Language: UR
خطبات مسرور خطبات جمعه فرموده 25 اپریل 2003ء تا 26 / دسمبر 2003ء جلد اوّل
خطبات مسرور جلد اول.2003ء ل ايده الله تعالى بنصره العزيز ی به خطبات جمعہ فرموده حضرت مرا مسرور احمدصاحب امام جماعت احمدیہ عالمگیر لیفت اسم الناس Khutbaat e Masroor Volume: 1 2003 (Friday Sermons delivered by Hadhrat Mirza Masroor Ahmad, Head of the World wide Community, Khalifatul Masih V (aba) (May Allah be his Help) Ahmadiyya Islam International Publications
وقت کی آواز ہماری خوش نصیبی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں وقت کے امام کو پہچانے کی توفیق دی ، اور اسکا سراسر فضل و احسان ہے کہ ہمیں خلافت کے نظام میں شامل کیا ، ایک خلیفہ عطا کیا جو ہمارے لئے ہمارا در درکھتا ہے ، ہمارے لئے اپنے دل میں پیار رکھتا ہے ،اس خوش قسمتی پر جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے، اس شکر کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ ہم خلیفہ وقت کی آواز کو سنیں ،اس کی ہدایات کو سنیں اور اس پر عمل کریں.کیونکہ اسکی آواز کوسننا باعث ثواب اور اس کی باتوں پر عمل کرنا دین ودنیا کی بھلائی کا موجب ہے.اس کی آواز وقت کی آواز ہوتی ہے، زمانے کی ضرورت کے مطابق سیالہی بندے بولتے ہیں.خدائی تقدیروں کے اشاروں کو دیکھتے ہوئے وہ رہنمائی کرتے ہیں.الہی تائیدات و نصرت ان کے شامل حال ہوتی ہے.خدائی صفات ان کے اندر جلوہ گر ہوتی ہیں." حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں: خدا تعالی جس شخص کو خلافت پر کھڑا کرتا ہے وہ اس کو زمانہ کے مطابق علوم بھی عطا کرتا ہے.اسے اپنی صفات بخشتا ہے.“ (الفرقان‘ مئی جون 1967 ءصفحہ 37) پھر فرماتے ہیں : ” خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں 'سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم یا وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے.جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائیگاں تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں.“ ( خطبہ جمعہ 24 جنوری 1936 ء مندرجہ الفضل 31 جنوری 1936ء)
احباب جماعت کی سہولت کے پیش نظر اور علمی اخلاقی اور روحانی تشنگی کو کم کرنے کے لئے حضرت امام جماعت احمد یہ خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات کتابی صورت میں شائع کئے جارہے ہیں.پہلی جلد آپ کے خلافت پر متمکن ہونے سے لے کر دیسمبر 2003ء کے خطبات پر مشتمل ہے.یہ تمام خطبات الفضل انٹرنیشنل لندن میں شائع شدہ ہیں اور وہیں سے ان کو لیا گیا ہے.سوائے اس تبدیلی کے کہ:.1 حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دیگر کتب کے حوالہ جات کے متن کو اصل حوالہ کے مطابق کر دیا گیا ہے، 2.کتب کے حوالہ جات مکمل اور تفصیل کے ساتھ درج کئے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کے لئے یہ کام با برکت کرے اور ان تمام احباب کو جزائے خیر دے جنہوں نے اس کام کی تکمیل کے لئے معاونت فرمائی.آمین
خطبہ نمبر فهر است عنوان تاریخ صفحه 25 اپریل 2 رمئی 3 15 ورمتی 25 25 1 اللہ تعالیٰ کی صفت مجیب کی تفسیر 2 دعا اور اللہ کی حمد اور شکر اللہ تعالیٰ کی صفت خبیر کی تفسیر 3389 53 39 الله 73 93 109 127 139 155 169 183 201 215 225 237 4 اللہ تعالیٰ کی صفت خبیر کی تفسیر 16 مئی 5 اللہ تعالیٰ کی صفت خبیر کی تفسیر اور دوسروں کی اصلاح جماعت احمدیہ کی ذمہ داری 23 رمئی 6 اللہ تعالیٰ کی صفت خبیر اور علیم کی تفسیر.خلافت کے بارے پیشگوئی اللہ تعالیٰ کی صفت سمیع اور دعائیں اللہ تعالیٰ کی صفت سمیع اور مسیح موعود کی قبولیت دعا کے نمونے اسلام امن اور بھائی چارے کی تعلیم دینے والا مذہب 10 واقفین نو کی تربیت کے متعلق متفرق ہدایات 30 رمئی 6/جون 13 / جون 20/جون 27 /جون 11 اپنے لئے اور اپنی اولاد کی نیک تربیت کے لئے دعا اور کوشش کرنے کی تحریک 4 جولائی 12 ہر معاملہ میں امام کے پیچھے چلیں.13 مہمان نوازی اور آداب مساجد 14 جلسہ سالانہ کی اہمیت اور اس میں شمولیت کی برکات 11 جولائی 18 جولائی 25 جولائی یکم اگست 8 را گست 15 جلسہ سالانہ کے اختتام پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور نعمتوں کا شکر 16 عہدیداران اور کارکنان کیلئے راہنماہدایات اور امانت کا وسیع مفہوم 17 تو کل اور اسلام کا مقصد امن کا قیام 15 / اگست
خطبہ نمبر عنوان تاریخ 18 نظام کی کامیابی اطاعت میں ہے.اللہ کی رسی کو پکڑنے اور نظام سے وابستہ 22 اگست رہنے میں آپ کی بقاء ہے صفحہ من ہائیم جرمنی 255 19 بیعت کی دوسری شرط تکبر کو چھوڑ نا عاجزی اور خوش خلقی کو اپنانا ( فرینکفرٹ جرمنی) 29 اگست 20 ہر احمدی کو آنحضرت پر درود بھیجنے پر بہت توجہ دینی چاہئے 21 بیعت کی نویں شرط.عام خلق اللہ کی ہمدردی 269 5 ستمبر (فرانس) 287 12 ستمبر مسجد فضل لندن 307 22 بیعت کی دسویں شرط حضرت مسیح موعود سے رشتہ اخوت واطاعت قائم کرنا 19 ستمبر 23 بیعت کی دسویں شرط اور اطاعت در معروف کی پُر حکمت تفسیر 26 ستمبر 24 مسجد کی اصل زینت نمازیوں کے ساتھ ( افتتاح بیت الفتوح لندن ) 3 اکتوبر 25 احمدیت قبول کرنے کے بعد نیک انقلابی تبدیلیاں 26 احمدیت کے ذریعہ خدمت انسانیت کے بہترین نمونے 27 رمضان کے فضائل اور برکات 28 رمضان کی اہمیت، عبادات اور قرآن کریم کی ترغیب 29 انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت، تحریک جدید کے نئے مالی سال کا اعلان 30 رمضان المبارک کے آخری عشرہ اور لیلۃ القدر کی اہمیت وفضیلت 31 جمعہ کی اہمیت، آداب و برکات ، جمعۃ الوداع کی اصطلاح 32 عبادات اور دعاؤں کی اہمیت 33 کارکنان اور عہدیداران کیلئے اہم نصائح اور ان کی ذمہ داریاں 34 شیطانی وساوس اور اس سے بچنے کی کوشش 35 سچائی کی بابت اسلام کی حسین تعلیم 36 بعض معاشرتی بیماریاں، بدظنی ،غیب تجسس اور ان کی اصلاح 10 اکتوبر 17 اکتوبر 24 اکتوبر 31 اکتوبر 7 نومبر 14 نومبر 21 نومبر 28 /نومبر 5 دسمبر 12 دسمبر 19 دسمبر 26 دسمبر 323 339 355 373 297 415 433 449 465 481 497 513 533 549 565
$2003 3 1 خطبات مسہ اے میرے قادر خدا! تو ہمیشہ کی طرح اپنی جماعت پر اپنے کئے ہوئے وعدوں کے مطابق اپنے پیار کی نظر ڈالتارہ ۲۵ را پریل ۲۰۰۳ ء مطابق ۲۵ / شهادت ۱۳۸۲ هجری شمسی به مقام مسجد فضل لندن (برطانیہ) اللہ تعالیٰ کی صفت مجیب کا ایمان افروز تذکرہ جولوگ دعا سے کام لیتے ہیں اللہ ان کے لئے راہ کھول دیتا ہے.اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ خیریت سے رہو اور تمھارے گھروں میں امن رہے تو مناسب ہے کہ دعا ئیں بہت کرو.ہ جس گھر میں ہمیشہ دعا ہوتی ہے خدا تعالی اسے برباد نہیں کرتا.اللہ کرے آپ کا درد مجھے اپنے درد سے بڑھ کر ہو جائے.اللہ تعالی اس پیاری جماعت کو کبھی ناشکر گزاروں میں سے نہ بنائے.نظام خلافت حبل اللہ بابرکت راہ ہے.خلافت ایک شجر طیبہ ہے وہ خلافت احمدیہ کو بھی ضائع نہیں ہونے دے گا.نظام جماعت اور نظام خلافت کا ایک تقدس ہے.
خطبات مسہ $2003 4 تشہد وتعوذ کے بعد حضور انور نے سورۃ البقرۃ کی حسب ذیل آیت تلاوت فرمائی ﴿وَإِذَسَأَلَكَ عِبَادِي عَنِيْ فَإِنِّي قَرِيْبٌ أُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ (البقرة : ۱۸) : اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً میں قریب ہوں.میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے.پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پائیں.یہ آیت کریمہ جس کی ابھی تلاوت کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کی صفت مجیب سے تعلق رکھتی ہے.گو اس صفت کا بیان حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرما چکے ہیں لیکن ان حالات میں آج کے لئے میں نے اس کو منتخب کیا ہے.اس میں دعاؤں کی قبولیت کا ذکر فرمایا گیا ہے.اس پہلو سے آج یہ مضمون بیان کیا جائے گا اور قبولیت دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے جماعت پر جو بیشمار احسان اور فضل فرمایا ہے اس کا ذکر ہو گا.اس بارہ میں ایک حدیث ہے:.حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: - اللہ تعالی بڑا حیا والا ، بڑا کریم اور سخی ہے.جب بندہ اس کے حضور اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تو وہ ان کو خالی اور نا کام واپس کرنے سے شرماتا ہے.(جامع ترمذی کتاب الدعوات باب في دعاء النبي ﷺ حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں بندے کے گمان کے مطابق سلوک کرتا ہوں.جس وقت بندہ مجھے یاد کرتا ہے، میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں.اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے گا تو میں بھی اس کو اپنے دل میں یاد کروں گا.اور اگر وہ میرا
LO 5 $2003 خطبات مسرور ذکر محفل میں کرے گا تو میں اس بندے کا ذکر اس سے بہتر محفل میں کروں گا.اگر وہ میری جانب ایک بالشت آئے گا تو میں اس کی طرف ایک ہاتھ جاؤں گا.اگر میری طرف وہ ایک ہاتھ آئے گا تو میں اس کی طرف دو ہاتھ جاؤں گا.اگر وہ میری طرف چل کر آئے گا تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاؤں گا.(ترمذی ابواب الدعوات باب في حسن الظن بالله عزّ وجلّ) یہاں تو جماعت ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہی تھی.پھر کیوں نہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق دوڑتا ہوا آتا اور ہماری مددفرماتا.الحمد للہ.حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آنحضرت شاید ہی کبھی کسی مجلس سے اُٹھے ہوں گے کہ آپ نے اپنے صحابہ کے لئے ان الفاظ میں دعا نہ کی ہو: اے میرے اللہ ! تو ہمیں اپنا ایسا خوف عطا کر جو ہمارے اور تیری معصیت کے درمیان حائل ہو جائے اور ہمیں اپنی ایسی اطاعت عطا کر جس کی وجہ سے تو ہمیں جنت میں پہنچا دے اور ایسا یقین بخش کہ جس کی وجہ سے دنیا کے مصائب تو ہم پر آسان کر دے.اے میرے اللہ ! ہمیں اپنے کانوں، اپنی آنکھوں اور اپنی طاقتوں سے زندگی بھر صیح صحیح فائدہ اٹھانے کی توفیق دے اور ہمیں اس بھلائی کا وارث بنا.اور جو ہم پر ظلم کرے اُس سے تو ہمارا انتقام لے.جو ہم سے دشمنی رکھتا ہے اُس کے برخلاف ہماری مدد فرما.اور ہمارے دین کے بارہ میں ہمیں کسی ابتلا میں نہ ڈال.اور دنیا کو ہمارا سب اس سے بڑا غم اور فکر نہ بنا اور دنیا ہی ہمارا مبلغ علم نہ ہو.یعنی ہمارے علم کی پہنچ صرف دنیا تک ہی محدود نہ ہو.اور ایسے شخص کو ہم پر مسلط نہ کر جو ہم پر رحم نہ کرتا ہو.(جامع ترمذی كتاب الدعوات باب ما جاء في عقد التسبيح باليد) خدا نے مجھے دعاؤں میں وہ جوش دیا ہے: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :- جو لوگ دعا سے کام لیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لئے راہ کھول دیتا ہے.وہ دعا کو رد نہیں کرتا.قرآن شریف نے دعا کے دو پہلو بیان کئے ہیں.ایک پہلو میں اللہ تعالیٰ اپنی منوانا چاہتا ہے اور دوسرے پہلو میں بندے کی مان لیتا ہے ﴿وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ
$2003 6 خطبات مسرور الجوع میں تو اپنا حق رکھ کر منوانا چاہتا ہے.نونِ ثقیلہ سے جو اظہار تاکید کیا ہے اس سے اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ قضائے مبرم کو ظاہر کریں گے تو اس کا علاج ﴿ إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ ﴾ ہی ہے.اور دوسرا وقت خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کی امواج کے جوش کا ہے، وہ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ﴾ میں ظاہر کیا ہے.الغرض دعا کی اس تقسیم کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ بھی اللہ تعالی اپنی منوانا چاہتا ہے اور کبھی وہ مان لیتا ہے.یہ معاملہ گویا دوستانہ معاملہ ہے.ہمارے نبی کریم ﷺ کی جیسی عظیم الشان قبولیت دعاؤں کی ہے اس کے مقابل رضا اور تسلیم کے بھی آپ اعلیٰ درجہ کے مقام پر ہیں.چنانچہ آپ کے گیارہ بچے مر گئے مگر آپ نے کبھی سوال نہ کیا کہ کیوں؟ (الحکم ۲۸ فروری ۱۹۰۲، ملفوظات جلد دوم صفحه ١٦٧-١٦٨) پھر فرمایا: ”خدا نے مجھے دعاؤں میں وہ جوش دیا ہے جیسے سمندر میں ایک جوش ہوتا ہے“ (البدر ۳/اپریل ۱۹۰۳ ، ملفوظات جلد ۳ صفحه (۱۷۲ فرماتے ہیں: ”اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ خیریت سے رہو اور تمہارے گھروں میں امن رہے تو مناسب ہے کہ دعائیں بہت کرو اور اپنے گھروں کو دعاؤں سے پر کرو.جس گھر میں ہمیشہ دعا ہوتی ہے خدا تعالیٰ اسے برباد نہیں کیا کرتا.البدر ٢٤/ اپریل ۱۹۰۳ ، ملفوظات جلد ۳ صفحه (۲۳۲ فرمایا: ” میں ہمیشہ دعاؤں میں لگا رہتا ہوں اور سب سے مقدم دعا یہی ہوتی ہے کہ میرے دوستوں کو ہموم اور غموم سے محفوظ رکھے.کیونکہ مجھے تو ان کے ہی افکار اور رنج غم میں ڈالتے ہیں.اور پھر یہ دعا مجموعی ہیئت سے کی جاتی ہے کہ اگر کسی کو کوئی رنج اور تکلیف پہنچی ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے اس کو نجات دے.ساری سرگرمی اور پورا جوش یہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کروں“.(رپورٹ جلسه سالانه ۱۸۹۷ مرتبه شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب صفحه ۱۳۰ تا ١٦٧ ، ملفوظات جلد اوّل صفحه (٦٦) اللہ تعالیٰ مجھے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کا درد مجھے اپنے درد سے بڑھ کر ہو جائے.اللہ میری مدد فرمائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.”سب سے عمدہ دعا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور گناہوں سے نجات حاصل ہو کیونکہ گنا ہوں ہی سے دل سخت ہو جاتا اور انسان دنیا کا کیٹر ا بن جاتا ہے.ہماری دعا یہ ہونی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہم سے گناہوں کو جو دل کو سخت کر دیتے
خطبات مسرور 7 ہیں دور کر دے اور اپنی رضا مندی کی راہ دکھلائے“.$2003 البدر ٢٤/ اگست ١٩٠٤ ، ملفوظات جلد چهارم صفحه (۳۰ آپ فرماتے ہیں:.ہم تو یہ دعا کرتے ہیں کہ خدا جماعت کو محفوظ رکھے اور دنیا پر ظاہر ہو جائے کہ نبی کریم صیدہ برحق رسول تھے اور خدا کی ہستی پر لوگوں کو ایمان پیدا ہو جائے“.( البدر ۱۳/ اپریل، ملفوظات جلد چهارم صفحه (٢٦١ پھر آپ نے فرمایا: ”جو لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں ان کو سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ میں ان کے لئے دعا کرتا ہوں.دعا ایسی چیز ہے کہ خشک لکڑی کو بھی سرسبز کر سکتی ہے اور مردہ کو زندہ کرسکتی ہے.اس میں بڑی تأثیریں ہیں“.(الحكم ۲۸ فروری ۱۹۰۳ ، ملفوظات جلد ۳ صفحه (۱۰۰) اللہ تعالیٰ اس دور میں بھی ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان تمام دعاؤں کا وارث بنائے جو آپ نے اپنے ماننے والوں کے لئے کیں.اور سب سے بڑھ کر ان دعاؤں سے بھی حصہ دے جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کے لئے کیں.اللہ تعالیٰ کا یہ فضل اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنے پیاروں کی دعاؤں کا وارث بنایا ہے جس کے نظارے ہم روز کرتے ہیں.حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی وفات نے ہماری کمریں تو ڑ کر رکھ دیں تھیں.اللہ تعالیٰ نے ان دعاؤں کے طفیل ہی اپنے وعدہ کو پورا فرمایا.چنانچہ فرماتا ہے:.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُوْنَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُوْنَ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے (سورة النور: (٥٦)
8 $2003 خطبات مسرور ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں.اللہ تعالیٰ اس پیاری جماعت کو بھی ناشکر گزاروں میں سے نہ بنائے ایک حدیث ہے.حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگی.پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھالے گا.پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذارساں بادشاہت قائم ہوگی (جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے ) جب یہ دور ختم ہوگا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہوگی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دور کو ختم کر دے گا.اس کے بعد پھر خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگی.یہ فرما کر آپ خاموش ہو گئے.(مسند احمد بن حنبل جلد ٤ صفحه ۲۷۳ بروایت حذيفه بن یمان ) اللہ کرے کہ یہ نعمت تا قیامت قائم رہے.خدا تعالیٰ اپنے فضل کا ہاتھ کبھی جماعت پر سے نہ اُٹھائے.یہ جماعت ہمیشہ شکر گزاروں اور دعائیں کرنے والوں کی جماعت بنی رہے.اللہ تعالیٰ کے پیارا اور رحمت کی نظر ہمیشہ ہم پر پڑتی رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”جب کوئی رسول یا مشائخ وفات پاتے ہیں تو دنیا پر ایک زلزلہ آ جاتا ہے اور وہ ایک بہت ہی خطرناک وقت ہوتا ہے مگر خدا کسی خلیفہ کے ذریعہ اس کو مٹاتا ہے اور پھر گویا اس امر کا از سرنو اُس خلیفہ کے ذریعہ اصلاح و استحکام ہوتا ہے“.66 (الحكم ١٤ / اپریل ۱۹۰۸ ، ملفوظات جلده ص ٥٢٤-٥٢٥) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مزید فرماتے ہیں: ”اے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے.سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے...تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے.اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے.اور وہ وعدہ
9 $2003 خطبات مسرور میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیر و ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفا دار اور صادق خدا ہے.وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے.اگر چہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے، پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی.میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں.اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.(الوصيت روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحه ۳۰۵) حضرت مسیح موعود علیہ الصوۃ والسلام رسالہ الوصیت میں فرماتے ہیں:.یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور اُن کو غلبہ دیتا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے ﴿كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِی اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اُس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے.اسی طرح خدا تعالیٰ قومی نشانوں کے ساتھ اُن کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اُس کی تخم ریزی انہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے.لیکن اُس کی پوری تحمیل اُن کے ہاتھ سے نہیں کرتا.بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے.مخالفوں کو نسی اور ٹھٹھے اور طعن و تشنیع کا موقع دے دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدرنا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.(رساله الوصيت صفحه ٦ - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ٣٠٤) اب حضرت خلیفہ مسیح الا قول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:.یہی تمہارے لئے بابرکت راہ ہے تم اس حبل اللہ کو اب مضبوط پکڑ لو.یہ بھی خدا ہی کی رہتی ہے جس نے تمہارے متفرق افراد کو اکٹھا کر دیا ہے.پس اسے مضبوط پکڑے رکھو.(بدر یکم فروری ۱۹۱۲ء صفحه (۳
10 $2003 خطبات مسرور حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: خلافت کے قیام کا مدعا توحید کا قیام ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے اہل.ایسا کہ جو بھی ٹل نہیں سکتا، زائل نہیں ہوسکتا، اس میں کوئی تبدیلی کبھی نہیں آئے گی.خلافت کا انعام یعنی آخری پھل تمہیں یہ عطا کیا جائے گا کہ میری عبادت کرو گے، میرا کوئی شریک نہیں ٹھہراؤ گے، کامل توحید کے ساتھ تم میری عبادت کرتے چلے جاؤ گے اور میرے حمد و ثناء کے گیت گایا کرو گے.یہ وہ آخری جنت کا وعدہ ہے جو جماعت احمدیہ سے کیا گیا اور مجھے یقین ہے اور جو نظارے ہم نے دیکھے ہیں اور جن کے نتیجے میں غم کے دھاروں کے علاوہ حمد کے دھارے بھی ساتھ بہہ رہے ہیں اور شکر کے دھارے بھی ساتھ ہی بہہ رہے ہیں ایسے حیرت انگیز ہیں کہ آج دنیا میں کوئی قوم اس کے پاسنگ کو بھی نہیں پہنچ سکتی.جو جماعت احمدیہ کا مقام اس دنیا میں ہے وہ کسی اور جماعت کا نہیں پس کامل بھروسہ اور کامل تو کل تھا اللہ کی ذات پر کہ وہ خلافت احمدیہ کو بھی ضائع نہیں ہونے دے گا.ہمیشہ قائم و دائم رکھے گا.زندہ اور تازہ اور جوان اور ہمیشہ مہکنے والے عطر کی خوشبو سے معطر رکھتے ہوئے اس شجرہ طیبہ کی صورت میں اس کو ہمیشہ زندہ قائم رکھے گا جس کے متعلق وعدہ ہے اللہ تعالیٰ کا کہ.ایسا شجرہ طیبہ ہے جس کی جڑیں زمین میں گہری پیوست ہیں اور کوئی دنیا کی طاقت اسے اکھاڑ کر پھینک نہیں سکتی.حمد اور شکر کا پہلو ایک ابدی پہلو ہے.وہ ایک لازوال پہلو ہے.وہ کسی شخص کے ساتھ وابستہ نہیں.نہ پہلے کسی خلیفہ کی ذات سے وابستہ تھا، نہ میرے ساتھ ہے، نہ آئندہ کسی خلیفہ کی ذات سے وابستہ ہے.وہ منصب خلافت کے ساتھ وابستہ ہے.وہ ، وہ پہلو ہے جو زندہ و تابندہ ہے.اس پر کبھی موت نہیں آئے گی.انشاء اللہ تعالیٰ.ہاں ایک شرط کے ساتھ اور وہ شرط یہ ہے.کہ دیکھو اللہ تم سے وعدہ تو کرتا ہے کہ تمہیں اپنا خلیفہ بنائے گا زمین میں لیکن کچھ تم پر بھی ذمہ داریاں ڈالتا ہے.تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ کرتا ہے جو ایمان لاتے ہیں اور عمل صالح بجالاتے ہیں.پس اگر نیکی کے اوپر جماعت قائم رہی اور ہماری دعا ہے اور ہمیشہ ہماری کوشش رہے گی کہ ہمیشہ ہمیش کے لئے یہ جماعت نیکی پر ہی قائم رہے، صبر کے ساتھ اور وفا کے ساتھ.تو خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ بھی ہمیشہ ہمارے ساتھ وفا کرتا چلا جائے گا اور خلافت احمد یہ اپنی پوری شان کے ساتھ شجرہ طیبہ بن کر ایسے درخت کی طرح لہلہاتی رہے گی جس کی شاخیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوں..(روزنامه الفضل ربوه - ۲۲ جون ۱۹۸۲ صفحه ۳ - (٤)
$2003 11 خطبات مسرور اس ضمن میں آپ نے مزید فرمایا :- آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ یہ جو خدا نے آپ کو نعمت عطا فرمائی ہے اور آپ کو معلوم بھی نہیں تھا کہ کیسے عطا ہوئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے واسطے سے دوبارہ عطا ہوئی ہے.پس اس نعمت کو یا درکھیں.اللہ نے دوبارہ یہ نعمت اپنے فضل سے عطا کی ہے اور نعمت کے سوا دل نہیں باندھے جاسکتے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تصور اپنے میں سے نکال دیں تو آپ میں سے کسی کو دوسرے کی پرواہ نہیں رہے گی اور اس تعلق کو خلافت آگے بڑھا رہی ہے اور وہ تعلق پھر خلافت کی ذات میں مرکوز ہوتا ہے اور پھر آگے چلتا ہے.( خطبه جمعه ۱۰ / جون ۱۹۹۰ء الفضل ۷ / اگست ۱۹۹۱ء) آپ نے جماعت کو اجتماعیت کی برکت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:- پس وہ خدا کا احسان کہ آپ کو ا کٹھے کر دیا آج یہ دوہری صورت میں ظاہر ہوا ہے.الحمد للہ کہ آج ہم نے پھر دیکھا آج پھر بھائی بنائے گئے ہو لیکن خدا کی قسم اب جو بنائے گئے ہو، انشاء اللہ تعالیٰ قیامت تک بنائے رکھے گا تمہیں ، اگر تم انکساری کے ساتھ خدا تعالیٰ کی نعمت کا شکر ادا کرتے ہوئے زندگیاں بسر کرو گے تو اس نعمت کو کوئی تم سے چھین نہیں سکے گا.(خطبه جمعه ٥ /اگست ١٩٩٤ء، الفضل ۲۳/ اگست ١٩٩٤ء) آپ نے فرمایا تھا کہ:- میں آپ کو ایک خوشخبری دیتا ہوں کہ اب آئندہ انشاء اللہ خلافت احمدیہ کو بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا.جماعت بلوغت کے مقام کو پہنچ چکی ہے خدا کی نظر میں.اور کوئی دشمن آنکھ، کوئی دشمن دل کوئی دشمن کوشش اس جماعت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے گی اور خلافت احمد یہ انشاء اللہ تعالیٰ اسی شان کے ساتھ نشو و نما پاتی رہے گی جس شان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے وعدے فرمائے ہیں.کم از کم ایک ہزار سال تک یہ جماعت زندہ رہے گی.تو دعائیں کریں، حمد کے گیت گائیں اور اپنے عہدوں کی پھر تجدید کریں.الفضل ۲۸ جون ۱۹۸۲ء) آج ہم سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اے جانے والے تو نے اس پیاری جماعت کو جو خوشخبری دی تھی وہ حرف بحرف پوری ہوئی.اور یہ جماعت آج پھر بنیان مرصوص کی طرح
12 $2003 خطبات مسرور خلافت کے قیام و استحکام کے لئے کھڑی ہوگئی اور اخلاص اور وفا کے وہ نمونے دکھائے جن کی مثال آج روئے زمین پر ہمیں نظر نہیں آتی.اے خدا اے میرے قادر خدا تو ہمیشہ کی طرح اپنی جماعت پر اپنے کئے ہوئے وعدوں کے مطابق اپنے پیار کی نظر ڈالتا رہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : میں بڑے دعوئی اور استقلال سے کہتا ہوں کہ میں بیچ پر ہوں اور خدائے تعالیٰ کے فضل سے اس میدان میں میری ہی فتح ہے اور جہان تک میں دور بین نظر سے کام لیتا ہوں تمام دنیا اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں اور قریب ہے کہ میں ایک عظیم الشان فتح پاؤں کیونکہ میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے اور میرے ہاتھ کی تقویت کے لئے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے جس کو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے اور آسمان پر ایک جوش اور اُبال پیدا ہوا ہے جس نے ایک پتلی کی طرح اس مشتِ خاک کو کھڑا کر دیا ہے.(ازاله اوهام صفحه ۳۰۳ روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ٤٠٣) پھر آپ فرماتے ہیں :- خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ میں آخر کار تجھے فتح دوں گا.اور ہر ایک الزام سے تیری بریت ظاہر کروں گا اور تجھے غلبہ ہوگا.اور تیری جماعت قیامت تک اپنے مخالفوں پر غالب رہے گی اور فرمایا کہ میں زور آور حملوں سے تیری سچائی ظاہر کروں گا“.انوار الاسلام صفحه -٥٤ - روحانی خزائن جلد ۹ صفحه (٥٤ آخر میں میں پھر دعا کی تحریک کرتا ہوں.میرے لئے بھی بہت دعا کریں، بہت دعا کریں، بہت دعا کریں.اللہ تعالیٰ مجھ میں وہ صلاحیتیں اور استعدادیں پیدا فرمائے جن سے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیاری جماعت کی خدمت کرسکوں اور ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے بنیں.کل ایک دوست نے مجھے خط لکھا اور اس میں یہ دعا دی، بڑی اچھی لگی مجھے، کہ میں یہ دعا کرتا ہوں کہ اگر آپ میں خلافت کے منصب کو نبھانے کی صلاحیت نہیں بھی ہے تو اللہ تعالیٰ پیدا فرمائے.یقیناً دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی یہ کارواں تمام تر کامیابیوں کے ساتھ آگے انشاء اللہ تعالیٰ رواں دواں رہے گا.
خطبات مسرور 13 $2003 آپ سے دعا کی درخواست ہے.لیکن اس بارے میں ایک وضاحت میں یہاں کر دوں کہ نظام جماعت اور خلافت کا ایک تقدس ہے جو کبھی آپ کو اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ لوگوں میں بیٹھ کر یہ باتیں کی جائیں کہ اس خلیفہ میں فلاں کمی ہے یا فلاں کمزوری ہے.آپ مجھے میری کمزوریوں کی نشاندہی کریں حتی الوسع کوشش کروں گا کہ ان کو دُور کروں لیکن مجلسوں میں بیٹھ کر باتیں کرنے والے کے خلاف نظام جماعت حرکت میں آئے گا اور اس کے خلاف کارروائی ہوگی.اس لئے میری یہی درخواست ہے کہ دعائیں کریں اور دعاؤں سے میری مدد کریں اور پھر ہم سب مل کر اسلام کے غلبہ کے دن دیکھیں.ان شاء اللہ.
$2003 14 خطبات مسہ
$2003 15 2 خطبات مسہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیاری جماعت سے بہت پیار ہے ۲ مئی ۲۰۰۳، مطابق ۲ بجرت ۱۳۸۲ هجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن (برطانیہ) دعا کے بغیر ایک مومن ایک لمحہ کے لئے بھی زندگی گزارنے کا تصور نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیاری جماعت آج پوری دنیا میں سوائے اس جماعت کے اور کہیں یہ اظہار نہیں مل سکتا.دعا اور حمہ کے ساتھ اعلیٰ مثالیں رقم کرنے کا عہد.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو خلافت سے وابستہ رکھے.ایم.ٹی.اے کی نعمت.مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیاری جماعت سے بہت پیار ہے.
خطبات مسہ $2003 16 تشہد وتعوذ کے بعد حضور انور نے سورۃ البقرۃ کی حسب ذیل آیت تلاوت فرمائی وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلَّ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهَرُ.وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدْنَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْ لَا أَنْ هَدَنَا اللهُ.لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبَّنَا بِالْحَقِّ وَنُوْدُوا اَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أَوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُوْنَ (سورة الاعراف: ۴۴) اور ہم ان کے سینوں سے کینے کھینچ نکالیں گے ان کے زیر تصرف نہریں بہتی ہوں گی اور وہ کہیں گے کہ تمام حمداللہ ہی کے لئے ہے جس نے ہمیں یہاں پہنچنے کی راہ دکھائی جبکہ ہم کبھی ہدایت نہ پاسکتے تھے اگر اللہ ہمیں ہدایت نہ دیتا.یقیناً ہمارے پاس ہمارے رب کے رسول حق کے ساتھ آئے تھے اور انہیں آواز دی جائے گی کہ یہ وہ جنت ہے جس کا تمہیں وارث ٹھہرایا گیا ہے بسبب اُس کے جو تم عمل کرتے تھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :- حمد اس تعریف کو کہتے ہیں جو کسی مستحق تعریف کے اچھے فعل پر کی جائے نیز ایسے انعام کنندہ کی مدح کا نام ہے جس نے اپنے ارادہ سے انعام کیا ہو.اور اپنی مشیت کے مطابق احسان کیا ہو.اور حقیقت حمد گما کہ صرف اسی ذات کے لئے متحقق ہوتی ہے جو تمام فیوض وانوار کا مبدء ہو اور علی وجہ البصیرت کسی پر احسان کرے، نہ کہ غیر شعوری طور پر یا کسی مجبوری سے.اور حمد کے یہ معنی صرف خدائے خبیر و بصیر کی ذات میں ہی پائے جاتے ہیں.اور وہی محسن ہے اور اول و آخر میں سب احسان اسی کی طرف سے ہیں.اور سب تعریف اسی کے لئے ہے اس دنیا میں بھی ، اُس دنیا میں بھی.اور ہر حمد جو اس کے غیروں کے متعلق کی جائے اس کا مرجع بھی وہی ہے.اللہ تعالیٰ نے لفظ حمد میں ان
$2003 17 خطبات مسرور صفات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جو اس کے ازلی نور میں پائی جاتی ہیں.“ (اعجاز المسيحـ ١٢٥ تا ١٢٧ - روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۲۹) دعا کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا دعا کا مضمون ایک ایسا مضمون ہے کہ جس کے بغیر مومن ایک لمحہ کے لئے بھی زندگی گزارنے کا تصور نہیں کر سکتا اور جب مومن کی دعا اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کی وجہ سے قبولیت کا درجہ پاتی ہے تو پھر بے اختیار مومن کا دل اللہ تعالیٰ کی حمد کے ترانے گانے لگتا ہے.گزشتہ دنوں جس طرح پوری جماعت کیا بچہ اور کیا بوڑھا، کیا مرد اور کیا عورت، کیا غریب اور کیا امیر اللہ کے حضور گریہ وزاری کرتے ہوئے جھکے اور اپنی ذات سے بے خبر ہوئے اس کے حضور اپنا سر رکھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے محض اور محض اپنے فضل سے ہماری خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس پیاری جماعت نے جس خوشی اور اللہ تعالیٰ کی حمد کا اظہار کیا ہے وہ اس جماعت کا ہی خاصہ ہے.آج پوری دنیا میں سوائے اس جماعت کے اور کہیں یہ اظہار نہیں مل سکتا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کا اس دور میں یہی نشان کافی ہے لیکن گر دل میں ہو خوفِ کردگار.اللہ تعالیٰ مومنوں کی جماعت کو جب اگلے جہان میں جنت کی بشارت دیتا ہے تو اس کے نظارے صرف بعد میں ہی کروانے کے وعدے نہیں کرتا بلکہ اس دنیا میں بھی اخلاص ، وفا اور پیار کے نمونے دکھا کر آئندہ جنتوں کے وعدوں کو مزید تقویت دیتا ہے.اس کے نظارے روزانہ ڈاک میں آجکل میں دیکھ رہا ہوں.دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا ہے کہ کس طرح ایک شخص جو سینکڑوں ہزاروں میل دور ہے صرف اور صرف خدا کی خاطر خلیفہ وقت سے اظہار محبت و پیار کر رہا ہے اور یہی صورت ادھر بھی قائم ہو جاتی ہے.ایک بجلی کی رو کی طرح فوری طور پر وہی جذبات جسم میں سرایت کر جاتے ہیں.الحمد لله، الحمد لله دعا اور حمد کے ساتھ اعلیٰ مثالیں رقم کرنے کا عہد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے: - اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي اذْهَبَ عَنِّي الْحَزَنِ وَ أَتَانِي مَا لَمْ يُؤْتَ اَحَدٌ مِنَ الْعَالَمِین.اس خدا کی تعریف ہے جس نے میرا غم دور کیا اور مجھ کو وہ چیز دی جو اس زمانہ کے لوگوں میں سے کسی کو نہیں دی.(تذکره صفحه ٦٦٤ مطبوعه ١٩٦٩ء)
خطبات مسرور 18 $2003 لیکن ان جذبات اور احساسات کو ہم نے وقتی نہیں رہنے دینا بلکہ دعا اور اللہ تعالیٰ کی حمد کے صلى الله ساتھ اس کی اعلیٰ سے اعلیٰ مثالیں رقم کرنے کا عہد کرنا چاہئے.ہم اس رسول ﷺ کے ماننے والے ہیں جس نے عسر اور یسر میں اللہ تعالیٰ سے وفا اور اس کی حمد کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی.آپ ابتدائی دور میں بھی اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کرتے رہے.چنانچہ دیکھو مراد میں بھر آئیں اور آپ فاتحانہ شان سے مکہ میں داخل ہوئے لیکن کس حالت میں.اس بارہ میں ایک روایت ہے :- ابن اسحاق روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن ابو بکر نے مجھ سے بیان کیا کہ (فتح مکہ کے دن ) جب آنحضرت می له دوی طوی‘ مقام کے پاس پہنچے تو اس وقت آپ نے سرخ رنگ کی دھاری دار چادر کے پہلو سے اپنا چہرہ مبارک قدرے ڈھانکا ہوا تھا.اور مکہ کی فتح کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے جو آپ کو عزت عطا فرمائی تھی، اس کی وجہ سے آپ نے اپنا سر مبارک اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی سے اس قدر جھکایا ہوا تھا کہ قریب تھا کہ آپ کی داڑھی مبارک پالان کے اگلے حصہ سے جا چھوئے.( سيرة ابن هشام ذكر فتح مكة اس حالت کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:- حلو جو خدا تعالیٰ کے خاص بندوں کو دیا جاتا ہے وہ انکسار کے رنگ میں ہوتا ہے.اور شیطان کا عُلُو استکبار سے ملا ہوا تھا.دیکھو ہمارے نبی کریم ﷺ نے جب مکہ کو فتح کیا تو آپ نے اسی طرح اپنا سر جھکایا اور سجدہ کیا جس طرح ان مصائب اور مشکلات کے دنوں میں جھکاتے اور سجدے کرتے تھے جب اسی مکہ میں آپ کی ہر طرح سے مخالفت کی جاتی اور دکھ دیا جاتا تھا.جب آپ نے دیکھا کہ میں کس حالت میں یہاں سے گیا تھا اور کس حالت میں اب آیا ہوں تو آپ کا دل خدا کے شکر سے بھر گیا اور آپ نے سجدہ کیا.(الحكم ٣١/ اکتوبر ۱۹۰۲ ، ملفوظات جلددوم صفحه ٤٠٤ حاشيه) اللہ تعالیٰ ہمیں اس مضمون کو حمد کے مضمون کو جاری رکھنے کی توفیق دے.اس بارہ میں کچھ مزید احادیث بھی پیش ہیں.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ایک دن میں سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِہ ایک سو مرتبہ کہا، اُس کی سب خطائیں معاف کر دی جاتی ہیں خواہ وہ سمندر
خطبات مسرور 19 $2003 کی جھاگ کی طرح ہوں یعنی بہت زیادہ ہوں.(صحيح البخارى كتاب الدعوات باب فضل التسبيح حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : دو ایسے کلمات ہیں جو زبان پر بہت ہلکے ہیں لیکن میزان میں بہت بھاری ہوں گے اور خدائے رحمان کو بہت محبوب ہیں.وہ کلمات یہ ہیں: سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيم“.(صحیح البخاری کتاب التوحيد باب فى قول الله تعالى ونضع الموازين القسط اليوم القيمة ، كتاب الداعوات باب فضل التسبيح ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز پکارا جائے گا کہ حَمَّادُون کھڑے ہو جائیں.تو ایک گروہ کھڑا ہو جائے گا اور ان کے لئے ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا.پھر وہ جنت میں داخل ہونگے.عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ! یہ حَمَّادُون کون لوگ ہیں؟ اس پر آپ نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرتے ہیں.(حلية الاولياء لابی نعیم.جلد ٦ صفحه ٦٢ - صفوة الصلوة از عبدالرحمان بی علی بن محمد بن ابو الفرج جلد نمبر ۱ اللہ کرے کہ اس جماعت میں کوئی ایسا فرد نہ ہو جو ان سے باہر ہو.صفحه ۱۸۳ کامیابی پر سجدات شکر بجالانے کی نصیحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں :- واجب اور ضروری ہے کہ ہر کامیابی پر مومن خدا تعالیٰ کے حضور سجدات شکر بجالائے کہ اس نے محنت کو ا کارت تو نہیں جانے دیا.اس شکر کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ سے محبت بڑھے گی اور ایمان میں ترقی ہوگی اور نہ صرف یہی بلکہ اور بھی کامیابیاں ملیں گی، کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم میری نعمتوں کا شکر کرو گے تو البتہ میں نعمتوں کو زیادہ کروں گا.اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو یا درکھو عذاب سخت میں گرفتار ہو گے.اس اصول کو ہمیشہ مد نظر رکھو.مومن کا کام یہ ہے کہ وہ کسی کامیابی پر جو اسے دی جاتی ہے شرمندہ ہوتا ہے اور خدا کی حمد کرتا ہے کہ اس نے اپنا فضل کیا اور اس طرح پر وہ قدم آگے رکھتا ہے اور ہرا بتلا میں ثابت قدم رہ کر ایمان پاتا ہے.(ملفوظات جلد اوّل صفحه ۹۸.جدید ایڈیشن)
خطبات مسرور 20 حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مزید فرماتے ہیں :- $2003 خالص احسان جو مخلوق میں سے کسی کام کرنے والے کے کسی کام کا صلہ نہ ہو مومنوں کے دلوں کو شنا، مدح اور حمد کی طرف کھینچتا ہے.لہذا وہ خلوص قلب اور صحت نیت سے اپنے محسن کی حمد وثنا کرتے ہیں.اسی طرح بغیر کسی وہم کے جو شک وشبہ میں ڈالے خدائے رحمان یقیناً قابل تعریف بن جاتا ہے، کیونکہ ایسے انعام کرنے والی ہستی جو لوگوں پر بغیر ان کے کسی حق کے طرح طرح کے احسان کرے اُس ہستی کی ہر وہ شخص حمد کرے گا جس پر انعام واکرام کیا جاتا ہے اور یہ بات انسانی فطرت کا خاصہ ہے.پھر جب اتمام نعمت کے باعث حمد اپنے کمال کو پہنچ جائے تو وہ کامل محبت کی جاذب بن جاتی ہے اور ایسا محسن اپنے محبوں کی نظر میں بہت قابلِ تعریف اور محبوب بن جاتا ہے اور یہ صفت رحمانیت کا نتیجہ ہے.“ (اعجاز المسيح - روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ١٠٥-١٠٤) آپ مزید فرماتے ہیں کہ: وہ ہر چیز کا خالق ہے.اور آسمانوں اور زمینوں میں اسی کی حمد ہوتی ہے.اور پھر حمد کرنے والے ہمیشہ اس کی حمد میں لگے رہتے ہیں اور اپنی یا دخدا میں محو رہتے ہیں اور کوئی چیز ایسی نہیں مگر ہر وقت اس کی تسبیح وتحمید کرتی رہتی ہے.اور جب اس کا کوئی بندہ اپنی خواہشات کا چولہ اتار پھینکتا ہے، اپنے جذبات سے الگ ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کی راہوں اور اس کی عبادات میں فنا ہو جاتا ہے، اپنے اُس رب کو پہچان لیتا ہے جس نے اپنی عنایات سے اس کی پرورش کی وہ اپنے تمام اوقات میں اس کی حمد کرتا ہے اور اپنے پورے دل بلکہ اپنے ( وجود کے ) تمام ذرات سے اس سے محبت کرتا ہے تو اس وقت وہ شخص عالمین میں سے ایک عالم بن جاتا ہے.....ایک اور عالم وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے طالبوں پر رحم کر کے آخری زمانہ میں مومنوں کے ایک دوسرے گروہ کو پیدا کرے گا اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام لَهُ الْحَمْدُ فِي الْأَوْلَى وَالْآخِرَة میں اشارہ فرمایا ہے.اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ہر دوا حمدوں کا ذکر فرما کر ہر دو کو اپنی بے پایاں نعمتوں میں شمار کیا ہے.ان میں سے پہلے احمد تو ہمارے نبی احمد مصطفے اور رسول مجتبی ہیں اور دوسرا احمد آخر الزمان ہے جس کا نام محسن خدا کی طرف سے مسیح اور مہدی بھی رکھا گیا
21 $2003 خطبات مسرور ہے.یہ نکتہ میں نے خدا تعالیٰ کے قول الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْن سے اخذ کیا ہے.پس ہر غور وفکر کرنے والے کو غور کرنا چاہئے.(اعجاز المسيح - روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۳۷ تا ۱۳۹ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو خلافت سے وابستہ رکھے حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :- میں ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں اور یہ وصیت کرتا ہوں کہ تمہارا اعتصام حبل اللہ کے ساتھ ہو.قرآن تمہارا دستور العمل ہو.باہم کوئی تنازع نہ ہو کیونکہ تنازع فیضان الہی کو روکتا ہے.موسیٰ علیہ السلام کی قوم جنگل میں اسی نقص کی وجہ سے ہلاک ہوئی.رسول اللہ ﷺ کی قوم نے احتیاط کی اور وہ کامیاب ہو گئے.اب تیسری مرتبہ تمہاری باری آئی ہے.اس لئے چاہئے کہ تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میت غسال کے ہاتھ میں ہوتی ہے.تمہارے تمام ارادے اور خواہشیں مردہ ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ اور پھر ہر روز دیکھو کہ ظلمت سے نکلتے ہو یا نہیں.استغفار کثرت سے کرو اور دعاؤں میں لگے رہو.وحدت کو ہاتھ سے نہ دو.دوسرے کے ساتھ نیکی اور خوش معاملگی میں کوتاہی نہ کرو.تیرہ سو برس کے بعد یہ زمانہ ملا ہے اور آئندہ یہ زمانہ قیامت تک نہیں آسکتا.پس اس نعمت کا شکر کرو کیونکہ شکر کرنے پر از دیاد نعمت ہوتا ہے.لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيْدَنَّكُمْ ﴾ (ابراہیم: ۸.لیکن جو شکر نہیں کرتا وہ یاد ۸) رکھے : ﴿إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيْد - (ابراہیم: ۸) (خطبات نور صفحه ۱۳۱) اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس سے محفوظ رکھے اور ہمیشہ خلافت سے وابستہ رکھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے کہ ”نَحْمَدُكَ وَنُصَلّى.يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُوْرَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ.وَاللَّهُ مُتِمُّ نُوْرِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُوْنَ.سَنُلْقِيْ فِي قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَانْتَهَى أَمْرُ الزَّمَانِ إِلَيْنَا.أَلَيْسَ هَذَا بِالْحَقِّ.ترجمہ: ”ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں.لوگ چاہتے ہیں کہ
22 $2003 خطبات مسرور خدا کے ٹور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں.مگر خدا اس نور کو نہیں چھوڑے گا جب تک پورا نہ کرلے اگر چہ منکر کراہت کریں.ہم عنقریب ان کے دلوں میں رعب ڈالیں گے.جب خدا کی مدد اور فتح آئے گی اور زمانہ ہماری طرف رجوع کرلے گا.تو کہا جائے گا کہ کیا یہ سچ نہ تھا.“ (تذکره - صفحه ٤٨ - مطبوعه ١٩٦٩ء) آخر پر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ گزشتہ خطبہ میں میں نے ایک دوست کے خط کا ذکر کیا تھا اس پر بعض دوستوں نے احباب نے بہت زیادہ رد عمل کا اظہار کیا ہے.میں اس دوست کو ذاتی طور پہ جانتا ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مخلص خاندان کے مخلص فرد ہیں لیکن اپنی سمجھ کے مطابق جو انہوں نے سمجھا اس کا اظہار کیا.لیکن اس وجہ سے مجھے یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ جماعت کے سامنے رکھ دوں کیونکہ مجھے خطرہ تھا کہ ہمدردی کا لبادہ اوڑھ کر یہ ذکر مجلسی رنگ نہ اختیار کر جائے اور کہیں کوئی نادان ٹھو کر نہ کھائے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت بہت پھیل چکی ہے.الْحَمْدُ لِلہ اور اس زمانہ میں اس نے ایم ٹی اے جیسی نعمت بھی ہمیں عطا فرمائی ہے، فوری رابطے کے سامان پیدا ہو جاتے ہیں اس لئے ایسی باتوں کا ذکر کرنا میری مجبوری ہے.خطوط کا ایک سلسلہ ہے جس میں حوصلہ دلایا جاتا ہے.جَزَاكَ الله لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی ذات کے لئے مجھے مکمل حوصلہ ہے اور کوئی ایسی بات نہیں.لیکن جماعت کی خاطر بعض باتیں کہنی پڑتی ہیں.کہیں یہ ذکر آجاتا ہے جذبات میں کہ یہ جماعت کے سامنے کہنے کی چنداں ضرورت نہ تھی ہختی کرنے کی ضرورت نہیں ہے.تو اس بارہ میں نہایت پیار سے میں عرض کر دیتا ہوں کہ مجھے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیاری جماعت سے بہت پیار ہے اور بختی یا نرمی کے مواقع اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھی طرح جانتا ہوں اور انشاء اللہ تعالیٰ اس کی دی ہوئی توفیق سے فیصلے کرنے کی کوشش کروں گا.اللہ تعالیٰ اپنی رضا کے مطابق کام کرنے کی مجھے توفیق دے.لیکن پھر یہ بڑے پیار سے عرض کر دوں کہ جو جماعت کے لئے بہتر سمجھو ں گا ضرور کہوں گا اور یہ کسی کو کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس کی ضرورت تھی یا نہیں تھی.جب کہہ دیا ہے تو جماعت کے مفاد میں ہو گا.اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا، علیم ہے، قدرتوں کا مالک ہے، وہ آپ ہی میرے دل سے خیال نکال دے گا.مجھے اس بارہ میں کسی کے اس تبصرہ کی ضرورت نہیں کہ کیوں کہا.ہاں حالات سے باخبر رکھیں تا کہ تربیتی نقطۂ نظر سے جہاں کہیں کچھ کہنے کی ضرورت ہو کہہ سکوں.لیکن
23 $2003 خطبات مسرور آخر میں پھر ایک وضاحت کردوں کہ اس بات کو ختم کریں، مزید خطوط میں ان کا ذکر نہ کریں.ہاں اپنے اخلاص ، وفا اور پیار کا اظہار کریں.اللہ تعالیٰ کی حمد کے گیت گائیں اور اسی کی حمد کرتے ہوئے ، دعا کرتے ہوئے اس قافلے کو آگے بڑھاتے چلے جائیں.
$2003 24 خطبات مسہ
$2003 25 31 خطبات مسہ ہمارے ایمانوں کو تقویت دینے کے لئے ایسی پیشگوئیاں بھی قرآن شریف میں موجود ہیں جو غیروں کا منہ بند کرنے کے لئے کافی ہیں ۹ مئی ۲۰۰۳ نمطابق ۹ هجرت ۱۳۸۲ هجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن (برطانیہ) اللہ تعالی کی صفت "نبیر" کی عرفان انگیز تشریح حضرت خلیفۃ امسیح الرابع کی وفات پر پاکستانی اخبارات کا گھٹیار د عمل..زکوة کا فریضہ نظام خلافت کی برکت ی نظام کائنات اور قرانی پیشگوئیاں انسانیت کو بچانے کے لئے دعائیں کریں حضرت ﷺ کو خیر خدا کے ذریعہ مستقبل کی باتوں کا علم دیا جانا حضرت مسیح موعود کو دی جانے والی خبریں جماعت کے قیام اور ترقی کی پیشگوئی جماعت احمدیہ انگلستان اور ایم.ٹی.اے کے کارکنان کے لئے دعا
خطبات مسہ $2003 26 تشہد وتعوذ کے بعد حضور انور نے سورۃ البقرۃ کی حسب ذیل آیت تلاوت فرمائی يأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا كُوْنُوْا قَوَّامِيْنَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى الَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (سورة المائده: ٩) حضرت خلیفہ المسح الرابع رحم اللہ تعالیٰ نے صفات باری تعالیٰ پر جو خطبات کا سلسلہ شروع فرمایا ہوا تھا میں بھی کوشش کروں گا کہ اس کو فی الحال آگے چلاؤں.صفت خبیر کے بارہ میں حضور رحمہ اللہ بیان فرمارہے تھے.ابھی جو آیات تلاوت کی ہیں ان کا ترجمہ ہے: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو.انصاف کرو، یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو.یقیناً اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو] حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی وفات پر پاکستان کے اخبارات کا گھٹیا رد عمل لیکن افسوس ہے کہ آج مسلمان بہت سے احکامات کی طرح اس حکم کو بھی بھلا بیٹھے ہیں اور یہی سمجھتے ہیں کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں یا کر رہے ہیں اس سے اللہ تعالیٰ باخبر نہیں.ایسے لوگوں کے
خطبات مسرور 27 $2003 نزدیک صرف ان کی مرضی کی تفسیر اور ان کی مرضی کے احکامات ہی احکامات کا درجہ رکھتے ہیں.حضور رحمہ اللہ کی وفات پر پاکستان میں بعض اخبارات نے جس گندہ دینی اور ضلالت کی مثال قائم کی ہے اس پر سوائے انا للہ پڑھنے کے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا.بہر حال پیشگوئیوں کے مطابق یہ ہونا تھا اور ہمارے ایمانوں کو مزید تقویت ملتی ہے کہ خبیر خدا نے ان حالات کے بارے میں پہلے ہی آنحضرت ﷺ کو اس کی خبر دے دی تھی.اور آج ہم اپنی آنکھوں کے سامنے انہیں پورا ہوتے دیکھتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے اس زمانہ میں مسلمانوں کے تغیر کے بارہ میں جو پیش خبریاں فرمائی تھیں اس میں سے ایک کا مختصر ذکر حضرت مصلح موعودؓ کے الفاظ میں یہاں بیان کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ ایک تغیر مسلمانوں میں آپ ﷺ نے یہ بیان فرمایا کہ لوگ زکوۃ کو تاوان سمجھیں گے.یہ بھی حضرت علی سے البز ار نے نقل کیا ہے.چنانچہ اس وقت جب کہ مسلمانوں پر چاروں طرف سے آفات نازل ہو رہی ہیں اور زکوۃ کے علاوہ بھی جس قدر صدقات و خیرات وہ دیں کم ہیں.اکثر مسلمان زکوۃ کی ادائیگی سے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض ہے جی چراتے ہیں اور جہاں اسلامی احکام کے ماتحت زکوۃ لی جاتی ہے وہاں تو بادل ناخواستہ کچھ ادا بھی کر دیتے ہیں مگر جہاں یہ انتظام نہیں وہاں سوائے شاذ و نادر کے بہت لوگ زکوۃ نہیں دیتے اور جو اقوام زکوۃ دیتی بھی ہیں وہ اسے نمود کا ذریعہ بنالیتی ہیں اور اس رنگ میں دیتی ہیں کہ دوسرا اسے زکوۃ نہیں خیال کرتا بلکہ قومی کاموں کے لئے چندہ سمجھتا ہے.پاکستان میں جب سے اسلامی قوانین کا زیادہ نفاذ شروع ہوا ہے زکوۃ کو بھی لازمی قرار دیا گیا تو یہ حالت ہے کہ احمدی غیر مسلم ، لیکن بعض لوگ اپنی زکوۃ بچانے کے لئے بنکوں میں اپنے آپ کو احمدی ظاہر کر دیتے ہیں.یار میں جمع ہیں سال ختم ہونے سے دو دن پہلے رقم نکلوالی تا کہ اس پر ز کوۃ نہ ادا کرنی پڑے اور جو کرتے ہیں وہ بھی حضرت مصلح موعود نے جس طرح فرمایا نام و نمود کی خاطر.پھر کیونکہ برکت نہیں ہے، نظام نہیں ہے اخباروں میں زکوۃ کی تقسیم کی خبریں آتی ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے پتہ نہیں کیا شور پڑ گیا ہے اور بعض دفعہ یہ زکوۃ کمیٹیاں جو قائم ہیں اخباروں کی خبروں کی مطابق ہی آپس میں دست و گریبان ہو رہی ہوتی ہیں.ضمنا ایک یاد آ گیا جب میں گھانا میں تھا تو وہاں بعض غیر احمدی شرفاء اپنی زکوۃ ہمارے پاس لے آتے تھے کہ ہم جماعت احمدیہ کو یہ دیتے
28 $2003 خطبات مسرور ہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ جماعت جہاں خرچ کرے گی اور صحیح مقصد کے لئے خرچ کرے گی اور یہی ہماری زکوۃ کا مقصد ہو گا جو پورا ہو جائے گا اگر ہم نے اپنے علماء کو دی تو کوئی پتہ نہیں کیا ہو کیونکہ ا جب ان کی دی جاتی ہے تو وہاں ان کے اپنے مسائل اور بندر بانٹ شروع ہو جاتی ہے.خلافت کے نظام کی برکت اور اہمیت اللہ تعالیٰ کا یہ شکر ہے اور جتنا بھی ہم شکر کریں کم ہے اس پر حمد کے گیت گائیں کہ اس سے ہمیں ایک ایسے نظام میں ایک ایسی لڑی میں پرو دیا ہے جہاں خلیفہ وقت کے سایہ تلے ہر آنے والی رقم کی ایک ایک پائی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی سوچ سمجھ کر خرچ کی جاتی ہے.اب صفت الخبیر کے ذکر پر ہی مشتمل بعض مزید آیات کریمہ میں پڑھتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيْرًا بَصِيرًا ( سورۃ الاسراء: ۳۱).تیرا رب یقیناً جس کے لئے چاہتا ہے رزق کو وسعت بھی دیتا ہے اور تنگ بھی کرتا ہے.یقینا وہ اپنے بندوں سے بہت باخبر ہے (اور ) گہری نظر رکھنے والا ہے.پھر فرمایا: ﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ ( سورة الحج : ۶۴).کیا تو نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا تو زمین اس سے سرسبز ہو جاتی ہے.یقینا اللہ بہت باریک بین ( اور ) ہمیشہ باخبر رہتا ہے.پھر سورۃ الفرقان میں فرماتا ہے: ﴿ وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوْتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِهِ.وَكَفَى بِهِ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيْرًا ﴾ (سورة الفرقان : ۵۹).اور تو کل کر اُس زندہ پر جو کبھی نہیں مرے گا اور اس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکیزگی بیان کر اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں پر خبر رکھنے کے لحاظ سے بہت کافی ہے.الحمد للہ کہ اس کے نظارے بھی جماعت احمدیہ نے بہت دیکھے.اب یہ صرف قرآن کریم کا بیان مومنین کے لئے نہیں ہے بلکہ ہمارے ایمانوں کو تقویت دینے کے لئے ایسی پیشگوئیاں بھی قرآن شریف میں موجود ہیں جو غیروں کا منہ بند کرنے کے لئے بھی کافی ہیں.اور ہر پاک دل یہ گواہی دیتا ہے کہ یہ کتاب علیم وخبیر خدا کی طرف سے ہے جو آنحضرت ﷺ پر اتری.بعض ایسی
$2003 29 خطبات مسرور خبریں ہیں مستقبل کے متعلق اور حالات کے متعلق کہ صحابہ شاید اس وقت اس کا اندازہ بھی نہ کر سکتے ہوں.مثلاً جیسے فرمایا کہ ﴿وَإِذَ السَّمَاءُ كُشِطَتْ ﴾ (التکویر :۱۲) اور جب آسمان کی کھال ادھیڑ دی جائے گی.اب آسمان کے رازوں کی جستجو کرنے والے گویا آسمان کی کھال ادھیڑ نے کے برابر ہی کام ہے.زمانہ قدیم میں اجرام فلکی کو انسان ظاہری آنکھ سے ہی دیکھ سکتا تھا.ابھی تک دور بین وغیرہ کی ایجاد نہ ہوئی تھی.پھر ۱۶۰۹ء میں اٹلی کے سائنسدان گلیلیو (Galileo Galilei) نے دور بین ایجاد کی.اس کے ساتھ ہی اس نے اجرام فلکی کے بارہ میں کئی دریافتیں کرنی شروع کیں جس میں Sun Spots ، چاند پر پہاڑ اور مشتری (Jupiter) کے چار چاندوں کا انکشاف تھا.اسی طرح گلیلیو اور دوسرے ماہرین نے آسمان میں موجود اجرام کے بارہ میں بڑی تفاصیل بیان کیں.(انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا زیر لفظ Astronomy) آئندہ زمانہ میں ظاہر ہونے والی خبریں جو اس زمانہ میں ظاہر ہورہی ہیں اور آئندہ بھی ظاہر ہوتی چلی جائیں گی جن کو قرآن کریم نے بیان کیا ہے اس میں جو ہم آج کل دیکھتے ہیں اس میں Radiation کا عذاب ہے اور Atomic Warfare ہے.فرمایا يَوْمَ تَكُوْنُ السَّمَاءُ كَالْمُهْلِ.وَتَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ.وَلَا يَسْتَلُ حَمِيْمٌ حَمِيْمًا يُبَصَّرُوْنَهُمْ.يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِى مِنْ عَذَابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيْهِ ﴾ (سورة المعارج : ٩ تا ١١).جس دن آسمان پچھلے ہوئے تانبے کی طرح ہو جائے گا.اور پہاڑ ڈھنی ہوئی اون کی طرح ہو جائیں گے.اور کوئی گہرا دوست کسی گہرے دوست کا (حال) نہ پوچھے گا.وہ انہیں اچھی طرح دکھلا دیئے جائیں گے.مجرم یہ چاہے گا کہ کاش وہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لئے فدیہ میں دے سکے اپنے بیٹوں کو.جب (Atomic Warfare ہوتو اس وقت یہ ممکن ہے کہ آسمان گالمُهْل یعنی پچھلے ہوئے تانبے کی طرح دکھائی دے.اس میں Radiation کے عذاب کی طرف اشارہ ہے جو کہ اتنی خوفناک چیز ہے کہ اب تک جہاں جہاں تجربے ہوئے ہیں وہاں لا ز ما یہی باتیں دکھائی دی ہیں کہ وہ ایسا وقت ہوتا ہے کہ کوئی اپنے کسی گہرے دوست کو بھی نہیں پوچھتا.یہاں تک کہ عورتیں اپنے بچوں کو بھول گئی ہیں اور ہر ایک کے اندر Atomic Warfare سے یا Radiation سے اتنی خوفناک
$2003 30 خطبات مسرور گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے کہ اگر اس وقت کسی سے پوچھا جائے تو وہ اپنے بچوں کو قربان کرنے کے لئے بھی تیار ہو جاتی ہیں کہ اس مصیبت سے نجات ہو کسی طرح.انسانیت کو بچانے کے لئے بہت دعائیں کریں دوسری جنگ عظیم میں یہ نظارے دیکھے گئے حالانکہ وہ بہت کم طاقت کے ایٹم بم تھے اور اب تو اس سے کئی گنا زیادہ طاقت کے ایٹم بم تیار ہو چکے ہیں اور اس وقت جو دنیا کے حالات ہیں وہ یہی نظر آرہے ہیں کہ دنیا بڑی تیزی سے تباہی کے کنارے کی طرف بڑھ رہی ہے.پس آج ہمیشہ کی طرح جماعت احمدیہ کا فرض ہے، جس کے دل میں انسانیت کا درد ہے کہ انسانیت کو بچانے کے لئے دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں.دنیا خدا کو پہچان لے اور تباہی سے جس حد تک بچ سکتی ہے بچے.آنحضرت ﷺ کے بیان فرمودہ وہ ارشادات جن میں آپ نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر قبل از وقت کسی بات کے ظاہر ہونے کی خبر دی ان میں سے کچھ بیان کرتا ہوں.الله مشرکین مکہ کے سرداروں کی قتل گاہوں کے متعلق آنحضرت ﷺ نے خبر دی تھی.حضرت انس سے روایت ہے کہ ہم حضرت عمرؓ کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان کسی جگہ تھے.آپ نے ہمیں صلى الله اہل بدر کے بارہ میں بتانا شروع کیا اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ بدر سے ایک روز قبل ان کفار مکہ کی قتل گاہیں بتائیں اور فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو یہ کل فلاں فلاں کی قتل گاہ ہوگی.حضرت عمرؓ نے فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے وہ بعینہ وہیں پر گرے.بعد میں انہیں ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا.پھر رسول کریم ﷺ تشریف لائے اور دو دفعہ نام لے کر آواز دی کہ اے فلاں بن فلاں! کیا تم نے وہ وعدہ سچ نہیں پایا جو تمہارے رب نے تم سے کیا تھا؟ میں نے تو اس وعدہ کو سچ ہی پایا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے کیا ہے.اس پر حضرت عمرؓ نے عرض کی : کیا آپ ﷺ مر دوں سے باتیں کرتے ہیں جن میں کوئی روح نہیں.آپ نے فرمایا کہ تم میری باتوں کو ان سے زیادہ نہیں سنتے.صلى الله (سنن نسائی کتاب الجنائز باب ارواح المومنين الله تعالیٰ نے یہ بھی انتظام کیا.پھر یمن، شام اور مشرق کی فتوحات کی خبر.حضرت سلمان فارسی بیان کرتے ہیں کہ غزوہ صلى الله خندق کے موقع پر خندق کی کھدائی کے دوران ایک سخت چٹان میرے آڑے آئی تو رسول الله له
صل الله 31 $2003 خطبات مسرور اس وقت میرے پاس ہی تھے.آپ نے جب مجھے اس سخت چٹان کو مشکل سے توڑتے دیکھا تو آپ نے میرے ہاتھ سے کدال لے لی اور اس چٹان پر ماری تو اس سے ایک چنگاری نکلی.آپ نے دوبارہ کدال ماری تو پھر چنگاری نکلی.تیسری بار بھی ایسے ہی ہوا.اس پر میں نے عرض کی میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں.آپ کے کدال مارنے سے یہ کیسی چنگاریاں نکلی تھیں؟ آپ نے فرمایا کیا تم نے بھی یہ چنگاریاں دیکھی ہیں.میں نے عرض کی جی ہاں.فرمایا پہلی مرتبہ نکلنے والی چنگاری پر اللہ تعالیٰ نے مجھے یمن کی فتح کی خبر دی ہے.دوسری بار شام اور مغرب اور تیسری بار نکلنے والی چنگاری سے مشرق کی فتح کی خبر دی ہے.(سيرة النبوية لابن هشام ذكر غزوة خندق پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ نے کس شان سے یہ پیشگوئی پوری فرمائی.حضرت زینب بنت جحش بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت یہ گھبرائے ہوئے ان کے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں.ہلاکت اور بربادی ہو عرب کے لئے اُس شر اور برائی کی وجہ سے جو قریب آگئی ہے.آج یا جوج ماجوج کی دیوار سے اتنا سا سوراخ کھل گیا ہے.آپ نے وضاحت کے لئے اپنی دوانگلیوں یعنی انگو ٹھے اور اس انگلی کو ملایا اور حلقہ بنایا.میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول ! کیا ہم ہلاک ہو جائیں جب کہ ہم میں نیک لوگ بھی موجود ہوں گے.آپ نے فرمایا ہاں اس صورت میں کہ خبث اور برائی بڑھ جائے اور وہ نیکی پر غالب آجائے.بخاری کتاب الفتن با ب ياجوج و ماجوج حاطب بن ابی بلتعہ کا اہل مکہ کو خط روانہ کرنا اور اللہ تعالیٰ کا آنحضور کو اس سے آگاہ فرمانا، اس کا ذکر تو قرآن شریف میں بھی ہے.اس کا حدیث میں یہ ذکر ہے کہ حاطب بن ابی بلتعہ آنحضرت کے بدری صحابہ میں سے تھے.انہوں نے اپنے بھولے پن میں اہل مکہ سے ہمدردی جتانے کے لئے ایک خط لکھا جس میں اہل مکہ کو آنحضرت مہ کے مکہ کی طرف حملہ کی غرض سے کوچ کرنے کا لکھا تھا.ابھی یہ خط انہوں نے روانہ ہی کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو الله اس کی خبر دے دی.چنانچہ آنحضور ﷺ نے حضرت علی، حضرت ابو مرثد غنوی اور حضرت زبیر بن العوام کو گھوڑوں پر روانہ کیا اور فرمایا کہ فلاں جگہ روضة خاخ میں ایک مشرک عورت تم کو ملے گی اس
32 $2003 خطبات مسرور کے پاس مشرکین مکہ کے نام حاطب بن ابی بلتعہ کا خط ہے.حضرت علی کہتے ہیں کہ ہم نے وہیں جا لیا جہاں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا.ان سے پوچھا گیا تو اس نے خط کی عدم موجودگی کا اظہار کیا.اس پر حضرت علی اور آپ کے ساتھیوں نے اس کے اونٹ کو بٹھا لیا اور اس سے سختی سے دریافت کیا تو اس عورت نے اپنی مینڈھیوں سے حاطب بن ابی بلتعہ کا لکھا ہوا اہل مکہ کے نام خط نکال کر ہمیں دے دیا.( بخاری، کتاب المغازی، باب فضل من شهد بدراً ) پھر حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کے برتن میں مکھی گر جائے تو اسے ڈبولو اور پھر نکال دو کیونکہ اس کے ایک پر میں شفا اور دوسرے میں بیماری ہے.(بخاری کتاب بدء الخلق باب اذا وقع الذباب في الأناء).اب تو یہ تحقیق سے بھی ثابت ہو گیا ہے کہ کبھی کے ایک پر میں شفا اور دوسرے میں بیماری ہوتی ہے.جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے چودہ سو سال قبل بیان فرما دیا تھا.حضرت مسیح موعود کو دی جانے والے واقعات کی خبریں اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آئندہ زمانہ میں ظاہر ہونے والے جن واقعات کی خبر دی ہے ان کے چند نمونے پیش کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے والد کی وفات کی خبر جو ملی تو فرماتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ جب میرے والد صاحب خدا ان کو غریق رحمت کرے، اپنی آخری عمر میں بیمار ہوئے تو جس روز ان کی وفات مقدر تھی دو پہر کے وقت مجھ کو الہام ہوا.'والسماء والطارق اور ساتھ ہی دل میں ڈالا گیا کہ یہ ان کی وفات کی طرف اشارہ ہے.اور اس کے یہ معنی ہیں کہ قسم ہے آسمان کی اور قسم ہے اس حادثہ کی جو آفتاب کے غروب کے بعد پڑے گا.مجھے قتم ہے اللہ تعالیٰ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جس پر جھوٹ بولنا ایک شیطان اور لعنتی کا کام ہے کہ ایسا ہی ظہور میں آیا.( حقيقة الوحى - روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۱۸ نشان (۲۱
$2003 33 خطبات اليس الله بکاف عبده اسی ضمن میں آپ فرماتے ہیں کہ : ” جب مجھے یہ خبر دی گئی کہ میرے والد صاحب آفتاب غروب ہونے کے بعد فوت ہو جائیں گے تو بموجب مقتضائے بشریت کہ مجھے اس خبر کے سننے سے درد پہنچا اور چونکہ ہماری معاش کے اکثر وجوہ انہیں کی زندگی سے وابستہ تھے...اس لئے یہ خیال گزرا کہ ان کی وفات کے بعد کیا ہوگا.اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ شاید تنگی اور تکلیف کے دن ہم پر آئیں گے اور یہ سارا خیال بجلی کی چمک کی طرح ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصہ میں دل میں گزر گیا تب اسی وقت غنودگی ہو کر یہ دوسرا الہام ہوا " أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ» یعنی کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے.اس الہام الہی کے ساتھ دل ایسا قوی ہو گیا کہ جیسے ایک سخت دردناک زخم کسی مرہم سے ایک دم میں اچھا ہو جاتا ہے..ہمیں نے اسی وقت سمجھ لیا کہ خدا مجھے ضائع نہیں کرے گا.تب میں نے ایک ہندو کھتری ملا وامل نام کو جو ساکن قادیان ہے اور ابھی تک زندہ ہے وہ الہام لکھ کر دیا اور سارا قصہ اس کو سنایا اور اس کو امرتسر بھیجا کہ تاحکیم مولوی محمد شریف کلانوری کی معرفت اس کو کسی نگینہ میں کھدوا کر اور مہبر بنوا کر لے آوے اور میں نے اس ہندو کو اس کام کے لئے اس غرض سے اختیار کیا کہ تا وہ اس عظیم الشان پیشگوئی کا گواہ ہو جائے اور تا مولوی محمد شریف بھی گواہ ہو جاوے.چنانچہ مولوی صاحب موصوف کے ذریعہ سے وہ انگشتری بصرف مبلغ پانچ روپیہ تیار ہو کر میرے پاس پہنچ گئی جواب تک میرے پاس موجود ہے جس کا نشان یہ ہے اُس زمانہ میں الہام ہوا تھا جبکہ ہماری معاش اور آرام کا تمام مدار ہمارے والد صاحب کی محض ایک مختصر آمدنی پر منحصر تھا.اور بیرونی لوگوں میں سے ایک شخص بھی مجھے نہیں جانتا تھا.اور میں ایک گمنام انسان تھا جو قادیان جیسے دیران گاؤں میں زاویہ گمنامی میں پڑا ہوا تھا اور پھر بعد اس کے خدا نے اپنی پیشگوئی کے موافق ایک دنیا کو میری طرف رجوع دے دیا اور ایسی متواتر فتوحات سے مالی مدد کی کہ جس کا شکر یہ بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں.مجھے اپنی حالت پر خیال کر کے اس قدر بھی امید نہ تھی کہ دس روپیہ ماہوار بھی آئیں گے مگر خدا تعالیٰ جو غریبوں کو خاک میں سے اٹھاتا اور متکبروں کو خاک میں ملاتا ہے
$2003 34 خطبات مسرور اسی نے ایسی میری دستگیری کی کہ میں یقیناً کہہ سکتا ہوں کہ اب تک تین لاکھ کے قریب روپیہ آچکا ہے اور شاید اس سے زیادہ ہو.اور آج آپ دیکھیں کہ کروڑوں میں بدل گیا ہے.الحمد للہ اور اس آمدنی کو اس سے خیال کر لینا چاہئے کہ سالہال سال سے صرف لنگر خانہ کا ڈیڑھ ہزار روپیہ ماہوار تک خرچ ہو جاتا ہے.“ اس زمانے میں لنگر خانے کا ڈیڑھ ہزار بھی آج کے لاکھوں کے برابر ہے." ہے." صرف لنگر خانہ کا ڈیڑھ ہزار روپیہ ماہوار تک خرچ ہو جاتا ہے.یعنی اوسط کے حساب سے اور دوسری شاخیں مصارف کی یعنی مدرسہ وغیرہ اور کتابوں کی چھپوائی اس سے الگ ہے.پس دیکھنا چاہئے کہ یہ پیشگوئی یعنی "الَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ کس صفائی اور کس قوت اور شان سے پوری ہوئی.کیا یہ کسی مفتری کا کام ہے یا شیطانی وساوس ہیں.ہرگز نہیں.بلکہ یہ اس خدا کا کام ہے جس کے ہاتھ میں عزت اور ذلت اور ادبار اور اقبال ہے.( حقيقة الوحى ـ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۱۹ تا ۲۲۱) یہ انگوٹھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالٰی عنہ کے حصہ میں آئی اور آپ نے یہ وصیت فرمائی تھی کہ میرے بعد یہ انگوٹھی جو بھی خلیفہ ہو اس کو دی جائے اور یہ خلافت کا ہی ورثہ ہوگا، میرا ذاتی ورثہ نہیں ہوگا.تو اس کے بعد یہ حضرت خلیفتہ امسیح الثالث، خلیفتہ امسیح الرابع اور یہاں آپ نے بعد میں دیکھ لیا ہو گا وہی انگوٹھی ( یہ انگوٹھی ہے ) مجھے پہنائی گئی ،الحمد للہ اللہ تعالیٰ یہ برکات بھی ہمیشہ جاری رکھے.ایک روایت ہے کہ حضرت شیخ فضل الہی صاحب نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ میں ڈاک لے کر حضور کی خدمت میں جا رہا تھا جب ڈپٹی شنکر داس کے مکان کے پاس سے گزرا تو مکان کے آگے چبوترہ پر ڈپٹی مذکور چارپائی پر بیٹھا تھا.مجھے او شیخ ، پکار کر کہا کہ غلام احمد کو کہہ دو کہ لڑکے جب مسجد میں آتے ہیں تو شور ڈالتے ہیں اور باتوں سے بھی کھڑاک کرتے ہیں ( یعنی شور مچاتے ہیں، تنگ کرتے ہیں ) ہم کو تکلیف ہوتی ہے، ان کو منع کر دے کہ وہ آرام سے گزرا کریں.میں نے حضرت صاحب سے ایسا ہی جا کر عرض کر دیا تو حضور نے فرمایا کہ یہ مکان تو ہمارے قبضہ میں آنے والا ہے، خدا نے ہم کو اس مکان کا وعدہ فرمایا ہے.( الحكم جلد ۳۸ نمبر ٩ - بتاريخ ١٤ / مارچ ١٩٣٥ ء صفحه ٤)
$2003 35 خطبات جان الیگزنڈر ڈوئی کی ہلاکت اور کوریا کی بابت پھر جان الیگزنڈر ڈوئی کی ہلاکت کی خبر.جیسا کہ اس کے بارہ میں جماعت کے لٹریچر میں کافی آگیا ہے.یہ شخص آسٹریلیا سے آکر امریکہ میں آباد ہو گیا تھا.اس نے ایک شہر میحون بسایا.۱۹۰۱ء میں اس نے دعوی کیا کہ وہ مسیح کی آمد ثانی کے لئے بطور ایلیا کے مبعوث ہوا ہے.۱۹۰۲ء میں اس نے شائع کیا کہ اگر مسلمان مسیحیت کو قبول نہیں کریں گے تو وہ ہلاک کر دئے جائیں گے.پھر اگست ۱۹۰۲ء کو اس نے لکھا کہ انسانیت پر سخت بد نما دھبے نعوذ باللہ اسلام کو صحون ہلاک کر دے گا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۹۰۳ء میں ایک اشتہار دیا جس کا عنوان تھا ”ڈوئی اور پگٹ کے متعلق پیشگوئیاں اور اس میں لکھا: ”امریکہ کے لئے خدا نے مجھے یہ نشان دیا ہے کہ اگر ڈوئی میرے ساتھ مباہلہ کرے اور میرے مقابل پر خواہ صراحتا یا اشارہ آجائے تو وہ میرے دیکھتے دیکھتے بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ اس دنیائے فانی کو چھوڑ دے گا“.اس کے جواب میں ڈوئی نے کہا کہ کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان کیڑوں مکوڑوں کا جوا ب دوں گا.اگر میں اپنا پاؤں ان پر رکھ دوں تو ایک دم میں ان کو کچل سکتا ہوں.آخر وہ خدا کے غضب کا نشانہ بنا.اس پر فالج کا حملہ ہوا.اس کی بیوی بچوں نے اس کے کیریکٹر کے متعلق گواہیاں دیں جس سے اس کے مرید بدظن ہو گئے اور ۸/ مارچ ۱۹۰۷ء کو ڈوئی انتہائی حسرت کے ساتھ مر گیا.اس کے مرنے کے بعد امریکہ کے متعدد اخبارات نے لکھا کہ مرزا غلام احمد قادیانی جیت گیا اور ڈوئی ہار گیا.پھر کوریا کے متعلق خبر ہے کہ جب ۱۹۰۴ ء میں روس اور جاپان کے درمیان جنگ چھڑی ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت.اور اسی الہام کے مطابق بالآخر جاپان کو فتح حاصل ہوئی اور کوریا میں سے روس کو نکلنا پڑا.(ذکر حبیب صفحہ ۱۲۳ ).اور آج تک وہاں کے حالات دگرگوں ہی ہیں.
خطبات 36 جماعت کی ترقی کی بابت پیشگوئی $2003 جماعت کے قیام اور ترقی کی خبر جس سے ہمارے ایمانوں کو مزید تقویت ملتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” براہین احمدیہ میں ایک یہ پیشگوئی ہے.میں اپنی چہکار دکھلاؤں گا، اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا.اس پیشگوئی پر چھپیس برس گزر گئے.یہ اُس زمانہ کی ہے جب کہ میں کچھ بھی نہیں تھا.اس پیشگوئی کا ماحصل یہ ہے کہ باعث سخت مخالفت بیرونی اور اندرونی کے کوئی ظاہری امید نہیں ہوگی کہ یہ سلسلہ قائم ہو سکے.لیکن خدا اپنے چمکدار نشانوں سے دنیا کو اس طرف کھینچ لے گا اور میری تصدیق کے لئے زور آور حملے دکھائے گا.چنانچہ انہیں حملوں میں سے ایک طاعون ہے جس کی ایک مدت پہلے خبر دی گئی تھی.اور انہیں حملوں میں زلزلے ہیں جو دنیا میں آرہے ہیں اور نہ معلوم اور کیا کیا حملے ہوں گے اور اس میں کیا شک ہے کہ جیسا کہ اس پیشگوئی میں بیان فرمایا ہے خدا نے محض اپنی قدرت نمائی سے اس جماعت کو قائم کر دیا ہے.ور نہ با وجود اس قدر قوی مخالفت کے یہ امر محالات میں سے تھا کہ اس قدر جلدی سے کئی لاکھ انسان میرے ساتھ ہو جائیں.اور مخالفوں نے بہتیری کوششیں کی مگر خدا تعالیٰ کے ارادہ کے مقابل پر ایک پیش نہ گئی (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۷۸ - نشان ۱۱۱) ۱۹۰۸ء میں الہام ہوا یہ پیغام صلح میں درج ہے کہ جو کچھ خدا نے مجھے خبر دی ہے وہ بھی یہی ہے کہ اگر دنیا اپنی بد عملی سے باز نہیں آئے گی اور برے کاموں سے تو بہ نہیں کرے گی تو دنیا پر سخت سخت بلائیں آئیں گی.اور ایک بلا ابھی بس نہیں کرے گی کہ دوسری بلا ظاہر ہو جائے گی.آخر انسان نہایت تنگ ہو جائیں گے کہ یہ کیا ہونے والا ہے.اور بہتیرے مصیبتوں کے بیچ میں آکر دیوانوں کی طرح ہو جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے مولا کے حضور عرض کرتے ہیں کہ: (پیغام صلح صفحه ۹)
خطبات مسرور 37 $2003 ”اے میرے رب ! میں نے تجھے اختیار کیا ہے پس تو بھی مجھے اختیار کر اور میرے دل کی طرف نظر کر اور میرے قریب آجا کہ تو بھیدوں کا جاننے والا ہے اور ہر اُس چیز سے خوب باخبر ہے جو غیروں سے چھپائی جاتی ہے.اے میرے رب ! اگر تو جانتا ہے کہ میرے دشمن بچے اور مخلص ہیں تو مجھے اس طرح ہلاک کر ڈال جیسے سخت جھوٹے ہلاک کئے جاتے ہیں.اور اگر تو جانتا ہے کہ میں تجھ سے ہوں اور تیری طرف سے بھیجا گیا ہوں تو تو میری مدد کر، تو میری مدد کے لئے کھڑا ہو کہ میں تیری مدد کا محتاج ہوں.(اعجاز المسيح، روحانی خزائن جلد ۱۸ - صفحه ( ٢٠٣ - ٢٠٤) جماعت احمدیہ انگلستان اور ایم ٹی اے کے کارکنان آخر پر میں جماعت انگلستان اور یہاں کے مخلصین کی غیر معمولی خدمات پر ان کا دلی شکر یہ ادا کرتا ہوں.اس پیاری جماعت نے خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہجرت کے دوران بے انتہا خدمت کی توفیق پائی.اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین جزا دے.جہاں تک میرا علم ہے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ بھی آپ سے خوش ہی گئے ہیں.الحمد للہ.پھر حضور رحمہ اللہ کی وفات پر جس نظم وضبط اور جس وفا اور اخلاص اور منجھے ہوئے کارکنان کی طرح تمام عہدیداران اور کارکنان نے حالات کو سنبھالا اور اندازہ سے کئی گنا زیادہ مہمان آنے پر ان کو خوشی سے ہر سہولت جو اس موقع کی مناسبت سے دی جاسکتی تھی دی.یہ کوئی چھوٹی چیز نہیں، ہم حیرت کی چیز نہیں.واقعی حیرت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کی اس فدائی جماعت پر، اس کے کاموں پر.بہر حال جب نیت نیک ہو تو الہی تائیدات بھی شامل حال ہوتی ہیں.اور ہر کارکن نے اس دوران میں الہی تائیدات کے نظارے بھی دیکھے، الحمد للہ.اب کثرت سے لوگوں کے خطوط آرہے ہیں کہ سارے منظم انتظام کا ہماری طرف سے جماعت انگلستان کو اور ایم ٹی اے کو شکر یہ ادا کریں.جو لوگ یہاں نہیں آسکے انہوں نے جس تفصیل سے ایم ٹی اے کے ذریعہ اپنے دلوں کی تسکین کے سامان پائے اس پر دنیا میں کروڑوں احمدی ایم ٹی اے کے کارکنان کے ممنون احسان ہیں کہ انہوں نے نہ آنے والے مجبوروں کو بھی تشنہ نہیں رہنے دیا.میری اطلاع کے مطابق تو مجھے پتہ چلا ہے کہ بعض کارکنان مسلسل ۴۸ گھنٹے تک ڈیوٹی دیتے رہے اور پھر تھوڑ اسا آرام
$2003 38 خطبات مسرور کرتے تھے.یہ سب یقیناً ہماری دعاؤں کے مستحق ہیں.تمام جماعت کو ان تمام کارکنان کے لئے جنہوں نے انتظامی لحاظ سے خدمت کی یا ایم ٹی اے میں خدمات سرانجام دیں، دعا کی خصوصی درخواست کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین جزا دے اور آئندہ بھی اسی وفا اور اخلاص کے ساتھ اسی طرح قربانیاں دیتے ہوئے یہ کام کرتے چلے جائیں.آمین 000
$2003 39 4 خطبات مسہ اپنے گھروں کو بھی جنت نظیر بنائیں ، اپنے ماحول میں بھی ایسا تقویٰ قائم کریں جو اللہ تعالیٰ ہم سے توقع رکھتا ہے.۱۶ مئی ۲۰۰۳ء مطابق ۱۶ ہجرت ۱۳۸۲ هجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن (برطانیہ) اللہ تعالیٰ کی صفت خبیر کا بیان بڑی بڑی حکومتوں کی تباہی کی خبر اپنے اندر انقلابی تبدیلیاں پیدا کریں اپنے گھروں کو بھی جنت نظیر بنا ئیں آئندہ زمانہ کے متعلق قرآنی پیشگوئیاں یہودی ریاست کا قیام اور ہلاکت خیز جنگوں کا زمانہ تخلیق کائنات اور اس کے اسرار جماعت احمدیہ پر مظالم کی پیشگوئی آخری زمانہ اور احادیث نبویہ حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیاں ( پیشگوئی مصلح موعود، مضمون بالا رہا)
خطبات مسہ $2003 40 40 تشہد وتعوذ کے بعد حضور انور نے سورۃ النمل کی حسب ذیل آیت تلاوت فرمائی وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِى اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُوْنَ (سورة النمل: ۸۹).﴾ اور تو پہاڑوں کو دیکھتا ہے اس حال میں کہ انہیں ساکن و جامد گمان کرتا ہے حالانکہ وہ بادلوں کی طرح چل رہے ہیں.( یہ ) اللہ کی صنعت ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا.یقینا وہ اس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے.حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ تَمُرُّ مَر السَّحَاب سے یہ مراد نہیں کہ پہاڑ الگ چلتے ہیں اور زمین الگ چلتی ہے.بلکہ مطلب یہ ہے کہ زمین چلتی ہے تو وہ بھی اس کے ساتھ چلتے ہیں اور جس طرح زمین بادلوں کو اپنے ساتھ کھینچے چلی جاتی ہے اسی طرح وہ پہاڑوں کو بھی اپنے ساتھ اٹھائے چلی جاتی ہے.بڑی بڑی حکومتوں کی تباہی کی خبر اس آیت میں ظاہری طور پر تو پہاڑوں کے چلنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بادلوں کے ساتھ ان کی مشابہت بیان کی گئی ہے لیکن باطنی طور پر اس میں بڑی بڑی حکومتوں کی تباہی کی خبر دی گئی ہے.اور بتایا گیا ہے کہ تمہیں تو اپنے زمانہ کی حکومتیں ایسی مضبوط دکھائی دیتی ہیں کہ تم سمجھتے ہو وہ صدیوں تک بھی تباہ نہیں ہو سکتیں مگر خدا تعالیٰ اسلام کی شوکت ظاہر کرنے کے لئے ان کو اس طرح اڑادے گا کہ ان کا نشان تک بھی نظر نہیں آئے گا.چنانچہ اس کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ جس طرح
$2003 41 خطبات مسرور ہوائیں بادلوں کو اڑا کر لے جاتی ہیں اسی طرح جب اسلام کی تائید میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوائیں چلنی شروع ہوئیں تو کفر و شرک کے بڑے بڑے دیو قامت پیکر اس طرح اڑیں گے کہ ان کا نشان بھی دکھائی نہیں دے گا.مگر یہ سب کچھ انسانی تدابیر سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے ہوگا اور اس کی قدرت اور صنعت کا اس سے ظہور ہو گا.آخر میں فرمایا کہ إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُوْنَ عظیم الشان انقلاب اس صورت میں آسکتا ہے جبکہ مسلمان بھی اپنے اندرا نقلاب پیدا کریں.اگر تم اپنے اندر تبدیلی پیدا نہیں کرو گے اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ظالم بنو گے تو خدا تعالیٰ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ ایک ظالم کو مٹا کر دوسرا ظالم اس کی جگہ بٹھا دے.خدا تعالیٰ اسی صورت میں ان پہاڑوں کو اڑائے گا جب تم اپنے آپ کو اسلامی احکام کا نمونہ بناؤ گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کا مقام حاصل کر لو گے.(تفسیر کبیر جلد ٧ صفحه ٤٥٣ ہم پر یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے پس آج ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں ہمارے او پر بہت بڑھ کر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ اپنے اندرا نقلابی تبدیلیاں پیدا کر یں.اپنے گھروں کو بھی جنت نظیر بنائیں، اپنے ماحول میں بھی ایسا تقویٰ قائم کریں جو اللہ تعالیٰ ہم سے توقع رکھتا ہے.اور ہم سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جو اس خدائی بشارت کو ہم سے دور کر دے.پس ہم پر یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ دعاؤں پر بہت زور دیں کیونکہ آج عالم اسلام کی حفاظت کی ذمہ داری سب سے بڑھ کر جماعت احمدیہ پر ہے.ہمارے پاس کوئی طاقت تو نہیں، کوئی نمونہ حکومت کا نہیں لیکن دعاؤں کے ذریعہ جس طرح حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ سب مراحل انشاء اللہ طے ہوں گے.اب قرآن کریم کی بعض اور آیات بھی آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جن میں اللہ تعالیٰ کی صفت خبیر کا ذکر ہے.بُنَيَّ إِنَّهَا إِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللهُ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ ﴾ (سورة لقمان : ١٧).
42 $2003 خطبات مسرور اے میرے پیارے بیٹے ایقینا اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی چیز ہو پس وہ کسی چٹان میں ( دبی ہوئی ) ہو یا آسمان یا زمین میں کہیں بھی ہو، اللہ اسے ضرور لے آئے گا.یقینا اللہ بہت باریک بین (اور) باخبر ہے.حضرت خلیفہ امسح الاول رضی اللہ عنہاس کی تشریح میں فرماتے ہیں:.﴿إِنَّ.إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ کسی شئے کے پیدا کرنے کے واسطے اس شئے کا کامل علم لازم ہے، خدا لطیف ہے، خبیر ہے.روح اور مادہ کے متعلق اسے کامل علم ہے کہ وہ کیونکر پیدا ہو سکتا ہے اور پھر اسے قدرت بھی ہے.اگر خدا تعالیٰ نے کوئی ذرہ اور روح پیدا ہی نہیں کیا تو اس کے متعلق کامل علم کیونکر رکھ سکتا ہے.(حقائق الفرقان جلد صفحه ۱۷۰) پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ادنی واعلیٰ سب باتوں سے باخبر ہے.علم الہی پر ایمان لانے سے نیکی پیدا ہوتی ہے.جب انسان کو یہ یقین ہو کہ کوئی بڑا شخص مجھے دیکھ رہا ہے تو پھر وہ بدی کرنے سے رکتا ہے.پھر اپنے بزرگوں، افسروں، حاکموں کے سامنے بدی کرنے سے اور بھی رکتا ہے.ایسا ہی جس کو یہ ایمان ہو کہ اللہ تعالیٰ ہمارے تمام افعال، حرکات وسکنات کو دیکھتا ہے اور ہمارے دل کے خیالات اور ارادات سے بھی باخبر ہے وہ شخص کبھی بدی کے نزدیک نہیں جاسکتا.حقائق الفرقان جلد ۳ صفحه ٣٦٧ اگلی آیت ہے: ﴿وَاتَّبِعْ مَا يُوحَى إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيرًا﴾ (سورة الاحزاب : ۳).اور اس کی پیروی کر جو تیری طرف تیرے رب کی طرف سے وحی کیا جاتا ہے.یقینا اللہ ، اس سے جو تم کرتے ہو،خوب باخبر ہے.پھر سورۃ سب میں فرمایا: ﴿ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي الْآخِرَةِ.وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ﴾ (سورة السبا: ٢).سب حمد اللہ ہی کی ہے جس کا وہ سب کچھ ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے.اور آخرت میں بھی تمام تر حمد اسی کی ہوگی اور وہ بہت حکمت والا اور ہمیشہ خبر رکھتا ہے.
خطبات مسرور 43 آئندہ زمانہ میں ظاہر ہونے والی خبریں $2003 اب آئندہ زمانہ میں ظاہر ہونے والی وہ خبریں جن کا قرآن کریم میں بیان فرمایا گیا ہے ان کا کچھ پہلے ذکر آچکا ہے، کچھ مزید خبروں کا یہاں مختصر اذکر کروں گا.مثلاً اس زمانہ میں منتشر یہودیوں کی فلسطین میں جمع ہونے کی خبر اللہ تعالیٰ نے دی.فرمایا وَقُلْنَا مِنْ بَعْدِهِ لِبَنِي إِسْرَائِيْلَ اسْكُنُوْا الْأَرْضَ فَإِذَا جَاءَ وَعْدَ الْآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ موعودہ سرزمین میں سکونت اختیار کرو اور جب آخرت کا وعدہ آئے گا تو ہم تمہیں پھر اکٹھا کر کے لے آئیں گے.اس کی تفسیر میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ﴿ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الأخرة یعنی اب تم کنعان میں جاؤ لیکن ایک وقت کے بعد تم کو وہاں سے نکلنا پڑے گا.پھر خدا تعالیٰ تم کو واپس لائے گا.پھر تم نافرمانی کرو گے اور دوسری دفعہ عذاب آئے گا اس کے بعد تم جلا وطن رہو گے یہاں تک کہ تمہاری مثیل قوم کے متعلق جو دوسری تباہی کی خبر ہے اس کا وقت آجائے اس وقت پھر تم کو مختلف ملکوں سے اکٹھا کر کے ارض مقدس میں واپس لایا جائے گا.(تفسیر کبیر جلد ٤ صفحه ٣٩٧ چنانچہ دیکھ لیں اس الہی خبر کے مطابق ۱۸۸۲ء سے ۱۹۰۳ء کے دوران عثمانی ترکوں نے یہود کو پہلی دفعہ دوبارہ فلسطین کے علاقہ میں آباد ہونے کی اجازت دی تو روس کے یہودی یہاں آکر آباد ہونا شروع ہوئے.بیسویں صدی کے شروع میں یہود کی تعداد بہت تھوڑی تھی لیکن پھر یہ تعداد بڑھتی گئی اور پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی سلطنت کمزور ہونے پر یورپ کی مفاد پرست طاقتوں نے بیت المقدس میں کئی قونصلیٹ قائم کئے اور پھر یہودی شہر تل ابیب کا قیام ہوا.پھر برطانوی حکومت نے ایک اعلان کے ذریعہ آزاد یہودی ریاست کا منصوبہ دیا اور پھر ۱۹۱۷ء میں برطانیہ کا یہ حق بھی لیگ آف نیشن نے تسلیم کیا کہ وہ فلسطین کی آبادکاری میں اس کا پورا پورا ساتھ دے.پھر ۱۹۴۷ء میں دنیا کے تمام علاقوں سے اس قدر یہودی اکٹھے ہوئے کہ آج آپ دیکھیں کہ تمام مسلمان ممالک کو ایک عجیب عذاب میں مبتلا کیا ہوا ہے اور یہ اب تعدا در روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے.اور یہ خدائی
$2003 44 خطبات مسرور پیشگوئی کے مطابق ہے.پھر فرمایا: ﴿يَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْأَرْضَ بَارِزَةً وَّحَشَرْنَهُمْ فَلَمْ نُغَادِرُ مِنْهُمْ أَحَدًا (سورة الكهف: ٤٨) اور جس دن ہم پہاڑوں کو حرکت دیں گے اور تو زمین کو دیکھے گا کہ وہ اپنا اندرونہ ظاہر کر دے گی اور ہم (اس آفت میں) ان سب کو اکٹھا کریں گے اور ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے.ہلاکت خیز جنگوں کا زمانہ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ اس جگہ آدمیوں کا ذکر ہے پہاڑوں اور دریاؤں کا ذکر نہیں.اور بتایا گیا ہے کہ یہ سب پیشگوئیاں اس دن پوری ہوں گی جب بڑے بڑے لوگ جنگوں کے لئے نکل کھڑے ہوں گے.اور تو ساری زمین کو یعنی سب اہل زمین کو دیکھے گا کہ جنگ کے لئے ایک دوسرے کے مقابل پر کھڑے ہو جائیں گے.اور ایسی جنگ ہوگی کہ گویا ان میں سے ایک بھی نہ بچے گا.اس واقعہ کی طرف انجیل میں بھی اشارہ ہے.حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ آخری زمانہ میں قوم پر قوم اور بادشاہت پر بادشاہت چڑھائی کرے گی.( مـتــی بــاب ۲۴) فرمایا : ہو سکتا ہے کہ الارض سے ادنیٰ طبقہ کے لوگ مراد ہوں اور ان جبال سے مراد بڑے لوگ.یعنی اس دن ایک طرف سے جبال یعنی بڑی لوگ یا دوسرے لفظوں میں ڈکٹیٹر نکلیں گے.اور دوسری طرف سے ارض یعنی ڈیموکریسیز کے حامی اور حکومت عوام کے نمائندے نکلیں گے اور آپس میں خوب جنگ ہوگی.اب بڑی طاقتوں کو جو اپنے آپ کو بہت مہذب سمجھتی ہیں دیکھ لیں کہ وہ یہی کچھ حرکتیں کر رہی ہیں اور گو کہ پہلے خیال تھا کہ بلاک ختم ہورہے ہیں اب پھر نئے سرے سے نئے بلاک بن رہے ہیں اور دنیا بلاکوں میں تقسیم ہو رہی ہے اور یہ عمل اب شروع ہو چکا ہے.اب یہ جنگیں کب ہوں گی، اللہ بہتر جانتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے.(تفسیر کبیر جلد ٤ صفحه (٤٥٨
$2003 45 خطبات مسرور پھر فرمایا اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا اَنَّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَهُمَا.وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيْ.أَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ.وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيْدَ بهِمْ.وَجَعَلْنَا فِيْهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُمْ يَهْتَدُوْنَ (سورة الانبياء: ۳۱ - ۳۲) کیا انہوں نے دیکھا نہیں جنہوں نے کفر کیا کہ آسمان اور زمین دونوں مضبوطی سے بند تھے پھر ہم نے ان کو پھاڑ کر الگ کر دیا اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی.تو کیا وہ ایمان نہیں لائیں گے؟ اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنائے تاکہ وہ ان کے لئے غذا فراہم کریں اور ہم نے اس میں کھلے رستے بنائے تا کہ وہ ہدایت پاویں.حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ آیت کا ئنات کے اسرار پر سے ایسا پردہ اٹھاتی ہے جو اس زمانے کے انسان کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا تھا.فرمایا: یہ ساری کائنات ایک مضبوطی سے بند کئے ہوئے ایسے گیند کی شکل میں تھی جس میں سے کوئی چیز باہر نہیں نکل سکتی تھی.پھر ہم نے اس کو پھاڑا اور اچانک ساری کائنات اس میں سے پھوٹ پڑی اور پھر پانی کے ذریعہ ہر زندہ چیز کو پیدا فرمایا.اور پانی کے معا بعد رواسی کے ساتھ اس پانی کے نازل ہونے کے نظام کا ذکر فرما دیا.اور پھر یہ ذکر فرمایا کہ کس طرح آسمان، زمین اور اہلِ زمین کی حفاظت کرتا ہے.پھر زمین و آسمان اور تمام اجرام کی دائمی گردش کا ذکر فرمایا اور جس طرح زمین اور آسمان دائمی نہیں ہیں اسی طرح یہ بھی متوجہ فرمایا کہ انسان بھی دائم رہنے والا نہیں.پھر قیامت کی گھڑی پر گواہی دینے والے عظیم واقعات کی خبر ہے.فرمایا: ﴿إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ وَإِذَا النُّجُوْمُ الْكَدَرَتْ وَإِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْ وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ (سورة التكوير: ٢ تا ٥) ترجمہ یہ ہے کہ جب سورج لپیٹ دیا جائے گا.اور جب ستارے ماند پڑ جائیں گے.اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے.اور جب دس ماہ کی کا بھ اونٹنیں بغیر کی نگرانی کے چھوڑ دی جائیں گی.اس کی مختصر تفسیر میں حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم دنیا میں رونما ہونے والے عظیم واقعات کی خبر دیتا ہے جو قیامت کی گھڑی پر گواہ ٹھہریں گے.اور گواہ ٹھہرایا گیا
46 $2003 خطبات مسرور ہے سورج کو جب اسے ڈھانپ دیا جائے گا.یعنی آنحضرت مے کی روشنی کو اس زمانہ کے دشمن بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے نہیں پہنچنے دیں گے اور ان کا مکروہ پراپیگنڈا بیچ میں حائل ہو جائے گا.اور جب صحابہ کے نور کو بھی دشمن کی طرف سے گدلا دیا جائے گا اور جس طرح سورج کے بعد ستارے کسی حد تک روشنی کا کام دیتے ہیں اسی طرح صحابہ کا نور بھی انسان کی نظر سے زائل کر دیا جائے گا.یہ وہ زمانہ ہوگا جبکہ بڑے بڑے پہاڑ چلائے جائیں گے یعنی پہاڑوں کی طرح بڑے بڑے سمندری جہاز بھی اور فضائی جہاز بھی سفر اور بار برداری کے لئے استعمال ہوں گے اور اونٹنیاں ان کے مقابل پر بیکار کی طرح چھوڑ دی جائیں گی.جماعت احمدیہ پر مظالم کی پیشگوئی اب ایک آیت ہے جس میں آج کل کے زمانے میں احمدیوں پر جو مظالم ہورہے ہیں ان کا بھی ذکر ہے.قُتِلَ أَصْحَبُ الْأخْدُودِ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ.إِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُوْدٌ.وَّهُمْ عَلَى مَا يَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ شُهُودٌ.وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ (سورة البروج : ۵ تا ۹ ہلاک کر دئیے جائیں گے کھائیوں والے.یعنی اُس آگ والے جو بہت ایندھن والی ہے.جب وہ اُس کے گرد بیٹھے ہوں گے.اور وہ اُس پر گواہ ہوں گے جو وہ مومنوں سے کریں گے.اور وہ اُن سے پر خاش نہیں رکھتے مگر اس بنا پر کہ وہ اللہ ، کامل غلبہ رکھنے والے، صاحب حمد پر ایمان لے آئے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ ان آیات میں ان لوگوں کی ہلاکت کی پیشگوئی کی گئی ہے جنہوں نے کھائی میں آگ جلائی تھی اور اس میں مومنوں کو پھینک کر بیٹھے ان کا تماشا دیکھتے تھے.ان آیات میں یہ پیشگوئی مضمر ہے کہ یہ واقعہ آئندہ بھی رونما ہوگا اور وہ زمانہ موعود کا زمانہ ہوگا.پس لازماً اس کا اطلاق ان مظلوم احمد یوں پر ہوتا ہے جن کو گھروں میں زندہ جلانے کی کوشش کی گئی اور قعود کا لفظ بتاتا ہے کہ لوگ بیٹھے تما شاد یکھتے رہے اور ظالموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی.پس یہ عظیم الشان پیشگوئی اس رنگ میں کئی بار پوری ہو چکی ہے کہ
47 $2003 خطبات مسرور پولیس کی نگرانی میں بلوائیوں نے معصوم احمدیوں کو زندہ جلانے کی کوشش کی اور کئی بار کامیاب ہو گئے اور بعض اوقات نا کام بھی ہوئے.“ (حاشيه سورة البروج ترجمه خليفة المسيح الرابع ) حالانکہ ان کا اس کے سوا کوئی جرم نہیں تھا کہ وہ آنے والے پر ایمان لے آئے.یہ ایسے بچے متبعین ہیں جو اپنی قربانیوں کے ذریعے آنے والے موعود کی صداقت پر گواہ بن گئے ہیں.اور پھر یہ ہے کہ ایسی حرکتیں کرنے والوں کو کوئی ذرا سا بھی احساس، شرم، حیا کچھ نہیں بلکہ یہ حرکتیں کرنے کے بعد بڑے فخر سے بیان کی جاتی ہیں کہ ہم نے احمدیوں کے ساتھ یہ سلوک کیا، یہ سلوک کیا.اور یہ باتیں ایسی نہیں کہ جو پہلے ہوا کرتی تھیں اور آج نہیں ہو ر ہیں.یا احمدیت کے ابتدائی دور میں ہورہی تھیں.آج بھی یہ خبریں مستقلاً آتی رہتی ہیں اور یہ عمل اسی طرح جاری ہے.اور یہ ظلم کی داستانیں آج بھی اسی طرح رقم ہو رہی ہیں.پاکستان میں احمدیوں کے ساتھ بعض جگہوں پر جو سلوک ہوتا ہے اس سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.اور جب پوچھو کہ قصور کیا ہے تو کوئی جواب نہیں.اب لوگ اپنی مسجد میں بیٹھے اپنے امام کی تقریرین رہے ہیں یہی ان کا بہت بڑا قصور ہے کیونکہ ہمارے جذبات مشتعل ہوتے ہیں.اور ظلم کی یہ انتہا کہ یہ سب کچھ خدا کے نام پہ ہورہا ہے.اب ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں اگر ان کو ذرا بھی خوف خدا ہو کہ خدا کا نام نہ لوظالمو خدا کے لئے لیکن خدا کا واسطہ تو وہاں دیا جاتا ہے جہاں خدا کا خوف ہو.اس لئے ہماری اپنے رب کے آگے یہی التجا ہے خداوندا بندہ خدا بن گیا ہے یہی تیری قدرت دکھانے کے دن ہیں احادیث میں آخری زمانہ کے متعلق پیشگوئیاں اب آنحضرت ﷺ نے آخری زمانہ میں پیش آنے والے مختلف حالات وواقعات کی خبریں بھی بیان فرما ئیں جو آپ کے صحابہ کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہیں.ان میں سے چند روایات نمونہ کے طور پر پیش کرتا ہوں جو بڑی شان کے ساتھ ہم نے پوری ہوتے دیکھیں اور دیکھ رہے ہیں.
48 $2003 خطبات مسرور حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا.الفاظ کے سوا قر آن کا کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.اس زمانہ کے لوگوں کی مسجدیں بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی.ان کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین مخلوق ہوں گے.ان میں سے ہی فتنے اٹھیں گے اور ان میں ہی لوٹ جائیں گے یعنی تمام خرابیوں کا وہی سر چشمہ ہوں گے.(مشکوۃ کتاب العلم الفصل الثالث) اور یہی کچھ آج کل ہم دیکھ رہے ہیں.پھر فرمایا.حضرت حذیفہ بن یمان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسلام اس طرح مدھم ہو جائے گا جس طرح کپڑے پر بنے ہوئے نقوش مدھم ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ کسی کو یہ معلوم نہ ہوگا کہ روزے کیا ہیں؟ نماز کیا ہے؟ قربانی کیا ہے؟ اور صدقہ کیا ہے؟.اور کتاب اللہ پر ایک ایسی رات آئے گی کہ اس کی ایک آیت بھی زمین پر نہ رہے گی.اور زمین پر لوگوں کے طبقات رہ جائیں گے.ایک بوڑھا شخص اور ایک بوڑھی عورت کہے گی ہم نے تو اپنے آبا ء واجداد کو کلمہ لا إله إلا اللہ پر پایا اس لئے ہم بھی یہ کلمہ پڑھتے ہیں.(ابن ماجہ کتاب الفتن.باب ذهاب القرآن والعلم ) یعنی کہ عمل کوئی نہیں رہے گا.ظاہری طور پر عمل تو کریں گے لیکن اس کی روح قائم نہیں رہے گی.پھر امت مسلمہ کے یہود و نصاری کی اتباع کرنے کی خبر.حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے مسلمانو! تم ضرور بضر ور اپنے سے پہلے لوگوں کی عادات کی پیروی کرو گے.اس طرح جیسے بالشت بالشت کے برابر اور باز و بازو کے برابر ہوتا ہے.یہاں تک کہ اگر وہ لوگ گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے تھے تو تم بھی ضرور اس میں داخل ہو گے.ہم نے عرض کیا.اے اللہ کے رسول ! پہلے لوگوں سے مراد یہودی اور عیسائی ہیں؟ آپ نے فرمایا تو اور کون؟ (بخاری کتاب احاديث الانبياء، باب ما ذكر عن بنى اسرائيل ایک روایت ہے کہ حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل اے فرقوں میں بٹ گئے تھے ان میں سے ۷۰ فرقے ہلاک ہو گئے اور ایک فرقہ
$2003 49 خطبات مسرور بچایا گیا.اور عنقریب میری امت ۷۲ فرقوں میں بٹ جائے گی.پھر اس کے اے فرقے تو ہلاک ہو جائیں گے اور ایک فرقہ کو نجات دی جائے گی.صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ وہ فرقہ کون سا ہوگا.اس پر رسول اللہ علیہ نے فرمایا: وہ فرقہ جماعت ہوگا ، جماعت ہوگا.پیش ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو بعض واقعات کی خبر دی ان میں سے کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے بارہ میں حضرت مصلح موعود فر ماتے ہیں کہ جب قادیان کی زندگی احمدیوں کے لئے اس قدر تکلیف دہ تھی کہ مسجد میں خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے آنے سے روکا جاتا، راستہ میں کیلے گاڑ دئے جاتے تا کہ گزرنے والے گریں.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا کہ مجھے دکھایا گیا ہے کہ یہ علاقہ اس قدر آباد ہوگا کہ دریائے بیاس تک آبادی پہنچ جائے گی.پیشگوئی مصلح موعود ۱۸۸۸ء کا ایک الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس میں حضرت مصلح موعود کی ولادت کی خبر دی ہے.فرماتے ہیں : میرا پہلا لڑ کا زندہ موجود ہے جس کا نام محمود ہے.ابھی وہ پیدا نہیں ہوا تھا جو مجھے کشفی طور پر اس کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی اور میں نے مسجد کی دیوار پر اس کا نام لکھا ہوا پایا کہ محمود.تب میں نے اس پیشگوئی کے شائع کرنے کے لئے سبز رنگ کے ورقوں پر ایک اشتہار چھاپا جس کی تاریخ اشاعت یکم دسمبر ۱۸۸۸ ء ہے.(ترياق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ٢١٤ ـ تذکره صفحه ١٦٤ - ١٦٥ مطبوعه ١٩٦٩ء) پھر اس کی مزید تفصیل یوں ہے کہ قادیان کے آریوں نے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک نشان طلب کیا تو آپ کو جنوری ۱۸۸۶ء میں حصول نشان کے لئے خلوت گزیں ہو کر دعائیں کرنے پر بائیں الفاظ الہام ہوا: ”تمہاری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی“.
خطبات مسرور 50 $2003 اس الہام کی اتباع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہوشیار پور کا سفر اختیار کیا اور وہاں چلہ کرنا شروع کر دیا.وہاں چلہ کے دوران اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک عظیم الشان فرزند کی بشارت دی جس کا اظہار آپ نے ۲۰ / جنوری ۱۸۸۶ء کے اشتہار کے ذریعہ کیا.اس پیشگوئی میں آپ کو جس موعود بیٹے کی ولادت کی خبر دی گئی اس کے بارہ میں آپ نے مزید انکشافات ۱/۸اپریل ۱۸۸۶ء کو الہی خبر پانے کے بعد کئے.فرمایا : ” ایک لڑکا بہت قریب ہونے والا ہے جو ایک مدت حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا.اس سے ظاہر ہے کہ غالباً ایک لڑکا ابھی ہونے والا ہے یا بالضرور اس کے قریب حمل میں.لیکن یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جواب پیدا ہو گا یہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں نو برس کے عرصہ میں پیدا ہوگا“.اشتهار ٨/ اپریل ١٨٨٦ء مجموعه اشتهارات جلد اول) چنانچہ بشیر اول الہی خبر کے مطابق کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے.۷ را گست ۱۸۸۷ء کو پیدا ہوئے اس الہام کے تحت.اور ۲۰ فروری ۱۸۸۶ ء والی پیشگوئی میں مذکور خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے“ کی آسمانی خبر کو پورا کیا اور جلد ہی ۱۸۸۸ء میں وفات پاگئے.اس پر مخالفین نے بڑا شور مچایا مگر وہ موعود جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی کہ یا وہ کسی اور وقت میں نو برس کے عرصہ میں پیدا ہوگا“.اس الہی خبر کے مطابق حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ۲ار جنوری ۱۸۸۹ء کو پیدا ہوئے اور الہی بشارتوں کے مطابق پروان چڑھتے رہے.پھر اللہ تعالیٰ نے ۶،۵ جنوری ۱۹۴۴ء کی درمیانی شب ایک عظیم رؤیا کے ساتھ حضرت خلیفہ اسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب پر یہ انکشاف کیا کہ آپ ہی وہ موعود ہیں جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے وعدہ دیا تھا.آپ کا دور خلافت، آپ کا علم قرآن، آپ کی خدمت دین ، آپ کی خدمت انسانیت اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ آپ ہی وہ موعود ہیں.مضمون بالا رہا پھر مضمون بالا رہنے کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ خبر دی گئی تھی.اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں بیان کرتا ہوں کہ:
خطبات مسرور 51 $2003 ایک دفعہ ایک ہندو صاحب قادیان میں میرے پاس آئے جن کا نام یاد نہیں رہا.اور کہا کہ میں ایک مذہبی جلسہ کرنا چاہتا ہوں.آپ بھی اپنے مذہب کی خوبیوں کے متعلق کچھ مضمون لکھیں تا اس جلسہ میں پڑھا جائے.میں نے عذر کیا پر اس نے بہت اصرار سے کہا کہ آپ ضرور لکھیں.چونکہ میں جانتا ہوں کہ میں اپنی ذاتی طاقت سے کچھ بھی نہیں کر سکتا بلکہ مجھ میں کوئی طاقت نہیں.میں بغیر خدا کے بلائے بول نہیں سکتا اور بغیر اس کے دکھانے کے کچھ دیکھ نہیں سکتا اس لئے میں نے جناب الہی میں دعا کی کہ وہ مجھے ایسے مضمون کا القا کرے جو اس مجمع کی تمام تقریروں پر غالب رہے.میں نے دعا کے بعد دیکھا کہ ایک قوت میرے اندر پھونک دی گئی ہے.میں نے اس آسمانی قوت کی ایک حرکت اپنے اندر محسوس کی اور میرے دوست جو اس وقت حاضر تھے جانتے ہیں کہ میں نے اس مضمون کا کوئی مسودہ نہیں لکھا.جو کچھ لکھا صرف قلم برداشتہ لکھا تھا اور ایسی تیزی اور جلدی سے میں لکھتا جا تا کہ نقل کرنے والے کے لئے مشکل ہوگیا کہ اس قد رجلدی اس کی نقل لکھے.جب میں مضمون ختم کر چکا تو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ مضمون بالا رہا.فرماتے ہیں : خلاصہ کلام یہ کہ جب وہ مضمون اس مجمع میں پڑھا گیا تو اس کے پڑھنے کے وقت سامعین کے لئے ایک عالم وجد تھا.اور ہر ایک طرف سے تحسین کی آواز تھی.یہاں تک کہ ایک ہندو صاحب جو صدرنشین اس مجمع کے تھے ان کے منہ سے بھی بے اختیار نکل گیا کہ یہ مضمون تمام مضامین سے بالا رہا.اور سول اینڈ ملٹری گزٹ جولاہور سے انگریزی میں ایک اخبار نکلتا ہے اس نے بھی شہادت کے طور پر شائع کیا کہ یہ مضمون بالا رہا.اور شاید ہمیں کے قریب ایسے اردو اخبار بھی ہوں گے جنہوں نے یہ شہادت دی.(حقيقة الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۹۱-۲۹۲ پھر پنجاب آبزور ایک انگریزی کا اخبار ہے اس کی بھی گواہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ بباعث مرض ذیا بیطیس جو قریباً بیس سال سے مجھے دامنگیر ہے آنکھوں کی بصارت کی نسبت بہت اندیشہ ہوا کیونکہ ایسے امراض میں نزول الماء کا سخت خطرہ ہوتا ہے.تب خدا تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے مجھے اپنی اس وحی سے تسلی اور اطمینان اور سکینت بخشی اور وہ وحی یہ ہے نَزَلَتِ الرَّحْمَةُ عَلَى ثَلَثٍ اَلْعَيْنُ وَعَلَى
خطبات مسرور 66 52 $2003 الْأُخْرَيَيْنِ ، یعنی تین اعضاء پر رحمت نازل کی گئی.ایک آنکھیں اور دو اور عضو اور ان کی تصریح نہیں کی اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا کہ پندرہ ہیں برس کی عمر میں میری بینائی تھی ایسی ہی اس عمر میں بھی کہ قریباً ستر برس تک پہنچ گئی ہے وہی بینائی ہے.سو یہ وہی رحمت ہے جس کا وعدہ خدا تعالیٰ کی وحی میں دیا گیا تھا.(حقيقة الوحى، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه (۳۱۹ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ آج رات کے دو بجے الہام ہوا تھا.( یہ ے ا را گست ۱۹۰۷ء کی بات ہے ) إِنَّ خَيْرَ رَسُوْلِ اللَّهِ وَاقِع جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی پیشگوئی واقع ہونے والی ہے.دو تین ماہ میں کوئی نہ کوئی نشان ظہور میں آجاتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے خاتمہ کے دن قریب ہیں کیونکہ لکھا ہے کہ آخری زمانہ میں نئے نئے نشانات ظہور میں آئیں گے اور جیسے تسبیح کا دھاگہ توڑ دیا جاوے تو دانے پر دانہ گرتا ہے ویسے ہی نشان پرنشان ظاہر ہو گا.یہ عجیب بات ہے کہ کوئی سال اب خالی نہیں جاتا ، دو چار مہینہ میں کوئی نہ کوئی نشان ضرور واقع ہو جاتا ہے.تمام نبیوں نے اس بات کو مان لیا ہے کہ جس زور سے آخری زمانہ میں نشانات کا نزول ہو گا اس سے پہلے ویسا کبھی نہیں ہوا ہوگا.( الحکم ٢٤ /اگست ۱۹٠٧ ، ملفوظات جلد پنجم صفحه (٢٥٦-٢٥٧ اب آخر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک انتباہ پڑھتا ہوں.حضور فرماتے ہیں: ” کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم امن میں رہو گے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے نہیں بچا سکتے ہو؟ ہر گز نہیں.انسانی کاموں کا اس دن خاتمہ ہوگا.اسے یوروپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا.میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں.وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا.مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا.جس کے کان سننے کے ہوں وہ سنے کہ وہ وقت دور نہیں“.(حقيقه الوحی روحانی خزائن جلد نمبر ٢٢ صفحه ٢٦٩)
$2003 53 5 خطبات مسہ نیک نمونہ سب سے بڑی تبلیغ ہے.ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ تمام انسانیت کو آنحضورم یا اللہ کی حقیقی تعلیم کے جھنڈے تلے لے آئیں ۲۳ مئی ۲۰۰۳ء مطابق ۲۳ هجرت ۱۳۸۲ هجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن (برطانیہ) 000 صفت خبیر“ کی ایمان افروز تشریحات ہی اپنی اور دوسروں کی اصلاح جماعت احمدیہ کی ذمہ داری نیک نمونہ سب سے بڑی تبلیغ ہے متقی کی شان نہیں کہ ذاتوں کے جھگڑے میں پڑے شادی بیاہ کے معاملات میں طعنہ زنی ایک بری بات ہے ی قرآنی پیشگوئیاں اور ایجادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آئندہ ہو نیوالے واقعات، سعد اللہ لدھیانوی، کانگڑ کا زلزلہ
خطبات مسہ $2003 54 تشہد وتعوذ کے بعد حضور انور نے سورۃ البقرۃ کی حسب ذیل آیت تلاوت فرمائی الر كِتَبٌ أحْكِمَتْ ايتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرِ﴾ (سورة هود:۲) اس کا ترجمہ ہے: ﴿ الرَ أَنَا اللهُ أَرَى : میں اللہ ہوں.میں دیکھتا ہوں.( یہ ) ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیات مستحکم بنائی گئی ہیں (اور ) پھر صاحب حکمت (اور ) ہمیشہ خبر رکھنے والے کی طرف سے اچھی طرح کھول دی گئی ہیں.صفت خبیر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس کتاب کی آیتیں اپنے اندر حکمت رکھتی ہیں.اور جو کچھ بھی اس میں بیان ہوا ہے وہ بدی سے روکنے والا اور نیکی کی طرف لے جانے والا ہے.اور انسان کی پوشیدہ بدیوں سے اس کو آگاہ کر کے اس کی حقیقت سے اسے واقف کرتا ہے.اور اس کلام میں کسی قسم کا کوئی نقص نہیں اور نہ کوئی ضرورت سے زائد بات ہے.غرض تمام ضروری تعلیم بغیر فضول ولغو کی بقدر حاجت بیان کی گئی ہے.اور ساتھ ہی پھر اس امر کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے کہ ہر ایک قسم کی ضروری تفصیل بھی آگئی ہے.اور فروعات کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا.بلکہ بقدر ضرورت انہیں بھی بیان کیا گیا ہے..........من لدن حکیم خبیر سے یہ بتایا ہے کہ اس کا منبع بھی اعلیٰ ہے.اس لئے اس کی تمام تفاصیل پر اعتبار کیا جا سکتا ہے.حکیم اسے کہتے ہیں جو موقع کے مطابق کام کرنے والا ہو.اس صفت سے یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس کلام کی بھیجنے والی ہستی کے یہ مد نظر نہیں ہے کہ وہ لوگوں میں شہرت
55 $2003 خطبات مسرور یا عزت حاصل کرے بلکہ اس کے مد نظر بنی نوع انسان کا فائدہ ہے.پس اس نے کوئی ایسی تعلیم اس میں نہیں دی.جو بظاہر خوبصورت ہو لیکن یہ باطن خراب ہو.بلکہ اس نے ہر وہ تعلیم جو انسان کے فائدہ کی ہے پیش کر دی ہے.خواہ لوگ اس سے کس قدر ہی کیوں نہ بھا گئیں اور برا نہ منائیں.ظاہر میں اچھی اور باطن میں بری تعلیم کی مثال انجیل کی تعلیم ہے کہ اگر کوئی تیری ایک گال پر تھپڑ مارے تو تو دوسری بھی پھیر دے.اور بظا ہر بُری اور حقیقت میں اچھی تعلیم کی مثال قرآن کریم کی یہ تعلیم ہے کہ جو اقوام جبر امذ ہب میں دخل دیں.ان کا سختی سے مقابلہ کرنا چاہئے.جس تعلیم کی غرض لوگوں میں قبولیت حاصل کرنا ہوگی.وہ اول الذکر قسم کی تعلیموں پر انحصار کرے گی اور جس کی غرض اصلاح ہوگی.وہ لوگوں کی پسندیدگی یا عدم پسندیدگی کا خیال کئے بغیر جو مفید باتیں ہیں انہیں بیان کر دے گی.“ (تفسیر کبیر جلد ۳ صفحه ١٤١-١٤٢) اس بارہ میں مزید حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:.خبیر.کہہ کر یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ حقیقت امر سے واقف ہے.خبیر کا لفظ اصل حال کی واقفیت پر دلالت کرتا ہے.اور بواطن امور کے جاننے کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے کہ اس صفت کا مالک اندرونی تغیرات پر خاموش نہیں رہ سکتا اور بداعمالی کی سزا کو نظر انداز نہیں کرسکتا.“ حضرت خلیفہ المسح اول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :- ( تفسیر کبیر جلد٣ صفحه ١٤٢) آنَا اللَّهُ أَرَى : اللہ تعالیٰ جل شانہ فرماتا ہے بنوں کے حامی جو کچھ نبی کریم ﷺ کی مخالفت کرتے رہتے ہیں.وہ میں دیکھ رہا ہوں (جس کے معنے یہ ہیں کہ ہمیں ان کی شرارتوں کا علم ہے اس کے مطابق باز پرس ہوگی.اس سورۃ میں دشمنانِ رسالت مآب کی شرارتوں کا بیان ہے.مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ : یہ کتاب حکیم کی طرف سے ہے.عام حکیم جو کچھ کہتے ہیں اس کے سامنے عوام کو چون و چرا کا یارا نہیں.چہ جائیکہ ایک عظیم الشان حکیم کی طرف سے ہوا اور حکیم بھی ایسا کہ جو ہر طرح سے باخبر ہو.“ (ضمیمه اخبار بدر قادیان ۹ دسمبر ۱۹۰۹ء صفحہ ١٢٤)
خطبات مسرور 56 $2003 اللہ تعالیٰ نے اس میں صرف یہی نہیں بتایا کہ جو کچھ اس وقت ہورہا ہے وہ میں دیکھ رہا ہوں بلکہ پہلوں کی بھی خبر دی جن کے انکار کی وجہ سے جو قو میں ہلاک کر دی گئیں اور آئندہ زمانہ میں جو کچھ ہونے والا ہے جو کچھ مسلمان کہلانے والے آنے والے شاہد کے ساتھ سلوک کریں گے اس سے بھی باخبر ہے.چنانچہ اسی لئے حضور ﷺ نے فرمایا ( جو آیت میں نے پڑھی تھی سورہ ھود کی ہے ) آنحضور نے فرمایا کہ سورۃ ھود نے مجھے بوڑھا کر دیا ہے.آپ سے پہلے کے انبیاء کے انکار کرنے والوں کی ہلاکت کا تو غم آپ کو تھا ہی، اپنی امت کا بھی غم تھا کیونکہ امت کی ذمہ داری بھی آپ ﷺ پر ڈالی گئی تھی.اس بارہ میں حضرت مصلح موعود فر ماتے ہیں کہ آج یہی ذمہ داری آپ کے جانشینوں اور آپ کے ماننے والوں پر ہے.کیفیت اور کمیت دونوں لحاظ سے یہ ذمہ داری اس قدر ہے کہ پڑھ کر دل کانپ جاتا ہے.پھر حضرت مصلح موعود اس کی مزید تفصیل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ھود اور اس جیسی سورتوں نے قبل از وقت بوڑھا کر دیا ہے کیونکہ آپ دیکھتے تھے کہ آپ کے ساتھ تو بہ کرنے والے لوگ آپ کے زمانہ تک ہی محدود نہ تھے بلکہ آپ کے بعد قیامت تک آنے والے تھے.ان لوگوں کی تربیت کی ذمہ داری آپ کس طرح اٹھا سکتے تھے.یہ خیال تھا جس نے آپ پر اثر کیا اور آپ کو بوڑھا کر دیا.مگر آپ کا یہ تقویٰ اللہ تعالیٰ کو ایسا پسند آیا کہ اس نے یہ کام اپنے ذمہ لے لیا اور وعدہ کر لیا کہ میں ہمیشہ تیری امت میں سے ایسے لوگ مبعوث کرتا رہوں گا جو تیرے نقش قدم پر چل کر میرا قرب حاصل کریں گے اور تیری طرف سے اس امت کی اصلاح کریں گے.اپنی اور دوسروں کی اصلاح ہمارا فرض ہے....پھر آپ فرماتے ہیں: رسول کریم ﷺ کے عمل کے مقابلہ میں اب ہمیں غور کرنا چاہئے کہ ہم نے کیا کیا ہے.ہمارا بھی رسول کریم ﷺ کی طرح یہ فرض رکھا گیا ہے کہ اپنے نفس کی اصلاح کے ساتھ دوسرے مومنوں کی اصلاح کی بھی فکر کریں.ایک ادنی غور سے یہ بات معلوم ہوسکتی ہے کہ بغیر ایک کامل نظام
57 $2003 خطبات مسرور کے اس حکم پر عمل نہیں ہوسکتا.ایک مومن اپنے پاس کے مومنوں کوتو نصیحت کر سکتا ہے لیکن وہ سب دنیا کے مومنوں کو بغیر نظام کے کس طرح نصیحت کر سکتا ہے.صرف مکمل نظام ہی نہیں ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے گھر بیٹھا سب مسلمانوں کی خبر رکھ سکتا ہے کیونکہ جب وہ نظام کے قیام میں مدد دیتا ہے خواہ روپیہ سے، وقت سے، قلم سے، زبان سے یا دماغ سے تو وہ اس نظام کا ایک حصہ ہو جاتا ہے.اور اس نظام کے ذریعہ سے جہاں جہاں بھی کام ہوتا ہے اس میں وہ شریک ہوتا ہے.اس وقت احمدی جماعت ہی نظام کے ماتحت ہے اور دیکھ لو وہی تبلیغ اسلام دنیا کے مختلف ممالک میں کر رہی ہے.فرماتے ہیں: ایک پنجاب کے گاؤں کا زمیندار یا ایک افغانستان کے ایک گوشہ میں بسنے والا افغان جو جغرافیہ سے محض نابلد ہے جب اپنی کمائی کا ایک حصہ خزانہ سلسلہ میں ادا کرتا ہے تو وہ نہ صرف اپنے ذاتی فرض کو ادا کرتا ہے بلکہ اس طرح وہ یورپ، امریکہ، سماٹرا، جاوا، افریقہ وغیرہ مختلف براعظموں اور ملکوں میں تبلیغ اسلام کا جو کام ہو رہا ہے اس میں شریک ہو جاتا ہے.اور اس حکم کی ذمہ داری سے ایک حد تک سبکدوش ہو جاتا ہے.اصلاح (تفسیر کبیر جلد ۳ صفحه (٢٦٥ جماعت احمدیہ کی ذمہ داری پس آج ہمارا جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب جماعت ہے اور جو سب سے بڑھ کر آنحضرت اللہ کے محبت اور عشق کی دعویدار ہے اور اس زمانہ میں مسیح موعود علیہ السلام کو الله مان کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہم صرف دعوی ہی نہیں کر رہے بلکہ حقیقت میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق آپ کے حکم کے مطابق ہم نے امام کو پہچانا اور مانا اور ہم اس جماعت میں داخل ہو گئے ہیں جس پر ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ڈالی ہے کہ وہ آئندہ بھی دنیا کی اصلاح کی کوشش کرتی رہے گی، ہم میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے کہ ہم اس عشق کو سچ کر دکھائیں اور امت مسلمہ کو خصوصاً کہ وہ ہمارے محبوب ﷺ کی طرف منسوب ہونے والے ہیں اور تمام انسانیت کو عموماً آنحضور ﷺ کی حقیقی تعلیم کے جھنڈے تلے لے آئیں.اور اس کے ساتھ سب سے بڑھ کر ہمیں خود بھی اپنی اصلاح
58 $2003 خطبات مسرور کرنی ہوگی.اس طرف توجہ دینی ہوگی کیونکہ نیک نمونہ سب سے بڑی تبلیغ ہے.اللہ کرے ہمارا شمار ان خوش قسمت لوگوں میں ہو جن کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی فکر کو دیکھ کر یہ وعدہ کیا تھا کہ تیرے راستہ پر چل کر میرا قرب حاصل کرنے والے ہوں گے.اب کچھ اور آیات ہیں صفت خبیر کے متعلق وہ پیش کرتا ہوں.وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُونِ مِنْ بَعْدِ نُوحٍ وَكَفَى بِرَبِّكَ بِذُنُوْبِ عِبَادِهِ خَبِيْرًا بَصِيرًا (بنی اسرائیل : ۱۸) اور کتنے ہی زمانوں کے لوگ ہیں جنہیں ہم نے نوح کے بعد ہلاک کیا اور تیرا رب اپنے بندوں کے گناہوں کی خبر رکھنے (اور ) اُن پر نظر رکھنے کے لحاظ سے بہت کافی ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس قسم کی مثالیں تم کو شروع سے دنیا میں نظر آئیں گی ، نوح سے لے کر اس وقت تک نبی آتے رہیں ہیں سب کے زمانہ میں اسی طرح ہوتا چلا آیا ہے.وَكَفَى بِرَبِّكَ بِذُنُوْبِ عِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا کہہ کر یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو خبیر و بصیر ہے بندوں کو غلط راستہ پر چلتے دیکھ کر کس طرح خاموش رہ سکتا ہے.یہ فقرہ بھی ان معنوں کو ر ڈ کرتا ہے جو اوپر کی آیت کے بعض نادانوں نے کئے ہیں ( کہ خدا تعالیٰ بڑے بڑے لوگوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ بدکار ہو جاؤ ) کیونکہ اس میں بتایا ہے کہ معذب لوگ پہلے سے گناہ گار ہوتے ہیں یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ ان کو گنہگار بناتا ہے.“ (تفسیر کبیر جلد ٤ صفحه (۳۱۷ پھر ایک آیت ہے ﴿وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ مِنَ الْكِتب هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ.إِنَّ اللَّهَ بِعِبَادِهِ لَخَبِيْرٌ بَصِيرٌ (سورة الفاطر: ۳۲) اور جو ہم نے تیری طرف کتاب میں سے وحی کیا ہے وہی حق ہے.اس کی تصدیق کرنے والا ہے جو اس کے سامنے ہے.یقینا اللہ اپنے بندوں سے ہمیشہ باخبر رہنے والا (اور ان پر ) گہری نظر رکھنے والا ہے.کے دو پہلو ہیں : امام رازی إِنَّ اللَّهَ بِعِبَادِهِ لَخَبِيْرٌ بَصِيرٌ ﴾ کے تحت فرماتے ہیں کہ اس ارشاد الہی
خطبات مسرور 59 $2003 نمبر ایک حقیقت یہ ہے کہ یہ بات برحق ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہے اور وَاللهُ خَبِيرٌ کا مطلب ہے کہ وہ چھپی ہوئی باتوں کو جاننے والا ہے.اور بصیر کا مطلب یہ ہے کہ وہ ظاہری باتوں کو بھی جاننے والا ہے.پس اس کی وحی میں ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی کوئی باطل بات نہیں ہے.نمبر ۲: إِنَّ اللَّهَ بِعِبَادِهِ لَخَبِيْرٌ بَصِيْر ﴾ اس اعتراض کا جواب بھی ہوسکتا ہے جو مشرکین مکہ کیا کرتے تھے کہ یہ قرآن کسی عظیم المرتبت شخص پر کیوں نازل نہیں ہوا ؟ پس فرمایا إِنَّ اللَّهَ بِعِبَادِهِ لَخَبِيْرٌ بَصِيرٌ ، یعنی وہ ان کے باطن کو جانتا ہے اور ان کے ظاہر پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے.پس اس نے محمد ﷺ کو چنا اور ان کے علاوہ کسی اور کو نہ چنا.کیونکہ ان کے نزدیک وہی اس مقام کے لئے ان میں سے سب سے زیادہ اہل تھے.(تفسیر کبیر رازی جلد ٢٦ صفحه (٢٤ پھر فرمایا: ﴿ وَلَوْبَسَطَ اللَّهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْ فِي الْأَرْضِ وَلَكِنْ يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَاءُ إِنَّهُ بِعِبَادِهِ خَبِيْرٌ بَصِيْرٌ (سورة الشورى : ۲۸) اور اگر اللہ اپنے بندوں کے لئے رزق کشادہ کر دیتا تو وہ زمین میں ضرور باغیانہ روش اختیار کرتے لیکن وہ ایک اندازہ کے مطابق جو چاہتا ہے نازل کرتا ہے.یقیناً وہ اپنے بندوں سے ہمیشہ باخبر (اور ان پر گہری نظر رکھنے والا ہے.اس آیت کے تعلق میں حضرت انس آنحضرت ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے جو باتیں اپنے رب تبارک و تعالیٰ سے بیان کی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی کی اہانت کی اس نے گویا مجھے جنگ کے لئے للکارا اور میں اپنے اولیاء کی مدد کرنے میں سب سے سُرعت سے کام لینے والا ہوں.اور مجھے ان کے باعث اس طرح غصہ آتا ہے جس طرح غضبناک شیر کو غصہ آتا ہے.اور میں کسی کام کے کرنے میں کبھی متر ڈ نہیں ہوا البتہ ایک ایسے مومن کی روح قبض کرنے میں مجھے تر ڈر ہوتا ہے جو موت کو نا پسند کرتا ہے.اگر چہ میں اس کی ناگواری کو نا پسند کرتا ہوں مگر اس کے سوا چارہ نہیں ہوتا.اور میرا کوئی مومن بندہ میرا مقرب نہیں
60 $2003 خطبات مسرور ہوا مگر ان فرائض کی ادائیگی کی وجہ سے جو میں اس پر فرض کئے ہیں.اور میرا مومن بندہ نوافل کے ذریعہ مسلسل میرے قریب ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں.اور جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کے کان، آنکھیں ، زبان اور ہاتھ اور اس کا مددگار ہو جاتا ہوں.پس اگر وہ مجھ سے کچھ مانگتا ہے تو میں اسے دے دیتا ہوں.اور اگر وہ مجھ سے کوئی دعا کرتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں.میرے کچھ بندے مجھ سے عبادت کا دروازہ پوچھتے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ اگر میں نے اس کو وہ دروازہ بتا دیا تو اس شخص میں عجب آجائے گا جو اس کو بگاڑ دے گا.اور میرے کچھ مومن بندے ایسے ہیں کہ جن کو دولتمندی ہی راہ راست پر قائم رکھ سکتی ہے اور اگر میں ان کو غریب کر دوں تو غربت ان کو بگاڑ دے گی اور میرے مومن بندوں میں سے بعض ایسے ہیں جن کو غربت ہی درست حال پر قائم رکھتی ہے اور اگر میں انہیں غنی کر دوں تو امیر ہونا اس کو فساد میں مبتلا کر دے گا.اور میں اپنے بندوں کے بارہ میں ان کے دلوں کے حال کو جانتا ہوئے تدبیر کرتا ہوں.پس میں علیم وخبیر ہوں.اس کے بعد حضرت انسؓ نے ان الفاظ میں دعا کی ہے اللَّهُمَّ إِنِّي مِنْ عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِيْنَ الَّذِيْنَ لَا يُصْلِحُهُمْ إِلَّا الْغِنَى فَلَا تُفْقِرْنِي بِرَحْمَتِكَ.اے اللہ ! میں تیرے ان مومن بندوں میں سے ہوں جن کو صرف غناء ہی راس آتا ہے.پس تو اپنی رحمت سے مجھے مفلس نہ رہنے دینا.(تفسیر قرطبی) پھر فرمایا: ﴿يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَّانْثَى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوْبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيْمٌ خَبِيرٌ (سورة الحجرات: ۱۴).اے لوگو! یقیناً ہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو.بلا شبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے.یقینا اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور ) ہمیشہ باخبر ہے.علامہ مفخر الدین راز کی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ظاہر کو جانتا ہے، تمہارے نسب کو جانتا ہے، تمہارے باطن سے باخبر ہے،اس پر تمہارے
61 $2003 خطبات مسرور بھید مخفی نہیں ہیں.پس تم تقویٰ کو اپنا عمل بناؤ اور تقویٰ میں بڑھتے چلے جاؤ جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بڑھایا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: (تفسیر کبیر رازی جلد ۲۸ صفحه ١٤٠ تم میں معزز اور زیادہ مکرم وہ ہے جو زیادہ تر متقی ہے.جس قدر نیکیاں اور اعمال صالح کسی میں زیادہ تر ہیں وہی زیادہ معزز و مکرم ہے.کیا بے جا شیخی اور انانیت پیدا نہیں ہو رہی ؟ پھر جتلاؤ.اس نعمت کی قدر کی تو کیا کی؟ یہ اخوت اور برادری کا واجب الاحترام مسئلہ اسلام کی دیکھا دیکھی اب اور قوموں نے بھی لے لیا.پہلے ہندو وغیرہ تو میں کسی دوسرے مذہب و ملت کے پیروکو اپنے مذہب میں ملانا عیب سمجھتے تھے اور پر ہیز کرتے تھے.مگر اب شدھ کرتے اور ملاتے ہیں.گو کامل اخوت اور سچے طور پر نہیں.مگر رسول اللہ ﷺ کی طرف غور کرو کہ حضور نے اپنی عملی زندگی سے کیا ثبوت دیا کہ زید جیسے کے نکاح میں شریف بیبیاں آئیں.اسلام، مقدس اسلام نے قوموں کی تمیز کو اُٹھا دیا جیسے وہ دنیا میں تو حید کو زندہ اور قائم کرنا چاہتا تھا اور چاہتا ہے اسی طرح ہر بات میں اس نے وحدت کی روح پھونکی اور تقویٰ پر ہی امتیاز رکھا.قومی تفریق جو نفرت اور حقارت پیدا کر کے شفقت علی خلق اللہ کے اصول کی دشمن ہو سکتی تھی اُسے دور کر دیا.ہمیشہ کا منکر ، خدا رسول کا منکر جب اسلام لا وے تو شیخ کہلا دے.یہ سعادت کا تمغہ یہ سیادت کا نشان جو اسلام نے قائم کیا تھا صرف تقویٰ تھا.(الحكم ١٥ مئى ١٨٩٩ء صفحه ٤) متقی کی شان نہیں کہ ذاتوں کے جھگڑے میں پڑے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ” مکرم و معظم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں ہو سکتا.خدا کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ہے..إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اَنْقَكُمْ إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ﴾ یہ جو مختلف ذاتیں ہیں یہ کوئی وجہ شرافت نہیں.خدا تعالیٰ نے محض عرف کے لئے یہ ذاتیں بنائیں اور آج کل تو صرف بعد چار پشتوں کے حقیقی پتہ لگاناہی مشکل ہے.متقی کی شان نہیں کہ ذاتوں کے جھگڑے میں پڑے.جب اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا کہ میرے نزدیک ذات کوئی سند نہیں.حقیقی مکرمت اور عظمت کا باعث فقط تقویٰ ہے.(رپورٹ جلسه سالانه ۱۸۹۷ء صفحه (۵۰)
خطبات مسرور 62 $2003 پھر فرماتے ہیں : ”دینی غریب بھائیوں کو کبھی حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھو.مال و دولت یا نسلی بزرگی پر بے جا فخر کر کے دوسروں کو ذلیل اور حقیر نہ سمجھو.خدا کے نزدیک مکرم وہی ہے جو متقی ہے.چنانچہ فرمایا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ ، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے گو کہ جماعت میں بہت بڑا حصہ ایسا ہے جو اس بات پر قائم ہے لیکن پھر بھی وقتاً فوقتاً ایسی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں.ہمیں اب اس تعلیم کو بڑی اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے.اب بھی ایسے خطوط آتے رہتے ہیں جن میں یہ ذکر ہوتا ہے کہ ہمیں یا ہمارے عزیزوں کی لڑکیوں کی طرف سے شادیوں کے بعد غربت کے طعنے دئے جاتے ہیں یا حسب نسب کے طعنے دئے جاتے ہیں.یہ باتیں تو ایسی ہیں جو شادی کرنے والے کو پہلے سوچ لینی چاہئیں.پہلے حسب نسب یا غربت و امارت کا پتہ یاعلم نہیں تھا.انتہائی ظلم کی بات ہے یہ.پہلے بھی کسی نے آپ کو مجبور نہیں کیا ہوتا کہ ضرور فلاں جگہ شادی کرنی ہے.اپنی مرضی سے، اپنے شوق سے کرتے ہیں تو پھر اس کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ اس قسم کے طعنے یا اس قسم کی باتیں کی جائیں.کچھ خدا کا خوف ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ سب کو تقویٰ پر قائم کرے.قرآن کریم کی بیان فرمودہ پیشگوئیاں اور نئی ایجادات قرآن کریم کی بعض اور بیان فرمودہ پیشگوئیاں ہیں، پیش خبریاں ہیں.فرمایا: وَإِذَ الْعِشَارُ عُطِّلَتْ ﴾ اور جب دس ماہ کی گا بھن اونٹنیاں بغیر کسی نگرانی کے چھوڑ دی جائیں گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۃ تکویر کی اس آیت کی تفسیر کے تحت فرماتے ہیں: قرآن اور حدیث دونوں بتلا رہے ہیں کہ مسیح کے زمانہ میں اونٹ بریکار ہو جائیں گے یعنی ان کے قائم مقام کوئی اور سواری پیدا ہو جائے گی.یہ حدیث مسلم میں موجود ہے.اور اس کے الفاظ یہ ہے: ”وَيُتْرَكَنَّ الْقَلَاصُ فَلا يُسْعَى عَلَيْهَا “ اور قرآن کے الفاظ یہ ہیں ﴿وَإِذَا الْعِشَارُ عُلَتْ.شیعوں کی کتابوں میں بھی یہ حدیث موجود ہے مگر کیا کسی نے اس نشان کی کچھ بھی پرواہ کی.ابھی عنقریب ہی اس پیشگوئی کا دلکش نظارہ مکہ اور مدینہ کے درمیان نمایاں ہونے والا ہے جبکہ اونٹوں کی ایک لمبی قطار کی جگہ ریل کی گاڑیاں نظر آئیں گی.اور تیرہ سو برس کی سواریوں میں انقلاب ہو کر ایک نئی سواری پیدا ہو جائے گی.اس وقت ان مسافروں کے سر پر جب یہ آیت ﴿وَإِذَ الْعِشَارُ عُطّلت اور یہ حدیث وَلَيُتْرَكَنَّ الْقَلَاصُ فَلا يُسْعَى عَلَيْهَا “ پڑھی جائے گی تو کیسے انشراح
63 $2003 خطبات مسرور صدر سے ان کو ماننا پڑے گا کہ یہ در حقیقت آج کے دن کے لئے ایک نشان تھا اور ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی جو ہمارے نبی کریم کے مبارک لبوں سے نکلی اور آج پوری ہوئی“.(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ١٨ صفحه ٤٠٦) یہ بھی اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے لئے پیش کی گئی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ”میں وہ شخص ہوں جس کے زمانہ میں اس ملک میں ریل جاری ہو کر اونٹ بیکار کئے گئے اور عنقریب وہ وقت آتا ہے بلکہ بہت نزدیک ہے جبکہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ریل جاری ہو کر وہ تمام اونٹ بریکار ہوجائیں گے جو تیرہ سو برس سے یہ سفر مبارک کرتے تھے.تب اس وقت ان اونٹوں کی نسبت وہ حدیث جو صحیح مسلم میں موجود ہے صادق آئے گی یعنی یہ کہ لَيُتْرَكَنَّ الْقَلَاصُ فَلا يُسْعَى عَلَيْهَا “ یعنی مسیح کے وقت میں اونٹ بریکار کئے جائیں گے اور کوئی ان پر سفر نہیں کرے گا“.(تذكرة الشهادتين، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه (٣٦) پھر فرمایا: ﴿وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ اور جب صحیفے نشر کئے جائیں گے.(التكوير : ١١ ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: ”ایسا ہی قرآن شریف میں آخری زمانہ کی نسبت اور بھی پیشگوئیاں ہیں.ان میں سے ایک یہ پیشگوئی بھی ہے ﴿وَإِذَا الصُّحُفُ نُشرت یعنی آخری زمانہ وہ ہوگا جبکہ کتابوں اور صحیفوں کی اشاعت بہت ہوگی گویا اس سے پہلے کبھی ایسی اشاعت نہیں ہوئی تھی.یہ ان کلوں کی طرف اشارہ ہے جن کے ذریعہ سے آج کل کتابیں چھپتی ہیں اور پھر ریل گاڑی کے ذریعہ سے ہزاروں کوسوں تک پہنچائی جاتی ہیں.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۲۲ ویسے تو قدیم زمانہ سے درختوں کے پتوں، ان کی چھالوں اور ہڈیوں اور پتھروں وغیرہ پر لکھنے کا رواج رہا ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں رائج تھا.تاہم با قاعدہ فن کتابت کا آغاز چین سے ہوا.پہلا مطبوعہ نمونہ ۷۷ ء کا ہے جو برٹش میوزیم میں موجود ہے وہ چین کا ہے.بہر حال اب یہ فن روز بروز ترقی پر ہے.اس کی نئی نئی شکلیں مثلاً کمپیوٹر اور کمپیوٹرائزڈ چھاپہ خانے ، پھر آج کل ای میل وغیرہ مختلف چیزیں ہیں جو جاری ہیں جو اس الہی خبروں کی کہ ﴿وَاِذَا
$2003 64 خطبات مسرور الصُّحُفُ نُشِرَت کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں.تَعْلَمُوْنَ پھر فرمایا وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَزِيْنَةً وَيَخْلُقُ مَا لَا (النحل: ٩) اور گھوڑے اور خچر اور گدھے (پیدا کئے ) تاکہ تم ان پر سواری کرو اور (وہ) بطور زینت ( بھی ) ہوں.نیز وہ ( تمہارے لئے وہ بھی پیدا کرے گا جسے تم نہیں جانتے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اس آیت کے حوالے سے سورۃ کے تعارفی نوٹ میں فرماتے ہیں: ہر قسم کے جانوروں کی تخلیق کا ذکر فرمانے کے بعد یہ عظیم الشان پیشگوئی فرمائی گئی ہے کہ اس قسم کی اور سواریاں بھی اللہ تعالیٰ پیدا فرمائے گا اور جن کا تمہیں اس وقت کوئی علم نہیں.چنانچہ فی زمانہ ایجاد ہونے والی نئی نئی سواریوں کی پیشگوئی اس آیت میں فرما دی گئی ہے.اب مختلف النوع قسم کی سواریاں اور پھر ان کے مختلف النوع قسم کے فیولز (Fules) ہیں جن سے یہ چلتی ہیں.سولر انرجی (Solar Energy) سے چلنے والی سواریاں بھی ایجاد ہیں.پھر ترقی یافتہ قوموں کے زوال کی خبر ہے.اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحْبِ الْفِيْلِ.اَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيْلِ.وَاَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا اَبَابِيْلَ تَرْمِيْهِمْ بِحِجَارَةٍ منْ سِجَيْلٍ فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّاكُوْلٍ (سورة الفيل : ٢ تا ٦ ) - کیا تو نہیں جانتا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں سے کیا سلوک کیا؟ کیا اُس نے اُن کی تدبیر کورائیگاں نہیں کر دیا ؟ اور اُن پر غول در غول پرندے (نہیں) بھیجے؟ وہ اُن پر کنکر ملی خشک مٹی کے ڈھیلوں سے پتھراؤ کر رہے تھے.ہیں اس نے انہیں کھائے ہوئے کھو سے کی طرح کر دیا.اس کی تفسیر میں حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں: دنیاوی قوموں کی ترقی آخر اس نقطۂ عروج پر ختم ہوگی کہ وہ ساری عظیم طاقتیں اسلام کو نیست و نابود کرنے کے درپے ہو چکی ہوں گی.قرآن کریم ماضی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے
$2003 65 خطبات مسرور فرماتا ہے کہ اس سے پہلے بھی اُم القریٰ یعنی مکہ کو بڑی بڑی ظاہری حشمت والی قوموں نے تباہ کرنے کی کوشش کی تھی.وہ اصحاب الفیل یعنی بڑے بڑے ہاتھیوں والے تھے لیکن پیشتر اس سے کہ وہ ان بڑے بڑے ہاتھیوں پر مکہ تک پہنچتے ، ان پر ابابیل نے جو سمندری چٹانوں کی کھو ہوں میں گھر بناتی ہیں، ایسے کنکر برسائے جن میں چیچک کے جراثیم تھے اور ساری فوج میں وہ خوفناک بیماری پھیل گئی اور آنا فانا وہ ایسی لاشوں کے ڈھیر ہو گئے جیسے کھایا ہوا ٹھوسا ہو.ان کے جسموں کو مُر دار خور پرندے پٹک پٹک کر زمین پر مارتے تھے.پس آئندہ بھی اگر کسی قوم نے طاقت کے پر تے پر اسلام کی یا ملکہ کی بے حرمتی کا اور تباہی کا ارادہ کیا تو وہ بھی اسی طرح تباہ کر دی جائے گی.شق قمر پھر شق قمر کی خبر ہے.فرمایا: ﴿ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ» که ساعت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا.حضرت مصلح موعود فر ماتے ہیں :- آنحضرت ﷺ مکہ میں ہی تھے کہ آپ کو الہام ہوا: ﴿ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَ القَمَرُ اسلام کی ترقی کا وقت آگیا ہے اور عرب کی حکومت تباہ کر دی گئی.چاند عرب کا نشان تھا چنانچہ جب کوئی شخص خواب میں چاند دیکھے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اُسے عرب کی حکومت کے حالات بتائے گئے ہیں.پس چاند کے پھٹنے کے یہ معنے تھے کہ عرب کی حکومت تباہ ہو جائے گی.اُس وقت جب آپ کے صحابہ چاروں طرف دنیا میں جان بچائے دوڑے پھرتے تھے جب رسول اللہ کا گلا گھونٹا جاتا اور آپ کی گردن میں پٹکے ڈالے جاتے تھے.جب خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے کی بھی آپ کو اجازت نہیں تھی اور جب سارا مکہ آپ کی مخالفت کی آوازوں سے گونج رہا تھا، اُس وقت محمد رسول اللہ ﷺ نے مکہ والوں کو یہ خبر دی کہ عرب کی حکومت کی تباہی کا خدا نے فیصلہ کر دیا ہے اور اسلام کے غلبہ کا وقت آگیا ہے.پھر کس طرح چند سال کے بعد ہی یہ پیشگوئی پوری ہوئی.قیدار کی ساری حشمت توڑ دی گئی.اسلام کا جھنڈا بلند کر دیا گیا.چاند پھٹ گیا.قیامت آگئی اور ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین بنادی گئی.“ الله (دیباچه تفسیر القرآن - صفحه (۲۸۳
خطبات مسرور 66 $2003 پھر آنحضرت ﷺ کی چند احادیث ہیں جو میں پیش کرتا ہوں.حضرت زید اور حضرت جعفر کی شہادت کی خبر.صلى الله حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (اللہ تعالیٰ سے علم پا کر ) حضرت جعفر اور حضرت زید رضی اللہ عنہما کی وفات کی خبر اطلاع آنے سے پہلے اس حال میں دی کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے.(بخاری کتاب المغازی باب عزوه موته من ارض شام آنحضرت ﷺ کی اس خبر کے عین مطابق جس روز آپ ﷺ نے صحابہ کو حضرت زید اور حضرت جعفر کی شہادت کی خبر دی.میدان موتہ میں دونوں صحابہ کی شہادت ہو چکی تھی جس کی تصدیق ان کی شہادت کی باقاعدہ خبر لانے والے فرد کے پیغام پہنچانے سے ہوگئی.پھر آپ نے صحابہ کو ان کی خوشحالی کی خبر دی.حضرت جابر روایت کرتے ہیں کہ نبی صلى الله نے فرمایا: ” کیا تمہارے پاس قالین ہے؟ میں نے عرض کیا حضور ! ہمارے پاس قالین کہاں!.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عنقریب تمہارے پاس قالین بھی ہوں گے.پھر ہم پر وہ زمانہ آیا کہ میں بیوی کو کہتا کہ میرے راہ سے اپنا قالین ہٹاؤ تو کہتی کیا نبی ﷺ نے نہیں فرمایا تھا کہ عنقریب تمہارے پاس قالین ہوں گے.یہ جواب سن کر میں ان قالینوں کو بچھے رہنے دیتا.(بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة في (الاسلام حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ کالی بکریوں کا ریوڑ میری پیروی کر رہا ہے اور ان کے پیچھے خاکستری رنگ کی بکریوں کا ریوڑ ہے.اس پر حضرت ابو بکر نے کہا کہ یا رسول اللہ ! یہ عرب آپ کی پیروی کریں گے اور پھر عجم ان کی پیروی کریں گے.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ فرشتے نے بھی یہی تعبیر کی ہے (مصنف ابن ابی شیبه جلد ۱۱ صفحه ٥٩ كتاب الايمان والروؤيا باب ماقالوا فيما يخبر النبي من الرؤيا حديث نمر پھر مسلمانوں اور دوسری اقوام کے حملہ آور ہونے کی خبر ہے.(١٠٥٢٨ عبدالرحمن، بشر، ابن جابر، ابوعبدالسلام، ثوبان سے روایت ہے کہ رسول کریم ہے فرمایا قریب ہے کہ دوسری قو میں تم پر اس طرح حملہ آور ہوں گی جیسے کھانے والے کھانے کے کسی برتن
$2003 67 خطبات مسرور پر آ ٹوٹتے ہیں.ایک شخص نے عرض کی کہ یہ ہماری تعداد کی کمی کی جہ سے ہوگا ؟ فرمایا نہیں.تم اس زمانے میں تعداد میں بہت ہو گے لیکن تم ایسے ہو گے جیسے دریا کے پانی پر میل اور کوڑے کا جھاگ ہوتا ہے.اللہ تمہارے رعب کو تمہارے دشمنوں کے دل سے نکال ڈالے گا اور تمہارے دلوں میں وھن ڈالے گا.ایک شخص نے عرض کیا.یا رسول اللہ ! وھن کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت کا خوف.الله (سنن ابی داؤد کتاب الملاحم باب فى تداعى الأمم على الاسلام یہ جو آج کل ہم دیکھ رہے ہیں.آخری زمانہ میں تجارت کے بارہ میں پیشگوئی.حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے جب قرب قیامت کا زمانہ آئے گا تو خاص خاص لوگوں کو ہی سلام کیا جائے گا اور تجارت اس قدر پھیل جائے گی کہ عورت اپنے خاوند کی تجارت میں اس کی مدد کرے گی اور رحمی رشتہ منقطع ہو جائیں گے.(مسند احمد بن حنبل جلد ۱ صفحه ٤١٩ مطبوعه (بيروت) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ اے محمد ! اگر جنت کا عرض آسمان اور زمین ہے تو پھر دوزخ کہاں ہے؟.آپ نے فرمایا کہ تو نے نہیں دیکھا کہ جب رات آتی ہے تو دن کہاں چلا جاتا ہے.اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے.آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسی طرح اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.( المستدرك على الصحيحين كتاب الايمان جلد ۱ صفحه ۹۲ حدیث نمبر ۱۰۳) اس زمانہ میں یہ سمجھنا مشکل تھا لیکن اس میں جو مختلف سمتوں یا Dimention کے وجود کی خبر دی گئی ہے آج کل انسان سمجھ سکتا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آئندہ ہونے والی باتیں بیان فرمائیں ان کی چند مثالیں.آپ فرماتے ہیں: ”میرے مخلص دوست مولوی نور دین صاحب کا ایک لڑکا فوت ہو گیا تھا اور وہی ایک لڑکا تھا.اس کے فوت ہونے پر بعض نادان دشمنوں نے بہت خوشی ظاہر کی اس خیال سے کہ مولوی صاحب لا ولد رہ گئے ، تب میں نے ان کے لئے بہت دعا کی اور دعا کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف سے
68 $2003 خطبات مسرور مجھے یہ اطلاع ملی کہ تمہاری دعا سے ایک لڑکا پیدا ہو گا اور اس بات کا نشان کہ وہ محض دعا کے ذریعہ سے برا کیا گیا ہے.یہ بتایا گیا کہ اس کے بدن پر بہت سے پھوڑے نکل آئیں گے.چنانچہ وہ لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عبدالحئی رکھا گیا اور اس کے بدن پر غیر معمولی پھوڑے بہت سے نکلے جن کے داغ اب تک موجود ہیں.اور یہ پھوڑوں کا نشان لڑکے کے پیدا ہونے سے پہلے بذریعہ اشتہار شائع کیا پیدا گیا تھا.فرماتے ہیں: (حقيقة الوحى، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۳۰) سعداللہ لدھیانوی کی موت کی خبر دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام د منجملہ اُن نشانوں کے سعد اللہ لدھیانوی کی موت ہے جو پیشگوئی کے مطابق ظہور میں آئی.اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب منشی سعد اللہ لدھیانوی بدگوئی اور بد زبانی میں حد سے بڑھ گیا اور اپنی نظم اور نثر میں اس قدر مجھ کو گالیاں دیں کہ میں باور نہیں کر سکتا کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کسی نے ایسی گندی گالیاں کسی نبی اور مرسل کو دی ہوں جیسا کہ اس نے مجھے دیں.چنانچہ جس شخص نے اس کی مخالفانہ نظمیں اور نثریں اور اشتہار دیکھے ہوں گے اس کو معلوم ہوگا کہ وہ میری ہلاکت اور نابود ہونے کے لئے اور نیز میری ذلت اور اس کی نامرادی دیکھنے کے لئے کس قدر حریص تھا اور میری مخالفت میں کہاں تک اس کا دل گندہ ہو گیا تھا.پس ان تمام امور کے باعث میں نے اس کے بارہ میں یہ دعا کی کہ میری زندگی میں اس کو نا مرادی اور ذلت کی موت نصیب ہو.سوخدا نے ایسا ہی کیا اور جنوری ۱۹۰۷ء کے پہلے ہی ہفتہ میں چند گھنٹہ میں نمونیا پلیگ سے اس جہان فانی سے ہزاروں حسرتوں کے ساتھ کوچ کر گیا اور وہ پیشگوئی جس میں میں نے لکھا تھا کہ نامرادی اور ذلت کیسا تھ میرے رو بر ووہ مرے گا.وہ انجام آتھم میں عربی شعروں میں ہے اور وہ یہ ہے: تو نے اپنی خباثت سے مجھے بہت دکھ دیا ہے.پس میں سچا نہیں ہوں گا اگر ذلت کے ساتھ تیری موت نہ ہو.اور صرف تیری ذلت پر کچھ حصر نہیں، خدا تجھے مع تیرے گروہ کے ذلیل کرے گا اور مجھے عزت دے گا یہاں تک کہ لوگ میرے جھنڈے کے نیچے آجائیں گے.اے میرے خدا مجھ میں اور سعد اللہ میں فیصلہ کر.یعنی جو کا ذب ہے صادق کے روبرو اس کو
69 $2003 خطبات مسرور ہلاک کر.اے علیم وخبیر جو میرے دل کو اور میرے اندر کی پوشیدہ باتوں کو دیکھ رہا ہے.اے میرے خدا ! میں تیری رحمت کے دروازے دعا کرنے والوں کے لئے کھلے دیکھتا ہوں.پس یہ جو میں نے سعد اللہ کے حق میں دعا کی ہے اس کو قبول فرما اور رد نہ کر یعنی میری زندگی میں ہی اس کو ذلت کی موت دے.(حقیقة الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ٤٣٥ تا ٤٤٦) پھر کانگڑہ کے زلزلہ کی خبر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: میں نے زلزلہ کی نسبت پیشگوئی کی تھی جو اخبار الحکم اور البدر میں چھپ گئی تھی کہ ایک سخت زلزلہ آنے والا ہے.جو بعض حصہ پنجاب میں سخت تباہی کا موجب ہوگا اور پیشگوئی کی تمام عبارت یہ ہے : ” زلزلہ کا دھکا.عَفَتِ الدَّيَارُ مَحِلُّهَا وَ مَقَامُهَا “.چنانچہ یہ پیشگوئی ۴ را پریل ۱۹۰۵ء کو پوری ہوئی.(حقيقة الوحى، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۳۱) اور اس پیشگوئی کے مطابق کانگڑہ میں شدید زلزلہ آیا جس میں ہندوؤں کے مشہور مندر زمین بوس ہو گئے.دھر مسالہ کی اور متفرق چھاؤنیاں جو تھیں ان میں بڑی تباہی آئی اور ایک محتاط اندازہ کے مطابق کہتے ہیں کہ ہمیں ہزار افراد لقمہ اجل ہوئے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا عجیب معجزہ ہے کہ کسی احمدی کا جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا.پھر کانگڑہ کے زلزلہ کے حالات بیان کرتے ہوئے حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ اپنی کتاب ”ذکر حبیب میں بیان فرماتے ہیں : دوم را اپریل ۱۹۰۵ء کی صبح کو جبکہ پنجاب میں سخت زلزلہ آیا اور کانگڑہ کے پہاڑ میں کئی ایک بستیاں بالکل تباہ ہو گئیں اور ہندوؤں کی دیوی جوال لکھی کی لاٹ بجھ گئی اور عمارت مسمار ہوگئی.اس وقت صبح ساڑھے چھ بجے کے قریب قادیان میں بھی سخت زلزلہ محسوس ہوا مگر یہ خدا کا فضل رہا کہ جیسا کہ لاہور اور امرتسر میں کئی ایک مکانات گر گئے اور آدمی مر گئے اور بہتوں کو چوٹیں آئیں ، ایسا کوئی حادثہ قادیان میں نہیں ہوا.میں ان دنوں کچھ بیمار تھا اور خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میرا علاج کرتے تھے.روزانہ تازہ ادویہ منگوا کر اور ایک گولی اپنے ہاتھ سے مجھے بھیجا کرتے تھے.میں
$2003 70 خطبات مسرور اس وقت اپنے اہل بیت کے ساتھ حضرت مسیح موعود کے مکان میں اس کمرہ میں مقیم تھا جو گول کمرہ کے نام سے مشہور ہے اور جس میں میں قادیان میں سب سے پہلی دفعہ ۱۸۹۱ء کے ابتدا میں آن کر مقیم ہوا تھا.چونکہ زلزلے کے اس بڑے دھکے آنے کے بعد بھی چند گھنٹوں کے وقفے پر بار بارز مین ہلتی تھی اس واسطے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ تجویز کی کہ مکانات چھوڑ کر باہر باغ میں ڈیرہ لگا دیا جائے.اکثر دوست مع قبائل باہر چلے گئے اوچھوٹی چھوٹی جھونپڑیاں بنائی گئیں اور بعض نے خیمے کھڑے کر لئے اور کئی ماہ تک اسی باغ میں قیام رہا.انہی ایام میں جاپان کا ایک پروفیسر اوموری جو علم زلازل کے محقق اور مبصر تھے ان زلازل کی تحقیقات کے واسطے ہندوستان آیا تھا اور بعد تحقیقات اس نے فیصلہ کیا تھا کہ یہاں اب کئی سال تک زلزلہ نہیں آئے گا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی الہامی پیشگوئی شائع کی تھی کہ موسم بہار میں پھر زلزلہ آئے گا.چنانچہ دوسرے سال ایسا ہی ایک شدید زلزلہ پھر آیا.(ذکر حبیب از مولانا مفتی محمدصادق صاحب صفحه ١٢٦) سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے الہام کیا: بھونچال آیا اور شدت سے آیا.زمین تہہ بالا کر دی اس ضمن میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: اس دن آسمان سے کھلا کھلا دھواں نازل ہوگا اور اس دن زمین زرد پڑ جائے گی.یعنی سخت قحط کے آثار ظاہر ہونگے.میں بعد اس کے جو مخالف تیری تو ہین کریں تجھے عزت دونگا اور تیرا اکرام کرونگا.وہ ارادہ کریں گے جو تیرا کام نا تمام رہے اور خدا نہیں چاہتا کہ جو تجھے چھوڑ دے جب تک تیرے کام پورے نہ کرے.میں رحمن ہوں اور ہر ایک امر میں تجھے سہولت دوں گا اور ہر ایک امر میں تجھے برکتیں دکھلاؤں گا“.(حقيقه الوحی روحانی خزائن جلد نمبر ۲۲ - صفحه ۹۸) پھر حضوڑ ایک جگہ فرماتے ہیں: یاد رہے کہ جس عذاب کے لئے یہ پیشگوئی ہے اس عذاب کو خدا تعالیٰ نے بار بار زلزلہ کے لفظ سے بیان کیا ہے اگر چہ بظاہر وہ زلزلہ ہے اور ظاہر الفاظ یہی بتاتے ہیں کہ وہ زلزلہ ہی ہوگا.لیکن چونکہ عادت الہی میں استعارات بھی داخل ہیں اس لئے یہ
$2003 71 خطبات مسرور بھی کہہ سکتے ہیں کہ غالبا تو وہ زلزلہ ہوگا ورنہ کوئی اور جاں گداز اور فوق العادت عذاب ہے جو زلزلہ کا رنگ اپنے اندر رکھتا ہے.براهين احمدیه جلد پنجم) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: یا د رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے.پس یقیناً سمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض ان میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اور اس قدرموت ہوگی کہ خون کی نہریں چلیں گی.اس موت سے چرند، پرند بھی باہر نہیں ہوں گے اور زمین پر اس قدر سخت تباہی آئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہوگی اور اکثر مقامات زیر وزبر ہو جائیں گے کہ گویا ان میں کبھی آبادی نہ تھی اور اس کے ساتھ اور بھی آفات زمین وآسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی یہاں تک کہ ہر ایک عقلمند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہو جائیں گے اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں ان کا پتہ نہیں ملے گا.تب انسانوں میں اضطراب پیدا ہو گا کہ یہ کیا ہونے والا ہے اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہو جائیں گے.وہ دن نزدیک ہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی اور نہ صرف زلزلے بلکہ اور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی.کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے.یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں.میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں، پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے.نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لو گے.مگر خدا غضب میں دھیما ہے تو بہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے.جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اس سے نہیں ڈرتا وہ مردہ ہے نہ کہ زندہ“.پھر آپ فرماتے ہیں : (حقيقة الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ٢٦٨ - ٢٦٩) |
خطبات مسرور 72 $2003 ”اے سننے والو ! تم سب یاد رکھو کہ اگر یہ پیشگوئیاں صرف معمولی طور پر ظہور میں آئیں تو سمجھ لو کہ میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں.لیکن اگر ان پیشگوئیوں نے اپنے پورے ہونے کے وقت دنیا میں ایک تہلکہ برپا کر دیا اور شدت گھبراہٹ سے دیوانہ سا بنادیا اور اکثر مقامات میں عمارتوں اور جانوں کو نقصان پہنچایا تو تم اس خدا سے ڈرو جس نے میرے لئے یہ سب کچھ کر دکھایا“.(تجليات الهيه صفحه ٤ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ٣٩٦) آپ کے کچھ الہامات ہیں.فرمایا: مجھے اللہ جل شانہ نہ یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ وہ بعض امراء اور ملوک کو بھی ہمارے گروہ میں داخل کرے گا اور مجھے اس نے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اور یہ کسی حد تک ہم نے پورا ہوتے ہوئے بھی دیکھا اور آئندہ بھی دیکھیں گے.پھر یہ الہام ہے ۱۸۸۳ء کا: پھر بعد اس کے فرمایا "إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قَرِيْبًا مِّنَ الْقَادِيَانِ وَبِالْحَقِّ اَنْزَلْنَاهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ.صَدَقَ اللهُ وَرَسُوْلُهُ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولاً یعنی ہم نے ان نشانوں اور عجائبات کو اور نیز اس الہام پر از معارف و حقائق کو قادیان کے قریب اتارا ہے اور ضرورت حقہ کے ساتھ اتارا ہے اور بضرورت حقہ اترا ہے.خدا اور اس کے رسول نے خبر دی تھی کہ جو اپنے وقت پر پوری ہوئی اور جو کچھ خدا نے چاہا تھاوہ ہونا ہی تھا“.(براهين احمدیه روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۹۳ بقیه حاشیه در حاشیه نمبر ۳ـ تذکره صفحه ٧٤ـ ٧٥ مطبوعه ١٩٦٩ء) پھر ایک الہام ہے فرمایا: اللہ جل شانہ نے مجھے خبر دی ہے کہ "يُصَلُّوْنَ عَلَيْكَ صُلَحَاءُ الْعَرَبِ وَأَبْدَالُ الشَّامِ وَتُصَلَّى عَلَيْكَ الْأَرْضُ وَالسَّمَاءُ وَيَحْمَدُكَ اللَّهُ عَنْ عَرْشِهِ“.از مکتوب حضرت اقدس مورخه اگست ۱۸۸۸ء مندرجه الحكم جلد ۵ نمبر ۳۲ مؤرخه ۳۱ / اگست ۱۹۰۱ء تذکره صفحه ١٦٢ مطبوعه ١٩٦٩) اس کا صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ترجمہ کیا ہے کہ تجھ پر عرب کے صلحاء اور شام کے ابدال درود بھیجیں گے.زمین و آسمان تجھ پر درود بھیجتے ہیں اور اللہ تعالی عرش سے تیری تعریف کرتا ہے.
$2003 73 6 خطبات مسہ دنیا اور عقبی میں کامیابی کا گریہ ہے کہ انسان ہر قول و فعل میں یادر کھے کہ خدا تعالیٰ میرے کاموں سے خبر دار ہے.یہی تقویٰ کی جڑ ہے.۳۰ رمئی ۲۰۰۳ء مطابق ۳۰ ہجرت ۱۳۸۲ هجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن (برطانیہ) خدا تعالیٰ کی ذات غیب در غیب کوئی معقل اس کو دریافت نہیں کر سکتی دنیا و عقبی میں کامیابی کا ایک گر کہ انسان کل کی فکر آج کرے مومن کو چاہئے کہ جو کام کرے اس کے انجام کو پہلے سوچ لے بچیوں پر سسرال یا خاوند کی طرف سے ظلم وزیادتی کا مسئلہ اور اس کا غلط ار و عمل اللہ تعالی کی صفت بصیر علم اور خبیر کا آپس میں تعلق آئندہ زمانہ کی بابت قرآنی خبر میں نئی نئی ایجادات خلافت راشدہ اور مکولیت اور پھر خلافت علی منہاج النبوۃ کے بارے خبریں کسوف و خسوف کی پیشگوئی جماعت احمدیہ کی تائید ونصرت کے الہی وعدے
$2003 74 ام خطبات مسہ تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: لا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ.وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ﴾ (سورة الانعام: ١٠٣) اس کا ترجمہ ہے: آنکھیں اس کو نہیں پاسکتیں ہاں وہ خود آنکھوں تک پہنچتا ہے اور وہ بہت باریک بین اور ہمیشہ باخبر رہنے والا ہے.ضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ کی ذات تو مخفی در مخفی اور غیب در غیب اور وَرَاءُ الْوَرَاء ہے اور کوئی عقل اُس کو دریافت نہیں کر سکتی.جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے لَا تُدْرِكُهُ الَا بُصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ يعنى بصارتیں اور بصیر تیں اُس کو پا نہیں سکتیں اور وہ اُن کے انتہا کو جانتا ہے اور اُن پر غالب ہے.پس اُس کی توحید محض عقل کے ذریعہ سے غیر ممکن ہے کیونکہ تو حید کی حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ انسان آفاقی باطل معبودوں سے کنارہ کرتا ہے یعنی جوں یا انسانوں یا سورج چاند وغیرہ کی پرستش سے دستکش ہوتا ہے ایسا ہی انفسی باطل معبودوں سے پر ہیز کرے.یعنی اپنی روحانی جسمانی طاقتوں پر بھروسہ کرنے سے اور ان کے ذریعہ سے عجب کی بلا میں گرفتار ہونے سے اپنے تئیں بچاوے.پس اس صورت میں ظاہر ہے کہ بجز ترک خودی اور رسول کا دامن پکڑنے کے توحید کامل حاصل نہیں ہو سکتی.اور جوشخص اپنی کسی قوت کو شریک باری ٹھہراتا ہے وہ کیونکر موحد کہلاسکتا ہے.“ پھر آپ فرماتے ہیں: 66 (حقيقة الوحى روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ١٤٨،١٤٧) بجز اس طریق کے کہ خدا خود ہی تجلی کرے اور کوئی دوسرا طریق نہیں ہے جس سے اس کی
75 $2003 خطبات مسرور ذات پر یقین کامل حاصل ہو لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارِ سے بھی یہی سمجھ میں آتا ہے کہ ابصار پر وہ آپ ہی روشنی ڈالے تو ڈالے.ابصار کی مجال نہیں ہے کہ خود اپنی قوت سے 66 اسے شناخت کرلیں.“ (البدر جلد ٢ نمبر ٤٧ مورخه ١٦ / دسمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۷۳) اب صفت خبیر کے بارہ میں کچھ اور آیات ہیں : يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ.وَاتَّقُوْا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (سورة الحشر : ١٩) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر جان یہ نظر رکھے کہ وہ کل کے لئے کیا آگے بھیج رہی ہے.اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.یقینا اللہ اس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”اے ایمان والو خدا سے ڈرتے رہو اور ہر یک تم میں سے دیکھتا رہے کہ میں نے اگلے جہان میں کون سا مال بھیجا ہے.اور اس خدا سے ڈرو جو خبیر اور علیم ہے اور تمہارے اعمال دیکھ رہا ہے یعنی وہ خوب جاننے والا اور پر کھنے والا ہے اس لئے وہ تمہارے اعمال ہرگز قبول نہیں کرے گا اور جنہوں نے کھوٹے کام کئے انہیں کاموں نے ان کے دل پر زنگار چڑھا دیا.سو وہ خدا کو ہر گز نہیں دیکھیں گئے“.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ٢٢٥-٢٢٦) حضرت خلیفہ المسح الاول رضی اللہ عنہ اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ: تقویٰ اللہ اختیار کرو اور ہر ایک جی کو چاہئے کہ بڑی توجہ سے دیکھ لے کہ کل کے لئے کیا کیا.جو کام ہم کرتے ہیں ان کے نتائج ہماری مقدرت سے باہر چلے جاتے ہیں.اس لئے جو کام اللہ کے لئے نہ ہوگا تو وہ سخت نقصان کا باعث ہوگا.لیکن جو اللہ کے لئے ہے تو وہ ہمہ قدرت اور غیب دان خدا جو ہر قسم کی طاقت اور قدرت رکھتا ہے اُس کو مفید اور مثمر ثمرات حسنہ بنادیتا ہے“.حقائق الفرقان جلد ٤ صفحه ٦٦)
$2003 76 خطبات مسرور پھر آپ (حضرت خلیفتہ امسیح الاول) فرماتے ہیں: ”اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر نفس کو چاہئے کہ دیکھتا ر ہے کہ کل کے لئے اس نے کیا کیا.اور تقویٰ اپنا شعار بنائے.اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو، اس سے خوب آگاہ ہے.غرض دنیا و عقبی میں جس کامیابی کا ایک گر بتایا کہ انسان کل کی فکر آج کرے.اور اپنے ہر قول وفعل میں یہ یادر کھے کہ خدا تعالیٰ میرے کاموں سے خبر دار ہے.یہی تقویٰ کی جڑھ ہے.اور یہی ہر کامیابی کی روح رواں ہے.برخلاف اس کے انجیل کی یہ تعلیم ہے جو (متنی ) باب ۶ آیت ۳۳ میں مذکور ہے بایں الفاظ کہ کل کے لئے فکر نہ کرو کیونکہ کل کا دن اپنے لئے آپ فکر کرے گا.آج کا دُکھ آج کیلئے کافی ہے.اگر ان دونوں تعلیموں پر غور کریں تو صرف اسی ایک مسئلے سے اسلام و عیسائیت کی صداقت کا فیصلہ ہوسکتا ہے.ایک نیک دل، پارسا ، طالب نجات ، طالب حق خوب سمجھ لیتا ہے کہ عملی زندگی کے اعتبار سے کون سا مذ ہب احق بالقبول ہے.اگر انجیل کی اس آیت پر ہم کیا، خود انجیل کے ماننے والے عیسائی بھی عمل کریں تو دنیا کی تمام ترقیاں رُک جائیں اور تمام کاروبار بند ہو جائیں.نہ تو بجٹ بنیں.نہ ان کے مطابق عمل درآمد ہو.نہ ریل گاڑیوں اور جہازوں کے پروگرام پہلے شائع ہوں.نہ کسی تجارتی کارخانے کو اشتہار دینے کا موقعہ ملے.نہ کسی گھر میں کھانے کی کوئی چیز پائی جائے.اور نہ غالب بازاروں سے مل سکے.کیونکہ کل کی تو فکر ہی نہیں، بلکہ فکر کرنا گناہ ہے.برخلاف اس کے قرآن مجید کی تعلیم کیا پاک اور عملی زندگی میں کام آنے والی ہے.اور لطف یہ ہے کہ عیسائیوں کا اپنا عمل درآمد بھی اسی آیت پر ہے ورنہ آج ہی سے سب کا روبار عالم بند ہو جائیں اور کوئی نظام سلطنت قائم نہ رہے.قرآن پاک کی تعلیم وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ﴾ پر عمل کرنے سے انسان نہ صرف دنیا میں کامران ہوتا ہے بلکہ عقبی میں بھی خدا کے فضل سے سرخرو ہوگا.ہم کبھی آخرت کے لئے سرمایۂ نجات جمع نہیں کر سکتے جب تک آج ہی سے اس دار القرار کے لئے تیاری نہ شروع کر دیں.“ (تشحيذ الاذهان جلد ۷ نمبر ٥ صفحه ۲۲۷-۲۲۸) پھر حضرت طلیقہ مسیح الاول نفرماتے ہیں:
77 $2003 خطبات مسرور چاہیے کہ ہر ایک نفس دیکھ لے کہ اس نے کل کے واسطے کیا تیاری کی ہے.انسان کے ساتھ ایک نفس لگا ہوا ہے جو ہر وقت مبدل ہے.کیونکہ جسم انسانی ہر وقت تحلیل ہورہا ہے.جب اس نفس کے واسطے جو ہر وقت تحلیل ہو رہا ہے اور اس کے ذرات جدا ہوتے جاتے ہیں، اس قدر تیاریاں کی جاتی ہیں اور اس کی حفاظت کے واسطے سامان مہیا کئے جاتے ہیں.تو پھر کس قدر تیاری اس نفس کے واسطے ہونی چاہیے جس کے ذمہ موت کے بعد کی جواب دہی لازم ہے.اس آنی فنا والے جسم کے واسطے جتنا فکر کیا جاتا ہے.کاش کہ اتنا فکر اس نفس کے واسطے کیا جاوے جو کہ جواب دہی کرنے والا ہے.إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُون : اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے آگاہ ہے.اس آگاہی کالحاظ کرنے سے آخر کسی نہ کسی وقت فطرت انسانی جاگ کر اسے ملامت کرتی ہے اور گناہوں میں گرنے سے بچاتی ہے.“ (بدر.۳ار دسمبر ۱۹۰۶ صفحہ۹) وو ھر حقائق الفرقان میں حضرت خلیفتہ امسیح الاول قفر ماتے ہیں: وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ﴾ : تقویٰ کا علاج بتایا کہ تم یہ یقین رکھو کہ تمہارے کاموں کو دیکھنے والا اور ان سے خبر رکھنے والا بھی کوئی ہے.حقائق الفرقان جلد ۲ صفحه (۸۵ پھر آپ نے فرمایا: ” مومن کو چاہیے کہ جو کام کرے اس کے انجام کو پہلے سوچ لے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا.انسان غضب کے وقت قتل کر دینا چاہتا ہے.گالی نکالتا ہے.مگر وہ سوچے کہ اس کا انجام کیا ہوگا.اس اصل کو مد نظر رکھے تو تقویٰ کے طریق پر قدم مارنے کی توفیق ملے گی.نتائج کا خیال کیونکر پیدا ہو.اس لئے اس بات پر ایمان رکھے کہ ﴿ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ﴾ جو کام تم کرتے ہو، اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے.انسان اگر یہ یقین کرے کہ کوئی خبیر وعظیم بادشاہ ہے جو ہر قسم کی بدکاری ، دغا ، فریب، سستی اور کاہلی کو دیکھتا ہے اور اس کا بدلہ دے گا، تو وہ بچ سکتا ہے.ایسا ایمان پیدا کرو.بہت سے لوگ ہیں جو اپنے فرائض نوکری ، حرفہ، مزدوری وغیرہ میں سستی کرتے ہیں.ایسا کرنے سے رزق حلال نہیں رہتا.اللہ تعالیٰ سب کو تقویٰ کی توفیق دے.66 (الحکم- ۲۱ تا ۲۸/مئی ۱۹۱۱ ء- صفحه (٢٦)
78 $2003 خطبات مسرور اب اس ضمن میں ایک اور مسئلہ جو آج کل عائلی مسئلہ رہتا ہے اور روزانہ کوئی نہ کوئی اس بارہ میں توجہ دلائی جاتی ہے بچیوں کی طرف سے کہ سسرال یا خاوند کی طرف سے ظلم یا زیادتی برداشت کر رہی ہیں.بعض دفعہ لڑکی کولڑکے کے حالات نہیں بتائے جاتے یا ایسے غیر واضح اور ڈھکے چھپے الفاظ میں بتایا جاتا ہے کہ لڑکی یا لڑکی کے والدین اس کو معمولی چیز سمجھتے ہیں لیکن جب آپ بیچ میں جائیں تو ایسی بھیانک صورتحال ہوتی ہے کہ خوف آتا ہے.ایسی صورت میں بعض دفعہ دیکھا گیا ہے کہ لڑکا تو شرافت سے ہمدردی سے بچی کو، بیوی کو گھر میں بسانا چاہتا ہے لیکن ساس یا نندیں اس قسم کی سختیاں کرتی ہیں اور اپنے بیٹے یا بھائی سے ایسی زیادتیاں کرواتی ہیں کہ لڑکی بیچاری کے لئے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں.یا تو وہ علیحدگی اختیار کر لے یا پھر تمام عمر اس ظلم کی چکی میں پستی رہے.اور یہ بھی بات سامنے آئی ہے کہ بعض صورتوں میں جب اس قسم کی زیادتیاں ہوتی ہیں، جب لڑکی بحیثیت بہو اختیارات اس کے پاس آتے ہیں تو پھر وہ ساس پر بھی زیادتیاں کر جاتی ہے اور اس پر ظلم شروع کر دیتی ہے.اس طرح یہ ایک شیطانی چکر ہے جو ایسے خاندانوں میں جو تقویٰ سے کام نہیں لیتے جاری رہتا ہے.حالانکہ نکاح کے وقت جب ایجاب و قبول ہوتا ہے، تقویٰ اور قول سدید کے ذکر والی آیات پڑھ کر اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ ایسا جنت نظیر معاشرہ قائم کرو اور ایسا ماحول پیدا کرو کہ غیر بھی تمہاری طرف کھنچے چلے آئیں.لیکن گو چند مثالیں ہی ہوں گی جماعت میں لیکن بہر حال دکھ دہ اور تکلیف دہ مثالیں ہیں.اب یہ جو آیت جس کی تشریح ہو رہی ہے یہ بھی نکاح کے موقع پر پڑھی جانے والی آیات میں سے ایک آیت ہے.جیسا کہ حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی ا للہ عنہ نے فرمایا کہ ہر بات سے پہلے، ہر کام سے پہلے سوچے کہ اس کا انجام کیا ہوگا.اور جو کام تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے.خیال ہوتا ہے زیادتی کرنے والوں کا کہ ہمیں کوئی نہیں دیکھ رہا.ہم گھر میں بیٹھے کسی کی لڑکی پر جو مرضی ظلم کرتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے.تو پھر اگر یہ خیال دل میں رہے کہ اللہ تعالیٰ اگر دیکھ رہا ہے اور اللہ کو اس کی خبر ہے تو حضور (حضرت خلیفتہ اسیح الاول ) فرماتے ہیں کہ ان برائیوں سے بچا جاسکتا ہے.اللہ کرے کہ ہر احمدی گھرانہ خاوند ہو یا بیوی، ساس ہو یا بہو بند ہو یا بھا بھی تقویٰ کی راہوں پر قدم مارنے والی اور ایک حسین معاشرہ قائم کرنے والی ہوں.
خطبات مسرور تَعْمَلُوْنَ 79 $2003 پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا.وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا (سورة المنافقون: ١٢) اور اللہ کسی جان کو ، جب اس کی مقررہ مدت آپہنچی ہو، ہرگز مہلت نہیں دے گا.اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں: ” منافقانہ رجوع در حقیقت رجوع نہیں ہے لیکن جو خوف کے وقت میں ایک شقی کے دل میں واقعی طور پر ایک ہر اس اور اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے اُس کو خدا تعالیٰ نے رجوع میں ہی داخل رکھا ہے اور سُنت اللہ نے ایسے رجوع کو دنیوی عذاب میں تا خیر پڑنے کا موجب ٹھہرایا ہے گو اخروی عذاب ایسے رجوع سے مل نہیں سکتا مگر دنیوی عذاب ہمیشہ ٹلتا رہا ہے اور دوسرے وقت پر پڑتا رہا ہے.قرآن کو غور سے دیکھو اور جہالت کی باتیں مت کرو اور یا در ہے کہ آیت لَنْ يُؤخر الله يُؤَخِّرَ نفس کو اس مقام سے کچھ تعلق نہیں.اس آیت کا تو مد عا یہ ہے کہ جب تقدیر مبرم آجاتی ہے تو ٹل نہیں سکتی.مگر اس جگہ بحث تقدیر معلق میں ہے جو مشروط بشرائط ہے جبکہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں آپ فرماتا ہے کہ میں استغفار اور تضرع اور غلبہ خوف کے وقت میں عذاب کو کفار کے سر پر سے ٹال دیتا ہوں اور ٹالتا رہا ہوں.پس اس سے بڑھ کر سچا گواہ اور کون ہوسکتا ہے جس کی شہادت قبول کی جائے.(ضمیمه) انوار الاسلام : اشتهار انعامی تین هزار روپیه صفحه ۱۰ - روحانی خزائن جلد ۹ صفحه (A.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿فَا مِنُوْا بِاللَّهِ وَرَسُوْلِهِ وَالنُّوْرِ الَّذِي أَنْزَلْنَا.وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيرٌ (سورة التغابن: ٩ ) | پس اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور اس نور پر جو ہم نے اتارا ہے.اور اللہ اُس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے.علامہ ابن جریر الطبری اس کی تفسیر میں ﴿وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ کے تحت لکھتے ہیں کہ: اس حصہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اے لوگو! اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے.
80 $2003 خطبات مسرور تم میں سے اپنے رب کی اطاعت کرنے والا اور اس کی نافرمانی کرنے والا اس سے مخفی نہیں ہے.اور وہ تم سب کو تمہارے اعمال کی جزا دینے والا ہے.محسن کو اس کے احسان کے مطابق اور نافرمان کو اس کی اہلیت کے مطابق ، یا وہ معاف فرمادے گا“.(تفسیر طبری) قادر ہے جس طرح چاہے.بادشاہ اور مالک ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ أَفَلا يَعْلَمُ إِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُوْرِ.وَحُصِلَ مَا فِي الصُّدُورِ.إِنَّ رَبَّهُمْ بِهِمْ يَوْمَئِذٍ أَخَبِيْرٌ - ( سورة العاديات : ۱۱ - ۱۲).پس کیا وہ نہیں جانتا کہ جب اُسے نکالا جائے گا جو قبروں میں ہے؟ اور وہ حاصل کیا جائے گا جو سینوں میں ہے.یقیناً اُن کا رب اُس دن ان سے پوری طرح باخبر ہوگا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ بصیر اور علیم کے الفاظ صرف علمی حالت پر دلالت کرتے ہیں لیکن خبیر کا لفظ اُس علم کے مطابق عمل کرنے پر بھی دلالت کرتا ہے یعنی خبیر میں علاوہ خبر رکھنے کے مجرموں کی سزا اور اُن کی خبر لینے کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے چنانچہ یہ آیت میرے اس دعوے کی مُصَدِّق ہے.يَوْمَئِذٍ کا لفظ بھی اس پر دلالت کرتا ہے کیونکہ محض علم تو اللہ تعالیٰ کو ہمیشہ حاصل ہے اُس دن عالم ہونے کے کوئی معنے ہی نہیں.پس خبیر میں دو باتوں کی طرف اشارہ ہے ایک یہ کہ اُس سے تمہارا کوئی جرم پوشیدہ نہ ہوگا اور دوسرے یہ کہ اس علم تفصیلی کے مطابق وہ اُس دن جزا بھی دے گا.يَوْمَئِذٍ کے ساتھ قرآن کریم میں صرف خبیر کا استعمال ہوا ہے،علیم و بصیر کا استعمال نہیں ہوا.اُردو میں بھی خبر لوں گا محاورہ استعمال ہوتا ہے جو شاید خبیر کے لفظ سے ہی نکلا ہے.اسی طرح پنجابی زبان میں بھی کہتے ہیں ”میں تیری خبر لانگا اور مراد یہ ہوتی ہے کہ میں تجھے تیرے اعمال کا بدلہ دوں گا.پس اللہ فرماتا ہے ﴿إِنَّ رَبَّهُمْ بِهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّخَبِير - اس دن ان کا رب ان کا خبیر ہو گا یعنی نہ صرف ان کے حالات سے واقف ہو گا بلکہ ان حالات کی ان کو جزا بھی دے گا.چنانچہ قرآن کریم میں ہمیشہ يَوْمَئِذٍ لَخَبِیر ہی استعمال ہوا ہے ، يَوْمَئِذٍ لَعَلِیم یا يَوْمَئِذٍ لَبَصِير استعمال نہیں ہوا.اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہاں خبیر سے محض علم مراد نہیں بلکہ اُن
$2003 81 خطبات مسرور کو سزا دینا مراد ہے اور اِنَّ رَبَّهُمْ بِهِمُ يَوْمَئِذٍ لَّخَبِير.کے معنے یہ ہیں کہ اُس دن اُن کا رب اُن کی خوب خبر لے گا.یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس سورۃ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ کے ذریعہ اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ہم اُن کی خبر تو ضرور لیں گے مگر پہلے نہیں بلکہ حُصلَ مَا فِي الصُّدُورِ کے بعد.جب تک اُن کے چھپے ہوئے گند پوری طرح ظاہر نہیں ہو جائیں گے ہم ان کو سزا نہیں دیں گے.یہ مجرموں کی سزا کے متعلق ایک ایسا اصل ہے جسے بہت سے لوگ اپنی نا واقفیت کی وجہ سے نظر انداز کر دیا کرتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے فرستادہ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کرتے ہیں کہ اگر آپ بچے ہیں تو لوگوں پر مخالفت کے بعد فوراً عذاب نازل کیوں نہیں ہو جاتا.اس شبہ کا اس آیت میں جواب موجود ہے.محمد رسول اللہ اللہ کے دشمنوں کو خطاب کرتے ہوئے اس جگہ اس سوال کا جواب دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿إِنَّ رَبَّهُمْ بِهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّخَبِير ہم خبیر ہیں ، ان لوگوں کے اندرونی حالات کو خوب جانتے ہیں مگر ہم حجت تمام ہونے کے بعد ان کو سزا دیں گے.پہلے ان کے گند ظاہر کریں گے اور پھر مسلمانوں سے حملہ کروائیں گے.بے شک ہم خبیر ہیں اور ہم پہلے بھی اُن کے حالات کو جانتے تھے مگر ہم نہیں چاہتے تھے کہ لوگوں کے دلوں میں اُن کے تقدس کا کوئی خیال باقی رہے.ہم اُس وقت اُن کو سزا دیں گے جب حُصِلَ مَافِی الصُّدُورِ ہو جائے گا اور اُن کے گندلوگوں پر اچھی طرح ظاہر ہو جائیں گے.(تفسیر کبیر.سورۃ العدیت صفحه ۵۰۴٬۵۰۳) اور انشاء اللہ تعالیٰ آپ دیکھیں گے کہ یہی حال آپ ﷺ کے عاشق صادق اور غلام کے دشمنوں اور ان کے ساتھ ہنسی ٹھٹھا اڑانے والوں کے ساتھ بھی ہوگا.انشاء اللہ.پھر بعض خبریں ہیں جو قرآن کریم میں آئندہ آنے والے زمانے کے لئے بیان ہوئی ہیں.فرمایا وَإِذَا النُّفُوسُ زُوجَتْ.اور جب نفوس ملا دئے جائیں گے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ایک تفسیری نوٹ میں اس کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ یہ وہ زمانہ ہوگا جب کثرت سے چڑیا گھر بنائے جائیں گے.ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں اس کا کوئی وجود نہیں تھا.اور اس زمانے کے چڑیا گھر بھی اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ اتنے بڑے بڑے جانور سمندری اور ہوائی جہازوں کے ذریعہ ان میں منتقل کئے جاتے ہیں کہ اس زمانے کے انسان کو اس کا وہم و گمان بھی
خطبات مسرور نہیں ہوسکتا تھا.82 $2003 پھر غالبا سمندری لڑائیوں کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی گئی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ پھر غالبا سمندری لڑائیوں کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی گئی ہے جب کثرت سے سمندروں میں جہاز رانی ہوگی اور اس کے نتیجہ میں دُور دُور کے لوگ آپس میں ملائے جائیں گے.یعنی صرف جانور ہی اکٹھے نہیں کئے جائیں گے بلکہ بنی نوع انسان بھی ملائے جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.وَإِذَا النُّفُوسُ زُوجَت یعنی ایسے اسباب سفر مہیا ہو جائیں گے کہ قومیں باوجود اتنی دور ہونے کے آپس میں مل جائیں گی حتی کہ نئی دنیا پرانی سے تعلقات پیدا کر لے گی...نبی کریم کے زمانہ میں سفر کی تمام راہیں نہ کھلی تھیں.تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ بعض ایسے مقامات بھی ہیں جن میں آنحضرت ﷺ کی دعوت نہیں پہنچی مگر اب تو ڈاک تار، ریل سے زمین کے اس سرے سے اُس سرے تک خبر پہنچ سکتی ہے.یہ حجاز ریلوے جو بن رہی ہے یہ بھی اسی پیشگوئی کے ماتحت ہے“.(بدر جلد۷ نمبر ۳ مورخه ۲۳/ جنوری ۱۹۰۸ ء صفحه (۳) ـ یه ۱۹۰۸ ء میں آپ نے فرمایا.پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: نفوس کے ملانے کی علامت کئی طریق سے پوری ہوئی ہے.ان میں سے ایک تو ٹیلیگراف ( تار برقی ) کی طرف اشارہ ہے جو ہر تنگی کے وقت میں لوگوں کی مدد کرتا ہے اور زمین کے دور افتادہ حصوں میں رہنے والے عزیزوں کی خبر لاتا ہے اور قبل اس کے کہ دریافت کرنے والا اپنی جگہ سے اُٹھے تار برقی اس کے عزیزوں کی خبر دیدیتی ہے اور مغربی اور مشرقی شخص کے درمیان سوال و جواب کا سلسلہ چلا دیتی ہے، گویا کہ وہ آپس میں ملاقات کر رہے ہیں.پھر وہ ان پریشان و مضطر لوگوں کو ان لوگوں کے حالات سے بہت جلد اطلاع پہنچا دیتی ہے جن کے متعلق وہ فکر مند ہوتے ہیں.پس اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ دُور بیٹھے ہوئے اشخاص کو ملا دیتی ہے اور ان میں سے ایک دوسرے کے ساتھ یوں بات کرتا ہے کہ گویا ان کے درمیان کوئی روک نہ ہو اور وہ ایک دوسرے کے بالکل قریب ہوں.اور لوگوں کے آپس میں ملانے سے اس طرف اشارہ ہے کہ بحری اور بڑی راستوں پر امن ہوگا اور سفر کی مشکلات دُور ہو جائیں گی اور لوگ ایک ملک سے دوسرے ملک تک
83 $2003 خطبات مسرور بغیر کسی خوف وخطر کے سفر کر سکیں گے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس زمانہ میں ملکوں کے ملکوں کے ساتھ تعلقات زیادہ ہو گئے ہیں اور لوگوں کا ایک دوسرے سے تعارف بڑھ گیا ہے.پس گویا کہ وہ ہر روز ایک دوسرے سے ملائے جاتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ نے تاجروں کو تاجروں سے اور ایک سرحد پر رہنے والوں کو دوسری سرحد پر رہنے والوں کے ساتھ اور ایک حرفہ والوں کو دوسرے حرفہ والوں کے ساتھ ملا دیا ہے اور وہ نفع حاصل کرنے اور نقصان کو دور کرنے میں باہم شریک ہو گئے ہیں اور وہ ہر نعمت ، سرور ، لباس ، کھانے اور سامانِ آسائش میں ایک دوسرے کے معاون بن گئے ہیں.اور ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ میں ہر چیز لائی جاتی ہے.پس دیکھو کس طرح اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ملا دیا ہے گویا کہ وہ ایک ہی کشتی میں سوار ہیں.نیز آپس میں ملانے کے ان سامانوں میں سے خشکی اور تری کی گاڑیوں میں لوگوں کا سفر کرنا ہے.وہ ان سفروں کے دوران ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں.اور ملائے جانے کے ان اسباب میں ایک خطوط کا سلسلہ بھی ہے جس کے بھجوانے کے وسائل بہت عمدہ بنا دئے گئے ہیں.تم دیکھ رہے ہو کہ خطوط کیسے دنیا کے کناروں تک بھیجے جاسکتے ہیں اور اگر تم اس بارے میں غور کرو.(حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر تم اس بارے میں غور کرو تو تمہیں ان کی کثرت ترسیل تعجب میں ڈالے گی اور تم اس کی پہلے زمانوں میں نظیر نہیں پاؤ گے اور اسی طرح تم کو مسافروں اور تاجروں کی کثرت بھی تعجب میں ڈالے گی.سو یہ سب لوگوں کے آپس میں ملانے اور ان کے آپس میں تعارف کے اسباب و ذرائع ہیں جن کا اس سے قبل نام ونشان تک بھی نہ تھا.اور میں تمہیں اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ کیا تم نے اس سے قبل کبھی ایساد یکھایا کیا تم نے اس سے قبل کتابوں میں یہ سب باتیں پڑھی ہیں.(آئینه کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ٥ صفحه ٤٧٠ تا ٤٧٣) اب دیکھیں اس زمانہ میں ٹیلی فون، ٹی وی، انٹر نیٹ وغیرہ پر کمپیوٹر کے ذریعہ سے آپ گھر بیٹھے ایک ہی وقت میں باتیں بھی کر رہے ہوتے ہیں، تحریر بھی پہنچا رہے ہوتے ہیں، تصویر میں بھی پہنچا رہے ہوتے ہیں.تو یہ سب اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی دلیلیں ہیں یہ ایجادات.
