجد میں اٹھو.دعا کرو.دل کو درست کرو.کمزوریوں کو چھوڑ دو اور خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق اپنے قول و فعل کو بناؤ.یقین رکھو کہ جو اس نصیحت کو ورد بنائے گا اور عملی طور سے دعا کرے گا اور عملی طور پر التجا خدا کے سامنے لائے گا، اللہ تعالیٰ اس پر فضل کرے گا اور اس کے دل میں تبدیلی ہوگی.خدا تعالیٰ سے ناامید مت ہو.ع بر کریماں کا رہا دشوار نیست ( ملفوظات جلد نمبر 1 صفحہ 28 ایڈ یشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) فرمایا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو کیا کوئی ولی بنا ہے؟ افسوس انہوں نے کچھ قدر نہ کی.بیشک انسان نے ( خدا تعالیٰ کا ) ولی بننا ہے.اگر وہ صراط مستقیم پر چلے گا تو خدا بھی اس کی طرف چلے گا اور پھر ایک جگہ پر اس کی ملاقات ہوگی.اس کی اُس طرف حرکت خواہ آہستہ ہوگی لیکن اس کے مقابل خدا تعالیٰ
خطبات مسرور جلد دہم 542 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 ستمبر 2012ء کی حرکت بہت جلد ہو گی.چنانچہ یہ آیت اسی طرف اشارہ کرتی ہے.وَ الَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لنَهْدِيَتهُم...الخ (العنکبوت: 70) ( کہ جن لوگوں نے ہمارے بارے میں کوشش کی ہم انہیں ضرور اپنے راستوں کی طرف ہدایت دیں گے، رہنمائی کریں گے.فرمایا ) سوجو جو باتیں میں نے آج وصیت کی ہیں، ان کو یاد رکھو کہ ان ہی پر مدار نجات ہے.تمہارے معاملات خدا اور خلق کے ساتھ ایسے ہونے چاہئیں جن میں رضائے الہی مطلق ہی ہو.پس اس سے تم نے وَآخَرِینَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ...الخ (الجمعه: 4) کے مصداق بننا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 28-29 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) پس یہ جلسہ کے دن ہمیں میسر آئے ہیں اور اس سے چند دن پہلے رمضان گزرا ہے جس میں ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کی ہے.جلسہ کے دنوں میں ہم علمی اور تربیتی طور پر قرآن، حدیث اور سنت کی روشنی میں باتیں بھی سنیں گے.خدا تعالیٰ کی ذات کا ادراک، اُس سے تعلق جوڑنے کی طرف بہت سوں کو مزید توجہ پیدا ہو گی.اس علم کے ساتھ ہمیں اپنے عمل کو بھی صیقل کرتے چلے جانے کی اور ملانے کی ضرورت ہے.جو کچھ حاصل کیا، اُس کو سنبھالنے اور اُس سے فیض اٹھاتے چلے جانے کی ضرورت ہے.اپنے ہر عمل میں دوام اور باقاعدگی کی ضرورت ہے.ہمیں ان برکات کو سمیٹنے کے لئے اس جلسہ کو بھی فضل الہی سمجھنا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.انتظامی لحاظ سے بھی بعض باتیں کہنی چاہتا ہوں.یہ خیال رکھیں کہ جلسہ سالانہ میں آتے وقت بھی اور یہاں سے واپسی پر بھی جولوگ کاروں پر آ رہے ہیں، کاروں کی پارکنگ کی جگہوں پر اور نہ ہی پارکنگ سے جلسہ گاہ آتے ہوئے کیونکہ جو دور پارکنگ ہے، وہاں سے بعض پارکنگ کر کے اب بسوں کے ذریعے سے آئیں گے اور پھر یہاں سے بسوں کے ذریعہ سے ہی جائیں گے تو آتے ہوئے اور جاتے ہوئے اور پارکنگ کے وقت جب پارکنگ کر رہے ہوں، کسی قسم کا رش نہیں ہونا چاہئے.باقاعدہ ایک انتظام کے تحت ، ایک لائن کے تحت ، ایک تنظیم کے تحت ہمیں چلنا چاہئے.اسی طرح جلسہ گاہ میں داخل ہوتے ہوئے جہاں چیکنگ اور سکینرز وغیرہ لگے ہوئے ہیں وہاں بھی یہ احتیاط کریں کہ لائنوں میں اور ترتیب سے آئیں.کیونکہ جہاں بھی لائنیں تو ڑیں گے، بدانتظامی پیدا ہوتی ہے اور پھر دیر بھی لگتی ہے، پھر شکوے بھی بڑھتے ہیں.آپ کا وقت بھی ضائع ہوتا ہے.انتظامیہ کے لئے پریشانی کا باعث بھی بنتا ہے.اسی طرح سامان کی چیکنگ بھی جب کی جاتی ہے تو بعض شکایتیں مجھ تک پہنچی
خطبات مسرور جلد دہم 543 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 ستمبر 2012ء ہیں کہ بعضوں کو شکوہ ہو جاتا ہے.اُن کو چیکنگ کروالینی چاہئے.یہ آپ کے فائدہ کے لئے ہی ہے.اور جیسا کہ میں ہمیشہ ہر جلسہ پر اس طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ہر شاملِ جلسہ کو جلسہ میں بیٹھے ہوئے یہاں ہر مرد اور عورت کو اپنے ماحول پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے.اگر ہم محتاط ہو کر ہر طرف نظر رکھنے والے ہوں گے تو یہ سب سے بڑا سیکیورٹی کا نظام ہے جو اس وقت جماعت احمدیہ میں ہے اور جو دنیا میں کہیں اور نہیں مل سکتا.یہ جماعت احمدیہ کا ہی خاصہ ہے.پس اس میں بھی کبھی ڈھیلے نہ ہوں.لا پرواہی نہ کریں.کسی کی بھی مشکوک حرکت پر انتظامیہ کو اطلاع کریں.کسی جگہ کوئی تھیلا وغیرہ یا کوئی بیگ پڑا ہوا دیکھیں تو ڈیوٹی والوں کو آگاہ کریں.ایک اور بات یہ ہے کہ اس دفعہ کیونکہ جلسہ کی تاریخیں مختلف ہیں ، رات کے وقت جو یہاں ٹینٹ لگا کر یا اجتماعی قیامگاہ میں رہنے والے ہیں، اُن کو رات کو سردی کا احساس ہوگا کیونکہ ٹھنڈ زیادہ ہو جاتی ہے.بعض لوگوں کی طبیعت نازک بھی ہوتی ہے.اس لئے ایک تو گرم کپڑے پہن کر سوئیں اور رضائیوں کا، quilt وغیرہ کا انتظام تو یہاں ہے جو نہیں لے کر آئے وہ بھی نیچے لے لیں.ایک دو سال ہی یہ مجبوری ہے انشاء اللہ تعالیٰ پھر اپنے وقت میں جلسہ آ جائے گا.کارکنان کو میں پہلے ہی توجہ دلا چکا ہوں کہ اُن کے فرائض کیا ہیں؟ مہمان کی مہمان نوازی کا حق ادا کریں.ہر شعبہ ہمیشہ کی طرح بے لوث ہو کر خدمت کرے.پھر صفائی کے بارے میں بھی اور خاص طور پر ٹائلٹس کے بارے میں شکایتیں بہت زیادہ آتی ہیں.اگر عمومی طور پر نہیں تو بعض نفیس طبائع ایسی ہوتی ہیں جو ذراسی بھی گندگی برداشت نہیں کر سکتے.اس لئے جہاں ان کی صفائی کا انتظام رکھنا انتظامیہ کا کام ہے، وہاں لوگوں کو بھی چاہئے کہ استعمال کے بعد اپنی جگہ صاف کر کے باہر نکلیں.گو اس دفعہ اس انتظام کے لئے ایک علیحدہ ٹیم بھی بنادی گئی ہے، اب امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ بہتر انتظام ہوگا لیکن پھر بھی صفائی کا انتظام ہونا چاہئے.کیونکہ صفائی بھی یاد رکھیں کہ معمولی چیز نہیں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے یہ ایمان کا حصہ ہے.(صحیح مسلم كتاب الطهارة باب فضل الوضوء حدیث نمبر 534) پس ایک مومن کو ہر طرح سے اپنے ایمان کے معیار اونچے کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اور افراد جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ نمازوں اور نوافل اور دعاؤں پر زور دیں.ان دنوں میں خاص طور پر درود، دعائیں ، نوافل وغیرہ کی ادائیگی
خطبات مسرور جلد دہم 544 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 ستمبر 2012ء کی طرف بہت توجہ دیں.اجتماعی تہجد کا یہاں انتظام ہے جو یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں وہ یہاں آئیں جو گھروں میں ٹھہرے ہوئے ہیں وہ اپنے گھروں میں تہجد کی با قاعدگی اختیار کریں تا کہ اللہ تعالیٰ اسلام اور احمدیت کی ترقی کے غیر معمولی نظارے ہمیں دکھائے.پاکستانی احمدیوں کو بھی خاص طور پر دعاؤں میں یا درکھیں.اُن پر ظلموں کی اب انتہا ہورہی ہے جیسا کہ میں نے کہا.اب کل بھی وہاں ایک شہادت ہوئی ہے اور ایک اور شخص پر بھی فائز ہوئے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ بچ گئے.باقی دنیا کے احمدیوں کو بھی جہاں جہاں بھی اُن پر ظلم ہو رہا ہے اُن کو دعاؤں میں یادرکھیں.اللہ تعالیٰ جلد ان ظالموں کی پکڑ کے سامان پیدا فرمائے اور دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی پہچان کرنے والی بن جائے.اس وقت جیسا کہ میں نے کہا ایک شہادت ہوئی ہے.ان شہید کا جنازہ غائب بھی ہم پڑھیں گے اور اس کے ساتھ ہی بعض اور جنازے بھی ہیں.یہ شہید مکرم راؤ عبدالغفار صاحب ابن مکرم محمد تحسین صاحب ہیں جن کو کل 6 ستمبر 2012ء کو شہید کر دیا گیا.یہ چاکیواڑہ میں اپنے ایک سکول میں کام کرتے تھے جہاں پڑھانے کے بعد شام کو پانچ بجے گھر واپس آنے کے لئے وہاں سے نکلے ہیں اور بس میں سوار ہونے لگے ہیں تو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے آپ پر فائرنگ کردی جس کے نتیجہ میں دو فائر آپ کو لگے.ایک گولی کند ھے میں لگی اور دوسری گردن سے پیچھے سے لگ کر سر سے نکل گئی جس سے آپ موقع پر شہید ہو گئے.إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ شہادت کے وقت شہید مرحوم کی عمر بیالیس سال تھی.شہید مرحوم نے جنوری 2012 ء سے وصیت کی ہوئی تھی.گو وصیت منظور نہیں تھی تاہم اپنی وصیت کا چندہ دے رہے تھے.جماعتی خدمات تھیں.زعیم انصار اللہ حلقہ تھے.سیکرٹری خصوصی تحریکات تھے.نہایت مخلص احمدی تھے.نہایت نیک سیرت اور آپ کو دعوت الی اللہ کا بے حد شوق تھا، اسی طرح آپ کا اور آپ کی فیملی کا جماعت سے بہت پختہ تعلق تھا.انتہائی خوش اخلاق، ملنسار، دعا گو شخص تھے.خلافت سے گہری محبت رکھتے.کسی بھی تحریک میں جو خلیفہ وقت کی طرف سے ہوتی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے.1995ء میں آپ کی شادی شازیہ کلثوم صاحبہ بنت راناعبدالغفار صاحب کے ساتھ ہوئی تھی.ان سے آپ کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں.انہوں نے بھی اور ان کی ہمشیرہ نے بھی 1988ء میں مباہلے کا نتیجہ دیکھ کر، ضیاء الحق کا انجام دیکھ کر اُس وقت بیعت کی تھی.ان کی والدہ ان سے پہلے احمدی ہو چکی تھیں اور ان کے ذریعے سے ان کے خاندان میں پھر احمدیت کا
خطبات مسرور جلد دہم 545 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 ستمبر 2012ء تعارف ہوا اور بڑھتا چلا گیا.ان کی بہن کہتی ہیں کہ میں نے آٹھ سال قبل خواب میں دیکھا کہ ان کو گولی لگی ہے اور ختم ہو گئے ہیں لیکن جب قریب گئی تو کیا دیکھتی ہیں کہ زندہ ہیں.یقیناً یہ شہادت کا درجہ تھا جو ان کو ملنے والا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا ہے کہ شہید کبھی مرتا نہیں اور نہ تم اس کو مردہ کہو.اسی طرح ایک خواب ان کی بیٹی نے اور ان کی اہلیہ نے بھی دیکھی تھی.وہ بھی ان کی شہادت سے تعلق رکھتی ہے.اہلیہ نے یہ خواب ان کو سنائی تو انہیں تاکید کی کہ اگر میں شہید ہو جاؤں تو تم نے رونا دھونا نہیں.اسی طرح ان کے واقف بتاتے ہیں کہ اتوار کو احمد یہ ہال کراچی میں میٹنگ تھی، گھر واپس آتے ہوئے راستے میں اپنے دوسرے ساتھیوں کو کہہ رہے تھے کہ موت تو سب کو ہی آنی ہے لیکن میری خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے شہادت کی موت دے.اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کے درجات بلند سے بلند فرما تا چلا جائے.اور ان کی نسلوں میں ہمیشہ خلافت سے وفا کا تعلق قائم رہے.ان کا ایک بیٹا جامعہ احمد یہ ربوہ میں پڑھ رہا ہے.دوسرا میٹرک میں چودہ سال کا ہے.پھر دس سال کی اور ایک سات سال کی بچی ہے.دوسرا جنازہ غائب جو آج میں پڑھوں گا وہ مکرمہ صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ کا ہے جو حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اور حضرت نواب عبد اللہ خان صاحب کی بیٹی تھیں.جون 1927ء میں پیدا ہوئیں اور یکم ستمبر کو طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ میں ان کا انتقال ہوا.إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - آپ کا بچپن قادیان میں گزرا اور بڑے دینی ماحول میں گزرا.وہیں پرورش پائی.وہیں تعلیم حاصل کی.پارٹیشن کے وقت جبکہ آپ کی عمر میں سال کی تھی قادیان سے ہجرت کر کے لاہور آ گئیں.قادیان میں بھی کچھ ناصرات میں اور لجنہ میں خدمات کرتی رہیں، یہاں بھی ان کی کچھ خدمات ہیں.یہ مرزا غلام قادر شہید کی والدہ تھیں.یہ اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں جو میں سمجھتا ہوں بیان کرنا ضروری ہے.کہتی ہیں کہ غلام قادر شہید کی شہادت کے بعد ایک پرانا مراتدا کاغذ میرے سامنے ہے جو یاد نہیں مگر بارہ پندرہ سال پرانا ہے جس پر ایک دعا لکھی ہے جسے میں نے شعروں میں ڈھالنے کی کوشش کی تھی.مگر میں شاعرہ نہیں ہوں.جذبات میں بہہ کر کہنے کی کوشش کی تھی مگر کہ نہ سکی.اس دعا کے دواشعار درج ہیں.(وہ یہ شعر ہیں کہ ) ایک دوسرے سے بڑھ کر ہوں آب و تاب میں چمکیں نسلوں آسمان پر کہ ہوں ستارے میں ان کی پیدا اہل وقار ہوویں التجا ہے میری کر لے قبول پیارے
خطبات مسرور جلد دہم 546 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 ستمبر 2012ء کہتی ہیں کہ ) یہ اشعار شاید وزن اور بحر سے خالی ہوں مگر میرے دل کے جذبات سے پر ہیں.جو کچھ میں نے لکھا تھا وہ نثر میں کچھ یوں ہے (کہ) اے خدا! ہمیشہ میری دعا رہی ہے کہ میری گود کے پالے تجھ پر نثار ہوں.اے خدا! جب وقت آئے تو فگر فردا انہیں سرفروشی سے باز نہ رکھے.میرے رب! تیرا اذن نہ ہو تو خواہشیں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں.تیرے حکم کے بغیر کوئی تہی دامن کا دامن نہیں بھر سکتا.میرے خدا! میری دعاسن لے اور میرے بیٹے ایک دوسرے سے بڑھ کر آب و تاب میں ہوں.آسمان پر چاند ستاروں کی طرح چمکیں ، اُن کی نسلوں سے فخر دیار اور اہلِ وقار پیدا ہوں.میری تو التجا ہی ہے، قبول کرنے والا تو (ہی) ہے.اے کاتب تقدیر ! میرے بچوں کے لئے عمر و دولت ، ارادت وسعادت لکھ دے.“ ( کہتی ہیں ) قادر کی قربانی سے چند دن پہلے میرے پرانے کاغذات سے یہ دعانکلی.خدا جانے کس جذ بے سے میں نے کی تھی جو قبول ہوئی.چند لحوں کے لئے میرا دل کا نیا ( کہ یا اللہ ! میں نے تو ان کے لئے جانی قربانی مانگی ہے.(سرفروشی مانگی ہے ) اندر سے (ایک) مامتا بولی ( کہ) یا اللہ ! چھوٹی عمر میں ان سے یا مجھ سے قربانی نہ لینا اور میں دعا مانگنے میں لگی یا اللہ ! عمر دراز دینا.مجھے کیا پتہ تھا ( کہ ) میری دعا تو قبول ہو چکی ہے اور جوانی میں (ہی ) اللہ تعالیٰ) یہ قربانی لینا چاہتا ہے اور خدا کا یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ جوانی میں میرا بچہ مجھ سے لے لے گا.( بہر حال ) جتنی بڑی قربانی ہوگی اتنا ہی بڑا اجر ہو گا.“ کتاب ”مرزا غلام قادر احمد مصنفہ امتہ الباری ناصر صاحبہ صفحہ 223-224 شائع کردہ لجنہ اماءاللہ کراچی ) اور بیٹے کی شہادت پر انہوں نے بڑا صبر دکھایا.میں خود بھی اس کا گواہ ہوں.بڑے صبر اور حوصلے سے یہ صدمہ برداشت کیا.جب میں افسوس کرنے ان کے پاس گیا تو بڑے مسکرا کر انہوں نے قادر شہید کی خوبیوں کا ذکر کیا اور بڑا حوصلہ دکھایا.مجھ سے خط و کتابت رکھتی تھیں اور جو آخری خط مجھے لکھا اُس میں بھی یہی فقرہ تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور میری اولا د کو بھی تقوی عطا فرمائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے وارث ہوں اور آپ کی نسل ہونے کا حق ادا کرنے والے ہوں.اللہ کرے کہ یہ دعا ان کی ساری اولاد میں اور سارے خاندان کے بارے میں پوری ہو.جیسا کہ میں نے کہا آپ قادر شہید کی والدہ تھیں.آپ کی خواہش تھی کہ ان کے بیٹے وقف ہوں.دو بیٹے ہیں تو قادر شہید نے زندگی وقف کی اور پھر شہادت کا مقام بھی پایا.ان کو قادر شہید سے بڑی محبت تھی.ہر جگہ گھر میں مختلف جگہوں پر اس کی تصویریں لگائی ہوئی تھیں.صبر اور حو صلے کی میں نے بات کی ہے، جب قادر شہید کا جنازہ اُٹھا ہے تو اُس وقت بھی بجائے رونے دھونے کے ان کے یہ الفاظ تھے کہ
خطبات مسرور جلد دہم 547 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 ستمبر 2012ء جزاك الله قادر، جزاك الله قادر.یعنی ان کے بیٹے قادر نے بڑا مقام دلا دیا ہے کہ شہید کی ماں کہلائی ہیں اور ان کی خواہش پوری ہو گئی.اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ مغفرت اور رحمت کا سلوک فرمائے اور درجات بلند فرمائے.ان کے خاوند مکرم صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب بھی بیمار ہیں اور بوڑھے بھی ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے.ان کی اولا د کو جیسا کہ میں نے کہا ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی تو فیق عطا فرمائے.ایک جنازہ جو اس وقت ادا کیا جائے گا وہ مکرم چوہدری نذیر احمد صاحب سابق امیر ضلع بہاولپور کا ہے.مکرم چوہدری نذیر احمد صاحب، چوہدری نور محمد صاحب جو ہوشیار پور کے رہنے والے تھے.اُن کے بیٹے تھے.1933ء میں پیدا ہوئے اور 28 /اگست کو ان کا انتقال ہوا.بی ایس سی سول انجینئر نگ کے بعد یہ محکمہ نہر میں ملازم ہوئے اور وہیں سے ریٹائر ہوئے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے 65 ء سے 67 ء تک بطور قائد خدام الاحمدیہ ضلع رحیم یار خان پھر 75 ء سے 80 ء تک صدر جماعت احمد یہ اور 83ء سے 2004 ء تک امیر جماعت ہائے احمد یہ ضلع بہاولپور خدمت کی توفیق پائی.2004ء میں ہجرت کر کے ربوہ آگئے.ان کو وہاں 74ء میں مخالفین کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا.ان کی ڈائری کا ایک ورق ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ 1974ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف سارے پاکستان میں شدید مخالفت شروع ہو گئی.ان دنوں میں بہاولپور میں چھوٹے بھائی بشیر صاحب کے پٹرول پمپ کی دیکھ بھال کر رہا تھا، کیونکہ بشیر صاحب آپریشن کی وجہ سے بیمار تھے اور 74ء کے فسادات کی وجہ سے مولویوں نے وہاں پکٹنگ (Picting) کر دی تھی اور کسی کو پٹرول پمپ میں آنے نہیں دیتے تھے.کفن پوش نو جوانوں کی لائن آگے، پٹرول پمپ کے راستوں پر کھڑی کر دی تھی.وہاں ایک احمدی نوجوان پٹرول ڈلوانے کے لئے آیا تو اُس کا موٹر سائیکل لے کر جلا دیا.ان پر بڑا ظلم کیا.تیل وغیرہ پھینکا، گالیاں دیتے تھے اور ظلم کئے.بہر حال اس لحاظ سے بھی ان کو یہ تکالیف برداشت کرنے کی بھی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی.ان کی اہلیہ لکھتی ہیں کہ آخری وقت تک جماعتی خدمات بجالاتے رہے.کیونکہ ان کو قضا میں قاضی مقرر کیا گیا تھا، شدید بیماری کے باوجو د قضا کا آخری فیصلہ لکھا اور اس کو دھاگہ سے باندھ کر مجھ کو دیا اور تاکید فرمائی کہ اسے کوئی نہ پڑھے اور دفتر قضا میں بھجوا دینا.آخری بیماری میں بہت زیادہ تکلیف تھی اور بولنا بھی مشکل تھا.میں نے آپ سے کہا کہ بہت زیادہ بیمار ہیں ، حضرت صاحب کو لکھ دیں کہ میں اب بیماری کی وجہ سے کام نہیں کرسکتا.تو انہوں نے کہا کہ مجھے انہوں نے مقرر فرمایا ہے.جب تک دم ہے کرتا رہوں گا.
خطبات مسرور جلد دہم 548 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 ستمبر 2012ء اور بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ان کی اولا د کو بھی نیکیوں میں بڑھائے.اور آخری جنازے کا جو اعلان ہے وہ مکرم فراس محمود صاحب آف سیریا کا ہے.آجکل وہاں جو فسادات ہورہے ہیں ان فسادات کی وجہ سے دمشق کے مضافاتی علاقے میں ان کی شہادت ہوئی ہے.ان کی لاش کا پہلے پتہ نہیں لگ رہا تھا.ان کی لاش 30 اگست کو ملی اور جب دفنانے کی کوشش کی گئی تو زمین پتھریلی تھی اس لئے دفنا نہیں سکے.قبر نہیں کھود سکے تھے.پھر اگلے دن وہاں کے رہائشیوں نے اس فساد میں جو باقی مرنے والے تھے، شہید ہونے والے تھے اُن کو جب دفنا یا تو ان کو بھی وہاں دفنا دیا گیا.انہوں نے آٹھ مہینے پہلے بیعت کی تھی.پینتیس سال ان کی عمر تھی.مزدوری کرتے تھے اور آٹھ مہینے میں انہوں نے بڑی وفا سے احمدیت کے ساتھ تعلق اور بیعت کے ساتھ تعلق کو نبھایا ہے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بھی بلند فرمائے اور مغفرت کا سلوک فرمائے.جیسا کہ میں نے کہا ان سب کی نماز جنازہ ، نماز جمعہ کے بعد ہوگی.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 28 ستمبر تا 14 اکتوبر 2012 جلد 19 شماره 39 صفحه 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد دہم 549 37 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 ستمبر 2012ء الخامس خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة المسح ان مس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 14 ستمبر 2012 ء بمطابق 14 رتبوک 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جماعت احمدیہ یوکے کے جلسہ سالانہ کا دنیا کو بڑا انتظار رہتا ہے.کیونکہ جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں بھی بتایا تھا کہ یہاں خلافت کی وجہ سے اس کی مرکزی حیثیت ہے.اور پھر جغرافیائی صورت کی وجہ سے دنیا کی اکثریت یہاں کے جلسے کے پروگراموں سے زیادہ فائدہ اُٹھا سکتی ہے.یوں تو جرمنی اور یورپ کے بعض ممالک بھی وقت کی لائن کے لحاظ سے اس کے قریب ترین ہیں لیکن لندن کے وقت کا اندازہ دنیا کو زیادہ ہے یا آسان سمجھا جاتا ہے کیونکہ ایک لمبا عرصہ انگریزوں نے دنیا کے بہت سارے ممالک میں حکومت بھی کی ہے.پھر لندن ایک ایسی جگہ ہے جہاں لوگوں کا آنا بھی آسان ہے.اور وہ نسبتاً آسانی سے آ جاتے ہیں.اور پھر یہاں کی یہ بھی اہمیت ہے کہ اس آسانی سے آنے کی وجہ سے بین الاقوامی نمائندگی بھی یہاں زیادہ ہوتی ہے.بہر حال یو کے کے جلسہ سالانہ کی اہمیت اپنی جگہ واضح ہے اور ہم نے دیکھا کہ گزشتہ دنوں اتوار کو یہ جلسہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بخیر و خوبی اپنے اختتام کو پہنچا.اَلْحَمْدُ لِلهِ.جلسہ کے بعد کے خطبہ میں میں عموماً دو مضامین کا ذکر کرتا ہوں.ایک تو شکر گزاری کا مضمون ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری بھی ہوتی ہے اور کارکنوں کے لئے بھی شکریہ کا اظہار کیا جاتا ہے.دوسرے بعض کمیوں اور کمزوریوں کی طرف نشاندہی کی جاتی ہے.جن کے بارے میں جلسہ کے دوران پتہ لگتا ہے تا کہ آئندہ کے لئے بہتر صورتحال پیدا ہو سکے اور ان کمزوریوں کو دور کیا جا سکے.جہاں تک خدا تعالیٰ کی شکر گزاری کا سوال ہے، اس سال میں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ
خطبات مسرور جلد دہم 550 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 ستمبر 2012ء نے دنیا میں ہر جگہ جماعت کو ایسے مواقع مہیا فرمائے جن سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں اور ایسے طبقے میں جہاں اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانا مشکل نظر آتا ہے، وہاں بھی احمدیت کا پیغام پہنچانے کی جماعت کو توفیق ملی.اور میرے مختلف ممالک کے دوروں کے دوران اللہ تعالیٰ کے فضل کے نظارے ہم نے دیکھے جن کا ذکر میں دوروں کے دوران اور اس کے بعد کے خطبات میں کر چکا ہوں.بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور انعاموں کا یہ سلسلہ اس سال ایک نئی شان سے یورپ میں بھی اور افریقہ میں بھی ، امریکہ میں بھی اور ہندوستان میں بھی ہمیں نظر آیا.اور جماعت احمد یہ برطانیہ کے جلسہ میں بھی ہر ایک نے مشاہدہ کیا اور محسوس کیا اور ان فضلوں کو حاصل کرنے والے بھی بنے.ہر دن اور ہر موقع شکر گزاری کی نئی راہیں ہمیں دکھاتا ہے.پس ہمیں چاہئے کہ شکر گزاری کی ان راہوں پر چلنے والا بنیں.ہر انعام وفضل اور اللہ تعالیٰ کی جماعت کے لئے تائید و نصرت ہمیشہ ہمیں شکر گزاری کی نئی منزلیں دکھانے والا بھی ہو.اور ہم اُس شکر گزاری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے مزید انعاموں اور فضلوں کے وارث بننے والے ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ اگر شکر گزار بنو گے تو اور انعامات ملیں گے.فرمایا لَئِن شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ (ابراهیم : 8).اللہ تعالیٰ تو نوازتا ہے اور نواز نے کے موقعے عطا فرماتا ہے.یہ انسان ہے جو ناشکری کی وجہ سے بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کے انعامات سے محروم رہ جاتا ہے.پس یہ شکر گزاری بھی انسان کو ہی فائدہ دیتی ہے جو ایک مومن اللہ تعالیٰ کی کرتا ہے.اللہ تعالیٰ تو غنی ہے، بے احتیاج ہے، نہ ہی اُسے کسی کی مدد کی ضرورت ہے، نہ ہی کسی انعام کی ضرورت ہے، نہ ہی بندوں کے شکریہ کی ضرورت ہے.وہ تمام تر دولتوں اور طاقتوں کا مالک ہے.پس ایسی ہستی کو ہماری شکر گزاری یا ہمارے شکر گزار ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن اللہ تعالیٰ جب انسانوں پر اپنا فضل نازل فرماتا ہے تو یہ بھی دیکھتا ہے کہ وہ شکر گزار بھی ہوتے ہیں یا نہیں.اگر شکر گزار ہو جائیں تو فضل بڑھتے چلے جاتے ہیں.قرآن کریم میں مثلاً حضرت سلیمان کے حوالے سے بھی اس کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل کو دیکھ کر کہا کہ لِيَبْلُونی وَاشْكُرُ اَم اَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ : وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ (النمل: 41) تا کہ کہ وہ مجھے آزمائے میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری کرتا ہوں.اور جو شکر کرے وہ اپنی جان کے فائدے کے لئے ایسا کرتا ہے اور جو نا شکری کرے تو یقیناً میرا رب بے نیاز ہے اور صاحب اکرام ہے.وہی ہے جو فضل فرمانے والا ہے.پس یہ شکر گزاری انعامات لینے اور اعلیٰ خلق کے اظہار سکھانے کے لئے ہے.شکر کرو گے تو اور انعامات ملیں گے.تمہارے اخلاق بہتر ہوں گے.لیکن ایک دنیا دار انسان کی ط
خطبات مسرور جلد دہم 551 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 ستمبر 2012ء یہ بدقسمتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو خوشی اور انعامات کے وقت بھول جاتا ہے.پہلے اللہ یا در بہتا ہے اور جب مل جائے تو بھول جاتا ہے.بعض دفعہ نفس کہتا ہے کہ یہ سب کا میابی تمہاری محنت کی وجہ سے ہوئی ہے.تمہاری اچھی پلانگ کی وجہ سے ہوئی ہے.تمہارے کام کرنے والوں کی ٹیم کی وجہ سے ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے قَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ (سبا: 14) کہ میرے بندوں میں سے بہت کم شکر گزار ہوتے ہیں.لیکن حقیقی مومن یقینا اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوتا ہے.ہم احمدی جنہوں نے زمانے کے امام کو مانا ہے، ہم تو اللہ تعالیٰ کے ان بندوں میں ہیں جو خدا تعالیٰ کے شکر گزار ہیں اور ہونا چاہئے.ہر فضل پر الحمد لله پڑھتے ہیں اور اُس کا میابی کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی طرف منسوب کرتے ہیں.میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے افسران سے لے کر عام کارکن تک کئی ایسے مخلص دیکھے ہیں جو بڑے جذباتی انداز میں آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے اپنی کامیابی کو کام کی بہتری کو اللہ تعالیٰ کے فضل کی طرف منسوب کرتے ہیں.پس جب تک ہم میں ایسے عبد شکور پیدا ہوتے رہیں گے اور ہم عبد شکور بنے رہیں گے تو ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو برستا دیکھتے رہیں گے.ہماری زبانیں جب تک الحمد للہ کے الفاظ سے تر رہیں گی اور ہمارے دل اُس کے فضلوں پر اُس کے حضور سجدہ ریز رہیں گے، ہم اللہ تعالیٰ کے انعاموں کے وارث بنتے چلے جائیں گے.پس ہر کارکن، ہر افسر اور جلسہ میں شامل ہونے والا ہر احمدی اور ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا میں جلسہ میں شامل ہونے والا ہر احمدی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ترانے گائے ، اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کرتے ہوئے سجدہ ریز ہو جائے.جس خلوص سے ہمارے سجدے ہوں گے اور ہم سجدے کرنے والے بنیں گے اور شکر گزار ہوں گے تو اُسی قدر شدت سے اللہ تعالیٰ کے انعامات کی ہم پر بارش ہوگی ، اُسی تیزی سے ہمارے قدم ترقی کی طرف بڑھتے رہیں گے.اللہ تعالیٰ کی صفات کا ہمیں ادراک ہوگا.اُن کا فیض ہم پر جاری ہوگا اور یوں اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا.اور پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شکر کرنے والے نئے سے نئے نشانات دیکھتے ہیں.آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش اور نشانات کا سلسلہ جماعت احمدیہ ہی دیکھ رہی ہے.ورنہ جماعت احمدیہ کی مخالفت کی جو انسانی کوششیں ہیں اور جو عددی برتری ہمارے مخالفین ہم پر رکھتے ہیں، جو دولت کے ذخائر ہمارے مخالفین کے پاس ہیں ، جو مالی وسائل ، مادی وسائل اُن کے ہیں.جس طرح حکومتیں ہمیں
خطبات مسرور جلد دہم 552 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 ستمبر 2012ء ختم کرنے پر کمر بستہ ہیں اور کوششیں کر رہی ہیں، جس طرح اللہ اور رسول کے نام پر بے علم عوام کو ہمارے خلاف بھڑکا یا جاتا ہے اور خاص طور پر پاکستان میں تو یہ انتہا ہوئی ہوئی ہے، گویا کہ اس وقت مخالفین احمدیت کوئی بھی دقیقہ احمدیت کو ختم کرنے کا نہیں چھوڑ رہے.اگر اللہ تعالیٰ کا مسلسل فضل اور نشانات کا سلسلہ نہ ہوتا تو یہ دنیاوی کوششیں کب کی جماعت کو ختم کر چکی ہوتیں.یہ کم عقل نہیں سمجھتے کہ اس زمانے میں شکر گزاروں کی یہی ایک جماعت ہے جو جب اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھتے ہوئے شکر گزاری کے جذبات سے سجدہ ریز ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو مزید کھینچ لاتی ہے اور جب سجدے سے سر اٹھا کر ان فضلوں کو دیکھتی ہے تو دوبارہ حمد وشکر کے جذبے سے سجدہ ریز ہو جاتی ہے.یہی اُسوہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے پیش فرمایا ہے کہ اس طرح شکر گزاری کرو.اور پھر اللہ تعالیٰ جو نہ ختم ہونے والے خزانوں کا مالک ہے، وہ اپنے انعاموں کو بھی اتارتا چلا جاتا ہے.پس یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے جاری ہے.کاش ہمارے مخالفین اس حقیقت کو سمجھ کر اللہ تعالیٰ سے مقابلہ کرنا چھوڑ دیں.اس سال اللہ تعالیٰ نے انعامات کی جو بارش کی ہے، ان میں سے کس کس کا ذکر کیا جائے.کہاں سے وہ زبانیں لائیں جو خدا تعالیٰ کی شکر گزاری کا حق ادا کر سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک فقرہ ہے کہ: وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار پس اللہ تعالیٰ کے لئے شکر گزاری کا یہ حق تو ہم ادا نہیں کر سکتے لیکن کوشش ضرور کر سکتے ہیں اور ہمیشہ کرتے چلے جانا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور انعاموں کو ہم حاصل کرنے والے بنتے چلے جائیں.اللہ کرے کہ نسلاً بعد نسل یہ اہم مضمون ہمارے ذہنوں میں رہے اور ہمارے عمل اس کا اظہار کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر ایک سرسری سی نظر بھی ہم ڈالیں تو ہمیں ایک لمبی فہرست شکر یہ وصول کرنے کے لئے تیار کھڑی نظر آتی ہے ، یا ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہم شکر یہ ادا کریں.کہیں رپورٹس سن کر اور پڑھ کر ہمیں جماعت کے تحت چلنے والے سکولوں اور ہسپتالوں کی ترقی شکر گزاری پر مجبور کرتی ہے.کہیں ہمیں ہسپتالوں سے شفا پانے والے غریبوں کے پرسکون چہرے اور جماعت کے لئے دعائیہ الفاظ شکر گزاری کی طرف توجہ دلاتے ہیں.کہیں خدمت انسانیت کے تحت غریبوں کو پینے کا پانی مہیا ہونے پر غریب بچوں کے چہروں کی خوشی اللہ تعالیٰ کی حمد کی طرف لے جاتی ہے.سات آٹھ سال کے ان بچوں کی خوشی جو اپنے گھروں کے استعمال کے لئے دو تین میل سے پانی لاتے تھے لیکن اب اُن کو اُن کے گھروں
خطبات مسرور جلد دہم 553 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 ستمبر 2012ء کے دروازوں پر پانی مہیا ہو گیا ہے اور اس پر وہ جماعت کا شکر گزار ہوتے ہیں تو پھر جماعت اس بات پر اللہ تعالیٰ کی شکر گزار ہوتی ہے.جب ہم کہیں جماعتی ترقی کی رپورٹ سنتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو عطا ہونے والے مشن ہاؤسز اور مساجد پر اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوتے ہیں.کہیں ہم ایمان میں ترقی کے حیرت انگیز واقعات سن کر اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے اُس کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں.کبھی ہم تکمیلِ اشاعت دین کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہیا کردہ نظام اور اُس سے بھر پور فائدہ اُٹھانے پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوتے ہیں کہ اس زمانے میں اُس نے جماعت کو کیسی کیسی سہولتیں مہیا فرما دی ہیں جن کا تصور بھی آج سے ہیں تیس سال پہلے ممکن نہیں تھا.کبھی ہم اس بات پر اللہ تعالیٰ کی حمد و تعریف کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر سال کوئی نہ کوئی نیا ملک عطا فرما رہا ہے جہاں احمدیت کا پودا لگ رہا ہے اور ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس الہام کے پورا ہونے کو دیکھ رہے ہیں اور اس کے مصداق بن رہے ہیں کہ میں تیری تبلیغ کوزمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.کبھی ہم لاکھوں کی تعداد میں سعید روحوں کے احمدیت قبول کرنے پر سجدہ شکر بجالا رہے ہوتے ہیں کہ ایک طرف تو مخالف نے طوفانِ بدتمیزی برپا کیا ہوا ہے، لیکن اُنہی میں سے ایسے لوگ بھی پیدا ہو رہے ہیں جن میں سے قطرات محبت ٹپک رہے ہیں اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے عاشق صادق پر بھی درود بھیج رہے ہیں اور کوئی ظلم اور مخالفت انہیں حق قبول کر سکنے سے نہیں روک سکی.پھر اس سال جلسہ کی حاضری کا خوف تھا کہ شاید گزشتہ سالوں کی نسبت نصف حاضری ہوگی کیونکہ سکول کھل گئے تھے ، والدین کی مصروفیت ہو گئی تھی ، وہ نہیں آسکتے تھے.لیکن اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی فضل فرمایا اور ہمیں شرمندہ کیا کہ تم جماعت کے افراد کے اخلاص و وفا کو انڈ رایسٹیمیٹ (Under Estimate) کر رہے ہو.پس کس کس طرح اللہ تعالیٰ کا ہم شکر کریں.ہر کارکن اور ہر شامل ہونے والا اس بات پر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہے کہ جلسہ ہر لحاظ سے کامیاب رہا بلکہ بعض تو ہمیں لکھتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ گزشتہ سالوں کی نسبت زیادہ بہتر لگا ہے اور ہر لحاظ سے زیادہ بہتر لگا ہے.پس یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ یہ سب کچھ دیکھ کر ہم عبد شکور نہ بنیں.اور پھر اس بات پر بھی ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں کہ عمومی طور پر ہر شامل جلسہ صحت کی حالت میں رہا اور خیریت سے اپنے اپنے گھروں کو واپس پہنچا.یہ تو چند باتیں میں نے بیان کی ہیں، ان کی تفصیلات میں جاؤں تو کافی وقت
خطبات مسرور جلد دہم 554 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 ستمبر 2012ء چاہئے.اللہ تعالیٰ کے ہم پر جو فضل ہورہے ہیں اس کے لئے صفحات کے صفحات بھر سکتے ہیں.غرض کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ایک سلسلہ ہے جو ہمیں شکر گزاری پر مجبور کرتا ہے ، ہمیں شکر گزاری کا ادراک عطا کرتا ہے.یہ تو شکر گزاری کا وہ مضمون ہے جو انتظامیہ کے لئے بھی ہے، کارکنوں کے لئے بھی ہے اور ہر شاملِ جلسہ کے لئے بھی ہے کہ اگر اُس کا حقیقی عبد اور اُس کا حقیقی بندہ بنا ہے تو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنیں.جلسہ کے دنوں میں ایک ایسا سلسلہ بھی چلتا ہے جو بندوں کو بندوں کا شکر گزار بنانے والا ہوتا ہے اور ہونا چاہئے اور اس میں کارکنان اور کارکنات جو جلسہ کے کام کر رہے ہوتے ہیں وہ شامل ہیں.جن میں مختلف شعبہ جات کے کارکنان ہیں جو ہمارے مہمانوں کے لئے رہائشی سہولتیں مہیا کرتے ہیں، نہانے دھونے کی سہولت مہیا کرتے ہیں، ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی مہیا کرتے ہیں، کھانے پکانے کی سہولت بھی مہیا کرتے ہیں، کھانا کھلانے کی سہولت بھی مہیا کرتے ہیں.پھر کھانے کے بعد کی صفائی کا انتظام ہے اُس کی سہولت مہیا کرتے ہیں.حفاظت کے انتظام کرتے ہیں.اس کے لئے خدام الاحمدیہ ہر وقت مستعد رہتی ہے.اس مرتبہ مجھے نئے آنے والے مہمانوں، جن میں غیر از جماعت اور بعض ملکوں کی بڑی شخصیات بھی تھیں، کے علاوہ ہر سال آنے والے بعض مہمانوں نے بھی بتایا کہ عمومی طور پر جلسہ سالانہ کا انتظام گزشتہ سال کی نسبت بہت بہتر تھا.اس پر ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بھی ہیں اور اُن کارکنوں کے بھی شکر گزار ہیں جنہوں نے اس کو بہتر بنانے میں اپنا کردارادا کیا.کافی بہتری مختلف شعبہ جات میں اس سال آئی ہے.پس یہی چیز ہے جو ہمارا خاص نشان ہونی چاہئے کہ ہمارے انتظام میں ہر سال بہتری ہو.انسانی کاموں میں کبھی یہ ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ اس میں سو فیصد پرفیکشن (Perfection) آ جائے گی، درستگی آجائے گی ، سو فیصد بہترین ہو سکتے ہیں.اور کوئی انسان بھی سو فیصد کامل نہیں ہوسکتا سوائے ایک انسان کے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے، کوئی ایسا انسان پیدا نہیں ہوا جو انسانِ کامل ہو.لیکن آپ بھی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دینی معاملات میں تو کامل بنایا ہے، اُن دنیاوی معاملات میں نہیں جن میں اُس نے میری رہنمائی نہیں فرمائی.پس ایک انسان ہونے کی وجہ سے ہمارے کاموں میں لمیاں اور کمزور یاں تو ہوں گی لیکن اگر ہم ان کمزوریوں اور کمیوں کی اصلاح کے لئے تیار رہیں تو پھر ہمیشہ بہتری کی طرف ہمارے قدم بڑھتے رہیں گے.دنیا کو تو ہماری کوششیں یا ہمارے کام بہت اعلیٰ معیار کے لگتے ہیں لیکن ہمیں احساس ہونا چاہئے کہ بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے.
خطبات مسرور جلد دہم 555 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 ستمبر 2012ء نائیجیریا سے آئے ہوئے ایک چیف نے مجھے کہا کہ ان حالات میں جس طرح جلسہ کا ایک عارضی انتظام ہوا ہے، ایک پورا شہر بسایا جاتا ہے، اس سے زیادہ بہتری اور ہو ہی نہیں سکتی تھی.ہم اس بات پر اُس مہمان کے شکر گزار تو ضرور ہیں اور اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا کرتے ہیں کہ محض اور محض اُس کے فضل سے مہمان ہم سے خوش گیا ہے.لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ہماری انتہا تھی جو ہم نے حاصل کر لی.ہماری کوشش تو خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہوتی ہے اور ہونی چاہئے.اس مرتبہ غیر ملکی مہمانوں کو جن میں ایک کثیر تعداد غیر از جماعت مہمانوں کی بھی تھی، بجائے کرائے پر جگہ لینے یا ہوٹل کا انتظام کرنے کے جامعہ احمدیہ یو کے کی نئی عمارت میں ٹھہرایا گیا تھا.جامعہ احمد یہ یو کے کی نئی عمارت بھی چند ماہ قبل ہی خریدی گئی ہے.یہ عمارت وسیع رہائشی انتظام کے علاوہ جگہ کے لحاظ سے بھی بہت خوبصورت مقام میں ہے.پہاڑیوں کے اوپر اور جنگل میں گھری ہوئی ہے لیکن آبادی کے بھی قریب ہے.پھر باہر سے آنے والوں کو عموماً میں کہا کرتا ہوں کہ اسے جا کر دیکھو.یہ جماعت کی ایک اچھی پراپرٹی بنی ہے.جو بھی یہ جگہ دیکھتا ہے تعریف کئے بغیر نہیں رہتا.یہ بھی اللہ کے انعاموں میں سے ایک انعام ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس سال جماعت پر فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ جگہ ہمیں غیر معمولی طور پر کم قیمت پر مل گئی.یہ جگہ ہوٹل کے طور پر بھی اور اسی طرح مختلف کا نفرنسوں کے لئے بھی استعمال ہوتی تھی.اس لئے ہمارے رہائش کے مقصد کو بھی اس نے احسن طریق پر پورا کیا.بہر حال ہمارے تمام غیر از جماعت معزز مہمان جن میں بعض ملکوں کے وزیر بھی شامل تھے، یہاں ٹھہرے اور انتظام اور جگہ کی بہت تعریف کی.ان معزز مہمانوں نے اپنے تاثرات میں مجھے یہ بھی کہا کہ ایک بچے سے لے کر جو جلسہ گاہ میں پانی پلا رہا تھا، بڑے تک ہر ایک کو میں نے یا ہم نے خدمت پر کمر بستہ اور خوش مزاج دیکھا.تو یہ ان لوگوں کے تاثرات ہیں.کارکنان کو بھی ان مہمانوں کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ انہوں نے اُن کی صرف اچھائیاں دیکھی ہیں.ہر ایک میں کچھ نہ کچھ کمزوریاں تو ہوتی ہیں لیکن یہ بھی مہمانوں کی وسعت حوصلہ ہے کہ انہوں نے اپنے میز بانوں کا شکر یہ احسن رنگ میں ادا کیا ہے.اور شکریہ کے انتہائی جذبات کے ساتھ اظہار کیا ہے.ہمیشہ کی طرح اس سال بھی غیر از جماعت مہمان ہمارے نظام، جلسہ کے ماحول، لوگوں کے حسن سلوک سے بہت متاثر ہوئے ہیں.اس کے لئے بھی جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے ، میں بھی کرتا ہوں اور ہر احمدی کو کرنا چاہئے ، وہاں کارکنان کا بھی ہر شاملِ جلسہ کو شکر یہ ادا کرنا چاہئے.میں بھی اُن کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے رات دن ایک کر کے اس جلسہ کے نظام کو خوب چلایا
خطبات مسرور جلد دہم 556 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 ستمبر 2012ء اور نبھایا.اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین جزا دے.اسی طرح عمومی طور پر انتظامیہ کو ہر شامل جلسہ کا بھی شکر گزار ہونا چاہئے کہ انہوں نے جلسہ کے مقصد کو سمجھا اور کارکنان اور انتظامیہ سے تعاون کیا تا کہ یہ سارا نظام خوبصورتی سے اور بغیر کسی بڑے مسئلہ کے چلتا ر ہے.عام مہمانوں نے اس مرتبہ جن باتوں کی عمومی تعریف کی ہے وہ غسل خانوں وغیرہ کا صفائی کا بہترین نظام تھا.مجھے اکثر نے لکھا کہ فنسل خانوں میں گرم پانی کی سہولت بھی بہت اچھی تھی.اس سے پہلے وہ گرمی میں بھی ٹھنڈے پانی سے نہاتے تھے تو سردی لگتی تھی لیکن اس دفعہ ٹھنڈ کے باوجود گرم پانی کی وجہ سے اچھی طرح نہا سکے.اس مرتبہ اس پر خاص توجہ افسر جلسہ سالانہ نے دی تھی کہ صفائی کے نظام کے لئے ایک علیحدہ اور بہتر نظامت قائم کی جائے.الحمد للہ کہ یہ تجربہ جو انہوں نے کیا تھا وہ کامیاب رہا.دوسرے جلسہ گاہ میں آواز کی بھی عمومی طور پر لوگوں نے تعریف کی ہے.آواز پہنچانے کا نظام ایسا ہے جو انتہائی اہمیت کا حامل ہے.اگر یہ صحیح نہ ہو تو جلسہ پر آنے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے.کیونکہ اللہ اور رسول کی باتیں سننے کے لئے لوگ آتے ہیں، اگر وہ نہ ہو تو پھر شور شرابہ ہی ہوگا، ایک میلہ ہی ہوگا.مردوں کی طرف مارکی کے مین حصہ میں سے تو عمومی طور پر اس نظام کے تسلی بخش ہونے کی ہی اطلاع ہے.گوعورتوں کی طرف سے مجھے ابھی تک کوئی شکایت تو نہیں پہنچی لیکن عورتوں کے سیشن میں جب میں خود وہاں گیا ہوں تو سٹیج پر آواز پہنچے کا نظام بہت خراب تھا.مجھے تو بالکل تلاوت یا نظم کی صحیح طرح سمجھ نہیں آئی.اس طرف آئندہ انتظامیہ کو توجہ دینی چاہئے.اسی طرح مردوں کے سٹیج پر بیٹھے ہوؤں میں سے ایک شکایت مجھے آئی ہے کہ سٹیج پر بعض تقاریر کی آواز صحیح نہیں آ رہی تھی ، گوشکایت کرنے والے نے یہ بھی لکھ دیا کہ شاید میرے کانوں کا قصور ہو.لیکن میرا خیال ہے کانوں کا قصور نہیں تھا سٹیج پر بہر حال انتظام صحیح نہیں ہوتا.جس طرح مارکی کے باقی حصوں میں اچھی آواز پہنچانے یا مار کی سے باہر اچھی آواز پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے سٹیج پر بھی اچھی آواز کا انتظام ہونا چاہئے.اگر یہ انتظام نہیں کر سکتے تو پھر لوگوں کو، مرکزی نمائندوں کو بھی جو قریباً اڑھائی تین سولوگوں کو سٹیج پر بٹھایا جاتا ہے یہ نہ بٹھایا کریں.وہ پھر سامنے بیٹھ کر اچھی طرح سنیں.اسی طرح بچوں کی مارکی میں ایسا انتظام ہونا چاہئے کہ کم از کم ایک حصہ میں تو ایسی اچھی آواز ہو کہ بچوں کی جو مائیں جلسہ سننا چاہتی ہوں وہ سن سکیں.عموماً یہ شکایت آتی ہے کہ بعض دفعہ شور کی وجہ سے بالکل آواز سمجھ نہیں آتی ، حالانکہ لاؤڈ سپیکر کی آواز بہتر اور اونچی کی جاسکتی ہے.اس کے لئے اگر ٹیکنیکل مدد لینے
خطبات مسرور جلد دہم 557 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 ستمبر 2012ء کے لئے ضرورت ہے تو کسی پروفیشنل سے لینی چاہئے.ضمنا یہ بھی ذکر کر دوں کہ کینیڈا کے جلسہ پر آواز کے نظام کی طرف میں نے توجہ دلائی تھی تو عید کے موقع پر انہوں نے انہی ہالوں میں جن میں جلسہ منعقد ہوتا ہے عید کا بھی انتظام کیا ہوا تھا اور اب مجھے لوگوں کی طرف سے اور انتظامیہ کی طرف سے بھی وہاں سے اطلاع آئی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن کے اس نظام میں بہت بہتری پیدا ہوئی ہے، تقریبا توے پچانوے فیصد اس کی اصلاح ہو چکی ہے.صرف اس لئے کہ میرے کہنے کی وجہ سے انتظامیہ کی اس طرف توجہ پیدا ہوئی ہے جو پہلے پیدا نہیں ہو رہی تھی.انہوں نے بہتر پروفیشنلز کے ذریعہ سے اس دفعہ کام کروایا اور اس کا فائدہ ہوا.پس آواز کا ایک بہت اہم شعبہ ہے.آواز کی کوالٹی پر بھی ہمیں بہت زور دینا چاہئے اور کبھی بھی اس پر کمپرومائز نہیں ہونا چاہئے.معمولی سی کمی کو بھی دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.میں نے کینیڈا کا اس لئے ذکر کر دیا کہ پہلے دو دفعہ اُن کا ذکر خطبوں میں آچکا تھا جس کی وجہ سے انتظامیہ کافی پریشان تھی.اچھا کام کیا تو تھوڑی سی اُن کی تعریف بھی ہو جانی چاہئے.کھانے کا نظام بھی عموماً بہت اچھا رہا لیکن بعض دفعہ کھانا لیٹ ہو جاتا رہا ہے.میری اطلاع یہ ہے کہ ایک کھیپ نے کھانا کھا لیا تو دوسرے لوگوں کے آنے کے بعد کھانا آنے میں دیر ہوگئی تقسیم میں دیر ہوگئی یا تیار نہیں تھے جو بھی وجہ تھی.افسر جلسہ سالانہ کو اس بارے میں تحقیق بھی کرنی چاہئے کہ کیوں ایسا ہوا اور اس کی طرف توجہ بھی دینی چاہئے.کھانا کھلانے والے تو اُسی وقت ہی کھانا کھلا سکتے ہیں اور مہمان نوازی کا حق ادا کر سکتے ہیں جب اُن کے پاس کھلانے کو بھی کچھ ہو.بیچارے نو جوان کا رکن بعض دفعہ اس کمی کی وجہ سے خود بھی مہمانوں کے سامنے شرمندہ ہور ہے ہوتے تھے.اسی طرح کھانا کھلانے کی مارکی کی شکایت تو نہیں آئی لیکن ایک دن ایک کھانے کے وقت میں میں خود چیک کرنے چلا گیا تھا اور وہاں میں نے دیکھا کہ رش کے وقت ہمشکل لوگ کھڑے ہو کر کھانا کھا رہے تھے، ایک دوسرے میں بالکل پھنسے ہوئے تھے.جگہ تنگ تھی اور اس تنگ جگہ کی وجہ سے بعض دفعہ سالن وغیرہ بھی دوسروں کے کپڑوں پر گرنے کا احتمال ہوتا ہے جو ایک فریق کے لئے جہاں شرمندگی کا باعث بنتا ہے، وہاں بعض دفعہ بدمزگیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں.اس لئے انتظامیہ اس کو نوٹ کرے اور آئندہ کے لئے کھانے کی مار کی بڑی ہونی چاہئے.میزوں کا فاصلہ ذرا زیادہ ہونا چاہئے.ایسی بچت جس سے مہمان کو تکلیف ہو اس کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہے، نہ ایسی بچت کرنی چاہئے.
خطبات مسرور جلد دہم 558 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 ستمبر 2012ء لجنہ کی طرف سے عمومی طور پر تو بڑی اچھی رپورٹ ملی ہے لیکن لجنہ کی مہمان نوازی کا ایک شعبہ خاص طور پر وہ جو تبشیر کے زیر انتظام تھا اور ایک لحاظ سے یہ مرکزی تھا ، اسے لوکل مقامی لجنہ کا نہیں کہا جا سکتا، اس کے متعلق مجھے رپورٹ ملی ہے کہ یہاں غلط قسم کی سختی کی گئی اور بدتمیزی کی گئی ہے جو غیر ملکی مہمانوں سے، خاص طور پر عربوں سے کی گئی.یہ شکایت ملی ہے کہ کھا نا ڈالنے کے لئے آنے والیوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا.دعوت والے دن بھی جب تبشیر کی دعوت ہوتی ہے سنگا پور سے ایک مہمان آئی تھیں.اُسی وقت پہنچی تھیں یا کسی اور وجہ سے اُن کے ہاتھ میں بیگ تھا، ویلر تھا تو اُن سے بدسلوکی کی گئی.آرام سے بھی سمجھایا جا سکتا تھا.اگر رو کنا تھا تو شریفانہ طریقے سے کہا جا سکتا تھا کہ (ویلر ) اندر نہ لائیں یا ایک جگہ رکھ دیں.اُن سے لے کے رکھا جا سکتا تھا.بہر حال اس میں جلسہ سالانہ کی انتظامیہ سے زیادہ تبشیر کی انتظامیہ کا قصور ہے.اس لئے اُن کو بھی اس بارے میں اُن لوگوں سے معافی مانگنی چاہئے اور استغفار کرنی چاہئے.عربوں میں خاص طور پر زبان کا مسئلہ ہوتا ہے ، دوسروں میں بھی ، سنگا پور، انڈونیشیا وغیرہ سے یا دوسرے ملکوں سے بھی مہمان مرد عورتیں آتی ہیں، ہر جگہ جہاں زبان کا مسئلہ ہے، وہاں بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے.ایک یہ شکایت جو پہلے بہت زیادہ ہوتی تھی ، اس دفعہ تو اکا دُکا ہی ہے کہ جب بعض مائیں اپنے بچوں کو مین مارکی میں لے آتی ہیں تو بجائے اس کے کہ ماؤں کو روکا جائے ، ڈسپلن قائم کرنے والی عورتیں بچوں کو پکڑ کر گھسیٹ کر باہر لے جاتی ہیں.یہ نہایت غلط طریق ہے.تمام عمر کے لئے اس طرح بچے کو دہشت زدہ کرنے والی بات ہے.اور پھر اسی طرح جلسوں سے متنفر کرنے والی بات ہے.پانچ چھ سال کے بچے اگر مین مارکی میں آ بھی جائیں تو کوئی حرج نہیں ہے.عموماً اس عمر کے بچے شور نہیں کرتے یا ماں باپ کے کہنے پر، اکا دُکا ہوں تو قابو میں آ جاتے ہیں، خاص طور پر لڑکیاں تو کافی شرافت دکھاتی ہیں.بہر حال اگر پھر بھی ان سے شور سنیں تو آرام سے ماؤں کو کہیں کہ بچے کو لے کر باہر چلی جائیں لیکن بچے پر ڈیوٹی والیوں کو کسی قسم کی سختی نہیں کرنی چاہئے.ہر حال میں ہر جگہ ہمارے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہونا چاہئے.تمام متعلقہ شعبہ جات ان کمزوریوں کا پتہ کروائیں جو اُن کے شعبوں سے متعلق تھیں اور پھر اُن کو نوٹ کریں، ریڈ بک (Red Book) میں نوٹ کریں اور آئندہ کے لئے جب جلسہ سالانہ کے انتظامات کریں تو ان چیزوں کو سامنے رکھیں کیونکہ یہ جو ذرا ذراسی بے احتیاطی ہے، اچھے بھلے کاموں پر
خطبات مسرور جلد دہم 559 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 ستمبر 2012ء پانی پھیر دیتی ہے.اگر ترقی کرنی ہے تو سنجیدگی سے توجہ کرنے کی ضرورت ہے اور ہم نے یقینا ترقی کرنی ہے.پس انتظامیہ کو اس طرف توجہ دینی چاہئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا سے جلسے کی مبارکباد کے جو خطوط مجھے آ رہے ہیں ، ان میں ایم ٹی اے کے کارکنوں کے دنیا میں رہنے والے تمام احمدی بہت زیادہ شکر گزار ہیں کہ اُن کی وجہ سے انہوں نے جلسہ میں شمولیت کی اور باقی پروگرام دیکھے اور اُن کو موقع ملا کہ وہ دیکھ سکیں.اس مرتبہ جلسے کی کارروائی کے علاوہ جلسے کے وقفے کے دوران میں جو پروگرام ہوئے ہیں، اُن کے معیار اور نفس مضمون کی بھی لوگوں نے بہت تعریف کی ہے.میں نے تو نہیں دیکھے لیکن میرا خیال ہے ریکارڈنگ دیکھوں گا کیونکہ کہتے ہیں بڑے متنوع قسم کے پروگرام تھے اور معیار بھی بہت اچھا تھا.اللہ تعالیٰ ان تمام پروگرام بنانے والوں اور پروگرام میں شامل ہونے والوں کو جزا عطا فرمائے جنہوں نے ان دنوں میں دنیائے احمدیت کو ایم ٹی اے کے ساتھ چمٹائے رکھنے کی کوشش کی ہے.ایم ٹی اے العربیہ بھی اپنے لائیو پروگرام دیتا رہا ہے، اس کا بھی بڑا اچھا اثر رہا.اس مرتبہ جیسا کہ میں نے بتایا تھا کہ ایم ٹی اے کو انٹرنیٹ کے ذریعہ سے بھی وسعت دی گئی ہے اور رپورٹس کے مطابق تین لاکھ افراد سے زیادہ نے انٹرنیٹ کے ذریعہ سے جلسہ کا پروگرام دیکھا ہے.بہر حال مجموعی طور پر اللہ تعالیٰ کے بیشمار فضل اور احسانات ہوئے ہیں، جلسہ کی برکات کو یہاں شامل ہونے والوں نے محسوس کیا جیسا کہ میں نے کہا اور دنیا میں ایم ٹی اے یا انٹرنیٹ کے ذریعہ شامل ہونے والوں نے بھی محسوس کیا.اللہ تعالیٰ ان برکات کو ہمیشہ بڑھاتا چلا جائے اور ہمیں اُن لوگوں میں شامل فرمائے جو اُس کے حقیقی شکر گزار ہوتے ہیں.یہ برکات ہمیشہ رہنے والی ہوں اور آئندہ سال کا جلسہ سالانہ اس سے بھی زیادہ بڑھ کر برکات لانے والا ہو.آجکل دنیائے اسلام کے لئے بھی بہت دعاؤں کی ضرورت ہے.اسلامی ممالک اور امتِ مسلمہ کو بہت دعاؤں میں یا درکھیں.یہ ایسے جال میں پھنس رہے ہیں اور پھنستے چلے جارہے ہیں جو اپنے لالچوں کی وجہ سے بھی ، خودغرضانہ مفادات کی وجہ سے بھی اور اسلام مخالف قوتوں کی وجہ سے بھی مسلمان اُمہ کو ہر لحاظ سے بے دست و پا کر رہا ہے اور ان کو سمجھ نہیں آ رہی کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے.جان بوجھ کر فسادات کے مواقع پیدا کئے جاتے ہیں جس سے مسلمان بجائے ایک صحیح ردعمل دکھانے کے غلط رد عمل دکھا کر اپنے اوپر اور مصائب سہیڑ رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو ہر طرح سے محفوظ رکھے.بہت زیادہ دعا کریں.اللہ تعالیٰ
خطبات مسرور جلد دہم 560 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 ستمبر 2012ء مسلم امہ کو بھی عقل دے کہ یہ بھی اُس تعلیم کے مطابق عمل کرنے والے ہوں جو اللہ اور اُس کے رسول نے ہمیں بتائی ہے.نمازوں کے بعد میں کچھ جنازے بھی پڑھاؤں گا.ایک تو جنازہ حاضر ہے جو مکرم ماسٹر ملک محمد اعظم صاحب کا ہے جو تعلیم الاسلام سکول کے ریٹائرڈ ٹیچر تھے.آجکل شیفیلڈ میں تھے.تہتر سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے.إِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.اپنے رشتے کے چا کی تبلیغ کی وجہ سے بڑی تحقیق کر کے انہوں نے 1960ء میں احمدیت قبول کی اور پھر بجائے سرکاری نوکری کرنے کے کوشش کر کے ربوہ میں شفٹ ہوئے تا کہ جماعت کے سکول میں ملازمت کریں.پہلے جماعت کے پرائمری سکول میں رہے پھر ہائی سکول میں بطور استا در ہے.بہت نیک ، دعا گو، تہجد گزار، مخلص فدائی احمدی تھے.مختلف جماعتی عہدوں پر انہوں نے خدمت کی توفیق پائی ہے اور اس وقت بھی چند سالوں سے شیفیلڈ میں آئے ہوئے تھے اور وہاں سیکرٹری وصایا تھے.تبلیغ کا بھی شوق تھا.ان کی والدہ اور بھائی بھی انہی کی تبلیغ سے احمدی ہوئے تھے.ربوہ کے ارد گرد بھی تبلیغ کے لئے جاتے تھے اور اللہ کے فضل سے کئی پھل انہوں نے حاصل کئے تبلیغ کی وجہ سے ان کو مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن اللہ تعالیٰ نے بری فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا بھی گہرا مطالعہ تھا.کہتے ہیں کہ جو ضرورت کے حوالے ہوتے تھے وہ زبانی یاد تھے.خلافت کے ساتھ محبت و عقیدت کا تعلق تھا.تین بیٹے اور دو بیٹیاں ان کی یادگار ہیں.ان کے ایک بھائی مکرم ملک محمد اکرم صاحب مانچسٹر میں ہمارے مبلغ سلسلہ ہیں.دوسرا جنازہ مکرم محمد نواز صاحب ابن مکرم احمد علی صاحب کیا ہے.نواز صاحب کے والد احد علی صاحب نے 1950ء میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.ان پڑھ تھے لیکن بڑے فدائی تھے اور بڑے مخلص تھے.محمد نواز صاحب پولیس میں بطور کانسٹیبل ڈیوٹی دیا کرتے تھے اور جماعت سے بھی ان کا اور بچوں کا کافی تعلق ہے.گزشتہ روز یہ کراچی میں اپنی ڈیوٹی پر تھے اور موٹر سائیکل پر ڈیوٹی سے جار ہے تھے کہ نامعلوم دو موٹر سائیکل سواروں نے آپ پر فائرنگ کر دی.سر میں گولیاں لگیں جس سے موقع پر شہادت ہوگئی.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.غالب خیال یہی ہے کہ جماعت کی مخالفت کی وجہ سے یہ ہوا ہے.اللہ ان کے بچوں کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے.محکمہ کے ساتھی بھی ان کے کام کی تعریف کیا کرتے تھے.ان کے دو بیٹے ، اہلیہ اور تین بیٹیاں ہیں.اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور درجات بلند کرے.
خطبات مسرور جلد دہم 561 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 ستمبر 2012ء تیسرا جنازہ غائب مکرمہ وے مریم کو ریا باہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ گیمبیا کا ہے.یہ جماعت احمد یہ گیمبیا کی بڑے عرصے سے صدر تھیں.7 اور 8 اگست کی درمیانی رات ان کی وفات ہوئی.إنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ایک ہفتہ قبل یہ شدید بیمار ہوئیں.ہسپتال میں داخل تھیں لیکن جانبر نہ ہوسکیں.مرحومہ علیو ایمبا صاحب مرحوم سابق نائب امیر جماعت گیمبیا کی اہلیہ تھیں.وہاں کے حالات کی وجہ سے ان کو بڑا لمبا عرصہ اجازت ملی تھی کہ صدر کے طور پر کام کرتی رہیں، اس لئے تیرہ سال کا لمبا عرصہ ان کو صدارت کی توفیق ملی.ہر لحاظ سے لجنہ کو انہوں نے مضبوط کیا.اجتماعات کا آغاز کیا.انہوں نے لجنہ کو بڑا آرگنا ئز کیا.جماعت کی ہر خدمت پر لبیک کہنے والی تھیں.بڑی سادہ اور منکسر المزاج اور محنت کرنے والی خاتون تھیں.ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ لجنہ اماء اللہ مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے اور خود بھی بہت قربانی کرنے والی تھیں.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے.جیسا کہ میں نے کہا ان سب کی نماز جنازہ ابھی ادا کی جائے گی.ایک جنازہ حاضر ہے.نمازوں کے بعد میں نماز جنازہ کے لئے نیچے جاؤں گا.احباب یہیں مسجد میں رہیں اور میرے ساتھ جنازہ ادا کریں.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 5 تا 11 اکتوبر 2012 جلد 19 شماره 40 صفحه 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد دہم 562 38 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 ستمبر 2012ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة اسم الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 21 ستمبر 2012 ء بمطابق 21 رتبوک 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: إِنَّ اللهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِي يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا ط تَسْلِيمًا إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ (الاحزاب: 58-57) عَذَابًا مُّهِينًا ان آیات کا یہ ترجمہ ہے کہ یقینا اللہ اور اُس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں.اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی اُس پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو.یقیناً وہ لوگ جو اللہ اور اُس کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں، اللہ نے اُن پر دنیا میں بھی لعنت ڈالی ہے اور آخرت میں بھی اور اُس نے اُن کے لئے رُسواگن عذاب تیار کیا ہے.آجکل مسلم دنیا میں ، اسلامی ممالک میں بھی اور دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والے مسلمانوں میں بھی اسلام دشمن عناصر کے انتہائی گھٹیا، گھناؤنے اور ظالمانہ فعل پر شدید غم وغصہ کی لہر دوڑی ہوئی ہے.اس غم و غصہ کے اظہار میں مسلمان یقیناً حق بجانب ہیں.مسلمان تو چاہے وہ اس بات کا صحیح ادراک رکھتا ہے یا نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی مقام کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے لئے مرنے کٹنے پر تیار ہو جاتا ہے.دشمنان اسلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو بیہودہ اور لغو ظلم بنائی ہے اور جس ظالمانہ طور پر اس فلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اہانت کا اظہار کیا گیا ہے اس پر ہر مسلمان کا غم اور غصہ ایک قدرتی بات ہے.و محسن انسانیت، رحمتہ للعالمین اور اللہ تعالیٰ کا محبوب جس نے اپنی راتوں کو بھی مخلوق کے غم میں جگایا،
خطبات مسرور جلد دہم 563 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 ستمبر 2012ء جس نے اپنی جان کو مخلوق کو تباہ ہونے سے بچانے کے لئے اس درد کا اظہار کیا اور اس طرح غم میں اپنے آپ کو مبتلا کیا کہ عرش کے خدا نے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کیا تو ان لوگوں کے لئے کہ کیوں یہ اپنے پیدا کرنے والے رب کو نہیں پہچانتے ، ہلاکت میں ڈال لے گا ؟ اس عظیم محسنِ انسانیت کے بارے میں ایسی اہانت سے بھری ہوئی فلم پر یقینا ایک مسلمان کا دل خون ہونا چاہئے تھا اور ہوا اور سب سے بڑھ کر ایک احمدی مسلمان کو تکلیف پہنچی کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور غلام صادق کے ماننے والوں میں سے ہیں.جس نے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم مقام کا ادراک عطا فرمایا.پس ہمارے دل اس فعل پر چھلنی ہیں.ہمارے جگر کٹ رہے ہیں.ہم خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہیں کہ ان ظالموں سے بدلہ لے.انہیں وہ عبرت کا نشان بنا جو رہتی دنیا تک مثال بن جائے.ہمیں تو زمانے کے امام نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرح اور اک عطا فرمایا ہے کہ جنگل کے سانپوں اور جانوروں سے صلح ہوسکتی ہے لیکن ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت خاتم الانبیاء کی توہین کرنے والے اور اُس پر ضد کرتے چلے جانے والے سے ہم صلح نہیں کر سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : مسلمان وہ قوم ہے جو اپنے نبی کریم کی عزت کے لئے جان دیتے ہیں.اور وہ اس بے عزتی سے مرنا بہتر سمجھتے ہیں کہ ایسے شخصوں سے دلی صفائی کریں اور اُن کے دوست بن جائیں جن کا کام دن رات یہ ہے کہ وہ اُن کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں اور اپنے رسالوں اور کتابوں اور اشتہاروں میں نہایت تو ہین سے اُن کا نام لیتے ہیں اور نہایت گندے الفاظ سے اُن کو یاد کرتے ہیں“.آپ فرماتے ہیں کہ ”یا درکھیں کہ ایسے لوگ اپنی قوم کے بھی خیر خواہ نہیں ہیں کیونکہ وہ اُن کی راہ میں کانٹے ہوتے ہیں.اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر ہم جنگل کے سانپوں اور بیابانوں کے درندوں سے صلح کرلیں تو یہ ممکن ہے.مگر ہم ایسے لوگوں سے صلح نہیں کر سکتے جو خدا کے پاک نبیوں کی شان میں بدگوئی سے باز نہیں آتے.وہ سمجھتے ہیں کہ گالی اور بد زبانی میں ہی فتح ہے.مگر ہر ایک فتح آسمان سے آتی ہے.فرمایا کہ پاک زبان لوگ اپنی پاک کلام کی برکت سے انجام کار دلوں کو فتح کر لیتے ہیں.مگر گندی طبیعت کے لوگ اس سے زیادہ کوئی ہنر نہیں رکھتے کہ ملک میں مفسدانہ رنگ میں تفرقہ اور پھوٹ پیدا کرتے ہیں.فرمایا کہ ” تجر بہ بھی شہادت دیتا ہے کہ ایسے بد زبان لوگوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا.خدا کی غیرت اُس کے اُن پیاروں کے لئے آخر کوئی کام دکھلا دیتی ہے.چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحه 385 تا 387) 66
خطبات مسرور جلد دہم 564 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 ستمبر 2012ء اس زمانے میں اخباروں اور اشتہاروں کے ساتھ میڈیا کے دوسرے ذرائع کو بھی اس بیہودہ چیز میں استعمال کیا جارہا ہے.پس یہ لوگ جو اپنی ضد کی وجہ سے خدا تعالیٰ سے مقابلہ کر رہے ہیں، انشاء اللہ تعالیٰ اُس کی پکڑ میں آئیں گے.یہ ضد پر قائم ہیں اور ڈھٹائی سے اپنے ظالمانہ فعل کا اظہار کرتے چلے جار ہے ہیں.2006ء میں جب ڈنمارک کے خبیث الطبع لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیہودہ تصویریں بنائی تھیں تو اُس وقت بھی میں نے جہاں جماعت کو صحیح رد عمل دکھانے کی طرف توجہ دلائی تھی وہاں یہ بھی کہا تھا کہ یہ ظالم لوگ پہلے بھی پیدا ہوتے رہے ہیں اور اس پر بس نہیں ہوگی.اس احتجاج وغیرہ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا جو اب مسلمانوں کی طرف سے ہو رہا ہے بلکہ آئندہ بھی یہ لوگ ایسی حرکات کرتے رہیں گے.اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اُس سے بڑھ کر یہ بیہودگی اور ظلم پر اتر آئے ہیں اور اُس وقت سے آہستہ آہستہ اس طرف ان کا یہ طریق بڑھتا ہی جا رہا ہے.پس یہ ان کی اسلام کے مقابل پر ہزیمت اور شکست ہے جو ان کو آزادی خیال کے نام پر بیہودگی پر آمادہ کر رہی ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یادرکھیں کہ یہ لوگ اپنی قوم کے بھی خیر خواہ نہیں ہیں.یہ بات ایک دن ان قوموں کے لوگوں پر بھی کھل جائے گی.ان پر واضح ہو جائے گا کہ آج جو کچھ بیہودہ گوئیاں یہ کر رہے ہیں، وہ ان کی قوم کے لئے نقصان دہ ہے کہ یہ لوگ خود غرض اور ظالم ہیں.ان کو صرف اپنی خواہشات کی تکمیل کے علاوہ کسی بات سے سروکار نہیں ہے.اس وقت تو آزادی اظہار کے نام پر سیاستدان بھی اور دوسرا طبقہ بھی بعض جگہ کھل کر اور اکثر دبے الفاظ میں ان کے حق میں بھی بول رہا ہے اور بعض دفعہ مسلمانوں کے حق میں بھی بول رہا ہے.لیکن یا درکھیں کہ اب دنیا ایک ایسا گلوبل ویلیج بن چکی ہے کہ اگر کھل کر برائی کو برائی نہ کہا گیا تو یہ باتیں ان ملکوں کے امن و سکون کو بھی برباد کر دیں گی اور خدا کی لاٹھی جو چلنی ہے وہ علیحدہ ہے.امام الزمان کی یہ بات یا درکھیں کہ ہر فتح آسمان سے آتی ہے اور آسمان نے یہ فیصلہ کر چھوڑا ہے کہ جس رسول کی تم ہتک کرنے کی کوشش کر رہے ہو اُس نے دنیا پر غالب آنا ہے.اور غالب، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا، دلوں کو فتح کر کے آنا ہے.کیونکہ پاک کلام کی تاثیر ہوتی ہے.پاک کلام کو ضرورت نہیں ہے کہ شدت پسندی کا استعمال کیا جائے یا بیہودہ گوئی کا بیہودہ گوئی سے جواب دیا جائے.اور یہ بدکلامی اور بد نوائی جو ان لوگوں نے شروع کی ہوئی ہے، یہ انشاء اللہ تعالیٰ جلد ختم ہو
خطبات مسرور جلد دہم 565 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 ستمبر 2012ء جائے گی.اور پھر اس زندگی کے بعد ایسے لوگوں سے خدا تعالیٰ نبٹے گا.یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں، ان میں بھی اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اُن کی ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی ہے کہ تمہارا کام اس رسول پر درود اور سلام بھیجنا ہے.ان لوگوں کی بیہودہ گوئیوں اور فلموں اور استہزاء سے اُس عظیم نبی کی عزت و ناموس پر کوئی فرق نہیں پڑتا.یہ تو ایسا عظیم نبی ہے جس پر اللہ تعالیٰ اور اُس کے فرشتے بھی درود بھیجتے ہیں.مومنوں کا کام ہے کہ اپنی زبانوں کو اس نبی پر درود سے تر رکھیں.اور جب دشمن بیہودہ گوئی میں بڑھے تو پہلے سے بڑھ کر درودوسلام بھیجیں.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ و عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِک عَلَى مُحَمَّدٍ وعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ یہی درود ہے اور یہی نبی ہے جس کا دنیا میں غلبہ مقدر ہو چکا ہے.پس جہاں ایک احمدی مسلمان اس بیہودہ گوئی پر کراہت اور غم وغصہ کا اظہار کرتا ہے وہاں ان لوگوں کو بھی اور اپنے اپنے ملکوں کے ارباب حل و عقد کو بھی ایک احمدی اس بیہودہ گوئی سے باز رہنے اور روکنے کی طرف توجہ دلاتا ہے اور دلانی چاہئے.دنیاوی لحاظ سے ایک احمدی اپنی سی کوشش کرتا ہے کہ اس سازش کے خلاف دنیا کو اصل حقیقت سے آشنا کرے اور اصل حقیقت بتائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے خوبصورت پہلو دکھائے.اپنے ہر عمل سے آپ کے خوبصورت اُسوہ حسنہ کا اظہار کر کے اور اسلام کی تعلیم اور آپ کے اسوہ حسنہ کی عملی تصویر بن کر دنیا کو دکھائے.ہاں ساتھ ہی یہ بھی جیسا کہ میں نے کہا کہ درود و سلام کی طرف بھی پہلے سے بڑھ کر توجہ دے.مرد، عورت، جوان، بوڑھا، بچہ اپنے ماحول کو، اپنی فضاؤں کو درود و سلام سے بھر دے.اپنے عمل کو اسلامی تعلیم کا عملی نمونہ بنا دے.پس یہ خوبصورت رد عمل ہے جو ہم نے دکھانا ہے.باقی ان ظالموں کے انجام کے بارے میں خدا تعالیٰ نے دوسری آیت میں بتا دیا ہے کہ رسول کو اذیت پہنچانے والے یا اس زمانے میں حقیقی مومنوں کا دل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے حوالے سے تکلیف پہنچا کر چھلنی کرنے والوں سے خدا تعالیٰ خود نپٹ لے گا.ان لوگوں پر اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور اس لعنت کی وجہ سے وہ اور زیادہ گندگی میں ڈوبتے چلے جائیں گے.اور مرنے کے بعد ایسے لوگوں کے لئے خدا تعالیٰ نے رُسوا کن عذاب مقدر کیا ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی مضمون کو بیان فرمایا ہے کہ ایسے بدزبان لوگوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا.پس یہ لوگ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ
خطبات مسرور جلد دہم 566 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 ستمبر 2012ء کی لعنت کی صورت میں اور مرنے کے بعد رُسوا کن عذاب کی صورت میں اپنے انجام کو پہنچیں گے.جو دوسرے مسلمان ہیں، ان مسلمانوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق ، اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق یہ رد عمل دکھانا چاہئے کہ درود شریف سے اپنے ملکوں، اپنے علاقوں، اپنے ماحول کی فضاؤں کو بھر دیں.یہ رد عمل ہے.یہ رد عمل تو بے فائدہ ہے کہ اپنے ہی ملکوں میں اپنی ہی جائیدادوں کو آگ لگائی جائے یا اپنے ہی ملک کے شہریوں کو مارا جائے یا جلوس نکل رہے ہیں تو پولیس کو مجبوراً اپنے ہی شہریوں پر فائرنگ کرنی پڑے اور اپنے لوگ ہی مر رہے ہوں.اخبارات اور میڈیا کے ذریعے سے جو خبریں باہر آ رہی ہیں، اُن سے پتہ چلتا ہے کہ اکثر شریف الطبع مغربی لوگوں نے بھی اس حرکت پر نا پسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور کراہت کا اظہار کیا ہے.وہ لوگ جو مسلمان نہیں ہیں لیکن جن کی فطرت میں شرافت ہے انہوں نے امریکہ میں بھی اور یہاں بھی اس کو پسند نہیں کیا.لیکن جولیڈرشپ ہے وہ ایک طرف تو یہ کہتی ہے کہ یہ غلط ہے اور دوسری طرف آزادی اظہار و خیال کو آڑ بنا کر اس کی تائید بھی کرتی ہے.یہ دو عملی نہیں چل سکتی.آزادی کے متعلق قانون کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہے.میں نے وہاں امریکہ میں سیاستدانوں کو تقریر میں یہ بھی کہا تھا کہ دنیا داروں کے بنائے ہوئے قانون میں سقم ہو سکتا ہے، غلطیاں ہوسکتی ہیں.قانون بناتے ہوئے بعض پہلو نظروں سے اوجھل ہو سکتے ہیں کیونکہ انسان غیب کا علم نہیں رکھتا.لیکن اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے.اُس کے بنائے ہوئے قانون جو ہیں اُن میں کوئی سقم نہیں ہوتا.پس اپنے قانون کو ایسا مکمل نہ سمجھیں کہ اس میں کوئی رد و بدل نہیں ہوسکتا، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی.آزادی اظہار کا قانون تو ہے لیکن نہ کسی ملک کے قانون میں، نہ یو این او (UNO) کے چارٹر میں یہ قانون ہے کہ کسی شخص کو یہ آزادی نہیں ہوگی کہ دوسرے کے مذہبی جذبات کو مجروح کرو.یہ کہیں نہیں لکھا کہ دوسرے مذہب کے بزرگوں کا استہزاء کرنے کی اجازت نہیں ہوگی کہ اس سے دنیا کا امن برباد ہوتا ہے.اس سے نفرتوں کے لاوے ابلتے ہیں.اس سے قوموں اور مذہبوں کے درمیان خلیج وسیع ہوتی چلی جاتی ہے.پس اگر قانون آزادی بنایا ہے تو ایک شخص کی آزادی کا قانون تو بیشک بنائیں لیکن دوسرے شخص کے جذبات سے کھیلنے کا قانون نہ بنائیں.یو این او (UNO) بھی اس لئے ناکام ہو رہی ہے کہ یہ نا کام قانون بنا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے بڑا کام کر لیا ہے.اللہ تعالیٰ کا قانون دیکھیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ دوسروں کے بتوں کو بھی برا نہ کہو کہ اس سے معاشرے کا امن برباد ہوتا ہے.تم بتوں کو برا کہو گے تو
خطبات مسرور جلد دہم 567 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 ستمبر 2012ء وہ نہ جانتے ہوئے تمہارے سب طاقتوں والے خدا کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کریں گے جس سے تمہارے دلوں میں رنج پیدا ہوگا.دلوں کی کدورتیں بڑھیں گی.لڑائیاں اور جھگڑے ہوں گے.ملک میں فساد بر پا ہوگا.پس یہ خوبصورت تعلیم ہے جو اسلام کا خدا دیتا ہے، اس دنیا کا خدا دیتا ہے، اس کا ئنات کا خدا دیتا ہے.وہ خدا یہ تعلیم دیتا ہے جس نے کامل تعلیم کے ساتھ اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کی اصلاح کے لئے اور پیار ومحبت قائم کرنے کے لئے بھیجا ہے.جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمتہ للعالمین کا لقب دے کر تمام مخلوق کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے.پس دنیا کے پڑھے لکھے لوگ اور ارباب حکومت اور سیاستدان سوچیں کہ کیا ان چند بیہودہ لوگوں کو سختی سے نہ دبا کر آپ لوگ بھی اس مفسدہ کا حصہ تو نہیں بن رہے.دنیا کے عوام الناس سوچیں کہ دوسروں کے مذہبی جذبات سے کھیل کر اور دنیا کے ان چند کیڑوں اور غلاظت میں ڈوبے ہوئے لوگوں کی ہاں میں ہاں ملا کر آپ بھی دنیا کے امن کی بربادی میں حصہ دار تو نہیں بن رہے؟ ہم احمدی مسلمان دنیا کی خدمت کے لئے کوئی بھی دقیقہ نہیں چھوڑتے.امریکہ میں خون کی ضرورت پڑی.گزشتہ سال ہم احمدیوں نے بارہ ہزار بوتلیں جمع کر کے دیں.اس سال پھر وہ جمع کر رہے ہیں.آجکل یہ ڈرائیو (Drive) چل رہی تھی.اُن کو میں نے کہا کہ ہم احمدی مسلمان تو زندگی دینے کے لئے اپنا خون دے رہے ہیں اور تم لوگ اپنی ان حرکتوں سے اور اُن حرکت کرنے والوں کی ہاں میں ہاں ملا کر ہمارے دل خون کر رہے ہو.پس ایک احمدی مسلمان کا اور حقیقی مسلمان کا یہ عمل ہے اور یہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ہم انصاف قائم کرنے والے ہیں اُن کے ایک طبقہ کا یہ عمل ہے.مسلمانوں کو تو الزام دیا جاتا ہے کہ وہ غلط کر رہے ہیں.ٹھیک ہے کہ بعض رد عمل غلط ہیں.توڑ پھوڑ کرنا، جلاؤ گھیراؤ کرنا، معصوم لوگوں کو قتل کرنا، سفارتکاروں کی حفاظت نہ کرنا، ان کو قتل کرنا یا مارنا یہ سب غلط ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کے معصوم نبیوں کا استہزاء اور دریدہ دہنی میں جو بڑھنا ہے، یہ بھی بہت بڑا گناہ ہے.اب دیکھا دیکھی گزشتہ دنوں فرانس کے رسالہ کو بھی دوبارہ ابال آیا ہے.اُس نے بھی پھر بیہودہ کارٹون شائع کئے ہیں جو پہلے سے بھی بڑھ کر بیہودہ ہیں.یہ دنیا دارد نیا کوہی سب کچھ سمجھتے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ یہ دنیا ہی اُن کی تباہی کا سامان ہے.یہاں میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ دنیا کے ایک بہت بڑے خطہ پر مسلمان حکومتیں قائم ہیں.دنیا کا بہت سا علاقہ مسلمان کے زیر نگیں ہے.بہت سے مسلمان ممالک کو خدا تعالیٰ نے قدرتی وسائل بھی عطا
خطبات مسرور جلد دہم 568 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 ستمبر 2012ء فرمائے ہیں.مسلمان ممالک یو این او (UNO) کا حصہ بھی ہیں.قرآن کریم جو مکمل ضابطہ حیات ہے اس کے ماننے والے اور اس کو پڑھنے والے بھی ہیں تو پھر کیوں ہر سطح پر اس خوبصورت تعلیم کو دنیا پر ظاہر کرنے کی مسلمان حکومتوں نے کوشش نہیں کی.کیوں نہیں یہ کرتے ؟ قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق کیوں دنیا کے سامنے یہ پیش نہیں کرتے کہ مذہبی جذبات سے کھیلنا اور انبیاء اللہ کی بے حرمتی کرنا یا اُس کی کوشش کرنا یہ بھی جرم ہے اور بہت بڑا جرم اور گناہ ہے.اور دنیا کے امن کے لئے ضروری ہے کہ اس کو بھی یو این او کے امن چارٹر کا حصہ بنایا جائے کہ کوئی ممبر ملک اپنے کسی شہری کو اجازت نہیں دے گا کہ دوسروں کے مذہبی جذبات سے کھیلا جائے.آزادی خیال کے نام پر دنیا کا امن برباد کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی.لیکن افسوس کہ اتنے عرصہ سے یہ سب کچھ ہورہا ہے، کبھی مسلمان ملکوں کی مشترکہ ٹھوس کوشش نہیں ہوئی کہ تمام انبیاء، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ہر نبی کی عزت و ناموس کے لئے دنیا کو آگاہ کریں اور بین الاقوامی سطح پر اس کو تسلیم کروائیں.گو یو این او (UNO) کے باقی فیصلوں کی طرح اس پر بھی عمل نہیں ہوگا، پہلے کونسا امن چارٹر پر عمل ہورہا ہے لیکن کم از کم ایک چیز ریکارڈ میں تو آ جائے گی.او آئی سی (OIC)، آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز جو ہے، یہ قائم تو ہے لیکن ان کے ذریعہ سے کبھی کوئی ٹھوس کوشش نہیں ہوئی جس سے دنیا میں مسلمانوں کا وقار قائم ہو.مسلمان ملکوں کے سیاستدان اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے ہر کوشش میں لگے ہوئے ہیں.اگر نہیں خیال تو دین کی عظمت کا خیال نہیں.اگر ہمارے لیڈروں کی طرف سے ٹھوس کوششیں ہوتیں تو عوام الناس کا یہ غلط رد عمل بھی ظاہر نہ ہوتا جو آج مثلاً پاکستان میں ہو رہا ہے یا دوسرے ملکوں میں ہوا ہے.اُن کو پتہ ہوتا کہ ہمارے لیڈر اس کام کے لئے مقرر ہیں اور وہ اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس قائم کرنے کے لئے اور تمام انبیاء کی عزت و ناموس قائم کرنے کے لئے دنیا کے فورم پر اس طرح اُٹھیں گے کہ اس دنیا کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ جو کہہ رہے ہیں سچ اور حق ہے.پھر مغربی ممالک میں اور دنیا کے ہر خطے میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو رہ رہی ہے.مذہب کے لحاظ سے اور تعداد کے لحاظ سے دنیا میں مسلمان دوسری بڑی طاقت ہیں.اگر یہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والے ہوں تو ہر لحاظ سے سب سے بڑی طاقت بن سکتے ہیں اور اس صورت میں کبھی اسلام دشمن طاقتوں کو جرات ہی نہیں ہوگی کہ ایسی دل آزار حرکتیں کر سکیں یا اس کا خیال بھی لائیں.بہر حال علاوہ مسلمان ممالک کے دنیا کے ہر ملک میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہے.
خطبات مسرور جلد دہم 569 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 ستمبر 2012ء یورپ میں ملینز (Millions) کی تعداد میں تو صرف ترک ہی آباد ہیں.صرف پورے یورپ میں نہیں بلکہ یورپ کے ہر ملک میں ملینز کی تعداد میں مسلمان آباد ہیں.اسی طرح دوسری مسلمان قو میں یہاں آباد ہیں.ایشیا سے مسلمان یہاں آئے ہوئے ہیں.یو کے میں بھی آباد ہیں.امریکہ میں بھی آباد ہیں.کینیڈا میں آباد ہیں.یورپ کے ہر خطے میں آباد ہیں.اگر یہ سب فیصلہ کر لیں کہ اپنے ووٹ اُن سیاستدانوں کو دینے ہیں جو مذہبی رواداری کا اظہار کریں.اور ان کا اظہار نہ صرف زبانی ہو بلکہ اُس کا عملی اظہار بھی ہورہا ہو اور وہ ایسے بیہودہ گوؤں کی ، یا بیہودہ لغویات بکنے والوں یا فلمیں بنانے والوں کی مذمت کریں گے تو ان دنیاوی حکومتوں میں ہی ایک طبقہ کھل کر اس بیہودگی کے خلاف اظہار خیال کرنے والا مل جائے گا.پس مسلمان اگر اپنی اہمیت کو سمجھیں تو دنیا میں ایک انقلاب پیدا ہوسکتا ہے.وہ ملکوں کے اندر مذہبی جذبات کے احترام کے قانون بنوا سکتے ہیں.لیکن بدقسمتی ہے کہ اس طرف توجہ نہیں ہے.جماعت احمد یہ جو توجہ دلاتی ہے اُس کی مخالفت میں کمر بستہ ہیں اور دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ مسلمان لیڈروں کو، سیاستدانوں کو اور علماء کو عقل دے کہ اپنی طاقت کو مضبوط کریں.اپنی اہمیت کو پہچانیں.اپنی تعلیم کی طرف توجہ دیں.یہ لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بیہودہ اعتراض کرتے ہیں، الزامات لگاتے ہیں اور جنہوں نے یہ فلم بنائی ہے یا اس میں کام کیا ہے ان کے اخلاقی معیار کا اندازہ تو میڈیا میں ان کے بارے میں جو معلومات ہیں اُن سے ہی ہو سکتا ہے.کہا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ کردار ایک قبطی عیسائی کا ہے جو امریکہ میں رہتا ہے، نکولا بیلے (Nakoula Basseley Nakoula) یا اس طرح کا اس کا کوئی نام ہے یا سام بسیلے (Sam) Bacile) کہلاتا ہے.بہر حال اس کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کی criminal background ہے.مجرم ہے.یہ فراڈ کی وجہ سے 2010ء میں جیل میں بھی رہ چکا ہے.دوسرا آدمی جس نے فلم ڈائریکٹ کی ہے، یہ پورنو گرافیز موویز کا ڈائریکٹر ہے.اس میں جواورا یکٹر شامل ہیں وہ سب پورنو گرافکس موویز کے ایکٹر ہیں.تو یہ ان کے اخلاق کے معیار ہیں.اور پورنوگرافیر کی جو حدود ہیں وہ تو آدمی سوچ بھی نہیں سکتا.یہ لوگ کس گند میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اعتراض اُس ہستی پر کرنے چلے ہیں جس کے اعلیٰ اخلاق اور پاکیزگی کی خدا تعالیٰ نے گواہی دی.پس یہ غلاظت کر کے انہوں نے یقیناً خدا تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دی ہے اور دیتے چلے جارہے ہیں.اسی طرح اس فلم کے سپانسر کرنے والے بھی خدا تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے.ان میں
خطبات مسرور جلد دہم 570 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 ستمبر 2012ء ایک وہ عیسائی پادری بھی شامل ہے جو مختلف وقتوں میں امریکہ میں اپنی سستی شہرت کیلئے قرآن وغیرہ جلانے کی بھی کوشش کرتا رہا ہے.اللَّهُم مَزَقْهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ وَسَحِقْهُمْ تَسْحِيقًا.میڈیا میں بعض نے مذمت کرنے کی بھی کوشش کی ہے اور ساتھ ہی مسلمانوں کے رد عمل کی بھی مذمت کی ہے.ٹھیک ہے غلط رد عمل کی مذمت ہونی چاہئے لیکن یہ بھی دیکھیں کہ پہل کرنے والا کون ہے.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ یہ سب کچھ مسلمانوں کی اکائی اور لیڈرشپ نہ ہونے کی وجہ سے ہو رہا ہے.دین سے تو باوجود عشق رسول کے دعوی کے یہ لوگ دُور ہٹے ہوئے ہیں.دعوی تو بیشک ہے لیکن دین کا کوئی علم نہیں ہے.دنیاوی لحاظ سے بھی کمزور ہوتے چلے جا رہے ہیں.کسی مسلمان ملک نے کسی ملک کو بھی پرزور احتجاج نہیں کیا.اگر کیا ہے تو اتنا کمزور کہ میڈیانے اس کی کوئی اہمیت نہیں دی.اور اگر مسلمانوں کے احتجاج پر کوئی خبر لگائی بھی ہے تو یہ کہ ایک اعشاریہ آٹھ بلین مسلمان بچوں کی طرح رد عمل دکھا رہے ہیں.جب کوئی سنبھالنے والا نہ ہو تو پھر ادھر ادھر پھرنے والے ہی ہوتے ہیں.پھر رد عمل بچوں جیسے ہی ہوتے ہیں.اس لحاظ سے ایک طنز بھی کر دیا لیکن حقیقت بھی واضح کر دی.اب بھی خدا کرے کہ مسلمانوں کو شرم آ جائے.یہ لوگ جن کے دین کی آنکھ تو اندھی ہے ، جن کو انبیاء کے مقام کا پتہ ہی نہیں ہے ، جو حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے مقام کو بھی گرا کر خاموش رہتے ہیں، ان کو تو مسلمانوں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جذبات کا اظہار بچوں کی طرح کا رد عمل نظر آئے گا لیکن بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کہ 2006ء میں بھی میں نے توجہ دلائی تھی کہ اس طرف توجہ کریں اور ایک ایسا ٹھوس لائحہ عمل بنا ئیں کہ آئندہ ایسی بیہودگی کی کسی کو جرات نہ ہو.کاش کہ مسلمان ملک یہ سن لیں اور جو اُن تک پہنچ سکتا ہے تو ہر احمدی کو پہنچانے کی بھی کوشش کرنی چاہئے.چار دن کا احتجاج کر کے بیٹھ جانے سے تو یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا.پھر یہ تجویز بھی ایک جگہ سے آئی تھی، لوگ بھی مختلف تجویزیں دیتے رہتے ہیں کہ دنیا بھر کے مسلمان وکلاء جو ہیں یہ اکٹھے ہو کر پٹیشن (Petition) کریں.کاش کہ مسلمان وکلاء جو بین الاقوامی مقام رکھتے ہیں اس بارے میں سوچیں، اس کے امکانات پر یا ممکنات پر غور کریں کہ ہو بھی سکتا ہے کہ نہیں یا کوئی اور راستہ نکالیں.کب تک ایسی بیہودگی کو ہوتا دیکھتے رہیں گے اور اپنے ملکوں میں احتجاج اور توڑ پھوڑ کر کے بیٹھ جائیں گے.اس کا اس مغربی دنیا پر تو کوئی اثر نہیں ہوگا یا اُن بنانے والوں پر تو کوئی اثر نہیں ہوگا.اگر ان ملکوں میں معصوموں پر حملہ کریں گے یا تھریٹ (Threat) دیں گے یا مارنے کی کوشش کریں گے
خطبات مسرور جلد دہم 571 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 ستمبر 2012ء یا ایمبیسیز پر حملہ کریں گے تو یہ تو اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے.اسلام اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا.اس صورت میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر خود اعتراض لگوانے کے مواقع پیدا کر دیں گے.پس شدت پسندی اس کا جواب نہیں ہے.اس کا جواب وہی ہے جو میں بتا آیا ہوں کہ اپنے اعمال کی اصلاح اور اُس نبی پر درود و سلام جو انسانیت کا نجات دہندہ ہے.اور دنیاوی کوششوں کے لئے مسلمان ممالک کا ایک ہونا.مغربی ملکوں میں رہنے والے مسلمانوں کو اپنے ووٹ کی طاقت منوانا.بہر حال افراد جماعت جہاں جہاں بھی ہیں، اس نہج پر کام کریں اور اپنے غیر احمدی دوستوں کو بھی اس طریق پر چلانے کی کوشش کریں کہ اپنی طاقت، ووٹ کی طاقت جو ان ملکوں میں ہے وہ منواؤ.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پہلوؤں کو بھی دنیا کے سامنے خوبصورت رنگ میں پیش کریں.آج یہ لوگ آزادی اظہار کا شور مچاتے ہیں.شور مچاتے ہیں کہ اسلام میں تو آزادی رائے اور بولنے کا اختیار ہی نہیں ہے اور مثالیں آجکل کی مسلمان دنیا کی دیتے ہیں کہ مسلمان ممالک میں وہاں کے لوگوں کو ، شہریوں کو آزادی نہیں ملتی.اگر نہیں ملتی تو اُن ملکوں کی بدقسمتی ہے کہ اسلامی تعلیم پر عمل نہیں کر رہے.اسلامی تعلیم کا تو اس سے کوئی تعلق نہیں ہے.ہمیں تو تاریخ میں لوگوں کے بے دھڑک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہونے بلکہ ادب و احترام کو پامال کرنے اور اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صبر اور حو صلے اور برداشت کے ایسے ایسے واقعات ملتے ہیں کہ دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں مل سکتی.میں چند مثالیں پیش کرتا ہوں.گو اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجو دوسخا کے واقعات میں بیان کیا جاتا ہے لیکن یہی واقعات جو ہیں ان میں بیا کی کی حد کا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوصلہ کا بھی اظہار ہوتا ہے.حضرت جبیر بن مطعم کی یہ روایت ہے.وہ کہتے ہیں کہ ایک بار وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ کے ساتھ اور لوگ بھی تھے.آپ چنین سے آ رہے تھے کہ بدوی لوگ آپ سے لپٹ گئے.وہ آپ سے مانگتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے آپ کو بول کے ایک درخت کی طرف ہٹنے کے لئے مجبور کر دیا جس کے کانٹوں میں آپ کی چادر اٹک گئی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور آپ نے فرمایا میری چادر مجھے دے دو.اگر میرے پاس ان جنگلی درختوں کی تعداد کے برابراونٹ ہوتے تو میں اُنہیں تم میں بانٹ دیتا اور پھر تم مجھے بھیل نہ پاتے اور نہ جھوٹا اور نہ بزدل.(صحیح البخاری کتاب فرض الخمس باب ما كان النبى الله يعطى المؤلفة قلوبهم وغيرهم...3148)
خطبات مسرور جلد دہم 572 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 ستمبر 2012ء پھر ایک روایت حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے.بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں تھا اور آپ نے ایک موٹے کنارے والی چادر زیب تن کی ہوئی تھی.ایک بد و نے اس چادر کو اتنے زور سے کھینچا کہ اس کے کناروں کے نشان آپ کی گردن پر پڑ گئے.پھر اُس نے کہا: اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے اس مال میں سے جو اس نے آپ کو عنایت فرمایا ہے، میرے ان دو اونٹوں پر لاد دیں کیونکہ آپ مجھے نہ تو اپنے مال میں سے اور نہ ہی اپنے والد کے مال میں سے دیں گے.پہلے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے.پھر فرمایا.اَلْمَالُ مَالُ اللَّهِ وَأَنَا عَبْدُہ کہ مال تو اللہ ہی کا ہے اور میں اُس کا بندہ ہوں.پھر آپ نے فرمایا.مجھے جو تکلیف پہنچائی ہے اس کا بدلہ تم سے لیا جائے گا.اُس بدو نے کہا، نہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم سے بدلہ کیوں نہیں لیا جائے گا؟ اُس بدو نے کہا اس لئے کہ آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے.اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے.پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس کے ایک اونٹ پر جو اور دوسرے پر کھجور میں لا ددی جائیں.(الشفاء لقاضی عیاض جزء اول صفحه 74 الباب الثانی فی تکمیل الله تعالى...الفصل و اما الحلم...دار الكتب العلمية بيروت 2002ء) تو یہ ہے وہ صبر و برداشت کا مقام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور جو اپنوں سے نہیں دشمنوں سے بھی تھا.یہ ہیں وہ اعلیٰ اخلاق ان میں جو دوسخا بھی ہے اور صبر و برداشت بھی اور وسعت حوصلہ کا اظہار بھی ہے.یہ اعتراض کرنے والے جاہل بغیر علم کے اُٹھتے ہیں اور اُس رحمتہ للعالمین پر اعتراض کر دیتے ہیں کہ انہوں نے یہ ختی کی تھی اور فلاں تھا اور فلاں تھا.پھر قرآن کریم پر اعتراض ہے.یہ بھی سنا ہے کہ اس فلم میں لگایا گیا ہے.میں نے دیکھی تو نہیں ، لیکن میں نے یہ لوگوں سے سنا ہے کہ یہ قرآن کریم بھی حضرت خدیجہ کے جو چچازاد بھائی تھے ، ورقہ بن نوفل، جن کے پاس حضرت خدیجہ آپ کو پہلی وحی کے بعد لے کر گئی تھیں انہوں نے لکھ کر دیا تھا.کفار تو آپ کی زندگی میں بھی یہ اعتراض کرتے رہے کہ یہ قرآن جو تم قسطوں میں اتار رہے ہو اگر یہ اللہ کا کلام ہے تو یکدم کیوں نہیں اترا؟ لیکن یہ بیچارے بالکل ہی بے علم ہیں بلکہ تاریخ سے بھی نابلد.بہر حال جو بنانے والے ہیں وہ تو ایسے ہی ہیں لیکن دو پادری جو اُن میں شامل ہیں جو اپنے آپ کو علمی سمجھتے ہیں وہ بھی علمی لحاظ سے بالکل جاہل ہیں.ورقہ بن نوفل نے تو یہ کہا تھا کہ کاش میں اُس وقت زندہ ہوتا جب تجھے تیری قوم وطن سے نکالے گی اور کچھ عرصے بعد اُن کی وفات بھی ہوگئی.(صحیح البخاری کتاب بدء الوحي باب 3 حدیث نمبر (3)
خطبات مسر در جلد دہم 573 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 ستمبر 2012ء پھر یہ جو پادری ہیں جیسا کہ میں نے کہا تاریخ اور حقائق سے بالکل ہی نابلد ہیں.جو مستشرقین ہیں وہ قرآن کے بارے میں اس بحث میں ہمیشہ پڑے رہے کہ یہ سورۃ کہاں اُتری اور وہ سورۃ کہاں اتری.مدینہ میں نازل ہوئی یا مکہ میں؟ اس بات پر بھی بحث کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اس نے لکھ کر دے دیا تھا.اور قرآن کریم کا تو اپنا چیلنج ہے کہ اگر سمجھتے ہو کہ لکھ کر دے دیا تو پھر اس جیسی ایک سورۃ ہی لا کر دکھاؤ.پھر جذبات کے احترام کا سوال پیدا ہوتا ہے تو اس میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ثانی نہیں.باوجود اس علم کے کہ آپ سب نبیوں سے افضل ہیں ، یہودی کے جذبات کے احترام کے لئے آپ فرماتے ہیں کہ مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دو.(صحیح البخارى كتاب في الخصومات باب ما يذكر في الاشخاص والخصومة...حديث نمبر 2411) غرباء کے جذبات کا خیال ہے اور اُن کے مقام کی اس طرح آپ نے عزت فرمائی کہ ایک دفعہ آپ کے ایک صحابی جو مالدار تھے وہ دوسرے لوگوں پر اپنی فضیلت ظاہر کر رہے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سن کر فرمایا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہاری یہ قوت اور طاقت اور تمہارا یہ مال تمہیں اپنے زورِ بازو سے ملے ہیں ؟ ایسا ہر گز نہیں ہے.تمہاری قومی طاقت اور مال کی طاقت سب غرباء ہی کے ذریعہ سے آتے ہیں.(صحیح البخارى كتاب الجهاد و السير باب من استعان بالضعفاء والصالحين في الحرب - حدیث 2896) آزادی کے یہ دعویدار، آج غرباء کے حقوق قائم کرتے ہیں.اُن کے حقوق کے تحفظ کیلئے کوشش کرتے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے یہ کہہ کر یہ حقوق قائم فرما دیئے کہ مزدور کی مزدوری اُس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دو.(سنن ابن ماجه كتاب الرهون باب اجر الأجراء حديث نمبر 2443) پس یہ اُس محسنِ انسانیت کا کہاں کہاں مقابلہ کریں گے.بیشمار واقعات ہیں.ہر پہلو خلق کا آپ لے لیں ، اس کے اعلیٰ نمونے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں نظر آئیں گے.پھر اور نہیں تو یہی الزام لگا دیا کہ نعوذ باللہ آپ کو عورتیں بڑی پسند تھیں.شادیوں پر اعتراض کیا تو پھر اللہ تعالیٰ نے اس کا رڈ بھی فرمایا.اسے پتہ تھا کہ ایسے واقعات ہونے ہیں، ایسے سوال اُٹھنے ہیں تو وہ ایسے حالات پیدا کر دیتا تھا کہ اُن باتوں کا رڈ بھی سامنے آگیا.اسماء بنت نعمان بن ابی جون کے بارے میں آتا ہے کہ عرب کی خوبصورت عورتوں میں سے تھیں.
