Khutbat-eMahmud V9

Khutbat-eMahmud V9

خطبات محمود (جلد 9)

خطبات جمعہ ۱۹۲۵ء
Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔


Book Content

Page 1

خطبات مود أسود خطبات جمعہ) ۱۹۲۵ فرموده سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد اصلح الموعود جبد زیر اهتمام

Page 2

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلى رَسُولِهِ الكَريمُ پیش لفظ ں اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے فضل عمر فاؤنڈیشن کو حضرت مصلح موعود کے خطبات جمعہ کی نویں جلد احباب جماعت کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے.الحمد للہ علی ذالک.اس جلد میں ۹۲۵ سہ کے ہم ہم خطبات جمعہ شامل ہیں.حضرت فضل عمر سلطان البیان کے خطبات علوم و معارف کا انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ " وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا“ پر شاہد ناطق ہیں.حضرت مصلح موعود کا دور خلافت جو کم و بیش ۵۲ سال پر محیط ہے.ایک تاریخ ساز دور تھا.اس نہایت کامیاب طویل دور میں حضور کے خطبات نے جماعت کی علمی و روحانی ترقی اور تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا.ہمارا یہ روحانی و علمی ورثہ سلسلہ کے لٹریچر میں بکھرا پڑا تھا.اور جماعت کے دوستوں کو اس سے استفادہ کرنا مشکل تھا.فضل عمر فاؤنڈیشن اس جماعتی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ان خطبات کو کتابی شکل میں شائع کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ان خطبات سے پورے طور پر استفادہ کرنے اور جماعتی ذمہ واریوں کو احسن رنگ میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین ون

Page 3

فہرست مضامین خطبات محمود خطبات جمعہ ۶۱۹۲۵ جلد نمبر 9 صفحہ نمبر موضوع خطبه ۲۱ ۲۸ ۳۴ ۴۲ ۵۷ ۵۹ ง 4.۸۲ ۹۲ ۱۰۱ خطبہ نمبر تاریخ بیان فرموده ۲ جنوری سالِ رواں میں ہمارا نصب العین.ور جنوری مذہب کی اپنے عمل سے عزت کرو.۱۶ جنوری جذبات اور عقل دونوں سے کام لینا چاہیے.۲۳ جنوری اعمال کی قبولیت کا دارو مدار اخلاص اور حسن نیت میں ہے.ر فروری خوب محنت اور باہم تعاون کو اپنا شعار بنائیں.۱۳ فروری اپنے ایمان کی خوشبو پھیلائیں.۲۷ فروری مقصد کے لئے مسلسل کوشش کرتے رہیں.A ور مارچ انفاق فی سبیل اللہ اور قومی و انفرادی ترقی کے حصول کے ذرائع ار مارچ ایمان کی حفاظت کا واحد ذریعہ 1.۲۰ ر مارچ قربانی کرنے والوں کے متعلق جماعت کی زمہ داری ۲۷ مارچ ۱۲ ر اپریل ۱۳ ۱۰ اپریل ۱۴ ۱۷ر اپریل ۲۴ اپریل قربانی کرنے والوں کے متعلق جماعت کی ذمہ داری رمضان المبارک کے متعلق ہدایات رمضان المبارک کے متعلق ہدایات رمضان المبارک میں دُعا ہر مہینہ رمضان اور ہر رات لیلۃ القدر بن سکتی ہے.1

Page 4

۱۱۴ ۱۴۱ ۱۴۹ 104 166 IAA 140 ۲۰۳ ۲۱۰ ۲۱۹ ۲۲۸ ۲۴۶ ۲۵۹ ۲۷۵ ۲۸۸ ۲۹۷ ۳۰۴ خطین میں تاریخ بیان فرموده 14 14 ۱۸ 19 : ۲۱ + ۲۲ ۲۳ موضوع خطبه یکم مئی جماعت احمدیہ نہایت بیش قیمت موتی ہے.د رمئی ۱۵ رمئی ۲۲ مئی ۲۹ رمئی ۵رجون دعوت الی اللہ ہر احمدی کا فرض ہے.تلقین صبر و استقامت اخلاق اور معاملات کی درستی کی تلقین اخلاق کی درستی کے لئے بہترین زمانہ بچوں کے اخلاق کس طرح درست ہو سکتے ہیں ؟ ۱۲ جون بچوں کے اخلاق کس طرح درست ہو سکتے ہیں ؟ ۱۹ جون اخلاق فاضلہ کی اہمیت اور ضرورت ۲۴۰ | ۲۶ جون اخلاق فاصلہ کس طرح حاصل ہو سکتے ہیں ؟ ۲۵ ۱۰ ؍ جولائی ۲۶ ۱۷ جولائی دعوت الی اللہ ۲۷ ۲۴ جولائی ۲۸ راگست ہر ایک اخلاقی مجرم چشم پوشی کے قابل نہیں کیا لڑکی اپنا مہر والدین کو دے سکتی ہے ؟ جماعت کی ذمہ داریاں.۲۹ ۱۴ اگست ۱۴ اگست تم میں سے ہر ایک اپنا فرض ادا کرتا چلا جائے i حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے کار ہائے نمایاں ۲۸ اگست ۴ ستمبر ہم مقامات مقدسہ کی توہین کو نہایت نفرت و حقارت سے دیکھتے ہیں ۳۲ ۱۸رستمبر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے کارنامے por por ۳۴ ۲۵ ستمبر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے کارنامے ۱۲ اکتوبر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے کارنامے ۳۵ ۱۶ اکتوبر ۳۶ ۲۳ اکتوبر ۳۷ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے کارنامے ۳۰ اکتوبر تخلقوا باخلاق الله ۶۳۸ نومبر بشاشت اور خوشی سے قربانی میں بڑھتے چلے جائیں ایمان کی حفاظت کرو اور اعمال میں دوام پیدا کرو

Page 5

خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه ۱۳۳۹ نومبر ایک پیش خبری کا پورا ہونا ۴۰ ۲۰ نومبر نماز با جماعت کی تاکید ۴۱ ۲۷ نومبر ۴۲ ٫۴ دسمبر ۴۳ ۱۱؍ دسمبر ۴۲ ۱۸؍ دسمبر نماز باجماعت اور مساجد کا احترام اهدنا الصراط المستقيم كي دعا جلسہ سالانہ کے سلسلہ میں بعض صدایات ہمارا سلسلہ دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے ہے ۳۲۴ ۳۴۰ ۳۵۲ ۳۸۴

Page 6

1 1 سال رواں میں ہمارا نصب العین (فرموده ۲ جنوری ۱۹۲۵ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : جلسہ آیا اور گزر بھی چکا اب نیا سال شروع ہو گیا ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے اور اس کی غریب نوازی ہے کہ اس نے دیگر سالوں کی طرح پچھلے سال کو بھی ہماری ترقیوں اور کامیابیوں کا باعث بنایا اور اپنے دین اسلام کی اشاعت اور خدمت کی ہمیں توفیق عطا فرمائی.ہماری قوم کا جو حال ہے اور جو حیثیت ہے خدا کا فضل اس سے بہت بڑھ چڑھ کر ہم پر ہوا.دنیا دار دینوی طور پر جس کشمکش میں پڑے ہوئے ہیں اور مال والے جن دکھوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہیں.ریاستوں اور رتبوں اور شان والے جن جن مصائب میں گرفتار ہیں ان کو دیکھ کر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جو کچھ ہوا وہ ہماری کسی کوشش سے ہوا.اگر وہ کام جو پچھلے سال ہوئے وہ ہماری عقل اور دانش کا نتیجہ ہوتے تو ہم سے بڑھ چڑھ کر عقل رکھنے والے دنیا میں موجود ہیں.ان سے وہ خدمت اسلام اور اعلاء کلمتہ اللہ کا کام کیوں نہ ہو سکا اور اگر ہمارے علم و فضل کا نتیجہ ہوتے تو دنیا میں ہم سے بہت بڑھ کر عالم اور فاضل موجود ہیں اور اگر وہ کام جو پچھلے سال ہوئے وہ ہمارے روپے پیسے کا نتیجہ ہوتے تو دنیا میں ہم سے بہت زیادہ مال و دولت رکھنے والے بھی موجود تھے.بلکہ ہم تو غریب ہیں اور ہمارے مال اس فضل کے مقابلہ میں جو ہم پر ہوا کچھ حیثیت ہی نہیں رکھتے اور اگر یہ خیال کیا جائے کہ جو کچھ ترقی اور کامیابی ہمیں ہوئی وہ ہمارے کسی رتبہ اور شان کی وجہ سے ہوئی.تو کیا وجہ ہے کہ ہم سے بہت زیادہ رہتے اور شان رکھنے والے تو دنیا میں موجود ہیں مگر ان سے وہ کام اور خدمت نہ ہو سکی.غرض ہر ایک چیز میں دوسرے لوگ ہم سے بہت زیادہ وافر حصہ رکھتے ہیں.اس لئے جو کچھ بھی ہوا محض خدا تعالیٰ کے

Page 7

2 فضل سے ہی ہوا.پس خدا تعالی کے فضلوں اور اس کے احسانوں اور غریب نوازیوں پر ہم سے بڑھ کر دوسرا کون ہے کہ وہ انشراح صدر سے الحمد للہ رب العالمین کہہ سکے.دوسرے لوگ باوجود ہم سے زیادہ عقل رکھنے کے ان کی عقلیں ان کو کام نہ دے سکیں.ورنہ جو کام خدا نے ہم سے لیا وہ اس کام میں بڑھ کر حصہ لیتے اور کامیاب ہوتے.پس وہ بیج جو بویا گیا وہ خدا کے فضل سے بڑھے گا اور پھولے گا اور پھلے گا اور اس کی رحمت کے سائے کے نیچے وہ ہمیشہ ہمیش اپنے تازہ سے تازہ ثمرات لاتا رہے گا اور زیادہ سے زیادہ بخشش اس کی ہم پر ہو گی اور ہماری ناچیز محنتیں رائیگاں نہیں جائیں گی.بڑی بڑی حیثیتیں رکھنے والے علم کے لحاظ سے ، عقل کے لحاظ سے مال کے لحاظ سے ، رتبہ و شان کے لحاظ سے اس خدمت اور کام کے کرنے سے محروم رہے.مگر خدا تعالیٰ نے ہماری جہالتوں اور ہماری کمزوریوں پر چشم پوشی کر کے اس خدمت اور اس کام کا ہمیں موقع عطا فرمایا اور سلسلہ کو وہ شہرت اور کامیابی عطا فرمائی جو کسی انسان کے اقتدار میں نہیں.پس خدا تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا شخص اس قابل نہیں ہو سکتا جس کے لئے یہ واجب ہو کہ خلوص دل سے ہم اس کو ایاک نعبد و ایاک نستعین کہیں کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی اپنے کاموں میں مدد چاہتے ہیں جہاں سے انسان کو بہتر سے بہتر تعلیمیں ملتی ہیں اور جہاں سے دنیا کے بادشاہوں کو حکومتیں اور بادشاہتیں ملتی ہیں اور جہاں سے مالدار تمام قسم کے مال اور ہر قسم کی چیزیں حاصل کرتے ہیں اور جس کے حضور یہ مال و متاع حقیر اور بیچ ہیں اور جہاں سے انسان کو جتنی زیادہ نعمتیں ملتی ہیں.اتنی ہی زیادہ اس کی ذمہ داریوں اور بوجھ کو بڑھا دیتی ہیں.ایک غریب آدمی جو مفلس اور نادار ہے وہ تو رات کو آرام کی نیند سو رہتا ہے لیکن ایک مالدار کو جہاں اپنے مال کی خود حفاظت اور نگرانی کرنی پڑتی ہے وہاں اس کو نوکر بھی رکھنے پڑتے ہیں جو اس کے مال کو تباہی سے بچائیں.پس آج ہم سے زیادہ کوئی اس بات کا مستحق نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور اهدنا الصراط المستقيم صراط الذین انعمت عليهم کہہ سکے.کہ اے خدا ہم تو نا اہل تھے.مگر تو نے اپنے فضل و کرم سے ہم پر وہ انعام اور وہ برکتیں نازل فرمائیں جو دوسرں پر نہیں.ہم بے کس ہیں.نااہل ہیں.تیرے انعامات کو جاننے اور سمجھنے کی ہم میں توفیق نہیں.ایک نا سمجھ اور بے خبر جس نے شیشے سے زیادہ کچھ نہ دیکھا ہو وہ ہیرے کی کیا قدر کرے گا اور ایک شخص جس کو پھٹے پرانے کپڑے بھی میسر

Page 8

3 نہ آئے ہوں وہ شاہی خلعت کی کیا قدر کرے گا.وہ کیا جان سکتا ہے کہ یہ خلعت کس قیمت کی ہے.اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم کہیں اے خدا ہمیں اس بات سے محفوظ رکھ کہ ہم اپنی جہالت اور غلطی کی وجہ سے تیرے انعامات کو سمجھ نہ سکیں اور سیدھی راہ سے بھٹک جائیں.تو ہماری ایسی دست گیری فرما کہ ہم تیرے ہو جائیں اور تو ہمارا.یہ نیا سال شروع ہوتا ہے اور ہر نیا سال اپنی نئی ذمہ داریاں اپنے ہمراہ لاتا ہے.پچھلے سال جو کام ہوئے وہ ہماری طاقتوں اور ہمتوں سے بالا تھے اور بہت سے کام ایسے تھے جن میں ہمیں بہت بڑی کامیابی ہوئی.مگر وہ ہماری کسی کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ محض خدا تعالٰی کا فضل اور اس کا احسان تھا اور بہت سے ایسے کام ہیں جن میں ہماری غفلتوں اور کو تاہیوں نے روکیں ڈال دی ہیں.ہماری کوشش اور ہماری جدوجہد اور ہمارا ہر ایک قدم جو ہم اس کی راہ میں بڑھاتے ہیں اور ہمارے تمام ارادے جو اعلاء کلمتہ اللہ کے لئے ہوتے ہیں.وہ ایک پیج کی طرح ہوتے ہیں جس کے نتائج خدا کے ہاتھ میں ہوتے ہیں.ہم نہیں جانتے کہ آئندہ سال کیسا سال ہو گا اور کیا کیا خدا کے فضل اور اس کے احسان ہمراہ لائے گا.اس لئے میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس سال کو ہمارے لئے مبارک کرے اور وہ خود ہمارا ناصر و مددگار ہو.ہمارے قدموں کو گمراہی ، جھوٹ اور لغزشوں سے محفوظ رکھے اور اس کی نصرت اور تائید ہمارے شامل حال ہو تا ہمارے دل اور ہماری زبانیں اور ہمارے جوارح اور ہماری گفتگو اور ہمارے تمام اعمال بھی اسی کے لئے ہوں.ہمارے ارادے اس کے ارادوں کے ماتحت ہوں.ہمیں سامان بھی میسر آئیں اور ہماری کوششوں میں برکت ہو اور نتائج کے لحاظ سے ماضی سے ہمارا استقبال اعلیٰ اور مکمل ہو جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں.ہر سال اپنے ساتھ نئے کام لاتا ہے اور انسان کو ہر سال ایک نیا نصب العین اپنے لئے مقرر کرنا پڑتا ہے.اس لئے ہمیں بھی اس نئے سال کے لئے ایک نیا نصب العین مقرر کرنا چاہیے.گذشتہ سالوں میں جہاں تک ہم نے اپنے لئے نصب العین مقرر کئے اور جہاں تک ان میں ہمیں کامیابی ہوئی خدا تعالی بہتر جانتا ہے.پچھلے سالوں میں تو میرا یہ طریقہ رہا ہے کہ میں خود کوئی نہ کوئی آئندہ سال کے لئے نصب العین مقرر کرتا تھا.مگر آج میں وہ بات کہتا ہوں جو مجھے کسی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارا رب یہ چاہتا ہے کہ ہم بار بار اور دور دور ملکوں میں خدا تعالیٰ کے بچے اور سلامتی کے دین کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دیں.ہمارے رب نے یہ ارشاد کیا ہے.گو وہ ہمیشہ کے لئے ہے مگر اس کی حکمت یہی چاہتی ہے کہ اس کو اس سال کے لئے ہم اپنا نصب العین مقرر کریں کہ ہم اس کی کچی اور پاک تعلیم کو بار بار دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچا دیں اور کسی انسان سے نہ ڈریں.یہی حکم اس پیدا کرنے والے نے

Page 9

4 ہمیں دیا ہے.شائد اس کے علم میں یہ سال ہماری کامیابیوں کے لئے دوسرے سالوں سے بہت بڑھ کر ہو اور شائد یہ سال پچھلے سال سے اپنی عظمت اور نتائج کے لحاظ سے بہت بڑی شان رکھتا ہو اور ایسے لوگ سلسلہ میں داخل ہوں اور اس طرح داخل ہوں کہ پہلے سالوں میں اس کی نظیر نہ پائی جاتی ہو.مجھے یہ نہیں بتایا گیا کہ اسی سال یوں کرو.یہ میرا استدلال ہے کہ اس سال ہمیں اس کام کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہیے.کیونکہ خدا تعالیٰ کے ارشاد جب دوبارہ نازل ہوتے ہیں تو ان سے مقصد یہی ہوتا ہے کہ یہ امور اس وقت کے لحاظ سے زیادہ قابل توجہ ہیں.اس لئے میں اس سال کے لئے جماعت کا نصب العین تبلیغ تجویز کرتا ہوں اور اپنے تمام ساتھیوں اور دوستوں کو اس کی طرف توجہ دلاتا ہوں تا خدا کے فضل کے ماتحت پوری سعی اور کوشش سے اس کے دین کو دنیا کے کناروں تک پہنچایا جائے اور مجھے جو خدا نے بار بار تبلیغ کی ضرورت کی طرف توجہ دلائی ہے تو اس میں حکمت ہے.ایک شخص ایک دفعہ بات کو نہیں سمجھتا.تو دوسری دفعہ تیسری دفعہ سن کر سمجھ جاتا ہے.کون کہہ سکتا ہے کہ ایک شخص جو سو دفعہ سن کر نہیں سمجھ سکا وہ ایک سو ایک دفعہ سن کر نہیں سمجھے گا یا ایک ہزار دفعہ سن کو وہ ایمان نہیں لایا تو ایک ہزار ایک دفعہ سنانے سے وہ نہیں مانے گا.اس لئے خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم تھکو نہیں.کمزوری اور سستی اپنی طرف سے تم نہ دکھلاؤ.تم نہیں جانتے کہ کون دور افتادہ اور کون در اصل ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہے.اس لئے وہ چاہتا ہے کہ تم کوشش کرو اور وقت پر ہدایت ہم دیں گے.پس ہر ایک کو مبلغ بن کر تبلیغ کی پوری کوشش کرنی چاہیے.خواہ وہ عالم ہو یا غیر پڑھا ہو.جہاں تک بھی اس کو علم ہو اور اسے واقفیت حاصل کرنی چاہیے وہ خدا کی تعلیم اور اس کی ہدایات کو دنیا تک پہنچائے تا خدا کا جلال ظاہر ہو اور لوگ اخلاص سے اس کی بادشاہت کو تسلیم کریں.دنیا دار اپنی نادانی سے دوسرے مشاغل میں محو اور مشغول ہیں اور وہ اپنی نفسانی ہوا و ہوس میں پھنسے ہوئے ہیں ان کو اپنی دینوی ترقی اور جاہ و جلال کی فکر ہے.خدا کرے ہمارے دل میں کوئی فکر ہو تو وہ محض اس کے دین کی اور اس کے آپ کی فکر ہو اور ہمیں توفیق ملے کہ ہم بہتر سے بہتر اور زیادہ سے زیادہ اس کے دین کے لئے کوشش کر سکیں اور ہمیں بار بار اس خدمت کا فخر حاصل ہو.اللھم یا رب.آمین.الفضل ۸ جنوری ۱۹۲۵ء)

Page 10

5 2 مذہب کی اپنے عمل سے عزت کرو (فرموده ۹ جنوری ۱۹۲۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں نے بارہا اپنے دوستوں کو اس امر کی طرف متوجہ کیا ہے کہ مذہب کی غرض اور مذہب کا مقصد ان فوائد اور ان مقاصد کو حاصل کرنا ہے.جن فوائد اور جن مقاصد کے لئے خدا تعالیٰ نے مذہب کو جاری کیا ہے اس کے سوائے مذہب کی اور کوئی غرض نہیں.اگر کسی مذہب کو اختیار کر کے وہ فوائد اور مقاصد حاصل نہ ہوں اور وہ برکتیں جو مذہب کے ذریعے انسان کو ملتی ہیں اگر نہ ملیں تو پھر مذہب کا آنا نہ آنا دونوں باتیں برابر ہیں.میرے نزدیک ایسے شخص کی جو مذہب کو قبول کر کے مذہب کے فوائد سے محروم رہتا ہے.اس کی مثال ایسی ہی ہے جس کو میں نے بارہا بیان کیا ہے کہ ایک شخص جو سخت پیاسا ہے اور پانی بھی اس کے پاس رکھا ہے لیکن وہ اس پانی کو پتا نہیں.وہ شخص جو پیاسا ہے اور پانی پاس ہوتے ہوئے پیتا نہیں اور وہ شخص جو پیاسا تو ہے لیکن اس کے پاس پانی ہی نہیں کہ وہ پی کر اپنی پیاس بجھا سکے.تکلیف اٹھانے میں دونوں برابر ہیں.جس پیاسے کے پاس پانی نہیں وہ تو یہ عذر بھی کر سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ میں کہاں سے پانی لاتا اور پیتا لیکن جس پیاسے کے پاس پانی ہے اور وہ نہیں پیتا اور تکلیف اٹھاتا ہے وہ کوئی عذر نہیں کر سکتا.اس لئے ایسا شخص بہت زیادہ قابل افسوس اور قابل ملامت ہے لیکن پیاس کی تکلیف اس کو بھی ویسی ہی ہو گی.جیسی کہ اس شخص کو جس کے پاس پانی نہیں.ایک نے پانی میسر نہ آنے سے پانی نہ پیا اور تکلیف اٹھائی اور ایک نے پانی کی موجودگی میں پانی نہ پیا اور تکلیف اٹھائی.گو وہ منہ سے کہہ رہا ہے کہ میرے پاس پانی ہے.میرے پاس پانی ہے.اس کی حالت دوسرے سے بہت زیادہ قابل رحم ہے اور لوگ اسی کو قصور وار ٹھہرائیں گے اور ہر شخص اس کو لعن طعن کرے گا کہ تیرے پاس پانی موجود تھا اور تم نے اس سے نفع حاصل

Page 11

نہ کیا.پس جن لوگوں کے پاس سچاند ہب اور سچا دین نہیں وہ اگر خدا کی مرضی کے خلاف چل کر دکھ اٹھاتے ہیں تو بعینہ اسی طرح وہ لوگ بھی دکھ اور تکلیف اٹھاتے ہیں جن کے پاس سچا مذہب اور سچا دین تو ہے لیکن وہ اس پر عمل کر کے اس کے فوائد حاصل نہیں کرتے.بلکہ وہ بہت زیادہ قابل ملامت اور قابل افسوس ہیں کہ وہ بچے دین اور بچے مذہب پر ایمان بھی لاتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے.تکلیف کے لحاظ سے یہ دونوں قسم کے لوگ جن کے پاس سچاند ہب ہے یا جن کے پاس نہیں دونوں برابر ہیں.مگر ملامت کے لحاظ سے وہ شخص جس کے پاس سچا مذ ہب تو ہے مگر وہ اس کے مطابق عمل نہیں کرتا بہت زیادہ ہو گا.کیونکہ ایک صداقت اور سچائی کے ہوتے ہوئے اس نے اپنے آپ کو اس کے فوائد سے محروم رکھا.میں بہت ہی حیران ہوتا ہوں اور مجھے تعجب آتا ہے کہ مسلمان اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ جو کافر ہیں وہ سب جہنم میں جائیں گے اور مسلمان سب جنت میں جائیں گے.میں کہتا ہوں کہ کافر کیوں جنم میں جائیں گے.کیا اس لئے نہیں کہ وہ خدا سے دور ہیں.پھر سوال ہوتا ہے کہ ایک کافر خدا سے دوری کے باعث جہنم میں جائے گا تو ایک مسلمان خدا سے دور رہ کر کیوں جہنم میں نہیں ڈالا جائے گا.خدا سے دوری کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں.اگر فرق ہے تو صرف اتنا ہے کہ ایک کافر تو اسلام کو مانتا ہی نہیں اور ایک مسلمان مانتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے سچا دین ہے.یا کم از کم اس کے سچا دین ہونے کا مقر ہے.مگر محض تسلیم کر لینا کہ فلاں چیز واقعہ میں مفید اور نفع بخش ہے انسان کے لئے مفید اور نفع بخش نہیں ہو سکتی.جب تک کہ اس کو استعمال کر کے اس سے فائدہ اور نفع نہ حاصل کیا جائے.اگر وہ لوگ جو یہ جانتے ہی نہیں کہ کونین بخار میں فائدہ دیتی ہے اور اگر وہ لوگ جو یہ مانتے ہی نہیں کہ فاسفورس دماغ کو طاقت پہنچاتی ہے وہ ان کے فوائد سے محروم رہ کر دکھ اٹھا سکتے ہیں.تو کیا وجہ ہے کہ جن کے پاس کونین اور فاسفورس موجود ہے اور وہ ان کے فوائد سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ کو نین واقعہ میں بخار کو رفع کرتی ہے اور فاسفورس کو وہ استعمال کریں تو ان کو واقعہ میں نفع ہو گا.مگر وہ ان کو استعمال نہ کرنے کی وجہ سے دکھ اور تکلیف نہ اٹھائیں.وہ ضرور دکھ اٹھائیں گے.خواہ وہ زبان سے ان کے فوائد کے قائل ہی کیوں نہ ہوں.اسی طرح دین سے بھی وہی شخص نفع حاصل کر سکتا ہے جو دین پر چلتا بھی ہے.یقیناً ہمارا دل کبھی بھی اس ورثے کے ایمان پر خوش نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے فوائد بھی ہم حاصل نہ کر

Page 12

7 سکیں.اگر وہ یقین اور ایمان جو ایک بچے مذہب کے اختیار کرنے سے حاصل ہوتا ہے وہ ہمیں اس سے حاصل نہیں ہوتا اگر وہ قرب اور معرفت جو ایک بچے مذہب کے اختیار کرنے سے انسان کو حاصل ہوتی ہے.اگر ہمیں وہ قرب اور معرفت حاصل نہیں ہوتی.اگر وہ خوشی اور بشاشت جو ایک بچے مذہب کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے پیاروں کو اس کے قریب ہونے کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے ہم کو بھی وہ خوشی اور بشاشت حاصل نہیں ہوتی.اگر خدا تعالیٰ کا وہ فضل جو کچے مذہب کے ذریعے انسان پر ہوتا ہے اگر ہم پر اس کا وہ فضل نہیں اور اس کے دیدار سے ہم محروم ہیں تو پھر ہمارے اسلام کے قبول کر لینے سے ہمیں کیا فائدہ جب کہ سچائی کے قبول کرنے کے بعد بھی جو انعامات انسان کو ملا کرتے ہیں ان سے ہم محروم کے محروم ہیں.اگر اس کے فضلوں کے ہم اس طرح وارث نہیں ہوتے جس طرح کہ ہم سے پہلے وارث ہوئے.اگر اس کی رحمتیں اور برکتیں اسی طرح ہم پر نازل نہیں ہوتیں جس طرح کہ اس کے پہلے برگزیدوں پر نازل ہوئیں.اگر خدا کی غیرت اسی طرح ہمارے لئے جوش میں نہیں آتی جس طرح کہ وہ ہمیشہ اپنے پیاروں کے لئے غیرت دکھاتا آیا ہے.تو پھر یقینا یقیناً ہمیں کوئی بھی خوشی نہیں ہو سکتی.اسلام اور احمدیت میں داخل ہو کر بھی اگر ہم نے خدا تعالیٰ کی محبت نہ پائی اور اس کے وصل کے شیریں ثمرات ہم نے نہ کاٹے تو ہم نے اپنی زندگی کو دکھ اور مصیبت میں ڈال لیا.میں نے آپ لوگوں کو بارہا توجہ دلائی ہے کہ تم اپنی حالت پر غور کرو کہیں بھی دنیا.پر تمہارا کوئی دوست نہیں.عیسائی ہیں تو وہ تمہارے دشمن ، ہندو ہیں تو وہ سکھ ہیں تو وہ.غرض جس طرف دیکھو سب دشمن ہی دشمن نظر آئیں گے.وہ مسلمان جو اپنے آپ کو محمد رسول اللہ کی طرف منسوب کرتے اور آپ کی محبت کا دم بھرتے ہیں.وہ بھی تمہارے دشمن اور خون الله الي الليل کے پیاسے ہیں.کوئی جماعت دنیا کی اور کوئی قوم تمہاری دوست نہیں.یہ سب ہمارے دشمن کیوں ہیں.محض اس لئے کہ ہم نے ایک سچائی کو قبول کیا اور خدا تعالیٰ کی خالص توحید پر ہم ایمان لائے اور محض اللہ کی رضا کے لئے اس کی باتوں کو ہم نے مانا.اور جو سچائی اس نے ہماری طرف بھیجی اس کو ہم نے اختیار کر لیا.اگر ہم اپنی غفلتوں اور ستیوں سے خدا کو بھی اپنا دشمن بنا لیں تو پھر ہمارا کوئی ٹھکانا نہیں.مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ اللہ کی رضاء جس کے لئے ہمارے اپنے اور بیگانے ہمارے دشمن ہو گئے.جیسا کہ چاہیے ہمیں حاصل نہیں ہوئی.بہت سی کمی ابھی باقی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی ترقی یکلخت حاصل نہیں ہو جاتی بلکہ بتدریج ہوتی ہے.اسی طرح دین میں بھی انسان یکبارگی کامل نہیں بن جاتا.مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جو ایک قدم بھی نہیں چلتا وہ ایک

Page 13

8 قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا.جو ایک قدم چلتا ہے.وہ تو پھر بھی ایک قدم آگے ترقی کرتا ہے لیکن جو کھڑا ہے.وہ ایک قدم بھی منزل طے نہیں کر سکتا.چلنے والا تو آج نہیں کل نہیں تو پرسوں آخر ایک دن منزل محصور ہے.پہنچ جائے گا.بیٹھے رہنے والا جو حرکت ہی نہیں کرتا.وہ اپنے مقصد کو نہیں پا سکتا.بعض امور مذہب اور دین کے اساس ہوتے ہیں اس لئے وہ امور زیادہ قابل توجہ اور قابل لحاظ ہوتے ہیں.نماز بھی ان اساس اور بنیاد دین میں سے ہے.غیر احمدی تو اس بات پر دل میں خوش ہو لیتے ہیں کہ انہوں نے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو مان لیا.عمل کریں یا نہ کریں لیکن ہم نے تو ایک نبی کی صحبت حاصل کی ہے اور اس کا نمونہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے.ہم غیر احمدیوں کی طرح محض ایمان لانے پر خوش نہیں ہو سکتے.لوگ تو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مسلمان پانچ وقتہ نماز کی وجہ سے تجارت وغیرہ کاموں میں کمزور ہو گئے ہیں.اول تو مسلمان پانچ وقتہ نماز پڑھتے ہی کہاں ہیں.مگر میں کہتا ہوں مسلمان ذلیل ہی اس لئے ہوئے ہیں کہ انہوں نے پانچ وقتہ نماز کو ترک کر دیا ہے.دین کا کوئی حکم بھی ایسا نہیں جس پر چل کر انسان نقصان اٹھائے.بلکہ ان پر نہ چلنے سے انسان نقصان اٹھاتا ہے.ایسی ایسی باتیں اگر ہماری جماعت میں بھی پائی جائیں اور وہ نماز جیسی ضروری عبادت کے ادا کرنے میں سنتی اور غفلت دکھائیں تو ہم غیروں کو کیا جواب دے سکتے ہیں.ا اس میں شبہ نہیں کہ ایسی کوئی قوم نہیں گزری جس میں ایسے منافق نہ پائے گئے ہوں.موسیٰ کے وقت میں بھی تھے.ابراہیم اور داؤد اور سلیمان اور حضرت عیسیٰ کے وقت بھی تھے.حضرت عیسی کا وہ حواری جس نے ان کے ساتھ کھانا بھی کھایا.اور پھر دشمنوں سے جا ملا اور چند روپوں پر اپنے نبی اور مرشد کو پکڑوا دیا.پس ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی جماعت میں بھی ایسے منافق پائے جائیں.اس لئے ہمارا کام یہ ہونا چاہیے.کہ ہم ان منافقوں کا مقابلہ کریں.کیا پہلے مومنین اور انبیاء اپنی جماعت کے منافقین کے وجود سے خوش ہوتے تھے کہ فلاں فلاں ہماری جماعت میں منافق ہے.نہیں وہ بھی ان کا مقابلہ کرتے تھے اور ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم ان کا مقابلہ کریں.انہوں نے اگر یہ سمجھ رکھا ہے کہ نماز کے لئے ہم مسجد چل کر جائیں گے تو ہماری تجارت میں نقصان ہو گا تو ہم ان پر ثابت کر دیں کہ جس غرض کے لئے وہ مسجد میں نہیں جاتے اور نماز گھر پر یا دوکان پر ہی پڑھ لیتے ہیں.یا پڑھتے ہی نہیں وہ اس سے دنیا کا فائدہ بھی حاصل نہیں کر سکتے.اسلام بے شک آزادی دیتا ہے مگر اس کو جو اسلام سے علیحدہ ہو کر آزادی چاہتا ہے.مگر جو شخص اسلام میں رہ کر اور اپنے آپ کو ہماری طرف منسوب کر کے بھی اسلامی اصول کی خلاف ورزی

Page 14

کرتا ہے ہم اس کو مجبور کریں گے اور اس کو اسلامی قواعد و اصول کی پابندی کرنی پڑے گی.یا وہ اپنے آپ کو اسلام اور احمدیت کی طرف منسوب نہ کرے.اسکول تعلیم کے لئے بنایا جاتا ہے مگر ہر شخص آزاد ہوتا ہے.چاہے وہ وہاں تعلیم حاصل کرے چاہے نہ کرے.لیکن اگر وہ اسکول میں داخل ہو گیا ہے تو پھر اس کو اسکول کے قواعد کی بھی پابندی کرنی پڑے گی اور وہ پابندی کے لئے مجبور کیا جائے گا.ہاں اسکول سے خارج اور علیحدہ ہو کر وہ آزاد ہو سکتا ہے.مگر اس کو یہ حق نہیں کہ وہ اسکول کا طالب علم ہو کر اسکول کے قواعد کی پابندی نہ کرے.اگر کوئی مسلمان کہلاتا ہے اور یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ نماز روزہ وغیرہ احکام خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں تو پھر اس کو نماز روزے کی پابندی بھی کرنی پڑے گی.اور اگر اس کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ احکام خدا کی طرف سے نہیں تو پھر وہ آزاد ہے.مگر وہ اپنے آپ کو اسلام کی طرف منسوب کر کے پھر وہ اساس دین کی ہتک کرنے کا مجاز نہیں.اسلام کے تمام احکام اپنے اندر.حکمت رکھتے ہیں.خلاف ورزی بھی دو قسم کی ہوتی ہے ایک پوشیدہ اور ایک علی الاعلان - انسان سے کمزوریاں بھی ظاہر ہوتی ہیں اور وہ غلطی بھی کر بیٹھتا ہے.مگر جو شخص علی الاعلان خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے وہ سخت مجرم ہوتا ہے.میرے نزدیک وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس کو سزا دی جائے اور اس پر ثابت کیا جائے کہ وہ مذہب کی ہتک کر کے دنیاوی فوائد حاصل نہیں کر سکتا.گو خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں ایسے لوگ کم ہیں.مگر مثل ہے کہ ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے.ہماری جماعت کی کتنی بھی نیکیاں ہوں مگر دشمن ان کو نہیں دیکھے گا.بدی ایک بھی ہو تو وہ فوراً اس کو دیکھ لے گا.ہماری جماعت کے ہزار عمل کرنے والے کو تو دشمن کی آنکھ نہیں دیکھے گی.لیکن اگر ہم میں کوئی ایک شخص ذرا بدی کرے گا.تو اس کو ان کی آنکھ فوراً تاڑ لے گی.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے لاکھوں جانثاروں کو تو نہیں دیکھیں گے مگر ایک عبدالحکیم ان کو فوراً نظر آجاتا ہے.دشمن خوبی کو کبھی نہیں دیکھتا اس کی نظر عیوب پر ہوتی ہے.جس وقت بھی وہ کوئی عیب دیکھے گا.فوراً پکڑے گا.اس لئے میں پھر اپنی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ اسلام کسی رنگ میں اور کسی حال میں بھی ہمارے لئے مضر نہیں بلکہ اس کی ہر ایک بات ہمارے لئے مفید اور بابرکت ہے.اس لئے ایک شخص بھی تم میں ایسا نہ ہونا چاہیے جو اسلام کے کسی حکم کی بھی ہتک کرنے والا ہو.دنیا کی تاریخ میں ایک بھی ایسی مثال نہیں پائی جاتی کہ جو خدا تعالیٰ کے حکموں کی ہتک کر کے پھر کامیاب ہو گیا ہو.اللہ

Page 15

10 تعالی ہمیں توفیق دے کر ہم اپنے سارے کاموں کو اس کے حکموں کے مطابق بنائیں.تا ہم اس کے فضلوں کے مستحق ٹھہر ہیں.وہ ہمارا مددگار اور ناصر ہو.ہمارے دل اس کے ساتھ ہوں اور اس کی نظر ہم پر ہو اور اس کی رحمتیں اور برکتیں ہم پر نازل ہوں.آمین الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۲۵ء)

Page 16

11 3 جذبات اور عقل دونوں سے کام لینا چاہیے (فرموده ۱۶ جنوری ۱۹۲۵ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : دنیا میں دو قسم کی چیزیں ہمارے دیکھنے میں آتی ہیں جو کہ انسان کے اعمال اور اس کے کاموں میں بہت زیادہ تصرف رکھتی ہیں.جو بھی دنیا میں انسان کام کرتا ہے.صرف انہیں دو چیزوں کے تصرف کے ماتحت کرتا ہے.ایک تو انسان کی عقل ہے جس کے ماتحت وہ کام کرتا ہے اور دوسری چیز اس کے جذبات ہیں جن کے ماتحت وہ دنیا میں کاروبار کرتا ہے.بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کی عقل اور اس کے جذبات دونوں مل کر کام کرتے ہیں اور بہت دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ دونوں مل کر کام نہیں کرتے.جس وقت تو انسان کی عقل اور اس کے جذبات مل کر کام کرتے ہیں تب تو انسان نتیجہ میں خوش ہوتا اور راحت پاتا ہے اور اس کو کوئی رنج اور دکھ نہیں ہوتا لیکن جس وقت انسان کے جذبات اس کو اور طرف لے جاتے ہیں اور اس کی عقل اس کو اور طرف کھینچتی ہے اس وقت انسان دکھ اٹھاتا اور تکلیف پاتا ہے.ایسے وقت میں بھی پھر دو کیفیتیں پیدا ہو جاتی ہیں.یا تو انسان کے جذبات غالب آجاتے ہیں اور عقل دب جاتی ہے اور یا عقل ایسی غالب آجاتی ہے کہ جذبات بالکل دب جاتے ہیں اور یہ دونوں حالتیں تکلیف دہ ہیں.ایک تو وقتی اثر کے لحاظ سے اور ایک دائمی اثرات کے لحاظ سے.جو کام کہ محض جذبات کے ماتحت کئے جاتے ہیں اور عقل بالکل مغلوب ہو کر دب جاتی ہے ان کا نتیجہ تو بعد میں جا کر تکلیف دہ نکلتا ہے.اور جو کام کہ ایسی کیفیت کے ماتحت کئے جاتے ہیں جس میں عقل غالب آجاتی ہے اور جذبات بالکل دب جاتے ہیں تو یہ کیفیت موجودہ حالات کے ماتحت بہت مضر ہوتی ہے.کیونکہ ایسا شخص لوگوں کی نظروں میں سخت گھناؤنی صورت والا نظر آنے لگتا ہے.حالانکہ وہ عقل

Page 17

12 کے ماتحت کام کر رہا ہوتا ہے اور لوگ اس کو سنگدل اور قسی القلب کہتے ہیں حالانکہ وہ رحم کر رہا ہوتا ہے اور یہ نہیں کہ ایسا کام کرتے ہوئے اس کو کوئی دکھ نہیں ہوتا وہ خود بھی دکھ اٹھاتا ہے یا کم از کم اس کا دل اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے.ان دو کیفیتوں کے علاوہ ایک طبعی حالت یہ بھی ہے کہ انسان کے جذبات اور اس کی عقل دونوں ایک ہی وقت کام کرتے ہیں.یہ احساسات اور جذبات بلا وجہ نہیں پیدا کئے گئے بلکہ یہ مادہ بہت سی نیکیوں کے لئے ممد اور معاون ہو جاتا ہے اور بہت سے نیک کام انہی کے اثر کے ماتحت انسان کو کرنے کی توفیق مل جاتی ہے.بعض نیک کام ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں سوچ کرنے کا موقع ہی نہیں ہو تا.اگر اس وقت انسان سوچنے لگے تو نقصان ہوتا ہے اور بعض اوقات انسان خود سوچ بھی نہیں سکتا.محض جذبات اور احساسات کی وجہ سے نیکی کر لیتا ہے.مثلاً ایک شخص جو مظلوم ہے کوئی دوسرا اس کو مار رہا ہے اس پر ظلم کر رہا ہے.تو پچانویں فیصد ایسے ہوں گے جو ظالم کے ہاتھ کو روکیں گے اور اس کو برا کہیں گے اور مظلوم کی طرف داری اور اس کی مدد کریں گے مگر یہ نیکی اور یہ ہمدردی کسی عقل اور فکر کا نتیجہ نہیں.کیونکہ ہو سکتا ہے کہ تحقیق کے بعد وہی ظالم ثابت ہو جس کو وہ مظلوم سمجھ کر اس کی طرفداری کر رہا تھا.اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہی مظلوم ثابت ہو مگر اس سے پہلے وہ اس بات پر غور نہیں کرتا کہ حق کس کی طرف ہے اور کسی کی طرف نہیں اور داد رسی کا کون مستحق ہے.یہ یا وہ.بلکہ اس کے جذبات اور اس کے احساسات خود بخود اس کو کھینچ کر مظلوم کی داد رسی کے لئے اس کو آمادہ کر دیتے ہیں.اس لئے بسا اوقات یہ احساسات جہاں پر انسان سے بلا سوچے ایک نیکی کا کام کرا دیتے ہیں وہاں پر بعض اوقات ان کے اثر کے ماتحت انسان غلطی بھی کر بیٹھتا ہے.بعض وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص چور کو پکڑنے کے لئے دوڑا جا رہا ہوتا ہے وہ غلطی سے اس کی کمر پکڑ لیتا ہے اور اصل چور ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور اگر اس وقت سوچنے لگتا کہ وہ کس کو پکڑے تو دو چار منٹ اس کے لئے درکار تھے جس سے موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے.غرض ایسی حالت میں دونوں صورتیں نقصان دہ ہیں اور ہو سکتا ہے کہ محض جذبات یا محض عقل اس کو کسی نیکی کی طرف لے جائیں یا کسی غلطی کی طرف لے جائیں.لیکن جو عقل اور جذبات دونوں سے کام لیتا ہے.وہ ٹھوکر سے بچ جاتا ہے.مثلاً اگر وہ آگے بھاگنے والے کے پیچھے دوڑے اور پہلے اس کو پکڑ لے تو نقصان بھی نہیں ہو گا.کیونکہ چور پکڑا جائے گا اور اس کی حمایت کا جذبہ بھی پورا ہو جائے گا.یا مثلاً ایک شخص دوسرے کو مار رہا ہے.ہو سکتا ہے کہ وہ حق رکھتا ہو اور مظلوم ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے وہ ظالم ہو مگر ظاہری حالات

Page 18

13 کے ماتحت انسانی جذبات اس کو مار کھانے والے کی امداد کے لئے آمادہ کر دیں گے.ایسی حالت میں اگر عقل کے ماتحت اپنے جذبے کو وہ اس رنگ میں پورا کرے کہ مارنے والے کے ہاتھ کو پکڑلے یا اس کو روک دے تو اس کا جذبہ بھی پورا ہو جاتا ہے اور نقصان بھی کوئی نہیں ہوتا.غرض ان جذبات اور عقل انسانی سے تین باتیں پیدا ہوتی ہیں.بعض وقت تو جو کام انسان محض عقل یا جذبات کے ماتحت کرتا ہے وہ صحیح ہوتے ہیں اور بعض وقت غلط اور بعض اوقات مقابلہ میں ایک کا دوسرے کے خلاف صحیح یا غلط نتیجہ ہوتا ہے.اگر عقل کے مطابق کام لیا جائے تو جذبات کے خلاف ہوتا ہے.یا جذبات کے ماتحت کیا جائے تو عقل کے خلاف ہوتا ہے.بعض وقت انسان جذبات کو دبا کر محض عقل کے ماتحت کام کرتا ہے تو سخت سنگدل نظر آتا ہے.اور بعض اوقات جذبات غالب ہو کر عقل کو دبا لیتے ہیں وہ بھی خطرناک ہوتا ہے.پس ایک مومن کا ایمان جس طرح اپنے ساتھ خوف اور رجاء رکھتا ہے.اسی طرح نہ تو اس کو ایسا رویہ اختیار کرنا چاہیے.کہ جس سے اس کے احساسات اور جذبات بالکل مٹ جائیں اور نہ ہی ایسا کہ اس کی عقل بالکل اس کے جذبات کے نیچے دب جائے.جیسے رسول اللہ کا اسوہ حسنہ الليل ہمارے لئے موجود ہے آپ پر غم بھی آئے اور خوشی بھی.اگر مامعنی پر غم کرنا چاہیے یا جو ہو چکا.اس پر غم کھانا نادانی ہے.اس خیال سے کہ جو ہو چکا سو ہو چکا اس پر غم کیا کرنا تو آنحضرت کبھی غم یا خوشی نہ کرتے.چنانچہ عقلی طور پر جنہوں نے اس بارہ میں سوچا ان میں سے ایک گروہ نے تو یہ یقین کر لیا کہ ہر ایک کام اور ہر ایک فعل جو دنیا میں ہو رہا ہے.وہ نقصان پہنچا رہا ہے.اس لئے انہوں نے اس خیال کے ماتحت ہر ایک خوشی کے جذبے کو مٹا دیا ہے اور اس کی جگہ رنج ہی رنج اختیار کر لیا ہے.اسی خیال کے ایک فلاسفر کو کسی نے اس کے گھر بیٹا پیدا ہونے کی خبردی.کہنے لگا بڑی صیبت سر پر آپڑی پہلے تو ہم دونوں ہی تھے اب تیرے بیٹے کے کھانے پہننے کی فکر بھی ساتھ لگ گئی یہ بیمار ہو گا تو اہم الگ دکھ اٹھائیں گے.مرے گا تو پھر اور صدمہ اٹھانا پڑے گا ہم تو دکھ اور مصیبت میں پڑ گئے.اس لئے وہ پہلے سے ہی اس غم میں رونے لگ گیا.ایسے لوگوں کو اگر مال حاصل ہو جائے تو پھر مال کی حفاظت کا غم کرتے ہیں.جب تک مال نہیں تھا تو مال نہ ہونے کا غم اور جب مال مل گیا تو مال کی حفاظت کا غم اور پھر جب چور لے گیا تو پھر مال کے چوری چلے جانے کا غم.غرض اس گروہ نے جو سمجھا وہ یہی کہ دنیا میں تو غم ہی غم ہے خوشی بالکل نہیں.اور دوسرے گروہ نے جو

Page 19

14 عقلی طور پر سوچا تو انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ دنیا میں خوشی ہی خوشی ہے اور انسان کو ہر بات میں لذت اور سرور حاصل کرنا چاہیے اور کسی غم اور رنج کو دل میں جگہ نہ دینی چاہیے بلکہ ہر بات پر ہنستا چاہیے.چنانچہ ان لوگوں کے نزدیک جو شخص مرجاتا ہے وہ گویا روز کے دکھوں سے نجات پا جاتا ہے.کیونکہ زندگی میں کہیں وہ بیمار ہوتا ہے.اس کو دکھ ہوتا ہے کہیں علم حاصل کرنے کی اسے فکر ہوتی ہے کہیں عزت حاصل کرنے کی.کہیں اپنی کہیں بیوی بچوں کی.لیکن جب مرجاتا ہے تو ان ہزار ہا غموں اور فکروں سے اسے نجات ہو جاتی ہے اس لئے ان کے نزدیک موت سے غم نہیں کرنا چاہیے.بلکہ یہ موقع خوشی منانے کا ہوتا ہے.اسی خیال کے لوگ ٹھگ کہلاتے ہیں.اب تو ان لوگوں کی غرض اور ہو گئی ہے لیکن پہلے یہ بالکل مذہبی فرقہ ہوتا تھا اور ان کے نزدیک یہ زندگی ایک بڑی بھاری مصیبت کے مترادف ہوتی تھی.اس لئے وہ عقیدہ رکھتے تھے کہ جو کسی کو مار ڈالتا ہے وہ اس پر بڑا احسان کرتا ہے.کیونکہ مرنے کے ساتھ ہی ہزار ہا دکھوں سے جن میں وہ مبتلا تھا نجات پا گیا.اس لئے وہ لوگوں کو قتل کرنے میں بڑا ثواب اور نیکی خیال کرتے تھے اور اس کام کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کرتے تھے.ان کو مال کی کوئی طمع نہ ہوتی تھی مقتول کے مال کو ہاتھ تک نہ لگاتے تھے اور ان کو یہی یقین ہو تا تھا کہ ہم نے ایک آدمی کو قتل کر کے ایک قیدی کو آزاد کر دیا.جیب میں پھانسی کے لئے ایک ری رکھتے تھے.جس کسی کو اکیلے پایا پھانسی ڈالی اور مار ڈالا.اور پھر سمجھتے تھے کہ ہم نے بڑا کام کیا اب اللہ ہم پر راضی ہو گیا.یہ سنگدلی اور یہ خونخواری اسی خیال کا نتیجہ ہے کہ دنیا میں ہر ایک چیز غم اور دکھ کا باعث ہے یہ لوگ ڈاکٹروں اور طبیبوں پر جو مریضوں کا علاج کرتے تھے خوش نہ ہوتے تھے.کیونکہ ان کے نزدیک ڈاکٹر اور حکیم مرض کا علاج کر کے مریض کے دکھوں کے زمانے کو اور بڑھا دیتے ہیں.تندرست ہو کر پھر کبھی وہ بیمار پڑتا ہے.کہیں اس کو نوکری کی فکر ہوتی ہے.کہیں پڑھنے کی اور کہیں پڑہانے کی.حالانکہ افضل کام یہ تھا کہ اس کو کوئی ایسی چیز دیتے جس سے وہ فوراً رخصت ہو جاتا اور اس کی پُر درد زندگی کا خاتمہ ہو جاتا.اس لئے وہ اپنی زندگیوں کو لوگوں کے قتل کے لئے وقف کرتے تھے اور اس کام کے کرنے کے لئے اپنے آپ کو وہ خطرے اور ہلاکت میں بھی ڈال لیتے تھے.تو اس قسم کے خیالات سے مختلف جماعتیں ہوئی ہیں.بعض نے تو محض غم کے جذبے کو بڑھایا اور بعض نے محض خوشی کے جذبے کو ترقی دی.کسی نے بھی اپنے احساسات کو طبعی مقام نہیں دیا.بعض تو عقل کے پیچھے چلے.تو انہوں نے غم کو اصلی قرار دیا.اور بعض عقل کے پیچھے چلے تو انہوں نے خوشی کو اصل

Page 20

15 چیز قرار دیا اور ان کی زندگی جانوروں اور درندوں کی طرح ہو گئی.اس کے مقابلہ میں آنحضرت ا کو دیکھو.وہاں عقل بھی ہے خوشی بھی ہے اور رنج بھی.سب باتیں ایک جگہ جمع ہیں.کیونکہ آنحضرت ﷺ نے عقل اور جذبات.خوشی اور غمی کو ان کا طبعی مقام دیا ہوا تھا جس کی وجہ سے کوئی قباحت نہیں پیدا ہوتی تھی.پس جس جگہ جذبات محبت، آشتی اور ہمدردی کے بڑھانے کا موجب ہوں وہاں جذبات کو کام میں لاؤ اور جہاں عقل سے محبت اور تعلقات بڑھتے ہوں وہاں عقل کو کام میں لاؤ.مثلاً ایک شخص جو کسی دوسرے کو مار رہا ہے تم اس کو اپنے جذبات کے ماتحت مارنے کی بجائے اس کو صبر کی تلقین کرو اور اس کے ہاتھ کو روک دو کیونکہ ہو سکتا ہے مارنے والا ہی حق پر ہو.ان دونوں کی محبت میں تو فرق پڑہی چکا تھا.اگر اس وقت تم جذبات کے ماتحت اس کو مارو تو تمہارے ساتھ بھی اس کے تعلقات میں فرق پڑ جائے گا.لیکن جذبات کو دبا کر عقل سے کام لینے اور مارنے والے کو صبر کی تلقین کرنے اور اس کے ہاتھ کو روکنے سے یہ نقص نہیں پیدا ہوتا.بلکہ اس وقت عقل سے کام لینے سے تعلقات کے بڑھنے کی زیادہ امید ہے.اور جس جگہ جذبات سے کام لینے میں نقصان ہو اور عقل سے کام لینے میں فائدہ ہو وہاں جذبات کو فوراً دیا دو اور ان کی قطعاً پرواہ مت کرو.شریعت میں سزائیں رکھی ہیں کہ چور کا ہاتھ کاٹا جائے اور قاتل کو قتل کیا جائے.اب جذبات کہتے ہیں کہ اس بیچارے کا ہاتھ نہ کاٹا جائے.اور مقتول تو مر گیا وہ تو زندہ نہیں ہو سکتا.اب اس قاتل کے مارنے میں کیا فائدہ ان کو سزائیں دینے کے وقت دل میں رحم پیدا ہوتا ہے اور جذبات اپنا اثر ڈالتے ہیں لیکن عقل کہتی ہے کہ چور کو سزا نہ دی جائے تو لوگوں کے مال اور اس کی وجہ سے جانیں بھی خطرہ میں پڑ جائیں گی وہ چور بھی اس عادت میں زیادہ ترقی کرے گا اور اس کے اس بد نمونہ کے اور بھی بہت سے لوگ اس عادت کے پیدا ہو جائیں گے اور دنیا کا امن برباد ہو جائے گا.اور اگر تم قاتل کو قتل نہیں کرتے تو کل کو وہ کوئی اور جان ضائع کرے گا.کیونکہ بھیڑیے کے منہ میں خون لگ گیا ہے اس لئے اس کی وجہ سے باقی انسان بھی خطرے میں ہیں.یہاں پر مقتول کے زندہ ہونے نہ ہونے کا سوال نہیں بلکہ دوسرے لوگوں کی زندگیوں کی حفاظت کا سوال ہے.کیونکہ جس نے مشرق کی طرف قدم بڑھایا اس کا دوسرا قدم بھی مشرق کی طرف جائے گا اور جس نے مغرب کی طرف پہلا قدم بڑھایا دوسرا بھی مغرب ہی کی طرف جائے گا.اس لیئے اگر تم قاتل کو نہیں قتل کرو گے تو زیادہ تر امکان یہی ہے کہ اس کا دو سرا قدم بھی یہی ہو گا کہ وہ کسی اور کو قتل کر دے گا.ہاں اگر غلطی اور نادانی سے اس سے کوئی

Page 21

16 آدمی مارا گیا ہے تو بے شک اس کو قتل نہ کیا جائے.اسی طرح ان کے علاوہ بعض اور حالات ایسے ہوتے ہیں کہ جہاں جذبات کا اظہار سخت تکلیف دہ ہو جاتا ہے.جیسا کہ جنگی موقعوں پر اگر مُردوں کو نہلایا کفنایا جائے تو بہت بڑے خطرے ہیں.یکدم بیسیوں آدمی مر جاتے ہیں.اگر لوگ ان کے کفن اور نہلانے وغیرہ میں لگ جائیں تو بیسیوں زخمی جو خبر گیری سے بچ سکتے ہیں یا ان کی تکلیف کم ہو سکتی ہے وہ بھی سخت تکلیف کے ساتھ جان دیدیں اور پھر خطرہ ہے کہ دشمن یہ مصروفیت دیکھ کر حملہ کر دے تو جان اور ملک دونوں کا نتسان ہو.چونکہ اس وقت جذبات کا اظہار مُردوں کو کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا بلکہ بر خلاف اس کے زندوں کا اس میں سخت نقصان ہے.اس لئے ایسے موقع پر جذبات کو دبانا ہی ضروری ہے.گو انسانی جذبات یہ چاہتے ہیں کہ مرنے والوں کا اعزاز اور اکرام ہو اور عمدگی کے ساتھ نہلا دھلا کر اور کفن دیگر دفنایا جائے.مگر عقل کہتی ہے کہ اس میں مردوں کا تو کئی فائدہ نہیں مگر ملک کا اور زندوں کا سخت نقصان ہے.اس لئے شریعت کا یہ حکم ہے کہ وہ جس حالت میں ہیں ان کو دفن کر دو.الگ الگ قبر بنانے کی بھی ضرورت نہیں.بظاہر یہ بات طبیعت پر بہت گراں گزرتی ہے.لیکن اگر انسان سوچے تو حقیقت کچھ نہیں.کیونکہ مردے کو نہلانا یا کفن پہنانا ایک عارضی صفائی ہوتی ہے.چند دنوں کے بعد سب کچھ مٹی ہو جاتا ہے.قبر درمیان میں ایک پردہ ہوتا ہے.جس کی وجہ سے مردہ کی بعد کی حالت نظر سے مخفی رہتی ہے.یہ صرف جذبات ہیں جو ان امور کی طرف انسان کو جھکا دیتے ہیں.چونکہ انسان ایک شخص کو دیکھتا ہے کہ وہ عمدہ لباس پہنتا ہے اور روزانہ صفائی رکھتا ہے.گرمیوں میں سرد اور سردیوں میں گرم کپڑے پہنتا ہے.اور وہ اس کی ہر طرح عزت و احترام کرتا ہے.اس کے مرنے پر اس کے جذبات یکدم ان حالات کے خلاف نظارے کو برداشت نہیں کر سکتے س لئے عام حالات کے ماتحت شریعت نے انسان کے جذبات کو ٹھکرایا بھی نہیں تاکہ طبیعت قساوت ہی نہ اختیار کرلے.بلکہ مردے کی صفائی کفن دفن اور احترام کا حکم دیا ہے.اس خیال سے کہ جو بعد میں ہونے والا ہے وہ تو تمہاری نظروں سے پوشیدہ ہے.کیونکہ مختلف موسموں اور وقتوں کے لحاظ سے مردے میں کیڑے پڑ جاتے ہیں اور زمین کا شور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے.مگر اس کا اثر جذبات پر نہیں ہو تا.انسان صرف قبر ہی دیکھتا ہے اور وہی کیفیت اور وہی نظارہ اس کی آنکھوں کے سامنے رہتا ہے جو دفنانے کے وقت اس کے سامنے تھا.پس جس وقت جذبات کے اظہار سے حقیقی نقصان پہنچتا ہو تو اس وقت جذبات کا اظہار ہر گز نہ کرنا چاہیے.