خطبات مسرور 84 $2003 آپ فرماتے ہیں:- دو وَإِذَا النُّفُوْسُ زُوجَتْ بھی میرے ہی لئے ہے.پھر یہ بھی جمع ہے کہ خدا تعالیٰ نے تبلیغ کے سارے سامان جمع کر دئے ہیں.چنانچہ مطبع کے سامان ، کاغذ کی کثرت، ڈاکخانوں، تار، ریل اور دخانی جہازوں کے ذریعہ کل دنیا ایک شہر کا حکم رکھتی ہے اور پھر نت نئی ایجادیں اس جمع کو اور بھی بڑھا رہے ہیں کیونکہ اسباب تبلیغ جمع ہورہے ہیں.اب فونوگراف سے بھی تبلیغ کا کام لے سکتے ہیں اور اس سے بہت عجیب کام نکلتا ہے.اخباروں اور رسالوں کا اجراء.غرض اِس قد ر سامان تبلیغ کے جمع ہوئے ہیں کہ اس کی نظیر کسی پہلے زمانے میں ہم کو نہیں ملتی.“ 66 (الحكم.جلد ٦ ـ نمبر ٤٣ - بتاريخ ٣٠/ نومبر ۱۹۰۲ ء- صفحه ۱ - ۲) پھر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو ایک خبر دی جومکہ کی واپسی کی خبر تھی.اور ہجرت سے پہلے کی یہ خبر ہے کہ لا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ وَأَنْتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ﴾ البلد: ۲-۳) خبردار! میں اس شہر کی قسم کھاتا ہوں.جبکہ تو اس شہر میں (ایک دن ) اُترنے والا ہے.حضرت مصلح موعود فر ماتے ہیں کہ یہ سورۃ مکی ہے اور تیسرے چوتھے سال کی ہے.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ہجرت کے وقت میں نازل ہوئی تھی.مَعَادٍ (تفسیر کبیر جلدهشتم صفحه ٥٧٧) ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿إِنَّ الَّذِى فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى (القصص: ٨٦) یقیناًوہ جس نے تجھ پر قرآن کو فرض کیا ہے تجھے ضرور ایک دن واپس آنے کی جگہ کی طرف واپس لے آئے گا.اس سورۃ کے متعلق عمر بن محمد کی یہ رائے ہے کہ یہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ جاتے وقت نازل ہوئی.سیدنا حضرت مصلح موعود تفر ماتے ہیں: ” اس خیال کو اگر درست مانا جائے تب بھی یہ سورۃ مکی ہے.ں پھر آپ فرماتے ہیں :
$2003 85 ”ہم تو کہتے ہیں ایک مانی ہوئی مکی سورۃ میں کر آدُكَ إِلَى مَعَادِ﴾ کا آنا بتاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ابھی مکہ میں ہی تھے کہ آپ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کی خبر دی اور پھر فتح مکہ کی بھی خبر دی.( تفسیر کبیر جلد هفتم صفحه (٤٥٩ چنانچہ اس الہی خبر کے مطابق رمضان ۸ ہجری میں آپ ایک فتح نصیب جرنیل کی طرح دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے.پھر فرمایا: " وَاَنْتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَد اور تُو شاہانہ شان و شوکت کے ساتھ اس شہر میں محل ہونے والا ہے.یعنی نزول کرنے والا ہے.“ (ضمیمه اخبار بدر قادیان ٤ / اگست ١٩١٢ء) حضرت خلیفہ امسح الاول رضی اللہ عنہاس ضمن میں فرماتے ہیں کہ: لَرَادُّ كَ إِلى مَعَادٍ : قرآن جب کوئی بڑا دعویٰ کرتا ہے تو ساتھ ہی اس کی دلیل دیتا ہے جو بہت قوی ہوتی ہے.پہلے فرمایا کہ میرے اتباع بادشاہ ہو جاویں گے.اس کی دلیل میں فرمایا کہ یہ قرآن جس میں لکھا ہے کہ تیرے ساتھی حکمران بن جائیں گے.اس میں یہ پیشگوئی کی جاتی ہے کہ وہ مکہ جہاں سے تمہیں نکالا گیا.جہاں کے لوگوں کے سامنے کوئی تدبیر نہ چل سکی ایک وقت آتا ہے کہ اسی مکہ میں تم فاتح بن کر داخل ہو گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.(حقائق الفرقان جلد ۳ صفحه (۳۲۷ پھر آنحضرت ﷺ سے مروی آئندہ زمانہ کے لئے چند خبریں ہیں.اس میں سب سے پہلے تو یہاں پیش کروں گا خلافت راشدہ اور ملوکیت اور بادشاہت کے آنے کی خبر اور پھر خلافت علی منہاج نبوت قائم ہونے کی خبر.حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا.پھر وہ اس کو اٹھا لے گا.اور خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگی.پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا.پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذارساں بادشاہت قائم ہوگی.جب یہ دور ختم ہوگا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہوگی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم وستم کے دور کو ختم کر دے
86 $2003 خطبات مسرور گا.اس کے بعد پھر خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگی.یہ فرما کر آنحضرت مے خاموش ہو گئے.(مسند احمد بن حنبل جلده صفحه ۲۷۳ مطبوعه بيروت و مشکواة باب الانذار والتحذير) الله اب اللہ تعالیٰ سے علم پا کر سید نا محمد ﷺ نے جو خبر دی تھی اس کے عین مطابق آپ کے.وصال کے بعد خلافت راشدہ کا قیام ہوا جو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت تک چلی اور اس کے بعد ایذارساں بادشاہت اور حکمران اور جابر بادشاہت قائم ہوگئی.پھر مخبر صادق ﷺ کی خبر کے مطابق چودھویں صدی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا اور پھر ان کی وفات کے بعد خلافت علی منہاج النبوۃ کا دوبارہ قیام ہوا.اللہ کرے یہ قیامت تک قائم رہے.پھر ایک خبر چاند اور سورج گرہن لگنے کے بارہ میں تھی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ : صحیح دارقطنی میں یہ ایک حدیث ہے کہ امام محمد باقر فرماتے ہیں.اِنَّ لِمَهْدِينا ايتين لم تكـونـا مـنذ خلق السموت والارض ينكسف القمر لاوّل ليلة من رمضان و تنكسف الشمس في النّصف منه - یعنی ہمارے مہدی کے لئے دو نشان ہیں.اور جب سے زمین و آسمان خدا نے پیدا کیا یہ دو نشان کسی اور مامور اور رسول کے وقت میں ظاہر نہیں ہوئے.ان میں سے ایک یہ ہے کہ مہدی معہود کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند کا گرہن اُس کی اوّل رات میں ہوگا.یعنی تیرھویں تاریخ میں اور سورج کا گرہن اس کے دنوں میں سے بیچ کے دن میں ہوگا.یعنی اسی رمضان کے مہینے کی اٹھائیسویں تاریخ کو.اور ایسا واقعہ ابتدائے دنیا سے کسی رسول یا نبی کے وقت میں کبھی ظہور میں نہیں آیا.صرف مہدی معہود کے وقت اس کا ہونا مقدر ہے.اب تمام انگریزی اور اردو اخبار اور جملہ ماہرین ہیئت اس بات کے گواہ ہیں کہ میرے زمانہ میں ہی جس کو عرصہ قریباً بارہ سال کا گذر چکا ہے اسی صفت کا چاند اور سورج کا گرہن رمضان کے مہینہ میں وقوع میں آیا ہے.“ (حقيقه الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه (۲۰۲) چنانچہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا، یہ ۱۸۹۴ء میں یہ گرہن لگا.چاند کی تاریخوں میں سے ۱۳ / تاریخ کو کیونکہ ۱۴/۱۳ اور ۱۵ تاریخ کو چاند کو گرہن
87 $2003 خطبات مسرور لگتا ہے.اور اسی مہنیہ میں ۲۸ / تاریخ کو جو بیچ کی تاریخ ہے کیونکہ ۲۷/، ۱/۲۸اور ۲۹ کوسورج کی عموماً تاریخیں ہوتی ہیں، سورج گرہن ہوا اور مغربی اقوام پر بھی اتمام حجت کے لئے اگلے سال یہ نظارہ مغرب نے بھی دیکھا.پھر مغرب سے سورج کے طلوع ہونے اور طاعون کے بارہ میں ایک روایت ہے: حضرت عبداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ : علامات قیامت کے اعتبار سے یہ نشان پہلے ہوں گے.مغرب کی طرف سے سورج کا طلوع ہونا اور چاشت کے وقت ایک عجیب و غریب کیڑے کا لوگوں پر مسلط ہو جانا.(سنن ابن ماجه كتاب الفتن باب طلوع الشمس من مغربها) کیڑے کا مسلط ہو جانا جو ہے یہ ہو سکتا ہے کہ طاعون یا اور کوئی وبائی جراثیمی بیماریاں یا جنگوں کی وجہ سے ان بیماریوں کی طرف اشارہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ : طلوع شمس کا جو مغرب کی طرف سے ہوگا ہم اس پر بہر حال ایمان لاتے ہیں لیکن اس عاجز پر جو ایک رؤیا میں ظاہر کیا گیا وہ یہ ہے کہ جو مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنی رکھتا ہے کہ ممالک مغربی جو قدیم سے ظلمت کفر و ضلالت میں ہیں آفتاب صداقت سے منور کئے جائیں گے اور ان کو اسلام سے حصہ ملے گا.اور میں نے دیکھا کہ میں شہر لنڈن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں.بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے رنگ سفید تھے اور شاید تیتر کے جسم کے موافق ان کا جسم ہو گا.سومیں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اگر چہ میں نہیں مگر میری تحریر میں ان لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راستباز انگریز صداقت کا شکار ہو جائیں گے.در حقیقت آج تک مغربی ملکوں کی مناسبت دینی سچائیوں کے ساتھ بہت کم رہی ہے گویا خدا تعالیٰ نے دین کی عقل تمام ایشیا کو دے دی اور دنیا کی عقل تمام یورپ اور امریکہ کو.نبیوں کا سلسلہ بھی اول سے آخر تک ایشیا کے ہی حصہ میں رہا اور ولایت کے کمالات بھی انہی لوگوں کو ملے.اب خدا تعالیٰ ان لوگوں پر نظر رحمت ڈالنا چاہتا ہے.(ازاله اوهام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ٣٧٧،٣٧٦)
خطبات مسرور 88 $2003 اور اب یہ آپ لوگوں کا کام ہے جو یہاں یورپ میں رہ رہے ہیں کہ اس پیغام کو آگے پہنچائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس رؤیا کو پورا کریں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جو بعض خبریں دیں.آپ فرماتے ہیں کہ: براہین احمدیہ میں ایک یہ پیشگوئی ہے سبحان الله تبارك وتعالى زاد مجدك ينقطع اباء ك ويبدء منك.( دیکهو براهین احمدیه صفحه ٤٩٠) - خدا ہر ایک عیب سے پاک اور بہت برکتوں والا ہے.وہ تیری بزرگی زیادہ کرے گا.تیرے باپ دادے کا ذکر منقطع ہو جائے گا اور خدا اس خاندان کی بزرگی کی تجھ سے بنیاد ڈالے گا.یہ اس وقت کی پیشگوئی ہے کہ جب کسی قسم کی عظمت میری طرف منسوب نہیں ہوتی تھی اور میں ایسے گمنام کی طرح تھا جو و یا دنیا میں نہیں تھا.اور وہ زمانہ جب یہ پیشگوئی کی گئی اس پر اب قریباً تیں برس گزر گئے.اب دیکھنا چاہئے کہ یہ پیشگوئی کس صفائی سے پوری ہوئی جو اس وقت ہزار ہا آدمی میری جماعت کے حلقہ میں داخل ہیں.اور اس سے پہلے کون جانتا تھا کہ اس قدر میری عظمت دنیا میں پھیلے گی.پس افسوس ان پر جو خدا کے نشانوں پر غور نہیں کرتے.پھر اس پیشگوئی میں جس کثرتِ نسل کا وعدہ تھا اس کی بنیاد بھی ڈالی گئی.کیونکہ اس پیشگوئی کے بعد چار فرزندنرینہ اور ایک پوتا اور دو لڑکیاں میرے گھر میں پیدا ہوئیں جو اُس وقت موجود نہ تھیں“.(حقيقة الوحي، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ٢٦٤ - ٢٦٥ اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس پیشگوئی کے وقت آپ کے آبائی خاندان کے قریباً ستر مردزندہ تھے.اور اس کے بعد یہ سب وفات پاگئے اور ان کی کوئی نسل نہیں چلی.صرف وہ افراد زندہ رہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لے آئے اور آپ کو قبول کیا اور آگے نسلیں بھی انہی کی چلیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ایسا اتفاق دو ہزار مرتبہ سے بھی زیادہ گزرا ہے کہ خدا تعالیٰ نے میری حاجت کے وقت مجھے اپنے الہام یا کشف سے یہ خبر دی کہ عنقریب کچھ روپیہ آنے والا ہے اور بعض وقت آنے والے رو پیر کی تعداد سے بھی خبر دیدی اور بعض وقت یہ خبر دی کہ اس قدر روپیہ فلاں تاریخ میں اور فلاں شخص
89 $2003 خطبات مسرور کے بھیجنے سے آنے والا ہے.اور ایسا ہی ظہور میں آیا اور اس بات کے گواہ بھی بعض قادیان کے ہندو اور کئی سو مسلمان ہوں گے جو حلفاً بیان کر سکتے ہیں.اور اس قسم کے نشان دو ہزار یا اس سے بھی زیادہ ہیں اور یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ کیونکر خدا تعالیٰ حاجات کے وقت میں میرا متولی اور متکفل ہوتا رہا ہے.اور اکثر عادت الہی مجھ سے یہی ہے کہ وہ پیش از وقت مجھے بتلا دیتا ہے کہ وہ دنیا کے انعامات میں سے کسی قسم کا انعام مجھ پر کرنا چاہتا ہے اور اکثر وہ مجھے بتلا دیتا ہے کہ کل تو یہ کھائے گا اور یہ پیئے گا اور یہ تجھے دیا جائے گا اور ویسا ہی ظہور میں آجاتا ہے کہ جو وہ مجھے بتلاتا ہے.اور ان باتوں کی تصدیق چند ہفتہ میرے پاس رہنے سے ہر ایک شخص کر سکتا ہے“.(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۰۰،۱۹۹) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”خدا تعالیٰ مجھے مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تیرے لئے میں زمین پر اترا اور تیرے لئے میرا نام چمکا اور میں نے تجھے تمام دنیا میں سے چن لیا.اور فرماتا ہے.قال ربك انـــه نـازل من السماء مايُرضيك.یعنی تیرا خدا کہتا ہے کہ آسمان سے ایسے زبر دست معجزات اُتریں گے جن سے تو راضی ہو جائے گا...افسوس اس زمانہ کے منجم اور جوتشی ان پیشگوئیوں میں میرا ایسا ہی مقابلہ کرتے ہیں جیسا کہ ساحروں نے موسیٰ نبی کا مقابلہ کیا تھا.اور بعض نادان ملہم جو تاریکی کے گڑھے میں پڑے ہوئے ہیں وہ بلغم کی طرح میرے مقابلہ کے لئے حق کو چھوڑتے اور گمراہوں کو مدددیتے ہیں مگر خدا فرماتا ہے کہ میں سب کو شرمندہ کرونگا اور کسی دوسرے کو یہ اعزاز ہر گز نہیں دونگا.ان سب کے لئے اب وقت ہے کہ اپنے نجوم یا الہام سے میرا مقابلہ کریں.اور اگر کسی حملہ کو اب اٹھا رکھیں تو وہ نامراد ہیں.اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ان سب کو شکست دوں گا اور میں اس کا دشمن بن جاؤں گا جو تیرا دشمن ہے اور وہ فرماتا ہے کہ اپنے اسرار کے اظہار کے لئے میں نے تجھے ہی برگزیدہ کیا ہے اور زمین اور آسمان تیرے ساتھ ہے جیسا کہ میرے ساتھ ہے.“ آپ فرماتے ہیں: (تجليات الهيه _ جلد ۲۰ صفحه ۹۷،۹۸) براہین احمدیہ میں یہ پیشگوئی ہے.يُرِيدُونَ أَن يُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ یعنی مخالف لوگ ارادہ کریں گے کہ نورِ خدا کو اپنے منہ کی پھونکوں
$2003 90 خطبات مسرور سے بجھا دیں مگر خدا اپنے ٹور کو پورا کرے گا اگر چہ منکر لوگ کراہت ہی کریں.یہ اس وقت کی پیشگوئی ہے جبکہ کوئی مخالف نہ تھا بلکہ کوئی میرے نام سے بھی واقف نہ تھا.پھر بعد اس کے حسب بیان پیشگوئی دنیا میں عزت کے ساتھ میری شہرت ہوئی اور ہزاروں نے مجھے قبول کیا.تب اس قدر مخالفت ہوئی کہ مکہ معظمہ سے اہلِ مکہ کے پاس خلاف واقعہ باتیں بیان کر کے میرے لئے کفر کے فتوے منگوائے گئے اور میری تکفیر کا دنیا میں ایک شور ڈالا گیا قتل کے فتوے دیئے گئے.حکام کو اکسایا گیا.عام لوگوں کو مجھ سے اور میری جماعت سے بیزار کیا گیا.غرض ہر ایک طرح سے میرے نابود کرنے کے لئے کوشش کی گئی.مگر خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق یہ تمام مولوی اور ان کے ہم جنس اپنی کوششوں میں نامراد اور ناکام رہے.افسوس کس قدر مخالف اندھے ہیں.ان پیشگوئیوں کی عظمت کو نہیں دیکھتے کہ کس زمانہ کی ہیں اور کس شوکت اور قدرت کے ساتھ پوری ہوئیں.کیا بجز خدا تعالیٰ کے کسی اور کا کام ہے؟ اگر ہے تو اس کی نظیر پیش کرو.نہیں سوچتے کہ اگر یہ انسان کا کاروبار ہوتا اور خدا کی مرضی کے مخالف ہوتا تو وہ اپنی کوششوں میں نامراد نہ رہتے.کس نے ان کو نامراد رکھا؟ اسی خدا نے جو میرے ساتھ ہے.“ پھر آپ فرماتے ہیں: (حقيقة الوحى روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ٢٤٢،٢٤١) خدا تعالیٰ اپنی تائیدات اور اپنے نشانوں کو ابھی ختم نہیں کر چکا اور اسی کی ذات کی مجھے قتسم ہے کہ وہ بس نہیں کرے گا جب تک میری سچائی دنیا پر ظاہر نہ کر دے.پس اے تمام لوگو! جو میری آواز سنتے ہو خدا کا خوف کرو اور حد سے مت بڑھو.اگر یہ منصوبہ انسان کا ہوتا تو خدا مجھے ہلاک کر دیتا اور اس تمام کاروبار کا نام ونشان نہ رہتا مگر تم نے دیکھا کہ کیسی خدا تعالیٰ کی نصرت میرے شامل حال ہو رہی ہے اور اس قدر نشان نازل ہوئے جو شمار سے خارج ہیں.دیکھو کس قدر دشمن ہیں جو میرے ساتھ مباہلہ کر کے ہلاک ہو گئے.اے بندگانِ خدا! کچھ تو سوچو کیا خدا تعالیٰ جھوٹوں کے ساتھ ایسا معاملہ کرتا ہے؟“ تتمه حقيقة الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ٥٥٤ پھر آپ کے کچھ الہامات کا ذکر ہے.آپ نے فرمایا کہ:
خطبات مسرور 91 $2003 ضرور تھا کہ دوسرا مسیح بھی تلوار کے ساتھ نہ آتا اور اس کی بادشاہت صرف آسمان میں ہوتی اور ایسا ہی ظہور میں آیا.اور خدا نے مجھے تلوار کے ساتھ نہیں بھیجا اور نہ مجھے جہاد کا حکم دیا بلکہ مجھے خبر دی کہ تیرے ساتھ آشتی اور صلح پھیلے گی.ایک درندہ بکری کے ساتھ صلح کرے گا اور ایک سانپ بچوں کے ساتھ کھیلے گا.یہ خدا کا ارادہ ہے گولوگ تعجب کی راہ سے دیکھیں.غرض میں اس لئے ظاہر نہیں ہوا کہ جنگ و جدل کا میدان گرم کروں بلکہ اس لئے ظاہر ہوا ہوں کہ پہلے مسیح کی طرح صلح اور آشتی کے دروازے کھول دوں.اگر صلح کاری کی بنیاد درمیان نہ ہو تو پھر ہمارا سارا سلسلہ فضول ہے اور اس پر ایمان لا نا بھی فضول.(الاشتهار واجب الاظهار ـ ضميمه ترياق القلوب، روحانی خزائن جلده ۱ صفحه ٥٢١) پھر ایک الہام کا ذکر ہے ۱۸۹۸ء میں.میں امام الزمان ہوں اور خدا میری تائید میں ہے اور وہ میرے لئے ایک تیز تلوار کی طرح کھڑا ہے اور مجھے خبر دی گئی ہے کہ جو شرارت سے میرے مقابل پر کھڑا ہوگا وہ ذلیل اور شرمندہ کیا جائے گا.دیکھو میں نے وہ حکم پہنچا دیا جو میرے ذمہ تھا“.(ضرورة الامام روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ٤٩٧ ایک اقتباس ہے، آپ فرماتے ہیں:.”میرا خدا میرے ہر قدم میں میرے ساتھ ہے.اور میں اس کے ساتھ ہوں اور میرے اندرون کا جو اس کو علم ہے کسی کو بھی علم نہیں.اگر سب لوگ مجھے چھوڑ دیں تو خدا ایک اور قوم پیدا کرے گا جو میرے رفیق ہوں گے.نادان مخالف خیال کرتا ہے کہ میرے مگروں اور منصوبوں سے یہ بات بگڑ جائے گی اور یہ سلسلہ درہم برہم ہو جائے گا.مگر یہ نادان نہیں جانتا کہ جو آسمان پر قرار پاچکا ہے زمین کی طاقت میں نہیں کہ اس کو محو کر سکے.میرے خدا کے آگے زمین و آسمان کا نپتے ہیں.خدا وہی ہے جو میرے پر اپنی پاک وحی نازل کرتا ہے اور غیب کے اسرار سے مجھے اطلاع دیتا ہے.اُس کے سوا کوئی خدا نہیں.اور ضروری ہے کہ وہ اس سلسلہ کو چلا دے اور بڑھاوے اور ترقی دے جب تک وہ پاک اور پلید میں فرق کر کے نہ دکھلاوے.ہر ایک مخالف کو چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو اس سلسلہ کے نابود کرنے کے لئے کوشش کرے اور ناخنوں تک زور لگاوے اور پھر دیکھے کہ انجام کار وہ غالب ہوایا
$2003 92 خطبات مسرور خدا.پہلے اس سے ابو جہل اور ابولہب اور ان کے رفیقوں نے حق کے نابود کرنے کے لئے کیا کیا زور لگائے تھے.مگر اب وہ کہاں ہیں؟.وہ فرعون جو موسیٰ کو ہلاک کرنا چاہتا تھا.اب اس کا کچھ پتہ ہے؟ پس یقیناً سمجھو کہ صادق ضائع نہیں ہو سکتا.وہ فرشتوں کی فوج کے اندر پھرتا ہے.بدقسمت وہ جو اس کو 66 شناخت نہ کرے.“ (ضمیمه براهین احمدیه روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ٢٩٥،٢٩٤)
$2003 93 7 خطبات مسہ دعا کے لئے بنیادی چیز صبر ہے.اللہ تعالیٰ سمیع وعلیم ہے.۶ / جون ۲۰۰۳ء مطابق ۶ را حسان ۱۳۸۲ هجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن (برطانیہ) اللہ تعالیٰ کی صفت سمیع کے متعلق ایمان افروز تشریحات کاموں کے ساتھ ساتھ دعا کرنا.سنتِ انبیاء تعمیر بیت اللہ اور اس کی اہمیت و حکمت اور دعائے ابراہیمی دوعاؤں سے بھی گھبرانا نہیں چاہئے.مومن کبھی تھکتا نہیں نبی اکرم ﷺ کی اعلی وارفع مقام حضرت مے اور سطر طائف چندوں کی ادائیگی اور بجٹ بناتے ہوئے قول سدید سے کام لیں
خطبات مسہ $2003 94 تشھد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل آیت تلاوت فرمائی ﴿وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَعِيْلُ.رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيمُ﴾ (سورة البقره : ۱۲۸) آج سے اللہ تعالیٰ کی صفت سمیع سے خطبات شروع ہوں گے.جو آیت میں نے ابھی تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ ہے : اور جب ابراہیم اُس خاص گھر کی بنیادوں کو استوار کر رہا تھا اور اسماعیل بھی یہ دعا کرتے ہوئے ) کہ اے ہمارے رب ! ہماری طرف سے قبول کر لے.یقینا تو ہی بہت سننے والا ( اور ) دائمی علم رکھنے والا ہے.علامہ راغب نے اللہ تعالیٰ کے بارہ میں جب سمیع کا لفظ استعمال ہوا ہے.اس کے بارہ میں لکھا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے الشمع کا لفظ منسوب کرتے ہیں تو اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا سنائی جانے والی اشیاء کے بارے میں علم ہونا اور ان کے بارہ میں جزا دینے کا ارادہ کرنا ہوتا ہے.جیسا کہ اس تعریف سے ظاہر ہے بعض دفعہ لوگ بعض جلد باز یہ دھو کہ کھا جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو بہت پکارا، بہت دعا کی لیکن ہماری دعاسنی نہیں گئی.ہماری پکار سے یا ہماری دعا سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کو اس بات کا علم ہے کہ ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے.یا جو چیز ہم مانگ رہے ہیں، جس چیز کے لئے ہم دعا کر رہے ہیں اس کی اس حالت میں ضرورت ہے بھی یا نہیں.اگر حقیقت میں ہمارا شمار اللہ تعالیٰ کی پیارے بندوں میں ہو، خدا کرے کہ ہو ، تو وہ بہتر جانتا ہے کہ اس وقت کس رنگ میں ہماری کیا ضرورت ہے.تو یہ بات دعا کرتے ہوئے ہر وقت مدنظر رہنی چاہئے کہ جہاں وہ سمیع ہے علیم بھی ہے.ہمارا کام صرف مانگنا ہے اور اکثر جب ہماری فریادوں کو اللہ تعالیٰ سنتا ہے وہاں اگر
$2003 95 خطبات مسرور اپنے بندے کی کسی دعا کو اس صورت میں جس میں کہ بندہ مانگ رہا ہے رڈ بھی کر دیتا ہے تو اسے مایوس نہیں ہونا چاہئے.وہ واقعہ بڑا مشہور ا کثر آپ نے سنا ہے کہ جو بزرگ تمہیں سال تک دعا مانگتے رہے اور روزان کو یہی جواب ملتا تھا کہ نہیں منظور.اور صرف تین دن ان کے ایک مرید نے ان کے پاس بیٹھ کر جو بے صبری کا مظاہرہ کیا تو وہ رو پڑے کہ میں تو اتنے عرصہ سے یہ دعا مانگ رہا ہوں اور مجھے یہی جواب مل رہا ہے.اور میرا کام تو مانگنا ہے مانگتا چلا جاؤں گا.اس بات پر وہی کیفیت دوبارہ طاری ہوئی اور وہ نظارہ مرید نے بھی دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کا جواب تھا کہ اس عرصہ میں جتنی دعائیں ہیں سب قبول ہوئیں.تو بڑی بنیادی چیز دعا مانگنے کے لئے صبر ہے اور یہ سوچ لینا چاہئے کہ خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کیا ہمارے لئے ضروری ہے.اس بارہ میں ایک حدیث ہے.اس آیت کی تشریح میں حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ : حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر کے وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام سے فرمایا : اے اسماعیل ! اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک خاص حکم دیا ہے.حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جواب دیا: آپ کے رب نے آپ کو جو حکم دیا ہے س پر عمل کیجئے.آپ نے کہا: تو کیا تم میری اس بارے میں مدد کرو گے؟ حضرت اسماعیل نے جواب دیا : ہاں کروں گا.حضرت ابراہیم نے فرمایا : تو پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے یہاں اپنا ایک گھر بنانے کا حکم دیا ہے اور آپ نے ایک ٹیلہ نما جگہ کی طرف اشارہ کیا.راوی کہتے ہیں کہ اس پر ان دونوں نے بیت اللہ کی بنیادیں اٹھانی شروع کیں.حضرت اسماعیل پتھر لاتے جاتے اور حضرت ابراہیم (دیوار) بناتے جاتے.جب عمارت ذرا بڑی ہوگئی تو آپ یہ پتھر ( یعنی حجر اسود ) لائے اور آپ کے لئے اُسے نیچے رکھا.چنانچہ آپ اس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرتے جاتے تھے جبکہ حضرت اسماعیل آپ کو پتھر پکڑاتے جاتے تھے اور ساتھ ساتھ آپ دونوں یہ دعا بھی پڑھتے جاتے تھے : اے ہمارے رب ! ہماری طرف سے قبول فرما، یقینا تو ہی بہت سننے والا اور بہت صاحب علم ہے.(بخاری کتاب احادیث الانبياء باب قول الله تعالى واتخذا لله ابراهيم.......حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِیمُ یہ انبیاء ہی کی شان ہے کہ وہ کام
$2003 96 خطبات مسرور کے ساتھ ساتھ دُعا ئیں بھی کرتے چلے جاتے ہیں.لوگ تھوڑ اسا کام کرتے ہیں تو فخر کرنے لگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے بڑی بڑی قربانیاں کی ہیں.مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھو کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.پھر وہ بڑا ہوتا ہے تو اُسے ایک ایسے جنگل میں چھوڑ آتے ہیں جہاں نہ کھانے کا کوئی سامان تھا نہ پینے کا.اور پھر خانہ کعبہ کی عمارت بنا کر اُن کی دائمی موت کو قبول کر لیتے ہیں.دائی موت کے الفاظ میں نے اس لئے استعمال کئے ہیں کہ ممکن تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واپس آجانے کے بعد وہ وہاں سے نکل کر کسی اور جگہ چلے جاتے.مگر بیت اللہ کی تعمیر کے ساتھ وہ خانہ کعبہ کے ساتھ باندھ دیئے گئے گویا خانہ کعبہ کی ہر اینٹ حضرت اسمعیل علیہ السلام کو بزبان حال کہ رہی تھی کہ تم نے اب اسی جنگل میں اپنی تمام عمر گزارنا ہے.یہ کتنی بڑی قربانی تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعیل علیہ السلام نے کی.مگر اس کے بعد وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے اور کہتے ہیں کہ ﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اے اللہ ! ہم ایک حقیر ہدیہ تیرے حضور لائے ہیں، تو اپنے فضل سے چشم پوشی فرما کر اسے قبول فرمالے.اور پھر کتنے تکلف - قبول کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں.ނ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں : تَقَبَّل باب تفعل سے ہے اور تفعل میں تکلف کے معنے پائے جاتے ہیں.پس وہ کہتے ہیں کہ تو خود ہی رحم کر کے اس قربانی کو قبول فرمالے.حالانکہ یہ اتنی بڑی قربانی تھی کہ اس کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی.باپ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو قربان کر رہا تھا اور خانہ کعبہ کی ہرا ینٹ اُن کو بے آب و گیاہ جنگل کے ساتھ مقید کر رہی تھی.خود حضرت ابراہیم علیہ السلام اُس کی ایک ایک اینٹ کے ساتھ اُن کے جذبات و احساسات کو دفن کر رہے تھے.مگر دُعا یہ کرتے ہیں کہ الہی یہ چیز تیرے حضور پیش کرنے کے قابل تو نہیں مگر تو ہی اسے قبول فرمالے.یہ کتنا بڑا تذلیل ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اختیار فرمایا.اور در حقیقت قلب کی یہی کیفیت ہے جو انسان کو اونچا کرتی ہے.ورنہ اینٹیں تو ہر شخص لگا سکتا ہے.مگر ابراہیمی دل ہو تب وہ نعمت میسر آتی ہے جو خدا تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی.پس انسان کو چاہیے کہ وہ ﴿ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ کہے.لیکن افسوس ہے کہ لوگ ﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا کہنے کی بجائے یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہماری
$2003 97 خطبات مسرور قدر نہیں کی جاتی.حالانکہ وہ جو کچھ کرتے ہیں دوسروں کی نقل میں کرتے ہیں.لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کسی کی نقل میں قربانی نہیں کی.بلکہ ادھر خدا نے حکم دیا اور ادھر وہ قربانی کے لئے تیار ہو گئے.یہی وہ لوگ ہیں جو دنیا کے ستون ہوتے ہیں اور جن کا بابرکت وجود مصائب کے لئے تعویذ کا کام دے رہا ہوتا ہے.وہ قربانیاں بھی کرتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ کہتے جاتے ہیں کہ اے خدا! ہماری قربانی اس قابل نہیں کہ تیرے حضور پیش کی جا سکے.تیری ہستی نہایت اعلیٰ وارفع ہے.ہاں ہم امید رکھتے ہیں کہ تو چشم پوشی سے کام لیتے ہوئے اسے قبول فرمالے گا.تیرا نام سمیع ہے اور تو دعاؤں کو سنے والا ہے.ہماری یہ قربانی قبول کرنے کے لائق تو نہیں مگر تو جانتا ہے کہ ہمارے پاس اس سے زیادہ اور کچھ چیز نہیں جو تیرے سامنے پیش کریں.ایک طرف تیرا سمیع ہونا چاہتا ہے کہ تو ہم پر رحم کرے اور دوسری طرف تیرا علیم ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ تو جانتا ہے کہ ہمارے جیسے نے کیا قربانی کرنی ہے.اسی روح کا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعیل علیہ السلام نے مظاہرہ کیا.اور جب وہ دونوں مل کر بیت اللہ کی بنیادیں اٹھارہے تھے تو ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی کرتے جاتے تھے کہ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اے ہمارے رب ہم نے خالص تیری تو حید اور محبت کے لئے یہ گھر بنایا ہے.تو اپنے فضل سے اسے قبول کرلے اور اس کو ہمیشہ اپنے ذکر اور برکت کی جگہ بنادے.إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ﴾ تو ہماری دردمندانہ دُعاؤں کو سننے والا اور ہمارے حالات کو خوب جاننے والا ہے.تو اگر فیصلہ کر دے کہ یہ گھر ہمیشہ تیرے ذکر کے لئے مخصوص رہے گا تو اسے کون بدل سکتا ہے.حضرت مصلح موعود مزید فرماتے ہیں: (تفسیر کبیر.جلد نمبر ۲ صفحه ۱۷۷ تا ۱۸۰) اس آیت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بیت اللہ بنانے کے در حقیقت دو حصے ہیں.ایک حصہ بندے سے تعلق رکھتا ہے.اور دوسرا حصہ خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے.جس مکان کو ہم بیت اللہ کہتے ہیں وہ اینٹوں سے بنتا ہے، چونے سے بنتا ہے، گارے سے بنتا ہے.اور یہ کام خدا نہیں کرتا بلکہ انسان کرتا ہے.مگر کیا انسان کے بنانے سے کوئی مکان بیت اللہ بن سکتا ہے.انسان تو صرف
$2003 98 خطبات مسرور ڈھانچہ بناتا ہے.روح اُس میں خدا تعالیٰ ڈالتا ہے.اسی امر کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ڈھانچہ تو میں نے اور اسمعیل نے بنادیا ہے.مگر ہمارے بنانے سے کیا بنتا ہے.کئی مسجدیں ایسی ہیں جو بادشاہوں اور شہزادوں نے بنائیں مگر آج وہ ویران پڑی ہیں.اس لئے کہ انسان نے تو مسجدیں بنا ئیں مگر خدا نے انہیں قبول نہ کیا.پس حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل کہتے ہیں کہ اے خدا! ہم نے تیرا گھر بنایا ہے اسے تو قبول فرما.اور تو سچ سچ اس میں رہ پڑ.اور جب خدا کسی جگہ بس جائے تو وہ کیسے اُجڑ سکتا ہے!.گاؤں اُجڑ جائیں تو اُجڑ جا ئیں شہر اُجڑ جائیں تو اُجڑ جائیں.مگر وہ مقام کبھی اُجڑ نہیں سکتا جس جگہ خدائس گیا ہو.جانتا ہے.(تفسیر کبیر.جلد نمبر ۲ صفحه ۱۸۱) حضرت خلیفہ مسیح الا وال اس ضمن میں فرماتے ہیں: السَّمِيعُ الْعَلِيم : دعائیں سنتا ہوں.دلوں کے بھیدوں ،ضرورتوں،اخلاص کو (حقائق الفرقان جلد ۱ صفحه ۲۲۸ مطبوعه ربوه ) حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یہ ایک دعا ہے جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جناب رب العزت اور رب العالمین اللہ جل شانہ کے حضور مانگی ہے.اس سے ظاہر ہے کہ اس دنیا میں اسلام کے آنے اور اس کے ثمرات کے ظہور کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت ابراہیم کے ذریعہ ایک دعا کی تقریب پیدا کر دی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تو ہمارا رب اور مربی اور محسن ہے.تیری عالمگیر ربوبیت سے جیسے جسم کے قومی کی پرورش ہوتی ہے.عمدہ اور اعلیٰ اخلاق سے انسان مزین ہوتا ہے ویسے ہی ہمارے روح کی بھی پرورش فرما اور اعتقادات کے اعلیٰ مدارج پر پہنچا.اے اللہ! اپنی ربوبیت کے شان سے ایک رسول ان میں بھیجیئو جو کہ مِنْهُم یعنی انہی میں سے ہواور اس کا کام یہ ہو کہ وہ صرف تیری ( اپنی نہیں) باتیں پڑھے، اور پڑھائے اور صرف یہی نہیں بلکہ ان کو سمجھا اور سکھلا بھی دے.پھر اس پر بس نہ کیجیئو بلکہ ایسی طاقت ، جذب اور کشش بھی اسے دیجیئو جس سے لوگ اس تعلیم پر کار بند ہو کر مز کی اور مطہر بن جاویں.تیرے نام کی اس سے عزت ہوتی ہے کیونکہ تو عزیز ہے اور تیری باتیں حق اور حکمت سے بھری ہوئی ہوتی ہیں.اس دعا کی قبولیت کس طرح سے ہوئی وہ تم
99 خطبات مسرور لوگ جانتے ہو اور یہ صرف اس دعاہی کے ثمرات ہیں جس سے ہم فائدے اٹھاتے ہیں.“ $2003 (حقائق الفرقان جلد ۱ صفحه ٢٣٤،٢٣٣) حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں: کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس مسجد ( خانہ کعبہ ) کی تعمیر کے وقت سات دعائیں کی ہیں: اول: ﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا - دوم: ﴿رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةٌ مُسْلِمَةٌ لَّكَ وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا یعنی اے ہمارے رب ! اپنا ہی ہمیں فرمانبردار بنادے اور ہماری اولاد سے ایک گروہ مُعَلِّمُ الْخَيْر تیرا فرمانبردار ہو اور دکھا ہمیں اپنی عبادت گاہیں اور طریق عبادت.سوم : ﴿ وَ اجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَّعْبُدَ الْأَصْنَام ﴾ (ابراهیم : (۳۶) - بچالے مجھے اور میری اولا دکو کہ بت پرستی کریں.چہارم یہ کہ: ﴿وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ اور رزق دے مکہ والوں کو پھلوں سے.پنجم : فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِن النَّاسِ تَهْوِى إِلَيْهِمْ (ابراہیم : ٣٩) کچھ لوگوں کے دل اس شہر کی طرف جھکا دے.ششم: ﴿وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا ان میں عظیم الشان رسول بھیج ہفتم: اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا﴾ (ابراهیم : ۳۶) اس شہر کو امن والا بنا.حضرت خلیفہ امسیح الاوّل فرماتے ہیں کہ : " قرآن کریم میں ان دعاؤں کے قبول ہونے کا ذکر آیات ذیل میں ہے جو سات ہیں: اول جو دعا کی اس کے جواب میں : جَعَلَ اللهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ (المائدة : (۹۸) اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو عزت والا اور حرمت والا بنایا.:دوم ﴿وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّلِحِيْنَ ﴾ (البقرة : ١٣١) اور بے ریب برگزیدہ کیا ہم نے اسے اسی دنیا میں اور بے ریب آخرت میں سنوار والوں سے ہے.سوم: طَهَّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ﴾ (البقرة : ۱۲۲) یعنی ستھرا رکھو اس میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے.اور فرمایا وَهُدًى لِلنَّاسِ ہدایت کا مقام ہے لوگوں کے لئے.چہارم : أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوع ﴾ (قریش:۵) کھانا دیا ان کو بھوک کے بعد.اب دیکھیں تو مکہ جس علاقہ میں ہے وہاں نہ کوئی ایسی کھیتی باڑی ہے جہاں سے مختلف قسم کی خورا کیں آتی ہوں لیکن اس قبولیت کے نتیجہ میں آج بلکہ اس زمانہ میں بھی تجارتی قافلے آتے تھے
خطبات مسرور 100 ہر چیز لے کے آتے تھے کھانے کی.اور آج بھی ہر چیز وہاں میسر ہے.$2003 وَاذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ ﴾ (البقرۃ: ۱۲۲).بیت اللہ کولوگوں کیلئے جھنڈ در جُھنڈ آنے کی جگہ بنایا.اب دیکھیں حج کے موقع پر لاکھوں آدمی ہر سال وہاں اکٹھے ہوتے ہیں.اس کے علاوہ بھی سارا سال لوگ عمرہ کے لئے جاتے رہتے ہیں.ششم : ﴿هُوَ الَّذِي بَعَثْ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ (الجمعة : ۳) اللہ وہ ہے جس نے بھیجا مکہ والوں میں رسول ،انہی میں سے.پڑھتا ہے ان پر اللہ کی آیتیں.پاک کرتا ہے انہیں اور سکھاتا ہے ان کو کتاب و حکمت یعنی نبی کریم ہفتم: وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا (ال عمران: ۹۸) اور جو داخل ہوا مکہ میں ہو ا امن پانے والا.تو حضور فرماتے ہیں کہ : 'سات دعا ئیں حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام و برکاتہ نے مانگیں اور ساتوں قبول ہوئیں.(نور الدین صفحه ٢٤٩ - ٢٥٠) اس ضمن میں حضرت خلیفہ اسیع اول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ” دعاؤں سے کبھی گھبرانا نہیں چاہا.ان کے نتائج عرصہ دراز کے بعد بھی ظہور پذیر ہوتے ہیں لیکن مومن کبھی تھکتا نہیں.قرآن شریف میں دعاؤں کے نمونے موجود ہیں.ان میں سے ایک ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہے وہ اپنی اولاد کیلئے کیا خواہش کرتے ہیں: ﴿رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِنْهُمْ.اس دعا پر غور کر و حضرت ابراہیم کی دعا روحانی خواہشوں اور خدا تعالیٰ کے ساتھ آپ کے تعلقات ، بنی نوع انسان کی بھلائی کے جذبات کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے.وہ دعا مانگ سکتے تھے کہ میری اولاد کو بھی بادشاہ بنادے مگر وہ کیا کہتے ہیں : اے ہمارے رب ! میری اولاد میں انہیں میں کا ایک رسول معبوث فرما.اس کا کام کیا ہو؟ وہ ان پر تیری آیات تلاوت کرے اور اس قدر قوت قدسی رکھتا ہو کہ وہ ان کو پاک و مطہر کرے اور ان کو کتاب اللہ کے حقائق وحکم سے آگاہ کرے.اسرار شریعت ان پر کھولے.پس یہ ایسی عظیم الشان دُعا ہے کہ کوئی دعا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور ابتدائے آفرینش سے جن لوگوں کے حالات زندگی ہمیں مل سکتے ہیں.کسی کی زندگی میں یہ دعا پائی نہیں جاتی.حضرت
$2003 101 خطبات مسرور ابراہیم کی عالی ہمتی کا اس سے خوب پتہ چلتا ہے.پھر اس دعا کا نتیجہ کیا ہوا اور کب ہوا.عرصہ دراز کے بعد اس دعا کے نتیجہ میں آنحضرت جیسا انسان پیدا ہوا اور وہ دُنیا کے لئے ہادی اور مصلح ٹھہرا.قیامت تک رسول ہوا اور پھر وہ کتاب لایا جس کا نام قرآن ہے اور جس سے بڑھ کر کوئی رُشد ، نور اور شفا نہیں ہے.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : حقائق الفرقان جلد ۱ - صفحه (۲۳۳ ابراہیم علیہ السلام چونکہ صادق اور خدا تعالیٰ کا وفادار بندہ تھا اس لئے ہر ایک ابتلا کے وقت خدا نے اس کی مدد کی جبکہ وہ ظلم سے آگ میں ڈالا گیا.خدا نے آگ کو اس کے لئے سرد کر دیا پھر جبکہ ابراہیم نے خدا کے حکم سے اپنے پیارے بیٹے کو جو اسماعیل تھا ایسی پہاڑیوں میں ڈال دیا جن میں نہ پانی نہ دانہ تھا تو خدا نے غیب سے اُس کے لئے پانی اور سامانِ خوراک پیدا کر دیا“.پھر آپ فرماتے ہیں: (حقيقة الوحى - روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ٥٢) ابراہیم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے بہت برکتیں دی تھیں اور وہ ہمیشہ دشمنوں کے حملوں سے سلامت رہا.پس میرا نام ابراہیم رکھ کر خدا تعالیٰ یہ اشارہ کرتا ہے کہ ایسا ہی اس ابراہیم کو برکتیں دی جائیں گی اور مخالف اس کو کچھ ضرر نہیں پہنچا سکیں گے...ابراہیم سے خدا کی محبت ایسی صاف تھی جو اُس نے اُس کی حفاظت کے لئے بڑے بڑے کام دکھلائے اور غم کے وقت اُس نے ابراہیم کو خود تستی دی“.( براهین احمدیه حصه پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ١١٤ - ١١٥) حضرت مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں کہ: و جس طرح حضرت ابراہیم خانہ کعبہ کے بانی تھے.ایسا ہی ہمارے نبی ﷺ خانہ کعبہ کی طرف تمام دنیا کو جھکانے والے تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کی طرف جھکنے کی بنیاد ڈالی تھی.لیکن ہمارے نبی ﷺ نے اس بنیاد کو پورا کیا.آپ نے خدا کے فضل اور کرم پر ایسا تو کل کیا کہ ہر ایک طالب حق کو چاہئے کہ خدا پر بھروسہ کرنا آنجناب سے سیکھے.حضرت ابراہیم علیہ السلام اُس قوم میں پیدا ہوئے تھے جن میں توحید کا نام ونشان نہ تھا اور کوئی کتاب نہ تھی.اسی طرح ہمارے نبی ہے
$2003 102 خطبات مسرور اُس قوم میں پیدا ہوئے جو جاہلیت میں غرق تھی.اور کوئی ربانی کتاب اُن کو نہیں پہنچی تھی.اور ایک یہ مشابہت ہے کہ خدا نے ابراہیم کے دل کو خوب دھویا اور صاف کیا تھا یہاں تک وہ خولیش اور اقارب سے بھی خدا کے لئے بیزار ہو گیا اور دنیا میں بجز خدا کے اس کا کوئی بھی نہ رہا.ایسا ہی بلکہ اس سے بڑھ کر ہمارے نبی ﷺ پر واقعات گزرے.اور باوجود یکہ مکہ میں کوئی ایسا گھر نہ تھا جس سے آنحضرت کو کوئی شعبہ قرابت نہ تھا.مگر خالص خدا کی طرف بلانے سے سب کے سب دشمن ہو گئے اور بحجز خدا کے ایک بھی ساتھ نہ رہا.پھر خدا نے جس طرح ابراہیم کو اکیلا پا کر اس قدر اولا د دی جو آسمان کے ستاروں کی طرح بے شمار ہوگئی.اسی طرح آنحضرت ﷺ کو اکیلا پا کر بے شمار عنایت کی.اور وہ صحابہ آپ کی رفاقت میں دئے جو نُجُوم السَّمَاء کی طرح نہ صرف کثیر تھے بلکہ اُن کے دل تو حید کی روشنی سے چمک اٹھے تھے“.ترياق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ٤٧٦ - ٤٧٧ حاشيه صفت السمیع کے بارے میں مزید چند احادیث اور اقتباسات پیش کرتا ہوں.حضرت ابو موسی اشعری بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم ایک وادی کے قریب پہنچے تو لا اله إِلَّا الله اور الله اکبر کا ذکر بلند آواز میں کرنے لگے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے لوگو ! دھیما پن اختیار کرو کیونکہ تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے بلکہ إِنَّهُ مَعَكُمْ وَإِنَّهُ سَمِيعٌ قریب“ وہ تو تمہارے ساتھ ہے اور وہ بہت سننے والا اور قریب ہے.(صحیح بخاری كتاب الجهاد باب ما يكره من رفع الصوت في التكبير) حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ آنحضرت علی رات کو جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور پھر کہتے ”اے اللہ تو اپنی حمد کے ساتھ پاک ہے اور تیرا نام برکت والا ہے اور تیری شان بلند ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں.اس کے بعد آپ تین دفعہ لا الہ الا اللہ کہتے اور پھر تین دفعہ اللهُ اَكْبَرُ كَبِيرًا، کہتے اور پھر یہ دعا کرتے میں دھتکارے ہوئے شیطان کے وساوس اور اس کے شکوک و شبہات ڈالنے سے سمیع اور علیم خدا کی پناہ میں آتا ہوں.(ابوداؤد كتاب الصلاة باب من راى الاستفتاح بسبحانك اللهم وبحمدك) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ
$2003 103 خطبات مسرور انس آپ کا خادم ہے.آپ ﷺ اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں تو آپ ﷺ نے اللهُمَّ اكْثِرُ مَالَهُ وَوَلَدَهُ وَبَارِكْ لَهُ فِي مَا أَعْطَيْتَهُ کی دعا کی یعنی اے اللہ تو اس کے اموال و اولا د کو پھیلا دے اور جو کچھ تو نے اسے دیا ہے اس میں برکت دے.(صحیح بخاری کتاب الدعوات باب دعوة النبي الله لخادمه بطول العمر و بكثرة ماله اس حدیث کی شرح میں ابن حجر بیان کرتے ہیں کہ صحیح مسلم میں حضرت انس کی اپنی روایت ہے کہ خدا کی قسم ! آج میرے پاس بہت مال و دولت ہے اور میری اولا داور میری اولاد کی اولا دسو کے عدد سے تجاوز کر چکی ہے.(فتح البارى، كتاب الدعوات باب دعوة النبى له لخادمه بطول العمر وبكثرة ماله پھر حضرت جابر بن عبداللہ کے لئے ایک دعا آنحضرت ﷺ نے کی.وہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد عبداللہ مقروض ہونے کی حالت میں وفات پاگئے.اس پر میں نبی ﷺ کے پاس گیا اور عرض کی کہ میرے والد مقروض تھے اور میرے پاس ان کی کھجوروں کی آمد کے علاوہ (قرض اتارنے کے لئے ) کچھ نہیں اور جو قرض ان پر تھا وہ کئی سال تک میں ادا کرتا رہوں گا.پس آپ 'میرے ساتھ تشریف لے چلیں تاکہ قرض خواہ مجھ سے بُرا سلوک نہ کریں.چنانچہ آنحضور نے کھجوروں کے ایک ڈھیر کے گرد دُعا کرتے ہوئے چکر لگایا.پھر دوسرے ڈھیر کے گرد دعا کرتے ہوئے چکر لگایا اور اس کے بعد اس پر بیٹھ گئے اور فرمایا: ”اسے ماپو.پھر ان قرض خواہوں کو جو ان کا حصہ تھا پورا ادا کر دیا اور جتنی کھجور میں آپ نے دی تھیں ( آپ کی دعا کی قبولیت کی برکت سے ) اتنی ہی کھجوریں باقی رہ گئیں.(بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة في الاسلام ) ایک اور روایت ہے یہ طائف کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہے.ابن شہاب روایت کرتے ہیں کہ مجھے عروہ نے بتایا کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا کہ میں نے رسول صلى الله اللہ اللہ سے عرض کی کہ کیا آپ پر یوم أحد سے سخت دن بھی آیا ہے؟ اس پر رسول اللہ ہو نے فرمایا: ” مجھے تیری قوم سے بڑی تکالیف پہنچی ہیں.اور ان تکالیف میں سے شدید ترین عقبہ والے دن پہنچی تھی.( یعنی طائف کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے ) جب میں نے اپنے آپ کو عَبْدِ يَا لِيْل بن د حلال کے سامنے پیش کیا اور اس نے اس بات کا جواب نہ دیا.جس کا میں نے ارادہ کیا
$2003 104 خطبات مسرور تھا.میں غم زدہ ہونے کی حالت میں لوٹ رہا تھا کہ میں قَرْنُ التَّعَالِب ، چوٹی پر پہنچا.میں نے اپنا سراٹھا کر دیکھا تو ایک بادل مجھ پر سایہ کر رہا تھا.میں نے دیکھا تو اس میں جبریل تھے.انہوں نے مجھے مخاطب کر کے پکارا اور کہا اللہ تعالیٰ نے تیری قوم کی تیرے بارہ میں رائے سن لی ہے اور اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے فرشتے کو آپ کے پاس بھیجا ہے تا کہ آپ اسے اس کام کا حکم دیں جو آپ اپنی قوم کے بارہ میں چاہتے ہیں.پس مجھے پہاڑوں کے فرشتہ نے پکارا.اس نے مجھے سلام کیا اور کہا اے محمد اللہ اب فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے.اگر آپ چاہیں تو میں دونوں پہاڑوں کو ان پر اُلٹا دوں.اس پر نبی ﷺ نے فرمایا : ”میں تو یہ خواہش رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی صلب سے ایسی نسل پیدا کرے جو خدائے واحد کی عبادت کرے اور اس کا کسی کو بھی شریک نہ قرار دئے“.(بخاری کتاب بدء الخلق باب ذكر الملائكة) چنانچہ ان دعاؤں کے نتیجہ میں بنو ثقیف یعنی اہل طائف کو اسلام قبول کرنے کی سعادت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قبولیت دعا کے چند نمونے پیش ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ سردار نواب محمد علی خان صاحب، رئیس مالیر کوٹلہ کا لڑکا عبدالرحیم خان ایک شدید محرکہ تپ کی بیماری سے بیمار ہو گیا اور کوئی صورت جانبری کی دکھائی نہیں دیتی تھی گویا مردے کے حکم میں تھا.اُس وقت میں نے اُس کے لئے دعا کی تو معلوم ہوا کہ تقدیر مبرم کی طرح ہے.تب میں نے جناب الہی میں عرض کی کہ یا الہی میں اس کے لئے شفاعت کرتا ہوں.اس کے جواب میں خدا تعالیٰ نے فرمایا مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ یعنی کس کی مجال ہے کہ بغیر اذن الہی کے کسی کی شفاعت کر سکے.تب میں خاموش ہو گیا.بعد اس کے بغیر توقف کے الہام ہوا إِنَّكَ أَنْتَ الْمَجَاز » یعنی تجھے شفاعت کرنے کی اجازت دی گئی.تب میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے دعا کرنی شروع کی تو خدا تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی اور لڑکا گویا قبر میں سے نکل کر باہر آیا.اور آثار صحت ظاہر ہوئے اور اس قدر لاغر ہو گیا تھا کہ مدت دراز کے بعد وہ اپنے اصلی بدن پر آیا اور تندرست ہو گیا اور زندہ موجود ہے“.(حقيقة الوحى روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه (۲۳۰،۲۲۹
خطبات مسرور 105 اور ان کی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی لمبی عمر ہوئی بعد میں.$2003 پھر آپ فرماتے ہیں کہ ” شیخ مہر علی ہوشیار پوری کی نسبت پیشگوئی.یعنی خواب میں میں نے دیکھا کہ اس کے گھر میں آگ لگ گئی اور پھر میں نے اس کو بجھایا.یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آخر میری دعا سے رہائی ہوگی.یہ تمام پیشگوئی میں نے خط لکھ کر شیخ مہر علی کو اس سے اطلاع دی.بعد ا سکے پیشگوئی کے مطابق اس پر قید کی مصیبت آئی اور پھر قید کے بعد پیشگوئی کے دوسرے حصہ کے مطابق اس نے رہائی پائی.(حقيقة الوحى، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۳۳) پھر آپ فرماتے ہیں کہ سردار خان برا در حکیم شاہ نواز خان جو ساکن راولپنڈی ہیں میری طرف لکھتے ہیں کہ ایک مقدمہ میں ان کے بھائی شاہ نواز خان کی مع ایک فریق مخالف کے عدالت میں ضمانت لی گئی تھی جس میں حضرت صاحب سے یعنی مجھ سے بعد اپیل دعا کرائی گئی تھی.اور ہر دو فریق نے اپیل کیا تھا.چنانچہ دعا کی برکت سے شاہ نواز کا اپیل منظور ہو گیا اور فریق ثانی کی اپیل خارج ہوگئی.قانون دان لوگ کہتے تھے کہ اپیل کرنا بے فائدہ ہے کیونکہ بالمقابل ضمانتیں ہیں.یہ دعا کا اثر تھا کہ دشمن کی ضمانت قائم رہی اور شاہنواز ضمانت سے بری کیا گیا.(حقيقة الوحى - روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه (۳۳۷ پھر آپ اپنے ایک بیٹے کے بارہ میں قبولیت دعا کے ضمن میں فرماتے ہیں: بشیر احمد میرا لڑکا آنکھوں کی بیماری سے ایسا بیمار ہو گیا تھا کہ کوئی دوا فائدہ نہیں کر سکتی تھی اور بینائی جاتے رہنے کا اندیشہ تھا.جب شدت مرض انتہا تک پہنچ گئی تب میں نے دعا کی تو الہام ہوا بَرَّقَ طِفْلِى بَشِير “ یعنی میرالڑ کا بشیر دیکھنے لگا.تب اسی دن یا دوسرے دن وہ شفایاب ہو گیا.یہ واقعہ بھی قریباً سو آدمی کو معلوم ہوگا.پھر آپ کے کچھ الہامات ہیں : (حقيقة الوحى روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ٢٤٠ ۱۸۸۳ء کا ایک ہے.سَلَامٌ عَلَيْكَ جُعِلْتَ مُبَارَكًا سَمِعَ اللَّهُ إِنَّهُ سَمِيْعُ الدُّعَاءِ“.براهين احمدیه هر چهار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ٦٢٠ )
$2003 106 خطبات مسرور تجھ پر سلام.تو مبارک کیا گیا.خدا نے دعاسن لی.وہ دعاؤں کو سنتا ہے.(تذکره صفحه ٩٦) فرماتے ہیں: مجھے بارہا خدا تعالیٰ مخاطب کر کے فرما چکا ہے کہ ”جب تو دعا کرے تو میں تیری سنوں گا“.(الحكم جلد ۸ نمبر ١٧ - مورخه ٢٤ مئی ١٩٠٤ ء صفحه ٤ ـ تذکره صفحه ٥١٥ مطبوعه 1969ء) پھر الہام ہے: "قَدْ سَمِعَ اللَّهُ اُجِيْبَتْ دَعْوَتُكَ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْاوَ الَّذِيْنَ هُمْ مُحْسِنُون تذکره صفحه ۶۷۳ ایڈیشن ۱۹۶۹).اللہ تعالیٰ نے تیری دعا سن لی.تیری دعا قبول کی گئی.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور وہ جو نیکی کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی مقبول دعاؤں کی توفیق دے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے مشن کو آگے بڑھانے والے ہوں.اور سب سے بڑھ کر جو دعا ہماری ہونی چاہئے وہ غلبہ اسلام کے لئے کہ اللہ تعالیٰ جلد دنیا پر آنحضرت ﷺ کا جھنڈا لہرائے.آخر پر ایک اور تھوڑی سی بات کرنا چاہتا ہوں.ایڈیشنل وکیل المال صاحب نے توجہ دلائی کہ یہ مہینہ مالی سال کا آخری مہینہ ہے تو اس میں چندہ عام اور چندہ جلسہ سالانہ کی طرف احباب کو توجہ دلائی جائے.مجموعی طور پر تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی ایسی فکر کی بات نہیں.جہاں ہمیشہ اللہ تعالیٰ نے سلوک کیا ہے وہ آئندہ بھی انشاء اللہ ہم سے وہی سلوک کرے گا اور خود ہمارا کفیل ہوگا.اور ہماری ہر ضرورت کو پورا کرنے والا ہوگا.اس بارہ میں تو ذرہ بھی کوئی شک نہیں.لیکن بعض انفرادی لوگوں کو توجہ دلانے کی ضرورت پڑتی ہے.اس ضمن میں یہ میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس کی تین صورتیں ہوتی ہیں کہ شروع میں بعض لوگ تشخیص صحیح نہیں کرواتے.کس وجہ سے؟ وہ بہتر جانتے ہیں.کسی پر میں بدظنی نہیں کرتا.اس صورت میں ان سے درخواست ہے کہ وہ اب اس سال کے آخری مہینہ میں بھی اپنی صحیح آمد کے مطابق اپنا بجٹ بنوائیں.دوسرے صحیح بجٹ تو بنواتے ہیں لیکن بعض حالات ایسے آگئے کسی ایسے کراکس میں آگئے کہ چندوں کی ادائیگی نہیں کر سکے اور باوجود بہت کوشش کے، نیک نیتی کے، بہت مشکل میں گرفتار ہیں.تو ایسے لوگوں سے درخواست ہے کہ جیسا کہ حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے
107 $2003 خطبات مسرور بھی فرمایا تھا کہ آپ درخواست دیں نظام جماعت کو خلیفہ وقت کو.تو جو ایسی صورت میں ہیں ان کو جس شرح سے بھی وہ دینا چاہتے ہیں اس کے مطابق دیا جائے گا.یا اگر معاف کروانا چاہتے ہیں تو معاف ہو جائے گا.لیکن قول سدید سے کام لینا چاہئے.اور اب میں بھی یہی کہتا ہوں کہ جو بھی درخواستیں آئیں گی انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی خواہش کے مطابق ، حالات کے مطابق ان کو اسی طرح (Treat) کیا جائے گا.تیسری صورت یہ ہوتی ہے کہ اگر شروع میں بجٹ جو بھی بنا اور اس کے بعد اگر حالات بہتر ہوئے تو بجائے اس کے کہ صرف بجٹ کے مطابق ادا ئیگی ہو جس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوئے ان کے مطابق اپنی ادائیگی کرنے کی طرف توجہ کریں.کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ سے ہمارے سودے صاف ہوں گے تو وہ سمیع اور علیم خدا ہے ، ہمارے حالات سے باخبر ہے.ہماری نیک نیتی کو دیکھتے ہوئے ہماری دعاؤں کو زیادہ سنے گا اور سب سے زیادہ اگر ہمیں کسی چیز کی ضرورت ہے اس وقت، اس زمانہ میں اور اپنی ذات کے لئے بھی تو وہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہے اور اس کے حضور عاجزانہ دعائیں ہیں جو اس کے حضور قبولیت کا شرف پائیں.تو میری یہ درخواست ہے کہ دعاؤں کی قبولیت کے لئے بھی یہ بہت ضروری ہے کہ اپنے ہر قسم کے معاملات خدا تعالیٰ سے صاف رکھیں.
$2003 108 خطبات مس
$2003 109 ∞01 8 خطبات مس یہ ضروری نہیں کہ ہم پر کوئی مشکل یا مصیبت آئے تو ہم نے دعائیں مانگنی ہیں.ان مشکلات سے بچنے کے لئے بھی دعاؤں کی بہت ضرورت ہے ۱۳رجون ۲۰۰۳، مطابق ۱۳ احسان ۱۳۸۲ هجری شمسی به مقام مسجد فضل لندن (برطانیہ) خدا تعالیٰ ہر ایک کی سنتا ہے، لیکن مومن کا یہ کام ہے کہ امن کی حالت میں بھی دعائیں مانگتا رہے ہ کسی بھی احمدی کو مایوس نہیں ہونا چاہئے.خدا تعالی ہمیشہ ہمارا مددگار رہا ہے اور انشاء اللہ رہے گا.قرآن کا پیش کردہ نظام در اثت اور لڑکیوں کا ورثہ نہ دینے کا وبال...نظام وصیت میں شامل ہونے والوں سے تقویٰ اور قول سدید کی زیادہ توقع...لغواور جھوٹی قسموں سے اجتناب اللہ تعالیٰ کی صفت سمیچ کے تحت احادیث نبویہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبولیت دعا کے چند نمونے
خطبات مس $2003 110 تشھد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل آیت تلاوت فرمائی فَإِنْ آمَنُوْا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا، وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ.فَسَيَكْفِيْكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ ) (سورة البقره : ۱۳۸) اس آیت کا ترجمہ ہے : پس اگر وہ اسی طرح ایمان لے آئیں جیسے تم اس پر ایمان لائے ہو تو یقیناً وہ بھی ہدایت پاگئے اور اگر وہ (اس سے) منہ پھیر لیں تو وہ ( عادتا) ہمیشہ اختلاف ہی میں رہتے ہیں.پس اللہ مجھے اُن سے نمٹنے کے لئے ) کافی ہوگا.اور وہی بہت سنے والا (اور ) دائمی علم رکھنے والا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اگر وہ پھر جائیں تو تم گھبراؤ نہیں.اُن کے اس اعراض کی سوائے اس کے اور کوئی وجہ نہیں کہ وہ اختلاف کرنے پر تلے ہوئے ہیں.اور تم سے کسی حالت میں بھی اتحاد کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں.یہ عبارت اصل میں اِنْ هُمْ إِلَّا فِي شِقَاقَ ہے یعنی ان کے اس اعراض سے تم پریشان مت ہو.جیسا کہ رسول کریم ﷺ کے زمانے میں بعض کمزور دل مسلمان خیال کر سکتے تھے کہ یہ لوگ تو ہم سے اور زیادہ دُور ہو جائیں گے.فرماتا ہے: یہ تو تم سے پہلے ہی دُور ہیں اور اُن باتوں کی طرف آنے کو تیار نہیں جو خدا تعالیٰ کے قریب کرنے والی ہیں.اور جب اُن کے دلوں میں اتنا بغض ہے اور وہ پہلے ہی تم سے جدا ہیں تو پھر اتحاد کیسے ہو سکتا ہے.پس اس بات سے مت ڈرو کہ علیحدگی کی صورت میں ہمیں اُن سے تکلیف پہنچے گی اور لڑائیاں ہونگی.
111 $2003 خطبات مسرور فَسَيَكْفِيْكَهُمُ الله - اُن کے مقابلے میں تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کا فی ہے.وہ اُن کے حملوں سے تمہیں خود بچائے گا اور تمہاری آپ حفاظت فرمائے گا.جب تک انسان کو یہ مقام حاصل نہ ہو ، وہ حقیقی مومن نہیں کہلا سکتا.ایمان کا مقام وہی ہے جو فَسَيَكْفِيْكَهُمُ الله کے ماتحت ہو.یعنی وہ اس مقام پر کھڑا ہو کہ دشمن اُسے نقصان پہنچانے کے لئے خواہ کس قدر کوشش کرے ، وہ سمجھے کہ میرا خدا میرے ساتھ ہے، وہ دشمن کو مجھ پر غالب نہیں آنے دے گا.اور اگر اس مقابلے میں میرے لئے موت مقدر ہے، تب بھی کوئی غم نہیں کیونکہ ہم نے مرکر خدا کے پاس ہی جانا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ڈرتے کیوں ہو.اگر تم خدا تعالیٰ پر ایمان لائے ہو تو وہی تمہاری حفاظت کرے گا اور وہی تمہیں ہر قسم کے نقصان سے بچائے گا.غرض اگر یہ لوگ ایمان نہ لائیں تو تم سمجھ لو کہ ان کے دلوں میں تمہاری نسبت سخت عداوت اور دشمنی ہے.اور وہ تمہارے خلاف شرارتیں کریں گے.مگر ان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ تمہارے لئے کافی ہوگا، وہ تمہیں اُن کے حملے سے خود بچائے گا.اور اُن کی شرارتیں تمہیں کو ئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گی.“ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں:- وهو السمیع العلیم فرماتا ہے: یہ نہ سمجھ لو کہ اب خدا تعالیٰ کی طرف سے چونکہ وعدہ ہو گیا ہے اس لئے ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ دُعائیں کرو کہ ایسا ہی ہو.خدا تعالیٰ سننے والا ہے اور جن باتوں کا تمہیں علم نہیں، اُن کا اُسے خود علم ہے.وہ آپ اُن کا انتظام کر دے گا.انسان کی دو حالتیں ہوا کرتی ہیں.ایک یہ کہ انسان پر اس کا دشمن حملہ کرتا ہے اور اُس حملے کا اُسے علم ہوتا ہے اور جہاں تک اُس کے لئے ممکن ہوتا ہے وہ اُس کا مقابلہ کرتا ہے اور اپنے بچاؤ کی تدبیر کرتا ہے.دوسری حالت یہ ہوتی ہے کہ اُس کا دشمن ایسے وقت میں حملہ کرتا ہے جبکہ اُسے خبر نہیں ہوتی.یا ایسے ذرائع سے حملہ کرتا ہے جن کی اُسے خبر نہیں ہوتی.مثلاً اس کے کسی دوست کو خرید لیتا ہے اور اس کے ذریعے اُسے نقصان پہنچا دیتا ہے.یا رات کو اُس پر سوتے سوتے حملہ کر دیتا ہے.یا راستے میں چھپ کر بیٹھ جاتا اور اندھیرے میں حملہ کر دیتا ہے یا وہ اُسے تیر مار دیتا ہے یا کھانے میں
112 $2003 خطبات مسرور زہر ملا کر اُسے کھلا دیتا ہے یا اس کا مال یا جانور چرالیتا ہے.یہ وہ حملے ہیں جو اُس کے علم میں نہیں ہوتے اور اس وقت ہوتے ہیں جبکہ وہ بے خبر ہوتا ہے.ان دونوں حملوں کے بچاؤ کی مختلف تدبیریں ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ دشمن کس طرح اور کس رنگ میں حملہ کرے گا.اگر تم کو اُس کے حملہ کا علم ہو مگر تم دفاع کی طاقت نہ پاؤ تو ایک سمیع اور علیم خدا موجود ہے.وہ جانتا ہے کہ دشمن تم پر حملہ آور ہے اور تم میں اُس کے دفاع کی طاقت نہیں.پس تم گھبراؤ نہیں.تم ہمیں آواز دو.ہم فوراً تمہاری مدد کے لئے آجائیں گے.اور اگر تم سوئے ہوئے ہو یا راستے پر سے گزر رہے ہو یا تاریکی میں سفر کر رہے ہو اور دشمن نے اچانک تم پر حملہ کر دیا ہے یا کھانے میں زہر ملا دیا ہے یا چوری سے مال نکال لیا ہے.یا کسی دوست سے مل کر اُس نے تم پر حملہ کر دیا ہے اور تمہیں اس کا علم نہیں ہوا.تو فرماتا ہے کہ ہم علیم ہیں.ہم خوب جاننے والے ہیں اور ہمیں ہر قسم کی قو تیں حاصل ہیں.اس لئے ایسی حالت میں بھی تم گھبراؤ نہیں.بلکہ اللہ تعالیٰ کو پکار اور اُس سے دُعائیں کرو.وہ تمہاری تمام مشکلات کو دُور کر دے گا اور تمہارے دشمن کو نا کام اور ذلیل کرے گا.“ 66 (تفسیر کبیر جلد نمبر ۲ - صفحه ٢١٥ - ٢١٦) اب جب انسان پر کوئی مصیبت یا آفت آتی ہے اس وقت تو خدا تعالیٰ کو پکارتا ہے، قدرتی بات ہے اور اس وقت مومن یا کافر کا سوال نہیں.ہر ایک کو جو خدا تعالیٰ پر یقین نہیں کرتے ، دہریہ بھی ، اس وقت خدا تعالیٰ کو پکارتے ہیں.تو ایسی حالت میں جب اضطراب پیدا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ سن بھی لیتا ہے لیکن مومن کا یہ کام ہے کہ امن کی حالت میں بھی خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگتا رہے، اپنی حفاظت کے لئے ، جماعت کے لئے ، جماعت کی ترقی کے لئے تا کہ جب مشکل دور آئے اس وقت جو پہلے مانگی ہوئی دعائیں ہیں ان کا بھی اثر ہو اور خدا تعالیٰ اپنی قبولیت کے نظارے جلد سے جلد دکھا سکے.اس لئے ہمیشہ ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ ہم پر کوئی مشکل یا مصیبت آئے تو ہم نے دعائیں مانگتی ہیں.ان مشکلات سے بچنے کے لئے بھی دعاؤں کی بہت ضرورت ہے اور ہم سب پر یہ فرض بنتا ہے کہ دعاؤں پر بہت زور دیں اور مستقلاً اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: پس اگر دوسرے لوگ بھی جو اسلام کے مخالف ہیں اسی طرح ایمان لاویں اور کسی نبی
$2003 113 خطبات مسرور کو جوخدا کی طرف سے آیا، رڈ نہ کریں.تو بلا شبہ وہ بھی ہدایت پاچکے.اور اگر وہ روگردانی کریں اور بعض نبیوں کو مانیں اور بعض کو ر ڈ کر دیں تو انہوں نے سچائی کی مخالفت کی اور خدا کی راہ میں پھوٹ ڈالنی چاہی.پس تو یقین رکھ کہ وہ غالب نہیں ہو سکتے اور ان کو سزا دینے کے لئے خدا کافی ہے.اور جو کچھ وہ کہتے ہیں خدا سن رہا ہے.اور ان کی باتیں خدا کے علم سے باہر نہیں.(چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۷۷) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.اگر وہ ایسا ایمان لائیں جیسا کہ تم ایمان لائے تو وہ ہدایت پاچکے اور اگر ایسا ایمان نہ لاویں تو پھر وہ ایسی قوم ہے ( کہ ) جو مخالفت چھوڑ نا نہیں چاہتی اور صلح کی خواہاں نہیں.“ (یادداشتیں براهین احمدیه حصه پنجم روحانی خزائن جلد ٢١ صفحه ٤١٨) فَسَيَكْفِيْكَهُمُ اللهُ وهُوَ السَّمِيعُ الْعَليم اور اُن کی شرارتوں کے دفع کرنے کے لئے خدا تجھے کافی ہے اور وہ سمیع اور علیم ہے.“ براهين احمدیه - روحانی خزائن نمبر ۱ ، بقیه حاشیه نمبر ۱۱) پھر آپ نے فرمایا: ”خدائے تعالیٰ ان سب کے تدارک کے لئے جو اس کام کو روک رہے ہیں ، تمہارا مددگار ہوگا.تبلیغ رسالت (مجموعه اشتهارات)، جلد اوّل صفحه ١١٦) پس آج کل کے حالات میں کسی بھی احمدی کو مایوس نہیں ہونا چاہئے.خدائی وعدے ہیں.خدا تعالیٰ ہمیشہ ہمارا مددگار رہا ہے اور انشاء اللہ رہے گا.لیکن جہاں وہ مخالفین کی بیہودہ گوئی کوسن رہا ہے کیونکہ آج کل پاکستان میں پھر کافی شور ہوا ہوا ہے.اور اس کو علم ہے کہ یہ لوگ احمدیوں کے ساتھ ظلم روا رکھ رہے ہیں اور اپنی تقدیر کے مطابق ایسے لوگوں کی خدا تعالیٰ نے پکڑ کرنی ہے.انشاء اللہ.اور ہمارے تجربہ میں ہے کہ ماضی میں بلکہ ماضی قریب میں ایسی پکڑ کے نظارے وہ ہمیں دکھا تا رہا ہے اور اپنی قدرت نمائی کرتا رہا ہے.پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے دل مایوس ہوں اور ہلکا سا احساس بھی پیدا ہو.لیکن ہماری بھی یہ ذمہ داری ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر یہ ذمہ داری ڈال رہا ہے کہ پہلے سے بڑھ کر میری طرف رجوع کرو اور میرے سے مانگو تا کہ وہ الہی تقدیر جو غالب آنی ہے انشاء اللہ تمہیں بھی احساس رہے کہ تمہاری دعاؤں کا بھی اس میں کچھ حصہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے تمہاری
114 خطبات مسرور دعاؤں کو بھی سنا ہے.پس ان دنوں میں بہت زیادہ دعاؤں کی طرف ہمیں توجہ دینی چاہئے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: $2003 فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِيْنَ يُبَدِّلُوْنَهُ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ (سورة البقره : ۱۸۲) پس جو اُسے اُس کے سُن لینے کے بعد تبدیل کرے تو اس کا گناہ ان ہی پر ہو گا جو اسے تبدیل کرتے ہیں.یقینا اللہ بہت سننے والا (اور ) دائمی علم رکھنے والا ہے.اس آیت میں وصیت کا مضمون بیان کیا گیا ہے.اس سلسلہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:.اگر کوئی شخص وصیت کرے اور بعد میں کوئی دوسرا شخص اس میں تغیر و تبدل کر دے تو اس صورت میں تمام تر گناہ اس شخص کی گردن پر ہے جس نے وصیت میں ترمیم و تنسیخ کی.یہ تغیر دوصور توں میں ہوسکتا ہے.ایک تو یہ کہ لکھانے والا تو کچھ اور لکھائے مگر لکھنے والا شرارت سے کچھ اور لکھ دے.یعنی لکھوانے والے کی موجودگی میں ہی اُس کے سامنے تغیر و تبدل کر دے.دوسری صورت یہ ہے کہ وصیت کرنے والے کی وفات کے بعد اُس میں تغیر و تبدل کر دے.یعنی وصیت میں جو کچھ کہا گیا ہو اس کے مطابق عمل نہ کرے بلکہ اُس کے خلاف چلے.ان دونوں صورتوں میں اس گناہ کا و بال صرف اُسی پر ہو گا جو اُ سے بدل دے.(اقمہ میں سبب مُسبب کی جگہ استعمال کیا گیا ہے اور مراد گناہ نہیں بلکہ گناہ کا وبال ہے ).یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ اس میں کسی قرآنی حکم کی طرف اشارہ ہے ور وہ حکم وراثت کا ہی ہے.ورنہ اس کا کیا مطلب کہ بدلنے کا گناہ بدلنے والوں پر ہوگا، وصیت کرنے والے پر نہیں ہوگا.کیونکہ اگر اس وصیت کی تفصیلات شرعی نہیں تو بدلنے والے کو گناہ کیوں ہو.اُس کے گناہ گار ہونے کا سوال تبھی ہوسکتا ہے جبکہ کسی شرعی حکم کی خلاف ورزی ہورہی ہو، اور وہ اسی طرح ہوسکتی ہے کہ مرنے والا تو یہ وصیت کر جائے کہ میری جائیدا دا حکام اسلام کے مطابق تقسیم کی جائے لیکن وارث اس کی وصیت پر عمل نہ کریں.ایسی صورت میں وصیت کرنے والا تو گناہ سے بچ جائے گا لیکن وصیت تبدیل کرنے والے وارث گناہ گار قرار پائیں گے.“ (تفسیر کبیر جلد دوم صفحه (٣٦٨)
خطبات مسرور 115 حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اس ضمن میں فرماتے ہیں : $2003 انَّ اللهَ سَمِيعٌ عَلِیم: فرماتا ہے کہ ہم علیم خدا ہیں.سمجھ بوجھ کر حصص مقرر کئے ہیں اور وصیتوں کے بدلانے کو بھی سنتے ہیں.چنانچہ فرماتا ہے ﴿وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُوْلَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيْهَا (النساء: (۱۵) فَمَنْ بَدَّلَهُ : اب سن لو کہ کیا کچھ تبدیل کیا گیا ہے.سب سے اول تو یہ کہ لڑکیوں کو ورثہ نہیں دیا جاتا.خدا تعالیٰ نے عورت کو بھی حرث فرمایا ہے اور زمین کو بھی.ایسا ہی زمین کو بھی ارتقض فرماتا ہے اور عورتوں کو بھی.فَانَّمَا مه : چنانچہ اس کا نتیجہ دیکھ لو کہ جب سے ان لوگوں نے لڑکیوں کا ورثہ دینا چھوڑا ہے، ان کی زمینیں ہندوؤں کی ہو گئی ہیں.جو ایک وقت سو گھماؤں زمین کے مالک تھے اب دو بیگھہ کے بھی نہیں رہے.یہ اس لئے کہ صریحاً النساء آیت ۱۵ میں فرمایا وله عذاب مهین اس سے زیادہ اور کیا ذلت ہوگی.عورتوں پر جو ظلم ہو رہا ہے، وہ بہت بڑھ گیا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا﴾ (البقرة: ۲۳۲).دوسرا وَعَاشِرُوْا هُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء: ٢٠) - - ! تیرا وَلَا تُضَارُّوْهُنَّ (الطلاق: ( چوتھا فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ (النساء:۲۰) پنجم وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ ﴾ (البقرة : ۲۲۹ ).باوجود اس کے وراثت ( یعنی ورثہ نہ دینے کا ) کا ظلم بہت بڑھ رہا ہے.پھر دوسرا یہ کہ بعض ظالم عورت کو نہ رکھتے ہیں نہ طلاق دیتے ہیں.“ (حقائق الفرقان جلد ۱ صفحه (۳۰۰) اس آیت کی تفسیر میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: "جو شخص سننے کے بعد وصیت کو بدل ڈالے تو یہ گناہ اُن لوگوں پر ہے جو جرم تبدیل وصیت کے عمد امرتکب ہوں.تحقیق اللہ سنتا اور جانتا ہے یعنی ایسے مشورے اُس پر مخفی نہیں رہ سکتے اور یہ نہیں کہ اُس کا علم ان باتوں کے جاننے سے قاصر ہے.“ چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ ص ۲۱۰) جیسا کہ حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہیں کرتے ، وارثت کے حقوق.اور ان کا شرعی حصہ نہیں دیتے اب بھی یہ بات سامنے آتی ہے برصغیر میں اور جگہوں پر بھی ہوگی کہ عورتوں کو ان کا شرعی حصہ نہیں دیا جاتا.وراثت میں ان کو جو ان کا حق بنتا ہے نہیں ملتا.اور یہ بات نظام کے سامنے تب آتی ہے جب بعض عورتیں وصیت کرتی ہیں تو لکھ
$2003 116 خطبات مسرور دیتی ہیں مجھے وراثت میں اتنی جائیداد تو ملی تھی لیکن میں نے اپنے بھائی کو یا بھائیوں کو دے دی اور اس وقت میرے پاس کچھ نہیں ہے.اب اگر آپ گہرائی میں جا کر دیکھیں، جب بھی جائزہ لیا گیا تو پتہ یہی لگتا ہے کہ بھائی نے یا بھائیوں نے حصہ نہیں دیا اور اپنی عزت کی خاطر یہ بیان دے دیا کہ ہم نے دے دی ہے.یا کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ بھائی یا دوسرے ورثاء بالکل معمولی سی رقم اس کے بدلہ میں دے دیتے ہیں حالانکہ اصل جائیداد کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے.تو ایک تو یہ ہے کہ وصیت کرنے والے، نظام وصیت میں شامل ہونے والے ، ان سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے تقویٰ کے اعلیٰ معیار کی امید رکھی ہے اس لئے ان کو ہمیشہ قول سدید سے کام لینا چاہئے اور حقیقت بیان کرنی چاہئے کیونکہ جو نظام وصیت میں شامل ہیں تقویٰ کے اعلیٰ معیار اور شریعت کے احکام کو قائم کرنے کی ذمہ داری ان پر دوسروں کی نسبت بہت زیادہ ہے.اس لئے جو بھی حقیقت ہے، مقطع نظر اس کے کہ آپ کے بھائی پر کوئی حرف آتا ہے یا ناراضگی ہو یا نہ ہوں، حقیقت حال جو ہے وہ بہر حال واضح کرنی چاہئے.تا کہ ایک تو یہ کہ کسی کا حق مارا گیا ہے تو نظام حرکت میں آئے اور ان کو حق دلوایا جائے.دوسرے ایک چیز جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دی ہے شریعت کی رو سے اس سے وہ اپنے آپ کو کیوں محروم کر رہی ہیں.اور صرف یہی نہیں کہ اپنے آپ کو محروم کر رہی ہیں بلکہ وصیت کے نظام میں شامل ہو کے جو ان کا ایک حصہ ہے اس سے خدا تعالیٰ کے لئے جو دینا چاہتی ہیں اس سے بھی غلط بیانی سے کام لے کے وہاں بھی صحیح طرح ادا ئیگی نہیں کر رہیں.تو اس لئے یہ بہت احتیاط سے چلنے والی بات ہے.وصیت کرتے وقت سوچ سمجھ کر یہ ساری باتیں واضح طور پر لکھ کے دینی چاہئیں.پھر صفت سمیع کے ضمن میں ایک اور آیت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَا تَجْعَلُوْا اللهَ عُرْضَةً لَايْمَانِكُمْ أَنْ تَبَرُّوْا وَتَتَّقُوْا وَتُصْلِحُوْا بَيْنَ النَّاسِ.وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴾ (سورة البقره : ٢٢٥) اور اللہ کو اپنی قسموں کا نشانہ اس غرض سے نہ بناؤ کہ تم نیکی کرنے یا تقوی اختیار کرنے یا لوگوں کے درمیان اصلاح کرنے سے بچ جاؤ.اور اللہ بہت سننے والا ( اور ) دائمی علم رکھنے والا ہے.اس ضمن میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
117 $2003 خطبات مسرور اللہ تعالی کو اپنی قسموں کا نشانہ نہ بناؤ.یعنی جس طرح ایک شخص نشانہ پر بار بار تیر مارتا ہے اسی طرح تم بار بار خدا تعالیٰ کی قسمیں نہ کھایا کرو کہ ہم یوں کر دینگے اور ؤوں کر دیں گے.آن تَبَرُّوْا وَتَتَّقُوْا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ ) یہ ایک نیا اور الگ فقرہ ہے جو مبتدا ہے خبر مخدوف کا.اور خبر مخدوف أَمْثَلُ وَاوْلی ہے.یعنی بِرُّكُمْ وَتَقْواكُمْ وَإِصْلَاحُكُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَمْثَلُ وَأَوْلَى اس کے معنے یہ ہیں کہ تمہارا نیکی اور تقویٰ اختیار کرنا اور اصلاح بین الناس کرنا زیادہ اچھا ہے.صرف قسمیں کھاتے رہنا کہ ہم ایسا کر دیں گے، کوئی درست طریق نہیں.تمہیں چاہیے کہ قسمیں کھانے کی بجائے کام کر کے دکھاؤ.پہلے قسمیں کھانے کی کیا ضرورت ہے.زجاج جومشہور نحوی اور ادیب گزرے ہیں ، انہوں نے یہی معنے کئے ہیں.پھر حضرت مصلح موعود فر ماتے ہیں کہ دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو روک نہ بناؤ اُن چیزوں کے لئے جن پر تم قسم کھاتے ہو.یعنی بسر کرنا تقومی کرنا اور اصلاح بین الناس کرنا.اس صورت میں یہ تینوں ایمان کا عطف بیان ہیں اور ایمان کے معنے قسموں کے نہیں بلکہ اُن چیزوں کے ہیں جن پر قسم کھائی جاتی ہے.مطلب یہ کہ اپنا پیچھا چھڑانے کے لئے نیک کام کی قسم نہ کھالیا کرو.تا کہ یہ کہہ سکو کہ کیا کروں چونکہ میں قسم کھا چکا ہوں، اس لئے نہیں کر سکتا.مثلاً کسی ضرورتمند نے روپیہ مانگا تو کہ دیا کہ میں نے تو قسم کھالی ہے کہ آئندہ میں کسی کو قرض نہیں دوں گا.تو آپ فرماتے ہیں کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ اگر کوئی نیکی اور تقوی اور اصلاح بین الناس کے کام کے لئے تمہیں کہے تو یہ نہ کہو کہ میں نے تو قسم کھائی ہوئی ہے، ہمیں یہ کام نہیں کر سکتا.پھر آپ فرماتے ہیں کہ تیسرے معنے یہ ہیں کہ اس ڈر سے کہ تمہیں نیکی کرنی پڑے گی خدا تعالیٰ کو اپنی قسموں کا نشانہ نہ بناؤ.اس صورت میں اَنْ تَبَرُّوا مفعول لاجلہ ہے اور اس سے پہلے کراهة مقدر ہے.اور مراد یہ ہے کہ اگر اچھی باتیں نہ کرنے کی قسمیں کھاؤ گے تو ان خوبیوں سے محروم ہو جاؤ گے، اس لئے نیکی تقوئی اور اصلاح بین الناس کی خاطر اس لغو طریق سے بچتے رہو.در حقیقت یہ سب معنے آپس میں ملتے جلتے ہیں.صرف عربی عبارت کی مشکل کو مختلف طریق سے حل کیا گیا ہے.جس بات پر سب مفسرین متفق ہیں ، وہ یہ ہے کہ اس آیت میں یہ بتایا گیا
$2003 118 خطبات مسرور ہے کہ یہ نہ کرو کہ خدا تعالیٰ کو اپنی قسموں کا نشانہ بنا لو.یعنی اُٹھے اور قسم کھالی.یہ ادب کے خلاف ہے اور جو شخص اس عادت میں مبتلا ہو جاتا ہے وہ بسا اوقات نیک کاموں کے بارے میں بھی قسمیں کھالیتا ہے کہ میں ایسا نہیں کروں گا.اور اس طرح یا تو بے ادبی کا اور یا نیکی سے محرومی کا شکار ہو جاتا ہے.یا یہ کہ بعض اچھے کاموں کے متعلق قسمیں کھا کر خدا تعالیٰ کو ان کے لئے روک نہ بنالو.ان معنوں کی صورت میں داؤ پیچ والے معنے خوب چسپاں ہوتے ہیں.اور مطلب یہ ہے کہ بعض لوگ صدقہ و خیرات سے بچنے کے لئے چالیں چلتے ہیں اور داؤ کھیلتے ہیں اور بعض خدا تعالیٰ کی قسم کو جان بچانے کا ذریعہ بتاتے ہیں.گویا دوسرے سے بچنے اور اُسے پچھاڑنے میں جو داؤ استعمال کئے جاتے ہیں اُن میں سے ایک خدا تعالیٰ کی قسم بھی ہوتی ہے.پس فرماتا ہے: اللہ تعالیٰ کے نام کو ایسے ذلیل حیلوں کے طور پر استعمال نہ کیا کرو.میرے نزدیک سب سے اچھی تشریح علامہ ابوحیان کی ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنے احسان اور نیکی وغیرہ کے آگے روک بنا کر کھڑا نہ کر دیا کرو.وَاللَّهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ میں بتایا کہ اگر تمہیں نیکی اور تقوی اور اصلاح بین الناس کے کام میں مشکلات پیش آئیں تو خدا تعالیٰ سے اس کا دفعیہ چاہو اور ہمیشہ دعاؤں سے کام لیتے رہو کیونکہ یہ کام دعاؤں کے بغیر سرانجام نہیں پاسکتے اور پھر یہ بھی یاد رکھوکہ اللہ تعالیٰ علیم بھی ہے.اگر تم اس کی طرف جھکو گے تو وہ اپنے علم میں سے تمہیں علم عطا فرمائے گا اور نیکی اور تقویٰ کے بارے میں تمہارا قدم صرف پہلی سیڑھی پر نہیں رہے گا بلکہ علم لدنی سے بھی تمہیں حصہ دیا جائے گا.“ (تفسیر کبیر جلد دوم - صفحه ٥٠٦ تا ٥٠٧ حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : عُرْضَةٌ : اللہ کے نام کو نیکی کرنے میں روک نہ بناؤ مثلاً خدا کی قسم کھا کر یہ کہہ دیا: میں فلاں کے ساتھ نیکی نہیں کروں گا ، فلاں کے گھر نہ جاؤں گا.وغیرہ (حقائق الفرقان جلد ۱ صفحه ٣٦٢،٣٦١) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- قرآن شریف کی رُو سے لغو یا جھوٹی قسمیں کھانا منع ہے کیونکہ وہ خدا سے ٹھٹھا ہے اور گستاخی ہے اور ایسی قسمیں کھانا بھی منع ہے جو نیک کاموں سے محروم کرتی ہوں جیسا کہ حضرت ابوبکر
$2003 119 خطبات مسرور رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی تھی کہ میں آئندہ مسطح صحابی کو صدقہ خیرات نہیں دوں گا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی ﴿وَلَا تَجْعَلُوْا اللَّهَ عُرْضَةً لِأَيْمَانِكُمْ أَنْ تَبَرُّوْا وَتَتَّقُوا.یعنی ایسی قسمیں مت کھاؤ جو نیک کاموں سے باز رکھیں تغییر مفتی ابو مسعود مفتی روم میں زیر آیت وَلَا تَجْعَلُوْا اللهَ عُرْضَةً لِأَيْمَانِكُمْ لکھا ہے کہ عرضہ اس کو کہتے ہیں کہ جو چیز ایک بات کے کرنے سے عاجز اور مانع ہو جائے اور لکھا ہے کہ یہ آیت ابوبکر صدیق کے حق میں ہے جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ مسطح کو جو صحابی ہے، باعث شراکت اس کی حدیث افک میں، کچھ خیرات نہیں دوں گا.پس خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ ایسی قسمیں مت کھاؤ جو تمہیں نیک کاموں اور اعمال صالحہ سے روک دیں، نہ یہ کہ معاملہ متنازعہ، جس سے طے ہو“ (الحکم.جلد۸ـ نمبر ۲۲ ـ بتاریخ ۱۰ جولائی ١٩٠٤ء.صفحه (٧) اب صفت سمیع کے تحت بعض احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قبولیت دعا کے بعض واقعات کا ذکر کرتا ہوں.حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک شخص جمعے کے روز مسجد نبوی میں اس صلى الله دروازے سے داخل ہوا جو منبر کے سامنے تھا.رسول اللہ علہ اس وقت کھڑے خطبہ دے رہے تھے.اُس نے آنحضرت ﷺ کو اپنی طرف متوجہ کر کے عرض کیا : یا رسول اللہ ! مویشی مر رہے ہیں ، راستے مخدوش ہو رہے ہیں ، آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ ہم پر بارش برسائے.اس پر رسول اللہ ے نے اپنے دونوں ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے اور دعا کرتے ہوئے تین مرتبہ کہا: "اللَّهُ عليسة اسْقِنَا‘ اے اللہ ! ہم پر بارش کا پانی نازل کر.انس بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! ہمیں اُس وقت آسمان پر کوئی بادل یا بادل کا ٹکڑا نظر نہیں آرہا تھا جبکہ سلع پہاڑ تک ان دنوں کوئی گھر تعمیر نہ ہوا تھا.اچانک سلع کے پیچھے سے ڈھال کی شکل کی ایک بدلی نمودار ہوئی جب وہ آسمان کے وسط میں آئی تو پھیل گئی ، پھر بارش برسانے لگی.انس بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! ہم نے چھ دن تک سورج نہیں دیکھا.پھر ایک شخص اگلے جمعہ، اُسی دروازے سے داخل ہوا اور رسول اللہ نے کھڑے خطبہ دے رہے تھے.وہ آپ کے سامنے کھڑا ہوا اور مخاطب ہوا اور کہا : یا رسول اللہ ! اموال تباہ ہور ہے ہیں، راستے منقطع ہو گئے
$2003 120 خطبات مسرور ہیں.آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ بارش کو روک لے.راوی کہتے ہیں کہ اس پر رسول اللہ نے اپنے دونوں ہاتھ دعا کے لئے بلند کئے، پھر کہا: " اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا اے اللہ! ہمارے ارد گرد تو بارش ہومگر ہمارے اوپر بارش نہ ہو.اے اللہ ! چوٹیوں اور پہاڑوں ،چٹیل میدانوں، وادیوں اور جنگلوں پر بارش برسا.راوی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا دعا کرنا تھا کہ بارش ختم ہو گئی اور جب نماز جمعہ پڑھ کر نکلے تو دھوپ نکلی ہوئی تھی.(بخارى كتاب الجمعه، باب الاستسقاء في المسجد الجامع) ایک روایت اسی قسم کی حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کے بارہ میں بھی آتی ہے.مکرم چوہدری غلام محمد صاحب فرماتے ہیں کہ ۱۹۰۹ء کے موسم برسات میں ایک دفعہ لگا تار آٹھ روز بارش ہوتی رہی جس سے قادیان کے بہت سے مکان گر گئے.آٹھویں یا نویں روز حضرت خلیفہ مسیح اول نے فرمایا کہ میں دعا کرتا ہوں، آپ سب لوگ آمین کہیں.دعا کرنے کے بعد آپ نے فرمایا کہ آج میں نے وہ دعا کی ہے جو حضرت رسول کریم ﷺ نے ساری عمر میں صرف ایک دفعہ کی تھی.یہ دعا بارش بند ہونے کی دعا تھی.دعا کے وقت بارش بہت زور سے ہو رہی تھی اس کے بعد بارش بند ہوگئی اور عصر کی نماز کے وقت آسمان بالکل صاف تھا اور دھوپ نکلی ہوئی تھی.بدر کے دوران جب کہ دشمن کے مقابلے میں آپ ﷺ اپنے جاں نثار بہادروں کو لے کر کھڑے ہوئے تھے.تائید الہی کے آثار ظاہر تھے.کفار نے اپنا قدم جمانے کے لئے پختہ زمین پر ڈیرے لگائے تھے اور مسلمانوں کے لئے ریت کی جگہ چھوڑ دی تھی لیکن خدا تعالیٰ نے بارش بھیج کر کفار کے خیمہ گاہ میں کیچڑ ہی کیچڑ کر دیا اور مسلمانوں کی جائے قیام مضبوط ہوگئی.اسی طرح اور بھی تائیدات سماویہ ظاہر ہو رہی تھیں.لیکن باوجود اس کے اللہ تعالیٰ کا خوف ایسا آنحضرت ﷺ پر غالب تھا کہ سب وعدوں اور نشانات کے باوجود اس کے غنا کو دیکھ کر گھبراتے تھے اور بے تاب ہو کر اس کے حضور میں دعا کرتے تھے کہ مسلمانوں کو فتح ہو.آپ یہ دعا کر رہے تھے اور اس الحاح کی کیفیت میں آپ کی چادر بار بار کندھوں سے گر جاتی تھی کہ اے میرے خدا! اپنے وعدے کو، اپنی مددکو پورا فرما.اے میرے اللہ ! اگر مسلمانوں کی یہ جماعت آج ہلاک ہوگئی تو دنیا میں تجھے پوجنے والا کوئی نہیں رہے گا.
121 $2003 خطبات مسرور اس وقت آپ اس قدر کرب کی حالت میں تھے کہ کبھی آپ سجدے میں گر جاتے اور کبھی کھڑے ہو کر خدا کو پکارتے تھے اور آپ کی چادر آپ کے کندھوں سے گر پڑتی تھی.حضرت علی کہتے ہیں کہ مجھے لڑتے لڑتے آنحضرت ﷺ کا خیال آتا اور میں دوڑ کے آپ کے پاس پہنچ جاتا تو دیکھتا کہ آپ مسجدے میں ہیں اور آپ کی زبان پریا حی یا قیوم کے الفاظ جاری ہیں.حضرت ابوبکر جوش فدائیت میں آپ کی اس حالت کو دیکھ کر بے چین ہو جاتے اور عرض کرتے : یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، آپ گھبرائیں نہیں.اللہ ضرور اپنے وعدے پورے کرے گا.مگر اس مقولے کے مطابق کہ ہر کہ عارف تر است ترساں تر ، برابر دعا وگریہ وزاری میں مصروف رہے.آپ کے دل میں خشیت الہی کا یہ گہرا احساس مضمر تھا کہ کہیں خدا کے وعدوں میں کوئی ایسا پہلو مخفی نہ ہو جس کے عدم علم سے تقدیر بدل جائے.(سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایمان صفحه ٣٦١ طبع جدید) حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ جنگ بدر میں آنحضرت ﷺ ایک خیمہ میں قیام پذیر تھے اور بار بار یہ دعا کرتے تھے کہ اے میرے اللہ ! میں تجھے تیرے عہد کا واسطہ دیتا ہوں، تجھے تیرا وعدہ یاد دلاتا ہوں.میرے اللہ ! اگر تو چاہتا ہے کہ آج کے بعد تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ رہے تو بے شک ہماری مدد نہ کر.یعنی اگر مسلمانوں کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا.حضور اتنی عاجزی اور زاری کے ساتھ بار بار دعا کر رہے تھے کہ حضرت ابوبکر سے رہا نہ گیا اور گھبرا کر آپ کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا اے اللہ کے رسول ! کافی ہے، اتنی آہ وزاری کافی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کی دعا ضرور قبول کرے گا.حضور اس وقت زرع پہنے ہوئے تھے چنانچہ حضور اسی حالت میں خیمہ سے باہر آئے اور مسلمانوں کو خوشخبری دی کہ دشمن کی جمیعت شکست کھا جائے گی.ان کے منہ موڑ دئے جائیں گے بلکہ یہ گھڑی ان کے لئے بڑی دہشتناک ، ہلاکت خیز اور تلخ ہوگی.صلى الله (بخاری کتاب الجهاد باب ما قيل في درع النبي..چنا نچہ اب دیکھیں دشمن کو جنگ بدر میں کس طرح ذلت کی شکست ہوئی.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ مشرکہ تھیں اور میں انہیں دعوت اسلام دیا کرتا تھا.جب ایک دن میں نے انہیں پیغام حق پہنچایا تو انہوں نے آنحضرت ﷺ کے بارے میں
$2003 122 خطبات مسرور بعض ایسی باتیں کیں جو مجھے ناگوار گزریں تو میں روتا ہوا آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں اپنی والدہ کو دعوت اسلام دیا کرتا تھا اور وہ انکار کر دیتی تھیں.اور آج جب میں نے انہیں یہ دعوت دی تو انہوں نے آپ کے بارہ میں مجھے ایسی باتیں سنائیں جو مجھے نا پسند ہیں.آپ صلى الله دعا کریں کہ اللہ ابو ہریرہ کی والدہ کو ہدایت دیدے.تو رسول اللہ ﷺ نے دعا کی : "اللَّهُمَّ اهْدِ امّ أَبِي هُرَيْرَة“ کہ اے اللہ تو ابو ہریرہ کی والدہ کو ہدایت دیدے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ میں آپ ﷺ کی اس دعا کی وجہ سے خوش خوش گھر کے لئے نکلا اور جب گھر کے دروازہ کے پاس پہنچا تو وہ بند تھا اور میری والدہ نے میرے قدموں کی آہٹ سن کر کہا کہ اے ابو ہریرہ! وہیں ٹھہرو.اسی اثناء میں میں نے پانی گرنے کی آواز سنی.آپ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے غسل کیا ، کپڑے بدلے اور دو پٹہ اوڑھ کر دروازہ کھولا اور کہا: اے ابو ہریرہ ! اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ میں فوراً آنحضرت ﷺ کی خدمت میں خوشی سے روتے ہوئے حاضر ہوا.اور عرض کی : مبارک ہو، اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا سن لی ہے اور ابو ہریرہ کی والدہ کو ہدایت دیدی ہے.اس پر آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی اور فرمایا : اچھا ہوا ہے.تب میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! آپ اللہ سے یہ دعا بھی کریں کہ وہ مجھے اور میری ماں کو مؤمنین کا محبوب بنادے اور وہ ہمیں محبوب ہوں.تب آپ ﷺ نے دعا کی کہ اے اللہ ! تو اپنے اس بندہ ابو ہریرہ اور اس کی ماں کو مومنوں کا اور مؤمنین کو ان کا محبوب بنادے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ جس مومن نے مجھے دیکھا بھی نہیں، بس میرے بارے میں سنا ہے، وہ بھی مجھ سے محبت کرتا ہے.مسلم - کتاب فضائل صحابه باب من فضائل ابى هريره......) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قبولیت دعا کے واقعات پیش ہیں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ میر محمد الحق صاحب کے بچپن کا ایک واقعہ ہے.کہ ایک دفعہ وہ سخت بیمار ہو گئے اور حالت بہت تشویشناک ہوگئی اور ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے متعلق دعا کی تو عین دعا کرتے ہوئے خدا کی طرف
123 $2003 خطبات مسرور سے الہام ہوا کہ سَلامٌ قَوْلاً مِنْ رَّبِّ رَحِیم ، یعنی تیری دعا قبول ہوئی اور خدائے رحیم و کریم اس بچے کے متعلق تجھے سلامتی کی بشارت دیتا ہے.چنانچہ اس کے جلد بعد حضرت میر محمد اسحق صاحب بالکل توقع کے خلاف صحت یاب ہو گئے اور خدا نے اپنے مسیح کے دم سے انہیں شفا عطا فرمائی.(سیرت طیبه صفحه ٢٦٨،٢٨٧) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اور زبردست نشان قبولیت دعا کا بیان کرتا ہوں.کپورتھلہ کے بعض غیر احمدی مخالفوں نے کپورتھلہ کی احمد یہ مسجد پر قبضہ کر کے مقامی احمدیوں کو بے دخل کرنے کی کوشش کی.بالآخر یہ مقدمہ عدالت میں پہنچا اور کافی دیر تک چلتا رہا.کپورتھلہ کے بہت سے دوست فکر مند تھے اور گھبرا گھبرا کر حضرت مسیح موعود کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان دوستوں کے فکر اور اخلاص سے متأثر ہو کر ایک دن ان کی درخواست پر غیرت کے ساتھ فرمایا: گھبراؤ نہیں ! اگر میں سچا ہوں تو یہ مسجد تمہیں مل کر رہے گی.مگر عدالت کی نیت خراب تھی اور حج کا رویہ بدستور مخالفانہ رہا.آخر اس نے عدالت میں برملا کہہ دیا کہ ”تم لوگوں نے نیامذ ہب نکالا ہے.اب مسجد بھی تمہیں نئی بنانی پڑے گی اور ہم اسی کے مطابق فیصلہ دیں گے.مگر ابھی اس نے فیصلہ لکھا نہیں تھا اور خیال تھا کہ عدالت میں جا کر لکھوں گا.اس وقت اس نے اپنی کوٹھی کے برآمدہ میں بیٹھ کر نوکر سے بوٹ پہنانے کے لئے کہا.نوکر بوٹ پہنا ہی رہا تھا کہ حج پر اچانک دل کا حملہ ہوا اور وہ چند لمحوں میں ہی اس حملہ میں ختم ہو گیا.اس کی جگہ جو دوسرا حج آیا تو اس نے مسل دیکھ کر احمد یوں کو حق پر پایا اور مسجد احمدیوں کو دلا دی.(سیرت طیبه از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحه ١٢٥ - ١٢٦) پھر ایک اور واقعہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چشمہ معرفت میں بیان فرمایا ہے.اس جگہ ایک تازہ قبولیت دعا کا نمونہ جو اس سے پہلے کسی کتاب میں نہیں لکھا گیا، ناظرین کے فائدہ کے لئے لکھتا ہوں.وہ یہ ہے کہ نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ مع اپنے بھائیوں کے سخت مشکلات میں پھنس گئے تھے.منجملہ ان کے یہ کہ وہ ولی عہد کے ماتحت رعایا کی طرح قرار دئے گئے تھے.انہوں نے بہت کچھ کوشش کی مگر ناکام رہے اور صرف آخری کوشش یہ باقی رہی تھی کہ وہ نواب گورنر جنرل بہادر بالقابہ سے اپنی دادرسی چاہیں اور اس میں بھی کچھ امید نہ تھی کیونکہ ان کے برخلاف
124 $2003 خطبات مسرور قطعی طور پر حکام ماتحت نے فیصلہ کر دیا تھا.اس طوفان غم وہم میں جیسا کہ انسان کی فطرت میں داخل ہے انہوں نے صرف مجھ سے دعا کی ہی درخواست نہ کی بلکہ یہ بھی وعدہ کیا کہ اگر خدا تعالیٰ ان پر رحم کرے اور اس عذاب سے نجات دے.وہ تین ہزار نقد روپیہ بعد کامیابی کے بلا توقف لنگر خانہ کی مدد کے لئے ادا کریں گے.چنانچہ بہت سی دعاؤں کے بعد مجھے یہ الہام ہوا کہ اے سیف اپنا رخ اس طرف پھیر لے“.تب میں نے نواب محمد علی خان صاحب کو اس وحی الہی سے اطلاع دی.بعد اس کے خدا تعالیٰ نے ان پر رحم کیا اور صاحب بہادر وائسرائے کی عدالت سے ان کے مطلب اور مقصود اور مراد کے موافق حکم نافذ ہو گیا.تب انہوں نے بلا توقف تین ہزار روپیہ کے نوٹ جونز رمقرر ہو چکی تھی مجھے دے دئے اور یہ ایک بڑا نشان تھا جو ظہور میں آیا“.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۳۸-۳۳۹ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: پانچواں نشان جو ان دنوں میں ظاہر ہوا وہ ایک دعا کا قبول ہونا ہے جو درحقیقت احیائے موتی میں داخل ہے.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ عبدالکریم نام ولد عبدالرحمن ساکن حیدر آباد دکن ہمارے مدرسہ میں ایک لڑکا طالب العلم ہے، قضاء و قدر سے اس کو سگ دیوانہ کاٹ گیا.( یعنی ہلکا یا کتا کاٹ گیا).ہم نے اس کو معالجہ کے لئے کسولی بھیج دیا.چند روز تک اس کا کسولی میں علاج ہوتا رہا پھر وہ قادیان میں واپس آیا.تھوڑے دن گزرنے کے بعد اس میں وہ آثار دیوانگی کے ظاہر ہوئے جو دیوانہ کتے کے کاٹنے کے بعد ظاہر ہوا کرتے ہیں اور پانی سے ڈرنے لگا اور خوفناک حالت پیدا ہوگئی.تب اس غریب الوطن عاجز کے لئے میرا دل سخت بے قرار ہوا اور دعا کے لئے ایک خاص توجہ پیدا ہوگئی.ہر ایک شخص سمجھتا تھا کہ وہ غریب چند گھنٹہ کے بعد مر جائے گا.ناچار اس کو بورڈنگ سے باہر نکال کر ایک الگ مکان میں دوسروں سے علیحدہ ہر ایک احتیاط سے رکھا گیا اور کسولی کے انگریز ڈاکٹروں کی طرف تار بھیج دی اور پوچھا گیا کہ اس حالت میں اُس کا کوئی علاج بھی ہے.اس طرف سے بذریعہ تار جواب آیا کہ اب اس کا کوئی علاج نہیں.مگر اس غریب اور بے وطن لڑکے کے لئے میرے دل میں بہت توجہ پیدا ہوگئی اور میرے دوستوں نے بھی اس کے لئے دعا کرنے کے لئے بہت ہی اصرار کیا کیونکہ اس غربت کی حالت میں وہ لڑکا قابل رحم تھا اور نیز دل میں یہ خوف پیدا ہوا
125 $2003 خطبات مسرور کہ اگر وہ مرگیا تو ایک بُرے رنگ میں اس کی موت شماتت اعداء کا موجب ہو گی.تب میرا دل اس کے لئے سخت در داور بیقراری میں مبتلا ہوا اور خارق عادت توجہ پیدا ہوئی جو اپنے اختیار سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ محض خدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا ہوتی ہے اور اگر پیدا ہو جائے تو خدا تعالیٰ کے اذن سے وہ اثر دکھاتی ہے کہ قریب ہے کہ اس سے مُردہ زندہ ہو جائے.غرض اس کے لئے اقبال علی اللہ کی حالت میسر آگئی اور جب وہ توجہ انتہا تک پہنچ گئی اور درد نے اپنا پورا تسلط میرے دل پر کر لیا تب اس بیمار پر جو در حقیقت مردہ تھا اس توجہ کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو گئے اور یا تو وہ پانی سے ڈرتا اور روشنی سے بھاگتا تھا اور یا یکدفعہ طبیعت نے صحت کی طرف رخ کیا اور اس نے کہا کہ اب مجھے پانی سے ڈر نہیں آتا.تب اس کو پانی دیا گیا تو اس نے بغیر کسی خوف کے پی لیا بلکہ پانی سے وضو کر کے نماز بھی پڑھ لی.اور تمام رات سوتا رہا اور خوفناک اور وحشیانہ حالت جاتی رہی.یہاں تک کہ چند روز تک بکھی صحت یاب ہو گیا.(حقيقة الوحى - روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ٤٨٠،٤٨١) اور یہ واقعہ نہ اس سے پہلے کبھی ہوا نہ بعد میں.کیونکہ ایک دفعہ جب اثر ہو جائے تو بہر حال ڈاکٹر یہی کہتے ہیں کہ اس کا کوئی علاج نہیں.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکٹی ابن میاں کرم الدین صاحب سکنہ را جیکی ضلع گجرات بیان فرماتے ہیں کہ :- حافظ آباد کے علاقہ میں ایک گاؤں ہے.وہاں ایک شخص الہی بخش رہا کرتا تھا.اسے ایک دفعہ بعض احمدیوں نے قادیان لانے کے لئے تیار کیا.وہ تیار ہو گیا.بٹالہ اترنے سے پہلے اسے بخار آگیا.بخار کی حالت میں ہی وہ بٹالہ ٹیشن پر اترا.آگے مولوی محمد حسین بٹالوی ملا.اس نے دیکھا کہ شخص بخار کی حالت میں قادیان جا رہا ہے.اس نے اس کے دل میں وسوسہ ڈالا کہ اگر مرزا صاحب بچے ہوتے تو تجھے رستہ میں ہی بخار نہ ہو جاتا اور کہا کہ وہاں تو دکانداری ہے، وہاں ہرگز مت جانا.مگر اُس نے کہا ایک دفعہ تو ضرور جاؤں گا.چنانچہ وہ قادیان آیا.حضرت اقدس کی مجلس میں بیٹھا ہی تھا کہ حضور نے فرمایا.ہمارے بعض مخالف یہ بھی کہتے ہیں کہ یہاں دکانداری ہے.بیشک یہ دکان ہے یہاں سے خدا اور اس کے رسول کا سودا ملتا ہے.یہ بات سن کر اس کی آنکھیں کھل گئیں اور اس کا
$2003 126 خطبات مسرور ایمان تازہ ہوا اور معانیز بخار بھی اتر گیا.(رجسٹر روایات نمبر ١٢ - صفحه ١٤٠) اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام کا ذکر کرتا ہوں.۱۸۸۳ء کا الہام ہے: يَا عَبْدَ الْقَادِرِ إِنِّي مَعَكَ أَسْمَعُ وَاَرى“.اے عبدالقادر میں تیرے ساتھ ہوں، سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں.( براهین احمدیه هر چهار حصص روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ٦١٣ - ترجمه از صفحه ٦١٤ حاشیه در حاشیه نمبر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: میں اپنے ذاتی تجربہ سے بھی دیکھ رہا ہوں کہ دعاؤں کی تاثیر آب و آتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے بلکہ اسباب طبیعہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم التا ثیر نہیں جیسی کہ دعا ہے“.(بركات الدعا روحانی خزائن جلد ٦ - صفحه (١١) پھر آپ فرماتے ہیں: ”دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں.خدا نے مجھے بار بارالہامات کے ذریعہ یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہو گا دعا ہی کے ذریعہ سے ہوگا.“ (سیرت مسیح موعود از یعقوب علی عرفانی صاحب - صفحه ۵۱۸ 000
$2003 127 9 01 خطبات مس آج جماعت احمدیہ کا یہ کام ہے کہ ایک مہم کی صورت میں دنیا کے سامنے اسلام کی امن اور آشتی کی جو حسین اور خوبصورت تعلیم ہے وہ پیش کریں ۲۰ رجون ۲۰۰۳ ء مطابق ۲۰ را حسان ۱۳۸۲ هجری شمسی به مقام مسجد فضل لندن (برطانیہ) اسلام پر تشدد کا الزام ایک انتہائی گھناؤنا الزام ہے اسلام امن، محبت اور بھائی چارے کی تعلیم دینے والا مذہب ہے..آج جماعت احمدیہ کا یہ کام ہے کہ ایک مہم کی صورت میں دنیا کے سامنے اسلام کی ، امن اور آشتی کی جو حسین اور خوبصورت تعلیم ہے وہ پیش کریں.اسلام کی فتح جنگوں سے نہیں بلکہ صلح صفائی اور خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے سے ہوگی.عصر حاضر اور جہاد کا غلط تصور ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ اسلام کی جو تصویر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کر.نے کھینچی ہے.اس کولے کر پیغام کو ہر جگہ پہنچا دیں.
خطبات مس $2003 128 تشھد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل آیت تلاوت فرمائی لا إِكْرَاهَ فِي الذِيْنِ.قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا.وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيْمٌ (سورة البقره :۲۵۷).آج کل تمام مغربی دنیا اکٹھی ہو کر عالم اسلام پر یہ الزام لگا رہی ہے کہ اسلام تشدد کا مذ ہب ہے اور اس بنیادی تشدد کی تعلیم کی وجہ سے مسلمانوں میں جہادی تنظیمیں قائم ہیں.یہ انتہائی جھوٹا اور گھناؤنا الزام اسلام کی تعلیم پر لگایا جا رہا ہے.ہر احمدی اس سے بخوبی واقف ہے.اسلام تو ا من، پیار، محبت اور بھائی چارے کی تعلیم دینے والا مذہب ہے اور جتنی انسانیت کے حقوق کا پاس اسلامی تعلیمات میں ملتا ہے اس کی مثال، اس کی نظیر اور کسی تعلیم میں نہیں ہے.لیکن یہ بھی ساتھ میں ، بدقسمتی ، کہوں گا کہ بعض تشدد پسند گروہوں نے جن کا اسلامی تعلیم سے دور کا بھی واسطہ نہیں اپنی انا کی تسکین کے لئے ، اپنی ذات کو ابھار کر دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے اسلام کی تعلیم کو اس طرح جہادی تنظیموں کے تصور کے ساتھ منسلک کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جس کی وجہ سے اسلام کی جو خو بصورت تعلیم تھی اس کا ایک بڑا بھیانک تصور قائم ہو جاتا ہے.اور یہ کوئی اسلام کی خدمت نہیں ہے بلکہ اسلام کو بدنام کرنے کے مترادف ہے.ابھی جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعا لی فرماتا ہے.ترجمہ یہ ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں.یقین ہدایت گمراہی سے کھل کر نمایاں ہو چکی.پس جو کوئی شیطان کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو یقینا اس نے ایک ایسے مضبوط کڑے کو پکڑ لیا جس کا ٹو نا ممکن نہیں.اور اللہ بہت سنے والا (اور ) دائمی علم رکھنے والا ہے.
خطبات مسرور 129 حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں: $2003 یہ عجیب بات ہے کہ اسلام پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ جبر سے دین پھیلانے کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ اسلام اگر ایک طرف جہاد کے لئے مسلمانوں کو تیار کرتا ہے جیسا کہ اس سورۃ میں وہ فرما چکا ہے کہ قَاتِلُوْا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقْتِلُوْنَكُمْ (بقرہ: ۱۹۱ ) عنی تم اللہ کی راہ میں ، ان لوگوں سے جنگ کرو، جو تم سے جنگ کرتے ہیں.تو دوسری طرف وہ یہ بھی فرماتا ہے کہ لَا إِكْرَاهَ فِي الدّین یعنی جنگ کا جو حکم تمہیں دیا گیا ہے، اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ لوگوں کو مسلمان بنانے کے لئے جبر کرنا جائز ہو گیا ہے، بلکہ جنگ کا یہ حکم محض دشمن کے شر سے بچنے اور اس کے مفاسد کو دور کرنے کے لئے دیا گیا ہے.اگر اسلام میں جبر جائز ہوتا تو یہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ قرآن کریم ایک طرف تو مسلمانوں کو لڑائی کا حکم دیتا اور دوسری طرف اسی سورۃ میں یہ فرما دیتا کہ دین کے لئے جبر نہ کرو.کیا اس کا واضح الفاظ میں یہ مطلب نہیں کہ اسلام دین کے معاملے میں دوسروں پر جبر کرنا کسی صورت میں بھی جائز قرار نہیں دیتا.پس یہ آیت دین کے معاملے میں ہر قسم کے جبر کو نہ صرف ناجائز قرار دیتی ہے بلکہ جس مقام پر یہ آیت واقع ہے، اس سے بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام جبر کے بالکل خلاف ہے.پس عیسائی مستشرقین کا یہ اعتراض بالکل غلط ہے کہ اسلام تلوار کے ذریعہ غیر مذاہب والوں کو اسلام میں داخل کرنے کا حکم دیتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ اسلام ہی وہ سب سے پہلا مذہب ہے جس نے دنیا کے سامنے یہ تعلیم پیش کی کہ مذہب کے معاملے میں ہر شخص کو آزادی حاصل ہے اور دین کے بارے میں کسی پر کوئی جبر نہیں.“ (تفسیر کبیر.جلد دوم صفحه ٥٨٥ تا ٥٨٦) حضرت ظریفت اسبیع الاول رضی اللہ عنہ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں.خلیفۃ لا إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ ایک انبیاء کی راہ ہوتی ہے، ایک بادشاہوں کی.انبیاء کا یہ قاعدہ نہیں ہوتا کہ وہ ظلم وجو رو تعدی سے کام لیں.ہاں بادشاہ جبر و اکراہ سے کام لیتے ہیں.پولیس اُس وقت گرفت کر سکتی ہے جب کوئی گناہ کا ارتکاب کر دے مگر مذہب گناہ کے ارادے کو بھی روکتا ہے.پس جب مذہب کی حکومت کو آدمی مان لیتا ہے تو پولیس کی حکومت اس کی پر ہیز گاری کے لئے ضروری نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جبر وا کراہ کا تعلق مذہب سے نہیں.پس کسی کو جبر سے
130 $2003 خطبات مسرور مت داخل کرو کیونکہ جو دل سے مومن نہیں ہوا وہ ضرور منافق ہے.شریعت نے منافق اور کافر کو ایک ہی رستی میں جکڑا ہے.غلطی سے ایسی کہانیاں مشہور ہو گئی ہیں کہ اسلام بزور شمشیر پھیلا یا گیا ہے“.پھر آپ فرماتے ہیں کہ عالمگیر کو بھی الزام دیتے ہیں کہ وہ ظالم تھا اور بالجبر مسلمان کرتا (تھا).یہ کیسی بیہودہ بات ہے.اس کی فوج کے سپہ سالار ایک ہندو تھے.بڑا حصہ اس کی عمر کا اپنے بھائیوں سے لڑتے گزرا.اس کی موت بھی تاناشاہ کے مقابل میں ہوئی.پھر آپ فرماتے ہیں کہ اسلام بادشاہوں کے افعال کا ذمہ دار نہیں ہے.مسلمانوں نے یہی غلطی کی کہ معترضین کے مفتریات کو تسلیم کر لیا حالانکہ اسلام دلی محبت و اخلاق سے حق بات ماننے کا نام ہے.اسی لئے اسلام میں جبر نہیں.حقائق الفرقان جلد اول صفحه (۳۹۱ حضرت خلیقہ البیع الاول مزید فرماتے ہیں: ہمیں کتاب مغازی میں (خواہ کیسی ہی نا قابل وثوق کیوں نہ ہوں ) کوئی ایک بھی مثال نظر نہیں آتی کہ آنحضرت ﷺ نے کسی شخص کسی خاندان کسی قبیلے کو بزور شمشیر واجبار مسلمان کیا ہو.سرولیم میور صاحب کا فقرہ کیسا صاف صاف بتاتا ہے کہ شہر مدینہ کے ہزاروں مسلمانوں میں سے کوئی ایک شخص بھی بزور و اکراہ اسلام میں داخل نہیں کیا گیا اور مکہ میں بھی آنحضرت ﷺ کا یہی رویہ الله اور سلوک رہا بلکہ ان سلاطین عظام ( محمود غزنوی، سلطان صلاح الدین ، اور نگ زیب) کی محققانہ اور صحیح تواریخ میں کوئی ایک بھی مثال نہیں ملتی کہ کسی شخص کو انہوں نے بالجبر مسلمان کیا ہو.ہاں ہم ان کے وقت میں غیر قوموں کو بڑے بڑے عہدوں اور مناصب پر ممتاز وسرفراز پاتے ہیں.پس کیسا بڑا ثبوت ہے کہ اہل اسلام نے قطع نظر مقاصد ملکی کے اشاعت اسلام کے لئے کبھی تلوار نہیں اٹھائی“.پھر فرمایا : ” قوانین اسلام کے موافق ہر قسم کی آزادی مذہبی اور مذہب والوں کو بخشی گئی جو سلطنت اسلام کی مطیع ومحکوم تھے.لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ دین میں کوئی اجبار نہیں.یہ آیت کھلی دلیل 66 اس امر کی ہے کہ اسلام میں اور اہل مذاہب کو آزادی بخشنے اور ان کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم ہے“.(فصل الخطاب - جلد اول صفحه (۹۹،۹۸
خطبات مسرور 131 $2003 پس آج جماعت احمدیہ کا یہ کام ہے کہ ایک مہم کی صورت میں دنیا کے سامنے اسلام کی امن اور آشتی کی جوحسین اور خوبصورت تعلیم ہے وہ پیش کریں.اور دنیا کے سامنے کھولیں کہ اسلام تو انصاف اور امن کی تعلیم کا علمبر دار ہے.جس کی مثال آج کے چودہ سو سال پہلے کے واقعات میں ملتی ہے.وہ واقعہ جب بنو نضیر مدینہ سے جلا وطن کئے گئے تو ان میں سے وہ لوگ بھی تھے جو انصار کی اولاد تھے.انصار نے ان کو روک لینا چاہا مگر آنحضر صلى الله ت نے اس تعلیم کے ماتحت کہ دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں ان کو اس سے منع فرمایا.اور یہ انصار کی اولاد اس طرح یہودیوں کے پاس تھی کہ زمانہ جاہلیت میں جب کسی کے نرینہ اولاد یا لڑکا نہیں ہوتا تھا تو وہ منت مانا کرتے تھے کہ اگر میرا لڑکا ہوگا تو میں اسے یہودی بنادوں گا.تو اس طرح لڑکے کی پیدائش پر اپنے بچے یہودیوں کے سپرد کر دیا کرتے تھے.تو یہ ہے اسلام کی خوبصورت تعلیم کہ تم اپنے لخت جگر کو بھی جب ایک دفعہ کسی کو دے دیتے ہو اور جب وہ اسے اپنے مذہب پر قائم کر لیتا ہے تو پھر ز بر دستی اس کو بھی واپس نہیں لے سکتے.پھر ایک ایسی مثال جو دنیا میں کہیں نظر نہیں آئے گی کہ صلح حدیبیہ کے وقت کیا ہوا.جب قریش کی سخت اور کڑی شرطوں پر مسلمان اپنی ذلت محسوس کرنے لگے اور بعض نے ان شرطوں کو نہ ماننے کا اظہار بھی کیا.لیکن آنحضرت ﷺ نے جو اس کامل یقین پر قائم تھے کہ فتح انشاء اللہ مسلمانوں کی ہے.اور یہ اس سمیع و علیم خدا کا وعدہ ہے کہ فتح یقینا اے محمد سے تیری ہے.اللہ تعالیٰ نے تیری دعاؤں کو سنا ہے اور ان کی قبولیت کا وقت قریب آرہا ہے ان تمام شرائط کو قبول کیا اور صحابہ کو بھی یتعلیم دی کہ اسلام کی فتح جنگوں سے نہیں بلکہ صلح صفائی اور خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے سے ہوگی.اس زمانہ میں بھی اب انشاء اللہ اس طرح ہوگا لیکن یہ بات مسلمانوں کو بھی جھنی چاہئے کہ اسلام کی فتح تو ضرور ہوگی لیکن زور بازو سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کے احکامات پر عمل کرنے سے ہوگی ، جیسا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم گمراہی کو چھوڑ کر ایمان لائے ہو تو گویا تم نے ایک مضبوط کڑے کو پکڑ لیا ہے جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں لیکن صرف منہ سے کہہ دینا کہ ہم ایمان لے آئے کافی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکامات اور آنحضرت ﷺ کے حکموں کو مضبوط کڑے کی
132 $2003 خطبات مسرور طرح پکڑو گے تو کامیاب ہوگے اور آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اس زمانہ میں مسیح موعود ہی وہ مضبوط کڑا ہے جو احکام الہی کی صحیح تشریح کرتا ہے.اور آنحضرت ﷺ کی تعلیم کو جس طرح پیش کرتا ہے وہ صحیح تعلیم ہے.تو اگر اس پر عمل کرو گے تو تم کامیاب ہو جاؤ گے.ایک مدت سے مسلمان اپنی زبوں حالی کی وجہ سے بڑے پریشان رہے اور یہ انتظار کرتے رہے کہ مسیح اور مہدی جلد ظاہر ہوتا کہ ہم اس کے ساتھ چمٹ کر اسلام کی ترقی کے نظارے دیکھیں اور اسلام کا دردر کھنے والے دعائیں بھی کر رہے تھے لیکن جب اس موعود کا ظہور ہوا تو کیا ہوا، ایک بہت بڑی تعداد انکاری ہو گئی صرف اس لئے کہ وہ امن و آشتی اور صلح کا پیغام لے کر آیا تھا.پھر اس آیت کی مزید تشریح کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ : اقرار اور ایمان سے اس آیت میں یہی مراد ہے کہ وہ شیطان کی باتوں کو ر ڈ کرتا اور خدا تعالیٰ کی باتوں کو مانتا ہے.ایسے شخص کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُ تقی.عروہ کے معنے دستے کے بھی ہوتے ہیں جس سے کسی چیز کو پکڑا جاتا ہے اور عروہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جس پر اعتبار کیا جائے اور عروہ کے معنے ایسی چیز کے بھی ہوتے ہیں جس کی طرف انسان ضرورت کے وقت رجوع کرے، اور عروہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو ہمیشہ قائم رہے اور کبھی ضائع نہ ہو.اور عروہ بہترین مال کو بھی کہتے ہیں.فرمایا : اگر عروہ کے معنے دستے کے لئے جائیں تو اس آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ دین کو خدا تعالیٰ نے ایک ایسی لطیف چیز قرار دیا ہے جو کسی برتن میں پڑی ہوئی ہو اور محفوظ ہو اور انسان نے اس برتن کا دستہ پکڑ کر اسے اپنے قبضہ میں کر لیا ہو.پھر عروہ کہہ کر اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ دین ایک ایسی چیز ہے جس کا انسان سہارا لے لیتا ہے تا کہ اسے گرنے کا ڈر نہ رہے، جیسے سیڑھیوں پر چڑھنے کے لئے انسان کو رستہ کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ اسے پکڑ لیتا ہے.اسی طرح دین بھی اس رشتہ کی طرح ایک سہارا ہے، اسے مضبوط پکڑ لینے سے گرنے کا ڈر نہیں رہتا.پھر فرماتے ہیں کہ عروہ کہہ کر یہ بھی بتایا کہ اگر انسان اسے مضبوطی سے پکڑلے تو وہ ہر
$2003 133 خطبات مسرور مصیبت کے وقت اس کے کام آتا ہے.پھر عروہ میں اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ صرف دین ہی انسان کے کام آنے والی چیز ہے، اس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی.باقی تمام تعلقات عارضی ہوتے ہیں اور مصیبت کے آنے پر ایک ایک کر کے کٹ جاتے ہیں.بے شک انسان اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی اپنا بہترین رفیق قرار دیتا ہے لیکن بسا اوقات ان سے کمزوری یا بے وفائی ظاہر ہو جاتی ہے اور اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ حقیقی تعلقات وہی ہیں جن کی بنیادیں دین اور مذہب پر استوار کی جائیں اور انہی میں برکت ہوتی ہے.“ (تفسیر کبیر جلد دوم صفحه ٥٨٨) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مسلمانوں کو مخاطب ہو کر فرماتے ہیں: جس کام کے لئے آپ لوگوں کے عقیدوں کے موافق مسیح ابن مریم آسمان سے آئے گا یعنی یہ کہ مہدی سے مل کر لوگوں کو جبر مسلمان کرنے کے لئے جنگ کرے گا یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو اسلام کو بدنام کرتا ہے.قرآن شریف میں کہاں لکھا ہے کہ مذہب کے لئے جبر درست ہے.بلکہ اللہ تعالیٰ تو قرآن شریف میں فرماتا ہے ﴿لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ یعنی دین میں جبر نہیں ہے.پھر مسیح ابن مریم کو جبر کا اختیار کیونکر دیا جائے گا یہاں تک کہ بجز اسلام یا قتل کے جزیہ بھی قبول نہ کرے گا.یہ تعلیم قرآن شریف کے کس مقام ، اور کس سیپارہ اور کس سورہ میں ہے.سارا قرآن بار بار کہہ رہا ہے کہ دین میں جبر نہیں اور صاف طور پر ظاہر کر رہا ہے کہ جن لوگوں سے آنحضرت ﷺ کے وقت لڑائیاں کی گئی تھیں وہ لڑائیاں دین کو جبر شائع کرنے کے لئے نہیں تھیں بلکہ یا تو بطور سزا تھیں یعنی ان لوگوں کو سزا دینا منظور تھا جنہوں نے ایک گروہ کثیر مسلمانوں کو قتل کر دیا اور بعض کو وطن سے نکال دیا تھا اور نہایت سخت ظلم کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿أَذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقَاتَلُوْنَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوْا وَإِنَّ اللهَ عَلى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ - یعنی ان مسلمانوں کو جن سے کفار جنگ کر رہے ہیں بسبب مظلوم ہونے کے مقابلہ کرنے کی اجازت دی گئی اور خدا قادر ہے کہ جو ان کی مدد کرے.اور یادہ لڑائیاں ہیں جو بطور مدافعت تھیں یعنی جو لوگ اسلام کے نابود کرنے کے لئے پیش قدمی کرتے تھے یا اپنے ملک میں اسلام کو شائع ہونے سے جبر ارو کتے تھے ان سے بطور حفاظت خود اختیاری یا ملک میں
$2003 134 خطبات مسرور آزادی پیدا کرنے کے لئے لڑائی کی جاتی تھی.بجز ان تین صورتوں کے آنحضرت ﷺ اور آپ کے مقدس خلیفوں نے کوئی لڑائی نہیں کی بلکہ اسلام نے غیر قوموں کے ظلم کی اس قدر برداشت کی ہے جو اس کی دوسری قوموں میں نظیر نہیں ملتی.پھر یہ عیسی مسح اور مہدی صاحب کیسے ہوں گے جو آتے ہی لوگوں کو قتل کرنا شروع کر دیں گے یہاں تک کہ کسی اہل کتاب سے بھی جزیہ قبول نہیں کریں گے اور آیت حَتَّى يُعْطُوْا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدِ وَهُمْ صَغِرُوْنَ کو بھی منسوخ کر دیں گے.یہ دین اسلام کے کیسے حامی ہوں گے کہ آتے ہی قرآن کریم کی ان آیتوں کو بھی منسوخ کر دیں گے جو آنحضرت مے کے وقت میں بھی منسوخ نہیں ہوئیں اور اس قد را نقلاب سے پھر بھی ختم نبوت میں حرج نہیں آئے گا.اس زمانہ میں جو تیرہ سو برس عہد نبوت کو گزر گئے اور خود اسلام اندرونی طور پر تہتر فرقوں پر پھیل گیا.بچے مسیح کا یہ کام ہونا چاہئے کہ وہ دلائل کے ساتھ دلوں پر فتح پاوے، نہ تلوار کے ساتھ.اور صلیبی عقیدہ کو واقعی اور سچے ثبوت کے ساتھ توڑ دے، نہ یہ کہ ان صلیبوں کو تو ڑتا پھرے جو چاندی یا سونے یا پیتل یا لکڑی سے بنائی جاتی ہیں.اگر تم جبر کرو گے تو تمہارا جبر اس بات پر کافی دلیل ہے کہ تمہارے پاس اپنی سچائی پر کوئی دلیل نہیں.ہر یگ نادان اور ظالم طبع جب دلیل سے عاجز آ جاتا ہے تو پھر تلوار یا بندوق کی طرف ہاتھ لمبا کرتا ہے مگر ایسا مذہب ہرگز ہرگز خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوسکتا جو صرف تلوار کے سہارے سے پھیل سکتا ہے نہ کسی اور طریق سے.اگر تم ایسے جہاد سے باز نہیں آ سکتے اور اس پر غصہ میں آکر راستبازوں کا نام بھی دجال اور ملحد رکھتے ہو تو ہم ان دو فقروں پر اس تقریر کو ختم کرتے ہیں فل يأَيُّهَا الْكَفِرُوْنَ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ - -(تفسیر حضرت مسیح موعود عليه السلام جلد ۱ صفحه ٧٤٧-٧٤٨ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ جو کچھ کرتا ہے وہ تعلیم اور تربیت کے لئے کرتا ہے چونکہ شوکت کا زمانہ دیر تک رہتا ہے اور اسلام کی قوت اور شوکت صدیوں تک رہی اور اس کے فتوحات دُور دراز تک پہنچے اس لئے بعض احمقوں نے سمجھ لیا کہ اسلام جبر سے پھیلایا گیا.حالانکہ اسلام کی تعلیم ہے ﴿لا إِكْرَاهَ فِي الدين.اس امر کی صداقت کو ظاہر کرنے کے لئے (کہ) اسلام جبر سے نہیں پھیلا اللہ تعالیٰ نے
135 $2003 خطبات مسرور خاتم الخلفا کو پیدا کیا اور اس کا کام یضع الحرب رکھ کر دوسری طرف لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّيْنِ كله قرار دیا.یعنی وہ اسلام کا غلبہ ململ ہا لکہ پر حجت اور براہین سے قائم کرے گا اور جنگ وجدال کو اٹھا دے گا.وہ لوگ سخت غلطی کرتے ہیں جو کسی خونی مہدی اور خونی مسیح کا انتظار کرتے ہیں.“ (الحكم جلد ٦ ـ نمبر ٢٤ ـ مؤرخه ١٠/ جولائی ۱۹۰۲ء.صفحه ۳) پھر آپ فرماتے ہیں کہ: مذہبی امور میں آزادی ہونی چاہیے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ کہ دین میں کسی قسم کی زبردستی نہیں ہے.اس قسم کا فقرہ انجیل میں کہیں بھی نہیں ہے.لڑائیوں کی اصل جڑ کیا تھی ، اس کے سمجھنے میں ان لوگوں سے غلطی ہوئی ہے.اگر لڑائی کا ہی حکم تھا تو تیرہ برس رسول اکرم کے تو پھر ضائع ہی گئے کہ آپ نے آتے ہی تلوار نہ اٹھائی.صرف لڑنے والوں کے ساتھ لڑائیوں کا حکم ہے.اسلام کا یہ اصول کبھی نہیں ہوا کہ خود ابتدائے جنگ کرے.لڑائی کا کیا سبب تھا، اسے خود خدا نے بتلایا ہے کہ ظلِمُوا.خدا نے جب دیکھا کہ یہ لوگ مظلوم ہیں تو اب اجازت دیتا ہے کہ تم بھی لڑو.یہ نہیں حکم دیا کہ اب وقت تلوار کا ہے، تم زبردستی تلوار کے ذریعہ لوگوں کو مسلمان کرو بلکہ یہ کہا ہے کہ تم مظلوم ہو.اب مقابلہ کرو.مظلوم کو تو ہر ایک قانون اجازت دیتا ہے کہ حفظ جان کے واسطے مقابلہ کرے.66 (البدر جلد ۲ نمبر ۱ - ۲- مورخه ۲۳ / جنوری ۱۹۰۳ء) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مزید فرماتے ہیں: نواب صدیق حسن خان کا یہ خیال صحیح نہیں تھا کہ مہدی کے زمانے میں جبر کر کے لوگوں کو مسلمان کیا جائے گا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقره: 257) یعنی دین اسلام میں جبر نہیں ہے ہاں عیسائی لوگ ایک زمانے میں جبر الوگوں کو عیسائی بناتے تھے مگر اسلام جب سے ظاہر ہوا، وہ جبر کے مخالف ہے.جبر اُن لوگوں کا کام ہے جن کے پاس آسمانی نشان نہیں مگر اسلام تو آسمانی نشانوں کا سمندر ہے.کسی نبی سے اس قدر مجزات ظاہر نہیں ہوئے جس قدر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے.کیونکہ پہلے نبیوں کے معجزات ان کے مرنے کے ساتھ ہی مر گئے مگر ہمارے نبی علم کے معجزات اب تک ظہور میں آرہے ہیں اور قیامت تک ظاہر ہوتے رہیں گے.جو کچھ میری
$2003 136 خطبات مسرور تائید میں ظاہر ہوتا ہے دراصل وہ سب آنحضرت ﷺ کے معجزات ہیں.مگر کہاں ہیں وہ پادری اور یہودی یا اور قو میں، جو ان نشانوں کے مقابل پر نشان دکھلا سکتے ہیں.ہرگز نہیں ! ہرگز نہیں !! ہرگز نہیں !!! اگر چہ کوشش کرتے کرتے مر بھی جائیں تب بھی ایک نشان بھی دکھلا نہیں سکتے کیونکہ ان کے مصنوعی خدا ہیں.بچے خدا کے وہ پیر نہیں ہیں.اسلام معجزات کا سمندر ہے.اس نے کبھی جبر نہیں کیا اور نہ اس کو جبر کی کچھ ضرورت ہے.“ تتمه حقيقة الوحى -٣٥ - ٣٦ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ٤٦٩،٤٦٨) پھر آپ فرماتے ہیں: یہ جہالت اور سخت نادانی ہے کہ اس زمانے کے نیم ملا فی الفور کہہ دیتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جبراً مسلمان کرنے کے لئے تلوار اٹھائی تھی اور انہی شبہات میں ناسمجھ پادری گرفتار ہیں مگر اس سے زیادہ کوئی جھوٹی بات نہیں ہوگی کہ یہ جبر اور تعدی کا الزام اس دین پر لگایا جائے جس کی پہلی ہدایت یہی ہے کہ لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقره: ۲۵۷) یعنی دین میں جبر نہیں چاہیے بلکہ ہمارے نبی ﷺ اور آپ کے بزرگ صحابہ کی لڑائیاں یا تو اس لئے تھیں کہ کفار کے حملے سے اپنے تئیں بچایا جائے.اور یا اس لئے تھیں کہ امن قائم کیا جائے.اور جولوگ تلوار سے دین کو روکنا چاہتے ہیں، ان کو تلوار سے پیچھے ہٹایا جائے.“ آپ فرماتے ہیں کہ :- ترياق القلوب رب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۵۸ تمام سچے مسلمان جو دنیا میں گزرے کبھی ان کا یہ عقیدہ نہیں ہوا کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہئے بلکہ ہمیشہ اسلام اپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے دنیا میں پھیلا ہے.پس جولوگ مسلمان کہلا کر صرف یہی بات جانتے ہیں کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہئے ، وہ اسلام کی ذاتی خوبیوں کے معترف نہیں ہیں اور ان کی کارروائی درندوں کی کارروائی سے مشابہ ہے.“ 66 (ترياق القلوب روحانی خزائن جلد ١٥ – حاشیه صفحه ١٦٧) پس آج ہر احمدی کا یہ فرض بنتا ہے کہ اسلام کی جو تصویر، جو تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے کھینچی ہے اور دی ہے اس کو لے کر اسلام کے امن اور آشتی صلح اور صفائی کے پیغام کو ہر جگہ
$2003 137 خطبات مسرور پہنچادیں اور دنیا میں یہ منادی کریں کہ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ اپنی حسین تعلیم سے دنیا میں پھیلا ہے.اور اپنوں کو جو آنحضرت ﷺ کی طرف اپنے آپ کو منسوب کر رہے ہیں، یہ پیغام دیں کہ تم کس غلط راستے پر چل رہے ہو.ان کو سمجھا ئیں، ان کے لئے دعائیں کریں کیونکہ یہ لوگ بھی انهُمْ لَا يَعْلَمُون کے زمرے میں ہیں.دنیا کو باور کرانے کی ضرورت ہے کہ اسلام کی ترقی آپ ﷺ کے زمانے میں بھی اس فانی فی اللہ کی دعاؤں کا نتیجہ تھی اور اس زمانہ میں بھی انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے عاشق صادق اور غلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں اور اسلام کے صحیح تصور کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی نتیجہ میں ہوگی.انشاء اللہ
$2003 138 خطبات مس
خطبات مس $2003 139 10 آئندہ زمانے میں مبلغین کی بہت بڑی تعداد کی ضرورت ہے ۲۷ / جون ۲۰۰۳ء مطابق ۲۷ /احسان ۱۳۸۲ هجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن (برطانیہ) واقفین ٹو بچوں کی تربیت کے متعلق متفرق ہدایات غلط تصور جہاد اور اس کے بھیانک نقصانات بچوں کو وقف کرنے کی بابرکت تحریک اور اس کے نیک ثمرات...جماعت احمدیہ کا علمی اور قلمی جہاد وہ ہی لوگ کامیاب ہوں گے جن میں خلافت اور نظام قائم ہے واقعین نو کی تربیت اور پرورش کے لئے اہم امور مثلا وفا، پنج وقتہ نماز کی ادائیگی کھانے کے آداب، سچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت، قناعت، شگفتہ مزاجی، بلندی کردار والدین اپنی تربیت بھی کریں نظام کا احترام سکھائیں زندگی وقف کرنا فی زمانہ اس سے بڑی کوئی اور چیز نہیں ید مبلغین کی ضرورت اور واقفین نو بچوں کے والدین کی ذمہ داری
خطبات مس $2003 140 تشھد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل آیت تلاوت فرمائی إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوْحًا وَّالَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَلَمِيْنَ.ذُرِّيَّةٌ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضِ.وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَنَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنّى إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.(سورة آل عمران (٣٥٣٤) گزشتہ خطبہ میں میں نے اسلام کی طرف ایک غلط قسم کے جہاد کے تصور کو منسوب کرنے کا ذکر کیا تھا جس نے اسلام کی بہت ہی پیاری محبت سے بھری ہوئی حسین تعلیم کو بعض مفاد پرستوں کے ذاتی مفاد نے انتہائی خوفناک اور بھیانک شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے.اور پھر ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ اگر کوئی ان کی اصلاح کی کوشش کرے تو کہتے ہیں کہ یہ اسلام دشمن ہیں اور فلاں کے ایجنٹ ہیں اور فلاں کے ایجنٹ ہیں.ان عقل کے اندھوں کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ اس عمل سے اسلام کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ نئی نسل کو بھی برباد کر رہے ہیں.ماؤں کی گودوں سے ان کے بچے چھین رہے ہیں، بہنوں سے ان کے بھائی جدا کر رہے ہیں اور باپوں سے ان کے بڑھاپے کے سہارے جدا کر کے ان کو دَردر کی ٹھوکریں کھلانے کا باعث بن رہے ہیں.کیونکہ چھوٹی عمر کے بچوں اور کم عمر کے نو جوانوں کو پہلے یہ دینی تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں، مدرسوں میں داخل کرتے ہیں.پھر اللہ کی رضا اور ہمیشہ کی جنتوں کا وارث ہونے کا لالچ دے کر مکمل طور پر برین واش (Brain Wash) کر کے اپنے مقاصد میں استعمال کیا جاتا ہے ان بچوں کو.اور جتنے اس قسم کے لیڈر ہیں کبھی نہیں دیکھیں گے کہ اپنے بچوں کو ایسے کاموں کے لئے بھیجیں.کچھ خوف خدا نہیں.
$2003 141 خطبات مسرور لیکن اس کے مقابل پر ایک اور قسم کا گروہ ہے جو اسلام کی حقیقی اور حسین تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے.جو آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اس زمانہ میں مسیح موعود کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ: اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال قتال اور تلوار کے جہاد کو حرام قرار دے کر کہتا ہے کہ اس سے بڑے جہاد کی طرف آؤ اور اسلام کے محاسن کو دنیا پر ظاہر کرو.قرآن کریم کے دلائل دنیا کے سامنے پیش کرو.دلائل سے دنیا کا منہ بند کرو.محبت سے اور دلائل سے دنیا کے دل جیتو.اور یہ صرف منہ کی باتیں نہیں ہیں بلکہ دنیا پر ثابت کر دیا ہے کہ اس وقت اسلام کی بقا اور ترقی اسی مسیح محمدی کے ساتھ وابستہ ہے جس نے دلائل سے لوگوں کے دل جیت کر اپنے زیرنگین کیا اور یہ اعلان کیا کہ ’سیف کا کام قلم سے ہے دکھایا ہم نے“ پس آج اس مسیح موعود کو ماننے والی ماؤں اور باپوں نے خلیفہ وقت کی تحریک پر انبیاء اور ابرار کی سنت پر عمل کرتے ہوئے مسیح موعود کی فوج میں داخل کرنے کے لئے اپنے بچوں کو پیدائش سے پہلے پیش کیا اور کرتے چلے جا رہے ہیں.اس بارہ میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع فرماتے ہیں کہ جیسے حضرت مریم کی والدہ نے یہ التجا کی خدا سے رَبِّ إِنِّی نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّى إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.کہ اے میرے رب جو کچھ بھی میرے پیٹ میں ہے میں تیرے لئے پیش کر رہی ہوں.مجھے نہیں پتہ کیا چیز ہے.لڑکی ہے کہ لڑکا ہے.اچھا ہے یا برا ہے.مگر جو کچھ ہے میں تمہیں دے رہی ہوں.فَتَقَبَّلْ مِنی مجھ سے قبول فرما.(إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ تو بہت ہی سننے والا اور جاننے والا ہے.یہ دعا خدا تعالیٰ کو ایسی پسند آئی کہ اسے قرآن کریم میں آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کر لیا.اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اپنی اولاد کے متعلق اور دوسرے انبیاء کی دعائیں اپنی اولاد کے متعلق ، یہ ساری قرآن کریم میں
$2003 142 خطبات مسرور محفوظ ہیں.بعض جگہ آپ کو ظاہر طور پر وقف کا مضمون نظر آئے گا اور بعض جگہ نہیں آئے گا جیسا کہ یہاں آیا محررا کہ اے خدا! میں تیری پناہ میں اس بچے کو وقف کرتی ہوں.لیکن بسا اوقات آپ کو یہ دعا نظر آئے گی کہ اے خدا! جو نعمت تو نے مجھے دی ہے، وہ میری اولا د کو بھی دے اور ان میں بھی انعام جاری فرما.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو چلہ کشی کی تھی وہ بھی اسی مضمون کے تحت آتی ہے.آپ چالیس دن یہ گریہ وزاری کرتے رہے دن رات کہ اے خدا! مجھے اولاد دے اور وہ دے جو تیری غلام ہو جائے ، میری طرف سے ایک تحفہ ہو تیرے حضور، تو یہ ہے سنت انبیاء،سنت ابرار.اور اس زمانہ میں اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے یہ ہے احمدی ماؤں اور باپوں کا عمل، خوبصورت عمل، جو اپنے بچوں کو قربان کرنے کے لئے پیش کر رہے ہیں.جہاد میں حصہ لے رہے ہیں لیکن علمی اور قلمی جہاد میں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی فوج میں داخل ہو کر.اور انشاء اللہ تعالیٰ یہی لوگ فتح یاب ہوں گے جن میں خلافت اور نظام قائم ہے اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا طریق کامیاب ہونے والا نہیں.جس طرح دکھاوے کی نمازوں میں ہلاکت ہے اسی طرح اس دکھاوے کے جہاد میں بھی سوائے ہلاکت کے اور کچھ نہیں ملے گا.لیکن جن ماؤں اور جن باپوں نے قربانی سے سرشار ہو کر، اس جذبہ سے سرشار ہو کر ، اپنے بچوں کو خدمت اسلام کے لئے پیش کیا ہے ان پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں کیونکہ کچھ عرصہ بھی اگر توجہ نہ دلائی جائے تو بعض دفعہ والدین اپنی ذمہ داریوں کو بھول جاتے ہیں اس لئے گو کہ شعبہ وقف کو توجہ دلاتا رہتا ہے لیکن پھر بھی میں نے محسوس کیا کہ کچھ اس بارہ میں عرض کیا جائے.اس ضمن میں ایک اہم بات جو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ علیہ کے الفاظ میں میں پیش کرتا ہوں.فرمایا: اگر ہم ان واقفین نو کی پرورش اور تربیت سے غافل رہے تو خدا کے حضور مجرم ٹھہریں گے.اور پھر ہرگز یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اتفاقاً یہ واقعات ہو گئے ہیں اس لئے والدین کو چاہئے کہ ان بچوں کے اوپر سب سے پہلے خود گہری نظر رکھیں اور اگر خدانخواستہ وہ سمجھتے ہوں کہ بچہ اپنی افتاد طبع کے لحاظ سے وقف کا اہل نہیں ہے تو ان کو دیانتداری اور تقویٰ کے ساتھ جماعت کو مطلع کرنا چاہئے کہ میں
143 $2003 (خطبه جمعه ۰۱ / فروری ۹۸۹۱ء) خطبات مسرور نے تو اپنی صاف نیت سے خدا کے حضور ایک تحفہ پیش کرنا چاہا تھا مگر بدقسمتی سے اس بچے میں یہ یہ باتیں ہیں اگر ان کے باوجود جماعت اس کے لینے کے لئے تیار ہے تو میں حاضر ہوں ورنہ اس وقف کو منسوخ کر دیا جائے.والدین نے تو اپنے بچوں کو قربانی کے لئے پیش کر دیا.جماعت نے ان کی صحیح تربیت اور اٹھان کے لئے پروگرام بھی بنائے ہیں لیکن بچہ نظام جماعت کی تربیت میں تو ہفتہ میں چند گھنٹے ہی رہتا ہے.ان چند گھنٹوں میں اس کی تربیت کا حق ادا تو نہیں ہوسکتا اس لئے یہ بہر حال ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ اس کی تربیت پر توجہ دیں.اور اس کے ساتھ پیدائش سے پہلے جس خلوص اور دعا کے ساتھ بچے کو پیش کیا تھا اس دعا کا سلسلہ مستقلاً جاری رکھیں یہاں تک کہ بچہ ایک مفید وجود بن کر نظام جماعت میں سمویا جائے.بلکہ اس کے بعد بھی زندگی کی آخری سانس تک ان کے لئے دعا کرتے رہنا چاہئے کیونکہ بگڑتے پتہ نہیں لگتا اس لئے ہمیشہ انجام بخیر کی اور اس وقف کو آخر تک نبھانے کی طرف والدین کو بھی دعا کرتے رہنا چاہئے.چند باتیں جو تربیت کے لئے ضروری ہیں اب میں آگے واقفین نو بچوں کی تربیت کے لئے جو والدین کو کرنا چاہئے اور یہ ضروری ہے پیش کرتا ہوں.اس میں سب سے اہم بات وفا کا معاملہ ہے جس کے بغیر کوئی قربانی ، قربانی نہیں کہلا سکتی.اس بارہ میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے الفاظ میں چند باتیں کہوں گا.آپ نے والدین کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ: واقفین بچوں کو وفا سکھائیں.وقف زندگی کا وفا سے بہت گہرا تعلق ہے.وہ واقف زندگی جو وفا کے ساتھ آخری سانس تک اپنے وقف کے ساتھ نہیں چمٹتا، وہ الگ ہوتا ہے تو خواہ جماعت اس کو سزا دے یا نہ دے وہ اپنی روح پر غداری کا داغ لگا لیتا ہے اور یہ بہت بڑا داغ ہے.اس لئے آپ نے جو فیصلہ کیا ہے اپنے بچوں کو وقف کرنے کا، یہ بہت بڑا فیصلہ ہے.اس فیصلے کے نتیجہ میں یا تو یہ بچے عظیم اولیاء بنیں گے یا پھر عام حال سے بھی جاتے رہیں گے اور ان کو شدید نقصان پہنچنے کا احتمال ہے.جتنی بلندی ہو، اتنی ہی بلندی سے گرنے کا خطرہ بھی بڑھ جایا کرتا ہے.اس لئے
$2003 144 خطبات مسرور بہت احتیاط سے ان کی تربیت کریں اور ان کو وفا کا سبق دیں اور بار بار دیں.اپنے بچوں کو سطحی چالا کیوں سے بھی بچائیں.بعض بچے شوخیاں کرتے ہیں اور چالاکیاں کرتے ہیں اور ان کو عادت پڑ جاتی ہے.وہ دین میں بھی پھر ایسی شوخیوں اور چالا کیوں سے کام لیتے رہتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں بعض دفعہ ان شوخیوں کی تیزی خود ان کے نفس کو ہلاک کر دیتی ہے.اس لئے وقف کا معاملہ بہت اہم ہے.واقفین بچوں کہ یہ سمجھائیں کہ خدا کے ساتھ ایک عہد ہے جو ہم نے تو بڑے خلوص کے ساتھ کیا ہے لیکن اگر تم اس بات کے متحمل نہیں ہو تو تمہیں اجازت ہے کہ تم واپس چلے جاؤ.ایک گیٹ (Gate) اور بھی آئے گا.جب یہ بچے بلوغت کے قریب پہنچ رہے ہوں گے، اس وقت دوبارہ جماعت ان سے پوچھے گی کہ وقف میں رہنا چاہتے ہو یا نہیں چاہتے؟.وقف وہی ہے جس پر آدمی وفا کے ساتھ تا دم آخر قائم رہتا ہے.ہر قسم کے زخموں کے باوجود انسان گھٹتا ہوا بھی اسی راہ پر بڑھتا ہے، واپس نہیں مڑا کرتا“.(خطبه جمعه ارشاد فرموده ۱۰ / فروی ۱۹۸۹ء) اس کے علاوہ ایک اور اہم بات اور یہ بھی میرے نزدیک انتہائی اہم باتوں میں سے ایک ہے بلکہ سب سے اہم بات ہے کہ بچوں کو پانچ وقت نمازوں کی عادت ڈالیں.کیونکہ جس دین میں عبادت نہیں وہ دین نہیں.اس کی عادت بھی بچوں کو ڈالنی چاہئے اور اس کے لئے سب سے بڑا والدین کا اپنا نمونہ ہے.اگر خود وہ نمازی ہوں گے تو بچے بھی نمازی بنیں گے.نہیں تو صرف ان کی کھو کھی نصیحتوں کا بچوں پر کوئی اثر نہیں ہوگا.حضرت خلیفۃ امسیح الرابع فرماتے ہیں کہ : ” بچپن سے تربیت کی ضرورت پڑتی ہے، اچانک بچوں میں یہ عادت نہیں پڑا کرتی.اس کا طریقہ آنحضرت ﷺ نے یہ سمجھایا ہے کہ سات سال کی عمر سے اس کو ساتھ نماز پڑھانا شروع کریں اور پیار سے ایسا کریں.کوئی سختی کرنے کی ضرورت نہیں، کوئی مارنے کی ضرورت نہیں محبت اور پیار سے اس کو پڑھاؤ ،اس کو عادت پڑ جاتی ہے.دراصل جو ماں باپ نمازیں پڑھنے والے ہوں ان کے سات سال سے چھوٹی عمر کے بچے بھی نماز پڑھنے لگ جاتے ہیں.ہم نے تو گھروں میں دیکھا ہے اپنے نواسوں وغیرہ کو بالکل چھوٹی عمر کے ڈیڑھ ڈیڑھ، دو دو سال کی عمر کے ساتھ آکے تو نیت کر لیتے ہیں اور نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے
$2003 145 خطبات مسرور ہیں اس لئے کہ ان کو اچھا لگتا ہے دیکھنے میں، خدا کے حضور اٹھنا ، بیٹھنا، جھکنا ان کو پیارا لگتا ہے اور وہ ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں.مگر وہ نماز نہیں، محض ایک نقل ہے جو اچھی نقل ہے.لیکن جب سات سال کی عمر تک بچہ پہنچ جائے تو پھر اس کو با قاعدہ نماز کی تربیت دو.اس کو بتاؤ کہ وضوکرنا ہے،اس طرح کھڑے ہونا ہے، قیام و قعود، سجدہ وغیرہ سب اس کو سمجھاؤ.اس کے بعد وہ بچہ اگر دس سال کی عمر تک، پیار و محبت سے سیکھتا رہے، پھر دس اور بارہ کے درمیان اس پر کچھ پختی بے شک کرو.کیونکہ وہ کھلنڈری عمر ایسی ہے کہ اس میں کچھ معمولی سزا ، کچھ سخت الفاظ کہنا یہ ضروری ہوا کرتا ہے بچوں کی تربیت کے لئے.تو جب وہ بلوغ کو پہنچ جائے ، بارہ سال کی عمر کو پہنچ جائے پھر اس پر کوئی سختی کی اجازت نہیں.پھر اس کا معاملہ اور اللہ کا معاملہ ہے اور جیسا چاہے وہ اس کے ساتھ سلوک فرمائے.توا نسانی تربیت کا دائرہ یہ سات سال سے لے کر بلکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے پہلے سے بھی شروع ہو جاتا ہے، بارہ سال کی یعنی بلوغت کی عمر تک پھیلا ہوا ہے.اس کے بعد بھی تربیت تو جاری رہتی ہے مگر وہ اور رنگ ہے.انسان اپنی اولاد کا ذمہ دار بارہ سال کی یعنی بلوغت کی عمر تک ہے.بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو کہنے میں چھوٹی ہیں لیکن اخلاق سنوار نے کے لحاظ سے انتہائی ضروری ہیں مثلاً کھانا کھانے کے آداب ہیں یہ ضرور سکھانا چاہئے.اب یہ ایسی بات ہے جو گھر میں صرف ماں باپ ہی کر سکتے ہیں یا ایسے سکول اور کالجز جہاں ہوٹل ہوں اور بڑی کڑی نگرانی ہو وہاں یہ آداب بچوں کو سکھائے جاتے ہیں لیکن عموماً ایک بہت بڑی تیسری دنیا کے سکولوں کی تعداد ایسی ہے جہاں ان باتوں پر اس طرح عمل نہیں ہوتا اس لئے بہر حال یہ ماں باپ کا ہی فرض بنتا ہے.لیکن یہاں میں ضمناً یہ ذکر کرنا چاہوں گا.ربوہ کی ایک مثال ہے مدرستہ الحفظ کی جہاں پانچویں کلاس پاس کرنے کے بعد بچے داخل ہوتے ہیں.مختلف گھروں سے مختلف خاندانوں سے مختلف ماحول سے، دیہاتوں سے ، شہروں سے بچے آتے ہیں لیکن وہاں میں نے دیکھا ہے کہ ان کی تربیت ماشاءا للہ ایسی اچھی ہے اور ان کی ایسی اعلیٰ نگرانی ہوتی ہے اور ان کو ایسے اچھے اخلاق سکھائے گئے ہیں حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ.اتنے سلجھے ہوئے طریق سے بچے کھانا کھاتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے.باوجود مختلف قسم کے بچوں کے ماحول ہے کہ مثلاً یہی ہے کہ بسم اللہ پڑھ کے کھائیں، اپنے
$2003 146 خطبات مسرور سامنے سے کھائیں، ڈش میں سے سالن اگر اپنی پلیٹ میں ڈالنا ہے تو اتنی مقدار میں ڈالیں جو کھایا جائے.دوبارہ ضرورت ہو تو دوبارہ ڈال دیا جائے.دائیں ہاتھ سے کھانا کھانا ہے، کھانا ختم کرنے کے بعد کی دعا.تو یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں تو بہر حال بچپن سے ہی وقف نو بچوں کو تو خصوصاً اور عموماً ہر ایک کو سکھانی چاہئیں.تو بہر حال یہ جو مدرستہ الحفظ کی میں نے مثال دی ہے اللہ کرے کہ یہ سلسلہ جو انہوں نے تربیت کا شروع کیا ہے جاری رہے اور والدین بھی اپنے بچوں کی اسی نہج پر تربیت کریں.پھر یہ ہے کہ بعض بچوں کو بچپن میں عادت ہوتی ہے اور یہ ایسی چھوٹی سی بات ہے کہ بعض دفعہ والدین اس پر نظر ہی نہیں رکھتے کہ کھانا کھانے کے بعد گندے ہاتھوں کے ساتھ بچے مختلف چیزوں پر ہاتھ لگا دیتے ہیں اسے بھی ہلکے سے پیار سے سمجھا ئیں.تو یہ ایسی عادتیں ہیں جو بچپن میں ختم کی جاسکتی ہیں اور بڑے ہو کر یہ اعلیٰ اخلاق میں شمار ہو جاتی ہیں.حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بچوں میں اخلاق حسنہ کی آبیاری کی اہمیت کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ : ہر وقف زندگی بچہ جو وقف نو میں شامل ہے بچپن سے ہی اس کو سچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت ہونی چاہئے.اور یہ نفرت اس کو گویا ماں کے دودھ سے ملنی چاہئے.جس طرح ریڈی ایشن کسی چیز کے اندر سرایت کرتی ہے، اس طرح پرورش کرنے والی باپ کی بانہوں میں سچائی اس بچے کے دل میں ڈوبنی چاہئے.اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین کو پہلے سے بہت بڑھ کر سچا ہونا پڑے گا.واقفین نو بچوں کے والدین کو یہ نوٹ کرنے والی بات ہے کہ والدین کو پہلے سے بڑھ کر سچا ہونا پڑے گا.ضروری نہیں کہ سب واقفین زندگی کے والدین سچائی کے اس اعلیٰ معیار پر قائم ہوں جو اعلیٰ درجہ کے مومنوں کے لئے ضروری ہے.اس لئے اب ان بچوں کی خاطر ان کو اپنی تربیت کی طرف بھی توجہ کرنی ہوگی.اور پہلے سے کہیں زیادہ احتیاط کے ساتھ گھر میں گفتگو کا انداز اپنانا ہوگا اور احتیاط کرنی ہوگی کہ لغو باتوں کے طور پر ، مذاق کے طور پر بھی وہ آئندہ جھوٹ نہیں بولیں گے.کیونکہ یہ خدا کی مقدس امانت اب آپ کے گھر میں پل رہی ہے اور اس مقدس امانت کے کچھ تقاضے ہیں جن کو بہر حال آپ نے پورا کرنا ہے.اس لئے ایسے گھروں کے ماحول،سچائی کے لحاظ سے نہایت
$2003 147 خطبات مسرور صاف ستھرے اور پاکیزہ ہو جانے چاہئیں.پھر آپ فرماتے ہیں کہ: قناعت کے متعلق میں نے کہا تھا اس کا واقفین سے بڑا گہرا تعلق ہے.بچپن ہی سے ان بچوں کو قانع بنانا چاہئے اور حرص و ہوا سے بے رغبتی پیدا کرنی چاہئے.عقل اور فہم کے ساتھ اگر والدین شروع سے تربیت کریں تو ایسا ہونا کوئی مشکل کام نہیں ہے.غرض دیانت اور امانت کے اعلیٰ مقام تک ان بچوں کو پہنچانا ضروری ہے.علاوہ ازیں بچپن سے ایسے بچوں کے مزاج میں شگفتگی پیدا کرنی چاہئے.ترش روئی وقف کے ساتھ پہلو بہ پہلو نہیں چل سکتی.ترش رو واقفین زندگی ہمیشہ جماعت میں مسائل پیدا کیا کرتے ہیں اور بعض دفعہ خطرناک فتنے بھی پیدا کر دیا کرتے ہیں.اس لئے خوش مزاجی اور اس کے ساتھ تمل یعنی کسی کی بات کو برداشت کرنا یہ دونوں صفات واقفین بچوں میں بہت ضروری ہیں.اس کے علاوہ واقفین بچوں میں سخت جانی کی عادت ڈالنا، نظام جماعت کی اطاعت کی بچپن سے عادت ڈالنا، اطفال الاحمدیہ سے وابستہ کرنا، ناصرات سے وابستہ کرنا ، خدام الاحمدیہ سے وابستہ کرنا بھی بہت ضروری ہے.(اقتباسات از خطبه جمعه فرموده حضرت خليفة المسيح الرابع رحمه الله مورخه ۱۰/ جنوری ۱۹۸۹ء) اب یہ ایسی چیزیں ہیں بعض واقفین نو بچے سمجھتے ہیں کہ صرف ہماری علیحدہ کوئی تنظیم ہے جو جماعت کی باقاعدہ ذیلی تنظیمیں ہیں ان کا حصہ ہیں واقفین نو بچے بھی.پھر بچپن سے ہی کردار بنانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور رحمہ اللہ فرماتے ہیں.میں اس لئے حوالے حضور کے بھی ساتھ دے رہا ہوں کہ یہ تحریک ایک بہت بڑی تحریک تھی جو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے جاری فرمائی.اور اس کے فوائد تو اب سامنے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں اور آئندہ زمانوں میں انشاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ کس کثرت سے اور بڑے پیمانہ پر اس کے فوائد نظر آئیں گے.انشاء اللہ.فرمایا کہ بچپن میں کردار بنائے جاتے ہیں.دراصل اگر تاخیر ہو جائے تو بہت محنت کرنی پڑتی ہے.محاورہ ہے کہ گرم لوہا ہو تو اس کو موڑ لینا چاہئے.لیکن یہ بچپن کا لوہا ہے کہ خدا تعالیٰ ایک لمبے عرصہ تک نرم ہی رکھتا ہے اور اس نرمی کی حالت میں اس پر جو نقوش آپ قائم کر دیتے ہیں وہ دائمی ہو
$2003 148 خطبات مسرور جایا کرتے ہیں.اس لئے وقت ہے تربیت کا اور تربیت کے مضمون میں یہ بات یا درکھیں کہ ماں باپ جتنی چاہیں زبانی تربیت کریں اگر ان کا کردار ان کے قول کے مطابق نہیں تو بچے کمزوری کو لے لیں گے اور مضبوط پہلو کو چھوڑ دیں گے.یہاں پھر والدین کے لئے لمحہ فکریہ ہے یہ دو نسلوں کے رابطے کے وقت ایک ایسا اصول ہے جس کو بھلانے کے نتیجہ میں تو میں بھی ہلاک ہو سکتی ہیں اور یادرکھنے کے نتیجہ میں ترقی بھی کر سکتی ہیں.ایک نسل اگلی نسل پر جو اثر چھوڑا کرتی ہے اس میں عموماً یہ اصول کار فرما ہوتا ہے کہ بچے ماں باپ کی کمزوریوں کو پکڑنے میں تیزی کرتے ہیں اور ان کی باتوں کی طرف کم توجہ کرتے ہیں.اگر باتیں عظیم کردار کی ہوں اور بیچ میں سے کمزوری ہو تو بچہ بیچ کی کمزوری کو پکڑے گا.اس لئے یا درکھیں کہ بچوں کی تربیت کے لئے آپ کو اپنی تربیت ضروری کرنی ہوگی.ان بچوں کو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بچو تم سچ بولا کر وہ تم نے مبلغ بننا ہے.تم بددیانتی نہ کیا کرو تم نے مبلغ بننا ہے.تم غیبت نہ کیا کرو تم لڑا نہ کرو تم جھگڑا نہ کیا کرو کیونکہ تم وقف ہو اور یہ باتیں کرنے کے بعد فرمایا کہ پھر ماں باپ ایسا لڑیں، جھگڑیں، پھر ایسی مغلظات بکیں ایک دوسرے کے خلاف ، ایسی بے عزتیاں کریں کہ وہ کہیں کہ بچے کو تو ہم نے نصیحت کر دی اب ہم اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں، یہ نہیں ہو سکتا.جو اُن کی اپنی زندگی ہے وہی بچے کی زندگی ہے.جو فرضی زندگی انہوں نے بنائی ہوئی ہے کہ یہ کرو، بچے کو کوڑی کی بھی اس کی پروا نہیں.ایسے ماں باپ جو جھوٹ بولتے ہیں وہ لاکھ بچوں کو کہیں کہ جب تم جھوٹ بولتے ہو تو بڑی تکلیف ہوتی ہے، تم خدا کے لئے سچ بولا کرو، سچائی میں زندگی ہے.بچہ کہتا ہے ٹھیک ہے یہ بات لیکن اندر سے وہ سمجھتا ہے کہ ماں باپ جھوٹے ہیں اور وہ ضرور جھوٹ بولتا ہے.اس لئے دو نسلوں کے جوڑ کے وقت یہ اصول کارفرما ہوتا ہے اور اس کو نظر انداز کرنے کے نتیجہ میں آپس میں خلا پیدا ہو جاتے ہیں.(اقتباسات از خطبه جمعه فرموده حضرت خليفة المسيح الرابع رحمه الله مورخه ۸ /ستمبر ۱۹۸۹ تو واقفین کو بچوں کے والدین کو اس سے اپنی اہمیت کا اندازہ بھی ہو گیا ہوگا کہ اپنی تربیت کی طرف کس طرح تربیت دینی چاہئے.پھر جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے حضور کے الفاظ میں.اپنے گھر کے ماحول کو ایسا پر سکون اور ء)
$2003 149 خطبات مسرور محبت بھرا بنا ئیں کہ بچے فارغ وقت میں گھر سے باہر گزارنے کی بجائے ماں باپ کی صحبت میں گزارنا پسند کریں.ایک دوستانہ ماحول ہو.بچے کھل کر ماں باپ سے سوال بھی کریں اور ادب کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہر قسم کی باتیں کرسکیں.اس لئے ماں باپ دونوں کو بہر حال قربانی دینی پڑے گی.جو عہد اپنے رب سے والدین نے باندھا ہے اس عہد کو پورا کرنے کے لئے بہر حال والدین نے بھی قربانی دینی ہے.اور یہ آپ پہلے بھی سن چکے ہیں اور حضور نے یہی نصیحت فرمائی ہے والدین کو بھی ہمیں بھی یہی کہتا ہوں.بعض دفعہ بعض والدین اپنے حقوق تو چھوڑتے نہیں بلکہ ناجائز غصب کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن زور یہ ہوتا ہے کہ چونکہ ہمارے بچے وقف نو میں ہیں اس لئے ہم نے اگر کوئی غلطی کر بھی لی ہے تو ہم سے نرمی کا سلوک کیا جائے.یہ تو نہیں ہوسکتا.پھر یہ بات واضح کروں کہ کسی بھی قسم کی برائی دل میں تب راہ پاتی ہے جب اس کے اچھے یا برے ہونے کی تمیز اُٹھ جائے.بعض دفعہ ظاہر اہر قسم کی نیکی ایک شخص کر رہا ہوتا ہے.نمازیں بھی پڑھ رہا ہے، مسجد جارہا ہے ، لوگوں سے اخلاق سے بھی پیش آرہا ہے لیکن نظام جماعت کے کسی فرد سے کسی وجہ سے ہلکا سا شکوہ بھی پیدا ہو جائے یا اپنی مرضی کا کوئی فیصلہ نہ ہوتو پہلے تو اس عہد یدار کے خلاف دل میں ایک رنجش پیدا ہوتی ہے.پھر نظام کے بارہ میں کہیں ہلکا سا کوئی فقرہ کہہ دیا، اس عہد یدار کی وجہ سے.پھر گھر میں بچوں کے سامنے بیوی سے یا کسی اور عزیز سے کوئی بات کر لی تو اس طرح اس ماحول میں بچوں کے ذہنوں سے بھی نظام کا احترام الجھ جاتا ہے.اس احترام کو قائم کرنے کے لئے بہر حال بہت احتیاط کی ضرورت ہے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے الفاظ میں یہ نصیحت آپ تک پہنچاتا ہوں.بہت ضروری ہے کہ ( واقفین نو کو ) نظام کا احترام سکھایا جائے.پھر اپنے گھروں میں کبھی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جس سے نظام جماعت کی تخفیف ہوتی ہو یا کسی عہدیدار کے خلاف شکوہ ہو.وہ شکوہ اگر سچا بھی ہے پھر بھی اگر آپ نے اپنے گھر میں کیا تو آپ کے بچے ہمیشہ کے لئے اس سے زخمی ہو جائیں گے.آپ تو شکوہ کرنے کے باوجود اپنے ایمان کی حفاظت کر سکتے ہیں لیکن آپ کے بچے زیادہ گہرا زخم محسوس کریں گے.یہ ایسا زخم ہوا کرتا ہے کہ جس کو لگتا ہے اس کو کم لگتا ہے،
150 $2003 (خطبه جمعه فرموده ۱۰ / فروری ۱۹۸۹ء) خطبات مسرور جو قریب کا دیکھنے والا ہے اُس کو زیادہ لگتا ہے.اس لئے اکثر وہ لوگ جو نظام جماعت پر تبصرے کرنے میں بے احتیاطی کرتے ہیں، ان کی اولادوں کو کم و بیش ضرور نقصان پہنچتا ہے.اور بعض ہمیشہ کے لئے ضائع ہو جاتی ہیں.واقفین بچوں کو سمجھانا چاہئے کہ اگر تمہیں کسی سے کوئی شکایت ہے خواہ تمہاری تو قعات اس کے متعلق کتنی ہی عظیم کیوں نہ ہوں، اس کے نتیجے میں تمہیں اپنے نفس کو ضائع نہیں کرنا چاہئے.ان کو سمجھائیں کہ اصل محبت تو خدا اور اس کے دین سے ہے.کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جس سے خدائی جماعت کو نقصان پہنچتا ہو.آپ کو اگر کسی کی ذات سے تکلیف پہنچی ہے یا نقصان پہنچا ہے تو اس کا ہرگز یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ آپ کو حق ہے کہ اپنے ماحول، اپنے دوستوں، اپنے بچوں اور اپنی اولاد کے ایمانوں کو بھی آپ زخمی کرنا شروع کر دیں.اپنے زخم حو صلے کے ساتھ اپنے تک رکھیں اور اس کے اندمال کے جو ذرائع با قاعدہ خدا تعالیٰ نے مہیا فرمائے ہیں ان کو اختیار کریں.پھر ایک عام بات ہے جس کی طرف والدین کو توجہ دینی ہوگی.وہ ہے اپنے بچوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کریں، انہیں متقی بنا ئیں.اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک والدین خود متقی نہ ہوں.یا متقی بنے کی کوشش نہ کریں.کیونکہ جب تک عمل نہیں کریں گے منہ کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا.اگر بچہ دیکھ رہا ہے کہ میرے ماں باپ اپنے ہمسایوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے،اپنے بہن بھائیوں کے حقوق غصب کر رہے ہیں.ذرا ذراسی بات پر میاں بیوی میں ، ماں باپ میں ناچاقی اور جھگڑے شروع ہو رہے ہیں.تو پھر بچوں کی تربیت اور ان میں تقویٰ پیدا کرنا بہت مشکل ہو جائے گا.اس لئے بچوں کی تربیت کی خاطر ہمیں بھی اپنی اصلاح کی بہت ضرورت ہے.بچوں میں تقویٰ کس طرح پیدا کیا جائے.اس سلسلہ میں حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں.واقفین نو بچوں کو بچپن ہی سے متقی بنا ئیں اور ان کے ماحول کو پاک اور صاف رکھیں.ان کے ساتھ ایسی حرکتیں نہ کریں جن کی وجہ سے ان کے دل دین سے ہٹ کر دنیا کی طرف مائل ہونے لگ جائیں.پوری توجہ ان پر اس طرح دیں جس طرح ایک بہت ہی عزیز چیز کو ایک بہت ہی عظیم مقصد کے لئے تیار کیا جارہا ہو اور اس طرح ان کے دل میں تقویٰ بھر جائیں پھر یہ آپ کی ہاتھ
151 $2003 خطبات مسرور میں کھیلنے کے بجائے خدا کے ہاتھ میں کھیلنے لگیں اور جس طرح ایک چیز دوسرے کے سپرد کر دی جاتی ہے تقویٰ ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعہ آپ یہ بچے شروع ہی سے خدا کے سپر د کر سکتے ہیں اور درمیان کے سارے واسطے، سارے مراحل ہٹ جائیں گے.رسمی طور پر تحریک جدید سے بھی واسطہ رہے گا یعنی وکالت وقف نو سے.اور نظام جماعت سے بھی واسطہ رہے گا.مگر فی الحقیقت بچپن ہی سے جو بچے آپ خدا کی گود میں لا ڈالیں خدا ان کو سنبھالتا ہے، خود ہی ان کا انتظام فرماتا ہے، خود ہی ان کی نگہداشت کرتا ہے جس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدا نے نگہداشت فرمائی.آپ لکھتے ہیں: ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے گود میں تیری رہا میں مثلِ طفلِ شیر خوار پس ایک ہی راہ ہے اور صرف ایک راہ ہے کہ ہم اپنے وجود کو اور اپنے واقفین کے وجود کو خدا کے سپر د کر دیں اور خدا کے ہاتھوں میں کھیلنے لگیں“.(خطبه جمعه فرموده یکم دسمبر ۱۹۸۹ء) پھر بچوں میں یہ احساس بھی پیدا کریں کہ تم واقف زندگی ہو اور فی زمانہ اس سے بڑی کوئی اور چیز نہیں.اپنے اندر قناعت پیدا کرو، نیکی کے معاملہ میں ضرور اپنے سے بڑے کو دیکھو اور آگے بڑھنے کی کوشش کرو.لیکن دنیاوی دولت یا کسی کی امارت تمہیں متاثر نہ کرے بلکہ اس معاملہ میں اپنے سے کمتر کو دیکھو اور خوش ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں دین کی خدمت کی توفیق دی ہے.اور اس دولت سے مالا مال کیا ہے.کسی سے کوئی توقع نہ رکھو.ہر چیز اپنے پیارے خدا سے مانگو.ایک بڑی تعداد ایسے واقفین نو بچوں کی ہے جو ما شاء اللہ بلوغت کی عمر کو پہنچ گئے ہیں.ان کو خود بھی اب ان باتوں کی طرف توجہ دینی چاہئے.ضمناًیہ بات بھی کر دوں کہ حضور رحمہ اللہ نے بھی ایک دفعہ اظہار فرمایا تھا کہ واقفین نو بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد جو ہے ان کی تربیت ایسے رنگ میں کرنی چاہئے اور ان کے ذہن میں یہ ڈالنا چاہئے کہ انہیں مبلغ بننا ہے.اور آئندہ زمانے میں جو ضرورت پیش آنی ہے مبلغین کی بہت بڑی تعداد کی ضرورت ہے اس لئے اس نہج پر تربیت کریں کہ بچوں کو پتہ ہو کہ اکثریت ان کی تبلیغ کے میدان
خطبات مسرور 152 میں جانے والی ہے اور اس لحاظ سے ان کی تربیت ہونی چاہئے.$2003 اب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کچھ اقتباسات پڑھتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: ”خدا تعالیٰ کی راہ میں زندگی کا وقف کرنا جو حقیقت اسلام ہے، دو قسم پر ہے.ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کو ہی اپنا معبود اور مقصود اور محبوب ٹھہرایا جاوے اور اس کی عبادت اور محبت اور خوف اور رجا میں کوئی دوسرا شریک باقی نہ رہے اور اس کی تقدیس اور تسبیح اور عبادت اور تمام عبودیت کے آداب اور احکام اور او امر اور حدود اور آسمانی قضاء و قدر کے اُمور بہ دل و جان قبول کئے جائیں.اور نہایت نیستی اور تذلیل سے ان سب حکموں اور حدوں اور قانونوں اور تقدیروں کو با ارادت تامہ سر پر اٹھا لیا جاوے اور نیز وہ تمام پاک صداقتیں اور پاک معارف جو اُس کی وسیع قدرتوں کی معرفت کا ذریعہ اور اس کی ملکوت اور سلطنت کے علو مرتبہ کو معلوم کرنے کے لئے ایک واسطہ اور اس کے آلاء اور نعماء کے پہچاننے کے لئے ایک قومی رہبر ہیں، بخوبی معلوم کر لی جائیں.دوسری قسم اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنے کی یہ ہے کہ اس کے بندوں کی خدمت اور ہمدردی اور چارہ جوئی اور بار برداری اور سچی غمخواری میں اپنی زندگی وقف کر دی جاوے، دوسروں کو آرام پہنچانے کے لئے دکھ اٹھا ویں اور دوسروں کی راحت کے لئے اپنے پر رنج گوارا کرلیں.(آئینه کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه..(٦٠) پھر حضرت اقدس مسیح موعود فرماتے ہیں: ”مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے یعنی اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی کے حاصل کرنے کے لئے وقف کر دیوے.اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لئے قائم ہو جائے.اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اس کی راہ میں لگا دیوے.مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالیٰ کا ہو جاوے.اعتقادی طور پر اس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو در حقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خدا تعالیٰ کی شناخت اور اس کی اطاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے اور عملی طور پر اس طرح سے کہ خالص اللہ حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق اور ہر یک خدا داد توفیق سے وابستہ ہیں بجا لا دے مگر ایسے ذوق وشوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی
خطبات مسرور 153 $2003 فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبود حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے.(آئینه کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ٥٨٥٧ پھر آپ فرماتے ہیں : میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنی جماعت کو وصیت کروں اور یہ بات پہنچا دوں.آئندہ ہر ایک کو اختیار ہے کہ وہ اسے سنے یا نہ سنے کہ اگر کوئی نجات چاہتا ہے اور حیات طیبہ اور ابدی زندگی کا طلب گار ہے تو وہ اللہ کے لئے اپنی زندگی وقف کرے اور ہر ایک اس کوشش اور فکر میں لگ جاوے کہ وہ اس درجہ اور مرتبہ کو حاصل کرے کہ کہہ سکے کہ میری زندگی ، میری موت ، میری قربانیاں، میری نمازیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور حضرت ابراہیم کی طرح اس کی روح بول اٹھے ﴿أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِيْن.جب تک انسان خدا میں کھویا نہیں جاتا ، خدا میں ہو کر نہیں مرتا وہ نئی زندگی نہیں پاسکتا.پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو تم دیکھتے ہو کہ خدا کے لئے زندگی کا وقف میں اپنی زندگی کی اصل اور غرض سمجھتا ہوں.پھر تم اپنے اندر دیکھو کہ تم میں سے کتنے ہیں جو میرے اس فعل کو اپنے لئے پسند کرتے اور خدا کے لئے زندگی وقف کرنے کو عزیز رکھتے ہیں.( الحكم جلد ٤ نمبر ٣١ بتاريخ ٣١/اگست ۱۹۰۰ ء صفحه (٤ پھر آپ نے فرمایا: نہایت امن کی راہ یہی ہے کہ انسان اپنی غرض کو صاف کرے اور خالصتاً رو بخدا ہو.اس کے ساتھ اپنے تعلقات کو صاف کرے اور بڑھائے اور وجہ اللہ کی طرف دوڑے.وہی اس کا مقصود اور محبوب ہو اور تقویٰ پر قدم رکھ کر اعمال صالحہ بجالا وے.پھر سنت اللہ اپنا کام کرے گی.اس کی نظر نتائج پر نہ ہو بلکہ نظر تو اسی ایک نقطہ پر ہو، اس حد تک پہنچنے کے لئے اگر یہ شرط ہو کہ وہاں پہنچ کر سب سے زیادہ سزا ملے گی تب بھی اسی کی طرف جاوے یعنی کوئی ثواب یا عذاب اس کی طرف جانے کا اصل مقصد نہ ہو، محض خدا تعالیٰ ہی اصل مقصد ہو.جب وفاداری اور اخلاص کے ساتھ اس کی طرف آئے گا اور اس کا قرب حاصل ہوگا تو یہ وہ سب کچھ دیکھے گا جو اس کے وہم و گمان میں بھی کبھی نہ گزرا ہوگا اور کشوف اور خواب تو کچھ چیز ہی نہ ہوں گے.پس میں تو اس راہ پر چلانا چاہتا ہوں اور یہی اصل غرض ہے.(الحكم جلد ۱۰ مورخه ۱۰ / دسمبر ١٩٠٦ ء صفحه (٤)
$2003 154 خطبات مس
$2003 155 11 خطبات مس ہمیشہ بچوں کے نیک صالح اور دیندار ہونے کی دعائیں کرتے رہنا چاہئے کیونکہ والدین کی دعائیں بچوں کے حق میں پوری ہوتی ہیں.۴ جولائی ۲۰۰۳ ء مطابق ۴ روف ۱۳۸۲ هجری شمسی به مقام مسجد فضل لندن (برطانیہ) ہمیشہ بچوں کے نیک ، صالح اور دیندار ہونے کی دعائیں کرتے رہنا چاہئے ہی اپنے واسطے بھی اور اپنی اولاد، بیوی بچوں، خویش واقارب اور ہمارے واسطے بھی باعث رحمت بن جاؤ اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی اولا داور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہئے اولاد کے واسطے صرف یہ خواہش ہو کہ وہ دین کی خادم ہو.
خطبات مس $2003 156 تشھد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل آیت تلاوت فرمائی سَمِيْعُ الدُّعَاءِ هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ.قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ (سورة آل عمران (۳۹) یہ آیت جو تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ ہے : اس موقع پر زکریا نے اپنے رب سے دعا کی اے میرے رب ! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ ذریت عطا کر.یقینا تو بہت دعا سننے والا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ :- حضرت مریم علیہا السلام کے منہ سے یہ بات سن کر کہ اللہ سب کچھ دیتا ہے، یہ نعمتیں بھی اللہ نے ہی دی ہیں، حضرت زکریا علیہ السلام کے دل پر چوٹ لگی اور انہوں نے خیال کیا کہ جب واقعہ یہی ہے کہ ہر چیز اللہ دیتا ہے اور ایک بچی بھی یہی کہہ رہی ہے تو میں تو سمجھدار اور تجربہ کار ہوں ،میں کیوں نہ یقین کروں کہ ہر چیز خدا ہی دیتا ہے.چنانچہ هُنالك دَعَا زكريا ربِّه - یہ جواب سن کر حضرت زکریا علیہ السلام کو توجہ ہوئی کہ میں بھی اپنی ضرورت کی چیز خدا تعالیٰ سے مانگوں.میرے گھر میں بھی کوئی بچہ نہیں.اگر مریم کی طرح میرے گھر میں بھی بچہ ہوتا اور میں اس سے پوچھتا کہ یہ چیز تمہیں کس نے دی ہے اور وہ کہتا کہ خدا نے ، تو جس طرح مریم کی بات سن کر میرا دل خوش ہوا ہے، اسی طرح اپنے بچے کی بات سن کر میرا دل خوش ہوتا.پس حضرت مریم علیہا السلام حضرت بیٹی کی پیدائش کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرانے کا ایک محرک ہوگئیں اور اس طرح بالواسطہ طور پر جہاں خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے ماتحت حضرت یحیی علیہ السلام حضرت مسیح کے ارہاص کے طور پر آئے ، وہاں حضرت مریم علیہا السلام جو حضرت مسیح کی والدہ تھیں ، حضرت بیٹی کی پیدائش کے لئے ارباص
157 خطبات مسرور بن گئیں.چنانچہ خدا تعالیٰ نے حضرت زکریا کی دعاسنی اور اُن کے گھر میں بچہ پیدا ہو گیا.“ $2003 (تفسیر کبیر جلد پنجم.صفحه ۱۱۹) حضرت زکریا علیہ السلام کی اس دعا کو قرآن کریم نے سورۃ انبیاء کی آیت ۹۰ میں ہمیشہ کے لئے محفوظ فرما دیا ہے.دعا یہ تھی: وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَى رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَّ أَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ ﴾ اور زکریا ( کا بھی ذکر کر ) جب اُس نے اپنے رب کو پکارا کہ اے میرے رب ! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب وارثوں سے بہتر ہے.آپ کی اس دعا کی قبولیت کا ذکر سورہ مریم کی آیت ۸ میں مذکور ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : يزكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَمٍ اسْمُهُ يَحْيَى لَمْ نَجْعَلْ لَّهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا - یعنی اے زکریا ! یقیناً ہم تجھے ایک عظیم بیٹے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام بیٹی ہوگا.ہم نے اس کا پہلے کوئی ہم نام نہیں بنایا.اور پھر اس دعا کی برکت سے جو بیٹا عطا ہوا، اُس کی خوبیاں سورہ مریم کی تیرھویں آیت سے لے کر سولہویں آیت تک بیان کی گئی ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے: اے بی ! کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لے.اور ہم نے اسے بچپن ہی سے حکمت عطا کی تھی.نیز اپنی جناب سے نرم دلی اور پاکیزگی بخشی تھی اور وہ پر ہیز گار تھا.اور اپنے والدین سے حسن سلوک کرنے والا تھا اور ہر گز سخت گیر ( اور ) نافرمان نہیں تھا.اور سلامتی ہے اس پر جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن وہ مرے گا اور جس دن اُسے دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس ضمن میں فرماتے ہیں :- یہ کیسی لطیف دعا ہے اور کس طرح دعا کے چاروں کونے اس میں پورے کر دئے گئے ہیں.اس دعا کو اگر ہم اپنے الفاظ میں بیان کریں تو اس کی یہ صورت ہوگی کہ : "اے میرے خدا! میرے اندرونی قومی مضمحل ہو گئے ہیں، میرا بیرونی چہرہ مسخ ہو گیا ہے، میں ہمیشہ سے ہی تیرے الطاف خسروانہ کا عادی ہوں.اس لئے مایوسیاں اور نا کا میاں میں نے کبھی دیکھی نہیں.ناز کرنے کی عادت مجھ میں پیدا ہو چکی ہے.رشتہ دار میرے بُرے اور موت کے بعد گڈی سنبھالنے کے منتظر.
$2003 158 خطبات مسرور بیوی میری بیکار.ان سب وجوہ کے ساتھ میں مانگنے آیا ہوں اور کیا مانگنے آیا ہوں.یہ مانگنے آیا ہوں کہ اے میرے خدا! تو مجھے بیٹا دے.ایسا بیٹا دے جو میرا ہم خیال اور دوست ہو، ایسا بیٹا دے جو میرے بعد تک زندہ رہنے والا اور میرے خاندان کو سنبھالنے والا ہو اور ایسا بیٹا دے جو میرے اخلاق اور آل یعقوب کے اخلاق کو پیش کرنے والا ہو، گویا صرف میرے نام کو ہی زندہ نہ کرے بلکہ اپنے دادوں پر دادوں کے نام کو بھی زندہ کر دے اور پھر وہ انسانوں ہی کے لئے باعث خوشی نہ ہو، بلکہ اے میرے رب ! وہ تیرے لئے بھی باعث خوشی ہو.“ (تفسیر کبیر جلد پنجم صفحه (۱۲۵ اب یہ دعا ایسی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو کرنی چاہئے اور ہر ایک کا دل چاہتا ہے کہ کرے اور صالح اولا د ہو اور پھر بچوں کی پیدائش کے وقت بھی اور پیدائش کے بعد بھی ہمیشہ بچوں کے نیک صالح اور دیندار ہونے کی دعائیں کرتے رہنا چاہئے کیونکہ والدین کی دعائیں بچوں کے حق میں پوری ہوتی ہیں.اور یہی ہمیں اللہ تعالیٰ کی تعلیم اور نصیحت ہے.یہاں میں ضمنا ذ کر کر دوں.گوضمناً ہے مگر میرے نزدیک اس کا ایک حصہ ہی ہے کہ اگر والدین کی دعا اپنے بچوں کے لئے اچھے رنگ میں پوری ہوتی ہے تو وہاں ایسے بچے جو والدین کے اطاعت گزار نہ ہوں ان کے حق میں برے رنگ میں بھی پوری ہو سکتی ہے.تو ماں باپ کی ایسی دعا سے ڈرنا بھی چاہئے.بعض بچے جائیداد یا کسی معاملہ میں والدین کے سامنے بے حیائی سے کھڑے ہو جاتے ہیں.مختلف لوگ لکھتے رہتے ہیں اس لئے یہ عجیب خوفناک کیفیت بعض دفعہ سامنے آجاتی ہے.اس لحاظ سے ایسے بچوں کو اس تعلیم کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ نے تو ماں کے لئے تو خاص طور پر حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے.اور یہ فرمایا ہے کہ تمہاری سب سے زیادہ حسن سلوک کی مستحق ماں ہے.یہ جو قرآن حکیم کا حکم ہے کہ والدین کو اُف نہ کہو یہ اس لئے ہے کہ اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچے اور تم سمجھتے ہو کہ تمہارا حق مارا جا رہا ہے یا تمہارے ساتھ ناجائز رویہ اختیار کیا ہے ماں باپ نے.تب بھی تم نے ان کے آگے نہیں بولنا ور نہ کسی کا دماغ تو نہیں چلا ہوا کہ ماں باپ کے فیض بھی اٹھا رہا ہو اور ماں باپ اس بچے کی ہر خواہش بھی پوری کر رہے ہوں تو ان کی نافرمانی کرے یا کوئی نامناسب بات کرے.اس کا آدمی تکلیف نہیں
$2003 159 خطبات مسرور کرتا ہے تو جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے بہت سے ماں باپ اپنے بچوں کی نافرمانیوں کا ذکر کرتے ہیں اپنے خطوط میں.اس ضمن میں والدین کا جہاں فرض ہے اور سب سے بڑا فرض ہے کہ پیدائش سے لے کر زندگی کے آخری سانس تک بچوں کے نیک فطرت اور صالح ہونے کے لئے دعائیں کرتے رہیں اور ان کی جائز اور ناجائز بات کو ہمیشہ مانتے نہ رہیں اور اولاد کی تربیت اور اٹھان صرف اس نیت سے نہ کریں کہ ہماری جائیدادوں کے مالک بنیں جیسا کہ میں آگے چل کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات میں اس کا ذکر کروں گا.لیکن اس کے ساتھ ہی بچوں کو بھی خوف خدا کرنا چاہئے کہ ماؤں کے حقوق کا خیال رکھیں ، باپوں کے حقوق کا خیال رکھیں.یہ نہ ہو کہ کل کو ان کے بچے ان کے سامنے اسی طرح کھڑے ہوجائیں.کیونکہ آج اگر یہ نہ سمجھے اور اس امر کو نہ روکا تو پھر یہ شیطانی سلسلہ کہیں جا کر رکے گا نہیں اور کل کو یہی سلوک ان کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے اور احمدیت کی اگلی نسل پہلے سے بڑھ کر دین پر قائم ہونے والی اور حقوق ادا کرنے والی نسل ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی اولاد کے حق میں دعا کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ: میری اولاد جو تیری عطا ہے ہر اک کو دیکھ لوں وہ پارسا ہے دنیاوی نعماء کی بھی دعا کی ہے لیکن سب سے بڑھ کر یہ دعا کی ہے کہ: یہ ہو میں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا جب آوے وقت میری واپسی کا (در ثمین اردو - صفحه ٤٨ تا ٤٩) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان دعاؤں کو بھی سنا اور حضرت زکریا علیہ السلام کی یہ دعا آپ کو بھی دوبار الہاما سکھائی گئی.چنانچہ پہلا الہام مارچ ۱۸۸۲ء میں ہوا اور دوسری بار۱۸۹۳ء میں یہ الہام ہوا: رَبِّ اغْفِرُ وَارْحَمُ مِّنَ السَّمَاءِ.رَبِّ لَا تَذَرُنِي فَرْدًا وَّ أَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ.
160 $2003 خطبات مسرور رَبِّ أَصْلِحُ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ.رَبَّنَا افْتَحُ بَيْنَنَا وَ بَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَيْرُ الْفَاتِحِيْنَ.“ اے میرے ربّ! مغفرت فرما اور آسمان سے رحم کر.اے میرے رب ! مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تو خیر الوارثین ہے.اے میرے رب! امت محمدیہ کی اصلاح کر.اے ہمارے رب! ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ کر دے.اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے.(تذکره، صفحه ٤٧ ، مطبوعه ١٩٦٩ء - ) پھر نومبر ۱۹۰۷ء میں آپ کو الہام ہوا.بہت لمبا الہام ہے عربی میں ، اس کا کچھ حصہ میں پڑھتا ہوں.يَحْيى“ سَأَهَبُ لَكَ غُلَامًا زَكِيًّا.رَبِّ هَبْ لِي ذُرِّيَةٌ طَيِّبَةٌ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَمٍ اسْمُهُ میں ایک پاک اور پاکیزہ لڑکے کی خوشخبری دیتا ہوں اے میرے خدا پاک اولاد مجھے بخش.میں تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتا ہوں جس کا نام بیٹی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :- میں دیکھتا ہوں کہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں وہ محض دنیا کے لئے کرتے ہیں.محبت دنیا ان سے کراتی ہے.خدا کے واسطے نہیں کرتے.اگر اولاد کی خواہش کرے تو اس نیت سے کرے ﴿وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا﴾ (الفرقان: ۷۵) پر نظر کر کے کرے کہ کوئی ایسا بچہ پیدا ہو جائے جو اعلاء کلمۃ الاسلام کا ذریعہ ہو جب ایسی پاک خواہش ہو تو اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ زکریا کی طرح اولاد دیدے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کی نظر اس سے آگے نہیں جاتی کہ ہمارا باغ ہے یا اور ملک ہے، وہ اس کا وارث ہو اور کوئی شریک اس کو نہ لے جائے.مگر وہ اتنا نہیں سوچتے کہ کمبخت جب تو مر گیا تو تیرے لئے دوست دشمن اپنے بیگانے سب برابر ہیں.میں نے بہت سے لوگ ایسے دیکھے اور کہتے سنے ہیں کہ دعا کرو کہ اولاد ہو جائے جو اس جائداد کی وارث ہو.ایسا نہ ہو کہ مرنے کے بعد کوئی شریک لے جاوے.اولا د ہو جائے خواہ وہ بدمعاش ہی ہو، یہ معرفت اسلام کی رہ گئی ہے...پس یا درکھو کہ مومن کی غرض ہر آسائش ، ہر قول و فعل ، حرکت وسکون سے گو بظا ہر نکتہ چینی ہی کا موقعہ ہومگر در اصل عبادت ہوتی ہے.بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں کہ جاہل اعتراض سمجھتا ہے مگر
161 $2003 خطبات مسرور خدا کے نزدیک عبادت ہوتی ہے.لیکن اگر اس میں اخلاص کی نیت نہ ہو تو نماز بھی لعنت کا طوق ہو جاتی ہے.“ چاہئے.پھر آپ فرماتے ہیں: ( البدر ۸ مارچ ١٩٠٤ ، ملفوظات جلد.سوم - صفحه (٥٧٩،٥٧٨ فنا فی اللہ ہو جانا اور اپنے سب ارادوں اور خواہشات کو چھوڑ کر محض اللہ کے ارادوں اور احکام کا پابند ہو جانا چاہئے کہ اپنے واسطے بھی اور اپنی اولاد، بیوی بچوں، خویش واقارب اور ہمارے واسطے بھی باعث رحمت بن جاؤ.مخالفوں کے واسطے اعتراض کا موقعہ ہرگز ہرگز نہ دینا (فرماتے ہیں: ) خدا تعالیٰ کی نصرت انہیں کے شامل حال ہوتی ہے جو ہمیشہ نیکی میں آگے ہی آگے قدم رکھتے ہیں، ایک جگہ نہیں ٹھہر جاتے اور وہی ہیں جن کا انجام بخیر ہوتا ہے.بعض لوگوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ ان میں بڑا شوق ذوق اور شدت رقت ہوتی ہے مگر آگے چل کر بالکل ٹھہر جاتے ہیں اور آخر ان کا انجام بخیر نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ دعا سکھلائی ہے کہ أَصْلِحُ لِي فِي ذُرِّيَّتِي (الاحقاف :۱۲) میرے بیوی بچوں کی بھی اصلاح فرما.اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی اولا داور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہئے کیونکہ اکثر فتنے اولاد کی وجہ سے انسان پر پڑ جاتے ہیں اور اکثر بیوی کی وجہ سے.دیکھو پہلا فتنہ حضرت آدم پر بھی عورت ہی کی وجہ سے آیا تھا.حضرت موسی کے مقابلہ میں بلعم کا ایمان جو کبط کیا گیا اصل میں اس کی وجہ بھی تو ریت سے یہی معلوم ہوتی ہے کہ بلعم کی عورت کو اس بادشاہ نے بعض زیورات دکھا کر طمع دید یا تھا اور پھر عورت نے بلغم کو حضرت موسی پر بد دعا کرنے کے واسطے اُکسایا تھا.غرض اُن کی وجہ سے بھی اکثر انسان پر مصائب شدائد آجایا کرتے ہیں تو اُن کی اصلاح کی طرف بھی پوری توجہ کرنی چاہئے اور ان کے واسطے بھی دعائیں کرتے رہنا چاہئے.“ (الحكم ۲ مارچ ۱۹۰۸، ملفوظات جلد ٥ ـ صفحه ٤٥٦ و ٤٥٧ ـ جدید ایڈیشن) پھر آپ نے فرمایا: ی منع نہیں بلکہ جائز ہے کہ اس لحاظ سے اولاد اور دوسرے متعلقین کی خبر گیری کرے کہ وہ اس کے زیر دست ہیں تو پھر یہ بھی ثواب اور عبادت ہی ہوگی اور خدا تعالیٰ کے حکم کے نیچے ہوگا...