خطبات مسرور جلد دہم 574 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 ستمبر 2012ء وہ جب مدینہ آئی ہیں تو عورتوں نے انہیں وہاں جا کر دیکھا تو سب نے تعریف کی کہ ایسی خوبصورت عورت ہم نے زندگی میں نہیں دیکھی.اُس کے باپ کی خواہش پر آپ نے اُس سے پانچ صد در ہم حق مہر پر نکاح کر لیا.جب آپ اُس کے پاس گئے تو اُس نے کہا کہ میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ تم نے ایک بہت عظیم پناہ گاہ کی پناہ طلب کی ہے اور باہر آ گئے اور اپنے ایک صحابی ابواسید کو فرمایا کہ اس کو اس کے گھر والوں کے پاس چھوڑ آؤ.اور پھر یہ بھی تاریخ میں ہے کہ اس شادی پر اُس کے گھر والے بڑے خوش تھے کہ ہماری بیٹی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئی لیکن واپس آنے پر وہ سخت ناراض ہوئے اور اُسے بہت برا بھلا کہا.(ماخوذ از الطبقات الكبرى لابن سعد الجزء الثامن صفحه 31- 319 ذكر من تزوج رسول الله الله.../ اسماء بنت النعمان دار احياء التراث العربي بيروت (1996) تو یہ وہ عظیم ہستی ہے جس پر گھناؤنے الزام عورت کے حوالے سے لگائے جاتے ہیں.جس کا بیویاں کرنا بھی اس لئے تھا کہ خدا تعالیٰ کا حکم تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو لکھا ہے اگر بیویاں نہ ہوتیں ، اولاد نہ ہوتی اور جو اولاد کی وجہ سے ابتلا آئے اور جن کا جس طرح اظہار کیا اور پھر جس طرح بیویوں سے حسن سلوک ہے خلق ہے، یہ کس طرح قائم ہو، اس کے نمونے کس طرح قائم ہو کے ہمیں پتہ چلتے.ہر عمل آپ کا خدا کی رضا کے لئے ہوتا تھا.(ماخوذ از چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ نمبر 300) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں الزام ہے کہ وہ بہت لاڈلی تھیں اور پھر عمر کے حساب سے بھی بڑی غلط باتیں کی جاتی ہیں.لیکن عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آپ یہ فرماتے ہیں کہ بعض راتوں میں میں ساری رات اپنے خدا کی عبادت کرنا چاہتا ہوں جو مجھے سب سے زیادہ مجھے پیارا ہے.(الدر المنثور في التفسير بالماثور لامام السيوطى سورة الدخان زیر آیت نمبر 4 جلد 7 صفحه 350 دار احياء التراث العربی بیروت 2001ء) پس جن کے دماغوں میں غلاظتیں بھری ہوئی ہوں انہوں نے یہ الزام لگانے ہیں اور لگاتے رہے ہیں ، آئندہ بھی شاید وہ ایسی حرکتیں کرتے رہیں، جیسے کہ میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں.مگر اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے جہنم کو بھرتا رہے گا.پس ان لوگوں کو اور ان کی حمایت کرنے والوں کو خدا تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنا چاہئے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کے لئے بڑی غیرت رکھتا ہے.(ماخوذ از تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفح نمبر 378)
خطبات مسر در جلد دہم 575 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 ستمبر 2012ء اس زمانے میں اُس نے اپنے مسیح و مہدی کو بھیج کر دنیا کو اصلاح کی طرف توجہ دلائی ہے.لیکن اگر وہ استہزاء اور ظلم سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ بھی بڑی سخت ہے.دنیا کے ہر خطے پر آجکل قدرتی آفات آ رہی ہیں.ہر طرف تباہی ہے.امریکہ میں بھی طوفان آ رہے ہیں اور پہلے سے بڑھ کر آ رہے ہیں.معاشی بدحالی بڑھ رہی ہے.گلوبل وارمنگ کی وجہ سے آبادیوں کو پانی میں ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو رہا ہے.ان خطرات میں گھری ہوئی ہیں.پس ان حد سے بڑھے ہوؤں کو خدا تعالیٰ کی طرف توجہ پھیرنے کی ضرورت ہے.ان سب باتوں کو خدا تعالیٰ کی طرف توجہ پھیر نے والا ہونا چاہئے نہ یہ کہ اس قسم کی بیہودہ گوئیوں کی طرف وہ توجہ دیں.لیکن بدقسمتی سے اس کے الٹ ہو رہا ہے.حدود سے تجاوز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.زمانے کا امام تنبیہ کر چکا ہے، کھل کر بتا چکا ہے کہ دنیا نے اگر اُس کی آواز پر کان نہ دھرے تو ان کا ہر قدم دنیا کو تباہی کی طرف لے جانے والا بنائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام جو بار بار دہرانے والا پیغام ہے، اکثر پیش ہوتا ہے، آج پھر میں پیش کر دیتا ہوں.فرمایا کہ: دو یادر ہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے.پس یقیناً سمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے.اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے.اور بعض اُن میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اور اس قدر موت ہوگی کہ خون کی نہریں چلیں گی.اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے.اور زمین پر اس قدرسخت تباہی آئے گی کہ اُس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہوگی.اور اکثر مقامات زیروز بر ہو جائیں گے کہ گویا اُن میں کبھی آبادی نہ تھی.اور اس کے ساتھ اور بھی آفات زمین و آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی یہانتک کہ ہر ایک عقلمند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہو جائیں گی اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں اُن کا پتہ نہیں ملے گا.تب انسانوں میں اضطراب پیدا ہوگا کہ یہ کیا ہونے والا ہے.اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہو جائیں گے.وہ دن نزدیک ہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی اور نہ صرف زلزلے بلکہ اور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی ، کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے.یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں.اگر میں نہ آیا ہوتا تو ان بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے.جیسا کہ
خطبات مسرور جلد دہم 576 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 ستمبر 2012ء خدا نے فرمایا وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا (بنی اسرائیل: 16).اور تو بہ کرنے والے امان پائیں گے.اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں اُن پر رحم کیا جائے گا.کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم ان زلزلوں سے امن میں رہو گے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو؟ ہرگز نہیں.انسانی کاموں کا اُس دن خاتمہ ہوگا.یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک اُن سے محفوظ ہے.اے یورپ ! تو بھی امن میں نہیں.اور اے ایشیا ! تو بھی محفوظ نہیں.اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا.میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں.وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا.مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دور نہیں.میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے فرمایا ” نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لو گے.مگر خدا غضب میں دھیما ہے.تو بہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے.جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی.اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ نمبر 269-268) اللہ تعالیٰ دنیا کو بھی عقل دے.مکروہ اور ظالمانہ کاموں کے کرنے سے بچیں.اور ہمیں بھی اللہ تعالیٰ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرماتا رہے.66 میں نماز جمعہ کے بعد دو جنازے غائب پڑھاؤں گا.اس وقت دو شہداء کے جنازے ہیں.پہلے شہید ہیں عزیزم نوید احمد صاحب ابن مکرم ثناء اللہ صاحب جن کو 14 ستمبر 2012ء کو کراچی میں شہید کر دیا گیا.إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ نوید احمد صاحب ابن ثناء اللہ صاحب کے خاندان میں سب سے پہلے ان کے دادا عبدالکریم صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.بیعت سے پہلے آپ کا تعلق امرتسر سے تھا مگر بیعت کے بعد آپ کا زیادہ وقت قادیان میں ہی گزرا تقسیم کے بعد پاکستان میں آپ کا خاندان محمود آبادسندھ میں مقیم ہوا.پھر 1985ء میں کراچی شفٹ ہو گئے.عزیزم نوید احمد کے والد ثناء اللہ صاحب کو 1984ء میں اسیر راہ مولی رہنے کی بھی توفیق ملی.واقعہ شہادت اس طرح ہے کہ 14 رستمبر 2012ء کو جمعہ کے دن عزیزم نوید احمد ولد ثناء اللہ صاحب جن کی عمر بائیس سال تھی ، اپنے گھر واقعہ حمیرا ٹاؤن حلقہ گلشن جامی کے سامنے اپنے دو غیر از جماعت پٹھان دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ دو نامعلوم افراد موٹر سائیکل پر آئے
خطبات مسرور جلد دہم 577 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 ستمبر 2012ء اور انہوں نے ان تینوں نوجوانوں پر کلاشنکوف اور رپیٹر سے فائرنگ کر دی.کلاشنکوف سے نکلی دو گولیاں عزیزم نوید احمد کے پیٹ میں لگیں جبکہ دوسرے دونوں نوجوانوں کو بھی گولیاں لگیں جس سے یہ تینوں زخمی ہو گئے.انہیں فوری ہسپتال لے جایا گیا لیکن نوید احمد ہسپتال جاتے ہوئے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وفات پاگئے.إِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.بڑے سادہ مزاج ، سادہ طبیعت کے مالک تھے.نرم مزاج تھے.نرم خو تھے.ہمدرد تھے.اطاعت گزار تھے.عاجزانہ عادات کے مالک تھے.پڑھائی کا شوق تھا لیکن غربت کی وجہ سے مڈل کے بعد پڑھائی نہیں کر سکے.اپنے والد کے ساتھ کام کرتے تھے تو پھر اس کام کے دوران ہی انہوں نے میٹرک کا امتحان بھی پرائیویٹ طور پر پاس کیا.اس رمضان میں بھی خود خدام الاحمدیہ کی ڈیوٹی میں اپنے آپ کو پیش کیا.اکثر خود پیش کیا کرتے تھے اور بڑے احسن رنگ میں ڈیوٹیاں سرانجام دیتے تھے.جہاں یہ کام کرتے تھے، وہاں ساتھی افسران بھی آپ کے اخلاق اور ایمانداری سے بہت متاثر تھے.آپ کی نماز جنازہ پر بھی دفتر سے کئی افراد نے شرکت کی.نیز آپ کے ادارہ کے مالکان اور اُس کی فیملی کے ممبران آپ کے گھر تعزیت کی غرض سے آئے.اُن کے والدین دونوں زندہ ہیں اور دو بھائی ہیں اور دو بہنیں ہیں.دوسرا جنازہ مکرم محمد احمد صدیقی صاحب ابن مکرم ریاض احمد صاحب صدیقی شہید کا ہے جن کی اگلے دن ہی 15 ستمبر کو کراچی میں شہادت ہوئی.کراچی میں ٹارگٹ کلنگ جو ہے، شہادتیں جو ہیں ، بہت زیادہ ہو رہی ہیں.اُن کے لئے دعا کریں.اللہ تعالیٰ کراچی کے احمدیوں کو اپنے حفظ وامان میں رکھے.آجکل سب سے زیادہ ٹارگٹ کر کے جو شہادتیں کی جارہی ہیں وہ کراچی میں ہیں اور بعض حکومتی اداروں کی طرف سے جو زیادتیاں کی جارہی ہیں وہ پنجاب میں ہیں.بہر حال اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہر احمدی کو محفوظ رکھے.محمد احمد صدیقی صاحب شہید کے خاندان کا تعلق کراچی سے ہے.آپ کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے بھائی عمران صدیقی صاحب کی بیعت سے ہوا جو 2001ء میں امریکہ میں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے تھے.اس کے بعد عمران صدیقی صاحب کی تبلیغ سے آپ کے دیگر دو بھائیوں کی بھی بیعت ہوئی.عمیر صدیقی اور رضوان صدیقی.اس کے بعد بشمول والدین کے پورا خاندان بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گیا.شہادت کا واقعہ اس طرح ہے کہ 15 ستمبر 2012ء کو ہفتہ کی رات تقریباً بارہ بجے عزیزم محمد احمد صدیقی اپنے بہنوئی مکرم ملک شمس فخری صاحب کے ساتھ اپنے ڈیپارٹمنٹل سٹور ” السلام سپر سٹور واقع گلستان جو ہر سے موٹر سائیکل پر نکلے.ابھی کچھ ہی آگے گئے تھے کہ اُن پر شدید فائرنگ کی گئی
خطبات مسرور جلد دہم 578 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 ستمبر 2012ء جس سے دو گولیاں عزیزم محمد احمد صدیقی صاحب کو لگیں جن میں سے ایک اُن کے دل پر جبکہ دوسری گولی اُن کے کو لہے پر لگی اور آپ موقع پر ہی شہید ہو گئے.انا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ..جبکہ آپ کے بہنوئی مکرم مشمس فخری صاحب کو اُن کے جسم کے پانچ مختلف حصوں پر پانچ گولیاں لگیں جن میں سے ایک اُن کے دائیں کندھے پر، ایک پیٹ میں اور باقی گولیاں ٹانگوں پر لگیں اور اس وقت آپ آغا خان ہسپتال میں داخل ہیں.ان کی صحت یابی کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ صحت کاملہ عاجلہ عطا فرمائے.شہادت کے وقت شہید مرحوم کی عمر 23 سال تھی اور صرف ایک ہفتہ قبل اُن کا نکاح ہوا تھا.شہید مرحوم نے گزشتہ سال ہی ایم بی اے امتحان پاس کیا تھا.بہت شریف النفس ، معصوم ، اطاعت گزار اور خوش اخلاق طبیعت کے مالک تھے.کہتے ہیں کہ تیس سال کا نوجوان نہ صرف خوبصورت شکل وصورت کا مالک تھا بلکہ خوب سیرت بھی تھا.ہر وقت چند دعا ئیں اپنے پاس لکھ کر رکھا کرتے تھے اور انہیں پڑھتے رہتے تھے.اُن کے بھائی نے کہا کہ ہم میں سے سب سے قابل تھا.7 ستمبر 2012 ء کو اس نے اپنے بعض دوستوں کو موبائل پر ایس ایم ایس کیا کہ کراچی کے حالات بہت خراب ہیں ، اگر میں شہید ہو جاؤں تو میرے لئے دعا کرنا.شہید مرحوم کی والدہ نے اس تکلیف دہ واقعہ کے وقت بتا یا کہ تعزیت کے لئے آنے والی غیر احمدی رشته دارخواتین نے طنزیہ انداز میں کہا کہ آپ نے انجام دیکھ لیا.اس پر شہید مرحوم کی والدہ نے انہیں جوابا کہا کہ ہم نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر مسیح کو مانا ہے، ہم کسی سے نہیں ڈرتے.میں جماعت کی خاطر اپنے نو (9) کے نو (9) بیٹوں کو قربان کرنے کے لئے تیار ہوں.اللہ کے فضل سے شہید کے بھائی بہن سب حو صلے میں ہیں.شہید مرحوم کے والد صاحب پہلے ہی وفات پاچکے ہیں.شہید مرحوم نے لواحقین میں بوڑھی والدہ محترمہ کے علاوہ آٹھ بھائی اور دو بہنیں سوگوار چھوڑی ہیں.آپ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے.ان سب شہداء سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور پیچھے رہنے والوں کو صبر، ہمت اور حوصلہ دے اور پاکستان کے ہر احمدی کی حفاظت فرمائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 12 تا 18 اکتوبر 2012 جلد 19 شماره 41 صفحہ 5 تا9)
خطبات مسرور جلد دہم 579 39 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 ستمبر 2012ء خطبه جمع سیدنا امیرالمومنین حضرت مرز اسر وراحمد خلیفة اسم الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 28 ستمبر 2012ء بمطابق 28 رتبوک 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح.مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: گزشتہ جمعہ کو جب میں یہاں مسجد میں جمعہ پڑھانے آیا تھا تو کار سے اترتے ہی میں نے دیکھا کہ ایک بڑی تعداد اخباری نمائندوں کی سامنے کھڑی تھی.بہر حال میرے پوچھنے پر امیر صاحب نے بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں امریکہ میں جو انتہائی دل آزار فلم بنائی گئی ہے اُس پر مسلمانوں میں جو رد عمل ہو رہا ہے اس سلسلہ میں یہ لوگ دیکھنے آئے ہیں کہ احمدیوں کا رد عمل کیا ہے.میں نے کہا ٹھیک ہے.انہیں کہیں کہ میں نے اسی موضوع پر خطبہ دینا ہے، اور وہیں جو بھی احمدیوں کا رد عمل ہوگا بیان کروں گا.ی بھی خدا تعالیٰ کے ہی کام ہیں کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں میڈیا کو کھینچ کر یہاں لا یا اور پھر میرے دل میں بھی ڈالا کہ اسی موضوع پر کچھ کہوں.پہلے میرا ارادہ کچھ اور کہنے کا تھا.لیکن ایک دن پہلے تو جہ اس طرف پھری کہ اسی موضوع پر کچھ کہنا چاہئے.بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کے کام ہیں.جس طرح وہ چاہتا ہے کرواتا ہے اور بعد کے حالات نے ثابت بھی کیا کہ اس موضوع پر کہنے میں اللہ تعالیٰ کی تائید شامل تھی.مختصر وقت میں مختصر باتیں کی جاسکتی ہیں لیکن جو بھی کہی گئیں اُن کے خلاصے کو یا جو پیغام میں دینا چاہتا تھا اُس کو اللہ تعالیٰ نے دنیائے احمدیت کے علاوہ غیروں میں بھی کافی وسیع طور پر پہنچا دیا.بہر حال جمعہ کے بعد جب میں مسجد سے باہر نکلا ہوں تو امیر صاحب نے کہا کہ میڈیا والے دو تین منٹ آپ سے براہِ راست کچھ بات کرنا چاہتے ہیں اور کچھ پوچھنا چاہتے ہیں.میں نے اُن کو کہا کہ خطبہ میں ساری باتیں بیان کر چکا ہوں
خطبات مسرور جلد دہم 580 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 ستمبر 2012ء کیونکہ میں دیکھ رہا تھا کہ میڈیا کے لوگ اوپر کھڑے تھے ، کیمرے تصویریں بھی لے رہے تھے ، ریکارڈنگ بھی کر رہے تھے تر جمہ بن بھی رہے تھے.پیغام تو ان کومل گیا ہے پھر اب یہ مزید اور کیا چاہتے ہیں؟ لیکن بہر حال کیونکہ انہوں نے اُن کو یہ کہہ کر اندر کمرے میں بٹھا دیا تھا، کہ میں آؤں گا تو اس بات پر میں نے انہیں کہا کہ ٹھیک ہے، دیکھ لیتے ہیں.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور ناموس کی خاطر اور باتیں بھی کرنی پڑیں تو ہم کریں گے اور آپ کے مقام کے حوالے سے نیز اسلام کی تعلیم کے حوالے سے اگر اس انٹرویو کی وجہ سے کوئی بہتر پیغام دنیا کو پہنچ سکتا ہے تو اچھی بات ہے، پھر مل لیتا ہوں.جب میں کمرے میں گیا تو علاوہ اخباری نمائندوں کے ٹی وی چینلز کے نمائندے بھی تھے جن میں نیوز نائٹ جو بی بی سی کے زیرِ انتظام ہے، اسی طرح بی بی سی کا نمائندہ ، نیوزی لینڈ نیشنل ٹیلیویژن کا نمائندہ ، فرانس کے ٹیلیویژن کا نمائندہ اور بہت سارے دوسرے نمائندے شامل تھے.نیوزی لینڈ کا نمائندہ جو میرے دائیں طرف بیٹھا تھا، اُس کو پہلے موقع مل گیا.اُس نے یہی سوال کیا کہ آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں.میں نے اُس کو بتایا کہ پیغام تو تم سُن چکے ہو، وہ خطبہ کی ریکارڈنگ سن رہے تھے اور ترجمہ بھی سن رہے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کے بارے میں میں بیان کر چکا ہوں کہ آپ کا بہت بلند مقام ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہر مسلمان کے لئے قابل تقلید ہے.مسلمانوں کا رد عمل جو غم وغصہ کا ہے وہ ایک لحاظ سے تو ٹھیک ہے کہ پیدا ہونا چاہئے تھا، گو بعض جگہ اس کا اظہار غلط طور پر ہو رہا ہے.ہمارے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مقام ہے دنیا دار کی نظر اُس تک نہیں پہنچ سکتی.اس لئے دنیا دار کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ کس حد تک اور کس طرح ہمیں ان باتوں سے صدمہ پہنچا ہے.ایسی حرکتیں دنیا کا امن برباد کرتی ہیں.نیوزی لینڈ کے ایک نمائندہ کا اس بات پر زور تھا کہ تم نے بڑے سخت الفاظ میں کہا ہے کہ یہ لوگ جہنم میں جائیں گے یہ تو بڑے سخت الفاظ ہیں.تم بھی اُن لوگوں میں شامل ہو گئے ہو.الفاظ تو یہ نہیں تھے لیکن ٹون (Tone) سے یہی مطلب لگ رہا تھا.کیونکہ وہ بار بار اس سوال کو دوہرا رہا تھا اُس کو میں نے یہ کہا کہ ایسے لوگ جو اللہ تعالیٰ کے پیاروں کے بارے میں ایسی باتیں کریں، اُن کا استہزاء کرنے کی کوشش کریں اور کرتے چلے جائیں اور کسی طرح سمجھانے سے باز نہ آئیں اور تمسخر اور ہنسی کا نشانہ بناتے رہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی بھی ایک تقدیر ہے، وہ چلتی ہے اور عذاب بھی آسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پکڑتا بھی ہے.خیر وہ چپ کر گیا، لیکن لگتا تھا کہ اس بات سے کچھ ڈرا بھی ہوا ہے، کچھ خوفزدہ بھی لگ رہا تھا.اُس نے نیوزی لینڈ نیشنل ٹیلیویژن چینل کو جو اپنی خبریں بھیجی ہیں ان خبروں میں وہ وہاں نشر ہوئی اور اس طرح
581 خطبات مسرور جلد دہم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 ستمبر 2012ء جماعت کے حوالے سے پہلی دفعہ وہاں کے نیشنل ٹیلیویژن پر کوئی خبر نشر ہوئی ہے.وہاں کی جماعت بھی اس لحاظ سے خوش تھی کہ خطبہ کے حوالے سے بھی اور میرے انٹرویو کے حوالے سے بھی وہاں ہمارا تعارف ہو گیا.خطبہ کے انگریزی مترجم کے یہ الفاظ کہ یہ لوگ جہنم میں جائیں گے.یہ فقرہ بھی انہوں نے اپنی خبروں میں سنایا جو ریکارڈ کیا ہوا تھا.لیکن اس میں یہ شرافت تھی جو بعض دفعہ غیر مسلم نمائندوں میں نہیں ہوتی یا وہ نہیں دکھاتے یا اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں ڈالا کہ اس فقرہ کا جو بغیر سیاق وسباق کے منفی رد عمل ہو سکتا تھا، اُس کو زائل کرنے کے لئے مجھے ٹی وی انٹرویو دیتے ہوئے دکھایا اور میرے الفاظ میں یہ بھی دکھا دیا.وہاں اس نے میرے الفاظ دو ہرا دیئے جو میں خود بھی بول رہا تھا کہ ہم شدت پسند مظاہرے اور توڑ پھوڑ پسند نہیں کرتے اور تم کبھی کسی احمدی کو نہیں دیکھو گے کہ اس قسم کے فساد اور مفسدانہ رد عمل کا حصہ ہوں.خبریں پڑھنے والے نے میرا یہ جواب دکھا کر پھر آگے تبصرہ کیا کہ یہ جماعت مسلمانوں کی اقلیتی جماعت ہے اور ان کے ساتھ بھی مسلمانوں کی طرف سے اچھا سلوک نہیں ہوتا.بہر حال دیکھتے ہیں کہ یہ پیغام جو ان کے خلیفہ نے دیا ہے، اس کی آواز اور پیغام کا احمدی مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مسلمانوں پر کوئی اثر ہوتا ہے یا نہیں؟ اس نے وہاں دوسرے مسلمانوں کی فوٹیج بھی دکھائی جو توڑ پھوڑ کر رہے تھے ،مولویوں کو جلوس نکالتے ہوئے ، نعرے لگاتے ہوئے دکھایا.لیکن جیسا کہ میں نے کہا بہر حال اس ذریعہ سے اسلام کا حقیقی پیغام نیوزی لینڈ کے ملک میں بھی سیٹیلائٹ کے ذریعہ اردگرد کے ملکوں میں بھی اور ان کی ویب سائٹ کے ذریعہ سے دنیا کے بہت سے حصوں میں پہنچ گیا.اگر ہم کوشش بھی کرتے تو احمدیت کا تعارف اور اسلام کا حقیقی پیغام اس طرح نہ پہنچتا.اب نیوزی لینڈ جماعت کو چاہئے کہ اس حوالے سے اسلام اور احمدیت کا تعارف بھرا پروگرام ملک کے ہر حصہ میں پہنچانے کی کوشش کریں.اسی طرح نیوزی لینڈ کے ارد گرد کے جو ممالک ہیں ، اُن میں بھی یہ سنا گیا ہو گا ، انہیں بھی چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے ان ممالک میں اسلام کی حقیقی تعلیم پہنچانے کے لئے بھر پور پروگرام بنا ئیں.نیوز نائٹ جو یہاں کا چینل ہے، اُس کا نمائندہ یہ کہنے لگا کہ میں نے یہ فلم دیکھی ہے اس میں تو کوئی ایسی بات نہیں جس پر اتنا زیادہ شور مچایا جائے اور مسلمان اس طرح رد عمل دکھا ئیں.اور تم نے بھی بڑی تفصیل سے اس پر خطبہ دے دیا ہے اور بعض جگہ بڑے سخت الفاظ میں اس کو ر ڈ کیا ہے.یہ تو ہلکا سامذاق تھا.انا للہ.یہ تو ان لوگوں کے اخلاقی معیار کی حالت ہے.میں نے اُسے کہا کہ پتہ نہیں تم نے کس طرح
خطبات مسرور جلد دہم 582 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 ستمبر 2012ء دیکھا اور تمہارا کیا معیار ہے؟ تم اُس مقام کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مسلمانوں کی نظر میں ہے، اُن کے دل میں ہے ، اُس محبت کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مسلمان کے دل میں ہے، تم نہیں سمجھ سکتے.میں نے اُسے بتایا کہ میں نے فلم تو نہیں دیکھی لیکن ایک دو باتیں جس دیکھنے والے نے مجھے بتائی ہیں، وہ نا قابل برداشت ہیں اور تم کہتے ہو ایسی کوئی بات نہیں ہے.یہ باتیں سن کر تو میں کبھی فلم دیکھنے کی جرات بھی نہیں کر سکتا.اس میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں، ان کو سن کر ہی خون کھولتا ہے.میں نے اُسے کہا کہ تمہارے باپ کو اگر کوئی گالی دے، برا بھلا کہے، بیہودہ باتیں کہے تو اس کے متعلق تمہارا رد عمل کیا ہوگا ؟ تم دکھاؤ گے رد عمل؟ یہ بتاؤ گے کہ ٹھیک ہے کہ نہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام تو ایک مسلمان کی نظر میں اس سے بہت بلند ہے، اس جگہ تک کوئی پہنچ نہیں سکتا.دوبارہ پھر وہ فلم کے بارے میں بات کرنے لگا.تو پھر میں نے اُسے کہا کہ میں تمہیں کہہ چکا ہوں کہ تمہارے باپ کے خلاف اگر کوئی بات کرے تو سنو گے؟ ہاں یا نہ میں جواب تو اُس نے نہیں دیا لیکن اس بات پر بہر حال چپ کر گیا.اس نمائندے نے تو شاید اس بارے میں میڈیا میں خبر نہیں دی.لیکن میرے اس فقرہ کو کہ تمہارے باپ کو کوئی گالی دے تو رد عمل دکھاؤ گے کہ نہیں؟ دوسرے میڈیا نے بہت ساری جگہوں پر اٹھایا.ویب سائٹ پر بھی ڈالا ہے.بہر حال انٹرنیٹ پر اور بعض اخباروں کی ویب سائٹ پر مختلف تبصرہ کرنے والوں نے اور ایک پاکستانی انگلش اخبار نے خطبہ کے حوالے سے، پریس میٹنگ کے حوالے سے جماعت احمد یہ مسلمہ کے موقف کو دنیا پر خوب ظاہر کیا کیونکہ اکثر نے اس بات پر بڑے تعریفی کلمات لکھے تھے لیکن انٹرنیٹ پر بعض تبصرے ایسے بھی تھے کہ مرزا مسرور احمد نے کونسی ایسی خاص بات کر دی ہے، بعضوں نے یہ بھی لکھا کہ انہوں نے جو بات کہی ہے ہر عقلمند انسان یہی بات کرتا ہے.لیکن ایک احمدی نے مجھے لکھا کہ میں نے سارے تبصرے سنے، ساری خبریں دیکھیں، ساروں کے بیانات دیکھے، علماء کے بھی اور ان کے لیڈروں کے بھی ،ساروں کے بیانات دیکھے، بہت باتیں کی ہیں لیکن کسی نے یہ توجہ نہیں دلائی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو.تو یہ توجہ بھی صرف جماعت احمدیہ کی طرف سے ہی دلائی گئی ہے کہ اس کا ایک رد عمل یہ بھی ہونا چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ آپ پر درود بھیجا جائے.بعض نے یہ بھی لکھا کہ ان لوگوں نے ہی صحیح اسلامی رد عمل دکھایا ہے جن کو تم غیر مسلم کہتے ہو.بہر حال اس کی خوب تشہیر ہوئی ہے.اس طرح دنیا کے سامنے ایک حقیقی مسلمان کا حقیقی رد عمل بھی آگیا.اسلام کی حقیقی تعلیم جو جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے، اُس کا بھی دنیا کو پتہ چل گیا.دنیا کو اور عالم اسلام کو یہ پیغام بھی مل گیا کہ ایک حقیقی مسلمان کا صحیح رد عمل کیا ہوتا ہے
خطبات مسرور جلد دہم اور کیا ہونا چاہئے.583 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 ستمبر 2012ء جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور اُس کی تائید تھی کہ اس طرح کو ریج ہوئی ورنہ اگر ہم اپنی کوشش بھی کرتے تو صحیح اسلامی مؤقف جو جماعت احمد یہ پیش کرتی ہے، دنیا کو اس کا پتہ نہ چلتا، یا ہم وسیع طور پر دنیا تک نہ پہنچا سکتے.اب اس کو آگے بڑھانا، اس کوریج سے فائدہ اُٹھانا ہر جگہ کی جماعت کا اور ہر احمدی کا کام ہے.جہاں تک مرکز کی طرف سے اس بارے میں کوشش کی ہدایت اور طریقہ کار کا سوال ہے میں نے خطبہ کے حوالے سے اس کی اشاعت کی ہدایت تو کر دی ہے، بہر حال یہ ہدایت اور طریق جو بھی دفتر کی طرف سے جماعتوں کو اور افراد کو ان کی جماعتوں کی طرف سے پہنچے گا، وہ تو ہوسکتا ہے چاہے چند دن ہی سہی کچھ وقت لے لے.لیکن تمام احمدی جو میری بات سن رہے ہیں، اُن کو چاہئے کہ اس موقع سے جو اللہ تعالیٰ نے مہیا فرمایا ہے، ایک تو جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں کہا تھا، اپنے عمل سے دنیا کے سامنے اسلام کی خوبصورت تعلیم پیش کریں.لیکن ساتھ ہی متعلقہ مرکزی دفتر بھی جیسا کہ میں نے کہا اور جماعتیں بھی فوری توجہ دیتے ہوئے خطبہ کا اپنی اپنی زبانوں میں ترجمہ کر کے وسیع طور پر شائع کریں اور پریس کے حوالے سے بھی ذکر کریں، اور ہر ذی شعور تک اسلامی مؤقف کو پہنچائیں.مختصر سا خطبہ تھا.نیز اس میں یہ بھی درج ہو کہ اگر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حسین پہلوؤں کو دیکھنا ہے تو حقائق اور تاریخ کی روشنی میں تمہیں ہم لٹریچر بھی مہیا کرتے ہیں، کتب بھی مہیا کرتے ہیں یا کر سکتے ہیں.اسی طرح ہماری ویب سائٹ ہے اور مختلف جماعتوں کی بھی ہیں اُن کا بھی پتہ دیں، مرکزی ویب سائٹ کا پتہ دیں جس میں یہ لٹریچر موجود ہو.اس بارے میں جیسا کہ میں نے کہا پہلے بھی میں ہدایت دے رہا تھا اور دے چکا ہوں، بعض لوگوں نے اپنے مشورے بھی دیئے ہیں کہ اس خطبہ کے حوالے سے اور پریس کے ساتھ سوال و جواب کے حوالے سے دنیا میں جو جماعت کے موقف کی جو تشہیر ہوئی ہے، اُس کے ذریعہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حسین پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی بھر پور کوشش ہونی چاہئے اور اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے.اپنے علاقے کی لائبریریوں میں بھی مثلاً یورپ میں یا انگلستان میں یا انگریزی بولنے والے ملکوں میں سیرت سے متعلق جماعت کی کتب رکھوانی چاہئیں جن کا انگریزی ترجمہ ہو چکا ہے.نیز اگر کسی طبقے کو مفت بھی مہیا کرنی پڑیں تو کی جاسکتی ہیں، خاص طور پر وہ کتب جیسا کہ میں نے کہا جن کا انگلش ترجمہ ہو چکا ہے یا کسی اور زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے، ان کو کثرت سے پھیلایا جائے.مثلاً حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
خطبات مسرور جلد دہم 584 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 ستمبر 2012ء کی کتاب Life of Muhammad sa جو انگریزی میں چھپی ہوئی ہے.اسی طرح حضرت مرز ابشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تصنیف سيرة خاتم النبین کا کچھ حصہ انگلش میں ترجمہ ہو گیا ہے، باقی بھی وکالت تصنیف کو چاہئے کہ جلدی ترجمع کرا کے شائع کرائیں.بہر حال جیسا کہ میں نے Life of Muhammad sal جو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی کتاب ہے، یہ ایک مختصر سی کتاب ہے جس میں سیرت کے تمام پہلوؤں کو مختصر طور پر گور (Cover) کیا گیا ہے.اصل میں یہ دیباچہ تفسیر القرآن کا ایک حصہ ہے.اس کا کچھ حصہ جس میں تاریخ بھی بیان ہوئی ہے اور سیرت بھی بیان ہوئی ہے.یہ تقریباً، تقریباً کیا سارا ہی دیباچہ کا وہ حصہ ہے جو سیرت اور تاریخ سے متعلقہ ہے.بہر حال اس کا اتنا حصہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے متعلق ہے اس کو پڑھنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر پہلو اجاگر ہو کر سامنے آ جاتا ہے.اس کی وسیع پیمانے پر اشاعت ہونی چاہئے.وکیل اشاعت اور تصنیف مجھے رپورٹ کریں کہ کس کس زبان میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے.اگر سٹاک میں نہیں ہے تو فوری اس کی اشاعت بھی کروائیں.میرا خیال ہے جرمن زبان میں بھی اس کا ترجمہ ہے اور فریج میں بھی شاید ہے.بہر حال یہ رپورٹ دے دیں.دنیا کے سامنے ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے خوبصورت پہلوؤں کو رکھنا ہے، یہ ہمارا کام ہے اور اس کو ہمیں بہر حال ایک کوشش کر کے سرانجام دینا چاہئے.آج یہ کام ایک لگن کے ساتھ صرف جماعت احمدیہ ہی کر سکتی ہے، اس کے لئے ہر طرح کے پروگرام کی پہلے سے بڑھ کر کوشش کریں.سیمینار بھی ہوں، جلسے بھی ہوں اور ان میں غیروں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں بلائیں.اور جیسا کہ میں نے کہا کہ میرا گزشتہ خطبہ ہر زبان میں ترجمہ کر کے ایک چھوٹے سے پمفلٹ کی صورت میں بنا کر ایک مہم کی صورت میں اس طرح تقسیم کر دیں، جس طرح پہلے امن کے حوالے سے لیف لیٹنگ ہوئی تھی.لیکن اس کام کو زیادہ دیر نہیں لگنی چاہئے.ہفتہ دس دن کے اندر اندر یہ کام ہوسکتا ہے اور کرنا چاہئے.بڑے ممالک میں اس کی اشاعت کا کام بڑی آسانی سے ہو سکتا ہے.یہ لوگ تو اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہے اور نہ آئیں گے.عمومی طور پر مسلمان جو ردعمل دکھا رہے ہیں، اس کو لے کر لگتا ہے کہ یہ لوگ ہمارے دلوں کو مزید زخمی کرنے کے درپے ہیں.اپنی خبیثانہ حرکتوں کو ایک ملک سے دوسرے ملک میں پھیلاتے چلے جارہے ہیں.اب دو دن پہلے پہین کے کسی اخبار نے بھی یہ خاکے بنائے تھے اور شائع کئے ہیں اور یہ کہا ہے کہ یہ تو مذاق ہے اور یہ مسلمانوں کے رد عمل کا جواب بھی ہے.پس ہمیں ان لوگوں کا منہ بند کرنے کے لئے اور کم از کم شرفاء اور پڑھے لکھے لوگوں کو بتانے کے لئے
خطبات مسرور جلد دہم 585 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 ستمبر 2012ء بھر پور کوشش کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ غلط طریق دنیا کا امن برباد کر رہا ہے، تا کہ جس حد تک ممکن ہو ان کے ظالمانہ رویے کی حقیقت سے ہم دنیا کو آگاہ کر سکیں.یہاں یو کے میں اور کامن ویلتھ ملکوں میں کوئین کی ڈائمنڈ جوبلی گزشتہ دنوں منائی گئی تھی.اس حوالے سے تقریباً سارا سال ہی شور پڑا رہا ہے اور پڑ رہا ہے یا اس کا ذکر چل رہا ہے.اب بھی اس طرف توجہ ہے.ملکہ وکٹوریہ کی جب ڈائمنڈ جوبلی ہوئی تھی تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تحفہ قیصریہ کے نام سے کتاب لکھ کر ملکہ کو بھجوائی تھی جس میں جہاں ملکہ کی انصاف پسند حکومت کی تعریف کی تھی وہاں اسلام کا پیغام بھی پہنچایا تھا اور دنیا میں امن کے قیام اور مختلف مذاہب کے آپس کے تعلقات اور مذہبی بزرگوں اور انبیاء کی عزت و احترام کی طرف بھی توجہ دلائی تھی.اور یہ بھی تفصیل سے بتایا تھا کہ امن کے طریق کیا ہونے چاہئیں.اب جب ملکہ الزبتھ کی ڈائمنڈ جوبلی ہوئی ہے تو تحفہ قیصریہ کا ترجمہ پرنٹ کر کے خوبصورت جلد کے ساتھ ملکہ کو بھجوایا گیا تھا.ملکہ کا جو متعلقہ شعبہ ہے جس کو یہ کتاب تحفہ کے طور پر جا کے دی گئی تھی اور ساتھ میرا خط بھی تھا، اُن کی طرف سے مجھے شکریہ کا جواب بھی آیا ہے اور یہ بھی کہ ملکہ کی کتابوں کی جو collection ہے وہاں رکھ دی گئی ہے اور ملکہ اس کو پڑھے گی.بہر حال پڑھتی ہے یا نہیں لیکن ہماری جو ذمہ داری تھی ہم نے ادا کرنے کی کوشش کی ہے.اس وقت بھی دنیا کی بدامنی کے وہ حالات ہیں جو اُس زمانے میں بھی تھے بلکہ بعض لحاظ سے بڑھ رہے ہیں اور یہ لوگ اسلام پر حملہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ، آپ کا استہزاء کرتے چلے جارہے ہیں اور بہت آگے بڑھ رہے ہیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس پیغام کی تشہیر کی آج بھی بہت ضرورت ہے.اس لئے اس میں امن اور مذہب کے احترام کا جو حصہ ہے اور پھر یہ بھی دیا ہوا ہے کہ کا نفرنسیں بھی منعقد ہونی چاہئیں اور کس طرح ہونی چاہئیں یہ سارے حصے اکٹھے کر کے ایک پمفلٹ کی شکل میں چھاپ کر یہاں بھی اور دنیا میں بھی تقسیم کرنے کی ضرورت ہے.اس پر بھی فوری کام ہونا چاہئے.یہ دو تین ورقہ پیغام بنے گا، زیادہ سے زیادہ چار پانچ ورقے بن جائیں گے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے انبیاء کا ذکر فرماتے ہوئے یہ مثال دی ہے کہ اگر کسی حکومت کے نام پر کوئی جھوٹا قانون بنا کر اس کی طرف سے پھیلائے اور اپنے آپ کو حکومت کا کارندہ ثابت کرے یا کرنے کی کوشش کرے تو حکومت کی مشینری حرکت میں آتی ہے اور ایسے شخص یا گروہ کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی طرف غلط باتوں کے منسوب ہونے کو برداشت
خطبات مسرور جلد دہم کرے اور کھلی چھٹی دے دے.586 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 ستمبر 2012ء (ماخوذ از تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 257-258) پس انبیاء بھی جب خدا تعالیٰ کی طرف سے پیغام لانے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اُن کی جماعتیں بھی بڑھ رہی ہوتی ہیں تو یہ بات ثابت کرتی ہے کہ یہ جماعت یا یہ لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.پس خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے ہوؤں کا احترام کرنا چاہئے تا کہ دنیا کا امن قائم رہے.اس بارے میں ایک حصہ جس میں آپ نے فرمایا کہ کس طرح امن ہونا چاہئے اور انبیاء کا کیا مقام ہوتا ہے، وہ میں اس وقت پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ : سو یہی قانون خدا تعالیٰ کی قدیم سنت میں داخل ہے (یعنی وہی قانون کہ اگر دنیاوی حکومتیں کسی ایسی بات کا اپنی طرف منسوب ہونا برداشت نہیں کرتیں جو نہیں کہی گئی تو اللہ تعالیٰ کس طرح برداشت کرے گا؟) فرمایا ”سو یہی قانون خدا تعالیٰ کی قدیم سنت میں داخل ہے کہ وہ نبوت کے جھوٹا دعویٰ کرنے والے کو مہلت نہیں دیتا.بلکہ ایسا شخص جلد پکڑا جاتا اور اپنی سزا کو پہنچ جاتا ہے.اس قاعدہ کے لحاظ سے ہمیں چاہئے کہ ہم ان تمام لوگوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں اور ان کو سچا سمجھیں جنہوں نے کسی زمانہ میں نبوت کا دعوی کیا اور پھر وہ دعوی ان کا جڑ پکڑ گیا اور ان کا مذہب دنیا میں پھیل گیا اور استحکام پکڑ گیا اور ایک عمر پا گیا اور اگر ہم ان کے مذہب کی کتابوں میں غلطیاں پائیں یا اس مذہب کے پابندوں کو بدچلنیوں میں گرفتار مشاہدہ کریں تو ہمیں نہیں چاہئے کہ وہ سب داغ ملالت ان مذاہب کے بانیوں پر لگاو ہیں.کیونکہ کتابوں کا محرف ہو جانا ممکن ہے.اجتہادی غلطیوں کا تفسیروں میں داخل ہوجانا ممکن ہے.لیکن یہ ہرگز ممکن نہیں کہ کوئی شخص کھلا کھلا خدا پر افتراء کرے اور کہے کہ میں اس کا نبی ہوں اور اپنا کلام پیش کرے اور کہے کہ یہ خدا کا کلام ہے.حالانکہ وہ نہ نبی ہو اور نہ اس کا کلام خدا کا کلام ہو.اور پھر خدا اس کو سچوں کی طرح مہلت دے.( یہ سب کچھ ہو اور پھر خدا اس کو سیچوں کی طرح مہلت دے ) اور سچوں کی طرح اس کی قبولیت پھیلائے.لہذا یہ اصول نہایت صحیح اور نہایت مبارک اور باوجود اس کے صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا ہے کہ ہم ایسے تمام نبیوں کو سچے نبی قرار دیں جن کا مذہب جڑ پکڑ گیا اور عمر پا گیا اور کروڑ ہا لوگ اس مذہب میں آگئے.یہ اصول نہایت نیک اصول ہے اور اگر اس اصل کی تمام دنیا پابند ہو جائے تو ہزاروں فساد اور توہین مذہب جو مخالف امن عامہ خلائق ہیں اٹھ جائیں.یہ تو ظاہر ہے کہ جولوگ کسی مذہب کے پابندوں کو ایک ایسے شخص کا پیرو خیال کرتے ہیں جو ان کی دانست میں دراصل وہ کا ذب اور مفتری ہے تو وہ اس خیال سے
خطبات مسرور جلد دہم 587 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 ستمبر 2012ء بہت سے فتنوں کی بنیاد ڈالتے ہیں.اور وہ ضرور توہین کے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں اور اس نبی کی شان میں نہایت گستاخی کے الفاظ بولتے ہیں اور اپنے کلمات کو گالیوں کی حد تک پہنچاتے ہیں اور مسلح کاری اور عامہ خلائق کے امن میں فتور ڈالتے ہیں.حالانکہ یہ خیال ان کا بالکل غلط ہوتا ہے.اور وہ اپنے گستاخانہ اقوال میں خدا کی نظر میں ظالم ہوتے ہیں.خدا جو رحیم و کریم ہے وہ ہرگز پسند نہیں کرتا جو ایک جھوٹے کو ناحق کا فروغ دے کر اور اس کے مذہب کی جڑ جما کر لوگوں کو دھوکہ میں ڈالے.اور نہ جائز رکھتا ہے کہ ایک شخص باوجود مفتری اور کذاب ہونے کے دنیا کی نظر میں سچے نبیوں کا ہم پلہ ہو جائے.پس یہ اصول نہایت پیارا اور امن بخش اور صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا اور اخلاقی حالتوں کو مدد دینے والا ہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں جو دنیا میں آئے.خواہ ہند میں ظاہر ہوئے یا فارس میں یا چین میں یا کسی اور ملک میں اور خدا نے کروڑ بادلوں میں ان کی عزت اور عظمت بٹھا دی اور ان کے مذہب کی جڑ قائم کر دی.اور کئی صدیوں تک وہ مذہب چلا آیا.یہی اصول ہے جو قرآن نے ہمیں سکھلایا.اسی اصول کے لحاظ سے ہم ہر ایک مذہب کے پیشوا کو جن کی سوانح اس تعریف کے نیچے آ گئی ہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں گو وہ ہندوؤں کے مذہب کے پیشوا ہوں یا فارسیوں کے مذہب کے یا چینیوں کے مذہب کے یا یہودیوں کے مذہب کے یا عیسائیوں کے مذہب کے.مگر افسوس کہ ہمارے مخالف ہم سے یہ برتاؤ نہیں کر سکتے اور خدا کا یہ پاک اور غیر متبدل قانون ان کو یاد نہیں کہ وہ جھوٹے نبی کو وہ برکت اور عزت نہیں دیتا جو بچے کو دیتا ہے اور جھوٹے نبی کا مذہب جڑ نہیں پکڑتا اور نہ عمر پاتا ہے جیسا کہ بچے کا جڑ پکڑتا اور عمر پاتا ہے.پس ایسے عقیدہ والے لوگ جو قوموں کے نبیوں کو کاذب قرار دے کر برا کہتے رہتے ہیں ہمیشہ صلح کاری اور امن کے دشمن ہوتے ہیں.کیونکہ قوموں کے بزرگوں کو گالیاں نکالنا اس سے بڑھ کر فتنہ انگیز اور کوئی بات نہیں.بسا اوقات انسان مرنا بھی پسند کرتا ہے مگر نہیں چاہتا کہ اس کے پیشوا کو برا کہا جائے.اگر ہمیں کسی مذہب کی تعلیم پر اعتراض ہو تو ہمیں نہیں چاہئے کہ اس مذہب کے نبی کی عزت پر حملہ کریں.اور نہ یہ کہ اس کو برے الفاظ سے یاد کریں.بلکہ چاہئے کہ صرف اس قوم کے موجودہ دستور العمل پر اعتراض کریں“ (یعنی اگر وہ غلطیاں اُس قوم میں ہیں تو اُس قوم کی اُن غلطیوں پر اعتراض کریں، نہ کہ نبیوں پر ) فرمایا اور یقین رکھیں کہ وہ نبی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے کروڑ با انسانوں میں عزت پا گیا اور صد ہا برسوں سے اس کی قبولیت چلی آتی ہے یہی پختہ دلیل اس کے منجانب اللہ ہونے کی ہے.اگر وہ خدا کا مقبول نہ ہوتا تو اس قدر عزت نہ پاتا.مفتری کو عزت دینا اور کروڑ ہا بندوں میں اس کے مذہب کو پھیلانا اور زمانہ دراز تک
خطبات مسرور جلد دہم 588 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 ستمبر 2012ء اس کے مفتریا نہ مذہب کو محفوظ رکھنا خدا کی عادت نہیں ہے.سو جو مذہب دنیا میں پھیل جائے اور جم جائے اور عزت اور عمر پا جائے وہ اپنی اصلیت کے رو سے ہرگز جھوٹا نہیں ہوسکتا.پس اگر وہ تعلیم قابل اعتراض ہے تو اس کا سبب یا تو یہ ہوگا کہ آپ نے اس کی تین وجوہات بتائی ہیں کہ اگر وہ مذہب موجودہ زمانے میں قابل اعتراض ہوتا ہے تو اس کی تین وجوہات ہیں، فرمایا اُس کا سبب یہ ہوگا کہ نمبر ایک) اس نبی کی ہدایتوں میں تحریف کی گئی ہے“.( یعنی نبی نے جو ہدایات دی تھیں، اُن کو بدلا گیا.نمبر دو یہ ) اور یا یہ سبب ہوگا کہ ان ہدایتوں کی تفسیر کرنے میں غلطی ہوئی ہے.( اُن کی تفسیر غلط رنگ میں کی گئی.اور تیسری بات یہ ) ” اور یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خود ہم اعتراض کرنے میں حق پر نہ ہوں“.(ایک بات کی سمجھ ہی نہیں آئی اور اعتراض کر دیا.جس طرح آج کل اُٹھتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر اعتراض کر دیتے ہیں حالانکہ نہ تاریخ پڑھی، نہ واقعات پڑھے، نہ قرآن کی سمجھ آئی.فرمایا کہ ) ” چنانچہ دیکھا جاتا ہے کہ بعض پادری صاحبان اپنی کم فہمی کی وجہ سے قرآن شریف کی ان باتوں پر اعتراض کر دیتے ہیں جن کو توریت میں صحیح اور خدا کی تعلیم مان چکے ہیں.سو ایسا اعتراض خودا پنی غلطی یا شتاب کاری ہوتی ہے“.پھر فرمایا ” خلاصہ یہ کہ دنیا کی بھلائی اور امن اور صلح کاری اور تقویٰ اور خدا ترسی اسی اصول میں ہے کہ ہم ان نبیوں کو ہرگز کاذب قرار نہ دیں جن کی سچائی کی نسبت کروڑ ہا انسانوں کی صد ہا برسوں سے رائے قائم ہو چکی ہو اور خدا کی تائید میں قدیم سے ان کے شامل حال ہوں.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ایک حق کا طالب خواہ وہ ایشیائی ہو یا یورپین ہمارے اس اصول کو پسند کرے گا اور آہ کھینچ کر کہے گا کہ افسوس ہمارا اصول ایسا کیوں نہ ہوا.“ ملکہ کو لکھتے ہیں کہ میں اس اصول کو اس غرض سے حضرت ملکہ معظمہ قیصرہ ہند و انگلستان“ اُس وقت تو ہندوستان پر بھی ملکہ کی حکومت تھی " کی خدمت میں پیش کرتا ہوں کہ امن کو دنیا میں پھیلانے والاصرف یہی ایک اصول ہے جو ہمارا اصول ہے اسلام فخر کر سکتا ہے کہ اس پیارے اور دلکش اصول کو خصوصیت سے اپنے ساتھ رکھتا ہے.کیا ہمیں روا ہے کہ ہم ایسے بزرگوں کی کسر شان کریں جو خدا کے فضل نے ایک دنیا کو ان کے تابعدار کر دیا اور صدہا برسوں سے بادشاہوں کی گردنیں ان کے آگے جھکتی چلی آئیں ؟ کیا ہمیں روا ہے کہ ہم خدا کی نسبت یہ بدظنی کریں کہ وہ جھوٹوں کو سچوں کی شان دے کر اور سچوں کی طرح کروڑ ہا لوگوں کا ان کو پیشوا بنا کر اور ان کے مذہب کو ایک لمبی عمر دے کر اور ان کے مذہب کی تائید میں آسمانی نشان ظاہر کر کے دنیا کو دھوکا دینا چاہتا ہے؟ اگر خدا ہی ہمیں دھوکہ دے تو پھر ہم راست اور
خطبات مسرور جلد دہم 589 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 ستمبر 2012ء نار است میں کیونکر فرق کر سکتے ہیں؟“ فرمایا " یہ بڑا ضروری مسئلہ ہے کہ جھوٹے نبی کی شان و شوکت اور قبولیت اور عظمت ایسی پھیلنی نہیں چاہئے جیسا کہ بچے کی.اور جھوٹوں کے منصوبوں میں وہ رونق پیدا نہیں ہونی چاہئے جیسا کہ بچے کے کاروبار میں پیدا ہونی چاہئے.اسی لئے بچے کی اول علامت یہی ہے کہ خدا کی دائمی تائیدوں کا سلسلہ اس کے شامل حال ہو.اور خدا اس کے مذہب کے پودہ کو کروڑہا دلوں میں لگا دیوے اور عمر بخشے.پس جس نبی کے مذہب میں ہم یہ علامتیں پاویں ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی موت اور انصاف کے دن کو یاد کر کے ایسے بزرگ پیشوا کی اہانت نہ کریں بلکہ سچی تعظیم اور سچی محبت کریں.غرض یہ وہ پہلا اصول ہے جو ہمیں خدا نے سکھلایا ہے جس کے ذریعہ سے ہم ایک بڑے اخلاقی حصہ کے وارث ہو گئے ہیں“.( تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 258 تا 262) آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ایسی کا نفرنسیں ہونی چاہئیں جہاں مختلف مذاہب کے لوگ اپنے مذہب کے بارے میں خوبیاں بھی بیان کریں.(ماخوذ از روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 279) (ماخوذ از خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 30) اور اس وقت اگر دیکھا جائے تو عملی رنگ میں اسلام دنیا کا پہلا مذہب ہے اور تعداد کے لحاظ سے یہ بہر حال دنیا کا دوسرا بڑا مذ ہب ہے.اس لئے دنیا کے دوسرے مذاہب کو بہر حال مسلمانوں کی عزت کرنی چاہئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و احترام کا جو حق ہے وہ ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے نہیں تو دنیا میں فساد اور بے امنی پیدا ہوگی.پس ہم جب دنیا کے مذاہب کا احترام و عزت کرتے ہیں ، اُن کے بزرگوں اور انبیاء کو خدا تعالیٰ کا فرستادہ سمجھتے ہیں تو صرف اس خوبصورت تعلیم کی وجہ سے جو قرآنِ کریم نے ہمیں دی ہے اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائی.مخالفین اسلام باوجود اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نازیبا الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں، بیہودہ قسم کی تصویریں بھی بناتے ہیں، مگر ہم کسی مذہب کے نبی اور بزرگ کو جواب میں غلط الفاظ سے نہیں پکارتے یا اُن کا استہزاء نہیں کرتے.اس کے باوجود مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے کہ یہ امن بر باد کرنے والے ہیں.پہلے خود یہ لوگ امن بر باد کرنے والی حرکتیں کرتے ہیں، جذبات کو بھڑ کانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب جذبات بھڑک جائیں تو کہتے ہیں کہ دیکھو مسلمان ہیں ہی تشدد پسند، اس لئے ان کے خلاف ہر طرح کی کارروائی کرو.
خطبات مسرور جلد دہم 590 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 ستمبر 2012ء جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں بتایا تھا کہ مخالفین اسلام کو یہ سب کچھ کرنے کی جرات اس لئے ہے کہ مسلمان ایک ہو کر نہیں رہتے لیکن ہم احمدی مسلمان جن کو خدا تعالیٰ نے مسیح موعود اور مہدی موعود کے ہاتھ پر جمع کر دیا ہے، ہمارا بہر حال کام ہے کہ دنیا کو ہدایت کے راستے دکھائیں، امن اور سلامتی کے طریق بتائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس پیغام کو جو میں نے پڑھا ہے، اس کی خوب تشہیر کریں تا کہ دنیا کو حقیقی اسلامی تعلیم کا پتہ چل سکے.دنیا داروں کو یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہمارے دل میں اور حقیقی مسلمان کے دل میں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور آپ کا اسوہ حسنہ کس قدر خوبصورت ہے اور اس میں کیا حسن ہے ؟ ایک حقیقی مسلمان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر عشق اور محبت ہے ، اس کا یہ لوگ اندازہ ہی نہیں کر سکتے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عشق کا اظہار آج سے چودہ سو سال پہلے صرف حسان بن ثابت نے اپنے اس شعر میں نہیں کیا تھا کہ كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِئَ فَعَمِي عَلَيْكَ النَّاظِرَ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتْ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أَحَاذِرُ (دیوان حسان بن ثابت الانصاری صفحه 88 دار ارقم بیروت) (تحفه غزنویه روحانی خزائن جلد 15 صفحه 583) یعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تو تو میری آنکھ کی پتلی تھا آج تیرے مرنے سے میری آنکھ اندھی ہوگئی.اب تیرے مرنے کے بعد کوئی مرے مجھے کوئی پرواہ نہیں، میں تو تیری موت سے ہی ڈرتا تھا.یہ شعر آپ کی وفات پر حسان بن ثابت نے کہا تھا لیکن ہم میں اس زمانے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت ، ایک گہری عشق و محبت پیدا کی ہے.ہمارے دل میں اس عشق و محبت کی جوت جگائی ہے.آپ ایک جگہ اس عشق و محبت کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں.آپ کا جو بڑا لمبا عر بی قصیدہ ہے، اُس کے کچھ شعر ہیں کہ عاشق بنایا.قَوْمٌ رَأَوْكَ وَ أُمَّةٌ قَدْ أُخْبِرَتْ مِنْ ذَالِكَ الْبَحْرِ الَّذِي أَصْبَانِي کہ ایک قوم نے تجھے دیکھا ہے اور ایک امت نے خبر سنی ہے، اُس بدر کی جس نے مجھے اپنا روتے ہیں.يَبْكُوْنَ مِنْ ذِكْرِ الْجَمَالِ صَبَابَةٌ وَتَأَلَّمًا مِّنْ لَّوْعَةِ الْمِجْرَانِ وہ تیرے حسن کی یاد میں بوجہ عشق کے روتے ہیں اور جدائی کی جلن کے دُکھ اُٹھانے سے بھی
591 خطبات مسرور جلد دہم خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 ستمبر 2012ء وَأَرَى الْقُلُوبَ لَدَى الْحَنَاجِرِ كُرْبَةً وَأَرَى الْغُرُوبَ تُسِيْلُهَا الْعَيْنَانِ اور میں دیکھتا ہوں کہ دل بیقراری سے گلے تک آگئے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں.یہ ہے کہ: یہ قصیدہ بہت ساروں کو بلکہ اب تو ہمارے بچوں کو بھی یاد ہے اور اس لمبے قصیدے کا آخری شعر طاقت ہوتی.جِسْمِ يَطِيرُ إِلَيْكَ مِنْ شَوْقٍ عَلَا يَا لَيْتَ كَانَتْ قُوَّةُ الطَّيَرَانِ کہ میرا جسم تو شوق غالب سے تیری طرف اُڑنا چاہتا ہے.اے کاش میرے اندر اُڑنے کی آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 594,590) پس ہمیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کے یہ سبق سکھائے گئے ہیں اور یہ دنیا دار کہتے ہیں کہ کیا فرق پڑتا ہے؟ ہلکا پھلکا مذاق ہے.جب اخلاق اس حد تک گر جاتے ہیں کہ اخلاق کے معیار بجائے اونچے جانے کے پستیوں کو چھونے لگیں تو تبھی دنیا کے امن بھی برباد ہوتے ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے ہمارا کام ہے کہ زیادہ سے زیادہ کوشش کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کو دنیا کے سامنے پیش کریں.اس کے لئے مختصر اور بڑی جامع کتاب Life of Muhammad یا دیباچہ تفسیر القرآن کا سیرت والا حصہ ہے، اس کو ہر احمدی کو پڑھنا چاہئے.اس میں سیرت کے قریباً تمام پہلو بیان ہو گئے ہیں یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ ضروری پہلو بیان ہو گئے ہیں.اور پھر اپنے ذوق اور شوق اور علمی قابلیت کے لحاظ سے دوسری سیرت کی کتابیں بھی پڑھیں اور دنیا کو مختلف طریقوں سے، رابطوں سے ، مضامین سے، پمفلٹ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن واحسان سے آگاہ کریں.اللہ تعالیٰ اس اہم کام اور فریضے کو سرانجام دینے کی ہر احمدی کو تو فیق عطا فرمائے اور دنیا کو عقل عطا فرمائے کہ اس کا ایک عقلمند طبقہ خود اس قسم کے بیہودہ اور ظالمانہ مذاق کرنے والوں یا دشمنیوں کا اظہار کرنے والوں کا رڈ کرے تاکہ دنیا بدامنی سے بھی بچ سکے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بھی بچ سکے.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.اس وقت جمعہ کی نماز کے بعد میں ایک جنازہ پڑھاؤں گا ، جنازہ حاضر ہے.یہ جنازہ مکرم مولا نا نصر اللہ خان ناصر صاحب کا ہے جو مربی سلسلہ تھے.ان کو دل کی پرانی تکلیف تھی 23 ستمبر کو ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ان کی وفات ہوئی ہے.72 سال ان کی مرضی إلا بلد وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - آج
خطبات مسرور جلد دہم 592 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 ستمبر 2012ء کل یہیں یو کے میں رہتے تھے.چوہدری مہر اللہ دتہ صاحب گجرات کے بیٹے تھے، ان کے والد صاحب نے 1918ء میں اپنے گاؤں سے پیدل سیالکوٹ جا کر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.مرحوم نصر اللہ خان ناصر صاحب نے 1960ء میں زندگی وقف کی.جامعہ احمد یہ ربوہ میں داخلہ لیا.دورانِ تعلیم آپ نے اپنا پہلا مضمون اس عنوان سے لکھا کہ خلیفہ ہرگز معزول نہیں ہوسکتا جوالفضل ربوہ میں شائع بھی ہوا.آپ کا علمی ذوق کافی تھا جس کی وجہ سے آپ کو جامعہ کے رسالہ مجلسۃ الجامعۃ کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا.آپ کو مضامین لکھنے کا بھی خاص ملکہ حاصل تھا.جماعتی رسائل میں ، اخباروں میں مضامین لکھا کرتے تھے.جامعہ سے فارغ ہونے کے بعد 1983 ء تک پاکستان کی مختلف جماعتوں میں بطور مربی سلسلہ خدمات انجام دیتے رہے.مرکز میں اصلاح و ارشاد مقامی کے دفتر میں بھی خدمت کی توفیق پائی.1994ء سے 2004 ء تک ماہنامہ انصار اللہ کے ایڈیٹر رہے اس وجہ سے ان پر بہت سارے مقدمات بھی قائم ہوئے.ان مقدمات کی وجہ سے آپ کو پیروی کے لئے ربوہ سے کراچی، سندھ اور ملک کے دوسرے شہروں میں جانا پڑتا تھا.بعض دفعہ بڑی جلدی جلدی تاریخیں ملتی تھیں لیکن یہ بڑی ہمت سے باوجود بیماری کے اور عمر کے جایا کرتے تھے.بڑی بہادری سے انہوں نے ان مقدمات کا سامنا کیا ہے.بعض دفعہ عدالتوں میں حالات خراب ہو جاتے تھے، بڑی مایوسی کی کیفیت ہوتی تھی ، بعض دفعہ دشمن بڑا سر گرم ہوتا تھا لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ نے ان کو ہمت دی اور جو مقدمات بنے ان میں ہمیشہ پیش ہوتے رہے.ان کو دارالقضاء میں بطور نمائندہ برائے عالی معاملات کے بھی خدمت انجام دینے کی توفیق ملی.آپ نے ایک کتاب "اصحاب صدق و صفا“ بھی لکھی اور اس میں تین سو تیرہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر کیا ، ان کی تاریخ تھی ، یا اُن کے بارے میں تھی.اس کے علاوہ بھی بہت ساری کتب آپ کی تصنیف ہیں.انتہائی دعا گو تھے.نیک، سادہ، متوکل مزاج ، جیسا کہ میں نے کہا ہمت بلند تھی ، دھیمی طبیعت کے مالک تھے اور بڑے باوفا انسان تھے.مرحوم موصی بھی تھے.اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور انہیں اپنی رضا کی جنتوں میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.جیسا کہ میں نے کہا ان کا نماز جنازہ یہاں حاضر ہے ابھی نماز جمعہ کے بعد میں باہر جا کر ادا کروں گا ، احباب یہیں مسجد کے اندر ہی صفیں درست کر لیں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 19 تا 25 اکتوبر 2012 جلد 19 شماره 42 صفحه 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد دہم 593 40 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5اکتوبر 2012ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة اسم الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 5 را کتوبر 2012ء بمطابق 5 را خاء 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات پیش آمدہ (یعنی جو واقعات و حالات آپ کو پیش آئے ) کی اگر معرفت ہو اور اس بات پر پوری اطلاع ملے کہ اُس وقت دنیا کی کیا حالت تھی اور آپ نے آ کر کیا کیا ؟ تو انسان وجد میں آ کر اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدِ کہہ اُٹھتا ہے“.فرمایا ”میں سچ سچ کہتا ہوں، یہ خیالی اور فرضی بات نہیں ہے.قرآنِ شریف اور دنیا کی تاریخ اس امر کی پوری شہادت دیتی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کیا کیا.ورنہ کیا بات تھی جو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لئے مخصوصاً فرمایا گیا إنَّ اللهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الاحزاب: 57).یعنی اللہ تعالیٰ اور اُس کے تمام فرشتے رسول پر درود بھیجتے ہیں.اے ایمان والو! تم بھی درود و سلام بھیجو نبی پر.فرمایا کسی دوسرے نبی کے لئے یہ صدا نہیں آئی.پوری کامیابی پوری تعریف کے ساتھ یہی ایک انسان دنیا میں آیا جو محد کہلا یا صلی اللہ علیہ وسلم " ط 66 ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 421،ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) فرمایا: ” اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے اعمال ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی تعریف یا اوصاف کی تحدید کرنے کے لئے ( یعنی حد لگانے کے لئے ) ” کوئی لفظ خاص نہ فرمایا.لفظ تو مل سکتے تھے لیکن خود استعمال نہ کئے.یعنی آپ کے اعمال صالحہ کی تعریف تحدید سے بیرون تھی.( ہر قسم کی حدوں سے بالا تھی.) اس قسم کی آیت کسی اور نبی کی شان میں استعمال نہ کی.
خطبات مسرور جلد دہم 594 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5اکتوبر 2012ء آپ کی روح میں وہ صدق و وفا تھا اور آپ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے 66 ہمیشہ کے لئے یہ حکم دیا کہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر درود بھیجیں.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 24، ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) پس یہ مومن کا کام ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کو جب پڑھے، آپ کے اسوۂ حسنہ کو جب دیکھے تو جہاں اس پر عمل کرنے اور اسے اپنانے کی کوشش کرے، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجے کہ اس محسن اعظم نے ہم پر کتنا عظیم احسان کیا ہے کہ زندگی کے ہر پہلو کو خدا تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق عمل کر کے دکھا کر اور ہمیں اس کے مطابق عمل کرنے کا کہہ کر خدا تعالیٰ سے ملنے کے راستوں کی طرف ہماری رہنمائی کر دی.اللہ تعالیٰ کی عبادت کے معیار حاصل کرنے کے راستے دکھا دیئے.اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا حق ادا کرنے کی ذمہ داری کا احساس مومنین میں پیدا کیا جس سے ایک مومن خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتا ہے.یہ سب باتیں تقاضا کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درودوسلام بھیجتے ہوئے ہم دنیا کو بھی اس تعلیم اور آپ کے اُسوہ سے آگاہ کریں.آپ کے حسن واحسان سے دنیا کو آگاہ کریں.جب بھی غیروں کے سامنے آپ کی سیرت کے پہلو آئے تو وہ لوگ جو ذرا بھی دل میں انصاف کی رمق رکھتے تھے، وہ باوجود اختلافات کے آپ کی سیرت کے حسین پہلوؤں کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکے.آج کل اسلام کے مخالفین آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یا آپ کی لائی ہوئی تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں.یہ لوگ یا تو انصاف سے خالی دل لئے ہوئے ہیں یا آپ کی سیرت کے حسین پہلوؤں کو جانتے ہی نہیں اور اس کے لئے کوشش کرنی بھی نہیں چاہتے.پس دنیا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے آگاہی دینا بھی ہمارا کام ہے.اس کے لئے ہر قسم کا ذریعہ ہمیں استعمال کرنا چاہئے.اس کے بارے میں پہلے بھی میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں.بعض لوگوں کی فطرت ایسی ہوتی ہے یا دنیا میں ڈوب کر ایسے بن جاتے ہیں کہ اُن پر دنیا داروں کا اثر زیادہ ہوتا ہے.دنیا دار اگر کوئی بات کہہ دے تو ماننے کو تیار ہو جاتے ہیں یا اُن پر اپنے لوگوں کی باتوں کا اثر زیادہ ہوتا ہے بجائے اس کے کہ ایک بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک مسلمان سے سنیں.اگر اُن کے اپنے لوگ کہیں تو بعض دفعہ اُس پر غور کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اس لئے اُن کے اپنے لوگوں کے، مشہور لوگوں کے جو کتابیں لکھنے والے ہیں، سکالرز ہیں، رائٹرز ہیں، اُن کے تاثرات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بارے میں ایسے لوگوں تک پہنچانے چاہئیں.
خطبات مسرور جلد دہم 595 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 اکتوبر 2012ء اس وقت میں ایسے ہی کچھ لوگوں کی تحریریں پیش کروں گا جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے متاثر ہوکر ، آپ کی شخصیت سے متاثر ہو کر آپ کے بارے میں لکھا ہے.ان میں سے بعض مخالفین بھی تھے اور مخالفت میں بڑھے ہوئے تھے لیکن حقیقت لکھنے پر مجبور ہوئے.George Sale ایک مصنف ہیں جنہوں نے انگریزی ترجمه قرآن (The Koran) میں To the reader کے عنوان سے ایک باب لکھا ہے.یہ اسلام کے بارے میں کوئی ہمارے حق میں نہیں ہیں.اسی طرح ایک مصنف سپین ہیمس (Spanhemius) ہے.وہ بھی اسلام کا کافی مخالف ہے.لیکن اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بعض باتیں کہی ہیں اور یہ اس کے بارہ میں لکھتا ہے کہ یہ تو نیک آدمی ہے.وہ نیک تو بہر حال نہیں ہے لیکن کم از کم انصاف لکھنے پر مجبور تھا.اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے بارہ میں جو لکھا ہے یہ اُس کے حوالے سے لکھ رہے ہیں.وہ لکھتا ہے کہ: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کامل طور پر فطری قابلیتوں سے آراستہ تھے، شکل میں نہایت خوبصورت، فہیم اور دور رس عقل والے.پسندیدہ و خوش اطوار غرباء پرور، ہر ایک سے متواضع.دشمنوں کے مقابلہ میں صاحب استقلال و شجاعت.سب سے بڑھ کر یہ کہ خدائے تعالیٰ کے نام کا نہایت ادب و احترام کرنے والے تھے.جھوٹی قسم کھانے والوں، زانیوں، سفاکوں، جھوٹی تہمت لگانے والوں، فضول خرچی کرنے والوں، لالچیوں اور جھوٹی گواہی دینے والوں کے خلاف نہایت سخت تھے.بردباری،صدقہ و خیرات ، رحم وکرم، شکر گزاری، والدین اور بزرگوں کی تعظیم کی نہایت تاکید کرنے والے اور خدا کی حمد و تعریف میں نہایت کثرت سے مشغول رہنے والے تھے.66 (The Koran or Alcoran of Mohammad by George Sale, Gent, William Tegg and Co, London 1877 page vi) اور یہ سب کچھ لکھنے کے باوجود وہ بعض جگہ جا کے آپ پر الزام تراشی بھی کرتا ہے.پھر ایک مصنف سٹینلے لین پول (Stanley Lane-Poole) ہیں.وہ لکھتے ہیں کہ: حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے آبائی شہر مکہ میں جب فاتحانہ داخل ہوئے اور اہل مکہ آپ کے جانی دشمن اورخون کے پیاسے تھے تو اُن سب کو معاف کر دیا.یہ ایسی فتح تھی اور ایسا پاکیزہ فاتحانہ داخلہ تھا جس کی مثال ساری تاریخ انسانیت میں نہیں ملتی.(The Speeches and Table-Talk of the Prophet Mohammad by Stanley Lane-poole, Macmillan and Co.1882, page xlvi-xlvii)
خطبات مسرور جلد دہم 596 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 اکتوبر 2012ء پھر The Outline of History کے مصنف ہیں پروفیسر ایچ جی ویلز (H.G.Wells) یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کی صداقت کا یہی بڑا ثبوت ہے کہ جو آپ کو سب سے زیادہ جانتے تھے ، وہی آپ پر سب سے پہلے ایمان لائے.حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہرگز جھوٹے مدعی نہ تھے.اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام میں بڑی خوبیاں اور باعظمت صفات موجود ہیں...پیغمبر اسلام نے ایک ایسی سوسائٹی کی بنیاد رکھی جس میں ظلم اور سفا کی کا خاتمہ کیا گیا.“ (The Outline of History by H.G.Wells, The Macmillan Company, New York, 1921 page579-580) پھر دی لیسی اولیرے (De Lacy O'Leary) اپنی کتاب اسلام ایٹ دی کراس روڈز Islam at the Cross roads) میں لکھتا ہے کہ : " تاریخ نے اس بات کو کھول کر رکھ دیا ہے کہ شدت پسند مسلمانوں کا دنیا پر فتح پالینا اور تلوار کی نوک پر مقبوضہ اقوام میں اسلام کو نافذ کر دینا تاریخ دانوں کے بیان کردہ قصوں میں سے فضول ترین اور 66 عجیب ترین قصہ ہے." (Islam at the Cross Roads by De Lacy O'Leary, London 1923p.8) یعنی یہ جو تاریخ دان لکھتے ہیں ناں کہ تلوار کی نوک پر فتح پائی.کہتا ہے یہ قصے فضول ترین قصے ہیں.پھر مہاتما گاندھی ایک جرید.Young India میں لکھتے ہیں کہ : میں اُس شخص کی زندگی کے بارہ میں سب کچھ جاننا چاہتا تھا جس نے بغیر کسی اختلاف کے لاکھوں پر حکومت کی.اُس کی زندگی کا مطالعہ کر کے میرا اس بات پر پہلے سے بھی زیادہ پختہ یقین ہو گیا کہ اسلام نے اُس زمانے میں تلوار کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں جگہ نہیں بنائی بلکہ اس پیغمبر کی سادگی ، اپنے کام میں مگن رہنے کی عادت ، انتہائی باریکیوں کے ساتھ اپنے عہدوں کو پورا کرنا اور اپنے دوستوں اور پیروکاروں کے ساتھ انتہائی عقیدت رکھنا، بیباک و بے خوف ہونا اور خدا کی ذات اور اپنے مشن پر کامل یقین ہونا، اُس کی یہی باتیں تھیں جنہوں نے ہر مشکل پر قابو پایا اور جوسب کو ساتھ لے کر چلیں.جب میں نے اس پیغمبر کی سیرت کے متعلق لکھی جانے والی کتاب کی دوسری جلد بھی ختم کر لی تو مجھ پر اس کتاب (سیرت کے بارے میں جو بھی کتاب پڑھ رہے تھے ) کے ختم ہو جانے کی وجہ سے اداسی طاری ہوگئی.The Collected Works of Mahotma Gandhi vol:29, 16th August 1924 to ماخوذاز) 26 December 1924.Under "92 My Jail Experiences" Page:133)
خطبات مسرور جلد دہم 597 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 اکتوبر 2012ء پھر Sir John Bagot Glubb یہ لیفٹیننٹ جنرل تھے.1986ء میں ان کی وفات ہوئی.یہ لکھتے ہیں کہ : قاری اس کتاب کے آخر پر ( جو کتاب وہ لکھ رہے تھے ) جو بھی رائے قائم کرے اس بات کا انکار ممکن نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی تجربات اپنے اندر پرانے اور نئے عہد ناموں کے قصوں اور عیسائی بزرگوں کے روحانی تجربات سے حیران کن حد تک مشابہت رکھتے ہیں.اسی طرح ممکن ہے کہ ہندؤوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والے افراد کے ان گنت رؤیا اور کشوف سے بھی مشابہت رکھتے ہوں.مزید یہ کہ اکثر اوقات ایسے تجربات تقدس اور فضیلت والی زندگی کے آغاز کی علامت ہوتے ہیں.ایسے واقعات کو نفسانی دھو کہ قرار دینا کوئی موزوں وضاحت معلوم نہیں ہوتی کیونکہ یہ واقعات تو بہت سے لوگوں میں مشترک رہے ہیں.ایسے لوگ جن کے درمیان ہزاروں سالوں کا فرق اور ہزاروں میلوں کے فاصلے تھے.جنہوں نے ایک دوسرے کے بارے میں سنا تک نہ ہوگا لیکن اس کے باوجود ان کے واقعات میں ایک غیر معمولی یکجائی پائی جاتی ہے.یہ رائے معقول نہیں کہ ان تمام افراد نے حیران کن حد تک مشابہ رؤیا اور 66 کشوف اپنے طور پر ہی بنالئے ہوں.باوجود اس کے کہ یہ افراد ایک دوسرے کے وجود ہی سے لابلد تھے.“ پھر جن لوگوں نے ہجرت حبشہ کی تھی اُن کے بارے میں لکھتا ہے: ”اس فہرست سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں تقریباً تمام وہ افراد شامل تھے جو کہ اسلام قبول کر چکے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے متشدد باسیوں کے درمیان یقیناً بہت کم پیروکاروں کے ساتھ رہ گئے تھے.یہ ایک ایسی حالت ہے جو ثابت کرتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاقی جرات اور ایمان کی مضبوطی کے اعلیٰ معیار پر قائم تھے“.(The Life and Times of Muhammad John Bagot Glubb, Stein And Day Publishers, New York, 1979, Page87, 119) History of the intellectual ✓✓✓ ✓ John William Draper Development of Europe میں لکھتے ہیں کہ : ”Justinian کی وفات کے چار سال بعد 569 عیسوی میں مکہ میں ایک ایسا شخص پیدا ہوا جس نے تمام شخصیات میں سب سے زیادہ بنی نوع انسان پر اپنا اثر چھوڑا اور وہ شخص محمد ہے (صلی اللہ علیہ وسلم) جسے بعض یورپین لوگ جھوٹا کہتے ہیں لیکن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اندر ایسی خوبیاں تھیں جن کی وجہ سے کئی قوموں کی قسمت کا فیصلہ ہوا.وہ ایک تبلیغ کرنے والے سپاہی تھے.ممبر فصاحت سے پر ہوتا
خطبات مسرور جلد دہم 598 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 5 اکتوبر 2012ء ( یعنی جب تقریر فرماتے ) میدان میں اترتے تو بہادر ہوتے.اُن کا مذہب صرف یہی تھا کہ خدا ایک ہے.(مذہب کا خلاصہ ایک ہی تھا کہ خدا ایک ہے.اس سچائی کو بیان کرنے کے لئے انہوں نے نظریاتی بحثوں کو اختیار نہیں کیا بلکہ اپنے پیروکاروں کو صفائی، نماز اور روزہ جیسے امور کی تعلیم دیتے ہوئے اُن کی معاشرتی حالتوں کو عملی رنگوں میں بہتر بنایا.اُس شخص نے صدقہ و خیرات کو باقی تمام کاموں پر فوقیت دی“.(History of the intellectual Development of Europe by John William Draper M.D., LL.D., New York: Harper and Brothers, Publishers, Fraklin Square 1864, page 244) پھر ایک مشہور مستشرق ہیں William Montgomery اپنی کتاب Muhammad at Medina میں لکھتے ہیں کہ : محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اور اسلام کی ابتدائی تاریخ پر جتنا غور کریں، اتنا ہی آپ کی کامیابیوں کی وسعت کو دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے.اُس وقت کے حالات نے آپ کو ایک ایسا موقع فراہم کیا جو بہت کم لوگوں کو ملتا ہے.گویا آپ اُس زمانے کے لئے موزوں ترین انسان تھے.اگر آپ کے پاس دوراندیشی حکومت کرنے کی انتظامی صلاحیتیں تو کل علی اللہ اور اس بات پر یقین کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا ہے، نہ ہوتا تو انسانی تاریخ میں ایک اہم باب رقم ہونے سے رہ جاتا.مجھے امید ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رقم سیرت کے متعلق یہ کتاب ایک عظیم الشان ابن آدم کو سمجھنے اور اُس کی قدر کرنے میں مدد کرے گی.“ (Muhammad At Medina by W.Montgomery Watt, Oxford University Press Karachi.2006, pp.335) یہ اس سوانح نویس کی شہادت ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے میں مثبت رویہ نہیں رکھتا.پھر مشہور عیسائی مؤرخ Reginald Bosworth Smith لکھتا ہے کہ ” مذہب اور حکومت کے رہنما اور گورنر کی حیثیت سے پوپ اور قیصر کی دو شخصیتیں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ایک وجود میں جمع تھیں.آپ پوپ تھے مگر پوپ کی طرح ظاہر داریوں سے پاک.آپ قیصر تھے مگر قیصر کے جاہ وحشمت سے بے نیاز.اگر دنیا میں کسی شخص کو یہ کہنے کا حق حاصل ہے کہ اُس نے با قاعدہ فوج کے بغیر محل شاہی کے بغیر اور لگان کی وصولی کے بغیر صرف خدا کے نام پر دنیا میں امن اور انتظام قائم رکھا تو وہ
خطبات مسرور جلد دہم 599 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 اکتوبر 2012ء صرف حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں.آپ کو اس ساز و سامان کے بغیر ہی سب طاقتیں حاصل تھیں“.(Mohammed and Mohammedanism by R.Bosworth Smith, Smith Elder and Co.London 1876, page 341) پھر یہی Bosworth Smith اپنی کتاب محمد اینڈ محمدن ازم Mohammed and) (Mohammedanism میں لکھتے ہیں کہ : آپ کے مشن ( یعنی نبوت و رسالت) کو سب سے پہلے قبول کرنے والے وہ لوگ تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی طرح جانتے تھے.مثلاً آپ کی زوجہ، آپ کا غلام، آپ کا چچا زاد بھائی اور آپ کا پرانا دوست، جس کے بارے میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہا تھا کہ اسلام کے داخل ہونے والوں میں سے وہ واحد انسان تھا جس نے کبھی اپنی پیٹھ نہیں موڑی تھی اور نہ ہی وہ کبھی پریشان ہوا تھا.عام پیغمبروں کی طرح حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی قسمت معمولی نہ تھی کیونکہ آپ کی عظمت کا انکار کرنے والے صرف وہی لوگ ہیں جنہیں آپ کی ذات کا صحیح علم حاصل نہیں تھا.“ (Mohammed and Mo hammedanism by R.Bosworth Smith, Smith Elder and Co.London 1876, page 127) پھر Bosworth ہی آگے لکھتے ہیں کہ : وو وہ رسوم و رواج جن سے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے منع فرمایا، نہ صرف آپ نے ان کی ممانعت فرمائی بلکہ اُن کا مکمل طور پر قلع قمع کر دیا.جیسے انسانی قربانیاں ( یعنی انسانوں کو قربان کرنا) چھوٹی بچیوں کے قتل، خونی جھگڑے، عورتوں کے ساتھ غیر محدود شادیاں، غلاموں کے ساتھ نہ ختم ہونے والے ظلم وستم، شراب نوشی اور جوا بازی.(اگر آپ ایسا نہ کرتے تو ) یہ سلسلہ بلا روک ٹوک عرب اور اس کے ہمسائے ملکوں میں جاری رہتا.( اور آپ نے ان سب کو ختم کر دیا.) (Mohammed and Mohammedanism by R.Bosworth Smith, Smith Elder and Co.London 1876,page 125) پھر یہی آگے لکھتا ہے کہ : حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے مقصد کی سچائی اور نیکی میں عمیق ترین ایمان رکھ کر جو کچھ کیا تھا، کوئی دوسرا شخص اس میں گہرے یقین کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتا.( یہ گہرا ایمان اور یقین جو تھا،
خطبات مسرور جلد دہم 600 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5اکتوبر 2012ء وہ آپ کو اپنے مقصد کے بارے میں ، اپنے دعوئی کے بارے میں ، اپنا خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کے بارے میں تھا تبھی یہ انقلاب آیا.وہ کہتا ہے کہ آپ کی زندگی کا ہر واقعہ آپ کو ایسا حقیقت پسند اور پُر جوش انسان ثابت کرتا ہے جو اپنے مسلمہ عقائد اور نظریات تک آہستہ آہستہ تکالیف برداشت کرتے ہوئے پہنچنے کی کوشش کرتا ہے“.(Mohammed and Mohammedanism by R.Bosworth Smith, Smith Elder and Co.London 1876, page 127) پھر آگے لکھتے ہیں کہ یہ کہنا کہ عرب کو انقلاب کی ضرورت تھی یا بالفاظ دیگر یہ کہنا کہ نئے پیغمبر کے ظہور کا وقت آ گیا تھا.اگر ایسا ہی تھا تو پھر حضرت محمد ہی وہ پیغمبر کیوں نہ ہوں؟ اس موضوع پر موجودہ زمانے کے مصنف سپر نگر نے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی آمد سے سالہا سال قبل ایک پیغمبر کے ظہور کی توقع بھی تھی اور پیشگوئی بھی تھی.(Mohammed and Mohammedanism by R.Bosworth Smith, Smith Elder and Co.London 1876, page 133) پھر آگے یہی Bosworth ہی بیان کرتا ہے کہ : ” مجموعی طور پر مجھے یہ حیرانی نہیں کہ حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) مختلف حالات میں کتنے بدل گئے تھے.بلکہ تعجب تو یہ ہے کہ آپ کی شخصیت میں کتنی کم تبدیلی پیدا ہوئی تھی.صحرائی گلہ بانی کے ایام میں (یعنی جب بھیڑیں چراتے تھے ) شامی تاجر کے طور پر، غارِ حرا کی خلوت گزینی کے ایام میں ، اقلیتی جماعت کے مصلح کی حیثیت سے، (جب مکہ میں تھے ) ، مدینہ میں جلا وطنی کے ایام میں، ایک مسلمہ فاتح کی حیثیت سے، یونانی بادشاہوں اور ایرانی ہر قلوں کے ہم مرتبہ ہونے کی حالت میں ہم آپ کی شخصیت میں ایک غیر متزلزل استقلال کا مشاہدہ کر سکتے ہیں.کہتا ہے کہ ”مجھے نہیں لگتا کہ اگر کسی اور آدمی کے خارجی حالات اس قدر زیادہ بدل جاتے تو کبھی اُس کی ذات میں اس قدر کم تبدیلی رونما ہوتی.حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے خارجی حالات تو تبدیل ہوتے رہے مگر ان تمام حالتوں میں مجھے اُن کی ذات کا جو ہر ایک جیسا ہی دکھائی دیتا ہے.“ (Mohammed and Mohammedanism by R.Bosworth Smith, Smith Elder and Co.London 1876, page 140-141) واشنگٹن ارونگ (Washington Irving) اپنی کتاب ”لائف آف محمد“ میں لکھتا ہے کہ :
خطبات مسرور جلد دہم 601 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 اکتوبر 2012ء آپ کی جنگی فتوحات نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اندر نہ تو تکبر پیدا کیا، نہ کوئی غرور اور نہ کسی قسم کی مصنوعی شان و شوکت پیدا کی.اگر ان فتوحات میں ذاتی اغراض ہوتیں تو یہ ضرور ایسا کرتیں.اپنی طاقت کے جو بن پر بھی اپنی عادات اور حلیہ میں وہی سادگی برقرار رکھی جو کہ آپ کے اندر مشکل ترین حالات میں تھی.یہاں تک کہ اپنی شاہانہ زندگی میں بھی اگر کوئی آپ کے کمرہ میں داخل ہوتے وقت غیر ضروری تعظیم کا اظہار کرتا تو آپ اسے ناپسند فرماتے.“ (Life of Mahomet by Washington Irving, London Henery G.Bohn, York Street, Covent Garden 1850.Page:199) پھر سرولیم میور (Sir William Mir) یہ بھی ایک مستشرق ہے اور کافی کچھ خلاف بھی لکھتا ہے.سی بھی لکھتا ہے کہ: اپنا ہر ایک کام مکمل کرتے اور کسی چیز پر اُس وقت تک ہاتھ نہ ڈالتے جب تک وہ آپ کے بالکل سامنے پڑی نہ ہوتی.معاشرتی میل جول میں بھی آپ کا یہی طریق رہتا.جب آپ کسی کے ساتھ بات کرنے کے لئے اپنا رخ موڑتے تو آپ آدھا نہ مڑتے بلکہ پورا چہرہ اور پورا جسم اُس شخص کی طرف پھیر لیتے.کسی سے مصافحہ کرتے وقت آپ اپنا ہاتھ پہلے نہ کھینچتے.اسی طرح کسی اجنبی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے درمیان میں نہ چھوڑتے اور اگلے شخص کی بات پوری سنتے.آپ کی زندگی پر آپ کی خاندانی سادگی غالب تھی.آپ کو ہر کام خود کرنے کی عادت تھی.جب بھی آپ صدقہ دیتے تو سوالی کو اپنے ہاتھ سے دیتے.گھر یلو کام کاج میں اپنی بیویوں کا ہاتھ بٹاتے.پھر لکھتا ہے : ” آپ تک ہر کس و ناکس کی پہنچ ہوتی جیسے دریا کی پہنچ کنارے تک ہوتی ہے.باہر سے آئے ہوئے وفود کو عزت و احترام سے خوش آمدید کہتے.ان وفود کی آمد اور دیگر حکومتی معاملات کے متعلق تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اندر ایک قابل حکمران کی تمام صلاحیتیں موجود تھیں.سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ آپ لکھنا نہیں جانتے تھے.“ 66 (The Life of Mahomet by by William Muir, London: Smith, Elder and Co.15 Waterloo Place 1878 pp.524-525) پھر یہی ولیم میور لکھتا ہے کہ : " ایک اہم خوبی وہ خوش خلقی اور وہ خیال تھا جو آپ اپنے معمولی سے معمولی پیرو کا رکا رکھا کرتے.حیا، شفقت، صبر، سخاوت، عاجزی آپ کے اخلاق کے نمایاں پہلو تھے
خطبات مسرور جلد دہم 602 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 5 اکتوبر 2012ء اور ان کے باعث آپ اپنے ماحول میں ہر شخص کو اپنا گرویدہ کر لیتے.انکار کرنا آپ کو نا پسند تھا.اگر کسی سوالی کی فریاد پوری نہ کر پاتے تو خاموش رہنے کو ترجیح دیتے.کبھی یہ نہیں سنا کہ آپ نے کسی کی دعوت رڈ کی ہو خواہ وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو.اور کبھی یہ نہیں ہوا کہ آپ نے کسی کا پیش کیا ہوا تحفہ ردکر دیا ہو خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو.آپ کی ایک نرالی خوبی یہ تھی کہ آپ کی محفل میں موجود ہر شخص کو یہ خیال ہوتا کہ وہی اہم ترین مہمان ہے.اگر آپ کسی کو اپنی کامیابی پر خوش پاتے تو گر مجوشی سے اس سے مصافحہ کرتے اور گلے لگاتے اور محروموں اور تکلیف میں گھرے افراد سے بڑی نرمی سے ہمدردی کا اظہار کرتے.بچوں سے بہت شفقت سے پیش آتے اور راہ کھیلتے بچوں کو سلام کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے.وہ قحط کے ایام میں بھی دوسروں کو اپنے کھانے میں شریک کرتے اور ہر ایک کی آسانی کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہتے.ایک نرم اور مہربان طبیعت آپ کے تمام خواص میں نمایاں نظر آتی تھی.محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک وفادار دوست تھا.اس نے ابوبکر سے بھائی سے بڑھ کر محبت کی.علی سے پدرانہ شفقت کی.زید، جو آزاد کردہ غلام تھا، کو اس شفیق نبی سے اس قدر لگاؤ تھا کہ اس نے اپنے والد کے ساتھ جانے کی بجائے مکہ میں رہنے کو تر جیح دی.اپنے نگران کا دامن پکڑتے ہوئے اس نے کہا، ہمیں آپ کو نہیں چھوڑوں گا، آپ ہی میرے ماں اور باپ ہیں.دوستی کا یہ تعلق زید کی وفات تک رہا اور پھر زید کے بیٹے اسامہ سے بھی اس کے والد کی وجہ سے آپ نے ہمیشہ بہت مشفقانہ سلوک کیا.عثمان اور عمر بھی آپ سے ایک خاص تعلق رکھتے تھے.آپ نے حدیبیہ کے مقام پر بیعت رضوان کے وقت اپنے محصور داماد کے دفاع کے لئے جان تک دینے کا جو عہد کیا وہ اسی سچی دوستی کی ایک مثال ہے.دیگر بہت سے مواقع ہیں جو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی غیر متزلزل محبت کے طور پر پیش کئے جاسکتے ہیں.کسی بھی موقع پر یہ محبت بے محل نہ تھی ، بلکہ ہر واقعہ اسی گرمجوش محبت کا آئینہ دار ہے.“ پھر لکھتا ہے کہ اپنی طاقت کے عروج پر بھی آپ منصف اور معتدل رہے.آپ اپنے اُن دشمنوں سے نرمی میں ذرہ بھی کمی نہ کرتے جو آپ کے دعاوی کو بخوشی قبول کر لیتے.مکہ والوں کی طویل اور سرکش ایذارسانیاں اس بات پر منتج ہونی چاہئے تھیں کہ فاتح مکہ اپنے غیظ و غضب میں آگ اور خون کی ہولی کھیلتا.لیکن محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے چند مجرموں کے علاوہ عام معافی کا اعلان کردیا اور ماضی کی تمام تلخ یادوں کو یکسر بھلا دیا.ان کے تمام استہزاء، گستاخیوں اور ظلم و ستم کے باوجود آپ نے اپنے سخت ترین مخالفین سے بھی احسان کا سلوک کیا.مدینہ میں عبداللہ اور دیگر منحرف ساتھی (یعنی جو منافقین تھے )
خطبات مسرور جلد دہم 603 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5اکتوبر 2012ء جو کہ سالہا سال سے آپ کے منصوبوں میں روکیں ڈالتے اور آپ کی حاکمیت میں مزاحم ہوتے رہے، ان سے درگزر کرنا بھی ایک روشن مثال ہے.اسی طرح وہ نرمی جو آپ نے ان قبائل سے برتی جو آپ کے سامنے سرنگوں تھے.اور قبل ازیں جو فتوحات میں بھی شدید مخالف رہے تھے، ان سے بھی نرمی کا سلوک فرمایا.“ (The Life of Mahomet by by William Muir, London: Smith, Elder and Co.15 Waterloo Place 1878 pp.525-526) پھر یہی ولیم میورلکھتا ہے کہ : یہ محمد کی سچائی کے لئے ایک تائیدی نشان تھا ( کئی جگہ پر مخالفت میں بھی ، اور قرآن کے بارے میں بھی لکھتا ہے، لیکن یہاں لکھ رہا ہے ) کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی سچائی کے لئے ایک تائیدی نشان تھا کہ جو بھی آپ پر اول اول ایمان لائے وہ اعلیٰ کردار کے مالک تھے.بلکہ آپ کے قریبی دوست اور گھر کے افراد بھی ، جو کہ آپ کی ذاتی زندگی سے اچھی طرح واقف تھے آپ کے کردار میں وہ خامیاں نہ دیکھ سکے جو عام طور پر ایک منافق دھوکہ باز کے گھر یلو تعلق اور باہر کے رویہ میں ہوتی ہیں.“ (The Life of Mahomet by by William Muir, London: Smith, Elder and Co.15 Waterloo Place 1878 pp.60) Sir Thomas Carlyle آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمّی ہونے کے متعلق لکھتے ہیں کہ : ایک اور بات ہمیں ہر گز بھولنی نہیں چاہئے کہ اُسے کسی مدرسہ کی تعلیم میسر نہ تھی.اس چیز کو جسے ہم سکول لرنگ(School Learning) کہتے ہیں، ایسا کچھ بھی نہیں تھا.لکھنے کا فن تو عرب میں بالکل نیا تھا.یہ رائے بالکل سچی معلوم ہوتی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کبھی خود نہ لکھ سکا.اس کی تمام تر تعلیم صحراء کی بودو باش اور اس کے تجربات کے گرد گھومتی ہے.اس لا محدود کائنات ، اپنے تاریک علاقہ اور اپنی انہی مادی آنکھوں اور خیالات سے وہ کیا کچھ حاصل کر سکتے تھے؟ مزید حیرت ہوتی ہے جب دیکھا جائے کہ کتا بیں بھی میسر نہ تھیں.عرب کے تاریک بیابان میں سنی سنائی باتوں اور اپنے ذاتی مشاہدات کے علاوہ وہ کچھ بھی علم نہ رکھتے تھے.وہ حکمت کی باتیں جو آپ سے پہلے موجود تھیں یا عرب کے علاوہ دوسرے علاقہ میں موجود تھیں، ان تک رسائی نہ ہونے کے باعث وہ آپ کے لئے نہ ہونے کے برابر تھیں.ایسے حکام اور علماء میں سے کسی نے اس عظیم انسان سے براہ راست مکالمہ نہیں کیا.وہ اس بیابان میں تن تنہا تھے اور یونہی قدرت اور اپنی سوچوں کے محور میں پروان چڑھا.“ (The Hero As Prophet Mahomet: Islam by Thomas Carlyle, Idarah-i- Adabiyat-i- Delli India 2009 page: 12-13)
خطبات مسرور جلد دہم 604 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 5 اکتوبر 2012ء پھر آپ کی شادی کے بارے میں اور آپ کے گھر یلو تعلقات کے بارہ میں لکھتا ہے کہ وہ کیسے خدیجہ کا ساتھی بنا؟ کیسے ایک امیر بیوہ کے کاروباری امور کا مہتم بنا اور سفر کر کے شام کے میلوں میں شرکت کی؟ اُس نے یہ سب کچھ کیسے کر لیا ؟ ہر ایک کو بخوبی علم ہے کہ اُس نے یہ انتہائی وفاداری اور مہارت کے ساتھ کیا.خدیجہ ( رضی اللہ عنہا) کے دل میں اُن کا احترام اور ان کے لئے شکر کے جذبات کیونکر پیدا ہوئے؟ ان دونوں کی شادی کی داستان، جیسا کہ عرب کے مصنفین نے ذکر کیا ہے، بڑی دلکش اور قابل فہم ہے.محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی عمر 25 سال تھی اور خدیجہ کی عمر 40 سال تھی.پھر لکھتا ہے کہ ” معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس محسنہ کے ساتھ انتہائی پیار بھری، پرسکون اور بھر پور زندگی بسر کی.وہ خدیجہ سے حقیقی پیار کرتے تھے اور صرف اُسی کے تھے.اس کو جھوٹا نبی کہنے میں یہ حقیقت روک ہے کہ آپ نے زندگی کا یہ دور اس انداز سے گزارا کہ اس پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا.یہ دور انتہائی سادہ اور پرسکون تھا یہاں تک کہ آپ کی جوانی کے دن گزر گئے.“ 66 (The Hero As Prophet Mahomet: Islam by Thomas Carlyle, Idarah-i- Adabiyat-i- Delli India 2009 page:14) پھر Thomas Carlyle ہی لکھتے ہیں کہ : ”ہم لوگوں یعنی عیسائیوں میں جو یہ بات مشہور ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک پرفن اور فطرتی شخص اور جھوٹے دعویدار نبوت تھے اور ان کا مذہب دیوانگی اور خام خیالی کا ایک تو وہ ہے ، اب یہ سب باتیں لوگوں کے نزدیک غلط ٹھہرتی چلی جاتی ہیں“.کہتا ہے ”جو جھوٹ باتیں متعصب عیسائیوں نے اس انسان یعنی (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نسبت بنائی تھیں اب وہ الزام قطعا ہماری روسیاہی کا باعث ہے اور جو باتیں اس انسان ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنی زبان سے نکالی تھیں، بارہ سو برس سے اٹھارہ کروڑ آدمیوں کے لئے بمنزلہ ہدایت کے قائم ہیں.( جب یہ انیسویں صدی میں تھا، اُس وقت کی باتیں ہیں ، اس وقت جتنے آدمی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتقادر کھتے ہیں اس سے بڑھ کر اور کسی کے کلام پر اس زمانے کے لوگ یقین نہیں رکھتے.میرے نزدیک اس خیال سے بدتر اور نا خدا پرستی کا کوئی دوسرا خیال نہیں ہے کہ ایک جھوٹے آدمی نے یہ مذہب پھیلایا.( یعنی یہ بالکل غلط چیز ہے ).(The Hero As Prophet Mahomet: Islam by Thomas Adabiyat-i- Delli India 2009 page:3) Idarah-i-
خطبات مسرور جلد دہم 605 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5اکتوبر 2012ء پھر ایک فرینچ فلاسفر لا مانٹین (Lamartine ) اپنی کتاب 'ہسٹری آف ٹرکی (History of Turkey) میں لکھتا ہے کہ : اگر کسی شخص کی قابلیت کو پر کھنے کیلئے تین معیار مقرر کئے جائیں کہ اُس شخص کا مقصد کتنا عظیم ہے، اُس کے پاس ذرائع کتنے محدود ہیں اور اس کے نتائج کتنے عظیم الشان ہیں تو آج کون ایسا شخص ملے گا جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے مقابلہ کرنے کی جسارت کرے.دنیا کی شہرہ آفاق شخصیات نے صرف چند فوجوں، قوانین اور سلطنتوں کو شکست دی.اور انہوں نے محض دنیاوی حکومتوں کا قیام کیا اور اُن میں سے بھی بعض طاقتیں اُن کی آنکھوں کے سامنے ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو گئیں.مگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے نہ صرف دنیا کی فوجوں، قوانین ، حکومتوں، مختلف اقوام اور نسلوں بلکہ دنیا کی کل آبادی کے ایک تہائی کو یکجا کر دیا.مزید برآں اُس نے قربانگاہوں، خداؤں ، مذاہب، عقائد،افکار اور روحوں کی تجدید کی.محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بنیاد صرف ایک کتاب تھی جس کا حرف حرف قانون بن گیا.اُس شخص نے ہر زبان اور ہر نسل کو ایک روحانی تشخص سے نوازا.پھر لکھتا ہے : "محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک فلسفہ دان، خطیب، پیغمبر، قانون دان، جنگجو، افکار پر فتح پانے والا، عقلی تعلیمات کی تجدید کرنے والا ، بیبیوں ظاہری حکومتوں اور ایک روحانی حکومت کو قائم کرنے والا شخص تھا.انسانی عظمت کو پر کھنے کا کوئی بھی معیار مقرر کر لیں ، کیا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بڑھ کر کبھی کوئی عظیم شخص پیدا ہوا ؟“ (History of Turkey by A.De Lamartine, New York: D.Appleton and Company, 346 & 348 Broadway, 1855.vol.1 pp.154-155) جان ڈیون پورٹ لکھتا ہے کہ : ”کیا یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے کہ جس شخص نے حقیر و ذلیل بت پرستی کے بدلے، جس میں اُس کے ہم وطن یعنی اہل عرب مبتلا تھے ، خدائے برحق کی پرستش قائم کر کے بڑی بڑی ہمیشہ رہنے والی اصلاحیں کیں ، وہ جھوٹا نبی تھا ؟ کیا ہم اس سرگرم اور پر جوش مصلح کو فریبی ٹھہر سکتے ہیں اور یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسے شخص کی تمام کارروائیاں مکر پر مبنی تھیں؟ نہیں، ایسا نہیں کہہ سکتے.بیشک محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) بجز دلی نیک نیتی اور ایمانداری کے اور کسی سبب سے ایسے استقلال کے ساتھ ابتدائے نزول وحی سے اخیر دم تک مستعد نہیں رہ سکتے تھے.جو لوگ ہر وقت اُن کے پاس رہتے تھے اور جو اُن سے بہت کچھ ربط ضبط رکھتے تھے اُن کو بھی کبھی آپ کی ریا کاری کا شبہ نہیں ہوا.“ (An Apology for Mohammed and the Koran by John Devenport, page 133-134, Chapter: The Koran, printed by J.Davy and Sons, London, 1882)
خطبات مسرور جلد دہم 606 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 5 اکتوبر 2012ء پھر لکھتا ہے کہ : ” یہ بات یقینی طور پر کامل سچائی کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اگر مغربی شہزادے مسلمان مجاہدین اور ترکوں کی جگہ ایشیا کے حکمران ہو گئے ہوتے تو مسلمانوں کے ساتھ اس مذہبی رواداری کا سلوک نہ کرتے جو مسلمانوں نے عیسائیت کے ساتھ کیا.کیونکہ عیسائیت نے تو اپنے ان ہم مذہبوں کو نہایت تعصب اور ظلم کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنایا جن کے ساتھ اُن کے مذہبی اختلافات تھے.(An Apology for Mohammed and the Koran by John Devenport, page 82,Chapter: The Koran, printed by J.Davy and Sons, London, 1882) پھر یہی جان ڈیون پورٹ لکھتے ہیں کہ : ” اس میں کچھ شبہ نہیں کہ تمام منصفوں اور فاتحوں میں ایک بھی ایسا نہیں جس کی سوانح حیات محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سوانح حیات سے زیادہ مفصل اور سچی ہو“.(An Apology for Mohammed and the Koran by John Devenport, page:1 Chapter: The Koran, printed by J.Davy and Sons, London, 1882) پھر مائیکل ایچ ہارٹ (Michael H.Hart) اپنی کتاب A Ranking of the" "Most Influential Persons in History میں لکھتے ہیں کہ : ”دنیا پر اثر انداز ہونے والے لوگوں میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا نام پہلے نمبر کیلئے منتخب کرنا بعض پڑھنے والوں کو شاید حیرت زدہ کرے اور بعض اس پر سوال بھی اُٹھا ئیں گے.لیکن تاریخ میں وہ واحد شخص تھا جو کہ مذہبی اور دنیاوی ہر دو سطح پر انتہائی کامیاب تھا.سوال پیدا ہوتا ہے کہ کوئی اس بات کا کیسے اندازہ کرے کہ انسانی تاریخ پر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کس طرح اثر انداز ہوئے؟ دیگر مذاہب کی طرح اسلام نے بھی اپنے پیروکاروں کی زندگیوں پر ایک گہرا اثر چھوڑا ہے.یہی وجہ ہے کہ دنیا میں پائے جانے والے عظیم مذاہب کے بانیوں کو اس کتاب میں اہم مقام دیا گیا ہے.لکھتا ہے کہ ”ایک اندازے کے مطابق دنیا میں عیسائیوں کی تعداد مسلمانوں کی تعداد سے دو گنا ہے.( جب اُس نے لکھا تھا اُس وقت کی بات ہے ) اس لحاظ سے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو عیسی سے پہلے رکھنا شاید آپ کو عجیب لگے.لیکن میرے اس فیصلہ کے پیچھے دو بڑی وجوہات ہیں.پہلی وجہ یہ ہے کہ عیسائیت کے فروغ میں عیسی (علیہ السلام) کے کردار کی نسبت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اسلام کے فروغ میں کہیں زیادہ اہم کردار تھا.گو کہ عیسی (علیہ السلام) ہی عیسائیت کے روحانی اور اخلاقی ضابطہ حیات (یعنی وہ عیسائی ضوابط جن کا یہودیت سے اختلاف ہے) کے موجب ہوئے مگر عیسائیت کو فروغ دینے کے حوالہ سے سینٹ پال نے بنیادی کردار ادا کیا.عیسائیت کو موجودہ شکل
خطبات مسرور جلد دہم 607 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5اکتوبر 2012ء دینے والا اور نئے عہد نامہ کے ایک بڑے حصے کو لکھنے والا سینٹ پال ہی تھا.پھر لکھتا ہے : ” جبکہ مذہب اسلام اور اس میں موجود تمام اخلاقی و مذہبی اصولوں کے ذمہ دار محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تھے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس نئے مذہب کو خود شکل دی اور اسلامی تعلیمات کے نفاذ میں بنیادی کردار ادا کیا.علاوہ ازیں مسلمانوں کے مقدس صحیفہ یعنی قرآن جو کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بصیرت پر مشتمل ایک کتاب تھی کو بھی لکھنے والا محد تھا.( یعنی جو مخالف ہے اس نے یہ تو بہر حال لکھنا ہے ) کہتا ہے کہ ”جس کے بارے میں وہ ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن پر وحی کیا گیا.قرآن کے ایک بڑے حصہ کومحمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زندگی میں ہی نقل کر کے محفوظ کر لیا گیا تھا.اور آپ کی وفات کے کچھ عرصہ بعد ہی اس کو مجموعہ کی شکل میں محفوظ کر لیا گیا.اس لئے قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی تعلیمات اور تصورات کی حقیقی عکاسی کرتا ہے اور ایک مکتبہ فکر کے مطابق وہ آپ کے ہی الفاظ ہیں.جبکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیمات کا اس طرح سے کوئی مجموعہ نہیں ہے.مسلمانوں کے نزدیک قرآن کی وہی اہمیت ہے جو عیسائیوں کے نزدیک بائبل کی ہے.اس لئے قرآن کے ذریعہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) لوگوں پر بھر پور طریق سے اثر انداز ہوئے.اغلب گمان یہی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اسلام پر زیادہ اثر ہے بہ نسبت اس اثر کے جو عیسی (علیہ السلام ) اور سینٹ پال نے مجموعی طور پر عیسائیت پر ڈالا.خالصتاً مذہبی نقطہ نظر سے اگر دیکھا جائے تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) بھی انسانی تاریخ پر اتنا ہی اثر انداز ہوئے جتنا کہ عیسی (علیہ السلام )‘“.(اس کی اپنی رائے ہے لیکن بہر حال یہ تسلیم کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمبر ایک ہے.اور پھر اس نے آگے یہ بھی لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جہاں مذہبی سر براہ تھے وہاں دنیاوی حکومت کے سر براہ بھی تھے لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کو یہ مقام نہیں ملا.پس ہر معاملے میں آپ کا اُسوہ آپ کی ذات کو مزید روشن کرتے ہوئے چمکا کر پیش کرتا ہے.(The 100 A Ranking of the most Insfluential Persons in History by Michael H.Hart page:33,38-39) پھر Karen Armstrong ( کیرن آرم سٹرانگ) Muhammad - A Biography of the Prophet میں تحریر کرتی ہے کہ : محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو بنیادی توحید پر مبنی روحانیت کے قیام کے لئے عملاً صفر سے کام کا
خطبات مسرور جلد دہم 608 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 5 اکتوبر 2012ء آغاز کرنا پڑا.جب آپ نے اپنے مشن کا آغاز کیا تو ناممکن تھا کہ کوئی آپ کو اپنے مشن پر کام کرنے کا موقع فراہم کرتا.عرب قوم توحید کے لئے بالکل تیار نہ تھی.وہ لوگ ابھی اس اعلیٰ معیار کے نظریہ ( یعنی توحید ) کے قابل نہ ہوئے تھے.در حقیقت اس متشدد اور خوفناک معاشرہ میں اس نظریہ کو متعارف کروانا انتہائی خطرناک ہوسکتا تھا اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) یقیناً بہت ہی خوش قسمت ہوتے اگر اس معاشرہ میں اپنی زندگی کو بچا پاتے.در حقیقت محمد کی جان اکثر خطرہ میں گھری رہتی اور ان کا بچ جانا قریب قریب ایک معجزہ تھا ، پر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہی کامیاب ہوئے.اپنی زندگی کے اختتام تک محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے قبائلی تشدد کی پرانی روایت کا قلع قمع کر دیا اور عرب معاشرہ کے لئے لادینیت کوئی مسئلہ نہ رہا.اب عرب قوم اپنی تاریخ کے ایک نئے دور میں داخل ہونے کے لئے تیار تھی.(Muhammad A Biography of the Prophet by Karen Armstrong, Page 53,54 Published by Book Readers International Quetta Pakistan 2004) پھر کیرن آرم سٹرانگ ہی لکھتی ہیں کہ : " آخر یہ مغرب ہی تھا نہ کہ اسلام ، (عیسائیت کے بارے میں ، اپنے مغرب کے بارے میں لکھ رہی ہیں) آخر یہ مغرب ہی تھا نہ کہ اسلام، جس نے مذہبی مباحثات پر پابندی لگائی.صلیبی جنگوں کے وقت تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یورپ دوسروں کے نظریات کو دبانے کی آرزو میں جنونی ہو چکا تھا اور جس جوش سے اس نے اپنے مخالفین کو سزائیں دی ہیں، مذہب کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی.اختلاف رائے کرنے والوں پر مظالم، Protestants پر Catholics کے مظالم اور اسی طرح Catholics پر Protestants کے مظالم کی بنیاد ان پیچیدہ مذہبی عقائد پر تھی جن کی اجازت یہودیت اور اسلام نے ذاتی معاملات میں اختیاری طور پر دی ہے.عیسائی ملحدانہ عقائد کا یہودیت اور اسلام سے کوئی تعلق نہیں جن کے مطابق (عیسائی مذہب ) الوہیت کے بارے میں انسانی تصورات کو نا قابل قبول حد تک لے جاتا ہے بلکہ اسے مشرکانہ بنادیتا ہے.“ (Muhammad- A Biography of the Prophet by Karen Armstrong, Page:27 Published by Book Readers International Quetta Pakistan 2004) پھر اپنی بسانٹ (Annie Besant) اپنی کتاب The Life and Teachings" Of Muhammad میں لکھتی ہے کہ : ” ایک ایسے شخص کیلئے جس نے عرب کے عظیم نبی کی زندگی اور اس کے کردار کا مطالعہ کیا ہو اور جو جانتا ہو کہ اُس نبی نے کیا تعلیم دی اور کس طرح اُس نے اپنی زندگی گزاری، اس کیلئے ناممکن ہے کہ وہ خدا کے انبیاء میں سے اس عظیم نبی کی تعظیم نہ کرے.میں جو باتیں
609 خطبات مسرور جلد دہم خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5اکتوبر 2012ء کہہ رہی ہوں اُن کے متعلق بہت لوگوں کو شاید پہلے سے علم ہو گا لیکن میں جب بھی ان باتوں کو پڑھتی ہوں تو مجھے اس عربی استاد کی تعظیم کیلئے ایک نیا احساس پیدا ہوتا ہے اور اُس کی تعریف کا ایک نیارنگ نظر آتا ہے“.(The Life and Teachings of Muhammad by Anni Besant (Lecture 1) Page 2, Theosophical Publishing House Chennai, India 1932) پھر Ruth Cranston ( روتھ کرینسٹین ) World Faith ( ورلڈ فیتھ ) میں لکھتی ہیں کہ : محمد عربی (صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی جنگ یا خونریزی کا آغاز نہیں کیا.ہر جنگ جو انہوں نے لڑی، مدافعانہ تھی.وہ اگر لڑے تو اپنی بقا کو برقرار رکھنے کے لئے اور ایسے اسلحے اور طریق سے لڑے جو اُس زمانے کا رواج تھا.یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ چودہ کروڑ عیسائیوں میں سے (1949ء میں یہ کتاب چھپی تھی جنہوں نے حال ہی میں ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد انسانوں کو ایک بم سے ہلاک کر دیا ہو، کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں جو ایک ایسے لیڈر پر شک کی نظر ڈال سکے جس نے اپنی تمام جنگوں کے بدترین حالات میں بھی صرف پانچ یا چھ سو افراد کو تہ تیغ کیا ہو.عرب کے نبی کے ہاتھوں ساتویں صدی کے تاریکی کے دور میں جب لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہوں ، ہونے والی ان ہلاکتوں کا آج کی روشن بیسویں صدی کی ہلاکتوں سے مقابلہ کرنا ایک حماقت کے سوا کچھ نہیں.اس بیان کی تو حاجت ہی نہیں جو قتل انگوزیشن (Inquisition) اور صلیبی جنگوں کے زمانے میں ہوئے جب عیسائی جنگجوؤں نے اس بات کو ریکارڈ کیا کہ وہ ان بے دینوں کی کٹی پھٹی لاشوں کے درمیان ٹخنے ٹخنے خون میں پھر رہے تھے“.(World Faith by Ruth Cranston, Haper and Row Publishers, New York, 1949, page 155) پھر Godfrey Higgins ( گاڈ فرے ہیگنز ) لکھتے ہیں کہ : ”اس بات سے زیادہ عام طور پر کوئی بات سننے میں نہیں آتی کہ عیسائی پادری محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مذہب کو اُس کے تعصب اور غیر رواداری کی وجہ سے گالیاں دیتے ہیں، عجیب یقین دہانی اور منافقت ہے یہ.کون تھا جس نے سپین سے ان مسلمانوں کو جو عیسائی ہو چکے تھے، بھگایا تھا کیونکہ وہ سچے عیسائی نہ تھے؟ اور کون تھا جس نے میکسیکو اور پیرو میں لاکھوں لوگوں کو تہ تیغ کر دیا تھا اور اُن کو غلام بنالیا تھا کیونکہ وہ عیسائی نہ تھے؟ اور کیا ہی عمدہ اور مختلف نمونہ تھا جو مسلمانوں نے یونان میں دکھایا.صدیوں تک عیسائیوں کو اُن کے مذہب، اُن کے پادریوں، لاٹ پادریوں اور راہبوں اور اُن کے گرجا گھروں کو اپنی جا گیر پر پر امن طور سے رہنے دیا.“ (An Apology for The Life And Character of The Celebrated Prophet of Arabia, Called Mohamed by Godfrey Higgins, page:51, London 1829)
خطبات مسرور جلد دہم 610 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 5 اکتوبر 2012ء پس یہ مقابلہ یہ کر رہا ہے عیسائیوں اور مسلمانوں کا.پھر یہی گاڈ فرے آگے لکھتے ہے کہ : ” خلفائے اسلام کی تمام تر تاریخ میں انکوزیشن (Inquisition) جیسی بد نام چیز سے نصف سے بھی کم بد نام چیز ہمیں نہیں ملتی.کوئی ایک واقعہ بھی کسی کو مذہبی اختلاف کی بنا پر جلا دینے یا کسی کو محض اس وجہ سے موت کی سزا دینے کا نہیں ہوا کہ مذہب اسلام کو قبول کیوں نہیں کرتا ؟“ (An Apology for The Life And Character of The Celbrated Prophet of Arabia, Called Mohamed by Godfrey Higgins, page:52, London 1829) یہ اُس تعلیم کا اثر تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو دی تھی.پھر ہسٹری آف دی سیراسان ایمپائر (History of the Saracen Empire) میں ایڈورڈ گبن (Edward Gibbon) لکھتے ہیں کہ : "آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مذہب کی تبلیغ کے بجائے اُس کا دوام ( یعنی ہمیشہ قائم رہنا ) ہماری حیرت کا موجب ہے.حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مکہ اور مدینہ میں جو خالص اور مکمل نقش جمایا وہ بارہ صدیوں کے انقلاب کے بعد بھی قرآن کے انڈین، افریقی اور ترک نو معتقدوں نے ابھی تک محفوظ رکھا ہوا ہے.مریدان محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے مذہب اور عقیدت کو ایک انسان کے تصور سے باندھنے کی آزمائش اور وسوسے کے مقابل پرڈٹے رہے.اسلام کا سادہ اور نا قابل تبدیل اقرار یہ ہے کہ میں ایک خدا اور خدا کے رسول محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر ایمان لاتا ہوں.یعنی یہ ہے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله ” خدا کی یہ ذہنی تصویر بگڑ کر مسلمانوں میں کوئی قابلِ دید بت نہیں بنی (یعنی یہ تصویر تھی خدا تعالیٰ کی جو مسلمانوں میں بت نہیں بنی ).پیغمبر اسلام کے اعزازات نے انسانی صفت کے معیار کی حدود سے تجاوز نہیں کیا اور ان کے زندہ فرمودات نے ان کے پیروکاروں کے شکر اور جذبہ احسان کو عقل اور مذہب کی حدود کے اندر رکھا ہوا ہے.“ (History of the Sarasen Empire by Edward Gibbon, Alex Murray and Son, London, 1870, page 54) اور وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ اس کے مقابلے میں عیسائیوں نے بندے کو خدا بنالیا.اللہ کرے کہ دنیا اس عظیم ترین انسان کے مقام کو سمجھتے ہوئے بجائے لاتعلق رہنے یا مخالفت اور استہزاء کرنے کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن میں پناہ لینے کی کوشش کرے تا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب
خطبات مسرور جلد دہم 611 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5اکتوبر 2012ء سے بچ سکے.دنیا کے نجات دہندہ صرف اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ہر حقیقت پسند منصف اور بچے غیر مسلم کا بھی یہی بیان ہوگا جیسا کہ میں نے آپ کو بہت سارے اقتباس پڑھ کر سنائے اور بے شمار اور بھی ہیں.پہلے انبیاء کی سچائی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے ہی ثابت ہوتی ہے اور آپ کے ذریعہ سے ہی ثابت ہوتی ہے.یہ ہے مقام ختم نبوت جس کا ہر احمدی نے دنیا میں پر چار کرنا ہے اور اس کے لئے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے.اس ضمن میں یہ بھی بتادوں کہ کل سے ربوہ میں ختم نبوت کانفرنس ہو رہی ہے جو آج اس وقت ختم ہو گئی ہوگی ،جس میں سیاسی باتوں اور اخلاق باختہ تقریروں اور احمدیوں کو گالیاں دینے ، حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام کے خلاف مغلظات بکنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا.اور یہ سب کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق اور ختم نبوت کے نام پر ہو رہا ہے.اور سمجھتے یہ ہیں کہ ہم ختم نبوت کا مقام دنیا کو بتا رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے.بہر حال یہ تو اُن کا فعل ہے، جیسا کہ میں نے کہا کہ احمدی کا کام یہ ہے کہ ختم نبوت کی حقیقت کو دنیا کو بتائے اور وہ اسی صورت میں ممکن ہے، جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دنیا میں پہنچائیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.دو ہفتے پہلے کے 21 ستمبر کے خطبہ میں ، میں نے وکلاء کے بارے میں بھی ذکر کیا تھا کہ دنیا کے مسلمان وکلا ء اکٹھے ہوں لیکن مسلمان تو پتہ نہیں اکٹھے ہوتے ہیں کہ نہیں ، ہمارے احمدی وکلاء نے اس بارہ میں پاکستان میں بھی کچھ کام شروع کیا ہے کہ مذہبی جذبات کا خیال اور آزادی رائے کی حدود کے بارے میں کیا کیا جاسکتا ہے، کس حد تک اُن کو محدود کیا جاسکتا ہے.تو بہر حال انہوں نے اس بارے میں کچھ باتیں اکٹھی کی ہیں، کچھ پوائنٹس بنائے ہیں.اور مختلف ملکوں کی عدالتوں کے جو فیصلے ہیں اور جوان کے قانون ہیں، اسی طرح جو بین الاقوامی قانون ہے، اُس کو بھی سامنے رکھ کر کچھ سوال اُٹھائے ہیں، وہ یہاں بھی بھجوائے تھے جو میں نے مختلف ملکوں میں احمدی وکلاء کو بھجوائے ہیں.کیونکہ پاکستان میں ہمارے احمدی وکیل جنہوں نے پہلے یہ توجہ دلائی تھی، انہوں نے ہی بتایا کہ دوسرے مسلمان وکلاء کے ساتھ وہاں بیٹھے ہوئے تھے تو اُن سب وکلاء نے پاکستان میں انہیں یہ کہا کہ اگر یہ کام منظم طور پر کوئی کر سکتا ہے تو جماعت احمد یہ کر سکتی ہے.اس لئے تم لوگ اس سوال کو دنیا میں اُٹھاؤ.بہر حال یہ میں نے دنیا کے مختلف احمدی وکلاء کو بھجوا یا ہے کہ اس پر غور کریں اور بتائیں کہ اس میں کیا کچھ ہو سکتا ہے.اس بارے میں ان کو چاہئے کہ جلد تر غور کریں اور جو بھی رائے بنے وہ مجھے بھجوائیں تا کہ پھر دنیا کے مختلف وکلاء کی جو رائے آئیں، اُن کا آپس میں
612 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5اکتوبر 2012ء خطبات مسرور جلد دہم پینج (Exchange) بھی ہو اور پھر جو رائے قائم ہو اس کے مطابق اگر کوئی عملی کا روائی کرنی ہو تو کی جا سکے.اللہ تعالیٰ ان سب احمدی وکلاء کو بھی تو فیق عطا فرمائے کہ یہ کام جلد کر سکیں.اسی طرح احمدی سیاستدانوں کو جو مختلف ممالک میں ہیں یا سیاستدانوں کے جو قریب ہیں، ان کو بھی اس معاملے کو احسن رنگ میں کسی فورم پر رکھنا چاہئے کہ آزادی رائے کی کوئی حدود مقرر ہونی چاہئیں ورنہ دنیا پہلے سے بھی زیادہ فساد میں مبتلا ہو جائے گی.اسی طرح میں اس حوالے سے ایک دعا کی تحریک بھی کرنا چاہتا ہوں اور کرتا بھی رہتا ہوں کہ مسلم امہ کے لئے آجکل بہت دعا کریں.مسلمان سربراہوں کو اللہ تعالیٰ عقل دے کہ وہ اپنے شہریوں کے خون سے نہ کھیلیں.شہریوں کو عقل دے کہ غلط لیڈروں کا آلہ کار بن کر ایک دوسرے کی گردنیں نہ ماریں.مسلمان حکومتوں کو عقل دے کہ وہ غیروں کا آلہ کار بن کر ایک دوسرے پر حملے نہ کریں.آجکل پھر حملے ہورہے ہیں ترکی اور شام کی آپس میں ٹھنی ہوئی ہے.مسلمان کو مسلمان سے لڑانا اور خود ہر قسم کا فائدہ اُٹھانا، جو طاقتیں مسلمانوں کے خلاف ہیں اُن کا یہی کام ہے اور وہ اس پر آجکل عمل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں.یہ ایجنڈا انہوں نے سب سے پہلے رکھا ہوا ہے.اس چیز کو مسلمان نہیں سمجھ رہے.اللہ تعالیٰ مسلم امہ کو اپنی حفاظت میں رکھے اور ان لوگوں کو عقل دے کہ یہ اس حقیقت کو سمجھیں اور اپنی ذمہ واریوں کو نبھانے والے ہوں.جمعہ کی نماز کے بعد میں کچھ جنازے غائب بھی پڑھاؤں گا.ان میں سے پہلا جنازہ تو مکرم خواجہ ظہور احمد صاحب ابن خواجہ منظور احمد صاحب سرگودھا کا ہے.یہ کوٹ مومن کے رہنے والے تھے.ان کے پڑدادا حاجی امیر دین صاحب کے زمانے میں ان کے خاندان میں احمدیت آئی.انہیں کل رات شہید کر دیا گیا ہے.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ شہید مرحوم کا خاندان تجارت سے منسلک رہا.پہلے کافی لمبا عرصہ کوٹ مومن میں بھی رہے تھے، پھر یہ سرگودھا منتقل ہو گئے اور تاجر لوگ تھے.کل رات کو جیسا کہ میں نے کہا، ان کو شہید کیا گیا ہے.سوانو بجے کے قریب یہ اپنے گھر سے سائیکل پر باہر کسی کام سے نکلے تو وہاں باہر گلی میں پہلے ہی موجود دو نامعلوم افراد موٹر سائیکل پر سوار کھڑے تھے.انہوں نے پستول سے ان پر فائر کیا جو آپ کے دائیں کان کے نیچے گردن پر لگا اور حملہ آور فرار ہو گئے.کسی راہ گیر نے دیکھا تو ریسکیو والوں کو فون کیا.اس پر آپ کو ہسپتال لے جایا جارہا تھا کہ راستے میں وفات ہوگئی.إِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.مرحوم کو مذہبی مخالفت کا لمبے عرصے
خطبات مسرور جلد دہم 613 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 5 اکتوبر 2012ء سے سامنا تھا.اپریل میں اس سال ارد گرد کے مخالف دوکانداروں نے ان کے مالک دوکان سے، جس سے کرائے پر دوکان لی ہوئی تھی، کہا کہ اس کی دوکان خالی کرواؤ لیکن مالک نے انکار کر دیا.پھر مختلف طریقوں سے ان کو تنگ کیا جاتا رہا.ان کی دوکان کے تالے میں کبھی اپیلفی ڈال دیتے تھے یا سیل کر دیتے، جلوس نکالتے تو توڑ پھوڑ ہوتی تھی.بہر حال جو کوششیں تنگ کرنے کی ہوتی تھیں، کرتے رہے لیکن یہ بھی استقامت سے ڈٹے رہے اور اپنے کاروبار کو جاری رکھا.سادگی ان میں بے تحاشا تھی.مالی کشائش کے باوجود چھوٹے موٹے کام کرنے ہوں تو سائیکل کا استعمال کیا کرتے تھے.کسی بھی جماعتی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے اور بڑے نیک نفس انسان تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ان کی اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے.دوسرا جنازہ مکرمہ صاحبزادی امتہ السمیع صاحبہ کا ہے جو حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کی بیٹی اور مکرم صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب کی بیگم تھیں.یہ 3 راکتو بر کو صبح دس بجے ربوہ میں وفات پاگئی ہیں.اِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ 1937ء میں پیدا ہوئیں اور ابتدائی تعلیم قادیان سے حاصل کی.پھر پاکستان آ کے میٹرک کیا.( یہیں آ کے میٹرک کیا ہے.پارٹیشن سے پہلے تو نہیں کیا ہو گا).1952ء میں آپ کا نکاح حضرت مصلح موعود نے اپنے بیٹے مکرم مرزا رفیع احمد صاحب کے ساتھ پڑھایا اور دسمبر 1953 ء میں ان کا رخصتانہ عمل میں آیا.رخصتانے کے بارے میں (آجکل تو بڑا شور شرابا ہوتا ہے اور رسم و رواج بھی بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں ) انہوں نے اپنے بیٹے کو بتایا کہ میری شادی عجیب حالت میں ہوئی ہے کہ جلسہ سالانہ کے دن تھے.28 دسمبر کو جلسہ کے آخری دن شادی ہوئی.جلسہ کے دنوں میں ادھر ہی ڈیوٹی لگی ہوئی تھی.کوئی پروگرام شادی کا نہیں تھا.ڈیوٹی دے کر آئیں تو ان کی اتاں نے کہا کہ صبح تمہاری شادی ہے.کہتی ہیں اُس وقت میرے ہاتھ کالے تھے کیونکہ جلسہ کی ڈیوٹی کی وجہ سے دیگیں دھو کر آ رہی تھیں.تو لڑکیوں نے مل کے میرے ہاتھ دھوئے ، سیاہی دور کی اور اگلے روز بغیر کسی مہندی وغیرہ کے شادی ہوگئی.1991ء میں لندن میں آپ کا بائی پاس آپریشن ہوا تھا.بڑی صابر تھیں جس ڈاکٹر نے آپریشن کیا تھا اُس نے بھی آپ کے صبر کو دیکھ کر کہا کہ میں نے اس وقت اپنا Best Patient دیکھا ہے.اس کا تمہیں ایوارڈ دیتا ہوں کہ اتنا صبر میں نے کسی Patient میں نہیں دیکھا.اس سے پہلے ان کو کینسر بھی ہوا تھا.ہر بیماری کو بڑے صبر اور ہمت اور حو صلے سے انہوں نے برداشت کیا.جلسہ سالانہ میں مہمانوں کی خاص طور پر بہت خدمت کیا کرتی تھیں.مہمانوں سے ان کا گھر بھرارہتا تھا.باوجود مہمانوں کے
خطبات مسر در جلد دہم 614 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 5 اکتوبر 2012ء جلسہ کی ڈیوٹیاں با قاعدہ دیتی رہیں.پھر ان کا ملازموں سے بڑا حسن سلوک تھا ، کبھی کسی کو نہیں ڈانٹا.ان کے بچے کہتے ہیں کہ صدقہ و خیرات میں بھی ہمیں پتہ نہیں لگتا تھا ، بڑی خاموشی سے دیا کرتی تھیں.چھوٹے سائز کا قرآن شریف تھا روزانہ جب موقع ملتا تھا اس کو پڑھتی رہتی تھیں.بچے کہتے ہیں کہ وہ قرآن شریف ہم نے ان کے ہاتھ میں چالیس سال سے دیکھا ہے.خلافت کے ساتھ بھی بڑا وفا کا اور اخلاص کا تعلق تھا اور بچوں کو نصیحت کی کہ اسی میں خیر و برکت ہے، اس کو جاری رکھنا.اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.تیسرا جنازہ مکرم چوہدری خالد احمد صاحب کا ہے جو چوہدری محمد شریف صاحب ساہیوال کے بیٹے تھے.20 ستمبر 2012ء کو جرمنی میں ایک حادثے کے نتیجے میں چند دن قومہ میں رہے اور یکم اکتوبر کو اناسی سال کی عمر میں ان کی وفات ہوگئی.اِنَّا لِله وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - 13 اکتوبر 1933 ءکو تلونڈ کی عنایت خان تحصیل پسر ورضلع سیالکوٹ میں یہ پیدا ہوئے.آپ کے والد چوہدری محمد شریف صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.آپ کے والد تقریباً چالیس سال جماعت احمد یہ ساہیوال اور ضلع ساہیوال کے امیر جماعت بھی رہے.ان کے دادا حضرت نواب محمد دین صاحب تھے جنہوں نے ربوہ کی زمین کے حصول کے لئے کافی خدمات سرانجام دیں.آپ چوہدری شاہ نواز صاحب اور مجیدہ شاہ نواز صاحبہ کے داماد تھے جن کو یہاں یو کے میں بھی بہت لوگ جانتے ہیں.آجکل حلقہ ڈیفنس کراچی کے نائب صدر تھے، دس سال سے نائب صدر تھے.مرکزی قضاء بور ڈ ر بوہ کے بھی ممبر رہے ہیں.اسی طرح فضل عمر فاؤنڈیشن کے ڈائر یکٹر بھی تھے.قضاء بورڈ میں بھی رہے.میں بھی قضاء میں کچھ عرصہ قاضی رہا ہوں تو اُس وقت یہ میرے ساتھ بھی کام کرتے رہے ہیں.اللہ کے فضل سے بڑے صائب الرائے تھے.مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے.خلافت کے ساتھ بڑا اخلاص و وفا کا تعلق تھا.ہمیشہ جلسہ پر یہاں آتے تھے.باوجود متمول ہونے کے سادہ مزاج اور ملنسار اور غریب پرور انسان تھے بلکہ ان کے بارے میں کسی نے مجھے ذاتی طور پر بتایا کہ بڑا عرصہ ہو گیا کہ ان کا اپنا ایک بنگالی ملازم تھا.اُس کو انہوں نے کہیں ذرا تھوڑا ساسخت کہ دیا یا اونچی آواز میں بولے تو شام کو جب گھر آئے تو ان کی بیوی نے کہا کہ ہمارا بنگالی نوکر بڑا افسردہ تھا کہ صاحب نے مجھے ڈانٹا ہے.تو بیوی کو کہنے لگے کہ اوہو میں نے تو ایسی بات نہیں کی تھی لیکن پھر بھی میں ابھی اُس سے معافی مانگ لیتا ہوں.اتنی سادگی تھی ان میں.سندھ میں زمینوں پر غیر قوموں کا ، ہندوؤں کا یہ بڑا خیال رکھتے تھے.ان کی وفات کا سن کے سب نے کہا ہے کہ ہم تدفین کے لئے ربوہ بھی
خطبات مسرور جلد دہم 615 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5اکتوبر 2012ء جائیں گے.وہاں زمیندارہ میں لیبر عورتیں کام کرتی ہیں.دیہاتوں میں مرچوں کی یا کپاس وغیرہ کی چنائی ہوتی ہے، تو ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ اُن کی مزدوری جو ہے وہ ان کے خاوندوں کو، مردوں کو نہ دیا کرو.کیونکہ وہ عورتوں کو نہیں دیتے ، بلکہ عورتوں کے ہاتھ میں مزدوری دیا کرو.مینیجر نے مجھے لکھا کہ ان کو ہماری بڑی فکر تھی.سندھ کے حالات بھی ایسے تھے.اگر ہم کسی کام کے لئے گئے ہیں تو جب تک گھر نہ پہنچ جائیں، بار بار فکر سے فون کر کے پوچھتے رہتے تھے.ان کو اپنے عملہ کا بڑا خیال تھا.نہایت عاجز اور نفیس انسان تھے.بیواؤں اور یتیموں کا وظیفہ مقرر کیا ہوا تھا.لیکن عزت نفس کا خیال بھی رکھتے تھے بڑی خاموشی سے امداد کیا کرتے تھے.اپنوں، غیروں ہر ایک کے ساتھ نیک سلوک تھا.ان کی اہلیہ اور دو بیٹے اور ایک بیٹی ہیں.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو بھی ، بچوں کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.جیسا کہ میں نے کہا نماز کے بعد انشاء اللہ یہ سارے جنازے ادا کئے جائیں گے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 26 اکتوبر تا یکم نومبر 2012 جلد 19 شماره 43 صفحه 5 تا 10 )
خطبات مسرور جلد دہم 616 41 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2012ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2012 ء بمطابق 12 را خاء 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - مورڈن - لندن تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے واقعات اور روایات بیان کرتا ہوں تو جس صحابی کا واقعہ بیان ہوتا ہے، اُن کی اولا دیں اور اُن کی نسلیں اپنے خطوط میں اس پر خوشی کا اظہار کرتی ہیں اور دعا کے لئے بھی کہتی ہیں کہ دعا کریں کہ ہم اور ہماری آئندہ نسلیں اس اعزاز کی حفاظت کرنے والے ہوں جو ہمیں ہمارے دادا ، پڑدادا یا پڑنا نا، دادی پڑدادی وغیرہ کو زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے دست مبارک پر بیعت کرنے سے ملا، یا اُنہوں نے وہ زمانہ پایا اور براہ راست امام وقت سے فیض پایا.لیکن ایک واقعہ پر میری حیرت کی انتہا ہوئی، جب میں نے سنا کہ بعض ایسے بھی ہیں جو اپنے بزرگوں پر یہ اعتراض بھی کر دیتے ہیں کہ انہوں نے غلط کیا کہ اپنے ماں باپ کو چھوڑ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آگئے.اُن کے دلوں میں یہ غلط خیالات اُن بزرگوں کے صحیح حالات اور واقعات نہ جاننے کی وجہ سے پیدا ہوئے.اب جبکہ میں نے اُن بزرگوں کے واقعات بیان کرنا شروع کئے ہیں تو ایسے ہی غلط نہی میں مبتلا ایک خاندان یا شخص نے مجھ سے رابطہ کر کے کہا کہ فلاں بزرگ کی روایات بیان کر کے آپ نے اُن کے بارے میں جوا لجھن پیدا کرنے والے بعض سوالات مجھے اٹھتے تھے اُن کو ختم کر دیا ہے.تو یہ واقعات بیان کرنا بعض خاندانوں کے افراد کی غلط فہمیاں جو اُن کو اپنے بزرگوں کے بارے میں پیدا ہو جاتی ہیں، انہیں دور کرنے کا بھی باعث بنتا ہے اور اُن کی نسلوں کو جماعت کے قریب لانے کا بھی باعث بنتا ہے.اس لئے حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کے واقعات بیان کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا جو کچھ حد تک بیان کئے تھے پھر بیچ میں رہ گئے تھے.
خطبات مسرور جلد دہم 617 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2012ء اس لئے میں بھی کہتا رہا ہوں اور مجھ سے پہلے خلفاء بھی خاص طور پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بھی کہتے رہے ہیں کہ انگلی نسلوں کو اپنے بزرگوں کے واقعات اور حالات اور تاریخ کی بجگالی کرتے رہنا چاہئے تا کہ اگلی نسلوں کا بھی جماعت سے مضبوط تعلق پیدا ہو اور ان کی تربیت بھی ہو.یہاں یہ بھی بتا دوں کہ صحابہ کے خاندانوں کے بعض افراد جو جماعت سے دور ہٹ جاتے ہیں، وہ بعض افراد جماعت یا عہد یداروں وغیرہ کے رویہ کی وجہ سے دور ہٹتے ہیں اور پھر نوبت یہاں تک آ جاتی ہے کہ یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہمارے بزرگ غلط تھے.پس ایسے لوگوں کو ذرا ذرا سی بات پر زُود رنجی دکھانے کی بجائے اپنے لئے بھی خدا تعالیٰ سے ہدایت پر قائم رہنے کی دعا مانگنی چاہئے اور جو لوگ وجہ بن رہے ہیں اُن کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے.ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہمارے بزرگوں نے بڑی تحقیق کر کے احمدیت قبول کی تھی، یا اللہ تعالیٰ سے براہ راست رہنمائی حاصل کر کے احمدیت کو قبول کیا تھا.موجودہ نسلیں تو غلط ہوسکتی ہیں کیونکہ اُن کا خدا تعالیٰ سے وہ تعلق نہیں ہے جو پہلوں کا تھا، جو اُن بزرگوں کا تھا، لیکن وہ بزرگ غلط نہیں ہو سکتے.ہمیشہ یاد رکھیں.انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ خالی الذہن ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سیدھے راستے پر چلائے اور کبھی کوئی ایسا موقع پیدا نہ ہو جو انہیں یا ہم میں سے کسی کو بھی دین سے دور لے جانے والا ہو، اللہ تعالیٰ کی رضا سے دور لے جانے والا ہو.ایسے لوگ اگر خود یہ جائزے لیں تو انہیں پتہ چلے گا کہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن کو اُن کی انانیت یا نا سمجھی نے دین کے مقابل پر کھڑا کر کے دین سے دور کر دیا ہے.پس صحابہ کی اولاد میں سے ایسے جو کسی بھی وجہ سے دین سے دور ہو گئے ہیں یا جماعتی نظام سے ور ہو گئے ہیں، جن کے ذاتی تصورات یا خیالات اُن پر حاوی ہو گئے ہیں، انانیت اُن پر حاوی ہوگئی ہے، انہیں چاہئے کہ اپنے لئے ہمیشہ راہ راست پر چلنے کے لئے دعائیں کریں.اپنے بزرگوں کے احسانوں کو یاد کریں جس میں سے سب سے بڑا احسان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان کر ہمارے خون میں اس فیض کو جاری کرنا ہے.اللہ کرے کہ صحابہ کی اولادیں ہمیشہ دین پر قائم رہنے والی ہوں اور اُن کے لئے دعا کرنے والی ہوں ، نہ یہ کہ کسی بھی قسم کا اعتراض اُن کے دل میں پیدا ہو.آج پھر میں اس چھوٹی سی تمہید کے بعد صحابہ کے واقعات بیان کروں گا.پہلا واقعہ اور روایت حضرت محمد فاضل صاحب ولد نور محمد صاحب کی ہے.فرماتے ہیں کہ : ایک رات بعد نماز عشاء میں نے مولوی صاحب (مولوی سلطان حامد صاحب) کی خدمت میں عرض کی کہ مولوی صاحب!
خطبات مسرور جلد دہم 618 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2012ء یہ جو حضرت مرزا صاحب نے مہدویت اور مسیحیت کا دعویٰ کیا ہے.اگر حقیقت میں یہ مدعی صادق ہو.درآنحالیکہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو ہمارے وطن ہی میں مبعوث فرمایا ہے.اگر ہم اُن کی شناخت سے محروم رہ جائیں تو کیا ہم اتنی سی تکلیف بھی گوارا نہیں کر سکتے کہ وہاں جا کر اُن کی زیارت تو کریں ( کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہمارے وطن میں مبعوث فرمایا ہے لیکن پھر بھی ہم شناخت سے محروم رہ جائیں اور کوئی تکلیف نہ کریں کہ اُن کی زیارت کریں.تو ) مولوی صاحب چونکہ سلیم القلب اور حلیم الطبع تھے.(انہوں نے ) سن کر جواباً فرمایا کہ ضرور جانا چاہئے.میں نے اُن سے واثق عہد لے لیا، ( مضبوط عہد لے لیا).مولوی صاحب چلے گئے اور میں سورہا.(وہ تو اس کے بعد ، عہد کرنے کے بعد میری بات سن کے چلے گئے لیکن میں سو گیا.مولوی صاحب اُس مجلس سے اُٹھ کے چلے گئے اور اُس کے بعد کہتے ہیں میں سو گیا.کہتے ہیں اُس وقت ) میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بڑا خوشنما مکان ہے، اس کے غالباً چار دروازے ہیں اور اس کا رُخ جنوب کی طرف ہے اور اُس کی شرقی طرف ایک میدان ہے جس میں ایک بڑا مجمع معززین کا جو سفید پوش اور فلکی صفات معلوم ہوتے ہیں ، حلقہ باندھ کر بیٹھے ہیں، اُن کی تعداد تقریباً ایک صد سے تجاوز ہو گی.اُن کے درمیان میں بیٹھا ہوں.دفعتہ اس مکان کے شرقی دروازے سے ایک نورانی شکل سفید ریش اور سفید دستار بنشروں کی چمک ابھی تک میری آنکھوں کے سامنے ہے، باہر نکلے اور اس جماعت کی طرف رخ کیا ہے.تو اُس جماعت کے درمیان میں میں کھڑا ہوا ہوں.تو اُس نورانی وجود نے میری طرف انگشت شہادت کا اشارہ کر کے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے سارے گناہ بخش دیئے ہیں.معاً میرے دل میں ڈالا گیا کہ آپ یعنی وہ بزرگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.کہتے ہیں اس پر میری زبان پر در و دشریف جاری ہو گیا اور میں بیدار ہو گیا اور میرے دل میں اس قدر سرور پیدا ہوا کہ پھر مجھے نیند نہ آئی.میں نے اُٹھ کر نماز تہجد پڑھ لی اور دل میں یہ کہا کہ کس وقت صبح ہو اور میں مولوی صاحب کو یہ خواب سناؤں.صبح کو جب مولوی صاحب تشریف لائے تو فراغتِ نماز کے بعد میں نے اُن کو یہ خواب سنایا تو انہوں نے سن کر فرمایا کہ تو بڑا خوش قسمت ہے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 7 صفحہ 229-230 روایت حضرت محمد فاضل صاحب) حضرت شیخ اصغر علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کر تبلیغ کے سلسلے میں لوگوں کو اس طرف توجہ دلانا بہت مفید ہوتا ہے کہ نماز عشاء کے بعد سونے سے پہلے تازہ وضو کر کے دو نفل پڑھے جاویں اور اُن میں دعا کی جاوے کہ اے ہمارے مولیٰ ! اگر یہ سلسلہ سچا ہے تو
خطبات مسرور جلد دہم 619 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2012ء ہم پر حقیقت ظاہر کر.کہتے ہیں کہ میں مشرقی افریقہ سن 1900ء میں ملازمت پر جاتے ہوئے اپنے ایک پرانے دوست مسمی نیک محمد صاحب ساکن سرائے عالمگیر ضلع گجرات کو اپنے ملازم کی حیثیت سے ساتھ لے گیا تھا.اُن کو تبلیغ کرتے ہوئے میں نے یہ نسخہ بتایا جو اوپر بیان ہوا ہے.تو انہوں نے یہ عمل کیا اور اللہ تعالیٰ نے اُن کو خواب میں حسب ذیل نظارہ دکھایا کہ وہ اپنے مکان واقع سرائے عالمگیر میں ہیں اور اُن کا والد مرحوم بھی ہے اور جس کو ٹھری میں وہ ہیں وہ حد درجہ روشن ہو گئی ہے اور یہ نظر آ رہا ہے کہ آسمان سے نور کی ایک لہر چل رہی ہے جس نے کوٹھڑی میں نور ہی نور کر دیا ہے.اور معاً ایک بزرگ نہایت خوبصورت ، پاکیزہ شکل ظاہر ہوتے ہیں اور بھائی نیک محمد صاحب کے والد بزرگوار اپنے بیٹے کی طرف مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ یہ امام مہدی ہیں.اور دونوں باپ بیٹا حضور سے ملے ہیں“.ایسے خوشگن نظارے کے بعد اُن کی نیند کھلی اور دن چڑھے انہوں نے مجھے یہ حال بتایا اور اُن کی بیعت کے واسطے خط لکھنے کے واسطے کہا.چنانچہ میں نے اُن کی بیعت کا خط لکھا.خدا تعالیٰ کے فضل سے اُن کا سارا خاندان احمدی ہے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) رجسٹ نمبر 4 صفحہ 167-168 روایت حضرت شیخ اصغر علی صاحب) حضرت ماسٹر مولا بخش صاحب ولد عمر بخش صاحب فرماتے ہیں کہ : میں مدرسہ سنگہونی ریاست پٹیالہ میں ہیڈ ماسٹر تھا.ماہ بھادوں ( جو برسات کے بعد اگست کا مہینہ ہوتا ہے) کہتے ہیں اُس وقت موسمی تعطیلات ہوئیں.مجھے حضور کی خدمت میں حاضر ہونے کا شوق ہوا.میرا بچہ عبدالغفار مرحوم دوسال کا تھا.اُس کے بدن پر پھوڑے نکلے ہوئے تھے جو اچھے نہ ہوتے تھے.میں اُس کی پرواہ نہ کر کے وہاں سے چل پڑا اور سرہند کے مولوی محمد تقی صاحب کو ساتھ لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کی.جب میں تقریباً ایک ماہ یہاں گزار کر گھر پہنچا تو میں نے لڑکے کو بالکل تندرست دیکھا.میری بیوی نے کہا کہ میں نے اس کو نہلا نا چھوڑ دیا تھا، پھوڑے اچھے ہو گئے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 7 صفحہ 146 روایت حضرت مولا بخش صاحب) حضرت قاضی محمد یوسف صاحب فرماتے ہیں : میں نے 1898ء کے قریب ایک رؤیا دیکھی تھی کہ میں ایک بلند پہاڑ کی چوٹی پر رُو بہ مشرق کھڑا ہوں.میرے دونوں ہاتھ پوری وسعت کے ساتھ شانوں کے برابر پھیلے ہوئے ہیں اور میری دائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر سورج کا زریں کرہ بلور کی طرح چمکدار موجود ہے اور چاند کا گرہ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر تین فٹ کی بلندی پر آپہنچا ہے.مشرق سے ایک دریا پہاڑ سے جانب جنوب ہو کر گزرتا ہے اور دریا اور پہاڑ کے درمیان میں وسیع میدان اور سبزہ زار ہے.بعد میں یہ تعبیر کھلی کہ
خطبات مسرور جلد دہم 620 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2012ء پہاڑ سے مراد عظمت اور رفعت ہے.سورج سے مراد حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور چاند سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام بدر کامل ہیں.اور دریا سے مراد علوم آسمانی ہیں جو مشرق کی طرف سے مغرب کو فیضیاب کر دیں گے اور چاند کا تین فٹ دور ہاتھ سے بلند ہونا ظاہر کرتا تھا کہ تین سال کے بعد احمدیت نصیب ہوگی.1898ء میں خواب دیکھی تھی چنانچہ 1901ء میں اُن کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا ہوئی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 7 صفحہ 200-202 روایت حضرت قاضی محمد یوسف صاحب) حضرت شیخ محمد افضل صاحب سابق انسپکٹر پولیس پٹیالہ فرماتے ہیں کہ سن 1900ء میں گرمی کا مہینہ تھا کہ ایک خادم مع ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے قادیان بارادہ بیعت گیا.مغرب کے قریب قادیان پہنچا.قادیان کے کچے مہمان خانے میں بستر رکھ کر مسجد مبارک میں گیا.حضرت مرزا صاحب نماز مغرب کے لئے اندرونِ خانہ سے تشریف لائے.چونکہ کچھ اندھیرا ہو گیا تھا، بہت فربہ معلوم ہوئے.کیونکہ خادم شہری آب و ہوا میں پرورش پایا ہے شیطان نے دل میں ڈالا.موٹا کیوں نہ ہو.(نعوذ باللہ ).حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں ان کو خیالات آئے کیونکہ اندھیرے کی وجہ سے صحیح طرح نظر نہیں آیا.شیطان نے دل میں ڈالا کہ موٹے کیوں نہ ہوں.لوگوں کا ماس خوب کھاتے ہیں.پھر اندر سے بہت سی عورتوں کے بولنے کی آواز میں آئیں.پھر دل میں وسوسہ پیدا ہوا، شیطان نے ڈالا کہ اس کی نیک چلنی کا کیا پتہ ہے.نفس کے ساتھ سخت جدو جہد ہوئی کہ تمام بدن پسینہ پسینہ ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں نفس نئے سے نئے پلید خیالات لا تا تھا.میں نماز میں دعا کرتا رہا کہ اے خدا! اگر یہ شخص سچا ہے تو میں اس کے دروازہ سے نامراد اور ناکام واپس نہ جاؤں.مگر دل کی کوئی اصلاح نہ ہوئی.نماز کے بعد مہمان خانے میں واپس آ گیا اور فیصلہ کیا کہ ایسے حالات میں بیعت کرنا درست نہیں ہے.یہ یاد نہیں کہ عشاء کی نماز پڑھی یا نہیں اور پڑھی تو کہاں پڑھی.مغموم حالت میں سو گیا.رات کے دو یا تین بجے کا وقت ہوگا کہ ایک نص نے مجھ کو گلے سے پکڑ کر چار پائی سے کھڑا کر دیا.یعنی خواب میں یہ نظارہ دیکھ رہے ہیں.اور اس زور سے میرا گلا دبایا کہ جان نکلنے کے قریب ہوگئی اور کہا تو نہیں جانتا کہ مرزا کون شخص ہے؟ یہ وہ شخص ہے جس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور اپنے دعوے میں بالکل صادق ہے.خبر دار اگر کچھ اور خیال کیا اور مجھ کو چار پائی پر دے مارا.اور کہتے ہیں کہ ایسی دہشت والی خواب تھی کہ خوفزدہ ہو کے میری آنکھ کھل گئی.اُس وقت میری آنکھوں میں آنسو تھے اور گلا سخت درد کر رہا تھا جیسے فی الواقعہ کسی نے دبایا ہو.حالانکہ یہ سب خوابی
خطبات مسرور جلد دہم 621 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2012ء کیفیت تھی.دل سے دریافت کیا کہ اب بھی مرزا صاحب کی صداقت میں کوئی شبہ ہے.دل نے کہا بالکل نہیں.صبح کو مرزا صاحب کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ تو کوئی فرشتہ آسمان سے اترا ہے اور معمولی بدن کا انسان ہے اور اس کی ہر حرکت پر جان قربان کرنے کو طبیعت چاہتی تھی.جب حضور علیہ السلام سامنے آ جاتے تھے، بے اختیار رونا آجاتا تھا اور گویا حضور معشوق تھے اور یہ نا چیز عاشق.بڑی خوشی سے بیعت کی اور خدا نے شیطان کے پنجے سے چھڑا کر مسیح کے دروازے پر زبردستی لا ڈالا.ورنہ میرے بگڑنے میں کیا کسر باقی رہی تھی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 7 صفحہ 219-220 روایت حضرت شیخ محمد افضل صاحب) حضرت قائم الدین صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے گاؤں کی مسجد سے نماز پڑھ کر اُٹھا ہوں تو لوگ کہہ رہے ہیں کہ ارے بھائی! ایک ایسی آفت آئی ہے کہ وہ تمام دنیا کو کچٹ کر جائے گی.میں بھی سن کر محسوس کر رہا ہوں کہ یہ تمام ہم لوگوں کو کھا جائے گی.سیاہ رنگ کی لکڑی سی ہے جو کہ تمام کھیتوں میں نظر آ رہی ہے.میں لوگوں کو کہتا ہوں کہ بھائی یہ تو ہم کو ضرور کھا جائے گی.کچھ خدا کو تو یاد کر لو.اُسی وقت ( ان آفتوں میں سے ) ایک دو نے میرے دائیں ہاتھ کی انگلی پکڑ لی تو مجھے فکر ہوا کہ مجھے یہ نہیں چھوڑے گی.تو میں نے اس کیڑے سے پوچھا کہ کیا تم خدا کی طرف سے آئے ہو؟ اُس کیڑے نے انگلی پکڑ لی.اُس نے کہا: ہاں.میں نے کہا کیا مرزا صاحب سچے ہیں یا نہیں ؟ اُس نے کہا ہ بچے ہیں.اگر تُو مرزا صاحب کو نہیں مانے گا تو ہم تمہیں ضرور کھائیں گے کیونکہ وہ صادق ہیں.بار بار تین دفعہ آواز آئی کہ مرزا صاحب سچے ہیں.پھر آنکھ کھل گئی.وہ پھر کہتے ہیں کہ صبح اٹھ کر میں نے اپنی اماں سے پوچھا کہ جمعہ کب ہے؟ انہوں نے کہا: پرسوں.چنانچہ جمعہ کے دن جا کر حضرت صاحب کی میں نے بیعت کر لی.وہ رض (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 7 صفحہ 367 خواب حضرت قائم الدین صاحب بروایت سردار خان گجراتی صاحب ) حضرت اللہ رکھا صاحب ولد میاں امیر بخش صاحب ، یہ دونوں صحابی تھے، فرماتے ہیں کہ : میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خواب میں دیکھا.تصدیق خواب کے لئے میں مع مولوی احمد دین صاحب مرحوم ساکن نارووال قادیان آئے.گرمی کے دن تھے.مہینہ یاد نہیں.مسجد مبارک میں نماز صبح کے بعد حضرت مسیح موعود تشریف فرما ہوئے.مولوی احمد دین مرحوم ساکن نارووال نے اپنی ایک سہ حرفی جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی مبارک کے متعلق اور اُس زمانے کے لوگوں کی شرارتوں کے
خطبات مسرور جلد دہم 622 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2012ء متعلق ذکر تھا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے حضور پڑھی جس میں مولوی صاحب مذکور نے ذکر کیا کہ حضرت ابوبکر صدیق جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی پیٹھ پر اُٹھا کر غار ثور میں لے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُٹھا کر نہیں لے گئے تھے، بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق کے ساتھ چل کر غار میں داخل ہوئے تھے.بعد اس کے حضرت صاحب نے اُن کی کاپی چھپوانے کی اجازت دی اور اندر تشریف لے گئے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 7 صفحہ 151 روایت حضرت اللہ رکھا صاحب) حضرت محمد فاضل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ چونکہ بیعت کے لئے میرے اندر بڑی تڑپ تھی اور اُدھر روحانیت حضرت اقدس علیہ السلام نے اس قدر دل میں تغیر پیدا کیا جس کا بیان اظہار سے بالا تر ہے.حضرت مخدوم الملت کی خدمت میں میں نے عرض کی کہ میری بیعت کے لئے عرض کریں.( یعنی حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کو کہا ).چنانچہ ہر شام کی نماز میں حضرت مخدوم الملت میری بیعت کے لئے عرض کرتے ( یعنی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کو وہ کہتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کریں ) اور حضور علیہ السلام فرماتے کہ کل.اس پر میرے شوق کی آگ بمصداق وعدہ ، ( فارسی کا شعر پڑھتے ہیں کہ ) وصل چون شود نزدیک آتش شوق تیز تر گردد ( یعنی جب محبوب سے ملنے کا وقت نزدیک آجائے تو آ تش شوق جو ہے وہ بھڑکتی جاتی ہے.) کہتے ہیں آخر ہفتے کے بعد میری طبیعت نے یہ فیصلہ کیا کہ بیعت تو خواب میں بھی کر چکا ہوں.وہاں سے بغیر رخصت کے روانہ ہو گیا.( جب کچھ دن بیعت نہیں ہوئی تو میں نے کہا، بیعت تو میں خواب میں کر چکا ہوں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پوچھے بغیر میں واپس اپنے گھر ، اپنے شہر آ گیا.کہتے ہیں جب یہاں گھر پہنچا تو پھر بیقراری اور اضطراب بڑھ گیا.پھر ایک ماہ کے بعد قادیان شریف روانہ ہو پڑا.جب میں حضرت خلیفۃ اسیح الاول کے مطب میں داخل ہوا تو آپ نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور مسکراتے ہوئے فرمایا کہ جو امام وقت کی بغیر اجازت کے جاتا ہے اُس کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے.غرض میں نے اُس وقت سمجھا کہ بغیر اجازت امام الوقت جانا مناسب نہیں.پھر حضرت صاحب کو ملا.پھر میں نے بیعت کے لئے اصرار نہ کیا.دل میں برودت اور تسکین پیدا ہوتی گئی.آخر بائیس روز کے بعد شام کی نماز کے بعد
خطبات مسرور جلد دہم 623 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2012ء جمعرات تھی ، حضور نے خود فرمایا کہ محمد فاضل بیعت کر لو.میں نے بیعت کی اور یہ 1899 ء کا آخریا سن 1900ء کا ابتد ا تھا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 7 صفحہ 233-234 روایت حضرت محمد فاضل صاحب) حضرت میاں غلام احمد صاحب بافندہ بیان کرتے ہیں کہ ”میں پہلے حنفی تھا، پھر وہابی ہوا مگر اطمینان نصیب نہ ہوا.دل میں خواہش رہتی تھی کہ خدا تعالیٰ حضرت امام مہدی کو مبعوث فرمائے تو اُس کی فوج میں شامل ہو جاؤں.ایک دفعہ خواب میں مجھے حضرت اقدس کی شبیہ مبارک دکھلائی گئی.میں قادیان گیا تو ہو بہو وہی نقشہ دیکھا اور بیعت کر لی.“ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 10 صفحہ 103 روایت حضرت میاں غلام محمد صاحب بافنده) حضرت حکیم عبد الرحمن صاحب بیان کرتے ہیں، (اپنے والد صاحب کے بارے میں بیان کیا ) کہ اُن کے بیعت کرنے کا واقعہ اس طرح ہے کہ وہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ یہاں ایک مولوی علا ؤ الدین صاحب رہا کرتے تھے.اُن کی یہاں قریب ہی ایک مسجد بھی ہے.میرے والد صاحب اُن کے پاس پڑھا کرتے تھے.ایک دن عشاء کے وقت وضو کرتے کرتے میرے والد صاحب نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ مولوی صاحب ، آجکل آسمان سے تارے بہت ٹوٹتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ مولوی صاحب نے کہا کہ امام مہدی آنے والا ہے.آسمان پر اُس کی آمد کی خوشیاں منائی جا رہی ہیں.والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ چند دن کے بعد میں نے حضرت اقدس کا ذکر سنا اور قادیان جا کر بیعت کر لی.واپس آکر مولوی صاحب کو بھی کہا کہ میں نے تو بیعت کر لی ہے.آپ کا کیا خیال ہے؟ مگر وہ خاموش ہو گئے.تھوڑی دیر کے بعد آہستہ سے بولے کہ میاں بات تو سچی ہے مگر ہم دنیا دار جو ہوئے.“ (یعنی مولوی بھی ہیں، دنیادار بھی ) (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 10 صفحہ 121-122 روایت حضرت حکیم عبدالرحمن صاحب) حضرت میاں رحیم بخش صاحب بیان کرتے ہیں کہ جس روز عبد الحق غزنوی کے ساتھ ย حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کا مباہلہ امرتسر میں ہوا میرے والد صاحب اس مباہلہ میں موجود تھے.وہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ جس وقت حضرت صاحب نے دعا مانگی.حضرت مولانا نورالدین صاحب کو ششی آگئی اور وہ برداشت نہ کر سکے.( یعنی انہوں نے بھی بہت رقت سے اور شدت سے دعا کی تو اُس کی وجہ سے حالت خراب ہوگئی ) والد صاحب کہتے ہیں کہ حضرت صاحب کو دیکھ کر میرے دل نے گواہی دی کہ یہ زمینی شخص نہیں بلکہ آسمانی ہے.چنانچہ وہ جب یہاں چونڈہ میں آئے تو انہوں نے آ کر اپنے قبیلے میں اس سلسلے کا
خطبات مسرور جلد دہم 624 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2012ء تذکرہ کیا اور کہا کہ وہ تو کوئی عجیب ہی سلسلہ ہے.فرشتے لوگ ہیں.چنانچہ میں ، میرے والد ، میرے تایا بلکہ سارے خاندان نے ہی بیعت کر لی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 10 صفحہ 183 روایت حضرت میاں رحیم بخش صاحب) حضرت چوہدری رحمت خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ میری بیعت کا واقعہ اس طرح ہے کہ خواب میں میں گھر سے نکلا تو باہر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بمع چوہدری مولا بخش بھٹی، چوہدری غلام حسین ، مولوی رحیم بخش ، مولوی شمس الدین، مولوی الف دین ،مولوی عنایت اللہ، رحمت خان جٹ وغیرہ کے ساتھ باہر کھڑے تھے اور اُس وقت بازار سے آئے تھے.چوہدری مولا بخش صاحب نے مجھے کہا کہ اب بیعت کر لو.اس سے اچھا وقت اور کونسا ہو گا.حضرت صاحب خود یہاں تشریف لائے ہوئے ہیں.میں ساتھ ہو گیا.یہ ساری پارٹی پہلے چوہدری مولا بخش کے کنوئیں پر گئی پھر ہمارے کنوئیں پر.وہاں حضرت صاحب نے نماز پڑھائی.نماز پڑھنے کے بعد میں بیدار ہو گیا.( خواب میں یہ نظارہ دیکھ رہے ہیں ).حضور کی شبیہ مبارک میرے دل میں اس طرح گڑ چکی تھی کہ کبھی بھول ہی نہیں سکتی تھی.صبح اُٹھ کر میں گھر آیا.کرایہ لے کر قادیان کا رُخ کیا اور بیعت کی تین دن وہاں ٹھہرا رہا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 10 صفحہ 206 روایت حضرت چودھری رحمت خان صاحب) واقعات دیکھیں تو بعضوں کو بلکہ بہت سوں کو ہم نے دیکھا ہے، اس طرح لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خوابوں کے ذریعے پکڑ کے بیعت کروائی ہے.حضرت مولوی محمد عبد اللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے براہینِ احمدیہ 1892ء،93ء میں پڑھی.میری طبیعت پر بڑا اثر ہوا.پھر میں حضرت صاحب کی تحریرات اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی تحریرات بالمقابل دیکھتا رہا.مولوی محمد حسین کے دلائل سے میں یہی سمجھتا رہا کہ یہ کمزور ہیں.ان کا میری طبیعت پر کوئی اثر نہیں پڑتا.حضرت صاحب کے دلائل مضبوط بھی معلوم ہوتے تھے اور روحانیت بھی ظاہر ہوتی تھی.دن بدن محبت بڑھتی گئی اور میری طبیعت پر گہرا اثر ہوتا گیا.تحقیقات جاری رکھیں.خوابوں کا سلسلہ شروع ہو گیا.1897ء میں میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میرے سامنے ہیں.میرا منہ مشرق کی طرف ہے.حضرت اقدس کا چہرہ مبارک میری طرف ہے.حضرت خلیفتر اسیح الثانی حضرت صاحب کے دائیں طرف ہیں.اُس وقت میرے خیال میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی عمر آٹھ نو سال تھی.حضرت اقدس نے خلیفہ ثانی کی طرف اشارہ کیا.انہوں نے فرمایا.