Page 22

17 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی طاعون کی اموات کے متعلق فرمایا ہے کہ ایسی میتوں کو بغیر غسل اور کفن کے دفن کر دیا جائے اور جنازہ بھی فاصلہ پر کھڑے ہو کر ادا کیا جائے.اس میں کوئی شک نہیں کہ بظاہر طبیعت پر یہ بات بہت گراں گزرتی ہے لیکن اگر ہم غور کریں اور سوچیں تو عقلاً یہ بات اس قدر ضروری ہے کہ اس کے خلاف کرنا سخت نادانی اور جہالت ہے.ہمارے نہلا دینے سے یا جنازے کے قریب ہونے سے میت کو کیا فائدہ وہ زندہ تو ہو نہیں سکتا.اب اگر اس میں عملی حصہ لے کر چار یا پانچ یا دس آدمی جو زندہ ہیں موت کے منہ میں چلے جائیں تو یہ کوئی عقلمندی نہیں.جب تک تو ایک شخص بیمار ہے اس کے بچنے کی امید ہو سکتی ہے.ایسی حالت میں تو ضروری احتیاطوں کے ماتحت اگر دس آدمی بھی اس ایک کی خبر گیری اور جان بچانے کے لئے موت کے منہ میں پڑ جائیں تو کوئی حرج نہیں.بلکہ ضروری ہے کہ وہ ایثار دکھلائیں.مثلاً اگر کوئی شخص ڈوب رہا ہے تو اس ایک جان کو بچانے کے لئے دس آدمی بھی اپنے آپ کو خطرے میں ڈال دیں تو جائز بلکہ ضروری ہو گا.خواہ ڈوبنے والا بھی بعد میں جانبر نہ ہو سکے بلکہ دس میں سے پانچ نکالنے والے بھی چاہے ڈوب جائیں.لیکن اگر ایک میت پانی پر تیر رہی ہو تو اس کو نکالنے کے لئے ایک آدمی کا بھی اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنا جائز نہیں ہو گا بلکہ بیوقوفی ہو گی.بہت سے مقامات پر جذبات دبانے پڑتے ہیں.کیونکہ ان کے اظہار کی بھی غرض تو یہی ہوتی ہے کہ آپس کے تعلقات قائم ہوں اور محبت بڑھے.اور ڈوبنے والا یا بیمار زندہ رہے لیکن اگر جذبات ان مقاصد میں روک ہوں اور جس غرض کے لئے جذبات کا اظہار ضروری ہوتا ہے وہ غرض پوری نہ ہوتی ہو تو پھر ان کو دبانا ہی ضروری ہوتا ہے.جذبات تو محبت آشتی اور تعلقات کے بڑھانے اور زندگی کے قیام کے لئے بطور خادم ہوتے ہیں.لیکن اگر وہ بجائے زندگی کے قیام کے ہلاکت کا موجب ہوں تو ان کو دبا دینا ہی ضروری ہوتا ہے.ورنہ اس وقت اس کا مفہوم ایسا ہی ہو گا جیسا کہ کسی کا کوئی عزیز مرجائے اور وہ تلوار یا خنجر سے اپنے آپ کو قتل کر ڈالے.پس جو شخص ایسی میت پر جو طاعون کا شکار ہو چکی ہے ضروری احتیاط نہیں کرتا وہ طبعی طور پر اپنے آپ کو خنجر سے ہلاک کرتا ہے.کیونکہ طاعون کا کیڑا خنجر سے کم نہیں.فرق اتنا ہے کہ خنجر نظر آتا ہے.اور وہ نظر نہیں آتا.میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سنا ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی عورت بچہ جننے کے وقت جب کہ یہ ثابت ہو جائے کہ اب مرد ڈاکٹر کے ذریعہ بچہ جنوانے کے بغیر وہ مرجائے گی لیکن وہ شرم کرتی ہے تو وہ میرے نزدیک خود کشی کا ارتکاب

Page 23

18 کرتی ہے.لوگ تو کہیں گے کہ وہ بڑی عصمت والی بی بی تھی کہ اس نے مرنا منظور کر لیا مگر مرد کے سامنے نہ ہوئی.مگر خدا کا رسول کہتا ہے کہ اگر اس وقت جب کہ کوئی عورت جنوانے والی نہیں ملتی اور مرد ملتا ہے اور اس سے وہ پردہ کرتی ہے اور پھر وہ مرجاتی ہے تو وہ خود کشی کی موت مرتی ہے.ایک حد تک جذبات سے کام لینا اور ان کا اظہار ضروری بھی ہوتا ہے بشرطیکہ ان کے اظہار میں نقصان نہ ہو.لیکن نقصان کی صورت میں جو ان کو دباتا نہیں اور عقل کے دائرہ کو ختم کر دیتا ہے.وہ سخت غلطی کرتا ہے.مجھے اس خطبہ کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ایک دوست نے مجھے رقعہ دیا ہے کہ میرے گھر میں میت ہوئی اور لوگوں میں بہت نفرت پائی گئی اور جنازہ بھی بہت دور کھڑے ہو کر پڑھا گیا.میرے نزدیک یہ رقعہ محض جذبات کے ماتحت لکھا گیا ہے.عقل اور فہم کا اس میں کچھ دخل نہیں.اگر واقعہ میں طاعون نہ بھی ہو جیسا کہ انہوں نے رقعہ میں لکھا ہے اور بعض ڈاکٹروں نے بھی کہا ہے.گو میرے نزدیک تو طاعون ہی تھی.ایک ڈاکٹر نے بھی میرے سامنے اس کے متعلق ذکر کیا اور میں نے تردید کی اور مجھے یقین ہے کہ اس کو طاعون کے سوا کوئی اور مرض نہ تھا.جس قسم کے حالات انہوں نے بیان کئے ہیں وہ طاعون پر ہی دلالت کرتے ہیں کیونکہ طاعون کے کیڑے مشابہ امراض میں بھی داخل ہو جاتے ہیں.وزیر آباد کا ایک رئیس باغ سے پھول توڑنے لگا اور اس کی انگلی میں کانٹا چبھ گیا اور اسی سے وہ مر گیا.تمام ڈاکٹروں نے یہی رائے دی کہ طاعون کا زہر اس زخم کے راستہ سے سرایت کر گیا تھا.تو وبائی امراض بسا اوقات مشابه شکل اختیار کر لیتی ہیں.خصوصاً ایسی مہلک مرض کہ جس سے انسان ترت پھرت مرجائے.اس میں تو اس مرض کے وبائی ہونے میں شبہ ہونے کی بھی گنجائش نہیں ہوتی بعض حالات میں شبہ ہوتا ہے ایسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ شبہ درست ہو اور ممکن ہے کہ غلط ہو.اگر شبہ کی صورت میں بھی کوئی دوست احتیاط کریں تو طبی طور پر اور شرعی طور پر بھی ان کو اختیار ہے.ہاں جب تک تو کوئی بیمار ہے اس وقت تک تو یہ ضروری بلکہ فرض ہے کہ مریض کی پوری طرح خبر گیری کی جائے اور جہاں تک ممکن ہو احتیاط کا پہلو بھی برتا جائے.اگر کوئی ڈاکٹر مریض کو دیکھنے سے انکار کرتا ہے تو وہ سخت غلطی کرتا ہے.کیونکہ اس نے ذمہ داری لی ہے کہ میں مریضوں کو دیکھوں گا اور ان کا علاج کروں گا.اس لئے جتنا بھی قریب سے قریب ہو کر بیمار کے علاج کے لئے مفید سمجھتا ہے.وہ قریب ہو کر علاج کرے ہاں وہ احتیاط کرے.مثلاً ننگے

Page 24

19 حصوں پر ایسی دوائیں لگائے جن کو وہ سمجھتا ہے کہ طاعونی اثر کو زائل کرنے والی ہیں یا ایسی دواؤں سے دھوئے اور اعضاء کو صاف کرے جن کے ساتھ صاف کرنے سے کیڑوں سے جان بچ سکتی ہے.اگر وہ ایسے مریضوں کو نہیں دیکھتا اور ان کے علاج میں غفلت کرتا ہے تو وہ اپنے فرض منصبی کو ادا نہیں کرتا.لیکن اگر کوئی مریض اس مرض سے مرجاتا ہے یا کسی کو اس کے متعلق اس مرض کا شبہ بھی ہے اور وہ احتیاط کرتا ہے تو اس کو اس احتیاط سے روکنا غلطی ہے.کئی ایسے کمزور دل ہوتے ہیں جو محض وہم سے ہی مرجاتے ہیں.ایسے لوگوں کو زور دے کر آگے کرنا ان کو محمد آموت کے منہ میں ڈالنا ہے.میری اپنی یہ حالت ہے کہ میں جس بیمار کو دیکھوں وہی بیماری مجھے ہو جاتی ہے.اس تکلیف اور صدمہ کو میری طبیعت برداشت نہیں کر سکتی.دل کی کمزوری بھی ایک بیماری ہے بعض آدمی کسی کا آپریشن ہوتا دیکھ لیں تو وہ بے ہوش ہو جاتے ہیں.اب ایسے شخص کو اگر مجبور کیا جائے تو سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ بھی مر جائے گا.اس لئے اگر کسی نے دل میں وہم بھی ہے تو ہمیں ان کے وہم کا بھی لحاظ رکھنا پڑے گا.بہت باتیں اعصاب سے تعلق رکھتی ہیں لیکن نتائج ان کے ظاہر ہوتے ہیں.جذبات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے.مگر اس وقت تک جب کہ عقل روک اور مانع نہ ہو.اس لئے مناسب احتیاط کے ساتھ میت کو دفن کر دینا گلنے سڑنے اور جانوروں سے بچانا ایسی ذمہ داری اگر انسان ادا کر دے تو پھر قطع تعلقات کا خطرہ نہیں رہتا.ورنہ جب لوگ اس قسم کا نظارہ دیکھیں گے.تو وہ پھر زندوں کی فکر کی بھی کچھ ضرورت نہ سمجھیں گے.اس لئے جس حد تک تو جذبات تعلقات کے قیام کا موجب ہو سکتے ہیں عقل کے مطابق ان کا اظہار ضروری ہوتا ہے.ورنہ ان کو دبا دنیا ہی ضروری ہوتا ہے.ہماری جماعت کو دونوں پہلوؤں پر پورے طور پر کامل اور مکمل ہونا چاہیے.بیمار اور زندوں کے حق میں ہمیں ایسے ایثار اور قربانی سے کام لینا چاہیے.کہ ایک جان کے بچانے کے لئے پانچ یا چھ اور جانیں بھی خطرہ میں پڑ جائیں تو کچھ پرواہ نہ کرنی چاہیے.ہاں جو ظاہر آداب اور احتیاطیں ایسے مریض کی تیمارداری کی ہیں عقل یہ نہیں کہتی کہ ان کو اپنے جذبات کے استعمال کے وقت کام میں نہ لاؤ پھر میں اپنے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کو محبت اخلاص اور ہمدردی کو بڑھانا چاہیے اور ایک دوسرے کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں.اور اگر کوئی بھائی قضا الہی سے کسی تکلیف میں مبتلا ہو جائے تو اس کی پوری پوری ہمدردی کریں بعض ایسے بھی مصیبت زدہ ہوتے ہیں

Page 25

20 کہ ان کا کوئی بھی خبر گیر نہیں ہو تا.حضرت مسیح موعود کا ایک شعر ہے.بے خدا کوئی بھی ساتھی نہیں تکلیف کے وقت ہے اپنا سایہ بھی اندھیرے میں جدا ہوتا پس خصوصیت کے ساتھ مصیبت اور تکلیف کے وقت عقل اور فہم کے مطابق اپنے بھائی کی تکلیف کے رفع کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے.ہمدردی ایثار اور محبت کا قابل قدر نمونہ دکھانا چاہیے تا جذبات کے اظہار کا اصل مقصد حاصل ہو اور تعلقات قائم ہوں.اور حقیقی دوستی یہ نہیں کہ قانون قدرت سے فائدہ نہ اٹھایا جائے بلکہ اس سے فائدہ نہ اٹھانا اس کی بے قدری ہے.اس لئے خدا تعالیٰ نے جو سامان بچاؤ اور احتیاط کے پیدا کئے ہیں ان سے بھی فائدہ اٹھاؤ.طاعون ایک خدا کا غضب ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مخالفت کی وجہ سے نازل ہوا.گو ہماری جماعت کے لئے جیسا کہ حضرت صاحب نے لکھا ہے یہ ایک شہادت کی موت ہے لیکن پھر بھی اس میں شماتت اعداء ہے.اس لئے احباب دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہمیں اس فتنے سے بچائے اور کسی کے لئے ہم ٹھوکر کا موجب نہ بنیں.الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۲۵ء)

Page 26

21 4 اعمال کی قبولیت کا دارومدار اخلاص اور حسن نیت میں ہے (فرموده ۲۳ جنوری ۱۹۲۵ء) تشهد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : دنیا کے کارخانے اور اس کے کاروبار پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے تمام کاروبار اسباب کے ساتھ وابستہ ہیں.بعض کام اور بعض امور تو طبیعی ہیں اور بعض شرعی ہیں.طبعی امور تو وہ ہیں جن کے ساتھ نیت اور ارادہ کا کوئی دخل نہیں.جب ایک خاص قسم کے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں تو وہ کام بھی ہو جاتا ہے.خواہ کوئی اس کام کے ہونے کا ارادہ کرے یا نہ کرے مثلا اگر کوئی شخص پانی پئے تو وہ ضرور سیر ہو جائے گا خوادہ سیر ہونے کا ارادہ کرے خواہ نہ کرے.اسی طرح جو روٹی کھائے گا اس کا پیٹ ضرور بھر جائے گا خواہ وہ پیٹ کے بھرنے کا ارادہ کرے یا نہ کرے بعض بیماریوں میں انسان کھاتا بھی چلا جاتا ہے مگر اس کی بھی پھر حد ہوتی ہے یہ نہیں کہ اس پر پیٹ بھر جانے کا کوئی وقت ہی نہیں آتا.اسی طرح بعض پاگل کھانا ترک کر دیتے ہیں.ان کو زور کے ساتھ اور بعض حالات میں نلکی کے ساتھ کھانا اندر پہنچایا جاتا ہے.اس پاگل یا مریض کا کوئی ارادہ نہیں ہو تا مگر کھانا اندر پہنچ کر پیٹ بھر دیتا ہے.ایک آدمی جو برف کے پانی سے نہائے گا وہ ضرور ٹھنڈا ہو جائے گا.خواہ وہ دل میں کتنی ا ہی خواہش اور ارادہ گرم ہونے کا بھی کرتا رہے اس کے ارادہ کا کچھ اثر نہیں ہو گا.اسی طرح ایک شخص گرم لحافوں میں پڑ جائے تو چاہے وہ سرد ہونے کا اردہ اور خواہش بھی رکھتا ہو تو وہ سرد نہیں ہو گا.بلکہ طبعی طور پر ضرور وہ گرم ہی ہو گا تو طبیعی اسباب میں نیت اور ارادہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا.

Page 27

22 کو ایک حد تک نیت اور ارادہ بھی طبعی قانون میں موثر اور تاثرات کا رنگ رکھتے ہیں.مثلاً مئوثر طاقت کے مقابلہ پر تاثیر والی قوت کو کھڑا کر دیا جائے تو موثر قوت کوئی شک نہیں کہ کمزور ہو جائے گی.مثلاً جو شخص گرمی میں یہ ارادہ کرلے کہ میں گرمی کو برداشت کر لونگا تو بیشک اس کو گرمی کم محسوس ہو گی.مگر یہ نہیں کہ اس کو گرمی ہی نہ لگے.اسی طرح جو شخص یہ ارادہ کرلے کہ میں برف کی ٹھنڈک اور سردی کو برداشت کرلوں گا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کو سردی کم محسوس ہوگی مگر یہ نہیں کہ اس کے اس ارداہ سے طبعی قانون اس پر اثر ہی نہ کرے.یہ ممکن ہے کہ اگر اس کو برف کے پانی میں کھڑا کر دیا جائے تو وہ برداشت کی نیت اور ارادہ کرنے کی وجہ سے سردی کو کم محسوس کرے لیکن یہ نہیں ہو گا کہ اس کو برف کے پانی میں غوطہ دیا جائے تو اس کو گرمی ہونے لگ جائے اور یہ بھی نہیں ہو گا کہ کھاتے جائیں اور پیٹ نہ بھرے.پیتے ہی جائیں اور سیر نہ ہوں.بے شک ایک حد تک تو طبیعت طبیعی اسباب کا مقابلہ بھی کرتی ہے مگر وہ ایک محدود طاقت ہے غیر محدود نہیں.اس طبعی قانون کے مقابلہ میں ایک شرعی قانون ہے کہ اس میں نیت اور ارادہ کو بہت بڑا دخل ہے.گو بے نیت کے بھی اس قانون میں فائدہ پہنچ جاتا ہے جیسا کہ طبعی قانون میں ارادہ اور نیت بھی ایک حد تک فائدہ دیتا ہے.جیسا کہ کوئی شخص اگر واقعہ میں نماز اللہ تعالیٰ کی رضا کی نیت سے ادا نہیں کرتا وہ لوگوں کی دیکھا دیکھی نماز پڑھتا ہے تو گو اس کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں ہوتی مگر وہ مسلمان کہلاتا ہے.یا نماز روزہ سے وہ کوئی اور فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے تا لوگ اس کو مسلمان خیال کر کے فائدہ پہنچائیں تو وہ فائدہ اس کو پہنچ جاتا ہے.غرض جس طرح طبعی قانون میں ایک حد تک ارادہ اور نیت کی قوت فائدہ پہنچاتی ہے اسی طرح شرعی قانون میں ایک حد تک ارادہ اور نیت کی کمزوری بھی نقصان سے بچاتی ہے.جس طرح طبعی قانون میں مخالف ارادہ بہت حد تک اثر نہیں کرتا یا کرتا ہے تو بہت کم اس طرح شرعی قانون میں جتنا ارادہ زیادہ ہو گا اور نیت جتنی اچھی ہو گی اتنا ہی اس کام کا نتیجہ اچھا اور نقصان اور تکلیف سے پاک ہو گا.اور جتنا ارادہ اور اخلاص کمزور ہو گا اس کا نفع بھی بمقابلہ اس ارادہ کے کمزور ہو گا.دونوں قانونوں میں کتنا بڑا فرق نظر آتا ہے.ایک طرف رسول اللہ اللہ کی عظمت اور شان کو دیکھو اور دوسری طرف ایک عام مسلمان کو دیکھو دونوں کے درمیان کتنا بڑا فرق ہے.ایک کے تو کروڑوں کروڑ اور اربوں ارب آدمی غسلاً بعد نسل غلامی میں آئے اور ایک کو کوئی پوچھتا بھی نہیں اور ایک کے لئے تو خدا تعالیٰ بے حد

Page 28

23 غیرت و قدرت دکھلاتا ہے اور ایک کے لئے نہ وہ غیرت ہے نہ وہ قدرت ہے.مگر ہے وہ بھی مسلمان.نمازیں وہ پڑھتا ہے، حج وہ کرتا ہے زکوۃ بھی وہ دیتا ہے.اگر دونوں کے اعمال ملائے جائیں تو میرے نزدیک ایک عام مسلمان نمازیں زیادہ بڑھ سکتا ہے اور روزے زیادہ رکھ سکتا ہے.با اوقات ایسا ہوا ہے اور صحابہ میں ایسے لوگ موجود تھے جو رسول اللہ ا سے زیادہ ساری ساری رات تہجد اور نمازیں پڑھتے تھے اور دن کو روزے رکھا کرتے تھے اور نہیں تو ایک مالدار تو یقیناً بڑھ کر عمل کرتا ہے کہ وہ زکوۃ ادا کرتا ہے مگر رسول اللہ ا نے کبھی زکوۃ نہیں دی.کیونکہ نہ آپ کے پاس روپیہ جمع ہوا اور نہ آپ نے زکوۃ دی تو ایک عام مسلمان ظاہری اعمال میں کئی دفعہ زیادہ نظر آتا ہے.مگر خدا تعالیٰ کے معالمہ کو جب ہم دیکھتے ہیں تو اس سے وہ معاملہ نہیں جو رسول اللہ سے ہے.اگر محض نماز و روزہ شریعت تھی اگر محض حج و زکوۃ شریعت تھی تو پھر اس کے ساتھ رسول اللہ ﷺ سے بہت بڑھ کر خدا تعالیٰ کا سلوک ہونا چاہیے تھا اور بہت زیادہ اس کے اعمال کا اس کو نتیجہ ملنا چاہیے تھا.پھر کیا چیز تھی کہ جس نے رسول اللہ اس کی عظمت اور شان کو تو اتنا بڑھا دیا اور اسے اس کا اتنا اثر نظر نہ آیا.کیا رسول اللہ اللہ سے خدا تعالیٰ کی کوئی رشتہ داری اور نعوذ باللہ خلاف عدل پاسداری تھی کہ ان کے تو خدا نے حقوق ادا کر دیئے لیکن اس کے ادا نہ کئے.اس کا ایک ہی جواب اور ایک ہی نتیجہ ہے کہ اس کا ارادہ وہ ارادہ نہیں جس ارادہ کے ساتھ رسول اللہ اللہ کھڑے ہوئے.اس کی وہ نیت اور اخلاص نہ تھا جس اخلاص اور نیت سے رسول الله الا ان اعمال کو بجا لاتے تھے.پس اس کی نیت اور اخلاص کے اختلاف سے نتائج میں بھی اختلاف پیدا ہو گیا اس نے سب کچھ وہی کیا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا مگر اس کا ارادہ وہ ارادہ نہیں تھا جو رسول اللہ اللہ اس سال کا تھا اور اس کی نیت وہ نیت نہ تھی جو رسول اللہ کی تھی.چنانچہ آپ نے ایک دفعہ حضرت ابوبکر نے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا.معلوم ہوتا ہے کہ ان کے درجہ کے متعلق بھی اس وقت لوگوں کے دل میں سوال پیدا ہوا ہے کیونکہ بعض اور صحابہ بھی تھے جنہوں نے خدا کی راہ میں اپنا سارا مال دیدیا تھا اور ایسے بھی تھے جو عبادت کے لئے مسجد میں ہی رہتے تھے) کہ ابوبکر کو نماز روزہ کی وجہ سے دوسروں پر فضیلت نہیں بلکہ اس کی فضیلت اس چیز کے باعث ہے جو اس کے دل میں ہے اے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت نے اس میں لوگوں کے اس سوال اور شک کا جواب دیا ہے کہ ابو بکر کو ان پر فضیلت کیسے الله ہو گئی.

Page 29

24 پس قانون شرعی میں بڑائی اور تنزل اخلاص اور ارادہ کی کمی اور زیادتی پر بہت کچھ منحصر ہے اگر ایک شخص نیک ارادہ سے اعمال بجالاتا ہے.اور وہ مخلص ہے تو جو نتیجہ اس کے اعمال کا نکلے گا وہ نتیجہ دوسرے کے اعمال کا نہیں نکلے گا جس کے اعمال میں اخلاص اور نیک ارادہ نہیں پایا جاتا یا کم پایا جاتا ہے.بعض لوگوں کو یہ دھوکا لگتا ہے اور وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ بد اعمالی کا بھی وہی نتیجہ نکلتا ہے جو نیک ارادہ کے ساتھ نیک اعمال کا.بے شک جو شخص اخلاص اور نیک ارادہ سے نماز پڑھے گا اور روزے رکھے گا وہ اس کا ضرور نیک اجر پائے گا.مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ کوئی یہ کہہ دے کہ ہم میں بڑا اخلاص ہے مگر نماز نہیں پڑھتے اور روزے نہیں رکھتے.یہ ممکن نہیں کہ دھواں ہو اور آگ نہ ہو.ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ نوافل میں فرق پڑ جائے کیونکہ انسان اور کاموں کی وجہ سے قلیل وقت اس یر صرف کر سکتا ہے.نیکی صرف نماز روزہ حج اور زکوۃ ہی نہیں بلکہ خود اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی فکر کرنی یہ بھی ثواب ہے.اگر ثواب اور تعمیل ارشاد کے لئے اپنی بیوی کے منہ میں بھی لقمہ ڈالتا ہے یا اپنے بچہ کو اس طرح کھانا کھلاتا ہے یا نوکروں غلاموں سے نیک سلوک کرتا ہے تو وہ بھی نیکی کرتا ہے.حالانکہ یہ کام کافر بھی کرتے ہیں مگر یہ اپنی نیت اور اخلاص کی وجہ سے ان پر اجر پاتا ہے کیونکہ اسلام نے تمام بنی نوع انسان اور دنیا کی تمام مخلوقات سے بلکہ حیوانوں تک سے نیک سلوک کرنا نیکی قرار دیا ہے.اس لئے اگر وہ احتساباً اعمال بجالاتا ہے تو اس کا ہر فعل دنیا کا بھی نیکی میں شمار ہوتا ہے.اگر تاجر ہے تو اس کے تجارتی کاروبار نیکی ہیں.اگر مزدور ہے تو اس کا ٹوکری ڈھونا.اگر ملازم ہے تو اس کا اپنی ملازمت پر جانا اور وہاں کام کرنا.ہر حرفہ والا جو کوئی حرفہ کرتا ہے.ایک دوکاندار جو دکان کرتا ہے اس کا ہر سودا جو وہ دیتا ہے.ایک راج جو را جگیری کرتا ہے بلکہ ایک ایک اینٹ جو وہ لگاتا ہے.ایک لکڑہارا جو کلہاڑا مارتا ہے وہ سب نیکی ہے جس کا اجر اس کو ملے گا.بشرطیکہ وہ اپنے دنیاوی کام میں بھی خدا تعالیٰ کی رضا کو مد نظر رکھے.اس طرح انسان اپنے اخلاص سے اپنے ہر ایک فعل کو نیکی بنا لیتا ہے بلکہ جو کام کہ دوسروں کے لئے عیاشی سمجھے جاتے ہیں وہ بھی اس کے لئے نیکی ہو جاتے ہیں.صوفیاء نے ایک واقعہ لکھا ہے جسے حضرت مسیح موعود بھی بیان فرمایا کرتے تھے اور میں نے پہلے حضرت صاحب ہی سے سنا ہے کہ ایک بزرگ روزانہ ایک تھال کھانے کا تیار کرا کر کہیں لے

Page 30

25 جایا کرتے تھے اپنی بیوی کو انہوں نے کچھ نہیں بتایا تھا کہ وہ کس کے لئے لے جاتے ہیں جس سے ان کی بیوی کو شبہ ہوا کہ شائد ان کا کسی سے ناجائز تعلق ہے.اتفاق سے وہ بزرگ ایک دن بیمار ہو گئے انہوں نے بیوی سے کہا کہ چاول پکا کر فلاں جگہ دریا کے پار ایک بزرگ رہتے ہیں اس کے پاس لے جاؤ بیوی نے کہا کہ راستہ میں دریا ہے میں کیسے پار اتروں گی.انہوں نے کہا کہ میرا نام لیکر دعا کرنا کہ الہی اس شخص کا تجھے واسطہ دیتی ہوں جو کبھی عورت کے پاس نہیں گیا چنانچہ وہ کھانا لیکر گئی اور دریا کے کنارے کھڑے ہو کر اسی طرح دعا کی جس کے بعد ایک کشتی آگئی وہ سوار ہو کر پار اس بزرگ کے پاس چلی گئی جب وہ چاولوں کا طباق کھا چکے تو اس بزرگ سے اس نے کہا کہ اب میں واپس کیسے جاؤں اس بزرگ نے کہا کہ تم میرا نام لیکر خدا سے دعا کرنا کہ الہی اس شخص کا میں تجھے واسطہ دیتی ہوں جس نے کبھی ایک دانہ بھی چاول کا نہیں کھایا.چنانچہ اس نے اسی طرح دعا کی جھٹ کشتی آگئی اور سوار ہر کر گھر آگئی اور اپنے میاں سے کہنے لگی کہ میں تو سمجھتی تھی کہ خدا سچائی سے دعائیں قبول کرتا ہے مگر آج معلوم ہوا کہ وہ جھوٹ سے زیادہ قبول کرتا ہے کیونکہ میں تمہاری بیوی ہوں اور یہ تمہارے بچے ہیں اگر عورت کے پاس تم نہیں گئے تو یہ بچے کس کے ہیں اور اس بزرگ نے بھی میرے سامنے چاولوں کا بھرا ہوا طباق کھایا ہے تو یہ درست کیسے ہو سکتا ہے کہ انہوں نے کبھی ایک دانہ بھی چاولوں کا نہیں کھایا.انہوں نے جواب دیا کہ یہ جھوٹ نہیں سچ ہے کیونکہ نہ میں کبھی اپنے نفس کی خواہش سے عورت کے پاس گیا اور نہ کبھی اس بزرگ نے اپنے نفس کی خواہش سے کھانا کھایا ہمارے تعلقات اور کھانا پینا اس کے حکم کے ماتحت اور احتسابا ہی ہیں.سید عبدالقادر جیلانی صاحب نے لکھا ہے کہ میں کھانا نہیں کھاتا جب تک کہ خدا مجھے یہ نہیں کہتا کہ میں تجھے اپنی ذات کی قسم دیتا ہوں کہ تو کھانا کھا اور میں پانی نہیں پیتا جب تک کہ خدا مجھے یہ نہیں کہتا کہ میں تجھے اپنی ذات کی قسم دیتا ہوں تو پانی پی اور میں کپڑا نہیں پہنتا جب تک کہ خدا مجھے یہ نہیں کہتا کہ میں تجھے اپنی ذات کی قسم دیتا ہوں کہ تو کپڑا پہن لے ۲.بعض آدمی اپنی نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عبد القادر نعوذ باللہ کپڑے اتار کر ننگے ہو جاتے تھے اور کھانا چھوڑ کر بھوکے بیٹھ جاتے تھے اور خدا ان کو اپنی ذات کی قسمیں دے دے کر کھانا کھلاتا اور کپڑا پہناتا تھا حالا نکہ ننگے ہو جانا یہ تو جہالت ہے اور کھانا چھوڑ دینا خود کشی ہے.ایک ادنی مومن کی بھی یہ شان نہیں کہ وہ ایسی حرکت کرے.اصل بات یہ ہے کہ وہ کھانا نہیں کھاتے تھے جب تک کہ کلوا و اشربوا (الاعراف (۳۲) کا حکم ان کے سامنے نہیں آجاتا تھا وہ کپڑا نہیں پہنتے تھے جب تک کہ اما

Page 31

26 بنعمته وبك فحدث (الضحی (۱۲) کا حکم ان کے سامنے نہ آجاتا تھا کہ خدا کی نعمت کا اثر کپڑوں کے ذریعہ بدن پر بھی ظاہر کرنا چاہیے یہ نہیں کہ خاص طور پر خدا ان کے آگے قسمیں کھایا کرتا تھا بلکہ یہ وہی قسمیں ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے قرآن کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے سنی ہیں.وہی قسمیں سید عبد القادر کو ان کی تیزی طبع کی وجہ سے نظر آجاتی ہیں اور ہر ارشاد الہی ان کو نمایاں نظر آجاتا تھا.کیونکہ جب خدا نے قرآن کریم میں اپنی نعمتوں کا ذکر کر کے ان کی قسمیں کھائیں ہیں تو پھر خدا تو قسم کھا چکا.اس لحاظ سے خدا قسم کھاتا تھا تب وہ کھاتے تھے.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ بہت ہیں جو نمازیں بھی پڑھتے ہیں روزے بھی رکھتے ہیں زکوۃ بھی دیتے ہیں اور چندے بھی ادا کرتے ہیں اور اپنے بھائیوں سے ہمدری بھی کرتے ہیں.مگر وہ برکات جو انہیں حاصل ہونی چاہیئں حاصل نہیں ہوتیں.اس کی وجہ یہ نہیں کہ ان کے ظاہری معاملات دینی میں کوئی فرق ہے بلکہ اخلاص اور ارادہ کی مضبوطی میں نقص ہوتا ہے یہی اخلاص اور ارادہ ہی ہے جس نے ابو بکر اور ابو ہریرہ کی شان میں فرق پیدا کر دیا اور یہی اخلاص اور ارادہ ہی ہے کہ جس کی وجہ سے ابو ہریرہ اور آج کل کے ایک عام مسلمان میں فرق ہے.اخلاص اور نیت کا فرق مرتبہ اور شان میں فرق پیدا کر دیتا ہے.نیت اور ارادہ خالی بھی کوئی چیز نہیں کیونکہ عبادات کے لئے یہ ایک روح ہے پس روح بغیر جسم کے کچھ نہیں کر سکتی.بلکہ وہ مفید تب ہی ہو سکتی ہے کہ جسم بھی ہو اور روح بھی.پس اگر نیت اور ارادہ کے ساتھ عمل نہیں تو اس کا کچھ فائدہ نہیں اور اگر کوئی اخلاص اور نیت کے ساتھ ایک تسبیح بھی کہتا ہے تو اس کا وہ نتیجہ پیدا ہوتا ہے کہ جو سالہا سال کی عبادتوں سے بھی نہیں پیدا ہو سکتا اور اگر کوئی انہماک والی توجہ کے ساتھ ایک بار بھی سبحان اللہ کہتا ہے تو اس کا ایک دفعہ کا کہا ہوا کلمہ وہ نتائج پیدا کرتا ہے جو پہاڑوں کی بلندیوں سے بھی بڑھاتا ہے پس اگر تمہارے اعمال کے ساتھ نیت اور اخلاص نہیں یا نیت اور اخلاص کے ساتھ ظاہری اعمال بھی بجا نہیں لاتے تو تمہاری مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی سو گیا پھر اٹھ بیٹھا.جس طرح وہ پہلے خالی ہاتھ تھا اسی طرح وہ نیند کے بعد خالی ہاتھ رہا.یا اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی بدن پر تیل مل کر اپنے اوپر پانی ڈالتا ہے اور پانی کا ایک قطرہ بھی اس کے بدن پر نہیں ٹھرتا شائد پانی کا کوئی قطرہ تو اس کے بدن کے کسی حصہ پر جہاں تیل نہ لگا ہو رہ بھی جائے مگر ایسے انسان کو جس کی نماز میں اخلاص نہیں کوئی بھی نفع نہیں.پس تم اپنی عبادات میں اخلاص پیدا کرو اور دینوی معاملات اور دوستوں میں اپنی نیتوں اور ارادوں کو درست کرو.کیونکہ بغیر روح کے

Page 32

27 جسم کچھ چیز نہیں خواہ جسم کتنا ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو لیکن اگر روح نہیں تو وہ کچھ حرکت نہیں کرے گا.اسی طرح کسی نیکی اور عمل کا نیک نتیجہ پیدا نہیں ہوتا جب تک کہ ظاہری اعمال میں نیت اور اخلاص نہ ہو.چاہے وہ کتنی ہی نمازیں پڑھے یا روزے رکھے اگر وہ اپنی عبادات میں اخلاص اور پوری توجہ کا عادی نہیں اس کے ایمان اور عرفان میں کوئی زیادتی نہیں ہو سکتی.جہاں تم ظاہری اعمال بجا لاؤ وہاں دینی روح بھی پیدا کرو کیونکہ اس کے بغیر کوئی ترقی نہیں.اور در حقیقت ایاک نعبد و ایاک نستعین میں یہی دونوں باتیں بیان کی گئی ہیں کہ بندہ کہتا ہے کہ ظاہرہ اعمال تو میں بجا لاتا ہوں جو میرے بس میں ہیں اور باطنی طور پر تو استعانت فرما اور اس کے نیک نتائج پیدا کر.انسانی دعا کی عمدگی اور کامیابی کے لئے ایسی طاقت کی ضرورت ہے جو نہایت لطیف ہے اور اس کے مقابلہ میں ان کی روح کثیف ہوتی ہے.مومن کوشش کرتا ہے کہ وہ کثافت دور ہو اور درخواست کرتا ہے کہ جو مجھ سے ہو سکتا تھا وہ میں نے کیا اب جو باقی ہے اس کے لئے حضور سے استعانت چاہتا ہوں اور پھر استعانت بھی تو ایک توجہ ہی ہے جو وہ اپنے عمل پر نیک نتیجہ کے مرتب ہونے کے لئے خدا کی طرف کرتا ہے.تب خدا کی طاقت اور اس کی طاقت مل کر نیک نتیجہ پیدا کرتی ہیں.اگر یہ دونوں طاقتیں پیدا نہیں ہوتیں تو بنده اهدنا الصراط المستقيم صراط الذین انعمت علیہم بھی نہیں کہہ سکتا بلکہ اس کے کہنے کا حق تب ہی ہو سکتا ہے کہ وہ ایاک نعبد کے مطابق ظاہری اعمال اخلاص کے ساتھ پہلے بجا لائے ورنہ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی ٹانگیں پھیلا کر پڑا رہے اور خواہش کرے کہ روٹی خود بخود اس کے منہ میں آجائے اس لئے جہاں تک وہ اختیار رکھتا ہے عمل میں اخلاص میں پوری کوشش کرے اور پھر خدا سے کہے کہ اب نیک نتائج تو پیدا کر.اللہ تعالٰی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے تمام اعمال میں اخلاص پیدا کریں اور ان میں ایسی روح ہو کہ جس کے بغیر اس کی رویت اور عرفان کا یقین حاصل نہیں ہوتا.امه نزہتہ المجالس مصنف شیخ عبد الرحمان الصفوری جلد ۲ ص ۱۵۳ سفینتہ الاولیاء دارا شکوہ ص ۷۴ الفضل ۱۰ فروری ۱۹۲۵ء)

Page 33

28 5 خوب محنت اور باہم تعاون کو اپنا شعار بنائیں (فرموده ۶ فروری ۱۹۲۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں اپنے احباب کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ وہ اپنے اوقات کو ضائع ہونے سے بچائیں.اور ان خزانوں کو جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دیئے ہیں اور ان نعمتوں کو جو اللہ تعالٰی نے ان کو بخشی ہیں بند کر کے زنگ الودہ نہ کریں اور جماعت کے لئے اور اشاعت سلسلہ میں بار نہ بنیں.مگر جہاں میرا یہ فرض ہے کہ میں نے دوستوں کو اور احباب کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ سکتے نہ رہا کریں.کچھ کام کیا کریں اور یہ کہ سوال نہ کیا کریں اور نہ حالت سوال والی بنایا کریں کہ جس سے لوگ ان کو دکھ میں دیکھ کر مجبور ہو جائیں کہ ان کی مدد کریں.بلکہ میرے نزدیک سوال کے دو اور پہلو بھی ہیں اور ان پر بھی روشنی ڈالنا میرا فرض ہے.ایک پہلو تو یہ ہے کہ دنیا میں دو قسم کے انسان ہوتے ہیں.ایک تو وہ ہوتے ہیں جو کہ وعظ اور نصیحت سے بات مان لیتے ہیں اور ایک وہ ہوتے ہیں کہ جو اپنی روحانیت میں اپنے اخلاق میں اور اپنی سمجھ میں اتنے گر گئے ہوتے ہیں کہ وعظ اور نصیحت ان پر کچھ اثر نہیں کرتی.ان کے دل مردہ ہوتے ہیں یا دل تو نہیں مرے لیکن مدتوں ایسی حالت میں رہنے کی وجہ سے ان کی ہمتیں پست ہو جاتی ہیں.استقلال طبیعت سے اٹھ جاتا ہے.وہ نہایت گر جاتے ہیں ایسے لوگ وعظ اور نصائح سے کچھ فائدہ حاصل نہیں کر سکتے.وہ اسی طرح بہت بڑی تربیت اور تہذیب اور تعلیم چاہتے ہیں جس طرح کہ چھوٹے بچے تربیت تہذیب اور تعلیم کے محتاج ہوتے ہیں.ایک واعظ تو یہ کہہ کر آزاد ہو سکتا ہے کہ میں نے تو نصیحت کرنی تھی کر دی لیکن ماں باپ یا ایک تربیت کرنے والا یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے یہ بات اس کو کہدی تھی اور نصیحت کر دی تھی.بچہ جھوٹ بولتا ہے تو ماں باپ یہ کہکر آزاد نہیں ہو سکتے کہ انہوں نے بچے کو کہدیا ہے کہ جھوٹ بری چیز ہے.اگر بچہ چوری کرتا ہے تو ماں

Page 34

29 باپ اس کو اتنا کہہ دینے سے آزاد نہیں ہو سکتے کہ چوری بری چیز ہے.بچے کو ان کا یہ کہہ دینا کہ لڑنا اور گالی دینا بری بات ہے یہ کافی نہیں ہو سکتا بلکہ ان کا فرض ہے کہ جھوٹ بولنا گالی دینا چوری کرنا ان سے چھڑوائیں.ماں باپ واعظ نہیں ہیں وہ مودب اور مربی ہیں.ان کا فرض ہے کہ وہ سختی سے کام لیں.ہاں معاونت ضروری ہے ورنہ اس کی ایسی ہی مثال ہوگی جیسے کوئی پانچ کو کہے کہ زمین پر پاؤں رکھ کر چلا کرو.اس پر اس کو مجبور کرنا بالکل فضول بات ہے.اگر وہ اس کی بات کو مان بھی لے تو باوجود کوشش کے بھی وہ چل نہیں سکے گا.صرف اس کو چلنے پر مجبور کرنا ہی کافی نہیں بلکہ یہ بھی اس کا فرض ہے کہ اس کو سہارا دے کر چلائے یہاں تک کہ وہ خود چلنے لگے یا اس کی لاتوں پر مالش کی ضرورت ہے تو مالش کرے.بعض وقت معمولی مالش بھی کچھ فائدہ نہیں پہنچاتی اور وہ کھڑا نہیں ہو سکتا اس کے لئے مدتوں مالش کی ضرورت ہوتی ہے مہینوں میں کہیں جا کر طاقت آتی ہے.اس لئے مودب کے لئے معاونت اور سہارا دینا بھی ضروری ہوتا ہے.تو دنیا میں ایک واعظ اور ایک مربی اور مودب میں فرق ہوتا ہے.واعظ تو کہہ سکتا ہے کہ میں نے نصیحت کر دی تھی لیکن یہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے نصیحت کر دی تھی بلکہ ان کا فرض ہے کہ وہ خود کوشش کر کے مرض کا ازالہ کریں.پس ایک تو وہ لوگ ہیں کہ جن کو صرف کہہ دینا ہی کافی ہوتا ہے.لیکن دوسری قسم کے جو لوگ ہیں وہ صرف کہہ دینے سے فائدہ حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ کوئی دوسرا ان کو سہارا نہ دے.اس کے بغیر ان کا مرض مٹ نہیں سکتا.ایسے کئی ہیں جو سستی کے باعث کوئی کام نہیں کرتے.لیکن اگر ان کو نصیحت کی جائے تو وہ نصیحت ماننے کے لئے تیار ہوتے ہیں.ان کو اتنا ہی کہہ دینا کافی ہوتا ہے کہ تمہاری یہ غلطی ہے.لیکن جو نصیحت مانتے ہی نہیں ان کے لئے زیادہ اصلاح اور انتظام اور نگرانی کی ضرورت ہے.بغیر اس کے ان کا علاج نہیں ہو سکتا.ایسے افراد کی کہ جو کوئی کام نہیں کرتے ان کی لٹیں تیار کی جائیں اور دریافت کیا جائے کہ وہ کیوں کوئی کام نہیں کرتے.کئی تو ایسے ہیں کہ وہ حق رکھتے ہیں کہ بغیر کام کے ان کو گزارہ دیا جائے.جیسے نابینا یا ایسے پانچ کہ جن کے لئے کام کرنا ناممکن ہے.ایسے لوگوں کو علیحدہ کر کے دوسروں کی فہرستیں تیار کر کے پھر ان کی اقسام بنائی جائیں.بعض تو ایسے نکلیں گے جو کام نہیں کر سکتے.ان میں طاقت نہیں ، ضعیف ہیں.ان کی طاقت کے مطابق ان کو کوئی کام نہیں ملتا اور بعض ایسے نکلیں گے کہ جو کوئی پیشہ اور فن جانتے ہیں اور کر سکتے ہیں لیکن ان کا علم اور ان کا کام موجودہ حالت کے مطابق کام نہیں دے سکتا.اور بعض ایسے نکلیں گے کہ جو کام کر سکتے اور پیسے کما سکتے ہیں لیکن وہ کام کرنا نہیں چاہتے.ان کو کام کرنے پر مجبور کیا

Page 35

30 جائے.اگر تسلیم نہ کریں تو جماعت کو ان کے بوجھ سے سبکدوش کیا جائے اور ان کی مدد نہ کی جائے.ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو رسول اللہ ﷺ نے کیا.آپ نے ایسے لوگوں سے جھولیاں چھنوا لیں اور جبراً ان سے کام کروایا.حضرت عمر نے آدمی مقرر کر دیئے تھے تا سکتے لوگوں کو دیکھا جائے ایسے لوگوں کو کام کرنے پر مجبور کیا جائے اور ان کے اس قسم کے عذر بالکل نہ سنے جائیں کہ ان کو ان کی شان کے مطابق کوئی کام نہیں ملتا.یا یہ کہ دس روپے میں ان کا گزارہ نہیں چلتا.حالانکہ اگر اس کا گزارہ تمہیں روپے میں چلتا ہے اور اس کو کوئی دس روپے آمد کا کام ملتا ہے تو وہ دس روپے کا کام کر کے دس روپے کا بوجھ جماعت سے ہلکا کر سکتا ہے.اگر تھیں میں اس کا گزارہ چلتا ہے اور نوکری میں اس کو پانچ ملتے ہیں تو کم سے کم پانچ کا بوجھ تو جماعت سے اٹھ گیا.تمیں کی بجائے پچیس کا بوجھ جماعت پر رہ گیا.اس کی پانچ روپے کی نوکری کو لینے سے گویا پانچ روپے ماہوار چندہ دینے والے کا جماعت میں اضافہ ہو گیا کیونکہ وہ پانچ روپے جماعت کو بچ جائیں گے.ہماری جماعت کے اسی روپے ماہوار تنخواہ پانے والے پانچ روپے چندہ دیتے ہیں.تو ایسا شخص جو جماعت پر تمھیں روپے کا بار بنا ہوا تھا وہ پانچ کی بھی اگر کوئی نوکری کر لیتا ہے تو گویا اسی روپیہ ماہوار تنخواہ پانے والا جماعت میں داخل ہو گیا.اگر وہ دس کما سکتا ہے تو گویا ایک سو ساٹھ روپیہ تنخواہ پانے والا سلسلہ میں نیا داخل ہو گیا.اگر ایسے لوگوں میں سے دو پانچ پانچ کمانے لگ جائیں.تو گویا وہ اسی اسی روپیہ ماہوار تنخواہ پانے والے نئے پیدا ہو گئے.اگر وہ دس دس روپے ماہوار کمانے لگ جائیں تو گویا وہ ایسے نئے شخص جماعت میں داخل ہو گئے جو ہر ایک ان میں سے ایک سو ساٹھ روپیہ کماتا ہے.اگر سو آدمی جن کا بار جماعت پر ہے اس قسم کے پیدا ہو جائیں کہ پانچ پانچ بھی اگر ماہوار کمانے لگ جائیں تو گویا پانچ سو روپے کے بار سے جماعت بچ گئی.اس لئے ان کا یہ عذر نہ سنا جائے کہ یہ معمولی کام ہے یا اتنے میں ان کا گزارہ نہیں ہوتا.تھوڑا ملے یا بہتا ملے ان کو کام پر مجبور کیا جائے.اگر وہ ایسا ہے کہ کام کرہی نہیں سکتا تو اس کے لئے کوئی انتظام کیا جائے اور اگر کر سکتا ہے تو اس کے لئے کام مہیا کیا جائے اور جو کر ہی نہیں سکتا اس کے لئے جماعت کا فرض ہے کہ اس کا اس کو گزارہ دیں.مثلاً نابینا ہیں.یورپ میں تو میں نے بتایا ہے کہ اس قسم کے لوگوں کے کمانے کے لئے بھی کام نکالے گئے ہیں مگر یہاں پر چونکہ ایسا کوئی انتظام نہیں ہے کہ نابینا اور پانچ وغیرہ بھی اپنی روزی آپ کما سکیں.جیسا کہ بعض دیگر ممالک میں.ہمارا صرف یہ کہنا کہ ایسے لوگوں کے لئے بھی کام نکل آئے ہیں ہم کو ذمہ داری سے سبکدوش نہیں کر سکتک ذمہ داری سے ہم تب ہی سبکدوش ہو سکتے ہیں کہ ان کے لئے بھی ایسے

Page 36

31 کاموں کی تلاش کی جائے اور ایسے کام مہیا کئے جائیں جن کو وہ لوگ بھی کر سکیں.اس لئے موجودہ حالت میں ایسے لوگوں کو جو کہ بالکل کوئی کام نہیں کر سکتے دوسروں سے الگ کر دیا جائے.کیونکہ وہ مجبور ہیں.ان کا حق ہے کہ جماعت ان کا بوجھ اٹھائے.اگر کوئی جماعت اپنے اس قسم کے معذور افراد کا بوجھ نہیں اٹھائی تو وہ معزز جماعت کہلانے کی مستحق نہیں.بلکہ وہ مردہ جماعت ہے.وہ لوگ ایسے ہی روزی دیئے جانے کے مستحق ہیں.جیسا کہ ایک سارا دن محنت کرنے والا شخص.آنحضرت نے ایک جہاد کے سفر میں فرمایا کہ کئی لوگ ایسے ہیں کہ تم کسی وادی سے نہیں گزرتے کہ وہ تمہارے ساتھ ہوتے ہیں اور کوئی اجر نہیں جو تم کو ملتا ہو اور وہ ان کو نہ ملے.حالانکہ وہ اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں.صحابہ نے سوال کیا کہ جب انہوں نے ہمارے ساتھ سفر نہیں کیا ہماری تکلیفوں میں وہ شریک نہیں ہوئے وہ گھر بیٹھے اس اجر میں کیسے شریک ہو گئے.آپ نے فرمایا ان کا تمہارے ساتھ سفر نہ کرنا اور تمہاری تکلیفوں میں شریک نہ ہونا اس لئے نہیں کہ وہ طاقت رکھتے تھے اور پھر وہ شریک نہیں ہوئے.بلکہ اگر ان کی آنکھیں ہوتیں ، ان کے ہاتھ ہوتے ان کے پاؤں ہوتے تو وہ بھی تمہارے ساتھ جہاد کے لئے نکلتے.وہ تو دل میں کڑھتے ہیں.مگر کچھ کر نہیں سکتے مجبور ہیں.اس سے ہم کو ایک قاعدہ ہاتھ لگتا ہے اور وہ یہ کہ جو اس قسم کے معذور اور مجبور ہیں.وہ ہمارے پیسوں کے اسی طرح مستحق ہیں جس طرح کہ ایک محنتی محنت کر کے ہم سے پیسے لینے کا مستحق ہو جاتا ہے.جو مدینہ سے باہر نہیں جاسکتے تھے شریعت کی رو سے خدا کے انعاموں اور اس کے پیدا کئے ہوئے خزانوں پر ان کو ایسا ہی حق دیا گیا ہے جس طرح کہ ایک محنتی سارا دن محنت کر کے ان پر حق حاصل کرتا ہے.پس ان تینوں قسم کے لوگوں کی فہرست کو مکمل کیا جائے اور یہ کام امور عامہ کا ہے ( آپ نے صیغہ جات کے افسروں کو مستعدی اور کام کی فکر رکھنے اور کام کرنے کی لگن اور اپنے اندر ایک دھن پیدا کرنے کی نہایت موثر پیرایہ میں توجہ دلائی.فرمایا اصل ایمان یہ ہے کہ دست در کار اور دل بایار ہو.لوگ کہتے ہیں کہ فلاں بزرگ ہے وہ کوئی کام نہیں کرتا.کیونکہ خدا کی محبت ایسی نہیں کہ کوئی دوسری بات بھی یاد رہے.اس لئے وہ تو اخلاقی علمی یا سیاسی نگرانی چھوڑ کر گوشہ خلوت میں یاد الہی میں لگے رہتے ہیں.میں ایسے شخص کو بزرگ نہیں سمجھتا.جو مصلی بچھا کر اللہ اللہ کرتا رہتا ہے.بلکہ میرے نزدیک بزرگ وہ ہے جو اخلاقی نگرانی کرتا ہے.علمی نگرانی کرتا ہے.سیاسی نگرانی کرتا ہے.منتظم جماعتوں کے افسروں کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسا کریں.جو ایسا نہیں کرتا آنحضرت نے اس کو قابل الزام ٹہرایا ہے.آپ نے فرمایا ہے.