162 $2003 خطبات مسرور غرض ان سب کی غور و پرداخت میں اپنے آپ کو بالکل الگ سمجھے اور اُن کی پرورش محض رحم کے لحاظ سے کرے نہ کہ جانشین بنانے کے واسطے بلکہ وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا کا لحاظ ہو کہ یہ اولا در ین کی خادم ہو.لیکن کتنے ہیں جو اولاد کے واسطے یہ دعا کرتے ہیں کہ اولا ددین کی پہلوان ہو.بہت ہی تھوڑے ہوں گے جو ایسا کرتے ہوں.اکثر تو ایسے ہیں کہ وہ بالکل بے خبر ہیں کہ وہ کیوں اولاد کے لئے کوششیں کرتے ہیں اور اکثر ہیں جو محض جانشین بنانے کے واسطے اور کوئی غرض ہوتی ہی نہیں،صرف یہ خواہش ہوتی ہے کہ کوئی شریک یا غیر ان کی جائداد کا مالک نہ بن جاوے.مگر یا درکھو کہ اس طرح پر دین بالکل برباد ہو جاتا ہے.غرض اولاد کے واسطے صرف یہ خواہش ہو کہ وہ دین کی خادم ہو.اسی طرح بیوی کرے تا کہ اس سے کثرت سے اولاد پیدا ہو اور وہ اولا ددین کی سچی خدمت گزار ہو اور نیز جذبات نفس سے محفوظ رہے.اس کے سوا جس قدر خیالات ہیں وہ خراب ہیں.رحم اور تقویٰ مدنظر ہو تو بعض باتیں جائز ہو جاتی ہیں.اس صورت میں اگر مال بھی چھوڑتا ہے اور جائداد بھی اولاد کے واسطے چھوڑتا ہے تو ثواب ملتا ہے.لیکن اگر صرف جانشین بنانے کا خیال ہے اور اس نیت سے سب ہم و غم رکھتا ہے تو پھر گناہ ہے.“ سوم صفحه ٦٠٠،٥٩٩) (الحكم ١٠ مارچ ١٩٠٤، ملفوظات.جلد.پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” جب تک اولاد کی خواہش محض اس غرض کے لئے نہ ہو کہ وہ دیندار اور متقی ہو اور خدا تعالیٰ کی فرمانبردار ہو کر اس کے دین کی خادم بنے بالکل فضول بلکہ ایک قسم کی معصیت اور گناہ ہے اور باقیات صالحات کی بجائے اس کا نام باقیات سیئات رکھنا جائز ہوگا.لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں صالح اور خدا ترس اور خادم دین اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو اس کا یہ کہنا بھی نرا ایک دعوی ہی ہوگا جب تک کہ وہ اپنی حالت میں ایک اصلاح نہ کرے.“ (الحكم ٢٤ ستمبر ١٩٠١، ملفوظات جلد ١ صفحه ٥٦٠) اب اس طرف بھی توجہ دلائی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہ اولاد کے لئے دعا بھی کریں کہ وہ نیک صالح ہو، لیکن پھر دعا کریں اور خود پوری طرح عمل نہ کر رہے ہوں تو بھی اس کا کوئی
خطبات مسرور 163 فائدہ نہ ہو گا اس لئے اپنی اصلاح کے لئے بھی اسی طرح توجہ کرنی ہوگی.پھر آپ فرماتے ہیں کہ: $2003 "جو شخص اولا د کو یا والدین کو یا کسی اور چیز کو ایسا عزیز رکھے کہ ہر وقت انہیں کا فکر ر ہے تو وہ بھی ایک بت پرستی ہے.فرمایا: اولا د چیز کیا ہے؟ بچپن سے ماں اس پر جان فدا کرتی ہے مگر بڑے ہو کر دیکھا جاتا ہے کہ بہت سے لڑکے اپنی ماں کی نافرمانی کرتے ہیں اور اس سے گستاخی سے پیش آتے ہیں.پھر اگر فرمانبردار بھی ہوں تو دکھ اور تکلیف کے وقت وہ اس کو ہٹا نہیں سکتے.ذراسا پیٹ میں درد ہوتو تمام عاجز آ جاتے ہیں.نہ بیٹا کام آسکتا ہے نہ باپ، نہ ماں، نہ کوئی اور عزیز.اگر کام آتا ہے تو صرف خدا.پس ان کی اس قدر محبت اور پیار سے فائدہ کیا جس سے شرک لازم آئے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُم فِشة (التغابن :۱۲) اولا داور مال انسان کے لئے فتنہ ہوتے ہیں.دیکھو اگر خدا کسی کو کہے کہ تیری گل اولاد جو مر چکی ہے زندہ کر دیتا ہوں مگر پھر میرا تجھ سے کچھ تعلق نہ ہوگا تو کیا اگر وہ عقلمند ہے اپنی اولاد کی طرف جانے کا خیال بھی کرے گا ؟ پس انسان کی نیک بختی یہی ہے کہ خدا کو ہر ایک چیز پر مقدم رکھے.جو شخص اپنی اولاد کی وفات پر بُرا مناتا ہے وہ بخیل بھی ہوتا ہے کیونکہ وہ اس امانت کے دینے میں جوخدا تعالیٰ نے اس کے سپر د کی تھی بخل کرتا ہے اور بخیل کی نسبت حدیث میں آتا ہے کہ اگر وہ جنگل کے دریاؤں کے برابر بھی عبادت کرے تو وہ جنت میں نہیں جائے گا.پس ایسا شخص جو خدا سے زیادہ کسی چیز کی محبت کرتا ہے اس کی عبادت نماز ، روزہ بھی کسی کام کے نہیں.“ الحکم ۲۲ / اگست ۱۹۰۸ ، ملفوظات.جلد پنجم - صفحه ٦٠٣،٦٠٢) اب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا جو اپنے صحابہ یا دوستوں کی اولاد کے لئے کی ان میں سے چند واقعات کا ذکر کروں گا جس سے پتہ چلتا ہے کہ سمیع خدا نے کس طرح دعاؤں کو قبولیت بخشی.لیکن جب آپ واقعات سنیں گے تو یہاں بھی آپ دیکھیں گے کہ آپ نے ایسے شخص کو جس کے لئے بھی دعا کی اپنے اندر ایک خاص تبدیلی پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی.اور اس کے ساتھ صاحب اقبال اولاد کی پیدائش کو مشروط کیا اور صحابہ اور رفقاء کے لئے بھی اولاد کی دعا کی اور نیک صالح، دیندار اولاد کی دعا اپنے خدا سے مانگی اور ان واقعات سے آپ دیکھیں گے کہ کس شان
$2003 164 خطبات مسرور ادعا ئیں اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول ہوئیں.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں: بیان کیا مجھ سے منشی عطا محمد صاحب پٹواری نے کہ جب میں غیر احمدی تھا.اور ونجواں ضلع گورداسپور میں پٹواری ہوتا تھا تو قاضی نعمت اللہ صاحب خطیب بٹالوی جن کے ساتھ میراملنا جلنا تھا، مجھے حضرت صاحب کے متعلق بہت تبلیغ کیا کرتے تھے مگر میں پرواہ نہیں کرتا تھا.ایک دن انہوں نے مجھے بہت تنگ کیا.میں نے کہا اچھا میں تمہارے مرزا کو خط لکھ کر ایک بات کے متعلق دعا کرا تا ہوں.اگر وہ کام ہو گیا تو میں سمجھ لوں گا کہ وہ بچے ہیں.چنانچہ میں نے حضرت صاحب کو خط لکھا کہ آپ مسیح موعود اور ولی اللہ ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں اور ولیوں کی دعائیں سنی جاتی ہیں.آپ میرے لئے دعا کریں کہ خدا مجھے خوبصورت، صاحب اقبال لڑکا جس بیوی سے میں چاہوں عطا کرے.اور نیچے میں نے لکھ دیا کہ میری تین بیویاں ہیں مگر کئی سال ہو گئے آج تک کسی کے اولاد نہیں ہوئی.میں چاہتا ہوں کہ بڑی بیوی کے بطن سے لڑکا ہو.حضرت صاحب کی طرف سے مجھے مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کے ہاتھ کا لکھا ہوا خط گیا کہ مولا کے حضور دعا کی گئی ہے اللہ تعالیٰ آپ کو فرزندار جمند صاحب اقبال خوبصورت لڑکا جس بیوی سے آپ چاہتے ہیں عطا کرے گا مگر شرط یہ کہ آپ زکریا والی تو بہ کریں.منشی عطا محمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں ان دنوں سخت بے دین اور شرابی کبابی راشی مرتشی ہوتا تھا.چنانچہ میں نے جب مسجد میں جا کر ملاں سے پوچھا کہ ذکریا والی تو یہ کیسی تھی تو لوگوں نے تعجب کیا کہ یہ شیطان مسجد میں کس طرح آ گیا ہے.مگر وہ ملاں مجھے جوا ب نہ دے سکا.پھر میں نے دھرم کوٹ کے مولوی فتح دین صاحب مرحوم احمدی سے پوچھا.انہوں نے کہا کہ زکریا والی تو بہ بس یہی ہے کہ بے دینی چھوڑ دو، حلال کھاؤ نماز روزے کے پابند ہو جاؤ اور مسجد میں زیادہ آیا جایا کرو.یہ سن کر میں نے ایسا کرنا شروع کر دیا.شراب وغیرہ چھوڑ دی اور رشوت بھی بالکل ترک کر دی اور صلوۃ و صوم کا پابند ہو گیا.چار پانچ ماہ کا عرصہ گزرا ہو گا کہ میں ایک دن گھر گیا تو اپنی بڑی بیوی کو روتے ہوئے پایا.سبب پوچھا تو اس نے کہا کہ پہلے مجھ پر یہ مصیبت تھی کہ میرے اولاد نہیں ہوتی تھی.آپ نے میرے پر دو بیویاں کیں.اب یہ مصیبت آئی ہے کہ
165 $2003 خطبات مسرور..گویا اولاد کی امید ہی نہیں رہی ) ان دنوں میں اُس کا بھائی امرتسر میں تھانے دار تھا.چنانچہ اس نے مجھے کہا کہ مجھے میرے بھائی کے پاس بھیج دو کہ میں کچھ علاج کرواؤں.میں نے کہا وہاں کیا جاؤ گی یہیں دائی کو بلوا کر دکھلاؤ اور اس کا علاج کرواؤ.چنانچہ اس نے دائی کو بلوایا اور کہا کہ مجھے کچھ دو وغیرہ دو.دائی نے سرسری دیکھ کر کہا: میں تو دوا نہیں دیتی نہ ہاتھ لگاتی ہوں کیونکہ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا تیرے اندر بھول گیا ہے.مگر میں نے اس سے کہا کہ ایسا نہ کہو بلکہ میں نے مرزا صاحب سے دعا کروائی تھی.پھر منشی صاحب بیان کرتے ہیں کہ کچھ عرصے میں حمل کے پورے آثار ظاہر ہو گئے اور میں نے اردگر دسب کو کہنا شروع کیا کہ دیکھ لینا کہ میرے لڑکا پیدا ہوگا اور ہوگا بھی خوبصورت.مگر لوگ بڑا تعجب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر ایسا ہو گیا تو واقعی بڑی کرامت ہے.آخر ایک دن رات کے وقت لڑکا پیدا ہوا اور خوبصورت ہوا.میں اسی وقت دھرم کوٹ بھا گا گیا جہاں میرے کئی رشتہ دار تھے اور لوگوں کو اس کی پیدائش سے اطلاع دی.چنانچہ کئی لوگ اسی وقت بیعت کے لئے قادیان روانہ ہو گئے.مگر بعض نہیں گئے اور پھر اس واقعہ پر ونجواں کے بھی بہت سے لوگوں نے بیعت کی اور میں نے بھی بیعت کر لی اور لڑکے کا نام عبدالحق رکھا.(سيرت المهدى.حصه اول صفحه (۲۳۹ پھر ایک واقعہ ہے: حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری صاحب کی اہلیہ اول شادی کے چار سال بعد وفات پاگئیں جبکہ اہلیہ ثانی کے بارہ میں متعدد ڈاکٹروں اور حکیموں کی متفقہ رائے تھی کہ اولاد سے محروم رہیں گی.چنانچہ ڈاکٹر عبدالحکیم نے جب ارتداد اختیار کیا تو حضرت مسیح موعود کو مقابلہ کا چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ قدرت اللہ کے لئے بے شک دعا کریں اس کے اولاد نہیں ہوگی“.اس پر حضور علیہ السلام نے دعا کی اور حضرت مولوی صاحب کو لکھوایا اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمہاری اس قدر اولا د ہوگی کہ تم سنبھال نہ سکو گے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو چودہ بچے عطا کئے جن میں سے پانچ کو وہ سنبھال نہ سکے اور باقی نو بچے خدا کے فضل سے زندہ رہے اور بڑھے پھولے.(رجسٹر روایات) پھر قبولیت دعا کے نتیجہ میں ایک نعم البدل عطا ہونے کے بارہ میں ایک واقعہ ہے.حکیم فضل
166 $2003 خطبات مسرور الرحمن صاحب مبلغ مغربی افریقہ کے والد حافظ نبی بخش صاحب بیان کرتے ہیں: ۱۹۰۶ء کا واقعہ ہے کہ میرالڑ کا عبدالرحمن نامی جو ہائی سکول میں ساتویں جماعت میں تعلیم پا تا تھا، ماہ مئی میں بعارضہ بخار محرقہ و سرسام تین چار دن بیمار رہ کر قادیان میں فوت ہو گیا.اس وقت میں فیض اللہ چک میں تھا کیونکہ میں اُس وقت ملازم تھا اور رخصت پر گھر آیا ہوا تھا.فیض اللہ چک میں اس کی بیماری کی خبر پہنچی تو میں فوراً قادیان آ گیا.علاج حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمارہے تھے.میں بچے کی حالت دیکھ کر حضوڑ کے گھر پہنچا.دستک دی تو حضور باہر تشریف لائے.میں نے بچے کی حالت سے اطلاعاً عرض کی.حضور فوراً اندر تشریف لے گئے اور چار پانچ گولیاں لا کر مجھے عنایت فرمائیں اور فرمایا کہ ابھی جا کر ایک گولی پانی میں گھول کر دے دو اور پھر مجھے اطلاع دو.میں دعا بھی کروں گا.چنانچہ میں نے اسی وقت آکر گولی پانی میں گھسائی اور بچے کو دی.چونکہ بچے کی حالت نازک ہو چکی تھی گولی اندر ہی نہ گئی بلکہ منہ سے ادھر اُدھر نکل گئی اور بچہ فوت ہو گیا.حضرت خلیفہ اول نے نماز جنازہ پڑھائی اور میں نے نعش کو فیض اللہ چک لے جانے کی اجازت طلب کی جو دے دی گئی.میں اور دیگر احباب جو میرے ساتھ موجود تھے واپس فیض اللہ چک چلے گئے.میں پھر آمدہ جمعہ کے دن جمعہ پڑھنے کے لئے قادیان آیا.حضور کی نظر شفقت مجھ پر پڑ گئی تو فرمایا کہ آگے آ جاؤ.وہاں پر بڑے بڑے ارکان حضور کے حلقہ نشین تھے.حضور کا فرمانا تھا کہ سب نے میرے لئے راستہ دے دیا.حضور نے میرے بیٹھتے ہی فرمایا کہ میں نے معلوم کیا ہے کہ آپ نے اپنے بچے کی وفات پر بڑا صبر کیا ہے.میری کمر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا کہ میں نعم البدل کے واسطے دعا کروں گا.چنانچہ اس کا نعم البدل حضور کی دعا سے مجھے لڑکا عطا ہوا جس کا نام فضل الرحمن حکیم ہے جو اس وقت بحیثیت مبلغ گولڈ کوسٹ، سالٹ پانڈ اور لیگوس میں تبلیغ کر رہا ہے.اللہ تعالیٰ اس بچے کو بھی بچی قربانی کی توفیق بخشے“.(اب تو وہ وفات پاچکے ہیں.اور نا نا اور نائجیر یا میں ابتدائی مبلغین میں سے تھے اور اتنا اثر تھا کہ جولوگ احمدی ہوتے تھے دوسرے مسلمان ان کو احمدی کی بجائے حکیم کہا کرتے تھے.تو اس طرح بڑے مشکل حالات میں وہاں تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیا.) (اصحاب احمد جلد ۱۳ صفحه ٢٦١-٢٦٢) اب آخر میں ایم ٹی اے کے بارہ میں ایک خوشی کی خبر ہے میں آپ کو سنا دوں کہ اللہ تعالی
$2003 167 خطبات مسرور کے فضل سے پاکستان، برصغیر اور ایشیا کے اکثر ممالک میں ایم ٹی اے کی نشریات 2 Asia Sat پر تھیں جس کی سیٹنگ کافی مشکل ہے اور بہت کم چینل اس پر ہیں.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے Asia 3 Sat پر ہماری یہ نشریات پچھلے دس بارہ دن سے شروع ہیں اور یہ جو سیٹلائٹ ہے اس میں عموماً اردو بنگلہ ہندی انگریزی کے جتنے اہم چینل ہیں وہ جاری ہیں اس لئے جب بھی وہ اپنے ٹی وی کو Tune کرے گا تو ایم ٹی اے بھی اس کے ساتھ ہی Tune ہوگا.اور اس طرح ایک بڑے لمبے عرصے سے جزیرہ بی ایم ٹی اے کے نور سے محروم تھا اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس نئے سیٹلائٹ کی وجہ سے دنیا کے آخری کنارے جزیرہ تائیونی میں بھی واضح سگنل موصول ہو رہے ہیں.الحمد للہ.اسی طرح پاکستان میں بھی اور بنگلہ دیش میں بھی.تو اب یہ Main Stream میں آ گیا ہے.اور خوشی کی بات یہ ہے کہ کافی عرصہ سے ان کے ساتھ بات چیت چل رہی تھی اور اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان فرمائے ہیں کہ حیرت انگیز طور پر بڑی کم قیمت پر یہ سیٹلائٹ میسر آ گیا ہے جس کا تصور بھی پہلے نہیں تھا الحمد للہ.000
$2003 168 خطبات مس
$2003 169 12 خطبات مس امام کی ڈھال کے پیچھے رہ کر فتح وظفر احمدیت کا مقدر بنے گی ار جولائی ۲۰۰۳ ء مطابق ۱۱ روفا ۱۳۸۲ هجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن (برطانیہ) ا ہر معاملہ میں امام کے پیچھے چلیں انشاء اللہ تعالیٰ غلبہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا ہی ہوگا اللہ تعالی نے جو امام کی ڈھال آپ کے لئے اس کے پیچھے ہی رہیں ہ دشمن کا مقابلہ مناظرہ مباحثہ بے شک کر دیگر امام کی منشاء کے ماتحت جنگ احد کا تفصیلی تذکرہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فقرہ ہمیشہ یادرکھیں کہ میں مامور ہوں اور فتح کی مجھے بشارت دی گئی ہے.
خطبات مس $2003 170 عَلِيمٌ.تشھد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل آیت تلاوت فرمائی ﴿وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ تُبَرِّئُ الْمُؤْمِنِيْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ.وَاللَّهُ سَمِيعٌ (سورة آل عمران : ۱۲۲) اور (یاد کر ) جب تو صبح اپنے گھر والوں سے مومنوں کو (ان کی ) لڑائی کے ٹھکانوں پر بٹھانے کی خاطر الگ ہوا.اور اللہ بہت سننے والا ( اور ) دائمی علم رکھنے والا ہے.یہ آیت جنگ اُحد کے حالات کے بارہ میں ہے.اس میں مسلمانوں سے جو غلطیاں ہوئیں جنگ میں مثلاً ابتدائی طور پر تو آنحضرت ﷺ کی مرضی کے خلاف بعض نو جوان صحابہ کا مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کرنے کا مشورہ تھا.پھر جنگ کے میدان میں جب ایک درہ کی حفاظت کے لئے آپ نے پچاس تیراندازوں کو بٹھایا.تو انہوں نے یہ دیکھتے ہوئے کہ لڑائی کا پانسا مسلمانوں کی طرف پلٹ گیا ہے اور فتح نصیب ہو رہی ہے.باجود اس کے کہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد تھا کہ جو بھی صورت ہو تم نے درہ خالی نہیں کرنا.مال غنیمت کے لالچ میں نافرمانی کرتے ہوئے جگہ چھوڑی اور پھر اس کا نتیجہ ظاہر ہے جو ہونا تھا مسلمانوں کو نقصان ہوا اور اس کے بارہ میں آنحضرت ﷺ کو ایک خواب میں بھی یہ بتا دیا گیا تھا کہ ایسی صورت پیدا ہوگی کہ مسلمانوں کا نقصان ہو.ظاہر ہے کہ حضور نے بہت دعائیں بھی کی ہوں گی اس جنگ سے پہلے.جنگ بدر کے بارہ میں تو بہت سے صلى الله.حوالے بھی آتے ہیں.بہر حال اللہ تعالیٰ نے ان دعاؤں کو سنا اور ایسے حالات میں جو ظاہری نتیجہ جس طرح نکلنا چاہئے ، جب مسلمانوں کو فتح ہوئی درہ پر بیٹھے ہوئے صحابہ نے نافرمانی کرتے ہوئے
$2003 171 خطبات مسرور وہ جگہ چھوڑی اور پھر کفار نے دوبارہ پلٹ کر حملہ کیا اور مسلمانوں کو بے انتہا نقصان پہنچایا.تو جو نتیجہ اس صورت میں نکلنا چاہئے وہ بہت بھیانک ہونا چاہئے لیکن یہ دعائیں ہی تھیں جن کی وجہ سے باوجود اس کے کہ مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچا جس طرح دشمن فتح حاصل کرنا چاہتا تھا اس کو فتح نصیب نہیں ہوئی.باوجود اس کے کہ بہت سارے صحابہ شہید ہوئے آنحضرت ﷺ کو خود بھی زخم آئے لیکن دشمن پھر بھی فاتح کی حیثیت سے واپس نہیں لوٹ سکا.کیونکہ اس زمانہ میں جنگوں میں جو رواج تھا کہ مال غنیمت اکٹھا کیا جاتا تھا اور اور بہت سے لوٹ کھسوٹ ہوتی تھی وہ کچھ بھی نہ کر سکے.اس کی تشریح میں امام فخر الدین رازی کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں.فرماتے ہیں: ﴿وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ ﴾ ( آل عمران : ۱۲۲) اس سے پہلے اللہ نے فرمایا ہے کہ وإِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا کہ اگر تم صبر کرو گے اور تقویٰ پر قائم رہو گے تو ان کی تدبیریں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکیں گی.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت اور مدد کی یہ سنت بیان فرمائی ہے.لیکن اُحد کے دن مسلمانوں کی تعداد کافی تھی لیکن جب انہوں نے آنحضرت ﷺ کے احکام کی نافرمانی کی تو شکست سے دو چار ہوئے.جبکہ بدر کے موقعہ پر باوجود تھوڑے ہونے کے مسلمانوں نے آنحضرت اللہ کی اطاعت کی اور دشمن پر غالب آگئے.شکست کا ایک سبب یہ بھی بنا کہ عبد اللہ بن ابی بن سلول نے وعدہ خلافی کر کے اپنے لوگوں کوا لگ کر لیا تھا.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ منافقین پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے.(تفسیر کبیر امام رازی جلد ۸ صفحه ٢٠٤ اس ضمن میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بڑی تفصیل بیان فرمائی ہے دیباچہ تفسیر القرآن میں،وہ میں پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ کفار کے لشکر نے بدر کے میدان سے بھاگتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ اگلے سال ہم دوبارہ مدینہ پر حملہ کریں گے اور اپنی شکست کا مسلمانوں سے بدلہ لیں گے.چنانچہ ایک سال کے بعد وہ پھر پوری تیاری کر کے مدینہ پر حملہ آور ہوئے.مکہ والوں کے غصہ کا یہ حال تھا کہ بدر کی جنگ کے بعد انہوں نے یہ اعلان کر دیا کہ کسی شخص کو اپنے مُردوں پر رونے کی اجازت نہیں اور جو تجارتی قافلے آئیں گے ان کی آمد آئندہ جنگ کے لئے محفوظ
172 $2003 خطبات مسرور رکھی جائے گی.چنانچہ بڑی تیاری کے بعد تین ہزار سپاہیوں سے زیادہ تعداد کا ایک لشکر ابوسفیان کی قیادت میں مدینہ پر حملہ آور ہوا.رسول اللہ ﷺ نے صحابہ سے مشورہ لیا کہ آیا ہمیں شہر میں ٹھہر کر مقابلہ کرنا چاہئے یا باہر نکل کر.آپ کا اپنا خیال یہی تھا کہ دشمن کو حملہ کرنے دیا جائے تا کہ جنگ کی ابتداء کا بھی وہی ذمہ دار ہو اور مسلمان اپنے گھروں میں بیٹھ کر اس کا مقابلہ آسانی سے کر سکیں.لیکن وہ مسلمان جن کو بدر کی جنگ میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا تھا اور جن کے دلوں میں حسرت رہی تھی کہ کاش! ہم کو بھی خدا کی راہ میں شہید ہونے کا موقعہ ملتا.انہوں نے اصرار کیا کہ ہمیں شہادت سے کیوں محروم رکھا جاتا ہے.چنانچہ آپ نے ان کی بات مان لی اور مشورہ لیتے وقت آپ نے اپنی خواب بھی سنائی.فرمایا کہ خواب میں میں نے ایک گائے دیکھی ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ میری تلوار کا سراٹوٹ گیا ہے اور میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ وہ گائے ذبح کی جارہی ہے.اور پھر یہ کہ میں نے اپنا ہاتھ تو ایک مضبوط اور محفوظ زرہ کے اندر ڈالا ہے اور میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ میں ایک مینڈھے کی پیٹھ پر سوار ہوں.صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ! آپ نے ان خوابوں کی کیا تعبیر فرمائی.آپ نے فرمایا گائے کے ذبح ہونے کی تعبیر یہ ہے کہ میرے بعض صحابہ مشہید ہوں گے اور تلوار کا سراٹوٹنے سے مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ میرے عزیزوں میں سے کوئی اہم وجود شہید ہوگا یا شاید مجھے ہی اس مہم میں کوئی تکلیف پہنچے.اور زرہ کے اندر ہاتھ ڈالنے کی تعبیر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارامد بینہ میں ٹھہر نازیادہ مناسب ہے.اور مینڈھے پر سوار ہونے والے خواب کی تعبیر یہ معلوم ہوتی ہے کہ کفار کے لشکر کے سردار پر ہم غالب آئیں گے یعنی وہ مسلمانوں کے ہاتھ سے مارا جائے گا.گو اس خواب میں مسلمانوں پر یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ ان کا مدینہ میں رہنا زیادہ اچھا ہے مگر چونکہ خواب کی تعبیر رسول کریم ﷺ کی اپنی تھی ، الہامی نہیں تھی.آپ نے اکثریت کی رائے کو تسلیم کر لیا اور لڑائی کے لئے باہر جانے کا فیصلہ کر دیا.جب آپ باہر نکلے تو نو جوانوں کو اپنے دلوں میں ندامت محسوس ہوئی اور انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ! جو
$2003 173 خطبات مسرور آپ کا مشورہ ہے وہی صحیح ہے.ہمیں مدینہ میں ٹھہر کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہئے.آپ نے فرمایا: خدا کا نبی جب زرہ پہن لیتا ہے تو اتارا نہیں کرتا.اب خواہ کچھ ہو ہم آگے ہی جائیں گے.اگر تم نے صبر سے کام لیا تو خدا کی نصرت تم کو مل جائے گی.یہ کہہ کر آپ ایک ہزار لشکر کے ساتھ مدینہ سے نکلے اور تھوڑے فاصلے پر جا کر رات بسر کرنے کے لئے ڈیرہ لگایا.آپ کا ہمیشہ طریق تھا کہ آپ دشمن کے پاس پہنچ کر اپنے لشکر کو کچھ دیر آرام کرنے کا موقع دیا کرتے تھے.تا کہ وہ اپنے سامان وغیرہ تیار کر لیں.صبح کی نماز کے وقت جب آپ نکلے تو آپ کو معلوم ہوا کہ کچھ یہودی بھی اپنے معاہد قبیلوں کی مدد کے بہانے سے آئے ہیں.چونکہ یہود کی ریشہ دوانیوں کا آپ کو علم ہو چکا تھا، آپ نے فرمایا کہ ان لوگوں کو واپس کر دیا جائے.اس پر عبد اللہ بن ابی بن سلول جو منافقوں کا رئیس تھا وہ بھی اپنے تین سوساتھیوں کو لے کر یہ کہتے ہوئے واپس لوٹ گیا کہ اب یہ لڑائی نہیں رہی یہ تو ہلاکت کے منہ میں جانا ہے.کیونکہ خود اپنے مددگاروں کو لڑائی سے روکا جاتا ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان صرف سات سورہ گئے جو تعداد میں کفار کی تعداد سے چوتھے حصے سے بھی کم تھے اور سامانوں کے لحاظ سے اور بھی کمزور.کیونکہ کفار میں سات سو زرہ پوش تھا اور مسلمانوں میں صرف ایک سوزرہ پوش اور کفار میں دو سو گھوڑ سوار تھا مگر مسلمانوں کے پاس دو گھوڑے تھے.آخر آپ اُحد مقام پر پہنچے.وہاں پہنچ کر آپ پر ہے نے ایک پہاڑی درے کی حفاظت کے لئے پچاس سپاہی مقرر کئے اور سپاہیوں کے افسر کو تاکید کی کہ یہ درہ اتنا ضروری ہے کہ خواہ ہم مارے جائیں یا جیت جائیں تم نے اس جگہ سے نہیں ہلنا.اس کے بعد آپ بقیہ ساڑھے چھ سو آدمی لے کر دشمن کے مقابلے کے لئے نکلے جواب دشمن کی تعداد سے قریباً پانچواں حصہ تھے.لڑائی ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے تھوڑی دیر میں ساڑھے چھ سو مسلمانوں کے مقابلہ میں تین ہزار مکہ کا تجربہ کار سپاہی سر پر پاؤں رکھ کر بھا گا.اس سلسلہ میں ایک بڑی تفصیلی حدیث ہے وہ میں یہاں پڑھتا ہوں.یباچه تفسیر القرآن (١٥١ - ١٥٢ حضرت براء بن عازب بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے جنگ احد میں عبداللہ بن
$2003 174 خطبات مسرور الله جبیر کو پچاس فوجیوں کے ایک دستے کا امیر مقرر کیا اور ایک پہاڑی درہ پر انہیں متعین کرتے ہوئے فرمایا: اگر تم دیکھو کہ ہمیں پرندے اُچک کر لے جارہے ہیں اور ہمارے گوشت کھا رہے ہیں تو بھی تم نے اس درہ کو نہیں چھوڑنا جہاں میں تمہیں مقرر کر رہا ہوں.اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے دشمن کو شکست دیدی ہے اور ہم انہیں رگیدے چلے جا رہے ہیں تب بھی تم نے اس وقت تک اس جگہ کو نہیں چھوڑنا جب تک کہ میں تمہیں واپس چلے آنے کا پیغام نہ بھجواؤں.جب جنگ شروع ہوئی اور مسلمانوں نے کفار کو شکست دیدی اور ہم نے کفار کی عورتوں کو دیکھا کہ وہ کپڑے سمیٹے ننگی پنڈلیاں بھاگی جارہی ہیں.عبد اللہ بن جبیر کے دستے نے یہ دیکھ کر کہا: اب کس بات کا انتظار ہے، مسلمان فتحیاب ہو گئے ہیں، ہمیں بھی چلنا چاہئے.عبداللہ بن جبیر نے جواب دیا : کیا تم آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد بھول گئے ہو کہ جب تک میں واپسی کا پیغام نہ بھیجوں، تم نے اس جگہ کو نہیں چھوڑنا.لیکن لوگوں نے کہا کہ فتح تو ہو چکی ہے، اب ہمیں بھی غنیمت سمیٹنے میں شامل ہونا چاہئے.چنانچہ وہ درہ چھوڑ کر نیچے آگئے لیکن اس غلطی کو جب دشمن نے دیکھا کہ درہ خالی ہے تو وہ پلٹا اور درّے میں سے ہو کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوا.اس وجہ سے مسلمانوں کی فتح شکست میں بدل گئی.(اسی واقعہ کا ذکر قرآن کریم میں ہے ) کہ رسول اُن کو پیچھے سے بلا رہا تھا.اس حادثہ میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ صرف ۱۲ صحابہ رہ گئے اور ۷۰ کے قریب صحابہ لڑتے ہوئے شہید ہو گئے.جبکہ جنگ بدر میں ۱۴۰ کا فرمسلمانوں کے ہاتھوں بدحال ہوئے تھے، ۷۰ قیدی بنائے گئے تھے اور ۷۰ مارے گئے تھے.اس موقع پر ابوسفیان نے بلند آواز سے تین دفعہ کہا: کیا تم میں محمد موجود ہیں؟.حضور ﷺ نے جواب دینے سے منع کر دیا.پھر اُس نے کہا کہ کیا تم میں ابو قحافہ کے بیٹے ابوبکر موجود ہیں؟ پھر اس نے تین دفعہ بلند آواز سے کہا: کیا تم میں خطاب کے بیٹے عمر موجود ہیں؟ جب اُسے کوئی جواب نہ ملا تو وہ اپنے لشکر کی طرف مڑا اور کہا: یہ سب قتل ہو چکے ہیں.حضرت عمرؓ اس کی اس بات کو برداشت نہ کر سکے اور بلند آواز سے کہا: اے اللہ کے دشمن ! خدا کی قسم ! جن لوگوں کا تم نے نام لیا ہے، وہ سب کے سب زندہ ہیں اور تمہارے لئے رسوائی کے سوا کچھ نہیں.اس پر ابوسفیان نے کہا: جنگ بدر کا بدلہ چکا دیا گیا ہے اور لڑائی تو ڈول کی طرح ہوتی ہے، کبھی ادھر جھکاؤ ہوتا ہے کبھی ادھر.لوگوں میں تمہیں کچھ لاشیں مثلہ اور بگاڑی ہوئی ملیں گی.میں نے ایسا کرنے کا حکم نہیں دیا تھا لیکن مجھے اس کا افسوس بھی نہیں.پھر وہ رجزیہ نعرہ لگانے لگا: اُعْلُ هُبَلْ ! اُعْلُ هُبَلْ ! حبل بُت کی جے اور اُس کی بلندی.اس موقعہ پر حضور
175 $2003 خطبات مسرور نے فرمایا: جواب کیوں نہیں دیتے ؟.صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! ہم کیا جواب دیں ؟.حضور ﷺ نے فرمایا: تم کہو الله اعلى و اَجَلُّ الله ہی سب سے اعلیٰ اور سب سے بڑا ہے ،اس کے مقابل کوئی بلند نہیں ہے.ابوسفیان نے جواب میں نعرہ لگایا: لَنَا الْعُزَّى وَلَا عُزّى لَكُمْ ہمیں عزی بت کی مدد حاصل ہے اور تمہیں کسی دیوی کی مدد حاصل نہیں.حضور ﷺ نے فرمایا : جواب دو.صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! جواب میں ہم کیا کہیں؟ آپ نے فرمایا: کہو اللَّهُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلَى لَكُمْ.اللہ ہمارا مولیٰ اور ہمارا آقا ہے اور تمہارا ایسا کوئی مولی اور آقا نہیں جو اس کے مقابلہ میں تمہاری مدد کر سکے.(صحیح بخاری.کتاب الجهاد والسير باب يكره من التنازع والاختلاف في الحرب) اب حضرت مصلح موعود کا اس سلسلہ میں جو بیان ہے اس کو میں پڑھتا ہوں.فرماتے ہیں کہ کافروں کا تعاقب کرنے کی وجہ سے مسلمان اتنے پھیل چکے تھے کہ کوئی باقاعدہ اسلامی لشکران لوگوں کے مقابلہ میں نہیں تھا.اکیلا اکیلا سپاہی میدان میں نظر آ رہا تھا جن میں سے بعض کو ان لوگوں نے مار دیا باقی اس حیرت میں یہ کہ کیا ہو گیا ہے پیچھے کی طرف دوڑے.چند صحابہ دوڑ کر رسول اللہ کے گرد جمع ہو گئے کی تعداد زیادہ سے زیادہ ہیں تھی.کفار نے شدت کے ساتھ اس مقام پر حملہ کیا جہاں رسول کریم نے کھڑے تھے.یکے بعد دیگرے صحابہ آپ کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جانے لگے.علاوہ شمشیر زنوں کے تیرانداز اونچے ٹیلوں پر کھڑے ہو کر رسول کریم ﷺ کی طرف بے تحاشہ تیر مارتے تھے.اس وقت طلحہ نے جو قریش میں سے تھے اور مکہ کے مہاجرین میں شامل تھے یہ دیکھتے ہوئے کہ دشمن سب کے سب تیر رسول اللہ ﷺ کے منہ کی طرف پھینک رہا ہے اپنا ہاتھ رسول اللہ اللہ کے منہ کے آگے کھڑا کر دیا.تیر کے بعد تیر جو نشانہ پر گرتا تھا وہ طلحہ کے ہاتھ پر گرتا تھا.مگر جانباز اور وفادار صحابی اپنے ہاتھ کو کوئی حرکت نہیں دیتا تھا.اس طرح تیر پڑتے گئے اور طلحہ منکا ہاتھ زخموں کی شدت کی وجہ سے بالکل بے کار ہو گیا اور صرف ایک ہی ہاتھ ان کا باقی رہ گیا.احد کی جنگ کے بعد کسی شخص نے طلحہ سے پوچھا کہ جب تیر آپ کے ہاتھ پر گرتے تھے تو کیا آپ کو درد نہیں ہوتی تھی اور کیا آپ کے منہ سے اُف نہیں نکلتی تھی؟ طلحہ نے جواب دیا کہ درد بھی ہوتی تھی اور اف بھی نکلنا چاہتی تھی ، لیکن میں اُف کرتا نہیں تھا تا ایسا نہ ہو کہ اُف کرتے وقت میرا ہاتھ ہل جائے اور تیر
$2003 176 خطبات مسرور رسول کریم ﷺ کے منہ پر آ گرے.مگر یہ چند لوگ کب تک اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ کر سکتے تھے.لشکر کفار کا ایک گروہ آگے بڑھا اور رسول کریم ﷺ کے گرد کے سپاہیوں کو دھکیل کر اُس نے پیچھے کر دیا.رسول کریم و تن تنہا پہاڑ کی طرح وہاں کھڑے تھے کہ زور سے ایک پتھر آپ کے خو د پر لگا اور خود کے کیل آپ کے سر میں گھس گئے اور آپ بیہوش ہو کر ان صحابہ کی لاشوں پر جاگرے جو آپ کے اردگر دلڑتے ہوئے شہید ہو چکے تھے.اس کے بعد کچھ اور صحابہ آپ کے جسم کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے اور اُن کی لاشیں آپ کے جسم پر جا گریں.کفار نے آپ کے جسم کو لاشوں کے نیچے دبا ہوا دیکھ کر سمجھا کہ آپ مارے جاچکے ہیں.چنانچہ مکہ کا لشکر اپنی صفوں کو درست کرنے کے لئے پیچھے ہٹ گیا.جو صحابہ آپ کے گرد کھڑے تھے اور جن کو کفار کے لشکر کا ریلا دھکیل کر پیچھے لے گیا تھا ان میں حضرت عمر بھی تھے.جب آپ نے دیکھا کہ میدان سب لڑنے والوں سے صاف ہو چکا ہے تو آپ کو یقین ہو گیا کہ رسول کریم شہید ہو گئے ہیں اور وہ شخص جس نے بعد میں ایک ہی وقت میں قیصر اور کسریٰ کا مقابلہ بڑی دلیری سے کیا اور اس کا دل کبھی نہ گھبرایا اور کبھی نہ ڈرا وہ ایک پتھر پر بیٹھ کر بچوں کی طرح رونے لگ گیا.اتنے میں مالک نامی ایک صحابی جو اسلامی لشکر کی فتح کے وقت پیچھے ہٹ گئے تھے کیونکہ انہیں فاقہ تھا اور رات سے انہوں نے کچھ نہیں کھایا تھا جب فتح ہو گئی تو وہ چند کھجوریں لے کر پیچھے کی طرف چلے گئے تا کہ انہیں کھا کر اپنی بھوک کا علاج کریں.وہ فتح کی خوشی میں ٹہل رہے تھے کہ ٹہلتے ٹہلتے حضرت عمر تک جا پہنچے اور عمر گوروتے ہوئے دیکھ کر نہایت ہی حیران ہوئے اور حیرت سے پوچھا: عمر ! آپ کو کیا ہوا، اسلام کی فتح پر آپ کو خوش ہونا چاہئے یا رونا چاہئے؟ عمر نے جواب میں کہا: ما لک! شاید تم فتح کے معا بعد پیچھے ہٹ آئے تھے.تمہیں معلوم نہیں کہ لشکر کفار پہاڑی کے دامن سے چکر کاٹ کر اسلامی لشکر پر حملہ آور ہوا اور چونکہ مسلمان پراگندہ ہو چکے تھے ان کا مقابلہ کوئی نہ کر سکا.رسول الله له چند صحابہ میت ان کے مقابلہ کے لئے کھڑے ہوئے اور مقابلہ کرتے کرتے شہید ہو گئے.مالک نے کہا: عمر اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو آپ یہاں بیٹھے کیوں رو ر ہے ہیں.جس دنیا میں ہمارا محبوب گیا ہے ہمیں بھی تو وہیں جانا چاہئے.یہ کہا اور وہ آخری کھجور جو آپ کے ہاتھ میں تھی جسے آپ
$2003 177 خطبات مسرور منہ میں ڈالنے ہی والے تھے اسے یہ کہتے ہوئے زمین پر پھینک دیا کہ اسے کھجور ! مالک اور جنت کے درمیان تیرے سوا اور کونسی چیز روک ہے.یہ کہا اور تلوار لے کر دشمن کے لشکر میں گھس گئے.تین ہزار آدمی کے مقابلے میں ایک آدمی کر ہی کیا سکتا تھا مگر خدائے واحد کی پرستار روح ایک بھی بہتوں پر بھاری ہوتی ہے.مالک اس بے جگری سے لڑے کہ دشمن حیران ہو گیا.مگر آخر زخمی ہوئے، پھر گرے اور گر کر بھی دشمن کے سپاہیوں پر حملہ کرتے رہے جس کے نتیجہ میں کفار مکہ نے اس وحشت سے آپ پر حملہ کیا کہ جنگ کے بعد آپ کی لاش کے ستر ٹکڑے ملے.حتی کہ آپ کی لاش پہچانی نہیں جاتی تھی.آخر ایک انگلی سے آپ کی بہن نے پہچان کر بتایا کہ یہ میرے بھائی مالک کی لاش ہے.وہ صحابہ جو رسول اللہ ﷺ کے گرد تھے اور جو کفار کے ریلے کی وجہ سے پیچھے دھکیل دئے گئے تھے کفار کے پیچھے ہٹتے ہی وہ پھر رسول اللہ ﷺ کے گرد جمع ہو گئے.آپ کے جسم مبارک کو انہوں نے اٹھایا اور ایک صحابی عبید اللہ بن الجراغ نے اپنے دانتوں سے آپ کے سر میں گھسی ہوئی میخ کو زور سے نکالا جس سے ان کے دو دانت ٹوٹ گئے.تھوڑی دیر میں رسول اللہ ﷺ کو ہوش آگیا اور صحابہ نے چاروں طرف میدان میں آدمی دوڑا دیئے کہ مسلمان پھر اکٹھے ہوجائیں.بھاگا ہوالشکر پھر جمع ہونا شروع ہوا اور رسول اللہ اللہ انہیں لے کر پہاڑ کے دامن میں چلے گئے اور دشمن پیچھے ہٹ گیا.تو آپ نے بعض صحابہ کو اس بات پر مامور فرمایا کہ وہ میدان میں جائیں اور زخمیوں کی خبر لیں.ایک صحابی میدان میں تلاش کرتے کرتے ایک زخمی انصاری کے پاس پہنچے.اب دیکھیں اس حالت میں بھی صحابہ کا نمونہ.دیکھا تو ان کی حالت خطر ناک تھی.اور وہ جان توڑ رہے تھے.یہ صحابی ان کے پاس پہنچے اور انہیں السلام علیکم کہا.انہوں نے کانپتا ہوا ہاتھ مصافحے کے لئے اٹھایا اور ان کا ہاتھ پکڑ کے کہا کہ میں انتظار کر رہا تھا کہ کوئی بھائی مجھے مل جائے.انہوں نے اس صحابی سے پوچھا کہ آپ کی حالت تو خطرناک معلوم ہوتی ہے، کیا کوئی پیغام ہے جو آپ اپنے رشتہ داروں کو دینا چاہتے ہیں؟.اس مرنے والے صحابی نے کہا ہاں ہاں میری طرف سے میرے رشتہ داروں کو سلام کہنا اور انہیں کہنا کہ میں تو مر رہا ہوں مگر اپنے پیچھے خدا تعالیٰ کی ایک مقدس امانت محمد رسول اللہ ﷺ کا وجود تم میں چھوڑے جا رہا ہوں.اے میرے بھائیو اور رشتہ دارو! وہ خدا کا سچا رسول ہے.میں امید
$2003 178 خطبات مسرور کرتا ہوں کہ تم اس کی حفاظت میں اپنی جانیں دینے سے دریغ نہیں کرو گے اور میری اس وصیت کو یاد رکھو گے.(موطا امام مالک اور زرقانی باب ترغيب في الجهاد) جب رسول کریم یہ شہداء کو دفن کر کے مدینہ واپس گئے تو پھر عورتیں اور بچے شہر سے باہر استقبال کے لئے نکل آئے.رسول کریم ﷺ کی اونٹنی کی باگ سعد بن معادا مدینہ کے رئیس نے پکڑی ہوئی تھی اور فخر سے آگے آگے دوڑے جاتے تھے.شاید دنیا کو یہ کہہ رہے تھے کہ دیکھا ہم محمد رسول اللہ ﷺ کو خیریت سے اپنے گھر واپس لے آئے.شہر کے پاس انہیں اپنی بڑھیا ماں جس کی نظر کمزور ہو چکی تھی آتی ہوئی ملی.اُحد میں اُس کا ایک بیٹا عمرو بن معاد بھی مارا گیا تھا.اسے دیکھ کر سعد بن معاود نے کہا : یا رسول اللہ : امی.اے اللہ کے رسول میری ماں آ رہی ہے.آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ کی برکتوں کے ساتھ آئے.بڑھیا آگے بڑھی اور اپنی کمزور پھٹی آنکھوں سے ادھر اُدھر دیکھا کہ کہیں رسول اللہ ﷺ کی شکل نظر آ جائے.آخر رسول اللہ ﷺ کا چہرہ پہچان لیا اور خوش ہوگئی.رسول اللہ اللہ نے فرمایا مائی مجھے تمہارے بیٹے کی شہادت پر تم سے ہمدردی ہے.اس پر نیک عورت نے کہا حضور ! جب میں نے آپ کو سلامت دیکھ لیا تو سمجھو کہ میں نے مصیبت کو بھون کر کھا لیا.حضرت مصلح موعود فر ماتے ہیں کہ بہر حال رسول کریم خیریت سے مدینہ پہنچے.گواس لڑائی میں بہت سے مسلمان مارے بھی گئے اور بہت سے زخمی بھی ہوئے لیکن پھر بھی اُحد کی جنگ شکست نہیں کہلا سکتی.جو واقعات میں نے اوپر بیان کئے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ایک بہت بڑی فتح تھی، ایسی فتح کہ قیامت تک مسلمان اس کو یاد کر کے اپنے ایمان کو بڑھا سکتے ہیں اور بڑھاتے رہیں گئے.( دیباچه تفسیر القرآن صفحه ١٥۱-١٥٧) اس ضمن میں ایک حدیث ہے.حضرت مصعب بن عمیر کے آخری کلمات.حضرت مصعب بن عمیر جنگ اُحد میں علمبردار اسلام تھے.جب اچانک جنگ کی حالت بدلی تو یہ بھی کفار کے نرغے میں پھنس گئے.اس وقت مشرکین کے شہسوارا بن قمیہ نے بڑھ کر تلوار کا وار کیا جس سے
179 $2003 خطبات مسرور ان کا داہنا ہاتھ شہید ہو گیا لیکن فوراً بائیں ہاتھ سے علم کو پکڑ لیا.اس وقت ان کی زبان پر یہ آیت جاری تھی: ﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُل.ابن قمیہ نے دوسرا وار کیا تو بایاں ہا تھ بھی قلم ہو گیا.آپ نے دونوں بازوؤں کا حلقہ بنا کر علم کو سینے سے چمٹا لیا.اُس نے تلوار پھینک دی اور زور سے نیزہ مارا کہ نیزے کی انی ٹوٹ کر سینے میں رہ گئی اور اسلام کا سچا فدائی اسی آیت کا ورد کرتے ہوئے اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گیا.(الطبقات الكبرى لابن سعد المجلد الثالث ذكر مصعب بن عمیر.داراحیاء التراث العربيـ بيروت لبنان) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ میرے چچا انس بن نضر جنگ بدر میں شامل نہیں ہو سکے تھے اور اس کا ان کو بڑا افسوس ہوا تھا.آپ نے ایک دفعہ کہا: اے اللہ تعالیٰ کے رسول ! پہلی جنگ جو آپ نے مشرکین سے لڑی ، اس میں میں شامل نہیں ہو سکا.اگر اللہ تعالیٰ نے آئندہ کبھی مجھے مشرکین سے جنگ کرنے کا موقعہ دیا تو میں اللہ تعالیٰ کو دکھاؤں گا کہ میں کیا کرتا ہوں.لوگ ان کی اس بات سے تعجب کرتے.پھر جب اُحد کی لڑائی ہوئی تو ایک ایسا موقعہ آیا کہ مسلمان بکھر گئے اور ان کی صفیں قائم نہ رہ سکیں.اس پر انس نے کہا : اے میرے اللہ ! میں تیرے حضور ان لوگوں ( یعنی صحابہ ) کے کئے کی معذرت چاہتا ہوں اور دشمنوں یعنی مشرکین کے ظالمانہ سلوک سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں.مطلب یہ تھا کہ صحابہ سے جو غلطی ہوئی ان کو معاف کر دے).پھر وہ آگے بڑھے تو ان کو سعد بن معاد ملے.انس بن نضر نے ان سے کہا اے سعد! دیکھو جنت قریب ہے.رب کعبہ کی قسم ! مجھے اُحد کے ادھر سے اس کی خوشبو آ رہی ہے.حضرت سعد نے یہ واقعہ آنحضرت ﷺ سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ انس نے کہا اور کر دکھایا، میں ایسا نہ کر سکا.حضرت انس جو اس واقعہ کے راوی ہیں بیان کرتے ہیں کہ ہم نے چا (انس) کو ایسی حالت میں شہید پایا کہ ۸۰ سے کچھ اوپر تلوار، نیزہ یا تیر کے ان کو زخم آئے تھے.مشرکین نے ان کی شکل بگاڑ دی ہوئی تھی.سوائے ان کی بہن کے کوئی ان کی نعش کو نہ پہچان سکا جس نے انگلیوں کے
180 $2003 خطبات مسرور نشان سے ان کو پہچانا.ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آیت اسی قسم کے لوگوں کے حق اور شان میں نازل ہوئی کہ مومنوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے جو عہد کیا اس کو پورا کر دکھایا اور وہ اپنے عہد میں سچے نکلے.جب واپسی مدینہ کو ہوئی تو یہ خبر آئی کہ کفار کا لشکر دوبارہ راستہ میں اکٹھا ہوکر مدینہ پر حملہ کرنا چاہتا ہے.اس وقت آنحضور ﷺ جب ( غزوہ اُحد کے بعد ) ہفتہ کی شام اُحد سے واپس لوٹے تو آپ اور آپ کے صحابہ نے رات مدینہ میں بسر کی اور رات بھر مسلمان اپنے زخموں کی مرہم پٹی کرتے رہے.یعنی جو بچے تھے وہ بھی سخت زخمی ہو چکے تھے.جب رسول کریم ﷺ نے صبح کی نماز ادا کی تو آپ نے حضرت بلال کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بلائیں اور کہیں کہ آپ یہ دشمن کا پیچھا کرنے کا حکم دیتے ہیں.اس سے پہلے کہ دشمن مدینہ پر حملہ آور ہو آپ نے حکم دیا کہ ہمیں چلنا چاہئے.اور ہمارے ساتھ صرف وہی نکلیں گے جو کل جنگ میں شامل تھے.آپ نے اپنا جھنڈا منگوایا اور اسے کھولے بغیر حضرت علی کو دے دیا.رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اس حال میں دشمن کے مقابلہ کے لئے نکلے کہ سب زخموں سے چور تھے.جب آپ حمراء الاسد پہنچے ( جو مدینہ سے دس میل کے فاصلہ پر ہے ) تو مسلمانوں نے ایک بہت بڑی آگ جلائی جو دُور دُور سے نظر آتی تھی اور یوں لگتا تھا کہ بہت بڑی تعداد میں لوگ جمع ہیں اللہ تعالیٰ نے اس سے کفار کے دلوں میں ایسا رعب پیدا کیا کہ وہ فوراً مکہ لوٹ گئے.رسول کریم ﷺ صحابہ کرام کے ساتھ حمراء الاسد میں سوموار، منگل اور بدھ تک ٹھہرے رہے اور پھر واپس مدینہ لوٹ آئے.(بخاری کتاب الجهاد باب قول الله تعالى من المومنين رجال صدقوا.......الله تاريخ الطبری جلد ۲ صفحه (۷۵ پھر یہ تھی اس آیت کی واقعاتی اور تاریخی تصویر جو تفصیل سے میں نے پڑھی لیکن اس بارہ میں حضرت خلیفہ اُسیح اول رضی اللہ عنہ نے ایک اور بہت اہم نکتہ بھی پیش فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ تُبَرِّئُ الْمُؤْمِنِيْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالَ.تو بٹھاتا تھا مومنوں کو جگہ بہ جگہ جہاں انہیں کھڑے ہوکر لڑنا چاہئے.اس سے ایک سبق تمہارے لئے نکلتا ہے کہ دشمن کا مقابلہ، مناظرہ، مباحثہ بے شک کرو مگر اپنے امام کی منشاء کے ماتحت.کیونکہ یہ ترتیب جس کا انجام فتح و ظفر ہو اللہ کے بندے ہی
خطبات مسرور جانتے ہیں.181 $2003 ( حقائق الفرقان جلد اول صفحه ٥٢٦) تو بعض خطوں کی وجہ سے مجھے فکر پیدا ہوئی جو میں یہاں بیان کرتا ہوں.ایک دوست نے لکھا کہ کیونکہ دشمن ہر وقت زبان درازی کرتا رہتا ہے اور جماعت کے متعلق بالکل جھوٹی اور لغو باتیں منسوب کی جاتی ہیں.پھر تبلیغ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایسے لوگ جن کو میں تبلیغ کرتا ہوں ان کو بھی ان کے دماغوں میں غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں اور ہماری طرف غلط باتیں منسوب کر کے ان کو بتائی جاتی ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ اگر یہ لوگ یعنی احمدی بچے ہیں تو ہمارے سے مباہلہ کر لیں.تو لکھنے والے یہ لکھتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے مباہلہ کا چیلنج قبول کر لینا چاہئے اور اس کی اجازت دی جائے.اب ایک خط کی تو مجھے کر نہیں تھی لیکن مختلف جگہ سے یہ سلسلہ شروع ہوا اور اس سے فکر پیدا ہوئی.تو اس بارہ میں آپ لوگوں کو ذہن میں رکھنا چاہئے جیسا کہ حضرت خلیفہ ای اول کا ارشاد ہے کہ ہر معاملہ میں امام کے پیچھے چلیں.آپ میں سے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اپنے امام سے آگے نکلنے کی کوشش کریں.یا کسی کو مباہلہ کا چیلنج دیں.ہر ایک کا تو حق ہی نہیں ہے.اس کے بھی کچھ قواعد وضوابط ہیں.آنحضرت ﷺ نے بھی جب عیسائیوں اور یہودیوں کو مباہلہ کا چیلنج دیا تو اپنی مرضی سے تو نہیں دیا تھا.جب تک خدا تعالیٰ نے آپ کو نہیں کہا اور طریق نہیں بتا دیا آپ ہمیشہ ہدایت کی دعائیں ہی کرتے رہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی جب مخالفین کی دشنام طرازیاں انتہا کو پہنچ گئی تو اللہ تعالی کے اذن سے مختلف لوگوں کو مباہلہ کی دعوت دی پھر اس زمانہ میں آپ نے دیکھا کہ حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے بھی مباہلہ کا چیلنج دیا تو اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہی دیا.تو یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ ہر کوئی اٹھے اور اس قسم کی سوچ دل میں پیدا کر لے بلکہ مناظروں مباحثوں وغیرہ میں بھی اس قسم کی شرطیں لگانے کی اجازت نہیں ہے جس سے یہ احساس ہوتا ہو کہ آپ جماعت کی اور احمدیت کی سچائی کو اپنی شرطوں کے ساتھ مشروط کر رہے ہیں یا اپنی دعاؤں کے ساتھ مشروط کر رہے ہیں.احمدیت تو سچی ہے اور یقیناً حضرت مسیح موعود علیہ ال والسلام کا آنا خدائی بشارتوں کے ماتحت اور آنحضرت مے کی پیشگوئیوں کے مطابق ہے.اور الصلوة
خطبات مسرور 182 $2003 احمدیت کی سو سال سے زائد کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختلف لوگوں اور مذاہب کے ماننے والوں کو جو چیلنج دئے ان کے سامنے مقابلہ کی نیت سے جو بھی کھڑا ہوا اس کے ٹکڑے اڑتے ہم نے دیکھے ہیں.خدا خود ہمارے بد لے لیتا ہے اور لیتا چلا جا رہا ہے پھر آپ کو کس بات کا خوف اور فکر ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے امام کی جوڈھال آپ کے لئے مہیا فرمائی ہے اس کے پیچھے ہی رہیں اور جو طریق اور دلائل پیغام پہنچانے کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے ہمیں بتائے ہیں ان کے مطابق دعوت الی اللہ کرتے چلے جائیں.جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دعائیں کریں اور دعاؤں سے ہی مدد کریں.ہمارا خدا زندہ خدا آج بھی ہمیں اپنی خدائی کے جلوے دکھا رہا ہے اور انشاء اللہ دکھاتا چلا جائے گا.آپ بے فکر رہیں.ہاں ایک شرط ہے کہ خالص ہو کر اس کی طرف جھکیں اور اس سے مدد مانگیں.وہی ہے جو ہماری دعاؤں کو سنتا ہے.اس کی وحدانیت کو دنیا میں قائم کرنے کی کوشش کریں.جو مخالفین مباہلے کا اتنا ہی شوق رکھتے ہیں وہ اپنا شوق پورا کریں.خدا کو جتنا مرضی پکار میں وہ ، اپنی ناکیں رگڑیں، اپنے ماتھے رگڑیں.کبھی ان کی یہ دعائیں سنی نہیں جائیں گی جو وہ جماعت کے خلاف کریں گے.اور انشاء اللہ تعالیٰ غلبہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا ہی ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فقرہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ میں مامور ہوں اور فتح کی مجھے بشارت دی گئی ہے.
$2003 183 13 خطبات مس سب مہمانوں کو واجب الاحترام جان کر ان کی مہمان نوازی کا حق ادا کریں ۱۸ جولائی ۲۰۰۳ء مطابق ۱۸روفا ۱۳۸۲ هجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن (برطانیہ) مہمان نوازی کے معیار جو اسلامی معاشرہ میں نظر آنے چاہیں اپنے پڑوسی کی عزت کریں اپنے مہمان کا احترام کریں مہمان بھی اگر کوتا ہی دیکھیں تو نرمی سے توجہ دلا دیں...ایک دوسرے کا احترام کریں شکوہ زبان پر نہ لائیں...سلام کو رواج دیں مسکر ا کر ملیں مسجد کے آداب اور تقدس کا خیال رکھیں
خطبات مس $2003 184 تشھد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل آیت تلاوت فرمائی وَالَّذِيْنَ تَبَوَّوُا الدَّارَ وَالْإِيْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أَوْتُوْا وَيُؤْثِرُوْنَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ.وَمَنْ يُوْقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأَوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (سورة الحشر : ١٠) - اگلے جمعہ سے انشاء اللہ یو کے کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے.گو یہ یوکے کا جلسہ سالانہ ہے مگر خلیفہ وقت کی یہاں موجودگی کی وجہ سے دنیا کے مختلف ممالک سے احمدی بڑے شوق سے اس میں شمولیت کے لئے آتے ہیں.جس میں بوڑھے بھی ہوتے ہیں اور بیمار بھی اور اپنی بیماری کے با وجود تکلیف اٹھا کر جلسہ میں شامل ہوتے ہیں.پھر مختلف ممالک کے لوگ ہیں، مختلف نسلوں کے لوگ ہیں، مختلف قوموں کے لوگ ہیں، بالکل مختلف مزاجوں کے جن کا کھانا پینا، رہن سہن بھی مختلف ہوتا ہے تو اس وجہ سے قدرتی طور پر میز بانوں کو فکر ہوتی ہے کہ ان کی طرف سے کسی قسم کی کمی نہ رہ جائے کوئی کوتاہی نہ ہو جائے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ کئی سالوں سے انگلستان کی جماعت کو اس مہمان نوازی کی توفیق مل رہی ہے اور اللہ کے فضل سے وہ مہمان نوازی کا حق بھی ادا کر رہے ہیں اور اب تو ماشاء اللہ اتنے تربیت یافتہ ہو چکے ہیں کہ کارکن بھی میسر آ جاتے ہیں اور کارکن بھی بڑے ذوق سے بڑے شوق سے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں.اور ابھی کچھ مہینہ پہلے ہی آپ لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات پر ہنگامی طور پر بھی تمام انتظامات کو ان کارکنوں نے خوب سنبھالا اور مہمان نوازی کی.لیکن جلسہ کے موقع پر میزبان کو یہ فکر ہوتی ہے کہ اس پر آنے والے
$2003 185 خطبات مسرور مہمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان ہیں ان کو حتی المقدور آرام پہنچانے کی کوشش کی جائے.مرکزی انتظامیہ کو یہ فکر ہوتی ہے کہ مہمانوں کی خدمت بجا لانے والے تمام کارکن کیونکہ Volunteers ہوتے ہیں اور مختلف مزاج کے ہوتے ہیں تو کسی کارکن سے کسی مہمان کے لئے کوئی زیادتی کا کلمہ منہ سے نہ نکل جائے، کوئی زیادتی نہ ہو جائے.اس لئے عموماً یہی روایت چلی آرہی ہے کہ کارکنوں کو توجہ دلانے کے لئے کہ کس طرح انہوں نے مہمانوں کی خدمت کرنی ہے جلسہ سے ایک جمعہ پہلے اس بارہ میں کچھ ہدایات دی جاتی ہیں.لیکن اس کے ساتھ ہی میز بانوں کو بھی یہ مدنظر رکھنا چاہئے کہ کیونکہ یہ سارا عارضی انتظام ہوتا ہے کیونکہ کارکنان بڑی محنت سے خدمت بجالاتے ہیں لیکن اگر بعض جگہ کہیں کمی یا خامی رہ جائے تو ان کو برداشت کریں.کارکنان کے لئے میں اب کچھ باتیں پیش کروں گا جس سے یہ احساس ہو کہ اللہ اور اس کے رسول یہ ہم سے مہمانوں کی خدمت کے بارہ میں ہم سے کیا توقعات رکھتے ہیں.یہاں ایک بات کی اور وضاحت کردوں کہ جس طرح تمام کارکنان کے لئے جلسہ میں شامل ہونے والا ہر شخص مہمان کی حیثیت رکھتا ہے اسی طرح انگلستان کی پوری جماعت کے لئے دوسرے ملکوں سے آنے والے سب احمدی مہمان کی حیثیت رکھتے ہیں.پس اگر ایسا کوئی موقعہ پیدا ہو کہ جہاں آپ کو قربانی دینی پڑے تو غیر ملکیوں کے لئے ، جو باہر سے آنے والے مہمان ہیں، ان کے لئے یہاں کے مقامی لوگ قربانی دیں.ایک حدیث پیش کرتا ہوں.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم کے پاس آیا.آپ نے اپنی ازواج کی طرف پیغام بھجوایا.انہوں نے عرض کیا کہ ہمارے پاس تو پانی کے سوا کچھ نہیں.اس پر حضور ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ اس مہمان کے کھانے کا بندوست کون کرے گا ؟ ایک انصاری نے عرض کیا حضور میں انتظام کرتا ہوں.چنانچہ وہ اس کے ساتھ گھر گیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ آنحضرت ﷺ کے مہمان کی خاطر مدارات کا انتظام کرو.بیوی نے جواباً کہا کہ گھر میں تو صرف بچوں کے کھانے کے لئے ہے.اس انصاری نے کہا کہ کھانا تیار کرو، پھر چراغ جلا ؤ اور جب بچوں کے کھانے کا وقت آئے تو ان کو بہلا کر سلا دو.چنانچہ عورت نے کھانا تیار کیا، صد
$2003 186 خطبات مسرور چراغ جلایا اور بچوں کو بھوکا ہی سلا دیا.پھر چراغ درست کرنے کے بہانے اٹھی اور چراغ بجھا دیا.اور پھر دونوں مہمان کے ساتھ بیٹھے بظاہر کھانا کھانے کی آوازیں نکالتے اور چٹخارے لیتے رہے تا کہ مہمان سمجھے کہ میزبان بھی میرے ساتھ بیٹھا کھانا کھا رہا ہے.اس طرح مہمان نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور وہ خود بھو کے سور ہے.صبح جب وہ انصاری حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ تمہارے رات والے عمل سے تو اللہ تعالیٰ بھی ہنس دیا ہے.اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ وہ خودضرورت مند ہوتے ہیں.اور جو نفس کے بخل سے بچائے گئے وہی کامیابی حاصل کرنے والے ہیں.(بخاری، کتاب المناقب قول الله باب و يوثرون على انفسهم.......اب دیکھیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس خاندان کی اتنی بڑی قربانی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے خوش ہو کر اپنے پیارے نبی ﷺ کو بھی اس کی اطلاع دی.تو یہ ہیں وہ مہمان نوازی کے معیار جو اسلامی معاشرہ میں نظر آنے چاہئیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی معاشرہ میں نظر آتے ہیں لیکن کیونکہ یاد دہانی اور نصیحت کا بھی حکم ہے اس لئے یاددہانی کروائی جاتی ہے.اب میں چند مزید احادیث کی روشنی میں مہمانوں اور میزبانوں دونوں کو ان کی ذمہ داریوں کے بارہ میں بتاؤں گا.حدیث ہے کہ حضرت ابو ہریر کا آنحضرت ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے.اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے مہمان کا احترام کرے.(صحیح مسلم کتاب الایمان باب الحث على اكرام........اس میں تین باتیں بتائی گئی ہیں.پہلی دو تو جلسے پر آنے والے مہمانوں اور میزبانوں دونوں کے لئے ہیں جبکہ تیسری صرف میزبان کے لئے ہے.خلاصہ بتا تا ہوں.فرمایا کہ اچھی بات کہو یا خاموش رہو.اب مہمان بھی اگر کہیں کو تا ہی دیکھیں تو نرمی سے توجہ دلا دیں.کسی قسم کا غصہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے.اتنے وسیع انتظامات ہوتے ہیں.تھوڑی بہت کمیاں رہ جاتی ہیں وہ برداشت کرنا چاہئے اور صرف نظر کرنا چاہئے.اور غصہ کو دبانے کا بھی ایک ثواب ہے.اسی طرح
$2003 187 خطبات مسرور کارکنان بھی اگر مہمان کا غصہ دیکھیں تو انتہائی نرمی سے معذرت کر کے تکلیف دور کرنے کی کوشش کریں لیکن یا درکھیں کہ مہمان سے سختی سے بات نہیں کرنی.پھر ہے پڑوسی کی عزت.یہاں اس ماحول میں چند دنوں کے لئے جو بھی لوگ ، مہمان آ رہے ہیں، قیام گاہوں میں اکٹھے رہ رہے ہیں.وہ ایک دوسرے کے پڑوسی بن جاتے ہیں.تو وسیع اور عارضی انتظام ہونے کی وجہ سے تمام سہولتیں جیسے کہ میں نے عرض کیا ہے میسر نہیں آسکتیں.تو کسی قسم کی اگر اونچ نیچ ہو جائے.بعض دفعہ اکٹھے جب رہ رہے ہوں تو مثلاً کھانے کے وقت میں ہی یا صبح کے وقت غسل خانے جانا ہو تھوڑی تعداد میں ٹائلٹس وغیرہ ہوتی ہیں اس وقت بھی یا اور بعض باتیں ہوتی ہیں ایسی تو اگر اونچ نیچ ہو جائے تو آپس میں مہمان جو ہیں وہ یہاں ایک دوسرے کے پڑوسی کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں اس لئے ایک دوسرے کا احترام کریں، اور عزت کریں اور اگر کسی سے کوئی اونچ نیچ ہو بھی جائے تو شکوہ زبان پر نہ لائیں.اسی طرح جہاں مہمانوں اور کارکنوں کے لئے بھی ہے کہ مہمانوں سے عزت سے پیش آئیں.اپنے ساتھی کارکنوں سے بھی عزت اور احترام سے پیش آئیں.آپس میں محبت سے سارے کام اور ڈیوٹیاں سرانجام دیں.پھر تیسری بات تو بہر حال ہر کارکن پر لازم ہے.اوپر میں ذکر بھی کر چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان ہیں چاہے چھوٹا ہے یا بڑا ہے ،امیر ہے یا غریب ہے،سب سے ایک طرح یکساں احترام سے پیش آئیں.ان کی عزت کریں اور ان کی ضرورت کو جس حد تک انتظام اجازت دیتا ہے پوری کرنے کی کوشش کریں.اگر نہیں کر سکتے تو اپنے سے بالا افسر تک پہنچائیں لیکن مہمان کا احترام اور اس سے آرام سے بات کرنا بہر حال ہر وقت پیش نظر رکھنا چاہئے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ کونسا اسلام سب سے بہتر ہے.فرمایا ( ضرورت مندوں کو ) کھانا کھلا ؤ اور ہر اس شخص کو جسے تم جانتے ہو یا نہیں جانتے سلام کہو.(صحيح البخارى كتاب الايمان، باب واطعام من (الاسلام اس حدیث میں ایک حسین معاشرہ کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ کھانا کھلا ؤ.دوسرے ہر شخص کو جسے تم جانتے ہو یا نہیں جانتے سلام کرو.تو جلسہ کے دنوں میں جہاں ایک دینی ماحول ہوگا، دعاؤں
$2003 188 خطبات مسرور کی طرف توجہ ہوگی ، وہاں سلام کو بھی ہر شخص کو چاہئے کہ مہمان ہو یا میز بان ہو رواج دے.تو ان تین دنوں میں محبت اور بھائی چارہ اتنا انشاء اللہ بڑھ جائے گا کہ جس کا اثر بعد تک بھی قائم رہے گا.دوسرے اس کا فائدہ کارکنان کے لئے بھی ہے کہ کام کی زیادتی کی وجہ سے، آرام کی کمی کی وجہ سے بلا وجہ طبیعت میں بعض دفعہ تیزی اور تندی پیدا ہو جاتی ہے تو جب یہ ایک دوسرے کو سلامتی بھیج رہے ہوں گے تو اس مزاج میں بھی انشاء اللہ تعالیٰ نرمی آئے گی.پھر ایک حدیث ہے، حضرت ابوذرغفاری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے بھائی کے سامنے تیرا مسکرانا تیرے لئے صدقہ ہے.تیرا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا بھی ایک صدقہ ہے.اور بھٹکے ہوئے کو راستہ دکھانا بھی تیرے لئے صدقہ ہے اور کسی نابینا کی راستہ چلنے میں مدد کرنا تیرے لئے صدقہ ہے اور پتھر، کا شایا ہڈی رستہ سے ہٹا دینا بھی تیرے لئے صدقہ ہے.اور اپنے ڈول میں سے اپنے بھائی کے ڈول میں کچھ ڈال دینا بھی تیرے لئے صدقہ ہے.(جامع ترمذی) عام طور پر ہر احمدی کو اپنے اوپر اس حدیث میں بیان کردہ احکامات اپنے اوپر لاگو کرنے کی ضرورت ہے جس سے ایک حسین معاشرہ جنم لے لیکن جلسے کے تین دنوں میں تو بہر حال اس طرف توجہ کی جائے.کیونکہ اس سے بھی تربیت کے رستے کھلتے ہیں.پہلے فرمایا کہ مسکراتے رہو.مسکرانے سے تمہارا تو کچھ نہیں بگڑایا تمہارا تو کچھ نہیں جاتا.ایک دوسرے سے ملو تو مسکراتے ہوئے ملو.اگر کوئی نجشیں تھیں تو ان تین دنوں میں اپنی مسکراہٹوں سے اسے ختم کردو.دوسری بات یہ کہ نیکیوں کو پھیلاؤ، نیکیوں کی تلقین کرو اور بری باتوں سے روکو.تو یہ جلسہ کی غرض وغایت بھی ہے.اس لئے جو جلسہ پر آئے ہیں وہ ادھر اُدھر پھرنے کی بجائے جلسہ کے پروگراموں سے بھر پور فائدہ اٹھائیں، اس میں بھر پور حصہ لیں.پھر خدمت خلق کے کام ہیں.یہ ضروری نہیں ہیں کہ خدمت خلق پر معمور کارکن ہی یہ کام کریں.تمام کارکنان کا فرض ہے کہ کسی کو مدد کی اگر ضرورت ہے، راستہ دکھانے کی ضرورت ہے تو اس ضرورت کو پورا کریں.پھر راستہ کی صفائی کا حکم ہے.جلسہ کے دنوں میں راستوں کی صفائی کے علاوہ گراؤنڈ میں بھی اور جلسہ گاہ میں بھی بچے اور بڑے گند کر دیتے ہیں تو قطع نظر اس کے کہ کس کی ڈیوٹی ہے جو بھی گند دیکھے اس کو اٹھا کر جہاں بھی کوڑا پھینکنے کے لئے ڈسٹ بن یا ڈبے وغیرہ
189 $2003 خطبات مسرور رکھے گئے ہیں ان میں پھینکیں.اور مہمان بھی اور میزبان بھی دونوں ان چیزوں کا خیال رکھیں.یعنی یہ صرف کارکنان یا میز بانوں کا کام نہیں ہے بلکہ جو بھی دیکھے جلسہ میں جو بھی شامل ہونے آیا ہے اگر گندگی دیکھے تو اس کو صاف کرے.کوئی ڈبے پڑے ہیں، گلاس پڑے ہیں، کوئی ریپر پڑے ہیں، کوئی اس قسم کی چیز فوراً اٹھا کر ڈسٹ بن میں ڈالیں.ابو داؤد کی ایک حدیث ہے حضرت ابو شریح بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ مہمان کی عزت کرے.ایک دن رات تک اس کی خدمت تو اس کا انعام شمار ہوگی جبکہ تین دن تک مہمان نوازی ہوگی.اس کے بعد ( کی خدمت ) صدقہ ہے.اور اس (مہمان) کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ اس کے ہاں ٹھہرا رہے اور اس کو تکلیف میں ڈالے.(ابو داؤد كتاب الاطعمة باب ما جاء في الضيافة یہاں کیونکہ دور دور سے مہمان آتے ہیں اس لئے کوشش ہوتی ہے کہ جتنا رک سکتے ہیں رکیں.لیکن پھر بھی یہی کوشش کرنی چاہیئے اگر جماعتی نظام کے تحت آپ ٹھہرے ہوئے ہیں تو جلسے کے بعد جتنی جلدی واپس جا سکتے ہیں چلے جائیں.لیکن کارکنان پر بہر حال یہ لازم ہے، جو میز بان ہیں ، اور ان کا یہ فرض ہے کہ مہمان کی مہمان نوازی اسی طرح خوش خلقی سے کرتے رہیں جب تک انتظام کے تحت اس مہمان نوازی کا انتظام ہے.یہ نہیں کہ ادھر جلسہ ختم ہوا اور ادھر ڈیوٹی والے کارکن غائب.پتہ نہیں کہاں گئے.اور انتظامیہ پریشان ہو رہی ہو.تو جو بھی ڈیوٹی دیں پوری محنت اور دیانتداری سے دیں.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق دے.لیکن یہاں ایک وضاحت کر دوں کہ جو مہمان آتے ہیں اور اپنے عزیزوں کے ہاں ٹھہرتے ہیں وہاں وہ قرابت داروں کا سلوک ہوگا.تو ایسے عزیزوں رشتہ داروں کے پاس جو مہمان ٹھہرے ہیں وہ ان کی مہمان نوازی بہر حال کریں.صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے.حضرت ابوذر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ معمولی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھو اگر چہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے پیش آنے کی ہی نیکی ہو.(صحيح مسلم - كتاب البرِّ وَالصَّلَةِ باب ِاسْتِحْبَابُ طَلَاقَةِ الْوَجْهِ عِنْدَ اللقَاءِ
خطبات مسرور انداز تھے.190 $2003 اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مہمان نوازی کے کیا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب روایت کرتے ہیں کہ مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ شروع میں جب مہمانوں کی زیادہ کثرت نہیں تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحت بھی نسبتاً بہتر تھی ، آپ اکثر مہمانوں کے ساتھ اپنے مکان کے مردانہ حصہ میں اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور کھانے کے دوران میں ہر قسم کی بے تکلفانہ گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا تھا.گویا ظاہری کھانے کے ساتھ علمی اور روحانی کھانے کا دستر خوان بھی بچھ جاتا تھا.ایسے موقعوں پر آپ عموماً ہر مہمان کا خود ذاتی طور پر خیال رکھتے تھے اور اس بات کی نگرانی فرماتے تھے کہ اگر کبھی دستر خوان پر ایک سے زیادہ کھانے ہوں تو ہر شخص کے سامنے دستر خوان کی ہر چیز پہنچ جائے.عموماً ہر مہمان کے متعلق دریافت فرماتے رہتے تھے کہ کسی خاص چیز مثلاً دودھ یا چائے پالسی یا پان کی عادت تو نہیں.اور پھر حتی الوسع ہر ایک کے لئے اُس کی عادت کے موافق چیز مہیا فرماتے تھے.بعض اوقات اگر آپ کو معلوم ہوتا کہ کسی مہمان کو اچار کا شوق ہے اور اچار دستر خوان پر نہیں ہوتا تھا تو خود کھانا کھاتے کھاتے اُٹھ کر اندرون خانہ تشریف لے جاتے اور اندر سے اچار لاکر ایسے مہمان کے سامنے رکھ دیتے تھے.اور چونکہ آپ بہت تھوڑا کھانے کی وجہ سے جلد شکم سیر ہو جاتے تھے اس لئے سیر ہونے کے بعد بھی آپ روٹی کے چھوٹے چھوٹے ذرے اٹھا کر منہ میں ڈالتے رہتے تھے تا کہ کوئی مہمان اس خیال سے کہ آپ نے کھانا چھوڑ دیا ہے دستر خوان سے بھوکا ہی نہ اُٹھ جائے.(سیرت طیبه - صفحه ۱۱۳) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- تیسری شاخ اس کارخانہ کی واردین اور صادر ین اور حق کی تلاش کے لئے سفر کرنے والے اور دیگر اغراض متفرقہ سے آنے والے ہیں جو اس آسمانی کارخانہ کی خبر پا کر اپنی اپنی نیتوں کی تحریک سے ملاقات کے لئے آتے رہتے ہیں.یہ شاخ بھی برابر نشو و نما میں ہے.اگر چہ بعض دنوں میں کچھ کم مگر بعض دنوں میں نہایت سرگرمی سے اس کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.چنانچہ ان سات برسوں میں ساٹھ ہزار سے کچھ زیادہ مہمان آئے ہوں گے اور جس قدر اُن میں سے مستعد لوگوں کو
$2003 191 خطبات مسرور تقریری ذریعوں سے روحانی فائدہ پہنچایا گیا اور اُن کے مشکلات حل کر دئے گئے.اور اُن کی کمزوری کو دور کر دیا گیا اس کا علم خدا تعالیٰ کو ہے.مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ زبانی تقریر میں جو سائلین کے سوالات کے جواب میں کی گئیں یا کی جاتی ہیں یا اپنی طرف سے محل اور موقعہ کے مناسب کچھ بیان کیا جاتا ہے یہ طریق بعض صورتوں میں تالیفات کی نسبت نہایت مفید اور مؤثر اور جلد تر دلوں میں بیٹھنے والا ثابت ہوا ہے.(فتح اسلام.روحانی خزائن جلد سوم.صفحه ١٥،١٤) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مہمانوں نوازی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مفتی محمد صادق صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت صاحب مہمانوں کی خاطر داری کا بہت اہتمام رکھا کرتے تھے.جب تک تھوڑے مہمان ہوتے تھے آپ خود ان کے کھانے اور رہائش وغیرہ کا انتظام کیا کرتے تھے.جب مہمان زیادہ ہونے لگے تو خدام حافظ حامد علی صاحب، میاں نجم الدین صاحب وغیرہ کو تاکید فرماتے رہتے تھے کہ دیکھو مہمانوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.اُن کی تمام ضروریات، خوردونوش و رہائش کا خیال رکھا کرو.بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں.اس لیے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الاکرام جان کر ان کی تواضع کرو.سردی کے ایام میں فرمایا کرتے مہمانوں کو چائے پلاؤ.ان سب کی خوب خدمت کرو.اگر کسی کو علیحدہ کمرے یا مکان کی ضرورت ہو تو اس کا انتظام کر دواگر کسی کو سردی کا خوف ہو تو لکڑی یا کوئلہ کا انتظام کر دو.(ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب - صفحه (۱۹۵) پھر اسی طرح ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ: د لنگر خانہ کے مہتم کو تاکید کر دی جاوے کہ وہ ہر ایک شخص کی احتیاج کو مد نظر رکھے مگر چونکہ وہ اکیلا آدمی ہے اور کام کی کثرت ہے ممکن ہے کہ اُسے خیال نہ رہتا ہو، اس لیے کوئی دوسرا شخص یاد دلا دیا کرے.کسی کے میلے کپڑے وغیرہ دیکھ کر اس کی تواضع سے دست کش نہ ہونا چاہیے، کیونکہ مہمان تو سب یکساں ہی ہوتے ہیں اور جو نئے ناواقف آدمی ہیں تو یہ ہمارا حق ہے کہ اُن کی ہر ایک ضرورت کو مد نظر رکھیں.بعض وقت کسی کو بیت الخلا کاہی پتہ نہیں ہوتا تو اسے سخت تکلیف ہوتی ہے.اس لئے ضروری ہے کہ مہمانوں کی ضروریات کا بڑا خیال رکھا جاوے.میں تو اکثر بیمار ہتا ہوں،اس
192 $2003 خطبات مسرور لیے معذور ہوں.مگر جن لوگوں کو ایسے کاموں کے لئے قائمقام کیا ہے یہ ان کا فرض ہے کہ کسی قسم کی شکایت نہ ہونے دیں.(اخبار ”الحكم“ ٢٤ /نومبر ١٩٠٤ء صفحه ٢،١ ملفوظات جلد ٤ صفحه ١٧٠) پھر حضرت منشی ظفر احمد صاحب روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغرب کی نماز کے بعد مسجد مبارک قادیان کی اوپر کی چھت پر چند مہمانوں کے ساتھ کھانا کھانے کے انتظار میں تشریف فرما تھے.اُس وقت ایک احمدی دوست میاں نظام دین صاحب ساکن لدھیانہ جو بہت غریب آدمی تھے اور اُن کے کپڑے بھی پھٹے پرانے تھے ، حضور سے چار پانچ آدمیوں کے فاصلے پر بیٹھے تھے.اتنے میں چند معزز مہمان آکر حضور کے قریب بیٹھتے گئے اور اُن کی وجہ سے ہر دفعہ میاں نظام دین کو پرے ہٹنا پڑا حتیٰ کہ وہ ہٹتے ہٹتے جوتیوں کی جگہ پر پہنچ گئے.اتنے میں کھانا آیا تو حضور نے ، جو یہ سارا نظارہ دیکھ رہے تھے، ایک سالن کا پیالہ اور کچھ روٹیاں ہاتھ میں اُٹھا لیں اور میاں نظام دین سے مخاطب ہو کر فرمایا: ” آؤ میاں نظام دین! ہم اور آپ اندر بیٹھ کر کھانا کھائیں.یہ فرما کر حضور مسجد کے ساتھ والی کوٹھڑی میں تشریف لے گئے اور حضور نے اور میاں نظام دین نے کوٹھڑی کے اندرا کٹھے بیٹھ کر ایک ہی پیالے میں کھانا کھایا.اُس وقت میاں نظام دین خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے اور جو لوگ میاں نظام دین کو عملاً پرے دھکیل کر حضرت مسیح موعود کے قریب بیٹھ گئے تھے وہ شرم سے کئے جاتے تھے.(سیرت طیبه از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحه (۱۸۸ پھر حضرت مفتی محمد صادق صاحب بیان کرتے ہیں :- جب میں ۱۹۰۱ء میں ہجرت کر کے قادیان چلا آیا اور اپنی بیوی اور بچوں کو ساتھ لایا.ایک شب کا ذکر ہے کہ کچھ مہمان آئے جن کے واسطے جگہ کے انتظام کے لئے حضرت ام المومنین حیران ہو رہی تھیں کہ سارا مکان تو پہلے ہی کشتی کی طرح پُر ہے اب ان کو کہاں ٹھہرایا جائے.اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اکرام ضیف کا ذکر کرتے ہوئے حضرت بیوی صاحبہ کو پرندوں کا ایک قصہ سنایا.چونکہ میں بالکل ملحقہ کمرے میں تھا اور کواڑوں کی ساخت پرانے طرز کی تھی جن کے اندر سے آواز بآسانی دوسری طرف پہنچتی رہتی ہے.اس واسطے میں نے اس سارے
$2003 193 خطبات مسرور قصہ کو سنا.فرمایا.دیکھو ایک دفعہ جنگل میں ایک مسافر کو شام ہوگئی.رات اندھیری تھی.قریب کوئی بستی اُسے دکھائی نہ دی اور وہ ناچار ایک درخت کے نیچے رات گزارنے کے واسطے بیٹھ رہا.اُس درخت کے اوپر ایک پرند کا آشیانہ تھا.پرندہ اپنی مادہ کے ساتھ باتیں کرنے لگا کہ دیکھو یہ مسافر جو ہمارے آشیانہ کے نیچے زمین پر آبیٹھا ہے یہ آج رات ہمارا مہمان ہے اور ہمارا فرض ہے کہ اس کی مہمان نوازی کریں.مادہ نے اس کے ساتھ اتفاق کیا اور ہر دو نے مشورہ کر کے یہ قرار دیا کہ ٹھنڈی رات ہے اور اس ہمارے مہمان کو آگ تاپنے کی ضرورت ہے اور تو کچھ ہمارے پاس نہیں، ہم اپنا آشیانہ ہی توڑ کر نیچے پھینک دیں تا کہ وہ ان لکڑیوں کو جلا کر آگ تاپ لے.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اورسا را آشیانہ تنکا تنکا کر کے نیچے پھینک دیا اس کو مسافر نے غنیمت جانا اور اُن سب لکڑیوں کو تنکوں کو جمع کر کے آگ جلائی اور تاپنے لگا.تب درخت پر اس پرندوں کے جوڑے نے پھر مشورہ کیا کہ آگ تو ہم نے اپنے مہمان کو بہم پہنچائی اور اُس کے واسطے سینکنے کا سامان مہیا کیا.اب ہمیں چاہئے کہ اُسے کچھ کھانے کو بھی دیں.اور تو ہمارے پاس کچھ نہیں.ہم خود ہی اس آگ میں جاگریں اور مسافر ہمیں بھون کر ہمارا گوشت کھا لے.چنانچہ اُن پرندوں نے ایسا ہی کیا اور مہمان نوازی کا حق ادا کیا.“ (ذکر حبیب صفحه ۸۵ تا ۸۷ مصنفه حضرت مفتی محمد صادق صاحب تو یہ ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا طریق واسلوب مہمان نوازی.اور یہ تو قعات ہیں.ہم سے تو خدا کا صیح نہ آشیانے کی قربانی مانگ رہا ہے نہ جان کی قربانی مانگ رہا ہے.صرف کچھ وقت ہے اور تھوڑی سی بے آرامی کی قربانی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کے لئے جو ہم نے کرنی ہے اور اتنی سی قربانی سے ہی آپ اور یہ تمام کارکنان جو ہیں آپ کی آمد کے مقصد کو پورا کرنے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ پہلے سے بڑھ کر مہمانوں کی خدمت کرنے کی تمام کارکنوں کو تو فیق عطا فرمائے.اب کچھ انتظامی اور تربیتی ہدایات ہیں جو میز بانوں اور مہمانوں دونوں کے لئے ہیں.وہ میں ابھی آپ کو بتاتا ہوں.اور کوشش کریں کہ تمام امور کو خوش اسلوبی سے سرانجام دینے کے لئے ان پر عمل کیا جائے.
194 $2003 خطبات مسرور نمبر ایک یہ ہے کہ مسجد میں اور مسجد کے ماحول میں اس کے آداب اور تقدس کا خیال رکھیں.اب جلسہ سالانہ کے دنوں میں اسلام آباد میں ہی تمام انتظامات ہوں گے.تو جو مار کی جلسہ کے لئے لگائی جاتی ہے اسی میں نمازیں ہوں گی.اس لئے اس وقت کے لئے اس کو آپ کو مسجد کا ہی درجہ دینا ہوگا.اور مکمل طور پر وہاں اس تقدس کا خیال رکھنا ہوگا.پھر یہ ہے کہ جلسہ کے ایام بالخصوص ذکر الہی اور درود پڑھتے ہوئے گزاریں اور التزام کے ساتھ نمازوں کی پابندی کریں.اب اتنی دور سے مہمان تشریف لائے ہیں تو اگر نمازیں بھی نہ پڑھیں اور ان کی پابندی نہ کی تو پھر فائدہ کوئی نہیں ہو گا.اسی طرح انتظامیہ کے لئے یہ ہے کہ لنگر خانہ میں یا ایسی ڈیوٹیاں جہاں سے ہلنا ان کے لئے مشکل ہے وہاں نماز کی ادائیگی کا انتظام ہونا چاہئے.اور ان کے افسران کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں.انگلستان کے احمدیوں کو چاہئے کہ ذوق و شوق کے ساتھ اس جلسہ میں شریک ہوں.یہ آپ کا جلسہ سالانہ ہے.بغیر کسی عذر کے کوئی غیر حاضر نہ رہے.بعض لوگ تین دن کی بجائے صرف دو دن یا ایک دن کے لئے آجاتے ہیں اور ان کے آنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جلسہ کی برکات کے حصول کے بجائے میل ملاقات ہو.حالانکہ جلسہ کے برکات کو اگر مدنظر رکھا جائے تو تین دن حاضر ر رہنا ضروری ہے.جس حد تک ممکن ہو جلسہ کی تقاریر اور باقی پروگرام پوری توجہ اور خاموشی سے سنیں اور وقت کی قدر کرتے ہوئے کسی بھی صورت اسے ضائع نہ کریں.پھر ہے کہ نماز کے دوران بعض اوقات بچے رونے لگ جاتے ہیں جس سے بعض لوگوں کی نماز میں بہر حال توجہ بنتی ہے، خراب ہوتی ہے.جو نماز کا تعلق تھا وہ جاتا رہتا ہے.تو اس صورت میں والدین کو چاہئے اگر والد کے پاس بچہ ہے یا والدہ کے پاس بچہ ہے کہ وہ اس کو باہر لے جائیں.یہ بہتر ہے کہ اس اکیلے کی نماز خراب ہو، بجائے اس کے کہ پورے ماحول میں بچے کے شور کی وجہ سے رونے کی وجہ سے نمازیوں کی نما ز خراب ہو رہی ہو.نیز اگر چھوٹی عمر کے بچے ہیں تو مائیں جو ہیں اگر یا باپوں کے پاس ہے تو باپ، پہلی صفوں میں بیٹھنے کی کوشش نہ کریں.بلکہ پیچھے جا کر بیٹھیں تا کہ اگر ضرورت پڑے تو نکلنا بھی آسان ہو.
خطبات مسرور 195 $2003 اسی طرح نمازوں کے دوران اپنے موبائل فون بھی بند رکھیں.بعضوں کو عادت ہوتی ہے کہ فون لے کر نمازوں پر آجاتے ہیں اور پھر جب گھنٹیاں بجنا شروع ہوتی ہیں تو بالکل توجہ بٹ جاتی ہے نماز سے.اور جلسہ کی تقریروں کے درمیان بھی مائیں اپنے بچوں کو خاموش رکھنے کی کوشش کرتی رہیں اور اس کے لئے بہتر یہی ہے کہ پیچھے جا کر بیٹھیں.فضول گفتگو سے اجتناب کریں.باہمی گفتگو میں دھیما پن اور وقار قائم رکھیں.تلخ گفتگو سے اجتناب کریں.جیسا کہ میں پہلے بھی اوپر ذکر کر چکا ہوں کہ آپس میں ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھیں، کسی بھی قسم کی تلخی پیدا نہیں ہونی چاہئے.نہ مہمانوں کی آپس میں نہ مہمانوں اور میز بانوں کی ، اور نہ میزبانوں کی آپس میں تو کسی بھی شکل میں کوئی تلخی نہ ہو.بلکہ ایک روحانی ماحول ہو جو ہر دیکھنے والے کو نظر آتا ہو.اور پھر یہ ہے کہ بعض لوگ بلند آواز سے عادتنا تو تو میں میں کر کے باتیں کر رہے ہوتے ہیں یا ٹولیوں کی صورت میں بیٹھ کر قہقہے لگارہے ہوتے ہیں.تو ان تین دنوں میں ان تمام چیزوں سے جس حد تک پر ہیز کر سکتے ہیں کریں بلکہ مکمل طور پر پر ہیز کرنے کی کوشش کریں.ویسے بھی یہ کوئی ایسی اچھی عادت نہیں.دوسرے مختلف قسم کے لوگ یہاں آئے ہوئے ہوتے ہیں.بعض اونچا سننے والے ہیں، بعض زبان نہ سمجھنے والے ہیں تو دیکھنے والا بعض دفعہ باتیں کر رہا ہوتا ہے اور ان کی طرف دیکھ کر ہنس رہا ہوتا ہے جس سے بلا وجہ غلط نہی پیدا ہوتی ہے تو ان چیزوں سے بچنا چاہئے ، پر ہیز کرنی چاہئے.ایک اور ضروری ہدایت یہ ہے کہ بازار بھی جلسہ کے دوران بند رہیں گے.تو مہمان بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ بلا وجہ جن لوگوں نے دکانیں بنائی ہوئی ہیں یا سٹال لگائے ہیں ان کو مجبور نہ کریں کہ اس دوران دکانیں کھولیں یا آپ وہاں بیٹھے رہیں.اگر مجبوری ہو تو چند ضروری چیزیں مہیا ہوسکتی ہیں لیکن انتظامیہ اس بات کا بھی جائزہ لے گی کہ کس حد تک اجازت دینی ہے.پھر ہے کہ اسلام آباد کے ماحول میں تنگ سڑکوں پر چلنے میں احتیاط اور شور وغل سے پر ہیز کریں.یہ باہر سے آنے والوں کے لئے خاص طور پر یہ بات یادر رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس ماحول میں یہ نہ سمجھیں کہ آبادی نہیں ہے.تھوڑی بہت آبادی تو ہوتی ہے تو بلا وجہ شور وغل نہیں ہونا چاہئے.
خطبات مسرور 196 $2003 پھر گاڑیاں پارک کرتے وقت خیال رکھیں کہ وہ لوگوں کے گھروں کے سامنے یا ممنوعہ جگہوں پر پارک نہ ہوں.نہ بیت الفضل کی سڑکوں پر اور نہ اسلام آباد میں.ٹریفک کے قواعد کو ملحوظ رکھیں اور جلسہ گاہ میں شعبہ یار کنگ کے منتظمین سے مکمل تعاون کریں.یہاں قیام کے دوران دوسرے ملکی قوانین کی بھی پوری پاسداری کریں ، پوری پابندی کریں اور بالخصوص ویزا کی میعاد ختم ہونے سے پہلے پہلے ضرور واپس تشریف لے جائیں.اور جو دوست جلسہ سالانہ کی نیت سے ویزا لے کر یہاں آئے ہیں انہیں بہر حال اس کی بہت سختی سے پابندی کرنی ہوگی.پھر صفائی کے آداب ہیں.ٹائلٹ میں صفائی کو لوظ رکھیں.یادرکھیں کہ صفائی بھی ایمان کا حصہ ہے.پھر یہ ہے کہ خواتین کے لئے ہدایت ہے کہ خواتین گھومنے پھرنے میں احتیاط اور توجہ کی رعایت رکھیں.تاہم جو خواتین احمدی مسلمان نہیں اور پردے کی ایسی پابندی نہیں کرتیں ان سے صرف پردے کی درخواست کرنا ہی کافی ہے.ہرگز کوئی زبر دستی کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی ہونی چاہئے.اگر کسی وجہ سے کسی احمدی کو بھی نقاب کی دقت ہو تو پھر ایسی خواتین میک اپ میں نہیں ہونی چاہئیں.سادہ رہیں کیونکہ میک اپ کرنا بہر حال مناسب نہیں.سرڈھانے کی عادت کو اچھی طرح سے رواج دیں.ایک ایسا ماحول پیدا ہو، خواتین کی طرف سے نظر آنا چاہئے کہ روحانی ماحول میں ہم یہ دن بسر کر رہے ہیں.پردہ نہ کرنے کے بہانے نہیں تلاش ہونے چاہئیں.اگر کوئی مجبوری ہے تو بہر حال جس حد تک حجاب ہے اس کو قائم رکھنا چاہئے اور یہ حکم بھی ہے.پھر ایک ہدایت ان لوگوں کے لئے ہے جو بعض دفعہ، عموما تو یہ نہیں ہوتا، لیکن بعض دفعہ بعض مقامی لوگ لفٹ دیتے ہیں مہمانوں کو اور پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں.تو بہر حال مہمان نوازی کے پیش نظر اس سے اجتناب کرنا چاہئے.پھر مہمانوں کی عزت و احترام اور خدمت کو اپنا شعار بنائیں اور محبت خلوص اور ایثار و قربانی کے جذ بہ سے ان کی بے لوث خدمت کریں.یہ پہلے بھی میں کہہ آیا ہوں.کارکنان کو مہمانوں کے ساتھ نرم لہجہ اور خوش دلی سے بات کرنی چاہئے.اس میں پہلے بھی حدیث کے حوالے سے عرض
$2003 197 خطبات مسرور کر چکا ہوں نظم و ضبط کا خیال رکھیں اور منتظمین جلسہ سے بھر پور تعاون کریں اور ان کی ہر طرح سے اطاعت کریں.پھر ایک چیز یہ دیکھنے میں آتی ہے کہ ان دنوں میں بعض دفعہ کھانے کا بہت ضیاع ہوتا ہے.کھانے کے آداب میں تو یہ ہے کہ جتنا پلیٹ میں ڈالیں اس کو مکمل ختم کریں.کوئی ضیاع نہیں ہونا چاہئے.بلاوجہ حرص میں آکر زیادہ ڈال لیا یا دیکھا دیکھی ڈال لیا.اپنے بچوں کو بھی اس کی تلقین کریں کہ اس قسم کی کوئی حرکت نہیں ہونی چاہئے جس کا دوسروں پر برا اثر پڑ رہا ہو.اور یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کھانا جو ضائع ہورہا ہوتا ہے اکثر کارکنان کا یہ قصور نہیں ہوتا بلکہ لینے والے کا قصور ہوتا ہے.جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے اتنا ہی لیں جتنا آپ ختم کر سکیں.لیکن کارکنان کے لئے بہر حال یہ ہدایت ہے کہ اگر کوئی مطالبہ کرتا ہے کہ مزید دو اور زیادہ لے لیتا ہے تو اسے نرمی سے سمجھا ئیں سختی سے کسی مہمان کو بھی انکار نہیں کرنا اور نہ یہ کسی کارکن کا حق ہے.پیار سے کہہ سکتے ہیں کہ ختم ہو جائے تو دوبارہ آکر لے لیں.پھر صفائی کے متعلق پہلے بھی میں نے کہا تھا.غسل خانوں کی صفائی.یہاں یہ ہے کہ عمومی صفائی.کھانا جہاں آپ کھا رہے ہوں ان جگہوں پر بعض لوگ کھانا کھا کر خالی برتنوں کو وہیں رکھ جاتے ہیں اور ڈسٹ بن میں نہیں ڈالتے.اور یہ معمولی سی بات ہے.ایک تو کارکنان کا کام بڑھ جاتا ہے.اس عرصہ میں وہ کوئی اور کام کر سکتے ہیں.دوسرے گندگی پھیلتی ہے جو ویسے بھی حکم ہے کہ صفائی بھی ایمان کا حصہ ہے.تو جیسا کہ پہلے میں نے عرض کیا تھا کہ سڑکوں کی اور گراؤنڈ ز کی اور جلسہ گاہ کی صفائی کریں.تو ہر جگہ پورے ماحول کی صفائی کی ضرورت ہے.اور صفائی کا خاص طور پر خیال رکھیں.اس ماحول میں ظاہری صفائی کا بہت خیال رکھا جاتا ہے.تو بلاوجہ انتظامیہ کو بھی اعتراض کا موقع نہ دیں اور اپنی یادداشت میں محفوظ کر لیں کہ صفائی کو ہر صورت میں آپ نے قائم رکھنا ہے.پھر یہ جماعتی جلسہ ہے کوئی میلہ نہیں ہے اور نہ اس میں میلہ سمجھ کر شمولیت ہونی چاہئے.اور نہ یہ صرف میل ملاقات اور خرید وفروخت یا فیشن کا اظہار ہونا چاہئے.بعض دفعہ خواتین میں یہ دیکھا گیا ہے کہ عورتیں اکٹھی ہوئیں ، باتیں کیں اور بس ختم.اور یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کیا تقریر یں ہوئیں اور کیا کہا گیا، کس قسم کے تربیتی پروگرام تھے.تو انتظامیہ اس بات کی خاص نگرانی رکھے.اب دنیا میں
198 $2003 خطبات مسرور ہر جگہ ، بعض اور جگہوں سے بھی شکایات آجاتی ہیں کہ جلسوں میں یہ یہ بدانتظامی ہوئی.تو ہمارے احمدی ماحول میں دنیا میں ہر جگہ جہاں بھی جلسے ہو رہے ہوں اس بات کا خاص اہتمام ہونا چاہئے کہ خواتین بھی ، بچے بھی خاموشی سے بیٹھ کر جلسہ سنیں اور اس سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.پھر بعض دفعہ شکایات آجاتی ہیں کہ باہر سے آنے والے یہاں اپنے عزیزوں سے تعلق والوں سے، رشتہ داروں سے قرض لینا شروع کر دیتے ہیں شاپنگ کرنے کے لئے.تو یہ بھی قناعت کی صفت کو گدلا کرنے والی بات ہے.اس سے اجتناب کرنا چاہئے.اتنا ہی خرچ کرنا چاہئے جتنی توفیق ہے آپ کو.اب یہاں کوئی شاپنگ کرنے کے لئے تو نہیں آئے.جس غرض کے لئے آئے ہیں وہ جلسہ سالانہ ہے، اپنی تربیت کے لئے ایک روحانی ماحول میں شامل ہونے کے لئے آتے ہیں تو اسی روحانی مائدہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں اور دنیا کو چھوڑیں.جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھا مہمان نوازی کے سلسلہ میں کہ تین دن کی مہمان نوازی تو ہے لیکن جو لوگ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے گھروں میں ٹھہرتے ہیں تو اگر وہ شوق سے ان کو ٹھہر ابھی لیا جائے تو ہر گز مہمان نوازی نہیں بلکہ اقرباء کے حق میں آتے ہیں.ان کو جتنا ٹھہرا سکتے ہیں ٹھہرائیں.یہ نہیں کہ انتظامیہ نے کہہ دیا تھا کہ تین دن سے زیادہ نہ ٹھہر و تو اپنے تعلقات ہی بگاڑ لیں.پھر ایک بہت اہم چیز ہے حفاظتی نقطہ نگاہ سے نگرانی کرنا.اپنے ماحول پر گہری نظر رکھنا.ہر ایک کا فرض ہے کہ اگر اجنبی آدمی ہو تو متعلقہ شعبہ کو اس کی اطلاع کر دیں.خود کسی سے بھی چھیڑ چھاڑ نہیں کرنی چاہئے.جہاں ہر آدمی جو جلسہ میں شامل ہو رہا ہے وہ اپنے ماحول پر نظر رکھے اور اگر اطلاع کرنا ہوا نتظامیہ کو تو اس کے متعلق خبر دار رہنا چاہئے تا کہ ہر حرکت کی فوری کارروائی آپ دیکھ سکیں، نوٹ کرسکیں اور جو کا روائی ہو سکے، کسی ساتھ والے کو بتاسکیں جو انتظامیہ تک پہنچا دے.اس کا سب سے بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہر آدمی زیادہ دور تک نظر تو نہیں رکھ سکتا.مگر اپنے دائیں بائیں اپنے ساتھیوں پر بہر حال نظر رکھیں جن کو آپ جانتے نہ ہوں.تو یہی بہت بڑی سیکیورٹی ہے جماعت احمدیہ کی.
خطبات مسرور 199 $2003 شاید بعض وجوہ کی بنا پر انتظامیہ اپنا چیکنگ کا نظام اس دفعہ جلسہ پر سخت کرے.تو ان سے مکمل تعاون کریں اور خاص طور پر خواتین.ان میں صبر کچھ کم ہوتا ہے، جلدی بے صبر ہو جاتی ہیں.تو ان کو بھی مکمل تعاون کرنا چاہئے.یہ بھی ہماری ٹریننگ کا ایک حصہ ہے.اور آپ کے فائدے کے لئے ہی ہے.تو اس بارہ میں خاص تعاون کی اپیل ہے.اسلام آباد کی حدود میں داخلہ سے قبل متعلقہ حفاظتی عملہ کے سامنے خود ہی چیکنگ کے لئے پیش ہو جایا کریں.حفاظت کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے.اور یہ تاثر نہ پڑے کہ آپ مجبوراً آمادہ کئے گئے ہیں.ہر وقت شناختی کارڈ لگا کر رکھیں.اور اگر کوئی اس کے بغیر نظر آئے تو اس کو بھی نرمی سے توجہ دلا دیں.اس سے ایک تو انتظامیہ کو پتہ لگتار ہے گا کہ ہر ایک کو کارڈ Issue ہوا ہوا ہے.اور یہ تو پتہ ہی ہے کہ ہر ایک کو کارڈ Issue ہے.اس سے یہ پتہ لگ جائے گا کہ جو کارڈ کے بغیر ہے اس کی چیکنگ کرنی ہے.دوسرے ہر آنے والا مہمان یا جو بھی شامل ہو رہا ہے جلسہ میں اس کو بھی احساس ہوگا کہ یہ کارڈ کے بغیر ہے اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے.پھر یہ ہے کہ قیمتی اشیاء اور نقدی وغیرہ کی حفاظت کا خاص خیال رکھیں.اور یہ آپ کی اپنی ذمہ داری ہے انتظامیہ ہرگز اس کی ذمہ داری نہیں لے گی.اور سب سے ضروری بات یہ ہے کہ اس جلسہ کو ہرگز عام دنیاوی جلسوں یا میلوں کی طرح نہ سمجھا جائے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ جلسہ ایسا تو نہیں ہے کہ دنیا کے میلوں کی طرح خوانخواہ التزام اس کا لازم ہے بلکہ اس کا انعقاد صحت نیت اور حسن ثمرات پر موقوف ہے“.(مجموعه اشتهارات جلد اوّل صفحه ٤٤٠ - ٤٤٣) 66 پھر آپ فرماتے ہیں کہ یہ دنیا کے تماشوں میں سے کوئی تماشا نہیں.“ (مجموعه اشتهارات جلد اوّل صفحه _ ٤٤٣) تو ان ساری باتوں کو مد نظر رکھیں اور سب سے اہم دعا ہے.دعاؤں پر زور دیں.جلسہ پر آتے بھی اور جاتے بھی دعاؤں سے سفر شروع کریں اور سفر کے دوران بھی دعائیں کرتے رہیں اور بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ جلسوں میں شمولیت کی خاطر گھر سے دیر سے نکلے اور جلسہ میں شامل ہونے کی
$2003 200 خطبات مسرور صلى الله جلدی ہوتی ہے تو اگر تھکے ہوئے ہیں یا بے آرامی ہے کسی بھی صورت میں آرام کئے بغیر سفر شروع نہ کریں.خاص طور پر وہ لوگ جو خود ڈرائیو کر رہے ہوں بہت احتیاط کریں.ذراسی بے احتیاطی سب کی تکلیف کا باعث بن جاتی ہے اور راستے میں بھی اگر تھکاوٹ یا نیند محسوس کریں تو جو بھی قریبی سروس آئے وہاں رک کر آرام کر لیں.ٹریفک کے قوانین کا جیسے میں نے پہلے کہا تھا احترام کریں.Speed Limit کی پابندی کریں.ان دعاؤں کو یاد رکھیں جو آنحضرت ﷺ سفر سے پہلے کیا کرتے تھے.حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت سفر کے ارادہ سے اونٹ پر بیٹھ جاتے تو تین بار تکبیر کہتے اور پھر یہ دعامانگتے ”سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِيْنَ.وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُون“.یعنی پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے تابع فرمان کیا حالانکہ ہم میں اسے قابو میں رکھنے کی طاقت نہیں تھی.ہم اپنے رب کی طرف جانے والے ہیں.اے ہمارے خدا ہم تجھ سے اپنے اس سفر میں بھلائی اور تقویٰ چاہتے ہیں.تو ہمیں ایسے نیک عمل کرنے کی توفیق دے جو تجھے پسند ہیں.اے ہمارے خدا تو ہمارا یہ سفر آسان کر دے اور اس کی دوری کو لپیٹ یعنی جلد طے ہو جائے ، آرام سے طے ہو جائے.اے ہمارے خدا تو سفر میں ہمارے ساتھ ہو اور پیچھے گھر میں بھی خبر گیر ہو.اے ہمارے خدا میں تیری پناہ مانگتا ہوں سفر کی سختیوں سے، ناپسندیدہ اور بے چین کرنے والے مناظر سے، مال اور اہل وعیال میں برے نتیجہ سے اور غیر پسندیدہ تبدیلی سے.پھر جب آپ سفر سے واپس آتے تو یہی دعا مانگتے اور اس میں یہ زیادتی فرماتے کہ ہم واپس آئے ہیں تو بہ کرتے ہوئے ، عبادت گزار اور اپنے رب کی تعریف میں رطب اللسان بن کر.اللہ کرے کہ تمام مہمان یہاں آئیں اور جلسے کے تمام فیوض سے فیضیاب ہوں ، برکات سے فیضیاب ہوں اور اپنی جھولیاں بھر کر جائیں.
$2003 201 14 خطبات مسہ ایمان ، یقین، معرفت اور رشتہ تو و دو تعارف کی ترقی کیلئے جلسہ میں شامل ہوں ۲۵ جولائی ۲۰۰۳ ء مطابق ۲۵ رو فا۱۳۸۲ هجری شمسی بمقام اسلام آباد.ٹلفورڈ (برطانیہ) جلسہ سالانہ کی اہمیت اور اس میں شمولیت کی برکات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے غلاموں کے ذریعہ سے ہی اسلام کا غلبہ تمام دنیا میں ہونا ہے......فتح و نصرت اور الہی تائیدات کی خوشخبریاں جو اللہ تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاماً بتلائیں، یہ پیشگوئیاں آئندہ بھی پوری ہوں گی اور پوری ہوتی چلی جائیں گی، جلسہ کے پروگراموں میں بھر پور حصہ لیں،.....ہمارے سب کام دعاؤں سے ہی سنورتے ہیں....درود شریف اور استغفار کا کثرت سے التزام کریں
خطبات مس $2003 202 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل اور احسان ہے کہ آج جماعت احمد یہ انگلستان اپنا۳۷واں جلسہ سالانہ منعقد کر رہی ہے، جو آج سے شروع ہو رہا ہے.خدا کرے کہ اس جلسہ کی روایات بھی ہمیشہ کی طرح وہی رہیں جو ایک سو بارہ سال قبل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جاری فرمائی تھیں.اور اس لتی جلسے کو عام دنیاوی میلوں اور تماشوں سے الگ ایک ایسا جلسہ قرار دیا تھا جس کا انعقاد صحت نیت اور حسن ثمرات پر موقوف ہے.اس مختصر سی تمہید کے بعد اب میں آپ کے سامنے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے چند ایسے ارشادات پیش کرتا ہوں جن میں ان جلسوں کی اغراض بیان فرماتے ہوئے ان کے انتظام اور ان میں شمولیت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : یہ جلسہ ایسا تو نہیں ہے کہ دنیا کے میلوں کی طرح خوانخواہ التزام اس کا لازم ہے بلکہ اس کا انعقاد صحت نیت اور حسن ثمرات پر موقوف ہے.(مجموعه اشتهارات جلد نمبر اصفحه ٤٤٠) 66 آپ مزید فرماتے ہیں کہ یہ دنیا کے تماشوں میں سے کوئی تماشا نہیں.“ آپ نے فرمایا :- (مجموعه اشتهارات جلد اوّل صفحه نه ٤٤٣) سلسلہ بیعت میں داخل ہو کر پھر ملاقات کی پرواہ نہ رکھنا، ایسی بیعت سراسر بے برکت اور صرف ایک رسم کے طور پر ہوگی اور چونکہ ہر ایک کے لئے باعث ضعف فطرت یا کمی مقدرت یا بعد مسافت یہ میسر نہیں آسکتا کہ وہ صحبت میں آکر رہے یا چند دفعہ سال میں تکلیف اٹھا کر ملاقات
203 $2003 خطبات مسرور کے لئے آوے.کیونکہ اکثر دلوں میں ابھی ایسا اشتعال شوق نہیں کہ ملاقات کے لئے بڑی بڑی تکالیف اور بڑے بڑے درجوں کو اپنے پر روا رکھ سکیں.لہذا قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسہ کے لئے مقرر کئے جائیں جس میں تمام مخلصین اگر خدا چاہے بشرط صحت و فرصت و عدم موانع قو یہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہوسکیں.“ (مجموعه اشتهارات جلد اوّل صفحه ۳۰۲) آپ مزید فرماتے ہیں:.حتی الوسع تمام دوستوں کو محض اللہ ربانی باتوں کے سننے کے لئے اور دُعا میں شریک ہونے کے لئے اس تاریخ پر آ جانا چاہئے اور اس جلسہ میں ایسے حقائق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہیں.اور نیز ان دوستوں کے لئے خاص دعا ئیں اور خاص توجہ ہوگی اور حتی الوسع بدرگاہ ارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خدائے تعالیٰ اپنی طرف ان کو کھینچے اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک تبدیلی ان میں بخشے.اور ایک عارضی فائدہ ان جلسوں میں یہ بھی ہوگا کہ ہر یک نئے سال جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں داخل ہوں گے وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو کر اپنے پہلے بھائیوں کے منہ دیکھ لیں گے اور روشناسی ہو کر آپس میں رشتہ تو ڈ دو تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا....اور اس روحانی جلسے میں اور بھی کئی روحانی فوائد اور منافع ہونگے جو انشاء اللہ القدر وقتا فوقتاً ظاہر ہوتے رہیں گے.“ (آسمانی فیصله اشتهار ۳۰/دسمبر ۱۸۹۱1891 ء روحانی خزائن جلد ٤ صفحه ٣٥١-٣٥٢) پھر آپ نے فرمایا: " لا زم ہے کہ اس جلسے پر جو کئی با برکت مصالح پر مشتمل ہے ہر ایک ایسے صاحب ضرور تشریف لائیں جو زاد راہ کی استطاعت رکھتے ہوں اور اپنا سرمائی بستر لحاف وغیرہ بھی بقدر ضرورت ساتھ لاویں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی راہ میں ادنی ادنی حرجوں کی پرواہ نہ کریں.“ آپ فرماتے ہیں :- وو اشتهار ۱۷ دسمبر ۱۸۹۲ ء، مجموعه اشتهارات جلد اوّل صفحه ٣٤١) اور کم مقدرت احباب کے لئے مناسب ہوگا کہ پہلے ہی سے اس جلسے میں حاضر : ہونے کا فکر رکھیں.اور اگر تد بیر اور قناعت شعاری سے کچھ تھوڑا تھوڑا سرمایہ خرچ سفر کے لئے ہر روز
204 $2003 خطبات مسرور یا ماہ بماہ جمع کرتے جائیں اور الگ رکھتے جائیں تو بلا دقت سرمایہ سفر میسر آجاوے گا.گویا یہ سفر مفت میسر ہو جائے گا.“ ( مجموعه اشتهارات جلد اول مطبوعه لندن صفحه ۳۰۲-۳۰۳ آپ نے اسی بارہ میں مزید فرمایا: ” ہنوز لوگ ہمارے اغراض سے واقف نہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں کہ وہ بن جائیں.وہ غرض جو ہم چاہتے ہیں اور جس کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے.وہ پوری نہیں ہو سکتی جب تک لوگ یہاں بار بار نہ آئیں اور آنے سے ذرا بھی نہ اُکتائیں.“ نیز فرمایا: "جو شخص ایسا خیال کرتا ہے کہ آنے میں اس پر بوجھ پڑتا ہے.یا ایسا سمجھتا ہے کہ یہاں ٹھہرنے میں ہم پر بوجھ ہوگا.اسے ڈرنا چاہئے کہ وہ شرک میں مبتلا ہے.ہمارا تو یہ اعتقاد ہے کہ اگر سارا جہان ہمارا عیال ہو جائے تو ہمارے مہمات کا متکفل خدا تعالیٰ ہے.ہم پر ذرا بھی بوجھ نہیں.ہمیں تو دوستوں کے وجود سے بڑی راحت پہنچتی ہے.یہ وسوسہ ہے جسے دلوں سے دور پھینکنا چاہئے.میں نے بعض کو یہ کہتے سنا ہے کہ ہم یہاں بیٹھ کر کیوں حضرت صاحب کو تکلیف دیں.ہم تو نکھے ہیں.یوں ہی روٹی بیٹھ کر کیوں تو ڑا کریں.وہ یہ یا درکھیں یہ شیطانی وسوسہ ہے جو شیطان نے ان کے دلوں میں ڈالا ہے کہ ان کے پیر یہاں جمنے نہ پائیں.(خط مولانا عبد الكريم صاحب ٦ جنوری ١٩٠٠ مندرجه الحكم جلد ٤ صفحه ٦ تا ١١، ملفوظات جلد اوّل صفحه ٤٥٥) الحمد للہ ! کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قائم کردہ یہ پیاری جماعت اس عشق و محبت کی وجہ سے اور اس تعلیم اور تربیت کی وجہ سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہماری کی ہے، آپ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک تڑپ کے ساتھ اس جلسہ میں شامل ہونے کی خواہش رکھتے ہیں لوگ اور جہاں خلیفتہ امسیح موجود ہو وہاں تو وہ ضرور آنا چاہتے ہیں اور بڑی تڑپ کے ساتھ آتے ہیں ، بڑے اخراجات کر کے آتے ہیں.لیکن حالات کی وجہ سے باوجود خواہش اور تڑپ کے لاکھوں کروڑوں احمدی ایسے بھی ہیں جو پر شکستہ اور اپنی خواہشوں کو دبائے بیٹھے ہیں اور اس جلسہ میں شامل
$2003 205 خطبات مسرور نہیں ہو سکتے.لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ بھی ہم پر فضل اور احسان ہے کہ ایم ٹی اے جیسی نعمت ہمیں عطا فرمائی ہے اور آج دنیا کے کونے کونے میں احمدی گھر بیٹھے اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اس جلسہ میں شامل ہور ہے ہیں.اور اس شکر کے ساتھ بے اختیار حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ کے لئے بھی دعا نکلتی ہے جنہوں نے اس نعمت کو ہم تک پہنچانے کے لئے بے انتہا کوشش کی اور اس کو کامیاب کیا.اللہ تعالیٰ جماعت کے اس محبت کے جذبے کو جو خدا، رسول اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وجہ سے جماعت کو خلافت سے ہے ہمیشہ قائم رکھے اور اس میں اضافہ کرتا چلا جائے ،اس میں کبھی کمی نہ آئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس جلسہ کو خالصہ کہی جلسہ ہونے کی خواہش اور دعا کی ہے جس میں ہماری روحانی اور علمی ترقی کی باتوں کے علاوہ تربیتی امور کی طرف بھی توجہ دلائی جاتی ہے.اور اس کا ایک بہت بڑا مقصد جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا آپس میں محبت واخوت کا رشتہ قائم کرنا بھی ہے.ایک دوسرے کا خیال رکھنا ، اپنے بھائی کے لئے اگر ضرورت پڑے تو اپنے حق چھوڑنے کا حوصلہ رکھنا بھی آپس میں محبت و اخوت کو بڑھانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے.گزشتہ خطبہ میں بھی میں نے اس طرف توجہ دلائی تھی کہ مہمانوں اور میز بانوں دونوں کو خوش خلقی اور خوش مزاجی کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے اور اس کا مظاہرہ کرنا چاہئے.ایک دوسرے کی تکلیف کا خیال رکھنا چاہئے اور اپنے اندر زیادہ سے زیادہ برداشت کا مادہ پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اللہ کرے کہ یہ معیار پیدا ہو جائیں.لیکن یہ معیار کس طرح پیدا ہوں، کس طرح ایک دوسرے کی خاطر قربانی دی جائے اس بارہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: وو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہوسکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہر اوے.اگر میرا ایک بھائی میرے سامنے باوجود اپنے ضعف اور بیماری کے زمین پر سوتا ہے اور میں باوجود اپنی صحت و تندرستی کے چار پائی پر قبضہ کرتا ہوں تا وہ اس پر بیٹھ نہ جاوے تو میری حالت پر افسوس ہے اگر میں نہ اٹھوں اور محبت اور ہمدردی کی راہ سے اپنی چار پائی اس کو نہ دوں اور اپنے لئے فرش زمین پسند نہ کروں.اگر میرا بھائی بیمار ہے اور کسی درد
$2003 206 خطبات مسرور سے لاچار ہے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں اس کے مقابل پر امن سے سور ہوں اور اس کے لئے جہاں تک میرے بس میں ہے آرام رسانی کی تدبیر نہ کروں.اور اگر کوئی میرا دینی بھائی اپنی نفسانیت سے مجھ سے کچھ سخت گوئی کرے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں بھی دیدہ و دانستہ اس سے سختی سے پیش آؤں.بلکہ مجھے چاہئے کہ میں اس کی باتوں پر صبر کروں اور اپنی نمازوں میں اس کے لئے روروکر دعا کروں کیونکہ وہ میرا بھائی ہے اور روحانی طور پر بیمار ہے.اگر میرا بھائی سادہ ہو یا کم علم یا سادگی سے کوئی خطا اس سے سرزد ہو تو مجھے نہیں چاہئے کہ میں اس سے ٹھٹھا کروں یا چیں بہ جبیں ہوکر تیزی دکھاؤں یا بد نیتی سے اس کی عیب گیری کروں کہ یہ سب ہلاکت کی راہیں ہیں.کوئی سچا مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل نرم نہ ہو.جب تک وہ اپنے تئیں ہر یک سے ذلیل تر نہ سمجھے اور ساری مشیختیں دُور نہ ہو جائیں.خادم القوم ہونا مخدوم بننے کی نشانی ہے اور غریبوں سے نرم ہو کر اور جُھک کر بات کرنا مقبول الہی ہونے کی علامت ہے، اور بدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا سعادت کے آثار ہیں اور غصے کو کھا لینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجے کی جوانمردی ہے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ یہ باتیں ہماری جماعت کے بعض لوگوں میں نہیں...66 (شهادت القرآن، روحانی خزائن جلد ٦ ، صفحه ٣٩٥-٣٩٦) د اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی اس نصیحت کے مطابق عمل کرنے کی، اپنے آپ کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے.اب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ۱۹۰۳ء کے بعض الہامات جن میں جماعت کی ترقی کی خوشخبریاں ہیں پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے ہمیں ترقیات کے نظارے دکھا بھی رہا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی دکھائے گا.ہر الہام اور پیشگوئی اپنے وقت پر پوری بھی ہوئی ہے جن سے ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے نشان دیکھے ہیں اور آئندہ بھی انشاء اللہ ہوں گی.یہ الہی تقدیر ہے اور بہر حال اس نے غالب آنا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ حضرت اقدس مسیح موعود کے غلاموں کے ذریعہ سے ہی اسلام کا غلبہ تمام دنیا میں ہونا ہے.پس ان خوشخبریوں کے ساتھ کمر ہمت کس لیں اور دعاؤں پر بھی بہت زیادہ زور دیں.بہت بڑی ذمہ داری ہے ہم پر.
$2003 207 خطبات مسرور جنوری ۱۹۰۳ ء کا ایک الہام ہے.آپ فرماتے ہیں: اول ایک خفیف خواب میں جو کشف کے رنگ میں تھی مجھے دکھایا گیا کہ میں نے ایک لباس فاخرہ پہنا ہوا ہے اور چہرہ چمک رہا ہے.پھر وہ کشفی حالت وحی کی طرف منتقل ہو گئی.چنانچہ وہ تمام فقرات وحی الہی کے جو بعض اس کشف سے پہلے اور بعض بعد میں تھے ، ذیل میں لکھے جاتے ہیں.اور وہ یہ ہیں : يُبْدِي لَكَ الرَّحْمَنُ شَيْئًا أَتَى اَمْرُ اللهِ فَلا تَسْتَعْجِلُوْهُ بِشَارَةٌ تَلَقَّاهَا النَّبِيُّوْنَ.یعنی خدا جو رحمن ہے تیری سچائی ظاہر کرنے کے لئے کچھ ظہور میں لائے گا.خدا کا امرآ رہا ہے.تم جلدی نہ کرو.یہ ایک خوشخبری ہے جو نبیوں کو دی جاتی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ صبح پانچ بجے کا وقت تھا.یکم جنوری ۱۹۰۳ء و یکم شوال ۱۳۲۰ھ روز عید، جب میرے خدا نے مجھے یہ خوشخبری دی.(تذکره صفحه ٤٤٨ - ٤٤٩ ـ مطبوعه ١٩٦٩ء) پھر جنوری کا ہی ایک الہام ہے : جَاءَ نِی أَئِلٌ وَاخْتَارَ وَأَدَارَ إِصْبَعَهُ وَأَشَارَ يَعْصِمُكَ اللهُ مِنَ الْعِدَا وَيَسْطُوْ بِكُلِّ مَنْ سَطَا.فرمایا کہ آئل جبرائیل ہے ، فرشتہ بشارت دینے والا.پھر اس کا ترجمہ یہ ہے کہ آیا میرے پاس آئل اور اس نے اختیار کیا ( یعنی چن لیا تجھ کو ) اور گھمایا اس نے اپنی انگلی کو اور اشارہ کیا کہ خدا تجھے دشمنوں سے بچاوے گا.اور ٹوٹ کر پڑے گا اس شخص پر جو تجھ پر ا چھلا.آپ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ آئل اصل میں آیا کت سے ہے.یعنی اصلاح کرنے والا.جو مظلوم کو ظالم سے بچاتا ہے.یہاں جبرئیل نہیں کہا، آئل کہا.اس لفظ کی حکمت یہی ہے کہ وہ دلالت کرے کہ مظلوم کو ظالموں سے بچاوے.اس لئے فرشتہ کا نام ہی آئل رکھ دیا.پھر اس نے انگلی ہلائی کہ چاروں طرف کے دشمن.اور اشارہ کیا کہ يَعْصِمُكَ اللَّهُ مِنَ الْعِدَا وغیرہ.یہ بھی اس پہلے الہام سے ملتا ہے.اِنَّهُ كَرِيمٌ تَمَشَّى اَمَامَكَ وَعَادَى كُلَّ مَنْ عادی.وہ کریم ہے.تیرے آگے آگے چلتا ہے.جس نے تیری عداوت کی اس نے اُس کی عداوت کی.چونکہ آئل کا لفظ لغت میں مل نہ سکتا ہوگا.یا زبان میں کم مستعمل ہوتا ہوگا.اس لئے
$2003 208 خطبات مسرور الہام نے خود ہی اس کی تفصیل کر دی ہے.(تذکره صفحه ٤٤٩ - ٤٥٠ مطبوعه ١٩٦٩ء) پھر ۱۹۰۳ء کا ہی ایک الہام ہے.وَإِنَّهُ بَشَّرَنِيْ وَقَالَ لَا أُبْقِي لَكَ فِي الْمُخْزِيَاتِ ذِكْرًا.وَقَالَ يَعْصِمُكَ اللهُ مِنْ عِنْدِهِ وَهُوَ الْوَلِيُّ الرَّحْمَنُ - ترجمہ: اور اس نے مجھے بشارت دی اور فرمایا میں تیرے متعلق رسوا کن باتوں کا ذکر تک نہیں چھوڑوں گا.اور فرمایا، اللہ تعالیٰ تیری حفاظت اپنی طرف سے کرے گا.اور وہی بے حد رحم کرنے والا دوست ہے.(تذکره صفحه ۴۵۴-۴۵۳ مطبوعه ۱۹۶۹ء ) پھر جنوری کا ایک الہام ہے.اِنِّی مَعَ الأفْوَاجِ اتِيْكَ.أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ.يَاجِبَالُ اَوِبِي مَعَهُ وَالطَّيْرَ.( تذکره صفحه ٥٤٥ - مطبوعه عه ١٩٦٩ء) میں فوجوں کے ساتھ تیرے پاس آؤں گا.کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں.پہاڑو اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور جھک جاؤ اور اے پرند و تم بھی.جنوری (۱۹۰۳ء) میں ایک رؤیا ہے.اس کا ذکر اس طرح ہے کہ حضرت اقدس نے عشاء سے پیشتر یہ رویا سنائی کہ میں مصر کے دریائے نیل پر کھڑا ہوں.اور میرے ساتھ بہت سے بنی اسرائیل ہیں اور میں اپنے آپ کو موسیٰ سمجھتا ہوں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم بھاگے چلے آتے ہیں.نظر اٹھا کر پیچھے دیکھا تو معلوم ہوا کہ فرعون ایک لشکر کشیر کے ساتھ ہمارے تعاقب میں ہے.اور اس کے ساتھ بہت سامان مثل گھوڑے وگاڑیوں ، رتھوں پر ہے اور وہ ہمارے بہت قریب آ گیا ہے.میرے ساتھی بنی اسرائیل بہت گھبرائے ہوئے ہیں اور اکثر ان میں سے بے دل ہو گئے ہیں اور بلند آواز سے چلاتے ہیں کہ اے موسیٰ ہم پکڑے گئے.تو میں نے بلند آواز سے کہا كَلَّا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِيـن.اتنے میں میں بیدار ہو گیا اور زبان پر یہی الفاظ جاری تھے.یعنی اس کا ترجمہ یہ ہے کہ نہیں نہیں ، ایسا نہیں ہوسکتا.میرا رب میرے ساتھ ہے اور وہ ضرور میرے لئے راستہ نکالے گا.(تذکره ٤٥٤) پھر جنوری ۱۹۰۳ء میں ہی ہے.فرماتے ہیں: میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میں ایک مضمون شائع کرنے لگا ہوں.گو یا کرم دین کے مقدمہ کے بارہ میں آخری نتیجہ کیا ہوا.اور میں اس پر
209 $2003 خطبات مسرور یہ عنوان لکھنا چاہتا ہوں تَفْصِيلُ مَا صَنَعَ اللهُ فِي هذا الْبَأْسِ بَعْدَ مَا اشَعْنَاهُ فِي النَّاسِ.قَدْ بَعُدُوْا مِنْ مَّاءِ الْحَيَاةِ.وَسَحِقْهُمْ تَسْحِيْفًا.یعنی تفصیل ان کارناموں کی جو خدا نے اس جنگ میں کئے بعد اس کے کہ ہم نے اس پیشگوئی کولوگوں میں شائع کیا.وہ زندگی کے پانی سے دور ہو گئے ہیں پس تو انہیں اچھی طرح پیس ڈال.(تذکره (٤٥٦) ۲۸ جنوری ۱۹۰۳ء کو آپ نے فرمایا کہ آج صبح کو الہام ہوا: سَأَكْرِمُكَ إِكْرَامًا عَجَبًا.اس کے بعد تھوڑی سی غنودگی میں ایک خواب بھی دیکھا کہ ایک چوغہ سنہری بہت خوبصورت ہے.میں نے کہا کہ عید کے دن پہنوں گا.فرماتے ہیں کہ الہام میں عجبا کا لفظ بتلاتا ہے کہ کوئی نہایت ہی مؤثر بات ہے.(تذکره ١٩٦٩ ، صفحه ٤٥٨ جنوری ۱۹۰۳ء کا یہ الہام ہے.اِنِّی مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ أَصَلَّى وَاَصُوْمُ يَا جِبَالُ اَوِبِي مَعَهُ وَالطَّيْرَ.قَدْ بَعُدُوْا مِنْ مَّاءِ الْحَيَاةِ.وصَحِقْهُمْ تَسْحِيْقَا“.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا.میں خاص رحمتیں نازل کروں گا اور عذاب کو روکوں گا.اے پہاڑو اور اے پرندو! میرے اس بندہ کے ساتھ وجد اور رقت سے میری یاد کرو.وہ زندگی کے پانی سے دور ہو گئے ہیں.پس تو انہیں اچھی طرح پیس ڈال.(تذکره ١٩٦٩، صفحه ٤٥٨) پھر آپ فرماتے ہیں ۳۰ / جنوری ۱۹۰۳ء کی بات ہے.اسی رات خواب میں دیکھا کہ گویا زار روس کا سوٹا میرے ہاتھ میں ہے اور اس میں پوشیدہ طور پر بندوق کی نالی بھی ہے.دونوں کام نکالتا ہے.اور پھر دیکھا کہ وہ بادشاہ جس کے پاس بو علی سینا تھا اس کی کمان میرے پاس ہے.اور میں نے اس کمان سے ایک شیر کی طرف تیر چلایا ہے اور شاید بوعلی سینا بھی میرے پاس کھڑا ہے اور وہ بادشاہ بھی“.(تذکره ١٩٦٩، صفحه (٤٥٩،٤٥٨ فروری ۱۹۰۳ ء کو سیر میں حضرت اقدس نے یہ الہامات سنائے جو کہ آپ کو رات کو ہوئے.سننجِيْكَ سَنُعْلِيْكَ إِنِّي مَعَكَ وَ مَعَ أَهْلِكَ.سَأَكْرِمُكَ إِكْرَامًا
$2003 210 خطبات مسرور عَجَبًا.سُمِعَ الدُّعَاءُ إِنِّي مَعَ الْأَفْوَاجِ اتِيْكَ بَغْتَةً.دُعَاءُ كَ مُسْتَجَابٌ إِنِّي مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَأَصَلَّى وَأَصُوْمُ.وَأَعْطِيكَ مَا يَدُومُ “.ہم تجھے نجات دیں گے.ہم تجھے غالب کریں گے.میں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ.اور میں تجھے ایسی بزرگی دوں گا جس سے لوگ تعجب میں پڑیں گے.میں فوجوں کے ساتھ نا گہانی طور پر آؤں گا.میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور تجھے وہ چیز دوں گا جو ہمیشہ رہے گی.(تذکره صفحه ٤٥٩ - ٤٦٠ مطبوعه ١٩٦٩ء) پھر فروری کا ایک الہام ہے.” اِنّى مَعَ الْأَسْبَابِ اتِيْكَ بَغْتَةً.إِنِّي مَعَ الرَّسُوْلِ أجِيْبُ.أَخْطِئ وَأُصِيْبُ إِنِّي مَعَ الرَّسُوْلِ مُحِيْطٌ.اس کا ترجمہ ہے کہ میں رسول کے ساتھ ہوکر جواب دوں گا.اپنے ارادے کو کبھی چھوڑ بھی دوں گا اور کبھی ارادہ پورا کروں گا.کچھ تر جمہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود کیا ہے.بقیہ ترجمہ اس کا یہ ہے کہ میں خاص سامان لے کر تیرے پاس اچانک آؤں گا.میں اپنے رسول کی حمایت میں (انہیں ) گھیر نے والا ہوں.(تذکره صفحه ٤٦٢ - مطبوعه ١٩٦٩ء) ۱۹۰۳ء کا ہی ایک الہام ہے.فرمایا: ”يُرِيدُونَ اَنْ لَّا يَتِمَّ أَمْرُكَ.وَاللَّهِ يَأْبَى إِلَّا أَنْ يتِمَّ أَمْرَكَ ،.وہ ارادہ کریں گے جو تیرا کام نا تمام رہے اور خدا نہیں چاہتا جو تجھے چھوڑ دے.جب تک تیرے تمام کام پورے نہ کر دے.(تذکره صفحه ٤٦٦ - مطبوعه ١٩٦٩ء) پھر مارچ ۱۹۰۳ء کا ہی ایک الہام ہے.اِنَّا نَرِتْ الْأَرْضَ نَأْكُلُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا.ہم زمین کے وارث ہوں گے اور اطراف سے اس کو کھاتے آئیں گے.(تذکره صفحه ٤٦٦ - مطبوعه ١٩٦٩ء) اپریل ۱۹۰۳ء میں پھر یہ الہام ہے: ”رَبِّ إِنِّى مَظْلُوْمٌ فَانْتَصِرْ فَسَحِقْهُمْ تَسْحِيْقًا.اے میرے رب میں ستم رسیدہ ہوں.میری مددفرما اور انہیں اچھی طرح پیس ڈال.یہ دعا آج کل ہمیں ہر احمدی کو کرنی چاہئے.اس پر توجہ دیں.(تذکره ١٩٦٩، صفحه ٤٧٠) پھر فرمایا کہ میں نے ایک دفعہ کشف میں اللہ تعالیٰ کو تمثل کے طو پر دیکھا.میرے گلے میں ہاتھ ڈال کر فرمایا: جے توں میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو.
خطبات مسرور 211 $2003 (تذکره صفحه ٤٧١ - مطبوعه ١٩٦٩ء) - اگست ۱۹۰۳ ء ہی کا ایک الہام ہے "يَسْتَلُوْنَكَ عَنْ شَانِكَ قُلِ اللَّهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُوْنَ إِنَّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَارَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا أَلَمْ تَرْكَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحبِ الْفِيْلِ.اَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِى تَصْلِيْلِ.كَتَبَ اللَّهُ لَاغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِيْ جِئْتَ فَصْلَ الْفَتح“.تیری شان کے بارے میں وہ پوچھیں گے تو کہہ کہ وہ خدا ہے جس نے مجھے یہ مرتبہ بخشا ہے.آسمان اور زمین ایک گٹھڑی کی طرح بندھے ہوئے تھے تب ہم نے انہیں کھول دیا.کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا.کیا اس نے ان کی تدبیر کو ضائع نہ کر دیا.اللہ نے لکھ چھوڑا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب رہیں گے.تو فتح کے موقع پر آیا.(تذکره صفحه ٤٨٠ ـ مطبوعه ١٩٦٩ء) اکتوبر ۱۹۰۳ء کا ایک الہام ہے اِنِّي أُنَوِّرُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ.ظَفَرٌ مِّنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ مُّبِيْنٌ ظَفَرٌ وَفَتْحٌ مِنَ الله فَحْرٍ أَحْمَد إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا.اس کا ترجمہ ہے.میں روشن کروں گا ہر اس شخص کو جو اس گھر میں ہے.خدا کی طرف سے ظفر اور کھلی کھلی فتح.خدا کی طرف سے ظفر اور فتح.احمد کا فخر.میں نے خدائے رحمان کے لئے روزہ کی منت مانی.(تذکره صفحه ٤٩٥ ـ مطبوعه ١٩٦٩ء) نومبر ۱۹۰۳ء میں الہام ہوا : ”میری فتح ہوئی.میرا غلبہ ہوا“.(تذکره صفحه ٤٩٨ - مطبوعه ١٩٦٩ء) پھر ۲۶ نومبر ۱۹۰۳ء کا ایک الہام اس طرح ہے : لَكَ الْفَتْحُ وَلَكَ الْغَلَبَةُ“.تیرے لئے فتح ہے اور تیرے لئے غلبہ ہے.آپ فرماتے ہیں: (تذکره صفحه ٤٩٨ - مطبوعه ١٩٦٩ء) اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اُس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا وے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا.اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نا مرا در کھے گا.اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا.یہاں تک کہ قیامت آ
$2003 212 خطبات مسرور جائے گی...یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا.ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے...اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی....اور پھر اولاد کی اولا د مرے گی.اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا.اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ اترا.تب دانشمند یکدفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کا انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس عقیدہ کو چھوڑ دیں گے.اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخمریزی کرنے آیا ہوں.سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.(تذکره صفحه ٤٩٣ ـ مطبوعه ١٩٦٩ء) دسمبر ۱۹۰۳ء میں آپ کے الہام کا ذکر آتا ہے کہ ” حضرت حجۃ اللہ علیہ الصلوۃ والسلام نے بمقام گورداسپور اپنی جماعت کے موجود اور غیر موجود خدام کے لئے عام طور پر دعائیں کیں.جو موجود تھے یا جن کے نام یاد آ گئے ، ان کا نام لے کر اور کل جماعت کے لئے عام طور پر دعا کی.جس پر یہ الہام ہوا فَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِيْن “.پس مومنوں کے لئے خوشخبری ہے.تذکره صفحه ٤٩٩ - ٥٠٠ - مطبوعه ١٩٦٩ء) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بے انتہار دیا، الہامات ، پیش خبریاں ہیں جنہیں ہم نے نہ صرف پورا ہوتے دیکھا ہے بلکہ کئی کئی مرتبہ پورا ہوتے دیکھا ہے.مثلا سَحِفهُمْ تَسْحِيْقًا کا نشان ہی ہے جس کی وجہ سے ہم نے کئی دفعہ دشمن کو پتے دیکھا ہے، اس کی خاک اڑتے دیکھی، اس کی نسلوں پر بھی وبال آتے دیکھے.تو کئی ایسے نشانات ہیں جن سے ہمارے ایمانوں کو ہمیشہ تقویت ملی ہے اور آپ کی پیشگوئیوں پر ایمان اور یقین بڑھتا ہی چلا گیا ہے.انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی یہ پوری ہوں گی اور پوری ہوتی چلی جائیں گی.لیکن جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جلد بازی سے کام نہ لو.یہ نشان اپنے وقت پر پورا ہوتا چلا جائے گا.اور اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ میں آؤں گا اور ضرور آؤں گا.یہ سچے وعدوں والا خدا ہے اور جب اس نے کہ دیا کہ میں دشمن کو گھیروں گا تو وہ ضرور گھیرے گا
213 $2003 خطبات مسرور اور ضرور گھیرے گا اور دنیا کی کوئی طاقت اس کے وعدوں کو ٹال نہیں سکتی.ہاں ایک شرط ہے کہ ہم بچے دل سے اس پر ایمان لے آئیں، اسی کے ہو جائیں.اس کا خوف، اس کی خشیت ہم پر طاری ہو.ہر معاملہ میں تقویٰ ہمارا اوڑھنا بچھونا ہوتا کہ ہماری کمزوریوں کی وجہ سے خدائی وعدے مؤخر نہ ہوجائیں.اب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک دعا جو آپ نے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کے لئے کی، پڑھتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: ہر یک صاحب جو اس للّہی جلسہ کے لئے سفر اختیار کریں.خدا تعالیٰ اُن کے ساتھ ہو اور اُن کو اجر عظیم بخشے اور ان پر رحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات اُن پر آسان کر دیوے اور اُن کے ہم و غم دور فرمادے.اور ان کی ہر یک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے اور ان کی مرادات کی راہیں اُن پر کھول دیوے اور روز آخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ اُن کو اٹھاوے جن پر اس کا فضل و رحم ہے اور تا اختتام سفر ان کے بعد ان کا خلیفہ ہو.اے خدا اے ذوالمجد والعطاءاور رحیم اور مشکل گشا، یہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہر یک قوت اور طاقت تجھ ہی کو ہے.آمین ثم آمین.اشتهار ۱۷ دسمبر ۱۸۹۲ ء- مجموعه اشتهارات جلداول صفحه ٣٤٢) اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تمام دعاؤں کا وارث بنائے.ہم سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جو ہمیں ان دعاؤں سے دور کر دے.ان دنوں آپ بھی بہت دعائیں کریں.دعاؤں پر بہت زور دیں.تمام آنے والے مہمانوں کو دعاؤں میں یاد رکھیں.کچھ لوگ آرہے ہیں ، راستے میں ہیں ، ان کو دعاؤں میں یاد رکھیں.اور اس جلسہ سے فیضیاب ہونے کے لئے جو گھروں میں بیٹھے ہیں، اپنی خواہش کے باوجود نہیں آسکے ان کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ وسیع پیمانے پر عارضی انتظام ہونے کی وجہ سے بعض انتظامی کمیاں رہ جائیں گی.ایسی صورت میں کارکنوں سے، اپنے بھائیوں سے عفو و درگز رکا سلوک کریں.کوئی کارکن بھی جان بوجھ کر اپنی ڈیوٹی میں کوتا ہی نہیں کرے گا.سب بڑے جذ بہ اور بڑے شوق سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت پر مستعد ہیں.اللہ تعالیٰ کی خاطر جب آپ عفو و درگزر کا.
$2003 214 خطبات مسرور سلوک کریں گے تو یہ بھی آپ کی نیکیوں میں شمار ہوگا اور یقیناً جلسہ کی برکات میں سے یہ بھی ایک برکت کے حصول کا ذریعہ ہوگا.یہ اللہ تعالیٰ کے طریق کے خلاف ہے کہ اگر کوئی خدا کی خاطر کام کرے اور وہ اس کا اجر نہ دے تو اللہ کرے کہ اس جلسہ میں پہلے سے بڑھ کر ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھیں.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر اس کا بے انتہا شکر کریں اور اس کے شکر گزار بندے بن جائیں کہ جب بندہ اس دیالو کا شکر کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات بہت دیالو ہے، بہت دینے والی ہے، تو وہ پہلے سے بڑھ کر اپنے فضل نازل فرماتا ہے.بادشاہوں کے خزانے تو خالی ہو سکتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے خزانے کبھی خالی نہیں ہوتے.ہر شکر کرنے پر پہلے سے بڑھ کر وہ اپنے وعدوں کے مطابق اپنے بندے کو اپنے فضلوں اور رحمتوں سے حصہ دیتا چلا جاتا ہے.شکر گزاری کا ایک یہ بھی طریقہ ہے کہ جس مقصد کے لئے آپ آئے ہیں جلسہ سننے کے لئے، جلسہ کے پروگراموں میں بھر پور حصہ لیں، بھر پور شمولیت اختیار کریں، اس سے فائدہ اٹھائیں اور ان تین دنوں میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنی زندگی بسر کریں، اپنے وقت کو صرف کریں.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آخر پر پھر میں ایک اور دعا کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کیونکہ دعاؤں سے ہی ہمارے سب کام سنورتے ہیں اور دعاؤں سے ہی ہر قسم کے فیوض و برکات نصیب ہوتے ہیں.جلسہ کے ان ایام میں کثرت سے دعائیں کریں.جیسا کہ کل بھی میں نے کہا تھا کہ چلتے پھرتے ، اٹھتے بیٹھتے ذکر الہی کرتے رہیں.درود شریف کا التزام کریں اور کثرت سے استغفار کریں.اللہ آپ کے ساتھ ہو.جلسہ کی تمام علمی اور روحانی برکتوں سے فیضیاب فرمائے اور یہاں یہ بھی ذکر کر دوں کہ انگلستان کی ایمبیسیز نے مختلف ملکوں میں جلسے کی وجہ سے بڑے کھلے دل کے ساتھ ویزے جاری کئے ہیں.تو جولوگ جلسے پر اس نیت سے ویزا لے کر آئے ہیں کہ جلسہ سننا ہے بلکہ ان دنوں اس نیت سے ویزا لیا تھا کہ جلسہ پر جارہے ہیں یا اس بات کا اظہار کیا کہ ہم جلسہ سننے کے لئے جار ہے ہیں.انہوں نے بہر حال اپنے اپنے ملکوں میں واپس جانا ہے.کوئی بھی ان میں سے یہاں یا کسی بھی یورپی ملک میں نہ جائے.اور جلسے کے بعد جو بھی پروگرام ہے اپنے اپنے ملکوں کو واپس جائیں.جزاک اللہ.
$2003 215 15 خطبات مس اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کے مزید فضلوں کے وارث بنیں یکم اگست ۲۰۰۳ ء مطابق یکم رظهور ۱۳۸۲ ہجری شمسی به مقام اسلام آباد ٹیلفورڈ (برطانیہ) اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کے مزید فضلوں کے وارث بنیں قیام خلافت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے پھر پورا کیا اور جماعت کے شکر گزاری کے جذبہ کی اس نے قدر کی.پس اپنی وفاؤں ، اپنی دعاؤں اور اپنے مولا کے حضور شکر گزاری کے جذبات کے اظہار سے اسکے فضلوں کی بارش کو کبھی رکنے نہ دیں ما دعا سے ، تو بہ سے کام لو اور صدقات دیتے رہو جلسہ سالانہ برطانیہ میں کام کرنے والے تمام کارکنان کا شکر یہ اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر دے.
خطبات مس $2003 216 تشھد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل آیت تلاوت فرمائی ﴿وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيْدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيْدٌ (ابراهیم : ۸) اللہ تعالیٰ کا بڑا شکر و احسان ہے اور اس پر ہم جتنا بھی شکر کریں کم ہے کہ اس نے محض اور محض اپنے فضل سے جلسہ سالانہ یو کے کو بخیر وخوبی اختتام تک پہنچایا اور اللہ تعالی کے فضلوں کی بارش ہوتی ہم نے دیکھی اور محسوس کی اور ہر ایک نے جس نے بھی ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا کے تمام ممالک میں جہاں جہاں بھی اس جلسہ کی کارروائی دیکھی اور سنی یہی اظہار کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ہم نے نازل ہوتے دیکھا.الحمدللہ الحمد للہ.یہ سب اسی حقیقی اسلامی تعلیم کا حصہ ہے اور اسی کی وجہ سے ہے جو اس زمانے میں ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وجہ سے حاصل ہوئی.آج تمام اسلامی دنیا میں سوائے جماعت احمدیہ کے کسی کو یہ پتہ ہی نہیں، علم ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے کیا طریق ہیں.اور پھر اپنے وعدوں کے مطابق خدا تعالیٰ اپنے فضلوں کو کس طرح بڑھاتا ہے اور بڑھاتا چلا جاتا ہے.جماعت نے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر دعائیں کیں.اس کا فضل مانگا، اس کا رحم مانگا.اس کے حضور جھکے ، اپنے اندر خلافت کی نعمت کو قائم رکھنے کے لئے بے انتہا تڑپے.نتیجہ وہ خدا جو اپنے بندے سے بے انتہا پیار کرنے والا خدا ہے، جو بندے کے ایک قدم آگے کی طرف بڑھانے سے کئی قدم اس کی طرف بڑھتا ہے.اس خدا نے جو سچے وعدوں والا خدا ہے اپنے بندوں کی خوف کی حالت کو امن میں بدلا.وہ خدا جو سب طاقتوں کا مالک ہے ، وہ خدا جو مٹی کے ذرے سے بھی کام لینے کی طاقت رکھتا ہے، وہ خدا جو ایک تنکے میں بھی فولاد کے شہتیر سے بھی زیادہ
$2003 217 خطبات مسرور مضبوطی پیدا کرنے کی طاقت رکھتا ہے اس نے ہم پر رحم فرمایا اور احمدیت کے قافلہ کو پھر سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں کر دیا.اس پر ہر احمدی نے اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کے جذبات سے لبریز ہوکر اپنے سر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکا دے.اپنی وفاؤں کو انتہا تک پہنچایا اور خلافت کے قیام کے لئے اپنے وعدوں کو پورا کیا.اس خدا نے بھی جماعت کی اس شکر گزاری کے جذبہ کی قدر کرتے ہوئے جماعت پر اپنے فضلوں کی بارش اور تیز کر دی.اور یہ بارش کوئی رکنے والی بارش نہیں.اور یہ بارش انشاء اللہ بر سے گی اور برستی رہے گی کیونکہ یہ ہمارے رب کا اعلان ہے کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں ضرور تمہیں بڑھاؤں گا.پس اپنی وفاؤں، اپنی دعاؤں اور اپنے مولا کے حضور اپنے شکر گزاری کے جذبات کے اظہار سے، اس کے فضلوں کی برستی بارش کو کبھی رکنے نہ دیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارے پیارے آقا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے اس اسوہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ایک روایت ہے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت معہ رات کو اٹھ کر نماز پڑھتے یہاں تک کہ آپ کے پاؤں متورم ہو کر پھٹ جاتے.ایک دفعہ میں نے آپ سے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! آپ کیوں اتنی تکلیف اٹھاتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے سب قصور معاف فرما دئے ہیں یعنی ہر قسم کی غلطیوں اور لغزشوں سے محفوظ رکھنے کا ذمہ لے لیا ہے.اس پر حضور نے فرمایا: کیا میں یہ نہ چاہوں کہ اپنے رب کے فضل واحسان پر اس کا شکر گزار بندہ بنوں.(بخاری کتاب التفسير سورة الفتحباب قوله ليغفر لك الله تعالى........یہ شکر و احسان کے جذبات، اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں ، اس کی حمد سے اپنی زبانیں تر رکھنا صرف جماعتی طور پر فضلوں اور رحمتوں کے نازل ہونے کے لئے نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک ہے ہر شخص سے جس کی انفرادی زندگی میں بھی ، جس کی خاندانی زندگی میں بھی اس شکر کے طفیل ہر مومن پر اپنے فضلوں کی بارش برساتا ہے اور اپنے فضلوں کا وارث بناتا ہے.پس ہر شخص کو اپنی بھلائی کے لئے بھی ، اپنی ترقیات کے لئے بھی ، اپنے خاندان کی بھلائی کے لئے بھی ، اپنی نسلوں کی بہتری اور بھلائی کے لئے بھی شکر نعمت کرتے رہنا چاہئے.حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن غنام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول
218 $2003 خطبات مسرور اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے صبح کے وقت یہ کہا کہ اے اللہ جو بھی نعمت مجھے ملی وہ تیری ہی طرف سے ہے.تیرا کوئی شریک نہیں اور تمام تعریفیں اور شکر تیرے ہی لئے ہیں.تو گویا اس نے اپنے دن کا شکر ادا کر دیا.اور جس نے اسی طرح شام کے وقت دعا کی تو اس نے اپنی رات کا شکر ادا کر دیا.(سنن أبى داؤد، كتاب الأدب باب ما يقول اذا اصبح) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ اللہ سے یہ دعا سیکھی: اَللَّهُمَّ اجْعَلْنِي أُعَظَمُ شُكْرَكَ وَأَكْثِرُ ذِكْرَكَ وَاتَّبِعُ نَصِيْحَتَكَ وَأَحْفَظُ وَصِيَّتَكَ.اے میرے اللہ ! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیرے شکر کا حق ادا کر سکوں اور کثرت سے تیرا ذکر کر سکوں اور تیری باتوں پر عمل کر سکوں اور تیرے احکام کی پابندی کرسکوں.حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں بکثرت یہ دعا مانگتا ہوں.(ترمذى كتاب الدعوات باب من ادعية النبى الله عبداللہ بن عمرو روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حمد شکر کا سر چشمہ ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی حمد نہیں کی اس نے اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کیا.ہیں: (مشكوة المصابيح - كتاب الدعوات الفصل الثاني (۲۳۰۷ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض عربی اشعار کا ترجمہ پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے.”اے وہ ذات جس نے اپنی نعمتوں سے اپنی مخلوق کا احاطہ کیا ہوا ہے ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تعریف کی طاقت نہیں ہے.مجھ پر رحمت اور شفقت کی نظر کر ، اے میری پناہ! اے حزن و کرب کو دور فرمانے والے! میں تو مر جاؤں گا لیکن میری محبت نہیں مرے گی.( قبر کی مٹی میں بھی تیرے ذکر کے ساتھ ہی میری آواز جانی جائی گی.میری آنکھ نے تجھ سا (کوئی) محسن نہیں دیکھا.اے احسانات میں وسعت پیدا کرنے والے اور اے نعمتوں والے! جب میں نے تیرے لطف کا کمال اور بخششیں دیکھیں تو مصیبت دور ہو گئی اور (اب) میں اپنی مصیبت کو محسوس ہی نہیں کرتا“.(منن الرحمن، روحانی خزائن جلد نمبر ۹ صفحه ١٦٩) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : بندہ جب اپنے ارادوں سے علیحدہ ہو
$2003 219 خطبات مسرور جائے اور اپنے جذبات سے خالی ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی ذات اس کے طریقوں اور اس کی عبادات میں فنا ہو جائے اور اپنے اس رب کو پہچان لے جس نے اپنی عنایات کے ساتھ اس کی پرورش کی اور وہ اس کی تمام اوقات حمد کرتا رہے اور اس سے پورے دل بلکہ اپنے تمام ذرات سے محبت کرے تو اس وقت وہ عالموں میں سے ایک عالم ہو جائے گا.اسی لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام اَعْلَمُ الْعَالَمِین کی کتاب میں اُمت رکھا گیا ہے“.(اعجاز المسیح صفحه ١٣٤ ـ تفسیر حضرت مسیح موعود عليه السلام جلد.، سوم صفحه ٣٥٣٤) جب انسان ایک مومن انسان اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے تو پھر بے اختیار اس کی توجہ حمد کی طرف ہو جاتی ہے کیونکہ ہماری شکر گزاری اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا احاطہ کر ہی نہیں سکتی ، جس کے فضل بے انتہا اور لاتعداد ہیں.ان کا شکر ممکن ہی نہیں.تو یہ بھی اس کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے اپنی حمد کے طریقے بھی ہمیں سکھلا دئے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: "حمد کے معنی تعریف کے ہیں.عربی میں تعریف کے لئے کئی الفاظ آتے ہیں.حمد ، مدح ، شکر ، ثنا اللہ تعالیٰ نے حمد کا لفظ چنا ہے جو بلاوجہ نہیں.شکر کے معنی احسان کے اقرار اور اس پر قدردانی کے اظہار کے ہوتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ لفظ استعمال ہو تو صرف قدر دانی کے معنی ہوتے ہیں.ظاہر ہے کہ حمد اس سے زیادہ مکمل لفظ ہے کیونکہ حمد صرف احسان کے اقرار کا نام نہیں ہے بلکہ ہر حسین شے کے حسن کے احساس اور اس پر اظہار پسندیدگی اور قدر دانی کا نام بھی ہے.پس یہ لفظ زیادہ وسیع ہے“.(تفسیر کبیر جلد اول صفحه (۱۸) حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ” الحمد ایک جامع دعا ہے اور اس کا مقابلہ کوئی دعا نہیں کر سکتی.نہ کسی مذہب نہ کسی احادیث کی دعائیں“.(تشحيذ الاذهان جلد ۸ نمبر ۱ صفحه ٤٣٤ پھر آپ مزید فرماتے ہیں : ” عمدہ دعا الحمدُ ہے.اس میں ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ دونوں ترقی کے فقرے موجود ہیں“.(بدر ۳۱ اکتوبر ۱۹۲۱ء صفحه ۳) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ” حمد اس تعریف کو کہتے ہیں جو کسی
$2003 220 خطبات مسرور صاحب اقتدار شریف ہستی کے اچھے کاموں پر اس کی تعظیم و تکریم کے ارادہ سے زبان سے کی جائے.اور کامل ترین حمد رب جلیل سے مخصوص ہے.اور ہر قسم کی حمد کا مرجع خواہ وہ تھوڑی ہو یا زیادہ ہمارا وہ ربّ ہے جو گمراہوں کو ہدایت دینے والا اور ذلیل لوگوں کو عزت بخشنے والا ہے.اور وہ محمودوں کا محمود ہے ( یعنی وہ ہستیاں جو خود قابل حمد ہیں، وہ سب اس کی حمد میں لگی ہوئی ہیں).اکثر علماء کے نزد یک لفظ شکر ، حمد سے اس پہلو میں فرق رکھتا ہے کہ وہ ایسی صفات سے مختص ہے کہ جو دوسروں کو فائدہ پہنچانے والی ہوں اور لفظ مدح لفظ حمد سے اس بات میں مختلف ہے کہ مدح کا اطلاق غیر اختیاری خوبیوں پر بھی ہوتا ہے.اور یہ امر فصیح و بلیغ علماء اور ماہراد باء سے مخفی نہیں.اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو حد سے شروع کیا ہے نہ کہ شکر اور مدح سے.کیونکہ لفظ حمدان دونوں الفاظ کے مفہوم پر پوری طرح حاوی ہے.اور وہ ان کا قائمقام ہوتا ہے مگر اس میں اصلاح، آرائش اور زیبائش کا مفہوم ان سے زائد ہے.چونکہ کفار بلا وجہ اپنے بتوں کی حمد کیا کرتے تھے اور وہ ان کی مدح کے لئے حمد کا لفظ اختیار کرتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ معبود تمام عطایا اور انعامات کے سرچشمہ ہیں اور سنیوں میں سے ہیں.اسی طرح ان کے مُردوں کی ماتم کرنے والیوں کی طرف سے مفاخر شماری کے وقت بلکہ میدانوں میں بھی اور ضیافتوں کے مواقع پر بھی اسی طرح حمد کی جاتی تھی جس طرح اس رزاق متولی اور ضامن اللہ تعالیٰ کی حمد کی جانی چاہئے.“ (کرامات الصادقين، روحانی خزائن جلد نمبر ۷ صفحه ۱۰۸،۱۰۷) آپ مزید فرماتے ہیں کہ لفظ حمد میں ایک اور اشارہ بھی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تبارک تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے (میرے) بندو! میری صفات سے مجھے شناخت کرو اور میرے کمالات سے مجھے پہچانو.میں ناقص ہستیوں کی مانند نہیں بلکہ میری حمد ( کا مقام) انتہائی مبالغہ سے حمد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے اور تم آسمانوں اور زمینوں میں کوئی قابل تعریف صفات نہیں پاؤ گے جو تمہیں میری ذات میں نہ مل سکیں.اور اگر تم میری قابل حمد صفات کو شمار کرنا چاہو تو تم ہرگز انہیں نہیں گن سکو گے.اگر چہ تم کتنا ہی جان توڑ کر سو چو اور اپنے کام میں مستغرق ہونے والوں کی طرح ان صفات کے بارہ میں کتنی ہی تکلیف اُٹھاؤ.خوب سوچو کیا تمہیں کوئی ایسی حمد نظر آتی ہے جو میری ذات میں نہ پائی جاتی ہو.کیا تمہیں ایسے کمال کا سراغ ملتا ہے جو مجھ سے اور میری بارگاہ سے بعید ہو.اور اگر تم ایسا گمان
خطبات مسرور 221 کرتے ہو تو تم نے مجھے پہچانا ہی نہیں اور تم اندھوں میں سے ہو.“ $2003 (کرامات الصادقین.صفحہ ٦٥-٦٦) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” تمام محامد جو عالم میں موجود ہیں اور مصنوعات میں پائی جاتی ہیں.وہ حقیقت میں خدا کی ہی تعریفیں ہیں اور اسی کی طرف راجع ہیں کیونکہ جو خوبی مصنوع میں ہوتی ہے.وہ حقیقت میں صانع کی ہی خوبی ہے یعنی آفتاب دنیا کو روشن نہیں کرتا حقیقت میں خدا ہی روشن کرتا ہے اور چاند رات کی تاریکی نہیں اٹھا تا حقیقت میں خدا ہی اُٹھا تا ہے اور بادل پانی نہیں برسا تا حقیقت میں خدا ہی برساتا ہے.اسی طرح جو ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں وہ حقیقت میں خدا کی طرف سے ہی بینائی ہے اور جو کان سنتے ہیں وہ حقیقت میں خدا کی طرف سے ہی شنوائی ہے اور جو عقل دریافت کرتی ہے وہ حقیقت میں خدا کی طرف سے ہی دریافت ہے اور جو کچھ آسمان کے اور زمین کے عناصر او صاف جمیلہ دکھا رہے ہیں اور ایک خوبصورتی اور تروتازگی جو مشہور ہو رہی ہے حقیقت میں وہ اسی صانع کی صفت ہے جس نے کمال اپنی صفت کا ملہ سے ان چیزوں کو بنایا ہے اور پھر بنانے پر ہی انحصار نہیں کیا بلکہ ہمیشہ کے لئے اس کے ساتھ ایک رحمت شامل رکھی ہے، جس رحمت سے اس کا بقا اور وجود ہے.اور پھر صرف اس پر ہی اختصار نہیں کیا بلکہ ایک چیز کو اپنے کمال اعلیٰ تک پہنچایا ہے.جس سے قدرو قیمت اس شے کی کھل جاتی ہے پس حقیقت میں محسن اور منعم بھی وہی ہے اور جامع تمام خوبیوں کا بھی وہی ہے.اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے:الحمدلله ربّ العلمين.“ (الحكم ٢٤ جون ١٩٠٤ ء صفحه (١٥ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: یہ ضروری اور بہت ضروری ہے کہ ہر ایک شخص اللہ تعالیٰ سے پورے تذلل اور انکسار کے ساتھ ہر وقت دعا مانگتا ہے کہ وہ اُسے کچی معرفت اور حقیقی بصیرت اور بینائی عطا کرے اور شیطان کے وساوس سے محفوظ رکھے“.رپورٹ جلسه سالانه ۱۸۹۷ ء.صفحه (۳۶) آپ مزید فرماتے ہیں: ”قصہ مختصر دعا سے، تو بہ سے کام لو اور صدقات دیتے رہوتا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم کے ساتھ تم سے معاملہ کرے.(ملفوظات جلد اوّل صفحه ۱۳۵ جدید ایڈیشن)
$2003 222 خطبات مسرور ایک حدیث ہے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں میں سے اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ شکر گزار بندہ وہ ہے جو ان میں سے لوگوں کا سب سے زیادہ شکر گزار ہو.(تذكرة الحفاظ جلد ١ صفحه ٣٤٢) ایک اور مضمون میں اسی ضمن میں بیان کرنا چاہتا ہوں، بندوں کی شکرگزاری کا.اور اسی طرح ایک ارشاد یہ بھی ہے کہ جو انسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کا بھی ناشکر گزار ہے.پس اسی لحاظ سے اب جلسے کے بعد میں ان تمام کارکنان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں، ان کا شکر گزار ہوں جن میں ایک بہت بڑی تعداد نوجوانوں کی بھی ہے جنہوں نے رات دن ایک کر کے، انتھک محنت کر کے بڑی خوش اسلوبی سے تمام کاموں کو سر انجام دیا.انتظامیہ کے اندازہ سے کہیں زیادہ مہمانوں کی آمد کی وجہ سے تمام انتظامات درہم برہم ہونے کا خطرہ تھا.اور قدرتی طور پر ایسے حالات میں جب کہ موسم بھی قابل اعتبار نہ ہو.اور پہلے دن تو جیسا کہ سب نے دیکھا، تیز ہوا کی وجہ سے بعض ہلکی مارکیاں جو رہائش کے لئے لگائی گئی تھیں وہ بھی کھڑی نہ رہ سکیں.رہائش کی جگہ عمومی طور پر ویسے بھی تنگ ہوگئی.کھانے کا انتظام بھی متاثر ہوسکتا تھا بلکہ آخری دن روٹی پلانٹ بھی خراب ہو گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا کہ کچھ دیر بعد ٹھیک ہو گیا.تو قدرتی طور پر ایسے حالات میں Panic ہو جانا یا Panic پیدا ہو جانا کوئی ایسی بات نہیں جو انہونی ہو.لیکن بے انتہا حمد وشکر کے جذبات سے اس پیارے خدا کے آگے سر جھک جاتے ہیں کہ جس نے کسی افراتفری کا ایسے حالات میں احساس بھی پیدا نہیں ہونے دیا اور پھر بے اختیار شکر کے جذبات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیاری جماعت کے اُن کارکنوں کے لئے بھی پیدا ہوتے ہیں جنہوں نے یورپ کے اس ماحول میں پرورش پائی ، پلے بڑھے، لیکن پھر بھی بے انتہا قربانی کے جذبے کے تحت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی مہمان نوازی میں حتی الوسع کوئی کسر اٹھا نہ رکھی.پھر بعد میں صفائی کے کام کو بھی بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا اور مجھے امید ہے کہ اب تک اسلام آباد کی گراؤنڈ ز کا علاقہ بھی صاف ہو چکا ہوگا.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے، اپنے بے انتہا فضلوں سے نوازے.مجھے بڑی فکر تھی ، طبیعی طور پر مجھے فکر ہونی بھی چاہئے تھی.پہلا جلسہ تھا با وجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیار اور فضل کے
223 $2003 خطبات مسرور جلوے دکھائے اور دکھاتا چلا جا رہا ہے لیکن فکر یہ بھی تھی کہ کہیں کوئی بدانتظامی نہ ہو جائے.لیکن اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ بہت سے شاملین جلسہ نے اس طور پر اظہار کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل.اکثر انتظامات گزشتہ سالوں سے بہت بہتر تھے.الحمد للہ، الحمد للہ، الحمد للہ.اور ساتھ ہی میں جیسے کہ پہلے بھی تمام کارکنان کا شکریہ ادا کر چکا ہوں، دوبارہ شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے میری فکر کو دور کیا.میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اس شکر گزاری کے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں لیکن اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے جس میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس پر کوئی احسان کیا گیا ہو اور وہ احسان کرنے والے کو کہے کہ اللہ تجھے اس کی جزائے خیر دے، خیر اور اس کا بہترین بدلہ دے تو اس نے ثنا کا حق ادا کر دیا.یعنی ایک حد تک شکر گزاری کا فرض پورا کر دیا.اسی طرح مہمانوں نے کمال صبر و حوصلہ سے انتظامات میں کمیوں کو برداشت کیا اللہ تعالیٰ انہیں بھی جزا دے.جس طرح اس جلسہ میں تمام مہمانوں اور میز بانوں نے میرے لئے سکون کے سامان بہم پہنچائے، محبت و وفا کے معیار قائم کئے، اللہ تعالیٰ آپ کی نسلوں کو بھی اپنے فضلوں.نوازتا رہے اور آپ کی جماعت اور خلافت سے یہ محبت ہمیشہ قائم رہے.ނ آخر میں ایم ٹی اے کے کارکنوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں.باہر سے متعدد خطوط آ رہے ہیں کہ بہت اچھے پروگرام تھے اور بہت احسن رنگ میں انہوں نے تمام کارروائی ہم تک پہنچائی.اب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں.فرماتے ہیں : میں امید رکھتا ہوں کہ قبل اس کے جو میں اس دنیا سے گزر جاؤں.میں اپنے اُس حقیقی آقا کے سوا دوسرے کا محتاج نہیں ہوں گا اور وہ ہر ایک دشمن سے مجھے اپنی پناہ میں رکھے گا.فَالْحَمدُ لِلهِ اوّلاً واخرا وظاهرا وباطنا هو ولي في الدنيا والأخرة وهو نعم المولى ونعم النصير - اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ میری مدد کرے گا اور وہ مجھے ہرگز ہر گز ضائع نہیں کریگا.اگر تمام دنیا میری مخالفت میں درندوں سے بدتر ہو جائے تب بھی وہ میری حمایت کرے گا.میں نامرادی کے ساتھ ہرگز قبر میں نہیں اتروں گا.کیونکہ میرا خدا میرے ہر قدم میں میرے ساتھ ہے.اور میں اس کے ساتھ ہوں.میرے اندرون کا جو اس کو علم ہے کسی کو بھی علم نہیں.اگر سب
خطبات مسرور 224 $2003 لوگ مجھے چھوڑ دیں تو خدا ایک اور قوم پیدا کرے گا جو میرے رفیق ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اطاعت و فرمانبرداری....میں شامل رکھے.پھر فرماتے ہیں : ” نادان مخالف خیال کرتا ہے کہ میرے مکروں اور منصوبوں سے یہ بات بگڑ جائیگی اور سلسلہ درہم برہم ہو جائے گا.مگر یہ نادان نہیں جانتا کہ جو آسمان پر قرار پاچکا ہے زمین کی طاقت میں نہیں کہ اس کو محو کر سکے.میرے خدا کے آگے زمین و آسمان کا نپتے ہیں خدا وہی ہے جو میرے پر اپنی پاک وحی نازل کرتا ہے اور غیب کے اسرار سے مجھے اطلاع دیتا ہے اُس کے سوا کوئی خدا نہیں.اور ضروری ہے کہ وہ اس سلسلہ کو چلا وے اور بڑھاوے اور ترقی دے جب تک وہ پاک اور پلید میں فرق کر کے نہ دکھلاوے.ہر ایک مخالف کو چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو اس سلسلہ کے نابود کرنے کے لئے کوشش کرے اور ناخنوں تک زور لگا وے اور پھر دیکھے کہ انجام کار وہ غالب ہوا یا خدا.پہلے اس سے ابو جہل اور ابولہب اور ان کے رفیقوں نے حق کے نابود کرنے کے لئے کیا کیا زور لگائے تھے.مگر اب وہ کہاں ہیں.وہ فرعون جو موسیٰ کو ہلاک کرنا چاہتا تھا اب اس کا کچھ پتہ ہے؟ پس یقیناً سمجھو کہ صادق ضائع نہیں ہوسکتا.وہ فرشتوں کی فوج کے اندر پھرتا ہے.بدقسمت وہ جو اس کو شناخت نہ کرے.براهین احمدیه حصه پنجم صفحه (۲۹۵
$2003 225 16 خطبات مس امانت کا مفہوم بہت وسیع ہے.ہر پہلو سے اس کی ادائیگی ضروری ہے.۱۸ اگست ۲۰۰۳ ء مطابق ۸ ظهور ۱۳۸۲ هجری شمسی به مقام مسجد فضل لندن (برطانیہ) ہیے.امانت کا وسیع تر مفہوم اور اسکی ادائیگی کی تلقین تا معاشرے میں امن قائم ہو، ہ ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ امانت کی ادائیگی کا فرض صحیح طور پر ادا کرے، ا عہدیداران اور کارکنان کے پاس آنے والا ہر معاملہ ایک امانت ہے، ایک راز ہے اسکو حق نہیں پہنچتا کہ آگے یہ معاملہ لوگوں تک پہنچائے مشورہ بھی ایک امانت ہے عہدہ اور خدمت بھی ایک عہد ہے جو خدا اور اسکے بندے کے درمیان ہے،
خطبات مس $2003 226 تشھد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل آیت تلاوت فرمائی إنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ اَنْ تُؤدُّوا الأمنتِ إِلى اَهْلِهَا.وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ.إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ.إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيْعًا بَصِيْرًا (سورة النساء: ٥٩) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یقینا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروں کے سپرد کیا کرو اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو.یقیناً بہت ہی عمدہ ہے جو اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے.یقینا اللہ بہت سننے والا ( اور ) گہری نظر رکھنے والا ہے.علامہ فخر الدین رازی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مومنوں کو تمام امور میں امانتوں کو ادا کرنے کا ارشاد فرمایا ہے.خواہ وہ امور مذہب کے معاملات میں ہوں یا دنیوی امور اور معاملات کے بارہ میں.اُن کے نزدیک انسان کا معاملہ یا تو اپنے رب کے ساتھ ہوتا ہے یا بنی نوع انسان کے ساتھ یا اپنے نفس کے ساتھ اور ان تینوں اقسام میں امانت کے حق کی رعایت رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں.آپ اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے معاملات میں امانت کی رعایت کرنے کا تعلق ہے تو اس کا تعلق ان افعال کے ساتھ ہے جن کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے.یا جن افعال کے کرنے سے منع کیا گیا ہے ان کو ترک کرنے کے ساتھ.پھر کہتے ہیں کہ جہاں تک زبان کی امانت کا تعلق ہے اس سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی زبان کو کذب بیانی ، غیبت، چغل خوری، نافرمانی، بدعت اور مخش کے لئے نہ استعمال کرے.اور آنکھ کی امانت یہ ہے کہ انسان
227 $2003 خطبات مسرور آنکھ کو حرام کی طرف دیکھنے میں استعمال نہ کرے اور کانوں کی امانت یہ ہے کہ انسان ان کو بیہودہ کلامی اور ایسی باتوں کے سننے میں استعمال نہ کرے جن سے منع کیا گیا ہے.نیز مخش کلامی اور جھوٹی باتوں کے سننے سے پر ہیز کرے.پھر دوسری بات لکھتے ہیں کہ : جہاں تک امانت کا تمام مخلوقات کو ادا کرنے کا تعلق ہے اس میں ماپ تول میں کمی کو ترک کرنا، اور یہ کہ لوگوں میں ان کے عیوب نہ پھیلائے جائیں اور امراء اپنی رعیت کے ساتھ عدل سے فیصلے کریں.عوام الناس کے ساتھ علماء کے عدل سے مراد یہ ہے کہ وہ عوام کو باطل تعصبات پر نہ ابھاریں بلکہ وہ ایسے اعتقادات اور اعمال کے بارہ میں ان کی ایسی رہنمائی کریں جو ان کی دنیا اور آخرت میں ان کے لئے نفع رساں ہوں.اب آج کل کے علماء ہماری بات تو نہیں سنتے.علامہ فخر الدین رازی کی اس بات پہ ہی غور کریں اور اس پر عمل کریں تو دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے.پھر تیسری بات لکھتے ہیں کہ جہاں تک امانت کا تعلق انسان کے اپنے نفس کے بارہ میں ہے تو وہ یہ ہے کہ انسان اپنے لئے صرف وہی پسند کرے جو زیادہ نفع رساں اور زیادہ مناسب ہواس کے دین کے لئے اور دنیا کے لئے.اور یہ کہ وہ اپنی خواہشات کا تابع ہو کر یا غضبناک ہوکر کوئی ایسا فعل نہ کرے جو اس کو آخرت میں تکلیف پہنچائے.اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ تم صلى الله میں سے ہر ایک نگران ہے اور اُس سے اُس کی رعیت کے بارہ میں دریافت کیا جائے گا.ارشاد الى يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأمنتِ إِلى أَهْلِهَا ، میں یہ سب باتیں داخل ہیں.(تفسير كبير رازی زیر آیت) اب اگر ہم دیکھیں تو یہ جو تین صورتیں بیان کی گئی ہیں ہر انسان کے معاملات میں تقریباً ان صورتوں کے گرد ہی اس کی زندگی گھوم رہی ہے.لیکن اس آیت کے آخر پر جو بات بیان ہوئی ہے اس کی میں پہلے وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں.اللہ تعالیٰ اس آیت کے آخر پر فرماتا ہے کہ جوئیں تمہیں حکم دے رہا ہوں وہ انتہائی بنیادی حکم ہے.اگر تم اس پر عمل کرتے رہے تو کامیابیاں تمہاری
$2003 228 خطبات مسرور ہیں.ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ جب خدا تعالیٰ تمہیں کسی بات کا حکم دیتا ہے تو حکم کر کے چھوڑ نہیں دیتا بلکہ تم پر گہری نظر رکھنے والا بھی ہے کہیں اس کے احکام کی ادائیگی میں تم خیانت تو نہیں کر رہے.اگر خیانت کر رہے ہو تو اس کے جو منطقی نتائج سامنے آنے چاہئیں جو نکلنے چاہئیں وہ تو نکلیں گے اور ساتھ ہی جو امانت تمہارے سپرد کی گئی ہے وہ بھی تم سے واپس لے لی جائے گی.تم خدمت سے محروم کر دئے جاؤ گے.ایک اعزاز تمہیں ملا تھا وہ تم سے چھین لیا جائے گا کیونکہ جن کے تم نگران بنائے گئے ہو ان کی دعاؤں کو اگر وہ نیک اور متقی ہیں اللہ تعالی سنتا ہے اور اپنی مخلوق پر ظلم اور زیادتی کی تمہیں اجازت نہیں دے گا.تو جیسے کہ پہلے میں نے بیان کیا ہے کہ وہ نصیحت ہے کیا جس پر تم نے کار بند ہونا ہے.وہ باتیں ، وہ حکم ہے کیا جن پر ہم نے عمل درآمد کرنا ہے.تو پہلی بات تو یہ ہے کہ امانتیں ان کے حقداروں کے سپر د کرو.اب وہ کونسی امانتیں ہیں جو ہمارے پاس خدا تعالیٰ نے رکھی ہیں اور ہمیں حکم ہے کہ ان کے سپر د کرو جو کہ صحیح حق دار ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حکومت وقت کی اطاعت کی جائے.یہی رعایا کی لوگوں کی طرف سے ادائے امانت ہے اور پھر حکام کی طرف سے، افسران کی طرف سے امانت کا ادا کرنا، اپنی رعایا کی ، اپنے شہریوں کی حفاظت کرنا، ان کے حقوق کا خیال رکھنا، حکام اور افسران کی طرف سے امانت کی صحیح ادا ئیگی ہے.ہمارے نظام جماعت میں عہد یداروں کا نظام مختلف سطحوں پر ہے.اس زمانے میں ہر احمدی جہاں ، جس ملک میں رہتا ہے اس ملک میں دنیا وی سطح پر امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کرنے کی کوشش کرتا ہے، ان تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے.اور اس کا فرض ہے کہ اپنے اس فرض کی صحیح ادائیگی کرے اور حق دار لوگوں تک اس امانت کو پہنچائے وہاں نظام جماعت بھی ہر احمدی سے خواہ عہدیدار ہو یا عام احمدی اس سے یہی توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنی امانتوں کی صحیح ادا ئیگی کرے.اب سب سے پہلے تو افراد جماعت ہیں جو نظام جماعت چلانے کے لئے عہدیدار منتخب کرتے ہیں.ان کا کیا فرض ہے، انہوں نے کس طرح جماعت کی اس امانت کو جو ان کے سپرد کی گئی ہے صحیح حقداروں تک پہنچانا ہے.تو اس کے لئے جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں انتخابات سے پہلے قواعد بھی پڑھ کر سنائے
$2003 229 خطبات مسرور جاتے ہیں، عموما یہ جماعتی روایت ہے.دعا کر کے اپنے ووٹ کے صحیح استعمال کی کوشش کی جاتی ہے اور پھر آپ کس کو ووٹ دیتے ہیں یا کم از کم یہی ایک متقی کی کوشش ہونی چاہئے کہ اس کو ووٹ دیا جائے جو آپ کے نزدیک سب سے زیادہ اللہ کا خوف رکھنے والا ہے.جس عہدے کے لئے منتخب ہو رہا ہے اس کا کچھ نہ کچھ علم بھی اس کو ہو.پھر جماعت کے کاموں کے لئے وقت بھی دے سکتا ہو.جس حد تک اس کی طاقت میں ہے وقت کی قربانی بھی دے سکتا ہو.پھر صرف اس لئے کسی کو عہد یدار نہ بنائیں کہ وہ آپ کا عزیز ہے یا دوست ہے.اور اتنا مصروف ہے کہ جماعتی کاموں کے لئے وقت نکالنا مشکل ہے.لیکن عزیز اور دوست ہونے کی وجہ سے اس کو عہد یدار بنانے کی کوشش کی جائے تو یہ ہے امانت کے حقدار کو امانت کو صحیح طرح نہ پہنچانا.اس نیت سے جب انتخابات ہوں گے کہ صحیح حقدار کو یہ امانت پہنچائی جائے تو اس میں برکت بھی پڑے گی ، انشاء اللہ.اور اللہ سے مدد مانگنے والے، نہ کہ اپنے اوپر ناز کرنے والے، اپنے آپ کو کسی قابل سمجھنے والے عہدیدار او پر آئیں گے.اور جن کے ہر کام میں عاجزی ظاہر ہوتی ہوگی اور یہی لوگ آپ کے حقوق کا صحیح خیال رکھنے والے بھی ہوں گے.اور نظام جماعت کو صیح نہج پر چلانے والے بھی ہوں گے.بعض دفعہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں عہد یدار بناؤ.ان کے بارہ میں یہ حدیث ہے جو حضرت خلیفتہ المسیح اول نے حقائق الفرقان میں Quote کی ہے کہ حضرت نبی کریم کے روبرو دو شخص آئے کہ ہمیں کام سپر د کیجئے ، ہم اس کے اہل ہیں.فرمایا: جن کو ہم حکم فرما دیں ، خُدا ان کی مدد کرتا ہے.جو خود کام کو اپنے سر پر لے،اس کی مدد نہیں ہوتی.پس تم عہدے اپنے لئے خود نہ مانگو.“ حقائق الفرقان جلد نمبر (۲ صفحه ۳۰ پھر عہدیداران ہیں ان کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے بلکہ جماعت کا ہر کارکن یہ بات یادر کھے که اگر کسی دفتر میں کسی عہدیدار کے پاس کوئی معاملہ آتا ہے یا کسی کارکن کے علم میں کوئی معاملہ آتا ہے چاہے وہ ان کی نظر میں انتہائی چھوٹے سے چھوٹا معاملہ ہو.وہ اس کے پاس امانت ہے اور اس کو حق نہیں پہنچتا کہ اس سے آگے یہ معاملہ لوگوں تک پہنچے.ایک راز ہے، ایک امانت ہے، پھر کسی کی کمزوریوں کو اچھالنا تو ویسے بھی ناپسندیدہ فعل ہے اور منع ہے بڑی سختی سے منع ہے.اور بعض دفعہ تو
230 $2003 خطبات مسرور یہ ہوتا ہے کہ کسی بات کا وجود ہی نہیں ہوتا اور وہ بات بازار میں گردش کر رہی ہوتی ہے.اور جب تحقیق کر و تو پتہ چلتا ہے کہ فلاں کا رکن نے فلاں سے بالکل اور رنگ میں کوئی بات کی تو جو کم از کم نہیں تو سو سے ضرب کھا کر باہر گردش کر رہی ہوتی ہے.تو جس کے متعلق بات کی جاتی ہے جب اس تک یہ بات پہنچتی ہے تو طبعی طور پر اس کے لئے تکلیف کا باعث ہوتی ہے.اول تو بات اس طرح ہوتی نہیں اور اگر ہے بھی تو تمہیں کسی کی عزت اچھالنے کا کس نے اختیار دیا ہے.پھر مشورے ہیں اگر کوئی کسی عہدیدار سے یا کسی بھی شخص سے مشورہ کرتا ہے تو یہ بالکل ذاتی چیز ہے، ایک امانت ہے.تمہارے پاس ایک شخص مشورہ کے لئے آیا، تم نے اپنی عقل کے مطابق اسے مشورہ دیا تو تم نے امانت لوٹانے کا حق ادا کر دیا.اب تمہارا کوئی حق نہیں بنتا کہ اس مشورہ لینے والے کی بات آگے کسی اور سے کرو.اور اگر کرو گے تو یہ خیانت کے زمرے میں آ جائے گی.عہدیداران کو بھی ، کارکنان کو بھی اس حدیث کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہئے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : جب امانتیں ضائع ہونے لگیں تو قیامت کا انتظار کرنا.سائل نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ان کے ضائع ہونے سے کیا مراد ہے؟ فرمایا : جب نا اہل لوگوں کو حکمران بنایا جائے تو قیامت کا انتظار کرنا.(بخارى كتاب الرقاق باب رفع الامانة ) پھر طبرانی کبیر میں یہ روایت آئی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: جس میں امانت نہیں، اس میں ایمان نہیں جس کو عہد کا پاس نہ ہو اس میں دین نہیں ، اُس ہستی کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے کسی بندے کا اُس وقت تک دین درست نہ ہو گا جب تک اُس کی زبان درست نہ ہو.اور اُس کی زبان درست نہ ہوگی جب تک اُس کا دل درست نہ ہوگا.اور جو کوئی کسی ناجائز کمائی سے کوئی مال پائے گا اور اُس میں سے خرچ کرے گا تو اُس کو اُس میں برکت نہیں دی جائے گی ، اور اگر اُس میں سے خیرات کرے گا تو قبول نہیں ہوگی اور جو اُس میں سے بچ رہے گا وہ اُسے دوزخ کی طرف لے جانے کا موجب ہوگا.بُری چیز بُری چیز کا کفارہ نہیں بن سکتی ہے، البتہ اچھی چیز اچھی چیز کا کفارہ ہوتی ہے.(المعجم الكبير الطبراني جلد ۱۰ صفحه ۲۲۷
خطبات مسرور 231 $2003 ہمیشہ یادرکھنا چاہئے عہدیداران کو، کارکنان کو کہ عہدہ بھی ایک عہد ہے، خدمت بھی ایک عہد ہے جو خدا اور اس کے بندوں سے ایک کارکن، ایک عہد یدار، اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے کرتا ہے.اگر ہر عہد یدار یہ سمجھنے لگ جائے کہ نہ صرف قول سے بلکہ دل کی گہرائیوں سے اس بات پر قائم ہو کہ خدمت دین ایک فضل الہی ہے.میری غلط سوچوں سے یہ فضل مجھ سے کہیں چھن نہ جائے تو ہماری ترقی کی رفتار اللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی گنا بڑھ سکتی ہے.ہم سب کے لئے لمحہ فکر یہ ہے، ایک سوچنے کا مقام ہے کہ امانت ایمان کا حصہ ہے، اگر امانت کی صحیح ادا ئیگی نہیں کر رہے ، اگر اپنے عہد پر صحیح طرح کار بند نہیں ، جو حدود تمہارے لئے متعین کی گئی ہیں ان میں رہ کر خدمت انجام نہیں دے رہے تو اس حدیث کی رو سے ایسے شخص میں دین ہی نہیں اور دین کو درست کرنے کے لئے اپنی زبان کو درست کرنا ہوگا.اور فرمایا کہ زبان اس وقت تک درست نہ ہوگی جب تک دل درست نہ ہوگا.اور پھر ایک کڑی سے دوسری کڑی ملتی چلی جائے گی.تو حسین معاشرے کو قائم رکھنے کے لئے ان تمام امور کی درستگی ضروری ہے.ایک بات اور واضح ہو کہ صرف منہ سے یہ کہہ دینے سے کہ میرادل درست ہے، کافی نہیں.ہر وقت ہم میں سے ہر ایک کے ذہن میں یہ بات رہنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ دلوں کا حال جانتا ہے.وہ ہماری پا تال تک سے واقف ہے.وہ سمیع و بصیر ہے اس لئے اپنے تمام قبلے درست کرنے پڑیں گے.تو خدمت دین کرنے کے مواقع بھی ملتے رہیں گے.تو یہ تقویٰ کے معیار قائم رہیں گے تو نظام جماعت بھی مضبوط ہو گا اور ہوتا چلا جائے گا انشاء اللہ تعالی.ایسے عہدیدار جو پورے تقویٰ کے ساتھ خدمت سرانجام دیتے ہیں اور دے رہے ہیں ان کے لئے ایک حدیث میں جو میں پڑھتا ہوں، ایک خوشخبری ہے.حضرت ابو موسی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ وہ مسلمان جو مسلمانوں کے اموال کا نگران مقرر ہوا اگر وہ امین اور دیانتدار ہے اور جو اسے حکم دیا جاتا ہے اسے صحیح صحیح نافذ کرتا ہے اور جسے کچھ دینے کا حکم دیا جاتا ہے اسے پوری بشاشت اور خوش دلی کے ساتھ اس کا حق سمجھتے ہوئے دیتا ہے تو ایسا شخص بھی عملاً صدقہ دینے والے کی طرح صدقہ دینے والا شمار ہوگا.(مسلم کتاب الزكواة باب اجر الخازن الامين والمرأة......تو دیکھیں نیکی سے کس طرح نیکیاں نکلتی چلی جارہی ہیں.خدا کی جماعت کی خدمت کا
232 $2003 خطبات مسرور موقع بھی ملا، خدا کی مخلوق کی خدمت کا موقع بھی ملا، حکم کی پابندی کر کے، امانت کی ادائیگی کر کے، صدقے کا ثواب بھی کما لیا.بلاؤں سے بھی اپنے آپ کو محفوظ کر لیا.اور اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل ہوگئی.پھر مجالس کی امانتیں ہیں.کسی مجلس میں اگر آپ کو دوست سمجھ کر ، اپنا سمجھ کر آپ کے سامنے باتیں کر دی جائیں تو ان باتوں کو باہر لوگوں میں کرنا بھی خیانت ہے.پھر مجالس میں کسی کے عیب دیکھیں، کسی کی کوئی کمزوری دیکھیں تو اس کو باہر پھیلا نا کسی طرح بھی مناسب نہیں.جب کہ کسی اور شخص کو بھی بتانا جس کا اس مجلس سے تعلق نہ ہو یہ بھی خیانت ہے.ایک بات اور واضح ہو اور ہر وقت ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اگر کسی مجلس میں نظام کے خلاف یا نظام کے کسی کارکن کے خلاف باتیں ہو رہی ہوں تو اس کو پہلے تو وہیں بات کرنے والے کو سمجھا کر اس بات کو ختم کر دینا زیادہ مناسب ہے اور و ہیں اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے.اگر اصلاح کی کوئی صورت نہ ہو تو پھر بالا افسران تک اطلاع کرنی چاہئے.لیکن بعض دفعہ بعض کارکن بھی اس میں Involve ہو جاتے ہیں.پتہ نہیں آج کل کے حالات کی وجہ سے مردوں کے اعصاب پر بھی زیادہ اثر ہو جاتا ہے یا مردوں کو بھی بلا سوچے سمجھے عورتوں کی طرح باتیں کرنے کی عادت پڑ گئی ہے.اس میں بعض اوقات اچھے بھلے سلجھے ہوئے کارکن بھی شامل ہو جاتے ہیں اور ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں پر منفی اثر ڈال سکتی ہیں اور اس طرح غیر محسوس طور پر ایک کارکن دوسرے کارکن کے متعلق بات کر کے یا ایک عہد یدار دوسرے بالا عہدیدار کے متعلق بات کر کے یا اپنے سے کم عہدیدار کے متعلق بات کر کے، لوگوں کے لئے فتنے کا موجب بن رہا ہوتا ہے.کمزور طبیعت والے ایسی باتوں کا خواہ وہ چھوٹی باتیں ہی ہوں، برا اثر لیتے ہیں.اور ایسے کارکنوں کو بھی جو اپنے ساتھی عہدیداران کے متعلق باتیں کرنے کی عادت پڑ جائے تو منافق بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور نظام بھی متاثر ہوتا ہے.اس لئے تمام کارکنان اور عہدیداران کو جو ایسی باتیں خواہ مذاق کے رنگ میں ہوں کرتے ہیں ان کو اپنے عہدوں اور اپنے مقام کی وجہ سے ایسی باتیں کرنے سے پر ہیز کرنا چاہئے.اور ایسی مجلسوں میں بیٹھنے والوں کے لئے یہاں اجازت ہے.اب ویسے تو مجلس کی باتیں امانت ہیں باہر نہیں نکلنی چاہئیں لیکن
$2003 233 خطبات مسرور اگر نظام کے خلاف باتیں ہورہی ہوں تو یہاں اجازت ہے کہ چاہے وہ اگر نظام کے متعلق ہے یا نظام کے کسی عہدیدار کے متعلق ہیں اور اس سے یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ اس میں کئی اعتراض کے پہلو ابھر سکتے ہیں، نکل سکتے ہیں تو اس کو افسران بالا تک پہنچانا چاہئے.اور ایک حدیث میں اس کی اس الله طرح اجازت ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجالس کی گفتگو امانت ہے سوائے تین مجالس کے.ایسی مجلس جہاں ناحق خون بہانے والوں کے باہمی مشورہ کی مجلس ہو.پھر وہ مجلس جس میں بدکاری کا منصوبہ بنے.اور پھر وہ مجلس جس میں کسی کا مال ناحق دبانے کا منصو بہ بنایا جائے.تو جہاں ایسی سازشیں ہو رہی ہوں جس سے کسی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، ایسی باتیں سن کر متعلقہ لوگوں تک یا افسران تک پہنچانا یہ امانت ہے.ان کو نہ پہنچانا خیانت ہو جائے گی.تو نظام کے متعلق جو باتیں ہیں وہ بھی اسی زمرہ میں آتی ہیں کہ اگر کوئی نظام کے خلاف بات کر رہا ہو اور بالا افسران تک نہ پہنچائیں.پھر بعض دفعہ عہدیداران کے خلاف شکایات پیدا ہوتی ہیں تو بعض اوقات یہ صرف غلط نہی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں.یا بعض دفعہ کسی نے اپنے ذاتی بغض کی وجہ سے کسی عہدیدار کے ساتھ ہے اپنے ماحول میں بھی لوگ اس عہد یدار کے خلاف باتیں کر کے لوگوں کو اس کے خلاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ایسی صورت میں بھی آپ کو چاہئے کہ امانتیں ان کے صحیح حقداروں تک پہنچا ئیں.یعنی باتیں بالا افسران تک ، عہد یدارن تک، نظام تک پہنچائیں.لیکن تب بھی یہ کوئی حق نہیں پہنچتا بہر حال کہ ادھر ادھر بیٹھ کر باتیں کی جائیں.بلکہ جس کے خلاف بات ہورہی ہے مناسب تو یہی ہے کہ اگر آپ کی اس عہد یدار تک پہنچ ہے تو اس تک بات پہنچائی جائے کہ تمہارے خلاف یہ باتیں سننے میں آرہی ہیں.اگر صحیح ہیں تو اصلاح کر لو اور اگر غلط ہے تو جو بھی صفائی کا طریقہ اختیار کرنا چاہتے ہو کر و.پھر کسی کی پیٹھ پیچھے باتیں کرنے والوں کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ باتیں صحیح ہیں یا غلط یہ غیبت یا جھوٹ کے زمرے میں آتی ہیں.اور غیبت کرنے والوں کو اس حدیث کو یا درکھنا چاہئے کہ اگلے جہان میں ان کے ناخن تانبے کے ہو جائیں گے جس سے وہ اپنے چہرے اور سینے کا گوشت نوچ رہے ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.
$2003 234 خطبات مسرور ہم اُسی وقت بچے بندے ٹھہر سکتے ہیں کہ جو خداوند منعم نے ہمیں دیا ہم اُس کو واپس دیں یا واپس دینے کے لئے تیار ہو جائیں.ہماری جان اُس کی امانت ہے اور وہ فرماتا ہے 66 تُؤَدُّوا و الا منتِ إِلَى أَهْلِهَا “ (تفسیر فرموده حضرت مسیح موعود جلد دوم صفحه ۲۴۵، جدید ایڈیشن.مطبوعه ربوه) آپ مزید فرماتے ہیں: نہیں رکھتا.امانتوں کو ان کے حقداروں کو واپس دے دیا کرو.خدا خیانت کرنے والوں کو دوست پھر آپ نے فرمایا: مومن وہ ہیں جو اپنی امانتوں اور عہدوں کی رعایت رکھتے ہیں یعنی ادائے امانت اور ایفائے عہد کے بارہ میں کوئی دقیقہ تقویٰ اور احتیاط کا باقی نہیں چھوڑتے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کا نفس اور اس کے تمام قومی اور آنکھ کی بینائی اور کانوں کی شنوائی اور زبان کی گویائی اور ہاتھوں اور پیروں کی قوت یہ سب خدا تعالیٰ کی امانتیں ہیں جو اس نے ہمیں دی ہیں اور جس وقت چاہے اپنی امانت کو واپس لے سکتا ہے.پس ان تمام امانتوں کی رعایت رکھنا یہ ہے کہ بار یک در بار یک تقویٰ کی پابندی سے خدا تعالیٰ کی خدمت میں نفس اور اس کے تمام قوئی اور جسم اور اس کے تمام قومی اور جوارح سے لگایا جائے اس طرح پر کہ گویا یہ تمام چیزیں اس کی نہیں بلکہ خدا کی ہو جائیں.اور اُس کی مرضی اس کی نہیں بلکہ خدا کی مرضی کے موافق ان تمام قومی اور اعضاء کا حرکت اور سکون ہو.اور اس کا ارادہ کچھ بھی نہ رہے بلکہ خدا کا ارادہ اس میں کام کرے اور خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں اس کا نفس ایسا ہو جیسا کہ مردہ زندہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے.اور یہ خودرائی سے بے دخل ہو (یعنی اپنا وجود ہی نہ ہو ).اور خدا تعالیٰ کا پورا تصرف اس کے وجود پر ہو جائے.یہاں تک کہ اُسی سے دیکھے اور اُسی سے سنے اور اُسی سے بولے اور اسی سے حرکت یا سکون کرے.اور نفس کی دقیق در دقیق آلائشیں جو کسی خوردبین سے بھی نظر نہیں آسکتیں دور ہو کر فقط روح رہ جائے.غرض مہیمنت خدا کی اس کا احاطہ کر لے.( یعنی انسان خدا تعالیٰ کے مکمل طور پر قبضہ میں ہو ).اور اپنے وجود سے اس
$2003 235 خطبات مسرور کو کھوہ دے اور اس کی حکومت اپنے وجود پر کچھ نہ رہے اور سب حکومت خدا کی ہو جائے.اور انسانی جوش سب مفقود ہو جائیں.اور تمام آرزوئیں اور تمام ارادے اور تمام خواہشیں خدا میں ہو جائیں.اور نفس امارہ کی تمام عمارتیں منہدم کر کے خاک میں ملا دی جائیں.اور ایک ایسا پاک محل تقدس اور تطہر کا دل میں دل میں تیار کیا جاوے جس میں حضرت عزت نازل ہو سکیں اور اس کی روح اس میں آباد ہو سکے.اس قدر تکمیل کے بعد کہا جائے گا کہ وہ امانتیں جو منعم حقیقی نے انسان کو دی تھیں وہ واپس کی گئیں تب ایسے شخص کو یہ آیت صادق آئے گی ﴿وَالَّذِيْنَ هُمْ لَا مَنتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُوْنَ.پھر آپ فرماتے ہیں : ”انسان کی پیدائش میں دو قسم کے حسن ہیں.ایک حسن معاملہ اور وہ یہ کہ انسان خدا تعالیٰ کی تمام امانتوں اور عہد کے ادا کرنے میں یہ رعایت رکھے کہ کوئی عمل حتی الوسع ان کے متعلق فوت نہ ہو.جیسا کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں ”راعُونَ“ کے لفظ اسی طرف اشارہ کرتا ہے ایسا ہی لازم ہے کہ انسان مخلوق کی امانتوں اور عہد کی نسبت بھی یہی لحاظ رکھے یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد میں تقویٰ سے کام لے جوحسن معاملہ ہے.یا یوں کہو کہ روحانی خوبصورتی ہے“.آپ مزید فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے.چنانچہ لباس التقوى قرآن شریف کا لفظ ہے.یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے.اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تا بمقد ور کار بند ہو جائے“.فرمایا: ”امانت سے مراد انسان کامل کے وہ تمام قومی اور عقل اور علم اور دل اور جان اور حواس اور خوف اور محبت اور عزت اور وجاہت اور جمیع نعماء روحانی و جسمانی ہیں جو خدا تعالیٰ انسان کامل کو عطا کرتا ہے اور پھر انسان کامل بر طبق آیت اِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّ والا منتِ إِلَى
236 $2003 خطبات مسرور اَهْلِهَا ، اس ساری امانت کو جناب الہی کو واپس دے دیتا ہے یعنی اُس میں فانی ہو کر اُس کے راہ میں وقف کر دیتا ہے...اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سید ، ہمارے مولی ، ہمارے ہادی، نبی امی صادق اور مصدوق محمد مصطفی ﷺ میں پائی جاتی تھی.“ (آئینه کمالات اسلام صفحه ۱۶۱.۱۶۲) پس یا درکھیں کہ امانت کی بہت بڑی اہمیت ہے.اور جتنے زیادہ عہد یداران جماعت اور میں جا کر امانت کے مطلب کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اتنے ہی زیادہ تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم ہوتے چلے جائیں گے.حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے اعلیٰ معیار قائم ہوں گے.نظام جماعت مضبوط ہوگا، نظام خلافت مضبوط ہو گا.آپ کی نظام سے وابستگی قائم رہے گی.خلافت کے نظام کو مضبوط کرنے کے لئے خلیفہ وقت کی تو ہمیشہ یہی دعا ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے متقیوں کا امام بنائے.تو پھر ان دعاؤں کے مورد، ان کے حامل تو وہی لوگ ہوں گے جو اپنی امانتوں کا پاس کرنے والے، اپنے عہدوں کا پاس کرنے والے، اپنے خدا سے وفا کرنے والے ہوتے ہیں اور تقویٰ پر قائم رہنے والے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ جماعت کے ہر فرد کو یہ معیار قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.
$2003 237 17 خطبات مس تو کل کی کمی سے خدا سے دوری، جھوٹ، غلط بیانی اور خوشامد کی کمی غلط بیانی اور برائیاں جنم لیتی ہیں ۱۵ راگست ۲۰۰۳ ء مطابق ۱۵رظهور ۱۳۸۲ ہجری تنشی بمقام مسجد فضل لندن (برطانیہ) ہ دنیا میں سب سے زیادہ تو کل اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء میں پیدا کرتا ہے، اسلام کا مقصد امن کا قیام ہے اور صلح کی بنیاد صلى الله آنحضرت ا نے تو کل کی اعلیٰ ترین مثالیں رقم فرمائی ہیں، آنحضرت ﷺ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں صحابہ کے توکل کا اعلیٰ معیار حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے صحابہ کی ذات میں تو کل کی مثالیں، میاں بیوی کے جھگڑے تو کل کی کمی کی وجہ سے ہوتے ہیں تو کل ہی ایک ایسی چیز ہے کہ انسان کو کامیاب و با مراد بنادیتی ہے.