خطبات مسرور جلد دہم 625 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2012ء وہ احمد جو آگے تھا وہ پیغمبر تھا ( یعنی جو احمد پہلے تھاوہ پیغمبر تھا) اور متبع پیغمبر نہ تھا.( یعنی کسی کی اتباع میں نہیں آیا تھا ) اور وہ احمد جو اب ہے ( اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے خلیفہ ثانی سے پوچھا کہ وہ احمد جواب ہے اُس سے مراد کون ہے؟ تو انہوں نے اشارہ کے ساتھ ہی سمجھایا کہ اس سے مراد آپ ہیں.) منبع پیغمبر ہے.(یعنی یہ احمد جو ہے وہ پہلے احمد کی اتباع میں آیا ہے.) اس کے بعد میں نے بیعت کا خط لکھ دیا.کچھ عرصہ بعد میں قادیان گیا اور دستی بیعت کی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 10 صفحہ 218-219 روایت حضرت مولوی محمد عبد اللہ صاحب) حضرت نظام الدین صاحب بیان فرماتے ہیں کہ حضور کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ جناب سرور کائنات کی اکثر دور دراز کے علاقوں سے آیا کرتی تھی.( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو حدیث کے مطابق جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ناں کہ میرے مسیح کو جاکے سلام کہو تو یہ السلام علیکم کا پیغام اکثر دور دراز کے علاقوں کی طرف سے آیا کرتا تھا).مگر کہتے ہیں مجھے یہی خیال رہا کرتا تھا، (فارسی میں انہوں نے مصرع پڑھا ہے ) کہ پیراں نمے پَرَنْدُ مُریداں مے پرا نَند کہ پیر نہیں اُڑتے مگر جو مرید ہیں وہ اُنہیں اُڑا رہے ہوتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ ان کی کوئی خوبی نہیں بلکہ یہ لوگ اکٹھے ہو رہے ہیں تو اس وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اہمیت بن رہی ہے.کہتے ہیں ) آخر جب مسجد اقصیٰ میں بہت زاری سے دعا کی ، تب اللہ تعالیٰ کے صدقے قربان، اس نے ایک خزانہ غیب کا اس عاجز پر کھول دیا کہ جس کے لکھنے سے ایک شیٹ کاغذ کی ضرورت ہے.تب بیعت کر لی اور امن اور تسکین ہو گئی.( کہتے ہیں جب زاری سے دعا کی تب اللہ تعالیٰ نے ایسا سینہ کھولا کہ تسکین ہوئی اور پھر میں نے بیعت کر لی.جو شیطانی خیالات تھے اور وساوس تھے وہ دُور ہو گئے ) (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 13 صفحہ 413 تا 416 روایت حضرت نظام الدین صاحب) حضرت سید ولایت شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں 1897ء میں شہر سیالکوٹ کے امریکن مشن ہائی سکول کی پانچویں جماعت میں تعلیم حاصل کرتا تھا.پہلے بورڈنگ ہاؤس میں رہتا تھا.پھر اپنے انگریزی کے استاد کی سفارش پر آغا محمد باقر صاحب قزلباش رئیس کے ہاں اُن کے دو برادرانِ خورد کا ٹیوٹر مقرر ہوا اور ایک الگ چوبارہ رہائش کے واسطے دیا گیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعاوی کی نسبت سنا ہوا تھا لیکن چونکہ یہ اپنے پرانے رسمی عقائد کے مطابق نہ تھے اس لئے تحقیق کی طرف
خطبات مسرور جلد دہم 626 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2012ء بھی توجہ نہ دی.علاوہ ازیں عوام کچھ ایسے غلط پیرائے میں حضرت اقدس کی تعلیم پیش کرتے تھے کہ دل میں ان کو سننے سے بھی نفرت پیدا ہو گئی تھی.کچھ دنوں بعد شہر میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی اور کثرت سے لوگ مرنے لگے.ایک دن نیچے بازار میں دیکھا تو کئی جنازے اور ارتھیاں گزر رہی تھیں اور اُن کے لواحقین ماتم کرتے جارہے تھے.اس عبرتناک نظارے سے مجھے خیال آیا کہ یہ ایک متعدی بیماری ہے.ممکن ہے کہ مجھ پر بھی حملہ کر دے اور اگر خدانخواستہ موت آ جائے تو مجھ جیسا نالائق انسان خدا وند تعالیٰ کی بارگاہ میں کو نسے نیک اعمال پیش کرے گا.پھر اعمال حسنہ تو ایک طرف رہے، چھوٹی سی عمر میں اپنے گاؤں کی مسجد میں پڑا ہوا قرآنِ کریم بسبب تلاوت نہ جاری رکھنے کے بھول چکا ہے.( یعنی نیکیاں تو علیحدہ رہیں جو بچپن میں قرآن شریف پڑھا تھا وہ بھی بھول گیا ہے کیونکہ اس کے بعد کبھی پڑھا نہیں ).کہتے ہیں کہ یہ درست ہے کہ میں اپنی کلاس میں اول ہوں لیکن عقمی میں یہ تو نہیں پوچھا جائے گا کہ تم نے انگریزی اور حساب وغیرہ میں کتنے نمبر حاصل کئے.اس خیال سے اتنی ندامت محسوس ہوئی کہ دل میں تم ارادہ کر لیا کہ قرآن شریف کو از سر نو کسی نہ کسی سے ضرور صحیح طور پر پڑھوں گا.پہلے خود قرآن کریم کو کھول کر پڑھا لیکن یقین نہ آیا کہ آیا میں بالکل صحیح پڑھ رہا ہوں ( یا غلط ہے).اس کے بعد سوچا کہ کسی مسجد کے مُلاں سے پڑھوں لیکن ساتھ ہی یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ وہ کہے گا کہ تم اتنے بڑے ہو گئے ہو، قرآن شریف بھی پڑھنا نہیں جانتے.آخر کار یہ ترکیب سوجھی کہ اگر کہیں کلام اللہ کا درس دیا جاتا ہے تو وہاں جا کر میں بھی بیٹھ کر قراءت سنتا رہوں اور صحیح قرآت کے علاوہ ترجمہ بھی سیکھ جاؤں.ادھر ادھر سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ سوائے احمد یہ مسجد کے اور کہیں درس نہیں ہوتا.میں نے دل میں کہا کہ خیر قرآن کریم سن لیا کروں گا اُن کے عقائد اور تعلیم کے بارے میں بالکل توجہ نہیں دوں گا.جب میں جانے لگا تو آغا صاحب نے روکا اور کہنے لگے کہ اگر تم وہاں گئے تو ضرور مرزائی ہو جاؤ گے.میں نے اُن کو یقین دلایا کہ میں مرزائی بنے نہیں جارہا ، صرف قرآن شریف سنے جارہا ہوں.وہ نہ مانے.لیکن اگلے دن موقع پا کر میں مسجد احمدیہ میں پہنچ گیا.حضرت میر حامد شاہ صاحب مرحوم اُن دنوں درس دیا کرتے تھے.میں بلا ناغہ ہر روز درس میں حاضر ہو جایا کرتا تھا اور حقائق و معارف سنتا رہتا تھا.جب کبھی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم قادیان سے آکر درس دیتے تو اُن کے رُعب کی وجہ سے ہمارے غیر احمدی استاد بھی درس میں حاضر ہو جاتے تھے.گو مجھے خاص طور پر بھی تبلیغ نہیں کی گئی لیکن قرآن کریم کے درس کے دوران میں ہی میرے سب شکوک رفع ہو گئے اور معلوم ہو گیا کہ سلسلہ احمدیہ پر سب الزامات بے بنیاد ہیں.ان میں ذرا بھی صداقت نہیں.
خطبات مسرور جلد دہم 627 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2012ء آخر میں نے حضرت اقدس کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا.چند دنوں کے بعد منظوری کا جواب آ گیا اور میں خوش قسمتی سے احمدیت کی آغوش میں آ گیا.میں تحدیث نعمت کے طور پر عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ نے مجھے شریف خاندان میں پیدا کیا.ڈاکٹری جیسا شریف پیشہ سیکھنے کی توفیق دی.میری اکثر دعائیں قبول فرما ئیں.سب مرادیں پوری کیں.رزق دیا، اولا د دی اور سب سے بڑھ کر جو نعمت عطا فرمائی، وہ نبی آخر الزمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شناخت تھی جس سے احمدی بننے کا فخر حاصل ہوا.آغا صاحب کی بات سچی نکلی (جو انہوں نے کہا تھا نا کہ مرزائی ہو جاؤ گے ) کہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں سیدھے رستے پر پڑ گیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 1 صفحہ 173 تا 176 روایت حضرت سید ولایت شاہ صاحب) یہ چند واقعات تھے جو میں نے بیان کئے.اس وقت میں یہ بات بھی کہنا چاہوں گا کہ جوں جوں جماعت ترقی کی منازل طے کر رہی ہے، حاسدوں کی اور مفسدین کی سرگرمیاں بھی تیز ہوتی چلی جارہی ہیں اور وہ مختلف طریقوں سے جماعت کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں.بعض دفعہ چھپ کر حملے کرتے ہیں، بعض دفعہ ظاہری حملے کرتے ہیں، بعض دفعہ ہمدرد بن کر وار کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اس لئے ہر احمدی کو دشمن کے ہر قسم کے شر سے بچنے کے لئے بہت دعائیں کرنے کی ضرورت ہے.اللّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُبِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ کی دعا.(سنن ابی داؤد کتاب الصلاة باب ما يقول الرجل اذا خاف قوماً حدیث نمبر (1537) رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِ فَاحْفَظُنِيْ وَانْصُرْنِيْ وَارْحَمْنِيْ ( تذکره صفحه 363 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ ) اور اس طرح باقی دعائیں بھی.ثبات قدم کی دعا ربَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ.(البقرة:251) یہ ساری دعائیں اور درود شریف بھی میں نے کہا تھا ، اس کو بہت زیادہ پڑھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم دشمن کے ہر قسم کے شر سے محفوظ رہیں.گزشتہ دنوں اسی طرح کسی فتنہ پرداز نے فیس بک (facebook) پر ایک طرف حضرت باوانا نک صاحب کی تصویر بنا کر ڈالی اور ساتھ ہی دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر اور
خطبات مسرور جلد دہم 628 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2012ء پھر نہایت گندی اور غلیظ سوچ کا اظہار کرتے ہوئے حضرت باوا نا نک صاحب کے متعلق انتہائی غلط اور گندے الفاظ استعمال کئے اور تصویر کے اوپر لکھے اور ساتھ اُس پر کا ٹا بھی مارا ہوا تھا.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق تعریفی کلمات لکھ کر پھر مقابلہ بھی کیا کہ یہ اصل ہے اور فلاں ہے فلاں ہے.اس فعل سے یقیناً اس کا مقصد اور نیت بدتھی اور فتنہ اور فساد پیدا کرنا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعریف اور مقام بتانا اُس کا مقصود نہیں تھا، بلکہ سکھ حضرات کے جذبات بھڑ کا نا تھا.اور پھر اس سے بھی بڑا ظلم وہاں کی ایک اخبار نے کیا کہ اس طرح اُس نے شائع بھی کر دیا جس پر قادیان اور اردگرد کے علاقوں میں بڑا اشتعال پیدا ہوا.بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا کہ اُن کے لیڈروں نے عقل اور انصاف سے کام لیتے ہوئے اُن لوگوں کے جذبات کو ٹھنڈا کیا کہ احمدی ایسی حرکت نہیں کر سکتے.یہ کسی شرارتی اور بدفطرت عصر نے یقیناً ہمیں لڑانے کے لئے ایسا کیا ہے.مجھے بھی قادیان سے بعض سکھ خاندانوں کے سر برا ہوں کے خطوط آئے ہیں کہ ہمیں یقین ہے کہ کسی نے شرارت کی ہے اور جماعت احمدیہ کی طرف یہ منسوب کی گئی ہے.یعنی اظہار ایسا لگتا ہے جس طرح کسی احمدی نے لکھا ہے اور جماعت نے یہ اعلان شائع کروایا ہے لیکن جماعت کبھی ایسی بیہودہ حرکت نہیں کر سکتی.بہر حال اُن لوگوں نے بھی، اُن کی مختلف تنظیموں نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا ہے اور جماعت نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس کی تحقیق کروائی جائے اور مجرم کو سخت سزا دی جائے.جماعت احمدیہ کا تو ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ کبھی کسی کے جذبات سے نہ کھیلا جائے اور مذہبی رہنما تو ایک طرف ہم تو قرآنی تعلیمات کے مطابق دوسروں کے بتوں کو بھی برا نہ کہو کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہیں.اور پھر حضرت باوا نا تک صاحب کا مقام اور عزت و احترام جو جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں ہے، اس کے بارے میں کھل کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تعریفی کلمات کہے ہوئے ہیں.اُن کے بارے میں تو کوئی حقیقی احمدی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایسے گھٹیا اور گندے کلمات کہے جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت باوا نا نک صاحب کے بارے میں ایک جگہ فرمایا ہے کہ : ” ایسے وقت میں خدا تعالیٰ نے باوا صاحب کو حق اور حق طلبی کی روح عطا کی جبکہ پنجاب میں روحانیت کم ہو چکی تھی.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ بلا شبہ اُن عارفوں میں سے تھے جو اندر ہی اندر ذات یکتا کی طرف کھینچے جاتے ہیں.“ ست بچن روحانی خزائن جلد 10 صفحه 120 ) پھر ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ : ”ہر ایک مومن متقی پر فرض ہے کہ اُن کو (یعنی حضرت باوانا تک صاحب کو ) 66 عزت کی نگاہ سے دیکھے اور پاک جماعت کے رشتہ میں اُن کو شامل سمجھے.“ ست بچن روحانی خزائن جلد 10 صفحه 120 )
خطبات مسرور جلد دہم 629 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2012ء پھر فرمایا کہ : ” ہم کو اقرار کرنا چاہئے کہ باوا صاحب نے اُس سچی روشنی پھیلانے میں جس کے لئے ہم خدمت میں لگے ہوئے ہیں ، وہ مدد کی ہے کہ اگر ہم اُس کا شکر نہ کریں تو بلا شبہ ست بچن روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 121) ناسپاس ٹھہریں گے“.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے کام اور حضرت باوا نانک صاحب کے کام کو ایک طرح کا قرار دیا ہے.پس بد بخت ہے وہ جو حضرت باوا نانک صاحب کے خلاف غلط الفاظ استعمال کرے.پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ”ہمارا انصاف ہمیں اس بات کے لئے مجبور کرتا ہے کہ ہم اقرار کریں کہ بیشک با وانا نک صاحب اُن مقبول بندوں میں سے تھے جن کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے نور کی ست بچن روحانی خزائن جلد 10 صفحه 115) طرف کھینچا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں: ”میں سکھ صاحبوں سے اس بات میں اتفاق رکھتا ہوں کہ بابا صاحب در حقیقت خدا تعالیٰ کے مقبول بندوں میں سے تھے.پھر آپ فرماتے ہیں اور اب یہ اعلان جماعت کی طرف سے شائع بھی ہوا ہے کہ : ”بابا صاحب در حقیقت خدا تعالیٰ کے مقبول بندوں میں سے تھے اور اُن میں سے تھے جن پر الہی برکتیں نازل ہوتی ہیں اور جو خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے صاف کئے جاتے ہیں.اور میں اُن لوگوں کو شریر اور کمینہ طبع سمجھتا ہوں کہ ایسے بابرکت لوگوں کو تو ہین اور ناپاکی کے الفاظ کے ساتھ یاد کریں.ست بچن روحانی خزائن جلد 10 صفحه 111 ) راجہ رام چندر جی مہاراج اور کرشن جی مہاراج سارے خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے مقدس وجود ہیں.پس یہ اعلان جس نے بھی شائع کیا ہے یا جس نے تصویر بنائی، اس نے یہ سب کچھ شرارت اور فساد پھیلانے کی غرض سے کیا.وہاں قادیان کی انتظامیہ نے اس کی پرزور تردید اخباروں میں شائع کروائی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے نزدیک حضرت باوا نانک صاحب کا مقام بہت بلند ہے اور ہم انہیں بڑی عزت واحترام سے دیکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہر قسم کے فساد اور شر سے قادیان کے احمدیوں کو بھی اور اُس کے ماحول کو بھی محفوظ رکھے اور دشمن اپنی شرارتوں میں ناکام و نامراد ہوں.اس وقت میں بعض فوت شدگان کا بھی ذکر کروں گا اور اُن کے جنازے بھی نماز جمعہ کے بعد
خطبات مسرور جلد دہم 630 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2012ء پڑھاؤں گا.پہلا جنازہ مکرم عبد الرزاق بٹ صاحب کا ہے جو 6 اکتوبر 2012ء کو 65 سال کی عمر میں وفات پاگئے.انا للهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ مبلغ سلسلہ تھے.موصی تھے.ان کی نماز جنازہ احاطہ صدر انجمن احمد یہ میں ادا کی گئی.کسی دوائی کے غلط استعمال کی وجہ سے اُن کے دل پر اثر ہوا اور اُن کی وفات ہو گئی.ویسے تو اللہ کے فضل سے صحتمند ہی تھے.ان کے والد کا نام غلام محمد کشمیری تھا اور یہ گجرات کے رہنے والے تھے اور بچپن سے ہی ان کے والد نماز کے بڑے عادی تھے اور اس وجہ سے اپنے علاقے میں مولوی کہلاتے تھے.1930ء میں انہوں نے بیعت کی تھی.جب انہوں نے بیعت کی تو ان کی اہلیہ ان کو چھوڑ کر چلی گئیں.اُس وقت ان کی ایک غیر احمدی سہیلی نے ان سے پوچھا کہ کیا اُس نے احمدی ہو کے نمازیں پڑھنی چھوڑ دی ہیں؟ تو ان کی بیوی نے یعنی رزاق بٹ صاحب کی والدہ نے اُسے کہا کہ نہیں.نمازیں تو پہلے سے زیادہ پڑھنے لگ گئے ہیں.تو انہوں نے کہا کہ پھر وہ کافرکس طرح ہو گیا.تو بہر حال پھر وہ واپس آگئیں ، نیک فطرت تھیں.عبدالرزاق بٹ صاحب نے ابتدائی تعلیم عالم گڑھ گجرات سے حاصل کی.پھر 1971ء میں جامعہ سے فارغ ہوئے اور بطور مربی سلسلہ پاکستان کی مختلف جگہوں میں خدمات سرانجام دیں.پھر 1975ء میں غانا میں ان کی تقرری ہوئی.وہاں یہ مختلف جگہوں پر رہے.1979ء سے 1989 ء تک بطور پرنسپل احمد یہ مشنری ٹریننگ کالج خدمت کی توفیق پائی اور پھر 89ء میں یہ پاکستان آگئے تھے.پاکستان میں مختلف جگہوں پر مربی رہے.پھر اصلاح وارشاد مرکزیہ کے تحت تربیت نو مبائعین میں خدمات سرانجام دیتے رہے.اصلاحی کمیٹی کے ممبر رہے اور اصلاحی کمیٹی میں بھی بڑے کامیاب تھے.ان کا سمجھانے کا انداز ، بتانے کا انداز بڑا خوبصورت تھا.ان کی اہلیہ کے بھائی مبارک طاہر صاحب جو سیکرٹری نصرت جہاں ہیں وہ لکھتے ہیں کہ جب میری ہمشیرہ عزیزہ امتہ النور طاہر کے لئے بٹ صاحب کا رشتہ آیا تو میرے ابا جان حضرت مولانا محمد منور صاحب نے ، اس وقت جو سیکرٹری حدیقہ المبشرین شیخ مبارک احمد صاحب ہوتے تھے، اُن سے مشورہ کیا کہ بتائیں ان کا (بٹ صاحب کا) فیلڈ میں کیسا کام ہے؟ تو شیخ صاحب نے بتایا کہ اچھا کام کر رہے ہیں.ان کی رپورٹس خوش کن ہیں اور تسلی بخش ہیں.کہتے ہیں بس اسی رپورٹ پر ابا جان نے اس رشتہ کا فیصلہ کر لیا.کام تو فیلڈ میں میں نے دیکھا ہے.گھانا میں میں اُن کے ساتھ رہا ہوں.جس بے نفسی سے انہوں نے کام کیا ہے بہت کم مبلغین اس طرح کام کرتے ہیں.ان کا بیوی بچوں سے بڑا دوستانہ تعلق تھا.ہر جمعہ کو سب بیٹیوں کو دعوت پر بلایا کرتے تھے اور پھر سب کے ساتھ
خطبات مسرور جلد دہم 631 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2012ء بیٹھ کے ٹی وی پر جمعہ کا خطبہ سنتے تھے.اور والدہ کی انہوں نے بڑی خدمت کی ہے.اپنے کامیاب وقف کا کریڈٹ بھی ہمیشہ اپنی والدہ کو دیتے تھے.ہمیشہ اپنے بچوں کو نمازوں اور دعاؤں کی تلقین کرتے رہتے.جو نمازیں پڑھنے والے بچے تھے ، اُن سے زیادہ پیار اور محبت کا سلوک اور خوشی کا اظہار کرتے.ان کی پانچ چھ بچیاں تھیں.جب ان کی بچیوں کے رشتے آئے تو کوئی پوچھتا کہ کون لوگ ہیں، تو ان کو ہمیشہ انہوں نے یہی جواب دیا ہے اور اس میں عموماً ان لوگوں کے لئے بھی اس میں بڑا سبق ہے جو ضرورت سے زیادہ دنیا داری کو دیکھتے ہیں کہ لڑکا نمازیں پڑھتا ہے اور چندے دیتا ہے تو تمہیں اور کیا چاہئے اور یہ بھی کہتے کہ اگر میری بچی کے نصیب ہیں تو خالی گھر بھی بھر دے گی اور اگر نصیب میں نہ ہوا تو پھر بہت ساری لڑکیاں ایسی ہیں جو بھرے ہوئے گھر بھی خالی کر دیتی ہیں.خلافت سے بڑی گہری محبت تھی.ان کے بیٹے کو کسی وجہ سے تعزیر ہوگئی تو جب تک اُس کی معافی نہیں ہوئی اُس سے بات نہیں کی اور یہ کہتے تھے کہ جس سے خلیفہ وقت ناراض ہے تو میں اُسے کس طرح گوارا کرلوں.یہاں بھی 2009 ء میں آئے ہیں.ان کے بیٹے کو سز تھی تو مجھ سے کبھی ہلکا سا بھی ذکر نہیں کیا.اشارہ بھی بات نہیں کی کہ اُس کو معاف کر دیں یا کیا صحیح ہے یا غلط ہے.بس یہی کہا کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ اُس کو عقل دے.ہمیشہ نظام جماعت اور خلافت کے پابند رہے اور بچوں کو اسی کی تلقین کرتے رہے.خطبے بڑی باقاعدگی سے سننے والے تھے، جیسا کہ میں نے کہا.اس دوران میں کوئی بچہ شور بھی کرتا تو بڑا برا مناتے.بیماری کی حالت میں بھی عموماً چھٹی نہیں لیا کرتے تھے.اگر کوئی چھٹی کا کہتا تو کہتے جب دفتر جاؤں گا تو ٹھیک ہو جاؤں گا.اگر بچے کبھی مطالبہ کرتے کہ چھٹیاں ہیں،سیر پر لے جائیں تو کہتے تھے میری تو ساری زندگی جماعت کیلئے وقف ہے.اور یہ فقرہ یقیناً اُن کا سطحی فقرہ نہیں تھا.انہوں نے ہرلمحہ جماعت کی خدمت کے لئے وقف کیا ہوا تھا اور اس کو انہوں نے کر کے بھی دکھایا.افریقہ میں جیسا کہ میں نے ذکر کیا میں ان کے ساتھ رہا ہوں.اُس وقت کے جو حالات تھے وہ آجکل کے نہیں ہیں.بڑے تنگ حالات ہوتے تھے.لیکن بڑی خوشی سے انہوں نے وہاں اپنے دن گزارے ہیں.بیمار بہت زیادہ ہوتے رہے.ملیر یا ہو جاتا تھا.ہسپتالوں میں داخل ہوتے رہے،لیکن جب بھی ٹھیک ہوتے فوراً اپنا کام شروع کر دیتے اور وہاں بھی محبت اور پیار کی وجہ سے لوگ ان کے بہت قائل تھے.میں بھی جب وہاں گیا ہوں تو یہ پہلے سے وہاں مشنری تھے.اس کے بعد انہوں نے بہت کچھ وہاں کے حالات کے بارے میں اور بہت ساری چیزوں کے بارے میں مجھے بتایا ، سمجھایا.
خطبات مسرور جلد دہم 632 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2012ء اس طرح میری کافی رہنمائی کرتے رہے.اللہ تعالیٰ ان سے پیار اور مغفرت کا سلوک فرمائے.ان پر رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے.اپنے پیاروں میں ان کو جگہ دے.ان کی اہلیہ اور بچوں کو بھی صبر اور حوصلہ اور ہمت عطا فرمائے.ایک بیٹی ان کی سیرالیون میں ایک مربی سلسلہ ہیں اُن کی اہلیہ ہیں، وہ جنازے میں شامل نہیں ہو سکیں.اللہ تعالیٰ اُن سب کو صبر اور ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے.دوسرا جنازہ جو اس وقت میں پڑھوں گا مکرمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ کا ہے.75 سال کی عمر میں 8 اکتوبر 2012ء کو کینیڈا میں وفات پائی.اِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.1964ء میں انہوں نے فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کیا.ہاؤس جاب کرنے کے بعد ترقی کے کافی مواقع تھے مگر فضل عمر ہسپتال ربوہ میں گائنی کے شعبہ میں ڈاکٹر کی ضرورت تھی، اس لئے وہاں چلی گئیں اور 1965 ء سے فضل عمر ہسپتال جوائن کر لیا.ان کا خدمت کا عرصہ بڑا لمبا ہے اور ان کی خدمات کے قصے پڑھنے لگو تو شاید پورا ایک خطبہ بلکہ اس سے بھی زیادہ چاہئے ہو گا.1964ء میں ایچی سن ہسپتال لاہور میں ہاؤس جاب کر رہی تھیں کہ اس دوران انگلینڈ میں جاب کے لئے درخواست دی جس پر ان کو ایمپلائمنٹ واچر مل گیا.ٹکٹ کا انتظام بھی ہو گیا.انگلینڈ جانے کی تیاریاں مکمل تھیں کہ اگلے دن الفضل گھر پر آیا تو اس میں فضل عمر ہسپتال ربوہ میں لیڈی ڈاکٹر کی آسامی کا اشتہار دیکھا.ساتھ ہی حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا پیغام بھی تھا کہ اگر کوئی احمدی لیڈی ڈاکٹر نہیں آتی تو فضل عمر ہسپتال میں کسی عیسائی ڈاکٹر کا انتظام کر لیں.انہوں نے لندن جانے کا پروگرام کینسل کیا.باوجود گھر میں سفید پوشی کے اور دس بہن بھائی تھے.والد ان کے سیکشن افسر تھے لیکن بہر حال مالی تنگی تھی اور والد نے بھی ادھار لے کر ان کو ایم بی بی ایس کروایا تھا.ان حالات کے باوجود اُسی دن لاہور سے ربوہ آنے کے لئے تیاری شروع کر دی.اپنے ہسپتال جہاں ہاؤس جاب کر رہی تھیں ، وہاں جا کر اپنی ایم ایس سے اجازت طلب کی.ایم ایس نے پوچھا کہ وہ کس لئے جارہی ہیں؟ تمہیں وہاں تنخواہ کیا ملے گی؟ تو ڈاکٹر فہمیدہ صاحبہ نے بتایا کہ شاید 230 روپے ماہانہ الاؤنس ملے گا تو ایم ایس نے کہا میں تمہیں ساڑے پانچ سو روپے دلواتی ہوں.لاہور چھوڑ کر نہ جاؤ.تمہارا مستقبل بھی اس ہاؤس جاب سے وابستہ ہے.مگر انہوں نے یہ آفر بھی منظور نہ کی اور کہا کہ میں پیسوں کی خاطر نہیں جارہی.میرے پاس تو انگلینڈ کا ایمپلائمنٹ واچر بھی موجود ہے، ٹکٹ کا انتظام بھی ہے اور وہاں داخلہ بھی ہو چکا ہے.مگر میں یہ سب کچھ چھوڑ کر ربوہ جا رہی ہوں.اس پر ایم ایس نے جواب دیا کہ آپ بہت عظیم عورت ہیں.اپنی جماعت کی خاطر اپنا مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے.ایم ایس نے ان کو اپنی بہترین ہاؤس جاب
خطبات مسرور جلد دہم 633 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2012ء اسسٹنٹ کا سرٹیفکیٹ دیا.اور یوں 1964ء میں وہ ربوہ آگئیں اور 1984 ء تک فضل عمر ہسپتال میں بطور لیڈی ڈاکٹر کے خدمت کی توفیق پائی.ربوہ میں اُس زمانے میں لیڈی ڈاکٹر کوئی نہیں تھی بلکہ اردگرد کے علاقوں میں کوئی نہیں تھی اور بڑا وسیع کینٹ ایریا تھا جس کو انہوں نے اکیلے ہی اپنے زمانے میں بھگتا یا.سردی ہو یا گرمی رات کو بھی دو یا تین بجے کسی بھی وقت کوئی مریض آتا تو فوراً بستر چھوڑ کر مریض دیکھنے چلی جاتیں.یہ بھی ان کے بارے میں بیان ہوتا ہے کہ ولیمہ والے دن دلہن بن کے سٹیج پر بیٹھی تھیں کہ ہسپتال سے کال آ گئی کہ ایمر جینسی (Emergency) آئی ہے.اپنے اسی لباس میں وہاں سے اُٹھیں اور ہسپتال چلی گئیں اور مہمانوں نے ان کے بغیر ہی بعد میں کھانا کھا لیا.بہر حال یہ قربانی کی روح تھی.اور انہوں نے وقف کی روح کے ساتھ اپنے اس خدمت کے عہد کو نبھایا.اللہ تعالیٰ باقی واقفین کو بھی اس نمونے کو قائم رکھنے کی توفیق دے.غریبوں کی بڑی مدد کیا کرتی تھیں.ان کا مفت علاج کر دیا کرتی تھیں.وہاں علاقے میں رواج ہے، لوگ جھوٹ بول کے اپنی مشکل بیان کر دیتے ہیں تو کبھی یہ نہیں کہا کہ تم جھوٹی سچی ہو تحقیق کروں گی.جو کسی نے کہا اعتبار کر لیا اور مفت علاج بھی کیا اور ساتھ دوائیاں بھی دے دیں.ان کے میاں کہتے ہیں کہ کئی دفعہ اس طرح ہوا کہ وہ رات ہسپتال میں گزارتی تھیں.صبح میاں کام پر جارہے ہوتے تھے اور وہ ہسپتال سے واپس آ رہی ہوتی تھیں.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے ایک دفعہ مجلس شوری میں ان کے پردہ کی بھی مثال دی تھی کہ کسی نے پردہ میں رہ کر کام کرنا سیکھنا ہے تو ڈاکٹر فہمیدہ سے سیکھیں.حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے بھی ان کے متعلق فرمایا کہ بڑی قربانی کرنے والی عورت ہیں اور بہت کم لوگوں کو ایسی سعادت نصیب ہوتی ہے.جب انہوں نے 1964ء میں ہسپتال جائن (join) کیا تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو ملنے گئیں تو حضرت چھوٹی آپا اہم متین صاحبہ وہاں تھیں.انہوں نے کہا کہ فضل عمر ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر آ گئی ہے تو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے فورا الحمدللہ کہا اوران کو بڑی دعائیں دیں.ایک دفعہ انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں ملاقات کے دوران کہا کہ میں اعتکاف بیٹھنا چاہتی ہوں تو انہوں نے فرمایا: میرے مریض دیکھو.میں تمہارے لئے بہت دعائیں کروں گا.آپ کا اعتکاف یہی ہے.خلافت سے ان کو بڑا تعلق تھا اور بڑی باحوصلہ خاتون تھیں.حضرت خلیفہ امسیح الرابع کو ان کی شاعری بھی بہت پسند تھی اور صرف ڈاکٹر نہیں تھیں بلکہ شاعرہ بھی تھیں اور بڑی اچھی شاعرہ تھیں.بے ساختگی بھی تھی اور پختگی بھی تھی ، دلی جذبات بھی تھے.
خطبات مسرور جلد دہم 634 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2012ء سات شعری مجموعے ان کے چھپ چکے ہیں.خلیفة امسیح الرابع جب یہاں آئے ہیں تو ایک دفعہ یہاں ہجرت کے بعد انہوں نے اپنی نظم بھیجی اور اُس کا ایک شعر تھا کہ گھر پہ تالا پڑا ہے مدت سے اُس سے کہہ دو کہ اپنے گھر آئے تو حضور رحمہ اللہ نے اس شعر کو بڑا سراہا.اس کا ذکر فرمایا کہ ڈاکٹر فہمیدہ کا یہ بڑی بوڑھیوں کے سے انداز سے ڈانٹنا مجھے بڑا پسند آیا ہے.ہمیشہ اپنے بچوں کو نصیحت کی ، بہن بھائیوں کو نصیحت کی کہ اگر دنیا میں عزت چاہتے ہو تو خلافت سے ایسے وابستہ ہو جاؤ کہ اپنی ہستی کو اس راہ میں مٹادو.ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ جو اس وقت فضل عمر ہسپتال میں انچارج ڈاکٹر ہیں ، وہ کہتی ہیں کہ یہ بہت متحمل مزاج اور خوش اخلاق ڈاکٹر تھیں.اُس وقت نامساعد حالات تھے.سہولتیں بھی موجود نہیں تھیں لیکن انتہائی لگن اور محنت سے انہوں نے کام کیا.اپنے کام میں اعلیٰ درجہ کی مہارت تھی.مریضوں کے ساتھ بہت مروّت اور محبت کا سلوک تھا اور ان کے مریض ان کو آج بھی یادر کھتے ہیں.اس وقت ڈاکٹر نصرت جہاں وہاں ہیں اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے وقف کی رو سے کام کر رہی ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کی بھی عمر وصحت میں برکت ڈالے اور فضل عمر ہسپتال میں ڈاکٹروں کی جو کمی ہے اُس کو پورا کرے اور یہ جو چند ڈاکٹر وہاں ہیں ، ان کے ہاتھ میں شفا بھی عطا فرمائے اور ان کو ہمت اور حوصلہ بھی عطا فرمائے.یہ ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ بھی دعاؤں کی محتاج ہیں.ایک دفعہ وہاں شعروں کا مقابلہ ہوا.نظمیں لکھنے کا مقابلہ تھا اور ایک مصرعہ دیا گیا.اُس میں نام پستہ وغیرہ بھی لکھنا تھا.ان کی یہ عادت تھی کہ کافی عاجز تھیں تو انہوں نے اس کے آخر میں نام پستہ کی جگہ پر لکھا کہ ” خدمت خلق ، لکھنا لکھانا، خانہ داری ، دعائے خاتمہ بالخیر.یہ صرف الفاظ ہی نہیں ہیں بلکہ جیسا کہ میں نے کہا یہ بے نفس خاتون تھیں اور انہوں نے بڑی بے نفس خدمت کی ہے.اپنی زندگی کا خلاصہ انہوں نے بیان کیا اور یقیناً یہ خدمت خلق کرنے والی تھیں اور گھریلو ذمہ داریوں کو نبھانے والی تھیں.آخرت پر نظر رکھنے والی تھیں.بڑی نافع الناس وجود تھیں اور ان کا خاتمہ بھی میں سمجھتا ہوں خاتمہ بالخیر ہی ہوا ہے.کیونکہ حدیث کے مطابق جب لوگ کسی کی تعریف کریں تو جنت اُس پر واجب ہو جاتی ہے اور یہ اُنہی لوگوں میں سے ایک تھیں.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیاں اپنانے اور جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.ان کے خاوند کو بھی صبر اور ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے.
خطبات مسرور جلد دہم 635 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اکتوبر 2012ء تیسرا جنازہ جو ابھی جمعہ کے بعد پڑھایا جائے گا وہ مکرمہ ناصرہ بنت ظریف صاحبہ اہلیہ مکرم ڈاکٹر عقیل بن عبد القادر صاحب شہید آف حیدر آباد کا ہے جو آ جکل ناروے میں تھیں.23 ستمبر 2012ء کو ان کی وفات ہوئی.إِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ان کی والدہ فاطمہ جمیلہ صاحبہ حضرت سیده ساره بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی پھوپھی زاد بہن تھیں.ان کے اتبا مکرم محمد ظریف صاحب مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے تیرہ برس کی عمر میں احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی.اور اس کی وجہ سے انہیں چھوٹی سی عمر میں بھی بہت سی مشکلیں اور صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں.مرحومہ کی شادی 1949 ء میں محترم ڈاکٹر عقیل بن عبد القادر صاحب سے ہوئی جو حضرت پروفیسر عبدالقادر صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیٹے تھے اور حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے بڑے بھائی تھے.بہت مہمان نواز خاتون تھیں.اپنے شوہر ڈاکٹر عقیل بن عبدالقادر صاحب کے ہاں آنے والے بیشمار مہمانوں اور عزیزوں کی دل و جان سے خدمت کرتی تھیں.نمازوں کی پابند، تہجد گزار ، خوش مزاج ، صاف دل غریبوں کی ہمدرداور علم دوست خاتون تھیں.یہ خاندان بھی ماشاء اللہ علم دوست ہے.اسی کوشش میں رہتی تھیں کہ حاجتمندوں کی ضرورت پوری کی جائے.اُن کی مدد کی جائے اور اُن کو اظہار بھی نہ کرنا پڑے.ہر کام سیکھنے کا شوق تھا.آپ نے ادب کا امتحان پاس کیا ہوا تھا.بچوں کو بھی اعلیٰ تعلیم دلوانے کی کوشش کی.1985ء میں اپنے شوہر کی شہادت سے پیدا ہونے والے حالات کے باعث 1987ء میں انہیں ناروے ہجرت کرنا پڑی.اگر چہ اُن کی عمر ساٹھ برس کی تھی اور ہائی بلڈ پریشر کی مریضہ بھی تھیں لیکن اس کے باوجود نارویجین زبان سیکھنے کی کوشش کی.جماعت اور خلافت سے بہت محبت رکھتی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات اور جماعت کا لٹریچر ہر وقت زیر مطالعہ رہتا تھا.چندوں کی بروقت ادائیگی کا خیال رکھتی تھیں.ان کے دو بیٹے ڈاکٹر ہیں.ایک بیٹی ہیں.اللہ تعالیٰ بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 2 تا 8 نومبر 2012 جلد 19 شماره 44 صفحه 5 تا 10 )
خطبات مسرور جلد دہم 636 42 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اکتوبر 2012ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 19 /اکتوبر 2012 ء بمطابق 19 راخاء 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن - لندن تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج میں پھر آپ کو صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں لے کر جاؤں گا.اُن کی روایات بیان کر رہا ہوں.یہ روایات اُن لوگوں کے ایمان کا اور اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجالس کا ایک عجیب نقشہ کھینچتی ہیں.حضرت ولایت شاہ صاحب ولد سید حسین علی شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کے مجھے بہت کم موقع ملے تھے کیونکہ میں ایک ایسی ملازمت میں تھا جس میں رخصت بہت کم ملتی تھی.میں نے خواب کی بناء پر بیعت کی تھی جو یہ تھی کہ ہیڈ ورکس مادھو پور جہاں سے ہیڈ باری دو آب نہر نکلتی ہے، وہاں میں تعینات تھا.سرکاری کوارٹر کی دیوار پر سے جس کے صحن میں میں سویا ہوا تھا، ایک جماعت بہت خوش سلوک اشخاص کی جن کے آگے آگے ایک بزرگ نہایت خوبصورت شکل اور نہایت خوبصورت لباس میں ملبوس ، تاج ایسا چمکدار جس پر نظر نہ ٹھہر سکے ،سر پر پہنے ہوئے گزر کر میرے کوارٹر کی چھت پر چڑھ گئے.(ایک جلوس نکل رہا تھا، لوگوں کا ایک گروہ تھا، اُس کے آگے جو بزرگ اُن کو لیڈ (Lead) کر رہے تھے، اُن کا نقشہ کھینچا ہے کہ دیوار پر سے گزر رہے تھے ) اور وہاں بگل کے ذریعہ سے اذان کہی جس کی آواز بہت دور دور تک پہنچی تھی.اس کے بعد ایسا معلوم ہوا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں.اس کے بعد وہ اسی دیوار پر سے واپس تشریف لائے.( یہ خواب کا نظارہ بتا رہے ہیں.) کہتے ہیں کہ جب میری چار پائی کے پاس سے گزرے تو مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ بھائی، پاخانہ اندر سے باہر کر دو، (یعنی اپنا جو نجس اور گند ہے نکال کے باہر کر دو ) میں نے خواب میں عرض کیا کہ بہت اچھا جناب.جب وہ آگے ہو
خطبات مسرور جلد دہم 637 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اکتوبر 2012ء گئے تب میں نے اُن کے پیچھے جو دوست تھے اُن سے دریافت کیا کہ یہ کون بزرگ ہیں.اُن میں سے ایک نے کہا کہ آپ نہیں جانتے؟ یہ حضرت مرزا صاحب ہیں.اسی فجر کو میرے دوست ڈاکٹرمحمد اسمعیل خان صاحب مرحوم نے میرے دروازے پر آکر دستک دی.جب میں باہر آیا تو انہوں نے فرما یا شاہ صاحب! آپ تو احمدی ہو گئے.میں نے دریافت کیا کہ کس طرح؟ انہوں نے کہا کہ آج رات مجھے خواب آیا ہے کہ آپ شفا خانہ میں آ کر بیٹھے ہیں اور میں نے اندر جا کر اپنا صندوق کھول کر ایک بہت عمدہ خوبصورت انگر کھا (ایک گاؤن سا ) آپ کو پہنایا ہے اور وہ آپ کے بدن پر بہت فٹ (Fit) آیا ہے.اس کے بعد میں نے بہت خوبصورت عمدہ عمدہ بٹن لا کر اُس ( گاؤن ) میں لگا دیئے.( تو یہ خواب صرف انہی کو نہیں آئی بلکہ ان کے احمدی دوست تھے، اُن کو بھی اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعہ سے اشارہ بتا دیا کہ اس طرح احمدیت کی طرف مائل ہو گئے ہیں یا احمدی ہو جائیں گے کیونکہ نیک فطرت ہیں.) بہر حال کہتے ہیں اس کے کچھ عرصے بعد میں اپنے سسرال والوں کے گھر سیداکبر شاہ مرحوم کے مکان میں آیا.مرزا غلام اللہ صاحب مرحوم جو کہ پڑوسی تھے، میرے پاس آئے.جمعہ کا دن تھا.میں اُن کے ساتھ مسجد اقصیٰ میں گیا.وہاں انہوں نے مجھے منبر کے پاس بٹھا دیا.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے تب انہوں نے حضور انور کی خدمت میں میری بیعت لینے کے متعلق عرض کیا.حضور انور نے نہایت شفقت سے میرا ہاتھ اپنے دست مبارک میں لے لیا اور دیگر بیعت کرنے والوں نے میری پشت پر ہاتھ رکھ کر بیعت (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.رجسٹر نمبر 7 صفحہ 144.روایات حضرت ولایت شاہ صاحب) پھر اسی طرح بیعت کا واقعہ حضرت عنایت اللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے 1901ء میں بیعت کی تھی.( کہتے ہیں ) اُس وقت میری عمر قریباً پندرہ سال کی تھی.جب میں پہلی دفعہ قادیان آیا تو ایک عطر کی شیشی ہمراہ لایا.پیدل سفر کیا.رات بٹالہ رہا.جب شیشی دیکھی تو سوائے ایک قطرہ کے باقی ضائع ہو گیا.مجھے سخت افسوس ہوا.شام کی نماز کے وقت جب حضور مسجد مبارک کی چھت پر تشریف لائے.مصافحہ کیا.اور حضور کو بندے نے دبانا شروع کیا تو عرض کی میں ایک شیشی عطر لا یا تھا، وہ راستہ میں ضائع ہو گیا.شیشی حضور کی خدمت میں پیش کر دی.فرمایا تم کو پوری شیشی کا ثواب مل گیا.( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شیشی میں جو تھوڑا سا عطر کا ایک آدھ قطرہ رہ گیا تھا، اُس کو قبول فرما یا اور فرما یا تمہاری نیت تحفہ دینے کی تھی تمہیں پوری شیشی کا ثواب مل گیا ہے.پھر کہتے ہیں کہ نماز کے بعد بیعت کی اور دس یوم تک رہا.کرلی.
خطبات مسرور جلد دہم 638 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اکتوبر 2012ء پھر لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ قادیان سے واپسی پر بٹالہ پہنچا.ایک زمیندار ہمراہ تھا.رات بٹالہ رہا.زمیندار نے پوچھا کہ کیا آپ نے حضرت صاحب سے اجازت لے لی تھی.میں نے کہا: نہیں.مجھے افسوس ہوا کہ اجازت لے کر نہیں آیا.( کہتے ہیں کہ ) رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ حضور چار پائی پر بیٹھے روٹی کھا رہے ہیں.مجھے بھی کھانے کا حکم دیا.نصف حضور نے کھائی، باقی بندہ نے اور حضور نے فرمایا: جاؤ، آپ کو جانے کی اجازت ہے.( کہتے ہیں ) بالکل ناخواندہ (ان پڑھ ) آدمی تھا، زبان میں بھی لکنت تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں اور نظر کی برکت سے اب میں بالکل ٹھیک ہوں.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.رجسٹر نمبر 1 صفحہ 139.روایات حضرت عنایت اللہ صاحب) حضرت شیخ عطاء اللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں گول کمرہ کے قریب جہاں بابو فخر الدین ملتانی کی دوکان تھی ، کھڑا تھا تو حضرت اقدس علیہ السلام خود بنفس نفیس مسجد مبارک کے دروازے پر آئے اور مجھے آواز دی کہ میاں عطاء اللہ ! یہ چٹھی لیٹر بکس میں ڈال دیں.جس پر میں بڑا خوش ہوا کہ حضور کو میرا نام خوب یاد ہے.مغرب کے وقت حضور انور ایک معمولی گلاس بکری کے کچے دودھ کا روز مرہ نوش فرماتے تھے.ایک شخص نے (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ) عرض کیا کہ حضور! کچا دودھ نہ پیا کریں.تو آپ نے فرمایا کہ اکثر انبیاء علیھم السلام کچا دودھ ہی پیا کرتے تھے.کچھ عرصے کے بعد جب میں محکمہ ٹیلی گراف میں نوکر تھا.( کہتے ہیں ) مجھے بڑا شدید بخار ہو گیا، بلکہ تپ دق سے بھی سخت بیمار ہو گیا.رخصت لے کر قادیان چلا گیا.حضرت مولوی نورالدین خلیفہ اسیح الاول کے دولت خانے میں قیام پذیر تھا کیونکہ انہی کے ذریعہ سے میں جموں میں مشرف بہ اسلام ہوا تھا.اس روحانی اور گہرے تعلق کی وجہ سے خلیفہ امسیح الاول نے میرا علاج شروع کیا.مجھے صبح سویرے کھڑی چاول اور بعد میں ایک ابلا ہوا انڈہ کھلا کر دوائی دیتے تھے.یہ چیزیں کھا کھا کر جن کی مجھے عادت نہیں تھی زبان کا ذائقہ بگڑ گیا.کہتے ہیں ایک روز میں نے شام کو محترمہ اماں جان والدہ عبدالسلام صاحب ( حضرت خلیفہ اسیح الاول کی بیگم ) کو التجا کی کہ میری زبان کا ذائقہ خراب رہتا ہے.اگر کچھ شور بہ یا کچھ اور مکین چیز ہو تو ذائقہ درست ہو جاوے گا.انہوں نے فرمایا : مولوی صاحب ناراض ہوں گے.مگر انہوں نے ایک کپڑے سے مرچوں کو چھان کر اور صاف کر کے مجھے پلا دیا.یعنی عام شور بہ جو بنایا ہوا تھا، اس کو چھان کے پلا یا.کہتے ہیں اگلی صبح جب حضرت مولوی صاحب خلیفتہ امسیح الاول نے میری نبض دیکھی تو فرمایا کہ رات کو کیا کھانا کھایا تھا.اب ڈاکٹر بڑے بڑے ٹیسٹ لیتے ہیں تب بھی پتہ نہیں لگتا.لیکن حضرت خلیفہ اول نے نبض دیکھی اور فرمایا
خطبات مسرور جلد دہم 639 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اکتوبر 2012ء رات کو کیا کھانا کھایا تھا ؟ ) نبض بہت تیز چل رہی ہے.میں نے کہا کچھ نہیں.آپ درس کو چھوڑ کر جلدی سے گھر گئے اور گھر جا کے اپنی اہلیہ سے دریافت فرمایا کہ رات عطاء اللہ نے کیا کھایا تھا.انہوں نے کہا کہ کھانا کھانے کے بعد اس نے ضد کر کے تھوڑا سا شور بہ پی لیا تھا.تو اُن پر ناراض ہوئے اور میرے پر بھی کہ تم نے اس قدر دروغگوئی کی ہے.غلط بیانی سے کام لیا ہے.بہر حال کہتے ہیں حضرت مولوی صاحب نے میرے اس جھوٹ کو اور بد پرہیزی کا جو قصہ ہے یہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عرض کیا کہ اس کو اپنی صحت کا کچھ خیال نہیں ہے.مرض تپ دق میں مبتلا ہے ( یعنی ٹی بی میں مبتلا ہے ).میں باعث بیماری کے بہت کمزور ہو گیا تھا.( تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی اس بات پر بڑے ناراض ہوئے.کہتے ہیں آخر میری رخصت دو ماہ ختم ہو گئی.حضرت مولوی صاحب کو میری صحت کا بہت فکر تھا.ادویہ وغیرہ بنا کر ہمراہ دے دیں تائیں استعمال کروں.اور فرمایا میں دعا بھی کروں گا.حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ حضور! آج میں راولپنڈی واپس جاتا ہوں کیونکہ رخصت ختم ہو گئی ہے.دعا کریں.صحت خراب ہے.حضور نے دعا فرمائی اور فرمایا کہ آپ نمازوں میں نہایت عاجزی، انکساری اور دل سوزی سے دعائیں کیا کریں اور خط وغیرہ قادیان تحریر کرتے رہا کریں اور جلدی جلدی آیا کریں.پھر فرمایا کہ بد پرہیزی کو چھوڑ دیں.(حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو وہ بات یاد تھی کہ کھانے میں بد پر ہیزی کی تھی اس لئے فرمایا کہ بد پر ہیزی کو چھوڑ دیں.اللہ تعالیٰ کے حضور پختہ وعدہ کریں.خدا تعالیٰ غفور الرحیم ہے انشاء اللہ ضرور صحت بخشے گا.کہتے ہیں جب میں راولپنڈی واپس گیا تو رات ڈیڑھ بجے کے قریب ایک رؤیا غیر زبان میں اس عاجز کو ہوئی جس کو میں نہ سمجھ سکا.حیران ہوکر اللہ تعالیٰ کے حضور گر گیا اور التجا کی کہ اے خدا! تیری ذات ہر زبان پر قدرت رکھتی ہے.مجھے اس خواب کا مفہوم سمجھا.تو اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت فرماتے ہوئے رات کے اڑھائی بجے کے قریب میری زبان پر جاری کر دیا کہ ہیلدی ہیلدی ہیلدی (Healthy-healthy-healthy).اس کئی بار کی آواز نے مجھے بیدار کر دیا کہ صحت ہو گئی ہے.پھر کہتے ہیں کہ اب تک مجھے ہیں برس ہو گئے ہیں (جب یہ بیان کیا تھا.) کبھی سر درد سے بھی بیمار نہیں ہوا.اور دیگر اللہ تعالیٰ کی نصرت سے ہر امر میں کچھ ایسے سامان مہیا کئے گئے کہ اولاد پیدا ہونا شروع ہوگئی.(پہلے اولاد نہیں تھی.پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین لڑکے اور چار لڑکیاں عطا کی گئیں.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.رجسٹ نمبر 1 صفحہ 165 تا 167.روایات حضرت شیخ عطاء اللہ صاحب) پھر ایک صحابی ہیں حضرت ملک برکت اللہ صاحب پسر حضرت ملک نیاز محمد صاحب.
خطبات مسرور جلد دہم 640 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اکتوبر 2012ء بیان فرماتے ہیں کہ اگر چہ میرے والد صاحب ملک برکت علی صاحب 98-1897 ء سے احمدی تھے اور میں بھی اُن کی اقتداء میں بچپن سے احمدی تھا تاہم 1904ء میں جبکہ میری عمر چودہ یا پندرہ سال کے لگ بھگ تھی، میں نے حضور کی خود بیعت کی.جب کوئی شخص بیعت کرتا تھا، ہم بھی بار بار بیعت کر لیتے تھے تا کہ ہم بھی حضور کی اس دعا میں جو حضور علیہ السلام بعد بیعت فرمایا کرتے تھے، شامل ہو جائیں.بعض وقت بہت آدمی بیعت کرنے والے ہوتے تھے تو لوگ اپنی اپنی پگڑیاں اُتار کر حضور کے ہاتھوں تک پہنچا دیتے تھے اور ان پگڑیوں کو سب لوگ پکڑ لیتے تھے اور اس طرح بیعت ہو جاتی تھی.“ (رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.رجسٹر نمبر 3 صفحہ 227 تا 228.روایات حضرت ملک برکت اللہ صاحب) حضرت ڈاکٹر عمر دین صاحب کی روایت ہے، بیان کرتے ہیں کہ میں 28 / جولائی 1879ء کو پیدا ہوا اور بیعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 30 جون 1905ء کو کی اور وصیت 23 جولائی 1928ء کو کی.پھر اپنا وصیت نمبر بھی لکھا ہے 2898.کہتے ہیں جماعت احمد یہ نیروبی کا پریذیڈنٹ اکتوبر 1924 ء سے دو سال تک رہا.پھر انتظامیہ کمیٹی کا ممبر رہا.جماعت احمدیہ نیروبی کا پندرہ سال سے محاسب ہوں.(جب یہ بیان فرما رہے ہیں تو اُس وقت فرماتے ہیں کہ پندرہ سال سے محاسب ہوں ) اور تین سال سے سیکرٹری وصایا ضیافت ہوں.میں اس ملک میں 1900ء کی فروری میں ڈاکٹر رحمت علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، صوفی نبی بخش صاحب اکاؤنٹنٹ اور ڈاکٹر بشارت احمد صاحب وغیرہ کے زمانے میں آیا.ڈاکٹر رحمت علی صاحب کے اخلاق فاضلہ، شفقت اور ہمدردی کو دیکھ کر کثرت سے لوگ سلسلہ حقہ احمد یہ میں شامل ہوتے دیکھے.یہی پہلا موقع تھا جب اس بادی زمانہ کے پیغام کی آواز میرے کانوں نے سنی.(اب یہ دیکھیں کہ ایک شخص کے صرف اخلاق فاضلہ جو ہیں اور شفقت جو ہے اور انسانی ہمدردی جو ہے اُس کو دیکھ کر بہت سارے لوگوں کو تو جہ پیدا ہوئی کہ کونسا مذ ہب ہے، کون شخص ہے اور پھر احمدی ہوئے.) بہر حال کہتے ہیں کہ میں نے اپنی قسمت کے مقدمے کو بارگاہ ایزدی میں پیش کر دیا.( یعنی اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میری قسمت میں کیا ہے ) اور نہایت تضرع، ہمت اور استقلال سے ہر روز تہجد میں دعا مانگنی شروع کر دی کہ اے میرے پیارے رب اور غیب کے جاننے والے خدا! میری فریا دسن اور میری رہبری کر اور مجھے اُس راستے پر چلا جو تیرے علم میں صحیح ہوتا کہ میں کہیں راہ ہدایت سے دور نہ پھینکا جاؤں.کیونکہ میں خود تو عاجز ، کمزور، گناہگار اور کم علم ہوں، وغیرہ وغیرہ.پس کہتے ہیں کہ میرے مولیٰ نے میری فریا دسن لی اور سچی خوابوں کا سلسلہ شروع ہو گیا.پھر مجھے نہایت صفائی سے دو خوا ہیں دکھلائی گئیں جن کی بنا پر میں نے
خطبات مسرور جلد دہم 641 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اکتوبر 2012ء کریگو ( غالباً کر بچو ہوگا ) سٹیشن سے جو کسو موضلع میں واقع ہے اور جرمن ایسٹ افریقہ کی سرحد پر ہے اور جہاں کے ہسپتال کا میں انچارج تھا.مؤرخہ 30 جون 1905ء بذریعہ خط خدا کے پیارے محبوب کی بیعت کی.کہتے ہیں بیعت کرنے کے بعد پھر کیا تھا.عبادت میں وہ لطف آنا شروع ہوا جو میرے وہم و گمان میں نہ تھا.کیونکہ فرشتوں کے نزول پاک کا زمانہ تھا اور ہر ڈاک میں پیارے مسیح موعود علیہ السلام پر تازہ وحی ہوتی اور پوری ہوتی سنی جاتی تھی اور دل ہر وقت حضرت اقدس کی ملاقات کے لئے تڑپتار ہتا تھا اور حد سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ملنے کی بیقراری بڑھنی شروع ہو گئی.( کیونکہ خط کے ذریعہ سے بیعت کی تھی.دستی بیعت نہیں ابھی ہوئی تھی.کہتے ہیں بہر حال ) خدا خدا کر کے میری رخصت کا وقت قریب پہنچا.خدا نے میرے پیارے مسیح کے نذرانہ کی تحریک میرے دل میں ڈالی ( کہ نذرانہ پیش کرنا ہے ) تو اس کے لئے کہتے ہیں میں نے سوچا کہ چار شتر مرغ کے انڈے لے جانے چاہئیں اور یہ فیصلہ کیا.مجھے اُن کے حاصل کرنے اور پرمٹ لینے کے لئے جرمن پورٹ سے کوشش کرنی پڑی.کیونکہ ایسٹ افریقہ سے اجازت نہ دی جاتی تھی.کہتے ہیں کہ اکتوبر 1907ء کو میں اپنے وطن کو روانہ ہوا.گجرات پہنچنے پر میں نے اپنے والد صاحب مرحوم اور بھائی صاحب مرحوم کو سلسلہ احمدیہ کا مخالف پایا جن کے لئے ہر نماز میں پھر میں نے رو رو کر دعائیں مانگنی شروع کر دیں.کہتے ہیں خدا تعالیٰ نے میری مدد کی اور میرے والد صاحب بمع چند اور دوستوں کے جلسہ سالانہ پر جانے کے لئے راضی ہو گئے.(بڑی منت وغیرہ کی.دعائیں کیں تو خیر والد اور بھائی جلسہ پر قادیان جانے کے لئے راضی ہو گئے.پھر کہتے ہیں ) 1907ء کے جلسہ سالانہ پر اپنی گجرات کی جماعت کے ساتھ ہم قادیان شریف کی پیاری بستی میں جا پہنچے.میں نے پہنچتے ہی عجیب نظارہ دیکھا کہ سب جماعتیں اور بڑی بڑی بزرگ ہستی کے احباب حضرت اقدس کی ملاقات کے لئے سخت بیقرار اور ترس رہے ہیں اور ملاقاتوں کے لئے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں.میری حیرت اور فکر کی انتہا نہ رہی کیونکہ میں ایک مسافر کی حیثیت میں ایک دور دراز ملک سے تھوڑے عرصے کے لئے گیا تھا اور ملاقات کے لئے دو سال سے تڑپ رہا تھا اور یہ میری دلی آرزو تھی کہ حضرت اقدس کی ملاقات کا موقع تنہائی میں میسر آئے جو بات بنتی نظر نہ آتی تھی.( کیونکہ رش بہت تھا، لگتا نہیں تھا کہ تنہائی میں ملاقات ہو سکے گی) کہتے ہیں ہماری جماعت احمد یہ گجرات لنگر خانے میں کھانا کھانے میں مصروف تھی اور میں ملاقات کی فکر میں ادھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے مسجد مبارک کے نیچے کی گلی سے گزر رہا تھا کہ ایک بھائی کو اُس رستہ سے گزرتے ہوئے دیکھ کر میں نے پوچھا ( کوئی شخص وہاں کھڑا تھا)
خطبات مسرور جلد دہم 642 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اکتوبر 2012ء کہ میں دور دراز ملک سے آیا ہوں اور چاہتا ہوں کہ حضرت اقدس سے تنہائی میں ملاقات ہو جاوے.آپ مجھے کوئی طریقہ بتا دیویں.انہوں نے فرمایا اس دروازے میں ایک مائی بوڑھی حضرت اقدس کی خادمہ اکثر آتی جاتی ہے.اُس سے کہیں.ایک بوڑھی سی مائی ہے اُس سے کہو ) ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ خادمہ نظر آ گئی.میں نے بھاگ کر کہا کہ مائی جی میں بہت دور دراز ملک سے آیا ہوں اور حضرت اقدس کی تنہائی میں ملاقات کا اشتیاق ہے.مہربانی ہوگی اگر حضور کی خدمت میں مسافر کا پیغام پہنچا دیویں.مائی صاحبہ نے نہایت شفقت اور خوشی سے کہا کہ ذرا ٹھہرو.میں آتی ہوں.وہ جاتے ہی واپس آ گئی اور خوش خبری سنائی کہ میری مراد پوری ہو گئی ہے.حضرت اقدس نے فرمایا ہے او پر آجائیں.میں جھٹ بھاگ کر اپنے والد صاحب مرحوم کو بمع دوسرے چند غیر احمدی دوستوں کے جو میرے ہمراہ تھے، بلا کر لے آیا اور جونہی ہم اوپر گئے.ایک صحن میں کھڑے ہی ہوئے تھے کہ کھٹڑ کی کا دروازہ کھلا اور حضرت اقدس نے باہر آتے ہی السلام علیکم کہا.افسوس ہم کو پہلے السلام علیکم کہنے کا موقع نصیب نہ ہوا.( حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہل کی.) کہتے ہیں میرے والد شریف مرحوم باوجود مخالف ہونے کے حضور کے قدموں میں گر پڑے.حضور نے از راہ کرم اپنے دست مبارک سے اُن کے سر کو اُٹھا کر کہا کہ سجدہ کی لائق ذات باری ہے.بندوں کے آگے نہیں جھکا کرتے ، صرف اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں.پھر اس عاجز نے شتر مرغ کے چار انڈے بطور نذرانہ پیش کئے.حضور نے از راہ کرم منظور فرمائے اور نہایت شفقت اور محبت سے میرے افریقہ رہنے اور سفر وغیرہ کے حالات دریافت کئے اور میرا ہاتھ اپنے دست مبارک میں لے کر فرمایا کہ اس دنیا میں دل نہیں لگانا چاہئے.اور پھر فرمایا کہ اپنے آپ کو اُس مسافر کی حیثیت میں سمجھنا چاہئے جیسے کوئی مسافر خانے میں ٹکٹ لے کر گاڑی کا انتظار کر رہا ہو.اور مجھے کثرت سے استغفار پڑھنے کے لئے حضور نے تاکید فرمائی اور فرمایا کہ با قاعدگی سے خطوں میں دعا کے لئے لکھتے رہا کرو.پھر حضور نے میرے والد شریف کی بمع دو تین اور غیر احمدیوں کے جو میں ہمراہ لے گیا تھا، بیعت لی.( یا تو مخالف تھے یا ایک ملاقات میں ہی سب بیعت پر راضی ہو گئے ) اور اس قدر رو کر دل سے ہمارے لئے دعا فرمائی.( بیعت کے بعد جو دعا ہوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس قدر رو کے دعا کی ) کہ حضور کی آنکھیں پُر آب ہو گئیں اور ہمارے لئے آنسوؤں کو روکنا مشکل ہو گیا.دل اس قدر نرم اور گداز ہو گیا کہ آج دن تک ( یعنی آج کے دن تک ) بھی حضور کے دستِ مبارک میں ہاتھ دینا، حضور کا نورانی چہرہ دیکھنا، حضور کی شفقت بھری شرمیلی آنکھوں کا پُر آب ہونا اور مجھ عاجز، کمزور گناہگار کے لئے ہدایت، استغفار کرنا اور بار بار دعا کے لئے
خطبات مسر در جلد دہم 643 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اکتوبر 2012ء لکھنے کی ہدایت کرنا جب یاد آتا ہے تو طبیعت پر بجلی سا اثر ہو کر آنسوؤں کا تار بندھ جاتا ہے.وہ کیسا مبارک زمانہ تھا.مخالفت کے زبر دست پہاڑ ، سمندر، طوفان خدا کے پیارے نبی کی دعاؤں سے اُڑنے کا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا.(میں نے یہ جو مخالفت کے پہاڑ تھے، خدا کے پیارے نبی کی دعاؤں سے ان کے اُڑنے کا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا) اور اشد ترین دشمن کو مقابلے پر آنے سے لرزاں دیکھا.غیروں کے علماء وفضلا تو در کنار سلسلہ حقہ احمدیہ کے عالموں کا علم بھی اس چودھویں کے چاند تلے اندھیرے کا کام دے رہا تھا اور کسی کو کسی مسئلے پر حضور کی موجودگی میں دم مارنے کی جرات نہ ہوتی تھی.الغرض بیعت کی.دعا کے بعد حضور نے مصافحہ سے سرفراز فرمایا اور اجازت دے دی.جب جماعت احمدیہ گجرات کے احباب نے مع نواب خان صاحب تحصیلدار میری اس ملاقات کا ذکر سنا تو رشک سے کہنے لگے کہ ہم کو کیوں نہ ساتھ لے گئے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.رجسٹر نمبر 1 صفحہ 178 تا 182.روایات حضرت ڈاکٹر عمر دین صاحب) پھر ایک روایت حضرت ماسٹر عبدالرؤوف صاحب ولد غلام محمد صاحب کی ہے.ان کا سن بیعت 1898ء ہے اور اسی سال انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت بھی کی.کہتے ہیں کہ شروع زمانے میں جبکہ میری عمر بچپن کی تھی اور اُس وقت بھیرہ ہائی سکول میں تعلیم پاتا تھا.اس وقت یہ چر چا ہمارے بھیرہ میں ہوا کہ قادیان میں ایک شخص پیدا ہوا ہے جو امام مہدی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.کہتے ہیں ہوتے ہوتے ہمارے محلے میں بھی اسی طرح خبر پہنچی کہ ایک شخص جس کا نام مرزا غلام احمد ہے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.کہتے ہیں میں تو بچہ تھا اتناعلم نہ تھا.مگر میرا بھائی جس کا نام غلام الہی ہے اُس نے کتا ہیں پڑھ کر مرزا صاحب کی بیعت کر لی اور اُس کا نام 313 صحابہ میں درج ہے.( ان کا نام انجام آتھم میں جو فہرست ہے اُس میں 249 نمبر پر مستری غلام الہی صاحب بھیرہ کے نام سے درج ہے.) بہر حال کہتے ہیں میرے بھائی نے اپنے گھر کے تمام آدمیوں کے نام بیعت میں لکھوا دیئے.اُس وقت میں بھی مرز اصاحب کی کتابیں اور اشتہار جو محلے میں آتے ، پڑھا کرتا تھا اور اپنی مسجد میں بھی رات کے وقت پڑھ کر سناتا.گنگا بشن اور عبد اللہ آتھم تو اب تک یاد ہے.( جو بھی اشتہار ان کے بارے میں تھے.) بہر حال مجھے بھی مرزا صاحب کو ملنے کا شوق پیدا ہوا.یعنی مجھے شوق پیدا ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ملوں اور میں مغرب کی نماز کے بعد وہیں بھیرہ میں ہی ایک پل پر بیٹھ کر دعا ئیں کیا کرتا تھا کہ اے الہی ! اگر مرزا سچا ہے تو مجھے بھی قادیان پہنچا اگر جھوٹا ہے تو اسی جگہ بٹھا.(یعنی بھیرہ میں ہی رہوں، پھر مجھے وہاں
خطبات مسرور جلد دہم 644 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اکتوبر 2012ء جانے کی ضرورت نہیں ہے.) لکھتے ہیں کہ دسویں جماعت کا امتحان میں نے راولپنڈی میں دیا (جس زمانے میں چاند گرہن اور سورج گرہن 1311ھ میں ہوا تھا.وہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا.اُس وقت میں مڈل کی جماعت میں پڑھتا تھا.) جب میں امتحان سے سن 98ء میں (1898ء میں ) فارغ ہو چکا تو میرا بھائی غلام الہی مجھ کو قادیان میں اپنے ہمراہ لایا.اُس وقت میں نے مرزا صاحب کی دستی بیعت کی.اُس وقت چھوٹی سی مسجد تھی.کچھ دن رہ کر پھر میں اپنے بھائی کے ساتھ بھیرے میں واپس چلا آیا.حضرت مولوی نورالدین صاحب میرے بھائی کے واقف تھے.اس لئے انہوں نے میرے بھائی کو لکھا کہ اپنے بھائی عبدالرؤف کو قادیان بھیج دو.آخر خدا کے فضل سے 1899ء میں پھر دوبارہ قادیان پہنچا اور مولوی صاحب اور حضرت صاحب کی ملاقات کی.مولوی صاحب کو میری تعلیم کا علم تھا.اور میں غریب آدمی تھا.یعنی یہ پتہ تھا کہ جو اس زمانے کی تعلیم تھی اس کے مطابق میں پڑھا لکھا ہوں.لیکن غریب آدمی بھی ہوں اس لئے مولوی صاحب نے مدرسے میں مجھے ملازمت کی جگہ دے دی جو سن 1899 ء میں آٹھ روپے ماہوار پر دوم مدرس پرائمری کے عہدے پر مقرر ہوا.اُس وقت چھ سات جماعتیں تھیں.مڈل کی کلاس نہیں ہوتی تھی.آخر میں نے مدرسی کا کام سن 1902 ء تک کیا.اُس زمانے میں مولوی شیر علی صاحب ہیڈ ماسٹر مدرسہ تھے.پرائمری طلباء کو تعلیم بھی دیتا اور پانچوں نمازیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ہمراہ ادا کرتا جبکہ اُس وقت مولوی عبد الکریم صاحب امامت کراتے تھے.پانچوں نمازوں میں حضرت صاحب کی مجلس میں بیٹھتا.جب گھر سے تشریف لاتے تو حضرت صاحب نماز پڑھنے سے پہلے اپنے الہامات ، کشف ، رؤیا اور خوا ہیں سناتے.میں بھی اُن سے حظ اُٹھاتا.نماز کے وقت موقع پا کر پاؤں دبا تا مٹھی چاپی کرتا.کچھ عرصہ تو حضرت صاحب مغرب کے وقت کھانا مسجد میں کھاتے اور میں بھی مہمانوں کے ساتھ مسجد میں کھانا کھاتا.حضرت صاحب کا جوٹھا وغیرہ بھی کبھی کبھی بطور تبرک کے چکھ لیتا.مغرب کی نماز کے بعد حضرت صاحب مسجد مبارک کی شاہ نشین پر بیٹھتے.رنگا رنگ کے کلمات الہیہ، کشف اور خوا ہیں سناتے.علی ھذا القیاس.مسٹر ڈوئی، چراغ دین جونی اور مولوی کرم دین ساکن بھیں کے متعلق الہامات اور خوا میں بھی ہوتیں.یہ بیان فرماتے.یہ تمام باتیں کتابوں میں شائع ہو چکی ہیں.دوبارہ تحریر کرنے کی ضرورت نہیں.ماسٹر عبدالرؤف صاحب کے بارے میں مزید وہاں حاشیہ میں لکھا ہوا ہے کہ یہ صدرانجمن احمد یہ کے پینشنر تھے، سابق ہیڈ کلرک تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان.1899ء میں یہ سکول میں آئے ، 1902ء تک یہ ٹیچر رہے.اُس کے بعد دفتر ریویو آف ریلیجر میں کام کیا.پھر چھ (1906ء) سے ستائیس سن
خطبات مسرور جلد دہم 645 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اکتوبر 2012ء (1927ء) تک ہائی سکول کے ہیڈ کلرک رہے.یہ کہتے ہیں کہ مسیح موعود کو میں اُس وقت سے مانتا تھا جس زمانے میں چاند گرہن اور سورج گرہن ہوا تھا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.رجسٹر نمبر 7 صفحہ 88-89.روایات حضرت ماسٹر عبدالرؤف صاحب) پھر ایک روایت حضرت مولوی محمد عبد العزیز صاحب ولد مولوی محمد عبد اللہ صاحب کی ہے.ان کا بیعت کاسن 1904ء ہے.کہتے ہیں قبل اس کے کہ میں اپنی بیعت اور چشم دید حالات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان کروں، ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے والد صاحب مرحوم جناب مولا نا مولوی محمد عبد اللہ صاحب مغفور صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حالات بیان کروں.(ان کے واقعات بھی بڑے دلچسپ ہیں کیونکہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بڑا امتحان لینے کی کوشش کی تھی اور پھر جب ہر طرح سے تسلی ہوگئی تو پھر انہوں نے بیعت کی تھی.بہر حال کہتے ہیں) کیونکہ آپ نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دستِ مبارک پر بیعت کی تھی اور آپ کے بہت سے چشم دید واقعات تھے جو قلمبند نہیں ہو سکے اور آپ رخصت فرما گئے ( یعنی وفات پاگئے ) لہذا ضروری ہوا کہ حسب مقولہ الْوَلَدُ سِر لِأَبِيه (اور فارسی میں کہتے ہیں کہ ) و چیزے کہ پدر تمام نہ گند پسرش تمام گند.( یعنی کہ جو کام باپ نہیں کر سکا وہ بیٹا مکمل کرے ).وہ حالات بیان کر دوں.تو کہتے ہیں بہر حال جناب والدم بزرگوار مولوی محمد عبداللہ صاحب ساکن موضع بھینی ڈاکخانہ شر قبور ضلع شیخوپورہ اہل حدیث خیال کے تھے اور قوم کے بہت بڑے لیڈر تھے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی نذیرحسین صاحب دہلوی نے اُن کو انجمن اہل حدیث کا ڈپٹی کمشنر تجویز کیا ہوا تھا.اُس علاقے میں یہ بہت بڑے لیڈر سمجھے جاتے تھے اور ان کی نمائندگی کیا کرتے تھے.کہتے ہیں آپ کی شہرت کی وجہ سے موضع تھے غلام نبی ضلع گورداسپور والوں نے جو اہلحدیث تھے، آپ کو اپنے پاس بلایا اور انہوں نے ذکر کیا کہ ہمارے قریب ایک قصبہ قادیان ہے جہاں حضرت مرزا غلام احمد صاحب رہتے ہیں اور الہام کے مدعی ہیں اور انہوں نے ایک لڑکے کے متعلق پیشگوئی کی ہوئی ہے جو پوری نہیں ہوئی.پہلے لڑکی پیدا ہوئی اور ازاں بعد ایک لڑکا پیدا ہوا یہ پیشگوئی مصلح موعود کا ذکر کر رہے ہیں.) غیر احمدی مولویوں نے ان کو کہا کہ پہلے تو لڑکی پیدا ہوئی اور پھر لڑکا پیدا ہوا جو کچھ دنوں کے بعد فوت ہو گیا.چلو ایسے شخص سے ا چل کر مناظرہ کیا جائے.(ان کے نزدیک یہ الہام وغیرہ یا وحی وغیرہ نہیں ہوسکتی تھی جس کی پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی تھی.تو ان کو بلایا گیا کہ چلیں مناظرہ کریں.چنانچہ آپ ان دنوں
خطبات مسرور جلد دہم 646 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اکتوبر 2012ء جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی دعوی نہ تھا صرف الہام کا سلسلہ جاری تھا اور حضور کتاب براہین احمدیہ لکھ رہے تھے قادیان میں تشریف لائے.( ان کے والد جن کا یہ ذکر کر رہے ہیں ) اور حضور سے پیشگوئی مذکورہ بالا کے متعلق بھی گفتگو ہوئی ( یعنی پیشگوئی مصلح موعود کے بارے میں گفتگو ہوئی.) اور سوال کیا کہ اگر آپ کے الہامات صحیح ہوتے تولڑ کے والی پیشگوئی کیوں پوری نہ ہوتی.پہلے لڑکی پیدا ہوئی پھر لڑ کا پیدا ہوا اور وہ بھی مر گیا.کیا یہ پیشگوئیاں اسی قسم کی ہوا کرتی ہیں.تو کہتے ہیں میرے والد بزرگوار فرمایا کرتے تھے کہ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ کیا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے متعلق کوئی پیشگوئی فرمائی تھی؟ تو مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جواب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حج کے بارے میں پیشگوئی ہے، تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پر فرمایا کیا پھر وہ اس سال ہی پوری ہو گئی تھی اور آپ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حج کر کے واپس تشریف لے آئے تھے؟ تو اس پر ان کے والد مولوی صاحب نے کہا کہ اگر اس سال حج نہ ہوا تھا تو اُس سے اگلے سال تو ہو ہی گیا تھا.حضرت صاحب نے ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ) کہا کہ میں نے کب کہا تھا کہ اسی سال لڑکا پیدا ہو جائے گا.یہ خدا کی پیشگوئی ہے جو پوری ہوگی اور ضرور پوری ہوگی، خواہ کسی سال ہی پوری ہو کیونکہ اس کا ایک عرصہ ہے.(معین ایک سال تو نہیں تھا، اس کا عرصہ بتایا گیا تھا) اس پر سلسلہ کلام ختم ہوا اور مولوی صاحب نے کوئی نیا سوال نہ کیا.مگر اس اعتراض پر اُن کا اصرار رہا کہ آپ کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.(لیکن بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس کے بعد اپنے اشتہار جو 22 / مارچ 1886ء میں دیا تھا اُس میں حد بندی بھی کر دی تھی کہ وہ موعود نو برس کے اندراندر پیدا ہو جائے گا اور پھر یکے بعد دیگرے کئی ایک اشتہارات میں اُس کا ذکر بھی فرمایا تھا.بہر حال یہ خود ہی آگے کہتے ہیں کہ وہ پیشگوئی پوری ہوئی یا حضرت مصلح موعود خلیفہ اسیح الثانی پیدا ہوئے.پھر آگے ذکر کرتے ہیں کہ ) چونکہ مولوی صاحب موصوف ( یعنی ان کے والد جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے بحث کرنے آئے تھے ) علوم عربی و فارسی میں ید طولیٰ رکھتے تھے اور علوم صرف ونحو، منطق، بدیعی ، بیان وغیرہ میں لاثانی انسان تھے ، اپنے علم کے خیال میں اس نکتیہ معرفت اور جواب باصواب سے انہوں نے کوئی استفادہ نہ کیا ، ( یعنی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بحث ہوئی تھی ، اُس سے وہ کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے ) اور یہ سچ ہے کہ كُلُّ أَمْرٍ مَرْهُونَ بِاَوْ قَاتِهَا.کہ ہر کام کے لئے ایک وقت مقرر ہوتا ہے.اُس وقت آپ انکار پر مصر رہے.(وہیں انکار پر اصرار کرتے رہے.) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطبات مسرور جلد دہم 647 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اکتوبر 2012ء کی بات نہیں مانی.حضور نے آپ کے علم کا موازنہ فرما کر اپنی کامل مہربانی سے آپ کو یہ بھی فرمایا ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کی باتوں سے اندازہ لگالیا کہ آپ صاحب علم آدمی ہیں تو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب ! میں نے ایک کتاب بنام براہین احمدیہ مخالفین کے اعتراضات کے جواب میں لکھی ہے اور اس میں دس ہزار روپے کا چیلنج بھی دیا ہے جو آ جکل طبع ہونے والا ہے.اگر آپ یہاں ٹھہر جائیں اور طباعت کے لئے اس کے پروف دیکھ لیا کریں تو بہت اچھا ہو، اس کا حق الخدمت بھی آپ کو دیا جائے گا.( جو بھی اجرت بنتی ہے ) یہ مولوی عبد العزیز صاحب اپنے والد صاحب کے متعلق لکھتے ہیں کہ افسوس کہ آپ نے اُسے تسلیم نہ کیا اور خالی واپس چلے گئے اور اسی انکار پر قریباً پندرہ سولہ برس گزر گئے.مگر ( تسلیم نہ کیا.لیکن ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ ) آپ کی فطرت میں بہر حال ایک نیکی تھی.کہتے ہیں کہ سعادت بھی تھی فطرت میں اور نیکی بھی تھی.جب کوئی شخص حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو گالی دیتا یا تو ہین سے یاد کرتا تھا تو آپ اُسے روکتے اور فرماتے کہ خدا تعالیٰ نے تو کفار کے بتوں کو بھی گالی دینے سے منع کیا ہے.پس یہی یا بعض اور خوبیاں تھیں جو آپ کے وجود میں تھیں اور آپ کی ہدایت کا موجب ہوئیں.پھر بیان کرتے ہیں غرض اسی خاموشی میں جب وقت گزر گیا.1902 ء کا زمانہ آ گیا.( پندرہ سولہ سال کا عرصہ گزر گیا اور 1902 ء آ گیا.) اس اثناء میں آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب جنگ مقدس اور آئینہ کمالات اسلام کا مطالعہ کر چکے تھے جس کی وجہ سے کئی سوالات کا تو تصفیہ ہو گیا ( جو آپ کے یعنی مولوی صاحب کے ذہن میں سوال اُٹھتے تھے.یہ دو کتابیں پڑھنے کے بعد بہت سارے سوالوں کا جواب آ گیا لیکن کئی نئے اعتراض بھی پیدا ہو گئے.چنانچہ آپ نے اکیس سوالات نوٹ کر لئے.( جو اعتراضات پیدا ہوئے وہ اکیس سوالات کی صورت میں نوٹ کئے ) اور 1902ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے مناظرے کے لئے قادیان کو روانہ ہو گئے کہ وہاں جا کر میں مناظرہ کروں گا اور براہ راست مسجد مبارک میں تشریف لائے.( کسی کو کچھ نہیں بتایا.وہاں کے رہنے والوں میں سے کسی سے کچھ نہیں پوچھا، سیدھے گئے اور مسجد مبارک میں تشریف لے گئے.اُس کی بھی ایک وجہ تھی جو آگے بیان ہوگی) اور کسی نماز کے وقت پہنچے اور نماز باجماعت ادا کی.) اس لئے کسی کو نہیں بتایا کیونکہ مشہور یہ تھا کہ مرزا صاحب نے چند ایجنٹ رکھے ہوئے ہیں جو آنے والے مہمان سے سب کچھ پوچھ لیتے ہیں، جس طرح پیروں کی عادت ہوتی ہے اور اندر خبر پہنچا دیتے ہیں اور مرزا صاحب جس کمرے میں
خطبات مسرور جلد دہم 648 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اکتوبر 2012ء رہتے ہیں اُس کے کئی دروازے ہیں.عجیب عجیب کہانیاں بنائی تھیں.اور ہر ایک غرض کے لئے علیحدہ علیحدہ دروازہ تجویز کیا ہوا ہے.مرزا صاحب کے پاس جب مہمان اندر جاتا ہے تو چونکہ مرزا صاحب کو پہلے ہی اطلاع پہنچی ہوئی ہوتی ہے، آپ جاتے ہی پوچھتے ہیں کہ آپ کا یہ نام ہے اور آپ فلاں جگہ سے فلاں کام کے لئے آئے ہیں، وغیرہ وغیرہ اور ایسی باتوں سے مہمان کو یقین ہو جاتا ہے.( یہ کہانیاں مشہور تھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں اس لئے انہوں نے کچھ نہیں بتایا.) تو لکھتے ہیں ایسی باتوں سے اس مہمان کو یقین ہو جاتا ہے کہ یہ یقیناً ولی اللہ ہے جو خود بخودہی سب کچھ بیان کر رہا ہے.غرض اُس وقت یہ خیال مولوی صاحب کے دل میں بھی تھا.( یہ جو مولوی صاحب گئے تھے ان کے دل میں بھی یہی خیال تھا) اور یہ خیال تھا کہ اگر مجھ سے کوئی پوچھے گا تو کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا.اسی واسطے آپ سیدھے مسجد میں آئے اور کسی سے کچھ نہیں پوچھا.( بعد میں خود ہی کہتے ہیں کہ یہ امر غلط ثابت ہوا اور مخالفین کا بہتان.خیر بہر حال ) چونکہ اُس وقت نماز کا وقت تھا یا نماز ہو رہی تھی ، آپ نے نماز با جماعت گزاری.بعد از نماز حضرت اقدس شاہ نشین پر رونق افروز ہوئے اور دوسرے احباب ادھر ادھر بیٹھ گئے.بعد از ملاقات السلام علیکم عرض کرنے کے مولوی صاحب نے چپکے سے حضرت صاحب کے پاؤں پکڑ کر دبانے شروع کئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ خدا کے نبیوں کا امتحان کرنا اچھا نہیں ہوتا.(ان کی نیت دبانے کی نہیں تھی ، کچھ اور تھی ، آگے بیان ہو گی.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ خدا کے نبیوں کا امتحان لینا اچھا نہیں ہوتا.فورا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل میں ڈال دیا کہ یہ دبانا اخلاص کا نہیں ہے بلکہ کوئی اور وجہ ہے.بہر حال کہتے ہیں کہ ) یہ ایک نشان تھا جو حضور کی پہلی ملاقات میں ہی آپ نے ( یعنی مولوی صاحب نے ) ملاحظہ فرما لیا.اور آپ کو ایمانی روح حاصل کرنے کے لئے ممد ہوا.( بیٹا اپنے باپ کے بارے میں کہہ رہا ہے.خیر ) الحمد للہ علی ذالک.پھر لکھتے ہیں کہ بات یہ تھی جناب مولوی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ایک حدیث یا روایت میں دیکھا تھا کہ حضرت امام مہدی کی صداقت کا ایک نشان یہ ہوگا کہ آپ کے پاؤں میں ( پنجابی میں لکھا ہوا ہے ) لپا یا گڑھا نہیں ہوگا بلکہ سید ھے ہوں گے flat footed جو ہوتے ہیں اُس طرح، زیادہ تلوے میں گڑھا نہیں ہوگا.تو آپ نے اسی خیال سے حضور کے پاؤں کو پکڑا.( دبانے کی نیت سے نہیں پکڑا تھا یہ دیکھنے کے لئے کہ گڑھا ہے کہ نہیں ) اور اُس کے پکڑنے سے دو نشان ملاحظہ فرمائے.ایک تو یہ کہ حضور کے پاؤں میں حسب ارشاد نبوی فی الواقع وہ گڑھا نہیں تھا.دوم خود ہی حضور نے فرما دیا کہ خدا کے نبیوں کا امتحان کرنا اچھا
خطبات مسرور جلد دہم 649 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اکتوبر 2012ء نہیں ہوتا.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تو کسی نے نہیں بتایا تھا.جبکہ بیسیوں آدمی حضور کے پاؤں وغیرہ دبایا کرتے تھے مگر یہ لفظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی نہیں فرمایا تھا جو اس وقت آپ نے فرمایا کہ خدا کے نبیوں کا امتحان کرنا اچھا نہیں ہوتا.یہ کیسے خیال پیدا ہو گیا کہ اُس وقت دبانے والا امتحاناد با رہا ہے.اور اس وقت یقینا تھا بھی امتحانی دبانا.پس یہ ایک بین نشان تھا جو آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ایمانی تازگی حاصل کی.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ و عَلَی آلِ مُحَمَّد.پھر لکھتے ہیں کہ اس کے بعد مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور میرے چند سوالات ہیں اگر حکم ہو تو عرض کروں.حضور نے اجازت فرمائی.مولوی صاحب نے پہلا سوال پیش کیا جو مولوی صاحب اور حضرت اقدس کے کلام کا جو سلسلہ ہے اُسی طرح لکھا جاتا ہے.مولوی صاحب پوچھتے ہیں کہ : حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حاضنہ (دائی ) تھیں، ( کھلانے والی تھیں) حضرت ایمن جن کا نام تھا جن کو حضور روزانہ یا اکثر دفعہ آپ کے پاس پہنچ کر اپنی تازہ وحی سے مشرف فرما یا کرتے تھے جس سے آپ مسرور رہتی تھیں.( وحی سن کے خوش ہوا کرتی تھیں) حتی کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا انتقال ہو گیا اور حضرت ابوبکر صدیق جانشین مقرر ہوئے.آپ بھی ایک دن والدہ صاحبہ سے یعنی اُم ایمن سے ملنے کے لئے تشریف لے گئے.تو والدہ صاحبہ رونے لگ گئیں.آپ نے فرمایا کیا آپ اس لئے روتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے.یہ سنت اللہ تھی جو پوری ہوئی.اتاں جان نے فرمایا کہ نہیں بلکہ میں اس لئے روتی ہوں کہ انْقَطَعَتِ الْوَحْی.کہ آج وحی منقطع ہوگئی.پس جب اماں جان صاحبہ انقطاع وحی کی قائل ہیں تو آپ کیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وحی کے قائل ہو سکتے ہیں؟ یہ اُن کا سوال تھا.بڑی لمبی تمہید کے بعد یہ سوال تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو انقطاع وحی ہو چکا ہے تو اب کس طرح وحی ہو سکتی ہے؟ آپ کہتے ہیں مجھے وحی ہوتی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ کیا آپ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ کے ماتحت تسلیم کرتے ہیں کہ یہ امت خیر امت ہے.مولوی صاحب نے کہا: ہاں میں مانتا ہوں.حضرت اقدس نے فرمایا کہ کیا آپ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ آیت أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِينَ (المائده: 112)، وَأَوْحَيْنَا إِلَى أُمَّ مؤسى (القصص:8)، وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ (النحل: 69) کے ماتحت مسیح کے حواریوں اور موسیٰ کی والدہ اور شہد کی مکھیوں وغیرہ کو وحی الہی ہوئی اور ہوتی ہے.مولوی صاحب نے کہا ہاں ضرور ہوتی تھی اور ہوتی ہے.
خطبات مسرور جلد دہم 650 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اکتوبر 2012ء بڑا اچھا یہ ایک تبلیغی قسم کا مناظرہ چل رہا ہے.) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تو پھر کیا یہ امت مسیح کے حواریوں اور موسیٰ کی امت کی عورتوں اور حیوانوں سے بھی گئی گزری ہو گئی کہ انہیں تو وحی ہوئی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو جو خیر امت ہے ، وحی نہ ہو.مولوی صاحب نے کہا.ان وحیوں کا تو قرآن کریم میں ذکر آیا ہے.کیا یہ بھی کہیں ذکر آتا ہے کہ اس امت محمدیہ میں بھی وحی ہوگی؟ اس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ جبکہ آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پہلی امتوں میں وحی ہوتی رہی ہے اور ادھر اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں دعا سکھلائی ہے جس کے بغیر آپ کا یقین ہے کہ نماز ہی نہیں ہوتی اور ہر رکعت میں اس کا پڑھنا فرض ہے.فرمایا صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم (الفاتحة: 6) یعنی خدایا تو ہمیں اُن لوگوں کا راستہ دکھا جن پر تو نے انعام کیا اور وہ ایمان ہمیں بھی عطا فرما.پس جب اُن لوگوں میں وحی کا انعام موجود ہے، تو دعا کے نتیجے میں اس امت میں کیوں وحی نہ ہوگی.دوسرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.آپ نے آیت کا حوالہ دیا کہ اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ (حم السجدہ: 31).یعنی جن لوگوں نے کہہ دیا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر مستقیم ہو گئے ، استقامت اختیار کی ، ثابت قدم ہوئے ، ان پر خدا کے ملائکہ کا نزول ہوتا ہے.اور وہ کہتے ہیں کہ یہ مت خیال کرو اور مت غم کرو اور تمہیں اُس جنت کی بشارت ہے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اس آیت سے نزول وحی بوساطت ملائکہ ضروری ہے جو اس امت کے مومنین اور اہلِ استقامت کے لئے ضروری ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تیسری بات، تیسری آیت که لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوة الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ (يونس : 65) کہ مومنین خیر امت کے لئے اس حیاتی دنیا میں بھی بشارتیں ملتی ہیں اور آخرت میں بھی ملیں گی.پس یہ بشارتیں وحی نہیں تو اور کیا ہے؟ پس اس ضمن میں حضور نے بہت سی اور بھی قرآنی آیات نزول وحی کے ثبوت کے طور پر پیش کیں.یہ مناظرہ جب ہورہا تھا تو مولوی صاحب نے کہا کہ حضور ! یہ توسیع ہے کہ ان آیات سے نزول وحی ثابت ہوتی ہے اور اس امت کے لئے ہے.جب قرآن کریم میں ثبوت وحی فی ھذہ الامۃ موجود تھا تو پھر حضرت اتاں جان نے یہ کیوں فرمایا کہ انقطعت الوخی کہ آج وحی بند ہوگئی.کیا آپ کو ان آیات کا علم
خطبات مسرور جلد دہم 651 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اکتوبر 2012ء نہ تھا؟ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب! یہ تو بتلائیے کہ اس جگہ الوخی پر آل ( الف لام) کیسا ہے.یہ آئل اُس وحی کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا کرتی تھی.اور حضور ہر روز اماں جان کو سنایا کرتے تھے.پس وہ قرآنی اور شرعی وحی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا کرتی تھی وہ یقینا بند ہوگئی تھی اور ہو چکی ہے.اس سے یہ کہاں ثابت ہے کہ اس قسم کی وحی قیامت تک کے لئے بند ہے جبکہ آیات قرآنیہ میں نزول وحی بالتصریح موجود ہے.مولوی صاحب اس پر ساکت ہو گئے اور آگے کوئی نیا سوال نہ کیا.اکیس سوالوں میں سے بس ایک ہی سوال کیا اور بس پھر اُن کی تسلی ہو گئی ) حضرت اقدس نے اس کے بعد پھر ایک بڑی مبسوط تقریر فرمائی.(بڑی لمبی اور دلائل سے پر تقریر فرمائی) جس سے اُن جملہ اعتراضات کا خود ہی حل فرما دیا جو کہ مولوی صاحب نوٹ کر کے لائے تھے.(اب مولوی صاحب نے باقی سوال نہیں پوچھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس کے بعد جو تقریر فرمائی اُس میں ان سارے سوالوں کے جواب آگئے کہ وہ جو نوٹ کر کے لائے تھے اور آپ کے ایک کھیسے میں ( یعنی جیب میں ) موجود تھے.اس ملاقات سے پہلے (انہوں نے ان سوالوں کا ) کسی سے ذکر بھی نہیں کیا تھا.مولوی صاحب اُس وقت متعجب ہوئے اور سوچا کہ اگر اس شخص پر وحی کا نزول نہیں ہوتا تو آپ کو ان باتوں اور سوالات سے کس نے علم دیا جو آپ کے پاس لکھے ہوئے تھے ، ( یعنی جیب میں پڑے ہوئے تھے ).جب یہ دیکھا کہ میرے تو سارے سوال جو میری جیب میں پڑے ہوئے ہیں ، ان کا جواب بھی بغیر پوچھے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دے دیا تو تھوڑی دیر خاموش رہے.پھر حضور کو عرض کی کہ حضور ہاتھ کریں.میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں.پس آپ نے اُسی وقت خدا کے فضل سے بیعت کی اور اس کے بعد آپ کو کبھی بھی کوئی اعتراض حضور کی ذات پر پیدا نہیں ہوا اور آپ کے ایمان اور عرفان میں دن بدن ترقی ہوتی گئی.ازاں بعد حضرت خلیفہ اول کی بیعت میں بلا چون و چرا داخل ہو گئے.خلافت ثانیہ میں بھی (حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی بھی بیعت کی ) تب بھی کسی قسم کا شبہ پیدا نہیں ہوا.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذُلِكَ.پھر یہ بیٹے لکھتے ہیں کہ آپ جس وقت بیعت کر کے واپس تشریف لے گئے تو دوآبہ باری اور چناب کے اکثر لوگ جو آپ کے معتقدین میں سے تھے، (اُس علاقے میں جہاں آپ رہتے تھے.آپ کے معتقدین میں سے تھے ) اور پہلے اُن کا خیال تھا کہ اگر مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطبات مسرور جلد دہم 652 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اکتوبر 2012ء کی بیعت کر لی تو ہم سب سلسلہ بیعت میں داخل ہو جائیں گے.لیکن ہوا کیا کہ جب آپ نے بیعت کر لی تو سب کے سب آپ کے دشمن ہو گئے اور آپ کے قتل کے منصوبے کرنے لگے.مگر آپ نے نہایت ثبات اور استقلال سے اُن کا مقابلہ کیا اور تبلیغ کا سلسلہ عاشقانہ رنگ میں جاری رکھا اور قریباً اٹھارہ سال تک آپ آنریری مبلغ رہے اور آپ کی معرفت خدا کے فضل سے قریباً تین سو آدمی یا اُس سے زیادہ سلسلہ بیعت میں داخل ہوئے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 4 صفحہ 7 تا 17.روایات حضرت مولوی محمد عبد العزیز صاحب ) تو یہ تھیں روایات.پس یہ چند واقعات ہیں جو اُن لوگوں کے بیان کئے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے اپنی روحانیت میں بھی مزید ترقی کی اور اللہ تعالیٰ کی ذات کا عرفان بھی اُن میں مزید بڑھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کے نئے زاویے بھی اُن کے سامنے آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عشق تھا اس کی وجہ سے آپ کے عاشق صادق سے وفا ، اخلاص اور محبت بھی تمام دنیا وی رشتوں سے بڑھ کر ابھری.اللہ تعالیٰ ان بزرگوں پر ہزاروں ہزار رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے اور ہمیں بھی زمانے کے امام کی بیعت میں آنے کے بعد اس بیعت کا حق ادا کرنے والا بنائے اور ہم اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والے ہوں اور اس طرف توجہ دینے والے ہوں.آنے سے پہلے ایک افسوسناک اطلاع بھی آئی تھی جس کی تفصیلات تو ابھی نہیں آئیں کہ کراچی میں شاید جمعہ کے بعد ہی ایک فیملی جا رہی تھی، وہ ناظم امور طلباء تھے وہ خود موٹر سائیکل پر تھے اور ان کی باقی فیملی کے لوگ شاید گاڑی میں تھے تو ان پر فائرنگ ہوئی.یہ نو جوان تو شہید ہو گئے.إِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اور ان کے رشتے دار، والد اور دوسرے عزیز جو گاڑی میں سوار تھے وہ زخمی ہیں.اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کے درجات بلند کرے.تفصیلات باقی آئیں گی تو پھر صورتحال سامنے آئے گی.بہر حال یہ جو زخمی ہیں.پتہ یہی لگا ہے ان کی حالت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ابھی خطرے سے باہر ہے لیکن بہر حال دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو ہر قسم کی پیچیدگی سے بچائے اور شفائے کاملہ عاجلہ عطافرمائے.اسی طرح گھٹیالیاں سے بھی ایک شہادت کی اطلاع آئی ہے.اللہ تعالیٰ ان شہیدوں کے درجات بلند کرے اور یہ جو زخمی ہیں جیسا کہ میں نے کہا ان کے لئے دعا کریں.ویسے بھی عمومی طور پر پاکستان میں آجکل جو حالات ہیں بہت دعائیں کرنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر قسم کے شر سے بچائے.اس کے علاوہ ایک جنازہ بھی میں پڑھاؤں گا جو مکرمہ سیدہ امته الرحمن صاحبہ اہلیہ مکرم سید عبد الغنی شاہ
خطبات مسرور جلد دہم 653 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اکتوبر 2012ء صاحب مرحوم ربوہ کا ہے.جن کی وفات 15 اکتوبر کوایک لمبی علالت کے بعد ہوئی ہے.إِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ.آپ حضرت قریشی عبدالرحمن صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیٹی تھیں.بڑی نیک ، پابند صوم وصلوٰۃ ، توفیق سے بڑھ کر مالی قربانیوں میں حصہ لینے والی ، بہت ملنسار اور مہمان نواز خاتون تھیں.سادہ مزاج ، عاجزانہ زندگی گزار نے والی تھیں.جلسہ کے موقع پر پاکستان میں جب جلسے ہوتے تھے تو پچاس پچاس مہمان ان کے گھر میں آکر رہتے تھے اور یہ ان سب کے لئے لنگر خانے کے علاوہ بھی کچھ نہ کچھ کھانا ضرور پکاتی تھیں.اسی طرح ہر وقت چائے کے لئے انتظام رہتا تھا.بعض عزیزوں کی جو بچیاں ہیں ان کی شادیوں پر جب پتہ لگتا تھا، کہ غربت کی وجہ سے اُن کے والدین کی طرف سے کوئی زیور نہیں ملا، تو اُن کو اپنا کوئی نہ کوئی زیور دے دیا کرتی تھیں.جس کی وجہ سے اُن کے اپنے زیور بھی آہستہ آہستہ ختم ہو گئے.بچوں کو ہمیشہ جماعت کی خدمت کی ترغیب دلاتی رہتی تھیں اور اسی کا اثر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے بچے جماعت میں خدمت کی توفیق پارہے ہیں.موصیبہ تھیں اور 1953ء میں نظام وصیت میں شامل ہونے کی توفیق پائی.ان کے بچوں میں دو بیٹے ان کے واقف زندگی ہیں.ایک وقف جدید میں وہاں معلم ہیں اور دوسرے عبد اللہ ندیم صاحب پہلے پہین میں تھے آجکل چتی میں ہیں.وہ جنازے میں شامل بھی نہیں ہو سکے.اللہ تعالیٰ ان کی اولا دکو، ان سب کو صبر اور ہمت اور حوصلہ دے.اور ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے.اسی طرح ان کے ایک پوتے ہیں وہ بھی مربی سلسلہ ہیں اور ربوہ کی نظارت اشاعت میں آجکل کام کر رہے ہیں.اسی طرح ان کے داماد منیر جاوید صاحب ہیں وہ یہاں پرائیویٹ سیکرٹری ہیں، تو چار افراد ان کے گھر کے واقف زندگی ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی اُن خواہشات کو جو ان کو اپنے بچوں کے بارے میں تھیں پورا کرے اور ان کی اولا دکو نیکیوں میں بڑھائے.مرحومہ کے درجات بلند فرمائے.باقی بچیاں اور بچوں کو سب کو ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 9 تا 15 نومبر 2012 جلد 19 شماره 45 صفحه 5 تا 9)
خطبات مسرور جلد دہم 654 43 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26اکتوبر 2012ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 26 اکتوبر 2012 ء بمطابق 26 راخاء 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ وَالْيَوْمِ الْمَوْعُودِ وَشَاهِدٍ وَمَشْهُودٍ قُتِلَ أَصْحَبُ الْأَخْدُودِ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ إِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُودُ وَهُمْ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ شُهُودٌ وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاللهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَهُمْ جَنَّتٌ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا الأَنْهرُ ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ - ( البروج: آيات 2 تا 12 ) ان آیات کا ترجمہ ہے کہ قسم ہے برجوں والے آسمان کی اور موعود دن کی ، اور ایک گواہی دینے والے کی اور اس کی جس کی گواہی دی جائے گی.ہلاک کر دیئے جائیں گے کھائیوں والے ( یا خندقوں والے).یعنی اس آگ والے جو بہت ایندھن والی ہے.جب وہ اس کے گرد بیٹھے ہوں گے.اور وہ اس پر گواہ ہوں گے جو وہ مومنوں سے کریں گے.اور وہ ان سے پر خاش نہیں رکھتے مگر اس بنا پر کہ وہ اللہ ، کامل غلبہ رکھنے والے صاحب حمد پر ایمان لے آئے.جس کی آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور اللہ ہر چیز پر گواہ ہے.یقینا وہ لوگ جنہوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو فتنہ میں ڈالا پھر تو بہ نہیں کی تو ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لئے آگ کا عذاب (مقدر) ہے.یقیناوہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے ان کے لئے ایسی جنتیں ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں.یہ بہت بڑی کامیابی ہے.
خطبات مسرور جلد دہم 655 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26اکتوبر 2012ء یہ آیات سورۃ البروج کی ہیں جن میں اسلام کی اصل تعلیم کا ہر زمانے میں محفوظ رہنے کا بھی ذکر ہے.اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے مسیح موعود کے آنے کا بھی ذکر ہے.آپ کے یعنی مسیح موعود کے اور آپ کی جماعت کے دشمنوں اور مخالفین کا بھی ذکر ہے.افراد جماعت کو قربانیوں کے لئے تیار بھی کیا گیا ہے.یعنی ایسی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑے گا، ایسی مخالفت اور تکالیف ہوں گی جولمبا عرصہ دی جاتی رہیں گی.اُن مخالفتوں کے لئے تیار ہو جاؤ.لیکن اللہ تعالیٰ یہ سب کچھ دیکھ کر خاموش نہیں رہے گا بلکہ ایک دن آئے گا جب یہ لوگ جو مومنوں کو تکالیف دینے والے ہیں، جہنم کا عذاب دیکھیں گے اور جس آگ میں احمدیوں کو جلانا چاہتے تھے یا جلا رہے ہیں اور جلانے کی کوشش کر رہے ہیں، اُس سے بڑی آگ میں یہ جلیں گے.جبکہ احمدیوں کے لئے ، مومنین کے لئے ، مومنات کے لئے جنتیں ہیں ، کامیابیاں ہیں.جماعت کو بحیثیت جماعت اس دنیا میں بھی غلبہ کی خوش خبری ہے اور ہر مومن کو جنت کی ، کامیاب زندگی کی خوشخبری ہے.پس ان آیات کے مضمون کا یہ خلاصہ ہے.جب ہم ان آیات پر غور کریں اور ذرا تفصیل میں جائیں اور آج کل کے جماعت کے حالات پر بھی غور کریں تو جہاں قرآن کریم کی صداقت پر یقین بڑھتا ہے وہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر یقین بڑھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور یقین میں اضافہ ہوتا ہے کہ کس طرح پیشگوئی کے طور پر پندرہ سو سال پہلے ایک بات بیان فرماتا ہے، ایک نقشہ کھنچتا ہے اور اسی طرح وہ پورا ہو بھی رہا ہے.اسلام کے ہر زمانے میں ہرا بھرا رہنے، چاہے وہ مخصوص اور محدود علاقوں اور لوگوں میں ہی رہا، اس کی یہ تسلی دلاتا ہے اور پھر اسی طرح ہوتا بھی چلا جاتا ہے کہ اسلام قائم ہے.اور پھر ایک ایسے موعود کے آنے کی خوشخبری بھی دیتا ہے جو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد اور پیغام کو محدود جگہوں پر اور محد و دلوگوں میں نہیں جیسا کہ پہلے مسجد دین کے زمانے میں ہوتا رہا ہے بلکہ تمام دنیا اور تمام قوموں میں پھیلا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی چمک دنیا کو دکھائے گا.یہ پیشگوئی بھی ہمیں اس میں نظر آتی ہے.اور اس پیغام کو پھیلانے کے لئے دنیا کے ہر ملک میں ایک جماعت قائم کر کے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا عرفان بھی اس شاہد مسیح موعود نے جماعت کو دیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف: 159).پس یہ سب کچھ مسیح موعود اور جماعت احمدیہ کی صداقت کو بھی روز روشن کی طرح واضح کر رہا ہے، دکھا رہا ہے.خوش قسمت ہیں ہم جو مسیح موعود کی جماعت کا حصہ بن کر اُس شاہد سے منسلک ہیں جو اس عظیم مشہود کی سچائی کی گواہی دے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد اور مشن کو آگے بڑھانے کے لئے آیا،
خطبات مسرور جلد دہم 656 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26اکتوبر 2012ء جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت دنیا پر روشن کرنے کے لئے آیا.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اُسے بھیجا اور اپنے وعدہ کے مطابق بھیجا.قرآن کریم کی خوبصورت سچائی اور اس کے سب سے اعلیٰ وارفع ہونے کو دنیا پر ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بھیجا، جس نے اسلام میں در آنے والی ، شامل ہو جانے والی تمام لغو باتیں اور بدعات سے پاک اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا کے سامنے رکھا.جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند مقام ومرتبہ کو دنیا کے سامنے پیش فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی سے پہلے اسلام کی حالت دیکھ کر لوگ ایک شاہد کی ضرورت محسوس کر رہے تھے.وہ لوگ جن کے دل میں اسلام کا درد تھا ، بے چین تھے.اسی لئے حالی نے کہا رہا دین باقی نہ اسلام باقی اک اسلام کا رہ گیا نام باقی مسدس حالی از خواجہ الطاف حسین حالی صفحہ 32 مطبوعہ فیروز سنز لاہورایڈ یشن اول 1988ء) یہ صدا صرف ایک شخص کی صدا نہیں تھی بلکہ مختلف جگہوں سے مختلف الفاظ میں بلند ہو رہی تھی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا آنا عین وقت کی ضرورت کے مطابق تھا.اور پھر یہ اُس وقت اور اُس زمانے میں ہی نہیں کہ آپ کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ فرمایا بلکہ آج بھی کسی مصلح کو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی سچے عاشق کو دنیا تلاش کر رہی ہے یا کرنا چاہتی ہے.ہر نیک فطرت کی آواز ہے کہ کوئی آئے اور مسلمانوں کی موجودہ حالت کی اصلاح کرے.اس سال جلسہ کی تقریر میں میں نے اس کی تفصیل اور غیروں کے حوالے پڑھ دیئے تھے اس لئے اس کی تفصیل میں اس وقت تو نہیں جاؤں گا.بہر حال ہر احمدی بڑی اچھی طرح یہ جانتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اسلام کی نشأة ثانیہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے.اور صرف احمدی ہی نہیں بلکہ شریف الطبع غیر از جماعت بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ ہی اسلام کی خدمت کا حق ادا کر رہی ہے.میں نے گزشتہ خطبوں میں بتایا بھی تھا کہ وکیلوں کی ایک مجلس میں بھی انہوں نے یہی کہا کہ وکیلوں کی طرف سے اگر کوئی کوشش ہو سکتی ہے تو وہ جماعت احمد یہ آرگنا ئز کر سکتی ہے.اور کسی بھی معاملے میں دیکھ لیں کہ جو کوشش جماعت احمدیہ کی طرف سے ہوتی ہے وہ کوئی اور نہیں کر سکتا اور یہ وہی لوگ سمجھتے ہیں جو نیک فطرت ہیں کہ یہ آرگنا ئز جماعت ہے، یہ کرسکتی ہے اور یہ بہر حال ایک حقیقت ہے.اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو نکھر کر اور بھی واضح ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی ہیں جو
خطبات مسرور جلد دہم 657 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26اکتوبر 2012ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی اس طرح گواہی دے رہے ہیں جس کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی اور پھر آپ کی تعلیم کے زیر اثر آپ کی قائم کردہ جماعت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھنے والے ہر ہاتھ اور دریدہ دہنی کرنے والی ہر زبان کو روکنے کے لئے صحیح رد عمل کا اظہار کر رہی ہے.دوسرے مسلمانوں کا رد عمل کیا ہے؟ وہ ایک ایسار د عمل ہے جو اسلام دشمن طاقتوں کو مزید موقع دے رہا ہے کہ اسلام کے خلاف بولیں ، مزید اپنی زبانیں کھولیں، استہزاء کریں کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ نام نہاد علماء کس قسم کے فتوے دے رہے ہیں.ان کے فتوے تو قتل و غارت کے فتوے ہیں یا اپنے ہی ملکوں میں اپنی ہی جائیدادوں کو آگیں لگانا، یا اپنے ہی لوگوں کو مارنا، یہ اُن کا رد عمل ہے.لیکن جب احمدی کا رد عمل یہ لوگ دیکھتے ہیں تو غیر مسلموں میں سے بہت سارے ایسے بھی ہیں جو انصاف پسند ہیں،طبیعت میں کچھ نہ کچھ شرافت ہے.وہ جب اصل اسلام کی حقیقی تصویر کا ذکر احمدی کے منہ سے سنتے ہیں تو ان میں سے بعض شرمندہ بھی ہوتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بولنے والوں یا استہزاء کرنے والوں کو برابھی کہتے ہیں.گزشتہ دنوں ہی ایک خط آیا.ایک جگہ فنکشن تھا اور وہاں سے احمدی نے لکھا کہ فنکشن میں ایک عیسائی عورت آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں بولی.تو اُس نے کہا کہ اُس وقت میری آنکھوں میں آنسو آ گئے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان لوگوں میں بھی ایسے لوگ پیدا کئے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل مقام کو اپنے لوگوں میں پہنچارہے ہیں.بہر حال ہر جگہ ایک جیسے لوگ نہیں ہوتے.اچھے بھی ہیں اور برے بھی.پس اس کو ہم نے مزید اجاگر کر کے دنیا کو بتانا ہے.احمدی کا رد عمل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو دنیا پر اجاگر کیا جائے.اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا کے سامنے پیش کی جائے.دنیا کو بتایا جائے کہ اب دنیا کا نجات دہندہ یہی نبی ہے.دنیا کو بتایا جائے کہ اب اسلام کی تعلیم ہی کامل اور مکمل تعلیم ہے.یہی تعلیم ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے کا راستہ دکھانے والی ہے.پس اگر نجات چاہتے ہو تو اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی تعلیم کے ساتھ مجھ جاؤ.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بدؤوں کو ، ان پڑھ جاہلوں کو باخدا انسان بنا کر اُن کو محبت اور صلح کا سفیر بنادیا تھا اور خدا تعالیٰ کی مخلوق کے لئے دلوں میں محبت کی کو جلائی تھی.پس اسلام نے تو یہ معجزے دکھائے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ معجزے دکھائے ہیں اور یہی معجزے دکھانے کے لئے، انہی باتوں کی تجدید کے لئے ، دنیا کو نئے سرے سے بتانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے جس کا نام یا جس کو ان آیات میں
خطبات مسرور جلد دہم ”شاہد ظاہر کیا گیا ہے.658 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26اکتوبر 2012ء بہر حال اب میں واپس اس بات کی طرف آتا ہوں کہ یہ جو شاہد اللہ تعالیٰ نے بھیجا اس کے دعویٰ کے بعد مسلمانوں کا کیا رد عمل ہوا.باوجود اس کے کہ اس ضرورت کو محسوس کر رہے تھے ، جیسا کہ میں نے کہا، باوجود اس ضرورت کے محسوس ہونے اور اس کا اظہار کرنے کے جب اللہ تعالیٰ نے اس شاہد کو بھیجا تو اس کے لئے انہوں نے کیا رد عمل دکھایا ؟ انہوں نے اُس کو کس طرح اس کے دعوے کا جواب دیا ؟ اور یہ تو بہر حال ہونا ہی تھا کیونکہ ان آیات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس قسم کا رد عمل ان لوگوں کی طرف سے ہوگا.اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں جیسا کہ میں نے کہا، یہی نقشہ کھینچا ہے.جب اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت دلوں میں حقیقی رنگ میں بٹھانے کے لئے ، قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم دنیا کو بتانے کے لئے مسیح موعود کو بھیجے گا اور جب وہ آئے گا تو اُس کو بھی اور اُس کی جماعت کو بھی خوفناک مصائب اور مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑے گا.یہی انتظار کرنے والے جو کہ رہے تھے کہ اسلام کا نام باقی رہ گیا ہے، دین کا نام باقی رہ گیا ہے یہ انتظار کرنے والے بھی اور مخالفین بھی جو اس بات پر خوش ہورہے تھے کہ اسلام ختم ہوا.اس شاہد کے آنے کے بعد ان سب لوگوں کی جو کوششیں ہوں گی وہ اکثریت کی مشترکہ کوششیں بن جائیں گی.وہ مخالفتوں کی خوفناک آگئیں جلائیں گے اور ان لوگوں کو آگ میں ڈالنا چاہیں گے.پس یہ ان کی حالت ہے کہ ایک طرف تو مسلمانوں کی حالت پر رونا ہے اور ابھی تک رویا جا رہا ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی مخالفت کی بھی انتہا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ جو مخالفت کی آگیں بھڑکا رہے ہیں، ان پر اس کی لعنت بھی ہے اور آخر کار یہ ہلاک ہونے والے ہیں.لیکن مومنین اسی بات پر خوش نہ ہو جائیں.مومنین کو بہر حال قربانیاں دینی پڑیں گی اور یہ قربانیاں بھی کوئی عارضی نہیں ہوں گی ، وقتی نہیں ہوں گی بلکہ وقتا فوقتایہ مخالفت کی آگ بھڑکائی جاتی رہے گی.احمدیوں پر ظلم وجور کیا جاتا رہے گا اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی ترقی اسی سختی اور قربانی کے نتیجہ میں ہوگی، انہی ظلموں کے نتیجہ میں ہو گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بارہا اپنی مختلف تصنیفات میں بھی اور ارشادات میں بھی اس طرف توجہ دلائی ہے.پس احمدیت کی مخالفت، احمدیوں کا مالی نقصان، احمدیوں کا جانی نقصان، احمدیوں سے بائیکاٹ جو بعض ملکوں میں ہے اور پاکستان میں تو آجکل بہت زیادہ، حد سے زیادہ بڑھتا جارہا ہے.احمدی بچوں پر سکولوں اور بازاروں میں آوازے کسنا اور اُن سے اساتذہ کی طرف سے بھی ، ماسٹروں کی طرف سے بھی ، ٹیچرز کی طرف سے بھی اور لڑکوں کی طرف سے بھی اذیت ناک سلوک علمی لحاظ سے بھی
خطبات مسرور جلد دہم 659 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26اکتوبر 2012ء احمدیوں کو تباہ کرنے کی کوشش، ہمارے لائق طلباء کو یو نیورسٹیوں میں تنگ کیا جا رہا ہے، ان کو نکالا جا رہا ہے.یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بتا دی تھیں کہ یہ تو ہوں گی.مختلف قسم کی مختلف نہج کی آگیں جلائی جائیں گی جن میں ڈالنے کی کوشش کی جائے گی.گو کہ ظاہری آگ بھی احمدیوں کے خلاف بھڑکائی گئی.بعض گزشتہ فسادات جو 73ء میں بھی اور اُس کے بعد بھی ہوئے ہیں ، ان میں گھروں کو آ گئیں لگائی گئیں اور کوشش کی گئی کہ احمدیوں کو گھروں میں جلایا جائے ، ان کو زندہ جلا دیا جائے اور باہر پولیس بھی اور دوسرے لوگ بھی تماشاد یکھتے رہے لیکن دوسری قسم کی آگیں بھی اس میں شامل ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے موعود آئے گا اُس کے ساتھ اور اُس کے ماننے والوں کے ساتھ بڑے سخت ظلم ہوں گے اور یہ ظلم مسلمانوں کی طرف سے بھی ہوں گے.چنانچہ حدیثوں سے بھی ثابت ہے کہ مسلمانوں کی یہ بگڑی ہوئی حالت ہوگی تو اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جب پوچھے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی جواب ہو گا کہ جب تک میں اُن میں تھا اُن کا نگران تھا.بعد میں یہ بگڑ گئے تو وہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے.وہی حضرت عیسی والا جواب.(صحیح بخارى كتاب التفسير تفسير سورة المائدة باب و كنت عليهم شهيداً ما دمت فيهم...حديث نمبر 4625) اور اس بگاڑ کو درست کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق جس مسیح موعود کو بھیجے گا اُس کے خلاف یہ لوگ آگئیں بھڑ کا ئیں گے اور بھڑکا رہے ہیں.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے لئے ہمیں خود بھی تیار فرمایا ہے.مختلف جگہوں پر بڑے زور سے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ مصائب اور آفات اور تکلیفوں کی یہ گھڑیاں آئیں گی اور اُن کو صبر سے برداشت کرنا.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں: وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور اُن پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قو میں بنی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا اُن سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی.وہ آخر فتح یاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے اُن پر کھولے جائیں گئے.فرمایا کہ ”خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے ، ایسا ایمان جو اُس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بزدلی سے آلودہ نہیں، اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجے سے محروم نہیں، ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے.66 (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 309)
خطبات مسر در جلد دہم 660 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26اکتوبر 2012ء پھر آپ اپنی کتاب فتح اسلام میں فرماتے ہیں کہ : سچائی کی فتح ہوگی اور اسلام کیلئے پھر اُس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے.لیکن ابھی ایسا نہیں.ضرور ہے کہ آسمان اسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کو اُس کے ظہور کے لئے نہ کھو دیں“.(اب صرف یہ ضروری نہیں ہے کہ جن لوگوں پر سختیاں آ رہی ہیں اُن کا ہی کام ہے یا اُن کی ہی سختیاں ہیں بلکہ جن پر نہیں ہیں اُن کے لئے محنت اور جانفشانی ہے کہ دعاؤں اور عبادتوں میں ایک خاص رنگ پیدا کریں.اپنی نمازوں میں اپنی تہجدوں میں ایک خاص رنگ پیدا کریں.پھر آپ فرماتے ہیں ”ہم سارے آراموں کو اُس کے ظہور کے لئے نہ کھو دیں اور اعزاز اسلام کے لیے ساری ذلتیں قبول نہ کر لیں“.(اُس وقت تک یہ نہیں ہوگا.فرمایا ) اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے.وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا.یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے“.(فتح اسلام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 10-11 ) پس گوآخری فتح یقیناً ہماری ہے اور اسلام کی فتح یقیناً اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کی جماعت سے وابستہ ہے لیکن اس کے لئے ہمیں کوشش کرنی ہے.اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں توجہ دلائی ہے کہ ایمان کی حفاظت کے لئے آگ میں جلنے کے لئے تیار رہو.ایک مخالفت کا نقشہ کھینچا گیا ہے.پاکستان میں وقتاً فوقتاً یہ مخالفت کی آگ احمدیوں کے خلاف بھڑکائی جاتی رہی ہے اور بھڑکائی جا رہی ہے.لیکن گزشتہ دوسال سے جو حالت ہے اور جتنی اس میں تیزی آ رہی ہے، اس کی مثال پہلے نہیں ملتی.جتنی جانی قربانی جماعت نے گزشتہ دوسال میں پاکستان میں دی ہے، پہلے کبھی نہیں دی.پس یہ قربانیاں رائیگاں جانے کے لئے نہیں بلکہ فتوحات دکھانے کے لئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان فتوحات کی تسلی بھی دلائی ہے.تاریخ بھی اس بات پر گواہ ہے کہ فتوحات ان قربانیوں کے نتیجہ میں ہی ملی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ” صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ پر غور کرو.انہوں نے دین کی خاطر کیسے کیسے مصائب اُٹھائے اور کن کن دکھوں میں وہ مبتلا ہوئے ، نہ دن کو آرام کیا اور نہ رات کو.خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر ایک مصیبت کو قبول کیا اور جان تک قربان کر دی.“ 66 ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 330 مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد دہم 661 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26اکتوبر 2012ء پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے یہ الفاظ اور آپ کی جماعت سے قربانی کی توقعات کو آج بھی جماعت نے خوب سمجھا ہوا ہے اور یا درکھا ہوا ہے اور خوش ہو کر جماعت کے لئے نذرانے پیش کر رہے ہیں، جیسا کہ میں نے کہا ان گزشتہ دو سالوں میں جماعت نے بے انتہا جانی قربانی پیش کی ہے.مجھے کسی نے لکھا کہ گزشتہ دنوں کراچی میں جو ایک جواں سال کی شہادت ہوئی ہے، اُس پر میں نے افسوس کرنے کے لئے فون کیا تو اُس کی کسی قریبی عورت نے اُن کی ماں یا بہن تھی مجھے کہا کہ ہمیں تو مبارک دو کہ ہمارے گھر کو بھی شہادت کا رتبہ ملا ہے.پس چاہے یہ لاہور کی شہادتیں ہوں یا منڈی بہاؤالدین کی ہوں یا گھٹیالیاں کی ہیں یا کراچی کی، یہ قربانی کی روح ہر جگہ ہر احمدی میں نظر آتی ہے اور احمدی سمجھتے ہیں کہ اسی میں ہماری فتح ہے.پس اے دشمنانِ احمدیت ! تم جس طرح لاہور میں درجنوں شہادتیں کرنے کے بعد بھی کسی احمدی کو اُس کے ایمان سے ہٹا نہیں سکے، احمدیوں کا ایمان متزلزل نہیں کر سکے ، اسی طرح کراچی کے احمدیوں کے ایمانوں کو بھی متزلزل نہیں کر سکتے.کبھی ان کے ایمانوں میں کمی نہیں آسکتی.انشاء اللہ.آج احمدی ہی حقیقت میں اس قربانی کی روح کو سمجھتا ہے اور سمجھتا رہے گا انشاء اللہ تعالی.اُس کو اس بات کا ادراک ہے کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے ہر قسم کی قربانی دینی پڑے گی.جیسا کہ میں نے کراچی کی اس شہادت کا ذکر کیا.گزشتہ دنوں کراچی میں تقریباً ایک ہفتہ کے دوران یا چند دن کے عرصے میں تین شہادتیں ہوئی ہیں، کچھ زخمی بھی ہوئے ہیں.گزشتہ جمعہ کو میں نے اس کا ذکر کیا تھا، ان میں سے ایک آدھ کی حالت بھی تشویشناک ہے.لیکن جیسا کہ میں نے ایک واقعہ عورتوں کا سنایا، ان کے عزیزوں کے ایمان کو بھی متزلزل نہیں کر سکے.بیشک دشمن اپنی بھر پور کوشش کر رہا ہے کہ یہ آگیں جلائیں اور پھر اس کی نگرانی بھی کریں.إِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُود کی صورتحال پیدا کریں اور پیدا کر رہے ہیں تا کہ یہ دیکھیں کہ کس طرح احمدیوں کو نقصان پہنچانے اور جلانے کی کوشش کامیاب ہوتی ہے اور اس کی نگرانی کی جاتی ہے.اور پھر یہ لوگ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں.اس نگرانی کی جو یہ مخالفین احمدیوں کی کر رہے ہیں اور جلانے کی اپنی طرف سے کوشش کر رہے ہیں اُس کی ایک صورت یہ بھی سامنے آئی ہے، کراچی کی ہی بات ہے کہ جب ایک خاندان کے افراد کو شہید کیا گیا یعنی جن کا میں نے ذکر کیا ہے، تو سنا ہے پھر مولوی یا اُن کے چیلے چانٹے ہسپتال والوں پر یہ دباؤ ڈالنے کے لئے جمع ہو گئے تھے کہ ان کا علاج نہ کیا جائے.تو یہ نگرانی بھی ساتھ ساتھ کی جائے کہ پہلے گولیاں ماری جائیں ، پھر ہسپتالوں میں بھی، ایسی جگہوں پر پیچھا کیا جائے جہاں اُن کا علاج کیا جارہا ہے
خطبات مسر در جلد دہم 662 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26اکتوبر 2012ء اور نگرانی کی جائے کہ کہیں صحیح طرح علاج نہ ہو.یہ تو ان ظالموں کا حال ہے جو رحمتہ للعالمین کے نام پر یہ ظلم کر رہے ہیں.اصل ظلم تو یہ ہے کہ اپنے ظلموں اور بیہودگیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے نام پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لیتے ہیں.پس یقیناً یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آئیں گے.کیونکہ نہ صرف اپنے ساتھ بے علم لوگوں کو ملا کر، اُن کے جذبات کو بھڑکا کر وہ احمدیوں پر یہ ظلم دین کی آڑ میں کر رہے ہیں بلکہ جیسا کہ میں نے کہا، جانتے بوجھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے خلاف آپ کے نام پر یہ ظلم کر رہے ہیں.اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِیق.پس اُن کے لئے جہنم کا عذاب بھی ہے اور آگ کا عذاب بھی ہے.اس دنیا کا عذاب بھی ہے اور اگلے جہان کا عذاب بھی ہے.پس اگر ان لوگوں نے تو بہ نہ کی، کیونکہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر یہ تو بہ کر لیں تو پھر بخشے جاسکتے ہیں.تو اگر تو بہ نہ کی اور اسی طرح یہ مومنین پر ظلم کرتے رہے، مومن مردوں اور عورتوں پر ظلم کرتے رہے تو اس دنیا میں بھی اور مرنے کے بعد بھی ان کے لئے عذاب مقدر ہے.یہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مومن خوش ہوں کہ اُن کے لئے جنت ہے، سایہ دار باغ ہیں ، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں.اس دنیا میں بیشک ہر قسم کی تکلیف پہنچا کر مخالفین اپنے زعم میں ہمارےخلاف آگیں بھڑکا رہے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں ان مومنوں کے لئے ٹھنڈی چھاؤں اور ٹھنڈے پانی ہیں ، جبکہ مخالفین کے لئے ہمیشہ کی رہنے والی آگ مقدر ہے.پس احمدی جو عموماً تو اچھا حوصلہ دکھانے والے ہیں اس مخالفت سے بعض جگہ بعض دفعہ پریشان بھی ہو جاتے ہیں، لیکن وہ پریشان نہ ہوں.احمدیوں کی قربانیاں اللہ تعالیٰ کے ہاں پندرہ سوسال پہلے ہی قبولیت کا درجہ پاگئی ہیں جب قرآن کریم نازل ہوا.پس یہ کوئی معمولی اعزاز نہیں ہے.پس ہر احمدی چاہے وہ پاکستان میں ہو، انڈونیشیا میں ہو، ہندوستان کے چھوٹے سے گاؤں میں ہو یا کسی عرب ملک میں ہو، کہیں بھی ہو.جو بھی مخالفین کی طرف سے بھڑ کائی گئی اذیتوں کی آگ میں سے گزر رہا ہے یا پاکستان کا ہر احمدی جسے ہر وقت یہ کہہ کر اذیت دی جارہی ہے کہ تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لاتے.نعوذ باللہ آپ کو خاتم الانبیاء تسلیم نہیں کرتے.تم ختم نبوت کے منکر ہو، یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے خلاف مغلظات سن کر اُن کے دل جلانے کی مستقل کوشش کی جاتی ہے.ان کا یہ صبر اور ان کی ہر قسم کی قربانی انہیں یعنی احمدیوں کو مستقل جنت کا وارث بنادے گی.