Page 37

32 و لنفسک علیک حق ولزوجک علیک حق ولضیفک علیک حقا تو حقوق دنیاوی بھی عبادات ہیں.بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنے والا بھی عبادت کرتا ہے.ایک مصلیٰ پر بیٹھنے والا تو یہ دیکھ کر کہہ دے گا کہ یہ کیسا عیاش آدمی ہے.مگر آنحضرت نے اس کو بھی (اگر وہ احتسابا کرتا ہے.) عبادت ٹھہرایا ہے.اس کا ایسا ہی اجر ہے جیسے اس نے نماز پڑھی.آنحضرت ﷺ کی ایک بیوی نے گلاس سے پانی پیا.آپ نے بھی اسی جگہ اپنا منہ رکھ کر پانی پیا اس رنگ میں بیوی سے محبت کا اظہار کرنے کو بہت سے ایسے لوگ ہیں.جو اس کو عیاشی کہیں گے.مگر احتسابا یہ نیکی اور عبادت ہے.اس لئے میں افسروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ محنت سے کام کریں.دوسری بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے لئے کام کا مہیا کرنا ضروری ہے جس پر ان کو لگایا جائے.لیکن یہ کام نہ میں کر سکتا ہوں اور نہ محکمہ کر سکتا ہے.بلکہ یہ کام جماعت کا ہے.مختلف پیشے کرنے والے اور جاننے والے جماعت میں موجود ہیں.(نجار ہیں.سنار ہیں.لوہار ہیں) یہ دوسروں کو کام سکھا سکتے ہیں.یا کام کی جگہ نکال سکتے ہیں.یا بڑی بڑی منڈیوں میں کاموں کی بعضوں کو واقفیت ہوتی ہے.یا ایسے پیشے جن کو معلوم ہوں کہ جو قادیان میں رہتے ہیں وہ یہاں رہ کر بھی ان کے ذریعے کما سکیں تو وہ ان علوم اور ہنروں اور پیشوں سے مجھ کو یا امور عامہ کو اطلاع دیں.اور جن کو پیشے اور ہنر آتے ہیں وہ دوسروں کو سکھائیں.بعض دوسروں کو اپنا کام سکھانے میں بخل کرتے ہیں حالانکہ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ وہ اپنے ایک کمزور بھائی کو اپنا کام سکھا کر اپنی مدد آپ کرتے ہیں.اگر ایک جگہ ایک احمدی وکیل ہے تو دوسرے دس وکیل اس سے دشمنی کریں گے.اور ہر ایک کے آگے اس کے خلاف رائے دیں گے.لیکن اگر ایک کی جگہ ضلع میں دو احمدی وکیل بھی ہوں تو پھر ایک آواز تو کم از کم اس کے حق میں بھی پیدا ہو جائے گی.اسی طرح اگر کسی جگہ ایک احمدی نجار ہے.تو لوگ اس سے بائیکاٹ کر سکتے ہیں اور دوسرے دس اس ایک کے کام کو سنبھال سکتے ہیں.لیکن اگر کئی احمدی نجار ہوں تو پھر وہ لوگ ان سے کام کروانے پر مجبور ہوں گے.کیونکہ دوسرے ان کے کام کو سنبھال نہ سکیں گے.پس ان کے لئے کام مہیا کرنا یا ان کو کام سکھانا اپنی مدد آپ کرنا ہے.تیسرے جو ملازم ہیں اور محکمہ جات میں رسوخ رکھتے ہیں وہ اپنی جماعت کے بریکاروں کے لئے کام نکالیں.پہلے بھی میں نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے.بعض مسلمان جو کسی عہدہ پر ہوتے ہیں اور ان کو رسوخ حاصل ہوتا ہے وہ مسلمان کے لئے ملازمت کی کوئی جگہ اس لئے نہیں نکالتے کہ لوگ ان کو متعصب کہیں گے.حالانکہ ایسا خیال کرنا ان کی بیوقوفی ہے.اپنی قوم کی جو شخص مدد نہیں کرتا وہ انسان کہلانے کا بھی مستحق نہیں.اس لئے ہماری جماعت کے ملازمین کو اس طرف خاص توجہ کرنی چاہیے.مثلاً ایک اکسٹرا اسٹنٹ احمدی ہے.یا تحصیلدار.

Page 38

33 ہے.وہ اپنے محکموں میں اپنے بے روز گار احمدیوں کے لئے جگہ نکال سکتے ہیں اور وہ متعصب نہیں کہلا سکتے.کون ہے جو دیانت داری سے کہہ سکتا ہے.کہ اس کا بیٹا اگر لکھ پڑھ جائے تو وہ ڈپٹی کمشنر یا لاٹ صاحب یا دیگر افسروں کے سامنے اس کی سفارش کو تعصب قرار دے.تو پھر وہ اپنے ایک احمدی بھائی کی سفارش اور اس کے لئے کام نکالنے میں کیا متعصب کہلا سکتا ہے.اگر وہ اپنے بھائی یا بیٹے کی سفارش کر کے متعصب نہیں ہوتا بلکہ حقدار کو حق دلواتا ہے تو ایک احمدی کی وہ سفارش کر کے کیوں متعصب کہلا سکتا ہے.جس کی محبت بھائی کی محبت سے کم نہیں.یہ فطرتی بات ہے اس کو کوئی مٹا نہیں سکتا.ہاں یہ میں ناپسند کرتا ہوں کہ کوئی احمدی افسر حقدار کا حق تلف کر کے کسی احمدی کو دلوا دے.مثلاً ایک ہندو کے مقابلہ میں ایک احمدی جو کام نہیں کر سکتا اگر وہ ایسی حالت میں ہندو کو چھوڑ کر احمدی کو کام پر لگاتا ہے تو وہ تعصب سے کام لیتا ہے.لیکن اگر قابلیت کے لحاظ سے دونوں مساوی ہیں.تو پھر اگر وہ احمدی کو ترجیح نہیں دیتا تو وہ احمق ہے.قوم کا دشمن ہے.اس کو چاہیے کہ ایسی حالت میں احمدی کو ترجیح دے.پس مختلف صیغوں کے افسروں اور کارکنوں کو اپنے احمدی بھائیوں کے لئے جگہیں نکالنی چاہیں.مثلاً تحصیلدار عرائض نویس اور نقل نویس کی جگہ نکال سکتے ہیں.جس میں شدھ بدھ اردو بھی کام دے جاتی ہے.ذرا ہوشیاری کی ضرورت ہوتی ہے.اور پھر وہ خوب کمانے لگ جاتے ہیں.اسی طرح دفتروں میں ایسی جگہیں خالی ہوتی ہیں کہ ایک بی.اے دوسری جگہ ستر اسی سے زیادہ نہیں پا سکتا مگر ایک انٹرنس پاس وہاں دو دو سو اور پانچ پانچ سو پا سکتے ہیں.پس ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ کوشش کر کے کام نکالیں اور مرکز میں اطلاع دیں تا وہ نہ صرف اپنا بوجھ آپ اٹھا ئیں بلکہ سلسلہ کے لئے بھی وہ مفید ہو سکیں اور وہ اپنی جماعت کے ایسے لوگوں کی مدد کر کے اپنی مدد کریں گے اور ان کی بھی حکومت بڑھے گی.میں اپنے فرض سے صرف ان باتوں کی طرف جن کا میں نے ذکر کیا ہے توجہ دلا کر سبکدوش نہیں ہو سکتا بلکہ جو لوگ کام کرتے ہیں لیکن پورا نہیں کرتے.یا وہ زیادہ سے زیادہ محنت کر کے نہیں کرتے.ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ زیادہ محنت سے کام کریں اور جن کو کوئی مفید پیشے معلوم ہوں یا سکھا سکتے ہوں یا وہ ملازم ہوں.رسوخ رکھتے ہوں تو وہ اس سے اپنے بھائیوں کو فائدہ پہنچائیں تا وہ بھی جماعت کی ترقی اور سلسلہ کی اشاعت کے لئے مفید ہوں.اللہ تعالٰی ہم کو توفیق دے کہ ہم کمزوروں کی مدد کریں اور دیانت داری اور امانت کے ساتھ کام کر کے بھائیوں کو نفع پہنچائیں اور ہماری محبت آپس میں ایسی ہو جیسے سگے بھائی باہم محبت رکھتے ہیں.ا بخاری کتاب الادب باب حق الصيف (الفضل ۱۴ فروری ۱۹۲۵ء)

Page 39

34 6 اپنے ایمان کی خوشبو پھیلائیں (فرموده ۱۳ فروری ۱۹۲۵ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : صداقت اپنی ذات میں گو کسی تصدیق کی محتاج نہیں لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ہمیشہ قیمت اور قدر اسی نسبت کے لحاظ سے ہوتی ہے جس نسبت سے کہ وہ لوگوں کو نفع اور فائدہ پہنچا سکتی ہے.ہر ایک چیز کی قیمت وہی ہوتی ہے.جو اس سے دنیا کو فائدہ پہنچ سکتا ہے اور سکتا ہے اور سکتا میں فرق ہے."سکتا" دو طرح پر ہوتا ہے.ایک تو یہ کہ وہ چیز خود اپنی ذات کے لحاظ سے کتنا نفع پہنچا سکتی ہے اور ایک یہ کہ واقعہ میں کتنا نفع پہنچاتی ہے.اگر ایک چیز فائدہ دینے والی ہے اور وہ نفع پہنچا سکتی ہے لیکن عملاوہ نفع نہ دے تو کم سے کم وہ اس زمانہ کے لئے جس میں وہ دنیا کو نفع نہیں پہنچا رہی ایک بے حقیقت چیز ہے.اس کی اصل قیمت اسی وقت سے شروع ہو گی کہ جب وہ دنیا کو فائدہ پہنچانا شروع کر دے.مذاہب کی قدر و قیمت بھی میرے نزدیک اس لحاظ سے ہے.بے شک اس میں کوئی شک اور شبہ نہیں کہ مذہب میں وہ طاقتیں ہیں کہ جس سے دنیا کو بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے اور یہی بات ہے کہ جس کی وجہ سے وہ دوسروں سے ممتاز اور افضل ہے.لیکن محض اس نسبت کے لحاظ سے کہ اس میں ایسی طاقتیں موجود ہیں.اس کی اصل قدر و قیمت ظاہر نہیں ہوتی.اس کی اصل قیمت اور قدر جب ہو گی کہ وہ عملی طور پر لوگوں کو نفع پہنچائے.سونے کی قیمت اس وقت سے پڑنی شروع ہوتی ہے جب وہ کان سے باہر آجاتا ہے اور لوگ اس سے نفع حاصل کرتے ہیں.لیکن جب تک وہ کان کے اندر مخفی ہوتا ہے اس کی کوئی قیمت اور قدر نہیں ہوتی.سمندر کی تہہ میں لاکھوں موتی موجود ہیں مگر ان کی کیا قیمت ہو سکتی ہے.ان کی قیمت اسی وقت ہوتی ہے کہ جب وہ لوگوں کے

Page 40

35 ہاتھوں میں آتے ہیں اور ان کا استعمال شروع کر دیتے ہیں.اسی طرح مذہب کی اصل قیمت بھی اس وقت سے شروع ہوتی ہے کہ جب وہ دنیا کو فائدہ پہنچائے.پس کسی مذہب اور سلسلہ پر تب ہی فخر کیا جا سکتا ہے اور اس کے ماننے والے تب ہی اس پر ناز کر سکتے ہیں کہ وہ دنیا میں اس کو پھیلا کر لوگوں کو اس کا حلقہ بگوش بنا دیں.مجھے افسوس سے اس امر کا اظہار کرنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت کہ جس کا قیام اس اشاعت کے زمانہ میں ہوا ہے.وہ اس اشاعت کے کام میں بہت پیچھے ہے.جو تعداد اس وقت کام کرنے والوں کی ہے.اور جو تعداد اس وقت سلسلہ میں داخل ہونے والوں کی ہے.ان کی تعداد اور اپنے کام کو مد نظر رکھتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ جو کچھ ہم نے کیا وہ بالکل حقیر ہے.یہ بات جو میں کہتا ہوں تو اپنی محنت کے لحاظ سے درنہ خدا کے فضلوں پر نظر کرتے ہوئے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ اس کا فضل اور انعام ہی انعام ہے.مگر ہمیں جو کوشش اور محنت سے کام لینا چاہیے تھا اور جو اس کے نتائج پیدا ہونے چاہیے تھے نہ ہم نے وہ کوشش کی اور نہ وہ نتائج پیدا ہوئے.اگر دیکھا جائے تو جو لوگ کہ سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں.وہ بھی اکثر ایسے لوگ ہیں جو ہماری کوشش سے سلسلہ میں داخل نہیں ہوئے.بہت ہیں جو خوابوں کے ذریعے داخل ہوئے اور بہت ہیں جو پہلے بزرگوں کی حضرت مسیح موعود کے متعلق باتیں سن کر ایمان لائے اور سلسلہ میں داخل ہوئے اور بہت ہیں جنہوں نے حضرت صاحب کے نشانات دیکھے اور بہت ایسے ہیں کہ جنہوں نے حضرت صاحب کی تائید میں نشان دیکھے اور وہ سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں.اگر اس موجودہ رفتار سے لوگ سلسلہ میں داخل ہوتے رہے تو کہیں دس ہزار سال میں جا کر ہم دنیا کو اپنے سلسلہ میں داخل کر سکتے ہیں.کون کہہ سکتا ہے کہ اس سلسلہ کو اتنی لمبی زندگی بھی میسر آئے گی.نبیوں کے سلسلوں کو ہم دیکھتے ہیں.تو آدم " کا سلسلہ نو سو سال تک اور حضرت نوح کا سلسلہ ساڑھے نو سو سال تک اور حضرت موسیٰ کا انیس سو سال تک چلا پھر ختم ہو گیا.غرض جتنے سلسلے بھی شروع ہوئے.دو ہزار سال سے بڑھ کر کسی نے زندگی نہیں پائی اور اگر ہم یہ دیکھیں کہ جو نبی سلسلہ کی آخری اینٹ کے طور پر آتا ہے.ان کی ابتداء بالعموم کمزور ہوتی ہے.تو ہماری گھبراہٹ اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے.کیونکہ حضرت نوح سے حضرت ابراہیم تک اگر نو سو سال بنتے ہیں.تو حضرت ابراہیم سے حضرت موسی تک دو سو سے چھ سو سال تک بنتے ہیں.اسی طرح حضرت موسی سے لیکر حضرت مسیح تک تیرہ سو سال بنتے ہیں.تو حضرت مسیح سے حضرت نبی کریم ﷺ تک چھ

Page 41

36 و سال کے قریب بنتے ہیں.اسی طرح حضرت نبی کریم سے تیرہ سو سال بعد حضرت مسیح موعود مبعوث ہوئے.سکتا اگر یہی طریق اور سنت خدا تعالیٰ کی اس جماعت کے ساتھ بھی رہی تو ہماری جماعت کی عملی زندگی چھ سو سال سے زیادہ معلوم نہیں ہوتی.مگر جس رفتار سے ہم کام کر رہے ہیں اور جس رفتار سے ہم لوگوں کو سلسلہ میں داخل کر رہے ہیں اس لحاظ سے تو ہم دس ہزار سال میں جا کر اپنے کام کو پورا کر سکتے ہیں.حالانکہ گزشتہ تجربہ کے لحاظ سے ہمارا زمانہ چھ سو یا سات سو سال یا زیادہ سے زیادہ ہزار سال سے زیادہ نہیں کیونکہ اس کے بعد قیامت ہے.اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ قیامت کن معنوں میں ہے.مگر بہر حال اس کے بعد قیامت کا زمانہ ہے.پس زیادہ سے زیادہ ہمیں ہزار سال کا زمانہ مل ہے.جس میں ہمیں تمام دنیا کو مسلمان اور احمدی بنانا ہے.اور نہ صرف احمدی بنانا ہے بلکہ اسلام سے ان کو واقف کرنا اور ان کی تربیت بھی کرنی ہے.میرے نزدیک ہماری جماعت میں جو آج تک تبلیغ کا کام کر رہے ہیں ان سب کی تعداد میں ہزار سے زیادہ نہیں.جس سے ہم اپنی اصل طاقت کو بھی اتنے عرصے میں قائم نہیں رکھ سکتے.بلکہ اپنی زندگی کو بھی قائم نہیں رکھ سکتے بلکہ اس کام کے لحاظ سے اور اس تعداد کے لحاظ سے جو ہم اپنے سلسلہ میں داخل کر رہے ہیں.مشکل ہے کہ ہم اپنی زندگی کے آثار کو بھی اتنے عرصہ میں قائم رکھ سکیں.کیونکہ سلسلہ کی اصلی طاقت کا زمانہ بہت کم ہوتا ہے.مثلا رسول کریم ﷺ نے بھی تین سو سال کے بعد کے زمانہ کو صحیح اعوج کا زمانہ قرار دیا ہے.اسی طرح حضرت مسیح کے سلسلہ کی زندگی کا زمانہ بھی تین سو برس ہی تھا.بلکہ اگر سلسلہ کی روحانی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو وہ زمانہ اس سے بھی بہت کم ہے.اس کے لئے سویا سوا سو کا ہی زمانہ رہ جاتا ہے.ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ظاہری طور پر اور روحانی طور پر عملی رنگ میں یہ کام جس کے پیچھے ہم پڑے ہوئے ہیں ایک ناممکن کام نظر آتا ہے.مگر یہ ناممکن نہیں بلکہ ممکن ہے.خدا کے وعدے بچے ہیں اور وہ ضرور پورے ہو کر رہیں گے.مگر ہماری سستی اور غفلت اور ہماری کوتاہی اس کام کو پیچھے ڈال رہی ہے.میں نے بارہا جماعت کو اور جماعت کے افسروں اور کارکنوں کو توجہ دلائی ہے.کہ وہ اپنے فرض کو اور کام کی نزاکت کو سمجھیں.مگر مجھے افسوس ہے کہ باوجود میرے بار بار توجہ دلانے کے بھی بہت کم ہیں جنہوں نے اس طرف توجہ کی اور مجھے افسوس ہے کہ جو متوجہ ہوئے ہیں انہوں نے بھی جو توجہ کا حق ہے ویسی توجہ نہیں کی.اور ان میں سے بھی بہت کم ہیں جنہوں نے اس بات کو سمجھا ہو

Page 42

37 کہ اپنی طاقتوں کو اس راہ میں کس طرح خرچ کرنا چاہیے.میرے نزدیک اس لحاظ سے سو سوا سو سے زیادہ آدمی نہیں جو حقیقی طور پر تبلیغ کا کام سر انجام دیتے ہوں.یہی وجہ ہے کہ سلسلہ میں داخل ہونے والوں کی رفتار اس قدرست ہے.حالانکہ جماعت خدا کے فضل سے لاکھوں کی تعداد میں ہے.یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک احمدی سال بھر برابر کوشش کرتا رہے اور وہ سال بھر میں ایک بھی احمدی نہ بنا سکے.حالانکہ جو چیز اپنے اندر طاقت اور جذب رکھتی ہے.ناممکن ہے کہ وہ دوسری طاقت کو اپنی طرف نہ کھینچے.یہ ناممکن ہے کسی پر عطر چھڑ کا جائے اور اس کو اس کی خوشبو نہ آئے.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ آگ ہو اور گرمی نہ ہو.یا برف ہو اور ٹھنڈک نہ ہو.پس اگر ایک احمدی جس کو ایمان اور عرفان حاصل ہے.تو پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ کوشش بھی کرے اور پھر دوسرے کے دل میں ایمان اور عرفان پیدا نہ ہو.اگر باوجود کوشش کے ہم دوسرے کے اندر ایمان و عرفان پیدا نہیں کر سکتے تو پھر یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خود ہمارے اندر ہی ایمان و عرفان کی کمی ہے.یا دنیا میں رہ کر ہم دنیا کے لوگوں سے علیحدہ رہتے ہیں ورنہ ہماری کوشش اور محنت کا ضرور اثر ہوتا.اگر ہم دنیا میں رہ کر دنیا کو نفع نہیں پہنچا سکتے اور اگر ہماری تربیت سے دنیا کو کوئی نفع نہیں پہنچتا تو ہمارا اپنی ذات میں مفید اور نفع مند ہونا کچھ حقیقت نہیں رکھتا.اگر ہمارے اندر ایمان اور عرفان ہے.تو ضرور ہماری کوشش اور توجہ دوسروں کو کھینچنے والی ہو گی.اگر ہمارے اندر ایمان و عرفان کی گرمی ہوگی تو وہ ضرور دوسروں کے اندر بھی گرمی پیدا کرے گی.میں پھر احباب کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں.ان کو چاہیے کہ وہ اپنے فرض کو اور وقت کی نزاکت کو سمجھیں.مجھے افسوس ہے کہ کچھ کام جو جماعت کے افسروں اور کارکنوں کے سپرد ہیں جماعت کے لوگ ان کے پورا کرنے میں بہت کم حصہ لیتے ہیں.اگر قادیان کے لوگ ان کا ہاتھ بٹانے میں اپنا عملی نمونہ دکھائیں تو جماعت کے امیروں اور سیکریٹریوں اور کارکنوں کے کام میں دقت پیش نہ آئے.بعض وقت ایک ناظر کام کرنا چاہتے ہیں.لوگوں کو جلسے کے لئے بلاتے ہیں.تا مفید تجاویز پیش ہوں اور ان پر عملد در آمد کیا جائے.لیکن جلسہ میں بہت کم شریک ہوتے ہیں.پچھلے دنوں ہی میرے کہنے پر ناظر صاحب دعوت و تبلیغ نے جلسہ کیا تا تبلیغ کے لئے مناسب انتظام کیا جائے.لیکن قادیان کے چوبیس سو احمدیوں میں سے صرف ہیں پچیس آدمی ان کے جلسہ میں شریک ہوئے.جس کے صاف یہ معنی ہیں کہ انہوں نے اپنے عمل سے ان کو یہ جواب دیا ہے کہ تبلیغ کرنا ہمارا کام نہیں یہ

Page 43

38 تمہارا کام ہے.تم ہی کرتے پھرو.میں ہمیشہ حیران ہوتا ہوں کہ جب لوگ قرآن پڑھتے ہیں اور اس میں گزشتہ لوگوں کے حالات اور واقعات کو پڑھتے ہیں.اور وہ واقعات سب ان پر چسپاں ہوتے ہیں.لیکن وہ اپنی جگہ بیٹھے ہوئے گزشتہ قوموں کو کوستے رہتے ہیں کہ انہوں نے ایسا کیا.حالانکہ جو کچھ انہوں نے کیا یہ خود بھی وہی کچھ کر رہے ہوتے ہیں.گو یہ منہ سے تو موسیٰ کے ساتھیوں والا کلمہ نہیں کہتے مگر عملاً یہ بھی ان کی طرح اذهب انت وربك فقاتلا انا ههنا قاعدون (المائده ۲۵) کہتے ہیں.مجھے تعجب آتا ہے اور میں حیران ہوتا ہوں کہ بہت ہیں جو قرآن پڑھتے وقت گزشتہ قوموں کی حرکات پر افسوس کرتے ہیں.اور ان کو بے وقوف بناتے اور ان کے برے برے نام دھرتے ہیں اور بہت ہیں کہ ایسی آیات کو پڑھتے وقت ان کے بدن پر تشعریرہ ہو جاتا ہے.حالانکہ ان میں نوے فیصد ایسے ہوتے ہیں جن کی اپنی حالت ان سے کم نہیں ہوتی.جب وہ خود اللہ تعالٰی کے دین اور اس کی اشاعت میں عملی حصہ نہیں لیتے تو ان کا کیا حق ہے کہ وہ موسیٰ کے ساتھیوں پر تعجب اور حیرانی کا اظہار کرتے ہیں گو تم منہ سے اقرار یہی کرو.مگر عملا تم نے وہی کچھ کہا جو کہ موسیٰ سکے ساتھیوں نے کہا.میرے نزدیک جہاں لوگوں کا قصور ہے.وہاں افسروں کا بھی ہے.آج ناظر دعوۃ و تبلیغ نے مجھے کہا کہ کیا کریں لوگوں کو ہم کہتے ہیں لیکن وہ ہماری کوئی نہیں سنتے.آپ اگر کہیں تو سنیں گے.ورنہ ہماری بات کی تو کوئی پرواہ نہیں کی جاتی.میں نے ان کو بھی اور دیگر افسروں اور نائبوں کو بھی بار بار یہ بات کسی اور اس کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہر ایک بات منوانے سے ہی لوگ مانتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے لوگ ان کی بات کو نہ سنتے تھے اور نہ مانتے تھے مگر کیا انہوں نے یہ کہا کہ لوگ میری بات نہیں مانتے میرے آقا آنحضرت ﷺ ہی خود آدیں تو تب یہ مانیں گے.بلکہ انہوں نے یہ سمجھا کہ ہمارا کام ہے منوانا.آپ کے بعد حضرت خلیفہ اول خلیفہ ہوئے.جو نہی کہ لوگوں نے ہوش سنبھالا جھٹ کھڑے ہو گئے کہ ہم کیوں ایک شخص کی اطاعت کریں.اس وقت مولوی صاحب نے یہ نہیں کیا کہ جو کام خلافت کی وجہ سے ان پر عائد ہوا تھا اس کو ترک کر دیا ہو اور حضرت مسیح موعود کی روح کو مخاطب کر کے یہ کہنے لگ گئے ہوں کہ میں کیا کروں لوگ انکار کرتے ہیں.بلکہ وہ اس کام میں لگ گئے.یہاں تک کہ اکثر حصہ اٹھانویں ننانوے فی صد مان گئے.وہی لوگ جو خلیفہ کی کوئی ہستی نہ سمجھتے تھے ان کو خلیفہ ماننے لگ گئے.یا اب جب کہ میری خلافت کا زمانہ آیا تو کس قدر مخالفت ہوئی اور کتنی میرے خلاف کوشش کی گئی تو کیا میں نے اس وقت حضرت مولوی صاحب کو اپنی مدد کے لئے بلایا تھا.بلکہ میں جاننا تھا کہ جب یہ کام میرے سپرد ہوا ہے تو مجھے ہی اسے کرتا ہے اور لوگوں سے منوانا ہے.اس لئے افسروں کو چاہیے.ال

Page 44

39 کہ وہ لوگوں سے منوائیں..ان پر کام کی اہمیت ظاہر کریں اور بتلائیں کہ اگر تم اس میں شریک نہیں ہو گے تو تباہ ہو جاؤ گے.کیونکہ یہ روح نہایت خطرناک ہے.آج انہوں نے ناظروں کی بات کی پرواہ نہیں کی.کل کو وہ امیروں اور سیکرٹریوں کی بات کو بھی نہیں مانیں گے کہ خلیفہ خود کے تو ہم مانیں گے.اس لئے افسروں کو چاہیے کہ وہ بار بار اس امر کی تبلیغ کریں.کیا غیر احمدیوں میں تبلیغ کرنے سے وہ اس لئے رک جاتے ہیں کہ غیر احمدی سنتے نہیں اور مانتے نہیں.بلکہ ان کے محلوں اور ان کے گھروں میں جا جا کر تبلیغ کرتے ہیں.اسی طرح یہ بھی افسروں کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کے گھروں اور محلوں میں جا جا کر ان کو کام کی اہمیت بتلائیں.تاکہ وہ نظام کے ماتحت کام کرنے کے عادی ہو جائیں.اگر افسر ایسا نہیں کرتے اور اس طرح لوگوں کو توجہ نہیں دلاتے تو وہ اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کرتے وہ صحیح طور پر اپنی ذمہ داری سے اس طرح سبکدوش نہیں ہو سکتے کہ لوگ ان کی نہیں مانتے خلیفہ کی بات مانتے ہیں.اس لئے میں ان کو فلاں بات کہدوں.اس طرح تو حضرت مسیح موعود پھر یہ کہہ دیتے کہ لوگ میری بات نہیں مانتے.آنحضرت ا خود تشریف لائیں تو لوگ مانیں گے اور آنحضرت ا فرما دیتے کہ میری بات تو لوگ نہیں سنتے.وہ خدا تعالیٰ سے عرض کرتے کہ آپ خود اگر ان کو سمجھائیں یا اپنا کوئی جلال ان پر ظاہر کریں.جس کو کسی کام پر مامور کیا جاتا ہے اور جس کو افسر مقرر کیا جاتا ہے.اس سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ اس کام کو ہر طرح کوشش کر کے پورا کرے گا.گورنمنٹ جب کسی کو فوج کا افسر مقرر کرتی ہے تو اس سے یہ امید کرتی ہے کہ وہ اپنا آپ منوائے گا اور فوج سے گورنمنٹ کے منشاء کے مطابق کام لے گا.اگر کوئی فوج یہ کہہ دے کہ راستہ صاف اور ہموار نہیں یا ہمیں تو باڈی گارڈ کی ضرورت ہے.اس فوج نے گورنمنٹ کا کیا کام کرنا ہے.جب گورنمنٹ اس کو افسر بناتی ہے تو اس سے امید کرتی ہے کہ یہ لوگوں سے بات منوائے گا ہر معاملہ میں خلیفہ کا دخل دینا اس کا نتیجہ اچھا نہیں.لوگوں میں پھر اس بات کی عادت پڑ جائے گی اور وہ ہر بات پر یہ کہہ دیں گے کہ آپ کی ہم نہیں مانتے.خلیفہ صاحب کہیں تو مان لیں گے.اس طرح تو دنیا کا کوئی کام نہیں چل سکتا.میرے نزدیک افسر جو باتیں پیش کرتے ہیں اور جماعت کے لوگ ان کی مدد کے لئے ان کی آواز پر لبیک نہیں کہتے تو ان کی مثال ایسی ہی ہے.جیسے بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہا.لن نومن حتى نرى الله جهرة" کہ تمہاری بات ہم نہیں مانتے.ہاں اللہ آئے اور کہہ دے تو مان لیں گے.دوسروں کو تو وہ وعظ اور نصیحت کریں گے اور ان کے سامنے قرآن کے بیان کردہ واقعات پیش کریں گے.مگر جب ان کو ایک انتظام کے ماتحت کوئی افسر کوئی بات کہتا ہے تو کہہ دیتے ہیں خلیفہ صاحب کہیں تو پھر ہم مان لیں گے.

Page 45

40 نہایت غلط راہ ہے.بے شک اس بات کو جو تم کو شریعت کے فتوئی اور حکم کے خلاف معلوم ہو خلیفہ تک بھی پہنچاؤ.مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ تم نظام کی کچھ پرواہ ہی نہ کرو.اور کوئی کام بھی بغیر خلیفہ کے دخل دینے کے تم نہ کرو.یہ روح بہت خطرناک ہے.بہت جلد اس کو نکالنا چاہیے اور اس بہت کو جہاں تک ممکن ہو توڑنا ضروری ہے.اگر یہی روح ہر ایک شخص کے اندر پیدا ہو گئی.تو کل کو بیویاں خاوندوں سے کہنے لگ جائیں گی کہ ہم تمہاری بات نہیں مانتیں خلیفہ صاحب کہیں گے تو مانیں گی.اسی طرح لڑکوں کو والدین کہیں گے پڑھنے جاؤ.تو وہ یہ کہہ دیں گے کہ خلیفہ صاحب کہیں گے تو ہم مدرسے جائیں گے.ہر شخص اپنی جگہ یہ سمجھتا ہے کہ ہمارا حصہ حکومت ایک ثابت شدہ امر ہے.مدرس یہ سمجھتے ہیں کہ طالب علموں کا فرض ہے کہ وہ ان کی بات مانیں.لیکن ہیڈ ماسٹر کوئی بات کہے یا ناظر کوئی حکم دے تو پھر کہہ دیتے ہیں کہ خلیفہ صاحب کہیں گے تو ہم مان لیں گے.حالانکہ یہ دین کا کام ہے ان کا ذاتی کام نہیں.اگر وہ کہتے ہیں کہ فلاں جھگڑے کا تصفیہ کرنا ہے یا فلاں جگہ جھگڑا ہے وہاں جانا ہے یا فلاں بات ہے اس کے متعلق تحقیقات کرنی ہے یا فلاں جگہ تبلیغ کرنی ہے اور ان لوگوں کو سمجھانا ہے تو یہ ان کے ذاتی کام نہیں.کیا اگر خلیفہ نہ ہو تو وہ یہ پسند کریں گے.کہ تمام نظام مٹ جائے.کیا وہ خود کام نہ کریں گے اور تمام امور کی درستی کے لئے کوشش نہ کریں گے اور اس کو خراب ہونے دیں گے.خلیفہ کے لئے اتنا وقت اور فرصت کہاں کہ وہ ہر بات میں دخل دے سکے.اس لئے جب بھی آپ کو پکارا جائے آپ کا فرض ہے کہ آپ افسروں کی آواز پر لبیک کہیں.کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے تم کو بلاتے ہیں.ہاں اگر کوئی افسر تم سے لکڑیاں اٹھوائے تو تم انکار کر دو.مگر اسلام تو یہ بھی حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی دینوی امور میں بھی تمہاری امداد کا محتاج ہے تو تم اس کی مدد کرو بغیر اس کے کہ خلیفہ یا بادشاہ تم کو کہے.اس وقت خصوصیت کے ساتھ دو امور کی طرف بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے.ایک اشاعت سلسلہ کی طرف اور دوسرے اخلاق کی درستی کی طرف.ان دو باتوں کے بغیر ہم کبھی ترقی نہیں کر سکتے.بے شک چندہ دینا اچھا کام ہے.مگر چندہ دے دینے سے اخلاق درست نہیں ہو جاتے.ہاں جس کے اخلاق درست ہو جائیں وہ چندہ بھی ضرور دے گا.جو حضرت ابو بکر جیسے اخلاق پیدا کر لے گا وہ ضرور ان کی طرح خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال بھی دے دے گا.لیکن یہ نہیں کہ جو مال دے اس کے اندر حضرت ابو بکر جیسے اخلاق بھی پیدا ہو جائیں.یہ تو ممکن ہے کہ کوئی اپنا سارا مال خدا کی راہ میں دیدے مگر وہ ابو بکر نہ بن سکے.مگر یہ ممکن نہیں کہ کوئی ابو بکر بنے اور پھر اپنا سارا مال خدا کی راہ میں نہ دے.میرے نزدیک موجودہ ترقی کی رفتار بہت کمزور ہے.جب تک ایک لاکھ

Page 46

41 سالانہ سلسلہ میں لوگ داخل نہ ہوں ہماری ترقی خطرہ میں ہے.ہمیں جلد سے جلد اس بات پر قادر ہونا چاہیے.ایک لاکھ سالانہ کی رفتار سے ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ سلسلہ میں ایسے لوگ پیدا ہو جائیں گے.کہ جو اس کام کو جاری رکھ سکیں گے.موجودہ حالت میں تو ہم یہ بھی امید نہیں کر سکتے.پس جس طرح احباب سب چندہ دیتے ہیں اسی طرح ایک دو سال بھی اگر وہ سب اشاعت سلسلہ اور اخلاق کی درستی کی کوشش میں لگ جائیں.جس کے ساتھ جماعت کے اندر ایک رو پیدا ہو جائے.تو اس طرح ایسی تعداد پیدا ہو سکتی ہے کہ جو کام کو سنبھال سکیں.اس لئے میں ان لوگوں کو جو خطبہ سنتے ہیں اور یہاں حاضر ہیں.اور ان کو بھی جن تک یہ خطبہ پہنچے اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ آج دل میں وعدہ کر لیں کہ اشاعت سلسلہ میں وہ ہمہ تن مشغول ہو جائیں گے.اور اس فرض کو محسوس کر کے اپنی زندگیوں کو دین کے لئے وقف کریں گے.اس کے بعد میں ان لوگوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں جن کے سپرد کام کا کوئی حصہ کیا گیا ہے کہ آج سے وہ پوری محنت اور کوشش سے کام کریں.تمام افسروں اور سیکرٹریوں اور امیروں کا فرض ہے کہ وہ ایک نظام کے ماتحت کام کی سکیم تیار کریں اور پھر لوگوں سے اس کام کو پورا کرائیں.اگر وہ ایسا نہ کریں تو جواب دہ ہیں.موجودہ حالت میں تین چار ہزار آدمیوں کی سالانہ ترقی سلسلہ میں ہوتی ہے.اگر دس ہزار سالانہ بھی ہو تو یہ بھی کم ہے.کیونکہ اگر اس تعداد کو چھانٹا جائے تو بچے عورتیں اور پرانے احمدیوں کی اولاد کو نکال کر پانچ چار ہزار ہی رہ جاتے ہیں.اگر ناظریت المال چندے پوری طرح فراہم نہ کریں تو دیکھیں دوسرے افسر کس طرح خاموش بیٹھے رہیں.سب شور مچانے لگ جائیں.لیکن مجھے تعجب ہے کہ اتنی تھوڑی تعداد جب وہ سلسلہ میں داخل ہوتی دیکھتے ہیں تو وہ شور کیوں نہیں کرتے اور افسر گھبراتے کیوں نہیں.موجودہ ترقی تو بہت ست ہے.اس سے پہلے حضرت مسیح موعود کے وقت جب کہ لوگ جوق در جوق اور فوج در فوج سلسلہ میں داخل ہوئے تھے.ان کی کمی بھی موت فوت یا ارتداد وغیرہ کے ذریعے جو ہوتی تھی پوری کرنا مشکل تھی.اللہ تعالٰی ہم کو توفیق دے کہ ہم اپنے فرائض کو سمجھیں اور ہم اپنے اوقات کو خدمت اسلام اور سلسلہ کی اشاعت میں صرف کریں.خطبہ کے بعد حضور نے فرمایا کہ میں نماز کے بعد حکیم احمد حسین صاحب کا جنازہ پڑھوں گا.حکیم صاحب شاعر تھے.اکثر جلسوں میں شعر پڑھا کرتے تھے اور مخلص احمدی تھے.ان کے بھائی کا خط آیا ہے کہ وہ علاقہ نماز میں فوت ہوئے ہیں اور ان کا جنازہ پڑھنے والا کوئی نہ تھا.اس لئے میں ان کا جنازہ پڑھوں گا.الفضل ۲۱ فروری ۱۹۲۵ء)

Page 47

42 7 مقصد کے لئے مسلسل کوشش کرتے رہیں (فرموده بمقام پھیرو چیچی ۲۷ فروری ۱۹۲۵ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول سورج کی طرح ہوتے ہیں.جس طرح جس وقت سورج نکلتا ہے اس وقت تمام ظلمتیں اور اندھیرے دور ہو جاتے ہیں.اسی طرح انبیاء کے نور اور ان کی شعاوں کے سامنے بے دینی اور اللہ تعالیٰ سے بعد بھی دور ہو جاتا ہے.کسی چیز کا فائدہ اسی وقت ہوتا ہے جب اس سے فائدہ اٹھایا جائے.دیکھو مکہ کے لوگوں نے آنحضرت ﷺ کا انکار کیا اور اس نور کو اپنے اندر داخل نہ ہونے دیا.مگر برخلاف اس کے مکہ سے بہت پرے مدینہ کے لوگوں کو آنحضرت ان کی نبوت کا سورج خود بخود منور کر گیا.مکہ میں بہت سے لوگ تھے جنہوں نے اپنے دل کی کھڑکیاں بند کی ہوئی تھیں اور وہ نہ چاہتے تھے کہ یہ روشنی ہم تک پہنچے.جس طرح ایک ملاح کشتی میں چھوٹے چھوٹے سوراخوں کو بند کرتا ہے کہ پانی کا ایک قطرہ بھی اس میں داخل نہ ہو.اسی طرح وہ بھی اپنے دل کے ہر چھوٹے چھوٹے سوراخ کو بند کرنے کے لئے کوشش کرتے یا جس طرح ایک انسان ایک بوسیدہ کپڑے کو ذرا بھی پھٹا ہوا دیکھتا ہے تو وہ اس کو پیوند لگانے میں سستی نہیں کرتا.یا جس طرح ایک مکان جس کی چھتیں خستہ حالی میں ہوں.اس میں اگر چھوٹے سے چھوٹا سوراخ بھی ہو جائے تو وہ اس کو بند کرتا ہے.اسی طرح مکہ کے لوگ بھی آنحضرت ا کے نور کو بند کرتے تھے.یا جس طرح ایک شخص کی آنکھیں دکھ دے رہی ہوں تو وہ کمرے کے دروازے بند کر کے لحاف کے اندر گھس جاتا ہے کہ سورج کی کرنیں اس تک نہ پہنچیں.اسی طرح مکہ والے بھی احتیاط کرتے کہ کہیں یہ نور ہم تک نہ پہنچ جائے.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تیرہ سال کی کوششوں کے بعد صرف اسی آدمی مسلمان ہوئے.اور پھر ان میں سے اکثر وہ لوگ

Page 48

43 تھے جو آپ کے منشیں تھے.مثلاً حضرت ابو بکر انہیں جب کسی نے آکر کہا کہ سنا ہے خدیجہ کا خاوند پاگل ہو گیا ہے اور کہتا ہے کہ میں نبی ہوں.باقی لوگوں نے جب اس بات کو سنا تو وہ نہیں اور تمسخر کرنے لگ گئے.ابو بکر وہاں سے اٹھے اور آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور تصدیق کے طور پر پوچھا.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہاں خدا نے مجھے اپنا نبی بنایا.آپ فوراً ایمان لے آئے.اس وقت زیادہ تر وہی لوگ ایمان لائے جن کے راستہ میں کوئی روک نہیں تھی یا پھر باقی وہ لوگ تھے جن کے کان میں اتفاقی کوئی بات پڑ گئی اور پھر وہ مجبور ہو گئے کہ مان لیں.مثلاً حضرت عمر گھر سے اس ارادہ سے نکلے کہ آپ کو قتل کر دیں.راستہ میں کسی شخص نے پوچھا کہ عمر کہاں جا رہے ہوں.غصہ سے کہنے لگے.محمد کا فتنہ بہت بڑھ گیا ہے آج اس کو قتل کر کے ہی آؤں گا.اس نے کہا پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو.تمہاری بہن اور بہنوئی دونوں اس دین کو قبول کر چکے ہیں عمر کہنے لگے.اچھا تو پہلے میں ان کا ہی صفایا کرلوں.یہ کہہ کر اسی وقت ان کے گھر روانہ ہوئے اور دروازہ پر دستک دی.اس وقت آپ کی بہن اور بہنوئی ایک صحابی سے قرآن کریم سن پڑھ رہے تھے.انہوں نے اس خیال سے کہ عمر تیز طبیعت کے آدمی ہیں ممکن ہے کوئی نقصان پہنچائیں.صحابی کو چھپا دیا اور قرآن کریم کے اوراق بھی چھپا دیئے اور دروازہ کھول دیا.حضرت عمر اپنے بہنوئی پر جھپٹے اور کہا کہ تم نے مذہب تو خراب کیا تھا میری بہن کو بھی خراب کیا اور اپنی بہن کو بھی زخمی کر دیا.بہن بولی بھائی جس بات کو سن کر ہم نے اس دین کو قبول کیا ہے تم بھی سن لو.آپس میں کتنی ہی دشمنی ہو پھر بھی بھائیوں کو بہنوں سے محبت ہوتی ہے.بہن کے زخم سے خون بہتا دیکھا تو شرمندگی بھی آئی کہ میں نے عورت پر حملہ کیا.کہا اچھا سناؤ تو سہی.مگر بہن بولی تم ناپاک ہو پہلے اپنے آپ کو پاک کر لو.حضرت عمر نے ایسا ہی کیا.اس کے بعد صحابی کو بلایا گیا اور ان سے درخواست کی گئی کہ وہ قرآن کریم سنائیں.حضرت عمر نے پہلے تو تماشا کے طور پر چند آئتیں سنیں.تھوڑی دیر کے بعد خاموشی سے گھر سے نکل آئے اور جس گھر میں آنحضرت ﷺ تھے وہاں پر جا کر دستک دی.ایک صحابی کہنے لگے کہ عمر ہے کوئی فساد نہ کرے.حضرت حمزہ کہنے لگے.کھول دو اگر عمر فساد کرے گا تو ہم بھی بزدل نہیں آنحضرت نے دروازہ کھولا اور پوچھا کہ اے عمر یہ مخالفت کب تک رہے گی.حضرت عمر کہنے لگے حضور ایمان لانے کے لئے ہی آیا ہوں تو حضرت عمر کا ایمان لانا ایک اتفاقی بات تھی کہ چند آئتیں ان کے کان میں پڑ گئیں.حضرت عمر دعوے سے تین سال کے بعد ایمان لائے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تین سال کے عرصہ میں ایک آیت بھی ان کے کان میں نہ پڑی تھی.جس سے پتہ

Page 49

44 لگتا ہے کہ مکہ کے لوگ کس قدر بچاؤ کی کوشش کرتے تھے.خدا تعالیٰ کے انبیاء بے شک سورج کی طرح ہوتے ہیں مگر سورج کی روشنی بھی اسی وقت تک فائدہ دے سکتی ہے جب اس سے فائدہ اٹھایا جائے.خدا تعالیٰ نبی اس وقت مبعوث کرتا ہے جب کہ لوگوں کے دل اس قدر گندے ہو جاتے ہیں کہ ان کو مرض کا احساس ہی جاتا رہتا ہے اور ان کی حالت اس پاگل اور مجنون شخص کی ہو جاتی ہے جو اپنی مرض کے وجود کو ہی نہیں مانتا.اگر اس کو کہا جائے کہ تو بیمار ہے تو وہ لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتا ہے.دیکھو سوتے کا جگانا آسان ہے مگر جاگتے کو کون جگائے.ان کی مثال اس چھوٹے بچے کی ہوتی ہے جو انگارے کو سرخ سمجھ کر پکڑنے کی کوشش کرتا ہے.جب ماں باپ اسے منع کرتے ہیں تو ان کو اپنا دشمن خیال کرتا ہے.اس بچے کا علاج تو جلدی ہو جاتا ہے کہ ذرا ہوش سنبھالتا ہے تو وہ اصل حقیقت سمجھ جاتا ہے.مگر اس بے دین کا علاج تو بہت ہی مشکل ہے کیونکہ اسے تو مرنے کے بعد ہی پتہ لگے گا.اس لئے اس کی حالت بہت ہی قابل رحم ہے.اسی طرح ان لوگوں کو جنہیں خدا تعالی نے حق قبول کرنے کی توفیق دی ان کا بھی فرض ہے کہ پوری کوشش سے اپنے بھائیوں تک بھی یہ روشنی پہنچا دیں.مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے اکثر لوگ صرف سچائی کو قبول کر کے بیٹھ رہتے ہیں اور اس کو آگے پہنچانا اپنا فرض نہیں سمجھتے.دیکھو اگر کوئی شخص ڈوب رہا ہے اور ایک آدمی کھڑا تماشا دیکھتا رہے اور اسے بچائے نہیں.تو لوگ اسے یہی نہیں کہیں گے کہ اس نے غلطی کی بلکہ اسے اس کا قاتل کہیں گے اور ایسا جیسا اس نے گلا گھونٹ کر اسے مار دیا.جو شخص پانی میں ڈوتا ہے.اس کی تو ایسی عارضی زندگی کا خاتمہ ہوتا ہے.ممکن ہے کہ وہ نیک آدمی ہو اور خدا تعالیٰ اس کی اس بے وقت موت کی وجہ سے اسے جنت عطا کرے.مگر وہ لوگ جو حق کے قبول کرنے سے قاصر رہے وہ تو اس دنیا میں بھی نامراد رہے اور آخرت میں بھی.اور بعض لوگ ہماری جماعت میں ایسے ہیں جو نا امید ہو جاتے ہیں.اور یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ایسے مخالف کس طرح مان جائیں گے.لیکن وہ اگر ذرا بھی اپنی سابقہ حالت پر غور کرتے کہ وہ خود کیسی مخالفت کرتے رہے.مگر باوجود اس کے جب ان کو حق نظر آ گیا تو وہ ماننے کے لئے مجبور ہو گئے.کسی نے ان کے دل کی کھڑکیاں توڑ کر ان کے دل میں روشنی پہنچا دی.افسوس ہے کہ وہ اپنے تجربہ کو بھول گئے.تیسرا گروہ وہ ہے جو کہتا ہے کہ آپ ہی مان جائیں گے مگر وہ اتنا نہیں سمجھتے کہ خدا تعالیٰ نے ہر کام کے لئے کچھ اسباب اور تدابیر مقرر کی ہیں.جب تک ان سے کام نہ لیا جائے کام نہیں چلتا.

Page 50

45 ایک دفعہ میں لاہور سے قادیان آرہا تھا.تو ایک پیر صاحب بھی میرے ساتھ گاڑی پر سوار ہوئے.وہ امرتسر جا رہے تھے.ان کو مجھ سے کچھ کام تھا.اس لئے وہ مجھے خوش کرنا چاہتے تھے.انہوں نے کشمش کی اور مجھے بھی کھانے کو کہا.میں یوں بھی حضرت مسیح موعود کے ایک بلند ترین دشمن کے ساتھ کھانا پسند نہ کرتا.مگر اس وقت میرے پاس ایک معقول بہانہ بھی تھا کہ مجھے نزلہ تھا.اس لئے میں نے انکار کر دیا.تو وہ مجھے اپنی علمیت بتانے لگے اور کہنے لگے کہ جب تک خدا کی مرضی نہ ہو کوئی کام نہیں ہوتا.آپ بے شک کھالیں کوئی حرج نہیں.میں نے جواب دیا.پیر صاحب آپ نے امرتسر آنا تھا تو یہ ٹکٹ خریدنے کی اور گاڑی پر چڑہنے کی تکلیف کیوں گوارا کی.خدا کی مرضی ہوتی تو آپ خود ہی پہنچ جاتے.کہنے لگے کچھ اسباب بھی ہوتے ہیں.میں نے کہا بس یہی تو میں کہتا تھا کہ کشمش میں کھٹاس ہوتی ہے اور اس لئے وہ میرے لئے نزلہ میں مضر ہو گی.پس ہماری جماعت کے لوگوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا میں کوئی کام آپ ہی نہیں ہو جایا کرتا.اس کے لئے تدابر اور سامانوں کی ضرورت ہوتی ہے.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم بار بار تبلیغ کریں.دیکھو لوہار جندرا (تالا) توڑتے وقت ایک ہی چوٹ مار کر بیٹھ نہیں رہتا.بلکہ پے درپے چوٹیں لگاتا ہے.آخر جندرا ٹوٹ جاتا ہے.پس ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بار بار تبلیغ کریں.آخر ہم اس قلعہ کو توڑ دیں گے پس یہ تینوں گروہ غلطی پر ہیں.بچے مومن اور مخلص وہ ہیں جن کو خدا نے اس نعمت سے مستفیض کیا.وہ اوروں کو بھی پہنچا کر اپنا فرض پورا کرتے ہیں.کسی کے گھر میں آگ لگی ہوئی ہو تو کیا ہمسائے اس کو بجھانے کے لئے پوری کوشش نہیں کرتے.عقلمند وہ ہے جو اس بے دینی کی آگ کو جو دنیا میں بھڑک رہی ہے بجھانے کے لئے پوری کوشش کرتا ہے.میں نے سمجھا کہ وہ لوگ کس طرح آرام کر سکتے ہیں.جو یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے بھائیوں کے! ہمسائیوں کے گھر میں آگ لگی ہوئی ہے اور وہ اسے بجھانے نہیں جاتے.ان کو چاہیے کہ وہ مجنونانہ رنگ اختیار کریں.کیا کبھی سستی سے بھی اٹھ اٹھ کر آگ بجھا کرتی ہے.ایمان کی مثال کھیتی کی طرح ہوتی ہے.اس کو وقت پر کاٹ لینا چاہیے.ورنہ یہ کھیت تباہ ہو جائے گا.یعنی جب نبیوں کے قریب کا زمانہ گزر جاتا ہے.تو وہ سڑ جاتا ہے.دیکھو اگر بے دینی کی جڑ مضبوط ہو گئی.تو اس کا کاٹنا مشکل ہو جائے گا.جس طرح درخت کی جڑ جب مضبوط ہو جاتی ہے.تو اس کا اکھاڑنا مشکل ہو جاتا ہے.اسی طرح نیا نیا انکار بھی نرم ہوتا ہے.اس کا انسداد آسان ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے اپنے فرائض کے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمادے اور اس کی مدد اور نصرت ہمیشہ ہمارے ساتھ ہو.آمین امه سیرت ابن ہشام جزو اول حالات قبول اسلام سیدنا عمر بن الخطاب الفضل ۷ مارچ ۱۹۲۵ء)

Page 51

46 8 انفاق فی سبیل اللہ اور قومی و انفرادی ترقی کے حصول کے ذرائع (فرموده ۶ مارچ ۱۹۲۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : آج سے تین ہفتہ پہلے میں نے ایک چندے کی تحریک کی تھی.جس میں خدا کے فضل سے بہت کامیابی ہوئی ہے اور جماعت کے مخلصین نے بڑی گرم جوشی سے اسے قبول کیا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ جس قدر روپیہ کا استعمال اس زمانہ میں ہوتا ہے.پہلے زمانہ میں نہیں ہو تا تھا.پہلے تو ایک گھر جس کے لوگ کھدر بنتے تھے وہ اتنا بنتے تھے کہ ان کی گھر کی ضروریات سے بچ رہتا تھا اور روپے کی بجائے وہ بقیہ کھدر کے بدلے کچھ اور سامان لے لیتے تھے.کھانے پینے کا سامان لے لیا.جوتے لے لئے یا لکڑی اور لوہے کا سامان لے لیا.اس وجہ سے پرانے زمانہ میں اس قدر مال کی احتیاج نہ تھی جتنی کہ آج کل ہے.آج کل تو ہر ایک چیز کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے.گو مالی احتیاج سب لوگوں کی ہی بڑھی ہوئی ہے.مگر ہماری جماعت کے لوگوں کے لئے سب سے زیادہ ہے.کیونکہ ہماری جماعت کے لوگ عام طور پر غرباء ہیں اور پھر غرباء بھی مظلوم غرباء - ہندوستان میں ہمارے دشمن ہماری جماعت کو جو نقصان پہنچاتے ہیں وہ بھی زیادہ تر مالی حالت پر ہی اثر ڈالتا ہے.چونکہ زیادہ حصہ ہماری جماعت کا ہندوستان میں پایا جاتا ہے.اس لئے ہمارے دشمن گورنمنٹ انگریزی کی حکومت میں ایسا طریقہ ظلم تو ہماری جماعت کے لوگوں کے ساتھ نہیں برت سکتے جس کی وجہ سے گورنمنٹ کی گرفت میں

Page 52

47 آسکیں.مگر جو کچھ ان سے ہو سکتا ہے اس سے باز نہیں رہتے.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ مالی رنگ میں ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں.مثلاً اگر کوئی احمدی دوکاندار ہے تو سودا وغیرہ اس سے لینا بند کر دیں گے.یا اگر احمدی کہیں ملازم ہے تو کوشش کر کے اس کو نکال دیں گے اور دوسرے کو وہاں نوکر کرا دیں گے.یا احمدی کی ترقی بند کرا دیں گے.یا اگر شادی شدہ ہے تو اس کی بیوی کو گھر میں روک لیں گے اور اس کے زیورات پر قبضہ کر لیں گے.اگر وہ کوئی اور شادی کرے گا تو پھر روپیہ اسے خرچ کرنا پڑے گا.غرض ہندوستان کے دشمنوں کے مظالم کا اثر زیادہ تر ہماری جماعت کی مالی حالت پر ہی پڑتا ہے.ان کی طرف سے اور مظالم بھی کئے جاتے ہیں مگر ان کا بڑا حصہ وہی ہے.کہ جس سے ہماری جماعت کو مالی نقصان پہنچتا ہے.پس ایسی کمزور اور مظلوم جماعت کا دینی خدمات اور اعلاء کلمتہ اللہ کے لئے اس فراخدلی سے اپنے مالوں کو قربان کرنا بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے.اور پھر اس کے ساتھ جو اخلاص ہماری جماعت کو دیا گیا ہے اور جس کا نمونہ ہر موقع پر دیکھا گیا ہے وہ بھی خدا کا خاص عطیہ ہے.جب کبھی بھی چندے کی تحریک کی جاتی ہے.وہ جس ارادہ اور نیت سے کی جاتی ہے اور اس میں جتنی کوشش اور سعی کی جاتی ہے اس کا جواب بھی ویسا ملتا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ پچھلی دفعہ جب ایک ایسی ہی تحریک کی گئی تو مجھے خیال آیا تھا کہ کہیں جماعت پر یہ چندہ بوجھ نہ ہو.اس وجہ سے میں نے لوگوں کی کمزوری کا خیال رکھا.آخر جس طرح اس تحریک میں لوگوں کا خیال رکھا گیا ویسے ہی وہ تحریک بھی لڑکھڑاتی ہوئی نکلی.لیکن اس دفعہ بہت سے خرچ کے بعد اور پھر ایسے وقت میں جب کہ غلہ بہت گراں ہو گیا ہے.آٹا اس وقت کی نسبت قریب نصف کے ہو گیا ہے.گویا خرچ آگے سے تین گنا زیادہ بڑھ گئے ہیں.اس وجہ سے یہ خیال ہو سکتا تھا کہ یہ تحریک جماعت پر زیادہ بوجھ ہو گی.مگر جس قدر زیادہ زور کے ساتھ اس تحریک کو پیش کیا گیا اسی قدر زیادہ زور اور اخلاص کے ساتھ جماعت نے اس کا جواب بھی دیا ہے.پچھلے سال کی تحریک میں تو جتنا بھروسہ کیا گیا تھا وہ جماعت کے اخلاص پر کیا گیا تھا.اگرچہ اخلاص بھی جماعت میں خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے.لیکن اب کے جو تحریک میں نے کی ہے اس کے آخری حصہ میں میں نے خدا تعالیٰ سے دعا بھی کی ہے کہ جو اس تحریک میں حصہ لیں اور جو اس تحریک کو کامیاب بنانے کی کوشش اور سعی کریں ان پر اپنے خاص فضل اور برکتیں نازل فرمائے اور اس دعا کے نتیج میں میں ہر نماز میں بالالتزام دعا کرتا ہوں.اور میں امید رکھتا ہوں کہ جو لوگ اس تحریک میں حصہ لیں گے اور اس کو زیادہ سے زیادہ کامیاب بنانے کی کوشش

Page 53

48 کریں گے خدا تعالٰی ضرور ان پر اپنے خاص فضل اور برکتیں نازل فرمائے گا.پس اس کی طرف میں پھر اپنی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس تحریک کو کامیاب بنانے کی طرف متوجہ ہوں.میں اس امر پر خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہماری جماعت میں ایسا اخلاص پیدا کیا ہے.کیونکہ خدا تعالی فرماتا ہے.لئن شكرتم لازیدنکم خدا تعالیٰ کی جس نعمت کا شکر کیا جاتا ہے اس میں وہ اور اضافہ فرما دیتا ہے.لیکن اس کے ساتھ ہی میرے خیالات کا ایک اور پہلو بھی ہے جس کو کم اہم سمجھا گیا ہے.حالانکہ وہ بھی بہت اہم ہے اور اس کے لئے بھی بہت زیادہ قربانیوں کی ضرورت ہے.اس وقت دنیا میں ایسی قوم جس کی طاقت اور جس کی قربانیاں دشمن کے مقابلہ میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتیں وہ وہ جماعت ہے جو احمدی جماعت کہلاتی ہے.جہاں تک میں سمجھتا ہوں تاریخ میں حضرت آدم کے زمانہ سے لے آج تک کسی قوم کے ذمہ اتنا بڑا کام نہیں ہوا جتنا کہ ہمارے ذمہ ہے.لیکن باوجود اس کے کہ تمام گزشتہ قوموں سے بڑا کام ہمارے ذمہ ہے.پھر بھی ہماری قربانیاں ابھی تک پہلی قوموں سے بڑھ کر تو الگ رہا ان کے برابر بھی نہیں.بعض تو ایسی قربانیاں ہیں جن کے کرنے میں ہماری طرف سے کوتاہی ہے.لیکن بعض ایسی بھی ہیں.جن کے لئے ابھی تک ہم سے مطالبہ نہیں کیا گیا اور میں جانتا ہوں کہ اگر مطالبہ کیا گیا تو جماعت کا بیشتر اور اکثر حصہ ان قربانیوں کے لئے تیار ہو جائے گا.مثلاً ہندوستان میں چونکہ ابھی تک جانی قربانی کا موقع ہماری جماعت کو پیش نہیں آیا.اس لئے اس سے جانی قربانی کا مطالبہ نہیں کیا گیا.حالانکہ ہندوستان میں ہی پیشتر حصہ جماعت کا ایسا ہے کہ اگر اس سے جانی قربانی کا مطالبہ کیا جائے.تو وہ انشاء اللہ کابل کی جماعت سے پیچھے نہ رہے گا.یہ خدا تعالیٰ کی مشیت کا تقاضا ہے کہ ہمیں ابھی ایسی قربانی کی ضرورت پیش نہیں آئی.لیکن اگر وہ چاہے تو ہم میں سے بہت کم ہوں گے جو نعوذ باللہ یہ کہہ دیں گے کہ ہم ایسے ایثار اور قربانی کے لئے تیار نہیں ہیں اور بہت ہیں جو یہ خیال کر کے ہی خوشی اور لذت محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں بھی ایسا موقع نصیب ہو.لیکن باوجود اس کے کہ ان کو اس قسم کی قربانی کا موقع اس لئے نہیں ملا کہ اس کی ضرورت پیش نہیں آئی.تاہم ایسی قربانیوں کا موقع ان کے لئے موجود ہے جو بظاہر چھوٹی نظر آتی ہیں لیکن ان کے نتائج اتنے ہی بڑے ہوتے ہیں جتنے جان کی قربانی سے پیدا ہو سکتے ہیں.جماعت کو ان قربانیوں کی طرف خاص توجہ کرنی چاہیے.ان ہی میں سے ایک مالی قربانی ہے.اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے.مگر میں اس وقت اس حصہ کے بیان کرنے کے لئے کھڑا نہیں ہوا.