خطبات مس $2003 238 تشھد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل آیت تلاوت فرمائی ﴿وَإِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ﴾ (الانفال (٦١) دنیا میں سب سے زیادہ تو کل اللہ تعالیٰ انبیاء میں پیدا کرتا ہے اور ان کو خود تسلی دیتا ہے کہ تم فکر نہ کرومیں ہر معاملے میں تمہارے ساتھ ہوں.کوئی دشمن تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکتا.میں تم میں اور دیکھنے والا ہوں اگر دشمن نے غلط نظر سے دیکھنے کی کوشش کی یا کوئی سازش کرنے کی کوشش کی تو میں جو ہر بات کا علم رکھنے والا اور تیری دعاؤں کو سننے والا ہوں خود اس کا علاج کرلوں گا.اور اس طرح باقی روز مرہ کے معاملات میں بھی انبیاء کا تو کل بہت بڑھا ہوا ہوتا ہے کیونکہ وہ اس یقین پر قائم ہوتے ہیں کہ خدا ہر قدم پر ان کے ساتھ ہے، ہر معاملے میں ان کے ساتھ ہے اور پھر اسی طرح روحانی مدارج اور مقام کے لحاظ سے تو کل کے معیار آگے مومنین میں قائم ہوتے چلے جاتے ہیں تو جو آیت ابھی میں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ ہے : اور اگر وہ صلح کے لئے جُھک جائیں تو تو بھی اُس کے لئے جھک جا اور اللہ پر توکل کر.یقینا وہی بہت سننے والا (اور ) دائمی علم رکھنے والا ہے.تفسیر روح المعانی میں علامہ شہاب الدین آلوسی اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ : وَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ ﴾ سے یہ مراد ہے کہ اپنا معاملہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سپر د کر دے اور اس امر سے خائف نہ ہو.اگر وہ تیرے لئے اپنے باز وسلامتی کے لئے جھکا ئیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے باز و مکر اور سازشوں سے لیٹے ہوئے ہوں.ان سے مراد اللہ جل شانہ ہے.هُوَ السَّمِيعُ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دھوکہ دہی کی ان تمام باتوں کو جو وہ علیحد گیوں میں
239 $2003 خطبات مسرور کرتے ہیں سنتا ہے.العلیم سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نیتوں کو بھی جانتا ہے.پس وہ ان سے ایسا مواخذہ کرے گا جس کے وہ مستحق ہیں اور ان کی تدابیر کو ان پر الٹادے گا.(تفسیر روح المعانی جلد ٦ صفحه (٢٧) تو یہاں اس سے ایک بات تو یہ بھی واضح ہوگئی کہ اسلام پر جو یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ جنگجو قسم کا مذہب ہے، اس اعتراض کو بھی یہاں دور کر دیا گیا ہے.کہ اگر دشمن اپنی کمزوری کی وجہ سے یا کسی چال کی وجہ سے صلح کرنا چاہے تو تم بھی اللہ کی خاطر صلح کرلو.کیونکہ اسلام کا تو مقصد ہی امن قائم کرنا ہے.پھر یہ نہیں ہوگا کہ ان کو مفتوح کر کے یا مسلمان بنانے کے بعد ہی صلح کی بنیاد ڈالنی ہے بلکہ اگر ان کی طرف سے صلح کا ہاتھ بڑھتا ہے تو بھی صلح کا ہاتھ بڑھا، مسلمانوں کو یہی حکم ہے.پھر یہ نہیں سوچنا کہ دشمن چال چل رہا ہے اور اس وقت چاہتا ہے تا کہ اپنی طاقت اکٹھی کرے اور پھر جنگ کے سامان میسر آئیں اور پھر حملہ کرے.تو یہ بات اس سے واضح ہوگئی، ظاہر ہو گیا کہ مسلمان اس زمانہ میں بھی صرف اپنے آپ کو بچانے کے لئے جنگ لڑ رہے تھے.تو اب جب دشمن صلح کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے تو قطع نظر اس کے کہ اس کا اپنا طاقت جمع کر کے دوبارہ حملہ کرنے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے تم صلح کرو اور اللہ پر توکل کرو خدا خود سنبھال لے گا.تو ایک تو یہ بھی اس سے رد ہوا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس آیت کے پہلے حصے کی تشریح کرتے ہوئے یعنی اگر وہ صلح کریں تو تم بھی صلح کر لو.فرماتے ہیں کہ اصل میں مومن کو بھی تبلیغ دین میں حفظ مراتب کا خیال رکھنا چاہئے.جہاں نرمی کا موقع ہو وہاں سختی اور درشتی نہ کرے اور جہاں بحر سختی کرنے کے کام ہوتا نظر نہ آوے وہاں نرمی کرنا بھی گناہ ہے.ایک جگہ اس ضمن میں آپ نے فرمایا ہے کہ باوجود فرعون کے سخت کفر کے حضرت موسیٰ کو اس سے نرمی سے بات کرنے کا حکم تھا.تو دعوت الی اللہ میں بھی یہ اصول ہر احمدی کو مدنظر رکھنا چاہئے.یہ و مختصر آمیں نے ذکر کیا توکل کے بارہ میں اور اس آیت کی مختصر تفسیر میں کہ دشمن کے ساتھ اگر معاملہ پڑے تو کیا طریق اختیار کرنا چاہئے اور پھر معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑنا چاہئے اور اسی پر توکل کرنا چاہئے.لیکن روز مرہ کے معاملات میں بھی تو کل علی اللہ کی بہت ضرورت ہے.اور اللہ تعالیٰ پر تو کل تبھی پیدا ہوتا ہے جب خدا کی ذات پر اس کی طاقتوں پر کامل یقین پیدا ہو.جیسا کہ اس آیت میں جو میں ابھی
خطبات مسرور 240 $2003 پڑھتا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَتُهُ زَادَتْهُمْ إِيْمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ (سورة الانفال : ٣) ترجمہ اس کا یہ ہے کہ مومن صرف وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اُس کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ ان کو ایمان میں بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر ہی تو کل کرتے ہیں.تو کل کی اعلیٰ ترین مثالیں تو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ہی رقم فرمائی ہیں اور کیوں نہ ہو، آپ ہی تو انسان کامل تھے.اور ساتھ ہی امت کو بھی سبق دے دیا کہ میری پیروی کرو گے، خدا سے دل لگاؤ گے، اس کی ذات پر ایمان اور یقین پیدا کرو گے تو تمہیں بھی ضائع نہیں کرے گا.اور اپنے پر تو کل کرنے کے نتیجہ میں وہ تمہیں بھی اپنے حصار عافیت میں لے لے گا.آنحضرت ﷺ کے توکل کے بارہ میں بعض احادیث میں یہاں بیان کرتا ہوں.یہ بچپن سے ہم سنتے آرہے ہیں لیکن جب بھی پڑھیں ایمان میں ایک نئی تازگی پیدا ہوتی ہے اور ایمان مزید بڑھتا ہے.وہ واقعہ یاد کریں جب سفر طائف سے واپسی پر رسول اللہ نے کچھ روز مخلہ میں قیام فرمایا.زید بن حارثہ نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ اب آپ مکہ میں کیسے داخل ہوں گے جبکہ وہ آپ کو نکال چکے ہیں.رسول اللہ ﷺ نے کس شان سے ، تو کل سے جواب دیا کہ اے زید تم دیکھو گے کہ اللہ ضرور کوئی راہ نکال دے گا اور اللہ اپنے دین کا مددگار ہے.وہ اپنے نبی کو غالب کر کے رہے گا.چنانچہ نبی کریم نے سرداران قریش کو پیغام بھجوائے کہ آپ کو اپنی پناہ میں لے کر مکہ میں داخل کرنے کا انتظام کریں.کئی سرداروں نے انکار کر دیا بالآخر مکہ کے ایک شریف سردار مطعم بن عدی نے آپ کو اپنی پناہ میں مکہ میں داخل کرنے کا اعلان کیا.پھر آخر کار جب مظالم حد سے زیادہ بڑھ گئے اور مکہ سے ہجرت کا وقت آیا تو کمال وقار سے آپ نے وہاں سے ہجرت فرمائی.غار میں پناہ کے
$2003 241 خطبات مسرور وقت دشمن جب سر پر آن پہنچا تو پھر بھی کس شان سے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اس کے وعدوں پر یقین کرتے ہوئے آپ نے فرمایا.حضرت ابو بکر اس بارہ میں روایت کرتے ہیں کہ میں رسول کریم کے ساتھ غار میں تھا.میں نے اپنا سر اٹھا کر نظر کی تو تعاقب کرنے والوں کے پاؤں دیکھے.اس پر میں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اگر کوئی نظر نیچے کرے گا تو ہمیں دیکھ لے گا.آپ نے فرمایا : چپ اے ابوبکر ! ہم دو ہیں اور ہمارے ساتھ تیسرا خدا ہے.تو یہ ہے وہ تو کل کا اعلیٰ معیار جو صرف اور صرف رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ہمیں نظر آتے ہیں.اور پھر آپ دیکھیں جب غار سے نکل کر سفر شروع کیا تو کیا شان استغناتھی اور کس قد ر اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل حضرت ابو بکر کی روایت ہے کہ سفر ہجرت کے دوران جب سراقہ گھوڑے پر سوار تعاقب کرتے ہوئے ہمارے قریب پہنچ گیا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اب تو پکڑنے والے بالکل سر پر آپہنچے اور میں اپنے لئے نہیں بلکہ آپ کی خاطر فکرمند ہوں.آپ نے فرمایا لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا.کرم نہ کر واللہ ہمارے ساتھ ہے.چنانچہ اسی وقت آپ کی دعا سے سراقہ کا گھوڑ از مین میں جنس گیا اور وہ آپ کی خدمت میں امان کا طالب ہوا.اس وقت آپ نے سراقہ کے حق میں یہ عظیم الشان پیشگوئی فرمائی کہ سراقہ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب کسری کے کنگن تمہارے ہاتھوں میں پہنائے جائیں گے.اور یہ پیشگوئی بھی بڑی شان سے بعد میں پوری ہوئی.پھر وہ شان بھی دیکھیں جب آپ دشمن سے صرف ایک فٹ کے فاصلہ پر تھے اور نہتے تھے اور دشمن تلوار تانے کھڑا تھا لیکن کوئی خوف نہیں.کیسا ایمان، کیسا یقین اور کیسا تو کل ہے خدا کی ذات پر.جابر کہتے ہیں کہ غزوہ ذات الرقاع میں ہم حضور کے ساتھ تھے.ایک دن ہم ایک سایہ دار درخت کے پاس پہنچے.ہم نے آنحضرت ﷺ کے آرام کے لئے اس کو منتخب کیا.اچانک ایک مشرک وہاں آن پہنچا.جب آپ کی تلوار درخت سے لٹک رہی تھی اس نے تلوار سونت لی اور کہنے لگا کیا تم مجھ سے ڈرتے ہو یا نہیں.حضور نے اسے جواب دیا نہیں.اس نے پھر کہا مجھ سے تمہیں کون
$2003 242 خطبات مسرور بچا سکتا ہے.آپ نے فرمایا: اللہ.اس پر تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی.تو حضور نے تلوار اٹھائی اور فرمایا کہ اب مجھ سے تمہیں کون بچا سکتا ہے.اس پر وہ کہنے لگا کہ آپ درگز رفرما دیں.آپ نے فرمایا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں.وہ تھا بھی پکا مشرک.اس پر اس نے کہا نہیں.لیکن میں آپ سے عہد کرتا ہوں کہ آپ سے کبھی لڑائی نہیں کروں گا.اور نہ ان لوگوں کے ساتھ شامل ہوں گا جو آپ سے لڑتے ہیں.اس پر آپ نے اسے چھوڑ دیا.وہ اپنے ساتھیوں سے جاملا اور ان سے کہنے لگا، میں تمہارے ہاں ایک ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں جولوگوں میں سب سے بہتر ہے.(بخاری کتاب المغازی با ب غزوة ذات الرقاع یہ ٹھیک ہے کہ آنحضرت ﷺ سے خدا تعالیٰ کا جو سلوک تھا اور جو وعدے تھے وہ عام مسلمان کے لئے یا عام انسان کے لئے نہیں ہو سکتا.لیکن جیسا کہ اس حدیث سے ظاہر ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رات کے وقت آنحضرت ﷺ کی حفاظت کی غرض سے پہرہ لگا کرتا تھا.حضور کو جب وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ) کی وحی نازل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے برے ارادوں سے تجھے محفوظ رکھے گا.تو حضور ﷺ نے خیمہ سے باہر جھانکا اور فرمایا کہ اب تم لوگ جا سکتے ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود میری حفاظت کی ذمہ داری لی ہے.لیکن یہاں اپنی امت کو خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین قائم کرنے کے لئے اور اس پر تو کل کرنے کی ترغیب دلاتے ہوئے آپ ایک جگہ یہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت کے ستر ہزار لوگ جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوں گے.یہ وہ لوگ ہوں گے جو دوسروں کے عیوب کی تلاش میں لگے نہیں رہتے اور نہ ہی فال لینے والے ہوں گے بلکہ اپنے رب پر تو کل کرتے ہوں گے.(بخارى كتاب الرقاق باب يدخل الجنة سبعون الفا......تو اس حدیث سے ظاہر ہے کہ اگر امت کے لوگ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں گے، بیہودہ گوئی ، لغو، فضول کاموں میں ملوث نہیں ہوں گے، حقوق العبادا دا کرنے والے ہوں گے، اپنے رب پر ایمان لانے والے ہوں گے ، اس پر تو کل کرنے والے ہوں گے، اور اسی کی
خطبات مسرور 243 طرف جھکنے والے ہوں گے تو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے.$2003 تو یہاں جو تعداد کا ذکر ہے یہ کثرت کے لئے ہے اور ساتھ ہی یہ پیشگوئی بھی ہے کہ میری اُمت میں ایسے لوگ کثرت سے ہوں گے انشاء اللہ، جو اللہ پر توکل رکھنے والے ہوں گے اور قیامت تک پیدا ہوتے چلے جائیں گے.یہ نہیں کہ جہاں ستر ہزار کی تعداد مکمل ہوئی وہاں فرشتوں نے جنت کے گیٹ (Gate) بند کر دئے کہ اب وہ آخری آدمی جو نیکیوں اور توکل کرنے والا تھا وہ تو جنت میں داخل ہو گیا اب ختم.اب چاہے تم تو کل کرو، نیکیاں کرو یا نہ کرو جنت میں داخل نہیں ہو سکتے.نہیں، اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے.اللہ کرے ہم میں سے ہر احمدی توکل سے پُر ہو، اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور یقین سے پر ہو، اور اس کی مغفرت اور رحمت کی چادر میں لپٹا ہوا ہو.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.یاد رکھو شرک یہی نہیں کہ بتوں اور پتھروں کی تراشی ہوئی مورتیوں کی پوجا کی جاوے یہ تو ایک موٹی بات ہے.یہ بڑے بے وقوفوں کا کام ہے.دانا آدمی کو تو اس سے شرم آتی ہے.شرک بڑا باریک ہے.شرک جو ا کثر ہلاک کرتا ہے وہ شرک فی الاسباب ہے یعنی اسباب پر اتنا بھروسہ کرنا کہ گویاوہی اس کے مطلوب و مقصود ہیں.جو شخص دنیا کو دین پر مقدم رکھتا ہے اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ اس کو دنیا کی چیزوں پر بھروسہ ہوتا ہے اور وہ امید ہوتی ہے جو دین وایمان سے نہیں.نقد فائدہ کو پسند کرتا ہے اور آخرت سے محروم.جب وہ اسباب پر ہی اپنی ساری کامیابیوں کا مدار خیال کرتا ہے تو خدا تعالیٰ کے وجود کو تو اس وقت وہ لغو محض اور بے فائدہ جانتا ہے اور تم ایسا نہ کرو تم تو کل اختیار کرو اور تو کل یہی ہے کہ اسباب جو اللہ تعالیٰ نے کسی امر کے حاصل کرنے کے واسطے مقرر کئے ہوئے ہیں ان کو حتی المقدور جمع کرو اور پھر کچھ دعاؤں میں لگ جاؤ کہ اے خدا تو ہی اس کا انجام بخیر کر.صد ہا آفات ہیں اور ہزاروں مصائب ہیں.جو ان اسباب کو بھی برباد اور تہ و بالا کر سکتے ہیں.اب ذمہ دار اس مثال سے خوب واقف ہیں.فصل اگتی ہے، فصل بڑھتی ہے، پکنے کے قریب ہوتی ہے ایک دم طوفان آتا ہے، اولے پڑتے ہیں اور فصل جو ہے بالکل کٹے ہوئے بھوسے کی مانند ہو جاتی
$2003 244 خطبات مسرور ہے تو فرمایا کہ یہ دعا کرنی چاہئے کہ اس کی دستبرد سے بچا کر ہمیں کچی کامیابی اور منزل مقصود تک پہنچا.پھر آپ فرماتے ہیں: اصل رازق اللہ تعالیٰ ہے.وہ شخص جو اس پر بھروسہ کرتا ہے کبھی رزق سے محروم نہیں رہ سکتا.وہ ہر طرح سے اور ہر جگہ سے اپنے پر تو گل کرنے والے شخص کے لئے رزق پہنچاتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مجھ پر بھروسہ کرے اور تو کل کرے میں اس کے لئے آسمان سے برسا تا اور قدموں میں سے نکالتا ہوں.پس چاہئے کہ ہر ایک شخص خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرے.اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.ایک دفعہ ہمیں اتفاقاً پچاس روپیہ کی ضرورت پیش آئی اور جیسا کہ اہل فقر اور تو کل پر کبھی کبھی ایسی حالت گزرتی ہے اس وقت ہمارے پاس کچھ نہ تھا سو جب ہم صبح کے وقت سیر کے واسطے گئے تو اس ضرورت کے خیال نے ہم کو یہ جوش دیا کہ اس جنگل میں دعا کریں.پس ہم نے ایک پوشیدہ جگہ میں جا کر اس نہر کے کنارہ پر دعا کی جو قادیان سے تین میل کے فاصلہ پر بٹالہ کی طرف واقع ہے.جب ہم دعا کر چکے تو دعا کے ساتھ ہی ایک الہام ہوا جس کا ترجمہ یہ ہے : ”دیکھ میں تیری دعاؤں کو کیسے جلد قبول کرتا ہوں.تب ہم خوش ہو کر قادیان کی طرف واپس آئے اور بازار کا رخ کیا تا کہ ڈاکخانہ سے دریافت کریں کہ آج ہمارے نام کچھ روپیہ آیا ہے یا نہیں.چنانچہ ہمیں ایک خط ملا جس میں لکھا تھا کہ پچاس روپیہ لدھیانہ سے کسی نے روانہ کئے ہیں اور غالباً وہ روپیہ اسی دن یا دوسرے دن ہمیں مل گیا.(نزول المسيح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۱۷) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ”خدا تعالیٰ پر بھروسہ کے یہ معنے نہیں ہیں کہ انسان تدبیر کو ہاتھ سے چھوڑ دے بلکہ یہ معنے ہیں کہ تدبیر پوری کر کے پھر انجام کو خدا تعالیٰ پر چھوڑے اس کا نام تو کل ہے اور اگر وہ تدبیر نہیں کرتا اور صرف تو کل کرتا ہے تو اس کا تو کل پھوکا ہوگا.(جس کے اندر کچھ نہ ہو) اور اگر نری تدبیر کر کے اس پر بھروسہ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ پر تو کل نہیں ہے تو وہ تدبیر بھی پھوکی (جس کے اندر کچھ نہ
245 $2003 صلى الله خطبات مسرور ہو ) ایک شخص اونٹ پر سوار تھا.آنحضرت ﷺ کو اس نے دیکھا تعظیم کے لئے نیچے اترا اور ارادہ کیا کہ تو کل کرے اور تدبیر نہ کرے.چنانچہ اس نے اونٹ کا گھٹنانہ باندھا.جب رسول اللہ ﷺہے سے مل کر آیا تو دیکھا کہ اونٹ نہیں ہے.واپس آکر آنحضرت ﷺ سے شکایت کی کہ میں نے تو تو کل کیا تھا لیکن میرا اونٹ جاتا رہا.آپ نے فرمایا کہ تو نے غلطی کی.پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھتا، پھر تو کل کرتا تو ٹھیک ہوتا“.( البدر یکم مارچ ۱۹۰۴ ، ملفوظات جلد ۳ صفحه (۵۶۶ آپ فرماتے ہیں: ” تو کل کرنے والے اور خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے والے کبھی ضائع نہیں ہوتے.جو آدمی صرف اپنی کوششوں میں رہتا ہے اس کو سوائے ذلت کے اور کیا حاصل ہوسکتا ہے.جب سے دنیا پیدا ہوئی ہمیشہ سے سنت اللہ یہی چلی آتی ہے کہ جو لوگ دنیا کو چھوڑتے ہیں وہ اس کو پاتے ہیں اور جو اس کے پیچھے دوڑتے ہیں وہ اس سے محروم رہتے ہیں.جو لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے وہ اگر چند روز مکر و فریب سے کچھ حاصل کر بھی لیں تو وہ لا حاصل ہے کیونکہ آخر ان کو سخت نا کامی دیکھنی پڑتی ہے.اسلام میں عمدہ لوگ وہی گزرے ہیں جنہوں نے دین کے مقابلہ میں دنیا کی کچھ پروانہ کی.ہندوستان میں قطب الدین اور معین الدین خدا کے اولیاء گزرے ہیں جنہوں نے دین کے مقابلہ میں دنیا کی کچھ پرواہ نہ کی.ہندوستان میں قطب الدین اور معین الدین خدا کے اولیا گذرے ہیں.ان لوگوں نے پوشیدہ خدا تعالیٰ کی عبادت کی مگر خدا تعالیٰ نے ان کی عزت کو ظاہر کر دیا.(بدرجلد ۱۸ اگست ۱۹۰۷ ، ملفوظات جلد ۵ صفحه (۲۴۸ حضرت خلیفہ المسح الاول کے بارہ میں بھی یہ واقعہ ایمان میں زیادتی کا باعث بنتا ہے.۱۹۰۳۴ میں مولوی کرم دین والے مقدمہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام گورداسپور تشریف لے جایا کرتے تھے.تو ایک دفعہ آپ نے پیغام بھجوایا وہاں سے کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی فوراً پہنچ جائیں.چنانچہ شیخ صاحب کہتے ہیں کہ میں اور حضرت مولوی صاحب دو بجے بعد دو پہر یکہ پر بیٹھ کر بٹالہ کی طرف چل پڑے.شیخ
$2003 246 خطبات مسرور صاحب کے دل میں خیال آیا کہ حضرت مولوی صاحب کہا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا میرے ساتھ وعدہ ہے کہ میں اگر کہیں جنگل بیابان میں بھی ہوں تو خدا تعالیٰ مجھے رزق پہنچائے گا اور میں کبھی بھوکا نہیں رہوں گا.آج ہم بے وقت چلے ہیں پتہ لگ جائے گا کہ رات کو ان کے کھانے کا کیا انتظام ہوتا ہے.تو کہتے ہیں بٹالہ میں مقامی جماعت کی طرف سے ایک مکان بطور مہمان خانہ ہوا کرتا تھا.حضرت مولوی صاحب وہاں ایک چار پائی پر لیٹ گئے اور کتاب پڑھنے لگ گئے.اس وقت اندازاً شام کے چھ بجے کا وقت ہوگا.اچانک ایک اجنبی شخص آیا اور کہا کہ میں نے سنا ہے کہ آج مولوی نورالدین صاحب آئے ہوئے ہیں، وہ کہاں ہیں؟ میں نے کہا وہ یہ لیٹے ہوئے ہیں.کہنے لگا حضور ! میری ایک عرض ہے آج شام کی دعوت میرے ہاں قبول فرمائیے.میں ریلوے میں ٹھیکیداری کرتا ہوں اور میری بیلسٹ ٹرین کھڑی ہوئی ہے اور میں نے امرتسر جانا ہے.میر املا زم حضور کے لئے کھانا لے آئے گا.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا، بہت اچھا.چنانچہ شام کے وقت اس کا ملازم بڑا پر تکلف کھانا لے کر حاضر ہوا.اور ہم دونوں نے سیر ہو کر کھالیا.شیخ صاحب کہنے لگے میرے دل میں خیال آیا کہ ان کی بات تو صحیح ہوگئی اور انہیں خدا نے واقعہ میں کھانا بھجوا دیا.چونکہ گاڑی رات دس بجے کے بعد چلتی تھی.میں نے حضرت مولوی صاحب سے عرض کیا کہ اندھیرا ہو رہا ہے، پھر مزدور نہیں ملے گا.ہم کسی مزدور کو بلا لیتے ہیں اور سٹیشن پر پہنچ جاتے ہیں.وہاں ویٹنگ روم میں ہم آرام کر لیں گے.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا بہت اچھا.چنانچہ ایک مزدور بلایا اور وہ ہم دونوں کے بستر لے کرسٹیشن پہنچ گیا.چونکہ گاڑی رات کے دس بجے کے بعد آتی تھی میں نے آپ کا بستر کھول دیا تا کہ حضرت مولوی صاحب آرام فرما لیں.جب میں نے بستر کھولا تو اللہ تعالیٰ اس بات پر گواہ ہے کہ اس کے اندر سے ایک کاغذ میں لیٹے ہوئے دو پراٹھے نکلے جن کے ساتھ قیمہ رکھا ہوا تھا.میں سخت حیران ہوا اور میں نے دل میں کہا لو بھئی وہ کھانا بھی ہم نے کھالیا اور یہ خدا کی طرف سے اور کھانا بھی آگیا.کیونکہ اس کھانے کا ہمیں مطلقا علم نہیں تھا.میں نے حضرت مولوی صاحب سے عرض کیا کہ حضور جب قادیان سے چلے تھے تو چونکہ اچانک اور بے وقت چلے تھے میں نے دل میں سوچا کہ آج ہم دیکھیں گے کہ مولوی صاحب کا کھانا
$2003 247 خطبات مسرور کہاں سے آتا ہے.تو پہلے آپ کی دعوت ہوگئی اور اب یہ پراٹھے بستر سے بھی نکل آئے ہیں.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا: شیخ صاحب ! اللہ تعالیٰ کو آزمایا نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو.اس کا میرے ساتھ خاص معاملہ ہے.حضرت خلیفہ اول اپنے ایک دوست کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ” میرے ایک دوست بڑے مہمان نواز تھے.ایک دن ایک مہمان آیا.عشاء کی نماز کا وقت تھا.پاس پیسہ تک نہ تھا.اسے کہا کہ آپ ذرا لیٹ جاویں میں آپ کے کھانے کا بندو بست کرتا ہوں.اس کے بعد انہوں نے دعا کی توجہ کی اور کہا افوض امری الی اللہ.اِنَّ اللہ بصیر بالعبا د مولا تیرا ہی مہمان ہے، یکا یک ایک آدمی نے آواز دی کہ لینا میرے ہاتھ جل گئے.ایک کاب ( ٹرے) پلاؤ کا تھا.نہ اس نے اپنا نام بتایا ، نہ ان کو جلدی میں خیال رہا.وہ کاب مدت تک بمدامانت رہا کوئی مالک پیدا نہ ہوا.تو تو کل عجیب چیز ہے.آنحضرت ﷺ کی قوت قدسی نے صحابہ میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور یقین اور یہ یقین کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو سنتا ہے.اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ پر توکل کے وہ اعلیٰ معیار قائم کر دئے تھے جو کسی سے چھپے ہوئے نہیں.یہاں میں ایک روایت پیش کرتا ہوں جس میں اللہ تعالیٰ پر تو کل اور دعا کی قبولیت پر یقین کا پتہ چلتا ہے.اور دعا ہمیں بھی کرنی چاہئے.حضرت طلق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت ابودرداء کے پاس آیا اور کہا کہ آپ کا گھر جل گیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ میرا گھر نہیں جلا.پھر دوسرا شخص آیا اور اس نے کہا کہ آپ کا گھر جل گیا ہے.تو آپ نے فرمایا کہ میرا گھر نہیں جلا.پھر تیسرا شخص آیا اور کہا کہ اے ابو درداء ! آگ لگی تھی اور جب آپ کے گھر کے قریب پہنچی تو بجھ گئی.آپ نے فرمایا کہ مجھے معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرے گا.حاضرین مجلس نے حضرت ابودرداء سے کہا کہ آپ کی دونوں باتیں عجیب ہیں.پہلے (یہ کہنا ) کہ میرا گھر نہیں جلا اور پھر یہ کہنا کہ مجھے علم تھا کہ اللہ ایسا نہیں کرے گا.آپ نے فرمایا کہ یہ میں نے ان کلمات کی وجہ سے کہا تھا جو میں نے آنحضور ﷺ سے سنے تھے.آپ نے فرمایا تھا کہ جس نے
$2003 248 خطبات مسرور یہ کلمات صبح کے وقت کہے اسے شام تک کوئی مصیبت نہیں پہنچے گی اور جس نے شام کے وقت یہ کلمات کہے اسے صبح تک کوئی مصیبت نہیں پہنچے گی اور وہ کلمات یہ ہیں : اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ عَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَاَنْتَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيم.مَا شَاءَ اللَّهُ كَانَ وَلَمْ بِشَاء لَمْ يَكُنْ لَا حَوْلَ وَلَاقُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ.أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلّ شَيْءٍ قَدِيْرِ.وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا.اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِى وَمِنْ شَرِكُلّ دَابَّةٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا إِنَّ رَبِّي عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيم.یعنی اے میرے اللہ ! تو ہی میرا رب ہے.تیرے سوا کوئی معبود نہیں.میں تجھ پر ہی تو کل کرتا ہوں اور تو ہی عرش عظیم کا رب ہے.اور جو تو نے چاہا ہو گیا اور جو نہ چاہا وہ واقعہ نہ ہوا.اعلیٰ اور عظمت والے اللہ کے سوا کسی کو کوئی طاقت حاصل نہیں.اور میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور اس کا علم ہر چیز پر حاوی ہے.اے اللہ میں اپنے نفس کے شر اور ہر اس جاندار کے شر سے جو تیرے قبضہ قدرت میں ہے تیری پناہ میں آتا ہوں.یقیناً میرا رب سیدھے راستہ پر ہے.تو یہی تو کل تھا جس کی مثالیں ہمیں اس زمانہ میں بھی نظر آتی ہیں کہ باوجود اس کے کہ چاروں طرف آگ پھیلی ہوئی تھی لیکن اس یقین پر قائم رہنے کی وجہ سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے خدا کا وعدہ ہے کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے.حضرت مولوی رحمت علی صاحب کو اسی وعدہ نے گھر میں بٹھائے رکھا جبکہ اردگرد چاروں طرف آگ تھی.اور پھر اللہ تعالیٰ نے بارش کے ذریعہ سے ان تک اس آگ کو پہنچنے نہ دیا اور یہ آگ ان کے گھر تک پہنچنے سے پہلے ہی بجھ گئی.تو یہ مثالیں ہمیں پھر نظر آتی ہیں جو ایمان اور یقین میں اضافہ کا باعث بنتی ہیں.جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ روزمرہ کے معاملات میں بھی تو کل کی کمی بہت سی برائیوں میں اضافہ کا باعث بنتی ہے.مثلاً غلط بیانی ہے، جھوٹ ہے، جو انسان بعض دفعہ اپنے آپ کو کسی سزا سے بچانے کے لئے بول لیتا ہے.یا افسر کی ناراضگی سے بچنے کے لئے غلط بیانی سے یا جھوٹ سے کام لیتا ہے اور اس بات پر بڑے خوش ہوتے ہیں کہ دیکھو میں نے عدالت کو یا افسر کو ایسا چکر دیا اور اپنے حق میں
$2003 249 خطبات مسرور فیصلہ کروالیا.اور اس کے علاوہ پھر افسروں کی خوشامد ہے.یہ اس قدر گر کرنا جائز حد تک جی حضوری کی عادت پیدا ہو جاتی ہے کہ دوسروں کو دیکھ کر بھی اس سے کراہت آرہی ہوتی ہے کہ اس نے اپنے افسر کو خدا بنالیا ہے.اپنا رازق ایسے لوگ اپنے افسروں کو ہی سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر ذرا سا بھی تو کل نہیں ہوتا.اس پر یقین ہی نہیں ہوتا اور پھر آہستہ آہستہ ایسے لوگ بندے کو بھی خدا کا درجہ دے دیتے ہیں.تو دیکھیں غیر محسوس طریقے سے جھوٹ اور جھوٹی خوشامد شرک کی طرف لے جاتی ہے اور پھر اس طرف دھیان ہی نہیں جاتا کہ وہ سمیع وعلیم خدا بھی ہے جو میرے حالات بھی جانتا ہے، جس کے آگے میں جھکوں، اپنی تکالیف بیان کروں، اپنے معاملات پیش کروں.تو وہ دعاؤں کو سننے والا ہے، وہی میری مدد کرے گا، اور مشکلات سے نکالے گا اور نکالنے کی طاقت رکھتا ہے.اور اسی پر میں تو کل کرتا ہوں تو یہ باتیں پھر جھوٹوں اور خوشامدیوں کے دماغوں میں کبھی آہی نہیں سکتیں.پس ہر احمدی کو ان باتوں سے پر ہیز کرنا چاہئے.اور اس طریق پر چلنا چاہئے جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ نے ہمیں بتائے اور جن کو اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے عمل سے ہمارے سامنے رکھا.آپ فرماتے ہیں کہ : ” مجھے یاد ہے میں نے ایک مرتبہ امرتسر ایک مضمون بھیجا.اس کے ساتھ ہی ایک خط بھی تھا.رلیا رام کے وکیل ہند اخبار کے متعلق تھا.میرے اس خط کو خلاف قانون ڈاکخانہ قراردے کر مقدمہ بنایا گیا.وکلاء نے بھی کہا کہ اس میں بجز اس کے رہائی نہیں جو اس خط سے انکار کر دیا جاوے، گویا جھوٹ کے سوا بچاؤ نہیں.مگر میں نے اس کو ہرگز پسند نہ کیا بلکہ یہ کہا کہ اگر ریچ بولنے سے سزا ہوتی ہے تو ہونے دو، جھوٹ نہیں بولوں گا.آخر وہ مقدمہ عدالت میں پیش ہوا.ڈاکخانوں کا افسر بحیثیت مدعی حاضر ہوا.مجھ سے جس وقت اس کے متعلق پوچھا گیا تو میں نے صاف طور پر کہا کہ یہ میرا خط ہے مگر میں نے اس کو جزو مضمون سمجھ کر اس میں رکھا ہے.مجسٹریٹ کی سمجھ میں یہ بات آگئی اور اللہ تعالیٰ نے اس کو بصیرت دی.ڈاکخانوں کے افسر نے بہت زور دیا مگر اس نے ایک نہ سنی اور مجھے رخصت کر دیا.میں کیونکر کہوں کہ جھوٹ کے بغیر گزارہ نہیں.ایسی باتیں نری بیہودگیاں ہیں.سچ تو یہ ہے کہ سچ کے بغیر گزارہ نہیں.میں اب تک بھی جب اپنے اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو ایک مزا آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے پہلو کو اختیار کیا.اس نے ہماری رعایت رکھی اور ایسی
$2003 250 خطبات مسرور رعایت رکھی جو بطور نشان کے ہوگئی.مَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ﴾ (الطلاق:۴).( بدر ۲ فروری ١٩٠٦ء ، ملفوظات جلد چهارم صفحه ٦٣٦ - ٧٣٦) پھر میاں بیوی کے جھگڑے ہیں یہ بھی تو کل میں کمی کی وجہ سے ہی ہوتے ہیں.اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عورتوں میں قناعت کا مادہ کم ہوتا ہے.بجائے اس کے کہ وہ اپنے خاوند کی جیب کو دیکھتے ہوئے اپنے ہاتھ کھولے، اپنے دوستوں سہیلیوں یا ہمسایوں کی طرف دیکھتی ہیں جن کے حالات ان سے بہتر ہوتے ہیں.اور پھر خرچ کر لیتی ہیں، پھر خاوندوں سے مطالبہ ہوتا ہے کہ اور دو.پھر آہستہ آہستہ یہ حالت مزید بگڑتی ہے اور اس قدر بے صبری کی حالت اختیار کر لیتی ہے کہ بعض دفعہ باوجود اس کے کہ دو دو تین تین بچے بھی ہو جاتے ہیں لیکن اس بے صبری کی قناعت کی وجہ سے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر تو کل نہ ہونے کی وجہ سے.کیونکہ ایسے لوگ صرف دنیا داری کے خیالات سے ہی اپنے دماغوں کو بھرے رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ پر اس وجہ سے یقین بھی کم ہو جاتا ہے.اور اگر خدا تعالیٰ پر یقین نہ ہو تو پھر اس کے سامنے جھکتے بھی نہیں ، اس سے دعا بھی نہیں کرتے.تو یہ ایک سلسلہ جب چلتا ہے تو پھر دوسرا سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے.اور پھر جو اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والے نہ ہوں ان پر تو کل کیسے رہ سکتا ہے.تو ایسی عورتیں پھر اپنے گھروں کو برباد کر دیتی ہیں.خاوندوں سے علیحدہ ہونے کے مطالبے شروع ہو جاتے ہیں.اور پھر جیسا کہ میں نے کہا کہ ایک برائی سے دوسری برائی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے لیکن یہ صرف عورتوں کی حد تک نہیں ہے بلکہ ایسے مرد بھی ہیں جن کو میں کہوں گا کہ جن میں غیرت کی کمی ہے جو اپنی بیوی سے مطالبے کر رہے ہوتے ہیں کہ تم جہیز میں جو زیور لائی ہو مجھے دو تاکہ میں کاروبار کروں.یا جور تم اگر نقد ہے تو وہ مجھے دوتا کہ میں اپنے کاروبار میں لگاؤں.اگر تو میاں بیوی کے تعلقات محبت اور پیار کے ہیں تو آپس میں افہام و تفہیم سے عورتیں دے بھی دیتی ہیں.لیکن اگر عورت کو پتہ ہو کہ میرا خاوند نکھٹو ہے، اس میں اتنی استعداد ہی نہیں ہے کہ وہ کا روبار کر سکے اور یہ احساس ہو کہ کچھ عرصہ بعد میرا جو اپنا سرمایہ ہے، رقم ہے وہ بھی جاتی رہے گی اور گھر میں پھر فاقہ زدگی پیدا ہو جائے گی اور وہی حالات ہو جائیں گے تو وہ نہیں دیتیں اور اس سے لڑائی جھگڑے بڑھتے ہیں.پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض دفعہ تھوڑی بے غیرتی کی حد آگے بھی چلی جاتی ہے جب ایک دفعہ بے غیرت انسان ہو جائے تو یہ مطالبہ ہو جاتا ہے کہ بیوی کو کہا جاتا ہے کہ
251 $2003 خطبات مسرور تمہارا باپ کافی پیسے والا ہے، امیر ہے اس لئے مجھے اتنی رقم اس سے لے کر دو تا کہ میں کاروبار کروں.اور اس میں لڑکے کے گھر والے بھائی بہن وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں جو اس کو اکساتے رہتے ہیں کہ تم اس رقم کا مطالبہ کرو.تو گویا اب لڑکی کے پورے سسرال کو پالنا اس کی ذمہ داری ہو جاتی ہے.تو ایسے لوگ جو اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں وہ ہمیشہ وہی ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف نہ جھکنے والے اور اس پر تو کل نہ کرنے والے اور اس کے احکامات اور تعلیم پر عمل نہ کرنے والے ہوتے ہیں.جو اللہ تعالیٰ کی عبادات، جو حق ہے عبادت کرنے کا اس طرح نہ کرنے والے ہوں ان میں کبھی تو کل پیدا ہو ہی نہیں سکتا.اور پھر جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ جب عائلی معاملات میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو ان حالات میں بھی عورتوں پر ہی ظلم یہ ہوتا ہے کہ اگر مردوں کی ڈیمانڈ (Demand) پوری نہ کی جائیں تو ان کو گھر سے نکال دیا جاتا ہے اور بڑی تکلیف دہ صورتحال ہوتی ہے.اور یہ ایسی صورت حال ہے جو سامنے آتی ہیں جن کا میں ذکر کر رہا ہوں.تو اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ایسے گھروں کو عقل اور سمجھ سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر گھر ، ہر احمدی گھرانہ پیار اور محبت اور الفت کا نمونہ دکھانے والا ہو.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”اصلاح نفس کے لئے اور خاتمہ بالخیر ہونے کے لئے نیکیوں کی توفیق پانے کے واسطے دوسرا پہلو دعا کا ہے.اس میں جس قدر تو کل اور یقین اللہ تعالیٰ پر کرے گا اور اس راہ میں نہ تھکنے والا قدم رکھے گا اسی قدر عمدہ نتائج اور ثمرات ملیں گے.تمام مشکلات دور ہو جائیں گی اور دعا کرنے والا تقویٰ کے اعلی محل پر پہنچ جائے گا.یہ بالکل سچی بات ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کسی کو پاک نہ کرے کوئی پاک نہیں ہوسکتا.نفسانی جذبات پر محض خدا تعالیٰ کے فضل اور جذبہ ہی سے موت آتی ہے اور یہ فضل اور جذ بہ دعا ہی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ طاقت صرف دعا ہی سے ملتی ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ مسلمانوں اور خصوصاً ہماری جماعت کو ہرگز ہرگز دعا کی بے قدری نہیں کرنی چاہئے کیونکہ یہی دعا تو ہے جس پر مسلمانوں کو ناز کرنا چاہئے.اور دوسرے مذاہب کے آگے تو دعا کے لئے گندے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور وہ توجہ نہیں کر سکتے.ایک عیسائی جو خونِ مسیح پر ایمان
252 $2003 خطبات مسرور لا کر سارے گناہوں کو معاف شدہ سمجھتا ہے اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ دعا کرتار ہے.اور ایک ہند و جو یقین کرتا ہے کہ تو بہ قبول ہی نہیں ہوتی اور تناسخ کے چکر سے رہائی ہی نہیں ہے وہ کیوں دعا کے واسطے ٹکریں مارتا رہے گا.وہ تو یقیناً سمجھتا ہے کہ کتے ، بلے ، بندر، سور بننے سے چارہ ہی نہیں ہے.اس لئے یا درکھو کہ یہ اسلام کا فخر اور ناز ہے کہ اس میں دُعا کی تعلیم ہے.اس میں کبھی ستی نہ کرو اور نہ اس سے تھکو“.( الحكم ١٧/ جنوری ٠٥ ۱۹۰۵ ، ملفوظات جلد ۷ صفحه ٢٦٦-٢٦٧ معاشرے میں آج کل بہت سارے جھگڑوں کی وجہ طبیعتوں میں بے چینی اور مایوسی کی وجہ سے ہوتی ہے جو حالات کی وجہ سے پیدا ہوتی رہتی ہے.اور یہ مایوسی اور بے چینی اس لئے بھی زیادہ ہوگئی ہے کہ دنیا داری اور مادیت پرستی اور دنیاوی چیزوں کے پیچھے دوڑنے کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہو گئی ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات پر تو کل کم ہو گیا ہے اور دنیاوی ذرائع پر انحصار زیادہ ہوتا جا رہا ہے.اس لئے اگر اپنی زندگیوں کو خوشگوار بنانا ہے تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا کہ دعاؤں پر زور دیں اور اسی سے آپ کی دنیا اور عاقبت دونوں سنور میں گی.اور یہی تو کل جو ہے آپ کا آپ کی زندگی میں بھی اور آپ کی نسلوں میں بھی آپ کے کام آئے گا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”اصل میں تو کل ہی ایک ایسی چیز ہے کہ انسان کو کامیاب و بامراد بنا دیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ مَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ﴾ (الطلاق : (۴) جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو کافی ہو جاتا ہے بشرطیکہ سچے دل سے تو کل کے اصل مفہوم کو سمجھ کر صدق دل سے قدم رکھنے والا ہو اور صبر کرنے والا اور مستقل مزاج ہو، مشکلات سے ڈر کر پیچھے نہ ہٹ جاوئے“.اور اس کے کام بھی ایسے ہی ہیں.پس انسان کو لازم ہے کہ اس کا غم نہ کرے اور آخرت کا فکر زیادہ رکھے.اگر دین کے غم انسان پر غالب آجاویں تو دنیا کے کاروبار کا خود خدا متکفل ہو جاتا ہے.(الحكم ١٦ مئى ١٩٠٨ء، ملفوظات جلد دهم صفحه ٢٥٢ - مطبوعه لندن ایک حدیث ہے جس میں بہت ہی پیاری ایک دعا سکھائی گئی ہے.حضرت ابن
253 $2003 خطبات مسرور عباس بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم نہ رات کو جب تہجد پڑھتے تو یہ دعا کرتے کہ اے ہمارے اللہ ! تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں، آسمان اور زمین کو تو ہی قائم رکھنے والا ہے.تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں.تو ہی زمین اور آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب ہے.تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں.تو آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا نور ہے.تو حق ہے، تیرا قول حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، تیری ملاقات حق ہے، جنت حق ہے، جہنم حق ہے اور قیامت حق ہے.اے میرے اللہ ! میں تیری ہی فرمانبرداری اختیار کرتا ہوں اور تجھ پر ہی ایمان لایا ہوں اور تجھ پر ہی تو کل کرتا ہوں اور اپنے تمام جھگڑے تیرے ہی حضور پیش کرتا ہوں اور تجھ سے ہی فیصلہ طلب کرتا ہوں.میری اگلی اور پچھلی ، ظاہری اور پوشیدہ خطائیں معاف فرما اور وہ خطائیں جنہیں تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے.تیرے سوا کوئی معبود نہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں یہ دعائیں کرنے اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین
$2003 254 خطبات مس
$2003 255 18 خطبات مس اللہ کی رسی کو پکڑنے اور نظام سے وابستہ رہنے میں ہی آپ کی بقا ہے ۲۲ اگست ۲۰۰۳ء بمطابق ۲۲ رظهور ۱۳۸۲ هجری شمسی بمقام مئی مارکیٹ منہائیم (جرمنی) ہے.نظام کی کا میابی اور ترقی کا انحصار اس نظام سے منسلک لوگوں اور اس نظام کے قواعد وضوابط کی مکمل پابندی کرنے پر ہوتا ہے نظام جماعت سے ہمیشہ چھٹے رہو، کیونکہ اب اسکے بغیر آپ کی بقا نہیں نظام جماعت کو چھوڑ کر دوسری جگہوں پر فائدہ حاصل کرنے کے لئے جانے والوں کی چالا کی اور انکوتنیہ تمہارا کام صرف اطاعت ہے،اطاعت ہے،اطاعت ہے، نظام جماعت کی اطاعت کرنے پر صبر اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جزاء، ے اس جلسہ کو عام دنیاوی میلوں کی طرح نہ سمجھو...
خطبات مس $2003 256 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا نظام کی کامیابی کا اور ترقی کا انحصار اس نظام سے منسلک لوگوں اور اس نظام کے قواعد و ضوابط کی مکمل پابندی کرنے پر ہوتا ہے.چنانچہ دیکھ لیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں قانون کی پابندی کی شرح تیسری دنیای ترقی پذیر ممالک سے بہت زیادہ ہے اور ان ممالک کی ترقی کی ایک بہت بڑی وجہ یہی ہے کہ عموماً چاہے بڑا آدمی ہو یا افسر ہو اگر ایک دفعہ اس کی غلطی باہر نکل گئی تو پھر اتنا شور پڑتا ہے کہ اس کو اس غلطی کے نتائج بہر حال بھگتنے پڑتے ہیں اور اپنی اس غلطی کی جو بھی سزا ہے اس کو برداشت کرنی پڑتی ہے.جبکہ غریب ممالک میں یا آج کل جو ٹرم (Term) ہے تیسری دنیا کے ممالک میں آپ دیکھیں گے کہ اگر کوئی غلط بات ہے تو اس پر اس حد تک پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ احساس ندامت اور شرمندگی بھی ختم ہو جاتا ہے اور نتیجہ ایسی باتیں ہی پھر ملکی ترقی میں روک بنتی ہیں.تو اگر دنیاوی نظام میں قانون کی پابندی کی اس حد تک، اس شدت سے ضرورت ہے تو روحانی نظام جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اترا ہوا نظام ہے اس میں کس حد تک اس پابندی کی ضرورت ہوگی اور کس حد تک اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہوگی.یادرکھیں کہ دینی اور روحانی نظام چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسولوں کے ذریعہ اس دنیا میں قائم ہوتے ہیں اس لئے بہر حال انہی اصولوں کے مطابق چلنا ہو گا جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتائے ہیں اور نبی کے ذریعہ، انبیاء کے ذریعہ پہنچے اور اسلام میں آنحضرت ﷺ کے ذریعہ یہ نظام ہم تک پہنچا.اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا حسان ہے احمد یوں پر کہ نہ صرف ہادی کامل مﷺ کی امت میں شامل ہونے کی توفیق ملی بلکہ اس زمانے میں مسیح موعود اور مہدی کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق بھی اس نے عطا فرمائی جس میں ایک نظام قائم ہے، ایک نظام
257 $2003 خطبات مسرور خلافت قائم ہے، ایک مضبوط کڑا آپ کے ہاتھ میں ہے جس کا ٹوٹنا ممکن نہیں.لیکن یا درکھیں کہ یہ کڑا تو ٹوٹنے والا نہیں لیکن اگر آپ نے اپنے ہاتھ اگر ذرا ڈھیلے کئے تو آپ کے ٹوٹنے کے امکان پیدا ہو سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس سے بچائے.اس لئے اس حکم کو ہمیشہ یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور نظام جماعت سے ہمیشہ چھٹے رہو.کیونکہ اب اس کے بغیر آپ کی بقا نہیں.یا درکھیں شیطان راستہ میں بیٹھا ہے.ہمیشہ آپ کو ورغلاتا رہے گا لیکن اس آیت کو ہمیشہ مدنظر رکھیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يَايُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا ادْخُلُوْا فِي السّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّيْطَنِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ (سورة البقره : ۲۰۹) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم سب کے سب اطاعت ( کے دائرہ ) میں داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کے پیچھے نہ چلو.یقیناً وہ تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے.حضرت مصلح موعود اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ : ”اے مومنو! تم سارے کے سارے پورے طور پر اسلام میں داخل ہو جاؤ اور اس کی اطاعت کا جوا اپنی گردنوں پر کامل طور پر رکھ لو.یا اے مسلمانو! تم اطاعت اور فرمانبرداری کی ساری راہیں اختیار کرو اور کوئی بھی حکم ترک نہ کرو.اس آیت میں كَافَّةً، الَّذِينَ آمَنُوا کا بھی حال ہو سکتا ہے اور اسکیم کا بھی.پہلی صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ تم سب کے سب اسلام میں داخل ہو جاؤ.یعنی تمہارا کوئی فرد بھی ایسا نہیں ہونا چاہئے جو اطاعت اور فرمانبرداری کے مقام پر کھڑا نہ ہو.یا جس میں بغاوت اور نشوز کے آثار پائے جاتے ہوں.دوسری صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ تم پورے کا پورا اسلام قبول کرو.یعنی اس کا کوئی حکم ایسا نہ ہو جس پر تمہارا عمل نہ ہو.یہ قربانی ہے جو اللہ تعالیٰ ہر مومن سے چاہتا ہے کہ انسان اپنی تمام آرزوؤں تمام خواہشوں اور تمام امنگوں کو خدا تعالیٰ کے لئے قربان کر دے اور ایسا نہ کرے کہ جو اپنی مرضی ہو وہ تو کرے اور جو نہ ہو وہ نہ کرے.یعنی اگر شریعت اس کو حق دلاتی ہو تو کہے میں شریعت پر چلتا ہوں اور اسی کے ماتحت فیصلہ ہونا چاہئے.لیکن اگر شریعت اس سے کچھ دلوائے اور ملکی قانون نہ دلوائے تو کہے کہ ملکی قانون کی رو سے فیصلہ ہونا چاہئے.یہ طریق حقیقی ایمان کے بالکل منافی ہے.
258 $2003 خطبات مسرور چونکہ پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ مسلمانوں میں بعض ایسے کمزور لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو قومی ترقی اور رفاہیت کے دور میں فتنہ و فساد پر اتر آتے ہیں.اور وہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری پہلی حالت کیا تھی اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں کیا کچھ عطا کر دیا.اس لئے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نصیحت فرماتا ہے کہ بے شک تم مومن کہلاتے ہومگر تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ صرف مونہہ سے اپنے آپ کو مومن کہنا تمہیں نجات کا مستحق نہیں بنا سکتا.تم اگر نجات حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کا طریق یہ ہے کہ اول ہر قسم کی منافقت اور بے ایمانی کو اپنے اندر سے دور کرنے کی کوشش کرو.اور قوم کے ہر فر دکو ایمان اور اطاعت کی مضبوط چٹان پر قائم کرو.دوم صرف چندا حکام پر عمل کر کے خوش نہ ہو جاؤ.بلکہ خدا تعالیٰ کے تمام احکام پر عمل بجالاؤ.اور صفات الہیہ کا کامل مظہر بننے کی کوشش کرو.“ (تفسير كبير جلد ۲ صفحه (۴۵۷۴۵۶ یہاں ان ممالک میں جہاں اسلامی قوانین لاگو نہیں، یہ بات دیکھنے میں آتی ہے جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ یہ نہ ہو کہ تمہارے مدنظر صرف اور صرف اپنا ذاتی مفاد ہو.لڑائی جھگڑے کی صورت میں جہاں دیکھتے ہیں کہ شریعت بہتر حق دلا سکتی ہے تو فوراً جماعت میں درخواست دیتے ہیں کہ ہمارا فیصلہ جماعت کرے.اور جہاں ملکی قانون کے تحت فائدہ نظر آتا ہو تو بغیر جماعت سے پو چھے ملکی عدالتوں میں چلے جاتے ہیں اور جماعت کی بات کسی طرح ماننے پر راضی نہیں ہوتے کیونکہ اس وقت ان کے سر پر شیطان سوار ہوتا ہے اور اگر ملکی قانون ان کے خلاف فیصلہ دے دے تو پھر واپس نظام جماعت کے پاس دوڑے آتے ہیں کہ ہم غلط انہی کی وجہ سے اپنے جھگڑے کا فیصلہ کروانے کے لئے ملکی عدالت میں چلے گئے تھے، ہمیں معاف کر دیا جائے.اب جو نظام کہے گا ہمیں قابل قبول ہوگا.تو یا درکھیں اب واپس آنے کا مقصد نظام جماعت کی اطاعت اور محبت نہیں ہے بلکہ یہ کوشش ہے کہ شاید ہمارا داؤ چل جائے اور صدر یا امیر یا قاضی کو کسی طرح ہم قائل کر لیں اور اپنے حق میں فیصلہ کروالیں.تو اس سلسلہ میں یا درکھنا چاہئے کہ جب ایک دفعہ نظام جماعت چھوڑ کر آپ اپنے فیصلوں کے لئے ملکی عدالتوں میں چلے گئے اور بغیر اجازت نظام جماعت کے چلے گئے یا نظام پر دباؤ ڈالا کہ ہم نے جماعت کے اندر فیصلہ نہیں کروانا ہمیں بہر حال اجازت دی جائے کہ ہم ملکی قانون -
$2003 259 خطبات مسرور کے مطابق فیصلہ کروائیں.پھر ایسے لوگوں کا کبھی بھی جب کوئی معاملہ ہو تو نظام جماعت نہیں سنے گا.پھر وہ کبھی اپنے معاملے جماعت کے پاس نہ لا ئیں.اور جب ایسے لوگوں کے معاملے نظام جماعت لینے سے انکار کرتا ہے تو پھر ایسے لوگ سیکرٹری امور عامہ، صدر یا امیر کے خلاف شکایات کرنا شروع کر دیتے ہیں، اعتراض شروع کر دیتے ہیں کہ دیکھو یہ لوگ ہمارے جھگڑوں کو نمٹانے میں تعاون نہیں کرتے.خلیفہ وقت کو بھی لمبے لمبے خط لکھے جاتے ہیں اور وقت ضائع کیا جاتا ہے.تو یہ سب شیطانی خیال ہیں.وہ تمہارے دل میں پہلے وسوسہ ڈالتا ہے، کہ دیکھوا اپنا معاملہ جماعت میں نہ لے کے جانا.دوسرے فریق کے تعلقات عہدیداران سے زیادہ ہیں وہ تمہارے خلاف فیصلہ کر والے گا اور اپنے حق میں فیصلہ کر والے گا.تو پھر ایک دفعہ شیطان کی گرفت میں آگئے تو پھر باہر نکلنا مشکل ہوتا ہے اور ایک چکر شروع ہو جاتا ہے جو آہستہ آہستہ دلوں میں داغ پیدا کرتا رہتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”اے ایمان والو! خدا کی راہ میں گردن ڈال دو اور شیطانی راہوں کو اختیار مت کرو کہ شیطان تمہارا دشمن ہے.اس جگہ شیطان سے مراد وہی لوگ ہیں جو بدی کی تعلیم دیتے ہیں“.(تفسیر حضرت مسیح موعود عليه السلام جلداول صفحه ۲۹۸.سورة البقره آیت (۲۰۹ تو ایک تو یہ وجہ ہے کہ ذاتی جھگڑوں کی وجہ سے چاہے نظام جماعت سے فیصلہ کروایا جا رہا ہے یا نہیں کروایا جا رہا جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا کہ لوگ ہیں جو تمہیں بدی کی تعلیم دیتے ہیں، بد خیالات دل میں پیدا کرتے ہیں، نظام کے خلاف ابھارتے ہیں ان کی وجہ سے تم شیطان کے چکر میں آجاتے ہو.تو وہ چکر یہی ہے کہ چاہے ملکی عدالت میں جھگڑوں کی صورت میں جائیں یا نظام جماعت سے اپنے معاملات کا فیصلہ کروانے کی کوشش کریں.کوئی نہ کوئی فریق جس کے خلاف فیصلہ ہوتا ہے جماعتی عہدیداران کو ملوث کر کے اس کے خلاف ہو جاتا ہے اور پھر نظام پر بدظنی شروع ہو جاتی ہے اور اس کے خلاف اظہار شروع ہو جاتا ہے.تو عملاً ایسے لوگ اپنے آپ کو نظام جماعت سے علیحدہ کر لیتے ہیں.اور پھر وہ نہ ادھر کے رہتے ہیں نہ ادھر کے رہتے ہیں.اس سلسلہ میں اس حدیث کو ہم سب کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے.
$2003 260 خطبات مسرور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے حاکم سے ناپسندیدہ بات دیکھے اور وہ صبر کرے.کیونکہ جو نظام سے بالشت بھر جدا ہوا اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی.(صحیح مسلم کتاب الاماره باب وجوب ملازمة جماعة المسلمين......پھر ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ لہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ میری امت کو ضلالت اور گمراہی پر جمع نہیں کرے گا.اللہ تعالیٰ کی مدد جماعت کے ساتھ ہوا کرتی ہے.جو شخص جماعت سے الگ ہواوہ گویا آگ میں پھینکا گیا.(ترمذى كتاب الفتن باب ما جاء في لزوم الجماعة تو ہمیشہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ جو بھی صورت حال ہو ہمیشہ صبر کرنا ہے.یہ بھی ذہن میں رہے کہ صبر ہمیشہ حق تلفی کے احساس پر ہی انسان کو ہوتا ہے.اب یہاں احساس کا لفظ میں نے اس لئے استعمال کیا ہے کہ اکثر جس کے خلاف فیصلہ ہو اس کو یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ غلط ہوا ہے اور میرا حق بنتا تھا.تو یہ خیال دل سے نکال دیں.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ نیچے سے لے کر اوپر تک سارا نظام جو ہے غلط فیصلے کرتا چلا جائے اور یہ بدظنی پھر خلیفہ وقت تک پہنچ جاتی ہے.اگر ہر احمدی کے سامنے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان رہے کہ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيْعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَأَوْلِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُوْلِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا (سورۃ النساء آیت ۲۰).اس کا ترجمہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی.اور اگر تم کسی معاملہ میں (اولو الامر سے اختلاف کرو تو ایسے معاملے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دیا کرو اگر (فی الحقیقت) تم اللہ پر اور یوم آخر پر ایمان لانے والے ہو.یہ بہت بہتر ( طریق) ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے.تو سوائے اس کے کہ کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے جہاں واضح شرعی احکامات کی خلاف ورزی کے لئے تمہیں کہا جائے، اللہ اور رسول کی اطاعت اسی میں ہے کہ نظام جماعت
261 $2003 خطبات مسرور کی ، عہدیداران کی اطاعت کرو، ان کے حکموں کو ، ان کے فیصلوں کو مانو.اگر یہ فیصلے غلط ہیں تو اللہ تمہیں صبر کا اجر دے گا.کیونکہ تم یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہوتو اللہ پر معاملہ چھوڑو.تمہیں اختیار نہیں ہے کہ اپنے اختلاف پر ضد کرو.تمہارا کام صرف اطاعت ہے، اطاعت ہے، اطاعت ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اللہ اور اس کے رسول اور ملوک کی اطاعت اختیار کرو.اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آجاتی ہے.مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی مشکل امر ہے.اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتا ہے.بدوں اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی اور ہوائے نفس ہی ایک ایسی چیز ہے جو بڑے بڑے موحدوں کے قلب میں بھی بت بن سکتی ہے.صحابہ رضوا اللہ علیہم اجمعین پر کیسا فضل تھا اور وہ کس قد ررسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں فنا شدہ قوم تھی.یہ سچی بات ہے کہ کوئی قوم، قوم نہیں کہلا سکتی اور ان میں ملیت اور یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک کہ وہ فرمانبرداری کے اصول کو اختیار نہ کرے.اور اگر اختلاف رائے اور پھوٹ رہے تو پھر سمجھ لو کہ یہ ادبار اور تنزل کے نشانات میں مسلمانوں کے ضعف اور تنزل کے منجملہ دیگر اسباب کے باہم اختلاف اور اندرونی تنازعات بھی ہیں.پس اگر اختلاف رائے کو چھوڑ دیں اور ایک کی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے پھر جس کام کو چاہتے ہیں وہ ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے.اس میں یہی تو سر ہے.اللہ تعالیٰ تو حید کو پسند فرماتا ہے اور یہ وحدت قائم نہیں ہوسکتی جب تک اطاعت نہ کی جاوے.پیغمبر خدا کے زمانہ میں صحابہ بڑے بڑے اہل الرائے تھے.خدا نے ان کی بناوٹ ایسی ہی رکھی تھی.وہ اصول سیاست سے بھی خوف واقف تھے کیونکہ آخر جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ کرام خلیفہ ہوئے اور ان میں سلطنت آئی تو انہوں نے جس خوبی اور انتظام کے ساتھ سلطنت کے بارگراں کو سنبھالا ہے اس سے بخوبی معلوم ہوسکتا ہے کہ ان میں اہل الرائے ہونے کی کیسی قابلیت تھی مگر رسول کریم اللہ کے حضور ان کا یہ حال تھا کہ جہاں
$2003 262 خطبات مسرور آپ نے فرمایا اپنی تمام راؤں اور دانشوں کو اُس کے سامنے حقیر سمجھا اور جو کچھ پیغمبر خدا نے فرمایا اسی کو واجب العمل قرار دیا.ان کی اطاعت میں گمشدگی کا یہ عالم تھا کہ آپ کے وضو کے بقیہ پانی میں برکت ڈھونڈتے تھے.اور آپ کے لب مبارک کو متبرک سمجھتے تھے.اگر ان میں یہ اطاعت کی تسلیم کا مادہ نہ ہوتا بلکہ ہر ایک اپنی اصلی رائے کو مقدم سمجھتا اور پھوٹ پڑ جاتی تو وہ اس قدر مراتب عالیہ کو نہ پاتے.میرے نزدیک شیعہ سنیوں کے جھگڑوں کو چکا دینے کے لئے یہی ایک دلیل کافی ہے کہ صحابہ کرام میں باہم پھوٹ ، ہاں یا ہم کسی قسم کی پھوٹ اور عداوت نہ تھی.کیونکہ ان کی ترقیاں اور کامیابیاں اس امر پر دلالت کر رہی ہیں کہ وہ باہم ایک تھے اور کچھ بھی کسی سے عداوت نہ تھی.نا سمجھ مخالفوں نے کہا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا گیا.مگر میں کہتا ہوں یہ صحیح نہیں ہے.اصل بات یہ ہے کہ دل کی نالیاں اطاعت کے پانی سے لبریز ہو کر بہن نکلی تھیں.یہ اس اطاعت اور اتحاد کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے دوسرے دلوں کو تسخیر کر لیا.آپ پیغمبر خدا ﷺ کی شکل و صورت جس پر خدا پر بھروسہ کرنے کا نور چڑھا ہوا تھا اور جو جلالی اور جمالی رنگوں کو لئے ہوئے تھی اس میں بھی ایک کشش اور قوت تھی کہ وہ بے اختیار دلوں کو کھینچ لیتے تھے.اور پھر آپ کی جماعت نے اطاعت رسول کا وہ نمونہ دکھایا اور اس کی استقامت ایسی فوق الکرامت ثابت ہوئی کہ جو ان کو دیکھتا تھا وہ بے اختیار ہو کر ان کی طرف چلا آتا تھا.غرض صحابہ کی سی حالت اور حوادث کی ضرورت اب بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو جو مسیح موعود کے ہاتھ سے تیار ہورہی ہے اسی جماعت کے ساتھ شامل کیا ہے جو رسول اللہ ﷺ نے طیار کی تھی اور چونکہ جماعت کی ترقی ایسے ہی لوگوں کے نمونوں سے ہوتی ہے اس لئے تم جو مسیح موعود کی جماعت کہلا کر صحابہ کی جماعت سے ملنے کی آرزور رکھتے ہو اپنے اندر صحابہ کا رنگ پیدا کرو.اطاعت ہو تو ویسی ہو.باہم محبت اور اخوت ہو تو ویسی ہو.غرض ہر رنگ میں ، ہر صورت میں تم وہی شکل اختیار کرو جو صحابہ کی تھی.(تفسیر حضرت مسیح موعود عليه السلام جلد دوم صفحه ٢٤٦،٢٤٨ ـ زير سورة النساء آيت (٦٠) اطاعت کے بارہ میں کچھ احادیث پیش کرتا ہوں.حذیفہ بن یمان سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم برائی میں تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھلائی دی.اب اس کے بعد بھی کچھ برائی ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں.میں نے کہا پھر
$2003 263 خطبات مسرور اس کے بعد بھلائی ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں.میں نے کہا پھر اس کے بعد برائی.آپ نے فرمایا: ہاں.میں نے کہا کیسے؟ آپ نے فرمایا میرے بعد وہ لوگ حاکم ہوں گے جو میری راہ پر نہ چلیں گے.میری سنت پر عمل نہیں کریں گے اور ان میں ایسے لوگ ہوں گے جن کے دل شیطان کے سے اور بدن آدمیوں کے سے ہوں گے.میں نے عرض کی: یا رسول اللہ ! اس وقت میں کیا کروں.آپ نے فرمایا: اگر تو ایسے زمانہ میں ہو تو حاکم کی بات کوسن اور مان خواہ وہ تیری پیٹھ پھوڑے اور تیرا مال لے لے.پس تو اس کی بات سنے جا اور اس کا حکم مانتارہ.حیح مسلم كتاب باب وجوب ملازمة جماعة المسلمين........تو اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ظلم کی حد تک بھی تمہارے ساتھ تمہارے عہد یداران کی طرف سے سلوک ہو رہا ہے تب بھی تم ان کی اطاعت کئے جاؤ.آنحضرت ﷺ نے اطاعت کو اتنی اہمیت دی تھی کہ مختلف زاویوں سے امت کو اس بارہ میں سمجھاتے رہے.چند احادیث ہیں: حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا: سنو اور اطاعت کرو.خواہ تم پر ایسا حبشی غلام ( حاکم بنادیا جائے ) جس کا سر منقہ کی طرح ( چھوٹا ) ہو.(صحیح بخاری، کتاب الاحكام، باب السمع والطاعة للامام مالم تكن معصية ) حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے اپنا ہاتھ کھینچا وہ اللہ تعالیٰ سے ( قیامت کے دن ) اس حالت میں ملے گا کہ نہ اس کے پاس کوئی دلیل ہوگی نہ عذر.اور جو شخص اس حال میں مرا کہ اس نے امام وقت کی بیعت نہیں کی تھی تو وہ جاہلیت اور گمراہی کی موت مرا.(صحیح مسلم كتاب باب وجوب ملازمة جماعة المسلمين........پھر ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضر فرمایا: تنگدستی اور خوشحالی، خوشی اور ناخوشی حق تلفی اور ترجیحی سلوک، غرض ہر حالت میں تیرے لئے حاکم وقت کے حکم کوسننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے.(صحیح مسلم كتاب الامارة پھر حضرت عبادہ بن ولید اپنے دادا کی روایت اپنے والد کی زبانی بیان کرتے ہیں کہ ہم نے
$2003 264 خطبات مسرور آنحضرت ﷺ سے سنے اور بات ماننے کی بنیاد پر بیعت کی تھی سختی اور راحت اور خوشی اور ناخوشی میں خواہ ہمارے حق کا خیال نہ رکھا جائے اور اس بنیاد پر کہ ہم جھگڑا نہ کریں گے.اس شخص کی سرداری میں جو اس کے لائق ہے اور ہم سچ بات کہیں گے جہاں ہوں گے.اللہ کی راہ میں ہم کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے.(صحیح مسلم کتاب الاماره باب وجوب طاعة الامراء في غير معصية وتحريمها في المعصية) صلى الله تو آنحضرت علیہ سے زیادہ لوگوں کے حقوق کا خیال رکھنے والا کون تھا.جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ حق کا نہ خیال رکھا جائے تب بھی ہم اطاعت کریں گے.لیکن یہاں کچھ اصول بدل رہے ہیں.حالانکہ تمام صحابہ اس بات کی گواہی دیتے تھے کہ آپ مو حق سے بڑھ کر حق ادا کرنے والے تھے اور آپ کے متعلق تو یہ خیال بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ آپ کسی کے حق کا خیال نہیں رکھیں گے.لیکن کیونکہ یہاں نظام جماعت کی بات ہو رہی ہے جس میں اس کے ماننے والوں کا اطاعت سے باہر رہنے کا ادنی سا تصور بھی برداشت نہیں ہو سکتا اس لئے یہ عہد لیا جا رہا ہے کہ ہم ہر حالت میں چاہے ہمارے حقوق کا نہ بھی خیال رکھا جارہا ہو ہم مکمل اطاعت اور فرمانبرداری کے جذبہ سے اس عہد بیعت کو نبھا ئیں گے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ آنحضرت معہ کسی کا حق ماررہے ہیں بلکہ اب جب جماعتی زندگی کا معاملہ آئے گا تو حق کے معیار بدلنے چاہئیں.اب تم اپنی ذات کے بارہ میں نہ سوچو بلکہ جماعت کے بارہ میں سوچو.اور اپنے ذاتی حقوق خود خوشی سے چھوڑو.اور جماعتی حقوق کی ادائیگی کی کوشش کرو.یہاں وہی مضمون ہے کہ اعلیٰ چیز کے لئے ادنی چیز کو قربان کرو.پھر جو ہمارا عہد یداریا امیر مقرر ہو گیا اب اس کی اطاعت تمہارا فرض ہے.اس کی اطاعت کریں اور یہ سوال نہ ا ٹھائیں کہ یہ کیوں بنایا گیا.بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ برادریاں لعن طعن کرتی ہیں کہ ہمارے خاندان کے اس کے ساتھ یہ یہ مسئلے تھے اور تم اس کی اطاعت کر رہے ہو.تو اللہ کی خاطر اس لعنت ملامت سے بالکل نہیں ڈرنا.یہ ہے ایک اعلیٰ اور مضبوط نظام جو آنحضرت عل قائم کرنا چاہتے ہیں.حضرت مصلح موعود اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: قرآن جس کو اطاعت کہتا ہے وہ نظام اور ضبط نفس کا نام ہے یعنی کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ انفرادی آزادی کو قومی مفاد کے مقابلہ میں پیش کر سکے.یہ ہے ضبط نفس اور یہ ہے نظام.(تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعود رضی الله عنه جلد ١٠ صفحه ١٥٦)
265 $2003 خطبات مسرور ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: سنا اور اطاعت کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے.خواہ وہ امر اس کو پسند ہو یا نا پسند.یہاں تک کہ اسے معصیت کا حکم دیا جائے.اور اگر معصیت کا حکم دیا جائے تو پھر اطاعت اور فرمانبرداری نہ کی جائے.(صحیح بخاری كتاب الأحكام باب السمع والطاعة لامام......تو جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ سوائے اس کے کہ شریعت کے واضح احکام کی خلاف ورزی ہو.ہر حال میں اطاعت ضروری ہے اور اس حدیث میں بھی یہی ہے.یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ تم گھر بیٹھے فیصلہ نہ کر لو کہ یہ حکم شریعت کے خلاف ہے اور یہ حکم نہیں.ہو سکتا ہے تم جس بات کو جس طرح سمجھ رہے ہو وہ اس طرح نہ ہو.کیونکہ الفاظ یہ ہیں کہ معصیت کا حکم دے، گناہ کا حکم دے.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نظام جماعت اتنا پختہ ہو چکا ہے کہ کوئی ایسا شخص عہدیدار بن ہی نہیں سکتا جو اس حد تک گر جائے اور ایسے احکام دے.تو بات صرف اس حکم کو سمجھنے، اس کی تشریح کی رہ گئی.تو پہلے تو خود اس عہدیدار کو توجہ دلاؤ.اگر نہیں مانتا تو اس سے بالا جو عہد یدار ہے، افسر ہے،امیر ہے، اس تک پہنچاؤ.اور پھر خلیفہ وقت کو پہنچاؤ.لیکن اگر یہ تمہارے نزدیک برائی ہے تو پھر تمہیں یہ حق بھی نہیں پہنچتا کہ باہر اس کا ذکر کرتے پھرو.کیونکہ برائی کو تو وہیں روک دینے کا حکم ہے.اب تمہارا یہ فرض ہے کہ نظام بالا تک پہنچاؤ اور اس کا فیصلے کا انتظار کرو.حضرت مصلح موعود فر ماتے ہیں: وو ” یہ جو امارت اور خلافت کی اطاعت کرنے پر اس قدر زور دیا گیا ہے اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ امیر یا خلیفہ کا ہر ایک معاملہ میں فیصلہ صحیح ہوتا ہے.کئی دفعہ کسی معاملہ میں وہ غلطی کر جاتے ہیں.مگر باوجود اس کے ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کا اس لئے حکم دیا گیا ہے کہ اس کے بغیر ا نتظام قائم نہیں رہ سکتا.تو جب رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ میں بھی غلطی کر سکتا ہوں تو پھر خلیفہ یا امیر کی کیا طاقت ہے کہ کہے میں کبھی کسی امر میں غلطی نہیں کر سکتا.خلیفہ بھی غلطی کر سکتا ہے لیکن باوجود اس کے اُس کی اطاعت کرنی لازمی ہے ورنہ سخت فتنہ پیدا ہو سکتا ہے.مثلاً ایک جگہ وفد بھیجنا ہے.خلیفہ کہتا ہے کہ بھیجنا ضروری ہے لیکن ایک شخص کے نزدیک ضروری نہیں.ہو سکتا ہے کہ فی الواقع ضروری نہ ہولیکن اگر اس کو اجازت ہو کہ وہ خلیفہ کی رائے نہ مانے تو اس طرح انتظام ٹوٹ جائے گا جس کا
$2003 266 خطبات مسرور نتیجہ بہت بڑا فتنہ ہوگا.تو انتظام کے قیام اور درستی کے لئے بھی ضروری ہے کہ اپنی رائے پر زور نہ دیا جائے.جہاں کی جماعت کا کوئی امیر مقرر ہو وہ اگر دوسروں کی رائے کو مفید نہیں سمجھتا تو انہیں چاہئے کہ اپنی رائے کو چھوڑ دیں.اسی طرح جہاں انجمن ہو وہاں کے لوگوں کو سیکرٹری کی رائے کے مقابلہ میں اپنی رائے پر ہی اصرار نہیں کرنا چاہئے.جہاں تک ہو سکے سیکرٹری یا امیر کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اسے سمجھانا چاہئے لیکن اگر وہ اپنی رائے پر قائم رہے تو دوسروں کو اپنی رائے چھوڑ دینی چاہئے.کیونکہ رائے کا چھوڑ دینا فتنہ پیدا کرنے کے مقابلہ میں بہت ضروری ہے.اطاعت امیر کے بارہ میں آنحضرت میے کے مختلف ارشادات سنے ہیں.لیکن ایک یہ حدیث ہے جو مزید خوف دلوں میں پیدا کرتی ہے.ہر احمدی کو ہمیشہ یہ باتیں ہر وقت اپنے ذہن میں رکھنی چاہئیں.کہ اطاعت امیر کس قدر ضروری ہے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی.(صحیح مسلم كتاب الامارة باب وجوب طاعة الامراء فى غير معصية وتحريمها في المعصية) تو کون ہے ہم میں سے جو یہ پسند کرتا ہو کہ ہم آنحضرت مہ کے دائرہ اطاعت سے باہر نکلیں.کوئی احمدی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا.پس جب یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا تو پھر عہد یداران کی، امراء کی اطاعت خالصتا للہ اپنے اوپر واجب کر لیں.اور اگر نظام جماعت پر حرف آتے ہوئے دیکھیں تو آپ کے لئے راستہ کھلا ہے خلیفہ وقت تک بات پہنچائیں اور مناسب ہے کہ اس عہد یدار کے ذریعہ سے ہی بھجوائیں.بغیر نام کے شکایت پر غور نہیں ہوتا.اگر اصلاح چاہتے ہیں تو کھل کر سامنے آنا چاہئے.لیکن یا درکھیں ! آپ کو یہ قطعاً اجازت نہیں ہے کہ کسی بھی عہدیدار کی نافرمانی کریں.اگر کوئی ایسی صورت ہے تو پھر حدیث کی روشنی میں آپ عہدیدار سے عدم تعاون کر کے ،ان کی نافرمانی کر کے ، خلیفہ وقت کی نافرمانی کر رہے ہیں.اور پھر یہ سلسلہ اوپر تک بڑھتا چلا جائے گا.پس ہر ایک کی بقا اسی میں ہے کہ وہ اس عہد پر قائم رہے کہ وہ ہر قربانی کے لئے تیار رہے گا.
267 $2003 خطبات مسرور اس کے بعد اب میں مختصراً، آج جلسے کا آغاز بھی ہے انشاء اللہ، تو اس سلسلہ میں بعض دعائیں پیش کروں گا جو جلسہ میں شامل ہونے والوں کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیں.جہاں آپ نے بہت ساری دعائیں کی ہیں ان جلسوں میں شامل ہونے والوں کے لئے ، وہاں آپ شامل ہونے والوں سے آپ نے کچھ توقعات بھی رکھی ہیں.اور فرمایا ہے کہ اس جلسہ کو عام دنیاوی میلوں کی طرح نہ سمجھو کہ اکٹھے ہوئے ، ٹولیاں بنائیں، بیٹھے، اپنی مجلسیں جمائیں.جلسے کی کارروائی کے دوران بہر حال سب کو سوائے اشد مجبوری کے جلسہ گاہ میں جہاں جلسہ کے پروگرام ہورہے ہیں ، اس ہال میں، یہاں بیٹھنا چاہئے اور تمام کارروائی کوسننا چاہئے.انتظامیہ بھی اس بات کا خیال رکھے کہ نرمی اور پیار سے تمام شاملین کو اس طرف توجہ دلائے اور آنے والوں کا بھی کام ہے کہ انتظامیہ سے اس سلسلہ میں تعاون کریں.ان کے کہنے کا برا نہ مانیں اور جو بھی انتظام ہے اس کی پوری پوری اطاعت کریں کیونکہ یہ بھی اطاعت نظام کا ایک حصہ ہے اور آج سے ہی ، ابھی آپ کی طرف سے اظہار سے پتہ لگنا شروع ہو جائے گا کہ کون کس حد تک اطاعت گزار ہے.خاص طور پر عورتیں اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ جلسہ سننے آئی ہیں، محفلیں جمانے کے لئے نہیں ، نہ ہی دنیا داری کی باتیں کرنے.یہی دن ہوتے ہیں جن میں اصلاح نفس کا موقع ملتا ہے.تو ان سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے.پھر جن خواتین کے چھوٹے بچے ہیں، وہ جہاں بھی ان کا انتظام ہے، مار کی لگی ہوئی ہے اس کے آخر پر بیٹھیں تا کہ بچوں کی وجہ سے دوسروں کو پر وگرام سننے میں کوئی دشواری نہ ہو.وہ آسانی سے اور سہولت سے تمام پروگرام سن سکیں.پھر اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بچوں والیوں کو بچوں کی ضرورت کے وقت اٹھنا پڑتا ہے، باہر جانے میں بھی آسانی رہے.تو امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ ان تین دنوں میں آپ لوگ یہ ثابت کر دیں گے کہ محض اللہ آپ اپنی زندگی گزارنے کے لئے یہاں اکٹھے ہوئے ہیں.اب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دعائیں جو آپ نے اس موقع کے لئے کیں، پڑھتا ہوں.آپ اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرتے ہیں جماعت کے لئے دعا کرتے ہوئے: ’ہر یک صاحب جو اس لکہی جلسہ کے لئے سفر اختیار کریں خدا تعالیٰ اُن کے ساتھ ہو اور
268 $2003 خطبات مسرور اُن کو اجر عظیم بخشے اور ان پر رحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات اُن پر آسان کر دیوے اور اُن کے ہتم و غم دور فرمادے.اور ان کو ہر یک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے اور ان کی مُرادات کی راہیں اُن پر کھول دیوے اور روز آخرت میں اپنے اُن بندوں کے ساتھ اُن کو اٹھاوے جن پر اس کا فضل و رحم ہے اور تا اختتام سفر اُن کے بعد ان کا خلیفہ ہو.اے خدا اے ذوالمجد والعطاءاور رحیم اور مشکل گشا یہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہر یک قوت اور طاقت تجھ ہی کو ہے.آمین ثم آمین.اشتهار ۷ دسمبر ۱۸۹۲ ء- مجموعه اشتهارات جلداول صفحه ٣٤٢) اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ان دعاؤں اور اس کے علاوہ وہ تمام دعا ئیں جو آپ نے اپنی پیاری جماعت کے لئے کیں ان سب کا وارث بنائے.ہمیں اپنا عبادت گزار بندہ بنائے.ہمیں ہر قسم کے شرک سے پاک کر دے، اپنی کامل فرمانبرداری میں رکھے، اور اس جلسہ کے تمام برکات سے فیضیاب فرماتے ہوئے اپنی رحمتوں اور فضلوں کی چادر ہم پر ہمیشہ تانے رکھے.آمین
$2003 269 19 خطبات مس دین کو دنیا پر مقدم کئے بغیر ایمان قائم نہیں رہ سکتا.کامل فرمانبرداری اصل دین ہے ۲۹ را گست ۲۰۰۳ء بمطابق ۲۹ ظهور ۱۳۸۲ هجری تشسی بمقام شیورٹ ہالے، فرینکفورٹ (جرمنی) تکمبر نخوت کو چھوڑنا، فروتنی، عاجزی اور خوش خلقی کو اپنانا ، بیعت کی دو شرائک کبریائی اللہ کی چادر ہے، شرک کے بعد تکبر جیسی کوئی بلا نہیں گھروں میں تکبر اورظلم کا رویہ رکھنے والوں کا انجام ہ حکمبر بہت سی اخلاقی برائیوں کا باعث بن کر نیکیوں کے راستے بند کر دیتا ہے ہر احمدی ایک دوسرے کو معاف کرنے کی عادت ڈالے..اللہ تعالیٰ آپ کی عزتیں بڑھاتا چلا جائے گا ہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد
خطبات مس $2003 270 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- جلسہ کی آخری تقریر میں میں شرائط بیعت کے متعلق بیان کر رہا تھا تو وقت کی وجہ سے ساری بیان نہیں کی گئیں.چھ شرائط اب تک بیان ہو چکی ہیں اور اب دو میں نے آج کے لئے لی ہیں.شرط ہفتم.ساتویں شرط یہ ہے : یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا.شیطان کیونکہ تکبر دکھانے کے بعد سے ابتدا سے ہی یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ میں اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگاؤں گا اور عبادالرحمن نہیں بنے دوں گا اور مختلف طریقوں سے اس طرح انسان کو اپنے جال میں پھنساؤں گا کہ اس سے نیکیاں سرزد اگر ہو بھی جائیں تو وہ اپنی طبیعت کے مطابق ان پر گھمنڈ کرنے لگے اور یہ نخوت اور یہ گھمنڈ اس کو یعنی انسان کو آہستہ آہستہ تکبر کی طرف لے جائے گا.یہ تکبر آخر کار اس کو اس نیکی کے ثواب سے محروم کر دے گا.تو کیونکہ شیطان نے پہلے دن سے ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ انسان کو راہ راست سے بھٹکائے گا اور اس نے خود بھی تکبر کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ کے حکم کا انکار کیا تھا اس لئے یہی وہ حربہ ہے جو شیطان مختلف حیلوں بہانوں سے انسان پر آزماتا ہے اور سوائے عبادالرحمن کے کہ وہ عموماً اس ذریعہ سے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہوتے ہیں، عبادتگزار ہوتے ہیں، بچتے رہتے ہیں.اس کے علاوہ عموماً تکبر کا ہی یہ ذریعہ ہے جس کے ذریعہ شیطان انسان کو اپنی گرفت میں لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے.تو یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے.کہ یہ ہم نے بیعت کرتے ہوئے یہ شرط تسلیم کر لی کہ تکبر نہیں کریں گے نخوت نہیں کریں گے، بکلی چھوڑ دیں گے.یہ اتنا آسان کام نہیں ہے.اس کی مختلف قسمیں ہیں، مختلف
$2003 271 خطبات مسرور ذریعوں سے انسانی زندگی پر شیطان حملہ کرتا رہتا ہے.بہت خوف کا مقام ہے.اصل میں تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہو تو اس سے بچا جا سکتا ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے بھی اس ساتو میں شرط میں ایک راستہ رکھ دیا.فرمایا کیونکہ تم تکبر کی عادت کو چھوڑو گے تو جو خلا پیدا ہو گا اس کو اگر عاجزی اور فروتنی سے پر نہ کیا تو تکبر پھر حملہ کرے گا.اس لئے عاجزی کو اپناؤ کیونکہ یہی راہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے.آپ نے خود بھی اس عاجزی کو اس انتہا ء تک پہنچادیا جس کی کوئی مثال نہیں تبھی تو اللہ تعالیٰ نے خوش ہو کر آپ کو الہام فرمایا کہ تیری عاجزانہ راہیں اس کو پسند آئیں.تو ہمیں جو آپ کی بیعت کے دعویدار ہیں ، آپ کو امام الزمان مانتے ہیں، کس حد تک اس خُلق کو اپنانا چاہئے.انسان کی تو اپنی ویسے بھی کوئی حیثیت نہیں ہے کہ تکبر دکھائے اور اکڑتا پھرے.یہ قرآن شریف کی آیت میں پڑھتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا.(بنی اسراءیل: ۳۸) اور زمین میں اکڑ کر نہ چل.تو یقیناً زمین کو پھاڑ نہیں سکتا اور نہ قامت میں پہاڑوں کی بلندی تک پہنچ سکتا ہے.جیسا کہ اس آیت سے صاف ظاہر ہے انسان کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے.کس بات کی اکٹر فوں ہے.بعض لوگ کنویں کے مینڈک ہوتے ہیں، اپنے دائرہ سے باہر نکلنا نہیں چاہتے.اور وہیں بیٹھے سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم بڑی چیز ہیں.اس کی مثال اس وقت میں ایک چھوٹے سے چھوٹے دائرے کی دیتا ہوں، جو ایک گھریلو معاشرے کا دائرہ ہے، آپ کے گھر کا ماحول ہے.بعض مرد اپنے گھر میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک کر رہے ہوتے ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے.بعض بچیاں لکھتی ہیں کہ ہم بچپن سے اپنی بلوغ کی عمر کو پہنچ چکی ہیں اور اب ہم سے برداشت نہیں ہوتا.ہمارے باپ نے ہماری ماں کے ساتھ اور ہمارے ساتھ ہمیشہ ظلم کا رویہ رکھا ہے.باپ کے گھر میں داخل ہوتے ہی ہم سہم کر اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں.کبھی باپ کے سامنے ہماری ماں نے یا ہم نے کوئی بات کہہ دی جو اس کی طبیعت کے خلاف ہو تو ایسا ظالم باپ ہے کہ سب کی شامت آجاتی ہے.تو یہ تکبر ہی ہے جس نے ایسے باپوں کو اس انتہا تک پہنچا دیا ہے اور اکثر ایسے
$2003 272 خطبات مسرور لوگوں نے اپنا رویہ باہر ایسا رکھا ہوتا ہے، بڑا اچھا رویہ ہوتا ہے ان کا اور لوگ باہر سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ان جیسا شریف انسان ہی کوئی نہیں ہے.اور باہر کی گواہی ان کے حق میں ہوتی ہے.بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو گھر کے اندر اور باہر ایک جیسا رویہ اپنائے ہوئے ہوتے ہیں ان کا تو ظاہر ہو جاتا ہے سب کچھ.تو ایسے بدخلق اور متکبر لوگوں کے بچے بھی ، خاص طور پر لڑ کے جب جوان ہوتے ہیں تو اس ظلم کے رد عمل کے طور پر جو انہوں نے ان بچوں کی ماں یا بہن یا ان سے خود کیا ہوتا ہے، ایسے بچے پھر باپوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں.اور پھر ایک وقت میں جا کر جب باپ اپنی کمزوری کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس سے خاص طور پر بدلے لیتے ہیں.تو اس طرح ایسے متکبرانہ ذہن کے مالکوں کی اپنے دائرہ اختیار میں مثالیں ملتی رہتی ہیں.مختلف دائرے ہیں معاشرے کے.ایک گھر کا دائرہ اور اس سے باہر ماحول کا دائرہ.اپنے اپنے دائرے میں اگر جائزہ لیں تو تکبیر کی یہ مثالیں آپ کو ملتی چلی جائیں گی.پھر اس کی انتہا اس دائرے کی اس صورت میں نظر آتی ہے جہاں بعض قو میں اور ملک اور حکومتیں اپنے تکبر کی وجہ سے ہر ایک کو اپنے سے پیچ سمجھ رہی ہوتی ہیں.اور غریب قوموں کو غریب ملکوں کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھا ہوتا ہے.اور آج دنیا میں فساد کی بہت بڑی وجہ یہی ہے.اگر یہ تکبر ختم ہو جائے تو دنیا سے فساد بھی مٹ جائے.لیکن ان متکبر قوموں کو بھی حکومتوں کو بھی پتہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ جب تکبر کرنے والوں کے غرور اور تکبر کو توڑتا ہے تو ان کا پھر کچھ بھی پتہ نہیں لگتا کہ وہ کہاں گئے.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے: ﴿فَلَا تُصَعِرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِ﴾ (لقمان: ۱۹ ).اس کا ترجمہ یہ ہے اور ( نخوت سے ) انسانوں کے لئے اپنے گال نہ پھلا اور زمین میں یونہی اکڑتے ہوئے نہ پھر.اللہ کسی تکبر کرنے والے (اور ) فخر و مباہات کرنے والے کو پسند نہیں کرتا.جیسا کہ اس آیت سے بھی ظاہر ہے اللہ تعالیٰ ہمیں فرما رہا ہے کہ یونہی تکبر کرتے ہوئے نہ پھرو.اپنے گال پھلا کر، ایک خاص انداز ہوتا ہے تکبر کرنے والوں کا اور گردن اکثرا کر پھر نا اللہ تعالیٰ کو بالکل پسند نہیں.بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اپنے سے کم درجہ والوں کے سامنے اکثر دکھا رہے ہوتے ہیں اور اپنے سے اوپر والے کے سامنے بچھتے چلے جاتے ہیں.تو ایسے لوگوں میں
$2003 273 خطبات مسرور منافقت کی برائی بھی ظاہر ہو رہی ہوتی ہے.تو یہ تکبر جو ہے بہت سی اخلاقی برائیوں کا باعث بن جاتا ہے اور نیکی میں ترقی کے راستے آہستہ آہستہ بالکل بند ہو جاتے ہیں.اور پھر دین سے بھی دور ہو جاتے ہیں ، نظام جماعت سے بھی دور ہو جاتے ہیں.اور جیسے جیسے ان کا تکبر بڑھتا ہے ویسے ویسے وہ اللہ اور رسول کے قرب سے، اس کے فضلوں سے بھی دور چلے جاتے ہیں.ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن تم میں سے سب سے زیادہ مجھے محبوب اور سب سے زیادہ میرے قریب وہ لوگ ہوں گے جو سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے ہوں گے.اور میں تم میں سے سے زیادہ مبغوض اور مجھ سے زیادہ دور وہ لوگ ہوں گے جوثر تاریعنی منہ پھٹ، بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والے ہیں، متشدق یعنی منہ پھلا پھلا کر باتیں کرنے والے اور مُتفيهق یعنی لوگوں پر تکبر جتلانے والے ہیں.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ !اثر ثار اور متشرق کے معنے تو ہم جانتے ہیں، مُتفَيْهِق کسے کہتے ہیں.آپ نے فرمایا: مُتفيهق متکبرانہ باتیں کرنے والے کو کہتے ہیں.(ترمذی ابواب البر والصلة باب في معالى الاخلاق......ایک اور حدیث ہے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، آنحضرت ﷺ نے فرمایا : تین باتیں ہر گناہ کی جڑ ہیں ان سے بچنا چاہئے.تکبر سے بچو کیونکہ تکبر نے ہی شیطان کو اس بات پرا کسایا کہ وہ آدم کو سجدہ نہ کرے.دوسرے حرص سے بچو کیونکہ حرص نے ہی آدم کو درخت کھانے پر اکسایا.تیسرے حسد سے بچو کیونکہ حسد کی وجہ سے ہی آدم کے دو بیٹوں میں سے ایک نے اپنے بھائی کو قتل کر دیا تھا.قشيريه باب الحسد صفحه (۷۹ صلى الله پھر حدیث ہے.حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت علی نے فرمایا : جس کے دل میں ذرہ بھر بھی تکبر ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں نہیں داخل ہونے دے گا.ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ! انسان چاہتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو، جوتی اچھی ہو اور خوبصورت لگے.آپ نے فرمایا : یہ تکبر نہیں.آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جمیل ہے، جمال کو پسند کرتا ہے، یعنی خوبصورتی کو پسند کرتا ہے.تکبر دراصل یہ ہے کہ انسان حق کا انکار کرنے لگے ، لوگوں کو
$2003 274 خطبات مسرور ذلیل سمجھے، ان کو حقارت کی نظر سے دیکھے اور ان سے بری طرح پیش آئے.(صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحريم الكبر وبيانه صلى الله پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دوزخ اور جنت کی آپس میں بحث اور تکرار ہوگئی.دوزخ نے کہا کہ مجھ میں بڑے بڑے جابر اور متکبر داخل ہوتے ہیں اور جنت کہنے لگی کہ مجھ میں کمزور اور مسکین داخل ہوتے ہیں.اس پر اللہ تعالیٰ نے دوزخ کو فرمایا کہ تو میرے عذاب کی مظہر ہے.جسے میں چاہتا ہوں تیرے ذریعہ عذاب دیتا ہوں.اور جنت سے کہا تو میری رحمت کی مظہر ہے جس پر میں چاہوں تیرے ذریعہ رحم کرتا ہوں.اور تم دونوں میں سے ہر ایک کو اس کا بھر پور حصہ ملے گا.(صحیح مسلم كتاب الجنة باب الناريدخلها الجبارون......اللہ کرے کہ ہر احمدی عاجزی، مسکینی اور خوش خلقی کی راہوں پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رحم کی نظر حاصل کرنے والا ہو، اللہ تعالیٰ کی جنت میں جانے والا ہواور ہر گھر تکبر کے گناہ سے پاک ہو.ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت ابوسعید خدری ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عزت اللہ تعالیٰ کا لباس اور کبریائی اس کی چادر ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے پس جو کوئی بھی انہیں مجھ سے چھینے کی کوشش کرے گا میں اسے عذاب دوں گا.(صحیح مسلم کتاب البر والصلة باب تحريم الكبر تو تکبر آخر کار انسان کو خدا کے مقابل پر کھڑا کر دیتا ہے.جب خدا کا شریک بنانے والے کو اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ معاف نہیں کروں گا تو پھر جو خود خدائی کا دعویدار بن جائے اس کی کس طرح بخشش ہوسکتی ہے.تو یہ تکبر ہی تھا جس نے مختلف وقتوں میں فرعون صفت لوگوں کو پیدا کیا اور پھر ایسے فرعونوں کے انجام آپ نے پڑھے بھی اور اس زمانہ میں دیکھے بھی.تو یہ بڑا خوف کا مقام ہے.ہر احمدی کو ادنیٰ سے تکبر سے بھی بچنا چاہئے کیونکہ یہ پھر پھیلتے پھیلتے پوری طرح انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ وارننگ دے دی ہے، واضح کر دیا ہے کہ یہ میری چادر ہے، میں رب العالمین ہوں، کبریائی میری ہے، اس کو تسلیم کرو، عاجزی دکھاؤ.اگر ان حدود سے باہر نکلنے کی کوشش کرو گے تو عذاب میں مبتلا کئے جاؤ گے.اگر رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہے تو عذاب تمہارا مقدر ہے لیکن ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی دے دی کہ اگر ذرہ بھر بھی تمہارے اندر ایمان ہے تو میں
خطبات مسرور 275 تمہیں آگ کے عذاب سے بچالوں گا.جیسا کہ حدیث میں آیا ہے.$2003 حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا.اور جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا وہ آگ میں داخل نہ ہوگا.(سنن ابن ماجه كتاب الزهد ) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ” میں سچ سچ کہتا ہوں کہ قیامت کے دن شرک کے بعد تکبر جیسی اور کوئی بلا نہیں.یہ ایک ایسی بلا ہے جو دونوں جہان میں انسان کو رسوا کرتی ہے.خدا تعالیٰ کا رحم ہر ایک موحد کا تدارک کرتا ہے مگر متکبر کا نہیں.شیطان بھی موحد ہونے کا دم مارتا تھا مگر چونکہ اس کے سر میں تکبر تھا اور آدم کو جو خدا تعالیٰ کی نظر میں پیارا تھا.جب اس نے تو ہین کی نظر سے دیکھا اور اس کی نکتہ چینی کی اس لئے وہ مارا گیا اور طوق لعنت اس کی گردن میں ڈالا گیا.سو پہلا گناہ جس سے ایک شخص ہمیشہ کیلئے ہلاک ہوا تکبر ہی تھا.“ (آئینه کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۹۸ پھر فرماتے ہیں: ”اگر تمہارے کسی پہلو میں تکبر ہے یا ریا ہے یا خود پسندی ہے یا کسل ہے تو تم ایسی چیز نہیں ہو کہ قبول کے لائق ہو.ایسا نہ ہو کہ تم صرف چند باتوں کو لے کر اپنے تئیں دھو کہ دو کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا کر لیا ہے.کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا نقلاب آوے اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا.(کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۲-۱۳) پھر فرماتے ہیں: ”ہاں ایسے لوگ ہیں جو انبیاء علیہم السلام سے حالانکہ کروڑوں حصہ نیچے کے درجہ میں ہوتے ہیں جو دو دن نماز پڑھ کر تکبر کرنے لگتے ہیں اور ایسا ہی روزہ اور حج سے بجائے تزکیہ کے ان میں تکبر اور نمود پیدا ہوتی ہے.یاد رکھو تکبر شیطان سے آیا ہے اور شیطان بنادیتا ہے.جب تک انسان اس سے دور نہ ہو.یہ قبول حق اور فیضان الوہیت کی راہ میں روک ہو جاتا ہے.کسی طرح سے بھی تکبر نہیں کرنا چاہئے.نہ علم کے لحاظ سے، نہ دولت کے لحاظ سے، نہ وجاہت کے لحاظ سے، نہ ذات اور خاندان اور حسب نسب کی وجہ سے.کیونکہ زیادہ تر انہی باتوں سے یہ تکبر پیدا ہوتا ہے اور جب تک انسان ان گھمنڈوں سے اپنے آپ کو پاک صاف نہ کرے گا.اس وقت تک وہ خدا
276 $2003 خطبات مسرور تعالیٰ کے نزدیک برگزیدہ نہیں ہو سکتا اور وہ معرفت جو جذبات کے موادر ڈیہ کو جلا دیتی ہے اس کو عطا نہیں ہوتی کیونکہ یہ شیطان کا حصہ ہے اس کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ بعض بنیادی چیزیں ہیں اور ان کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے.اور ان سے بچو.بعض لوگ دو چار دن نماز پڑھ کے سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے نیک ہو گئے ہیں.چہرے پر عجیب قسم کی سنجیدگی کے ساتھ رعونت بھی طاری ہوجاتی ہے.اور آپ نے دیکھا ہوگا بعض دفعہ بعض جبہ پوشوں کو کہ ہاتھ میں تسبیح لے کر مسجدوں سے نکل رہے ہوتے ہیں.ان کی گردن پر ہی فخر اور غرور نظر آ رہا ہوتا ہے.شکر ہے، اللہ تعالیٰ کا بہت بہت شکر ہے کہ جماعت احمد یہ ایسے جبہ پوشوں سے پاک ہے.پھر حج کر کے آتے ہیں اتنا پروپیگنڈہ اس کا ہورہا ہوتا ہے کہ انتہا نہیں.ایسے لوگوں کے دکھاوے کے روزے ہوتے ہیں اور دکھاوے کا حج ہوتا ہے.صرف بڑائی جتانے کے لئے یہ سب ہوتا ہے کہ لوگ کہیں کہ فلاں بڑا نیک ہے.بڑے روزے رکھتا ہے، حاجی ہے، بہت نیک ہے.تو یہ سب دکھاوے تکبر کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں یا دکھاوے کی وجہ سے تکبر پیدا ہو جاتا ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ بعض لوگ اپنی ذات پات کی وجہ سے تکبر کر رہے ہوتے ہیں کہ ہماری ذات بہت اونچی ہے.فلاں تو کمی کمین ہے وہ ہمارا کہاں مقابلہ کر سکتا ہے.تو حضرت اقدس نے فرمایا کہ تکبر کی کئی قسمیں ہیں جو تمہیں خدا تعالیٰ کی معرفت سے دور لے جاتی ہیں، اس کے قرب سے دور لے جاتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ انسان شیطان کی جھولی میں گر جاتا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں : ” پس میرے نزدیک پاک ہونے کا یہ عمدہ طریق ہے اور ممکن نہیں کہ اس سے بہتر کوئی اور طریق مل سکے کہ انسان کسی قسم کا تکبر اور فخر نہ کرے نہ علمی نہ خاندانی نہ مالی.جب خدا تعالیٰ کسی کو آنکھ عطا کرتا ہے تو وہ دیکھ لیتا ہے کہ ہر ایک روشنی جوان ظلمتوں سے نجات دے سکتی ہے وہ آسمان سے ہی آتی ہے اور انسان ہر وقت آسمانی روشنی کا محتاج ہے.آنکھ بھی دیکھ نہیں سکتی جب تک سورج کی روشنی جو آسمان سے آتی ہے نہ آئے.اسی طرح باطنی روشنی جو ہر ایک قسم کی ظلمت کو دور کرتی ہے اور اس کی بجائے تقویٰ اور طہارت کا نور پیدا کرتی ہے آسمان ہی سے آتی ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا تقویٰ ، ایمان ، عبادت،طہارت سب کچھ آسمان سے آتا ہے.اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے وہ چاہے تو اس کو قائم رکھے اور چاہے تو دور کر دے.
277 $2003 خطبات مسرور پس کچی معرفت اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے نفس کو مسلوب اور لاشئی محض سمجھے اور آستانہ الوہیت پر گر کر انکسار اور عجز کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو طلب کرے.اور اس نور معرفت کو مانگے جو جذبات نفس کو جلا دیتا ہے اور اندر ایک روشنی اور نیکیوں کے لئے قوت اور حرارت پیدا کرتا ہے.پھر اگر اس کے فضل سے اس کو حصہ مل جاوے اور کسی وقت کسی قسم کا بسط اور شرح صدر حاصل ہو جاوے تو اس پر تکبر اور ناز نہ کرے بلکہ اس کی فروتنی اور انکسار میں اور بھی ترقی ہو.کیونکہ جس قدر وہ اپنے آپ کو لاشئی سمجھے گا اسی قدر کیفیات اور انوار خدا تعالیٰ سے اتریں گے جو اس کو روشنی اور قوت پہنچائیں گے.اگر انسان یہ عقیدہ رکھے گا تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی اخلاقی حالت عمدہ ہو جائے گی.دنیا میں اپنے آپ کو کچھ سجھنا بھی تکبر ہے اور یہی حالت بنا دیتا ہے.پھر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ دوسرے پر لعنت کرتا ہے اور اسے حقیر سمجھتا ہے.( الحكم ٢٤ / جنوری ۱۹۰۵ ، ملفوظات جلد چهارم صفحه ۲۱۳) پھر آپ فرماتے ہیں: ” تکبر بہت خطرناک بیماری ہے جس انسان میں یہ پیدا ہو جاوے اس کے لئے رُوحانی موت ہے.میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ بیماری قتل سے بھی بڑھ کر ہے.متکبر شیطان کا بھائی ہو جاتا ہے.اس لئے کہ تکبر ہی نے شیطان کو ذلیل وخوار کیا.اس لئے مومن کی یہ شرط ہے کہ اس میں تکبر نہ ہو بلکہ انکسار، عاجزی، فروتنی اس میں پائی جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے ماموروں کا خاصہ ہوتا ہے ان میں حد درجہ کی فروتنی اور انکسار ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر آنحضرت میں یہ وصف تھا.آپ کے ایک خادم سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ آپ کا کیا معاملہ ہے.اس نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے زیادہ وہ میری خدمت کرتے ہیں.(اللَّهُمَّ صلّ على محمدٍ وَ على ال محمد و بارك وسلّم).( الحكم ١٠/ نومبر ۱۹۰۵ ، ملفوظات جلد چهارم- صفحه ٤٣٨،٤٣٧) پھر آپ فرماتے ہیں: ”میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خداوند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے.مگر تم شاید نہیں سمجھو گے کہ تکبر کیا چیز ہے.پس مجھ سے سمجھ لو کہ میں خدا کی روح سے بولتا ہوں.ہر ایک شخص جو اپنے بھائی کو اس لئے حقیر جانتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ عالم یا زیادہ عقلمند یا زیادہ ہنرمند ہے وہ متکبر ہے کیونکہ وہ خدا کوسر چشمہ عقل اور
278 $2003 خطبات مسرور علم کا نہیں سمجھتا اور اپنے تئیں کچھ چیز قرار دیتا ہے.کیا خدا قادر نہیں کہ اُس کو دیوانہ کردے اور اس کے اُس بھائی کو جس کو وہ چھوٹا سمجھتا ہے اس سے بہتر عقل اور علم اور ہنر دے دے.ایسا ہی وہ شخص جو اپنے کسی مال یا جاہ وحشمت کا تصور کر کے اپنے بھائی کو حقیر سمجھتا ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ وہ اس بات کو بھول گیا ہے کہ یہ جاہ و حشمت خدا نے ہی اُس کو دی تھی اور وہ اندھا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ وہ خدا قادر ہے کہ اس پر ایک ایسی گردش نازل کرے کہ وہ ایک دم میں اسفل السافلین میں جا پڑے اور اس کے اس بھائی کو جس کو وہ حقیر سمجھتا ہے اس سے بہتر مال و دولت عطا کر دے.ایسا ہی وہ شخص جو اپنی صحت بدنی پر غرور کرتا ہے یا اپنے حسن اور جمال اور قوت اور طاقت پر نازاں ہے اور اپنے بھائی کا ٹھٹھے اور استہزاء سے حقارت آمیز نام رکھتا ہے اور اُس کے بدنی عیوب لوگوں کو سناتا ہے وہ بھی متکبر ہے اور وہ اس خدا سے بے خبر ہے کہ ایک دم میں اس پر ایسے بدنی عیوب نازل کرے کہ اس بھائی سے اس کو بدتر کر دے اور وہ جس کی تحقیر کی گئی ہے ایک مدت دراز تک اس کے قومی میں برکت دے کہ وہ کم نہ ہوں اور نہ باطل ہوں کیونکہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.ایسا ہی وہ شخص بھی جو اپنی طاقتوں پر بھروسہ کر کے دعا مانگنے میں ست ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ قوتوں اور قدرتوں کے سرچشمہ کو اُس نے شناخت نہیں کیا اور اپنے تئیں کچھ چیز سمجھا ہے.سو تم اے عزیز و! ان تمام باتوں کو یا درکھو ایسانہ ہو کہ تم کسی پہلو سے خدا تعالیٰ کی نظر میں متکبر ٹھہر جاؤ اور تم کوخبر نہ ہو.ایک شخص جو اپنے ایک بھائی کے ایک غلط لفظ کی تکبر کے ساتھ تصیح کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے.ایک شخص جو اپنے بھائی کی بات کو تواضع سے سنا نہیں چاہتا اور منہ پھیر لیتا ہے اُس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے.ایک غریب بھائی جو اس کے پاس بیٹھا ہے اور وہ کراہت کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے.ایک شخص جو دعا کرنے والے کو ٹھٹھے اور ہنسی سے دیکھتا ہے اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے.اور وہ جو خدا کے مامور اور مُرسل کی پورے طور پر اطاعت کرنا نہیں چاہتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے.اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے.سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہوتا کہ ہلاک نہ ہو جاؤ تائم اپنے اہل وعیال سمیت نجات پاؤ.خدا کی طرف جھکو اور جس قدر دنیا میں کسی سے محبت ممکن ہے تم اس
$2003 279 خطبات مسرور سے کرو اور جس قدر دنیا میں کسی سے انسان ڈر سکتا ہے تم اپنے خدا سے ڈرو.پاک دل ہو جاؤ اور پاک ارادہ اور غریب اور مسکین اور بے شر ا تم پر رحم ہو.“ (نزول المسيح.روحانى خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۰۲، ۴۰۳ پھر دوسری بات جو اس شرط میں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کروں گا.تو جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ جب آپ اپنے دل و دماغ کو تکبر سے خالی کرنے کی کوشش کریں گے ، خالی کریں گے تو پھر لازماً ایک اعلیٰ وصف ،ایک اعلیٰ صفت ، ایک اعلیٰ خُلق اپنے اندر پیدا کرنا ہوگا ورنہ پھر شیطان حملہ کرے گا کیونکہ وہ اسی کام کے لئے بیٹھا ہے کہ آپ کا پیچھا نہ چھوڑے.وہ خلق ہے عاجزی اور مسکینی.اور یہ ہو نہیں سکتا کہ عاجز اور متکبر اکٹھے رہ سکیں.متکبر لوگ ہمیشہ ایسے عاجز لوگوں پر جو عبادالرحمن ہوں طعنہ زنیاں کرتے رہتے ہیں، فقرے کستے رہتے ہیں تو ایسے لوگوں کے مقابل پر آپ نے ان جیسا رویہ نہیں اپنانا.بلکہ خدا تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنا ہے فرمایا: ﴿وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُوْنَ قَالُوْا سَلَمًا ﴾ (الفرقان : ۶۳ ) اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروشتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو ( جواباً) کہتے ہیں ”سلام“.حضرت ابوسعید خدری روایت کرتے ہیں کہ آنحضور نے فرمایا جس نے اللہ کی خاطر ایک درجہ تواضع اختیار کی اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ رفع کرے گا یہاں تک کہ اسے علیین میں جگہ دے گا، اور جس نے اللہ کے مقابل ایک درجہ تکبر اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو ایک درجہ نیچے گرا دے گا یہاں تک کہ اسے اسفل السافلین میں داخل کر دے گا.(مسند احمد بن حنبل باقی مسند المكثرين من الصحابة تو ایسے لوگوں کی مجالس سے سلام کہہ کر اٹھ جانے میں ہی آپ کی بقاء آپ کی بہتری ہے کیونکہ اسی سے آپ کے درجات بلند ہو رہے ہیں اور مخالفین اپنی انہی باتوں کی وجہ سے اسفل السافلین میں گرتے چلے جارہے ہیں.حدیث میں آیا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کا بندہ جتنا کسی کو معاف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی
$2003 280 خطبات مسرور زیادہ اسے عزت میں بڑھاتا ہے.جتنی زیادہ کوئی تواضع اور خاکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی اسے بلند مرتبہ عطا کرتا ہے.(مسلم) كتاب البرو الصلة باب استحباب العفو و التواضع صلى الله عیاض بن حمار بن مجاشع کے بھائی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان خطاب کرتے ہوئے کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی کی ہے کہ تم اس قدر تواضع اختیار کرو کہ تم میں سے کوئی ایک دوسرے پر فخر نہ کرے، اور کوئی ایک دوسرے پر ظلم نہ کرے.پھر ایک روایت ہے اسے ہمیں آپس کے معاملات میں بھی پیش نظر رکھنا چاہئے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کا بندہ جتنا کسی کو معاف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی زیادہ اسے عزت میں بڑھاتا ہے.جتنی زیادہ کوئی تواضع اور خاکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی اسے بلند مرتبہ عطا کرتا ہے.(مسلم كتاب البر والصلة باب استحباب العفو والتواضع) پس ہر احمدی ایک دوسرے کو معاف کرنے کی عادت ڈالے.اگلے جہان میں بھی درجات بلند ہور ہے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی آپ کی عزتیں بڑھاتا چلا جائے گا.اللہ تعالیٰ اپنی خاطر کئے گئے کسی فعل کو کبھی بغیر اجر کے جانے نہیں دیتا.مسکینوں کا مقام آنحضرت ﷺ کی نظر میں کتنا تھا، اس کا اندازہ اس حدیث سے الله کریں.حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مساکین سے محبت کیا کرو.یہ حضرت ابو سعید خدری کہہ رہے ہیں کہ پس میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا ہے کہ اَللَّهُمَّ أَحْيِنِي مِسْكِيْنًا وَأُمِتْنِيْ مِسْكِيْنًا وَاحْشُرْنِي فِي زُمْرَةِ الْمَسَاكِينِ.یعنی اے اللہ مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ، مجھے مسکینی کی حالت میں موت دے اور مجھے مسکینوں کے گروہ ہی سے اٹھانا.(ابن ماجه كتاب الزهد باب مجالسة الفقراء) پس ہر احمدی کو بھی وہی راہ اختیار کرنی چاہئے ، ان راہوں پر قدم مارنا چاہئے جن پر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی میں چل رہے ہیں.ہر احمدی کو اپنے آپ کو مسکینوں کی صف میں ہی رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ یہی عہد بیعت ہے کہ مسکینی سے زندگی بسر کروں گا.
281 $2003 خطبات مسرور ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ جعفر بن ابی طالب مساکین سے بہت محبت کرتے تھے.ان کی مجلسوں میں بیٹھتے تھے.وہ ان سے باتیں کرتے اور مساکین ان سے باتیں کرتے.چنانچہ رسول اللہ اللہ حضرت جعفر کو ابوالمساکین کی کنیت سے پکارا کرتے تھے.(ابن ماجه كتاب الزهد باب مجالسة الفقراء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.اگر اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنا ہے تو مسکینوں کے دل کے پاس تلاش کرو.اسی لیے پیغمبروں نے مسکینی کا جامہ ہی پہن لیا تھا.اسی طرح چاہیئے کہ بڑی قوم کے لوگ چھوٹی قوم کو نسی نہ کریں اور نہ کوئی یہ کہے کہ میرا خاندان بڑا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میرے پاس جو آؤ گے تو یہ سوال نہ کروں گا کہ تمہاری قوم کیا ہے.بلکہ سوال یہ ہوگا کہ تمہارا عمل کیا ہے.اسی طرح پیغمبر خدا نے فرمایا ہے اپنی بیٹی سے کہ اے فاطمہ خدا تعالیٰ ذات کو نہیں پوچھے گا.اگر تم کوئی برا کام کرو گی تو خدا تعالیٰ تم سے اس واسطے در گزر نہ کرے گا کہ تم رسول کی بیٹی ہو.پس چاہیئے کہ تم ہر وقت اپنا کام دیکھ کر کیا کرو.( الحكم ۱۷ جولائی ۱۹۰۳، ملفوظات جلد.سوم صفحه ۳۷۰ پھر آپ فرماتے ہیں: ”اہل تقویٰ کے لیے یہ شرط تھی کہ وہ غربت اور مسکینی میں اپنی زندگی بسر کرے یہ ایک تقویٰ کی شاخ ہے جس کے ذریعہ ہمیں غضب ناجائز کا مقابلہ کرنا ہے.بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لیے آخری اور کڑی منزل غضب سے ہی بچنا ہے.عجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے.اور ایسا ہی کبھی خود غضب عجب و پندار کا نتیجہ ہوتا ہے کیونکہ غضب اس وقت ہو گا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے.“ (رپورٹ) جلسه سالانه ۱۸۹۷ ء صفحه ٤٩) آپ فرماتے ہیں: ” تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو تم باہم ایسے ایک ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے.اور بد بخت ہے وہ جوضد کرتا ہے اور نہیں بخشا.سو اس کا مجھ میں حصہ نہیں.“ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۲-۱۳) پھر آٹھویں شرط یہ ہے یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے
خطبات مسرور 282 مال اور اپنی عزت اور اپنی اولا د اور اپنے ہر یک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا.$2003 دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد ایک ایسا عہد ہے کہ جماعت کا ہر وہ فرد جس کا جماعت کے ساتھ باقاعدہ رابطہ ہے، اجلاسوں اور اجتماعوں وغیرہ میں شامل ہوتا ہے وہ اس عہد کو بارہا دہراتا ہے.ہر اجتماع اور ہر جلسہ وغیرہ میں بھی بینرز لگائے جاتے ہیں اور اکثر ان میں یہ بھی ہوتا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.کیوں اس بات کو اتنی اہمیت دی گئی ہے، اس لئے کہ اس کے بغیر ایمان قائم ہی نہیں رہ سکتا.اس پر عمل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے.اس لئے اس کے حصول کے لئے ہر وقت ہر لحظہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہنا چاہئے.اس کا فضل ہی ہو تو یہ اعلیٰ معیار قائم ہو سکتا ہے.تو ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے شامل ہیں.ہمارے لئے تو للہ تعالیٰ اس طرح حکم فرماتا ہے.قرآن شریف میں آیا ہے.﴿وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّيْنَ.حُنَفَاءَ وَيُقِيْمُوا الصَّلوةَ وَيُؤْتُو الزَّكُوةَ وَذَلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ (سورة البينه : (۶) اور وہ کوئی حکم نہیں دیئے گئے سوائے اس کے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، دین کو اُس کے لئے خالص کرتے ہوئے ، ہمیشہ اس کی طرف جھکتے ہوئے ، اور نماز کو قائم کریں اور زکوۃ دیں.اور یہی قائم رہنے والی اور قائم رکھنے والی تعلیمات کا دین ہے.تو نمازوں کو قائم کرنے سے یعنی با جماعت اور وقت پر نماز پڑھنے سے ، اس کی راہ میں خرچ کرنے سے، غریبوں کا خیال رکھنے سے بھی ہم صحیح دین پر قائم ہو سکتے ہیں.اور ان تعلیمات کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا سکتے ہیں، اپنی زندگیوں پر لاگو کر سکتے ہیں جب ہم اللہ کی عبادت کریں گے ، اس کی دی ہوئی تعلیم پر عمل کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے گا، ہمارے ایمانوں کو اس قدر مضبوط کر دے گا کہ ہمیں اپنی ذات، اپنی خواہشات، اپنی اولادیں، دین کے مقابلے میں بیچ نظر آنے لگیں گی.تو جب سب کچھ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے لئے ہو جائے گا اور ہمارا اپنا کچھ نہ رہے گا تو اللہ تعالیٰ پھر ایسے لوگوں کو ضائع نہیں کرتا.وہ ان کی عزتوں کی بھی حفاظت کرتا ہے، ان کی اولا دوں کی بھی حفاظت کرتا ہے، ان میں برکت ڈالتا ہے، ان کے مال کو بھی بڑھاتا ہے اور ان کو اپنی رحمت اور فضل کی چادر میں ہمیشہ لپیٹے رکھتا ہے اور ان کے ہر قسم کے خوف دور کر دیتا ہے.جیسا کہ فرمایا
283 $2003 خطبات مسرور ہے: بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ﴾ (البقرہ : ۱۱۳).نہیں نہیں، سچ یہ ہے کہ جو بھی اپنا آپ خدا کے سپر د کر دے اور وہ احسان کرنے والا ہو تو اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے.اور اُن (لوگوں) پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے.پھر فرمایا وَمَنْ أَحْسَنُ دِينَا مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّةَ إبْرَاهِيْمَ حَنِيْفًا وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْلًا) (النساء : ۱۲۶ ).اور دین میں اس سے بہتر کون ہوسکتا ہے جو اپنی تمام تر توجہ اللہ کی خاطر وقف کر دے اور وہ احسان کرنے والا ہو اور اس نے ابراہیم حنیف کی ملت کی پیروی کی ہو اور اللہ نے ابراہیم کو دوست بنالیا تھا.اس آیت میں اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ بیان کر دیا گیا ہے.یعنی مکمل فرمانبرداری اور اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرنے ، اس کے دین کی خاطر اپنے آپ کو وقف کرنے اور احسان کرنے والا ہو.تو کیونکہ وہ اللہ کی خاطر احسان کرنے والا ہو گا اس لئے کسی کو یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ اگر ہر وقت وہ دین کی طرف اور دین کی خدمت کی طرف رہا تو اس کا مال یا اولا دضائع ہو جائے گی نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ جو سب سے بڑھ کر بدلہ دینے والا ہے، اجر دینے والا ہے، اس کے اس فعل کا خود اجر دے گا.جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا گیا ہے کہ خود اس کے جان ، مال ، آبرو کی حفاظت کرے گا.ایسے لوگوں کو ، ان کی نسلوں کو بھی اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: بلی مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ ﴾ (البقره : ۱۱۳) یعنی جو شخص اپنے وجود کو خدا کے آگے رکھ دے اور اپنی زندگی اس کی راہوں میں وقف کرے اور نیکی کرنے میں سرگرم ہو.سو وہ چشمہ قرب الہی سے اپنا اجر پائے گا.اور اُن لوگوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم.یعنی جو شخص اپنے تمام قومی کو خدا کی راہ میں لگادے اور خالص خدا کے لئے اس کا قول اور فعل اور حرکت اور سکون اور تمام زندگی ہو جائے اور حقیقی نیکی بجالانے میں سرگرم رہے.سو اس کو خدا اپنے پاس سے اجر دے گا اور خوف اور خون سے نجات بخشے گا.“ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.روحانی خزائن جلد ١٢ صفحه ٣٤٤)
284 $2003 خطبات مسرور ایک حدیث میں آتا ہے.معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ اپنے اسلام لانے کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا.میں نے پوچھا ”آپ کو ہمارے رب نے کیا پیغام دے کر بھیجا ہے اور کیا دین لائے ہیں؟“.آپ نے فرمایا: ”خدا نے مجھے الله دین اسلام دے کر بھیجا ہے.میں نے پوچھا ” دین اسلام کیا ہے.حضور ﷺ نے جواب دیا: اسلام یہ ہے کہ تم اپنی پوری ذات کو اللہ کے حوالے کر دو اور دوسرے معبودوں سے دست کش ہو جاؤ.اور نماز قائم کرو اور زکوۃ دو.“ (الاستيعاب) پھر ایک روایت یہ ہے.حضرت سفیان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! مجھے اسلام کی کوئی ایسی بات بتائیے جس کے بعد کسی اور سے پوچھنے کی صلى الله ضرورت نہ رہے یعنی میری پوری تسلی ہو جائے.حضور ﷺ نے جواب دیا تم یہ کہو کہ میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا ، پھر اس پر پکے ہو جاؤ اور استقلال کے ساتھ قائم رہو.صحابہ کا کیا فعل تھا.ایک حدیث میں یہ واقعہ ہے.ابتداء میں جب شراب اسلام میں حرام نہیں تھی.صحابہ بھی شراب پی لیا کرتے تھے اور اکثر نشہ بھی ہو جایا کرتا تھا.لیکن اس حالت میں بھی ان پر دین اور دین کی عزت کا غلبہ رہتا تھا.یہ فکر تھی کہ سب چیزوں پر دین سب سے زیادہ مقدم ہے چنانچہ جب شراب کی حرمت کا بھی حکم آیا ہے تو جو لوگ مجلس میں بیٹھے شراب پی رہے تھے بعض ان میں سے نشہ میں بھی تھے.جب انہوں نے اس کی حرمت کا حکم سنا تو فورا تعمیل کی.اس بارہ میں حدیث جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے.حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ابوطلحہ انصاری، ابو عبیدہ بن جراح اور ابی بن کعب کو کھجور کی شراب پلا رہا تھا.کسی آنے والے نے بتایا کہ شراب حرام ہوگئی ہے.یہ سُن کر ابوطلحہ نے کہا کہ انس اُٹھو اور شراب کے مٹکوں کو توڑ ڈالو.انس کہتے ہیں کہ میں اٹھا اور پتھر کی کونڈی کا نچلا حصہ مٹکوں پر دے مارا اور وہ ٹوٹ گئے.(بخاری کتاب اخبار الحاد باب ماجاء في اجازة خبر الواحد الصدوق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے.وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا.یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی، مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کا دوسرے لفظوں میں
285 $2003 خطبات مسرور اسلام نام ہے.اسی اسلام کا زندہ کرنا خدا تعالیٰ اب چاہتا ہے اور ضرور تھا کہ وہ اس مہم عظیم کے رو براہ کرنے کے لئے ایک عظیم الشان کارخانہ جو ہر ایک پہلو سے مؤثر ہوا اپنی طرف سے قائم کرتا.سواس حکیم وقد مر نے اس عاجز کو اصلاح خلائق کے لئے بھیج کر ایسا ہی کیا.(فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳صفحه ۱۰ تا ۱۳) پھر آپ فرماتے ہیں : ” جب تک انسان صدق وصفا کے ساتھ خدا تعالیٰ کا بندہ نہ ہوگا تب تک کوئی درجہ ملنا مشکل ہے.جب ابراہیم کی نسبت خدا تعالیٰ نے شہادت دی ﴿وَإِبْرَاهِيْمَ الَّذِي وفى (النجم: ۳۸) کہ ابراہیم و شخص ہے جس نے اپنی بات کو پورا کیا.تو اس طرح سے اپنے دل کو غیر سے پاک کرنا اور محبت الہی سے بھر نا خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق چلنا اور جیسے ظل اصل کا تابع ہوتا ہے ویسے ہی تابع ہونا کہ اس کی اور خدا کی مرضی ایک ہو، کوئی فرق نہ ہو.یہ سب باتیں دعا سے حاصل ہوتی ہیں.نماز اصل میں دعا کے لئے ہے کہ ہر ایک مقام پر دعا کرے لیکن جو شخص سویا ہوا نماز ادا کرتا ہے کہ اسے اس کی خبر ہی نہیں ہوتی تو وہ اصل میں نماز نہیں.پس چاہئے کہ ادائیگی نماز میں انسان سست نہ ہو اور نہ غافل ہو.ہماری جماعت اگر جماعت بننا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ ایک موت اختیار کرے.نفسانی امور اور نفسانی اغراض سے بچے اور اللہ تعالیٰ کو سب شئے پر مقدم رکھے.( البدر ١٦ نومبر ۱۹۰۳ء ، ملفوظات جلد.سوم صفحه ٤٥٧ - ٤٥٨) پھر آپ فرماتے ہیں: ”اے خدا کے طالب بندو! کان کھولو اور سنو کہ یقین جیسی کوئی چیز نہیں.یقین ہی ہے جو گناہ سے چھڑاتا ہے.یقین ہی ہے جو نیکی کرنے کی قوت دیتا ہے.یقین ہی ہے جو خدا کا عاشق صادق بناتا ہے.کیا تم گناہ کو بغیر یقین کے چھوڑ سکتے ہو.کیا تم جذبات نفس سے بغیر یقینی تجلی کے رک سکتے ہو.کیا تم بغیر یقین کے کوئی تسلی پاسکتے ہو.کیا تم بغیر یقین کے کوئی سچی تبدیلی پیدا کر سکتے ہو.کیا تم بغیر یقین کے کوئی کچی خوشحالی حاصل کر سکتے ہو.کیا آسمان کے نیچے کوئی ایسا کفارہ اور ایسا فدیہ ہے جو تم سے گناہ ترک کرا سکے.تم یا درکھو کہ بغیر یقین کے تم تاریک زندگی سے باہر نہیں آسکتے اور نہ روح القدس تمہیں مل سکتا ہے.مبارک وہ جو یقین رکھتے ہیں کیونکہ وہی خدا کو دیکھیں گے.مبارک وہ جو شبہات اور شکوک سے نجات پاگئے ہیں.کیونکہ وہی گناہ سے
$2003 286 خطبات مسرور نجات پائیں گے.مبارک تم جبکہ تمہیں یقین کی دولت دی جائے کہ اس کے بعد تمہارے گناہ کا خاتمہ ہوگا.گناہ اور یقین دونوں جمع نہیں ہو سکتے.کیا تم ایسے سوراخ میں ہاتھ ڈال سکتے ہو جس میں تم ایک سخت زہریلے سانپ کو دیکھ رہے ہو.کیا تم ایسی جگہ کھڑے رہ سکتے ہو جس جگہ کسی کو وہ آتش فشاں سے پتھر برستے ہیں یا بجلی پڑتی ہے یا ایک خونخوار شیر کے حملہ کرنے کی جگہ ہے یا ایک ایسی جگہ ہے جہاں ایک مہلک طاعون نسل انسانی کو معدوم کر رہی ہے.پھر اگر تمہیں خدا پر ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ سانپ پر یا بجلی پر یا شیر پر یا طاعون پر تو ممکن نہیں کہ اس کے مقابل پر تم نافرمانی کر کے سزا کی راہ اختیار کر سکو.یا صدق و وفا کا اس سے تعلق تو ڈسکو.(کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ١٩ صفحه ٦٧ - ٦٦) آپ نے فرمایا: ”خوف اور محبت اور قدردانی کی جڑ معرفتِ کاملہ ہے.پس جس کو معرفتِ کاملہ دی گئی ، اُس کو خوف اور محبت بھی کامل دی گئی اور جس کو خوف اور محبت کامل دی گئی ، اُس کو ہر ایک گناہ سے جو بیا کی سے پیدا ہوتا ہے نجات دی گئی.پس ہم اس نجات کے لئے نہ کسی خون کے محتاج ہیں اور نہ کسی صلیب کے حاجتمند اور نہ کسی کفارہ کی ہمیں ضرورت ہے.بلکہ ہم صرف ایک قربانی کے محتاج ہیں جو اپنے نفس کی قربانی ہے جس کی ضرورت کو ہماری فطرت محسوس کر رہی ہے.ایسی قربانی کا دوسرے لفظوں میں نام اسلام ہے.اسلام کے معنے ہیں ذبح ہونے کے لئے گردن آگے رکھ دینا.یعنی کامل رضا کے ساتھ اپنی رُوح کو خدا کے آستانہ پر رکھ دینا.یہ پیارا نام تمام شریعت کی روح اور تمام احکام کی جان ہے.ذبح ہونے کے لئے اپنی دلی خوشی اور رضا سے گردن آگے رکھ دینا کامل محبت اور کامل عشق کو چاہتا ہے اور کامل محبت کامل معرفت کو چاہتی ہے.پس اسلام کا لفظ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حقیقی قربانی کے لئے کامل معرفت اور کامل محبت کی ضرورت ہے نہ کسی اور چیز کی ضرورت.“ (لیکچر لاهور روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۵۱ تا ۱۰۲) اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.
$2003 287 20 خطبات مس ہر احمدی کو آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے پر بہت زیادہ توجہ دینی چاہئے ۵ ستمبر ۲۰۰۳ء بمطابق ۵ر تبوک ۱۳۸۲ هجری تشسی بمقام احمد یہ مشن ، فرانس ہر احمدی کو آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے پر بہت زیادہ توجہ دینی چاہیے اگر یہ وسیلہ اختیار نہ کیا تو پھر تمہاری سب عبادتیں رائیگاں چلی جائیں گی حمد صَلِّ على محمدٍ وآلِ محمدٍ سيدِ وُلدِ آدَمَ وخاتم النبيين درود شریف کی برکات 66 ہمارے تمام تر ذاتی فیض اور جماعتی فیض، برکات اور ترقیات اسی وسیلہ سے وابستہ ہیں جمعہ کی اہمیت اور درود شریف کا اس سے گہرا تعلق ہے
خطبات مس $2003 288 تشھد وتعوذ کے بعد درج ذیل آیت قرآنیہ تلاوت فرمائی انَّ اللَّهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِمُوْا تَسْلِيمًا ﴾ (الاحزاب : ۵۷).اس کا ترجمہ یہ ہے کہ یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں.اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم بھی اس پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو.اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو جو درود شریف پڑھنے کی اس قدر تاکید فرمائی ہے اس کی کیا وجہ ہے؟.کیا آنحضرت ﷺ کو ہماری دعاؤں کی حاجت ہے.نہیں ہے.بلکہ ہمیں یہ طریق سکھایا ہے کہ اے میرے بندو تم جب اپنی حاجات لے کر میرے پاس آؤ ، میرے پاس حاضر ہو تو اپنی دعاؤں کو قبول کروانے اور اپنی حاجات کو پوری کرنے کا اب ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ ہے کہ میرے پیارے نبی ہے کے ذریعہ سے مجھ تک پہنچو.اگر تم نے یہ وسیلہ اختیار نہ کیا تو پھر تمہاری سب عبادتیں رائیگاں چلی جائیں گی کیونکہ میں نے یہ سب کچھ، یہ سب کا ئنات اپنے اس پیارے نبی کے لئے پیدا کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : اگر چہ آنحضرت ﷺ کو کسی دوسرے کی دعا کی حاجت نہیں.لیکن اس میں ایک نہایت عمیق بھید ہے.جو شخص ذاتی محبت سے کسی کے لئے رحمت اور برکت چاہتا ہے وہ باعث علاقہ ذاتی محبت کے اس شخص کے وجود کی ایک جزو ہو جاتا ہے.پس جو فیضان شخص مدعولہ پر ہوتا ہے وہی فیضان اس پر ہو جاتا ہے.اور چونکہ آنحضرت ﷺ پر فیضان حضرت احدیت کے بے انتہا
289 $2003 خطبات مسرور ہیں اس لئے درود بھیجنے والوں کو کہ جو ذاتی محبت سے آنحضرت ﷺ کے لئے برکت چاہتے ہیں ، بے انتہا برکتوں سے بقدر اپنے جوش کے حصہ ملتا ہے.مگر بغیر روحانی جوش اور ذاتی محبت کے فیضان بہت ہی کم ظاہر ہوتا ہے.“ (مكتوبات احمدیه جلد اول صفحه ٢٤ - ٢٥) اس اقتباس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں جو باتیں سمجھائی ہیں جن سے درود شریف پڑھنے کی اہمیت واضح ہوتی ہے.فرمایا پہلے تو تم سب یہ یاد رکھو کہ آنحضرت ﷺ کو تمہاری دعاؤں کی ضرورت نہیں.یہ نہ سمجھو کہ تمہارے درود پڑھنے سے ہی آنحضرت ﷺ کا مقام بلند ہو رہا ہے.وہ تو پہلے ہی ایک ایسی ہستی ہے جو خدا تعالیٰ کو بہت پیاری ہے.فرمایا کہ اس میں گہرا راز ہے اور وہ یہ کہ جب کوئی شخص کسی دوسرے سے ایک ذاتی تعلق اور محبت کی وجہ سے اس دوسرے شخص کے لئے رحمت اور برکت چاہتا ہے تو وہ اس کے وجود کا ہی حصہ بن جاتا ہے یعنی وہ محبت اور تعلق میں ایک ہو جاتے ہیں مثلاً دنیاوی رشتوں میں اب دیکھیں مثال دیتا ہوں ، ماں بچے کی محبت ہے، بعض دفعہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بچہ جب چلنا شروع کرتا ہے، ذرا سی ہوش اس کو آتی ہے، اگر اس کو کوئی کھانے کی چیز ملے تو وہ بعض دفعہ اس میں ایک چھوٹا سا ٹکڑا جوا کثر ٹکڑے کی بجائے ذرات کی شکل میں ہوتا ہے.وہ اس پیار اور تعلق کی وجہ سے جو اس بچے کو اپنی ماں سے ہے، اپنی ماں کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے.تو اس چھوٹے سے ٹکڑے کی وجہ سے ماں کا پیٹ تو نہیں بھر رہا ہوتا لیکن ایک پیار کا اظہار ہورہا ہوتا ہے اور اس حرکت کی وجہ سے ماں کو بھی اس بچے پر اتناہی پیار آتا ہے اور بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور وہ اس کو پہلے سے بڑھ کر اپنے ساتھ چمٹاتی ہے اس کی ایک چھوٹی سی معصوم سی حرکت پر، اس کا خیال رکھتی ہے.تو اس طرح کی مثالیں کم و بیش آپ کو اور بھی دنیاوی تعلقات میں ، دنیاوی رشتوں میں ملتی رہیں گی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس اقتباس میں فرمارہے ہیں کہ جب محبت میں ایک ہی وجود بن جائیں تو جو فیض اس کو ملتا ہے اور جو برکتیں اس کو ملتی ہیں، جس کے لئے آپ دعا کر رہے ہوتے ہیں وہی آپ کو بھی مل رہا ہوتا ہے.فرماتے ہیں: کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بے انتہاء رحمتیں اور برکتیں ہیں ، اور بے انتہاء فیض ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ پر نازل فرمائیں اور فرمارہا ہے اور فرماتا
290 $2003 خطبات مسرور چلا جائے گا جب تک یہ دنیا قائم ہے.تو آپ کو بھی درود بھیجنے کی وجہ سے، اس ذاتی تعلق کی وجہ سے، جو ہمیں آنحضرت ﷺ کی ذات سے ہے اور ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ پر نازل ہونے والے فیض سے اُن لوگوں کو بھی حصہ ملتا رہے گا جو ایک سچے دل کے ساتھ آپ پر درود بھیج رہے ہوں گے.مگر شرط یہی ہے کہ ایک جوش، ایک محبت ہو جو درود پڑھتے وقت آپ کے اندر پیدا ہورہا ہو.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس کثرت سے درودشریف پڑھنے پر آپ پر جو بے انتہاء برکتیں نازل ہوئیں اس بارہ میں آپ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ درود شریف کے پڑھنے میں یعنی آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے میں ایک زمانے تک مجھے استغراق رہا.کیونکہ میرا یقین تھا کہ خدا تعالیٰ کی راہیں نہایت دقیق راہیں ہیں.بجز وسیلہ نبی کریم کے مل نہیں سکتیں.جیسا کہ خدا بھی فرماتا ہے وَابْتَغُوْا إِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ (مائده آیت ۳۳).تب ایک مدت کے بعد کشفی حالت میں میں نے دیکھا کہ دوستے آئے ہیں اور ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راستے سے میرے گھر میں داخل ہوئے اور ان کے کاندھوں پر نور کی مشکیں ہیں اور کہتے ہیں هَذا مَا صَلَّيْتَ عَلَى مُحَمَّدٍ ، الا بالله.(حقيقة الوحى - حاشیه صفحه ۱۲۸ - تذکره - صفحه ۷۷ ـ مطبوعه ١٩٦٩ء) تو اس میں آپ فرما رہے ہیں کہ کیونکہ میں اپنے پیدا کرنے والے خالق کو ، مالک کو حاصل کرنا چا ہتا تھا اور مجھے یہ پتہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا اتنا آسان کام نہیں.اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کا راستہ کوئی آسان راستہ نہیں.بڑا مشکل اور کٹھن راستوں سے گزر کر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے.تو اس قرب کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہی ، آپ فرماتے ہیں کہ اب صلى الله مجھ تک یعنی اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا اب ایک ہی ذریعہ ہے، ایک ہی وسیلہ ہے اور وہ محمد رسول اللہ علی ہیں.تو آپ یہ فرمارہے ہیں کہ میں نے اس سے سبق لیتے ہوئے آپ ﷺ پر بہت زیادہ درود بھیجا.اور گویا اس طرح تھا کہ میں ہر وقت اس ایک خیال میں ڈوبار ہتا تھا اور آپ پر درود بھیجتا رہتا تھا تو نتیجتا اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ بتانے کے لئے کہ تم بھی اب اس وسیلہ سے میرا قرب پاچکے ہو مجھے کشفی حالت میں یہ نظارہ دکھایا کہ دو آدمی جن کے کاندھوں پر نور کی مشکیں ہیں، اندرونی اور بیرونی راستے سے میرے گھر میں داخل ہوئے اور کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ پر
291 $2003 خطبات مسرور درود بھیجنے کی وجہ سے ہی یہ سب کچھ حاصل ہوا ہے.تو اندرونی اور بیرونی راستوں سے داخل ہونے کا مطلب بھی یہی ہے کہ اب اس برکت سے آپ پر ہر طرح کی برکتیں اور فضل نازل ہوتے رہیں گے اور آپ پر بھی آنحضرت ﷺ کا فیض جو ہے وہ پہنچتارہے گا.تو یہ ہیں درود کی برکات.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک الہام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّالِ مُحَمَّدٍ سَيِّدِ وُلْدِ آدَمَ وَخَاتَمِ النَّبِيِّينَ.درود بھیج محمد اور آل محمد پر جو سردار ہے آدم کے بیٹوں کا اور خاتم الانبیاء ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب مراتب اور تفصلات اور عنایات اسی کی طفیل سے ہیں.اور اسی سے محبت کرنے کا صلہ ہے.سبحان اللہ اس سرور کائنات کے حضرت احدیت میں کیا ہی اعلیٰ مراتب ہیں اور کس قسم کا قرب ہے.کہ اس کا محب خدا کا محبوب بن جاتا ہے“.(یعنی آپ ﷺ کے اللہ تعالیٰ کے حضور آپ کا مرتبہ کتنا بلند ہے کہ جو آنحضرت ﷺ سے محبت کرنے والا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا بھی محبوب بن جاتا ہے.اور اس کا خادم ایک دنیا کا مخدوم بنایا جاتا ہے.تو فرماتے ہیں کہ : ” اس مقام پر مجھ کو یاد آیا کہ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا.اسی رات خواب میں دیکھا کہ آب زلال کی شکل پر ٹور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں.اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجے تھے.اور ایسا ہی عجیب ایک اور قصہ یاد آیا ہے کہ ایک مرتبہ الہام ہوا.جس کے معنی یہ تھے کہ ملاء اعلی کے لوگ خصومت میں ہیں.یعنی ارادہ الہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے.(اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ دین کا از سرنو سے احیاء ہو، دین پھیلے ) لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پر شخص نفی کی تعیین ظاہر نہیں ہوئی.اس لئے وہ اختلاف میں ہے.اسی اثنا میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک میمی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا.اور اشارہ سے اس نے کہا هذَا رَجُلٌ يُحِبُّ رَسُوْلَ اللهِ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے.اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے.یعنی سب سے بڑی شرط یہی ہے کہ دین کو زندہ کرنے والا کون ہوگا ، وہی جو اللہ تعالیٰ کے رسول سے محبت رکھتا ہے سو وہ اس شخص میں متحقق ہے.یعنی یہ شرط
292 $2003 خطبات مسرور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں پائی جاتی ہے.یہ اشارہ کر رہے ہیں وہ فرشتے.اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جو آل رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے.سواس میں بھی یہی ستر ہے کہ افاضہ انوار الہی میں محبت اہل بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے.اور جو شخص حضرت احدیت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ انہیں طیبین طاہرین کی وراثت پاتا ہے.اور تمام علوم ومعارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے.(براهین احمدیه هر چهار حصص روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۹۷ تا ۵۹۹ حدیث شریف میں آتا ہے.حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ علی نے فرمایا: قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے نزدیک وہ شخص ہوگا جو ان میں سے مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہوگا.(ترمذى كتاب الصلاة باب ماجاء في فضل الصلاة على النبي) پھر ایک روایت آتی ہے.حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم مؤذن کو اذان دیتے ہوئے سنو تو تم بھی وہی الفاظ دہراؤ جو وہ کہتا ہے.پھر مجھ پر درود بھیجو.جس شخص نے مجھ پر درود پڑھا اللہ تعالیٰ اس پر دس گنا رحمتیں نازل فرمائے گا.پھر فرمایا: میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ مانگو یہ جنت کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے جو اللہ کے بندوں میں سے ایک کو ملے گا اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہ میں ہی ہوں گا.جس کسی نے بھی میرے لئے اللہ سے وسیلہ مانگا اس کے لئے شفاعت حلال ہو جائے گی.صحیح مسلم كتاب الصلاة باب استحباب القول مثل قول المؤذن لمن سمعه ثم يصلى على النبي) تو اس سے مزید یہ واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اس کی رحمتیں اور اس کی بخشش اگر چاہتے ہو تو وہ اب صرف اور صرف آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے ہی ملے گی اور یہ بھی آپ کا بہت سے احسانوں میں سے ایک احسان ہے کہ اس کا طریق بھی سکھا دیا، اذان کے بعد کی دعا بھی سکھا دی کہ اس طرح میر اوسیلہ تلاش کرو.تو یہ دعا بھی ہر ایک کو یاد کرنی چاہئے.پھر ایک حدیث ہے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: مجھ پر درود بھیجا کرو.تمہارا مجھ پر درود بھیجنا خود تمہاری پاکیزگی اور ترقی کا ذریعہ ہے.(جلاء الافهام بحواله كتاب صلواة على النبى اسماعيل بن اسحاق) پس کس شخص کی خواہش نہیں ہوتی کہ وہ نیکی اور پاکیزگی میں ترقی کرے.تو ہمارے محسن،
$2003 293 خطبات مسرور ہمارے آقا محمد مصطفی مے نے ہمیں یہ راستہ دکھا دیا کہ مجھ پر درود بھیجو، تمہارا مجھے پر درود بھیجنا خود تمہاری پاکیزگی کا باعث بنے گا.لیکن کیا صرف خالی درود پڑھنے سے ہی تمام مراحل طے ہو جائیں گے.کئی تسبیح پھیرنے والے آپ کو ملیں گے جو یہ کہتے ہیں کہ ہم ذکر الہی کر رہے ہیں اور اتنی تیزی سے تسبیح چل رہی ہوتی ہے کہ اس میں درود پڑھا ہی نہیں جاسکتا، بلکہ کوئی ذکر بھی نہیں کیا جاسکتا.لیکن ان کی حالت دیکھ کر دل بے چین ہو جاتا ہے کہ یہ کس طرح درود پڑھ رہے ہیں.تو یہ کس قسم کے لوگ ہیں جو اللہ اور رسول کا نام لے رہے ہیں.اور آدمی کو بعض دفعہ خیال بھی آتا ہے کہ یہ ان کے ظاہری اعمال ہیں اور یہ ان کی حالت ہے جو نظر آرہی ہے.تسبیح پھیر رہے ہیں.تو یہ تضاد کیوں ہے.تو اس مسئلے کو اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس طرح حل فرمایا ہے اور ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اس زمانہ کے امام کو پہچانے کی توفیق ملی.الله آپ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کی محبت کے ازدیاد اور تجدید کے لئے ہر نماز میں درود شریف کا پڑھنا ضروری ہو گیا تا کہ اس دعا کی قبولیت کے لئے استقامت کا ایک ذریعہ ہاتھ آئے.درود شریف جو حصول استقامت کا ایک زبر دست ذریعہ ہے بکثرت پڑھو.مگر نہ رسم اور عادت کے طور پر بلکہ رسول اللہ اللہ کے حسن اور احسان کو مد نظر رکھ کر اور آپ کے مدارج اور مراتب کی ترقی کے لئے اور آپ کی کامیابیوں کے واسطے“.آپ کی کامیابیاں کیا ہیں.یہی کہ اسلام کو ساری دنیا میں غلبہ حاصل ہو اس کا نتیجہ یہ ہو گا قبولیت دعا کا شیریں اور لذیذ پھل تم کو ملے گا.قبولیت دعا کے تین ہی ذریعے ہیں اول: إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي.دوم : يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا.اور سوم : موهبت الهی (رساله ریویو اردو جلد ۳ نمبر 1 صفحه ١٤ - ١٥) تو پہلی دو تو یہی ہیں جو آنحضرت ﷺ کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت بھی آنحضرت ﷺ کی پیروی میں ملے گی.اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ بھی آپ پر درود شریف بھیجیں.تو جب تک درد کے ساتھ ، جوش کے ساتھ آپ کے احسانوں کو سامنے رکھتے ہوئے درود شریف نہیں پڑھا جائے گا اور دل میں وہ جوش نہیں پیدا ہوگا جس سے آپ پر درود بھیجنے کا حق ادا ہو تو اس وقت تک یہ درود صرف زبانی درود ہی کہلائے گا اور آپ کے دل سے نکلی ہوئی آواز نہیں
294 $2003 خطبات مسرور ہوگی.تو درود شریف پڑھنے کے بھی کچھ طریقے ہیں، کچھ اسلوب ہیں، ان کو اپناتے ہوئے اگر ہم درود پڑھیں گے تو یقیناً یہ عرش تک پہنچے گا اور بے انتہاء رحمتیں اور برکتیں لے کر پھر واپس آئے گا.ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : مجھ پر درود بھیجا کرو.کیونکہ مجھ پر درود بھیجنا تمہارے لئے ایک کفارہ ہے.جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجے گا اس پر اللہ تعالیٰ دس بار رحمت بھیجے گا.(جلاء الافہام بحواله كتاب الصلوة على النبي ﷺ لا بن ابی عاصم انسان خطاؤں کا پتلا ہے، غلطیاں کرتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو پتہ نہیں کیا سلوک ہو.تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلوں کو اپنے بندوں پر نازل کرنے کا بھی طریق آنحضرت ﷺ کے ذریعہ ہمیں بتا دیا کہ آپ ﷺ پر درود بھیجو، آپ کے حسن و احسان کو یاد کرتے ہوئے آپ پر درود بھیجو اور بھیجتے چلے جاؤ، تو اللہ تعالیٰ کی دس گنا زیادہ رحمتوں کے وارث بنتے چلے جاؤ گے.اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيْدٌ.پھر ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنا اس سے بھی کہیں بڑھ کر گناہوں کو نابود کرتا ہے جتنا کہ ٹھنڈا پانی پیاس کو.اور آپ پر سلام بھیجنا گردنوں کو آزاد کرنے سے بھی زیادہ فضیلت رکھتا ہے.اور آپ کی محبت اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دینے یا جہاد کرنے سے بھی افضل ہے.(تفسیر در منثور بحواله تاریخ خطیب و ترغیب اصفهان) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا قیامت کے روز اس دن کے خطرات سے اور ہولناک مواقع سے تم میں سے سب سے زیادہ محفوظ اور نجات یافتہ وہ شخص ہو گا جو دنیا میں مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہوگا.فرمایا کہ ( میرے لئے تو اللہ تعالیٰ کا اور اس کے فرشتوں کا درو دہی کافی تھا.یہ تو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو ثواب پانے کا ایک موقع بخشا ہے.(تفسیر در منشور بحواله ترغیب اصفهانی و مسندد یلمی) تو اس حدیث سے مزید بات کھل گئی کہ اللہ تعالیٰ موقعے تلاش کر رہا ہے مومنوں کو اپنی رحمتوں اور فضلوں کی چادر میں لیٹنے کا کہ تم میرے پیارے نبی ﷺ پر درود بھیجو، میں تمہاری نجات
295 $2003 خطبات مسرور کے سامان پیدا کرتا چلا جاؤں گا.تو یہ بھی ایک احسان ہے آپ ﷺ کا کہ آپ نے اخروی نجات کے حصول کا طریق بھی ہمیں سکھا دیا.حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ دُعا آسمان اور زمین کے درمیان ٹھہر جاتی ہے اور جب تک اپنے نبی ﷺ پر درود نہ بھیجے اس میں سے کوئی حصہ بھی ( خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہونے کے لئے اوپر نہیں جاتا ).(ترمذی كتاب الصلاة باب ما جاء في فضل الصلاة على النبي) تو جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے اس حدیث نے مزید واضح کیا کہ اگر تم دعاؤں کی قبولیت چاہتے ہو تو ایک دلی جوش اور محبت کے ساتھ جس سے بڑھ کر محبت کسی مومن کو کسی دوسرے شخص سے نہیں ہوسکتی اور نہیں ہونی چاہئے ، آنحضرت می ﷺ پر درود کے ذریعہ سے اپنے مولا کے حضور پیش کرو تو صلى الله تمہاری ساری دعائیں قابل قبول ہوں گی اور راستے میں بکھر نہیں جائیں گی.ایک روایت ہے.عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے.وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے کعب بن عجرہ ملے اور کہنے لگے کیا میں آنحضرت ﷺ سے سنی ہوئی ایک بات بطور ہدیہ تمہیں نہ پہنچاؤں؟ میں نے کہا آپ ضرور مجھے یہ ہدیہ دیں.انہوں نے کہا ہم لوگوں نے ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم آپ لوگوں یعنی آپ کے گھر کے ساتھ تعلق رکھنے والے تمام لوگوں پر درود کس طرح بھیجا کریں؟ سلام بھیجنے کا طریق تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتا دیا.مگر درود بھیجنے کا طریق ہم نہیں جانتے.تو آپ نے فرمایا یوں کہا کرو : " اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ وَبَارِكُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مجيد.صلى الله.(ترمذی کتاب الصلاة باب ماجاء في صفة الصلاة على النبي عد و سلم اے اللہ محمد علی پرمحمد کی آل پر درود بھیج جیسا کہ تو نے حضرت ابراہیم اور ابراہیم کی آل پر درود بھیجا.تو بہت ہی حمد والا اور بزرگی والا ہے.اے اللہ ! محمد پر اور محمد کی آل پر برکتیں بھیج جیسا کہ تو نے حضرت ابراہیم پر اور حضرت ابراہیم کی آل پر برکتیں بھیجیں.تو بہت ہی حمد والا اور بزرگی والا ہے.
296 $2003 خطبات مسرور تو دیکھیں اس میں صحابہ کی نیکیاں، کہ ایک تو وہ یہ تڑپ دل میں رکھے ہوئے ہیں کہ میرا دوسرا مومن بھائی بھی ان فضلوں سے محروم نہ رہ جائے جو اللہ تعالیٰ مجھے پر کر رہا ہے.اور پھر یہ تڑپ کہ صلى الله میں زیادہ سے زیادہ مومنوں تک یہ بات پہنچاؤں کہ میرے پیارے نبی ﷺ پر درود بھیجیں.تو یہ ہیں مومنوں کے طریق.لیکن یاد رکھیں کہ دنیاوی دکھاوے کے لئے ، جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے، محفلیں جما کر ، طوطے کی طرح رٹ لگاتے ہوئے بغیر غور کے درود پڑھنے کا طریق صحیح نہیں ہے.ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے.وہ کہتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر درود بھیجو تو بہت اچھی طرح سے بھیجا کرو.تمہیں کیا معلوم کہ ہو سکتا ہے وہ آنحضرت ﷺ کے حضور پیش کیا جا تا ہو.راوی کہتا ہے کہ سامعین نے ان سے کہا آپ ہمیں اس کا طریقہ بتائیں.انہوں نے کہا یوں کہا کرو.اے اللہ ! اپنی جناب سے درود بھیج ، رحمت اور برکات نازل فرما، سید المرسلین اور متقیوں کے امام اور خاتم النبین محمد اپنے بندے اور اپنے رسول پر جو ہر نیکی کے میدان کے پیشوا اور ہر نیکی کی طرف لے جانے والے ہیں اور رسول رحمت ہیں.اے اللہ ! تو حضرت محمد ﷺ کو ایسے مقام پر فائز فرما جس پر پہلے اور پچھلے سب رشک کو کریں.صله الله.(سنن ابن ماجه كتاب اقامة الصلوة والسنة فيها باب الصلوة على النبي ) پھر ایک حدیث ہے حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا : جو مسلمان بھی مجھ پر درود بھیجتا ہے.جب تک وہ مجھ پر درود بھیجتا رہتا ہے اس وقت تک فرشتے اس پر درود بھیجتے رہتے ہیں.اب چاہے تو اس میں کمی کرے، چاہے تو اس کو زیادہ کرے.صلى الله.(سنن ابن ماجه كتاب اقامة الصلوة والسنة فيها باب الصلوة على النبي ) تو یہ دیکھیں کیا طریقے ہمیں سمجھائے فضلوں کو حاصل کرنے کے.پھر ایک روایت آتی ہے.روای بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں نے حضرت رسول کریم اللہ کی خدمت میں عرض کی کہ میں اپنی دعا کے وقت ایک بڑا حصہ حضور پر درود بھیجنے میں صرف کرتا ہوں.بہتر ہو کہ حضور ارشاد فرما ئیں کہ میں اپنی دعا کے وقت میں سے کس قدر حصہ حضور پر درود بھیجنے میں مخصوص کر دوں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا : جتنا چاہو.میں نے عرض کی کیا ایک چوتھائی؟
297 $2003 خطبات مسرور فرمایا: جتنا چاہو.اگر اس میں اضافہ کرو تو تمہارے لئے اور بھی بہتر ہے.میں نے عرض کیا کہ آئندہ میں اپنی دعا کا سارا وقت حضور پر درود کے لئے مقرر کرتا ہوں.حضور اقدس ﷺ نے فرمایا : اس صورت میں تمہاری ساری ضرورتیں اور مرادیں پوری ہوں گی اور سب گناہ معاف ہو جائیں گے.(ترمذی کتاب صفة القيامة باب ماجاء في اوانى (الحوض اس زمانہ میں بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والوں میں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں جیسا کہ اس روایت سے پتہ چلتا ہے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں لاہور کے دفتر اکا ؤنٹنٹ جنرل میں ملازم تھا.۱۸۹۸ء کا یہ اس کے قریب کا واقعہ ہے کہ میں درود شریف کثرت سے پڑھتا تھا اور اس میں بہت لذت اور سرور حاصل کرتا تھا.انہی ایام میں میں نے ایک حدیث میں پڑھا کہ ایک صحابی نے رسول اللہ اللہ کے حضور میں عرض کیا کہ میری ساری دعائیں درود شریف ہی ہوا کریں گی.یہ حدیث پڑھ کر مجھے بھی پر زور خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی ایسا ہی کروں.چنانچہ ایک روز جبکہ قادیان آیا ہوا تھا اور مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر تھا، میں نے عرض کیا کہ میری یہ خواہش ہے کہ میں اپنی تمام خواہشوں اور مرادوں کی بجائے اللہ تعالیٰ سے درود شریف ہی کی دعا مانگا کروں.حضور نے اس پر پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور تمام حاضرین سمیت ہاتھ اٹھا کر اسی وقت میرے لئے دعا کی.کہتے ہیں تب سے میرا اس پر عمل ہے کہ اپنی تمام خواہشوں کو درود شریف کی دعا میں شامل کر کے اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہوں“.ایک روایت ہے، حدیث میں آتا ہے.حضرت عبدالرحمن بن عوف روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ گھر سے باہر تشریف لائے تو میں آپ کے پیچھے پیچھے ہو گیا.آپ " کھجوروں کے ایک باغ میں داخل ہوئے اور سجدہ ریز ہو گئے.کہتے ہیں رفتہ رفتہ انتظار کرتے کرتے اتنا لمبا عرصہ گزر گیا کہ میں دیکھ رہا تھا کہ اس عرصہ میں آپ مسجدہ کی حالت میں ہیں.اور سجدہ میں چونکہ میں مخل نہیں ہونا چاہتا تھا اس لئے میں آگے نہیں بڑھا.لیکن اتنا لمبا عرصہ گزرا تو مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ نعوذ باللہ من ذلک رسول اللہ ﷺ کی روح قفس عنصری سے پرواز نہ کر گئی ہو، اسی سجدہ کی حالت میں آپ فوت نہ ہو گئے ہوں.اس غم اور فکر سے میں دوڑا.قریب آیا تو رسول اللہ ﷺ نے میرے آنے الله
$2003 298 خطبات مسرور کی آواز سنی اور سجدہ سے سراٹھایا اور پوچھا: اے عبدالرحمن ! کیا بات ہے؟ میں نے آپ سے اپنے خدشے کا اظہار کیا یا رسول اللہ ! یہ وجہ ہے جو میں آپ کے قریب آگیا ہوں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا: جبرائیل نے مجھے کہا ہے کہ کیا میں تجھے خوشخبری نہ دوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس شخص نے تجھ پر درود بھیجا میں اس پر رحمت نازل کروں گا.اور جو تجھ پر سلام بھیجے گا میں اس پر سلامتی نازل کروں گا.(مسند احمد بن حنبل مسند العشرة المبشرين بالجنة حديث عبد الرحمن بن عوف..پھر ایک حدیث میں روایت ہے.حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : جوشخص مجھ پر درود بھیجنا بھول گیا اس نے جنت کا رستہ کھو دیا ، یاوہ جنت کے راستے سے ہٹ گیا.صل الله.(سنن ابن ماجه کتاب اقامة والسنة فيها باب الصلوة على النبي ) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: دنیا میں کروڑ ہا ایسے پاک فطرت گزرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مرد خدا کو پایا ہے جس کا نام ہے محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم.إِنَّ اللَّهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا.(الاحزاب : ٥٧) (چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۰۱-۳۰۲ پھر آپ فرماتے ہیں: رسول اللہ اللہ کے واقعات پیش آمدہ کی اگر معرفت ہو اور اس بات پر پوری اطلاع ملے کہ اس وقت دنیا کی کیا حالت تھی اور آپ نے آ کر کیا کیا تو انسان وجد میں آکر“.یعنی کہ اس زمانہ میں جب آنحضرت میﷺ مبعوث ہوئے.دنیا کی کیا حالت تھی کس قدر گراوٹ تھی اور....اور کیا تبدیلیاں پیدا ہوئیں آپ کے آنے سے ) تو آپ فرماتے ہیں کہ انسان کی روح وجد میں آجاتی ہے.اور وجد میں آکر اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ کہ اٹھتا ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں یہ خیالی اور فرضی بات نہیں ہے.قرآن شریف اور دنیا کی تاریخ اس امر کی پوری شہادت دیتی ہے کہ نبی کریم نے کیا کیا.ورنہ وہ کیا بات تھی جو آپ کے لئے مخصوصاً فرمایا گیا ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ
$2003 299 خطبات مسرور عَلَى النَّبِيِّ يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ (الاحزاب : (۵۷) کسی دوسرے نبی کے لئے یہ صدا نہیں آئی.پوری کامیابی پوری تعریف کے ساتھ یہی ایک انسان دنیا میں آیا جو محمد کہلایا.صلی الله عليه وسلم : " (الحكم جلد ٥ نمبر ۲ مورخه ۱۷/ جنوری ۱۹۰۱ ء صفحه (۳) آپ فرماتے ہیں کہ : خدا کے کلام سے پایا جاتا ہے کہ متقی وہ ہے جو حلیمی اور مسکینی سے چلتے ہیں ، وہ مغرورانہ گفتگو نہیں کرتے.ان کی گفتگو ایسی ہوتی ہے جیسے چھوٹا بڑے سے گفتگو کرے.ہم کو ہر حال میں وہ کرنا چاہئے جس سے ہماری فلاح ہو.اللہ تعالیٰ کسی کا اجارہ دار نہیں.وہ خاص تقویٰ کو چاہتا ہے.جو تقویٰ کرے گا وہ مقام اعلیٰ کو پہنچے گا.آنحضرت ﷺ یا حضرت ابراہیم علیہ السلام میں سے کسی نے وراثت سے عزت نہیں پائی.گو ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت ﷺ کے والد ماجد عبداللہ مشرک نہ تھے لیکن اس نے نبوت تو نہیں کی.یہ تو فضل الہی تھا، ان صدقوں کے باعث جوان کی فطرت میں تھے ، یہی فضل کے محرک تھے.حضرت ابراہیم علیہ السلام جو ابوالانبیاء تھے انہوں نے اپنے صدق و تقویٰ سے ہی بیٹے کو قربان کرنے میں دریغ نہ کیا.خود آگ میں ڈالے گئے.ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا ہی صدق و صفا دیکھئے.آپ نے ہر ایک قسم کی بدتحریک کا مقابلہ کیا.طرح طرح کے مصائب و تکالیف اٹھائے لیکن پرواہ نہ کی.یہی صدق و وفا تھا جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے فضل کیا.اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِمُوْا تَسْلِيمًا ﴾ اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام فرشتے رسول پر درود بھیجتے ہیں.اے ایمان والو! تم بھی نبی پر درود سلام بھیجو.فرماتے ہیں کہ : اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اکرم کے اعمال ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف یا اوصاف کی تحدید کرنے کے لئے کوئی لفظ خاص نہیں فرمایا “.یعنی ایسے اعمال اللہ تعالیٰ کو پسند تھے کہ ان کو محدود کرنے کے لئے کوئی لفظ ایسا نہیں تھا جس سے وہ اوصاف محدود ہو جائیں ، یعنی ان کی کوئی حد نہیں تھی.فرماتے ہیں : یعنی آپ کی روح میں وہ صدق و وفا تھا اور آپ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے یہ حکم دیا کہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے
300 $2003 خطبات مسرور طور پر درود بھیجیں.آپ کی ہمت وصدق و وفا کا کہاں تک اثر آپ کے پیروؤں پر ہوا تھا.ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ ایک بد روش کو درست کرنا کس قدر مشکل ہے.عادات راسخہ کو گنوانا کیسا محالات سے ہے.یعنی جو عادات پکی ہو جائیں ان کو چھوڑنا بہت مشکل ہے.لیکن ہمارے مقدس نبی ﷺ نے تو ہزاروں انسانوں کو درست کیا، جو حیوانوں سے بدتر تھے.یعنی بعض ماؤں اور بہنوں میں حیوانوں نے کی طرح فرق نہ کرتے تھے.یتیموں کا مال کھاتے تھے.مُردوں کا مال کھاتے تھے.بعض ستارہ پرست تھے.بعض دہریہ تھے.بعض عناصر پرست تھے.جزیرہ عرب کیا تھا ایک مجموعہ مذاہب اپنے اندر رکھتا تھا.اس سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ قرآن کریم ایک قسم کی تعلیم اپنے اندر رکھتا ہے، ہر ایک غلط عقیدہ یا بری تعلیم جو دنیا میں ممکن ہے، اس کے استحصال کے لئے کافی تعلیم اس میں موجود ہے.یہ اللہ تعالی کی عمیق حکمت اور تصرف ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : انسان تو دراصل بندہ یعنی غلام ہے.غلام کا کام یہ ہوتا ہے کہ مالک جو حکم کرے، اُسے قبول کرے.اسی طرح اگر تم چاہتے ہو کہ آنحضرت ﷺ کے فیض حاصل کرو تو ضرور ہے کہ اس کیلم ہو جاؤ.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ قُل لِعِبَادِيَ الَّذِيْنَ انر و اعلی انفسهم ، اس جگہ بندوں سے مراد غلام ہی ہیں نہ کہ مخلوق.رسول کریم ﷺ کے بندہ ہونے کے واسطے ضروری ہے کہ 66 آپ پر درود پڑھو اور آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہ کر وہ سب حکموں پر کار بندر ہو.“ البدر - جلد ۲، نمبر ١٤ - بتاريخ ٢٤ / اپریل ۱۹۰۳ ء- صفحه (۱۰۹ بعض دفعہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ کتنی دفعہ درود پڑھنا چاہئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ایک خط میں فرماتے ہیں: کسی تعداد کی پابندی ضروری نہیں.اخلاص اور محبت اور حضور اور تضرع سے پڑھنا چاہئے.اور اس وقت تک پڑھتے رہیں جب تک ایک حالت رقت اور بے خودی اور تاثر کی پیدا ہو جائے.اور سینے میں انشراح اور ذوق پایا جائے“.نیز آپ نے فرمایا : اس قدر پڑھا جائے کہ کیفیت صلوۃ سے دل مملو ہو جائے اور ایک انشراح اور لذت اور حیات قلب پیدا ہو جائے.(مکتوبات حصہ اول صفحہ ۲۶) محسوس ہو کہ دل میں
$2003 301 خطبات مسرور ایک جوش ہے، لذت ہے.تو اب ان لوگوں کے سوال کا جواب اس میں آگیا جو یہ کہتے ہیں کہ کتنی دفعہ پڑھنا چاہئے.ایک تو اخلاص اور محبت دکھاؤ.جس کو محبوب بنایا ہے اس کا نام لینے میں، اس کی تعریف کرنے میں، اس کی خوبیاں بیان کرنے میں، اس کے محاسن گنوانے میں،اس کا ذکر کر نے میں انسان گنتی کی قید تو نہیں لگاتا.دنیاوی محبوبوں کے لئے بھی یہ طریق استعمال نہیں ہوتا.یہ تو وہ محبوب ہے جس پر درود بھیجنے سے ہماری دنیا و آخرت دونوں سنور رہے ہیں.اور پھر ایسی کیفیت طاری ہو جائے کہ جذبات اپنی انتہا کو پہنچ جائیں اور پھر اس ذکر سے ،اس درود بھیجنے سے ایک سرور اور ایک لطف آنا شروع ہو جائے، مزا آنا شروع ہو جائے اور دل یہ چاہے کہ انسان ہر وقت درود بھیجتا ر ہے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيْدٌ.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.یہ بھی ایک خط ہے جو تحریر فرمایا آپ نے کہ: آپ درود شریف کے پڑھنے میں بہت ہی متوجہ رہیں.اور جیسا کہ کوئی اپنے پیارے کے لئے فی الحقیقت برکت چاہتا ہے.ایسے ہی ذوق اور اخلاص سے حضرت نبی کریم ﷺے کے لئے برکت چاہیں اور بہت ہی تضرع سے چاہیں.اور اس تضرع اور دعا میں کچھ بناوٹ نہ ہو.بلکہ چاہئے کہ حضرت نبی کریم ﷺ سے سچی دوستی اور محبت ہو.اور فی الحقیقت روح کی سچائی سے وہ برکتیں آنحضرت لے کے لئے مانگی جائیں کہ جو درود شریف میں مذکور ہیں اور ذاتی محبت کی یہ نشانی ہے کہ انسان کبھی نہ تھکے اور نہ کبھی ملول ہو.اور نہ اغراض نفسانی کا دخل ہو.اور محض اسی غرض کے لئے پڑھے کہ آنحضرت ﷺ پر خداوند کریم کے برکات ظاہر ہوں.پھر آپ فرماتے ہیں کہ: (مکتوبات احمدیه جلد اول صفحه ٢٤-٢٥ ایک مرتبہ میں سخت بیمار ہوا یہاں تک کہ تین مختلف وقتوں میں میرے وارثوں نے میرا آخری وقت سمجھ کر مسنون طریقہ پر مجھے تین مرتبہ سورۃ یسین سنائی.جب تیسری مرتبہ سورۃ یسین سنائی گئی تو میں دیکھتا ہوں کہ بعض عزیز میرے جو اب وہ دنیا سے گزر بھی گئے ، دیواروں کے پیچھے بےاختیار روتے تھے اور مجھے ایک قسم کا سخت قولنج تھا اور بار بار دم بدم حاجت ہو کر خون آتا تھا.سولہ
302 $2003 خطبات مسرور دن برابر ایسی حالت رہی اور اسی بیماری میں میرے ساتھ ایک اور شخص بیمار ہوا تھا وہ آٹھویں دن راہی ملک بقا ہو گیا حالانکہ اس کے مرض کی شدت ایسی نہ تھی جیسی میری.جب بیماری کو سولہواں دن چڑھا تو اس دن بکلی حالات پاس ظاہر ہو کر (یعنی بالکل مایوسی کی حالت طاری ہوگئی ) تیسری مرتبہ مجھے سورۃ یسین سنائی گئی اور تمام عزیزوں کے دل میں یہ پختہ یقین تھا کہ آج شام تک یہ قبر میں ہوگا.تب ایسا ہوا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے مصائب سے نجات پانے کے لئے بعض اپنے نبیوں کو دعائیں سکھلائی تھیں مجھے بھی خدا نے الہام کر کے ایک دعا سکھلائی اور وہ یہ ہے: ”سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيْمِ.اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّد “.(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد نمبر۱۵ نشان نمبر ۷۷ - تاریخ ۱۸۸۰ء) حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوئی تحریر فرماتے ہیں: ایک بار میں نے خود حضرت امام علیہ الصلوۃ والسلام سے سنا.آپ فرماتے تھے کہ درود شریف کے طفیل اور اس کی کثرت سے یہ درجے خدا نے مجھے عطا کئے ہیں.اور فرمایا کہ میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرت ﷺ کی طرف جاتے ہیں.اور پھر وہاں جا کر آنحضرت ﷺ کے سینہ میں جذب ہو جاتے ہیں.اور وہاں سے نکل کر ان کی لا انتہا نالیاں ہوتی ہیں.اور بقدر حصہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں“.( یعنی جو جو لوگ درود شریف بھیج رہے ہیں اور جس جس جوش سے بھیج رہے ہیں ان تک وہ اتنا حصہ پہنچتا رہتا ہے.یقینا کوئی فیض بدوں و ساطت آنحضرت ﷺ دوسروں تک پہنچ ہی نہیں سکتا“.یعنی اب کوئی بھی فیض جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضل ہونے ہیں بغیر آنحضرت ﷺ کی وساطت کے کسی شخص تک نہیں پہنچ سکتے.فرمایا: درود شریف کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ کے اس عرش کو حرکت دینا ہے جس سے یہ نور کی نالیاں نکلتی ہیں.جو اللہ تعالیٰ کا فیض اور فضل حاصل کرنا چاہتا ہے.اس کو لازم ہے کہ وہ کثرت سے درود شریف پڑھے تا کہ اس فیض میں حرکت پیدا ہو.(اخبار الحكم جلد ۷ نمبر ۸ صفحه ۷ پرچه ۲۸/ فروری ۱۹۰۳ء) ایک دفعہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کو اپنی بعض مشکلات کی وجہ سے دعا کی تلقین کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ:
خطبات من 303 $2003 آپ درویشانہ سیرت سے ہر ایک نماز کے بعد گیارہ دفعہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِي الْعَظیمِ پڑھیں اور رات کو سونے کے وقت معمولی نماز کے بعد کم سے کم اکتالیس دفعہ درود شریف پڑھ کر دو رکعت نماز پڑھیں اور ہر ایک سجدہ میں کم سے کم تین دفعہ یہ دعا پڑھیں يَا حَيُّ يَا قَيُّوْمُ بِرَحْمَتِكَ اَسْتَغِيْث.پھر نماز پوری کر کے سلام پھیر دیں اور اپنے لئے دعا کریں“.(مکتوبات احمدیه جلدهفتم حصه اول صفحه ۳۳) تو یہاں کسی کو یہ خیال نہ آئے کہ پہلے تو حد نہیں لگائی تھی یہاں تو گنتی بتا دی ہے.تو واضح ہو کہ پہلے حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے مخصوص حالات کی وجہ سے دعا کا ایک طریق بتایا.دوسرے اس میں کم سے کم کہا ہے کہ اتنی دفعہ ضرور پڑھیں.اصل بات وہی ہے کہ درود میں قید کوئی نہیں کہ زیادہ سے زیادہ کتنا پڑھا جائے.جتنی توفیق ہے پڑھتے چلے جائیں اور اتنا ہی فیض پاتے چلے جائیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں بھی درود کا کثرت سے ذکر ملتا ہے.اعجاز مسیح میں درج ہے کہ " فَصَلُّوْا عَلى هَذَا النَّبِيِّ الْمُحْسِنِ الَّذِي هُوَ مَظْهَرُ صِفَاتِ الرَّحْمَنِ الْمَنَّانِ.(اے لوگو!) اس محسن نبی پر درود بھیجو جو خداوند رحمن ومنان کی صفات کا مظہر ہے کیونکہ احسان کا بدلہ احسان ہی ہے.اور جس دل میں آپ کے احسانات کا احساس نہیں اس میں یا تو ایمان ہے ہی نہیں اور یا پھر وہ اپنے ایمان کو تباہ کرنے کے درپے ہے.اے اللہ ! اس امی ا رسول اور نبی پر درود بھیج جس نے آخرین کو بھی پانی سے سیر کیا ہے جس طرح اس نے اولین کو سیر کیا.اور انہیں اپنے رنگ میں رنگین کیا اور انہیں پاک لوگوں میں داخل کر دیا.(اعجاز ،المسيح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲.۵ ایک یہ الہام ہے : ” وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْهُ عَنِ الْمُنْكَرِ وَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّالِ مُحَمَّدٍ.اَلصَّلوةُ هُوَ الْمُرَتِی.کہ نیک کاموں کی طرف رہنمائی کر اور برے کاموں سے روک.اور محمد و آل محمد ﷺ پر درود بھیج.درود ہی تربیت کا ذریعہ ہے.(براہین احمدیه روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۶۷) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کثرت سے اپنے آقا پر درود بھیجنے کو اللہ
$2003 304 خطبات مسرور تعالیٰ نے اس قدر نوازا کہ آپ کو الہا ما فرمایا: تجھ پر عرب کے صلحاء اور شام کے ابدال درود بھیجیں گے.زمین و آسمان تجھ پر درود بھیجتے ہیں اور اللہ تعالی عرش سے تیری تعریف کرتا ہے“.( تذکرہ صفحہ ۱۶۲.مطبوعہ ۱۹۶۹ء) پھر الہام ہوا ایک لمبا عربی الہام ہے، کچھ حصے کا ترجمہ پیش کرتا ہوں.کہ خدا عرش پر سے تیری تعریف کر رہا ہے.ہم تیری تعریف کرتے اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں.لوگ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں.مگر خدا اس نور کو نہیں چھوڑے گا جب تک پورا نہ کر لے اگر چہ منکر کراہت کریں.ہم عنقریب ان کے دلوں میں رعب ڈالیں گے.جب خدا کی مدد اور فتح آئے گی اور زمانہ ہماری طرف رجوع کرلے گا تو کہا جائے گا کہ کیا یہ سچ نہ تھا جیسا کہ تم نے سمجھا“.الله (تذکره صفحه ٣٥٥ - مطبوعه ١٩٦٩ ء) تو یہ ہیں برکات اور فیض جو آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے سے حاصل ہوتے ہیں.پس ہر احمدی کو آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے پر بہت زیادہ توجہ دینی چاہئے.یہی وسیلہ ہے جس سے اب ہمارے ذاتی فیض بھی اور جماعتی فیض اور برکات اور ترقیات وابستہ ہیں.آج جمعہ کا دن بھی ہے اور جمعہ کے دن آنحضرت اللہ نے اپنے پر درود بھیجنے کی مومنوں کو خاص طور پر تاکید فرمائی ہے جیسا کہ اس حدیث میں آتا ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا : تمہارے بہترین ایام میں سے ایک جمعہ کا دن ہے.اسی روز آدم پیدا کئے گئے، اسی روز انہیں وفات دی گئی.اسی دن نفخ صو ر ہوگا اور اسی روز بخشی ہوگی.پس اسی روز تم مجھ سے کثرت سے درود بھیجا کرو.تمہارا درود مجھ تک پہنچایا جائے گا.راوی کہتے ہیں کہ اس پر صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ جب آپ کا وجود بوسیدہ ہو چکا ہوگا یعنی کہ جسم مٹی بن گیا ہوگا اس وقت ہمارا درود آپ کو کیسے پہنچایا جائے گا.فرمایا: اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے وجودوں کو زمین پر حرام کر دیا ہے.(سنن ابی داؤد کتاب الصلواة باب الجمعة پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے سے بھی اس کا خاص تعلق ہے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ جماعتی ترقیات اسی سے وابستہ ہیں.اس بارہ میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس حدیث کی بڑی اچھی تشریح فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں:
خطبات مسرور 305 $2003 جمعہ کا مضمون بہت گہرا اور وسیع ہے.جمعہ ایک زمانے کا نام ہے اور اس زمانے میں جمعیت کے معنے داخل ہوتے ہیں مختلف چیزوں کا آپس میں ملا دینا.پس جب اس پہلو سے اس حدیث کا مطالعہ کریں تو بہت وسیع مضمون ہے جو اس میں بیان ہوا ہے.پہلی بات تو یہ ہے کہ اس دن نفخ صور ہو گا اور اسی روز غشی ہوگی.اگر قیامت کا دن مراد ہو تو وہاں جمعہ کے دن کی کیا بحث ہے وہاں تو ازل اور ابد ا کٹھے ہو جاتے ہیں.وہاں یہ بحث ہی نہیں ہوتی کہ دن کون سا ہے.قیامت کا وقت تو ایک عرصے کا نام ہے اور یہ جو دن ہم گنتے ہیں ان دنوں کی بحث نہیں ہے.اس میں طویل زمانے کا نام ہے اور اس کو جمعہ کہنا کن معنوں میں درست ہے صرف ان معنوں میں کہ اس دن تمام اگلے اور پچھلے اکٹھے کر دئے جائیں گے اور وہ ایک دن نہیں ہو گا کہ سورج چڑھا، دن ہوا اور سورج غروب ہوا تو دن غروب ہوا.بلکہ ایک زمانہ طلوع ہوگا اور اس سارے زمانے کا نام جمعہ ہے.....دوسری بات آپ نے یہ بیان فرمائی کہ جب اس دنیا پر اس کا اطلاق کر کے دیکھیں تو ایک اور مضمون ابھرتا ہے جس کا سورہ جمعہ میں ذکر موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ اسی روز نفخ صور ہو گا یعنی تمام بنی نوع انسان کومحمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دین کی طرف بلایا جائے گا اور یہ نفخ صور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے ہے اور اس کے متعلق بکثرت شواہد ملتے ہیں احادیث میں بھی اور گزشتہ اولیاء کے حوالوں سے بھی کہ یہ وعدہ کہ تمام دنیا کے ادیان پر محمد رسول اللہ ﷺ کا دین غالب آئے گا یہ مسیح موعود کے زمانے میں پورا ہونا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی کا دور ہے جس کے متعلق فرمایا ہے اسی روز غشی ہوگی یعنی وہ اتنا خطرناک دور ہوگا کہ پہلے لوگ مدہوش کر دئے جائیں گے، مارا مار پھریں گے، کچھ سمجھ نہیں آئے گی کہ کیا ہو گیا ہے دنیا کو.پھر وہ دین اسلام کی طرف راغب کئے جائیں گے.اور اس کے بعد فرمایا: پس اس روز تم مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو.پس جماعت کے لئے دیکھو کتنی بڑی خوشخبری ہے اس میں کہ یہ وہ زمانہ ہے جس میں ہماری تمام برکتیں درود سے وابستہ ہو چکی ہیں.یہ وہ زمانہ ہے جس میں کثرت سے درود بھیجنے کے نتیجے میں ہم ان عالمی مصیبتوں سے
$2003 306 خطبات مسرور الله بچائے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے در و دہی کی برکت سے دنیا میں اسلام پھیلے گا.ظاہر بات ہے جب رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجو گے تو رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجنے والوں کی کثرت ہوگی.کیونکہ آسمان سے خدا اور اس کے فرشتے بھی درود بھیج رہے ہونگے جس کے اندر ایک عددی برکت بھی شامل ہوتی ہے.پس کثرت سے درود بھیجو.اللہ تعالیٰ کی طرف سے کثرت سے تم پر اور خدا کے فرشتے بھی تم پر درود بھیجیں گے اور اس کے نتیجے میں عددی برکت بھی نصیب ہوگی.یعنی تمہاری تعداد میں بھی اضافہ ہوگا.پس اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.جماعت کو بہت زیادہ درود شریف پڑھنا چاہئے.یہاں جو اس وقت آپ بہت تھوڑے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال آپ کو بہت سی سعید روحیں ملی ہیں جنہوں نے اس زمانہ کے امام کو پہچانا اور ایمان لائے.پس آپ میں سے ہر ایک، پرانے احمدی بھی اور نئے شامل ہونے والے احمدی بھی ، اگر اپنی تعداد کو بڑھانا چاہتے ہیں، اپنے آپ کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو بہت درود پڑھیں.سمجھ کر پڑھیں ، دل کی گہرائیوں سے پڑھیں تا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں.خطبه جمعه فرموده ۱۲ مارچ ۱۹۹۹ء آج انشاء اللہ تعالیٰ آپ کا جلسہ بھی شروع ہو رہا ہے.ان تین دنوں میں بھی خاص طور پر اس طرف توجہ دیں اور بہت زیادہ درود پڑھیں تا کہ آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے کے فیض آپ کو ان تین دنوں میں بھی نظر آئیں.اس جلسہ میں شامل ہونے والوں کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بہت دعائیں کی ہیں.اللہ تعالیٰ ان تمام دعاؤں کو آپ سب کے حق میں قبول فرمائے اور آپ سب کو ان کا وارث کرے اور ہمیشہ اپنے فضلوں اور رحمتوں سے نوازتار ہے.آمین.
$2003 307 21 خطبات مس بنی نوع انسان سے ہمدردی بہت بڑی عبادت اور رضائے الہی کے حصول کا ذریعہ ہے ۱۲ ستمبر ۲۰۰۳ء بمطابق ۱۲ رتبوک ۱۳۸۲ هجری شمسی به مقام مسجد فضل لندن (برطانیہ) عام خلق اللہ کی ہمدردی نویس شرط بیعت کی پر حکمت تشریح یر کسی کی مدد کرتے ہوئے تحائف دیتے ہوئے دوسروں کی عزت نفس کا خیال رکھیں ، ذیلی تنظیمیں بھی توجہ کریں بیماروں کی عیادت ، دوسروں کی تکلیف کا خیال رکھنا اور معاف کرنا....یاد رکھو خدا تعالیٰ کے دو حکم ہیں اول یہ کہ اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور دوسرے نوع انسان سے ہمدردی کرو خدمت خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا جماعت احمدیہ کا خاصہ ہے احمدی ٹیچر، وکیل، ڈاکٹر ز اور دیگر ماہرین ،غریبوں اور ضرورت مندوں کے کام آئیں.اللہ تعالی آپ کے اموال ونفوس میں پہلے سے بڑھ کر برکت عطا فر مائے گا.انشاء اللہ
خطبات مس تشھد وتعوذ کے بعد فرمایا $2003 308 اسلام کی تعلیم ایک ایسی خوبصورت تعلیم ہے جس نے انسانی زندگی کا کوئی پہلو بھی ایسا نہیں چھوڑا جس سے یہ احساس ہو کہ اس تعلیم میں کوئی کمی رہ گئی ہے.تو اللہ تعالیٰ کے ان احسانوں کا تقاضا ہے کہ اس کے پیارے رسول ﷺ پر اتری ہوئی اس تعلیم کو اپنا کر اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں ،اپنے او پر لاگو کریں.اور ہم پر تو اور بھی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق اور غلام اور اس زمانے کے امام کی جماعت میں شامل ہوئے ہیں اور شامل ہونے کا دعویٰ ہے.تو اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی عبادت کرنے اور حقوق اللہ ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلاتے ہوئے ہمیں مختلف رشتوں اور تعلقوں کے حقوق کی ادائیگی کا بھی حکم فرمایا ہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے ہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے شرائط بیعت کی نویں شرط میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی ہمدردی اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا ذکر فرمایا ہے.تو یہ جو شرائط بیعت کا سلسلہ ہے اسی سلسلے کی آج نویں شرط کے بارہ میں کچھ کہوں گا.نویں شرط یہ ہے یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض اللہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے: ﴿ وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَمَى وَالْمَسْكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لاَ يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا ﴾ (النساء : ۳۷).اس کا ترجمہ یہ ہے: اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو
309 $2003 خطبات مسرور اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیر رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے.یقینا اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر (اور ) شیخی بگھارنے والا ہو.اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہ صرف اپنے بھائیوں ، عزیزوں، رشتہ داروں، اپنے جاننے والوں ، ہمسایوں سے حسن سلوک کرو، ان سے ہمدردی کرو اور اگر ان کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے تو اُن کی مدد کرو، ان کو جس حد تک فائدہ پہنچا سکتے ہو فائدہ پہنچاؤ بلکہ ایسے لوگ ایسے ہمسائے جن کو تم نہیں بھی جانتے تمہاری ان سے کوئی رشتہ داری یا تعلق داری بھی نہیں ہے جن کو تم عارضی طور پر ملے ہوان کو بھی اگر تمہاری ہمدردی اور تمہاری مدد کی ضرورت ہے، اگر ان کو تمہارے سے کچھ فائدہ پہنچ سکتا ہے تو ان کو ضرور فائدہ پہنچاؤ.اس سے اسلام کا ایک حسین معاشرہ قائم ہوگا.ہمدردی مخلق اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو فائدہ پہنچانے کا وصف اور خوبی اپنے اندر پیدا کر لو گے اور اس خیال سے کر لو گے کہ یہ نیکی سے بڑھ کر احسان کے زمرے میں آتی ہے اور احسان تو اس نیت سے نہیں کیا جاتا کہ مجھے اس کا کوئی بدلہ ملے گا.احسان تو انسان خالصتا اللہ تعالیٰ کی خاطر کرتا ہے.تو پھر ایسا حسین معاشرہ قائم ہو جائے گا جس میں نہ خاوند بیوی کا جھگڑا ہوگا، نہ ساس بہو کا جھگڑا ہوگا، نہ بھائی بھائی کا جھگڑا ا ہوگا، نہ ہمسائے کا ہمسائے سے کوئی جھگڑا ہوگا، ہر فریق دوسرے فریق کے ساتھ احسان کا سلوک کر رہا ہوگا اور اس کے حقوق اسی جذبہ سے ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہوگا.اور خالصتا اللہ تعالیٰ کی محبت ، اس کا پیار حاصل کرنے کے لئے ، اس پر عمل کر رہا ہو گا.آج کل کے معاشرہ میں تو اس کی اور بھی بہت زیادہ ضرورت ہے.اگر یہ باتیں نہیں کرو گے، فرمایا: پھر متکبر کہلاؤ گے اور تکبر کو اللہ تعالیٰ نے پسند نہیں کیا.تکبر ایک ایسی بیماری ہے جس سے تمام فسادوں کی ابتدا ہوتی ہے.شرط میں اس بارہ میں تفصیل سے پہلے ہی ذکر آچکا ہے اس لئے یہاں تکبر کے بارہ میں تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں.خلاصہ یہ ہے کہ ہمدردی مخلق کرو تا کہ اللہ تعالیٰ کی نظروں میں پسندیدہ بنو اور دونوں جہانوں کی فلاح حاصل کرو.پھر اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِيْنًا
$2003 310 خطبات مسرور وَيَتِيما و اسيرا﴾ (سورة الدهر : 9).اور وہ کھانے کو،اس کی چاہت کے ہوتے ہوئے ، مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھلاتے ہیں.اس کا ایک تو یہ مطلب ہے کہ باوجود اس کے کہ ان کو اپنی ضروریات ہوتی ہیں وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لئے ضرورتمندوں کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں، آپ بھوکے رہتے ہیں اور ان کو کھلاتے ہیں.تھر دلی کا مظاہرہ نہیں کرتے کہ جو دے رہے ہیں وہ اس کو جس کو دیا جا رہا ہے اس کی ضرورت بھی پوری نہ کر سکے، اس کی بھوک بھی نہ مٹا سکے.بلکہ جس حد تک ممکن ہو مدد کرتے ہیں اور یہ سب کچھ نیکی کمانے کے لئے کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کرتے ہیں.کسی قسم کا احسان جتانے کے لئے نہیں کرتے.اور اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ وہ چیز دیتے ہیں جس کی ان کو ضرورت ہے یعنی اس دینے والے کو جس کی ضرورت ہے جس کو وہ خود اپنے لئے پسند کرتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ ذہن میں رکھتے ہیں کہ اللہ کی خاطر وہی دوجس کو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو.یہ نہیں کہ جس طرح بعض لوگ اپنے کسی ضرورتمند بھائی کی مددکرتے ہیں تو احسان جتا کے کر رہے ہوتے ہیں.بلکہ بعض تو ایسی عجیب فطرت کے ہیں کہ تحفے بھی اگر دیتے ہیں تو اپنی استعمال شدہ چیزوں میں سے دیتے ہیں یا پہنے ہوئے کپڑوں کے دیتے ہیں.تو ایسے لوگوں کو اپنے بھائیوں، بہنوں کی عزت کا خیال رکھنا چاہئے.بہتر ہے کہ اگر توفیق نہیں ہے تو تحفہ نہ دیں یا یہ بتا کر دیں کہ یہ میری استعمال شدہ چیز ہے اگر پسند کرو تو دوں.پھر بعض لوگ لکھتے ہیں کہ ہم غریب بچیوں کی شادیوں کے لئے اچھے کپڑے دینا چاہتے ہیں جو ہم نے ایک آدھ دن پہنے ہوئے ہیں.اور پھر چھوٹے ہو گئے یا کسی وجہ سے استعمال نہیں کر سکے.تو اس کے بارہ میں واضح ہو کہ چاہے ایسی چیزیں ذیلی تنظیموں، لجنہ وغیرہ کے ذریعہ یا خدام الاحمدیہ کے ذریعہ ہی دی جارہی ہوں یا انفردی طور پر دی جارہی ہوں تو ان ذیلی تنظیموں کو بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اگر ایسے لوگ چیزیں دیں تو غریبوں کی عزت کا خیال رکھیں اور اس طرح ، اس شکل میں دیں کہ اگر وہ چیز دینے کے قابل ہے تو دی جائے.یہ نہیں کہ ایسی اترن جو بالکل ہی نا قابل استعمال ہو وہ دی جائے.داغ لگے ہوں، پسینے کی بو آرہی ہو کپڑوں میں سے.تو غریب کی بھی ایک عزت ہے اس کا بھی خیال رکھنا چاہئے.اور ایسے کپڑے اگر دئے جائیں تو صاف کروا کر ، دھلا کر ، ٹھیک کروا کر ، پھر دئے جائیں.اور جیسا کہ میں
311 $2003 خطبات مسرور نے پہلے کہا ہماری ذیلی تنظیمیں بھی ، لجنہ وغیرہ بھی دیتی ہیں کپڑے تو جن لوگوں کو یہ چیز میں دینی ہوں ان پر یہ واضح کیا جانا چاہئے کہ یہ استعمال شدہ چیزیں ہیں تا کہ جولے اپنی خوشی سے لے.ہر ایک کی عزت نفس ہے، میں نے جیسے پہلے بھی عرض کیا ہے اس کا بہت خیال رکھنے کی ضرورت ہے اور بہت خیال رکھنا چاہئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِيْنًا وَيَتِيْمًا و اسیرا کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وو یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ نیکی کو بہت پسند کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق سے ہمدردی کی جاوے.اگر وہ بدی کو پسند کرتا تو بدی کی تاکید کرتا مگر اللہ تعالیٰ کی شان اس سے پاک ہے سبحانہ تعالیٰ شانہ.پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو.یاد رکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو ہمدردی کرو اور بلا تمیز ہر ایک سے نیکی کرو کیونکہ یہی قرآن شریف کی تعلیم ہے.وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِيْنًا وَيَتِيْمًا وَّاسِيْرًا﴾ (الدھر: 9) وہ اسیر اور قیدی جو آتے تھے اکثر کفار ہی ہوتے تھے.اب دیکھ لو کہ اسلام کی ہمدردی کی انتہا کیا ہے.میری رائے میں کامل اخلاقی تعلیم بجز اسلام کے اور کسی کو نصیب ہی نہیں ہوئی.مجھے صحت ہو جاوے تو میں اخلاقی تعلیم پر ایک مستقل رسالہ لکھوں گا کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ جو کچھ میرانشا ہے وہ ظاہر ہو جاوے اور وہ میری جماعت کے لئے ایک کامل تعلیم ہو اور ابتغاء مرضات اللہ کی راہیں اس میں دکھائی جائیں.مجھے بہت ہی رنج ہوتا ہے جب میں آئے دن یہ دیکھتا اور سنتا ہوں کہ کسی سے یہ سرزد ہوا اور کسی سے وہ.میری طبیعت ان باتوں سے خوش نہیں ہوتی.میں جماعت کو ابھی اس بچہ کی طرح پاتا ہوں جو دو قدم اٹھاتا ہے تو چار قدم گرتا ہے.لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس جماعت کو کامل کر دے گا.اس لیے تم بھی کوشش، تدبیر مجاہدہ اور دعاؤں میں لگے رہو کہ خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے کیونکہ اس کے فضل کے بغیر کچھ بنتا ہی نہیں.جب اس کا فضل ہوتا ہے تو وہ ساری راہیں کھول دیتا ہے.“ (الحكم ٢٤ جنوری ۱۹۰۵، ملفوظات جلدچهارم صفحه ۲۱۸ - ۲۱۹) اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قوت قدسی سے اور آپ کی تعلیم پر عمل کرنے سے بہت سی بیماریاں جن کا آپ کو اس وقت فکر تھا جماعت میں ختم ہوگئی
$2003 312 خطبات مسرور تھیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بہت بڑا حصہ ان سے بالکل پاک تھا اور ہے لیکن جوں جوں ہم اُس وقت اُس زمانے سے دور ہٹتے جارہے ہیں، معاشرے کی بعض برائیوں کے ساتھ شیطان حملے کرتا رہتا ہے اس لئے جس فکر کا اظہار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے آپ کی تعلیم کے مطابق ہی کوشش، تدبیر اور دعا سے اللہ تعالیٰ کا فضل ما نگتے ہوئے ان برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو ہمیشہ کامل رکھے.اس میں اس بارہ میں چند احادیث پیش کرتا ہوں.حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ اللہ نے فرمایا : کہ اللہ عز وجل قیامت کے روز فرمائے گا اے ابن آدم ! میں بیمار تھا تو نے میری عیادت نہیں کی.بندہ کہے گا.اے میرے پتہ رب! میں تیری عیادت کیسے کرتا جبکہ تو ساری دنیا کا پروردگار ہے.اللہ تعالیٰ فرمائے گا.کیا تجھے پے نہیں چلا کہ میر افلاں بندہ بیمار تھا تو تو نے اس کی عیادت نہیں کی تھی.کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ اگر تم اس کی عیادت کرتے تو مجھے اس کے پاس پاتے.اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تو تو نے مجھے کھانا نہیں دیا.اس پر ابن آدم کہے گا.اے میرے رب ! میں تجھے کیسے کھانا کھلا تا جب کہ تو تو رب العالمین ہے.اللہ تعالیٰ فرمائے گا.تجھے یاد نہیں کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے کھانا مانگا تھا تو تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا تھا.کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ اگر تم اسے کھانا کھلاتے تو تم میرے حضور اس کا اجر پاتے.اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا مگر تو نے مجھے پانی نہیں پلایا تھا.ابن آدم کہے گا.اے میرے رب ! میں تجھے کیسے پانی پلاتا جب کہ تو ہی سارے جہانوں کا رب ہے.اس پر اللہ تعالی فرمائے گا.تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تھا.مگر تم نے اسے پانی نہ پلایا.اگر تم اس کو پانی پلاتے تو اس کا اجر میرے حضور پاتے.(مسلم) كتاب البر والصلة باب فضل عيادة المريض) پھر روایت ہے.حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ نے فرمایا تمام مخلوقات اللہ کی عیال ہے.پس اللہ تعالیٰ کو اپنے مخلوقات میں سے وہ شخص بہت پسند ہے جو اس کے عیال (مخلوق) کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے.(مشكوة باب الشفقة والرحمة على الخلق
خطبات مسرور 313 $2003 پھر ایک روایت آتی ہے حضرت علی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں.نمبر ا: جب وہ اسے ملے تو اسے السلام علیکم کہے.نمبر ۲: جب وہ چھینک مارے تو یرحمک اللہ کہے.نمبر ۳.جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے.اور بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بڑی اچھی عادت ہوتی ہے کہ خود جا کر خیال رکھتے ہوئے ہسپتالوں میں جاتے ہیں اور مریضوں کی عیادت کرتے ہیں خواہ واقف ہوں یا نہ واقف ہوں.ان کے لئے پھل لے جاتے ہیں، پھول لے جاتے ہیں.تو یہ طریقہ بڑا اچھا ہے خدمت خلق کا.نمبر ۴ : جب وہ اس کو بلائے تو اس کی بات کا جواب دے.نمبر ۵:.جب وہ وفات پا جائے تو اس کے جنازہ پر آئے.اور نمبر 4 : اور اس کے لئے وہ پسند کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے.اور اس کی غیر حاضری میں بھی وہ اس کی خیر خواہی کرے.فرمایا: (سنن دارمی، کتاب الاستیذان باب فی حق المسلم على المسلم) پھر روایت ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ اللہ نے ایک دوسرے سے حسد نہ کرو.ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لیے بڑھ چڑھ کر بھاؤ نہ بڑھاؤ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے پیٹھ نہ موڑ و یعنی بے تعلقی کا روبہ اختیار نہ کرو.ایک دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے (اور ) آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو.مسلمان اپنے بھائی پر ظلم نہیں کرتا.اس کی تحقیر نہیں کرتا.اس کو شرمندہ یا رسوا نہیں کرتا.آپ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تقویٰ یہاں ہے.یہ الفاظ آپ نے تین دفعہ دہرائے ، پھر فرمایا: انسان کی بدبختی کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقارت کی نظر سے دیکھے.ہر مسلمان کا خون ، مال اور عزت و آبرو دوسرے مسلمان پر حرام اور اس کے لئے واجب الاحترام ہے.(مسلم، كتاب البر والصلة باب تحريم ظلم المسلم و خذله)
خطبات مسرور 314 $2003 پھر روایت آتی ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیا وی بے چینی اور تکلیف کو دور کیا.اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی بے چینیوں اور تکلیفوں کو اس سے دور کرے گا.اور جس شخص نے کسی تنگدست کو آرام پہنچایا اور اس کے لئے آسانی مہیا کی اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کے لئے آسانیاں مہیا کرے گا.جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا.اللہ تعالیٰ اس بندے کی مدد پر تیار رہتا ہے جو اپنے بھائی کی مدد کے لئے تیار ہو.جو شخص علم کی تلاش میں نکلتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے.جو لوگ اللہ تعالیٰ کے گھروں میں سے کسی گھر میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی کتاب کو پڑھتے ہیں اور اس کے درس و تدریس میں لگے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر سکینت اور اطمینان نازل کرتا ہے.اللہ تعالیٰ کی رحمت ان کو ڈھانپے رکھتی ہے، فرشتے ان کو گھیرے رکھتے ہیں.اپنے مقربین میں اللہ تعالیٰ ان کا ذکر کرتا رہتا ہے.جو شخص عمل میں ست رہے اس کا نسب اور خاندان اس کو تیز نہیں بنا سکتا.یعنی وہ خاندانی بل بوتے پر جنت میں نہیں جاسکے گا.(مسلم کتاب الذكر باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن وعلى الذكر) تو اس میں شروع میں جو بیان کیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ لوگوں کے حقوق کا خیال اور یہ کہ تم اپنے بھائیوں کی بے چینیوں اور تکلیفوں کو دور کرو اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسی شفقت کا سلوک تم سے کرے گا اور تمہاری بے چینیوں اور تکلیفوں کو دور کرے گا.آنحضرت ﷺ کا ہم پر یہ احسان ہے.فرمایا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنی مغفرت کی چادر میں تمہیں ڈھانپ لے تو بے چین، تکلیف زدہ اور تنگدستوں کو جس حد تک تم آرام پہنچا سکتے ہو، آرام پہنچاؤ تو اللہ تعالیٰ تم سے شفقت کا سلوک کرے گا.اپنے بھائیوں کی پردہ پوشی کرو، ان کی غلطی کو پکڑ کر اس کا اعلان نہ کرتے پھرو.پتہ نہیں تم میں کتنی کمزوریاں ہیں اور عیب ہیں جن کا حساب روز آخر دینا ہوگا.تو اگر اس دنیا میں تم نے اپنے بھائیوں کی عیب پوشی کی ہوگی ، ان کی غلطیوں کو دیکھ کر اس کا چرچا کرنے کی بجائے اس کا ہمدرد بن کر اس کو سمجھانے کی کوشش کی ہوگی تو اللہ تعالیٰ تم سے بھی پردہ پوشی کا سلوک کرے گا.تو یہ حقوق العباد ہیں جن کو تم ادا کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ٹھہرو گے.پھر حدیث میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے
$2003 315 خطبات مسرور فرمایا: صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی.اور جو شخص دوسرے کے قصور معاف کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اور عزت دیتا ہے اور کسی کے قصور معاف کر دینے سے کوئی بے عزتی نہیں ہوتی.(مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه (۲۳۵ صلى الله پھر روایت ہے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: رحم کرنے والوں پر رحمان خدا رحم کرے گا.تم اہل زمین پر رحم کرو.آسمان والا تم پر رحم کرے گا.(ابوداؤد كتاب الادب باب فى الرحمة ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:- اس بات کو بھی خوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے دو حکم ہیں.اول یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نہ اس کی ذات میں نہ صفات میں نہ عبادات میں.اور دوسرے نوع انسان سے ہمدردی کرو اور احسان سے یہ مراد نہیں کہ اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں ہی سے کرو بلکہ کوئی ہو.آدم زاد ہو اور خدا تعالیٰ کی مخلوق میں کوئی بھی ہو.مت خیال کرو کہ وہ ہندو ہے یا عیسائی.میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا انصاف اپنے ہاتھ میں لیا ہے، وہ نہیں چاہتا کہ تم خود کرو.جس قد رنرمی تم اختیار کرو گے اور جس قدر فروتنی اور تواضع کرو گے اللہ تعالیٰ اسی قدرتم سے خوش ہوگا.اپنے دشمنوں کو تم خدا تعالیٰ کے حوالے کرو.قیامت نزدیک ہے تمہیں ان تکلیفوں سے جو دشمن تمہیں دیتے ہیں گھبرانا نہیں چاہئے.میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تم کو ان سے بہت دکھ اٹھانا پڑے گا کیونکہ جولوگ دائرہ تہذیب سے باہر ہو جاتے ہیں ان کی زبان ایسی چلتی ہے جیسے کوئی پل ٹوٹ جاوے تو ایک سیلاب پھوٹ نکلتا ہے.پس دیندار کو چاہئے کہ اپنی زبان کو سنبھال کر رکھے.“ (الحكم ٢٤ / جنوری ۱۹۰۷ ، ملفوظات جلد ٥ ـ صفحه ۱۳۰) پھر فرماتے ہیں: یا درکھو حقوق کی دو قسمیں ہیں.ایک حق اللہ دوسرے حق العباد حق اللہ میں بھی امراء کو وقت پیش آتی ہے اور تکبر اور خود پسندی ان کو محروم کر دیتی ہے مثلاً نماز کے وقت ایک غریب کے پاس کھڑا ہونا بر امعلوم ہوتا ہے.اُن کو اپنے پاس بٹھا نہیں سکتے اور اس طرح پر وہ حق اللہ سے محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ مساجد تو دراصل بیت المساکین ہوتی ہیں.اور وہ ان میں جانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں اور اسی طرح وہ حق العباد میں خاص خاص خدمتوں میں حصہ نہیں لے سکتے.غریب آدمی تو
$2003 316 خطبات مسرور ہر ایک قسم کی خدمت کے لئے تیار رہتا ہے.وہ پاؤں دبا سکتا ہے.پانی لاسکتا ہے.کپڑے دھوسکتا ہے یہاں تک کہ اُس کو اگر نجاست پھینکنے کا موقعہ ملے تو اس میں بھی اُسے دریغ نہیں ہوتا لیکن امراء ایسے کاموں میں جنگ و عار سمجھتے ہیں اور اس طرح پر اس سے بھی محروم رہتے ہیں.غرض امارت بھی بہت سی نیکیوں کے حاصل کرنے سے روک دیتی ہے.یہی وجہ ہے جو حدیث میں آیا ہے کہ مساکین پانچ سو برس اول جنت میں جائیں گے.“ فرماتے ہیں: 66 ( الحكم ۱۷ جولائی ۱۹۰۳ ، ملفوظات جلد.سوم صفحه ٣٦٨ ) پس مخلوق کی ہمدردی ایک ایسی شئے ہے کہ اگر انسان اسے چھوڑ دے اور اس سے دور ہوتا جاوے تو رفتہ رفتہ پھر وہ درندہ ہو جاتا ہے.انسان کی انسانیت کا یہی تقاضا ہے اور وہ اسی وقت تک انسان ہے.جب تک اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ مروت، سلوک اور احسان سے کام لیتا ہے اور اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے“.فرمایا : یاد رکھو ہمدردی کا دائرہ میرے نزدیک بہت وسیع ہے.کسی قوم اور فرد کو الگ نہ کرے.میں آج کل کے جاہلوں کی طرح یہ نہیں کہنا چاہتا کہ تم اپنی ہمدردی کو صرف مسلمانوں سے ہی مخصوص کرو.نہیں.میں کہتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کی ساری مخلوق سے ہمدردی کرو.خواہ وہ کوئی ہو.ہندو ہو یا مسلمان یا کوئی اور.میں کبھی ایسے لوگوں کی باتیں پسند نہیں کرتا جو ہمدردی کو صرف اپنی ہی قوم سے مخصوص کرنا چاہتے ہیں“.فرماتے ہیں:- غرض نوع انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ ایک زبر دست ذریعہ ہے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس پہلو میں بڑی کمزوری ظاہر کی جاتی ہے.دوسروں کو حقیر سمجھا جاتا ہے.ان پر ٹھٹھے کیسے جاتے ہیں.ان کی خبر گیری کرنا اور کسی مصیبت اور مشکل میں مدد دینا تو بڑی بات ہے.جولوگ غرباء کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش نہیں آتے بلکہ ان کو حقیر سمجھتے ہیں.مجھے ڈر ہے کہ وہ خود اس مصیبت میں مبتلا نہ ہو جاویں.اللہ تعالیٰ نے جن پر فضل کیا ہے اس کی شکر گزاری یہی ہے کہ اس کی مخلوق کے ساتھ احسان اور سلوک
$2003 317 خطبات مسرور کریں.اور اس خدا داد فضل پر تکبر نہ کریں اور وحشیوں کی طرح غرباء کو کچل نہ ڈالیں.“ (الحكم ۱۰ نومبر ۱۹۰۵ء، ملفوظات جلد چهارم صفحه (۴۳۹ آپ فرماتے ہیں :- قرآن شریف نے جس قدر والدین اور اولاد اور دیگر اقارب اور مساکین کے حقوق بیان کئے ہیں.میں نہیں خیال کرتا کہ وہ حقوق کسی اور کتاب میں لکھے گئے ہوں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَّ بِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتمى وَالْمَسْكِينِ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالاً فَخُورًا.(سورة النساء: ۳۷) تم خدا کی پرستش کرو اور اُس کے ساتھ کسی کو مت شریک ٹھیر اؤ اور اپنے ماں باپ سے احسان کرو اور اُن سے بھی احسان کرو جو تمہارے قرابتی ہیں (اس فقرہ میں اولاد اور بھائی اور قریب اور دور کے تمام رشتہ دار آگئے ) اور پھر فرمایا کہ تیموں کے ساتھ بھی احسان کرو اور مسکینوں کے ساتھ بھی اور جو ایسے ہمسایہ ہوں جو قرابت والے بھی ہوں اور ایسے ہمسایہ ہوں جو محض اجنبی ہوں اور ایسے رفیق بھی جو کسی کام میں شریک ہوں یا کسی سفر میں شریک ہوں یا نماز میں شریک ہوں یا علم دین حاصل کرنے میں شریک ہوں اور وہ لوگ جو مسافر ہیں اور وہ تمام جاندار جو تمہارے قبضہ میں ہیں سب کے ساتھ احسان کرو.خدا ایسے شخص کو دوست نہیں رکھتا جو تکبر کرنے والا اور شیخی مارنے والا ہو جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا.“ چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۰۸- ۲۰۹) حضرت خلیفتہ امسیح الا ول اس بارہ میں فرماتے ہیں: منشاء یہ ہو کہ اس لئے کھانا پہنچاتے ہیں کہ اِنا نَخَافُ مِنْ رَّبَّنَا يَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِيرًا (الدھر: ۱۱) کہ ہم اپنے رب سے ایک دن سے جو عبوس اور قمطر میر ہے ڈرتے ہیں.عبوستنگی کو کہتے ہیں تمطر نیز دراز یعنی لمبے کو.یعنی قیامت کا دن تنگی کا ہوگا اور لمبا ہوگا.بھوکوں کی مدد کرنے سے خدا تعالیٰ قحط کی تنگی اور درازی سے بھی نجات دے دیتا ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے ﴿فَوَقهُمُ اللهُ شَرَّ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَلَقَهُمْ نَضْرَةً وَّسُرُوْرًا ﴾ (الدھر : ۱۲ ) خدا تعالیٰ اس دن کے شر سے بچالیتا ہے اور یہ بچانا بھی سرور اور تازگی سے ہوتا ہے.