خطبات مسرور جلد دہم 663 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26اکتوبر 2012ء اب کل یا پرسوں ہی دو دن پہلے ایک بیہودہ قسم کا پمفلٹ گالیوں سے بھرا ہوا ان غیر احمدیوں نے شائع کیا جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی تصویر بھی شائع کی اور پھر اُس جگہ جہاں سے ایک جلوس نکل رہا تھا ، لوگوں کو کھڑا کر دیا جوان تصویروں کو یا اس اشتہار کو چھینکتے جارہے تھے اور اس پر سے لوگ گزرتے جارہے تھے.اور اس طرح اپنے زعم میں نعوذ باللہ یہ اس تصویر کو اپنے پاؤں کے نیچے روندتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بہتک کا باعث بن رہے تھے یا اپنا بدلہ لے رہے تھے لیکن یہی ہتک ان کے لئے جہنم کا عذاب مقدر کرنے والی ہے.جیسا کہ میں نے کہا کراچی میں تین شہادتیں ہوئی ہیں.آجکل مخالفین احمدیت کا کراچی کی طرف رخ ہے.اس وقت میں ان شہداء کے جنازے بھی پڑھاؤں گا.اللہ تعالیٰ ان شہداء کے درجات بلند فرمائے اور ہر شہید کے خون کا ہر قطرہ احمدیت کی ترقی کو لاکھوں کروڑوں میں بڑھانے والا ہو.بیشک جماعت کی ترقی کے لئے قربانیاں بھی ضروری ہیں لیکن یہ دعا بھی ہمیں کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کو قبول فرماتے ہوئے ہمیں فتوحات کے نظارے بھی جلد دکھائے.اسی طرح ان میں سے جو تین چار زخمی مریض ہیں، اُن کی صحت کے لئے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ اُن کو شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے.اب جو شہداء ہیں میں اُن کا کچھ ذکر کرتا ہوں.پہلے شہید ہیں مکرم سعد فاروق صاحب ابن مکرم فاروق احمد کاہلوں صاحب جن کو 19 راکتو بر کو بلد یہ ٹاؤن کراچی میں شہید کیا گیا.سعد فاروق صاحب شہید کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ اُن کے پڑ دا دا مکرم چوہدری اللہ بخش صاحب کاہلوں آف چک 117 چھور مغلیاں شیخوپورہ کے ذریعہ ہوا، جنہوں نے اپنے گاؤں سے پیدل قادیان جا کر بیعت کی تھی.پھر 62ء میں یہ چلے گئے.پھر اُس کے بعد روزگار کے سلسلہ میں شہید کے والد کراچی منتقل ہو گئے.یہاں انہوں نے اپنا بزنس شروع کیا.شہید 5 اکتوبر 1986 ء کو کراچی میں پیدا ہوئے.الیکٹرانک انجنیئر نگ کی ڈگری لی اور اُس کے بعد کاروبار سے وابستہ ہو گئے.چند دن پہلے 15 اکتوبر کو شہید مرحوم کی شادی ہوئی تھی اور تین دن بعد ہی ان کو شہادت کا رتبہ ملا.اِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ان کا واقعہ شہادت اس طرح ہے کہ 19 اکتوبر بروز جمعتہ المبارک سعد فاروق صاحب اور اُن کے والد فاروق احمد کاہلوں صاحب صدر حلقہ بلدیہ ٹاؤن دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد گھر واپس جا رہے تھے.سعد فاروق صاحب موٹر سائیکل پر تھے جبکہ آپ کے والد فاروق احمد صاحب ، سر نصرت محمود صاحب، بھائی عماد فاروق صاحب اور ان کے تایا منصور صاحب،
خطبات مسرور جلد دہم 664 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26اکتوبر 2012ء پھوپھا اشرف صاحب کار میں تھے.گھر کے قریب پہنچے ہی تھے کہ سعد فاروق صاحب پر دو نقاب پوش موٹر سائیکل سواروں نے پیچھے سے فائر کیا.گولی اُن کے دائیں طرف کان کے نیچے گی اور دوسری طرف سے باہر نکل گئی جس سے شدید زخمی ہو کر گر پڑے.حملہ آوروں نے اس کارروائی کے بعد کار کا تعاقب کر کے فائرنگ شروع کی جس کے نتیجہ میں شہید مرحوم کے والد جو گاڑی چلا رہے تھے اُن کو بھی پانچ گولیاں لگیں جس میں سے دو گولیاں اُن کے دائیں بازو میں، دو گولیاں بائیں بازو میں، جبکہ ایک گولی اُن کی گردن کو چھوتی ہوئی گزرگئی.شہید مرحوم کے چھوٹے بھائی عزیزم عماد فاروق کو ایک گولی ماتھے پر لگی اور سامنے آنکھ کے پیچھے کھوپڑی کی ہڈی میں پھنس گئی.شہید مرحوم کے سر چوہدری نصرت محمود صاحب جو کہ گاڑی میں موجود تھے ایک گولی اُن کی گردن اور ایک گولی سینے میں اور ایک گولی پیٹ میں لگی.ان کی حالت پہلے سے تو بہتر ہے لیکن خطرے سے باہر نہیں ہے.وینٹی لیٹر (Ventilator) پر رکھا ہوا ہے.ان کے پھوپھا اشرف صاحب بھی زخمی ہوئے اور باقی دو محفوظ رہے.جب واقعہ ہوا ہے تو شہید مرحوم کے والد صاحب نے شدید زخمی حالت میں گاڑی چلانی شروع کی اور جب پیچھے دیکھا تو شہید مرحوم سڑک پر گرے ہوئے تھے.وہ گاڑی روک کر پہلے اُن کے پاس آئے ، اُن کو گاڑی میں ڈالا اور خود زخمی ہونے کے باوجود خود گاڑی چلا کر ہسپتال پہنچے.ہسپتال پہنچتے ہی سعد فاروق شہید ہو گئے.انہوں نے جان دے دی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ شہید مرحوم موصی تھے اور 21 / اکتوبر کور بوہ میں اُن کا جنازہ ادا کیا گیا.شہید مرحوم کا اپنے خاندان سے نہایت محبت کا تعلق تھا.ان کی والدہ بتاتی ہیں کہ رات کو سونے سے پہلے ہمارے کمرہ میں آتے.میرے اور اپنے والد کے پاؤں دباتے.ہمیں چائے پلاتے اور اے سی (AC) کا ٹمپریچر سیٹ کر کے جانے کی اجازت طلب کرتے.اور کہتی ہیں ہماری اطاعت کے تمام معیار پورے کرتے.آج تک انہوں نے ہماری کوئی بات نہیں ٹالی اور نہ ہی کبھی آگے سے جواب دیا.خون کا عطیہ دینے کا انہیں بہت شوق تھا اور محلے یا جماعت میں کسی کو بھی خون کی ضرورت پڑتی تو سب سے پہلے خود اپنے آپ کو پیش کرتے.ان کی والدہ کہتی ہیں میرے منع کرنے پر کہتے کہ امی یہ خون تو ضائع ہو جانا ہے، کیوں نہ کسی کے کام آجائے.ان کی بہن ڈاکٹر صبا فاروق ہیں، یہ کہتی ہیں کہ ہمارا بہن بھائیوں کا دوستی کا رشتہ تھا.انتہائی پیار کرنے والا بھائی تھا بلکہ لوگ مجھے کہا کرتے تھے تمہارا بھائی دنیا سے الگ ہے.اور کہتی ہیں چھوٹا ہونے کے باوجود ہمیشہ مجھے بچوں کی طرح ٹریٹ (Treat) کرتا تھا.انتہائی نیک اور خدمت گزار تھا اور
خطبات مسرور جلد دہم 665 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26اکتوبر 2012ء صرف ہمارے دل میں نہیں بلکہ جو بھی جس کا بھی اُس سے واسطہ ہے ہر ایک کے دل میں ہمیشہ زندہ رہے گا.اللہ تعالیٰ اُس کی قربانی قبول فرمائے.اُن کی بیوہ بھی کہتی ہیں کہ نکاح کے بعد وہ امریکہ رہتی تھیں ، تو جب فون پر اُن کی بات ہوتی تھی ، وہ اکثر مجھے یہ کہا کرتے تھے کہ مجھے شہادت نصیب ہو.جماعتی پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے.خدام الاحمدیہ کی بھی اور مختلف جماعتی خدمات میں بھی انہوں نے بھر پور حصہ لیا.قائد خدام الاحمدیہ کراچی کہتے ہیں کہ شہید سعد بہت ہی خوبیوں کے مالک تھے.سب سے بڑھ کر جو میں نے محسوس کیا وہ اُن کی عاجزی تھی.خاکسار نے ہمیشہ مشاہدہ کیا کہ جب بھی کسی کام کے لئے کہا گیا ، یا کوئی بات دریافت کی گئی ، وہ ہمیشہ سر جھکا کر نظریں نیچی کر کے صرف یہ جواب دیتا تھا جی قائد صاحب.اُن کی اطاعت بیمثال تھی.خلافت کے فدائی تھے.ہر عہد یدار کو اُس کے عہدے سے مخاطب کرتے.کبھی نام نہ لیتے.پچھلے ایک سال سے خاکسار نے انہیں ایک ایسے بلاک کا نگران مقرر کیا تھا جہاں جماعتی مخالفت زوروں پر تھی مگر اتنا کم عمر ہونے کے باوجود اُن کی بہادری اور لگن بیمثال تھی.اکثر اپنے سپر د مجالس کا دورہ کرتے اور مکمل کرتے اور رات گئے دیر سے فون پر کام مکمل ہونے کی اطلاع دیتے.خاکسار حیران ہو کر اُن کو ہمیشہ کہتا تھا کہ آپ کا یہ علاقہ خطر ناک ہے اس لئے اپنا خیال رکھا کریں.شہید کا جذ بہ بیمثال تھا.مشکل حالات میں اُن کی وجہ سے اُن کے سپر دمجالس میں جملہ امور کی انجام دہی میں خاص معاونت حاصل تھی.ان کے والد صاحب بڑے زخمی تھے تو ان سے ان کی شہادت چھپانے کی کوشش کی گئی.وہ بھی ہسپتال میں ہی تھے تو انہوں نے کہا کہ مجھے پتہ ہے کہ سعد شہید ہو چکا ہے.مجھے اُس کی شہادت کا کوئی غم نہیں ہے.بس مجھے میرے شہید بیٹے کا چہرہ دکھا دو اور آپ اپنے شہید بیٹے کے پاس گئے اور اُس کی پیشانی کو چوما اور اُسے الوداع کہا.پس جس شہید کے باپ، بہن، ماں ایسے جذبات رکھتے ہوں دشمن بھلا اُن کا کیا بگاڑ سکتے ہیں.شہید کے سُسر جو ہیں وہ بھی زخمی ہوئے ہیں.اُن کی کافی Critical حالت ہے.یہ امریکہ سے اپنی بیٹی کی شادی کے لئے وہاں گئے تھے.اللہ تعالیٰ ان کو شفا عطا فرمائے.دوسرے شہید بشیر احمد بھٹی صاحب ابن مکرم شاہ محمد صاحب مرحوم ہیں.یہ بھی بلد یہ ٹاؤن کراچی کے ہیں.ان کی 23 اکتو بر کو شہادت ہوئی ہے.انَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے پڑ نانا مکرم محترم میاں محمد اکبر صاحب کی بیعت کے ذریعے سے ہوا.آپ کے گاؤں سے ایک وفد قادیان گیا.اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی.واپسی پر اُن کے
خطبات مسرور جلد دہم 666 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26اکتوبر 2012ء ذریعہ گاؤں کے کئی لوگوں نے بیعت کی جن میں سے ایک آپ کے پڑنا نا تھے.آبا ؤ اجداد کا تعلق باجوڑی چار کوٹ کشمیر کے ساتھ ہے.پھر بشیر صاحب سندھ میں ناصر آباد سٹیٹ میں آ کر بھی کچھ عرصہ آبادر ہے.ان کی شہادت کا واقعہ اس طرح ہے کہ اپنی دکان واقع بلد یہ ٹاؤن میں رات تقریباً 9 بجے بیٹھے ہوئے تھے کہ دو موٹر سائیکل سوار آئے جن میں سے ایک نے آپ پر تین گولیاں فائر کیں جن میں سے ایک گولی اُن کی گردن اور دوسری گولی سینے میں لگی.اُن کو فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا مگر آپ ہسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں شہید ہو گئے.إِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.آپ کی عمر تقریباً 67 سال تھی.کشمیر میں ان کی پیدائش ہوئی.ان پڑھ تھے، ناخواندہ تھے، محنت مزدوی کیا کرتے تھے.1984ء میں کراچی شفٹ ہو گئے.پھر فیکٹریوں میں کام کرتے رہے اور ساتھ انہوں نے اپنے گھر دوکان کھولی ہوئی تھی ، جو چھوٹی سی پرچون کی دوکان تھی.اولاد کی تربیت بڑی احسن رنگ میں کی.ان کا ایک پوتا عزیزم عمران ناصر پچھلے سال جامعہ احمدیہ میں داخلہ کے لئے گیا تو جاتے ہوئے آپ نے اُسے دین کی خدمت کی نصائح کیں.نظام جماعت سے مکمل تعاون کرتے تھے.خلافت کی محبت میں خدا تعالیٰ نے اُن کے دل کو گداز کیا ا ہوا تھا.اہلیہ کے علاوہ ان کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کا حافظ و ناصر ہو.تیسری شہادت مکرم ڈاکٹر راجہ عبدالحمید خان صاحب ابن مکرم راجہ عبدالعزیز صاحب کی ہے.1994ء میں محترم سید محمد رضا بسمل صاحب جو کہ ضلع کراچی کے معروف داعی الی اللہ ہیں اور صاحب علم بزرگ ہیں اُن کا رابطہ ڈاکٹر راجہ عبدالحمید خان صاحب شہید کے والد مکرم ڈاکٹر عبدالعزیز خان صاحب سے ہوا.سوال و جواب کی کئی محفلیں ہوئیں جس کے بعد سب سے پہلے ڈاکٹر راجہ عبدالحمید خان صاحب شہید کو 1994ء میں ہی بیعت کر کے جماعت احمدیہ مبائعین میں شامل ہونے کی توفیق حاصل ہوئی.اس کے تھوڑے عرصے بعد ہی آپ کے والد صاحب اور والدہ صاحبہ نے بھی بیعت کر لی.شہید مرحوم کے آباؤ اجداد کا تعلق افغانستان کے قبیلے یوسف زئی سے ہے.شہید مرحوم کے دادا مکرم عبدالحمید خان صاحب جن کے نام پر آپ کا نام رکھا گیا ہے، حیدر آباد دکن کے نواب کے چیف سیکرٹری تھے.شہید مرحوم 1972ء میں کراچی میں پیدا ہوئے اور آپ نے بلدیہ ٹاؤن سے ہی انٹر تک تعلیم حاصل کی.پھر نیوی سے انٹرن شپ کر کے نیوی میں بطور سویلین فورمین بھرتی ہو گئے.ڈاکٹر ان کو اس لئے کہتے تھے کہ نیوی کی ڈیوٹی سے واپس آ کر اپنے والد صاحب کے ساتھ ان کے کلینک میں بیٹھا کرتے تھے.وہیں سے تھوڑی بہت پریکٹس کر لیتے تھے.23 اکتوبر کو رات کو آٹھ بج کر پینتالیس منٹ پر دوموٹر سائیکل سوار آئے ہیں اور
خطبات مسرور جلد دہم 667 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 اکتوبر 2012ء ایک شخص موٹر سائیکل پر ہی سوار رہا جبکہ دوسرا کلینک میں داخل ہوا اور اُس نے پستول سے آپ پر تین فائر کئے.ایک گولی آپ کے بائیں گال پر لگی اور دائیں جانب گال کے اوپر سے ہی باہر نکل گئی جبکہ دوسری گولی ٹھوڑی پر نیچے کی جانب لگی.ایک گولی بائیں کندھے پر بھی لگی جو کمر سے باہر نکل گئی.ان تین گولیوں کے لگنے سے آپ موقع پر ہی شہید ہو گئے.اِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.گوکہ 94ء کی بیعت تھی لیکن یہ بھی حلقہ بلدیہ ٹاؤن میں جماعتی خدمات بطور سیکرٹری تربیت نو مبائعین انجام دے رہے تھے.دعوت الی اللہ کا شعبہ کے آپ نگران تھے.پھر ناظم تربیت نو مبائعین بھی خدمت کی توفیق پا رہے تھے.بڑے ہمدرد، با اخلاق مزاج کے حامل تھے.چہرہ پر ہمیشہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ رہتی.بڑی دھیمی آواز میں بات کیا کرتے تھے.آپ کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ آپ ایک انتہائی خیال رکھنے والے اور محبت کرنے والے شوہر اور شفیق باپ تھے.دین کی خدمت اور اطاعت، خلافت سے محبت آپ کی خوبیوں میں سے نمایاں خوبیاں تھیں.آپ کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ بلدیہ ٹاؤن میں ہونے والی شہادتوں کی وجہ سے علاقے میں تناؤ تھا.شہید مرحوم شہادت سے ایک روز قبل مجھے کہنے لگے کہ کچھ احمدی گھرانے حالات کی وجہ سے یہاں سے شفٹ ہورہے ہیں ، اس طرح تو دشمن اپنے عزائم میں کامیاب ہو جائے گا.اس کے ساتھ ہی آپ پر رقت طاری ہو گئی اور کہنے لگے لیکن میں نہیں ڈرتا.میری خواہش ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جاؤں.نیز کہا کہ کہیں آپ ڈرکا شکار تو نہیں ہیں؟ ان کی اہلیہ کہتی ہیں میں نے کہا کہ نہیں ، میں بھی نہیں ڈرتی بلکہ مجھے بھی آ.پ کے لئے اور اپنے لئے شہادت کا شوق ہے.ان کی اہلیہ نے لکھا ہے کہ میری تین بچیاں ہیں.چھوٹی عمر کی بچیاں ہیں ، اُن کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اُن کے نیک نصیب کرے.اللہ تعالیٰ خود ان کا حافظ و ناصر ہو.چوتھی شہادت ریاض احمد بسراء صاحب ابن مکرم چوہدری منیر احمد بسراء صاحب گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ کی ہے.18 اکتوبر کو ان کی شہادت ہوئی.ان کے دادا کے بھائی مکرم چوہدری غلام رسول صاحب بسراء صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نسل میں سے تھے.1958ء میں یہ گھٹیالیاں کلاں تحصیل پسرور میں پیدا ہوئے.گاؤں میں جس طرح بعض دشمنیاں چلتی ہیں، ان کی دشمنیاں چل رہی تھیں.ان کے بڑے بھائی کو پہلے شہید کیا گیا تھا اور پھر ان کے بعض دوسرے عزیزوں رشتہ داروں کو بھی.اُن کی دشمنیاں آگے چل رہی تھیں لیکن بظا ہر لگتا ہے کہ یہ براہ راست اُس میں انوالو (Involve) نہیں تھے لیکن جماعتی خدمات اور ایک رعب کی وجہ سے وہاں کے علاقے کے بعض لوگ ان کے کافی خلاف تھے اور
خطبات مسرور جلد دہم 668 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26اکتوبر 2012ء خاص طور پر کچھ مولوی اس علاقہ میں اب نئے آئے ہیں جنہوں نے ان کے دشمنوں کو بھڑ کا یا کہ ذاتی دشمنی کو اب جماعتی رنگ دو اور اب ان کو شہید بھی کر دو گے تو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا فورا کہ دینا کہ یہ کیونکہ قادیانی تھا اس لئے ہم نے مار دیا.بہر حال 18 اکتوبر کو جمعرات کی نماز عشاء کی ادائیگی کے بعد یہ کچھ دیر وہاں ڈیوٹی دینے والے خدام کے پاس بیٹھے رہے اور اُس کے بعد واپس گھر جا رہے تھے کہ راستے میں ان کو بعض نامعلوم افراد نے پکڑ کر فائر کیا جس کے نتیجہ میں ان کی وفات ہوگئی.إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ - جماعتی کاموں میں بہت فعال تھے.انہوں نے چار سال قائد مجلس گھٹیالیاں کے فرائض سرانجام دیئے ہیں.چھ سال تک ناظم عمومی گھٹیا لیاں رہے اور آجکل بطور سیکرٹری امور عامہ گھٹیا لیاں خدمت کی توفیق پا رہے تھے.اس کے ساتھ ساتھ انصار اللہ کے مختلف عہدوں پر بھی فائز رہے.جماعت کے لئے بڑی غیرت رکھنے والے تھے اور نظام جماعت کی اطاعت بھی ان میں خوب تھی.خلافت سے محبت کرنے والے تھے.ان میں بڑا جوش بھی تھا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مغفرت کا سلوک فرمائے.ان کے بچوں کو صبر اور ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے.یہ تو شہداء کا ذکر ہے.اس کے علاوہ دو اور وفاتوں کا بھی اعلان کروں گا اور ان شہداء کے ساتھ ان کے جنازہ غائب بھی ادا کئے جائیں گے.ان میں سے ایک سعودی عرب کے مکرم عبد الرحمن الجبالی صاحب ہیں.نومبائع تھے.9 اکتوبر کو ہارٹ اٹیک سے وفات پاگئے.ان کی عمر 47 سال تھی.انا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.2010ء میں جلسہ سالانہ برطانیہ میں شامل ہوئے تھے.بڑے خاموش طبع اور غور و فکر کے عادی تھے.انہیں احمدیت کی ترقی پر کامل یقین تھا اور کہا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو اُن کے ملک میں بہت پذیرائی مل رہی ہے اور احمدیت ہی وہاں کے لوگوں کی واحد امید گاہ ہے.مرحوم بچپن سے ہی سچائی کے متلاشی تھے.ان کی زندگی میں عام لوگوں سے ہٹ کر بہت سے عجیب و غریب واقعات پیش آئے.بال آخر انہیں احمدیت کی نعمت ملی جس پر ان کا ایمان بہت پختہ تھا.گھر پر یاباہر ہر ملنے والے کو تبلیغ کرتے تھے.گزشتہ دوسال سے کہا کرتے تھے کہ اب ان لوگوں کو تبلیغ کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ سب لوگ احمدیت کے بارے میں جانتے ہیں لیکن قبول کرنے کی جرات نہیں کرتے لہذا اب ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے.2010ء میں جب یہ یہاں بھی آئے ہیں تو انہوں نے بڑے اخلاص اور وفا کا اظہار کیا تھا.ان کے بارے میں سعودی عرب کے ہی ایک نو مبائع لکھتے ہیں کہ ہمارے بھائی عبدالرحمن کو کوئی بیماری نہ تھی.
خطبات مسرور جلد دہم 669 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26اکتوبر 2012ء اچانک حرکت قلب بند ہونے سے فوت ہو گئے.ہم گواہی دیتے ہیں کہ مرحوم ہر دلعزیز تھے.نہایت با اخلاق اور مطمئن اور ہر وقت ذکر الہی اور درود شریف میں مصروف رہتے تھے.دنیا اُن کی نظر میں بالکل پیچ تھی.غرباء کی مدد کرتے اور صدقات دیتے تھے.بیعت کے بعد ان کا دل دنیا سے بالکل اُچاٹ ہو گیا تھا.دوسرا جنازہ مکرم عزت عبدالسمیع محمد جلال صاحب (مصر) کا ہے.ان کی وفات 11 راکتو بر کو ہوئی ہے.آپ مکرم خالد عزت صاحب (مصر) کے والد تھے.خالد عزت صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میرے والد عزت عبدالسمیع صاحب 11 / اکتوبر کو وفات پاگئے.میرے والدین شروع میں جماعت کے مخالف تھے لیکن جب میری اپنے شدید مخالف بھائی مکرم محمد سے جماعت کی صداقت پر گفتگو ہوتی تو سن کر کہنے لگے کہ ہم دونوں بھی آپ جیسے مسلمان ہیں.لیکن بیعت فارم پر دستخط کرنے کی ضرورت نہیں.2009ء میں والد صاحب کے کندھے کی ہڈی ٹوٹ گئی تو انہیں کچھ عرصہ میرے ہاں ٹھہرنے کا موقع ملا.اس دوران ایم ٹی اے دیکھتے اور میری ملاقات کے لئے آنے والے احمدیوں سے متعارف ہوتے رہے.اس طرح تسلی ہونے پر خود ہی 2010ء میں بیعت کر لی.آپ نیک اور صالح اور نماز تہجد کے پابند تھے.بچوں کو ہمیشہ رزق حلال کھلایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور سنت کی پیروی سکھائی.کہتے ہیں کہ پہلی بار خاکسار نے اُن کے ساتھ 1998ء میں حج کیا ، اُس وقت میں بفضلہ تعالیٰ احمدی ہو چکا تھا.اللہ تعالیٰ ان مرحومین کے درجات بلند فرمائے اور اُن کی اپنی اولاد کے بارے میں بھی اور اپنے ہم وطنوں کے بارے میں بھی جو نیک خواہشات تھیں انہیں بھی پورا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 16 تا 22 نومبر 2012 جلد 19 شماره 46 صفحه 5 تا 9)
خطبات مسرور جلد دہم 670 44 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 نومبر 2012ء خطبه جمع سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة السحالى مس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 2 نومبر 2012 ء بمطابق 2 رنبوت 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح.مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس وقت بھی میں آپ کو صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روایات پیش کروں گا جوان کی بیعت کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.پہلی روایت حضرت محمد شاہ صاحب کی ہے وہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے پہلے واقعات میں (اس سے پہلے یہ اپنے کوئی واقعات لکھ چکے ہیں، جہاں سے یہ حوالہ لیا گیا.اس سے آگے چلتا ہے ) یہ لکھا تھا کہ سٹیڈ کو دوسرے کی بیعت کی ضرورت نہیں ہوتی.یہ سید تھے.انہوں نے کہا کہ میں یہی سمجھتا تھا کہ سید کو دوسرے کی بیعت کی ضرورت نہیں ہے.ایک روایت پہلے بیان ہو چکی ہے.کہتے ہیں اور اسی لئے میں نے باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو حق پر سمجھتا تھا، بیعت کی ضرورت نہیں سمجھی.کہتے ہیں، کچھ مدت تک میں اسی خیال میں پختہ رہا لیکن جب بھی کسی مجلس میں حضرت مرزا صاحب کا ذکر ہوتا، اگر توصیفی رنگ میں ہوتا تو دلچسپی سے سنتا اور جس مجلس میں مخالفت ہوتی اس مجلس میں بیٹھنا نا گوار گزرتا.اس مجلس میں نہ بیٹھتا، اُٹھ کر چلا جاتا.آخر ایک روز کسی کے منہ سے بے پیر اور بے مرشد کا سن کر جو کسی اور سے کہہ رہا تھا ، خیال آیا کہ بے پیر اور بے مُرشد تو ایک گالی ہے.اور میں خود بے پیر اور بے مرشد ہوں.کیا سید مستی ہیں ؟ خود ہی بعض گدی نشینوں کا خیال آ کر کہ بعض بڑے بزرگ گزرے ہیں اور وہ سید تھے.انہوں نے بھی بعض غیر سید بزرگوں کی بیعت کر کے فیض حاصل کیا.تو میں بھی اپنی جگہ فکر مند رہنے لگا.لیکن کم عقلی اور جہالت کی وجہ سے کسی سے دریافت نہ کیا.لیکن ایک مقصد دل میں رکھ کر بعض اچھے آدمیوں سے اپنے مقصد کے پورا ہو جانے کے واسطے کوئی ورد پوچھنے اور کرنے شروع کر دیئے.
خطبات مسرور جلد دہم 671 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 نومبر 2012ء یعنی دعائیں کرنی شروع کر دیں.اور مقصد یہی تھا کہ مُرشد کامل اور سید مل جاوے ( یعنی ایسا پیر ملے جو سید ہو ) چنانچہ کافی عرصے تک چلوں اور وردوں کی دھن لگی رہی اور کرتا رہا.قبرستانوں میں، دریاؤں میں، کنوؤں پر اور پہاڑوں پر، بزرگوں کے مزاروں پر، غرضیکہ رات خفیہ جگہوں پر جا جا کر چالیس چالیس دن چلے گئے.کچھ نہ بنا.آخر ایک روز مایوس ہو کر لیٹ گیا اور سو گیا.نیند میں ایک بزرگ کو دیکھا.اُس نے تسلی دی کہ بیٹا تمہیں جو مرشد ملے گا وہ سب کا مرشد ہو گا.اس کے ہوتے ہوئے سب پیر و مرشد مات ہو جائیں گے.یہ نظارہ دیکھ کر دل کو تسلی ہو گئی اور یقین ہو گیا کہ مرشد کامل انشاء اللہ مل جائے گا.آخر 1905ء میں ایک رات میں نے دیکھا کہ ایک وسیع میدان ہے جو کہ بالکل صاف اور پاکیزہ کیا گیا ہے، جیسے ایک بہت بڑا جلسہ گاہ ہو.نہایت صاف اور اس میں ایک سٹیج اونچی اور بادشاہوں کے لائق جس کی تعریف میرے جیسے کم علم سے نہیں ہوسکتی ، تیار ہے.مجھ کو یہ شخص کہ رہا ہے کہ یہاں آجکل نبیوں علیہ الصلوۃ والسلام کا اجتماع ہے اور رسول کریم یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج اپنے پیارے بیٹے کو تخت پر بٹھانے آئیں گے.تو میں خوشی میں اچھلتا ہوں اور نہایت تیزی سے دوڑتا ہوا اس میدان میں سٹیج کے عین قریب سب سے پہلے ہانپتا ہوا اور سانس پھولا ہوا پہنچ گیا.تھوڑی دیر کے بعد وہ میدان کھچا کھیچ پاک لوگوں، نورانی شکلوں سے بھر گیا کہ معاسب کی نظریں اوپر کی طرف کو دیکھنے لگیں.میں نے بھی اوپر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ہوائی جہازوں کی طرح جھولے نہایت نفیس بنے ہوئے ہیں اور ان میں کسی میں فقط ایک مرد، کسی میں ایک مرد اور ایک عورت یا دو عورتیں اور کسی میں فقط عورتیں یا فقط مرد آسمان سے نہایت آرام سے آ جاتے ہیں.مجھے خود بخو د معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ فلاں نبی ہے اور یہ فلاں نبی ہے.اور بہت سی امہات المومنین بھی مثلاً مائی صاحبہ حوا، مائی صاحبہ ہاجرہ و مریم اور بی بی فاطمہ وخدیجہ رضی اللہ عنہا سب تشریف لے آئیں اور سب نبی علیہ الصلوۃ والسلام اور امہات المومنین آکر اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے اور اسی طرح انتظار ہونے لگا جیسے جمعہ کے روز قادیان شریف مسجد اقصیٰ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے زمانے کی بات کر رہے ہیں، کہ اُن کا انتظار ہوتا تھا.اور بعض دفعہ آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر کہنے لگتے ہیں کہ باپ بیٹا آتے ہی ہوں گے.کافی دیر کے بعد ایک جھولا اترا جو کہ سب جھولوں سے زیادہ مرضع تھا.( سجا ہوا تھا.) اُس میں جناب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اترکر سٹیج پر دو کرسیاں ساتھ ساتھ پڑی تھیں، تشریف فرما ہوئے.پہلے مجھ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر حضرت مرزا صاحب مسیح موعود نے السلام علیکم کہا اور پہلے افتتاحی تقریر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی اور فرمایا کہ
خطبات مسرور جلد دہم 672 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 نومبر 2012ء میں اپنے بیٹے کو آپ سب نبیوں کے سامنے ، جس کے متعلق پہلے سے آپ لوگوں کو خبر میں دی جا چکی ہیں، تخت پر بٹھا تا ہوں.پھر حضرت مرزا صاحب مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تقریر فرمائی.اس وقت مجھے سید کی حقیقت معلوم ہوئی اور حضرت صاحب کو دیکھا کہ وہی لدھیانہ کے سٹیشن والے ہی مرزا صاحب تھے.کہتے ہیں جب یہ پتہ لگ گیا کہ سید کا اصل مقام کیا ہے تو اگلے دن صبح اُٹھتے ہی بیعت کا خط لکھ دیا.پھر آگے لکھتے ہیں ہزاروں ہزار برکتیں نازل ہوں مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اور ان کی اولاد پر.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 6 صفحہ 17 تا 20 روایت حضرت محمد شاہ صاحب) حضرت محمد علی صاحب ولد گامے خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ ”میں نے 1903ء یا 1904ء میں جو بڑی پلیگ پڑی تھی اُس کے بعد گرمیوں کے موسم میں بیعت کی تھی.پہلے والد صاحب نے بیعت کی تھی جو موصی تھے اور بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں.انہوں نے خواب میں دیکھا کہ انہوں نے جالی گاڑ رکھی ہے.( یعنی کہ ایک جالی لگائی ہوئی ہے ) شکار کے لئے جو جال لگاتے ہیں.”جس میں تین فاختائیں پھنس گئی ہیں.مولوی بوٹے خان صاحب سکنہ شکار نے اُن کی اس خواب کی یہ تعبیر کی کہ آپ کے تینوں لڑکے احمدی ہو جائیں گے.چنانچہ ہم تینوں بھائی (بعد میں پھر ) احمدی ہو گئے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 1 صفحہ 190 روایت حضرت محمد علی صاحب) حضرت مولوی علی شیر صاحب زیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ” بیعت 1906 ء میں کی تھی.موجب یہ ہوا کہ میں مولوی محمد علی صاحب برادر مولوی جلال الدین صاحب مبلغ یوپی سے قرآن کریم پڑھا کرتا تھا.آپ کو مولوی جلال الدین صاحب کے ذریعے تحریک ہوئی اور انہوں نے بیعت کر لی.پھر مولوی علی محمد صاحب نے ہمیں تبلیغ کرنا شروع کی.میں نے استخارہ شروع کیا اور چالیس روز تک يَا خَبِيْرُ اخْبِرْنِي کا ورد جاری رکھا.مجھے بتایا گیا کہ...مدعی سچا ہے.“ کہتے ہیں، مختلف مدعی تھے پتہ نہ چلا کہ کس کے حق میں ہے.دوسری رات پھر کہا گیا کہ دعوی کرنے والا سچا ہے.پھر کہتے ہیں پھر تیسری رات کہا گیا کہ قادیان میں جس شخص نے دعوی کیا ہے، وہ سچا ہے.اس پر میں نے بیعت کرلی اور خلافت ثانیہ پر بھی بشارت پر میں نے بیعت کی تھی.“ (یعنی حضرت خلیفہ اسیح الثانی" کی خلافت کے وقت جو ایک فتنہ اُٹھا تھا اُس وقت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہوئی تو انہوں نے بیعت کی).(رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 1 صفحہ 219 روایت مولوی علی شیر صاحب) حضرت شیخ محمد حیات صاحب موگا بیان کرتے ہیں کہ 1903ء میں حضرت صاحب کے ہاتھ پر
خطبات مسرور جلد دہم 673 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 نومبر 2012ء بیعت کی تھی.مولوی نور محمد صاحب آف مانگٹ نے تبلیغ کی تھی.شیخ صاحب کا بیان ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے گھر کے صحن میں لیٹا ہوا ہوں.ایک چاندسی شکل میرے سامنے سے گزری اور مجھے ساتھ ہی یہ بتایا گیا کہ یہ قادیانی احمد ہیں.مگر خواب میں ہی میں خیال کرتا ہوں کہ یہ ٹھیک نہیں ہے.اور اسی حالت میں میں جاگ اُٹھا اور مولوی نور محمد صاحب سے خواب کا ذکر کیا.انہوں نے کہا کہ خواب کے علاوہ جو خیال آیا وہ شیطانی ہے.اس پر میں نے بیعت کر لی.“ (رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) جلد 1 صفحہ 220 روایت حضرت شیخ محمد حیات صاحب) حضرت عبدالرحیم بوٹ میکر و جلد ساز ولد میاں قادر بخش صاحب بیان فرماتے ہیں کہ 1906ء میں مجھے قادیان آنے کا شوق پیدا ہوا.ہمارے خاندان میں صرف میرے ماموں صاحب محمد اسماعیل صاحب جلد ساز ( والد محمد عبد اللہ صاحب جلد ساز ) اور اُن کے لڑکے بھائی محمد عبد اللہ صاحب جلد ساز بھی احمدی تھے.اُن سے زیادہ مخلص میری مامی صاحبہ تھیں، یعنی والدہ صاحبہ محمد عبداللہ صاحب.اُن کے ذریعے ہمارے ماموں صاحب اور بھائی محمد عبد اللہ صاحب قادیان آئے ، احمدی ہوئے.میں ماموں صاحب کے پاس قرآن پڑھا کرتا تھا.اُن کی باتیں سنا کرتا تھا.مثال دیا کرتے تھے کہ دیکھو تم بھی مجھے عبداللہ جیسے ہو.( یعنی اُسی طرح پیارے ہو.) لو بات سنو.بات یہ کہتے کہ لوگ حضرت مرزا صاحب کو برا کہتے ہیں مگر پھر بھی جماعت ترقی کرتی ہے.مثال کے طور پر یا درکھنا کہ کھیت میں جس قدر گندگی اور روڑی ڈالی جاوے اُسی قدر زیادہ اچھی فصل سرسبز ہوتی ہے.یہ لوگ جتنا گند بکتے ہیں، اسی قدر زیادہ جماعت ترقی کرتی جاتی ہے.سوخدا کا ہزار ہزار شکر ہے کہ ایسے برے لوگوں کی صحبت میں رہ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی غلامی میں داخل ہوئے.ماموں صاحب اور مامی صاحبہ سے میری خاص محبت تھی.مجھے فرمایا کرتے تھے کہ تجھے قادیان ضرور لے کر جانا ہے.مجھے شوق تھا.ایک دن فرمایا کہ ایک طرف کا کرایہ میں دوں گا، ایک طرف کا تم خرچ کرنا.(اُس بچے کو شوق دلایا کہ جانا تو ہے لیکن کم از کم خرچ تم نے اپنا کرنا ہے) کہتے ہیں کہ مجھے ہر جمعہ کے دن آٹھویں روز ایک پیسہ ملا کرتا تھا.( جیب خرچ کے طور پر ایک پیسہ ملا کرتا تھا.اُس زمانے میں پیسے کی بھی بڑی و بلی تھی) کہتے ہیں میں وہ ایک آنہ ماہوار جمع کرتا.(آنے میں چار پیسے ہوا کرتے تھے.مجھے یاد نہیں کتنے آنے میرے پاس تھے.بہر حال جتنے بھی تھے میں نے اپنے ماموں کو دے دیئے اور باقی سب کرایہ ماموں صاحب نے خرچ کیا.(اب یہ بھی اُس بچے کو احساس دلانے کے لئے کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ملنے جانا ہے تو کچھ نہ کچھ تمہیں قربانی کرنی چاہئے
خطبات مسرور جلد دہم 674 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 نومبر 2012ء اور اُس کی عادت اس طرح ڈالی.یہ معمولی سی رقم ہوگی ، اصل رقم تو اُن کے ماموں نے ہی خرچ کی ہوگی ) کہتے ہیں بہر حال 1907ء میں قادیان میں محمد عبد اللہ صاحب کی ہمشیرہ صاحبہ بنام فاطمہ جو میری بھی دودھ کی ہمشیرہ تھیں، اُس کو چھوڑنے کے لئے قادیان آیا.یہاں آ کر حقیقی مسلمان ہوا اور جماعت میں داخل ہوا.اللہ کریم کا شکر ہے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) جلد 6 صفحہ 167 - 168 روایت حضرت عبدالرحیم بوٹ میکر صاحب) عبدالستار صاحب ولد عبد اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد صاحب سے سوال کیا کہ مسیح ناصری کی وفات کا مسئلہ ہمیں نہیں آتا، زندہ کا آتا ہے.( یعنی عیسی علیہ السلام کی وفات کا مسئلہ تو ہمیں پتہ نہیں.یہ احمدی نہیں ہوئے تھے، والد احمدی ہو گئے تھے.مسیح زندہ ہے یہ مسئلہ تو ہمیں پتہ ہے، اُس کی وفات ہمیں سمجھ نہیں آتی کس طرح ہو گئی ) یہ ہمیں سمجھا دیں تو میرے والد صاحب نے اپنا ایک خواب بیعت سے آٹھ دس ماہ کے بعد یہ سنایا کہ میں نے دریائے راوی کے کنارے پر دیکھا کہ دو خیمے لگے ہوئے ہیں.ایک مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہے اور دوسرا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے.میں رسول کریم کے خیمے میں داخل ہوا اور یہ سوال کیا کہ مسیح موعود کا دعویٰ کرنے والے بزرگ کیسے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ شخص بہت لائق ہے.بہت لائق ہے.بہت لائق ہے.تین دفعہ انگلی کے اشارہ سے فرمایا.مکمل شہادت کو دیکھ کر یقین کامل ہو گیا کہ آپ یعنی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے دعوی میں راستباز ہیں، بچے ہیں.ہمیں حیات و ممات کے مسئلے کی ضرورت نہیں ہے.( باپ نے تو کہا کہ مجھے ایک خواب آ گئی.بڑی واضح خواب تھی اس لئے مجھے اس کا نہیں پتہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہیں یا زندہ ہیں، اس کی ضرورت نہیں.میرے لئے یہی نظارہ کافی ہے اور میں نے اس لئے بیعت کر لی.) (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) جلد 6 صفحہ 178 روایت حضرت عبدالستار صاحب) حضرت چوہدری نظام الدین صاحب ولد میاں نبی بخش صاحب فرماتے ہیں کہ تیسرا واقعہ طاعون کی پیشگوئی کے موقع پر موضع شکار ماچھیاں سے مولوی رلد و صاحب کی بیوی اور پانچ چھ اور عورتیں طاعون سے مرعوب ہو کر کمال سردی اور بارش کے موقع پر بیعت کی غرض کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں.( جب طاعون ہو رہا تھا تو شکار ماچھیاں سے پانچ چھ عورتیں باوجود اس کے کہ سردی بہت تھی اور بارش ہو رہی تھی ، طاعون کے خوف سے آئیں.انہوں نے کہا کہ بیعت کر کے ہی جان بچائی جاسکتی ہے.تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں بارش میں بھیگتی
675 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 نومبر 2012ء خطبات مسرور جلد دہم ہوئیں حاضر ہوئیں ) حضرت صاحب نے اُن کی حالت تکلیف سفر اور سردی وغیرہ دیکھ کر نہایت شفقت اور مہربانی سے عذرات مناسب فرمائے اور بھیگے کپڑے اتروا کر نئے کپڑے پہنوا دیئے ، یعنی اُن کے کپڑوں کا انتظام کر دیا اور سردی دور کرنے کے لئے آگ سلگوا دی.جب آسودہ حال ہوئیں تو عرض کی حضور خاکساروں کی بیعت قبول فرمائی جائے.حضور نے مہربانی اور عنایت سے عرض منظور فرما کر بیعت کے زمرہ میں داخل فرما لیا.مولوی صاحب مذکور کی بیوی نے پیغام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یعنی ” السلام علیکم، پیش کیا.(مولوی صاحب کی جو بیوی تھی اُن میں سے کچھ پڑھی لکھی تھیں.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں بیعت کرنے کے بعد حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو ارشاد آتا ہے کہ میرے مسیح کو پیغام پہنچاؤ، وہ پیش کیا ) تو حضور بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے کہ یہ پیغام نبوی صلی اللہ علیہ وسلم آج تک کسی نے نہیں ادا کیا.لوگ آتے ہیں ، بیعت کرتے ہیں، چلے جاتے ہیں.پھر بایعانِ مذکورہ نے عرض کی کہ حضور کا پس خوردہ بوجہ تبرک ہمیں ملنا چاہئے جو تبرک ملا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) جلد 6 صفحہ 232 - 233 روایت حضرت چوہدری نظام الدین صاحب) چوہدری حاجی ایاز خان صاحب جو ہنگری وغیرہ کے مبلغ بھی رہے ہیں.وہ اپنے والد صاحب حضرت چوہدری کرم دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق بیان کرتے ہیں.انہوں نے اُن کو جو بتایا، بیٹے نے اُس کی آگے روایت کی ہے.حضرت چوہدری کرم دین صاحب کے الفاظ یہ ہیں کہ جب حضرت صاحب کے جہلم آنے کے متعلق افواہ تھی اُس وقت تمہاری والدہ حسین بی بی کو خواب میں اللہ تعالیٰ سے معلوم ہوا کہ یہ شخص جو جہلم آنے والا ہے اور لوگ اُس کی مخالفت کرتے ہیں، وہ سچا ہے.چنانچہ صبح کو تمہاری والدہ نے مجھے کہا کہ یہ بڑی خوش قسمتی ہو گی اگر تم اس پاک مرد یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کرو اور بیعت کرو.چنانچہ جس دن حضرت صاحب جہلم پہنچے ، اُس دن کھاریاں اور دوسرے سٹیشنوں پر اس قدر ہجوم ایک دن پہلے سے جمع ہو رہا تھا کہ حضور کو دیکھنے کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی.اس لئے مقدمے کی تاریخ کے دن ، ( یہ حاجی ایاز خان صاحب کے والد ان کو کہہ رہے تھے کہ مقدمے کی تاریخ کے دن) تمہاری والدہ نے سحری کے وقت مجھے تازہ روٹی پکا کر دی اور میں کھا کر پیدل جہلم چلا گیا اور کچہری کے احاطے میں مشکل سے پہنچا کیونکہ لوگ کئی کئی حیلے کر کے حضرت صاحب کی شکل مبارک دیکھنے کے لئے ترس رہے تھے.ڈپٹی صاحب کی کوٹھی کے پرے بہت خوبصورت داڑھیوں والے مولوی لوگ وعظ کرتے تھے اور کہہ رہے تھے ، ( یعنی کچھ احمدی لوگ تھے پنجابی میں کہہ رہے تھے کہ ) اوخلقت خدا دی اے،
خطبات مسرور جلد دہم 676 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 نومبر 2012ء اوہ سچا مہدی ، اوہ سچا مسیح ، اوہ بڑیاں اُڈیکاں والا سیح، اوہ آ گیا اے، من لوتے ویلا جے یعنی اسے مخلوق خدا! وہ سچا صیح موعود اور مہدی مسعود جس کی مدتوں سے انتظار تھی ، وہ آ گیا ہے.اب وقت ہے اُس پر ایمان لے آؤ.ہمارے کھاریاں کے احمدی کچھ دن پہلے جہلم چلے گئے ہوئے تھے کیونکہ وہاں لنگر اور پہرے کا انتظام کرنا تھا.حضرت صاحب جب ڈ پٹی کی کچہری میں داخل ہوئے تو ایک دومنٹ بعد ہی کمرے سے باہر آگئے اور دھوم مچ گئی کہ آپ بڑی ہو گئے ہیں اور بگھی میں بیٹھ کر سٹیشن کی طرف چلے گئے.میں حیران تھا کہ حضور تک کس طرح رسائی ہو اور بیعت کس طرح کروں.چنانچہ معلوم نہیں حضور شہر کی جانب سے ہو کر سٹیشن گئے یا دوسرے راستے کی سڑک سے لیکن میں دوڑ کر سیدھا سٹیشن پہنچا.حضور گاڑی میں بیٹھ گئے اور پولیس نے سب آدمیوں کو سٹیشن کے باہر کر دیا.جنگلے کے پار جدھر دیکھو، جہاں تک نظر جاتی تھی، آدم ہی آدم نظر آتا تھا.جب پولیس نے ہمیں پلیٹ فارم سے باہر نکالنا چاہا تو میری نظر ایک کانٹے والے یعنی ریلوے پوائنٹس مین پر جا پڑی.ریلوے کا ملازم تھا، اُس کا نام عبداللہ تھا اور وہ موضع بوڑے جنگل میں رہنے والا تھا اور کبڈی اور کشتی لڑنے میں مشہور تھا.میرا واقف تھا.اُس کو میں نے کہا کہ کوئی صورت کرو کہ اب پولیس مجھے باہر نہ نکالے.میں نے قریب ہو کر مرزا صاحب کی زیارت کرنی ہے.چنانچہ عبداللہ کانٹے والے نے میرے ہاتھ میں ایک ریلوے جھنڈی دے دی.ایک اُس کے ہاتھ میں تھی اور ایک دوسری میرے ہاتھ میں اور ہم دونوں اس طرح ٹہلنے لگے جیسے کہ میں بھی ریلوے ملازم ہوں.اب صرف چند آدمی تھے اور باقی مخلوق جنگلے کے باہر.میں نے جھنڈی وہیں پھینکی اور جس ڈبے میں حضرت صاحب تھے اُس کی طرف بڑھا.حضرت صاحب نے جیب سے گھڑی نکالی اور فرمایا ، ابھی تو دس منٹ باقی ہیں.آواز دوجس نے بیعت کرنی ہے کر لو.بیعت کا لفظ حضور کے منہ میں تھا کہ کھڑکی کے سامنے پائیدان پر موجود اور آگے بڑھا.ایک مولوی صاحب نے باہر نکل کر بیعت کے لئے لوگوں کو آواز دی اور ابھی آواز کے لئے باہر نکلے تھے کہ میں نے ذرا اور آگے سر جھکایا تو حضرت صاحب نے میری طرف متوجہ ہوتے ہوئے فرمایا.بیعت کرنی ہے؟ میں نے عرض کی.جی ہاں.جی صاحب میرے.چنانچہ حضور نے میرا ہاتھ اپنے دست مبارک میں لے لیا اور کلمہ شہادت پڑھایا اور کئی باتیں جیسے شرک نہیں کروں گا اور سچ بولوں گا وغیرہ جواب مجھ یاد نہیں...مگر جب حضور نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اُدھر سے ایک مولوی صاحب کی آواز بیعت کے لئے نکلی تو جو لوگ سٹیشن کے برآمدے میں تھے یا جنگلے کے باہر، وہ سب ٹوٹ پڑے اور جنگلہ پھلانگ کے ایک آن میں پلیٹ فارم پر کر دیا.حضور نے فرمایا کہ اس کے بازو پر ہاتھ رکھ لو.
خطبات مسرور جلد دہم 677 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 نومبر 2012ء ( یعنی ان کا ہاتھ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ میں تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ باقی جو بیعت کرنے والے ہیں اس کے بازو پر اپنا ہاتھ رکھ لیں.مگر یہ تو پہلے چار پانچ آدمیوں نے ہی میری کہنی اور بازو پر ہاتھ رکھے تھے اور اب تو ہجوم تھا.حضور نے فرمایا کہ اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ لو اور جو اس کے پیچھے ہیں وہ اس طرح ایک دوسرے کے کندھوں اور بازوؤں پر.پس میرا ہاتھ حضرت صاحب کے ہاتھ میں تھا اور باقی نامعلوم کہاں تک پیچھے کو کندھوں پر ہاتھ رکھنے کا سلسلہ تھا.حضرت صاحب نے میرا ہاتھ خوب مضبوط پکڑا ہوا تھا اور آنکھیں قریباً بند تھیں.حضور کی پگڑی برف کی طرح سفید تھی اور پگڑی کے نیچے کلاہ نہیں تھا بلکہ رومی ٹوپی کی طرح کچھ تھا اور پھند نا بھی سیاہ رنگ کا پگڑی سے اوپر کونکل کر لٹک رہا تھا جو بہت ہی خوبصورت معلوم ہوتا تھا.جب بیعت لے چکے تو حضور نے گھڑی نکال کر دیکھتے ہوئے فرمایا کہ ایک منٹ باقی ہے.دوستوں کو گاڑی سے علیحدہ کرنا چاہئے.کوئی حادثہ نہ ہو.یہ حضرت اقدس کے اصل الفاظ نہیں مگر مفہوم یہی تھا.چنانچہ لوگ تھوڑے سے گاڑی سے ہٹ گئے لیکن میں نے دروازے کا ڈنڈا پکڑے رکھا اور گاڑی نہایت آہستہ سے حرکت میں آئی اور میں نے حسرت بھری نگاہوں سے حضور کو دیکھا تو حضور نے ذرا آگے جھک کر میری پشت پر تھپکی دی اور فرمایا: اچھا خدا نگہبان.چنانچہ حضور کے اتنا فرمانے پر میں پائیدان سے نیچے اتر آیا.اور بس کیا سناؤں.عجب ہی رنگ اور عجب ہی سماں تھا.اس قدر مخلوق قیامت کو ہی نظر آئے تو آئے ورنہ کیا درخت اور کیا زمین، مخلوق سے لدے ہوئے تھے.فقط بیعت کے وقت والد صاحب کی عمر 52 سال تھی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) جلد 2 صفحہ 80-83 روایت حضرت چوہدری کریم دین صاحب) حضرت مولا دا د صاحب بیان کرتے ہیں کہ 1880 ء سے پہلے کا واقعہ ہے جب میری عمر دس " گیارہ سال کی ہوگی.میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بڑا گر وہ آدمیوں کا کمر بستہ ہے اور ایک شخص اُن کے آگے آگے ہے وہ بھی کمر بستہ جارہا ہے.سر سے اور گلے سے سب بر ہنہ معلوم ہوتے ہیں.کمروں میں پٹکے بندھے ہوئے ہیں.سب سے اگلا جو ہے وہ پیشرو معلوم ہوتا ہے.وہ کہتا ہے.”ہفت زمین ہفت آسمان از خویش پیدا می کنم اور پیچھے والے سب یک زبان ہوتے ہیں از خویش پیدا می کنم ، از خویش پیدا می کنم اسی طرح کہتے جاتے ہیں اور جھومتے جاتے ہیں.ایک پختہ چار دیواری میں جا داخل ہوتے ہیں.یعنی سات زمین اور سات آسمان میں ہی پیدا کرنے والا ہوں، میں نے خود ہی پیدا کیا ہے یا پیدا کروں گا.بہر حال یہ بھی نئی زمین اور نیا آسمان پیدا ہونے کی طرف اشارہ ہے.بہر حال ان کو خواب میں
678 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 نومبر 2012ء خطبات مسر در جلد دہم یہ دکھا یا گیا.پھر اگلی روایت کرتے ہیں کہ 1906ء کو میرے بڑے بھائی عبدالحکیم تپ سے بیمار تھے.( بخار سے بیمار ہو گئے.) اُن کا علاج ایک طبیب مولوی جو سلسلے کا سخت مخالف تھا، کر رہا تھا اور اُس کا بڑا بھائی شمس الدین احمدی تھا.وہ گاؤں موضع دورہ علاقہ سکر شکر میں ہے.اس طبیب مولوی نے حضرت اقدس کی شان میں نا ملائم الفاظ استعمال کئے.( یعنی اچھے الفاظ استعمال نہ کئے ) میں تو موجود نہ تھا.لیکن بھائی جو بیمار تھا انہوں نے اپنے حکیم کو روکا.کہتے ہیں جب میں باہر سے آیا تو وہ مولوی چلا گیا تھا.بھائی صاحب نے نہایت سنجیدہ لہجے میں کہا کہ میں اس طبیب سے علاج نہیں کراتا.اس نے حضرت صاحب کی شان میں گستاخی کی ہے.غرض وہ مولوی راستہ میں ہی طاعون کا شکار ہو گیا.پھر میں بھائی صاحب کو اپنے ساتھ بہاولنگر لے گیا وہاں دو اسسٹنٹ سرجن علاج کرتے رہے مگر آخر انہوں نے جواب دے دیا کہ اب یہ بیچ نہیں سکتے.علاج ترک کر دو اور پیسہ خراب نہ کرو.(شدت سے طاعون پھیلا ہوا تھا، وہ مولوی جو بدزبانی کر رہا تھا، وہ تو رستے میں طاعون کا شکار ہو کے ختم ہو گیا لیکن بھائی جو ان کا علاج کروا رہے تھے ، اُن کی بیماری جو ہے وہ بڑھتی چلی گئی.بہاولپور جب لے کر گئے ہیں وہاں بھی ڈاکٹروں نے جواب دے دیا).کہتے ہیں تب میں نے ایک سال کے بعد حضرت اقدس کے حضور خط لکھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جوا با تحریر فرمایا کہ ”فکر نہ کرو.اللہ تعالیٰ مُردوں کو زندہ کر سکتا ہے.ہم دعا کریں گے.تم بھی دعا کرو انشاء اللہ صحت ہو جائے گی.اس خط کے دوسرے دن میں نے دیکھا کہ بھائی کا بخار جا تارہا.میں نے کہا اب آپ کو بخار نہیں ہے.میں نے اُٹھا کر بٹھایا اور خود سہارا لے کر بیٹھ گیا تو بھائی صاحب نے کہا کہ میرا سینہ جو جلتا تھا اب سرد ہے.میں نے کہا کہ میں نے حضرت اقدس کے حضور لکھا تھا.حضور نے جوا با تحریر فرمایا ہے کہ ہم دعا کریں گے.خدا تعالیٰ شفا دے گا.تب سن کر پنجابی میں کہنے لگا کہ او ہو ہن میں نئیں مردا.مسیح نے مردہ زندہ کیتا اے.اس کے بعد وہ احمدی ہو گئے.یعنی بیعت کر لی اور پھر پوری صحت ہو گئی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) جلد 2 صفحہ 84 - 85 روایت حضرت مولا داد صاحب) اس سے پہلے احمدی نہیں تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف بات سننا پسند نہیں کرتے تھے.حضرت صوفی نبی بخش صاحب بیان کرتے ہیں کہ ”جس وقت حضور مسجد میں تشریف لائے اور میری نظر حضور کے چہرہ مبارک پر پڑی تو میں نے حضور کو پہچان لیا اور فوراً بجلی کی طرح میرے دل میں
خطبات مسرور جلد دہم 679 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 نومبر 2012ء ایک لہر پیدا ہوئی کہ یہ وہ مبارک وجود ہے جس کو میں نے ایام طالب علمی یعنی ستمبر 1882ء کو خواب میں دیکھا تھا.حضرت صاحب نے اُس دن وہ لباس پہنا ہوا تھا جس لباس میں وہ مجھے خواب میں ملے تھے.“ رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) جلد 5 صفحہ 42 روایت حضرت صوفی نبی بخش صاحب) حضرت مولوی امام الدین صاحب فیض ولد مولا نابدرالدین صاحب فرماتے ہیں کہ سلسلہ عالیہ احمد یہ میں داخل ہونے کی پوری ہدایت رویائے صادقہ سے ہوئی جو استخارہ مسنونہ کئی بار کرنے کے بعد مجھے آئی.جب میں پہلی دفعہ بٹالہ والے پیر صاحب کی اجازت لے کر صرف قادیان دیکھنے کے واسطے آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملاقات کے وقت پوچھا کہ وحی تو خاصہ انبیاء کا ہے.آپ یہ دعویٰ کیسے کرتے ہیں.فرمایا کہ وحی تو شہد کی مکھی کو بھی ہوتا ہے اور سید عبدالقادر اور حضرت مجدد الف ثانی، شیخ احمد سر ہندی نے بھی فرمایا ہے کہ وحی و الہام مکاشفات الہیہ اولیاء اللہ کوبھی ہوتا ہے.میں نے عرض کی کہ میں بحث کرنے نہیں آیا.مجھے تو صوفیائے کرام کی طرح سچی خواب یا الہام یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے آپ کی صداقت کا یقین آئے گا.(یعنی بحث تو میں نے نہیں کرنی.کوئی سچی خواب آئے یا الہام ہو یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہو تو مجھے یقین آئے گا.اس لئے آیا ہوں.یہ آپ مجھے کر کے دکھا ئیں ).آپ نے فرمایا کہ آپ استخارہ کریں.میں نے کہا کونسا استخارہ؟ فرمایا جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری صداقت اللہ تعالیٰ سے پوچھو.عرض کی کہ کس طرح؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ استخارہ کر کے.یہ دو باتیں تھیں جن سے مجھے یقین ہوا کہ شخص مگار نہیں ہے.خیر چار ماہ بعد استخارہ مسنونہ (چار ماہ یہ استخارہ کیا اور اس مسنونہ استخارہ کے بعد کہتے ہیں میں نے ) یہ رؤیا دیکھا کہ میں ایک مسجد میں آیا ہوں جو مسجد مبارک کی طرح ہے.حضرت صاحب صبح کی نماز پڑھ کر دالان میں نہایت مبارک نورانی صورت سے آ کر بیٹھ گئے.میں نے عرض کی کہ میں آپ کے دعوی کی صداقت کا طالب ہوں.( یعنی پوچھنا چاہتا ہوں کہ کس طرح آپ کا دعوی سچا ہے؟) کہتے ہیں کہ آپ کی طرف سے یہ بڑی اونچی آواز آئی.جس آوناسی او تے آ گیا‘ پنجابی میں.کہتے ہیں یہ آواز میرے دل کے اندر داخل ہو گئی اور یقین کامل ہو گیا کہ جس نے آنا تھا، یعنی مسیح موعود، مہدی موعود یہی حضرت مرزا صاحب ہی ہیں.اثناء استخارہ ( یعنی استخارہ کے دوران ) میں نے بہت دعائیں عجز و نیاز سے کیں.ایسے بھی اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ یا اللہ! اگر مجھے صاف پتہ نہ لگا تو قیامت کے دن اگر مجھ سے باز پرس ہوئی تو یہی کہوں گا کہ میں نے دنیا میں نہایت عجز سے دعا کی تھی کہ عیسی مہدی یہی ہے تو یا اللہ! مجھے بتادیا جائے.
خطبات مسرور جلد دہم 680 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 نومبر 2012ء آپ نے کیوں نہ بتا یا؟ پھر میں نے خط و کتابت حضرت صاحب سے شروع کر دی.جواب میں اکثر نماز بحضور دل پڑھنے کی تاکید فرماتے.(یعنی بڑے خشوع و خضوع سے نماز پڑھا کرو.اکثر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہی تاکید فرماتے تھے.اور کوئی اعتراض جو مخالفین کرتے تھے اس کا جواب مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قلم سے ہوتا تھا.یہاں تک کہ میں نے عرض کی کہ میں نے بیعت تو پہلے حضرت خواجہ شمس الدین سیال شریف مرحوم والے کی چشتیہ طریق پر کی ہوئی ہے.اور پھر میرے پیر صحبت اُن کے مرید مجاز خلیفہ سید حیدر شاہ صاحب مرحوم اور طریقہ قادریہ میں پیر ظہور حسین صاحب مرحوم بٹالہ ہیں.کیا اب بیعت کی کوئی ضرورت ہے؟ آپ نے فرمایاوہ اور بیعت ہے.ضروری یہی بیعت ہے جو اب کرو گے.اس پر میں نے بیعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ہاتھ پر کی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) جلد 6 صفحہ 25-27 روایت حضرت مولوی امام الدین صاحب فیض ) یہ تھیں چند روایات جو میں نے بیان کیں.اس وقت میں چند مرحومین کا بھی ذکر کروں گا.جن میں سے ایک مکرم محترم فضل الرحمن خان صاحب ہیں جو امیر ضلع راولپنڈی تھے.ان کی 29 اکتوبر 2012ء کو مختصر علالت کے بعد تر اسی (83) سال کی عمر میں وفات ہوگئی ہے.اِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.یہ ان دنوں میں یہیں تھے.جلسے پر آئے تھے.اُس کے بعد پھر ان کو میں نے کہا کچھ دیر رک جائیں.بیماری تو ان کی کافی لمبا عرصہ سے چل رہی تھی لیکن ما شاء اللہ ذہن بالکل اکرٹ (Alert) تھا اور بڑی ہمت سے انہوں نے امارت کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں.یہ مکرم مولوی عبدالغفور صاحب کے بیٹے تھے جنہوں نے خلافت ثانیہ میں بیعت کی تھی.لیکن مکرم فضل الرحمن صاحب پیدائشی احمدی تھے.ابتدائی تعلیم انہوں نے پارہ چنار سے حاصل کی.مڈل اور میٹرک کے امتحانات بھی اعزاز کے ساتھ پاس کئے.پھر 1848ء میں اسلامیہ کالج پشاور میں داخلہ لیا.51-50ء میں ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا.اس کے بعد پنجاب کالج آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں داخلہ لیا اور 54-1953ء میں بی ایس سی مکینیکل انجنیئر نگ اور سول انجنیئر نگ کے امتحان پاس کئے.مختلف سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں یہ اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے.انجنیئر نگ کالج میں تحصیل علم کے دوران حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو احمد یہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کا پریذیڈنٹ مقرر فرمایا تھا.اور یہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ غیر احمدی سٹوڈنٹس کے ساتھ انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی ایک میٹنگ ارینج (Arrange) کی اور جب آ کے اطلاع کی تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے
681 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 نومبر 2012ء خطبات مسرور جلد دہم فرمایا کہ میں تو بڑا مصروف ہوں لیکن انہوں نے بتایا کہ ہم تو اطلاع کر چکے ہیں.اس پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: ٹھیک ہے میں لاہور آؤں گا اور ان کو کہا کہ انتظام کرو اور انہوں نے انتظام کیا.امیر جماعت لاہور کو بعد میں پتہ لگا کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی لا ہور تشریف لا رہے ہیں.بہر حال یہ اُس زمانے سے جماعت کے کاموں میں انوالو (Involve) تھے.ملا زمت کے سلسلے میں حیدر آبادر ہے.وہاں کے قیام کے دوران اور خلیفہ اسیح الثالث کے دور میں خدام الاحمدیہ میں انہوں نے قائد علاقہ خدام الاحمدیہ، پھر قاضی ضلع حیدر آباد کے طور پر بھی خدمت کی.اس کے علاوہ صدر حلقہ بھی رہے.سیکرٹری اصلاح وارشاد، نائب امیر ضلع اور 1998ء میں حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے ان کو بطور امیر شہر اور ضلع راولپنڈی مقرر فرمایا.خلافت اور نظام جماعت سے والہانہ عشق تھا.ہر محفل میں آپ کی گفتگو کا محور جماعتی واقعات، صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے واقعات اور خلفائے احمدیت ہوتے تھے.ہمیشہ خلافت کی اطاعت اور خلیفہ وقت سے مضبوط تعلق کی تاکیدا اپنی اولا دکو کرتے رہے.انتہائی دعا گو انسان تھے.بچے کہتے ہیں کہ روزانہ صبح گھر سے نکلنے سے پہلے سب کو بٹھا کر دعا کروایا کرتے تھے اور انہوں نے شروع سے ہی یہ طریق رکھا ہوا تھا.پچھلے چند دنوں میں جب یہ ہسپتال میں رہے ہیں تو وہاں بھی غنودگی کی حالت سے جب باہر آتے تھے تو پھر بچوں کو یہی کہتے تھے کہ اب ہاتھ اُٹھا کے دعا کرلو.ان کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور چار بیٹے ہیں.بیٹے سارے ملک سے باہر ہی ہیں اور بیٹیاں بھی باہر ہیں.ان کی بڑی ہمشیرہ وفات پاگئی تھیں تو ان کے بچے چھوٹے تھے.ان کی پرورش انہوں نے کی.بلکہ ان کی بچیوں میں سے ایک بچی کو دو دفعہ بڑا صدمہ ہوا تو اس کا بڑا خیال رکھا.ان کی جو بھانجی تھی اس کی شادی انہوں نے نوابشاہ یا سانگھڑ میں کی.وہاں ان کی بھانجی کے جو خاوند تھے اُن کو شہید کر دیا گیا.پھر دوسری شادی اُن کے بھائی پیر حبیب صاحب کے ساتھ کی تو اُن کو بھی کچھ عرصے کے بعد شہید کر دیا گیا.اس طرح ان کی بھانجی کو دو دفعہ بیوگی کو دیکھنا پڑا اور دونوں دفعہ شہداء کی بیوہ بنی ہیں.ان کے متعلق قائمقام امیر راولپنڈی مبارک احمد صاحب لکھتے ہیں کہ جماعت کا ہر رکن خواہ وہ چھوٹا ہے یا بڑا ، مرد ہے یا عورت، آپ کی شفقت بے پایاں سے ذاتی طور پر فیضیاب تھا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے شمار قائدانہ صلاحیتوں سے نوازا تھا.انہی خدا داد صلاحیتوں کا نتیجہ تھا کہ آپ کے دورامارت میں جو نومبر 1998ء سے شروع ہوا ، جماعت راولپنڈی نے اموال ونفوس کے لحاظ سے ہر شعبے میں نمایاں ترقی کی
خطبات مسرور جلد دہم 682 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 نومبر 2012ء اور راولپنڈی کا شمار ملک کی جو اچھی جماعتیں ہیں، اُن میں ہونے لگا.مجموعی طور پر آپ کی جماعتی خدمات کا عرصہ نصف صدی یا پچاس سال کے عرصے میں پھیلا ہوا ہے جو خلافت ثانیہ سے شروع ہوتا ہے.متعدد مرکزی کمیٹیوں کے ممبر رہے.آپ کے دور امارت میں تاریخ احمدیت راولپنڈی کی تدوین اور اشاعت کا کام ہوا.اس کے لئے آپ کو بڑھاپے اور مختلف عوارض کے باوجود کئی کئی روز مسلسل گھنٹوں بیٹھنا پڑا اور اس تاریخی دستاویز کو ایک ایک کر کے لفظ بہ لفظ پڑھا، سنا اور پھر اس کے منظوری دی.اسی طرح صد سالہ خلافت جوبلی کے موقع پر جماعت احمد یہ راولپنڈی کو ایک دیدہ زیب اور منفر د خلافت جوبلی سووینئر شائع کرنے کی توفیق ملی.اس کا تمام تر سہرا بھی آپ کے سر ہے کیونکہ آپ نے اس اہم کام میں ذاتی دلچسپی لی اور مضمون نگار حضرات کو اور خواتین کو ذاتی طور پر فون کر کے مضامین لکھوائے.جیسا کہ میں نے بتایا 1998ء میں خلیفتہ اسی الرابع نے آپ کو جماعت را ولپنڈی کا امیر مقرر فرمایا تھا.اس سے قبل آپ کو تقریباً ساڑھے چارسال تک نائب امیر کے طور پر بھی خدمات بجالانے کی توفیق ملی.امارت کی سی تبدیلی بھی بوجوہ ہوئی تھی تو اس وقت میں ناظر اعلیٰ ہوتا تھا اور اس زمانے میں یہ میرے علم میں تھا کہ حضرت خلیفتہ اسیح الرابع کے ساتھ انہوں نے قائد خدام الاحمدیہ کی حیثیت سے کام کیا ہے جبکہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع صدر خدام الاحمدیہ ہوتے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے مجھے لکھا کہ امیر ضلع کے لئے ، امیر پنڈی شہر کے لئے کوئی نام تجویز کرو.زیادہ نام تو اس وقت میرے سامنے نہیں تھے تو میں نے انہی کا ایک نام بھیجا تھا جس کو فوری طور پر حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے منظور فرمایا اور فرمایا کہ ہاں ان کو میں جانتا ہوں ، یہ انتظامی لحاظ سے بھی بڑے اچھے کام کرنے والے ہیں اور ویسے بھی اخلاص و وفا کے لحاظ سے بڑے اچھے ہیں، انشاء اللہ تعالیٰ کام سنبھالیں گے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے پھر خوب کام سنبھالا.زندگی کے آخری دن تک مفوضہ ذمہ داریوں کو انتہائی احسن رنگ میں نبھایا ہے اور خلافت کے فدائی اور جان شار وجود تھے اور اشاروں پر چلنا جانتے تھے.اس کو ایک سعادت سمجھتے تھے اور صرف جماعتی کاموں میں نہیں بلکہ میں نے ذاتی معاملات میں بھی دیکھا ہے.جلسے پر جب یہاں آئے ہیں تو میں نے ان کو کہا کہ کچھ عرصہ یہاں رہ جائیں لیکن ان کی اہلیہ کے چہرے کے تاثرات سے مجھے لگا کہ یہ یہاں رہنا نہیں چاہتیں لیکن انہوں نے بڑی بشاشت سے کہا کہ جب تک آپ کہیں انشاء اللہ ہم رہیں گے اور شاید یہیں ان کی وفات ہونی تھی اور جنازہ پڑھانا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام کیا.ابھی ان کا جنازہ بھی انشاء اللہ میں پڑھاؤں گا.ڈاکٹر نوری صاحب سے ان کا بڑا تعلق تھا.وہ لکھتے ہیں کہ ان کا میرے ساتھ تعلق مختلف حیثیتوں سے تھا.
خطبات مسرور جلد دہم 683 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 نومبر 2012ء قریبی دوست بھی تھے اور ڈاکٹر کی حیثیت سے ان کے ڈاکٹر بھی تھے.اور ڈاکٹر صاحب نے ان کے نائب امیر کے طور پر بھی ان کے ساتھ کام کیا.کہتے ہیں ہر لحاظ سے میں نے ان کو دیکھا ہے.یہ فضل الرحمن صاحب بڑی خوبیوں کے مالک تھے.خدا تعالیٰ سے بہت ڈرنے والے، ہر قسم کے حالات میں ہمیشہ اُسی پر توکل رکھنے والے، خلافت سے آپ کا کامل وفا، پیار اور اطاعت کا تعلق تھا.جب بھی خلیفہ وقت کا ذکر ہوتا تو آپ کی آواز بھرا جاتی اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے.ان کا اوڑھنا بچھونا صرف اور صرف جماعت کی خدمت تھا.ان کو بہت سی بیماریاں لاحق تھیں اور ویل چیئر استعمال کرتے تھے لیکن اس کے باوجود دینی خدمات کے لئے بہت محنت کیا کرتے تھے.آخری دو تین سال تو ویل چیئر پر تھے.کبھی شکوہ نہ کرتے تھے اور کبھی ماتھے پر بل نہ لاتے تھے.غریبوں ، ضرورتمندوں، یتیموں ، بیواؤں اور مستحق طلباء کا بہت خیال رکھتے تھے.عزیز رشتہ داروں، مختلف پریشان حال اور مالی بحران سے متاثرہ خاندانوں کی مدد اور رہنمائی کیا کرتے تھے.قائد خدام الاحمدیہ ضلع راولپنڈی لکھتے ہیں کہ محترم امیر صاحب ایک منفرد شخصیت کے مالک تھے.آپ انتہائی ملنسار ، غریب پرور، ہمیشہ راضی بقضاء رہنے والے، خلافت سے دلی محبت رکھنے والے، صابر و شاکر بزرگ انسان تھے.دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی حقیقی تصویر تھے.کہتے ہیں کہ خاکسار کو محترم امیر صاحب کے بہت قریب رہنے کا موقع ملا.ان کی شفقت اور محبت ایک باپ سے بڑھ کر تھی.اور یہ رویہ ہے جو ہر جگہ ہرا میر اور ہر صدر کا خدام الاحمدیہ کے نظام کے ساتھ اور باقی نظاموں کے ساتھ بھی ہونا چاہئے.اور ہر قائد کا نو جوانوں کے ساتھ بھی، قائدین اور صدر ان کو یہی رویہ رکھنا چاہئے ).یہ لکھتے ہیں کہ خاکسار کو بھی جس حد تک ہو سکا ایک بیٹے کی طرح اُن کے زیر سایہ جماعت کی خدمت کرنے کی توفیق ملی.اور یہ سب جو ان کی خوبیاں بیان ہو رہی ہیں، ان میں میں نے دیکھا ہے کہیں بھی کوئی مبالغہ نہیں ہے بلکہ شاید کوئی کمی رہ گئی ہو.قائد صاحب لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے امیر صاحب کو قیادت اور امارت کی قائدانہ صلاحیتوں سے بھی خوب نوازا تھا.آپ کو ہر عہدیدار اور کارکن سے اُس کی اہلیت اور قابلیت اور طاقت کے مطابق کام لینے کا سلیقہ اور ڈھنگ آتا ہے اور ہر عہدے دار بلکہ جماعت کا ہر فرد آپ کے ہر حکم اور ارشاد کی تعمیل بجالا کر خوشی محسوس کرتا اور اپنے لئے ایک اعزاز سمجھتا تھا.خدام الاحمدیہ سے ان کی شفقت بھی ایک باپ سے بڑھ کر تھی.خاکسار کو یہ کہنے میں کوئی وہم نہیں کہ خدام الاحمد یہ راولپنڈی نے جو پچھلے دس سالوں میں غیر معمولی ترقی اور مضبوطی حاصل کی ہے اس میں محترم امیر صاحب کا سب سے بڑا حصہ ہے.
خطبات مسرور جلد دہم 684 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 نومبر 2012ء پھر لکھتے ہیں کہ احباب جماعت سے محبت اور ان کی تکلیف کا بہت زیادہ خیال فرماتے تھے.28 رمئی کے بعد امیر صاحب نے خدام الاحم یہ راولپنڈی کے ذمہ کافی کام لگائے جن میں کنسٹرکشن اور سکیورٹی کے کام بھی شامل تھے.ان امور میں بہت زیادہ اخراجات بھی ہوئے لیکن کبھی امیر صاحب نے اس بات کی پرواہ نہ کی.ایک موقع پر راولپنڈی کے ایک احمدی عہد یدار نے ان خدشات کا اظہار کیا کہ امیر صاحب روپیہ بہت خرچ ہو رہا ہے جس پر امیر صاحب نے کہا کہ ایک احمدی کی جان کے مقابل پر لاکھوں روپیہ بھی کوئی معنے نہیں رکھتا.اگر کسی احمدی کی جان چلی جائے تو ہم خلیفہ وقت کو کیا جواب دیں گے کہ چند لاکھ روپے کی خاطر ہم نے یہ انتظام نہیں کیا تھا.راولپنڈی شہر کے حالات کی خرابی کے بعد جب حلقہ جات میں نماز جمعہ کی ادائیگی شروع ہوگئی ( وہاں مسجد میں جمعہ کی ادائیگی کی اجازت نہیں ہے تو مختلف حلقوں میں جمعہ پڑھا جاتا ہے.پنڈی شہر میں بھی کافی ٹینشن ہے.اللہ تعالیٰ فضل کرے.اُن کے لئے بھی دعا کریں کہ وہاں بھی حالات ٹھیک ہوں.پھر کہتے ہیں اس بات کا ان کو بہت شدت کے ساتھ احساس تھا کہ جماعت کے ساتھ رابطہ نہیں ہو رہا.جماعت ایک جگہ جمع ہو جاتی ہے تو امیر جماعت کو بہر حال ہدایات دینے اور اُن کی رہنمائی کرنے ، اور اُن کی باتیں سننے سمجھنے کا موقع مل جاتا ہے.لیکن وہاں تو دفتر تک میں بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی ، ہر چیز سیل (Seale) کر دی گئی تھی.کہتے ہیں خاکسار کو ہدایت تھی کہ کسی نہ کسی حلقے میں بندوبست کروائیں اور انہیں جمعہ کے لئے لے کر جائیں.امیر صاحب نے قائد صاحب کو کہا ہوا تھا کہ کیونکہ اب ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے ، اس لئے فضل الرحمن صاحب بطور امیر مختلف جگہوں پر جایا کریں گے تاکہ لوگوں کے ساتھ رابطہ قائم رہے.کہتے ہیں لیکن میں کوشش کرتا تھا کہ ایسی جگہ نہ لے کر جاؤں جہاں سیڑھیاں چڑھنی پڑھیں کیونکہ اُن کو گھٹنوں کی تکلیف تھی.ایک بار انہوں نے خود ہی کہا کہ بیت الحمد مری روڈ کا پروگرام بنا ئیں.اس پر قائد صاحب کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ امیر صاحب وہاں تو بہت سیڑھیاں ہیں اور آپ کو بہت تکلیف ہو گی.لیکن امیر صاحب نے کہا کہ نہیں، کچھ نہیں ہوتا، دوستوں سے ملے بہت وقت ہو گیا ہے.پھر مرکزی عہدیداروں کا بھی بڑا احترام تھا.یہ بھی امراء کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ مرکزی عہدیداروں کو عزت و احترام دیں.گو اُن کا مطالبہ کوئی نہیں اور نہ کسی مرکزی عہدیدار کے دل میں خیال آنا چاہئے کہ مجھے عزت و احترام ملے.لیکن جماعتوں کا، افراد کا، جماعتی عہد یداروں کا ، امراء وغیرہ کا کام ہے کہ اس بات کا خیال رکھا کریں.کہتے ہیں کہ ایک دفعہ صدر صاحب خدام الاحمدیہ پنڈی آئے ہوئے تھے تو انہوں نے کہا کہ میں نے ملاقات کرنی ہے.صدر صاحب نے کہا
خطبات مسرور جلد دہم 685 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 نومبر 2012ء کہ میں آ جاؤں گا مجھے وقت بتادیں.تو انہوں نے کہا نہیں، آپ نہیں آئیں گے.آپ وہیں رہیں جہاں ٹھہرے ہوئے ہیں، میں آپ کو ملنے کے لئے خود آؤں گا.پھر جب یہاں آئے ہیں تو پنڈی جماعت کی بڑی فکر تھی.مستقل رابطہ قائد صاحب سے رکھا ہوا تھا اور اُن کی رہنمائی کرتے رہتے تھے.تحریک جدید کے بارے میں کہتے ہیں کہ مجھ سے پوچھا.سال ختم ہو رہا ہے کیسی پوزیشن ہے؟ اُن کی تو وفات ہو گئی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی تحریک جدید کی پوزیشن اچھی ہے.اُس کا اعلان تو میں انشاء اللہ اگلے جمعہ کروں گا.پنڈی جماعت نے اس میں کافی ترقی کی ہے.ماشاء اللہ.دوسری وفات کی جو اطلاع دینی ہے وہ مکرم محسن محمود صاحب کی ہے.افریقن امریکن احمدی ہیں.چوراسی سال کی عمر میں 19 اکتوبرکو ان کی وفات ہوئی.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.انہوں نے 1958ء میں بیعت کر کے اسلام احمدیت میں شمولیت اختیار کی تھی اور احمدیت قبول کرنے کے بعد انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.بڑے تحمل سے اور استقامت سے ان کو برداشت کیا.آپ سیکرٹری تبلیغ بھی تھے.بعد ازاں پندرہ سال سے زائد عرصہ صدر جماعت نیو یارک کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پائی.تبلیغ کا شوق جنون کی حد تک تھا.جب کبھی تبلیغی سٹال لگایا جا تا یا لٹریچر کی تقسیم کا پروگرام ہوتا تو اس میں بڑے شوق سے شامل ہوتے بلکہ سارا دن ساتھ رہتے.صوم وصلوۃ کے پابند، تہجد گزار، انتہائی عاجز، منکسر المزاج، بہت محبت کرنے والے شفیق، خاموش طبع ، ہنس مکھ، نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک، بردبار، غریب پرور، نیک متقی اور مخلص انسان تھے.خلافت کے فدائی اور خلیفہ وقت کے ہر اشارہ پر فورا عمل پیرا ہونے والے، نظام جماعت کے اطاعت گزار تھے.مبلغین سلسلہ سے بہت عزت اور محبت سے پیش آتے.ہر جماعتی میٹنگ میں حاضر ہوتے اور ساری کارروائی خاموشی سے سنتے.جب مشورہ مانگا جاتا تو ہمیشہ مفید اور صائب مشورہ دیتے.بیت الظفر نیو یارک میں ہر سال پھول پودے لگاتے اور پھر سارا سال اُن کی دیکھ بھال کرتے.مسجد کی صفائی اور آرائش وغیرہ کے کاموں کو سعادت سمجھ کر سر انجام دیتے.مالی قربانی میں پیش پیش رہتے.اپنی حیثیت سے بڑھ کر مالی قربانی کیا کرتے تھے.2005ء میں جب میں نے وصیت کی تحریک کی ہے تو انہیں بھی جب جماعت کی طرف سے وہاں مقامی طور پر شمولیت کے لئے کہا گیا تو پوچھنے لگے کہ کیا آ بلیکیشن (Obligation) ہیں.ان کو بتایا گیا کہ قربانی کی شرح دس فیصد ہے، تو کہنے لگے کہ میں تو پہلے ہی اپنی آمد کا بیس پچیس فیصد چندہ ادا کرتا ہوں.لیکن بہر حال اس کو انہوں نے
خطبات مسرور جلد دہم 686 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 نومبر 2012ء کافی نہیں سمجھا کیونکہ خلیفہ وقت کی تحریک پر لبیک کہنی تھی تو فور وصیت کے نظام میں بھی شامل ہو گئے.اور کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ ریٹائر ڈ تھے اور پینشن پر گزارہ تھا.مگر ان کا چندہ اپنی جماعت میں سب سے زیادہ ہوا کرتا تھا.بعض کمانے والوں سے بھی زیادہ ہوا کرتا تھا کیونکہ صحیح شرح پر چندہ دینے والے تھے.اللہ تعالیٰ ان دونوں مرحومین سے مغفرت کا سلوک فرمائے.اپنی رضا کی جنتوں میں جگہ دے.بلند مقامات عطا فرمائے.یہ جو افریقن امریکن احمدی محمود صاحب ہیں ان کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ کے علاوہ چارئے پالک بیٹے ہیں ان کی اپنی اولا د کوئی نہیں تھی.اللہ تعالیٰ ان کو بھی جماعت سے تعلق میں مضبوط کرے اور ہمیشہ ان نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق دے جن پر یہ کار بندر ہے.اسی طرح فضل الرحمن صاحب کی اولاد کے لئے بھی دعا کریں.اللہ تعالیٰ اُن کو بھی توفیق دے کہ اُن کی نیکیاں یہ لوگ ہمیشہ جاری رکھنے والے ہوں اور صحیح اخلاص و وفا کا تعلق ان کا ہمیشہ خلافت اور جماعت سے رہے.ان دونوں کی نماز جنازہ ابھی نماز جمعہ کے بعد میں انشاء اللہ پڑھاؤں گا.ایک جنازہ فضل الرحمن صاحب کا تو حاضر ہے، اُس کے لئے میں باہر جاؤں گا.باہر جا کے نماز پڑھاؤں گا.احباب یہیں مسجد میں تشریف رکھیں اور یہیں نماز جنازہ ادا کریں.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 23 تا 29 نومبر 2012 جلد 19 شماره 47 صفحه 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد دہم 687 45 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 نومبر 2012ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 09 نومبر 2012 ء بمطابق 09 رنبوت 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح.مورڈن - لندن تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: وَلِكُلّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلِيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ أَيْنَمَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللهُ جَمِيعًا إِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (البقرة : 149) اس آیت کا ترجمہ ہے اور ہر ایک کے لئے ایک صلح نظر ہے جس کی طرف وہ منہ پھیرتا ہے.پس نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ.تم جہاں کہیں بھی ہو گے اللہ تمہیں اکٹھا کر کے لے آئے گا.یقینا اللہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے.اس آیت میں خدا تعالیٰ نے ایک ایسا حکم ارشاد فرمایا ہے جو ہر فر د جماعت کی ہر قسم کی ترقی کے لئے بھی ضروری ہے، یعنی ہر ایسی ترقی جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بناتی ہے اور مسلمانی کا دعویٰ کرنے والے کو حقیقی مسلمان بناتی ہے.اور بحیثیت مجموعی جماعت کی ترقی کے لئے بھی ضروری ہے.اور وہ حکم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ایک حقیقی مومن کا، ایک حقیقی مسلمان کا حقیقی مومنین کی جماعت کا صح نظر نیکیوں میں آگے بڑھنا ہونا چاہئے.دنیا میں جو کروڑوں اربوں انسان بستے ہیں اِلَّا مَا شَاءَ اللہ ہر ایک کا زندگی کا ایک مقصد ہوتا ہے جس کو حاصل کرنے کی وہ کوشش کرتا ہے.کوئی کسی ایک مقصد کے پیچھے پڑا ہوا ہے تو کوئی کسی دوسرے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے.حتی کہ برائیاں کرنے والے جو ہیں اُن کا بھی کوئی مقصد ہوتا ہے جس کے حاصل کرنے کی وہ کوشش کرتے ہیں.چاہے وہ برے نتائج پیدا کرنے والے ہوں، چاہے وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے والی ہو.مثلاً ایک چورہی ہے، وہ اپنے دن کا اکثر وقت اس منصوبہ بندی میں ہی
خطبات مسرور جلد دہم 688 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 نومبر 2012ء صرف کرتا ہے کہ میں نے رات کو کہاں کہاں اور کس طرح چوری کرنی ہے؟ یا ڈاکو ہیں تو وہ اپنے ڈاکے ڈالنے کے مقصد کے حصول کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں.کچھ لوگ نیکی اور مذہب کے نام پر ظلم کو ہی اپنا مقصد اور صح نظر بنا لیتے ہیں اور اس کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں.معصوم بچوں کو اس کے لئے تربیت دیتے ہیں.اس کے لئے روپیہ اور وقت خرچ کرتے ہیں.بچوں کے ذہنوں کو ایک لمبی تربیت سے سوچ سمجھ سے بالکل خالی کر کے پھر اُن سے خود کش حملے کرواتے ہیں.دہشت گردی کے حملے کروا کر معصوم جانوں کو ضائع کرتے ہیں اور بدقسمتی سے اس وقت یہ ظلم کرنے والی اکثریت وہ ہے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہے اور یوں اسلام کی خوبصورت تعلیم کو بدنام کرنے والے ہیں ،مسلمانوں کے نام کو بدنام کرنے والے ہیں.اور مذہب کے نام پر یہ سب فتنہ وفساد ظلم و بربریت اور معصوم جانوں کے خون سے کھیلنے والے وہ لوگ ہیں جن لوگوں کے لئے ، جس مذہب کے ماننے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سمح نظر رکھا تھا کہ فَاسْتَبِقُوا الْخَيرات.یعنی ہر قسم کی نیکیوں میں آگے بڑھنا تمہارا مقصد ہو.کسی ایک نیکی کا حصول مقصود نہیں ہے بلکہ ہر قسم کی نیکی کرنا اور اُس میں بڑھنا تمہارا مقصد ہونا چاہئے.تمہارا یہ مقصد اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہے.ہر قسم کی نیکی کرنا اور اس کا حصول تمہارا مقصد ہے تبھی تم حقیقی مومن کہلا سکتے ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلِكُلّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلِیا.اور ہر ایک کے لئے ایک مح نظر ہوتا ہے جس کی طرف وہ منہ پھیرتا ہے اس کو اپنا مقصد بنالیتا ہے.وجهَة کے معنی ہیں کوئی سمت یا کوئی جانب یا جہت.اس کے معنی راستے اور طریق کے بھی ہیں اور اس کے معنی کسی مقصد کو حاصل کرنا بھی ہیں.(لسان العرب زیر ماده وجه) پس ایک مومن کے لئے یہ شرط ہے کہ اس طرف منہ کرے، اس جانب دیکھے جس طرف دیکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.اور پھر اُس طرف دیکھنا ہی نہیں بلکہ جس طرف دیکھ رہا ہے، وہاں جو مختلف راستے ہیں، اُن میں سے وہ راستہ اختیار کرے جس کے اختیار کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور پھر اُس رستے کی طرف صرف منہ اُٹھا کر ہی نہیں چلتے چلے جانا بلکہ اس راستے پر چلنے کی وجہ ایک مقصد کو پانا ہے اور وہ مقصد وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مقررفرمایا ہے یعنی فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ.نیکیوں کو نہ صرف بجالا نا بلکہ اُن کے معیار بھی بلند کرنا اور ان نیکیوں کو کرنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا اور صرف ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش ہی نہیں کرنا بلکہ جو کمزور ہیں، پیچھے رہ جانے والے ہیں، اُن کو بھی ساتھ لے کر چلنا.یعنی جماعتی ترقی بھی ہر وقت ایک مومن کے منظر ہوتی ہے.اس لئے حقیقی مومن
خطبات مسرور جلد دہم 689 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 نومبر 2012ء وہی ہے کہ جب وہ ترقی کرتا ہے تو باقی افراد جماعت کی ترقی کے لئے بھی کوشاں ہوتا ہے، اُن کے لئے کوشش کرتا ہے.اُن کو بھی نیکیوں کی دوڑ میں اپنے ساتھ شامل کرتا ہے.اُن کے لئے بھی مواقع مہیا کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ آگے بڑھیں تا کہ جماعت کی ترقی کا پہیہ تیزی سے آگے کی طرف گھومتا چلا جائے.جماعت احمدیہ یعنی وہ جماعت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے ساتھ جڑنے کی وجہ سے اُس خیر کو پھیلانے کے لئے قائم ہوئی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے اور اس خیر میں حقوق اللہ بھی ہیں اور حقوق العباد بھی ہیں ، عبادات بھی ہیں اور مخلوق اور گل عالم انسانیت کی خدمت بھی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانیت کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے.انسانیت کی خدمت نیکیاں پھیلانے سے ہی ہو سکتی ہے.رحمت بکھیر نے سے ہی ہوسکتی ہے.جیسا کہ میں نے پہلے مثال دی تھی بعض لوگ برائیاں کرتے ہیں اور اُس کے لئے بچوں کو تربیت دیتے ہیں، معصوم بچوں کی جانیں لینے یا اُن سے خود کش حملے کروانے سے یہ خدمت نہیں ہوسکتی.بموں اور تو پوں اور لڑائیوں اور فسادوں سے یہ خدمت نہیں ہوسکتی.پس آج دنیا میں من حیث الجماعت صرف جماعت احمد یہ ہی ہے جو رحمتہ للعالمین کی رحمت سے دنیا کو حصہ دلانے اور نیکیاں بکھیرنے کے لئے ہر وقت کوشاں ہے اور اس کا حق ادا کر نے کیلئے اپنی بھر پور کوشش کر رہی ہے.یہ کوشش اسلام کی خوبصورت تعلیم اور اسلام کا پیغام دنیا کو دے کر بھی ہوتی ہے.قرآنِ کریم کی اشاعت اور دنیا کے مختلف ممالک اور علاقوں کی زبانوں میں قرآنِ کریم کے ترجمے کر کے پھر اُن کو پھیلانے کی صورت میں بھی ہے.اعلیٰ اخلاقیات دنیا کو سکھانے کی صورت میں بھی ہے.پیار محبت کی تعلیم دنیا کو دینے کی صورت میں بھی ہے.انسانیت کی خدمت ہسپتالوں کے ذریعے دکھی انسانیت کا علاج مہیا کرنے کی صورت میں بھی ہے.دور دراز علاقوں میں تعلیم سے بے بہرہ بچوں کو، انسانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے پھر انہیں نیکیوں کا صحیح ادراک دلانے کی صورت میں بھی ہے اور سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لا کر خدائے واحد کے آگے جھکنے والا بنانے کی صورت میں بھی ہے.پس جماعت احمدیہ کا مشن کوئی معمولی مشن نہیں ہے جو عہد بیعت ہم نے زمانے کے امام کے ساتھ باندھا ہے وہ کوئی معمولی عہد نہیں ہے.اس کے پورا کرنے کے لئے ہمیں وہی مح نظر بنانا ہوگا جو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے مقرر فرمایا ہے جس کی میں کچھ وضاحت کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے
690 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 نومبر 2012ء خطبات مسرور جلد دہم اُن راستوں پر چلنا جو خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والے راستے ہیں.ان راستوں پر بھی جیسا کہ شیطان نے کہا تھا، شیطان سے آمنا سامنا ہو سکتا ہے جو نیکیوں کے بجالانے سے روکنے کی کوشش کرے گا.نیکیوں کے معیار بلند کرنے کی کوشش میں روڑے اٹکائے گا لیکن دل سے نکلی ہوئی یہ دعا کہ اهْدِنَا الصِّراط الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ (الفاتحة : 6) جو ہے شیطان کے حملوں کا توڑ کرتی چلی جائے گی.نیکیوں کی بلندیوں کو ایک مومن چھوتا چلا جائے گا اور خیر امت میں سے ہونے کے اعزاز پاتا چلا جائے گا.پس اس کے حصول کے لئے ہمارے ہر بڑے چھوٹے مرد عورت، بچے بوڑھے کو کوشش کرنی چاہئے.تمام قسم کی نیکیاں اپنا کر اللہ تعالیٰ کے ہمارے لئے مقرر کردہ صح نظر اور مقصد کو ہم نے حاصل کرنا ہے اور اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جن نیکیوں کے کرنے کا ایک مومن کو حکم دیا ہے اُن میں سے ایک انفاق فی سبیل اللہ بھی ہے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانیاں بھی ہیں.مالی قربانی بھی اُن مقاصد کے لئے ضروری ہے جن کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے یعنی اشاعتِ اسلام اور خدمتِ انسانیت.جماعت احمدیہ کی تاریخ گواہ ہے کہ گزشتہ تقریباً سوا سو سال سے ان مقاصد کے حصول کے لئے افراد جماعت مالی قربانیاں کرتے چلے جا رہے ہیں، یہ قربانی اور نیکی جماعت احمدیہ کا ایسا طرہ امتیاز ہے جس کو دیکھ کر غیر جو ہیں وہ حیران و پریشان ہوتے ہیں کیونکہ ان کو اس بات کا فہم و ادراک نہیں کہ اس کے پیچھے کیا جذبہ کار فرہا ہے.یقیناً یہ روح ایک احمدی میں اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنا مح نظر فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَات کو بناتا ہے.پس آج روئے زمین پر صرف احمدی ہیں، آپ ہیں جو کُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کا مصداق بن کر فاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ کو قائم کئے ہوئے ہیں ، اس پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں.نیکیوں کے حصول اور اُن میں آگے بڑھتے چلے جانے اور جماعت کی ترقی اور اسلام کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پھیلانے کے لئے جان ، مال ، وقت اور عزت کو قربان کرتے چلے جانے والے ہیں.کوئی دشمن ، کوئی طاقت جماعت احمدیہ کی ترقی کے راستے میں حائل نہیں ہوسکتی.کوئی حکومت کوئی گروہ ہماری ترقی کی رفتار کو اُس وقت تک روک نہیں سکتا، کم نہیں کر سکتا جب تک ہم میں فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَات کی روح قائم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جس عاشق صادق کو مان کر ہم نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا حصہ بنے کا عہد کیا ہے، یہ عہد انشاء اللہ تعالیٰ کبھی بھی ہم میں نیکیوں میں آگے بڑھتے چلے جانے کی روح کو کم نہیں ہونے دے گا.
خطبات مسر در جلد دہم 691 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 نومبر 2012ء نیکی میں آگے بڑھنے کا جذبہ اور قربانی کی روح کو دیکھ کر بعض دفعہ ہمیں بھی یہ حیرت ہوتی ہے، میں بھی حیرت میں ڈوبتا ہوں کہ کیسے کیسے قربانیاں کرنے والے لوگ ہیں اور یہ نیکیاں بجالانے والے لوگ ہیں اور استقلال کے ساتھ اس پر قائم رہنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایسے مخلصین عطا فرمائے ہیں ، آپ کی جماعت کو عطا فرمائے ہیں جو مستقل مزاجی سے یہ قربانیاں کرتے چلے جا رہے ہیں، جنہوں نے فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ کی حقیقت کو سمجھا ہے.فَاسْتَبِقُوا کا مطلب ہے مسلسل آگے بڑھتے چلے جانا.استباق کا مطلب ہے مستقل آگے بڑھتے چلے جانا اور اس کے لئے کوشش کرتے چلے جانا.(لسان العرب زیر ماده سبق) یہ استباق، یہ آگے بڑھنا ہمیں افراد جماعت میں مختلف نیکیوں کی صورت میں نظر آتا ہے جن میں سے ایک نیکی، جیسا کہ میں نے کہا، مالی قربانی بھی ہے.ہر سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت اس مقصد کے لئے قربانی کرتی ہے.ان میں نئے شامل ہونے والے احمدی بھی ہیں اور پرانے احمدی بھی ہیں.غریب بھی ہیں، اوسط درجے کے لوگ بھی ہیں اور مقابلہ امیر بھی ہیں.جس کو بھی مالی قربانی کی اہمیت کا احساس دلا دیا گیا وہ اس نیکی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے.اگر کمی ہے تو احساس دلانے والوں کی طرف سے کمی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے افراد جماعت کے اخلاص و وفا میں کوئی کمی نہیں.افراد جماعت کی اکثریت جیسا کہ میں نے کہا کم آمدنی والوں کی ہے، اس لئے قربانی کرنے والوں کی اکثریت بھی اُنہی میں سے ہے جو اپنی بہت سی خواہشات کو قربان کر کے مالی قربانی میں حصہ لیتے ہیں.بیشک بعض صاحب حیثیت مالی کشائش رکھنے والے بھی ہیں جو بڑی بڑی قربانی کرتے ہیں لیکن کم آمدنی والوں کے مقابلے میں اُن کی قربانی کی نسبت یعنی بلحاظ معیار قربانی اور بلحاظ تعداد بھی بہت کم ہے.اس وقت مغربی ممالک میں رہنے والے احمدیوں کو اللہ تعالیٰ نے بہت نوازا ہے یا کہہ سکتے ہیں کہ اچھی خاصی اکثریت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے پہلے سے بہت بہتر حالت میں کر دیا ہے، بہت کچھ انہیں عطا فرمایا ہے.ان لوگوں کو صرف اپنی قربانی کو ہی نہیں دیکھنا چاہئے یا اپنی قربانی کی رقم پر ہی راضی نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ جو قربانی انہوں نے ایک سال میں دی ہے، اگلے سال میں ان کا وہ قدم آگے بڑھا ہے کہ نہیں.اگر نہیں بڑھا اور وہیں کھڑا ہے تو پھر فکر کرنے کی ضرورت ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ عموماً احمدی مسابقت کی روح کو سمجھتا ہے اور اس کے لئے کوشش کرتا ہے.جماعت میں علاوہ مستقل چندوں کے تحریکات بھی ہوتی رہتی ہیں.اس کے لئے بھی جماعت کے افراد بہت قربانی کرتے ہیں.بعض تحریکات کسی جگہ کی لوکل جماعت کی
خطبات مسرور جلد دہم 692 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 نومبر 2012ء ضروریات کے لئے ہو رہی ہوتی ہیں.بعض تحریکات کسی ملک کی نیشنل جماعت کے کسی پروجیکٹ کے لئے ہو رہی ہوتی ہیں.بہت سے ملکوں میں مرکزی طور پر بھی مساجد کے یا دوسرے پرا جیکٹ چل رہے ہیں، کیونکہ یہ ضروریات، یہ اخراجات مستقل چندوں سے پورے نہیں ہو سکتے.تو بہر حال مستقل چندوں کے علاوہ بھی افراد جماعت بہت زیادہ قربانی کر رہے ہوتے ہیں.یعنی ایک اکثریت اُن میں سے قربانی کرنے والوں کی ہے.یہاں میں ایک بات کی وضاحت بھی کرنا چاہتا ہوں کہ تحریک جدید اور وقف جدید کے چندے تمام کے تمام وہ چندے ہیں جو مرکزی چندے ہوتے ہیں.ان کا خرچ مقامی یا نیشنل اخراجات پر نہیں ہو رہا ہوتا.یا اگر بعض غریب ملکوں میں وہیں رکھے بھی جاتے ہیں تو اُن کی صوابدید پر نہیں ہوتے بلکہ مرکز سے پوچھ کر خرچ کیا جاتا ہے.بعض دفعہ بعض امیر ملکوں کے لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال آ جاتا ہے کہ جب یہ مرکزی چندے ہیں اور ہم پر خرچ بھی نہیں ہوتے تو پھر ہم اس میں اتنا بڑھ چڑھ کر کیوں حصہ لیں؟ ہمارے اپنے پراجیکٹس ہیں (جیسا کہ میں نے کہا لوکل پراجیکٹس بھی چل رہے ہوتے ہیں، نیشنل پرا جیکٹ بھی چل رہے ہوتے ہیں) پہلے ہم اپنے اخراجات پورا کریں.پہلی بات تو یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر دے رہے ہیں تو پھر ایسے سوال ہی غلط ہیں.دوسرے مرکز کے بھی بہت سارے اخراجات ہیں.بہت سارے پراجیکٹس ہیں.غریب ملکوں میں جن میں افریقن ممالک بھی شامل ہیں، ایشین ممالک بھی شامل ہیں، بشمول ہندوستان، بنگلہ دیش وغیرہ، بلکہ یورپ کے وہ ممالک بھی شامل ہیں جہاں جماعت کی تعداد تھوڑی ہے.ان پر یہ مرکز کی طرف سے خرچ ہوتے ہیں.اسی طرح جو ہمارے ہونہار طلباء ہیں، طالب علم ہیں، ان کی تعلیم کے اخراجات بھی مرکز خرچ کر رہا ہوتا ہے.تو اُن رقموں سے یہ اخراجات پورے ہوتے ہیں جو جماعتوں سے مرکز کو آتی ہیں.پھر فَاسْتَبِقُوا الخيرات کی روح بھی یہ ہے کہ اپنے غریب بھائیوں کو ، چھوٹی جماعتوں کو ، کمزور جماعتوں کو بھی ساتھ لے کر چلیں تا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سرخرو ہوں کہ ہم اپنے کمزوروں کو بھی اپنے ساتھ چلانے کی کوشش کرتے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ اسی آیت میں جو میں نے تلاوت کی ہے آگے یہ بھی فرماتا ہے کہ اينما تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ الله جمیعا.تم جہاں کہیں بھی ہو گے اللہ تعالیٰ تمہیں اکٹھا کر کے لے آئے گا.یعنی جب اکٹھے ہو کر حاضر ہوں گے تو جو تو نیکیوں میں مسابقت کی روح قائم رکھے رہے وہ تو سر خرو ہوں گے اور جوستیاں کرتے رہے، دوسروں کی مدد سے کتراتے رہے، سوال اُٹھاتے رہے کہ ہم دوسروں کے لئے
خطبات مسرور جلد دہم 693 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 نومبر 2012ء کیوں خرچ کریں، انہیں جواب دینا پڑے گا.پس چاہے یہ سوال اکا دُکا ہی اُٹھا ئیں یا اُن کی طرف سے اُٹھ رہے ہوں، اُس روح کے خلاف ہیں جس کی تعلیم ایک احمدی کو دی گئی ہے جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے.مرکز کے خرچوں کا میں نے ذکر کیا ہے، ان کا مختصر خاکہ بھی میں آج آپ کے سامنے پیش کر دیتا ہوں تا کہ آپ کو علم ہو کہ دنیا کی ہر جماعت اپنے آپ کو اپنے وسائل سے نہیں سنبھال رہی بلکہ بہت سا خرچ مرکز کی گرانٹ کی صورت میں دنیا کو دیا جاتا ہے اور وہ انہیں رقموں سے دیا جاتا ہے جو مرکز کا حصہ بن کر آتی ہیں.مثلاً افریقہ اور دیگر غیر خود کفیل ممالک جو ہیں، میاڑسٹھ (68) ممالک ہیں جس میں افریقہ کے ستائیس ممالک، یورپ کے اٹھارہ ممالک، ایشیا اور مشرق بعید کے پندرہ ممالک، جنوبی امریکہ کے چھ ممالک اور شمالی امریکہ کے دو ممالک شامل ہیں.اور اس سال ایک بڑی رقم صرف وہاں کی مساجد اور مشن ہاؤسوں کی تعمیر پر خرچ بھی کی گئی ہے.اس کے علاوہ کلینکس ،سکولز ، ریڈیو اور ٹی وی پروگرامز پر کوئی تقریباً تین ملین پاؤنڈ خرچ ہو گا.پھر اس کے علاوہ بھی معمول سے ہٹ کے بہت بڑے تعمیری پراجیکٹس بعض جگہ چل رہے ہیں اور جہاں ہمارے مشنز ہیں، مثلاً افریقہ میں جہاں گرانٹ جاتی ہے، وہاں پینتیس ممالک میں ایک سو اٹھہتر (178) مرکزی مبلغین ہیں، دس سو اٹھہتر (1078) مقامی معلمین ہیں.ان کے خرچ کا کافی بڑا حصہ جو ہے مرکز پورا کرتا ہے.اس کے علاوہ اکیا لیس (41) ممالک میں مرکز سے گرانٹ جاتی ہے.ان میں بھی ہمارے مبلغین کی تعدا د دوسو تینتالیس (243) ہے اور مقامی معلمین کی تعداد نوسواٹھائیس (928) ہے.پھر مساجد زیر تعمیر ہیں.آئر لینڈ میں مسجد تعمیر ہورہی ہے.اس میں گوآئر لینڈ کی جماعت نے کافی بڑی کنٹری بیوشن (Contribution) کی ہے لیکن کچھ نہ کچھ حصہ تقریبا نصف کے قریب مرکز کو بھی دینا پڑا.سپین میں ویلنسیا میں مسجد بن رہی ہے.وہاں تقریباً اسی فیصد مرکز خرچ کر رہا ہے.یوگنڈا میں کمپالہ کی مسجد میں توسیع ہو رہی ہے، وہ تقریباً سارا مرکز خرچ کر رہا ہے.آئیوری کوسٹ میں مرکزی مسجد کی تعمیر ہو رہی ہے.پھر افریقہ کے انیس (19) مختلف ممالک ہیں جن میں ننانوے (99) مساجد تعمیر ہوئی ہیں اور چھیالیس (46) مشن ہاؤس تعمیر ہوئے.اور ان ننانوے (99) میں سے پینسٹھ (65) مساجد کا خرچ مرکز نے دیا ہے.اسی طرح مشن ہاؤسز کا خرچ دیا.اس کے علاوہ دوسرے ممالک ہیں جن میں چھبیس (26) مساجد کی تعمیر ہوئی.ستر (70) مشن ہاؤسز کا قیام عمل میں آیا.ان میں سے تقریب بنگلہ دیش میں دو (2)، انڈیا میں چالیس (40)، فلپائن ایک ، نیپال تین (3 ) ، گوئٹے مالا اور مارشل آئی لینڈ وغیرہ میں مرکز نے خرچ کیا.پھر طلباء کے لئے جو ٹیلنٹڈ (Talented) سٹوڈنٹ ہیں اُن کے لئے تقریباً
خطبات مسرور جلد دہم 694 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 نومبر 2012ء چار ہزار پانچ سو سٹوڈنٹس کو کئی لاکھ پاؤنڈ کی صورت میں جماعت نے وظیفہ یا بعض کو قرضہ حسنہ دیا.اور ان میں سے ساڑھے تین سو (350) سٹوڈنٹس ایسے ہیں جو اعلی تعلیم ایم ایس سی یا پی ایچ ڈی وغیرہ کر رہے ہیں اور جماعت ان کا خرچ برداشت کر رہی ہے.اس کے علاوہ افریقہ میں پانی ، بجلی ، ریڈیوسٹیشن وغیرہ کے پراجیکٹس ہیں.یہ سب کام مرکزی گرانٹ سے ہوتے ہیں.پس یہ جو کام ہیں یہ جماعت کی ترقی کے لئے ہیں.دنیا کو اسلام کی تعلیم سے روشناس کرانے کے لئے ہیں.انسانیت کی خدمت کے لئے یہ کام ہیں.اور یہ سب کام ایسے ہیں جو ان کاموں میں شامل ہونے والوں کو ، جو براہ راست تو ان میں شامل نہیں ہو سکتے لیکن چندوں کی صورت میں شامل ہورہے ہیں اور اس کا حصہ بن کر اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر پانے والے لوگوں میں شامل ہورہے ہیں.بہر حال یہ خیال نہ کریں کہ یہ جو افریقن ممالک ہیں ان کا انحصار شاید سب کچھ مرکز پر ہی ہے اور وہ خود کچھ نہیں کرتے.بلکہ جیسا کہ میں نے کہا کافی پراجیکٹس انہوں نے خود بھی کئے ہیں.اس لئے میں ان کے چند واقعات بھی آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں.ا پرویسٹ ریجن غانا کی ایک خاتون فاطمہ داؤ د صاحبہ ہیں ، انہوں نے خود زمین خریدی اور مسجد کی تعمیر شروع کر دی جس میں تین سو افرادب آسانی نماز ادا کر سکتے ہیں.اسی طرح اکر اشہر کے قریب لمنارہ (Lomnara) گاؤں میں کافی زیادہ بیعتیں ہوئیں.چنانچہ وہاں احباب جماعت نے اپنے طور پر مسجد بنائی بلکہ یہ جماعتیں مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی تھیں تو انہوں نے چھ مساجد بنانی شروع کیں جن میں سے چار مساجد مکمل ہو چکی ہیں، اور دوزیر تعمیر ہیں.ان میں سے ایک مسجد ایک خاتون صادقہ صاحبہ نے اکیلے بنوائی ہے.اس میں ایک سو پچاس نمازی نماز پڑھ سکتے ہیں.اس سے پہلے یہا کر اشہر میں بھی مسجد بنوا چکی ہیں.احمد جبرائیل سعید صاحب غانا کے مبلغ ہیں وہ لکھتے ہیں کہ سینٹرل ریجن اکوٹسی (Ekotsi) میں بھی بڑی مسجد تعمیر ہورہی ہے، اُس کا پچاس فیصد خرچ ہمارے ہائی کورٹ کے ایک حج گؤ اگو جان صاحب ہیں، انہوں نے ادا کیا ہے.جبرائیل سعید صاحب بھی آجکل بیمار ہیں اور ڈاکٹروں کو اُن کی بیماری کی تشخیص کا بھی صحیح پر یہ نہیں لگ رہا.اُن کے لئے بھی دعا کریں.اللہ تعالیٰ انہیں بھی صحت کاملہ عاجلہ عطا فرمائے.امیر صاحب فرانس مراکش کے دورے پر گئے تو کہتے ہیں وہاں نو احمدی احباب کو قربانی اور اخلاص سے بھرا ہوا پایا.اور خلافت سے اُن کو بے انتہا محبت تھی.اور جب اُن کو مالی قربانی کے بارے میں بتایا گیا اور جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات پڑھ کر سنائے تو پھر کہتے ہیں کہ
خطبات مسرور جلد دہم 695 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 نومبر 2012ء چند دنوں کے بعد ایک دوست صدر صاحب کے پاس آئے اور ایک بڑی رقم اُن کو ادا کر دی اور کہا کہ میں جب سے احمدی ہوا ہوں، اُس وقت سے لے کر اب تک یہ چندہ ہے، کیونکہ چندے کے بارے میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات اور خلیفہ وقت کی نصائح کو نہیں سنا تھا.اب میں نے سن لیا ہے تو اب میں پیچھے نہیں رہ سکتا.نائیجر سے اصغر علی بھٹی صاحب لکھتے ہیں کہ پچھلے سال اکتوبر 2011ء میں تبلیغ کے دوران خاکسار گدا براؤ(Gida Braoo گاؤں میں پہنچا.نماز مغرب کے بعد تبلیغ کی گئی اور نماز عشاء کے بعد میرے دورہ جات کی جو مختلف ویڈیوز تھیں، وہ دکھائی گئیں.جلسے دکھائے ،مساجد کے بارے میں پروگرام دکھائے تبلیغی مساعی کے بارے میں پروگرام دکھائے ، اسی طرح امام مہدی کی آمد کے بارے میں بتایا، بیت المال کے نظام کے بارے میں بتایا.یہ سب کچھ ویڈیو میں تھا تو جب ویڈیو ختم ہوئی تو ایک امام صاحب وہاں اُٹھے جو ہاؤ سا لوگوں کو مخاطب ہوئے اور مسجد سے باہر چلے گئے.کہتے ہیں ہم پریشان تھے لیکن تھوڑی دیر کے بعد وہ واپس آئے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں اب پتہ لگا ہے کہ امام مہدی آ گیا ہے اور بیت المال کا نظام قائم ہے.میں ان سب کو لے کر گیا تھا اس لئے کہ اس نظام میں ہمیں حصہ لینا چاہئے اور چندوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے.چنانچہ انہوں نے وہاں فوری طور پر رقم اکٹھی کی اور وہ ہمارے مشنری کو ادا کی اور پھر ساتھ ہی انہوں نے بیعت فارم بھی فیل (Fill) کئے.امیر صاحب یوگنڈا بیان کرتے ہیں کہ گزشتہ سال 18 ستمبر کو نیشنل مجلس عاملہ اور کچھ دوسرے سر کردہ احباب جماعت کی میٹنگ بلائی اور سیتا لینڈ (Seeta Land) کی ڈویلپمنٹ کے لئے تین سالہ منصو بہ اُن کے سامنے رکھا تا کہ اس جگہ کو جلسہ گاہ کے طور پر تیار کیا جا سکے.یہ جگہ نیشنل ہیڈ کوارٹر کمپالہ سے نومیل دور ہے.یہاں جماعت کی سترہ ایکڑ زمین ہے.یہ کہتے ہیں کہ اس میٹنگ میں بہت سارے مخیر حضرات نے فوری طور پر وعدے کئے اور رقمیں دینی شروع کر دیں.یوگنڈن شلنگ گو اُس کی ویلیو (Value) کم ہے لیکن اپنے لحاظ سے انہوں نے فوری طور پر وہاں تر اسی ملین سے زیادہ شلنگ جمع کر لئے جو اس پرا جیکٹ کو پورا کریں گے.پس امیر ممالک کے احمدی یہ خیال نہ کریں کہ شاید غریب ممالک مکمل طور پر اُن پر انحصار کر رہے ہیں بلکہ اپنی توفیق کے مطابق بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ لوگ قربانیاں کر رہے ہیں.بہر حال جیسا کہ آپ جانتے ہیں، آج مالی قربانی کا یہ ذکر میں اس لئے کر رہا ہوں کہ تحریک جدید
خطبات مسرور جلد دہم 696 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 نومبر 2012ء کے نئے سال کا آج اعلان ہونا ہے اور حسب روایت گزشتہ سال کے کچھ کو ائف بھی پیش ہوتے ہیں.تو ان چند باتوں کے ساتھ جو میں نے پہلے پیش کی ہیں کہ ایک احمدی کی قربانی کا کیا معیار ہونا چاہئے؟ اب میں یہ کوائف آپ کے سامنے رکھتا ہوں.تحریک جدید کا اٹھہتر واں (78) سال تھا جو 31 اکتوبر کو ختم ہوا، اور اب اناسیواں (79) سال اس یکم نومبر سے شروع ہو چکا ہے اور جور پورٹس موصول ہوئی ہیں اس کے مطابق تحریک جدید کے مالی نظام میں اس سال جماعت نے بہتر لاکھ پندرہ ہزار سات سو (17215,700 پاؤنڈ کی قربانی پیش کی.الْحَمْدُ لِلَّهِ.اور گزشتہ سال سے یہ تقریباً پانچ لاکھ چوراسی ہزار سات سو (5,84,700) پاؤنڈ زیادہ تھی.پاکستان کی جو پوزیشن ہے وہ باوجود ایسے حالات کے اور غربت کے قائم ہے.اُس کے بعد باہر کی بڑی جماعتوں میں امریکہ نمبر ایک ہے.اور پھر اُس کے بعد نمبر دو جرمنی ہے.پھر برطانیہ نمبر تین ہے.پھر کینیڈ نمبر چار.پھر ہندوستان نمبر پانچ.انڈونیشیا چھ.اور پھر سات مڈل ایسٹ کی ایک جماعت ہے، مصلحتاً میں نام نہیں لے رہا ، پھر آسٹریلیا آٹھ ، سوئٹزرلینڈ نو اور پھر بیلجیئم.اور بیلجیئم اور گھانا تقریباً سوئٹزرلینڈ کے قریب ہی ہیں.پھر پہلی دس بڑی جماعتوں کی مقامی کرنسی میں گزشتہ سال کے مقابلے میں جس شرح وصولی کے لحاظ سے اضافہ ہوا ہے یہی عرب ملک کی ایک جماعت ہے.پھر آسٹریلیا ہے.پھر انڈیا ہے.پھر جرمنی ہے.پھر امریکہ ہے.پھر بیلجیئم ہے.کینیڈا ہے.برطانیہ ہے.انڈونیشیا.اُس کے بعد فرانس یورپ کی جماعتوں میں سب سے آگے ہے.فی کس ادائیگی کے اعتبار سے بھی مڈل ایسٹ کا ہی ملک ہے.ان کی قربانی ایک سو چھپن پاؤنڈ فی کس (تقریباً ایک سو ستاون پاؤنڈ) ہے.پھر امریکہ ہے ایک سو اٹھارہ پاؤنڈ فی کس.پھر سوئٹزرلینڈ ہے.پھر جاپان ہے.پھر برطانیہ ہے.پھر فرانس ہے.پھر کینیڈا، ناروے اور جرمنی اور پھر آسٹریلیا.اسی طرح صرف رقم میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تحریک جدید میں شامل ہونے والے مخلصین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے جو ایک لاکھ اسی ہزار کا اضافہ ہے اور اس طرح اب نو لاکھ گیارہ ہزار شاملین ہو گئے ہیں.گزشتہ سال سات لاکھ اکتیس ہزار (7,31000) تھے.افریقہ کی جماعتوں میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے گھانا سب سے آگے ہے.پھر نائیجیریا.پھر ماریشس.پھر بورکینا فاسو، کینیا، بین ، یوگنڈا، تنزانیہ، گیمبیا، سیرالیون.یہ کیونکہ غریب ممالک ہیں اس لئے
خطبات مسرور جلد دہم 697 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 نومبر 2012ء مقابلہ میں نے ان کو علیحدہ رکھا ہے.قربانی کے لحاظ سے تو اللہ کے فضل سے کافی آگے جارہے ہیں.شاملین کی تعداد میں اضافے کے لحاظ سے نائیجیریا نہ صرف افریقہ کے ممالک میں بلکہ دنیا بھر کی جماعتوں میں سب سے آگے ہے.اس سال انہوں نے چونسٹھ ہزار چارسو انیس (64419) نئے چندہ دہندگان کا اضافہ کیا ہے اور تعداد میں اس غیر معمولی اضافے کے بعد نائیجیر یا شاملین کی مجموعی تعداد کے لحاظ سے پاکستان کے بعد دوسرے نمبر پر آ گیا ہے.اس اضافے کے بعد اب چندہ دہندگان کی کل تعداد ڈیڑھ لاکھ افراد سے زیادہ ہو گئی ہے.پھر اسی طرح تعداد میں اضافے کے لحاظ سے افریقہ کے ملکوں میں نائیجر ،بین ، بورکینا فاسو اور سیرالیون قابل ذکر ہیں.گھانا کو بھی اس معاملے میں آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے.دفتر اول کے مجاہدین کی کل تعداد پانچ ہزار نوسوستائیس (5927) ہے جس میں سے دوسو پچاسی (285) خدا کے فضل سے زندہ موجود ہیں جو اپنا چندہ خود ادا کر رہے ہیں.باقیوں کے حسابات بھی اُن کے ورثاء نے یا دوسروں نے جاری کئے ہوئے ہیں.پاکستان کی مجموعی وصولی کے لحاظ سے تین بڑی جماعتیں ہیں.اول لا ہور.پھر ربوہ دوئم اور سوم کراچی.اور اس کے علاوہ زیادہ قربانی کے لحاظ سے دس شہری جماعتیں ہیں جو راولپنڈی، اسلام آباد، سیالکوٹ، کوئٹہ، سرگودھا، فیصل آباد، میر پور خاص، نوابشاہ، پشاور اور بہاولپور ہیں.ضلعی سطح پر زیادہ مالی قربانی کرنے والے اضلاع نمبر ایک عمر کوٹ.پھر شیخو پورہ.پھر گوجرانوالہ.پھر بدین.سانگھڑ، نارووال، بہاول نگر ، حیدر آباد، رحیم یار خان، میر پور آزاد کشمیر اور خانیوال.امریکہ کی پہلی پانچ جماعتیں جو قربانی میں آگے ہیں وہ لاس اینجلس ان لینڈ ایمپائر.کولمبس اوہائیو سلیکون ویلی.ڈیٹرائٹ اور ہیرس برگ ہیں.وصولی کے لحاظ سے جرمنی کی جو جماعتیں ہیں وہ ، کولون.روڈر مارک.نوئے الیں.کوبلنز.فلورز ہائم.مہدی آباد.درائے آئیش.راؤن ھائم ساؤتھ.فلڈا اور وائن گارڈن.اور وصولی کے لحاظ سے اُن کی جو دس امارتیں ہیں.پہلے جماعتیں تھیں.اب اُن کی جو ریجنل امارتیں ہیں اُس میں ہیمبرگ.فرینکفرٹ.گروس گراؤ.ڈار مشٹڈ.ویز بادن من ہائم.ڈاٹسن باخ.اوفن باخ اور ریڈ شکر.مجموعی وصولی کے لحاظ سے آپ کی ، یوکے کی ، جو پہلی دس جماعتیں ہیں ان میں مسجد فضل نمبر ایک.
خطبات مسرور جلد دہم 698 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 نومبر 2012ء نیومولڈن.ویسٹ ہل.ووسٹر پارک.بیت الفتوح.رینز پارک.موسک ویسٹ.چیم.مانچسٹر ساؤتھ اور برمنگھم سینٹرل شامل ہیں.اور ریجن کے لحاظ سے پہلی ریجن لنڈن.نمبر دو مڈلینڈ ریجن اور تیسری نارتھ ایسٹ.چھوٹی جماعتوں میں جہاں تھوڑی تعداد ہے.سکنتھورپ کا پہلا نمبر.پھر برو ملے.لیوشم.بورن متھے.تھ لیمنگٹن سیا اور آکسفورڈ.وصولی کے لحاظ سے کینیڈا کی قابل ذکر جماعتیں کیلگری.ایڈمنٹن.پیس ولیج ایسٹ.سرے ایسٹ.پیس ویج سینٹر.ووڈ برج.بریمٹن فلاور ٹاؤن مسی ساگا ویسٹ.وان نارتھ میپل.مونٹریال ایسٹ.انڈیا کے پہلے دس صوبہ جات جو ہیں وہ، کیرالہ.تامل ناڈو.آندھرا پردیش.جموں وکشمیر.بنگال.کرناٹک.اڑیسہ.پنجاب.دہلی.یو پی ہیں.اور نمایاں قربانی کرنے والی پہلی دس جماعتیں جو ہیں ان میں نمبر ایک کوئمبٹور تامل ناڈو.نمبر دو کیرولائی کیرالہ.پھر کالی کٹ کیرالہ.پھر حیدر آباد آندھرا پردیش.پھر قادیان نمبر پانچ.چھ پر کینا نور ٹاؤن کیرالہ.پھر کلکتہ پینگا ڈی.ماتھوٹم کیرالہ اور چنائی تامل ناڈو شامل ہیں.تحریک جدید کے تعلق سے چند واقعات جو مختلف جماعتوں نے لکھے ہیں وہ بھی میں آپ کے سامنے پیش کر دیتا ہوں.میں نے کہا تھا کہ تعداد بڑھائیں.چنانچہ کماسی میں جب احمد جبرائیل سعید صاحب نے لوگوں کو بتا یا کہ غانا کی کم از کم تعداد ایک لاکھ ہونی چاہئے.اس ٹارگٹ کو بھی آپ نے حاصل نہیں کیا تو اب بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.اب آپ کو اور توجہ دلائی جاتی ہے تو احباب نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.امیر صاحب گیمبیا لکھتے ہیں کہ فارافینی ایریا کے مشنری نے بتایا کہ ایک دن ایک بوڑھی خاتون مشن ہاؤس آئیں انہوں نے ہمارے مبلغ سے پوچھا کہ فارافینی ایریا میں تحریک جدید کا سب سے زیادہ چندہ کون ادا کرتا ہے.انہیں بتایا گیا کہ اس ایریا میں ایک دوست سمبو جانگ (Sambujang Bah) صاحب ہیں وہ ادا کرتے ہیں.اس پر انہوں نے کہا کہ کتنا چندہ ادا کرتے ہیں؟ بتایا گیا کہ پچاس ہزار ڈلاسی ادا کرتے ہیں.یہ خاتون اس سے پہلے پندرہ سوڈلاسی ادا کرتی تھیں.کہنے لگیں گو میرے پاس اتنے وسائل تو نہیں ہیں لیکن پھر بھی میں اس شخص کا مقابلہ کروں گی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سے زیادہ چندہ ادا کروں گی.امیر صاحب پین لکھتے ہیں کہ وفاء الرحمن صاحبہ ایک نو مبائع خاتون ہیں، انہوں نے پچھلے سال
خطبات مسرور جلد دہم 699 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 نومبر 2012ء میر اتحریک جدید کا خطبہ جب سنا تو پانچ سو یوروز کا وعدہ کیا اور ساتھ ہی ادا ئیگی بھی کر دی.جب انہوں نے تحریک جدید کا چندہ ادا کیا تو ان کو دیگر چندہ جات کی تفصیل بھی بتائی گئی اور کہا کہ چونکہ آپ نے نئی بیعت کی ہے اس لئے آپ پر کوئی پابندی نہیں ہے.جتنا بھی دینا چاہیں دے سکتی ہیں.لیکن انہوں نے اُسی دن باقی چندے بھی چندہ عام اور جلسہ سالانہ وغیرہ شرح کے مطابق ادا کئے.سوئٹزر لینڈ سے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ ایک دوست جو کہ نیوشٹل جماعت کے صدر ہیں، نیشنل سیکرٹری تحریک جدید بھی ہیں، انہوں نے بتایا کہ جب وہ سوئٹزرلینڈ آئے اور سیاسی پناہ کی درخواست کی تو جلد ہی متعلقہ ادارے نے رڈ کر دی.اسی دوران تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان ہو گیا.ان کے پاس اکاؤنٹ میں کل ایک ہزار فرانک کی رقم تھی جو انہوں نے وکیل وغیرہ کے لئے رکھی ہوئی تھی لیکن تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان سن کر وہ ساری رقم خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے چندے میں ادا کر دی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اصل نعم الوکیل تو وہ ہے، وہی ہمارے ٹوٹے کام بنادے گا.چندے کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان پر فضل کیا اور نہ صرف غیبی طور پر ان کی مدد کی بلکہ اُن کی سیاسی پناہ کی درخواست منظور ہوئی اور ان کو ملک کی شہریت بھی حاصل ہو گئی اور اُن کو کوئی وکیل وغیرہ بھی نہ کرنا پڑا.کرغزستان سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک کرغز دوست جو مارٹ (Joomart) صاحب نے 2006ء میں بیعت کی تھی.بہت ہی نیک فطرت نوجوان ہیں.بیعت کے فوراً بعد ہمارے مبلغ نے چندے کے بارے میں سمجھانے کے لئے اُن سے از راہ مزاح کہا کہ دوسرے لوگ تو اپنی جماعت میں داخل کرنے کے لئے پیسے دیتے ہیں، جبکہ ہماری جماعت میں داخل ہو تو ہم اُس سے پیسے لیتے ہیں.جس پر انہوں نے کہا کہ ماہانہ تین سو کر غیز چندہ عام ادا کیا کروں گا.کچھ عرصے کے بعد ہی انہوں نے چارسوکر دیئے.پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد آٹھ سو کر دیئے.پھر کچھ مدت کے بعد خود ہی بغیر کسی کے کہنے کے ایک ہزار تم ماہانہ ادا کرنا شروع کر دیا.جب تحریک جدید کا وعدہ لکھنے لگے تو اُن کو بیعت کئے ہوئے چند دن ہی ہوئے تھے ، انہوں نے ایک ہزار سم لکھوائے.یہ رقم اُن کی مالی حالت کے لحاظ سے زیادہ تھی.اُن کو سمجھایا گیا کہ ابھی چھوٹی رقم لکھوا دیں پھر آہستہ آہستہ اس میں اضافہ کرتے رہنا.خیر اس طرح بہت بحث تمحیص کے بعد پھر انہوں نے اس کو کم کیا.آئرلینڈ کے صدر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک نوجوان جوڑے نے فیصلہ کیا کہ جب ان کی اولا د ہو گی تو وہ اپنی اولا دکو وقف کریں گے.انہوں نے اپنی اولاد کے لئے نام بھی سوچ لئے لیکن اُن کی اہلیہ
خطبات مسرور جلد دہم 700 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 نومبر 2012ء اُس وقت تک امید سے نہ تھیں.چند روز بعد انہوں نے تحریک جدید اور وقف جدید کے لئے دونوں بچوں کے نام چندہ کی رسید میں کٹوا دیں جس میں ایک لڑکی اور ایک لڑکا تھا.خدا تعالیٰ نے اُن کی اس قربانی کا صلہ اس طرح دیا کہ چند ہفتوں کے بعد انہیں پتہ چلا کہ ان کی اہلیہ امید سے ہیں اور اُن کے ہاں جڑواں بچے پیدا ہوں گے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے انہیں صحت مند جڑواں بچوں سے نوازا اور میاں بیوی کا پختہ ایمان ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے جڑواں بچوں سے اس لئے نوازا کہ انہوں نے بچوں کا چندہ ادا کیا تھا.انڈیا کی ایک رپورٹ ہے کہ وہاں کی کوئمبٹور جماعت کے صدر لکھتے ہیں کہ تحریک جدید کے چندہ میں اپنی استطاعت سے بڑھ کر اضافہ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو اپنی معجزانہ قدرت کے دو ایمان افروز نظارے دکھائے.میں اللہ تعالیٰ کے حضور اس وعدہ کی بروقت ادائیگی کے لئے مسلسل دعاؤں میں مصروف تھا کہ اچانک ایک شخص میری دکان میں آیا اور میرے پاس جو سامان تھا اُس نے اُسے اصل قیمت سے بھی کہیں زیادہ قیمت پر خرید لیا جس کے نتیجے میں مجھے اُسی وقت اپنا وعدہ پورا کرنے کی توفیق مل گئی.پھر کہتے ہیں اسی دوران ہمارے علاقے کے گودام میں اچانک آگ لگ گئی جس میں خاکسار کا مال بھی کافی مقدار میں رکھا ہوا تھا.خاکسار دعا کرتے ہوئے وہاں پہنچا تو یہ دیکھ کر حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جہاں دوسرے بیو پاریوں کا سارا سامان جل کر راکھ ہو چکا تھا وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرا مال بالکل محفوظ رہا.آگ اتنی شدید تھی کہ گودام کے لوہے کی چھت بھی پگھل گئی تھی.یہ علاقہ متعصب مسلمانوں کا گڑھ ہے جو ہمیشہ ہماری مخالفت پر کمر بستہ رہتے ہیں لیکن اس واقعہ کے بعد وہ سب خاکسار کی بہت عزت کرنے لگے ہیں.یہ محض چندہ دینے کے افضال ہیں.میں جب بھی ان واقعات کو یاد کرتا ہوں میرا دل شکریہ سے لبریز ہو جاتا ہے.پھر انسپکٹر تحریک جدید احسن بشیر الدین صاحب ہیں.وہ لکھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کا وارتی لکشد یپ پہنچا.وہاں کے امیر صاحب کی زیر صدارت منعقدہ ایک تربیتی جلسہ میں خاکسار نے تحریک جدید کی فضیلت و اہمیت اور اس کی برکات کے موضوع پر تقریر کی.جلسہ کے بعد تمام احباب نے اپنے وعدے خاطر خواہ اضافہ کے ساتھ نوٹ کروائے.اس جلسہ میں پردہ کی رعائت سے مستورات بھی موجود تھیں.کہتے ہیں دوسرے دن وہاں سے چل کے دوسرے شہر پہنچا تو امیر صاحب ” کاوارتی“ نے بذریعہ فون بتایا کہ ایک احمدی خاتون محترمه بی بی صاحبہ نے شکایت کی ہے کہ مردوں سے تو تحریک جدید کے وعدے لئے گئے ہیں ہم مستورات کو محروم رکھا گیا ہے.مجھے آج چندہ تحریک جدید کی اہمیت کا احساس ہوا ہے.