Page 54

49 آج جس حصہ کے بیان کرنے کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں.وہ ایک شبہ ہے جو اس تحریک کے متعلق پیدا ہوا ہے.جو چندہ کے متعلق کی گئی ہے.دو خط مجھے پہنچے ہیں.ایک بھیرہ سے اور ایک سیالکوٹ سے.ایک کے نیچے تو نام لکھا ہے مگر ایک بے نام ہے.خطوط لکھنے والوں نے اپنے خط میں یہ شبہ پیش کیا ہے کہ دس لاکھ کی جماعت میں اگر دو آنے فی کس بھی چندہ لیا جائے تو سوا لاکھ کی رقم ہو سکتی ہے.پھر ہر ایک احمدی کو ایک ماہ کی آمدنی دینے کی کیا ضرورت ہے.جب کہ جماعت کی تعداد آٹھ دس لاکھ بتائی جاتی ہے.بہت ممکن تھا کہ ایسا شبہ پیدا ہو اور عقلی طور پر اگر دیکھا جائے تو شبہ لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو سکتا ہے.لیکن اگر غور کیا جائے.تو یہ شبہ ناواقفیت اور علم کی کمی کا نتیجہ ہے.کیونکہ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ ہماری جماعت کی تعداد دس لاکھ ہے.تو اس کا مفہوم یہ نہیں ہوتا کہ منتظم جماعت دس لاکھ کے قریب ہے لوگ اس بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ چونکہ ساری کی ساری جماعت منتظم نہیں اس لئے سب سے باقاعدہ چندہ وصول نہیں ہو سکتا.وہ خود ہی اپنے اخلاص سے کچھ دے دیں تو دے دیں.ورنہ ایک بڑے حصہ سے مطالبہ نہیں کیا جا سکتا.پھر اس تعداد میں عورتین اور بچے بھی شامل ہیں.اور ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو خود بخود کوئی حرکت نہیں کرتے بلکہ دوسروں کے اٹھائے اٹھتے ہیں.جب تک کوئی ان کے پاس پہنچے نہیں وہ کسی تحریک میں شامل نہیں ہوتے.اور بعض تو ایسے ہیں کہ ان کے پاس پہنچنا ہی مشکل ہے.پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہماری جماعت دس لاکھ کے قریب ہے تو اس سے دنیا کی ساری قوموں کے احمدی مراد ہوتے ہیں.پس اس میں وہ احمدی بھی شامل ہوتے ہیں جو افغانستان میں ہزاروں کی تعداد میں رہتے ہیں.ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ چندہ دیں اور تحریکوں میں شامل ہوں.خصوصاً ایسی حالت میں جب کہ حکومت کابل کو اگر کسی کے احمدی ہونے کی خبر ملے تو اسے سنگسار کر دیا جاتا ہے.ان کے اوپر بہت بڑی حسن ظنی ہے.مگر معترض کو اس بات کا کوئی خیال نہیں آیا.پھر اس تعداد میں وہ بہت سی نئی جماعتیں بھی شامل ہیں کہ جنہوں نے ابھی ایمان کے چشمے پر ڈیرے ہی ڈالے ہیں.لیکن انہوں نے ابھی تک اس سے پانی نہیں پیا.ان سے بھی اس قسم کی قربانیوں کی امید رکھنا یا مطالبہ کرنا خلاف عقل ہے.پھر ان میں وہ جماعتیں بھی شامل ہیں جو سلسلہ کے کاموں سے ایک حد تک تعلق رکھتی ہیں.لیکن ان پر بعض حالات کے ماتحت اتنا بوجھ ہے.اور مقامی ضروریات کے لئے ان کو اتنا کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے کہ جو ہماری موجودہ شرح چندہ سے بھی بڑھ جاتا ہے.اس پر ان سے اگر اور

Page 55

50 بھی چندے کا مطالبہ کیا جائے اور ان کو اپنے ماہواری چندوں میں شریک ہونے کے لئے مجبور کیا جائے تو ان پر بڑا بوجھ ہے.پھر بہت سی ایسی جماعتیں ہیں.جن کے مقامی اخراجات تبلیغ ماہواری چندوں سے بہت بڑھے ہوئے ہیں.پس یہ ناممکن ہے کہ ایک تو وہ اپنے ملک میں تبلیغ کے لئے چندے دیں اور پھر ہمارے چندوں میں بھی شریک ہوں.خصوصاً جب کہ ہم بھی ان کے مقامی چندوں میں کوئی حصہ نہیں لیتے.یہ بات قطعاً عقل میں نہیں آسکتی.پھر اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں کہ جنہوں نے بیعت تو کی ہے لیکن بیعت کرنے کے بعد وہ غائب ہیں.اور ایسے علاقوں میں چلے گئے ہیں جن کا ہمیں پتہ نہیں.ایسے آدمی میرے نزدیک ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہیں.چنانچہ بعض دوستوں نے مجھے بعض مقامات سے خط لکھے کہ ہمیں یہاں آنے پر معلوم ہوا ہے کہ یہاں ایک بڑی جماعت ہے جو احمدی کہلاتی ہے.مگر وہ لوگ مرکز سے دوری کی وجہ سے ایسے بے خبر ہیں کہ ان کو یہ بھی پتہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود فوت ہو گئے ہیں.اب ایسے احمدی جن کو حضرت میسج موعود کی وفات کا بھی پتہ نہیں ان سے چندے کون وصول کرے.پس اس تعداد میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے کسی وقت بیعت تو کر لی لیکن پھر انہوں نے مرکز اور سلسلہ کے کاموں سے کوئی تعلق نہیں رکھا.وہ اپنی ایمانی کمزوری یا کسی مجبوری کی وجہ سے ہم تک نہیں پہنچ سکتے اور ہم ان سے بے خبر ہونے کی وجہ سے ان تک نہیں پہنچ سکتے.ان کی حالت اس کھیتی کی طرح ہے جس کی نگرانی اور حفاظت کے لئے کسان اس تک نہ پہنچ سکتا ہو.اگر اس میں کچھ نشو نما کی طاقت آئے بھی تو پھر وہیں مرجھا جائے گی.یہی حال مرکز سے تعلق نہ رکھنے والے احمدی ہو کر غائب ہو جانے والوں کا ہے.پھر اس تعداد میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ایک، ایک دو دو کر کے دور دور رہتے ہیں اور اس طرح سینکڑوں میلوں میں پھیلے ہوئے ہیں.ان سے چندہ لینے کا ذریعہ یہی ہو سکتا ہے کہ کوئی آدمی ان کے پاس بھیجا جائے اور وہ ہر گاؤں میں پھر کر ان سے چندہ وصول کرے.لیکن اس طرح وصولی چندہ کا خرچ اصل چندے سے بھی بہت بڑھ جائے گا.ایسے منتشر اور مرکز سے تعلق نہ رکھنے والے لوگ «الفضل" کے خریدار تو ہوتے نہیں کہ اس میں تحریک پڑھ کر شامل ہو جائیں.اس لئے ان کے پاس آدمی بھیجنے کے سوا اور کیا ذریعہ ہو سکتا ہے.اور اس کا نتیجہ یہی ہو سکتا ہے کہ اگر کسی سے دس روپے وصول ہوں گے تو ستر روپے وصولی کے لئے جانے والے کے کرایہ وغیرہ پر خرچ ہو جائیں گے.پس ایسے لوگوں کے پاس آدمی بھی نہیں بھیجا جا سکتا کہ جو ان سے چندہ وصول کرے پھر جو حصہ منتظم جماعت کا ہے.اس میں بھی ایسے کمزور لوگ

Page 56

سکتا.51 ہیں کہ سیکرٹری اور پریذیڈنٹ متواتر اور بار بار ان کے پاس جاتے ہیں مگر پھر بھی وہ چندہ میں شریک نہیں ہوتے.جیسا کہ یہی دو صاحب جنہوں نے مجھے خط لکھا ہے.ایک کی نسبت تو وہاں کے امیر نے لکھا ہے کہ ہم بار بار ان کے پاس گئے.مگر انہوں نے چندہ دینا منظور نہ کیا.اور دوسرے صاحب خود تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اس تحریک میں شامل ہونے کی ضرورت نہیں سمجھتے.اس حالت میں ان کا فرض تھا کہ چندہ دینے والے احمدیوں کی تعداد کا اندازہ لگاتے وقت اپنے جیسے کمزور ایمان والوں کو بھی اس میں سے نکال لیتے پھر وہ اپنے شہر کی نسبت لگا کر ہر شہر کی منتظم جماعت کے کمزوروں کو معلوم کر لیتے.اس طرح باقی منتظم جماعت اتنی ہی رہ جاتی ہے کہ وہ ایک مہینے کی آمدنی دے کر بمشکل اس رقم کو پورا کر سکتی ہے.کیونکہ اس کے علاوہ نہ تو ہمیں ان غیر ممالک کی جماعتوں سے کچھ وصول ہو ہے.جن کی مقامی ضروریات اور اخراجات ہی ان ماہواری چندوں سے بڑھے ہوئے ہیں.اور نہ ہمیں ان احمدیوں سے کوئی چندہ وصول ہو سکتا ہے جنہوں نے احمدی ہو کر پھر مرکز سے کوئی تعلق نہیں رکھا.اور نہ ان سے ہمیں کچھ امید ہو سکتی ہے جو کہ چندہ دینے سے ہی منکر ہیں.کیونکہ کوئی پولیس تو ہے نہیں کہ جس کے ذریعے ان سے وصول کیا جائے.اور نہ ان سے ہمیں کچھ وصول ہو سکتا ہے جو بیعت کر کے پھر غائب ہو گئے اور ان کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں.اور نہ ان سے جو ایک ایک دو دو کر کے سینکڑوں میلوں کے فاصلہ پر رہتے ہیں.اور بغیر آدمی بھیجے ان سے کچھ وصول نہیں ہو سکتا.اور آدمی بھیجا جائے تو اس کا خرچ چندہ کی وصولی سے بہت بڑھ جاتا ہے.نہ ہی ان کے پاس کوئی اخبار جاتا ہے کہ وہ پڑھ کر چندوں کی تحریکوں میں شامل ہوں.پس خیالی طور پر تو یہ ذریعہ چندے کی وصولی کا بہت عمدہ نظر آتا ہے کہ جب جماعت کی تعداد دس لاکھ ہے تو دو آنے فی کس چندہ وصول کرنے سے سوالاکھ روپیہ جمع ہو سکتا ہے.لیکن غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ خیال بالکل ناواقفی اور کم علمی کا نتیجہ ہے.یہ خیال بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک شخص نے حضرت خلیفہ اول سے کچھ مانگا.آپ نے فرمایا ہم غریب آدمی ہیں.ہر وقت ہمارے پاس روپیہ نہیں ہوتا.مانگنے والے نے جواب میں کہا.آپ غریب کس طرح ہو سکتے ہیں.آپ کے پانچ لاکھ مرید ہیں.اگر چار چار آنے ماہوار بھی فی آدمی آپ کو نذرانہ دے.تو سوا لاکھ روپیہ آپ کے پاس جمع ہو ہے.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا اوروں کو تو آپ جانے دیں.آپ بھی تو میرے مرید ہیں.آپ بتائیں آپ نے مجھے آج تک کتنی چونیاں بطور نذرانہ دی ہیں.یہی حال آپ دوسروں کا قیاس کر لیں.پس خیال میں تو یہ تجویز عمدہ اور ممکن نظر آتی ہے.لیکن در حقیقت ایسا ہونا ممکن سکتا د کہلاتے

Page 57

52 نہیں ہے.بلکہ جو منتظم جماعتیں ہیں ان سے بھی ایسے چندے خاص جدوجہد کے بعد جا کر وصول ہو سکتے ہیں.اس شبہ کے علاوہ ایک دوسرا سوال بھی ہے.جو اس وقت تو کسی نے پیش نہیں کیا.لیکن وہ ایک دفعہ شوری میں پیش ہوا تھا.کہ اگر اس طرح چندے دیئے جائیں گے تو جماعت کو ترقی کس طرح حاصل ہو گی اور وہ بڑھے گی کیسے.پہلا سوال جو تھا وہ تو نارا قفی اور کم علمی کا نتیجہ تھا.لیکن یہ سوال کمئی ایمان کا نتیجہ ہے اور اسی طرح جہالت اور ناوا قفی کا بھی نتیجہ ہے.دراصل ترقی دو قسم کی ہوتی ہے ایک فردی کہ قوم کا کوئی فرد بڑھ جاتا ہے.اور ترقی کر جاتا مثلا کسی شخص نے محنت کر کے علم پڑھا اور وہ مشہور عالم فاضل ہو گیا یا کوئی بڑا عہدہ اس کو مل ہے.گیا.یا تجارت میں بہت بڑھ گیا.یہ فردی ترقی کہلاتی ہے.اور ایک ترقی قومی ہوتی ہے.جیسے انگریزوں کی قوم کو قومی ترقی حاصل ہے.اور جو عزت قومی ترقی میں ہوتی ہے وہ فردی ترقی میں ہرگز نہیں ہوتی.بعض ہندوستانی انفرادی طور پر اتنے مالدار ہیں کہ سو سو انگریزوں کو نوکر رکھ سکتے ہیں.لیکن انگریزوں کی قومی ترقی کی وجہ سے جتنی عزت ان نوکر انگریزوں کی ہو سکتی ہے اتنی عزت اس نوکر رکھنے والے کروڑ پتی کی نہیں ہو گی.کیوں اس لئے کہ انگریزوں کو قومی عظمت اور ترقی حاصل ہے.اسی لحاظ سے انگریزوں کو یہ عزت حاصل ہے کہ اگر کوئی ان میں سے دنیا کے کسی حصہ میں مارا جائے.تو اس کا بدلہ لینے کے لئے سب سے بڑے جنگی جہازوں اور بیڑے اور سب سے زیادہ کھلے منہ والی توپیں انگریزوں کی طرف سے وہاں جا پہنچیں گی.اور خواہ کوئی امیر ہو یا کوئی حکومت.اس سے مطالبہ کریں گے کہ یا تو وہ ان کے آدمی کی موت کی تلافی کرے.یا پھر جنگ کے ذریعے اس کو تباہ و برباد ہونا پڑے گا.یہی وجہ ہے کہ ایک انگریز کو کسی ملک میں بھی کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکتا.کیونکہ اس کے پیچھے اس کی حفاظت کرنے والی قوم موجود ہے اور غیر حکومتیں جانتی ہیں کہ پھر ان کو جنگ کرنی پڑے گی.لیکن اس کے مقابلہ میں ہندوستانی کروڑ پتی ہو کر اور انگریزوں کو اپنا نوکر رکھ کر بھی بالکل ذلیل ہے اور اس کی کوئی عزت نہیں.کیوں؟ اس لئے کہ اس کے نوکر انگریز کو تو قومی عزت حاصل ہے اور اس کو انفرادی عزت حاصل ہے.اور اس قومی عزت کے فقدان اور کمی کی وجہ سے انگلستان کے ایک جھاڑو دینے والے کے برابر بھی اس کی عزت نہیں ہے.تو جس طرح ترقی اور عزت دو طرح کی ہوتی ہے.ایک فردی اور ایک قومی.اسی طرح

Page 58

53 قربانیاں بھی دو طرح کی ہوتی ہیں.ایک فردی اور ایک قومی فردی ترقی میں بھی ایک انسان اپنی راتیں اپنا آرام قربان کر کے علم حاصل کرتا ہے.اور پھر وہ حج بنتا ہے.یا کوئی اور بڑا عہدہ اس کو مل جاتا ہے.یا اس نے تجارت کی اور اپنی عقل اور خرد سے اسے اس طرح چلایا کہ وہ کروڑپتی ہو گیا اور اپنی ذات میں اس نے ترقی حاصل کر لی.جس سے بہت بڑی عزت پا گیا.لیکن ایک اور شخص ہے جس نے اپنا وقت اپنی راتیں اپنا آرام قربان کر کے علم حاصل کیا.اگر وہ چاہے تو ذاتی طور پر اس کو بڑے بڑے عہدے مل سکتے ہیں اور وہ کافی ترقی کر سکتا ہے.لیکن وہ اپنے فوائد کو قوم کے لئے قربان کر دیتا ہے.اسے خیال آتا ہے کہ میرے ملک میں تعلیم نہیں.وہ انگلستان سے اس امر میں بہت پیچھے ہے.اپنی تعلیم پر ہزاروں روپیہ خرچ کرنے کے بعد اپنے گاؤں میں آکر مدرسہ کھول دیتا ہے اور اس بات پر راضی ہو جاتا ہے کہ گاؤں کے لوگ ایک پرائمری سکول کے معلم کی طرح اس کو روٹی کپڑا دے دیں.اس گاؤں کے لڑکوں کو تعلیم دینی شروع کر دیتا ہے.اور اس طرح ان کو اعلیٰ درجہ پر پہنچا دیتا ہے.گو اس قربانی کا فائدہ اس کی اپنی ذات کو نہیں ملے گا.لیکن آئندہ نسلیں یہ ضرور کہیں گی کہ یہ گاؤں بڑے تعلیم یافتہ لوگوں کا گاؤں ہے اور ان لوگوں کو خاص عزت اور وقعت کی نظر سے دیکھا جائے گا.اس طرح اس کی قربانی کا فائدہ اس کی ذات کو نہیں ملے گا.لیکن اس کی قربانی کی وجہ سے اس کے گاؤں کے لوگوں کو قومی عزت ضرور حاصل ہو جائے گی.ایک بوڑھے کی ایک حکایت مشہور ہے.کہ وہ کوئی ایسا درخت لگا رہا تھا.جو تمہیں چالیس سال کے بعد پھل دیتا تھا.بادشاہ کا وہاں سے گزر ہوا.اس نے کہا بوڑھے تو ایسا درخت لگا رہا ہے.جس کے پھل دینے سے پہلے تو مر جائے گا.پھر تجھے اس کے لگانے کا کیا فائدہ.بوڑھے نے کہا.بادشاہ سلامت اگر ہمارے بزرگ یہی خیال کر کے کوئی درخت نہ ہوتے تو آج ہم ان کا پھل کھانے سے محروم رہتے.انہوں نے بویا.تو ہم نے کھایا.ہم بوئیں گے تو ہماری نسلیں کھائیں گی.بادشاہ کو اس کی یہ بات بہت پسند آئی.اور اس نے کہا زہ.بادشاہ نے اپنے وزیر کو یہ کہہ رکھا تھا کہ میں جس کی بات پر زہ کہا کروں تم اسے چار ہزار روپے کی تھیلی انعام دے دیا کرو.چنانچہ جب بادشاہ نے زہ کہا.تو وزیر نے چار ہزار کی تھیلی بوڑھے کے آگے رکھ دی.اس پر بوڑھے نے کہا.آپ تو کہتے تھے کہ یہ درخت میری زندگی میں پھل نہیں دے گا.مگر دیکھئے اس نے تو مجھے لگاتے لگاتے ہی پھل دے دیا.اس پر بادشاہ نے پھر زہ کہا اور وزیر نے پھر ایک تھیلی بوڑھے کو دے دی.اس پر بوڑھے نے کہا دیکھئے بادشاہ سلامت یہ کیسا عجیب درخت ہے.اور درخت تو سال میں ایک دفعہ پھل دیتے

Page 59

54 ہیں.اس نے مجھے دو دفعہ پھل دیئے ہیں.اس پر بادشاہ نے پھر زہ کہا.اور وزیر نے تیسری تھیلی اس کو دے دی.آخر بادشاہ نے کہا.یہاں سے چلو.یہاں سے چلو.یہ بوڑھا تو ہمارا خزانہ خالی کرالے گاهش اس قصے میں خواہ وہ واقعہ میں ہوا ہو یا نہ ہوا ہو.حقیقت میں ایک بہت بڑا سبق ملتا ہے.کہ پہلوں نے قربانیاں کیں.جن کا ہم نے پھل کھایا.ہم قربانیاں کریں گے تو آئندہ نسلیں فائدہ اٹھائیں گی.اور در حقیقت اصلی قربانی وہی ہے.جو قوم کے لئے کی جائے.دیکھو رسول کریم ﷺ نے اپنی قربانیوں سے ذاتی فائدہ کونسا حاصل کیا.ایک نادان اور جاہل کہہ سکتا ہے کہ آپ بادشاہ ہو گئے.مگر سوال یہ ہے کہ اس بادشاہت سے آپ کو کیا فائدہ پہنچا.کہیں نہ کہ آپ کا غم اور بھی بڑھ گیا.پہلے اگر چند لوگوں کا آپ کو غم و فکر ہوتا تھا.تو پھر ہزاروں کا ہو گیا.ہاں اگر رسول کریم اتنا ہے کروڑوں روپیہ جمع کر لیتے.یا عمدہ عمدہ محل اور باغات اور جائدادیں اور ہر قسم کے آرام اور آسائیش کے سامان اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے مہیا کر لیتے تو کوئی کہہ سکتا تھا کہ انہوں نے اپنی قربانیوں کے بدلے میں بادشاہت حاصل کی.لیکن علمی طور پر دنیا جانتی ہے کہ رسول اللہ الا اللہ نے کوئی روپیہ اور جائیداد پیدا نہیں کی.غرض قومی ترقی کے لئے قربانی کرنے والے خود غم کھاتے.حتی کہ قوم اور جماعت اور سلسلہ کی ترقی کی کوشش میں ہی فوت ہو جاتے ہیں اور ان کی اپنی ذات کو اس کا کوئی ثمرہ نہیں ملتا.بسا اوقات وہ اپنی زندگی میں اپنی قربانیوں کا پھل آپ بھی کھا لیتے ہیں اور یہ خدا تعالیٰ کا خاص انعام ہوتا ہے.ورنہ انہیں تو انعام سے زیادہ بہتر صورت میں اگلے جہان میں ملتا ہے.اور ان کے بعد ان کی نسل اور ان کی قوم کو دنیا میں حاصل ہوتا ہے.تو اصل قربانی یہی ہے.زیادہ - دیکھو ایک کسان قحط کے زمانہ میں کس دلیری کے ساتھ گھر سے غلہ نکال کر مٹی میں ملا دیتا ہے.کوئی بیوقوف کہہ سکتا ہے.کہ اس نے غلہ کا نقصان کر دیا.لیکن وہ بیج ہوتا ہے.جو بہت بڑھ چڑھ کر پھل لاتا ہے.جو غلہ کھیت میں ڈالا گیا بے شک وہ مٹی میں مل گیا اور بہتوں کی نظر میں وہ ضائع ہو گیا.اور اس کو کیڑوں نے کھا لیا.لیکن ایک عقلمند کے نزدیک وہ مٹا نہیں نہ ضائع ہوا.بلکہ اس ایک دانہ کے مرنے اور مٹنے نے کئی دانے پیدا کر دیئے.پس اگر ایک زمیندار اس طرح غلہ مٹی میں ملانے سے نادان نہیں کہلا سکتا اور اس کا نقصان نہیں ہو تا.بلکہ اس کا اس طرح اور بھی غلہ بڑھتا ہے اور ایک کی بجائے سویا ہزار دانے پیدا ہو جاتے ہیں.تو اس شخص کی قربانی کی قیمت کم

Page 60

55 کس طرح ہو سکتی ہے.جو قوم کے لئے کوئی قربانی کرتا ہے.اور وہ کس طرح نادان کہلا سکتا ہے جو قوم کی خاطر اپنے فوائد قربان کرتا ہے.خواہ اس کو اپنی قربانی کا فردی نفع حاصل نہ ہو.تا ہم اس کی قربانی کے نتیجہ میں سینکڑوں اور ہزاروں اس کی قوم اور جماعت کے لوگ عزت اور ترقی حاصل کر جائیں گے.ایک نادان کی نگاہ میں اس کی قربانی تباہ کن نظر آئے گی.لیکن در حقیقت وہ تباہ کن نہیں ہو گی.اس کی قربانی قومی ترقی کے لئے ایک پیج ہو گی.دیکھو اگر ایک سائنسدان کی زندگی کا انحصار صرف اس بات پر نہیں ہو تا کہ وہ فردی ترقی حاصل کرے.بلکہ وہ اپنی زندگی کو اپنے علم کے ذریعے قوم کو نفع پہنچانے میں صرف کر دیتا ہے اور دنیا اس کے اس فعل کو تباہ کر دینے والا نہیں سمجھتی.تو پھر قوم کی خاطر جو قربانی کرتا ہے وہ کیونکر محروم اور نامراد ہو سکتا ہے.پھر ایک سائنسدان تو اس دنیا میں ہی اس سائنس سے فروی نفع حاصل کرتا ہے اور اگلے جہان میں اس کو اس کا کچھ نفع نہیں پہنچ سکتا.یا اس کی قوم صرف اسی دنیا میں اس کی قربانی اور ایثار سے فائدہ حاصل کرتی ہے.لیکن باوجود اس کے اس کی قربانی اور کوشش کو کوئی بیوقوفی نہیں سمجھتا.بلکہ دنیا اسے ایک نعمت سمجھتی ہے.تو پھر وہ شخص جو دین کی تائید اور اشاعت کے لئے قربانی کرتا ہے.وہ کس طرح بیوقوف کہلا سکتا ہے.کہ جس کے نفع سے مرنے کے بعد بھی وہ فردی طور پر محروم نہیں رہتا.اور اس کی قوم بھی فائدہ حاصل کرتی ہے.جو نادان سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے والے اپنا سب کچھ تباہ کرتے ہیں مگر در حقیقت وہی سب کچھ پاتے ہیں.دیکھو قرآن کریم میں سورۃ فاتحہ میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.الحمد لله رب العالمين الرحمان الرحیم ملک یوم الدین اس میں خدا تعالیٰ نے اپنی چار صفات کے ماتحت انسان کے چار درجوں کا ذکر فرمایا ہے.پہلے صفت ربوبیت کا ذکر کیا ہے.جو کہ انسان کو پیدا اور پھر اس کی اس طرح نشود نما کرتی ہے جس سے کہ وہ کام کرنے کے قابل ہو جاتا ہے اور قومی کاموں میں متصرف ہوتا ہے.جب یہ مقام اس کو حاصل ہو جاتا ہے.تو پھر صفت رحمانیت کا ظہور ہوتا ہے.یعنی ربوبیت کے بعد اپنی رحمانیت سے ترقی کے آلات اور مصالحہ پیدا کرتا ہے.جس سے کہ انسان کام لے.چونکہ خدا تعالیٰ رحمان ہے.اس لئے ربوبیت کے بعد انسان کے کام کرنے کے لئے سامان پیدا اور مہیا کرتا ہے.پھر ربوبیت اور رحمانیت کے بعد اس امر کی ضرورت ہے کہ انسان کا کام ضائع نہ جائے.اس لئے وہ رحیم ہے.کہ انسان کے کاموں کے نیک نتائج پیدا کرتا ہے.رحیمیت انسان کی فردی ترقی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.جس سے کہ انسان فردی طور پر اپنے کاموں کے نیک نتائج حاصل کرتا ہے اور فردی طور پر اس کی اپنی ذات کو فائدہ پہنچتا ہے.لیکن بعض

Page 61

56 اوقات انسان فردی نفع حاصل نہیں کر سکتا اور وہ مرجاتا ہے.اس لئے فرمایا ہم مالک یوم الدین بھی ہیں یعنی ایک دن ایسا بھی مقرر ہے.کہ جو قوموں کی جزا اور سزا کا دن ہے.اس وقت فردی طور پر ہی بدلہ دیا جائے گا.تو رحیمیت افراد کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور ما کیت تمام قوم کے کاموں کے بدلے کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.رحیمیت کو پہلے بیان فرمایا.جو افراد کے ذاتی کاموں کے بدلے کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور پھر انتہائی درجے کا ذکر فرمایا.جو قومی قربانی کے فوائد کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.اور ہر ایک انسان جانتا ہے.کہ فردی فوائد سے قومی فوائد زیادہ اہمیت رکھتے ہیں.خدا تعالٰی ہم سب کو تمدنی اور سیاسی امور کی ناواقفی اور کمزوری ایمان اور ان کے بد نتائج سے محفوظ رکھے اور ہمیں ہر قسم کی قربانیاں خواہ وہ فردی ترقی کے ساتھ تعلق رکھتی ہوں اور خواہ قومی ترقی کے ساتھ ان کے کرنے کی توفیق عطا فرمادے اور ان کے بہتر سے بہتر نتائج پیدا ہوں.آمین الفضل ۱۴ مارچ ۱۹۲۵ء) ا مجانی الادب في حدائق العرب جزو ثانی ص ۱۶۴

Page 62

57 9 ایمان کی حفاظت کا واحد ذریعہ (فرموده ۱۳ مارچ ۱۹۲۵ء) نوٹ : حضور نے یہ خطبہ جمعہ لاہور میں ارشاد فرمایا.جو مکرم ڈاکٹر محمد رمضان صاحب نے اپنی یا داشت کی بناء پر اپنے الفاظ میں تحریر کیا ہے.تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے اس مضمون پر کہ فطرت ترقی کے میدان میں کس طرح کام کرتی ہے.فرمایا.دیکھو دنیا میں حقیر سے حقیر چیز بھی غیر مفید نہیں.اگر غور سے دیکھا جائے.تو اس میں بھی بہت سے فوائد پوشیدہ ہوتے ہیں جو کہ دنیا کی ترقی کے لئے بہت حد تک محمد ہیں.مثال کے طور پر سب سے حقیر چیز انسان اور حیوان کا فضلہ سمجھا جاتا ہے.لیکن غلہ وغیرہ کی پیدوار کے لئے کس قدر مفید ہے.اگر یہ نہ ہوتا تو ہمیں اعلیٰ سے اعلیٰ اناج بھی نہ مل سکتا.اسی طرح اور چیزوں کو لے لو.تو معلوم ہو گا کہ ہر ایک چیز کی کچھ نہ کچھ غرض ہے.اگر بعض اوقات ہم اپنے محدود علم کی وجہ سے اس غرض کو دیکھ یا سمجھ نہیں سکتے تو اس سے یہ ہر گز لازم نہیں آتا کہ اس چیز کی کوئی غرض نہیں.انتڑیوں کے نیچے ایک غدود ہوتی ہے جس کو انگریزی میں Appendia کہتے ہیں.اور اس کی بیماری کو Appendicitis جو بہت مہلک بیماری ہوتی ہے.بہت عرصہ سے ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ اس کا انسانی زندگی میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے.اس لئے تندرست آدمیوں کے بدن سے اسے نکال دینا بہتر ہے.لیکن اب پتہ لگا ہے کہ یہ غدود بھی زندگی کے قیام کے لئے بدن کا ایک جزو لاینفک ہے.اس بارہ میں فرانس میں تجربے کئے گئے.کچھ بندر لئے گئے ہیں.ان میں سے بعض کی یہ غدود نکال دی گئی اور دوسروں کی اسی طرح رہنے دی.کچھ دنوں کے بعد اول الذکر بندروں کی صحت میں نمایاں فرق آگیا.یہاں تک کہ وہ دبلے ہوتے ہوتے مرگئے.پس جب دنیا میں چھوٹی سے چھوٹی چیز کی بھی کچھ نہ کچھ غرض ہے.تو انسان کی جس کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے.کتنی بڑی غرض ہو گی.

Page 63

58 اس کے بعد حضور نے انسانی غرض کو بیان کرتے ہوئے فرمایا.جب انسان اس کو حاصل کر لیتا ہے.تو یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ اس انعام کو اپنے تک ہی محدود رکھے.اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اس کا ایمان ہر وقت خطرہ میں ہے.کیونکہ دنیا میں ہر ایک چیز ترقی کرتی ہے.اس حالت میں اس کے مخالف عناصر ترقی کرتے کرتے اس پر غالب آجائیں گے اور اس کا ایمان سلب ہو جائے گا.دیکھو جہاں گل ہوتا ہے وہاں اس کے ساتھ ہی کانٹے بھی ہوتے ہیں.اگر مالی اس گل کی کانٹوں سے حفاظت نہیں کرے گا.تو وہ آخر کار کانٹوں میں دب جائے گا اور اپنی ہستی کھو دے گا.اسی طرح ایک شخص.مکان بنواتا ہے اور مکان کی آگ سے حفاظت کے لئے ہر طرح کے سامان مہیا کرتا ہے.لیکن کیا وہ اپنے مکان کو آگ سے بالکل محفوظ سمجھ سکتا ہے.ہرگز نہیں کیونکہ جب تک اس کے ہمسایوں کے مکان محفوظ نہیں.اس کا بھی نہیں.پس ایمان کی حفاظت کا ایک ہی ذریعہ ہے.اور وہ تبلیغ تبلیغ کی دو قسمیں ہیں.ایک انفرادی اور دوسری اجتماعی.پھر اس کی توضیح فرمائی.اب وہ زمانہ نہیں.کم از کم شہروں میں تو وہ نہیں کہہ ہم لوگوں کو یہ کہہ کر کہ چونکہ مسیح ابن مریم فوت ہو چکے ہیں اس لئے مرزا صاحب مسیح موعود ہیں.کامیاب ہو سکیں.میرے نزدیک مخالفین کا یہ اعتراض کہ مسیح موعود کے آنے کی غرض کیا تھی.ایسا گر ہے جس کا جواب پیش کر کے ہم دنیا پر فتح پا سکتے ہیں.حضور نے اس غرض اور حقیقت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا.محض یہ کہہ دینا کہ حضرت صاحب نے اتنے مباحثے کئے اور اتنی کتابیں لکھیں.آپ کو سچا ثابت نہیں کر سکتا.نبی دنیا میں اس وقت نہیں آتے جب زبانی ایمان کی قلت ہو.بلکہ اس وقت آتے ہیں جب دنیا میں بے دینی پھیل گئی ہو.یہی بڑی وجہ تھی حضرت مسیح موعود کے مبعوث ہونے کی.اللہ تعالیٰ نے آپ کی نصرت کے لئے اتنے خارق عادت تائیدی نشان دکھائے اور وہ وہ علوم کے انکشافات کئے جو کہ آپ کے دعوئی کے زبردست ثبوت ہیں.پس اگر تم ان علوم کو دنیا کی ہدایت کے لئے لیکر کھڑے ہو جاؤ تو دیکھو گے کہ کامیابی اور کامرانی تمہارے پاؤں چومتی ہے.آخر میں حضور نے جماعت احمدیہ لاہور کے لئے چند عملی نصائح بیان فرمائیں.اور دعائیہ کلمات پر تقریر کو ختم کیا.(الفضل ۱۹ مئی ۱۹۲۵ء)

Page 64

59 10 قربانی کرنے والوں کے متعلق جماعت کی ذمہ داری (فرموده ۲۰ مارچ ۱۹۲۵ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.وہ تکلیف دہ اور صبر و قرار کو کھو دینے والے واقعات جو پچھلے چند مہینوں میں ہمیں پیش آئے.ان کے متعلق طبعی طور پر ہماری جماعت کے دلوں میں ایک بہت بڑا بہیجان اور جوش ہے اور ہونا چاہیے.کیونکہ اگر ان مظالم کے بعد جو کابل میں ہمارے مظلوم بھائیوں پر کئے گئے اور اس بیدردانہ سلوک کے بعد جو ہمارے بھائیوں کے ساتھ وہاں روا رکھا گیا.ہماری جماعت کے دلوں میں دکھ اور درد اور خاص جوش پیدا نہ ہوتا تو میں سمجھتا کہ ہماری جماعت کے دل نہ صرف برادرانہ محبت اور ہمدری سے خالی ہیں بلکہ ان کے دل انسانی دلوں سے بدل کر کچھ اور بنا دیئے گئے ہیں.پس ان واقعات اور حادثات کے بعد جو کابل میں ہمارے مظلوم بھائیوں کو پیش آئے.ہماری جماعت کے اندر جوش کا پیدا ہونا ایک طبعی امر ہے اور میں دیکھتا ہوں ہماری جماعت کے دلوں میں اس بات کا بڑا بھاری احساس اور نہایت ہی گہرا اثر ہے.جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے کچھ بھائی میدان وفا میں نہایت بہادری اور دلیری کے ساتھ اپنے سروں پر بازی کھیل کر بازی لے گئے ہیں.تو ہمیں بھی ضرور کچھ کرنا چاہیے.ہماری جماعت کا یہ جوش یہ احساس اور اپنے مظلوم بھائیوں کی مظلومیت پر ان کے دلوں کا یہ اضطراب نہایت قابل قدر ہے.اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسے موقعوں پر ایسا ہی ہونا چاہیے.: پس اس جوش اور اس احساس کا طبعی نتیجہ یہ بھی نکلا ہے.اور نکلنا چاہیے تھا کہ ہم غور کریں ہم نے اپنے ان مظلوم بھائیوں کو جن کے ساتھ نہایت بے دردی کا معاملہ کیا گیا یا جن پر افغانستان میں ظلم ڈہائے جا رہے اور ہر طرح ان کو ستایا جاتا ہے.انہیں ان مظالم سے نجات دلانے اور دشمنوں کے شر سے بچانے کے لئے کیا کیا اور کیا کر رہے ہیں.اور آئندہ ہمیں کیا کرنا چاہیے.

Page 65

60 میں سمجھتا ہوں کہ اس بیدردانہ سلوک پر جو کابل کی حکومت میں ہمارے بھائیوں کے ساتھ کیا گیا اور وہ اندوہ گیں اور المناک واقعہ جو ہمارے مظلوم بھائیوں کو نہایت بے کسی کی حالت میں پیش آیا.اس کا یہ لازمی نتیجہ تھا.کہ ہماری جماعت کے دلوں میں قدرتی طور پر اس سے خاص جوش اور اس کا خاص احساس پیدا ہوتا.اس لئے ہماری جماعت کا جوش اور اس صدمہ کا بڑا بھاری احساس اس وقت ایک طبعی امر ہے جو نہایت قابل قدر ہے.اور ایک زندہ جماعت کے افراد کی زندگی کا ثبوت ہے.کیونکہ ہر ایک ایسی جماعت جس کے افراد زندہ ہوں ان کا فرض ہے کہ انہیں اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی تکالیف کا احساس ہو.پس ہر ایک احمدی اس کا ذمہ دار اور جواب دہ ہے.اور لازماً ہر ایک کے دل میں ایسے خیالات پیدا ہونے چاہیں.لیکن یہ واقعات ایسے المناک اور افسوسناک ہیں.کہ ہماری جماعت کے افراد تو ایک طرف رہے.وہ لوگ جو ہماری جماعت میں شامل نہیں لیکن ہماری جماعت سے ہمدردی رکھتے ہیں.ان کے دلوں پر بھی ان واقعات کا بڑا اثر ہوا ہے.پھر وہ لوگ جن کو ہماری جماعت سے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ وہ ہمارے دشمن ہیں.بلکہ وہ اسلام کے سخت ترین دشمن ہیں.ہمارے بھائیوں کی مظلوم حالت نے ان کے دلوں میں بھی حکومت افغانستان کی نسبت جذبات نفرت کی لہر پیدا کر دی ہے.حتی کہ بعض ان میں سے اپنے جذبات اور احساسات کو اتنی اہمیت دینے لگ گئے ہیں کہ وہ ہمارے جذبات اور احساسات کا صحیح اندازہ نہ کرتے ہوئے اور ہماری قلبی کیفیات کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ خیال کرنے لگ گئے ہیں کہ وہ ہم سے بھی زیادہ اس صدمہ کو محسوس کرتے اور ہم سے زیادہ ہمارے مظلوم بھائیوں کے خیر خواہ ہیں.چنانچہ ان کے ہمارے پاس خطوط آئے ہیں اور وہ ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہم نے اپنے مظلوم بھائیوں کی اعانت اور مدد کے لئے کیا کچھ کیا اور کیا کریں گے.چنانچہ ابھی پچھلے دنوں جو میں ایک کام کے لئے اپنے ایک عزیز کو ملنے کے لئے باہر گیا اور لوٹتے ہوئے لاہور ٹھہرا تو وہاں میرے پاس چند آدمی ان لوگوں کی طرف سے جن کو ہماری جماعت کے لوگ پیغامی کہتے ہیں.اور وہ اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں مجھے ملنے کے لئے آئے.(وہ جب تک اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں میں بھی ان کو احمدی ہی کہتا ہوں.گو عقائد کے لحاظ سے وہ ہمارے سخت مخالف ہیں.ان کی طرف سے میں اس لئے کہتا ہوں کہ ان کی گفتگو سے جو انہوں نے مجھے سے کی.میں نے یہ معلوم کیا کہ وہ ان میں ابھی شامل نہیں.ہاں ان کے ساتھ تعلقات رکھتے ہیں اور ہمارے ایک بھائی نے جو انہیں ساتھ لے کر آئے برسبیل تذکرہ بیان کیا کہ یہ لوگ کہتے ہیں جو کچھ کابل کے مظلوم احمدیوں کے متعلق مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء نے کیا ہے.قادیان

Page 66

61 والوں نے اس کے مقابلہ میں کچھ نہیں کیا.مجھے یہ بات سن کر خوشی بھی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کا احسان ہے کہ ہمارے ان مظلوم اور بے کس بھائیوں کے ظالمانہ قتل کے خلاف جذبات ان لوگوں کے دلوں میں بھی پیدا ہو گئے ہیں جن سے آج تک سوائے سب و شتم کے ہم نے کبھی کچھ نہیں سنا.بلکہ ان واقعات کے بعد بھی انہوں نے کئی ایسی باتیں کی ہیں جن کی غرض صرف ہمیں چڑانے اور ہمارا دل دکھانے کے سوا کچھ نہ تھی.مگر بہر حال مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ ان کے دلوں میں بھی یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ ہمیں اس فعل کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے.میں ان کی اس آواز کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں لیکن ساتھ ہی مجھے اس بات پر تعجب اور حیرت بھی ہوئی اور پنجابی کی مثل یاد آگئی جو یہ ہے کہ جو ماں سے زیادہ چاہے بجھے کٹنی کہلائے.بھلا انہوں نے کونسی ایسی عملی کارروائی کی.یا انہوں نے کونسی ایسی تجویز کی جس کے ذریعے انہوں نے اپنے وہم میں کابل کے احمدیوں کو آزادی دلائی.یا وہ اس کے ذریعے ان کو آزادی دلا بھی سکتے ہیں.پھر کونسی عقل اس واہمہ کو ایک منٹ کے لئے صحیح سمجھ سکتی ہے.کہ جن کے جسموں کے وہ ٹکڑے تھے اور جن کے خون کا وہ حصہ تھے.جن کے ساتھ ان کے دنیا کے جسمانی تعلقات سے بھی زیادہ روحانی تعلقات تھے ان کے دلوں میں تو اپنے بھائیوں کے قتل پر کوئی جذبہ اور جوش پیدا نہ ہو اور دوسرے اپنے اندر زیادہ ہمدردی اور جوش محسوس کریں.جب جسمانی تعلقات میں یہ بات نہیں ہوتی کہ جن کا کوئی رشتہ دار مصیبت میں ہو اور وہ خاموش گھروں میں بیٹھے رہیں.پس روحانی تعلقات جو جسمانی تعلقات سے کہیں بڑھ چڑھ کر اہمیت رکھتے ہیں.ان میں یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جن کا ان مظلوموں کے ساتھ روحانی تعلق ہو وہ تو گھروں میں آرام سے بیٹھے رہیں لیکن دوسروں کے دل ان کے لئے بے قرار اور اضطراب میں ہوں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو فعل حکومت کابل نے کیا ہے انسانیت کا تقاضا ہے کہ اس سے سب انسان کہلانے والوں کی طبیعتوں میں جوش اور جذبات پیدا ہوں.کیونکہ وہ فعل جو انسانیت کے خلاف ہوتا ہے اس کے خلاف سب کے دلوں میں جوش پیدا ہوتا ہے.قطع نظر اس سے کہ مظلوم کس مذہب اور فرقہ سے تعلق رکھتا ہو.مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں.جوش کے بھی حدود اور مدارج ہوتے ہیں اور اصلی طور پر جتنا جوش قریب ترین تعلق رکھنے والے لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو سکتا ہے اتنا دوسرے لوگوں کے دلوں میں پیدا نہیں ہو سکتا.اور احساسات کی وہ لہر جو قریب ترین تعلق رکھنے والوں کے دلوں میں پیدا ہو سکتی ہے وہ دوسروں کے دلوں میں نہیں ہو سکتی.میں عیسائیوں اور ہندوؤں کی اس ہمدردی کی بھی جس کا اظہار انہوں نے اس موقع پر کیا

Page 67

62 ہے ناشکری نہیں کرتا.بلکہ میں اسے قدر اور شکریہ کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کیونکہ جو شخص انسانوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا.وہ خدا تعالیٰ کا بھی شکر گزار نہیں ہو سکتا.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے من لم يشكر الناس لم یشکر الله (1) پس اس موقع پر جن لوگوں نے ہمارے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے خواہ وہ عیسائی ہوں.خواہ ہندو.خواہ پارسی.خواہ آریہ.کسی مذہب کے ہوں.میں ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان کے اس فعل کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے میرا دل اپنے اندر ان کی قدر کا خاص احساس پاتا ہے.اور جب کہ میں ان لوگوں کے اس ہمدردانہ فعل کا بھی شکریہ کرتا ہوں تو کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ جو مذہبا " افغان گورنمنٹ کے ساتھ ہیں.ان کی اس ہمدردی کو ناقدری کی نگاہ سے دیکھوں جو انہوں نے ہمارے بھائیوں کو نہایت بے رحمی کے ساتھ قتل کئے جانے پر کی ہے.یقیناً میں ان غیر احمدی اصحاب کو بھی نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور ان کی ہمدردی کا اپنے اندر گہرا احساس پاتا ہوں اور اس کو ناقدری اور ناشکری کی نگاہ سے نہیں دیکھتا.پھر جب کہ ان غیر احمدیوں کی ہمدردی جو ہمارے سخت مخالف ہیں.لیکن اس وقت خدا کے لئے اور انسانیت کے تقاضا سے وہ ہماری ہمدردی میں کھڑے ہوئے ہیں ان کی ہمدردی میرے دل پر اثر کرتی ہے.اور جب کہ وہ لوگ جو مذہب میں بھی ہمارے ساتھ شریک نہیں.بلکہ وہ اسلام کے سخت مخالف ہیں ان کی ہمدردی کا شکر اور امتنان میرے لئے ممکن ہے اور میں ان کی قدر کر سکتا ہوں.تو پھر میرے لئے یہ کیونکر ممکن ہے کہ میں ان لوگوں کی جو کہ ہمارے سلسلہ سے متعلق ہیں.گو کتنا ہی بعد رکھتے ہوں ان کی اس ہمدردی اور ان کوششوں کو جنہوں نے لوگوں کے جذبات یا خیالات میں ہیجان پیدا کر دیا ہو.شکر اور امتنان کی نظر سے نہ دیکھوں.میرے دل میں حاشا و کلا ایک منٹ کے لئے بھی کبھی ان کے متعلق بغض و عناد پیدا نہیں ہوا.اور نہ اب ہے.بلکہ میں ان کے فعل کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں بلکہ میرے دل میں ان کا یہ فعل محبت کے جذبات بھی پیدا کرنے والا ہے.مجھے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں میں سے نہیں بنایا جو اختلاف کو عداوت کی وجہ بنا لیتے ہیں.اور میرے نزدیک جو شخص اختلاف کو عداوت کی وجہ قرار دیتا ہے وہ عقل و دانش کو کھوتا ہے.پس خواہ وہ کتنا ہی ہم سے بعد رکھتے ہوں اور خواہ مجھے ان سے کتنا ہی اختلاف ہو اور خواہ ان کی عدوات ہم سے کس قدر ہی بڑھی ہوئی ہو پھر بھی میں ان کے اس فعل کو جو کہ انہوں نے انسانیت اور شرافت کے تقاضے سے کیا ہے.نظر انداز نہیں کر سکتا.لیکن میں اس خیال کو بھی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ انہوں نے کوئی ایسا کام کیا ہے.یا وہ کوئی ایسا کام کر سکتے ہیں.جو ہم نے اس

Page 68

63 اپنے ان مظلوم بھائیوں کے لئے جن کو کابل میں ظالمانہ طور پر نہایت بے رحمی کے ساتھ شہید کیا گیا.نہ کیا ہو.مگر قطع نظر اس کے کہ انہوں نے کچھ کیا ہے یا نہیں.ہماری جماعت کے بعض لوگوں کے دلوں میں بھی یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ ہم نے اپنے مظلوم بھائیوں کے لئے کیا کیا.اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ سوال ان کے دلوں میں بے شک پیدا ہونا چاہیے تھا.یہ کوئی قابل الزام بات نہیں.کیونکہ وہ بھی اس محبت اور ہمدردی سے کہتے ہیں جو کہ ان کو اپنے ان مظلوم بھائیوں کے ساتھ ہے.نہ اس وجہ سے کہ دوسرے لوگوں نے کوئی ایسا کام کیا ہے.جو ہم نے نہیں کیا.اور واقعہ میں ہمیں یہ نہ دیکھنا چاہیے کہ اور لوگوں نے کچھ کیا ہے یا نہیں.ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم نے کیا کیا.اور لوگ کچھ کریں یا نہ کریں وہ قابل الزام نہیں.مگر ہم قابل الزام ہوں گے.کیونکہ آدمی ہمارے مارے گئے ہیں.وہ لوگ جو احمدی کہلاتے ہیں.(پیغامی) یا وہ لوگ جو غیر احمدی ہیں یا عیسائی ہیں.یا ہندو ہیں.انہوں نے کچھ کیا یا نہ کیا.یا وہ ان مظالم کے متعلق پروٹسٹ کریں یا نہ کریں.مگر سوال یہ ہوتا ہے کہ ہم نے کیا کیا.اگر ان میں سے کسی نے کوتاہی کی تو وہ ذمہ دار نہیں.مگر ہم نے اگر کچھ کوتاہی کی ہے تو ہم ذمہ دار ہیں.بعض نے مجھے خطوط لکھے ہیں کہ ہم نے اپنے مظلوم بھائیوں کے لئے جو کچھ کیا ہے اس سے زیادہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے تھی.اب تک جو کچھ ہوا ہے سب زبانی ہے.چنانچہ اسی مضمون کا ایک عزیز نے مجھے خط لکھا ہے.گو اس نے اپنا نام خط پر نہیں لکھا.لیکن میں اس کے خط کو خوب پہچانتا ہوں.اس پر مجھے تعجب ہوا اور میں کوئی وجہ نہیں پاتا کہ اس عزیز نے کیوں اپنا نام نہیں لکھا.کیونکہ اس نے کوئی ایسی بات نہیں لکھی جس کے لکھنے پر نام چھپایا جاتا اور جو قابل الزام ہو اور اگر قابل الزام بھی ہوتی تو بھی ایک مومن کی شان کے یہ بالکل خلاف ہے کہ وہ ایک تحریک کرے مگر اپنے آپ کو چھپائے.خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.قل اعوذ برب الناس ملک الناس الله الناس من شر الوسواس الخناس الذي يوسوس في صدور الناس (الناس) کہ تم کہو میں پناہ مانگتا ہوں.رب الناس ، ملک الناس ، الہ الناس سے خناس کے وسوسے کے شر سے.پس اپنے آپ کو چھپا کر کسی قسم کی تحریک کرنا تو شیطان کا کام ہے.مومن ایک منٹ کے لئے بھی یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ وہ ایک تحریک کرے.اور پھر اپنے آپ کو چھپائے.ایک بات پیش کرے اور خود سامنے نہ آئے.یہ طریق خناس کا ہے کہ وہ ایک خیال پیدا کرتا ہے مگر آپ سامنے نہیں آتا.مومن کو ایسے طریق سے بچنا چاہیے.میں اگر صحیح سمجھا ہوں تو وہ ایک نیک اور مخلص نوجوان ہے.اس کا نام چھپانا میں نا پسند کرتا ہوں.اس عزیز نے بھی یہ لکھا