خطبات مسرور 318 $2003 میں پھر کہتا ہوں کہ یاد رکھو آج کل کے ایام میں مسکینوں اور بھوکوں کی مدد کرنے سے قحط سالی کے ایام کی تنکیوں سے بچ جاؤ گے.خدا تعالیٰ مجھے کو اور تم کو توفیق دے کہ جس طرح ظاہری عزتوں کے لئے کوشش کرتے ہیں ابدالا باد کی عزت اور راحت کی بھی کوشش کریں.آمین (حقائق الفرقان جلد ٤ صفحه ۲۹۰ - ۲۹۱) تو یہ جماعت احمدیہ کا ہی خاصہ ہے کہ جس حد تک توفیق ہے خدمت خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے اور جو وسائل میسر ہیں ان کے اندر رہ کر جتنی خدمت خلق اور خدمت انسانیت ہو سکتی ہے کرتے ہیں، انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی.تو احباب جماعت کو جس حد تک توفیق ہے بھوک مٹانے کے لئے، غریبوں کے علاج کے لئے تعلیمی امداد کے لئے ،غریبوں کی شادیوں کے لئے ، جماعتی نظام کے تحت مدد میں شامل ہو کر بھی عہد بیعت کو نبھاتے بھی ہیں اور نبھانا چاہئے بھی.اللہ کرے ہم کبھی ان قوموں اور حکومتوں کی طرح نہ ہوں جو اپنی زائد پیداوار ضائع تو کر دیتی ہیں لیکن دُکھی انسانیت کے لئے صرف اس لئے خرچ نہیں کرتیں کہ ان سے ان کے سیاسی مقاصد اور مفادات وابستہ نہیں ہوتے یا وہ مکمل طور پر ان کی ہر بات ماننے اور ان کی Dictation لینے پر تیار نہیں ہوتے.اور سزا کے طور پر ان قوموں کو بھوکا اور ننگا رکھا جا رہا ہے اور ننگا رکھا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو پہلے سے بڑھ کر خدمت انسانیت کی تو فق عطا فرمائے.یہاں ایک اور بات بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جماعتی سطح پر یہ خدمت انسانیت حسب توفیق ہو رہی ہے.مخلصین جماعت کو خدمت خلق کی غرض سے اللہ تعالیٰ تو فیق دیتا ہے ، وہ بڑی بڑی رقوم بھی دیتے ہیں جن سے خدمت انسانیت کی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے افریقہ میں بھی اور ربوہ اور قادیان میں بھی واقفین ڈاکٹر اور اساتذہ خدمت بجالا رہے ہیں.لیکن میں ہر احمدی ڈاکٹر ، ہر احمدی ٹیچر اور ہر احمدی وکیل اور ہر وہ احمدی جو اپنے پیشے کے لحاظ سے کسی بھی رنگ میں خدمت انسا نیت کر سکتا ہے، غریبوں اور ضرورتمندوں کے کام آسکتا ہے، ان سے یہ کہتا ہوں کہ وہ ضرور غریبوں اور ضرورتمندوں کے کام آنے کی کوشش کریں.تو اللہ تعالیٰ آپ کے اموال ونفوس میں پہلے سے بڑھ کر برکت عطا فرمائے گا انشاء اللہ.اگر آپ سب اس نیت سے یہ خدمت سرانجام دے رہے ہوں کہ ہم نے زمانے کے امام کے ساتھ ایک عہد بیعت باندھا ہے جس کو پورا کرنا ہم پر فرض ہے تو
خطبات مسرور 319 $2003 پھر دیکھیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور برکتوں کی کس قدر بارش ہوتی ہے جس کو آپ سنبھال بھی نہیں سکیں گے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں: بنی نوع انسان کی ہمدری خصوصاً اپنے بھائیوں کی ہمدردی اور حمایت پر نصیحت کرتے ہوئے ایک موقعہ پر فرمایا تھا کہ میری تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو درد ہوتا ہو اور میں نماز میں مصروف ہوں.میرے کان میں اس کی آواز پہنچ جاوے تو میں یہ چاہتا ہوں کہ نماز توڑ کر بھی اگر اس کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں تو فائدہ پہنچاؤں اور جہاں تک ممکن ہے اس سے ہمدردی کروں.یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھائی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جاوے.اگر تم کچھ بھی اس کے لئے نہیں کر سکتے تو کم از کم دعا ہی کرو.اپنے تو درکنار، میں تو کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندوؤں کے ساتھ بھی ایسے اخلاق کا نمونہ دکھاؤ اور ان سے ہمدردی کرو.لا ابالی مزاج ہرگز نہیں ہونا چاہئے.ایک مرتبہ میں باہر سیر کو جارہا تھا.ایک پٹواری عبدالکریم میرے ساتھ تھا.وہ ذرا آگے تھا اور میں پیچھے.راستہ میں ایک بڑھیا کوئی ۷۰ یا ۷۵ برس کی ضعیفہ ملی.اس نے ایک خط اسے پڑھنے کو کہا مگر اس نے اسے جھڑ کیاں دے کر ہٹا دیا.میرے دل پر چوٹ سی لگی.اس نے وہ خط مجھے دیا.میں اس کو لے کر ٹھہر گیا اور اس کو پڑھ کر اچھی طرح سمجھا دیا.اس پر اسے سخت شرمندہ ہونا پڑا.کیونکہ ٹھہر نا تو پڑا اور ثواب سے بھی محروم رہا.(الحکم ۱۰ اگست ٩٠٤ ، ملفوظات جلد چهارم صفحه (۸۳۸۲ فرماتے ہیں: ”اس کے بندوں پر رحم کرو اور ان پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو.اور کسی پر تکبر نہ کر وگو اپنا ما تحت ہو.اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو.غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ..بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو نہ ان کی تحقیر اور عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرو نہ خود نمائی سے ان کی تذلیل.اور امیر ہو کر غریبوں کی خدمت کرو، نہ خود پسندی سے ان پر تکبر.ہلاکت کی راہوں سے ڈرو.“ (کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۱-۱۲) پھر فرمایا:
$2003 320 خطبات مسرور لوگ تمہیں دُکھ دیں گے اور ہر طرح سے تکلیف پہنچائیں گے.مگر ہماری جماعت کے لوگ جوش نہ دکھا ئیں.جوش نفس سے دل دُکھانے والے الفاظ استعمال نہ کرو اللہ تعالیٰ کو ایسے لوگ پسند نہیں ہوتے.ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ ایک نمونہ بنانا چاہتا ہے.“ آپ مزید فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ متقی کو پیار کرتا ہے.خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے سب ترساں رہو اور یا درکھو کہ سب اللہ کے بندے ہیں.کسی پر ظلم نہ کرو.نہ تیزی کرو.نہ کسی کو حقارت سے دیکھو جماعت میں اگر ایک آدمی گندہ ہوتا ہے تو وہ سب کو گندہ کر دیتا ہے.اگر حرارت کی طرف تمہاری طبیعت کا میلان ہو تو پھر اپنے دل کو ٹو لو کہ یہ حرارت کس چشمہ سے نکلی ہے.یہ مقام بہت نازک ہے.“ فرمایا:- (بدر نومبر ۱۹۱۱ء، ملفوظات جلد نمبر ۱ صفحه (۸-۹ ایسے بنو کہ تمہارا صدق اور وفا اور سوز و گداز آسمان پر پہنچ جاوے.خدا تعالیٰ ایسے شخص کی حفاظت کرتا اور اس کو برکت دیتا ہے جس کو دیکھتا ہے کہ اس کا سینہ صدق اور محبت سے بھرا ہوا ہے.وہ دلوں پر نظر ڈالتا اور جھانکتا ہے نہ کہ ظاہری قیل وقال پر.جس کا دل ہر قسم کے گند اور ناپاکی سے معرا اور مبر اپاتا ہے ،اس میں آاُترتا ہے اور اپنا گھر بناتا ہے.فرمایا:- (الحكم ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ء، ملفوظات جلد سوم صفحه ۱۸۱) دومیں پھر کہتا ہوں کہ جو لوگ نافع الناس ہیں اور ایمان،صدق و وفا میں کامل ہیں، وہ یقیناً بچالئے جائیں گے.پس تم اپنے اندر یہ خوبیاں پیدا کرو“.فرمایا:- (الحكم ۱۷ دسمبر ١٩٠٤ء، ملفوظات جلد چهارم - صفحه ١٨٤) تم اُس کی جناب میں قبول نہیں ہو سکتے جب تک ظاہر و باطن ایک نہ ہو.بڑے ہوکر چھوٹوں پر رحم کرو، نہ اُن کی تحقیر.اور عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرو، نہ خود نمائی سے اُن کی تذلیل.اور امیر ہوکر غریبوں کی خدمت کرو، نہ خود پسندی سے اُن پر تکبر.ہلاکت کی راہوں سے ڈرو.خدا سے ڈرتے رہو اور تقویٰ اختیار کرو.کیا ہی بد قسمت وہ شخص ہے جو ان باتوں کو نہیں مانتا جو خدا
321 $2003 خطبات مسرور کے منہ سے نکلیں اور میں نے بیان کیں.تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو تم باہم ایسے ایک ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی.تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے.اور بد بخت ہے وہ جوضد کرتا ہے اور نہیں بخشا.“ فرمایا: 19 (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹.صفحه ۱۲ تا ۱۳) در اصل خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرنا بہت ہی بڑی بات ہے اور خدا تعالیٰ اس کو بہت پسند کرتا ہے.اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ وہ اس سے اپنی ہمدردی ظاہر کرتا ہے.عام طور پر دنیا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کا خادم کسی اس کے دوست کے پاس جاوے اور وہ شخص اس کی خبر بھی نہ لے تو کیا وہ آقا جس کا کہ وہ خادم ہے اس اپنے دوست سے خوش ہوگا ؟ کبھی نہیں.حالانکہ اس کو تو کوئی تکلیف اس نے نہیں دی، مگر نہیں.اس نوکر کی خدمت اور اس کے ساتھ حُسنِ سلوک گویا مالک کے ساتھ حسن سلوک ہے.خدا تعالیٰ کو بھی اس طرح پر اس بات کی چڑ ہے کہ کوئی اس کی مخلوق سے سرد مہری برتے کیونکہ اس کو اپنی مخلوق بہت پیاری ہے.پس جو شخص خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے وہ گویا اپنے خدا کو راضی کرتا ہے.“ (الحكم ٢٤ جنوری ١٩٠٥، ملفوظات جلد چهارم صفحه ٢١۵ تا ٢١٦ ـ جدید ایڈیشن) اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان نصائح پر عمل کرنے کی توفیق دے.اور آپ سے جو عہد بیعت ہم نے باندھا ہے اس کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آخر میں میں جماعت احمد یہ جرمنی میں کام کرنے والے کارکنان کے بارہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.جرمنی میں خطبہ کے دوران میں کسی وجہ سے کہہ نہیں سکا تھا.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام کارکنان اور کارکنات نے انتہائی جوش اور جذبے سے مہمانوں کی خدمت کی ہے.اور جلسے کے ابتدائی انتظامات میں بھی اور آخر میں بھی جب کہ کام سمیٹنا ہوتا ہے اور کافی مشکل کام ہوتا ہے یہ بھی.بڑی محنت سے وقت کے اندر بلکہ وقت سے پہلے تمام علاقے کو صاف کر کے متعلقہ انتظامیہ کے سپر د کر دیا اور الحمدللہ کہ جہاں جہاں بھی جلسے ہوئے یہی نظارے دیکھنے میں نظر آرہے ہیں اور سب سے زیادہ خوشکن بات جو مجھے لگی اس جلسہ میں وہ یہ تھی کہ اس سال لجنہ کی خواتین کی حاضری مردوں سے زیادہ تھی اور کم و بیش دو
خطبات مسرور 322 $2003 ہزار عورتیں مردوں کی نسبت تعداد میں زیادہ تھیں تو اس سے یہ تسلی بھی ہوئی کہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کی آئندہ نسلیں بھی خلافت اور جماعت سے محبت اور وفا کا تعلق لے کر پروان چڑھیں گی.انشاء اللہ اللہ تعالیٰ تمام عہدیداران ، کارکنان اور شاملین جلسہ کے اموال ونفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے اور خلافت سے وفا اور تعلق بڑھاتا رہے اور اپنی جناب سے ان کو اجر دے.اسی طرح فرانس کا جلسہ بھی اپنے لحاظ سے الحمدللہ بہت کامیاب تھا.یہاں کے کارکنان بھی شکریہ کے مستحق ہیں اور یہاں کے جلسے کی جو سب سے بڑی خوبی تھی وہ یہ ہے کہ یہاں کافی بڑی تعداد ایسی ہے جو غیر پاکستانی احمدیوں کی ہے جن میں افریقہ، الجیریا، مراکو، فلپائن وغیرہ کے لوگ شامل ہیں اور سب نے اسی جوش و جذبہ سے ڈیوٹیاں ادا کی ہیں اور بڑی خوش اسلوبی سے ادا کی ہیں اور اس طرح ادا کرتے رہے جس طرح بڑے پرانے اور ایک عرصہ سے تربیت یافتہ ہوں.اللہ تعالیٰ ان کے ایمان و اخلاص میں برکت عطا فرمائے.ان لوگوں کی بھی خلافت اور جماعت سے محبت نا قابل بیان ہے.اللہ تعالیٰ اس کو بڑھاتا رہے اور ثبات قدم عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس جلسہ کے دوران دس سعید روحوں کو جماعت میں شامل ہونے کی توفیق بھی ملی.اللہ تعالیٰ ان کو ثابت قدم رکھے.احباب جماعت ان دونوں جگہوں یعنی جرمنی اور فرانس کی جماعتوں کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.اللہ تعالیٰ ان کو بھی اور ہم سب کو بھی عہد بیعت نبھانے کی توفیق عطا فرمائے.
$2003 323 22 خطبات مس حضرت مسیح موعود سے رشتہ اخوت اور اطاعت قائم کرنا بیعت کی شرط ہے ۱ ۱۹ر ستمبر ۲۰۰۳ء بمطابق ۱۹ر تبوک ۱۳۸۲ هجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن حضرت مسیح موعود سے رشتہ اخوت واطاعت قائم کرنا...بیعت کی آخری شرط ہی خلیفہ وقت کے احکامات کی ہدایات کی پیروی کرنا تمہارا کام ہے اور یہ تعلق اللہ کی خاطر رشتہ اخوت اور اطاعت کے اقرار کے ساتھ وابستہ ہے معروف اور غیر معروف فیصلوں کی تعریفوں میں نہ پڑیں صلى الله آنحضرت ﷺ کے ارشادات اور آپ کے جاں نثار صحابہ کے اسوہ کو سامنے رکھتے ہوئے نظام جماعت کی اطاعت کریں مخالفین کے گند کی کوئی پرواہ نہ کریں جب نہیں بولتا بندہ تو خدا بولتا ہے اور جب خدا بولتا ہے تو مخالفین کے ٹکڑے ہوا میں بکھرتے ہوئے ہم نے دیکھے ہیں اور آئندہ بھی دیکھیں گے آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ نے امام وقت کو مانا آپس میں اخوت و محبت پیدا کرو اور اختلاف کو چھوڑ دو
خطبات مس $2003 324 تشھد وتعوذ کے بعد فرمایا شرائط بیعت کا جو مضمون شروع کیا ہوا تھا اس میں آج آخری شرط جو ہے، دسویں شرط بیعت کی وہ بیان کروں گا.دسویں شرط یہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض اللہ با قرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تا وقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو.اس شرط میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ہم سے اس بات کا عہد لے رہے ہیں کہ گو کہ اس نظام میں شامل ہو کر ایک بھائی چارے کا رشتہ مجھ سے قائم کر رہے ہو کیونکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے لیکن یہاں جو محبت اور بھائی چارے کا رشتہ قائم ہو رہا ہے یہ اس سے بڑھ کر ہے کیونکہ یہاں برابری کا تعلق اور رشتہ قائم نہیں ہو رہا بلکہ تم اقرار کر رہے ہو کہ آنے والے مسیح کو ماننے کا خدا اور رسول کا حکم ہے.اس لئے یہ تعلق اللہ تعالیٰ کی خاطر قائم کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ کے دین کی سر بلندی اور اسلام کو اکناف عالم میں پہنچانے کے لئے ، پھیلانے کے لئے رشتہ جوڑ رہے ہیں.اس لئے یہ تعلق اس اقرار کے ساتھ کامیاب اور پائیدار ہوسکتا ہے جب معروف باتوں میں اطاعت کا عہد بھی کرو اور پھر اس عہد کو مرتے دم تک نبھاؤ.اور پھر یہ خیال بھی رکھو کہ یہ تعلق یہیں ٹھہر نہ جائے بلکہ اس میں ہر روز پہلے سے بڑھ کر مضبوطی آنی چاہئے اور اس میں اس قدر مضبوطی ہو اور اس کے معیار اتنے اعلیٰ ہوں کہ اس کے مقابل پر تمام دنیاوی رشتے تعلق ، دوستیاں بیچ ثابت ہوں.ایسا بے مثال اور مضبوط تعلق ہو کہ اس کے مقابل پر تمام تعلق اور رشتے بے مقصد نظر آئیں.پھر فرمایا کہ:
$2003 325 خطبات مسرور یہ خیال دل میں پیدا ہوسکتا ہے کہ رشتہ داریوں میں کبھی کچھ لو اور کچھ دو کبھی مانو اور کبھی منواؤ کا اصول بھی چل جاتا ہے.تو یہاں یہ واضح ہو کہ تمہارا یہ تعلق غلامانہ اور خادمانہ تعلق بھی ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ہونا چاہئے.تم نے یہ اطاعت بغیر چون و چرا کئے کرنی ہے.کبھی تمہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ یہ کہنے لگ جاؤ کہ یہ کام ابھی نہیں ہوسکتا، یا ابھی نہیں کر سکتا.جب تم بیعت میں شامل ہو گئے ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے نظام میں شامل ہو گئے ہو تو پھر تم نے اپنا سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دے دیا اور اب تمہیں صرف ان کے احکامات کی پیروی کرنی ہے، ان کی تعلیم کی پیروی کرنی ہے.اور آپ کے بعد چونکہ نظام خلافت قائم ہے اس لئے خلیفہ وقت کے احکامات کی ، ہدایات کی پیروی کرنا تمہارا کام ہے.لیکن یہاں یہ خیال نہ رہے کہ خادم اور نوکر کا کام تو مجبوری ہے، خدمت کرنا ہی ہے.خادم کبھی کبھی بڑ بڑا بھی لیتے ہیں.اس لئے ہمیشہ ذہن میں رکھو کہ خادمانہ حالت ہی ہے لیکن اس سے بڑھ کر ہے کیونکہ اللہ کی خاطر اخوت کا رشتہ بھی ہے اور اللہ کی خاطر اطاعت کا اقرار بھی ہے اور اس وجہ سے قربانی کا عہد بھی ہے.تو قربانی کا ثواب بھی اس وقت ملتا ہے جب انسان خوشی سے قربانی کر رہا ہوتا ہے.تو یہ ایک ایسی شرط ہے جس پر آپ جتنا غور کرتے جائیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت میں ڈوبتے چلے جائیں گے اور نظام جماعت کا پابند ہوتا ہوا اپنے آپ کو پائیں گے.بعض دفعہ بعض لوگ معروف فیصلہ یا معروف احکامات کی اطاعت کے چکر میں پڑ کر خود بھی نظام سے ہٹ گئے ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی خراب کر رہے ہوتے ہیں اور ماحول میں بعض قباحتیں بھی پیدا کر رہے ہوتے ہیں.ان پر واضح ہو کہ خود بخو دمعروف اور غیر معروف فیصلوں کی تعریف میں نہ پڑیں.غیر معروف وہ ہے جو واضح طور پر اللہ تعالیٰ کے احکامات اور شریعت کے احکامات کی خلاف ورزی ہے جیسا کہ اس حدیث سے ظاہر ہے.حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور اس پر ایک شخص کو حا کم مقرر کیا تا کہ لوگ اس کی بات سنیں اور اس کی اطاعت کریں.اس شخص نے آگ جلوائی اور اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ آگ میں کود جائیں.بعض لوگوں نے اس کی بات نہ مانی اور کہا کہ ہم تو آگ سے بچنے کے لئے مسلمان ہوئے ہیں.لیکن کچھ افراد آگ میں کودنے کے لئے تیار ہو گئے.آنحضرت ﷺ کو جب اس بات کا علم ہوا
326 $2003 خطبات مسرور تو آپ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ اس میں کود جاتے تو ہمیشہ آگ میں ہی رہتے.نیز فرمایا: اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے رنگ میں کوئی اطاعت واجب نہیں.اطاعت صرف معروف امور میں ضروری ہے.(سنن ابو داؤد - كتاب الجهاد باب في الطاعة تو ایک تو اس حدیث سے یہ واضح ہو گیا کہ نہ ماننے کا فیصلہ بھی فرد واحد کا نہیں تھا.کچھ لوگ آگ میں کودنے کو تیار تھے کہ ہر حالت میں امیر کی اطاعت کا حکم ہے، انہوں نے سنا ہوا تھا اور یہ سمجھے کہ یہی اسلامی تعلیم ہے کہ ہر صورت میں، ہر حالت میں ، ہر شکل میں امیر کی اطاعت کرنی ہے لیکن بعض صحابہ جو احکام الہی کا زیادہ فہم رکھتے تھے ، آنحضرت ﷺ کی صحبت سے زیادہ فیضیاب تھے، انہوں نے انکار کیا.نتیجہ مشورہ کے بعد کسی نے اس پر عمل نہ کیا کیونکہ یہ خودکشی ہے اور خودکشی واضح طور پر اسلام میں حرام ہے.ابتدائی زمانہ تھا، بہت سے امور وضاحت طلب تھے اور اس واقعہ کے بعد آنحضرت ﷺ نے وضاحت فرما کر معروف کا اصول وضع فرما دیا کہ کیا معروف ہے اور کیا غیر معروف ہے.تو بعض لوگ سمجھتے ہیں، میں بتا دوں آج کل بھی اعتراض ہوتے ہیں کہ ایک کارکن اچھا بھلا کام کر رہا تھا اس کو ہٹا کر دوسرے کے سپر د کام کر دیا گیا ہے.خلیفہ وقت یا نظام جماعت نے غلط فیصلہ کیا ہے اور گویا یہ غیر معروف فیصلہ ہے.وہ اور تو کچھ نہیں کر سکتے اس لئے سمجھتے ہیں کہ کیونکہ یہ غیر معروف کے زمرے میں آتا ہے، خود ہی تعریف بنالی انہوں نے.اس لئے ہمیں بولنے کا بھی حق ہے ، جگہ جگہ بیٹھ کر باتیں کرنے کا بھی حق ہے.تو پہلی بات تو یہ ہے کہ جگہ جگہ بیٹھ کر کسی کو نظام کے خلاف بولنے کا کوئی حق نہیں.اس بارہ میں پہلے بھی میں تفصیل سے روشنی ڈال چکا ہوں.تمہارا کام صرف اطاعت کرنا ہے اور اطاعت کا معیار کیا ہے میں حدیثوں وغیرہ سے اس کی وضاحت کروں گا.ایسے لوگوں کو حضرت خالد بن ولید کا یہ واقعہ ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ جب ایک جنگ کے دوران حضرت عمرؓ نے جنگ کی کمان حضرت خالد بن ولید سے لے کر حضرت ابو عبیدہ کے سپرد کر دی تھی.تو حضرت ابوعبیدہ نے اس خیال سے کہ خالد بن ولید بہت عمدگی سے کام کر رہے ہیں ان سے چارج نہ لیا.تو جب حضرت خالد بن ولید کو یہ علم ہوا کہ حضرت عمرؓ کی طرف سے یہ حکم آیا ہے تو آپ حضرت ابو عبیدہا کے پاس گئے اور کہا کہ چونکہ خلیفہ وقت کا حکم ہے اس لئے آپ فوری طور پر اس کی تعمیل کریں.مجھے ذرا بھی پروا نہیں ہوگی کہ میں آپ کے
$2003 327 خطبات مسرور ماتحت رہ کر کام کروں.اور میں اسی طرح آپ کے ماتحت کام کرتا رہوں گا جیسے میں بطور کمانڈر ایک کام کر رہا ہوتا تھا.تو یہ ہے اطاعت کا معیار.کوئی سر پھرا کہہ سکتا ہے کہ حضرت عمر کا فیصلہ اس وقت غیر معروف تھا، یہ بھی غلط خیال ہے.ہمیں حالات کا نہیں پتہ کس وجہ سے حضرت عمر نے یہ فیصلہ فرمایا یہ آپ ہی بہتر جانتے تھے.بہر حال اس فیصلہ میں ایسی کوئی بات ظاہر بالکل نہیں تھی جو شریعت کے خلاف ہو.چنانچہ آپ دیکھ لیں کہ حضرت عمرؓ کے اس فیصلہ کی لاج بھی اللہ تعالیٰ نے رکھی اور یہ جنگ جیتی گئی اور باوجود اس کے کہ اس جنگ میں بعض دفعہ ایسے حالات آئے کہ ایک ایک مسلمان کے مقابلہ میں سوسود شمن کے فوجیوں کی تعداد ہوتی تھی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اپنے آقا کی غلامی میں ، ایسی غلامی جس کی نظیر نہیں ملتی ، حکم اور عدل کا درجہ ملا ہے اس لئے اب اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اطاعت اور محبت سے ہی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی اطاعت اور محبت کا دعوی سچا ہو سکتا ہے اور آنحضرت ﷺ کی اتباع سے ہی اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعوی سچ ہوسکتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله (آل عمران : ۳۲) تو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا ، اور تمہارے گناہ بخش دے گا.اور اللہ بہت بخشنے والا (اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: د میں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور برگزیدوں کو دی گئی تھی اور میرے لئے اس نعمت کا پا ناممکن نہ تھا اگر میں اپنے سید و مولی، فخر الانبیاء، اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے راہوں کی پیروی نہ کرتا.سوئیں نے جو کچھ پایا اس پیروی سے پایا اور میں اپنے بچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبی ﷺ کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفت کاملہ کا حصہ پاسکتا ہے.اور میں اس جگہ یہ بھی بتلاتا ہوں کہ وہ کیا چیز ہے جو سچی اور کامل پیروی آنحضرت ﷺ کے بعد سب باتوں سے پہلے دل میں پیدا ہوتی ہے.سویا در ہے کہ وہ قلب سلیم ہے یعنی دل سے دنیا کی محبت نکل جاتی
$2003 328 خطبات مسرور ہے اور دل ایک ابدی اور لازوال لذت کا طالب ہو جاتا ہے اور پھر بعد اس کے ایک مصفی اور کامل محبت الہی باعث اس قلب سلیم کے حاصل ہوتی ہے اور یہ سب نعمتیں آنحضرت ﷺ کی پیروی سے بطور وراثت ملتی ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللَّهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ( آل عمران : ۳۲) یعنی ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے.بلکہ یکطرفہ محبت کا دعویٰ بالکل ایک جھوٹ اور لاف و گزاف ہے.جب انسان سچے طور پر خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے تو خدا بھی اس سے محبت کرتا ہے تب زمین پر اس کے لئے ایک قبولیت پھیلائی جاتی ہے اور ہزاروں انسانوں کے دلوں میں ایک سچی محبت اس کی ڈال دی جاتی ہے اور ایک قوت جذب اس کو عنایت ہوتی ہے اور ایک ٹو ر اس کو دیا جاتا ہے جو ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتا ہے.جب ایک انسان سچے دل سے خدا سے محبت کرتا ہے اور تمام دنیا پر اس کو اختیار کر لیتا ہے اور غیر اللہ کی عظمت اور وجاہت اس کے دل میں باقی نہیں رہتی بلکہ سب کو ایک مرے ہوئے کیڑے سے بھی بدتر سمجھتا ہے تب خدا جو اس کے دل کو دیکھتا ہے ایک بھاری تختی کے ساتھ اُس پر نازل ہوتا ہے اور جس طرح ایک صاف آئینہ میں جو آفتاب کے مقابل پر رکھا گیا ہے آفتاب کا عکس ایسے طور پر پڑتا ہے کہ مجاز اور استعارہ کے رنگ میں کہہ سکتے ہیں کہ وہی آفتاب جو آسمان پر ہے اس آئینہ میں بھی موجود ہے.ایسا ہی خدا ایسے دل پر اترتا ہے اور اس کے دل کو اپنا عرش بنالیتا ہے.یہی وہ امر ہے جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے“.(حقيقة الوحى صفحه (٦٢-٦٣ پس اس محبت و عشق کی وجہ سے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت ﷺ سے تھا اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاک دل کو بھی اپنا عرش بنایا ( حفظ مراتب کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ آئندہ بھی دلوں پر اتر تارہے گا.لیکن اب آنحضرت ﷺ کی محبت کا دعوی ، آپ کی کامل اطاعت کا دعوی تھی سچ ثابت ہوگا جب آپ کے روحانی فرزند کے ساتھ محبت اور اطاعت کا رشتہ قائم ہوگا.اسی لئے تو آپ فرما رہے ہیں کہ سب رشتوں سے بڑھ کر میرے سے محبت و اطاعت کا رشتہ قائم کرو تو تم اب
$2003 329 خطبات مسرور اسی ذریعہ سے آنحضرت میلہ کی اتباع کرو گے اور پھر اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرو گے.آپ یہ بات یونہی نہیں فرمار ہے بلکہ رسول خداع خود ہمیں یہ بات فرما چکے ہیں جیسے کہ فرمایا کہ اگر مسیح اور مہدی کا زمانہ دیکھو تو اگر گھٹنوں کے بل تمہیں جانا پڑے تو جا کر میرا سلام کہنا.اتنی تاکید سے، اتنی تکلیف میں ڈال کر یہ پیغام پہنچانے میں کیا بھید ہے، کیا راز ہے.یہی کہ وہ میرا پیارا ہے اور میں اس کا پیارا ہوں.اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ پیاروں تک پہنچ پیاروں کے ذریعہ ہی ہوتی ہے.اس لئے اگر تم میری اتباع کرنے والے بننا چاہتے ہو تو مسیح موعود کی اتباع کرو، اس کو امام تسلیم کرو، اس کی جماعت میں شامل ہو.اس لئے حدیث میں آتا ہے.روایت ہے کہ خبر دار ہو کہ عیسی بن مریم (مسیح موعود ) اور میرے درمیان کوئی نبی یا رسول نہیں ہوگا.خوب سن لو کہ وہ میرے بعد امت میں میرا خلیفہ ہوگا.وہ ضرور دجال کو قتل کرے گا.صلیب کو پاش پاش کرے گا یعنی صلیبی عقیدے کو پاش پاش کر دے گا اور جزیہ ختم کر دے گا“.(اس زمانے میں جو آپ ہی کا زمانہ ہے اس کا رواج اٹھ جائے گا کیونکہ اس وقت مذہبی جنگیں نہیں ہوں گی.جزیہ کا رواج اُٹھ جائے گا.یاد رکھو جسے بھی ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہو وہ انہیں میرا اسلام ضرور پہنچائے“.طبراني الاوسط و الصغير اس حدیث پر غور کرنے کی بجائے اور جنہوں نے غور کیا ہے، اس کی تہ تک پہنچے ہیں ان کی بات سمجھنے کے بجائے آج کل کے علماء اس کے ظاہری معنوں کے پیچھے پڑ گئے ہیں اور سادہ لوح مسلمانوں کو اس طرح غلط راستے پر ڈال دیا ہوا ہے اور وہ طوفان بدتمیزی پیدا کیا ہوا ہے کہ خدا کی پناہ.ہم تو اللہ تعالیٰ کی پناہ ہی ڈھونڈتے ہیں، وہ ان سے نمٹ بھی رہا ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی نمٹے گا.اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح موعود منصف مزاج حاکم ہوگا جس نے انصاف کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں کرنی اور ایسا امام ہے جس نے عدل کو دنیا میں قائم کرنا ہے اس لئے اس سے تعلق جوڑنا، اس کے حکموں پر چلنا، اس کی تعلیم پر عمل کرنا کیونکہ اس نے انصاف اور عدل ہی کی تعلیم دینی ہے اور وہ سوائے قرآنی تعلیم کے اور کوئی ہے ہی نہیں.تو آج کل اب لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ صلیب کو توڑنے کے پیچھے چل پڑے ہیں کہ ہتھوڑے لے کر مسیح آئے گا اور صلیب تو ڑے گا.یہ سب فضول باتیں ہیں.صاف ظاہر ہے کہ وہ آنے والا مسیح اپنے آقا اور مطاع کی پیروی میں دلائل سے قائل
$2003 330 خطبات مسرور کرے گا اور دلائل سے ہی صلیبی عقیدے کا قلع قمع کرے گا ، اس کی قلعی کھولے گا.دجال کو قتل کرنے سے یہی مراد ہے کہ دجالی فتنوں سے امت کو بچائے گا.پھر چونکہ مذہبی جنگوں کا رواج ہی نہیں رہے گا اس لئے ظاہر ہے کہ جزیہ کا بھی رواج اٹھ جائے گا.اور پھر اس حدیث میں سلام پہنچانے کا بھی حکم ہے.اور مسلمان سلام پہنچانے کی بجائے آنے والے مسیح کی مخالفت پر تلے ہوئے ہیں.اللہ ہی انہیں عقل دے.پھر ایک اور حدیث ہے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام کا پتہ چلتا ہے کہ کیوں ہمیں آپ سے اطاعت کا تعلق رکھنا ضروری ہے.حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: جب تک عیسی بن مریم جو منصف مزاج حاکم اور امام عادل ہوں گے معبوث ہو کر نہیں آتے قیامت نہیں آئے گی.( جب وہ معبوث ہوں گے تو وہ صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ کے دستور کوختم کریں گے اور ایسا مال تقسیم کریں گے جسے لوگ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے.(سنن ابن ماجه كتاب الفتن باب فتنه الدجال و خروج عیسی بن مریم و خروج ياجوج و ماجوج تو اس حدیث میں بھی چونکہ سمجھنے کی ضرورت تھی، موٹی عقل کے لوگوں کو سمجھ نہیں آئی اور وہ ظاہری معنوں کے پیچھے چل پڑے.عجیب مضحکہ خیز قسم کی تشریح کرتے ہیں.صاف ظاہر ہے کہ خنزیر کو قتل کرنے سے مرادختر بر صفت لوگوں کا قلع قمع کرنا ہے.سوروں کی برائیاں، باقی جانوروں کی نسبت تو اب ثابت شدہ ہیں.تو وہی برائیاں جب انسانوں میں پیدا ہو جائیں تو ظاہر ہے کہ ان کی صفائی انتہائی ضروری ہے.پھر یہ ہے کہ وہ مال دیں گے، مال تقسیم کریں گے.تو ذہن میں آیا کہ ابھی چند دن پہلے پاکستان میں علماء نے جلسہ کیا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف، جماعت کے خلاف انتہائی غلیظ زبان استعمال کرتے ہوئے ایک یہ بھی سوال اٹھایا کہ مسیح نے آ کر تو مال تقسیم کرنا تھا نہ کہ لوگوں سے مانگنا تھا.دیکھو احمدی (وہ تو قادیانی کہتے ہیں ) چندہ وصول کرتے ہیں.اس سے ثابت ہوا کہ یہ جھوٹے ہیں وہ یہ ثابت کر رہے ہیں.اب ان عقل کے اندھوں کو کوئی عقلمند آدمی سمجھا نہیں سکتا کہ مسیح جو روحانی خزائن بانٹ رہا ہے تم اس کو لینے سے بھی انکاری ہو چکے ہو.اصل میں بات یہی ہے کہ ان کی دنیا کی ایک آنکھ ہی ہے.اور اس سے آگے یہ لوگ بڑھ بھی نہیں سکتے.ان
$2003 331 خطبات مسرور کا یہ کام ہے، ان کو کرنے دیں، پاکستانی احمدیوں کو زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہئے.ان کے گند اور لغویات سن کر صبر دکھاتے ہوئے ، حوصلہ دکھاتے ہوئے ، منہ پھیر کر گزر جایا کریں.ان کے گند کے مقابلے میں ہم تسلیم کرتے ہیں کہ واقعی ہم اپنی ہار مانتے ہیں.ہم ان کے گند کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتے.لیکن ایک بات بتا دوں، واضح کر دوں کہ جب نہیں بولتا بندہ تو خدا بولتا ہے اور جب خدا بولتا ہے تو مخالفین کے ٹکڑے ہوا میں بکھرتے ہوئے ہم نے دیکھے ہیں اور آئندہ بھی دیکھیں گے انشاء اللہ.پس احمدی مسیح موعود سے سچا تعلق قائم رکھیں اور دعاؤں پر زور دیں، ہر وقت دعاؤں میں لگے رہیں.تو ان حدیثوں سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ آنے والا مسیح امام بھی ہوگا، کا کم بھی ہوگا، عدل وانصاف کا شہزادہ ہوگا تو اس سے تعلق ضرور جوڑنا اور اس حکم اور امام کی حیثیت سے اطاعت بھی تم پر ضروری ہے اس لئے تمہاری بہتری کے لئے تمہاری تربیت کے لئے یہ باتیں جو بتائی ہیں ان پر عمل کرو.تا کہ آنحضرت ﷺ کے پیارو میں بھی شامل ہو جاؤ اور خدا تعالیٰ کے قرب پانے والوں میں بھی شامل ہو جاؤ.اطاعت کے موضوع پر اب چند احادیث پیش کرتا ہوں جن سے اطاعت کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: تنگدستی اور خوشحالی ، خوشی اور نا خوشی ، حق تلفی اور ترجیحی سلوک ،غرض ہر حالت میں تیرے لئے حاکم وقت کے حکم کو سنا اور اطاعت کرنا واجب ہے.(مسلم كتاب الامارة باب وجوب طاعة الامراء) حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ اللہ نے فرمایا: جو شخص اپنے سردار اور امیر میں کوئی ایسی بات دیکھے جو اسے پسند نہ ہو تو صبر سے کام لے کیونکہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھی دور ہوتا ہے وہ جاہلیت کی موت مرے گا.(بخاری کتاب الفتن.باب قول النبى سترون بعد ى اموراً) پھر حضرت عرفجہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم ایک ہاتھ پر جمع ہو اور تمہارا ایک امیر ہو اور پھر کوئی شخص آئے اور تمہاری وحدت کی اس لاٹھی کو
$2003 332 خطبات مسرور توڑنا چاہے تا تمہاری جماعت میں تفریق پیدا کرے تو اسے قتل کر دو.یعنی اس سے قطع تعلق کرو اور اس کی بات نہ مانو.(اس کے احکامات کو بالکل سنی ان سنی کر دو ).(مسلم کتاب الاماره با ب حكم من فرق امر المسلمين هو مجتمع صلى الله حضرت عبادہ بن صامت سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کی بیعت اس نکتہ پر کی کہ سنیں گے اور اطاعت کریں گے خواہ ہمیں پسند ہو یا نا پسند.اور یہ کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں کسی امر کے حقدار سے جھگڑا نہیں کریں گے ، حق پر قائم رہیں گے یا حق بات ہی کہیں گے اور اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے.(مسلم كتاب الامارة باب وجوب طاعة الامراء) حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے اپنا ہا تھ کھینچا وہ اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن اس حالت میں ملے گا کہ نہ اس کے پاس کوئی دلیل ہوگی اور نہ عذر.اور جو شخص اس حال میں مرا کہ اس نے امام وقت کی بیعت نہیں کی تھی تو وہ جاہلیت اور گمراہی کی موت مرا.(مسلم کتاب الامارة باب وجوب ملازمة جماعة المسلمين) پس آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ نے امام وقت کو مانا اور اس کی بیعت میں شامل ہوئے.اب خالصت اللہ آپ نے اس کی ہی اطاعت کرنی ہے، اس کے تمام حکموں کو بجالا نا ہے ورنہ پھر خدا تعالیٰ کی اطاعت سے باہر نکلنے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اطاعت کے اعلیٰ معیار پر قائم فرمائے اور یہ اعلیٰ معیار کس طرح قائم کئے جائیں.یہ معیار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم پر عمل کر کے ہی حاصل کئے جاسکتے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت میں وہی داخل ہوتا ہے جو ہماری تعلیم کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے اور اپنی ہمت اور کوشش کے موافق اس پر عمل کرتا ہے.لیکن جو محض نام لکھا کر تعلیم کے موافق عمل نہیں کرتا تو یاد رکھے کہ خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو ایک خاص جماعت بنانے کا ارادہ کیا ہے اور کوئی آدمی جو دراصل جماعت میں نہیں ہے محض نام لکھوانے سے جماعت میں نہیں رہ سکتا.اس پر کوئی نہ کوئی وقت ایسا آجائے گا کہ وہ الگ ہو جائے گا.اس لئے جہاں تک ہو سکے اپنے اعمال کو اس تعلیم کے ماتحت کر وجودی جاتی ہے.
خطبات مسرور 333 $2003 ایک اقتباس میں اپنی تعلیم کے متعلق آپ فرماتے ہیں کہ : ”فتنہ کی بات نہ کرو.شر نہ کرو.گالی پر صبر کرو.کسی کا مقابلہ نہ کرو.جو مقابلہ کرے اس سے سلوک اور نیکی سے پیش آؤ.شیریں بیانی کا عمدہ نمونہ دکھلاؤ.سچے دل سے ہر ایک حکم کی اطاعت کرو کہ خدا تعالیٰ راضی ہو اور دشمن بھی جان لے کہ اب بیعت کر کے یہ شخص وہ نہیں رہا جو کہ پہلے تھا.مقدمات میں سچی گواہی دو.اس سلسلہ میں داخل ہونے والے کو چاہئے کہ پورے دل، پوری ہمت اور ساری جان سے راستی کا پابند ہو جاوے.دنیا ختم ہونے پر آئی ہوئی ہے.“ ( البدر ۱۶ مارچ ۱۹۰۴ ، ملفوظات جلد سوم صفحه ۶۲۰.۶۲۱) اب یہاں جس طرح فرمایا آپ نے کہ فتنہ کی بات نہ کرو.بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ صرف مزا لینے کے لئے عادتاً ایک جگہ کی بات دوسری جگہ جا کر کر دیتے ہیں اور ان سے فتنہ پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے.مختلف قسم کی طبائع ہوتی ہیں، جس کے سامنے بات کی اور بات بھی اس کے متعلق کی تو قدرتی طور پر اس شخص کے دل میں اس دوسرے شخص کے بارہ میں غلط رنجش پیدا ہوگی جس کی طرف منسوب کر کے وہ بات کی جاتی ہے.اور وہ بات اسے پہنچائی گئی ہے تو یہ بخش گو میرے نزدیک پیدا نہیں ہونی چاہئے.ایسے فتنوں کو روکنے کا بھی یہ طریقہ ہے کہ جس کی طرف منسوب کر کے بات پہنچائی گئی ہو اس کے پاس جا کر وضاحت کر دی جائے کہ آیا تم نے یہ باتیں کی ہیں یا نہیں، یہ بات میرے تک اس طرح پہنچی ہے.تو وہیں وضاحت ہو جائے گی اور پھرایسے فتنہ پیدا کرنے والے لوگوں کی اصلاح بھی ہو جائے گی.تو بعض اس طرح بھی ہوتا ہے کہ ایسے لوگ ، فتنہ پیدا کرنے والے، خاندانوں کو خاندانوں سے لڑا دیتے ہیں.تو ایسے فتنہ کی باتوں سے خود بھی بچو اور فتنہ پیدا کرنے والوں سے بھی بچو.اور اگر ہو سکے تو ان کی اصلاح کی کوشش کرو.پھر شتر ایک تو براہ راست لڑائی جھگڑوں سے ، گالی گلوچ سے پیدا ہوتا ہے، اس سے فتنہ بھی پیدا ہوتا ہے.تو فرمایا کہ اگر تمہیں میرے ساتھ تعلق ہے اور میری اطاعت کا دم بھرتے ہو تو میری تعلیم یہ ہے کہ ہر قسم کے فتنہ اور شتر کی باتوں سے بچو.تم میں صبر اور وسعت حوصلہ اس قدر ہو کہ اگر تمہیں کوئی گالی بھی دے تو صبر کرو.پھر اس تعلیم پر عمل کر کے تمہارے لئے نجات کے راستے کھلیں گے.تم خدا تعالیٰ کے مقربین
$2003 334 خطبات مسرور میں شامل ہو گے.کسی بھی معاملے میں مقابلہ بازی نہیں ہونی چاہئے.بچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کرو.اور جو مرضی تمہیں کوئی کہہ دے تم محبت پیار اور خلوص سے پیش آؤ.ایسی پاک زبان بناؤ، ایسی میٹھی زبان ہو ، اخلاق اس طرح تمہارے اندر سے ٹپک رہا ہو کہ لوگ تمہاری طرف کھنچے چلے آئیں.تو تمہارے ماحول میں یہ پتہ چلے، ہر ایک کو یہ پتہ چل جائے کہ یہ احمدی ہے.اس سے سوائے اعلیٰ اخلاق سے اور کسی چیز کی توقع نہیں کی جاسکتی.تمہارے یہ اخلاق بھی دوسروں کو کھینچنے اور توجہ حاصل کرنے کا باعث بنیں گے.اور پھر یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگ مقدمات میں ذاتی مفاد کی خاطر جھوٹی گواہیاں بھی دے دیتے ہیں، جھوٹا کیس بھی اپنا پیش کر دیتے ہیں.تو فرمایا کہ تمہارا ذاتی مفاد بھی تمہیں سچی گواہی دینے سے نہ رو کے.بعض لوگ یہاں بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی بعض دفعہ باہر آنے کے چکر میں غلط بیانی سے کام لیتے ہیں، تو ان باتوں سے بھی بچو.جو صیح حالات ہوں اس کے مطابق اپنا کیس داخل کرواؤ اور اس میں اگر مانا جاتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ واپس چلے جائیں.کیونکہ غلط بیانیوں کے باوجود بھی بعضوں کے کیس ریجیکٹ (Reject) ہو جاتے ہیں تو سیچ پر قائم رہتے ہوئے بھی آزما کر دیکھیں انشاء اللہ فائدہ ہی ہوگا.یا اگر ریجیکٹ ہوں گے بھی تو کم از کم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث تو نہیں بنیں گے.پھر آپس میں محبت اور بھائی چارے کی تعلیم دیتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : آپس میں اخوت و محبت کو پیدا کرو اور درندگی اور اختلاف کو چھوڑ دو.ہر ایک قسم کے ہرل اور تمسخر سے مطلقا کنارہ کش ہو جاؤ کیونکہ تمسخر انسان کے دل کو صداقت سے دور کر کے کہیں کا کہیں پہنچا دیتا ہے.آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ عزت سے پیش آؤ.ہر ایک اپنے آرام پر اپنے بھائی کے آرام کو ترجیح دیوے.اللہ تعالیٰ سے بچی صلح پیدا کر لو اور اس کی اطاعت میں واپس آجاؤ.ہر ایک آپس کے جھگڑے اور جوش اور عداوت کو درمیان میں سے اٹھا دو کہ اب وہ وقت ہے کہ تم ادنی باتوں سے اعراض کر کے اہم اور عظیم الشان کاموں میں مصروف ہو جاؤ“.(الحكم ٢٠ تا ٢٧ مئی ١٨٩٦ ملفوظات جلد اول صفحه ٢٦٦ تا ٢٦٨)
$2003 335 خطبات مسرور پھر آپ فرماتے ہیں: ”ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہونا چاہئے.اور ان کو شکر کرنا چاہئے خدا تعالیٰ نے ان کو یوں ہی نہیں چھوڑا بلکہ ان کی ایمانی قوتوں کو یقین کے درجہ تک بڑھانے کے واسطے اپنی قدرت کے صد ہانشان دکھائے ہیں“.پھر فرماتے ہیں کہ : کیا کوئی تم میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کہہ سکے کہ میں نے کوئی نشان نہیں دیکھا.میں دعوی سے کہتا ہوں کہ ایک بھی ایسا نہیں جس کو ہماری صحبت میں رہنے کا موقع ملا ہو.اور اس نے خدا تعالیٰ کا تازہ بتازہ نشان اپنی آنکھ سے نہ دیکھا ہو.ہماری جماعت کے لئے اسی بات کی ضرورت ہے کہ ان کا ایمان بڑھے، خدا تعالیٰ پر سچا یقین اور معرفت پیدا ہو، نیک اعمال میں سستی اور کسل نہ ہو کیونکہ اگر ستی ہو تو پھر وضو کرنا بھی ایک مصیبت معلوم ہوتا ہے.چہ جائیکہ وہ تہجد پڑھے.اگر اعمال صالحہ کی قوت پیدا نہ ہو اور مسابقت الی الخیر کے لئے جوش نہ ہو تو پھر ہمارے ساتھ تعلق پیدا کرنا بے فائدہ ہے.اس شرط بیعت میں جو دسویں شرط چل رہی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے سے اس قدر تعلق جس کی مثال کسی دنیاوی رشتے میں نہ ملتی ہو پر اس قدر زور دیا ہے.جس کی وجہ بھی صرف اور صرف ہماری ہمدردی ہے.ہمیں تباہ ہونے سے بچانے کے لئے آپ نے فرمایا ہے کیونکہ سچا اسلام صرف اور صرف آپ کو ماننے سے مل سکتا ہے اور اپنے آپ کو ڈوبنے سے بچانا ہے تو لازماً ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کشتی میں سوار ہونا ہوگا.(الحكم ٢٤ مارچ ۱۹۰۳ء، ملفوظات جلد دوم صفحه ۷۱۰-۷۱۱) آپ فرماتے ہیں : ”میری طرف دوڑو کہ وقت ہے کہ جو شخص اس وقت میری طرف دوڑتا ہے میں اس کو اس سے تشبیہ دیتا ہوں کہ جو عین طوفان کے وقت جہاز پر بیٹھ گیا.لیکن جو شخص مجھے نہیں مانتا میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ طوفان میں اپنے تئیں ڈال رہا ہے اور کوئی بچنے کا سامان اس کے پاس نہیں.سچا شفیع میں ہوں جو اس بزرگ شفیع کا سایہ ہوں اور اس کاظل جس کو اس زمانہ کے اندھوں نے قبول نہ کیا اور اس کی بہت تحقیر کی یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم.دافع البلاء روحانی خزائن جلد (۱۸ صفحه (۲۳۳
336 $2003 خطبات مسرور کیونکہ آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ ہے.پھر آپ فرماتے ہیں: ” غرض اس بیعت سے جو میرے ہاتھ پر کی جاتی ہے دو فائدے ہیں ایک تو یہ کہ گناہ بخشے جاتے ہیں اور انسان خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق مغفرت کا مستحق ہوتا ہے.دوسرے مامور کے سامنے تو بہ کرنے سے طاقت ملتی ہے اور انسان شیطانی حملوں سے بچ جاتا ہے.یا درکھو کہ اس سلسلہ میں داخل ہونے سے دنیا مقصود نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا مقصود ہو کیونکہ دنیا تو گزرنے کی جگہ ہے وہ تو کسی نہ کسی رنگ میں گزر جائے گی.شب تنور گذشت و شب سمور گذشت دنیا اور اس کے اغراض اور مقاصد کو بالکل الگ رکھو.ان کو دین کے ساتھ ہرگز نہ ملاؤ کیونکہ دنیا فنا ہونے والی چیز ہے اور دین اور اس کے ثمرات باقی رہنے والے.(البدر ۹ اکتوبر ۱۹۰۳ء ملفوظات جلد ششم صفحه ١٤٥) پھر آپ فرماتے ہیں: ” اور تم اے میرے عزیزو! میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو اور اپنی زندگی ، اپنا آرام، اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہو.اگر چہ میں جانتا ہوں کہ میں جو کچھ کہوں تم اسے قبول کرنا اپنی سعادت سمجھو گے اور جہاں تک تمہاری طاقت ہے دریغ نہیں کرو گے لیکن میں اس خدمت کے لئے معین طور پر اپنی زبان سے تم پر کچھ فرض نہیں کر سکتا تا کہ تمہاری خدمتیں نہ میرے کہنے کی مجبوری سے بلکہ اپنی خوشی سے ہوں.میرا دوست کون ہے؟ اور میرا عزیز کون ہے؟ وہی جو مجھے پہچانتا ہے.مجھے کون پہچانتا ہے صرف وہی جو مجھ پر یقین رکھتا ہے کہ میں بھیجا گیا ہوں.اور مجھے اس طرح قبول کرتا ہے جس طرح وہ لوگ قبول کئے جاتے ہیں جو بھیجے گئے ہوں.دنیا مجھے قبول نہیں کر سکتی کیونکہ میں دنیا میں سے نہیں ہوں.مگر جن کی فطرت کو اس عالم کا حصہ دیا گیا ہے وہ مجھے قبول کرتے ہیں اور کریں گے.جو مجھے چھوڑتا ہے وہ اس کو چھوڑتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جو مجھ سے پیوند کرتا ہے وہ اس سے کرتا ہے جس کی طرف سے میں آیا ہوں.میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے جو شخص میرے پاس آتا ہے ضرور وہ اس روشنی سے حصہ لے گا مگر جو شخص وہم اور بدگمانی سے دور بھاگتا ہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جائے گا.اس زمانہ کا حصن حصین میں ہوں.جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور
337 $2003 خطبات مسرور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا.مگر جوشخص میری دیواروں سے دور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت در پیش ہے.اور اس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی.مجھ میں کون داخل ہوتا ہے؟ وہی جو بدی کو چھوڑتا ہے اور نیکی کو اختیار کرتا ہے اور بھی کو چھوڑتا اور راستی پر قدم مارتا ہے اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہوتا اور خدا تعالیٰ کا ایک بندہ مطیع بن جاتا ہے.ہر ایک جو ایسا کرتا ہے وہ مجھ میں ہے اور میں اس میں ہوں.مگر ایسا کرنے پر فقط وہی قادر ہوتا ہے جس کو خدا تعالیٰ نفس مز کی کے سایہ میں ڈال دیتا ہے.تب وہ اس کے نفس کی دوزخ کے اندر اپنا پیر رکھ دیتا ہے تو وہ ایسا ٹھنڈا ہو جاتا ہے کہ گویا اس میں کبھی آگ نہیں تھی.تب وہ ترقی پر ترقی کرتا ہے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی روح اس میں سکونت کرتی ہے اور ایک تجلی خاص کے ساتھ رب العالمین کا استویٰ اس کے دل پر ہوتا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ اس کے دل پر اپنا عکس قائم کرتا ہے تب پرانی انسانیت اس کی جل کر ایک نئی اور پاک انسانیت اس کو عطا کی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ بھی ایک نیا خدا ہو کر نئے اور خاص طور پر اس سے تعلق پکڑتا ہے اور بہشتی زندگی کا تمام پاک سامان اسی عالم میں اس کومل جاتا ہے“.66 (فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ٣٤ - ٣٥ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے کئے ہوئے تمام عہدوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کی تمام شرائط بیعت پر ہم مضبوطی سے قائم رہیں، آپ کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنی زندگی کو بھی جنت نظیر بنادیں اور اگلے جہان کی جنتوں کے بھی وارث ٹھہریں.اللہ تعالیٰ ہماری مددفرمائے.آمین.
$2003 338 خطبات مس
$2003 339 23 خطبات مس تمہیں خوشخبری ہو کہ اب تم ہمیشہ معروف فیصلوں کے نیچے ہو.۲۶ ستمبر ۲۰۰۳ء بمطابق ۲۶ رتبوک ۱۳۸۲ هجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن بیعت کی دسویں شرط طاعت در معروف کی پر حکمت تفسیر و توضیح غلطی کہ جن کاموں کو ہم معروف نہیں سمجھتے اس میں اطاعت نہ کریں گے.نظام خلافت جو آنحضرت نے کی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جماعت میں قائم ہو چکا ہے انشاء اللہ قیامت تک قائم رہے گا.ی خلافت کے فیصلوں کی اہمیت اور الہی تائید و نصرت.خلافت کی طرف سے ہونے والی تحریکات....یہ سب اطاعت در معروف کے زمرے میں آتی ہیں.تمہیں خوشخبری ہو کہ تم ہمیشہ معروف فیصلوں کے نیچے ہی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس شرط بیعت پر عمل کرنے والوں کا نیک نمونہ.
خطبات مس $2003 340 تشھد وتعوذ کے بعد درج ذیل آیت قرآنیہ تلاوت فرمائی يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَ كَ الْمُؤْمِنتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَّلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِيْنَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِيْنَ بِبُهْتَانِ يَفْتَرِيْنَهُ بَيْنَ أَيْدِيْهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِي مَعْرُوْفِ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْلَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُوْرٌ رَّحِيمُ (الممتحنه : ١٣) گزشتہ خطبہ میں شرائط بیعت کی دسویں اور آخری شرط کے بارہ میں بیان کیا تھا لیکن طاعت در معروف کے بارہ میں مزید کچھ وضاحت کرنا چاہتا ہوں.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں عورتوں سے اس بات پر عہد بیعت لینے کی تاکید ہے کہ شرک نہیں کریں گی ، چوری نہیں کریں گی ، زنا نہیں کریں گی ، اولاد کو قتل نہیں کریں گی ، اولاد کی تربیت کا خیال رکھیں گی ،جھوٹا الزام کسی پر نہیں لگائیں گی اور معروف امور میں نافرمانی نہیں کریں گی.تو یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا نبی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوتا ہے کیا وہ بھی ایسے احکامات دے سکتا ہے جو غیر معروف ہوں.اور اگر نبی کر سکتا ہے تو ظاہر ہے پھر خلفاء کے لئے بھی یہی ہوگا کہ وہ بھی ایسے احکامات دے سکتے ہیں جو غیر معروف ہوں.اس بارہ میں واضح ہو کہ نبی کبھی ایسے احکامات دے ہی نہیں سکتا.نبی جو کہے گا معروف ہی کہے گا.اس کے علاوہ سوال ہی نہیں کہ کچھ کہے.اس لئے قرآن شریف میں کئی مقامات پر یہ حکم ہے کہ اللہ اور رسول کے حکموں کی اطاعت کرنی ہے، انہیں بجالانا ہے.کہیں نہیں لکھا کہ جو معروف حکم ہوں اس کی اطاعت کرنی ہے.تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دو مختلف حکم کیوں ہیں.یہ اصل میں دو مختلف حکم نہیں ہیں، سمجھنے میں غلطی ہے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ نبی کا جو بھی حکم ہوگا
$2003 341 خطبات مسرور معروف ہی ہوگا.اور نبی کبھی اللہ تعالیٰ کے احکامات کے خلاف شریعت کے احکامات کے خلاف کر ہی نہیں سکتا.وہ تو اسی کام پر مامور کیا گیا ہے.تو جس کام کے لئے مامور کیا گیا ہے، اس کے خلاف کیسے چل سکتا ہے.یہ تمہارے لئے خوشخبری ہے کہ تم نے نبی کو مان کر ، مامور کو مان کر، اس کی جماعت میں شامل ہو کر اپنے آپ کو محفوظ کر لیا ہے ہم محفوظ ہوگئے ہو کہ تمہارے لئے اب کوئی غیر معروف حکم ہے ہی نہیں.جو بھی حکم ہے اللہ تعالیٰ کی نظر میں پسندیدہ ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایک اور غلطی ہے وہ طاعت در معروف کے سمجھنے میں ہے کہ جن کا موں کو ہم معروف نہیں سمجھتے اس میں طاعت نہ کریں گے.یہ لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی آیا ہے وَلاَ يَعْصِيْنَكَ فِي مَعْرُوفٍ (الممتحنة: (۱۳) اب کیا ایسے لوگوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عیوب کی بھی کوئی فہرست بنالی ہے.اسی طرح حضرت صاحب نے بھی شرائط بیعت میں طاعت در معروف لکھا ہے.اس میں ایک ستر ہے.میں تم میں سے کسی پر ہرگز بدظن نہیں.میں نے اس لئے ان باتوں کو کھولا تا تم میں سے کسی کو اندر ہی اندر دھو کہ نہ لگ جائے“.(خطبه عيد الفطر فرموده ۱۵ / اکتوبر ۹ ۱۹۰۹ ء خطبات نور صفحه ۴۲۰.۴۲۱) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ کی تفسیر کرتے ہوئے.تحریر فرماتے ہیں.یہ نبی ان باتوں کے لئے حکم دیتا ہے جو خلاف عقل نہیں ہیں اور ان باتوں سے منع کرتا ہے جن سے عقل بھی منع کرتی ہے.اور پاک چیزوں کو حلال کرتا ہے اور نا پاک کو حرام ٹھہراتا ہے.اور قوموں کے سر پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جس کے نیچے وہ دبی ہوئی تھیں.اور ان گردنوں کے طوقوں سے وہ رہائی بخشتا ہے جن کی وجہ سے گردنیں سیدھی نہیں ہو سکتی تھیں.پس جولوگ اس پر ایمان لائیں گے اور اپنی شمولیت کے ساتھ اس کو قوت دیں گے اور اس کی مدد کریں گے اور اس نور کی پیروی کریں گے جو اس کے ساتھ اتارا گیا وہ دنیا اور آخرت کی مشکلات سے نجات پائیں گے.براهین احمدیه حصه پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ٤٢٠) تو جب نبی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرتا ہے، وہی احکامات دیتا ہے جن کو عقل
342 $2003 خطبات مسرور تسلیم کرتی ہے.بری باتوں سے روکتا ہے، نیک باتوں کا حکم دیتا ہے اور ان سے پرے ہٹ ہی نہیں سکتا.تو خلیفہ بھی جو نبی کے بعد اس کے مشن کو چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنین کی ایک جماعت کے ذریعہ مقرر کردہ ہوتا ہے وہ بھی اس تعلیم کے انہی احکامات کو آگے چلاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے نبی کے ذریعہ ہم تک پہنچائے.اور اس زمانہ میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وضاحت کر کے ہمیں بتائے تو اب اسی نظام خلافت کے مطابق جو آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جماعت میں قائم ہو چکا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ قیامت تک قائم رہے گا ان میں شریعت اور عقل کے مطابق ہی فیصلے ہوتے ہیں.اور انشاء اللہ ہوتے رہیں گے اور یہی معروف فیصلے ہیں.اگر کسی وقت خلیفہ وقت کی غلطی سے یا غلط فہمی کی وجہ سے کوئی ایسا فیصلہ ہو جاتا ہے جس سے نقصان پہنچنے کا احتمال ہو تو اللہ تعالیٰ خود ایسے سامان پیدا فرما دیتا ہے کہ اس کے بدنتائج کبھی بھی نہیں نکلتے اور نہ انشاء اللہ نکلیں گے.اس بارہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: یہ تو ہو سکتا ہے کہ ذاتی معاملات میں خلیفہ وقت سے کوئی غلطی ہو جائے.لیکن ان معاملات میں جن پر جماعت کی روحانی اور جسمانی ترقی کا انحصار ہوا گر اس سے کوئی غلطی سرز بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اپنی جماعت کی حفاظت فرماتا ہے اور کسی نہ کسی رنگ میں اسے اس غلطی پر مطلع کر دیتا ہے.صوفیاء کی اصطلاح میں اسے عصمت صغریٰ کہا جاتا ہے.گویا انبیاء کو تو عصمت کبری حاصل ہوتی ہے لیکن خلفاء کو عصمت صغریٰ حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان سے کوئی ایسی اہم غلطی نہیں ہونے دیتا جو جماعت کے لئے تباہی کا موجب ہو.ان کے فیصلوں میں جزئی اور معمولی غلطیاں ہو سکتی ہیں.مگر انجام کار نتیجہ یہی ہوگا کہ اسلام کو غلبہ حاصل ہوگا اور اس کے مخالفوں کو شکست ہوگی.گویا بوجہ اس کے کہ ان کو عصمت صغریٰ حاصل ہوگی خدا تعالیٰ کی پالیسی بھی وہی ہوگی جوان کی ہوگی.بے شک بولنے والے وہ ہوں گے، زبانیں انہی کی حرکت کریں گی ، ہاتھ انہی کے چلیں گے، دماغ انہی کا کام کرے گا مگر ان سب کے پیچھے خدا تعالیٰ کا اپنا ہاتھ ہو گا.ان سے جزئیات میں معمولی غلطیاں ہو سکتی ہیں.بعض دفعہ ان کے مشیر بھی ان کو غلط مشورہ دے سکتے ہیں لیکن ان درمیانی روکوں سے گزر کر کامیابی انہی کو حاصل ہوگی.اور جب تمام کڑیاں مل کر زنجیر بنے گی تو وہ صحیح ہوگی اور ایسی مضبوط ہو
$2003 343 خطبات مسرور گی کہ کوئی طاقت اسے تو ڑ نہیں سکے گی.(تفسير كبير جلد ٦ صفحه ٣٧٦ - ٣٧٧) پھر قرآن شریف میں آتا ہے ﴿وَ اَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ أَمَرْتَهُمْ لَيَخْرُجُنَّ قُلْ لَّا تُقْسِمُوْا طَاعَةٌ مَّعْرُوفَةٌ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (سورة النور : ۵۴.اور انہوں نے اللہ کی پختہ قسمیں کھائیں کہ اگر تو انہیں حکم دے تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے.تو کہہ دے کہ قسمیں نہ کھاؤ.دستور کے مطابق (معروف طریق کے مطابق ) اطاعت (کرو).یقینا اللہ جوتم کرتے ہو اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے.تو اس آیت سے پہلی آیتوں میں بھی اطاعت کا مضمون ہی چل رہا ہے اور مومن ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی اور مانا.اور اس تقویٰ کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے مقرب ٹھہرتے ہیں اور بامراد ہو جاتے ہیں.تو اس آیت میں بھی یہ بتایا ہے کہ مومنوں کی طرح ” سنو اور اطاعت کرو کا نمونہ دکھاؤ ہمیں نہ کھاؤ کہ ہم یہ کر دیں گے ، وہ کر دیں گے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی تفسیر میں لکھا ہے کہ دعوے تو منافق بھی بہت کرتے ہیں.اور اصل چیز تو یہ ہے کہ عملاً اطاعت کی جائے اور منافقوں کی طرح بڑھ بڑھ کر باتیں نہ کی جائیں.تو یہاں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے لئے فرما رہا ہے کہ جو معروف طریقہ ہے اطاعت کا ، جو دستور کے مطابق اطاعت ہے، وہ اطاعت کرو.نبی نے تمہیں کوئی خلاف شریعت اور خلاف عقل حکم تو نہیں دینا جس کے بارہ میں تم سوال کر رہے ہو.اس کی مثال میں دیتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ میری بیعت میں شامل ہوئے ہو اور مجھے مانا ہے تو پنج وقتہ نماز کے عادی بن جاؤ ، جھوٹ چھوڑ دو، کبر چھوڑ دو، لوگوں کے حق مارنا چھوڑ دو، آپس میں پیار ومحبت سے رہو، تو یہ سب طاعت در معروف میں ہی آتا ہے.یہ کام کوئی کرے نہ اور کہتے پھرو کہ ہم قسم کھاتے ہیں کہ آپ جو حکم ہمیں دیں گے ہم اس کو بجالائیں گے اور اسے تسلیم کریں گے.اسی طرح خلفاء کی طرف سے مختلف وقتوں میں مختلف تحریکات بھی ہوتی رہتی ہیں.روحانی ترقی کے لئے بھی جیسا کہ مساجد کو آباد کرنے کے بارہ میں ہے، نمازوں کے قیام کے بارہ میں ہے، اولاد کی تربیت کے بارہ میں ہے، اپنے اندر اخلاقی قدریں بلند کرنے کے بارہ میں، وسعت حوصلہ پیدا کرنے کے بارہ میں ، دعوت الی اللہ کے بارہ میں ، یا متفرق مالی تحریکات ہیں.تو یہی باتیں
$2003 344 خطبات مسرور ہیں جن کی اطاعت کرنا ضروری ہے.دوسرے لفظوں میں طاعت در معروف کے زمرے میں یہی باتیں آتی ہیں.تو نبی نے یا کسی خلیفہ نے تمہارے سے خلاف احکام الہی اور خلاف عقل تو کام نہیں کروانے.یہ تو نہیں کہنا کہ تم آگ میں کود جاؤ اور سمند میں چھلانگ لگا دو.گزشتہ خطبہ میں ایک حدیث میں میں نے بیان کیا تھا کہ امیر نے کہا کہ آگ میں کود جاؤ.تو اس کی اور روایت ملی ہے جس میں مزید وضاحت ہوتی ہے.حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے علقمہ بن مُجوّز کو ایک غزوہ کے لئے روانہ کیا جب وہ اپنے غزوہ کی مقررہ جگہ کے قریب پہنچے یا ابھی وہ رستہ ہی میں تھے کہ ان سے فوج کے ایک دستہ نے اجازت طلب کی.چنانچہ انہوں نے ان کو اجازت دے دی اور ان پر عبداللہ بن حذافہ بن قیس اسبھی کو امیر مقرر کر دیا.کہتے ہیں میں بھی اس کے ساتھ غزوہ پر جانے والوں میں سے تھا.پس جب کہ ابھی وہ رستہ میں ہی تھے تو ان لوگوں نے آگ سینکنے یا کھانا پکانے کے لئے آگ جلائی تو عبداللہ نے ( جو امیر مقرر ہوئے تھے اور جن کی طبیعت مزاحیہ تھی ) کہا کیا تم پر میری بات سن کر اس کی اطاعت فرض نہیں ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں؟ اس پر عبداللہ بن حذافہ نے کہا کیا میں تم کو جو بھی حکم دوں گا تم اس کو بجالاؤ گے؟ انہوں نے کہا.ہاں ہم بجالائیں گے.اس پر عبد اللہ بن حذافہ نے کہا میں تمہیں تا کیدا کہتا ہوں کہ تم اس آگ میں کود پڑو.اس پر کچھ لوگ کھڑے ہو کر آگ میں کودنے کی تیاری کرنے لگے.پھر جب عبد اللہ بن حذافہ نے دیکھا کہ یہ تو سچ مچ آگ میں کودنے لگے ہیں تو عبداللہ بن حذافہ نے کہا اپنے آپ کو ( آگ میں ڈالنے سے) روکو.( خود ہی یہ کہہ بھی دیا جب دیکھا کہ لوگ سنجیدہ ہو رہے ہیں ).کہتے ہیں پھر جب ہم اس غزوہ سے واپس آگئے تو صحابہ نے اس واقعہ کا ذکر نبی ﷺ سے کر دیا.اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا امراء میں سے جو شخص تم کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کا حکم دے اس کی اطاعت نہ کرو.(سنن ابن ماجه كتاب الجهاد باب لاطاعة في معصية الله) تو واضح ہو کہ نبی یا خلیفہ وقت کبھی بھی مذاق میں بھی یہ بات نہیں کر سکتا.تو اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تم کسی واضح حکم کی خلاف ورزی تم امیر کی طرف سے دیکھو تو پھر اللہ اور رسول
$2003 345 خطبات مسرور کی طرف رجوع کرو.اور اب اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد خلافت راشدہ کا قیام ہو چکا ہے اور خلیفہ وقت تک پہنچو.جس کا فیصلہ ہمیشہ معروف فیصلہ ہی ہوگا انشاء اللہ.اور اللہ اور رسول ﷺ کے احکام کے مطابق ہی ہوگا.تو جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ تمہیں خوشخبری ہو کہ اب تم ہمیشہ معروف فیصلوں کے نیچے ہی ہو.کوئی ایسا فیصلہ انشاء اللہ تمہارے لئے نہیں ہے جو غیر معروف ہو.اس کے بعد اب میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو کر، آپ کی بیعت کر کے ، آپ سے ان دس شرائط پر عہد بیعت باندھ کر ان شرائط پر عمل بھی کیا گیا، اطاعت کا نمونہ بھی دکھایا گیا یا صرف زبانی جمع خرچ ہی رہا کہ ہم اس شرائط پر آپ سے بیعت کرتے ہیں.اس کے لئے میں نے چند نمونے لئے ہیں جن سے پتہ چلے کہ بیعت کرنے والوں نے اپنے اندر کیا روحانی تبدیلیاں کیں اور کیا روحانی انقلابات آئے.اور یہ تبدیلیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بھی اور اس زمانہ میں بھی ہمیں نظر آتی ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: میں حلفاً کہ سکتا ہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں کہ سچے دل سے میرے پر ایمان لائے ہیں اور اعمال صالحہ بجالاتے ہیں اور باتیں سننے کے وقت اس قدر روتے ہیں کہ ان کے گریبان تر ہو جاتے ہیں.(سیرت المهدى جلد اول - صفحه ١٤٦ تو ایک شرط یہ تھی کہ شرک سے اجتناب کریں گے.صرف ہمارے مرد ہی نہیں بلکہ خواتین بھی ایسے اعلیٰ معیار قائم کر گئی ہیں اور ایسے اعلیٰ نمونے دکھائے ہیں کہ ان کو دیکھ کر دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا ہے کہ کیا انقلاب آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے دعا نکلتی ہے.ایک واقعہ ہے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی والدہ کا نمونہ کہ آپ کو کس طرح شرک سے نفرت تھی.کہتے ہیں کہ آپ کے بچے اکثر وفات پا جاتے تھے.ایک دفعہ آپ کا ایک بچہ بیمار ہوا.بچے کا علاج کیا گیا.ایک آدمی تعویذ دے گیا.اور ایک عورت نے یہ تعویذ بچے کے گلے میں ڈالنا چاہا.لیکن بچے کی والدہ نے تعویذ چھین کر چولہے کی آگ میں پھینک دیا اور کہا کہ
346 $2003 خطبات مسرور میرا بھروسہ اپنے خالق و مالک پر ہے.میں ان تعویذوں کوکوئی وقعت نہیں دوں گی.بچہ دو ماہ کا ہوا تو وہی جے دیوی ملنے کے لئے آئی اور بچے کو پیار کیا اور آپ سے کچھ پار چات اور کچھ رسد اس رنگ میں طلب کی جس سے مترشح ہوتا تھا کہ گویا یہ چیزیں ظفر پر سے بلا ٹالنے کے لئے ہیں.آپ نے جواب دیا کہ تم ایک مسکین بیوہ عورت ہو.اگر تم صدقہ یا خیرات کے طور پر کچھ طلب کرو تو میں خوشی سے اپنی توفیق کے مطابق تمہیں دینے کے لئے تیار ہوں.لیکن میں چڑیلوں اور ڈائنوں کی ماننے والی نہیں.میں صرف اللہ تعالیٰ کو موت اور حیات کا مالک مانتی ہوں اور کسی اور کا ان معاملات میں کوئی اختیار تسلیم نہیں کرتی.ایسی باتوں کو میں شرک سمجھتی ہوں اور ان سے نفرت کرتی ہوں اس لئے اس بنا پر میں تمہیں کچھ دینے کے لئے تیار نہیں ہوں.جے دیوی نے جواب میں کہا کہ اچھا تم سوچ لو اگر بچے کی زندگی چاہتی ہو تو میرا سوال تمہیں پورا ہی کرنا پڑے گا.چند دن بعد آپ ظفر کو نسل دے رہی تھیں کہ پھر جے دیوی آگئی اور بچے کی طرف اشارہ کر کے دریافت کیا : اچھا یہی ساہی راجہ ہے؟ آپ نے جواب دیا: ”ہاں یہی ہے“.جے دیوی نے پھر وہی اشیاء طلب کیں.آپ نے پھر وہی جواب دیا جو پہلے موقع پر دیا تھا.اس پر جے دیوی نے کچھ برہم ہو کر کہا: اچھا اگر بچے کو زندہ لے کر گھر لوٹیں تو سمجھ لینا کہ میں جھوٹ کہتی تھی“.آپ نے جواب دیا: ” جیسے خدا کی مرضی ہوگی وہی ہوگا.ابھی جے دیوی مکان کی ڈیوڑھی تک بھی نہ پہنچی ہوگی کہ غسل کے درمیان ہی ظفر کو خون کی قے ہوئی اور خون ہی کی اجابت ہوگئی.چند منٹوں میں بچے کی حالت دگرگوں ہوگئی.اور چند گھنٹوں کے بعد وہ فوت ہو گیا.آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کی یا اللہ ! تو نے ہی دیا تھا اور تو نے ہی لے لیا.میں تیری رضا پر شاکر ہوں.اب تو ہی مجھے صبر عطا کی جیو.اس کے بعد خالی گود ڈسکہ واپس آگئیں.اصحاب احمد جلد ۱۱ صفحه ١٥-١٦) دیکھیں اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بھی کتنے انعامات سے نوازا.اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب جیسا بیٹا انہیں دیا جس نے بڑی لمبی عمر بھی پائی اور دنیا میں ایک نام بھی پیدا کیا.پھر بیعت کرنے کے بعد نفسانی جوشوں سے کس طرح لوگ محفوظ ہورہے ہیں.اب اُس زمانے کی نہیں میں اس زمانے کی مثال دیتا ہوں اور وہ بھی افریقہ کے لوگوں کی.افریقہ کے جو
$2003 347 خطبات مسرور Pagan لوگ ہیں ان کے اندر بہت سی گندی رسمیں اور عادتیں پائی جاتی ہیں مگر احمدیت میں داخل ہوتے ہی وہ ان رسموں پر اس طرح لکیر پھیر دیتے ہیں اور اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کر لیتے ہیں جیسے یہ برائیاں کبھی اُن میں تھیں ہی نہیں.ایسی رپورٹیں بھی آئیں کہ شراب کے رسیا ایک دم شراب سے نفرت کرنے لگ گئے اور اس کا دوسروں پر بھی بہت گہرا اثر ہوا.اور جب وہ اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں تو مولوی کہتے ہیں کہ احمدیت نے ان پر جادو کر دیا ہے اور اس وجہ سے انہوں نے شراب چھوڑ دی ہے.پھر ایک واقعہ مجھے یاد آیا.ایک مربی صاحب نے مجھے بتایا.گھانا میں ہی ایک شخص احمدی ہوا جس میں تمام قسم کی برائیاں پائی جاتی تھیں.شراب کی بھی ، زنا کی بھی ، ہر قسم کی.وہاں رواج یہ ہے کہ گھروں میں لوگ غربت کی وجہ سے یار ہائش کی کمی کی وجہ سے بڑے بڑے مکان ہوتے ہیں اس میں ایک کمرہ کرائے پر لے لیتے ہیں.اسی طرح رہنے کا رواج ہے.تو یہ شخص اسی طرح کے ماحول میں رہتا تھا.عورتوں سے دوستی تھی لیکن جب احمدیت قبول کی تو سب کو کہہ دیا کہ کسی غلط کام کے لئے کوئی میرے پاس نہ آئے.لیکن ایک عورت اس کا پیچھا چھوڑنے والی نہیں تھی.اس نے اس پر یہ طریقہ اختیار کیا کہ جب وہ اسے دور سے دیکھتا تھا تو کنڈی لگا کر فور نفل پڑھنا شروع کر دیتایا قرآن شریف کی تلاوت کرنی شروع کر دیتا تھا ، اس طرح اس نے اپنے آپ کو محفوظ کیا.تو یہ انقلابات ہیں جو احمدیت لے کر آئی ہے.پھر ہمارے ایک مبلغ ہیں مکرم مولانا بشیر احمد صاحب قمر ، وہ بیان کرتے ہیں کہ خاکسار جماعت احمدیہ غانا کے افراد کے ساتھ ایک عید کی نماز کے بعد پیراماؤنٹ چیف سے ملنے گیا.وہ اپنے سب سرکردہ افراد کے ساتھ ہمارے انتظار میں تھے.جب ہم اندر داخل ہوئے تو احمدی دوستوں نے چیفوں اور ان کے ساتھیوں کے سامنے بڑے جوش سے اس طرح گانا شروع کیا کہ ایک بوڑھا احمدی جو چیف کے سامنے تھا چھڑی ہوا میں لہرا لہرا کر گا رہا تھا اور باقی دوست جو تین صد کے قریب تھے اس کے پیچھے وہی فقرات دہرا رہے تھے.میں نے ترجمان سے پوچھا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں تو اس نے مجھے بتایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے احسانات اور اسلام کی برکات کا ذکر کر رہے ہیں.یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم بت پرست اور مشرک تھے.ہمیں حلال و حرام اور نیکی بدی کا کوئی علم نہیں تھا.ہماری زندگی بالکل
$2003 348 خطبات مسرور حیوانی تھی ہم وحشی تھے.شراب کو پانی کی طرح پیتے تھے.احمدیت نے ہمیں سیدھا راستہ دکھایا اور ہماری بدیاں ہم سے چھوٹ گئیں اور ہم انسان بن گئے.تو یہ لوگ اپنے ہی شہر کے ایک پیرا ماؤنٹ چیف اور دیگر اکابر کے سامنے جو ان کی سابقہ عادات و اخلاق سے پوری طرح واقف تھے اپنی تبدیلی بڑی تحدی کے ساتھ بیان کر رہے تھے اور جماعت کی صداقت کے طور پر پیش کر رہے تھے.(ماهنامه انصار الله جنوری ۱۹۸٤ ء صفحه ۳۱،۳۰) پھر نمازوں کی پابندی اور تہجد کی ادائیگی کے بارہ میں بھی شرائط بیعت میں حکم آتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ میں دیکھتا ہوں کہ میری بیعت کرنے والوں میں دن بدن صلاحیت اور تقوی ترقی پذیر ہے.اور ایام مباہلہ کے بعد گویا ہماری جماعت میں ایک اور عالم پیدا ہو گیا ہے.میں اکثر دیکھتا ہوں کہ سجدہ میں روتے اور تہجد میں تضرع کرتے ہیں.نا پاک دل کے لوگ ان کو کا فر کہتے ہیں اور وہ اسلام کا جگر اور دل ہیں“.انجام آتهم روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحه (۳۱۵ یہاں پھر میں گھانا کی ایک مثال دیتا ہوں.ایسی تبدیلیاں اپنے اندر پیدا کی ہیں لوگوں نے کہ خود میرے تجربے میں آئی کہ لمبا سفر کر کے آیا ہے اور رات کو لیٹ پہنچے ، بارہ بجے کے قریب سونے کا موقعہ ملا.رات کو جب آنکھ کھلی دیکھا کہ ڈیڑھ دو بجے کا وقت ہوگا.مسجد میں بیٹھے ہیں اور سجدہ ریز ہیں.پھر ایک روایت آتی ہے حضرت منشی محمد اسمعیل فرماتے تھے کہ مجھے صرف ایک نما زیاد ہے جو میں نماز با جماعت ادا نہیں کر سکا وہ بھی بیت الذکر سے ایک ضروری حاجت کے لئے واپس آنا پڑا تھا.اصحاب احمد جلد ۱ صفحه ١٩٦) پھر حضرت منشی محمد اسمعیل صاحب کے بارہ میں ہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر کے اپنے شہر سیالکوٹ واپس گئے تو یکدم لوگوں نے دیکھا کہ انہوں نے اپنی سابقہ لغو عادات یعنی تاش کھیلنا اور بازار میں بیٹھ کر گپیں ہانکنا سب چھوڑ دیا ہے اور نماز تہجد با قاعدہ شروع کر دی ہے.ان کے حالات میں اس قدر غیر معمولی تغیر دیکھ کر سب بہت حیران ہوئے.اصحاب احمد جلداول صفحه ۲۰۰
349 $2003 خطبات مسرور قادیان میں نمازوں اور تہجد کے التزام کے بارہ میں حضرت نواب محمد علی خان صاحب فرماتے ہیں کہ میں قادیان میں سورج گرہن کے دن نماز میں موجود تھا.مولوی محمد احسن صاحب امروہوی نے نماز پڑھائی اور نماز میں شریک ہونے والے بے حد رور ہے تھے.اس رمضان میں یہ حالت تھی کہ صبح دو بجے سے چوک احمدیہ میں چہل پہل ہو جاتی.اکثر گھروں میں اور بعض مسجد مبارک میں آموجود ہوتے جہاں تہجد کی نماز ہوتی سحری کھائی جاتی اور اول وقت صبح کی نماز ہوتی اس کے بعد کچھ عرصہ تلاوت قرآن شریف ہوتی اور کوئی آٹھ بجے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیر کو تشریف لے جاتے.سب خدام ساتھ ہوتے.یہ سلسلہ کوئی گیارہ بارہ بجے ختم ہوتا.اس کے بعد ظہر کی اذان ہوتی اور ایک بجے سے پہلے نماز ظہر ختم ہو جاتی اور پھر نماز عصر بھی اول وقت میں پڑھی جاتی.بس عصر اور مغرب کے درمیان فرصت کا وقت ملتا تھا.مغرب کے بعد کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر آٹھ ساڑھے آٹھ بجے نماز عشاء ختم ہو جاتی اور ایسا ہو کا عالم ہوتا کہ گویا کوئی آباد نہیں مگر دو بجے رات سب بیدار ہوتے اور چہل پہل ہوتی “.اصحاب احمد جلد ۲ صفحه (۷۷ پھر نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کے بارہ میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے ایک روایت لکھی ہے کہ نماز کے عاشق تھے.خصوصاً نماز با جماعت کے قیام کے لئے آپ کا جذبہ اور جد و جہد امتیازی شان کے حامل تھے.بڑی باقاعدگی سے پانچ وقت مسجد میں جانے والے.جب دل کی بیماری سے صاحب فراش ہو گئے تو اذان کی آواز کو ہی اس محبت سے سنتے تھے جیسے محبت کرنے والے اپنی محبوب آواز کو.جب ذرا چلنے پھرنے کی سکت پیدا ہوئی تو بسا اوقات گھر کے لڑکوں میں سے ہی کسی کو پکڑ کر آگے کھڑا کر دیتے اور باجماعت نماز ادا کرنے کے جذبہ کی تسکین کر لیتے.یارتن باغ میں نماز والے کمرہ کے قریب ہی کرسی سرکا کر باجماعت نماز میں شامل ہو جایا کرتے.جب ماڈل ٹاؤن والی کوٹھی میں گئے تو وہیں پنجوقتہ با جماعت نماز کا اہتمام کر کے گویا گھر کو ایک قسم کی مسجد بنا لیا.پانچ وقت اذان دلواتے.موسم کی مناسبت سے کبھی باہر گھاس کے میدان میں کبھی کمرے کے اندر چٹائیاں بچھوانے کا اہتمام کرتے اور بسا اوقات پہلے نمازی ہوتے جو مسجد میں پہنچ کر دوسرے نمازیوں کا انتظار کیا کرتا.مختلف الانواع لوگوں کے لئے اپنی رہائش گاہ کو پانچ وقت کے آنے جانے
350 $2003 خطبات مسرور کی جگہ بنادینا کوئی معمولی نیکی نہیں خصوصاً ایسی حالت میں اس نیکی کی قیمت اور بھی بڑھ جاتی ہے جبکہ صاحب خانہ کا رہن سہن کا معیار خاصا بلند ہو اور معاشرتی تعلقات کا دائرہ بہت وسیع ہو“.اصحاب احمد جلد ۱۲ صفحه ۱۵۲-۱۵۳) پنجگانہ نماز کے التزام کے بارہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام شیخ حامد علی صاحب کے بارہ میں فرماتے ہیں : جی فی اللہ شیخ حامد علی.یہ جوان صالح اور ایک صالح خاندان کا ہے اور قریباً سات آٹھ سال سے میری خدمت میں ہے اور میں یقیناً جانتا ہوں کہ مجھ سے اخلاص اور محبت رکھتا ہے.اگر چہ دقائق تقویٰ تک پہنچنا بڑے عرفاء اور صلحاء کا کام ہے.مگر جہاں تک سمجھ ہے اتباع سنت اور رعایت تقوی میں مصروف ہے.میں نے اس کو دیکھا ہے کہ ایسی بیماری میں جو نہایت شدید اور مرض الموت معلوم ہوتی تھی اور ضعف اور لاغری سے میت کی طرح ہو گیا تھا.التزام ادائے نماز پنجگانہ میں ایسا سرگرم تھا کہ اس بیہوشی اور نازک حالت میں جس طرح بن پڑے نماز پڑھ لیتا تھا.میں جانتا ہوں کہ انسان کی خدا ترسی کا اندازہ کرنے کے لئے اس کے التزام نماز کو دیکھنا کافی ہے کہ کس قدر ہے اور مجھے یقین ہے کہ جو شخص پورے پورے اہتمام سے نماز ادا کرتا ہے اور خوف اور بیماری اور فتنہ کی حالتیں اس کو نماز سے روک نہیں سکتیں وہ بے شک خدا تعالیٰ پر ایک سچا ایمان رکھتا ہے.مگر یہ ایمان غریبوں کو دیا گیا دولتمند اس نعمت کو پانے والے بہت ہی تھوڑے ہیں“.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳صفحه ۵۴۰) پھر یہ جو شرط ہے کہ بلاناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول ادا کرتا رہے گا.اس کے بارہ میں ایک بزرگ مولوی فضل الہی صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب رضی اللہ عنہ کاکیا نمونہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حضرت مرز ایوب بیگ صاحب سے بڑی محبت تھی.ایک دن میں نے مغرب کی نما ز مرزا ایوب بیگ صاحب کے ڈیرے پر پڑھی.حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھی وہیں تھے.مرزا ایوب بیگ صاحب کی نماز الصَّلوةُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِيْنَ کا رنگ رکھتی تھی.جب نماز پڑھتے تھے تو دنیا کے خیالات سے لا پرواہ ہوتے اور ان کی آنکھوں سے آنسو گرا کرتے تھے.اس دن انہوں نے غیر معمولی طور پر نماز لمبی پڑھی.نماز کے بعد سب لوگ بیٹھ
351 $2003 خطبات مسرور گئے تو مرزا صاحب سے پوچھا گیا کہ آج نماز تو آپ نے بہت لمبی پڑھی ہے اس کی کیا وجہ ہے.پہلے تو آپ نے نہ بتلایا مگر اصرار ہونے پر کہا کہ جب میں درود پڑھنے لگا تو مجھے کشف ہوا کہ آنحضرت ﷺ ایک پلیٹ فارم پر ٹہل رہے ہیں اور دعا مانگ رہے ہیں.مرزا صاحب نے عربی الفاظ بھی بتلائے اور دعا کا ترجمہ بھی بتلایا.اس کا مطلب یہ تھا کہ اے خدا ! میری امت کو ضلالت سے بچا اور اس کی کشتی کو پار لگا.میں اس دعا کے ساتھ آمین کہتا رہا.پھر میں نے حضرت مسیح موعود صلى الله علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ دعا مانگ رہے ہیں کہ اے خدا ! محمد رسول اللہ ﷺ کی دعائیں قبول فرما اور آپ کی امت کو گرداب ضلالت سے بچا.پس جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعا ختم کی تو میں نے بھی نماز ختم کر دی.اصحاب احمد جلد ۱ صفحه ١٩٤-١٩٥ تو یہ انقلاب ہے کہ جاگتے میں بھی دیدار ہورہا ہے.پھر حضرت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب پر حضرت مسیح موعود کی بیعت کا کیا اثر ہوا.اس بارہ میں ایک روایت یہ ہے بلکہ وہ خود ہی بتاتے ہیں کہ ہمارے والد صاحب نے اپنے دوست کو بتایا کہ جب میرے یہ دونوں لڑکے۱۸۹۲ء اور ۱۸۹۳ء کے موسم گرما کی تعطیلات میں میرے پاس بمقام مگر ہر ضلع ملتان میں آئے تو میں نے ان کی حالت میں ایک عظیم تبدیلی دیکھی جس سے میں حیران رہ گیا اور میں حیرت میں کہتا تھا کہ اے خدا! تو نے کون سے اسباب ان کے لئے میسر کر دئے جن سے ان کے دلوں میں ایسی تبدیلی ہوئی کہ یہ نُورٌ عَلی نور ہو گئے.یہ ساری نمازیں پڑھتے ہیں اور ٹھیک وقت پر نہایت ہی شوق اور عشق اور سوز و گداز کے ساتھ اور نہایت رقت کے ساتھ کہ ان کی چیچنیں بھی نکل جاتیں.اکثر ان کے چہروں کو آنسوؤں سے تر دیکھتا اور خشیت الہی کے آثار ان کے چہروں پر ظاہر تھے.اس وقت ان دونوں بچوں کی بالکل چھوٹی عمر تھی.داڑھی کا آغاز تھا.میں ان کی اس عمر میں یہ حالت دیکھ کر سجدات شکر بجالاتا نہ تھکتا تھا اور پہلے جوان کی روحانی کمزوری کا بوجھ میرے دل پر تھا وہ اتر گیا.پھر والد صاحب نے اس دوست سے کہا کہ ان کی اس غایت درجہ کی تبدیلی کا عقدہ مجھ پر نہ کھلا کہ اس چھوٹی سی عمر میں ان کو یہ فیض اور روحانی برکت کہاں سے ملی.کچھ مدت کے بعد یہ معلوم
352 $2003 خطبات مسرور ہوا کہ یہ رشد انہیں حضرت اقدس مسیح موعود کی بیعت سے حاصل ہوئی ہے اور والد صاحب کو حضرت صاحب کی بیعت میں شامل کرنے کا ایک بڑا بھاری ذریعہ ہماری تبدیلی تھی.( یعنی بچوں کی تبدیلی سے والد احمدی ہوئے ) جس نے ان کو حضرت اقدس کی طہارت اور انفاس طیبہ کی نسبت اندازہ لگانے کا اچھا موقعہ دیا.(اصحاب احمد جلد ۱ صفحه ١٨٦) حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب کا نمونہ، جو حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے والد تھے.ان کے ایک بیٹے کہتے ہیں کہ: ” میری طبیعت پر بچپن سے یہ اثر تھا کہ والد صاحب ( چوہدری نصر اللہ خان صاحب) نماز بہت پابندی کے ساتھ اور سنوار کر ادا فرمایا کرتے تھے اور تہجد کا التزام رکھتے تھے.میں اپنے تصور میں اکثر والد صاحب کو نماز پڑھتے یا قرآن کریم کی تلاوت کرتے دیکھتا ہوں.بیعت کر لینے کے بعد فجر کی نماز کبوتراں والی مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھا کرتے تھے.مسجد ہمارے مکان سے فاصلے پر تھی اس لئے والد صاحب گھر سے بہت اندھیرے ہی روانہ ہو جایا کرتے تھے.(اصحاب احمد جلد ۱۱ صفحه ١٦٣ پھر بلاناغہ نمازوں کی پابندی کے بارہ میں ایک نمونہ پیش کرتا ہوں حضرت بابو فقیر علی صاحب رضی اللہ عنہ کا.آپ دل بہ یار دست بہ کار پر عمل پیرا تھے.ایم بشیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ جس زمانہ میں انگریزوں کا رعب داب بھی بہت تھا.وہ کہتا تھا مولوی صاحب! کوئی حادثہ کروا دو گے.ہر وقت نماز پڑھتے رہتے ہو.آپ اس کی ایسی باتوں سے بہت تنگ پڑے.ایک روز دروازہ اور کھڑ کی آپ نے بند کی (دفتر کا ) اور اس کے قریب ہو کر بات کرنے لگے.تو وہ گھبرا گیا مبادا آپ حملہ کر دیں.آپ نے اسے اطمینان دلایا کہ میرا ایسا ارادہ نہیں.میں علیحدگی میں بات کرنا چاہتا ہوں جو یہ ہے کہ آپ دفتر میں قضائے حاجت پر وقت صرف کرتے ہیں.اسی طرح چائے سگریٹ پینے پر بھی.پھر مجھے پر معترض کیوں ہیں؟ کہنے لگا یہ امور تو مقتضائے طبیعت ہیں.آپ نے کہا میں آپ کے ماتحت ہوں، آپ کی فرمانبرداری کروں گا لیکن صرف انہی احکام میں جو فرض منصبی سے متعلق ہوں.دیگر امور کے متعلق اطاعت مجھ پر فرض نہیں.اس لئے نمازوں سے آپ کے کہنے پر میں رُک نہیں سکتا.میری غفلت سے حادثہ رونما ہو یا ٹرین میں تاخیر ہو جائے تو بے شک آپ مجھ
353 $2003 خطبات مسرور سے نرمی کا سلوک نہ کریں.یہ کہ کر آپ نے دروازہ اور کھڑ کی کھول دی.وہ آپ کی گفتگو سے حیران ہوا اس گفتگو کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ آپ کے لوٹے کو ہاتھ ڈالتے ہی وہ کہتا : مولوی صاحب آپ تسلی سے نماز پڑھیں ہمیں آپ کے کام کا خیال رکھوں گا.ایک دن آپ کا روکھا سوکھا کھانا دیکھ کر بھی اس پر بہت اثر ہوا کہ ان کا یہ حال ہے.اصحاب احمد جلد ۳ صفحه (۱۱ یہاں انگلستان میں ایک ہمارے پرانے احمدی بلال نعل صاحب جب احمدی ہوئے تو انہوں نے اپنے لئے بلال نام کا انتخاب کیا اور پھر حضرت بلال ہی کے تتبع میں انہوں نے نماز کی خاطر بلانے میں (اذان دینے میں ) ایک خاص نام پیدا کیا.انہیں سچ مچ نماز کے لئے بلانے کا از حد شوق تھا.(ماهنامه انصار الله جون ١٩٦٥ صفحه (٣٦) پھر یہ ہے شرط کہ نفسانی جوشوں کو دبانا، اس میں کیا مثالیں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک خوبی بیان فرماتے ہیں کہ ہندوؤں کے ساتھ جلسہ تھا اور وہاں جھگڑا ہو گیا اور بڑے ضبط کا نمونہ دکھایا جماعت نے.فرماتے ہیں کہ: اگر پاک طبع مسلمانوں کو اپنی تہذیب کا خیال نہ ہوتا اور بموجب قرآنی تعلیم کے صبر کے پابند نہ رہتے اور اپنے غصہ کو تھام نہ لیتے تو بلا شبہ یہ بدنیت لوگ ایسی اشتعال دہی کے مرتکب ہوئے تھے کہ قریب تھا کہ وہ جلسہ کا میدان خون سے بھر جاتا.مگر ہماری جماعت پر ہزار آفرین ہے کہ انہوں نے بہت عمدہ نمونہ صبر اور برداشت کا دکھایا اور وہ کلمات آریوں کے جو گولی مارنے سے بدتر تھے ان کو سن کر چپ کے چپ رہ گئے“.اسی طرح فرماتے ہیں کہ : اگر میری طرف سے اپنی جماعت کے لئے صبر کی نصیحت نہ ہوتی اور اگر میں پہلے سے اپنی جماعت کو اس طور سے تیار نہ کرتا کہ وہ ہمیشہ بدگوئی کے مقابل پر صبر کریں تو وہ جلسہ کا میدان خون سے بھر جاتا.مگر یہ صبر کی تعلیم تھی کہ اس نے ان کے جوشوں کو روک لیا“.(چشمه معرفت روحانی خزائن نمبر ۲۳ صفحه ۱۰) پھر نفسانی جوشوں کو دبانے کی ایک مثال حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب کی ہے.عجیب نمونہ ہے.روایت ہے کہ: ایک روز حضرت شاہ صاحب نماز کی ادائیگی کے لئے نزدیکی مسجد میں تشریف لے گئے.
$2003 354 خطبات مسرور اس وقت ایک سخت مخالف احمدیت چوہدری رحیم بخش صاحب وضو کے لئے مٹی کا لوٹا ہاتھ میں لئے وہاں موجود تھے.حضرت ڈاکٹر صاحب کو دیکھتے ہی (ڈاکٹر صاحب سرکاری ڈاکٹر تھے، سرکاری ہسپتال میں وہاں تعینات تھے ) مذہبی بات چیت شروع کر دی.حضرت ڈاکٹر صاحب کی کسی بات پر چوہدری رحیم بخش صاحب نے شدید غصہ میں آکر مٹی کا لوٹا زور سے آپ کے ماتھے پر دے مارا.لوٹا ماتھے پر لگتے ہی ٹوٹ گیا.ماتھے کی ہڈی تک ماؤف ہوگئی اور خون زور سے بہنے لگا.ڈاکٹر صاحب کے کپڑے خون سے لت پت ہو گئے.آپ نے زخم والی جگہ کو ہاتھ سے تھام لیا اور فور امر ہم پٹی کے لئے ہسپتال چل دئے.ان کے واپس چلے جانے پر چوہدری رحیم بخش بہت گھبرائے کہ اب کیا ہوگا ؟ یہ سرکاری ڈاکٹر ہیں.افسر بھی ان کی سنیں گے اور میرے بچنے کی اب کوئی صورت نہیں.میں کہاں جاؤں! اور کیا کروں ! ؟ وہ ان خیالات میں ڈرتے ہوئے اور سہمے ہوئے ( مسجد ) میں ہی دبکے پڑے رہے.ادھر ڈاکٹر صاحب نے ہسپتال میں جا کر زخمی سر کی مرہم پٹی کی، دوائی لگائی اور پھر خون آلود کپڑے بدل کر دوبارہ نماز کے لئے اسی مسجد میں آگئے.جب ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب دوبارہ مسجد میں داخل ہوئے اور چوہدری رحیم بخش صاحب کو وہاں دیکھا تو دیکھتے ہی آپ مسکرائے اور مسکراتے ہوئے پوچھا کہ : ” چوہدری رحیم بخش ! ابھی آپ کا غصہ ٹھنڈا ہوا ہے یا نہیں؟“.یہ فقرہ سنتے ہی چوہدری رحیم بخش کی حالت غیر ہوگئی.فورا ہاتھ جوڑتے ہوئے معافی کے ملتجی ہوئے اور کہنے لگے کہ شاہ صاحب! میری بیعت کا خط لکھ دیں.یہ اعلیٰ صبر کا نمونہ اور نرمی اور عفو کا سلوک سوائے الہی جماعت کے افراد کے اور کسی سے سرزد نہیں ہوسکتا.چنانچہ چوہدری صاحب احمدی ہو گئے اور کچھ عرصہ بعد ان کے باقی اصحاب خانہ بھی جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے.(سیرت حضرت ڈاکٹر عبدالستارشاہ صاحب صفحه ۶۳ شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان ) تو یہ چند نمونے ہیں جو میں نے پیش کئے.یہ پہلی تین چار شرائط بیعت کے تعلق میں ہیں.انشاء اللہ کوشش کروں گا کہ آئندہ کچھ اور نمونے بھی پیش کروں کہ لوگوں میں بیعت میں داخل ہونے کے بعد کیا انقلابات آئے تا کہ نئے آنے والوں کو بھی اور آئندہ نسلوں کو بھی پتہ چلے اور وہ بھی اپنے اندر ایسی پاک تبدیلیاں پیدا کریں اور کبھی ان پر رعب دجال نہ آئے.آمین.
$2003 355 24 خطبات مس مسجد کی اصل زینت عمارتوں سے نہیں بلکہ ان نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص سے نماز پڑھتے ہیں.۳ را کتوبر ۲۰۰۳ء بمطابق ۳ را خا ۱۳۸۲ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن - لندن (برطانیہ) لا مسجد بیت الفتوح کا افتتاح اللہ کرے کہ یہ مسجد ہمیشہ یورپ میں اسلام کی صلح، امن اور آشتی کی خوبصورت تعلیم کا حسین نمونہ پیش کرتی رہے.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ان نئے زندہ کرنے والوں میں آپ کا بھی شمار ہے تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ مسجدوں میں تقویٰ کی زینت کے ساتھ جایا کرو.
خطبات مس $2003 356 تشھد وتعوذ کے بعد درج ذیل آیت قرآنیہ تلاوت فرمائی قُلْ اَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ وَاقِيْمُوْا وُجُوْهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّادْعُوْهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الذِيْنَ كَمَا بَدَاكُمْ تَعُوْدُوْنَ.فَرِيقًا هَدَى وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَلَةُ.إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيْطِيْنَ اَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ مُهْتَدُونَ.بَنِي آدَمَ خُذُوا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ (سورة الاعراف آیات ۳۰ تا ۳۲) اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج انشاء اللہ تعالی ، بلکہ اس وقت جمعہ کے خطبہ کے ساتھ، اس مسجد کا جس کا نام حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بیت الفتوح رکھا تھا، افتتاح کیا جا رہا ہے، الحمدللہ اس کی مختصر تھوڑی سی تاریخ نہیں بتادیتا ہوں.۱۹۹۵ ء میں حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے تحریک فرمائی تھی اور ابتداء میں جماعت احمد یہ عالمگیر کو یہ تحریک کی تھی کہ اس مسجد کے لئے پانچ ملین پاؤنڈز اکٹھے کئے جائیں.اور پھر ۱۹۹۶ء میں تقریب سوا دوملین پاؤنڈ ز با ۲ ۲۳۰ ملین پاؤنڈز کی رقم سے پانچ ایکڑ کا رقبہ یہاں خریدا زیا۲ گیا.اور اکتوبر ۱۹۹۹ء میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کا سنگ بنیاد رکھا جس میں بیت الفکر، قادیان کی اینٹ استعمال کی گئی.اس وقت قدرتی طور پر جذباتی لحاظ سے ہمیں حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی یاد بھی آرہی ہے کہ جس منصو بہ کو انہوں نے شروع کیا تھا اس کا افتتاح بھی اپنے ہاتھوں سے فرماتے.لیکن بہر حال جو الہی تقدیر ہے اس پر ہمیں راضی رہنا
$2003 357 خطبات مسرور چاہئے اور اسی پر ہم راضی ہیں.لیکن ساتھ ہی حضور کے لئے دعا نکلتی ہے اور دعائیں کرتے رہنا چاہئے.پھر فروری ۲۰۰۱ ء میں حضور نے اس میں تھوڑی سی انتظامی تبدیلیاں کیں اور پانچ ملین پاؤنڈ کی مزید تحریک فرمائی اس مسجد کو مکمل کرنے کے لئے اور انتظامی لحاظ سے اس کی نگرانی مکرم رفیق حیات صاحب، امیر جماعت UK کے سپرد کی اور ایک انتظامیہ کمیٹی تشکیل دی گئی.اس کمیٹی کے کو آرڈینیٹر مکرم ناصر خان صاحب تھے.انہوں نے ماشاء اللہ بڑی محنت سے ، ان تھک محنت سے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا، جو منصوبہ شروع کیا گیا تھا اس کو اختتام تک پہنچایا.اور ان کے ساتھ کچھ دوسرے دوست بھی تھے جنہوں نے دن رات محنت کی اور قابل ذکر اس میں سے انجم عثمان صاحب ہیں اور اس کے علاوہ ساری ٹیم ہے ہر ایک کا فرداً فرد نام لینا مشکل ہے.اس لئے تمام وہ احباب جنہوں نے دن رات ایک کر کے مسجد کی تعمیل میں حصہ لیا ان سب کو دعاؤں میں یا درکھیں.ان خدام کو،Volunteers کو بھی جنہوں نے وقار عمل کیا.ان سب کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.پھر انگلستان کی جماعت کے علاوہ دنیا بھر کے مخلصین مردوں نے عورتوں نے دل کھول کر اس مسجد کی تعمیر میں مالی قربانیاں پیش کیں.بچوں نے اپنے جیب خرچ ، عورتوں نے اپنے زیورات پیش کر کے اپنی روایات کو زندہ رکھا.اللہ تعالیٰ ان سب کو اجر عظیم عطا فرمائے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ مالی قربانیوں کے علاوہ مسجد کی تعمیر میں وقار عمل کا بھی بہت بڑا حصہ ہے.اس میں قادیان کے اور جرمنی کے خدام کو نمایاں خدمت کرنے کی توفیق ملی.اللہ تعالیٰ ان سب کو خدمت کرنے والوں کو جنہوں نے مالی قربانی کی یا وقت کی قربانی کی اپنے فضلوں اور رحمتوں کی بارش برساتے ہوئے ہمیشہ نو از تار ہے.اب اس مسجد کے نقشے کے بارہ میں کچھ عرض کر دوں.اس کا مستقف حصہ یعنی Covered Area تقریباً ۳۵۰۰ مربع میٹر ہے.(تین ہزار پانچ سو مربع میٹر ) جس میں انداز اچار ہزار کے قریب نمازی نماز پڑھ سکتے ہیں.اور مسجد کے اس کامپلیکس کے ساتھ ملحقہ بڑے بڑے ہال بھی ہیں ، ان کو بھی شمار کر لیا جائے تو تقریباً دس ہزار آدمی اس میں نماز پڑھ سکتے ہیں.اس مسجد میں جو کارپٹ بچھایا گیا ہے.اس میں بھی امریکہ کے ایک دوست منور احمد صاحب نے بڑی محنت سے وہاں سے کارپٹ مہیا کیا اور خود آ کے اپنی ٹیم کے ساتھ اس کو بچھایا.اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزاء دے.
358 $2003 خطبات مسرور اللہ کرے جماعت کو ہی موقع ملے کہ اس سے بھی بڑی مسجدیں بنائے لیکن اس وقت تک یہ یورپ کی سب سے بڑی مسجد ہے.بلکہ اکیسویں صدی کی جدید سہولیات سے بھی آراستہ ہے جسے اسلامی روایات کے تابع اسلامی فن تعمیر کا خاص خیال رکھتے ہوئے تعمیر کیا گیا ہے.اللہ کرے کہ یہ مسجد ہمیشہ یورپ میں اسلام کی صلح، امن اور آشتی کی خوبصورت تعلیم کا حسین نمونہ پیش کرتی رہے اور نیک فطرت لوگ ایسے لوگ یہاں آئیں جن کے دل میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا خوف اور تقویٰ ہو اور اگلی نسلوں میں بھی تقویٰ پیدا کرنے والے ہوں اور ان کو خدا سے ملانے والے ہوں.اور آپ اس ثواب سے بھی حصہ لیں اور اس کے وارث ٹھہریں جس کا ذکر حدیث میں یوں آتا ہے کہ محمود بن لبیب روایت کرتے ہیں کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے (اپنے دور خلافت میں ) مسجد نبوی کی تعمیر نو اور توسیع کا ارادہ فرمایا تو کچھ لوگوں نے اسے ناپسند کیا.وہ یہ چاہتے تھے کہ اس مسجد کو اس کی اصل حالت میں ہی رہنے دیا جائے.یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ میں نے تو رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے."مَنْ بَنی مَسْجِدًا لِلَّهِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ مِثْلَهُ » کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے مسجد بنائی اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ویسا ہی گھر بنائے گا.(مسلم، کتاب المساجد، باب فضل بناء المساجد والحث عليها اللہ تعالیٰ ان سب کو اس ثواب کا وارث ٹھہرائے لیکن یہ یاد رکھیں کہ صرف مسجد بنا کر کام ختم نہیں ہو گیا بلکہ یہ بات ہر احمدی کو ہر وقت اپنے ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اس زمانے کے امام کو پہچان کر، اس کی بیعت میں شامل ہو کر ہم ان خوش قسمت لوگوں میں شامل ہو گئے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنا حکم ماننے اور اسے پورا کرنے کی وجہ سے پہلوں سے ملانے کی خوشخبری دی ہے.لیکن یہ نہ سمجھیں کہ یہ خوشخبری ہمیں مل گئی ہے، آنے والے مسیح کو ہم نے مان لیا اور کام ختم اس لئے ہم ان تمام انعامات کے وارث ٹھہر جائیں گے.نہیں.بلکہ ہمیں مستقل کوشش کے ساتھ ، جدوجہد کرتے ہوئے ان مسجدوں کو آباد بھی کرنا ہو گا اور یہاں سے پیار و محبت، رواداری اور بھائی چارے کے پیغام بھی دنیا کو دینے ہوں گے.مسلسل دعاؤں سے اپنی اصلاح کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی اور اپنی نسلوں کی اصلاح کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی.یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں اس میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے انصاف کا حکم
$2003 359 خطبات مسرور دیا ہے کہ جوشخص انصاف پر قائم ہوگا، حقوق العباد قائم کرنے والا ہو گا، جس کا ماحول اس سے کسی قسم کی تکلیف اٹھانے والا نہیں بلکہ اس سے فیض پانے والا ہو گا.اپنے گھر میں ، اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ، پیار اور محبت کا سلوک کرنے والا ہوگا، نیکی کی تلقین کرنے والا اور بدی سے روکنے والا ہوگا، اور کسی کی دشمنی بھی اسے عدل سے پرے ہٹانے والی نہیں ہوگی تو ایسا شخص جو انصاف اور حقوق العباد کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والا ہے جب اپنی تمام تر توجہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے گا، دین کو خالص کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو پکارے گا، مسجد میں داخل ہوتے ہی اس کا دل اللہ تعالیٰ کی خشیت سے پکھل رہا ہو گا، عبادت کا شوق ہوگا ، ایک نماز کے لئے مسجد میں جانے کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں ہوگا تو ایسے حقوق اللہ ادا کرنے والے سے یقیناً حقوق العباد بھی ادا ہوں گے.تو ایسے لوگوں کو حقوق اللہ یہ توجہ دلا ر ہے ہوں گے کہ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ کرو.اور حقوق العباد کو ادا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی طرف توجہ ہو رہی ہوتی ہے.اور جب اس میں خالص ہو جاؤ گے تو مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور ایک نومولود بچے کی طرح معصوم حالت میں پہنچو گے.جس کی ایک یہ بھی تشریح کی جاتی ہے کہ جس طرح ماں کے پیٹ میں بچہ مختلف حالتوں سے گزرتا ہوا ایک صحتمند بچے کی شکل میں پیدا ہوتا ہے.اگر کسی حالت میں بھی صحیح Development نہ ہو تو ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اور بعض دفعہ ڈاکٹر خود ہی ضائع کر دیتے ہیں.تو اسی طرح مرنے کے بعد روح بھی مختلف مدارج سے گزرے گی اس لئے خبر دار ہو کہ مرنے کے بعد تمہاری روح اللہ کے حضور ایسی حالت میں حاضر نہ ہو کہ شکل بالکل بگڑی ہوئی ہو.اس لئے ہمیشہ اللہ کا فضل اور اس کا رحم مانگتے رہو اور خالصتاً اسی کے ہو جاؤ.اس آیت میں ایک تو یہ حکم ہے کہ مسلمانو ! ، رسول خداﷺ پر ایمان لانے والو! تم نے اگر اللہ کی رضا حاصل کرنی ہے تو لازماً تمہیں اللہ کے لئے دین کو خالص کرنا ہوگا ورنہ تم ضلالت کے گڑھے میں جا گرو گے.دوسرے اس میں یہ پیشگوئی بھی تھی کہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد مسلمان اگر اسلام کی حقیقی تعلیم کو بھلا بیٹھے تو ان کا اسلام صرف نام کا اسلام رہ جائے گا اور سوائے تھوڑی تعداد کے مسلمانوں کی اکثریت اس تعلیم کو بھلا دے گی اور آنحضرت ﷺ نے یہ پیشگوئی بھی فرما دی تھی کہ میرے بعد، کچھ عرصہ بعد ہی ، اسلام پر ایک اندھیرے اور ظلمت کا وقت آ جائے گا.بالکل اندھیرا
360 $2003 خطبات مسرور زمانہ ہوگا جیسے کہ ایک دوسری آیت بتاتی ہے کہ مسلمانوں نے بھی پہلی قوموں کی طرح راہ ہدایت کو بھلا دیا اور خدا کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنالیا.اور سمجھتے یہ ہیں کہ ہمارے سے زیادہ اسلام پر عمل کرنے والا کوئی نہیں.اور اس تکبر میں اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اس زمانے کے امام کو پہچاننے سے نہ صرف انکار کر رہے ہیں بلکہ آنے والے امام کا پہلی قوموں کی طرح استہزاء بھی کر رہے ہیں، اس کا تمسخرانہ انداز میں ذکر کرتے ہیں یا گندہ دینی کی انتہاء تک پہنچے ہوئے ہیں تو ایسے لوگوں پر ، ایسے گروہ پر، گمراہی لازم ہو چکی ہے.وہ ضلالت کے گڑھے میں جا پڑے ہیں.حدیث میں آتا ہے حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا.الفاظ کے سوا قرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا.اس زمانہ کے لوگوں کی مسجد میں بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی.ان کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین مخلوق ہوں گے.ان میں سے ہی فتنے اٹھیں گے اور ان میں ہی لوٹ جائیں گے.(مشكوة، كتاب العلم الفصل الثالث صفحه ۳۸ - كنز العمال جلد ٦ صفحه ٤٣) حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اسلام کی ظاہری اور جسمانی میں بھی ضعف آ گیا ہے.وہ قوت اور شوکت اسلامی سلطنت کو حاصل نہیں اور دینی طور پر بھی وہ بات جو مخلصین کہ الدین میں سکھائی گئی تھی اس کا نمونہ نظر نہیں آتا.اندرونی طور پر اسلام کی حالت بہت ضعیف ہوگئی ہے اور بیرونی حملہ آور چاہتے ہیں کہ اسلام کو نابود کر دیں.ان کے نزدیک مسلمان کتوں اور خنزیروں سے بھی بدتر ہیں.ان کی غرض اور ارادے یہی ہیں کہ وہ اسلام کو تباہ کر دیں اور مسلمانوں کو ہلاک کر دیں.اب خدا کی کتاب کے بغیر اور اس کی تائید اور روشن نشانوں کے سوا ان کا مقابلہ ممکن نہیں.اور اسی غرض کے لئے خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اس سلسلے کو قائم کیا ہے.پھر فرمایا: اس وقت اسلام جس چیز کا نام ہے اس میں فرق آگیا ہے.تمام اخلاق ضمیمہ بھر گئے ہیں اور وہ اخلاص جس کا ذکر مخلصین کہ الد ین ا میں ہوا ہے، آسمان پر اٹھ گیا ہے.خدا کے ساتھ وفاداری، اخلاص ، محبت اور خدا پر توکل کالعدم ہو گئے ہیں.اب خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے
$2003 361 خطبات مسرور کہ پھر نئے سرے سے ان قوتوں کو زندہ کرے.اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ان نئے زندہ کرنے والوں میں آپ کا بھی شمار ہے.اس لئے مسجدوں کی آبادی کرنا آپ کا بہت زیادہ فرض ہو چکا ہے.فرمایا : اب یہ زمانہ ہے کہ اس میں ریا کاری ، عجب خود، بینی، تکبر، نخوت ، رعونت و غیره صفات رذیلہ تو ترقی کر گئے ہیں اور مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ) وغیرہ جو صفات حسنہ تھے وہ آسمان پر اٹھ گئے.تو کل تدبیر وغیرہ سب کالعدم ہیں.اب خدا کا ارادہ ہے کہ ان کی تخمریزی ہو.پھر اسی آیت میں ایک تیسری بات ہمیں تنبیہ بھی ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمارہے ہیں کہ اب خدا کا ارادہ ہے کہ نئے سرے سے ان قوتوں کو زندہ کرے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں توفیق دی کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس ارادے میں شامل ہوئے اور اس امام کو مانا.لیکن اگر ہمارے عمل وہ نہ رہے جو خدا اور اس کا رسول ہم سے توقع کرتے ہیں تو پھر خدا کسی کا رشتہ دار نہیں ہے.کوئی اور قوم آجائے گی، اور لوگ آجائیں گے.مقصد تو انشاء اللہ پورا ہوگا لیکن ہم کہیں پیچھے نہ رہ جائیں.اس میں یہ تنبیہ ہے کہ اگر تم نے اپنی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف نہ رکھی، دین کو اس کے لئے خالص نہ کیا تو یہ نہ ہو کہ شیطان تم پر غلبہ پالے اس لئے ہمیشہ استغفار کرتے ہوئے ، اس کے حضور جھکتے ہوئے اس سے اس کا فضل طلب کرتے رہو اور اس ضمن میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : اعمال کے لئے اخلاص شرط ہے.جیسا کہ فرمایا مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ﴾.یہ اخلاص ان لوگوں میں ہوتا ہے جو ابدال ہوتے ہیں.یہ لوگ ابدال ہو جاتے ہیں اور یہ اس دنیا کے نہیں رہتے.ان کے ہر کام میں ایک خلوص اور اہلیت ہوتی ہے.فرمایا یہ خوب یاد رکھو کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے ہو جاوے خدا تعالیٰ اس کا ہو جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ کا ہونے کے لئے اور خدا کو اپنا بنانے کے لئے خدا تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا جو مقصد بیان فرمایا ہے اس کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے ، اس کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے.
362 $2003 خطبات مسرور اور ان ابدال میں شامل ہو جو اس کا حکم سامنے رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے جس طرح فرمایا ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونَ ﴾ کہ میں نے جن اور انسان کو اس لئے پیدا کیا تا کہ وہ میری عبادت کریں.اور پھر اس کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کرتے رہیں.اس سلسلہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے پرستش کے لئے ہی جن وانس کو پیدا کیا ہے.ہاں یہ پرستی اور حضرت عزت کے سامنے دائمی حضور کے ساتھ کھڑے ہونا بجز محبت ذاتیہ کے ممکن نہیں اور محبت سے مراد یکطرفہ محبت نہیں بلکہ خالق اور مخلوق کی دونوں محبتیں مراد ہیں.تاکہ بجلی کی آگ کی طرح جو مرنے والے انسان پر گرتی ہے اور جو اس وقت انسان کے اندر سے نکلتی ہے وہ شریعت کی کمزوریوں کو جلا دیں اور دونوں مل کر تمام روحانی وجود پر قبضہ کر لیں.رستش پھر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے جن اور انسان کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری پرستش کریں.پس اس آیت کی رو سے اصل مدعا انسان کی زندگی کا خدا تعالیٰ کی پرستش اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور خدا تعالیٰ کے لئے ہو جانا ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ انسان کو تو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہے کہ اپنی زندگی کا مدعا اپنے اختیار سے آپ مقرر کرے کیونکہ انسان نہ اپنی مرضی سے آتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے واپس جائے گا بلکہ وہ ایک مخلوق ہے اور جس نے پیدا کیا ہے اور تمام حیوانات کی نسبت عمدہ اور اعلیٰ قومی اس کو عنایت کئے.اسی نے اس کی زندگی کا ایک مدعا ٹھہرا رکھا ہے خواہ کوئی انسان اس مدعا کو سمجھے یا نہ سمجھے مگر انسان کی پیدائش کا مدعا بلا شبہ خدا تعالی کی پرستش، خدا تعالیٰ کی معرفت اور خدا تعالیٰ کے لئے فانی ہوجانا ہی ہے.پھر آپ نے فرمایا: کیونکہ انسان فطرتا خدا ہی کے لئے پیدا ہوا ہے جیسا کہ فرمایا وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت ہی میں اپنے لئے کچھ نہ کچھ رکھا ہوا ہے اور مخفی در مخفی اسباب سے اس کو اپنے لئے بنایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمہاری پیدائش کی اصلی غرض یہ رکھی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو.مگر جولوگ اپنی اس اصلی
$2003 363 خطبات مسرور اور فطری غرض کو چھوڑ کر حیوانوں کی طرح زندگی کی غرض صرف کھانا پینا اور سور ہنا سمجھتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے دور جاپڑتے ہیں.اور خدا تعالیٰ کی ذمہ داری ان کے لئے نہیں رہتی.وہ زندگی جو ذمہ داری کی ہے وہ یہ ہے کہ ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُوْن پر ایمان لا کر زندگی کا پہلو بدل لے.موت کا اعتبار نہیں.تم اس بات کو سمجھ لو کہ تمہارے پیدا کرنے سے خدا تعالیٰ کی غرض یہ ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور تم اس کے لئے بن جاؤ.دنیا تمہاری مقصود بالذات نہ ہو.میں اس لئے بار بار اس امر کو بیان کرتا ہوں کہ میرے نزدیک یہی ایک بات ہے جس کے لئے انسان آیا ہے.اور یہی بات ہے جس سے وہ دور پڑا ہوا ہے.میں یہ نہیں چاہتا کہ تم دنیا کے کاروبار چھوڑ دو.بیوی بچوں سے الگ ہو کر کسی جنگل یا پہاڑ میں جا بیٹھو.اسلام اس کو جائز نہیں رکھتا اور رہبانیت اسلام کا منشا نہیں.اسلام تو انسان کو چست ، ہوشیار اور مستعد بنانا چاہتا تھا.اس لئے میں تو کہتا ہوں کہ تم اپنے کاروبار کو جد و جہد سے کرو.حدیث میں آیا ہے کہ جس کے پاس زمین ہو وہ اس کا تر ڈونہ کرے تو اس سے مواخذہ ہوگا.پس اگر کوئی اس سے یہ مراد لے کہ دنیا کے کاروبار سے الگ ہو جاوے وہ غلطی کرتا ہے.نہیں، اصل بات یہ ہے کہ یہ سب کا روبار جو تم کرتے ہو اس میں دیکھ لو کہ خدا تعالیٰ کی رضا مقصود ہو اور اس کے ارادہ سے باہر نکل کر اپنی اغراض اور جذبات کو مقدم نہ کرنا.(الحكم جلد ٥ نمبر ۲۹ مورخه ۱۰ اگست ۱۹۰۱ ء صفحه ۲) پھر مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ نے یہ احسان فرمایا ہے کہ جہاں اُس کا قرب پانے کے لئے انفرادی طور پر نوافل اور ذکر الہی کا طریق بتایا، وہاں مساجد کا قیام کر کے اجتماعی عبادت کی طرف بھی توجہ دلائی تا کہ معاشرہ میں اونچ نیچ کا جو تصور ہے وہ بھی ختم ہو اور ایک محبت اور بھائی چارے کا معاشرہ قائم ہو.عبادت کے علاوہ قوم کے تربیتی اور دوسرے مسائل کی طرف بھی توجہ دی جائے تا کہ ایک انصاف پر مبنی معاشرہ قائم ہو سکے اور یہ ترغیب دلانے کے لئے کہ تم مسجدوں میں آؤ، ان کو آباد کرو، امیر غریب سب اکٹھے ہو کر میری عبادت کریں.فرمایا کہ جب اس طرح تم پانچ وقت میری عبادت کے لئے اکٹھے ہو گے تو اس کا ثواب بھی کئی گنا زیادہ ہوگا.اس لئے ہم اس زمانے کے امام کو ماننے والے اور اس کی تعلیم پر عمل کرنے کا دعوی کرنے والے ہیں.ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ صرف مسجد بنانے
$2003 364 خطبات مسرور پر ہی خوش نہ ہو جائیں بلکہ مسجدوں کو آباد بھی کریں ورنہ ہمارے اور غیروں میں کیا فرق رہ جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے حضور ایسا جھکنے والے ہوں کہ کوئی انگلی کسی احمدی کی طرف یہ اشارہ کرتے ہوئے نہ اٹھے کہ مسجدیں تو بڑی خوبصورت بناتے ہیں لیکن نماز یہ کم پڑھتے ہیں.بلکہ کہنے والے یہ کہیں کہ اگر حقیقی عابد دیکھنا ہے، ایسے عباد الرحمن دیکھنے ہیں جن کے قریب شیطان نہیں پھٹکتا اور اس کے لئے دین خالص رکھنے والے ہیں تو یہ تمہیں ہر احمدی بچے، بوڑھے، مرد اور عورت میں نظر آئیں گے.اللہ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی اس ذمہ داری کو سمجھنے والا ہو.کیونکہ عبادت کا اللہ تعالیٰ نے اس قدر تاکید سے حکم فرمایا ہے کہ نماز کا جہاں بھی وقت ہو تم یہ نہ دیکھو کہ اس وقت وضو کے لئے پانی ہے یا نہیں ، کپڑے صاف ستھرے ہیں یا نہیں، کوئی ایسی جگہ ہے یا نہیں جہاں تم نماز پڑھ سکو.بلکہ جب بھی نماز کا وقت آئے ، نماز پڑھو.بلکہ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : میرے لئے تمام زمین مسجد اور پاک بنائی گئی ہے.پس میری امت کے جس فرد کو جس جگہ بھی نماز کا وقت ہو جائے وہ وہیں نماز پڑھے.تو یہ ہے تعلیم جس کو ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے.پھر فرمایا کہ تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ مسجدوں میں تقویٰ کی زینت کے ساتھ جایا کرو.مسجد تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنائی گئی ہے.ان میں انہی نیک مقاصد کی ادائیگی ہوئی چاہئے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے اور اس کے ساتھ ظاہری صفائی کا خیال رکھنے کا بھی حکم ہے، صاف ستھرا لباس ہو، گندی بد بو نہ آتی ہو، روایتوں میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ لہسن پیاز وغیرہ کھا کر مسجد میں نہ آیا کرو تا کہ ساتھ کھڑے ہوئے مومن جو پوری توجہ سے نماز پڑھنا چاہتے ہیں ان کی نماز میں خلل نہ ہو، ان کی توجہ نہ ہے.بلکہ آپ نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ یہ کھا کر مسجد کے قریب بھی نہ آؤ کیونکہ فرشتوں کو بھی اس چیز سے تکلیف ہوتی ہے جس سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے.اس لئے کچا لہسن یا پیاز کھا کر مسجد میں نہیں آنا چاہئے.پھر زینت ظاہری کے بارہ میں اور نماز میں توجہ رکھنے کی وجہ سے وضو کا بھی حکم ہے.اس سے ایک تو صفائی پیدا ہوتی ہے دوسرے ذرا آدمی Active ہو جاتا ہے وضو کر نے سے اور توجہ سے نماز پڑھتا ہے.اور خاص طور پر جمعہ کے دن تو نہا کر آنے کو پسند کیا گیا ہے.تو بہر حال مقصد یہ ہے کہ ظاہری طور پر بھی صفائی کا خیال رکھو تو روح کی بھی صفائی کی طرف توجہ ہوگی ، اللہ تعالیٰ کی خشیت
365 $2003 خطبات مسرور اور تقویٰ بھی دل میں پیدا ہو گا.اس ضمن میں چند احادیث پیش کرتا ہوں.پہلی بات تو یہ ہے کہ مسجدوں میں ذاتی یا دنیا داری کی باتیں کرنا بالکل منع ہے اور صرف ذکر الہی کے لئے یہ مسجد میں بنائی گئی ہیں اور اس طرف توجہ ہمیں دینی چاہئے.حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ کے واسطہ سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے مسجد میں مشاعرہ کے رنگ میں اشعار پڑھنے سے منع فرمایا ہے.اور (اس بات سے بھی منع فرمایا ہے کہ ) اس میں بیٹھ کر خرید و فروخت کی جائے اور مسجد میں جمعہ کے دن نماز سے پہلے لوگ حلقے بنا کر بیٹھے باتیں کریں.(ترمذى كتاب الصلواة ) پھر ایک حدیث ہے.حضرت وائلہ بن استخﷺ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اپنی مساجد سے دور رکھو اپنے چھوٹے بچوں کو اور اپنے مجانین (دیوانوں) کو اور اپنے شراء (خرید ) اور اپنی بیع (فروخت) کو.اور اپنے جھگڑوں کو اور اپنی آواز کو بلند کرنے کو.اور اپنی حدود کی تنفیذ کو اور اپنی تلواریں کھینچنے کو.اور مساجد کے دروازوں پر (یعنی ان کے قریب) طہارت خانے بناؤ نیز جمعوں ( یا اجتماع کے موقع ) پر ان میں خوشبو دار دھونی دو.(سنن ابن ماجه تو اتنے چھوٹے بچوں کو مسجد میں نہیں لانا چاہئے جس کی بالکل ہوش کی عمر نہ ہو اور ان کے رونے سے دوسرے نمازیوں کی عبادت میں خلل واقع ہوتا ہو.تو اللہ تعالیٰ کا یہ شکر ہے کہ جماعت احمد یہ ایک پرامن جماعت ہے اور ہمارے ہاں یہ تصور بھی نہیں ہوتا کہ تلواریں کھینچی جائیں.مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہے.جیل میں ایک بڑا داڑھی والا مولوی ٹائپ آدمی تھا.میں نے اس سے انٹرویو لینا شروع کیا کہ تم کس طرح یہاں آئے.تو وہ قتل کے کیس میں آیا ہوا تھا.میں نے پوچھا یہ قتل ہوا کیسے.(کہنے لگا ) کہ رمضان کے مہینے میں اعتکاف بیٹھا ہوا تھا کہ مسجد میں ایک آدمی آیا میرے پاس بندوق تھی میں نے فائر کیا اور ماردیا.غلطی سے فائز ہو گیا.میں نے کہا کہ بندوق تم نے وہاں رکھی کیوں تھی؟ غلطی سے فائر ہو گیا؟.تو یہ دشمنیاں مسجدوں میں بھی چلتی ہیں، اعتکاف بیٹھے ہوئے بھی قتل کرنا جائز سمجھتے ہیں.پھر حدیث میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله الله
366 $2003 خطبات مسرور نے فرمایا : جب تم جنت کے باغوں میں سے گزرا کرو تو وہاں کچھ کھا پی لیا کرو.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی.یا رسول اللہ ! یہ جنت کے باغات کیا ہیں؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” مساجد جنت کے باغات ہیں، میں نے عرض کی.یارسول اللہ ! ان میں کھانے پینے سے کیا مراد ہے؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ “ پڑھنا.(ترمذی، کتاب الدعوات باب حدیث فی اسماء الله الحسنى مع ذكرها تماما) ذکر الہی کرنا سے مراد یہ ہے کہ جنت کے باغ ہیں مسجد اور ذکر الہی کرنا وہاں کی خوراک.حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہروں کی پسندیدہ جگہیں ان کی مساجد اور شہروں کی ناپسندیدہ جگہیں ان کی مارکیٹیں ہیں.(مسلم كتاب المساجد باب فضل الجلوس في مصلاه بعد الصبح و فضل المساجد) لیکن آج کل آپ دیکھیں کہ جو نا پسندیدہ جگہیں ہیں ان میں لوگ زیادہ بیٹھتے ہیں اور مساجد جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ جگہیں ہیں ان میں کم بیٹھا جاتا ہے، اس طرف توجہ کم ہے.تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے ہر احمدی کو اس بات کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہئے کہ اپنی مساجد کو آباد کریں.پھر مسجد میں تلاوت اور درس و تدریس کے بارہ میں حدیث ہے.ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب کوئی قوم مسجد میں کتاب اللہ کی تلاوت اور با ہم درس و تدریس کیلئے بیٹھی ہو تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے.رحمت باری ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کو اپنے جلو میں لے لیتے ہیں.(سنن الترمذى، كتاب القراءات، باب ماجاء ان القران انزل على سبعة احرف حضرت برادہ الاسلمی بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اندھیروں کے دوران مسجدوں کی طرف بکثرت چل کر جانے والوں کو قیامت کے روز نور تام عطا ہونے کی بشارت دے رو.تو اس سے ایک یہ بھی مراد ہے کہ یہ دنیا داری کا زمانہ ہے، اس میں مسجدیں آباد کرنے
$2003 367 خطبات مسرور والوں کو مکمل نور عطا ہوگا اور اس کی بشارت دی گئی ہے.الله پھر حضرت ابو سعید بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم کسی شخص کو مسجد میں عبادت کے لئے آتے جاتے دیکھو تو تم اس کے مومن ہونے کی گواہی دو (اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللہ کی مساجد کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں.(ترمذی کتاب التفسير - تفسير سورة (التوبه عروہ بن زبیر نے اپنے داداغر وہ کے حوالہ سے روایت کی ہے کہ ان سے رسول اللہ اللہ کے ایک صحابی نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺہ ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ ہم اپنے محلوں میں مسجد میں بنائیں اور یہ کہ ہم ان کوعمدہ تعمیر کریں اور ان کو پاک صاف رکھیں.(مسند احمد بن حنبل) تو مسجد کی صفائی کا بھی بہت خیال رکھنا چاہئے.مسجد کی صفائی کے ضمن میں ایک حدیث آتی ہے.حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے سامنے میری اُمت کے اجر پیش کئے گئے یہاں تک کہ وہ خس و خاشاک بھی اجر کا باعث ہے جسے ایک شخص مسجد سے باہر پھینکتا ہے.مسجد کی صفائی کے لئے اگر کوئی تنکا بھی اٹھا کر باہر پھینکتا ہے تو اس کا بھی اجر ملتا ہے.پھر حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نص نے مسجد سے تکلیف دینے والی چیز نکالی اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بنائے گا.(سنن ابن ماجه، کتاب المساجد، باب تطهير المساجد وتطييبها) پس اس مسجد میں بھی دنیا میں جہاں جہاں بھی جماعت احمدیہ کی مساجد ہیں ہمیں ان کی صفائی کی طرف خاص طور پر توجہ دینی چاہئے.صرف یہ نہیں کہ بنالی ہے اور اس کے بعد اس کی صفائی اور Maintenance کی طرف توجہ نہ ہو.بلکہ بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے.اور ہماری مساجد کی صفائی کے معیار بہت بلند ہونے چاہئیں.آنحضرت یہ تو بعض اوقات گند دیکھ کے خود بھی صفائی کا اہتمام فرمایا کرتے تھے.تو جماعتی نظام کو اس طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.بعض لوگ اگر امام کے انتظار میں کچھ دیر بیٹھنا پڑے تو بڑ بڑا نا شروع کر دیتے ہیں، بار بار گھڑیاں دیکھ رہے ہوتے ہیں.ان کو یہ حدیث پیش نظر رکھنی چاہئے.
368 $2003 خطبات مسرور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص اس وقت تک نماز میں مشغول شمار ہوتا ہے جب تک وہ نماز کے انتظار میں ہوتا ہے.اور تم میں سے ہر شخص کے لئے فرشتے یہ دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ اے اللہ ! تو اسے بخش دے.اے اللہ ! تو اس پر رحم فرما.جب تک وہ مسجد میں ہو.(ترمذی، کتاب الصلوة، باب ماجاء فى القعود في المسجد......ہر انسان جو اس معاشرے میں رہ رہا ہے اس کی چکا چوند سے متاثر ہوتا ہے.مادیت کا لالچ اس پر بار بار حملہ کر رہا ہوتا ہے.شیطان اپنا پورا زور لگارہا ہوتا ہے کہ میں اس شخص کو کسی طرح قابو کروں اور اس کو خدا سے دور لے جاؤں.بعض دفعہ یہی ہوتا ہے کہ چلو یہ کام ہے، دنیا داری کا کام چھوٹا سا یہ پہلے کر لو، نماز بعد میں پڑھ لیں گے ابھی کافی وقت ہے.تو یہ شخص اپنی روحانی سرحد کے اس دائرے کو کمزور کر رہا ہوتا ہے اور جب یہ دائرہ کمزور ہو جاتا ہے تو پھر شیطان حملہ کر کے اس کو بہت دور لے جاتا ہے.بعض دفعہ یہی ہوتا ہے کہ چلو پڑھ لیں گے، ٹھہر کر پڑھ لیں گے.تو پھر وہ نماز رہ ہی جاتی ہے یا پھر اتنی جلدی میں پڑھی جاتی ہے جیسے جلدی جلدی کوئی مصیبت گلے سے اتاری جائے.تو اس سستی سے بچنا چاہئے.مومن کا دل تو نماز کی طرف رہنا چاہئے اور اس مادی دنیا میں تو آج کل یہ سب سے بڑا جہاد ہے.حدیث میں آتا ہے.66 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” کیا میں آپ کو وہ عمل نہ بتاؤں جس کے کرنے سے اللہ تعالیٰ خطاؤں کو مٹا دیتا ہے اور درجات کو بلند فرماتا ہے.فرمایاوہ یہ ہے کہ : ” جی نہ چاہتے ہوئے بھی کامل وضو کرنا، اور مسجد کی طرف زیادہ چل کر جانا، نیز ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا.یہ رباط ہے، یہ رباط ہے، یہ رباط ہے (سرحدوں پر گھوڑے باندھنا یعنی تیاری جہاد “.(سنن النسائي، كتاب الطهارة، باب الامر باسباغ الوضوء تو یہ ہر مومن کا فرض ہے کہ اپنی روحانی سرحدوں کی حفاظت کرے کیونکہ جب سب مل کر اس طرح سرحدوں کی حفاظت کریں گے اور مسجدوں میں آئیں گے اور مسجدوں کو آباد کریں گے تو پھر کوئی دشمن نہیں جو کبھی ہمیں نقصان پہنچا سکے.انشاء اللہ.اور آر ہمیں یہ خوشخبری دے رہے
خطبات مسرور 369 ہیں کہ اس طرح کرو گے تو ہمیشہ محفوظ رہو گے، ہر دشمن سے بچے رہو گے.$2003 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : ” با جماعت نماز ادا کرنا گھر اور بازار میں اکیلے پڑھنے سے پچیس گنا زیادہ اجر کا موجب ہے.تم میں سے جب کوئی اچھی طرح وضو کرے اور مسجد میں محض نماز کی خاطر آئے تو وہ کوئی قدم نہیں اٹھا تا مگر اللہ تعالیٰ اس کے ہر قدم کے بدلہ میں اس کی ایک خطا معاف کر دیتا ہے اور اس کا ایک درجہ بلند فرماتا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہو جائے.اور جب وہ مسجد میں آجاتا ہے تو جب تک نماز کے لئے وہاں رکا ہے نماز ہی میں شمار ہوگا.اس کے لئے ملائکہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ اللَّهُمَّ اغْفِرْلَهُ اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ یہ حالت اس وقت تک رہتی ہے جب تک کہ وہ کسی اور کام یا بات میں مصروف نہیں ہوتا.(صحيح بخارى كتاب الصلوة باب الصلوة في المسجد) حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو ہماری اس مسجد میں اس نیت سے داخل ہوا کہ بھلائی کی بات سیکھے یا بھلائی کی بات جانے وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہوگا.اور جو مسجد میں کسی اور نیت سے آئے تو وہ اس شخص کی طرح ہوگا جو کسی ایسی چیز کو دیکھتا ہے جو اس کو حاصل نہیں ہوسکتی.(مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۳۵۰ مطبوعه بيروت) | مسجد میں آ کر نوافل پڑھنا بھی مستحب ہے.حضرت ابوقتادہ الاسلمی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو وہ بیٹھنے سے قبل دورکعات (نفل) ادا کرے.(بخاری کتاب الصلوة باب اذا دخل المسجد فليركع ركعتين) صلى الله حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت مہ جب مسجد میں داخل ہونے لگتے تو یہ دعا پڑھتے.اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ اور اللہ کے رسول پر سلامتی ہو، یعنی اللہ کا نام لے کر مسجد میں داخل ہوں یعنی یہ کہیں ” بِسْمِ اللهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُوْلَ اللهِ “ اللہ کے نام کے ساتھ اور اللہ کے رسول پر سلامتی ہو.پھر کہے "اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِی“ اے اللہ میرے گناہ
370 $2003 خطبات مسرور مجھے بخش دے " وَافْتَحْ لِيْ اَبْوَابِ رَحْمَتِكَ “ اور میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے.اور جب مسجد سے نکلنے لگے تو یہ دعا کرے ” بِسْمِ اللَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُوْلِ اللَّهِ “ الله کے نام کے ساتھ اور رسول پر سلام ہو "اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبی“ اے اللہ میرے گناہ بخش دے وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ فَضْلِكَ“ اور میرے لئے اپنے فضل کے دروازے کھول دے.(مسند ا احمد بن حنبل ایک حدیث میں آداب مساجد کے بارہ میں آتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کچھ باتیں ہیں جو مسجد میں کرنی جائز نہیں.(۱) مساجد کو گزرنے کا راستہ نہ بنایا جائے.(شارٹ کٹ میں یہ نہیں کہ ایک دروازے سے آئے دوسرے سے نکل گئے ).(۲) مسجد میں اسلحہ کا مظاہرہ نہ کیا جائے.(۳) مسجد میں کمان نہ پکڑی جائے اور نہ مسجد میں تیر برسائے جائیں.(۴) کچا گوشت لے کر مسجد سے نہ گزرا جائے.(اس سے گند بھی پھیلتا ہے، یو بھی پھیلتی ہے ).(۵) مسجد میں نہ تو کسی پر حد جاری کی جائے اور نہ مسجد میں کسی سے قصاص لیا جائے.اسی طرح مسجد کو بازار نہ بنایا جائے ( یعنی مسجد میں خرید و فروخت نہ کی جائیں).(سنن ابن ماجه، کتاب المساجد، باب مايكره في المساجد) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: حق اللہ میں بھی امراء کو دقت پیش آتی ہے اور تکبر اور خود پسندی ان کو محروم کر دیتی ہے.مثلاً نماز کے وقت ایک غریب کے پاس کھڑا ہونا برا معلوم ہوتا ہے.اُن کو اپنے پاس بٹھا نہیں سکتے اور اس طرح پر وہ حق اللہ سے محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ مساجد تو دراصل بیت المساکین ہوتی ہیں.(ملفوظات جلد.سوم صفحه ٣٦٨.جدید ایڈیشن) پھر آپ نے فرمایا: اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے.یہ خانہ خدا ہوتا ہے.جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہوگئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی.اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر، جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنادینی چاہئے ، پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا.لیکن شرط یہ ہے کہ قیام مسجد میں نیت بہ اخلاص ہو.محض اللہ اُسے کیا جاوے.نفسانی اغراض یا کسی شتر کو ہر گز دخل نہ ہو، تب خدا برکت دے گا.
خطبات مسرور 371 $2003 یہ ضروری نہیں کہ مسجد مرقع اور پکی عمارت کی ہو.بلکہ صرف زمین روک لینی چاہئے اور وہاں مسجد کی حد بندی کر دینی چاہئے اور بانس وغیرہ کا کوئی چھپر وغیرہ ڈال دو کہ بارش وغیرہ سے آرام ہو.خدا تعالیٰ تکلفات کو پسند نہیں کرتا.آنحضرت ﷺ کی مسجد چند کھجوروں کی شاخوں کی تھی اور اسی طرح چلی آئی.پھر حضرت عثمان نے اس لئے کہ ان کو عمارت کا شوق تھا ، اپنے زمانہ میں اسے پختہ بنوایا.تو یہ بھی وہم نہیں ہونا چاہئے کہ صرف کچی مسجد ہی، چھپر ہی ہوں.بلکہ پختہ بھی بنوائی گئیں.اور آنحضرت ﷺ نے جیسا کہ میں نے پہلے حدیث سے ذکر کیا تھا حضرت عثمان نے اس کی وضاحت بھی کی تھی.فرمایا ”حضرت عثمانؓ نے اس لئے کہ ان کو عمارت کا شوق تھا، اپنے زمانہ میں اسے پختہ بنوایا.مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ حضرت سلیمان اور عثمان کا قافیہ خوب ملتا ہے.شاید اسی مناسبت سے اُن کو ان باتوں کا شوق تھا.غرضیکہ جماعت کی اپنی مسجد ہونی چاہئے جس میں اپنی جماعت کا امام ہو اور وعظ وغیرہ کرے.اور جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ سب مل کر اسی مسجد میں نماز باجماعت ادا کیا کریں.جماعت اور اتفاق میں بڑی برکت ہے.پراگندگی سے پھوٹ پیدا ہوتی ہے اور یہ وقت ہے کہ اس وقت اتحاد اور اتفاق کو بہت ترقی دینی چاہئے اور ادنی ادنی باتوں کو نظر انداز کر دینا چاہئے جو کہ پھوٹ کا باعث ہوتی ہیں.البدر ٢٤ اگست ١٩٠٤ء، ملفوظات جلد چهارم - صفحه ۹۳) پھر آپ فرماتے ہیں : مسجدوں کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ان نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں.ورنہ یہ سب مساجد ویران پڑی ہوئی ہیں.رسول کریم علیہ کی مسجد چھوٹی سی تھی.کھجور کی چھڑیوں سے اس کی چھت بنائی گئی تھی اور بارش کے وقت چھت میں سے پانی ٹپکتا تھا.مسجد کی رونق نمازیوں کے ساتھ ہے.آنحضرت ﷺ کے وقت میں دنیا داروں نے ایک مسجد بنوائی تھی.وہ خدا تعالیٰ کے حکم سے گرادی گئی.اس مسجد کا نام مسجد ضرار تھا یعنی ضرر رساں.اس مسجد کی زمین خاک کے ساتھ ملا دی گئی تھی.مسجدوں کے واسطے حکم ہے کہ تقویٰ کے واسطے بنائی جائیں.(البدر ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۵ ، ملفوظات جلد چهارم صفحه ٤٩١
372 $2003 خطبات مسرور اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو تو فیق دے کہ ہماری جو بھی مسجد بنے اس کی خالص بنیاد تقوی اللہ پر ہو اور ہمیشہ ہمارا شمار اللہ تعالیٰ کے عبادتگزاروں میں سے ہو.اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والے ہوں اور اپنی ساری مراد یں اور خواہشیں اس کے حضور پیش کرنے والے ہوں اور اس خدا کوسب قوتوں کا مالک اور سب طاقتوں کا سر چشمہ سمجھتے ہوں اور خالص اسی کے ہو جائیں.اور اسی کے حکم کے مطابق و موافق مسجدوں کو آباد کرنے والے بھی ہوں.یہ مسجد بھی اور دنیا میں جہاں بھی جماعت کی مساجد ہیں اللہ کرے کہ وہ گنجائش سے کم پڑنے لگ جائیں.اور نمازیوں سے چھلک رہی ہوں.یادرکھیں اسلام اور احمدیت کی فتح اب ان مسجدوں کو آباد کرنے سے ہی وابستہ ہے.پس اے احمد یو! اٹھو! اور مسجدوں کی طرف دوڑو اور ان کو آباد کرو تا کہ الہی وعدوں کے مطابق ہم جلد از جلد اسلام اور احمدیت کی فتح کے دن دیکھ سکیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور یہ دن دیکھنے نصیب کرے.000
خطبات مس $2003 373 25 تنگی ترشی کے حالات بھی ہوں شکوہ نہیں کرنا، خدا کا فضل مانگنا ہے اور ا رہنا ہے.W ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۳ء بمطابق ۱۰ را خا ۱۳۸۲ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - مورڈن (لندن) احمدیت قبول کرنے کے بعد نیک انقلابی تبدیلیوں کے ایمان افروز تذکرے.بچوں کی وفات پر حیرت انگیز صبر وقتل کے قابل رشک نظارے.مخالفین کے اہانت آمیز سلوک کو شکر کے جذبات سے قبول کرنا.بدرسومات سے احمدیت قبولیت کرنے والوں کی نفرت کا عملی نمونہ.سگریٹ نوشی ترک کریں.یہ دجال کا پھیلایا ہوا جال ہے....اثری جواء، وغیرہ قطعاً جائز نہیں بلکہ حرام ہے...عاجزی مسکینی اور خوش خلقی کے پیکر.نیز احمدیوں کے دلکش و ایمان افروز واقعات.اے مسیح آخر الزمان ! آپ کو مبارک ہو کہ آپ کی پیاری جماعت نے آپ کی اپنی جماعت سے امیدوں کو پورا کیا.
خطبات مس $2003 374 تشھد وتعوذ کے بعد فرمایا گزشتہ جمعہ سے پہلے جمعہ کے خطبے میں میں یہ بیان کر رہا تھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں ان دس شرائط بیعت پر عمل پیرا ہونے کا عہد کرتے ہوئے شامل ہونے کے بعد احمدیوں میں کیا تبدیلیاں پیدا ہوئیں.کچھ واقعات پیش کئے تھے اب اسی مضمون کو مزید آگے بڑھاتا ہوں.پانچویں شرط میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے یہ عہد لیا تھا کہ تم پرتنگی ترشی ، بلا، مصیبت ، ذلت ورسوائی کے جیسے مرضی حالات ہو جائیں کبھی بھی اللہ تعالیٰ سے شکوہ نہیں کرنا.ہاں اس کے فضل مانگتے رہنا ہے لیکن یہ وعدہ کرتے ہوئے کہ اس کی رضا پر ہمیشہ راضی رہوں گا.تو اس کے چند عملی نمونے میں پیش کرتا ہوں.سب سے پہلے تو حضرت خلیفہ مسیح الاول کا نمونہ ہے.اگست ۱۹۰۵ ء کو آپ کے صاحبزادے عبدالقیوم چند دن خسرہ میں مبتلا رہنے کے بعد وفات پاگئے.اور اس وقت ان کی عمر قریباً دو سال تھی.حضرت خلیفہ امسیح الاول نے جو نمونہ دکھا یا وہ یہ ہے کہ آپ نے سنت نبوی کی متابعت میں پہلے بچے کو بوسہ دیا اس پر آپ کی آنکھیں پرنم ہو گئیں اور فرمایا: ”میں نے بچہ کا منہ اس واسطے نہیں کھولا تھا کہ مجھے کچھ گھبراہٹ تھی بلکہ اس واسطے کہ آنحضرت ﷺ کا بیٹا ابراہیم جب فوت ہوا تھا تو آنحضرت نے اس کا مونہہ چوما تھا اور آپ کے آنسو بہہ نکلے اور آپ نے اللہ تعالیٰ کی مدح کی اور فرمایا کہ جدائی تو تھوڑی دیر کے لئے بھی پسند نہیں ہوتی مگر ہم خدا کے فضلوں پر راضی ہیں.اسی سنت کو پورا کرنے کے واسطے میں نے بھی اس کا منہ کھولا اور چوما.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور خوشی کا مقام
$2003 375 خطبات مسرور ہے کہ کسی سنت کے پورا کرنے کا موقع عطا ہوا.یہ تو خیر اس شخص کا عمل ہے جس کے بارہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے کہ کیا ہی اچھا ہوا گر قوم کا ہر فردنور دین بن جائے مگر یہ تو تب ہی ہوسکتا ہے جب ہر دل یقین کے نور سے پُر ہو.پھر ایک مثال ہے مکرم حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب کی.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ ”ہمارے ایک بھائی عزیزم چوہدری شکر اللہ خان صاحب مرحوم سے چھوٹے عزیزم چوہدری عبداللہ خان صاحب ( مرحوم) سے بڑے تھے جن کا نام حمید اللہ خان تھا.وہ آٹھ نو سال کی عمر میں چند دن بیمار رہ کر فوت ہو گئے.ان کی وفات فجر کے وقت ہوئی.والد صاحب تمام رات ان کی تیمارداری میں مصروف رہے تھے.ان کی وفات کے بعدان کی تجہیز وتکفین ، جنازہ اور دفن سے فارغ ہو کر عدالت کھلنے پر حسب دستور عدالت میں اپنے کام پر حاضر ہو گئے.نہ موکلوں میں سے کسی کو احساس ہوا، اور نہ افسران عدالت یا آپ کے ہم پیشہ اصحاب میں سے کسی کو اطلاع ہوئی کہ آپ اپنے ایک لخت جگر کو سپردخاک کر کے اپنے مولا کی رضا پر راضی اور شاکر اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے حسب معمول کمر بستہ حاضر ہو گئے ہیں.(اصحاب احمد جلد ۱ صفحه ۱۶۵-۱۶۲) حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ : ”اہلیہ اور تین بچوں کی وفات ادھر مخالفوں نے اور بھی شور مچا دیا تھا.آبروریزی اور طرح طرح کے مالی نقصانوں کی کوشش میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا.غریب خانہ میں نقب زنی کا معاملہ بھی ہوا.اب تمام مصیبتوں میں یکجائی طور پر غور کرنے سے بخوبی معلوم ہو سکتا ہے کہ عاجز راقم کسی قدر بلیہ دل دوز سینہ سوز میں مبتلا رہا اور یہ سب الہی آفات و مصائب کا ظہور ہوا جس کی حضور نے پہلے سے ہی مجمل طور پر خبر کر دی تھی.اسی اثناء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے از راہ نوازش تعزیت کے طور پر ایک تسلی دہندہ چٹھی بھیجی.وہ بھی ایک پیشگوئی پر مشتمل تھی جو پوری ہوئی اور ہو رہی ہے.لکھا تھا کہ واقع میں آپ کو سخت ابتلا پیش آیا.یہ
376 $2003 خطبات مسرور سنت اللہ ہے تا کہ وہ اپنے مستقیم الحال بندوں کی استقامت لوگوں پر ظاہر کرے اور تا کہ صبر کرنے سے بڑے بڑے اجر بخشے.خدا تعالیٰ ان تمام مصیبتوں سے مخلصی عنایت کر دے گا.دشمن ذلیل و خوار ہوں گے جیسا کہ صحابہ کے زمانہ میں ہوا کہ خدا تعالیٰ نے ان کی ڈوبتی کشتی کو تھام لیا.ایسا ہی اس جگہ ہوگا.ان کی بددعائیں آخر ان پر پڑیں گی.سو بارے الحمد للہ کہ حضور کی دعا سے ایسا ہی ہوا.عاجز ہر حال میں استقامت وصبر میں بڑھتا گیا.(اصحاب احمد جلد ٦ صفحه ١٢-١٣) حضرت مولوی برہان الدین صاحب رضی اللہ عنہ کا نمونہ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابتداء میں جب سیالکوٹ تشریف لے گئے تو حضور لیکچر دینے کے لئے ایک جگہ سے دوسری جگہ تشریف لے جا رہے تھے اور دیگر احباب بھی حضور کے ہمراہ تھے.گلی سے گزرتے ہوئے کسی نے از راہ شرارت کو ٹھے پر سے راکھ کی ٹوکری پھینک دی.حضور تو خدا کے فضل سے بچ گئے کیونکہ آپ گزر چکے تھے.ٹوکری کی راکھ والد صاحب کے سر پر پڑی.( یہ ان کے بیٹے بیان کر رہے ہیں ).بس پھر کیا تھا بوڑھا آدمی ، سفید ریش ، لوگوں کے لئے تماشا بن گیا.چونکہ آپ کو حضرت صاحب سے والہانہ اور عاشقانہ محبت تھی.بس پھر کیا تھا اسی جگہ کھڑے ہو گئے اور ایک حالت وجد طاری ہوگئی اور نہایت بشاشت سے کہنا شروع کیا : ”پا مائیے پا، پا مایئے پا“.یعنی مائی یہاں ڈالو یہاں.فرماتے تھے شکر ہے خدا کا کہ حضرت صاحب کے طفیل یہ انعام حاصل ہوا.اسی طرح ایک اور واقعہ ہے.حضرت صاحب جب سیالکوٹ سے واپس آئے تو خدام آپ کو گاڑی پر چڑھانے کے بعد واپس گھروں کو جارہے تھے تو یہ کسی وجہ سے اکیلے پیچھے رہ گئے.تو مخالفوں نے پکڑ لیا اور نہایت ذلت آمیز سلوک کیا.یہاں تک کہ منہ میں گوبر ڈالا.مگر والد صاحب اسی ذلت میں عزت اور اسی دکھ میں راحت محسوس کرتے تھے.اور بار بار کہتے تھے ”بر ہانیا، ایہہ نعمتاں کیتھوں“.یعنی اے برہان الدین ! یہ نعمتیں کہاں میسر آسکتی ہیں.یعنی دین کی خاطر کب کوئی کسی کو دکھ دیتا ہے.یہ تو خوش قسمتی ہے.(ماہنامہ انصار الله ربوه ، ستمبر ۱۹۷۷ء صفحه ۱۴.۱۵) حضرت مولوی برہان الدین صاحب رضی اللہ عنہ کے بارہ میں حضرت مولوی عبد المغنی
$2003 377 خطبات مسرور صاحب ( یعنی آپ کے بیٹے تحریر فرماتے ہیں کہ : احمدیت قبول کرنے کے بعد مالی حالت کا یہ حال تھا کہ مہینوں اس ارزانی کے زمانہ میں ہم گھر والوں نے کبھی گھی کی شکل نہیں دیکھی تھی.ایندھن خریدنے کی بجائے شیشم کے خشک پتے جلایا کرتے تھے.مگر خشک پتوں سے ہانڈی نہیں پکتی.اس لئے پہلے دال کو گھر ہی میں بھون لیا کرتے تھے.اس کے بعد اسے پیس لیتے تھے.اب ہانڈی میں پانی ، نمک ، مرچ ڈال کر نیچے پتے جلانے شروع کرتے.جب پانی جوش کھا تا تو وہ بھنی اور پسی ہوئی دال ڈال دیتے.یہ ہماری ترکاری ہوتی جس سے روٹی کھاتے.عام طور پر جوار، باجرہ اور گیہوں کی روٹی کبھی کبھار.بجائے گھی کے تلوں کا تیل استعمال ہوتا تھا.ساگ کی بجائے درختوں کی کونپلیں ساگ کے طور پر پکا کر کھاتے تھے.لباس پرانے زمانہ کے زمینداروں کا تھا نہ کہ مولویوں کا.کہتے ہیں کہ دراصل والد صاحب کو حضرت صاحب سے مل کر ایک عشق اور محبت ، شوق اور جوش پیدا ہو گیا تھا اور اس عشق و محبت اور وارفتگی کی وجہ سے آپ کو اپنے آرام و آسائش اور خوراک کی قطعا پرواہ نہ تھی.بس ایک ہی دھن تھی کہ جو عشق کی آگ ان کے اندر تھی وہی عشق الہی ، محبت رسول اور حضرت صاحب کا عشق لوگوں کے دلوں میں لگا دوں.اور بس ہر وقت یہی خیال ، یہی جذبہ، یہی عشق ، یہی غم اور یہی فکر کہ کس طرح احمدیت پھیل سکتی ہے.کھانے کی نہ پینے کی نہ پہننے کی پرواہ.جس طرح میں نے اور میری والدہ نے ان حالات میں وقت گزارا ہے وہ ا للہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے.باوجود اس قدر تنگ دستی اور ناداری کے خود داری اور صبر اور استقلال کی ایک مضبوط چٹان تھے.اور دین کے معاملہ میں ایسے غیور کہ کوئی لالچ اور کسی قسم کا دوستانہ اور رشتہ دارانه تعلق درمیان میں حائل نہیں ہوسکا، الحمد للہ ثم الحمد للہ.اور ہماری بھی ایسے ماحول میں پرورش ہوئی کہ دنیا اور مافیہا ہماری نظروں میں بیچ.اس استغناء کو دیکھ کر آخر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ مرزا صاحب مولوی صاحب کو تنخواہ دیتے ہیں.(ماہنامہ انصار الله ربوه، ستمبر ۱۹۷۷ء صفحه ۱۱-۱۲) حضرت ام المومنین کا بے مثال صبر کا نمونہ جس کی مثال نہیں ملتی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری لمحات کے وقت حضرت ام المومنین نے بجائے دنیا دار عورتوں کی طرح رونے بیچنے اور بے صبری کے کلمات منہ سے نکالنے کے صرف اللہ تعالیٰ کے حضور گر کے سجدہ
378 $2003 خطبات مسرور میں نہایت عجز و انکسار کے ساتھ دعائیں مانگنے کا پاک نمونہ دکھایا.جب اخیر میں یس پڑھی گئی اور حضور کی روح مقدس قفس عنصری سے پرواز کر کے اپنے محبوب حقیقی کے حضور حاضر ہوگئی تو حضرت ام المومنین نے فرمایا انا للہ وانا الیہ راجعون اور بس خاموش ہو گئیں کسی قسم کا جزع فزع نہیں کیا.اندر بعض مستورات نے رونا شروع کیا آپ نے ان عورتوں کو بڑے زور سے جھڑک دیا اور کہا میرے تو خاوند تھے میں نہیں روتی تم رونے والی کون ہو.یہ صبر و استقلال کا نمونہ ایک ایسی پاک عورت سے جو ناز و نعمت میں پلی ہو اور جس کا ایسا روحانی بادشاہ اور ناز اٹھانے والا مقدس خاوند انتقال کر جائے ، ایک زبر دست اعجاز تھا.( تاریخ احمدیت جلد ۲ صفحه ۵۴۷) پھر بچوں کو بھی یہی نصیحت کی کہ یہ نہ سمجھنا کہ تمہارا باپ تمہارے لئے کچھ نہیں چھوڑ کر گیا بلکہ دعاؤں کا ایک بڑا عظیم خزانہ چھوڑ کر گئے ہیں جو وقت پر تمہارے کام آتا رہے گا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام چاہتے تھے کہ آپ کی جماعت میں شامل ہونے والا ہر شخص قرآن کریم کے حکموں پر عمل کرنے والا ہو اور کم از کم عمل کرنے کی کوشش کرنے والا ہو ، اس کو ماننے والا ہو.اگر ایک حکم کو بھی نہیں مانتا تو فرمایا کہ اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں.آپ چاہتے تھے کہ آپ کے ماننے والے دنیا کی رسموں سے بالا ہو کر دنیا کے لالچوں اور فضول رسموں سے بچنے والے ہوں.اور انہی اعمال کو بجالانے کی کوشش کرنے والے ہوں جن کا خدا اور اس کے رسول ہو نے حکم دیا ہے.اور خدا کے رسول نے وہی حکم دیا ہے جو خدا کا قرآن میں حکم ہے.تبھی تو جب کسی نے حضرت عائشہ سے پوچھا تھا کہ ہمیں آنحضرت ﷺ کے خلق کے بارہ میں بتا ئیں تو آپ نے فرمایا کیا قرآن نہیں پڑھتے.جو قرآن میں خلق بیان ہوئے ہیں وہی آنحضرت ﷺ کے خلق تھے.اس لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تو اپنے آقا اور مطاع کی پیروی کرتا ہوں اور قرآن کے ہر حکم کو اپنا دستورالعمل قرار دیتا ہوں.تم بھی اگر ایسی اتباع کرنے کی کوشش کرو گے تو میری جماعت میں شمار ہو گے اور بیعت کرنے کے بعد پھر اس کے نمونے بھی جماعت نے دکھائے.سب سے پہلے ایک خاتون کا نمونہ یہاں پیش کرتا ہوں.یہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی والدہ تھیں.ان کے بھانجے چوہدری بشیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں.انہوں نے چوہدری صاحب کو بیان کیا ، چوہدری صاحب نے یہ لکھا ہے یہاں کہ والدہ صاحبہ کو بدعات رسوم سے
$2003 379 خطبات مسرور کس قدر نفرت تھی اس کا اندازہ اس طرح ہوتا ہے.وہ کہتے ہیں کہ میری شادی کا موقعہ تھا ( چوہدری بشیر صاحب کی ).نکاح کے بعد مجھے زنانہ میں بلایا گیا.میں نے دیکھا کہ جیسے دیہات میں رواج ہے دونشستوں کا ایک دوسرے کے مقابل انتظام کیا گیا ہے اور مجھ سے توقع کی جارہی ہے کہ میں ایک نشست پر بیٹھ جاؤں اور دوسری پر دلہن کو بٹھا دیا جائے.اور بعض رسوم ادا کی جائیں جنہیں پنجابی میں بیر و گھوڑی کھیلنا کہتے ہیں.میں دل میں گھبرایا.لیکن پھر میں نے خیال کیا کہ اس وقت عورتوں کے ساتھ بحث اور ضد مناسب نہیں اور میں اس نشست پر جو میرے لئے تجویز کی گئی تھی بیٹھ گیا اور ان اشیاء کی طرف جو اس رسم کے لئے مہیا کی گئی تھیں ہاتھ بڑھایا.اتنے میں ممانی صاحبہ ( یعنی چوہدری صاحب کی والدہ نے میرا ہاتھ کلائی سے مضبوط پکڑ کر پیچھے ہٹا دیا اور کہا: نہ بیٹا یہ شرک کی باتیں ہیں.اس سے مجھے بھی حوصلہ ہو گیا، میں نے ان اشیاء کو اپنے ہاتھ کے ساتھ بکھیر دیا اور کھڑے ہو کر کہہ دیا کہ میں ان رسوم میں شامل نہیں ہوں گا اور اس طرح میری مخلصی ہوئی.آج بھی عورتوں کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے.صرف اپنے علاقہ کی یا ملک کی رسموں کے پیچھے نہ چل پڑیں.بلکہ جہاں بھی ایسی رسمیں دیکھیں جن سے ہلکا سا بھی شائبہ شرک کا ہوتا ہوان سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے.اللہ کرے تمام احمدی خواتین اسی جذبہ کے ساتھ اپنی اور اپنی نسلوں کی تربیت کرنے والی ہوں.ہمارے ملکوں میں، پاکستان اور ہندوستان وغیرہ میں مسلمانوں میں بھی یہ رواج ہے کہ لڑکیوں کو پوری جائداد نہیں دیتے.پوری کیا، دیتے ہی نہیں.خاص طور پر دیہاتی لوگوں میں، زمینداروں میں.اس کا ایک نمونہ ہے، چوہدری نصر اللہ خان صاحب کا.چوہدری صاحب لکھتے ہیں کہ ہماری ہمشیرہ صاحبہ مرحومہ کو اس زمانہ کے رواج کے مطابق والد صاحب نے ان کی شادی کے موقع پر بہت سارا جہیز دیا اور پھر آپ نے یہ وصیت بھی کر دی کہ آپ کا ورثہ شریعت محمدی کے مطابق تقسیم بھی ہوگا، لڑکوں میں بھی اور لڑکیوں میں بھی.چنانچہ اس کے مطابق ان کی وفات کے بعد ان کی بیٹی کو بھی شریعت کے مطابق حصہ دیا گیا.ایک واقعہ ہے: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۹۲ء میں جالندھر تشریف لے گئے تھے.حضور کی رہائش بالائی منزل پر تھی.کسی خادمہ نے گھر میں حقہ رکھا اور چلی گئی اسی دوران حقہ گر پڑا اور بعض چیزیں آگ سے جل گئیں.حضور نے اس بات پر حقہ پینے والوں سے ناراضگی اور حقہ
380 $2003 خطبات مسرور سے نفرت کا اظہار فرمایا.یہ خبر نیچے احمدیوں تک پہنچی جن میں سے کئی حقہ پیتے تھے اور ان کے حقے بھی مکان میں موجود تھے.انہیں جب حضور کی ناراضگی کا علم ہوا تو سب حقہ والوں نے اپنے حقے توڑ دیئے اور حقہ پینا ترک کر دیا.جب عام جماعت کو بھی معلوم ہوا کہ حضور حقہ کو نا پسند فرماتے ہیں تو بہت سے با ہمت احمدیوں نے حقہ ترک کر دیا.(اصحاب احمد جلد ۱۰ صفحه ١٥٧ یکی از ۳۱۳) مرزا احمد بیگ صاحب ساہیوال بھی روایت کرتے ہیں کہ حضرت مصلح موعود نے ایک دفعہ میرے ماموں مرزا غلام اللہ صاحب سے فرمایا کہ مرزا صاحب دوستوں کو حقہ چھوڑنے کی تلقین کیا کریں.ماموں صاحب خود حقہ پیتے تھے انہوں نے حضور سے عرض کیا بہت اچھا حضور.گھر آکر اپنا حقہ جو دیوار کے ساتھ کھڑا تھا اسے توڑ دیا.ممانی جان نے سمجھا کہ آج شاید حقہ دھوپ میں پڑا رہا ہے اس لئے یہ فعل ناراضگی کا نتیجہ ہے لیکن جب ماموں نے کسی کو کچھ بھی نہ کہا تو ممانی صاحبہ نے پوچھا آج حقے پہ کیا نا راضگی آگئی تھی ؟ فرمایا مجھے حضرت صاحب نے حقہ پینے سے لوگوں کو منع کرنے کی تلقین کرنے کے لئے ارشاد فرمایا ہے اور میں خود حقہ پیتا ہوں اس لئے پہلے اپنے حقہ کو توڑا ہے.چنانچہ ماموں صاحب نے مرتے دم تک حقے کو ہاتھ نہ لگایا اور دوسروں کو بھی حقہ چھوڑنے کی تلقین کرتے رہے.آج کل یہی برائی ہے حقہ والی جو سگریٹ کی صورت میں رائج ہے.تو جو سگریٹ پینے والے ہیں ان کو کوشش کرنی چاہئے کہ سگریٹ چھوڑیں.کیونکہ چھوٹی عمر میں خاص طور پر سگریٹ کی بیماری جو ہے وہ آگے سگریٹ کی کئی قسمیں نکل آئی ہوئی ہیں جن میں نشہ آور چیزیں ملا کر پیا جاتا ہے.تو وہ نو جوانوں کی زندگی برباد کرنے کی طرف ایک قدم ہے جو دجال کا پھیلا یا ہوا ہے اور بدقسمتی سے مسلمان ممالک بھی اس میں شامل ہیں.بہر حال ہمارے نو جوانوں کو چاہئے کہ کوشش کریں کہ سگریٹ نوشی کو ترک کریں.حضرت منشی برکت علی خاں صاحب صحابی حضرت اقدس شملہ میں ملازم تھے.احمدی ہونے سے پہلے انہوں نے ایک لاٹری ڈالی ہوئی تھی وہ لاٹری نکلی تو ساڑھے سات ہزار کی رقم ان کے حصے میں آئی.(اس زمانہ میں ).انہوں نے حضور سے پوچھا تو حضور نے اسے جو اقرار دیا اور فرمایا اپنی (سوانح فضل عمر جلد ۲ صفحه (٣٤)
$2003 381 خطبات مسرور ذات میں ایک پیسہ بھی خرچ نہ کریں.حضرت منشی صاحب نے وہ ساری رقم غرباء اور مساکین میں تقسیم کر دی.(اصحاب احمد جلد ۳ ص ۳۳) تو یہی آج کل یہاں یورپ میں رواج ہے، مغرب میں رواج ہے لاٹری کا کہ جولوگ لاٹری ڈالتے ہیں اور ان کی رقمیں نکلتی ہیں وہ قطعاً ان کے لئے جائز نہیں بلکہ حرام ہیں.اسی طرح جس طرح جوئے کی رقم حرام ہے.اول تو لینی نہیں چاہئے اور اگر غلطی سے نکل بھی آئی ہے تو پھر اپنے پر استعمال نہیں ہو سکتی.ایک واقعہ یہیں آپ کے ملک انگلستان کا محترم بشیر آرچرڈ صاحب کا ہے جنہوں نے احمدیت قبول کرنے کے بعد اپنے اندر جو تبدیلیاں پیدا کیں اور اس کے بعد اپنی زندگی وقف کی.۱۹۴۴ء میں احمدی ہوئے تھے اور قادیان میں کچھ عرصہ دینی تعلیم حاصل کی اور جیسا کہ میں نے کہا ہے اپنی زندگی وقف کر دی.اور اس کے بعد ان کی زندگی میں ایک عظیم انقلاب بر پا ہوا.عبادات الہی اور دعاؤں میں بے انتہا شغف پیدا ہو گیا.ان کے قادیان کے پہلے دورہ کا سب سے پہلا شمرہ ترک شراب نوشی تھا.شراب بہت پیا کرتے تھے.فوری طور پر انہوں نے پہلے شراب ترک کی.انہوں نے جوئے اور شراب نوشی سے تو بہ کر لی اور اور ان دونوں چیزوں سے ہمیشہ کے لئے کنارہ کشی اختیار کی، ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا.الفضل ۱۰ / جنوری ۱۹۷۸ ء ، عظیم زندگی صفحه ۸-۹) اس زمانہ میں بھی ، آج کل بھی چند سال پہلے بعض احمدی یہاں بھی ، جرمنی وغیرہ میں بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی ایسے کاروبار جن میں ریستورانٹ میں ، ہوٹلوں میں جہاں شراب کا کاروبار ہوتا تھا.حدیث کے مطابق شراب کشید کرنے والا، شراب پلانے والا ،شراب بیچنے والا، رکھنے والا، ہر قسم کے لوگوں کو کہا گیا کہ یہ جہنمی ہیں اس لئے حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اعلان فرمایا تھا کہ جو بھی احمدی اس کا روبار میں ملوث ہیں ان کو فوری طور پر یہ کاروبار ترک کر دینا چاہئے ورنہ ان کے خلاف سخت نوٹس لیا جائے گا.تو خود ہی حضور فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی بھاری تعداد نے اس کا روبار کو ترک کر دیا.اور بعضوں کو تو خدا تعالیٰ نے فوراً بہت بہتر
382 $2003 خطبات مسرور کاروبار عطا کئے اور بعضوں کو ابتلاء میں بھی ڈالا.اور وہ لمبے عرصہ تک کا روبار سے محروم رہے.لیکن وہ پختگی کے ساتھ اپنے فیصلے پر قائم رہے اور پھر انہوں نے اس گندے کاروبار میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش نہیں کی.امرتسر کے ایک غیر از جماعت میاں محمد اسلم صاحب مارچ ۱۹۱۳ ء میں قادیان تشریف لائے تھے.وہ حضرت خلیفہ اول کے بارہ میں لکھتے ہیں کہ : ”مولوی نورالدین صاحب نے جو بوجہ مرزا صاحب کے خلیفہ ہونے کے اس وقت احمدی جماعت کے مسلمہ پیشوا ہیں.جہاں تک میں نے دو دن ان کی مجالس وعظ و درس قرآن شریف میں رہ کر ان کے کام کے متعلق غور کیا ہے مجھے وہ نہایت پاکیزہ اور محض خالص اللہ کے اصول پر نظر آیا.کیونکہ مولوی صاحب کا طرز عمل قطعا ریاء ومنافقت سے پاک ہے اور ان کے آئینہ دل میں صداقت اسلام کا ایک زبردست جوش ہے جو معرفت تو حید کے شفاف چشمے کی وضع میں قرآن مجید کی آیتوں کی تفسیر کے ذریعے ہر وقت ان کے بے ریاء سینے سے ابل ابل کر تشنگان معرفت توحید کو فیضیاب کر رہا ہے.اگر حقیقی اسلام قرآن مجید ہے تو قرآن مجید کی صادقانه محبت جیسی کہ مولوی صاحب موصوف میں میں نے دیکھی ہے اور کسی شخص میں نہیں دیکھی.یہ نہیں کہ تقلیداً ایسا کرنے پر مجبور ہیں.نہیں بلکہ وہ ایک زبردست فیلسوف انسان ہے اور نہایت ہی زبر دست فلسفیانہ تنقید کے ذریعہ قرآن مجید کی محبت میں گرفتار ہو گیا ہے.کیونکہ جس قسم کی زبر دست فلسفیانہ تفسیر قرآن مجید کی میں نے ان کے درس قرآن مجید کے موقعہ پر سنی ہے غالبا دنیا میں چند آدمی ایسا کرنے کی اہلیت اس وقت رکھتے ہوں گے.(بدر ۱۳ مارچ ۱۹۱۳ ء حیات نور صفحه ٦١١ - ٦١٢) پھر ایک وصیت ہے جو حضرت ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب نے اپنی اولاد کو کی.فرمایا: قرآن شریف کو اپنا دستور العمل بناؤ اور اتباع سنت کی پیروی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ترقی اور اشاعت اسلام میں ہمہ تن مصروف رہو اور اپنی آئندہ نسلوں کو بھی انہی امور کی پابندی کے لئے تیار رکھو.(سیرت سیدعبدالستار شاه صاحب صفحه (۱۹۳) یہ نصیحت تو ہر احمدی کو ہر وقت پیش نظر رکھنی چاہئے.حضرت مرزا عبدالحق صاحب لکھتے ہیں حضرت ملک مولا بخش صاحب رضی اللہ عنہ کے بار ہ میں کہ : آپ کو قرآن کریم سے خاص عشق تھا اور قرآنی معارف و حقائق سننے کے لئے باوجود بیماری
383 $2003 خطبات مسرور اور کمزوری کے تعہد کرتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ کی ماہ تک موسم سرما میں صبح کی نماز محلہ دار الفضل سے آکر دارالرحمت میں اس لئے ادا کرتے رہے کہ مکرم مولا نا غلام رسول صاحب را جیکی اس مسجد میں درس قرآن دیا کرتے تھے.اور وہ ان کے حقائق و معارف سے مستفیض ہوں.اور پھر رمضان المبارک میں جو درس مسجد اقصیٰ میں ہوتا اس میں بھی التزام کے ساتھ شریک ہوتے اور قرآن کریم کو کثرت سے پڑھتے اور غور سے پڑھتے جہاں خود فائدہ اٹھاتے وہاں دوسروں کو بھی شامل کرتے.عمر کے آخری حصہ میں کہتے ہیں دن میں کئی کئی بار جب بھی دیکھو قرآن شریف پڑھ رہے ہوتے تھے.اور کاپی اور قلم پاس رکھتے.جب کسی آیت کی لطیف تفسیر سمجھ میں آتی اس کو نوٹ کرتے اور بعد میں اپنے گھر والوں کو بھی سناتے.مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ اس وقت جب وہ گھر والوں کو سنار ہے ہوتے تو ان کے چہرے سے یوں معلوم ہوتا کہ آپ کی دلی خواہش ہے کہ آپ کی اولا د قرآن کریم کی عاشق ہو.(اصحاب احمد جلد ۱ صفحه ١٢٤ - ١٢٥ گیمبیا کے ایک عیسائی نوجوان نے احمدیت قبول کی تو ماں نے اس کی شدید مخالفت شروع کر دی.پہلے تو وہ برداشت کرتا رہا مگر جب اس کی ماں نے قرآن کریم کی توہین شروع کی تو گھر چھوڑ کر نکل گیا اور دوبارہ اس گھر میں نہیں گیا.(ضمیمه ماہنامہ انصار الله ستمبر ۱۹۸۷ء صفحه ۶) تو اس زمانہ میں بھی افریقہ کے دور دراز ملکوں میں بھی یہ معجزے رونما ہورہے ہیں.اسلام میں چار شادیوں تک کی اجازت ہے جس کو بعض لوگ حکم بنا لیتے ہیں، بہر حال اجازت ہے.تو افریقہ میں رواج ہے کہ جتنا بڑا کوئی آدمی ہو، یا پیسے والا ہو یا چیف ہو تو بعض دفعہ بعض قبائل میں چار سے زیادہ نو دس تک شادیاں کر لیتے ہیں.سیرالیون کے علی روجرز صاحب نے جب احمدیت قبول کی تھی تو اس وقت وہ جوان تھے اور ان کی بارہ بیویاں تھیں.جماعت کے مربی مولانا نذیر احمد صاحب علی نے انہیں فرمایا کہ اب آپ احمدی ہو چکے ہیں اس لئے قرآنی تعلیم کے مطابق چار بیویاں رکھ سکتے ہیں.باقی کو بہر حال طلاق اور نان نفقہ دے کر رخصت کریں.انہوں نے نہ صرف اس ہدایت پر فورا عمل کیا بلکہ ان کے کہنے پر جو پہلی چار بیویاں تھیں وہ اپنے پاس رکھیں اور نوجوان بیویوں کو رخصت کر دیا.تو یہ تبدیلی ایک انقلاب ہے.
384 $2003 خطبات مسرور پھر ہمارے ایک مربی تھے یونس خالد صاحب وہ لکھتے ہیں کہ: وی وی کا ہلو صاحب بذریعہ کشف احمدیت ہوئے تھے.مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب کے زمانے میں.پھر بعد میں وہ جماعت احمد یہ سیرالیون کے امیر بھی رہے.احمدی ہونے سے پہلے بالکل آزاد ماحول تھا.اور ان کا ماحول تو اس حد تک آزاد تھا کہ ان کا پیشہ بھی ، ویسے بھی وہ ڈانسر تھے.لیکن بیعت کے فوراً بعد اپنے اندر تبدیلی پیدا کی.تقویٰ و طہارت عبادت، خدا خوفی اور دیانت میں ایک مقام بنالیا.اور اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی ترقیات سے نوازا.اور آپ علاقہ کے پیرا ماؤنٹ چیف بھی تھے.جس علاقہ کے پیراماؤنٹ چیف تھے وہاں ہیروں کی بہت بڑی کا نہیں تھیں.آپ صاحب اختیار تھے.کیونکہ ان علاقوں میں چیف کافی اختیار والے ہوتے ہیں.آپ اگر چاہتے تو لاکھوں کروڑوں روپیہ کا فائدہ اٹھا سکتے تھے لیکن احمدیت کی حسین اور پاکیزہ تعلیم کی وجہ سے یہ دولت اپنے اوپر حرام سمجھی اور سادہ اور درویشانہ زندگی گزارتے رہے.اور اونچی سطح میں بھی مشہور تھا کہ مسٹر وی وی کاہلو ایک انتہائی دیانت دار پیراماؤنٹ چیف ہیں.نہ خود درشوت لیتا ہے اور نہ ہی عملہ کو لینے دیتا ہے.تو کہتے ہیں کہ جب آپ بیمار ہوئے.ایک دن میں ان کی عیادت کے لئے گیا تو مجھے بلا کر کہتے ہیں کہ یونس ! میری آنکھوں کے سامنے ہر وقت سبز رنگ کا کلمہ طیبہ لکھا ہوتا ہے.اس کی کیا وجہ ہے؟ میں نے انہیں کہا کہ چیف آپ کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت ہے اور عشق ہے.یہ اس کا نتیجہ ہے.تو کہتے ہیں میں دو ماہ تک جاتا رہا اور وہ یہی کہتے رہے کہ کلمہ طیبہ سبز رنگ کی روشنی سے ہمیشہ لکھا ہوا نظر آتا ہے.پھر جب آپ ہسپتال میں داخل ہوئے تو نزع کی حالت طاری ہوئی تو ایک احمدی دوست مسٹر کو جی نے ان کا بازو پکڑ کر کہا کہ چیف پڑھو لا الہ الا الله.آپ نے لَا إِلهُ إِلَّا اللهُ، پڑھا.پھر مسٹر کو جی نے کہا مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ الله ، آپ نے مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ پڑھا اور پڑھتے ہی سر جھک گیا ساتویں شرط یہ بھی تھی کہ عاجزی اور خوش خلقی اور مسکینی وغیرہ کی طرف توجہ رہے گی.تو انبیاء کو تو زیادہ تر وہی لوگ مانتے ہیں جو غریب مزاج اور مالی لحاظ سے کم وسعت والے بھی ہوں لیکن قربانیوں میں امراء سے زیادہ حوصلہ کے ساتھ اپنا مال خرچ کرنے والے ہوتے ہیں بلکہ جان کی
385 $2003 خطبات مسرور قربانی بھی دینی پڑے تو دریغ نہیں کرتے اور کبھی بھی بڑائی بیان کرنے والے یا تکبر ونخوت کا اظہار کرنے والے نہیں ہوتے بلکہ ہر چھوٹے بڑے کے سامنے انتہائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ رہتے ہیں اور انکساری اور عاجزی کے بڑے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوتے ہیں.اور الہی جماعتوں کی ترقی کا راز اسی میں ہے کہ جتنے زیادہ سے زیادہ عاجز مسکین لوگ جو فروتنی اور عاجزی کے اعلیٰ نمونے دکھانے والے ہوں وہ نظر آئیں اتنی زیادہ ترقی کی رفتار بھی تیز ہوتی ہے اور نبی کو ماننے والے بھی ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جیسا کہ پہلے میں نے کہا.تو انبیاء کی نظر جب ایسے دلوں پر پڑتی ہے تو انہیں مزید جلا بخشتی ہے، انہیں مزید چمکا دیتی ہے.اور وہ جو عاجزی دکھانے والے لوگ ہوتے ہیں ان کو اگر دوسروں کی خاطر اپنی جگہ چھوڑ کر اگر جوتیوں میں بھی بیٹھنا پڑے تو وہ بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں.لیکن مامور زمانہ کی نظر اتنی قیافہ شناس ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں کو پہچان لیتی ہے اور پھر اس عاجزی کا بدلہ دینے کے لئے اور اپنی جماعت کو سمجھانے کے لئے کہ میری جماعت میں عاجز اور مسکین کا مقام ہی سب سے اعلیٰ ہے.عاجز انسانوں کو وہاں سے اٹھا کر اپنے پاس بیٹھا لیتے ہیں اور کھانے کے وقت بلا کر اپنے ساتھ اپنی پلیٹ میں کھانا کھلاتے ہیں.تو یہ قدر بھی انبیاء ان کی اس لئے کرتے ہیں کہ اس عاجزی کی وجہ سے ایسے لوگ دین کو جلد قبول کرتے ہیں اور دینی تعلیمات پر مکمل طور پر عمل پیرا ہونے والے ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ غریب لوگ تکبر نہیں کرتے اور پوری تواضع کے ساتھ حق کو قبول کرتے ہیں.فرمایا : میں سچ سچ کہتا ہوں کہ دولت مندوں میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جو اس سعادت کا عشر عشیر بھی حاصل کر سکیں جس کو غریب لوگ کامل طور پر حاصل کر لیتے ہیں.اس لئے آپ نے فرمایا تھا کہ جماعت میں شامل ہونے کے لئے عاجزی شرط ہے.تاکہ دین کو صحیح طور پر سمجھ سکو اور اس پر عمل کر سکو.اب یہ تبدیلیاں کس طرح ہوئیں اس کے چند نمونے میں پیش کرتا ہوں.حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جید عالم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک آسوده حال خاندان سے تعلق رکھتے تھے.اور اس کے باوجود آپ کی پاکیزگی ، انکسار اور سادگی قابل مثال تھی.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دامن سے وابستہ ہو کر اور حضور کی غلامی کا جوا
386 $2003 خطبات مسرور گردن میں ڈال کر آپ نے دنیا طلبی کی خواہش ہی دل سے نکال دی.مدرسہ احمدیہ کی ملازمت کا سارا عرصہ ایک مختصر سے مکان میں گزار دیا جو دراصل ایک چپڑاسی کے بھی لائق نہ تھا.جب حضور کے در کی غلامی کی خاطر دنیا بھر کو چھوڑ دیا تو دنیوی چیزوں کی راحت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.(اصحاب احمد جلد پنجم حصه سوم صفحه (۹) پھر یہاں دوبارہ مثال ہے مولوی برہان الدین صاحب کی ، عاجزی کے بارہ میں.ایک دفعہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تو خدا جانے کہاں خیال پہنچا کہ رونا ہی شروع کر دیا.حضور نے بہت پیار سے پوچھا کہ مولوی صاحب خیر تو ہے؟ عرض کیا حضور پہلے میں کوٹھی بنا، پھر بولی بنا، پھر غزنی بنا، اب مرزائی بنا ہوں.رونا تو اس بات کا ہے کہ عمر اخیر ہوگئی اور میں جھڈ و کا جھڈ وہی رہ گیا.یعنی پہلے میں نے کو ٹھے والے پیر صاحب کی قدم بوسی حاصل کی.اس کے بعد باؤلی صاحب والے بزرگ کی خدمت میں رہا.اس کے بعد مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی خدمت میں پہنچا.اب میں حضور کی خدمت میں آگیا ہوں.رونا تو اس بات کا ہے کہ میں وہی نالائق کا نالائق ہی رہا.(یہ عاجزی تھی ان کی ).اس پر حضور نے مولوی صاحب کو بہت محبت پیار کیا.اور تسلی دی.فرمایا : مولوی صاحب ! گھبرائیں نہیں.جہاں آپ نے پہنچنا تھا وہاں آپ پہنچ گئے.اب گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے تب جا کر سکون اور قرار ہوا.(ماهنامه انصار الله ربوه ستمبر ۱۹۷۷ء صفحه (١٤ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ : جبی فی اللہ سید فضل شاہ صاحب لاہوری اصل سکنہ ریاست جموں نہایت صاف باطن اور محبت اور اخلاص سے بھرے ہوئے اور کامل اعتقاد کے نور سے منور ہیں اور مال و جان سے حاضر ہیں اور ادب اور حسن ظن جو اس راہ میں ضروریات سے ہے ایک عجیب انکسار کے ساتھ ان میں پایا جاتا ہے وہ تہ دل سے کچی اور پاک اور کامل ارادت اس عاجز سے رکھتے ہیں اور تہی تعلق اور حب میں اعلیٰ درجہ انہیں حاصل ہے اور یکرنگی اور وفاداری کی صفت ان میں صاف طور پر نمایاں ہے اور اُن کے برا در حقیقی ناصر شاہ بھی اس عاجز سے تعلق بیعت رکھتے ہیں اور ان کے ماموں منشی کرم الہی صاحب
$2003 387 خطبات مسرور بھی اس عاجز کے یکرنگ دوست ہیں.(ازاله اوهام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۳۲ پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: جی فی اللہ نشی رستم علی ڈپٹی انسپکٹر پولیس ریلوے.(ہمارے ملکوں میں پولیس کا محکمہ بہت بدنام ہے.اس لحاظ سے اگر اس پس منظر میں دیکھیں تو پھر سمجھ آتی ہے ).یہ ایک جوان صالح اخلاص سے بھرا ہوا میرے اول درجہ کے دوستوں میں سے ہے.ان کے چہرے پر ہی علامات غربت و بے نفسی و اخلاص ظاہر ہیں.کسی ابتلاء کے وقت میں نے اس دوست کو متزلزل نہیں پایا.اور جس روز سے ارادت کے ساتھ انہوں نے میری طرف رجوع کیا اس ارادت میں قبض اور افسردگی نہیں بلکہ روز افزوں ہے.یعنی ترقی کی طرف ہی بڑھ رہے ہیں.دیتا ہوں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۳۶) پھر اس میں تھا کہ تکبر سے پر ہیز کریں گئے.اس بارہ میں سید محمد سرور شاہ صاحب کی مثال ’باوجود علم وفضل میں بہت بلند مقام رکھنے کے اس زمانہ کے دیگر نام نہاد علماء کے برعکس آپ کی طبیعت میں سادگی اور تواضع اس قدر تھا کہ اگر کسی وقت چھوٹے بچے نے بھی آپ سے بات کرنا چاہی تو بلا جھجک آپ سے ہمکلام ہو سکتا.آپ بڑی محبت سے اس کی بات سنتے اور تسلی بخش طریق پر اس کے سوال کا جواب دیتے.تو مولوی محمد حفیظ بقا پوری اپنے بچپن کا واقعہ سناتے ہیں کہ اس عاجز کے کسی قریبی رشتہ دار کے ہاں بچہ پیدا ہوا.خط کے ذریعہ ایسی اطلاع ملنے پر میں نے حضرت مولوی صاحب سے نومولود کا نام تجویز کرانے کا ارادہ کیا.آپ شاید مسجد اقصیٰ میں درس دینے کے لئے جا رہے تھے یا واپس تشریف لا رہے تھے.میں آگے بڑھا.اس عاجز کو اپنی طرف آتا دیکھ کر رک گئے.بڑی محبت سے التفات فرمایا اور میری درخواست پر نومولود کا نام تجویز فرما کر اس کے حق میں دعا فرمائی.(اصحاب احمد جلد پنجم حصه سوم صفحه ۳۵) پھر اس بارہ میں حضرت مولوی برہان الدین صاحب کا ایک واقعہ ذکر کرتا ہوں.پہلے بھی
$2003 388 خطبات مسرور مثالوں سے ظاہر ہو گیا ہے آپ میں نام ونمود اور ریا ظاہر داری وغیرہ کچھ بھی نہیں تھا.پھر علمی گھمنڈ اور تکبر بھی ہرگز نہیں تھا باوجودیکہ بڑے عالم آدمی تھے.دوران قیام قادیان جب بھی کوئی کہتا' مولوی صاحب تو فور روک دیتے کہ مجھے مولوی مت کہو.میں نے تو ابھی مرزا صاحب سے ابجد شروع کی ہے.یعنی الف ب پڑھنی شروع کی ہے.(ماهنامه انصار الله ربوه ستمبر ۱۹۷۷ء صفحه (۱۲ پھر فروتنی اور عاجزی کا ایک اور نمونہ جو سب نمونوں سے بڑھ کر ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب شہید کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ: بے نفسی اور انکسار میں اس مرتبہ تک پہنچ گئے تھے کہ جب تک انسان فنا فی اللہ نہ ہو یہ مرتبہ نہیں پا سکتا.ہر ایک شخص کسی قدر شہرت اور علم سے محجوب ہو جاتا ہے.اور اپنے تئیں کچھ مجھے لگتا ہے اور وہی علم اور شہرت حق طلبی سے اس کو مانع ہو جاتی ہے.( یعنی حق کو پہچاننے میں روک بنتی ہے ).مگر یہ شخص ایسا بے نفس تھا کہ باوجود یکہ ایک مجموعہ فضائل کا جامع تھا مگر تب بھی کسی حقیقت حقہ کے قبول کرنے سے اس کو اپنی علمی اور عملی اور خاندانی وجاہت مانع نہیں ہو سکتی تھی.اور آخر سچائی پر اپنی جان قربان کی اور ہماری جماعت کے لئے ایک ایسا نمونہ چھوڑ گیا جس کی پابندی اصل منشاء خدا کا ہے.( تذكرة الشهادتين روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ٤٧) پھر دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے لئے آٹھویں شرط میں یہ ہے کہ اپنی جان، مال، عزت ہر چیز کو قربان کرے گا.اور جماعت احمدیہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے نظارے ہمیں نظر آتے رہتے ہیں.مائیں اپنے بچے پیش کرتی ہیں، باپ سنت ابرا ہیمی پر عمل کرتے ہوئے اپنے بچوں کی انگلی پکڑ کر لا رہے ہوتے ہیں کہ یہ اب جماعت کا ہے اور جہاں چاہے جماعت اس کی قربانی لے لے.بچے اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم بھی حضرت اسماعیل کی طرح اپنی جان کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں.اور یہ نظارے پہلے بھی تھے اور اب بھی قائم ہیں اس کی ایک مثال دیتا ہوں.۱۹۲۳ء میں ہندوؤں نے شدھی تحریک شروع کی تو اس کے خلاف احمد یہ جماعت کی کوششوں میں بچے بھی بڑوں سے پیچھے نہیں رہے.پانچ سالہ بچے بھی ملکانہ کے علاقوں میں جانے
389 $2003 خطبات مسرور کے لئے تیار ہو گئے.ایک بارہ سالہ بچے نے اپنے والد کولکھا کہ دین حق کی خدمت کرنا بڑوں کا ہی نہیں ہمارا بھی فرض ہے.اس لئے جب آپ دعوت الی اللہ کے لئے جائیں تو مجھے بھی لے چلیں اور اگر آپ نہ جائیں تو مجھے ضرور بھیج دیں.(تاریخ احمدیت جلد نمبر ۵ صفحه ۳۳۶) تو یہ باتیں جیسا کہ میں نے پہلے کہا کوئی پرانے قصے ہی نہیں اب بھی یہ نظارے نظر آتے ہیں اور آج بھی واقفین نو بچے جب مجھے ملنے آتے ہیں اس ماحول میں بھی جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ بڑے ہو کر کیا کرنا ہے، کیا بنا ہے.یہی جواب ان کا ہوتا ہے کہ جو آپ کہیں گے ہم وہی بننے کی کوشش کریں گے.اور جماعت بتائے کہ ہم نے کیا کرنا ہے.یہ جذبہ ہے احمدی بچے کا.اور جب تک یہ جذ بہ قائم رہے گا اور انشاء اللہ قیامت تک یہ جذ بہ قائم رہے گا.تو جماعت کا کوئی بال بھی بر کا نہیں کرسکتا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”اب میرے ساتھ بہت سی وہ جماعت ہے جنہوں نے خود دین کو دنیا پر مقدم رکھ کر اپنے تئیں درویش بنادیا ہے اور اپنے ہم وطنوں سے ہجرت کر کے اور اپنے قدیم دوستوں اور اقارب سے علیحدہ ہو کر ہمیشہ کے لئے میری ہمسائیگی میں آکر آباد ہوئے ہیں.(اصحاب احمد جلد پنجم حصه صفحه ۱۳۰) سوم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ” جبی فی اللہ مولوی حکیم نور دین صاحب بھیروی.ان کے مال سے جس قدر مجھے مدد پہنچی ہے میں کوئی ایسی نظیر نہیں دیکھتا جو اس کے مقابل پر بیان کرسکوں.میں نے ان کو طبعی طور پر اور نہایت انشراح صدر سے دینی خدمتوں میں جان شار پایا ہے.اگر چہ ان کی روز مرہ زندگی اسی راہ میں وقف ہے کہ وہ ہر ایک پہلو سے اسلام اور مسلمانوں کے بچے خادم ہیں مگر اس سلسلہ کے ناصرین میں سے وہ اول درجہ کے نکلے.(ازاله اوهام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ٥٢٠) پھر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے بارہ میں فرماتے ہیں : ” ان کی عمر ایک معصومیت کے رنگ میں گزری تھی اور دنیا کے عیش کا کوئی حصہ انہوں نے نہیں لیا تھا.نوکری بھی انہوں نے اسی
390 $2003 خطبات مسرور واسطے چھوڑی تھی اس میں دین کی بہتک ہوتی ہے.پچھلے دنوں میں ان کو ایک نوکری دوسوروپے ماہوار کی ملتی تھی مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا.خاکساری کے ساتھ انہوں نے اپنی زندگی گزاردی.صرف عربی کتابوں کے دیکھنے کا شوق رکھتے تھے.اسلام پر جو اندرونی بیرونی حملے پڑتے تھے ان کے اندفاع میں عمر بسر کر دی.باوجود اس قدر بیماری اور ضعف کے ہمیشہ ان کی قلم چلتی رہتی تھی.(سیرت حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی صفحه (۱۰۸ حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ اپنے بھائی کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ : ” جن امور کے لئے میں نے قادیان میں سکونت اختیار کی میں نہایت صفائی سے ظاہر کرتا ہوں کہ مجھ کو حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی مسعود کی بیعت کئے ہوئے بارہ سال ہو گئے اور میں اپنی شومئی طالع سے گیارہ سال گھر میں ہی رہتا تھا اور قادیان سے مہجور تھا صرف چند دنوں گاہ گاہ یہاں آتا رہا اور دنیا کے دھندوں میں پھنس کر بہت سی اپنی عمر ضائع کی.آخر جب سوچا تو معلوم کیا کہ عمر تو ہوا کی طرح اڑ گئی اور ہم نے نہ کچھ دین کا بنایا اور نہ دنیا کا.یہاں میں چھ ماہ کے ارادہ سے آیا تھا (یعنی قادیان ) مگر یہاں آکر میں نے اپنے تمام معاملات پر غور کیا تو آخر یہی دل نے فتویٰ دیا کہ دنیا کے کام دین کے پیچھے لگ کر تو بن جاتے ہیں مگر جب دنیا کے پیچھے انسان لگتا ہے تو دنیا بھی ہاتھ نہیں آتی اور دین بھی برباد ہو جاتا ہے اور میں نے خوب غور کیا تو میں نے دیکھا کہ گیارہ سال میں نہ میں نے کچھ بنایا اور نہ میرے بھائی صاحبان نے کچھ بنایا.اور دن بدن ہم باوجود اس مایوسانہ حالت کے دین بھی برباد کر رہے ہیں.آخر یہ سمجھ کر کہ کار دنیا کسے تمام نہ کر د، کوٹلہ کو الوداع کہا اور میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ میں ہجرت کرلوں.سوالحمد للہ میں بڑی خوشی سے اس بات کو ظاہر کرتا ہوں کہ میں نے کوٹلہ سے ہجرت کر لی ہے اور شرعاً مہاجر پھر اپنے وطن میں واپس اپنے ارادہ سے نہیں آسکتا.یعنی اس کو گھر نہیں بنا سکتا.ویسے مسافرانہ وہ آئے تو آئے.پس اس حالت میں میرا آنا محال ہے.میں بڑی خوشی اور عمدہ حالت میں ہوں.ہم جس شمع کے پروانے ہیں اس سے الگ کس طرح ہو سکتے ہیں..میرے پیارے بزرگ بھائی میں یہاں خدا کے لئے آیا ہوں اور میری دوستی اور محبت بھی خدا ہی کے لئے ہے.میں کوٹلہ سے الگ ہوں.مگر کوٹلہ کی حالت زار سے مجھ کو سخت رنج ہوتا ہے.