خطبات مسرور جلد دہم 701 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 نومبر 2012ء میرا دل کہتا ہے کہ میں نے جو وعدہ لکھوایا ہے وہ کم ہے اس لئے میرا وعدہ ڈبل کر دیں.موصوفہ بہت نیک اور مخلص احمدی خاتون ہیں.چھ سال قبل انہوں نے احمدیت قبول کی تھی.محمد شہاب انسپکٹر تحریک جدید آندھرا پردیش لکھتے ہیں کہ جماعت احمد یہ سکندر آباد کی ایک مخلص خاتون نے تحریک جدید کے باب میں مالی قربانی کی ایک نیک مثال قائم کی ہے.موصوفہ کے شوہر گزشتہ سال بعارضہ قلب لمبا عرصہ ہسپتال میں زیر علاج تھے.بہت زیادہ زیر بار آ جانے کی وجہ سے اپنا چندہ تحریک جدیدا دا نہیں کر سکتے تھے.عنقریب ان کی بیٹی کی شادی بھی ہونے والی تھی.سیکرٹری صاحب تحریک جدید نے اُن کی اہلیہ کو چندے کی ادائیگی کی تحریک کی تو موصوفہ نے فوراً رقم ادا کر دی اور کہا کہ اس کا ذکر میرے شوہر سے نہ کرنا کیونکہ یہ رقم میں نے اپنی بیٹی کی شادی کے تحائف سے اُس کی رضامندی سے ادا کی ہے.ایسی قربانی کرنے والوں کی وہاں کی جماعت کو بھی فوری طور پر مدد کرنی چاہئے.جماعت احمد یہ کوئمبٹور کے دو مخلص احمدی نوجوان مشترکہ کاروبار کرتے ہیں.یہ لکھتے ہیں گزشتہ سال تحریک جدید میں ہم دونوں کے وعدے دس دس ہزار روپے تھے.امسال ہم دونوں نے اپنے وعدے ایک ایک لاکھ روپے اضافے کے ساتھ لکھوائے اور ادائیگی کی توفیق ملنے کے لئے انہوں نے مجھے بھی دعا کے لئے لکھا.کہتے ہیں کا روبار بھی بہت کمزور رہا.اس وجہ سے بہت فکر پیدا ہوئی.لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ ایک ایسا سودا ہوا جس سے پورے دولاکھ بیس ہزار روپے کا منافع ہو گیا اور دونوں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا.سماڑ ا سرکل راجھستان کی ایک نوجوان احمدی خاتون مسماۃ ضمیری بیگم گاؤں والوں کی بکریاں چرا کر گزارا کرتی ہیں.چندہ تحریک جدید کا مطالبہ کرنے پر موصوفہ نے بکریاں چرانے سے ملنے والی مزدوری اور جو کچھ اُن کی تھیلی میں پہلے سے موجود تھا وہ سب اُسی وقت چندہ تحریک جدید میں ادا کر دیا.تو جس طرح میں نے کہا یہ غریبوں کے قربانی کے معیار اُن لوگوں سے بہت بلند ہیں جو امیر ہیں.اسی طرح جماعت احمد یہ نامانہ سرکل کوٹا (راجھستان) کی ایک نواحمدی خاتون سے چندہ تحریک جدید کا مطالبہ کرنے پر انہوں نے اپنی بچی سے ( جو چودہ سال کی عمر کی بچی تھی ) کہا کہ پچاس روپیہ دے دو.بچی نے جواب دیا کہ میرے پاس ایک سو روپیہ ہے میں وہی چندہ دوں گی.چنانچہ ماں کے منع کرنے کے با وجود بچی نے ایک سو روپیہ چندہ ادا کر دیا.یہ انڈیا کے مخلصین ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے انڈیا میں بھی
خطبات مسرور جلد دہم 702 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 نومبر 2012ء مالی قربانی کا معیار بہت بڑھ رہا ہے گو مرکز وہاں کافی خرچ کرتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ خود بھی اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب قربانی کرنے والوں کے اموال ونفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے.اللہ کرے کہ امراء اور امیر جماعتیں جو ہیں، وہ اپنے کمزور بھائیوں اور چھوٹی جماعتوں کو ہمیشہ اپنے ساتھ آگے بڑھانے اور جماعتی ترقی کی روح کو قائم رکھنے والے ہوں تاکہ اسلام کی حقیقی تعلیم دنیا میں جاری ہو کیونکہ ہم سب اکٹھے آگے قدم بڑھائیں گے تو تبھی دنیا میں اسلام کا حقیقی پیغام پہنچا سکتے ہیں.اللہ کرے کہ مسلم اُمّہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو پہنچانے والی ہوتا کہ دنیا میں حقیقی بھائی چارے اور محبت کی فضا قائم ہو جائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا تمام دنیا پر لہرانے لگے.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 30 نومبر تا 6 دسمبر 2012 جلد 19 شماره 48 صفحه 5 تا 9)
خطبات مسرور جلد دہم 703 46 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 نومبر 2012ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 16 نومبر 2012 ء بمطابق 16 نبوت 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہر انسان جو دنیا میں آتا ہے اُس کا ایک موت کا دن بھی مقرر ہے بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا میں ہر چیز کو فنا ہے لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے یہ بھی خوشخبری دی ہے کہ یہ عارضی دنیا کی زندگی جب ختم ہوگی تو پھر ایک ہمیشہ رہنے والی زندگی شروع ہوگی.جو لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق اس دنیا میں اپنے اعمال کرنے والے ہوں گے، اللہ تعالیٰ کی رضا کو ہر چیز پر ترجیح دیں گے وہ اس دائمی اور اخروی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے انعاموں کے وارث بنیں گے.اللہ تعالیٰ کی بخشش اور رحمت انہیں اپنے قرب میں جگہ دے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے وہ کوشش کرتے رہے.اُنہوں نے اپنی زندگی کو بامقصد بنانے کی کوشش کی یعنی اس مقصد کے حصول کی کوشش کی جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مقرر کیا ہوا ہے.یہ ٹھیک ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کی وسعت کسی انسان کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کی وجہ سے بھی اُسے اپنی چادر میں لپیٹ لیتی ہے چاہے اُس نے مستقل مزاجی سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کوشش نہ بھی کی ہو.لیکن جو لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کوشش ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں.حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے ہر وقت اپنی استعداد کے مطابق کوشش میں مصروف رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے دین کی سر بلندی اور اشاعت اُن کا صحیح نظر ہوتی ہے.جن کے اعلیٰ اخلاق کے بارے میں ہر چھوٹا بڑا رطب اللسان ہوتا ہے.اُن کے بارے میں تو ہمیں خدا تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جن پر جنت واجب ہو جاتی ہے.یا پھر ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے جنت کی خوشخبری دی ہے جو اُس کے دین کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے شہادت کا رتبہ پاتے ہیں.اللہ تعالیٰ
خطبات مسرور جلد دہم 704 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 نومبر 2012ء فرماتا ہے بیشک یہ لوگ اس دنیا سے تو چلے گئے ، اس عارضی ٹھکانے سے تو رخصت ہو گئے ، دنیا کی نظر میں تو مرگئے یا مار لئے گئے یا مارے گئے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ہمیشہ کی زندگی پاگئے.اس لئے ایسے لوگوں کو مردہ نہ کہو، وہ زندہ ہیں.ایسے لوگوں کی اس دنیا سے رخصتی پیچھے رہنے والوں کی زندگی کے سامان کرنے والی ہے.پس ایسے لوگ جو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر زندگی گزارتے ہیں، اُس کے نام کی سربلندی کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں اور بے خطر ہو کر یہ قربانی دیتے ہیں، وہ جہاں اپنی دائی زندگی کے سامان کرتے ہیں، وہاں اپنی جماعت ، اپنے دینی بھائیوں کو حقیقی اور دائمی زندگی کے اسلوب بھی سکھانے والے ہوتے ہیں.آج ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح محمدی کے ماننے والوں کی جماعت کے افراد ہی ہیں یا اُن میں سے ایک گروہ اور ایک طبقہ ہے جو ایک طرف تو اشاعت دین اور اسلام کی خاطر مستقل مزاجی سے اپنی زندگیوں کے ہر لمحے کو گزارنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے لئے اپنی زندگی کے آخری دم تک لڑتے ہیں اور جان دیتے ہیں یا وہ ہیں جو دین کی خاطر اس جرم کی وجہ سے کہ انہوں نے مسیح محمدی کو کیوں قبول کیا ہے ظالموں کے ظلموں کا نشانہ بن کر شہادت کا رتبہ پا کر خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہوتے ہیں.آج میں ایسے ہی دو افراد کا ذکر کروں گا.یعنی ایک خادم سلسلہ اور دوسرا شہید.ایک نے اپنے بچپن سے وفات تک مسیح محمدی کی فوج میں شامل ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا تک پہنچایا، اُس پیغام کو جس کی اشاعت کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم.کے مطابق آپ کے غلام صادق اور مسیح موعود کو دنیا میں بھیجا تھا.سے وعدے پس یہ خلص اور فدائی خادم سلسلہ جن کا نام حافظ جبرائیل سعید ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کی تکمیل کے لئے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ سرگرداں رہے.ایک جوش اور ایک ولولے سے کام کرتے رہے.اور یقیناً ایک سچے خادم سلسلہ اور حقیقی واقف زندگی کی طرح اپنے وقف کے عہد کو پورا کیا.وہ خادم سلسلہ جو قادیان اور ر بوہ سے ہزاروں میل دور براعظم افریقہ کے ملک گھانا کہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوا جہاں شاید تعلیم کی بھی صحیح سہولت میسر نہیں تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اُسے اپنے باپ کی نیک تمناؤں اور دعاؤں کی وجہ سے اپنے عظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری ہوئی کامل اور مکمل کتاب کا حافظ بنا دیا.مکمل طور پر اُسے یاد کرنے کی توفیق دی اور نہ صرف حفظ قرآن کے اعزاز سے نوازا بلکہ تفقہ فی الدین یعنی دین کا فہم حاصل کرنے والوں کی صف میں کھڑا کر کے
خطبات مسرور جلد دہم 705 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 نومبر 2012ء قرآن کریم کی عظیم تعلیم کو اپنے ہم قوموں اور غیر قوموں تک پہنچانے کی خدمت سے بھی اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے فضل سے نوازا.اور یوں گھانا کا یہ باوفا مخلص سپوت خلفائے وقت کا سلطان نصیر بن کر جماعت احمد یہ گھانا کو بہت سے اعزازات سے نواز گیا.حافظ جبرائیل سعید صاحب کی گزشتہ دنوں گھانا میں وفات ہوئی ہے.إنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ان کے بارے میں مزید کچھ تفاصیل ہیں وہ میں بیان کرتا ہوں.مکرم حافظ احمد جبرائیل سعید صاحب گھانا میں مبلغ سلسلہ بھی تھے اور نائب امیر ثالث بھی تھے.جیسا کہ میں نے کہا 9 نومبر 2012ء کو جمعتہ المبارک کے دن ان کی کو رلیگو (Korlebo) ہسپتال اکرا میں ایک ماہ کی علالت کے بعد وفات ہوئی ہے.اُس دن میں نے دعا کے لئے بھی اعلان کیا تھا لیکن اُس وقت وہ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو چکے تھے.کافی عرصے سے بیمار تھے.ان کی بیماری کے متعلق غانا کے ڈاکٹرز کی رپورٹ یہاں لندن اور امریکہ کے ڈاکٹر ز کو بھجوائی گئی تھی کیونکہ وہاں کے ڈاکٹروں کو بیماری کی تشخیص نہیں ہو رہی تھی.اور ان ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق مزید ٹیسٹ لئے جانے کی کارروائی بھی زیر عمل تھی.اسی طرح علاج کی غرض سے بیرونِ ملک، لندن یا امریکہ بھجوانے پر بھی غور ہورہا تھا اور کارروائی ہو رہی تھی لیکن خدا تعالیٰ کی تقدیر غالب آئی اور ان کی اس دوران میں وفات ہو گئی.مکرم حافظ صاحب دوفروری 1954ء میں پیدا ہوئے.آپ کے والد صاحب سوفو جبرائیل سعید صاحب غانا کے مبلغ تھے جنہوں نے وہیں مشنریز کے ذریعے سے مبلغ کی ٹرینگ لے کر میدانِ عمل میں کام کیا اور بڑے کامیاب مبلغ تھے.حافظ احمد جبرائیل سعید صاحب 1970 ء میں حفظ قرآنِ کریم کی غرض سے ربوہ گئے تھے اور مدرسۃ الحفظ میں داخلہ لیا.آپ خدا کے فضل سے غانا کے پہلے حافظ قرآن تھے.آپ کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ ایک موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے از راہ شفقت آپ سے کلائی پکڑنے کا مقابلہ بھی کیا تھا.آپ قرآن مجید حفظ کر کے غانا آئے اور چند ماہ بعد پھر دوبارہ جامعہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے پاکستان واپس چلے گئے.جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا.1982ء میں شاہد کی ڈگری حاصل کی.اسی کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی سے فاضل عربی کا امتحان بھی پاس کیا.آپ جب شاہد کا امتحان پاس کر کے گھا نا آئے تو 15 ستمبر 1982ء کو آپ کی تقرری گھانا کے ایک شہر ٹیچی مان میں ہوئی جہاں آپ نے برا نگ اہا فوریجن کا چارج سنبھالا اور چار سال کے بعد پھر آپ کو نجی بھجوایا گیا جہاں لمبا سا میں آپ کا تقرر ہوا.نجی سے اگست 1987ء میں آپ کو طوالو بھجوایا گیا.آپ طوالو کے پہلے باقاعدہ مبلغ مقرر ہوئے.طوالو میں قیام کے دوران آپ نے ساؤتھ پیسفک کے تین جزائر (جو ملک بھی ہیں).یعنی
خطبات مسرور جلد دہم 706 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 نومبر 2012ء مارشل آئی لینڈ ، سولومن آئی لینڈ اور مائیکرونیشیا میں احمدیت کا نفوذ کیا اور جماعتیں قائم کیں.اس طرح آپ کو یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ دنیا کے تین ممالک میں احمدیت کا پودا آپ کے ذریعے سے لگا.طوالو میں قیام کے دوران 1991ء میں آپ ہمسایہ ملک کریباتی میں تشریف لے گئے اور لمبا عرصہ یہاں بھی قیام کیا.اس لحاظ سے آپ ملک کریباتی کے بھی پہلے مبلغ سلسلہ تھے.آٹھ سال تک ساؤتھ پیسفک کے جزائر میں تبلیغی خدمات سرانجام دینے کے بعد 1994ء میں واپس گھانا آ گئے یا بھجوا دیئے گئے.گھانا واپس آنے کے بعد حضرت خلیفتہ امسیح الرابع " نے آپ کو نائب امیر جماعت احمد یہ گھانا برائے تبلیغ مقر رکیا اور تا وفات آپ اس فریضے کو بخوبی سر انجام دے رہے تھے.آپ کی نگرانی میں گھانا میں قائم تربیت سینٹر اور تبلیغ سینٹر میں ائمہ کرام اور نومبائعین کی تربیت کے بہت سے کورسز مقرر ہوئے.مقامی معلمین یا امام جو جماعت میں شامل ہوتے تھے، اُن کو کچھ دین کے علم کی شدھ بدھ تو تھی اس کے علاوہ حقیقی اسلام، اسلام کی حقیقی تعلیم اور جماعت احمدیہ کی روایات کے بارے میں بھی سکھانے کے لئے ریفریشر کورسز ہوتے تھے جس کی نگرانی بھی حافظ صاحب کیا کرتے تھے.آپ کی سر کردگی میں بڑی کامیاب تبلیغی مہمات ہوئیں جس کے نتیجے میں جماعت کو بیشمار نئے پھل عطا ہوئے اور نئی جماعتیں بنیں اور نئے سرکٹ بنائے گئے اور ان جماعتوں میں بیشمار مساجد کی تعمیر کروائی گئی بلکہ ایسی جگہیں جو دور دراز علاقے تھے جہاں ایک دو دفعہ بیعتوں کے لئے رابطوں کے بعد ایک لمبا عرصہ جماعت کا ، مقامی مرکز کا رابطہ نہیں رہا تھا.وہ لوگ غیر احمدی علماء اور دوسرے کچھ لوگوں کے زیر اثر جو جماعت سے ورغلانے والے تھے، کچھ دور بھی ہٹ گئے تھے، کچھ تعلق نہ ہونے کی وجہ سے اتنے ایکٹو (Active) نہیں رہے تھے.جب میں نے حافظ صاحب پر زور دیا کہ وہ دوبارہ اُن کو قریب لے کر آئیں ، رابطے کریں اور جماعت سے اُن کا تعلق مضبوط کریں ، تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حافظ صاحب نے اس بارے میں بھی بھر پور کوشش کی اور لاکھوں کی تعداد میں ان لوگوں کو دوبارہ جماعت کے نظام میں اس طرح مربوط کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب اُن کا جماعت سے ایک مضبوط تعلق قائم ہے اور ایمان اور ایقان میں بڑے مضبوط ہوتے چلے جا رہے ہیں.حافظ صاحب نے جزائر پیسفک میں آباد لوگوں کی طرف سے احمدیت کے متعلق کئے جانے والے مخصوص سوالات ( جو اعتراضات ہوتے ہیں) مد نظر رکھتے ہوئے اُن لوگوں میں تبلیغ کے لئے ایک کتاب بھی لکھی تھی جس کا نام تھا "Islam in the Islands Removing the Impediments“.گزشتہ سال 2011ء کے جلسہ سالانہ یو کے میں خلافت احمدیہ مسلم جماعت کی امتیازی خصوصیت
خطبات مسرور جلد دہم 707 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 نومبر 2012ء کے عنوان سے حافظ صاحب نے یہاں تقریر بھی کی تھی.گھانا جانے کے بعد یعنی جو عرصہ انہوں نے پیسفک ممالک میں گزارا ہے وہاں سے واپس آنے کے بعد بھی حافظ صاحب کو دورہ پر ان ممالک میں بھجوایا جاتا رہا.کیونکہ ان کا اچھا اثر و رسوخ تھا اور ان کا تبلیغ اور تربیت کا ڈھنگ بھی بہت اچھا تھا.اکتوبر نومبر 2001ء میں آپ نے جزائر اور ممالک کے دورے کئے.2003ء میں بھی آپ کو ساؤتھ پیسفک کے ان جزائر اور ممالک کے دورے پر بھجوایا گیا.جو پہلا دورہ 2001ء میں آپ نے کیا ڈیڑھ ماہ کا دورہ تھا، جہاں جا کے آپ نے ان ممالک میں مضبوط رابطے کئے جس میں ویسٹرن ساموآ ٹونگا، کریباس ،سولومن آئی لینڈ ، ونوا تو اور طوالو شامل ہیں.جماعتوں کو یہاں آرگنا ئز کیا اور مزید بیعتیں حاصل کیں.سولومن آئی لینڈ میں حافظ جبرائیل سعید صاحب کے ذریعے 1988ء میں احمدیت کا پودا لگا تھا.کچھ عرصہ یہ اور مصروفیات کی وجہ سے، دوسرے جزیروں میں جانے کی وجہ سے وہاں نہیں جا سکے تو انہوں نے اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الرابع” کو 1991ء میں یہاں ایک رپورٹ بھیجی کہ میں یہاں دو سال بعد آیا ہوں اور یہ دیکھا کہ جو کام دو سال قبل کیا تھا، وہ تمام کا تمام ختم ہو گیا.نجی سے مسلم لیگ کا ایک بزنس مین آیا اور تمام افراد کے دل میں شکوک وشبہات پیدا کر کے جماعت سے متنفر کر دیا.میں اپنے کام پر پانی پھر ا دیکھ کر بالکل ہل گیا ہوں.لکھتے ہیں کہ حضور یہ میرا قصور ہے اور میں نہایت عاجزی سے آپ سے معافی مانگتا ہوں.دیگر جزائر میں مصروفیت کے باعث میں یہاں نہیں آ سکا.گزشتہ سال یہاں کا پروگرام تھا لیکن ارشاد موصول ہوا تھا کہ دسمبر تک کریباتی میں ہی رہوں.پھر خلیفہ رابع” کو لکھتے ہیں کہ حضور پھر سے دوبارہ کام کا آغاز کرنا ہے.دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مقصد میں کامیاب کرے اور مسلم لیگ جسے کویت کی حمایت حاصل ہے، جسے مسلمانوں نے پیسہ لگا کر وہاں بھیجا تھا حالانکہ اسلام ان کے ذریعے سے وہاں پہنچا، اُن کو ہم شکست دے سکیں.خیر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے اس پر ان سے کافی افسوس اور ناراضگی کا بھی اظہار کیا.اس کے بعد تو حافظ صاحب ایک لمحہ بھی چین سے نہیں بیٹھے اور تم ارادہ کیا کہ جو کچھ کھویا گیا ہے وہ سب واپس حاصل کریں گے.اس طرح مسلسل دو سال محنت کرتے رہے اور اس علاقے میں دوبارہ سے احمدیت کا پودا لگا کر دم لیا.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے یہاں ایک مضبوط جماعت قائم ہے اور یہاں پر احمدیوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے اور ان میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے.اعلیٰ عہدیداران سے مل کر جماعت کی رجسٹریشن کے کام سے لے کر جماعتی عاملہ کی تشکیل اور ٹریننگ کا کام بھی حافظ صاحب نے کیا.حافظ صاحب نے بعد ازاں مختلف دورہ جات میں
خطبات مسرور جلد دہم 708 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 نومبر 2012ء اس جماعت کی مضبوطی اور استحکام میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے.اب یہاں جیسا کہ میں نے کہا رجسٹریشن بھی ہو چکی ہے.جماعت کا باقاعدہ مشن ہاؤس ہے اور مسجد بھی ہے.جب میں 2005ء میں آسٹریلیا میں گیا ہوں تو صدر صاحب سولومن آئی لینڈ مبشر مارٹنگا سو صاحب وہاں آئے تھے.انہوں نے وہاں مجھ سے ملاقات کی ، اور بتایا کہ میں نے حافظ جبرائیل سعید صاحب کے ذریعہ 1994ء میں احمدیت قبول کی تھی.پھر انہوں نے بتایا کہ ہمارے اس ملک میں احمدیت کے آنے سے پہلے کوئی مسلمان نہیں تھا، اس طرح جماعت احمدیہ کے ذریعے اس ملک میں پہلی بار اسلام داخل ہوا اور یہ سعادت حافظ جبرائیل سعید صاحب کے حصہ میں آئی.اپنی ایک پرانی رپورٹ میں حافظ صاحب ذکر کرتے ہیں کہ 9 ستمبر 2001ء کو منی پہنچا.وہاں سے 10 ستمبر کو مارشل آئی لینڈ کے لئے روانہ ہو کر کریباس میں دو یوم ٹرانزٹ کے طور پر قیام کیا.چنانچہ 11 ستمبر کو جبکہ میں ابھی ٹرانزٹ میں ہی تھا تو امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر والا جو واقعہ تھاوہ پیش آ گیا.چونکہ مارشل آئی لینڈ میں امریکہ کا بہت بڑا فوجی اڈہ ہے اور اس ملک کا دفاعی نظام امریکہ کے ہاتھ میں ہے اس لئے طبعاً یہ فکر لاحق ہوئی کہ پتہ نہیں اب کیا صورتحال ہو کیونکہ خاکسار کو یاد ہے کہ دس سال قبل جبکہ خلیج کی جنگ ہو رہی تھی تو اُس وقت خاکسار یہاں موجود تھا اور کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا.بہر حال لکھتے ہیں کہ خاکسار نے بہت دعائیں کیں اور بہت سوچا کہ کچھ انتظار کروں یا ابھی چلا جاؤں.مجھے بہت مشورہ دیا گیا کہ حالات خراب ہیں، آپ نے تبلیغ کرنے کے لئے بہت غلط وقت کا انتخاب کیا ہے.بہتر یہ ہے کہ آپ فوری طور پر واپس چلے جائیں.کہتے ہیں کہ پھر میں نے بہت دعائیں کیں کہ خلیفۃ المسیح کے ارشاد پر آیا ہوں.اس مقصد کو حاصل کئے بغیر واپس نہیں جانا چاہتا جبکہ حالات بہت خراب ہیں.بہر حال کہتے ہیں کہ دعاؤں کے بعد انشراح ہوا کہ ابھی چلا جاؤں یعنی جس کام پہ آیا ہوں وہ کروں.خاکسار بذریعہ جہاز مارشل آئی لینڈ چلا گیا.امریکہ کے واقعہ کے بعد تمام ائیر پورٹس پر سکیورٹی کافی سخت ہو گئی تھی.ائیر پورٹ پہنچا تو وہاں پہلے ہی ایک پاکستانی کو صرف اس وجہ سے ڈیٹین (Detain) کیا ہوا تھا کہ وہ مسلمان تھا.کہتے ہیں ان میں سے ایک آفیسر نے میرا پاسپورٹ دیکھا اور پوچھا کہ آپ کیا کام کرتے ہیں.میں نے بتایا کہ میں مشنری ہوں.غالباً اُس نے نام سے اندازہ لگالیا کہ یہ بھی مسلمان ہے.چنانچہ اُس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کا مذہب کیا ہے؟ میں نے کہا کہ میں احمدی مسلمان ہوں، کچھ تامل کے بعد اُس نے دوبارہ مذہب کا پوچھا.میں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں احمدی مسلمان ہوں.چنانچہ اس نے
خطبات مسرور جلد دہم 709 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 نومبر 2012ء مجھے ایک ماہ کا ویزہ لگادیا اور اللہ کے فضل سے اُن کو اینٹری (Entry) مل گئی.پھر ایک خط میں وہ لکھتے ہیں کہ ان علاقوں میں پہنچنے پر یہ معلوم ہوا کہ خاص طور پر اس وقت میں جبکہ تمام تر میڈیا اسلام کے خلاف برسر پیکار ہے اور القاعدہ اور اسامہ بن لا دن کو لے کر اسلام پر تابڑ توڑ حملے کر رہا ہے، یہ دورہ نہایت ضروری ہے.نیو یارک کے واقعہ کی وجہ سےلوگ اسلام کے بارے میں بات کرنے کو تیار نہ تھے اور اکثر لوگ مسلمانوں کے قریب بھی آنے سے ڈرتے تھے.چنانچہ اس موقع پر میڈیا پر اور دیگر مواقع پر اسلام کا دفاع کرنے کا موقع ملا اور مقامی احمد یوں کو اسلام کے دفاع کے لئے تیار کیا.کر یباس میں ریڈیو پر اسلام کے خلاف جو پروپیگینڈا شروع ہوا اُس سے ہمارے احمدی کافی پریشان تھے.چنانچہ خاکسار نے براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے مینیجر سے رابطہ کیا اور وقت لینے کی درخواست کی.الحمد للہ کہ مجھے وقت مل گیا.چنانچہ خاکسار نے جملہ مسائل القاعدہ، اسلامی نظریہ جہاد کے بارے میں تفصیل سے آگاہی دی.الحمد للہ اس کا بہت فائدہ ہوا.کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اُس وقت خلیفہ وقت نے جو بھی فیصلہ کیا تھا اور عین ضرورت پر جزائر کا دورہ کرنے کا جو ارشاد فرمایا تھا ، ( یہ 2001ء کی بات ہے) تو خدا تعالیٰ کے فضل سے نہ صرف اسلام کا دفاع کرنے کی توفیق ملی بلکہ اس دورے میں 49 نئی بیعتیں بھی حاصل ہوئیں.کہاں تو یہ تھا کہ لوگ مسلمانوں کے قریب بھی آنے سے ڈرتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے 49 نئی بیعتیں بھی مل گئیں.پھر کہتے ہیں، الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ کہ جماعت کو مستحکم کرنے کے لئے عاملہ کا انتخاب اور رجسٹریشن وغیرہ کے جملہ مسائل پر کام کرنے کی توفیق ملی.گھانا میں ان کے ساتھ کام کرنے والے مبلغین اور داعیان الی اللہ کا کہنا ہے کہ انہیں تبلیغ کا شوق جنون کی حد تک تھا.وہ اس کے لئے دن رات ایک کر دیتے.داعیان الی اللہ کی ٹیمیں بھجواتے تو خود اُن کے پیچھے جاتے اور اُن کے ساتھ رہتے.چیکنگ کرتے کہ کام کس طرح ہو رہا ہے، کہاں کہاں ہو رہا ہے.ان میں بیحد صبر اور برداشت تھی.اگر ما تحت غلطی کرتا تو اُسے پیار سے سمجھاتے.دوستوں کے کام کاج اور خاندان وغیرہ کا علم ہوتا اور اُن کے گھر یلو مسائل وغیرہ حل کرنے میں مدد کرتے.اگر کسی مبلغ یعنی مقامی معلمین خلاف کوئی شکایت ہوتی تو کوشش کرتے کہ انہیں فارغ کرنے کے بجائے دوبارہ فعال اور مستعد کیا جائے اور جماعت کے استعمال میں لایا جائے.بعض لوگ بڑی جلدی فیصلے کر لیتے ہیں کہ فارغ کرو اور شکایت کرو اور اس طرح فراغت کی کوشش ہوتی ہے لیکن یہ زیادہ سے زیادہ کوشش کرتے تھے کہ کسی احمدی سے اور خاص طور پر معلمین سے جتنا استفادہ کیا جاسکتا ہے، کیا جائے.
خطبات مسرور جلد دہم 710 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 نومبر 2012ء پھر ان کے معلمین ساتھی لکھتے ہیں کہ غیر از جماعت کے بڑے بڑے علماء کے ساتھ تعلقات تھے.عید وغیرہ کے موقع پر اُن کو تحائف بھجواتے.بیحد مستعد اور فعال تھے.شمالی علاقہ جات یعنی گھانا کے شمالی علاقہ جات میں اُن کی وسیع و عریض تبلیغی مہم کا ہی نتیجہ ہے کہ جماعت احمد یہ وہاں پہچانی جاتی ہے.گھانا کے شمالی علاقہ میں آج سے ہیں سال پہلے یا پچیس سال پہلے جماعت احمدیہ کا نفوذ بڑا مشکل تھا بلکہ ناممکن تھا.اگا د کا کوئی احمدی ہوتے تھے اور کیونکہ دوسرے مسلمانوں کا وہاں زور ہے اور وہاں کے جو امام ہیں وہ شدید مخالفت کرنے والے تھے.بلکہ شروع شروع میں جب احمدیت وہاں گئی ہے تو شمال میں ہی یا شمال مغرب میں وہی پہلا علاقہ ہے، جہاں ہمارے احمدیوں پر مقدمے بھی چلے اور جرمانے بھی ہوئے، قید بھی کئے گئے.لیکن بہر حال اب وہاں بالکل کا یا پلٹی ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجدیں بھی بنتی چلی جا رہی ہیں اور اُنہی مسلمانوں میں سے بلکہ اُن کے اماموں میں سے لوگ جماعت میں شامل ہورہے ہیں.تو یہ کہتے ہیں کہ جماعت وہاں پہچانی جاتی ہے.یہ حافظ صاحب اکثر لوگوں کو خاموشی کے ساتھ صدقہ و خیرات بھی دیتے رہتے تھے.آپ کے تعلقات امیر و غریب ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ تھے.لوگوں کے ذاتی مسائل حل کرنے کی بھر پور کوشش کرتے.آپ کو لوگوں سے کام لینے کا خوب سلیقہ آتا تھا.گھانا کے امیر اور دولتمند احمدی احباب کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات تھے اور اُن کی مدد سے شمالی علاقہ جات میں مساجد بنوایا کرتے تھے.جو اچھے مخیر احمدی، کھاتے پیتے احمدی ہیں ان کو تحریک کرتے تھے کہ تم پر اللہ تعالیٰ نے اتنا فضل فرمایا ہے اور اس فضل کا شکرانہ یہی ہے کہ تم ان غریب علاقوں میں مساجد بنا کے دو.چنانچہ وہاں کے مقامی لوگوں نے بہت ساری چھوٹی چھوٹی مساجد ان علاقوں میں بنائی ہیں.ایم ٹی اے پر ایک انٹرویو کے دوران آپ نے بتایا کہ وقف اور جماعت کی خدمت ہمارے خون میں ہے.ہمارے جینز (Genes) میں ہے.میرے والد صاحب گیمبیا میں پہلے مبلغ تھے جن سے مکرم چوہدری محمد شریف صاحب نے چارج لیا تھا.پھر میرے والد صاحب کو لائبیریا میں بھی خدمت کی توفیق ملی.حافظ جبرائیل سعید صاحب فی الحقیقت خدمت کے جذبے سے معمور تھے.ذمہ داری کا احساس تھا.چنانچہ اپنی بیماری کے ایام میں بھی انہوں نے جو آخری خط مجھے لکھا، ہسپتال میں آئی سی یو (ICU) میں داخل تھے ، آئی سی یو میں عموماً لوگوں کو ہوش کوئی نہیں ہوتی.اس میں انتہائی تکلیف میں لکھا کہ میں آئی سی یو سے انتہائی تکلیف سے یہ خط تحریر کر رہا ہوں اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں.حضور کام بہت زیادہ ہیں اور طاقت بالکل نہیں.یعنی آخر وقت تک فکر تھی تو صرف یہ کہ کس طرح اسلام اور احمدیت
خطبات مسرور جلد دہم 711 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 نومبر 2012ء کا پیغام ملک کے کونے کونے میں پہنچ جائے اور تمام گھا نین کو میں جلد سے جلد احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی آغوش میں لے آؤں.آپ نے اپنے ایک انٹرویو میں پاکستان جانے کا واقعہ بھی سنایا جو بڑا دلچسپ ہے.انہوں نے بتایا کہ گھانا کی جماعت نے فیصلہ کیا کہ کسی بچے کو قرآنِ مجید حفظ کرنے کے لئے پاکستان بھجوایا جائے.چنانچہ سکول کے بچوں کا جائزہ لیا گیا اور حافظ صاحب کہتے ہیں کہ میرا انتخاب ہو گیا.میرے والد صاحب نے مجھے پوچھا تو میں نے رضامندی ظاہر کر دی.اس وقت محمد بن صالح صاحب ( یہ بھی ہمارے وہاں مبلغ سلسلہ ہیں ) اور ابراہیم بن یعقوب صاحب، ( یہ بھی گھا نین مبلغ ہیں جو آجکل ٹرینیڈاڈ میں ہیں) یہ پاکستان بھجوائے جا رہے تھے تا کہ جامعہ احمدیہ میں پڑھ سکیں.چنانچہ کہتے ہیں کہ ہم تینوں کا میڈیکل چیک آپ ہوا.وہ دونوں تو اس میں پاس ہو گئے مگر میرے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ یہ دبلا پتلا ہے اور وزن میں ہلکا پھلکا ہے.پاکستان کے شدید موسمی حالات ہیں اور یہ شدید گرمی اور شدید سردی برداشت نہیں کر سکے گا.اس طرح کہتے ہیں کہ میں ان فٹ ہو گیا.اس کا میرے والد صاحب کو شدید دکھ ہوا اور وہ دعاؤں میں لگ گئے اور ایک دن گھانا کی جماعت کے اس وقت جو امیر جماعت تھے مکرم عطاء اللہ کلیم صاحب، اُن سے حافظ صاحب کے والد کہنے لگے کہ میرا بیٹا ضرور پاکستان جائے گا.تو امیر صاحب نے پوچھا: وہ کیسے؟ والد صاحب کہنے لگے کہ میں تہجد پڑھ رہا تھا تو میرے کانوں میں بڑی واضح آواز آئی ہے إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ مَفَازًا (النبا : 32).یعنی متقیوں کے لئے کامیابی ہی ہے.کہتے ہیں میں تو ان دنوں اپنے بیٹے کے لئے بہت دعائیں کر رہا تھا.پس یہ خوشخبری میرے بیٹے کے لئے ہے.بہر حال کہتے ہیں میرے والد صاحب نے میری صحت کی طرف توجہ کی اور مجھے مارجرین کی شیشی لا کر دی اور کچھ اور خوراک وغیرہ بھی کہ میں کھایا کروں.دو یا تین ہفتوں کے بعد میں دوبارہ ٹیسٹ کے لئے بھجوایا گیا تو ڈاکٹروں نے مجھے میڈیکلی فٹ کر دیا اور یہ لکھا کہ لڑکا مکمل طور پر فٹ ہے، اُسے کوئی مسئلہ نہیں.کہتے ہیں میرے والد صاحب جب بھی مجھے پاکستان میں خط لکھتے تو لکھا کرتے تھے کہ تمہارا جانا خدا کی تقدیر ہے لہذا سنجیدگی کے ساتھ پڑھائی کی طرف توجہ دو.اور پھر انہوں نے بھی اپنے والد صاحب کی خواہش کو خوب پورا کیا.اپنے پیچھے انہوں نے اپنی اہلیہ حنا سعید صاحبہ اور دو بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں ، اُن کا نام صبہ ارباب اور صبا کو جو اور منیر الھادی اور تہمینہ ہیں.ان کی کوشش یہی تھی کہ بچے بھی دینی اور دنیاوی تعلیم میں آگے آئیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کا جماعت کے ساتھ تعلق بھی مضبوط ہے،.سارے بچے دینی تعلیم میں بھی آگے ہیں اور دنیاوی تعلیم میں
خطبات مسرور جلد دہم 712 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 نومبر 2012ء بھی.تین بچے ماسٹرز کر چکے ہیں، ایم ایس سی کر چکے ہیں.بلکہ ایک بچی پی ایچ ڈی بھی کر رہی تھی.2007ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مکرم حافظ صاحب کو حج پر جانے کی سعادت بھی حاصل ہوئی.ان کے جامعہ کے ایک ساتھی مکرم الیاس منیر صاحب جو جرمنی میں مربی سلسلہ ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ حافظ جبرائیل سعید صاحب جامعہ میں مجھ سے ایک سال پیچھے تھے مگر بہت آگے نکل گئے.انہیں میں نے بچپن میں ہی ایک چھوٹے سے بچے کی شکل میں دیکھا ہوا ہے جب وہ اپنی معصوم عمر میں قرآن کریم حفظ کرنے کے لئے ربوہ کے حفظ کلاس میں داخل ہوئے تھے.اُنہیں نہ صرف حفظ قرآن کی سعادت ملی بلکہ نہایت شیریں لحن بھی قدرت نے عطا فرمایا ہوا تھا جس سے جامعہ کے دوران اور اس کے بعد جلسوں کے مواقع پر حاضرین کو محظوظ ہونے کا موقع ملتا رہا.کہتے ہیں میں نے انہیں بہت قابل اور اپنے کام اور علم پر گرفت رکھنے والا مر بی پایا.مضبوط وجود کے ساتھ ساتھ نہایت اطاعت گزار اور سعادت مند بھی تھے.کہاں تو وہ کمزور بچے تھے لیکن آہستہ آہستہ جب بڑے ہوئے ہیں، جامعہ سے فارغ ہوئے ہیں تو قد بھی اُن کا تقریباً چھ فٹ کے قریب ہو گیا اور جسم بھی ان کا مضبوط تھا) لکھتے ہیں کہ مرحوم نظام جماعت کو سمجھنے والے اور اُس کی معمولی سے معمولی امر میں بھی پابندی کرنے والے بہت مخلص انسان تھے.اسی طرح برداشت کا مادہ بھی بہت تھا.ایک مرتبہ کسی دوست نے افریقن سمجھ کر اس خیال سے کہ انہیں کونسی پنجابی آتی ہے، ان کے بارے میں بعض ایسے الفاظ، اُن کی موجودگی میں کسی کو ہدایت دیتے ہوئے کہہ دیئے جو مناسب نہیں تھے.لیکن انہوں نے باوجود سمجھنے کے انہیں احساس تک نہیں ہونے دیا.عبدالسمیع خان صاحب ایڈیٹر الفضل لکھتے ہیں کہ حافظ جبرائیل سعید صاحب اور خاکسار 1975ء سے 1982 ء تک جامعہ احمدیہ میں کلاس فیلور ہے.حافظ صاحب نہایت محنتی اور ذمہ دار اور سلسلہ سے محبت رکھنے والے اور اساتذہ کا بہت ادب کرنے والے انسان تھے.اردو بھی اچھی سیکھ لی تھی اور دیگر کلاس فیلوز کو انگریزی سیکھنے میں مدد کیا کرتے تھے.انگریزی عربی تقاریر اور مضمون نویسی میں حصہ لیتے تھے، اچھا مقابلہ ہوتا تھا.ہمیشہ خوشی اور بشاشت ان کے چہرے پر کھیلتی رہتی تھی.( یقینا یہ خوشی اور بشاشت تو میں نے دیکھا ہے کیسے ہی حالات ہوں ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے.کبھی میں نے اُن کو یہ نہیں دیکھا کہ چہرے پر غم کے آثار ہوں.گھانا میں بھی میں نے اُن کو دیکھا ہے، اس کے بعد یہاں بھی دیکھا ہے ) انہیں کھیل کا بھی بہت شوق تھا اور فٹ بال اچھا کھیلتے تھے.خدام الاحمدیہ کے کاموں میں عمدگی سے حصہ لیتے تھے.دوستوں کے ساتھ پر انا تعلق قائم رکھا.2005ء میں قادیان گئے تو وہاں سب دوستوں کی دعوت کی.
خطبات مسرور جلد دہم 713 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 نومبر 2012ء احمد جبرائیل سعید کے بارے میں جو اور دوسری رپورٹیں بھی ہیں.کہتے ہیں کہ گھانا کے ہمسایہ ملک ٹو گو میں بارڈر کے ساتھ شمالی علاقے میں تبلیغی کام کرنے کی توفیق ملی.آپ نے متعدد مرتبہ ان علاقوں کے ورے کئے اور تبلیغی مہمات کیں.یہاں مخالفت بھی بڑی تھی.چنانچہ آپ کی کوششوں سے ملک ٹوگو کے پانچ علاقوں ممپا گا (Mampaga)، ممپلوگ (Mamprug) ، اور مانگو (Maango)، اور بولے(Baule)، اور لیما کارا (Lemakara) میں جماعتیں قائم ہوئیں.اس طرح آپ نے ملک بور کینا فاسو کے بھی کئی دورے کئے اور یہاں بھی آپ کو جماعتی پروگراموں میں شرکت کے ساتھ بہت سے تبلیغی اور تربیتی کام کرنے کی توفیق ملی.فضل اللہ طارق صاحب امیر جماعت نجی لکھتے ہیں کہ جب حافظ جبرائیل سعید صاحب 2003 ء میں نجی تشریف لائے تو کہتے ہیں اُس وقت میری ان سے پہلی دفعہ ملاقات ہوئی اور قریب رہنے کا موقع ملا.تو پہلی ملاقات میں حافظ صاحب کی ایک اچھی عادت کا مشاہدہ ہو گیا.وہ یہ کہ رات کو جب حافظ صاحب کی آنکھ کھلتی تو آپ قرآنِ کریم دہراتے رہتے تھے.حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ آپ بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے تبلیغ کے میدان میں صاحب تجربہ تھے.ہر چھوٹے بڑے سے اس کے مزاج کے مطابق تبلیغی گفتگو کیا کرتے تھے.دینی علم کے ساتھ دنیاوی معلومات سے بھی بہرہ مند تھے اور ایک کامیاب مبلغ کی طرح باتوں باتوں میں اسلام کا پیغام پہنچا دیتے تھے.آپ کا انداز تکلم بہت بے تکلفانہ تھا اور ہنستے مسکراتے ہوئے مشکل سے مشکل بات بھی بڑے آرام سے کر لیتے تھے.کریباتی کے مبلغ ابراہیم اے کے آرکو صاحب اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ حافظ احمد جبرائیل سعید صاحب کریباتی طوالو اور دیگر جزائر میں تبلیغ کی خاطر بہت کثرت کے ساتھ دورہ جات کرتے اور اُن کی فیملی پیچھے بالکل اکیلی رہتی.مختلف جگہوں میں دوروں پر جاتے اور کبھی فیملی کی پرواہ نہ کرتے بلکہ کہتے تھے کہ اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے خلیفۃ المسیح نے میرا انتخاب کیا ہے اور مجھے یہاں بھجوایا ہے.خلیفۃ المسیح میرے لئے دعا بھی کرتے ہیں.اس لئے انہوں نے تبلیغ کا کبھی بھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا اور ہر وقت یہی کوشش ہوتی کہ وہ خلیفہ وقت کی توقعات پر پورا اتر سکیں.جب ان کا تقر رواپس گھانا میں ہوا تو انہیں نے ان جزائر ممالک کے ساتھ اپنا ناطہ نہ توڑا بلکہ ان جزائر میں تبلیغ کے حوالے سے بہت فکر رہتی تھی.2010ء میں جب میں نے دوبارہ بھی ان کو دورے پر بھجوایا ہے تو بڑا وسیع دورہ کر کے آئے تھے اور بڑی معلومات لے کر آئے اور وہاں جماعت کے نظام کو بڑا Establish کر کے آئے تھے.
خطبات مسرور جلد دہم 714 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 نومبر 2012ء مبلغ کر بیاتی لکھتے ہیں کہ حافظ احمد جبرائیل سعید صاحب نے اپنی بیماری کے آخری ایام میں مکرم انیس کلانا صاحب مرحوم جو کریباتی کے پہلے احمدی تھے ، اُن کی اہلیہ کوفون کیا اور ان کو جماعت کے ساتھ رابطہ رکھنے کی تلقین کی.یہ ہسپتال سے وہاں فون کر رہے ہیں جب بیمار کو بیماری کی فکر ہوتی ہے اور وہ بھی ایک دور دراز علاقے کے جزیرے میں.کہتے ہیں کہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نعمت آپ کو عطا فرمائی ہے اور آپ لوگوں کو اسلام تلاش کرنے کے لئے کوئی سفر نہیں کرنے پڑے بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے گھروں میں اسلام پہنچا کر آپ پر بہت فضل کیا ہے.اس لئے کبھی بھی جماعت کو نہیں چھوڑنا.احمد جبرائیل سعید صاحب کے ذریعے جن احباب نے بیعتیں کیں ان میں ایک میڈیکل ڈاکٹر علی بر یو صاحب بھی ہیں جنہوں نے اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ احمدیت قبول کی.اُن کے دونوں بیٹے بھی اس وقت میڈیکل ڈاکٹر ہیں.موصوف کریباتی زبان کے ماہر ہیں اور اس وقت کریباتی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ بھی کر رہے ہیں بلکہ مکمل کر لیا ہے اور اب اُس کی ریویژن ہو رہی ہے.اللہ تعالیٰ احمدیت کے اس ماہی ناز فرزند کو اپنی رضا کی جنتوں میں داخل فرمائے خلافت احمد یہ کو ان جیسے سینکڑوں ہزاروں سلطان نصیر عطا فرمائے ان جیسے قابل ، عاجز اور وفا شعار خادم سلسلہ کے رخصت ہونے کا غم بہت زیادہ ہے لیکن خدا تعالیٰ کی رضا پر راضی ہونا ہی ایک مومن کی شان اور شیوہ ہے اور إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ہی ہماری دعا اور سہارا ہے.ان کے رخصت ہونے سے بشری تقاضے کے تحت جو مجھے فکر ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اسے بھی دور فرمائے.گھانا میں بھی اب مدرستہ الحفظ قائم ہو چکا ہے بلکہ میرا خیال ہے کچھ حفاظ کی کلاس وہاں سے نکل بھی چکی ہے اور مبلغین یعنی شاہد مبلغین تیار کرنے کے لئے جامعہ احمد یہ بھی شروع ہو چکا ہے جو کم از کم افریقن ، جو ویسٹ افریقن ریجن ہے یا شاید سارے افریقہ کو ہی سنبھالے گا.اللہ تعالیٰ کرے کہ اُس میں سے بھی حافظ صاحب جیسے بلکہ اُن سے بڑھ کر خادم سلسلہ پیدا ہوں.اور یہ تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے والے ہوں.جیسا کہ میں نے کہا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہونے والوں میں سے دو کا ذکر کروں گا تو دوسرے مخلص جن کا ذکر کرنا ہے وہ ہیں جنہیں گزشتہ دنوں کوئٹہ میں شہادت کا رتبہ ملا.اور یہ بھی اُن لوگوں میں شامل ہوئے جن کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ
خطبات مسرور جلد دہم 715 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 نومبر 2012ء اَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاء عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ (آل عمران : 170 ).اور جولوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے اُن کو ہرگز مردے گمان نہ کرو بلکہ وہ تو زندہ ہیں اور اُن کو اپنے رب کے ہاں رزق عطا کیا جا رہا ہے.پس جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ اعزاز آج صرف افراد جماعت احمدیہ کو ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں قتل کئے جارہے ہیں جو اپنے ایمانوں کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں.پس جیسا کہ میں پہلے بھی کئی مرتبہ بتا چکا ہوں کہ دشمن کے قتل و غارت کے یہ ہتھکنڈے احمدی کو اُس کے دین سے منحرف نہیں کر سکتے.انشاء اللہ.یہ شہید جنہوں نے کوئٹہ میں یہ اعزاز حاصل کیا ہے ان کا نام مکرم منظور احمد صاحب ابن مکرم نواب خان صاحب ہے جن کو 11 نومبر 2012ء کو سیٹلائٹ ٹاؤن کوئٹہ میں شہید کیا گیا.آپ کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے والد مکرم نواب خان صاحب کی پڑدادی محترمہ بھاگ بھری صاحبہ المعروف محترمہ بھا گو صاحبہ کے ذریعے ہوا.محترمہ بھا گو صاحبہ قادیان کے قریب منگل کی رہنے والی تھیں.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اس طرح آپ صحابہ تھیں.قیام پاکستان کے بعد یہ خاندان ہجرت کر کے ضلع ساہیوال رہائش پذیر ہوا.1965ء میں کوئٹہ چلا گیا.منظور احمد صاحب شہید 1978 ء میں کوئٹہ میں پیدا ہوئے.میٹرک کے بعد 1996ء میں اپنا کام شروع کیا اور ہارڈ ویئر کی دوکان بنائی.تھوڑے عرصے میں اللہ تعالیٰ نے کاروبار میں نمایاں برکت دی.شہادت کا واقعہ ان کا یوں ہے کہ مرحوم 11 نومبر 2012ء کی صبح آٹھ بجے کے قریب اپنے گھر واقع سیٹلائٹ ٹاؤن سے اپنی دوکان پر (جو کہ قریب ہی ہے ) جانے کے لئے پیدل گھر سے نکلے ہی تھے کہ دوموٹر سائیکل سوار افراد آئے جن میں سے ایک شخص موٹر سائیکل سے اتر کر منظور احمد صاحب کی طرف بڑھا اور گولی چلانے کی کوشش کی لیکن قریب ہونے کی وجہ سے منظور صاحب سے اس کی مڈھ بھیڑ ہو گئی.وہاں لڑائی شروع ہو گئی.انہوں نے اُس کو قابو کرنے کی کوشش کی اور منظور احمد صاحب اُس سے چھوٹ کر پیچھے گھر کی طرف بھاگے، کیونکہ وہ دو تھے اس لئے بچت یہی تھی کہ گھر آ جاتے.گھر کے گیٹ کے ستون کے ساتھ اُن کا گھٹنا ٹکرا یا جس کی وجہ سے نیچے گر گئے.جس پر حملہ آور اُن کے پیچھے آیا اور منظور صاحب کے گرنے پر اُس نے اُن پر گولیاں چلا ئیں.ایک گولی سر سے رگڑ کھا کر گزرگئی جبکہ دوسری گولی سر کے پچھلے حصہ میں اور آگے ناک اور ماتھے کے درمیان سے نکل گئی جس سے موقع پر ہی شہادت ہوگئی.اِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.مرحوم کو کافی عرصے سے
716 خطبات مسرور جلد دہم خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 نومبر 2012ء مذہبی مخالفت کا سامنا تھا.ارد گرد کے دکاندار بھی مخالفت میں پیش پیش تھے.علاقے میں کچھ عرصے سے جماعت کے خلاف بائیکاٹ کی مہم منظم انداز میں چلائی جا رہی ہے.حلقہ سیٹلائٹ ٹاؤن کی معروف گول مسجد میں ڈیرہ غازی خان سے ایک مولوی آکر احمدیوں کے واجب القتل ہونے کے فتوے جاری کرتا رہتا ہے اور پورے علاقے میں اشتعال انگیز لٹریچر تقسیم کر رہا ہے.گزشتہ سال شہید مرحوم کی دوکان سے ملحقہ ایک معاند احمدی کی دکان میں آگ لگ گئی.ان باتوں سے بھی سبق نہیں سیکھتے.یہ دیکھیں کہ اُس کے آگ لگی ، اُس کا تمام سامان جل کر راکھ ہو گیا.شہید مرحوم کی دکان براہِ راست آگ کی لپیٹ میں تھی مگر اللہ تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں ہر لحاظ سے اُس کو محفوظ رکھا حتی کہ باہر پڑے ہوئے پلاسٹک کے بورڈ بھی معجزانہ طور پر محفوظ رہے.اس کو دیکھ کر سب حیران تھے لیکن یہ چیزیں ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں ہیں.شہید مرحوم کو اپنے پورے خاندان سے نہایت شفقت اور محبت کا سلوک تھا.خاندان میں کسی کو بھی کسی چیز یامالی معاونت کی ضرورت ہوتی تو آپ اُس کی ضرورت پوری کرتے تھے.نہایت مہمان نواز تھے.بطور خاص جماعتی مہمان کو خدمت کے بغیر نہیں آنے دیتے تھے.اگر مرکز سے جماعتی مہمان آتے اور کوئی دوسرے احمدی دوست اُن کو اپنا مہمان بنا لیتے تو مہمان کو اپنے ساتھ لے جانے پر اصرار کرتے.چالیس پچاس افراد جماعت کے پروگرام کا گھر پر انتظام کرتے تھے.گھر پر ہی اُن کے کھانے کا انتظام بھی کرتے.خود مہمان نوازی کرتے.جماعتی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے.اس وقت بھی وہ نائب قائد حلقہ سیٹلائٹ ٹاؤن، سیکرٹری وقف جدید اور سیکرٹری تحریک جدید کے علاوہ حلقہ کے سکیورٹی اور اصلاحی کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پارہے تھے.شہید اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے.2007ء میں نظام وصیت میں شامل ہوئے.شہادت سے ایک ہفتہ قبل شہید مرحوم کے والد صاحب نے خواب میں دیکھا کہ لوگوں کا ہجوم ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کسی کی شادی ہے اور اپنے ہاتھ سے بارات کو روانہ کر رہا ہوں.یہ ان کے والد صاحب کہتے ہیں.اسی طرح آپ کی اہلیہ نے خواب میں دیکھا کہ میں جا رہی ہوں اور میرے بچے اور دیورانی میرے ہمراہ ہیں.راستے میں ایک کالا کتا حملہ کرتا ہے.میں اپنی دیورانی کے پیچھے چھپ جاتی ہوں اور کہتی ہوں کہ دعا کریں لیکن وہ کالا کتا میری شہ رگ سے پکڑ لیتا ہے.شہید مرحوم نے پسماندگان میں والد مکرم نواب خان صاحب کے علاوہ اہلیہ محترمہ شبانہ منظور صاحبہ اور دو بیٹیاں عزیزہ نعمانہ منظور واقفہ نو بعمر دس سال اور عزیزہ فائزہ منظور بعمر آٹھ سال اور بیٹا تو حید احمد
خطبات مسرور جلد دہم 717 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 نومبر 2012ء وقف نوعمر چھ سال اور ایک بھائی مسعود احمد صاحب اور ہمشیرگان یادگار چھوڑے ہیں.شہید مرحوم کی والدہ وفات پاچکی ہیں، دوسری والدہ ان کی حیات ہیں.بہر حال ان دونوں مرحومین کے جن کا میں نے ذکر کیا ہے، شہید کا اور ان (حافظ جبرائیل سعید صاحب) کا جنازہ غائب میں ابھی جمعہ کی نمازوں کے بعد پڑھاؤں گا.آجکل پاکستان کے لئے عمومی طور پر بھی دعائیں کریں.یہ شہداء احمدی شہداء تو اپنے عہدوں اور وفاؤں کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ جلد وہ وقت لائے جب احمدیوں کے لئے وہاں سہولتیں پیدا ہوں اور سکھ کے سانس لے سکیں.آج سے اب محرم بھی شروع ہے اور محرم میں احمدیوں کے لئے تو پہلے سے بڑھ کر کر بلائیں بنانے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ خود بھی ایک دوسرے کو یقتل و غارت کرتے ہیں بجائے اس کے کہ اُس سے سبق سیکھیں.آپس میں مسلمان مسلمان کی گردنیں کاٹ رہا ہے.ان کے لئے بھی دعا کریں اور ان دنوں میں ، اس محرم کے مہینہ میں بھی خاص طور پر درود اور صدقات کی طرف بہت زیادہ توجہ دیں.امتِ مسلمہ کے لئے آجکل جو سخت حالات ہو رہے ہیں اُس کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی سچائی کا راستہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ یہ لوگ ان مشکلات اور ان عذابوں سے نجات حاصل کر سکیں.اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں جس کے ذریعے سے کہا جا سکے کہ مسلم امہ کے لئے کوئی بچاؤ کا رستہ ہے سوائے اس کے کہ زمانے کے امام کو یہ ماننے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ان کو تو فیق عطا فرمائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 7 تا 13 دسمبر 2012 جلد 19 شماره 49 صفحه 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد دہم 718 47 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2012ء اللہتعالیٰ خطبه جمع سیدنا امیرالمومنین حضرت مرز اسر وراحمد خلیفة اسم الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2012 ء بمطابق 23 رنبوت 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج کل ہم جس اسلامی مہینہ سے گزر رہے ہیں اس مہینہ کا نام محرم الحرام ہے.یہ ماہ اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے.عام طور پر جب سال کا پہلا مہینہ آتا ہے، نیا سال شروع ہوتا ہے تو ہم ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں.محرم بعض جگہوں پر جمعہ کو شروع ہوا ہے یا پھر جمعرات کو شروع ہوا ہے.بہر حال جب میں گزشتہ جمعہ پر آنے لگا تو ایک صاحب باہر کھڑے تھے ، انہوں نے مبارکباد دی.لیکن مبارکباد کس چیز کی؟ کیونکہ اُسی دن عراق میں دھماکے ہوئے شیعوں پر حملے کئے گئے اور درجنوں شہید کر دیئے گئے.سو ہم نئے سال کے شروع میں عموماً ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں لیکن جب قمری سال کا یہ مہینہ شروع ہوتا ہے تو مسلمان شرفاء کی اکثریت جن کو امت کا درد ہے، اس مہینہ کے آنے پر فکر اور خوف کا اظہار شروع کر دیتی ہے.یہ کیوں ہے؟ جیسا کہ میں نے بتایا کہ دھما کے ہوتے ہیں قتل و غارت ہوتی ہے.سب جانتے ہیں کہ یہ اس لئے ہے کہ ان دنوں میں باوجود حکومتوں کے اعلانوں کے، باوجود مختلف فرقوں کے علماء کے مشترکہ بیانات کے، اعلانات کے یا تو شیعہ سنی فساد شروع ہو جاتے ہیں یا کہیں نہ کہیں کسی تعزیہ پر یا امام باڑے پر دوسرے فرقوں کی طرف سے یا شرارتی عصر کی طرف سے حملہ ہو جاتا ہے اور اب تو مفاد پرست اور دہشتگرد دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر شیعوں کی مجالس یا مجمع پر حملہ کر کے درجنوں معصوموں کی جان لے لیتے ہیں.ان میں سے ایسے بھی ہیں جن کے مذہبی مقاصد نہیں ہیں یا مذہبی اختلاف نہیں ہے بلکہ سیاسی مقاصد ہوتے ہیں، حکومتوں کو نا کام کرنا چاہتے ہیں.عام طور پر دس محرم کو زیادہ خطرے کا دن ہوتا ہے جو مغربی ممالک میں تو کل ہے.یہاں تو کوئی ایسا خطرہ نہیں لیکن مشرقی ممالک میں
خطبات مسرور جلد دہم 719 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2012ء آج ہے شاید پاکستان میں اور کچھ اور ملکوں میں بھی ہو.اس دن ظلموں کی بعض دفعہ انتہا کر دی جاتی ہے بلکہ اس دفعہ تو شیعوں کے مختلف اکٹھ پر یہ حملے شروع ہو چکے ہیں جیسا کہ میں نے بتایا کہ پہلی تاریخ کو ہی عراق میں شیعوں پر حملہ کیا گیا.پاکستان میں راولپنڈی، کراچی، کوئٹہ سوات میں یہ حملے کئے گئے.کل اخبار میں تھا کہ دھماکے ہوئے اور کئی جانیں ضائع ہوئیں.بلکہ راولپنڈی میں تو پرسوں بھی حملے ہوئے اور کل بھی ہوئے.کل بھی ان حملوں کی وجہ سے جو شیعوں پر کئے گئے تئیس لوگ موت کے منہ میں چلے گئے.شیعوں کو موقع ملتا ہے تو وہ اس طرح بدلہ لیتے ہیں.اُمتِ مسلمہ کی اب عجیب قابل رحم حالت ہے.یہی مذہبی اختلافات یا کسی بھی قسم کے اختلافات ہیں جو مسلمانوں یا مسلمان حکومتوں میں بھی ایک دوسرے میں خلیج پیدا کرتے چلے جارہے ہیں.یا بعض ملک ایسے ہیں جن میں ملک کے اندر ہی اقلیتی فرقے کی حکومت ہے تو اکثریتی فرقہ شدید رد عمل دکھا رہا ہے جو گولہ بارود کے استعمال پر منتج ہے.اقلیتی فرقے کو موقع ملتا ہے تو وہ اکثریت پر حملہ کر دیتا ہے اور اسی بنیاد پر دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر یا باغیوں کو کچلنے کے نام پر حکومت بھی معصوم جانیں ضائع کر رہی ہے.بلا سوچے سمجھے بمباری ہورہی ہے، فائرنگ ہو رہی ہے، گھروں کو تباہ و برباد کیا جا رہا ہے.اپنے ہی ملک کے ہزاروں مردوں عورتوں کو موت کے منہ میں اتار دیا جاتا ہے.شام میں آجکل یہی کچھ ہو رہا ہے.یہی وجہ ہے کہ اسلام مخالف قوتوں کو اپنی من مانی کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی.فلسطینیوں پر اسرائیل کا حملہ مسلمانوں کے اس اختلاف اور ایک نہ ہونے کی وجہ سے ہے.کوئی اسلامی ملک نہیں ہے جہاں مذہبی اختلاف یا سیاسی اختلاف کی بنا پر تمام اخلاقی قدروں کو پامال نہ کیا جا رہا ہو.یا جہاں ایک دوسرے کے خلاف ظلم کی بھیانک داستانیں رقم نہ کی جارہی ہوں.نتیجہ کسی نہ کسی صورت میں ایک دوسرے کی طرف سے ظلم ہوتا ہوا تو ہمیں نظر آ ہی رہا ہے، بیرونی اسلامی قوتیں بھی اس کے نتیجہ میں اپنے دائرے اسلامی ممالک پر تنگ کرتی چلی جارہی ہیں.کاش کہ مسلمانوں کو عقل آجائے اور یہ ایک ہو جائیں.اپنے اسلاف سے کچھ سبق سیکھیں، تاریخ ہمیں ان کے متعلق کیا کہتی ہے.جب ایک اسلام مخالف بڑی طاقت نے ، روم کی حکومت نے حضرت علی اور حضرت معاویہؓ کے اختلاف کی وجہ سے اسلامی طاقت کو کمزور سمجھتے ہوئے اپنی ساکھ بحال کرنے کے لئے حملہ کرنا چاہا تو حضرت معاویہ کے علم میں جب بات آئی تو اُس بادشاہ کو یہ پیغام بھیجا کہ ہمارے آپس کے اختلافات سے فائدہ اُٹھا کر مسلمانوں پر حملہ کرنے کی کوشش نہ کرنا.اگر حملہ کیا تو میں حضرت علی کی طرف سے پہلا جرنیل ہوں گا جو تمہارے خلاف لڑے گا.(ماخوذ از البداية والنهاية از حافظ ابن کثیر جلد 8 صفحه 126 سنة 60ه وهذه ترجمة معاوية رضى الله عنه وذكر شيء من ايامه و دولته وما ورد فی مناقبه وفضائله دار الكتب العلميه بيروت 2001ء) رض
خطبات مسرور جلد دہم 720 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2012ء تو یہ رد عمل تھا اُن صحابہ کا جن کی طرف ہم اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں.اور آج یہ لوگ مخالفین کے ساتھ مل کر اسلامی حکومتوں کے خلاف منصوبہ بندی کرتے ہیں اور پھر مسلمان بھی ہیں.ہاں ایک بات پر ان علماء کا یا نام نہاد علماء کا یا اُس طبقہ کا جو شر پھیلانے والا ہے، اتفاق ہوتا ہے اور وہ مسیح محمدی کی قائم کردہ جماعت کے خلاف منصوبہ بندی یا احمدیوں کو جو لا إِلهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ پر دل و جان سے ایمان اور یقین رکھتے ہیں، زبردستی دائرہ اسلام سے خارج کرنا ہے.ان لوگوں کو ذرا بھی یہ خوف نہیں کہ جس نبی کا کلمہ یہ پڑھتے ہیں یا دعوی کرتے ہیں، جس کے لئے جان و آبرو قربان کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اُس کے اس ارشاد پر بھی ذرا غور کریں.اس کی ذرہ بھی پرواہ نہیں کرتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا تھا.یہ ایک اصولی حکم ہے اور صرف ایک صحابی کے لئے نہیں تھا کہ کیا تم نے لوگوں کے دل چیر کے دیکھتے ہیں کہ یہ دل سے کلمہ پڑھتے ہیں یا اوپر سے اور کسی خوف کی وجہ سے؟ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریک فضل الکافر بعد قوله لا اله الا الله حدیث : 278) کاش کہ یہ لوگ سمجھ جائیں.علماء کہلانے والے اپنے نام نہاد علم کے دعوی کے خول سے باہر آئیں.عوام الناس کو گمراہ کرنے کے بجائے انہیں انصاف اور حق بتانے کی کوشش کریں اور اُس جری اللہ کے ساتھ منسلک ہو کر تمام فرقہ بندیوں کا خاتمہ کر کے ظلم و تعدی کو ختم کریں.اور مذہبی جنگوں کے تصور کو ختم کر کے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو مسیح الزمان کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق پھیلا کر دشمن کی طاقت کو ختم کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے والے بن جائیں.محترم کے حوالے سے میں نے بات شروع کی تھی تو اس وقت میں اُس مسیح الزمان اور مہدی دوراں کے چند حوالے آپ کے سامنے پیش کروں گا تا کہ لاکھوں کی تعداد میں اُن احمدیوں کے سامنے یہ بات آ جائے ، وہ احمدی بھی سن لیں جو نئے شامل ہونے والے ہیں اور وہ بھی جو نو جوان ہیں اور علم نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کس طرح بزرگوں کی عزت کو قائم کیا، کس طرح صحابہ کے مقام کو پہچانا، کس طرح شیعہ سنی کے فرق کو مٹایا اور کس طرح اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق تمام مسلمانوں کو جو روئے زمین پر بستے ہیں ایک ہاتھ پر جمع کر کے اُمتِ واحدہ بنانے کے طریق سکھائے.اسی طرح غیر از جماعت جو بعض دفعہ ہمارے خطبات سنتے ہیں، باتیں سنتے ہیں ، اُن کو بھی پتہ چلے کہ اس زمانہ میں رُحَمَاءُ بَيْنَهُم کی حقیقی تصویر بننے کے لئے سچی تعلیم کیا ہے.کچھ غور کریں کہ کب تک مسلمانوں کی کمزور حالت کا رونارو کر ، صرف ظاہری جلسے جلوس کر کے یا پھر دہشت گردی کر کے اپنے آپ کو اسلام کی خدمت کا فرض
خطبات مسرور جلد دہم 721 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2012ء اور حق ادا کرنے والا سمجھتے رہیں گے.کب تک دشمن کو اپنی بے نتیجہ اور ظالمانہ کارروائیاں کر کے اسلام پر حملے کرنے کے مواقع فراہم کرتے رہیں گے.پس چاہے مسلمان ممالک کی بدامنی اور بے سکونی اپنے ملکوں میں ایک دوسرے پر ظلم کی وجہ سے ہو یا اسلام دشمن طاقتوں کے مسلمانوں پر ظلم کرنے کی وجہ سے ہو، اس کا حل اور قیام امن کا علاج اور مسلمانوں کے رعب کو دوبارہ قائم کرنے کی طاقت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہوئے اُس فرستادہ کے پاس ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق صادق اور آپ کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کے مشن کے لئے مقرر کیا گیا ہے.جیسا کہ میں نے کہا آپ کے چند اقتباسات آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو تمام صحابہ کے مقام پر روشنی ڈالتے ہیں.اس وقت مسلمانوں نے اگر اپنی اکائی منوانی ہے، اپنی ساخت کو قائم کرنا ہے، اسلام کو غیروں کے حملوں سے بچانا ہے، دنیا کو اسلام کا پیغام پہنچا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانا ہے تو پھر شیعہ سنی کے فرق کو مٹانا ہو گا.آپس کے، فرقوں کے گروہ بندیوں کے فرق کو مٹانا ہوگا.اُس اسلام کی تعلیم پر عمل کرنا ہو گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے جس میں کوئی فرقہ نہیں تھا.جس میں ہر صحابی قربانی کی ایک مثال تھا.نیکی اور تقویٰ کا نمونہ تھا.ایسا ستارہ تھا جس سے روشنی اور رہنمائی ملتی تھی.لیکن بعض کا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک دوسروں سے بلند بھی تھا.حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقام کو اللہ تعالیٰ نے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بلندی دی ہے وہ کسی دوسرے کو نہیں مل سکتی.اسی طرح حضرت عمر" کا مقام ہے.حضرت عثمان کا اور حضرت علی کا مقام ہے.حضرت امام حسین اور حسن کا مقام ہے.یہ درجہ بدرجہ اسی طرح آتا ہے.پس حفظ مراتب کے لحاظ سے صحابہ کے مقام کو دیکھنے کی ضرورت ہے.اگر یہ ہوگا تو ہر قسم کے فسادمٹ جائیں گے اور یہ سب فرق مٹانے کے لئے آخرین میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے اور ہر صحابی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قرابت دار کا مقام ہمیں بتا کر اُن کی عزت و تکریم قائم فرمائی.سر الخلافہ میں ایک جگہ فرماتے ہیں.یہ عربی میں ہے.اس کا ترجمہ اردو میں یہ ہے کہ: مجھے علم دیا گیا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام صحابہ میں بلند ترین شان اور اعلیٰ مقام رکھتے تھے اور بلاشبہ پہلے خلیفہ تھے اور آپ کے بارہ میں خلافت کی آیات نازل ہوئیں.سر الخلافۃ.روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 337)
خطبات مسرور جلد دہم 722 پھر سر الخلافہ کا ہی حوالہ ہے.اس کا اردو تر جمہ یہ ہے کہ : خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2012ء بخدا آپ اسلام کے آدم ثانی اور خیر الانام کے مظہر اول تھے اور گو آپ نبی تو نہ تھے مگر آپ میں نبیوں اور رسولوں کی قوتیں موجود تھیں“.(سر الخلافۃ.روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 336 ) پھر سرالخلافہ میں ہی آپ فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابہ میں سے سب سے زیادہ بہادر اور متقی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ پیارے ہیں اور فتمند جرنیل ہیں اور سید الکائنات کی محبت میں فنا اور شروع سے ہی آپ کے غمگسار اور آپ کے کاموں میں آپ کے مددگار.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو تنگی کے زمانے میں ان کے ذریعہ تسلی دی اور انہیں صدیق کے نام سے مخصوص کیا گیا.وہ نبی دو جہان کے مقرب بنے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں ثانِيَ اثْنَيْنِ کی خلعت سے نوازا اور اپنے خاص بندوں میں شامل کیا.(سر الخلافہ.روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 339) پھر ایک جگہ آپ ملفوظات میں فرماتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں خلیفہ اول نے جو بڑے ملكُ التَّجار تھے مسلمان ہو کر لانظیر مد کی اور آپ کو یہ مرتبہ ملا کہ صدیق کہلائے اور پہلے رفیق اور خلیفہ اول ہوئے.لکھا ہے کہ جب آپ تجارت سے واپس آئے تھے اور ابھی مکہ میں نہ پہنچے تھے کہ راستہ میں ہی ایک شخص ملا.اس سے پوچھا کہ کوئی تازہ خبر سناؤ.اس نے کہا کہ اور تو کوئی تازہ خبر نہیں.ہاں یہ بات ضرور ہے کہ تمہارے دوست نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے.ابوبکر نے وہیں کھڑے ہو کر کہا کہ اگر اُس نے یہ دعویٰ کیا ہے تو سچا ہے.( ملفوظات جلد 1 صفحہ 365 ایڈ یشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ فرماتے ہیں: ”حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا سارا مال و متاع خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیا اور آپ کمبل پہن لیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس پر انہیں کیا دیا.تمام عرب کا انہیں بادشاہ بنادیا اور اُسی کے ہاتھ سے اسلام کو نئے سرے زندہ کیا اور مرتد عرب کو پھر فتح کر کے دکھا دیا.اور وہ کچھ دیا جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا“.پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ : ”حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا درجہ جانتے ہو کہ صحابہ میں کس قدر بڑا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات اُن کی رائے کے موافق قرآن شریف نازل ہو جایا کرتا تھا اور اُن کے حق میں یہ حدیث ہے کہ شیطان عمر کے سایہ سے بھاگتا ہے.( ملفوظات جلد 3 صفحہ 286 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد دہم 723 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2012ء دوسری یہ حدیث ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا.تیسری یہ حدیث ہے کہ پہلی اُمتوں میں محدث ہوتے رہے ہیں اگر اس امت میں کوئی محدث ہے تو وہ عمر ہے.66 (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 219) پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : عمر رضی اللہ عنہ کو بھی الہام ہوتا تھا.انہوں نے اپنے تئیں کچھ چیز نہ سمجھا ( الہام ہوتا تھا کہ میں کچھ بن گیا ہوں تو پھر بھی اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھا اور امامت حقہ جو آسمان کے خدا نے زمین پر قائم کی تھی، اُس کا شریک بننا نہ چاہا (یعنی کہ جو مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومل گیا تھا، یہ نہیں کہ الہام ہو گیا تو اُن کا شریک بننے لگ گئے بلکہ ادنی چاکر اور غلام اپنے تئیں قرار دیا.اس لئے خدا کے فضل نے اُن کو نائب امامت حقہ بنادیا“.( یعنی خلافت کی خلعت سے نوازا.) ( ضرورۃ الامام.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 473-474) پھر حجۃ اللہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرماتے ہیں.عربی کا ترجمہ یہ ہے کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمسایہ میں دو ایسے آدمی دفن کئے گئے ہیں جو نیک تھے ، پاک تھے، مقرب تھے، طیب تھے اور خدا نے اُن کو زندگی میں اور بعد مرگ اپنے رسول کے رفقاء ٹھہرایا.( یعنی وفات کے بعد بھی ساتھ ہی ، قریب ہی دفن ہوئے ) پس رفاقت یہی رفاقت ہے جو اخیر تک نبھی اور اس کی نظیر کم پاؤ گے.پس اُن کو مبارک ہو جو انہوں نے اس (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ زندگی بسر کی اور اس (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے شہر میں اور اس (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جگہ خلیفے مقرر کئے گئے اور اس (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کنار روضہ میں دفن کئے گئے اور اس (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مزار کے بہشت سے نزدیک کئے گئے اور قیامت کو اس ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ اُٹھیں گے.(حجۃ اللہ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 183) پھر مستر الخلافہ“ کا ایک حوالہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اس کا ترجمہ یہ ہے کہ : ” میرے رب نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نیک اور ایمان والے تھے اور اُن لوگوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا اورا اپنی عنایات کے لئے مخصوص کر لیا.خدا کی قسم اُس نے ابوبکر ، عمر اور عثمان ذوالنورین کو اسلام کے دروازے اور خدائی فوج کے ہراول دستے بنا دیا ہے.66 ( سر الخلافۃ.روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 326-327)
خطبات مسر در جلد دہم 724 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2012ء پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” آپ بڑے متقی اور پاک صاف تھے اور اُن لوگوں میں سے تھے جو خدائے رحمان کے سب سے پیارے اور اچھے خاندان والے تھے اور زمانے کے سرداروں میں سے تھے.غالب خدا کے شیر اور مہر بان خدا کے نوجوان تھے.بہت سخی اور صاف دل تھے.آپ وہ منفرد بہادر تھے جو میدانِ حرب میں اپنی جگہ سے نہیں ہٹتے تھے خواہ آپ کے مقابل دشمنوں کی ایک فوج ہی کیوں نہ ہوتی.آپ نے کسمپرسی کی زندگی بسر کی اور پر ہیز گاری میں اعلیٰ مقام حاصل کیا.آپ مال و دولت عطا کرنے والے، ہم و غم دور کرنے والے اور یتیموں ،مسکینوں اور پڑوسیوں کی دیکھ بھال کرنے والے پہلے شخص تھے اور مختلف معرکوں میں آپ سے بہادری کے کارنامے ظاہر ہوتے تھے.(یہ نہیں کہ صرف یہی پہلے شخص تھے مطلب یہ کہ اُن کا بہت اچھا بڑا مقام تھا) مختلف معرکوں میں آپ سے بہادری کے کارنامے ظاہر ہوتے تھے اور آپ تلوار اور نیزہ کی جنگ میں عجائب باتوں کے مظہر تھے اور اس کے ساتھ ہی آپ شیریں بیان اور فصیح اللسان تھے.یعنی تقریر میں ایسی فصاحت و بلاغت تھی کہ جس کی کوئی مثال عام آدمیوں میں نہیں ).اور آپ کا کلام دلوں کی تہ تک اتر جاتا تھا.آپ اپنے کلام کے ذریعہ سے ذہنوں کے زنگ دور کرتے اور اُسے دلیل کے نور سے منور کر دیتے تھے.آپ ہر قسم کے اسلوب سے واقف تھے اور جو کوئی کسی معاملے میں صاحب فضیلت ہوتا تھا وہ بھی آپ کی طرف مغلوب کی طرح معذرت کرتا ہوا آتا تھا.آپ ہر خوبی اور فصاحت و بلاغت کے طریقوں میں کامل تھے اور جس نے آپ کے کمال کا انکار کیا تو وہ گویا بے حیائی کے رستے پر چل پڑا.آپ مجبور کی ہمدردی پر ترغیب دلاتے تھے اور ہر قناعت کرنے والے اور پیچھے پڑ کر مانگنے والے کو کھانا کھلانے کا حکم دیتے تھے.( یعنی قناعت کرنے والے کا خیال بھی رکھتے تھے ، جو نہیں بھی مانگنے والا اور جو مانگنے والا ہے چاہے وہ ضدی مانگنے والا ہی ہو اُس کا خیال بھی رکھتے تھے.) آپ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں میں سے تھے.اسی طرح آپ کا سہ فرقان سے دودھ پینے میں سبقت لے جانے والوں میں سے تھے.آپ کو قرآن کریم کے دقیق نکات کی معرفت کا عجیب فہم حاصل ہوا تھا“.( جو قرآن کریم ہے، اُس کا جو علم ہے وہ علم کا ایک روحانی دودھ ہے، اُس میں آپ بہت بڑا فہم وادراک رکھنے والے تھے).( سر الخلافہ.روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 359-358) پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جب مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت ہوئی ہے تو اُس وقت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت علی کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
خطبات مسرور جلد دہم 725 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2012ء تب ایک جانی عزیز جس کا وجود محبت اور ایمان سے خمیر کیا گیا تھا، جانبازی کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر باشارہ نبوی اس غرض سے منہ چھپا کر لیٹ رہا کہ تا مخالفوں کے جاسوس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکل جانے کی کچھ تفتیش نہ کریں اور اُسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ کر قتل کرنے کے لئے 66 ٹھہرے رہیں.“ فارسی میں آپ فرماتے ہیں کہ دوکس بہر کسے سرند بر جان نفشاند عشق است که این کار بصد صدق کناند سرمه چشم آرید.روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 65 حاشیہ) یعنی کوئی کسی کے لئے سر نہیں کٹوا تا، نہ جان دیتا ہے.یہ عشق ہی ہے جو یہ کام بہت شوق اور خلوص سے کرواتا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت علی اور حضرت حسین سے اپنی مشابہت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ” مجھے علی اور حسین سے ایک لطیف مشابہت ہے اور اس بھید کو مشرق اور مغرب کے ربّ کے سوا کوئی نہیں جانتا.اور یقیناً میں علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کے دونوں بیٹوں سے محبت رکھتا ہوں اور اُس سے دشمنی کرتا ہوں جو ان دونوں سے دشمنی رکھتا ہے.“ (سر الخلافہ.روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 359) پھر آپ حضرت حسن اور حضرت حسین کے بارے میں کہ دونوں کے اپنے اپنے کارنامے تھے، کام تھے اور اپنا ایک مقام تھا ، اُن کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : حضرت حسنؓ نے میری دانست میں بہت اچھا کام کیا کہ خلافت سے الگ ہو گئے.پہلے ہی ہزاروں خون ہو چکے تھے.انہوں نے پسند نہ کیا کہ اور خون ہوں اس لیے معاویہ سے گزارہ لےلیا.چونکہ حضرت حسن کے اس فعل سے شیعہ پر زد ہوتی ہے اس لیے امام حسن پر پورے راضی نہیں ہوئے“.(اگر شیعہ حضرت علی کی اولا دہی کے بارے میں کہتے ہیں تو حضرت حسن کے بارے میں اتنا زیادہ غلو سے کام نہیں لیا جاتا جتنا حضرت حسین کے بارے میں لیا جاتا ہے.اسی لئے فرمایا کہ اُس سے خوش نہیں ہوئے ) فرمایا ” ہم تو دونوں کے ثنا خواں ہیں“.( ہم تو دونوں کی تعریف کرتے ہیں ) اصلی بات یہ ہے کہ ہر شخص کے جدا جدا قومی معلوم ہوتے ہیں.حضرت امام حسن نے پسند نہ کیا کہ مسلمانوں میں خانہ جنگی بڑھے اور خون ہوں.انہوں نے امن پسندی کو مد نظر رکھا اور حضرت امام حسین نے پسند نہ کیا کہ فاسق فاجر کے ہاتھ
خطبات مسرور جلد دہم 726 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2012ء پر بیعت کروں کیونکہ اس سے دین میں خرابی ہوتی ہے.دونو کی نیت نیک تھی.انما الاعمال بالنیات.یہ الگ امر ہے کہ یزید کے ہاتھ سے بھی اسلامی ترقی ہوئی.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے.وہ چاہے تو فاسق کے ہاتھ سے بھی ترقی ہو جاتی ہے.یزید کا بیٹانیک بخت تھا“.( یعنی نیک آدمی تھا.) ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 579-580 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) پھر ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ انبیاء علیہم السلام اور ایسا ہی اور جو خدا تعالیٰ کے راستباز اور صادق بندے ہوتے ہیں وہ دنیا میں ایک نمونہ ہو کر آتے ہیں.جو شخص اس نمونہ کے موافق چلنے کی کوشش نہیں کرتا لیکن اُن کو سجدہ کرنے اور حاجت روا ماننے کو تیار ہو جاتا ہے.( یعنی غلو سے کام لیتا ہے.اُن کا نمونہ تو نہیں اپنا تا ہے لیکن مبالغہ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ اُن کو سجدہ کرنے لگ جائے اور اپنی حاجتیں پوری کرنے والا سمجھ لے ) وہ بھی خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل قدر نہیں ہے بلکہ وہ دیکھ لے گا کہ مرنے کے بعد وہ امام اُس سے بیزار ہو گا.ایسا ہی جو لوگ حضرت علی یا حضرت امام حسین کے درجہ کو بہت بڑھاتے ہیں گویا اُن کی پرستش کرتے ہیں وہ امام حسین کے متبعین میں نہیں ہیں اور اس سے امام حسین خوش نہیں ہو سکتے.انبیاء علیہم السلام ہمیشہ پیروی اور کے لیے نمونہ ہو کر آتے ہیں اور سچ یہ ہے کہ بڑوں پیروی کچھ بھی نہیں.“ 66 ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 535 ایڈ یشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) یعنی اصل چیز یہ ہے کہ ان نیک لوگوں کے اور خاص طور پر انبیاء کے طریق پر چلا جائے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام احمدیوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کیونکہ کسی احمدی نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں کوئی بات کی تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علم میں آئی ، اس پر آپ سخت ناراض ہوئے اور احمدیوں کو فرمایا کہ: واضح ہو کہ کسی شخص کے ایک کارڈ کے ذریعہ سے مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض نادان آدمی جو اپنے تئیں میری جماعت کی طرف منسوب کرتے ہیں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت یہ کلمات منہ پر لاتے ہیں کہ نعوذ باللہ حسین بوجہ اس کے کہ اُس نے خلیفہ وقت یعنی یزید سے بیعت نہیں کی، باغی تھا اور یزید حق پر تھا.لَعْنَتُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبین.فرمایا : ” مجھے امید نہیں کہ میری جماعت کے کسی راستباز کے منہ سے ایسے خبیث الفاظ نکلے ہوں.مگر ساتھ اس کے مجھے یہ بھی دل میں خیال گزرتا ہے کہ چونکہ اکثر شیعہ نے اپنے ورد تبرے اور لعن وطعن میں مجھے بھی شریک کر لیا ہے (یعنی مجھے گالیاں نکالتے رہتے ہیں) اس لئے کچھ تعجب
خطبات مسرور جلد دہم 727 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2012ء نہیں کہ کسی نادان بے تمیز نے سفیہا نہ بات کے جواب میں سفیہا نہ بات کہہ دی ہو.جیسا کہ بعض جاہل مسلمان کسی عیسائی کی بدزبانی کے مقابل پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کرتا ہے، حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت کچھ سخت الفاظ کہہ دیتے ہیں.بہر حال میں اس اشتہار کے ذریعہ سے اپنی جماعت کو اطلاع دیتا ہوں کہ ہم اعتقادر کھتے ہیں کہ یزید ایک نا پاک طبع ، دنیا کا کیڑا اور ظالم تھا.اور جن معنوں کی رُو سے کسی کو مومن کہا جاتا ہے ، وہ معنی اُس میں موجود نہ تھے.مومن بنا کوئی امر سہل نہیں ہے.اللہ تعالیٰ ایسے شخصوں کی نسبت فرماتا ہے.قالَتِ الْأَعْرَابُ امَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا (الحجرات :15) مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اُس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں اور تقویٰ کی باریک اور تنگ راہوں کو خدا کے لئے اختیار کرتے اور اُس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں اور ہر ایک چیز جو بت کی طرح خدا سے روکتی ہے خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمالِ فاسقانہ ہوں یا غفلت اور کسل ہو ، سب سے اپنے تئیں دور تر لے جاتے ہیں.لیکن بدنصیب یزید کو یہ باتیں کہاں حاصل تھیں.دنیا کی محبت نے اُس کو اندھا کر دیا تھا.مگر حسین رضی اللہ عنہ ظاہر مطہر تھا اور بلا شبہ وہ اُن برگزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلاشبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اُس سے موجب سلب ایمان ہے اور اس امام کی تقوی اور محبت الہی اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہے.اور ہم اُس معصوم کی ہدایت کے اقتدا کرنے والے ہیں جو اُس کو ملی تھی.تباہ ہو گیا وہ دل جو اُس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اُس کی محبت ظاہر کرتا ہے.اور اُس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش.یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں.کون جانتا ہے اُن کا قدر مگر وہی جو اُن میں سے ہیں.(اس) دنیا کی آنکھ اُن کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دُور ہیں.یہی وجہ حسین کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا.دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اُس کے زمانہ میں محبت کی تا حسین سے بھی محبت کی جاتی.غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے.اور جو شخص حسین یا کسی اور بزرگ کی جو آئمہ مطہرین میں سے ہے، تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا اُس کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے.کیونکہ اللہ جل شانہ اُس شخص کا دشمن ہو جاتا ہے جو اُس کے برگزیدوں اور
خطبات مسرور جلد دہم 728 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2012ء پیاروں کا دشمن ہے.جو شخص مجھے برا کہتا ہے یا لعن طعن کرتا ہے اس کے عوض میں کسی برگزیدہ اور محبوب الہی کی نسبت شوخی کا لفظ زبان پر لانا سخت معصیت ہے.ایسے موقع پر درگزر کرنا اور نادان دشمن کے حق میں دعا کرنا بہتر ہے کیونکہ اگر وہ لوگ مجھے جانتے کہ میں کس کی طرف سے ہوں تو ہرگز برا نہ کہتے“.( مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 544 تا 546 اشتہار نمبر 263 مطبوعہ الشركة الاسلامیة ربوہ) پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ” خدا کے پیاروں اور مقبولوں کے لئے روحانی آل کا لقب نہایت موزوں ہے.“ ( درود شریف میں پڑھتے ہیں ناں الِ مُحَمَّدٍ.فرمایا کہ روحانی آل کا جو لفظ ہے خدا کے پیاروں اور مقبولوں کے لئے ہے اور وہ اپنے روحانی آل یا اہل بیت کا یعنی حضرت امام حسن حسین کا ذکر کر رہے ہیں کہ ) اور وہ روحانی آل اپنے روحانی نانا سے وہ روحانی وراثت پاتے ہیں جس کو کسی غاصب کا ہاتھ غصب نہیں کر سکتا اور وہ اُن باغوں کے وارث ٹھہرتے ہیں جن پر کوئی دوسرا قبضہ ناجائز کر ہی نہیں سکتا.پس یہ سفلی خیال بعض اسلامی فرقوں میں اُس وقت آگئے ہیں جبکہ اُن کی روح مردہ ہوگئی اور اُس کو روحانی طور پر آل ہونے کا کچھ بھی حصہ نہ ملا.اس لئے روحانی مال سے لاوارث ہونے کی وجہ سے اُن کی عقلیں موٹی ہوگئیں اور اُن کے دل مکد راور کوئہ بین ہو گئے.اس میں کس ایماندار کو کلام ہے کہ حضرت امام حسین اور امام حسن رضی اللہ عنہما خدا کے برگزیدہ اور صاحب کمال اور صاحب عفت اور عصمت اور ائمہ الہدیٰ تھے ( یعنی ہدایت کے امام تھے ) ” اور وہ بلا شبہ دونوں معنوں کے رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آل تھے.سو اہلِ معرفت اور حقیقت کا یہ مذہب ہے کہ اگر حضرت امام حسین اور امام حسن رضی اللہ عنہما آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سفلی رشتہ کے لحاظ سے آل بھی نہ ہوتے تب بھی بوجہ اس کے کہ وہ روحانی رشتہ کے لحاظ سے آسمان پر آل ٹھہر گئے تھے وہ بلا شبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی مال کے وارث ہوتے.جبکہ فانی جسم کا ایک رشتہ ہوتا ہے تو کیا روح کا کوئی بھی رشتہ نہیں بلکہ حدیث صحیح سے اور خود قرآن شریف سے بھی ثابت ہے کہ روحوں میں بھی رشتے ہوتے ہیں اور ازل سے دوستی اور دشمنی بھی ہوتی ہے.اب ایک عقلمند انسان سوچ سکتا ہے کہ کیا لا زوال اور ابدی طور پر آلِ رسول ہونا جائے فخر ہے یا جسمانی طور پر آل رسول ہونا جو بغیر تقویٰ اور طہارت اور ایمان کے کچھ بھی چیز نہیں.اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم اہلِ بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسر شان کرتے ہیں“.( یعنی آپ فرما ر ہے ہیں کہ روحانی آل ہونے کا مقام اُس سے بہت بڑھ کر ہے جتنا کہ جسمانی آل ہونے کا یا اولا د ہونے کا.فرمایا : ” کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسر شان کرتے ہیں بلکہ اس تحریر سے ہمارا مدعا یہ ہے کہ
خطبات مسرور جلد دہم 729 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2012ء امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما کی شان کے لائق صرف جسمانی طور پر آلِ رسول ہونا نہیں کیونکہ وہ بغیر روحانی تعلق کے بیچ ہے.(یعنی یہ اُن کی شان نہیں ہے کہ جسمانی طور پر وہ آل رسول تھے.اصل چیز روحانی تعلق ہے.پھر فرمایا) اور حقیقی تعلق اُن ہی عزیزوں کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے جو روحانی طور پر اُس کی آل میں داخل ہیں.رسولوں کے معارف اور انوار روحانی رسولوں کے لئے بجائے اولا د ہیں جو اُن کے پاک وجود سے پیدا ہوتے ہیں“.( یعنی کہ اصل چیز اُن کی تعلیم اور معارف اور اُن کا جو روحانی نور منتشر ہوتا ہے وہ ہے اور وہی اُن کے ماننے والوں میں اصل چیز ہے ) اور جولوگ اُن معارف اور انوار سے نئی زندگی حاصل کرتے ہیں اور ایک پیدائش جدید اُن انوار کے ذریعہ سے پاتے ہیں وہی ہیں جو روحانی طور پر آل محمد کہلاتے ہیں.( تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 364 تا 366 حاشیہ) پس ہر احمدی، ہر مسلمان اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر عمل کرنے والا ہے، آپ کے نور سے فیضیاب ہونے والا ہے، آپ کی حقیقی تعلیم پر عمل کرنے والا ہے تو آلِ محمد میں اُس کا شمار ہو جائے گا.پس یہ وہ حقیقی طریق ہے جس پر ہر مسلمان کے لئے چلنا ضروری ہے کہ ہر بزرگ کے مقام کو پہچان کر اُس کی عزت کریں، اُس کا احترام کریں.آپس کے جھگڑوں اور فسادوں اور قتل و غارت گری کو ختم کریں.بعید نہیں کہ یہ سب قتل و غارت گری اور فساد جو ہورہے ہیں،مسلمان مسلمان کو جو قتل کر رہا ہے اس میں اسلام مخالف طاقتوں کا ہاتھ ہو جو مسلمانوں میں گروہ بندیاں کر کے، پیسہ دے کر ، رقم خرچ کر کے فساد کروا رہے ہیں یا خود بیچ میں شامل ہو کر یہ سب کچھ کر رہے ہیں.اب جو شیعوں پر حملے ہورہے ہیں یا مسجدوں پر حملے ہورہے ہیں، ان میں اُن تنظیموں کا ہاتھ ہے جنہیں حکومت دہشتگر دکہتی ہے اور دہشتگر دوں کے بارے میں یہ بھی حکومتوں کی رپورٹیں ہیں اور پاکستان میں بھی ہیں کہ ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو بعض مسلمان ہی نہیں تھے بلکہ فساد پیدا کرنے کے لئے باہر سے آئے تھے.اللہ تعالیٰ اُمت پر رحم کرے اور ان کو ایک ہونے کی توفیق عطا فرمائے.احمدیوں کو بھی میں کہنا چاہوں گا کہ دوسرے مسلمان فرقے تو ایک دوسرے سے بدلے لیتے ہیں کہ اگر ایک نے حملہ کیا تو دوسرے نے بھی کر دیا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آ کر باوجود تمام تر ظلموں کے جو یہ تمام فرقے اکٹھے ہو کر ہم پر کر رہے ہیں، ہمارے ذہنوں میں کبھی بھی بدلے کا خیال نہیں آنا چاہئے.ہاں کسی بات کی اگر ضرورت ہے تو یہ کہ ہم میں سے ہر ایک ہر ظلم کے بعد نیکی اور تقویٰ میں ترقی کرے اور پہلے سے بڑھ کر خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر کے دعاؤں میں لگ جائے.
خطبات مسرور جلد دہم 730 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2012ء حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قربانی کا جو عملی نمونہ ہمارے سامنے قائم فرمایا ہے وہ ہمارے لئے رہنما ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ایک شعر میں جماعت کو اس طرح نصیحت فرمائی ہے کہ وہ تم کو حسین بناتے ہیں اور آپ یزیدی بنتے ہیں کیا ہی سستا سودا ہے دشمن کو تیر چلانے دو کلام محمود مع فرہنگ مجموعه منظوم کلام حضرت خلیفتہ اسیح الثانی" نظم 94 صفحہ 218) پس حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہیں، ہمیں صبر و استقامت کا سبق دے کر ہمیں جنت کے راستے دکھا دیئے.ان دنوں میں یعنی محرم کے مہینہ میں خاص طور پر جہاں اپنے لئے صبر و استقامت کی ہر احمدی دعا کرے، وہاں دشمن کے شر سے بچنے کے لئے رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِيْ وَانْصُرْنِي واز حَمنِی کی دعا بھی بہت پڑھیں.پہلے بھی بتایا تھا کہ ہمیں یہ دعا محفوظ رہنے کے لئے پڑھنے کی بہت ضرورت ہے.اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ کی دعا بھی بہت پڑھیں.درود شریف پڑھنے کے لئے میں نے گزشتہ جمعہ میں بھی کہا تھا پہلے بھی کہتا رہتا ہوں کہ اس طرف بہت توجہ دیں.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنی حفاظت میں رکھے.دشمن جو ہمارے خلاف منصوبہ بندیاں کر رہا ہے اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ اپنی خاص تائید و نصرت فرمائے اور ہم پر رحم کرتے ہوئے دشمنانِ احمدیت کے ہر شر سے ہر فردِ جماعت کو اور جماعت کو محفوظ رکھے.ان کا ہر شر اور منصوبہ جو جماعت کے خلاف یہ بناتے رہتے ہیں یا بنا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ انہی پر الٹائے.ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی آل میں شامل فرمائے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اصل مقام روحانی آل کا ہے.اگر جسمانی رشتہ بھی قائم رہے تو یہ تو ایک انعام ہے.لیکن اگر جسمانی آل تو ہولیکن روحانی آل کا مقام حاصل کرنے کی یہ جسمانی آل اولاد کوشش نہ کرے تو کبھی اُن برکات سے فیضیاب نہیں ہو سکتی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے منسلک ہونے سے اللہ تعالیٰ نے دینے کا وعدہ فرمایا ہے.پس ہمیں ہر وقت اپنے جائزے لیتے رہنے کی ضرورت ہے.جب بھی درود شریف پڑھیں اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم کس حد تک اس درود سے فیضیاب ہونے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں.کس حد تک زمانے کے امام کی بیعت میں آ کر
خطبات مسرور جلد دہم 731 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 نومبر 2012ء قرآن کریم کی حکومت اپنے سر پر قبول کرنے والے ہیں.اللہ کرے کہ بزرگوں کے مقام کے یہ ذکر اور مخالفین احمدیت کی ہم پر سختیاں اور ظلم اور بعض حکومتوں کا ہم پر ان فلموں کا حصہ بنا ہمیں پہلے سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والا ہو.ہماری قربانیاں سعید فطرت لوگوں کو احمدیت کی آغوش میں لانے والی ہوں اور ہم احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی فتوحات کے نظارے دیکھنے والے ہوں.اسرائیل جو کچھ فلسطینیوں کے ساتھ کر رہا ہے اس کا میں نے پہلے بھی ذکر کیا، اس کے لئے بھی بہت دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ معصوم جانوں کو ہر قسم کے ظلم سے بچائے.اسرائیل کے بارے میں اُن کے یہ بیان آرہے ہیں کہ ہم خوف کی حالت میں نہیں رہ سکتے اس لئے ہم نے فلسطینیوں پر حملہ کیا.خودہی پہلے حملہ کیا ، خود ہی اُن کے لوگ مارے، جب انہوں نے جواب دیا تو کہ دیا یہ ہمارے لئے خوف پیدا کر رہے ہیں.یہ عجیب دھونس ہے اور یہ عجیب طریق ہے جو دنیا والے اپنا رہے ہیں،صرف اس لئے ، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا، کہ مسلمانوں کی کوئی اکائی نہیں ہے.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ان معصوم فلسطینیوں پر بھی رحم کرے اور ان کو ہر قسم کے ظلم سے بچائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 14 تا 20 دسمبر 2012 جلد 19 شماره 50 صفحه 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد دہم 732 48 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 نومبر 2012ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 30 نومبر 2012 ء بمطابق 30 رنبوت 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن - لندن تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس وقت میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متفرق واقعات پیش کروں گا جن میں صحابہ کا آپ پر کامل یقین اور اُس کے واقعات ہیں.پھر صحابہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا جو اثر ہوا، اُن کو پڑھ کر جو اُن کے دل میں سچائی ظاہر ہوئی ،ان کے ایک دو واقعات ہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کس طرح خوابوں کے ذریعے رہنمائی فرمائی ، وہ واقعات ہیں ، ایک ایک واقعہ ہی ہے.کیونکہ واقعات لمبے ہیں اس لئے میں نے ایک دو لئے ہیں.حضرت شیخ زین العابدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہماری بھاوج بیمار ہو گئیں اور سخت بیمار ہو ئیں.ہم نے سوچا کہ اب سوائے قادیان جانے کے اور کوئی ٹھکانہ نہیں.یعنی وہیں لے چلتے ہیں وہاں حضرت خلیفہ اول ہیں ، حکمت، اُن سے علاج کرائیں گے یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے درخواست کریں گے اور ساتھ دعا.بہر حال کہتے ہیں ہم چل پڑے، والدہ بھی ساتھ تھیں اور بھائی بھی ساتھ تھا.راستے میں ہم نے ( کیونکہ ہاتھ سے لکھا گیا ہے اس لئے صحیح طرح وہاں سے پڑھا نہیں جاتا.بہر حال یہی لکھا ہے کہ لڑکی کو سمجھایا.یعنی اس بیمار عورت کو کہ حضرت صاحب کہیں گے کہ مولوی نورالدین صاحب سے تمہارا علاج کراتے ہیں مگر تم کہنا کہ میں تو حضور ہی کا علاج چاہتی ہوں ، مولوی صاحب سے ہر گز علاج نہیں کرواؤں گی.کہتے ہیں جب ہم قادیان پہنچے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہی فرمایا کہ مولوی صاحب آپ کا علاج کریں گے.مگر اُس لڑکی نے کہا کہ حضور میں تو مولوی صاحب کے علاج کرنے کیلئے تیار نہیں.حضور خود ہی علاج کریں.حضور علیہ السلام نے ایک دوائی لکھ دی اور تین بوتلیں شہد کی گھر
خطبات مسرور جلد دہم 733 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 نومبر 2012ء سے لا کر دے دیں اور فرمایا کہ میں کل لدھیانہ جارہا ہوں، آپ یہ علاج شروع کریں، بیماری خطرناک ہے اس لئے مجھے بذریعہ خط اطلاع دینا یا خود پہنچنا.کہتے ہیں ہم نے وہ نسخہ لے لیا اور حضرت مولانا نورالدین کو دکھایا.آپ نے فرمایا کہ یہ نسخہ اس بیماری والے کے لئے سخت مضر ہے.اگر میں کسی ایسے مریض کو یہ نسخہ دوں تو وہ ایک منٹ میں مرجائے گا.مگر یہ نسخہ حضور کا ہے اس لئے یہ لڑ کی ضرور صحت یاب ہو جائے گی.چنانچہ ہم نے وہ نسخہ استعمال کروایا اور لڑکی کو دو تین دن میں ہی آرام ہو گیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 11 صفحہ 70-69 روایت حضرت شیخ زین العابدین صاحب) حضرت خلیفہ اول کا بھی تو خیر یہ کامل یقین تھا ہی، اسی لئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ نورالدین جیسے مجھے مل جائیں تو انقلاب پیدا ہو جائیں.لیکن اُن دیہاتیوں کا بھی یہ ایمان تھا کہ جیسا بھی نسخہ ہے ہم نے استعمال کرنا ہے اور اسی سے شفا ہوگی اور اللہ تعالیٰ نے شفا بخشی.حضرت میاں محمد شریف صاحب کشمیری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میاں جمال الدین صاحب سیکھوانی برادر مولوی امام الدین صاحب سیکھوانی نے حضور سے عرض کیا ( حضور مسجد میں اوپر تشریف رکھتے تھے ) کہ حضور یہ ہمارا بھائی محمد شریف ہے اور ان کی طرف طاعون کی بیماری کا بہت زور ہے.یعنی اُس علاقے میں جہاں سے یہ آئے تھے.ان کے لئے دعا کریں.تو حضور علیہ السلام نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ طاعون کس طرح ہوتی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ پہلے چو ہے مرتے ہیں.فرمانے لگے کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نوٹس ہے.پھر میں نے عرض کیا کہ حضور ! جب سرخ پھوڑا نکلے تو وہ بیماریچ جاتا ہے اور زرد والا نہیں بچتا.حضور نے فرمایا کہ کیا آپ وہاں جایا کرتے ہیں؟ میں نے عرض کیا، پوچھا کیا میں جایا کروں؟ آپ نے فرمایا کہ پر ہیز ہی اچھا ہے.عام طور پر اُن کے پاس نہ جایا کرو.مگر جس کو ایمان حاصل ہے اُس کو کوئی خطرہ نہیں وہ طاعون سے نہ مرے گا.میں نے عرض کیا کہ میری بیوی طاعون سے مری ہے.حضور نے فرما یا معلوم ہوتا ہے مجھ پر اُس کا کامل ایمان نہیں تھا.اگر ایمان ہوتا تو وہ ایسی بیماری سے نہ مرتی.تو کہتے ہیں میں سمجھ گیا کہ اُس نے بیعت نہیں کی تھی.پھر حضور نے فرمایا کہ آپ استغفار پڑھا کریں.ہمارا سارا کنبہ بیماری میں مبتلا تھا.حضور کو میں نے لکھا تو حضور نے پھر فرمایا کہ استغفار پڑھو اور ہم نے پڑھا اور اللہ کے فضل سے سب اچھے ہو گئے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 12 صفحہ 115 - 116 روایت حضرت میاں محمد شریف صاحب کشمیری) میاں محمد شریف کشمیری صاحب ہی فرماتے ہیں کہ جمال الدین صاحب سیکھوانی ولد میاں صدیق
خطبات مسرور جلد دہم 734 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 نومبر 2012ء صاحب نے مجھے بتایا کہ میں نے خیال کیا کہ جب بادشاہ کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے کا یہ الہام ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کہ ”بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے، تو کیا ہمیں برکت حاصل نہ ہوگی.اُن کی آنکھوں سے پانی بہتا تھا.انہوں نے حضور کی پگڑی کا پلہ ایک موقع ملا اُن کو تو آنکھوں پر پھیرا تو آ نکھیں اچھی ہو گئیں.کہتے ہیں مجھے بھی مکرے تھے آنکھوں میں ، میں نے بھی پلہ اپنی آنکھوں پر پھیرا اور وہ اچھی ہوگئیں.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 12 صفحہ 118 - 119 روایت حضرت میاں محمد شریف صاحب کشمیری) اب یہ ایک واقعہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں کا اثر بلکہ یہاں دو واقعات ہیں.حضرت میاں محمد الدین صاحب ولد میاں نورالدین صاحب فرماتے ہیں، (اپنا بیان دے رہے ہیں پچھلا چلتا چلا آرہا ہے ) کہ پہلے بیان کر چکا ہوں کہ آریہ، بر ہمو، دہر یہ لیکچراروں کے بداثر نے مجھے اور مجھ جیسے اور اکثروں کو ہلاک کر دیا تھا، یعنی خدا تعالیٰ سے دور سے دور لے گئے تھے، اسلام سے دور لے گئے تھے اور ان اثرات کے ماتحت لا یعنی زندگی بسر کر رہا تھا کہ براہین احمدیہ پڑھنے کو لی تو وہ پڑھنی شروع کی.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اُس نے کتاب پڑھنے کی توفیق عطا فرمائی.بہت سارے ایسے ہیں جن کو یہ توفیق ہی نہیں ملتی اور ضد اُن کی طبیعت میں ہوتی ہے لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ نے فضل فرمانا تھا.کہتے ہیں مجھے براہین احمد یہیں گئی ، پڑھنی شروع کی.پڑھتے پڑھتے جب میں ہستی باری تعالیٰ کے ثبوت کو پڑھتا ہوں ،صفحہ 90 کے حاشیہ نمبر 2 پر اور صحہ نمبر 149 کے حاشیہ نمبر 1 پر پہنچا تو معامیری دہریت کا فور ہوگئی.یہ روحانی خزائن کی پہلی جلد کا صفحہ 78 ہے اور حاشیہ 2 انہوں نے میرا خیال ہے غلطی سے یہاں لکھا ہوا ہے.کیونکہ اردو میں پہلے گنتی لکھی جاتی ہے.یہ 2 نہیں ہے، حاشیہ نمبر 4 ہے.اور اسی طرح روحانی خزائن کی جو جلد 1 ہے اُس کے صفحہ نمبر 153 میں یہ حوالہ ہے جو چار پانچ صفحے آگے حاشیہ نمبر 11 سے شروع ہوتا ہے.اس کو پڑھا جائے تو پھر اللہ تعالیٰ کی ہستی کی بات واضح ہوتی ہے.بہر حال یہ کہتے ہیں کہ میں وہاں پہنچا تو معا میری دہریت کا فور ہو گئی اور میری آنکھ ایسے کھلی جس طرح کوئی سویا ہوا یا مرا ہوا جاگ کر زندہ ہو جاتا ہے.سردی کا موسم، جنوری 1893ء کی 19 تاریخ تھی.آدھی رات کا وقت تھا کہ جب میں ” ہونا چاہئے اور ” ہے“ کے مقام پر پہنچا.( یہاں اللہ تعالیٰ کی ہستی کا بیان ہو رہا ہے.) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما ر ہے ہیں کہ ہر چیز جو وجود میں آتی ہے یہ خیال پیدا ہوتا ہے اُس کو بنانے والا کوئی ہونا چاہئے اور یہ کہ اس کا بنانے والا کوئی ہے.یہ دو چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطبات مسرور جلد دہم 735 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 نومبر 2012ء نے پیش فرمائی ہیں.سو یہ چیز ہے اصل میں جو خدا تعالیٰ کے وجود پر کامل یقین پیدا کرتی ہے.بہر حال اس مضمون کی گہرائی تو بہت ہے، تفصیل میں اس وقت تو نہیں جایا جا سکتا.براہین احمدیہ میں جو لکھا ہوا ہے وہ پڑھیں) کہتے ہیں بہر حال آدھی رات کا وقت تھا جب میں یہ کتاب پڑھ رہا تھا.” ہونا چاہئے“ اور ” ہے" وو کے مقام پر پہنچا تو پڑھتے ہی معا تو بہ کی طرف توجہ پیدا ہوئی اور میں نے تو بہ کر لی.کورا گھڑا پانی کا بھرا ہوا صحن میں پڑا تھا.یعنی نیا گھڑا ٹھنڈے پانی کا صحن میں پڑا ہوا تھا، جنوری کے دن اور پانی گھڑے کا کتنا یخ ہوگا، تصور کریں.اور تختہ سہ پائی میرے پاس تھی سرد پانی سے لا چا( تہ بند ) پاک کیا.ٹھنڈے پانی سے اپنا نہ بند جو ہے اُس کو دھویا.میر املازم ستمی منگتو سور ہا تھا.وہ بھی جب میں دھور ہا تھا تو جاگ پڑا اور وہ مجھ سے پوچھتا ہے کہ کیا ہوا؟ کیا ہوا؟ یہ تہ بند جو ہے، لاچاہے مجھے دو میں دھوتا ہوں.مگر میں اُس وقت ایسی شراب پی چکا تھا کہ جس کا نشہ مجھے کسی سے کلام کرنے کی اجازت نہ دیتا تھا.آخر منگتو اپنا سارا زور لگا کر خاموش ہو گیا اور کہتے ہیں کہ گیلا تہ بند باندھ کے میں نے نماز پڑھنی شروع کی اور منگتو دیکھتا گیا اور محویت کے عالم میں میری نماز اس قدر لمبی ہوئی کہ منگتو جو ملازم تھا وہ تھک کے سو گیا اور میں نماز میں مشغول رہا.پس یہ نماز براہین نے پڑھائی کہ بعد ازاں اب تک میں نے نماز نہیں چھوڑی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ معجزہ بیان کرنے کے لئے مذکورہ بالا طوطیہ تمہید میں نے باندھا تھا.یعنی یہ لمبی اور خوبصورت تمہید میں نے یہ معجزہ بیان کرنے کے لئے باندھی ہے کہ کس طرح براہین احمدیہ نے میرے اندر ایک انقلاب پیدا کیا.کہتے ہیں عین جوانی میں بحالت ناکتخدا ( یعنی میرے جوانی کے دن تھے اور میں غیر شادی شدہ بھی تھا ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ ایمان جو ثریا سے شاید او پر ہی گیا ہوا تھا اتار کر میرے دل پر داخل کیا اور مسلماں را مسلماں باز کردند کا مصداق بنایا.جس رات میں میں بحالت کفر داخل ہوا تھا اس کی صبح مجھ پر بحالت اسلام ہوئی.براہین احمدیہ پڑھنے کی وجہ سے.اس مسلمانی پر جب میری صبح ہوئی تو میں وہ محمد دین نہ تھا جو کل شام تک تھا.فطرتا مجھ میں حیا کی خصلت اچھی تھی.فطرت میں یہ تھا میرے اندر حیا تھی لیکن اوباشوں کی صحبت میں عنقا ہو چکی تھی (یعنی ختم ہو گئی تھی غلط لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے کی وجہ سے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکت سے مجھے وہی خصلت حیا واپس دی.میں اس وقت اس آیت کے پر تو کے تحت مزے لے رہا تھا.سورۃ حجرات کی یہ آیت نمبر 7 یہاں لکھا ہے لیکن یہ 8,9 آیت ہے کہ اللهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيْمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّةَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُولَئِكَ هُمُ الرَّشِدُونَ - فَضْلًا
خطبات مسرور جلد دہم 736 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 نومبر 2012ء مِنَ اللهِ وَنِعْمَةٌ وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمُ (الحجرات : 8-9) یعنی اللہ نے تمہارے لئے ایمان کو محبوب بنادیا اور تمہارے دلوں میں سجا دیا ہے اور کفر اور بداعمالی اور نافرمانی سے کراہت پیدا کر دی ہے.یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں.اللہ کی طرف سے ایک بڑے فضل اور نعمت کے طور پر یہ ہے.اللہ دائمی علم رکھنے والا اور حکمت رکھنے والا ہے.کہتے ہیں کہ ایمان لانے کے ساتھ ہی قرآن کی عظمت اور محبت نے میرے دل میں ڈیرہ لگایا.گویا علم شریعت جو ایمان کی جڑ ہے اُس کے حاصل کرنے کا شوق اور فکر دامنگیر ہوا.ازاں بعد سال 1893ء، 1894ء میں براہین احمدیہ کا ایک دور ختم کیا جو نماز تہجد کے بعد پڑھتا تھا اور پھر آئینہ کمالات اسلام پڑھا جو ” توضیح المرام کی تفسیر ہے.حضرت قبلہ منشی مرزا جلال الدین صاحب پنشن منشی رسالہ نمبر 12 ساکن بلانی تحصیل کھاریاں ضلع گجرات دو ماہ کی رخصت لے کر سیالکوٹ چھاؤنی سے بلانی تشریف لائے اور بولانی ہی میں میں پٹواری تھا.اُن سے پتہ پوچھ کر بیعت کا خط لکھ دیا جس کا جواب مجھے اکتوبر 1894 ء میں ملا.جس میں لکھا تھا کہ ظاہری بیعت بھی ضروری ہے جو میں نے 5 جون 1895ء مسجد مبارک کی چھت پر بالا خانے کے دروازے کی چوکھٹ کے مشرقی بازو کے ساتھ حضرت صاحب سے کی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابه غیر مطبوعہ جلد 7 صفحه 46-47 روایت حضرت میاں محمد الدین صاحب) حضرت میاں محمد الدین صاحب ولد میاں نورالدین صاحب ہی فرماتے ہیں.میرے دل میں گزرا کہ میں علم دین سے ناواقف ہوں اور مولوی لوگ مجھے تنگ کریں گے.میں کیا کروں گا اور پوچھنے سے بھی شرم کر رہا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یا کسی اور سے بھی پوچھنے سے شرم تھی.جو آپ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بغیر میرے پوچھے اُس کا جواب دیا.کہتے ہیں کہ میرے سوال کہ جب آپ کے بائیں پہلو پر لیٹے ہوئے تھے، مسجد مبارک کے چھت پر محراب میں تھے اور آپ کا سر جانب شمال تھا اور میں پیٹھ کے پیچھے بیٹھ کر مشرق کی طرف منہ کر کے آپ کو مٹھیاں بھر رہا تھا، دبا رہا تھا.پوچھنے سے مجھے شرم تھی لیکن بہر حال میں بیٹھا تھا دل میں خیال آیا دباتے ہوئے تو کہتے ہیں لیٹے لیٹے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میری طرف منہ فرمایا اور ایسے بلند لہجہ اور رعب ناک آواز سے فرمایا کہ میں کانپ گیا.فرمایا ”ہماری کتابوں کو پڑھنے والا کبھی مغلوب نہیں ہوگا.“ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 49 روایت حضرت میاں محمد الدین صاحب) پس یہ خزانہ تو آج بھی ہمارے پاس ہے، اسے حاصل کرنے کی ، پڑھنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے.اب تو یہ بہت سی کتابیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکی ہیں.)
خطبات مسرور جلد دہم 737 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 نومبر 2012ء ایک روایت میں حضرت چوہدری فتح محمد صاحب بیان فرماتے ہیں کہ ایک میرے بھائی نواب دین کو خواب آیا کہ حضور نے میرے سے آٹھ آنے کے پیسے مانگے ہیں.پھر میں اور نواب دین دونوں پیسے دینے گئے اور خواب سنائی تو حضور نے فرمایا کہ اس خواب کے نتیجے میں تم علم پڑھو گے.سو جب مولوی سکندر علی ہمارے گاؤں میں آگئے تو اُن سے میں نے اور نواب دین نے بلکہ اور بہت سارے لوگوں نے قرآن مجید پڑھا اور کچھ اُردو کی کتابیں بھی پڑھیں.جو حضور کا فرمانا تھا پورا ہو گیا.پھر آگے کہتے ہیں کہ ہمارے گاؤں میں ایک پیپل کا درخت تھا جو ہم نے مرزا نظام الدین صاحب کے پاس فروخت کیا تھا اور اُس وقت ہمارے گاؤں میں بیماری طاعون تھی اور ہم نے وہ روپے جو پیپل کی قیمت کے تھے وہ سیر پر آتے وقت حضرت صاحب کے آگے نذر کر دیئے اور حضور راستے سے ہٹ کر ہمارے گاؤں میں مسجد کے پاس آ کر دعا کرنے لگ گئے اور بیماری دور ہوگئی.گاؤں میں جو بیماری تھی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 1 صفحہ 56-57 روایت حضرت چوہدری فتح محمد صاحب) حضرت فضل دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیعت کا ذکر فرماتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ میں پہلے پہل ایک آزادانہ خیال کا آدمی تھا.چند سال آزاد خیالی میں گزر گئے.بعدہ رفتہ رفتہ چند دوستوں کی صحبت سے بہرہ ور ہو کر میں نقشبندی خاندان کا مرید ہو گیا کیونکہ میرے دوست بھی نقشبندی خاندان کے مرید تھے اور وہ ہمارا مرشد ہمارے ہی گاؤں میں رہتا تھا.چونکہ یہ خاندان اپنے آپ کو شریعت کا پابند کہلاتا تھا اور اپنا سلسلہ حضرت ابوبکر صدیق سے ملاتا تھا اس واسطے شروع بیعت میں مجھ کو نماز اور روزہ کی سخت تاکید فرمائی اور نماز تہجد کی بھی تاکیداً تا کید فرمائی اور حکم دیا کہ نماز تہجد کبھی بھی نہ چھوڑی جاوے اور ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا کہ جو خواب آوے وہ کسی سے بیان نہ کی جائے.اس عرصے میں مجھ کو کئی خوا ہیں آئیں اور میں نے وہ کسی سے بیان نہ کیں.چونکہ میں کام معماری کا کرتا تھا بسبب نہ ملنے کام کے میں باجازت اپنے مرشد کے بمع بیوی امرتسر چلا گیا اور وہاں ایک مکان کرایہ پر رہنے لگا.وہاں ہی کام کرتا تھا.عرصہ دوسال کے بعد ایک دن میں نماز تہجد کی پڑھ کر وظائف میں مصروف تھا کہ وظائف کی حالت میں مجھے نیند سی آ گئی اور میں جائے نماز پر لیٹ گیا.چنانچہ میں خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ آسمان سے ایک فوج فرشتوں کی بشکل انسانی میرے ارد گرد کچھ فاصلے پر حلقہ کر کے بیٹھ گئے اور ایک افسر جو عہدہ جرنیلی کا رکھتا تھا، میرے پاس آ کر بیٹھ گیا.اُس کے بیٹھنے کے بعد ایک تخت زریں آسمان سے اترا اور اُس حلقے کے اندر تخت رکھ دیا گیا اور سب فوج تعظیماً کھڑی ہوگئی اور جب میں نے دیکھا تو اس تخت زریں پر دو بزرگ ہمشکل اور نورانی شکل
738 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 نومبر 2012ء خطبات مسرور جلد دہم اور ہر طرف اُن کے نور ہی نور تھا بیٹھے تھے.تب میں نے اس افسر سے جو میرے نزدیک تھا پوچھا کہ یہ بزرگ کون ہیں؟ تب اُس نے کہا کہ جو بزرگ دائیں طرف تخت پر ہیں وہ خدا کا پیارا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور جو بائیں طرف ہیں وہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا پیارا ابنِ مریم ہیں.میں نے کہا ابنِ مریم تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام ہے جو اسرائیل کا نبی تھا.اُس نے کہا یہ وہ نہیں ، وہ تو فوت ہو چکا.یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے پیارا ابن مریم ہے.اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبانِ مبارک سے یہ آوازہ فرمایا اور اس افسر کو فرمایا کہ بلند آواز سے لوگوں کو کہہ دے کہ جب یہ ہمارا ابنِ مریم آوے، اُس کی تابعداری کرنی ضروری ہے اور جس نے تابعداری نہ کی وہ مجھ سے نہیں.اس عرصے میں میری بیوی نے مجھے جگا دیا اور کہا کہ صبح کی اذان ہوگئی ہے آپ تہجد کے بعد کبھی سوئے نہیں تھے، اٹھو اور نماز کے لئے مسجد میں جاؤ.اُس وقت اپنی بیوی پر میں بہت خفا ہوا کہ تو نے مجھ کو کیوں جگایا.خیر اگلے روز میں گاؤں کو چلا گیا اور تمام ماجرا میں نے اپنے خواب کا اپنے مرشد کو کہہ سنایا.اُس نے کہا کہ مبارک ہو تم کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی.اور پھر کہا کہ اب ہم غیر کے علاقے میں ہوں گے اور عنقریب ابن مریم نازل ہوں گے.یعنی خواب کی تعبیر یہ کی ، غیر کے علاقے میں ہوں گے عنقریب ابنِ مریم نازل ہوں گے.بلکہ یہ زمانہ مسیح موعود کا ہی زمانہ ہے.خوش نصیب ہیں وہ جو اُس کو پاویں گے.یہ مرشد نے جواب دیا.کہتے ہیں اس کے بعد میں نے محکمہ نہر میں مستری کی ملازمت کی.ایک بابو کے ذریعے سے اور اس ملازمت میں کسی کلرک کے ذریعے سے ملازمت کی اور ملازمت میں مجھ کو بہت سی خوا میں آئیں اور بسبب منع کرنے کے (یعنی اُس پیر اور مرشد جو تھا اُس نے منع کیا تھا کہ خواہیں نہیں بتانی ) تو منع کرنے کی وجہ سے میں نے کسی سے ظاہر نہ کیں.پندرہ بیس سال تک میں نے ملازمت کی.بعد میں ملازمت چھوڑ کر اپنے گاؤں کو چلا گیا اور اپنے گھر پر رہنے لگا.لہذا ہماری برادری میں سے مولوی محمد چراغ صاحب جو ہمارے استاد بھی تھے اور وہ پکے اہلحدیث تھے.جب میں ملازمت چھوڑ کر واپس چلا آیا تو اُن کو میں نے احمدی طریقے پر پایا.وہ احمدی ہو گئے تھے اور میرے ساتھ حضرت صاحب کے سلسلے کی گفتگو شروع کر دی لیکن میں نے کوئی دلچسپی ظاہر نہ کی کیونکہ میں فقیروں کا معتقد تھا اور جانتا تھا کہ فقیر ہی اصل شریعت کے مالک ہیں.اس واسطے میں نے مولوی صاحب کو کوئی جواب نہ دیا اور یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ہاں آجکل ایسے لوگوں نے دوکاندار یاں بنا رکھی ہیں اور خلق خدا کو دھوکہ دیتے ہیں.لہذا میں نے ارادہ کیا کہ اپنے مرشد سے تحقیقات کراؤں کہ کیا یہ دعویٰ حضرت صاحب منجانب اللہ ہے یا دھوکہ ہے.جب میں اُن کے مکان پر گیا اور
خطبات مسرور جلد دہم 739 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 نومبر 2012ء پیر صاحب کے لڑکے سے دریافت کیا کہ حضرت کہاں ہیں؟ تو اُس نے رو کر جواب دیا کہ وہ مرشد جو تھے ان کے وہ دو ماہ سے فوت ہو گئے ہیں اور ہم آپ کو اُن کی فوتیدگی کی اطلاع دینی بھول گئے ، معاف فرما ئیں.کہتے ہیں مجھے بڑا رنج ہوا اور صدمہ ہوا.میں روتا دھوتا گھر کو چلا آیا.ایک دن پھر مولوی صاحب نے مجھ سے کہا کہ تم خواندہ آدمی ہو ، پڑھے لکھے آدمی ہو.حضرت صاحب کی تصنیفات دیکھنی چاہئیں.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو تحریرات ہیں، کتابیں ہیں، وہ دیکھنی چاہئیں.انہوں نے اُسی وقت مجھے ایک کتاب جس کا اسم شریف جلسہ مذاہب مہوتسو ہے، پڑھنے کو دیا.وہ میں نے سارا ختم کیا اور پھر انہوں نے مجھ کو براہین احمدیہ ہر چہار جلد دیں.جب میں نے ساری ختم کر لیں تو معا میرے دل میں بات ڈالی گئی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی ایسا لائق شخص ہوا ہے اور نہ کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسی کتاب شائع کی ہے جو تمام غیر مذاہب کو اسلام کی حقانیت پر دعوت دے.کہتے ہیں اس کے بعد میرا دل تذبذب میں پڑ گیا.دل میں یہ بات پیدا ہو گئی کہ اگر یہ شخص جس نے ایسی چیز دنیا کے سامنے پیش کی ہے سچا ہے تو اگر میں نے بیعت کر لی تو بچے کی بیعت کی اور اگر خوانخواستہ اپنے دعوی میں جھوٹا ہوا تو ایک کا ذب کی بیعت میں داخل ہوں گا.لہذا یہ خیال ایسا پکا دل میں گڑھ گیا کہ دو ماہ تک اس پر اڑا رہا.مولوی صاحب مجھ کو ہر چند سمجھاویں لیکن دل نہ مانے.ایک دن ماہِ رمضان المبارک کی پہلی تاریخ کو میں نے خدا تعالیٰ سے بڑے خشوع و خضوع سے یہ دعا کی کہ اے زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے! بواسطه محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اگر یہ شخص یعنی مرزا صاحب سچا ہے اور تو نے ہی مامور کر کے دنیا کی اصلاح کے لئے نازل فرمایا ہے تو تو اپنی ستاری سے مجھ کو کوئی نشان ظاہری یا کسی خواب کے ذریعے دکھا دے.اگر مجھ کو کوئی نشان نہ دکھا یا تو پھر مجھ پر قیامت کے دن تیری کوئی حجت نہ رہے گی، کیونکہ مجھ میں اتنی قوت نہیں کہ بچے اور جھوٹے میں امتیاز کر سکوں اور بس.جب پندرہ رمضان گزرے تو بعد تہجد میں جائے نماز پر لیٹ گیا تو خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ میں اور میرے ساتھ ایک اور آدمی کسی شہر کو چلے ہیں.راستے میں ہم کو ایک باغ نظر آیا جو چار دیواری اُس کی قریباً تین فٹ اونچی ہے.( باغ کی چار دیواری تین فٹ اونچی ہے ) اُس دیوار کے پاس جا کر کیا دیکھتے ہیں کہ باغ گویا بہشت کا نمونہ ہے اور نہر میں جاری ہیں لیکن پانی خشک تھوڑا تھوڑا چلتا نظر آ رہا ہے اور عالی شان محل دکھائی دیئے.ہم نے ارادہ کیا کہ باغ کے اندر جا کر سیر کریں لہذا ہم دونوں چاردیواری پھاند کر اندر جانا چاہتے تھے.لیکن ہم نے بہت زور کیا لیکن چاردیواری کو پھاند کراندرنہ پہنچے.پھر ہم نے پختہ ارادہ کر لیا.( یہ اپنی خواب سنا رہے ہیں بڑی لمبی خواب ہے ) کہ ضرور اندر جانا ہے.چلواب
خطبات مسرور جلد دہم 740 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 نومبر 2012ء اس کا دروازہ معلوم کریں.پھر ہم تین طرف باغ کے پھرے.یعنی جنوب و مغرب اور شمال اور ان تینوں طرف سے ہم کو کوئی دروازہ نہ ملا.پھر ہم نے کہا کہ چلو مشرق کی طرف چلیں شاید اُس طرف سے ہم کو دروازہ مل جائے.جب باغ کے مشرق کی جانب روانہ ہوئے تو ہم کو ایک بزرگ ایک درخت کے سائے میں بیٹھے نظر آئے اور وہ بزرگ اپنے ہاتھ کے اشارے سے ہم کو پکار رہے تھے کہ ادھر آؤ ہم تم کو اس کا دروازہ بتلا دیں اور اگر ہماری طرف نہ آؤ گے تو تم کو تمام عمر دروازہ باغ کا نہ ملے گا.جب ہم اس بزرگ کے پاس پہنچے تو معا مجھ کو وہ خواب جو عرصے سے امرتسر میں آئی تھی وہ یاد آ گئی کہ اس بزرگ کو میں نے تخت پر رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خواب میں دیکھا تھا.(اس دوسری خواب میں دوسرے آدمی کو جو دیکھا تھا یہ بزرگ تھے.چنانچہ میں نے پوچھا کہ حضرت آپ کون بزرگ ہیں؟ تو آپ نے اپنی زبانِ مبارک سے یہ فرمایا کہ میں ابنِ مریم ہوں اور وہ دیکھو باغ کا دروازہ ہے.جاؤ سیر کرو.چنانچہ ہم دونوں باغ کے اندر چلے گئے اور خوب سیر کی.اتفاقاً مجھ کو پیاس لگی اور میں نے اپنے ساتھی کو کہا کہ ہم کو پیاس لگی ہے اور پانی نہروں کا بہت ہی نیچے ہے.ہاتھ نہیں پہنچتا، کیا کریں؟ ہم تھکے ہوئے ماندہ ہو کر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے.تھوڑی دیر کے بعد ایک لڑکا کوئی دس بارہ سال کی عمر کا ایک محل سے برآمد ہوا.اُس کے ہاتھ میں ایک پیالہ بیضوی شکل تھا اوول جیسا اور اس میں کوئی چیز تھی ، میرے ہاتھ پر لا کر رکھ دیا اور کہا کہ لو تم اس کو پی لو.چنانچہ مجھ کو پیاس تو تھی میں نے اس سے پیالہ لے کر کوئی نصف کے قریب پی گیا اور باقی ماندہ اپنے ساتھی کو دیا.اُس لڑکے نے اُس کے ہاتھ سے پیالہ چھین کر مجھ کو دے دیا اور کہا کہ یہ تمہارا حصہ ہے اس کا اس میں حصہ نہیں.یعنی دوسرے شخص کا جو خواب میں ان کے ساتھ تھا اس کا اس میں حصہ نہیں ہے.چنانچہ اس بات سے میرا ساتھی شرمندہ سا ہو کر کہنے لگا کہ چلو بہت دیر ہو گئی ہے.ہم نے ابھی دور جانا ہے.پس ہم جلدی جلدی دروازے کی طرف آئے.میرا ساتھی جلدی سے دروازے کے باہر چلا گیا اور میں ابھی اندر ہی تھا کہ ہمارے مولوی صاحب کا لڑکا آیا اور مجھ کو جگا کر کہنے لگا کہ کیا باعث ہے آپ تہجد کے بعد منزل قرآن شریف کی پڑھنے سے آج سو گئے.میں نے اُس کو خفا ہو کر کہا کہ میں ایک عمدہ خواب دیکھ رہا تھا.تم نے برا کیا جو جگا دیا.اُس نے جواب دیا کہ بندے خدا ! صبح کی اذان ہوگئی ہے اور مولوی صاحب مسجد میں جماعت کا انتظار کر رہے ہوں گے.چلو نماز پڑھیں.کہتے ہیں لہذا ہم دونوں مسجد میں چلے گئے اور وضو کر کے مولوی صاحب کے ساتھ نماز باجماعت پڑھی.بعد فراغت نماز میں نے یہ تمام حالات خواب کے اور جس طرح سے خدا تعالیٰ سے دعا مانگی تھی اور جس طرح سے خدا نے مجھ کو خواب میں تمام
741 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 نومبر 2012ء خطبات مسرور جلد دہم حالات بتائے ، سب میں نے مولوی صاحب سے بیان کر دیئے.اور یہ بھی بیان کر دیتا ہوں کہ ان دونوں کے سوائے میں نے حضرت مرزا صاحب کو اپنی پہلی تمام عمر میں کبھی نہ دیکھا تھا اور نہ ہی میں نے قادیان شریف کو ، لہذا اس خواب کے بیان کرنے سے مولوی صاحب نے تعبیر میں یہ فرمایا کہ جو آپ نے باغ اور خشک نہریں اور محل وغیرہ دیکھے ہیں اس سے مراد باغ شریعت ہے اور نہریں علمائے زمانہ ہیں جو خشک ہو چکے ہیں ان کے پاس کوئی علم نہیں اب رہا.اصل شریعت ان کے پاس نہیں ہے اور محل اور مکان یہ عمل ہیں اور پیالے سے مراد بھی عمل ہیں جن میں کچھ قصور ہیں جو بیضوی ہیں یعنی سید ھے نہیں ہیں اور خواب میں جو مشرق کی طرف اشارہ ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے گاؤں سے قادیان خاص مشرق میں ہے اور خواہ حدیث مشرق والی سمجھ لیجئے ، یعنی مسیح مشرق میں اترے گا.وہ بھی حدیث کا حوالہ بھی دے رہے ہیں کہ چاہے وہ سمجھ لو.اور وہ بزرگ جس کا آپ نے حلیہ بیان کیا ہے وہ حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی مسعود ہیں.اور ہاتھ کے اشارے سے یہ پتہ ہے کہ جب تک ہمارے سلسلے میں داخل نہ ہو گے تب تک شریعت اسلام اور بہشت کے دروازے کا آپ کو راستہ نہ ملے گا.آپ نے جو نشان مانگا تھا.یعنی نشان خداوند کریم نے آپ کو دکھا دیا ہے.پھر انہوں نے کہا کہ ہم نے جمعہ کے دن قادیان جانا ہے، آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں.اگر آپ کی خواب کے مطابق وہ بزرگ حضرت صاحب ہوئے تو مان لینا ورنہ کوئی جبر نہیں ہے.الغرض ہم بروز جمعرات قادیان کی طرف روانہ ہو گئے.جس وقت ہم قادیان میں پہنچے مجھ کو سخت بخار ہو گیا اور مولوی صاحب نے حضرت صاحب سے عرض کیا ہمارا لڑکا جو حق کی جستجو میں یہاں آیا ہے وہ روزہ کے ساتھ تھا اس کو بخار ہو گیا ہے.حضرت صاحب نے مجھ کو دیکھا اور فرمایا کہ مولوی صاحب! آپ نے اس کو روزہ کے ساتھ سفر کیوں کرنے دیا؟ اگر راستے میں بخار یا کوئی اور مرض ہو جاتی تو آپ کیا کرتے.یہ قرآن کریم کی منشاء کے خلاف ہے.خیر ہم دوائی بھیج دیتے ہیں.انشاء اللہ آرام ہو جائے گا.دوائی آگئی.معلوم نہیں کہ شاید حامد علی صاحب لے کر آئے.دوائی میں نے پی لی اور مجھ کو بخار سے بالکل آرام ہو گیا.اُس وقت میں نے بخار کی بیہوشی میں حضرت صاحب کو اچھی طرح نہ پہچانا تھا.اگلے روز جمعہ تھا.ہم وضو کر کے جلدی سے آگے جگہ کے واسطے پہلے ہی چلے گئے اور اول صف میں جگہ مل گئی.( پہلی صف میں جگہ مل گئی.اوّل مولوی عبد الکریم صاحب اور بعدۂ مولوی صاحب حضرت خلیفہ اول تشریف لائے اور اُن کے بعد حضرت مرزا صاحب تشریف فرما ہوئے اور میں نے دیکھتے ہی آپ کو پہچان لیا کہ یہی میری خواب والا بزرگ ہے اور میں نے اپنے مولوی صاحب کو بھی کہہ دیا کہ یہی بزرگ ابنِ مریم ہیں جو دو دفعہ خواب میں دیکھے ہیں.اب مولوی صاحب کی تسلی ہو گئی اور انہوں
خطبات مسرور جلد دہم 742 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 نومبر 2012ء نے سمجھا کہ یہ اب خود ہی بیعت کر لے گا.جس وقت ہم قادیان کو چلے تھے، اُس وقت ہم چار آدمی تھے، ایک ہم اور دوسرے مولوی صاحب، تیسرے وہی جو خواب میں ہمارے ساتھ تھا، چوتھا ایک شخص کمہار تھا جو بغرض بیعت آیا تھا.الغرض خطبہ مولوی عبدالکریم صاحب نے پڑھا اور اغلب ہے کہ جمعہ بھی انہوں نے پڑھایا.لہذا بعد نماز جمعہ آوازہ ہوا کہ جس نے بیعت کرنی ہے وہ آ کر بیعت کر لے.چنانچہ بہت سے لوگ اُس دن بیعت کے لئے آگے ہوئے جن میں سے ہمارا ساتھی وہ چوتھا کمہار بھی تھا.جس وقت ہم بیعت کرنے کے واسطے چلے تو ہمارے ساتھی نے جو خواب میں بھی ہمارے ساتھ تھا، بیعت کرنے سے مجھ کو روکا اور یہ وسوسہ ڈال دیا کہ تم مرزا صاحب کی کتابیں دیکھتے رہے ہو، چونکہ وہی خیالات مجسم ہو کر تم کو خواب میں نظر آئے ہیں اور کچھ نہیں.باقی خواب تمہاری غلط ہے.وسوسہ ڈالا اُس نے.کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ دھوکہ ہے اور میں دماغ کا کمزور تھا.کہتے ہیں میں دماغ کا کمزور تھا، یعنی باتوں میں آنے والا تھا، اس واسطے اس نے مجھ کو بیعت کرنے سے روکا.لہذا اگلے روز علی الصبح ہی ہم چار آدمی قادیان سے اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے.جس وقت ہم لوگ بٹالہ سے آگے جو سڑک علی وال کو جاتی ہے اُس پر ایک گاؤں مولے والی کے برابر پہنچے تو پھر مولوی صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے بیعت کر لی ہے؟ تو میں نے جواب دیا: نہیں.انہوں نے کہا کیوں نہیں کی.جب تم کو تمہاری خواب کے مطابق سب کچھ پورا ہو گیا پھر تم نے بیعت کیوں نہ کی.میں نے جواب میں کہا کہ اس شخص نے مجھ کو روک دیا ہے اور کہا کہ تم کتابیں مرزا صاحب کی دیکھتے رہے ہو، وہی خیالات مجسم ہو کر تمہارے رو برو خواب میں آگئے ہیں.بس اور کچھ نہیں ہے.پس یہ سنتے ہی مولوی صاحب ہم سے اور اُس شخص سے جو اُن کا چازاد بھائی تھا سخت ناراض ہو گئے اور مجھ سے کہنے لگے بس اب ہمارا تمہارا کوئی تعلق استادی شاگردی یا رشتہ داری کا نہیں رہا.لہذا ہم عصر کی نماز کے وقت اپنے گاؤں پہنچے.اُس کے بعد میں چار پانچ دن گاؤں میں رہا لیکن مولوی صاحب ہم سے ناراض ہی رہے.اتفاقاً موضع بھانبڑی سے مجھ کو بابو جان محمد کا خط آیا کہ میں تبدیل ہو کر کوٹھی نہر ہر چوال میں آ گیا ہوں اور میرے پاس کام بہت ہے اور میں نے سنا ہے کہ آپ نوکری چھوڑ کر آ گئے ہیں.لہذا خط دیکھتے ہی موضع بھانبڑی یا کوٹھی ہر چوال میں ضرور بالضرور آ جائیں.خیر میرا بھی دل اُداس تھا.میں خط کے اگلے دن بمقام کوٹھی ہر چوال ( ہر چوال نہر کا جو بنگلہ ہوتا ہے ) وہاں براستہ قادیان پہنچ گیا ، اور بابو صاحب بخندہ پیشانی خاطر تواضع سے پیش آئے.اگلے روز میرے سپر د کام کیا گیا اور میں مصروف ہو گیا.جب تیسرا دن ہوا تو مجھ کو
خطبات مسرور جلد دہم 743 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 نومبر 2012ء پھر تیسرا خواب آیا اور وہ یہ تھا کہ خواب میں حضرت مرزا صاحب مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میرے پاس آ کر بیٹھ گئے اور میں اُٹھ کر واسطے تعظیم کے جو گدی نشینوں میں دستور ہے، پاؤں چومنے کے لئے اپنے سر کو جھکا یا.لیکن حضرت صاحب نے مجھے کو اپنے دست مبارک سے روک دیا اور فرمایا یہ شرک ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ دیکھو میاں فضل دین !تم نے خدا سے بذریعہ دعانشان مانگا تھا کہ اگر مجھ کو ظاہری یا خواب کے ذریعہ سے نشان نہ دیا گیا تو قیامت کو مجھ پر خداوند بندہ تیری حجت نہیں ہوگی کہ تم نے مسیح موعود کو کیوں نہیں مانا.پس اب تم کو نشان مل گیا اور تم پر حجت قائم ہو گئی.اتنی ہی بات کہہ کر آپ چل دیئے اور میں خواب سے بیدار ہو کر رونے لگا اور اتنا رویا کہ آنسوؤں سے میرا گریبان تر بتر ہو گیا.اور اُسی وقت میں بغیر اطلاع بابو صاحب قادیان کو ننگے پاؤں اُٹھ کے بھا گا ( جوتی بھی نہیں پہنی ) ایک شخص جو مجھ کو بھا گتا دیکھ رہا تھا اُس نے بابو صاحب کو جا کر کہہ دیا کہ مستری صاحب اپنے گاؤں کو بھا گا جاتا ہے.اُسی وقت بابو صاحب گھوڑی پر سوار ہو کر میرے پیچھے بھاگے اور مجھ کو ہر چوال نہر کے پل پر پکڑ لیا اور کہنے لگے کہ آپ کو کیا ہو گیا ہے کہ بغیر اجازت اپنے گاؤں کو بھاگے جا رہے ہو، خیر ہے؟ میں نے کہا کہ مجھ کو چھوڑ دو میں قادیان جا رہا ہوں، گاؤں نہیں جا رہا.پس قادیان کا نام سن کو وہ آگ بگولہ ہو گیا کیونکہ وہ بھی مخالف تھا اور اب تک بھی مخالف ہی ہے.غرض وہ چھوڑتا نہیں تھا اور میں اصرار کر رہا تھا اور میں نے عاجزی سے کہا کہ بابو صاحب! مجھ کو جانے دوور نہ میں یہاں ہی دم دے دوں گا ( جان دے دوں گا.) کیونکہ یہ میرے بس کی بات نہیں ہے.ایک زور آور ہستی مجھ کو جبراً لے جا رہی ہے اور میں اقرار کرتا ہوں کہ تیسرے دن کے بعد حاضر خدمت ہو جاؤں گا.خیر اُس نے مجھے چھوڑ دیا اور میں دل میں کہتا تھا کہ مرزا صاحب سچے ہیں کہ میرے دل کی بات انہوں نے بتادی کہ تم پر حجت قائم ہو گئی.پس میں قادیان میں آ گیا اور اب جہاں بکڈ پوکا دفتر ہے اُس کے پیچھے پریس ہوتا تھا.کنوئیں کے پاس، وہاں مرزا اسماعیل پریس میں کام کرتا تھا.اُس سے کہا کہ میں نے مرزا صاحب کو ملنا ہے.اُس نے کہا کہ نماز ظہر کے وقت مسجد مبارک میں آپ تشریف لاتے ہیں، وہاں پر آپ ملاقات کریں.اُس دن آپ ظہر کے وقت تشریف نہ لائے اور مغرب کے وقت آپ تشریف فرما ہوئے اور میں دیدار سے مشرف ہوا اور عرض کی حضور ! میں نے بیعت کرنی ہے.حضور نے کہا کہ تیسرے دن کے بعد بیعت لی جائے گی.القصہ میں تین دن تک رہا اور تیسرے دن میں نے اور میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر فاروق اور تیسرا اور آدمی تھا جس کا مجھے نام معلوم نہیں ، شاید مولوی سرور شاہ صاحب ہوں گے، تینوں نے بیعت کی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 16 تا22 روایت حضرت فضل دین صاحب)
خطبات مسرور جلد دہم 744 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 نومبر 2012ء تو اس طرح بھی اللہ تعالیٰ لوگوں کی بیعتیں کرواتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہمارا تبلیغ کا بہت سارا کام تو فرشتے کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان تمام صحابہ کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور ان کی نسلوں کو بھی اپنے بزرگوں کی نیکیوں کو قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.اس وقت میں ایک شہید کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں اور ان کا جنازہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ جمعہ کی نماز کے بعد پڑھاؤں گا جو مکرم و محترم چوہدری نصرت محمود صاحب ابن مکرم چوہدری منظور احمد صاحب گوندل ہیں.ان کا خاندانی تعارف یہ ہے کہ آپ کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ حضرت چوہدری عنایت اللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے، کے ذریعہ سے ہوا جو شہید مرحوم کے دادا مکرم چوہدری اخلاص احمد صاحب کے کزن تھے.بعد میں اُن کی کوششوں سے چوہدری اخلاص احمد صاحب نے بھی خلافت اولی میں بیعت کی تھی.آپ کے خاندان کا تعلق بہلول پورضلع سیالکوٹ سے تھا.چوہدری نصرت صاحب بڑا لمبا عرصہ قریباً تیس سال منڈی بہاؤالدین رہے اور 2008ء میں اپنی اہلیہ اور چھوٹی بیٹی کے ساتھ لانگ آئی لینڈ نیو یارک امریکہ میں چلے گئے.وہاں شہریت اختیار کر لی.نصرت محمود صاحب چھ مارچ 1949ء کو بہلول پورضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے.پھر مرے کالج سیالکوٹ سے گریجوایشن کیا.پھر شاہ تاج شوگر مل منڈی بہاؤالدین میں ملازمت کی.تقریباً 35 سال وہاں بطور مینیجر کام کیا.پھر جیسا کہ میں نے بتایا آپ امریکہ شفٹ ہو گئے.یہ تمبر میں اپنی چھوٹی صاحبزادی شائزہ محمودہ صاحبہ کی شادی کے سلسلے میں امریکہ سے پاکستان آئے تھے.5 اکتوبر 2012 ء کو شائزہ محمودہ صاحبہ کی شادی سعد فاروق صاحب شہید کے ساتھ ہوئی ، جن کو شادی کے تیسرے دن شہید کر دیا گیا تھا جو فاروق احمد صاحب کاہلوں کے بیٹے تھے.اور 19 اکتوبر کو جمعہ کے دن سعد فاروق صاحب شہید ہوئے.جیسا کہ میں نے سعد فاروق کے جنازے پر بھی بتایا تھا ان کے سدھی محترم فاروق احمد کاہلوں صاحب اور چند دیگر افراد خاندان کے ساتھ یہ لوگ بیت الحمد بلدیہ ٹاؤن سے نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد گھر واپس آ رہے تھے کہ نامعلوم افراد نے آپ لوگوں پر فائر نگ کر دی.سعد فاروق صاحب تو جو موٹر سائیکل پر تھے موقع پر شہید ہو گئے، دو تین ہفتہ پہلے اُن کا جنازہ پڑھا گیا تھا.دیگر دو افراد زخمی ہوئے تھے.ایک گولی آپ کی گردن میں لگی اور دو گولیاں آپ کے، چوہدری نصرت محمود صاحب کے سینے پر لگی تھیں.فوری طور پر آپ کو ہسپتال لے جایا گیا اور وہاں سے پہلے عباسی شہید ہسپتال پھر آغا خان میں شفٹ کیا گیا.