Page 69

64 ہے.ہم نے کابل کے مظالم کے انسداد کے لئے کچھ نہیں کیا اور جو کیا ہے وہ سب زبانی ہے.ہم نے اپنی جگہ ریزرویشن پاس کئے اور یہ ایک شور ہے جو دنیا میں پیدا ہو گیا.مگر عملی طور پر ہم نے کیا کیا.میرے نزدیک یہ سوال صحیح ہے کہ ہم نے اگر سب کچھ زبانی نہیں کیا تو کونسی حقیقی قربانی یا کوئی ایسا کام کیا ہے جس سے ہم ان مظالم میں جو ہمارے بھائیوں پر کئے گئے اور کئے جا رہے ہیں شریک ہو سکیں.یا کم از کم ان مظالم سے ان کو بچا سکیں.اس لئے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ وہ تجاویز اور وہ کوشش جو ہم نے اپنے مظلوم بھائیوں کے لئے کی یا کر رہے ہیں.اس حد تک کہ قومی مفاد اور سلسلہ کے اغراض کے لئے ان کا بیان کرنا مضر نہ ہو.میں بیان کروں اور بتاوں کہ کیا کچھ ہم کر سکتے تھے اور کیا کچھ ہم نے کیا.مگر پیشتر اس کے کہ میں اس مضمون کے متعلق دوستوں کے سامنے مناسب اور قابل ذکر باتیں جو سلسلہ کے مفاد میں حارج نہ ہوں بیان کروں.پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حالات اور واقعات مختلف ہوتے ہیں.بعض حالات وہ ہوتے ہیں جو انسان کے اپنے اختیار میں ہوتے ہیں.اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو اس کے اختیار میں نہیں ہوتے.اسی طرح ان کا ازالہ بھی دو طرح ہوتا ہے.ایک وہ جو اپنے اختیار میں ہوتا ہے.اور ایک وہ جو اختیار سے باہر ہوتا ہے.پھر جن حالات کا ازالہ اختیار میں ہوتا ہے.وہ بھی دو طرح کا ہوتا ہے.ایک وہ کہ جن کے آدمیوں کو تکلیف ہوتی ہے.ان کے اختیار میں ہوتا ہے کہ وہ اپنے آدمیوں کی تکلیف کو دور کریں اور ایک یہ کہ ان کی تکلیف کا رفع کرنا دوسروں کے ہاتھ میں ہوتا ہے.پھر وہ دوسرے لوگ جن کے اختیار میں ان کی تکلیف کا ازالہ ہوتا ہے ان تک پہنچنا ممکن ہوتا ہے.اور ایک یہ کہ ان تک پہنچنا ناممکن ہوتا ہے.اب جن تک پہنچنا ممکن ہوتا ہے اور تکلیف کا ازالہ ان کے اختیار میں ہوتا ہے ان کی بھی دو حالتیں ہوتی ہیں.اگر تو وہ لوگ جن تک ہمارا پہنچنا ممکن ہوتا ہے متعصب ہوں تو ان تک پہنچنا نہ پہنچنا برابر ہے.اور دوسرے یہ کہ اگر ان تک پہنچا جائے تو بجائے فائدہ کے مضر ہوتا ہے.مثلاً ایک شخص نے ارادہ کیا ہے کہ وہ ہمیں قتل کرے یا کوئی ایسی گورنمنٹ ہے جو ہمارے قتل کا ارادہ رکھتی ہے.اب اگر اس کے پاس ہم پہنچیں تو کوئی فائدہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ وقتی طور پر اپنی تجویز کو بدل لے اور کچھ نہیں ہوتا.اور وہ اس بات کی منتظر رہے گی کہ کسی دوسرے موقع اور وقت پر اپنا کام کرے.اس لئے ایسی حالت میں ایسی مخفی تدابیر سے کام لیا جا سکتا ہے کہ اس کو پتہ نہ لگے.تو مختلف واقعات کا ازالہ مختلف طریق سے ہوتا ہے.پس ہمارا یہ واقعہ بھی اس قسم کا ہے.جس سے ہمارا معاملہ ہے.وہ کسی کی رعایا نہیں.بلکہ خود بادشاہ اور حاکم ہے.اس وجہ سے اس کی اور ہماری ا

Page 70

65 حالت میں بہت بڑا فرق ہے.وہ بادشاہ ہے اور ہم بادشاہ نہیں.اس کے افعال بے شک ظلم کہلائیں ، تعدی کہلائیں مگر اس کا ہاتھ کوئی نہیں روک سکتا.اس کے ظلم کا انسداد کوئی دوسری حکومت ہی کر سکتی ہے.مگر ہماری کوئی حکومت یا بادشاہت نہیں.اگر ہمارے پاس بھی بادشاہت ہوتی تو قرآن کریم کی رو سے ہم پہلے اپنے ان مظلوم بھائیوں کو حکم دیتے کہ وہاں سے ہجرت کر آئیں اور ہمارا فرض ہوتا کہ ہم ان کے رہنے اور گزارے کا سامان مہیا کرتے.لیکن چونکہ اس وقت کہیں بھی احمدی حکومت نہیں ہے اور نہ ہمارے پاس کوئی ملک ہے اس لئے ہم ان کو ہجرت کا حکم نہیں دے سکتے اور نہ ہجرت ان کے لئے فرض ہے.ہاں اپنے طور پر جہاں کہیں کوئی پناہ حاصل کر سکتا ہو اور اپنے لئے راستہ کھلا پاتا ہو.وہ ایسا کر سکتا ہے.ہجرت اسی وقت فائدہ مند ہو سکتی ہے جب کہیں اپنی حکومت ہو.رسول کریم ﷺ کے وقت بھی جب تک آپ کو حکومت نہیں ملی اس وقت تک مسلمانوں کے لئے ہجرت فرض نہیں ہوئی تھی.۱۳ سال تک متواتر مکہ کے لوگ جس طرح آج احمدیوں پر کابل میں ظلم کیا جا رہا ہے.اسی طرح وہ بھی مسلمانوں پر طرح طرح کے ظلم کرتے رہے مگر ان پر ہجرت فرض نہ ہوئی.حتی کہ خود آنحضرت الا نے بھی ہجرت نہ کی.پھر وہ وقت آیا کہ آپ نے ارشاد الہی کے ماتحت مکہ سے ہجرت کی اور التالي آپ کو باہر جا کر مدینے میں حکومت حاصل ہو گئی.اور حکومت ملنے کے ساتھ ہی معا مسلمانوں پر ہجرت بھی فرض ہو گئی.اس سے پہلے ہجرت فرض نہیں ہوئی تھی.پس ہجرت اسی وقت فرض ہوتی ہے.جب کسی جگہ اپنی حکومت ہو.لیکن جب کہیں بھی اپنی حکومت نہ ہو تو پھر ان کو اختیار ہوتا ہے کہ جہاں کہیں اپنے تعلقات اور وسعت کے لحاظ سے وہ اپنی حفاظت کر سکتے ہوں کریں.یا پھر اس وقت کا انتظار کریں.جب خدا تعالیٰ خود ان کے بچانے کے لئے کوئی راستہ نکالے.چونکہ ہماری حکومت نہیں ہے اس لئے ہم ان کو ہجرت کا حکم نہیں دے سکتے.یا پھر ان حالات کے ماتحت کہ ایک احمدی اس لئے مارا جائے کہ وہ احمدی ہے.شریعت انہیں حق دیتی ہے کہ وہ اس قوم کے خلاف جنگ کریں اور ان کے شر سے اپنے آپ کو بچائیں.لیکن چونکہ ہمارے پاس کوئی حکومت نہیں اس لئے یہ بات بھی ہم پر چسپاں نہیں ہو سکتی.پس نہ ہم ان کو ہجرت کا حکم دے سکتے ہیں اور نہ کابل کے خلاف جنگ کر سکتے ہیں.تیسری بات یہ ہے کہ ہم امیر امان اللہ کے پاس اپیل کریں.مگر یہ بھی بے فائدہ ہے اور اس کا کوئی بہتر نتیجہ نہیں نکل سکتا.کیونکہ جس گورنمنٹ میں ہمارے بھائیوں کے ساتھ ایسے شدید مظالم ہو رہے ہیں وہ در حقیقت امیر کابل کے ہاتھ میں نہیں.اگر افغان حکومت کے اختیار میں یہ تمام

Page 71

66 معاملہ ہوتا تو شائد وہ ایسا نہ کرتی.پس وہ گورنمنٹ جس سے یہ قصور سرزد ہوا.میرے خیال میں وہ بھی اتنی مجرم نہیں ہے.جتنا کہ بظاہر اس کو سمجھا جاتا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ امیر امان اللہ خان اور ان کے وزراء مجرم ہیں.مگر اس لئے نہیں کہ انہوں نے ہمارے آدمیوں کو سنگسار کرایا.بلکہ وہ اس واسطے مجرم ہیں کہ کسی جماعت سے ڈر کر انہوں نے ایسے فعل کا ارتکاب کیا جسے وہ اپنے خیال میں برا سمجھتے تھے.اگر امیر اور ان کے وزراء کے ہاتھ کھلے ہوتے اور حقیقتاً کابل کی حکومت ان کے ہاتھ میں ہوتی تو ہم کو ذاتی طور پر علم ہے اور صحیح علم ہے کہ وہ ایسے افعال کو اپنی حکومت میں ہر گز پسند نہ کرتے.چنانچہ افغانستان کے وزیر خارجہ سردار محمود طرزی صاحب جو فرانس میں سفیر ہو کر گئے تھے اور امیر امان اللہ خان کے خسر بھی ہیں.جب فرانس سے واپس آتے ہوئے ہندوستان پہنچے تو ہمارے ناظر امور عامہ نے بمبئی میں ان سے ملاقات کی.مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت کا واقعہ سن کر انہوں نے بہت تعجب کیا.کیونکہ ذاتی طور پر وہ مولوی نعمت اللہ خاں صاحب کو جانتے تھے.انہوں نے کہا کہ میں وہاں پہنچ کر معاملات کے درست کرنے کی کوشش کروں گا.اور اپنا پورا زور لگاؤں گا.لیکن وہاں جا کر ان کو معلوم ہوا کہ معاملہ ان کی طاقت سے باہر ہے کیونکہ جب خود امیر کچھ نہیں کر سکتا تو پھر وزیر کیا کر سکتا تھا.کیونکہ وہاں پر حکومت ملاؤں کے قبضے میں ہے اور ملاؤں کے پاس اپیل کرنا ایسا ہی ہے.جیسا کوئیں کے پاس کھڑے ہو کر کوئیں سے پانی مانگنا یا آگ سے درخواست کرنا کہ تو خود بخود بجھ جا اور جلا نہیں.بھلا جن ملاؤں کو سالہا سال بلکہ صدیوں سے حرام خوری کی عادت ہو اور حرام خوری ہی ان کی مقتضائے طبیعت ہو چکی ہو ان کے آگے اپنی مصیبت کو پیش کرنا کیا فائدہ دے سکتا ہے.چونکہ ان کی انسانیت مردہ ہو چکی ہے اس لئے جب کابل میں مولوی نعمت اللہ صاحب کو شہید کیا گیا تو ہندوستان کے ملانوں نے جن کی طبیعت کا مقتضاء ظلم و جفا کاری ہے بڑی خوشی منائی.انہوں نے اور انکے زیر اثر لوگوں نے امیر کو تاریں دیں اور نہایت خوشی کا اظہار کیا.اگر یہ ملانے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ہوتے تو یقیناً یہ یہود کے پاس یا کے والوں کے پاس اپنے وفد بھیجتے اور نہایت خوشی مناتے کہ انہوں نے آنحضرت انا کے قتل کرنے کی تجویز کی اور آپ کو دکھ دیئے تھے.پھر یہی نہیں اگر یہ ملانے مکہ میں پیدا ہوتے تو یقیناً یہ لوگ رسول اللہ ﷺ سے لڑتے اور جنگ کرتے.لڑنے اور جنگ کرنے کی تو میں نے ان پر بہت زیادہ حسن ظنی کی ہے.کیونکہ یہ لوگ سب سے زیادہ بزدل ہوتے ہیں.قلم چلانے کے ا وقت تو یہ آگے ہوتے ہیں.لیکن کام کے وقت سب سے پیچھے ہوتے ہیں.چنانچہ خلافت کے معاملہ میں سب سے زیادہ یہیں ملانے مسلمانوں کی تباہی کا موجب ہوئے ہیں.خود انہوں نے نہ صرف کوئی

Page 72

67 نقصان نہیں اٹھایا بلکہ بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے بڑی بڑی رقمیں مسلمانوں سے لئے ہوئے چندوں کی ہضم کرلیں اور وہ مالدار ہو گئے.پس ایسی حالت میں جب کہ حکومت اور اختیار اس قسم کے ملانوں کے ہاتھ میں ہو.ان کے آگے اپیل کرنے کا کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا اور ایسی حالت میں امیر امان اللہ خان صاحب کے پاس اپیل کرنا بھی فضول اور بے فائدہ ہے.ان کی اپنی ضمیر ان کے سامنے ان مظالم کے خلاف اپیل کر رہی ہے.خود سردار محمود طرزی صاحب نے بمبئی میں مولوی نعمت اللہ خاں صاحب کی خبر سن کر بہت افسوس کیا اور کہا کہ میں جاکر اس قسم کے مظالم کا انسداد کروں گا.لیکن وہ بھی وہاں پہنچ کر ہر کہ در کان نمک رفت نمک شد کے مصداق ہو گئے.کیونکہ وہاں جا کر ان کو محسوس ہوا کہ اگر ہم ان مظالم کے انسداد کی کوشش کریں گے تو حکومت سے ہاتھ دھونا پڑے گا.اس لئے وہ بھی خاموش ہو گئے.پس وہ مجرم ہیں.مگر بے بس مجرم ہیں.رسول کریم کے وقت نجاشی ۲ کو بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا.مگر اس نے جرات سے کام لیا تھا.چنانچہ رسول کریم اللہ کے صحابہ نے جب ابی سینیا میں جا کر پناہ لی تو مکہ سے کفار کا ایک وفد نجاشی کے پاس پہنچا اور کہا ہم اپنے ملک کی پارلیمنٹ کی طرف سے آئے ہیں تا کہ ہمارے آدمی جو آپ کے ملک میں بھاگ آئے ہیں ان کو واپس لے جائیں.آخر کئی دنوں کی گفتگو کے بعد نجاشی پر ظاہر ہو گیا کہ یہ لوگ ظالم ہیں اور مسلمانوں پر ظلم کرتے ہیں.اس لئے اس نے مسلمانوں کو ان کے ساتھ بھیجنے سے انکار کر دیا.چونکہ اس وفد نے عام عیسائیوں اور پادریوں کو مسلمانوں کے خلاف یہ کہہ کر بہت مشتعل کر دیا تھا کہ یہ لوگ حضرت عیسی کی شان گھٹاتے اور اس کی ہتک کرتے ہیں.تم کیوں پناہ دیتے ہو.ان کو ضرور ان کے حوالہ کرنا چاہیے.اور سب کے سب درباری بغاوت پر آمادہ ہو گئے.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ امیر کابل کی مشکلات نجاشی کے مقابلہ میں بہت ہی ادنیٰ اور بہت ہی حقیر ہیں.کیونکہ نجاشی کی حکومت کی حالت اس وقت امیر کی بادشاہت سے بہت زیادہ بدتر تھی.امیر کے ساتھ تو اس کے کچھ ہم خیال لوگ بھی ہیں.لیکن نجاشی کے تو سب کے سب مخالف ہو گئے تھے.اور عجیب بات یہ ہے کہ جس طرح امیر کابل کو حکومت ملی ہے اس طرح نجاشی کو بھی ملی تھی.جس طرح امیر کا چا ملک پر حکومت کرنا چاہتا تھا اور پھر امیر کو حکومت مل گئی اسی طرح نجاشی کا چھا بھی ملک پر قبضہ کرنا چاہتا تھا.اور پھر نجاشی کو حکومت مل گئی مگر افسوس کہ ایک عیسائی نے تو یہ جرات دکھلائی کہ اس قدر مخالفت کے باوجود ایک تنکا اٹھایا اور کہا جو کچھ مسلمانوں نے حضرت عیسی کے حق میں بیان کیا ہے میں حضرت عیسی کو اس سے زیادہ اس تنکے کے برابر بھی نہیں سمجھتا.تم یاد رکھو کہ خدا نے مجھے بادشاہ بنایا ہے تم نے میرے چچا کے وقت میرا

Page 73

68 کیا بگاڑ لیا تھا کہ اب میرا کچھ بگاڑ لو گے.بے شک تم سب میرے مخالف ہو جاؤ مگر میں ان مظلوموں پر ہرگز ظلم نہیں ہونے دوں گا ۳ مگر امیر نے ملانوں کے شور و شر سے خوف کھا کر خاموشی اختیار کی اور ان مظالم کے انسداد کے لئے جرات سے کام نہ لیا.ورنہ اگر وہ جرأت سے کام لیتا تو کوئی بڑی بات نہ تھی.خدا تعالیٰ اس کی مدد کرتا اور اس طرح مدد کرتا جس طرح اس نے نجاشی کی کی تھی.پس اس میں کوئی شک نہیں کہ امیر کابل مجرم ضرور ہے.مگر ہمیں اس کے حالات معلوم ہیں اور ہم یقیناً جانتے ہیں کہ وہ اور نہ اس کے وزراء یہ ہر گز پسند نہیں کرتے کہ احمدیوں پر اس قسم کے ظلم کئے جائیں.لیکن ان کے وساوس نے ان کے ہاتھ پاؤں جکڑے ہوئے ہیں.انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ملانوں کے مقابلہ میں خدا کا ہاتھ ہماری حکومت کی حفاظت نہیں کر سکتا.اس لئے انہوں نے بزدلی دکھائی ہے.پس ایسی حالت میں ان سے اپیل کرنا فضول ہے.جب تک کہ ان کی حکومت ملانوں کے ہاتھ سے نہ نکلے.باقی رہے ملانے.اب خواہ کوئی شخص کتنا بھی تعصب میں اندھا ہو رہا ہو.وہ اس امر کا ہرگز یقین نہیں کر سکتا بلکہ امید بھی نہیں کر سکتا کہ وہ ملانے ہماری اپیل پر اپنے فتوی کو واپس کر لیں گے.اور ان مظالم سے وہ دست بردار ہو جائیں گے.بھلا دیوبند کے ملانوں کے سامنے ہی کوئی اپیل کر کے منوائے تو سہی.جو لوگ کہ انسانی خون میں جو نہایت بے دردی اور ظالمانہ طور پر کیا جائے خوشی اور لذت محسوس کریں.جن کی ضمیر قطعاً ایسی حرکات پر ان کو ملامت اور شرمندہ نہ کرے.بلکہ وہ فخر کے طور پر اعلان کریں اور نہ صرف یہ کہ وہ فخر کریں بلکہ ان لوگوں کو جنہوں نے اس قسم کے ظلم کئے یہ تحریک کریں کہ یہ بہت اچھا کام ہے.اس کو جاری رکھنا چاہیے.جن کی فطرت اس حد تک گر گئی ہو ان کے آگے ان کی اس قسم کی حرکات کے خلاف اپیل کرنے میں کیا فائدہ ہو سکتا ہے.اگر امیر امان اللہ خان کو سیاسی مجبوریاں اور دنیاوی اغراض کے پورا نہ ہونے کا خطرہ پیش نظر نہ ہوتا تو اس کے پاس اپیل کرنے کا فائدہ بھی ہو سکتا تھا.لیکن افغان گورنمنٹ اپنے سیاسی حالات کے ماتحت مجبور ہے.یا کم از کم وہ اپنے آپ کو مجبور رکھتی ہے.حالانکہ اگر وہ حق کی تائید میں کھڑی وتی تو خدا تعالیٰ اس کی مدد کرتا.پس وہ خود آزاد نہیں بلکہ ملانوں کا ان پر قبضہ ہے.اور کون کہہ سکتا ہے کہ ملانوں نے کوئی فتویٰ دیگر.خصوصاً جب کہ انہوں نے اس فتوی کو شریعت کی طرف منسوب کیا ہو.آج تک کبھی بھی اپنی غلطی کا اقرار کر کے اپنے فتویٰ کو واپس لیا ہے.ان خاص بزرگوں کو چھوڑ کر جو پہلے قلیل تعداد میں گزرے ہیں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ ملانوں نے کبھی بھی اپنے فتوی کی غلطی کا اعتراف اور اعلان کیا ہو.حضرت عثمان.حضرت علی بھی انہی ملانوں

Page 74

69 کے فتوؤں کی وجہ سے شہید کئے گئے.اگر کوئی ایک بھی ایسی مثال پیش کر دی جائے کہ ان مولویوں کے پاس اپیل کرنے سے انہوں نے اپنے فیصلہ کو بدل دیا ہو اور انہوں نے اعلان کر دیا ہو کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے تو ہم ان ملانوں کے پاس اپیل نہ کرنے کی غلطی کا اعتراف کریں گے.اور ہم جوابدہ ٹھریں گے.لیکن اگر آج تک کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی.تو پھر یہ کہنا عدل و انصاف کے خلاف ہے کہ ہم نے ان کے پاس اپنی مصیبت کے لئے اپیل کیوں نہیں کی.خواہ کوئی کتنا ہی متعصب کیوں نہ ہو.کون کہہ سکتا ہے یا امید بھی کر سکتا ہے کہ ان مولویوں کے پاس اپیل کرنے سے کچھ فائدہ پہنچ سکتا ہے.پس افغانی گورنمنٹ کی مجبوریوں کو جو اس کے خیال میں مجبوریاں ہیں.مد نظر رکھ کر اور ان علماء کے ان فتووں کو مد نظر رکھ کر اور وہ بھی اس بناء پر کہ انہوں نے اپنے فتویٰ کو شریعت پر مبنی قرار دیا ہے.کون کہہ سکتا ہے کہ ان کے پاس اپیل کرنا یا کوئی اور کوشش نفع مند ہو سکتی ہے.پس یہ رستہ تو ہمارے لئے بند ہے.اس سے ہمیں کچھ نفع نہیں پہنچ سکتا.ہاں کچھ اور تجاویز بھی ہیں.جن میں سے بعض انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں بیان کروں گا.کیونکہ سیاسی امور میں ہر ایک بات قابل ذکر نہیں ہوتی بلکہ سیاسی اور دنیاوی مفاد کے لئے ان کا اخفا ضروری ہوتا ہے.ان میں میں بتلاؤں گا کہ ہم صرف پروٹسٹ ہی نہیں کر رہے بلکہ ہم عملی کام بھی کر رہے ہیں.میں پہلے بھی جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلا چکا ہوں کہ ہمارے جو بھائی کابل میں قتل ہوئے ہیں.وہ تو فوت ہو چکے لیکن جو باقی ہیں.ان کے لئے ہمیں فکر ہونی چاہیے.اور اس کا بہتر علاج یہی ہے کہ ہم توجہ کے ساتھ کابل کے احمدیوں کے لئے دعائیں کریں.اور خصوصیت کے ساتھ ان مظلوموں کے لئے جو وہاں گرفتار ہیں کہ خدا تعالیٰ ان کو ہر قسم کے ظلموں سے نجات دے.ہم کمزور ہیں لیکن ہمارا خدا طاقتور ہے.وہ سب کچھ کر سکتا ہے.میرے نزدیک وہ جو ان مظلوم بھائیوں کے لئے دعا نہیں کرتا وہ احمدی کہلانے کا مستحق نہیں.پس ان کے لئے دعائیں کرو.اور بار بار کرو اور بجز و انکسار کے ساتھ کرو.ا مجمع بحار الانوار جلد ۲ باب ) آلسین الفضل ۲۸ مارچ ۱۹۲۵ء) ۲.اس نجاشی کا نام اصحمہ ہے.(سیرت خاتم النبین حصہ اول مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے) میرت ابن ہشام حالات ہجرت حبشه

Page 75

70 11 قربانی کرنے والوں کے متعلق جماعت کی ذمہ داری (فرموده ۲۷ مارچ ۱۹۲۵ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : ر میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں شہیدان کابل کے متعلق ذکر کرتے ہوئے یہ بیان کیا تھا کہ دوسرے لوگوں نے ان مظلوموں کی مظلومیت پر کچھ کیا یا نہ کیا.سوال یہ ہوتا ہے کہ ہم نے کیا کیا اور مرکز میں ان کے متعلق کیا کوشش کی گئی اور سلسلے کی طرف سے اس واقعہ پر کیا کارروائی کی گئی.لیکن قبل اس کے اس کے متعلق میں کچھ بیان کرتا.اس مضمون کی تمہید ہی اتنی لمبی ہو گئی کہ وقت ختم ہو گیا اور اصل بات بیان کرنے سے رہ گئی.آج میں اس حد تک کہ جس سے سلسلہ کے مفاد کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور اپنے ان بھائیوں کے مفاد کو بھی کوئی صدمہ نہ پہنچے جن پر افغانستان میں ہر طرح ظلم کیا جا رہا ہے اور وہ ہر طرح ستائے جا رہے ہیں.یعنی میں سلسلہ کے مفاد کو نیز اپنے ان مظلوم بھائیوں کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے جو کچھ بیان کر سکتا ہوں.اختصار کے طور پر بیان کرتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ مرکز اس معاملہ میں کیا کر سکتا ہے اور اس نے کیا کیا.یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر ایک چیز گو وہ بظاہر معمولی بھی نظر آتی ہو.لیکن ضرورت کے وقت اس کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے.ہماری کوشش اور سعی کے سلسلہ میں جو ہم نے اپنے مظلوم بھائیوں کے لئے کی ہے.سب سے پہلی چیز جس کو معمولی سمجھا گیا اور جو عام لوگوں کی نظروں میں ناواقفیت کی وجہ سے بے فائدہ قرار دی گئی وہ صدائے احتجاج ہے.جو مرکزی جماعت قادیان اور دیگر بیرونی احمدی جماعتوں کی طرف سے بلند کی جا رہی ہے.اس پر بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں اور ان کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمارا اپنی جگہ اپنی جماعتوں میں صدائے احتجاج بلند کرنا کیا معنی رکھتا ہے اور اس سے ہمارے ان مظلوم بھائیوں کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے.یا ہماری اس کوشش کا افغانی

Page 76

71 گورنمنٹ پر کیا اثر ہو سکتا ہے.بے شک بظاہر ہمارا اپنی جگہ صدائے احتجاج بلند کرنا افغانی گورنمنٹ پر کوئی اثر نہیں رکھتا اور نہ اس سے ہمارے ان مظلوم بھائیوں کو براہ راست کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے.لیکن یہ یاد رہے کہ نہ تو دنیا میں ہر ایک چیز بلا واسطہ اثر کرتی ہے اور نہ ہی ہر ایک چیز بالواسطہ اپنا اثر ڈالتی ہے.بہت سی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو اپنے اثر کے لئے اپنے ساتھ کوئی ذرائع نہیں رکھتیں بلکہ بلاواسطہ اثر کرتی ہیں.اور بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو بلاواسطہ کوئی اثر نہیں کرتیں.بلکہ ان کا فائدہ تب ہی ظاہر ہوتا ہے اور ان کا استعمال تبھی موثر ہو سکتا ہے جبکہ وہ بالواسطہ ہو.اب میں بتلاتا ہوں کہ ان ذرائع میں سے سب سے مقدم ذریعہ صدائے احتجاج ہی ہے.جو جماعت احمدیہ کی طرف بلند کی گئی اور اس کے تین فائدے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ براہ راست اس کا گورنمنٹ کابل پر کوئی ایسا اثر نہیں ہو سکتا جس سے ہمارے مظلوم بھائیوں کو کچھ فائدہ پہنچ سکے.ہماری یہ آواز ایک محدود آواز ہے جس کا براہ راست کوئی بڑا اثر نہیں.لیکن جس طرح بعض لوگوں نے اس کو بالکل بے فائدہ سمجھا ہے وہ ایسی بے فائدہ بھی نہیں ہے.بلکہ اس کے اندر فوائد ہیں جو ظاہر ہوئے بھی ہیں اور خدا کے فضل سے امید سے بہت بڑھ کر ظاہر ہوں گے بھی.پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ کسی زندہ قوم میں اس کی زندگی کی طاقت کو قائم رکھنے اور اس کے احساسات اور عمدہ جذبات کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرنے کے لئے بار بار اور متواتر اس کے فرائض اور اس کی ذمہ داریاں اس کے سامنے پیش کی جائیں.اس وقت سے کہ ہم نے مولوی نعمت اللہ صاحب کی شہادت پر جس قدر صدائے احتجاج بلند کی اس کا یہ اثر ہوا ہے کہ نہ صرف ہماری جماعت کے لوگوں کے احساسات اور جذبات میں نئی زندگی پیدا ہو گئی ہے بلکہ بعض وہ لوگ جو ہمارے کیا اسلام کے بھی سخت دشمن ہیں.وہ بھی ہمارے اس صدائے احتجاج بلند کرنے سے متاثر ہوئے ہیں.اور چونکہ بعض طبیعتیں اس قسم کی ہوتی ہیں کہ ان کے احساسات اور جذبات سخت سے سخت واقعہ پر بھی جوش میں نہیں آتے اور ایسے واقعہ سے جو ہوا اور گزر گیا ایسی متاثر نہیں ہوتیں کہ ان کے اندر کوئی خاص جوش اور احساس پیدا ہو.اس لئے اس قسم کی طبیعتوں کے اندر جوش پیدا کرنے اور ان کے احساسات کو ابھارنے کے لئے اس امر کی ضرورت ہوتی ہے کہ ان کے سامنے متواتر اور بار بار اس واقعہ کو پیش کیا جائے اور ان کا فرض اور ان کی ذمہ داری ان کو یاد دلائی جائے.جب بار بار وہ واقعہ ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو پھر ان کے اندر بھی ایک جوش اور احساس پیدا ہو جاتا ہے اور وہ بھی اس واقعہ سے متاثر ہونے لگ جاتی

Page 77

72 ہیں.مجھے اپنے بچپن کی ایک مثال یاد ہے.اس وقت تو میری حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہی تھی اور میں بڑا تعجب کرتا تھا اور بہت سوچتا تھا مگر کچھ سمجھ نہیں آتی تھی.آخر خدا کے فضل سے وہ بات حل ہو گئی اور میں سمجھ گیا کہ اس کے اندر کیا حقیقت تھی.وہ واقعہ یہ ہے کہ مجھے بچپن میں ہوائی بندوق کے ساتھ چھوٹے چھوٹے پرندوں کے شکار کا بہت شوق تھا.ایک دفعہ میں بندوق لے کر ایک گاؤں کی طرف گیا جس کا نام شاید ناتھ پورہے.ایک دو اور لڑکے بھی میرے ساتھ تھے.جب میں وہاں پہنچا چند نوجوان سکھ اس گاؤں کے ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے آؤ ہم تم کو شکار بتلاتے ہیں.چنانچہ وہ ہمیں گاؤں کے قریب لے گئے اور خود انہوں نے ہمیں شکار جتایا اور جگہ بہ جگہ ہمارے ساتھ پھرتے رہے.اور جس طرح ہم اس شکار میں لذت محسوس کر رہے تھے اسی طرح وہ بھی لذت محسوس کر رہے تھے.اور جس طرح ہم شوق سے شکار کی تلاش میں پھر رہے تھے ہمارے ساتھ وہ بھی اسی طرح شوق کے ساتھ پھر رہے تھے.کہ ایک جگہ ایک درخت پر فاختہ نظر آئی.میں نے نشانہ لگا کر بندوق چلائی اور وہ گر گئی.اس سے بھی جس طرح ہم نے لذت اور خوشی محسوس کی اسی طرح انہوں نے خوشی کا اظہار کیا کہ اتنے میں گاؤں کی ایک بڑھیا وہاں سے گزری.اس نے جو فاختہ کو تڑپتے ہوئے دیکھا تو دیکھتے ہی شور مچانا شروع کر دیا اور ان نوجوان سکھوں سے کہا تم کو شرم نہیں آتی.تم ایسے بے غیرت ہو گئے ہو کہ لوگ دوسرے گاؤں سے آکر تمہارے گاؤں میں جیو ہتیا کرتے ہیں اور تم روکتے نہیں.میں نے دیکھا وہ لڑکے باوجود اس کے کہ بڑے شوق سے ہمارے ساتھ شکار میں حصہ لے رہے تھے اور ہماری طرح ہی شکار میں لذت حاصل کر رہے تھے لیکن جونہی انہوں نے اس بڑھیا کی بات کو سنا ان کے چہرے بدل گئے.اور ہمیں کہنے لگے.کیوں جی کیوں تم یہاں شکار کرتے ہو ہم نہیں کرنے دیں گے.میرے لئے اس وقت ان کا یہ کہنا نہایت ہی حیرت انگیز تھا کہ یہ کیا بات ہے.ابھی تو یہ خود ہمیں بلا کر لائے ہیں اور بڑے شوق کے ساتھ شکار کی تلاش میں ہمارے ساتھ پھرتے رہے ہیں اور جس طرح ہم خوشی اور لذت محسوس کر رہے تھے.اسی طرح ان کو بھی ہمارے شکار کرنے میں خوشی اور لذت محسوس ہو رہی تھی اور اب یک دم ہی یہ ایسے بدل گئے ہیں کہ ان کی پہلی حالت کا پتہ ہی نہیں لگتا.بلکہ ان کے چہروں کا رنگ بھی بدل گیا ہے.اس سے معلوم ہوتا تھا کہ ان کے اندر اس وقت حقیقی جوش پیدا ہو گیا تھا نہ کہ بناوٹ سے وہ ایسا کہنے لگے.یہ جوش پہلے ان کے اندر بالکل نہ تھا کیونکہ ہماری طرح ہی وہ بھی شکار میں لذت

Page 78

73 محسوس کر رہے تھے.لیکن عورت کے غیرت دلانے پر ان کے مردہ احساسات فورآ زندہ ہو گئے.میں نے دیکھا جب انہوں نے اس بڑھیا کی آواز سنی تو فور آ جوش میں بھر گئے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنا کوئی فرض اور ذمہ داری بھلائے بیٹھے تھے اور اس بات کے محتاج تھے کہ کوئی ان کے سامنے ان کی ذمہ داری پیش کرے.جب عورت نے انہیں غیرت دلائی تو وہ فرض انہیں یاد آگیا اور اس میں کیا شک ہے کہ ان کے عقیدہ کے لحاظ سے ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ ہمیں شکار سے روکتے.کیونکہ ان کے نزدیک یہ جیو ہتیا ہے.مگر اس کا پہلے ان کے دل پر کوئی اثر نہ تھا.لیکن جب بڑھیا نے ان کو اس فاختہ کے تڑپنے کا نظارہ پیش کر کے ان کی ذمہ داری یاد دلائی تو پھر ان کے جوش کی کوئی حد نہ رہی.پس اکثر دفعہ خواہ کتنا ہی کوئی اہم واقعہ ہو براہ راست اس کا بعض طبیعتوں پر کچھ اثر نہیں ہوتا.لیکن بالواسطہ اس کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کابل کے واقعات کے متعلق ہمارا پروٹسٹ اور ہماری طرف سے صدائے احتجاج بلند کرنا.براہ راست گورنمنٹ کابل پر اسکا کوئی اثر نہیں ہو سکتا.لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ان واقعات کو دہرانا اور ان کا بار بار تکرار کرنا علاوہ دیگر قوموں کو ان کے انسانی فرض یاد دلانے کے ، خصوصیت کے ساتھ احمدیوں کو ان کی ذمہ داری اور ان کا فرض یاد دلاتا ہے.اور اس سے ان کے اندر زندگی کی روح پیدا ہوتی ہے.کیونکہ بہت سے دلوں میں جب احساسات خود بخود کسی واقعہ سے پیدا نہیں ہوتے تو دوسرے لوگوں سے جن کے قلوب زندہ ہوتے ہیں ان واقعات کو سن کر ان کے اندر بھی زندگی کی روح پیدا ہو جاتی ہے.اور پھر جس طرح زندہ دل لوگوں کے اندر اس واقعہ کا خاص جوش اور احساس ہوتا ہے اسی دوسروں کے اندر بھی خاص جوش اور احساس پیدا ہو جاتا ہے.پس گو ہماری اس صدائے احتجاج کا براہ راست حکومت کابل پر کوئی اثر نہ ہو لیکن بالواسطہ یقیناً اس کا بہت بڑا اثر ہو سکتا ہے.ہم لوگ جن کے ساتھ یہ واقعات گزرے ہیں.اگر ہم بھی خاموش بیٹھے رہتے تو ہمارے گرد و پیش رہنے والی قوموں کے اندر بھی ان واقعات کا احساس پیدا نہ ہوتا.کیونکہ دوسروں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ جس قوم کے افراد کے ساتھ یہ واقعات گزرے ہیں وہ جب حکومت کابل کے ان افعال پر کسی قسم کا اظہار نفرت نہیں کرتی تو ہمیں کیا ضرورت ہے کہ کچھ کہیں.ان سے ہماری صدائے احتجاج بلند کرنے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ لوگ جن کے اندر دوسروں کی آواز سن کر جوش اور احساس پیدا ہوتا ہے ان کے مردہ دلوں کے اندر بھی زندگی پیدا ہو طرح دو b q

Page 79

74 رہی ہے.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم واقعات کو بار بار دھرائیں اور ان کو زندہ اور تازہ رکھیں.پھر قومی زندگی کے قیام کا بھی یہ ایک بہترین ذریعہ ہے.شیعوں کو ہی دیکھ لو وہ ہر سال اس طرح روتے اور پیٹتے اور طرح طرح کی حرکات کرتے ہیں کہ جو بالکل مضحکہ خیز معلوم دیتی ہیں.ایک واقعہ جس پر تیرہ سو سال گزر گئے ہیں مگر اتنے عرصہ بعد بھی بڑے بڑے تعلیم یافتہ اور معزز لوگ ننگے پاؤں اور ننگے سر گھروں سے نکلتے اور اس طرح روتے پیٹتے ہیں جیسا کہ ابھی تازہ واقعہ ہوا ہے.وہ کاغذوں کی قبر بناتے اور دلدل نکالتے ہیں.حالانکہ ممکن ہے جب سے اس گھوڑے کو دلدل قرار دیا گیا ہو اس کے بعد تو نہ سہی مگر اس سے پہلے کئی اوباش آدمی بھی اس پر سوار ہوتے رہے ہوں گے.اس کو آگے آگے لئے ہوئے کالے کالے رومال ہلاتے جاتے ہیں اور آنسو بہاتے جاتے ہیں.ان میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو آنسو بہانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں.کیونکہ بغیر اس کے وہ مومن نہیں کہلا سکتے.اور بعض چند پیسوں اور بعض پلاؤ کی ایک رکابی پر روتے پیٹتے اور زخموں سے خون بہاتے ہیں مگر ان میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو فی الواقعہ ان گزرے ہوئے واقعات کی یاد سے درد محسوس کر کے رو رہے ہوتے ہیں.بے شک یہ واقعات اس قسم کے ہیں کہ اگر سنجیدہ پہلو سے ان پر غور کیا جائے تو اس قسم کی حرکات کے مرتکب لوگ ایک مضحکہ نظر آئیں گے.لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان کی یہی حرکات ہیں.جن کی وجہ سے ہر سال سینکڑوں لوگ شیعہ ہو جاتے ہیں.اور ان کی یہ حرکات ہی ہیں.جنہوں نے شیعیت کو قائم رکھا ہوا ہے.اگر چند سال بھی وہ ان حرکات کو ترک کر دیں تو شیعہ مذہب کا نام و شان نہ رہے.کیونکہ اس کے بغیر اور کوئی بات ان میں ایسی نہیں پائی جاتی جس کی وجہ سے وہ اپنی زندگی کو قائم رکھ سکیں.اس لئے ان کو لوگوں کی ہنسی اور مضحکہ کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی.اور وہ اپنی قومی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے حضرت امام حسین کے واقعات کو تازہ اور زندہ رکھتے ہیں.تو واقعات کا تکرار ایسی چیز ہے جس سے مردہ احساسات زندہ ہو جاتے اور قوم میں زندگی کی روح قائم رہتی ہے.دوسرا فائدہ ہماری صدائے احتجاج بلند کرنے کا یہ بھی ہے کہ گو ان لوگوں پر جو ہمارے بھائیوں پر ظلم و ستم کر رہے ہیں اس کا کوئی اثر نہ ہو.لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان خبروں کے پہنچنے پر ہمارے ان مظلوم بھائیوں کے دل ضرور بڑھ جاتے ہوں گے اور وہ اس بات سے ضرور خوشی حاصل کرتے ہوں گے کہ ان کے دوسرے بھائیوں کو ان کی فکر ہے اور وہ ان سے دلی ہمدردی رکھتے ہیں.گو وہ اپنی مجبوری سے کچھ کر نہیں سکتے.کیونکہ ان کے پاس کوئی حکومت نہیں، طاقت نہیں.

Page 80

75 مگر ان کے دل میں ہماری ہمدردی ہے اور ہمارے دکھ کو وہ محسوس کرتے ہیں.اس سے بھی ایک مصیبت زدہ انسان کا حوصلہ بہت کچھ بڑھ جاتا ہے.ہزارہا واقعات ایسے ہیں کہ جن کو دین کے لئے یا عزت کے لئے یا ملک اور قوم کے لئے قربانیوں کے مواقع پیش آئے ہیں.ان کی ہمتیں محض اس وجہ سے دو چند ہو گئیں کہ ان کی مصیبت میں ان کے رشتہ داروں یا ان کی قوم یا ملک کو ان سے ہمدردی تھی.آنحضرت الان کے بعد خلفاء کے زمانہ کا ایک واقعہ ہے کہ ایک عورت اس نے اپنے بیٹے کو ایک جنگ کے موقع پر رخصت کرتے وقت کہا.دیکھو تم چھوٹے تھے جب تمہارا باپ فوت ہو گیا.میں نے اپنی عصمت کی حفاظت کر کے تمہاری پرورش کی اور تمہارے خاندان کی عزت کو قائم رکھا جو کام تمہارے باپ کا تھا.اس کے بعد وہ میں نے کیا.تم کو پالا پوسا اور تمہاری پرورش کی اگر تم بغیر فتح حاصل کئے میرے پاس واپس آگئے تو یاد رکھو جو حقوق میرے تم پر ہیں وہ ہرگز معاف نہ کروں گی.اس میں کوئی شک نہیں کہ بہادر ماں باپ کے بیٹے بہادر ہوتے ہیں اور اپنے ماں باپ کی جرات اور بہادری ان کو ضرور ورثے میں ملتی ہے اور نہیں تو کم از کم بہادر ماں باپ کی تربیت کے ذریعے ان میں بہادری پیدا ہو جاتی ہے.اور جس بچہ نے ایسی بہادر ماں کی آغوش میں پرورش پائی ہو گی وہ ضرور بہادر ہو گا.لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہو سکتا کہ اس بہادر ماں کے ان کلمات نے اس کی بہادری کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہو گا.پس اس طرح گو کابل کے احمدی پہلے ہی بہادر ہیں لیکن آپ لوگ اندازہ لگا سکتے ہیں ہماری صدا کو سن کر ان کے دل کتنے بہادر ہو گئے ہوں گے.بے شک وہ پہلے ہی نہایت دلیر ہیں اور اپنی قربانیوں کے ساتھ اپنے ایمان اور اخلاص کا وہ ثبوت پیش کر رہے ہیں جو بے نظیر ہے.اور جو امتحان بھی ان پر آیا اس میں وہ پورے اترے ہیں.مگر یہ ناممکن ہے کہ ہماری ہمدردی اور ہماری بے قراری اور ہمارا جوش اور ہمارا صدائے احتجاج بلند کرنا ان کے جوش اور ان کے اخلاص ، ان کے ایثار کو نہ دے اور زیادہ سے زیادہ ان کے حوصلوں کو نہ بڑہائے.پس ہماری اس اظہار ہمدردی اور صدائے احتجاج سے ہمارے ان مظلوم بھائیوں کو بھی یہ ایک بہت بڑا فائدہ پہنچ سکتا ہے اور آئندہ جو فائدہ اس کا ظاہر ہو گا وہ اس سے بہت زیادہ ہے.پس یہ دوسرا فائدہ ہے جو ہمیں صدائے احتجاج کے بلند کرنے سے حاصل ہو سکتا ہے.تیرا فائدہ اس کا یہ ہے کہ گو ہماری آواز براہ راست کابل پر کوئی اثر نہ کرے.لیکن ترقی

Page 81

76 ہمارے ساتھ دوسری قوموں کی آواز جو ہمارے ارد گرد رہتی ہیں.یا دنیا کے مختلف مہذب ملکوں میں رہنے والی ہیں.ان کی آواز اثر کئے بغیر نہیں رہ سکتی.کیونکہ ہماری جماعت کے متعلق تو حکومت کابل یہ خیال کر کے کہ یہ کمزور لوگ ہیں.اس مصیبت پر خاموش ہو کر بیٹھ جائیں گے.ایک خیالی خوشی حاصل کر سکتی تھی.اور واقعہ میں اگر کسی مصیبت زدہ کی اپنی قوم یا اپنے رشتہ دار اس کی مصیبت پر کسی دکھ و درد رنج اور افسوس کا اظہار نہیں کرتے.تو غیروں سے کیا امید کی جاسکتی ہے کہ وہ افسوس کا اظہار کریں گے.اسی طرح اگر ان واقعات پر ہم خاموش بیٹھے رہیں تو دوسری اقوام ہے کو کیا ضرورت ہے کہ خواہ مخواہ افسوس کا اظہار کریں.پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گو محض ہماری آواز کابل پر کچھ اثر نہیں کر سکتی.لیکن ہمارے ساتھ غیر احمدیوں ، سکھوں، عیسائیوں اور یورپ و امریکہ کی قوموں کا بھی اس وحشیانہ فعل پر اظہار نفرت و ملامت کرنا حکومت کابل کو مطمئن نہیں رہنے دے سکے گا.اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ خیال کریں کہ صرف احمدیوں کی محدود تعداد ہی اس کے فعل سے نفرت نہیں رکھتی بلکہ دنیا کی تمام مہذب اقوام بلکہ جو اس کے دوست اور ہم مذہب ہیں وہ بھی ان کے ان افعال کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.ایسی صورت میں اسے اپنی عزت کا ضرور خیال آئے گا.اور حکومت کابل کے ارکان سمجھیں گے کہ اس طرح تو ہم تمام دنیا اور دوست دشمن میں بدنام ہو رہے ہیں.اور یہ قائدہ کی بات ہے کہ عزت کا خیال بھی بہت سے گناہوں سے انسان کو بچا لیتا ہے.ڈاکوؤں کی فطرت کو کتنی ہی بگڑ چکی ہوتی ہے.لیکن شائد ہی فی صد کوئی ایک ایسا نکلے.جو یہ نہ چاہتا ہو.کہ اس کا یہ جرم مخفی نہ رہے.سارے کے سارے یہی چاہیں گے کہ ان کے جرم پر پردہ پڑا رہے اور وہ ظاہر نہ ہو.بکثرت ایسی مثالیں موجود ہیں.کہ ڈاکو یہ معلوم کر کے کہ ان کی کارروائی مخفی نہ رہ سکے گی وہ اس جرم کے ارتکاب سے باز رہے.اور سو چوریوں میں سے نوے فی صد ایسی ہوں گی جو ان کے ظاہر ہو جانے کے اندیشہ سے نہیں کی گئیں.پس جب اظہار جرم ایک ایسی زبردست طاقت ہے کہ اس سے نوے فی صد فساد کے مواقع کو روکا جا سکتا ہے اور یہ نوے فی صد بھی میں نے کم کہا ہے.بلکہ اس سے بھی زیادہ اس کا اثر ہے.تو پھر ایسی زبردست طاقت سے ہم کیوں فائدہ نہ اٹھائیں.جس سے فائدہ اٹھانے کا طریق یہی ہے کہ ہم بڑے زور کے ساتھ صدائے احتجاج بلند کریں.پس اس سے ہمیں تین فائدے پہنچ سکتے ہیں.ایک تو یہ کہ جماعت کے ان لوگوں کے دلوں میں زندگی کی تازہ روح پیدا ہو سکتی ہے جو ست یا لا پرواہ ہوں.دوسرے یہ کہ اس سے ہمارے ان مظلوم بھائیوں کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے.جن پر حکومت کابل

Page 82

77 جور و جفا کر رہی ہے اور وہ بڑی بہادری سے اپنے ایمان اور اخلاص کا عملی ثبوت دے رہے ہیں.وہ یہ معلوم کر کے کہ ہم ان کی ہمدردی میں اپنی طاقت کے مطابق کوشش کر رہے ہیں اور ان کے دکھ کا ہم کو پورا پورا احساس ہے.اس طرح ان کے حوصلے ان کے جوش اور اخلاص میں زیادہ ترقی ہو سکتی ہے.اور تیسرا فائدہ یہ ہے کہ اس سے دوسری قوموں پر بھی.خواہ وہ ہمارے ارد گرد رہتی ہوں یا دیگر متفرق ممالک میں.ان پر بلکہ اس قوم کے افراد پر بھی کہ جو ہمارے سخت دشمن اور مخالف ہیں.اس کا اثر پڑتا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ حکومت کابل کو اپنی موجودہ روش بدلنی پڑے گی.میں پہلے بتا چکا ہوں کہ ہماری اپنی کوئی طاقت اور حکومت نہیں جس سے ہم براہ راست اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کر سکیں.کیونکہ کسی ظالم حکومت کو اس کے ظلم سے کوئی دوسری حکومت ہی براہ راست روک سکتی ہے.اس لئے یہ تو ہماری طاقت سے باہر ہے.اب دوسری صورت یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کی تائید اور مدد حاصل کریں.جنہیں طاقت حاصل ہے.کیونکہ کمزور کا جب اپنا کوئی بس نہیں چلتا.تو وہ کسی دوسرے زبر دست کی مدد اور ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.پس دوسری صورت یہ ہے کہ ہم ان حکومتوں اور طاقتوں سے مدد لیں.جن کو افغان گورنمنٹ ناراض کرنا نہیں چاہتی.یا افغان گورنمنٹ میں انہیں ناراض کرنے کی طاقت نہیں.مگر اس مدد کا یہ مطلب نہیں کہ کابل کے خلاف چڑھائی کرائی جائے بلکہ یہ ہے کہ ان سے ہم یہ کہلوائیں کہ حکومت کابل کا یہ فعل اچھا نہیں اور یہ کام ان کی نگاہ میں بھی اسی طرح نفرت دلانے والا ہے.جس طرح کہ ہماری نگاہ میں ہے.اس مقصد کے حصول کے لئے میں نے دنیا کی مختلف گور نمنٹوں کو کابل کی اس وحشیانہ اور غیر شریفانہ حرکت کی طرف توجہ دلائی اور وہ توجہ کر رہی ہیں.مولوی نعمت اللہ خان صاحب کے واقعہ کے متعلق تو وہ یہ بھی خیال کر سکتی تھیں کہ ممکن ہے یہ واقعہ کسی سیاسی مجبوری کی وجہ سے گورنمنٹ کابل نے کیا ہو.اور شائد اس ایک واقعہ کے بعد پھر کوئی ایسا واقعہ نہ ہو.لیکن اس کے بعد معا دوسرا واقعہ بھی ہو گیا.تو ان کو اس طرف بہت زیادہ توجہ پیدا ہو گئی ہے.بعض گور نمنٹوں نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ وہ اس معاملہ میں پوری توجہ سے کام لیں گی.اور سارے یورپ کو اس طرف توجہ دلائیں گی.چنانچہ بعض نے تو یقینی طور پر اس کے متعلق کارروائی شروع بھی کر دی ہے.اور بعض کے متعلق یقینی طور پر تو نہیں کہا جا سکتا.لیکن معتبر ذرائع سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی اس کے متعلق اپنی کارروائی شروع کر دی ہے.اور ان کا اس طرف متوجہ ہونا ایسا نہیں کہ

Page 83

78 حکومت کابل پر کوئی اثر نہ کرے.ہماری طرف سے وہ اپیل جو لیگ آف نیشنز یعنی مجلس بین الا قوام میں کی گئی اس کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ جب وہ کاغذات مجلس کے میز پر رکھے گئے.تو انگریزوں کے علاوہ دوسری حکومتوں کے نمائندوں نے بھی ان کاغذات کو پڑھا.اور یہ اس کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے اس معاملہ میں مناسب کارروائی کرنے کے لئے اپنا قدم اٹھایا ہے.مگر یہ کام ایک دن کا نہیں کہ جھٹ پٹ اس کے نتائج نکل آئیں.اور نہ یہ صرف تاروں کے ذریعہ ہو سکتا ہے.اسی لئے ہم نے تاروں پر ہی اکتفا نہیں کیا.بلکہ وفد کے طور پر بھی ہمارے آدمی ان حکومتوں کے ذمہ دار لوگوں سے ملے اور ان سے ملاقاتیں کی ہیں.اور وہ ذمہ دار لوگ جن سے ہمارے وفد ملے ہیں یورپ اور انگلستان کے بڑے بڑے رئیس اور وزراء میں سے ہیں.ان سے براہ راست زبانی تمام حالات اور معاملات واضح طور پر بیان کئے ہیں.اور انہوں نے ہم سے وعدے کئے ہیں کہ وہ کابل کی ان حرکات پر خاموشی اختیار نہیں کریں گے.لیکن گورنمٹیں چونکہ سیاسی معاملات کو ظاہر کرنا پسند نہیں کرتیں اس لئے جہاں انہوں نے ہم سے وعدے کئے ہیں وہاں انہوں نے بھی ہم سے یہ وعدے لئے ہیں کہ ہماری گفتگو کو قطعاً کسی پر ظاہر نہ کیا جائے.کیونکہ ان دنوں خود ان حکومتوں کو بہت سی سیاسی مجبوریاں اور مشکلات کا سامنا ہے.ایسی حالت میں ان کی ان کوششوں کو ظاہر کرنا بجائے اس کے کہ ان کو ہم سے ہمدردی پیدا ہو اور وہ ہمارے لئے کوئی مفید کام کریں وہ ہم سے بدظن ہو جائیں گے.اور یہ تو ظاہر ہی ہے کہ ہماری خاطر وہ اپنے ملک کے فوائد کو نظر انداز نہیں کر سکتے.اور ان کے خیالات کے اظہار سے ان کے اپنے ملکی فوائد کو نقصان کا سخت خطرہ ہے.ایسی حالت میں پھر ان کو ہم سے کس طرح ہمدردی رہ سکتی ہے اور ایسی حالت میں تو ان کے اپنے تین آدمی بھی اگر کسی حکومت میں قتل کر دیئے جائیں اور ان کی تائید میں ان کا تمام ملک برباد ہو تا ہو تو وہ ملک کی خاطر اپنے آدمیوں کے مارے جانے کی بھی کوئی پرواہ نہیں کریں گے.پس ان کی کوششوں کو ظاہر کرنا نہ صرف یہ کہ ان کے ملکی فوائد میں خطرہ پیدا کرنا ہے بلکہ ہمارا بھی اس میں سخت نقصان ہے.کیونکہ ایسی صورت میں ہم ان کی مدد اور ہمدردی حاصل نہیں کر سکتے.اس وقت دنیا کی سیاسی حالت یہ ہے کہ دو قسم کی حکومتیں قائم ہیں.کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو پرانا طریق اور پرانا نظام حکومت پسند کرتے ہیں اور وہ اس کے حامی ہیں.اور کچھ ایسے ہیں جو پرانے طریق حکومت اور نظام کو ناپسند کرتے ہیں اور اس کے سخت مخالف ہیں.جیسا کہ روس میں بولشویک تحریک ہے.

Page 84

79 ان کے نزدیک جائداد پر کسی کا کوئی حق نہیں.تمام زمین حکومت کی ہے.اور تمام تجارت کی مالک حکومت ہے.مذہب کا کسی قسم کا کوئی دخل وہ حکومت میں جائز نہیں سمجھتے.تمام بچے حکومت کی ملکیت سمجھے جاتے ہیں.جس کو چاہیں وہ ڈاکٹر بنائیں اور جس کو چاہیں مزدور بنائیں اور جس کو جس ملک میں چاہیں رکھیں.اسی طرح کسی زمیندار کا یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنی زمین میں جب کہ اس کی زمین عمدہ گیہوں نہیں پیدا کر سکتی.وہ گیہوں بوئے.بلکہ گورنمنٹ جو کچھ ہونے کے لئے کے گی.وہی ہو سکے گا.اور پھر جو پیداوار ہو اس کا مالک زمیندار نہیں ہو گا بلکہ اسے حکومت کے سپرد کرنی پڑے گی.پھر حکومت اس کو تمام ملک میں تقسیم کرے گی.سوائے اس کے کہ زمیندار کو ضرورت کے مطابق پیداوار میں سے رکھنے کی اجازت ہو.باقی پر اس کا کوئی حق نہیں سمجھا جاتا.یہ نیا دور حکومت روس میں جاری ہوا لیکن دنیا کی دوسری حکومتیں اس تحریک سے خطرہ محسوس کرتی ہیں.اس لئے وہ ایسی تدابیر اور کوشش میں لگی ہوئی ہیں کہ ان کا ملک بولشویک خیالات سے محفوظ رہے.چونکہ افغانستان روس اور انگریز کے ملک کے درمیان واقعہ ہے.اس لئے وہ بھی کھلم کھلا کوئی ایسا طریق اختیار نہیں کر سکتے.جس سے گورنمنٹ کابل اور ان کے درمیان کشیدگی پیدا ہو کیونکہ ان کو خطرہ ہے کہ پھر افغان روس سے مل جائیں گے.اسی طرح فرانس اور اٹلی کو بھی یہ خطرہ ہے.آج سے دس برس پہلے نہ فرانس پر کابل کا کوئی اثر تھا.نہ اٹلی پر.یہ ایک معمولی ریاست سمجھی جاتی تھی.لیکن موجودہ حالات کے ماتحت ان کی نگاہ میں افغانستان کا ان کے ممالک کے نفع و نقصان سے بہت کچھ تعلق ہے.اس کی وجہ سے سب کی نگاہ میں اس وقت وہ خاص اہمیت رکھتا ہے.اگر افغانستان سے انکا مقابلہ تلوار اور بندوق سے ہوتا تو ان کو کچھ فکر نہ ہوتی.لیکن ان کو مشکل یہ ہے کہ یہ جنگ تلوار اور بارود سے نہیں بلکہ خیالات کی جنگ ہے.اگر افغانستان روس سے مل جائے تو بولشویک خیالات ان کے ممالک میں اثر کر کے پھر ہندوستان میں بھی پہنچ سکتے ہیں.اس لئے ان مجبوریوں کی بناء پر وہ افغانستان سے صلح رکھنا چاہتے ہیں.تاکہ وہ ان کے ساتھ شامل نہ ہو جاوے.پس جس طرح اس وقت انگریزوں کو افغانستان کے روس کے ساتھ مل جانے سے اپنے ملک کا خطرہ ہے.اسی طرح اٹلی اور فرانس کو بھی اس کا اندیشہ ہے.کیونکہ ان خیالات کی اشاعت میں ان کے ملک کی بھی تباہی اور بربادی ہے.اس لئے سب حکومتیں اس مسئلہ میں احتیاط سے قدم رکھتی ہیں.