$2003 391 خطبات مسرور خداوند تعالیٰ آپ ہماری ساری برادری اور تمام کوٹلہ والوں کو سمجھ عطا فرمائے کہ آپ سب صاحب اسلام کے پورے خادم بن جائیں اور ہم سب کا مرنا اور جینا محض اللہ ہی کے لئے ہو.ہم خداوند تعالیٰ کے پورے فرمانبردار مسلم بن جائیں.ہماری شرائط بیعت میں ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کریں اور اپنی مہربان گورنمنٹ کے شکر گزار ہوں، اس کی پوری اطاعت کریں.یہی چیز مجھ کو یہاں رکھ رہی ہے کہ جوں جوں مجھ میں ایمان بڑھتا جاتا ہے اسی قدر دنیا بیچ معلوم ہوتی جاتی ہے اور دین مقدم ہوتا جاتا ہے.خداوند تعالیٰ اور انسان کے احسان کے شکر کا احساس بھی بڑھتا جاتا ہے اسی طرح گورنمنٹ عالیہ کی فرمانبرداری اور شکر گزاری دل میں پوری طرح سے گھر کرتی جاتی ہے.(اصحاب احمد جلد ۲ صفحه ۱۲۶ تا ۱۲۹) پھر حکیم فضل دین صاحب کا نمونہ ہمدردی اسلام کے بارہ میں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: جبی فی اللہ حکیم فضل دین صاحب بھیروی.حکیم صاحب اخویم مولوی حکیم نور دین صاحب کے دوستوں میں سے اور ان کے رنگ اخلاق سے رنگین اور بہت با اخلاص آدمی ہیں.میں جانتا ہوں کہ ان کو اللہ اور رسول سے سچی محبت ہے اور اسی وجہ سے وہ اس عاجز کو خادم دین دیکھ کر حبّ للہ کی شرط کو بجالا رہے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ انہیں دین اسلام کی حقانیت کے پھیلانے میں اُسی عشق کا وافر حصہ ملا ہے جو تقسیم ازلی سے میرے پیارے بھائی مولوی حکیم نور دین صاحب کو دیا گیا ہے.وہ اس سلسلہ کے دینی اخراجات کو بنظر غور دیکھ کر ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ چندہ کی صورت پر کوئی ان کو احسن انتظام ہو جائے“.ازاله اوهام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه (۵۲۲ جب ۱۹۲۳ء میں کارزار شدھی گرم کیا گیا تو احمدی مربیان کا یہ حال تھا کہ وہ تیز چلچلاتی دھوپ میں کئی کئی میل روزانہ پیدل سفر کرتے.بعض اوقات کھانا تو کیا پانی بھی نہیں مانتا تھا.اکثر اوقات کچا پکا باسی کھانا کھاتے یا بھنے ہوئے چنے کھا لیتے اور پانی پی کر گزارہ کرتے.بعض اوقات ستو ر کھے ہوئے ہوتے تھے.اور انہیں پر گزارہ کرتے.صوفی عبد القدیر صاحب کہتے ہیں کہ سولہ میل روزانہ کی اوسط سے چالیس دیہاتوں کے مابین سفر کرتے رہے.تاریخ احمدیت جلد نمبر ٥ ص ٣٤٣)
خطبات مسرور 392 $2003 امریکہ میں ایک صاحب احمدی ہوئے جو بہت بڑے موسیقار تھے اور اپنے وقت میں اس تیزی کے ساتھ میوزک میں ترقی کر رہے تھے کہ بہت جلد انہوں نے امریکہ کی سطح پر شہرت حاصل کر لی اور ان کے متعلق ماہرین کا خیال تھا کہ یہ ایسے عظیم الشان میوزیشن بنیں گے کہ گویا ان کو یاد کیا جائے گا کہ یہ اپنے زمانے کے بہت بڑے میوزیشن تھے.احمدی ہوئے تو نہ میوزک کی پرواہ کی.نہ میوزک کے ذریعے آنے والی دولت کی طرف لالچ کی نظر سے دیکھا سب کچھ یک قلم منقطع کر دیا اور اب وہ درویشانہ زندگی گزارتے ہیں اور باقاعدگی کے ساتھ نماز تہجد ادا کرتے ہیں.آنحضرت کا نام لیتے ہی ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں.(ماهنامه خالد - جنوری ۱۹۸۸ء) حضرت خلیفہ المسح الاول فرماتے ہیں اپنی خلافت سے پہلے کا واقعہ لکھتے ہیں کہ: "میں یہاں کس لئے آیا ہوں.دیکھو بھیرہ میں میرا پختہ مکان ہے اور یہاں میں نے کچے مکان بنوائے اور ہر طرح کی آسائش مجھے یہاں سے زیادہ وہاں مل سکتی تھی مگر میں نے دیکھا کہ میں بیمار ہوں اور بہت بیمار ہوں محتاج ہوں اور بہت محتاج ہوں، لاچار ہوں اور بہت لاچار ہوں.پس میں اپنے ان دکھوں کے دور کرنے کے لئے یہاں آیا ہوں.اگر کوئی شخص قادیان اس لئے آتا ہے کہ وہ میرانمونہ دیکھے یا یہاں آ کر یا کچھ عرصہ رہ کر یہاں کے لوگوں کی شکایتیں کرے تو یہ اس کی نظر دھو کہ کھاتی ہے کہ وہ بیماروں کو تندرست خیال کر کے ان کا امتحان لیتا ہے.یہاں کی دوستی اور تعلقات، یہاں کا آنا اور یہاں سے جانا اور یہاں کی بود و باش سب کچھ لا الہ الا اللہ کے ماتحت ہونی چاہئے.ورنہ اگر روٹیوں اور چار پائیوں وغیرہ کے لئے آتے ہو تو بابا تم میں سے اکثر کے گھر میں ایسی روٹیاں وغیرہ موجود ہیں پھر یہاں آنے کی ضرورت کیا ہے؟.تم اس اقرار کے قائل اسی وقت ہو سکتے ہو جب تمہارے سب کام خدا کے لئے ہوں“.خطبه جمعه فرموده ۲۲ جنوری ١٩٠٤ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کے بارہ میں کہ: اس بزرگ مرحوم میں نہایت قابل رشک یہ صفت تھی کہ در حقیقت وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتا تھا.اور در حقیقت ان راستبازوں میں سے تھا جو خدا سے ڈر کر اپنے تقویٰ اور اطاعت الہی کو انتہا
$2003 393 خطبات مسرور تک پہنچاتے ہیں.اور خدا کے خوش کرنے کے لئے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنی جان اور عزت اور مال کو ایک ناکارہ خس و خاشاک کی طرح اپنے ہاتھ سے چھوڑ دینے کو تیار ہوتے ہیں.اس کی ایمانی قوت اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ اگر میں اس کو ایک بڑے سے بڑے پہاڑ سے تشبیہ دوں تو میں ڈرتا ہوں کہ میری تشبیہ ناقص نہ ہو.اکثر لوگ با وجود...بیعت کے اور باوجود میرے دعوے کی تصدیق کے پھر بھی دنیا کو دین پر مقدم رکھنے کے زہر یلے تم سے بکلی نجات نہیں پاتے بلکہ کچھ ملونی ان میں باقی رہ جاتی ہے اور ایک پوشیدہ بخل خواہ وہ جان کے متعلق ہو خواہ آبرو کے متعلق اور خواہ مال کے اور خواہ اخلاقی حالتوں کے متعلق ان کے نامکمل نفسوں میں پایا جاتا ہے.اسی وجہ سے ان کی نسبت ہمیشہ میری یہ حالت رہتی ہے کہ میں ہمیشہ کسی خدمت دینی کے پیش کرنے کے وقت ڈرتا رہتا ہوں کہ ان کو ابتلا پیش نہ آوے.اور اس خدمت کو اپنے پر ایک بوجھ سمجھ کر اپنی بیعت کو الوداع نہ کہہ دیں.لیکن میں کن الفاظ سے اس بزرگ مرحوم کی تعریف کروں جس نے اپنے مال اور آبرو اور جان کو میری پیروی میں یوں پھینک دیا کہ جس طرح کوئی رڈی چیز پھینک دی جاتی ہے.اکثر لوگوں کو میں دیکھتا ہوں کہ ان کا اوّل اور آخر برابر نہیں ہوتا اور ادنی سی ٹھوکر یا شیطانی وسوسہ یا بد صحبت سے وہ گر جاتے ہیں.مگر اس جوانمرد مرحوم کی استقامت کی تفصیل میں کن الفاظ میں بیان کروں کہ وہ نوریقین میں دم بدم ترقی کرتا گیا“.(تذکرة الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۰) پھر آپ نے فرمایا: ” شہید مرحوم نے مرکز میری جماعت کو ایک نمونہ دیا ہے اور در حقیقت میری جماعت ایک بڑے نمونہ کی محتاج تھی.اب تک ان میں ایسے بھی پائے جاتے ہیں کہ جو شخص ان میں سے ادنی خدمت بجالاتا ہے وہ خیال کرتا ہے کہ اس نے بڑا کام کیا ہے.اور قریب ہے کہ وہ میرے پر احسان رکھے.حالانکہ خدا کا اس پر احسان ہے کہ اس خدمت کے لئے اس نے اس کو توفیق دی.بعض ایسے ہیں کہ پورے زور اور پورے صدق سے اس طرف نہیں آئے.اور جس قوت ایمان اور انتہا درجہ کے صدق وصفا کا وہ دعویٰ کرتے ہیں آخر تک اس پر قائم نہیں رہ سکتے.اور دنیا کی محبت کے لئے دین کو کھو دیتے ہیں اور کسی ادنی امتحان کی بھی برداشت نہیں کر سکتے.خدا کے سلسلے میں بھی داخل ہو کر ان کی دنیا داری کم نہیں ہوتی.لیکن خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ ایسے بھی ہیں کہ وہ سچے
394 $2003 خطبات مسرور دل سے ایمان لائے اور سچے دل سے اس طرف کو اختیار کیا.اور اس راہ کے لئے ہر ایک دکھ اٹھانے کے لئے طیار ہیں.لیکن جس نمونہ کو اس جواں مرد نے ظاہر کر دیا.اب تک وہ قوتیں اس جماعت کی مخفی ہیں.خدا سب کو وہ ایمان سکھاوے اور وہ استقامت بخشے جس کا اس شہید مرحوم نے نمونہ پیش کیا ہے.یہ دنیوی زندگی جو شیطانی حملوں کیساتھ ملی ہوئی ہے کامل انسان بننے سے روکتی ہے.اور اس سلسلہ میں بہت داخل ہوں گے مگر افسوس کہ تھوڑے ہیں کہ یہ نمونہ دکھائیں گے.(تذکرة الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۵۷-۵۸) پھر آپ فرماتے ہیں:.شاہزادہ عبداللطیف کے لئے جو شہادت مقدر تھی وہ ہو چکی اب ظالم کا پاداش باقی ہے.إِنَّهُ مَنْ يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوْتُ فِيْهَا وَلَا يَحْي (سورة طه: ۷۵) افسوس کہ یہ امیر زیر آیت مَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا) (النساء : ۹۴) داخل ہو گیا.اور ایک ذرہ خدا تعالیٰ کا خوف نہ کیا.اور مومن بھی ایسا مومن کہ اگر کابل کی تمام سرزمین میں اُس کی نظیر تلاش کی جائے تو تلاش کرنا لا حاصل ہے.ایسے لوگ اکسیر احمر کے حکم میں ہیں.جو صدق دل سے ایمان اور حق کے لئے جان بھی فدا کرتے ہیں.اور زن و فرزند کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے.اے عبداللطیف تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا.اور جو لوگ میری جماعت میں سے میری موت کے بعد رہیں گے.میں نہیں جانتا کہ وہ کیا کام کریں گے.“ (تذكرة الشهادتين روحانی خزائن جلد نمبر ٢٠ صفحه ٦٠) پھر فرماتے ہیں : ” جب میں اس استقامت اور جانفشانی کو دیکھتا ہوں جو صاحبزادہ مولوی محمد عبداللطیف مرحوم سے ظہور میں آئی تو مجھے اپنی جماعت کی نسبت بہت امید بڑھ جاتی ہے کیونکہ جس خدا نے بعض افراد اس جماعت کو یہ توفیق دی کہ نہ صرف مال بلکہ جان بھی اس راہ میں قربان کر گئے اس خدا کا صریح یہ منشاء معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت سے ایسے افراد اس جماعت میں پیدا کرے 66 جو صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف کی روح رکھتے ہوں اور ان کی روحانیت کا ایک نیا پودا ہوں.“ (تذکرة الشهادتين روحانی خزائن جلد ۲۰ مطبوعه لندن صفحه ٧٥) آج سے ٹھیک سو سال پہلے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف ید کو شہید کیا گیا تھا.
خطبات مسرور 395 $2003 اے مسیح آخر الزمان ! آپ کو مبارک ہو کہ آپ کی پیاری جماعت نے آپ کی اپنی جماعت سے امیدوں کو پورا کیا.آپ کو جو امیدیں اپنی جماعت سے تھیں ان کو پورا کیا.اور مال، وقت اور جان کی قربانی میں کبھی پیچھے نہیں ہے.اور اس کے نظارے ہمیں آج بھی نظر آرہے ہیں.آپ کے بعد بھی جماعت میں ایسے لوگ پیدا ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو فکر تھی کہ پتہ نہیں میرے بعد کیا ہو.ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ کے بعد بھی ایسے لوگ پیدا ہوئے اور ہو رہے ہیں جنہوں نے دنیاوی لالچوں کی پروا نہیں کی اور اپنی جانیں بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا.باپ نے بیٹے کو اپنے سامنے شہید ہوتے دیکھا اور بیٹے نے باپ کو اپنے سامنے شہید ہوتے دیکھا لیکن پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی.اور پھر خود بھی جان قربان کر دی.اے مسیح پاک آپ کو مبارک ہو کہ آپ کی نسل میں سے بھی ، آپ کے خون میں بھی جان کی قربانی دیتے ہوئے جماعت کو بہت بڑے فتنہ سے بچالیا.اللہ تعالیٰ ان سب شہداء کے درجات کو بلند کرتا چلا جائے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق دے کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں اور ہر قربانی کے لئے ہر وقت تیار ہوں اور اپنی نسلوں میں بھی یہ جذ بہ زندہ رکھیں، اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں یہ توفیق دیتا رہے.
$2003 396 خطبات مس
$2003 397 26 خطبات مس احباب جماعت نے خدمت انسانیت اور اخلاص و وفا کے بے نظیر نمونے قائم کئے ہیں ☆ ۱۷ اکتو بر ۲۰۰۳ء بمطابق ۱۷ را خا ۱۳۸۲ هجری شمسی به مقام مسجد فضل لندن.....جماعت احمدیہ نے خوب دل کھول کر خدمت خلق کے کاموں کو سر انجام دیا.احمدیہ نے کے کاموں کوسرانجام دیا ہے.ڈاکٹروں کو مستقل اور عارضی وقف کی تحریک.صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خدمت خلق میں نمونہ جماعت احمدیہ کے خدمت خلق کا غیروں کی زبان سے اعتراف
خطبات مس تشھد وتعوذ کے بعد فرمایا: $2003 398 جماعت میں خدمت خلق اور بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے جتنا زور دیا جاتا ہے اور ہر امیر غریب اپنی بساط کے مطابق اس کوشش میں ہوتا ہے کہ کب اسے موقع ملے اور وہ اللہ کی رضا کی خاطر خدمت خلق کے کام کو سرانجام دے.کیوں ہر احمدی کا دل خدمت خلق کے کاموں میں اتنا کھلا ہے اس لئے کہ اسلام کی جس خوبصورت تعلیم کو ہم بھول چکے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی محبت چاہتے ہو تو پھر اس کی مخلوق سے اچھا سلوک کرو، ان کی ضروریات کا خیال رکھو.یہ بھی ایک بہت بڑا ذریعہ ہے جو تمہیں اللہ تعالیٰ کے قرب سے نوازے گا.اس خوبصورت تعلیم کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی شرائط بیعت کی ایک بنیادی شرط قرار دیا ہے کہ میرے ساتھ منسلک ہونے کے بعد اپنی تمام تر طاقتوں اور نعمتوں سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی نہ صرف ہمدردی کرو بلکہ ان کو فائدہ بھی پہنچاؤ.اس لئے اگر زلزلہ زدگان کی مدد کی ضرورت ہے تو احمدی آگے ہے.سیلاب زدگان کی مدد کی ضرورت ہے تو احمدی آگے ہے.بعض دفعہ تو ایسے مواقع بھی آئے کہ پانی کی تند و تیز دھاروں میں بہ کر احمدی نو جوانوں نے اپنی جانوں کو تو قربان کر دیا لیکن ڈوبتے ہوؤں کو کنارے پر پہنچا دیا.پھر خلیفہ وقت نے جب یہ اعلان کیا کہ مجھے افریقہ کے غریب بچوں کی تعلیم اور بیماریوں کی وجہ سے دکھی مخلوق جنہیں علاج کی سہولت میسر نہیں ، سکول اور ہسپتال کھولنے کے لئے اتنی رقم کی ضرورت ہے تو افراد جماعت اس جذبہ کے تحت جو ایک احمدی کے دل میں دکھی انسانیت کے لئے ہونا چاہئے یہ رقم مہیا کریں اور اس پیاری جماعت کے افراد نے خلیفہ وقت کے اس مطالبہ پر لبیک کہتے ہوئے اس سے کئی گنا زیادہ رقم خلیفہ وقت کے سامنے رکھ دی جس کا مطالبہ کیا گیا تھا.اور پھر جب
399 $2003 خطبات مسرور خلیفہ وقت نے یہ کہا کہ یہ رقم تو مہیا ہوگئی اب مجھے ان سکولوں اور ہسپتالوں کو چلانے کے لئے افرادی قوت کی بھی ضرورت ہے تو ڈاکٹر ز اور ٹیچر ز نے انتہائی خلوص کے ساتھ اپنے آپ کو پیش کیا.اب تو افریقہ کے حالات نسبتا بہتر ہیں.ستر کی دہائی میں جب یہ نصرت جہاں سکیم شروع کی گئی تھی انتہائی نامساعد حالات تھے.اور ان نامساعد حالات میں ان لوگوں نے گزارا کیا.بعض ڈاکٹر ز اور ٹیچر ز ا چھی ملازمتوں پر تھے لیکن وقف کے بعد دیہاتوں میں بھی جا کر رہے.اکثر ہسپتال اور سکول دیہاتوں میں تھے جہاں نہ بجلی کی سہولت نہ پانی کی سہولت لیکن دکھی انسانیت کی خدمت کے عہد بیعت کو نبھانا تھا اس لئے کسی بھی روک اور سہولت کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں کی.شروع میں ہسپتالوں کا یہ حال تھا کہ لکڑی کی میز لے کر اس پر مریض کو لٹایا، روشنی کی کمی چند لالٹینوں یا گیس لیمپ سے پوری کی اور جو بھی چاقو، چھریاں ، قینچیاں، سامان آپریشن کا میسر تھا اس پر مریض کا آپریشن کر دیا اور پھر دعا میں مشغول ہو گئے کہ اے خدا میرے پاس تو جو کچھ میسر تھا اس کا میں نے علاج کر دیا ہے.میرے خلیفہ نے مجھے کہا تھا کہ دعا سے علاج کرو اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھ میں بہت شفار کھے گا.تو ہی شفا دے اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان قربانی کرنے والے ڈاکٹروں کی قدر کی اور ایسے ایسے لا علاج مریض شفا پا کر گئے کہ دنیا حیران ہوتی تھی.اور پھر مالی ضرورتیں بھی اس طرح خدا تعالیٰ نے پوری کیں کہ بڑے بڑے امراء بھی شہروں کے بڑے ہسپتالوں کو چھوڑ کر ہمارے چھوٹے دیہاتی ہسپتالوں میں آکر علاج کروانے کو ترجیح دیتے تھے.اسی طرح اساتذہ نے بھی بنی نوع انسان کی خدمت کے جذ بہ سے سرشار ہو کر بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا.ڈاکٹروں اور اساتذہ کی خدمات کے سلسلے آج بھی جاری ہیں.اللہ تعالیٰ یہ سلسلے جاری رکھے اور ان سب خدمت کرنے والوں کو اجر عظیم سے نوازتار ہے.جلسے پر میں نے ڈاکٹروں کو توجہ دلائی تھی کہ ہمارے افریقہ کے ہسپتالوں کے لئے ڈاکٹر مستقل یا عارضی وقف کریں.اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حالات بہت بہتر ہیں.وہ دقتیں اور وہ مشکلات بھی نہیں رہیں جو شروع کے واقفین کو پیش آئیں اور اکثر جگہ تو بہت بہتر حالات ہیں اور تمام سہولیات میسر ہیں.اور اگر کچھ تھوڑی بہت مشکلات ہوں بھی تو اس عہد بیعت کو سامنے رکھیں کہ محض للہ اپنی خداداد طاقتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچاؤں گا.آگے آئیں اور مسیح الزمان سے باندھے
$2003 400 خطبات مسرور ہوئے اس عہد کو پورا کریں.اور ان کی دعاؤں کے وارث بنیں.اسی طرح ربوہ میں فضل عمر ہسپتال کے لئے بھی ڈاکٹروں کی ضرورت ہے وہاں بھی ڈاکٹر صاحبان کو اپنے آپ کو پیش کرنا چاہئے.پھر پاکستان میں بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی بچوں کی تعلیم اور مریضوں کے علاج کے لئے مستقلاً احباب جماعتی انتظام کے تحت مالی اعانت کرتے ہیں اور پاکستان اور ہندوستان جیسے ملکوں میں جہاں غربت بہت زیادہ ہے اس مقصد کے لئے مالی اعانت کرنے والے اس خدمت کی وجہ سے مریضوں کی دعائیں لے رہے ہیں.تو اس نیک کام کو بھی احباب جماعت کو جاری رکھنا چاہئے اور پہلے سے بڑھ کر جاری رکھنا چاہئے اور پہلے سے بڑھ کر کرنا چاہئیکہ دکھوں میں اضافہ بھی بڑی تیزی سے ہو رہا ہے.کرتا ہوں.اب میں بعض پرانے بزرگوں کے واقعات جو خدمت خلق کے جذ بہ سے سرشار تھے پیش حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب رضی اللہ عنہ کے نمونہ کے بارہ میں ان کے متعلق بیان کرنے والے لکھتے ہیں کہ مرحوم ایک زندہ مثال تھے ایسے شخص کی جو حدیث کے مطابق اپنے بھائی کے لئے وہی چیز پسند کرتا تھا جو اپنے لئے پسند کرتا اور کبھی اپنے بھائی سے ایسا سلوک روا نہ رکھتا جو اس کو اپنے لئے ناگوار ہو.وہ ہمیشہ اس جستجو میں رہتا تھا کہ اس کو کوئی ایسی خدمت میسر آئے اور کوئی ایسا موقع ہوجس میں وہ اپنے کسی بھائی اور دوست کی مدد کرے.تو ان کے بارہ میں آتا ہے کہ جب وہ کالج میں پڑھا کرتے تھے اور جب جماعت کا لیکچر ہوتا تو آتے تھے اور وہاں ہر احمدی کو جا کر ملا کرتے تھے اور اگر کوئی بھائی بیمار ہوتا تو ان کے مکان پر جاتے ، ان کی بیمار پرسی کرتے اور بعض دفعہ تقریباً ہر روز ان بیماروں کو دیکھنے جایا کرتے.ایک دفعہ مفتی محمد صادق صاحب سخت بیمار ہو گئے تو مرحوم کئی روز تک مفتی صاحب کے لئے ان کے مکان میں رہے اور رات دن ان کی خدمت کی اور ان کی ساری جو بیماری کی حالت میں بعض دفعہ گند بھی اٹھانا پڑتا تھا تو وہ بھی اٹھالیا کرتے تھے.اصحاب احمد جلد اصفحه ۲۰۰.۱۹۹) پھر حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اپنی والدہ کے بارہ میں لکھتے ہیں کہ وہ فرمایا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ اگر دشمن نہ ہوتو کوئی دشمن کیا بگاڑ سکتا ہے.اور اس لحاظ سے میں تو کسی کو دشمن نہیں سمجھتی اور دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک بہت کیا کرتی تھیں.فرماتی تھیں کہ جس سے دل خوش
خطبات مسرور 401 $2003 ہوتا ہے اس کے ساتھ تو حسن سلوک کے لئے خود ہی دل چاہتا ہے.اس میں ثواب کی کونسی بات ہے.اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے تو انسان کو چاہئے کہ ان لوگوں سے بھی احسان اور نیکی سے پیش آوے جن پر دل راضی نہیں ہوتا.وہ لکھتے ہیں کہ ڈسکہ میں رہتی تھیں تو وہاں کے لوگوں کے ساتھ بڑا فیاضانہ سلوک تھا اور لوگ بھی بڑی عزت و احترام سے انہیں دیکھتے تھے.جب احرار کا جھگڑا شروع ہوا تو اس کا اثر ان کے علاقہ میں بھی پڑا اور وہی لوگ جو مد دلیا کرتے تھے دشمنیاں کرنے لگ گئے.لیکن اس دشمنی کا بھی ان کی والدہ پر کوئی اثر نہیں پڑا اور اگر ان کے رشتہ داروں میں سے کوئی یہ بھی کہتا کہ آپ فلاں شخص کی مدد کر رہی ہیں جبکہ وہ ہماری مخالفت کر رہا ہے، احرار میں شامل ہے تو بڑا برا منایا کرتی تھیں کہ تم مجھے اس خدمت سے کیوں روک رہے ہو.ایک دفعہ بیان کرنے والے لکھتے ہیں کہ کچھ پارچات، کپڑے وغیرہ تیار کر رہی تھیں تو انہوں نے جا کر ان کو کہا کہ آپ کس کے لئے تیار کر رہی ہیں تو چوہدری صاحب کی والدہ نے فرمایا کہ یہ فلاں شخص کے بچوں کے لئے کر رہی ہیں.تو اس شخص نے کہا کہ آپ بھی عجیب ہیں وہ تو احراری ہے اور جماعت کی بڑی مخالفت کرتا ہے، اس کے لئے آپ یہ کپڑے تیار کر رہی ہیں.تو آپ نے فرمایا کہ اگر وہ شرارت کرتے ہیں تو اللہ میاں ہماری حفاظت کرتا ہے اور جب تک وہ ہمارے ساتھ ہے مخالف کی شرارتیں ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں.لیکن یہ شخص مفلس ہے.اس کے اپنے بچوں اور پوتوں کے بدن ڈھانکنے کے لئے کپڑے مہیا کرنے کا سامان نہیں ہے تو اس کو ضرورتمند سمجھتے ہوئے میں اس کے لئے یہ کپڑے تیار کر رہی ہوں اور تم جو یہ اعتراض کر رہے ہو تو تمہاری سزا یہ ہے کہ جب میں یہ کپڑے تیار کرلوں گی تو تم ہی اس کے گھر جا کر پہنچا کر آؤ گے.لیکن ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ یہ احراری ہے اور اس پر تو دوسرے احراریوں کی نظر بھی ہوگی تو رات کے وقت جانا تا کہ اس کو کوئی تنگ نہ کرے کہ تم نے احمدیوں سے کپڑے وصول کئے.اصحاب احمد جلد ۱۱ صفحه (١٧٥-١٧٦ پھر آپ کا نمونہ بیواؤں اور یتامی کی نگہداشت بھی آپ کا دل پسند مشغلہ تھا.اور لکھنے والے کہتے ہیں کہ بچیوں کے جہیز تیار کر رہی ہوتیں تو بڑے انہماک سے اپنے ہاتھوں سے ساری تیاری کیا کرتی تھیں، کپڑے تیار کیا کرتی تھیں.(اصحاب احمد جلد ۱۱ صفحه ١٨٦)
402 $2003 خطبات مسرور پھر حضرت میر محمد اسحاق صاحب بھی یتیموں کی خبر گیری کی طرف بہت توجہ دیتے تھے اور دار الیتامی میں اتنے یتیم تھے، دار الشیوخ کہلاتا تھا تو ان کے بارہ میں روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ بخار میں آرام فرما رہے تھے اور شدید بخار تھا.نقاہت تھی ، کمزوری تھی.کارکن نے آ کر کہا کہ کھانے کے لئے جنس کی کمی ہے اور کہیں سے انتظام نہیں ہورہا.لڑکوں نے صبح سے ناشتہ بھی نہیں کیا ہوا.آپ نے فرمایا فورا تانگہ لے کر آؤ اور تانگے میں بیٹھ کر مخیر حضرات کے گھروں میں گئے اور جنس اکٹھی کی اور پھر ان بچوں کے کھانے کا انتظام ہوا.تو یہ جذبے تھے ہمارے بزرگوں کے کہ بخار کی حالت میں بھی اپنے آرام کو قربان کیا اور یتیم بچوں کی خاطر گھر سے نکل کھڑے ہوئے.اور یہ ایسا کیوں نہ ہوتا.آپ کو تو اپنے آقاملے کی یہ خوشخبری نظروں کے سامنے تھی کہ میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا اس طرح جنت میں ساتھ ساتھ ہوں گے جس طرح یہ دو انگلیاں ہوتی ہیں.شہادت کی اور درمیانی انگلی آپ نے اکٹھی کی تو یہ نمونے تھے ہمارے بزرگوں کے.پھر حضرت حافظ معین الدین صاحب کے بارہ میں روایت آتی ہے کہ آپ کو نظر نہیں آتا تھا ، آنکھوں کی بینائی سے محروم تھے.وہ کہتے ہیں کہ ایک سرد رات میں جب کہ قادیان کی کچی گلیوں میں سخت کیچڑ تھا، بہت مشکل سے گرتے پڑتے کہیں جا رہے تھے.ایک دوست نے پوچھا تو فرمایا بھائی یہاں ایک کتیا نے بچے دئے ہیں.میرے پاس ایک روٹی پڑی تھی.میں نے کہا کہ جھڑی کے دن ہیں یعنی بارش ہو رہی ہے اس کو ہی ڈال دوں.اور یہ بھی سنت کی پیروی تھی جو حافظ صاحب نے کی کہ جانوروں پر بھی رحم کرو اور یا درکھو وہ واقعہ جب کسی کنوئیں میں اتر کر ، اپنے جوتے میں پانی بھر کر کتے کو پانی پلایا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس نیکی کے عوض اسے بخش دیا.اس پر صحابہ بہت حیران ہوئے اور پوچھا کہ کیا جانوروں کی وجہ سے بھی اجر ملے گا.تو آپ اللہ نے فرمایا تھا کہ ہاں ہر ذی روح اور جاندار کی نیکی اور احسان کا اجر ملتا ہے.پھر ایک واقعہ ہے ایک احمدی حضرت نور محمد صاحب کا.سخت سردی کا موسم تھا.اور آپ کے پاس نہ کوٹ تھا نہ کمبل.صرف اوپر نیچے دو قمیصیں پہن رکھی تھیں کہ گاڑی میں سوار تھے.ایک معذور بوڑھا ننگے بدن کانپتا ہوا نظر آیا.اسی وقت اپنی ایک قمیص اتار کر اسے پہنا دی.ایک سکھ دوست بھی ساتھ سفر کر رہا تھا وہ یہ دیکھ کر کہنے لگا ” بھائیا جی بہن تہاڈا تے بیڑا پار ہو جائے گا، آپاں
403 $2003 خطبات مسرور دا پتہ نئیں کی بنے؟.تو یہ نمونے تھے.پھر چند دن بعد یوں ہوا کہ یہی نور محمد صاحب ایک نیا کمبل اوڑھ کر بیت الذکر مغلپورہ میں نماز فجر کے لئے آئے تو دیکھا کہ فتح دین نامی ایک شخص جو کسی وقت بہت امیر تھا بیماری اور افلاس کے مارے ہوئے سردی سے کانپ رہے تھے.تو نور محمد صاحب نے فوراً اپنا یا کمبل اتارا اور اسے اوڑھا دیا.(روح پرور یادیں صفحہ ٦٨٧) پھر ۱۹۴۷ء میں قیام پاکستان کے وقت لاکھوں لٹے پٹے مہاجر لوگ قافلوں کی صورت میں قادیان کا رُخ کرتے تھے اور اس وقت انتہائی برے حالات تھے.مسلمانوں کی عورتوں کی عزت و حرمت کی کوئی ضمانت نہیں تھی اور سب مسلمان یہ مجھتے تھے کہ قادیان پہنچ جائیں تو ہم محفوظ ہو جا ئیں گے.تو اس وقت بھی جو بھی جماعت کے افراد وہاں موجود تھے اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ اس وقت وہاں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں انچارج بنایا ہوا تھا تو سب آنے والوں کو جو بڑی کسمپرسی کی حالت میں وہاں پہنچے تھے.بعض کپڑوں کے بھی بغیر تھے تو حضور نے سب سے پہلے اپنے گھر کے، خاندان والوں کے کپڑے نکالے بکسوں سے اور پھر ان کو دئے.پھر وہیں سے قافلے ایک انتظام کے تحت روانہ ہوئے اور پاکستان پہنچتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے محفوظ طریقے سے پہنچتے رہے.اور احمدیوں نے اپنی جانوں کو قربان کر کے ان لوگوں کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کی.پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں ایک یہ شرط بھی ہے کہ ہم اب اس عہد کے ساتھ جماعت میں شامل ہوتے ہیں کہ بیعت کرنے کے بعد اب ہمارا اپنا کچھ نہیں رہا.اب سارے رشتے اور تمام تعلقات صرف اس وقت تک ہیں جب تک کہ وہ نظام جماعت اور حضور اقدس | کی ذات کے ساتھ وابستہ ہیں.کوئی رشتہ، کوئی تعلق ہمیں حضور علیہ السلام سے دور نہیں لے جا سکتا.ہم تو اُس دَر کے فقیر ہیں اور یہی ہمیں مقدم ہے.پھر اس عہد کو نبھایا گیا اور خوب نبھایا.اس کی بھی چند مثالیں پیش کرتا ہوں اور اکثر ایسے ہیں جن کو زمانے کے امام نے خود اپنے الفاظ میں زبر دست خراج تحسین پیش کیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- ”ایسا ہی ہمارے دلی محبت مولوی محمد احسن صاحب امروہی جو اس سلسلہ کی تائید کے لئے
خطبات مسرور 404 $2003 عمدہ عمدہ تالیفات میں سرگرم ہیں اور صاحبزادہ پیر جی سراج الحق صاحب نے تو ہزاروں مریدوں سے قطع تعلق کر کے اس جگہ کی درویشانہ زندگی قبول کی.اور میاں عبداللہ صاحب سنور کی اور مولوی برہان الدین صاحب جہلمی ، اور مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی اور قاضی ضیاء الدین صاحب قاضی کوئی اور منشی چوہدری نبی بخش صاحب بٹالہ ضلع گورداسپور اور منشی جلال الدین صاحب یلانی وغیرہ احباب اپنی اپنی طاقت کے موافق خدمت میں لگے ہوئے ہیں.میں اپنی جماعت کے محبت اور اخلاص پر تعجب کرتا ہوں کہ ان میں سے نہایت ہی کم معاش والے جیسے میاں جمال دین اور امام دین کشمیری میرے گاؤں کے قریب رہنے والے ہیں.یہ تینوں غریب بھائی جو شاید تین آنہ یا چار آنہ روزانہ مزدوری کرتے ہیں سرگرمی سے ماہواری چندہ میں شریک ہیں.ان کے دوست میاں عبدالعزیز پٹواری کے اخلاص سے بھی مجھے تعجب ہے کہ باوجو دقلت معاش کے ایک دن سو روپیہ دے گیا کہ میں چاہتا ہوں کہ یہ خدا کی راہ میں خرچ ہو جائے.وہ سور و پہیہ اس غریب نے شاید کئی برسوں میں جمع کیا ہوگا مگر یہی جوش نے خدا کی رضا کا جوش دلایا“.(انجام آتهم، روحانی خزائن جلد نمبر ١١ صفحه ٣١٣- ٣١٤) پھر آپ حضرت خلیفتہ المسیح اول کے متعلق فرماتے ہیں :- کثرت مال کے ساتھ کچھ قدر قلیل خدا کی راہ میں دیتے ہوئے تو بہتوں کو دیکھا مگر خود بھوکے پیاسے رہ کر اپنا عزیز مال رضائے مولیٰ میں اٹھاد دینا اور اپنے لئے دنیا میں سے کچھ نہ بنانا یہ صفت کامل طور پر مولوی صاحب موصوف میں دیکھی جس قدر ان کے مال سے مجھ کو مدپہنچی ہے اس کی نظیر اب تک کوئی میرے پاس نہیں“.میں لکھا کہ: المسیح نشان آسمانی روحانی خزائن جلد ٤ صفحه ٤٠٧) پھر حضرت خلیفتہ امیج اول، مولانا نور الدین صاحب نے حضرت مسیح موعود کی خدمت ، میں آپ کی راہ میں قربان ہوں.میرا جو کچھ ہے، میرا نہیں آپ کا ہے.حضرت پیرو مرشد میں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا.(فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه (٣٦)
خطبات مسرور 405 $2003 حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام حضرت منشی ظفر احمد صاحب کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ : تمی فی اللہ منشی ظفر احمد صاحب جو جو ان صالح اور کم گو اور خلوص سے بھرا دقیق فہم آدمی ہے یعنی بڑی باریک نظر سے دیکھنے والے ہیں.استقامت کے آثار و انوار ان میں ظاہر ہیں.وفاداری کی علامات وغیرہ میں قسمت زدہ ہیں.ثابت شدہ صداقتوں کو خوب سمجھتا ہے.اوران سے لذت اٹھاتا ہے.اللہ اور رسول سے سچی محبت رکھتا ہے اور ادب، جس پر تمام مدار حصول فیض کا ہے اور حسن ظن جو اس راہ کا مرکب ہے دونوں سیر تیں ان میں پائی جاتی ہیں یعنی فیض اٹھانا اور حسن ظن رکھنا.جن کا یہ مجموعہ ہے یہ دونوں صفتیں ان میں پائی جاتی ہیں.جزاھم اللہ خیر الجزاء.پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام حضرت میاں عبداللہ سنوری کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ : حبی فی اللہ میاں عبداللہ سنوری یہ جوان صالح اپنی فطرتی مناسبت کی وجہ سے میری طرف کھنچا گیا.میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ ان وفادار دوستوں میں سے ہے جن پر کوئی ابتلاء جنبش نہیں لا سکتا.یعنی کوئی ابتلا ان کو اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتا.وہ متفرق وقتوں میں دو دو تین تین ماہ تک بلکہ زیادہ بھی میری صحبت میں رہا اور میں ہمیشہ بنظر ایمان اس کی اندرونی حالت پر نظر ڈالتا رہا ہوں، یعنی میں بڑے غور سے دیکھتا رہا ہوں.” تو میری فراست نے اس کی تہ تک پہنچنے سے جو کچھ معلوم کیا وہ یہ ہے کہ یہ نوجوان در حقیقت اللہ اور رسول کی محبت میں ایک خاص جوش رکھتا ہے اور میرے ساتھ اس کے اس قدر تعلق محبت کی بجز اس بات کے اور کوئی وجہ نہیں کہ اس کے دل میں یقین ہو گیا ہے کہ یہ شخص محبان خدا اور رسول میں سے ہے.66 (ازاله اوهام روحانی خزائن جلد نمبر ۳ صفحه (۵۳۱ پھر حضرت منشی اروڑ ا صاحب کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: جی فی اللہ منشی محمد اروڑا نقشہ نویس مجسٹریٹی.منشی صاحب محبت اور خلوص اور ارادت میں زندہ دل آدمی ہیں.سچائی کے عاشق اور سچائی کو بہت جلد سمجھ جاتے ہیں.خدمات کو نہایت نشاط سے بجالاتے ہیں بڑی خوشی سے بجالاتے ہیں.بلکہ وہ تو دن رات اس فکر میں لگے رہتے ہیں کہ کوئی خدمت مجھ سے صادر ہو جائے.عزیز منشرح الصدر اور جانثار آدمی ہیں.یعنی کھلے دل سے قبول کرنے والے اور جانثار آدمی ہیں.میں خیال کرتا ہوں کہ ان کو اس عاجز سے ایک نسبت عشق ہے.شاید ان کی اس سے بڑھ کر اور کسی بات میں خوشی نہیں ہوتی ہوگی کہ اپنی طاقتوں اور اپنے مال 66
406 $2003 خطبات مسرور اور اپنے وجود کی ہر یک توفیق سے کوئی خدمت بجالا وہیں.وہ دل و جان سے وفادار اور مستقیم الاحوال اور بہادر آدمی ہے.ہر حال میں وفادار ہیں.اور مضبوط ہیں ایمان میں اور بہادر آدمی ہیں.خدائے تعالیٰ ان کو جزائے خیر بخشے.پھر آپ نے فرمایا: ”جبی فی اللہ میاں محمد خان صاحب ریاست کپورتھلہ میں نوکر ہیں.نہایت درجہ کے غریب طبع ، صاف باطن، دقیق فہم حق پسند.یعنی باریکی سے غور کرنے والے اور حق کو پہچاننے والے، سچ کو پسند کرنے والے.اور جس قدر انہیں میری نسبت عقیدت وارادت و محبت اور نیک ظن ہے میں اس کا اندازہ نہیں کر سکتا.مجھے ان کی نسبت یہ تردد نہیں ہے کہ ان کے اس درجہ ارادت میں کبھی کوئی ؟ پیدا ہو.بلکہ یہ اندیشہ ہے کہ حد سے زیادہ نہ بڑھ جائے.وہ نیچے وفادار اور جانثار اور مستقیم الاحوال ہیں.خدا ان کے ساتھ ہو.ان کا نو جوان بھائی سردار علی خان بھی میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہے.یہ لڑکا بھی اپنے بھائی کی طرح بہت سعید اور رشید ہے.بہت نیک اور سیدھے رستے پر چلنے والا.اور خدا تعالیٰ ان کا محافظ ہو.پھر آپ فرماتے ہیں: 66 (ازاله اوهام روحانی خزائن جلد نمبر ۳ صفحه (۵۳۲ ”میرے نہایت پیارے بھائی اپنی جدائی سے ہمارے دل پر داغ ڈالنے والے مرزا اعظم بیگ صاحب مرحوم و مغفور رئیس سامانہ علاقہ پٹیالہ کے ہیں جو دوسری ربیع الثانی ۱۳۰۸ ہجری میں اس جہان فانی سے انتقال کر گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.فرماتے ہیں اَلْعَيْنُ تَدْمَعُ وَالْقَلْبُ يَحْزُنُ وَاناً بِفِرَاقِهِ لَمَحْزُونُونَ یعنی آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمگین ہیں اور ہم اس کی جدائی سے غمزدہ ہیں.مرزا صاحب مرحوم جس قدر مجھ سے محض اللہ محبت رکھتے تھے اور جس قدر مجھ میں فنا ہو رہے تھے.میں کہاں سے ایسے الفاظ لاؤں تا اس کے مرتبہ کو بیان کرسکوں.اور جس قدر ان کی بے وقت مفارقت سے مجھے غم اور اندوہ پہنچا ہے میں اپنے گزشتہ زمانہ میں اس کی نظیر بہت کم دیکھتا ہوں.وہ ہمارے فرد اور ہمارے میر منزل ہیں یعنی ہماری نظر میں ان کا بڑا مقام ہے اور بڑے اچھے آگے بڑھنے والے تھے لیڈرانہ صلاحیت تھی جو ہمارے دیکھتے دیکھتے ہم سے رخصت ہو گئے.جب تک ہم زندہ رہیں گے ان کی وفات کا غم ہمیں نہیں بھولے گا.ان کی مفارقت کی یاد سے طبیعت میں اداسی اور سینہ میں کرب کے غلبہ سے کچھ فلش اور دل میں غم اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں.ان
407 $2003 خطبات مسرور کا تمام وجود محبت سے بھر گیا تھا.مرزا صاحب مرحوم محبانہ جوشوں کے ظاہر کرنے کے لئے بڑے بہادر تھے.(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد نمبر ۳ صفحه (۳۹) حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب تحریر فرماتے ہیں.دعا ہے، بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے یہ بیان دے رہے تھے کہ: ”اے میرے آقا! میں اپنے دل میں متضاد خیالات موجزن پاتا ہوں.ایک طرف تو میں بہت اخلاص سے اس امر کا خواہاں ہوں کہ حضور کی صداقت اور روحانی انوار سے بیرونی دنیا جلد واقف ہو جاۓ.اور تمام اقوام و عقائد کے لوگ آئیں اور اس سر چشمہ سے سیراب ہوں جواللہ تعالیٰ نے یہاں جاری کیا ہے.لیکن دوسری طرف اس خواہش کے عین ساتھ ہی اس خیال سے میرا دل اند و بگین ہو جاتا ہے کہ جب دوسرے لوگ بھی حضور سے واقف ہوجائیں گے اور بڑی تعداد میں یہاں آنے لگیں گے تو اس وقت مجھے آپ کی صحبت اور قرب جس طرح میسر ہے اُس سے لطف اندوز ہونے کی مسرت سے محروم ہو جاؤں گا.ایسی صورت میں حضور دوسروں کے گھر جائیں گے.حضور والا! مجھے اپنے پیارے آقا کی صحبت میں بیٹھنے اور ان سے گفتگو کرنے کا جومسرت بخش شرف حاصل ہے اس سے مجھے محرومی ہو جائے گی.ایسی متضاد خواہشات یکے بعد دیگرے میرے دل میں رونما ہوتی ہیں“.تو قاضی صاحب کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میری یہ باتیں سن کر مسکرا دئے.اصحاب احمد جلد ٦ صفحه (۱۰ پھر قاضی ضیاء الدین صاحب کا ہی ایک نمونہ ہے.قاضی عبدالرحیم صاحب سناتے تھے کہ ایک دفعہ والد صاحب نے خوشی سے بیان کیا کہ میں وضو کر رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کے خادم حضرت حافظ حامد علی صاحب نے میرے متعلق دریافت کیا کہ یہ کون صاحب ہیں.تو حضور نے میرا نام اور پتہ بتاتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ اس شخص کو ہمارے ساتھ عشق ہے.چنانچہ قاضی صاحب اس بات پر فخر کیا کرتے اور ( تعجب سے ) کہا کرتے تھے کہ حضور کو میرے دل کی کیفیت کا کیونکر علم ہو گیا.یہ اسی عشق کا ہی نتیجہ تھا کہ حضرت قاضی صاحب نے اپنی وفات کے وقت اپنی اولاد کو وصیت کی تھی کہ میں بڑی مشکل سے تمہیں حضرت مسیح موعود کے در پر لے آیا ہوں.اب
408 خطبات مسرور میرے بعد اس دروازہ کو کبھی نہ چھوڑنا.چنانچہ آپ کی اولاد نے اس پر کامل طور پر عمل کیا.$2003 (اصحاب احمد جلد ٦ صفحه (۸-۹ تاریخ احمدیت جلد نمبره حضرت مولوی نعمت اللہ صاحب کو کابل میں ۱۹۲۴ء میں شہید کیا گیا.شہادت سے پہلے انہوں نے قید خانہ سے ایک احمدی دوست کو خط لکھا اور اس میں فرمایا ” میں ہر وقت قید خانہ میں خدا سے یہ دعا کرتا ہوں کہ الہی اس نالائق بندہ کو دین کی خدمت میں کامیاب کر.میں نہیں چاہتا کہ مجھے قید خانہ سے رہائی بخشے بلکہ میں یہ عرض کرتا ہوں کہ الہی اس نالائق کے وجود کا ذرہ ذرہ احمدیت پر قربان کر دے.پھر اسی دسویں شرط کے تحت کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک ایسا تعلق ہوگا جس کی نظیر نہ ہو.یہ واقعہ سید عبد الستار شاہ صاحب کا ہے کہ ۱۹۰۷ ء میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چھوٹے بیٹے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد بیمار ہو گئے اور شدید قسم کا ٹائیفائڈ کا حملہ ہوا.ان کی بیماری کے ایام میں کسی شخص نے خواب میں دیکھا کہ مبارک احمد کی شادی ہو رہی ہے.اور معبرین نےلکھا ہے کہ اگر شادی غیر معلوم عورت سے ہو تو اس کی تعبیر موت ہوتی ہے مگر بعض معبرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر ایسے خواب کو ظاہری صورت میں پورا کر دیا جائے تو بعض دفعہ یہ تعبیر مل جاتی ہے.پس جب خواب دیکھنے والے نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنا یہ خواب سنایا تو آپ نے بھی یہی فرمایا کہ اس کی تعبیر موت ہے مگر اسے ظاہری رنگ میں پورا کر دینے کی صورت میں بعض دفعہ یہ تعبیر ٹل جاتی ہے.اس لئے آؤ مبارک احمد کی شادی کر دیں.گویاوہ بچہ جسے شادی بیاہ کا کچھ علم نہ تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کی شادی کا فکر ہوا.جس وقت حضور علیہ السلام یہ باتیں کر رہے تھے تو اتفاقاً حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی اہلیہ سیدہ سعیدۃ النساء بیگم صاحبہ جو یہاں بطور مہمان آئی ہوئی تھیں صحن میں نظر آئیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو بلایا اور فرمایا ہمارا منشاء ہے کہ مبارک احمد کی شادی کر دیں.آپ کی لڑکی مریم ہے.آپ اگر پسند کریں تو اس سے مبارک احمد کی شادی کر دی جائے.انہوں نے کہا حضور مجھے کوئی عذر نہیں لیکن اگر حضور کچھ مہلت دیں تو ڈاکٹر صاحب سے بھی پوچھ لوں.ان دنوں ڈاکٹر صاحب مرحوم اور ان کے اہل وعیال گول
409 $2003 خطبات مسرور کمرہ میں رہتے تھے.وہ (اہلیہ حضرت ڈاکٹر صاحب) نیچے گئیں.ڈاکٹر صاحب شاید وہاں نہ تھے.کہیں باہر گئے ہوئے تھے.انہوں نے کچھ دیر انتظار کیا تو وہ آگئے.جب وہ آئے تو انہوں نے اس رنگ میں ان سے بات کی کہ اللہ تعالیٰ کے دین میں جب کوئی داخل ہوتا ہے تو بعض دفعہ اس کے ایمان کی آزمائش ہوتی ہے.اگر اللہ تعالیٰ آپ کے ایمان کی آزمائش کرے تو کیا آپ پکے رہیں گے؟ ان کو اس وقت دو خیال تھے کہ شاید ان کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کو یہ رشتہ کرنے میں تامل ہو.ایک تو یہ کہ اس سے قبل ان کے خاندان کی کوئی لڑکی غیر سید کے ساتھ نہ بیاہی گئی تھی.اور دوسرے یہ کہ مبارک احمد ایک مہلک بیماری میں مبتلا تھا.اور ڈاکٹر صاحب مرحوم خود اس کا علاج کرتے تھے.اور اس وجہ سے وہ خیال کریں گے کہ یہ شادی ننانوے فیصد خطرہ سے پُر ہے.اور اس سے لڑکی کے ماتھے پر جلد ہی بیوگی کا ٹیکہ لگنے کا خوف ہے.ان باتوں کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کے گھر والوں کو یہ خیال تھا کہ ایسا نہ ہوڈاکٹر صاحب کمزوری دکھائیں.اور ان کا ایمان ضائع ہو جائے اس لئے انہوں نے پوچھا کہ اگر اللہ تعالیٰ آپ کے ایمان کی آزمائش کرے تو کیا آپ پکے رہیں گے.ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ مجھے امید ہے اللہ تعالیٰ استقامت عطا کرے گا.اس پر والدہ مریم بیگم مرحومہ نے ان کی بات سنائی اور بتایا کہ اس طرح میں اوپر گئی تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مریم کی شادی مبارک احمد سے کر دیں.یہ بات سن کر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ اچھی بات ہے اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ پسند ہے تو ہمیں اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے.ان کا یہ جواب سن کر مریم بیگم مرحومہ کی والدہ، اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو ہمیشہ بڑھاتا چلا جائے ، رو پڑیں.اور بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے.اس پر ڈاکٹر صاحب مرحوم نے ان سے پوچھا کہ کیا ہوا.کیا تم کو یہ تعلق پسند نہیں؟.انہوں نے کہا مجھے پسند ہے.بات یہ ہے کہ جب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نکاح کا ارشاد فرمایا تھا، میرا دل دھڑک رہا تھا اور میں ڈرتی تھی کہ کہیں آپ کا ایمان ضائع نہ ہو جائے.اور اب آپ کا جواب سن کر میں خوشی سے اپنے آنسو روک نہیں سکی.چنانچہ یہ شادی ہوگئی اور کچھ دنوں کے بعد ( جیسا کہ بیماری شدید تھی) وہ لڑکی بھی بیوہ ہو گئی.اب دیکھیں اللہ تعالیٰ نے بھی ڈاکٹر صاحب کے اخلاص کو ضائع نہیں کیا اور حضرت مصلح موعودؓ سے ان کی
$2003 410 خطبات مسرور شادی ہوئی جس کا نام حضرت اُم طاہر ، مریم صدیقہ رضی اللہ عنہا تھا.(روزنامه الفضل ،قادیان یکم اگست ١٩٤٤ ء صفحه ١ - ٢ ـ بحواله سیرت سید عبدالستار شاه صاحب صفحه ۱۲۲ تا ١٢٤ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کے بارہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ انہی دنوں میں جب کہ متواتر یہ وحی خدا کی مجھ پر ہوئی.اور نہایت زبر دست اور قومی نشان ظاہر ہوئے.اور میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا دلائل کے ساتھ دنیا میں شائع ہوا.خوست علاقہ حدود کا بل میں ایک بزرگ تک جن کا نام اخوند زادہ مولوی عبداللطیف ہے کسی اتفاق سے میری کتا ہیں پہنچیں اور وہ تمام دلائل جو نقل اور عقل اور تائیدات سماوی سے میں نے اپنی کتابوں میں لکھے تھے ( یعنی اللہ تعالیٰ کی تائید سے میں نے اپنی کتابوں میں لکھے تھے ) وہ سب دلیلیں ان کی نظر سے گزریں اور چونکہ وہ بزرگ نہایت پاک باطن اور اہل علم اور اہل فراست اور خدا ترس اور تقوی شعار تھے اس لئے ان کے دل پر ان دلائل کا قومی اثر ہوا اور ان کو اس دعوی کی تصدیق میں کوئی دقت پیش نہ آئی.اور ان کے پاک کانشنس نے بلا توقف مان لیا کہ یہ شخص منجانب اللہ ہے اور یہ دعوی صحیح ہے.تب انہوں نے میری کتابوں کو نہایت محبت سے دیکھنا شروع کیا اور ان کی روح جو نہایت صاف اور مستعد تھی میری طرف کھینچی گئی یہاں تک کہ ان کے لئے بغیر ملاقات کے دور بیٹھے رہنا نہایت دشوار ہو گیا.آخر اس زبردست کشش اور محبت اور اخلاص کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے اس غرض سے کہ ریاست کابل سے اجازت حاصل ہو جائے حج کے لئے مصمم ارادہ کیا اور امیر کابل سے اس سفر کے لئے درخواست کی.چونکہ وہ امیر کابل کی نظر میں ایک برگزیدہ عالم اور تمام علماء کے سردار سمجھے جاتے تھے اس لئے نہ صرف ان کو اجازت ہوئی بلکہ امداد کے طور پر کچھ روپیہ بھی دیا گیا.سو وہ اجازت حاصل کر کے قادیان میں پہنچے اور جب مجھ سے ان کی ملاقات ہوئی تو قسم اس خدا کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے ان کو اپنی پیروی اور اپنے دعوے کی تصدیق میں ایسا فنا شدہ پایا کہ جس سے بڑھ کر انسان کے لئے ممکن نہیں.اور جیسا کہ ایک شیشہ عطر سے بھرا ہوا ہوتا ہے ایسا ہی میں نے ان کو اپنی محبت سے بھرا ہوا پایا.اور جیسا کہ ان کا چہرہ نورانی تھا ایسا ہی ان کا دل مجھے نورانی معلوم ہوتا تھا“.(تذكرة الشهادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۹ - ۱۰) پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت خلیفہ اول کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ :
411 $2003 خطبات مسرور اس جگہ میں اس بات کا اظہار اور اس کا شکر ادا کرنے کے بغیر نہیں رہ سکتا کہ خدا تعالیٰ کے فضل وکرم نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا.میرے ساتھ تعلق اخوت پکڑنے والے اور اس سلسلے میں داخل ہونے والے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے محبت اور اخلاص کے رنگ سے ایک عجیب طرز پر رنگین ہیں.نہ میں نے اپنی محنت سے بلکہ خدا تعالیٰ نے اپنے خاص احسان سے جو صدق سے بھری ہوئی روحیں مجھے عطا کی ہیں.سب سے پہلے میں اپنے ایک روحانی بھائی کے ذکر کرنے کے لئے دل میں جوش پاتا ہوں جن کا نام ان کے نورا خلاص کی طرح نور دین ہے.میں ان کی بعض دینی خدمتوں کو جو اپنے مال حلال کے خرچ سے اعلائے کلمہ اسلام کے لئے وہ کر رہے ہیں ہمیشہ ادب کی نظر سے دیکھتا ہوں کہ کاش وہ خدمتیں مجھ سے بھی ادا ہو سکتیں.ان کے دل میں جو تائید دین کے لئے جوش بھرا ہے اس کے تصور سے قدرت الہی کا نقشہ میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے کہ وہ کیسے اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے.وہ اپنے تمام مال اور تمام زور اور تمام اسباب مقدرت کے ساتھ جو ان کو میسر ہے ( یعنی جو مال ان کے قبضے میں ہے) ہر وقت اللہ اور رسول کی اطاعت کے لئے مستعد کھڑے ہیں اور میں تجربہ سے نہ صرف حسن ظن سے یہ علم صحیح واقعی رکھتا ہوں کہ انہیں میری راہ میں مال کیا بلکہ جان اور عزت تک دریغ نہیں اور اگر میں اجازت دیتا تو وہ سب کچھ اس راہ میں فدا کر کے اپنی روحانی رفاقت کی طرح جسمانی رفاقت اور ہر دم صحبت میں رہنے کا حق ادا کرتے.ان کے بعض خطوط کی چند سطریں بطور نمونہ ناظرین کو دکھلاتا ہوں تا ان کو معلوم ہو کہ میرے پیارے بھائی حکیم نورالدین بھیروی معالج ریاست جموں نے محبت اور اخلاص کے مراتب میں کہاں تک ترقی کی ہے اور وہ سطریں یہ ہیں، لکھتے ہیں : مولانا، مرشد نا، امامنا! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.عالی جناب میری دعا یہ ہے کہ ہر وقت حضور کی جناب میں حاضر رہوں اور امام زمان سے جس مطلب کے واسطے وہ مجدد کیا گیا ہے وہ مطالب حاصل کروں.اگر اجازت ہو تو میں نوکری سے استعفیٰ دے دوں اور دن رات خدمت عالی میں پڑار ہوں.یا اگر حکم ہو تو اس تعلق کو چھوڑ کر دنیا میں پھروں اور لوگوں کو دین حق کی طرف بلاؤں اور اسی راہ میں جان دوں.میں آپ کی راہ میں قربان ہوں.میرا جو کچھ ہے میرا نہیں ، آپ کا ہے.حضرت پیر و مرشد !میں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی
412 $2003 خطبات مسرور اشاعت میں خرچ ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا.مجھے آپ سے نسبت فاروقی ہے اور سب کچھ اس راہ میں فدا کرنے کے لئے تیار ہوں.دعا فرما دیں کہ میری موت صدیقوں کی موت ہو“.مولوی صاحب ممدوح کا صدق اور ہمت اور ان کی غمخواری اور دیانتداری جیسے ان کے قول سے ظاہر ہے اس سے بڑھ کر ان کے حال سے ان کی مخلصانہ خدمتوں سے ظاہر ہو رہا ہے اور وہ محبت اور اخلاص کے جذ بہ کاملہ سے چاہتے ہیں کہ سب کچھ یہاں تک کہ اپنے عیال کی زندگی بسر کرنے کی ضروری چیزیں بھی اسی راہ میں فدا کر دیں.ان کی روح محبت کے جوش اور ہستی سے ان کی طاقت سے زیادہ قدم بڑھانے کی تعلیم دے رہی ہے.اور ہر دم ہر آن خدمت میں لگے ہوئے ہیں“.(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد نمبر ۳ صفحه ۳۵ تا ۳۷) ایک معترض کے جواب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لکھتے ہیں کہ: آپ کہتے ہیں کہ صرف ایک حکیم نورالدین صاحب اس جماعت میں عملی رنگ رکھتے ہیں، دوسرے ایسے ہیں اور ایسے ہیں.میں نہیں جانتا کہ آپ اس افتراء کا کیا جواب دیں گے.میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں کہ سچے دل سے میرے پر ایمان لائے ہیں اور اعمال صالحہ بجالاتے ہیں اور باتیں سننے کے وقت اس قدر روتے ہیں کہ اُن کے گریبان تر ہو جاتے ہیں.میں اپنے ہزار ہا بیعت کنندوں میں اس قدر تبدیلی دیکھتا ہوں کہ موسیٰ نبی کے پیرو ان سے جو ان کی زندگی میں ان پر ایمان لائے تھے ہزار درجہ ان کو بہتر خیال کرتا ہوں اور ان کے چہرہ پر صحابہ کے اعتقاد اور صلاحیت کا نور پاتا ہوں.ہاں شاذ و نادر کے طور پر اگر کوئی اپنے فطرتی نقص اور صلاحیت میں کم رہا ہو تو وہ شاذ و نادر میں داخل ہے.فرماتے ہیں: ”میں دیکھتا ہوں کہ میری جماعت نے جس قدر نیکی اور صلاحیت میں ترقی کی ہے یہ بھی ایک معجزہ ہے.ہزار ہا آدمی دل سے فدا ہیں.اگر آج ان کو کہا جائے کہ اپنے تمام اموال سے دستبردار ہو جاؤ تو وہ دستبردار ہو جانے کے لئے مستعد ہیں.پھر بھی میں ہمیشہ ان کو اور ترقیات کے لئے ترغیب دیتا ہوں اور ان کی نیکیاں ان کو نہیں سنا تا مگر دل میں خوش ہوں“.(سیرت المهدى حصه اول صفحه ١٦٥) یہ تو چند نمونے تھے جو میں نے پیش کئے ، حضرت اقدس مسیح موعود کی اس پیاری جماعت
$2003 413 خطبات مسرور میں ایسے ہزاروں لاکھوں نمونے بکھرے پڑے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے وقت میں لاکھوں کا ذکر کیا اب تو اور بھی بہت بڑھ چکے ہیں جنہوں نے اپنے اخلاص اور اپنی قربانیوں کے بڑے اعلیٰ معیار قائم کئے ہیں.بہت سے ایسے ہیں جن کے وفا، اخلاص ، تعلق ،محبت ، اطاعت کے واقعات سامنے نہیں آئے.یہ لوگ خاموشی سے آئے اور محبت و تعلق وفا اور اطاعت کی مثالیں رقم کرتے ہوئے خاموشی سے چلے گئے.ایسے مخلصین کی اولادوں کو چاہئے کہ اپنے ایسے بزرگوں کے واقعات قلمبند کریں اور جماعت کے پاس محفوظ کروائیں اور اپنے خاندانوں میں بھی ان روایتوں کو جاری کریں اور اپنی نسلوں کو بھی بتاتے رہیں کہ ہمارے بزرگوں نے یہ مثالیں قائم کی ہیں اور ان کو ہم نے جاری رکھنا ہے.جہاں ہم ان بزرگوں پر رشک کرتے ہیں کہ کس طرح وہ قربانیاں کر کے امام الزمان کی دعاؤں کے وارث ہوئے وہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ آج بھی ان دعاؤں کو سمیٹنے کے مواقع موجود ہیں.آئیں اور ان وفاؤں، اخلاص، اطاعت، تعلق اور محبت کی مثالیں قائم کرتے چلے جائیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں.یادرکھیں جب تک یہ مثالیں قائم ہوتی رہیں گی زمینی مخالفتیں ہمارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس فقرہ کو ہمیشہ یادرکھیں کہ زمین تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی اگر تمہارا آسمان سے پختہ تعلق ہے“.ان تبدیلیوں کو غیروں نے بھی دیکھا اور ان کا اعتراف کیا اور اتنی واضح اور کھلی تبدیلیاں تھیں کہ وہ مجبور تھے کہ اعتراف کرتے.اور یہ مان لیا کہ زمانہ کے امام کو مان کر احمد یوں میں بہت ساری تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں لیکن ان کا رویہ وہی ہے کہ میں نہ مانوں کی رٹ لگی رہتی ہے.بہر حال اس اعتراف کے چند نمونے میں پیش کرتا ہوں.علامہ اقبال نے لکھا کہ ”پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں“.(قومی زندگی اور ملت بیضاء پر ايک عمرانی نظر صفحه ٨٤ علامہ نیاز فتح پوری نے حضرت مسیح موعود کے متعلق لکھا: اس میں کلام نہیں کہ انہوں نے یقیناً اخلاق اسلامی کو دوبارہ زندہ کیا اور ایک ایسی جماعت پیدا کر کے دکھادی جس کی زندگی کو ہم یقیناً اسوۂ نبی کا پر تو کہہ سکتے ہیں.
$2003 414 خطبات مسہ (ملاحظات نیاز فتح پوری صفحه (۲۹ پھر ایڈیٹر صاحب اخبار سٹیٹسمین دہلی نے لکھا: قادیان کے مقدس شہر میں ایک ہندوستانی پیغمبر پیدا ہوا جس نے اپنے گرو پیش کو نیکی اور بلند اخلاق سے بھر دیا.یہ اچھی صفات اس کے لاکھوں ماننے والوں کی زندگی میں بھی منعکس ہیں“.(سٹیٹسمین دهلی ۱۲ / فروری ١٩٤٩ء عبدالرحیم اشرف آزاد جماعت احمدیہ کے اندر پیدا ہونے والے انقلاب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ہزاروں اشخاص ایسے ہیں جنہوں نے اس نئے مذہب کی خاطر اپنی برادریوں سے علیحدگی اختیار کی.دنیاوی نقصانات برداشت کئے اور جان و مال کی قربانیاں پیش کیں...ہم کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں کہ قادیانی عوام ایک معقول تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اخلاص کے ساتھ اسے حقیقت سمجھ کر اس کے لئے مال و جان اور دنیاوی وسائل و علائق کی قربانی پیش کرتی ہے.یہی وہ لوگ ہیں جن کے بعض افراد نے کابل میں سزائے موت کو لبیک کہا.بیرون ملک دور دراز علاقوں میں غربت وافلاس کی زندگی اختیار کی.(هفت روزه المنبر لائلپور ۲ / مارچ ١٩٥٢ ء صفحه ١٠) اس کے باوجود ان لوگوں کی بدنصیبی ہے کہ ماننے کی توفیق نہیں ملی.الحمد للہ کہ ان کے اس اعتراف نے ہمارے ایمانوں کو مضبوط کیا.اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان اور یقین میں مزید اضافہ کرتا چلا جائے.اور عہد بیعت کی ہر شرط کو خوشی سے اور اپنے اوپر فرض سمجھتے ہوئے پورا کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے وارث بنیں.
$2003 415 27 خطبات مس روزہ ڈ ھال ھے اور اس کی جزا خود خدا تعالیٰ ھے ۲۴ اکتوبر ۲۰۰۳ء بمطابق ۲۴ را خا ۱۳۸۲۶ هجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن رمضان کے بابرکت مہینہ کی فضیلتوں برکتوں اور مسائل کا پر معارف بیان.روزہ کے فوائد اور فضائل کا تذکرہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقوی ہے....مسافر اور مریض روزہ نہ رکھے.ہی ہمیشہ تقویٰ سے کام لیتے ہوئے روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرنا چاہئے.رمضان میں نمازوں، تہجد ، نوافل کا اہتمام کریں اور قرآن کریم کی تلاوت کا ایک دور کریں.
خطبات مس $2003 416 تشھد وتعوذ کے بعد درج ذیل آیت قرآنیہ تلاوت فرمائی يَاأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ اَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيْضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أَخَرَ وَعَلَى الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنِ.فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَأَنْ.تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ (البقرة : ۱۸۵.۱۸۴) دو تین دن تک انشاء اللہ رمضان شروع ہو رہا ہے یہ برکتوں والا مہینہ اپنے ساتھ بے شمار برکتیں لے کر آتا ہے اور مومنوں اور تقویٰ پر قدم مارنے والوں ، تقویٰ کی زندگی بسر کرنے والوں،ان دنوں میں خدا تعالیٰ کی خاطر روزہ رکھنے والوں کو بے انتہا برکتیں دے کر جاتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں یہ برکتیں سمیٹنے کی تو فیق دے.یہ آیات جو ابھی میں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے اسی طرح فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو.گنتی کے چند دن ہیں.پس جو بھی تم میں سے مریض ہو یا سفر پر ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اتنی مدت کے روزے دوسرے ایام میں پورے کرے.اور جولوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں ان پر فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے.پس جو کوئی بھی نفلی نیکی کرے تو یہ اس کے لئے بہت اچھا ہے.اور تمہارا روزے رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو.تو جو یہ فرمایا کہ ایمان لانے والو! یہ ایمان لانے والے کون لوگ ہیں.اس بارہ میں حضرت
$2003 417 خطبات مسرور اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال ان کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں.جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں.اور تقویٰ کی باریک اور تنگ راہوں کو خدا کے لئے اختیار کرتے ہیں.اور اس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں اور ہر ایک چیز جو بُت کی طرح خدا سے روکتی ہے خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمال فاسقانہ ہوں یا غفلت اور کسل ہو سب کو اپنے تئیں دور تر لے جاتے ہیں.تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مومن کے بارہ میں اس تعریف سے مزید وضاحت ہو گئی کہ مومن بنا اتنا آسان کام نہیں.تمہیں تقویٰ کی باریک راہوں کو اختیار کرنا ہوگا تو پھر مومن کہلا سکو گے.تو یہ تقویٰ کی باریک راہیں ہیں کیا ؟.فرمایا: ” یہ راہیں تم تب حاصل کر سکتے ہو جو تمہاری اپنی مرضی کچھ نہ ہو.بلکہ اب تمہارا ہر کام ہر عمل خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہو.اگر خدا تعالیٰ تمہیں روکتا ہے کہ گو کھانا تمہاری صحت کے لئے اچھا ہے، حلال کھانا جائز ہے لیکن میری رضا کی خاطر تمہیں اب اس ایک مہینے میں کچھ وقت کے لئے کھانے سے ہاتھ روکنے پڑیں گے.تو جو چیزیں تمہارے لئے حلال ہیں وہ بھی فجر سے لے کر مغرب تک تم پر حرام ہیں.اب تمہیں میری رضا کی خاطر ان جائز اور حلال چیزوں کو بھی چھوڑنا پڑے گا.ہرقسم کی سنتی کو ترک کرنا پڑے گا، چھوڑنا پڑے گا.یہ نہیں کہ میرے حکموں کو سستی اور لا پرواہی کی وجہ سے ٹال دو.اگر تم رمضان کے مہینے میں لا پرواہی سے کام لو گے اور روزے کو کچھ اہمیت نہیں دو گے.یا اگر روزے رکھ لو گے اس لئے کہ گھر میں سب رکھ رہے ہیں، شرم میں رکھ لوں اور نمازوں میں ستی کر جاؤ ، نوافل میں سستی کر جاؤ ، قرآن کریم پڑھنے میں سستی کر جاؤ، قرآن کریم بھی رمضان میں ہر ایک کو کم از کم ایک دور مکمل کرنا چاہئے.تو یہ تمہارے روزے خدا کی خاطر نہیں ہوں گے اگر یہ سنتی ہوتی رہی.یہ تو دنیا دکھاوے کے روزے ہیں.اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ضرورت نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کو بھوکا پیاسا رکھے یا ایسے لوگوں کے بھوکا پیاسا رہنے سے تمہارے اللہ تعالیٰ کو کوئی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ ایسے لوگ تو مومن ہی نہیں ہیں.اور روزے تو مومن اور تقویٰ اختیار کرنے والوں پر فرض کئے گئے ہیں.بعض لوگ صرف ستی کی وجہ سے روزے چھوڑ رہے ہوتے ہیں.نیند بہت پیاری ہے، کون
$2003 418 خطبات مسرور اٹھے.روزے میں ذرا سی تھکاوٹ یا بھوک برادشت نہیں کر رہے ہوتے اس لئے روزے چھوڑ رہے ہوتے ہیں.تو یہ سب باتیں ایسی ہیں جو ایمان سے دور لے جانے والی ہیں اس لئے فرمایا ہے که ایمان مکمل طور پر تقویٰ اختیار کرنے سے پیدا ہوتا ہے اور روزے رکھنے سے جس طرح کہ روزے رکھنے کا حق ہے، نوافل کے لئے اٹھو، نمازوں میں با قاعدگی اختیار کرو، قرآن کریم کی با قاعدہ تلاوت کرو، اس کو سمجھنے کی کوشش کرو، اس سے تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو گا.اور جب تقویٰ پیدا ہوگا تو اتنا ہی زیادہ تمہارا ایمان مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے گا.فرمایا کہ یہی ایمان اور تقویٰ میں ترقی کرنے کے گر ہیں کہ تم خدا کی خاطر اپنے آپ کو جائز چیزوں سے بھی روکو اور تم سے پہلے جو لوگ تھے، جو مذاہب تھے ان سب میں روزوں کا حکم تھا.اور ان میں سے بھی وہی لوگ ایمان اور تقویٰ میں ترقی کرتے تھے جو اللہ کی خاطر اپنے روزہ رکھنے کے فرض کو بجالاتے تھے.اور تمہارے لئے تو زیادہ بہتر رنگ میں اور زیادہ معین رنگ میں روزوں کا حکم ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری رضا کی خاطر روزے رکھنے والوں کی جزا بھی میں خود ہوں.اور جس کا اجر ، جس کی جزا خدا تعالیٰ خود بن جائے اس کو اور کیا چاہئے.لیکن شرط یہ ہے کہ روزے اس طرح رکھو جو روزے رکھنے کا حق ہے.حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا.حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں.جس شخص نے رمضان کے روزے ایمان کی حالت میں رکھے اور اپنا محاسبہ نفس کرتے ہوئے رکھے اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئے جائیں گے اور اگر تمہیں معلوم ہوتا کہ رمضان کی کیا کیا فضیلتیں ہیں تو تم ضرور اس بات کے خواہشمند ہوتے کہ سارا سال ہی رمضان ہو.تو یہاں دو شرطیں بیان کی گئی ہیں.پہلی یہ کہ ایمان کی حالت اور دوسری ہے محاسبہ نفس.اب روزوں میں ہر شخص کو اپنے نفس کا بھی محاسبہ کرتے رہنا چاہئے.دیکھتے رہنا چاہئے کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے اس میں میں جائزہ لوں کہ میرے میں کیا کیا برائیاں ہیں، ان کا جائزہ لوں.ان میں سے کون کون سی برائیاں ہیں جو میں آسانی سے چھوڑ سکتا ہوں ان کو چھوڑوں.کون کون سی نیکیاں ہیں جو میں نہیں کر سکتا یا میں نہیں کر رہا.اور کون کون سی نیکیاں ہیں جو میں اختیار کرنے کی کوشش کرو.تو اگر ہر شخص ایک دو نیکیاں اختیار کرنے کی کوشش کرے اور ایک دو برائیاں چھوڑنے کی کوشش کرے اور اس پر پھر قائم رہے تو سمجھیں کہ آپ نے رمضان کی برکات سے ایک بہت بڑی برکت سے فائدہ اٹھالیا.
خطبات مسرور 419 $2003 ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صل الله نے فرمایا: تمہارا یہ مہینہ تمہارے لئے سایہ فگن ہوا ہے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا حلفی ارشاد ہے کہ مومنوں کے لئے اس سے بہتر مہینہ کوئی نہیں گزرا اور منافقوں کے لئے اس سے بُرا مہینہ کوئی نہیں گزرا.اس مہینے میں داخل کرنے سے قبل ہی اللہ عز وجل مومن کا اجر اور نوافل لکھ دیتا ہے جبکہ منافق ( کے گناہوں) کا بوجھ اور بدبختی لکھ لیتا ہے.اس طرح کہ مومن مالی قربانیوں کے لئے اپنی طاقت تیار کرتا ہے اور منافق غافل لوگوں کی اتباع اور ان کے عیوب کی پیروی میں قوت بڑھاتا ہے.پس در حقیقت یہ حالت مومنوں کے لئے غنیمت اور فاجر کے لئے (اس کے مطابق) سازگار ہوتی ہے.(مسند احمد جلد نمبر ۲ مسند ابی (هريرة اب مالی قربانیوں میں بھی صدقہ و خیرات وغیرہ بہت زیادہ دینے چاہئیں.آنحضرت عہ کے بارہ میں آتا ہے کہ ان دنوں آپ کا ہاتھ بہت کھلا ہو جاتا تھا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ روزوں کی فضیلت اور اس کے فرائض پر لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) کے الفاظ میں روشنی ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ روزے تم پر اس لئے فرض کئے گئے ہیں تا کہ تم بچ جاؤ.اس کے کئی معنے ہو سکتے ہیں.مثلاً ایک معنی تو اس کے یہی ہیں کہ ہم نے تم پر اس لئے روزے فرض کئے ہیں تا کہ تم ان قوموں کے اعتراضوں سے بچ جاؤ جو روزے رکھتی رہی ہیں، جو بھوک اور پیاس کی تکلیف کو برداشت کرتی رہی ہیں، جو موسم کی شدت کو برا دشت کر کے خدا تعالیٰ کو خوش کرتی رہی ہیں.اگر تم روزے نہیں رکھو گے تو وہ کہیں گی کہ تمہارا دعویٰ ہے کہ ہم باقی قوموں سے روحانیت میں بڑھ کر ہیں لیکن وہ تقویٰ تم میں نہیں جو دوسری قوموں میں پایا جاتا تھا.لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ میں دوسرا اشارہ اس امر کی طرف کیا گیا ہے کہ اس ذریعہ سے خدا تعالیٰ روزے دار کا محافظ ہو جاتا ہے.کیونکہ اتقاء کے معنے ہیں ڈھال بنانا، نجات کا ذریعہ بنانا، وقا یا بنانا وغیرہ ہیں.پس اس آیت کے معنے یہ ہوئے کہ تم پر روزے رکھنے اس لئے فرض کئے گئے ہیں تا کہ تم خدا تعالیٰ کو اپنی ڈھال بنالو اور ہر شر سے اور ہر خیر کے فقدان سے محفوظ رہو.روزہ
خطبات مسرور 420 $2003 ایک دینی مسئلہ ہے.یا بلحاظ صحت انسانی دنیوی امور سے بھی کسی حد تک تعلق رکھتا ہے.پس لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ کے یہ معنے ہوئے کہ تا تم دینی اور دنیوی شرور سے محفوظ رہو.دینی خیر و برکت تمہارے ہاتھ سے نہ جاتی رہے یا تمہاری صحت کو نقصان نہ پہنچ جائے.کیونکہ بعض دفعہ روزے کئی قسم کے امراض سے نجات دلانے کا بھی موجب ہو جاتے ہیں.میں نے خود دیکھا ہے کہ صحت کی حالت میں جب روزے رکھے جائیں تو دوران رمضان میں بے شک کچھ کو فت محسوس ہوتی ہے مگر رمضان کے بعد جسم میں ایک نئی قوت اور ترو تازگی پیدا ہو جاتی ہے اور اس کا احساس ہونے لگتا ہے.یہ فائدہ تو صحت جسمانی کے لحاظ سے ہے مگر روحانی لحاظ سے اس کا یہ فائدہ ہے کہ جولوگ روزے رکھتے ہیں خدا تعالیٰ ان کی حفاظت کا وعدہ کرتا ہے.اسی لئے روزوں کے ذکر کے بعد خدا تعالیٰ نے دعاؤں کی قبولیت کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ میں اپنے بندوں کے قریب ہوں اور اُن کی دعاؤں کو سنتا ہوں.پس روزے خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والی چیز ہیں اور روزے رکھنے والا خدا تعالیٰ کو اپنی ڈھال بنالیتا ہے جو اسے ہر قسم کے دکھوں اور شرور سے محفوظ رکھتا ہے“.(تفسير كبير جلد دوم صفحه ٣٧٤ - ٣٧٥ پھر اسی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ میں ایک اور فائدہ یہ بتایا کہ روزہ رکھنے والا برائیوں اور بدیوں سے بچ جاتا ہے اور یہ غرض اس طرح پوری ہوتی ہے کہ دنیا سے انقطاع کی وجہ سے انسان کی روحانی نظر تیز ہو جاتی ہے اور وہ ان عیوب کو دیکھ لیتا ہے جو اسے پہلے نظر نہ آتے تھے.اسی طرح گناہوں سے انسان اس طرح بھی بچ جاتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے روزہ اس چیز کا نام نہیں کہ کوئی شخص اپنامنہ بندر کھلے اور سارا دن نہ کچھ کھائے اور نہ بیٹے بلکہ روزہ یہ ہے کہ مونہہ کو صرف کھانے پینے سے ہی نہ روکا جائے بلکہ اسے ہر روحانی نقصان دہ اور ضرر رساں چیز سے بھی بچایا جائے.نہ جھوٹ بولا جائے، نہ گالیاں دی جائیں، نہ غیبت کی جائے ، نہ جھگڑا کیا جائے.اب دیکھو زبان پر قابورکھنے کا حکم تو ہمیشہ کے لئے ہے لیکن روزہ دار خاص طور پر اپنی زبان پر قابو رکھتا ہے کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے.(تفسیر کبیر جلد ۲ صفحه (۳۷۷
421 $2003 خطبات مسرور اب یہ بھی یادر کھنے کی بات ہے کہ روزے دار گالی دیتا ہے، جھگڑا کرتا ہے، غیبت کرتا ہے، چغلی کرتا ہے تو ان حالتوں میں بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے.تو یہ بڑی بار یک دیکھنے والی چیز ہے." اور اگر کوئی شخص ایک مہینہ تک اپنی زبان پر قابو رکھتا ہے تو یہ امر باقی گیارہ مہینوں میں بھی اس کے لئے حفاظت کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے.اور اس طرح روزہ اسے ہمیشہ کے لئے گناہوں سے بچا لیتا ہے.( تفسير كبير جلد دوم صفحه (۳۷۷ حضرت مصلح موعود فر ماتے ہیں کہ : ”روزوں کا ایک اور فائدہ یہ بتایا گیا ہے کہ اس کے نتیجہ میں تقویٰ پر ثبات قدم حاصل ہوتا ہے اور انسان کو روحانیت کے اعلیٰ مدارج حاصل ہوتے ہیں.چنانچہ روزوں کے نتیجہ میں صرف امراء ہی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کرتے بلکہ غرباء بھی اپنے اندر ایک نیا روحانی انقلاب محسوس کرتے ہیں اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کے وصال سے لطف اندوز ہوتے ہیں.غرباء بے چارے سارا سال تنگی سے گزارہ کرتے ہیں اور بعض دفعہ انہیں کئی کئی فاقے بھی آجاتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے رمضان کے ذریعہ انہیں توجہ دلائی ہے کہ وہ ان فاقوں سے بھی ثواب حاصل کر سکتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے لئے فاقوں کا اتنا بڑا ثواب ہے کہ حدیث میں آتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا الصَّوْمُ لِی وَاَنَا اجزای به یعنی ساری نیکیوں کے فوائد اور ثواب الگ الگ ہیں لیکن روزہ کی جزا خود میری ذات ہے.اور خدا تعالیٰ کے ملنے کے بعد انسان کو اور کیا چاہئے.غرض روزوں کے ذریعہ غرباء کو یہ نکتہ دیا گیا ہے کہ ان تنگیوں پر بھی اگر وہ بے صبر اور ناشکرے نہ ہوں اور حرف شکایت زبان پر نہ لائیں جیسا کہ بعض نادان کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے کیا دیا ہے کہ نمازیں پڑھیں اور روزے رکھیں تو یہی فاقے ان کے لئے نیکیاں بن جائیں گی (اگر وہ حرف شکایت زبان پر نہ لائیں ) اور ان کا بدلہ خود خدا تعالیٰ ہو جائے گا.پس اللہ تعالیٰ نے روزوں کو غرباء کے لئے تسکین کا موجب بنایا ہے تا کہ وہ مایوس نہ ہوں اور یہ نہ کہیں کہ ہماری فقر و فاقہ کی زندگی کس کام کی.اللہ تعالیٰ نے روزے میں انہیں یہ گر بتایا ہے کہ اگر وہ اس فقر وفاقہ کی زندگی کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق گزاریں تو یہی انہیں خدا تعالیٰ سے ملا سکتی ہے.(تفسیر کبیر جلد دوم صفحه (۳۷۷-۳۷۸
$2003 422 خطبات مسرور وو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : روزہ کی حقیقت کہ اس سے نفس پر قابو حاصل ہوتا ہے اور انسان متقی بن جاتا ہے.اس سے پیشتر کے رکوع میں رمضان شریف کے متعلق یہ بات مذکور ہے کہ انسان کو جو ضرورتیں پیش آتی ہیں ان میں سے بعض تو شخصی ہوتی ہیں اور بعض نوعی اور بقائے نسل کی شخصی ضرورتوں میں جیسے کھانا پینا ہے اور نوعی ضرورت جیسے نسل کے لئے بیوی سے تعلق.ان دونوں قسم کی طبعی ضرورتوں پر قدرت حاصل کرنے کی راہ روزہ سکھاتا ہے اور اس کی حقیقت یہی ہے کہ انسان متقی بنا سیکھ لیوے.آج کل تو دن چھوٹے ہیں“.(اور اتفاق سے یہ دن بھی رمضان کے سردیوں میں ہی ہیں اور یہ بھی چھوٹے ہیں ).سردی کا موسم ہے اور ماہ رمضان بہت آسانی سے گذرا مگر گرمی میں جولوگ روزہ رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ بھوک پیاس کا کیا حال ہوتا ہے.اور جوانوں کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ اُن کو بیوی کی کس قدر ضرورت پیش آتی ہے.جب گرمی کے موسم میں انسان کو پیاس لگتی ہے، ہونٹ خشک ہوتے ہیں، گھر میں دودھ، برف، مزہ دار شربت موجود ہیں مگر ایک روزہ داران کو نہیں پیتا.کیوں؟ اس لئے کہ اس کے مولیٰ کریم کی اجازت نہیں کہ ان کو استعمال کرے.بھوک لگتی ہے ہر ایک قسم کی نعمت زردہ، پلاؤ ، قورمہ، فرنی وغیرہ گھر میں موجود ہیں.اگر نہ ہوں تو ایک آن میں اشارہ سے تیار ہو سکتے ہیں مگر روزہ داران کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا.کیوں؟ صرف اس لئے کہ اس کے مولیٰ کریم کی اجازت نہیں.پھر فرمایا کہ روزہ دار مرد اپنی بیویوں کے قریب نہیں جاتے صرف اس لئے کہ اگر جاؤں گا تو خدا تعالیٰ ناراض ہوگا ، اس کی حکم عدولی ہوگی.ان باتوں سے روزہ کی حقیقت ظاہر ہے کہ جب انسان اپنے نفس پر یہ تسلط پیدا کر لیتا ہے کہ گھر میں اس کی ضرورت اور استعمال کی چیزیں موجود ہیں مگر اپنے مولیٰ کی رضا کے لئے وہ حسب تقاضائے نفس ان کو استعمال نہیں کرتا تو جو اشیاء اس کو میسر نہیں ان کی طرف نفس کو کیوں راغب ہونے دے گا.رمضان شریف کے مہینہ کی بڑی بھاری تعلیم یہ ہے کہ کیسی ہی شدید ضرورتیں کیوں نہ ہوں مگر خدا کا ماننے والا خدا ہی کی رضا مندی کے لئے ان سب پر پانی پھیر دیتا ہے اور ان کی پرواہ نہیں کرتا.قرآن شریف روزہ کی حقیقت اور فلاسفی کی طرف خود اشارہ فرماتا ہے اور کہتا ہے ﴿يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا
$2003 423 خطبات مسرور كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ﴾ روزہ تمہارے لئے اس واسطے ہے کہ تقویٰ سیکھنے کی تم کو عادت پڑ جاوے.ایک روزہ دار خدا کے لئے ان تمام چیزوں کو ایک وقت ترک کرتا ہے جن کو شریعت نے حلال قرار دیا ہے اور ان کے کھانے پینے کی اجازت دی ہے صرف اس لئے کہ اس وقت میرے مولیٰ کی اجازت نہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ پھر وہی شخص ان چیزوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرے جن کی شریعت نے مطلق اجازت نہیں دی اور وہ حرام کھاوے پیوے اور بدکاری میں شہوت کو پورا کرے.(الحكم ٢٤ جنوری ٤ ۱۹۰ ء صفحه (۱۲ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ گنتی کے چند دن ہیں.مومن کو چاہئے کہ تقویٰ کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اگر مشکلات میں سے بھی گزرنا پڑے تو گزر جائے.یہاں تو اللہ تعالیٰ ہمیں یہ حکم دے رہا ہے کہ سال کے گیارہ مہینے تو تم کو جائز چیزوں کے استعمال کی میری طرف سے اجازت ہے، تم استعمال کروان کو.اور تم کرتے رہے ہو مگر اب میں کہتا ہوں کہ میری خاطر یہ چند دن تم دن کے ایک حصے میں یہ جائز چیزیں بھی استعمال نہ کرو.تو کیا تم بہانے بناؤ گے؟ یہ تو کوئی ایمان اور تقویٰ نہ ہوا.اللہ تعالیٰ تم لوگوں کی حفاظت کے لئے کھڑا ہوتا ہے جو تقویٰ پر چلتے ہیں اور اس کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار ہوتے ہیں.یہ روزے چند دن کے نہ صرف خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا باعث بن رہے ہیں بلکہ ہماری جسمانی صحت کے لئے بھی فائدہ مند ہیں.اور یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ سال میں کچھ وقت ایسا ہونا چاہئے جس میں انسان کم سے کم غذا کھائے.تو اس امر سے ہم دو ہرا فائدہ اٹھا رہے ہیں.جسمانی صحت بھی اور خدا تعالیٰ کی رضا بھی.فرمایا کہ کیونکہ اللہ تعالی تمہیں تنگی نہیں دینا چاہتا، کسی تکلیف اور مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتا اس لئے اگر تم مریض ہو یا سفر میں ہو تو پھر ان دنوں میں روزے نہ رکھو.اور یہ روزے دوسرے دنوں میں جب سہولت ہو پورے کر لو.یہاں یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ یہ خیال نہیں ہونا چاہئے کہ اس وقت چونکہ تمام گھر والے روزے رکھ رہے ہیں جیسے کہ میں نے پہلے بھی کہا ، اٹھنے میں آسانی ہے، زیادہ تر ڈر نہیں کرنا پڑتا ، جیسے تیسے روزے رکھ لیں ، بعد میں کون رکھے گا.تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہے.بات وہی ہے کہ اصل بنیاد تقویٰ پر ہے، حکم بجالانا ہے، حکم یہ ہے کہ تم مریض ہو یا سفر میں ہو، قطع نظر اس کے کہ سفر
$2003 424 خطبات مسرور کتنا ہے، جو سفر تم سفر کی نیت سے کر رہے ہو وہ سفر ہے اور اس میں روزہ نہیں رکھنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ دو تین کوس کا سفر بھی سفر ہے اگر سفر کی نیت سے ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم میں برداشت ہے، ہم برداشت کر سکتے ہیں تو ایسے لوگوں کو یہ بات یادرکھنی چاہئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے.خدا تعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت میں رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس لئے اس حکم پر بھی تو عمل رکھنا چاہئے.میں نے پڑھا ہے کہ اکثر اکا بر اس طرف گئے ہیں کہ اگر کوئی حالت سفر یا بیماری میں روزہ رکھتا ہے تو یہ معصیت ہے کیونکہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضا ہے نہ اپنی مرضی اور اللہ تعالیٰ کی رضا فرمانبرداری میں ہے.جو حکم وہ دے اُس کی اطاعت کی جاوے اور اپنی طرف سے اس پر حاشیہ نہ چڑھایا جاوے.اس نے تو یہی حکم دیا ہے.مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيْضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ اُخَرَ اس میں کوئی قید اور نہیں لگائی کہ ایسا سفر ہو یا ایسی بیماری ہو.میں سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھتا اور ایسا ہی بیماری کی حالت میں.چنانچہ آج بھی میری طبیعت اچھی نہیں اور میں نے روزہ نہیں رکھا.(الحكم جلد ١١ نمبر ٤ بتاريخ ۲۱ / جنوری ۱۹۰۷ء) پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ” جو شخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہ صیام کے روزے رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتا ہے.خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے.مرض سے صحت پانے اور سفر کے ختم ہونے کے بعد روزے رکھے.خدا کے اس حکم پر عمل کرنا چاہئے کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کرکوئی شخص نجات حاصل کر سکتا.خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہو یا بہت اور سفر چھوٹا ہو یا لمبا ہو بلکہ حکم عام ہے.اور اس پر عمل کرنا چاہئے.مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتوی لازم آئے گا.البدر بتاريخ ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۷ء) پھر آپ فرماتے ہیں: ”اللہ تعالیٰ نے شریعت کی بنا آسانی پر رکھی ہے.جو مسافر اور مریض صاحب مقدرت ہوں ان کو چاہئے کہ روزہ کی بجائے فدیہ دے دیں.فدیہ یہ ہے کہ ایک مسکین کو
خطبات مسرور 425 کھانا کھلایا جائے“.( بدر جلد نمبر ۴۲ مورخه ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحه ۷ ) $2003 پھر فرماتے ہیں کہ : ” میرا مذہب ہے کہ انسان بہت دقتیں اپنے اوپر نہ ڈال لے.عرف میں جس کو سفر کہتے ہیں خواہ وہ دو تین کوس ہی ہو اس میں قصر و سفر کے مسائل پر عمل کرے.اِنَّمَا الْأَعْمَالُ بالنيات بعض دفعہ ہم دو دو تین تین میل اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں مگر کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ ہم سفر میں ہیں لیکن جب انسان اپنی گٹھڑی اٹھا کر (یعنی کچھ سامان وغیرہ لے کر ، بیگ وغیرہ لے کر سفر کی نیت سے چل پڑتا ہے تو وہ مسافر ہوتا ہے.شریعت کی بنا وقت پر نہیں ہے.جس کو تم عرف میں سفر سمجھو وہی سفر ہے اور جیسا کہ خدا کے فرائض پر عمل کیا جاتا ہے ویسا ہی اس کی رخصتوں پر عمل کرنا چاہئے.فرض بھی خدا کی طرف سے ہیں اور رخصت بھی خدا کی طرف سے ہے.الحكم جلد ٥ نمبر ٦ بتاريخ ۱۷ / فروری ۱۹۰۱ء) فرماتے ہیں: یعنی مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے، اس میں امر ہے.یہ اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ جس کا اختیار ہو رکھ لے جس کا اختیار ہو نہ رکھے.میرے خیال میں مسافر کو روزہ نہ رکھنا چاہئے اور چونکہ عام طور پر اکثر لوگ رکھ لیتے ہیں اس لئے اگر کوئی تعامل سمجھ کر رکھ لے تو کوئی حرج نہیں مگر عِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَر کا پھر بھی لحاظ رکھنا چاہئے.سفر میں تکالیف اٹھا کر جو انسان روزہ رکھتا ہے تو گویا اپنے زور بازو سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتا ہے، اس کو اطاعت امر سے خوش نہیں کرنا چاہتا.یہ غلطی ہے.اللہ تعالیٰ کی اطاعت امر اور نہی میں سچا ایمان ہے.(الحكم جلد نمبر ٤ بتاريخ ۳۱/جنوری ۱۸۹۹ء) تو ایسے لوگ جو اس لئے کہ گھر میں آج کل روزہ رکھنے کی سہولت میسر ہے روزہ رکھ لیتے ہیں ان کو اس ارشاد کے مطابق یا درکھنا چاہئے کہ نیکی یہی ہے کہ روزے بعد میں پورے کئے جائیں اور وہ روزے نہیں ہیں جو اس طرح زبر دستی رکھے جاتے ہیں.حدیث میں آتا ہے.حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر پر تھے.آپ نے لوگوں کا ہجوم دیکھا اور ایک آدمی پر دیکھا کہ سایہ کیا گیا ہے.آپ نے فرمایا: " کیا ہے؟“.انہوں نے کہا کہ یہ شخص روزہ دار ہے.آپ نے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے.(بخاری کتاب الصوم باب قول النبي عل الله لمن ظلل عليه واشتد......
426 $2003 خطبات مسرور پھر ایک اور بڑی واضح حدیث ہے.حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ اللہ سے ایک شخص نے رمضان کے مہینہ میں سفر کی حالت میں روزہ اور نماز کے بارہ میں دریافت کیا.اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”رمضان میں سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھو.اس پر ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! میں روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں.نبی ﷺ نے اسے کہا کہ انتَ اقوی اممِ الله ؟ کہ تو زیادہ طاقتور ہے یا اللہ تعالیٰ ؟.یقینا اللہ تعالیٰ نے میری امت کے مریضوں اور مسافروں کے لئے رمضان میں سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھنے کو بطور صدقہ ایک رعایت قرار دیا ہے.کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ وہ تم میں سے کسی کو کوئی چیز صدقہ دے پھر وہ اس چیز کو صدقہ دینے والے کولوٹا دے.(المصنف للحافظ الكبير ابو بكر عبدالرزاق بن همام - الصيام في السفر تو اس سے مزید واضح ہو گیا کہ سفر میں روزہ بالکل نہیں رکھنا چاہئے.لیکن بعض دفعہ بعض لوگ دوسری طرف بہت زیادہ جھک جاتے ہیں.بعض اس سہولت سے کہ مریض کو سہولت ہے خود ہی فیصلہ کر لیتے ہیں کہ میں بیمار ہوں اس لئے روزہ نہیں رکھ سکتا.اور پوچھو تو کیا بیماری ہے؟ تم تو جوان آدمی ہو، صحت مند ہو، چلتے پھر رہے ہو ، بازاروں میں پھر رہے ہو ، بیماری ہے تو ڈاکٹر سے چیک اپ کرواؤ تو جواب ہوتا ہے کہ نہیں ایسی بیماری نہیں بس افطاری تک تھکاوٹ ہو جاتی ہے، کمزوری ہو جاتی ہے.تو یہ بھی وہی بات ہے کہ تقویٰ سے کام نہیں لیتے.نفس کے بہانوں میں نہ آؤ.فرمایا یہ ہے کہ نفس کے بہانوں میں نہ آؤ.ہمیشہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دل کا حال جانتا ہے.خوف کا مقام ہے.یہی نہ ہو کہ ان بہانوں سے کہیں ان حکموں کو ٹال کر حقیقت میں کہیں بیمار ہی بن جاؤ.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”بے شک یہ قرآنی حکم ہے کہ سفر کی حالت میں اور اسی طرح بیماری کی حالت میں روزے نہیں رکھنے چاہئیں اور ہم اس پر زور دیتے ہیں تا قرآنی حکم کی بہتک نہ ہو مگر اس بہانے سے فائدہ اٹھا کر جو لوگ روزہ نہیں رکھ سکتے ہیں اور پھر وہ روزہ نہیں رکھتے یا ان سے کچھ روزے رہ گئے ہوں اور وہ کوشش کرتے تو انہیں پورا کر سکتے تھے لیکن ان کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو وہ ایسے ہی گنہگار ہیں جس طرح وہ گنہگار ہے جو بلا عذر رمضان کے روزے نہیں رکھتا.اس لئے ہر احمدی کو چاہئے کہ جتنے روزے اس نے غفلت یا کسی شرعی
$2003 427 خطبات مسرور عذر کی وجہ سے نہیں رکھے وہ انہیں بعد میں پورا کرے“.(بحوا اله فقه احمدیه صفحه (۲۹۳ یہ فتوی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تو یہ افراط اور تفریط دونوں ہی غلط ہیں.ہمیشہ تقویٰ سے کام لیتے ہوئے روزے رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو طاقت رکھتے ہیں، مالی وسعت رکھتے ہیں اگر کسی وجہ سے وہ روزہ نہیں رکھ سکے تو فدیہ دیا کریں.اور فدیہ کیا ہے ایک مسکین کو کھانا کھلانا.اس کے مطابق جس طرح تم خود کھاتے ہو کیونکہ دوسرے کی عزت نفس کا بھی خیال رکھنے کا حکم ہے.اس لئے اچھا کھانا کھلاؤ، یہ نہیں کہ میں روزے رکھتا تو اعلیٰ کھانے کھا تا لیکن تم چونکہ کم حیثیت آدمی ہو اس لئے تمہارے لئے فدیہ کے طور پر یہ بچا کھچا کھانا ہی موجود ہے نہیں.یہ نہیں ہے، تمہاری نیکی تو اس وقت ہی نیکی شمار ہوگی جب تم خدا کی رضا کی خاطر یہ کر رہے ہو گے نہ کہ اس غریب پر احسان جتانے کے لئے.تو جب تم خدا کی رضا کی خاطر یہ فدیہ دو گے تو ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اس بیماری کی حالت کو صحت میں بدل دے.کیونکہ فرمایا کہ تمہارا روزے رکھنا بہر حال تمہارے لئے بہتر ہے." حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: وَعَلَى الَّذِيْنَ يُطِيقُوْنَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِين.ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ یہ فدیہ کس لئے مقرر کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے ہے تا کہ روزہ کی توفیق اس سے حاصل ہو.خدا ہی کی ذات ہے جو تو فیق عطا کرتی ہے اور ہر شئے خدا ہی سے طلب کرنی چاہئے.خدا تعالیٰ تو قادر مطلق ہے.وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزہ کی طاقت عطا کر سکتا ہے.یعنی ایک بیمار مریض بہت زیادہ لاغر کمزور ہو، ٹی بی کا مریض ہی ہو بے شک.” تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جاوے اور یہ خدا کے فضل سے ہوتا ہے.پس میرے نزدیک خوب ہے کہ انسان دعا کرے کہ الہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں.اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ.یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ.اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خدا طاقت بخش دے گا.لیکن بعض لوگوں کی بیماریاں ایسی ہوتی ہیں کہ باوجود خواہش کے روزہ نہیں رکھ سکتے اور مستقلاً فدیہ دینا پڑتا ہے.ایسے لوگوں کو جیسا کہ میں نے پہلے
$2003 428 خطبات مسرور بھی کہا اپنی حیثیت کے مطابق فدیہ دینا چاہئے.اللہ تعالیٰ نیتوں کو جانتا ہے یہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس میں بیان فرمایا.آپ نے آگے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو دوسری امتوں کی طرح اس اُمت میں کوئی قید نہ رکھتا مگر اس نے قیدیں بھلائی کے لئے رکھی ہیں.” میرے نزد یک اصل یہی ہے کہ جب انسان صدق اور کمال اخلاص سے باری تعالیٰ میں عرض کرتا ہے کہ اس مہینہ میں مجھے محروم نہ رکھ تو خدا تعالیٰ اسے محروم نہیں رکھتا.اور ایسی حالت میں اگر انسان ماہ رمضان میں بیمار ہو جائے تو یہ بیماری اس کے حق میں رحمت ہوتی ہے کیونکہ ہر ایک عمل کا مدار نیت پر ہے.مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے وجود سے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں دلاور ثابت کرے“.یعنی بہادر ثابت کرے.”جو شخص روزہ سے محروم رہتا ہے مگر اس کے دل میں یہ نیت درد دل سے تھی کہ کاش میں تندرست ہوتا اور روزہ رکھتا اور اس کا دل اس بات کے لئے گریاں ہے تو فرشتے اس کے لئے روزہ رکھیں گے.فرمایا اس کا دل اس بات کے لئے گریاں ہے، بہت تڑپ رہا ہے، بہت افسوس کر رہا ہے ، تو فرشتے اس کے لئے روزہ رکھیں گے بشرطیکہ وہ بہانہ جو نہ ہو تو خدا تعالیٰ اسے ہرگز ثواب سے محروم نہ رکھے گا“.( البدر ۱۲ دسمبر ۱۹۰۳ء، ملفوظات جلد چهارم صفحه ٢٥۸ - ٢٥٩ اب روزوں سے متعلق بعض متفرق باتیں ہیں.ان کے متعلق اب میں کچھ بتاتا ہوں.بعض لوگ سستی کی وجہ سے یا کسی عذر یا بہانہ کی وجہ سے روزے نہیں رکھتے.ان کو خیال آجاتا ہے کہ روزے رکھنے چاہئیں.بعض لوگوں کو ایک عمر گزرنے کے بعد خیال آتا ہے کہ ایک عمر گزار دی.صحت تھی ، طاقت تھی ، مالی وسعت تھی ، تمام سہولیات میسر تھیں اور روزے نہیں رکھے.تو مجھے جو نیکیاں بجا لانی تھیں نہیں ادا کر سکا تو اب کیا کروں ؟ تو ایسا ہی ایک شخص حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا کہ میں نے آج سے پہلے کبھی روزہ نہیں رکھا اس کا کیا فدیہ دوں؟ فرمایا: خدا ہر شخص کو اس کی وسعت سے باہر دکھ نہیں دیتا.وسعت کے موافق گزشتہ کا فدیہ دے دو اور آئندہ عہد کرو کہ سب روزے رکھوں گا“.(البدر جلد ١ نمبر ١٢ بتاريخ ١٦ / جنوری ۱۹۰۳ء) حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے.وہ کہتے ہیں کہ میں نے
429 $2003 خطبات مسرور آنحضرت ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے اور جس نے رمضان کے تقاضوں کو پہچانا اور جو اس رمضان کے دوران ان تمام باتوں سے محفوظ رہا جن سے اس کو محفوظ رہنا چاہئے تھا تو اس کے روزے اس کے پہلے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں.(مسند احمد بن حنبل، مسند ابی سعید جلد ۳ صفحه ٤٥٧ پھر بعض لوگ سحری نہیں کھاتے ، عادتا نہیں کھاتے یا اپنی بڑائی جتانے کے لئے نہیں کھاتے اور اٹھ پہرے روزے رکھ رہے ہوتے ہیں ان کے لئے بھی حکم ہے.حدیث میں آتا ہے.حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سحری کھایا کر وسحری کھانے میں برکت ہے.پھر یہ کہ سحری کا وقت کب تک ہے؟ ایک تو یہ کہ جب سحری کھا رہے ہوں تو جو بھی لقمہ یا چائے جو آپ اس وقت پی رہے ہیں، آپ کے ہاتھ میں ہے اس کو مکمل کرنے کا ہی حکم ہے.روایت آتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس وقت تم میں سے کوئی اذان سن لے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو وہ اس کو نہ رکھے یہاں تک کہ اپنی ضرورت پوری کر لے یعنی وہ جو کھا رہا ہے وہ مکمل کر لے.پھر بعض دفعہ غلطی لگ جاتی ہے اور پتہ نہیں لگتا کہ روزے کا وقت ختم ہو گیا ہے اور بعض دفعہ چند منٹ اوپر چلے جاتے ہیں تو اس صورت میں کیا یہ روزہ جائز ہے یا نہیں.تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے کسی نے سوال کیا کہ میں مکان کے اندر بیٹھا ہوا تھا اور میرا یقین تھا کہ ابھی روزہ رکھنے کا وقت ہے اور میں نے کچھ کھا کے روزہ رکھنے کی نیت کی لیکن بعد میں ایک دوسرے شخص.معلوم ہوا کہ اس وقت سفیدی ظاہر ہو گئی تھی اب میں کیا کروں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ایسی حالت میں اس کا روزہ ہو گیا.دوبارہ رکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اپنی طرف سے اس نے احتیاط کی اور نیت میں فرق نہیں صرف غلطی لگ گئی اور چند منٹوں کا فرق پڑ گیا.پھر افطاری میں جلدی کرنے کے بارہ میں حکم آتا ہے.ابی عطیہ نے بیان کیا کہ میں اور مسروق حضرت عائشہ کے پاس آئے اور پوچھا اے ام المومنین ! حضور کے صحابہ میں سے دوصحابی ایسے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی نیکی اور خیر کے حصول میں کوتاہی کرنے والا نہیں لیکن ان میں سے ایک تو افطاری میں جلدی کرتے ہیں اور نماز بھی جلدی پڑھتے ہیں.یعنی نماز کے پہلے وقت میں پڑھ لیتے ہیں اور دوسرے افطاری اور نمازوں میں تاخیر کرتے ہیں.حضرت عائشہ نے پوچھا کہ ان میں
430 $2003 خطبات مسرور سے کون جلدی کرتا ہے تو بتایا گیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ.تو حضرت عائشہ نے فرمایا کہ آنحضرت مہ بھی اسی طرح کیا کرتے تھے.لیکن افطاری میں جلدی کرنے سے کیا مراد ہے؟ اس کا صلى تعین کس طرح ہو گا اس بارہ میں یہ حدیث وضاحت کرتی ہے.آنحضرت ﷺ سے روایت ہے کہ غروب آفتاب کے بعد حضور نے ایک شخص کو افطاری لانے کو کہا.اس شخص نے عرض کی کہ حضور ذرا تاریکی ہو لینے دیں.آپ نے فرمایا: افطاری لاؤ.اس نے پھر عرض کی کہ حضور ا بھی تو روشنی ہے.حضور نے فرمایا افطاری لاؤ.وہ شخص افطاری لایا تو آپ نے روزہ افطار کرنے کے بعد اپنی انگلی سے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جب تم غروب آفتاب کے بعد مشرق کی طرف سے اندھیرا اٹھتا دیکھو تو افطار کرلیا کرو.پھر بعض دفعہ روزے کے دوران انسان بھول جاتا ہے کہ روزہ ہے اور کچھ کھا لیتا ہے.اس بارہ میں حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جوشخص روزہ کی حالت میں بھول کر کھا پی لے، وہ اپنے روزہ کو پورا کرے، اسے اللہ تعالیٰ نے کھلایا اور پلایا ہے، یہ روزہ ٹوٹتا نہیں ہے اس کو پورا کرے.کچھ سوال حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پیش ہوئے کہ روزہ کی حالت میں یہ یہ جائز ہے یا نا جائز ہے، وہ میں آپ کو بتا تا ہوں.سوال یہ ہوا کہ روزہ دار کو آئینہ دیکھنا جائز ہے یا نہیں؟ یعنی شیشہ دیکھنا جائز ہے یا نہیں جائز.تو فرمایا جائز ہے.پھر لوگ سوال بھی عجیب کرتے تھے.ایک نے سوال کیا کہ روزہ دار کو داڑھی کو تیل لگانا جائز ہے یا نہیں.آپ نے فرمایا جائز ہے.پھر سوال پیش ہوا کہ خوشبو لگانا جائز ہے یا نہیں.فرمایا جائز ہے.پھر ایک سوال ہوا کہ آنکھوں میں سرمہ ڈالنا جائز ہے یا نہیں.کیونکہ برصغیر میں سرمہ ڈالنے کا بھی ہندوستان پاکستان میں، خاص طور پر دیہاتوں میں کافی رواج ہے.تو فرمایا مکروہ ہے.اور ایسی ضرورت ہی کیا ہے کہ دن کے وقت سرمہ لگائے ، اگر آنکھوں میں کوئی تکلیف ہے تو رات کے وقت سرمہ لگا سکتا ہے.(بدر جلد نمبر ٦ صفحه ١٤ بتاريخ ٢٤ / فروری ۱۹۰۷ء)
431 $2003 خطبات مسرور پھر ایک سوال پیش ہوا کہ بعض اوقات رمضان ایسے موسم میں آتا ہے کہ کاشتکاروں کو جب کہ کام کی کثرت مثلاً بیج وغیرہ ڈالنا یا ہل چلانا وغیرہ تو ایسے مزدوروں سے جن کا گزارہ مزدوری پر ہے روزہ نہیں رکھا جاتا، گرمی بہت شدید ہوتی ہے تو ان کی نسبت کیا ارشاد ہے.تو آپ نے فرمایا ك إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ یہ لوگ اپنی حالتوں کو مخفی رکھتے ہیں، ہر شخص تقوی وطہارت سے اپنی حالت سوچ لے اگر کوئی اپنی جگہ مزدوری پر رکھ سکتا ہے تو ایسا کرے ورنہ مریض کے حکم میں ہے.پھر جب میسر ہو یعنی جب سہولت پیدا ہو جائے تب روزہ رکھ لے.آپ فرماتے ہیں کہ: و شخص جس کا دل اس بات سے خوش ہے کہ رمضان آ گیا اور اس کا منتظر میں تھا کہ آوے اور روزہ رکھوں.اور پھر وہ بوجہ بیماری کے نہیں رکھ سکا تو وہ آسمان پر روزہ سے محروم نہیں ہے.اس دنیا میں بہت لوگ بہانہ جو ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم جیسے اہل دنیا کو دھوکہ دے لیتے ہیں ویسے ہی خدا کو فریب دیتے ہیں.بہانہ جو اپنے وجود سے آپ مسئلہ تراش کرتے ہیں.اور تکلفات شامل کر کے ان مسائل کو صحیح گردانتے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ صحیح نہیں ہے.تکلفات کا باعث بہت وسیع ہے.اگر انسان چاہے تو اس تکلف کی رُو سے ساری عمر بیٹھ کر نماز پڑھتا رہے.(کبھی کھڑے ہوکر نمازیں نہ پڑھے، مریض ہی بنا رہے اور بیٹھ کے نمازیں پڑھے ) اور رمضان کے روزے بالکل نہ رکھے.مگر خدا اس کی نیت اور ارادہ کو جانتا ہے جو صدق اور اخلاص رکھتا ہے.خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کے دل میں درد ہے اور خدا اسے ثواب سے زیادہ بھی دیتا ہے کیونکہ در ددل ایک قابل قدر شئے ہے.حیلہ جو انسان تاویلوں پر تکیہ کرتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ تکیہ کوئی شئے نہیں.جب میں نے چھ ماہ روزے رکھے تھے تو ایک دفعہ ایک طائفہ انبیاء کا مجھے ( کشف میں ) ملا اور انہوں نے کہا کہ تو نے کیوں اپنے نفس کو اس قدر مشقت میں ڈالا ہوا ہے، اس سے باہر نکل.اسی طرح جب انسان اپنے آپ کو خدا کے واسطے مشقت میں ڈالتا ہے تو وہ خود ماں باپ کی طرح رحم کر کے اُسے کہتا ہے کہ تو کیوں مشقت میں پڑا ہوا ہے.یہ لوگ ہیں کہ تکلف سے اپنے آپ کو مشقت سے محروم رکھتے ہیں.اس لئے خدا اُن کو
$2003 432 خطبات مسرور دوسری مشقوں میں ڈال دیتا ہے.اور نکالتا نہیں.اور دوسرے جو خود مشقتوں میں پڑتے ہیں ان کو وہ آپ نکالتا ہے.انسان کو واجب ہے کہ اپنے نفس پر اپنے آپ شفقت نہ کرے بلکہ ایسا بنے کہ خدا تعالیٰ اس کے نفس پر شفقت کرے.کیونکہ انسان کی شفقت اس کے نفس پر اس کے واسطے جہنم ہے اور خدا تعالیٰ کی شفقت جنت ہے“.اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان کے ان فیوض و برکات سے بے انتہا فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ رمضان ہمارے لئے بے انتہا برکتیں لے کر آئے.
$2003 433 28 خطبات مس روزہ تقوی، قبولیت دعا اور قرب الہی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۱۳۱ را کتوبر ۲۰۰۳ ء بمطابق ۳۱ را خا ۱۳۸۲ هجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن رمضان کی اہمیت اور عبادات اور تلاوت کا اہتمام نہ جہاں درسوں کا انتظام ہو وہاں اس کے درس سنے کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے یہ تنور قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے.قرآن شریف زیادہ پڑھنا چاہئے اور اس کی حسین تعلیم پر عمل کرنا چاہئے.رمضان کا مہینہ مبارک مہینہ ہے.دعاؤں کا مہینہ ہے......دعاؤں کی فلاسفی اور انقلابی تاثیرات و شرائط.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک دعا.
خطبات مس $2003 434 تشھد وتعوذ کے بعد درج ذیل آیت قرآنیہ تلاوت فرمائی شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ.فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ.وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدَكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيْبٌ أُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ (سورة البقره : ۱۸٦ - ۱۸۷) اللہ تعالیٰ کے فضل سے رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا ہے اور پانچ روزے گزر بھی گئے اور پتہ بھی نہیں چلا.حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ بہت عظیم اور برکتوں والا مہینہ ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنے فضلوں سے نوازنے کے طریقے تلاش کرتا ہے کہ کس طرح میں اپنے بندوں کو شیطان کے پنجے سے نکالوں اور اپنا بندہ بناؤں.جب بھی بندہ اس کی طرف بڑھے اس کے ایمان اور احسان کے دروازے کھلے ہوئے پاتا ہے لیکن رمضان میں تو پہلے سے بڑھ کر اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہوتا ہے.اور یہ بھی اس کے احسانات ہیں کہ جو لوگ عبادت میں سست ہوتے ہیں، نوافل میں سست ہوتے ہیں، قرآن کریم کو پڑھنے میں، اس کے احکامات پر عمل کرنے میں ست ہوتے ہیں ان کے لئے ایک نظام کے تحت ایک مہینہ مقرر کر دیا ہے تا کہ جو عبادت کرنے والے اور نوافل پڑھنے والے، قرآنی احکامات پر عمل کرنے والے لوگ ہیں جب اس مہینہ میں پہلے سے زیادہ، پہلے سے بڑھ کر توجہ کے ساتھ ان عبادات کو بجالانے کی کوشش کریں گے تو جو لوگ ست ہیں وہ بھی ان کی دیکھا دیکھی کچھ نہ کچھ عبادات بجالائیں گے.ماحول کا ان پر بھی اثر ہوگا وہ بھی کچھ نہ کچھ ان
435 $2003 خطبات مسرور نیک کاموں میں حصہ لیں گے.تو اس طرح ان کو بھی عادت پڑ جائے گی.ایسے لوگوں میں سے کچھ لوگ پھر مستقل ان نیکیوں پر قائم بھی رہ جائیں گے.اور شیطان کو دور رکھنے والے ہوں گے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسے لوگوں پر میں اپنی رحمتوں اور فضلوں کے دروازے کھولوں گا.اللہ تعالیٰ ایسے بھٹکے ہوئے لوگوں کو اپنی طرف آنے سے اس قدر خوش ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو خوشی ایک ماں کو ایک گمشدہ بچے کے ملنے سے ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کو اس سے زیادہ خوشی اپنے گمشدہ بندے کے ملنے سے ہوتی ہے.واپس آنے سے ہوتی ہے ، عبادات بجالانے سے ہوتی ہے.اور رمضان میں تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا ہر دروازہ کھول دیتا ہے.قرآن جو خدا کی کتاب ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والی ہے جس کے پڑھنے سے ہمیں خدا تعالیٰ کی معرفت عطا ہوتی ہے اس کو بھی رمضان سے ایک خاص نسبت ہے.اس لئے رمضان میں اور عبادات کے ساتھ اس کو پڑھنے اور جہاں بھی درسوں کا انتظام ہو وہاں اس کے درس سننے کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے.یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لئے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اُتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں.پس جو بھی تم میں سے اس مہینے کو دیکھے تو اس کے روزے رکھے اور جو مریض ہو یا سفر پر ہوتو گنتی پوری کرنا دوسرے ایام میں ہوگا.اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا اور چاہتا ہے کہ تم ( سہولت سے ) گنتی کو پورا کرو اور اس ہدایت کی بنا پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اُس نے تمہیں عطا کی اور تاکہ تم شکر کرو.اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً میں قریب ہوں.میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے.پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پائیں.سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: رمضان سورج کی تپش کو کہتے ہیں.رمضان میں چونکہ انسان اکل و شرب اور تمام جسمانی لذتوں پر صبر کرتا ہے.دوسرے اللہ تعالیٰ کے احکام کے لئے ایک حرارت اور جوش پیدا کرتا ہے.روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مل کر رمضان ہوا.اہل لغت جو کہتے ہیں کہ گرمی کے مہینے میں آیا
436 $2003 خطبات مسرور اس لئے رمضان کہلایا میرے نزدیک یہ میچ نہیں ہے کیونکہ یہ عرب کے لئے خصوصیت نہیں ہوسکتی.روحانی رمضان سے مراد روحانی ذوق شوق اور حرارت دینی ہوتی ہے.رمضان اس حرارت کو بھی کہتے ہیں جس سے پتھر وغیرہ گرم ہو جاتے ہیں.(الحكم ۲۴ جولائی ۱۹۰۱ء ، ملفوظات جلد اول صفحه ۹۰۲) تو اس اقتباس میں آپ نے فرمایا کہ رمضان سورج کی تپش کو کہتے ہیں اور سورج کی تپش سے جو گرم ممالک ہیں ان کو علم ہے کہ کیا حال ہوتا ہے اور پھر اگر جبس بھی شامل ہو جائے اس میں تو اور بھی تکلیف بڑھ جاتی ہے.گرمی دانے وغیرہ نکل آتے ہیں اور جن بیچاروں کے پاس اس گرمی کے توڑ کے لئے ذرائع نہیں ہوتے ، سامان میسر نہیں ہوتے وہ اس حالت میں جسم میں جلن اور دانوں میں خلش و غیرہ محسوس کر رہے ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ نا قابل برداشت ہو جاتا ہے.اب تو خیر یہاں یورپی ممالک میں بھی گرمی اچھی خاصی ہونے لگی ہے اور ذرا سائے سے باہر نکلیں تو دھوپ کی چھن حال خراب کر دیتی ہے تو یہ جو تکلیف ہو رہی ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کھانے پینے کو چھوڑ کر ، جسمانی لذتوں کو چھوڑ کر، میری خاطر کچھ وقت تکلیف برداشت کرو یہ بھی اسی طرح کی تکلیف بعض اوقات ہو رہی ہوتی ہے.اور فرمایا کہ جب خدا تعالیٰ کی خاطر تکلیف برداشت کرتے ہو تو پھر تمہارے اندر سے بھی ایک جوش پیدا ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ کی محبت کی گرمی پیدا ہونی چاہئے.اور اس سے پھر اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی اور اس کی عبادت کی طرف توجہ پیدا ہو.تو فرمایا کہ بیرونی تکلیف بھوک پیاس کی اور اندرونی جوش اللہ تعالیٰ کی محبت کی گرمی اکٹھی ہو جائیں تو اسی کا نام رمضان ہے.پھر آپ نے فرمایا: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآن سے ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے.صوفیاء نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے.کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں.صلوۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم بجلی قلب کرتا ہے.تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بعد حاصل ہو جائے ، دوری حاصل ہو جائے اور تجلی قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لے.فرمایا پس انزل فیہ القران میں یہی اشارہ ہے.اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ روزہ کا اجر عظیم ہے لیکن امراض اور اغراض اس نعمت سے
437 $2003 خطبات مسرور انسان کو محروم رکھتے ہیں.فرمایا مجھے یاد ہے کہ جوانی کے ایام میں میں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کهہ روزہ رکھنا سنت اہل بیت ہے.میرے حق میں پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا سلمانُ مِنَّا اہل البیت.سلمان یعنی الصلحان کہ اس شخص کے ہاتھ سے دو صلح ہوں گی.ایک اندرونی ، دوسری بیرونی.اور یہ اپنا کام رفق سے کرے گا نہ کہ شمشیر سے اور میں جب مشرب حسین پر نہیں ہوں کہ جس نے جنگ کی بلکہ مشرب حسن پر ہوں جس نے جنگ نہ کی تو میں نے سمجھا کہ روزہ کی طرف اشارہ ہے.چنانچہ میں نے چھ ماہ تک روزے رکھے.اس اثنا میں میں نے دیکھا کہ انوار کے ستونوں کے ستون آسمان پر جارہے ہیں.یہ امر مشتبہ ہے کہ انوار کے ستون زمین سے آسمان پر جاتے تھے یا میرے قلب سے لیکن یہ سب کچھ جوانی میں ہو سکتا تھا.اور اگر اس وقت میں چاہتا تو چار سال تک روزہ رکھ سکتا تھا.تو یہاں خاص طور پر یہ جوانی کی مثال دے کر آپ جوانوں کو سمجھا رہے ہیں کہ بعض دفعہ بیماری کی وجہ سے ایک عمر کے بعد روزے چھوڑنے پڑتے ہیں.لیکن نوجوانی کی عمر ایسی ہے کہ اس میں روزے صحیح طور پر رکھے جا سکتے ہیں.اور اس عمر کا فائدہ اٹھانا چاہئے.لیکن ایک اور مرتبہ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ہر کسی کو اتنا لمبا عرصہ روزے نہیں رکھنے چاہئیں، نہ وہ رکھ سکتا ہے.مجھے تو اللہ تعالیٰ نے کہا تھا اور ساتھ تائید تھی اللہ تعالیٰ کی اور اللہ تعالیٰ نے قوت عطا کی تھی اس لئے میں رکھ سکا.لیکن بہر حال رمضان کے روزے ایسے ہیں جن کو ضرور رکھنا چاہئے.کیونکہ یہ ہر بالغ مسلمان پر فرض ہیں اگر بیماری وغیرہ کی کوئی وجہ نہ ہو.روزے کی اہمیت اور اس کے نتیجہ میں انسان جو خدا تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنتا ہے اس بارہ میں چند احادیث پیش کرتا ہوں.روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : ہر چیز کا ایک دروازہ ہے اور عبادت کا دروازہ روزے ہیں.(جامع الصغير) پھر ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ روزہ ایک ڈھال ہے اور آگ سے بچانے والا ایک حصن حصین ہے.(مسند احمد).یعنی ایک مضبوط قلعہ ہے جو آگ کے عذاب سے بچاتا ہے.
438 $2003 خطبات مسرور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے.آپ صلى الله.(صحیح بخاری کتاب مواقيت الصلوة نے فرمایا تم میں سے کسی کو فتنہ کے بارہ میں رسول اللہ ﷺ کا کوئی ارشاد یاد ہے؟ تو کہتے ہیں میں نے کہا جیسا آنحضرت ﷺ نے فرمایا من و عن یاد ہے.آپ نے ( یعنی حضرت عمر نے ) فرمایا کہ تم تو بات کرنے میں بڑے دلیر ہو.بہر حال کہتے ہیں میں نے عرض کی کہ آدمی کو جو فتنہ اس کے گھر بار، مال ، اولا دیا ہمسایوں سے پہنچتا ہے، نماز ، روزہ ، صدقہ ، اچھی بات کا حکم اور برائی سے روکنا اس فتنہ کا کفارہ بن جاتا ہے.پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : یقیناً جنت میں بالا خانے ہوں گے جن کے اندرونے باہر سے اور خارجی حصے اندر سے نظر آتے ہوں گے.اس پر ایک اعرابی نے کھڑے ہو کر سوال کیا کہ حضور یہ کن کے لئے ہوں گے.فرمایا: یہ ان کے لئے ہوں گے جو خوش گفتار ہوں گے، ضرورتمندوں کو کھانا کھلانے والے ہوں گے، روزے کے پابند اور راتوں کو جب لوگ سوتے ہوں تو وہ نمازیں ادا کریں.(سنن ترمذى كتاب صفة الجنة تو ان احادیث سے روزے کی اہمیت مزید واضح ہوتی ہے.لیکن شرط یہ ہے کہ صرف بھوکا پیاسا نہیں رہنا بلکہ اس کے ساتھ تمام برائیوں کو بھی چھوڑنا ہے، نیکیوں کو اختیار کرنا ہے،غریبوں کا خیال رکھنا ہے، ان کی ضروریات کو پورا کرنا ہے، نمازوں کی ادائیگی بھی کرنی ہے، فرض سے بڑھ کر نوافل پڑھنے کی طرف بھی توجہ کرنی ہے اور ان تمام چیزوں کے ساتھ روزے دار بھی ہو، تمام جائز چیزوں، خوراک وغیرہ کو ایک معینہ مدت کے لئے اللہ تعالیٰ کی خاطر چھوڑنے والے ہو، تمام شرائع پورے کرنے والے ہو تو یہ تمہارے جو فتنے ہیں جن فتنوں میں تم پڑے ہوئے ہو اولا د کی طرف سے، کاروباری ہیں، ہمسایوں کے ہیں، لڑائی جھگڑے ہیں تو ان نیکیوں کی وجہ سے جو تم انجام دے رہے ہو گے ان سے تم بچ سکتے ہو اور یہ نیکیاں ہیں جو ان فتنوں کا کفارہ ہو جائیں گی.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ تو میرے لئے ہیں میں ہی ان کی جزا بن جاتا ہوں یعنی اللہ تعالیٰ کا
$2003 439 خطبات مسرور وصال ہو جاتا ہے روزوں کے ذریعہ اگر تمام شرائط کے ساتھ وہ رکھے ہوں.یہ اس لئے ہے کہ میرا بندہ میرے لئے روزے میں اپنی جائز خواہشات اور اپنے کھانے پینے کو بھی ترک کر دیتا ہے.فرمایا روزہ گناہوں کے خلاف ایک ڈھال ہے.روزہ دار کے لئے دوخوشیاں مقدر ہیں.ایک وہ خوشی جو اسے اس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ خدا کے فضل سے اپنے روزوں کو مکمل کر لیتا ہے.یہ خوشی اسے دنیا میں ملتی ہے اور ایک وہ خوشی جو اسے آخرت میں ملے گی جب وہ اپنے رب سے اس حالت میں ملے گا کہ وہ اس سے راضی ہوگا.نیز آنحضرت ﷺ نے فرمایا روزہ دار کے منہ کی بو خدا کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پیاری ہے.(بخارى كتاب التوحيد باب قول الله تعالى يريدون ان يبدلوا كلام الله ) پھر حضرت ابو مسعود غفاری بیان کرتے ہیں کہ میں نے رمضان کے شروع ہونے کے بعد ایک روز آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر لوگوں کو رمضان کی فضیلت کا علم ہوتا تو میری امت اس بات کی خواہش کرتی کہ سارا سال ہی رمضان ہو.اس پر بنوخزاعہ کے ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے نبی ہمیں رمضان کے فضائل سے آگاہ کریں.چنانچہ آپ نے فرمایا یقیناً جنت کو رمضان کے لئے سال کے آغاز سے آخر تک مزین کیا جاتا ہے اور جب رمضان کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش الہی کے نیچے ہوائیں چلتی ہیں.تو اللہ تعالیٰ کو روزے دار کے منہ کی بُو جو ہے، نہ کھانے کی وجہ سے منہ میں پیدا ہو جاتی ہے،صرف اس لئے پسند ہے کہ میرے بندے نے میری خاطر اپنے اوپر یہ پابندی لگائی ہوئی ہے اور میری عبادت میں مشغول ہے تو خدا تعالیٰ ایسے روزہ داروں کی بہت قدر کرتا ہے.اور ایسے لوگوں پر اپنی رحمتوں اور فضلوں کی ہوائیں چلاتا ہے.اس دنیا میں بھی انہیں اپنی پناہ میں رکھتا ہے اور اگلے جہان میں بھی اپنی جنتوں کا وارث بناتا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم اس کو سمجھتے ہوئے جو روزے رکھنے کا حق ہے اس کے مطابق رمضان گزارنے کی کوشش کریں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو روزے میں ستی کر جاتے ہیں کہ صلوۃ کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں.اس کے بعد روزے کی عبادت ہے.افسوس ہے کہ اس زمانہ میں بعض مسلمان کہلانے والے ایسے بھی ہیں جو کہ ان عبادات میں ترمیم کرنا چاہتے ہیں.
440 $2003 خطبات مسرور وہ اندھے ہیں اور خدا تعالیٰ کی حکمت کا ملہ سے آگاہ نہیں ہیں.تزکیہ نفس کے واسطے یہ عبادات لازمی پڑی ہوئی ہیں.یہ لوگ جس عالم میں داخل نہیں ہوئے اس کے معاملات میں بیہودہ دخل دیتے ہیں اور جس ملک کی انہوں نے سیر نہیں کی اس کی اصلاح کے واسطے جھوٹی تجویزیں پیش کرتے ہیں.ان کی عمریں دنیوی دھندے میں گزرتی ہیں.دینی معاملات کی ان کو کچھ خبر نہیں.کم کھانا اور بھوک برداشت کرنا بھی تزکیہ نفس کے واسطے ضروری ہے.اس سے کشفی طاقت بڑھتی ہے.انسان صرف روٹی سے نہیں جیتا.بالکل ابدی زندگی کا خیال چھوڑ دینا اپنے اوپر قہر الہی کا نازل کرنا ہے.مگر روزہ دار کو خیال رکھنا چاہئے کہ روزے سے صرف یہ مطلب نہیں کہ انسان بھوکا ر ہے بلکہ خدا کے ذکر میں بہت مشغول رہنا چاہئے.بدنصیب ہے وہ شخص جس کو جسمانی روٹی ملی مگر اُس نے روحانی روٹی کی پرواہ نہیں کی.جسمانی روٹی سے جسم کو قوت ملتی ہے ایسا ہی روحانی روٹی روح کو قائم رکھتی ہے.اور اس سے روحانی قومی تیز ہوتے ہیں.خدا سے فیضیاب ہونا چاہو کہ تمام دروازے اس کی توفیق سے کھلتے ہیں.تقاریر جلسه سالانه ۱۹۰۶ ء صفحه ۲۰ - ۲۱) پھر ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن انسانوں کے لئے ہدایت کے طور پر اتارا گیا ہے جس میں ہدایت کی تفصیل دی گئی ہے اور سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے والے امور بیان کئے گئے ہیں.جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.ایک تو اس کا یہ مطلب ہے کہ جب انسان غور سے اس کو پڑھے ، اس کو سمجھنے کی کوشش کرے،اس کے احکامات کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش کرے تو خدا تعالیٰ کی معرفت بھی اس کو حاصل ہو جاتی ہے اور خدا تعالیٰ ایسے بندوں کو اپنے پیاروں میں شامل کر لیتا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَةٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ یعنی قرآن میں تین صفتیں ہیں.اول یہ کہ جو علوم دین لوگوں کو معلوم نہیں رہے تھے ان کی طرف ہدایت فرماتا ہے.دوسرے جن علوم میں پہلے کچھ اجمال چلا آتا تھا ان کی تفصیل بیان کرتا ہے.تیسرے جن امور میں اختلاف اور تنازعہ پیدا ہو گیا تھا ان میں قول فیصل بیان کر کے حق اور باطل میں فرق ظاہر کرتا ہے.(تفسیر حضرت مسیح موعود عليه السلام جلد اول صفحه (۲۴۸)
441 $2003 خطبات مسرور تو اس سے یہ ظاہر ہو گیا کہ یہ تین باتیں جو بیان کی گئی ہیں کیونکہ شریعت اب کامل ہوئی ہے آنحضرت ﷺ پر پہلے لوگوں پر صرف اس علاقے یا وقت کے لحاظ سے احکامات دئے گئے تھے، تمام علوم دین نہیں بتائے گئے تھے اس لئے آنحضرت ﷺ پر یہ کامل کتاب اتاری گئی ہے اور تمام قسم کی ہدایت جس کی انسان کو ضرورت پڑسکتی ہے اس میں بیان کر دی گئی ہے.پھر ایسے تمام احکامات جو پہلے واضح نہ تھے، پہلے انبیاء کی تعلیم میں معین نہ ہوئے تھے یا ایسے علوم جن کا معین طور پر انسان کو علم نہ تھا اس کو بھی تفصیل سے بیان کر دیا.پھر ساتھ ہی یہ ہے کہ دلیل کے ساتھ حق اور باطل، سیچ اور جھوٹ ، غلط اور صحیح میں فرق بتایا گیا ہے.تو جس قدر استطاعت ہے اس پر غور کرتا رہے اس لئے قرآن شریف زیادہ پڑھنا چاہئے اور اس کی حسین تعلیم پر عمل کرنا چاہئے ، اس سے حصہ لینا چاہئے.بہر حال رمضان اور قرآن کی ایک خاص نسبت ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ جبریل ہر رمضان میں جتنا قرآن نازل ہو چکا ہوتا آنحضرت ﷺ کے ساتھ مل کر اسے دہراتے تھے.اس لئے بھی ان دنوں میں قرآن پڑھنے، سمجھنے اور درسوں میں شامل ہونے کی طرف توجہ دینی چاہئے تا کہ اس کا ادراک پیدا ہو، اس کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو، معرفت حاصل ہو.پھر آگے اس میں بیان ہوا ہے روزے کے بارہ میں کہ کیا کیا رخصتیں ہیں اور کتنا رکھنا چاہئے اس بارہ میں گزشتہ خطبے میں سب بیان ہو چکا ہے.پھر اگلی آیت میں بیان فرمایا ہے کہ میرے بندوں سے کہہ دو کہ میں تو تمہارے قریب ہوں.دعا کے مضمون کے بارہ میں.دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں.لیکن تمہیں اگر دعا کے طریقے اور سلیقے آتے ہوں تو مجھے قریب پاؤ گے.اس آیت کو روزوں کی فرضیت کی آیت کے ساتھ رکھا گیا ہے اور پھر اس سے اگلی آیت میں بھی رمضان کے بارہ میں احکام ہیں.تو جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تو اپنے سے مانگنے والوں کی باتیں سنتا ہوں.لیکن تمہارا بھی تو فرض بنتا ہے کہ جو میرے احکامات ہیں ان کو مانو.نیک باتوں پر عمل کرو، بری باتوں کو چھوڑو.یہ تو نہیں کہ صرف دنیاداری کی باتیں ہی کرتے رہو.کبھی مجھ سے میری محبت کا اظہار نہ ہو.جب کسی مصیبت میں گرفتار ہو تو آجاؤ.گو ایسے لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ کسی مصیبت میں گرفتار دیکھ کر جب وہ پکارتے ہیں تو ان کی مدد کرتا ہے.لیکن جب وہ مصیبت سے نکلتے ہیں تو پھر وہی باغیانہ رویہ اپنا لیتے ہیں.تو یہ طریق
442 $2003 خطبات مسرور تو دنیاوی تعلقات میں بھی نہیں چلتے تو بہر حال خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے ان بندوں کے قریب ہوں.ان کی دعائیں سنتا ہوں جو میرے قریب ہیں، جن کو میری ذات سے تعلق ہے.صرف اپنے دنیاوی مقصد حاصل کروانے کے لئے ہی میرے پاس دوڑے نہیں چلے آتے.اب جبکہ تم میرے کہنے کے مطابق روزے رکھ رہے ہو، بہت سی برائیوں کو چھوڑ رہے ہو، نیکی کی تلقین کر رہے ہو، نمازوں میں با قاعدگی اختیار کر رہے ہو ، نوافل کی ادائیگی کی طرف توجہ دے رہے ہو تو میں بھی تمہاری دعاؤں کو سنتا ہوں، جواب دیتا ہوں.میں تو اس انتظار میں بیٹھا ہوں کہ میرا کوئی بندہ خالص ہو کر مجھے پکارے تو میں اس کی پکار کا جواب دوں.اب جبکہ تم خالص ہو کر مجھے پکار رہے ہو، مجھ پر کامل ایمان رکھتے ہو، میرے بندوں کے حقوق بھی ادا کر رہے ہو، ان کا خیال رکھ رہے ہو ، رمضان میں غریبوں کے روزے رکھوانے اور کھلوانے کا بھی اہتمام کر رہے ہو، توجہ دے رہے ہو، لڑائی جھگڑوں سے دُور ہو، معاف کرنے میں پہل کرنے والے ہو، انتقام سے دور ہٹنے والے ہو، کیونکہ کامل ایمان کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات پر بھی کامل ایمان اور یقین ہو، اس لئے میری صفات کو ہر وقت ہمیشہ مدنظر رکھنے والے بھی ہو اور اپنی استعدادوں کے مطابق ان کو اپنانے والے ہو، تو اے میرے بندو ! میں تمہارے قریب ہوں ، تمہارے پاس ہوں ، تمہاری دعاؤں کو سن رہا ہوں تمہیں اب کوئی غم اور فکر نہیں ہونا چاہئے.اور رمضان کے مہینے میں تو میں اپنی رحمت کے دروازے وسیع کر دیتا ہوں.حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلْيَسْتَجِيْبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِی اگر میں نے کہا ہے کہ میں پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں تو اس سے یہ نہ سمجھ لینا کہ میں ہر ایک پکار کوسن لیتا ہوں.جس پکار کو میں سنتا ہوں اس کے لئے دو شرطیں ہیں.اوّل میں اس کی پکارسنتا ہوں جو میری بھی سنے.دوسرے میں اس کی پکارسنتا ہوں جسے مجھ پر یقین ہو، مجھ پر بدظنی نہ ہو.اگر دعا کرنے والے کو میری طاقتوں اور قوتوں کا یقین ہی نہیں تو میں اس کی پکار کو کیوں سنوں گا.پس قبولیت دعا کے لئے دوشرطیں ہیں.جس دعا میں یہ دو شرطیں پائی جائیں گی وہی قبول ہوگی اسی لئے یہاں اللہ تعالیٰ نے الداع فرمایا ہے جس کے معنے ہیں ایک خاص دعا کرنے والا.اور اس کے آگے شرائط بتا دیں جو الداع میں
443 $2003 خطبات مسرور پائی جاتی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ وہ میری سنے اور مجھ پر یقین رکھے.یعنی وہ دعا میرے مقرر کردہ اصولوں کے مطابق ہو، جائز ہو، ناجائز نہ ہو، اخلاق کے مطابق ہو، سنت کے مطابق ہو، اگر کوئی شخص ایسی دعائیں کرے گا تو میں بھی اس کی دعاؤں کو سنوں گا.لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ اے اللہ ! میرا فلاں عزیز الله مر گیا ہے تو اسے زندہ کر دے تو یہ دعا قرآن کے خلاف ہے، محمد رسول اللہ علیہ کی تعلیم کے خلاف ہے.جب اُس نے قرآن کی ہی نہیں مانی، محمد رسول اللہ ﷺ کی نہیں مانی تو خدا اُس کی بات کیوں مان لے.پس فَلْيَسْتَجِيْبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ ﴾ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ تمہیں چاہئے کہ تم میری باتیں مانو اور مجھ پر یقین رکھو.اگر تمہیں مجھ پر یقین نہیں ہے تو میں بھی تمہاری دعا کیسے سن سکتا ہوں؟ پس قبولیت دعا کے لئے دو شرطیں ہیں اول فَلْيَسْتَجِيْبُوا لِي تم میری باتیں مانو.(۲) وَلْيُؤْمِنُوا بنی اور مجھے پر یقین رکھو.جولوگ ان شرائط کو پورا نہیں کرتے وہ دیندار نہیں.وہ میرے احکام پر نہیں چلتے اس لئے میں بھی یہ وعدہ نہیں کرتا کہ میں ان کی دعائیں سنوں گا.بے شک میں ان کی دعاؤں کو بھی سنتا ہوں مگر اس قانون کے ماتحت ان کی ہر دعا کو نہیں سنتا.لیکن جو شخص اس قانون پر چلتا ہے.اور پھر دعائیں بھی کرتا ہے میں اس کی ہر دعا کو سنتا ہوں.(تفسير كبير جلد دوم صفحه ٤٠٥ - ٤٠٦) پھر آپ نے فرمایا: پس رمضان کے مہینہ کا دعاؤں کی قبولیت کے ساتھ نہایت گہرا تعلق ہے.یہی وہ مہینہ ہے جس میں دعا کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے قریب کے الفاظ بیان فرمائے.اگر وہ قریب ہونے پر بھی نہ مل سکے تو اور کب مل سکے گا.جب بندہ اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیتا ہے اور اپنے عمل سے ثابت کر دیتا ہے کہ اب وہ خدا تعالیٰ کا درد چھوڑ کر کہیں نہیں جائے گا تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دروازے اس پر کھل جاتے ہیں اور اتنی قریب کی آواز اس کے کانوں میں بھی آنے لگتی ہے جس کے معنے سوائے اس کے اور کیا ہو سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے اور جب کوئی بندہ اس مقام پر پہنچ جائے تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اس نے خدا کو پالیا.حدیث میں آتا ہے.حضرت عمر روایت کرتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ رمضان
خطبات مسرور 444 $2003 میں اللہ کا ذکر کرنے والا بخشا جاتا ہے اور اس ماہ اللہ سے مانگنے والا کبھی نا مراد نہیں رہتا.پھر ایک حدیث ہے کہ روزہ دار کے لئے اس کی افطاری کے وقت کی دعا ایسی ہے جورڈ نہیں کی جاتی.( ابن ماجه كتاب الصيام باب في الصائم لا تردد.......حضرت خلیفہ المسح الاول رضی اللہ عنہ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں: اگر لوگ پوچھیں کہ روزہ سے کیسے قرب حاصل ہو سکتا ہے تو کہہ دے فَإِنِّي قَرِيْبٌ.أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ ﴾ یعنی میں قریب ہوں اور اس مہینہ میں دعائیں کرنے والوں کی دعائیں سنتا ہوں.چاہئے کہ پہلے وہ ان احکاموں پر عمل کریں جن کا میں نے حکم دیا ہے اور ایمان حاصل کریں تا کہ وہ مراد کو پہنچ سکیں اور اس طرح سے بہت ترقی ہوگی.( الحكم ۱۷/ نومبر ۱۹۰۷ ء صفحه (٥) حضرت خلیفہ المسیح الاول اس بارہ میں مزید فرماتے ہیں: روزہ جیسے تقویٰ سیکھنے کا ایک ذریعہ ہے ویسے ہی قرب الہی حاصل کرنے کا بھی ذریعہ ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضان کا ذکر فرماتے ہوئے ساتھ ہی یہ بھی بیان کیا ہے ﴿وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيْبٌ أُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ہ یہ ماہ رمضان کی ہی شان میں فرمایا گیا ہے اور اس سے اس ماہ کی عظمت اور ستر الہی کا پتہ لگتا ہے کہ اگر وہ اس ماہ میں دعائیں مانگیں تو میں قبول کروں گا لیکن ان کو چاہئے کہ میری باتوں کو قبول کریں اور مجھے مانیں.انسان جس قدر خدا کی باتیں ماننے میں قوی ہوتا ہے خدا بھی ویسے ہی اس کی باتیں مانتا ہے.﴿ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ ﴾ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ماہ کور شد سے بھی خاص تعلق ہے اور اس کا ذریعہ خدا پر ایمان، اس کے احکام کی اتباع اور دعا کو قرار دیا ہے.اور بھی باتیں ہیں جن سے قرب الہی حاصل ہوتا ہے“.(الحکم ۴۲؍ جنوری ۱۹۰۴ء صفحه ۱۲) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”رمضان کا مہینہ مبارک مہینہ ہے، دعاؤں کا مہینہ ہے“.(الحکم ۲۴ جنوری ۱۹۰۱ء)
خطبات مسرور 445 $2003 پھر اسی آیت کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے فرمایا یعنی ﴿وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ فرمایا: یعنی جب میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں کہ خدا کے وجود پر دلیل کیا ہے تو اس کا یہ جواب ہے کہ میں بہت نزدیک ہوں یعنی کچھ بڑے دلائل کی حاجت نہیں.میرا وجود نہایت اقرب طریق سے سمجھ آ سکتا ہے اور نہایت آسانی سے میری ہستی پر دلیل پیدا ہوتی ہے اور وہ دلیل یہ ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی سنتا ہوں اور اپنے الہام سے اس کی کامیابی کی بشارت دیتا ہوں جس سے نہ صرف میری ہستی پر یقین آتا ہے بلکہ میرا قادر ہونا بھی بپا یہ یقین پہنچتا ہے.لیکن چاہئے کہ لوگ ایسی حالت تقویٰ اور خدا ترسی کی پیدا کریں کہ میں ان کی آواز سنوں! اور نیز چاہیئے کہ وہ مجھ پر ایمان لاویں اور قبل اس کے کہ جو ان کو معرفت تامہ ملے اس بات کا اقرار کریں کہ خدا موجود ہے اور تمام طاقتیں اور قدرتیں رکھتا ہے.کیونکہ جو شخص ایمان لاتا ہے اسی کو عرفان دیا جاتا ہے.ايام الصلح روحانی خزائن جلد ١٤ صفحه ٢٦٠ - ٢٦١) حدیث میں آتا ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا حضرت ابوسعید خدری روایت کرتے ہیں کہ اللہ کو خوب یاد کیا کرو یہاں تک کہ لوگ کہیں کہ یہ مجنوں شخص ہے.یہ ہے اللہ کو یاد کرنے کا طریق.حدیث میں آتا ہے کہ رمضان کی ہر رات اللہ تعالیٰ ایک منادی کرنے والے فرشتہ کو بھیج دیتا ہے جو یہ اعلان کرتا ہے کہ اے خیر کے طالب آگے بڑھ اور آگے بڑھ.کیا کوئی ہے جو دعا کرے تا کہ اس کی دعا قبول کی جائے کیا کوئی ہے جو استغفار کرے کہ اسے بخش دیا جائے کیا کوئی ہے جو تو بہ کرے تاکہ اس کی توبہ قبول کی جائے.(کنز العمال جلد ۸ کتاب الصوم قسم الاول ) پھر حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ جب رات کا نصف یا 2/3 حصہ گزر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ قریب کے آسمان کی طرف اتر آتا ہے، پھر فرماتا ہے کیا کوئی سوالی ہے جسے دیا جائے؟، کیا کوئی دعا کرنے والا ہے جس کی دعا قبول کی جائے؟، کیا کوئی بخشش کا طالب ہے کہ اسے بخش دیا جائے ؟ یہ صورت حال اسی طرح جاری رہتی ہے یہاں تک کہ فجر نمودار ہو جاتی
446 $2003 خطبات مسرور ہے.اس لئے نوافل کے لئے اٹھنا بہت ضروری ہے.یہ نہیں کہ صرف سحری کھانے کے لئے اٹھے، وقت مقرر کرنا چاہئے نوافل کے لئے بھی.پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں بندے کے گمان کے مطابق سلوک کرتا ہوں.جس وقت بندہ مجھے یاد کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں.اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے گا تو میں بھی اس کو اپنے دل میں یاد کروں گا اور اگر وہ میرا ذکر محفل میں کرے گا تو میں اس بندے کا ذکر اس سے بہتر محفل میں کروں گا.اگر وہ میری جانب ایک بالشت بھر آئے گا تو میں اس کی طرف ایک ہاتھ آؤں گا.اگر وہ میری طرف ایک ہاتھ آئے گا تو میں اس کی طرف دو ہاتھ جاؤں گا.اگر وہ میری طرف چل کر آئے گا تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاؤں گا.(ترمذی ابواب الدعوات فى حسن الظن بالله عز و جل.......حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ بڑا حیا والا ہے، بڑا کریم اور سخی ہے.جب بندہ اس کے حضور اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تو وہ ان کو خالی ہاتھ اور نا کام واپس کرنے سے شرماتا ہے یعنی صدق دل سے مانگی ہوئی دعا کو وہ رو نہیں کرتا بلکہ قبول فرماتا ہے.(ترمذى كتاب الدعوات باب فء دعا النبى الله.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ’دعا کے اندر قبولیت کا اثر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ انتہائی درجہ کے اضطرار تک پہنچ جاتی ہے.جب انتہائی درجہ اضطرار کا پیدا ہو جاتا ہے اُس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس کی قبولیت کے آثار اور سامان بھی پیدا ہو جاتے ہیں.پہلے سامان آسمان پر کئے جاتے ہیں اس کے بعد وہ زمین پر اثر دکھاتے ہیں.یہ چھوٹی سی بات نہیں بلکہ ایک عظیم الشان حقیقت ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جس کو خدائی کا جلوہ دیکھنا ہواُسے چاہئے کہ دعا کرے“.(الحكم جلد ٨ نمبر ١٣ ـ مورخه ٢٤/اپریل ١٩٠٤ ء صفحہ ٦ ـ تفسیر حضرت مسیح موعود" جلد اول صفحه ٦٥٥) پھر آپ نے فرمایا: دعا کی مثال ایک چشمہ شیریں کی طرح ہے جس پر مومن بیٹھا ہوا ہے وہ جب چاہے اس
$2003 447 خطبات مسرور چشمہ سے اپنے کو سیراب کر سکتا ہے.جس طرح ایک مچھلی بغیر پانی کے زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح مومن کا پانی دعا ہے کہ جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا.اس دعا کا ٹھیک محل نماز ہے یعنی صحیح جو دعا مانگنے کی جگہ ہے وہ نماز ہے جس میں وہ راحت اور سرور مومن کو ملتا ہے کہ جس کے مقابل ایک عیاش کا کامل درجہ کا سرور جو اسے کسی بد معاشی میں میسر آ سکتا ہے بیچ ہے.بڑی بات جو دعا میں حاصل ہوتی ہے وہ قرب الہی ہے.دعا کے ذریعہ ہی انسان خدا کے نزدیک ہو جاتا ہے اور اسے اپنی طرف کھینچتا ہے.جب مومن کی دعا میں پورا اخلاص اور انقطاع پیدا ہو جاتا ہے تو خدا کو بھی اس پر رحم آ جاتا ہے اور خدا اس کا متولی ہو جاتا ہے.( یعنی سب کام اس کے کرنے لگ جاتا ہے ).اگر انسان اپنی زندگی پر غور کرے تو الہی تو تی کے بغیر انسانی زندگی قطعا تلخ ہو جاتی ہے.(الحكم جلد ۸ نمبر ۱۹ - مورخه ۱۰ - ١٧ / جون ١٩٠٤ ء صفحه ٦ـ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحه (٦٥٦ پھر آپ نے فرمایا: اگر میرے بندے میرے وجود سے سوال کریں کہ کیونکر اس کی ہستی ثابت ہے اور کیونکر سمجھا جائے کہ خدا ہے.(خدا تعالیٰ کے بارہ میں آپ فرماتے ہیں ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ میں بہت ہی نزدیک ہوں.میں اپنے پکارنے والے کو جواب دیتا ہوں اور جب وہ مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی آواز سنتا ہوں.اور اس سے ہمکلام ہوتا ہوں.پس چاہئے کہ اپنے تئیں ایسا بنادیں کہ میں ان سے ہمکلام ہوسکوں اور مجھ پر کامل ایمان لاویں تا کہ ان کو میری راہ ملے“.(لیکچر لاهور صفحه ۱۳ بحواله تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحه ٦٤٩ اب ایک دعا پیش کرتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت نواب محمد علی خان صاحب کو لکھی تھی کہ یہ کریں.فرمایا، دعا یہ ہے: اے رب العالمین ! میں تیرے احسانوں کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا.تو نہایت ہی رحیم و کریم ہے.تیرے بے غایت مجھ پر احسان ہیں.میرے گناہ بخش تامیں ہلاک نہ ہو جاؤں.میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تو راضی ہو جائے.میں تیرے وجہ کریم کے ساتھ اس بات کی پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو.رحم فرما، رحم فرما، رحم فرما اور دنیا و آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کیونکہ ہر ایک فضل و کرم تیرے
خطبات مسرور ہی ہاتھ میں ہے.( آمین ) 448 $2003 پھر ایک اور دعا ہے جو آنحضرت ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر عرفات میں کی کہ: ”اے اللہ! تو میری باتوں کو سنتا ہے اور میرے حال کو دیکھتا ہے.میری پوشیدہ باتوں اور ظاہر امور سے تو خوب واقف ہے.میرا کوئی بھی معاملہ تجھ پر کچھ بھی مخفی نہیں ہے.میں ایک بدحال، فقیر اور محتاج ہوں، تیری مدد اور پناہ کا طالب، سہما ہوا، اپنے گناہوں کا اقراری اور معترف ہوں.میں تجھ سے ایک عاجز مسکین کی طرح سوال کرتا ہوں، تیرے حضور میں ایک گناہگار ذلیل کی طرح زاری کرتا ہوں.ایک اندھے نابینا کی طرح خوفزدہ تجھ سے دعا کرتا ہوں جس کی گردن تیرے آگے جھکی ہوئی ہے اور جس کے آنسو تیرے حضور بہہ رہے ہیں.جس کا جسم تیرے حضور گرا پڑا ہے اور تیرے لئے اس کا ناک خاک آلودہ ہے.اے اللہ ! تو مجھے اپنے حضور دعا کرنے میں بد بخت نہ ٹھہرا دینا اور میرے ساتھ مہربانی اور رحم کا سلوک فرمانا.اے وہ جوسب سے بڑھ کر التجاؤں کو قبول فرماتا ہے اور سب سے بہتر عطا فرمانے والا ہے.(میری دعا قبول فرما).(الجامع الصغير للسيوطى - جز اول صفحه ٥٦ مبطوعه المكتبة الاسلامية لائلپور - المعجم الكبير للطبرانی جلد ۱۱ صفحه ١٧٤ ـ مطبوعه بيروت) اللہ تعالیٰ ہمیں اس رمضان میں اپنے پیاروں کی طرح دعائیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اور آنحضرت ﷺ کی اپنی امت کے لئے اپنے پیارے مہدی کے ماننے والوں کے لئے جو آپ نے دعائیں کی تھیں ان دعاؤں کا وارث بنائے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا حقیقی عبادت گزار بندہ بنائے.اس کی طرف جھکنے والے ہوں ، اس سے مدد طلب کرنے والے ہوں،اس کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے، فضل فرمائے اور ہمیں ہماری زندگیوں میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی فتوحات کی اور دنیا پر غالب آنے کے نظارے دکھائے.اے اللہ ! اس رمضان کی برکات سے ہمیں بے انتہاء حصہ دے.ہر شر سے ہمیں محفوظ رکھ اور اپنے رحمت اور فضل کی چادر میں ہمیں ہمیشہ لپیٹے رکھ.آمین
$2003 449 29 خطبات مس اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول اور دین کی ترقی کے لئے اپنے اموال خرچ کریں.۷ نومبر ۲۰۰۳ء بمطابق ۷ نبوت ۱۳۸۲ هجری شمسی به مقام مسجد فضل لندن خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے طریق اور اس کے ثمرات.اس زمانہ میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے لوگوں سے مراد آپ لوگ ہیں.خوب یاد رکھو انبیاء جو چندے مانگتے ہیں تو اپنے لئے نہیں بلکہ انہی چندہ دینے والوں کو کچھ دلانے کے لئے.خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی برکت.تحریک جدید کے نئے مالی سال کا اعلان اور بین الاقوامی مسابقت فی الخیر تحریک جدید کی اہمیت اور اس میں شامل ہونے والوں کی سعادت.
خطبات مس $2003 450 تشھد وتعوذ کے بعد درج ذیل آیت قرآنیہ تلاوت فرمائی مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ.وَاللهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَّشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ ﴾ (البقره : ٢٦٢) آج حسب روایت اور دستور تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان ہونا ہے.لیکن اس سے پہلے چند باتیں عرض کروں گا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں مومنوں کو مختلف طریقوں سے اس کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دلاتا ہے اور اس کے طریقے بھی بتا تا ہے.کہیں فرماتا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہے.کہیں فرما رہا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے اپنے ہاتھ روک کر کہیں اپنے اوپر ہلاکت وارد نہ کر لینا.کبھی فرماتا ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے تم ذاتی طور پر بھی تباہی سے محفوظ رہو گے اور اگر قوم میں قربانی کا جذبہ ہے اور قوم قربانی کر رہی ہے تو قوم بحیثیت مجموعی بھی مجھ سے تباہی سے بچنے کی ضمانت لے.پھر فرمایا ہے کہ اپنی پاک کمائی میں.خرچ کرو تا کہ اس میں اور برکت پڑے.چھپا کر بھی خرچ کرو اور اعلانیہ بھی خرچ کرو.غریبوں کا بھی خیال رکھو، ان کی ضرورتیں بھی پوری کرو اور زکوۃ کی طرف بھی توجہ دو تا کہ قومی ضرورتیں بھی پوری ہوں اور غریبوں کی ضرورتیں بھی پوری ہوں.اور جب تم خرچ کر رہے ہو تو یا درکھو کہ تم اپنے فائدے کا سودا کر رہے ہو اس لئے کبھی دل میں احسان جتانے کا خیال بھی نہ لاؤ.اور جب فائدے کا سودا کر رہے ہو تو پھر عقل تو یہی کہتی ہے کہ بہترین حصہ جو ہے وہ سودے میں استعمال کیا جاتا ہے تا کہ فائدہ بھی بہترین شکل میں ہو.تو اس سے مال میں جو اضافہ ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے تمہیں اس نیکی کا ثواب بھی ملنا ہے.اور اس لئے محبوب چیزوں میں سے خرچ کرو، جو تمہاری پسندیدہ چیزیں ہیں ان
451 $2003 خطبات مسرور میں سے خرچ کرو، جو بہترین مال ہے اس میں سے خرچ کرو.اور جتنی کمزوری کی حالت میں یعنی وسعت کی کمی کی حالت میں خرچ کرو گے اتنا ہی ثواب بھی زیادہ ہوگا.تو فرمایا کہ بہر حال اللہ تعالیٰ تو ہر اس شخص کو اپنی رحمتوں اور فضلوں سے نوازتا ہے اور نو از تار ہے گا جو اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اس کی راہ میں قربانی دیتے ہیں.اور ہر شخص اپنی ایمانی حالت کے مطابق خرچ کرتا ہے.ہر کوئی اپنے مرتبے اور توکل کے مطابق خرچ کرتا ہے اور اس لحاظ سے انبیاء کا ہاتھ سب سے کھلا ہوتا ہے اور انبیاء میں بھی سب سے زیادہ ہمارے نبی اکرم ﷺ کا ہاتھ سب سے زیادہ کھلا تھا.تبھی تو آپ نے ایک موقع پر فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ احد پہاڑ جتنا سونا میرے پاس ہو تو وہ بھی میں تقسیم کر دوں.انبیاء کے بعد درجہ بدرجہ ہر کوئی اس نیک کام میں حصہ لیتا ہے، اس کا اس کو ثواب بھی ملتا ہے اور اس کے مطابق وہ خرچ بھی کرتا ہے.ایک موقع پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خیال آیا کہ آج میرے گھر میں کافی مال ہے میں جا کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کروں اور آدھا مال لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دل میں خیال کیا کہ آج تو حضرت ابو بکر سے بڑھنے کے قوی امکانات ہیں، ان سے زیادہ قربانی پیش کروں گا.لیکن تھوڑی دیر بعد حضرت ابو بکر اپنا مال لے کر آئے تو آنحضرت نے پوچھا کہ گھر میں کیا چھوڑ آئے ہو ؟ تو عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول !.اس پر حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا اپنے آپ سے کہ تم کبھی ابوبکر سے آگے نہیں بڑھ سکتے.بہر حال میں یہ عرض کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو اس کی راہ میں خرچ کرنے کے مختلف ذرائع سے ترغیب دلاتا ہے اور یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ایسے بیج کی طرح ہے جو سات بالیں اُگا تا ہو.ہر بالی میں سودانے ہوں اور اللہ جسے چاہے (اس سے بھی) بہت بڑھا کر دیتا ہے.اور اللہ وسعت عطا کرنے والا (اور ) دائمی علم رکھنے والا ہے.اللہ تعالیٰ اس آیت میں لوگوں کی مثال دے رہا ہے لیکن اس سے مراد مومن ہیں.ایسے ایمان لانے والے جو اللہ کے دین کی خاطر خرچ کرتے ہیں اور دین کامل اب اسلام ہی ہے جیسے کہ ہم سب کو معلوم ہی ہے.اور اس زمانے میں آنحضرت مے کی پیشگوئیوں کے مطابق مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت ہی حقیقت میں مومنین کی جماعت کہلانے کی حقدار ہے اور یہی مومنین کی جماعت ہے.اور اس لحاظ سے فی زمانہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والےلوگوں سے مراد آپ لوگ ہی ہیں جو
452 $2003 خطبات مسرور اس زمانے کے امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے بہترین مال خوشدلی سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ ایسے نیک نیت لوگوں کو خوشخبری دیتا ہے کہ اے لوگو! تم جو میری راہ میں خرچ کرتے ہو میں تمہیں بغیر اجر کے نہیں چھوڑوں گا.بلکہ طاقت رکھتا ہوں کہ تمہاری اس قربانی کوسات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ کر سکتا ہوں.اور یا درکھو کہ جیسے جیسے تم اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے اپنا دل کھولتے جاؤ گے اللہ تعالیٰ تمہیں وسعت بھی دیتا چلا جائے گا.تم اس دنیا میں بھی اس کے فضلوں کے وارث ٹھہرو گے اور یہ اجر صرف یہیں ٹھہر نہیں جائے گا بلکہ اگلے جہان میں بھی اجر پاؤ گے.اور پھر تمہاری نسلوں کو بھی اس کا اجر ملتا رہے گا.اب دیکھیں ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کی کشائش، مالی وسعت ان کے بزرگوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں ہے.یہ احساس ہمیں اپنے اندر ہمیشہ قائم رکھنا چاہئے ، اجاگر کرتے رہنا چاہئے اور اس لحاظ سے بھی بزرگوں کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں اور آئندہ نسلوں کو بھی یہ احساس دلانا چاہئے کہ بزرگوں کی قربانی کے نتیجہ میں ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ نے بہت سارے فضل فرمائے ہیں.حضرت امام راز کی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيْلِ اللہ کہتے ہیں کہ آیت مَنْ دَالَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضْعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً میں اللہ تعالیٰ نے مال کو بڑھا چڑھا کر واپس کرنے کا وعدہ فرمایا ہے.اور اس آیت میں اس بڑھا چڑھا کر دینے کی تفصیل بیان کی ہے.ان دونوں آیات کے درمیان اللہ تعالیٰ نے زندہ کرنے اور مارنے کی اپنی قدرت پر دلائل دئے ہیں.اگر یہ قدرت خداوندی نہ ہوتی تو خرچ کرنے کا حکم مستحکم نہ ہوتا.کیونکہ اگر جزاء سزا دینے والا کوئی وجود نہ ہوتا تو خرچ کرنا فضول ٹھہرتا.دوسرے لفظوں میں گویا اللہ تعالیٰ خرچ کرنے والے کو یہ کہتا ہے کہ تو جانتا ہے کہ میں نے تجھے پیدا کیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کیا اور تو میرے اجر اور ثواب دینے کی طاقت سے واقف ہے پس چاہئے کہ تیرا یہ علم تجھے مال خرچ کرنے کی ترغیب دے کیونکہ وہی یعنی خدا تھوڑے کا بہت زیادہ بدلہ دیتا ہے.اور یہاں اس بہت زیادہ کی مثال بیان کی ہے کہ جو ایک دانہ ہوتا ہے میں اس کے لئے سات بالیاں نکالتا ہوں اور ہر بالی میں سو (۱۰۰) دانے ہوتے ہیں تو گویا ایک سے سات سو دانے ہو جاتے ہیں.
453 $2003 خطبات مسرور پھر لکھتے ہیں کہ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيْلِ اللہ کہ وہ خدا کی راہ میں اپنے اموال کو خرچ کرتے ہیں میں سبیل اللہ ﷺ سے مراد دین ہے کہ خدا کے دین میں خرچ کرتے ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس بارہ میں لکھتے ہیں کہ : اگر تم دینی کاموں کے لئے اپنے اموال خرچ کرو گے تو جس طرح ایک دانہ سے اللہ تعالی سات سو دانے پیدا کر دیتا ہے اسی طرح وہ تمہارے اموال کو بھی بڑھائے گا.بلکہ اس سے بھی زیادہ ترقی عطا فرمائے گا.جس کی طرف ﴿ وَ اللهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَّشَآءُ میں اشارہ ہے.چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ ایسا ہی ہوا.حضرت ابو بکر نے بے شک بڑی قربانیاں کی تھیں مگر خدا تعالیٰ نے ان کو اپنے رسول کا پہلا خلیفہ بنا کر انہیں جس عظیم الشان انعام سے نوازا اُس کے مقابلہ میں اُن کی قربانیاں بھلا کیا حیثیت رکھتی تھیں.اسی طرح حضرت عمر نے بہت کچھ دیا مگر انہوں نے کتنا بڑا انعام پایا.حضرت عثمان نے بھی جو کچھ خرچ کیا اُس سے لاکھوں گنا زیادہ انہوں نے اسی دنیا میں پالیا.اسی طرح ہم فردا فردا صحابہ کا حال دیکھتے ہیں.تو وہاں بھی خدا تعالیٰ کا یہی سلوک نظر آتا ہے.حضرت عبدالرحمن بن عوف کو ہی دیکھ لو.لکھتے ہیں کہ ” جب وہ فوت ہوئے تو ان کے پاس تین کروڑ روپیہ جمع تھا.اس کے علاوہ اپنی زندگی میں وہ لاکھوں روپیہ خرچ کرتے رہے.اسی طرح صحابہ نے اپنے وطن کو چھوڑا تو ان کو بہتر وطن ملے.بہن بھائی چھوڑے تو اُن کو بہتر بہن بھائی ملے.اپنے ماں باپ کو چھوڑا.تو ماں باپ سے بہتر محبت کرنے والے رسول کریم مل مل گئے.غرض اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنے والا کبھی بھی جزائے نیک سے محروم نہیں رہا.(تفسیر کبیر جلد دوم صفحه ٦٠٤ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بارہ میں مزید لکھتے ہیں : وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِیم کہ کر بتایا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے انعام دینے میں بخل تو تب ہو جبکہ خدا تعالیٰ کے ہاں کسی چیز کی کمی ہو.مگر وہ تو بڑی وسعت والا اور بڑی فراخی والا ہے اور پھر وہ علیم بھی ہے.جانتا ہے کہ وہ شخص کس قدر انعام کا مستحق ہے.اگر کوئی شخص کروڑوں گنا انعام کا بھی مستحق ہو.تو اللہ تعالیٰ اسے یہ انعام دینے کی قدرت رکھتا ہے.دنیا میں ہم روزانہ یہ نظارہ دیکھتے ہیں که زمیندار زمین میں ایک دانہ ڈالتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے سات سو گنا بنا کر واپس دیتا ہے.پھر جو شخص
$2003 454 خطبات مسرور اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرے گا کیسے ممکن ہے کہ اس کا خرچ کیا ہوا مال ضائع ہو جائے.اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کئے ہوئے مال کا کم از کم سات سو گنا بدلہ ضرور ملتا ہے.اس سے زیادہ کی کوئی حد بندی نہیں.اگر انتہائی حد مقرر کر دی جاتی تو اللہ تعالیٰ کی ذات کو محدود ماننا پڑتا.جو خدا تعالیٰ میں ایک نقص ہوتا.اسی لئے فرمایا کہ تم خدا کی راہ میں ایک دانہ خرچ کرو گے تو کم از کم سات سو گنا بدلہ ملے گا.اور زیادہ کی کوئی انتہا نہیں اور نہ اُس کے انواع کی کوئی انتہا ہے.حضرت مسیح علیہ السلام نے تو انجیل میں صرف اتنا فرمایا تھا کہ اپنے لئے آسمان پر مال جمع کرو جہاں نہ کیڑا اخراب کرتا ہے نہ زنگ اور نہ وہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں“.(متی باب ٦ آیت ٢٠) لیکن قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر تم خدا تعالیٰ کے خزانے میں اپنا مال جمع کرو گے تو یہی نہیں کہ اسے کوئی پرائے گا نہیں بلکہ تمہیں کم از کم ایک کے بدلہ میں سات سو انعام ملیں گے.اور اس سے زیادہ کی کوئی حد بندی نہیں.پھر مسیح کہتے ہیں وہاں غلہ کو کوئی کیر انہیں کھا سکتا.مگر قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ صرف کیڑے سے ہی محفوظ نہیں رہتا بلکہ ایک سے سات سو گنا ہوکر واپس ملتا ہے.بے شک اللہ تعالیٰ کسی انسان کی مددکا محتاج نہیں مگر وہ اپنے بندوں پر رحم کرتے ہوئے اگر کسی کام کے کرنے کا انہیں موقع دیتا ہے تو اس لئے کہ وہ ان کے مدارج کو بلند کرنا چاہتا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الاقل فرماتے ہیں کہ: (تفسير كبير جلد دوم صفحه ٦٠٤-٦٠٥ خوب یا درکھو کہ انبیاء جو چندے مانگتے ہیں تو اپنے لئے نہیں بلکہ انہی چندہ دینے والوں کو کچھ دلانے کے لئے.اللہ کے حضور دلانے کی بہت سی راہیں ہیں ان میں سے یہ بھی ایک راہ ہے جس کا ذکر پہلے شروع سورة میں مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُوْنَ (بقرہ : ۴) سے کیا.پھر آتی الْمَالَ عَلَى حُبّه (بقره: ۱۷۸) میں.پھر اسی پارہ میں انْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنَكُمْ (بقرہ: ۲۵۵) سے.مگر اب کھول کر مسئلہ انفاق فی سبیل اللہ بیان کیا جاتا ہے.انجیل میں ایک فقرہ ہے کہ جو کوئی مانگے تو اسے دے.مگر دیکھو قرآن مجید نے اس مضمون کو پانچ رکوع میں ختم کیا ہے.پہلا سوال تو یہ ہے کہ کسی کو کیوں دے؟ سو اس کا بیان فرماتا ہے کہ اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے.خرچ کرنے والے کی ایک مثال تو یہ ہے کہ جیسے کوئی بیج زمین میں ڈالتا ہے مثل باجرے کے پھر اُس میں
خطبات مسرور کئی بالیاں لگتی ہیں.455 $2003 پھر آپ فرماتے ہیں: ﴿ وَاللَّهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَّشَاءُ بعض مقام پر ایک کے بدلہ میں دس اور بعض میں ایک کے بدلہ میں سات سو کا ذکر ہے.یہ ضرورت، اندازہ، وقت وموقع کے لحاظ سے فرق ہے.مثلاً ایک شخص ہے دریا کے کنارے پر.سردی کا موسم ہے.بارش ہو رہی ہے.ایسی حالت میں کسی کو گلاس بھر کر دے دے تو کونسی بڑی بات ہے لیکن اگر ایک شخص کسی کو جبکہ وہ جنگل میں دو پہر کے وقت تڑپ رہا ہے پیاس کی وجہ سے جاں بلب ہو، نحرقہ میں گرفتار، پانی دے دے تو وہ عظیم الشان نیکی ہے.پس اس قسم کے فرق کے لحاظ سے اجروں میں فرق ہے.پھر آپ ایک مثال بیان کرتے ہیں حضرت رابعہ بصری کی کہ ایک دفعہ گھر میں بیٹھی ہوئی تھیں تو میں مہمان آگئے اور گھر میں صرف دور وٹیاں تھیں.انہوں نے ملازمہ سے کہا کہ یہ دوروٹیاں بھی جا کر کسی کو دے آؤ.ملازمہ بڑی پریشان اور اس نے خیال کیا کہ یہ نیک لوگ بھی عجیب بیوقوف ہوتے ہیں.گھر میں مہمان آئے ہوئے ہیں اور جو تھوڑی بہت روٹی ہے یہ کہتی ہیں کہ غریبوں میں بانٹ آؤ.تو تھوڑی دیر کے بعد باہر سے آواز آئی، ایک عورت آئی کسی امیر عورت نے بھیجا تھا، اٹھارہ روٹیاں لے کر آئی.حضرت رابعہ بصری نے واپس کر دیں کہ یہ میری نہیں ہیں.اس ملازمہ نے پھر کہا کہ آپ رکھ لیں، روٹی اللہ تعالیٰ نے بھیج دی ہے.فرمایا نہیں یہ میری نہیں ہیں.تھوڑی دیر بعد ہمسائی امیر عورت تھی اس کی آواز آئی کہ یہ تم کہاں چلی گئی ہو.رابعہ بصری کے ہاں تو ہیں روٹیاں لے کر جانی تھیں.وہ کہتی ہیں کہ میں نے جو دو روٹیاں بھیجی تھیں اللہ تعالیٰ سے سودا کیا تھا کہ وہ دس گنا کر کے مجھے واپس بھیجے گا.تو دو کے بدلہ میں میں آنی چاہئیں تھیں یہ اٹھارہ میری تھیں نہیں.تو حضرت خلیفہ اول فرماتے ہیں کہ یہ سچ ہے اور مجھے بھی اس کا تجربہ ہے اور میں نے کئی دفعہ آزمایا ہے.لیکن ساتھ آپ یہ بھی فرمارہے ہیں کہ خدا کا امتحان نہ لو.کیونکہ خدا کو تمہارے امتحانوں کی پرواہ نہیں ہے.پھر کہتے ہیں کہ یہ تو سوال ہو گیا کہ کیوں دے.اب بتا تا ہوں کہ کس طرح دے.اول تو یہ کہ محض ابتغاء مرضات اللہ دے، احسان نہ جتائے.پہلی بات یہ تھی کہ کیوں دے.اس لئے دے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر دینا ضروری ہے.پھر کس طرح دو.اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ، اللہ تعالیٰ کے لئے دونہ کہ احسان جتانے کے لئے.
خطبات مسرور 456 حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: $2003 ”خدا کی راہ میں جو لوگ مال خرچ کرتے ہیں ان کے مالوں میں خدا اس طرح برکت دیتا ہے کہ جیسے ایک دانہ جب بویا جاتا ہے تو گو وہ ایک ہی ہوتا ہے مگر خدا اُس میں سے سات خوشے نکال سکتا ہے اور ہر ایک خوشہ میں سو (۱۰۰) دانے پیدا کر سکتا ہے.یعنی اصل چیز سے زیادہ کر دینا یہ خدا کی قدرت میں داخل ہے اور در حقیقت ہم تمام لوگ خدا کی اسی قدرت سے ہی زندہ ہیں اور اگر خدا اپنی طرف سے کسی چیز کو زیادہ کرنے پر قادر نہ ہوتا تو تمام دنیا ہلاک ہو جاتی اور ایک جاندار بھی روئے زمین پر باقی نہ رہتا“.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : (چشمه معرفت صفحه (١٦٢ تعبیر الرؤیا میں مال کلیجہ ہوتا ہے.اسی لئے خیرات کرنا جان دینا ہوتا ہے ( یعنی مالی قربانی کی بھی بہت اہمیت ہے).انسان خیرات کرتے وقت کس قدر صدق و ثبات دکھاتا ہے.اور اصل بات تو یہ ہے کہ صرف قیل و قال سے کچھ نہیں بنتا جب تک عملی رنگ میں لا کر کسی بات کو نہ دکھایا جاوے.صدقہ اس کو اسی لئے کہتے ہیں کہ صادقوں پر نشان کر دیتا ہے.(الحكم جلد ٢ نمبر ٢ مورخه ٦ / مارچ ۱۹۸۹ ء صفحه (۲) حدیث میں آیا ہے.حضرت خریم بن فاتک بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: "جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں کچھ خرچ کرتا ہے اسے اس کے بدلہ میں سات سو گنا ثواب ملتا ہے.(ترمذی کتاب فضائل الجهاد باب فضل النفقة في سبيل الله.پھر ایک حدیث ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں سب سنیوں سے بڑے سخی کے بارہ میں نہ بتاؤں؟ اللہ تمام سخاوت کرنے والوں سے بڑھ کر سخاوت کرنے والا ہے.پھر میں تمام انسانوں میں سے ( یعنی اپنے بارہ میں فرما ر ہے ہیں) سب سے بڑا سنی ہوں.(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد از علامه هیثمی جلد ۹ صفحه ۱۳ بیروت) صل الله سعد بن معاذ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نماز روزہ اور ذکر کرنا اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کئے گئے مال کو سات سو گنا بڑھا دیتا ہے.پس یہ خوشخبری ہے ان
457 $2003 خطبات مسرور لوگوں کے لئے جنہوں نے مالی قربانیاں دیں کہ ان دنوں میں ، یہ روزوں کا مہینہ بھی ہے اور روزوں کے ساتھ ساتھ ذکر الہی یا نمازوں کی طرف بھی توجہ رہتی ہے.تو اگر اس طرف پوری توجہ ہو تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ جو تمہاری مالی قربانیاں ہیں ان کو میں سات سو گنا بڑھا دوں گا.ایک روایت ہے حضرت ابو ہریرہ سے کہ ایک آدمی آنحضرت ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول ! ثواب کے لحاظ سے سب سے بڑا صدقہ کیا ہے؟.آپ نے فرمایا: سب سے بڑا صدقہ یہ ہے کہ تو اس حالت میں صدقہ کرے کہ تو تندرست ہو.اور مال کی ضرورت اور حرص رکھتا ہو، غربت سے ڈرتا ہوں اور خوشحالی چاہتا ہو.صدقہ و خیرات میں دیر نہ کر کہیں ایسا نہ ہو کہ تیری جان حلق تک پہنچ جائے تو تو کہے کہ فلاں کو اتنا دے دو اور فلاں کو اتنا دے دو.فرمایا کہ وہ مال تو اب تیرا رہاہی نہیں وہ تو فلاں کا ہو ہی چکا ہے.اس لئے صحت کی حالت میں چندوں اور صدقات کی طرف توجہ دینی چاہئے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے ایک قصہ بیان کیا کہ ایک آدمی بے آب و گیاہ جنگل میں جا رہا تھا.بادل گھرے ہوئے تھے.اُس نے بادل میں سے آواز سنی کے بادل ! فلاں نیک انسان کے باغ کو سیراب کر.وہ بادل اس طرف کو ہٹ گیا.پتھریلی سطح مرتفع نیچے چٹا نہیں تھیں جہاں، وہاں پر بارش برسنی شروع ہوگئی.پانی ایک چھوٹے سے نالے میں بہنا شروع ہو گیا..وہ شخص بھی اس نالے کے کنارے کنارے چل پڑا.کیا دیکھتا ہے کہ یہ نالہ ایک باغ میں جا داخل ہوا ہے اور باغ کا مالک کدال سے پانی ادھر ادھر مختلف کیاریوں میں لگا رہا ہے.اس آدمی نے باغ کے مالک سے پوچھا: اے اللہ کے بندے ! تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے وہی نام بتایا جو اس مسافر نے اس بادل میں سے سنا تھا.پھر باغ کے مالک نے اس مسافر سے پوچھا.اے اللہ کے بندے؟ تم بتاؤ کہ تمہیں میرا نام پوچھنے کی کیا ضرورت پیش آگئی؟ اس نے کہا کہ میں نے اس بادل سے جس بادل کا تم پانی لگا رہے ہو آواز سنی تھی کہ اے بادل ! فلاں آدمی کے باغ کو سیراب کر.تو تم نے کون سا ایسا نیک عمل کیا ہے جس کا بدلہ تم کو مل رہا ہے.باغ کے مالک نے کہا کہ اگر آپ سننا چاہتے ہیں تو سنیں.میرا طریقہ یہ ہے کہ اس باغ میں سے جو پیداوار ہوتی ہے اس کا ایک تہائی خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہوں.اور ایک تہائی اپنے اور اہل وعیال کے گزارہ کے لئے
458 $2003 خطبات مسرور رکھتا ہوں.اور باقی ایک تہائی دوبارہ ان کھیتوں میں بیچ کے طور پر استعمال کرتا ہوں.یہ ان لوگوں کے لئے بھی سبق ہے جو کاروباری ہوں یا ملازم پیشہ ہوں.تو اس آمد میں سے جتنا بھی چندہ آپ نے دینا ہوتا ہے نکال کے ہر مہینہ یا ہر کاروبار کے منافع کے وقت علیحدہ کر لیا کریں تو بڑی سہولت رہتی ہے اور سال کے آخر میں پھر بوجھ نہیں پڑتا.ایک حدیث ہے حضرت نبی کریم ﷺ نے ایک دفعہ اپنی نسبتی ہمشیرہ حضرت اسمامہ بنت ابو بکر کو نصیحت فرمائی کہ اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن گن کر ہی دے گا.اپنے روپوؤں کی تھیلی کا منہ ( بخل کی راہ سے ) بند کر کے نہ بیٹھ جاؤ یعنی کنجوسی سے دبا کر نہ رکھو.ورنہ پھر اس کا منہ بند ہی رکھا جائے گا.کیونکہ اگر روپیہ نکلے گا نہیں تو آئے گا بھی نہیں.اور جتنی طاقت ہے دل کھول کر خرچ کیا کرو.(بخارى كتاب الهبة وفضلها باب هبة المرأة لغير......حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک واقعہ کہ ابتدائی ایام میں ، جو شروع کے دن تھے، چندے وغیرہ مقرر نہ ہوئے تھے اور جماعت کی تعداد بھی تھوڑی تھی.ایک دفعہ کثیر تعداد میں مہمان آگئے.اس وقت خرچ کی دقت تھی.حضرت میر ناصر نواب صاحب نے میرے روبرو حضرت اقدس علیہ السلام سے خرچ کی کمی کا ذکر کیا.اور یہ بھی کہا کہ مہمان زیادہ آگئے ہیں.آپ گھر گئے ، حضرت ام المومنین کا زیور لیا اور میر صاحب کو دیا کہ اس کو فروخت کر کے گزارہ چلائیں.پھر دوسرے تیسرے دن، وہ زیور کی جو آمد ہوئی تھی، روپیہ آیا تھا، ختم ہو گیا.میر صاحب پھر حاضر ہوئے اور اخراجات کی زیادتی کے بارہ میں ذکر کیا.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم نے مسنون طریقے پر ظاہر اسباب کی رعایت کرلی ہے اب وہ خودا انتظام کرے گا.یعنی جومسنون طریقہ تھا، جو ہمارے پاس تھا وہ تو ہم نے دے دیا ہے، خرچ کر لیا ہے اب خدا تعالیٰ خود انتظام کرے گا جس کے مہمان ہیں.کہتے ہیں کہ دوسرے ہی دن اس قدر روپیہ بذریعہ منی آرڈر پہنچا کہ سینکڑوں تک نوبت پہنچ گئی.اس زمانہ میں سینکڑوں بھی بہت قیمت رکھنے والے تھے.پھر آپ نے تو کل پر تقریر فرمائی، فرمایا: جبکہ دنیا دار کو اپنے صندوق میں رکھے ہوئے روپے پر اعتبار ہوتا ہے کہ حسب ضرورت
459 $2003 خطبات مسرور جس قدر چاہے گا صندوق کھول کر نکال لے گا.ایسا ہی متوکل کو خدا تعالیٰ پر یقین اور بھروسہ ہوتا ہے کہ جس وقت چاہے گا نکال لے گا.اور اللہ کا ایسا ہی سلوک ہوتا ہے.تو دیکھیں اس سے ہمیں سبق مل رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں کی ضرورتیں پوری کر لیتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہماری بہتری کی خاطر ، ہماری بھلائی کے لئے ، ہمیں بھی ان خوش قسمتوں میں شامل کر لیا ہے جو ان نیک کاموں میں شامل ہوتے ہیں اور ثواب حاصل کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت حکیم نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کے بارہ میں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اگر میں اجازت دیتا تو وہ سب کچھ اس راہ میں فدا کر کے اپنی روحانی رفاقت کی طرح جسمانی رفاقت اور ہر دم صحبت میں رہنے کا حق ادا کرتے.ان کے بعض خطوط کی چند سطر میں بطور نمونہ ناظرین کو دکھلاتا ہوں.لکھتے ہیں : میں آپ کی راہ میں قربان ہوں.میرا جو کچھ ہے میرا نہیں آپ کا ہے.حضرت پیر ومرشد میں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا.اگر خریدار براہین کے توقف طبع کتاب سے مضطرب ہوں تو مجھے اجازت فرمائیے کہ یہ ادنی خدمت بجالا ؤں کہ ان کی تمام قیمت ادا کردہ اپنے پاس سے واپس کر دوں.(فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه (٣٥-٣٦) یعنی جو خریدار ہیں براہین احمدیہ کے اس وقت اگر وہ ادا ئیگی نہیں کر پار ہے تو مجھے اجازت دیں میں وہ ساری ادا ئیگی اپنی طرف سے کر دیتا ہوں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : دمیں جو بار بار تاکید کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو.یہ خدا تعالیٰ کے حکم سے ہے کیونکہ اسلام اس وقت تنزل کی حالت میں ہے.بیرونی اور اندرونی کمزوریوں کو دیکھ کر طبیعت بے قرار ہو جاتی ہے اور اسلام دوسرے مخالف مذاہب کا شکار بن رہا ہے.جب یہ حالت ہو گئی ہے تو کیا اب اسلام کی ترقی کے لئے ہم قدم نہ اٹھائیں؟ خدا تعالیٰ نے اسی غرض کے لئے تو اس سلسلہ کو
460 $2003 خطبات مسرور قائم کیا ہے.پس اس کی ترقی کے لئے سعی کرنا یہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور منشاء کی تعمیل ہے.اس لئے اس راہ میں جو کچھ بھی خرچ کرو گے وہ سمیع و بصیر ہے.یہ وعدے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے دے گا میں اس کو چند گنا برکت دوں گا.دنیا ہی میں اسے بہت کچھ ملے گا اور مرنے کے بعد آخرت کی جزا بھی دیکھ لے گا کہ کس قدر آرام میسر آتا ہے.غرض اس وقت میں اس امر کی طرف تم سب کو توجہ دلاتا ہوں کہ اسلام کی ترقی کے لئے اپنے مالوں کو خرچ کرو.(الحكم ٣١ جولائی ١٩٠٦ء ، ملفوظات جلد نمبر ٨ صفحه ٣٩٣ - ٣٩٤) اب میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرنے سے پہلے گزشتہ سال میں کیا کچھ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش ہوئی بتانے سے پہلے مختصر ابتا تا ہوں کہ یہ سال جیسا کہ ہر ایک کو پتہ ہے ۱۳۱ را کتوبر کو ختم ہوتا ہے.اس وقت تک جو اعدادو شمار ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور تحریک جدید کے مالی نظام میں جماعت نے مجموعی طور پر جو قربانی کی ہے وہ ۲۸لاکھ ۲ ہزار پاؤنڈ کی ادائیگی ہے، الحمد للہ.اور یہ ادا ئیگی گزشتہ سال سے تین لاکھ ساٹھ ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے.الحمدلله ثم الحمدلله گزشتہ سال کی جو ادا ئیگی تھی اس میں اتنا بڑا اجمپ تھا کہ خیال تھا کہ شاید اس سال اس میں زیادہ وصولی نہ ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے جو ہمیشہ اپنے فضلوں سے جماعت کو نوازتا ہے.اس دفعہ بھی ن گزشتہ سال سے بڑھ کر زائد ادا ئیگی کے سامان پیدا فرمائے ہیں.الحمد للہ.اور اب چونکہ بعض جماعتوں کا ان کی قربانیوں کے لحاظ سے نمبر وار تفصیل بھی بیان کی جاتی ہے وہ میں بیان کروں گا کیونکہ بہت ساری جگہوں پر امراء اور سیکرٹریان تحریک جدید بڑی بے قراری کے ساتھ انتظار کر رہے ہوں گے کہ پتہ لگے کہ کیا نتائج سامنے آئے ہیں.تو اس سال بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان کی جماعت نے اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھا ہے اور پوری دنیا کی جماعتوں میں وہی اول رہی ہے اور انہی کو یہ اعزاز ملا ہے.پاکستان ایسا ملک ہے جہاں مجموعی وصولی کے لحاظ سے بھی اور تحریک جدید کے مجاہدین کے اعتبار سے بھی سب سے آگے ہے.باوجود اس کے کہ کچھ عرصہ سے وکیل المال صاحب پریشان تھے کہ پتہ نہیں کیا ہوگا اور بڑی فیکسیں آ رہی تھیں.لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ہے اور ان کی جو بھی خواہش تھی ، جو ٹارگٹ تھا وہ پورا ہو گیا ہے الحمد للہ.
خطبات مسرور 461 $2003 اور اس کے بعد امریکہ کا نمبر آتا ہے.وہاں بھی امیر صاحب کا خیال تھا کہ اقتصادی لحاظ سے حالات متاثر ہوئے ہیں.پتہ نہیں وہ قربانی جو ان کے ذہن میں ہے اتنا معیار حاصل ہو سکے یا نہ.لیکن اس سال بھی امریکہ گزشتہ سال کی نسبت نمایاں ادا ئیگی کر کے پاکستان سے باہر کے ملکوں میں دنیا بھر کی جماعتوں میں اول ہے.اور یہ بھی بتاتا چلوں کہ امریکہ میں جو آٹھ فیصد ادائیگی ہے اس کی شرح بھی تمام دنیا کی جماعتوں سے زیادہ رہی ہے.اور اس کے لحاظ سے جرمنی کی جماعت تیسرے نمبر ہے.اور جرمنی کی یہ خاصیت رہی کہ اس جماعت کے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۹۵ فیصد احباب جماعت تحریک جدید میں شامل ہیں.ماشاء اللہ.اب مجموعی وصولی کے لحاظ سے پہلی دس جماعتوں کی ترتیب کیا ہے وہ بتادیتا ہوں.نمبر ایک پاکستان، نمبر دو امریکہ نمبر تین جرمنی نمبر چار برطانیہ، نمبر پانچ کینیڈا، نمبر چھ بھارت، نمبر سات ماریشس، نمبر آٹھ سویٹزرلینڈ نمبر 9 آسٹریلیا اور نمبر دس بلجیم.برطانیہ نمبر ۴ پہ الحمدللہ بڑا اچھا ہے یہ بھی کافی بہتری ہے جو میں آگے بیان کروں گا.مڈل ایسٹ کی جماعتوں میں سعودی عرب ، ابوظمی اور افریقہ میں نائیجیر یا قابل ذکر ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنے پیار کی نگاہ رکھے اور فضلوں سے نوازتار رہے.اب تحریک جدید کے مجاہدین کی تعداد کے بارہ میں بتا دوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی تعداد تین لاکھ چوراسی ہزار پانچ سو (۳۸۴۵۰۰) سے بڑھ گئی ہے.اور گزشتہ سال کے مقابلہ پر امسال اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان مجاہدین میں تمہیں ہزار چارسو ( ۳۰۴۰۰) افراد کا اضافہ ہوا ہے.اور اس اضافہ میں بھی پہلے نمبر پر ہندوستان، پھر پاکستان، برطانیہ اور کینیڈا کی جماعتیں ہیں.برطانیہ میں گزشتہ سال کی نسبت ۱۹۱۰ نئے مجاہدین تحریک جدید میں شامل کئے ہیں جو ایک بڑا اچھا حوصلہ افزا قدم ہے.اور ان کے اضافہ بھی ہوا ہے اس لحاظ سے کہ بیت الفتوح میں بھی انہوں نے خرچ کیا اور جماعتوں میں مساجد بن رہی ہیں وہاں بھی اخراجات ہو رہے ہیں.اس لحاظ سے بھی برطانیہ کا قدم ماشاء اللہ ترقی کی طرف ہے.پھر کینیڈا اس لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ تجنید کے لحاظ سے دیے فیصد احباب جماعت تحریک جدید میں شامل ہو چکے ہیں.تو اوسط فی کس کے حساب سے جو پانچ جماعتیں ہیں ان کا بتادوں کہ
462 $2003 خطبات مسرور چندہ دینے میں جو معیاری ہیں.نمبر ایک امریکہ نمبر دوسویٹزرلینڈ ،نمبر تین برطانیہ،نمبر چار بیلجیئم اور نمبر پانچ آسٹریلیا.پاکستان کے روایتاً اضلاع کے نام بھی پڑھے جاتے ہیں جنہوں نے مالی قربانی میں نمایاں حصہ لیا ہوتا ہے.ویسے بھی اس کا اپنا ایک مقام ہے.تو پاکستان میں اول لاہور رہا ہے، دوئم ربوہ اور سوئم کراچی.اس کے علاوہ راولپنڈی، اسلام آباد، ملتان، میر پور خاص، مردان، شیخوپورہ، جھنگ، بہاولنگر ، ڈیرہ غازیخان، وہاڑی ، واہ کینٹ، کنری، گجرات، ایبٹ آباد، میانوالی ، راجن پور، مظفر گڑھ، بشیر آبادسندھ اور چک نمبر ۶۶ امراد کی جماعتیں ہیں.یہ جماعتوں کا تھا ضلعوں کا نہیں تھا.اور ضلعی سطح پر قربانی کرنے والے جو ہیں وہ ہیں سیالکوٹ، فیصل آباد، گوجرانوالہ، نارووال، جہلم، میر پور خاص، منڈی بہاؤالدین، میر پور آزاد کشمیر، خانیوال، بدین اور ٹو بہ ٹیک سنگھ.اب یہ اعداد وشمار تو سامنے آگئے.اب اس کے ساتھ میں تحریک جدید کے دفتر اول کے سال ستر (۷۰) اور دفتر دوم کے سال ساٹھ (۶۰) اور دفتر سوم کے انتالیسویں سال اور دفتر چہارم کے انیسویں سال کا اعلان کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ آئندہ بھی ان مالی قربانی کرنے والوں کو کشائش عطا فرمائے ، مالی وسعت عطا فرمائے ، ان کو پہلے سے بڑھ کر قربانیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جماعتوں کو بھی توفیق دے کہ زیادہ سے زیادہ افراد کو اس میں شامل کریں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو تحریک جدید کے بانی تھے فرماتے ہیں: یا درکھو تحریک جدید خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اس لئے وہ اس کو ضرور ترقی دے گا اور اس کی راہ میں جو روکیں ہوں گی وہ ان کو دور کر دے گا.اور اگر زمین سے اس کے سامان پیدا نہ ہوں گے تو آسمان سے اس کو برکت دے گا.پس مبارک ہیں وہ جو بڑھ چڑھ کر اس تحریک میں حصہ لیتے ہیں.کیونکہ ان کا نام ادب و احترام سے اسلام کی تاریخ میں زندہ رہے گا.اور خدا تعالیٰ کے دربار میں یہ لوگ خاص عزت کا مقام پائیں گے کیونکہ انہوں نے خود تکلیف اٹھا کر دین کی مضبوطی کے لئے کوشش کی اور ان کی اولادوں کا خدا تعالیٰ خود متکفل ہو گا اور آسمانی نوران کے سینوں سے اہل کر نکلتا رہے گا اور دنیا کو روشن کرتا رہے گا.
463 $2003 خطبات مسرور پھر آپ فرماتے ہیں: پس ہر احمدی مرد اور ہر احمدی بالغ عورت کا فرض ہے کہ اس تحریک میں شامل ہو.بلکہ بچوں میں بھی تحریک کی جائے اور رسمی طور پر انہیں اپنے ساتھ شامل کیا جائے.مثلاً اپنے وعدے کے ساتھ ان کی طرف سے کچھ حصہ ڈال دے چاہے ایک پیسہ ہو، دو پیسے ہوں یا ایک آنہ ہو ( یہ وہاں کے سکے ہیں ) اس سے ان کے دلوں میں تحریک ہوگی.بلکہ بجائے بچے کی طرف سے خود وعدہ لکھوانے کے، اسے کہو کہ خود وعدہ لکھوائے.اس سے اس کے اندر یہ احساس پیدا ہو گا کہ میں چندہ دے رہا ہوں.بعض لوگ بچوں کی طرف سے چندہ لکھوا دیتے ہیں لیکن انہیں بتاتے نہیں.بچے کی عادت ہوتی ہے کہ وہ سوال کرتا ہے.جب تم اسے کہو گے کہ جاؤ اپنی طرف سے چندہ لکھواؤ تو وہ پوچھے گا کہ چندہ کیا ہوتا ہے.اور جب تم چندہ کی تشریح کرو گے.وہ پھر پوچھے گا کہ چندہ کیوں ہے تو تم اس کے سامنے اسلام کی مشکلات اور خوبیاں بیان کرو گے.بچے کے اندر اللہ تعالیٰ نے یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سوال کرتا ہے.اور اگر تم ایسا کرو گے تو اس کے اندر ایک نئی روح پیدا ہوگی اور بچپن سے ان کے اندر اسلام کی خدمت کی رغبت پیدا ہوگی.اپنی اولا دکو نصیحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فر ماتے ہیں: ” جب تک دنیا کے چپہ چپہ میں اسلام نہ پھیل جائے اور دنیا کے تمام لوگ اسلام قبول نہ کر لیں اس وقت تک اسلام کی تبلیغ میں وہ کبھی کو تاہی سے کام نہ لیں.خصوصاً اپنی اولا دکو میری یہ وصیت ہے کہ وہ قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھیں اور اپنی اولا د در اولاد کونصیحت کرتے چلے جائیں کہ انہوں نے اسلام کی تبلیغ کو بھی نہیں چھوڑنا اور مرتے دم تک اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھنا ہے.“ الفضل ۱۷ فروری ١٩٦٠ء صفحه ۲ بحواله تاریخ احمدیت جلد ٨ صفحه ١٥٣ - ١٥٤) حضرت اقدس مسیح موعو علیہ السلام فرماتے ہیں: میرے پیارے دوستو ! میں آپ کو یقین دلا تا ہوں کہ مجھے خدائے تعالیٰ نے سچا جوش آپ لوگوں کی ہمدردی کے لئے بخشا ہے اور ایک سچی معرفت آپ صاحبوں کی زیادت ایمان و عرفان کے لئے مجھے عطا کی گئی ہے اس معرفت کی آپ کو اور آپ کی ذریت کو نہایت ضرورت ہے.سو میں اس لئے مستعد کھڑا ہوں کہ آپ لوگ اپنے اموال طیبہ سے ( یعنی اپنے پاکیزہ اموال سے ) اپنے دینی مہمات کے لئے مدد دیں اور ہر یک شخص جہاں تک خدائے تعالیٰ نے اس کو وسعت و طاقت و مقدرت دی ہے اس راہ میں دریغ نہ کرے اور اللہ اور
464 $2003 خطبات مسرور رسول سے اپنے اموال کو مقدم نہ سمجھے اور پھر میں جہاں تک میرے امکان میں ہے تالیفات کے ذریعہ سے اُن علوم اور برکات کو ایشیا اور یورپ کے ملکوں میں پھیلاؤں جو خدا تعالے کی پاک روح نے مجھے دی ہیں.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۱۶) اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے اور ہمیشہ ہماری توفیق کو بڑھاتا رہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس مشن کی خاطر ہر قربانی کرنے کے لئے تیار رہیں اور اپنی نسلوں میں بھی یہ قربانی کا جذبہ پیدا کرنے والے ہوں.