خطبات مسرور جلد دہم 745 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 نومبر 2012ء تقریباً اڑتیس (38) دن آپ زیر علاج رہے اور آخر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے (اور ان کے زخم مزید خراب بھی ہو گئے تھے ) 27 نومبر کو منگل کے دن رات گیارہ بجے اپنے مالک حقیقی سے جاملے اور شہادت کا رتبہ پایا.إِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.شہید مرحوم اللہ کے فضل سے موصی تھے اور آپ کو خدمت دین کا بیحد شوق تھا.منڈی بہاؤالدین میں قیام کے دوران آپ کو بطور سیکرٹری رشتہ ناطہ، سیکرٹری دعوت الی اللہ اور دیگر مختلف عہدہ جات پر خدمت کی توفیق ملی.2008ء میں امریکہ شفٹ ہونے کے بعد لانگ آئی لینڈ، نیو یارک امریکہ میں آپ کو بطور سیکرٹری تربیت خدمت کی توفیق مل رہی تھی.مرحوم انتہائی مخلص اور ایماندار شخصیت کے مالک تھے.جہاں کام کرتے تھے وہاں سے ان کو ایک دفعہ آنسٹی (Honesty) ایوارڈ بھی ملا تھا.خلافت سے گہرا تعلق تھا.تمام تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.دعوت الی اللہ کے پروگرام میں اگر خود نہ شامل ہو سکتے تو پھر دوسروں کو جانے کے لئے اپنی گاڑی دے دیا کرتے تھے تا کہ ثواب میں شامل ہوسکیں.آپ کے بیٹے کاشف احمد دانش آپ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو ایک بہت ہی شفیق اور محبت کرنے والے شخص کے طور پر پایا.بچپن سے لے کر جوانی تک ہمیشہ اولا د کا بہت زیادہ خیال رکھا.تعلیم دلوانے کے لئے اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی تربیت کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہے.زبان بہت اعلیٰ اور لہجہ ہمیشہ نرم ہوتا تھا.کبھی بھی بچوں کو تم کہ کر مخاطب نہیں کیا بلکہ آپ کہہ کر مخاطب کرتے تھے.ان کے بیٹے کہتے ہیں کہ میری جماعت کے کاموں میں دلچسپی کو بہت سراہتے تھے اور خلافتِ احمدیہ کے ساتھ ایک مضبوط تعلق کی تلقین کرتے تھے.گھر آ کر سب سے پہلے اپنے بچوں کو نماز کے بارے میں پوچھتے تھے.اگر کسی وجہ سے نہ پڑھی ہوتی تو فورا ادا ئیگی کے لئے کہتے.بچپن میں اپنے ساتھ باجماعت نماز کے لئے لے جاتے.کام کے دوران سفر پر کسی بھی جگہ پر ہوتے نماز کا خاص التزام کرتے.کسی سے سخت لہجے میں گفتگو نہیں کی.ہمیشہ اخلاقیات کا درس دیتے.ہر کوئی آپ کی نرم گو اور ملنسار طبیعت کی وجہ سے جلد آپ کا گرویدہ ہو جاتا.مرحوم کی اہلیہ محتر مہ اس وقت امریکہ میں مقیم ہیں، یہ بھی آئی ہوئی تھیں یہاں لیکن بعد میں بیمار ہو گئیں تو چلی گئیں، اُن کا بھی وہاں علاج ہو رہا ہے، اُن کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ اُن کو بھی شفا عطا فرمائے.اور آپ کا بیٹا کا شف احمد دانش کینیڈا میں مقیم ہے اور وہاں بطور نائب صدر خدام الاحمدیہ کینیڈا خدمت کی توفیق پارہے ہیں.مرحوم کی تین بیٹیاں ہیں.سب سے چھوٹی بیٹی سعد فاروق شہید کی بیوہ ہے.محمد منیر نٹس صاحب بیان کرتے ہیں ( یہ قریباً گیارہ سال منڈی بہاؤالدین میں مربی رہے ہیں) کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ گیارہ سال بطور مربی ضلع کام کرنے کی توفیق ملی.
خطبات مسرور جلد دہم 746 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 نومبر 2012ء شوگر مل کے شعبہ کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ تھے ، وہاں زعیم انصار اللہ تھے، سیکرٹری رشتہ ناطہ تھے، نگران کمیٹی بیت الذکر گیسٹ ہاؤس، مربی ہاؤس بھی تھے.پنجوقتہ نماز باجماعت ادا کرتے.پھر گھر کھانا کھا کر دفتر جاتے تھے.ظہر کی نماز پر بھی پہلے نماز ادا کرتے پھر دفتر جاتے.تہجد گزار تھے.کہتے ہیں مربی ہاؤس مسجد کے ساتھ ہی ملحق تھا.مربی صاحب کہتے ہیں کہ کئی دفعہ تنہائی میں مجھے عبادت کرنے کا جب بھی کبھی خیال آیا ، میں کوشش کرتا تھا لیکن ہمیشہ جب بھی میں نے کوشش کی کہ فجر سے پہلے جا کے کچھ نفل پڑھوں مسجد میں تو ہمیشہ نصرت محمود صاحب کو وہاں موجود پایا.اللہ تعالیٰ کے حضور رو رو کر دعا کر رہے ہوتے تھے.اپنی آمدنی کے مطابق صحیح بجٹ بنواتے تھے، چندہ کی بروقت ادائیگی کرتے تھے.صدقہ وخیرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے.غرباء اور ضرورتمندوں اور معذوروں کا خیال رکھتے.اسی طرح صفائی پسند بھی بہت تھے.جہاں اپنی صفائی کا خیال رکھتے وہاں گیسٹ ہاؤس وغیرہ کی صفائی کا بھی بہت خیال رکھتے اور مربی صاحب کہتے ہیں میرے ساتھ جاتے تھے تو کبھی کوئی دنیاوی باتیں نہیں کیں.ہمیشہ دعوت الی اللہ اور جماعت کے حوالے سے باتیں کیا کرتے تھے.اپنی گاڑی جماعتی کاموں کے لئے ، غریب بچیوں کی شادی کے لئے پٹرول ڈلوا کر دیا کرتے تھے.آتے جاتے اگر کسی غریب کو لفٹ کی ضرورت ہوتی تو دے دیا کرتے.کہتے ہیں کبھی میں نے اُن کو غصہ میں نہیں دیکھا.ایک غیر احمدی اُن کا ورکر تھا اُس نے بتایا کہ پچیس سال سے نصرت صاحب کے ساتھ کام کر رہا ہوں، زندگی میں کبھی بھی مجھے نہیں ڈانٹا اور کبھی ناراض نہیں ہوئے.اپنے جو ماتحت کام کرنے والے تھے اُن کو ہر عید پر نئے کپڑے اور عیدی تحفہ ضرور دیتے تھے.خلافت سے گہری محبت تھی.خطبہ ہمیشہ لائیو سنتے اور سیر کے دوران پھر اُس پر بتاتے کہ آج یہ کہا گیا ہے اور ان باتوں کی تلقین کی گئی ہے.ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی تلقین کرتے.اسی طرح کسی موقع پر اگر کہیں جانا ہوتا تو پہلے مربی صاحب اور اُن کی فیملی کو اپنی گاڑی پر، کار پر چھوڑ کر آتے ، پھر اپنی فیملی کو لے کر دوبارہ جاتے اور دعوتوں پر غرباء کو ضرور بلاتے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ پاکستان میں بھی ہر احمدی کو دشمنانِ احمدیت کے ہر شر سے محفوظ رکھے اور اپنا خاص فضل فرماتے ہوئے اب اُنہیں فتح و نصرت کے جلد نظارے دکھائے.جیسا کہ میں نے کہا ہے ان دنوں میں دعاؤں پر بہت زور دیں.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 21 تا 27 دسمبر 2012 جلد 19 شماره 51 صفحه 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد دہم 747 49 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 دسمبر 2012ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة اسم الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 7 دسمبر 2012 ء بمطابق 7 فتح 1391 ہجری شمسی بمقام ہیمبرگ (جرمنی) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے کچھ عرصہ سے وقتاً فوقتاً صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روایات کا بیان شروع کیا ہوا ہے.پہلے تو مجموعی روایات شروع میں لی تھیں.پھر خیال آیا کہ مختلف عناوین کے تحت بیان کروں.سو یہ سلسلہ گزشتہ کئی ماہ سے بلکہ سال سے زیادہ عرصہ سے چل رہا ہے.آج بھی میں اس کے تحت صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ روایات جو ان کی اپنی رو یا کشوف کے بارے میں ہیں ، وہ بیان کروں گا.جو اصل میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی صداقت ثابت کرنے کے لئے ہیں.یا ایمان اور یقین میں بڑھانے کے لئے ہیں اور بیان کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہمارے اندر بھی وہ ایمان اور یقین پیدا ہو، وہ تعلق باللہ پیدا ہو اور ہم لوگ بھی خدا تعالیٰ کے ساتھ ایسے سچے تعلق کو قائم کرنے والے بن جائیں جس کو پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں تشریف لائے تھے.کیونکہ مختلف رنگ میں یہ روایات بیان ہو رہی ہوتی ہیں اور بعض دفعہ مختلف جگہوں میں بیان ہوئی ہیں اس لئے عموماً میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ دوبارہ بیان نہ ہوں، چیک تو کروایا جاتا ہے لیکن بہر حال بعض ہوسکتا ہے دوبارہ بھی آجائیں.پہلی روایت حضرت سردار کرم داد خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے جنہوں نے 1902ء میں بیعت کی تھی اور اُسی سال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت بھی کی.کہتے ہیں کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بیعت کرنے سے پہلے خواب میں دیکھا.وہ اس طرح کہ ایک سڑک ہے جس پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مل کر ٹہلتے آرہے ہیں.
خطبات مسرور جلد دہم 748 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 دسمبر 2012ء بندہ سامنے سے آ رہا ہے.( یعنی یہ کہتے ہیں میں اُن کے سامنے سے آرہا ہوں) حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مخاطب کر کے انگلی کا اشارہ کر کے فرماتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے، یہ خدا کی طرف سے ہے.یہ تین دفعہ حضور نے فرمایا.کہتے ہیں جب میں نے 1902ء میں بمقام قادیان دارالامان جبکہ چھوٹی مسجد ہوا کرتی تھی ( مسجد مبارک جبکہ چھوٹی مسجد تھی ) بیعت کی تو اسی حلیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پایا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) جلد 5 صفحہ 1 روایت حضرت سردار کرم دادخان صاحب) پھر حضرت کریم الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں جنہوں نے 1896ء میں بیعت کی اور اُسی سال ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت بھی نصیب ہوئی.کہتے ہیں کہ 1896ء کے تقریباً نصف حصہ میں بذریعہ خواب بندہ کو ( یعنی کہ ان کو اُس سال کے مئی جون کے قریب ) خواب میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت جبکہ حضور اوٹنی پر سوار تھے، ہوئی.(خواب میں دیکھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اوٹنی پر سوار تشریف لا رہے ہیں ) کہتے ہیں پھر بندہ کو حضور کی زیارت بصورت اکیلے ہونے کے جبکہ ایک ایسے کھیت میں سے گزر رہے تھے جو کہ تازہ تازہ جو تا گیا تھا اور جس میں مٹی کے ابھی بڑے بڑے ڈھیلے تھے اور حضور اس میں سے میری طرف کو آ رہے تھے، ہوئی.( یعنی یہ بھی خواب بیان کر رہے ہیں ) اور حضور نے بڑے تپاک اور محبت سے بندہ سے مصافحہ کیا اور بندہ اس حالت میں بہت خوش ہوا.خواب ہی میں اس سے پہلے ایک نقشبند پیر سے میری ملاقات ہوئی.میں نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا اور اس پیر نے میرے ہاتھ کو پرے ہٹا کر کہا کہ چل بے دین.(حالانکہ سلام کرنے کا اسلام کا حکم ہے.بہر حال اس نے بے دین کہہ کر سلام نہیں کیا.) کہتے ہیں اس کے بعد حضور سے ملاقات ہوئی اور حضور بڑے تپاک سے ملے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ( 5 صفحه 38 روایت حضرت کریم الدین صاحب) حضرت کریم الدین صاحب ہی بیان کرتے ہیں کہ ایک خواب میں میں نے دیکھا کہ چوہدری نبی بخش صاحب حوالدار پولیس کو جو کہ حضور سے شرف بیعت حاصل کر چکے تھے، الہام ہوتا ہے.( خواب میں ان کو بتایا گیا، یہ پولیس کے حوالدار جو ہیں ، ان کو الہام ہوتا ہے.یہ آجکل کی پولیس نہیں ہے پاکستان کی یا ہندوستان کی جن کو سوائے رشوت کے اور بے ایمانی کے اور کچھ نہیں آتا.یہ اُس زمانے کے لوگ تھے جن کا اللہ تعالیٰ سے تعلق تھا.تو کہتے ہیں میں نے خواب میں دیکھا کہ ان کو الہام ہوتا ہے )
خطبات مسرور جلد دہم 749 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 دسمبر 2012ء کہتے ہیں یہ خواب میں نے اپنے ایک دوست سید محمد علی شاہ صاحب کو سنائی.اور انہوں نے کہا یونہی سرنہ کھاؤ.لیکن جب میں صبح کی نماز پڑھ کر مسجد سے واپس آیا اور سورج نکل رہا تھا تو سید مولوی محمد علی شاہ صاحب مرحوم اور چوہدری نبی بخش صاحب کچھ الفاظ جو چو ہدری صاحب نے کاغذ پر رات کو لکھے ہوئے تھے اور ادھر اُدھر اوپر نیچے تھے اور بے ترتیب تھے ، ان کو ترتیب دے رہے تھے.( سید محمد علی شاہ صاحب نے ان سے تو یہی کہا کہ یونہی میرا دماغ نہ کھاؤ.کوئی الہام شلہام نہیں ہوتا چوہدری صاحب کو.لیکن کہتے ہیں نماز سے میں واپس آ رہا تھا تو چوہدری نبی بخش صاحب بھی اور محمد علی شاہ صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے.آپس میں ان کا تعلق تھا اور کچھ کاغذوں کو ترتیب دے رہے تھے.تو کہتے ہیں مجھے شک پڑا کہ یہ رات کے کوئی الہامات ہیں یا ویسے الہامات ہیں جن کو ترتیب دے رہے ہیں ).تو میں نے اُن سے کہا کہ تم تو کہتے تھے کہ سر نہ کھاؤ ( پہلے جب میں نے اس طرح بات کی تھی.) اب بتاؤ یہ کیا بات ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ چونکہ لوگ مذاق کرتے ہیں، مخول کرتے ہیں، اس واسطے اظہار نہیں کرتے.کہتے ہیں اُسی وقت سے مجھے خیال آیا جبکہ حضور کے مریدین کو الہام ہوتے ہیں تو ضرور حضرت مسیح موعود سچے ہیں.اُس وقت میری عمر سولہ سترہ برس کی ہوگی.میں نے حضور کی کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی اور نہ ہی مجھے اس وقت تحقیق کا مادہ تھا کیونکہ میں بچہ ہی تھا اور دینی تعلیم بھی میری کوئی نہیں تھی.صرف قرآنِ کریم ناظرہ بے ترجمہ پڑھا تھا اور اُس وقت میری دنیاوی تعلیم صرف نارمل پاس تھی.(میرا خیال ہے آٹھویں پاس کہنا چاہتے ہیں ) اور میں قلعہ صوبہ سنگھ میں نائب مدرس تھا.پھر ایک خواب میں میں نے دیکھا کہ میں ماہ کا تک( میرا خیال ہے ستمبر اکتوبر کا مہینہ ہے ) میں فوت ہو جاؤں گا.میں انتظار کرتا رہا.اب میری موت کا وقت قریب آ گیا ہے اور میں ضرور کا تک میں ( پنجابی مہینہ ہے ) فوت ہو جاؤں گا.کیونکہ اس سے پہلے جو خوا میں مجھے آئیں وہ پوری ہو گئی تھیں، اس لئے مجھے یقین تھا کہ پہلی خوا میں پوری ہوتی رہی ہیں تو یہ بھی پوری ہوگی اور زیادہ سے زیادہ ستمبر اکتوبر تک میری زندگی ہے.لیکن کہتے ہیں کا تک گزر گیا اور میں نے محمد علی شاہ صاحب مرحوم سے عرض کیا کہ آپ تو کتا بیں ہی پڑھتے رہیں گے اور آپ کی تسلی ہوگی.( محمد علی شاہ صاحب کا چوہدری نبی بخش صاحب کے ساتھ تعلق تھا، اُن کے الہامات کا بھی پتہ تھا کہ ہوتے ہیں لیکن انہوں نے شاید اُس وقت تک بیعت نہیں کی تھی.لیکن بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے متاثر تھے اور آپ کی کتب پڑھا کرتے تھے.تو کہتے ہیں میں نے اُن کو کہا آپ تو کتا بیں پڑھتے رہیں گے اور پتہ نہیں آپ کی تسلی کب ہونی ہے لیکن میں تو آپ سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر آؤں گا ).چنانچہ کہتے ہیں
خطبات مسرور جلد دہم 750 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 7 دسمبر 2012ء میں وہاں سے پیدل ہی چل پڑا اور قادیان پہنچا.جب میں یہاں آیا تو میں کئی دن ادھر اُدھر پھرتا رہا.ایک دن میں نے حکیم فضل دین صاحب بھیروی سے ذکر کیا کہ میں نے حضور کی بیعت کرنی ہے.تو حکیم صاحب نے فرمایا کہ میں نے سمجھا کہ یونہی لڑکا اِدھر اُدھر پھر رہا ہے.حکیم صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں میری بیعت کی خواہش کا ذکر کیا تو حضرت اقدس نے منظور فرمایا اور اپنے ہاتھ میں میرا ہاتھ لے کر صرف مجھے اکیلے ہی کو شرف بیعت عطا فرمایا.میں نے حضرت مسیح موعود کو جیسا کہ خوابوں میں دیکھا تھا، آ کر بعینہ ویساہی پایا.یہ خداوند تعالیٰ کی خاص موہبت عظمی ہے جو کہ مجھ پر ہوئی ورنہ معلوم نہیں میری کیا حالت ہوتی اور میرا نام اصحاب بدر میں نمبر اڑسٹھ یا انہتر پر جوکہ ضمیمہ انجام آتھم میں فہرست دی گئی ہے بلکھا ہے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) جلد 5 صفحہ 38 تا 40 روایت حضرت کریم الدین صاحب) یہ انہترنمبر (69) پر ان کا نام وہاں ہضمیمہ انجام آتھم میں لکھا گیا ہے.پھر حضرت میاں اللہ دتہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں جنہوں نے 1900ء میں بیعت کی اور 1905ء میں ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت نصیب ہوئی.کہتے ہیں میں ماہل پورضلع ہوشیار پور کا رہنے والا ہوں.جس وقت چاند اور سورج کو گرہن لگا اُس وقت میری عمر قریباً دس بارہ برس تھی اور اُس وقت میں نے اپنے استاد کے ساتھ قرآن کریم اور نوافل بھی پڑھے تھے.1897ء یا 1898 میں ہمارے گاؤں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر پہنچ گیا تھا کہ قادیان ضلع گورداسپور میں حضرت مہدی علیہ السلام آگئے ہیں.یہ ذکر شیخ شہاب الدین صاحب کی معرفت پہنچا تھا.دو تین سال با ہم تبادلہ خیالات ہوتارہا.سن 1900ء کے قریب اس عاجز نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خواب میں قادیان میں دیکھا.اگر چہ میں خود قادیان نہیں آیا تھا.اُس خواب سے میری تسلی ہوگئی.پہلے قادیان کبھی نہیں دیکھا تھا لیکن قادیان خواب میں دیکھا.خواب سے تسلی ہو گئی ) اور سوچا کہ جتنی جلدی ہو سکے بیعت کرلوں.کہتے ہیں میں ایک پیسے کا کارڈ لے کر قاضی شاہ دین صاحب کے پاس گیا اور کہا کہ چونکہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کرلی ہے اور اُس کے متعلق تسلی ہو گئی ہے اس لئے میرا بیعت کا خط لکھ دو اور انگوٹھا لگوالو.انہوں نے کہا کہ ابھی ٹھہرو، چند دن کے بعد بیعت کنندگان کی فہرست بنا کر بھیجیں گے.کہتے ہیں جہاں تک مجھے علم ہے قریباً چالیس آدمیوں کی فہرست بنا کر بھیجی گئی جنہوں نے بیعت کی تھی جس میں میرا نام بھی تھا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) جلد 4 صفحہ 49 روایت حضرت میاں اللہ دتہ صاحب)
خطبات مسرور جلد دہم 751 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 7 دسمبر 2012ء حضرت دین محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں جنہوں نے 1902ء میں بیعت کی تھی اور 1904ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا تھا.کہتے ہیں کہ میں 1902ء میں پچپیش اور بخار سے بیمار ہو گیا.اُن دنوں میں میرے والد صاحب کلکتہ میں محنت مزدوری کے لئے گئے ہوئے تھے.میں خواب میں قادیان آ گیا.پہلے میں نے قادیان کا کبھی خیال بھی نہیں کیا تھا.کیا دیکھتا ہوں کہ ایک چھوٹا سا کمرہ ہے، اُس میں نیچے ٹاٹ بچھا ہوا ہے.آگے چاروں طرف چار طاقیاں ہیں ( یعنی طاقچے بنے ہوئے ہیں.دیوار کے اندر ایک جگہ رکھنے کے لئے بنی ہوتی تھی ) ہر طاقی میں ایک دوات ہے.حضور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وہاں ٹہل رہے ہیں اور کوئی مضمون لکھ رہے ہیں.جس طاقی کی طرف جاتے ہیں وہاں سے ہی قلم بھر لیتے ہیں.میں دروازہ پر جا کر کہتا ہوں کہ السلام علیکم.حضور نے فرمایا علیکم السلام آؤ بیٹا تم آئے.میں نے کہا حضور یونہی آیا ہوں.فرمایا تم پرسوں کو راضی ہو جاؤ گے.( یہ خواب بتارہے ہیں ) تمہارا والد بہت لوگوں کے بس میں ہے وہ تم کو روپے بھیجے گا.صبح اٹھتے ہی یہ خواب میں نے اپنے محترم و مکرم ومحسن استاد حضرت سید بہاول شاہ صاحب کو سنایا.انہوں نے میرے کہنے سے دوسرے دن بیعت کا خط لکھ دیا.جواب موجود و محفوظ ہے.( جب یہ بیان کر رہے تھے اُس وقت تک خط ان کے پاس تھا.) کہتے ہیں دوسرے دن پھر خواب میں قادیان حضور کی خدمت میں حاضر ہو گیا.پہلی ہی طرح حضور نے فرمایا.آؤ تم آئے.میں نے عرض کیا حضور یو نہی آیا ہوں.حضور نے فرمایا کہ آپ کے ایک لڑکا ہوگا.وہ ایسا لڑکا ہو گا جو آپ کے کنبہ میں کبھی نہیں ہوا.اُس کی ایک ران پر سیاہ داغ ہوگا.پھر میں نے یہ خواب بھی حضرت شاہ صاحب کو سنایا.غرض پہلے خواب کو جب تین دن ہوئے تو میں اب تندرست ہو گیا.گویا کبھی بیمار ہی نہیں تھا.تھوڑے دن کے بعد والد صاحب نے مبلغ تیس روپے ارسال فرمائے.پھر تو مجھے ایسا عشق ہوا کہ کون وقت ہو ، حضرت صاحب کی زیارت کروں.والدین خفیہ مخالفت کرتے رہے.1904ء میں لاہور جا کر حضور کے دست مبارک پر بیعت کی، حضور کی خدمت میں قریباً پانچ دن رہا.حضور کا مقام غالباً مرہم عیسی کے مکان پر تھا.کہتے ہیں ایک مولوی لنگور کی طرح ٹالیوں (شیشم کے درخت ) پر چڑھ کر بہت بکواس کرتا تھا اور ٹالی مولوی کے نام سے مشہور تھا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) جلد 4 صفحہ 118 - 119 روایت حضرت دین محمد صاحب) حضرت حافظ ابراہیم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں جنہوں نے 1899 ء میں بیعت کی اور 1900ء میں دستی بیعت کی.کہتے ہیں میں نے 1899ء میں بذریعہ خط کے بیعت کی اور اس
خطبات مسرور جلد دہم 752 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 دسمبر 2012ء سے پہلے بھی تین چار سال میرے والد صاحب نے بیعت کے لئے بھیجا تھا مگر میں بسبب بعض وجوہ کے واپس گھر چلا گیا.اس کے بعد سید بہاول شاہ صاحب جو ہمارے دلی دوست اور استاد بھی ہیں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی اور انہوں نے مجھے حضور کی کتابیں سنانی شروع کیں.جتنی اُس وقت تک حضور کی کتب تصنیف ہو چکی تھیں قریباً قریباً ساری مجھے کوسنا ئیں.( جو ان پڑھ تھے وہ بھی کتابیں سنا کرتے تھے ) کہتے ہیں انہی دنوں میں میں نے رویا میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں.میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتا ہوں کہ حضور! مرزا صاحب نے جو اس وقت دعوئی صحیح اور مہدی ہونے کا کیا ہے، کیا وہ اپنے دعوئی میں بچے ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں سچے ہیں.میں نے کہا حضور ! قسم کھا کر بتاؤ.آپ نے فرمایا مجھے قسم کھانے کی حاجت نہیں (ضرورت نہیں).میں امین ہوں زمینوں اور آسمانوں میں.( یعنی کہ امین ہوں زمین و آسمان میں.) اس کے بعد اُسی رات کی صبح کو میں نے مسیح موعود علیہ السلام کی خدمتِ اقدس میں بیعت کا خط اور اُس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا السلام علیکم بھی لکھ دیا.پھر اس کے بعد 1900ء میں قادیان شریف آ کر حضور کے ہاتھ پر بیعت کی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) جلد 4 صفحہ 120 روایت حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحب) حضرت منشی برکت علی خان صاحب اپنی ایک مبارک خواب یوں بیان فرماتے ہیں.ان کا بیعت کا سن 1901ء ہے اور اُسی سال انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت بھی کی.کہتے ہیں 1901ء کے شروع میں جبکہ مردم شماری ہونے والی تھی، حضور نے ایک اشتہار شائع فرما یا جس میں درج تھا کہ جولوگ مجھ پر دل میں ایمان رکھتے ہیں، گو ظا ہر بیعت نہیں کی ہو، وہ اپنے آپ کو احمدی لکھوا سکتے ہیں.اُس وقت مجھے اس قدر حسنِ ظن ہو گیا تھا کہ میں تھوڑا بہت چندہ بھی دینے لگ گیا تھا اور گو میں نے بیعت نہ کی تھی لیکن مردم شماری میں اپنے آپ کو احمدی لکھوا دیا.مجھے خواب میں ایک روز حضور کی زیارت ہوئی.صبح قریباً چار بجے کا وقت تھا.مجھے معلوم ہوا کہ حضور برابر والے احمدیوں کے کمرہ میں آئے ہیں.چنانچہ میں بھی حضور سے شرف ملاقات حاصل کرنے کے لئے اُس کمرے میں گیا اور جا کر السلام علیکم عرض کی.حضور نے جواب دیا: وعلیکم السلام اور فرمایا.برکت علی ! تم ہماری طرف کب آؤ گے؟ میں نے عرض کی حضرت ! اب آہی جاؤں گا.حضور اُس وقت چار پائی پر تشریف فرما تھے.جسم نگا تھا.سر کے بال ننگے اور پیٹ بھی نظر آ رہا تھا.اُس وقت کے چند روز بعد میں نے تحریری بیعت کر لی.یہ نظارہ مجھے اب تک ایسا ہی یاد ہے جیسا کہ بیداری میں ہوا ہو.اُس کے بعد جلسہ سالانہ کے مقام پر میں نے دارالامان میں
خطبات مسرور جلد دہم 753 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 دسمبر 2012ء حاضر ہو کر دستی بیعت بھی کر لی.اُس وقت میں نے دیکھا کہ حضور کی شبیہ مبارک بالکل ویسی ہی تھی جیسی کہ میں نے خواب میں دیکھی تھی.اس کے کچھ عرصہ بعد اتفاقا میں اُس مہمان خانے میں اترا ہوا تھا جس میں اب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سکونت پذیر ہیں.( یہ گھر مسجد اقصیٰ کے قریب ہی ہے ).کہتے ہیں میں ایک چار پائی پر بیٹھا تھا کہ سامنے چھت پر غالباً کسی ذرا اونچی جگہ پر حضور آ کر تشریف فرما ہوئے.نہا کر آئے تھے، بال کھلے ہوئے تھے.جسم نگا تھا.یہ شکل خصوصیت سے مجھے ویسے ہی معلوم ہوئی جو میں خواب میں دیکھ چکا تھا.اور مجھے مزید یقین ہو گیا کہ یہ خواب اللہ تعالیٰ نے میری ہدایت کے لئے مجھے دکھلایا تھا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) جلد 4 صفحہ 138 - 139 روایت حضرت منشی برکت علی صاحب) حضرت خیر دین صاحب ولد مستقیم صاحب فرماتے ہیں.(ان کا بیعت کا سن 1906 ء ہے اور زیارت بھی 1906ء میں کی ) کہ ایک دن نیند میں خاکسار نے آسمان سے ایک آواز سنی کہ نورالدین کا نام فرشتوں میں عبدالباسط ہے.یہ واقعہ بھی حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں عرض کیا.آپ نے ہنستے ہوئے ( یہ حضرت خلیفہ اول کے بارے میں ہے ) فرمایا کہ مجھے بھی معلوم ہے کہ میرا نام عبد الباسط ہے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود جلد 7 صفحہ 157-158 روایت حضرت خبر دین صاحب) حضرت خیر دین صاحب ولد مستقیم صاحب ہی کی روایت جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.( پہلے میں نے بتادیا ہے کہ انہوں نے 1906 میں بیعت کی ہے.) کہتے ہیں جب آپ نے خلعت خلافت پہنا اور حضور نے ابتدائی تقریر مسجد مبارک میں شروع کی تو اُس وقت آپ کی ران مبارک پر پھوڑا تھا اس لئے آپ کے لئے کرسی لائی گئی.چنانچہ آپ نے تقریر شروع کی.اُس وقت خاکسار سیڑھیوں کے سامنے مسجد میں بیٹھا ہوا تھا.تمام مسجد بھری ہوئی تھی.اُس وقت میری حالت نہ نیند میں تھی نہ اونگھ میں، بلکہ میں اچھی طرح بیداری کی حالت میں بیٹھا ہوا تھا.دیکھتا کیا ہوں کہ سورج کی روشنی بدل کر کوئی اور ہی روشنی آگئی ہے.وہ روشنی ایسی لذت اور سرور والی ہے کہ جس کی کیفیت بیان نہیں ہو سکتی.اُس کے سرور اور لذت کا میں اندازہ نہیں کر سکا.دیکھتے دیکھتے مسجد کا وجود بھی جاتا رہا اور مجلس بھی غائب ہو گئی.صرف حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا وجود آنکھوں کے سامنے ایک ستارے کی طرح بنا ہوا نظر آ تا ہے جو اس نور میں گھوم رہا ہے.بہت دیر تک یہی حالت دیکھتا رہا مگر کس حالت میں نہ نیند ہے نہ اونگھ ، بلکہ ٹھیک طرح مجلس میں بیٹھا بھی ہوا ہوں اور یہ نظارہ روحانی بھی دیکھ رہا ہوں.کچھ دیر کے بعد
خطبات مسرور جلد دہم 754 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 دسمبر 2012ء اچانک یہ حالت ہونے لگی.اسی طرح مسجد دکھائی دینے لگی.اسی طرح لوگ، اُسی طرح حضرت اقدس دکھائی دینے لگ گئے.کہتے ہیں یہی نور جو اُس وقت خاکسار نے حضرت اقدس کے ارد گرد دیکھا جو اُس وقت ایک ستارے کی شکل میں تھے برابر گیارہ دن حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو اس حالت میں ہر وقت دیکھتا رہا.جدھر آپ جاتے تھے ادھر ہی وہ نور دائیں بائیں آگے پیچھے رہتا تھا.میں جس حالت میں ہوتا تھا، اُسی حالت میں حضرت اقدس خلیفتہ اسیح الثانی کو اُس نور کے اندر دیکھتا تھا.خواہ میں گھر میں ہوتا یا باہر کام کر رہا ہوتا یا یونہی بیٹھا ہوتا کھانا کھا رہا ہوتا یا باتیں کر رہا ہوتا.(مختلف وقتوں میں ان پر یہ کشفی حالت طاری ہوتی رہتی تھی) کہ وہ نور اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی " مجھے دکھائی دیتے ہی رہتے.کہتے ہیں یہ نظارہ متواتر گیارہ دن تک دیکھتا رہا.ایسا کشف نہ میں نے کبھی سنا ہے نہ کبھی اتنا لمبا دیکھا ہے.یہ صرف اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکت اور نور نبوت کا اثر ہے کہ میرے جیسے معمولی انسان بھی اس قدر بڑے اور اتنے اتنے لمبے کشف دیکھتے ہیں.یہ کشف بھی گویا اس آیت کریمہ کے ماتحت ہے جس میں کہ لکھا ہے کہ پاک اور نیک لوگوں کو ایک نور ملے گا جیسا کہ سورۃ تحریم کی یہ آیت فرمائی ہے، نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيمانهم (التحریم: 9).دوسری آیت شریف میں یہ ہے کہ جس کو اس دنیا میں نور نہیں ملتا اُس کو قیامت میں کیونکر ملے گا.گویا خدا تعالیٰ نے مجھے یہ بتایا کہ یہ تمہارا خلیفہ اُن برگزیدہ لوگوں میں سے ہے جن کو کہ قیامت کے دن نور ملے گا.اور اس دنیا میں بھی یہ شخص اپنے خدا کے نور میں ہی رہتا ہے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) جلد 7 صفحہ 158 - 159 روایت حضرت خیر دین صاحب) حضرت قاضی محمد یوسف صاحب فرماتے ہیں جن کی بذریعہ خط جنوری 1902ء کی بیعت ہے اور دسمبر 1902ء میں دستی بیعت کی.کہتے ہیں ” مجھے دکھایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دوفرشتے میری محافظت پر مقرر کئے ہیں.ایک کا نام محمد صدیق ہے اور میرے والد صاحب کی شکل پر ہے، اور دوسرے کا نام غلام صمدانی ہے.مصائب اور تکالیف کے وقت پھر فرشتہ سامنے متشکل ہو کر نظر آتا ہے اور والد نے کہا کہ دو بار کم از کم الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الفاتحه : 2) پڑھا کرو.جس پر میں ہر نماز میں عمل کرتا ہوں.(رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) جلد 7 صفحہ 201 روایت حضرت قاضی محمد یوسف صاحب) یعنی نماز میں اَلْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ، اَلْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعَلَمِيْن جو ہے وہ دو دفعہ پڑھتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے ناں کہ حقیقی تعریف کے لائق تو اللہ تعالیٰ ہی ہے اور یہ حمد ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتی ہے، اس سے تعلق پیدا کرنے کے لئے، مشکلات دور کرنے کے لئے
خطبات مسرور جلد دہم 755 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 دسمبر 2012ء زیادہ سے زیادہ سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہئے اور اس کے ہر ہر لفظ پر غور کرنا چاہئے.حضرت محمد فاضل صاحب ولد نور محمد صاحب فرماتے ہیں جنہوں نے 1899ء کے آخر یا 1900ء کے ابتدا میں بیعت کی تھی کہ پہلے رسم و رواج کے مطابق نماز میں زیر ناف ہاتھ باندھتا تھا (یعنی عموماً جسے غیر از جماعت لوگ نماز پڑھتے ہوئے نیچے ہاتھ باندھتے ہیں ) اور کبھی کسی کی اقتداء میں نماز باجماعت پڑھنے کا موقع ملتا تو دل میں کبیدگی سی پیدا ہوتی اور فاتحہ خلف امام بھی پڑھ لیتا.(امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھتا تھا) لیکن دل میں اضطراب رہتا تھا.(کہ فاتحہ خلف امام اور سینہ پر ہاتھ باندھیں یاکس طرح باندھیں ؟ ان دونوں باتوں کے بارہ میں تسلی نہیں تھی کہ ہاتھ اوپر کر کے باندھنے چاہئیں یا ناف سے نیچے رکھنے چاہئیں، اور سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہئے یا نہیں پڑھنی چاہئے؟) تو کہتے ہیں اسی حالت اضطراب میں ایک دن میں سو گیا تو خواب میں میں قادیان پہنچا ہوں.مسجد مبارک والی گلی سے جاتا ہوں.میں مسجد اقصیٰ کے دروازے پر پہنچا اور پہلے جو سیڑھیاں سیدھی تھیں ، اُن پر گزرکر اندر داخل ہوتا ہوں تو حد مسجد سے باہر جوتیوں والی جگہ ایک پھلا ہی کا درخت ہے، یہ ایک پودے کی قسم ہے ) اور اُس کے پاس یا نیچے ایک پختہ قبر ہے اور اُس کی شمالی سمت میں ایک کنواں ہے اور مسجد میں ایک جماعت مکمل سینہ پر ہاتھ باندھ کر کھڑی ہے اور مصلی پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام امام ہیں اور امام کے مقابل ایک مقتدی کی جگہ خالی ہے.میں اُس جگہ جا کر کھڑا ہو گیا ہوں اور سینہ پر ہاتھ باندھ کر سورۃ فاتحہ شروع کی ہے.جب ختم کر کے آمین کہتا ہوں تو میری نیند کھل گئی.اس طرح مجھے یہ مسئلہ حل ہو گیا کہ ہاتھ یہاں باندھنے چاہئیں درمیان میں اور سورۃ فاتحہ بھی پڑھنی چاہئے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) جلد 7 صفحہ 231 روایت حضرت محمد فاضل صاحب) حضرت خیر دین صاحب ولد مستقیم صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ خاکسار نے رویا میں دیکھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کئی لوگوں کی دعوت فرمائی ہے اور اُس دعوت کا کام حضرت اُم المومنین کر رہی ہیں اور حضرت اقدس بھی نگرانی کے طور پر دیکھ رہے ہیں.جب میں پیغام کے طور پر حاضر ہوا تو جناب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اس کو چاول کھلاؤ.چنانچہ مجھے چاول دیئے گئے.ایک اور بات ہے مگر یہ اچھی طرح یاد نہیں کہ اسی دعوت والی خواب کے ساتھ ہی ہے یا علیحدہ ،مگر وہ بات مجھے خوب یاد ہے.اور وہ یہ ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اس کو کر نہ پہناؤ.چنانچہ اس بات کے فرمانے کے بعد میں فوراً اپنے جسم کی طرف دیکھتا ہوں کہ ایک بڑا خوبصورت سفید رنگ کا کرتہ
خطبات مسرور جلد دہم 756 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 دسمبر 2012ء میں نے پہنا ہوا ہے.نامعلوم کس طرح پہنچا، کس وقت پہنا ، نا گہاں اُس کو اپنے جسم کے اوپر پہنا ہوا دیکھتا ہوں جس کا اثر آج تک میں اپنے اوپر محسوس کرتا رہتا ہوں.اسی طرح ایک دفعہ خواب میں ایک شخص کو دیکھا کہ وہ صحابہ کرام میں سے ہے.خواب کے بعد معلوم ہوا کہ یہ خواب آپ کے یعنی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اُس شعر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا وہی ئے اُس کو مولیٰ نے پلا دی چنانچہ وہ شخص جو مجھ کو ملا اس نے اپنے اوپر کھیں لیا ہے جس کا کنارہ سرخ ہے.میں نے اس سے پوچھا کہ یہ کھیں تم نے کہاں سے لیا ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ مجھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے.میں نے کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو رحلت فرما گئے ہیں.غالباً چودہ سو سال ہو گئے ہیں.(آپ کو وفات ہوئے.وصال ہوئے ) اُس نے جواب دیا کہ مجھ کو بہر حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی دیا ہے.یا یہ کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی لیا ہے.صرف اس فقرے میں اختلاف ہے.بہر حال یہ تو لفظ کہتے ہیں اچھی طرح یاد ہے.میں نے کہا کہ بتاؤ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کی حفاظت کون کرتا ہے؟ اُس نے کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کی حفاظت مسجد کے منڈے کرتے ہیں.خاکسار نے پوچھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا کیا حال ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ بیویوں کا کیا حال پوچھتے ہو، کچھ تو اُن میں سے دلی پہنچ گئی ہیں.اُس وقت مجھے معلوم نہ تھا کہ حضرت اُم المومنین حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ دتی کے رہنے والے ہیں.کہتے ہیں کہ گو یا اللہ تعالیٰ نے روحانی اور جسمانی طور پر تسلی دلا دی کہ یہ قرآن کریم کے مطابق سلسلہ ہے جیسا کہ وَآخَرِین میں فرمایا گیا ہے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) جلد 7 صفحہ 156-157 روایت حضرت خیر دین صاحب) خیر دین صاحب کی ہی ایک روایت ہے اور وہ کہتے ہیں ایک دن خاکسار نے خواب میں مسجد اقصیٰ کو دیکھا، مگر اس طرح دیکھا کہ اُس کے پاس ہی بیت اللہ ہے.ان دونوں کی شکل ایک ہی جیسی ہے.میں پہچان نہیں سکتا کہ قادیان والی مسجد اقصیٰ کونسی ہے اور بیت اللہ کونسا ہے.ان دونوں چیزوں کی شکل مجھ پر مشتبہ ہوگئی ہے.میں کہتا ہوں کہ اس کو مسجد اقصیٰ کہوں یا اُس کو کہوں.غرض یہ دونوں چیزیں مجھ پر مشتبہ ہو گئیں اور میری آنکھ کھل گئی.اُس کی تعبیر دل میں یہ ڈالی گئی کہ یہ وہی سلسلہ ہے جو اخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بهم (الجمعة: 4) کا مصداق ہے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) جلد 7 صفحہ 158 روایت حضرت خیر دین صاحب)
خطبات مسرور جلد دہم 757 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 دسمبر 2012ء حضرت حکیم عطا محمد صاحب فرماتے ہیں (ان کی 1901ء کی بیعت اور زیارت بھی ہے ) کہ بیعت کے بعد چند دن قادیان رہا اور پھر حضور سے اجازت حاصل کر کے واپس لاہور آ گیا اور صوفی احمد دین صاحب ڈوری باف نے احمد یہ جماعت کے احباب سے ملاقات کرائی.کچھ عرصہ کے بعد ایک صاحب نے محبت سے فرمایا ( کسی احمدی نے کہا ) کہ پھر محمد صاحب قادیان آگئے ہیں.کہتے ہیں اس بات کوسن کر مجھے حیرانی ہوئی بنی نئی بیعت ہوئی ہوئی تھی.اور دعا کی کہ یا الہی ! اس جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ آگئے ہیں اور مرزا صاحب محمد کیسے ہو سکتے ہیں؟ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کھڑے ہیں اور آسمان سے ایک فرشتے نے اتر کر مجھ سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ کہتے ہیں میں نے کہا کہ یہ مرزا صاحب ہیں.پھر میں نے دیکھا کہ آسمان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نور اترا اور وہ نور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دماغ میں داخل ہوا.پھر تمام جسم میں سرایت کر گیا اور حضور کا چہرہ اُس نور سے پر نور ہو گیا.پھر اُس فرشتے نے کہا کہ یہ کون ہیں؟ میں نے کہا پہلے تو مرزا صاحب تھے اب واقعی محمد ہو گئے ہیں صلی اللہ علیہ وسلم.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) جلد 7 صفحہ 176 روایت حضرت حکیم عطاء محمد صاحب) تو یہی اعتراض ہے نہ.اصل میں تو یہ نور محمد ہی ہے جس کو پھیلانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے ہیں.حضرت شیخ محمد افضل صاحب فرماتے ہیں.( 1905ء کی ان کی بیعت ہے ) کہ جس وقت خاکسار کی عمر 12 سال کی تھی اور گو ہمارے خاندان میں میرے تا یاحکیم شیخ عباداللہ صاحب اور میرے تایا زاد بھائی شیخ کرم الہی صاحب حضرت صاحب سے بیعت تھے مگر خادم نے نہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا تھا ( یعنی انہوں نے خود نہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا تھا) اور نہ ہی حضور کا فوٹو دیکھا تھا.خواب دیکھا کہ میرے جسم کی تمام جان نکل گئی ہے مگر دماغ میں سمجھنے کی اور آنکھوں میں دیکھنے کی طاقت باقی ہے.میرے سامنے ایک بزرگ بیٹھے ہیں اور اُن کے پیچھے گھٹنوں تک قدم مبارک دکھائی دیتے ہیں.میرے دل میں ڈالا گیا یہ بزرگ جو بیٹھے تیری طرف دیکھ رہے ہیں مرزا صاحب ہیں اور پچھلی طرف جو قدم مبارک نظر آتے ہیں، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں.میری آنکھ کھل گئی.صبح میں نے مرتضیٰ خان ولد مولوی عبداللہ خان صاحب جو ان دنوں لاہوری جماعت میں شامل ہیں ( یعنی بعد میں غیر مبائع میں شامل ہو گئے تھے ) اُس کو یہ خواب بتائی اور تعبیر دریافت کی.تو انہوں نے فرمایا کہ تم کو مرزا صاحب کی
خطبات مسرور جلد دہم 758 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 دسمبر 2012ء بدولت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی حاصل ہو گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور میں خدا کی قسم کھا کر تحریر کرتا ہوں کہ جب 1905ء میں میں بیعت ہوا تو حضور وہی تھے جو خواب میں میری طرف دیکھ رہے تھے.اس طرح سے خدا جس کو چاہتا ہے سچا راستہ دکھا دیتا ہے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) جلد 7 صفحہ 218-219 روایت حضرت شیخ محمد افضل صاحب) حضرت شیخ محمد افضل صاحب فرماتے ہیں کہ جب میری عمر 15 سال کے قریب تھی تو میں نے بہشت اور دوزخ اور اعراف کو خواب میں دیکھا.اُن کے دیکھنے کی ایک لمبی تفصیل ہے، محض اسی پر ہی اکتفا کرتا ہوں کہ جب میں بہشت دیکھ کر باہر آیا تو ایک بزرگ ملے اور انہوں نے میرے کندھے پر دست مبارک رکھ کر فرمایا کہ لڑکے تو کہاں؟ میں نے تو اُس کا کوئی جواب نہ دیا.اُس بزرگ سے دریافت کیا کہ یہ مکان یعنی بہشت کس مالیت کا ہے؟ بزرگ نے فرمایا کہ اگر تیرا پٹیالہ (یعنی یہ پٹیالہ کے تھے ) تیرا پٹیالہ سود فعہ بھی فروخت ہو تو اس مکان کی ایک اینٹ کی بھی قیمت نہ ہوگا.میری آنکھ کھل گئی؟ خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے جب میں 1905ء میں بیعت کے لئے قادیان شریف گیا تو مرز اصاحب وہی بزرگ تھے جو مجھ کو بہشت کے دروازے پر ملے تھے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) جلد 7 صفحہ 219 روایت حضرت شیخ محمد افضل صاحب) حضرت محمد فاضل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد نور محمد صاحب ( ان کی بھی بیعت 1899 ء کی ہے ) یہ روایت پہلے بیان ہو چکی ہے.فرماتے ہیں کہ ایک دن موضع مان کوٹ جو ہمارے قریب آٹھ کوس کے فاصلے پر ہے، گیا.رات کو وہاں پر نماز پڑھ کرسویا تو خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ میں مصلی پر بیٹھا ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام مصلی کے ( جائے نماز کے سرہانے کی طرف آکر بیٹھ گئے ہیں اور میرے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو اپنے انگوٹھے سے زور سے ملتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ دل میں کچھ طاقت پیدا ہو گئی ہے.تو میں اُس وقت طاقت محسوس کرتا ہوں اور عرض کرتا ہوں کہ ہاں حضور ہو گئی ہے.پھر میری آنکھ کھل گئی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) جلد 7 صفحہ 231-232 روایت حضرت محمد فاضل صاحب) یہ محمد فاضل صاحب ہی فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں قادیان پہنچا ہوں اور مسجد مبارک کے اندر محراب کے پاس کونے میں حضرت اقدس علیہ السلام تشریف فرما ہیں.مسجد میں بڑی روشنی ہے.میں حضور کے آگے جا کر بیٹھ گیا ہوں تو حضور مجھے ایک سفید چینی کی پلیٹ جس میں نہایت شفاف سرخ رنگ کا حلوہ ہے اپنے دست مبارک سے دے کر کہتے ہیں کہ یہ کھالو.چنانچہ میں نے اُسی وقت اُس کو کھالیا
خطبات مسرور جلد دہم 759 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 دسمبر 2012ء اور وہ نہایت ہی خوشگوار ہے اور اس پر میری آنکھ کھل گئی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) جلد 7 صفحہ 235-236 روایت حضرت محمد فاضل صاحب) رض حضرت حافظ جمال احمد صاحب فرماتے ہیں جنہوں نے 1908ء میں مئی میں زیارت کی تھی کہ میری اہلیہ مرحومہ نے بیان کیا کہ میرے دل میں ایک وسوسہ پیدا ہوا کہ پیر تو اور بھی بہت ہیں پھر ہم حضرت صاحب کو سچا اور دوسروں کو جھوٹا کیوں کہتے ہیں؟ ( کہ صرف سچے پیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی ہیں اور دوسرے سب غلط ہیں ) کہتی ہیں کہ رات کو خواب میں دیکھا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صاحب کا بازو پکڑ کر فرمایا کہ جو ان کو قبول نہیں کرتا وہ کافر ہے.میری اہلیہ مرحومہ کا انہ پہلے سید احمد رضا خان بریلوی کا مرید تھا.اُس کے بعد سے پھر اُن کو تسلی ہو گئی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ( جلد 7 صفحہ 251 روایت حضرت محمد فاضل صاحب) حضرت میاں محمد ظہور الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کی بیعت 1905ء کی ہے، لکھتے ہیں کہ میرے خسر قاضی زین العابدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی سے پہلے حضرت منشی احمد جان صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے بیعت کئے ہوئے تھے.حضرت منشی احمد جان صاحب لدھیانوی کے فوت ہونے کے بعد مگر می معظمی قاضی زین العابدین صاحب نے کئی بار حضرت مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر جا کر کشف قبور کے طریق پر مراقبہ کیا.ایک روز حضرت مجدد الف ثانی کی آپ کو زیارت ہوئی.انہوں نے دریافت کیا کہ کیوں کیا چاہتے ہو؟ قاضی صاحب نے عرض کیا کہ یاد الہی ! میرے مرشد فوت ہو گئے ہیں.اتنا لفظ سن کر حضرت مجددالف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کی صورت غائب ہوگئی.پھر قاضی صاحب وہاں سے واپس آگئے.پھر دو تین روز گئے ، ویسا ہی عمل کیا ، مراقبہ کیا ، قبر پر بیٹھ کر دعا کی.پہلے کی طرح پھر حضرت مجددالف ثانی کی شکل سامنے آئی اور دریافت کیا کہ کیا چاہتے ہو؟ پھر قاضی صاحب نے عرض کیا کہ یادِ الہی ! ( یعنی اللہ تعالیٰ سے تعلق ) اور ساتھ لگتے ہی عرض کی ، اس کے ساتھ ہی کہتے ہیں میں نے اُن کو عرض کیا کہ کیا میں مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے پاس جاؤں.حضرت مجد د صاحب نے فرمایا کہ وہاں تمہاری تسلی نہ ہوگی.اتنا کہہ کر وہ شکل پھر غائب ہو گئی.پھر کچھ دن کے بعد قاضی صاحب قادیان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں جا کر رہے.فرماتے تھے کہ جو مزہ حضرت منشی احمد جان صاحب کی مجلس میں ہمیں ملتا تھا وہ قادیان میں میسر نہ تھا.وہاں کچھ اُن کو پہلے جو عادت تھی، کہتے ہیں مجھے مزہ نہیں آیا.حضرت مجددالف ثانی صاحب کے فرمانے کے مطابق ہماری تسلی نہ ہوتی تھی.خیر کئی بار قادیان جا کر ہفتہ ہفتہ رہ کر آتا تھا.حضرت منشی احمد جان صاحب وہ بزرگ ہستی ہیں کہ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطبات مسرور جلد دہم 760 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 دسمبر 2012ء کے ابتدائی حالات کو ہی دیکھ کر لوگوں کی بیعت لینا چھوڑ دی تھی اور جو کوئی آتا اُس کو آپ فرمایا کرتے تھے کہ اب جس کو یاد الہی کا شوق ہو وہ قادیان مرزا غلام احمد کے پاس جائے.1885ء میں ان کی وفات ہوگئی تھی.یہ وہی بزرگ ہیں جن کو حج کے وقت دعا کے لئے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا تھا.بہر حال کہتے ہیں کہ منشی احمد جان صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہم تو ان ہوند کے تھے.(جب کوئی نہیں تھا تو ہم تھے ).ہم تو مخلوق خدا کو ایک ایک قطرہ دیا کرتے تھے مگر یہ شخص یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو ایسا عالی ہمت پیدا ہوا ہے کہ اس نے تو چشمہ پر سے پتھر ہی اٹھا دیا ہے.اب جس کا جی چاہے سیر ہوکر پئے اور ساتھ ہی یہ شعر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شانِ مبارک میں فرمایا کرتے تھے.ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر تم مسیحا بنو خدا کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لدھیانہ آنے سے قبل ہی آپ نے اپنے مریدوں سے فرما دیا تھا کہ مرزا غلام احمد صاحب لدھیا نہ آنے والے ہیں، ہم بھی اُن کو ملنے کے واسطے اسٹیشن پر جائیں گے.میں جن کی طرف اشارہ کروں تم سمجھ لینا کہ وہی مرزا غلام احمد صاحب ہیں.آپ کو اپنے مریدین نے کہا کہ جب حضور نے ان کو دیکھا ہی نہیں (یعنی آپ نے دیکھا ہی نہیں ) تو آپ پھر کیسے بتلا دیں گے کہ فلاں شخص ہی مرزا غلام احمد صاحب ہیں.اس پر انہوں نے فرمایا کہ حدیثوں میں تو پہلے سے ہی حلیہ موجود ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب اسٹیشن لدھیانہ پر آ کر اترے اور بہت مخلوق کے درمیان آپ چلے آ رہے تھے اُس وقت آپ نے اپنے مریدین سے اشارہ کر کے بتلایا کہ وہ شخص مرزا غلام احمد صاحب ہیں.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ کے قریب آئے تو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو السلام علیکم کہہ کر مصافحہ کیا.حضرت منشی احمد جان صاحب کی عقیدت کی وجہ سے کہتے ہیں کہ میں نے پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر لی.پھر حضرت اقدس کی مجلس کا جو رنگ مجھ پر چڑھا، پہلے تو یہ مجلس پسند نہیں آ رہی تھی لیکن اُس کے بعد، بیعت کرنے کے بعد جب رنگ چڑھا تو پھر پہلی مجلسوں کا جو رنگ تھاوہ پھیکا نظر آنے لگا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) جلد 11 صفحہ 355 تا 358 روایت حضرت میاں محمد ظہور الدین صاحب) اللہ تعالیٰ ہمیں ان بزرگوں کی طرح ایمان ویقین میں بڑھاتا چلا جائے اور ہم میں سے ہر ایک میں وہ رنگ چڑھ جائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں چڑھانا چاہتے تھے اور جس کے چڑھانے کے لئے آپ تشریف لائے.صرف بیعت کافی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے ایک تعلق بھی ہم میں سے ہر ایک کا پیدا ہونا چاہئے.
خطبات مسر در جلد دہم 761 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 7 دسمبر 2012ء دوسری بات یہ کہ پاکستان کے لئے میں دعا کی تحریک کرتا ہی رہتا ہوں.احباب جماعت دعائیں کرتے بھی ہیں.تاہم آج پھر اسی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.احمدیوں کے حالات پاکستان میں تنگ سے تنگ تر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.اور جب ارباب حکومت سے کہو ، رپورٹ کرواؤ ، افسران کے پاس جاؤ یا اُن سے پوچھو تو یہ کہتے ہیں کہ ہماری رپورٹوں کے مطابق تو سب کچھ ٹھیک ہے اور کچھ بھی نہیں ہو رہا.اس ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی پر سوائے انا للہ کے اور کیا کہا جاسکتا ہے.اور یقینا اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ہماری توجہ کا مرکز ہے اور ہونا چاہئے.ان لوگوں کو خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا اندازہ ہی نہیں ہے.یہ سمجھتے ہیں کہ دنیاوی طور پر یہ بھی ایک جماعت ہے جو سلوک مرضی ان سے کر لو، کچھ نہیں ہوگا ان کے ساتھ.بہر حال ہمارا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور یہی ہمارا فرض ہے.اس کی طرف ہمیں زیادہ سے زیادہ توجہ دینی چاہئے.اس بارے میں ہماری طرف سے کبھی کسی قسم کی کمی یا کوتاہی نہیں ہونی چاہئے.گزشتہ دنوں لاہور میں احمد یہ قبرستان میں ماڈل ٹاؤن میں رات کو چودہ پندرہ آدمی زبردستی گھس گئے.وہاں جو چوکیدار تھا اُس کو اور اُس کے گھر والوں کو گن پوائنٹ پر رشیوں سے باندھ دیا اور پھر گھر کے اندر بند کر دیا.اور اُس کے بعد 120 قبروں کی بے حرمتی بھی کی ، اُن کے کتبے بھی توڑے.اب تو ان شیطانوں کے شر سے مردے بھی محفوظ نہیں ہیں.احمدی وفات یافتگان بھی محفوظ نہیں ہیں.اور اس میں بظاہر شواہد یہی نظر آتے ہیں کہ اس میں پولیس کا بھی ہاتھ ہے.پولیس کی پشت پناہی انہیں حاصل ہے.کیونکہ بڑی مشکلوں سے ایف آئی آر درج کی گئی.جب درج کروانے کی کوشش کی تو بڑے انکار کے بعد درج ہوئی.اسی طرح شہادتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے.آج بھی کوئٹہ میں ایک احمدی نوجوان کو جن کا نام مقصود احمد صاحب تھا، شہید کر دیا گیا ہے.ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی مجھے اطلاع ملی ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ.بہر حال شہید مرحوم کے جب کوائف آئیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ اگلے جمعہ اُن کا جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا.ان کے بڑے بھائی کو بھی ایک مہینہ پہلے کوئٹہ میں شہید کر دیا گیا تھا.اللہ تعالیٰ جلد تران دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچائے.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کہ ہمارا کام دشمنوں کے ہر کر یہہ اور ظالمانہ عمل پر پہلے سے زیادہ خدا تعالیٰ کی طرف جھکنا اور اُس کی مدد چاہنا ہے.اس کی طرف جماعت کو خاص طور پر توجہ دینی چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 28 دسمبر 2012 تا 3 جنوری 2013 جلد 19 شماره 52 صفحه 5 تا 9 )
خطبات مسرور جلد دہم 762 50 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 دسمبر 2012ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 14 دسمبر 2012ء بمطابق 14 فتح 1391 ہجری شمسی بمقام بیت السبوح - فرینکفرٹ (جرمنی) تشہد و تعوذ وسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: عام طور پر شہید کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو جائے.بیشک ایسا شخص جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان قربان کرتا ہے، شہید کا مقام پاتا ہے.اللہ تعالیٰ اُس کے لئے جنت کے دروازے کھول دیتا ہے.لیکن شہید کے معنی میں بہت وسعت ہے.یہ معنی بہت وسعت لئے ہوئے ہے، اور بھی اس کے مطلب ہیں.اس لئے آج میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات اور بعض احادیث کے حوالے سے اس بارے میں کچھ کہوں گا.یہاں ان ممالک میں پلنے اور بڑھنے والے بچے اور جو ان یہ سوال کرتے ہیں، کئی دفعہ مجھ سے سوال ہو چکا ہے.گزشتہ دنوں ہیمبرگ میں واقفات ٹو کی کلاس تھی تو وہاں بھی غالباً ایک بچی نے سوال کیا کہ جب آپ شہداء کے واقعات بیان کرتے ہیں تو اکثر کے واقعات میں یہ ذکر ہوتا ہے کہ وہ اپنے قریبی عزیزوں کو کہتے ہیں کہ دعا کرو کہ میں شہید ہو جاؤں یا شہید کا رتبہ پاؤں یا شہادت تو قسمت والوں کو ملا کرتی ہے.تو شہید ہونے کی دعا کے بجائے سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ دشمن پر فتح پانے کی دعا کا کیوں نہیں کہتے اور یہ کیوں نہیں کرتے ؟ یقینا دشمن پر غلبہ پانے کی جو دعا ہے یہی اول دعا ہے اور الہی جماعتوں سے خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ بھی ہے کہ غلبہ انہی کو حاصل ہونا ہے.فتوحات انہی کی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی متعدد مرتبہ اللہ تعالیٰ نے کامیابی اور فتوحات کی اطلاع دی اور غلبہ کی خبر دی.اور ہمیں یقین ہے کہ اس کے واضح اور روشن نشانات بھی جماعت احمد یہ دیکھے گی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے آثار بھی ہم دیکھ رہے ہیں
خطبات مسرور جلد دہم 763 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 دسمبر 2012ء بلکہ ہر سال با وجود مخالفت کے لاکھوں کی تعداد میں بیعت کر کے جولوگ احمدیت میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں اور اُن ملکوں میں بھی بیعتیں ہو رہی ہیں جہاں مخالفت بھی زوروں پر ہے تو یہ سب چیزیں ترقی اور فتوحات ہی ہیں جس کے نظارے ہم دیکھ رہے ہیں.اسی طرح جماعت جو دوسرے پروگرام کرتی ہے اور اسلام کی خوبصورت تصویر پیش کر کے غیر اسلامی دنیا کے شکوک و شبہات دور کر رہی ہے.یہ جو بات ہے یہ کامیابیوں اور فتوحات کی طرف قدم ہی تو ہیں جو جماعت احمدیہ کے اُٹھ رہے ہیں جو ایک وقت میں آ کر انشاء اللہ تعالیٰ دنیا میں ایک غیر معمولی انقلاب پیدا کریں گے اور اس کے لئے ہر احمدی کو کوشش بھی کرنی چاہئے اور دعا بھی کرنی چاہئے.بہر حال بڑے مقاصد کے حصول کے لئے قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں، جان کی قربانی بھی دینی پڑتی ہے اور جماعت احمدیہ کے افراد جہاں بھی ضرورت ہو، ہر قسم کی قربانیاں دیتے ہیں اور اس کے لئے تیار بھی رہتے ہیں.اس میں جان کی قربانی بھی ہے جو اُن قربانی کرنے والوں کو شہادت کا رتبہ دلا رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں یہ لوگ داخل ہورہے ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ شہادت صرف اسی قدر نہیں ہے، شہید کا مطلب صرف اسی قدر نہیں ہے، اس کی گہرائی جاننے کے لئے اُن نوجوان سوال کرنے والوں کو ضرورت ہے اور بڑوں کو بھی ضرورت ہے، تا کہ شہادت کے مقام کے حصول کی ہر کوئی کوشش کرے.اس دعا کی روح کو سمجھے اور خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں داخل ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر حضرت ابو ہریرہ کو فرمایا کہ اگر صرف اللہ تعالیٰ کی راہ میں مارے جانے والے ہی شہید کہلائیں گے تو پھر تو میری اُمت میں بہت تھوڑے شہید ہوں گے.(صحیح مسلم کتاب الامارة باب بيان الشهداء، حدیث 1915) مسلم کی ایک حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص صدق نیت سے شہادت کی تمنا کرے، اللہ تعالیٰ اُسے شہداء کے زمرے میں داخل کرے گا خواہ اُس کی وفات بستر پر ہی کیوں نہ ہو.(صحیح مسلم کتاب الامارة باب استحباب طلب الشهادة في سبيل الله تعالیٰ، حدیث 1909) بدر کے موقع پر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اُس کے عہد کا واسطہ دے کر فتح مانگی تھی.اُن مسلمانوں کی زندگی مانگی تھی جو آپ کے ساتھ بدر کی جنگ میں شامل تھے.جان قربان کر کے شہادت پانا نہیں مانگا تھا.عرض کیا تھا کہ اگر یہ مسلمان ہلاک ہو گئے تو پھر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا.(صحیح مسلم كتاب الجهاد والسير باب الامداد بالملائكة فى غزوة بدر...حديث: 1763)
خطبات مسر در جلد دہم 764 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 دسمبر 2012ء اللہ تعالیٰ نے بھی انسان کا جو مقصد پیدائش بیان فرمایا ہے وہ عبادت ہی بیان فرمایا ہے.مسلسل پس ایک حقیقی مومن کا پیدائش کا مقصد صرف ایک دفعہ کی زندگی قربان کرنا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش ہے اور ہر قربانی کے لئے ہر وقت تیار رہنا ہے.ہاں یہ بھی احادیث میں آتا ہے کہ ایک مومن جنگ کی خواہش نہ کرے.لیکن جب زبر دستی اُسے اس میں گھسیٹا جائے ، جب دین کے مقابلے پر ایک مومن کی جان لینے کی کوشش کی جائے تو پھر وہ ڈر کر پیچھے نہ ہٹے بلکہ مردانہ وار اپنی جان کا نذرانہ پیش کرے اور اس سے کبھی پیچھے نہ ہٹے.(صحیح بخاری كتاب الجهاد والسير باب لا تمنوا لقاء العدو حديث:3025) جب جنگوں کی اجازت اور حالات تھے تو دشمن کا مقابلہ کر کے یا جان قربان کر کے ایک مومن شہادت کا رتبہ پا تا تھا یا فتح پا تا تھا اور اس میں کسی قسم کا خوف اور ڈر شامل نہیں ہوتا تھا.آجکل کے حالات میں جنگ تو ہے نہیں.جماعت احمدیہ کے دشمن بھی ہیں اور ہمارے جو دشمن ہیں، جو بزدل دشمن ہے یہ چھپ کر حملہ کرتا ہے.لیکن اگر سامنے آ کر بھی حملہ کرے تو پھر بھی جنگ کرنے کا تو حکم نہیں ہے.بعض احمد یوں کو وارننگ کے خطوط بھی آتے ہیں کہ یا احمدیت چھوڑ دو یا مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ.تو اُس وقت ایک مومن کی مردانگی یہی ہے اور پاکستان کے احمدی اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ جان تو بیشک چلی جائے مگر دین اور خدا تعالیٰ کی رضا کو قربان نہیں کیا جا سکتا.پس یہ ایک مومن کا امتیاز ہے جو مختلف حالات میں مختلف صورتوں میں قائم رہتا ہے.اور اللہ تعالیٰ نے نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں اور صالحین میں شامل ہونے کے لئے مومن کو دعا بھی سکھائی ہے.لیکن شہادت کی وسعت کیا ہے؟ جیسا کہ میں نے کہا اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا فلسفہ کیا ہے؟ اس کی گہرائی کیا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کرتے ہوئے ہمیں زمانے کے امام مسیح موعود اور مہدی موعود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے جنہوں نے ہمیں کھول کر اور واضح کر کے اس بارے میں سمجھایا ہے کہ یہ کیا چیز ہے؟ اس وقت میں یہ آیت جو پہلے بیان کر چکا ہوں ، نبی ، صدیق اور شہید اور صالحین ان سب کی خصوصیات کے بارے میں تو بیان نہیں کروں گا.جیسا کہ میں نے کہا کہ شہید کے بارے میں سوال ہوتا ہے اور اُسی کو آپ کی تفسیر اور وضاحت کی روشنی میں اس وقت بیان کروں گا.کیونکہ شہید کا ہی ذکر ہو رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے متعدد جگہ شہید کی حقیقت کے بارے میں ، اس کے رتبہ اور مقام کے بارے میں لکھا ہے.میں چند اقتباسات پیش کروں گا جن سے واضح ہوتا ہے کہ شہید بننے کے لئے دعا کرنا کیوں ضروری ہے؟ اور کس قسم کا شہید بننے کے لئے دعا کی جانی چاہئے اور کیوں ایک حقیقی مومن
خطبات مسرور جلد دہم کو اس کی خواہش ہونی چاہئے.765 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 دسمبر 2012ء حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : عام لوگوں نے شہید کے معنی صرف یہی سمجھ رکھے ہیں کہ جو شخص لڑائی میں مارا گیا یا دریا میں ڈوب گیا یا وباء میں مر گیا وغیرہ.مگر میں کہتا ہوں کہ اسی پر اکتفاء کرنا اور اسی حد تک اس کو محدود رکھنا مومن کی شان سے بعید ہے.شہید اصل میں وہ شخص ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ سے استقامت اور سکینت کی قوت پاتا ہے اور کوئی زلزلہ اور حادثہ اس کو متغیر نہیں کر سکتا.(اُس کو اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتا وہ مصیبتوں اور مشکلات میں سینہ سپر رہتا ہے.یہانتک کہ اگر محض خدا تعالیٰ کے لئے اس کو جان بھی دینی پڑے تو فوق العادت استقلال اُس کو ملتا ہے (غیر معمولی استقلال اُس کو ملتا ہے ) اور وہ بڑوں کسی قسم کا رنج یا حسرت محسوس کئے اپنا سر رکھ دیتا ہے بغیر کسی غم ، بغیر کسی حسرت کے وہ اپنا سر قربانی کے لئے پیش کر دیتا ہے ) فرمایا: اور چاہتا ہے کہ بار بار مجھے زندگی ملے اور بار بار اس کو اللہ کی راہ میں دوں.ایک ایسی لذت اور سرور اُس کی روح میں ہوتا ہے کہ ہر تلوار جو اُس کے بدن پر پڑتی ہے اور ہر ضرب جو اُس کو پیس ڈالے، اُس کو پہنچتی ہے.وہ اُس کو ایک نئی زندگی نئی مسرت اور تازگی عطا کرتی ہے.یہ ہیں شہید کے معنی.پھر یہ لفظ شہد سے بھی نکلا ہے.“ فرمایا ”پھر یہ لفظ شہد سے بھی نکلا ہے.عبادت شاقہ جو لوگ برداشت کرتے ہیں“ ( یعنی عبادت کرنے میں ایک مشقت بھی اُٹھاتے ہیں ) اور خدا کی راہ میں ہر ایک تلخی اور کدورت کو جھیلتے ہیں اور جھیلنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، وہ شہد کی طرح ایک شیرینی اور حلاوت پاتے ہیں.اور جیسے شہد فِيهِ شِفَاء لِلنَّاسِ (النحل: 70) کا مصداق ہے یہ لوگ بھی ایک تریاق ہوتے ہیں.اُن کی صحبت میں آنے والے بہت سے امراض سے نجات پا جاتے ہیں.اگر صرف مرنے سے ہی شہادت ملتی ہے تو پھر انسان صحبت سے کس طرح فائدہ اُٹھا سکتا ہے.اللہ تعالیٰ کی رضا پر چلنا ، اللہ تعالیٰ کا قرب پانا جو حقیقی نیکیاں ہیں یہ بھی شہید کا ایک مقام ہے جس کی صحبت میں رہنے والے، فرمایا کہ مختلف مرضوں سے نجات پا جاتے ہیں.پھر آپ فرماتے ہیں اور پھر شہید اس درجہ اور مقام کا نام بھی ہے جہاں انساں اپنے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے یا کم از کم خدا کو دیکھتا ہوا یقین کرتا ہے.اس کا نام احسان بھی ہے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 276.ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ فرمایا کہ شہید کا مقام یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے یا خدا کو دیکھتا ہے اور یقین کرتا ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد چہارم صفحه 423 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد دہم 766 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 دسمبر 2012ء یعنی جو کام بھی عموماً کر رہا ہو اُس میں اُسے یقین ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ میرے اس کام کو دیکھ رہا ہے اور جب یہ صورت ہو تو پھر توجہ ہمیشہ نیک کاموں کی طرف ہی رہتی ہے.پھر کوئی بد کام انسان نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ کی ذات کے حوالے سے احسان کیا چیز ہے.فرمایا کہ جب یہ حالت ہو تو احسان ہو جاتا ہے.احسان کیا چیز ہے؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : خدا کا تمہیں یہ حکم ہے کہ تم اُس سے اور اُس کی خلقت سے عدل کا معاملہ کرو“ (احسان سے پہلے کی جو ایک حالت ہے وہ عدل ہے).پھر فرمایا کہ یعنی حق اللہ اور حق العباد بجالاؤ.اور اگر اس سے بڑھ کر ہو سکے تو نہ صرف عدل بلکہ احسان کرو یعنی فرائض سے زیادہ.اور ایسے اخلاص سے خدا کی بندگی کرو کہ گویا تم اس کو دیکھتے ہو“.ایک تو فرائض مقرر کئے گئے ہیں، وہ عبادتیں تو کرنی ہیں لیکن اُس سے بڑھ کر جو نوافل ہیں اُن کی ادائیگی ہے.اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنا ہے، اللہ تعالیٰ سے ایک تعلق جوڑنا ہے، یہ کرو گے تو یہ بندگی ہے، یہ احسان ہے.اور یہ پھر اُن رتبوں کی طرف لے جاتی ہے جو شہادت کے رتبے ہیں اور فرمایا کہ اور حقوق سے زیادہ لوگوں کے ساتھ مروت وسلوک کرو.شعبه حق روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 361-362) صرف لوگوں کے حق دینا کام نہیں ہے بلکہ اس کے اعلیٰ درجے پانے کے لئے ، ان لوگوں میں شامل ہونے کے لئے جو شہید کا درجہ پاتے ہیں ، لوگوں کا جو حق ہے وہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اُن سے پیار اور محبت ، نرمی اور احسان کا سلوک کرو.پھر یہ ذکر فرماتے ہوئے کہ عدل کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق پیدا کرو کہ یہ یقین ہو کہ اُس کے علاوہ اور کوئی پرستش کے لائق نہیں، کوئی عبادت کے لائق نہیں، کوئی بھی محبت کے لائق نہیں ، کوئی بھی تو کل کے لائق نہیں.اُس کے علاوہ کسی پر توکل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ خالق بھی ہے.اس زندگی کو اور اس کی نعمتوں کو قائم رکھنے والا بھی ہے اور وہی رب بھی ہے جو پالتا ہے اور اپنی نعمتیں مہیا فرما تا ہے.فرمایا ایک مومن کے لئے اتنا کافی نہیں ہے کہ اس نے ان باتوں پر یقین کر لیا یا صرف یہ سمجھ لیا کہ اللہ تعالی ہی سب طاقتوں کا مالک ہے اور رب ہے بلکہ اس پر ترقی ہونی چاہئے ، اس سے قدم آگے بڑھنے چاہئیں.اور وہ ترقی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمتوں کے ایسے قائل ہو جاؤ اور اُس کے آگے اپنی پرستشوں ( یعنی عبادتوں ) میں ایسے متادب بن جاؤ“.( یہ حالت ہونی چاہئے کہ ایسا ادب اللہ تعالیٰ کے آگے ہو،
خطبات مسر در جلد دہم 767 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 دسمبر 2012ء ایسا اُس کے آگے جھکنے والے ہو، اس طرح دلی چاہت سے عبادت کرنے والے ہو جو دل سے پیدا ہوتا ہے.پھر فرمایا کہ ) اور اُس کی محبت میں ایسے کھوئے جاؤ کہ گویا تم نے اُس کی عظمت اور جلال اور حسنِ لا زوال کو (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 550-551) 66 دیکھ لیا ہے.“ پس جب انسان اللہ تعالیٰ کی لامحدود اور کبھی نہ ختم ہونے والے حسن کو دیکھتا ہے، اُس کی صفات پر یقین رکھتا ہے، اُس کی عبادت کی طرف توجہ رہتی ہے تو پھر اُس سے کوئی ایسی حرکت سرزد ہو ہی نہیں سکتی جو خدا تعالیٰ کی رضا کے خلاف ہو اور جب یہ صورت ہو تو پھر یہ شہید کا مقام ہے.آپ نے شہید کی یہاں یہ بھی وضاحت فرمائی کہ جب یہ تعلق اللہ تعالیٰ سے قائم ہوتا ہے تو پھر استقامت کی قوت پیدا ہوتی ہے.پھر انسان خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور یہ سب کچھ کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اس راہ کی جو مشکلات ہیں اُن میں بھی سکون ملتا ہے، وہ بھی تسکین کا باعث بن جاتی ہیں.ہر مشکل کے آگے سینہ تان کر مومن کھڑا ہو جاتا ہے.کوئی خوف یا غم یا حسرت دل میں نہیں ہوتی کہ اگر میں نے یہ نہ کیا ہوتا ، اگر میں نے فلاں مخالف احمدیت کی بات مان لی ہوتی ، اُن کی دھمکیوں سے احمدیت چھوڑ دی ہوتی تو اس وقت جن تکلیفوں سے میں گزر رہا ہوں ان سے بیچ جاتا.یہ کبھی ایک مومن سوچ ہی نہیں سکتا اگر وہ حقیقی معنوں میں ایمان لاتا ہے.بلکہ ایمان کی مضبوطی ، اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین ان تکلیفوں میں بھی اُسے آرام اور راحت اور خوشی پہنچا رہا ہوتا ہے.پس یہ ہے شہید کا مقام.پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ شہید کا مقام تب ملتا ہے جب انسان تکلیف برداشت کر کے خدا تعالیٰ کی عبادت کرے.(ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ 276 مطبوعہ ربوہ ) ہر دنیاوی آرام کو خدا تعالیٰ کی رضا اور اُس کی عبادت پر قربان کر دے.اور نہ صرف قربان کرے بلکہ اُس مقام تک پہنچ جائے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسے اس عمل سے ایسا سکون ملے ، اس عبادت میں اُسے ایسا مزا آرہا ہو کہ جیسا کہ شہد کی مٹھاس سے مزا آتا ہے.ایک مومن کی نماز اور عبادتیں ، نماز پڑھنے کی طرف توجہ یا عبادتوں کی طرف توجہ کسی مجبوری کے تحت نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ پر یقین کامل کی وجہ سے ہو.اس لئے ہو کہ خدا تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے اور ہر وہ فعل جو خدا تعالیٰ کی خاطر کیا جا رہا ہو، خدا تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ بنتا ہے.یہ رضا جو ہے یہ پھر شہادت کا مقام دلاتی ہے.اسی طرح ہر برائی جو انسان اس لئے چھوڑتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور میں نے اُس کی رضا حاصل کرنی ہے.اللہ تعالیٰ سے اپنے
خطبات مسرور جلد دہم 768 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 دسمبر 2012ء تعلق کو پختہ کرنا ہے، خدا تعالیٰ کی کیونکہ ہرا چھے اور برے فعل پر ، ہر عمل پر نظر ہے اور میری یہ بری عادت یا بد اعمال خدا تعالیٰ کی ناراضگی کے موجب ہو سکتے ہیں.تو پھر یہ بات نہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے کو برائیوں سے روکے گی بلکہ نیکیوں کی طرف بھی متوجہ کرے گی.خدا تعالیٰ پر ایمان اور یقین میں پختگی پیدا ہوگی اور یہی ایک انسان کی زندگی کا مقصد ہے، ایک مومن کی زندگی کا مقصد ہے پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مزید فرماتے ہیں کہ : ” عام لوگ تو شہید کے لئے اتنا ہی سمجھ بیٹھے ہیں کہ شہید وہ ہوتا ہے جو تیر یا بندوق سے مارا جائے یا کسی اور اتفاقی موت سے مرجائے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 253.ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) یہاں ایک حدیث بھی بیان کر دیتا ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جن مرنے والوں کو شہداء کے زمرہ میں شامل کیا گیا ہے، وہ پانچ ہیں.ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شہید پانچ قسم کے ہوتے ہیں.وبا میں ہلاک ہونے والا ، پیٹ کی بیماری سے ہلاک ہونے والا ، ڈوب کر مرنے والا، کسی عمارت کی چھت وغیرہ کے نیچے دب کر ہلاک ہونے والا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دینے والا.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صرف یہی نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہادت کا یہی مقام نہیں ہے“.یعنی یہ تو ظاہری موت کی وجہ سے شہادت ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہادت کے اور بھی مقام ہیں جو ہر مومن کو تلاش کرنے چاہئیں.بلکہ آپ نے فرمایا کہ میرے نزدیک شہید کی حقیقت قطع نظر اس کے کہ اس کا جسم کاٹا جائے کچھ اور بھی ہے.اور وہ ایک کیفیت ہے جس کا تعلق دل سے ہے.یادرکھو کہ صدیق نبی سے ایک قرب رکھتا ہے.( شروع میں میں نے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ دعا کرو کہ وہ لوگ جو عمل صالح کرنے والے ہیں، اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرنے والے ہیں، وہ نبی ہوتے ہیں یا صدیق یا شہید یا صالحین.تو فرمایا کہ ) یا د رکھو کہ صدیق نبی سے ایک قرب رکھتا ہے اور وہ اس سے دوسرے درجے پر ہوتا ہے.اور شہید صدیق کا ہمسایہ ہوتا ہے.نبی میں تو سارے کمالات ہوتے ہیں، یعنی وہ صدیق بھی ہوتا ہے اور شہید بھی ہوتا ہے اور صالح بھی ہوتا ہے.لیکن صدیق اور شہید دو الگ الگ مقام ہیں.اس بحث کی بھی حاجت نہیں کہ آیا صدیق ، شہید ہوتا ہے یا نہیں؟ وہ مقام کمال جہاں ہر ایک امر خارق عادت اور معجزہ سمجھا جاتا ہے، وہ ان دونوں مقاموں پر اپنے رتبہ اور درجہ کے لحاظ سے جدا ہے.اس لیے اللہ تعالیٰ اسے ایسی قوت عطا کرتا ہے کہ جو عمدہ اعمال ہیں اور جو عمدہ اخلاق (صحیح بخاری کتاب الاذان، باب فضل التهجير الى الظهر (653)
خطبات مسرور جلد دہم 769 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 دسمبر 2012ء ہیں وہ کامل طور پر اور اپنے اصلی رنگ میں اس سے صادر ہوتے ہیں اور بلا تکلف صادر ہوتے ہیں.کوئی خوف اور رجاء ان اعمالِ صالحہ کے صدور کا باعث نہیں ہوتا.( کسی وجہ سے نہیں ہو رہے ہوتے ) بلکہ وہ اُس کی فطرت اور طبیعت کا جو وہو جاتے ہیں.تکلف اُس کی طبیعت میں نہیں رہتا.جیسے ایک سائل کسی شخص کے پاس آوے“.( دنیا داری میں ہم دیکھتے ہیں.آپ نے مثال دی کہ کسی شخص کے پاس کوئی سوال کرنے والا آوے تو خواہ اُس کے پاس کچھ ہو یا نہ ہو، تو اُسے دینا ہی پڑے گا“.(اگر وہ لوگوں کے سامنے کھڑا ہے، اگر یہ اظہار کر رہا ہے کہ میں بڑا پیسے والا ہوں یا نہیں بھی ہے تو پھر بھی شرم و شرمی کچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے.فرمایا کہ اگر خدا کے خوف سے نہیں تو خلقت کے لحاظ سے ہی سہی.لوگ کیا کہیں گے کہ صاحب حیثیت بھی ہے، مگر جو مانگ رہا ہے اُس کو دے بھی نہیں رہا.مگر شہید میں اس قسم کا تکلف نہیں ہوتا“.( شہید میں یہ تکلف نہیں ہے ) اور یہ قوت اور طاقت اُس کی بڑھتی جاتی ہے.اور جوں جوں بڑھتی جاتی ہے اسی قدر اس کی تکلیف کم ہوتی جاتی ہے اور وہ بوجھ کا احساس نہیں کرتا“.( ہر قسم کی تکلیف خدا تعالیٰ کی خاطر برداشت کرنے کے لئے وہ تیار ہو جاتا ہے اور بلا تکلف تیار ہو جاتا ہے، کسی خوف یا کسی انعام کی وجہ سے تیار نہیں ہوتا.) فرمایا کہ مثلاً ہاتھی کے سر پر ایک چیونٹی ہوتو وہ اس کا کیا وو احساس کرے گا.“ ایک طرح ایک حقیقی مومن کے لئے ایک تکلیف ہوتی ہے، اُس مومن کے لئے جو شہادت کا درجہ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 253-254.ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) پانے کی خواہش رکھتا ہے.پس یہاں مزید فرمایا کہ اصل شہادت دل کی کیفیت کا نام ہے اور دل کی کیفیت خدا تعالیٰ پر کامل یقین اور ایمان سے پیدا ہوتی ہے.یعنی یہ یقین جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ میرے ہر کام پر خدا تعالیٰ کی نظر ہے اور ہر کام میں نے خدا تعالیٰ کے لئے کرنا ہے.پھر ایسے مومن سے، ایسے شخص سے اعلیٰ اخلاق اور اچھے اعمال اصل رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں.یعنی ان کے کرنے کی وجہ دنیا دکھاوا نہیں ہوتا بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا یہ حصول بھی صرف کوشش سے نہیں ہوتا بلکہ ایک حقیقی مومن کی فطرت اور طبیعت کا حصہ بن جاتا ہے.جب وہ مسلسل اس بارے میں کوشش کرتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے علاوہ کسی بات کا اُسے خیال ہی نہیں رہتا.مثلاً اگر جماعت کی خدمت کا موقع مل رہا ہے اور اس کو احسن طریق پر کوئی بجالا رہا ہے، کام کر رہا ہے تو اس لئے نہیں کہ میری تعریف ہو بلکہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو.اس لئے کہ یہ خدمت ایسی گھٹی میں پڑ گئی ہے کہ اس کے بغیر چین اور سکون نہیں ہے.بعض لوگ جب اُن سے خدمت نہیں لی جاتی تو بے چینی کا اظہار کرتے ہیں.آپ علیہ السلام نے
خطبات مسرور جلد دہم 770 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 دسمبر 2012ء اس کی ایک مثال دی ہے کہ جیسے کوئی فقیر یا مانگنے والا اگر کسی کے پاس جائے تو اکثر اُس فقیر کو کوئی دنیا دار جس کے پاس وہ جاتا ہے، کچھ نہ کچھ دے دیتا ہے.لیکن اُس میں عموما دکھاوا ہوتا ہے لیکن شہید کا یہ مقام نہیں.شہید یہ نیکی اس لئے کر رہا ہوتا ہے کہ اُس کی نیک فطرت اُسے نیکی پر مجبور کرتی ہے اور فطرتی نیکی کی یہ طاقت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے.کسی نیکی کے کرنے ، کسی خدمت کے کرنے پر کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ میں نے کوئی بڑا کام کیا ہے، مجھے ضرور اُس کا بدلہ یا خوشنودی کا اظہار دنیا والوں سے ملنا چاہئے.کیونکہ جماعت کی خدمت کی ہے تو ضرور مجھے عہدیداران اُس کا بدلہ دیں.نہیں.بلکہ صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر کام ہونا چاہئے.پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی کتاب ” تریاق القلوب میں فرماتے ہیں کہ : مرتبہ شہادت سے وہ مرتبہ مراد ہے جبکہ انسان اپنی قوتِ ایمان سے اس قدر اپنے خدا اور روز جزا پر یقین کر لیتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ کو اپنی آنکھ سے دیکھنے لگتا ہے.تب اس یقین کی برکت سے اعمال صالحہ کی مرارت اور تلخی دور ہو جاتی ہے.اور خدا تعالیٰ کی ہر ایک قضاء و قدر باعث موافقت کے شہد کی طرح دل میں نازل ہوتی اور تمام صحن سینہ کو حلاوت سے بھر دیتی ہے.اور ہر ایک ایلام انعام کے رنگ میں دکھائی دیتا ہے.سوشہید اُس شخص کو کہا جاتا ہے جو قوت ایمانی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا مشاہدہ کرتا ہو اور اُس کے تلخ قضاء و قدر سے شہد شیریں کی طرح لذت اُٹھاتا ہے.اور اسی معنے کے رُو سے شہید کہلاتا ہے.اور یہ مرتبہ کامل مومن کے لئے بطور نشان کے ہے.“ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 420-421) روز جزا پر ایمان تو ہر مومن کو ہے لیکن اس پر یقین کیا ہے؟ اس پر یقین خدا تعالیٰ سے اس دنیا میں تعلق پیدا کرنے سے ہے.دنیا دار بھی اپنے محبوب کی خاطر کئی سختیاں برداشت کر لیتے ہیں تو خدا تعالیٰ جو سب محبوبوں سے زیادہ محبوب ہونا چاہئے ، اُس کی خاطر کتنی سختیاں برداشت کرنے کی ضرورت ہے؟ جبکہ دنیا کی محبتیں تو یا وقت کے ساتھ ساتھ ماند پڑ جاتی ہیں یا پھر اس دنیا میں ختم ہو جاتی ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی محبت کے پھل تو اس دنیا سے گزرنے کے بعد اگلی زندگی میں اور بھی بڑھ کر لگتے ہیں.نیک اعمال کی جزا خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں لے جاتی ہے.بعض اعمال جو انسان اس دنیا میں کرتا ہے، بیشک بعض اوقات سخت اور کڑے ہوتے ہیں.مثلاً ایک دنیا دار تو جھوٹ بول کر اپنی دنیاوی بہتری کے سامان کر لیتا ہے لیکن ایک حقیقی مومن جھوٹ کو شرک کے برابر سمجھ کر کبھی جھوٹ بول کر فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ سچائی بعض اوقات اس دنیا میں نقصان کا باعث بھی بن رہی ہوتی ہے یا اسے بنا رہی ہوتی ہے.مثلاً احمدیت
خطبات مسر در جلد دہم 771 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 دسمبر 2012ء ایک سچائی ہے.خدا تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق آنے والے مسیح موعود اور مہدی معہود کو ہم ماننے والے ہیں لیکن یہی سچائی احمد یوں کو بہت سے ممالک میں اور سب سے بڑھ کر پاکستان میں مشکلات میں گرفتار کئے ہوئے ہے.اس کے اظہار پر احمد یوں کو سزائیں دی جاتی ہیں لیکن پھر بھی ایمان پر قائم ہیں.یہاں ضمناً یہ بھی بتا دوں کہ احمدی حالات کی وجہ سے پاکستان سے ہجرت کر کے یہاں اسائلم کے لئے آتے ہیں تو سچائی کے اظہار کی وجہ سے انہیں اپنے ملکوں سے یہ ہجرت کرنی پڑ رہی ہے.لیکن یہاں آ کر اگر جھوٹ اور غلط بیانی کو وہ اپنے اسائلم کا ذریعہ بنالیں گے تو سارے کئے دھرے پر پانی پھیر دیں گے.ان ملکوں میں سچائی کی ابھی بھی بہت قدر ہے.بعضوں کے کیس تو بڑے جینوئن (Genuine) ہوتے ہیں، بعضوں کے مقدمات ہیں ، ماریں پڑی ہوئی ہیں، مخالفتیں ، دشمنیاں ہیں.لیکن بعض ایسے بھی ہیں جن کو کچھ نہیں ہے لیکن سچ بول کر اگر وہ یہی بتا دیں کہ ایک مسلسل ٹارچر اور لاقانونیت اور احمدیوں کے خلاف جو قانون ہے اُس نے ہماری زندگی کی آزادی چھین لی ہے اور اب ایسے حالات ہیں کہ ہم اس کو مزید برداشت نہیں کر سکتے.بیشک پاکستان میں ابھی لاکھوں کی تعداد میں احمدی ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ رہیں گے لیکن ہر ایک کا برداشت کا معیار مختلف ہوتا ہے.ہم میں اب برداشت نہیں رہی اس لئے ہم یہاں ہجرت کر آئے ہیں.تو اس بات کو یہ لوگ سمجھتے ہیں اور ہمدردی کے جذبے کے تحت اسائلم یا لمباویزا دے دیتے ہیں.لیکن اگر جھوٹ بولیں تو پھر ایک جھوٹ کے لئے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں.یوں بعضوں کے کیس تو خراب ہوتے ہی ہیں یا اگر بالفرض بعض کیس پاس بھی ہو جا ئیں تو یہ بات تو یقینی ہے کہ ایسا شخص پھر اپنے خدا کو ناراض کرنے والا بن جاتا ہے.پس اپنے خدا کی رضا کو ہمیشہ ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے.میں نے جن کو بھی سچائی بیان کرنے کا کہا ہے، سچائی کی بنیاد پر اپنا کیس کرنے کا کہا ہے اور انہوں نے سچائی سے کام بھی لیا ہے اور ساتھ ہی خدا تعالیٰ کے حضور جھکے بھی ہیں تو اُن کے کیس میں نے دیکھا ہے چند دنوں میں پاس ہو گئے ہیں.ایک حدیث کے مطابق تو سچائی پر قائم رہتے ہوئے دنیا کی خاطر ہجرت کرنے والے بھی شہید بلکہ صدیق ہیں.ابودرداء سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جوشخص اپنے دین میں فتنے کے ڈر سے بچاؤ کی خاطر ایک جگہ سے دوسری جگہ چلا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں صدیق ہے، اگر وہ اسی حالت میں فوت ہو جاتا ہے تو وہ شہید ہے.آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ اور جولوگ اللہ اور اُس کے رسول
خطبات مسرور جلد دہم 772 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 دسمبر 2012ء پر ایمان لاتے ہیں، اپنے رب کے ہاں صدیق اور شہید ہیں.پھر آپ نے فرمایا کہ جو لوگ اپنے دین کے بچاؤ کی خاطر ایک ملک سے دوسرے ملک میں جاتے ہیں وہ قیامت کے روز عیسی بن مریم کے ساتھ ایک ہی درجے کی جنت میں ہوں گے.(الدر المنثور في التفسير بالماثور تفسير سورة الحديد آيت: 19 جلد8صفحه 59 دار احیاء التراث العربی بیروت ایڈیشن 2001) پس آپ لوگ جو یہاں آئے ہیں جب دین کی خاطر ہجرت کر کے آئے ہیں تو پھر ہمیشہ سچائی کو قائم کریں اور اپنے ایمان کو مضبوط کریں اور روزِ جزا پر ایمان اور یقین رکھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ جزا سزا یقینی امر ہے.(ماخوذ از براہین احمدیہ جلد اول صفحہ 460 حاشیہ نمبر 11) اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.آپ نے اس کی مزید وضاحت فرمائی ہے.پس جب یقینی امر ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق زندگی گزار کر بہتر جزا کیوں نہ حاصل کی جائے؟ کیوں دنیاوی خواہشات کے لئے انسان اللہ تعالیٰ کی سزا کا مورد بنے.بہر حال یہ ایک اور مع مضمون ہے.لیکن خلاصہ یہ کہ روز جزا کو سامنے رکھنے والا اللہ تعالیٰ پر کامل یقین اور ایمان رکھنے والا بھی ہے اور شہید بھی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مزید فرماتے ہیں کہ : ” شہید کا کمال یہ ہے کہ مصیبتوں اور دکھوں اور ابتلاؤں کے وقت میں ایسی قوت ایمانی اور قوت اخلاقی اور ثابت قدمی دکھلاوے کہ جو خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان کے ہو جائے.تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحه (516) پھر آپ فرماتے ہیں کہ ” جس قدر ایمان قوی ہوتا ہے، اُسی قدر اعمال میں بھی قوت آتی ہے.یہاں تک کہ اگر یہ قوت ایمانی پورے طور پر نشو ونما پا جاوے تو پھر ایسا مومن شہید کے مقام پر ہوتا ہے.کیونکہ کوئی امر اس کے سد راہ نہیں ہو سکتا.( کوئی روک نہیں بن رہا ہوتا ).وہ اپنی عزیز جان تک دینے میں بھی تامل اور دریغ نہ کرے گا“.پس شہید کا رتبہ پانا صرف جان دینا ہی نہیں ہے بلکہ ایمان کے اعلیٰ معیار کا حصول اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے.اپنے ہر عمل اور فعل کے کرتے وقت یہ یقین رکھنا ہے کہ خدا تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 226 مطبوعہ ربوہ ) مختصر یہ بھی بتادوں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کے لئے ایمان کے کیا معیار رکھے ہیں.اللہ تعالیٰ
خطبات مسرور جلد دہم 773 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 دسمبر 2012ء فرماتا ہے يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ (البقرة:4) کہ غیب پر ایمان لاؤ.فرمایا کہ نمازوں کو قائم کرو.اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو.تمام گزشتہ انبیاء اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل ایمان رکھو.اس زمانے کے امام اور مسیح موعود پر بھی ایمان لاؤ.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَبِالآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ(البقرة: 5).اور مومن آخرت پر یقین رکھتے ہیں.یعنی بعد میں آنے والی موعود باتوں پر یقین رکھتے ہیں اور آخری زمانے کی سب سے بڑی موعود بات تو مسیح موعود کا آنا ہی ہے.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ آیت کے اس حصہ میں وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (البقرة:5) میں میرے پر ایمان لانے کو اللہ تعالیٰ نے لازمی قرار دیا ہے.(ماخوذ از ریویو آف ریلیجنز ماه مارچ واپریل 1915 صفحہ 164 جلد 14 نمبر 3و4) پھر ایمان کی مضبوطی کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کو مضبوط کرو.ایک حقیقی مومن کی نشانی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے سب سے زیادہ محبت رکھتا ہے.یہ بات بھی ہر ایک کو اپنے سامنے رکھنی چاہئے.ہر محبت سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کی محبت ہو.اگر یہ محبت نہیں تو ایمان کمزور ہوجاتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ پر ایمان ، اُس کے فرشتوں پر ایمان، اُس کی کتابوں پر ایمان، اُس کے رسولوں پر ایمان، پہلے بھی ذکر آچکا ہے کہ یہ سب باتیں ایمان کے لئے ضروری ہیں.اور پھر ان کے معیار بھی بڑھتے چلے جانے چاہئیں.پھر ایمان کا معیار اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ جب ایمان لانے والوں کے سامنے خدا تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے تو اُن کے دل اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت سے ڈر جاتے ہیں.پھر فرمایا کہ مومن وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں.اب جہاد بھی کئی قسم کے ہیں.ایک تو جہاد تلوار کا جہاد ہے وہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے سے بند ہو گیا.اب نہ کوئی مذہبی جنگیں ہیں نہ اُس قسم کا جہاد ہے.اور وہ جہاد جو ایک احمدی کا فرض ہے اور ایمان کی مضبوطی کے لئے اور شہادت کا رتبہ پانے کے لئے ہر جگہ اور ہر ملک میں کرنا چاہئے وہ جہاد ہے تبلیغ کا جہاد.پس جہاں اپنے نفسوں کے اصلاح کا جہاد کرنا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کا جہاد کرنا بھی ہر احمدی کا فرض ہے اور یہ جہاد ہر ملک میں اور ہر جگہ رہ کر کیا جا سکتا ہے اور یہاں آنے والے ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ اس جہاد میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے.اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہجرت کرنا یہ بھی ایمان کا حصہ ہے.پھر ایمان کی یہ نشانی ہے کہ جب اُن ایمان لانے والوں کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کی طرف بلایا جائے
خطبات مسرور جلد دہم 774 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 دسمبر 2012ء تو وہ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا کہتے ہیں.یہ باتیں سن کر ایک کان سے سنیں اور دوسرے سے نکال نہیں دیں، بلکہ سنا اور اُس کی اطاعت کی اور یہی ایک حقیقی مومن کا طتر کا امتیاز ہونا چاہئے.بہت ساری باتیں ہیں، نصیحتیں کی جاتی ہیں، خطبات جو آپ سنتے ہیں ،صرف اس لئے نہیں ہوتے کہ آپ نے سن لئے اور بس، بلکہ اُس پر عمل کرنا ، سنا اور اطاعت کی، ایسا عمل جو اطاعت کا نمونہ دکھانے والا ہو.پس جب یہ کوششیں ہوں گی تو حقیقی مومن بنیں گے اور پھر اُن رتبوں کی طرف بڑھیں گے جو شہادت کا رتبہ دلاتے ہیں.اُن منزلوں کی طرف بڑھیں گے جو شہادت کا رتبہ دلاتی ہیں.مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ بحث کرنا شروع کر دے کہ یہ حکم فلاں ہے اور اس حکم کی فلاں تشریح ہے،interpretation ہے.یا جنتیں کرنی شروع ہو جائے.یہ مومن کا کام نہیں.پھر یہ بھی حقیقی مومن کا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سنتے ہیں تو فرمایا کہ اُن کے دل کانپ جاتے ہیں.اور پھر وہ اللہ تعالیٰ کے آگے اُن سب احکامات پر عمل کرنے کی طاقت مانگتے ہوئے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں بڑھتے چلے جانے والا بھی ایک حقیقی مومن ہے.(صحیح بخاری کتاب الایمان باب حب الرسول العالم من الايمان حديث : 15) پس یہ خصوصیات ہیں جو اس زمانہ میں مومن کی ہونی چاہئیں.بلکہ اس زمانے میں جیسا کہ شرائط بیعت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع میں آپ کے کام کو جاری رکھنے کے لئے آپ کے عاشق صادق مسیح موعود جن کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں مبعوث فرمایا ہے، اُن کے ساتھ بھی تعلق سب دنیاوی تعلقوں سے زیادہ ہونا چاہئے.(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 564) پس یہ خصوصیات ہیں جو جیسا کہ میں نے کہا ایک مومن کی ہونی چاہئیں اور یہ خصوصیات ہوں تو چاہے وہ انسان طبعی موت مر رہا ہو شہادت کا رتبہ پاتا ہے.پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ یہ رتبہ پانے کے لئے خدا تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین پیدا کریں.روز جزا پر کامل یقین پیدا کریں.اپنے ہر عمل میں اس بات پر یقین رکھیں.ہر عمل کرتے ہوئے اس بات پر یقین رکھیں کہ خدا تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے.خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر سختی کو جھیلنے کے لئے اُس سے مدد مانگیں.ایسی قوت ایمانی خدا تعالیٰ سے مانگیں جو بطور نشان کے ہو جائے.ایمان کو اتنا مضبوط کریں کہ کوئی دنیاوی لالچ کوئی خواہش ہمارے ایمان میں لغزش پیدانہ کر سکے.
خطبات مسرور جلد دہم 775 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 دسمبر 2012ء نیک اعمال بجالانے کے لئے ہر قسم کے خوف سے دل و دماغ کو صاف رکھیں.بلا تکلف ہر نیکی کو بجالانے والے ہوں.ہر نیکی ہماری فطرت کا حصہ بن جائے.ہم استقامت اور سکینت کی قوت پانے کے لئے خدا تعالیٰ کے آگے جھکنے والے ہوں.عبادت کے ایسے معیار تلاش کرنے کی کوشش کریں جو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والے ہوں.پس یہ وہ معیار ہیں جن کو حاصل کرنے کی ایک مومن کو کوشش کرنی چاہئے اور اس کے لئے دعا کرنی چاہئے.کیا کوئی حقیقی مومن ہے جو اس کے بعد یہ سوال اُٹھائے کہ ہم شہادت کی دعا کیوں کریں؟ یہ وہ حقیقی شہادت ہے جس کے لئے ایک مؤمن کو دعا کرنا ضروری ہے تا کہ وہ حقیقی مومن بن سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے سے میں نے مختصراً جو باتیں کی ہیں یہ یقیناً ایسی ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کو ان کو حاصل کرنے ، ان کو اپنانے اور زندگیوں پر لاگو کرنے کی خواہشیں کرنی چاہئیں بلکہ لاگو کرنی چاہئیں.اور جب یہ معیار ہم حاصل کر لیں گے تو قطع نظر اس کے کہ دشمن کے حملوں اور گولیوں سے ہم جان قربان کرنے والے ہیں، دنیا کے کسی بھی پر امن ملک میں رہتے ہوئے بھی ہم شہادت کا مقام پاسکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.جیسا کہ گزشتہ جمعہ کو جو ہیمبرگ میں پڑھا تھا میں نے اعلان کیا تھا کہ اُس دن ایک شہادت کی اطلاع آئی تھی، چونکہ کوائف نہیں تھے اس لئے جنازہ نہیں پڑھایا گیا تھا.آج انشاء اللہ تعالیٰ جمعہ کے بعد ان شہید کا میں جنازہ پڑھاؤں گا جن کا نام مکرم مقصود احمد صاحب ابن مکرم نواب خان صاحب ہے.17 دسمبر 2012 ء کوکوئٹہ میں ان کی شہادت ہوئی تھی.إِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.آپ کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے والد مکرم نواب خان صاحب کی پڑدادی محترمہ بھاگ بھری صاحبہ المعروف محترمہ بھاگ بھری صاحبہ کے ذریعہ ہوا تھا.یہ خاتون قادیان کے قریب ننگل کی رہنے والی تھیں.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.قیام پاکستان کے بعد یہ خاندان ہجرت کر کے ساہیوال چلا گیا.پھر 1965ء میں کوئٹہ چلا گیا.مقصود صاحب کی پیدائش کوئٹہ میں ہوئی تھی.ان کی عمر 31 سال تھی.تعلیم ان کی مڈل تھی.اپنے والد صاحب کے ساتھ ٹھیکیداری کا کام کرتے تھے.اسی سال نومبر میں ان کے بھائی مکرم منظور احمد صاحب کو بھی شہید کر دیا گیا تھا.اُن کی شہادت سے پہلے مقصود صاحب صرف بلڈنگ کنسٹرکشن کی ٹھیکیداری کا کام کرتے تھے اور کچھ وقت اپنے بھائی کے ساتھ اُن کی ہارڈ ویئر کی دکان تھی اُس میں لگاتے تھے.بھائی کی شہادت کے بعد پھر انہوں نے مکمل طور پر دوکان کا کام شروع کر دیا.واقعہ ان کی شہادت کا اس طرح ہوا کہ 7 دسمبر صبح نو بجے مقصود صاحب اپنے ملازم کے ہمراہ
خطبات مسرور جلد دہم 776 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 دسمبر 2012ء اپنی ہارڈ ویئر کی دوکان واقع سیٹلائٹ ٹاؤن پہنچے اور ملازم کو دکان پر بٹھا کر اپنے دو بچوں کو سکول میں جو سیٹلائٹ ٹاؤن میں تھا ، چھوڑنے گئے.بچوں کو سکول چھوڑ کر واپس نکلے ہی تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار دو نامعلوم افراد آئے اور ان پر فائرنگ کردی.فائرنگ کے نتیجہ میں شہید مرحوم کو پانچ گولیاں لگیں جن میں سے چار گولیاں سر میں اور ایک گولی کندھے پر لگی.انہیں فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا مگر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے راستہ میں ہی جامِ شہادت نوش فرما گئے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.جیسا کہ میں نے بتایا گزشتہ ماہ ان کے بڑے بھائی کو شہید کیا گیا تھا.2009ء میں ان کو اغواء بھی کیا گیا تھا اور بارہ دن کے بعد بڑا بھاری تاوان لے کر ان کی بازیابی ہوئی تھی.مرحوم خدمت خلق کا بیحد شوق رکھتے تھے.جب بھی میڈیکل کیمپ لگائے جاتے شہید مرحوم نہ صرف اس میڈیکل کیمپ کے لئے اپنی گاڑی مہیا کرتے بلکہ خود ڈرائیو کر کے ساتھ جاتے.اسی طرح دعوت الی اللہ کے پروگراموں میں ساتھ جاتے اور اپنی گاڑی بھی پیش کرتے.کوئٹہ میں آنے والے مربیان کا بہت زیادہ خیال رکھتے ، ان کی خدمت کر کے خوشی محسوس کرتے.سیکیورٹی کی ڈیوٹی بڑے شوق سے دیا کرتے تھے.جمعہ کی ڈیوٹی خاص طور پر دیا کرتے.صدر صاحب سیٹلائٹ ٹاؤن کو ئٹہ نے بتلایا ہے کہ شہید مرحوم نہایت مہمان نواز ، کم گو، خوش اخلاق، حلیم الطبع اور سادہ طبیعت کے مالک تھے.کبھی کسی سے ناراض نہ ہوتے اور نہ ہی کسی کو ناراض ہونے کا موقع دیتے.بعض اوقات مخالفین بھی اگر سخت لہجے میں بات کرتے تو اُن کی بات کو ہنس کر ٹال دیتے لیکن یہ نہیں تھا کہ محسوس نہیں کرتے تھے.گھر آ کر اُن کی باتیں بتاتے ہوئے رو بھی پڑا کرتے تھے کہ فلاں فلاں مخالفین نے مجھے آج اس طرح کہا ہے.صدر صاحب کہتے ہیں شہادت سے تین دن قبل مجھے فون کیا اور کہا کہ اب تک میرا چندہ کیوں نہیں لیا.اُسی روز اپنا چندہ مکمل طور پر ادا کیا.بیوی بچوں سے انتہائی پیار کا تعلق تھا.بیوی بچوں سے کبھی اونچی آواز میں بات نہیں کی.اپنے والدین کے علاوہ اپنی اہلیہ کے والدین کی بھی نہایت عزت کیا کرتے تھے.ہر طرح سے خیال رکھنے والے تھے.ان کے والد نواب خان صاحب کے علاوہ اہلیہ محترمہ ساجدہ مقصود صاحبہ اور ایک بیٹا مسرور ہے جس کی عمر نو سال ہے.بیٹی مریم مقصود کی عمر سات سال ہے.ان کی دو بہنیں ہیں اور ان کی اپنی والدہ تو وفات پاگئی تھیں.ان کی دوسری والدہ تھیں، والد نے دوسری شادی کر لی تھی.معلم سیٹلائٹ ٹاؤن ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ بڑے سادہ مزاج تھے.مہمان نوازی ان کے گھر کا ایک عظیم خلق ہے.مربیان اور معلمین کی دل سے قدر کرتے تھے، بہت عزت سے پیش آتے تھے.
خطبات مسرور جلد دہم 777 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 دسمبر 2012ء ان کے گھر میں نما ز سینٹر تھا.اس کو ہمیشہ فعال رکھنے کی کوشش کرتے.ان کے گھر میں نمازیں تو ہوتی تھیں پھر باقاعدہ وقف نو اور اطفال کی کلاسیں بھی ہوتی تھیں.بچوں کی تربیت کا خاص خیال رکھتے تھے.اور بلکہ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اب کوئٹہ کے حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ یہاں سے ہجرت کی جائے اور معلم صاحب سے مشورہ کر رہے تھے اور مجھے انہوں نے خط لکھنا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر یہ تھی کہ اس سے پہلے ہی ان کو اللہ تعالیٰ نے شہادت کا درجہ عطا فر ما دیا.ان کے والد کے یہ دو ہی بیٹے تھے اور دونوں اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو گئے.ان کے والد صاحب نے آسمان کی طرف منہ کر کے صرف اتنا کہا کہ اے خدا! دونوں کو لے گیا، اب ان ظالموں سے خود بدلہ لے لے.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے.یہ شہادت تو ان کے مقدر میں لکھی تھی.اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کا حافظ و ناصر ہو اور اپنی پناہ میں لے لے.بیوی بچوں کو بھی اور والدین کو بھی صبر ، ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے.دشمنوں کو بھی اب کیفر کردار تک پہنچائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 4 تا 10 جنوری 2013 ء جلد 20 شماره 1 صفحہ 5 تا 9)
خطبات مسرور جلد دہم 778 51 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 دسمبر 2012ء خطبه جمع سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة اسم الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 21 دسمبر 2012 ء بمطابق 21 فتح 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن - لندن شکر کے مضمون کا تذکرہ جتنا جماعت احمدیہ میں ہوتا ہے یا شکر کے مضمون کا ادراک جتنا جماعت کو ہے، ہم دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ کسی اور کو نہ ہے اور نہ ہوسکتا ہے کیونکہ حقیقی شکر وہ ہے جو خدا کا ہو، خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو ، خدا تعالیٰ کے دین کی ترقی اور غیروں پر اُس کا رعب پڑنے پر ہو.پس آج خالص ہو کر اگر کوئی جماعت اسلام کی ترقی کے لئے کوشاں ہے، اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا کے ہر کونے اور ہر طبقے میں پھیلانے کی کوشش میں ہر قسم کی منصوبہ بندی کر کے اس کام کو سرانجام دے رہی ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہے اور یہ بات دنیا کی کسی بھی اور جماعت ، گروہ یا تنظیم میں نظر نہیں آئے گی.اور پھر اگر کوئی کوشش کر بھی رہا ہے تو کامیابی کا ہزارواں حصہ بھی جماعت کی کوششوں اور کامیابیوں کے مقابل پر نظر نہیں آئے گا.غیر یعنی غیر مسلم اگر اسلام کے بارے میں غلط خیالات کو دل سے نکالتے ہیں یا یہ اظہار کرتے ہیں کہ آج ہمارے دل اور دماغ اسلام کے بارے میں غلط تاثرات سے صاف ہو گئے ہیں تو وہ صرف اور صرف جماعت احمدیہ کی مجالس میں حاضر ہو کر اپنے ذہنوں کو پاک کرتے ہیں، یا صحیح اسلام انہیں جماعت احمدیہ کی مجلسوں سے ہی ، پروگراموں سے ہی پتہ لگتا ہے.پس اسلام کی تجدید نو کے جس کام کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شروع فرمایا تھا، وہ تقریباً 124 سال گزرنے کے بعد آج بھی جاری ہے اور نہ صرف جاری ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور تائیدات کے نظارے بھی ہم دیکھتے ہیں.چاہے یہ تائیدات کے نظارے افریقہ کے جنگلوں اور شہروں میں ہوں یا صحراؤں میں ہوں یا دور دراز جزائر میں ہوں، عرب دنیا میں ہوں یا ایشیا میں ہوں.امریکہ اور یورپ کے عوام کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کا پیغام پہنچا کر اُن کے شبہات دور کرنے سے تعلق رکھتے ہوں
خطبات مسرور جلد دہم 779 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 دسمبر 2012ء یا یورپ اور امریکہ کے ایوانوں میں اسلام کی خوبصورت تعلیم کا لوہا منوانے سے تعلق رکھتے ہوں تو وہاں بھی اللہ تعالیٰ کی تائیدات نظر آتی ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی یہ بارش ہمیں کس قدر شکر گزاری کے مضمون کو سمجھنے والا اور شکر ادا کرنے والا بناتی ہے اور بنانی چاہئے دوسرے اس کا اندازہ لگا ہی نہیں سکتے.احمدی ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو کہ لئن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراهیم :8) کہ اگر تم میرا شکر کرو گے تو میں اپنی دی ہوئی نعمتوں کو زیادہ کروں گا ، کو سب سے زیادہ سمجھتے ہیں.یہ کام جو ہم کر رہے ہیں، اس کا مقصد اپنی پہچان کروانا نہیں، کوئی ذاتی بڑائی نہیں یا اس کا اظہار نہیں بلکہ اس مشن کو آگے لے جانا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لے کر آئے تھے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبصورت تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہی ہمارا کام ہے تاکہ دنیا کے سامنے یہ تعلیم پیش کر کے آپ کے آخری رسول ہونے کا ادراک دنیا میں پیدا کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کروایا جائے.پس جو کام خدا تعالیٰ کے لئے ہوں اور ذاتی بڑائی اور نام ونمود اُن میں نہ ہوں اور پھر اُس کے نیک نتائج پر خدا تعالیٰ کی شکر گزاری بھی ہو تو پھر یقینا اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت پہلے سے بڑھ کر ہوتی ہے.پس اس مضمون کو ہمیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے.گزشتہ دنوں میں یورپ کے سفر پر تھا جہاں مختلف پروگرام تھے جن میں سب سے پہلے تو یورپین پارلیمنٹ کا ایک پروگرام تھا جو اُن کے آڈیٹوریم میں ہوا.جس میں یورپین پارلیمنٹیرین اور مختلف ممالک کے ملکی پارلیمنٹیرین یعنی کل ملا کے سارے مہمان تقریباً دوسو سے زائد تھے یا دوسرے سیاستدان ، وکلاء اور پڑھے لکھے طبقے پر سارے مشتمل تھے.اُن کے ساتھ بھی وہاں پروگرام ہوا تھا.اسی طرح کئی نیوز ایجنسیوں کے نمائندوں کے سامنے بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم کے حوالے سے مجھے کچھ کہنے کا موقع ملا.پریس کا نفرنس کی وجہ سے دنیا میں کافی کوریج ہوئی.اس تقریب کو آرگنا ئز کروانے کے لئے یوکے کی جماعت نے بھی اچھا کردار ادا کیا.گو اصلی آرگنائزر تو ہمارے یورپین پارلیمنٹیر بین دوست ہی تھے.بہر حال یہ پروگرام بہت اچھا رہا.یو کے کی جماعت کو شاید اس کی فکر بھی تھی اس لئے جماعتوں میں یہ لوگ دعا کا اعلان بھی کرواتے رہے اور احمدیوں کی دعاؤں کی قبولیت کو ہمیشہ کی طرح ہم نے اس پروگرام میں دیکھا بھی اور محسوس بھی کیا.میرے خیال میں تو جو باتیں میں نے کیں عمومی طور پر ہم اُن کو عام سمجھتے ہیں لیکن اگر سوچا جائے تو اسلام کے حوالے سے کوئی بات بھی عام نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ نے جس دین کو کامل کیا ہے اُس کی ہر بات ہی اہم ہے، اسی لئے شاملین پر ان باتوں کا بڑا اثر بھی ہوا.اس کا انہوں نے کھل کر اظہار بھی کیا.
خطبات مسرور جلد دہم 780 اسلام سے متعلق شکوک وشبہات دور ہوئے.الحمد للہ.خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 دسمبر 2012ء اس کے بعد میں جرمنی چلا گیا تھا اور جرمنی میں بھی اسی طرح دو بڑے پروگرام تھے.ایک تو ہیمبرگ میں مسجد کو انہوں نے ٹھیک کیا ہے.جونئی جگہ خریدی تھی اس میں پہلے مسجد تو اندر بنائی ہوئی تھی.بلڈ نگ کوکنورٹ (Convert) کیا تھا لیکن مینارے وغیرہ نہیں تھے.اب مینار وغیرہ بنائے تھے تو اس تعمیر کے حوالے سے بھی ایک پروگرام ہوا جو اصل میں تو مہمانوں کو لانے کا ایک بہانہ تھا.بہر حال اس میں بھی بڑا اچھا طبقہ شامل ہوا اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کا یہ سب لوگ بڑا نیک اثر لے کر گئے.اسی طرح وہاں جامعہ احمدیہ جرمنی کی نئی عمارت بھی بنی ہے.یہ کیونکہ جامعہ کی باقاعدہ عمارت بنائی گئی ہے جس میں بڑے سائز کے با قاعدہ کلاس روم، اسمبلی ہال ، ہوٹل، اُس میں کچن، ڈائٹنگ وغیر ہ ،سارا کچھ ہے.بڑا وسیع انتظام ہے اور یہ بڑی خوبصورت عمارت بنائی گئی ہے.بہر حال یہاں بھی اچھے پڑھے لکھے لوگ، پریس، سیاستدان وغیرہ آئے ہوئے تھے.یہاں بھی اُن لوگوں کے سامنے تو نہیں بلکہ طلباء کو جو نصیحت کر رہا تھا، اُس میں اسلام کی تعلیم آگئی جس کو ان لوگوں نے سمجھا اور پسند کیا.پھر دو مساجد کا وہاں افتتاح بھی ہوا.یہاں بھی شہر کے لوکل میئر اور پڑھے لکھے لوگ آئے ہوئے تھے اور محبت اور بھائی چارے کا اظہار کرتے رہے.ایک جگہ جب افتتاح ہوا تو وہاں ہمسایوں میں سے ایک جوڑا آیا ہوا تھا.وہ تھوڑی دیر کے بعد میرے پاس آئے اور یہ کہا کہ ہم آپ کو تحفہ دینا چاہتے ہیں.تحفہ دیا اور ساتھ ہی کہا کہ ہم اپنی نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں اور مسجد کی مبارکباد دی.اُس وقت فنکشن میں میئر صاحب وہاں موجود تھے اور میرے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے.وہ کہنے لگے کہ اس علاقے میں جب مسجد بن رہی تھی تو سب سے زیادہ مخالفت کرنے والا یہی گھر تھا جو یہ کہتے تھے کہ یہاں مسجد بن گئی تو فتنہ و فساد کا گڑھ بن جائے گا کیونکہ مسلمان ایسے ہی ہیں.لیکن بہر حال کونسل نے بھی، باقی ہمسایوں نے بھی ان کی اس فکر کورڈ کر دیا اور مسجد بن گئی.اس عرصہ میں احمدیوں نے بھی ان سے رابطے کئے اور ان کو اسلام کی ، احمدیت کی صحیح تعلیم کے بارے میں بتایا تو ان کے رویوں میں تبدیلی آنی شروع ہوئی اور افتتاح کے موقع پر جب میں نے احمدیوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی کہ مسجد بننے کے بعد احمدی کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور اسلام کی خوبصورت تعلیم بیان کی تو ان میں مزید ایک اور تبدیلی پیدا ہوئی.ان لوگوں میں بڑا ادب اور احترام تھا.جو مخالف تھے اُن کے دل پگھلتے دیکھے.