Page 85

80 تیسری صورت اپنے ان مظلوم بھائیوں کی مدد کی یہ ہے کہ ہم خود امیر صاحب کابل کو بھی اور ان کی ہم خیال رعایا کو بھی اس طرف توجہ دلائیں.اس کے متعلق بھی ہماری طرف سے کوشش جاری ہے.اس کے متعلق میں صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں.چوتھی بات یہ ہے کہ جن خیالات کی بناء پر اس ملک میں ہمارے مظلوم بھائیوں پر یہ مصیبت آئی ہے ان خیالات کا مقابلہ کیا جائے.یعنی ان خیالات کی بڑھتی ہوئی رو کو روکا جائے.تا کہ اس ملک میں اتنے احمدی ہو جائیں کہ ان کو مارنا گویا ملک کو تباہ کر دینے کے برابر ہو.ان کی اتنی کثرت ہو جائے کہ اگر کسی جگہ ان پر ظلم ہو تو دوسرے ان کی ہمدردی کرنے کے لئے کھڑے ہو سکیں.اور ظالموں کو آپس کی لڑائی کے خوف سے یہ موقع نہ ملے کہ وہ احمدیوں پر ظلم کر سکیں.اس کی بھی تجویز کی گئی ہے.پانچویں بات یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کی مدد کریں.جن کو ان مظالم کی وجہ سے نقصان پہنچا ہے.خواہ وہ ان شہیدوں کے رشتہ دار ہوں خواہ دوسرے.یہ بھی بہت نازک سکیم ہے.کیونکہ اگر ذرا بھی مدد کا پتہ لگ گیا یا وہ احمدی جن کی ہم مدد کریں ظاہر ہو جائیں.تو خطرہ ہے کہ نہ صرف ہم ان کی مدد ہی نہ کر سکیں گے بلکہ ان کی جانیں بھی خطرہ میں ڈال دیں گے.اس لئے ہمیں ایسی تدابیر اختیار کرنی ہوں گی کہ جو مدد ہم ان کی کریں وہ خطرات کا باعث نہ ہو.مولوی نعمت اللہ خان صاحب کے والد کی تو کچھ مدد کی بھی گئی ہے اور بقیہ شہیدوں کے رشتہ داروں کی مدد کی بھی تجویز ہے جو کہ کسی مخفی طریق سے ہی کی جا سکتی ہے.چھٹی صورت اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کی یہ ہے کہ ان شہداء کی نعشیں حاصل کر کے یہاں یا وہاں ان کو باقاعدہ دفن کیا جائے.یہ بھی ہمدردی کا ایک پہلو ہے.اور اس کے متعلق ابھی حکومت کابل سے ہماری خط و کتابت ہو رہی ہے.اگر انہوں نے ان شہیدوں کے وہاں یا یہاں دفن کرنے کی اجازت دیدی تو ہم ان کے ممنون ہوں گے.اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر ہمیں کوئی اور صورت اختیار کرنی پڑے گی جس سے ہم اپنے شہداء کی نعشیں حاصل کر کے دفن کر سکیں.لیکن ابھی کسی ایسی تجویز پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں.کیونکہ ابھی ہماری اور ان کی باقاعدہ خط و کتابت ہو رہی ہے.اگر انہوں نے اس بات کو منظور نہ کیا تو کسی اور تجویز پر بعد میں عمل کرنے کی تیاری کی جائے گی.پس اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد میں جو کچھ ہم سے ہو سکتا تھا وہ ہم نے کیا.اور موجودہ حالات کے ماتحت جو ہم کر سکتے ہیں وہ کیا جا رہا ہے.مگر اس وقت جماعت جو سب سے بڑی ہمدری اپنے -

Page 86

81 مظلوم بھائیوں سے کر سکتی ہے وہ یہی ہے کہ وہ بندگان خدا جنہیں وہاں دکھ دیا جاتا ہے.اور ظالموں کے ظلم ہر وقت ان کو پامال کر رہے ہیں.انہیں ہر وقت دعاؤں میں یاد رکھے.اور اگر کوئی وقت ایسا آئے.جب جماعت کے ان افراد کو جن کو مناسب سمجھ کر کسی خدمت کے لئے منتخب کیا جائے تو وہ اس کے لئے تیار رہیں.جماعت کے اخلاص اور ایثار کے متعلق مجھے یقین ہے کہ وہ ہر طرح کی قربانی کے لئے تیار رہیں گے.اور کسی طرح بھی اپنے مظلوم بھائیوں کی امداد کے لئے قربانیوں سے پیچھے نہیں رہیں گے.اسی حد تک میں اس مضمون کو علی الاعلان بیان کر سکتا تھا.جس کے بیان کرنے سے اصل غرض کو نقصان نہیں پہنچ سکتا.اللہ تعالیٰ تمام احباب کو اس امر کی توفیق عطا فرمادے کہ جو بھی خدمت ان کے لائق ہو اس کے لئے وہ تیار رہیں.اسه حضرت خنساء جو اعلیٰ پایہ کی شاعرہ بھی تھیں.طبری جزو ثالث صفحه ۵۴۴ الفضل ۴ اپریل ۱۹۲۵ء)

Page 87

82 12 رمضان المبارک کے متعلق ہدایات (فرموده ۳ اپریل ۱۹۲۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : رمضان کا مہینہ اپنے اندر ایسے فوائد رکھتا ہے اور وہ ایسی برکات اپنے ہمراہ لے کر آتا ہے کہ ان برکتوں کے سمجھنے والے بہت بڑے فوائد حاصل کر سکتے ہیں.لیکن تمام کے تمام لوگ ایک جیسے ایک مرتبہ اور ایک ہی حیثیت کے نہیں ہوتے.کئی لوگ تو ایسے ہوتے ہیں.جن کی حسیں بہت موٹی ہوتی ہیں اور وہ اپنے احساسات کے بہت کند اور موٹا ہونے کی وجہ سے چیزوں کی ماہیت اور ان کے باریک در بار یک اثرات پوری طرح محسوس نہیں کر سکتے اور کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی حسیں بہت تیز ہوتی ہیں اور وہ اپنی تیزئی جس کی وجہ سے باریک در باریک حرکات کے اثرات کو بھی محسوس کر لیتے ہیں.اس وجہ سے تمام کے تمام انسانوں سے ہم یہ امید نہیں رکھ سکتے کہ وہ ہر ایک چیز کے اثرات اور فوائد کو مساوی اور برابر محسوس کریں.کیونکہ جب ان کی حسیں مختلف ہیں تو وہ چیزوں کے اثرات کو یکساں کس طرح محسوس اور معلوم کر سکتے ہیں.اور جب احساسات کا ایسا اختلاف ہے کہ بعض لوگ ایک چیز کے اثر کو اپنی حس کی تیزی کی وجہ سے محسوس کرتے ہیں.اور بعض اپنے احساسات کے کند اور موٹے ہونے کے باعث مادی چیزوں کے اثرات کو بھی نہیں محسوس کر سکتے یا کم محسوس کرتے ہیں.تو پھر تمام انسانوں سے یہ امید کس طرح کی جا سکتی ہے کہ وہ عبادات کے اثرات کو بھی یکساں پوری طرح محسوس کریں.دنیا کی نہایت موٹی اور مادی چیزیں جن کے اثرات نہایت ظاہر اور نمایاں ہوتے ہیں.ان کو محسوس اور معلوم کرنے کے متعلق جب ہم بنی نوع انسان کے اختلاف تفاوت اور مدارج کو دیکھیں تو حیرت آتی ہے.مثلاً ایک آدمی ہمیں اس قسم کا نظر آتا ہے جو ایک برفانی علاقہ سے گزرتا ہے اور

Page 88

83 وه اس وقت گزرتا ہے.جب، برف پڑ رہی ہے.بارش برس رہی اور ہوا تیز چل رہی ہے.مگر وہ اس برف باری اور بارش اور ہوا کی تیزی میں بھی ایک دن میں پندرہ پندرہ ہیں میں میل سفر کرتا چلا جاتا تہ ہے.وہ ان حالات میں کوئی تکلیف محسوس نہیں کرتا.اور اگر اسے کچھ تکلیف محسوس ہوتی ہے تو زیادہ سے زیادہ یہ کرتا ہے کہ برف کو کپڑوں اور ہاتھ پاؤں سے جھاڑ دیتا ہے اور پھر بڑی بے پرواہی کے، ساتھ چل پڑتا ہے.پھر ہمیں ایک ایسا آدمی بھی نظر آتا ہے کہ جو اس برف میں بغیر بوٹ کے نہیں چل سکتا.اس کے پاؤں میں ایسے بوٹ ہوں جو برف کی سردی سے بچا سکیں تب وہ اس برف ، میں سفر کر سکتا ہے.پھر ایک تیسرا آدمی ہمیں ایسا نظر آتا ہے کہ وہ بغیر موٹی جرابوں اور بوٹوں کے اس میں نہیں چل سکتا.پھر ایک اور آدمی ہمیں ایسا نظر آتا ہے کہ وہ اس سردی اور برفانی علاقے میں موٹی جرابوں اور بوٹوں کے ساتھ بھی نہیں چل سکتا.جب تک کہ اس کے پاس کوئی گاڑی اور سواری کا انتظام نہ ہو.اسی طرح پھر ایسے لوگ بھی ہمیں نظر آتے ہیں کہ جو شہر کی گلیوں کی ہوا کو بھی برداشت نہیں کرسکتے.پھر ایسے لوگ بھی نظر آتے ہیں کہ جو گھروں کے صحن میں نہیں بیٹھ سکتے.ان کو نہ گلیوں کی ہوا موافق آتی ہے نہ گھروں کے صحنوں کی ہوا کو وہ برداشت کر سکتے ہیں.بلکہ اوہ گھر کے کمرے میں آرام پاتے ہیں پھر ایسے کمزور بھی ہوتے ہیں کہ جو کمرے میں بھی بغیر آگ کے نہیں بیٹھ سکتے اور پھر ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی حس اس قدر باریک ہوتی ہے کہ وہ آگ سے بھی آرام نہیں پاتے.ان کو گرم کپڑوں اور بسترے کی بھی ضرورت ہوتی ہے.مگر پھر بھی وہ گنٹھیا وغیرہ شدید امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں.کیا ان مختلف احساس والے انسانوں کے اس اختلاف اور کھلے کھلے فرق کو دیکھ کر کہ ایک شخص تو برف کی بھی کچھ پرواہ نہیں کرتا اور ایک بند کمرے میں آگ اور گرم کپڑوں اور بستر کی موجودگی میں بھی اس سردی سے دیکھ پاتا ہے.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ایک ہی علاقہ میں ان تمام قسم کے آدمیوں کے لئے الگ الگ سردیاں ہیں.نہیں.سردی ایک ہی ہے.فرق اگر ہے تو احساسات کا فرق ہے کہ ایک تو تیز ہوا اور سردی کی کچھ پرواہ نہیں کرتا اور اس کو کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی.مگر ایک اس سردی میں گرم کپڑوں اور آگ سے بھی آرام نہیں پاتا.اسی طرح ایک وہ ہے جو سخت گرمی میں جس وقت تیز لو چل رہی ہو اور تمازت آفتاب سے بدن جھلسے جاتے ہوں.ننگے پاؤں گا تا ہوا بلکہ سر پر بوجھ اٹھائے ہوئے مزے کے ساتھ چلا جاتا ہے.مگر ایک وہ ہوتا ہے کہ گھر میں بیٹھا ہوا ہے.کمرہ چھڑکاؤ وغیرہ کر کے سرد کیا ہوا ہے.برف کا ٹھنڈا پانی اور شربت موجود ہے.اور خس کی مٹیاں بھی لگی ہوئی ہیں.مگر پھر بھی وہ ہائے ہائے اور اف اف کر

Page 89

84 رہا ہوتا ہے.لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان دونوں کے لئے الگ الگ گرمی پڑ رہی ہے.نہیں گرمی تو ایک ہی ہے ہاں دونوں کے احساسات میں بہت بڑا فرق ہے.ایک کی حس تو اتنی کمزور ہے کہ شدید سے شدید مشقت اور محنت کی بھی اسے ایسی گرمی میں کچھ پرواہ نہیں.اور ایک کی حس اتنی تیز ہے کہ وہ پنکھے اور برف کے پانی اور کمرے کو چھڑکاؤ وغیرہ سے سرد کر کے بھی تڑپتا اور بے چین ہوتا ہے.یہ تو ایک جس کا ذکر ہے اور انسان میں کئی حسیں ہیں.ایک سونگھنے کی حس ہے اس کے متعلق بھی دیکھ لو.کس قدر فرق ہے ایک تو وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی ناک کی حس اس قدر تیز ہوتی ہے کہ وہ باریک درباریک اور خفیف سے خفیف ہو اور خوشبو کو محسوس کر لیتے ہیں.اور میں تو کہوں گا ان کی اس حس کی تیزی ہی ان کی بہت سی بیماریوں کا موجب ہو جاتی ہے.میری یہ حس اس قدر تیز ہے کہ میں بھینس کا دودھ سونگھ کر بتا سکتا ہوں کہ اس نے کیا کیا چارہ کھایا ہے.لیکن ایک وہ لوگ ہوتے ہیں کہ خطرناک سے خطرناک بو والی گیس کی بو سے ذرا بھی متاثر نہیں ہوتے بلکہ اس سے راحت محسوس کرتے ہیں.ایک شخص نے ایک طالب علم کا مجھ سے ذکر کیا کہ کالج میں اس کو ایک ایسی گیس سے جس کی بو تمام گیسوں سے بری تھی.ایسی مناسبت پیدا ہو گئی تھی کہ ایک روز میں نے دیکھا کہ وہ گیس کی نلکی کھول کر اپنی ناک کے ساتھ لگا کر لیٹا ہوا تھا.اسی طرح ہمارے پاس ایک ملازم تھا اسے مٹی کے تیل کی بو نہیں آتی تھی.وہ کہتا تھا لوگ یونسی کہتے ہیں کہ اس میں بو ہوتی ہے میں تو اس کو پی بھی جاتا ہوں.وہ بعض وقت دال میں بھی ڈال لیا کرتا تھا.میں نے دیکھا بعض لوگ یہ دیکھنے کے لئے کہ وہ کس طرح تیل پیتا ہے اسے پیسے دے کر تیل پلایا کرتے تھے.ایک دفعہ کسی نے اس کو کہا پیرا (یہ اس کا نام تھا) اگر تو مٹی کے تیل کی بوتل پی جاوے تو میں تجھے آٹھ آنے دوں گا.چنانچہ وہ پی گیا.اب یہ حسوں کا ہی فرق ہے کہ ایک تو خفیف سے خفیف بو کو بھی محسوس کرتا ہے اور ایک کو مٹی کے تیل کی بو کا بھی کچھ احساس نہیں ہوتا.ایک میرے جیسا آدمی جو دودھ سونگھ کر یہ معلوم کر لیتا ہے کہ بھینس نے کیا چارہ کھایا اور ایک دوسرا ہے جو سخت بدبودار گیس کی نلکی کھول کر اپنی ناک سے لگا کر کچھ بدبو محسوس نہیں کرتا.بلکہ اس کو فرحت اور خوشی حاصل ہوتی ہے.جب اتنا فرق ان مادی امور میں پایا جاتا ہے تو کیسے نادان ہیں وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ روحانی امور کے اثرات چونکہ ہمیں معلوم نہیں ہوتے اس لئے ان کا کوئی فائدہ اور اثر نہیں.وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ نماز کا کوئی اثر نہیں ہوتا.یا روزے کا کوئی اثر نہیں محسوس کرتے.تو یہ

Page 90

85 کیسے معلوم ہو گیا کہ واقعہ میں نماز اور روزے کا کوئی اثر نہیں.اس کے تو محض یہ معنی ہیں کہ ان کی روحانی حس ایسی کمزور ہے کہ وہ نماز اور روزے کے اثر کو محسوس نہیں کرتے.کیا پیرے کے یہ کہنے سے کہ مٹی کے تیل میں مجھے کوئی بو نہیں آتی مٹی کے تیل میں بو نہیں رہتی.یا اس کی اس شہادت سے کوئی تسلیم کر سکتا ہے کہ واقعہ میں مٹی کے تیل میں کوئی بو نہیں اسی طرح کیا وہ شخص جو نہایت خطرناک بو والی گیس کی نلکی ناک سے لگا لیتا اور کہتا اس میں کوئی بو نہیں.اس کی اس شہادت سے کوئی یہ تسلیم کر سکتا ہے کہ واقعہ میں اس گیس میں کوئی بو نہیں.اس طرح کیا وہ شخص جو سخت تیز دھوپ میں من یا ڈیڑھ من بوجھ اٹھائے ہوئے مزے کے ساتھ گاتا ہوا چلا جاتا ہے.اس کی اس حالت سے کوئی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ دھوپ میں گرمی نہیں رہی.یا وہ شخص جو سخت سردی اور برف میں سفر کرتا ہے اور وہ اس سردی کو کچھ محسوس نہیں کرتا.اس کی اس حالت کو دیکھ کر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کو چونکہ سردی محسوس نہیں ہوتی اس لئے اس سردی اور برف کا کوئی اثر ہی نہیں.ایسی حالت میں ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ جن کی حسیں باریک اور تیز ہیں کیا وہ بھی ایسی سردی یا گرمی یا بو کو محسوس کرتے ہیں یا نہیں.اگر ایسے لوگ موجود ہوں اور بکثرت موجود ہوں تو پھر ان اشیاء کے اثر سے ہر گز انکار نہیں کیا جا سکتا.اسی طرح روحانی امور میں بھی ہمیں ان لوگوں کو دیکھنا چاہیے جن کی روحانی حسیں تیز ہیں.اور وہ روحانی امور کے اثرات کو محسوس کرنے کے اہل ہیں.اگر ایسے لوگ بکثرت پائے جائیں جو نماز اور روزہ کے اثرات کو محسوس کریں اور وہ ان کے اثرات کی شہادت اور گواہی دیں تو پھر ان دوسرے لوگوں کو جن کی حسیں موٹی ہیں روحانی امور کے اثرات کو مانا اور تسلیم کرنا پڑے گا.اور خواہ ان کو ان کے اثرات محسوس نہ بھی ہوں تو بھی ان کے لئے انکار کی گنجائش نہیں.حضرت مسیح موعود فرماتے تھے کسی شہر میں چند شہری آپس میں ذکر کر رہے تھے کہ تل بہت گرم ہوتے ہیں.ایک پاؤ تل کوئی نہیں کھا سکتا.اگر کھائے تو فورا بیمار ہو جائے.یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی پاؤ بھر تل کھائے اور بیمار نہ ہو جائے.اس گفتگو کے دوران ایک نے کہا اگر کوئی اتنے متل کھائے تو میں اسے پانچ روپے انعام دوں.کوئی زمیندار وہاں سے گزر رہا تھا.اور زمیندار بھی کوئی اکھر زمیندار تھا.وہ نہایت تعجب اور حیرت سے ان کی یہ باتیں سنتا رہا اور خیال کر رہا تھا کہ عجیب بات ہے ایسے مزے کی چیز کھانے پر پانچ روپے انعام بھی ملتے ہیں.اس نے آگے بڑھ کے پوچھا ٹہنیوں سمیت کھانے ہیں یا بغیر ٹہنیوں کے.یہ اس نے اس لئے پوچھا کہ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا

Page 91

86 کہ بغیر ٹہنیوں کے پاؤ بھر مل کھانے سے پانچ روپے انعام کیونکر دیں گے.گویا وہ ٹہنیوں سمیت بھی کھانے کے لئے تیار تھا.حالانکہ باتیں کرنے والے اتنے مل کھانا نا ممکن خیال کر رہے تھے.اب ان دونوں کے احساس میں کتنا بڑا فرق ہے.ایک تو وہ ہیں کہ پاؤ بھر مل کھانے ناممکن خیال کرتے ہیں اور ایک وہ ہے کہ جو بمع ٹہنیوں کو کھانے کے لئے تیار ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ بغیر ٹہنیوں کے تو یہ بہت معمولی مزے کی بات ہے.اس پر کب پانچ روپے انعام مل سکتے ہیں.پس دنیا میں جس قدر فرق ہے وہ احساسات کا ہے.ورنہ نتائج اور کیفیات میں کوئی فرق نہیں.گرمی اور سردی جو اثر ایک تیز حس والے انسان پر کرتی ہے.وہی اثر ایک کم حس والے انسان پر بھی کرتی ہے لیکن ایک تو اس کے اثر کو محسوس کرتا ہے اور دوسرا انہیں احساسات کی کمی کی وجہ سے اس کے اثر کو محسوس نہیں کرتا.اسی طرح سورج کی روشنی کو لوگ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں.جو اس کی اہلیت رکھتے ہیں مگر جو اس کے اثر کو محسوس کرنے کی اہمیت نہیں رکھتے یہ نہیں ہوتا کہ ان کو روشنی نہ پہنچ رہی ہو یا دھوپ کے جو اثرات ہیں وہ ان پر نہ ہو رہے ہوں.وہ اثرات دونوں پر ہوتے ہیں.ان پر بھی جو انہیں محسوس کرتے ہیں اور ان پر بھی جو محسوس نہیں کرتے.گو علی قدر مراتب اثرات پہنچ رہے ہیں.مگر پہنچ ضرور رہے ہیں.آگے جو فرق ہے وہ ان کے احساس میں ہے.پس جب مادی امور میں علی قدر مراتب اثرات مرتب ہو رہے ہیں.خواہ کوئی محسوس کرے خواہ نہ کرے.تو پھر یہ کس قدر غلط بات ہے.اگر ایک شخص نماز کے اثرات کو محسوس نہ کر کے یہ کہہ دے کہ نماز کا کوئی فائدہ یا اثر ہی نہیں.ہاں وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اپنے روحانی احساسات کی کمزوری کی وجہ سے اس کا کوئی فائدہ مجھے نظر نہیں آتا اور اس کا اثر مجھے محسوس نہیں ہوتا.ورنہ اس کا اثر اس کو بھی ہوتا ہے جو اس کے اثر کو محسوس کرتا ہے.اور اس کو بھی جو محسوس نہیں کرتا.گو دونوں کو اثر علی قدر مراتب پہنچتا ہے.مگر پہنچتا ضرور ہے.بہر حال روحانی معالمہ میں روحانی امور کے اثرات کے متعلق بھی ان لوگوں کی شہادت قابل قبول نہیں ہو سکتی جن کی روحانی حسیں کمزور اور کند ہیں.اور انہی کی بات تسلیم کرنی پڑے گی جو روحانی امور کے اثرات کے محسوس کرنے کے اہل ہیں.وہ اگر کہہ دیں اور شہادت دے دیں کہ نماز روزہ کا فائدہ ہوتا ہے.اور ان کے اثر کو ہم محسوس کرتے ہیں تو پھر دوسرے لوگوں کو بھی جن کی حسیں موٹی ہیں اور وہ ان کے اثرات اور فوائد کو محسوس نہیں کر سکتے قبول کرنا پڑے گا کہ بے شک

Page 92

87 ان کے فوائد ہیں.تو نمازوں اور روزوں میں ضرور فوائد ہیں.مگر ان کے اثرات کو وہی محسوس کرتے ہیں کہ جو اس کے اہل ہیں.گو دوسرے لوگ ان کو محسوس نہ بھی کریں لیکن ان کا فائدہ ان کو بھی ضرور پہنچتا ہے.میں نے دیکھا ہے قطع نظر اس سے کہ روزہ ایک عبادت ہے.اس میں ایسی روحانی راحت اور سکون حاصل ہوتا ہے جو یقیناً جب روزہ نہیں ہوتا محسوس نہیں ہوتا.روزہ میں ایسی حالت ہوتی ہے گویا جس طرح سخت سردی اور بارش میں چلتے چلتے انسان ایک گرم مکان میں داخل ہو جائے.جس طرح وہ اس وقت گرمی سے یکدم آرام اور اطمینان میں ہو جاتا ہے.اسی طرح روزہ رکھ کر انسان اطمینان اور آرام حاصل کرتا ہے.لیکن ایسا احساس انہیں کو ہوتا ہے جن کی حس تیز ہوتی ہے.وہ اس کو ایسا محسوس کرتے ہیں کہ جس طرح وہ روزہ رکھنے سے پہلے روحانیت کے سورج سے دوری کی وجہ سے تکلیف اٹھا رہے تھے.لیکن روزہ رکھتے ہی وہ اس کے قریب آگئے اور ان کے اعصاب کو قرار اور اطمینان اور ایک قسم کا سکون حاصل ہو گیا.پس ایک شخص جس کی حس بہت موٹی ہو.وہ اگر کسی امر کے اثر کو تسلیم نہیں کرتا تو اس کے اس خیال کی وجہ سے باقیوں کے تجربے اور مشاہدے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.ایک شخص کہتا ہے خدا کو میں نے نہیں دیکھا.خدا کوئی نہیں.لیکن دوسرے مشاہدوں کی اس شہادت کی موجودگی میں کہ ہم نے خدا کو دیکھا ہے اور وہ ہم کو نظر آیا ہے.اس کی بات کو کب وقعت حاصل ہو سکتی ہے.اسی طرح ایک شخص جو یہ کہتا ہے کہ خدا کلام نہیں کرتا.اس کی اس بات کو ہم اس کا خیال کہہ سکتے ہیں.لیکن وہ لاکھوں انسان جنہوں نے خدا کے کلام کو سنا ہے اور وہ روحانی امور کے اثرات کے شاہد ہیں.ان کی شہادت کا کسی طرح انکار نہیں کیا جا سکتا.پس روحانی امور میں بھی اسی طرح فوائد اور اثرات مرتب ہوتے ہیں جس طرح جسمانی اور مادی امور میں انسان نفع یا نقصان حاصل کرتا ہے.گو وہ محسوس کرے یا نہ کرے.مگر میرے نزدیک جس چیز سے دنیا کو نقصان پہنچتا ہے.اور ایک دفعہ نہیں بلکہ بار بار پہنچتا ہے.وہ ہر ایک امر کے اس نقطہ وسطی کو ترک کرنا ہے جس کے بغیر نیک نتائج پیدا نہیں ہو سکتے.میں نے دیکھا ہے عام طور پر لوگ ایک پہلو کی طرف جھک جاتے ہیں.کئی ہیں جو نمازوں میں سست ہیں اور باقاعدہ وقت پر نمازیں ادا نہیں کرتے.کئی ہیں جو نماز تو پڑہتے ہیں لیکن باجماعت نماز نہیں پڑھتے.یا کم از کم باجماعت نماز ادا کرنے کا ان کو خیال نہیں ہوتا.لیکن روزوں کے ایام میں وہ روزوں کی ایسی پابندی کریں گے کہ خواہ ڈاکٹر بھی ان کو کہہ

Page 93

88 دے کہ تمہارے حق میں روزہ اچھا نہیں اور تم خطرے میں پڑ جاؤ گے تب بھی وہ روزہ ترک نہیں کریں گے.حتی کہ بیماری میں بھی روزہ رکھیں گے.پھر کئی ہیں جو چھوٹے بچوں سے بھی روزہ رکھواتے ہیں.حالانکہ ہر ایک فرض اور حکم کے لئے الگ الگ حدیں اور الگ الگ وقت ہوتا ہے.میرے نزدیک بعض احکام کا زمانہ چار سال کی عمر سے شروع ہو جاتا ہے.اور بعض ایسے ہیں جن کا زمانہ سات سال سے بارہ سال تک ہے.اور بعض ایسے ہیں جن کا زمانہ پندرہ یا اٹھارہ سال کی عمر سے شروع ہوتا ہے.میرے نزدیک روزوں کا حکم پندرہ سال سے اٹھارہ سال تک کی عمر کے بچے پر عائد ہوتا ہے اور یہی بلوغت کی حد ہے.میرے نزدیک اس سے پہلے بچوں سے روزے رکھوانا ان کی صحت پر بہت برا اثر ڈالتا ہے.کیونکہ وہ زمانہ ان کے لئے ایسا ہوتا ہے جس میں وہ طاقت اور قوت حاصل کر رہے ہوتے ہیں.پس جس زمانہ میں کہ وہ طاقت اور قوت کے ذخیرہ کو جمع کر رہے ہوتے ہیں اس وقت ان کی طاقت کو دبانا اور بڑھنے نہ دینا ان کے لئے سخت مضر ہے.دیکھو آئیل کے انجن یا دوسرے انجنوں کی زائد سٹیم چھوڑی جاتی ہے یہ کبھی نہیں کیا جاتا کہ جس وقت کہ سٹیم انجن میں تیار ہو رہی ہو اور کافی مقدار تک نہ پہنچی ہو اس وقت نکال دی جائے.دریا کو بند لگا کر دوسری طرف نہر کے ذریعے پانی کا رخ تبھی بدلا جاتا ہے جب کہ دریا میں پانی زیادہ ہو.لیکن اگر دریا میں پانی کافی نہ ہو تو پھر اس سے پانی نہیں نکالا جاتا پس جس زمانہ میں بچہ طاقت پیدا کر رہا ہو اس کو روزہ نہ رکھوانا چاہیے.تاوقتیکہ اس کی عمر پندرہ سال کی نہ ہو جائے.کیونکہ اس سے پہلے بچہ پر روزہ فرض نہیں ہوتا.تو نہ صرف یہ کہ اس عمر میں بچوں سے روزے نہ رکھوائیں.بلکہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ روزے نہ رکھیں.کیونکہ بچوں کو خود بھی شوق ہوتا ہے کہ روزہ رکھیں.بارہ سال سے کم عمر کے بچے سے روزہ رکھوانا تو میرے نزدیک جرم ہے اور بارہ سال سے ۱۵ سال کی عمر کے بچے کو اگر کوئی روزہ رکھواتا ہے تو غلطی کرتا ہے.پندرہ سال کی عمر سے روزہ رکھنے کی عادت ڈالنی چاہیے اور اٹھارہ سال کی عمر میں روزے فرض سمجھے جانے چاہیں.مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے تھے ہمیں بھی روزہ رکھنے کا شوق ہو تا تھا.مگر حضرت مسیح موعود ہمیں روزہ نہیں رکھنے دیتے تھے.اور بجائے اس کے کہ ہمیں روزہ رکھنے کے متعلق کسی قسم کی تحریک کرنا پسند کریں ہمیشہ ہم پر روزہ کا رعب ڈالتے تھے.تو بچوں کی صحت کو قائم رکھنے اور ان کی قوت کو بڑھانے کے لئے روزہ رکھنے سے انہیں روکنا چاہیے.اس کے بعد جب ان کا وہ زمانہ آجائے جب وہ اپنی قوت کو پہنچ جائیں جو پندرہ سال کی عمر کا زمانہ ہے.تو پھر ان سے روزے

Page 94

89 رکھوائے جائیں اور وہ بھی آہستگی کے ساتھ پہلے سال جتنے رکھیں دوسرے سال اس سے کچھ زیادہ اور تیسرے سال اس سے زیادہ رکھوائے جائیں.اس طرح بتدریج اس وقت ان کو روزہ کا عادی بنایا جائے.اس کے مقابلے میں میرے نزدیک ایسے لوگ بھی ہیں جو روزہ کو بالکل معمولی حکم تصور کرتے ہیں.اور چھوٹی چھوٹی وجہ کی بناء پر روزہ ترک کر دیتے ہیں.بلکہ اس خیال سے بھی کہ ہم بیمار ہو جائیں گے روزہ چھوڑ دیتے ہیں.حالانکہ یہ کوئی عذر نہیں کہ آدمی خیال کرے میں بیمار ہو جاؤں گا.میں نے تو آج تک کوئی آدمی ایسا نہیں دیکھا جو یہ کہہ سکے کہ میں بیمار نہیں ہونگا.پس بیماری کا خیال روزے ترک کرنے کی جائز وجہ نہیں ہو سکتی.پھر بعض اس عذر پر روزہ نہیں رکھتے کہ انہیں بہت بھوک لگتی ہے.حالانکہ کون نہیں جانتا کہ روزہ رکھنے سے بھوک لگتی ہے.جو روزہ رکھے گا اس کو ضرور بھوک لگے گی.روزہ تو ہوتا ہی اس لئے ہے کہ بھوک لگے اور انسان اس کو برداشت کرے.جب روزہ کی یہ غرض ہے تو پھر بھوک کا سوال کیسا.پھر کئی ہیں جو ضعف ہو جانے کے خیال سے روزہ نہیں رکھتے.حالانکہ کوئی بھی ایسا آدمی نہیں جس کو روزہ رکھنے سے ضعف نہ ہوتا ہو.جب وہ کھانا پینا چھوڑ دے گا تو ضرور ضعف بھی ہو گا اور ایسا آدمی کوئی نہیں ملے گا جو روزہ رکھے اور اسے ضعف نہ ہو.بلکہ اس کے اندر طاقت اور قوت پیدا ہو جائے.سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کو یہ نشان بطور اعجاز عطا ہو.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے چھ مہینے متواتر روزے رکھے اور دو تین تولے سے زیادہ آپ کی غذا نہ ہوتی تھی.مگر اپ کو کوئی ضعف نہ ہوا.بلکہ معجزانہ طور پر اس سے آپ کو طاقت اور قوت حاصل ہوئی.اس معجزانہ حالت سے الگ ہو کر کوئی آدمی ہمیں ایسا نظر نہیں آتا جسے روزے سے ضعف نہ ہو.اس لئے اس وجہ سے بھی روزہ نہیں چھوڑا جا سکتا.روزہ ایسی حالت میں ہی ترک کیا جا سکتا ہے کہ آدمی بیمار ہو اور وہ بیماری بھی اس قسم کی ہو کہ اس میں روزہ رکھنا مضر ہو.کیونکہ شریعت کے احکام بیماری کی نوعیت کے لحاظ سے ہوتے ہیں.مثلاً ایک بیمار کے لئے اجازت ہے کہ وہ تمیم کرے.لیکن کسی کو بیماری اس قسم کی ہو کہ وضو کرنا اسے کوئی نقصان نہ دیتا ہو.بلکہ اس بیماری میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرے تو اسے فائدہ ہوتا ہو.تو باوجود بیمار ہونے کے اس کے لئے تیمم جائز نہیں ہو گا.اسی طرح وہ بیماری کہ جس پر روزے کا کوئی اثر نہیں پڑتا اس کی وجہ سے روزہ ترک کرنا جائز نہیں ہو گا.بیماری سے مراد وہی بیماری ہو گی جس کا

Page 95

90 روزہ سے تعلق بھی ہو.اور ایسی حالت میں خواہ بیماری کتنی ہی خفیف کیوں نہ ہو اس میں مبتلا روزہ ترک کر سکتا ہے.کیونکہ جب روزہ کا مضر اثر اس بیماری پر پڑتا ہے تو وہ بڑھ جائے گی.میرے نزدیک نزلہ خواہ کتنا ہی خفیف کیوں نہ ہو.ایسی بیماری ہے جس کا روزہ سے تعلق ہے اور ایسے لوگوں کے لئے جنہیں نزلہ ہوتا ہے روزے رکھنے بہت مضر اور بڑے نقصان کا موجب ہوتے ہیں.نزلہ کے نتیجہ میں انسان کو پیاس زیادہ لگتی ہے.اب روزے کے ساتھ جب وہ پیاس کو دبائے گا تو وہ اور بھی زیادہ بڑھے گی اور یہ نزلہ کے لئے بہت مضر ہے.پس بسا اوقات بعض بیماریاں دیکھنے میں تو معمولی ہوں گی.لیکن روزے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ان کا نقصان بہت بڑا ہو گا.اس لئے ایسی بیماری میں روزہ نہ رکھنا چاہیے.اسی طرح بعض بیماریاں دیکھنے میں بہت بڑی ہوں گی.لیکن روزے کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا.اس لئے روزہ ان میں ترک کرنا جائز نہیں ہو گا.اور بعض اوقات تو خود روزہ صحت کا باعث بن جاتا ہے.میں اپنی ذات کے متعلق ہی بتاتا ہوں.میں عام طور پر بیمار رہتا ہوں.اور خدا تعالیٰ نے مجھے اپنی بیماری کے متعلق یہ فیصلہ کرنے کی سمجھ دی ہے.کہ اس پر روزہ رکھنے سے کیا اثر پڑے گا.مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اس میں غلطی نہیں کر سکتا.بلکہ بعض دفعہ میرا اندازہ بھی غلط نکلتا ہے.انہی ایام میں میں نے اپنی حالت کا جب اندازہ لگایا تو میں نے محسوس کیا کہ اگر میں روزہ رکھوں تو برداشت نہیں کر سکوں گا.مگر بیماری پر اثر نہیں پڑے گا.چنانچہ کے طور پر میں نے پہلا روزہ رکھا.جس سے نہ صرف کوئی نقصان نہ ہوا بلکہ طبیعت میں بشاشت پیدا ہوئی.تب میں نے سمجھا اپنی بیماری کے متعلق جو میرا خیال تھا کہ شائد روزہ رکھوں تو کوئی نقصان نہ ہو.وہ ٹھیک ہے.اور جو خطرہ تھا کہ ممکن ہے نقصان ہو وہ غلط تھا.پس جس بیماری پر روزہ کا کوئی اثر نہ ہو اس پر اس بیماری کا حکم عائد نہیں ہو سکتا جس کی وجہ سے روزہ ترک کر دیا جائے.ہاں اگر روزہ کا بیماری پر اثر پڑتا ہو اور جس حالت میں ڈاکٹر یہ مشورہ دے کہ اس بیماری میں روزہ سے نقصان پہنچے گا.اس میں روزہ ترک کرنا چاہیے.پس جہاں میں بلا وجہ اور بلا عذر روزہ نہ رکھنے کے سخت خلاف ہوں.وہاں میں ان لوگوں کے اجتہاد کا بھی قائل نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ انسان جب مرنے لگے تب روزہ چھوڑے.ورنہ نہ چھوڑے.ایسا کوئی حکم شرع میں نہیں آیا.قرآن کریم میں صاف حکم فمن كان منكم مريضا" (البقره ۱۸۵) پس جس مرض پر کہ روزے کا برا اثر پڑتا ہو.خواہ نزلہ ہی ہو مثلاً مجھے اگر نزلہ ہو.تو میں روزہ نہ رکھوں گا پس ایسے مرض میں خواہ وہ خفیف ہی ہو روزہ رکھنا جائز نہیں.اور اگر کوئی روزہ

Page 96

91 رکھے تو اس کا روزہ نہیں ہو گا.بلکہ اس کے بدلے اس کو پھر روزہ رکھنا پڑے گا.پس جو لوگ محض ایک ہی طرف جھک جاتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں.ان کو درمیانی حالت اختیار کرنی چاہیے.اور ان مبارک دنوں سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لئے درمیانی راہ اختیار کرنی چاہیے.یعنی جب تو ایسی بیماری ہو جس پر روزہ کا برا اثر پڑتا ہو تو خواہ کتنی ہی خفیف ہو روزہ نہ رکھنا چاہیے.اور اس معاملہ میں لوگوں کی کچھ پروا نہ کرنی چاہیے کہ وہ کیا کہتے ہیں.یا کیا کہیں گے.ایسی حالت میں جو لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ خواہ بیمار ہیں مگر ہم برداشت کریں گے اور روزہ رکھیں گے.یہ ان کی غلطی ہے.کیونکہ برداشت کا تو سوال ہی نہیں.سوال تو بیماری کا ہے.ہر بیماری جو روزے سے بڑھے اس میں روزہ مت رکھو.لیکن اس کے مقابلہ میں ایسا بھی نہ کرو کہ محض وہموں کی بناء پر روزہ ترک کر دو کہ شائد روزہ رکھنے سے ہم بیمار نہ ہو جائیں.یا روزہ رکھنے سے ہم کمزور ہو جائیں گے.اس طرح روزہ ترک کرنا جائز نہیں ہو سکتا.ایک کمزوری تو بڑھاپے کی وجہ سے یا دائمی بیماری کی وجہ سے ہوتی ہے.ایسے آدمی کو اجازت ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے.لیکن ویسے جس کو کمزوری رہتی ہو ایسی حالت والوں کو بھی جب تک کہ ڈاکٹر مشورہ نہ دے روزہ رکھنا چاہیے.میں دوستوں کو پھر اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ افراط تفریط سے کام نہ لیں.اور اس مبارک مہینے سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.اور اپنی روحانیت کو بڑہا ئیں.جس طرح جس کم ہوتی ہے وہ بڑھتی بھی ہے.اسی طرح احساسات بھی بڑھ سکتے ہیں اور انسان اپنے جسم کے اندر روحانیت کا ایک نمایاں اثر محسوس کرتا ہے.چونکہ یہ رمضان کا مہینہ ہے.اس لئے میں نے اس کے متعلق خطبہ پڑھا ہے.اور چونکہ اس مبارک مہینہ میں دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں اس لئے میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اسلام کی ترقی کے لئے دعائیں کریں اور سلسلہ کے راستوں میں جو روکیں ہیں ان کے دور ہونے اور کابل کے مظلوم بھائیوں کے لئے اور اس ملک میں بھی اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے بہت بہت دعائیں کریں.الفضل ۱۱ اپریل ۱۹۲۵ء)

Page 97

92 13 رمضان المبارک کے متعلق ہدایات (فرموده ۱۰ اپریل ۱۹۲۵ء) تشہد ، تعوز اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں آج دعا کے متعلق بعض باتیں اپنے خطبہ میں بیان کرنا چاہتا تھا اور اس وقت تک کہ میں یہاں مسجد میں آیا ہوں میرا یہی ارادہ تھا.لیکن اب جب کہ میں ممبر پر کھڑا ہوا ہوں مجھے ایک رقعہ دیا گیا ہے جو میرے پچھلے خطبہ کے متعلق ہے.چونکہ اس کے متعلق پہلے بھی مجھ سے بعض دوستوں نے پوچھا ہے اور مجھے بتایا بھی گیا ہے کہ لوگوں نے میرے اس خطبہ کے مختلف معنی کئے ہیں جو میں نے گزشتہ جمعہ پڑھا تھا.اس لئے میں اپنے پہلے ارادے کو ترک کر کے اس امر کے متعلق جو مجھ سے پوچھا گیا ہے کچھ بیان کرتا ہوں.دنیا میں ہر ایک امر جو لوگوں کی عادت اور خیال ، ان کی رسم و رواج کے خلاف ہوتا ہے ہمیشہ اس کے کرنے پر ان کی طبیعت میں قبض پیدا ہوا کرتی ہے.اور وہ امران کو عجیب معلوم ہوتا ہے.حتی کہ میں نے دیکھا ہے بہت معمولی معمولی باتیں جو عبادات اور شریعت کے ساتھ بھی کوئی تعلق نہیں رکھتیں وہ بھی اگر عادت اور رسم کے خلاف کرنی پڑیں تو بہت بڑی معلوم ہوتی ہیں.مجھے یاد ہے جب میں مدرسہ میں پڑھا کرتا تھا تو پرانے دستور کے مطابق میں پاجامہ پہنا کرتا تھا.جو شلوار کے رواج سے پہلے عام طور پر سکولوں میں رائج تھا جو شرعی پاجامہ کہلاتا ہے.وہ تو اوپر سے کھلا اور نیچے سے تنگ ہوتا ہے.لیکن وہ اوپر نیچے برابر پتلوں نما ہو تا تھا.اور وہی میں عموماً پہنا کرتا تھا.مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دیکھ کر فرمایا کرتے تھے یہ پاجامہ کیا ہے.جیسے بندوق کا بگہ (تھیلا) ہوتا ہے.اب تو بندوقیں بھی پرانے طرز کی نہیں رہیں.اور نہ ویسے تھیلے ہوتے ہیں.مگر پہلے اس قسم کے ہوا کرتے تھے.بعض لڑکوں نے مجھے کہا میں شلوار پہنا کروں.

Page 98

93 چنانچہ میں نے شلوار بنوائی.مجھے خوب یاد ہے جب پہن کر میں گھر سے باہر آیا تو میں نہیں سمجھتا کوئی چور یا ڈاکو بھی کوئی واردات کر کے اتنی ندامت اور شرمندگی محسوس کرتا ہو گا جتنی کہ مجھے اس وقت شلوار پہننے سے محسوس ہوئی.میں آنکھیں نیچی کئے ہوئے بمشکل اس مکان تک جو پہلے شفا خانہ تھا اور جس میں اس وقت ڈاکٹر عبداللہ صاحب بیٹھا کرتے تھے آیا.بھائی عبدالرحیم صاحب اور بعض دوسرے استادوں نے اس بات کی تائید بھی کی کہ شلوار اچھی لگتی ہے.مگر مجھے اتنی شرم آئی کہ واپس جا کر میں نے اسے اتار دیا.اب میں شلوار ہی پہنتا ہوں مگر اس کی عادت آہستہ آہستہ ہوئی ہے.اور میں سمجھتا ہوں اگر اب بھی میں دوسری قسم کا پاجامہ بدلوں تو گو اتنی شرم تو مجھے نہ آئے جتنی اس وقت آئی تھی.لیکن کچھ نہ کچھ طبیعت میں بے اطمینانی ضرور ہو.پس اگر عادت کے خلاف ایک شلوار پہن کر جس کا عبادات یا شریعت سے کوئی تعلق نہیں.طبیعت میں قبض اور بے اطمینانی پیدا ہو سکتی ہے.تو یہ کوئی بڑے تعجب کی بات نہیں.اگر میرے اس خطبہ پر بھی بعض لوگوں کو اچنبھا معلوم ہو.میں نے اپنے اس خطبہ میں دو قسم کے لوگوں کے خلاف خیالات کا اظہار کیا تھا.ایک تو وہ جو روزوں کی اتنی پابندی کرتے ہیں جو دیوانگی کی حد تک پہنچی ہوئی ہے.اور ایک ان کے خلاف جو معمولی معمولی حیلوں بہانوں سے بھی روزہ سے بچنا چاہتے ہیں.مگر مجھے افسوس ہے کہ میرے اس خطبہ کے متعلق بے اطمینانی کا اظہار صرف انہی لوگوں نے کیا ہے جو روزہ کی سختی کے ساتھ پابندی کرتے ہیں.لیکن دوسرا فریق جو معمولی معمولی عذروں کی بناء پر روزہ سے بچنا چاہتا ہے اس نے کوئی شکایت نہیں کی.اور خاموشی اختیار کی ہے.جنہوں نے اعتراض کیا ہے.مجھے ان کے اعتراض کرنے پر خوشی ہوئی ہے.کیونکہ اس میں ان کی غیرت دینی اور جوش ایمانی پایا جاتا ہے.مگر افسوس ہے دوسروں پر کہ ان کے اندر کوئی جوش اور غیرت پیدا نہ ہوئی.اگر ان کی طرف سے یہی اعتراض کیا جاتا تو میں امید کرتا کہ ان کے اندر بھی ایسے لوگ ہیں جو غیرت اور جوش رکھتے ہیں.جس کی وجہ سے ان میں سے بھی کوئی ایسی جماعت پیدا ہو جائے گی جو معمولی عذروں پر شریعت کے احکام کو ٹالنے کی کوشش نہیں کرے گی.لیکن ان کی خاموشی بتاتی ہے کہ وہ روزہ کے متعلق بے حس ہو چکے ہیں.مگر اثر دونوں فریقوں پر ہوا ہے.جو لوگ سختی کے ساتھ روزوں کی پابندی کے عادی تھے انہوں نے تو یہ سمجھا کہ ان سے دین اور شریعت کی بنیاد ہل گئی.اور وہ لوگ جو اپنے آپ کو روزہ سے بچانا چاہتے تھے انہوں نے کہا اچھا ہوا روزہ نہ رکھنے کی اجازت مل گئی.

Page 99

94 چوی حالانکہ نہ تو میرا یہ مقصد تھا کہ روزہ چھوڑ دیا جائے.اور نہ روزہ چھڑوانا مد نظر تھا.میں نے یہ کہا تھا کہ پندرہ سے اٹھارہ برس تک عمر روزہ کے لئے حد بلوغت ہے.اس کا یہ مطلب اور مقصد نہ تھا کہ ہر وہ شخص جو اٹھارہ برس سے کم عمر کا ہے.اس کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے.جنہوں نے یہ نتیجہ نکالا اور باوجود پوری طرح نشو و نما حاصل ہونے کے روزہ رکھنا چھوڑ دیا انہوں نے غلطی کی.اور جنہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ میں روزے کو مٹانا چاہتا ہوں انہوں نے بھی غلطی کی.جہاں تک میری تحقیق روزے کے متعلق ہے وہ یہی ہے کہ روزے کے لئے اوسط بلوغت ۱۵ سال سے اٹھارہ سال تک ہے.اس کے خلاف مجھے ابھی تک کوئی ثابت شدہ شرعی امر نہیں معلوم ہوا.میرے دو دوست جو میری اس تحقیق پر معترض ہیں.اگر وہ کوئی سند رسول اللہ ﷺ کی ثبوت میں پیش کر دیں تو جس منہ سے میں نے وہ اعلان کیا تھا اسی منہ سے اس کے خلاف اعلان کر دوں گا.اور تسلیم کرلوں گا کہ میری رائے غلط تھی.باقی رہا لوگوں کا اجتہاد.سو انبیاء کو علیحدہ کر کے کسی اور سے دبنے کا مادہ میں نے اپنے اندر کبھی پایا ہی نہیں.اور میں کسی کے اجتہاد کو بلا دلیل ماننے کے لئے تیار نہیں.اجتہاد کی بناء عقل پر ہوتی ہے.پس جس طرح کسی اور میں عقل ہے.اسی طرح مجھ میں عقل ہے اگر کوئی بلا دلیل بات کہتا ہے تو میرے نزدیک ضروری نہیں کہ اسے تسلیم کیا جائے.پس اگر کوئی حقیقت کے خلاف اپنا اجتہاد پیش کرتا ہے تو میں اس کو ماننے کے لئے تیار نہیں.خواہ اس کے نام کے ساتھ کتنے القاب لگے ہوئے ہوں.میں سمجھتا ہوں روزوں کے متعلق لوگوں نے نہایت سخت غلطی کھائی ہے.ایسے ایسے واقعات سننے میں آئے ہیں اور ایسے لوگوں سے سنے گئے ہیں جنہوں نے اپنی آنکھوں سے ان واقعات کو دیکھا ہے کہ روزوں سے بہت سے بچوں کی ہلاکت تک نوبت پہنچ گئی ہے اور ایسے واقعات تو مجھے بھی پیش آئے ہیں کہ بعض عورتوں نے پوچھا ہے.ہمارا دودھ پیتا بچہ بھوک کے مارے تڑپتا رہتا ہے ہم روزہ رکھیں یا نہ رکھیں.ایک آدمی نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک گھر والوں نے تین سال کے بچے کو روزہ رکھوا دیا.دن میں جب اسے پیاس لگی اور وہ بلبلانے لگا تو گھر والوں نے سمجھا.اگر روزہ تو ڑوا دیا گیا تو روزہ کی سخت ہتک ہو گی اور بہت بڑا گناہ ہو گا.اس خیال سے کوئی اسے پانی نہ پینے دے.اور ایسی حالت میں نہ پینے دے جب کہ اس کی بے قراری اور تکلیف سے سارا گھر ماتم کدہ بنا ہوا تھا.آخر روزہ کھلنے کے وقت سے پہلے وہ بچہ تڑپ تڑپ کر مر گیا مگر کسی نے اسے پانی نہ دیا.شائد کوئی کہہ دے ان لوگوں نے بڑی نیکی کی.اور بڑے تقویٰ کا ثبوت دیا کہ اپنا بچہ

Page 100

95 روزوں کی ہتک کے خیال سے قربان کر دیا.مگر میں کہوں گا انہوں نے ناحق خون کیا.وہ اپنے اس فعل سے ایسے ہی مجرم ہیں جیسا کہ ایک قاتل خدا تعالیٰ کے حضور مجرم ہے.مجھ سے رقعہ میں یہ سوال کیا گیا ہے کہ بلوغت سے کیا مراد ہے.میرا جواب یہ ہے.کہ میں نہیں سمجھ سکتا.بلوغت کے معنی کس عقل سے کس ہوش سے کس فقہ اور کس حدیث سے ایک ہی کئے جاسکتے ہیں.جب کہ بلوغت کے کئی معنی ہیں.اور عجیب بات یہ ہے کہ خود فقہاء نے بلوغت کے کئی معنی کئے ہیں.بے شک وہ بھی ایک بلوغت ہے جب بچہ کو عورت کے ساتھ ملنے اور بچہ پیدا کرانے کی قوت اور طاقت آجاتی ہے.لیکن اس کے لئے بھی کوئی عمر کی حد مقرر نہیں کی جا سکتی.یہ کہیں بارہ سال کی عمر میں اور کہیں تیرہ چودہ سال کی عمر میں اور کہیں پندرہ سولہ اور سترہ سال کی عمر میں جا کر بچے کو حاصل ہوتی ہے.جب اس بلوغت کا یہ حال ہے.تو پھر بلوغت کے کیا معنی کرو گے.اور کون سے وقت سے اس بلوغت کا زمانہ شروع ہو گا.ہندوستان اور دیگر گرم ممالک میں بعض بارہ سال کے بچے کو بلکہ اس سے بھی کم عمر میں اس قسم کی بلوغت حاصل ہو جاتی ہے.اور اگر سرد علاقوں میں چلے جاؤ تو وہاں یہ نظر آتا ہے کہ اٹھارہ سال سے پہلے بچے میں اس قسم کی بلوغت کی قابلیت پیدا نہیں ہوتی.ایسی حالت میں بلوغت کے کونسے خاص معنی اور اس کے زمانہ کی کونسی خاص تخصیص کی جا سکتی ہے.یہ تو بچے کی اس بلوغت کے زمانہ کا حال کہ جس میں وہ عورت کے ساتھ ملنے کی قوت اور قابلیت حاصل کرتا ہے.اب نماز کی بلوغت کا زمانہ لو یہ سات سال سے شروع ہوتا ہے.اور دس سال کے بچے کو سختی کے ساتھ نماز کی پابندی کرانے کا رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے.اور بارہ سال کے بچے سے تو تہجد کے متعلق فرمایا ہے کہ کیوں نہیں پڑھتا.پس نماز کے لئے بلوغت کا زمانہ دس سال ہے.اگر اس حد بلوغت کو مرد و عورت کے تعلقات کے لئے سمجھا جائے تو کیا کوئی ایسا بچہ دنیا میں ہے جو دس سال کی عمر میں ایسی قابلیت حاصل کرے کہ بچہ پیدا کرا سکے.ایسی کوئی مثال نہیں مل سکتی.مگر باوجود اس کے کہ اس عمر کے بچہ کو ایسی قابلیت حاصل نہیں ہوتی.نماز اس کے لئے ضروری قرار دی گئی ہے.پس تمام شرعی احکام ایک بارہ سال کے بچے پر واجب قرار نہیں دیئے گئے بلکہ ہر ایک حکم کی نوعیت الگ الگ ہے.اور اس نسبت سے بلوغت کا زمانہ مختلف ہے.اسی طرح اب جہاد کی بلوغت کے زمانہ کو لو.ہمارے ملک میں ساٹھ فیصد بچے ایسے ہوتے ہیں کہ تیرہ چودہ سال کی عمر میں عورت سے ملنے اور بچہ پیدا کرانے کی قابلیت ان میں پیدا ہو جاتی