$2003 465 30 خطبات مس لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا ۱۴/ نومبر ۲۰۰۳ء بمطابق ۱۴ر نبوت ۱۳۸۲ هجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن رمضان المبارک کے آخری عشرہ اور لیلۃ القدر کی اہمیت وفضیلت کا پر معارف بیان.رمضان کے آغاز میں ہی تمام تر عبادات کی طرف توجہ کی ضرورت ہے.قیام لیل یعنی تہجد کی اہمیت و فرضیت......استغفار اور تو به صلى الله لیلتہ القدر کی دعائیں اور نبی اکرم ﷺ کے کامل بروز کی بعثت.
خطبات مس $2003 466 تشھد وتعوذ کے بعد درج ذیل آیت قرآنیہ تلاوت فرمائی إِنَّا أَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ.وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ.لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ.تَنَزَّلُ الْمَلَئِكَةُ وَالرُّوْحُ فِيْهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ سَلْمٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ﴾ (سورة القدر) اس کا ترجمہ یہ ہے.اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنے والا ، بن مانگے دینے والا ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.یقیناً ہم نے اسے قدر کی رات میں اتارا ہے.اور تجھے کیا سمجھائے کہ قدر کی رات کیا ہے.قدر کی رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے.بکثرت نازل ہوتے ہیں اُس میں فرشتے اور روح القدس اپنے رب کے حکم سے.ہر معاملہ میں.سلام ہے.یہ (سلسلہ ) طلوع فجر تک جاری رہتا ہے.انشاء اللہ تعالی کل سے رمضان کا آخری عشرہ شروع ہو جائے گا.دنیا کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک احمدی دنیا میں جن کو توفیق مل رہی ہے اس عشرہ میں اعتکاف بیٹھیں گے، دعاؤں کی توفیق ملے گی.اللہ تعالیٰ ان کو مقبول دعاؤں کی توفیق دے.جو اعتکاف نہیں بیٹھ رہے وہ اپنے گھروں میں اپنی راتوں کو زندہ کرنے والے ہوں گے انشاء اللہ.یہ سورۃ جومیں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے اس آخری عشرہ میں دعاؤں کی طرف توجہ دلانے کے لئے ایک ایسی رات کا بھی ذکر کیا ہے جو اگر میسر آجائے تو بڑا ہی خوش قسمت ہے وہ شخص جس کو یہ رات مل گئی.کیونکہ اس رات میں جو دعائیں بھی مانگی جائیں گی وہ قبولیت کا درجہ پائیں گے.پھر اس کے اور بھی وسیع معانی اور مضامین ہیں.اس میں قرآن کریم نازل ہوا ، جو شریعت کی آخری اور مکمل کتاب ہے.جس سے
467 $2003 خطبات مسرور یہی مراد ہے کہ ایک لمبے تاریک زمانے کے بعد ایک ایسا نبی مبعوث ہوا جس پر اللہ تعالیٰ نے آخری شرعی کتاب نازل فرمائی اور دین کامل کیا.اور اپنی تمام تر نعمتیں اس نبی کو جسے خاتم الانبیاء پھہرایا عطا فرمائیں.اور یہ خوشخبری بھی اس کے ماننے والوں کو دے دی کہ قیامت تک اس نبی کی شریعت ہی ہدایت کا راستہ دکھانے کے لئے جاری رہے گی.اس دنیا میں کوئی نبی خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی نئی شریعت لے کر مبعوث نہیں ہوگا.ہاں زمانے کے اثر کے تحت جب دین میں بگاڑ پیدا ہوگا تو مجددین کا سلسلہ چلتا رہے گا جو خاتم النبیین کی شریعت کو، اس کی صحیح تعلیم کو مسلمانوں میں رائج کرتے رہیں گے.اور پھر آپ ﷺ نے یہ پیشگوئی بھی فرمائی کہ ایک لمبے عرصہ کے بعد امام مہدی اور مسیح موعود علیہ السلام کا ظہور بھی ہوگا.تو بہر حال اس سورۃ میں مختلف مضامین چھپے ہوئے ہیں جن کو اب میں مفسرین اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالوں اور احادیث سے کسی حد تک واضح کرنے کی کوشش کروں گا.سب سے پہلے یہ لیلۃ القدر کی بات چل رہی ہے.اس کے متعلق معلوم ہو کہ کب آتی ہے یہ رات ، اور کس طرح پتہ چلے کہ یہ رات میسر آ گئی ہے.اس کے بارہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ : کیا کوئی ایسی علامت ہے جس سے معلوم ہو سکے کہ فلاں رات اس رمضان میں لیلتہ القدر تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بعض احادیث میں یہ آتا ہے کہ کچھ بھی چمکتی ہے، ہوا ہوتی ہے اور ترقیح ہوتا ہے، ایک نور آسمان کی طرف جاتا یا آتا نظر آتا ہے.مگر اوّل الذکر علامات ضروری نہیں.گواکثر ایسا تجربہ کیا گیا ہے کہ ایسا ہوتا ہے اور آخری علامت نور دیکھنے کی صلحاء کے تجربہ میں آئی ہے.یہ ایک کشفی نظارہ ہے، ظاہر علامت نہیں جسے ہر ایک شخص دیکھ سکے.خود میں نے بھی اس کا تجربہ کیا ہے لیکن جو کچھ میں نے دیکھا ہے دوسروں نے نہیں دیکھا.اصل طریقہ یہی ہے کہ مومن اللہ تعالیٰ سے سارے رمضان میں دعائیں کرتا رہے اور اخلاص سے روزے رکھے، پھر اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی رنگ میں اس پرلیلۃ القدر کا اظہار کر دیتا ہے“.(تفسير كبير جلد نهم صفحه ۳۲۹) حدیث میں آتا ہے.حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور یے
468 $2003 خطبات مسرور فرمایا کہ جس نے ماہ رمضان کے شروع سے آخر تک تمام نمازیں باجماعت ادا کیں تو اس نے لیلۃ القدر کا بہت بڑا حصہ پالیا.گویا صرف آخری دنوں میں تلاش نہ کریں بلکہ سارے رمضان میں پوری عبادات بجالائیں.پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رمضان کا مہینہ شروع ہو گیا ہے جو ایک بابرکت مہینہ ہے.خدا تعالیٰ نے اس کے روزے رکھنا تم پر فرض کئے ہیں.اس میں جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں اور شیطان جکڑ دئے جاتے ہیں.اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے.جو اُس کی خیر سے محروم کیا گیا وہ محروم کر دیا گیا.( مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۴۲۵) تو ایک بات تو یہ واضح ہوئی ان حدیثوں سے کہ یہی نہیں ہے کہ سارا رمضان تو نہ روزوں کی طرف توجہ دی، نہ قرآن پڑھنے کی طرف توجہ ہوئی، نہ نمازوں کے قیام کی طرف توجہ ہوئی ، اور آخری عشرہ شروع ہوا تو ان سب عبادات کی طرف توجہ پیدا ہوگئی.نہیں.بلکہ رمضان کے شروع سے ہی ان عبادات کی طرف توجہ کی ضرورت ہے.جو برائیاں پائی جاتی ہیں ان کو چھوڑنے کی طرف توجہ، بھائی بہنوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دیں، میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دیں ، ساس بہو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دیں.تو شروع رمضان سے ہی حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے کی طرف توجہ ہو تو یہ نیکیاں بجالائیں گے تو تب ہی جہنم کے دروازے بند ہوں گے اور جنت کے دروازے کھلے ہوں گے نہیں تو گواللہ تعالیٰ نے تو جہنم کے دروازے بند کر دئے لیکن ان نیکیوں کو نہ کرنے سے زبردستی یہ برائیاں کر کے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد ادانہ کر کے دھکے سے جہنم کے دروازے کھولنے کی کوشش کی جارہی ہوگی.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس سے بچائے.تو یہ حقوق العباد اور حقوق اللہ ادا کریں گے جن کا ذکر دوسری حدیثوں میں بھی آتا ہے تو پھر ان آخری راتوں کی برکات سے بھی فائدہ اٹھائیں گے.کیونکہ سرسری عبادات سے یا عارضی طور پہ آخری دس دن کی عبادات سے یہ اعلیٰ معیار جو ہیں وہ حاصل نہیں ہو سکتے.بلکہ آنحضرت کے اسوہ حسنہ کو بھی سامنے رکھنا ہوگا.
خطبات مسرور 469 $2003 حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آخری عشرہ میں آنحضرت یہ عبادت میں اتنی کوشش فرماتے جو اس کے علاوہ دیکھنے میں نہ آتی.(صحیح مسلم، كتاب الاعتكاف باب االجتهاد في العشر الاواخر.......عام حالات میں بھی آنحضرت ﷺ کی عبادت کی مثالیں ایسی ہیں کہ کوئی عام آدمی اتنی کر ہی نہیں سکتا لیکن حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رمضان میں تو اس کی حالت ہی اور ہوتی تھی.پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب نبی ﷺ آخری عشرہ میں داخل ہوتے تو کمر ہمت کس لیتے ، اپنی راتوں کو زندہ کرتے اور گھر والوں کو بیدار فرماتے.تو یہ بھی ایک سبق ہے کہ جب آدمی خود اٹھے تو اپنی بیوی بچوں کو بھی نمازوں کے لئے نوافل کے لئے اٹھائے.پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: قیام لیل مت چھوڑنا اس لئے کہ رسول الله یا اللہ نہیں چھوڑتے تھے اور جب آپ بیمار ہوتے یا جسم میں ستی محسوس کرتے تھے تو بیٹھ کر تہجد کی نماز پڑھتے.(ابوداؤد ) دیکھیں آنحضرت ﷺ کا عمل کیا تھا.یہ عمل ہم اختیار کریں تو پھر ہم اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کو سمیٹنے کی امید کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آخری دس راتوں میں لیلۃ القدر تلاش کرنے کے بارہ میں ایک اور حدیث پیش کرتا ہوں.بخاری اور مسلم نے ابو سعید خدری سے روایت نقل کی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے بھی اور ہم نے بھی رمضان کی پہلی دس تاریخوں میں اعتکاف کیا.اس کے خاتمہ پر حضرت جبرائیل آئے اور رسول کریم ﷺ کو خبر دی کہ جس چیز (لیلۃ القدر ) کی آپ کو تلاش ہے وہ آگے ہے.اس پر آپ نے ہم سب نے درمیانی دس دنوں کا اعتکاف کیا.اس کے خاتمہ پر پھر حضرت جبرئیل نے ظاہر ہوکر آنحضرت ﷺ سے کہا کہ جس چیز کی آپ کو تلاش ہے وہ آگے ہے.اس پر رسول کریم ﷺ نے بیسویں رمضان کی صبح کو تقریر فرمائی اور فرمایا کہ مجھے لیلۃ القدر کی خبر دی گئی تھی مگر میں اُسے بھول گیا ہوں اس لئے اب تم آخری دس راتوں میں سے وتر راتوں میں اس کی تلاش کرو.میں نے دیکھا ہے کہ لیلتہ القدر آئی ہے اور میں مٹی اور پانی میں سجدہ کر رہا ہوں.اس وقت مسجد نبوی کی چھت کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی تھی اور جس دن آپ نے یہ تقریر فرمائی بادل کا نشان تک نہ تھا.پھر یہ روایت کرنے والے کہتے ہیں کہ اچانک بادل کا ایک ٹکڑا آسمان پر ظاہر ہوا اور بارش شروع ہوگئی.پھر جب الله
470 $2003 خطبات مسرور نبی کریم ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی تو میں نے دیکھا کہ آپ کی پیشانی پر مٹی اور پانی کے نشانات ہیں ، ایسا خواب کی تصدیق کے لئے ہوا صحیح بخاری اور مسلم نے اس کو درج کیا ہے.حضرت مصلح موعود اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ : ابوسعید کی ایک اور روایت میں یہ واقعہ ۲۱ ر رمضان کو ہوا تھا.پھر آپ لکھتے ہیں کہ امام شافعی کہتے ہیں کہ اس بارہ میں یہ سب سے پختہ روایت ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر رمضان کی ستائیسویں رات جمعہ کی رات ہو تو وہ خدا کے فضل سے بالعموم لیلۃ القدر ہوتی ہے.(رونامه الفضل لاهور ۱۸ جولائی ١٩٥٠ء) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيْمَانًا وَّاِحْتِسَابًا غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.(صحيح بخارى كتاب الصوم باب من صام رمضان حيح مسلم - كتاب الصوم ) جورمضان المبارک میں لیلۃ القدر کی رات ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے نفس کے محاسبہ کی خاطر عبادت کرے تو اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں.اس حدیث میں دو بڑی اہم باتیں بیان کی گئی ہیں.پہلی یہ کہ ایمان کی حالت میں اور دوسری یہ کہ نفس کے محاسبہ کے لئے.اگر اس پر غور کیا جائے تو اصل ایمان کی حالت تو وہ ہے جب مکمل یقین کے ساتھ انسان کو اللہ تعالیٰ کی تمام صفات پر ایمان ہو.مثلاً اگر یہ یقین ہو کہ وہ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے، وہ بخشنے والا ہے، تمام گناہوں کو معاف کر سکتا ہے، اور کرتا ہے وہاں وہ سزا دینے کا بھی حق رکھتا ہے اور دل اس کے خوف اور اس کی خشیت سے پگھلتے ہوں تو اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے، استغفار کرے تو وہ اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک نکتہ بیان فرمایا ہے کہ استغفار اور تو بہ دو چیزیں ہیں.استغفار مدد اور قوت ہے جو خدا تعالیٰ سے حاصل کی جاتی ہے.اور تو بہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہے.فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی یہ عادت ہے کہ جب اس سے مدد اور قوت مانگو تو وہ عطا کرتا ہے اور
خطبات مسرور 471 الله $2003 نیکیاں کرنے کی قوت عطا کرتا ہے اور اس طرح اپنے پاؤں پر انسان کھڑا ہو جاتا ہے اور پھر جب وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا تو اس نے چونکہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی ہوتی ہے اس لئے نیکیاں کرنے کی قوت قائم رہتی ہے.تو فرمایا آپ نے کہ اسی کا نام تُوبُو إِلَيْهِ ہے.تو اس لحاظ سے جب آدمی اپنا محاسبہ کرتا ہے تو پچھلے گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں اور نیکیاں کرنے کی توفیق بھی ملتی رہتی ہے.پھر حدیث میں آتا ہے حضرت ابن عمرؓ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا عمل کے لحاظ سے ان دنوں یعنی آخری عشرہ سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کے نزدیک عظمت والے اور محبوب کوئی دن نہیں.پس ان ایام میں تہلیل یعنی لا اله الا اللہ کہنا، اللہ تعالیٰ کی بندگی پوری طرح اختیار کرنا اور تکبیر کہنا اور تحمید کہنا، اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا، اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنا، بکثرت اختیار کرو.اب یہ حدیث بھی اسی مضمون کو بیان کر رہی ہے.فرمایا کہ رمضان کے اس آخری عشرے میں مکمل طور پر اُس کی بندگی اختیار کرو.کوئی باطل معبود تمہیں نیک کاموں سے ہٹا نہ سکے.ان دنوں میں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی کبریائی، اس کا بڑا ہونا تمہارے ذہنوں پر رہے اور پھر اس کی حمد بھی کرو کہ اس نے تمہیں اتنی نعمتیں بخشی ہیں، اتنی نعمتوں سے نوازا ہے، تمہیں یہ دن نصیب کئے ہیں جن میں اس نے تمہاری بخشش کے سامان پیدا فرمائے اور سب سے بڑھ کر یہ، اور اس پر جتنا بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ اس نے خالص اپنا بندہ بنے کی توفیق عطا فرمائی اور ہمیں یہ دن بخشے جس میں ہم خالص طور پر اسی کی طرف جھکتے ہوئے اس سے مدد چاہتے ہیں.ایک روایت ہے رمضان کی برکات کے بارہ میں.حضرت سلمان روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں شعبان کے آخری روز مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : اے لوگو تم پر ایک عظیم اور با برکت مہینہ سایہ لیکن ہوا چاہتا ہے.اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے رکھنے فرض کئے ہیں اور اس کی راتوں کو قیام کرنے کو فل ٹھہرایا ہے...ھو شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ وَآخِرُهُ عِلْقٌ مِّنَ النَّارِ.وہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ابتدائی عشرہ رحمت ہے اور درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے اور آخری عشرہ جہنم سے نجات دلانے والا ہے.(صحیح ابن خزيمة كتاب الصيام - باب فضائل شهر رمضان
472 $2003 خطبات مسرور پھر حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ یا رسول اللہ اگر مجھے علم ہو جائے کہ کون سی رات لیلۃ القدر ہے تو میں اس میں کیا دعا کروں.فرمایا کہ تو یہ دعا کر کہ: اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِی.اے اللہ تو بہت معاف کرنے والا اور معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے پس تو مجھے بھی بخش دے اور معاف فرما دے.(ابن ماجه كتاب الدعا باب الدعا بالعفو........اب اس حدیث میں بڑی خوبصورت اور بڑی جامع دعا سکھائی گئی ہے.اس کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ میرے گناہوں سے درگزر کر ، مجھے معاف کر دے.فرمایا کہ رمضان کی برکات سے تو نے مجھے فیضیاب فرمایا، مجھے توفیق دی کہ میں نے روزے رکھے، تیری عبادت کی ، تجھ سے مغفرت طلب کی، اپنے گناہوں کی تجھ سے معافی مانگی ، تجھ پر مکمل یقین اور ایمان مجھے حاصل ہوا.اور آج تو نے مجھ پر یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ میں نے تمہاری دعاؤں کو سنا، تمہاری گریہ وزاری کوسنا، مجھے لیلۃ القدر کا علم دیا اور مجھے لیلۃ القدر دکھائی.تو میری یہ دعا ہے کہ میرے اندر کی تمام برائیوں کا نام ونشان مٹادے، میرے گناہوں کو یوں دھو ڈال جیسے کہ یہ کبھی تھے ہی نہیں.تو بادشاہ ہے، تیرے خزانے میں کبھی کوئی کمی نہیں آئے گی اگر تو یہ سلوک میرے ساتھ کرے.اور پھر یہ سلوک بھی کر کہ مجھے کبھی ان باتوں کا، ان غلط حرکات کا کبھی خیال تک بھی نہ آئے جو میں ماضی میں کر چکا ہوں.اور رمضان کے بعد ہمیشہ میں پاک صاف ہو کر اور تیرا بندہ بن کر رہوں.اور یہی چیز ہے جسے تو اپنے بندوں کے لئے پسند کرتا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سورۃ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’احادیث میں مذکورہ لیلۃ القدر بھی ایک جہت سے اسی لیلۃ القدر سے تعلق رکھتی ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا تھا اور یہ کہ ان معنوں کی رُو سے اصل لیلۃ القدر وہی رات ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا تھا اور صرف اس کی یاد تازہ رکھنے کے لئے اور اس عہد کو تازہ کرنے کے لئے جو نزول قرآن کریم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس امت سے باندھا تھا.اس نے لیلۃ القدر مقرر کی ہے اور اس فائدہ کو مدنظر رکھ کر کہ امت کے کمزور لوگ بھی کم از کم دس راتیں تو خوب عبادت کرلیں.اس نے رمضان کی آخری دس راتوں میں اسے چھپا دیا ہے اور معین رات مقررنہیں کی تاکہ اس کا قیام
$2003 473 خطبات مسرور صرف ایک رسم ہو کر نہ رہ جائے جسے اسلام بہت ناپسند کرتا ہے.اب جو چاہے رمضان کی آخری راتوں میں سے تلاش کر سکتا ہے.اور اس میں کیا شک ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو دس راتوں میں تلاش کرے گا اُسے دین کے ساتھ پہلے سے زیادہ لگاؤ ہو جائے گا اور اُس کے دل میں دین کی محبت پیدا ہو جائے گی اور اُس سے یہ اُمید کی جاسکے گی کہ پہلی غلطیوں کو چھوڑ کر پورے طور پر خدا تعالیٰ کی طرف جھک جائے اور کسی وقت اس کی ہر رات ہی لیلۃ القدر ہو جائے گی.(تفسير كبير جلد نهم صفحه (۳۲۸ حضرت فاریہ امسیح الاول رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ: خ لَيْلْ ظُلمت اور قدر.دال کے سکون کے ساتھ بمعنے مرتبہ.یہ دونوں صفتیں ایک جگہ اکٹھی کر دی گئی ہیں.لیلۃ القدر، ایک خاص رات رمضان شریف کے آخر دھا کا میں ہے جس کا ذکر سورۃ الفجر میں ﴿وَالَّيْلِ إِذا يَسْرِ (فجر:ہ) میں بھی کیا گیا ہے.اور ایک جگہ فرمایا: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآن ﴾ (البقرہ:۱۸۲) اور دوسری جگہ بیان فرمایا إِنَّا أَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (القدر: ٢).ان دونوں آیتوں کے ملانے سے بھی معلوم ہوا کہ لیلۃ القدر رمضان شریف میں ہے.پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور بھی زیادہ تشریح کر کے یہ پتہ دیا ہے کہ لیلۃ القدر رمضان شریف کے آخیر دھا کا کی طاق راتوں میں ہوا کرتی ہے.کسی سال اکیسویں شب کو، کسی سال ۲۳ یا ۲۵ یا ۲۷ یا ۲۹ ویں شب کو.اس شب کے فضائل صحیح حدیثوں میں بے حد بیان فرمائے ہیں“.پھر فرمایا: اِنَّا اَنْزَلْنَه کا مرجع جس طرح قرآن شریف سمجھا گیا ہے اسی طرح اس سے پیغمبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات مبارک بھی مراد ہے.اسی لئے آنز له فرمایا کہ قرآن اور مُنَزَّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآن دونوں ہی مرجع ٹھہر ہیں.ورنہ اَنْزَلْنَهُ هذَا الْقُرْان فرمانا کوئی بعید بات تھی.لیل وہ ظلمت کا زمانہ ہے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے وقت سے پہلے کا زمانہ تھا.جس کو عام طور پر ایام جاہلیت کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور قدر دال کی سکون کے ساتھ وہ قابل قدر زمانہ ہے جس زمانے سے پیغمبر ﷺ کی بعثت شروع ہوئی اور اس کی مدت پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں سے ۲۳ سال کی مدت تھی.جس میں ابتداء الی آخر سارے قرآن شریف کا نزول ہوا.ایک
474 $2003 خطبات مسرور طرف ظلمت کے ایام ختم ہوئے اور دوسری طرف قابل قدر زمانہ شروع ہوا.اس لئے یہ متضاد صفت لیل اور قدر یہاں آکر ا کٹھے ہو گئے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان ۲۲ اگست ۱۹۱۲ ء بحواله حقائق الفرقان جلد چهارم صفحه (٤٢٧ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: "إِنَّا أَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ﴾ کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے قرآن کریم کو لیلۃ القدر میں نازل کیا ہے.چونکہ پہلی سورۃ میں قرآن کریم کا ذکر آ چکا تھا اس لئے یہاں بجائے یہ کہنے کے کہ.انا أَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ﴾ اللہ تعالیٰ نے صرف اس کی طرف ضمیر پھیر دی اور کہہ دیا کہ اِنَّا اَنْزَلْنَه فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ کیونکہ یہ بات ہر شخص پہلی سورۃ پر نظر ڈال کر آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا تھا اور اس بات کی ضرورت نہیں تھی کہ قرآن کریم کا خاص طور پر نام لیا جاتا.لیلۃ اور لیل کے معنے رات کے ہوتے ہیں.کیل کا لفظ ۷۹ دفعہ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے اور لَيْلَة کا لفظ صرف آٹھ دفعہ.اور عجیب بات یہ ہے کہ لفظ لَيْلَة کا استعمال نزول کلام الہی یا اس کے متعلقات کے ساتھ استعمال ہوا ہے.یعنی ایسے احکامات جب دئے گئے ہوں ،شریعت کی بات جب کی گئی ہے تب ليلة کا لفظ استعمال ہوا ہے اور یہ امرا تفاق نہیں کہلا سکتا.ضرور اس میں حکمت ہے اور کیل اور لیلہ کا یہ فرق بے معنی نہیں“.پھر حضرت مصلح موعوددؓ فرماتے ہیں کہ : اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کے کامل بروزوں کی طرف اشارہ ہے.لیکن چونکہ ناقص بروز بھی بروز ہی ہوتا ہے اس لئے یہ آیت ناقص بروزوں کے متعلق بھی اشارہ کرتی ہے یعنی ایسے زمانہ کے مصلحین کی نسبت بھی جبکہ کامل تاریکی تو نہیں آئے گی لیکن ایک نئی زندگی کی ضرورت انسان کو محسوس ہوگی.حدیثوں میں آتا ہے کہ ہر صدی کے سر پر دنیا کو ایک ہوشیار کرنے والے کی ضرورت پیش آجاتی ہے اور اسلام میں اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر مجدد بھیجتا رہے گا.ان مجد دوں کے متعلق بھی اس آیت میں پیشگوئی موجود ہے کیونکہ وہ بھی جزوی طور پر محمد رسول اللہ ﷺ کے قائمقام ہوتے ہیں اور ایک جزوی تاریک رات میں ان کا ظہور ہوتا ہے.(تفسیر کبیر جلد نهم صفحه ۳۱۹)
475 $2003 خطبات مسرور پھر فرمایا کہ : ”شہر کے معنے عالم کے بھی ہیں.ان معنوں کی رو سے اس آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ اس لَيْلَةُ الْقَدْر میں جو معارف اور علوم کھلے ہیں وہ ہزار عالم سے بہتر ہیں...اس کی مضمون سے مسلمانوں کو اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ جب بھی اسلام پر کوئی مصیبت کا زمانہ آئے انہیں علماء ظاہر کی امداد پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے“ (مولویوں کے پیچھے نہ پڑ جائیں کہ وہ ہی ہمیں سبق دیں بلکہ انہیں چاہئے کہ ایسے تاریک زمانوں میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اترنے والی امداد کی طرف نظر رکھا کریں کہ جو کچھ آسمانی امداد اور ہدایت سے انہیں حاصل ہوگا وہ ظاہری علماء کی مجموعی کوششوں سے حاصل نہ ہو سکے گا.مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس ہدایت سے فائدہ نہیں اٹھایا.یہ زمانہ اسلام کے گزشتہ زمانوں سے زیادہ تاریک ہے.بعد زمانہ نبوی ایسا سخت زمانہ اسلام پر کبھی نہیں آیا لیکن مسلمان اس بلاء کے دور کرنے کے لئے انسانوں پر زیادہ نظر رکھتے ہیں یہ نسبت خدا کے.خدا تعالیٰ نے ان دنوں میں بھی حسب بشارات قرآنیہ اور حسب وعدہ إِنَّا أَنزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ﴾ اپنا ایک مامور بھیجا ہے لیکن لوگوں کی اس طرف توجہ نہیں بلکہ خود ساختہ علاجوں کی طرف مائل ہیں.اللہ تعالیٰ ہی ان کی حالت پر رحم فرمائے.(تفسیر کبیر جلد نهم صفحه ۳۳۳۳۳۲) آج بھی دیکھ لیں یہ لوگ نمازیں بھی پڑھتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں، اعتکاف بھی بیٹھتے ہیں اور بظاہر احکامات پر عمل کر رہے ہوتے ہیں لیکن چونکہ آنحضرت ﷺ کی اس پیشگوئی سے انکاری ہیں، آپ کے بھیجے ہوئے مامور کی تضحیک و تکفیر کر رہے ہیں، اس کا انکار کر رہے ہیں.اس لئے اللہ کے فضلوں کے وارث بھی نہیں ٹھہر رہے.بلکہ آج کل جو حالات ہیں وہ اس قدر خوفناک ہیں اور ایسے بھیانک مسائل کی طرف جا رہے ہیں کہ احمدیوں کو تو بہر حال امت مسلمہ کے لئے دعائیں کرتے رہنا چاہئے اور ان دنوں میں، خاص طور پر رمضان کے دنوں میں ، آخری عشرہ میں بھی ، اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے.اتنے لمبے عرصہ کی اندھیری رات دیکھنے کے بعد بھی ان کو عقل نہیں آرہی.نام نہاد علماء نے انہیں غلط راستے پر ڈال دیا ہے.اللہ تعالیٰ امت کو ایسے نام نہاد علماء سے نجات دے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ :
خطبات مسرور 476 $2003 ”ہزار مہینوں میں چونکہ تمیں ہزار راتیں ہوتی ہیں اس لئے لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ اَلْفِ شَهْر کے یہ معنے ہوئے کہ تم اس زمانہ کا کیا ذکر کرتے ہو یہ زمانہ تو تمیں ہزار زمانوں سے بڑھ کر ہے.اگر بعد میں تاریکی کے تیس ہزار دور بھی آجائیں تب بھی محمد رسول اللہ ﷺ کا زمانہ بے قیمت قرار نہیں دیا جا سکتا.تب بھی یہی کہا جائے گا کہ وہ زمانہ آئندہ آنے والے سب زمانوں سے بڑھ کر تھا.کیونکہ اس زمانہ میں اسلامی حکومت کا وہ ڈھانچہ قائم کر دیا گیا تھا جو قیامت تک آنے والے لوگوں کی صحیح رہنمائی کرنے والا اور اُن کی مشکلات کو پورے طور پر دُور کرنے والا ہے.66 (تفسیر کبیر جلد نهم صفحه (٣٣٤ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ایک لیلۃ القدر تو وہ ہے جو پچھلے حصہ رات میں ہوتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ تجلی فرماتا ہے اور ہاتھ پھیلاتا ہے کہ کوئی دعا کرنے والا اور استغفار کرنے والا ہے جو میں اس کو قبول کروں؟ لیکن ایک معنے اس کے اور ہیں جس سے بدقسمتی سے علماء مخالف اور منکر ہیں اور وہ یہ ہیں کہ ہم نے قرآن کوایسی رات میں اتارا ہے کہ تاریک و تار تھی اور وہ ایک مستعد مصلح کی خواہاں تھی.خدا تعالیٰ نے انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے جب کہ اس نے فرمایا ( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونَ.پھر جب انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ تاریکی میں پڑا رہے.ایسے ہی زمانے میں بالطبع اس کی ذات جوش مارتی ہے کہ کوئی مصلح پیدا ہو.پس إِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ﴾ اس زمانہ ضرورت بعثت آنحضرت ﷺ کی ایک اور دلیل ہے.(الحكم جلد نمبر ١٠ نمبر ۲۷ مورخه ۳۱ جولائی ۱۹۰۶ ء بحواله تفسیر حضرت مسیح موعود عليه السلام صفحه ۶۷۱.۶۷۲) پس آج بھی آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق ایک لمبے زمانہ کی تاریکی کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو مبعوث ہونا ہے عین ضروری تھا.ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر اس زمانہ میں ہم نے ایک لیلۃ القدر کا نظارہ دیکھ لیا.اللہ تعالیٰ رمضان میں آنے والی لیلۃ القدر کے نظارے بھی ہمیں دکھائے.حضرت مصلح موعوددؓ فرماتے ہیں کہ :
خطبات مسرور 477 $2003 مجد دین پر جب اس پیشگوئی کو چسپاں کیا جائے گا تو مِنْ كُـلّ امر کے معنے سب امور کے نہیں ہونگے بلکہ سب وقتی ضرورت کے امور کے ہونگے یعنی جس جس خرابی کی اصلاح کے لئے انہیں ملائکہ کی مدد کی ضرورت ہوگی ان خرابیوں کی اصلاح کے لئے ملائکہ نازل کر دئے جائیں گے یا اسلام کی ترقی کے لئے جن امور کی ضرورت ہوگی ان امور میں انہیں ملائکہ کی مدد حاصل ہوگی.گویا مِنْ كُلّ اَمر کے معنے ہوں گے کل ضروری امور.لیکن وہ موعود جو بروز کامل کے طور پر ظاہر ہوں گے چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول کریم ﷺ کے کامل بروز ہوں گے اس لئے جس طرح رسول کریم ﷺ کے متعلق اس آیت کے یہ معنے تھے کہ قرآنی شریعت کو ہر لحاظ سے کامل کیا جائے گا.اسی طرح ان کے متعلق اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ اس زمانہ میں قرآن کریم کی ساری خوبیاں مخفی ہو جائیں گی.تب اللہ تعالیٰ آسمان سے اپنے ملائکہ کو نازل فرمائے گا اور قرآن کریم کی تمام خوبیوں کو دنیا پر دوبارہ ظاہر کرے گا.اس صورت میں مِن كُلِّ امْر کے معنے صرف ضروری امور کے نہیں ہوں گے بلکہ تمام امور کے ہوں گے یعنی کوئی امرایسا نہیں ہوگا جس کے لئے آسمان سے فرشتوں کا نزول نہ ہو.(تفسير كبير جلد نهم صفحه ۳۳۷) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : سورۃ القدر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لوگوں سے وعدہ فرمایا تھا کہ وہ انہیں کبھی ضائع نہیں کرے گا بلکہ جب وہ گمراہ ہو جائیں گے اور اندھیروں میں گر جائیں گے تو ان پر لیلتہ القدر کا زمانہ آئے گا اور روح زمین پر نازل ہوگا.یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے گا اسے اتارے گا اور اسے مجدد بنا کر مبعوث فرمائے گا اور روح کے ساتھ ملائکہ بھی نازل ہوں گے جو لوگوں کے دلوں کو حق اور ہدایت کی طرف کھینچ کر لائیں گے اور یہ سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا“.(حمامة البشرى صفحه ۹۲ ۹۳ بحواله تفسیر حضرت مسیح موعود عليه السلام صفحه ۲۷۱-۶۷۰ حاشیه)
$2003 478 خطبات مسرور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : عادت اللہ اس طرح پر جاری ہے کہ جب کوئی رسول یا نبی یا محدّث اصلاح خلق اللہ کے لئے آسمان سے اترتا ہے تو ضرور اس کے ساتھ اور اس کے ہمرکاب ایسے فرشتے اترا کرتے ہیں کہ جو مستعد دلوں میں ہدایت ڈالتے ہیں اور نیکی کی رغبت دلاتے ہیں.اور برابر اترتے رہتے ہیں جب تک کفر وضلالت کی ظلمت دور ہو کر ایمان اور راست بازی کی صبح صادق نمودار ہو جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے.تَنَزَّلُ الْمَلَئِكَةُ وَالرُّوْحُ فِيْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ سَلْمٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ سو ملائکہ اور روح القدس کا تنزل یعنی آسمان سے اتر نا اسی وقت ہوتا ہے جب ایک عظیم الشان آدمی خلعت خلافت پہن کر اور کلام الہی سے شرف پا کر زمین پر نزول فرماتا ہے.روح القدس خاص طور پر اس خلیفہ کو ملتی ہے اور جو اس کے ساتھ ملائکہ ہیں وہ تمام دنیا کے مستعد دلوں پر نازل کئے جاتے ہیں تب دنیا میں جہاں جہاں جو ہر قابل پائے جاتے ہیں سب پر اس نور کا پر تو پڑتا ہے اور تمام عالم میں ایک نورانیت پھیل جاتی ہے اور فرشتوں کی پاک تاثیر سے خود بخو ددلوں میں نیک خیال پیدا ہونے لگتے ہیں اور توحید پیاری معلوم ہونے لگتی ہے اور سید ھے دلوں میں راست پسندی اور حق جوئی کی ایک روح پھونک دی جاتی ہے اور کمزوروں کو طاقت عطا کی جاتی ہے اور ہر طرف ایسی ہوا چلنی شروع ہو جاتی ہے کہ جو اس مصلح کے مدعا اور مقصد کو مدد دیتی ہے.ایک پوشیدہ ہاتھ کی تحریک سے خود بخو دلوگ صلاحیت کی طرف کھسکتے چلے آتے ہیں اور قوموں میں ایک جنبش سی شروع ہو جاتی ہے.تب نا سمجھ لوگ گمان کرتے ہیں کہ دنیا کے خیالات نے خود بخود دراستی کی طرف پلٹا کھایا ہے.لیکن در حقیقت یہ کام ان فرشتوں کا ہوتا ہے کہ جو خلیفتہ اللہ کے ساتھ آسمان سے اترتے ہیں اور حق کے قبول کرنے اور سمجھنے کے لئے غیر معمولی طاقتیں بخشتے ہیں.سوئے ہوئے لوگوں کو جگا دیتے ہیں اور مستوں کو ہوشیار کرتے ہیں اور بہروں کے کان کھولتے ہیں اور مُردوں میں زندگی کی روح پھونکتے ہیں اور ان کو جو قبروں میں ہیں باہر نکال لاتے ہیں تب لوگ یکدفعہ آنکھیں کھولنے لگتے ہیں اور ان کے دلوں پر وہ باتیں کھلنے لگتی ہیں جو پہلے مخفی تھیں.اور درحقیقت یہ فرشتے اس خلیفتہ اللہ سے الگ نہیں ہوتے.اُسی کے چہرہ کا نور اور اسی کی ہمت کے آثار جلیہ ہوتے ہیں جو اپنی قوتِ
$2003 479 خطبات مسرور مقناطیسی سے ہر ایک مناسبت رکھنے والے کو اپنی طرف کھینچتے ہیں خواہ وہ جسمانی طور پر نزدیک ہویا دور ہو اور خواہ آشنا ہو یا بکلی بیگانہ اور نام تک بے خبر ہو.غرض اس زمانہ میں جو کچھ نیکی کی طرف حرکتیں ہوتی ہیں اور راستی کے قبول کرنے کے لئے جوش پیدا ہوتے ہیں خواہ وہ جوش ایشیائی لوگوں میں پیدا ہوں یا یورپ کے باشندوں میں یا امریکہ کے رہنے والوں میں، وہ درحقیقت انہی فرشتوں کی تحریک سے جو اس خلیفتہ اللہ کے ساتھ اترتے ہیں ظہور پذیر ہوتے ہیں.یہ الہی قانون ہے جس میں کبھی تبدیلی نہیں پاؤ گے.(فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۲) اللہ تعالیٰ ہمیں اس عشرہ سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے اور جن مقاصد کے ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے ان مقاصد کو پورے ہوتے ہیں ہم صلى الله اپنی زندگیوں میں دیکھ سکیں.اللہ تعالیٰ تمام دنیا کو حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کے جھنڈے تلے لانے کے نظارے ہمیں دکھائے اور ان دنوں میں کل دنیا کے احمدیوں کے لئے بہت دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو محفوظ رکھے اور حقیقی اور سچا مسلمان بنائے.خاص طور پر پاکستان اور بنگلہ دیش کے احمدیوں کے لئے خاص طور پر دعائیں کریں.ہر وقت شرپسندوں کے فتنوں میں گھرے ہوئے ہیں.گزشتہ دنوں میں ہماری مسجد میں بنگلہ دیش میں ایک مخلص احمدی کو شر پسندوں نے شہید کر دیا.انا للہ وانا الیہ راجعون.اللہ تعالیٰ ان تمام جگہوں پر شر پسندوں کو عبرت کا نشان بنائے اور اسی طرح ہندوستان میں بھی بعض جگہوں سے خبریں آتی ہیں کہ شر پھیلائے جار ہے ہیں اور تنگ کیا جا رہا ہے احمدیوں کو.تو اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو محفوظ رکھے اور بہت دعائیں کریں، بہت دعائیں کریں، بہت دعائیں کریں ان دنوں میں.اللہ تعالیٰ ہمارے لئے جلد فتح کے سامان پیدا فرمائے.000
$2003 480 خطبات مس
$2003 481 31 خطبات مسہ جمعہ عید کا دن ہے اس کا ادا کرنا ہم پر دین نے واجب کیا ہے ۲۱ نومبر ۲۰۰۳ء بمطابق ۲۱ رنبوت ۱۳۸۲ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن ،لندن 000 جمعہ کی اہمیت،فرضیت، آداب اور برکات.جمعۃ الوداع کی اصطلاح اور اس کے متعلق ایک غلط سوچ.رمضان کی پاک تبدیلیوں کا تسلسل جاری رہنا چاہئے.بڑا ہی بد قسمت ہے وہ انسان جس نے رمضان پایا مگر اپنے اندر کوئی تغیر نہ پایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کے نتیجہ میں ایک احمدی کی ذمہ داریاں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے جمعہ کی خاص نسبت.دعاؤں کی اہمیت اور قبولیت کی فلاسفی.اپنی راتوں کو اپنی عبادات کے ساتھ زندہ کریں.
خطبات مس $2003 482 تشھد وتعوذ کے بعد درج ذیل آیت قرآنیہ تلاوت فرمائی ﴿يَايُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا إِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلَوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُوْنَ.فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ..(سورة الجمعة آيات ١١.١٠) آج اس رمضان کا آخری جمعہ ہے جس کو جمعۃ الوداع کہنے کی ایک اصطلاح چل پڑی ہے.غیروں میں تو خیر دین میں اتنا بگاڑ پیدا کر لیا ہے کہ وہ تو اس کو جو بھی چاہے نام دیں، اور جو بھی چاہیں عمل کریں، جس طرح جی چاہے عمل کریں اور اس کی تشریح بیان کریں، یہ ان کا معاملہ ہے.بلکہ وہ تو اس خیال کے بھی ہیں کہ جمعتہ الوداع کے دن چار رکعت نماز پڑھ لو تو قضائے عمری ادا ہو گئی.یعنی جتنی چھٹی ہوئی نمازیں ہیں وہ ادا ہو گئیں، تین چار رکعتوں کے بدلے میں.اور اب نمازیں پڑھنے کی ضرورت نہیں.جو نمازیں نہیں پڑھی گئی تھیں پوری ہو گئیں.پھر یہ سوچ کہ.جمعہ الوداع آئے گا تو چار رکعت نماز پڑھ لیں گے، پھر چھٹی ہوگی ایک سال کی.تو یہ کون تردد کرے کہ پانچ وقت کی نمازیں جا کے مسجد میں پڑھی جائیں.ان کی ایسی حرکتوں پر تو اتنی حیرت نہیں ہوتی کہ انہوں نے تو یہ کرنا ہی ہے.کیونکہ مسیح محمدی کا انکار کرنے والوں سے اس سے زیادہ توقع کی بھی نہیں جاسکتی لیکن حیرت اس بات پر ضرور ہوتی ہے کہ جنہوں نے اس زمانہ کے امام کو مانا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں داخل ہونے کا دعویٰ کر دیا اور پھر وہ اپنے دین کی حفاظت نہ کریں.عام حالات میں اتنی پابندی سے جمعہ پر نہیں آتے جس اہتمام سے بعض لوگ، اور یہ بعض
483 $2003 خطبات مسرور لوگ بھی کافی تعداد ہو جاتی ہے، جس پابندی سے رمضان کے اس آخری جمعہ پر آیا جاتا ہے.حالانکہ حکم تو یہ ہے کہ پانچ وقت کی نمازوں کے لئے بھی مسجد میں آؤ.تو ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہونے کا دعوی کرتے ہیں، ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ دوسروں کی دیکھا دیکھی ہم بھی دنیاوی دھندوں میں اتنے محو ہو جائیں کہ نمازیں تو ایک طرف، جمعہ کی ادائیگی بھی با قاعدگی سے نہ کر سکیں.اور اس بات کا اندازہ کہ ہم میں سے بعض احمدی بھی لاشعوری طور پر جمعۃ الوداع کی اہمیت کے قائل ہوتے جا رہے ہیں.مسجدوں کی حاضری سے لگایا جا سکتا ہے.اگر آج کے دن ہم میں سے وہ جو عموماً جمعہ کا ناغہ کر جاتے ہیں، اتنی اہمیت نہیں دیتے جمعہ کو، اس لئے جمعہ پر آئے ہیں کہ رمضان نے ان میں تبدیلی پیدا کر دی ہے، اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجا آوری اور اس کی عبادت کا ان میں شوق پیدا ہو گیا ہے اور انہوں نے عہد کر لیا ہے کہ آئندہ ہم اپنے جمعوں کی حفاظت کریں گے اور باقاعدگی سے جمعہ کے لئے حاضر ہوا کریں گے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ اے وہ لو گو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو.یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو.پس جب نماز ادا کی جاچکی ہو تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور اللہ کے فضل میں سے کچھ تلاش کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ.یہ ہے وہ ترجمہ ان آیات کا جن کی میں نے تلاوت کی.اگر تو یہ صورت حال ہے تو ایسے لوگ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائی.اللہ تعالیٰ انہیں استقامت عطا فرمائے کہ آئندہ بھی وہ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے احکامات کو گلے لگانے ، ان پر عمل کرنے والے اور اسی جوش و خروش سے ان تمام احکامات میں حصہ لینے والے ہوں اور ہم سب اس حدیث پر عمل کرنے والے بھی بنیں.حدیث میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت مالی نے فرمایا کہ : ” کبائر سے بچنے والے کے لئے پانچ نمازیں، ایک جمعہ سے اگلے جمعہ تک اور ایک رمضان سے اگلے رمضان تک کفارہ ہوتا ہے.(صحیح مسلم كتاب الطهارة باب الصلوات الخمس........
خطبات مسرور 484 $2003 اللہ تعالیٰ اس حدیث کے مطابق ہمیں توفیق دینے کی طرف توجہ دلا رہا ہے.اور اس رمضان میں ہمارے اندر جو پاک تبدیلیاں پیدا کی ہیں اس پر اللہ کا فضل مانگتے ہوئے ہمیں بھی کام کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اللہ ہمیں اس پر قائم رکھے اور ہماری مساجد اس بات کی گواہی دیں کہ احمدیوں نے پانچ وقت کی نمازوں کے لئے مساجد میں آنے کی طرف جو توجہ دی تھی اور جس طرح مساجد آباد کی تھیں وہ رمضان گزرنے کے ساتھ ہی خالی نظر نہیں آرہیں بلکہ اب بھی اسی طرح بارونق اور آباد ہیں جس طرح رمضان میں ان کی رونق تھی.پھر رمضان کے بعد آنے والا ہر جمعہ اس بات کی گواہی دے کہ امام الزمان کو مان کر ہم نے اپنے اندر جو پاک تبدیلیاں پیدا کی ہیں اور اس رمضان میں ہم نے اسے مزید نکھارا ہے اب اس نکھار کا اظہار ہر جمعہ پر نظر آرہا ہے.یہ لوگ وہ نہیں ہیں جو صرف جمعۃ الوداع پر قضاء عمری کے لئے مسجدوں میں نظر آتے ہیں.یہ تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کی ہیں.یہ تو وہ لوگ ہیں جن کا تقویٰ ترقی پذیر ہے، جن کا ہر قدم پہلے سے آگے بڑھنے والا ہے.اب یہ اس بے فکری میں نہیں ہوتے کہ چلو رمضان ختم ہوا ،اب اگلا رمضان جب آئے گا تو دیکھ لیں گے پھر جمعتہ الوداع پڑھ لیں گے.بلکہ ایسے لوگ جنہوں نے تبدیلی پیدا کی ہے، اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ کبائر سے بچنے کے لئے آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق، جو حدیث میں نے ابھی پڑھی تھی ، کہ اس جمعہ کے بعد دوسرا جمعہ بھی ادا کرنا ہے، وہ بھی ضروری ہے.ہاں رمضان کا ہمیں انتظار رہے گا لیکن اس لئے نہیں کہ قضائے عمری ادا کرنے کا موقع مل جائے گا بلکہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے اس میں کھول دئے جاتے ہیں اور شیطان جکڑ دیا جاتا ہے.اللہ کے قرب پانے کا مزید موقع میسر آئے گا.اس لئے ہم آئندہ رمضان کا انتظار کرتے ہیں.قضائے عمری کی بات چلی ہے.اس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک ارشاد بھی ہے وہ میں پڑھ کے سناتا ہوں.’ایک سوال ہوا کہ جمعۃ الوداع کے دن لوگ چار رکعت نماز پڑھتے ہیں اور اس کا نام قضاء عمری رکھتے ہیں اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ گزشتہ نمازیں جو ادا نہیں کیں، اُن کی تلافی ہو جاوے،اس کا کوئی ثبوت ہے یا نہیں؟
485 $2003 خطبات مسرور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: ” ایک فضول امر ہے مگر ایک دفعہ ایک شخص بے وقت نماز پڑھ رہا تھا، کسی شخص نے حضرت علی کو کہا کہ آپ خلیفہ وقت ہیں، اسے منع کیوں نہیں کرتے؟ فرمایا کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اس آیت کے نیچےملزم نہ بنایا جاؤں ﴿أَرَتَيْتَ الَّذِي يَنْهَى عَبْدًا إِذَا صَلَّی.ہاں اگر کسی شخص نے عمد نماز اس لئے ترک کی ہے کہ قضائے عمری کے دن پڑھ لوں گا تو اُس نے ناجائز کیا ہے اور اگر ندامت کے طور پر تدارک مافات کرتا ہے تو پڑھنے دو کیوں منع کرتے ہو آخر دعا ہی کرتا ہے.ہاں اس میں پست ہمتی ضرور ہے.پھر دیکھو منع کرنے سے کہیں تم بھی اس آیت کے نیچے نہ آجاؤ“.(الحكم ۲٤ اپریل، ۱۹۰۳ ء فتاوی حضرت مسیح موعود عليه السلام صفحه ٦٥) آپ نے فرمایا کہ:- جو شخص عمد أسال بھر اس لئے نماز کو ترک کرتا ہے کہ قضائے عمری والے دن ادا کرلوں گا تو وہ گنہگار ہے اور جو شخص نادم ہوکر تو بہ کرتا ہے اور اس نیت سے پڑھتا ہے کہ آئندہ نماز ترک نہ کروں گا تو اس کے لئے حرج نہیں.ہم تو اس معاملہ میں حضرت علی ہی کا جواب دیتے ہیں.“ (البدر جلد ٢ نمبر ١٥ مورخه یکم مئى ١٩٠٣ ء صفحه ١١٤) تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اس طرح کی نماز پڑھنے والے کی نیت کا تو پتہ نہیں کہ کس نیت سے پڑھ رہا ہے.اگر تو اس کی نیت یہی ہے کہ اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کرنا چاہتا ہے اور توبہ استغفار کرتے ہوئے اس لئے پڑھ رہا ہے کہ آئندہ نمازیں بھی نہیں چھوڑوں گا اور پوری توجہ سے پڑھوں گا اور جمعہ بھی نہیں چھوڑوں گا تو پڑھنے دو اس کو، کوئی حرج نہیں.اور اگر اس کی نیت قضائے عمری کی ہے کہ اس دفعہ پڑھ لی پھر آئندہ دیکھیں گے تو یہ بہر حال غلط ہے، وہ گنہگار ہے.جمعہ کی فرضیت کے بارہ میں احادیث پیش کرتا ہوں جن میں جمعہ کی فرضیت کے بارے میں تو آیا ہوا ہے کہ جمعہ کتنا ضروری ہے لیکن یہ تو نہیں لکھا گیا کہ جمعۃ الوداع کتنا ضروری ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” دنوں میں بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے جمعہ کا دن ہے.اس میں آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے اور اسی دن وہ جنت میں داخل کئے گئے اور اسی دن حبوط آدم ہوا.اور اس میں ایک ایسی گھڑی ہے
486 خطبات مسرور جس میں مسلمان بندہ جو بھی اللہ تعالیٰ سے طلب کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے عطا کر دیتا ہے.$2003 (جامع ترمذى كتاب الجمعة باب في الساعة التي ترجى في يوم الجمعة) تو دیکھیں جمعہ کی کس قدر برکات ہیں.ایک تو اس کو بہترین دن قرار دیا گیا ہے.اب کون نہیں چاہتا کہ اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک جو بہترین دن ہے اس سے فائدہ نہ اٹھائے ، اس کی برکات نہ سمیٹے.یہاں سے تو کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ صرف جمعۃ الوداع بہترین دن ہے.اس دن کو پا کر ہمیں اور زیادہ عبادت کرنی چاہئے، اللہ تعالیٰ کی خشیت اختیار کرنی چاہئے کیونکہ آدم کو نیچے بھیج کر یہ بتادیا کہ اب تم لوگوں کا کام عبادت کرنا اور شیطانی حملوں سے بچنا ہے.تم میں سے جو لوگ میری خشیت اختیار کریں گے، میری عبادت کرنے والے ہوں گے، وہ عبادالرحمن کہلائیں گے.اور جو لوگ میری تعلیم سے اُلٹ چلنے والے ہوں گے وہ عباد الشیطان ہوں گے.تو اللہ تعالیٰ نے تو کہہ دیا کہ جو شیطان کے پیچھے چلنے والے ہیں ان کو پھر میں دوزخ سے بھروں گا.لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنی مخلوق کے لئے ہر وقت جوش میں رہتی ہے.یہ کہنے کے باوجود ہمیں ہر وقت ہماری بخشش کے طریقے سکھاتا رہتا ہے.اس لئے فرمایا کہ جو میرے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اور خاتم الانبیا ﷺ پر ایمان لانے والے ہو، تمہارے لئے خوشخبری ہو کہ تمہارے لئے میں نے ایک ایسا دن اور اس دن میں ایک ایسی گھڑی مقرر کر دی ہے اس میں تم جو بھی مجھ سے طلب کرو گے میں عطا کروں گا.تو احمدیوں کے لئے تو اور بھی زیادہ خوشی کا مقام ہے کہ انہوں نے حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق زمانے کے امام کو پہچانا ، ان کو تو خاص طور پر اس طرف توجہ کی ضرورت ہے.اور دعاؤں کے ساتھ یہ دعا بھی ہمیشہ کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر آن تقویٰ میں بڑھاتا چلا جائے اور قبولیت دعا کا ذریعہ جو پہلے بھی خطبہ میں بیان ہو چکا ہے اب آنحضرت مہ کے علاوہ کوئی نہیں.یہی واسطه اختیار کریں تو دعا کی قبولیت ہوگی.اس لئے عام دنوں سے زیادہ جمعہ کے روز آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنا چاہئے.حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: تمہارے ایام میں سے (ایک) جمعہ کا دن ہے.اسی روز آدم پیدا کئے گئے ، اسی روز انہیں وفات دی گئی ، اسی روز نفخ صور ہوگا اور اسی روز غشی ہوگی.پس اس روز تم مجھ پر کثرت سے درود
487 $2003 خطبات مسرور بھیجا کرو.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مجيد“.اور تمہارا درود مجھے پہنچایا جائے گا.راوی کہتے ہیں کہ اس پر صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! جب آپ کا وجود بوسیدہ ہو چکا ہوگا تو اس وقت ہمارا درود آپ کو کیسے پہنچایا جائے گا.فرمایا اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے وجودوں کو زمین پر حرام کر دیا ہے.(سنن ابی داؤد کتاب الصلوة باب في الاستغفار ) پھر جمعہ کی اہمیت کے بارہ میں ایک روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کہ جب جمعہ کا دن ہوتا ہے مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے ہوتے ہیں.وہ مسجد میں پہلے آنے والے کو پہلا لکھتے ہیں اور اسی طرح وہ آنے والوں کی فہرست ترتیب وار تیار کرتے رہتے ہیں.یہاں تک کہ جب امام خطبہ دے کر بیٹھ جاتا ہے تو وہ اپنا رجسٹر بند کر دیتے ہیں.(صحیح مسلم كتاب الجمعة باب فضل التهجير يوم الجمعة) پھر ایک حدیث ہے علقمہ روایت کرتے ہیں کہ : حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لوگ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے حضور جمعوں میں آنے کے حساب سے بیٹھے ہوں گے یعنی پہلا ، دوسرا، تیسرا، پھر انہوں نے کہا چوتھا اور چوتھا بھی اللہ تعالیٰ کے دربار میں بیٹھنے کے لحاظ سے کوئی دُور نہیں“.(ابن ماجه کتاب اقامة الصلواة باب ما جاء في التهجير الى الجمعة حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ دن (جمعہ ) عید ہے جسے اللہ نے مسلمانوں کے لئے بنایا ہے.پس جو کوئی جمعہ پر آئے اُسے چاہئے کہ وہ غسل کرے اور جس کے پاس خوشبو ہو وہ خوشبو لگائے اور مسواک کرنا اپنے لئے لازمی کرلو.(سنن ابن ماجه كتاب اقامة الصلوة والسنة فيها باب ما جاء في الزينة يوم الجمعة ) تو دیکھیں ان تمام احادیث سے کہیں یہ تاثر نہیں ملتا کہ بخشش کے سامان کرنے ہیں تو جمعہ الوداع کافی ہے.بلکہ ہر جمعہ ہی اہم ہے، لازمی ہے ، فرض ہے.اور جن لوگوں کے خیال میں ایک دن کی نماز ہی پڑھ لو تو کافی ہے.بعض لوگ جمعۃ الوداع پڑھنے والوں سے بھی دو قدم آگے ہوتے ہیں.وہ جمعۃ الوداع پر بھی نہیں آتے صرف عید کی نماز پر آتے ہیں.اللہ رحم کرے.تو ان کے لئے یہ
$2003 488 خطبات مسرور حدیث جو میں نے پڑھی ہے اس میں یہ بتادیا کہ جمعہ کا دن بھی عید کا دن ہے.یہ عید میں اکٹھی ہوں گی تو رمضان کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کی توفیق بھی ملے گی.اور پھر رمضان کے بعد آنے والی عید سے بھی فیض پاؤ گے اور گناہوں سے بچنے کا سامان پیدا کرو گے.پھر جمعہ میں پہلے آنے کے بارہ میں اور امام کے قریب بیٹھنے کے بارہ میں حدیث ہے.حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نماز جمعہ پڑھنے آیا کرو اور امام کے قریب ہو کر بیٹھا کرو اور ایک شخص جمعہ سے پیچھے رہتے رہتے جنت سے پیچھے رہ جاتا ہے 66 حالانکہ وہ جنتیوں میں سے ہوتا ہے" (مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحه ۱۰ مطبوعه بیروت) جمعہ سے پیچھے رہتے رہتے سے مراد ہے کہ جمعہ اگر چھوڑو گے تو چھوڑتے چلے جاؤ گے.اس میں بھی اصل چیز یہی ہے کہ جمعہ پر آنے کی تڑپ ہو، ایمان کی باتیں سننے کی اور ان پر عمل کرنے کی خواہش ہو.اصل چیز وہی ہے کہ نیت کیا ہے ؟ بعض لوگ مساجد میں کچھ وقت گزارنے کے بعد جاتے ہیں کہ کچھ دیر کے بعد جائیں گے، آرام سے چلے جائیں گے.امام صاحب بڑا لمبا خطبہ دے رہے ہیں.بڑی دیر وہاں بیٹھنا پڑتا ہے، انتظار کرنا پڑتا ہے ، کون اتنی دیر بیٹھے.آخری پانچ سات منٹ ہوں گے تو چلے جائیں گے.دو چار منٹ کا خطبہ سن لیں گے، پھر نماز پڑھیں گے اور واپس آجائیں گے.تو یہ سوچ بڑی خطرناک سوچ ہے.کیونکہ پہلے جانے والے اور آخر میں جانے والے کے ثواب میں بھی اونٹ اور مرغی کے انڈے کے برابر یا بعض دفعہ چاول کے دانے کے برابر فرق ہے.لیکن جو بھی امام ہوں ان کو بھی حالات کے مطابق موسم کے مطابق ، لوگوں کے وقت کے مطابق ، خطبے کے وقت کا خیال رکھنا چاہئے.اب جمعہ کی اہمیت اور تربیت کے بارہ میں مزید احادیث پیش کرتا ہوں.یہ کہ بغیر عذر کے کوئی جمعہ نہیں چھوڑا جانا چاہئے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ: ”جس نے متواتر تین جمعے جان بوجھ کر چھوڑ دئے ، اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر کر دیتا ہے“ (ترمذى كتاب الجمعة باب ماجاء في ترك الجمعة من غير عذر اور پھر آہستہ آہستہ بالکل ہی پیچھے ہٹتا چلا جاتا ہے.بڑا سخت انذار ہے اس میں.پھر ایک روایت ہے طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا
489 $2003 خطبات مسرور ہر مسلمان پر جماعت کے ساتھ جمعہ ادا کرنا ایسا حق ہے جو واجب ہے سوائے چار قسم کے افراد کے.یعنی غلام ، عورت، بچہ اور مریض.(ابوداؤد كتاب الصلواة باب الجمعة للملوك والمرأة) بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جب امام خطبہ دے رہا ہو تو بات کر لینے میں کوئی حرج نہیں.بعض لوگ اپنے بچوں کو خطبے کے دوران منہ سے بول کر روک ٹوک کر رہے ہوتے ہیں ، خاص طور پر عورتوں میں.تو ان کو یا درکھنا چاہئے کہ اول تو بالکل چھوٹے بچوں کو جن کو سنبھالنا مشکل ہو مسجد میں نہ لائیں اور ایسی حالت میں ضروری بھی نہیں عورتوں کے لئے کہ ضرور ہی آئیں.تو یہ حدیث جو میں نے پڑھی ہے اس میں بچوں کو ویسے بھی رخصت ہے.دوسرے بچوں کو سمجھا کر لانا چاہئے کہ مسجد کے آداب ہوتے ہیں.بولنا نہیں ، شور نہیں کرنا وغیرہ.اور مستقل اگر بچے کے ذہن میں یہ بات ڈالتے رہیں تو آہستہ آہستہ بچے کو سمجھ آجاتی ہے.اگر نہ سمجھا ئیں تو میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ آٹھ دس سال کی عمر کے بچے بھی آپس میں خطبے کے دوران بول رہے ہوتے ہیں، باتیں کر رہے ہوتے ہیں،ایک دوسرے کو چھیڑ رہے ہوتے ہیں، شرارتیں کر رہے ہوتے ہیں.تو اس طرف بچوں کو مستقل توجہ دلاتے رہنا چاہئے.اور اگر کبھی ساتھ بیٹھے ہوئے بچے کو یا کسی دوسرے شخص کو خاموش کروانا پڑے تو اشارہ سے سمجھانا چاہئے ، منہ سے کبھی نہیں بولنا چاہئے.حدیث میں آیا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ اللہ نے فرمایا کہ: ”جمعہ کے روز جب امام خطبہ دے رہا ہو اگر تم اپنے قریبی ساتھی کو کہو خاموش ہو جاؤ تو تمہارا 66 یہ کہنا بھی لغو فعل ہے.(مسلم) كتاب الجمعة باب في الانصات يوم الجمعة جن آیات کی تلاوت کی گئی تھی ان کی تفسیر میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: اسلام میں جمعہ کے دن کے لئے یہ خصوصیتیں مقرر فرمائی ہیں کہ اس دن چھٹی رکھی جائے ، عبادت زیادہ کی جائے، اسے قومی اجتماع کا دن بنایا جائے، نہایا دھویا جائے ، صفائی کی جائے، مریضوں کی عیادت کی جائے ، اسی طرح اور قومی اور تمدنی کام کئے جائیں.ہاں جمعہ کی نماز سے فراغت کے بعد اجازت دی گئی ہے کہ لوگ اپنے مشاغل میں لگ جائیں مگر زیادہ مناسب اسی کو قرار دیا ہے کہ بعد میں بھی لوگ ذکر الہی میں مشغول رہیں.
490 $2003 خطبات مسرور حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ان کے ساتھ میں، اسی طرح رمضان کے آخری جمعہ میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ: ہمارے امام فرمایا کرتے ہیں کہ بڑا ہی بد قسمت ہے وہ انسان جس نے رمضان پایا مگر اپنے اندر کوئی تغیر نہ پایا.پانچ سات روزے باقی رہ گئے ہیں ( وہ بھی آخری جمعہ تھا.اور اب بھی تین چارروزے باقی ہیں.ان میں بہت کوشش کرو اور بڑی دعائیں مانگو، بہت توجہ الی اللہ کرو اور استغفار اور لاحول کثرت سے پڑھو.قرآن مجید سن لو، سمجھ لو، سمجھا لو جتنا ہو سکے صدقہ و خیرات دے لو.اور اپنے بچوں کو بھی تحریک کرتے رہو.اللہ تعالیٰ مجھے اور تمہیں تو فیق دے.(آمین) (خطبات نور جدید ایڈیشن صفحه ٢٦٥) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ نے جو تمام نعمت کی ہے وہ یہی دین ہے جس کا نام اسلام رکھا ہے.پھر نعمت میں جمعہ کا دن بھی ہے جس روز اتمام نعمت ہوا.یہ اس کی طرف اشارہ تھا کہ پھر تمام نعمت جو يُظهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلّہ کی صورت میں ہوگا وہ بھی ایک عظیم الشان جمعہ ہوگا.وہ جمعہ اب آ گیا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے وہ جمعہ مسیح موعود کے ساتھ مخصوص رکھا ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ یہ ایک تقریب ہے جو اللہ تعالیٰ نے سعادت مندوں کے لئے پیدا کر دی ہے.مبارک وہی ہیں جو اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.تم لوگ جنہوں نے میرے ساتھ تعلق پیدا کیا ہے اس بات پر ہرگز ہرگز مغرور نہ ہو جاؤ کہ جو کچھ تم نے پانا تھا، پاچکے سچی بات یہی ہے کہ تم اس چشمہ کے قریب آ پہنچے ہو جو اس وقت خدا تعالیٰ نے ابدی زندگی کے لئے پیدا کیا ہے.ہاں پانی پینا ابھی باقی ہے.پس خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے توفیق چاہو کہ وہ تمہیں سیراب کرے.کیونکہ خدا تعالیٰ کے بدوں کچھ نہیں ہوسکتا.یہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ جو اس چشمہ سے پئے گا وہ ہلاک نہ ہوگا.کیونکہ یہ پانی زندگی بخشتا ہے اور ہلاکت سے بچاتا ہے اور شیطان کے حملوں سے محفوظ کرتا ہے.اس چشمہ سے سیراب ہونے کا کیا طریق ہے.یہی کہ خدا تعالیٰ نے جو دو حق تم پر قائم کئے ہیں ان کو بحال کرو اور پورے طور پر ادا کرو.ان میں سے ایک خدا کا حق ہے اور دوسر امخلوق کا.(ملفوظات جلد دوم صفحه ١٣٤ - ١٣٥ پس ہم میں سے ہر احمدی کو اس بات کی اہمیت کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ امام الزمان کو مان کر
$2003 491 خطبات مسرور ہم پر بہت ذمہ داریاں عائد ہوگئی ہیں.عبادات کی طرف خاص توجہ ہونی چاہئے.اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق تمام عبادات کو بجالانے کی کوشش کرنی چاہئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بیان فرمایا کہ آپ کے زمانہ سے بھی جمعہ کو ایک خاص نسبت ہے.ہمیں اس بات کی اہمیت کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ دعاؤں پر بہت زیادہ توجہ دیں.خوش قسمتی سے آج کل رمضان کے دن گزر رہے ہیں.اور آخری عشرہ کے آخری چند دن ہیں.اس میں قبولیت دعا کی خوشخبریاں بھی دی گئی ہیں اس لئے ان دنوں میں دعاؤں کی طرف بہت توجہ دیں.ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله الله نے فرمایا: دعا ہی عبادت ہے.پھر آپ نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دَاخِرِيْنَ ﴾ (المومن: (٢) - یعنی تمہارا رب فرماتا ہے کہ مجھ سے مانگو میں قبول کروں گا.وہ لوگ جو تکبر کی وجہ سے میری عبادت نہیں کرتے وہ جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے“.(سنن ترمذی ابواب الدعوات باب ماجاء في فضل الدعاء کتنے خوف کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ تو یہ کہہ رہا ہے کہ میں تمہاری نیک تمنائیں اور تمہاری دعائیں قبول کرنے کے لئے انتظار میں ہوں پھر بھی تم نہیں مانگ رہے.اور اس کے باوجود میں تمہیں یہ تحریص دلا رہا ہوں کہ جمعہ کے روز ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے جب تمام دعائیں قبول ہو جاتی ہیں پھر بھی جیسے تمہاری توجہ پیدا ہونی چاہئے توجہ پیدا نہیں ہو رہی.اللہ تعالیٰ ہمیں وہ گھڑی بھی نصیب کرے اور دعاؤں کی توفیق بھی دے.حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا سے زیادہ معزز اور کوئی چیز نہیں“.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اللہ سے نہیں مانگتا ، اللہ اس سے ناراض ہوتا ہے.(سنن ترمذی ابواب الدعوات باب ماجاء في فضل الدعاء حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ
492 $2003 خطبات مسرور اپنے رب سے ہی ہر قسم کی حاجتیں مانگے.حتی کہ اگر اس کی جوتی کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اسی سے ہی مانگے.اور حضرت ثابت البنانی کی روایت میں ہے کہ نمک تک بھی اللہ ہی سے مانگے اور اگر جوتی کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اسی سے ہی مانگے.(ترمذى كتاب الدعوات يسأل الحاجة مهما صغرت حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے پاس ہوتا ہوں جہاں کہیں بھی وہ مجھے یاد کرے یا میرے ذکر سے اُس کے ہونٹ حرکت کریں.(بخارى كتاب التوحيد باب قول الله تعالى لا تحرك به (لسانك حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے جس کے لئے دعا کا دروازہ کھولا گیا تو اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دئے گئے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین دعا یہ ہے کہ اس سے عافیت طلب کی جائے.(ترمذى كتاب الدعوات باب في الدعاء النبي ﷺ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : ”انسان اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہو اس لئے سجدے میں بہت دعا کیا کرو.(مسلم كتاب الصلواة ما يقول في الركوع والسجود) حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ : ” جب بھی کوئی مسلمان کوئی ایسی دعا کرتا ہے جس میں کوئی گناہ کی بات یا قطع رحمی کا عصر نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے تین باتوں میں سے ایک ضرور عطا کر دیتا ہے.وہ کیا تین باتیں ہیں.یا تو اس کی دعا جلدسنی جاتی ہے.یا پھر اس دعا کو آخرت کے دن اس کے کام آنے کے لئے ذخیرہ کر لیا جاتا ہے.بخشش کے سامان پیدا کرنے کے لئے.یا پھر اللہ تعالیٰ اسی قدر اس کی برائی اس سے دُور کر دیتا ہے.اگر وہ اس رنگ میں پوری نہ بھی تو کوئی نہ کوئی اس کی برائی دور ہو جاتی ہے.صحابہ نے عرض کیا پھر تو ہم بہت دعا مانگیں گے.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس سے بھی بڑھ کر عطا کرنے پر قادر ہے.
خطبات مسرور 493 $2003 (مسند احمد بن حنبل مسند ابی سعید الخدری جلد ۳ صفحه ٣٩٤ حدیث نمبر ١٠٧٤٩) تو دیکھیں آنحضرت ﷺ نے ہمیں کس کس طرح دعاؤں کی طرف رغبت دلانے کی کوشش کی ہے.ہم میں سے ہر ایک کا فرض بنتا ہے کہ رمضان کے ان بقیہ دنوں میں بہت دعائیں کریں اپنے لئے ، اپنے بیوی بچوں کے لئے ، اپنے خاندان کے لئے ، جماعت کے لئے.جب انسان دوسروں کے لئے دعا کرتا ہے تو فرشتے اس کے لئے دعا کر رہے ہوتے ہیں.یہ چیز ہمیشہ پیش نظر رکھیں.اس لئے جماعت کے بے کس اور بے بس افراد کے لئے بہت دعائیں کریں جو کسی نہ کسی صورت میں مخالفین کی تکلیفیں اٹھا رہے ہیں.اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں تینوں رنگوں میں دعائیں قبول کرنے کا بھی حق رکھتا ہے.بلکہ جیسا کہ یہاں بیان ہوا ہے کہ اس سے بھی بڑھ کر ہمیں عطا کر سکتا ہے.وہ سب قدرتوں کا مالک ہے.اس کو کبھی محدود کر کے نہ دیکھیں.وو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: جو شخص دعا کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف مونہ نہیں کرتا وہ ہمیشہ اندھا رہتا اور اندھا مرتا ہے.جو شخص روح کی سچائی سے دعا کرتا ہے وہ ممکن نہیں کہ حقیقی طور پر نامراد رہ سکے.بلکہ وہ خوشحالی جو نہ صرف دولت سے مل سکتی ہے اور نہ حکومت سے اور نہ صحت سے بلکہ خدا کے ہاتھ میں ہے جس پیرا یہ میں چاہے وہ عنایت کر سکتا ہے.ہاں وہ کامل دعاؤں سے عنایت کی جاتی ہے.اگر خدا تعالیٰ چاہتا ہے تو ایک مخلص صادق کو عین مصیبت کے وقت میں دعا کے بعد وہ لذت حاصل ہو جاتی ہے جو ایک شہنشاہ کو تخت شاہی پر حاصل نہیں ہوسکتی.سواسی کا نام حقیقی مراد یابی ہے جو آخر دعا کرنے والوں کو ملتی ہے.(ايام الصلح، روحانی خزائن جلد نمبر ١٤ صفحه ٢٣٧) پھر آپ نے فرمایا: دعا کا قبولیت کے ساتھ ایک رشتہ ہے.ہم اس راز کو معقولی طور پر دوسروں کے دلوں میں بٹھا سکیں یا نہ بٹھا سکیں مگر کروڑ ہاراستبازوں کے تجارب نے اور خود ہمارے تجربہ نے اس مخفی حقیقت کو ہمیں دکھلا دیا ہے کہ ہما را دعا کرنا ایک قوت مقناطیسی رکھتا ہے.اور فضل اور رحمت الہی کو اپنی طرف کھینچتا ہے.“ (ايام الصلح، روحانی خزائن جلد نمبر ١٤ صفحه ٢٤٠ - ٢٤١)
$2003 494 خطبات مسرور آپ مزید فرماتے ہیں: یہ بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ دعا جو خدا تعالیٰ کے پاک کلام نے مسلمانوں پر فرض کی ہے اس کی فرضیت کے چار سبب ہیں.ایک یہ کہ تاہر ایک وقت اور ہر ایک حالت میں خدا تعالیٰ کی طرف رجوع ہو کر تو حید پر پختگی حاصل ہو کیونکہ خدا سے مانگنا اس بات کا اقرار کرنا ہے کہ مرادوں کا دینے والا صرف خدا ہے.دوسرے یہ کہ تا دعا کے قبول ہونے اور مراد کے ملنے پر ایمان قوی ہو.تیسرے یہ کہ اگر کسی اور رنگ میں عنایت الہی شامل حال ہو تو علم اور حکمت زیادت پکڑے.( یعنی زیادہ تر توجہ پیدا ہو علم اور حکمت حاصل کرنے کی طرف اور اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کی طرف بھی ).چوتھے یہ کہ اگر دعا کی قبولیت کا الہام اور رؤیا کے ساتھ وعدہ دیا جائے اور اُسی طرح ظہور میں آوے تو معرفت الہی ترقی کرے اور معرفت سے یقین اور یقین سے محبت اور محبت سے ہر ایک گناہ اور غیر اللہ سے انقطاع حاصل ہو جو حقیقی نجات کا ثمرہ ہے.ايام الصلح ، روحانی خزائن جلد نمبر ١٤ صفحه ٢٤٢ آپ فرماتے ہیں: میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری چلا ہٹ ایسی ہی اضطراری ہو کہ وہ اس کے فضل اور رحمت کو جوش دلاتی ہے اور اس کو کھینچ لاتی ہے.اور میں اپنے تجربہ کی بنا پر کہتا ہوں کہ خدا کے فضل اور رحمت کو جو قبولیت دعا کی صورت میں آتا ہے میں نے اپنی طرف کھینچتے ہوئے محسوس کیا ہے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ دیکھا ہے.آپ فرماتے ہیں: ہر ایک جو اس وقت سنتا ہے یادر کھے کہ تمہارا ہتھیار دعا ہے اس لئے دعا میں لگے رہو.یہ یادرکھو کہ معصیت اور فسق کو نہ واعظ دور کر سکتے ہیں اور نہ کوئی اور حیلہ.اس کے لئے ایک ہی راہ ہے وہ دعا ہے.خدا تعالیٰ نے یہی ہمیں فرمایا ہے.اس زمانہ میں نیکی کی طرف خیال آنا اور بدی کو چھوڑ نا چھوٹی سی بات نہیں ہے.یہ انقلاب چاہتی ہے اور یہ انقلاب خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.اور یہ دعاؤں سے ہوگا.ہماری جماعت کو چاہئے کہ راتوں کو روروکر دعائیں کریں.اس کا وعدہ ہے اُدْعُوْنِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ.
خطبات مسرور 495 $2003 پھر آپ نے فرمایا : وہ دعا جو معرفت کے بعد اور فضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اور رنگ اور کیفیت رکھتی ہے.وہ فنا کرنے والی چیز ہے، وہ گداز کرنے والی آگ ہے، وہ رحمت کو کھینچنے والی ایک مقناطیسی کشش ہے، وہ موت ہے پر آخر کوزندہ کرتی ہے، وہ ایک تندرسیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے، ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے اور ہر ایک زہر آخر اس سے تریاق ہو جاتا ہے.مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں، تھکتے نہیں.کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے.مبارک وہ اندھے جو دُعاؤں میں سُست نہیں ہوتے کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے.مبارک وہ جو قبروں میں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے.مبارک تم جبکہ دُعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے اور تمہاری روح دُعا کے لئے پگھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینہ میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے اور تمہیں تنہائی کا ذوق اُٹھانے کے لئے اندھیری کوٹھڑیوں اور سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے اور تمہیں بے تاب اور دیوانہ اور از خود رفتہ بنا دیتی ہے.کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا.وہ خدا جس کی طرف ہم بلاتے ہیں نہایت کریم ورحیم ، حیا والا ، صادق ، وفادار ، عاجزوں پر رحم کرنے والا ہے.پس تم بھی وفادار بن جاؤ اور پورے صدق اور وفا سے دُعا کرو کہ وہ تم پر رحم فرمائے گا.دنیا کے شور و غوغا سے الگ ہو جاؤ.اور نفسیاتی جھگڑوں کا دین کو رنگ مت دو.خدا کے لئے ہار اختیار کرلو اور شکست کو قبول کرلوتا بڑی بڑی فتحوں کے تم وارث بن جاؤ.دُعا کرنے والوں کو خدا معجزہ دکھائے گا.اور مانگنے والوں کو ایک خارق عادت نعمت دی جائیگی.دُعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے.دُعا سے خدا ایسا نزدیک ہو جاتا ہے جیسا کہ تمہاری جان تم سے نزدیک ہے.دُعا کی پہلی نعمت یہ ہے کہ انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے.پھر اس تبدیلی سے خدا بھی اپنی صفات میں تبدیلی کرتا ہے.اور اس کے صفات غیر متبدل ہیں مگر تبدیلی یافتہ کے لئے اُس کی ایک الگ تجلّی ہے جس کو دنیا نہیں جانتی گویاوہ اور خدا ہے حالانکہ اور کوئی خدا نہیں.مگر نئی تجلی نئے رنگ میں اس کو ظاہر کرتی ہے.تب اس خاص تجلی کے شان میں اس تبدیل یافتہ کے لئے وہ کام کرتا ہے جو دوسروں کے لئے نہیں کرتا.یہی وہ خوارق ہے.غرض دُعا وہ اکسیر ہے جو ایک مشتِ خاک کو کیمیا کر دیتی ہے اور وہ ایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھو دیتا ہے.اس دُعا کے ساتھ رُوح پچھلتی ہے اور پانی کی طرح بہہ کر آستانہ
$2003 496 خطبات مسرور حضرت احدیت پر گرتی ہے.“ (روحانی خزائن لیکچر سیالکوٹ جلد نمبر ۲۰ صفحه ۲۲۲ تا ۲۲۳) پس آئیں ہم سب مل کر ہمارا بچہ، ہمارا جوان، ہمارا بوڑھا، ہماری عورتیں ، ہمارے مرد، آج اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑا کر دعائیں کریں اور رمضان کے ان بقیہ دنوں میں جو کمیاں رہ گئی ہیں انہیں پورا کرنے کی کوشش کریں.اپنی راتوں کو اپنی عبادات کے ساتھ زندہ کریں.اپنے دنوں کو ذکر الہی سے تر رکھیں.اور اللہ تعالیٰ سے اس کا رحم اور فضل طلب کریں.اللہ تعالیٰ ہماری کوتاہیوں اور کمزوریوں کو معاف فرمائے ، ہماری پردہ پوشی فرمائے ، ہمارے پر اپنے رحم اور کرم کی نظر کرے، اللہ تعالیٰ ہمارے ان بھائیوں پر رحم اور فضل فرمائے جو صرف اس وجہ سے تنگ کئے جارہے ہیں کہ انہوں نے زمانے کے امام کو پہچانا اور مانا.اے اللہ ہمارے ایسے تمام مخالفین کو عقل اور سمجھ دے کہ وہ اس مخالفت سے باز آجائیں اور جو معصوم عوام کو ورغلانے والے شیطان صفت لوگ ہیں ان کو عبرت کا نشان بنادے.اور جہاں جہاں احمدی تنگی کی زندگی گزار رہے ہیں محض اور محض رحم کرتے ہوئے تنگی کے دن آزادی میں بدل دے اور ہمیں ہمیشہ اپنا عبادت گزار بندہ بنائے رکھے.اور اس رمضان میں ہم پر ہونے والے تمام فضلوں کو ہمیشہ جاری رکھے.اے خدا ! ہم تجھ سے تیرے ہی الفاظ کا واسطہ دے کر مانگتے ہیں اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ.اللہ تعالیٰ ہماری تمام دعائیں قبول فرمائے.000
$2003 497 32 خطبات مس ہماری ذاتی اور جماعتی ترقی کا انحصار دعا پر ہے، اس لئے دعاؤں میں سست نہ ہوں ۲۸ نومبر ۲۰۰۳ء بمطابق ۲۸ / نبوت ۱۳۸۲ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن عبادات اور دعاؤں کی اہمیت 000 دعاؤں کا مضمون ایسا مضمون ہے کہ ہم احمدیوں کا اس کے بغیر گزارہ ہی نہیں.کہ اب اس زمانہ میں اگر فتح ملانی ہے.اسلام کا غلبہ ہونا ہے تو دلائل کے ساتھ ساتھ صرف دعا سے ہی یہ سب کچھ ملتا ہے......امن يجيب المضطر....کی ایمان افروز تغییر.دعاؤں سے فتوحات کے نظارے......بڑے بڑے فرعون آئے اور گزر گئے لیکن الہی جماعتیں ترقی کرتی ہی چلی گئیں.مساجد کو آباد کرنے کی تحریک......قبولیت دعا کی ایک شرط جماعت کے لئے درد پیدا کریں.تہجد نماز اور نوافل کی ادائیگی میں با قاعدگی پیدا کریں.
خطبات مس $2003 498 تشھد وتعوذ کے بعد درج ذیل آیت قرآنیہ تلاوت فرمائی أمَّنْ يُجِيْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ.وَ إِلَةٌ مَّعَ اللَّهِ.قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ﴾ (سورة النمل آیت ۶۳) اس آیت کا ترجمہ یہ ہے نیا (پھر) وہ کون ہے جو بے قرار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین کے وارث بناتا ہے.کیا اللہ کے ساتھ کوئی ( اور ) معبود ہے؟ بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو..رمضان اپنی بیشمار برکتیں لے کر آیا اور جن کو اس سے حقیقی معنوں میں فائدہ اٹھانے کی توفیق ملی یعنی راتوں کو اٹھ کر نوافل ادا کرنے کی، فجر کی نماز کے بعد ا کثر جگہوں پر حدیث کے درس کا انتظام تھا، اس درس کو سننے کی توفیق ملی.مسجد میں پانچ وقت کوشش کر کے نماز باجماعت ادا کرنے کے لئے آنے کی توفیق ملی.درس قرآن کریم اور پھر رات کو تراویح کی نماز ادا کرنے کی توفیق ملی.اس کے علاوہ خود بھی ایک دو یا تین قرآن کریم کے دور مکمل کرنے کی توفیق ملی اور پھر روزے رکھنے کی بھی اللہ تعالیٰ نے تو فیق عطا فرمائی.تو آپ میں ایسے وہ لوگ جنہوں نے یہ سب اہتمام کیا اس رمضان میں، انہوں نے یقینا محسوس کیا ہوگا کہ رمضان آیا اور انتہائی تیزی سے اپنی برکتیں چھوڑتا ہوا چلا گیا.عبادتوں کے لطف دوبالا ہوئے.خطوط سے پتہ چلتا ہے، مختلف لوگ خط لکھتے رہتے ہیں کہ بہت سوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت کا، اپنی ہستی کا یقین دلایا.اللہ کرے کہ یہ برکتیں اب ہم سمیٹے رکھیں.اللہ تعالیٰ نے محض اور محض اپنے فضل سے ، نہ کہ ہماری کسی خوبی کی وجہ سے اپنی برکتوں سے ہمیں اپنے برتن بھرنے کی توفیق دی ہے اب ہماری کسی لا پرواہی کی وجہ سے، ہماری کسی کمزوری کی
خطبات مسرور 499 $2003 وجہ سے یا ہمارے کسی تکبر کی وجہ سے ہمارے یہ برتن خالی نہ ہو جائیں.گزشتہ چند خطبوں سے دعاؤں کی طرف ، عبادات کی طرف میں توجہ دلا رہا ہوں.اب کسی کو خیال آسکتا ہے کہ رمضان تھا اور اس مناسبت سے عبادات اور دعاؤں کے اس مضمون کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت تھی.اب کوئی اور مضمون شروع کرنا چاہئے.لیکن یہ مضمون دعاؤں کا مضمون ایک ایسا مضمون ہے کہ ہم احمدیوں کا اس کے بغیر گزارا ہی نہیں.اس لئے آج پھر میں احباب جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ جس طرح رمضان میں اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر ہم سب نے مل کر آہ و زاری کی ہے اسی طرح اب بھی اسی ذوق اور اسی شوق کے ساتھ اس کے حضور جھکے رہیں، اور ہمیشہ جھکے رہیں.اس کا فضل اور رحم مانگتے ہوئے ، ہمیشہ اسی کی طرف جھکیں اور اس زمانہ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے والوں کا ہتھیار ہی یہ دعا ہے کہ اس کے بغیر ہمارا گزارا ہو ہی نہیں سکتا.آنحضرت ﷺ کو اگر تلوار اٹھانے کی اجازت ملی تو اس وجہ سے تھی کہ آپ کے خلاف تلوار اٹھائی گئی تھی.لیکن اس زمانے میں خدا تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ کو صرف دعا ہی کا ہتھیار دیا ہے.اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے سختی سے اس بارہ میں فرمایا ہے کہ اس زمانہ میں تلوار کا ،توپ کا یا اور کسی قسم کے ہتھیار کا جہاد قطعا منع ہے اور یہ کوئی اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے بلکہ یہ سب کچھ اس زمانہ میں آنحضرت مے کی پیشگوئیوں کے مطابق ہی ہو رہا ہے.اب اس زمانہ میں اگر فتح ملنی ہے، اسلام کا غلبہ ہونا ہے تو دلائل کے ساتھ ساتھ صرف دعا سے ہی یہ سب کچھ ملنا ہے.اور یہ وہ ہتھیار ہے جو اس زمانہ میں سوائے جماعت احمدیہ کے نہ کسی مذہب کے پاس ہے، نہ کسی فرقے کے پاس ہے.پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے وہ ہتھیار دے دیا ہے جو کسی اور کے پاس اس وقت نہیں.پس جب یہ ایک ہتھیار ہے اور واحد ہتھیار ہے جو کسی اور کے پاس ہے ہی نہیں تو پھر ہم اپنے غلبہ کے دن دیکھنے کے لئے کس طرح اس کو کم اہمیت دے سکتے ہیں، کس طرح دعاؤں کی طرف کم توجہ دی جاسکتی ہے.ہم ان لامذہبوں کی طرح نہیں ہیں ، یہ تو نہیں کہہ سکتے ہم کہ دعاؤں سے بھی کبھی دنیا فتح کی گئی ہے، کبھی ہونٹ ہلانے سے بھی فوائد حاصل ہوئے ہیں.ہم تو یہ کہتے ہیں، بلکہ ہمارا جواب یہی ہونا چاہئے کہ ہاں جب ہونٹ اللہ کا نام لینے کے لئے ہلائے جائیں، جب دل کی آواز
$2003 500 خطبات مسرور ہونٹوں کے ذریعہ سے باہر نکلے اور اللہ سے مدد مانگی جارہی ہو تو نہ صرف عام فوائد دینی و دنیاوی حاصل ہوتے ہیں بلکہ ایسے لوگوں سے ٹکرانے والے، ایسے اللہ والوں کو تنگ کرنے والے، چاہے وہ لوگ ہوں یا حکومتیں ہوں وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہیں ، پاش پاش ہو جاتی ہیں.ہمارا خدا تو وہ خدا ہے جو صد ہے، بہت اونچی شان والا ہے، بہت طاقتوں کا مالک خدا ہے، وہ مضبوط سہارا ہے جس کے ساتھ جب کوئی چھٹ جائے تو وہ اس کی پناہ بن جاتا ہے.وہ ایسا سہارا ہے جو اپنے ساتھ چمٹانے کے لئے ہمیں محفوظ کرنے کے لئے ہمیں آواز میں دے رہا ہے کہ میرے بندو خالص ہو کر میرے پاس آؤ، میری پناہ گاہ میں پناہ لو، دشمن تمہارا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا.تو جب ہمارا خدا، ہمارا پیارا خدا، ہمیں اتنی یقین دہانیاں کروا رہا ہے تو پھر ہم کس طرح اس سے مانگنے ، اس کی طرف جھکنے، اس سے دعا کرنے کے مضمون کو چھوڑ سکتے ہیں.جماعت احمدیہ کو تو جماعتی اور دنیا کے حالات کو دیکھتے ہوئے پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے کی ضرورت ہے.اس آیت میں جو میں نے پڑھی ہے، اللہ تعالیٰ نے تو کہہ دیا ہے کہ میں مضطر کی دعا کو سنتا ہوں، بے قرار دل کی دعا کو قبول کرتا ہوں.اس لحاظ سے بہت دعاؤں کی ضرورت ہے اور یہ ہمارے لئے ہی ہے کہ مضطر کا مطلب صرف بے قرار ہی نہیں ہے بلکہ ایسا شخص ہے جس کے سب راستے کٹ گئے ہوں.تو اس وقت صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جس کے کوئی دنیاوی واسطے اور راستے نہیں ہیں.اس معاشرہ میں رہتے ہیں اس لئے جب تنگیاں آتی ہیں تو جو بھی متعلقہ حکام ہوتے ہیں اور مختلف ذرائع ہیں ان کو آگاہ ہم ضرور کرتے ہیں لیکن کبھی ان کو خدا نہیں بناتے.کیونکہ ہمیں تو ہمارے خدا نے ، ہمارے زندہ خدا نے یہ بتا دیا ہے کہ جب بھی تمہیں میری ضرورت ہو بلکہ ہر وقت ، جب تم امن کی حالت میں ہو، بظاہر امن کی حالت میں بھی ہو، اس یقین کے ساتھ مجھے پکارو کہ میں بے سہاروں کا سہارا ہوں، ان کی دعائیں سنتا ہوں تو تم مجھے ہمیشہ اپنی مدد کے لئے اپنے سامنے پاؤ گے.لیکن یہ ذہن میں ہونا چاہئے کہ اس اضطرار کے ساتھ دعائیں ہو رہی ہیں کہ زبان حال بھی کہہ رہی ہو کہ حیلے سب جاتے رہے حضرت تو اب ہے.پھر دیکھو اللہ تعالیٰ تمہاری تکلیفیں کس طرح دور کرتا ہے.ظالم افسروں سے بھی تمہاری نجات ہوگی ، ظالم مولویوں سے بھی تمہاری نجات ہوگی ، ظالم حکومت سے بھی تمہاری نجات ہوگی.لیکن صرف رونا یا گڑ گڑانا ہی کافی نہیں بلکہ
501 $2003 خطبات مسرور جیسا کہ فرمایا ایک اضطراب اور اضطرار ہونا چاہئے ، یہ یقین ہونا چاہئے کہ سب طاقتوں کا سر چشمہ صرف خدا کی ذات ہے.اور زمینی حملے ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے اگر ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ایک جگہ پر اپنی شناخت کی یہ علامت ٹھہرائی ہے کہ تمہارا خداوہ خدا ہے جو بیقراروں کی دعا سنتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دعا پھر جب کہ خدا تعالیٰ نے دعا کی قبولیت کو اپنی ہستی کی علامت ٹھہرائی ہے تو پھر کس طرح کوئی عقل اور حیاوالا گمان کر سکتا ہے کہ دعا کرنے پر کوئی آثار صریحہ اجابت کے مترتب نہیں ہوتے اور محض ایک رسمی امر ہے جس میں کچھ بھی روحانیت نہیں.میرے خیال میں ہے کہ ایسی بے ادبی کوئی بچے ایمان والا ہر گز نہیں کرے گا جبکہ اللہ جل شانہ فرما تا ہے کہ جس طرح زمین و آسمان کی صفت پر غور کرنے سے سچا خدا پہچانا جاتا ہے اسی طرح دعا کی قبولیت کو دیکھنے سے خدا تعالیٰ پر یقین آتا ہے“.(روحانی خزائن جلد ۱۴ ايام الصلح صفحه ۲۵۹ ،۲۶۰ پھر آپ نے فرمایا: کلام الہی میں لفظ مضطر سے وہ ضرر یافتہ مراد ہیں جو محض ابتلا کے طور پر ضرر یافتہ ہوں، نہ سزا کے طور پر.لیکن جو لوگ سزا کے طور پر کسی ضرر کے تختہ مشق ہوں ، وہ اس آیت کے مصداق نہیں ہیں.ورنہ لازم آتا ہے کہ قوم نوح اور قوم لوط اور قوم فرعون وغیرہ کی دعا ئیں اس اضطرار کے وقت میں قبول کی جاتیں مگر ایسا نہیں ہوا اور خدا کے ہاتھ نے اُن قوموں کو ہلاک کر دیا“.(روحانی خزائن جلد نمبر ۱۸ دافع البلاء صفحه (۲۳۱ تو اس وقت جماعت احمدیہ میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تعریف کے لحاظ سے مضطر ہیں.بعض ملکوں میں جتنا نقصان جماعت کو یا جماعت کے افراد کو پہنچایا جاتا ہے، یعنی کھل کر اپنے مذہب کا اظہار نہیں کر سکتے.ہم کہتے ہیں کہ ہم ایک خدا کو مانتے ہیں، ہم ایک خدا کو ماننے صلى الله والے ہیں، ہم حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کے دین پر قائم ہیں.مخالفین کہتے ہیں کہ نہیں تم جھوٹ بول رہے ہو.آنحضرت ﷺ کو تو کسی کے دل کے حال کا پتہ نہ چل سکا، معلوم نہ ہوسکا ان مولویوں کو ، ان حکومتوں کو دلوں کے حال پتہ لگنے لگ گئے.تو ختم نبوت کا منکر کون ہو گیا ؟ پھر تو ختم نبوت کے منکر یہ
502 $2003 خطبات مسرور لوگ ہیں جو اپنے منہ نہیں کہہ رہے بلکہ اپنے عمل سے کہہ رہے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کو تو دلوں کا حال نہیں پتہ لگا لیکن نعوذ باللہ ہم آپ سے اوپر ہیں، ہمیں سب کے دلوں کا حال پتہ لگ گیا ہے.اور یہ اپنے ساتھیوں کے عبرتناک انجام دیکھتے بھی ہیں لیکن پھر بھی بے حیائی اور ڈھٹائی کی انتہاء ہے، کوئی اثر نہیں ہوتا.تو جیسا کہ میں نے شروع میں دعا کے بارہ میں کہا تھا، دعا ہی ہے جو ہمارا اوڑھنا ہو، ہمارا بچھونا ہو.دعا ہی ہے جس پر ہمیں مکمل طور پر یقین ہونا چاہئے ، اس کے بغیر ہماری زندگی کچھ نہیں.ربوہ سے بھی اور پاکستان سے مختلف جگہوں سے بھی بڑے جذباتی خط آتے ہیں کہ پتہ نہیں ہم خلافت سے براہ راست ، ان معنوں میں براہ راست که بغیر کسی واسطہ کے کیونکہ ایم ٹی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے براہ راست دیکھنے اور سننے کے سامان تو ہو گئے ہیں لیکن یہ سب کچھ یکطرفہ ہے کہ کب ہماری آزادی کے حالات پیدا ہوتے ہیں جب دونوں طرف سے ملنے کے سامان ہوں ، کب ہم آزادی سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کا اظہار بازار میں کھڑے ہو کر کر سکتے ہیں.تاکہ لوگوں کو پتہ لگے کہ اصل محبت کرنے والے تو ہم لوگ ہیں.کب قانون میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگی.تو میرا جواب تو یہی ہوتا ہے کہ ان کو جیسا کہ گزشتہ سو سال سے زائد عرصہ سے ہمیشہ للہ تعالیٰ ہی ہمیں سنبھالتا رہا ہے، ہماری مشکلیں آسان کرتا رہا ہے ، آج بھی وہی خدا ہے جو ان دکھوں کو دور کرے گا انشاء اللہ.بظاہر ناممکن نظر آنے والی چیز ، ناممکن نظر آنے والی بات محض اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ممکن بن جایا کرتی ہے اور انشاء اللہ بن جائے گی.بڑے بڑے فرعون آئے اور گزر گئے لیکن الہی جماعتیں ترقی کرتی ہی چلی گئیں.لیکن شرط یہ ہے کہ مضطر بن کر اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکیں.اس لئے رمضان میں جس طرح دعاؤں کی توفیق ملی اس معیار کو قائم رکھیں گے تو کوئی چیز سامنے نہیں ٹھہر سکے گی.بہت سے باہر سے ربوہ جانے والوں نے بتایا اور لکھا کہ رمضان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے عبادت کرنے والوں سے بھری پڑی تھیں اور یہی حال دنیا میں ہر جگہ تھا، یہاں بھی آپ نے دیکھا.تو مسجدوں کی آبادی کا یہ انتظام اگر جاری رہے گا، اس میں ستی نہیں آئے گی.اب اس میں صرف ربوہ ہی نہیں بلکہ جہاں جہاں احمدی آبادیاں ہیں، اپنی مساجد کو آبا در رکھنے کی کوشش کریں گی اور ہماری مسجد میں تنگ پڑنی شروع ہو جائیں گی.اتنی حاضری ہوگی کہ
503 $2003 خطبات مسرور ہر بچہ، ہر بوڑھا، ہر جو ان نمازوں کے دوران مسجد کی طرف جائے گا.تو یہ کیفیت جب ہوگی تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ہماری دعاؤں کو بہت سنے گا.اسی طرح گھروں میں بھی خواتین نمازوں اور عبادات کا خاص اہتمام کریں اور پھر دیکھیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ کس طرح مدد کو آتا ہے.اسی طرح جب ہم سب مل کر دعائیں کریں گے، اللہ کے حضور جھکیں گے، عبادات بجالانے کی کوشش کریں گے تو اس کی مثال اس تیز بہاؤ والے پانی کی طرح ہی ہے جب پہاڑی راستوں سے گزرتا ہوا جہاں دریا کا پاٹ تنگ ہوتا ہے، یہ پانی گزر رہا ہوتا ہے تو اپنے راستے میں آنے والے پتھروں کو بھی کاٹ رہا ہوتا ہے اور انہیں بعض اوقات بہا بھی لے جاتا ہے.اور بڑے بڑے شہتیروں کے بھی ٹکڑے کر رہا ہوتا ہے.اس کی اتنی تیز رفتار ہوتی ہے کہ اس کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا.تو جب مل کر سب دعا کریں گے.اکٹھا کر کے جب دعائیں ہو رہی ہوں گی ساروں کی ، ایک طرف بہاؤ ہو رہا ہوگا تو اس دریا کے پانی کی طرح اس کے سامنے جو بھی چیز آئے گی خس و خاشاک کی طرح اڑ جائے گی.لیکن شرط یہ ہے کہ مستقل مزاجی اور باقاعدگی سے اس طرف توجہ رہے.رمضان گزر جانے کے بعد ہم ڈھیلے نہ پڑ جائیں ، ہماری مسجدیں ویران نہ نظر آنے لگیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ بڑے بے نیاز ہے.جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پرواہ نہیں کرتا.دیکھو کسی کی بیوی یا بچہ بیمار ہو یا کسی پر سخت مقدمہ آجاوے تو ان باتوں کے واسطے اس کو کیسا اضطراب ہوتا ہے.پس دعا میں بھی جب تک کچی تڑپ اور حالت اضطراب پیدا نہ ہو تب تک وہ بالکل بے اثر اور بیہودہ کام ہے.قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے جیسا کہ فرمایا أَمَّنْ يُجِيْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوء.پھر فرمایا: (الحكم جلد ١٢ نمبر ١٦ مورخه ۲ مارچ ۱۹۰۸ ء صفحه ٥) دوسری شرط قبولیت دعا کے واسطے یہ ہے کہ جس کے واسطے انسان دعا کرتا ہو اس کے لئے دل میں درد ہو أَمَّنْ يُجِيْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ - (الحكم جلد ه نمبر ۳۲ مورخه ۳۱ اگست ۱۹۰۱ ء صفحه نه (۱۳) تو جماعت کے لئے بھی آپ یہ درد پیدا کریں گے تو دعائیں بھی انشاء اللہ قبول ہوں گی.
504 $2003 خطبات مسرور اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ذاتی معاملات کے لئے بھی اور جماعتی ترقی کے لئے اسی اضطراب اور درد سے دعائیں کرنے کی توفیق دے جس طرح ہم اپنے لئے کرتے ہیں اور رمضان میں کرتے رہے ہیں.پس میں بار بار آپ کو اس بات کی طرف توجہ دلا رہا ہوں اور دلاتا رہوں گا کہ جس توجہ سے آپ نے رمضان میں اپنی مسجدوں کی رونق بڑھائی ، اپنے گھروں کو عبادات سے سجایا، اس کو اب اسی طرح جاری رکھنے کا بھی عہد کریں.ہم نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو نہ ماننے والوں کی طرح قضائے عمریاں ادا نہیں کرنی کہ رمضان گیا تو چھٹی ہوئی ، اب اگلا ماہِ رمضان آئے گا تو دیکھیں گے،اب جائے نماز لپیٹ کر الماریوں میں بند کر دو، اب قرآن کریم کو غلافوں میں چڑھا کر اپنے پر چھتوں میں یاشیلفوں میں رکھ دو.نہیں، بلکہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی خشیت ہر وقت اپنے ذہن میں رکھتے ہوئے اس حدیث پر عمل کرنا ہے.حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ذکر الہی کرنے والے اور ذکر الہی نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے.یعنی جو ذکر الہی کرتا ہے وہ زندہ ہے اور جو نہیں کرتا وہ مردہ ہے.پھر مسلم کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: وہ گھر جن میں خدا تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے اور وہ گھر جن میں خدا تعالیٰ کا ذکر نہیں ہوتا ، ان کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے.(مسلم کتاب صلاة المسافرين و قصرها باب استحباب صلاة النافلة في بيته......پھر ایک حدیث ہے.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ اللہ کو زیادہ یاد کرو اور ذکر کی مثال ایسی سمجھو کہ جیسے کسی آدمی کا اس کے دشمن نہایت تیزی کے ساتھ پیچھا کرتے رہے ہوں یہاں تک کہ اس آدمی نے بھاگ کر ایک مضبوط قلعہ میں پناہ لی اور دشمنوں کے ہاتھ میں لگنے سے بچ گیا.اسی طرح بندہ شیطان سے نجات نہیں پاسکتا مگر اللہ کی یاد کے سہارے“.(جامع ترمذی) تو دیکھیں یہ حدیث جہاں ہمیں یہ خوشخبری سنا رہی ہے کہ ذکر کرنے سے تم اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجاؤ گے اور مضبوط قلعہ میں اپنے آپ کو محفوظ کر لو گے.جس طرح بہت سے لوگوں نے رمضان میں محسوس بھی کیا ، اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ دعاؤں کے بعد ہمیں لگا کہ ہم ایک محفوظ حصار میں آ گئے ہیں.تو وہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ جب آپ نے اللہ تعالیٰ کی عبادات میں سنتی دکھائی، اللہ کے ذکر
$2003 505 خطبات مسرور سے لا پرواہی برتی ، تو دشمن پھر حملہ کرے گا، شیطان پھر حملہ کرے گا.اس لئے اس قلعہ میں آپ کے لئے مسلسل دعاؤں اور عبادات کی ضرورت ہے.اب مسلسل دعائیں کرتے رہیں گے، عبادات کرتے رہیں گے تو پھر اس مضبوط قلعہ میں رہ سکتے ہیں.اللہ سے مدد مانگنے کی ضرورت ہے، اس میں کمزوری نہیں آنی چاہئے.اللہ سے مدد مانگتے ہوئے، اس کا فضل مانگتے ہوئے،اب اس میں با قاعدگی قائم رہنی چاہئے جو رمضان میں ہم سب تجربہ کر چکے ہیں، اور اس سے لطف اٹھا چکے ہیں.حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے کہا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخص کوئی نیکی کرتا ہے اس کو دس گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ثواب میں دوں گا.اگر وہ برائی کرتا ہے تو اس کو اس برائی کے برابر سزا دوں گا یا اسے بخش دوں گا.اور جو شخص ایک بالشت میرے قریب ہوتا ہے میں ایک گز اس کے قریب ہوتا ہوں اور جو ایک گز میرے قریب ہوتا ہے میں دو گز اس کے قریب ہوتا ہوں.اور جو میرے پاس چلتے ہوئے آتا ہے تو میں اس کے پاس دوڑے ہوئے جاتا ہوں.اگر کوئی شخص دنیا بھر کے گناہ لے کر میرے پاس آئے بشرطیکہ اس نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو تو میں اس کے ساتھ اتنی ہی بڑی مغفرت اور بخشش سے پیش آؤں گا اور اسے معاف کر دوں گا“.(مسلم) كتاب الذكر والدعاء باب فضل الذكر والدعاء) تو یہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تحریص دلائی ہے کہ اس طرح میں معاف کیا کرتا ہوں.اب یہ نہیں کہ بار بار معافی مانگو اور بار بار غلط کام کرتے چلے جاؤ اور میریے نافرمانی کرتے چلے جاؤ.تو ہم میں سے جنہوں نے بھی اس رمضان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اللہ کی مغفرت اور بخشش سے فائدہ اٹھایا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جن فضلوں کے دروازوں کو ہم پر کھولا ہے، ہمارا کام ہے کہ اب اللہ کے فضلوں کو مانگتے ہوئے اسی التزام کے ساتھ اسی با قاعدگی کے ساتھ اس کے سامنے جھکتے ہوئے ان مغفرت اور بخشش کے دروازوں کو بند نہ ہونے دیں.ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے دروازے ہم پر کھلے رہیں اور ہماری کمزوری کی وجہ سے ہمارے قریب پہنچی ہوئی منزلیں کہیں ہم سے پھر دور نہ ہو جائیں، کہیں ہم راستے میں ہی تھک کر بیٹھ نہ جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دیتا رہے کہ جس طرح عبادات بجا لانے کا حق ہے اسی طرح عبادات بجالاتے رہیں.
$2003 506 خطبات مسرور حضرت عمر و بن عبسہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ (ہمارا ) رب رات کے درمیانی حصے میں بندے کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے.پس اگر تم سے ہو سکے تو اس گھڑی تو اللہ کا ذکر کرنے والوں میں سے بن جائے تو ضرور بن“.(سنن الترمذى كتاب الدعوات باب في دعا الضيف) تو رمضان کے دنوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ عادت ہمیں پڑ گئی کہ رات کو اٹھے اور تہجد کی نماز ادا کی، نوافل پڑھے.اگر ہم اس عادت کو با قاعدہ کر لیں اور جاری رکھیں تو اس حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ہم بہت قریب ہوں گے.اور اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کا مطلب یہی ہے کہ آپ نے سب کچھ پالیا.تو دعاؤں کے ساتھ پھر ایک بات یہ ہے کہ دعاؤں کے ساتھ ، عبادات کے ساتھ جمعہ کے دن کا بھی ایک خاص تعلق ہے.اس دن میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا وقت رکھا ہوا ہے جس میں بندے کی دعاسنی جاتی ہے اور پھر اس دور کا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ - والسلام کے دور کا، اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا جمعہ کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے.تو جمعہ کو بھی ہمیں خاص اہتمام سے منانا چاہئے.بعض ایسی دعائیں ہیں، جماعتی دعائیں ان کے لحاظ سے بھی خاص طور پر اس طرف توجہ کرنی چاہئے.نوافل کے لئے بھی ، گھر کے ہر فرد کو اٹھنا چاہئے.جمعہ پڑھنے کے لئے تمام مردوں کو ضرور جانا چاہئے ، کوشش کر کے بھی اور مساجد میں جمعوں کی حاضریاں بھی ایسی ہی ہونی چاہئیں جیسے رمضان میں ہوتی تھیں.جیسا کہ حدیث میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ: جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی بھی آتی ہے جس میں مسلمان اللہ تعالیٰ سے جو بھی بھلائی مانگتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو عطا کرتا ہے اور وہ گھڑی بڑی مختصر ہوتی ہے.(مسلم کتاب الجمعه باب فى الساعة التي في يوم الجمعة) تو دعا کی طرف ہر وقت توجہ دیتے رہنا چاہئے.کیا پتہ کس وقت وہ گھڑی آجائے جو قبولیت دعا کی گھڑی ہو، قبولیت دعا کا وقت ہو.تو ان تڑپنے والے دلوں کو جو پاکستان میں مختلف جگہوں سے، حالات کی وجہ سے جذبات کا اظہار کرتے ہیں، میں یہ کہتا ہوں کہ جمعوں کی رونق بڑھائیں.اللہ تعالیٰ کے حضور جذبات کا اظہار کریں.اور جب پورے یقین کے ساتھ اس سے مانگیں گے اور اس
$2003 507 خطبات مسرور سے مانگ رہے ہوں گے تو وہ بھی اپنے وعدوں کے مطابق سنے گا بھی اور آپ کی ضروریات بھی پوری کرے گا اور آپ کی دعاؤں کو قبول کرے گا اور آسانیاں پیدا فرمائے گا.انشاءاللہ.حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس سے مانگا جائے اور بہترین عبادت کشائش کا انتظار کرنا ہے.(ترمذى كتاب الدعوات باب في انتظار.......تو اللہ تعالیٰ یہ پسند کرتا ہے کہ اس سے مانگا جائے لیکن مانگنے والے مانگنے سے تھکیں نہیں.بے صبری کا مظاہرہ نہ کریں.کیونکہ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ اگر پھنس گئے تو پھر نئے سرے سے سفر شروع کرنا پڑے گا.تو اللہ تعالیٰ مختلف رنگ میں دعا ئیں قبول کرنے کے نظارے ہمیں دکھاتا بھی رہتا ہے.تو یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو ڈھارس بندھانے کے لئے تسلی دینے کے لئے دکھاتا ہے تاکہ بندہ یہ تسلی رکھے کہ اگر خدا تعالیٰ دعا کے طفیل وہ کام کر سکتا ہے جن کو ہم دیکھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے ، ان کو ہمیں حاصل کرنے کی یا ان کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائی تو اس اللہ تعالیٰ میں یہ طاقت بھی ہے کہ یہ جو بظاہر مشکل اور بڑے کام نظر آتے ہیں ان کو بھی کر دے.اس لئے صبر اور حوصلے سے دعائیں مانگتے رہنا چا ہئے اور کبھی تھکنا نہیں چاہئے.حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ” دعا عبادت کا مغز ہے.(ترمذی کتاب الهوات باب ماجاء في فضل الدعاء) حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” دعا ایسی مصیبت سے بچانے کے لئے بھی فائدہ دیتی ہے جو نازل ہو چکی ہو اور ایسی مصیبت کے بارہ میں بھی جو ابھی نازل نہ ہوئی ہو.پس اے اللہ کے بندو! دعا کو اپنے اوپر لازم کرلو.(ترمذى كتاب الدعوات باب ما جاء في فضل الدعاء) پس اس حدیث کے مطابق بھی ہمیں دعاؤں کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں ذاتی طور پر بھی ، جماعتی طور پر بھی ، ہر پریشانی اور مصیبت اور بلا سے بچائے.اللہ تعالیٰ ان تمام
508 $2003 خطبات مسرور مشکلات کو جن میں سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں جلد دور فرمائے ، ہمیں مزید ابتلاؤں اور امتحانوں میں نہ ڈالے ہمیں ہر شر سے محفوظ و مامون رکھے.اللہ تعالیٰ جلد تر ہمیں اپنے مخالفین پر غلبہ عطا فرمائے.لیکن بات وہی ہے کہ ایک اضطراری کیفیت ہمیں اپنے اوپر طاری کرنی ہوگی اور یہ حالت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی حاصل ہوتی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اگر میرے بندے میری نسبت سوال کریں کہ وہ کہاں ہے تو ان کو کہہ کہ وہ تم سے بہت قریب ہے.میں دعا کرنے والے کی دعا سنتا ہوں.پس چاہئے کہ دعاؤں سے میرا وصل ڈھونڈیں اور مجھ پر ایمان لاویں تا کہ کامیاب ہوں.رپورٹ جلسه اعظم مذاهب صفحه ۱۳۹ - بحواله تفسیر حضرت مسیح موع ح موعود جلد اول صفحه ٦٤٨) پس ہم بہت ہی بد قسمت ہوں گے اگر ہم اللہ تعالیٰ کی اس بات پر یقین نہ کریں.یقین نہ کرنے والی بات ہی ہے کہ اگر ہم اس کے کہنے کے باوجود اس کا قرب نہ ڈھونڈیں، اس کو تلاش نہ کریں.اور رمضان میں جو فضل ہم پر اللہ تعالیٰ نے کئے ہیں ان کو بھلا دیں اور ایمان میں کمزوری دکھائیں.اللہ نہ کرے کہ ہم میں سے کوئی بھی ایسی حرکت کرنے والا ہو.بلکہ ہمارے ایمانوں میں دن بدن ترقی ہو، زیادتی کے نظارے نظر آتے ہوں ، ہر نیا دن ہمیں اللہ تعالیٰ کے اور قریب لانے والا دن ثابت ہو.اس شکر گزاری کے طور پر کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں رمضان کی برکتوں سے فیضیاب کیا ، ہم مزید اس کے حضور جھکتے چلے جائیں اور اپنی تمام حاجتیں اپنے پیارے خدا کے سامنے پیش کرنے والے ہوں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ’دعا جو خدا تعالیٰ کے پاک کلام نے مسلمانوں پر فرض کی ہے اس کی فرضیت کے چار سبب ہیں.ایک یہ کہ تا ہر ایک وقت اور ہر ایک حالت میں خدا تعالیٰ کی طرف رجوع ہوکر توحید پر پختگی حاصل ہو کیونکہ خدا سے مانگنا اس بات کا اقرار کرنا ہے کہ مرادوں کا دینے والا صرف خدا ہے.دوسرے یہ کہ تا دعا کے قبول ہونے اور مراد کے ملنے پر ایمان قوی ہو.تیسرے یہ کہ اگر کسی اور رنگ میں عنایت الہی شامل حال ہو تو علم اور حکمت زیادت پکڑے.چوتھے یہ کہ اگر دعا کی قبولیت کا الہام اور رؤیا کے ساتھ وعدہ دیا جائے اور اُسی طرح ظہور میں آوے تو معرفت الہی ترقی کرے اور
509 $2003 خطبات مسرور معرفت سے یقین اور یقین سے محبت اور محبت سے ہر ایک گناہ اور غیر اللہ سے انقطاع حاصل ہو جو حقیقی نجات کا ثمرہ ہے“.ايام الصلح صفحه ١٤ - تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحه (٦٧٢) پھر آپ نے فرمایا: دنیا میں کوئی نبی نہیں آیا جس نے دعا کی تعلیم نہیں دی.یہ دعا ایک ایسی شے ہے جو عبودیت اور ربوبیت میں ایک رشتہ پیدا کرتی ہے“.(یعنی بندے اور خدا میں رشتہ پیدا کرتی ہے ) اس راہ میں قدم رکھنا بھی مشکل ہے.لیکن جو قدم رکھتا ہے پھر دعا ایک ایسا ذریعہ ہے کہ ان مشکلات کو آسان اور سہل کر دیتا ہے....جب انسان خدا تعالیٰ سے متواتر دعائیں مانگتا ہے تو وہ اور ہی انسان ہو جاتا ہے.اس کی روحانی کدورتیں دور ہوکر اس کو ایک قسم کی راحت اور سرور ملتا ہے اور ہر قسم کے تعصب اور ریا کاری سے الگ ہو کر وہ تمام مشکلات کو جو اس کی راہ میں پیداہوں برا دشت کر لیتا ہے.خدا کے لئے ان سختیوں کو جو دوسرے برداشت نہیں کرتے اور نہیں کر سکتے صرف اس لئے کہ خدا تعالیٰ راضی ہو جاوے برداشت کرتا ہے.تب خدا تعالیٰ جو رحمن اور رحیم خدا ہے اور سراسر رحمت ہے اس پر نظر کرتا ہے اور اس کی ساری کلفتوں اور کدورتوں کو سرور سے بدل دیتا ہے.الحكم جلد ۵ نمبر ۱۷ مورخه ۱۰ مئی ۱۹۰۱ ء صفحه ۳.۴.تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحه (۴۵۲) پھر آپ نے فرمایا: دعا خدا تعالیٰ کی ہستی کا زبر دست ثبوت ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے ﴿وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِي قَرِيْبٌ أُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ.یعنی جب میرے بندے تجھ سے سوال کریں کہ خدا کہاں ہے اور اس کا کیا ثبوت ہے تو کہہ دو کہ وہ بہت ہی قریب ہے اور اس کا ثبوت ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کا جواب دیتا ہوں.یہ جواب کبھی رویائے صالحہ کے ذریعہ ملتا ہے اور کبھی کشف والہام کے واسطے سے اور علاوہ بریں دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں کا اظہار ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا قادر ہے جب کہ مشکلات کو حل کر دیتا ہے.غرض دعا بڑی دولت اور طاقت ہے اور قرآن شریف میں جابجا
$2003 510 خطبات مسرور اس کی ترغیب دی ہے اور ایسے لوگوں کے حالات بھی بتائے ہیں جنہوں نے دعا کے ذریعہ اپنے مشکلات سے نجات پائی.انبیاء علیہم السلام کی زندگی کی جڑ اور ان کی کامیابیوں کا اصل اور سچا ذریعہ یہی دعا ہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی ایمانی اور عملی طاقت کو بڑھانے کے واسطے دعاؤں میں لگے رہو.دعاؤں کے ذریعہ سے ایسی تبدیلی ہوگی جو خدا کے فضل سے خاتمہ بالخیر ہو جاوے گا.الحكم جلد ۹ نمبر ۲ - مورخه ۱۷ جنوری ۱۹۰۵ ء- صفحه ۳ ـ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحه ٦٥١) پس جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ ذاتی بھی اور جماعتی ترقی کا انحصار بھی دعاؤں پر ہے.اس لئے اس میں کبھی ست نہ ہوں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کے مطابق دعائیں کرتے رہیں.اپنے ایمانوں کو بھی بڑھائیں، اپنے عمل بھی اس طرح بنائیں جن سے خدا راضی ہو.کہیں بھی ہماری ذاتی انا ہمیں تقویٰ سے دور لے جانے والی نہ ہو.اور سچا تقویٰ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے عاجزی دکھانے سے ہی پیدا ہوتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” جب میرا بندہ میری بابت سوال کرے پس میں بہت ہی قریب ہوں.میں پکارنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں جب وہ پکارتا ہے.بعض لوگ اس کی ذات پر شک کرتے ہیں.پس میری ہستی کا نشان یہ ہے کہ تم مجھے پکارو اور مجھ سے مانگو میں تمہیں پکاروں گا اور جواب دوں گا اور تمہیں یاد کروں گا.اگر یہ ہو کہ ہم پکارتے ہیں پر وہ جواب نہیں دیتا تو دیکھو کہ تم ایک جگہ کھڑے ہو کر ایک ایسے شخص کو جو تم سے بہت دور ہے پکارتے ہو اور تمہارے اپنے کانوں میں کچھ نقص ہے.وہ شخص تو تمہاری آواز کو سن کر تم کو جواب دے گا.مگر جب وہ دُور سے جواب دے گا تو تم باعث بہرہ پن کے سن نہ سکو گے.پس جوں جوں تمہارے درمیانی پر دے اور حجاب اور دُوری دُور ہوتی جائے گی اور تم ضرور اس آواز کو سنو گے.جب سے دنیا کی پیدائش ہوئی ہے اس بات کا ثبوت چلا آتا ہے کہ وہ اپنے خاص بندوں سے ہمکلام ہوتا ہے.اگر ایسا نہ ہوتا تو رفتہ رفتہ بالکل یہ بات نابود ہو جاتی کہ اس کی کوئی ہستی ہے.پس خدا کی ہستی کے ثبوت کا سب سے زبر دست طریقہ یہی ہے کہ ہم اس کی آواز کوسن لیں یا دیدار یا گفتار.پس آج کل گفتار قائم مقام ہے دیدار کا.یا بات کریں یا دیکھ لیں.ہاں
511 $2003 خطبات مسرور جب تک خدا کے اور اس سائل کے درمیان کوئی حجاب ہے اس وقت تک ہم سن نہیں سکتے.جب درمیانی پردہ اٹھ جائے گا تو اس کی آواز سنائی دے گی.تو یہ خطوط ملتے رہتے ہیں مختلف.ان سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے رمضان میں بہت سوں کو جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ، اللہ تعالیٰ کی ہستی پر یقین پیدا ہوا ہے.بہت سوں کے پردے سرکنے شروع ہوئے ہیں، لیکن ابھی حقیقی معرفت حاصل کرنے کے لئے مزید محنت کی ضرورت ہے.ان حجابوں کو مکمل طور پر اٹھانے کے لئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا، عبادات کی طرف اسی باقاعدگی سے توجہ کی ضرورت ہے جیسے رمضان کے مہینے میں توجہ رہی ہے ہم سب کی.تو جتنی زیادہ تعداد میں ایسی دعائیں کرنے والے ہماری جماعت میں پیدا ہوں گے اتنا ہی جماعت کا روحانی معیار بلند ہوگا اور ہوتا چلا جائے گا.خلیفہ وقت کو بھی آپ کی دعاؤں سے مددملتی چلی جائے گا اور جب یہ دونوں مل کر ایک تیز دھارے کی شکل اختیار کریں گے تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ فتوحات کے دروازے بھی کھلتے چلے جائیں گے.پس ہمارے ہتھیار یہ دعائیں ہیں جن سے ہم نے فتح پانی ہے.انشاء اللہ تعالیٰ.اللہ تعالیٰ ہمیں یہ معیار جلد سے جلد حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.
$2003 512 خطبات مس
$2003 513 33 خطبات مس جماعت احمدیہ کا نظام ہر احمدی کو پیارو محبت کی لڑی میں پرو کر رکھتا ہے ۵/ دسمبر ۲۰۰۳ء بمطابق ۵ر فتح ۱۳۸۲ هجری شمشی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن 000 کارکنان اور عہدیداران کو نہایت اہم نصائح اور ان کی ذمہ داریاں.نظام جماعت کی اہمیت اور افادیت اور اس کے نتیجہ میں خلیفہ وقت سے تعلق جی کارکنان اپنی ذمہ داریوں اور ان کی ادائیگی کے سلسلہ میں اپنی طبیعتوں میں نرمی پیدا کریں قوم کے سردار قوم کے خادم ہیں جماعت کے عہدیدار خلیفہ وقت کے نمائندے ہیں اس وجہ سے ان کی ذمہ داری ی مختلف شعبہ جات اور ان کے عہدیداران کے فرائض اور ہدایات.ونصائح عہد یدار ان کے لئے ہیں وہ تمام افراد جماعت کے لئے بھی ہوتی ہیں قضاء کے معاملات اور فرائض و ہدایات.نظام جماعت کا استحکام اور حفاظت سب سے مقدم رکھیں.
خطبات مس $2003 514 تشھد وتعوذ کے بعد درج ذیل آیت قرآنیہ تلاوت فرمائی فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْلَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكَّلِيْنَ﴾ (سورة آل عمران آیت ۱۶۰) جماعت احمدیہ کا نظام ایک ایسا نظام ہے جو بچپن سے لے کر مرنے تک ہر احمدی کو ایک پیار اور محبت کی لڑی میں پرو کر رکھتا ہے.بچہ جب سات سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اسے ایک نظام کے ساتھ وابستہ کر دیا جاتا ہے اور وہ مجلس اطفال الاحمدیہ کا ممبر بن جاتا ہے.ایک بچی جب سات سال کی عمر کو پہنچتی ہے تو وہ ناصرات الاحمدیہ کی رکن بن جاتی ہے جہاں انہیں ایک ٹیم ورک کے تحت کام کرنے کی تربیت دی جاتی ہے.پھر انہی میں سے ان کے سائق بنا کر اپنے عہدیدار کی اطاعت کا تصور پیدا کیا جاتا ہے.پھر پندرہ سال کی عمر کو جب پہنچ جائیں تو بچے خدام الاحمدیہ کی تنظیم میں اور بچیاں لجنہ اماءاللہ کی تنظیم میں شامل ہو جاتی ہیں اور ایک انتظامی ڈھانچے کے تحت بچپن سے تربیت حاصل کر کے اوپر آنے والے بچے اور بچیاں ہیں جب نوجوانی کی عمر میں قدم رکھتے ہیں تو ان نیک تنظیموں میں شامل ہونے سے جماعتی نظام اور طریقوں سے ان کو مزید واقفیت پیدا ہوتی ہے.اور عمر کے ساتھ ساتھ کیونکہ اب یہ بچے اور بچیاں اس عمر کو پہنچ جاتے ہیں جس میں شعور پیدا ہو جاتا ہے.اس لئے پندرہ سال کی عمر کے بعد یہ خود بھی اپنے میں سے ہی اپنے عہد یدار منتخب کرتے ہیں اور ان کے تحت ان کی تربیت ہورہی ہوتی ہے اور نظام چل رہا ہوتا ہے.تو پندرہ سال کی عمر کے بعد جیسا کہ میں نے کہا کہ لجنہ یا خدام میں جا کر یہ لوگ اپنے عہدیدار اپنے میں سے منتخب کرتے ہیں اور پھر
$2003 515 خطبات مسرور مرکزی ہدایات کی روشنی میں متفرق امور اور تربیتی امور خودسرانجام دے رہے ہوتے ہیں اور ان پر عمل بھی کرتے ہیں.تو بچپن سے ہی ایسی تربیت حاصل کرنے کی وجہ سے، ایسے پروگراموں میں شمولیت کی وجہ سے ان کو ٹریننگ ہو جاتی ہے اور پھر یہی بچے جب بڑے ہوتے ہیں اور جماعتی نظام میں پوری طرح سموئے جاتے ہیں تو جماعتی کاموں میں بھی زیادہ فائدہ مند اور مفید وجود ثابت ہوتے ہیں اور اس نظام کا ایک حصہ بنتے ہیں.تو بہر حال انہی ذیلی نظاموں کا حصہ بنتے ہوئے ہر بچہ، جوان، عورت، مرد، جب جماعتی نظام کا حصہ بن جاتے ہیں تو گو جماعتی نظام پہلے ہے، مقدم ہے.لیکن اس میں ہر بچے اور نوجوان کی اس طرح مکمل Involvement نہیں ہوتی جس طرح کہ شروع میں ذیلی تنظیموں میں ہو رہی ہوتی ہے اور ہو بھی نہیں سکتی.اس لئے حضرت مصلح موعودؓ کی دور رس نظر نے ذیلی تنظیموں کا قیام کیا تھا اور یہ آپ کا ایک بہت بڑا احسان ہے جماعت پر.اور اسی وجہ سے جیسا کہ میں نے کہا، ابتداء سے ہی جماعت کے ہر بچہ کے ذہن میں جماعتی نظام کا ایک تقدس اور احترام پیدا ہو جاتا ہے.اور اسی احترام اور تقدس کے تحت وہ پروان چڑھتا ہے اور چونکہ ابتداء سے ہی نظام کا تصور پیار و محبت اور بھائی چارے اور مل جل کر کام کرنے کی روح کے ساتھ وہ بچہ پروان چڑھ رہا ہوتا ہے اور پھر خلیفہ وقت کے ساتھ ہر موقع پر ذاتی پیارو محبت کا تعلق اس ٹریننگ کی وجہ سے ہو رہا ہوتا ہے اور ہو جاتا ہے اس لئے ہر فر د جماعت جب جماعت کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہو اور اپنے عہدیداران کی اطاعت بخوشی کرتا ہے تو اس لئے کرتا ہے کہ بچپن سے نظام کے بارہ میں پڑنے والی آواز اور خلیفہ وقت سے ذاتی تعلق اور پیار کی وجہ سے مجبور ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے نظام جماعت چونکہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکا ہے اور خلیفہ وقت کی براہ راست اس پر نظر ہوتی ہے اس لئے نئے شامل ہونے والے، نومبایعین بھی ان احمدیوں کے علاوہ بھی جو پیدائشی احمدی ہوں، بڑی جلدی نظام میں سموئے جاتے ہیں.لیکن جیسے جیسے یہ سلسلہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے، نظام جماعت کو چلانے والے کارکنان اور عہدیداران کی ذمہ داریاں بھی زیادہ بڑھتی چلی جارہی ہیں.انہیں تسبیح اور استغفار کی طرف توجہ کرنے کی زیادہ ضرورت ہے.فَسَبِّحْ بِحَمْدِرَتِكَ وَاسْتَغْفِرْهُ﴾ کا جو کم ہے اس طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.اور یہی چیز ان کو زیادہ احساس دلا رہی ہے، یا کم از کم
$2003 516 خطبات مسرور احساس دلانا چاہئے کہ اپنی طبیعتوں میں نرمی پیدا کرنے کی طرف زیادہ توجہ دیں.اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دینے کے احساس کو زیادہ ابھارنے کی ضرورت ہے.نظام جماعت کی ذمہ داری ادا کرتے وقت اپنی اناؤں اور خواہشات کو مکمل ختم کر کے خدمت سرانجام دینے کی طرف توجہ کرنے کی زیادہ ضرورت ہے اور پہلے سے بڑھ کر ضرورت ہے.ذراذراسی بات پر غصہ میں آجانے کی عادت کو عہدیداران کو ترک کرنا ہوگا اور کرنا چاہئے.جماعت کے احباب سے پیار، محبت کے تعلق کو بڑھانے ، ان کی باتوں کو غور اور توجہ سے سننے اور ان کے لئے دعائیں کرنے کی عادت کو مزید بڑھانا چاہئے تبھی سمجھا جاسکتا ہے کہ عہدیداران اپنی ذمہ داریاں مکمل طور پر ادا کر رہے ہیں یا کم از کم ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.جماعت احمدیہ میں عہدیدار اسٹیجوں پر بیٹھنے یا رعونت سے پھرنے کے لئے نہیں بنائے جاتے بلکہ اس تصور سے بنائے جاتے ہیں کہ قوم کے سردار قوم کے خادم ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جماعت کو اکٹھا رکھنے کے لئے ایک رہنما اصول اس آیت میں بتا دیا ہے جو میں نے تلاوت کی ہے.تو اگر آنحضرت ﷺ کی اس خوبی کی وجہ سے کہ آپ کے دل میں لوگوں کے لئے نرمی اور محبت کے جذبات تھے لوگ آپ کے ارد گرد ا کٹھے ہوتے تھے اور آپ کے پاس آتے تھے تو پھر میں اور آپ، ہم کون ہوتے ہیں جو محبت اور پیار کے جذبات لوگوں کے لئے نہ دکھائیں اور امید رکھیں کہ لوگ ہماری ہر بات مانیں.ہمیں تو اپنے آقا کی اتباع میں بہت بڑھ کر عاجزی، انکساری، پیار اور محبت کے ساتھ لوگوں سے پیش آنا چاہئے.کیونکہ خلیفہ وقت کے لئے تو ہر ملک میں، ہر شہر میں یا ہر محلے میں جا کر لوگوں کے حالات سے واقفیت حاصل کرنا مشکل ہے.یہ نظام جماعت قائم ہے جیسا کہ میں نے بتایا کہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکا ہے.وہ تمام عہدیدار چاہے ذیلی تنظیموں کے عہدیدار ہوں چاہے جماعتی عہد یدار ہوں،خلیفہ وقت کے نمائندے کے طور پر اپنے اپنے علاقہ میں متعین ہیں اور ان سے یہی امید کی جاتی ہے اور یہی تصور ہے کہ وہ خلیفہ وقت کے نمائندے ہیں.اگر وہ اپنے علاقہ کے احمدیوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے ، ان کی نغمی خوشی میں شریک نہیں ہور ہے، ان سے پیار محبت کا سلوک نہیں کر رہے، یا اگر خلیفہ وقت کی طرف سے کسی معاملہ میں رپورٹ منگوائی جاتی ہے تو بغیر تحقیق کے مکمل طریق کے جواب
> 517 $2003 خطبات مسرور ے دیتے ہیں یا کسی ذاتی عناد کی وجہ سے، جو خدا نہ کرے ہمارے کسی عہد یدار میں ہو ، غلط رپورٹ دے دیتے ہیں تو ایسے تمام عہدیدار گنہگار ہیں.ابھی گزشتہ دنوں بغیر مکمل تحقیق کے ایک رپورٹ چند احمدیوں کے بارہ میں مقامی جماعت کی طرف سے مرکز میں آئی کہ انہوں نے فلاں فلاں جماعتی روایات سے ہٹ کر کام کیا ہے اور جماعتی قواعد کے مطابق اس کی سزا اخراج از نظام جماعت تھی.جب مرکزی دفتر نے مجھے لکھا اور ان اشخاص کو اخراج از نظام جماعت کی سزا ہوگئی.تو جن کو سزا ہوئی تھی انہوں نے شور مچایا کہ ہمارا تو اس کام سے کوئی واسطہ ہی نہیں ، ہم تو بالکل معصوم ہیں، اور کسی طرح بھی ہم ملوث نہیں ہیں.تو پھر مرکز نے نئے سرے سے کمیشن خود مقرر کیا اور تحقیق کی تو پتہ چلا کہ صدر جماعت نے بغیر مکمل تحقیق کے رپورٹ کر دی تھی اور اب صدر صاحب کہتے ہیں غلطی سے نام چلا گیا.یعنی یہ تو بچوں کا کھیل ہو گیا کہ ایک معصوم کو اتنی سخت سزا دلوا ر ہے ہیں اور پھر بھولے بن کر کہہ دیا کہ غلطی سے نام چلا گیا.تو ایسے غیر ذمہ دار صدر کو تو میں نے مرکز کو کہا ہے کہ فوری طور پر ہٹا دیا جائے.اور آئندہ بھی جو کوئی ایسی غیر ذمہ داری کا ثبوت دے گا اس کو پھر تازندگی کبھی کوئی جماعتی عہدہ نہیں ملے گا.ایسے شخص نے ہمیں بھی گناہگار بنوایا.اللہ تعالیٰ معاف فرمائے.حدیث میں آتا ہے حضرت معقل بن یسار بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کا نگران اور ذمہ دار بنایا ہے وہ اگر لوگوں کی نگرانی ، اپنے فرض کی ادائیگی اور ان کی خیر خواہی میں کوتاہی کرتا ہے تو اس کے مرنے پر اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت حرام کر دے گا اور اسے بہشت نصیب نہیں کرے گا.(مسلم کتاب الاماره باب فضلة الامام العادل........پھر ایک حدیث ہے.ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے ایک نگران ہے اس سے اپنی رعایا کے بارہ میں پوچھا جائے گا.امیر نگران ہے اور آدمی اپنے گھر کا نگران ہے ، عورت بھی اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے، اولاد کی نگران ہے.پس تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا کہ اس نے اپنی ذمہ داری کو کس طرح نبھایا ہے.تو تمام عہدیداران اپنے اپنے دائرہ عمل میں نگران بنائے گئے ہیں.میں نے پہلے بھی ذیلی تنظیموں کا بھی ذکر کیا ہے تو بعض دفعہ بعض رپورٹیں ذیلی تنظیموں کی معلومات پر مبنی ہوتی ہیں ، ان کی
خطبات مسرور صل الله 518 $2003 طرف سے آرہی ہوتی ہیں.تو اگر ہر لیول پر اس نگرانی کا صحیح حق ادا نہیں ہورہا ہوگا تو پھر آنحضرت نے تنبیہ فرما دی ہے کہ اگر تم بطور نگران اپنے فرائض کی ادائیگی نہیں کر رہے تو تم پوچھے جاؤ گے.اللہ تعالیٰ کے حضور مجرم کی حیثیت سے حاضر ہونا اور پوچھے جانا بذات خود ایک خوف پیدا کرنے والی بات ہے لیکن یہاں جو فرمایا کہ یہ نہ سمجھو کہ تم پوچھے جاؤ گے اور شاید نرمی کا سلوک ہو جائے اور جان بچ جائے بلکہ فرمایا کہ جنت ایسے لوگوں پر حرام کر دی جائے گی.پس بڑا شدید انذار ہے، خوف کا مقام ہے، رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہر عہد یدار کو ذمہ داریاں نبھانے کی توفیق عطا فرمائے.یہ بات بھی یاد رکھنی ضروری ہے کہ ذیلی تنظیموں کی عاملہ ہو، لجنہ ، انصار، خدام کی یا جماعت کی عاملہ کسی شخص کے بارہ میں جب کوئی رائے قائم کرنی ہو تو اس بارہ میں جلدی نہیں کرنی چاہئے.چاہے اس شخص کے گزشتہ رویہ کے بارہ میں علم ہو کہ کوئی بعید نہیں کہ اس نے ایسی حرکت کی ہو اس لئے اس کو سزا دے دو یا سزا کی سفارش کر دو نہیں، بلکہ جو معاملہ عاملہ کے سامنے پیش کیا ہے اس کی مکمل تحقیق کریں.اگر شک کا فائدہ مل سکتا ہے تو اس کو ملنا چاہئے جس پر الزام لگ رہا ہے.اگر وہ شخص مجرم ہے تو شاید اس کو یہ احساس ہو جائے کہ گومیں نے جرم تو کیا ہے لیکن شک کی وجہ سے مجھ سے صرف نظر کیا گیا ہے.تو آئندہ اس کی اصلاح بھی ہو سکتی ہے یا کم از کم مجلس عاملہ یا ایسے عہد یدار اس حدیث پر تو عمل کرنے والے ہوں گے جو حضرت عائشہؓ سے روایت ہے.بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا مسلمان کو سزا سے بچانے کی حتی الامکان کوشش کرو.اگر اس کے بچنے کی کوئی راہ نکل سکتی ہو تو معاملہ رفع دفع کرنے کی سوچو.امام کا معاف اور درگزر کرنے میں غلطی کرنا سزا دینے میں غلطی کرنے سے بہتر ہے.(ترمذی ابواب الحدود.باب ما جاء في درء الحدود) پھر ایک حدیث ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا ذمہ دار ہو اللہ اس کی حاجات اور مقاصد پورے نہیں کرے گا جب تک وہ لوگوں کی ضروریات پوری نہ کرے.(ترغيب وترهيب كتاب القضاء باب ترغيب من ولى......)
519 $2003 خطبات مسرور تو اس حدیث میں یہ توجہ دلائی گئی ہے کہ بحیثیت عہد یدار تم پر بڑی ذمہ داری ہے.بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس لئے صرف یہ نہ سمجھو کہ عہد یدار بن کر ، صرف عاملہ میں بیٹھ کر جو معاملات لڑائی جھگڑے یا لین دین کے آتے ہیں ان کو ہی نمٹانا مقصود ہے.بلکہ ہر عہدیدار پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری نبھائے.ہر سیکرٹری اپنے فرائض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے.اب سیکرٹری امور عامہ کا صرف یہ کام ہی نہیں ہے کہ آپس کے فیصلے کروائے جائیں یا غلط حرکات اگر کسی کی دیکھیں تو انہیں دیکھ کر مرکز میں رپورٹ کر دی جائے.اس کا یہ کام بھی ہے کہ اپنی جماعت کے ایسے بریکا را فراد جن کو روزگار میسر نہیں، خدمت خلق کا بھی کام ہے اور روزگار مہیا کرنے کا بھی کام ہے، اس کے لئے روزگار کی تلاش میں مدد کرے.بعض لوگ طبعا کاروباری ذہن کے بھی ہوتے ہیں.ایسے لوگوں کی فہرستیں تیار کریں.اگر ایسے افراد میں صلاحیت دیکھیں تو تھوڑی بہت مالی مدد کر کے معمولی کا روبار بھی ان سے شروع کروایا جاسکتا ہے.اور اگر ان میں صلاحیت ہوگی تو وہ کاروبار چمک بھی جائے گا اور آہستہ آہستہ بہتر کاروبار بن سکتا ہے.میں نے کئی لوگوں کو دیکھا ہے جو پاکستان میں بھی سائیکل پر پھیری لگا کر یا کسی دوکان کے تھڑے پر بیٹھ کے ٹوکری رکھ کر یا چند کپڑے کے تھان رکھ کر اس وقت دوکانوں کے مالک بنے ہوئے ہیں.تو یہ ہمت دلانا بھی توجہ دلانا بھی، ایسے لوگوں کو پیچھے پڑ کر کہ کسی نہ کسی کام پر لگیں یہ بھی جماعتی نظام یا جماعتی نظام کے عہد یدار کا کام ہے جس کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے یعنی سیکرٹری امور عامہ.پھر سیکرٹری تعلیم ہے.عموماً سیکرٹریان تعلیم جماعتوں میں اتنے فعال نہیں جتنے ان سے توقع کی جاتی ہے یا کسی عہدیدار سے توقع کی جاسکتی ہے.اور یہ میں یونہی اندازے کی بات نہیں کر رہا، ہر جماعت اپنا اپنا جائزہ لے لے تو پتہ چل جائے گا کہ بعض سیکرٹریان پورے سال میں کوئی کام نہیں کرتے.حالانکہ مثلاً سیکرٹری تعلیم کی مثال دے رہا ہوں ، سیکرٹری تعلیم کا یہ کام ہے کہ اپنی جماعت کے ایسے بچوں کی فہرست بنائے جو پڑھ رہے ہیں، جو سکول جانے کی عمر کے ہیں اور سکول نہیں جا رہے.پھر وجہ معلوم کریں کہ کیا وجہ ہے وہ سکول نہیں جار ہے.مالی مشکلات ہیں یا صرف نکما پن ہی ہے.اور ایک احمدی بچے کوتو توجہ دلانی چاہئے کہ اس طرح وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے.مثلاً پاکستان میں ہر بچے کے لئے
$2003 520 خطبات خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ شرط لگائی تھی کہ ضرور میٹرک پاس کرے.بلکہ اب تو معیار کچھ بلند ہو گئے ہیں اور میں کہوں گا کہ ہر احمدی بچے کو ایف.اے ضرور کرنا چاہئے.افریقہ میں جو کم از کم معیار ہے پڑھائی کا.سیکنڈری سکول کا یا جی سی ایس سی ، یہاں بھی ہے، وہاں بھی.اسی طرح ہندوستان اور بنگلہ دیش اور دوسرے ملکوں میں، یہاں بھی میں نے دیکھا ہے یورپ کے اور امریکہ کے بعض لڑکے ملتے ہیں وہ پڑھائی چھوڑ بیٹھے ہیں.تو یہ کم از معیار ضرور حاصل کرنا چاہئے.بلکہ یہاں تک تعلیمی سہولتیں ہیں بچوں کو اور بھی آگے پڑھنا چاہئے.اور سیکرٹریاں تعلیم کو اپنی جماعت کے بچوں کو اس طرف توجہ دلاتے رہنا چاہئے.اگر تو یہ بچے جس طرح میں نے پہلے کہا، کسی مالی مشکل کی وجہ سے انہوں نے پڑھائی چھوڑی ہوئی ہے تو جماعت کو بتا ئیں.جماعت انشاء اللہ حتی الوسع ان کا انتظام کرے گی.اور پھر یہ بھی ہوتا ہے بعض دفعہ کہ بعض بچوں کو عام روایتی پڑھائی میں دلچسپی نہیں ہوتی.اگر اس میں دلچسپی نہیں ہے تو پھر کسی ہنر کے سیکھنے کی طرف بچوں کو توجہ دلائیں.وقت بہر حال کسی احمدی بچے کا ضائع نہیں ہونا چاہئے.پھر ایسی فہرستیں ہیں جو ان پڑھے لکھوں کی تیار کی جائیں جو آگے پڑھنا چاہتے ہیں.ہائر سٹڈیز کرنا چاہتے ہیں لیکن مالی مشکلات کی وجہ سے نہیں پڑھ سکتے تو جس حد تک ہوگا جماعت ایسے لوگوں کی مدد کرے گی.لیکن بہر حال سیکرٹریان تعلیم کو خود بھی اس سلسلے میں Active ہونا پڑے گا اور ہونا چاہئے.تو یہ چند مثالیں ہیں.جو ذمہ داری ہے سیکرٹری تعلیم کی، اور بھی بہت سارے کام ہیں اس بارہ میں چند مثالیں میں نے دی ہیں.اگر محلے کے لیول سے لے کر نیشنل لیول تک سیکرٹریان تعلیم مؤثر ہو جائیں اور کام کر نے والے ہوں تو یہ تمام باتیں جو میں نے بتائیں ہیں اور ان کے علاوہ بھی اور بہت ساری باتیں ہیں ان سب کا علم ہو سکتا ہے.فہرست تیار ہوسکتی ہے اور پھر ایسے طلباء کو مدد کر کے پھر آگے پڑھایا بھی جا سکتا ہے.پھر سیکرٹری تربیت یا اصلاح و ارشاد ہے ان کو بھی بہت فعال کرنے کی ضرورت ہے.اگر یہ سکرٹریاں تربیت یا اصلاح وارشاد بعض جگہوں پر کہلاتے ہیں، اپنے معین پروگرام بنا کر نچلے سے نچلے لیول سے لے کر مرکزی لیول تک کام کریں جس طرح کام کرنے کا حق ہے تو امور عامہ کے مسائل بھی اس تربیت سے حل ہو جائیں گے تعلیم کے مسائل بھی کافی حد تک کم ہو جائیں گے، رشتہ
521 $2003 خطبات مسرور ناطہ کے مسائل بھی بہت حد تک کم ہو جائیں گے.یہ شعبے آپس میں اتنے ملے ہوئے ہیں کہ تربیت کا شعبہ فعال ہونے سے بہت سارے شعبے خود ہی فعال ہو جاتے ہیں اور جماعت کا عمومی روحانی معیار بھی بلند ہوگا.تو یہ جو حدیث ہے، لوگوں کی ضروریات پوری کرنے سے یہ مراد ہے کہ یہ عہدے تمہارے سپرد ہیں ان عہدوں کی ذمہ داری کو سمجھو اور ان کو ادا کرو.جب اس طریق سے ہر عہد یدار اپنے اپنے شعبہ کی ذمہ داریاں ادا کرے گا تو لوگوں کے دلوں میں آپ کے لئے مزید عزت واحترام پیدا ہو گا اور جیسا کہ میں نے کہا جماعت کا عمومی معیار بھی بلند ہوگا.اس بارہ میں حضرت مصلح موعود کا ایک اقتباس ہے وہ میں سناتا ہوں.فرمایا: دنیا میں بہترین مصلح وہی سمجھا جاتا ہے جو تربیت کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں ایسی روح پیدا کر دیتا ہے کہ اس کا حکم ماننالوگوں کے لئے آسان ہو جاتا ہے اور وہ اپنے دل پر کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم باقی الہامی کتب پر فضیلت رکھتا ہے.اور الہامی کتا ہیں تو یہ کہتی ہیں کہ یہ کرو اور وہ کرو مگر قرآن یہ کہتا ہے کہ اس لئے کرو، اس لئے کرو.گویا وہ خالی حکم نہیں دیتا بلکہ اس حکم پر عمل کرنے کی انسانی قلوب میں رغبت بھی پیدا کر دیتا ہے.تو سمجھانا اور سمجھا کر قوم کے افراد کو ترقی کے میدان میں اپنے ساتھ لئے جانا، یہ کامیابی کا ایک اہم گر ہے.اور قرآن کریم نے اس پر خاص زور دیا ہے.چنانچہ سورہ لقمان میں حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو مخاطب کر کے جو نصیحتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے ایک نصیحت یہ ہے کہ ﴿وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِك (لقمان :۲۰) کہ تمہارے ساتھ چونکہ کمز ور لوگ بھی ہوں گے اس لئے ایسی طرز پر چلنا کہ کمزور رہ نہ جائیں.بے شک تم آگے بڑھنے کی کوشش کرو مگر اتنے تیز بھی نہ ہو جاؤ کہ کمزور طبائع بالکل رہ جائیں.دوسرے جب بھی تم کوئی حکم دو، محبت پیار اور سمجھا کر دو.اس طرح نہ کہو کہ ہم یوں کہتے ہیں.( تو قرآن شریف کی تعلیم تو یہ ہے کہ محبت اور پیار سے حکم دو، نہ کہ آرڈر ہو.) بلکہ ایسے رنگ میں بات پیش کرو کہ لوگ اسے سمجھ سکیں.اور وہ کہیں کہ اس کو تسلیم کرنے میں تو ہمارا اپنا فائدہ ہے.وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ﴾ کے یہی معنی ہیں.گویا میانہ روی اور پر حکمت کلام یہ دو چیزیں مل کر قوم میں ترقی کی روح پیدا کیا کرتی
522 $2003 خطبات مسرور ہیں.اور پر حکمت کلام کا بہترین طریق یہ ہے کہ دوسروں میں ایسی روح پیدا کر دی جائے کہ جب انہیں کوئی حکم دیا جائے تو سنے والے کہیں کہ یہی ہماری اپنی خواہش تھی.یہی وقت ہوتا ہے کہ جب کسی قوم کا قدم ترقی کی طرف سرعت کے ساتھ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے“.مشعل راه جلد اول صفحه (۱۵) پھر بعض اور بھی شکایات ہیں.بعض جگہ سے شکایت آجاتی ہے کہ ہم نے اپنے حالات کی وجہ سے امداد کی درخواست کی جو مرکز سے مقامی جماعت میں تحقیق کے لئے آئی تو صدر جماعت بڑے غصے میں آئے اور کہا کہ تم نے براہ راست درخواست کیوں دی، ہمارے ذریعہ کیوں نہ بھجوائی.لکھنے والے لکھتے ہیں کہ ہم نے تو ان سے معافی مانگ لی، دوبارہ ان کے ذریعہ سے درخواست بھجوائی گئی اور ایک لمبا عرصہ گزر گیا ہے ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور پتہ بھی نہیں لگا.جو ہماری ضرورت تھی وہ اسی طرح قائم ہے.ایک تو ڈانٹ ڈپٹ کی گئی، بے عزتی کر کے معافی منگوائی گئی ، دوبارہ درخواست لکھوائی اور پھر کارروائی بھی نہیں کی.اگر کسی عہدیدار نے یا صدر جماعت نے یہ سمجھ کر کہ یہ درخواست لکھنے والا یا درخواست دہندہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کی امداد کی جائے ، ایسے لوگوں کو پیار سے بھی سمجھایا جا سکتا ہے.اور پھر اگر مدد نہیں کرنی تھی تو درخواست دوبارہ لکھوانے کی ضرورت ہی کیا تھی.تو یہ چیزیں ایسی ہیں کہ بلا وجہ عہدیدار کے لئے لوگوں کے دلوں میں بے چینی پیدا کرتی ہیں.ان چیزوں سے اجتناب کرنا چاہئے.امراء ہوں ،صدران ہوں، ہر وقت یہ ذہن میں رکھیں کہ وہ خلیفہ وقت کے نمائندے کے طور پر جماعتوں میں متعین کئے گئے ہیں اور اس لحاظ سے انہیں ہر وقت اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے.ابوالحسن بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرو بن مرہ نے حضرت معاویہ سے کہا کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو امام حاجتمندوں، ناداروں اور غریبوں کے لئے اپنا دروازه بند رکھتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی ضروریات وغیرہ کے لئے آسمان کا دروازہ بند کر دیتا ہے.(ترمذی ابواب الاحكام باب ما جاء فى امام الرعية حضور علیہ السلام کے اس ارشاد کو سننے کے بعد حضرت معاویہ نے ایک شخص کو مقرر کر دیا کہ لوگوں کی ضروریات اور مشکلات کا مداوا کیا کرے اور ان کی ضرورتیں پوری کرے.تو جماعتی نظام جو ہے وہ اسی لئے مقرر کیا گیا ہے.
$2003 523 خطبات مسرور پھر حضرت معاذ بن جبل بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جہاں بھی تم ہو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو.اگر کوئی برا کام کر بیٹھو تو اس کے بعد نیک کام کرنے کی کوشش کرو.یہ نیکی بدی کو مٹا دے گی.اور لوگوں سے خوش اخلاقی اور حسن سلوک سے پیش آؤ.(ترمذی ابواب البر والصلة باب ماجاء في ما معاشرة الناس) ابو بردہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ابو موسیٰ اور معاد بن جبل کو یمن کی طرف والی بنا کر بھیجا.آپ نے ہر ایک کو ایک ایک حصہ کا والی مقرر کر کے بھیجا ( یمن کے دو حصے تھے ).پھر فرمایا: آسانی پیدا کرنا، مشکلیں پیدا نہ کرنا.محبت و خوشی پھیلانا اور نفرت نہ پہنچنے دینا.(بخاری ، کتاب المغازی، باب بعث ابى موسى ومعاذ الى اليمن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میری اس کوٹھڑی میں فرمایا: یا اللہ! جوکوئی میری امت کا حاکم ہو پھر وہ ان پر سختی کرے تو تو بھی اس پر سختی کرنا اور جو کوئی میری امت کا حاکم ہو اور وہ ان پر نرمی کرے تو تو بھی اس سے نرمی فرمانا.(صحيح مسلم كتاب الامارة باب فضيلة الامام العادل اصل میں تو امراء، صدران ، عہد یداران یا کارکنان جو بھی ہیں ان کا اصل کام تو یہ ہے کہ اپنے اندر بھی اور لوگوں میں بھی نظام جماعت کا احترام پیدا کیا جائے.اور اسی طرح جماعت کے تمام افراد کا بھی یہی کام ہے کہ اپنے اندر بھی اور اپنی نسلوں میں بھی جماعت کا احترام پیدا کریں.نظام جماعت کا احترام پیدا کریں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ جو نصائح میں عہد یداران کے لئے کرتا ہوں اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ صرف عہدیداران کے لئے ہیں بلکہ تمام افراد جماعت مخاطب ہوتے ہیں اور ان کو بھی یہ نصائح ہیں.ہو سکتا ہے کہ کل کو ایک عہدیدار کے ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جانے کی وجہ سے، یا بیمار ہو جانے کی وجہ سے، یا بڑھاپے کی وجہ سے، یا فوت ہو جانے کی وجہ سے کوئی دوسرا شخص اس عہدے کے لئے مقرر کر دیا جائے.پھر انتخابات بھی ہوتے ہیں، عہدے بدلتے بھی رہتے ہیں.تو ہر ایک کو اپنے ذہن میں یہ سوچ رکھنی چاہئے کہ جب بھی وہ عہد یدار بنیں گے وہ ایک خادم کے طور پر خدمت کرنے کے لئے بنیں گے.بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ عہد یدار بدلے بھی جاتے ہیں، خلیفہ وقت خود بھی اپنی مرضی سے بعض عہدوں کو تبدیل کر دیتے ہیں.تو بہر حال نئے
524 $2003 خطبات مسرور آنے والے شامل ہوتے ہیں اور نئے آنے والوں کی بھی یہی سوچ ہونی چاہئے اور اگر بنیادی ٹرینگ ہوگی تو اس سوچ کے ساتھ جو عہدہ ملے گا تو ان کو کام کرنے کی سہولت بھی رہے گی.تو جیسا کہ میں نے کہا ہر شخص کو اس ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے کہ اس نے نظام جماعت کا احترام کرنا ہے اور دوسروں میں بھی یہ احترام پیدا کرنا ہے.تو خلیفہ وقت کی تسلی بھی ہوگی کہ ہر جگہ کام کرنے والے کارکنان، نظام کو سمجھنے والے کارکنان ، کامل اطاعت کرنے والے کارکنان میسر آسکتے ہیں تو بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کہ اصل کام نظام جماعت کا احترام قائم کرنا ہے اور اس کو صحیح خطوط پر چلانا ہے.تو اس کے لئے عہد یداران کو ، کارکنان کو دوطرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے.ایک تو وہ ہیں جو جماعت کے عام ممبر ہیں.جتنے زیادہ یہ مضبوط ہوں گے ، جتنا زیادہ ہر شخص کا نظام سے تعلق ہوگا جتنی زیادہ ان میں اطاعت ہوگی ، جتنی زیادہ قربانی کا ان میں مادہ ہوگا ، اتنا ہی زیادہ نظام جماعت مضبوط ہوگا.اور یہ چیزیں ان میں کس طرح پیدا کی جائیں.اس سلسلہ میں عہدیداران کے فرائض کیا ہیں؟ اس کا میں اوپر تذکرہ کر چکا ہوں.اگر وہ پیار محبت کا سلوک رکھیں گے تو یہ باتیں لوگوں میں پیدا ہوتی چلی جائیں گی.اور یہی آپ کا گروہ ہے جتنا زیادہ اس کا تعلق جماعت سے اور عہد یدارن سے مضبوط ہوگا، اتنا ہی زیادہ نظام جماعت بھی آرام سے اور بغیر کسی رکاوٹ کے چلے گا.اتنازیادہ ہی ہم دنیا کو اپنا نمونہ دکھانے کے قابل ہوسکیں گے.اتنی ہی زیادہ ہمیں نظام جماعت کی پختگی نظر آئے گی.جتنا جتنا تعلق افراد جماعت اور عہدیداران میں ہوگا.اور پھر خلیفہ وقت کی بھی تسلی ہوگی کہ جماعت ایسی مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکی ہے جن سے بوقت ضرورت مجھے کارکنان اور عہدیداران میسر آ سکتے ہیں.اگر کسی جگہ کچھ جماعتیں تو اعلیٰ معیار کی ہوں اور کچھ جماعتیں ابھی بہت پیچھے ہوں تو بہر حال یہ فکر کا مقام ہے.تو عہدیداران کو اپنے علاقہ میں ، اپنے ضلع میں یا اپنے ملک میں اس نہج پر جائزے لینے ہوں گے کہ کہیں کوئی کمی تو نظر نہیں آرہی.اپنے کام کے طریق کا جائزہ لینا ہوگا.اپنی عاملہ کی مکمل Involvement کا یا مکمل ان کاموں میں شمولیت کا جائزہ لینا ہوگا.کہیں آپ نے عہدے صرف اس لئے تو نہیں رکھے ہوئے کہ عہدہ مل گیا ہے اور معذرت کرنا مناسب نہیں اس لئے عہدہ رکھی رکھو اور اس سے جس طرح بھی کام چلتا ہے چلائے جاؤ.اس طرح تو جماعتی نظام کو نقصان پہنچ رہا ہو گا.اگر تو ایسی بات ہے تو یہ زیادہ معیوب بات ہے
525 $2003 خطبات مسرور اور یہ زیادہ بڑا گناہ ہے بنسبت اس کے کہ عہدے سے معذرت کر دی جائے.اس لئے ایسے عہد یدار تو اس طرح جماعت کے نظام کو ، جماعت کے وقار کو نقصان پہنچانے والے عہدیدار ہیں.دوسرے یہ ذمہ داری ہے عہدیداران کی عام لوگوں سے ہٹ کر ، اپنے دوسرے برابر کے عہد یداروں یا ماتحت عہدیداران یا کارکنان کا احترام ہے.یہ کوئی دنیاوی عہدہ نہیں ہے جس طرح میں پہلے بھی کہہ آیا ہوں کہ جو آپ کو مل گیا ہے اور کوئی سمجھ بیٹھے کہ اب سب طاقتوں کا میں مالک بن گیا ہوں.یہاں بھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے امیر اپنی عاملہ کا احترام کریں، ان کی رائے کو وقعت دیں، اس پر غور کریں.اسی طرح اگر کوئی ماتحت بھی رائے دیتا ہے تو اس کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھیں، کم نظر سے نہ دیکھیں.اگر آنحضرت ﷺ کو حکم ہے کہ مشورہ کریں تو ہم ، آپ تو بہت معمولی چیز ہیں.تو کسی کی رائے کو کبھی بھی تکبر کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے.اپنا ایک وقار عہد یدار کا ہونا چاہئے اور یہ نہیں کہ غصے میں مغضوب الغضب ہو کر ایک تو رائے کو ر ڈ کر دیا اور مسجد میں یا میٹنگ میں تو تکار بھی شروع ہو جائے.یا گفتگو ایسے لہجہ میں کی جائے جس سے کسی دوسرے عہد یدار کا یا کسی دوسرے شخص کے بارہ میں جس سے استخفاف کا پہلو نکلتا ہو، کم نظر سے دیکھنے کا پہلو نکلتا ہو.تو ہمارے عہد یداران اور کارکنان کو تو انتہائی وسعت حوصلہ کا مظاہرہ کرنا چاہئے.کھلے دل سے تنقید بھی سنی چاہئے ، برداشت بھی کرنی چاہئے.اور پھر ادب کے دائرے میں رہ کر ہر شخص کی عزت نفس ہوتی ہے اس کا خیال رکھ کر دلیل سے جواب دینا چاہئے.یہ نہیں کہ میں نے یہ کہہ دیا ہے اس پر عمل نہیں ہو رہا تو تم یہ ہو تم وہ ہو، یہ بڑا غلط طریق ہے.عہدیدار کا مقام جماعت میں عہد یدار کا ہے خواہ وہ چھوٹا عہدیدار ہے یا بڑا عہدیدار ہے.پھر قطع نظر اس کے کہ کسی کی خدمت کو لمبا عرصہ گزر گیا ہے یا کسی کی خدمت کو تھوڑا عرصہ گزرا ہے.اگر کم عمر والے سے یا عہدے میں اپنے سے کم درجہ والے سے بھی ایسے رنگ میں کوئی گفتگو کرتا ہے جس سے سبکی کا پہلو نکلتا ہو تو گو دوسرا شخص اپنے وسعت حوصلہ کی وجہ سے ، یعنی جس سے تلخ کلامی کی گئی ہے وہ اپنے وسعت حوصلہ کی وجہ سے، اطاعت کے جذبہ سے برداشت بھی کرلے ایسی بات لیکن اگر ایسے عہدیدار کا معاملہ جو دوسرے عہد یداران یا کارکنان کا احترام نہیں کرتے میرے سامنے آیا تو قطع نظر اس کے کہ کتنا Senior ہے اس کے خلاف بہر حال کارروائی ہوگی تحقیق ہوگی.اس لئے آپس میں ایک دوسرے کا احترام کرنا بھی سیکھیں اور مشورے لینا اور مشوروں میں ان کو اہمیت دینا.اگر اچھا مشورہ ہے تو ضروری نہیں کہ چونکہ
526 $2003 خطبات مسرور میں بڑا ہوں اس لئے میرا مشورہ ہی اچھا ہو سکتا ہے اور چھوٹے کا مشورہ اچھا نہیں ہو سکتا.اس کو بہر حال وقعت کی نظر سے دیکھنا چاہئے ، اس کو کوئی وزن دینا چاہئے.پھر ہمارے ہاں قضا کا ایک نظام ہے، مقامی سطح پر بھی اور مرکزی سطح پر بھی ، جماعتوں میں بھی.تو قضا کے معاملات بھی ایسے ہیں جن میں ہر قاضی کو خالی الذہن ہوکر ، دعا کر کے، پھر معاملہ کو شروع کرنا چاہئے.کبھی کسی بھی فریق کو یہ احساس نہیں ہونا چاہئے کہ قاضی نے دوسرے فریق کی بات زیادہ توجہ سے سن لی ہے.یا فیصلے میں میرے نکات کو پوری طرح زیر غور نہیں لایا اور دوسرے کی طرف زیادہ توجہ رہی ہے.گو جس کے خلاف فیصلہ ہو عموماً اس کو شکوہ تو ہوتا ہی ہے لیکن قاضی کا اپنا معاملہ پوری طرح صاف ہونا چاہئے.حدیث میں آتا ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی حاکم سوچ سمجھ کر پوری تحقیق کے بعد فیصلہ کرے.اگر اس کا فیصلہ صحیح ہے تو اس کو دو ثواب ملیں گے.اور اگر باوجود کوشش کے اس سے غلط فیصلہ ہو گیا تو اسے ایک ثواب اپنی کوشش اور نیک نیتی کا بہر حال ملے گا.(بخاری کتاب الاعتصام باب اجر الحاكم اذا اجتهد فاصاب او أخطأ) پھر حضرت معاذ بن جبل کے کچھ ساتھی جو حمص کے رہنے والے تھے بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے جب حضرت معاذ کو یمن کا قاضی مقرر کر کے بھیجا تو معاذ سے پوچھا کہ جب کوئی مقدمہ تمہارے سامنے پیش ہو تو کیسے فیصلہ کرو گے؟ معاذ نے عرض کیا کہ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا یعنی قرآن شریف کے مطابق فیصلہ کروں گا.آپ نے پوچھا اگر کتاب اللہ میں وضاحت نہ ملی تو پھر کیا کرو گے.معاذ نے عرض کی اللہ تعالیٰ کے رسول کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا.آپ نے فرمایا: نہ سنت میں کوئی ہدایت پاؤ نہ کتاب اللہ میں تو پھر کیا کرو گے.تو معاذ نے عرض کی کہ اس صورت میں غور و فکر کر کے اپنی رائے سے فیصلہ کرنے کی کوشش کروں گا اور اس میں کسی سستی اور غفلت سے کام نہیں لوں گا.حضور نے یہ سن کر معاذ کے سینے پر شاباش دینے کے لئے ہاتھ مارکر فرمایا: الحمداللہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے رسول کے قاصد کو یہ توفیق دی اور وہ صیح طریق کار سمجھا جواللہ کے رسول کو پسند ہے.(ابودائود کتاب الاقضية - باب اجتهاد الرائ في القضاء) تو یہ ہے اصول فیصلہ کرنے کا کہ قرآن سے رہنمائی کی جائے ، پھر سنت سے رہنمائی کی
527 $2003 خطبات مسرور جائے ، اگر خلفاء کے ارشادات ہیں اس بارہ میں ان سے رہنمائی کی جائے.پھر اگر کہیں سے بھی اس مخصوص امر کے لئے رہنمائی نہ ملے تو دعا کرتے ہوئے اللہ کے حضور جھکتے ہوئے ،اس سے مدد مانگتے ہوئے کسی بات کا فیصلہ کیا جائے.جو بھی مقدمہ قاضیوں کے سامنے پیش ہو ان کا فیصلہ کیا جائے.اب تو تقریباً تمام معاملات میں اصولی قواعد مرتب ہیں، قاضیوں کو مل بھی جاتے ہیں.فقہی مسائل یا مسئلے بھی چھپے ہوئے موجود ہیں تو ان کی روشنی میں تمام فیصلے ہونے چاہئیں.حضرت عمر کا ایک خط جو انہوں نے ابو موسیٰ اشعری کو لکھا تھا.حضرت سعید بن ابو بردہ نے امیر المومنین حضرت عمر بن الخطاب کا ایک خط نکالا جو انہوں نے اپنے ایک والی حضرت ابوموسیٰ اشعری کو لکھا تھا.یہ روایت ہے.اس کا مضمون یہ تھا.قضا ایک محکم اور پختہ دینی فریضہ ہے اور واجب الاتباع سنت ہے.جب کوئی مقدمہ یا کیس آپ کے سامنے پیش ہو تو معاملے کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرو کیونکہ صرف حق بات کہنا اور اس کے نفاذ کی کوشش نہ کرنا بے فائدہ ہے.کیا بلحاظ مجلس، کیا بلحاظ توجہ اور کیا بلحاظ عدل و انصاف، سب لوگوں کے درمیان مساوات قائم رکھو.سب سے ایک جیسا سلوک کرو تا کہ کوئی با اثر تم سے ظلم کروانے کی امید نہ رکھے اور کسی کمزور کو تیرے ظلم و جور کا ڈراور اندیشہ نہ ہو.اور ثبوت پیش کرنا مدعی کا فرض ہے.اور قسم منکر مدعا علیہ پر آئے گی.مسلمانوں کے درمیان مصالحت کروانے کی کوشش کرنا اچھی بات ہے.ہاں ایسی صلح کی اجازت نہیں ہونی چاہئے جس کی وجہ سے حرام حلال بن رہا ہو اور حلال حرام یعنی خلافت شریعت صلح جائز نہ ہوگی.اگر تم کوئی فیصلہ کرو اور پھر غور وفکر کے بعد اللہ کی ہدایت سے دیکھو کہ فیصلے میں غلطی ہوگئی ہے.صحیح فیصلہ اور طرح ہے تو اپنا کل کا فیصلہ واپس لینے اور اسے منسوخ کرنے میں ذرہ برابر ہچکچاہٹ یا شرم محسوس نہیں کرنی چاہئے.کیونکہ حق اور عدل ایک عظیم صداقت ہے اور حق اور سچ کو کوئی چیز باطل اور غلط نہیں بنا سکتی ہے.اس لئے حق کی طرف لوٹ جانا اور حق کو تسلیم کر لینا باطل میں پھنسے رہنے اور غلط بات پر مصر رہنے سے کہیں بہتر ہے.جو بات تیرے دل میں کھٹکے اور قرآن وسنت میں اس کے بارہ میں کوئی وضاحت نہ ہو تو اس کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرو اور اس کی مثالیں تلاش کرو.اس سے ملتی جلتی صورتوں پر غور کرو پھر اس پر قیاس کرتے ہوئے کوئی فیصلہ کرنے کی کوشش کرو.اور جو پہلو اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ پسندیدہ لگے اور حق اور سچ کے زیادہ مشابہ نظر آئے اسے اختیار کرو.مدعی کو ثبوت پیش کرنے کے لئے مناسب تاریخ اور
528 $2003 خطبات مسرور وقت دو تا کہ وہ اپنے دعوئی کے حق میں ثبوت اکٹھے کر سکے.اگر مقررہ تاریخ پر وہ ثبوت اور بینہ پیش کر سکے فبہا ورنہ اس کے خلاف فیصلہ سنا دو.یہ طریق اندھے پن کو دور کرنے والا ہے.اور بے خبری کے اندھیرے کو روشن کرنے والا.یعنی اس سے الجھا ہوا معاملہ سلجھ جائے گا اور ہر قسم کے عذر واعتراض کا موثر جواب ہوگا.سب مسلمان برابر شاہد عادل ہیں.ایک دوسرے کے حق میں اور ایک دوسرے کے خلاف گواہی دے سکتے ہیں.اور ان گواہیوں کے مطابق فیصلہ ہوگا سوائے اس کے کہ کسی کو حد کی سزامل چکی ہو یا اس کی جھوٹی شہادت دینے کا تجربہ ہو چکا ہو.یا قرابت کے دعوئی میں اس پر کوئی تہمت لگی ہو.یا اس کا اصل رشتہ کسی اور شخص یا قوم سے ہو اور دعویٰ کسی اور کے رشتے دار ہونے کا کرے یعنی حسب و نسب کے دعوئی میں جھوٹا ہو.ایسے خفیف الحرکت شخص کے سچا ہونے پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا.باقی سب مسلمان گواہ بننے کے اہل ہونے کے لحاظ سے برابر ہیں کیونکہ کسی کے دل میں کیا ہے؟ اصل راز اور سچائی کیا ہے؟ اسے اللہ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے.اگر کوئی غلط بیانی کرے گا تو خدا اس کو سزا دے گا.اللہ تعالیٰ نے تمہیں پینات اور گواہیوں کے ذریعہ معاملات نبٹانے کا مکلف بنایا ہے.یہ بھی یا درکھو کہ تنگ پڑنے سے بچو.جلد گھبرا جانے اور لوگوں سے تکلیف اور دکھ محسوس کرنے اور فریقین مقدمہ سے تنفر اور اجنبی پن سے کبھی پیش نہ آؤ.حق اور سچ معلوم کرنے کے مواقع میں اس طرز عمل سے بچنا او حق شناسی کی صحیح کوشش کرنا.اللہ اس کا ضرور اجر دے گا اور ایسے شخص کو نیک شہرت بخشے گا.جو شخص اللہ کی خاطر خلوص نیت اختیار کرے گا اللہ اسے لوگوں کے شر سے بچائے گا اور جو شخص محض بناوٹ اور تصنع سے اپنے آپ کو اچھا ظاہر کرنے کی کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ کبھی نہ کبھی اس کا راز فاش کر دے گا اور اس کی رسوائی کے سامان پیدا کر دے گا.(سنن دار قطنی ـ كتاب الاقضيه والاحكام اس کے علاوہ عہدیداران کے متعلق بعض عمومی باتیں بھی ہیں جن کا میں ذکر کر دیتا ہوں.اللہ کے فضل سے جماعت میں عموماً عہدے کی خواہش کا اظہار کوئی نہیں کرتا اور جب عہدہ مل جاتا ہے تو خوف پیدا ہوتا ہے کہ میں ادا بھی کر سکتا ہوں یا نہیں.لیکن بعض سر پھرے بھی ہوتے ہیں.خط لکھ دیتے ہیں کہ ہمارے ضلع میں صحیح کام نہیں ہو رہا.لکھنے والا لکھتا ہے گومیں جانتا ہوں کہ عہدے کی خواہش کرنا مناسب نہیں لیکن پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ اگر میرے سپرد امارت یا فلاں عہدہ کر دیا جائے تو میں چھ مہینے یا سال میں اصلاح کر سکتا ہوں.تبدیلیاں پیدا کر دوں گا.تو بعض تو ایسے سر پھرے ہوتے ہیں جو کھل کر لکھ دیتے ہیں.اور بعض بڑی ہوشیاری سے یہی مدعا بیان کر رہے
$2003 529 خطبات مسرور ہوتے ہیں.تو ان پر میں یہ واضح کر دوں کہ ہمارے نظام میں، جماعت احمدیہ کے نظام میں اگر کسی انتخاب کے وقت کسی کا نام پیش ہو جائے تو وہ اپنے آپ کو ووٹ دینے کا حق بھی نہیں رکھتا.اپنے آپ کو ووٹ دینا بھی اس بات کا اظہار ہے کہ میں اس عہدے کا حقدار ہوں.ایسے لوگوں کو یہ حدیث پیش نظر رکھنی چاہئے.حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور میرے ساتھ میرے دو چچازاد بھائی تھے ان میں سے ایک بولا : یا رسول اللہ ! ہم کو ان ملکوں میں سے کسی ملک کا جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیئے ہیں امیر مقرر کر دیجئے اور دوسرے نے بھی ایسا ہی کہا تو آپ نے فرمایا.” اللہ کی قسم ہم ولایت کی خدمت اس کے سپرد نہیں کرتے جو اس کی درخواست کرے یا اس کی حرص کرے.“ نے فرمایا: وو (مسلم کتاب الامارة - باب النهى عن طلب الامارة والحرص عليها پھر عبد الرحمن بن سَمُرَہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اے عبد الرحمن ! عہدہ اور حکومت کی درخواست مت کر کیونکہ اگر درخواست سے تجھ کو ( عہدہ یا حکومت ) ملے تو اس کا بوجھ تجھ پر ہوگا اور اگر بغیر سوال کے ملے تو خدا تعالیٰ کی نصرت شاملِ حال ہوگی.(مسلم، كتاب الامارة ، باب النهى عن طلب الامارة و الحرص عليها حضرت مصلح موعود رضی اللہ فرماتے ہیں: بعض لوگوں کو یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ اس قسم کے عہدے لینے کے لئے مجالس میں شامل ہوتے ہیں.ایسے لوگ لعنت ہوتے ہیں اپنی قوم کے لئے اور لعنت ہوتے ہیں اپنے نفس کے لئے.وہ وہی ہیں جن کے متعلق خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ﴿فَوَيْلٌ لِلْمُصَلَّيْنَ الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلوتِهِمْ سَاهُوْنَ - الَّذِيْنَ هُمْ يُرَاعُوْن ﴾ (الماعون : ۵ تا ۷ ) ریا ہی ریا ان میں ہوتی ہے.کام کرنے کا شوق ان میں نہیں ہوتا...مشعل راه جلد اول صفحه ۲۰ - ۲۱ پھر حضرت مصلح موعودؓ نے کارکنان کو ہدایات دیتے ہوئے ایک جگہ فرمایا کہ.کارکنوں کو چاہئے کہ تندہی سے کام کریں.یہ خواہش کہ ہمارا نام و نمود ہوا ایسا خیال ہے
530 $2003 خطبات مسرور جو خراب کرتا ہے.اس خیال کے ماتحت بہت لوگ خراب ہو گئے ہیں، ہوتے ہیں ہوتے رہیں گے.تم اللہ سے ڈرواور اسی سے خوف کرو اور اس بات کو مدنظر رکھو کہ اس کا کام کر کے اس سے انعام کے طالب و....اور لوگوں سے مدح اور تعریف نہ چاہو.اللہ تعالیٰ ہمارے کاموں میں للہیت پیدا کرے.اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے اور مجھے پر بھی رحم کرے.آمین (خطبات محمود جلد ٧ خطبه فرموده ۲۲ / دسمبر ۱۹۲۲ء صفحه ٤٣٣) پھر آپ نے فرمایا کہ: افسران سلسلہ کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ خصوصیت سے اپنے اخلاق درست کریں اگر ضدی لوگ آجائیں تو ان کو بھی محبت اور پیار سے سمجھانے کی کوشش کیا کریں اور پوری محنت اور اخلاص سے کام کرنے کی عادت ڈالیں.اس امر کی طرف خدا تعالیٰ نے ﴿ وَ النَّزِعَتِ غَرُقًا وَّ النَّشِطَتِ نَشْطًا (النازعات: ۳۲).میں اشارہ کیا اور بتایا ہے کہ مومن جب کام میں مشغول ہوتا ہے تو وہ ہمہ تن اس میں مستغرق ہوتا اور مشکلات پر قابو پالیتا ہے.ایسی صورت میں اگر مخالفین کی طرف سے اعتراض بھی ہو تو دعاؤں سے اس کا ازالہ کرنا چاہئے اور اعتراضات سے کبھی گھبرانا نہیں چاہیئے.(خطبات محمود جلده ۱ صفحه ٢٥٧ تا ٢٦٥ پھر آپ نے عہدیداران کو فر مایا کہ: امراء اور پریذیڈنٹ اپنی اپنی جماعتوں میں قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں کا درس دیں.یہ محض وعظ نہیں ہوگا کیونکہ یہ اپنے اندر مشاہدہ رکھتا ہے.قرآن کریم وعظ نہیں بلکہ وہ مشاہدات پر حاوی ہے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی کتب مشاہدات پر مبنی اور مشاہدات پر حاوی ہیں.ایک عام واعظ تو یہ کہتا ہے کہ قرآن کریم میں اور احادیث میں یہ لکھا ہے مگر خدا تعالیٰ کے انبیاء یہ نہیں کہتے کہ فلاں جگہ یہ لکھا ہے بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل پر یہ لکھا ہے.ہماری زبان پر یہ لکھا ہے.ان کا وعظ ان کی سوانح عمری ہوتا ہے اس لئے ان کی کتب پڑھنے سے واعظ والا اثر انسان پر نہیں پڑتا بلکہ مشاہدہ والا اثر پڑتا ہے.جس طرح دعا ان نماز کا مغز ہے اسی طرح انبیاء کی کتب میں نصیحت کا مغز ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ اور اس کے انبیاء کے کلام میں پایا جاتا ہے.66 (خطبات محمود جلد ۱۱ صفحه ۲۸۳ - ٢٨٤)
خطبات مسرور کی بھی.531 $2003 تو یہ درس کی طرف بھی بہت توجہ دینی چاہئے.یہ بھی تربیت کا حصہ ہے اپنی بھی اور جماعت پھر آخر میں خلاصہ دوبارہ بیان کر دیتا ہوں کہ جو باتیں میں نے کہی ہیں عہدیداران کے لئے اور یہ خلفائے سلسلہ کہتے چلے آئے ہیں پہلے بھی لیکن ایک عرصہ گزرنے کے بعد بعض باتیں یاد نہیں رہتیں.جو نئے آنے والے عہدیداران ہوتے ہیں جو نہیں سمجھ رہے ہوتے صحیح طرح اس لئے بار بار یاد دہانی کروانی پڑتی ہے.تو خلاصہ یہ باتیں ہیں: (۱) عہدیداران پر خود بھی لازم ہے کہ اطاعت کا اعلیٰ نمونہ دکھائیں اور اپنے سے بالا افسر یا عہدیدار کی مکمل اطاعت اور عزت کریں.اگر یہ کریں گے تو آپ کے نیچے جو لوگ ہیں، افراد جماعت ہوں یا کارکنان ، آپ کی مکمل اطاعت اور عزت کریں گے.(۲) یہ ذہن میں رکھیں کہ لوگوں سے نرمی سے پیش آنا ہے.ان کے دل جیتنے ہیں ، ان کی خوشی غمی میں ان کے کام آتا ہے.اگر آپ یہ فطری تقاضے پورے نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے عہد یدار کے دل میں تکبر پایا جاتا ہے.(۳)....امراء اور عہدیداران یا مرکزی کارکنان یہ دعا کریں کہ ان کے ماتحت یا جن کا ان کو نگران بنایا گیا ہے، شریف النفس ہوں، جماعت کی اطاعت کی روح ان میں ہو اور نظام جماعت کا احترام ان میں ہو.(۴) کبھی کسی فرد جماعت سے کسی معاملہ میں امتیازی سلوک نہ کریں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ بعض لوگ بڑے ٹیڑھے ہوتے ہیں.مجھے علم ہے کہ امراء کے، عہد یداران کے، یا نظام جماعت کے ناک میں دم کیا ہوتا ہے ایسے لوگوں نے لیکن پھر بھی ان کی بدتمیزیوں کو جس حد تک برداشت کر سکتے ہیں کریں اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر کسی قسم کا شکوہ نہ کریں، بدلہ لینے کا خیال بھی کبھی دل میں نہ آئے.ان کے لئے دعا کریں، اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں.(۵) پھر یہ کہ نظام جماعت کا استحکام اور حفاظت سب سے مقدم رہنا چاہئے اور اس کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہنا چاہئے.پھر کبھی اپنے گرد جی حضوری کرنے والے یا خوشامد کرنے والے لوگوں کو اکٹھا نہ ہونے دیں.جن عہدیداروں پر ایسے لوگوں کا قبضہ ہو جاتا ہے پھر ایسے
$2003 532 خطبات مسرور عہدیداران سے انصاف کی توقع نہیں کی جاسکتی.ایسے عہد یدار پھر ان لوگوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن جاتے ہیں.تبھی تو آنحضرت ﷺ نے اس دعا کی تلقین فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی بُرے مشیر میرے اردگر دا کٹھے نہ کرے.(1) پھر یہ بھی یا درکھنے والی بات ہے جیسا کہ میں بیان بھی کر چکا ہوں کہ جہاں نظام جماعت کے تقدس پر حرف نہ آتا ہو ، عفو اور احسان کا سلوک کریں.ان کے لئے مغفرت مانگیں جوان کی اصلاح کا موجب بنے.یہ تو عہد یدارن کے لئے ہے لیکن آخر میں میں پھر احباب جماعت کے لئے ایک فقرہ کہ دیتا ہوں کہ آپ پر بھی، جو عہدیدار نہیں ہیں، ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کا کام صرف اطاعت، اطاعت اور اطاعت ہے اور ساتھ دعا کرنا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ واریاں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.آخر میں میں ایک دعا کی بھی تحریک کرنا چاہتا ہوں.بنگلہ دیش کے حالات کافی Tense ہیں، بڑے عرصہ سے، بڑے خراب ہیں اور آج بھی مخالفین نے بڑی دھمکیاں دی ہوئی ہیں مسجدوں یہ حملے کرنے کی.اللہ تعالیٰ ہر طرح سے محفوظ رکھے ، جماعت کو ہر شر سے بچائے.اور درس کے دوران بھی میں نے دعا کی ایک تحریک کی تھی اب دوبارہ کرتا ہوں.یہ دعا خاص طور پہ اور دعاؤں کے ساتھ یہ بھی ضرور کیا کریں اور جیسا کہ میں نے کہا تھا ہر نئی خلافت کے بعد اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے.اور وہ دعا یہ ہے.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کو خواب کے ذریعہ سے اللہ نے سکھائی، حضرت مسیح موعود علیہ السلام خواب میں آئے تھے اور کہا تھا کہ یہ دعا جماعت پڑھے.﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ ﴾ (ال اے ہمارے رب ! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکا ہو.اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر.یقیناً تو ہی ہے جو بہت عطا کرنے والا ہے.یہ دعا بہت کیا کریں اللہ تعالیٰ ہمیں ہر شر سے محفوظ رکھے.آمین
$2003 533 34 خطبات مس اللہ کے حقوق سے تجاوز کریں گے تو شیطان ضرور حملہ آور ہوگا ۱۲ دسمبر ۲۰۰۳ء بمطابق ۱۲ فتح ۱۳۸۲ هجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن اپنے اعمال کا جائزہ لیتے رہو اور شیطانی وساوس سے ہمیشہ بچنے کی کوشش کرو.ہ شیطان سے بچنے کے لئے خدا کے فضل کے ساتھ ساتھ نمازوں اور استغفار پر التزام ضروری ہے.آج کل کے زمانے میں ایک معاشرتی کمزوری لڑکوں اور لڑکیوں کی دوستی اور اس کے نقصان دہ اثرات.انٹر نیٹ کے مضر استعمال اور اس کے نقصانات.شیطان سے بچنے کے لئے روزانہ کی جانے والی دعا...عائلی معاملات میں اور دیگر معاشرتی امور میں شیطان کی پیدا کردہ رکاوٹیں.