خطبات مسرور جلد دہم 781 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 دسمبر 2012ء بہر حال ان مختلف مواقع پر وہاں جوفنکشن ہوئے ، ان کے بارہ میں غیروں کے جو تاثرات ہیں وہ میں پیش کرنا چاہتا ہوں.بعض نے میرے متعلق بھی اظہار کیا ہے.میں نے کوشش یہی کی ہے کہ جہاں تک میں اپنی باتوں کو نکال سکتا ہوں تو نکال دوں لیکن بعض جگہ ذکر آ بھی جائے گا.لیکن مجھے پتہ ہے کہ جو باتیں میں نے کیں وہ اسلام کا پیغام ہے.اگر اثر ہے تو اسلام کے پیغام کا ہے نہ کہ میری ذات کا.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نمائندگی میں جو بات میں کہوں گا اُس کا اثر ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ ہے.پہلا ایک تبصرہ یہ ہے کہ وہاں ایک بشپ آئے ہوئے تھے جو پریس کانفرنس میں بھی آگئے اور انہوں نے سوال بھی کر دیا.ڈاکٹر ایمن ہاورڈ (Bishop Dr Amen Howard) جنیوا سوئٹزرلینڈ سے آئے تھے.انٹر فیتھ انٹرنیشنل کے نمائندے ہیں.یہ رفاہی تنظیم فیڈ اے فیملی (Feed a Family) کے بانی صدر بھی ہیں.ان کو دعوت نامہ دیا گیا تھا.ایک دن پہلے یہ برف میں پھسل گئے تھے اور ان کی آنکھ بھی سوج گئی تھی.کافی چوٹ لگی تھی لیکن پھر بھی انہوں نے کہا کہ اس فنکشن میں میں نے ضرور شامل ہونا ہے.انہوں نے برسلز کا سفر اختیار کیا.وہ لکھتے ہیں کہ یہ جو تقریر ہوئی، اس کے جو الفاظ تھے اُن کا جادو کا سا اثر تھا.پھر میرے بارے میں لکھتے ہیں کہ لہجہ دھیما تھا لیکن منہ سے نکلنے والے الفاظ اپنے اندر غیر معمولی طاقت اور شوکت رکھتے ہیں.اس طرح کا جرات مند انسان میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا.بہر حال یہ وہ الفاظ تھے جو اسلام کی خوبیاں سن کر انہوں نے کہے.پھر سوئٹزر لینڈ سے آئے ہوئے جاپانی بدھ ازم کے نمائندے جارج کو ہومیلو (Jorge Koho Mello) نے ، جو راہب بھی ہیں، اپنے ساتھیوں کو جو اُن کو لے کر آئے تھے کہے.وہ کہتے ہیں کہ آپ نے اس اہم لیکچر میں شامل ہونے کے لئے مجھے دعوت دی اور اس میں شامل ہونا اور خلیفہ سے ملنا میرے لئے ایک بہت بڑی سعادت ہے اور میرے قیمتی لمحات ہیں جن کو میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا.یہاں مجھے دوسرے ممالک کے اہل علم لوگوں سے ملنے کا بھی موقع ملا جس کے لئے میں مشکور ہوں.آنریبل Fouad Aidar ممبر بیلجیئم نیشنل پارلیمنٹ نے بر ملا اس بات کا اظہار بھی کیا.یہ ہمارے پرانے واقف بھی ہیں، بلکہ ایک رات پہلے مجھے ملے تھے تو میں نے ان کو کہا تھا کہ اب کافی پرانی واقفیت ہو چکی ہے.اب آپ کو بیعت کر لینی چاہئے ) بہر حال یہ مسلمان ہیں ،مرا کو وغیرہ کہیں سے ان کا تعلق ہے.کافی عرصے سے وہاں رہ رہے ہیں یا شاید ان کے والدین یہاں آئے تھے.اور اس وقت
782 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 دسمبر 2012ء خطبات مسرور جلد دہم یہ اچھے سیاستدان، منجھے ہوئے سیاستدان بھی ہیں اور ممبر آف پارلیمنٹ بھی ہیں) کہتے ہیں کہ میرا جو خطاب تھا، یہ خطاب پارلیمنٹ میں صرف میرے لئے ہی نہیں تھا بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے فخر کی بات ہے کیونکہ خلیفہ نے ہمارے سر بلند کر دیئے ہیں.اس سے پہلے جو اسلام کی بات ہمارے سامنے کرتا تھا ، ہم سر جھکا لیا کرتے تھے کیونکہ صحیح تعلیم نہیں تھی ، آج ہمیں اسلام کی صحیح تعلیم کا پتہ لگا ہے.پھر وزارتِ داخلہ بیلجیئم کے نمائندے Jona Than Debeer (جوناتھن دیبیر ) نے کہا کہ خلیفہ کے خطاب نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے.ہم نے اس سے بہت کچھ سیکھا ہے.یہ خطاب ہم سب کے لئے انسپائرنگ (Inspiring) ہے.پھر ممبر آف پارلیمنٹ مسٹر ماس (Mass ) کہتے ہیں کہ خلیفہ نے دنیا کے لئے جو امن کا پیغام دیا ہے، اور ہماری رہنمائی کی اس کے لئے ہم اُن کے بیحد شکر گزار ہیں.پھر ایک اور ممبر پارلیمنٹ مسٹر گاڈ فرے بلوم (Mr Godfrey Bloom) نے کہا کہ خلیفہ کے خطاب نے ہمیں روشنی عطا کی ہے.میں اپنے سب ساتھیوں کی طرف سے اُن کا شکریہ ادا کرتا ہوں.پھر ناروے سے ایک ممبر پارلیمنٹ جو کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کے صوبائی سیکرٹری بھی ہیں، آئے ہوئے تھے.انہوں نے بھی ان باتوں کا اظہار کیا.پھر حکومت فرانس کی جانب سے وزارت داخلہ اور وزارتِ خارجہ کے نمائندے مسٹر ایرک بھی شامل ہوئے.انہوں نے خطاب کے تمام اہم پوائنٹس نوٹ کئے اور کہا کہ خطاب میں فرانس کے لئے بہت رہنمائی ہے.میں واپس جا کر اپنی منسٹری میں رپورٹ کروں گا.فرانس یورپ میں ایسا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ مسلمانوں کے خلاف آوازیں اُٹھتی رہتی ہیں اور یہ صحیح تعلیم جو اُن کے سامنے پیش کی گئی تو بہر حال وہ متاثر ہوئے.پھر روسیو لو پیز (Rocio Lopez) صاحبہ جو سپین کی پارلیمنٹ کی ممبر ہیں، سپین سے اس تقریب میں شرکت کے لئے آئی تھیں اور طلیطلہ (Toledo) صوبے کی ہیں.کہتی ہیں کہ اس تقریب نے دوستی اور بھائی چارے کے اثرات چھوڑے ہیں.برسلز کے اس پروگرام نے ایک متحرک جماعت کا علم دیا جو مسلسل تعمیری کاموں میں مصروف ہے.مرزا مسرور احمد کی قیادت میں محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں“ جیسے ماٹو کے تحت مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے احمدی باہم مل جل گئے.دنیا جو اپنے نشہ میں دھت چلی جا رہی ہے اور جہاں امن اور محبت کا پیغام انتہائی اہم ہے، ایسی دنیا میں آپ لوگوں کے بارے میں جاننا
خطبات مسرور جلد دہم 783 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 دسمبر 2012ء ایک اعزاز کی بات ہے.پھر کہتی ہیں میں آپ کے تصورات کی کامل تائید کرتی ہوں.عالمی انسانی حقوق کی بحالی اور دنیا میں امن کے قیام کی تمام باتوں سے اتفاق کرتی ہوں.میں ہمیشہ مذہب کی بنیاد پر مظالم کی مذمت کرتی رہوں گی.پھر پین سے ہی جو سمار یا الونسو (Jose Maria Alonso) اور میڈرڈ میں پاپولر پارٹی کی نمائندہ رکن اسمبلی ہیں.ان کا تعلق کنٹا بریہ (Cantabria) سپین سے ہے.پہلے تو مجھے ملنے کے بعد تاثرات کا اظہار کیا.پھر کہتی ہیں کہ باقی تمام احمدیوں سے مل کر بھی میرے وہی جذبات ہیں جو خلیفہ سے مل کر تھے.یہ تمام جماعت بہت مہمان نواز اور پر امن ہے.اور خلیفہ کے مطابق مذاہب کا مقصد بنی نوع انسان کے مابین مصائب بڑھانا نہیں بلکہ محبت بڑھانا ہے.سینٹیاگو کٹالہ (Santiago Catala) صاحب جو کہ کوئنسا یا کوئنکا یو نیورسٹی Cuenca University میں لاء (Law) پروفیسر ہیں.بہت سی کتابیں لکھ چکے ہیں جن میں Islam In' 'Valencia اور 'Islamic Jurisprudence' شامل ہیں.یہ کہتے ہیں کہ میرے الفاظ خلیفہ تک پہنچائیں اور اُن تمام لوگوں تک بھی جن سے عشائیہ پر ملاقات ہوئی اور ان سپینش احباب تک بھی جو ہمارے ساتھ موجود تھے.انہیں میری طرف سے شکریہ کے جذبات پہنچا ئیں.میں آپ سب سے مل کر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں خدا ہمیں مزید ملنے کے مواقع فراہم کرے گا.پھر کہتے ہیں خدا آپ پر بہت مہربان ہے اور میں بھی خدا کے نام پر آپ کے لئے بھلائی چاہتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ آپ کو خدا دولت اور امن عطا کرے.کہتے ہیں میں مذہبی شخص ہوں اور بعض روحانی تجربات رکھتا ہوں.ایک عرصے سے میں نے ایسامذہبی ماحول نہیں دیکھا تھا.ہم جانتے ہیں کہ روحانی شخص وہ ہوتا ہے جو سیدھی راہ ہ پر ہو، وہ خدا کے ساتھ ہو اور خدا اُس کے ساتھ ہو.پھر سپین سے ایک وکیل عورت تھیں وہ شامل ہوئیں.واپس جا کر انہوں نے جو پیغام بھیجا یہ ہے کہ چین سے آنے والے ایک احمدی دوست قمر صاحب نے کہا تھا ( یہ اُن کے ساتھ آئی تھیں) کہ یہ دن بیمثال ہوں گے اور یقیناً وہ غلط نہ تھے.مجھے امید ہے کہ خدا نے چاہا تو ان دنوں میں جو آپ کی جماعت نے کام کئے ہیں وہ ضرور رنگ لائیں گے.سپین بھی ایسا ملک ہے جہاں ایک زمانے میں تو اسلام تھا اور اب وہاں اسلام کے لئے اتنی شدید دشمنی ہے، نفرت ہے، جس کی کوئی انتہا نہیں.بعض علاقوں میں تو بہت حد سے بڑھی ہوئی ہے.
خطبات مسرور جلد دہم 784 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 دسمبر 2012ء پھر مالٹا (Malta) سے مالٹا (Malta) ملک کا نام ہے ) پروفیسر آرنلڈ کا سولہ (Prof.Arnold Cassola) صاحب بھی اس تقریب میں شامل ہوئے.یونیورسٹی آف مالٹا میں بطور پروفیسر کام کر رہے ہیں.مالٹی لٹریچر پڑھاتے ہیں.یہ تیس سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں.مالٹا کی تیسری سیاسی جماعت مالٹا گرین پارٹی کے (CO Founder) ہیں.کئی سال تک گرین پارٹی کے سر براہ رہے.ان کو اٹالین پارلیمنٹ میں بھی ممبر آف پارلیمنٹ رہنے کا اعزاز حاصل ہے.اپنا تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ” کا نفرنس کا انتظام نہایت اعلیٰ تھا.کہیں کسی قسم کی کمی نظر نہیں آئی.جماعت احمدیہ کا عالمی بھائی چارے کا تصور اور ماٹو ” محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں ایک نہایت اہمیت کا حامل تصور ہے جو تمام انسانیت کو اکٹھا کر دیتا ہے اور ہر قسم کی نسلی اور مذہبی تفریق کو الگ کر کے انسان کو یکجا کرنے کی ضمانت دیتا ہے.خلیفہ کی تقریر عالمی امن کے قیام کی جدوجہد کی واضح عکاسی کرتی ہے.درحقیقت جماعت احمد یہ دنیا کے تمام لوگوں کے لئے جو امن اور رواداری کی تلاش میں ہیں مذاکرات کا ایک اہم پلیٹ فارم مہیا کر رہی ہے یہاں تک کہ سیاسی سطح پر بھی وہ اس معاملہ کو خوب اچھی طرح سے پیش کر رہی ہے.پھر دوسرے مہمان جو مالٹا سے آئے ہوئے تھے ، اوان بار تو لو (Ivan Bartolo) صاحب، ان کا تعلق میڈیا سے ہے.وہ ٹی وی کے پروگراموں کے پروڈیوسر بھی ہیں ، ان کو جماعت سے اس طرح تعارف ہوا تھا کہ لیف لیٹ سکیم جو شروع کی گئی ہے، اس کے تحت جب وہاں لیف لیٹ (Leaflet) تقسیم کئے گئے تو جب ان کو لیف لیٹ ملا تو اس پر بڑے متاثر ہوئے اور انہوں نے خود جماعت سے رابطہ کیا.اور پھر یہ تعلقات بڑھتے گئے.وہ کہتے ہیں کہ امن کے قیام کے لئے آپ کی گراں قدر خدمات ہیں جس کا میں بڑا مداح ہوں اور پھر میرے بارے میں کہتے ہیں کہ جو کچھ اُن کے متعلق پڑھا تھا اُس سے کہیں زیادہ ان کو پایا.آپ کا پیغام دائی ہے.مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ آپ کا پیغام مسیح لوگوں تک پہنچا ہے.آپ کی کوششوں ، امن اور عالمی بھائی چارے کے لئے آپ کے مشن اور جدو جہد سے بہت متاثر ہوا ہوں.اور پھر انہوں نے اپنے ایک ساتھی کا واقعہ سنایا ہے جو وہیں بیلجیئم میں، برسلز میں اُن کو ملی تھیں کہ جب اُس کو بتایا کہ میں اس لئے آیا ہوں کہ یہاں ایک پروگرام ہے تو اُس نے کہا کہ یورپین پارلیمنٹ کے پروگرام عموماً اتنے آرگنا ئز نہیں ہوتے.تو انہوں نے کہا کہ نہیں یہ جماعت احمدیہ کا پروگرام ہے.اس پر وہ عورت کہنے لگی ہاں اُن کو میں جانتی ہوں.اُن کے پروگرام ہمیشہ بڑے آرگنا ئز ہوتے ہیں.پھر Mr Christian Mirre جو چرچ آف سائینٹا لوجی یورپ کے ممبر ہیں ، نے اپنے
خطبات مسرور جلد دہم 785 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 دسمبر 2012ء خیال میں کہا کہ ایک بہت اہم میٹنگ تھی.خلیفہ نے اپنے خطاب میں ہم سب کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہم سب مل کر امن کے لئے کام کریں اور آپس کی نفرتوں کو دور کریں.اُن کا پیغام حکمت سے پر تھا اور اب عالم انسانیت کے بہتر مستقبل کی ضمانت اسی پیغام پر عمل کرنے میں ہے.پھر فرانس کے ایک علاقہ Mont Le Jolie کی نائب میئر بھی اس پروگرام میں شامل ہوئیں.کہنے لگیں یہ خطاب مجھے بہت پسند آیا.انہوں نے ایک بڑا عظیم خطاب کیا اور ساری باتیں صاف صاف بیان کر دیں.فرانس کی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر Mr.Marco Tiani بھی اس تقریب میں شامل ہوئے وہ کہتے ہیں کہ بہت خوش قسمت ہوں کہ خلیفہ کی سربراہی میں یورپین پارلیمنٹ میں ہونے والے اجلاس میں شامل ہونے کا موقع ملا.میرے لئے بہت عزت اور برکت کا باعث تھا کہ میں ایک حقیقی امن والے انسانی حقوق کے لیڈر اور مذہبی آزادی کے ایک حقیقی علمبردار کی موجودگی میں وہاں موجود تھا.میرے لئے یہ ایک فخر کی بات ہے کہ میں ایک ایسے شخص سے ملا جو امن اور باہمی تعلقات کا ایک عظیم لیڈر ہے.محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں، کا نعرہ سب سے طاقتور اور امن کی ضمانت دینے والا ہے.اس نعرہ نے مجھے بہت متاثر کیا ہے.تمام شامل ہونے والوں کو بہت عزت ملی.لوگ اتنی تعداد میں تھے کہ باہر بھی کھڑے تھے.پھر ن سپیٹ کے سابق میئر کے تاثرات یہ ہیں کہ پہلے تو انہوں نے بلانے پر شکریہ ادا کیا ہے.پھر یہ کہا کہ میں پروگرام سے بہت متاثر ہوا ( میاں بیوی دونوں آئے ہوئے تھے، یہ دونوں کے تاثرات ہیں).اس قسم کی تقریب منعقد کرنا آجکل دنیا میں ہونے والے ظلم اور شدت پسندی کا بہترین جواب تھا.پھر کہتے ہیں کہ یہ موضوع یعنی امن یورپین پارلیمنٹ کے سیاسی ایجنڈا کا بھی حصہ ہے.اور امید ہے اس پہلو کو آئندہ بھی توجہ ملتی رہے گی.بہر حال اس تقریب کی وجہ سے اس تقریب میں شاملین ، سامعین اور قارئین کا حوصلہ بلند ہوا ہے.Mr.Charles Tannock, MEP نے کہا کہ احمدیہ مسلم کمیونٹی عالمی سطح پر امن کا پیغام پھیلا رہی ہے اور شدت پسندی کے خلاف لڑ رہی ہے.یہاں آنے سے قبل ایک کامیاب پریس کانفرنس کا بھی انعقاد کیا گیا تھا.(اس فنکشن سے آدھا گھنٹہ پہلے ایک پریس کانفرنس بھی تھی ) وہاں پر جس انداز سے.
خطبات مسرور جلد دہم 786 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 دسمبر 2012ء سوال وجواب ہوئے اُس سے میں ذاتی طور پر بہت متاثر ہوا ہوں.مسلمانوں کے رہنما سے اس قسم کے پیغام کی دنیا کو ضرورت ہے.یہ امن کا پیغام دراصل ہمارے اپنے دلوں کی آواز ہے جن کا تعلق اسلام سے نہیں بلکہ دیگر مذاہب سے بھی ہے.انہوں نے کہا کہ احمد یہ مسلم جماعت روز بروز ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے.پھر کہتے ہیں کہ ان کی ہر براعظم میں شاخیں ہیں.احمد یہ کمیونٹی کی تعلیمات کو بہت کم لوگ جانتے ہیں لیکن ہمارا فرض بنتا ہے کہ اس کمیونٹی کے بنیادی پیغام کو یورپ میں پھیلائیں جو کہ محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں، پر مشتمل ہے.یہ امن کا پیغام ہے اور یہ امن صرف مسلمانوں کے بیچ نہیں بلکہ دنیا میں موجود تمام مذاہب کے درمیان امن کا پیغام ہے.پھر کہتے ہیں کہ آجکل جماعت احمد یہ دنیا کیلئے امن اور برداشت کی ایک اعلیٰ مثال ہے.جبکہ دوسری طرف مذہبی انتہا پسندی اور شدت پسندی ، امن اور انسانی حقوق دونوں کے لئے خطرہ بن چکی ہے.یہ مذہبی انتہا پسندی پھر عالمی سطح پر ہونے والی دہشتگردی کے ساتھ جڑ جاتی ہے.پھر کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو خود اس انتہا پسندی کا جواب دینے کی ضرورت ہے جیسا کہ جماعت احمد یہ اس انتہا پسندی کا جواب دے رہی ہے.پھر انہوں نے خطاب (ایڈریس ) پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے متاثر کن اور وسیع المعنی خطاب پر بھی شکریہ ادا کرتا ہوں.آپ نے اپنے خطاب میں مختلف پہلوؤں کا ذکر کیا.آپ نے امن اور برداشت کے متعلق اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آگاہ کیا.یہ بھی ذکر کیا کہ ترقی یافتہ ممالک کو غریب اقوام اور پسماندہ ممالک کی مدد کرنی چاہئے.نیز ان ذمہ داریوں کا بھی ذکر کیا جو کہ مغرب اور بالخصوص یورپی یونین کے ممالک پر عائد ہوتی ہیں اور جو کہ انہیں فکر کے ساتھ اور ہمدردی کے ساتھ ادا کرنی چاہئیں.اور مجھے اس بات پر بھی حیرانی ہے کہ آپ نے نڈر ہو کر اور جرات مندانہ طور پر امیگریشن کے حوالہ سے پیش آنے والے مسائل کا اپنے خطاب میں ذکر کیا ہے.بطور ایک سیاستدان ہونے کے میں جانتا ہوں کہ یہ ہمارے ملک کا اہم مسئلہ ہے.انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی رکھنا، ایک دوسرے کے لئے برداشت پیدا کرنا آج کا اہم ترین پیغام تھا جس کو ساتھ لے کر ہمیں یہاں سے رخصت ہونا چاہئے.اسٹونیا سے تعلق رکھنے والے ممبر آف یورپین پارلیمنٹ Mr Tunne Kelam اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں کہ آپ کی جماعت شدت پسندی اور ظلم کو یکسر رد کرتی ہے جو کہ آج کل کی دنیا میں
خطبات مسر در جلد دہم 787 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 دسمبر 2012ء دن بدن پھیل رہا ہے.مختلف مذاہب اور عقائد کو اکٹھا کرنے کیلئے آپ کا نمونہ نہ صرف نظریاتی اعتبار سے بلکہ عملی طور پر بھی بہت اہم ہے.انہوں نے کہا کہ آج ہمارے پاس اچھا موقع ہے کہ ہم اس پیغام کو پھیلانے پر زور دیں.مجھے خوشی ہے کہ یورپین پارلیمنٹیرینز بھی اس پیغام کا حصہ بن رہے ہیں.پھر (Claude Mores (MEP ممبر یورپین پارلیمنٹ نے کہا کہ بالعموم یورپین پارلیمنٹ کی ہونے والی میٹنگز میں حاضرین کی اتنی تعداد نہیں ہوتی جتنی آج یہاں پر نظر آ رہی ہے.انہوں نے کہا کہ آجکل دنیا کے حالات اس طرف جارہے ہیں کہ ہمیں احمد یہ جماعت کے امن اور آشتی کے نظریات کو اپنانے کی ضرورت ہے.ایک دوسرے کیلئے برداشت پیدا کرنے اور ایک دوسرے کی عزت کرنے کی شدید ضرورت ہے.یہ نظریات صرف کتابی باتیں نہیں ہیں بلکہ آجکل کے دور میں ان پر عمل کرنا انتہائی ضروری ہو گیا ہے.انہوں نے میرے بارے میں کہا کہ اُن کا یہاں آنا اس بات کی علامت ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے متعلق جاننا چاہتے ہیں.میرا خیال ہے کہ احمد یہ جماعت کو مزید سمجھنے کی ضرورت ہے.ان کے امن اور ایک دوسرے کے لئے برداشت کے متعلق نظریات اور پیغام کو سمجھنے کی ضرورت ہے.اس کے علاوہ مذہب و ملت کی تفریق کے بغیر انسانیت کی خدمت کرنا بھی اس جماعت کا خاصہ ہے.ان سب باتوں کو مزید سمجھنے کی ضرورت ہے.وہاں جو مختلف پریس والے آئے ہوئے تھے ، اس میں بی بی سی نیوز فیتھ میٹر ز سپینش میڈیا اکو یو یور پا(Aqui Europa)، پھر تیسرے مالٹا کا فیورٹ چینل تھا.جیو ٹی وی اور ڈیلی جنگ کے نمائندے تھے.پیرس کے کلی میگزین کے نمائندے تھے.المنار ریڈیو بیلجیئم تھا.ٹرکش میڈیا اب خبر (Abhaber) تھا.فرینچ اکیڈیمک ریسرچر.اونر آف جسٹس فرسٹ آف دی ورلڈ.پکار نیوز یو کے.اسی طرح ہیں ایسوسی ایٹڈ (Associated) پریس پاکستان.اور پھر اس کے علاوہ یورپین پارلیمنٹ کے آفیشل فوٹوگرافر ، بیلجیئم کے ٹی وی اور ریڈیو کے نمائندگان اور بعض دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے میڈیا کے نمائندے بھی وہاں موجود تھے.سی این این نے بھی ایک حصہ کا حوالہ دے کر اپنی ویب سائٹ پر اُس کے اوپر لکھا تھا Quote of the day.اُس کو حوالہ پسند آیا تھا.اس میں ایک ہونے کا ذکر تھا.جرمنی کے نیشنل ممبر آف پارلیمنٹ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خطاب انتہائی متاثر کن تھا.اس نے ہم پر گہرا اثر کیا ہے.میرا خیال ہے انہوں نے یہ ہیمبرگ میں کہا تھا.لیکن بہر حال میرے متعلق کہتے ہیں کہ جس طرح انہوں نے برٹش پارلیمنٹ اور امریکن کیپیٹل ہل میں خطاب کئے ہیں،
خطبات مسرور جلد دہم 788 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 دسمبر 2012ء اسی طرح اب میں نے کوشش کرنی ہے کہ خلیفہ کا برلن میں جرمن پارلیمنٹ سے بھی خطاب ہو.Hakan Temirel ممبر صوبائی اسمبلی ہیمبرگ نے اس دن اُن کو میں نے وہاں جو باتیں بتائی تھیں ، کہا کہ آج جو ہماری رہنمائی کی ہے، اس رہنمائی کی پوری اسلامی دنیا کوضرورت ہے.اب یہ یورپین پارلیمنٹ سے آگے ہیمبرگ کے فنکشن کا ذکر چل رہا ہے.یہ اگلے دن ہی تھا.منگل کو یورپین پارلیمنٹ میں تھا ، بدھ کو ہیمبرگ میں ہیمبرگ میں ہی انٹیگریشن آفیسر (Integration Officer) کسی احمدی دوست کو اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ کے خلیفہ نے اسلام کی تعلیم کو انتہائی عمدہ اور خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے جس سے بعض غلط فہمیوں کا ازالہ ہو گیا ہے.مجھے اس پروگرام میں شامل ہو کر بہت خوشی ہوئی ہے اور اسلام کی اصل تعلیم کا پتہ چلا ہے.اب ہم جماعت کے نمائندگان کو اپنے پروگراموں میں بلائیں گے تاکہ آپ لوگ وہاں آکر اسلام کی تعلیم پیش کریں.ہیمبرگ کے علاقہ ہار برگ (Harburg) کی کونسل کے ایک نمائندے نے کہا کہ جس طرح وہ الفاظ کی ادائیگی کر رہے تھے، وہ دلوں میں اتر رہے تھے، ایسا تو ہمارے مذہب کا کوئی بھی نمائندہ نہیں کر سکتا.پھر کہا خلیفہ نے جس طرح خاص طور پر اسلام کا تصور پیش کیا ہے ، اسلام کی یہ حسین تعلیم پیش کی ہے کہ جس ملک میں رہتے ہو اس سے محبت کرنی چاہئے ، یہ میرے لئے اسلام کی ایک نئی تصویر ہے.ایک خاتون نے اب یہ ذاتی میرے بارے میں تاثر دیا ہے ( میں اسے چھوڑتا ہوں.) پھر انٹیگریشن کے حکومتی ادارے سے تعلق رکھنے والی دو آ فیسر خاتون آئیں ہوئی تھیں.انہوں نے کہا کہ ہمارے سارے ڈر اور خوف دور ہو گئے ہیں.خلیفہ نے اپنی تقریر کے اندر ہمارے سارے خوف دور کر دیئے ہیں.مسلمانوں کو ایسے ہی خیالات رکھنے چاہئیں.اسلام کی تعلیم تو بہت پر امن ہے، جو خوف سوسائٹی میں ہمیں نظر آ رہا تھا وہ اب دور ہو گیا ہے.ہیمبرگ کے ایک علاقے میں حکومتی وفاقی دفاتر کے Head اپنی اہلیہ کے ساتھ آئے ہوئے تھے ، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو ایسا محسوس کیا جس طرح شہد کی مکھیاں ہوتی ہیں اور ان کی ایک ملکہ ہوتی ہے.ساری مکھیاں اپنی ملکہ کے گرد گھومتی ہیں اور اس کے لئے اپنی جان دیتی ہیں.اسی طرح آپ کی ساری جماعت اپنے خلیفہ کے گرد کام کرتی ہے اور خلیفہ پر اپنی جان دیتی ہے اور کامل اطاعت کرتی ہے.تو یہ نظارے بھی غیروں کو نظر آتے ہیں اور لکھا کہ اس دوران خلیفہ کی بھی صورتحال شہد کی ملکہ کی طرح ہے.اور اس کا ذکر کیا کہ جماعت کس طرح اپنے خلیفہ کا احترام کرتی ہے.
خطبات مسرور جلد دہم 789 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 دسمبر 2012ء وہاں کچھ پریس کے لوگ بھی آئے ہوئے تھے جن کا خطاب سے پہلے تو کوئی پروگرام نہیں تھا.صرف جرمنی کے امیر صاحب کا انٹرویو لینا تھا.لیکن پھر انہوں نے میرا کہا کہ اُن سے بھی ہم نے انٹرویو لینا ہے.سوال جواب کرنے ہیں.جب مجھے انہوں نے کہا تو میں نے کہا ٹھیک ہے فنکشن کے بعد کر لیں.اُس فنکشن کے بعد جب میں نے کہا کہ کہاں ہیں، اُن کو بلاؤ.تو کہتے ہیں انہوں نے اب یہ کہا ہے کہ جو کچھ ہم نے سوال کرنے تھے، جو شبہات اور تحفظات ہمارے ذہن میں تھے ، وہ تو اس ایڈریس سے دور ہو گئے ہیں.اس لئے اب اس کی مزید ضرورت نہیں ہے.تو اسلام کے بارے میں خوبصورت تعلیم ان کو جب پتہ لگتی ہے تو پھر ان کی آنکھیں کھلتی ہیں کہ اسلام کیا چیز ہے.اسلامک کمیونٹی بورڈ کی ایک خاتون ممبر بھی آئی ہوئی تھیں.یہ میرا خیال ہے غالباً عرب ہیں.یہ یو نیورسٹی میں اسلامک ریسرچ پر کام کرتی ہیں.جماعت کے بارے میں پہلے کافی مخالف تھیں اور احمد یوں کے خلاف باتیں بھی کرتی تھیں.پھر کچھ عرصے سے اُن کا رویہ تبدیل ہو گیا.وہاں یو نیورسٹی میں ہمارے ایک مصری پروفیسر بھی ہیں ، وہ جماعت سے کافی قریب ہیں، ہو سکتا ہے کہ اُن کی وجہ سے بھی (رویہ ) تبدیل ہوا ہو.بہر حال کہنے لگیں کہ ہمارے سارے خدشات دور ہو گئے ہیں.آپ کے خلیفہ کوئی عام آدمی نہیں ہیں.بہت بڑے روحانی لیڈر ہیں.ذہین انسان ہیں.کہنے لگی کہ میں نے خلیفہ کو چلتے ہوئے دیکھا، بولتے ہوئے دیکھا، نماز پڑھتے ہوئے دیکھا.میں سوچا کرتی تھی کہ مسلمانوں کا کوئی ایسا لیڈر ہو.آج میں نے وہ لیڈرا اپنی زندگی میں دیکھ لیا ہے.پس یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خلافت کی برکت.یعنی ان سب خیالات کے باوجود انہوں نے جو کچھ دیکھا، وہیں سوئی ان کی اڑی رہے گی، قبول نہیں کریں گے.ہیمبرگ شہر کے پریذیڈنٹ آف پولیس اس پروگرام میں شامل ہوئے.وہ صوبے کا ہی پورا انچارج ہوتا ہے.کہتے ہیں کہ خطاب میں اسلام کی جو امن کی تعلیم بیان کی ہے اگر اس پر ہم سب عمل کرنے والے ہوں تو پھر ہم پولیس والوں کی ضرورت ہی نہ رہے.ہیمبرگ کا جو پروگرام تھا اس کو بھی بڑی وسیع کوریج ملی ہے.ہیمبرگ اینڈ بلاٹ (Hamburger Abendblatt) اخبار ہے جس کو پڑھنے والے پانچ لاکھ ستاون ہزار ہیں، اُس نے اس خبر کو دیا.پھر ایک اور اخبار بلڈ (Bild) ہے جس کو پڑھنے والے سات لاکھ اکتیس ہزار افراد ہیں.پھر ایک اخبار ہے جس کی ایک لاکھ سرکولیشن ہے.ویلٹ کمپیکٹ (Welt Kompakt) ، پھر اخبار
خطبات مسرور جلد دہم 790 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 دسمبر 2012ء این ڈی آرا یکیچوال (NDR Aktuell) اس کی چار لاکھ کی سرکولیشن ہے ، لوگ پڑھتے ہیں.اور اسی طرح مختلف اخباروں نے ہیمبرگ کی مسجد کی اس رینوویشن (Renovation) کے افتتاح کا اور اس ایڈریس کا ذکر کیا.صوبہ بیسن کی جو پارلیمنٹ ہے، اُس کے اپوزیشن لیڈر نے بھی وہاں پارلیمنٹ میں ملاقات کے لئے بلایا تھا تو وہ کہنے لگا کہ اسلامی دنیا میں جو تبدیلیاں ہو رہی ہیں، خاص طور پر عرب ممالک میں ، اس کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں کیونکہ آجکل ہمارے ہاں اس کی بڑی بحث چل رہی ہے.ان لوگوں سے مدد بھی وہاں جاتی ہے اور یہی لوگ وہاں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار بھی ہیں.تو میں نے ان کو یہ کہا کہ جو عرب دنیا کی صورتحال ہے یہ کوئی راتوں رات پیدا نہیں ہوگئی.عرب دنیا کی یہی لیڈرشپ تھی جو آج سے دس بیس سال پہلے بھی تھی.انہی خیالات کے حامل تھے.اُس وقت بڑی طاقتوں نے اس طرف توجہ نہیں دی کیونکہ اپنی ترجیحات اور مفادات تھے.اور نہ ہی وہاں کے لوکل عوام کی توجہ پیدا ہوئی کیونکہ ان کو بھی بھڑ کانے والے باہر کے لوگ ہیں.یہی لیڈرشپ تھی جو پہلے بھی کر پٹ تھی یا اپنے عوام کے ساتھ صحیح سلوک نہیں کر رہی تھی.لیکن مغربی طاقتوں نے یا ان ایجنسیز نے جو ان ملکوں کو ایڈ (Aid) دیتی تھیں، ان کے ساتھ رابطہ رکھا.اصل چیز یہ ہے کہ جب تک بڑی طاقتوں نے لیڈرشپ کو اپنے زیر اثر رکھا،لیڈرشپ نے ان کی بات مانی تو اُس وقت تک وہاں کوئی ایسا فساد نہیں تھا، کوئی فکر نہیں تھی.لیکن جب وہ لیڈرشپ ان کے قابل نہیں رہی تو انہوں نے وہاں ایک انقلاب لانے کی کوشش کی.میں نے ان کو کہا کہ اگر مغربی حکومتیں چاہتی ہیں کہ ان ممالک میں امن ہو تو وہ پھر وہاں خالص جمہوریت لے کے آئیں.کیونکہ آپ لوگ جمہوریت کا ہی زیادہ شور مچاتے ہیں ناں کہ جمہوریت ہونی چاہئے.نہ یہ کہ کسی خاص شخص کو پسند کر کے ایک لمبا عرصہ اُس کی سپورٹ کرتے رہیں اور پھر جب وہ حد سے بڑھ جائے ، ڈکٹیٹر بن جائے تو پھر اُس کے خلاف کارروائی کی جائے.تو یہ ڈکٹیٹر بنانے والے بھی آپ لوگ ہی ہیں.اور پھر یہ بھی ہے کہ ترقی کے جس معیار تک وہ ملک پہنچ چکا ہوتا ہے، جب پسند نہیں رہتا تو پھر اُس کا اتنا برا حال کرتے ہیں کہ بالکل مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے.اس لئے اب یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ جن ملکوں میں فساد ہیں وہاں حقیقی طور پر اُن کی مدد بھی کی جائے اور جمہوریت اگر آپ نے قائم کرنی ہے تو کریں.خیر اور بھی باتیں ہوتی رہیں، بہر حال ان کو یہ کہنے کا ایک موقع ملا.وہاں جامعہ احمدیہ کا افتتاح بھی ہوا.ورنر آرمنڈ (Werner Amend) ریڈشنڈ ، جس شہر میں
خطبات مسرور جلد دہم 791 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 دسمبر 2012ء جامعہ ہے وہاں کے میئر ہیں، وہ کہتے ہیں کہ خلیفہ نے جو تقریر کی وہ کوئی لکھی ہوئی تقریر نہ تھی بلکہ اُن کے دلی خیالات تھے.اُن کا طلباء کو یہ کہنا کہ وہ تعلیم پر خود بھی عمل کریں اور لوگوں کے سامنے عملی نمونہ رکھیں بہت ضروری اور مثبت بات ہے.ایک مذہبی تنظیم کے سر براہ ہونے کے باوجود بہت پریکٹیکل انسان ہیں.یہ باوجود سے پتہ نہیں اُن کی کیا مراد ہے؟ اُن کے خیال میں شاید مذہبی رہنما پریکٹیکل نہیں ہوتے یا عملی طور پر کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں.وولف والتصر (Wolf Walther ) صاحب جرمن اسلام کا نفرنس کے سیکرٹری ہیں.وہ بھی وہاں جامعہ کے افتتاح پر آئے ہوئے تھے.انہوں نے کہا کہ خلیفہ کی ہدایات بہت اہم اور ضروری تھیں.اُن کی طلباء کو ایک ہدایت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ طلباء عمومی آبادی سے مختلف نظر آنے والے اور الگ لباس میں ہوں گے، اس لئے بہت ضروری ہے کہ وہ دوستانہ رویہ رکھیں اور کھلے دل سے ملنے والے ہوں.اس سے خوف کم کرنے اور تعصبات سے بچنے کا موقع ملتا ہے.ایک دوسرے کے ساتھ بولنے اور معلومات کے تبادلے سے ہی ایسا ممکن ہے.اس لئے خلیفہ کی اس بارے میں ہدایات بہت اہم ہیں.ایک جرنلسٹ ہا ناک (Hanack) کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں تقریب بہت باوقار تھی اور دوستانہ ماحول میں ہوئی.آپ کے عالمی سر براہ کی تقریر میرے نزدیک بہت پرمغز اور مناسب تھی.اُن کے زندگی بخش الفا ظ صرف بنیادی اخلاقیات تک محدود نہیں تھے.مجھ پر گہرا اثر چھوڑ گئے کیونکہ انہوں نے ٹھوس طریق پر طلباء کے مقامی آبادی کے ساتھ سلوک کا ذکر کیا.جامعہ احمدیہ کے افتتاح کو بھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں کافی کوریج ملی ہے.دس سے زائد خبریں آ چکی ہیں جن میں صوبائی ٹی وی، ریڈیو وغیرہ شامل ہیں.جامعہ کی تصویر بھی آئی ہے.اخبارات نے لکھا کہ مرزا مسرور احمد نے طلباء سے خطاب کیا.انہوں نے بار بار یہ کہا کہ اسلام کی خوبصورتی کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے.انہوں نے ان نوجوانوں کو نصیحت کی کہ وہ اپنے آپ کو پر کھیں.تعلیمات کو اپنے او پر لاگو کریں اور بنی نوع انسان سے خوش اخلاقی سے پیش آئیں.احمد یہ جماعت کی اہم شرط یہ ہے کہ معاشرے میں ہم آہنگی اور امن پھیلا یا جائے.ایک اخبار نے لکھا کہ اسلامی جماعت احمدیہ مستقبل میں ریڈشنڈ میں امام تیار کرے گی اور پھر سارا نقشہ کھینچا کہ کیا کیا کچھ وہاں موجود ہے.ان کے سر براہ مرزا مسرور احمد نے مستقبل کے اماموں کو مخاطب کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ ریڈشنڈ اور بیسن میں لوگوں میں اسلام کا خوف ختم کرنا ہے.اسلام
خطبات مسرور جلد دہم 792 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 دسمبر 2012ء ہو.دوسرے مذاہب اور معاشروں کے خلاف جنگ نہیں کر رہا.اس طرح مختلف اخباروں کے تبصرے تھے.جو پروگرام ہوئے اللہ تعالیٰ ان سب کے دور رس نتائج پیدا فرمائے اور ہمارا ہر قدم ترقی کا قدم ہمیں شکر گزاری اور تقویٰ میں بڑھاتا چلا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : تمہارا اصل شکر تقویٰ اور طہارت ہی ہے.مسلمان کا پوچھنے پر الحمد للہ کہہ دینا سچا سپاس اور شکر نہیں ہے.اگر تم نے حقیقی سپاس گزاری یعنی طہارت اور تقویٰ کی راہیں اختیار کر لیں تو میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ تم سرحد پر کھڑے ہو.کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا.پھر فرمایا اصل بات یہ ہے کہ تقویٰ کا رعب دوسروں پر بھی پڑتا ہے اور خدا تعالیٰ متقیوں کو ضائع نہیں کرتا“.فرمایا ” ضروری ہے کہ انسان تقویٰ کو ہاتھ سے نہ دے اور تقویٰ کی راہوں پر مضبوطی سے قدم مارے کیونکہ متقی کا اثر ضرور پڑتا ہے اور اُس کا رعب مخالفوں کے دل میں بھی پیدا ہو جاتا ہے“.( ملفوظات جلد اول صفحہ 50-49.ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے فضلوں سے نوازتار ہے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 11 تا 17 جنوری 2013ء جلد 20 شماره 2 صفحه 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد دہم 793 52 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 دسمبر 2012ء خطبه جمع سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة اسم الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 28 دسمبر 2012ء بمطابق 28 فتح 1391 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس وقت میں نے آپ کے سامنے پیش کرنے کے لئے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ روایات لی ہیں جواُن کے رو یا وکشوف کے بارے میں ہیں.پہلی روایت حضرت محمد فاضل صاحب کی ہے.یہ کچھ دیر قادیان رہنے کے لئے آئے.قادیان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت میں رہے تو ( وہاں کے ) جو مختلف واقعات تھے ،ان کی ایک روایت پیچھے چلتی آرہی ہے.اُس کے بعد آگے بیان کرتے ہیں کہ پانچ چھ روز کے بعد میں رخصت ہو کر واپس آ گیا ( یعنی قادیان سے واپس چلے گئے ).واپس اپنے گھر آ کر ، اپنے علاقے میں آ کر میں نے تبلیغ شروع کر دی.سب سے پہلے میں اپنے استاد صاحب کے پاس بغرض تبلیغ پہنچا.رات کے وقت اُن کو اور ( اُن کے ساتھی تھے ) میاں لال دین صاحب آرا ئیں ، جو وہاں کے باشندے تھے، انہیں تبلیغ کی.کہتے ہیں اُسی رات جب میں نماز پڑھ کر سویا تو خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے.آپ علیہ السلام کی کمر میں ایک کمر بند باندھا ہوا تھا اور نہایت چستی سے میرے دائیں ہاتھ کو پکڑ کر بڑی تیزی سے مجھے ساتھ لے کر چلتے ہیں.مدینہ شریف میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاں بیوت مبارک تھے، (جہاں اُن کے گھر تھے، وہاں انہوں نے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ) کھڑا کر دیا اور ( پھر کہتے ہیں کہ خواب میں مجھے ) آپ علیہ السلام نظر نہیں آئے اور میں اُن مکانات کو جو خام تھے ( کچے مکان تھے ) اور شمار میں نو (9) ہیں.دیکھ کر کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم مبارک ان گھروں میں رہتے تھے اور اُن کے شمالی سمت میں ایک خام مسجد ہے.خواب میں
خطبات مسرور جلد دہم 794 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 دسمبر 2012ء میں کہتا ہوں کہ یہ مسجد نبوی ہے.پھر میری آنکھ کھل گئی.صبح کو میں نے مولوی صاحب کو یہ خواب سنایا ( یعنی اپنے استاد کو ) اور آئینہ کمالات اسلام اُن کی خدمت میں پیش کی اور (وہاں سے آ گیا، اُن سے ) رخصت ہوا.پندرہ روز کے بعد مولوی صاحب نے یہ کتاب پڑھی ، قادیان روانہ ہوئے اور بیعت کر کے واپس آئے.اسی طرح میاں لال دین بھی بیعت میں داخل ہو گئے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود.غیر مطبوعہ.رجسٹر نمبر 7 صفحہ 234-235 از روایت حضرت محمد فاضل صاحب) حضرت نظام الدین صاحب ، انہوں نے 1890 ء یا 91ء میں بیعت کی تھی.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بیعت سے بہت پہلے 1883ء.1884ء میں دیکھ لیا تھا.کہتے ہیں میں ابھی بیعت میں داخل نہیں ہوا.نماز عصر مسجد مبارک سے پڑھ کر پرانی سیڑھیوں سے جب نیچے اترا تو ابھی سقفی ڈیوڑھی میں تھا ( یعنی وہ ڈیوڑھی جس پر covered area تھا ) کہ دو آدمی بڑے معز ز سفید پوش جوان قد والے ملے.( یہ قادیان گئے ہوئے تھے ) جو مجھے سوال کرتے ہیں کہ مرزا صاحب کا پتہ مہربانی کر کے بتلائیں کہ کہاں ہیں؟ ہم بہت دور دراز سے سفر کر کے یہاں پہنچے ہیں.میں نے کہا آؤ میں بتلا دوں.انہوں نے کہا نہیں آپ ہمارے پیچھے ہو جائیں.اوپر ہیں تو ہم پہچانیں گے.تب میں اُن کے پیچھے ہو لیا.وہ میرے آگے آگے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے چلے گئے.آگے اجلاس لگا ہوا تھا.( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس تھی.) اور حضور علیہ السلام دستار مبارک سر سے اتارے ہوئے بے تکلف حالت میں بیٹھے ہوئے تھے.جاتے ہوئے اُن میں سے ایک شخص نے حضور کو جاتے ہی پوچھا کہ آپ کا نام غلام احمد ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا.”ہاں“.پھر اُس نے کہا کہ آپ کا دعویٰ مسیح موعود کا ہے؟ حضور نے فرمایا.”ہاں“.تو پھر اُس نے کہا کہ پہلے آپ کو السلام علیکم جناب حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا، اور پھر میری طرف سے اور میں فلاں دن حضوری میں تھا.( یعنی اپنی خواب کا ذکر کر رہے ہیں ) تب رسولِ خدا کا ہاتھ مبارک حضور کے دائیں کندھے پر تھا.( یہ آگے وہی اب اپنی خواب بتا رہے ہیں کہ فلاں دن میں نے خواب میں دیکھا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تھا ) اور رسول خدا کا ہاتھ مبارک حضور کے دائیں کندھے پر تھا.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دائیں کندھے پر تھا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”هذا مسِیخ “ ان کی بیعت کرو اور میر اسلام کہو.( یہ اُن لوگوں نے کہا.کہتے ہیں تب میرے دل نے سخت لرزہ کھایا.( یہ جو روایت بیان کرنے والے ہیں ناں حضرت نظام الدین صاحب، یہ اب آگے اپنا واقعہ بیان کر رہے ہیں کہ )
خطبات مسرور جلد دہم 795 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 دسمبر 2012ء تب میرے دل نے سخت لرزہ کھایا اور دعا مسجد اقصیٰ میں بہت زاری سے کی.اللہ کے صدقے ، اللہ تعالیٰ کے قربان، کیسے جلدی اُس نے میرے آقا کی دعا سے اس عاجز گناہگار کو اٹھایا ہے.اسی رات سے بشارتیں اعلیٰ سے اعلیٰ ہونی شروع ہو گئیں.(جب میں نے دعا کی ) تمام خوابوں کے لئے تو میدانِ کاغذ کی ضرورت ہے (اتنی خوابیں ہیں کہ انتہا کوئی نہیں ) صرف ایک آخری خواب جس نے میرے جیسے عاصی گناہگار کو شرف بیعت حاصل کرنے کی بخشی، جس کا (ذکر ) درج ذیل کرتا ہوں.کہتے ہیں خواب میں دیکھا کہ ایک دریا شرق سے غرب کو جا رہا ہے جس کی چوڑائی تقریباً ایک میل کی ہوگی.پانی بہت مصفی ہے جیسے کسی نے شعر کہا ہے مصفی ہمچو چشم نیز بیناں مصفی ہمچو از خلوت نشیناں یعنی ایسا صاف جیسے ایک صاف نظر دیکھنے والی آنکھ ہے، جیسے صاف دل ایسا شخص جو خلوت میں ہو، علیحدگی میں ہو، الگ پاک سوچ رکھنے والا ہو، وہ بیٹھا ہوتا ہے.یہ تشبیہ انہوں نے دی ہے.بہر حال کہتے ہیں بہت صاف پانی تھا، کوئی شئے اُس میں خوفناک نہیں ہے اور میں بڑی خوشی سے تیر رہا ہوں.جب مولوی عبد اللہ کشمیری جو اُس وقت تک (میرا خیال ہے اس وقت تک ) احمدی نہیں تھا اُس نے بہت دور کنارے جنوب سے بلند آواز سے کہا.اے منشی جی ، اے بابو جی! کیا آپ نہا ر ہے ہیں؟ ذرا دل کی جگہ تو دیکھو جو بالکل خشک ہے.کہتے ہیں میں نہا رہا تھا.آواز آئی کہ دل کو دیکھو باوجود پانی میں تیرنے کے بالکل خشک ہے.تب میں اُسی عالم میں اچھل کر دیکھتا ہوں تو واقعی میرے دل کی جگہ بالکل خشک ہے.اچھلتا ہوں اور پانی ہاتھوں میں بھر کے دل کی جگہ ڈال رہا ہوں، مگر خشک.میں کہتا ہوں مولوی عبداللہ ! یہ کیا بات ہے؟ اُس نے جواب دیا.مشرق کو منہ کر کے دیکھو کیونکہ میں مغرب کی طرف جارہا تھا.مشرق کی طرف جب منہ کر کے دیکھا تو ادھر ایک بڑا عظیم الشان پل دریا پر ہے اور اُس پل کے اوپر مرزا صاحب کے گھر ہیں.میں نے کہا میں اس طرف نہیں جاؤں گا کیونکہ مرزا کے گھر ہیں.پھر مولوی عبداللہ نے کہا کہ جاؤ تو سہی.پھر جواب دیا کہ میں اُس طرف نہیں جاؤں گا.پھر مولوی عبداللہ روئے اور بلند آواز سے کہا کہ جاؤ تو سہی.تب اللہ تعالیٰ کے صدقے قربان ، میں تیرتا ہوا پل سے پار کی طرف شرق ( یعنی مشرق کی طرف) چلا گیا.اُس طرف نکلا تو کنارہ گھاس والا پانی کے برابر ملا.محنت کر کے گھاس والے کنارے پر کھڑا ہو کر تمام بدن سے پانی نچوڑ رہا ہوں (خواب میں دیکھتے ہیں ) مگر دل کا پانی جو خشک جگہ دل کی تھی ( یعنی پہلے جب دریا میں نہا رہے تھے تو دل خشک تھا لیکن جب یہاں کھڑے ہو کر جسم سے پانی نچوڑنا
خطبات مسرور جلد دہم 796 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 دسمبر 2012ء شروع کیا تو کہتے ہیں کہ جو خشک جگہ دل کی تھی) وہاں سے اتنا پانی جاری ہے جو ایک چشمے کی طرح جاری ہے، خشک ہونے تک نہیں آتا.آنکھ کھل گئی اور اُسی دن بیعت کر لی اور ٹھنڈ پڑگئی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود رجسٹر نمبر 7 صفحہ 189 تا 191.از روایات حضرت نظام الدین صاحب) حضرت خیر دین صاحب ولد مستقیم صاحب، جنہوں نے 1906ء میں بیعت کی فرماتے ہیں کہ میں نے (اپنے ایک خواب کا پہلے ذکر کیا اُس کے بعد کہتے ہیں) ایک اور یہ خواب دیکھا کہ آپ نے جمعہ عید کی طرح پڑھایا ہے ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جمعہ عید کی طرح پڑھایا ہے ) خطبہ کرنے کے لئے ایک کمرہ ہے.قرآن شریف پکڑ کر آپ اُس کے اندر تشریف لے گئے.وہ کمرہ مسجد کے داہنے کونے میں ہے.آپ کے پیچھے چار سکھ بھی، جن کے کپڑے میلے کچیلے ہیں اور اُن کے پاس کوئی ہتھیار بھی معلوم ہوتا تھا مگر ظاہراً نظر نہیں آتا تھا، اندر داخل ہو گئے.اُس وقت میرے دل میں یہ بات گزری کہ یہ شاید حضرت اقدس پر حملہ کریں گے.مگر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کرسی پر بیٹھے ہوئے میز پر قرآن شریف رکھ کر پڑھ رہے ہیں اور وہ چار سکھ پاس بیٹھ کر قرآن شریف سن رہے ہیں.تھوڑی دیر کے بعد وہ باہر نکلے.اُس وقت اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے.وہ اپنی آنکھوں کو پونچھتے آتے تھے.مجھے اُس وقت یہ معلوم ہوتا تھا کہ اُن پر بہت رقت طاری ہوگئی ہے اور یہ مرید بن گئے.وہ روتے بھی ہیں اور پنجابی میں یہ الفاظ بھی کہتے ہیں کہ چندہ ایویں تے نئیں ناں منگد “ گویا کہ وہ معتقد ہو گئے ہیں.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود رجسٹر نمبر 7 صفحہ 161 - از روایات حضرت خیر دین صاحب) حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب نیر جنہوں نے 1901ء میں بیعت کی تھی بیان کرتے ہیں کہ 1902ء میں حضور کی کسی ایک تحریر کے اندر ”میری نبوت اور میری رسالت کے الفاظ تھے.(یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کوئی تحریر انہوں نے پڑھی جس میں یہ لکھا ہوا تھا ، یہ الفاظ تھے کہ ”میری نبوت“ اور ” میری رسالت) کہتے ہیں اس کو دیکھ کر میری طبیعت میں قبض پیدا ہوئی ( کہ یہ نبوت اور رسالت کو اس طرح واضح طور پر کیوں لکھا ہوا ہے؟) کہتے ہیں پھر میں نے کسی سے دو تین روز تک بات نہیں کی.آخر تیسرے دن مجھے الہاماً بتایا گیا کہ لَا رَيْبَ فِيه “.اب اس کے بعد ( کہتے ہیں کہ اس الہام کے بعد ) میں اودھ میں ملازمت کے سلسلے میں چلا گیا اور مطالعہ کا موقع ملا.اور خدا کے فضل سے علم میں اضافہ ہوکر وہ وقت آ گیا جب اللہ تعالیٰ قادیان لے آیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود رجسٹر نمبر 11 صفحہ 256 از روایات حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب نیر)
خطبات مسرور جلد دہم 797 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 دسمبر 2012ء حضرت میاں عبدالرشید صاحب ( ان کا سن بیعت 1897ء ہے ) بیان کرتے ہیں کہ مجھے بیعت کی تحریک حضرت والد صاحب کو تحریک اور ایک خواب کے ذریعہ سے ہوئی.( کہتے ہیں ) میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ حضور ایک چار پائی پر لیٹے ہیں اور بہت بیمار ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے پاس کھڑے ہیں جیسے کسی بیمار کی خبر گیری کرتے ہیں.حضور صلی اللہ علیہ وسلم چار پائی سے آپ کے کندھے کا سہارا دے کر کھڑے ہوئے.اُس کے بعد اس حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لیکچر دینا شروع کر دیا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے متعلق بیان تھا اور اس کے بعد خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تندرست ہو گئے ہیں اور آپ کا چہرہ پر رونق ہو گیا.جس سے میں نے یہ تعبیر نکالی کہ اب اسلام حضرت صاحب ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کے ذریعہ سے دوبارہ زندہ ہو گا.چنانچہ اس خواب کے بعد پھر میں نے بیعت کر لی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود.رجسٹر نمبر 11 صفحہ 28.از روایات حضرت میاں عبدالرشید صاحب) حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب بیان کرتے ہیں (ان کی بیعت 1903ء کی ہے.یہ حضرت اُمّم طاہر کے بھائی تھے ) کہ میری عمر سات آٹھ سال کی ہوگی ، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ گھر میں اس بات کا تذکرہ ہوا ( یعنی اُس زمانے میں سات آٹھ سال کے بچے کی بھی اللہ تعالی رہنمائی فرماتا تھا.) کہتے ہیں گھر میں اس بات کا تذکرہ ہوا کہ کسی شخص نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور یہ کہ اس نے یہ خواب دیکھا ہے کہ کچھ فرشتے ہیں جو کالے کالے پودے لگارہے ہیں اور یہ کہ رہے ہیں کہ یہ طاعون کے پودے ہیں اور دنیا میں طاعون پھیلے گی اور یہ کہ میری آمد کی بھی یہ نشانی ہے.اس وقت ہم تحصیل رعیہ میں تھے.والد صاحب وہاں شفا خانے کے انچارج ڈاکٹر تھے.اسی عرصے کی بات ہے کہ میں نے ایک خواب دیکھا کہ کسی نے گھر میں آکر اطلاع دی کہ نانا جان آ رہے ہیں.چنانچہ ہم باہر اُن کے استقبال کے لئے دوڑے.شفا خانے کی فصیل (یعنی ہسپتال کی دیوار ) کے مشرق کی جانب کیا دیکھتا ہوں کہ پہلی میں نانا جان سوار ہیں، سبز عمامہ ہے اور بھاری چہرہ ہے.رنگ بھی گندمی اور سفید ہے اور داڑھی بھی سفید ہے.اور سورج نکلا ہوا ہے.مجھے فرماتے ہیں کہ میں آپ کو قرآن پڑھانے کے لئے آیا ہوں.اور انہی دنوں میں نے یہ خواب بھی دیکھا کہ رعیہ کی مسجد ہے اور اُس کے دروازے پر لا الهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ الله “ لکھا ہوا ہے لیکن جہاں تک مجھے یاد ہے ، اُس کے الفاظ مدھم تھے.امام الزمان آتے ہیں.مسجد میں داخل ہوتے ہیں ، ( یہ نظارہ دیکھا کہ لَا اِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ لکھا ہے لیکن الفاظ مدھم ہیں.
خطبات مسرور جلد دہم 798 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 دسمبر 2012ء اُس کے بعد پھر نظارے میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لاتے ہیں، مسجد میں داخل ہوتے ہیں ) میں بھی ساتھ جاتا ہوں، مسجد کی صفیں ٹیڑھی ہیں.آپ ان صفوں کو درست کر رہے ہیں.کہتے ہیں ہم اُس زمانے میں احمدی نہیں ہوئے تھے.اُس زمانے میں اس بات کا عام چر چا تھا کہ مسلمان برباد ہو چکے ہیں اور تیرھویں صدی کا آخر ہے اور یہ وہ زمانہ ہے جس میں حضرت امام مہدی تشریف لائیں گے اور ان کے بعد حضرت عیسیٰ بھی تشریف لائیں گے.( مسلمانوں میں جو عام تصور پایا جاتا تھا کہ عیسی اور مہدی دو علیحدہ علیحد شخص ہیں.کہتے ہیں کہ اس بات کا بڑا چر چاتھا.چنانچہ حضرت والدہ صاحبہ اُس مہدی اور عیسی کی آمد کا ذکر بڑی خوشی سے کیا کرتی تھیں کہ وہ زمانہ قریب آ رہا ہے اور یہ بھی ذکر کیا کرتی تھیں کہ چاند گرہن اور سورج گرہن کا ہونا بھی حضرت مہدی کے زمانے کے لئے مخصوص تھا اور وہ ہو چکا ہے.آگے لکھتے ہیں ممکن ہے کہ یہ خوا ہیں اس بچپن میں شنیدہ باتوں کے اثر کے ماتحت خواب کی صورت نظر آتی ہوں لیکن واقعات یہ بتلاتے ہیں کہ وہ مہدی اور مسیح کے آنے کا عام چرچا اور یہ خوا ہیں جو بڑوں چھوٹوں کو اُس زمانے میں آیا کرتی تھیں (اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی ہوا چلی تھی کہ بچوں اور بڑوں سب کو آیا کرتی تھیں.) آنے والے واقعات کے لئے بطور آسمانی اطلاع کے تھیں.(چنانچہ یہ پورا خاندان حضرت سید ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب کا احمدی ہوا اور اخلاص و وفا میں بڑی ترقی کی.) (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود.رجسٹر نمبر 11 صفحہ 143 - 142 روایت حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ) حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحب جن کا بیعت کا سن 1898 ء کا ہے، فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے مجھے فرمایا کہ آپ حامد علی کے ساتھ مہمان خانے میں جائیں اور ظہر کے وقت میں پھر ملاقات کروں گا.( جب یہ وہاں پہنچے تو ان کو یہ کہا گیا) کہتے ہیں میں مہمان خانے چلا گیا وہاں کھانا آیا، ذرا آرام کیا.ظہر کی اذان ہوئی.مجھے پہلے ہی حامد علی صاحب نے فرمایا تھا کہ آپ پہلی صف میں جا کر بیٹھ جائیں.چنانچہ میں اُسی ہدایت کے ماتحت پہلی صف میں ہی قبل از وقت جا بیٹھا.حضور تشریف لائے ،نماز پڑھی گئی.نماز کے بعد حضور میری طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا کہ کب جانا چاہتے ہیں.میں نے کہا حضور ! ایک دو روز ٹھہروں گا.حضور نے فرمایا کہ کم از کم تین دن ٹھہر نا چاہئے.دوسرے روز ظہر کے وقت میں نے بیعت کے لئے عرض کی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ابھی نہیں، کم از کم کچھ عرصہ یہاں ٹھہریں.ہمارے حالات سے آپ واقف ہوں.اس کے بعد بیعت کر لیں.مگر مجھے پہلی رات ہی مہمان خانے میں ایک رؤیا ہوئی جو یہ تھی.(اب یہ اللہ تعالی کی طرف سے اس خواب کے ذریعہ سے
خطبات مسرور جلد دہم 799 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 دسمبر 2012ء.رہنمائی ہورہی ہے.یہ جو غیر احمدی کہتے ہیں ناں یا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بغیر سوچے سمجھے لوگ بیعت کر لیتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی بڑے آرام سے بیعت لے لیا کرتے تھے.آپ علیہ السلام تو ہر ایک کی حالت کے مطابق بیعت لیتے تھے جب تک یہ تسلی نہیں ہو جاتی تھی کہ اس شخص کی تسلی ہوگئی ہے.بہر حال کہتے ہیں میں نے ایک خواب دیکھی.) میں نے دیکھا کہ آسمان سے ایک نور نازل ہوا اور وہ میرے ایک کان سے داخل ہوا اور دوسرے کان سے تمام جسم سے ہو کر نکلتا ہے.اور آسمان کی طرف جاتا ہے.( یعنی یوں ہو کر نکل نہیں گیا بلکہ یہ داخل ہو کے سارے جسم میں سے گزرا پھر دوسری طرف سے نکل گیا اور پھر آسمان کی طرف چلا جاتا ہے ) اور پھر ایک طرف سے آتا ہے اور اس میں کئی قسم کے رنگ ہیں.سبز ہے، سرخ ہے، نیلگوں ہے، اتنے ہیں کہ گنے نہیں جا سکتے.قوسِ قزح کی طرح تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ تمام دنیا روشن ہے اور اُس کے اندر اس قدر سرور اور راحت تھی کہ میں اس کو بیان نہیں کر سکتا.مجھے صبح اُٹھتے ہی یہ معلوم ہوا کہ رؤیا کا مطلب یہ ہے.(اس خواب کا مطلب یہ ہے ) کہ آسمانی برکات سے مجھے وافر حصہ ملے گا اور مجھے بیعت کر لینی چاہئے.اسی رؤیا کی بناء پر میں نے حضرت صاحب سے دوسرے روز ظہر کے وقت بیعت کے لئے عرض کیا مگر حضور نے منظور نہ فرمایا اور تین دن کی شرط کو برقرار رکھا.چنانچہ تیسرے روز ظہر کے وقت میں نے عرض کیا کہ حضور! مجھے شرح صدر ہو گیا ہے اور الله میری بیعت قبول کر لیں.( خدا کے واسطے بیعت قبول کر لیں.چنانچہ حضور نے میری اپنے دست مبارک پر بیعت لی اور میں رخصت ہو کر لاہور آ گیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود رجسٹر نمبر 9 صفحہ 126-127 روایت حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحب) حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحب بیان فرماتے ہیں ( ان کا بیعت سن 1898ء ہے.پہلے بھی انہی کی روایت تھی) کہ لاہور میں ایک وکیل ہوتے تھے، ان کا نام کریم بخش تھا.وہ بڑی مخش گالیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کو کو دیا کرتے تھے.ایک دن دوران بحث اُس نے کہا کہ کون کہتا ہے مسیح مر گیا ؟ میں نے جواباً کہا کہ میں ثابت کرتا ہوں کہ مسیج مر گیا.اُس نے اچانک ایک تھپڑ بڑے زور سے مجھے مارا.اس سے میرے ہوش پھر گئے اور میں گر گیا.(یعنی بیہوشی کی کیفیت ہو گئی ) جب میں وہاں سے چلا آیا تو اگلی رات میں نے رویا میں دیکھا کہ کریم بخش ایک ٹوٹی ہوئی چار پائی پر پڑا ہے اور اس کی چار پائی کے نیچے ایک گڑھا ہے اس میں وہ گر رہا ہے اور نہایت بے کسی کی حالت میں ہے.صبح میں اُٹھ کر اُس کے پاس گیا اور میں نے اُسے کہا کہ مجھے رویا میں بتایا گیا ہے کہ تو ذلیل ہوگا.چنانچہ تھوڑے عرصے کے بعد اس کی
خطبات مسرور جلد دہم 800 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 دسمبر 2012ء ایک بیوہ لڑکی کو نا جائز جمل ہو گیا.اُس نے کوشش کر کے جنین کو گروایا.مگر اس سے لڑکی اور جنین دونوں کی موت واقع ہو گئی.پولیس کو جب علم ہوا تو اس کی تفتیش ہوئی جس سے اُس کا کافی روپیہ ضائع گیا اور عزت بھی برباد ہوئی.وہ شرم کے مارے گھر سے باہر نہیں نکلتا تھا.مجھے جب علم ہوا تو میں اُس کے گھر گیا، اُسے آواز دی.وہ باہر آیا.میں نے کہا حضرت مسیح موعود کی مخالفت کا وبال چکھ لیا ہے یا ابھی اس میں کچھ کسر باقی ہے.اُس نے مجھے گالیاں دیں اور شرمندہ ہو کر اندر چلا گیا.( یعنی اثر پھر بھی اُس پر نہیں ہوا ) اور پھر کبھی میرے سامنے نہیں آیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود رجسٹر نمبر 9 صفحہ 206-207 از روایات حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحب) اس قسم کے واقعات اب بھی ہوتے ہیں.پاکستان میں جو ظلم ہورہے ہیں، ان میں اس قسم کے واقعات بھی ساتھ ساتھ ہوتے رہتے ہیں.بیان اس لئے نہیں کیا جاتا کہ بعض اور وجوہات ہیں.کیونکہ ابھی وہاں کے حالات ایسے نہیں، کہیں اور تنگ نہ ہوں.لیکن اللہ تعالیٰ پاکستان میں بھی ، ان حالات میں بھی یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی توہین کرنے والے ہیں ، اُن سے انتقام لیتا جا رہا ہے.کئی واقعات لوگ لکھتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے مخالفین کی پکڑ کی.کس طرح اُن کی ذلت کے سامان کئے.لیکن بہر حال جب وقت آئے گا تو وہ بیان بھی کر دیئے جائیں گے.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن لوگوں کا اُس علاقے کے لوگوں کا پھر اس کو دیکھ کے ایمان بہر حال بڑھتا ہے.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی بیان کرتے ہیں.انہوں نے 1897ء میں بذریعہ خط بیعت کی تھی اور دو سال بعد زیارت ہوئی تھی.کہتے ہیں کہ مولوی امام الدین صاحب 1897ء میں مجھ سے پہلے بھی ایک دفعہ قادیان جاچکے تھے، مگر مخالفانہ خیالات لے کر آئے تھے.( قادیان تو گئے تھے لیکن بیعت نہیں کی اور نہ صرف بیعت نہیں کی بلکہ مخالفت میں بڑھ گئے.) مگر جب مجھے بار بار خوا ہیں آئیں اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قادیان آئے ہیں تو ان پر ( امام الدین صاحب پر ) بھی اثر ہوا.اور ہم دونوں نے 99ء میں جا کر بیعت کی.جب ہم مسجد مبارک کے پاس پہنچے تو مولوی صاحب سیڑھیوں پر آگے آگے تھے اور میں پیچھے پیچھے.میں نے یہ بات سنی ہوئی تھی کہ بزرگوں کو خالی ہاتھ نہیں ملنا چاہئے.میں نے پیچھے سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر ایک روپیہ نکالا.مولوی صاحب حضرت صاحب سے ملے.حضرت صاحب نے مولوی صاحب کو کہا کہ جولڑ کا آپ کے پیچھے ہے اس کو بلاؤ.میں جب حاضر ہوا تو حضور علیہ السلام کی بزرگ شان کا تصور کر کے میری چنیں نکل گئیں.حضرت صاحب میری پیٹھ پر بار بار
خطبات مسرور جلد دہم 801 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 دسمبر 2012ء ہاتھ پھیرتے اور تسلی دیتے مگر میں روتا ہی جاتا تھا“.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود رجسٹر نمبر 10 صفحہ 33-32 از روایات حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب) کیونکہ خوا میں یاد آ جاتی تھیں، کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قادیان میں دیکھا.اور اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھ کے ایک اپنی کیفیت بھی تھی.حضرت چوہدری احمد دین صاحب ( ان کی بیعت غالباً 1905ء کی ہے ) بیان کرتے ہیں کہ راولپنڈی میں کتابیں دیکھنے سے پہلے میں نے ایک خواب دیکھا.( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتا ہیں دیکھنے سے پہلے.) کہ گویا حضرت داتا گنج بخش صاحب کا روضہ ہے اور مجھے اُس وقت ایسا معلوم ہوا کہ یہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ ہے جس پر کہ چاندی کا کٹہر لگا ہوا ہے.ایک شخص کے ہاتھ میں پھولوں کا ہار تھا، اُس نے قبر کے اوپر ہو کر وہ ہار اپنے دونوں ہاتھوں سے نیچے کیا تو اُس کے ہاتھ نیچے چلے گئے.یہاں تک کہ مجھے معلوم ہوا کہ جسم مطہر کے نیچے اُس نے وہ پھولوں کا ہار رکھ دیا ہے.(یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کے نیچے وہ ہار رکھ دیا ہے) جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ مدفون ایک بارہ سالہ لڑکے کی شکل میں باہر نکل آیا اور سب سے پہلے انہوں نے مجھ سے معانقہ کیا.اُس لڑکے کی شکل حضرت مرزا صاحب کی شکل سے ملتی تھی.میں نے اُس وقت خیال کیا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم وعدہ الہی کے خلاف کس طرح دنیا میں زندہ ہو کر آ سکتے ہیں؟ اُس وقت یہ بھی خیال آیا کہ مرزا صاحب جو بروز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ کرتے ہیں.تو یہ وہی واقعہ نہ ہو.اتنے میں مجھے جاگ آ گئی.اُس خواب سے مجھے حضرت صاحب کی صداقت کے متعلق کچھ اثر ہوا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود رجسٹر نمبر 10 صفحہ 68 تا 70 از روایات حضرت چوہدری احمد دین صاحب) حضرت مہر غلام حسن صاحب بیان کرتے ہیں ( 1898ء یا 99ء کی ان کی بیعت ہے ) کہ بیعت سے ایک سال قبل میں نے خواب میں دیکھا.اُس وقت ہم چکڑالوی تھے.اس سے پہلے اہلحدیث تھے.ہمارے محلے میں ایک شخص احمدی آ گیا.ہم نے اس کا مسجد میں نماز پڑھنا اور کنوئیں میں سے پانی بھرنا بند کر دیا تھا.اس لئے کہ ہم اُسے دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے تھے.کہتے ہیں میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے کنوئیں کے مغرب کی طرف امریکن پادریوں کی ایک کوٹھی ہے.میں نے دیکھا کہ مغرب کی طرف ایک راستہ ہے.راستہ میں ایک آدمی کھڑا ہے.اُس نے ایک پتنگ اڑائی ہے.میں اُس آدمی کی طرف بھی دیکھ رہا ہوں اور اس آدمی کو بھی.( دو آدمی تھے ناں.تو اس آدمی کی طرف بھی دیکھ رہا ہوں
خطبات مسرور جلد دہم 802 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 دسمبر 2012ء اور اُس آدمی کو بھی.اسی اثناء میں میں نے دیکھا کہ اس کوٹھی میں ایک مرصع تخت بچھا ہے.(ایک بڑا سجایا تخت ہے ) اُس پر ایک خوبصورت لڑکا بیٹھا بانسری بجا رہا ہے اور تخت ہوا میں لہرا رہا ہے.وہ بوڑھا آدمی جو پتنگ اڑا رہا تھا اُس نے پتنگ اس لڑکے کی طرف اُڑا یا یہاں تک کہ پتنگ لڑکے کے سر کے ساتھ لگا.اُس کا لگنا ہی تھا کہ دھواں پیدا ہو گیا.نہ وہ تخت رہا، نہ لڑ کا.سب کچھ دھواں ہو گیا.پہلے لڑکے کی شکل سیاہ ہوئی پھر دھواں ہو گیا مگر پتنگ کو کوئی نقصان نہ پہنچا.پھر میں نے مولوی فیض دین صاحب کو اس مسجد کبوتراں والی میں آکر خواب سنائی.مگر انہوں نے کہا کہ یہ یونہی خیال ہے، جانے دو.دوسری خواب کا ذکر کرتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ہم دونوں بھائی بازار میں جا رہے تھے، تمام بستی ہندؤوں کی تھی.ایک بوڑھے شخص کو ہم نے قرآن پڑھتے سنا.جب ہم واپس آئے تو پھر بھی وہ پڑھ رہا تھا.میں نے دل میں خیال کیا کہ یہ شخص پکا مسلمان اور بے دھڑک آدمی ہے جو ہندؤوں کی بستی میں قرآن پڑھ رہا ہے.بیعت کے بعد جب حضرت صاحب کا فوٹو دیکھا تو پتہ لگا کہ یہ ہی شخص ہے اور جوشخص پہلی خواب میں پتنگ اڑا رہا تھاوہ بھی یہی شخص تھا ، ( یعنی دونوں خوابوں میں ایک ہی شخص تھا).(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود رجسٹر نمبر 10 صفحہ 168-167.از روایات حضرت مہر غلام حسن صاحب) حضرت مہر غلام حسن صاحب ( مزید ) بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں قادیان گیا.حضرت صاحب فرمانے لگے کہ بتاؤ سیالکوٹ میں طاعون کا کیا حال ہے؟ میں نے واردات کا ذکر کیا.ساتھ ہی میں نے ایک خواب بیان کیا کہ یا حضرت! میں نے دیکھا کہ ہمارے مکان پر پولیس کے آدمی بندوقوں کے ساتھ کھڑے ہیں.حضرت صاحب نے فرمایا کہ آپ کا گھر طاعون سے محفوظ رہے گا.آپ کا خدا حافظ ہے.(چنانچہ محفوظ رہے.) (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود رجسٹر نمبر 10 صفحہ 174 - 173.از روایات حضرت مہر غلام حسن صاحب) حضرت شیخ عطا محمد صاحب سابق پٹواری و نجواں بیان فرماتے ہیں کہ اپنے لڑکے عبدالحق کی پیدائش کے بعد میں قادیان آیا اور مسجد مبارک میں خواب کی حالت میں میں نے دیکھا کہ حضور اس مسجد میں ٹہلتے ہیں اور اس مسجد میں صندوق رکھے ہوئے ہیں.آپ نے میرا نام سرخ سیاہی سے ایک کتاب میں درج کیا اور فرمایا کہ بابو فتح دین کو کہہ دینا کہ اب کے 13 دسمبر کو جلسہ نہیں ہو گا.یہ مسجد اُس وقت فراخ نہ تھی.خواب میں دیکھا کہ سات پٹواری مسجد مبارک کے دروازے پر بیٹھے ہیں.ان سات میں سے صرف مجھ کو حضور نے بلوایا ہے.تعبیر پوچھنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ سات پٹواری احمدی ہوں گے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود رجسٹر نمبر 1 صفحہ 355-356.از روایات حضرت شیخ عطا محمد صاحب سابق پٹواری و نجواں )
خطبات مسرور جلد دہم 803 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 دسمبر 2012ء حضرت ملک غلام حسین صاحب مہاجر بیان کرتے ہیں ( بیعت 1891ء کی ہے ) کہ رہتاس میں ہم اپنے بھائی منشی گلاب دین صاحب سے کتابیں سنا کرتے تھے، مرثیہ اور دیگر نظمیں وغیرہ، کیونکہ ہم غالی شیعہ تھے.ماتم وغیرہ کیا کرتے تھے.مرآۃ العاشقین وغیرہ پڑھتے تھے.بعض وقت فقراء : امام غزالی اور شیخ عطا روغیرہ کی باتیں سنایا کرتے تھے.ایک دن کہنے لگے کہ اگر سراج السالکین مصنفہ امام غزالی جیسی تحریر لکھنے والا آج پیدا ہو جائے تو چاہے ہمیں سو، دوسو، چارسومیل پیدل جانا پڑے ہم ضرور جائیں گے.اتفاقاً یہاں سے (یعنی قادیان سے ) توضیح مرام، فتح اسلام دونوں رسالے وہاں پہنچ گئے.یہ اشتہار بابا قطب الدین آف مالیر کوٹلہ فقیر لائے تھے.اُن کو ایک خواب آیا تھا کہ میں سیالکوٹ گیا ہوں اور وہاں حضرت صاحب سے جا کر ملا ہوں.چنانچہ اس نے واقعی جانے کا عزم کر لیا اور جس طرح خواب میں لباس اور حضور کا نکلنا دیکھا تھا، ویسا ہی پایا اور یہ کتا بیں ساتھ لایا.آخر منشی گلاب دین صاحب سے ملا اور کتا ہیں دے کر کہا کہ میں نے اپنی لڑکی کے پاس جانا ہے.آپ ایک دو روز میں یہ کتا بیں دیکھ لیں.( یعنی ادھار کتابیں اُن کو دے گئے کہ میں نے آگے سفر پر جانا ہے، دو تین دن ہیں، آپ یہ کتا بیں دیکھ لیں.وہ رسالے منشی صاحب نے ہمیں پڑھ کر سنائے اور کہا کہ یہ تحریر شیخ عطار اور امام غزالی وغیرہ سے بہت بڑھ چڑھ کر ہے.(پہلے ان کی کتابیں پڑھا کرتے تھے ناں، جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھیں تو کہتے ہیں یہ تحریر تو اُن سے بہت اعلیٰ ہے ) ان دنوں بیعت کا اشتہار حضور نے دیا تھا.خاکسار (یعنی یہ روایت کرنے والے) اور منشی گلاب الدین صاحب اور میاں اللہ دتہ صاحب تینوں نے اُسی وقت بیعت کا خط لکھ دیا.یہ غالباً 1891ء کی بات ہے.جب وہ رسالے سنا چکے تو میں نے کہا کہ تمہارا وعدہ تھا کہ اگر اس وقت اس قسم کا آدمی ملے تو چاہے چار سو میل جانا پڑے ہم جائیں گے.اب بیعت ہم کر چکے ہیں اور جلسہ سالانہ 1892ء کا بالکل قریب ہے.اشتہار شائع ہو چکا ہے.چلو زیارت بھی کر آئیں اور جلسہ بھی دیکھ آئیں.چنانچہ ہم تینوں نے عزم کر لیا.میں ایک جگہ پانچ چھ میل کے فاصلے پر دکان کیا کرتا تھا.فیصلہ یہ ہوا کہ پرسوں چلیں گے.لیکن وہ لوگ میرے آنے سے پہلے چل پڑے (وہاں کریالہ ایک سٹیشن تھا وہ کر یا لہ والے سٹیشن پر چلے گئے.روایت کرنے والے کہتے ہیں کہ میں جہلم سے سوار ہو گیا.کریالہ میں ہم تینوں اکٹھے ہو گئے.اگلے دن لاہور پہنچے.کسی نانبائی کی دکان سے روٹی کھائی.لوگ کہنے لگے کہ گاڑی چھ بجے شام کو چلے گی.چنانچہ ہم نے عجائب گھر ، چڑیا گھر وغیرہ کی سیر کی.شام کو سٹیشن پر آ کر بٹالہ کا ٹکٹ حاصل کیا.رات گیارہ بجے بٹالہ ایک سرائے میں پہنچے.چار پائی بھی کوئی نہ تھی اور وہاں گند پڑا ہوا تھا.وہاں رہنے کو دل نہیں چاہا.شہر میں ایک مسجد میں پہنچے.مسجد میں رات کو آرام کیا.خدا کی قدرت کہ وو
خطبات مسرور جلد دہم 804 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 دسمبر 2012ء وہ مسجد مولوی محمد حسین بٹالوی کی تھی.جب صبح نماز پڑھ کر بیٹھ گئے تو مولوی محمد حسین صاحب پوچھنے لگے کہ مہمان کہاں سے آئے ہیں؟ ہم نے منشی گلاب الدین صاحب کو کہا کہ آپ تعلیم یافتہ ہیں اور یہ مولوی معلوم ہوتے ہیں.آپ ہی بات کریں.چنانچہ انہوں نے کہا کہ ہم رہتاس ضلع جہلم سے آئے ہیں.مولوی صاحب نے مہمان سمجھ کر گنے کے رس کی کھیر کھلائی.پھر پوچھا کہ آپ کہاں جائیں گے.منشی صاحب نے کہا قادیان.مولوی صاحب کہنے لگے ادھر کیا کام ہے؟ منشی صاحب نے کہا کہ مرزا صاحب نے دعوی کیا ہے اور جلسہ کا بھی اعلان کیا ہے.کہتے ہیں لکھتے ہوئے کہ ایک بات رہ گئی کہ جب رہتاس میں منشی صاحب نے رسالے سنائے تو بھائی اللہ دتہ تیلی نے کہا کہ یہ جو مرزا صاحب نے کہا ہے کہ مسیح مر گیا ہے اور میں آنے والا صیح ہوں، یہ معمولی بات نہیں ہے اور نہ ایسا کہنے والا معمولی انسان ہے جو تیرہ سو سال کی اتنی بڑی غلطی کو نکالے.خیر کہتے ہیں مولوی محمد حسین صاحب سے ہماری باتیں ہورہی تھیں.انہوں نے کہا کہ تمہاری عقل ماری ہوئی ہے.اگر مرزا اچھا ہوتا ( یعنی صحیح ہوتا ) تو کیا ہم نہ جاتے؟ ( میں نہ بیعت کر لیتا جائے؟ ) پس تم واپس چلے جاؤ.کہنے لگا کہ مرزا صاحب ہمارے واقف ہیں.میں اُن کو اچھی طرح جانتا ہوں.انہوں نے تو ایک دوکان کھولی ہوئی ہے جو چلے گی نہیں.خوامخواہ تم بھی پیسے برباد کر رہے ہو.اُن کے پاس جانے کا کیا فائدہ.وہ کہتے ہیں میرے ساتھی بات سن کے خاموش ہو گئے.میں نے کہا کہ جو پیسے صرف کرنے تھے، وہ تو خرچ ہو گئے.اب تو ہم ضرور جائیں گے.دیکھ کر واپس آئیں گے.خیر اس نے روٹی منگوائی اور روٹی کھا کر ہم پیدل چل پڑے.قادیان پہنچے، جلسہ شروع تھا.پچیس تیس آدمی تھے.یہ جلسہ فصیل پر ہوا.ایک تخت پوش تھا اور چند صفیں تھیں.کھانے کے لئے پلاؤ زردہ اور پھلکے آگئے.ہم نے کھا لئے.ڈاکٹر عبد الحکیم صاحب بسترے اور جگہ دیا کرتے تھے.ہمیں بھی اس نے جگہ بتلائی.رات گزری.صبح سویرے کھانا کھا کر دس بجے جلسہ میں شامل ہوئے.حضرت صاحب تشریف لائے.حضور کبھی رومی ٹوپی سر پر رکھا کرتے تھے، کبھی اُس پر ہی پگڑی باندھ لیا کرتے تھے اور ٹوپی پگڑی میں سے نظر آتی تھی.حضور جب تخت پوش پر کھڑے ہوئے تو میں نے ساتھیوں کو کہا کہ دیکھو ایسی نورانی شکل بھلا اور کوئی نظر آ سکتی ہے.اگر مولوی محمد حسین کی باتوں پر جاتے تو کیسے بدنصیب ہوتے.“ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود رجسٹر نمبر 10 صفحہ 314 تا 317.از روایات حضرت ملک غلام حسین صاحب مہاجر ) یہ جہاں ٹھہرے ہوئے تھے اور جہاں انہوں نے کھانا کھایا غالباً یہ وہاں موجود تعداد کا ذکر کر رہے ہیں.ورنہ 1892ء کے جلسہ سالانہ کی حاضری تو تاریخ احمدیت کے مطابق 327 تھی.
خطبات مسرور جلد دہم 805 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 دسمبر 2012ء حکیم عبد الصمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.( بیعت 1905ء کی ہے ) کہ حضرت صاحب نے تقریر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مسیح موعود کر کے بھیجا ہے اور فرمایا کہ جو لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے میرے متعلق فیصلہ نہیں کر سکتے وہ اس دعا کو کثرت سے پڑھیں جو اللہ تعالیٰ نے اُن کی پنجوقتہ نمازوں میں بتلائی ہے.اهْدِنَا القيراط الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحة: 6) چلتے پھرتے ، اُٹھتے بیٹھتے ہر وقت کثرت سے پڑھیں.زیادہ سے زیادہ چالیس روز تک اللہ تعالیٰ اُن پر حق ظاہر کر دے گا.کہتے ہیں میں نے تو اُسی وقت سے شروع کر دیا.مجھ پر تو ہفتہ گزرنے سے پہلے ہی حق کھل گیا.میں نے دیکھا ( خواب بتا رہے ہیں ) کہ حامد کے محلہ کی مسجد میں ہوں.وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے ہیں.میں حضرت صاحب کی طرف مصافحہ کرنے کے لئے بڑھنا چاہتا تھا کہ ایک نابینا مولوی نے مجھ کو روکا.دوسری طرف میں نے بڑھنا چاہا تو اُس نے اُدھر سے بھی روک لیا.پھر تیسری مرتبہ میں نے آگے بڑھ کر مصافحہ کرنا چاہا تو اُس نے مجھ کو پھر روکا.تب مجھے غصہ آ گیا اور میں نے اُسے مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا.حضرت صاحب نے فرمایا کہ نہیں غصہ نہ کرو، مارو نہیں.(خواب کا ذکر فرما رہے ہیں.) میں نے عرض کیا کہ حضور! میں تو حضور سے مصافحہ کرنا چاہتا ہوں اور یہ مجھ کو روکتا ہے.اتنے میں میری آنکھ کھل گئی.میں نے صبح میر قاسم علی صاحب اور مولوی محبوب احمد صاحب ، مستری قادر بخش صاحب کے سامنے یہ واقعہ بیان کیا.(خواب بیان کی.) میر صاحب نے کہا کہ اسے لکھ دو.میں نے لکھ دیا.انہوں نے کہا کہ اس کے نیچے لکھ دو کہ میں اپنے اس خواب کو حضور کی خدمت میں ذریعہ بیعت قرار دیتا ہوں.میں نے لکھ دیا.مولوی محبوب احمد صاحب جو غیر احمدی تھے انہوں نے کہا کہ تم کو اپنے والد کا مزاج بھی معلوم ہے.وہ ایک گھڑی بھر بھی تم کو اپنے گھر نہیں رہنے دیں گے.میں نے کہا مجھے اُن کی کوئی پرواہ نہیں.خیر حضرت صاحب نے بیعت منظور کر لی اور مجھے لکھا کہ تمہاری بیعت قبول کی جاتی ہے.اگر تم پر کوئی گالیوں کا پہاڑ کیوں نہ توڑے، نگاہ اُٹھا کرمت دیکھنا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ حضرت مسیح موعود رجسٹ نمبر 12 صفحہ 18-17 - از روایات حضرت حکیم عبد الصمد صاحب ولد حکیم عبد اغنی صاحب) پس یہ چند واقعات تھے جو میں نے اس وقت بیان کئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کی اولا دوں کو بھی وفا کے ساتھ جماعت سے منسلک رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم میں سے ہر ایک کو بھی اپنے ایمان اور یقین میں بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے.
خطبات مسرور جلد دہم 806 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 دسمبر 2012ء آجکل قادیان میں جلسہ کی تیاریاں ہیں.کل سے انشاء اللہ تعالیٰ وہاں جلسہ شروع ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے جلسہ کو بابرکت فرمائے اور جو بھی شاملین ہیں وہ جلسہ سے بھر پور استفادہ کرنے کی کوشش کریں.بہت سارے مہمان دنیا بھر سے گئے ہوئے ہیں.اس وقت وہاں تقریباً اکیس یا بائیس ممالک کی نمائندگی ہو گئی ہے، میں اُن کو بھی کہتا ہوں کہ وہ لوگ جس مقصد کے لئے گئے ہوئے ہیں اُس کو پورا کریں.دعاؤں میں وقت گزاریں اور اگر اُن کو موقع ملے تو اُن مقدس جگہوں پر جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعائیں کی ہیں، دعائیں کریں اور جماعت کی ترقی کے لئے سب سے بڑھ کر دعا کریں.دشمنوں سے نجات پانے کے لئے خاص دعا کریں.وہاں یہ دعائیں سب سے زیادہ احمدیت والی دعائیں ہونی چاہئیں.اسی طرح مسلم امہ کے لئے بھی دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ ان کو بھی سیدھے راستے پر چلائے ، ان کی رہنمائی فرمائے اور ان کو بھی زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائے.اسی طرح آجکل مسلمان ممالک کے ، خاص طور پر مشرق وسطی کے ممالک کے، اور شام کے خاص طور پر حالات بہت خراب ہوئے ہوئے ہیں.وہاں کے احمدی لکھتے ہیں کہ اتنے برے حالات ہیں کہ جس کا اندازہ بھی باہر بیٹھے نہیں کیا جا سکتا.عمومی طور پر ان تمام لوگوں کے لئے اور خاص طور پر احمدیوں کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اُن کو ہر طرح سے، ہر شر سے ہر تکلیف سے، ہر پریشانی سے محفوظ رکھے.اللہ تعالیٰ حکومت کے ارباب کو بھی عقل دے اور عوام کو بھی جو آپس میں ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں کہ بجائے لڑائی کے مصالحت سے، افہام و تفہیم سے اپنے مسائل کو حل کرنے والے ہوں.ان کے ان حالات سے شدت پسند اور اسلام دشمن دونوں فائدہ اُٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس وجہ سے مزید حالات بگڑتے چلے جا رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان دونوں گروہوں کا بھی خاتمہ کرے تا کہ اسلام کو داغدار کرنے کی جو مذموم کوشش یہ لوگ کر رہے ہیں یا اسلام کے نام پر اسلام کے یہ ہمدرد جو کوششیں کر رہے ہیں جو غلط قسم کی کوششیں ہیں، یہ نا کام ہوں اور اسلام کا خوبصورت چہرہ جو جماعت احمد یہ دنیا کو دکھا رہی ہے، وہ دنیا پر واضح اور صاف ہو.اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں اور ہمارے ارادوں، ہماری کوششوں میں برکتیں ڈالے اور تمام دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے ہم دیکھنے والے ہوں.اس لئے وہاں جو موجود ہیں،جلسہ پر گئے ہوئے ہیں اُن سے میں کہتا ہوں کہ خاص طور پر جلسہ کے دنوں میں ان دعاؤں کو ہمیشہ اپنے مدنظر رکھیں ، پیش نظر رکھیں.اس کے علاوہ جمعہ کے بعد ، نمازوں کے بعد میں تین جنازے بھی پڑھاؤں گا.پہلا جو ہے وہ
خطبات مسرور جلد دہم 807 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 دسمبر 2012ء پروفیسر بشیر احمد چوہدری صاحب کا ہے.یہ مکرم چوہدری سراج دین صاحب لاہور کے بیٹے تھے.2 /نومبر کو مختصر علالت کے بعد اڑسٹھ سال کی عمر میں وفات پاگئے ، اِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.28 مئی 2010ء کے سانحہ لاہور میں مسجد نور ماڈل ٹاؤن میں تھے جہاں کئی گولیاں ان کو لگی تھیں.شدید زخمی ہوئے تھے.ان کا دایاں بازو اور دائیں ٹانگ اور کولہا فائرنگ سے بری طرح متاثر ہوئے تھے.ڈیڑھ سال تک متواتر ماہر ڈاکٹروں کے زیر علاج رہے ہیں.شدید جسمانی اور ذہنی تکلیف اُٹھائی لیکن باوجود بیماری کے اس لمبے عرصہ کے بڑے صبر اور حو صلے اور جوانمردی سے انہوں نے وقت گزارا ہے اور کبھی حرف شکایت زبان پر نہیں لائے.چلنے پھرنے کے قابل تو ہو گئے تھے لیکن پھر پچھلے مہینہ ان کی وفات ہوئی ہے.یہ تو بہر حال اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے.نمازوں کے بڑے پابند، قرآن کریم سے محبت کرنے والے، بڑے منکسر المزاج تھے.سلسلہ کے کاموں میں ہمیشہ کمر بستہ ، خلافت کے ساتھ والہانہ عشق، انہوں نے انگریزی اور اکنامکس میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی تھی اور پنجاب یونیورسٹی میں انگریزی کے استاد اور اسی ادارے میں ایڈوائزر کے عہدے پر بھی فائز رہے.اس سے پہلے ایف سی کالج میں انگریزی کے پروفیسر رہے.انگریزی کی چھ کتب کے مصنف بھی تھے جو وہاں سکولوں میں پڑھائی جاتی ہیں.انگریزی زبان کے شاعر بھی تھے.ضلع کی سطح پر شعبہ وقف نو اور شعبہ تعلیم میں خدمت کی توفیق پائی.گلبرگ میں آپ کا گھر میں سال تک نماز سینٹر بھی رہا.چندوں کی ادائیگی میں تحریکات میں بڑا بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے.مرحوم کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو صبر اور حوصلہ دے.ان کے درجات بلند فرمائے.دوسرا جنازہ بابر علی صاحب کا ہے جو 17 / دیسمبر 2012ء کو ایک حادثہ میں تیس سال کی عمر میں وفات پاگئے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.یہ بھی ایک طرح کی شہادت ہی ہے.آپ اپنے سرکل انچارج مکرم شیخ عبدالقادر صاحب کے ساتھ موٹر سائیکل پر ایک جماعتی دورہ کر رہے تھے.جماعتی کام کے دوران سب کچھ ہوا ہے.اس لئے بہر حال یہ بھی شہید ہیں.شام کو تقریباً سات بجے دورہ مکمل کر کے واپس آ رہے تھے کہ سردی کے موسم کی وجہ سے وہاں دھند چھائی ہوئی تھی اور سڑک چھوٹی تھی تو اچانک مخالف سمت سے آنے والے ایک تیز رفتار ٹریکٹر سے ان کی موٹر سائیکل ٹکرائی اور حادثہ کی وجہ سے یہ اور شیخ عبد القادر صاحب دونوں شدید زخمی ہو گئے.غیر آباد جگہ تھی جہاں حادثہ ہوا.لوگوں نے تھوڑی دیر بعد دیکھا.پھر پولیس کو اطلاع کی ، ہسپتال پہنچایا گیا.لیکن بابر علی صاحب معلم جو موٹر سائیکل چلا رہے تھے اُن کو داہنے باز و اور سینے پر شدید چوٹیں آئی تھیں جس کی وجہ سے آپ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے راستے میں وفات پاگئے.انا للہ.