Page 101

96 ہے.اور عرب کا علاقہ تو ہمارے ملک سے زیادہ گرم ہے.وہاں تو اس عمر سے بھی پہلے بچہ پیدا کرانے کی قابلیت پیدا ہو سکتی ہے.مگر رسول اللہ ﷺ نے پندرہ سال سے کم عمر والے کے لئے جہاد جائز نہیں رکھا.(1) حالانکہ اس کو وہ بلوغت حاصل ہوتی ہے.جس سے وہ اولاد پیدا کر سکتا ہے.اب اگر جہاد کا موقع ہو گا.تو اس کے لئے بلوغت کی حد پندرہ سال ہو گی.اس سے کم عمر مراد نہیں ہوگی.اب ایک اور بلوغت تیامی کی ہے.جس سے یہ مراد ہے کہ وہ خود کب اپنا گزارا چلانے کے قابل ہو سکتے ہیں.اور کب وہ دوسروں کی مدد کے محتاج نہیں رہتے.اولاد پیدا کرنے کی بلوغت تو بعض بارہ برس کی عمر کے بچوں کو حاصل ہو جاتی ہے.مگر اس عمر کا لڑکا اپنا بوجھ آپ اٹھانے کے قابل نہیں ہو سکتا.اس کی بلوغت کے یہ معنی ہوں گے کہ اس کی عمر کم از کم ۱۸ سال کی ہو.کیونکہ اس کے دانا عاقل بالغ ہونے کے معنی یہ ہوں گے کہ اس سے کم عمر میں وہ کیا محنت کر سکتا ہے.اس کے لئے تو پندرہ سولہ سال کی عمر کام سیکھنے اور تعلیم حاصل کرنے کی عمر ہے.اس سے بڑھ کر جائداد کے انتظام کے لئے بلوغت کا زمانہ ہے.اور وہ ۲۱ سال کا ہے.اگر کسی کی عمر اکیس سال سے کم ہے تو عاقل بالغ نہیں سمجھا جائے گا.خواہ کوئی بیس سال کی عمر میں چار بچے پیدا کر چکا ہو.فقہاء اس کو بالغ نہیں کہیں گے.راجاؤں کو ہی دیکھو.ان کے اوپر ریذیڈنٹ مقرر ہوتا ہے.سرکار کے نزدیک وہ نابالغ ہی ہوتے ہیں.گو بچے پیدا کرنے کے لحاظ سے وہ نابالغ نہیں ہوتے.پھر نبوت کی بلوغت کا زمانہ چالیس سال ہے.گو پہلے بھی مل جاتی ہے.جیسا کہ حضرت مسیح کے متعلق لکھا ہے کہ ان کو تمہیں سال کی عمر میں نبوت ملی تھی.(۲) اگرچہ ممکن ہے تاریخی طور پر یہ غلط ہو.کیونکہ انجیلوں کے سوا کوئی اور ایسی قوی شہادت نہیں اور موجودہ اناجیل حضرت مسیح سے بہت بعد میں تیار ہوئی ہیں.جہاں ان میں اور غلطیاں ہیں ان میں ایک یہ بھی غلطی ہو سکتی ہے.قرآن کریم سے نبوت کی بلوغت کا زمانہ جو معلوم ہوتا ہے وہ چالیس برس ہی ہے.اب اس جگہ کوئی عاقل بالغ کے یہ معنی نہیں کر سکتا.جو ایک شادی کی قابلیت رکھنے والے کی نسبت کئے جاتے ہیں.پس کام دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ کام ہیں جن کا اثر عام طور پر انسان کے جسم پر پڑتا ہے.اور ایک وہ کام ہیں جن کا اثر انسان کے جسم پر نہیں پڑتا.بلکہ ان کا تعلق انسان کی روحانیت کے ساتھ ہوتا ہے.اور جتنا جتنا ان کا کم اثر جسمانیت پر اور زیادہ تر روحانیت پر پڑتا ہے اتنا ہی بلوغت کا زمانہ بھی نیچے کو چلا جاتا ہے.حتی کہ تین سال کی عمر میں بھی ان احکام کی پابندی ضروری

Page 102

97 قرار دی گئی ہے کہ جو آداب اور اخلاق سے تعلق رکھتے ہیں.جیسا کہ آنحضرت نے حضرت حسین کو اسی عمر میں فرمایا تھا.اپنے آگے سے کھاؤ اور دائیں ہاتھ سے کھاؤ.(۳) اب کوئی کے اتنے چھوٹے بچے کو شریعت سے کیا تعلق کہ اس سے اس امر کی پابندی کرائی جائے مگر ہم کہتے ہیں اس کی پابندی کرانے میں حرج ہی کیا ہے.کیا اگر بچہ بائیں ہاتھ کی بجائے دائیں ہاتھ سے کھائے تو اس سے اس کی صحت پر برا اثر پڑتا ہے.ہر گز نہیں.چونکہ یہ ایسا امر نہیں جس کی پابندی کرانے سے بچے کی صحت پر برا اثر پڑتا ہو.بلکہ اس کے اخلاق پر اس کا اچھا اثر پڑے گا اور اس کی صحت پر بھی کوئی بوجھ نہیں ہو گا.نہ اس کے فہم و فراست پر.اس لئے اس عمر میں اس کی پابندی کرائی گئی.اس سے اوپر نماز کی بلوغت کا وقت آتا ہے.جس کی ابتدا سات سال کی عمر ہے.اور درمیانی دس سال اور انتہائی بارہ سال.اگر کوئی بچہ بارہ سال کی عمر میں نماز نہ پڑھے تو شریعت اجازت نہیں دیتی کہ ہم اسے یہ کہہ کر چھوڑ دیں.کہ ابھی بچہ ہے.بلکہ نماز پڑھنے کے لئے زور دیں گے.کیونکہ اس کا بھی جسم پر کوئی ایسا مخالف اثر نہیں پڑتا.جس سے بچے کی صحت خراب ہو.اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ اس کو آزاد چھوڑا جائے.لیکن فاقہ ایک ایسی چیز ہے جو انسان کی جسمانی حالت کو بگاڑتا اور اس کے عادی نظام کو تہ و بالا کر دیتا ہے.اگر ایسے بچے جن کی ابھی نشو و نما نہیں ہوئی.روزے رکھیں گے تو ضرور ان کی صحت پر برا اثر پڑے گا.اس لئے بچوں سے جو لوگ روزے رکھواتے ہیں وہ ثواب کا کام نہیں کرتے.بلکہ سخت غلطی کرتے ہیں.کسی نے کہا ہے جو ماں سے زیادہ چاہے سے کٹنی کہلائے.نبیوں سے بڑھ کر کون دین کے لئے غیرت دکھلا سکتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میری صحت ہمیشہ کمزور رہی ہے.مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ میرے ہاں بچہ بھی دیر سے پیدا ہوا.میری عمر اس وقت سترہ سال کی تھی.حالانکہ بچہ اس سے بھی کم عمر میں پیدا ہو سکتا ہے.چودہ سال کی عمر میں بچہ پیدا کرنے کی مثال خود ہمارے خاندان میں ہی موجود ہے.حضرت مسیح موعود کی وفات پر میری انیس برس کی عمر تھی.لیکن میری صحت کے لحاظ سے وہ زمانہ بھی میری روزہ کی بلوغت کا نہ تھا.اور محض میری صحت کی کمزوری کی وجہ سے حضرت صاحب میرے لئے روزہ رکھنا پسند نہیں کرتے تھے.اب بھی میری صحت کی یہ حالت ہے کہ گو بارہا میں سارے روزے رکھتا ہوں لیکن بعض دفعہ اب بھی میں روزے نہیں رکھ سکتا.پس جن بچوں کے سینے چھوٹے اور کمزور ہوں ان کو مجبور کرنا بلکہ ان کو روزہ رکھنے دینا بھی درست نہیں.ہاں پندرہ سال کی عمر سے اس کو عادت ڈلوائی اور مشق شروع کروانی چاہیے.خواہ ان کے قومی شہوانی بارہ برس کی عمر سے ہی بلوغت روزوں پر

Page 103

98 کو پہنچ گئے ہوں اور وہ بچے پیدا کرنے کے قابل ہو گئے ہوں.اس سے میرا مطلب یہ نہیں کہ باوجود جسمانی قومی کی تکمیل کے بھی جسے وہ پندرہ سال کی عمر سے پہلے حاصل کر لیں.ان سے روزے نہ رکھوائے جائیں.بلکہ جیسا کہ بچہ پیدا کرنے والے کی بلوغت کا زمانہ مختلف ہو سکتا ہے اسی طرح ہو سکتا ہے کہ بچہ تیرہ چودہ برس کی عمر میں جسمانی قوتیں پوری حاصل کر لے.مگر چونکہ ایسی مثالیں بہت شاذ ہیں.کہ جو پندرہ برس کی عمر سے پہلے جسمانی طاقت و قوت کے تمام مرحلے طے کر لیں.اس لئے قانونی طور پر روزے کے لئے بلوغت کا زمانہ اٹھارہ برس ہے.پھر اس میں استثنائی صورتیں بھی ہیں جن میں بعض اٹھارہ برس سے کم عمر والے بھی آجاتے ہیں.اور بعض اٹھارہ برس سے اوپر کمر والے بھی آجاتے ہیں.حتی کہ بعض اکیس سال تک کی عمر والے بھی اس میں شامل ہو جاتے ہیں جن پر اکیس سال کی عمر میں روزہ فرض ہوتا ہے.لیکن میں نے ان دونوں حدوں کو چھوڑ کر ایک درمیان کی حالت کو لے لیا ہے.جو اٹھارہ سال ہے.ورنہ کئی ایسے ہوں گے جن کے لئے چودہ پندرہ سال کی عمر میں اپنے جسمانی قوی کی تکمیل کی وجہ سے روزہ ضروری ہو جائے گا.اور کئی ایسے ہوں گے کہ جو اپنے قومی کی کمزوری کی وجہ سے اکیس سال تک بھی اس حکم کے مصداق نہ ہوں گے.پس میں نے ایک درمیانی عمر بتائی ہے کہ اس کی بلوغت کا زمانہ پندرہ سال کی عمر سے شروع ہو جاتا ہے.اس لئے اس عمر سے عام طور پر روزے کی عادت ڈلوانی چاہیے.یعنی چار پانچ روزے رکھوائے.پھر چھوڑ دیئے.اس سے بچے کو روزوں سے مس پیدا ہو جائے گی.اور جب اس کا نشو و نما قوی ہو جائے گا.تو پھر وہ پورے روزے رکھنے لگ جائے گا اور اس کو کوئی تکلیف بھی نہیں ہوگی.غرض روزوں کے حکم کے عائد ہونے کے لئے بچے جنوانے کی کوئی شرط نہیں.بعض ایسے آدمی ہوں گے کہ ساری عمر بھی ان پر روزہ فرض نہیں ہو گا.اور اگر ایک روزہ بھی رکھ لیں تو ان کی صحت بالکل برباد ہو جائے گی.کیونکہ روزہ ایسی چیز نہیں جس کے لئے جسم کی توانائی کی کچھ ضرورت نہ ہو.اور اس کا جسم پر کچھ اثر نہ پڑے.پس ہر ایک چیز کے لئے ایک مناسبت ہوتی ہے.اس لئے روزے کا حکم جسمانی قوی کی تکمیل پر عائد ہوتا ہے.اگر کسی کے قومی جسمانی تکمیل کو نہیں پہنچے تو خواہ وہ چالیس پچاس بچے بھی پیدا کرا لے مگر روزوں کا فرض اس پر عائد نہیں ہو گا.دیکھو جنابت کے غسل کے متعلق حکم ہے کہ بیمار غسل نہ کرے.تم تو شائد کہہ دو گے کہ وہ بیمار کیسا ہے جس پر جنابت کے غسل کی نوبت آئی.حالانکہ ہر ایک عظمند سمجھ سکتا ہے کہ بعض آدمی ایسے ہوں گے کہ

Page 104

99 وہ بیمار ہوں گے لیکن ان کے قومی شہوانی پر اس بیماری کا کوئی اثر نہ ہو گا.بلکہ وہ قائم رہیں گے.اور اس قوت کو وہ پورا کرتے ہیں.بلکہ شائد اگر وہ پورا نہ کریں تو ان پر اس کا الٹا اثر ہو.اس بارے میں میں مثال نہیں دے سکتا.ورنہ بڑے بڑے بزرگوں کی شہادتیں ہیں جو انہوں نے خود بیان کیں.تو ایسے بھی بیمار ہوتے ہیں جن کو جنابت کے غسل کی ضرورت ہوتی ہے.لیکن غسل کرنا ان کے لئے منع ہوتا ہے.بلکہ وضو بھی ان کے لئے جائز نہیں ہوتا.کیونکہ یہ ان کی صحت کے لئے مضر ہوتا ہے.باوجود یکہ شہوانی قوی ان میں پائے جاتے ہیں اور وہ اس طاقت کو پورا کرتے ہیں.اور عجیب بات یہ ہے کہ فقہاء بھی ان کو بیمار ہی کہتے ہیں.خواہ وہ بچے بھی پیدا کرتے ہوں.تیمم سے بڑھ کر طب ان کو اجازت نہ دے گی.پس جو لوگ طب سے واقف ہیں.وہ جانتے ہیں کہ بعض بیمار بناوٹ کے لحاظ سے ایسے واقعہ ہوتے ہیں کہ وہ بلوغت جو روزوں کے حکم کو عائد کرتی ہے ان کو حاصل نہیں ہوتی.لیکن وہ بلوغت کہ جس سے وہ اولاد پیدا کر سکتے ہیں ان کو حاصل ہوتی ہے.اور اگر اس کو وہ پورا نہ کریں تو ان کی صحت زیادہ کمزور ہو جائے.بلکہ ممکن ہے کہ بعض اور بیماریاں بھی ان کو لاحق ہو جائیں.تو ہر ایک بلوغت الگ الگ قسم کی ہوتی ہے اور الگ الگ ہی اس کے متعلق احکامات ہوتے ہیں.ایک بلوغت وہ ہے جو تین سال سے شروع ہو جاتی ہے.دوسری وہ جو سات سال سے تیسری وہ جو چودہ سال سے شروع ہو جاتی ہے.پس روزے کی بلوغت پندرہ سال سے شروع ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جہاد کے لئے پندرہ سال سے کم عمر جائز نہیں رکھی.کیونکہ جہاد میں جسمانی کوفت ہوتی ہے.اگر اس عمر سے پہلے کسی سے جہاد کرایا جائے تو نتیجہ یہ ہو کہ اگلے جہاد اس کے سب مارے جائیں گے.اسی طرح اس عمر میں بچے کی نشوونما کے لئے روزے سے روکتا بے دینی نہیں بلکہ اگلے چالیس پچاس سال کی عمر کے لئے اس کے پاس ذخیرہ جمع کرنا ہے.اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہم ان کے جسموں کو کمزور کر کے آئندہ زندگی میں ان کو روزے رکھنے سے محروم رکھتے ہیں.لیکن اگر ہم ان کو نشود نما حاصل کرنے دیتے ہیں تو ان کی ہڈی اور جسم مضبوط ہو جائے گا اور آئندہ زندگی کے اکثر حصہ میں وہ با آسانی روزے رکھ سکیں گے.پہلے ہی ہمارے ملک کے لوگوں کی بچوں کے متعلق بے احتیاطی اور نادانی کا یہ نتیجہ ہے کہ اس ملک کے لوگوں کی صحت بہت کمزور ہوتی جا رہی ہے.یورپین لوگ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے متواتر کام کرتے ہیں مگر ذرا نہیں تھکتے.لیکن ہمارے ملک کے آدمی چند گھنٹے بھی متواتر کام نہیں کر سکتے.جس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ملک کے لوگوں کی بچپن میں پوری پوری نشود نما نہیں ہوتی.پس بچپن میں بچوں کی

Page 105

100 طاقت کو نقصان سے بچانے اور محفوظ رکھنے کے نتیجے میں ان کی آئندہ زندگی بیماریوں سے محفوظ رہے گی.اور اگر صحیح طور پر اس امر کی نگہداشت کی جائے تو نہ صرف یہ کہ وہ بیماریوں سے محفوظ رہیں گے بلکہ آئندہ ان کی نسلیں اور قوم بھی صحیح القوئی اور تندرست اور قوی ہو گی.اسلام کے تمام احکام عقل کے مطابق ہیں.اس لئے عقل سے کام لینا چاہیے.ہر حکم کے لئے الگ الگ بلوغت کا وقت ہے.اگر تم آج ایسی نسل پیدا کر لو کہ وہ پندرہ سال سے پہلے پہلے ہی نہایت گرانڈیل جوان ہوں ان کے بڑے بڑے قد اور خوب مضبوط جسم ہوں.اگر ایسے بچے دس سال کی عمر کے بھی ہوں تو میں کہوں گا ان دس سال کے بچوں پر بھی روزہ فرض ہے.پس میں عقل کی بات بتا رہا ہوں.اگر اس کی بنیاد عقل پر نہ ہوتی تو کسی کے لئے اعتراض کی بھی گنجائش ہوتی.اگر اس کی بنیاد عقل پر ہے کہ پندرہ برس سے کم عمر کے بچہ کو روزہ نہ رکھنا چاہیے تو اس پر : عمل کرنا چاہیے.آج میں جمعہ کی نماز کے بعد ایک جنازہ پڑھوں گا.چوہدری نصر اللہ خاں صاحب ناظر اعلیٰ کے چچا چوہدری حسن محمد صاحب جو پرانے احمدی تھے.فوت ہو گئے ہیں.ان سے تو میری ذاتی واقفیت نہ تھی.لیکن چوہدری نصر اللہ خان صاحب جو آنریری طور پر سلسلہ کی خدمات سر انجام دیتے ہیں.ان کے اخلاص اور خدمات کے باعث میں ان کے چا صاحب کا جنازہ پڑھوں گا.چوہدری صاحب کو ان ایام میں ان کے چچا کی نازک حالت کی وجہ سے بار بار بلایا گیا.لیکن چونکہ کانفرنس کے دن بہت قریب تھے اس لئے وہ نہ جا سکے اور ان کی عدم موجودگی میں ان کے چچا فوت ہو گئے.الفضل ۲۱ اپریل ۱۹۲۵ء)

Page 106

101 14 رمضان المبارک میں دعا (فرموده ۱۷ اپریل ۱۹۲۵ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : دنیا میں بہت سے مذاہب پائے جاتے ہیں.ایسے مذاہب جو کسی بالا ہستی کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں اور اس وجہ سے حقیقتاً مذہب کہلانے کے مستحق ہیں.ایسے تمام مذاہب ایک امر میں ایک دوسرے سے بالکل متفق نظر آتے ہیں.اور وہ امر جس میں وہ تمام متفق ہیں قبولیت دعا ہے.ہزاروں سال گزشتہ کا ہندو مذہب اس زمانے کا جب کہ دنیا ابھی اپنے ابتدائی نقطہ مرکزی پر تھی اور ترقیات کے بہت سے مدارج بھی انسان کے لئے طے کرنے باقی تھے.اس وقت کی کتاب دید کو جب ہم دیکھتے ہیں تو اس میں سب سے زیادہ ایسے منتر پائے جاتے ہیں جو کسی بالا ہستی سے التجا کرنے اور دعا کی صورت میں استعمال کئے گئے ہیں.اور وہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس زمانہ کے لوگ کسی بالا ہستی کے سامنے اپنی حاجتوں اور ضروریات کے پورا ہونے کے لئے دعا کیا کرتے تھے.ایران کی قدیم ترین تہذیب جو تمام دنیا کی تہذیبوں کا گہوارا اور انسانی نسل کا نقطہ مرکزی سمجھی جاتی ہے.اور اس زمانہ کی تحریروں کو جب کاغذ بھی دنیا میں نہیں ایجاد ہوا تھا اور جب لوگ پتوں اور ہڈیوں وغیرہ پر بھی لکھا کرتے تھے اور جب کہ اشاروں میں بات چیت کرتے تھے.اس وقت کے اشاروں سے بھی پتہ چلتا ہے کہ لوگ کسی بالا ہستی سے دعا کیا کرتے تھے.اسی طرح مصر کے آثار قدیمہ.جن کے زمانہ کی طوالت پندرہ ہزار سال تک سمجھی جاتی ہے.اس وقت کے آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ مصری لوگ اس وقت بھی کسی بالا ہستی کے سامنے جھکا کرتے تھے.اسی طرح موسیٰ عمران سینا کی پہاڑیوں میں یہوداہ کے سامنے اگر گریہ و زاری کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے تو عیسی مریم گلیل کی پہاڑیوں میں خداوند خدا کے سامنے اپنی درخواستیں پیش کرتا پایا جاتا ہے.عرب کے لوگ جو بالکل جاہل اور کسی دین سے

Page 107

حصہ 102 نہیں رکھتے تھے اور کوئی الہامی کتاب جن کے پاس موجود نہ تھی.بت پرستی، قمار بازی، شراب خوری ، زنا ، دنگہ فساد جن کا شیوہ تھا.ان کے حالات کو بھی اگر ہم پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دعاؤں کے وہ بھی قائل تھے.ان میں بھی ایسا طریقہ اور رواج پایا جاتا تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور اپنی درخواستیں پیش کرتے اور ان کی قبولیت کی امید کرتے تھے.غرض کسی قوم میں چلے جاویں.دعا کا خیال ہر قوم اور ہر ملک کے لوگوں میں پایا جاتا ہے اور پھر نہ صرف دعا کا خیال بلکہ ان کے اعمال کا نقطہ مرکزی دعا ہوتا ہے.دنیا کے زبردست سے ا زبردست بادشاہوں کے آثار قدیمہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بادشاہ باوجود بڑا بھاری اقتدار رکھنے کے پھر بھی کسی اعلیٰ ہستی کے سامنے گرتے اور اپنے لئے اپنی حکومت کی وسعت اور مضبوطی کے لئے دعائیں مانگا کرتے تھے.اگر ان تہذیب حاصل کرنے والے ملکوں کو چھوڑ کر ان لوگوں کو دیکھیں جو تہذیب سے بالکل نا آشنا اور سخت جاہل ہیں.مثلا امریکہ اور آسٹریلیا کے وحشیوں کو دیکھیں.تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ وحشی اور وہ غیر مہذب لوگ بھی دعا کے قائل ہیں.اب ہر انسان سوچ سکتا ہے کہ یہ خیال تمام دنیا کے لوگوں کے دلوں میں کس نے پیدا کر دیا.متمدن اور غیر متمدن مہذب اور غیر مہذب دنیا کی دلدادہ اور روحانیات کی مشتاق.غرض کہ تمام اقوام اس عقیدہ کی قائل نظر آتی ہیں.تمام دنیاوی قومیں دنیا کی ترقیات کے لئے اگر دعائیں مانگتی ہیں تو روحانی قومیں اپنی روحانی ترقیات کے لئے خدا کے حضور جھکتی ہیں.غرض دعا کا عقیدہ ایسا اثر رکھتا ہے کہ اب بھی جب یورپ مادیات کی رو میں بہہ رہا ہے وہاں اپنے ملک کی ترقیات کے لئے دعائیں مانگی جاتی ہیں.گزشتہ جنگ یورپ کا ایک واقعہ لکھا ہے.جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ لوگ جن کے دلوں پر مادیات کا گہرا اثر ہے اور وہ آج دہریہ کہلاتے ہیں.کس طرح ان کو بھی دعا کا مجبوراً قائل ہونا پڑا.وہ واقعہ اس طرح لکھا ہے.کہ ۱۹۱۸ء میں جب کہ جرمن چاہتا تھا کہ آخری زور لگا کر جنگ کا فیصلہ کر دے اور وہ فرانسیسیوں اور انگریزوں کی فوجوں پر فتح حاصل کرتا ہوا سو میل سے بھی زیادہ آگے بڑھ آیا تھا.حتی کہ انگریزی اور فرانسیسی افواج کو یقین ہو گیا تھا کہ چند گھنٹوں تک وہ پیرس تک پہنچ جائے گا اور وہ ایسا وقت تھا کہ دس میل کا فاصلہ انگریزی اور فرانسیسی سپاہیوں کے درمیان خالی پڑا تھا.جہاں کے لئے آدمی نہ ملتے تھے اور اس حصہ کے جرنیل نے فوج کے نائیوں ، دھوبیوں اور باورچیوں کو حکم دے دیا تھا کہ وہ ڈنڈے اور سوئے لے کر کھڑے ہو جائیں تا وہ رستہ رک جائے.ہتھیاروں اور گولہ بارود کی بھی اتنی کمی ہو گئی تھی کہ مجبوراً

Page 108

103 ان کو ڈنڈے اور سوئے دے کر کھڑا کرنا پڑا.اس وقت برطانیہ کی وزارت مشورہ میں مشغول تھی کہ مین دوران مشاورت میں فرانس سے کمانڈر انچیف کا تار آیا کہ اب آخری وقت ہے.ہم نہیں جانتے کیا نتیجہ نکلے.جب تار کھولا گیا تو اس کو پڑھ کر وزیر اعظم نے اپنے سب ساتھیوں کی طرف نہایت مایوسانہ نگاہ سے دیکھا اور کہا کہ تمام تجاویز کو چھوڑ کر آؤ اب اس بالا ہستی کی طرف جھک جائیں جس کے سوا اب کوئی ہمیں کامیاب نہیں کر سکتا.چنانچہ اس حالت میں سب وزراء نے اپنے گھٹنے ٹیک دیئے اور دعا مانگنی شروع کر دی.یہ ان لوگوں کا حال ہے جو عام طور پر دہر یہ خیالات رکھتے ہیں.اور اس وقت کی وزارت کوئی مذہبی جماعت نہ تھی.مگر وہ وقت ایسا اور اس کی اہمیت ایسی تھی کہ ان کو بھی سوائے خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے کے اور کوئی چارہ نظر نہ آیا.پس دعا کا مسئلہ ایسا اہم اور بنی نوع انسان کے قلوب پر ایسا اثر کرنے والا ہے کہ وہ لوگ جو خدا کی ہستی کے بھی قائل نہیں وہ بھی اس سے باہر نہیں جاتے.اور ایسے وقت آپڑتے ہیں کہ ان کو بھی مجبوراً خدا کا قائل اور اس کے سامنے جھکنا پڑتا ہے.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ بڑی اہمیت رکھتا ہے.نہیں تو کیا وجہ تھی کہ دنیا کے تمام لوگوں پر اس کا اتنا تصرف ہوتا اور کیا وجہ ہے انسان ترقی کرتے کرتے جب مادیت کی آخری حد تک پہنچ جاتا ہے.اور خدا کی ہستی سے بھی انکار کر بیٹھتا ہے تو اس پر ایسی حالت میں بھی کبھی ایسا وقت آتا ہے کہ اس کو خدا تعالیٰ کے سامنے جھکنے کے سوا چارہ نہیں رہتا.اگر یہ مسئلہ ایسا عام ہے.اگر مادیات کے دلدادہ اور دہریہ بھی اس کے ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں.اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو وہ لوگ جو خدا تعالٰی کی جماعت میں اپنے آپ کو شامل سمجھتے ہیں کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ اس مسئلہ سے پورا فائدہ حاصل نہ کریں.اگر یہ عمومیت دنیا کے سب لوگوں کے لئے یکساں اہم ہے اور اگر کثرت مشاہدات اس پر دلالت کرتی ہے کہ ایسی بات جھوٹی نہیں تو غور کرو ایک مومن کی ذمہ داریاں دعاؤں کے لئے کتنی بڑھ جائیں گی.پھر اگر ایک دہریہ اور مادی آدمی بھی دعا سے فائدہ اٹھاتا ہے تو وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی ہستی کے قائل ہیں ان کو کس قدر اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے.پس میں اپنے دوستوں اور تمام جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ دعاؤں کی طرف خاص طور پر توجہ کریں اور اس سے پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.بہت ہیں جو اس ہتھیار سے فائدہ نہیں اٹھاتے.اور بہت ہیں جو اس ہتھیار پر پورا پورا یقین نہیں رکھتے.اگر ہماری جماعت یک جہتی اور

Page 109

104 پورے وثوق کے ساتھ دعاؤں میں مشغول ہو جائے اور خدا کے حضور گڑ گڑائے تو میں نہیں کہ سکتا کہ ہماری ترقی کی رفتار وہی رہے جو آج ہے اور ہم اس طرح دشمنوں کے اندر گھرے رہیں جس طرح آج گھرے ہوئے ہیں.یہ ہماری بعض معاملات میں ناکامیاں اور دشمنوں میں اس طرح گھرے رہنا صرف اس لئے ہے کہ ہمارا ایک حصہ ایسا ہے ہے جو دعا میں سستی کرتا ہے.اور بہت ایسے ہیں جو دعا کرنا بھی نہیں جانتے اور ان کو یہ بھی پتہ نہیں کہ دعا کیا ہے.اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے.دعا موت قبول کرنے کا نام ہے اور آپ فرمایا کرتے تھے جو منگے سو مر رہے.جو مرے سو منگن جائے.یعنی کسی سے سوال کرنا یا مانگنا ایک موت ہے اور موت وارد کئے بغیر انسان مانگ نہیں سکتا.جب تک وہ اپنے اوپر ایک قسم کی موت وارد نہیں کر لیتا وہ مانگ نہیں سکتا.پس دعا کا یہ مطلب ہے کہ انسان اپنے اوپر ایک موت طاری کرتا ہے.کیونکہ جو شخص جانتا ہے کہ میں یہ کام کر سکتا ہوں وہ کب مدد کے لئے کسی کو آواز دیتا ہے.کیا یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص کپڑے پہننے کے لئے محلہ والوں کو آواز میں دیتا پھرے کہ آؤ مجھے کپڑے پہناؤ.یا تھائی دھونے کے لئے دوسروں سے کہتا پھرے کہ مجھے تھالی دھلواؤ.یا قلم اٹھانے کے لئے دوسروں کا محتاج بنے.انسان دوسروں سے اس وقت مدد کی درخواست کرتا ہے جب وہ جانتا ہے کہ یہ کام میں نہیں کر سکتا.ورنہ جس کو یہ خیال ہو کہ میں خود کر سکتا ہوں وہ دوسروں سے مدد نہیں مانگا کرتا.وہی شخص دوسروں سے مدد مانگتا ہے جو یہ سمجھے کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا.اسی طرح خدا تعالٰی سے بھی وہی شخص مانگ سکتا ہے جو اپنے آپ کو اس کے سامنے مرا ہوا سمجھے اور اس کے آگے اپنے آپ کو بالکل بے دست و پا ظاہر کرے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان میرے رستے میں جب تک مر نہ جائے اس وقت تک دعا دعا نہ ہو گی.کیونکہ پھر تو بالکل ایسا ہی ہے کہ ایک شخص قلم اٹھانے کی طاقت اپنے اندر رکھتا ہوا دوسروں کو مدد کے لئے آوازیں دے.کیا اس کا ایسا کرنا ہی نہ ہو گا.جب ایک شخص جانتا ہو کہ اس میں اتنی طاقت ہے کہ قلم اٹھا سکے تو اس کی مدد نہیں کرے گا.اسی طرح جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ میں خود فلاں کام کر سکتا ہوں وہ اگر اس کے لئے دعا کرے تو اس کی دعا در اصل دعا نہیں ہو گی.دعا اسی کی دعا کہلانے کی مستحق ہو گی جو اپنے اوپر ایک موت طاری کرتا ہے.اور اپنے آپ کو بالکل پیچ سمجھتا ہے.جو انسان یہ حالت پیدا کرے.وہی خدا کے حضور کامیاب اور اسی کی دعائیں قابل قبول ہو سکتی ہیں.ورنہ جب تک انسان یہ تسلیم نہ کرے.کہ وہ خود کچھ نہیں ہے اپنے نفس پر موت وارد کر کے یہ یقین نہ کرے کہ وہ بے بس اور بیکس ہے.صرف اللہ ہی کی ذات ہے جو اس کو سہارا دے سکتی ہے.تب تک خدا تعالیٰ سے کسی

Page 110

105 کامیابی یا مدد کی امید نہیں رکھ سکتا.پھر دوسری بات جو دعا کی قبولیت کے لئے نہایت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اپنے اوپر ایک موت قبول کرنے کے بعد اس کی کامل توجہ اس طرف ہو کہ خدا کے سوا کوئی مددگار نہیں.جب تک وہ اپنے اندر خشیت اللہ پیدا نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ کی طرف اپنی توجہ کو کامل طور پر نہیں پھراتا اس کی دعا بھی قبول نہیں ہو سکتی.کیونکہ وہ شخص جو اپنے آپ کو مردہ خیال کرے.لیکن اس کے دل میں کرب گریہ و بکار عاجزی و انکسار پیدا نہ ہو اس کی دعا قبول نہیں ہو سکتی.پس یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اس شخص کی دعا قبول ہو جس کا دل کسی اور طرف لگا ہوا ہو اور زبان کچھ اور کہہ رہی ہو.تیسری بات جو دعا کی قبولیت کے لئے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اگر انسان پورے طور پر خدا تعالی کی طرف جھک بھی جائے.اور اپنے آپ کو بے بس و بے کس بھی ظاہر کرے.لیکن اس کے دل کے اندر یہ یقین نہ ہو کہ وہ خدا دعائیں قبول کرتا ہے تو ایسے شخص کی بھی دعا قبول نہیں ہوتی.کیونکہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص لولے اور لنگڑے کو کہے کہ میرے سر پر یہ بوجھ رکھ دو.کیا اس کا اس لولے اور لنگڑے سے مدد حاصل کرنا جس سے مدد کی قطعاً امید نہیں ہو سکتی ہنسی نہ ہو گی.پس جس کو یہ یقین ہی نہ ہو کہ خدا تعالیٰ اتنی طاقت رکھتا ہے کہ میری دعا کو قبول کر سکتا ہے ایسے شخص کی دعا بھی قبول نہیں ہو سکتی.پس یہ تین باتیں ہیں جو دعا کی قبولیت کے لئے ضروری ہیں.یہ کہ انسان اپنے دل میں یہ سمجھے کہ میں سخت کمزور ہوں.صرف خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو سب کمزوریوں سے پاک ہے اور پھر غرور اور کبر کا مادہ بالکل اپنے دل سے نکال دے.جائے.دوسرے کامل توجہ کے ساتھ تمام دوسری طرفوں سے اپنی توجہ کو ہٹا کر خدا کے حضور گر تیسرے اپنے دل کے اندر اس بات کا کامل یقین اور وثوق پیدا کرے کہ خدا تعالی دعاؤں کو سننے اور قبول کرنے کی طاقت رکھتا ہے.اور وہ ضرور دعائیں قبول کرتا ہے.جب ان تینوں باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دعائیں کرو گے تو پھر وہ دعائیں وہ اثر کریں گی کہ اگر پہاڑوں کو کہو گے کہ ہٹ جاؤ تو وہ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گے.اور اگر دریاؤں کو کہو گے کہ اپنا راستہ بدل دو تو وہ اپنا راستہ بدل دیں گے.اگر ہماری جماعت کے لوگ اس طرح دعائیں کریں تو دنوں میں ان کو وہ کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.جو سالوں میں ہو گی.اور گھنٹوں میں وہ کامیابی ہو سکتی ہے جو مہینوں میں ہو سکتی ہے.

Page 111

106 حصہ پس میں اپنے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور خدا تعالیٰ کے حضور بہت بہت دعائیں کریں کہ وہ ہماری جماعت کو اعلیٰ ترقیات عطا فرمائے.ہمارے اخلاص کی کمی اور ہماری جہالت کو دور کرے.ہماری روحانی.جسمانی اور علمی اور مالی کمزوریوں کو بدل کر اس کے مقابل میں اعلیٰ کمالات عطا فرمائے.کیونکہ وہی تمام کمالات کا منبع ہے.پھر ہمارے وہ دوست جو احمدیت کی وجہ سے سخت تکلیفیں اٹھا رہے ہیں ان کے لئے بھی دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر ہو.اور وہ جن کے ایمان ابھی اتنے مضبوط نہیں ان کے لئے بھی دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ ان کے دل کے اندر ایمان اور عرفان پیدا کرے.اور وہ بھی سلسلہ کی اشاعت میں بڑھ چڑھ کر لیں.اگر ہمارے دوست جماعت کی ترقی کے لئے اس طرح دعائیں کریں اور اپنے لئے بھی کریں تو اس کے ایسے اچھے نتائج پیدا ہوں گے جو نہ صرف ہمارے لئے بلکہ ہمارے دشمنوں کے لئے بھی حیرت کا موجب ہوں گے.یہ دن جیسا کہ قرآن کریم سے ظاہر ہوتا ہے خاص قبولیت کے دن ہیں.اور ان دنوں میں روزہ کی وجہ سے رات کو پچھلے وقت سب کو اٹھنا پڑتا ہے.بچے بھی شوق کی وجہ سے اس وقت اٹھ بیٹھتے ہیں.اور وہ عورتیں جو شرعی مجبوری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتیں ان کو کھانا وغیرہ پکانے کے لئے اٹھنا پڑتا ہے.اس لئے وہ بھی دعاؤں میں شریک ہو سکتی ہیں.چونکہ تہجد کی نماز میں دوسری نمازوں کی نسبت دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں اس لئے خاص طور پر تہجد میں دعائیں کرو.مجھے خدا تعالٰی کے فضل سے اس رمضان میں پہلے سالوں سے زیادہ دعاؤں کی توفیق ملی ہے.اور میں نے سب کے لئے بہت دعائیں کی ہیں.پھر کوئی یہ خیال نہ کرے کہ اب تو رمضان گزر چکا ہے.صرف تھوڑے دن باقی ہیں.اب کیا ہو سکتا ہے.قبولیت دعا کے لئے تو ایک منٹ بلکہ ایک سیکنڈ بھی کافی ہوتا ہے.کون جانتا ہے کہ اس کی کس وقت کی دعا قبول ہو جائے گی.اس لئے اگر وہ ان تھوڑے دنوں میں بھی خاص توجہ سے دعائیں کریں گے تو اس کے بڑے بڑے نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمارے دلوں میں اپنی محبت پیدا کرے.ہم ہمیشہ اس کی طرف نہایت اخلاص کے ساتھ جھکیں.ہم اس کے فضلوں کے وارث اور اس کی رضا پر چلنے والے ہوں.ہم اس کے ہو جائیں اور وہ ہمارا ہو جائے.انھیں بھی تو اسلام کے ساتھ اور مریں بھی تو اسی یقین اور وثوق کے ساتھ کہ اسلام ہی سچا مذہب ہے.الفضل ۲۳ اپریل ۱۹۲۵ء)

Page 112

107 15 ہر مہینہ رمضان اور ہر رات لیلۃ القدر بن سکتی ہے (فرموده ۲۴ اپریل ۱۹۲۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : کوئی تعجب نہیں کہ آج کا روزہ آخری روزہ اور رمضان المبارک کا آخری دن ہو.اور اس لحاظ سے یہ ان خاص برکات کا جو رمضان کے آخری عشرہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں آخری دن ہے.اور ہم میں سے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کس کے لئے اس سال کا یہ دن نہ صرف آخری دن ہو بلکہ ہمیشہ کے لئے آخری دن ہو.اور اس کے بعد اس کو زندہ رہنا نصیب نہ ہو.پس اس کی ہر ساعت کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور خدا تعالیٰ کے دروازہ کو کھٹکھٹانے میں کوئی کوتاہی نہ کرنی چاہیے.دعائیں جیسا کہ میں نے بتایا ہے اور بارہا پہلے بھی بتا چکا ہوں ایک ایسا مفید اور کارآمد ہتھیار ہے جس کے مقابلہ میں اور کوئی ہتھیار اتنا مفید اور کار آمد نہیں ہو سکتا.لیکن جس طرح ہر ہتھیار ہر ہاتھ میں کارآمد نہیں ہو سکتا.بلکہ اسی شخص کے لئے کارآمد ہو سکتا ہے جو اس کو چلانا جانتا ہے.اسی طرح دعائیں بھی اسی شخص کو فائدہ دے سکتی ہیں جو ان کو صحیح طور پر کرنا جانتا ہے.مثلاً ایک شخص جو بندوق چلانا نہیں جانتا اگر اس کے کندھے پر بندوق رکھدی جائے اور کارتوسوں کی بیٹی اس کی کمر سے باندھ دی جائے تو یہ اس کے لئے سوائے بوجھ کے اور کچھ نہ ہو گا.کیونکہ بندوق کو چلانا نہ جاننے کی وجہ سے یہ چیزیں اس کو کچھ کام نہیں دے سکتیں.اگر اس کی بجائے اس کو ایک لاٹھی دیدی جاتی جسے وہ چلانا جانتا ہے تو وہ زیادہ عمدگی اور پھرتی کے ساتھ اس سے کام لیتا.اسی طرح ایک ایسا شخص جو تلوار چلانا نہ جانتا ہو اگر اس کے ہاتھ میں تلوار دے دی جائے تو وہ اس سے ایک چھڑی سے بھی زیادہ فائدہ نہیں اٹھا سکتا.اور ایک بچہ تو اس سے خود اپنا ہاتھ زخمی کرلے گا.یہی حال دعا کا ہے.جو لوگ یہ نہیں جانتے کہ دعا کس طرح کی جاتی ہے اور جو

Page 113

108 خدا تعالی پر پورا توکل نہیں رکھتے اور کامل توجہ سے دعا نہیں کرتے ان کی دعا ہر گز مفید نہیں ہو سکتی.کیونکہ وہ دعائیں کرتے تو ہیں.لیکن ان کے کرنے کا طریقہ نہیں جانتے.دعا بے شک ایک ایسے ہتھیار کی طرح ہے جس کے ایک دار کے بعد پھر اور دار کی ضرورت نہیں رہتی.لیکن وہ اس کے لئے مفید نہیں ہو سکتی جو اس کو کرنا نہیں جانتا.بسا اوقات وہ لمبی لمبی دعائیں کرے گا لیکن ان دعاؤں کا کچھ اثر نہ ہو گا.اور بسا اوقات ایسا بھی ہو گا کہ ایک نادان ایسے طریقہ پر دعائیں کرتا ہے کہ بجائے نفع کے نقصان اٹھاتا ہے.اور اس کی دعائیں بجائے اس کو فائدہ پہنچانے کے الٹا نقصان پہنچاتی ہیں.پس دعائیں جہاں کارگر ہیں وہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غلط طریقہ پر کئے جانے سے وہ نقصان پہنچا دیں.اس لئے دعا کرنے والے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ جانتا ہو کہ دعا کس طرح کی جاتی ہے اور اس کے کرنے والے کے لئے کیا کیا ذمہ داریاں ہیں.اور کتنے وثوق اور یقین کے ساتھ دعا کرنی چاہیے اگر وہ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھ کر دعائیں کرے گا تو اس کی دعائیں اس کو فائدہ دیں گی اور اگر وہ ان باتوں کا خیال نہیں رکھے گا تو وہ بجائے اس کو فائدہ دینے کے مضر ہوں گی.لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ اس بات سے ڈر کر کہ شائد میری دعائیں مجھے نقصان پہنچائیں ان کو چھوڑ دیا جائے.دعا کرنا ضروری اور فرض ہے.کیونکہ بغیر دعا کے تکمیل ایمان نہیں ہو سکتی اور بغیر تکمیل ایمان کے انسان ہرگز کوئی فلاح نہیں پا سکتا.چونکہ انسان کی پیدائش کی غرض ہی یہی ہے کہ وہ اپنے ایمان کو کامل کرے.اس لئے اگر وہ دعائیں نہیں کرتا تو اپنی پیدائش کی غرض کو پورا نہیں کرتا.پس میرے یہ کہنے سے کہ دعائیں اگر صحیح طریقہ پر نہ کی جاویں تو بجائے نفع کے نقصان پہنچا سکتی ہیں.ہرگز مطلب نہیں ہے کہ اس سے ڈر جاؤ اور دعاؤں کو بالکل چھوڑ دو.بلکہ اس سے میرا یہ مطلب ہے کہ اس کے متعلق صحیح طریقہ سیکھا جائے.کیونکہ اگر صحیح اور اصل طریقہ جس پر عمل کر کے ہماری دعائیں قابل قبول ہو سکتی ہیں استعمال میں نہ لایا جائے تو ہماری دعاؤں کا قطعا کوئی فائدہ نہیں.ہر کام کرنے کے واسطے یہ لازم ہے کہ اس کے کرنے کا اصل طریق سیکھا جائے.کیونکہ اگر ہم صحیح طریقہ پر اس کام کو نہیں کریں گے تو وہ کام بجائے نفع کے ہم کو نقصان پہنچا سکتا ہے.لیکن اس کا مطلب نہیں کہ اس کام کو اس اندیشہ سے چھوڑ ہی دیا جائے کہ شائد نقصان پہنچا دے.پس جب کہ دعا کے بغیر انسان نجات اور فلاح ہی نہیں حاصل کر سکتا تو کسی شخص کو اس واسطے اور

Page 114

109 اس بات سے ڈر کر کہ شائد میرے دعا کرنے کا طریق صحیح نہ ہو دعا کرنا چھوڑ نہیں دینا چاہیے.کسی مریض کے علاج کو اس بناء پر نہیں چھوڑا جا سکتا کہ ممکن ہے اس کا علاج غلط کیا جا رہا ہو اور ایسا ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے کہ بعض دفعہ علاج غلط ہوتا ہے.لیکن پھر بھی علاج کو چھوڑا نہیں جاتا.پس جس طرح کہ مریض کے علاج کو چھوڑ نہیں دیا جاتا.خواہ یہ علم ہو یا نہ ہو کہ یہ علاج صحیح ہے یا غلط.اسی طرح دعا کو بھی ڈر کر نہیں چھوڑا جا سکتا.کیونکہ جو شخص علاج کرتا ہے اس کے لئے تو امکان ہے کہ اس کا علاج صحیح ہو اور وہ اس علاج سے بچ جائے لیکن جو اس ڈر سے علاج ہی کو چھوڑ دیتا ہے کہ شائد یہ صحیح ہے یا نہیں وہ یقینی طور پر ہلاک ہو جاتا ہے..پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ دعائیں کرو اور اپنے اخلاص کو بڑھاؤ.اگر پورے یقین اور وثوق کے ساتھ دعائیں کرو گے تو ضرور تمہاری دعائیں قبول ہوں گی.خدا تعالیٰ سب کی دعائیں سنتا اور قبول کرتا ہے.خصوصاً ان لوگوں کی جو خدا کی راہ میں سخت سے سخت تکالیف اٹھا رہے ہیں.وفا شعاری ایک ایسا جذبہ ہے جس کو سنگ دل سے سنگ دل انسان بھی بھلا نہیں سکتا.پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہماری جماعت کو جو خدا کی راہ میں شدید سے شدید مصائب برداشت کر رہی ہے خدا تعالی بغیر مدد کے چھوڑ دے.وہ اس کی دعاؤں اور التجاؤں کو دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ سنتا اور قبول کرتا ہے.اس لئے ہماری جماعت کے لوگوں کو ضرور دعائیں کرنی چاہئیں.پس دعائیں ہر شخص کی سنی جاتی ہیں.لیکن وہ جو خدا کی راہ میں تکالیف اٹھاتے نہیں.ان کی دعائیں زیادہ سنی جاتی ہیں.اور اگر کوئی قوم اس وقت ایسی ہے جو خدا کی راہ میں دکھ تکالیف اور مصائب جھیل رہی ہے تو وہ احمدی جماعت ہی ہے.لوگ دنیا میں دکھ اٹھاتے اور طرح طرح کے مصائب جھیلتے ہیں.لیکن کبھی اپنی امنگوں اور آرزوؤں کے پورا کرنے کی خاطر.کبھی اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کے لئے اور کبھی ان باتوں کے پورا کرنے کے لئے جو وہ دنیا میں کرنے کے لئے کرتے ہیں.لیکن ہماری تمام تر کوشش اور ہماری تمام تکالیف اور دکھ اس لئے ہیں کہ تا دنیا کے اندر امن قائم ہو.خدا تعالیٰ کا جلال ظاہر ہو.اور اس کا نام بلند ہو.ہمارے اندر بہت سی کمزوریاں بھی ہیں.لیکن ہماری جماعت جو کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں تکالیف اٹھا رہی ہے وہ اور کوئی قوم دنیا میں نہیں اٹھا رہی.گو وہ بتقاضائے بشری غلطیاں بھی کر بیٹھتی ہے.لیکن پھر بھی اس کی غلطیاں دوسروں کے مقابلہ میں بہت کم ہوتی ہیں.لیکن اس کا کام جو وہ خدا کی راہ میں کر رہی ہے.بہت بڑا اور عظیم الشان ہے.پس جس طرح آپ لوگوں کی دعائیں قبول ہو سکتی ہیں اور کسی کی نہیں ہو سکتیں.

Page 115

3.110 میں نہیں جانتا کہ ہماری جماعت کے دوستوں نے رمضان میں دعاؤں سے کیا فائدہ اٹھایا.لیکن جنہوں نے خاص توجہ اور پورے وثوق اور یقین کے ساتھ دعائیں کی ہیں وہ دیکھیں گے کہ ان کے اقرباء کے لئے ان کے دوستوں کے لئے اور ان کے اپنے لئے ان کا کیسا اثر ہوا ہے.مجھے اللہ تعالٰی نے اپنے فضل سے جیسا کہ میں پچھلے جمعہ کے خطبہ میں بتا چکا ہوں.اس سال رمضان میں پہلے سالوں کی نسبت دعاؤں کی زیادہ توفیق اور موقع دیا ہے.اور چند دنوں سے دعاؤں کے نتائج بھی نکلنے شروع ہو گئے ہیں.چنانچہ بہت سے غم اور فکر جو مجھے دامن گیر تھے انہیں دور کر کے خدا تعالیٰ خوشی کے سامان پیدا کر رہا ہے.ہر انسان کے لئے فکر ہوتے ہیں اور میں بھی فکروں سے خالی نہیں.لیکن میرے اصل غم وہ ہیں جو جماعت کے متعلق ہیں.اس لئے میں نے جو اپنے غموں کا ذکر کیا ہے اس سے میری مراد جماعت کی بہبودی اور ترقی کے لئے غم ہیں اور اگر سب دوست دعاؤں کے ساتھ میری مدد کریں تو وہ نیک مقاصد.جن کو رسول کریم ا - حضرت مسیح موعود اور تمام انبیاء دنیا میں پھیلانا چاہتے تھے.ان کے پورا ہونے میں کوئی شک اور کسی شبہ کی گنجائش ہی نہیں رہتی.گو رمضان ختم ہوتا ہے.لیکن میں اپنے دوستوں کی توجہ دلاتا ہوں کہ مومن کے لئے ہمیشہ رمضان ہے.وہ جس وقت بھی دعائیں کرتا ہے اس کی دعائیں سنی جاتی ہیں.کیونکہ دعاؤں کی قبولیت رمضان کے مہینہ تک ہی محدود نہیں بلکہ مومن کے لئے تمام سال رمضان ہے اور ہر وقت رمضان کی طرح اس کی دعائیں خدا سنتا ہے.ہمارا خدا دنوں مہینوں، سالوں، صدیوں اور زمانوں میں محدود نہیں ہے.زمانہ اس پر کوئی اثر نہیں کرتا.کیونکہ زمانہ اس کی مخلوق اور وہ اس کا خالق ہے.اس لئے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ فلاں سال فلاں مہینہ یا فلاں دن وہ دعائیں سنتا ہے ایسا کہنا اس کے اقتدار اور طاقت کی حد بندی کرنا ہے.حالانکہ خدا تعالی کی ذات ہر قسم کی حد بندیوں سے آزاد اور پاک ہے.جس طرح وہ رمضان میں دعائیں سنتا ہے اسی طرح ہر روز سنتا ہے.لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے آپ کو اس قابل بنائے کہ ہر دن اس کے لئے رمضان کا دن ہو.اس کا یہ مطلب نہیں کہ رمضان کی کوئی خاص برکت نہیں.بے شک اس کا بھی بہت بڑا فائدہ ہے.اگر رمضان کے دنوں کی دعاؤں میں تم کوئی لذت محسوس کرو تو سمجھ لو کہ ہر روز تمہارے لئے رمضان ہو سکتا ہے.اور اگر رمضان کے آخری عشرہ میں کوئی لذت محسوس کرو تو جان لو کہ ہر ایک دن تمہارے لئے آخری عشرہ بن سکتا ہے.یہ دن بطور نمونہ کے ہوتے ہیں.تاکہ اس نمونہ

Page 116

111 سے لذت حاصل کر کے باقی تمام دنوں میں لذت کو محسوس کیا جائے.جس طرح حلوائی نمونہ کے طور پر ایک مٹھائی دکھاتا ہے.اس کے ایسا کرنے سے یہ مطلب نہیں ہو تا کہ صرف وہی ایک مٹھائی اس کے پاس اعلیٰ اور لذیذ ہے.بلکہ اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس کی دکان کی تمام مٹھائیاں اسی طرح کی ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ کا ایسے دنوں کو خصوصیت دینے سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو بتائے کہ میرے پاس ایسے بابرکت عشرے اور مہینے ہیں.جن میں دعائیں خاص طور پر قبول ہوتی ہیں.اور انسان دعاؤں میں خاص لذت محسوس کرتا ہے.پس جو شخص ان برکات کو حاصل کرنا چاہتا ہے وہ نہ صرف انہی دنوں میں بلکہ تمام دنوں میں وہی برکات اور ویسی لذت حاصل کر سکتا ہے.پس یہ نمونہ ہے جو تمہیں دیا گیا ہے.آگے آپ لوگ کوشش کر کے ایسے عشرے ہمیشہ کے لئے خرید سکتے ہیں.پس دعائیں کرو اور بہت کرو.گو میں اپیلیں کرتا ہوں کہ چندے دو لیکن میں کہتا ہوں ہوں کہ اگر دوست دعا سے میری مدد کریں تو چندوں کی کوئی ضرورت ہی نہ رہے.کیونکہ خدا تعالیٰ خود ہمارے لئے ایسے سامان پیدا کر سکتا ہے جن کے ذریعے بغیر چندوں کے کام چل سکے.مگر جس طرح اصل چیز میسر نہ آئے تو دوسری چھوٹی چھوٹی چیزیں لے کرگزارہ کر لیا جاتا ہے.اسی طرح چندے ہیں.ورنہ دعائیں دراصل سب سے بڑا ذریعہ ترقیات کا ہیں.پس جس شخص نے یہ محسوس کر لیا کہ رمضان ہی نہیں بلکہ ہر مہینہ بابرکت ہے اور لیلتہ القدر ہی خاص بركات والی رات نہیں بلکہ ہر رات اپنے اندر برکتیں رکھتی ہے.اور جس نے رمضان اور لیلتہ القدر سے نمونہ لے لیا.ایسے شخص نے زیادہ فائدہ حاصل کیا بہ نسبت اس کے جس نے روزے رکھے.اعتکاف بیٹھا اور آخری عشرہ کے دنوں میں لیلتہ القدر کو پانے کے لئے اٹھتا رہا.اور اس نے رمضان سے پورا پورا فائدہ اٹھایا لیکن اس حقیقت کو نہ سمجھا کہ ہر مہینہ اس کے لئے رمضان اور ہر رات لیلتہ القدر بن سکتی ہے.رمضان اور لیلتہ القدر بطور نمونہ کے ہیں.جن سے اس کو فائدہ حاصل کرنا چاہیے.حقیقی فائدہ رمضان سے اس نے اٹھایا.جس نے گو بے تابی کے ساتھ رسم و رواج کے مطابق لیلتہ القدر کی جستجو نہ کی.اور اتنے روزے نہ رکھے جتنے پہلے نے رکھے.اور اتنی دعائیں نہ کی جتنی پہلے نے کیں.گو بظاہر اس نے رمضان کا فائدہ پہلے سے کم اٹھایا.لیکن اگر اس نے یہ خیال کر لیا کہ ہر عشرہ ہی بابرکت ہو سکتا ہے.اور اس بات کا مصمم ارادہ کر لیا کہ کوئی عشرہ اور رات ایسی نہ جانے دوں گا جسے رمضان اور لیلتہ القدر کی طرح سمجھ کر اس

Page 117

112 سے فائدہ نہ اٹھاؤں تو اس نے پہلے کی نسبت بہت زیادہ فائدہ اٹھایا.پس اگر یہ یقین اور یہ وثوق تمہارے اندر پیدا ہو جائے کہ ہر عشرہ آخری عشرہ اور ہر ماہ رمضان ہو سکتا ہے تو میں کہتا ہوں یقیناً ہر عشرہ رمضان کا آخری عشرہ اور ہر مہینہ رمضان ہو سکتا ہے.اور تمہاری دعائیں ہمیشہ اسی طرح سنی جا سکتی ہیں.جس طرح رمضان اور اس کے آخری عشرہ میں سنی جاتی ہیں.تم یہ یقین اور وثوق اپنے اندر پیدا کرو.اور دعائیں کرو.اگر دعاؤں کے ساتھ مجھے دو دو گے تو اس کام کے ہونے میں جس کے لئے حضرت مسیح موعود آئے.جس کے لئے رسول کریم ﷺ مبعوث ہوئے اور جس کے لئے تمام دوسرے انبیاء دنیا میں آئے.کوئی شک نہیں رہ جاتا اور اس شیطان کو جو پورے زور کے ساتھ اسلام پر حملہ کر رہا ہے.کچل دینے میں کوئی کمی نہیں رہ سکتی.پس ان دنوں کے نمونہ سے فائدہ اٹھاؤ.اور دعا کرو کہ ہم خدا تعالیٰ کی قوتوں کا صحیح اندازہ لگائیں.اور وہ ہماری کمزوریوں اور کوتاہیوں کو دور کرے اور ہمارے اعمال کو نیک بنائے.ہمارے دلوں کے اندر وہ وسعت پیدا کرے جس سے ہم اس کی غیر محدود طاقتوں کو سمجھیں.ہمارے اخلاص اور ہمارے عرفان میں ترقی دے.ہمارے دلائل کامل مشاہدات پر مبنی ہوں جس کے بعد کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو.ہمارے تعلقات ہمارے رب سے بھی اور ہمارے بھائیوں اور عزیز و اقارب سے بھی اچھے ہوں.ہماری بد فنیاں نیک فنیوں سے اور ستیاں چستیوں سے بدل جائیں.اور ہم لوگوں کے لئے بطور نمونہ ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روح کو خوش کرنے کا موجب ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ہاتھوں سے اٹھائے.ہم گنہگار ہیں.وہ اپنے ہاتھ سے ہمیں پاک کرے اور ہمارے گناہوں کو معاف کرے.کیونکہ وہ سب کچھ کر سکتا ہے.ملک میں آج کل ہیضہ کی عام طور پر شکایت ہے.اور قادیان میں بھی اس کے کیس ہوئے ہیں.چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح اول کی بہو بھی اس مرض سے بیمار ہو گئی تھیں جنہیں اب کچھ آرام ہے.میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ خاص طور پر دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو ان وبائی امراض سے محفوظ رکھے اور جو عزیز اس میں مبتلا ہوں ان کو شفا عطا فرمادے.میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ میں نماز کے بعد دو شخصوں کا جنازہ پڑھوں گا.ایک قاری نعیم الدین صاحب کا جو بنگال کے رہنے والے اور بہت مخلص تھے.ان کے اخلاص کا اس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ ایک دفعہ میں نے تبلیغ کے لئے زندگی وقف کرنے کے تحریک کی تو انہوں نے کھڑے ہو کر بڑے جوش کے ساتھ تقریر کی اور کہا کہ اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں لیکن میرے دو بچے کام کے

Page 118

113 قابل ہیں.ان کو میں خدا کی راہ میں وقف کرتا ہوں.اب مجھے اس بڑھاپے میں یہ غم نہیں ہو گا کہ میرے بچے میرے کام نہ آئیں گے.ان کا ایک لڑکا بنگال میں مبلغ ہے.اور دوسرا ایک سکول ہیڈ ماسٹر.ان دونوں نے زندگی وقف کی ہوئی ہے.وہ یہاں سے اپنے وطن تبلیغ کی غرض سے گئے تھے اور وہیں ان کا انتقال ہو گیا.دوسرے مولوی ابراہیم صاحب مالا باری جو یہاں قادیان میں مٹھائی کی دکان کرتے تھے.ان کی اہلیہ صاحبہ ہیں جو فوت ہو گئی ہیں.جب سیلون میں جماعت قائم ہوئی تو مولوی ابراہیم صاحب کو میں نے وہاں کے لئے مبلغ بنا کر بھیجا اور وہ بڑے اخلاص کے ساتھ وہاں کام کرتے رہے.ان کی بیوی کا اپنے وطن مالا بار میں انتقال ہو گیا ہے.انہوں نے اس موقع پر اتنا اخلاص دکھایا کہ باوجود اس بات کے جاننے کے کہ ان کی بیوی سخت بیمار ہے اور وہ خود بھی بہت بیمار ہیں.لیکن پھر بھی انہوں نے اپنی جگہ کو نہیں چھوڑا میں ان کی بیوی کا بھی جنازہ پڑھوں گا.اس کے بعد میں یہ بھی اعلان کرتا ہوں کہ جمعہ کی نماز کے بعد میں قرآن کریم کی آخری تین سورتوں کا درس دوں گا.جو اس درس کے تمہ کے طور پر ہو گا جو حافظ روشن علی صاحب رمضان میں ہر روز دیا کرتے تھے.اور اس کے بعد دعا ہو گی.میری جسمانی کمزوری شائد مجھے اتنا موقع نہ دے کہ میں زیادہ وضاحت کے ساتھ اس کے متعلق بیان کر سکوں.لیکن جتنی بھی خدا تعالیٰ توفیق دے گا بیان کروں گا.خدا تعالیٰ مجھے توفیق عطا فرما دے کہ میں اس بابرکت کام کو کر سکوں.(الفضل ۷ مئی ۱۹۲۵ء)

Page 119

114 16 جماعت احمدیہ نہایت بیش قیمت موتی ہے (فرموده یکم مئی ۱۹۲۵ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : دو مہینے کے قریب عرصہ ہوا ہے کہ میں نے سلسلہ کی بعض ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک خاص چندے کی تحریک دوستوں کو کی تھی.اس تحریک کے جواب میں جس اخلاص جس ایثار اور جس قربانی کا ثبوت جماعت نے دیا ہے وہ ایسا امید افزا اور ایسا دل خوش کن ہے کہ اس کو دیکھتے ہوئے اس بات سے انکار کرنے کی قطعاً گنجائش نہیں رہتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی قوت قدسیہ سے اپنی جماعت کے اندر وہ روح پیدا کر دی ہے جس کا نمونہ سوائے رسول کریم ا اور دوسرے انبیاء کی جماعتوں کے اور کہیں نہیں ملتا.ایک ترقی کرنے والی اور عروج کے اعلیٰ مقامات تک پہنچنے والی جماعت کے لئے سب سے اول یہ بات نہایت ضروری ہے کہ اس میں کسی بات کی قبولیت اور قابلیت کا مادہ ہو.اور کسی بات کے اثر کو قبول کرنے کی طاقت اور ترقی کرنے کی قابلیت ہو.ورنہ کوئی بات موثر نہیں ہو سکتی.جیسا کہ محاورہ ہے ایک بھینس کے سامنے خواہ کتنی دیر بین بجائیں یا گدھے کے سامنے فلسفہ اور منطق کے کتنے نکتے بیان کریں اس کا کچھ نتیجہ نہ ہو گا.کیونکہ بھینس اور گدھے میں موسیقی اور فلسفہ کے سمجھنے کی قوت اور مادہ نہیں ہوتا.اور ہماری مغز خوری کوئی نتیجہ نہیں پیدا کر سکتی.ہماری وہ محنت جو ہم ان کو علوم کے سکھانے کے لئے کریں گے قطعا کار آمد نہیں ہو گی.لیکن ایک انسان کو جب کوئی سبق یا کوئی علم سکھاتے ہیں تو وہ بسا اوقات سیکھ لیتا ہے.کیونکہ انسان میں قبولیت کا بہت زیادہ مادہ ہوتا ہے اور وہ ہر ایک بات اور ہر ایک علم کو سمجھنے اور سیکھنے کی طاقت رکھتا ہے.ہاں جو قوم محکوم اور مفتوح ہو اس میں فاتح اور حاکم کی نسبت یہ مادہ کم ہو تا ہے.لیکن ہوتا ضرور ہے.