خطبات مس $2003 534 تشھد وتعوذ کے بعد درج ذیل آیت قرآنیہ تلاوت فرمائی يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّيْطَنِ.وَمَنْ يَتَّبِعْ خُطُواتِ الشَّيْطَنِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ.وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَازَكَى مِنْكُمْ مِنْ اَحَدٍ أَبَدًا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَآءُ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ.(سورة النور آیت (۲۲) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! شیطان کے قدموں پر مت چلو.اور جو کوئی شیطان کے قدموں پر چلتا ہے تو وہ تو یقینا بے حیائی اور نا پسندیدہ باتوں کا حکم دیتا ہے.اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہو تو تم میں سے کوئی ایک بھی کبھی پاک نہ ہوسکتا.لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک کر دیتا ہے.اور اللہ بہت سننے والا (اور ) دائمی علم رکھنے والا ہے.قرآن کریم میں چار پانچ مختلف جگہوں پر یہ حکم ہے کہ شیطان کے قدموں پر نہ چلو، ان پر چلنے سے بچتے رہو.کبھی عام لوگ مخاطب ہیں اور بعض جگہ مومنوں کو مخاطب کیا گیا ہے.تو ایمان لانے والوں کو یہ تنبیہ کی ہے ، مومنوں کو یہ تنبیہ کی ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ ہم ایمان لے آئے اس لئے ہمیں اب کسی چیز کی فکر نہیں ہے.فرمایا کہ نہیں.تمہیں فکر کرنی چاہئے.کیونکہ جہاں تم ذرا بھی لا پرواہ ہوئے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری توجہ ہٹی تو تمہارا ایمان ضائع ہونے کا خطرہ ہر وقت موجود ہے.کیونکہ شیطان گھات میں بیٹھا ہے.اس نے تو آدم کی پیدائش کے وقت سے ہی کہہ دیا تھا کہ اب میں ہمیشہ اس کے راستے پر بیٹھا رہوں گا اور شیطان نے اپنے پر یہ فرض کر لیا تھا کہ اللہ تعالیٰ جو بھی آدم اور اس کی اولاد کے لئے نیک راستے تجویز کرے گا وہ ہر وقت ہر راستے پر بیٹھ کر ان کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے گا اور شیطان نے یہ کہا کہ میں ان کے دلوں میں طرح طرح کی خواہشات
535 $2003 خطبات مسرور پیدا کروں گا تا کہ وہ سیدھے راستے سے بھٹکتے رہیں.مختلف طریقوں سے انسانوں کو ورغلانے کی کوشش کرتا رہوں گا.اگر ایک دفعہ میرے ہاتھ سے نکل بھی جائیں تو میں لگا تار حملے کرتا رہوں گا کیونکہ میں تھک کر بیٹھنے والا نہیں ہوں.میں دائیں سے بھی حملہ کروں گا، میں بائیں سے بھی حملہ کروں گا، پیچھے سے بھی حملہ کروں گا، سامنے سے بھی حملہ کروں گا.اللہ تعالیٰ کو اس نے ایک طرح کا چیلنج دیا تھا کہ ایسے ایسے طریقوں سے حملہ کروں گا کہ ان میں سے بہتوں کو تو شکر گزار نہیں پائے گا.تو خیر وہ تو اللہ تعالیٰ نے اس کو جواب دیا لیکن دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ناشکر گزارلوگ ہوتے ہیں تو واضح ہو گیا کہ وہ شیطان کے قدموں پر چلنے والے ہیں.اور شیطان کے قدموں پر حکم بھی ہے کہ نہ چلو تو اس کا حکم کیا ہے.جیسا کہ واضح ہے کہ شیطان کا راستہ اختیار نہ کرو.ان باتوں پر عمل نہ کر وجو شیطان کے رستے کی طرف لے جانے والی ہیں.جب انسان مومن بھی ہو، پتہ بھی ہو کہ شیطان کا راستہ کون سا ہے اور پھر یہ بھی پتہ ہو کہ شیطان کا راستہ انتہائی بھیانک راستہ ہے.یہ مجھے تباہی کے گڑھے کی طرف لے جائے گا تو پھر کیوں ایسا شخص جو ایک دفعہ ایمان لے آیا ہوشیطان کے راستے کو اختیار کرے گا اور اپنی تباہی کے سامان پیدا کرے گا.کوئی عقل والا انسان جس نے ایمان بھی دیکھ لیا ہو، جانتے بوجھتے ہوئے کبھی بھی اپنے آپ کو اس تباہی میں نہیں ڈالے گا.تو پھر کیوں مومنین کو یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ شیطان کے راستے پر مت چلو، اس سے بچتے رہو.تو ظاہر ہے یہ وارننگ، یہ تنبیہ اس وجہ سے دی گئی ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ شیطان نے کھلے طور پر آدم کو، اس کی اولا د کو چیلنج دے دیا تھا کہ میں تمہیں ورغلاتا رہوں گا اور ایسے ایسے طریقوں سے ورغلاؤں گا، اور ایسی ایسی جہتوں سے حملہ کروں گا کہ تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا کہ ہو کیا گیا ہے.اور یہ حملے ایسے پلاننگ سے اور آہستہ آہستہ ہوں گے کہ تم غیر محسوس طریق پر یہ راستہ اختیار کرتے چلے جاؤ گے میرا مسلک اختیار کرتے چلے جاؤ گے.ایک دوسری جگہ بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّيْطَنِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِين تم شیطان کے پیچھے نہ چلو کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں:.اس آیت میں خُطُوَاتِ کا لفظ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے کہ شیطان ہمیشہ قدم بقدم انسان کو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے.وہ کبھی یکدم کسی انسان کو بڑے گناہ کی تحریک نہیں کرتا بلکہ اسے بدی کی
536 $2003 خطبات مسرور طرف صرف ایک قدم اٹھانے کی ترغیب دیتا ہے.اور جب وہ ایک قدم اٹھا لیتا ہے تو پھر دوسرا قدم اٹھانے کی تحریک کرتا ہے.اس طرح آہستہ آہستہ اور قدم بقدم اسے بڑے گناہوں میں ملوث کر دیتا ہے.پس فرماتا ہے ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ تمہارا صرف چندا حکام پر عمل کر کے خوش ہو جانا اور باقی احکام کو نظر انداز کر کے سمجھ لینا کہ تم پکے مسلمان ہو ایک شیطانی وسوسہ ہے.اگر تم اسی طرح احکام الہیہ کو نظر انداز کرتے رہے تو رفتہ رفتہ جن احکام پر تمہارا اب عمل ہے ان احکام پر بھی تمہارا عمل جاتا رہے گا.پس اپنے اعمال کا جائزہ لیتے رہو.اور شیطانی وساوس سے ہمیشہ بچنے کی کوشش کرو.“ (تفسیر کبیر جلد دوم صفحه ٤٥٧) پھر آپ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ : ”اے مومنو! تم شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو.اس لئے کہ جو شخص شیطان کے قدموں کے پیچھے چلے گا وہ بدی اور بدکاری میں مبتلا ہو جائے گا.کیونکہ شیطان فحشاء اور منکر کا حکم دیتا ہے.اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہر برائی جو دنیا میں پھیلتی ہے اس کی ابتداء بھیا نک نہیں ہوتی.شیطان کا یہ طریق نہیں کہ کوئی خطرناک بات کرنے کے لئے ابتداء میں ہی انسان کو تحریک کرے.کیونکہ انسان کی فطرت میں حیاء و شرم کا مادہ رکھا گیا ہے اس لئے جس کام کو انسان صریح طور پر برا سمجھے اس کو فوری طور پر کرنے کے لئے وہ تیار نہیں ہوتا.مثلاً شیطان اگر کسی کو سیدھا ہلاکت کی طرف لے جانا چاہے تو وہ نہیں جائے گا، ہاں چکر دے کر لے جائے تو چلا جائے گا.پس شیطان پہلے ہی کسی بڑی بدی کی تحریک نہیں کرتا بلکہ پہلے چھوٹی برائی کی جو بظاہر برائی نہ معلوم ہوتی ہو تحریک کرتا ہے.پھر اس سے آگے چلاتا ہے، پھر اس سے آگے، حتی کہ خطر ناک برائی تک لے جاتا ہے.گویا شیطان پہلے ہی گڑھے کے سرے پر لے جا کر انسان کو نہیں کہتا کہ اس میں کو د پڑو بلکہ پہلے گھر سے دور لے جاتا ہے.(اس کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں ) جس طرح ڈا کو گھر کے پاس حملہ نہیں کرتے یا جو لوگ بچوں کو قتل کرتے ہیں وہ گھر کے پاس نہیں کرتے بلکہ ان کو دھو کہ اور فریب سے دور لے جاتے ہیں.کہتے ہیں آؤ تمہیں مٹھائی کھلا ئیں اور جب شہر یا گاؤں سے باہر لے جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اب کوئی دیکھنے والا نہیں تو گلا گھونٹ کر مار دیتے ہیں.( یہاں بھی ایسے کئی واقعات ہوتے ہیں آپ پڑھتے ہیں اخباروں میں ) یہی طریق شیطان کا ہوتا ہے.وہ پہلے انسان کو اس قلعہ سے نکالتا ہے جہاں خدا نے انسان کو محفوظ کیا ہوا ہوتا ہے.یعنی فطرت صحیحہ کے قلعہ
$2003 537 خطبات مسرور سے.انسان اُس سے باہر چلا جاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ کوئی حرج نہیں مگر ہوتے ہوتے وہ اتنا دور چلا جاتا ہے کہ پھر اس کا واپس لوٹنا مشکل ہو جاتا ہے.اور شیطان کے پنجے میں گرفتار ہو کر تباہ ہو جاتا ہے.جھوٹے الزامات کے ذکر کے ساتھ یہ نصیحت فرمائی کہ اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم یہ نہ کہنا کہ یہ معمولی بات ہے کیا ہوا اگر کسی پر ہم نے زنا کا الزام لگا دیا.یا یہ کہ ہم نے تو نہیں لگایا کسی نے ہمیں بات سنائی اور ہم نے آگے سنادی.شیطان کا یہی طریق ہے.وہ پہلے اپنے پیچھے چلاتا اور آہستہ آہستہ روحانیت اور شریعت کے قلعہ سے دور لے جاتا ہے اور جب انسان دور چلا جاتا ہے تو اس کو مارڈالتا ہے.پس شیطان پہلے تو یہی کرے گا کہ تحریک کرے گا کہ دوسرے کی کہی ہوئی بات بیان کرد و، تمہارا اس میں کیا حرج ہے.لیکن جب تم ایسا کر لو گے تو پھر خود تمہارے منہ سے ایسی باتیں نکلوائے گا جب یہ بھی کر لو گے تو پھر اس فعل کا تم سے ارتکاب کر والے گا.پس تم پہلے ہی اس کے پیچھے نہ چلو اور پہلے ہی قدم پر اس کی بات کو رد کر دو تا کہ تم تباہی سے بچو، محفوظ رہو.اور اس رد کرنے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی مدد کی ، اس کے فضل کی ضرورت ہے.اس لئے ہمیں نمازوں کے ذریعہ سے، استغفار کے ذریعہ سے اس کی مدد مانگتے رہنا چاہئے.پانچ وقت نمازوں کا حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہی راستہ سکھایا ہے کہ شیطان سے بچنے کے لئے پانچ وقت میرے حضور حاضر ہو اور میر افضل مانگو تو انشاء اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رہو گے، بہت ساری برائیاں تمہارے اندر نہیں جائیں گی.کیونکہ شیطان تو جسم کے اندر ہر وقت موجود ہے.جیسا کہ اس حدیث سے ظاہر ہے.حضرت جابر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایسی عورتوں کے ہاں نہ جاؤ جن کے خاوند غائب ہوں کیونکہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی مانند دوڑتا ہے.(سنن دارمی کتاب الرقاق باب الشيطاني جرى مجرى الدم اب اس حدیث کی روشنی میں صرف اتنا ہی نہیں کہ ایسے گھروں میں نہ جاؤ جس گھر میں مرد نہ ہوں بلکہ ایک رہنما اصول بتا دیا ہے کہ نامحرم کبھی آپس میں اس طرح آزادانہ اکٹھانہ ہوں جس سے شیطان کو حملہ کرنے کا موقعہ مل جائے.بعض اور جگہ بھی اس بارہ میں احادیث ہیں جن میں سخت تنبیہ کی گئی ہے کہ اس طرح مرد عورت اکٹھے نہ ہوں.اب آج کل کے زمانہ میں دیکھ لیں، کالجوں یو نیورسٹیوں میں ابتدا میں دوستی ہوتی ہے لڑکے لڑکی کی اور کہا یہ جاتا ہے کہ بس صرف دوستی ہے،
538 $2003 خطبات مسرور سٹوڈنٹ ہیں، اور اس کو غلط رنگ نہ دیا جائے.اور جو اس طرح دوستی کرنے سے منع کرے اسے سخت برا بھلا کہا جاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ یہ اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ جہاں پچھتاوے کے سوا کچھ اور نہیں رہتا.تو یہ اسلامی احکامات پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ ہے.اور یہی ہے جو شیطان آہستہ آہستہ اپنا کام دکھاتا ہے.پھر آج کل جو معاشرے میں کئی ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ دوستوں کا گھروں میں آنا جانا شروع ہو جاتا ہے.پہلے تو دوستوں کی موجودگی میں، پھر تعلقات بڑھ جاتے ہیں تو ان کی غیر موجودگی میں آنا جانا اور بے تکلفیاں ہوتی ہیں اور پھر یہ بڑھتی چلی جاتی ہیں اور اس کا پھر نتیجہ کیا نکلتا ہے بہت سارے ایسے معاملات ہوتے ہیں جس میں پھر دونوں طرف سے گھر اجڑ جاتے ہیں.تو یہ سب اسلامی تعلیم پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ ہے.انٹرنیٹ کی مثال میں کئی دفعہ دے چکا ہوں.کئی گھر اس کی وجہ سے برباد ہوئے.تو اللہ تعالیٰ کی حدود سے جب تجاوز کریں گے، احکامات پر عمل نہیں کریں گے تو لازماً شیطان حملہ کرے گا.پھر بے شمار برائیاں ہیں جو شیطان بہت خوبصورت کر کے دکھا رہا ہوتا ہے اور جن سے اللہ کے فضل کے بغیر بچناممکن نہیں.مثلاً ایک اچھا بھلا شخص جو بظاہر اچھا بھلا لگتا ہے، کبھی کبھار مسجد میں بھی آجاتا ہے، جمعوں میں بھی آتا ہوگا ، چندے بھی کچھ نہ کچھ دیتا ہے لیکن اگر کاروبار میں منافع کمانے کے لئے دھوکہ دیتا ہے تو وہ شیطان کے قدموں کے پیچھے چل رہا ہے.اور شیطان اس کو مختلف حیلوں بہانوں سے لالچ دے رہا ہے کہ آج کل یہی کاروبار کا طریق ہے.اگر تم نے اس پر عمل نہ کیا تو نقصان اٹھاؤ گے اور وہ اس کہنے میں آکر ، ان خیالات میں پڑ کر ،اس لالچ میں دھنستا چلا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ جو تھوڑی بہت نیکیاں بجالا رہا ہوتا ہے وہ بھی ختم ہو جاتی ہیں اور مکمل طور پر دنیا داری اسے گھیر لیتی ہے اور ایسے لوگ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ شاید اب یہی ہے ہماری زندگی، شاید اب موت بھی نہیں آئی اور ہمیشہ اسی طرح ہم نے رہنا ہے.اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر نہیں ہونا.تو ایسے طریقے سے شیطان ایسے لوگوں کو اپنے قبضہ میں لیتا ہے کہ بالکل عقل ہی ماری جاتی ہے.پھر جب ایک برائی آتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فضل اٹھ جاتا ہے تو اس طرح پھر ایک کے بعد دوسری برائی آتی چلی جاتی ہے اور ایسے لوگ پھر دوسروں کے حقوق مارنے والے بھی ہوتے ہیں، دوسروں کے حقوق پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے بھی ہوتے ہیں.بہن بھائیوں کی جائیدادوں کو
$2003 539 خطبات مسرور کھا جانے والے بھی ہوتے ہیں، رحمی رشتوں کو بھلا دینے والے بھی ہو جاتے ہیں.غرض ہر قسم کی نیکی، ہر قسم کی برکت ان پر سے، ان کے گھروں سے اٹھ جاتی ہے اور یہ آپ بھی پھر آہستہ آہستہ بے راہروی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی اولادیں بھی بے راہروی کا شکار ہو جاتی ہیں اور انجامکار یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ایسے لوگ پھر جماعت میں بھی نہیں رہتے.تو شیطان کے ایسے پیروکاروں سے اللہ تعالیٰ خود بھی جماعت کو پاک کر دیتا ہے.اگر آپ جائزہ لیں تو خود بھی آپ جائزہ لے کر یہی دیکھیں گے اور یہ بڑا واضح اور صاف نظر آجائے گا کہ جماعت کو چھوڑنے والے اکثر ایسے لوگ ہی ہوتے ہیں.بہر حال اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو ایسے ماحول سے بچائے ، ایسی سوچوں سے بچائے، ایسے لوگوں سے بھی بچائے جن کا اوڑھنا بچھونا صرف دنیا کی لذات ہیں اور جو شیطان کے راستے پر چلنے والے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان شیطانی راستوں سے بچنے کا طریق صرف ایک ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو ، اس کے آگے جھکو، اس کے سامنے روڈ ، فریاد کرو، گڑ گڑاؤ کہ اے اللہ شیطان ہر طرف سے ہم پر حملے کر رہا ہے اب تو ہی ہے جو ہمیں اس گند سے بچاسکتا ہے، اور شیطان کے حملوں سے بچا سکتا ہے.حضرت مصلح موعود اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ :.لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَنِ فرما کر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اے مومنو! شیطانی طریق اور شیطانی مذہب اور شیطانی اثر کو اختیار نہ کرو اور اس امر کو یا درکھو کہ جو شخص شیطانی طریق اور مسلک کو قبول کرتا ہے وہ لازماً بدی اور نا پسندیدہ باتوں کے پیچھے پڑ جاتا ہے.کیونکہ شیطان ہمیشہ بدی اور نا پسندیدہ باتوں کی ہی تحریک کیا کرتا ہے.لیکن یہ بھی یاد رکھو کہ کامل یا کیزگی بغیر اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے حاصل نہیں ہوسکتی.پس اس کا طریق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہو اور اپنے حالات کو زیادہ سے زیادہ پاکیزہ لوگوں کی طرح بناؤ تا کہ وہ یہ دیکھ کر کہ تم پاکیزہ بنے کی کوشش کر رہے ہو تمہیں پاکیزہ بنادے.پھر آپ نے فرمایا کہ: ”شیطان ہمیشہ انسان کے پیچھے پڑا رہتا ہے حتی کہ جب انسان خدا تعالیٰ پر ایمان لے آتا ہے تب بھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا اور اسے گمراہ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے.اور کئی لوگ اس
$2003 540 خطبات مسرور کے دھوکے میں آکر ایمان لانے کے بعد بھی اس کی باتوں کو ماننے لگ جاتے ہیں اور مرتد اور فاسق ہو جاتے ہیں اور یہ خطرہ اس قدر عظیم ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو کوئی شخص بھی اس خطرہ سے محفوظ نہیں رہ سکتا.مگر اس فضل کو جذب کرنے کا طریق یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی صفت سمیع سے فائدہ اٹھائے اور اس کے دروازے کو کھٹکھٹائے.اگر وہ اس کے دروازے کو کھٹکھٹائے گا اور اس سے دعائیں کرنا اپنا معمول بنالے گا تو اللہ تعالیٰ جو علیم ہے اور اپنے بندوں کے حالات اور ان کی کمزوریوں کو خوب جانتا ہے اس کے دل میں ایسی ایمانی قوت پیدا کر دے گا جس کے نتیجہ میں وہ شیطانی حملوں سے محفوظ ہو جائے گا اور اسے طہارت اور پاکیزگی میسر آ جائے گی“.(تفسیر کبیر جلد ششم صفحه (۲۸۱ جب دعا ئیں کر رہے ہوں شیطان سے بچنے کے لئے جو کہ روز ہر احمدی کو ضرور کرنی چاہئیں تو آنحضرت ﷺ کی اس دعا کو بھی ہمیشہ پیش نظر رکھیں.حدیث میں آتا ہے.حضرت عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ اللہ ہمیں کچھ دعائیہ کلمات سکھائے اور دعائیہ کلمات سکھانے میں آپ کا انداز وہ نہ ہوتا تھا جو تشہد سکھاتے وقت ہوتا تھا.وہ کلمات یہ ہیں کہ:- ”اے اللہ ! ہمارے دلوں میں محبت پیدا کر دے.اور ہماری اصلاح کر دے اور ہمیں سلامتی کی راہوں پر چلا اور ہمیں اندھیروں سے نجات دے کر نور کی طرف لے جا.اور ہمیں ظاہری اور باطنی فواحش سے بچا.اور ہمارے لئے ہمارے کانوں میں، ہماری آنکھوں میں ، ہمارے دلوں میں ، ہماری بیویوں میں اور ہماری اولا دوں میں برکت رکھ دے.اور ہم پر رجوع برحمت ہو.یقیناً تو ہی توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.اور ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر کرنے والا اور ان کا ذکر خیر کرنے والا اور ان کو قبول کرنے والا بنا اوراے اللہ ہم پر وہ نعمتیں مکمل فرما.(سنن ابی داؤد کتاب الصلواة باب التشهد اب اللہ تعالیٰ کا فضل مانگنے کے لئے یہ کتنی خوبصورت دعا ہے کہ شیطان کے حیلوں ،اس کی طرف سے پیدا کئے ہوئے وسوسوں، اس کی شرارتوں سے بچنے کے لئے اللہ کا فضل اور اس کی پناہ ضروری ہے.تو سب سے بڑھ کر انسان کا اپنا نفس ہے جو ایسی باتوں کا شکار ہوتا ہے.کہ گو وہ اس حد تک تو نہیں پہنچتا جیسے کہ میں نے پہلے مثال دی ہے کہ بگڑتے بگڑتے اتنی دور چلے جاتے ہیں کہ نیکوں
541 $2003 خطبات مسرور کی جماعت میں رہ ہی نہیں سکتے.لیکن بعض چھوٹی چھوٹی بیماریاں جو ہیں ان کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہئے.مثلاً کوئی جماعتی عہدیدار ہے، کارکن ہے یا کوئی شخص دنیاوی انتظامیہ میں ہے کہ عام روز مرہ کے تعلق اور واسطوں میں ہوتا ہے کہ اگر کسی کو کوئی خدمت کرنے کا موقع مل جائے ، کسی کام پر مقرر کر دیا جائے تو مقرر ہونے کے بعد اپنے سے پہلے عہد یداریا کارکن کے متعلق نقائص نکالنے شروع کر دے کہ دیکھو یہ کام میں نے کیسے اعلیٰ رنگ میں کر لیا ہے جب کہ مجھے سے پہلے عہد یدار یا کارکن سے ہو ہی نہیں سکا.یا اس میں اتنی لیاقت ہی نہیں تھی کہ وہ کر سکتا.جب که صحیح طریق تو یہ ہے کہ اگر کام ہو گیا ہے تو اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے ، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ اس نے مجھے یہ توفیق دی کہ یہ کام میرے ذریعہ سے ہو گیا ہے.اور یہ دعا کرے کہ اے اللہ ! اب اس وجہ سے میرے دل میں کوئی بڑائی نہ آنے دینا اور میری اصلاح کر دینا.تو اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں جو روز مرہ ہوتے رہتے ہیں.تو انسان کو ہمیشہ یہ مدنظر رکھنا چاہئے ورنہ شیطان کے راستے پر چل کر کم از کم جو اچھا کام بھی ہوا ہو، ان کا موں کو مکمل کرنے کے بعد یونہی اپنی نیکی کا اظہار کرنے کے بعد کہ دیکھو میں نے یہ کر دیا، وہ کر دیا، اپنی نیکی کو برباد کرنے والی بات ہے.جب اس نہج پر اپنی اصلاح کی کوشش کرتا ہے تو یہی سلامتی کا راستہ ہے.انسان کی بچت اسی میں ہے کہ سلامتی کے راستے تلاش کرے ورنہ پھر جیسا کہ فرمایا کہ تم روشنی سے اندھیروں کی طرف جاؤ گے اور یہ شیطان کا راستہ ہے روشنی سے اندھیروں کی طرف جانا.اس لئے ہمیشہ شیطان سے پناہ مانگتے رہو.اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو اور یہ دعا کرو کہ اے اللہ ! ہمیں اندھیروں سے نجات دے کر نور کی طرف لے جا اور ہر قسم کی فواحش سے ہمیں بچا.چاہے وہ ظاہری ہوں، چاہے باطنی ہوں.اور ظاہری سے تو پھر بعض خوف ایسے خوف ایسے ہوتے ہیں جو روکنے میں کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں.لیکن چھپی ہوئی فواحش جو ہیں یہ ایسی ہیں جو بعض دفعہ انسان کو متاثر کرتے ہوئے بہت دور لے جاتے ہیں.مثلاً بعض دفعہ غلط نظارے ہیں، غلط فلمیں ہیں، بالکل عریاں فلمیں ہیں، اس قسم کی دوسری چیزوں کو دیکھ کر آنکھوں کے زنا میں مبتلا ہورہا ہوتا ہے انسان.پھر خیالات کا زنا ہے ، غلط قسم کی کتابیں پڑھنا، یا سوچیں لے کر آنا.بعض ماحول ایسے ہیں کہ ان میں بیٹھ کر انسان اس قسم کی فحشاء میں ھنس رہا ہوتا ہے.پھر کانوں سے بے حیائی کی باتیں سننا.تو یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اے اللہ ہمارا
542 $2003 خطبات مسرور ہر عضو جو ہے اسے اپنے فضل سے پاک کر دے.اور ہمیشہ اسے پاک رکھ اور شیطان کے راستے پر چلنے والے نہ ہوں.اور ہم سب کو شیطان کے راستے پر چلنے سے بچا.پھر بعض گھروں میں بیویوں کی وجہ سے یا خاوندوں کی وجہ سے بعض مسائل کھڑے ہوتے ہیں.آپس کے گھر یلو تعلقات، عائلی تعلقات ٹھیک نہیں ہیں.ذرا ذراسی بات پر کھٹ پٹ شروع ہو جاتی ہے.یا میاں بیوی کے دوستوں اور سہیلیوں کی وجہ سے بعض مسائل پیدا ہورہے ہوتے ہیں.تو ان دوستوں کے اپنے کردار ایسے ہوتے ہیں کہ آپس میں میاں بیوی کے تعلقات غیر محسوس طریقے سے وہ بگاڑ رہے ہوتے ہیں.تو یہ شیطان ہے جو غیر محسوس طریقوں پر ایسے گھروں کو اپنے راستوں پر چلانے کی کوشش کرتا ہے.پھر اولاد ہے، نیک اولا د ایک نعمت ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا فضل مانگنا چاہئے.اولا د ذ را بگڑ جائے تو ماں باپ کو بڑی فکر پیدا ہو جاتی ہے، حال خراب ہو جاتا ہے.پھر لڑکیاں بعض ایسی جگہ شادی کرنا چاہتی ہیں جہاں ماں باپ نہیں چاہتے ، بعض وجوہ کی بنا پر ، مثلاًالر کا احمدی نہیں ہے، یادین سے تعلق نہیں ہے.مگر لڑ کی بضد ہے کہ میں نے یہیں شادی کرنی ہے.پھر لڑکے ہیں، بعض ایسی حرکات کے مرتکب ہو جاتے ہیں جو سارے خاندان کی بدنامی کا باعث ہور رہا ہوتا ہے.تو اس لئے یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اے اللہ ہماری اولادوں کی طرف سے ہمیں کسی قسم کے ابتلا کا سامنا نہ کرنا پڑے بلکہ ان میں ہمارے لئے برکت رکھ دے.اور یہ دعا بچے کی پیدائش سے بلکہ جب سے پیدائش کی امید ہو تب سے شروع کر دینی چاہئے.یہ جواللہ تعالیٰ نے دعا سکھائی ہے کہ ﴿رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيشَاقُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اماما تو اولاد کے قرۃ العین ہونے کے لئے ہمیشہ دعا کرتے رہنا چاہئے.تو جب ہر وقت انسان یہ دعا کرتے رہے کہ اے اللہ ! تو ہم پر رحمت کی نظر کر ، اور ہم پر رحمت کی نظر ہمیشہ ہی رکھنا، کبھی شیطان کو ہم پر غالب نہ ہونے دینا، ہماری غلطیوں کو معاف کر دینا.اور ہم تجھ سے تیری بخشش کے بھی طالب ہیں، ہمارے گناہ بخش.اور ہمارے گناہ بخشنے کے بعد ہم پر ایسی نظر کر کہ ہم پھر کبھی شیطان کے چنگل میں نہ پھنسیں.اور جب اتنے فضل تو ہم پر کر دے تو ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا بنا، ان کو یاد رکھنے والا بنا اور سب سے بڑی نعمت جو تو نے ہمیں دی ہے وہ ایمان کی نعمت ہے، ہمیشہ ہمیں اس پر قائم رکھ کبھی ہم اس سے دور جانے والے نہ ہوں.اور دعا پڑھتے رہیں.ربنا لا
$2003 543 خطبات مسرور تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ.اگر دعاؤں کی طرف توجہ نہیں ہوگی تو شیطان مختلف طریقوں سے مختلف راستوں سے آکر ورغلاتا رہے گا اور اس سے اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے بغیر نہیں بچا جا سکتا، جیسے کہ میں پہلے بیان کرتا آرہا ہوں.اللہ تعالیٰ اسے ہی بات کرتا ہے جو پیشگی اس سے دعائیں مانگے اور جس پر اس کی رحمت ہو.اور یہ رحمت اس وقت اور بھی بہت بڑھ جاتی ہے جب اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا ہو جائے.حضرت مصلح موعوددؓ فرماتے ہیں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے اپنی تفسیر میں.کہ ایک بزرگ تھے جن کے پاس ان کا شاگرد کافی عرصہ رہا اور تعلیم حاصل کرتا رہا.جب وہ تعلیم سے فارغ ہو کر اپنے گھر جانے لگا تو اس بزرگ نے اس سے دریافت کیا کہ میاں تم اپنے گھر جارہے ہو کیا تمہارے ملک میں شیطان ہے؟ وہ یہ سوال سن کر حیران رہ گیا.اور اس نے کہا شیطان بھلا کہاں نہیں ہوتا.ہر ملک میں شیطان ہوتا ہے اور جہاں میں جارہا ہوں وہاں بھی شیطان موجود ہے.آپ نے فرمایا اچھا.اگر وہاں شیطان ہے تو پھر جو کچھ تم نے میرے پاس رہ کر علم حاصل کیا ہے جب اس پر عمل کرنے لگو گے تو لازماً شیطان تمہارے رستہ میں روک بن کر حائل ہوگا.ایسی حالت میں تم کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا میں شیطان کا مقابلہ کروں گا، اس سے لڑوں گا.وہ بزرگ کہنے لگے بہت اچھا تم نے شیطان کا مقابلہ کیا اور وہ تمہارے دفاع کی تاب نہ لا کر بھاگ گیا.لیکن جب پھر تم عمل شروع کرو گے وہ حملہ کرے گا تو پھر کیا کرو گے.انہوں نے کہا پھر میں شیطان کا مقابلہ کروں گا.پھر اگر وہ دوڑ جائے گا پھر عمل کرنے لگو گے تو پھر آ جائے گا.جب دو تین دفعہ اس نے پوچھا تو شاگرد نے کہا کہ مجھے تو سمجھ نہیں آئی آپ مجھے بتائیں میں کس طرح مقابلہ کروں.جب میں مقابلہ کرنے لگوں گا تو شیطان دوڑ جائے گا.جب میں عمل کرنے لگوں گا تو شیطان پھر آجائے گا.تو بزرگ نے کہا کہ اگر تم اپنے کسی دوست کے گھر جاؤ اور اس کے دروازے پر ایک کتا بندھا ہواور وہ تمہیں کاٹنے کو پڑ جائے تو تم کیا کرو گے.اس نے کہا میں اس کا مقابلہ کروں گا جو میرے ہاتھ میں سوٹی ہے، چھڑی ہے یا زمین پر کوئی روڑہ پتھر نظر آئے تو اس کو ماروں گا اور اس کو بھگا دوں گا.اس نے کہا ٹھیک ہے دوڑ گیا.پھر جب تم اس کے دروازے میں داخل ہونے لگو پھر تمہاری ٹانگ پکڑ لے گا تو پھر کیا کرو گے.کہا پھر میں اسی طرح ماروں گا.تو دو تین دفعہ جب انہوں نے پوچھا کہ کیا کرو گے کتے کے
544 $2003 خطبات مسرور ساتھ.تو کہنے لگا آخر میں یہی ہوگا کہ اس دوست کو آواز دوں گا کہ تمہارا کتا مجھے آنے نہیں دے رہا تم میری جان چھڑاؤ اس سے.تو اس بزرگ نے کہا کہ یہی شیطان کا حال ہے.شیطان بھی اللہ میاں کا کتا ہے.جب انسان پر بار بار حملہ آور ہو اور اس کو اللہ تعالیٰ کے قریب نہ ہونے دے تو اس کا یہی علاج ہے کہ اللہ تعالیٰ کو پکارو اور اسے آواز دو کہ اے اللہ ! میں آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں مگر آپ کا یہ کتا مجھے آنے نہیں دیتا.اسے رو کئے تاکہ میں آپ کے پاس پہنچ جاؤں.چنانچہ اللہ تعالیٰ اسے روک دے گا اور انسان شیطان کے حملے سے محفوظ ہو جائے گا.تو فرماتے ہیں کہ غرض طہارت کامل جس کے بعد کوئی ارتداد اور فسق نہیں ہوتا محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ حاصل ہوتی ہے.پہلے انسان آپ پاک ہو جائے.اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگے ، اس کے آگے روئے ، گڑ گڑائے کہ مجھے شیطان سے بچا تو پھر اللہ تعالیٰ کا فضل بھی شامل حال ہو جاتا ہے اور پھر فرمایا کہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوتی ہے جسے انسانی دعا ئیں اپنی طرف کھینچتی رہتی ہیں.تو یہ ہے شیطان سے بچنے کا طریقہ کہ شیطان سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو اور صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑاؤ اور غیر اللہ سے دل نہ لگاؤ.پھر حدیث میں شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے یہ دعا سکھائی ہے.حضرت زید بن صلى الله ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے.فرمایا کیا میں تمہیں ایک ایسی دعانہ بتاؤں جو ہمیں رسول اللہ سے سکھایا کرتے تھے.وہ یہ دعا تھی کہ اے اللہ ! میں عاجز آجانے ،ہستی ، بخل، بزدلی، انتہائی بڑھاپے اور عذاب قبر سے تیری پناہ میں آنا چاہتا ہوں.اے میرے اللہ میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطا کر.وَذَرِّهَا وَأَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّهَا﴾ اور اس کو نفس کو پاک کر اور تو ہی بہترین پاک کرنے والا ہے.انسان کو پاک کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں ہی ہوں جسے چاہتاہوں پاک کرتا ہوں تو اس کا ولی اور اس کا مولیٰ ہے.اے اللہ ! میں ایسے دل سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو خشوع اختیار نہیں کرتا اور ایسے دل سے جو بھی سیر نہیں ہوتا اور ایسے علم سے جو نفع نہیں دیتا.اور ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو.(سنن نسائی کتاب الاستعاذه باب الاستعاذه من العجز اب یہ بھی ایک بڑی جامع دعا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو پاک کرتی ہے اور پاک رکھتی ہے، شیطان کے حملوں سے بچاتی ہے.کوئی شخص اپنے زور بازو سے کبھی بھی پاک
$2003 545 خطبات مسرور صاف نہیں ہو سکتا.یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جسے چاہتی ہے پاک کرتی ہے اور پاک کرنے کے لئے بھی ایک مزرکی کی ضرورت ہے.جو پاک کرنے والا ہو.اور جماعت سے علیحدہ ہوکر کوئی جتنا مرضی دعوی کرے کہ ہم بہت پاکیزہ ہو گئے ہیں اور شکر ہے ہم آزاد ہو گئے جماعت سے، یہ سب ان کے دعوے ہیں اور جا کر دیکھنے سے پاکیزگی ان کے گھر میں کبھی نظر نہیں آئے گی.تو مر گھی بھی اللہ تعالیٰ کے خاص لوگ ہوتے ہیں، انبیاء ہوتے ہیں.تو ان کے ساتھ تعلق جوڑنے والے بھی پاک ہو سکتے ہیں.جو ان سے تعلق نہ جوڑے وہ کبھی بھی پاک نہیں کہلا سکتے.تو اس آیت میں جو میں نے تلاوت کی اس میں یہ جو فرمایا ہے کہ جس کو چاہتا ہے پاک کرتا ہے حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے کہ اس سے یہ نہ سمجھ لینا کہ اندھا دھند جس کو چاہے پاک کر دے گا اور جس کو نہیں چاہے گا نہیں پاک کرے گا.پھر تو نیکیاں کرنے کا، اس کا فضل مانگنے کا فائدہ ہی کوئی نہیں رہتا.بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جو خدا کا پسندیدہ ہو جاتا ہے اور اس کے احکام پر عمل کرنے والا ہو جاتا ہے اسے خدا اپنا محبوب بنا لیتا ہے.اور اسے پاک کر دیتا ہے.تو اس زمانہ میں محبوب وہی ہیں جو اس کے محبوب کے محبوب ہیں.جو اس کے محبوب سے تعلق رکھنے والے ہیں.تو اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق رکھنے والے ہی اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں.اللہ تعالیٰ سے پاکیزگی کا تعلق رہنا چاہئے اور شیطان سے بچنے کے لئے ، پاک ہونے کے لئے ہر وقت سمی و علیم خدا سے اس کا فضل مانگتے رہنا چاہئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ﴿فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمْ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ معصوم اور محفوظ ہونا تمہارا کام نہیں ہے خدا کا ہے.ہر ایک نور اور طاقت آسمان سے ہی آتی ہے.البدر جلد ٢ نمبر ٤٤ مورخه ۱۹/جون ۱۹۰۳ء) تزکیہ نفس ایک ایسی شئی ہے کہ خود بخود نہیں ہوسکتا اس لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے فلا تُزَكُوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى که م یہ خیال نہ کرو کہ ہم اپنے نفس یا عقل کے دذریعہ سے خود بخود مُرشحی بن جاویں گے.یہ بات غلط ہے.وہ خوب جانتا ہے کہ کون متقی ہے.پھر فرماتے ہیں کہ : (البدر جلد ۲ نمبر ۳۶ مورخه ۲۵ / ستمبر ۱۹۰۳ء) |
خطبات مسرور 546 $2003 عزیز و! خدا تعالیٰ کے حکموں کو بے قدری سے نہ دیکھو.موجودہ فلسفے کی زہر تم پر اثر نہ کرے.ایک بچے کی طرح بن کر اس کے حکموں کے نیچے چلو.نماز پڑھو، نماز پڑھو کہ وہ تمام طاقتوں کی کنجی ہے اور جب تو نماز کے لئے کھڑا ہوتو ایسا نہ کر کہ گویا کہ رسم ادا کر رہا ہے بلکہ نماز سے پہلے جیسے ظاہر وضو کرتے ہو ایسے ہی باطنی وضو بھی کرو اور اپنے اعضاء کو غیر اللہ کے خیال سے دھوڈالو.تب تم دونوں وضوؤں کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور نماز میں بہت دعا کرو.اور رونا اور گڑ گڑانا اپنی عادت کرلو تا تم پر رحم کیا جائے.سچائی اختیار کرو، سچائی اختیار کرو کہ وہ دیکھ رہا ہے کہ تمہارے دل کیسے ہیں.کیا انسان اُس کو بھی دھوکہ دے سکتا ہے؟ کیا اس کے آگے بھی مکاریاں پیش جاتی ہیں.نہایت بد بخت آدمی اپنے فاسدانہ افعال کو اس حد تک پہنچاتا ہے کہ گویا خدا نہیں.تب وہ بہت جلد ہلاک کیا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کو اس کی کچھ بھی پروا نہیں ہوتی.عزیز و! اس دنیا کی مجرد منطق ایک شیطان ہے اور اس دنیا کا خالی فلسفہ ایک ابلیس ہے جو ایمانی نور کو نہایت درجہ گھٹا دیتا ہے اور بے باکیاں پیدا کرتا ہے اور قریب قریب دہریت تک پہنچاتا ہے.سو تم اس سے اپنے آپ کو بچاؤ اور ایسا دل پیدا کرو جو غریب اور مسکین ہو اور بغیر چون و چرا کے حکموں کو ماننے والے ہو جاؤ.بغیر چون و چرا کے حکموں کو ماننے والے ہو جاؤ جیسا کہ بچہ اپنی والدہ کی باتوں کو مانتا ہے.قرآن کریم کی تعلیمیں تقویٰ کے اعلیٰ درجہ تک پہنچانا چاہتی ہیں ان کی طرف کان دھرو اور ان کے موافق اپنے تئیں بناؤ.پھر آپ نے فرمایا: تم اس کی جناب میں قبول نہیں ہو سکتے جب تک ظاہر و باطن ایک نہ ہو.بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو نہ ان کی تحقیر.اور عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرو نہ خود نمائی سے ان کی تذلیل.اور امیر ہوکر غریبوں کی خدمت کرو نہ خود پسندی سے ان پر تکبر.ہلاکت کی راہوں سے ڈرو.خدا سے ڈرتے رہو اور تقویٰ اختیار کرو.خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا.تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں وہ کا ٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے.تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور با ہمی ناراضگی جانے دو اور
547 $2003 خطبات مسرور بچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلیل کرو تا تم بخشے جاؤ.نفسانیت کی فربہی چھوڑ دو کہ جس دروازے کے لئے تم بلائے گئے ہو اس میں سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہوسکتا.کیا ہی بدقسمت وہ شخص ہے جو ان باتوں کو نہیں مانتا جو خدا کے منہ سے نکلیں اور میں نے بیان کیں.تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خد اراضی ہو تو تم با ہم ایسے ایک ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے.اور بد بخت ہے وہ جو ضد کرتا ہے اور نہیں بخشا.تم نیچے دل سے اور پورے صدق سے اور سرگرمی کے قدم سے خدا کے دوست بنو تا وہ بھی تمہارا دوست بن جائے.تم ماتحتوں پر اور اپنی بیویوں پر اور اپنے غریب بھائیوں پر رحم کرو تا آسمان پر تم پر بھی رحم ہو.تم سچ مچ اس کے ہو جاؤ تا وہ بھی تمہارا ہو جائے“.(کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۲-۱۳ پھر آپ نے فرمایا : ” خدا تعالیٰ کی تجلیات اور رحمتوں کے ظہور کے لئے دعا کی بہت بڑی ضرورت ہے.اس لئے اس پر ہمیشہ کمر بستہ رہو اور کبھی مت تھکو.غرض اصلاح نفس کے لئے اور خاتمہ بالخیر ہونے کے لئے نیکیوں کی توفیق پانے کے واسطے دوسرا پہلو دعا کا ہے.اس میں جس قدر تو کل اور یقین اللہ تعالیٰ پر کرے گا اور اس راہ میں نہ بہکنے والا قدم رکھے گا.اسی قدر عمدہ نتائج اور ثمرات ملیں گے.تمام مشکلات دور ہو جائیں گی اور دعا کرنے والا تقویٰ کے اعلی محل پر پہنچ جاوے گا.یہ بالکل سچی بات ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کسی کو پاک نہ کرے کوئی پاک نہیں ہوسکتا.نفسانی جذبات پر محض خدا تعالیٰ کے فضل اور جذبہ ہی سے موت آتی ہے.اور یہ فضل اور جذ بہ دعا ہی سے پیدا ہوتا ہے.اور یہ طاقت صرف دعا ہی سے ملتی ہے.پھر آپ نے فرمایا: ( تفسیر حضرت موعود جلد اول صفحه (٦٥٨ تقویٰ کے دو درجے ہیں.بدیوں سے بچنا اور نیکیوں میں سرگرم ہونا.دوسرا مرتبہ حسنین کا ہے.اس درجے کے حصول کے بغیر اللہ تعالیٰ خوش نہیں ہوسکتا اور یہ مقام اور درجہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل بھی نہیں ہو سکتا.جب انسان بدی سے پر ہیز کرتا ہے اور نیکیوں کے لئے اس کا دل تڑپتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی دستگیری کرتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے دارالامان میں پہنچا دیتا ہے ( یعنی امن کی جگہ پہنچادیتا ہے ).
548 $2003 خطبات مسرور اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھے، اپنی رضا کی راہوں پر چلائے ، ہمیں اپنے عبادت گزار بندوں میں سے بنائے اور اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اپنے احکامات کی روشنی میں اپنے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ہمیشہ اپنے دارالامان میں رکھے.
$2003 549 35 خطبات مس اے ایمان لانے والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ ۱۹ار دسمبر ۲۰۰۳ء بمطابق ۱۹ فتح ۱۳۸۲ هجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن 000 صدق مجسم قرآن شریف ہے اور پیکر صدق آنحضرت ﷺ کی ذات مبارک ہے.انبیاء مخلوق کوسیدھا راستہ دکھانے کے لئے آتے ہیں.اب دنیا میں آنحضرت ﷺ سے بڑھ کر کوئی صادق نہیں....اس لئے اس نبی کے ساتھ چمٹ جاؤ.ہیں جس طرح بچ اور راستی کے بارہ میں قرآن میں حکم ہے کسی اور کتاب میں نہیں.ہمارا اوڑھنا بچھونا ، ہماری ہر بات جو ہمارے منہ سے نکلے وہ سچ ہو.احمدی وکیلوں ، ڈاکٹر ز ، اساتذہ کے لئے راہنما ہدایت اور حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کا نمونہ...صرف جھوٹ ہی نہیں شک سے مبر ابات کرو......شادی بیاہ ایک پاکیزہ تعلق اور معاہدہ ہے اس کا احترام کریں.سچ میں ایک جرأت اور دلیری ہوتی ہے.جھوٹا انسان بز دل ہوتا ہے.سچائی کے بارے احمدیوں کا ایک اعلیٰ اور قابل ذکر معیار ہونا چاہئے.
خطبات مس $2003 550 تشھد وتعوذ کے بعد درج ذیل آیت قرآنیہ تلاوت فرمائی يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوْا اللَّهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصَّدِقِيْنَ﴾ (التوبه: ۱۱۹) اس آیت کا ترجمہ ہے اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ.انبیاء دنیا میں بگڑی ہوئی مخلوق کو، جو مخلوق اپنے خدا سے پرے ہٹ جائے اور بگڑ جائے اُس مخلوق کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے آتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو مبعوث فرماتا ہے تا کہ انہیں خدا تک پہنچا سکیں.اور یہ سیدھا راستہ سچائی پر قائم ہوئے بغیر نہیں مل سکتا.اسی لئے تمام انبیاء سچائی کی تعلیم دیتے رہے اور جرات سے حق پر قائم رہتے ہوئے ایک خدا کی طرف بلاتے رہے.اور جب اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ اب دین مکمل کرنے کا وقت آ گیا ہے، اب انسانی سوچ بلوغت تک پہنچ چکی ہے تو پیکر صدق وجود حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں مبعوث فرمایا، جنہوں نے ہر معاملے میں بڑے سے بڑے معاملے سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے معاملے تک ہمیں سچ پر قائم رہنے کی اور ہمیشہ اس پر عمل کرنے کی تلقین فرمائی.اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے مومنواب تم ایمان لے آئے ہو اس ایمان پر مزید یقین بڑھانا ہے تو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو.ہر وقت اس کا خوف تمہارے دل میں رہے اور ہمیشہ حق بات کی طرف بلانے والے حق دکھانے والے اور سچ بولنے والے اور کہنے والے بنو اور اس کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ ، بچوں کے ساتھ ہو جاؤ.اور اب دنیا میں آنحضرت مے سے بڑھ کر کوئی صادق نہیں جو اتنی گہرائی اور باریکی میں جا کر تمہیں حق ، سچ اور صدق کی تعلیم دے.اس لئے اس نبی کے ساتھ چمٹ
551 $2003 خطبات مسرور جاؤ اور اس تعلیم پر عمل کرو جو اس سچے نبی ﷺ نے خدا سے علم پا کر تمہیں دی ہے.اور پھر ہم احمدیوں کی اور بھی زیادہ خوش قسمتی ہے اس کے لئے ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر کریں، اس کی جتنی بھی حمد کریں کم ہے، کہ اس نے ہمیں اس زمانے میں حضرت خاتم الانبیاء کے عاشق صادق اور آپ ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اس زمانے کے امام مسیح اور مہدی علیہ السلام کے دعوے کو ماننے کی توفیق بھی دی.جنہوں نے ہمیں اس حسین تعلیم کے باریک در باریک نکات کو مزید کھول کر دکھایا اور بتایا.اور اس سچی تعلیم کو وضاحت کے ساتھ سمجھنے کی تفصیل سے نصائح فرما ئیں.آپ نے وضاحت سے فرمایا کہ قرآن کریم میں جس طرح سچ اور راستی کے بارہ میں حکم ہے کسی اور کتاب میں نہیں.آپ فرماتے ہیں: کہ جس قدر راستی کے التزام کے لئے قرآن شریف میں تاکید ہے میں ہر گز باور نہیں کر سکتا کہ انجیل میں اس کا عشر عشیر بھی تاکید ہو.پھر اس بارہ میں آپ نے عیسائیوں کو چیلنج بھی کیا تھا کہ میں چیلنج کرتا ہوں کہ اگر تم لوگ مجھے انجیل میں سے کھول کر بتا دو، سچائی کی اور صدق کی تعلیم جس طرح قرآن شریف میں ہے، تو میں تمہیں ایک بہت بڑی رقم انعام دوں گا.پھر آپ نے فرمایا : قرآن شریف میں دروغ گوئی کو یعنی جھوٹ بولنے کو بت پرستی کے برابر ٹھہرایا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ زور یعنی بتوں کی پلیدی اور جھوٹ کی پلیدی سے پر ہیز کرو اور پھر ایک جگہ فرماتا ہے يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُوْنُوْا قَوَّامِيْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنَ وَالْأَقْرَبِيْن.یعنی اے ایمان والو انصاف اور راستی پر قائم ہو جاؤ اور سچی گواہیوں کو للہ ادا کرو اگر چہ تمہاری جانوں پر ان کا ضرر پہنچے یا تمہارے ماں باپ یا تمہارے اقارب ان گواہیوں سے نقصان اٹھائیں.(نورالقرآن نمبر ۲ صفحه ۱۷-۱۸ تو اب اس قدر تاکید کے بعد ہم پر کس قدر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم سچ کے خُلق کو اپنے اوپر لاگو کریں اور اسے اپنا ئیں.اور ہمارا اوڑھنا بچھونا، ہر حالت میں، ہماری ہر بات جو ہمارے منہ سے نکلے وہ سچ ہو.اب احادیث کی روشنی میں کچھ وضاحت کرتا ہوں.
552 $2003 خطبات مسرور حضرت ابوبکر کا بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ نہ بتاؤں.ہم نے عرض کیا جی حضور! ضرور بتائیں.آپ نے فرمایا، اللہ کا شریک ٹھہرانا (سب سے بڑے گناہوں میں سے ایک گناہ ہے )، والدین کی نافرمانی کرنا، آپ تکیے کا سہارا لئے بیٹھے ہوئے تھے ، آپ جوش میں آکر بیٹھ گئے اور بڑے زور سے فرمایا دیکھو! تیسرا بڑا گناہ جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا ہے.آپ نے اس بات کو اتنی دفعہ دہرایا کہ ہم نے چاہا کہ کاش حضور خاموش ہو جائیں.(بخاری کتاب الادب باب عقوق الوالدين تو اس حدیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنحضرت مہ کو جھوٹ سے کس قدر نفرت تھی.اور آپ کی ہر تعلیم ہی اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق تھی.تو اصل میں جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ شرک اور جھوٹ ایک ہی چیز ہیں.انسان نے اپنے اندر بھی بہت سے بُت بنائے ہوتے ہیں.اور بہت سے جھوٹ کے بُت بنائے ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: آج کی دنیا کی حالت بہت نازک ہوگئی ہے.جس پہلو اور رنگ سے دیکھو جھوٹے گواہ بنائے جاتے ہیں ، جھوٹے مقدمہ کرنا تو بات ہی کچھ نہیں، جھوٹے اسناد بنالئے جاتے ہیں.( یعنی کا غذات بھی جھوٹے بنالئے جاتے ہیں ، مقدمے بھی جھوٹے بنالئے جاتے ہیں، پیشیاں بھی جھوٹی ، گواہیاں بھی جھوٹی ، ہر چیز جھوٹی ).کوئی امر بیان کریں گے تو سچ کا پہلو بچا کر بولیں گے.اب کوئی ان لوگوں سے جو اس سلسلہ کی ضرورت نہیں سمجھتے پوچھے کہ کیا یہی وہ دین تھا.(وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ احمدیت کی کوئی ضرورت نہیں، ان سے اگر کوئی پوچھے ) کہ کیا یہ وہی دین تھا جو آنحضرت سے لے کر آئے تھے؟ اللہ تعالیٰ نے تو جھوٹ کو نجاست کہا تھا کہ اس سے پر ہیز کرو.اجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ النُّوْرِ ﴾ بت پرستی کے ساتھ اس جھوٹ کو ملایا ہے.جیسا احمق انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پتھر کی طرف سر جھکاتا ہے ویسے ہی صدق اور راستی کو چھوڑ کر اپنے مطلب کے لئے جھوٹ کو بت بناتا ہے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بت پرستی کے ساتھ ملایا اور اس سے نسبت دی جیسے ایک بُت پرست بُت سے نجات چاہتا ہے.( یعنی وہ سمجھتا ہے کہ بُت اسے نجات دے گا اس کے مسائل سے ).اسی طرح جھوٹ
$2003 553 خطبات مسرور بولنے والا بھی اپنی طرف سے بُت بناتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس بت کے ذریعہ نجات ہو جاوے گی.کیسی خرابی آکر پڑی ہے.اگر کہا جاوے کہ کیوں بُت پرست ہوتے ہو، اس نجاست کو چھوڑ دو.تو کہتے ہیں کیونکر چھوڑ دیں، اس کے بغیر گزارہ نہیں ہوسکتا.اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہو گی کہ جھوٹ پر اپنامدار سمجھتے ہیں مگر میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ آخریچ ہی کامیاب ہوتا ہے، بھلائی اور فتح اسی کی ہے.(ملفوظات جلد نمبر ۸ صفحه (٣٤٩ - ٣٥٠ وہ سمجھتے ہیں کہ جو انہوں نے اپنے دلوں میں بت بنائے ہوئے ہیں اس کے ذریعہ سے ہی نجات ہے.اور یہ بہت بھی بہت سی قسموں کے ہیں، مختلف ملکوں میں مختلف لوگوں نے قسما قسم کے مختلف بُت اپنے دلوں میں قائم کئے ہوئے ہیں.مختلف پیشوں میں سچ کی کمی اور جھوٹ کی زیادتی نظر آتی ہے.تو یہ اس طرح کا بت ہی ہے جو انہوں نے اپنے دل میں قائم کیا ہوا ہے.اور جب پوچھو تو یہ کہتے ہیں ، جیسا کہ حضور بھی فرما رہے ہیں، کہ اس کے بغیر تو یہ کام ہو ہی نہیں سکتا، اگر جھوٹ نہ بولا جائے.مثلاً وکالت ہے، ایک بڑا قابل احترام پیشہ ہے اگر صحیح طرح اختیار کیا جائے ، استعمال کیا جائے.لیکن بعض وکیلوں کو بھی یہ عادت ہوتی ہے کہ اگر کوئی سیدھا سادا کیس بھی ہو تو اس کو بھی ایسے طریقے سے پیش کریں گے کہ اس میں جھوٹ کی ملونی کی وجہ سے بعض دفعہ اس کے مؤکل کو نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے، اس کا نقصان کروا دیتے ہیں.یہاں یورپین ملکوں میں بھی اب احمدی آتے ہیں، اسامکم کے کیس بعض دفعہ بڑے سیدھے ہوتے ہیں اور اگر سیدھے طریقے سے ان کو حل کیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ وہ حل ہو بھی جائیں لیکن بلا وجہ ایسے باتوں میں الجھاتے ہیں کہ اچھا بھلا کیس خراب ہو جاتا ہے.پھر بعض مؤکل سے سیدھی طرح بات ہی نہیں کرتے ، اس کو صحیح صورت حال ہی نہیں بتاتے اور بڑے عرصہ بعد جا کے جب پتہ کرو تو پتہ چلتا ہے کہ پیروی ہی نہیں ہو رہی.اسی طرح ہمارے ملکوں میں بھی، تیسری دنیا کے ملکوں میں بھی بعض ان پڑھ لوگوں کو وکلاء بہت چکروں میں ڈالتے ہیں.عدالت میں پیش ہی نہیں ہورہے ہوتے ، مؤکل سے فیس لے رہے ہوتے ہیں.پھر مجرم کو بچانے کے لئے جھوٹی گواہیاں دے رہے ہوتے ہیں اور جن سے فیس لے رہے ہوتے ہیں ان سے بھی جھوٹ بول کر ٹال مٹول کر رہے ہوتے ہیں ، غلط بیانی کر رہے ہوتے ہیں.تو یہ بہت
554 $2003 خطبات مسرور ساری چیزیں ہیں اور ایسے لوگوں کے خیال میں اگر اس طرح بات نہ کی جائے ، مثلاً ایسے ہی جو وکیل ہیں کہ ہیر پھیر نہ کیا جائے اور لوگوں کو دھو کے میں نہ ڈالا جائے تو ان کا رزق ختم ہو جائے گا، ان کی تو کوئی آمد ہی نہیں رہے گی.اگر اتنی آسانی سے کیس حل ہونے لگیں.تو گویا یہ غلط بیانی اور جھوٹ ان کے رازق بن جاتے ہیں.جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارا رازق میں ہوں تو احمدی وکلاء کو ان چیزوں سے پاک ہونا چاہئے.مجھے ایک مثال یاد آ گئی ، فیصل آباد میں جب ہم ہوتے تھے تو خدام خدمت خلق کے تحت باہر جایا کرتے تھے تاکہ دیہاتوں میں جا کے لوگوں سے ملیں اور اگر ان کے کوئی کام بھی ہوں تو وہ کئے جائیں ، ان کی ضروریات پوری کی جائیں.زمیندار ہیں تو ان کی زمیندارے کی کیا کیا ضروریات ہیں، ان کا جائزہ لیا جائے.تو اسی طرح کے ایک وفد میں ہم گئے.ایک دیہاتی بیٹھا تھا باتوں باتوں میں اس کو پتہ لگ گیا کہ ہم احمدی ہیں.گو کہ یہ اظہار عموماً نہیں کیا جاتا تھا جب تک کوئی خود نہ پوچھے.اس نے ذکر کیا کہ فیصل آباد میں ایک احمدی وکیل ہیں شیخ محمد احمد صاحب مظہر، بہت نیک انسان ہیں اور بہت بچے آدمی ہیں ، کبھی غلط بیانی سے کام نہیں لیتے اور کبھی کوئی جھوٹا کیس نہیں لیتے لیکن وہ پنجابی میں کہنے لگا ) ایک نقص ہے ان میں کہ وہ ہیں مرزائی.تو مرزائی احمدی ہونا ہی نقص تھا ان میں اور کوئی عیب تلاش نہیں کر سکے.تو یہ تو ان کی کم عقلی ہے یا جس طرح مولویوں نے انہیں بتایا اسی طرح انہوں نے اظہار کر دیا لیکن اس پر ابو جہل کی یہ بات یاد آ جاتی ہے جو اس نے آنحضرت ﷺ کو ہی تھی کہ إِنَّا لَا نُكَذِّبُكَ بَلْ نُكَذِّبُ بِمَا جِئْتَ بِهِ یعنی ہم تجھے جھوٹا قرار نہیں دیتے ، تو تو سچا ہے، صادق القول ہے، بلکہ اس تعلیم کی تکذیب کرتے ہیں جو تو لے کر آیا ہے.(جامع ترمذى كتاب التفسير، تفسير سورة الانعام) تو اس زمانے میں بھی آنحضرت ﷺ کے اسوہ پر عمل کر کے، صرف آپ کے حقیقی پیروکار ہی اس زمانے میں یہ نمونے دکھا سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے والے ہی یہ نمونے دکھا سکتے ہیں کہ جن کو یہ کہا جائے کوئی یہ انگلی نہ اٹھائے کہ یہ شخص جھوٹا ہے باقی تعلیم کو جھوٹا کہنا تو خیر ہمیشہ سے انکار کرنے والوں کی سنت چلی آرہی ہے.پھر ڈاکٹر ہیں، غلط میڈیکل رپورٹ بنوا دیتے ہیں ، بعض مقدمات قائم کروا دیتے ہیں.تو
555 $2003 خطبات مسرور جو بھی اپنے پیشے سے خیانت کرے گا وہ جھوٹ کو اپنا کر ہی کرے گا.خیانت ہے ہی جھوٹ اور کیا ہے.پھر استاد ہیں.بعض اُستاد ہیں جو اس معزز پیشے کو جھوٹ کی وجہ سے بدنام کر رہے ہیں.رشوت لے کر ، پیسے لے کر جھوٹے نمبر لگا دیتے ہیں.بلکہ بعض تو ایسے استاد بھی ہیں جو جھوٹی اسناد لے کر ملا زمت میں آئے ہوئے ہیں، ان کی کوالیفی کیشن (Qualification) ہی نہیں ہوتی بعض ملکوں میں.تو یہ ایسی بھیانک برائیاں ہیں جو معاشرے میں قائم ہیں اور پاکستان وغیرہ میں جو تیسری دنیا کے ملک ہیں یہ کوئی چھپی ہوئی باتیں نہیں ہیں یہ سب باتیں اخباروں میں آتی ہیں.تو جب جھوٹ پر مبنی معاشرہ قائم ہو جائے تو پھر اقتدار ختم ہوتی چلی جاتی ہیں اور ایک وقت میں تمام معاشرہ ہی بے حس اور بالکل ہی اللہ تعالیٰ سے دور جانے والا ہو جاتا ہے.تو ہر احمدی کو اس معاشرہ میں ایسی باتوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے.یہ احساس پیدا کرنا ہے، اپنے اندر بھی ، اپنی نسلوں کے اندر بھی کہ احمدی ہونے کی حیثیت سے تم نے سچائی پر قائم رہنا ہے اور جھوٹ کے خلاف جہاد کرنا ہے.جتنا مرضی اس میں نقصان ہو اس کی کوئی پرواہ نہیں کرنی.اس لئے ہر احمدی چاہے وہ ملازمت سے منسلک ہو، چاہے کسی پیشے سے منسلک ہو، چاہے کوئی کاروبار کرتا ہو، یہ عہد کرے کہ میں نے جھوٹ کا سہارا نہیں لینا.اب کاروبار میں، بعض کا روباری حضرات ہیں، بعض دفعہ اپنی چیزیں فروخت کرنے کے لئے غلط بیانی اور جھوٹ کا سہارا لے رہے ہوتے ہیں.وقتی طور پر تو شاید ان کو فائدہ نظر آرہا ہو لیکن حقیقت میں جھوٹ کے راستے وہ شرک کی طرف جارہے ہوتے ہیں.تو اس زمانے میں احمدی کو بہت پھونک پھونک کر قدم اٹھانا چاہئے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بیعت کا دعویٰ کرنے کے بعد ، جھوٹ سے نفرت کا وعدہ کرنے کے بعد، بے احتیاطی کرنے کا مطلب ہے کہ ہم یہ خیال کر رہے ہیں کہ شاید جھوٹ بول کر اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دے سکتے ہیں، نعوذ باللہ.اس لئے بہت خوف کا مقام ہے، بہت احتیاط کی ضرورت ہے.حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے آنحضرت ﷺ کا یہ فرمان اچھی طرح یاد ہے کہ شک میں ڈالنے والی باتوں کو چھوڑ دو.شک سے مُبر ا یقین کو اختیار کرو کیونکہ یقین
خطبات مسرور 556 بخش سچائی اطمینان کا باعث ہے اور جھوٹ اضطراب اور پریشانی کا موجب ہوتا ہے.$2003 (ترمذی کتاب صفة القيامة باب ما جاء في أواني الحوض.......اب بعض دفعہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے جھوٹ تو نہیں بولا لیکن بات ایسی گول مول کرتے ہیں کہ وہ جھوٹ ہی ہوتی ہے.اسی کے بارہ میں فرمایا کہ شک سے مبر ابات کرو.اور شک میں ڈالنے والی باتوں کو چھوڑ دو.الله پھر حدیث میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی بندے کے دل میں ایمان اور کفر جمع نہیں ہو سکتے.اور نہ سچائی اور کذب بیانی اکٹھے ہو سکتے ہیں اور نہ ہی دیانتداری اور خیانت اکٹھے ہو سکتے ہیں.(مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۳۴۹.مطبوعه بيروت) پھر ایک حدیث ہے یہ بھی حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے.کہ آپ علیہ نے فرمایا: انسان کے جھوٹے ہونے کے لئے یہی علامت کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات لوگوں میں بیان کرتا پھرے.مسلم مقدمه باب النهي عن الحديث بكل ما سمع) تو بعض لوگ ادھر ادھر باتیں کرنے کے عادی ہوتے ہیں صرف مزہ لینے کے لئے.کہ ایک سے بات ادھر پہنچائی ، اِدھر سے اُدھر پہنچائی.تو ہمیں اس حدیث کے مطابق اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے کہیں ہم انجانے میں، لاشعوری طور پر یا جان بوجھ کر اپنے پر یہ جھوٹے ہونے کا لیبل نہ لگوالیں.پھر حدیث ہے، ابوہریرہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے کسی چھوٹے بچے کو کہا (اب یہ ماؤں اور باپوں کے لئے بہت ضروری ہے، سنے کی چیز ).جس نے کسی چھوٹے بچے کو کہا کہ آؤ میں تمہیں کچھ دیتا ہوں پھر وہ اس کو دیتا کچھ نہیں تو یہ جھوٹ میں شمار ہوگا.(مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۴۵۲.مطبوعہ بیروت).اس کا مطلب ہے کہ بچے کو تو پھر سیچ اور جھوٹ کا احساس ختم ہو جائے گا، اس کی تربیت کے لئے بہت ضروری ہے.اور ہم نے اپنی اگلی نسلوں کی بھی تربیت کرنی ہے اور یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے.پھر ہر گاؤں ، ہر شہر میں ایک بڑی
557 $2003 خطبات مسرور تعداد میں واقفین نو بچے ہیں، ان کی بھی تربیت گوگھر کے ماحول میں بھی کرنی ہے لیکن احمدی ماحول میں بھی ان کی تربیت کرنی ہے تو اس لئے بچپن سے ہی بچوں میں اور ان کے دلوں میں جھوٹ سے نفرت اور بیچ سے محبت پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ہمیشہ، ہر وقت ، ہر ایک کو بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہئے.پھر حضرت عبداللہ بن عامر سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر تشریف فرما تھے کہ میری والدہ سے مجھے بلایا کہ آؤ میں تجھ کو کچھ دیتی ہوں.اس پر آنحضور ﷺ نے فرمایا: ” تو اسے کیا دینا چاہتی ہے؟“.انہوں نے عرض کیا کہ میں اس کو کھجور دینا چاہتی ہوں.یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تو اس کو کچھ نہ دیتی تو تیرے ذمہ جھوٹ لکھا جاتا.(سنن ابی دائود كتاب الادب باب فى التشديد في الكذب.اب یہ دیکھیں کتنی تنبیہ ہے.پھر حضرت فاطمہ حضرت اسماء سے روایت کرتی ہیں کہ ایک عورت نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا: اے اللہ کے رسول ! میری ایک سوتن ہے.اگر میں جھوٹے طور پر اس کے لئے یہ ظاہر کروں کہ خاوند مجھے یہ یہ چیزیں دیتا ہے حالانکہ وہ اس نے مجھے نہ دی ہوں ( اس کو تنگ کرنے کے لئے ، اس کو جلانے کے لئے ) تو کیا مجھ پر کوئی گناہ ہے؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہ ملنے والی چیزوں کا جھوٹے طور پر اظہار کرنے والا ایسا ہی ہے گویا اس نے جھوٹے کپڑے پہنے ہوئے ہیں.(مسلم كتاب الزينة كتاب اللباس والزينة باب النهي عن التزوير......تو یہ بھی جھوٹ ہی ہے.تو اس معاشرے میں بھی بعض دفعہ مقابلے میں آکر غلط بیانیاں ہو رہی ہوتی ہیں.بعض دفعہ کسی کو نیچا دکھانے کے لئے یہ مشہور کر دیتے ہیں کہ ہمارا افسر ہمارے سے بڑا تعلق رکھتا ہے تو بلا وجہ ایسے لوگوں کو حسد اور جلن بھی شروع ہو جاتی ہے.پھر رشتہ داریوں میں صرف تنگ کرنے کے لئے ، اس کے علاوہ بھی ، اسی طرح کا اظہار کیا جاتا ہے جس سے دوسرے کو جلن شروع ہو.گو یہ بھی ناپسندیدہ بات ہے.کسی کے اگر کسی سے تعلقات ہیں تو کسی کو جلن اور حسد کی ضرورت نہیں ہے.لیکن یہ جھوٹے طور پر اظہار ہے، یہ جھوٹ کے زمرے میں آجاتا ہے.صلى الله پھر عبد اللہ بن عمرو بن العاص روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چار باتیں ایسی ہیں جس میں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے.اور جس میں ان میں سے ایک بات پائی جائے
$2003 558 خطبات مسرور اس میں نفاق کا ایک حصہ یا خصلت پائی جاتی ہے.یہاں تک کہ وہ اس کو چھوڑ دے.اور باقی کیا ہیں؟ پہلی بات یہ کہ جب وہ گفتگو کرتا ہے تو کذب بیانی سے کام لیتا ہے یعنی اس کی باتوں سے جھوٹ ظاہر ہو رہا ہوتا ہے.دوسری بات، جب وہ معاہدہ کرتا ہے تو غداری کا مرتکب ہو رہا ہوتا ہے.تیسرے، جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے.اور چوتھے ، جب جھگڑتا ہے تو گالی گلوچ سے کام لیتا ہے.اب اس حدیث پر اور غور کریں تو تمام باتیں ہی جھوٹ کے تعلق میں ہیں.پہلی بات تو صاف کھلی ہے کہ ہر بات میں جھوٹ بولنے کی عادت ہے.بعض دفعہ بعض لوگ کھلے طور پر جھوٹ نہیں بولتے ، ایسے طریقے سے بات کو گھما پھرا کر کرتے ہیں اور پھر اس طرح اگلے آدمی کو پہنچاتے ہیں کہ سننے والا اس کا کوئی بھی مطلب نکال سکتا ہے.اور بعض دفعہ ایسی گول مول باتیں جو ہیں، دو دلوں میں پھوٹ ڈالنے کا باعث بھی بن جاتی ہیں.لڑائیاں ہوتی ہیں اور اگر نظام جماعت یا عزیز رشته دار مل کر صلح صفائی کی کوشش کریں تو تحقیق کے بعد پتہ لگتا ہے کہ بات ہی غلط تھی.بات ایسی ہے ہی نہیں تھی جو دوسرے کی طرف منسوب کر کے بات کی گئی.اور جب اس بات کرنے والے کو پوچھا جائے کہ تم نے ایسے بات پہنچا کر دو فریقین میں آپس میں پھوٹ ڈلوادی ہے، لڑائی پیدا کر دی ہے تو وہ آرام سے کہہ دیتا ہے کہ میں نے تو اس طرح بات ہی نہیں کی.میرا تو مطلب یہ تھا.تو ایسے لوگ جو اس طرح ہوشیار بنتے ہیں اور صرف مزہ لینے کے لئے بی جمالو کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں.چاہے ظاہر جھوٹ بول کر یا چھپا ہوا جھوٹ بول کر ان کو رسول خداﷺ نے منافق کا درجہ دیا ہے.کیونکہ مومن کے لئے تو واضح طور پر قول سدید کا حکم ہے.ایسی بات کرو جو کھلی ہو، صاف ہو، سیدھی ہو اور سمجھ آنے والی ہو، کسی قسم کا اشتباہ پیدا نہ ہوتا ہو اور کبھی اس وجہ سے، اس بات کی وجہ سے دلوں میں پھوٹ نہ پڑتی ہو.پھر دوسری خصلت ہے نفاق کی کہ جب معاہدہ کرتے ہیں تو غداری کے مرتکب ہوتے ہیں اور معاہدے توڑتے ہیں.آپ ﷺ کا تو یہ عمل تھا کہ بے چارے بے کس، ظلم کی چکی میں پیسے ہوئے مسلمان ، جب بھی مکہ سے مدینہ آئے تو چونکہ کفار سے ایک معاہدہ تھا کہ ایسے مسلمانوں کو واپس کر دیا جائے گا تو ان کی حالت زار کے باوجود دل پر جبر کرتے ہوئے آنحضرت مے ان کو واپس (بخاری ومسلم کتاب الایمان باب علامة المنافق)
559 $2003 خطبات مسرور بھجوا دیا کرتے تھے.تو یہ اسوہ حسنہ ہے ہمارے سامنے.آج کل بہت بڑی بڑی حکومتیں معاہدے کرتی ہیں اور پھر انہیں اس طرح تو ڑ دیتی ہیں.خاص طور پر مسلمان حکومتوں یا غریب ملکوں کے ساتھ معاہدوں کا سوال ہو تو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا.اور اعتراض اسلام پر ہو رہا ہوتا ہے کہ اسلام یوں ہے اور یوں ہے.بہر حال ان کے عمل ان کے ساتھ لیکن مسلمانوں کو بھی یہ نصیحت ہے کہ اگر تم معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہو تو تمہارے اندر منافقت کا بیج ہے اس لئے فکر کرو اور اس برائی کو اپنے اندر سے ختم کرو.اب میں گھر کی سطح پر ، بعض رشتوں کی سطح پر معاہدے کی مثال دینا چاہتا ہوں.شادی بیاہ کا تعلق بھی مرد اور عورت میں ایک معاہدہ کی حیثیت رکھتا ہے.عورت کو حکم ہے کہ اس معاہدے کی رو سے تم پر یہ فرائض ادا ہوتے ہیں مثلاً خاوند کی ضروریات کا خیال رکھنا، بچوں کی نگہداشت کرنا، گھر کے امور کی ادائیگی وغیرہ.اسی طرح مرد کی بھی ذمہ داری ہے کہ بیوی بچوں کے نان نفقہ کی ذمہ داری اس پر ہے.ان کی متفرق ضروریات کی ذمہ داری اس پر ہے.اور دونوں میاں بیوی نے مل کر بچوں کی نیک تربیت کرنی ہے اس کی ذمہ داری ان پر ہے.تو جتنا زیادہ میاں بیوی آپس میں اس معاہدے کی پابندی کرتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں گے اتنا ہی زیادہ حسین معاشرہ قائم ہوتا چلا جائے گا.لیکن بعض دفعہ افسوس ہوتا ہے بعض واقعات سن کر اور دیکھ کر کہ یہاں یورپ میں ،مغرب میں رہنے والی لڑکی کا رشتہ اگر پاکستان یا ہندوستان وغیرہ میں کہیں ہوا.تو لڑکی نے سپانسر کر کے لڑکے کو بلوایا، شادی ہنسی خوشی چلتی رہی، بچے بھی ہو گئے.اور جب مرد کے کاغذات مکمل ہو گئے؟ اب مجھے یہاں سے کوئی نہیں نکال سکتا تو غلط طریق سے لڑکیوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا.تو اس طرح ایک پاکیزہ تعلق کو ایک معاہدے کو توڑنے والے بن گئے اور اکثر بنیاد،صرف بہانے ہوتے ہیں، جھوٹ پر مبنی باتیں ہوتی ہیں، اندر کچھ بھی نہیں ہوتا ، الزامات لگائے جار ہے ہوتے ہیں.تو ایسے لوگ بھی منافقت کے زمرے میں ہی آتے ہیں اور احمدیوں کو ، ہم میں سے ہر ایک کو اس بارہ میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے.پھر تیسری خصلت ہے وعدہ خلافی.یہ بھی جھوٹ کی ایک قسم ہے.اور آج کل کے معاشرے میں حکومتوں سے لے کر نچلی سطح پر ہر جگہ اس کے نظارے دیکھنے میں نظر آتے ہیں.اور
560 $2003 خطبات مسرور اکثر ایسے ہیں جن کی جب کوئی وعدہ کر رہے ہوتے ہیں تو شروع سے ہی نیت ٹھیک نہیں ہوتی.اور بعد کے فعل سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ واقعی ابتداء سے ہی نیت بدتھی.کیونکہ شروع میں انہوں نے یہی سوچا ہوتا ہے کہ ابھی وعدہ کرلو، جو فائدہ اٹھانا ہے اٹھا لو، اور جھوٹ بول لو، کوئی حرج نہیں.اور جب وعدہ پورا کرنے کا وقت آئے گا تو پھر دیکھا جائے گا، پھر ٹال دیں گے، پھر تھوڑ اسا جھوٹ بول دیں گے.تو ایسے لوگوں کو بھی اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے کہ وعدہ خلافی جس کو یہ معمولی سمجھ رہے ہیں یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ آنحضرت ﷺ نے ایسے شخص کو منافقین کی صف میں کھڑا کر دیا ہے اور منافق کافر سے بھی زیادہ گنہ گار ہے.پھر چوتھی خصلت کہ جب جھگڑتا ہے تو گالی گلوچ سے کام لیتا ہے.اور اس کی سب سے زیادہ سمجھ احمد یوں کو ہی ہے.آپ دیکھ لیں کہ مخالفین احمد بیت گالی گلوچ یا غلیظ زبان کا استعمال اس لئے کرتے ہیں کہ وہ جھوٹے ہیں.اگر بچے ہوتے تو دلیل سے بات کرتے ، شریفانہ رنگ میں بات کرتے.تو جھوٹے کے پاس جب کوئی دلیل نہیں ہوتی تو وہ ماردھاڑ اور گالی گلوچ پر اتر آتا ہے.اور پھر ایسے لوگ اس تعریف کی رو سے منافق بھی ہیں.اگر اس کو مزید کھولیں تو ایسے لوگوں کی اور بھی بہت ساری منافقانہ باتیں ظاہر ہونی شروع ہو جائیں گی.تو یہ تو تھی غیروں کی بات.ان کے عمل ان کے ساتھ ہیں، ان کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے.خدا خود ہی ان سے نمٹ لے گا لیکن احمدیوں کو بھی بہت محتاط ہونے اور اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے.آپس میں بعض دفعہ میاں بیوی میں، بھائیوں میں،رشتہ داروں میں، برادریوں میں ، اپنے ماحول میں، کاروباری حلقوں میں رنجشیں پیدا ہو جاتی ہیں.غلط یا صحیح یہ ایک علیحدہ بات ہے لیکن کسی فریق کو بھی یہ زیب نہیں دیتا کہ ان رنجشوں کو اتنا بڑھا دیں کہ گالی گلوچ تک نوبت آ جائے.تو ہمیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہی تعلیم دی ہے کہ اگر ایسا موقعہ پیدا ہو جائے تو صلح میں پہل کرو صلح کے لئے اپنا ہاتھ آگے بڑھاؤ.بچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کرو.کجا یہ کہ گالی گلوچ کر کے منافقت کا لیبل اپنے پر لگا لیا جائے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس سے بچائے، محفوظ رکھے.جیسا کہ میں نے پہلے کہا گالی گلوچ ہمیشہ جھوٹا آدمی ہی کرتا ہے.حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
خطبات مسرور 561 $2003 تم جھوٹ سے بچو کیونکہ یہ بھی روحانیت کو تباہ کرنے والا مرض ہے اور پھر شرک اپنی ذات میں سب سے بڑا جھوٹ ہے.کیونکہ جو طاقتیں خدا تعالیٰ نے کسی کو نہیں دیں، ان کے متعلق ایک مشرک کہتا ہے کہ فلاں فلاں چیز میں ہیں (وہ بتوں سے مانگتے ہیں جس چیز کا بت بنایا ہوا ہے.اس کا مطلب یہی ہے کہ ان کے دلوں میں ہے کہ وہ طاقت فلاں فلاں بتوں میں ہے ) اور اس طرح جھوٹ کی نجاست پر منہ مارتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کی جماعتوں کی علامتوں میں سے ایک بڑی بھاری علامت راستبازی ہوتی ہے اور یہ علامت ایسی ہے جو اپنی ذات میں بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے.مگر افسوس ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگ راستبازی کی قدرو قیمت کو نہیں سمجھتے.خصوصیت کے ساتھ اس زمانے میں یہ مرض زیادہ پایا جاتا ہے.کیونکہ یہ زمانہ مداہنت اور نفاق کا زمانہ ہے اور تہذیب کے معنے آج کل یہ سمجھے جاتے ہیں کہ بات کرنے والا دوسرے کے خیالات کا اس قدر خیال رکھے کہ اگر اُسے سچائی بھی چھپانی پڑے تو اس سے دریغ نہ کرے.مگر زمانے کی روکے باوجود ہر شخص کا فرض ہے کہ اس بدی کا پورے زور سے مقابلہ کرے.اور اسے کچلنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرے کیونکہ جھوٹ بولنے والا دوسروں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے اور دھو کہ ایک ایسی چیز ہے جس سے لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے.پس جھوٹ بولنے والا صرف اخلاقی مجرم ہی نہیں بلکہ بنی نوع انسان کا دشمن اور انہیں تباہ کرنے والا بھی ہے اور اس عہد کو مٹانا ہر سچے اور مخلص مسلمان کا فرض ہے.رسول کریم ﷺ نے منافق کی علامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ جب بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے.اور منافق کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسے دوزخ کے سخت ترین مقام میں رکھا جائے گا.گویا خدا تعالیٰ منافقوں کے ساتھ کفار سے بھی سخت معاملہ کرے گا اس لئے کہ کافر کی وجہ سے تو کا فرکو ہی نقصان پہنچتا ہے مگر منافق کی وجہ سے مسلمانوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے.جو قوم اپنے افراد میں سے جھوٹ نہیں مٹاسکتی اور اس کے باوجود یہ سمجھتی ہے کہ اس کو ترقی اور عزت حاصل ہو جائے گی.اس کا یہ خیال ایسا ہی خام ہے جیسے ایک بچے کا یہ خیال کہ چاند کے پاس پہنچ جائے گا یا ستاروں کے پاس پہنچ جائے گا.پھر آپ نے فرمایا کہ اگر سچائی ایسی چیز ہے جس کے بغیر کسی قوم کا رعب قائم نہیں ہوسکتا.جولوگ سچائی اور دیانت کا نمونہ دکھاتے ہیں وہ اپنی قوم کو چار چاند لگا دیتے ہیں اور جو لوگ یہ نمونہ نہیں
خطبات مسرور 562 $2003 دکھاتے وہ اپنی قوم کا گلا کاٹنے والے ہوتے ہیں“.(تفسیر کبیر جلد ششم صفحه ٤١ - ٤٣ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: حق اور انصاف پر قائم ہو جاؤ اور چاہئے کہ ہر ایک گواہی تمہاری خدا کے لئے ہو.جھوٹ مت بولوا گر چہ سچ بولنے سے تمہاری جانوں کو نقصان پہنچے یا اس سے تمہارے ماں باپ کو ضرر پہنچے اور قریبیوں کو جیسے بیٹے وغیرہ کو.پھر آپ نے فرمایا: اسلامی اصول کی فلاسفی صفحه (۵۳ سچ میں ایک جرأت اور دلیری ہوتی ہے.جھوٹا انسان بزدل ہوتا ہے.وہ جس کی زندگی ناپا کی اور گندے گناہوں سے ملوث ہے وہ ہمیشہ خوفزدہ رہتا ہے اور مقابلہ نہیں کرسکتا.ایک صادق انسان کی طرح دلیری اور جرات سے اپنی صداقت کا اظہار نہیں کر سکتا اور اپنی پاکدامنی کا ثبوت نہیں دے سکتا.دنیوی معاملات میں ہی غور کر کے دیکھ لو کہ کون ہے جس کو ذراسی بھی خدا نے خوش حیثیتی عطا کی ہو اور اس کے حاسد نہ ہوں.ہر خوش حیثیت کے حاسد ضرور ہو جاتے ہیں اور ساتھ ہی لگے رہتے ہیں.یہی حال دینی امور کا ہے.شیطان بھی اصلاح کا دشمن ہے.پس انسان کو چاہئے کہ اپنا حساب صاف رکھے اور خدا سے معاملہ درست رکھے.خدا کو راضی کرے پھر کسی سے خوف نہ کھائے اور نہ کسی کی پروا کرے.ایسے معاملات سے پر ہیز کرے جن سے خود ہی مورد عذاب ہو جاوے مگر یہ سب کچھ بھی تائید غیبی اور توفیق الہی کے سوا نہیں ہوسکتا.صرف انسانی کوشش کچھ بنانہیں سکتی جب تک خدا کا فضل شامل حال نہ ہو.خلق الانسان ضعيفا ) ( النساء:۲۹).انسان ناتواں ہے،غلطیوں سے پر ہے، مشکلات چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں.پس دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نیکی کی توفیق عطا کرے.اور تائیدات غیبی اور فضل کے فیضان کا وارث بنادے.(ملفوظات جلد پنجم، طبع جدید، صفحه ٥٤٣ پھر آپ نے فرمایا: ”صدیق مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی جو بالکل راستبازی میں فنا شدہ ہو اور کمال درجہ کا پابند، راستباز اور عاشق صادق ہو.یہ ایک ایسا مقام ہے کہ جب ایک شخص اس درجہ پر پہنچتا ہے تو وہ ہر قسم کی صداقتوں اور راستبازیوں کا مجموعہ اور ان کوشش کرنے والا ہو جاتا ہے.جس
$2003 563 خطبات مسرور طرح پر صدیق کمالات صداقت کا جذب کرنے والا ہوتا ہے.صدیق کے کمال کے حصول کا فلسفہ یہ ہے کہ جب وہ اپنی کمزوری اور ناداری کو دیکھ کر اپنی طاقت اور حیثیت کے موافق اياك نَعْبُدُ کہتا ہے اور صدق اختیار کرتا اور جھوٹ کو ترک کر دیتا ہے اور ہر قسم کے رجس اور پلیدی سے جو جھوٹ کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے دور بھاگتا ہے اور عہد کر لیتا ہے کہ کبھی جھوٹ نہ بولوں گا، جھوٹی گواہی نہ دوں گا اور نہ جذ بہ نفسانی کے رنگ میں کوئی جھوٹا کلام کروں گا، نہ لغوطور پر، نہ کسب خیر اور دفع شر کے لئے.بعضوں کا خیال ہے کہ مصلحت بعض موقعوں پر جھوٹ بولنا جائز ہے.فلاں غلط بات کرنے سے فلاں بہتری پیدا ہوسکتی ہے تعلقات میں یا رفع شر میں کر رہا ہوں غلط کام کر کے.یا ایسی صورت حال پیدا ہوگئی تھی جہاں جھوٹ بولنا جائز ہو گیا تھا.آپ نے فرمایا کہ کسی صورت میں بھی جھوٹ بولنا جائز نہیں ہے.فرماتے ہیں یعنی یہ عہد کرے کہ کسی رنگ اور حالت میں بھی جھوٹ کو اختیار نہیں کروں گا.اور جب اس حد تک وعدہ کرتا ہے تو گویا اِيَّاكَ نَعْبُدُ پر ایک خاص عمل کرتا ہے اور اس کا وہ عمل اعلیٰ درجہ کی عبادت ہوتی ہے.ايَّاكَ نَعْبُدُ سے آگے إِيَّاكَ نَسْتَعِيْن ہے خواہ یہ اس کے منہ سے نکلے یا نہ نکلے لیکن اللہ تعالیٰ جو مبدء الفیوض ہے اور صدق اور راستی کا سرچشمہ ہے“ (جہاں سے اللہ تعالیٰ کی معرفت اور فیض نکلتے ہیں اور سچائی اور راستی کا دکھانے والا ہے ) اللہ تعالیٰ اس کو ضرور مدد دے گا اور صداقت کے اعلیٰ اصول اور حقائق اس پر کھول دے گا.مثلاً جیسے کہ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جو تا جر اچھے اصولوں پر چلتا ہے اور راستبازی اور دیانتداری کو ہاتھ سے نہیں دیتا اگر وہ ایک پیسے سے بھی تجارت کرے تو اللہ تعالیٰ اسے ایک پیسے کے بدلے لاکھوں روپے دے دیتا ہے.اسی طرح جب عام طور پر ایک انسان راستی اور راستبازی سے محبت کرتا ہے اور صدق کو اپنا شعار بنالیتا ہے تو وہی راستی اس عظیم الشان صدق کو کھینچ لاتی ہے جو خدا تعالیٰ کو دکھا دیتی ہے.صدق مجسم قرآن شریف ہے اور پیکرِ صدق آنحضرت ﷺ کی مبارک ذات ہے اور ایسا ہی اللہ تعالیٰ کے مامور ومرسل حق اور صدق ہوتے ہیں.پس جب وہ اس صدق تک پہنچ جاتا ہے تب اس کی آنکھ کھلتی ہے اور اسے ایک خاص بصیرت ملتی ہے جس سے معارف قرآنی اس پر کھلنے لگتے ہیں.میں اس بات
564 $2003 خطبات مسرور کے ماننے کے لئے کبھی بھی تیار نہیں ہوں کہ وہ شخص جو صدق سے محبت نہیں رکھتا اور راستبازی کو اپنا شعار نہیں بناتا وہ قرآن کریم کے معارف کو سمجھ بھی سکے.اس لئے کہ اس کے قلب کو اس سے مناسبت ہی نہیں کیونکہ یہ تو صدق کا چشمہ ہے اور اس سے وہی پی سکتا ہے جس کو صدق سے محبت ہو“.(ملفوظات جلد اول صفحه (٣٦٥-٣٦٦) پھر آپ نے فرمایا کہ: میں نے غور کیا ہے قرآن شریف میں کئی ہزار حکم ہیں ان کی پابندی نہیں کی جاتی.ادنیٰ ادنی سی باتوں میں خلاف ورزی کر لی جاتی ہے یہاں تک دیکھا جاتا ہے کہ بعض جھوٹ تو دوکاندار بولتے ہیں اور بعض مصالحہ دار جھوٹ بولتے ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ نے ان کو رجس کے ساتھ رکھا ہے.مگر بہت سے لوگ دیکھے ہیں کہ رنگ آمیزی کر کے حالات بیان کرنے سے نہیں رکتے اور اس کو کوئی گناہ بھی نہیں سمجھتے.ہنسی کے طور پر بھی جھوٹ بولتے ہیں.انسان صدیق نہیں کہلا سکتا جب تک جھوٹ کے تمام شعبوں سے پر ہیز نہ کرے.( یعنی ہر طرح کے جھوٹ سے پر ہیز جب تک نہیں -- (tr ہوتا ).پھر آپ نے فرمایا : ” خدا تعالیٰ نے مجھے اسی لئے مامور کیا ہے ( ہم احمدی جو ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اسی لئے مامور کیا ہے کہ تقویٰ پیدا ہو اور خدا پر سچا ایمان جو گناہ سے بچاتا ہے پیدا ہو.خدا تعالیٰ تاوان نہیں چاہتا بلکہ سچا تقویٰ چاہتا ہے“.(ملفوظات جلد پنجم صفحه.(۱۲۱ - ۱۲۰ اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو سچ کے اعلیٰ معیار قائم کرنے اور جھوٹ سے بیزار ہو کر نفرت کرنے والا بنائے.ہر احمدی جدھر بھی جائے اس پر کبھی اس اشارے کے ساتھ انگلی نہ اٹھے کے یہ جھوٹا ہے بلکہ ہر انگلی ہر احمدی پر ان الفاظ پر اٹھے کہ اگر سچائی کا کوئی پیکر دیکھنا ہے تو یہ احمدی جارہا ہے.اگر کسی قوم کے اندر کوئی سچائی دیکھنی ہے، اس دنیا میں موجودہ حالات میں کسی نے سچائی دیکھنی ہے تو ان احمدیوں میں دیکھو.تو ہر احمدی خواہ وہ امریکہ میں رہنے والا ہو یا یورپ میں ہو، ہر دیکھنے والا احمدی کے متعلق یہی کہے کہ سچائی ان کا نمایاں پہلو ہے اور پہچان ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس خلق پر قائم رہنے کی اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.
$2003 565 36 خطبات مس بدظنی سے تجسس اور تجسس سے غیبت کی عادت پیدا ہوتی ہے ۲۶ دسمبر ۲۰۰۳ء بمطابق ۲۶ فتح ۱۳۸۲ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن 000 بعض معاشری بیماریاں بدظنی تجسس اور غیبت وغیرہ چھوڑنے کے بارہ میں پر حکمت نصائح ہے جولوگ بدظنیاں کرتے ہیں جب تک اپنی نسبت میں بدظنیاں نہیں سن لیتے مرتے نہیں.دین کی خدمت کرنے والی عورتیں غیبت جیسی بیماری سے بچی رہتی ہیں غیبت اور چغلی کی بیماریوں کے بچنے کے لئے ذیلی تنظیمیں مؤثر لائحہ عمل اختیار کریں.ان بیماریوں سے بچنے کا ایک ہی علاج ہے کہ آدمی ہر وقت استغفار کرتا رہے.کبھی بھی یکطرفہ بات سن کر کسی کے خلاف یا بدظن نہیں ہونا چاہئے.ہم پہلے اپنی اصلاح کریں بجائے اس کے کہ اپنے بھائی کی برائیاں بیان کریں.
خطبات مس $2003 566 تشھد وتعوذ کے بعد درج ذیل آیت قرآنیہ تلاوت فرمائی يَايُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدَكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ.وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ (سورة الحجرات آیت ۱۳) ہمارے معاشرے میں بعض برائیاں ایسی ہیں جو بظاہر بہت چھوٹی نظر آتی ہیں لیکن ان کے اثرات پورے معاشرے پر ہورہے ہوتے ہیں.اور ایک فساد برپا ہوا ہوتا ہے.انہی برائیوں میں سے بعض کا یہاں اس آیت میں ذکر ہے.ترجمہ ہے اس کا کیہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو.یقینا بعض ظن گناہ ہوتے ہیں.اور تجسس نہ کیا کرو.اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے.کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو.اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.یقینا اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا (اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.اس میں تین باتوں کا ذکر ہے لیکن اصل میں تو پہلی دو باتوں کی ہی مناہی کی گئی ہے.تیسری برائی یعنی غیبت میں ہی دونوں آجاتی ہیں.کیونکہ ظن ہوتا ہے تو تجسس ہوتا ہے اس کے بعد غیبت ہوتی ہے.تو اس آیت میں یہ فرمایا کہ غیبت جو ہے یہ مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے برابر ہے.اب دیکھیں ظالم سے ظالم شخص بھی سخت دل سے سخت دل شخص بھی ، کبھی یہ گوارا نہیں کرتا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے.اس تصور سے ہی ابکائی آنے لگتی ہے ، طبیعت متلانے لگتی ہے.ایک حدیث ہے، قیس روایت کرتے ہیں کہ عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ اپنے چند رفقاء کے
567 $2003 خطبات مسرور ساتھ چلے جارہے تھے.آپ کا ایک مردہ خچر کے پاس سے گزر ہوا جس کا پیٹ پھول چکا تھا ( مرے ہونے کی وجہ سے پیٹ پھول جاتا ہے، کافی دیر سے پڑا تھا ).آپ نے کہا بخدا تم میں سے اگر کوئی یہ مردار پیٹ بھر کر کھالے تو یہ بہتر ہے کہ وہ کسی مسلمان کا گوشت کھائے.( یعنی غیبت کرے یا چغلی کرے تو بعض نازک طبائع ہوتی ہیں.اس طرح مرے ہوئے جانور کو، جس کا پیٹ پھول چکا ہو، اس میں سے سخت بدبو آ رہی ہو تعفن پیدا ہورہا ہو، اس کو بعض طبیعتیں دیکھ بھی نہیں سکتیں ، کجا یہ کہ اس کا گوشت کھایا جائے.لیکن ایسی ہی بظاہر حساس طبیعتیں جو مردہ جانور کو تو نہیں دیکھ سکتیں ، اس کی بدبو بھی برداشت نہیں کر سکتیں، قریب سے گزر بھی نہیں سکتیں، لیکن مجلسوں میں بیٹھ کر غیبت اور چغلیاں اس طرح کر رہے ہوتے ہیں جیسے کوئی بات ہی نہیں.تو یہ بڑے خوف کا مقام ہے، ہر ایک کو اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے.اب یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ اپنے بندوں پر کتنا مہربان ہے، کہ فرمایا اگر اس قسم کی باتیں پہلے کر بھی چکے ہو، تو استغفار کرو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، اپنے رویے درست کرو، میں یقیناً بہت رحم کرنے والا، تو بہ قبول کرنے والا ہوں.مجھ سے بخشش مانگو تو میں رحم کر تے ہوئے تمہاری طرف متوجہ ہوں گا.بعض لوگ غیبت اور چغلی کی گہرائی کا علم نہیں رکھتے.ان کو سمجھ نہیں آتی کہ کیا بات چغلی ہے، غیبت ہے.بعض اوقات سمجھ نہیں رہے ہوتے کہ یہ چغلی بھی ہے کہ نہیں.بعض دفعہ بعض باتوں کو مذاق سمجھا جارہا ہوتا ہے لیکن وہ چغلی اور غیبت کے زمرے میں آتی ہے اس لئے اس کو میں تھوڑی سی مزید وضاحت سے کھولتا ہوں.علامہ آلوی ﴿وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضاء کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:.اس کا مطلب یہ ہے کہ تم میں سے کوئی شخص دوسرے افراد سے ایسی بات نہ کرے جو وہ اپنے بارہ میں اپنی غیر موجودگی میں کئے جانے کو نا پسند کرتا ہے....اور جو چیز وہ ناپسند کرے اس سے مراد عمومی طور پر یہ ہوگی کہ وہ باتیں اس کے دین کے بارہ میں ، یا اس کی دنیا کے بارہ میں کی جائیں، اس کی دنیاوی حالت کے بارہ میں کی جائیں، اس کے مال یعنی امیری غریبی کے بارہ میں کی جائیں.یا اس کی شکل وصورت کے بارہ میں کی جائیں، یا اس کے اخلاق کے بارہ میں کی جائیں، یا اس کی اولاد کے بارہ میں کی جائیں ، یا اس کی بیوی کے بارہ میں کی جائیں، یا اس کے غلاموں اور خادموں کے بارہ میں کی جائیں، یا اس کے لباس کے بارہ میں اور اس کے متعلقات کے بارہ میں
$2003 568 خطبات مسرور ہوں تو یہ ساری باتیں ایسی ہیں کہ اگر کسی کے پیچھے کی جائیں تو وہ نا پسند کرتا ہے.اب دیکھ لیں کہ اکثر ایسی مجلسوں کا محور یہی باتیں ہوتی ہیں، دوسرے کے بارہ میں تو کر رہے ہوتے ہیں لیکن اگر اپنے بارہ میں کی جائیں تو ناپسند کرتے ہیں اور پھر جب باتیں ہو رہی ہوتی ہیں تو ایسے بے لاگ تبصرے ہورہے ہوتے ہیں جیسا کہ میں نے کہا کہ اگر ان کے اپنے بارہ میں یہ پتہ لگ جائے کہ فلاں فلاں مجلس میں ان کے بارہ میں بھی ایسی باتیں ہوئی ہیں تو بُرا لگتا ہے، برداشت نہیں کر سکتے ، فور آمر نے مارنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں.اس لئے جو باتیں وہ اپنے لئے پسند نہیں کرتے ، اپنے بھائی کے لئے بھی پسند نہ کریں.جن باتوں کا ذکر اپنے لئے مناسب نہیں سمجھتے کہ مجلسوں میں ہوں ، اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند کریں کہ اس کا ذکر بھی اس طرح مجلسوں میں نہ ہو.حضرت خلیفہ اسیح اول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: نصیحت کے طور پر کہتا ہوں کہ اکثر سوء ظنیوں سے بچو ( بدظنیوں سے بچو ).اس سے سخت سخن چینی اور عیب جوئی کی عادت بڑھتی ہے.( جب بدظنیاں کرو گے تو عیب تلاش کرنے کی عادت بھی پڑے گی ).اسی واسطے اللہ کریم فرماتا ہے ﴿وَلَا تَجَسَّسُوا تجسس نہ کرو تجسس کی عادت بدظنی سے پیدا ہوتی ہے.جب انسان کسی کی نسبت سوءظن کرتا ہے یا بدظنی کرتا ہے تو اس کی وجہ سے ایک خراب رائے قائم کر لیتا ہے تو پھر کوشش کرتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کے کچھ عیب بھی مجھے مل جائیں ، اس کی کچھ برائیاں بھی نظر آجائیں.اور پھر عیب جوئی کی کوشش کرتا اور اسی جستجو میں مستغرق رہتا ہے.(یعنی کہ اتنا ڈوب جاتا ہے عیب کی تلاش میں کہ جس طرح کوئی بہت اہم کام کر رہا ہے ).اور یہ خیال کر کے کہ اس کی نسبت میں نے جو یہ خیال ظاہر کیا ہے اگر کوئی پوچھے تو پھر اس کو کیا جواب دوں گا.( یعنی یہ سوچتا رہتا ہے کہ میں ایک دفعہ اس کے بارہ میں ایک رائے قائم کر چکا ہوں اگر کوئی اس کی دلیل مانگے تو تمہارے پاس اس کی برائی کا ثبوت کیا ہے تو جواب کیا دوں گا.تو اس جواب کو تلاش کرنے کے لئے مستقل اس جستجو میں رہتا ہے، اس کوشش میں رہتا ہے کہ اس کی مزید برائیاں نظر آئیں.تو فرماتے ہیں کہ اپنی بدظنی کو پورا کرنے کے لئے تجسس کرتا ہے، پھر تجس سے غیبت پیدا ہوتی ہے جیسے اللہ کریم نے فرمایا کہ وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُمْ بَعْضًا.غرض خوب یا در کھو سوء ظن سے تجسس اور تجسس سے غیبت کی عادت شروع ہوتی ہے....اگر ایک شخص روزے بھی
$2003 569 خطبات مسرور رکھتا ہے اور غیبت بھی کرتا ہے تجس اور نکتہ چینیوں میں مشغول رہتا ہے تو وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے جیسے فرمایا اَيُحِبُّ أَحَدَكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ﴾.اب جو غیبت کرتا ہے وہ روزے کیا رکھتا ہے ، وہ تو گوشت کے کباب کھاتا ہے اور کباب بھی اپنے مردہ بھائی کے گوشت کے.اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ غیبت کرنے والا حقیقت میں ہی ایسا بد آدمی ہے جو اپنے مردہ بھائی کے کباب کھاتا ہے.مگر یہ کباب ہر ایک آدمی نہیں کھا سکتا.ایک صوفی نے کشف میں دیکھا کہ ایک شخص نے کسی کی غیبت کی ہے.جب اس کو قے کرائی گئی تو اس کے اندر سے بوٹیاں نکلیں جن میں سے بدبو آتی تھی.( کتنی کراہت والی چیز ہے یہ لیکن جب کر رہا ہوتا ہے تو پتہ نہیں لگتا.پھر فرمایا کہ یاد رکھو یہ کہانیاں نہیں، یہ واقعات ہیں.جولوگ بدظنیاں کرتے ہیں جب تک اپنی نسبت بد قلیاں نہیں سن لیتے نہیں مرتے.اب یہ جو حضرت خلیفتہ اسیح اول فرما رہے ہیں وہ اس حدیث کی روشنی میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمررؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ منبر پر کھڑے ہو کر بآواز بلند فرمایا کہ: اے لوگو! تم میں سے بعض بظاہر مسلمان ہیں لیکن ان کے دلوں میں ابھی ایمان راسخ نہیں ہوا.انہیں میں متنبہ کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کو طعن و تشنیع کے ذریعہ تکلیف نہ دیں اور نہ ان کے عیبوں کا کھوج لگاتے پھریں.ورنہ یا درکھیں کہ جو شخص کسی کے عیب کی جستجو میں ہوتا ہے اللہ تعالی اس کے اندر چھپے عیوب کو لوگوں پر ظاہر کر کے اس کو لوگوں میں ذلیل و رسوا کر دیتا ہے.(ترمذی باب البر والصلة باب ما جاء فى تعظيم المؤمن اب بعض لوگ اس لئے تجسس کر رہے ہوتے ہیں.مثلاً عمومی زندگی میں لیتے ہیں، دفتروں میں کام کرنے والے، ساتھ کام کرنے والے اپنے ساتھی کے بارہ میں ، یا دوسری کام کی جگہ، کارخانوں وغیرہ میں کام کرنے والے، اپنے ساتھیوں کے بارہ میں کہ اس کی کوئی کمزوری نظر آئے اور اس کمزوری کو پکڑیں اور افسروں تک پہنچائیں تا کہ ہم خود افسروں کی نظر میں ان کے خاص آدمی ٹھہریں، ان کے منظور نظر ہو جائیں.یا بعضوں کو یونہی بلا وجہ عادت ہوتی ہے، کسی سے بلا وجہ کا بیر ہو جاتا ہے اور پھر وہ اس کی برائیاں تلاش کرنے لگ جاتے ہیں.تو یا درکھنا چاہئے کہ ایسے لوگوں کے بارہ میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کا کبھی بھی جنت میں دخل نہیں ہوگا،
$2003 570 خطبات مسرور ایسے لوگ کبھی بھی جنت میں نہیں جائیں گے.تو کون عظمند آدمی ہے جو ایک عارضی مزے کے لئے ، دنیاوی چیز کے لئے ، ذراسی باتوں کا مزا لینے کے لئے ، اپنی جنت کو ضائع کرتا پھرے.حضرت خلیفتہ اسیح الاول فر ماتے ہیں کہ: اس لئے میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں اور درد دل سے کہتا ہوں کہ غیبتوں کو چھوڑ دو.بغض اور کینے سے اجتناب کرو اور بکلی پر ہیز کرو اور بالکل الگ تھلگ رہو، اس سے بڑا فائدہ ہوگا.انسان خود بخود اپنے آپ کو پھندوں میں پھنسا لیتا ہے ورنہ بات سہل ہے، بڑی آسان بات ہے.جولڑ کے دوسروں کی نکتہ چینیاں اور غیبتیں کرتے ہیں اللہ کریم ان کو پسند نہیں کرتا.اگر کسی میں کوئی غلطی دیکھو تو وہ خدا تعالیٰ اس کو راہ راست پر چلنے کی توفیق دیوے.یاد رکھو اللہ کریم تو اب ختم.معاف کر دیتا ہے.جب تک انسان اپنا نقصان نہ اٹھائے اور اپنے اوپر تکلیف گوارا نہ کرے کسی دوسرے کو سکھ نہیں پہنچا سکتا.(اس لئے ) بدصحبتوں سے بکلی کنارہ کش ہو جاؤ.میں نے جیسے پہلے بھی کہا ہے کہ بعض لوگ صرف باتوں کا مزا لینے کے لئے ایسی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں.شروع میں صرف سن رہے ہوتے ہیں اور ہنسی ٹھٹھے کی باتوں پہ ہنس رہے ہوتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ عادت پڑ جاتی ہے ایسی باتوں کی اور خود بھی ایسی باتوں میں ملوث ہو جاتے ہیں.تو نو جوانوں کو خاص طور پر اس سے بچنا چاہئے.شروع میں ہی، بچپن سے ہی اطفال میں بھی اور خدام میں بھی یہ عادت ڈالیں کہ کسی کی برائی نہیں کرنی.پھر آپ فرماتے ہیں کہ ظن کے اگر قریب بھی جانے لگو تو اس سے بچ جاؤ کیونکہ اس سے پھر تجسس پیدا ہو گا.اگر تجسس تک پہنچ چکے ہو پھر بھی رُک جاؤ کہ اس سے غیبت تک پہنچ جاؤ گے.اور یہ ایک بہت بڑی بد اخلاقی ہے اور مردار کھانے کی مانند ہے ﴿وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيْمٌ﴾ تقویٰ اختیار کرو، پورے پورے پر ہیز گار بن جاؤ مگر یہ سب کچھ اللہ توفیق دے تو حاصل ہوتا ہے.اس لئے اس معاشرے میں جہاں ہر طرف گند پھیلا ہوا ہے، ہر طرف گندگی ہے، باتوں کی ؟ اس سے بچنے کے لئے ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے رہنا چاہئے ، اسی سے مدد مانگنی بھی، چاہئے تب ہی ہم اس سے بچ سکتے ہیں.(حقائق الفرقان جلد نمبر ۲ صفحه (٧،٦
$2003 571 خطبات مسرور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ اَحَدَكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا یعنی چاہئے کہ ایک تمہارا دوسرے سے گلہ مت کرے.کیا تم پسند کرتے ہو کہ مردہ بھائی کا گوشت کھاؤ.(لیکچر لاهور روحانی خزائن جلد نمبر ٢٠ صفحه ١٥٦) اب گلہ کرنا ، شکوہ کرنا بھی غیبت والی بات ہی ہے.کیونکہ ایک دفعہ جب مشتر کہ دوستوں میں بیٹھ کے شکایتیں شروع ہو گئیں تو پھر آہستہ آہستہ یہی شکوے شکایتیں جو ہیں بڑھتی چلی جاتی ہیں.اور پھر غیبت کی عادت پڑ جاتی ہے.اس لئے ہلکی سے ہلکی بھی جس میں شائبہ بھی ہو غیبت کا ، وہ بات نہیں کرنی چاہئے.پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : غیبت کرنے والے کی نسبت قرآن کریم میں ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے.عورتوں میں یہ بیماری بہت ہے.آدھی رات تک بیٹھی غیبت کرتی ہیں اور پھر صبح اٹھ کر وہی کام شروع کر دیتی ہیں.لیکن اس سے بچنا چاہئے.عورتوں کی خاص سورۃ قرآن شریف میں ہے.حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے بہشت میں دیکھا کہ فقیر زیادہ تھے اور دوزخ میں دیکھا کہ عورتیں بہت تھیں.( یعنی غریب لوگ بہشت میں زیادہ تھے اور دوزخ میں دیکھا کہ عورتیں بہت تھیں).پھر آپ فرماتے ہیں کہ عورتوں میں چند عیب بہت سخت ہیں اور کثرت سے ہیں.ان میں سے یہ ہیں کہ شیخی کرنا کہ ہم ایسے ہیں، ایسے ہیں.پھر قوم پر فخر کرنا کہ فلاں تو کمینی ذات کی عورت ہے یا فلاں ہم سے نچلی ذات کی ہے.پھر یہ کہ اگر کوئی غریب عورت ان میں بیٹھی ہوئی ہے تو اس سے نفرت کرتی ہیں اور اس کی طرف اشارہ شروع کر دیتی ہیں کہ کیسے غلیظ کپڑے پہنے ہوئے ہیں ، زیور اس کے پاس کچھ نہیں وغیرہ وغیرہ.(بدر ٧ جون ١٩٠٦ ، ملفوظات جلد نمبر صفحه ٤٤١) یہ تو اس زمانے کی عورتوں کا حال تھا.الحمد للہ کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہو کر بہت بڑی تعداد عورتوں کی اس بیماری سے پاک ہو گئی ہے اور اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے پیش کرتی ہیں اور بعض تو دین کی خدمت کے معاملے میں اور اس جذبے میں مردوں سے بھی آگے ہیں.لیکن ابھی بھی بعض دیہاتوں میں، بعض شہروں میں بھی جہاں عورتیں نہ
572 $2003 خطبات مسرور دین کی خدمت کر رہی ہیں ، نہ کوئی اور ان کو کام ہے، اس غیبت کی بیماری میں مبتلا ہیں.اسی طرح مردوں کی بھی شکایات آتی ہیں.مجلسوں میں بیٹھ کر لوگوں کے متعلق بات کر رہے ہوتے ہیں.تو ایسے بھی مرد ہیں.یہ وہی ہیں جن کو نکھے بیٹھنے کی عادت ہوتی ہے.ایسے لوگوں کے بیوی بچے بے چارے کما کر گھر کا خرچ چلا رہے ہوتے ہیں.اور ایسے لوگوں کو شرم بھی نہیں آ رہی ہوتی.بہر حال یہ بیماری چاہے عورتوں میں ہو یا مردوں میں اس سے بچنا چاہئے.نظام جماعت کو بھی چاہئے خدام، لجنہ وغیرہ، اس بارہ میں فعال ہونا چاہئے.کیونکہ یہ بیماری دیہاتی ،ان پڑھ اور فارغ عورتوں میں زیادہ ہے اس لئے لجنہ کو خاص طور پر ، دنیا میں ہر جگہ ، مؤثر لائحہ عمل اس کے لئے تجویز کرنا چاہئے.پھر ان باتوں کے علاوہ جن کی نشاندہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی ہے یہ بھی بیماری پیدا ہو گئی ہے کہ فارغ وقت میں اسی طرح لوگوں کے گھروں میں بے وقت چلی جاتی ہیں.اور اگر کسی غریب نے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھا ہوا ہے کہ اس طرح اندر گھستی ہیں گھروں میں کہ ان کے کچن تک میں چلی جاتی ہیں.کھانوں کی ٹوہ لگاتی ہیں کہ کیا پکا ہے کیا نہیں پکا.اور پھر بجائے ہمدردی کے یا ان کی مدد کرنے کے، یا کم از کم ان کے لئے دعا کرنے کے ، مجلسوں میں باتیں کی جاتی ہیں کہ پیسے بچاتی ہے، سالن کی جگہ چٹنی بنائی ہوئی ہے یا پھر اتنا تھوڑ اسالن تھا، یا فلاں تھا، یہ تھا، وہ تھا، کنجوس ہے.وہ کنجوس ہے یا جو بھی ہے وہ اپنا گھر چلا رہی ہے جس طرح بھی چلا رہی ہے تمہارا کیا کام ہے کہ کسی کے گھر کے اندر گھس کر اس کے عیب تلاش کرو.اور پھر جب ایسے سفید پوش لوگوں کے گھروں میں بچیوں کے رشتے آتے ہیں تو پھر ایسی عورتیں Active ہو جاتی ہیں ، بڑی فعال ہو جاتی ہیں اور جہاں سے کسی کا رشتہ یا پیغام آیا ہو وہاں پہنچ کر کہتی ہیں کہ ان کے گھر میں تو کچھ بھی نہیں ہے.وہاں سے تمہیں جہیز بھی نہیں مل سکتا.اس لڑکی میں فلاں نقص ہے.تو میں تمہیں بتاتی ہوں فلاں جگہ ایک اچھا رشتہ ہے، یہاں نہ کرو وہاں کرو.گو جماعت میں ایسے لوگوں کی تعداد انتہائی کم ہے، معمولی ہے، پھر بھی فکر کی بات ہے کیونکہ جس معاشرہ میں ہم رہ رہے ہیں وہ ایسا ہی ہے اور یہ معاشرہ بہر حال اثر انداز ہوتا ہے اور یہ باتیں بڑھنے کا خطرہ ہوتا ہے.ایک حدیث ہے جو ایسے لوگوں کے بارہ میں ہی ہے.حضرت عبدالرحمن بن غنم اور حضرت اسماء بنت یزید سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی کے پسندیدہ بندے وہ ہیں کہ
573 $2003 خطبات مسرور جب ان کو دیکھا جائے تو اللہ یاد آجائے اور اللہ تعالیٰ کے بُرے بندے غیبت اور چغلیاں کرتے پھرتے ہیں، دوستوں پیاروں کے درمیان تفریق ڈالتے ہیں، نیک پاک لوگوں کو تکلیف، مشقت ،فساد، ہلاکت اور گناہ میں ڈالنا چاہتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہر احمدی مرد وعورت کو اس سے بچائے.(مسند احمد بن حنبل مسند الشاميين جلد ۵ صفحه (٢٦٨ پھر حدیث ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” ستم میں سے سب سے زیادہ میرے محبوب وہ ہیں جو بہترین اخلاق کے حامل ہوں ، نرم خو ہوں، وہ لوگوں سے انس رکھتے ہوں اور لوگ ان سے مانوس ہوں اور تم میں سب سے زیادہ مبغوض میرے نزدیک چغل خور ، دوستوں کے درمیان جدائی ڈالنے والے اور بے گناہ لوگوں پر تہمت لگانے والے ہیں.(ترغیب و ترهیب جلد ۳ مطبوعه كتاب الادب الترغيب في الخلق........صلى الله پھر حدیث ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا: جب مجھے معراج ہوا تو کشفا میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اس سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے.میں نے پوچھا، جبرائیل یہ کون ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگ ، لوگوں کا گوشت نوچ نوچ کر کھایا کرتے تھے اور ان کی عزت و آبرو سے کھیلتے تھے یعنی غیبت کرتے تھے ، الزام تراشیاں کرتے تھے ، حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے.(ابوداؤد كتاب الادب باب في الغيبة تو دیکھیں یہ کتنا خوفناک منظر ہے.غیبت کرنے والوں کی مرنے کے بعد کی سزا کتنی خوفناک ہے.انسان عام طور پر بعض دفعہ بے احتیاطی میں باتیں کر جاتا ہے.بعض اوقات نیست نہیں بھی ہوتی کہ چغلی یا غیبت ہو لیکن آنحضرت ﷺ اس معاملہ میں اتنے محتاط تھے اور اس حد تک گہرائی میں اور باریکی میں جاتے تھے کہ جہاں ذرا سا شائبہ بھی ہو کہ بات غیبت کے قریب ہے تو سخت کراہت فرماتے تھے اور فور استنبیہ فرمایا کرتے تھے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک عورت کے بارہ میں کہا کہ وہ چھوٹے قد کی ہے.آپ ﷺ نے فرمایا تم نے غیبت کی ہے.اب کتنی بار یکی میں جا کے بھی آپ تنبیہ فرمارہے ہیں.کتنا خوف کا مقام ہے، کس قدر احتیاط کی ضرورت ہے.جب
574 $2003 خطبات مسرور اس انتہا تک یا اتنی باریکی میں جا کر غیبت سے بچنے کی کوشش ہم نہیں کریں گے اس وقت تک ہم حسین اسلامی معاشرہ قائم نہیں کر سکتے ، جس کا دعویٰ کر کے ہم اٹھے ہیں.اور اسی طرح اپنی عاقبت بھی نہیں سنوار سکتے.غیبت کرنے والا کا حال تو آپ نے دیکھ ہی لیا سن لیا کیا ہوتا ہے.پھر حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : انسان بعض اوقات بے خیالی میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی کوئی بات کہہ دیتا ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے درجات بے انتہا بلند کر دیتا ہے اور بعض اوقات وہ لا پرواہی میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی کوئی بات کر بیٹھتا ہے جس کی وجہ سے وہ جہنم میں جا گرتا ہے.(بخاری کتاب الرقاق باب حفظ اللسان......الله حضرت ابو عمامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن آدمی کے پاس اس کا کھلا ہوا اعمال نامہ لایا جائے گا.وہ اس کو پڑھے گا، پھر کہے گا اے میرے رب میں نے دنیا میں فلاں فلاں نیک کام کئے تھے وہ تو اس میں نہیں ہیں.تو اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ لوگوں کی غیبت کرنے کی وجہ سے وہ نیکیاں تمہارے نامہ اعمال سے مٹادی گئی ہیں.ترغيب و الترهيب) دیکھیں غیبت کی وجہ سے وہ تمام نیک کام نماز، روزے،صدقے کسی غریب کی خدمت کرنا، سب نیکیاں نامہ اعمال سے مٹادی گئیں صرف اس لئے کہ وہ لوگوں کی غیبت کرتا تھا.اس بارہ میں جتنی بھی احادیث پڑھیں ، خوف بڑھتا چلا جاتا ہے اس کا ایک ہی علاج ہے کہ آدمی ہر وقت استغفار کرتا رہے.امام غزائی کہتے ہیں (اس کا خلاصہ یہ ہے ) کہ جس کے پاس چغلی کی جائے اسے چاہئے کہ وہ چغل خور کی تصدیق نہ کرے اور نہ جس کے بارہ میں چغلی کی گئی ہے اس سے بدظن ہو.(فتح البیان جلد نمبر ۱۰ صفحه ٤٣٧ اب یہ بڑے ہی پتے کی بات ہے جو امام غزالی نے بیان فرمائی ہے اور افسران اور عہد یداران کو خاص طور پر یہ ذہن میں رکھنا چاہئے.کبھی بات یک طرفہ بات سن کر کسی کے خلاف نہیں ہو جانا چاہئے کسی سے بدظن نہیں ہونا چاہئے اور ہمیشہ تحقیق کرنی چاہئے اور صحیح طریقے پر تحقیق کرنی چاہئے ، گہرائی میں جا کر تحقیق کرنی چاہئے ، پھر کوئی نتیجہ اخذ کیا جائے.اور عموماً یہی ہوتا ہے کہ
575 $2003 خطبات مسرور اکثر تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جو چغلی کرنے والے ہیں ان لوگوں کی اکثر رپورٹیں ایسی ہی ہوتی ہیں.کہ سب کچھ غلط تھا، صرف چغلی کی گئی تھی ، غیبت کی گئی تھی اور مقصد صرف یہ تھا کہ کسی طرح اس کو نقصان پہنچایا جائے.پھر یہ بھی ہے کہ آئندہ ایسے شخص سے محتاط رہیں.اس کی گواہی قبول نہ کریں، اس کی کسی رپورٹ پر کان نہ دھر ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : اسلام نے غیبت کی ممانعت کے متعلق جو حکم دیا ہے اس میں حکمت یہ ہے کہ بسا اوقات انسان دوسرے کے متعلق ایک رائے قائم کر لیتا ہے اور وہ اپنے آپ کو اس رائے میں حق بجانب بھی سمجھتا ہے.(وہ سمجھتا ہے کہ میں نے ٹھیک رائے قائم کی ہے لیکن درحقیقت اس کی یہ رائے صحیح نہیں ہوتی ).فرمایا کہ میں نے بیسیوں دفعہ دیکھا ہے کہ ایک شخص کے متعلق ایک رائے قائم کر لی گئی کہ یہ ایسا ہی ہوگا اور یہ بھی یقین کر لیا جاتا ہے کہ میری رائے بھی درست ہے لیکن ہوتی غلط ہے.اور اگر ایسی صورت میں اگر کوئی دوسرا شخص سامنے بیٹھا ہوگا.اگر تو دوسرا شخص جس کے بارہ میں رائے قائم کی گئی ہے وہ سامنے بیٹھا ہو اور اس سے پوچھا جائے تو لازما وہ اپنی بریت ظاہر کرنے کی کوشش کرے گا اور کہے گا کہ تمہیں میرے متعلق غلط فہمی ہوئی ہے، میرے اندر یہ نقص نہیں پایا جا تا.تو آپ فرماتے ہیں کہ خواہ کسی کے نزدیک کوئی بات سچی ہو جب وہ کسی شخص کی عدم موجودگی میں بیان کرتا ہے اور وہ بات ایسی ہے کہ جس سے اس کے بھائی کی عزت کی تنسیخ ہوتی ہے یا اس کے علم کی تنسیخ ہوتی ہے یا اس کے رتبہ کی تنسیخ ہوتی ہے تو قرآن کریم اور احادیث کی رو سے وہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے کیونکہ اس طرح اس نے اپنے بھائی کو اپنی برات پیش کرنے کے حق سے محروم کر دیا.(تفسیر کبیر جلد ۹ صفحه (۵۷۹ حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے چغلی کرنے اور چغلی سننے دونوں سے منع فرمایا ہے.(مجمع الزوائد جلد ۸ صفحه ۹۱ باب ماجاء في الغيبة والنمية) | جیسے کہ پہلے بھی میں نے کہا تھا کہ بعضوں کو ایسی مجلسوں میں بیٹھ کر ہنسی مذاق سننے کی عادت پڑتی ہے اور آہستہ آہستہ چغلی کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے.تو چغلی سنے کو بھی منع فرمایا ہے.
$2003 576 خطبات مسرور پھر حضرت عبداللہ بن بسر بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا : حاسد ، چغل خور اور کا ہن مجھ میں سے نہیں اور میں ان میں سے نہیں.پھر ایک حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کی آنکھ کا تنکا تو انسان کو نظر آ جاتا ہے لیکن اپنی آنکھ میں پڑا ہوا شہتیر وہ بھول جاتا ہے.( یعنی بھائی کی چھوٹی سے چھوٹی برائی تو نظر آ جاتی ہے اپنی بڑی بڑی برائیاں بھی نظر نہیں آتیں ).آج بھی دیکھ لیں چغل خور یا دوسروں کی غیبت کرنے والے، بڑھ بڑھ کر باتیں کرنے والے خود ان تمام برائیوں میں بلکہ ان سے بڑھ کر برائیوں میں مبتلا ہوتے ہیں جو وہ اپنے بھائی کے متعلق بیان کر رہے ہوتے ہیں.اور پھر ان کی بے شرمی کی یہ بھی انتہا ہے کہ ان کی برائیوں کا کھلے عام بعض لوگوں کو علم بھی ہوتا ہے پھر بھی ان کو شرم نہیں آ رہی ہوتی کہ ہم پہلے اپنی اصلاح کریں بجائے اس کے کہ اپنے بھائی کی برائیاں رہیں.سب سے اچھی بات تو یہ ہے کہ اگر صحیح درد ہے معاشرے کا،معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں ، صرف مزے لینے کے لئے اور لوگوں کی ٹانگیں کھینچنے کے لئے باتیں نہیں کہ ان کو لوگوں کی نظروں سے گراؤں، افسروں کی نظروں سے گراؤں اور اپنی پوزیشن بناؤں.تو ایسے لوگ بھی جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ اس نصیحت پر عمل کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے کہا کہ اگر تو اپنے کسی ساتھی کے عیوب بیان کرنا چاہے تو پہلے ایک نظر اپنے عیوب پر ڈال لے.کسی کے عیب بیان کرنے سے پہلے اپنے عیبوں پر نظر ڈالو.اسی بارہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک شعر میں فرمایا کہ ے بدی پر غیر کی ہر دم نظر ہے مگر اپنی بدی سے بے خبر ہے تو جب آپ اپنے عیب دیکھیں گے.جو بہت دل گردے کا کام ہے، بہت کم ہیں جو اپنے عیبوں پر اس طرح نظر رکھتے ہیں جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ اپنی آنکھ کا شہتیر بھی نظر آنا بہت مشکل ہوتا ہے.اپنی بڑی سے بڑی برائی بھی نظر نہیں آتی.اور اگر وہ نظر آ جائے گی تو بڑی اور چھوٹی تمام
$2003 577 خطبات مسرور برائیاں نظر آنا شروع ہو جائیں گی.اور دوسروں کی برائیاں کرنے سے پہلے ایسا شخص سوچے گا اور پھر نیک نیت ہو کر پہلے اپنی اصلاح کی کوشش کرے گا، پھر اپنے دوست کی اصلاح کی کوشش کرے گا تا کہ حسین اور پاک معاشرہ قائم ہو جائے.اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو اس کی توفیق دے کہ اپنے آپ پر نظر رکھیں.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : ” بدظنی سے بچو کیونکہ بدظنی سخت قسم کا جھوٹ ہے.ایک دوسرے کے عیب کی ٹوہ میں نہ رہو، اپنے بھائی کے خلاف تجسس نہ کرو، اچھی چیز ہتھیانے کی حرص نہ کرو، حسد نہ کرو، دشمنی نہ رکھو، بے رخی نہ برتو ، جس طرح اس نے حکم دیا ہے اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو.مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور وہ اس پر ظلم نہیں کرتا، اسے رسوا نہیں کرتا ، اسے حقیر نہیں جانتا، اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آ پ نے فرمایا: تقومی یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے.یعنی مقام تقولی تو دل ہے اور سب سے بڑا جو مقام تقویٰ ہے اور جس دل میں تقویٰ ہے وہ آنحضرت ﷺ کا دل ہے اور پھر ہر ایک کو بھی اپنے دلوں کو ٹولنا چاہئے اور تقویٰ پر قائم رہنا چاہئے.تو ایک انسان کے لئے یہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے.ہر مسلمان کی تین چیزیں دوسرے مسلمان پر حرام ہیں.اس کا خون، اس کی آبرو اور اس کا مال.اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں کی خوبصورتی کو نہیں دیکھتا اور نہ تمہاری صورتوں کو اور نہ تمہارے اموال کو بلکہ اس کی نظر تمہارے دلوں پر ہے.اور ایک روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، اپنے بھائی کے خلاف جاسوسی نہ کرو، دوسروں کے عیبوں کی ٹوہ میں نہ رہو، ایک دوسرے کے سودے نہ بگاڑو.اب یہاں سودے بگاڑنے میں ایک یہ چیز بھی آجاتی ہے کہ جو نئے رشتے قائم ہو رہے ہوتے ہیں لڑکے لڑکی کے ان میں بھی بعض لوگ بگاڑ پیدا کرتے ہیں جیسا کہ میں پہلے بیان کر آیا ہوں.تو یہ بھی نہیں کرنا چاہئے.عورتیں پہنچ جاتی ہیں، جہیز کا اور دوسری چیزوں کا بتانے کے لئے کہ فلاں جگہ نہیں ، فلاں جگہ اچھا رشتہ ہے.پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو.(بخاری کتاب النکاح باب لا يخطب على خطبه.......
$2003 578 خطبات مسرور ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: خیانت نہ کرو، گلہ نہ کرو، اور ایک عورت دوسری عورت پر بہتان نہ لگاوے (روحانی خزائن کشتی نوح خزائن جلد ۱۹ جلد نمبر (۸۱ اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ مرد جا کر اپنی عورتوں کو سمجھاتے رہیں، خود بھی سمجھنے کی ضرورت پھر کسی عورت نے کسی دوسری عورت پر گلہ کیا تو اس پر آپ نے فرمایا: ایک شخص تھا اس نے دوسرے کو گنہ گار دیکھ کر خوب اس کی نکتہ چینی کی.اور کہا کہ دوزخ میں جائے گا.قیامت کے دن خدا تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ کیوں ، تجھ کو میرے اختیارات کس نے دئے.جنت اور دوزخ میں بھیجنا تو میرا کام ہے.دوزخ اور بہشت میں بھیجنے والا تو میں ہی ہوں تو کون ہے؟ تو جس نے نکتہ چینی کی تھی اور اپنے آپ کو نیک سمجھتا تھا اس شخص کو کہا کہ جامیں نے تجھے دوزخ میں ڈالا اور اور یہ گنہگار بندہ جس کا تو گلہ کیا کرتا تھا کہ یہ ایسا ہے ویسا ہے اور دوزخ میں جائے گا اس کو میں نے بہشت میں بھیج دیا، جنت میں بھیج دیا.تو فرماتے ہیں کہ ہر ایک انسان کو سمجھنا چاہئے کہ ایسا نہ ہو کہ میں ہی الٹا شکار ہو جاؤں.البدر ۹ مارچ ١٩٠٦ء ملفوظات جلد نمبر ۵ صفحه ۱۱۱۰) آج بھی لوگ ایسی باتیں کر جاتے ہیں کہ فلاں شخص تو بڑا گندہ ہے، گنہگار ہے، جہنمی ہے پھر بعض اپنی بزرگی جتانے کے لئے اس قسم کی باتیں کر رہے ہوتے ہیں کہ پہلے تو کرید کرید کر کسی کے بارہ میں پوچھتے ہیں کہ فلاں نیکی تم نے کی ، فلاں کی نماز پڑھی، یہ کیا، وہ کیا، نمازوں میں دعائیں کرتے ہو، کس طرح کرتے ہو، رقت طاری ہوتی ہے کہ نہیں ، رونا آتا ہے کہ نہیں ، حوالہ دیا کہ جس کو رونا نہیں آیا اس کا دل سخت ہو گیا.تو یہ چیزیں پوچھتے ہیں پہلے کرید کرید کر جو بالکل غلط چیز ہے.یہ بندے اور خدا کا معاملہ ہے، انفرادی طور پر کسی کو پوچھنے کا حق نہیں ہے.عموماً ایک نصیحت کی جاتی ہے جلسوں میں ، خطبوں میں ، کہ اس طرح نماز پڑھنی چاہئے اس طرح نماز ادا کرنی چاہئے اور پوری طرح اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا چاہئے.تو ہر شخص کا کام نہیں ہے کہ پہلے کرید کرید کر پوچھے اور پھر جب اس کی حالت کا پتہ کر لے تو یہ کہے کہ تم اتنے دن سے نماز میں روئے نہیں، تمہیں رقت طاری نہیں ہوئی.تم نے اپنے آپ کو ہلاک کر لیا یا ہلاکت میں ڈال لیا.تو ایسے لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ بات یاد رکھنی چاہئے
579 $2003 خطبات مسرور کہ خدا کے اختیار ان کو نہیں ہیں.ہو سکتا ہے کہ تمہارے رونے کو تو خدا تعالیٰ رد کر دے اور اس کے نہ رونے کو قبول کر لے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ دل تو اللہ تعالی کی صندوقچی ہوتا ہے اور اس کی کنجی اس کے پاس ہوتی ہے.کسی کو کیا خبر کہ اس کے اندر کیا ہے.تو خواہ مخواہ اپنے آپ کو گناہ میں ڈالنے کا کیا فائدہ.حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک شخص بڑا گناہ گار ہوگا.خدا تعالیٰ اس کو کہے گا کہ میرے قریب ہو جا یہاں تک کہ اس کے اور لوگوں کے درمیان اپنے ہاتھ سے پردہ کر دے گا اور اس سے پوچھے گا کہ تو نے فلاں گناہ کیا، فلاں گناہ کیا، لیکن چھوٹے چھوٹے گناہ گنوائے گا.وہ کہے گا کہ ہاں یہ گناہ مجھ سے سرزد ہوئے.خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ اچھا آج کے دن میں نے تیرے سب گناہ معاف کئے اور ہر ایک گناہ کے بدلے دس دس نیکیوں کا ثواب دے دیا.تب وہ بندہ سوچے گا کہ جب ان چھوٹے چھوٹے گناہوں کا دس دس نیکیوں کا ثواب ملا ہے تو بڑے بڑے گناہوں کا تو بہت زیادہ ثواب ہوگا.تو یہ سوچ کر وہ بندہ خود ہی اپنے بڑے بڑے گناہ گنائے گا کہ اے خدا میں نے تو یہ گناہ بھی کئے ہیں.تب اللہ تعالیٰ اس کی بات سن کر ہنسے گا اور فرمائے گا کہ دیکھو میری مہربانی کی وجہ سے یہ بندہ ایسا دلیر ہو گیا ہے کہ اپنے گناہ خود ہی بتلاتا ہے.پھر اسے حکم دے گا کہ جا بہشت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے تیری طبیعت چاہے داخل ہو جا.( تو یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اس لئے ہمارا کوئی حق نہیں بنتا کہ کسی پر بلاوجہ انگلیاں اٹھاتے پھریں ).تو کیا خبر ہے کہ خدا تعالیٰ کا اس سے کیا سلوک ہے یا اس کے دل میں کیا ہے.اس لئے غیبت کرنے سے بکلی پر ہیز کرنا چاہئے.(بدر ۹ مارچ ١٩٠٦.ء ، ملفوظات جلد ۸ صفحه ٤١٧ پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ” بعض گناہ ایسے باریک ہوتے ہیں کہ انسان اُن میں مبتلا ہوتا ہے اور سمجھتاہی نہیں.جو ان سے بوڑھا ہو جاتا ہے مگر اسے پتہ نہیں لگتا کہ گناہ کرتا ہے مثلاً گلہ کرنے کی عادت ہوتی ہے ( شکوہ کرنے کی عادت ہے).ایسے لوگ اس کو بالکل ایک معمولی اور چھوٹی سی بات سمجھتے ہیں.حالانکہ قرآن شریف نے اس کو بہت بُر اقرار دیا ہے.چنانچہ فرمایا ہے ا يُحِبُّ اَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً ﴾ خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے کہ انسان ایسا کلمہ زبان پر لاوے جس سے اس کے بھائی کی تحقیر ہو اور ایسی کارروائی کرے جس سے اس کو حرج پہنچے.ایک بھائی کی نسبت ایسا بیان کرنا جس سے اس کا جاہل اور نادان ہونا ثابت ہو یا اس کی عادت کے متعلق
$2003 580 خطبات مسرور خفیہ طور پر بے غیرتی یا دشمنی پیدا ہو یہ سب برے کام ہیں“.(الحکم.جلدنمبر ۱۰، نمبر ۲۲، صفحه ٣ ـ بتاريخ ٢٤/جون ١٩٠٦ ءـ بحواله تفسير حضرت مسیح موعود علیه السلام جلد چهارم صفحه ۲۱۸ - ۲۱۹) پھر آپ فرماتے ہیں : ” ہماری جماعت کو چاہئے کہ کسی بھائی کا عیب دیکھ کر اس کے لئے دعا کریں، لیکن اگر وہ دعا نہیں کرتے اور اس کو بیان کر کے دور سلسلہ چلاتے ہیں تو گناہ کرتے ہیں.کون سا ایسا عیب ہے جو کہ دور نہیں ہو سکتا.اس لئے ہمیشہ دعا کے ذریعہ سے دوسرے بھائی کی مدد کرنی چاہئے.فرمایا کہ : ایک صوفی کے دو مرید تھے.ایک نے شراب پی اور نالی میں بیہوش ہو کر گرا.دوسرے نے صوفی سے شکایت کی.اس نے کہا تو بڑا بے ادب ہے کہ اس کی شکایت کرتا ہے جا کر اٹھا کیوں نہیں لاتا.تو فرمایا کہ صوفی کا یہ مطلب تھا کہ تو نے اپنے بھائی کی غیبت کیوں کی.آنحضرت ﷺ سے غیبت کا حال کسی نے پوچھا تو فرمایا کہ کسی کی سچی بات کا اس کی عدم موجودگی میں اس طرح بیان کرنا کہ اگر وہ موجود ہو تو اسے برا لگے.پیچھے سے کسی کی بات چاہے وہ صحیح ہو اس طرح بیان کرنا کہ اگر اس کے سامنے کرتے تو اس کو برا لگتا، غیبت ہے.اور اگر وہ بات اس میں نہیں اور پھر تم بیان کر رہے ہو تو یہ بہتان ہے، یہ جھوٹ ہے، اس پر الزام ہے.تو فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ اَحَدَكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا اس میں غیبت کرنے کو ایک بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس آیت سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ جو آسمانی سلسلہ بنتا ہے ان میں غیبت کرنے والے بھی ضرور ہوتے ہیں اور اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر یہ آیت بریکار جاتی ہے.(اس لئے نصیحت کی بھی ضرورت پڑتی ہے ).اگر مومنوں کو ایسا ہی محتاط ہونا تھا اور ان سے کوئی بدی سرزد نہ ہوتی تو پھر ایسی کسی آیت کی کیا ضرورت تھی.بعض کمزور ہیں جیسے سخت بیماری سے کوئی اٹھتا ہے، بعض میں کچھ طاقت آ گئی ہے.پس چاہئے کہ جسے کمزور پاوے اسے خفیہ نصیحت کرے.اگر نہ مانے تو اس کے لئے دعا کرے.اور اگر دونوں باتوں سے فائدہ نہ ہو تو قضاء وقدر کا معاملہ سمجھے.جب خدا تعالیٰ نے ان کو قبول کیا ہوا ہے تو تم کو چاہئے کہ کسی کا عیب دیکھ کر سر دست جوش نہ دکھلایا جاوے.ممکن ہے کہ وہ درست ہو جاوے.جلدی اور عجلت سے کسی کو ترک کر دینا ہمارا طریق نہیں ہے.کسی کا بچہ خراب
581 $2003 خطبات مسرور ہو تو اس کی اصلاح کے لئے وہ پوری کوشش کرتا ہے.ایسے ہی اپنے کسی بھائی کو ترک نہ کرنا چاہئے بلکہ اس کی اصلاح کی پوری کوشش کرنی چاہئے.قرآن کریم کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ عیب دیکھ کر اسے پھیلا ؤ اور دوسروں سے تذکرہ کرتے پھرو.بلکہ وہ فرماتا ہے تَوَاصَوْبِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْ بِالْمَرْحَمَةِ (البلد : ۱۸) کہ وہ صبر اور رحم سے نصیحت کرتے ہیں.مرحمہ یہی ہے کہ دوسرے کے عیب دیکھ کر اسے نصیحت کی جاوے اور اس کے لئے دعا بھی کی جاوے.دعا میں بڑی تاثیر ہے اور وہ شخص بہت ہی قابل افسوس ہے کہ ایک کے عیب کو بیان تو سومرتبہ کرتا ہے لیکن دعا ایک مرتبہ بھی نہیں کرتا.عیب کسی کا اس وقت بیان کرنا چاہئے جب پہلے کم از کم چالیس دن اس کے لئے رو روکر دعا کی ہو.سعدی نے کہا ہے.خدا داند و بپوشد همسایه نداند و خروشد کہ خدا تعالیٰ تو جان کر پردہ پوشی کرتا ہے مگر ہمسایہ کوعلم نہیں ہوتا اور شور کرتا پھرتا ہے.خدا تعالیٰ کا نام ستار ہے.تمہیں چاہئے کہ تَخَلَّقُوْا بِأَخْلَاقِ الله بنو.ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ عیب کے حامی بنو بلکہ یہ ہے کہ اشاعت اور غیبت نہ کرو، کیونکہ کتاب اللہ میں جیسا آگیا ہے تو یہ گناہ ہے کہ اس کی اشاعت اور غیبت کی جاوے.شیخ سعدی کے دوشاگرد تھے.ایک ان میں سے حقائق و معارف بیان کرتا تھا اور دوسرا جلا بھنا کرتا تھا.آخر پہلے نے سعدی سے بیان کیا کہ جب میں کچھ بیان کرتا ہوں تو دوسرا جلتا ہے اور حسد کرتا ہے.شیخ نے جواب دیا کہ ایک نے راہ دوزخ کی اختیار کی کہ حسد کیا اور تو نے غیبت کی.غرضیکہ یہ سلسلہ چل نہیں سکتا جب تک رحم، دعا ستاری اور مرحمہ آپس میں نہ ہو.(البدر ٨ جولائی ١٩٠٤ ، ملفوظات جلد چهارم صفحه ٦٠ - ٦١ فرماتے ہیں: ” اپنے بھائیوں اور بہنوں پر تہمتیں لگانے والا جو اپنے افعال شنیعہ سے تو بہ نہیں کرتا اور خراب مجلسوں کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے“.(کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۹) بیعت کی خالص اغراض کے ساتھ جو خدا ترسی اور تقویٰ پر مبنی ہیں ، دنیا کے اغراض کو ہرگز نہ ملاؤ، نمازوں کی پابندی کرو اور توبہ واستغفار میں مصروف رہو.نوع انسان کے حقوق کی حفاظت کرو اور کسی کو دُ کھ نہ دو.راستبازی اور پاکیزگی میں ترقی کرو تو اللہ تعالیٰ ہر قسم کا فضل کر دے گا.عورتوں کو
582 $2003 خطبات مسرور بھی اپنے گھروں میں نصیحت کرو کہ وہ نماز کی پابندی کریں اور ان کو گلہ شکوہ اور غیبت سے روکو.پاکبازی اور راستبازی ان کو سکھاؤ، ہماری طرف سے صرف سمجھانا شرط ہے اس پر عملدرآمد کرنا تمہارا کام ہے.(الحكم ۱۷/ اکتوبر ۱۹۰۳ء ملفوظات جلد ششم صفحه ١٤٦) اللہ تعالیٰ ہمیں ان نصائح پر عمل کرنے کی توفیق دے.اور غیبت جو ایسی بیماری ہے جو بعض دفعہ غیر محسوس طریق پر اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اس سے سب کو بچائے.بہر حال جس طرح فرمایا ہے استغفار کی بہت زیادہ ضرورت ہے.اور اللہ تعالیٰ ہماری بخشش کے سامان پیدا فرمائے اور ہماری توبہ قبول فرمائے.قادیان میں آج جلسہ شروع ہے.۱۲ اواں جلسہ سالانہ ہے اس کے لئے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ خیر و خوبی سے انجام کو پہنچائے.پرسوں انشاء اللہ ختم ہوگا، ہر لحاظ سے بابرکت ہو.
اشاریہ مرتبہ: سید مبشر احمد ایاز.نائب ناظر اشاعت آیات قرآنید 1 تا 3 احادیث نبویہ 4تا9 مضامین اسماء 22010 29023 30 تا 33 مقامات کتابیات 37034
1 آیات قرآنیہ (جواس جلد میں مذکور ہیں ) بلى من سلم وجه لله (البقره: 113) 283 واذ غدوت من اهلك (آل عمران : 122 واذ يرفع ابراهيم القواعد......(البقره: 128) فان امنوا بمثـل مـا امـنتــم بــه فـقـد (البقره: 138) فمن بدله بعد ماسمعه.......(البقره: 182) 94 فبما رحمة من الله لنت لهم (آل عمران: 160) 110 170 514 واعبد والله ولا تشركوا به شيئا (النساء: 37) | 308 114 | ان الله يأمركم أن تؤدوالا مانت(النساء: 59) يايها الذين امنوا كتب علیکم الصیام(البقره: 184) 226 416 | اطیعوالله واطیعوالرسول (النساء : 60) 260 (البقره: 186) 434 | ومن أحسن دينا (النساء: 126) شهر رمضان الذى.واذا سالك عبادی عنى (البقره: 187) 4 لو خلوا في السم كافة (البقره: 209) 257 ولا تجعلو الله عرضة(البقره: 225) لا اكره في الدين (البقره: 251) مثل الذين ينفقون(البقره: 262) قل ان كنتم تحبون الله آل عمران : 32) 116 128 450 327 ان الله اصطفی آدم...(آل عمران: 3534) 140 رب انی نذرت لك ما في بطنى محررا (آل عمران: 141) هنالك دعا زكريا ربه (آل عمران: 39) 283 يا يها الذين امنوا كونوا قوامین(المائدہ:9) 26 والله يعصمك (المائدہ:242 ) کے نزول پر آنحضرت کا اپنے پہرہ پر متعین لوگوں کو بھیج دینا 68 لا تدركه الابصار وهو يدرك الابصار (انعام: 104) 74 واقيموا وجوهكم عند كل مسجد.....(الاعراف : 30) 356 ونزعنا ما في صدورهم من غل..16 240 238 (اعراف : 44) وعلى ربهم يتوكلون (الانفال : 3) 36 وتوكل على الله......(الانفال: 61) پايها الذين امنوا اتقوالله وكونوا مع الصادقين 156 | (التوبه: 119) 550
2 288 كتب احكمت ايته......(هود: 2) 54 | (الاحزاب : 57) لئن شكرتم لازیدنکم (ابراهیم (8) 216 | ان الله كان بما تعملون خبير السبا : 2 42 وكفى بربك بــذنـوب عباده خبيرا (بنی | ان الله بعباده لخبير بصير (الفاطر : 32) 58 اسرائیل: 18) 58 | يايها الذين آمنوا اجتنبوا كثيرا من الظن 566 من انه كان بعباده خبيرا بصيرا (الاسراء : (31) 28 | (الحجرات: 13) ولاتمش في الارض مرحا (بنی اسرائیل: 27138 | يايها الناس انا.يوم نسير الجبال (الكهف : 48) 44 | ذكر.....(الحجرات: 14) وجعلنا فيها فجـاجـا (الانبياء (32) 45 وما خلقت الجن والانس الا ليعبدون ان الله لطيف خبير (الحج: 64) 28 (الذاريات :57) یا ايها الذين آمنوا لا تتبعوا خطوات الشيطان وابراهيم الذي وفي (النجم : 38) (النور: 22) 60 362 285 534 | اقتربت الساعة وانشق القمر القمر : (2) 65 واقسموا بالله جهد ايمانهم (النور: 54) 343 والذين تبووا الدار..(الحشر: (10) 184 وعد الله الذين آمنوا منكم ليستخلفنهم | يايها الذين آمنوا اتقوا الله ولتنظر (النور: 56) 7 نفس(الحشر 19) و كفى بذنوب عباده خبيرا(الفرقان: 59) 28 يايها النبي اذا جاء ك المومنات.وعباد الرحمن الذين يمشون (الفرقان: 63) 279 (الممتحنه:13) 75 340 ربنا هب لنا من أزواجنا......الفرقان : 54275 يايها الذين آمنوا اذا نودي للصلوة من يوم والخيل والبغال والحمير.....(النحل: 9) 64 498 امن يجيب المضطر (النمل: 63) وترى الجبال تحسبها جامدة (النمل: 89) 40 ان الذى فرض عليك القرآن (القصص : 86) ان الله لطيف خبير (لقمان: 17) ولا تصعر خدك (لقمان: 19) 84 41 272 482 79 الجمعة (الجمعه: 10-11) ولن يوخر الله نفسا (المنافقون: 12) فأمنوا بالله ورسوله والنور......(التغابن: 799 يوم تكون السماء كالمهل (المعارج: (9-11) 29 ويطعمون الطعام على حبه (الدهر: 9) 310-311 انا نخاف من ( ربنا يوما......(الدهر : (11) 317 والنازعات غرقا (النازعات: 2) 530 ياايها الذين آمنوا صلوا عليه.
اذا الشمس كورت (التكوير 2-5) 45 واذا الصحف نشرت (التكوير (11) واذا السماء كشطت (التكوير : 12) 63 29 قتل اصحاب الاخدود (البروج: 5-9) 46 لا اقسم بهذا البلد (البلد :2-3) 84 انا انزلنه في ليلة القدر (القدر) 466 ومــا امـــروا الا ليعبدوا..(البينه: 6) 282 افلا يعلم اذا بعثره القبور (العاديات : 11-112) 80 الم تر كيف فعل ربك بــــاصـحـــاب الفيل(الفيل: 2-6) 64 3
4 احادیث ( جو اس جلد میں مذکور ہیں) خطائیں معاف 18 دو کلمے جو میزان میں بھاری سبحان اللہ وبحمدہ 19 مشرکین مکہ کے سرداروں کی بدر کے میدان میں قتل ہونے کی جگہ کا بتایا گیا.30 ابو جہل کا کہنا کہ انا لا نکذب بل نکذب بمائت 554 عرب کی تباہی اور یا جوج ماجوج کے خروج کی خبر 31 اسلام اس طرح مدہم ہو جائے گا جس طرح کپڑے پر تعمیر کعبہ کی بابت حضرت ابراہیم اور اسماعیل 95 48 تسبیح میں دھیما پن اختیار کر وتم کسی بہرے اور غائب کو بنے ہوئے نقوش 102 امت مسلمہ کے 73 فرقوں میں بٹ جانا 48 نہیں پکار رہے مغرب سے سورج کے طلوع ہونے کی حدیث اور اس حضرت انس کے لئے دعا.اللھم اکثر مالہ والدہ اور اس 87 کی قبولیت 103 پر معارف تشریح مکھی گر جائے.ایک پر میں شفا اور دوسرے میں بیماری 32 حضرت عائشہ کا پوچھنا کہ احد سے سخت دن بھی آیا فرمایا طائف 103 آنحضرت کی بارش مانگنے کی دعا سے بارش 119 قیامت کے روز میرے نزدیک سب سے زیادہ مجھ پر احادیث میں آخری زمانہ کے متعلق پیشگوئیاں 47 56 سورۃ ھود نے مجھے بوڑھا کر دیا ہے جس نے میرے کسی ولی اہانت کی اس نے گویا مجھے درود بھیجنے والا ہوگا جنگ کے لئے للکارا 59 سوال کہ جنت کا عرض آسمان اور زمین ہے تو دوزخ کہاں جائے گی 67 خلافت.ملوکیت اور خلافت (احمدیہ) کی خبر 85 اللہ تعالیٰ بڑا حیا والا بڑا کریم اور سخی ہے ان المهدینا آستین 4 86 میں بندے کے گمان کے مطابق سلوک کرتا ہوں 4 خلافت علی منہاج النبوت قائم ہوگی.8 جس نے دن میں سومرتبہ سبحان اللہ و بحمدہ کہا اس کی سب 292 اذان کے کلمات دہرانے اور میر اوسیلہ مانگنے کی بابت 292 مجھ پر درود بھیجنا تمہارے لئے ایک کفارہ ہے 294 تمہارا مجھ پر درود بھیجنا خود تمہاری پاکیزگی اور ترقی کا ذریعہ ہے درود بھیجنا گناہوں کو نابود کرتا ہے 295 294 قیامت کے روز سب سے معزز وہ شخص ہوگا جو مجھ پر زیادہ درود شریف بھیجنے والا ہوگا حضرت عمرؓ 294 295 دعا آسمان اور زمین کے درمیان ٹھہر جاتی ہے جب تک
5 درود نہ بھیجا جائے 295 دوزخ اور جنت کا مکالمہ کہ دوزخ میں بڑے بڑے متکبر درود شریف کونسی طرز پر پڑھا جائے 195 اور جابر ہیں 274 جو مجھ پر درود بھیجتا ہے فرشتے اس پر درود بھیجتے ہیں.296 عزت اللہ کا لباس اور کبریائی اس کی چادر ہے 274 میں دعا کے وقت سارا حصہ درود بھیجا کروں گا.296 جس کے دل میں رائی کے برابر تکبر ہو وہ جنت میں داخل جبریل کا کہنا جو شخص تجھ پر درود بھیجے گا میں اس پر رحمت نہ ہوگا نازل کروں گا......275 298 جس نے اللہ کی خاطر تواضع کی اس کا رفع ہوگا 279 279 جو مجھ پر درود بھیجنا بھول گیا اس نے جنت کا رستہ کھو دیا 298 صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا جمعہ کے دن درود بھیجنے کی خاص تلقین 304 اللہ نے مجھے وحی کی ہے کہ تم اس قدر تواضع کرو کہ.....2080 اللہ پوچھے گا کہ میں بیمار تھا تو نے عیادت نہ کی 312 جو شخص تو اضع اختیار کرتا ہے اللہ اسے بلند کرتا ہے 280 312 اللہ پر ایمان لاؤ اور استقلال کے ساتھ قائم رہو 284 تمام مخلوق اللہ کی عیال ہے ایک مہمان کے دوسرے مہمان پر چھ حق 313 اللهم احينى مسكينا.ایک دوسرے سے حسد نہ کرو.بھاؤ پر بھاؤ نہ بڑھاؤ 313 تم عہدے اپنے لئے خود نہ مانگو 280 229 جس نے کسی مسلمان کی بے چینی کو دور کیا قیامت کے جب امانتیں ضائع ہونے لگیں تو قیامت کا انتظار کرنا230 دن خدا اس کی تکلیفوں کو دور کرے گا رحم کرنے والوں پر خدا رحم کرے گا 314 جس میں امانت نہیں اس میں ایمان نہیں 315 امین اور دیانتدار نگران کی فضیلت صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی اور جو قصور معاف کر غیبت کرنے والوں کا انجام 315 پہلے اونٹ کا گھٹا باندھ پھر تو کل کر 230 231 233 245 دیتا ہے اس کو اللہ عزت دیتا ہے اطاعت کر وسوائے اس کے کہ معصیت کا حکم ہو 265 میری امت کے ستر ہزار لوگ بغیر حساب کے جنت میں جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری جائیں گے تو کل کرنے والے اطاعت کی 242 266 جو شخص یہ دعا پڑھے گا اسے کوئی مصیبت نہ پہنچے گی الهم قیامت والے دن سب سے زیادہ مجھ سے دور وہ لوگ انت ربي.ہوں گے جو متکبر ہوں گے.248 273 جو نظام سے بالشت بھر دور ہوا وہ جاہلیت کی موت مرا 260 261 تین باتیں ہر گناہ کی جڑ ہیں.تکبر حرص اور...273 عہدیداران کی اطاعت کرو جس کے دل میں ذرہ بھی بھی تکبر ہو اللہ اس کو جنت میں نہیں اپنے حاکم کی بات خواہ وہ تیری پیٹھ پھوڑ دے 263 بھیجے گا..الد جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے 273 سنوا اور اطاعت کو خواہ تم پر حبشی غلام حاکم بنادیا جائے 263
6 جس شخص نے اطاعت اور امام وقت کی بیعت نہ کی وہ روزہ میں بھول کر کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا 430 263 رمضان کا مہینہ عظیم اور برکتوں والا مہینہ ہے 434 جاہلیت کی موت مرا تنگدستی خوشحالی ، خوشی نا خوشی...ہر حال میں اطاعت کرو 263 ہر ایک چیز کا دروزہ ہوتا ہے اور عبادت کا دروازہ روزے سننے اور بات ماننے کی بات پر بیعت کی 264 ہیں 437 آنحضرت کا فرمانا کہ کہو اللہ مولانا.1975-174 روزہ ڈھال ہے اور آگ سے بچانے والا حصن حصین ایک انصاری کی مہمان نوازی.خود بھوکے رہے 185 ہے 437 438 کون سا اسلام بہتر ہے فرمایا کھانا کھلا ؤ اور سلام کہو 187 | نماز روزہ یا صدقہ کفارہ بن جاتا ہے اپنے بھائی کے سامنے تیرا مسکرانا تیرے لئے صدقہ ہے 188 جنت کے بالا خانے جو روزوں کے پابند اور رات کو نماز مہمان کی عزت کرو اور..آنحضرت کے سفر کی دعائیں 189 200 پڑھنے والے روزہ میرے لئے اور میں اس کی جزاء ہوں 438 438 آنحضرت کا عبادت کرنا اور پاؤں متورم ہو جاتا 217 لوگوں کو اگر رمضان کی فضیلت معلوم ہو تو خواہش کریں دن کا شکر ادا کرنے اور رات کا شکر ادا کرنے کا طریق 218 کہ سارا سال ہی رمضان رہے حمد شکر کا سر چشمہ ہے 218 | رمضان میں مانگنے والا کبھی نامراد نہیں رہتا سب سے زیادہ شکر گزار بندہ وہ ہے جو لوگوں کا شکر گزار افطاری کے وقت کی دعار نہیں کی جاتی ہے کتے کو پانی پلانے پر بخشش 222 402 439 444 444 اللہ کو خوب یاد کیا کرو یہاں تک کہ لوگ کہیں کہ یہ مجنون ہے 445 اللہ کو صرف بھوکا پیاسا رہنے کی ضرورت نہیں...417 رمضان کی رات فرشتہ منادی کرتا ہے کہ دعا کرو قبول کی روزے کی جزاء میں خود ہوں 418 جائے گی 445 جس نے رمضان کے روزے ایمان کی حالت میں میں بندے کے گمان کے مطابق سلوک کرتا ہوں 446 418 آگ جلا کر لوگوں کو اس میں کودنے کا حکم...اطاعت رکھے اس کے تمام گناہ معاف رمضان کا بابرکت مہینہ اور مومن اور منافق سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں 419 426-425 صرف معروف کاموں میں ہے 326 مسیح کا زمانہ پاؤ تو گھٹنوں کے بل بھی جانا پڑے تو روزے سب گناہوں کا کفارہ سحری کھایا کرو اس میں برکت ہے افطار جلدی کرنا چاہئے 419 429 429 جاؤ.329 آنے والے موعو درسول کو خلیفہ قرار دیا جانا اور اس کے
7 کام اور اس کو سلام پہنچانا ہر حال میں اطاعت خوشی تنگی.329 باجماعت نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے سے چھپیں گنا 331 | زیادہ اجر کا موجب 369 اپنے سردار اور امیر میں کوئی ایسی بات دیکھے تو صبر کرے 331 مسجد بھلائی سیکھنے کی نیت سے کرنے والا جہاد کرنے بیعت اس پر کہ سنیں گے اور اطاعت کریں گے 332 والے کی طرح تمہارا ایک امیر ہو اور کوئی تمہاری وحدت کو توڑنا چاہے تو مسجد میں آنے میں نوافل ادا کرنے کا حکم اس سے قطع تعلق کر لو 332 مسجد میں داخل ہونے کی دعا جو شخص اللہ کی نافرمانی کا حکم دے اس کی اطاعت نہ کرو 334 آداب مساجد من بنی اللہ مسجدا 358 369 369 369 370 451 456 اور پہاڑ جتنا سونا بھی ہو تو خرچ کروں ایسا زمانہ آئے گا کہ اسلام کا صرف نام رہ جائے گا 360 خدا کی راہ میں خرچ کا سات سو گنا بدلہ مسجد میں حلقہ بنانے اور خرید وفروخت سے منع 365 میں سب سے بڑا سخی ہوں مجنون خرید وفروخت کرنے اور بچوں کو مساجد سے دور نماز روزہ اور ذکر اللہ کے راستہ میں خرچ کئے گئے مال کو مساجد جنت کے باغات.365 366 سات سو گنا بڑھا دیتا ہے 456 456 سب سے بڑا صدقہ اس حالت میں کہ تندرست ہو 457 اللہ کے نزدیک شہروں کی پسندیدہ جگہیں مساجد 366 بادل سے آواز کہ فلاں نیک انسان کے باغ کو سیراب مساجد میں تلاوت اور درس و تدریس کرنے والوں پر کر 366 گن گن کر خرچ نہ کرنا 457 458 468 سکینت نازل ہوتی ہے اندھیروں کے دوران مسجدوں کی طرف بکثرت چل کر جس نے رمضان کے شروع سے آخر تک تمام نمازیں جانے والوں کونور کی بشارت 366 باجماعت ادا کیں اس نے لیلتہ القدر کا بڑا حصہ پایا 468 جب تم کسی کو مسجد میں عبادت کے لئے آتے جاتے رمضان کے روزے...ایک رات اس میں ایسی ہے دیکھو تو اس کے مومن ہونے کی گواہی دو 367 | جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے محلوں میں مسجدوں کی تعمیر اور عمدہ تعمیر کا حکم 367 آنحضرت آخری عشرہ میں عبادت میں اتنی کوشش مسجد کی صفائی کی برکت اور اہمیت نماز کا انتظار کرنے والا نماز میں مشغول شمار ہوتا ہے 368 تہجد آنحضرت نہ چھوڑتے بیمار ہوتے تو بیٹھ کر پڑھ لیتے 469 خطاؤں کو مٹانے اور درجات کو بلند کرنا چاہتے ہو تو کامل آخری عشرہ کی عظمت وضوء کرنا اور مسجد کی طرف زیادہ چل کر جاؤ 368 رمضان کی اہمیت اے لوگو تم پر ایک عظیم اور بابرکت 367 | فرماتے جو اس کے علاوہ دیکھنے میں نہ آتی 469 471
8 مہینہ سایہ مگن ہوا چاہتا ہے 471 | سجدے میں ہو 492 لیلۃ القدر کی دعا...المهم انك عفو..472 دعا کی جائے تو تین باتوں میں سے ایک ضرور عطا کرتا ایک جمعہ اگلے جمعہ تک اور رمضان اگلے رمضان تک ہے کفاره 492 483 ذکر الہی کرنے اور نہ کرنے کی مثال زندہ اور مردہ 504 جمعہ کی اہمیت.....بہترین دن جمعہ کا ہونا 485 ذکر الہی کی فضیلت 504 جمعہ کے روز زیادہ درود بھیجا کرو جمعہ پر پہلے جانے والے اور پھر باقی لوگوں کی فہرست 487 ہمارا رب رات کے درمیانی حصہ میں جو بندے کے 487 جو ایک بالشت میرے قریب آتا ہے میں...505 قیامت کے روز لوگ جمعوں میں آنے کے حساب سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے بیٹھے ہوں گے 487 جمعہ کے دن کی ایک گھڑی 506 506 جمعہ پر خوشبولگا نا غسل کرنا وغیرہ لازم پکڑو 487 اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو وہ اس بات کو پسند کرتا ہے جمعہ پر آؤ تو امام کے قریب بیٹھا کرو 488 کہ اس سے مانگا جائے جس نے متواتر تین جمعے جان بوجھ کر چھوڑ دیے اللہ کے دعا عبادت کا مغز ہے 488 دعا کو اپنے اوپر لازم کر لو دل پر مہر کر دیتا ہے جمعہ ادا کرنا فرض ہے خطبہ کے دوران خاموشی 507 507 507 489 جولوگوں کا نگران بنایا گیا اور وہ کوتا ہی کرتا ہے تو اللہ اس 489 پر جنت حرام کر دے گا جولوگ تکبر کے باعث میری عبادت نہیں کرتے وہ جہنم تم میں سے ہر ایک نگران ہے...517 517 میں داخل ہوں گے اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ معزز اور کوئی چیز نہیں 491 اس کی حاجات پوری نہیں کرتا جب تک وہ لوگوں کی 491 جو شخص مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا ذمہ دار ہو اللہ جو شخص اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اس سے ناراض ہوتا ہے 491 ضروریات پوری نہ کرے 492 518 تسمہ یا نمک بھی اللہ سے مانگو جو امام حاجتمندوں اور غریبوں کے لئے اپنا دروازہ بند میں اپنے بندے کے پاس ہوں جہاں بھی وہ مجھے یاد رکھتا ہے اللہ اپنا دروازہ اس کیلئے بند کر دیتا ہے 522 492 اگر کوئی برا کام کرو تو نیک کام کرنے کی کوشش کرو یہ نیکی کرے جس کے لئے دعا کا دروازہ کھولا گیا تو اس کے لئے بدی کو مٹادے گی رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے 492 آسانی پیدا کرنا مشکلیں پیدا نہ کرنا انسان سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ 523 523
9 اے اللہ جو شخص میری امت کا حاکم ہو اگر وہ ان پر سختی معراج میں ان لوگوں کو دیکھا جو غیبت کرتے ہیں 573 کرے تو تو بھی اس پر سختی کرنا 523 بے خیالی میں بات کرنے کی بناء پر جہنم میں 574 جب کوئی حاکم سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے تو اس کو دو ثواب قیامت کے دن اعمال نامہ.میں نے فلاں فلاں نیک 526 کام کئے تھے.لوگوں کی غیبت انہیں مٹادے گی 574 ملیں گے ولایت کی خدمت اس کے سپرد نہیں جو اس کی درخواست چغلی کرنے اور چغلی سننے سے منع فرمایا کرے عہدہ اور حکومت کی درخواست مت کر 529 حاسد چغل خور کا ہن مجھ سے نہیں.....529 بدظنی سے بچو ایسی عورتوں کے ہاں نہ جاؤ جن کے خاوند غائب ہوں 537 سب سے بڑا گناہ جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا 552 شک میں ڈالنے والی باتوں کو چھوڑ دو 555 انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات لوگوں میں بیان کرے 556 جس نے کسی چھوٹے بچے کو کہا کہ آؤ میں تمہیں کچھ دیتا 575 576 577 ہوں پھر نہیں دیتا تو جھوٹ بولتا ہے 556 میری ایک سوتن ہے میں اس پر جھوٹے طور پر ظاہر کروں کہ میرا خاوند...557 چار باتیں جس میں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے 557 جو کسی کے عیب کی جستجو میں رہتا ہے اللہ اس کے اندر چھپے ہوئے عیوب لوگوں پر ظاہر کر کے لوگوں میں ذلیل ورسوا کر دیتا ہے 569 اللہ کے برے بندے جو غیبت کرتے اور چغلیاں کرتے.573 سب سے زیادہ میرے محبوب وہ بندے ہیں جو بہترین اخلاق کے حامل 573
10 مضامین آزادی مذہبی امور میں آزادی ہر احمدی ایک دوسرے کو معاف کرنے کی عادت ڈالے 280 یہ جماعت ہمیشہ شکر گزاروں اور دعائیں کرنے والوں 135 کی جماعت بنی رہے 8 36 بنونضیر کی مدینہ سے جلا وطنی اور مکمل آزادی کا نمونہ 131 جماعت کے قیام اور اس کی ترقی کی پیشگوئی جماعت احمد یہ انگلستان اور ایم ٹی.اے کے کارکنان کا احراری ایک احراری مخالف لیکن اس کی غربت کی وجہ سے اس شکریہ جنہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الرابع کی ہجرت 401 کے دوران....خدمت کی 37 کے کپڑے تیار کر کے بھجوائے احمدیت (احمدیوں کے لئے نصائح ) جماعت احمدیہ میں جماعت کا حضرت خلیفتہ امسیح الرابع " کی وفات پر ماہئی عجز وانکسار اور مسکینی کے واقعات 385 آپ کی طرح تڑپنا احمدیت قبول کرنے کے بعد نیک تبدیلی کے واقعات احمدیت کی ترقی 374 تا 384 بڑے بڑے فرعون آئے اور گزر گئے لیکن الہی جماعتیں احمدیت قبول کرنے کے بعد تعلقات کی قربانیوں کے ترقی کرتی چلی گئیں واقعات 403 تا 414 جماعت احمدیہ پر مظالم کی قرآنی پیشگوئی 5 502 46 دین کو دنیا پر مقدم کرنے اور بچوں کی قربانی دینے کے جماعت احمدیہ ہی وہ مضطر“ جماعت ہے جس کی واقعات مخالفین کا جماعت کو خراج تحسین 388 دعائیں سنی جائیں گی 413 | اخلاق 501 جماعت احمدیہ کا کام ہے کہ ایک مہم کی صورت میں دنیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اخلاقی تعلیم پر رسالہ لکھ کے سامنے اسلام کی امن اور آشتی کی خوبصورت تعلیم کو کی خواہش پیش کرے 137131 ہراچھے خلق کا نمونہ پہلے والدین بنیں 311 148 دوسرے ملک میں پناہ لینے والے احمدیوں کو اپنے ہر بچوں کے اخلاق سنوارنے کی بعض بنیادی باتیں.معاملہ میں سچائی پر قائم رہنے کی نصیحت 334 | سچائی، قناعت ، کردار.....مسیح موعود سے سچا تعلق قائم رکھیں اور ہر وقت دعاؤں سلام کرنے کی اہمیت اور افادیت 331 میانہ روی اور پر حکمت کلام کی اہمیت میں لگے رہیں 145 187 521
311 63 413 56 56 331 11 عجز وانکسار، خوش خلقی اور مسکینی کے متعلق ارشادات ہوئی 279 286 اشاعت پریس کی بابت پیشگوئی غیبت، تجسس اور دوسری معاشرتی برائیوں کے بارے اپنے بزرگوں کے واقعات قلمبند کریں نصائح 582 566 اصلاح کالجوں ، یونیورسٹیوں میں لڑکوں لڑکیوں کے بے حجابانہ اپنے اور دوسروں کی اصلاح کی فکر کریں دوستیوں کے مضرات اور اس سے بچنے کی تلقین 537 امت کی اصلاح کے لئے آنحضرت کا غم استغفار اور توبہ کی اہمیت اسلام کی تعریف جو آنحضرت نے فرمائی 470 284 اطاعت کے متعلق ارشادات نبوی 128 129 اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے 284 اسلام کا مقصد صلح اور امن کا قیام ہے اسلام پر جبر سے دین کو پھیلانے کا غلط الزام 239 اطاعت کے متعلق احادیث اور حضرت مسیح موعود کے ارشادات اسلام کی طرف غلط قسم کے جہاد کے تصور سے اسلام کی اطاعت امیر کی اہمیت بدنامی کے ساتھ ساتھ نئی نسل کو بر بادکیا جارہا ہے 140 اسلام کی فتح جنگوں سے نہیں صلح اور صفائی اور اس کے اطاعت کا حقیقی معیار احکامات پر عمل کرنے سے اطاعت کی ضررورت واہمیت اطاعت.نظام اور ضبط نفس کا نام ہے 261 257 266 264 326 اسلام کا صرف نام باقی رہ جانے کی پیشگوئی اسلام کے ضعف اور کمزوری کی کیفیت 131 48 360 اطاعت بغیر چون و چرا کئے.325 تمہارا کام صرف اطاعت ہے، اطاعت ہے، اطاعت ہے 261 340 عالم اسلام کی حفاظت کی ذمہ داری سب سے بڑھ کر اطاعت در معروف کی تشریح جماعت احمد یہ پر ہے 41 اسلام اور احمدیت کی فتح مساجد کو آباد کرنے سے 372 اسلام کا غلبہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ ہو گا.پس ان خوش خبریوں کے ساتھ کمر ہمت کس لو 206 تمہاری حالت امام کے ساتھ ایسے جیسے میت غسال کے ہاتھ میں گاڑیاں انجن کے ساتھ اطفا الاحمدیہ اعتکاف....دیکھیں رمضان / روزه اسلام کی بقا اور ترقی اس مسیح محمدی کے ساتھ وابستہ ہے اللہ تعالٰی جس نے یہ اعلان کیاع سیف کا کام قلم سے ہے دکھایا ہم نے 141 کامل اخلاقی تعلیم بجز اسلام کے کسی اور کو نصیب نہیں تو حید محض عقل کے ذریعہ ممکن نہیں صفت السمیع کی تفسیر 21 514 74 94 102
12 صفت خبیر کی تفسیر صفت مجیب کی تفسیر 542641 امانت اور جماعتی انتخابات مومنوں کو تمام امور میں امانت کا حق ادا کرنے کا حکم 226 229 بصیر علیم خبیر کا باہمی فرق 80 انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کی ایجادات 83 الہام انٹرنیٹ ایک شیطانی حربہ اور اس سے بچنے کی تلقین 538 حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے 1903ء کے الہامات 206 انجام.ظالم مخالفین کا انجام حضرت مسیح موعود کے بعض الہامات الحمد لله الذي اذهب عنى الحزن انجیل کی تعلیم کا قرآنی تعلیم سے موازنہ اليس الله بکاف عبده 81 76 362 30 انا انزلناه قريبا.ساهب لك غلاما زكيا.......صل علی محمد عفت الديار..نحمدك و نصلي.........17 33 72 160 291 70 21 51 انسان کی تخلیق کا مقصد عبادت انسانیت کو بچانے کے لئے دعائیں کریں انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت اور برکات 450 انفاق فی سبیل اللہ میں نبیوں کا ہاتھ سب سے زیادہ کھلا ہوتا ہے اور انبیاء میں سب سے زیادہ آنحضرت کا 451 انگوٹھی اليس الله بکاف عبدہ کی تفصیل انگوٹھی خلافت کا نزلت الرحمة على ثلث والسماء واالطارق.32 ورثہ ہے يا عبد القادر 126 اولاد يصلون عليك صلحاء العرب 72 اولاد کی خواہش کی بنیاد کیا ہونی چاہئے بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے 72 اولاد کے لئے والدین کی دعائیں تجھ پر عرب کے صلحا اور شام کے ابدال.....304 ایم.ٹی.اے کی نعمت اور اس کا فائدہ زلزلہ کا دھکا..جے توں میرا ہور ہیں.....امام 34 =4 160 159 22 70 ایم.ٹی.اے کی نشریات میں توسیع کی خوشخبری 166 210 ایم.ٹی.اے کے کارکنوں کا شکریہ بنو ثقیف اور اہل طائف کا قبول اسلام 180 بیت اللہ کی تعمیر اور اس کے مقاصد امانت کے متعلق ارشادات 234 بیعت کی حکمت اور فوائد دشمن کا مقابلہ، مناظرہ، مباحثہ اپنے امام کی منشاء کے برٹش میوزیم ماتحت 223 104 63 97 336
13 شرائط بیعت میں سے ساتویں اور آٹھویں شرط کی اس کی نسلوں پر وبال آتے دیکھے ہیں تفصیل 270 | تبلیغ 212 شرائط بیعت میں سے نویں شرط شرائط بیعت میں سے آخری شرط 324 نیک نمونہ سب سے بڑی تبلیغ 308 مومن کو تبلیغ میں حفظ مراتب کا خیال رکھنا چاہئے 239 بیعت کے بعد نیک تبدیلی 34 345 | تجسس کے برے نقصانات پیشگوئیاں تخف قرآن کریم کی آئندہ زمانہ کے متعلق پیشگوئیوں کی استعمال شدہ اشیاء بطور تحفہ دینا تفصیل 58 569 310 8243286788781 اس کی بابت عزت نفس کا خیال اور ذیلی تنظیموں کو 6263646781 | ہدایات اسباب سفر اور نئی ایجادات کی بابت 82 تجارت، آخری زمانہ میں تجارت کی ترقی کرنے کی کمپیوٹر اور ٹیلی فون کی بابت دوربین کی ایجاد یا جوج ماجوج 83 پیشگوئیاں 29 تحریک 67 31 ہر احمدی ٹیچر، وکیل، ڈاکٹر اور دوسرے ماہرین جو بڑی بڑی حکومتوں کی تباہی کے متعلق 40 انسانیت کی خدمت کر سکتے ہیں ضرورت مندوں کی مدد پریس اور اشاعت کے متعلق 63 کریں.....318 460 مسلمانوں پر دوسری قوموں کے حملہ آور ہونے کی بابت 66 تحریک جدید کے نئے مالی سال کا اعلان.مسلمانوں کے ادبار کے بارے 27 48 تحریک شدھی میں احمدی مبلغین کی مساعی اور قربانی 391 46 | خلفاء کی طرف سے ہونے والی تحریکات.یہ سب جماعت احمدیہ پر مظالم کی پیشگوئی 343 حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیاں 88 6749 | اطاعت در معروف کے زمرے میں ہیں آئندہ زمانے میں آنے والی ہولناک تباہیوں کی خلفیہ وقت کی تحریک پر احمدیوں کا والہانہ لبیک 398 پیشگوئیاں مخالفین کی ناکامیوں کی پیشگوئی 52 درود شریف اور استغفار کے التزام کی تحریک 400 90 ربوہ اور افریقہ کے لئے ڈاکٹرز سے وقف کی تحریک 400 مسیح موعود کی پیشگوئیاں ہم نے ہمیشہ پوری ہوتی دیکھی دعا کی ایک تحریک 12 ہیں کئی دفعہ دشمن کو پتے دیکھتا ہے ، خاک اڑتی دیکھی ہے شیطان سے بچنے کی دعا ئیںاور ایک دعا کی تحریک 540
14 ربنا لا تزغ قلوبنا.پڑھنے کی تحریک 532 توکل اور بھروسہ کی حقیقت رب انی مظلوم ترقی سلسلہ کی ترقی کی خبر الہی جماعتوں کی ترقی کا راز 210 | تو کل کرنے والے کبھی ضائع نہیں ہوتے 91 کرتا ہے 244 245 دنیا میں سب سے زیادہ تو کل اللہ تعالیٰ نبیوں میں پیدا 238 385 تو کل کی اعلیٰ ترین مثالیں آنحضرت نے رقم فرمائیں قوموں میں ترقی کی روح پیدا کرنے کی دو چیزیں میانہ روی اور پر حکمت کلام 521 | مسیح موعود کا تو کل 241 240 458 تسبیح وتحمید کی بابت احادیث اور تشریحات 18 خلیفة المسیح الاول کا فرمانا کہ اس کا میرے ساتھ خاص تعلیم معاملہ ہے 247 247 حضرت مسیح موعود کی جماعت کے لئے تعلیم 333 ایک صحابی کا یہ تو کل کہ میرا گھر نہیں جلے گا ہر احمدی بچے کو ایف.اے ضرور کرنا چاہئے 520 حضرت مولوی رحمت علی صاحب کا تو کل کہ آگ | تعویذ گنڈوں سے نفرت کا قابل تعریف اسوہ ہمارے گھر کو نہ جلائے گی 248 والدہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب 345 تو کل کی کمی، روزمرہ کے معاملات میں بہت سی برائیوں 79 میں اضافہ کا باعث 248 417 میاں بیوی کے جھگڑوں کا باعث تو کل کی کمی 250 تقدیر مبرم اور متعلق تقوی کی حقیقت تقوی کے درجات 547 | تہجد تلمبر جو نیکی سے محروم کر دیتا ہے 270 | آنحضرت کی دعا 272 | جبر 253 دنیا میں فساد کی بڑی وجہ تکبر کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کے ارشادات 275 سرولیم میور کا یہ کہنا کہ ایک مسلمان بھی بزور شمشیر مسلمان تنظیم نہیں کیا گیا ذیلی تنظیمیں حضرت مصلح موعود کا احسان 515 | جلسہ سالانہ غریبوں کو تحائف دیتے ہوئے ذیلی تنظیموں کے لئے حضرت مسیح موعود کے ارشادات ہدایات 310 حضرت مسیح موعود کی دعائیں 130 202 213 267 202 کسی کے بارے رائے قائم کرنے میں جلدی نہ کرے 518 جلسہ کے ایام گزارنے کی بابت تفصیلی ہدایات 194
15 جلسہ کے آداب.....یہ کوئی میلہ نہیں 197 (جنگ) ذات الرقاع 241 جلسہ میں شامل ہونے والے مہمانوں اور میزبانوں کے اسلام کی فتح جنگوں سے نہیں بلکہ صلح صفائی اور خدا تعالیٰ لئے زریں ہدایات کارکنان جلسہ کے لئے نصائح اور ہدایات 184 کے احکامات پر عمل کرنے سے ہوگی 185 ہلاکت خیز جنگوں کی پیشگوئیاں جلسہ کی نیت سے برطانیہ آنے والے بہر حال اپنے میں دوسری جنگ عظیم واپس جائیں 131 44 30 214 دنیا بڑی تیزی سے تباہی کے کنارے کی طرف بڑھ رہی جلسہ سالانہ اختتام پر خدا کے شکر کے ترانے 216 ہے جماعت احمدیہ کا فرض ہے.کا ہے....کارکنان جلسہ کا شکریہ جماعت احمد یہ نیز دیکھیں احمدیت“ 222 | جہاد 30 جس طرح دکھاوے کی نمازوں میں ہلاکت ہے جماعت احمدیہ کی ترقی کی پیشگوئی 211 | دکھاوے کا جہاد بھی ہلاکت 142 جماعت کے لئے درد پیدا کریں دعائیں بھی قبول جہادی تنظیمیں جن کا اسلامی تعلیم سے دور کا بھی واسطہ ہوں گی جمعہ کی اہمیت اور فرضیت 503 نہیں 128 2 48 اسلام کی طرف غلط قسم کے جہاد کے تصور سے اسلام کی جمعہ کی اہمیت مسیح موعود سے اس کی نسبت 491305 بدنامی اور نئی نسل کی بربادی خطبہ جمعہ کے آداب جمعہ کے دن درود بھیجنے کی تلقین امام اور مقتدی کے لئے ضروری ہدایات جمعۃ الوداع.ایک غلط اصطلاح قضائے عمری اور جمعۃ الوداع جنگ اسلامی جنگوں کی وجوہات جنگ احد جنگ بدر (جنگ) خندق 486 304 489 488 482 484 133 135 178 170 120 171 31 140 مسیح موعود کی بعثت صلح اور آشتی کے ساتھ نہ کہ تلوار اور جہاد کے ساتھ جہازوں اور دوسرے اسباب سفر کی پیشگوئی جھوٹ کی برائی..جھوٹ کے خلاف جہاد کریں.جھوٹ کسی بھی صورت میں جائز نہیں چاند گرہن کے بارے حدیث اور تفصیل شق قمر اور اس کی تفسیر چندہ نیز دیکھیں انفاق 91 46 553 555 563 86 65 انبیاء جو چندے مانگتے ہیں وہ اپنے لئے نہیں 454 با قاعدگی سے چندہ ادا کرنے اور تشخیص کی ہدایت 106
16 حبل اللہ ایک با برکت راه (خلافت) 9 نظام خلافت انشاء اللہ قیامت تک قائم رہے گا اس میں 16 شریعت اور عقل کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں اور یہی حمد کی تفسیر حمد اور شکر کی تفسیر 218 تا 222 | معروف فیصلے ہیں 342 حقوق دوسرے کے حقوق غضب کرنے والے 538 خلیفہ کے غلطی کرنے سے مراد اور اس کی حکمت 265 حقہ خلفاء کی طرف سے ہونے والی تحریکات سب اطاعت حضرت مسیح موعود کا حقہ پینے والوں سے ناراضگی کا اظہار در معروف کے زمرے میں آتی ہیں اور صحابہ کا نیک رد عمل خدام الاحمدیہ خدمت خلق 343 379 اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرنے سے مراد 514 اب خلافت تک پہنچنا مراد ہے اور اس کے فیصلے ہمیشہ معروف فیصلے ہیں 342 جماعت احمدیہ کی امتیازی شان 398 318 خلافت کے فیصلوں کو حاصل ہونے والی الہی حفاظت خدمت خلق اور بزرگان احمدیت خط 400 عصمت صغری خلافت کی نعمت.اس کو یا درکھیں 342 11 ایک دوست کا خط اور احباب جماعت کا رد عمل 22 خلیفہ کے حکم کی فوری تعمیل اور خالد بن ولید کا نمونہ 326 حضرت عمر کا ایک خط ابو موسیٰ اشعری کے نام.قضاء کے خلیفہ وقت کی تحریک پر احمدیوں کا والہانہ لبیک کہنا 398 متعلق خلافت 527 | خلافت سے محبت پیار کا والہانہ نظارے 17'322 اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رکھے 21 خلافت راشدہ اور خلافت علی منہاج النبوۃ کی خبر استحکام خلافت کے لئے اخلاص و وفا کے نمونے 12 85 886 اللہ کرے...آپ کا درد مجھے اپنے درد سے بڑھ کر ہو اللہ کرے خلافت قیامت تک قائم رہے 8`86 جائے اب انشاء اللہ آئندہ خلافت احمدیہ کو کبھی کوئی خطرہ لاحق اپنی ذات کے لئے مجھے مکمل حوصلہ ہے 6 22 نہیں ہوگا 11 خلیفہ وقت کے سایہ تلے آنے والی رقم کی ایک ایک خلافت حبل اللہ اس کو مضبوطی سے پکڑ لو 2579 پائی بھی بڑی سوچ سمجھ کر خرچ کی جاتی ہے 28 وہ لوگ کامیاب ہوں گے جن میں خلافت کا نظام ہے خلق.دیکھیں اخلاق“ 142
17 خواب مومن کا یہ کام ہے کہ امن کی حالت میں بھی خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود کا لندن شہر میں تقریر کرنا 87 سے دعائیں مانگتا ر ہے 408 ہمارے ہتھیار یہ دعائیں ہیں خواب میں شادی کی تعبیر خواب میں مال کلیجہ ہوتا ہے 112 511 456 ذاتی اور جماعتی ترقی کا انحصار دعاؤں پر ہے اس لئے 510 درود شریف پڑہنے کی حکمت اور برکات 288 اس میں کبھی ست نہ ہوں درود شریف اور استغفار کے التزام کی تحریک 214 دعا کا ہتھیار جواب صرف جماعت احمدیہ کے پاس ہے 499 جمعہ کے دن درود بھیجنے کی خاص تلقین 304 اس زمانہ میں اگر فتح مانی ہے غلبہ ہونا ہے تو دلائل کے درود سے تمام ترقیات وابستہ ہیں درود کو معین تعداد میں پڑھنے کی حکمت 306 | ساتھ ساتھ صرف دعا سے 300 ہم احمدیوں کا دعا کے بغیر گزارا ہی نہیں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا تمام دعا درود کو ہی قرار والدین کی بچوں کے لئے کرنے کی دعا دینا اور حضرت مسیح موعود کا اظہار خوشنودی دشمن سے حسن سلوک کا ایک اقعد.....297 انسانیت کو بچانے کے لئے دعائیں کریں 499 499 158 30 401 دعا سے توبہ سے کام لو اور صدقات دیتے رہو 221 دعا کی بابت ارشادات 4935088 آنحضرت کا مجلس سے دعا کرتے ہوئے اٹھنا قبولیت دعا کے واقعات دعاؤں کی تاثیر 5 122 ایک بزرگ، جن کی تمہیں سال تک دعا ئیں نہ سنی گئیں 95 126 | مضطر اور دعا کی قبولیت دعا کی قبولیت اور شرائط اور روزہ سے اس کا تعلق 563 شیطان سے بچنے کی دعا 500 544 441 شیطان سے بچنے کی دعائیں اور ایک دعا کا التزام 540 جماعت کے لئے درد پیدا کریں تو دعا ئیں بھی قبول ربنا لا تزغ قلوبنا....دعا کی تحریک 563 ایک دعا جو ہر احمدی کو کرتے رہنا چاہئے ہوں گی دعا کے لئے بنیادی چیز صبر ہے 95 | ربانی مظلوم..” جب تو دعا کرے تو میں تیری سنوں گا“ حضرت مسیح ایک الہامی دعارب اغفر وارحم 532 210 159 106 ایک دعا جو حضور نے حضرت نواب محمد علی خان صاحب کو موعود سے خدا تعالیٰ کا وعدہ دعا کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں 17 لکھی ہے مومن دعاؤں سے تھکتا نہیں 447 100 حضرت خلیفہ اول کی ایک دعا بارش کے لئے
18 جو آنحضرت نے صرف ایک بار کی 120 سنتی یا عذر کی بناء پر روزہ نہ رکھنا حضور انور کی دعا کی تحریک 428 12 بیماری اور سفر میں روزہ سے رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے 424 دکان نبیوں کے سلسلہ کو دکانداری کہنا اور اس کا یہ جواب جلد افطاری اور سحری سے کھانے میں برکت کہ یہ دکان تو ہے مگر یہاں سے خدا اور اس کے رسول کا فدیہ کی حکمت 429 427 125 روزے کے متعلق بعض فقہی مسائل اور مسیح موعود کے سودا ملتا ہے دنیا کے خاتمہ کے دن قریب ہیں 52 فتاوی 430 دنیا کی تمام عقل یورپ اور امریکہ کو 87 اعتکاف کے تقاضے اور حضور کا ذکر فرمانا کہ ایک شخص نے دنیا کی بلاکس میں تقسیم اور جنگوں کی طرف بڑہتے ہوئے اعتکاف میں کسی کو قتل کیا قدم 365 44 رمضان کے آخری عشرہ کی برکات اور فضائل 466 دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد اس کی اہمیت اور تقاضے 282 رمضان کی عبادات کو بعد میں جاری ساری رکھیں 506 زکوۃ مسلمانوں کا زکوۃ کو تاوان سمجھنا اور غانا میں غیر ڈاکٹرز ربوہ اور افریقہ کے لئے ڈاکٹرز سے وقف کی تحریک 400 احمدیوں کا اپنی زکوۃ جماعت احمدیہ کو دینا 27 61 زلزلہ کی بابت حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی اور کانگڑ کا ذات ذاتیں وجہ شرافت نہیں...رجوع جس سے عذاب میں تا خیر ڈالی جاتی ہے 79 | زلزلہ 69 زمانہ ہماری خوش قسمتی کہ زمانہ کے امام کو ماننے کی توفیق رمضان / روزه فضائل و برکات مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات 416 | ملی 435 سچائی کی بابت ارشادات اور نصائح کم از کم قرآن کریم کا ایک دور مکمل کرنا چاہئے 417 احمدی سچائی کا پیکر ہوں نمازوں ،نوافل اور تلاوت کا اہتمام 417 ہمارا اوڑھنا بچھونا.سچ ہو 551 550 564 551 روزہ میں ہر ایک کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے 418 جس قد رسچائی کی تعلیم قرآن میں ہے انجیل میں اس کا روزہ کا دعا کی قبولیت سے تعلق روزہ جسمانی صحت کا محافظ 441 عشر عشیر بھی نہیں 423 | سزا 419 مسلمانوں کو سزا سے بچانے کی حتی الامکان کوشش کرو رمضان میں صدقہ و خیرات بہت ہی بد قسمت جس نے رمضان پایا مگر تغیر نہ پایا 490 551 518
19 سگریٹ نوشی کے مضرات ، یہ دجال کا پھیلایا ہوا جال اللہ کرے یہ جماعت ہمیشہ شکر گزاروں کی جماعت بنی ہے، نوجوان اس کو ترک کریں 380 | رہے......سفر کے لئے ہدایات اور آنحضرت کی دعائیں 200 خدا کے شکر کا طریق اور اس کے ثمرات 224 کامیابی پر سجدات شکر بجالانے کی تعلیم 8 214 19 سلسلہ کی ترقی کی پیشگوئی شادی بیاہ کا تعلق بھی ایک معاہدہ ہے اس کا خیال اور اللہ تعالیٰ کا جماعت کے شکر کے جذبہ کو قبول کرنا 217 معاشرے کو حسین بنانے میں کردار...559 شہید جماعت احمدیہ کے شہداء جنہوں نے حضرت مسیح 284 موعود کی امیدوں کو پورا کیا شراب کی حرمت پر صحابہ کا نمونہ شراب کشید کرنے والا اور بیچنے والا جہنمی ہے 381 شیطان کے حربے اور اس سے بچنے کے طریق شرط مباحثوں اور مناظروں میں شرطیں لگانے کی | 395 546534 اجازت نہیں شرک کی باریک راہیں شرک سے اجتناب کی روشن مثال 181 | صبر کی تلقین اور ضرورت 260 احمدیت قبول کرنے کے بعد صبر ورضا کے نمونے 374 243 صحابہ کا اسلام کے احکام پر عملی نمونہ 284 345 جان دیتے ہوئے ایک صحابی کی آنحضرت سے محبت کا شعر (اس جلد میں مذکور اشعار | مصرعہ جات ) اظہار.......177 اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال 141 آنحضرت کے صحابہ میں قوت قدسیہ دعا اور توکل نمونہ 247 ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کئے 151 صحابہ کی خوشحالی اور فراخی کی پیشگوئی 576 صدقہ کی اہمیت بدی پر غیر کی ہر دم نظر ہے چه خوش بودے اگر ہر امت...5 37 دعاؤں سے کام لو اور صدقات دیتے رہو 66 456 221 47 رمضان میں صدقہ و خیرات بہت کرنا چاہئے 419 خداوندا بندہ خد بن گیا ہے سیف کا کام قلم سے دکھایا ہم نے 141 صلح میں پہل کرو 560 159 صلح حدیبیہ اور اسلام کی صلح کل کی تعلیم کا اظہار 131 مری اولا د جو ترکی عطا ہے یہ ہو میں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا 159 طاعون آخری زمانہ میں طاعون کی پیشگوئی 87 شک سے مبرا بات کرو 556 | عائلی مسائل شکر اور جماعت احمدیہ کی منفردشان 216 سسرال کے ظلم اور بہو کی حق تلفیاں اور پھر اس کے
20 20 برعکس ایک شیطانی چکر 78 تلقین مردوں کا گھروں میں ظالمانہ سلوک اور نقصانات 471 قسم معجز و انکسار مزید دیکھیں اخلاق“ لغو اور جھوٹی قسمیں کھانے کی ممانعت 417 118 آنحضرت کا فتح مکہ کے موقعہ پر سر جھکائے ہوئے داخل ہونا اللہ کو اپنی قسموں کا نشانہ نہ بناؤ کے تین معانی 117 عروه وقتی 18 قضاء کا نظام اور قاضی کے لئے نصائح حضرت عمرؓ کا ایک خط قضاء کے متعلق 526 527 45 525 اس زمانے میں مسیح موعود ہی مضبوط کڑا ہیں 132 قیامت کی بابت آیات اور اس کی تفسیر عقل دین کی تمام عقل خدا نے ایشیاء کودی 87 کارکنان کا احترام کرنے کی ہدایت عہدیداران جماعت کے فرائض اور امانت 229 کائنات کے اسرار سے پردے اٹھائے جانے کی خبر 45 عہدہ اور خدمت بندے کا خدا کے ساتھ عہد ہے 231 کتب حضرت مسیح موعود کی اہمیت وافادیت اور ان کا عہدیدار جماعت کے فرائض اور نصائح 515 | درس دینے کی تلقین صدران و امراء خلیفہ وقت کے نمائندے 522 کشف حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب کا لمبی نماز عہدے کی خواہش کرنا غیر مناسب ہے 528 پڑھنا اور یہ کشف دیکھنا کہ آنحضرت اور مسیح موعود دعا کر عہدیداران اور افسران کو ہدایت امور عامه تعلیم ، تربیت اصلاح وارشاد) 574 رہے ہیں.....530 350 351 کعبہ کی تعمیر کے لئے کی جانے والی مقبول دعائیں 95.99 غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے والے عہد یدار کو کبھی کوئی لاٹری کی حرمت کا فتویٰ عہدہ نہ ملے گا غیبت کرنے والوں کا انجام 517 لجنہ اماءاللہ 233 | لیلۃ القدر کی اہمیت و برکات 381 514 4790467 فتنہ کی باتیں کرنے کے نقصانات 333 مامور کی تکفیر کی وجہ سے خدا کے فضل سے محرومی کا 475 قرآن سے صحابہ مسیح موعود کا عشق 382 مباہلہ خدا کے اذن کے بغیر نہیں قرآن کریم اور کتب مسیح موعود کا درس دینے کی تلقین 530 مباہلہ کے نتیجہ میں مخالفین کی ہلاکت قرآن اور اسلام کی خوبصورت تعلیم قرآن جو دعویٰ کرتا ہے تو دلیل دیتا ہے 181 90 55 مبلغین کی ضرورت اور بچوں کی ابھی سے تربیت کرنے 85 کی ہدایت کہ وہ اچھے مبلغ بنیں رمضان میں قرآن کا کم از کم ایک دور مکمل کرنے کی مجالس اور اس کی امانتیں ا ا ا ا ا م ایک دور عمل کر.151 32 233
21 آنحضرت کا مجلس سے دعا کرتے ہوئے اٹھنا 5 معاہدوں کا پاس کرنا سیکھیں مساجد کے آداب مساجد کی اہمیت 364 | مهدی 558 370 جس کا انتظار تھا اور وہ صلح اور امن و آشتی کا پیغام لے کر مسجدوں کو آباد کرنے اور بھائی چارے کی تعلیم ہمارا آیا فرض ہے 358 | مہمان نوازی اسلام اور احمدیت کی فتح اب مسجدوں کو آباد کرنے سے تفصیلی ہدایات وابستہ ہے 372 مہمان نوازی سیرت مسیح موعود کی روشنی میں مسجدوں کی زینت عمارت سے نہیں 371 | ناصرات الاحمدیہ مساجد کو آبا در کھنے کی کوشش کریں 502 نبی انبیاء مساجد کی صفائی کی اہمیت مسكين 133 132 186 190 514 367 اب دنیا میں آنحضرت سے بڑھ کر کوئی صادق نہیں..اس لئے اس نبی کے ساتھ چمٹ جاؤ اللہ کو تلاش کرنا ہے تو مسکین کے دل کے پاس 281 انبیاء مخلوق کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے آتے ہیں 280 550 550 آنحضرت کی نظر میں مسکین کا مقام حضرت جعفر کا مساکین سے محبت کرنا 281 انبیاء قربانی کرنے والے جو دنیا کے ستون اور مصائب 329 کے لئے تعویذ کا کام دیتے ہیں 97 مسیح موعود کے کام اور مقام و مرتبہ آنحضرت کا آپ کے حق میں فرمانا کہ سلمان منا...437 نبیوں کا سلسلہ اول سے آخر تک ایشیاء کے حصہ میں اور اس زمانہ میں مسیح موعود ہی وہ مضبوط کڑا ہے 132 ولایت کے کمالات بھی انہی لوگوں کو ملے حضرت مسیح موعود کی راست گفتاری کا نمونہ 249 انبیاء کا وعظ ان کی سوانح عمری ہوتا ہے 331 230 نذر 87 530 مسیح موعود سے سچا تعلق قائم رکھیں مشورہ بھی ایک امانت ہوتا ہے مصلح بہترین مصلح کے اوصاف حضرت نواب محمد علی خان صاحب کا ایک پریشانی سے 521 نجات کے لئے لنگر خانہ کے لئے تین ہزار روپے کی نذر معروف فیصلہ یا معروف اطاعت سے مراد، خود معروف مقرر کرنا اور حضور کی خدمت میں پیش کرنا فیصلوں کی تعریف میں نہ پڑیں 325 تمہیں خوشخبری ہو کہ اب تم ہمیشہ معروف فیصلوں کے 124 نشانات خدا تعالیٰ اپنی تائیدات اور نشانوں کو بھی ختم نہیں کر چکا 90 345
58 148 22 22 نصرت جہاں سکیم کے تحت احمدی احباب کی قربانیاں 399 نیک نمونہ سب سے بڑی تبلیغ نصیحت مزید دیکھیں احمدیت / اخلاق کبھی بھی احمدی کو مایوس نہیں ہونا چاہئے 113 والدین کو ہرا چھے خلق کا خود نمونہ بننا ہوگا ورثه جو نصائح عہدیداران کے لئے ہیں وہ تمام افراد عورتوں کو ورثہ نہ دینے کا گناہ جماعت کے لئے ہیں 379 115 523 وصیت کے نظام میں شامل ہونے والوں سے اعلیٰ اپنے اندر انقلابی تبدیلیاں پیدا کریں اور اپنے گھروں کو توقعات جنت نظیر بنا ئیں نظام 41 مرنے والے کی وصیت اور اس کے احکام وقف 116 114 جماعت احمدیہ کا نظام جو بچپن سے ہر احمدی کو پیار اور زندگی وقف کرنا ، اس سے بڑھ کر کوئی اور چیز نہیں 151 514 اولاد کو وقف نو میں پیش کرنے کی سعادت 143141 محبت کی لڑی میں پروئے رکھتا ہے نظام جماعت کا تقدس اور اہمیت و برکات 514 وقف اولا د اور انبیاء کی دعائیں نظام کی پابندی کی اہمیت 256 واقفین نو کے لئے ہدایات نظام کا احترام نہ کرنے کے نقصانات 149 واقفین نو.ذیلی تنظیم کا ہی حصہ ہیں نظام جماعت اور خلافت کا تقدس 141 150 142 147 13 واقف زندگی کا الگ ہونا ایک داغ ہے غداری کا.1143 515 | ہمدردی نظام جماعت کو مقدم رکھیں ایک نظام کے ماتحت صرف جماعت احمد یہ 57 | بنی نوع انسان سے ہمدردی اور خدمت.بیعت کی نظام جماعت کا احترام اپنی نسلوں میں بھی پیدا کریں 523 شرائط 321 314 308`398 نظام کے خلاف چلنے والوں کے لئے نقصان 259 ہوٹل یورپ میں ہوٹلوں وغیرہ میں شراب کا کام نہ نظام کے خلاف باتیں ہوں تو اس کا طریق اصلاح 232 کرنے کی تلقین اور احمدیوں کا نیک نمونہ نفسانی جوش کو دبانے میں احمدیوں کا نمونہ 353 یا جوج ماجوج کے خروج کی خبر نماز 381 31 تقیموں کی نگہداشت کے لئے صحابہ سیح موعود کی مساعی 402 بچوں کو پنجوقتہ نماز کا عادی بنائیں اور والدین خود نمونہ یونیورسٹی اور کالجوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کی بے حجابانہ ہوں 144 | دوستیوں کے نقصانات نمازوں اور تہجد کے عادی احباب 348 یہود کے فلسطین میں جمع ہونے کی خبر 537 43
172 174 189 284 66 326 284 429 574 369 92 224 31 119 439 523 504 231 102 529 527 23 23 اسماء 567238 | ابوسفیان آلوسی.علامہ شہاب الدین ابراہیم علیہ السلام 95 96 14197 | ابو شریح 102 98101 | ابوطلحہ ابراہیم ابن محمد 374 ابو عبد السلام ابن جابر 66 ابو عبیدہ بن جراح ابن جریرہ 79 ابوعطيه ابن حجر ابن مسعود 103 ابو عمامه 273 ابو قتادہ الاسلمی ابن شهاب 103 ابولہب 121576 51826095 | ابومر شد غنوی ابن عباس 487331253242576 | ابو مسعود مفتی 2005 471332263 | ابو مسعود غفاری ابن عمر 507492'426517 | ابو موسی اشعری 178 522 | ابوہریرہ 274266279263218 121 | 280 281 292 312 314 330`230 523 485 331 365 366 368 369`418 174 241 552 453`121 `387'483'19'32 67 457 446 445 '294 `573'556 438 437 419 185 492 491 554 224`92 506 470 468 577 576 574 284 380 101'96 95 247 188 505 | ابی بن کعب ابن قیمه ابوالحسن ابو برده ابو بکر ابو جہل ابو درداء ابوذرغفاری 28048102 367 | احمد بیگ.مرزا ابوسعید خدری 428279274492469 445 344 | اسماعیل.حضرت
379 378 129 24 572458 بشیر احمد.چوہدری 222 (بشیر الدین محمود.حضرت مرزا) مصلح موعودؓ 171 258 228 257 380 110 111 114 406 403 409 419 470 453 474 132 117 413 34'40 489 521 523 529 535`539` 125 560 575 49'84 27 35 اسماء بنت ابی بکر اشعث بن قیس اعظم بیگ اقبال.علامہ الہی بخش الیگزنڈرڈوئی امام دین کشمیری 404 | بلال حضرت امودی.پروفیسر 70 بلال مثل.انگلستان کے نواحمدی انجم عثمانی 357 | بوعلی سینا انس 48 10230 6611959294 | پکٹ 507 263 179 573 491 467`367 انس بن نضر اورنگزیب.عالمگیر ایلیا ایوب بیگ باقر امام براده الاسلمی براء بن عازب منشی برکت علی خان صاحب برہان الدین جہلمی بشیر آرچرڈ 179 1'130 35 400 351 350 86 366 173 380 376 387 386 404 66 381 ثابت البنانی ثوبان.حضرت جابر بن عبداللہ.حضرت جبریل جعفر بن ابی طالب جلال الدین بلانی ، حضرت منشی جمال الدین میاں جے دیوی.چڑیل حاطب بن ابی بلتعہ حامد علی.حافظ بشیر احمد قمر 347 حذیفہ بن یمان حضرت بشیر احمد.حضرت مرزا 47016419072 حسن بن علی 180 353 209 35 492 66 103 273 537 425 233 241 469 66 281 404 404 346 31 350 191 407 262 438 48 85 8 555 375 122352 121 105 | حمید اللہ خان
527 408 284 30 4 471 371 470 105 45 25 خالد بن ولید خریم بن فاتک ڈوئی.الیگزنڈر رابعہ بصری.حضرت 326 سعید بن ابو برده 456 | سعیدة النساء.سیدہ 35 سفیان 455 سلمان - حضرت رازی.امام فخر الدین 5860226452 | سلیمان.حضرت راغب.علامہ 227171 | شافعی امام.94 شاه نواز خان حکیم رحمت علی.حضرت مولوی رحیم بخش.چوہدری 248 شکر اللہ خان.چوہدری 354 شنکر داس.ڈپٹی رستم علی منشی حضرت 387 صدیق حسن خان.نواب رفیق حیات 357 صلاح الدین.سلطان رلیا رام 249 ضیاء الدین.قاضی حضرت زار روس زبیر بن العوام 209 طارق بن شہاب 31 طاہر احمد.حضرت (خلیفہ مسیح الرابع ) رجاج 117 159 164 157 156 سعداللہ لدھیانوی زکریا حضرت زید بن حارث.حضرت زید بن ارقم.حضرت زینب بنت جحش 544 طلق.حضرت 31 | ظفر سراج الحق.حضرت پیر 404 ظفر احمد.حضرت منشی سراقہ سردار علی خان 105 406 241 | ظفر اللہ خان.حضرت چوہدری 346'352 375 345 68 | والدہ.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب 378 400 375 34 135 130 407 375 404 488 205 11 26 37 349 356 381 141 106 81'4'7'10 175 66 240 | طلحہ حضرت 247 346 458 195 405 296 178456 | عامر بن ربیعہ سعد بن معاذ
375 404 405 386 18 173 171 576 174 344 298 26 26 عائشہ - حضرت 429 217469378 | عبد اللہ خان.چوہدری 103472518523242 | عبد اللہ سنوری.میاں 332 عبداللہ غزنوی.حضرت عبادہ بن صامت عبادہ بن ولید 263 عبد اللہ بن ابو بکر عبدالحکیم.ڈاکٹر 166 | عبد اللہ بن ابی اسلول عبدالحق.مرزا 382 عبد الله بن بسر عبدالحی 68 عبد اللہ بن جبیر عبدالرحمن 66124 166 | عبد اللہ بن حذافہ عبدالرحمن بن ابی لیلی 66 295 عبد اللہ بن عباس عبدالرحمن بن سمره 529 عبد اللہ بن عمر عبد الرحمن بن عوف 453297 عبد اللہ بن عمرو بن العاص عبدالرحمن بن غنم 572 عبدالرحیم.قاضی 407 عبداللہ بن غنام عبدالرحیم خان 104 عبد اللہ بن مسعود عبدالرحیم اشرف 414 260 575 569 557 292'557 218 187 217 312 430 487 273 292 296 377 177 371 358 453 33 103 367 164 487 344 عبدالستار شاہ سید 353 408 380 عبدالمغنی.مولوی عبدالعزیز پٹواری.حضرت میاں 404 عبید اللہ بن الجراح * عبدالکریم سیالکوٹی 302 164 389 | عثمان.حضرت 124 | عرفجه 319 | عروہ بن زبیر 391 عطا محمد پٹواری منشی 374 | علقمہ بن مجزز عبدالکریم حیدر آبادی عبدالکریم پٹواری عبدالقدیر صوفی عبدالقیوم صاحبزاده عبداللطیف سید 388`394`410392 | علی حضرت 3186*32*121*325`438 313 360 485*180*48 265 275'507 عبداللہ.حضرت
92 224 208 34 350 391 386 352 165 245 176 176 386 208 245 125 241 295 384 29 521 71 176 408 404 532 27 27 علی روجرز 383 | فرعون حضرت عمر 327"30174438443 | فضل الہی.شیخ 451176326 453527 | فضل الہی.مولوی عمر بن محمد عمرو بن العاص 84 فضل دین حکیم 566 | فضل شاہ.سید عمر و بن شعیب 365 فقیر علی.حضرت بابو عمر و بن عبد 506 قدرت اللہ سنوری عمر و بن مرہ 522 قطب الدین عمرو بن معاذ 178 عیاض بن حمار 280 | قیصر غزالی.امام 574 کرم الہی منشی غلام احمد.حضرت مرزا مسیح موعود علیہ السلام کرم دین مولوی آپ کا اپنے جاں شمار صحابہ کا ذکر 403 413 | کرم دین.میاں آپ کا جنگل میں جا کر دعا کرنا 244 | کسری آپ کا پرندے کی کہانی سنانا اکرام ضعیف 192 کعب بن عجرہ جلسہ سالانہ کی بابت ارشادات 202 آئندہ زمانہ کی بابت آپ کی پیشگوئیاں 326749 آپ کی رؤیا ، شہر لندن میں تقریر آپ کی قبولیت دعا کے نمونے غلام اللہ.مرزا غلام رسول را جیکی.حضرت غلام محمد.چوہدری فاطمہ حضرت فتح دین 87 104 380 125`383 120 557'369 164'403 کوچی.مسٹر.كيلو لقمان لوط مالک مبارک احمد.مرزا مبارک علی مولوی مبارکہ بیگم.حضرت نواب محمد مال الله صلى 101 81 171'328`378` 136 247
156 141 410'408 429 119 454 44 28 آنحضرت کی پیشگوئیاں قبولیت دعا کے نمونے 30 | مریم علیہ السلام 119 مریم کی والدہ آپ کی دعا عرفات کے میدان میں 448 مریم.ام طاہر آپ کی خوابیں آپ سے صحابہ کا عشق محمد احسن.مولوی محمد اروڑا منشی حضرت محمد اسحاق.حضرت میر 172 66 | مسروق 177 | مسطح 349403 | مسیح ناصری.حضرت 405 مطعم بن عدی 402 122 | معاذ بن جبل محمد اسلم.میاں محمد اسماعیل منشی محمد حسین بٹالوی محمد حفیظ بقا پوری محمد خان.میاں محمد سرور شاہ.حضرت سید محمد شریف کلانوری.حکیم محمد صادق.حضرت مفتی محمد صدیق امرتسری محمد عبد اللہ.حضرت نواب 382 | معاویہ حضرت 348 | معاویہ بن حیده 125 | معقل بن یسار 387 معین الدین 406 معین الدین.حضرت حافظ 387385 | ملاوامل 33 منور احمد.امریکہ 191350 | موسیٰ حضرت 19240069297 | مولا بخش.حضرت ملک 384 مہر علی ہوشیار پوری 240 523 526 522 284 517 245 402 33 357 92 224 208 382 105 349 (ناصراحم - حضرت مرزا ) خلیفہ امسح الثالث لث 403 محمد علی خان.حضرت نواب 123 124 | ناصر خان 357 386 458 404 166 104302447349 390 | ناصر شاہ محمود نام لکھا ہوا دیکھنا 49 | ناصر نواب.حضرت میر محمود غزنوی 130 نبی بخش منشی چوہدری محمود بن لبیب 358 | نبی بخش.حافظ
نجم الدین.میاں نذیر احمد علی.مولانا نصر اللہ خان.چوہدری 191 383 379 375 352 نصرت جہاں بیگم.حضرت ام المومنین 377458 نظام الدین.میاں نعمان بن بشیره نعمت اللہ.قاضی نوح علیہ السلام - حضرت نورالدین.حضرت حکیم 192 491 164 58'71 473'568 473 391 389 410 120 374 459 382 392 99 21 9 67 246 245 نور محمد.حضرت نیاز فتحپوری.علامہ وائلہ بن اسفح ولیم میورسر وی.وی.کاہلوں یکی.حضرت یعقوب بیگ.ڈاکٹر یعقوب علی.شیخ عرفانی یونس خالد 402 413 365 1 3 0 384 156 157 351 126'245 384 29 29
آسٹریلیا 30 مقاما (ب)، پ، ت،ٹ 462 461 35 بٹالہ 404 246 245 244 انظبی اٹلی اسلام آباد افریقہ 461 بدین 29 بشیر آباد (سندھ) 222 195 462 بنگلہ دیش 462 462 520 167 322 398 461399 بنگلہ دیش میں احمدیوں پر مظالم او دعا کی تحریک 532 479 دعاکی 532°479 افریقہ کے احمدیوں میں احمدیت قبول کرنے کے بعد بھارت نیک تبدیلی 383 بہاولنگر افریقہ اور دیگر ممالک میں احمدی بچوں کی تعلیم کا کم از کم بھیرہ معیار الجيريا امرتسر امریکہ 520 | بیاس.دریائے بیاس 322 بیت الفتوح افتتاح اور تعارف بیت الفکر.قادیان 249 382 246 165`33`69 520'4613571 462 | بیت المقدس 564'352 امریکہ کے ایک احمدی موسیقار کی درویشانہ زندگی 392 پاکستان 461 462 392 49 356 356 43 462 461 انگلستان برطانیہ یو.کے 462 461 43'381` 462 479 379'400' 167 502 519 559 330 460 461 214 پاکستان میں حمدیوں سے ہونے ولا شرمناک سلوک 11347 خلیفہ اسیح الرابع کی وفات پر پاکستانی اخبارات کا گھٹیا 184 انگلستان کے ایک احمدی نوجوان بلال کے اندر نیک تبدیلی ایبٹ آباد ایشیا رد عمل 26 353 پاکستان میں زکوۃ سے بچنے کے لئے لوگوں کے حیلے 27 462 قیام پاکستان اور جماعت کی خدمت خلق 403 4647152 پاکستان کے احمدیوں کو ظلم وستم سے گھبرانا نہیں چاہئے..331 113
383 164 346 401 462 462 125 462 502 400 462 349 35 166 406 380 462 376 348 384 461 462 461 304 30 380 462 35 103 240 31 پٹیالہ پنجاب ترکی تل ابیب ٹوبہ ٹیک سنگھ 406 | دارالفضل 69 دھر مکوٹ 43 | ڈسکہ 43 | ڈیرہ غازی خان 462 | راجن پور ج، چ، ح، خ را جیکی (گجرات) جاپان 3570 | راولپنڈی جالندھر جرمنی جزائر جزیرہ تائیوانی جموں 379 | ربوه 461381357321 | رتن باغ 52 | روس 167 سش_ص 386 سالٹ پانڈ 462 | سامانه جھنگ 462 | ساہیوال چک نمبر 166 مراد 462 سیالکوٹ چین 63 سیرالیون حافظ آباد 125 | سعودی عرب 82 سوئٹزرلینڈ 180 | شام شملہ شیخوپوره 526 124 462 | صحون حجاز حمراء الاسد حمص حیدرآباد خانیوال و، ڈر طع_غ_ف_ق دار الرحمت 383 | طائف
32 32 عرب 6531304 | کینیڈا غانا 27347 | گجرات فرانس 322 گوجرانوالہ 461 462 125 462 فلپائن 322 گورداسپور فلسطین 43 گولڈ کوسٹ فیصل آباد فیض اللہ چک 462 | گھانا 166 گھانا کے ایک احمدی کا نیک تبدیلی کا تذکرہ 404 245 164 166 28'27 347 قادیان 33706951381166 گھانا کے نمازوں اور نوافل کے عادی احباب 348 125 120 19289 244 297 357349 | گیمبیا کے ایک احمدی کی نیک تبدیلی 382390392402403414 | لاہور 383 قادیان کی وسیع تر آبادی کی پیشگوئی 49 لائلپور قادیان میں نمازوں اور تہجد کا التزام 349 | لدھیانہ 462 297 69 51 414 192 166 قادیان کے جلسہ کے لئے دعا 582 | لیگوس ک، گ، ل م، ن، و، ه ،ی کابل 394410 | ماڈل ٹاؤن کا نگر 7269 | ماریشس 349 461 کپورتھلہ 123٬406 | مالیر کوٹلہ 123 104 کراچی کولی 462 124 مدینہ سکر ہٹہ (ملتان) کنری 351 | مراکو 462 | مردان 130 84 63 62 558 180 172 178 322 462 کنعان 43 مسجد اقصیٰ کوٹلہ 390 391 | مسجد مبارک کوریا 35 مظفر گڑھ 387 383 192'297 462
مغلپورہ 33 33 403 130 84 65 63 62 180 558 85 90 30'240'176 462'351 ملتان ملکانه منڈی بہاؤالدین میر پور آزاد کشمیر میر پورخاص نارووال نائجیر یا واہ کینٹ ونجواں ( گورداسپور ) وہاڑی ہندوستان 388 462 462 462 462 461 166 462 164 462 520 461 379*400*245 559 526'523'30 381 358 222'43'87`52 464 520 559 564`71 یورپ میں بسنے والے احمدیوں کی ذمہ داری کہ مسیح موعود کے رویا کو پورا کریں 88 اب خدا تعالیٰ یورپ و امریکہ پر نظر رحمت ڈالنا چاہتا ہے یوں کے نیز دیکھیں انگلستان“ 87 یو کے جلسہ کے لئے مہمانوں اور میز بانوں کو ہدایات 184
34 448 302 311 315 316 317 کتابیات الجامع الصغير 203 | الحكم 423 299 444 446 319 320 334 335 275`152 236 83 321 363 456 460 476 485 503 424 18 425 436 84 106 119 509 510 580 582 344 365 367 444 277 447 252'77 آسمانی فیصلہ آئینہ کمالات اسلام ابن اسحاق سیرت سنن ابن ماجہ 87 296 298 370 487 472 275 330 410 381 470 67 426 414 30`544'368 19 404 68 55 44 454 29 383 386 388 348 376 377 353 280*48 8 31 18 469 487 489`326` سیرت ابن ہشام سنن ابوداؤد 189 218 67 102 526 540`557`573 304 315 ازالہ اوہام 406 350387389391405 النفسل المستدرک المصنف عبدالرزاق المنبر ہفت روزہ النسائی سنن الوصية انجام آتھم انجیل انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا انصار اللہ ماہنامہ انوار الاسلام 464`87 562 351 352 353 349`348 اسلامی اصول کی فلاسفی اصحاب احمد 400 401 375 376 380 381 383 350 407 408 166 386 387 389 391 303'219'37 ايام الصلح 79 501 509 494 493`445 بخاری 10448323119 103 102 95 230 217 120 121 175 180 186'331 66 438 439 458 469 284 263 265 242 492 523 526 552 558`187*329* 425 574 577 470 284 245 333 320 161 13575 اعجازاح اعجاز الحميمة الاستعیاب البدر 336 371 382 424 425 300`285 250 55 77 82 428 430 474 485 545 571 578 579 581
35 1017271224 تفسیر روح المعانی براہین احمدیہ 303292113105888926892' | تفسیر طبری 341 459° | تفسیر قرطبی 239 238 80 60 126 | تفسیر کبیر 158 157'97'11411298" بركات الدعاء پنجاب آبزرور.انگریزی اخبار پیغام صلح تاریخ احمدیت 36 378 391 389 408 `463 133 258 264 343 420 421 118 219 51 443 453 454 467 473 474 475 43 476 477 536 540 561`575 44 55 58 81 84 85 41 تاریخ طبری 180 تفسیر کبیر از امام رازی 59 61 227 171 تجلیات الهیه 7289 جامع الصغير تذکرہ 207304 208 209 210 | جلاء الافہام 437 294 292 211*160 17 106 | چشمه معرفت 63 113 115'123' تذكرة الحفاظ 222 124 298 317 410'388"393 63394 | حقائق الفرقان تذكرة الشهادتين ترغیب و ترہیب نرمندی 85 75 77 98 99 181 229 318 570 101 115 118 130 574 573 518 18854 218 | حقیقۃ الوحی 74 71 70 69 68 86 88 90 101 104 34 35 52 51 273 367 366 365 297 260 105 125 136`290`328 295 292 506 504 492 491 488486456446438368 | حلیۃ الاولیاء 507518522523554556569 | حمامة البشرى 3029189 102 | حیات نور تریاق القلوب 136 49 | خالد ماہنامہ تشخیذ الا ذبان تفسیر در منثور 76 | خطبات محمود 294 | خطبات نور 19 477 382 392 530 21 341 490
179 381 412 407 404 459 479 285 191`337 103 36 86 دار قطنی سنن 528 86 | طبقات کبری دارمی سنن 537313 عظیم زندگی دافع البلاد در مشین 159 335 501 فتح اسلام دیباچہ تفسیر القرآن 171 65178173 | فتح الباری ذکر حبیب 193191 357069 | فتح البیان رجسٹر روایات 165 126 | فصل الخطاب روح پرور یادیں ریویوار دو ست بچن سٹیٹمین 403 | فقہ احمدیہ 293 قشیریہ.رسالہ 574 130 427 273 75 قومی زندگی اور ملت بیضاء پر ایک عمرانی نظر 413 414 کرامات الصادقين سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب 283 کشی نوح سوانح فضل عمر سول اینڈ ملٹری گزٹ سیرت المہدی 380 51 کنز العمال 165345412 لیکچر سیالکوٹ سیرت حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی 390 لیکچر لاہور سیرت خاتم النبین | 121 مجمع الزوائد سیرت سید عبدالستار شاہ صاحب 410382 مجموعہ اشتہارات 221 220 281 581 578 547 286 319 321 445 496 286 571 447 575 456 203 202 199 358 292 280 274 سیرت طیبہ مسلم صحیح سیرت مسیح موعود از عرفانی صاحب شہادت القرآن صحیح ابن خزیمه 123 192 190 469 483 487 489 492 312 313`314 126 331 332 366 523 517 506 505 206 529 557 266 231 260 263`558 471 ضرورة الامام 264 186 189 62 63 103 122 504 91 طبرانی 329 230 مسند احمد حنبل 298 86 67 8
37 315 367 369 370 419 429 437 468 488 493 556 573 729 522'529 312 48 218`360 66 301 303 300 289 414 370 218 178 63 244 279 404 100 551 مشعل راه مشكوة مصنف ابن ابی شیبہ مکتوبات احمد یہ ملاحظات نیاز فتح پوری ملفوظات منن الرحمن موطا امام مالک نزول المسیح نشان آسمانی نور الدین“ نور القرآن