خطبات مسرور جلد دہم 808 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28 دسمبر 2012ء مرحوم بہت نیک فطرت آدمی تھے محنتی تھے، اطاعت گزار تھے اور وفا شعار تھے، واقف زندگی تھے.ایم ٹی اے کی نئی ڈشوں کی تنصیب کا کام بڑی دلچپسی اور محنت سے کرتے رہے.آپ کے والد کا انتقال بچپن میں ہو گیا تھا.پسماندگان میں بوڑھی والدہ اور ایک شادی شدہ بہن یادگار چھوڑی ہیں.اللہ تعالیٰ والدہ کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے.مرحوم موصی تھے.بہشتی مقبرہ قادیان میں ان کی تدفین ہوئی ہے.عبد القادر صاحب بھی زخمی ہیں.ان کے لئے بھی دعا کریں.اللہ تعالیٰ ان کو شفائے کاملہ عاجلہ عطا فرمائے.تیسرا جنازه روبینہ نصرت ظفر صاحبہ کا ہے جو مکرم مرزا ظفر احمد صاحب شہید لاہور کی اہلیہ تھیں.3 دسمبر کو تقریباً دو سال کینسر کے مرض میں مبتلا رہ کر وفات پاگئیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.28 مئی کو ان کے شوہر کو دارالذکر لاہور میں شہید کر دیا گیا تھا.بڑے حوصلے اور صبر سے یہ سارا صدمہ آپ نے برداشت کیا.جب آپ کے شوہر کی میت کو گھر لایا گیا تو زبان پر یہی الفاظ تھے کہ کوئی ان کی شہادت پر نہ روئے.ہر ایک رونے والے کو منع کرتی تھیں.اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی رہنا ہے.یہی کہا کرتی تھیں.آنکھوں سے آنسو تو جاری تھے لیکن مرحومہ نے بلند حو صلے اور ہمت سے کام لیا اور سب گھر والوں کو تسلی دی ، حوصلہ دلایا.اپنے والد صاحب کے ساتھ یہ سیرالیون میں بھی کچھ عرصہ رہی ہیں.شادی کے بعد 1988ء میں ان کے شوہر جاپان چلے گئے تو یہ بھی اُن کے ساتھ چلی گئیں.وہاں صدر لجنہ ٹوکیو اور نیشنل مجلس عاملہ میں سیکرٹری اصلاح وارشاد کے طور پر جماعتی خدمات بجالا تی رہیں.کئی تبلیغی سرگرمیوں میں حصہ لیا.مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی تھیں.اپنے زیورات جماعت کو پیش کر دیا کرتی تھیں.2004ء میں یہ جاپان سے واپس آگئے تو پھر یہاں پاکستان میں لمبا عرصہ ان کو لجنہ کی خدمت کی توفیق ملی.آپ نائب سیکرٹری تحریک جدید قیادت بیت النور تھیں اور صدر حلقہ بحریہ ٹاؤن لاہور بھی تھیں.خلافت سے بڑا وفا کا تعلق تھا.خطبات کو ایم ٹی اے پر سنتی تھیں اور پوائنٹس نوٹ کیا کرتی تھیں اور پھر اُن کومختلف موقعوں پر بتایا کرتی تھیں.اتنا لمبا عرصہ نہایت صبر سے انہوں نے تکلیف کو برداشت کیا.کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں آیا.ان کو کوئی چھوٹے سے چھوٹا تحفہ بھی رقم کی صورت میں ملتا تھا تو اُس پر فوراً چندہ ادا کر دیا کرتی تھیں.ان کے چھوٹے بھائی سیکرٹری مال تھے تو وہ کہا کرتے تھے کہ چندہ مہینے میں ایک دفعہ اکٹھا ہی دے دیا کریں تو کہتی تھیں کہ جب کوئی آمد ہو اُسی وقت چندہ دینا ہے تا کہ خدا تعالیٰ کے معاملوں میں معمولی سی بھی تاخیر نہ ہو.2011ء کے جلسہ میں یہاں آئی تھیں.بیماری کے بعد آئی تھیں لیکن اللہ کے فضل سے بڑے حوصلے میں تھیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ان کی اولا د کوئی نہیں تھی.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 18 تا 24 جنوری 2013 جلد 20 شماره 3 صفحه تا9)
3 اشاریہ خطبات مسرور جلد دہم 7.........10........29 44.52 آیات قرآنیہ احادیث نبویہ صلی علیه السلام مضامین اسماء مقامات کتابیات
خطبات مسرور جلد دہم 3 الفاتحة الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (2) إيَّاكَ نَعْبُدُ...(5) آیات قرآنیہ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا..(251) 7548381 اللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا..(258) 77.75 وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ..(283)..271,135 وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ (284) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (6) صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم (7) 690,650 805 سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا (286) البقرة يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ (4) وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (5) آل عمران 773.203 لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى (8) 773 اللَّهُمَّ مُلِكَ الْمُلْكَ..(27) آیات قرآنیہ 627 435 177 177 774 1 517 وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ...(44) لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمُ..(63) بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ...(113) وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرهِيمُ..( 128 تا 130) صِبْغَةَ الله ( 139 ) وَلِكُلٍ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيْهَا (149) 382 383 قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ الله (32) 314,75 505 491 488,420,85 401,75 يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيك...(56) 354,162,132,4534 258 وَمَنْ يَّبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَام...(86) 482,481 تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (111) 505 690,649 495 483 34,33 692,690,688,687 يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ.(115) وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ...( 156 157) 220...يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِو (115-116) 32 يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ (186) 452 وَالْكُظِمِينَ الْغَيْظَ (135) وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا..(140) 478,476 486,483,479 488 وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولُ..(144) وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَلَى...(187) ربنا اتنا في الدُّنْيَا حَسَنَةً (202) وَلَعَبْدٌ مُّؤْ مِنْ خَيْرٌ مِنْ مُّشْرِكٍ (222) حفِظُوا عَلَى الصَّلَوتِ (239) 44 491 385 182 219 243 وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا..( 170 174) 714,209 رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا...(192) صَابِرُوا وَرَابِطُوا...(201) 38 41
خطبات مسرور جلد دہم النساء وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا (37) أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ (83) كُونُوا قَوْمِينَ بِالْقِسْطِ...(136) المائدة وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ.(3) الْيَوْمَ يَبِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا.(4) لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ..(9) إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللهُ..(28) مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ (76) فَاتَّقُوا اللهَ يَأُولِي الْأَلْبَابِ..(101) أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِثِينَ (112) فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي (118) الانعام إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا..(83) وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا...(153) وَهَذَا كِتَبُ أَنْزَلْنَهُ...(156) قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي..( 163 ) الاعراف قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ (30) وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (129) 350 161 177 120,118 137 177 44 243 311 649 129 254 177 311 265 115,111 416,415 قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ الله..(159) 655 وَلَقَد ذَرَ أَنَا لِجَهَنَّمَ.(180) 409 وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّلِحِينَ (197) 314,75 4 آیات قرآنیہ الانفال يأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ...(25) يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ (30) 328 77 التوبة مَا كَانَ لِلنَّبِي وَالَّذِينَ آمَنُوا...(113) 238 یونس لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا (65) 650 هود الَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنَّنِي..(43) وَ آنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ (4) 17 22 يُمتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى (4) 25 وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ (4) 26 الرعد إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ...(32) الا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ..(29) 44 262,77 ابراهيم لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (8) 779,550,419 النحل أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا انا..(3) وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْل (69) فِيْهِ شِفَاء لِلنَّاسِ (70) إيتَاءِ ذِي الْقُرْبى (91) إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا..(129) 408 649 765 486 67 بنی اسرائیل مَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ (16) 576
خطبات مسرور جلد دہم الحج فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ (31) المومنون وَأَوَيْنَهُمَا إِلَى رَبوَةٍ..(51) 5 آیات قرآنیہ الاحزاب لَقَد كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ الله..(22) 505,488,347 454,452,177 وَالصَّدِقِينَ وَالصَّدِقتِ (36) 329 177 إنَّ اللهَ وَمَلائِكَتِه يُصَلُّونَ(58-57) 593,562 سبا إِنَّ الَّذِينَ هُمْ مِنْ خَشْيَةِ رَبِّهِمْ.( 6258) 464 قَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ (14) 551 وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا أَتَوْا وَقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ (62) 473 فاطر النور وان مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ (25) 92 قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا (31) اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ (36) وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَأتُوا الزَّكوة..(57) 178 435 389 إنما يخشى الله..(29) 465 469 470 471 472 الزمر قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ اسْتَرَفُوا (54) 490,181 المومن الفرقان وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ ( 29 ) 138 أَرَعَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَويه (44) ام تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمُ...(45) لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ (73) 410 410 177 لحم السجدة إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ..(31) 650 الشورى النمل وَجَزُوا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا (41) 182 لِيَبْلُوَنِي أَشْكُرُ امَ اكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ (41) 550 القصص الفتح فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا (2) وَأَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّ مُوسَى (8) العنكبوت 649 رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (30) 221 720 الحجرات إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهى عَنِ الْفَحْشَاءِ..(46) 386,203 اللهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيْمَانَ....(98) وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا...(70) لقمان وَمَنْ يَشْكُرْ فَإِنَّمَا...(13) 542,494 وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ...(12) 421 إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ.(14) قَالَتِ الْأَعْرَابُ أَمَنَّا قُلْ...(15) 735 37 413,38 727
آیات قرآنیہ 538 754 خطبات مسرور جلد دہم مَن خَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ (34) الذاريات فَانَّ اللَّ كُرَ تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (56) 466 305 6 وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا..(2-3) التحريم نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ...(9) وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ (57) 408,308,18 إِنَّ نَاشِئَةَ الَّيْلِ...(7) 496 المزمل الدهر وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبّهِ...(9) 183 النبا إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ مَفَازًا (32) 711 البروج وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوج وَالْيَوْمِ.( 2 تا 12 654 فَلَهُمْ عَذَابٌ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ (11) 662 البينة جَزَاؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِم...(9) 464 الزلزال وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ.(9) 30 العصر وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْر (4) 177 الماعون فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ (5) 387 308 161 263 467 القمر وَلَقَدْ يَشَرِنَا الْقُرْآنَ (18) الرحمن وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتْنِ (47) الحديد أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا..(17) اعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (18) 493 وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ (29) المجادلة 78 415 493 306 111 484 كتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ انَا وَرُسُلِي (22) وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحِ مِّنْهُ (23) الحشر يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تَّقُوا اللهَ (19) الجن وَ انَّ الْمَسْجِدَ لله ( 19 ) الصف كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ الله (4) الجمعة أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (4) 756,542,506 الطلاق
خطبات مسرور جلد دہم 7 احادیث نبویہ صلی علما کی یتیم احادیث نبویہ صل لله الی هستم آنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلى قَدَمِي 493 آنحضور صلی یا پریتم کی ایک دعا اللهُمَّ مَةٍ قُهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ وَ سَحِقْهُمْ تَسْحِيقًا 570 الْإِمَامُ جُنَّةٌ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ اللهم إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ 489 83 اپنے دین میں فتنہ سے بچنے کے لئے ہجرت کرنے والا خد کی نظر میں صدیق ا اور اسی حالت میں مرنے والا شہید ہے 721 اپنے کاموں میں نیکی اختیار کرو 498 أَفَلَا أَكُونَ عَبْدًا شَكُورًا الْمَالُ مَالُ اللهِ وَأَنَا عَبْدة اذْكُرُوا مَحَاسِنَ مَوْتَاكُمْ سَيْدُ الْقَوْمِ خَادِمُهُمْ عُلَمَاؤُهُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلوة كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيْكُمْ كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآن نُصِرْتَ بِالرُّعْب 474 627 496 572 49 343 471 43 243 492 442.441 يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبَّتْ قَلْبِيْ عَلَى دِينِكَ 474 احادیث بالمعنی آپ کا ایک صحابی کو کہنا کہ کیا تم نے دل چیر کر دیکھا تھا کہ اس نے دل سے کلمہ پڑھا ہے کہ نہیں.آپ سیلی شما پی ایم کے اخلاق قرآن کریم ہے 720 414 آپ کی محبت میں بڑھتے چلے جانے والا ایک حقیقی مومن ہے اگر دیر سے گھر تشریف لاتے تو کھانا یا دودھ خود ہی تناول فرما لیتے تھے 503 اگر صرف اللہ تعالیٰ کی راہ میں مارے جانے والے ہی شہید کہلائیں گے تو پھر تو میری اُمت میں بہت تھوڑے شہید ہوں گے.763 اگر میری بیٹی فاطمہ بھی جرم کرتی تو میں اُسے سزا دے بغیر نہ چھوڑتا 500 اگر نوح کے وقت میں نماز ہوتی تو وہ قوم تباہ نہ ہوتی 181 اگر یہ مسلمان ہلاک ہو گئے تو پھر تیری عبادت کرنے والا کوئی 763 نہیں رہے گا.اللہ تعالی اس بندے کی مدد کو تیار رہتا ہے جو اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے.348 اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ پکڑتے ہیں.76 اہل زمین پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا.351 ایک عورت کی آپ سے شادی ہوئی اور اس کا کہنا میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں 574 774
خطبات مسرور جلد دہم 8 احادیث نبویہ صلی المی ایستم ایک وقت میں مساجد بنانے پر فخر کیا جائے گا.267 جتنی دیر خوشی سے، بشاشت سے، آسانی سے عبادت ہو ایک یہودی کا رسول اللہ صلی ا یہ تم کومحمد کہ کر پکارنا اور صحابہ کا غصہ سکے کرو 497 499 500 جس کی نیکیاں زبان زد عام ہوں اس پر جنت واجب ہو جاتی ایک یہودی کی شکایت کہ ابو بکر نے میرا دل دکھایا ہے.501 ہے اے لوگو! جنت کے باغوں میں چرو با جماعت نماز کا ستائیس گنا اجر 405 383 49 جو شخص چل کر خدا کی طرف جاتا ہے خدا دوڑ کر اس کی طرف آتا ہے.بدر میں آپ کی زاری اور چادر کا کندھے سے اتر جانا 36 جو خود پہنو وہی اپنے ملازموں کو پہناؤ.بدوی کا قسم کا مطالبہ کہ رسول اللہ اللہ کے رسول ہیں 150 حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی ا کہ ہم دعا 478 73 475 بڑی نیکی تہجد کی نماز ادا کرنا بڑی نیکی جہاد فی سبیل اللہ بڑی نیکی والدین کی خدمت بزرگی اور شرف والے کون ہیں؟ بکری کا دودھ دوہ لیتے تھے بیویوں کے ہم پر کیا حق ہیں؟ 207 206 206 261 502 502 حدیث میں قُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ کی تشریح 473 حضرت ابوہریرۃ کا زیادہ روایات بیان کرنے کی وجہ 527 حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا آپ کی مہمان نوازی کی تعریف کرنا.525 حنین سے واپسی پر بدویوں کا آپ سے مانگنا اور آپ کی سخاوت.571 پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت خود کو قابو میں رکھے 344 خدا تعالیٰ کا فضل اور اُس کی رحمت ہی مجھے جنت میں داخل کرے تم اپنے مہمان کا اُس کو جائز حق دو 526 گی.تم میں سے بہتر وہ جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ حسن سلوک میں دین خیر خواہی کا نام ہے بہتر ہے.502 498 348 دین کی خاطر ہجرت کرنے والے قیامت کے روز عیسی بن مریم تمہاری قومی طاقت اور مال کی طاقت سب غرباء ہی کے ذریعہ کے ساتھ ایک ہی درجے کی جنت میں ہوں گے 722 ہے.573 تہجد کے وقت اللہ تعالیٰ نچلے آسمان پر آجاتا ہے 479 رسول اللہ صلی فیلم کا رات کو سوتے ہوئے اللہ کے فضلوں کو یاد کرنا جب تک کوئی نماز پڑھتا رہتا ہے فرشتے اس کے لئے دعا رسول اللہ لیا ایم کی ایک دعا کرتے ہیں.123 420 348 رسول اللہ صلی اینم کی ساری رات عبادت کی خواہش 574 جب کوئی پہلا پھل آتا تو پھلوں میں برکت کی دعا کرتے.503 | رسول اللہ صلی یا اینم کی سنت زندہ کرنے والے کا اجر 184
خطبات مسرور جلد دہم 9 احادیث نبویہ صلی اشیا کی تم رسول الله ای نا ایمن نے شراب پینے ، بیچنے اور کشید کرنے والے پر کشید کرنے والے پر عبادت کرتے کرتے رسول اللہ صلی یا اینم کے پاؤں سوج جاتے.لعنت کی ہے 201 496.420 رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے عورت سے شادی کے وقت کن چیزوں کو دیکھنا چاہئے 429 عورتیں خدا کی لونڈیاں ہیں ، تمہاری لونڈیاں نہیں 502 جاتے ہیں 449 رمضان میں رسول اللہ صلی السلام کا تیز آندھی کی طرح صدقہ کرنا 451 رمضان میں جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں 479 غیبت اور بہتان میں فرق قبیلوں محلوں ، گھروں میں مساجد بناؤ 486 112 قیامت کے دن آپ کا بیان کہ جب تک میں اُن میں تھا اُن کا نگران تھا.659 روزہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور وہی اس کی جزا ہے 452 453 گھر والوں کی مدداور خدمت میں مصروف رہتے 502 روزہ دار لڑائی کی بجائے کہے کہ میں روزہ دار ہوں 453 لوگ آپ سی یا یہ تم کا ہاتھ پکڑ کر کھڑے رہتے روزہ رکھ کر برے کام کرنے والے کا روزہ نہیں 207 مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دو روزہ میں جھوٹ بولنے والے کا روزہ نہیں 451 محاسبہ کے ساتھ روازہ رکھنے کا اجر 500 573 450 ساتھ رہنے والے بچوں کے لئے رسول اللہ صلی اا اینم کی دعا 503 مزدور کی مزدوری اُس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دو 573 سخت شدید بیماری میں بھی رسول اللہ صلی ا یہ تم کی نمازیں 497 مساجد میں گمشدہ چیزوں کا اعلان نہ کرو سورۃ فاتحہ بندے اور خدا کے درمیان نصف نصف 80 شراب کی حرمت سے پہلے ایک صحابی نے نشہ میں آپ کو بہت کچھ کہہ دیا.آپ خاموشی سے سنتے رہے، اُسے کچھ نہیں کہا 499 شہید پانچ قسم کے ہوتے ہیں 768 مساجد میں نقش و نگار نہ ہوں 113 259 312 مسجد کی طرف اٹھنے والے ہر قدم کا جواب مسلمان پر دوسرے مسلمان کا مال، عزت اور خون حرام ہے 345 مومن جنگ میں ڈر کر پیچھے نہ ہٹے بلکہ مردانہ وار جان کا نذرانہ صبح و شام مسجد میں آنے والے کی مہمان نوازی 262 پیش کرے.صحابی کا اپنا سب سے پسندیدہ باغ حضور سالی یا ایہ ان کی خدمت میں نماز مومن کی معراج ہے پیش کرنا 2 764 202 ورقہ بن نوفل کا رسول اللہ صلی شما یہ تم کی ہجرت کی پیشگوئی کرنا 572 صدق نیت سے شہادت کی تمنا کرے شہادت کا رتبہ حاصل ہمسایوں سے حسن سلوک کی تاکید 504 کرے گا.صفائی ایمان کا حصہ ہے.طفیل بن عمرو دوسی" کا قبول اسلام 763 542 130
خطبات مسرور جلد دہم 10 مضامین مضامین اللہ تعالیٰ زنده خدا...اور قادر خدا خداٹھ گا نہیں جاتا 98.97 3 68 بنی نوع انسان کی خدمت اور دوسروں کے جذبات کا احترام، آنحضرت صلی شما ایلم کا اسوہ 501 آنحضرت سلی شما ای انم کے اسوہ پر چلیں.الامام جنة 489 اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت تمام لوگوں کو نوازتی ہے عدل وانصاف آنحضرت سلی لا الہ سلم کا اسوہ اور مسلمانوں میں اس اللہ کے رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش کرنا ضروری ہے 17 کی کمی کی وجہ سے زوال کا سبب 500 سچی فراست اور دانش اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کئے بغیر حاصل آنحضرت سلائی یہ تم کو مخالفین کا خراج عقیدت 595 تا612 نہیں ہوسکتی 38 آنحضرت سی سی ایم کا مقام شکر 496 آنحضرت سیئی سایہ نام کی عزت و ناموس اور امت مسلمہ 562 حضرت مسیح موعود نے فرمایا خدا کی خوشی حاصل نہیں ہو سکتی جب حضور انور کے خطبہ ( ناموس رسالت کے متعلق ) پر مغربی میڈیا تک عارضی تکلیفیں نہ اٹھائی جائیں 3 583 کارد عمل اور تشہیر.یہ خطبہ سب جگہ پہنچائے اللہ کے فضلوں اور انعامات پر احمد کہنے کی اہمیت 433 اللہ کے بندے بننے کے طریق اور اس کی ضرورت ، قرب الہی آنحضرت سلائی یتیم کی عزت پر حملہ (فلم) ردعمل کے طور پر 487-478 اور مقصد پیدائش انسانیت ہمارا انحصار خدا پر ہے، جماعت کی ترقی خدا کے فضل سے ہے کسی سیرت کے پہلوؤں کواجاگر کیا جائے لائحہ عمل اور یہ بات کہ حضور کے خطبہ کو عام کیا جائے، ویب سائٹ، حکومت کی مدد سے نہیں 439 آزادی رائے 583 مخالفین احمدیت کو انتباہ کہ یہ اللہ کی پکڑ میں آئیں گے 662 مذہبی جذبات کا خیال اور آزادی رائے کی حدود کے بارہ میں آنحضرت صلی اونم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام خاتم النبین پر سب سے آفات بڑھ کر یقین کرنے والے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم محسن انسانیت تھے 119 108 611 احمدی وکلاء کی کوششیں دنیا میں قدرتی آفات اور معاشی بدحالی.ایک وارننگ 575 آواز آنحضرت کی بعثت کا عظیم مقصد اور احمدی کی ذمہ داری 108 جلسہ میں آواز کا مسئلہ اور اس کو بہتر کرنے کی طرف توجہ 430 ہمارے دلوں میں آنحضرت صلی اسلام کا جو مقام ہے دنیا دار کی نظر اس تک نہیں پہنچ سکتی 580 احمدیت دشمنان اسلام کی بیہودہ فلم اور عالم اسلام کا اظہار رنج و غم.احد یہ جماعت کے عقائد 197.196 خلیفہ اسیح کا اپنے آقا حضرت رسول کریم صلی ا یہ تم کی حضرت مسیح موعود کی جماعت کے علاوہ کوئی اور جماعت نہیں ہے عزت و ناموس کے لئے غیرت و جرات کا اظہار 562 جو حقیقی اسلام دنیا کے سامنے پیش کر سکے 316
خطبات مسرور جلد دہم 11 مضامین ہر احمدی جہاں بھی جائے جماعت سے ضرور رابطہ رکھے 147 | جماعت احمدیہ کا قیام.جماعت کے لئے خوشی اور برکت کا دن ہر احمدی کا فرض ہے کہ انسانیت کی خدمت کرے 70 (23 مارچ) 174 پیشہ ور احمدیوں کا تعلیم ، میڈیکل اور دیگر امور کے ذریعہ انسانی پاکستان میں احمدیوں پر ظلم.حضرت مسیح موعود کو گالیاں دینا.خدمت 71 اس کا صرف حل یہی ہے کہ دعائیں کی جائیں اور بہت دعائیں احمدی انجینئر ز کا برکینا فاسو میں جذ بہ خدمت کے تحت ایک ماڈل کی جائیں و پیج بنانا 71 180 مخالفین احمدیت کو انتباہ.تمہارا مقابلہ خدا سے ہے اور خدا سے پاکستان میں احمدیوں کی مظلومانہ حالت اور ان کے لئے دعا کی کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا اس لئے خوف کرو.خدا کا مقابلہ کرنے تحریک 65 والوں کی خاک کا بھی پتہ نہیں ملتا 356 اپنے نفس کا محاسبہ کریں.احمد یہ جماعت ایک معمولی جماعت جماعت احمدیہ کی ترقی اور خدائی وعدوں کے تحت غیر معمولی نہیں ہے 195 تائید و نصرت 365.354 پاکستانی احمدیوں کی مخالفت کے لئے لوگوں کے ذہنوں میں یہ راویل بخاری.ایک رشین احمدی دوست کے قابل رشک زہر ڈالا جا رہا ہے کہ آنحضرت کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا اور مرزا اخلاص و وفا کے تذکرے اور ذکر خیر صاحب کو نبی مانتے ہیں 166 63050 آنحضرت کی بعثت کا عظیم مقصد اور احمدی کی ذمہ داری 108 پاکستان میں احمدیوں کی مخالفت میں اصل ایشو...کہ مرزا انڈیا، حیدر آباد دکن میں احمدیت مخالف رو اور دعا کی تحریک 124 صاحب کو نبی مانتے ہیں 166 پاکستان میں احمدیوں کے ساتھ امتیازی ظالمانہ سلوک، سکولوں، پاکستان میں احمدیت کی مخالفت.احمدیت کو ختم کرنے کا خیال کالجز میں داخلے نہ ملنا مخالفین کی بھول ہے یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے جس کو کوئی انسانی کوشش ختم نہیں کر سکتی انجام کار فتح ہماری ہے 210 212 127 ظلم و ستم اور مخالفت کے باوجود احمدیت کا قافلہ اللہ کے فضل سے بڑھتا چلا جا رہا ہے اور بڑھتا چلا جائے گا 138 دنیا بھر میں جماعت کے حق میں تائیدات الہی کے نظارے 778 قانون کے پابند لوگ ہیں، شدت پسندی یا دہشتگردی کے ہم واحد جماعت جو منصوبہ بندی کے ساتھ اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کی کوشش میں مصروف حامی نہیں ہیں 218 احمد یوں پر ظلم وستم.اور ایک وقت آئے گا کہ یہی لوگ احمد یوں 218 778 آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کے فضلوں کی بارش اور نشانات کا کی عزت اور احترام کرنے پر مجبور ہوں گے پاکستان، انڈیا اور دیگر علاقوں میں احمد یہ مخالف کوششیں سلسلہ جماعت احمدیہ ہی دیکھ رہی ہے 210 551 احمدی مسلمان دنیا کی خدمت کرنے کے لئے کوئی دقیقہ نہیں چھوڑتے، اور خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کے ارادے احمدی کے قول اور فعل میں دورنگی نہیں ہونی چاہیئے.ایک احمدی امریکہ میں احمدیوں نے بارہ ہزارخون کی بوتلیں دیں 567 کی ذمہ داری اور مقام کی پر حکمت نصائح 381 تا 391 جماعت احمدیہ کا مشن ، اسلام کی خوبصورت تعلیم ، اعلیٰ اخلاقیات ہر احمدی کو اپنی علمی حالت بہتر کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے 402 اور خدمت انسانیت 689
خطبات مسرور جلد دہم 12 مضامین احمدیوں کا قربانیوں کے لئے پیش پیش رہنا.یہ کوئی معمولی اعزاز | پاکستان میں بھی مخالفین احمدیت کی الہبی پکڑ اور ذلت کے سامان نہیں 662 ہورہے ہیں 800 جماعت احمدیہ کی جدوجہد.دشمنان اسلام کے خلاف جو احمد یہ قبرستان ماڈل ٹاؤن لاہور میں قبروں کی بے حرمتی 761 آنحضرت سالیا یہ تم کی ناموس پر حملہ کر رہے ہیں 565 پاکستان میں احمدیوں کے حالات تنگ ہونے پر دعا کی تحریک 761 جماعت احمدیہ کے خلاف مخالفانہ سکول خصوصاً پاکستان میں حد سے 416 زیادہ بڑھتی ہوئی حالت.سکولوں میں بھی امتیازی سلوک 658 ترقی اور فتح جماعت احمدیہ کا مقدر ہے ہمارا انصار خدا پر ہے، جماعت کی ترقی خدا کے فضل سے ہے کسی اے دشمنان احمدیت ! تم جس طرح لاہور میں درجنوں شہادتیں کرنے کے بعد بھی کسی احمد می کو اس کے ایمان سے ہٹا نہیں سکے، 439 حکومت کی مدد سے نہیں جماعت احمد یہ ان لوگوں سے زیادہ وطن ( پاکستان) سے محبت کرنے اسی طرح کراچی کے احمدیوں کے ایمانوں کو بھی متزلزل نہیں کر والی ہے.یہ تو دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹ رہے ہیں 439 سکتے کبھی ان کے ایمانوں میں کمی نہیں آسکتی 409 661 مخالفین احمدیت کو انتباہ کہ یہ اللہ کی پکڑ میں آئیں گے 662 ایک احمدی کا معیار جوا سے حاصل کرنا ہے امریکہ، کینیڈا کی بعض لڑکیوں کا اخلاص اور پردہ اور حیا کے اخلاص مخلصانہ جذبات کا اظہار 428 امریکہ، کینیڈا کی بعض لڑکیوں کا اخلاص اور پردہ اور حیا کے 428 نیکیوں میں مسابقت کا جذبہ اور مالی قربانی میں دنیا بھر کے مخلصانہ جذبات کا اظہار احمدیوں کے قابل رشک واقعات 691 تا 702 اسائلم حضرت مسیح موعود کو دی جانے والی مخلص جماعت جس کا خلافت دوسرے ملکوں میں اسائلم لینے والے جو بڑی عمر کے فارغ بیٹھے رہتے ہیں وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنی عبادتوں کی طرف 423 سے انتہائی وفا کا تعلق ہے پی اعزاز آج صرف افراد جماعت کو ہے جو خدا تعالی کی راہ میں توجہ دیں 715 268 احمدیت کی بنیاد پر دوسرے ملکوں میں اسرائیلم اور پناہ لینے قتل کئے جارہے ہیں بعض ممالک میں احمدیوں کی عملی اور عبادتوں میں کمزوریوں کی والے.یہ احمدیت کی برکت ہے.ناشکرا پن ہے کہ جماعت پر طرف توجہ دلانا 422 اعتراض کرنا یا الگ ہونا 419 ہمارا انصار خدا پر ہے، جماعت کی ترقی خدا کے فضل سے بے کسی پاکستان سے آکر اسرائیلم لینے والے احمد یوں کو نصیحت کہ حکومت کی مدد سے نہیں 439 سچ بولیں 771 جماعت سے الگ ہونے والے خس کم جہاں پاک“ کے اساعیلم سیکرز کے لئے نصیحت.خدا کا شکر کرتے ہوئے نیک مصداق ہیں 419 نمونہ بنیں امریکہ میں بھی اور ساری دنیا میں اسلام احمدیت کے ذریعہ پھیلے گا استغفار (CNN کے نمائندہ کے سوال پر جواب) 425 446 حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ استغفار اور تو بہ دو چیزیں ہیں 25 استغفار کی فلاسفی ، اہمیت اور فوائد 21 تا 31 احمدیت کی مخالفت مخالفین احمدیت کو انتباہ کہ یہ اللہ کی پکڑ میں آئیں گے 662 عہدیدار کے خلاف شکایت ہو تو استغفار کریں نہ یہ کہ تلاش کیا جائے کہ شکایت کس نے کی تھی 485
خطبات مسرور جلد دہم اسلام 13 مضامین اسلام تو پھیلے گا لیکن ان نام نہا داسلام کے ٹھیکہ داروں کے ذریعہ اسلام آخری شریعت اور مذہب ہے اور اس کے باغ کو ہرا ر کھنے نہیں بلکہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ.دلوں کو فتح کر کے امن اور 142 پیار اور محبت کی تعلیم دے کر 467 کے لئے مجددین اور نگرانوں کا سلسلہ.حضرت مسیح موعود کی جماعت کے علاوہ کوئی اور جماعت نہیں ہے جماعت احمدیہ کا مشن، اسلام کی خوبصورت تعلیم ، اعلیٰ اخلاقیات اور خدمت انسانیت 689 جو حقیقی اسلام دنیا کے سامنے پیش کر سکے 316 حضرت مسیح موعود نے اسلام کے ایک فتح مند جرنیل کی حیثیت دنیا میں رونما ہونے والے سیاسی اور معاشی حالات کے پیش نظر حضور انور کا جماعتوں کو انتظامات کرنے کی طرف توجہ دلانا 426 سے اسلام کے مخالفین کا منہ بند کر وایا 98 پاکستان اور دیگر جگہ پر اسلام پسندوں کی عملی حالت کا شرمناک اصلاح جائزہ 201 صرف اپنی اصلاح نہیں کرنی اگلی نسلوں کو بھی سنبھالنا ہے 108 آنحضرت کس طرز کا اسلامستان بنانا چاہتے تھے.انسانیت کی خدا نے اس زمانہ میں جس کو اصلاح کے لئے بھیجا ہے اگر یہ استہزاء اور ظلم سے باز نہ آئے تو ان کا ہر قدم تباہی کی طرف لے قدریں قائم کرنے اور...اسلام اور آنحضرت کی صداقت اور اعلیٰ مقام 108 98 جانے والا ہوگا 575 زندہ مذہب وہ ہے جس میں قدرت نمائی کے جلوے ہوں اور وہ اعتماد صرف اسلام ہے اور مسلمانوں میں صرف جماعت احمدیہ ہی وہ کسی عہدیدار پر غیر ضروری اعتماد نہیں کرنا چاہیئے 431 فرقہ ہے جو خدا کو تمام صفات کے ساتھ قادر مانتا ہے 97 عہدیدار کے خلاف شکایت ہو تو استغفار کریں نہ یہ کہ تلاش کیا اسلام کا پیغام ساری دنیا میں پہنچا نا ہمارا کام ہے 35 جائے کہ شکایت کس نے کی تھی رشین مسلمانوں کو اسلام میں دوبارہ داخل کرنا ایک محنت طلب الیکٹرانک میڈیا / پریس کام ہے 52 485 امریکہ میں بھی اور ساری دنیا میں اسلام احمدیت کے ذریعہ پھیلے گا 425 اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے حضرت مسیح موعود کی بعثت اور تجدید (CNN کے نمائندہ کے سوال پر جواب) دین کا کام اور مسلمانوں کا مخالفانہ ردعمل حضور انور کے خطبہ ( ناموس رسالت کے متعلق ) پر مغربی میڈیا جماعت احمدیہ کا مشن، اسلام کی خوبصورت تعلیم ، اعلیٰ اخلاقیات کا رد عمل اور تشہیر.یہ خطبہ سب جگہ پہنچائے اور خدمت انسانیت 655 689 امام 583 واحد جماعت جو منصوبہ بندی کے ساتھ اسلام کی تعلیم کو دنیا میں آنحضرت مسی یا پی ایم کے اسوہ پر چلیں.الإِمَامُ جُنَّة 489 778 امت مسلمہ پھیلانے کی کوشش میں مصروف امریکہ کے نوجوانوں میں جماعت اور اسلام کا پیغام پہنچانے کی آنحضرت سیشین ایام کی عزت و ناموس اور امت مسلمہ 562 مسلم ممالک میں فسادات.کاش مسلمانوں کو عقل آجائے اور یہ 425 719 تو جہ اور حضور انور کا اظہار خوشنودی دشمنان اسلام کی بیہودہ فلم اور عالم اسلام کا اظہار رنج وغم.ایک ہو جائیں خلیفہ ایج کا اپنے آقا حضرت رسول کریم ستی شی اسلام کی امن عزت و ناموس کے لئے غیرت و جرات کا اظہار 562 حضور انور کا ایک امریکن افسر کو فرمانا کہ میں تم سے کچھ لینے نہیں امریکہ میں بھی اور ساری دنیا میں اسلام احمدیت کے ذریعہ پھیلے گا آیا.میں یہ بتانے آیا ہوں کہ اگر تم دنیا میں امن قائم کرنا چاہتے ہو تو کیا طریق اختیار کرنا چاہئے (CNN) کے نمائندہ کے سوال پر جواب) 425 439
خطبات مسرور جلد دہم انجينير 14 ایم ٹی اے مضامین احمدی انجینئر ز کا برکینا فاسو میں جذ بہ خدمت کے تحت ایک ماڈل جلسہ کے پروگرام، دنیا بھر سے ایم ٹی اے کے کارکنان کے ولیج بنانا انٹرنیٹ 71 لئے اظہار تشکر بدعت دیر تک ٹی وی، انٹر نیٹ کے نقصان، اعتدال ہونا چائے 269 ، 384 تمام بدعات سے اپنے آپ کو بچانا ہوگا انسانیت انسان بدله 559 91 آنحضرت کس طرز کا اسلامستان بنانا چاہتے تھے.انسانیت کی ہمارے ذہنوں میں کبھی بھی بدلے کا خیال نہیں آنا چاہیے 729 قدریں قائم کرنے اور...بنی نوع انسان کی پیدائش کا مقصد 108 410 بیعت صرف یوم مسیح موعود کا جلسہ کرنا اور دن منانا کافی نہیں.دیکھنا یہ بنی نوع انسان کی خدمت اور دوسروں کے جذبات کا احترام، ہے کہ بیعت کا حق ادا کیا ہے یا نہیں بیعت کرنے والوں کی خوش قسمتی اور سعادت آنحضرت صلی شما ایلم کا اسوہ انصاف 501 174 401 حضرت مسیح موعود کی بیعت کرنے والے زیادہ پوچھے جائیں گے 387 آنحضرت مسی یہ تم کا اسوہ اور مسلمانوں میں اس کی کمی کی وجہ حضرت مسیح موعود کی بیعت کا حق ادا کرنے کی کوشش کی 206 حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ بیعت کرنے کی غرض کہ دنیا کی محبت سے زوال کا سبب 500 ٹھنڈی ہو 305 انفاق فی سبیل اللہ / چندہ / قربانی / مالی قربانی حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ جب تک استقامت نہ ہو بیعت مالی قربانی کی عادت شروع دن سے ڈالنی چاہئے 13 صحابہ کا نیکیوں کے بجالانے میں اخلاص اور قربانی کا قابل رشک اظہار صحابہ کا مقام جو قربانیوں سے انہیں ملا صحابہ مسیح موعود کی مالی قربانی کے لئے تڑپ 2 3 5.4 بھی نا تمام ہے.224 صحابہ حضرت اقدس کا بیعت کی ایک شرط باہمی اخوت، محبت اور تعلق کے حوالہ سے نمونہ 302+287 دس شرائط بیعت کی ایمان افروز پر معارف تفسیر و توضیح 175 تا 190 دنیا بھر کے احمدی مردوخواتین کے مالی قربانی اور چندوں کی پرده ادائیگی کے لئے اخلاص و جذبہ کے واقعات 6 تا 12 امریکہ، کینیڈا کی بعض لڑکیوں کا اخلاص اور پردہ اور حیا کے ایک غریب صحابی کا قادیان صرف اس لئے آنا کہ میں چندہ نہیں مخلصانہ جذبات کا اظہار دے سکتا جا کر مہمان خانے کی چار پائیاں بن آؤں 5 پیدائش انسانی کا مقصد مرکز کے اخراجات اور مرکزی چندوں کی بابت کچھ تفصیل اور وضاحت 693.692 428 اللہ کے بندے بننے کے طریق اور اس کی ضرورت ، قرب الہی اور مقصد پیدائش انسانیت نیکیوں میں مسابقت کا جذبہ اور مالی قربانی میں دنیا بھر کے بنی نوع انسان کی پیدائش کا مقصد احمدیوں کے قابل رشک واقعات 7020691 487-478 410
خطبات مسرور جلد دہم بڑی تعداد کو جہنم کے لیے پیدا کرنے کا مفہوم پیر 410 15 تعاون مضامین عہدیداران کا آپس میں تعاون نہ ہو تو کاموں میں برکت نہیں حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ تم پیر بنو، پیر پرست نہ بنو 388 پڑتی نام نہاد پیروں کی نحوست - اعتقاد نہیں عمل انقلاب لائے گا 389 تفسیر پیشگوئی 431 سورۃ فاتحہ کی پر معارف تفسیر، مسلمانوں کے لئے آجکل پیشگوئی مصلح موعود.پس منظر، اہمیت اور عظمت، ایک پر معارف اس کی اہمیت تفصیل تبلیغ 108-99 تقوی 94080 منتقی کے لئے ضروری ہے کہ غربت اور مسکینی سے زندگی بسر یوروپین اقوام میں تبلیغی سرگرمیاں تیز کرنے کی ضرورت اور کرے برکات وافادیت 315 تقویٰ کی ضرورت ، اہمیت اور برکات 37 408.70067 Leafleting تبلیغ کا ایک ذریعہ اور اس ضمن میں ایک ضروری حضرت مسیح موعود کی جماعت میں تب شامل ہوں گے جب سچ سچ نصیحت تجدید دین 153 تقومی کی راہوں پر قدم مارو گے 390 حضرت مسیح موعود نے تقویٰ کی ترقی کی طرف توجہ اور اُس کے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے حضرت مسیح موعود کی بعثت اور لئے کوشش کو ہی اہم قرار دیا ہے.655 309 حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ فتح کے لئے متقی بنو 35 حضرت مسیح موعود کے نزدیک متقی بننے کے لئے ضروری تجدید دین کا کام اور مسلمانوں کا مخالفانہ رد عمل تحریک جدید امور 313.75 مرکزی چندے اور ان کے خرچ کے قواعد وضوابط 692 696 حضرت مسیح موعود نے فرمایا تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط و خال ہیں 312 حقیقی تقویٰ کے ساتھ جاہلیت جمع نہیں ہو سکتی 77 تحریک جدید ، سال نو اور مالی قربانی کا گوشوارہ ترقی ہمارانحصار خدا پر ہے، جماعت کی ترقی خدا کے فضل سے ہے کسی تنظیم حکومت کی مدد سے نہیں 439 خلیفہ وقت کی ہر بات پر لبیک کہتے ہوئے اس پر عمل کریں.اگر ذیلی تنظیموں اور مرکزی عہدیداروں اور واقفین زندگی کونصیحت پکا ارادہ ہے تو کوئی مشکل سامنے نہیں آتی.ترقی کرنے والی قو میں کہ اپنے جائزے لیں ، عبادتوں کے معیار اور قرآن کریم کے قومیں مشکلات کو نہیں دیکھا کرتیں بلکہ اپنے منصوبوں اور پروگراموں کو احکام پر عمل کریں دیکھا کرتی ہیں تصویر حضرت مسیح موعود کی تصویر کی بے حرمتی 432 663 توبه 484 حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ استغفار اور تو بہ دو چیزیں ہیں 25 تو بہ کے فوائد اور اہمیت 44
خطبات مسر در جلد دہم توحید توحید کی عظمت، اہمیت اور ہماری ذمہ داریاں 175 16 مضامین جلسوں کے کامیاب انعقاد اور جذبات تشکر کا اظہار 418 جلسہ میں آواز کا مسئلہ اور اس کو بہتر کرنے کی طرف توجہ 430 توحید کے قیام کے لئے ایک احمدی کی تڑپ اور ذمہ داری 108 یہ جلسے احمدی کے لیے برکات کا موجب ہیں جلسہ کا مقصد اور تہجد بعض ضروری نصائح 405 جلسہ سالانہ یو کے مہمانوں، میز بانوں اور کارکنان کے لیے حضرت مسیح موعود نے جماعت کو نصیحت کی کہ تہجد کو لازم کریں 396 آنحضرت سلی ماہرین نے فرما یا بڑی نیکی تہجد کی نماز ادا کرنا تجھے کے زریں نصائح نفل پڑھنا ٹی وی 207 دیر تک ٹی وی، انٹرنیٹ کے نقصان، اعتدال ہونا چائے 269، 384 جامعہ احمدیہ جامعہ احمدیہ یو کے کی نئی خوبصورت عمارت جلسه 555 533-522 549-523 جلسہ سالانہ یوکے کی مرکزی حیثیت جلسہ کا مقصد اور اس کے حصول کے طریق اور برکات 534-544 قادیان کے جلسہ سالانہ کے لئے دعا کی تحریک 806 جنگ عظیم کے خطرہ کا انتباہ اور دعا کی تحریک 380 بڑی تعداد کو جہنم کے لیے پیدا کرنے کا مفہوم جہاد 410 جلسہ سالانہ جرمنی.انتظامات کا جائزہ اور اعتراضات وغیرہ، اس کی اہمیت اور فوائد 336 جلسہ کے مقاصد میں سے ایک حقوق العباد اور ہمدری خلق ہر آنحضرت سالی سیستم نے فرمایا کہ جہاد فی سبیل اللہ بڑی نیکی 206 احمدی کو اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے 337 جہاد کا نظریہ وہی درست تھا جو جماعت احمدیہ کا تھا.مسلمان علماء جرمنی کی انتظامیہ کو جلسہ کے لئے بعض نصائح 365 352338 جلسہ سالانہ کے مقاصد (باہمی ہمدردی) حضرت مسیح موعود نے جب ایک دفعہ جلسہ ملتوی کیا تو فرما یا 338 394 اور سکالرز کا اظہار چندہ دیکھیں انفاق فی سبیل اللہ حق حقوق جلسہ کی اہمیت اور برکت وافادیت جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کی خدمت کرنے والے دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کی ضرورت کارکنان 304 199 204 حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی ضرورت 313 73 جلسوں کی اہمیت ،مقصد اور آداب و نصائح 305 - 315 اپنے حقوق چھوڑ نے اور دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کا جذبہ تا کارکنان جلسہ کے ڈیوٹی کے دوران ادا ئیگی نماز کا اہتمام 404 امن کا باعث بنے گا جلسہ میں شامل ہونے والے اردگرد کے ماحول پر بھی نظر رکھیں 404 حقوق العباد کی ادائیگی کی اہمیت اور غیر معمولی برکات 551 اور فوائد 73 تا 75 جلسہ یو کے کا اختتام اور اظہار تشکر جلسہ میں شامل ہونے والے اور ڈیوٹی دینے والے کارکنان کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی اہمیت اور خاص توجہ کی ہدایات 417 ضرورت 341.204
خطبات مسرور جلد دہم 17 مضامین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ نصیحت فرمائی ہے کہ ایک جماعت احمدیہ کا مشن، اسلام کی خوبصورت تعلیم ، اعلیٰ اخلاقیات دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرو حقوق العباد کی ادائیگی کی اہمیت 347 397 اور خدمت انسانیت 689 آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کے فضلوں کی بارش اور نشانات کا 551 جلسہ کے مقاصد میں سے ایک حقوق العباد اور ہمدری خلق ہر سلسلہ جماعت احمد یہ ہی دیکھ رہی ہے احمدی کو اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے 337 جماعت احمدیہ کا مشن، اسلام کی خوبصورت تعلیم ، اعلیٰ اخلاقیات 406 اور خدمت انسانیت 689 حقوق العباد کی ادائیگی اور اس کا اجر میاں بیوی کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ اور اس کی طرف بنی نوع انسان کی خدمت اور دوسروں کے جذبات کا احترام، توجہ نہ کرنے سے نقصانات 428 آنحضرت صلی لا الہ الم کا اسوہ خشیت حضرت مسیح موعود کی اپنے صحابی کو نصیحت کہ حقہ چھوڑ دو 323 خشیت کی پر معارف تفسیر علما ء اور ان کی خشیت سے مراد حمد کی پر معارف تفسیر 433 501 465 468 خلافت حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اللہ کے فضلوں اور انعامات پر الحمد کہنے کی اہمیت اور برکت 433 خلفائے احمدیت کی پاکستان سے محبت اور اس کی عظمت کے لئے دعا ئیں اور نیک تمنائیں 106 ختم نبوت خلیفہ کی نصائح ،صرف ایک ملک کے عہدار ان کے لئے نہیں بلکہ ربوہ میں ہونے والی ختم نبوت کانفرنس میں اخلاق باختہ تقریریں خدمت خدمت خلق 611 ہر احمدی کا فرض ہے کہ انسانیت کی خدمت کرے 70 تمام ملکوں کے لئے 344 والدین کے بعد میرے استاد جماعت احمدیہ کے خلیفہ ہیں (راویل بخاری صاحب کا کہنا ) 59 خلافت کا سلسلہ دائی ہے اور ہماری ذمہ داریاں 399 پیشہ وراحمدیوں کا تعلیم ، میڈ یکل اور دیگر امور کے ذریعہ انسانی خلیفہ المسیح کے دورہ جات کی غیر معمولی افادیت و برکات 418 خدمت 71 حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ خادم القوم ہونا مخدوم بنے کی نشانی ہے 343 ہومیونٹی فرسٹ کے تحت جماعت کی خدمات 71 خلیفہ وقت کی ہر بات پر لبیک کہتے ہوئے اس پر عمل کریں.اگر پکا ارادہ ہے تو کوئی مشکل سامنے نہیں آتی.ترقی کرنے والی قومیں مشکلات کو نہیں دیکھا کرتیں بلکہ اپنے منصوبوں اور پروگراموں کو دیکھا کرتی ہیں احمدی انجینئر ز کا برکینا فاسو میں جذبہ خدمت کے تحت ایک ماڈل و پیج بنانا 71 432 حضور انور کا ایک امریکن افسر کو فرمانا کہ میں تم سے کچھ لینے نہیں 439 احمدی مسلمان دنیا کی خدمت کرنے کے لئے کوئی دقیقہ نہیں آیا..میں یہ بتانے آیا ہوں کہ اگر تم دنیا میں امن قائم کرنا چھوڑتے ، امریکہ میں احمدیوں نے بارہ ہزار خون کی چاہتے ہو تو کیا طریق اختیار کرنا چاہئے خلیفہ مسیح کی دنیاوی حکومتوں سے بے نیازی کا اظہار 438 تا440 بوتلیں دیں 567
خطبات مسرور جلد دہم 18 مضامین خلیفہ اسیح کا دورہ یورپ، حیرت انگیز تائیدات الہی اور غیر معمولی | حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں: ” دعا بڑی عجیب چیز ہے“ 370 779 تا 792 دوسرے ممالک کے لئے دعائیں کریں جہاں مذہبی آزادی نہیں برکات حضرت مسیح موعود کو دی جانے والی مخلص جماعت جس کا خلافت سے انتہائی وفا کا تعلق ہے 423 حضرت خلیفہ اسیح کا کیپٹل ہل میں خطاب اور عاجزانہ دعا.خدائی رعب اور نصرت کا معجزہ 441 583 ہے پاکستانی احمد یوں/ پاکستان کے لئے دعا کی تحریک 123 717.448.380.315 پاکستان کے لئے دعا کی تحریک اور قیام پاکستان کے لئے 194-190 پاکستان میں احمدیوں کی مظلومانہ حالت اور ان کے لئے دعا کی حضور انور کے خطبہ ( ناموس رسالت کے متعلق ) پر مغربی میڈیا جماعت کی مساعی کارد عمل اور تشہیر.یہ خطبہ سب جگہ پہنچائے آنحضرت سلینیم کی عزت پر حملہ (فلم) رد عمل کے طور پر لائحہ عمل اور یہ بات کہ حضور کے خطبہ کو عام کیا جائے ، ویب سائٹ، سیرت کے پہلوؤں کو اجاگر کیا جائے 583 تحریک 65 پاکستان میں احمدیوں پر ظلم.حضرت مسیح موعود کو گالیاں دینا.اس کا صرف حل یہی ہے کہ دعائیں کی جائیں اور بہت دعائیں امریکہ کے نو جوانوں میں جماعت اور اسلام کا پیغام پہنچانے کی 425 کی جائیں 180 تو جہ اور حضور انور کا اظہار خوشنودی آنحضرت صلی لا یہ تم کومخالفین کا خراج عقیدت 595 - 612 پاکستان میں احمدیوں کے حالات تنگ ہونے پر دعا کی تحریک 761 پاکستان کے احمدیوں پر مظالم.دعا کی تحریک خُلق / اخلاق حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ اصلی بہادر وہی ہے جو تبدیل اخلاق پر مقدرت پاوے 42 جماعت احمدیہ کا مشن، اسلام کی خوبصورت تعلیم ، اعلیٰ اخلاقیات اور خدمت انسانیت خواب را ویل بخاری صاحب کا ایک خواب خون 689 57 احمدی مسلمان دنیا کی خدمت کرنے کے لئے کوئی دقیقہ نہیں چھوڑتے ، امریکہ میں احمدیوں نے بارہ ہزار خون کی بوتلیں دیں 567 دعا دعاؤں کی قبولیت کا انعام 69 544 380 جنگ عظیم کے خطرہ کا انتباہ اور دعا کی تحریک اسلامی ممالک کے لئے دعا اور کوشش اور ان کی بقا کا راز 109 مسلم امہ اور ان کے رہنماؤں کے لئے دعا اور نصیحت 806.110.109 دنیا اور مسلم امہ اور مسلمان حکومتوں کے ابتلاء دور ہونے کے لئے دعا کی تحریک 351 369 انڈیا، حیدر آباد دکن میں احمدیت مخالف رو اور دعا کی تحریک 124 دعا کی افادیت ، برکات اور آداب اور حقیقت حضور انور کا سفر کینیڈا اور امریکہ کے لئے دعا کی تحریک 380 ان ظلموں کے خاتمہ اور اس ملک کو بچانے کا ایک ہی طریق ہے کہ پہلے سے زیادہ خدا کے حضور جھک کر اس کا فضل مانگیں 220 دعا اور دعا مانگنے کا طریق 474 اپنی جماعت کے لئے حضور کی ایک دردانگیز دعا 406 حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں اسلامی ممالک اور امت مسلمہ کے لئے دعا کی تحریک 559 میرا یہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے دعانہ کی جاوے پورے مسلم امہ اور مسلم مالک کی باہمی منافقت اور خصوصی دعا کی طور پر سینہ صاف نہیں ہوتا 400 تحریک 612
خطبات مسرور جلد دہم محرم کے مہینہ میں دعاؤں کی تحریک معصوم فلسطین کے لئے دعا کی تحریک 19 730 731 806 عبدالمنان ناہید صاحب کا ذکر خیر شیخ محمد نعیم صاحب کا ذکر خیر 15 47 مضامین قادیان کے جلسہ سالانہ کے لئے دعا کی تحریک دنیا وفات پا جانے والے والوں کے ذکر خیر کا حکم اور اس کی حکمت 49 ماسٹر عبدالقدوس شہید کا ذکر خیر.وحشیانہ تشدد ظلم وستم اور ماسٹر حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ اللہ کے نزدیک وہ پیارے ہیں صاحب کا صبر و استقامت ، اے قدوس! ہم تجھے سلام کرتے جو دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہیں 34 ہیں 219213 دنیا میں قدرتی آفات اور معاشی بدحالی.ایک وارننگ 575 رابطہ دنیا میں رونما ہونے والے سیاسی اور معاشی حالات کے پیش نظر ہر احمدی جہاں بھی جائے جماعت سے ضرور رابطہ رکھے 147 حضور انور کا جماعتوں کو انتظامات کرنے کی طرف توجہ دلانا 426 | حضور انور کا ایک امریکن افسر کو فرمانا کہ میں تم سے کچھ لینے نہیں راه بدی ایم ٹی اے کا پروگرام راہ ہدی احمدی زیادہ سے زیادہ دیکھیں آیا.میں یہ بتانے آیا ہوں کہ اگر تم دنیا میں امن قائم کرنا اپنے علم میں پختگی پیدا کریں اور کمزوری اور احساس کمتری کا شکار چاہتے ہو تو کیا طریق اختیار کرنا چاہئے دوره 439 نہ ہوں رفق 200 دورہ جرمنی و بالینڈ کے دوران جماعت احمدیہ کی ترقی اور خدائی حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ دوسروں کے لئے اپنے دل میں وعدوں کے تحت غیر معمولی تائید و نصرت 365،354 خلیفہ اسیح کے دورہ کے نتیجہ میں خدا کی برکات اور نصرت الہی دہشت گردی 365 354 رفق اور نرمی پیدا کرو رمضان 397 رمضان کی اہمیت و برکات 449 رمضان کے فیوض و برکات اور ان کے حصول کی کوشش 476 قانون کے پابند لوگ ہیں، شدت پسندی یا دہشتگردی کے ہم حامی نہیں ہیں ڈیوٹی 218 روزه آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص روزہ رکھ کر یہ کارکنان جلسہ کے ڈیوٹی کے دوران ادائیگی نماز کا اہتمام 404 سب کام کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُس کا روزہ روزہ نہیں جلسہ میں شامل ہونے والے اور ڈیوٹی دینے والے کارکنان کو ہدایات ذکر خیر 417 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے وفات پا جانے والوں کی خوبیوں کا ذکر کرو.49 ہے.رؤیا وکشوف 207 صحابہ حضرت اقدس کے رؤیا و کشوف 760747، 793 805 زكوة زکوۃ کی طرف توجہ دینے کی ضرورت 205
خطبات مسر در جلد دہم زلزلہ 20 شریعت مضامین حضرت مسیح موعود نے اس زلزلہ عظیم کی پیشگوئی شائع حضرت مسیح موعود کی بعثت کا ایک مقصد بلکہ بہت بڑا مقصد اس ہدایت فرمائی تھی زمانہ 248 اور شریعت کی اشاعت کا ہے جو آنحضرت لے کر آئے 315 شکر اس زمانہ کی گمراہی دور کرنے کے لئے جس بندے کا انتظار ہے آنحضرت سلی یا پیام کا مقام شکر اس کی تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں وہ تو نہیں گیا 81 شکر گزاری کے طریق اور اس کی اہمیت شکر گزاری کی اہمیت زوال آنحضرت سیلی شما یہ تم کا اسوہ اور مسلمانوں میں اس کی کمی کی وجہ سے زوال کا سبب سالگرہ ہم سالگرہ نہیں مناتے.نہ خلفاء کی نہ کسی اور کی سچائی سچائی کی اہمیت و برکات سزا 500 101 496 419 779.778 اللہ کے فضلوں اور انعامات پر احمد کہنے کی اہمیت اور برکت 433 551 جلسہ یو کے کا اختتام اور اظہار تشکر جلسوں کے کامیاب انعقاد اور جذبات تشکر کا اظہار 418 اسا علم سیکرز کے لئے نصیحت.خدا کا شکر کرتے ہوئے نیک نمونہ بنیں 446 احمدیت کی بنیاد پر دوسرے ملکوں میں اسائیلم اور پناہ لینے 452 455 والے.یہ احمدیت کی برکت ہے.ناشکرا پن ہے کہ جماعت پر نظام کے تحت سزا دینے میں خلیفہ وقت کے دکھ کا احساس و اظہار 342 سکول پاکستان میں احمدیوں کے ساتھ امتیازی ظالمانہ سلوک ، سکولوں ، کالجز میں داخلے نہ ملنا 127 اعتراض کرنا یا الگ ہونا شهید محسنوں کو جماعت کبھی بھلایا نہیں کرتی 419 223 شہید کے معانی میں وسعت اور عارفانہ تشریح 762 تا 775 پر اعزاز آج صرف افراد جماعت کو ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں مل کئے جارہے ہیں 715 جماعت احمدیہ کے خلاف مخالفانہ سکول خصوصاً پاکستان میں حد سے کوئٹہ میں شہید ہونے والے ایک سعادت نصیب منظور احمد زیادہ بڑھتی ہوئی حالت سکولوں میں بھی امتیازی سلوک 658 سلام صاحب کا ذکر 715 ایک خادم سلسلہ حافظ احمد جبریل سعید صاحب کی وفات پر محبت سلام کو گہری سلامتی کا ذریعہ بنائیں اور اس کی روح پر عمل کریں 430 بھر تفصیلی تذکرہ سیکیورٹی شیطان 716704 سکیورٹی کے انتظامات اور احمدی کارکنان کی ذمہ داریاں 532 شیطان کے حملوں سے بچاؤ کا ذریعہ اللہ کی مدد اور عبادت 202 شراب شیعه اسلامی ممالک میں شراب کی فیکٹریاں برداشت لیکن احمدی کا حضرت مسیح موعود کی تحریرات مقام صحابہ اور شیعہ سنی کے فرق کو کلمہ پڑھنا برداشت نہیں 201 مٹانے والے اقتباسات 731720
خطبات مسرور جلد دہم 21 مضامین ایک غریب صحابی کا قادیان صرف اس لئے آنا کہ میں چندہ نہیں یہ کہنا کہ صبر اور دعا کے علاوہ بھی کچھ کرنا چاہیے.اس کا جواب 219 دے سکتا جا کر مہمان خانے کی چار پائیاں بن آؤں 5 حضرت مسیح موعود کی تحریرات مقام صحابہ اور شیعہ سنی کے فرق کو صحابه آنحضرت صلی ایتم کی قوت قدسی نے صحابہ میں روحانی انقلاب پیدا کر دیا 2 صحابہ کا نیکیوں کے بجالانے میں اخلاص اور قربانی کا قابل رشک اظہار صحابہ کا مقام جو قر بانیوں سے انہیں ملا 2 3 حضرت مسیح موعود کی قوت قدسی کی وجہ سے جو جاگ صحابہ میں لگی تھی اللہ تعالیٰ نے اب تک اُسے جاری فرمایا ہوا ہے.248 صحابہ مسیح موعود کی مالی قربانی کے لئے تڑپ 5.4 صحابہ حضرت مسیح موعود کے جرات اور شجاعت کے ایمان افروز واقعات 138125 مٹانے والے اقتباسات 7310720 صحابہ حضرت مسیح موعود کے واقعات کا بیان اور اس کی افادیت 616 518506..نیک تبدیلی اور اثرات کا باعث صحابہ حضرت مسیح موعود کے واقعات کی اہمیت اور ان کے کچھ ایمان افروز واقعات صحابہ کی اولادکو ایک اہم نصیحت خصوصاً جو نظام جماعت سے دور ہوگئے ہیں 617 صحابہ حضرت مسیح موعود کے مختلف ایمان افروز واقعات 617 تا 744732.680670.652-636.627 صحابہ حضرت اقدس کے رؤیا و کشوف 747 تا 805793،760 صحابہ حضرت مسیح موعود کا ایمان وعرفان اور تبلیغ اسلام کی اشاعت صلہ رحمی کے کچھ واقعات 170158.154142 205 صحابہ حضرت اقدس کے عشق و وفا اور اطاعت کے خدا نے اس زمانہ میں جس کو اصلاح کے لئے بھیجا ہے اگر یہ استہزاء اور علم سے باز نہ آئے تو ان کا ہر قدم تباہی کی طرف لے واقعات 334319 صحابہ مسیح موعود کے صبر و استقامت کے ایمان افروز واقعات 224 تا235 جانے والا ہوگا صحابہ حضرت مسیح موعود کے دینی غیرت کے واقعات 235 239 عائلی معاملات 575 صحابہ حضرت اقدس کی ثابت قدمی کے ایمان افروز گھروں کی بے سکونی کی ایک وجہ عبادت کی طرف توجہ نہ واقعات 249241 ہونا ہے 387 صحابہ حضرت اقدس کی معجزانہ حفاظت کے واقعات 249 تا 257 گھروں کی بے سکونی کی وجوہات و اسباب اور اس کا سدباب 397 صحابہ حضرت اقدس کی عبادت کے لئے تڑپ اور معیار 267 - 371 جماعتی کام کرنے والے لیکن گھروں میں بیویوں پر سختی یہ د عملی ہے تا صحابہ حضرت اقدس کا مسیح موعود کی زیارت کا ذوق شوق 274 تا286 3800370 صحابہ کی قبولیت دعا کے ایمان افروز واقعات صحابہ حضرت اقدس کا بیعت کی ایک شرط باہمی اخوت ، محبت اور تعلق کے حوالہ سے نمونہ 302+287 503 میاں بیوی کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ اور اس کی طرف 428 توجہ نہ کرنے سے نقصانات گھروں میں بہتری آجانے کے بعد اس کے فضل کو یا درکھیں اور اپنی اصل کو نہ بھولیں 429
خطبات مسرور جلد دہم عبادت / عبد / عباداللہ عبادت کی فلاسفی 19.18 22 مضامین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ سَيِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُهُمْ 343 دوسرے ملکوں میں اسائلم لینے والے جو بڑی عمر کے فارغ بیٹھے دنیاوی مقاصد کے لئے نہیں ہوتے ، ہمدردی کے لئے 343 رہتے ہیں وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنی عبادتوں کی طرف عہدیداران کا آپس میں تعاون نہ ہو تو کاموں میں برکت نہیں توجہ دیں 268 پڑتی 431 عبادت کی اہمیت، فلای، خالص عبادت کس طرح ہونی چاہئے 115 کسی عہد یدار پر غیر ضروری اعتماد ہیں کرنا چاہیئے 431 کینیڈا کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو عبادت اور دینی ماحول کینیڈا کی جماعت کے تعلقات عامہ کی تعریف اور افراد جماعت کے اخلاص کا ذکر (عہد یداران کے لئے ایک اہم اپنانے کی تلقین 427 484 نصیحت اور لمحہ فکر) 445 حقیقی عبد بننے کے طریق اور اس کی افادیت اللہ کے بندے بننے کے طریق اور اس کی ضرورت ، قرب الہی ذیلی تنظیموں اور مرکزی عہدیداروں اور واقفین زندگی کو نصیحت اور مقصد پیدائش انسانیت 478 تا 487 کہ اپنے جائزے لیں، عبادتوں کے معیار اور قرآن کریم کے بعض ممالک میں احمدیوں کی عملی اور عبادتوں میں کمزوریوں کی احکام پر عمل کریں طرف توجہ دلانا عقل دانش 422 سچی فراست اور دانش اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی علم نئے علوم کو حاصل کرنے کی اہمیت وضرورت 38 39 484 عہدیدار کے خلاف شکایت ہو تو استغفار کریں نہ یہ کہ تلاش کیا جائے کہ شکایت کس نے کی تھی غصہ 485 حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ : غصہ کو کھا لینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے فساد 344 ہر احمدی کو اپنی علمی حالت بہتر کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے 402 دنیا میں جگہ جگہ فساد بر پا ہونے کی وجہ سے انسان کا اپنی پیدائش علوم جدیدہ کی اہمیت علماء 170 کے مقصد کو بھولنا 17 ایک زمانے میں مسلمانوں میں فساد پیدا ہو جانے کی خبر اور اس کا سد باب مولوی اور نام نہاد علماء عوام الناس کو شر اور گمراہی کی طرف لے جا مختلف ممالک میں فسادات کی لہر اور نام رہے ہیں علماء اور ان کی خشیت سے مراد عہد یداران 81 468 20 559 مسلم ممالک میں فسادات.کاش مسلمانوں کو عقل آجائے اور یہ ایک ہوجائیں فضل 719 خلیفہ کی نصائح صرف ایک ملک کے عہدار ان کے لئے نہیں بلکہ آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کے فضلوں کی بارش اور نشانات کا تمام ملکوں کے لئے 344 سلسلہ جماعت احمد یہ ہی دیکھ رہی ہے 551
خطبات مسرور جلد دہم 23 مضامین اللہ کے بندے بننے کے طریق اور اس کی ضرورت ، قرب الہی دشمنان اسلام کی بیہودہ فلم اور عالم اسلام کا اظہار رنج و غم.خلیفتہ اور مقصد پیدائش انسانیت 487-478 اصیح کا اپنے آقا حضرت رسول کریم ملی نا ہی ان کی عزت و ناموس قربانی مالی قربانی : دیکھیں انفاق فی سبیل اللہ 562 قرض کے لئے غیرت و جرات کا اظہار آنحضرت سیل اینم کے خلاف بنائی جانے والی فلم کے رد عمل کا حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ قرض اتارنے کے لئے استغفار جماعت احمدیہ کی طرف سے اظہار اور حضور انور کو ملنے والا پڑھا کرو تائید الہی کا ایک نشان فیس بک 579 کارکنان 29 کارکنان جلسہ کے ڈیوٹی کے دوران ادائیگی نماز کا اہتمام 404 فیس بک پر کسی فتنہ پردار کی طرف سے حضرت بابا نانک کی جلسہ میں شامل ہونے والے اور ڈیوٹی دینے والے کارکنان کی بابا تصویر اور نازیبا حرکات حضور کی طرف سے مذمت اور حضرت کو ہدایات بابا نانک کو خراج عقیدت 6290627 417 فیشن بعض نوجوانوں کا اوٹ پٹانگ فیشن کو اپنا نا قانون 32 سکیورٹی کے انتظامات اور احمدی کارکنان کی ذمہ داریاں 532 جلسہ سالانہ یو کے مہمانوں ، میز بانوں اور کارکنان کے لیے زریں نصائح کمزوری 533-522 قانون کے پابند لوگ ہیں، شدت پسندی یا دہشتگردی کے ہم بعض ممالک میں احمدیوں کی عملی اور عبادتوں میں کمزوریوں کی حامی نہیں ہیں قبرا قبرستان 218 طرف توجہ دلانا گرفت 422 احمد یہ قبرستان ماڈل ٹاؤن لاہور میں قبروں کی بے حرمتی 761 مخالفین احمدیت کو انتباہ کہ یہ اللہ کی پکڑ میں آئیں گے 662 پاکستان میں بھی مخالفین احمدیت کی الہی پکڑ اور ذلت کے سامان قرآن کریم ہورہے ہیں قرآن کریم کثرت سے پڑھنے کی نصیحت 403،402 403 لال کتاب 800 تبلیغ کا سب سے بڑا ہتھیار، قرآن کریم حضرت مسیح موعود کے اس ارشاد کو ہر وقت سامنے رکھنا ہوگا کہ انتظامیہ اپنی کمزوریوں کی فہرست بنائے اور اس میں درج قرآن کریم کے سات سوحکموں میں سے ایک حکم کی بھی نافرمانی کرے اور آئندہ سال کے پروگرام بناتے ہوئے ان کو نہ کرو 205 مد نظر رکھے آنحضرت آخری نبی اور قرآن آخری شریعت ہے 20 مجدد قرب الہی قرب الہی کے حصول کے ذرائع 21 21 430 اسلام آخری شریعت اور مذہب ہے اور اس کے باغ کو ہرا ر کھنے کے لئے مسجد دین اور نگرانوں کا سلسلہ 142
خطبات مسر در جلد دہم محاسبه 24 مضامین اپنے نفس کا محاسبہ کریں محرم محرم کے مہینہ میں دعاؤں کی تحریک مخالفت/ مخالفین، نیز دیکھیں احمدیت 195 730 مساجد کی تعمیر.آداب اور ہماری ذمہ داریاں ، برکات واہمیت 267259 مساجد کی تعمیر کے مقاصد ، برکات اور اہمیت 111 تا 124 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت مواقع پر مساجد کی تعمیر پر توجہ دلائی ہے 260 حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ مامورین اور اُن کی جماعت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک وقت میں مساجد زلزلے آتے ہیں.220 بنانے پر فخر کیا جائے گا 267 پاکستان میں احمدیوں پر ظلم.حضرت مسیح موعود و گالیاں دینا.اس آنحضرت سلی لا کہ تم نے فرمایا ہر قدم جو مسجد کی طرف اٹھتا ہے اُس کا صرف حل یہی ہے کہ دعائیں کی جائیں اور بہت دعائیں کی کا ثواب دیا جاتا ہے.جائیں 180 312 مسجد میں ہر کسی مذہب والے کو خدائے واحد کی عبادت کا حق ہے 113 حضرت مسیح موعود کے متعلق نازیبا الفاظ کہہ کر ہمارے دلوں کو مسلمان چھلنی کرتے ہیں 217 رشین مسلمانوں کو اسلام میں دوبارہ داخل کرنا ایک محنت طلب مخالفین احمدیت کو انتباہ.تمہارا مقابلہ خدا سے ہے اور خدا سے کام ہے کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا اس لئے خوف کرو.خدا کا مقابلہ کرنے مسلم ممالک: نیز دیکھیں امت مسلمہ 356 52 مسلم ممالک میں فسادات.کاش مسلمانوں کو عقل آجائے اور یہ والوں کی خاک کا بھی پتہ نہیں ملتا عطاء اللہ شاہ بخاری کا کہنا کہ اگر خدا بھی مجھے آکر کہے کہ مرزا ایک ہو جائیں صاحب بچے ہیں تو میں نہیں مانوں گا 244 پاکستان میں احمدیوں کے ساتھ امتیازی ظالمانہ سلوک،سکولوں ، کالجز میں داخلے نہ ملنا 127 مسیح موعود علیہ السلام ظلم وستم اور مخالفت کے باوجود احمدیت کا قافلہ اللہ کے فضل سے سے اسلام کے مخالفین کا منہ بند کروایا 98 بڑھتا چلا جا رہا ہے اور بڑھتا چلا جائے گا مذہب 138 719 حضرت مسیح موعود کی بعثت کا مقصد.اصلاح اور قرب الہی 3 حضرت مسیح موعود نے اسلام کے ایک فتح مند جرنیل کی حیثیت حضرت مسیح موعود وہی مسیح و مہدی ہیں جن کے آنے کی پیشگوئی تھی 204 اس زمانہ کی گمراہی دور کرنے کے لئے جس بندے کا انتظار ہے مذہبی جذبات کا خیال اور آزادی رائے کی حدود کے بارہ میں اس کی تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں وہ تو نہیں گیا 81 حضرت مسیح موعود حضرت مرزا غلام احمد قادیانی نے دعوی کیا ہے احمدی وکلاء کی کوششیں مسابقت 611 کہ وہ مسیح آنے والا میں ہوں 241 نیکیوں میں مسابقت کا جذبہ اور مالی قربانی میں دنیا بھر کے حضرت مسیح موعود کی کتب اور تفسیر پڑھنا قرآن کو سمجھنے کے لئے احمدیوں کے قابل رشک واقعات 702-691 ضروری ہے 41
خطبات مسرور جلد دہم 25 مضامین حضرت مسیح موعود کی بعثت اسلام کی نشأة ثانیہ کے ساتھ آنحضرت صلی یا ایہام کی حرمت و ناموس اور حضرت مسیح موعود کی 97 تحریرات آنحضرت کے عاشق صادق کے طور پر حضرت مسیح موعود کے متعلق نازیبا الفاظ کہہ کر ہمارے دلوں کو چھلنی حضرت مسیح موعود کی تصویر کی بے حرمتی کرتے ہیں 217 563 663 حضرت مسیح موعود کو دی جانے والی مخلص جماعت جس کا خلافت 423 حضرت مسیح موعود کی جماعت کا دوسروں سے امتیاز کیا ہے 117 سے انتہائی وفا کا تعلق ہے دینی علم آج ہمیں صرف اور صرف حضرت مسیح موعود سے ملے گا402 اسلام کی نشاة ثانیہ کے لئے حضرت مسیح موعود کی بعثت اور حضرت مسیح موعود کے وقت سے دور ہونے کے نتیجہ میں اپنے تجدید دین کا کام اور مسلمانوں کا مخالفانہ رد عمل عقیدے کے ساتھ اعمال کی حفاظت بھی ضروری ہے 200 حضرت مسیح موعود کا خلق مہمان نوازی حضرت مسیح موعود کی بعثت.تجدید دین اور خدا کی طرف بلانے صحابہ حضرت مسیح موعود کے واقعات کا بیان اور اس کی افادیت کے لئے 141 نیک تبدیلی اور اثرات کا باعث 655 528 616 حضرت مسیح موعود کی بعثت کا مقصد.آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں، حضرت مسیح موعود کی تحریرات مقام صحابہ اور شیعہ سنی کے فرق کو 398 مٹانے والے اقتباسات 731720 بعض نصائح حضرت مسیح موعود کو مان لینا.ہمارے پر خدا کا ایک بہت بڑا حضرت مسیح موعود کو دی جانے والی مخلص جماعت جس کا خلافت احسان ہے 400 سے انتہائی وفا کا تعلق ہے 423 حضرت مسیح موعود کا ایک مخلص اور وفادار جماعت ملنے پر اظہار مصلح موعود : پیشگوئی مصلح موعود کے مصداق.تشکر 318 رم حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب 101 تا 104 حضرت مسیح موعود کی بعثت کا مقصد اور ایک احمدی سے توقعات 194 مسیح موعود کو ماننے کے بعد ایک احمدی کی ذمہ داری.نیکیوں پر مہمان نوازی عمل کرنے والا اور برائیوں سے روکنے والا 33 جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کی خدمت کرنے والے کارکنان پاکستان میں احمدیوں پر ظلم.حضرت مسیح موعود کو گالیاں دینا.حضرت مسیح موعود کا خلق مہمان نوازی اس کا صرف حل یہی ہے کہ دعائیں کی جائیں اور بہت دعائیں کی جائیں 180 حضرت مسیح موعود کی نصائح.جن پر عمل کرنے سے دینی، روحانی اور دنیاوی ترقی حضرت مسیح موعود کی نصائح 304 528 533-522 جلسہ سالانہ یو کے مہمانوں، میز بانوں اور کارکنان کے لیے زریں نصائح نبی 39 تا 47 انبیاء کی بعثت کا مقصد 35 141 عطاء اللہ شاہ بخاری کا کہنا کہ اگر خدا بھی مجھے آکر کہے کہ مرزا پاکستانی احمدیوں کی مخالفت کے لئے لوگوں کے ذہنوں میں یہ زہر ڈالا جا رہا ہے کہ آنحضرت کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا اور مرزا صاحب سچے ہیں تو میں نہیں مانوں گا 244 166 خدا نے اس زمانہ میں جس کو اصلاح کے لئے بھیجا ہے اگر یہ صاحب کو نبی مانتے ہیں استہزاء اور ظلم سے باز نہ آئے تو ان کا ہر قدم تباہی کی طرف لے پاکستان میں احمدیوں کی مخالفت میں اصل ایشو کہ مرزا صاحب کو جانے والا ہوگا 575 نبی مانتے ہیں 166
خطبات مسرور جلد دہم 26 مضامین اللہ کے معصوم نبیوں کا استہزاء اور دریدہ دہنی ایک بڑا گناہ اور احمدیت کی بنیاد پر دوسرے ملکوں میں اسائلم اور پناہ لینے والے.یہ احمدیت کی برکت ہے.ناشکرا پن ہے کہ جماعت پر اپنی تباہی کا سامان ہے نرمی رفق اور نرمی پیدا کرو 397 567 اعتراض کرنا یا الگ ہونا 419 حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ دوسروں کے لئے اپنے دل میں دنیا میں رونما ہونے والے سیاسی اور معاشی حالات کے پیش نظر حضور انور کا جماعتوں کو انتظامات کرنے کی طرف توجہ دلانا 426 انتظامیہ اپنی کمزوریوں کی فہرست بنائے اور اس میں درج کرے اور آئندہ سال کے پروگرام بناتے ہوئے ان کو مدنظر نشانات آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کے فضلوں کی بارش اور نشانات کا سلسلہ جماعت احمد یہ ہی دیکھ رہی ہے نصیحت 551 رکھے 430 یہ جلسے احمدی کے لیے برکات کا موجب ہیں جلسہ کا مقصد اور بعض ضروری نصائح 405 خلیفہ کی نصائح ،صرف ایک ملک کے عہدار ان کے لئے نہیں بلکہ جلسہ سالانہ یو کے مہمانوں، میز بانوں اور کارکنان کے لیے ، 344 زریں نصائح 533-522 تمام ملکوں کے لئے اللہ کے رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش کرنا ضروری ہے 17 آنحضرت سال یا اینم کی عزت پر حملہ (فلم) ردعمل کے طور پر لائحہ عمل احمدی کے قول اور فعل میں دورنگی نہیں ہونی چاہئیے.ایک احمدی اور یہ بات کہ حضور کے خطبہ کو عام کیا جائے، ویب سائٹ، کی ذمہ داری اور مقام کی پر حکمت نصائح 381 تا 391 سیرت کے پہلوؤں کو اجاگر کیا جائے 583 ہر احمدی کو اپنی علمی حالت بہتر کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے 402 عہدیداران کا آپس میں تعاون نہ ہو تو کاموں میں برکت نہیں دوسرے ملکوں میں اسا علم لینے والے جو بڑی عمر کے فارغ بیٹھے رہتے ہیں وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنی عبادتوں کی طرف توجہ دیں 268 یوروپین اقوام میں تبلیغی سرگرمیاں تیز کرنے کی ضرورت اور برکات وافادیت 315 Leafleting تبلیغ کا ایک ذریعہ اور اس ضمن میں ایک ضروری نصیحت 153 پڑتی 431 کسی عہدیدار پر غیر ضروری اعتماد نہیں کرنا چاہیئے 431 کینیڈا کی جماعت کے تعلقات عامہ کی تعریف اور افراد جماعت کے اخلاص کا ذکر ( عہد یداران کے لئے ایک اہم نصیحت اور المحمد فكر) 445 ذیلی تنظیموں اور مرکزی عہدیداروں اور واقفین زندگی کو نصیحت قرآن کریم کثرت سے پڑھنے کی نصیحت 403،402 کہ اپنے جائزے لیں، عبادتوں کے معیار اور قرآن کریم کے نو جوانوں کو نصیحت کہ اپنے تعلقات اور کا میابیوں کو اپنی کسی خوبی احکام پر عمل کریں 438 484 عہدیدار کے خلاف شکایت ہو تو استغفار کریں نہ یہ کہ تلاش کیا 485 پر محمول نہ کریں پاکستان سے آکر اسائیلم لینے والے احمدیوں کو نصیحت کہ بچ جائے کہ شکایت کس نے کی تھی خدا نے اس زمانہ میں جس کو اصلاح کے لئے بھیجا ہے اگر یہ بولیں 771 اسائیلم سیکرز کے لئے نصیحت.خدا کا شکر کرتے ہوئے نیک نمونہ استہزاء اور ظلم سے باز نہ آئے تو ان کا ہر قدم تباہی کی طرف لے اور بنیں 446 جانے والا ہوگا 575
خطبات مسر در جلد دہم 27 مضامین گھروں میں بہتری آجانے کے بعد اس کے فضل کو یا درکھیں اور حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں نماز سے آسمان انسان پر جھک 429 جاتا ہے 390 اپنی اصل کو نہ بھولیں خلیفہ وقت کی ہر بات پر لبیک کہتے ہوئے اس پر عمل کریں.اگر نمازوں کا قیام.پہلے عہد یدار جائزے لیں اور پھر دوسروں کو پکا ارادہ ہے تو کوئی مشکل سامنے نہیں آتی.ترقی کرنے والی قومیں توجہ دلائیں 204 مشکلات کو نہیں دیکھا کرتیں بلکہ اپنے منصوبوں اور پروگراموں کو نماز کے قیام اور اہتمام میں صحابہ حضرت مسیح موعود اور عورتوں کا دیکھا کرتی ہیں 432 نمونہ 270 حضرت مسیح موعود کا جماعت کو نماز کے متعلق نصیحت 386 کارکنان جلسہ کے ڈیوٹی کے دوران ادا ئیگی نماز کا اہتمام 404 اپنے نفس کا محاسبہ کریں.احمد یہ جماعت ایک معمولی جماعت معمولی جماعت نماز کی اہمیت نہیں ہے 195 نمونه 307 حضرت مسیح موعود کو ایسی جماعت عطا فرمائی ہے جو ثابت قدمی اور حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری صاحب کا کھیتوں کے چاروں استقامت میں آج بھی غیر معمولی نمونے دکھانے والی ہے 248 کونوں پر نفل ادا کرنا.جس کی برکت سے فصل عام اندازہ سے اسائلم میکرز کے لئے نصیحت.خدا کا شکر کرتے ہوئے نیک نمونہ بھی زیادہ ہوئی نماز 69 بنیں نوجوان 446 صرف نماز پڑھ لینا ہی کافی نہیں..نمازوں کو سنوار کر پڑھنا بھی امریکہ کے نو جوانوں میں جماعت اور اسلام کا پیغام پہنچانے کی ضروری ہے نمازوں کی ادائیگی کا اہتمام کرنے کی نصیحت نماز کی ادائیگی ، اہمیت و برکات 2 384 397395 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نماز معراج ہے 204 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ نماز عبادت کا مغز ہے.307 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ باجماعت نماز پڑھنے والے کو ستائیس گنا ثواب ملتا ہے.383 حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ نماز میں اپنی زبان میں بھی دعائیں کرنی چاہئیں 390 425 توجہ اور حضور انور کا اظہار خوشنودی امریکہ، کینیڈا کی بعض لڑکیوں کا اخلاص اور پردہ اور حیا کے مخلصانہ جذبات کا اظہار نیکی 428 نیکیوں کے معیار حاصل کرنے کی کوشش اور ان کی راہ میں اموال خرچ کرنا بھی ایک بہت بڑی نیکی ہے 1 263 نیکیوں پر کبھی فخر نہ ہواور نہ قربانیوں پر مان ہو آنحضرت سلی لالایی تم نے فرما یا بڑی نیکی تہجد کی نماز ادا کرنا، تہجد سے نفل پڑھنا 207 حضرت مسیح موعود کی اقامة الصلوۃ کے متعلق ہدایت 383 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے بڑا کام اور نیکی حضرت مسیح موعود نے فرمایا نماز میں اخلاص اور اس کے احسان وہ ہے جس کی کسی میں کمی ہے کو یاد کرنا چاہئے 115 207 آنحضرت نے فرمایا کہ جہاد فی سبیل اللہ بڑی نیکی ہے 206
خطبات مسرور جلد دہم 28 مضامین آنحضرت سلینم نے فرما یاسب سے بڑی نیکی ماں باپ کی ہیومنٹی فرسٹ 206 ہیومنٹی فرسٹ کے تحت جماعت کی خدمات خدمت کرنا ہے.نیکی کا اجر ہزاروں گنا بڑھا کر دینے والا ہمارا پیارا خدا 406 نیکیوں میں مسابقت کا جذبہ اور مالی قربانی میں دنیا بھر کے ہمدردی 71 احمدیوں کے قابل رشک واقعات 691 تا 702 اگر عاجزی اور دوسروں سے ہمدردی نہیں ہے تو نماز ، عہدے، وفات یافتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے وفات پا جانے والوں کی خوبیوں کا ذکر کرو.واقفين 49 340 مالی قربانی کسی پر خوش ہونے کی ضرورت نہیں جلسہ کے مقاصد میں سے ایک حقوق العباد اور ہمدری خلق ہر احمدی کو اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے 337 جلسہ سالانہ کے مقاصد (باہمی ہمدردی) باہمی ہمدردی اور نرمی کی اہمیت 352338 397 ذیلی تنظیموں اور مرکزی عہدیداروں اور واقفین زندگی کو نصیحت دنیاوی مقاصد کے لئے نہیں ہوتے ، ہمدردی کے لئے 343 کہ اپنے جائزے لیں، عبادتوں کے معیار اور قرآن کریم کے حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ دوسروں کے لئے اپنے دل میں احکام پر عمل کریں وطن 484 جماعت احمدیہ ان لوگوں سے زیادہ وطن ( پاکستان ) سے محبت کرنے والی ہے.یہ تو دونوں ہاتھوں سے ملک کولوٹ رہے ہیں 439 وقت دوسرے ملکوں میں اسائلم لینے والے جو بڑی عمر کے فارغ بیٹھے رفق اور نرمی پیدا کرو 397 حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے دعا نہ کی جاوے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتا 400 حضرت مسیح موعود نے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ کبھی بھی کسی کو اپنے ہاتھ سے یا زبان سے تکلیف نہیں دینی 345 رہتے ہیں وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنی عبادتوں کی طرف حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ نوع انسان پر شفقت اور اس توجہ دیں وقف جدید 268 سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے ہمدردی بنی نوع انسان 349 400.399 وقف جدید کے سال نو کا آغاز اور اعداد و شمار 12 تا 15 يوم مسیح موعود وقف جدید کا چندہ مرکزی چندہ ہے، اس کی وضاحت 692 صرف جلسہ کرنا اور دن منانا کافی نہیں.دیکھنا یہ ہے کہ بیعت کا والدین آنحضرت سلیم نے فرمایا سب سے بڑی نیکی ماں باپ کی خدمت کرنا ہے.وكلاء 206 مذہبی جذبات کا خیال اور آزادی رائے کی حدود کے بارہ میں احمدی وکلاء کی کوششیں 611 حق ادا کیا ہے یا نہیں 174
خطبات مسرور جلد دہم 29 اسماء اسماء 312 آنحضرت سلیم احمد مصطفی سیم آنحضرت سی امام نے فرمایا ہر قدم جومسجد سبیل اللہ بڑی نیکی ہے.206 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ کی طرف اُٹھتا ہے اُس کا ثواب دیا جاتا آنحضرت سلینا یہ ہم نے فرمایا سب سے بڑی نصیحت فرمائی ہے کہ ایک دوسرے کے ہے.نیکی ماں باپ کی خدمت کرنا ہے.206 سودے پر سودا نہ کرو " 347 348 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا آنحضرت سلایا ہم نے مختلف لوگوں کو بعض کہ ہے کہ سیّدُ الْقَوْمِ خَادِمُهُمْ - 343 مختلف امور کی طرف توجہ دلائی.207 348،347 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ باجماعت نماز پڑھنے والے کو ستائیس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم محسن انسانیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت مواقع گنا ثواب ملتا ہے.383 تھے.108 مساجد کی تعمیر پر توجہ دلائی ہے.260 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے آنحضرت صلی اا اینم کی قوت قدسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپس کہ اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے.307 صحابہ میں روحانی انقلاب پیدا کر دیا.2 میں حسد نہ کرو.آپس میں نہ جھگڑو.345 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ کے متعلق فرمان.344 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ اپنے دل کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ایک وقت میں مساجد بنانے پر فخر کیا سب سے بڑا کام اور نیکی وہ ہے جس کی جائے گا.267 کسی میں کمی ہے.207 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے آنحضرت سل می بینم نے فرمایا بڑی نیکی تجد کہ جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹ غیبت وغیرہ کی نماز ادا کرنا، تہجد کے نفل پڑھنا 207 تقویٰ یہاں ہے.345 کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آپ فرماتے ہیں ”جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی بے چینی اور تکلیف کو دور کیا.348 روزہ روزہ نہیں ہے.207 علاوہ بھی سارا سال بے انتہا صدقہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خیرات کرتے تھے.451 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص نماز عبادت کا مغز ہے.395 کو ہر حالت میں سچائی پر قائم رہنے کا کہہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کر اسے اُس کی تمام کمزوریوں، غلطیوں تم النبین پر سب سے بڑھ کر یقین کرنے والے ہیں 119 اپنے وفات پا جانے والوں کی خوبیوں کا اور گناہوں سے پاک کروادیا.452 آپ کی عبادات کی کوئی انتہا نہیں لیکن 49 منصوبہ ہے 451 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے رمضان میں وہ اُن انتہاؤں سے بھی اوپر کہ نماز معراج ہے.204 تلے دنیا کو لانے کا ایک عظیم منہ چلے جاتے تھے آپ نے فرمایا ذکر کی مجالس جنت کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اُسے ہم حاصل کر سکیں.109 باع ہیں.نماز عبادت کا مغز ہے.307 آنحضرت صلی ایسی تم نے فرمایا کہ جہاد فی | 405
30 اسماء خطبات مسرور جلد دہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد برحق هذا مسیح “ ان کی بیعت کرو 794 آپ کے اندر ایسی خوبیاں تھیں جن کی وجہ ہے کہ رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے آنحضرت سیلی لا یہ تم کا بیویاں کرنا بھی اس سے کئی قوموں کی قسمت کا فیصلہ ہوا 597 دروازے کھول دیئے جاتے ہیں 449 لئے تھا کہ خدا تعالیٰ کا حکم تھا 574 آپ سیدھا پڑھتے تھے یا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ آپ کی توہین کرنے والے اور اُس پر ضد آپ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر ثَبَّتْ قَلْبِيْ عَلَى دِيْنِكَ 474 کرتے چلے جانے والے سے ہم صلح نہیں پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے آپ کے احسانوں میں سے ہم پر ایک 563 لئے یہ حکم دیا کہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے بہت بڑا احسان یہ بھی ہے کہ دعاؤں کو کر سکتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رات کو سونے طور پر درود بھیجیں.591 مانگنے کے طریقے ہمیں سکھائے.474 سے پہلے اللہ تعالیٰ کے دن بھر کے فضلوں آپ کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کو دنیا آتما رام 420 کے سامنے پیش کریں.591 450 571 377 کو یاد کرتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عبادت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صبر اور آرٹیکوو ( Artikov) 122 کرتے کرتے پاؤں سوج جاتے.420 حوصلے اور برداشت کے ایسے ایسے آغا محمد باقر صاحب قزلباش 626 آپ نے فرمایا جو ایمان کی حالت میں اور واقعات ملتے ہیں کہ دنیا میں اس کی کوئی آرنلڈ کا سولہ Prof.Arnold) اپنا محاسبہ کرتے ہوئے روزے رکھے گا مثال نہیں مل سکتی.(Cassola صاحب پروفیسر 784 اُس کا روزہ قبول ہوگا آپ کے عاشق صادق کے خلاف حضرت ابراہیم علیہ السلام 8 5 2، آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ زبان سے جھوٹ مغلظات سن کر اُن کے دل جلانے کی 525،263،259 نہیں بولنا، بلکہ عمل کے جھوٹ کو بھی ساتھ مستقل کوشش کی جاتی ہے.662 ابراہیم سیالکوئی میر مولوی 192 آپ کی سیرت کے حسین پہلوؤں کو اجاگر ابراہیم.حضرت حافظ 751 آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کرنے کی بھر پور کوشش ہونی چاہئے 583 ابراہیم اے کے آرکو صاحب 713 کہ انسان کے سب کام اپنے لئے ہیں مگر آپ پر درودوسلام بھیجیں کہ اس محسن اعظم ابوالحسن صاحب.حضرت مولا نا244 روزہ میرے لئے ہے اور میں خود اس کی نے ہم پر کتنا عظیم احسان کیا ہے.594 رکھا ہے.جزا بنوں گا.453 452 ابوالقاسم آپ کی ذات پر اعتراض کر دیتے ہیں حالانکہ ابوبکر حضرت 500.501.161 آپ کے صحابہ کے حق میں خدا فرماتا ہے نہ تاریخ پڑھی، نہ واقعات پڑھے 588 آپ کا جو مقام ہے دنیادار کی نظر اس تک 649،622، 723،721، 737 وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحِ مِنْهُ 493 580 ابودرداء آپ نے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا نہیں پہنچ سکتی کے حصول کے لئے منعقدہ مجالس اللہ تعالیٰ آپ کی سیرت کو دنیا پر اجاگر کیا جائے 659 ابوسعید عرب کے فضلوں کا وارث بناتی ہیں 405 آپ کو اللہ نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اسلام ابوطلحہ 77 144 آپ نے فرمایا تم میں سے بہتر وہ ہے جو کی نشاۃ ثانیہ کے لئے موعود آئے گا 652 ابو ہریرہ حضرت 80، 123، 243 ، اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ حسن سلوک میں آپ کی غرباء سے حسن سلوک کی نصیحت 573 572.526.503.498.527.345 763 سب سے بہتر ہے.502 آپ کا ایک بدو سے قرض کے معاملے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ حسن سلوک.کوئی شخص اپنے عملوں سے جنت میں آپ کی عزت و احترام کا جو حق ہے وہ ادا احسن بشیر الدین صاحب 700 داخل نہیں ہوگا.498 کرنے کی کوشش کرنی چاہئے نہیں تو دنیا احسن کمال صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں فساد اور بے امنی پیدا ہوگی.589 احمد جان صاحب.حضرت منشی 759 48
خطبات مسرور جلد دہم احمد جبرائیل سعید صاحب حافظ 705 الف دین مولوی 717.713.712.707 احمد جان پیر حضرت احمد جعفری رئیس 143 191 31 625 اسماء امة الحفیظ خانم صاحبه 239 الہی بخش صاحب سیکھوانی 317 امة الحفیظ بیگم صاحبہ.سیدہ نواب 545 الہی بخش صاحب - مستری 250 251 امة الرحمن صاحبه سیده 652 اللہ بخش صاحب 377.227 احمد حسین صاحب لائلپوری.حکیم 277 اللہ بخش صاحب کا بہلوں چوہدی 663 احمد خان نسیم صاحب 94 احمد دین حضرت 147 امت اسمیع صاحبہ.صاحبزادی 613 امۃ القیوم صاحبه امہ اللہ بیگم صاحبہ اللہ بخش صاحب سیالکوٹی 250 امة النور اللہ وہ صاحب.مولوی 227 228 ام متین صاحبه احمد دین صاحب حکیم 280 اللہ دتہ صاحب.حضرت 252 احمد دین صاحب.حضرت چوہدری 801 اللہ دتہ صاحب.حضرت میاں 750 احمد دین صاحب.مولوی 621 احمد رضا خان بریلوی 759 احمد سرہندی.شیخ احمد علی صاحب 679 560 احمد یار صاحب میاں 221 ام سلمہ.حضرت ام ناصر.حضرت رم 335 350 630 633 474 448 اللہ دتہ صاحب.چوہدری 230 امیر بخش صاحب.میاں 621 اللہ دتہ صاحب.چوہدری مہر 592 امیر خان حضرت 163 ،373،371،248 اللہ دتہ صاحب ہیڈ ماسٹر 292 293 امیر دین صاحب.حاجی 612 اللہ رکھا صاحب.حضرت 621 امیر علی شاہ صاحب.حضرت سید 329 136 امیر محمد خان صاحب 372 اللہ یا ر صاحب.حضرت 288 اوان بارتولو اللہ والے احمد یوسف اسٹام فروش 213 اخلاص احمد صاحب چوہدری 744 الیاس منیر صاحب ادریس صاحب 9 اتاں عائشہ.حضرت 784 572 ارباب محمد نجیب خان صاحب 228 امام الدین.مرزا حضرت اسماعیل علیہ السلام 260 ، 263 اسماء بنت نعمان بن ابی جون 573 663 2 302 237 انس.حضرت انور محمود خان صاحب 442 انیس کلاٹا صاحب 714 326، 800 اور ال شریپو و صاحب 62 امام الدین.مولوی امام الدین صاحب.حضرت منشی 236 ایاز خان صاحب ہنگری.چوہدری 675 ایچ جی ویلز پروفیسر 596 اصغر علی صاحب".حضرت شیخ 292 امام الدین صاحب سیکھوانی.میاں 291 امام حسین.حضرت 515 اشرف صاحب اصغر علی بھٹی افتخار احمد پیر حضرت اکبر شاہ.سید اکبر احمد اکبر خان اکبر صاحب.میر اکرم صاحب 695 143 639 173 376.134 64 140 585 ایڈورڈ لین اپنی بسانٹ امام دین حضرت 143 امام الدین صاحب فیض.حضرت 679 ایوب بیگ با بر علی صاحب امام الدین صاحب میاں 509 با بو جان محمد حضرت اماں جان امجد باجوہ صاحب 331.302 215 امر معروف عزیز صاحب 391 الزبتھ ملکہ امة الباسط الطاف حسین حالی.خواجہ 656 امة الحفيظ 239 333 610 608 125 807 742 حضرت بابو عبدالرحمن 373،244 با بو فضل الدین صاحب 137 با بو گلاب دین صاحب 248 با وانا تک صاحب فیس بک پر کسی فتنہ پردار کی طرف سے
خطبات مسرور جلد دہم 32 حضرت بابا نانک کی تصویر اور نازیبا حرکات ، | 199 ، 230، 301 ، 332، 373 ، ثاقب زیروی صاحب 243 حضور کی طرف سے مذمت اور حضرت بابا 459، 529، 633،584، 646, ثناء اللہ نا نانک کو خراج عقیدت 627 - 629 754.753.680 ثناء اللہ صاحب بدرالدین احمد صاحب 299 بشیر الدین محمود احمد کو حضرت مسیح موعود جو سمار یا الونسو بدرالدین احمدی.مولوی 251 بدرالدین صاحب 679 بدرالدین صاحب عامل.حکیم 467 برکت اللہ صاحب.حضرت ملک 639 280 موعود بیٹے کا مصداق سمجھتے تھے.103 آپ کا دین محمد سلی اما اسلام کے جھنڈے کو بلند کرنے کا عزم 105 جارج کو ہومیلو 376 576 783 781 605 جان ڈیون پورٹ جان محمد صاحب.حضرت 226، 267 جبير بن عم.حضرت 571 مصلح موعود کی پیشگوئی کے مصداق 101 جلال الدین صاحب 333 برکت علی خان صاحب منشی 752 آپ کا یوم ولادت نہیں منایا جا تا 101 جلال الدین صاحب.مرزا 736 محمود احمد صاحب نے تو ایسی تقریر کی کہ جلال الدین صاحب.مولوی 672 برکت علی صاحب.حضرت 248 برکت علی صاحب ملک 640 میرے ذہن میں بھی کبھی یہ مضمون نہیں جلال الدین صاحب مولوی حضرت برہان الدین صاحب بھی.مولوی 297 آیا.جہلمی بشارت احمد صاحب.ڈاکٹر 245,640 بشیر محمد صاحب بشارت احمد صاحب 11 ہوئے خان صاحب 301 145 672 اسماء 169.168.167 جلد ز صاحبہ (Jildiz) 11 جمال احمد صاحب.حضرت حافظ 759.332.331 بشارت احمد صاحب ماسٹر 221 بہاول شاہ صاحب.حضرت سید جمال الدین صاحب.میاں 509،291 بشارت صاحب بشن سنگھ سردار بشیر احمد 63 143 322 بشیر احمد بھٹی صاحب 665 752.751 جمال الدین صاحب.مولوی 291 بھاگ بھری صاحبہ 775،715 جمال الدین صاحب سیکھوانی 733 بی ایم سر کار ہیڈ ماسٹر.مسٹر 235 جمال دین صاحب بشیر احمد چوہدری صاحب.پروفیسر 807 پیر سراج الحق صاحب 376 جو مارٹ بشیر احمد صاحب.حضرت صاحبزادہ مرزا تاج حسین بخاری صاحب 329 753.584.458 تر اور (Traore) سلیمان صاحب 9 بشیر احمد صاحب.حضرت 69 تصور حسین صاحب صوفی 235 بشیر احمد صاحب بھٹی 322 تکتور بائیوسا گن بیک صاحب بشیر احمد میاں حضرت 168 بشیر الدین 169 63(Tokotorbaev Saghinbek) توحید احمد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد تہمینہ خلیفہ اسیح الثانی 101 ، 155، تھومس 715 711 جوناتھن دیبیر چراغ دین چراغ دین جمونی چراغ دین صاحب 321 699 782 325 644 324.317 چراغ دین صاحب.حضرت میاں 280 چند ولال آریہ حاتم 378.377 502 حافظ سعیدالرحمن صاحب 61 604،603 حاکم بی بی صاحبہ 230 169،167، 170 ، 190، 191 ، | ٹاہلی مولوی 0 حاکم علی 95.15 164
خطبات مسرور جلد دہم 33 حاکم علی صاحب.حضرت 268 خواجہ کمال الدین 126 حامد شاہ صاحب.میر 329 خواجہ محمد دین صاحب 15 خورشید عالم صاحب 447 حامد علی 323 حامد علی حافظ 294، 517،296 | خیر الدین.میاں حامد علی صاحب شیخ 283 خیر الدین حامد علی صاحب 798،741 خیر دین صاحب.حضرت 510 328.326 اسماء رحمت علی صاحب آف ڈسکہ 127 رحیم بخش صاحب.حضرت میاں 624 رحیم بخش صاحب 182 رحیم بیگ صاحب.مرزا 250 رزاق بٹ صاحب 630 529.528.510.509.227 حبیب الرحمن میاں حبیب صاحب پیر 294 681 796.756.755 رستم حما د ولی صاحب ( ماسکو ) 54 رستم علی خاں صاحب چوہدری 5 حسان بن ثابت.حضرت 590 داتا گنج بخش صاحب.حضرت 801 رستم علی صاحب 374.373 حسن.حضرت حسن نظامی خواجه حسین.حضرت 721 191 726.721 داؤ د احمد صاحب.صاحبزاده 63، 65 رسول جان 122 دی لیسی اویرے دین محمد صاحب.حضرت 751 596 رشید احمد صاحب چغتائی 48 رشید احمد صاحب گنگوہی مولوی 513 سرداران بہشت میں سے ہیں 730 دیوان شاہ صاحب 5 رشیدہ بیگم صاحبہ 303.302 48 رابعہ بیگم صاحبہ راغب - امام حسین بی بی 675 ڈاکٹر محمد عامر صاحب 78 رضوان احمد شاہد حسین علی شاہ صاحب.سید 638 ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر 226 رضوان صدیقی صاحب 577 644 حشمت اللہ صاحب.ڈاکٹر 620,619 ڈوئی.مسٹر حفیظ احمد صاحب.صاحبزادہ مرزا 448 | رستم حما د ولی صاحب 63 137.136 حکیم سلطان علی حمید الدین صاحب شمس 302 66 465 138 رفیع احمد صاحب.صاحبزادہ مرزا 613 رفیع احمد صاحب.مرزا 239 رفیق احمد صاحب حمید نظامی حوا مائی صاحبہ 193 671 را ویل بخاری.ایک رشین احمدی دوست رمضان صاحب حیدرشاہ صاحب.خلیفہ سید 680 کے قابل رشک اخلاص و وفا کے تذکرے روبینہ قدوس صاحبہ خالد احمد صاحب چوہدری 614 اور ذکر خیر 63050 روبینہ نصرت ظفر صاحبه 808 رلد و صاحب مولوی رام چندر جی مہاراج.راجہ 629 674 245 221 خالد صاحب خالد عزت صاحب 60 669 رجب الدین صاحب.خلیفہ 295 روشن علی.حضرت حافظ رحمت اللہ صاحب.حاجی 280 خان ملک صاحب.مولوی 374 رحمت اللہ صاحب.حضرت 512 روتھ کر مینسٹین خان ملک صاحب.مولوی 236 رحمت اللہ صاحب منشی 514 رم خدیجہ.حضرت 525، 572 ، 671 | رحمت خان جٹ خلیفہ رجب الدین 126 625 رحمت خان صاحب چوہدری 625 خلیل احمد صاحب.مرزا 239 رحمت علی خلیل احمد قمر مرزا 190 233 روسیولو پیز ریاض احمد 517.236.167 609 782 577 ریاض احمد بسراء صاحب 667 رحمت علی صاحب.ڈاکٹر 640 زین العابدین.قاضی 300،274
خطبات مسرور جلد دہم 34 اسماء زین العابدین صاحب.حضرت شیخ | شاہ دین صاحب قاضی 750 حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب 323.296.238 شاہ محمد صاحب زین العابدین صاحب ، مولوی 127 شبانه منظور صاحبه 665 715 حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب شبیر احمد صاحب.چوہدری 457 زینب.حضرت ساجده مقصود صاحبه 797.759.732 497 776 ساره بیگم صاحبہ.حضرت سید ہ 635 سپین گل صاحب ٹینلے لین پول 289 595 سراج بی بی صاحبہ.حضرت 299 خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ.681.633.520.458.54.54 707.682 شبیر احمد صاحب.چوہدری 456، 461 | طاہرہ ونڈرمین صاحبہ 392 شرافت احمد صاحب میاں 167 ، 168، طفیل بن عمرو دوسی.حضرت 130 333.169 طلحہ بن عبید اللہ 526 635 ظریف صاحب شکر الہی صاحب.حضرت 290 شمس الحق خان صاحب 239 ظفر احمد صاحب.مرزا 808 ظفر احمد منشی صاحب.حضرت 4 سشمس الدین 678 ظفر اللہ خان صاحب چوہدری 190، شمس الدین مولوی 625 سراج دین صاحب چوہدری 807 شمس الدین حضرت خواجہ 680 منشی سراج الدین 274، 301 شمس فخری صاحب.ملک 577 سردار بیگم صاحبہ سرورشاہ صاحب 239 743 سعد اللہ صاحب شیخ 235 سعد فاروق صاحب 744.663 193.192.191 ظہور احمد صاحب.خواجہ 612 ظہور الدین صاحب.حضرت میاں 276 شہاب الدین صاحب شیخ 750 ظہور حسین صاحب.پیر 680 شیخ اصغر علی صاحب.حضرت 618 عارف احمد گل صاحب 335 شیخ محمد افضل صاحب.حضرت 620 عائشہ.حضرت 496،492،473، شیخ محمد نعیم صاحب کا ذکر خیر 47 سکندر علی صاحب.حضرت مولوی 289 سلطان آف اگادیس نائیجر 172 شیر علی صاحب.حضرت مولوی 457 574.502 عائشہ بیگم صاحبہ.حضرت 457 صاحب دین صاحب.حضرت 278 عباداللہ صاحب.حکیم شیخ 757 سلطان احمد صاحب.مرزا 300 سلطان حامد صاحب.مولوی 617 صبا فاروق.ڈاکٹر سلطان علی 137 صبا کو جو 664 711 عبدالجبار غزه نوی، مولوی 125 عبدالحفیظ صاحب عبد الحق غزنوی صدرالدین صاحب.مولوی 300 عبدالحلیم 335 624 678 سلطان علی صاحب.میاں 234 سلطان محمودصاحب.مولوی 251 صدیق صاحب میاں 734 عبدالحکیم صاحب چوہدری.حضرت 251 سوفو جبرائیل سعید صاحب 705 صلاح الدین صاحب.پیر 350 عبدالحمید خان صاحب ڈاکٹر راجہ 666 صوفی احمد دین صاحب ڈوری باف 757 عبدالحمید خان صاحب کپورتھلوی 327 سوہنے خان صاحب.حضرت میاں 329 ضمیری بیگم سید عبداللہ صاحب بھاگلپور 302 شهر بن حوشب.حضرت 474 ضیاء الحق شازیہ کلثوم صاحبه 544 ضیاء الحق جزل طارق احمد صاحب 701 544 216 334 عبدالرب صاحب.صاحبزادہ 64 عبدالرحمن الجبالی صاحب 668 عبدالرحمن صاحب حضرت 624 عبدالرحمن صاحب.حضرت قریشی 653
خطبات مسرور جلد دہم 35 اسماء عبد الرحمن خان صاحب.حضرت مولوی 211 عبدالعلی صاحب.حضرت 321 عبدالرحمن عبدالرحیم درد 235 عبدالغفار 619 عبدالغفار صاحب.راؤ 544 عبدالرحیم.حضرت 673 191 ، 192 | عبدالغفار صاحب جراح 295، 322 عبدالرحیم صاحب بھٹی 322 عبدالغفار صاحب ڈسکوی267،226 عبدالرحیم صاحب نیر.مولوی 796 عبدالغفار صاحب رانا 544 156 268.151.149.148.145.15 508.373.290.277.275.741.680.622.576.515 742 عبداللطیف صاحب.صاحبزادہ 462 عبد الله 675.274 عبدالغفور صاحب منشی 232 ، 276 | عبداللہ صاحب.سید 302 126 عبدالرحیم فانی مفتی عبداللہ ، مولوی عبدالغفور صاحب مولوی 680 عبدالرزاق بٹ صاحب 630 عبدالرزاق صاحب.حضرت میاں 297 عبد الغنی شاہ صاحب سید 652 عبد اللہ بن عمر و حضرت 474 عبداللہ ٹونکی ،مولوی عبدالغنی صاحب.حکیم 132 عبدالرشید 243 عبدالرشید صاحب.حضرت میاں 797.150.148 عبد القادر سید عبدالقادر صاحب 679 635 عبدالرشید صاحب شیخ 242،164 عبدالقادر صاحب شیخ 807 عبدالرؤف 644 عبدالقادر صاحب لدھیانوی 514 عبدالقدوس عبداللہ خان 125 371 عبداللہ خان صاحب نواب 545 عبداللہ خان صاحب مولوی 757 عبداللہ صاحب.حضرت 279،227 عبدالرؤوف صاحب ماسٹر 643 عبدالستار شاہ صاحب.ڈاکٹر سید 511 ماسٹر عبدالقدوس شہید کا ذکر خیر.وحشیانہ عبداللہ صاحب 674 674 تشدد، ظلم و ستم اور ماسٹر صاحب کا صبر و عبداللہ کشمیری مولوی 795،143 عبدالستار صاحب عبدالستار صاحب.میاں 292، 374 استقامت، اے قدوس! ہم تجھے سلام عبداللہ مولوی صاحب 164 213 تا 219 | عبداللہ ندیم 223، 335 کرتے ہیں 653 عبد السلام قدوس شہید جیسی قربانیاں تو سینکڑوں عبدالمالک خان صاحب 442 عبد السلام صاحب.صاحبزادہ 63 چھلانگیں لگوانے کا باعث بنتی ہیں 220 عبدالمجید ، حافظ عبدالسلام صاحب 638 134 248 عبد القدوس.اے قدوس! ہم تجھے سلام عبدالمجید.میاں عبدالسمیع خان صاحب 712 عبدالسمیع محمد جلال صاحب 669 کرتے ہیں عبد الصمد خان صاحب.حکیم 132 عبدالقدوس مخلص اور فدائی احمدی 213 | عبدالمنان ناہید صاحب کا ذکر خیر 15 217 عبدالمجید خان صاحب 246، 255 302 عبدالصمد صاحب حکیم 805 عبدالقدوس ایک عام شہید نہیں ہیں 217 عبدالنقی صاحب عبد العزیز صاحب.حضرت میاں 509 عبدالقدوس صاحب شہید نہایت اچھے اور عبدالواحد صاحب.چوہدری 447 عبد العزیز صاحب.حافظ 457 عبد العزیز صاحب.راجہ 666 خوش مزاج طبیعت کے مالک تھے 22 عبدالواحد صاحب غزنوی، مولوی 131 عبدالعزیز صاحب 125، 291، 324 ، 332 عبد القدوس صاحب شہید 1968 ء میں عبدالوہاب عبدالعزیز صاحب اوجلوی.اخویم منشی 237 پیدا ہوئے عبدالوہاب صاحب شیخ 232 عبدالعزیز مغل میاں حضرت 150 عبدالکریم صاحب حضرت مولوی عبدالوہاب صاحب.مولوی 133 221 223
خطبات مسرور جلد دہم 36 اسماء عبد اللطیف صاحب ، صاحبزادہ 10 ، عماد فاروق صاحب 299.289.211.65.64.63 663 حضرت مسیح موعود نے فرمایا خدا کی خوشی عمر حضرت 161،721،73 حاصل نہیں ہو سکتی جب تک عارضی تکلیفیں عبید اللہ مرحوم حضرت 168 عمران صدیقی صاحب 577 نہ اٹھائی جائیں عثمان.حضرت 161 ، 723،721 عرفان احمد صاحب 48 عزیز دین صاحب.حضرت مولوی 324,299 عزیزہ نعمانه منظور عصمت اللہ صاحب عطار شیخ 715 66 803 عمران ناصر عمر بخش صاحب 666 619.294 عمر خطاب صاحب.حضرت ملک 511 عمر دین صاحب.حضرت ڈاکٹر 640،279 3 حضرت مسیح موعود کی دعا سے ایک صحابی کی تنخواہ 45 سے 120 روپے ہوگئی 4 حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ اللہ کے عمر و بن عوف حضرت 184 نزد یک وہ پیارے ہیں جو دین کو دنیا پر عمیر صدیقی عنایت اللہ افغانی 577 462 625 مقدم کرتے ہیں 34 حضرت مسیح موعود ایک صحابی کے بیان پر کھلکھلا کر ہنسے عطا محمد صاحب.حضرت شیخ 802 عنایت اللہ صاحب.چوہدری 744 عطا محمد صاحب.حضرت حکیم 757 عنایت اللہ مولوی عطا محمد صاحب مولوی صوفی.حضرت 254 - حضرت عیسی علیہ السلام 129، 133 ، متعلق وضاحت عطاء اللہ.میاں 638 137 حضرت مسیح موعود کا رب العالمین کے 91 738,674،513،359،197،151 حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ فتح کے عطاء اللہ خان صاحب راجہ 136 عیسی آسمان پر اُٹھائے جائیں 182 لئے متقی بنو عطاء اللہ شاہ بخاری 243 35 عیسی فوت ہو گئے.204 حضرت مسیح موعود کے نزدیک متقی بننے کے عطاء اللہ شاہ بخاری کا کہنا کہ اگر خدا بھی غزالی.امام 803 لئے ضروری امور 75 مجھے آکر کہے کہ مرزا صاحب سچے ہیں تو حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود حضرت مسیح موعود نے فرمایا صحابہ نے میں نہیں مانوں گا 244 عطاء اللہ صاحب.حضرت شیخ 640 عطاء اللہ صاحب 235 عطاء اللہ کلیم صاحب 711 عطية القدوس عقیل.ڈاکٹر 223 635 غلام احمد مرزا 143 و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام ایسے ہی خطاب حاصل نہ کئے تھے 3 حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ قرض حضرت اقدس نے مجھے جو ا با لکھا کہ آپ اتارنے کے لئے استغفار پڑھا کرو.29 یہ خیال مت کریں کہ فلاں احمدی ہو جائے حضرت مسیح موعود کے نزدیک حمد کے معنی 83 گا تو جماعت بڑھے گی 227 حضرت مسیح موعود کی فاتحہ کے متعلق وضاحت 82 علاؤالدین صاحب مولوی 62624 حضرت اقدس مسیح موعود کی خدمت حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ سلوک علی.حضرت 721،719،161، بابرکت میں لکھا کہ لوگ میرا پانی بند کی منازل طے کرنے کے لئے حضور کا 726.724 کرتے ہیں 227 کامل نمونہ ضروری ہے 21 علی شیر صاحب زیرہ.مولوی 672 حضرت مسیح موعود نے فرمایا مسیح ناصری کی حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ استغفار علی محمد صاحب علی محمد مولوی علیوایم با صاحب 244 167 561 بیعت بھی پہلے غریب لوگوں نے کی 330 اور تو بہ دو چیزیں ہیں 25 حضرت مسیح موعود نے فرما یا اخلاص اور اس حضرت مسیح موعود نے ایک زمانے میں کے احسان کو یاد کرنا چاہئے نماز میں 115 خاص طور پر جماعت کو یہ دعا (ربنا
خطبات مسرور جلد دہم اتنا) پڑھنے کی تلقین فرمائی 44 رہی ہے 37 350 اسماء حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ دینی حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ اصلی حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ : " غصہ کو مہمات کے لئے آگے آئیں 315 بہادر وہی ہے جو تبدیل اخلاق پر مقدرت کھالینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ حضرت مسیح موعود کا اقتباس میں نے پڑھا پاوے کرو 42 397 کی جوانمردی ہے 344 ہے جس میں آپ نے ارکانِ اسلام کا ذکر 207 حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ دوسروں حضرت مسیح موعود نے اسلام کے ایک فتح فرمایا کے لئے اپنے دل میں رفق اور نرمی پیدا مند جرنیل کی حیثیت سے اسلام کے حضرت مسیح موعود کی سچائی ہمارے لئے مخالفین کا منہ بند کروایا 98 اظہر من الشمس ہو گئی.252 حضرت مسیح موعود نے متقی بننے کے لئے حضرت مسیح موعود وہی مسیح و مہدی ہیں جن حضرت مسیح موعود نے تقویٰ کی ترقی کی ضروری امور فرمائے 313 کے آنے کی پیشگوئی تھی 204 طرف توجہ اور اُس کے لئے کوشش کو ہی حضرت مسیح موعود نے فرمایا تقویٰ کی حضرت مسیح موعود نے بھی ریا کی مثال دی اہم قرار دیا ہے.309 باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف ہے نقوش اور خوشنما خط و خال ہیں 312 حضرت مسیح موعود کی جماعت کے علاوہ تک استقامت نہ ہو بیعت بھی ناتمام 207 حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود کی اپنے صحابی کو نصیحت کوئی اور جماعت نہیں ہے جو حقیقی اسلام ہے.224 323 دنیا کے سامنے پیش کر سکے 316 حضرت مسیح موعود نے بیان فرمایا ہے کہ کہ حقہ چھوڑ دو حضرت مسیح موعود کی بیعت کرنے والے حضرت مسیح موعود کی بعثت کا ایک مقصد دنیا والے تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اگر اللہ زیادہ پوچھے جائیں گے 387 بلکہ بہت بڑا مقصد اس ہدایت اور تعالی سے تمہارا مضبوط تعلق ہے.217 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غیر مذہب شریعت کی اشاعت کا ہے جو آنحضرت حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ مامورین والوں کی مثالیں بھی دی ہیں کہ ان کا قول کی لے کر آئے تھے اور اُن کی جماعت کو زلزلے آتے ہیں.خدا نے خبر دی ہے کہ اسلام جھوٹا ہے 210 حضرت مسیح موعود نے اس زلزلہ عظیم کی 220 حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ خدا مختلف پیشگوئی شائع فرمائی تھی 248 حضرت مسیح موعود سے کئے گئے اللہ تعالیٰ لوگوں کو مختلف رنگ میں سمجھاتا ہے 211 حضرت مسیح موعود کا اقامة الصلوۃ کے کے وعدوں پر کامل یقین ہے.220 حضرت مسیح موعود نے جب ایک دفعہ جلسہ | متعلق ہدایت ملتوی کیا تو فرمایا 338 315 383 حضرت مسیح موعود 205 حضرت مسیح موعود کو ایسی جماعت عطا حضرت مسیح موعود نے یہ ضروری قرار دیا حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ : "دعا فرمائی ہے جو ثابت قدمی اور استقامت ہے کہ کبھی بھی کسی کو اپنے ہاتھ سے یا زبان بڑی عجیب چیز ہے 370 میں آج بھی غیر معمولی نمونے دکھانے والی سے تکلیف نہیں دینی 345 حضرت مسیح موعود نے جماعت کو نصیحت کی ہے حضرت مسیح موعود اپنے دعوے میں بچے 396 248 حضرت مسیح موعود کی قوت قدسی کی وجہ ہیں 204 کہ تہجد کو لازم کریں حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ ”اور خدا سے جو جاگ صحابہ میں لگی تھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ خادم کے وعدے بچے ہیں.ابھی تو تخم ریزی ہو اب تک اُسے جاری فرمایا ہوا ہے.248 | القوم ہونا مخدوم بنے کی نشانی ہے 343
خطبات مسرور جلد دہم 38 اسماء 413 حضرت مسیح موعود کے متعلق نازیبا الفاظ کہہ کر کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے کہ ہے ہمارے دلوں کو چھلنی کرتے ہیں 217 جب تک دشمن کے لئے دعا نہ کی جاوے آپ نے فرمایا کہ خدا اپنے پیاروں کے لئے بڑی غیرت رکھتا ہے 574 حضرت مسیح موعود کی بیعت کا حق ادا کر نے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتا 400 آپ نے فرما یا دلوں کو فتح کرنا ہے 564 حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ نوع آپ کی حضرت علی اور حضرت حسین سے 206 725 کی کوشش کی ہے حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ بیعت کرنے انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی کرنا مشابہت کی غرض کہ دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو 305 بہت بڑی عبادت ہے 349 آپ کا احسان ہے کہ ہمیں آپ کے حقیقی حضرت مسیح موعود حضرت مرزا غلام احمد حضرت مرزا غلام قادیانی علیہ السلام 671 اسوہ اور اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی قادیانی نے دعوی کیا ہے کہ وہ مسیح آنے آپ نے فرمایا کہ اکثر انبیاء علیھم السلام طرف رہنمائی فرمائی ہے 490 آپ کا فرمانا کہ اسلام کی فتح ہوگی 660 کچا دودھ ہی پیا کرتے تھے 638 آپ نے نصیحت فرمائی کہ جو چیز قبلہ حق آپ کا فرمانا کہ حمد اس تعریف کو کہتے ہیں حضرت مسیح موعود کے اس ارشاد کو ہر وقت سے تمہارا منہ پھیرتی ہے وہ تمہاری راہ میں جو کسی مستحق تعریف کے اچھے فعل پر کی والا میں ہوں 241 سامنے رکھنا ہوگا کہ قرآن کریم کے سات بت ہے 455 جائے 434 سوحکموں میں سے ایک حکم کی بھی نافرمانی آپ نے جلسوں کا انعقاد کر کے ہمارے آپ نے فرمایا کہ خدا کے نبیوں کا امتحان لئے برکات کے راستے کھولے ہیں 406 لینا اچھا نہیں ہوتا نہ کرو 205 648 حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ نماز میں اپنی آپ فرماتے ہیں کہ راتوں کو اُٹھو اور دعا آپ کے دعوی سے پہلے اسلام کی حالت زبان میں بھی دعائیں کرنی چاہئیں 300 کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو اپنی راہ دکھلائے 541 دیکھ کر لوگوں کا ایک شاہد کی ضرورت محسوس آپ فرماتے ہیں نا انصافی پر ضد کر کے کرنا حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں نماز سے سچائی کا خون نہ کرو 454 656 آپ فرماتے ہیں خدا کے نزدیک بڑا وہ 413 آپ فرماتے ہیں انسان کے دل میں خدا آسمان انسان پر جھک جاتا ہے 390 آپ نے بتایا صرف ظاہری سجدوں پر ہے جو متقی ہے حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ اب خدا کا امید رکھنا طمع خام ہے 407 امیدرکھنا ارادہ ہے کہ ان کی تخم ریزی ہو 116 آپ نے خشیت اور اسلام کو ایک چیز قرار تعالٰی کے قرب کے حصول کا ایک درد ہونا حضرت مسیح موعود کا جماعت کو نماز کے دیا متعلق نصیحت 386 469 چاہیے 480 آپ نے واضح فرمایا ہے کہ اگر میرے آپ فرماتے ہیں جس قدر کوئی تقویٰ کی ساتھ رہنا ہے تو لغویات اور ذاتی دقیق را ہیں اختیار کرے اُسی قدر خدا تعالیٰ کے نزدیک اُس کا زیادہ مرتبہ ہوتا ہے 413 خواہشات کو چھوڑو 411 حضرت مسیح موعود کی جماعت میں تب سچ شامل ہوں گے جب سچ مچ تقوی کی آپ نے فرمایا یاد رکھو، جب اللہ کوکسی نے آپ فرماتے ہیں کہ حقیقی علم وہ ہے جو اللہ راہوں پر قدم مارو گئیں 390 چھوڑا تو خدا نے اُسے چھوڑ دیا 539 تعالٰی محض اپنے فضل سے عطا کرتا ہے 469 حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ دینی آپ فرماتے ہیں مسلمان وہ قوم ہے جو آپ فرماتے ہیں تقویٰ اور خدا ترسی علم مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کر و 310 اپنے نبی کریم کی عزت کے لئے جان سے پیدا ہوتی ہے حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ تم پیر بنو، پیر دیتے ہیں پرست نه بنو 388 حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ بنی نوع انسان | 563 471 آپ فرماتے ہیں عالم وہ ہوتا ہے جو اللہ آپ نے فرمایا کہ نجات نہ قوم پر منحصر ہے تعالیٰ سے ڈرتا ہے 472 نہ مال پر، بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف آپ فرماتے ہیں مجھے تو خوشبو آتی ہے کہ
خطبات مسرور جلد دہم آخر کار فتح ہماری ہے 416 39 376.244.230 مہمانوں کی مہمان نوازی کا اہتمام 531 غلام رسول صاحب.مولوی 95 صاحب.مولوی95 آپ فرماتے ہیں یاد رکھو لغزش ہمیشہ نا دان کو آتی ہے 470 سیح دین مولوی فتح علی شاہ 143 اسماء 330.329 غلام رسول صاحب بسراء 667 فتح محمد صاحب.حضرت چوہدری 737 غلام رسول صاحب را جیکی ، حضرت 800 | فراس محمود صاحب آپ نے فرمایا شہید کا مقام یہ ہے کہ وہ اپنے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے اور غلام رسول وزیر آبادی حافظ یقین کرتا ہے 765 فرعون 548 301 غلام غوث صاحب.حضرت ڈاکٹر فضل الہی صاحب 320 ، 331 فضل الرحمن خان 275.298 آپ نے فرمایا شہید کا مقام تب ملتا ہے غلام قادر صاحب، مرزا 545 جب انسان تکلیف برداشت کر کے خدا کی عبادت کرے 767 680 فضل الرحمن صاحب 684،680 غلام قادر صاحب میاں 138 فضل الرحمن صاحب.حضرت مفتی 320 فضل اللہ طارق صاحب 713 غلام محمد 491.234 169 غلام احمد صاحب بافندہ، میاں 624 غلام الہی 643 غلام محمد حافظ فضل دین صاحب رم فضل دین صاحب غلام محمد صاحب.میاں حضرت 230 تا 233 | غلام الہی صاحب مستری 643 غلام محمد صاحب غلام محمد کشمیری غلام اللہ صاحب.مرزا 639 643 630 غلام حسن صاحب،مولوی 129 غلام محمد گوندل.مولوی 278 غلام حسن صاحب.حضرت مہر غلام محمد مستری 48 376 فضل دین صاحب بھیروی.حکیم فضل دین میاں فضل دین میاں فضیل 750.737 168 743 468 182، 802،801 | غلام محمد میاں 250 153 غلام حسین 323 324 غلام محی الدین صاحب.میاں 529 فقیر محمد صاحب افغان 299 625 غلام مرتضیٰ حضرت غلام حسین چوہدری غلام حسین صاحب.ملک 284,268 غلام مصطفی.غلام حسین صاحب مہاجر ، ملک 803 غلام نبی غلام دستگیر صاحب حضرت 125 ، 392 غلام یسین صاحب غلام رسول.میاں غلام رسول ، مولوی غلام رسول غلام رسول بسراء 295 127 491.136 278.164 143 491 491 392 فہمیدہ منیر صاحبہ.ڈاکٹر 632تا634 فیروز الدین صاحب ڈسکوی 328 فیروز خان صاحب.چوہدری 280 فیروز دین.مولوی 227 غوث محمد صاحب.مولوی 235 فیض دین صاحب، مولوی 129 ، 182 غوث محمد مولوی 154 قادر بحش صاحب.میاں 673 فاروق احمد صاحب کا اہلوں 663، 744 | قادر بخش صاحب - مستری 805 فاطمه 674 قاسم علی صاحب.میر 805،743 فاطمه بی بی 169، 671 | قائم الدین صاحب.حضرت 621 غلام رسول را جیکی مولانا حضرت 153 ، فائزہ منظور 327.255.167 فتح بیگم صاحبه غلام رسول صاحب حافظ 136 ، 168، فتح دین صاحب 715 94 302 قدرت اللہ صاحب سنوری 69 قدسیہ بیگم صاحبہ صاحبزادی.545 قطب الدین با با آف مالیر کوٹلہ 803
خطبات مسرور جلد دہم قطب الدین صاحب 333 لیکھرام پنڈت قمر الدین صاحب.مولوی 270 ماس مسٹر قمرالدین صاحب قاضی.حضرت 5 مالک بن ابی عامر قمر صاحب کاشف احمد دانش 783 745 40 ماموں خان حضرت مانا صاحب 148 782 526 147 147 اسماء محمد احمد صاحب مظہر.حضرت شیخ 245 محمد احمد صدیقی صاحب 577 محمد احمد میاں صاحب 4 محمد اسلم صاحب.شیخ 47 محمد اسمعیل خان صاحب.ڈاکٹر 639 کالے خاں صاحب میاں 147 مائی کا کو صاحبہ.حضرت 270 محمد اسمعیل حضرت میر 613،350،321 629 مائیکل ایچ ہارٹ 606 محمد اسماعیل شیخ حضرت 166، 291، کرشن جی مہاراج کرم الہی صاحب شیخ 757 مبارک احمد صاحب 374 کرم داد خان صاحب سردار 747 مبارک احمد صاحب میاں 221 محمد اسماعیل صاحب جلد ساز 673 کرم دین جہلمی 291 644 301.299 مبارک احمد صاحب شیخ 110 ، 630 محمد اسماعیل منشی صاحب سیالکوئی 15 کرم دین صاحب، چوہدری 675 مبارک احمد صاحب 681،334 محمد اعظم صاحب.ماسٹر 560 کرم دین مولوی کریم الدین صاحب.حضرت 748 مبارک احمد صاحب حافظ 236 محمد افضل صاحب شیخ 757 ، 758 محمد افضل صاحب " - سید 239 مبارک احمد ظفر صاحب 96 کریم بخش عرف بکرا 151 کسری اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک طاہر صاحب 630 محمد اکبر خان صاحب سنوری 268 مبشر احمد ظفر صاحب 96 محمد اکبر صاحب.میاں 665 مجددالف ثانی.حضرت 759،679 محمد اکرم صاحب.ملک 560 مجیب الحق خان صاحب.ڈاکٹر 239 محمد ا کرم صاحب، چوہدری 138 مجید احمد صاحب.صاحبزادہ مرزا 547 محمد الدین صاحب.حضرت میاں مجیده شاه نواز صاحبہ 614 گرفتاری کا حکم نہ دیتا 221 کلیم خان صاحب کلیم خاور صاحب کمارا صاحب 303 50 8 736.734 کمال الدین.خواجہ 230 ، 280، محب الرحمن صاحب.حضرت 294 محمد بخش ڈاکٹر حضرت 147 محبوب احمد صاحب.مولوی 805 محمد بخش صاحب 322.300.295 331 کو توتر اولے(Kuto Trawally)8 محبوب احمد صاحب مولوی 135 محمد بن صالح صاحب 711 کیرن آرم سٹرانگ 608،607 محبوب عالم صاحب.حضرت منشی قاضی محمد حسین صاحب 544 گاڈ فرے گاڈ فرے بلوم گامے خان صاحب گردھاری لال 610.609 728 672 377.152.151.150.126 محسن محمود صاحب 799.798.514.281 685 حضرت محمد مصطفی سانی لیا کہ تم.گلاب خان صاحب 250 دیکھیں آنحضرت سلی در ایام محمد تقی صاحب.مولوی 619 محمد جلال الدین خان بہادر 225 محمد حسن او جلہ والے 233 محمد حسن صاحب.مولوی 233 محمد حسین بٹالوی ، مولوی 125، 165، گلاب دین صاحب مینشی 803 محمد احمد خان صاحب.ڈاکٹر 462 463 | 198 ، 512،376،227 لا مانٹین 605 محمد احمد صاحب.سید لیاقت علی خان مسٹر 192 239 محمد حسین صاحب 144 ،241
خطبات مسرور جلد دہم 41 اسماء محمد حسین صاحب.چوہدری 241 محمد عبداللہ صاحب جلد ساز 673 مقصود 776 محمد حسین صاحب مرہم عیسی.حکیم 292 محمد عبد اللہ صاحب مغفور.مولوی 645 میم صاحب 227، 796،755،753 محمد حیات صاحب موگا شیخ 672 محمد علی بو پڑی 164، 167 ،242 مستوفی صاحب لاڑی 225 محمد علی جناح قائد اعظم 191 حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ ایسیح الخامس محمد خان صاحب 327 محمد خانصاحب گوندل.چوہدری 278 محمد علی جو ہر مولانا محمد دین 735 190 محمد علی شاہ صاحب سید مولوی 749 ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 582 مسرور مسعود احمد صاحب مسیتا شیخ مسیح ناصری 776 715 299.166 330 133 محمد دین صاحب.حضرت نواب 614 محمد علی صاحب.حضرت 672 محمد دین صاحب.مستری 302 محمد علی صاحب.مولوی 300 محمد رضا کل صاحب.سید 666 محمد علی صاحب چوہدری حضرت 164 محمد سیف خان صاحب 303 محمد علی صاحب حکیم شاہی طبیب 162 163 محمد فاضل 623،622،617، 755 مشرق علی صاحب ماسٹر 66 محمد شاہ سید 147 ،148 محمد منور صاحب.حضرت مولانا 630 مصور احمد، شیخ محمد شاہ صاحب.حضرت 670 745 محمد منیر شش صاحب محمد شریف صاحب چوہدری 614 مشتاق علی مولوی 110 مظفر احمد صاحب سید.ڈاکٹر 239 48 محمد شریف صاحب کشمیری.میاں 733 محمد موسیٰ صاحب حاجی 275، 295 | مظفر اقبال صاحب محمد شفیع صاحب.صاحبزادہ 63 محمد موسی میاں 150 151 | مظفر شاہ صاحب.پیر 236 محمد نذیر فاروقی صاحب 238 معاویہ.حضرت 192 محمد شفیع (مش) محمد صاحب.مولوی 225 محمد نواز خان صاحب 371 560 719 معراج الدین صاحب.میاں 277 محمد صادق صاحب مفتی 133 ، 134، 225، محمد نواز صاحب معراج سلطانہ صاحبہ 462 محمد ہاشم سعید صاحب 518 مقبول احمد ظفر صاحب 461 324.233.168 محمد یوسف صاحب ، قاضی 754,619 مقصود احمد آف نواب شاہ کی شہادت اور محمد طفیل خان صاحب ڈاکٹر 235 155, 156 محمد ظریف صاحب 637 محمد یوسف صاحب حضرت 138 ، 228،146 | ذکر خیر محمد شاہ محمد ظفر اللہ خان صاحب 333 محمود شاہ واعظ محمد ظہور الدین صاحب 232، 274 ،300 محمود صاحب 371 167 686 مقصود احمد صاحب 775،761 ملک خان صاحب.حضرت 289 منصور صاحب 663 775.715 محمد ظہور الدین صاحب.میاں 759 محمد عالم صاحب 241 محمود عالم صاحب.سید 518،514 منظور احمد صاحب محمد عبدالعزیز صاحب.مولوی 645 محمود ونڈرمین صاحب 392 محمد عبد اللہ صاحب حضرت مولوی 625 مختار صاحب 288 محمد عبد اللہ صاحب.حضرت ڈاکٹر 510 مدد خان صاحب.حضرت 290 محمد عبداللہ صاحب.مولوی 645 محمد عبد اللہ صاحب مرتضی خان مریم سلطانہ صاحبہ 674،154 | مريم 757 671 منظوراحمد صاحب.قاضی 274 منظور احمد صاحب.خواجہ 612 منظور احمد صاحب گوندل چوہدری 744 منور احمد صاحب منیب احمد 239 140.138 462 463 | منیر احمد بسراء.چوہدری 667
خطبات مسرور جلد دہم منیر الهادی منیر جاوید صاحب منیر جسٹس موسیٰ.حضرت 711 653 193 501 42 775 نبی بخش صاحب.صوفی 678،640 | نواب خان صاحب نبی بخش صاحب چوہدری 457، 748 ، 749 نواب محمود ونڈرمین صاحب 392 نبی بخش صوفی صاحب 4 نواز صاحب.چوہدری شاہ 614 نبی بخش میاں مولا بخش صاحب.حضرت ماسٹر 619,294 نجم الدین صاحب مولا دا دصاحب حضرت 677 مولا بخش بھٹی چوہدری 625 مہاتما گاندھی رض مهتاب بی بی صاحبہ مهتاب خان 596 221 248 نذر النساء صاحبہ 235 326 303 اسماء حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ.300.293.235.149.145 نذیر حسین صاحب ماسٹر 292 ، 144 374،373،333،331،328، نذیر حسین صاحب دہلوی.مولوی نذیر صاحب راجہ نسیم خان صاحب 645.125 155 303.517.511.509.508.462.753.741.644.638.624 خلیفہ اول کا اطاعت کا نمونہ 332 مهدی حسین صاحب میر 268 ، 325 376.327 مہر علی صاحب مهر رلد و 296 242 حضرت خلیفہ نور الدین صاحب سکنہ نصر اللہ خان صاحب پلیڈر چوہدری 227 جموں 131 ، 227 328، 371 نصر اللہ خان صاحب 333 نورالدین صاحب شیخ 270 نصر اللہ خان ناصر صاحب 591 ،594 نورالدین صاحب.میاں 734 ،736 میاں خانصاحب گوندل 278 حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ نور احمد صاحب کا بلی.میاں 276 میاں شادی خان 226، 320، 321 میاں عبداللہ خان میاں گل صاحب میر خان صاحب المسیح الثالثة 241 226 463 328 756،651،649،520 | نور احمد لودھی مولوی نصرت جہاں صاحبہ ڈاکٹر 634 نور محمد صاحب.حضرت 225 نصرت محمود صاحب 746،744،663 نور محمد صاحب 758،755،617 نصیر احمد صاحب ، شیخ 110 نور محمد صاحب.چوہدری 547 حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ نصیر احمد صاحب ایڈووکیٹ 65 نور محمد صاحب.مولوی 673 ناصر احمد ناصر احمد صاحب 705.681.633 461 316 ناصر شاہ صاحب.حضرت سید 319 ناصر نواب صاحب.حضرت میر نصیر الدین صاحب 302 نوید احمد صاحب 576 نظام الدین.مرزا 237 ، 267 ، 283 نیاز محمد صاحب.حضرت ملک 639,280 نیک محمد صاحب نظام الدین صاحب ٹیلر 229 نظام الدین صاحب 323،321، 331 ย واشنگٹن ار ونگ وحید الدین صاحب 619 600 302 626،506، 794،674 | ودھاوے خان صاحب 252، 293 نظام الدین صاحب.حضرت نظام الدین صاحب.مرزا 737 ورقہ بن نوفل ورنر آرمنڈ نعمت اللہ خان چوہدری 163 ناصرہ صاحبہ 517.321.298 635 ناظر الدین صاحب 302 نبی بخش صاحب حافظ 235 ، 269 نواب الدین میاں نبی بخش صاحب.میاں 674 572 790 نعیم احمد گوندل صاحب.چوہدری 447 وزیر محمد خان صاحب میاں 298 159 حضرت صاحبزادہ مرز ا وسیم احمد صاحب 303.302
اسماء 595 Spanhemius 43 608 Annie Besant 303 خطبات مسرور جلد دہم و سیم خان صاحب 595Stanley Lane-Poole | 597Sir John Bagot Glubb 603 Sir Thomas Carlyle 599.598Bosworth Smith ولایت شاہ صاحب سید 638،626 ولی اللہ صاحب.حضرت 281 603.601 ولیم میور 791 Wolf Walther | Mr.Charles Tannock, 791 وولف والتهر 786 Mr Tunne Kelam 785 MEP 600 Washington Irving | 784 Mr Christian Mirre 156 790 Werner Amend 787Claude Moraes (MEP) 671 598William Montgomery 596 De Lacy O'Leary 9 601Sir William Muir 610Edward Gibbon 19 781 Fouad Ahidar 329 782 Mr Godfrey Bloom 281 596 609 Godfrey Higgins H.G.Wells 595 711 597John William Draper 328.146 782Jona Than Debeer 228 699 Joomart وے مریم کو ریا باہ صاحبہ 561 ہاجرہ بیگم ہاجرہ مائی صاحبہ ہارون صاحب باشم صاحب باشم علی سنوری گرد ہدایت اللہ.بابا ہیمس یعقوب بیگ صاحب.مرزا 300،277 یوز آسف یوسف 781 Jorge Koho Mello 783 Jose Maria Alonso 597 Justinian 784 Ivan Bartolo 607 Karen Armstrong 605 Lamartine 785Mr.Marco Tiani 782 Mr Mass 785Mont Le Jolie 782 Rocio Lopez 609Ruth Cranston 783 Santiago Catala
مقامات 44 خطبات مسرور جلد دہم مقامات آسٹریلیا ،13، 59، 108، 138 ، 740،737،623،576 708.696.344.140.139 اوفن باخ امریکہ 12،6، 14، 95، 106 ، اونچا مانگٹ 697 48 آغا خان ہسپتال ( کراچی )744 ، 578 240، 298، 344، 380، 382 ایچی سن ہسپتال لاہور 632 آکسفورڈ 698 آئیوری کوسٹ 693،48،9 آئرلینڈ 699.693.13 آندھرا پردیش 14 ،698، 701 آگادیس (Agadez) 172 آگرہ آسام ابدال آباد ا پرویسٹ غانا اتر پردیش احمد یہ چوک احمد یہ ہال کراچی اڑیسہ اسٹونیا اسرائیل 146 66 464 694 14 295 545 698.14 786 731 424،422،419،418394،386 ، | ایدرس 430.428.427.426.425.446.441.440.438.437.431.570.569.567.566.550.467 696 665.579.577.575 779.745.708.697 221 697 ایڈمنٹن ایر دھرم ساله ایران ایسٹ کلمنتان 159 698 249 109.106 392 امیر پارک ان لینڈ ایشیا 6 ، 576،575،569،108، 778.693 باجوڑی چار کوٹ کشمیر 666 انٹر نیشنل سینٹر مس سا گا 405 بتھاری 6 انڈونیشیا 13 ، 109 ، 211 ، 344 ، بٹالہ 235 ، 252، 274، 696.662.558.391.285.282.279.276.275.373.332.324.294.292 انڈیا، حیدر آباد دکن میں احمدیت مخالف رو اسلام آباد 14 ، 56، 697،201 افریقہ 13،6،4، 71 ، 108، 275،241 ، اور دعا کی تحریک انڈیا 6، 13، 14، 66، 124، 696.693.317.303.144 701.699.698 6 برانگ اہا فر ریجن برطانیہ دیکھیں انگلستان برطانیہ برسلز 787،784،782،781 برکینا فاسو بورکینا فاسو 696،71،13،9 انگلستان / انگلینڈ برطانیہ 12 ، 13 ، 803.680.679.637 124 بدین 697 705 698 14 698 598 289 برمنگھم سینٹرل بروملی بریشن فلاور ٹاؤن بسراواں.392.344.190.110.14.588.583.550.532.520 696.632.631.619.550.459.344.230 778.714.696.694.693.641 666.462.146 694.705 افغانستان اکرا شہر امرتسر 146، 159، 252، 270،.377.296.295.298.285 اور مانگو 713 اورنگی ٹاؤن ضلع کراچی 447
خطبات مسرور جلد دہم بلانی ( بولانی ) تحصیل کھاریاں ضلع بیت الظفر گجرات 736 بیت الفتوح بلدیہ ٹاؤن کراچی 666،665،663 | بيت الواحد بلغاریہ 364.363 بیروت 45 685 698 111 501.83.37 مقامات پاکستان کے احمدیوں کے لئے خصوصی دعا کی تحریک 448 پاکستان کے لئے دعا کی تحریک 717 بلوچستان 146،78، 225 226 بیلجئیم 13 ، 696، 782،781 ، | ہونے پر دعا کی تحریک 761 بمبئی بنگال بنگرو بنگلہ دیش بنوں بو بوشهر بورن متھ بوسنیا بولے بہاولپور بہاولنگر بہشتی مقبره قادیان بہلول پور بھائی دروازہ بھارت بھاگو بھاگووالہ بھٹیاں گوت بھیره بھینی بھا نگر بھیں 146 698.66 9 693.692 63 787.784 بینگلور بینن پارہ چنار 15 پاکستان میں احمدیوں کے حالات تنگ پاکستان میں مخالفین احمدیت کی النبی پکڑ اور ذلت کے سامان ہورہے ہیں 800 10 ، 13 ، 172 ، 696 جماعت احمد یہ ان لوگوں سے زیادہ وطن 680 سے محبت کرنے والی ہے.یہ تو دونوں پاکستان، انڈیا اور دیگر علاقوں میں احمدیہ ہاتھوں سے ملک کو لوٹ رہے ہیں 439 جماعت احمدیہ کے خلاف مخالفانہ سکول مخالف کوششیں اور خدا تعالی کی تائید و نصرت کے ارادے 210 خصوصاً پاکستان میں حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی حالت.سکولوں میں بھی امتیازی پاکستان 12، 42،19، 106،95،78،47 سلوک پٹ رنگاں محلہ 658 144 56 پٹیالہ 758،620،619،329 218، 230 ، 262، 301 ،314، پر کینا نور ٹاؤن کیرالہ 698.446.426.380.344.316.315.539.532.523.520.470.456 پسرور تحصیل پشاور 552،547، 592،578،568، 611، پنجاب 666 697.680.146.146.133.48.14 698 364 713.140.138.127.126.124.109.697.678.547.193.191.190.166.154.152 697.14 217.213.211.210.201.199 303 744 144 14 249.508.269.236.193.190.662.660.658.653.630.613 705.698.680 729.719.717.715.711.696 143 155 771،761،748،744 ،800، 808 | پنڈی بھٹیاں پاکستان اور دیگر جگہ پر اسلام پسندوں کی پنڈی شہر عملی حالت کا شرمناک جائزہ 201 پھالیہ 643.235 289 644 2 پاکستان سے آکر اسائیلم لینے والے پھگواڑہ بیت الحمد بلدیہ ٹاؤن 744 احمدیوں کو نصیحت کہ سچ بولیں 771 پھگواڑہ سٹیشن بيت الدعا بیت الرحمن 288 426 پاکستان کے احمدیوں پر مظالم.دعا کی پیس ولیج ایسٹ تحریک 544 215 684.682 154 281 280 698 پیس و پیج 446،445،444،427 بئر روحاء
خطبات مسرور جلد دہم پیس ویچ سینٹر پیس و پیج ساؤتھ پینگاڈی تا تارستان تارا گڑھ متامل ناڈو تحریک جدید ( دفتر ) ترکی 698 14 698 جلال پور شریف جلنگهم 46 236 110.14 حديدية 602 حدیقۃ المہدی آلٹن 534 جموں 131 ، 146 ، 162 ، 237، حلقہ بلدیہ ٹاؤن 666 371.328.322 59.55.52 159 698.14 461 364 جموں و کشمیر جنوبی امریکہ جنیوا سوئٹزرلینڈ 698.14 693 781 مقامات گان حمیرا ٹاؤن حلقہ مشن جامی 576 حیدر آباد 14، 698،697،681،635 حیدر آباد دکن خانه والی 124 230 جہلم ،229، 254 ، 255 ، 284، خانہ کعبہ 130 ، 259، 519 تلونڈی عنایت خان تحصیل پسرور 285، 286 ، 507،297، 675، خانیار محلہ 329.328.146 ضلع سیالکوٹ تنزانیہ ٹرینیڈاڈ ٹل ضلع کو ہاٹ ٹوکیو 803.676 614.241 ٹونگا نیچی مان تمن را جگان جاپان جالندھر جامعہ احمدیہ جرمنی 696 711 462 808 707 705 137 808.696.66 280 780 جھنگ جھنگڑ گلوتراں جھول خانپور چارے کارنعمانی چاکیواڑہ چک نمبر 99 شمالی چناب چنانی چنائی تامل ناڈو 94 215 138 146 544 278 651 15 698 خانیوال خوشاب خیر پور دار الانوار محله 697 78 155 296 دار الرحمت شرقی 221 222 ، 293 دار الصدر درائے آئیش دتی/ دیلی دنیا پور 221 697 756.698.517 47 چنیوٹ 461،317،215 دہلی 14 ، 132 ، 133 ، 146، 161 دھرم سالہ چھاؤنی 143 ، 250، 251 جامعہ احمد یہ ربوہ 545،391 | چونڈہ 623 دھرم کوٹ جامعہ احمدیہ قادیان جامعہ احمد یہ کینیڈا 236 444 چہور مغلیاں شیخوپورہ 663 ڈار مشٹر 233.143 697.14 چھاؤنی میاں میر فوج 512 ڈاکخانہ شرقپورضلع شیخوپورہ 645 جامعہ احمدیہ یو کے 335، 555 چھاؤنی چتونگ جرمنی جزائر جلال آباد 336.60 14.13.362.361.357.344.339 614549.365.363 789.787.780.712.697.696 778.707.576.108 146 چین 147 698 587 ڈٹس باخ ڈرہم 697 14 ڈسکہ 226.127 چینیاں والی مسجد 281،237 | ڈنمارک حاجی پور حافظ آباد حامد محلے کا نام 281 48 135 ڈیٹرائٹ ڈیرہ غازی خان ڈیفنس 564 697.14 716.244 240
خطبات مسرور جلد دہم را جوری ریاست را چک راؤن ہائم ساؤتھ 136 234 697 ساندرا شہر سانگھڑ ساؤتھ ہال 47 697.681 14 مقامات.297.249.242.241.221.592.457.371.349.329 744.697.625 639، 680، 681، 682، 683، ساوتھ ریجن راولپنڈی 14 ، 16 ، 146 ، 352، ساؤتھ پیسیفک 705 تا 707 سیالکوٹ چھاؤنی 14 736 سی امیل (Seatle) 14 719.697.644.684 ساہیوال 775،715،614 سیتا لینڈ 695 اسبی 146 ربوه.155.94.47.14.13.221.215.216.214.213.611.592.532.458.335.317 697.664.653.633.632.614 168 697.547 95 15 797 511 697.14 14 رنے والا رحیم یارخان رسول نگر رشی نگر رعیہ رعیہ ضلع سیالکوٹ روڈ ر مارک روڈ با گو سیٹلائٹ ٹاؤن 716.715 سین 783،782،698،693،609،364 سیرالیون 8، 632،47،13، سرائے نورنگ سرائے عالمگیر ضلع سرحد 64.63 619 146 808.696 سیر یا سیکھواں 548 روس رشیا 55،54،50، 106،61،59 ایک رشین احمدی دوست را ویل بخاری کے قابل رشک اخلاص و وفا کے تذکرے اور ذکر خیر روضه بل 63050 146 سکندرآباد سلطان حمود شیشن سلیکون ویلی 678 698 701 241 697.14 سماڑا سرکل راجھستان 701 سندھ.592.448.155.69 شاه نشین شاہی باغ شکاگو شمله شیخو پوره شیفیلڈ 96 146 14 147.146 697.262.14 560 طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ 545،214 سرگودھا 14 ، 94 ، 612، 697 سیکھواں ضلع گورداسپور 528،509،317 سرہند سٹیشن سرے ایسٹ سعد اللہ پور سعودی عرب سکر شکر سکنتھو رپ 300 698 154 سینٹرل ریجن (Ekotsi) 694 سینیگال شام 13 806.462.109 109 ، 518 شاہ تاج شوگر مل منڈی بہاؤالدین 744 رہتاس 809،803،286،284 ریتی چھلہ ریجن لنڈن ریڈ سٹڈ رینیز پارک زیره ساموآ 279 698 791.790.697 698.14 167 707 سنگا پور 666.614 558 طلیطلہ (سپین) طوالو سوات 146 ،719 | ظفروال سوڈان سولومن آئی لینڈ 109 707.706 عالم گڑھ عباسی شہید ہسپتال 782 716.707.705 241 630 744 719 سوئٹزرلینڈ 9، 10 ، 13 ، 696،699 | عراق سیالکوٹ 14، 15، 146 ، 164، عرب 42، 106، 108، 126 ،
مقامات 708.707 641 641 کرغستان کرناٹک کرونڈی کریالہ 719.697 699.11 698.14 155 803 کریباتی 714،713،706 کر بیاس کریگوسٹیشن کسو مو ضلع.197.162.146.136 371.329.291 751.698.146.66 695 14 783 697 461 612 742 705 15 697 14 697 463 146 کلکتہ کمپالہ کنانور ٹاؤن کنٹا بریہ (سپین) کوبلنز کوٹ محمد یار کوٹ مومن کوٹھی نہر ہر چوال کورلیگو ہسپتال کولکتہ کولمبس اوہائیو کولون کولون کو ہاٹ کوه مری 48 خطبات مسرور جلد دہم.249.248.246.244.237.235.501.260.199.144.141 276.275.274.267.252.250.603.600.599.506.502.285.282.282.280.279.277.722.696.662.608.604 €295.294.293.291.290.289 778.321.317.303.302.300.299 516.373.371.330.329.323.322 697.14.508.507.462.457.392.375 622.517.516.515.514.512.511 705.698.630.623.622.621.620.613.528 698.641.639.638.637.628.624 587.663.647.646.645.644.643.712.698.674.673.672.665 7.751.750.74.742.741.715 713.708.705.759.758.757.756.755.752.802.801.800.793.775.760 14 808.806.804.803 697.14 61.59 62.55 78 233 749 146 15 57 14 693 697.14 697 14 167 221 698.14 285 249 قازان قازقستان قائد آباد قرعه قلعہ صوبہ سنگھ کابل کارونا گا پلی کازان کالی کٹ کامونکی فیلتم (Felthum) 111 ، 124 کانگڑہ قادیان فضل عمر ہسپتال ربوہ 214، 633،632 فضل مسجد فلپائن فلڈا علی گڑھ شہر عمرکوٹ غار ثور غانا فارافینی ایریا فارس فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور 632 فاناریجن فرانس 785،782،696،694,580,567 فرید برگ فرینکفرٹ فلوز بائم فلونز رہائم فیروز پور فیروز والا فیصل آباد 697،245،138،14 کپورتھلہ 327،257،256،147 کوئٹہ 146 ،192، 239،225، 697، 145،143،108،15،14،5،4 146 ، کراچی 6 ، 13، 14، 48، 146، کویمبٹور.155.154.152.149.148.146.233.232.231.229.167.163 777.775.761.719.714 699.698 15 277، 577،576،560، 592، کوئمتبور.666.665.663.661
خطبات مسرور جلد دہم کہروڑ ضلع لیہ کھر پر کھیر انوالی کھیڑی 334 168 147 163 49 714.713.711.709.706 لوہ چپ گھٹیالیاں 164 ،668،667،661،652 | لي گھنو کہ منگلہ 169 169 لیما کارا کیپیٹل بل (Capital Hill) امریکہ گیمبیا 710,698،696،561،8 | لیمنگٹن سپا 442.441.440.438 کیرالہ کیرولائی کیلگری کینیا کینیا 698.14.6 14.6 698 241 696 مقامات 237 663.65.48 109 713 698.14 698 698 698 لاڑی 225 یوشم لاس اینجلس ان لینڈ ایمپائر 14 میل لاس اینجلس 697 ماتھوٹم کیرالہ لانگ آئی لینڈ نیو یارک 745،744 اچھی واڑہ لاہور ،4 ، 13 ، 14 ، 16 ، 64، 65 ، 66، مادھوپور.162.151.148.146.145.144 ماڈل ٹاؤن لاہور کینیڈا 418،14،13، 422،419، 228، 229، 230 ، 237، 239، 240، ماڈل ولیج 281.280.278.277.275.253 437.431.427.426.424.324.322.321.300.285.282.446.445.444.443.438 661.517.507.457.377.325 745.698.696.632.567.557 گجرات 14، 154، 285، 371، 680، 697،681، 751، 803،799، 643.641.630.619.592 808.807 148.147 636 807.761 71 مارشل آئی لینڈ 708،706،693 ماریشس 13، 168، 169، 696 مالٹا مالی 63.61.54.53 784.364 7 گروس گراؤ 697.14 لائبیریا گلستان جو ہر (کراچی) 577 لائلپور کمٹی کی مسجد 277 لدھیانہ گوجرانوالہ 14، 293،221، 697 گوجرہ ضلع لائلپور 510 لدھیکے 750.645.378.328.320 گورداسپور 146 ، 193 ، 237 ، 291 ، گورداسپور ہائی سکول 290 للیانی لمنارہ گاؤں 710.10 277 512 378.100 760.732.672 168 168 694 مانچسٹر 698،258،156،14 مانگٹ محمود آباد مدرسہ احمدیہ مد بینہ مڈلینڈ ریجن لندن ،14 ، 51 ، 53، 54، 59، 61 ، گوکھو وال 138 مڈل ایسٹ گول مسجد (سیٹلائٹ ٹاؤن کوئٹہ )716 گولڈ روم گوئٹے مالا گھانا 443 693.705.696.630.13 لودھی نگل لوہاری منڈی.192.191.111.111.96.62 613.549.523.506.392.216 328 150 مڈل سیکس 673 155.48 300.231.499.254.106 724.610.600 698.14 696 14 مراکش / مرا کو 781.694 مرید کے مستونگ 285 146
خطبات مسرور جلد دہم مسجد اقصیٰ 149، 625،298، 637 ، | ملکانہ 795.756.753 ممیا گا مسجد بیت الاسلام ، ٹورانٹو (کینیڈا) )418 ممپلوگ مسجد بیت الفتوح 1، 17، 32، 49، من بائم 50 168 713 713 697 155 ناصر آباد نامانہ سرکل کو ٹا ( راجھستان) 701 نائیجر 695.173.172 مقامات نائیجیریا 9، 696،555،13 منڈی بہاؤالدین 661،745 | نخله 463 158.141.125.97.80.67.258.241.224.209.194.174 464.449.423.287.274.267.562.549.522.506.488.476 منی پور 367 نصرت آباد 222،221،213 مورڈن لندن 1، 80،67،49،32،17، نمبر دو کیرولائی 670.654.636.616.593.579 732.718.703.687 97، 125، 141، 158، 174 ، 194، ننسپیٹ 209، 223، 241، 258، 423،287، منگل 464، 449، 476، 488، 522، 534، نوابشاہ 698 785.304.259 775.715.140.139.138 697.681.155.154.636.614.592.579.562.549 مسجد حرام 118 مسجد دارالامان مانچسٹر 258 موسک ویسٹ مسجد دارالذکر مسجد فضل 66 697.267 موضع بھانبڑی موضع بھینی موضع دوده مسجد مبارک 149 ، 166 ، 228 ، 231 ، | 237، 268، 282، 293، 298 ، موضع شکار ماچھیاں.621.620.511.301.299 مولے والی گاؤں 638، 641، 644، 647، 679، مونٹریال ایسٹ مسجد مرجان مسجد نبوی مسی ساگا ویسٹ مظفر گڑھ 802.800.736 57 166 698 231.260.109.106 موئیکرونیشیا مہاراشٹر مهدی آباد میانوالی میڈرڈ 79 میر پور آزاد کشمیر 378 مکہ 106، 130 ، 595،233،141 ، میر پور خاص 724.722.610.602.597 8 مكينى ملائشیا ملتان میکسیکو نارتھ امریکہ 212،109 نارووال 14،5، 621،230، 697 ناروے ناصر آبا دا سٹیٹ 782.696.635 666 وزیر آباد 136 ، 146 ،285 ونجواں ونوا تو 802 707 732.718.703.687.670.654 698 742 645 678 674 742 698 706 14 697.14 230 783 697 697 609 431 نواں پینڈ نورنگ نوئیں نوئے الیس نیا سٹیشن نیامی نیپال نیڈا نیروبی نیلا گنبد نیویارک نیوزی لینڈ نیومولڈن وان نارتھ وائن گارڈن وڈالہ 159 63 14 697 275 173 693 14 640.130 150 685 581.580 698.14 698 697 282
مقامات 51 713 Baule 534 Capital Hill 790 438,440,441,442 233 698 698.14 697.14 964 Ekotsi | ، 172 ،111 ،52 ،12،6 705 Korlebo | ،523،521 ،520،459 ،458 ،266 14 713 Lemakara.585.569.555.549.532.524 14 694 Lomnara 706.592 698 601.600 London 698 713 713 Mampega | 692،583،576 ،75 ،569 ،550 713 785 MONT LE JOLIE یوگنڈا یوپی یورپ 108 ، 261، 549،363 | Maango 14 693 788 Mamprug 784،782،779،778،696،693 ، 304 ، 359 358 357 695 Seeta Land York street, Covent 696.693.13.4 خطبات مسرور جلد دہم ووڈ برج ہیمپشائر دوسٹر پارک ہین ویز بادن یمن شهر ویسٹ افریقن ریجن 714 یوکے ویسٹ بنگال ویسٹ کرائیڈن ویسٹ ہل ویسٹن نارتھ ویسٹ ویلنسيا بار برگ ہالینڈ 601 Garden 361.360.315 467 742 215 78 14 14 ہرات ہر چوال نبر ہرسہ شیخاں ہرنائی ہملٹن نارتھ ہناؤ ہند ہندوستان.191.146.141.550.344.236.198.193.192 748.696.692.662.588 675.52.51 ہنگری ہوشیار پور 547،371،100،99 ہونسلو (Hounslow)111 ،124 ہیرس برگ 697.426 111 ہیز ( Hayes) ہیمبرگ ( جرمنی )762،745،697،14، 790.789.787.782.780.775
خطبات مسرور جلد دہم آسمانی فیصلہ 305.198 52 کتابیات الحکم،اخبار 246، 251 | تحفہ قیصریہ 589.586.585 تابیات آئینہ کمالات اسلام 78، 141، الدر المنشور لامام السیوطی 574 772 تحفۂ سالا نہ یار پورٹ جلسہ سالانہ 413 186، 468، 492، 493، 495، السيرة الحلبية 794.736.591.528.510 اخبار احمدیہ الشفاء لقاضی عیاض 501 572 627.525.210.99 تذکره تذكرة الاولياء 392 393 الطبقات الكبرى لابن سعد 574 تذکرۃ الشہادتین 468.467 211 اردو ترجمه قرآن از خلیفه امسیح الرابع 54 الفضل 712،632،592،15 تراؤ ،Trouw ، ہالینڈ کا نیشنل اخبار 360 خلیفه ازالہ اوہام 196 ، 382، 454 ، الحجم الكبير للطبرانی 774.767.723 475 ترجمه قرآن انگریزی از حضرت مولوی انجام آنقم ہضمیمہ رسالہ 103 ، 750,643 شیر علی صاحب 592 اسلام اور عصر حاضر کے مسائل 58 انصار اللہ، ماہنامہ اسلام کا اقتصادی نظام 58 انگریزی ترجمہ قرآن 595 لصيد ایام ا ع 197.88.67 اسلام (لیکچر سیالکوٹ) 142 اسلام میں عورت کا مقام 58 این ڈی آرا یکچوال 790 اسلامی اصول کی فلاسفی 58 ، 122 ، براہین احمدیہ 452.409.184.178.177 اصحاب صدق وصفا 592 457 تریاق القلوب 101،98، 103،102، 772.770.729.574.510.180 تعمیر و ترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کا مثالی کردار 191، 193،192 تفسیر حضرت مسیح موعود 83، 85، 87، 434.94.92.91.90.89.319.83 772.739.734.646.354 براہین احمدیہ حصہ پنجم، ضمیمہ 188، اعجاز اسی 83، 434،92،91،90 | 313،312 تفسیر کبیر 465،388،260 تقریر جلسہ سالانہ 28 دسمبر 1947ء اقبال کے آخری دو سال 191 بلڈ Bild ، اخبار اقرب الموارد البحر المحيط تفسير البداية والنهاية البدر 465 410 719 416.181.116 پاکستان ٹائمز پیغام صلح 789 192 93 توضیح مرام جلالین جلسہ مذاہب مہوتسو پیغام ہدایت و تائید پاکستان مسلم لیگ 192 جنگ ، ڈیلی تاریخ احمدیت 192، 378، 804 چشمه مسیحی 107.106 803.392 135.132 739 787 89 التفسير الكبير لامام رازی 452 تاریخ احمدیت را ولپنڈی 682 الجامع لاحکام القرآن ( تفسیر قرطبی ( 83 تحریک پاکستان میں جماعت احمدیہ کی حقیقة الوحی 102، 103، 287، چشمه معرفت 574،563،350 الجامع لشعب الایمان 471 قربانیاں تحفه غز نوید 190 590 576.469.379.319.288
خطبات مسرور جلد دہم حجۃ اللہ 723 53 کتابیات 277،275 278 279 280 281 ، سر الخلافۃ 724،723،722،721 خطبات محمود 198، 199 ،202 282، 289،286 290 291 292، سنن ابن ماجہ 112، 184، 573،259 خطبہ الہامیہ 589 خلافت جوبلی سود بینیر جماعت احمدیہ راولپنڈی 682 دارو گا بوگ زنایت کو دا راویل صاحب کی کتاب دافع البلاء 55 188 داگ بلاد ، Dagblad ، ہالینڈ کا نیشنل 293 294 295 296 297، سنن ابی داؤد 201 627،502 298 299 300 301 302، 320، سنن الترمذی 49، 336، 348، 351، 527.502.486.475.474.405.327.325.324.323.322.321 329،328، 331 332 333 334، سیرت احمد از قدرت اللہ صاحب سنوری 69 373،372،371، 376،374، 377، سیرت المہدی 367 378، 379، 509، 510، 511 ، 512، سیرت النبی از حضرت مصلح موعود 457 سيرة خاتم النبيين اخبار در ثمین درود تاج بحوة الاميم للبيهقى دلائل النبو پلکسی هستی.620.619.618.529.517.514 359.627.625.624.623.622.621 460.458.645.643.640.639.638.637 514.677.675.674.673.672.652 58.736.734.733.680.679.678 131.752.751.750.748.743.737 دور جدید لاہور، اخبار 190 دیباچہ تفسیر القرآن 591،584،58 دیوان حسان بن ثابت 590 سیل غم شحبه حق 584 15 766 شرح العلامہ الزرقانی علی مواهب اللدنية 501.37 شعرائے احمدیت از سلیم جہانپوری 16 شهادة القرآن406،398،395،310، 535.534.407.758.757.756.755.754.753 رپورٹ تحقیقاتی عدالت المعروف " منیر رساله الوصیت انکوائری رپورٹ“ 193 یح بخاری 2 ،49، 73، 206، 207،.798.797.796.794.760.759 805.804.802.801.800.799.450.429.420.383.344.262 659.496.489.479.478.453.451 203.503.502.500.499.498.497 558.572.571.527.526.525.504 روح البیان تفسیر رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ 125،5،4، ریڈ بک.143.138.136.131.127.126 ریویو آف ریلیجنز 773،644،505 144، 145، 146، 147، 148، 150، ست بچن 629.628 151، 152، 153 ، 154 ، 162، سٹوریز فرام ارلی اسلام Stories 774.768.764.659.573 صحیح مسلم 206.123.113.80 58 from early Islam | ، 169 ،168 ،167 ،166، 164 ،163.230.229.228.227.226.170.237.236.235.232.231 سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب 176.449.349.348.345.312.207 763.720.543.502.500.496 723 ضرورة الامام 246،244،243،242،238، 248، سراج السالکین مصنفہ امام غزالی 803 ضلع راولپنڈی تاریخ احمدیت 16 249، 251 252 253 ، 255، 257 ، سراج منیر 268 269 270 271، 274، سرمہ پستم آریہ 102.98 725 فتح اسلام 803.660.659.189.186 قائد اعظم اور ان کا عہد 191
خطبات مسرور جلد دہم قدوری 135 مرأة العاشقين قرآن کریم 54، 58 ، 75 ، 94 ، 117 ، مرزا غلام قادر احمد 118 ، 127، 143، 160 ، 161 ، 162 ، مسدس حالی 54 کتابیات.772.769.768.767.765.726 803 792 546 656 منادی ، اخبار نسیم دعوت 171 ، 306 ، 310، 311، 312، 313، مسلم فیسٹیولز Muslim Festivals 402.385.350.317.315 58 نشان آسمانی 408،403، 440،427، 441، 453 ، مسلم لیگ اور مرزائیوں کی آنکھ مچولی پر نوائے وقت نور القرآن نمبر 2 473،472،470،469،454، 479، مختصر تبصره 192 493،489،486،484، 494، 501، مسند احمد بن حنبل 261، 262، 414، ولڈر کی کتاب 502.492.473.420.515.513.510.509.507.504 58 135.705.704.689.658.655.626 614،589،572،570،568،542، مسیح ہندوستان میں ویلٹ کمپکٹ ہماری تعلیم ہمدرد، اخبار 191 98 77 193 452.413 360 789 58 مشكوة 191.190 711، 712، 713، 714، 722، 724، معجم مفردات الفاظ القرآن لامام راغب ہولی پرافٹ کائنڈنس ٹو چلڈرن Holy.750.749.741.740.737.729 807.802.797.796.756 مکتوبات احمد 466 416 Prophet's kindness to chlidren 58 ملفوظات 3، 18، 19، 21، 24، 26، ہوئی مسلم Holy Muslims 58 قومی ترقی کے دوا ہم اصول 105 کرامات الصادقین 194،89،87،85 | 27 ،29، 36،35،34،33،30 ،39،38، ہیمبرگ اینڈ بلاٹ اخبار کشتی نوح 180 ، 182 ، 186، 187، 42،40، 43، 44، 46، 47، 92،76، 789 A Ranking of the Most Influential Persons in 390.350.205 کلام محمود مع فرہنگ کنز العمال لائف آف محمدم لسان العرب لی میگزین، پیرس مجلة الجامعة.171.170.153.120.116.115 607،606 the History.184.183.182.181.179.178 An Apology for Mohammed and the $224.221.195.187.186.185 730 343 606.605 Koran | ،318 ،314 ،273 ،272 ،271 ،254 58 An Apology for The Life.370.369.355.354.349.348 691.688 and Character of The Celbrated Prophet of.391.390.388.387.386.383 787.401.400.399.398.397.396 592 610.609 Arabia مجموعہ اشتہارات 99، 100، 101، 402، 403، 412،404 413 414 | Hamburger Abendblatt 789.471.470.469.455.423.415.183.182.180.176.175 History of the Sarasen ،526،525 ،505 ،490 ،480 ،472 ، 188 ،187 ،186 ،185 ،184 610 Empire.540.539.538.537.536.530 728.344.343.341.340.339 مذہب کے نام پرخون 58 History of the intellectual.722.660.594.593.542.541
کتابیات The Life of Mahomet by 603.601 William Muir The Outline of History 596 The Speeches and Table-Talk of the 595Prophet Muhammad The Koran or Alcoran of 595 Muhammad 789 Welt Kompakt 609 World Faith 596, Young India 55 Muhammed and Muhammedanism 600.599 790 NDR Aktuell Muhammad at Medina 598 The Collected Works of 596 Mahotma Gandhi The Hero as Prophet 604.603 Mahomet The Koran or Alcoran of Muhammad 595 The Life and Teachings 609.608 of Muhammad The Life and Times of 597 Muhammad خطبات مسرور جلد دہم Development of Europe 598.597 605 History of Turkey Islam at the Cross Roads 596 783 Islam in Valencia Islam in the Islands Removing the 706 Impediments Islamic Jurisprudence 598 Life of Mahomet by 601 Washington Irving Life of Muhammad 591.584 Muhammad-A Biography of the Prophet 608.607