Page 120

115 جب کوئی قوم گر جاتی ہے تو اس سے یہ مادہ بہت حد تک سلب ہو جاتا ہے.مسلمانوں کو ہی دیکھ لو کہ ان کے اندر ان کے زمانہ حکومت میں یہ مادہ بہت کثرت سے پایہ جاتا تھا لیکن اب ان کی حالت مدت سے خراب ہو رہی ہے.اور ان کے اپنے اعمال کے باعث تباہی و بربادی نے ان پر ایسے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں جو اٹھتے ہی نہیں.باوجود اس کے کہ ان میں ایسے لوگ اب بھی پائے جاتے ہیں جو ان کو اچھی باتیں بتاتے اور ان کی اصلاح کے لئے کوشش کرتے ہیں.مثلاً ان میں بعض واعظ اور قومی لیڈر ایسے ہیں جو ان کی ترقی کے لئے اپنی طرف سے پوری اور نیک نیتی کے ساتھ کوشش کرتے اور اس کے ذرائع بتاتے ہیں اور بہت سے ان میں سے ایسے ہیں کہ واقعی ان کی نصائح نیک نیتی پر مبنی ہوتی ہیں اور واقعی ان کے دل میں قوم کی اصلاح کی تڑپ ہے.لیکن باوجود اس کے پھر بھی ان کی بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور لوگوں کے دلوں میں ان کی نصائح کی ذرا بھی وقعت نہیں ہوتی.یہی نہیں بلکہ حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ان کی نصیحتیں خود ان پر بھی کوئی اثر نہیں کرتیں.قربانی تو وہ کرتے ہیں لیکن چونکہ وہ قربانی صحیح اور درست نہیں ہوتی اس لئے کوئی نتیجہ نہیں پیدا کرتی.نصیحت کا مغز یہ ہوتا ہے کہ جسے نصیحت کی جائے وہ اس نصیحت سے فائدہ اٹھانے کی قابلیت اور شوق اپنے اندر رکھتا ہو.لیکن ایسا نہیں ہوتا.جو نصیحت لیڈر کرتے ہیں وہ اگر صحیح ہوتی ہے تو سننے والے اس پر عمل نہیں کرتے.اور اگر غلط ہوتی ہے.تو اس پر مخول اڑاتے ہیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک عظیم الشان تغیر دنیا میں آکر انہی لوگوں میں پیدا کر دیا ہے.اور آپ کی قوت قدسی نے ایک ایسے رنگ میں ان پر تاثیر کی ہے کہ ان کی حالت کو ہی بدل دیا ہے.اور وہی لوگ جو اس حد تک گر چکے تھے کہ کسی بات کا ان پر اثر نہیں ہو تا تھا.اب وہ پیاسوں کی طرح ہدایت کے چشمے کی طرف دوڑ رہے ہیں.اور ایک بچے کی طرح جو کسی خطرہ کے وقت اپنی ماں کی طرف دوڑتا ہے حق کی طرف دوڑتے ہیں.یہ عظیم الشان تغیر ہے جو حضرت مسیح موعود نے اگر دنیا میں پیدا کیا.اور اگر اور باتوں کو نہ بھی دیکھا جائے تو یہی آپ کی صداقت کا بہت بڑا ثبوت ہے.اگرچہ بہت سے منازل ابھی ایسے ہیں جو ہماری جماعت کے لئے طے کرنے باقی ہیں.اور بہت سے کٹھن مرحلے ابھی گزرنے ہیں.لیکن یہ ضرور ہے کہ ہماری جماعت کے اندر اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ ان منازل کو طے کرنے کے لئے پیش آمدہ تکالیف کو جھیل سکے.اور اس میں یہ روح ہے کہ وہ ان کٹھن مرحلوں کا مقابلہ کر سکے جن کا ملے کرنا باقی ہے.اور جو کام ان کو دیا جائے اس کو وہ کر سکیں.ان کے اندر ایسی روح کا پیدا ہو جانا ایک ایسا تغیر ہے کہ ایک ایسی مردہ قوم میں جو سالہا

Page 121

116 سال سے تباہ اور خستہ ہو رہی ہے.اتنا عظیم الشان تغیر پیدا کرنا سوائے خدا تعالیٰ کی نصرت کے کبھی ممکن نہیں ہو سکتا.پس ہمارے لئے خوش ہونے کا موقع ہے اور ہم جس قدر بھی خوشی منائیں کم ہے.لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں اس سے بھی بہت زیادہ اور بڑی قربانیوں کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہیے.کیونکہ اگر ایسی قربانیاں کرنے والی جماعت کو چلا کر اس منزل کی طرف نہ لے جایا جائے.جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے.تو سمجھ لو کہ ہم نے ایک ایسا قیمتی موتی کھو دیا کہ اگر سینکڑوں سالوں کے لوگوں کی جانیں بھی جمع کی جائیں تو اس کی قیمت نہیں ہو سکتیں.خدا تعالیٰ نے ایک مجدد کا زمانہ ہزار سالوں کے برابر بیان کیا ہے.اور جب ایک معمولی مجدد کی جماعت ہزار سالوں کی جانوں کے برابر قیمت رکھتی ہے تو نسیح موعود جیسا عظیم الشان مجدد کہ جس کے برابر تیرہ سو سال میں کوئی شخص نہیں ہوا اور جس کو خدا تعالیٰ نے نبی بنا کر بھیجا اور جس کے سپرد اتنا بڑا کام کیا کہ گزشتہ انبیاء میں سوائے رسول کریم ان کے اور کسی کے سپرد نہیں کیا گیا.اور اتنا بڑا کام سوائے آپ کے کسی نے نہیں کیا.تو ایسے زمانہ کی قدر کس قدر ہو گی.اور اس جماعت کے افراد کی جائیں اور ان کے ایمان کتنے قیمتی ہوں گے.اگر گزشتہ بارہ سو سالوں کی جانیں بھی جمع کی جائیں تو ان کی مجموعی تعداد اس جماعت کا مقابلہ نہیں کر سکتی.پس اگر ایسی جماعت کو اس کے مقصد اور مصرف سے پھرنے دیں اور اس کو اس کی اصل منزل مقصود کی طرف نہ لے جاویں تو یہ بہت بڑی کو تاہی ہوگی.میں اپنی جماعت کے ایسے لوگوں کو جنہیں خدا تعالیٰ نے فہم و عقل اور شعور سے حصہ دیا ہے.توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جماعت کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص طور پر توجہ کریں.بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے.کہ یہ خلیفہ کا کام ہے کہ جماعت کی اصلاح اور تربیت کرے.حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ ایک آدمی اکیلا کس طرح اتنے کام کر سکتا ہے.اگر لوگوں کے گھروں میں پھر پھر کر لوگوں کی تربیت اور اصلاح کرنا ہی خلیفہ کا کام ہے تو ایسی خلافت خلافت نہیں بلکہ ایک عذاب ہے.خلیفہ کا کام تو جماعت کو ہوشیار کرنا ہے.ورنہ وہ نہ تو ہر محلہ.ہر گاؤں اور ہر شہر میں جا سکتا ہے.اور نہ اس طرح جماعت کی اصلاح کر سکتا ہے.اور جب تک ہر محلہ ہر شہر اور ہر گاؤں میں ایسے لوگ پیدا نہیں ہو جاتے جو اپنے محلہ اپنے گاؤں اور اپنے شہر کے لوگوں کی تربیت کریں.تب تک نہ تو خلیفہ کامیاب ہو سکتا ہے اور نہ اس کی کوششیں کامیاب ہو سکتی ہے.پس میں ایسے تمام لوگوں کو جو تقویٰ اور طہارت اپنے اندر رکھتے ہیں اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے فرض کو سمجھیں اور

Page 122

117 رات دن ایک کر کے جماعت کو اس طرف لے جائیں جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا میں آئے تھے.دیکھو ہم چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں.اور کوئی کوشش نہیں جو دشمن ہمیں ہمارے راستہ سے ہٹانے کی خاطر نہ کرتے ہوں.ان کی پوری کوشش یہی ہے کہ ہمارے رستہ میں مشکلات پیدا کی جائیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بھی کفار کے متعلق فرماتا ہے کہ کفار پورا زور اور ساری طاقت اس بات کے لئے لگائیں گے کہ مسلمانوں کو ان کے رستہ سے ہٹا دیں.چنانچہ کوئی ایسا کام نہیں جو آج کل بھی کفار ہماری جماعت کو اس کے رستہ سے ہٹانے کے لئے نہ کرتے ہوں.اس لئے ہمیں ان کی کوششوں سے بے خوف نہیں رہنا چاہیے.اگر کوئی ہم میں سے یہ سمجھ کر کہ اب کوئی فکر نہیں بیٹھ رہے تو وہ اندھا ہے اس کے اندر کوئی بینائی نہیں ہے.اور اس نے ایسے قیمتی موتی کی ذرہ بھی قدر نہیں کبھی اور اس کی حفاظت کی کوئی پرواہ نہیں کی جسے دشمن حسد کی وجہ سے برباد کرنا چاہتا ہے.ابھی اس تحریک چندہ کے متعلق ہی دیکھ لو.کس طرح اس کو دیکھ کر ان لوگوں کے دلوں میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی ہے.حالانکہ چندہ دینے والا کوئی اور.لینے والا کوئی اور نہ ان سے کوئی چندہ مانگتا ہے اور نہ ان کی جیب سے کچھ نکلتا ہے.لیکن پھر بھی ہمارے چندوں کی کثرت کو دیکھ کر ان کے سینوں میں حسد کی آگ شعلے مارنے لگتی ہے.چنانچہ اب بعض غیر احمدی لکھ رہے ہیں کہ لوجی ان کا دیوالہ نکل گیا ہے.اور تحریکیں کر رہے ہیں.لیکن اب یہ چندہ دیتے دیتے تھک گئے ہیں.حالانکہ اگر یہ بات ہے تو انہیں خوش ہونا چاہیے تھا کہ احمدیوں پر چندہ خاص کا ایک اور بوجھ پڑا.لیکن ہم انہیں کہتے ہیں تمہارے دل اس بات سے جل رہے ہیں کہ کیوں یہ لوگ اتنی اتنی بڑی قربانیاں کر رہے ہیں.اور تمہارے یہ لکھنے کا یہ مطلب ہے کہ ہماری جماعت کے اخلاص اور قربانی کو دیکھ کر تمہارے دل جل گئے ہیں.لیکن یاد رکھو کہ تمہارے اس حسد سے جماعت کے اخلاص کو کوئی نقصان نہیں پہنچا.بلکہ اور بھی زیادہ ترقی ہوئی ہے.اور انہوں نے پہلے سے بھی زیادہ چندے میں حصہ لینا شروع کر دیا ہے.ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت معاویہ نے صبح کی نماز کے لئے وقت پر جاگ نہ سکے.اور سوتے رہے.جب اٹھے تو نماز کا وقت گزر چکا تھا.اس پر آپ اتنا روئے اتنا روئے کہ قریباً تمام دن روتے رہے.دوسرے دن عین نماز کے وقت کسی نے انہیں جگا دیا.آپ نے پوچھا تو کون ہے.تو اس نے جواب دیا میں ابلیس ہوں.انہوں نے کہا تم تو لوگوں کو نماز سے روکتے ہو مجھے جگانے کے لئے کس طرح آگئے.اس پر اس نے کہا کل تم نماز کا الله

Page 123

118 وقت گزر جانے کی وجہ سے اتنا روئے کہ خدا تعالیٰ نے کہا اس کو سو نمازوں کا ثواب دے دیا جائے.آج میں اس لئے وقت پر جگانے آگیا ہوں کہ اگر تم نہ جاگے تو کل کی طرح تمہیں پھر سو نمازوں کا ثواب نہ مل جائے.(۲) یہی حالت ہمارے دشمنوں کی ہے.ان کی گھبراہٹ ظاہر کرتی ہے کہ ہماری جماعت کے غیر معمولی اخلاص کو دیکھ کر ان کے دل میں حسد کی آگ زیادہ بھڑک اٹھی ہے.ظاہر تو وہ یہ کر رہے ہیں کہ بس اب ان کا دیوانہ نکل گیا.اب یہ چندہ دیتے دیتے تھک گئے ہیں.لیکن دراصل ان کے دل ہماری جماعت کی قربانیوں کو دیکھ کر سخت دکھ محسوس کر رہے ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کے اندر جن قربانیوں کا مادہ اور روح پائی جاتی ہے وہ میں نہیں سمجھتا یورپ کی اقوام میں بھی باوجود ان کے حاکم ہونے کے پائی جاتی ہو.یورپ ایک تہذیب یافتہ ملک ہے.اور وہاں کے لوگ بے شک بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں اور بہت روپیہ خرچ کرتے ہیں لیکن یورپ میں بھی یہ نظیر نہیں پائی جاتی کہ وہاں کے غرباء ہماری جماعت کے غرباء کی طرح قربانیاں کرتے ہوں.اور جس طرح ہماری جماعت کے لوگ بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں اس کی مثال جب یورپ جیسے متمدن ملک میں بھی نہیں پائی جاتی تو دوسری قومیں جو گری ہوئی اور مغلوب ہیں.ان میں تو ان کا نشان بھی پایا جانا مشکل ہے.باقی رہا چندوں سے گھبرانے کا حال.جس پر اخبار سیاست نے اعتراض کیا ہے.اس کی حقیقت اس سے معلوم ہو سکتی ہے کہ باوجود روپیہ کی اور روپیہ کی سخت ضرورت محسوس کرنے کے پھر بھی اس سال کا جو بجٹ بنایا گیا ہے.اس میں پچھلے سال کی نسبت باسٹھ ہزار روپیہ کی زیادتی کی گئی ہے.اور یہ زیادتی یہاں کی جماعت نے نہیں کی بلکہ تمام جماعت کے نمائندگان جو ہندوستان کے مختلف اطراف سے مجلس مشاورت میں شریک ہونے کے لئے جہاں جمع ہوئے تھے.انہوں نے متفقہ طور پر اس میں اور زیادتی کی ہے.کیا چندوں سے گھبرانے والے لوگ بھی اس طرح کرتے ہیں کہ روپیہ کی قلت کی وجہ سے نہ صرف پہلے بجٹ میں کمی نہیں کرتے بلکہ باسٹھ ہزار روپیہ اور دیتے ہیں کہ یہ بھی لے لیا جائے.کیونکہ پچھلے بجٹ میں کمی ہے.میں نے دیکھا ہے جب کبھی ہمارے دشمن کوئی اعتراض کرتے ہیں تو ہماری جماعت میں خدا کے فضل سے پہلے سے بھی زیادہ جوش اور اخلاص پیدا ہو جاتا ہے.چنانچہ جونہی اخبارات میں دشمنوں نے ایسے اعتراضات کرنے شروع کئے کہ یہ چندوں سے گھبرا گئے ہیں.اس وقت سے بہت سے دوستوں کی طرف سے خطوط آنے شروع ہو گئے کہ پہلے ہمارا ارادہ تھا کہ میعاد مقررہ کے اندر

Page 124

119 اندر تھوڑا تھوڑا کر کے سارا چندہ ادا کر دیں گے.لیکن اب دشمنوں کے اعتراضات سن کر خود تکلیف اٹھا کر بھی یکمشت بھیجتے ہیں.اور بہت سے دوستوں نے لکھا کہ ہم نے پہلے ایک ماہ کی آمدنی لکھوائی تھی.لیکن اب ان اعتراضات کو پڑھ کر ایک ماہ کی آمدنی اور دیتے ہیں.یہ کیسی خوش کن نظیریں ہیں.ایک دوست جو بہت غریب ہیں اور صرف ساڑھے سات روپے ماہوار آمدنی رکھتے ہیں.انہوں نے لکھا ہے کہ پہلے خیال تھا کہ مقررہ میعاد کے اندر اپنی ماہوار آمدنی چندہ میں ادا کر دوں گا.اب دشمنوں کے اعتراضات سن کر میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ خواہ کسی طرح گزارہ کرنا پڑے.اس چندہ کی رقم یکمشت ادا کر دوں گا.ایسی غرباء کی بہت سی مثالیں ہیں.اور امراء کے مقابلہ میں زیادہ ہیں.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ امراء میں ایسی مثالیں نہیں پائی جاتیں.ان میں بھی پائی جاتی ہیں.چنانچہ ایک دوست نے اپنی ایک ماہ کی آمدنی چندہ میں دے دی تھی لیکن انہوں نے لکھا کہ چونکہ دشمن اعتراض کر رہا ہے کہ ہم چندہ دیتے دیتے تھک گئے ہیں.لہذا میں ایک سو روپیہ علاوہ ایک ماہ کی آمدنی کے اور دیتا ہوں تاکہ ہمارے دشمنوں کو یہ پتہ لگ جائے کہ ہم چندہ دیتے تھکے نہیں.بلکہ اور زیادہ تیز ہو گئے ہیں.تو دشمنوں کے ان اعتراضات سے بھی ہمیں بہت فائدہ پہنچا ہے.بہت سے دوست جنہوں نے پہلے اپنی ایک ماہ کی آمد لکھائی تھی انہوں نے اب ایک ماہ کی آمد سے بھی زیادہ دینے کے لئے لکھا ہے.اور امید ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اور کچھ نہیں تو ان اعتراضوں کی وجہ سے دو تین ہزار روپیہ زیادہ وصول ہو جائے گا.اور چونکہ جماعت نے اس سال کے بجٹ میں زیادتی کی ہے یہ رقم اس کے پورا کرنے میں کام آئے گی.اور امید ہے اتنا روپیہ جمع ہو جائے گا.کہ علاوہ تحریک کی اصل رقم کے وہ بجٹ کی رقم کی زیادتی کو بھی پورا کر دے گا اور دشمن دیکھ لے گا کہ ہم چندہ دیتے دیتے تھکے نہیں بلکہ پہلے سے زیادہ تازہ دم ہو گئے ہیں.لیکن اس کے ساتھ ہی میں اپنے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بہت جلد اس رقم کو پورا کر دیں.میں نے جب یہ تحریک کی تھی اس وقت بھی کہا تھا کہ یہ ایک چھوٹی سے قربانی ہے.اور آئندہ اس سے بہت بڑی قربانیاں کرنی پڑیں گی.اب پھر میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ابھی ان کے لئے بہت بڑی بڑی قربانیاں کرنی باقی ہیں.اس لئے وہ تیار رہیں.اس تحریک کی میعاد ختم ہونے میں ایک مہینہ رہ گیا ہے.اس لئے دوست جلد سے جلد اس کام سے فارغ ہوں تا دوسرے کاموں کی طرف پورے طور پر توجہ کی جا سکے.ہمارا اصل کام تبلیغ اور تربیت ہے.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس پر زور دوں.چونکہ ابھی دوست اس تحریک کی طرف متوجہ اور مشغول ہیں اور اس وجہ سے دوسری طرف 8

Page 125

120 پوری توجہ نہیں دی جا سکتی.اس لئے میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بہت جلد اس کام سے فارغ ہو جائیں.تا میں جلد سے جلد تبلیغ و تربیت کے اہم کاموں کی طرف توجہ کر سکوں.میں امید کرتا ہوں کہ میری یہ تحریک انشاء اللہ بہت اثر کرے گی اور دشمن دیکھے گا کہ ہم تھکے نہیں بلکہ اور زیادہ قربانیوں کے لئے تیار ہو گئے ہیں.اور ہماری قربانیاں بطور ورزش کے ہیں جو ہمیں تھکاتی نہیں بلکہ اور زیادہ مضبوط کر دیتی ہیں.جس طرح پہلوان جتنی زیادہ ورزش کرتا ہے.وہ کمزور نہیں ہوتا بلکہ ورزش اسے اور زیادہ مضبوط بنا دیتی ہے.اسی طرح ہماری قربانیاں بھی ہمیں اور زیادہ طاقت ور بنا رہی ہیں.ہماری جماعت چند لاکھ کے قریب ہے.اور ہمارے دشمن ہمیں چند ہزار بتاتے ہیں.اس کے مقابلہ میں صرف ہندوستان میں مسلمان قریباً سات کروڑ ہیں.میں کہتا ہوں کہ وہ سات کروڑ خدمت دین کے لئے ایسے آدمی مہیا کریں جو ساری کی ساری جائدادیں اور اموال چندہ میں دے دیں.اور ہم بھی مہیا کرتے ہیں.پھر دیکھیں گے کہ ہم چند لاکھ لوگوں میں سے ایسے آدمی زیادہ نکلتے ہیں جو تمام کی تمام جائداد بغیر کسی ایک چیز کے بھی گھر میں چھوڑے چندہ میں دے دیتے ہیں یا ان سات کروڑ میں سے نکلتے ہیں.اگر ایسا کرنے پر ہماری جماعت میں سے کئی ہزار ایسے آدمی نکل آئیں جو بغیر کسی پس و پیش کے اپنی تمام جائدادیں چندہ میں دے دیں اور ان میں سے کوئی نہ نکلے.تو پھر سمجھ لو کہ مخالفین کے اعتراض بے ہودہ ہیں.اور خدا تعالیٰ کے مامورو مرسل نے ہم لوگوں کے اندر ایسا عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا ہے جو سوائے نبی کریم ا اور آپ کے صحابہ کے پہلے کہیں نہیں پایا جاتا.لیکن پھر بھی میں اپنی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ میں ابھی اس تغیر پر خوش نہیں ہوں.کیونکہ مردوں میں طاقتور ہونا کوئی خوشی کی بات نہیں.آج کل کے مسلمان مردے ہیں.طاقتوروں میں طاقتور ہونا ہی خوشی کا موجب ہو سکتا ہے.پس آپ لوگ اپنے آپ کو اس قابل بنائیں کہ طاقتوروں کے اندر بھی آپ طاقتور کہلائیں.اب میں خطبہ کے ختم ہونے سے پہلے پھر توجہ دلاتا ہوں کہ آپ اپنی ان باتوں میں بھی جن میں ابھی اصلاح نہیں ہوئی.اصلاح کرنے کی کوشش کریں.اور اپنے نفوس کی اصلاح کی طرف بھی توجہ کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نفوس کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے.(الفضل ۹ مئی ۱۹۲۵ء)

Page 126

121 17 دعوت الی اللہ ہر احمدی کا فرض ہے (فرموده ۸ مئی ۱۹۲۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں نے اس سال کے شروع میں اپنے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ ہم اس سال خصوصیت کے ساتھ اپنا پروگرام اور اپنا مقصد تبلیغ رکھیں.میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے دوستوں نے اس طرف توجہ کی ہے.لیکن ایسے بہت سے دوست ابھی باقی ہیں جنہوں نے اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھا اور اپنے فرائض کی طرف مناسب توجہ نہیں کی.میں نے متواتر اور بارہا بتایا ہے کہ دنیا کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا کام بھی ایسا نہیں ہے جو بغیر پریکٹس اور مشق کے ہو سکے.بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں جن کے متعلق انسان یہ سمجھ لیتا ہے کہ اگر چاہوں تو اس کام کو با آسانی کر سکتا ہوں.لیکن جب وہ اس کام کو شروع کرتا ہے تو اس کو پتہ لگ جاتا ہے کہ بغیر پریکٹس اور مشق وہ اس کام کو نہیں کر سکتا.اور جس کام کو وہ شروع کرنے سے پہلے ایک آسان کام خیال کرتا تھا وہ ایک نہایت مشکل کام ہوتا ہے.کیونکہ اس کو اس کام کے کرنے کی مشق نہیں ہوتی اور بہت دفعہ تو ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ وہ اس کام کے کرنے کی وجہ سے اپنے آپ کو نقصان پہنچا لیتا ہے.مجھے اپنا بچپن کا ایک واقعہ یاد ہے.ہمارا مکان بن رہا تھا ایک مستری صاحب جو وہاں کام کر رہے تھے اپنے ہتھیار وہیں چھوڑ کر کھانا کھانے کے لئے گئے.مجھے ان کو دیکھ کر کہ وہ کس طرح آسانی سے تیشہ چلاتے اور کیسی آسانی کے ساتھ لکڑی کاٹتے جاتے ہیں بہت شوق پیدا ہوا کہ میں بھی اسی طرح کروں.چنانچہ جب وہ کھانا کھانے کے لئے گئے تو میں نے نتیشہ پکڑ کر اس کو لکڑی پر زور سے مارنا چاہا لیکن جونہی کہ میں نے پہلا تیشہ مارا.وہ بجائے لکڑی پر پڑنے کے میرے ہاتھ پر لگا اور

Page 127

1 122 نصف انچ کے قریب گہرا زخم ہو گیا.جس کا نشان اب تک بھی میرے ہاتھ پر موجود ہے.اس کی وجہ یہی تھی کہ وہی کام جس کو میں بظاہر آسان سمجھتا تھا.پریکٹس اور مشق نہ ہونے کی وجہ سے مجھ سے نہ ہو سکا.بلکہ وہ میرے لئے نقصان کا موجب بن گیا.حالانکہ مستری روزانہ صبح سے شام تک اپنی روٹی کمانے کے لئے یہی کام کرتے رہتے ہیں.لیکن ان کے ہاتھ پر تیشہ نہیں لگتا.اور باوجود اس کے کہ میری توجہ اس کام کے کرنے میں زیادہ لگی ہوئی تھی.کیونکہ میں اس کو پیشہ کے طور پر نہیں کر رہا تھا.بلکہ کھیل اور لذت کے طور پر کرنے لگا تھا.اور کھیل اور ایسے کام میں جو لذت اور شوق کے طور پر کیا جائے انہماک بھی زیادہ ہوتا ہے.لیکن باوجود اس انہماک اور شوق کے پھر بھی میرا ہاتھ زخمی ہو گیا.لیکن وہ لوگ جو اس کام کو پیشہ کے طور پر کرتے ہیں اور ان کو اس کی پریکٹس اور مشق ہوتی ہے ان کا ہاتھ زخمی نہیں ہوتا.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ کس طرح نیشہ کو لکڑی پر مارا جاتا ہے.اور ان کو اس کام کے کرنے کی پوری مشق اور پریکٹس ہوتی ہے.اس لئے وہی کام جس کو وہ پیشہ کے طور پر اور روٹی کمانے کی خاطر کرتے ہیں اس سے ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا.اور اس کام کو جب میں نے شوق اور لذت کے طور پر کرنا چاہا تو میرا ہاتھ زخمی ہو گیا.یہ میرا تجربہ جو بچپن میں مجھے حاصل ہوا بڑوں کے کام بھی آسکتا ہے.کیونکہ کوئی ادنی سے ادنی کام بھی لے لو.اس کو ہم بغیر پریکٹس اور مشق کے نہیں کر سکتے.اور اگر کریں تو بجائے نفع کے نقصان پہنچ جانے کا زیادہ اندیشہ ہوتا ہے.مثلاً بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک قسم کی زمین ایک ہی ہل ایک ہی قسم کا بیج اور ایک ہی قسم کے بیل ہوتے ہیں لیکن پیداوار میں فرق پڑ جاتا ہے.ایک کھیت میں زیادہ پیداوار ہوتی ہے اور دوسرے میں کم.بلکہ اکثر دفعہ ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ ایک شخص کے پاس دوسرے کی نسبت اچھا پیج اچھی زمین اور اچھے بیل ہوتے ہیں.لیکن پھر بھی بعض دفعہ اس کی کھیتی دوسرے کی نسبت کم ہوتی ہے.اس کی یہ وجہ نہیں ہوتی کہ پہلے شخص کے ہل زمین ، پیج یا بیلوں کا کوئی نقص ہوتا ہے.بلکہ وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایک شخص مشاق ہوتا ہے اور وہ اپنی کھیتی کی زیادہ نگہداشت کرتا ہے.اس لئے وہ اسی زمین ، اسی بیج اور انہیں بیلوں سے زیادہ فائدہ حاصل کر لیتا ہے.اور اس کے مقابلہ میں دوسرا شخص جو کام کی مشق نہیں رکھتا وہ اپنے کھیت کی حفاظت نہیں کرتا.وہ زیادہ فائدہ نہیں حاصل کرتا.غرض زندگی کے ہر شعبے میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ جب تک کسی کام کے کرنے کی پریکٹس اور مشق نہ ہو.اس وقت تک اس کام کے کرنے کا نہ صرف کوئی فائدہ نہیں ہو تا.بلکہ الٹا نقصان

Page 128

123 پہنچ جاتا ہے.پس جو بات زندگی کے تمام شعبوں میں پائی جاتی ہے وہی تبلیغ میں بھی پائی جاتی ہے.کیونکہ اگر ہم تبلیغ کی پریکٹس اور مشق نہ رکھتے ہوں اور ہمارا یہ خیال ہو کہ ہم بغیر پریکٹس اور بغیر مشق کے جس طرح چاہیں تبلیغ کر لیں گے تو کبھی تبلیغ نتیجہ خیز نہ ہوگی.باوجود اس کے کہ دنیا کے اندر آج کئی کروڑ مسلمان آباد ہیں.لیکن پھر بھی ان میں سے بہت تھوڑے ایسے ملیں گے جو تبلیغ کو اپنا فرض خیال کرتے ہوں.یا تبلیغ کرنے کی ضرورت سمجھتے ہوں.وہ بڑے مزے کی نیند سو رہے ہیں.اور خیال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی.بلکہ وہ عیسائی پادریوں کے اس قسم کے غلط اور بے بنیاد اعلانات کے باعث کہ اسلام دنیا کے مختلف حصوں میں ترقی کر رہا ہے بہت خوش ہوتے اور پہلے سے بھی زیادہ سست ہوتے جا رہے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ عیسائی ان کو غفلت میں ڈالنا چاہتے ہیں اور اسی لئے وہ اس قسم کے اعلانات وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں.غالبا 19ء کی بات ہے کہ عیسائی پادریوں کی طرف سے ایک رپورٹ بڑے زور شور کے ساتھ شائع ہوئی تھی کہ یوگنڈا کے علاقہ مشرقی افریقہ میں اسلام بہت زور کے ساتھ پھیل رہا ہے اور عیسائیت کو نقصان پہنچ رہا ہے.اس بناء پر عیسائیوں سے کہا گیا تھا کہ چندہ دیں اور نوجوان اپنے آپ کو وہاں تبلیغ کے لئے جانے کے واسطے پیش کریں.اور گورنمنٹ سے بھی درخواست کی گئی تھی کہ وہ ان کی مدد کرے.تمام مسلمان تو اس رپورٹ کی بناء پر بڑے خوش ہو رہے تھے لیکن میں نے جب اس رپورٹ کو پڑھا تو فوراً سمجھ گیا کہ یہ دھوکا اور قریب ہے اور عیسائی پادریوں نے ایسی رپورٹ اس لئے شائع کی ہے تا مسلمان غافل ہو جائیں.اور اس طرح ان کو عیسائیت پھیلانے کا زیادہ موقع ملے.اور گورنمنٹ کو مدد دینے کے لئے جو کہا گیا تھا اس کے متعلق بھی میں نے سمجھا کہ یہ بھی چالا کی ہے.تاکہ ایک طرف تو مسلمان یہ خیال کر کے خوش ہو جائیں کہ عیسائیوں کی ایسی نازک حالت ہو گئی ہے کہ انہیں گورنمنٹ سے امداد کی درخواست کرنی پڑی اور دوسری طرف گورنمنٹ کو بھی امداد دینے کا ایک بہانہ مل جائے.اس وقت جب مسلمان پادریوں کی اس رپورٹ کی بناء پر خوش ہو رہے تھے میں نے اپنے دوستوں کو جو یوگنڈا اور مشرقی افریقہ میں رہتے تھے خط لکھا کہ وہ وہاں کے پورے اور صحیح حالات سے اطلاع دیں.تا معلوم ہو سکے کہ یہ رپورٹ کہاں تک درست اور صداقت پر مبنی ہے.اس پر انہوں نے لکھا کہ یوگنڈا کے قریباً تمام کے تمام امیر اور رؤساء عیسائی ہو چکے ہیں.اور جو عیسائی نہیں ہوئے

Page 129

124 انہیں معزول کر کے ان کے ایسے رشتہ داروں کو ان کی جگہ رکھا جا رہا ہے جو عیسائی ہو چکے ہیں.اصل حقیقت یہ تھی لیکن عیسائی مشنری یہ کہہ رہے تھے کہ وہاں اسلام بڑی سرعت کے ساتھ پھیل رہا ہے.یہی حال ایسٹ افریقہ کا بھی تھا.وہاں بھی لوگ کثرت کے ساتھ عیسائی ہو رہے تھے اور گورنمنٹ بھی اس کام میں عیسائیوں کا ساتھ دیتی اور عیسائی نہ ہونے والوں کو تکالیف دی جاتی تھیں.یہ نہیں کہ گورنمنٹ بحیثیت گورنمنٹ ان پر کوئی سختی کرتی تھی بلکہ گورنمنٹ کے وہ افسر جو پکے عیسائی تھے وہ عیسائیت کو فائدہ پہنچانے کی کوشش میں اپنے ماتحتوں پر سختی کرتے اور عیسائی مبلغوں کو ہر قسم کی سہولتیں بہم پہنچاتے تھے.اور ایسا عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ جس علاقہ کے اعلیٰ افسران جس مذہب سے تعلق رکھتے ہوں وہ ضرور اپنے ہم مذہبوں کو فائدہ پہنچانے اور ان کے رستہ سے تمام قسم کی تکالیف دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اور ان کے ماتحت بھی انہیں خوش کرنے کے لئے اپنے عقائد تک سے انکار کر بیٹھتے ہیں.ہندوستان کو ہی دیکھ لو یہاں کے لوگ افریقہ کے لوگوں کی نسبت بہت زیادہ تعلیم یافتہ اور مہذب ہیں.لیکن یہاں پر بھی ایسے واقعات پائے جاتے ہیں.جب اس ملک میں جہاں کے لوگ ایک حد تک تعلیم یافتہ بھی ہیں یہ حال ہے تو ایک غیر مہذب اور تعلیم سے بے بہرہ ملک کا کیا حال ہو گا.جہاں کے لوگ سخت وحشی اور جاہل ہیں.یہاں تک کہ وہ کپڑے بھی نہیں پہنتے.افریقہ کے دیہاتی لوگ ابھی تک کپڑے نہیں پہنتے.جب وہ شہر میں کسی کام کے واسطے جاتے ہیں تو مجبور اتہ بند باندھ لیتے ہیں.کیونکہ انہیں سزا کا خوف ہوتا ہے.لیکن شہر سے باہر نکل کر تہ بند اتار کر کندھے پر ڈال لیتے ہیں.کیونکہ وہ کہتے ہیں ہمیں کپڑا باندھ کر اپنے گاؤں میں جاتے ہوئے شرم آتی ہے.ایسے لوگ حکام کے اثر سے جس قدر موثر ہو سکتے ہیں وہ ظاہر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک گورداسپور کے ہی اعلیٰ افسر کا ذکر فرمایا کرتے تھے.وہ ای اے سی تھا اور وہابی عقیدہ کا تھا.ان ایام میں وہابیوں کے متعلق گورنمنٹ کو کچھ شبہات تھے.ان ڈپٹی صاحب کے متعلق کسی نے ڈپٹی کمشنر سے جا کر رپورٹ کر دی کہ فلاں شخص وہابی ہے.اس پر ڈپٹی کمشنر نے ان کو بلا کر پوچھا مجھے رپورٹ پہنچی ہے کہ آپ وہابی ہیں.میں تو آپ کے متعلق ایسا خیال نہیں کرتا.اس پر انہوں نے کہا کہ یہ بالکل جھوٹ ہے میں ہرگز وہابی نہیں ہوں.میرے متعلق آپ کے پاس کسی نے غلط رپورٹ کی ہے.اس وقت کے وہابیوں اور دوسرے لوگوں میں بڑا امتیاز یہ تھا کہ وہابی کنچنبیوں وغیرہ کے نچوانے کو جائز نہ سمجھتے تھے.ان ڈپٹی صاحب نے ڈپٹی کمشنر کے

Page 130

125 پاس سے واپس آکر بڑی دعوت کی اور کہنچنیاں نچوائیں تا ڈپٹی کمشنر اور لوگوں کو یقین ہو جائے کہ وہ وہابی نہیں ہیں.پس جب تعلیم یافتہ لوگ اپنے افسروں کو خوش کرنے کے لئے اپنے عقائد تک کو چھوڑ بیٹھتے ہیں تو جو لوگ غیر تعلیم یافتہ ہوں ان پر اپنے افسروں اور حکاموں کا اور بھی زیادہ اثر اور رعب ہو گا.لیکن مسلمان ان جھوٹی رپورٹوں پر جو عیسائی مشنریوں کی طرف سے اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں خوشیاں مناتے ہیں کہ اسلام خود بخود افریقہ اور دوسرے ممالک میں ترقی کر رہا ہے.حالا نکہ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ہندوستان میں تو اسلام پھیلتا نہیں پھر افریقہ کے وحشیوں میں خود بخود کس طرح پھیل رہا ہو گا.یہاں ہندوستان میں سات کروڑ مسلمان ہیں جن میں سے اکثر تعلیم یافتہ بھی ہیں.اور پھر ان میں بہت سے مولوی بھی ہیں جو تبلیغ اسلام کے مدعی ہیں.لیکن یہاں پر کس قدر اسلام پھیل رہا ہے.پھر افریقہ کے وحشیوں میں جہاں مسلمانوں کی تعداد اتنی نہیں ہے.لوگ سخت جاہل ہیں.وہاں پر کس طرح خود بخود پھیل رہا ہے.آج مسلمان کروڑوں کی تعداد میں ہوتے ہوئے کیوں گر رہے ہیں اور ان پر کیوں تنزل آرہا ہے.اس کی یہی وجہ ہے کہ وہ عیسائیوں کی رپورٹوں پر خوش ہوتے رہتے ہیں اور اسلام کی اشاعت کی طرف قطعا کوئی توجہ نہیں کرتے اور طریقہ تبلیغ سے بالکل ناواقف ہیں.لیکن اس کے مقابلہ میں کیا وجہ تھی کہ رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام کے زمانہ میں جب کہ مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی اسلام بہت ترقی کر رہا تھا.سو اسکا یہی باعث تھا کہ صحابہ کرام جانتے تھے کہ کس طرح تبلیغ کی جاتی ہے اور وہ محض علماء پر انحصار نہیں رکھے ہوئے تھے.بلکہ ان میں سے ہر ایک شخص مبلغ تھا اور اسلام کی اشاعت کو وہ اپنا فرض منصبی خیال کرتے تھے.جو قوم اپنے مذہب کی تبلیغ کا انحصار علماء پر رکھتی ہے وہ کبھی کامیاب اور بامراد نہیں ہو سکتی.جب تک کسی قوم کا ہر فرد مبلغ نہیں اور پھر جب تک ہر فرد طریقہ تبلیغ کو نہیں جانتا تب تک وہ قوم کسی کامیابی کی امید نہیں رکھ سکتی.پس میں جہاں اپنے دوستوں کو تبلیغ کی طرف توجہ دلاتا ہوں.وہاں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی تبلیغ کا انحصار محض علماء پر نہ رکھیں.بلکہ ان کا ہر فرد مبلغ ہو.اور جہاں میں یہ کہتا ہوں کہ ہمارا ہر فرد مبلغ ہونا چاہیے وہاں یہ بھی بتاتا ہوں کہ تبلیغ کوئی آسان کام نہیں ہے.بلکہ یہ ایک سخت مشکل کام ہے.ایک محل تیار کر لینا آسان ہے لیکن ایک شخص کا دل پھیر دینا آسان نہیں.کیونکہ بغیر مناسب تدابیر اور دلائل کے کسی شخص کا دل پھیرا نہیں جا سکتا.پس میں اس بات کی

Page 131

+ 126 طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہماری جماعت کو طریق تبلیغ سے پوری پوری واقفیت حاصل کرنی چاہیے ورنہ ہماری تبلیغ کوئی فائدہ نہیں دے سکتی بلکہ الٹا نقصان کا اندیشہ ہو گا.یہ مت خیال کرو کہ دلیل کا نام طریق تبلیغ ہے.یعنی جو شخص زیادہ دلا ئل جانتا ہے وہی زیادہ کامیاب مبلغ ہے.اور اس کی تبلیغ، تبلیغ کہلانے کی مستحق ہے.کیونکہ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص جسے بیسیوں دلائل آتے ہیں وہ کسی ایک شخص کو بھی اپنے ان دلائل کے ذریعہ احمدیت میں داخل نہیں کر سکتا.لیکن اس کے مقابلہ میں ایک اور شخص جس کو صرف ایک دلیل آتی ہے اور وہ اس کا استعمال جانتا ہے اور وہ اسی ایک دلیل کے ذریعہ کئی اشخاص کے دلوں کو احمدیت کی طرف مائل کر دیتا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ شخص جس کے پاس بہت سی دلیلیں ہیں وہ ان کے استعمال کا صحیح طریقہ اور موقع محل نہیں جانتا.لیکن وہ شخص جس کے پاس صرف ایک دلیل ہے وہ اس کے صحیح طریقہ استعمال کے جاننے کی وجہ سے اس سے زیادہ فائدہ اٹھا لیتا ہے اور کئی لوگوں کو صرف ایک دلیل سے ہی صداقت کا قائل کر سکتا ہے.انسانوں کے خیالات جس طرح الگ الگ ہوتے ہیں.ان کی طبیعتیں بھی مختلف ہوتی ہیں.ایک دلیل ایک شخص پر اثر کرتی ہے.لیکن وہی دلیل دوسرے پر بالکل اثر نہیں کرتی.جس طرح کہ کوئی نسخہ ہر مرض میں مفید نہیں ہوتا.ہر شخص کی طبیعت اور بیماری کے مطابق ڈاکٹر کو نسخہ لکھنا پڑتا ہے.اسی طرح سینکڑوں لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایک دلیل سے مانتے ہیں اور ہزاروں ایسے ہوتے ہیں کہ جب تک ان کو کوئی دوسری دلیل نہ دی جائے وہ نہیں مانتے.اور پھر ایک ہی دلیل کو کئی پیرایوں میں پیش کرنا ضروری ہوتا ہے.کیونکہ ایک شخص کو وہ دلیل ایک پیرائے میں اثر کرتی ہے.تو دوسرے کو دوسرے پیرائے میں اور اگر دونوں کے سامنے ایک ہی پیرائے میں دلیل پیش کی جائے تو ایک پر اثر کرے گی لیکن دوسرے پر نہیں کرے گی.کئی لوگ ایسے ہوں گے کہ وفات مسیح کے مسئلہ کو وہ کچھ بھی اہمیت نہ دیں گے اور اس کے متعلق ان کے دل میں کوئی شبہ ہی نہ ہو گا.ان کے لئے یہی ضروری ہو گا کہ ان کو یہ بتائیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کی وہ خدمات کی ہیں جن کے بغیر اسلام کا زندہ رہنا نا ممکن تھا.ایسے لوگوں کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ خدمات جو آپ نے اسلام کی خاطر کیں.ان کا پیش کرنا ان کے لئے بہت بڑی مئوثر دلیل ہو گا.پھر بعض ایسے ہوں گے جو آپ کے نشانات کو دیکھ کر صداقت قبول کریں گے.پس مبلغ کو چاہیے کہ پہلے انسان کے حالات سے اندازہ

Page 132

127 لگائے کہ کس طرح اور کونسی دلیل اس پر اثر کر سکتی ہے اور پھر اس کو ایسے طریقہ سے سمجھائے اور اس طرح اس کے سامنے دلیلیں پیش کرے جس سے اس کی تسلی ہو جائے.پھر کئی ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ نشانات کا بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا.وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود نے آکر دنیا کے اندر عقلی اور علمی طور پر کونسا تغیر پیدا کیا اور ہم اس سے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں.وہ کسی اور دلیل کے محتاج نہیں ہوتے ان کے لئے صرف یہی ایک دلیل کافی ہوتی ہے جیسا کہ کسی نے کہا ہے.ابن مریم ہوا کرے کوئی میرے دکھ کی دوا کرے کوئی پھر کئی ایسے ہوتے ہیں جو یہ دیکھتے ہیں کہ اس شخص نے آکر کونسا ایسا طریقہ بتایا ہے جس سے معاشرتی اور تمدنی ترقی ہو سکتی ہے.ایسے لوگوں کو وفات مسیح کے متعلق خواہ لاکھ دلیلیں دیں پھر بھی ان پر کوئی اثر نہ ہو گا.ہاں اگر ان کو یہ بتا دیں کہ اس شخص نے ہمیں ایسے طریقے بتائے ہیں کہ اگر ہم ان پر چلیں تو بہت جلد دنیا کی علمی اور تمدنی ترقی ہو سکتی ہے تو ان پر اس دلیل کا ہی بہت اثر ہو گا.پھر بعض ایسے ہوں گے جو یہ پوچھیں گے کہ آیا اس شخص کے متعلق جس نے دعوی کیا ہے.پہلی کتابوں میں بھی کوئی ذکر آیا ہے.ان کو خواہ کتنے نشان دکھائیں اور کتنے ایسے کام بتائیں.جو آپ نے اسلام کی خدمت کے لئے کئے ہوں یا کتنا سمجھائیں کہ آپ نے دنیا کے اندر اگر اس تمدنی اور علمی ترقی کے لئے یہ یہ کوششیں کی ہیں.لیکن پھر بھی وہ شبہ میں ہی رہیں گے.اور جب تک ان کو یہ نہ بتایا جائے گا کہ پچھلی کتابوں میں بھی آپ کے متعلق کئی جگہ ذکر آیا ہے تب تک ان پر کوئی اثر نہ ہو گا.پھر بعض ایسے لوگ بھی ہوں گے.جو یہ کہیں گے کہ دنیا کی بہبودی اور اصلاح کی خاطر اس شخص نے ذاتی قربانی کیا کی ہے.کیا اس شخص کے دل میں واقعی دنیا کی اصلاح کی تڑپ اور درد تھا.جب تک انہیں یہ نہ بتائیں کہ اس نے یہ یہ تکالیف دنیا کی اصلاح کی خاطر اور اسے راستی کی طرف لانے کے لئے اٹھائیں تب تک ان پر کسی قسم کا اثر نہیں ہو تا.غرضیکہ دلائل کے سینکڑوں طریقے ہیں.کوئی شخص ایک طریقہ سے مانتا ہے اور کوئی دوسرے طریقہ ہے.کوئی یہ کہتا ہے کہ اگر یہ شخص سچا ہے تو کیوں مولویوں نے اسے نہیں مانا.کوئی یہ کہتا ہے کہ اسے صوفیوں نے نہیں مانا تو ہم کیوں مان لیں.غرض مختلف طریقوں سے کام لینا چاہیے اور ہر ایک کے مرض کو پہلے اچھی طرح

Page 133

128 سے دیکھ کر اس کے علاج کی طرف توجہ کرنی چاہیے.پھر دلائل دینے کے بھی کئی طریقے ہوتے ہیں.کیونکہ کوئی تو نرم دلائل سے مانتا ہے اور کوئی گرم دلائل سے.کسی کو سمجھانے کے لئے عقلی دلائل کی ضرورت ہوتی ہے اور کسی کو نقلی دلائل کی.کسی کے ساتھ حسن سلوک کریں تو مان جاتا ہے.لیکن کئی ایسے ہوتے ہیں کہ اگر ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے تو ان پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا.پھر کئی ایسے ہوتے ہیں جو ہمارے اخلاق کو دیکھ کر ہدایت پاتے ہیں.غرض جب تک ہم تمام پہلوؤں کو مکمل نہ کریں.اور جب تک ہر ایک شخص کے مرض کا صحیح مطالعہ کر کے اس کے مرض کا صحیح علاج نہ کریں.تب تک ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.ہمارے کئی دوست ایسے ہیں کہ وہ ایسے لوگوں کے ساتھ جن کو وفات مسیح کے مسئلہ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا.وفات عیسی کی دلیلیں دینا شروع کر دیتے ہیں.حالانکہ ان دلائل کا ان پر قطعاً کوئی اثر نہیں ہوتا.میں دیکھتا ہوں کہ بعض مبلغ بھی اس بات کے سمجھنے اور موقع محل دیکھ کر اس کے مطابق تبلیغ کرنے میں ماہر نہیں ہیں.بعض مبلغ ایسے ہیں کہ ان کے لیکچر بہت کامیاب سمجھے جاتے ہیں اور لوگ ان کے لیکچروں کی بڑی تعریف کرتے ہیں.لیکن ان کے ذریعہ بہت تھوڑے احمدی ہوتے ہیں.ان کے مقابلہ میں بعض ایسے مبلغ ہیں جو بظاہر معمولی درجہ کے اور علم میں بھی زیادہ نہیں ہوتے.لیکن ان کے ذریعہ سینکڑوں لوگ احمدی ہو جاتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے اس کام کو سیکھ لیا ہے اور وہ لوگوں کی طبیعتوں کو دیکھ کر ان کے مطابق دلائل دیتے اور ان کو سمجھاتے ہیں.لیکن دوسرے صرف لیکچر دینا جانتے ہیں وہ یہ نہیں دیکھتے کہ جو دلائل ہم دیتے ہیں وہ لوگوں کی طبائع کے مطابق ہیں یا نہیں.پس جب تک دوسروں کی اخلاقی تمدنی اور علمی حالت کا صحیح مطالعہ کر کے اس کے مطابق ان کی اصلاح کی طرف توجہ نہ کریں گے تب تک کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.اگر ہر شخص کے روحانی مرض کی صحیح تشخیص کر کے اس کے مطابق اس کی دوا اور اس کا علاج کیا جائے اور سوچ سمجھے کر اس کی طبیعت کے موافق دلائل دیے جائیں.تو پھر دیکھو کس طرح جماعت کو ترقی ہوتی ہے.یہاں تک کہ ہمارے دشمنوں کو بھی اقرار کرنا پڑے کہ واقعی بڑی معجز نما ترقی ہے.ہماری ترقیات کا ایک ایک دن جو پیچھے جا رہا ہے اور جتنی دیر ہم اپنی کامیابی کو پیچھے ڈال رہے ہیں.وہ ہمارے لئے سخت افسوسناک ہے.

Page 134

129 پس صحیح طریقے پر تبلیغ کرنے کے ذرائع اور اس کے متعلق علم حاصل کرنے کی کوشش کرو تا جلد سے جلد ہم بھی اس کامیابی کو دیکھیں جس کا وعدہ خدا تعالٰی نے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ سے دیا ہے.اور تا ایسا نہ ہو کہ ہم ان کامیابیوں کے دیکھنے سے محروم رہیں.پیچھے آنے والے اگر ان کامیابیوں کو دیکھیں گے تو ہمیں اس سے کیا فائدہ.پس کوشش کرو کہ ان کامیابیوں کو ہم اپنی زندگی میں حاصل کر سکیں.خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے فرائض کے سمجھنے اور تبلیغ کے اصل ذرائع کو سیکھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی اس صداقت کو پھیلانے کی توفیق عطا کرے اس نے دنیا کے لئے بھیجی ہے.(الفضل ۱۶ مئی ۱۹۲۵ء)

Page 135

130 18 تلقین صبر و استقامت (فرموده ۱۵ مئی ۱۹۳۵ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : آج میں اپنے دوستوں کو اس فرض کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں جو انبیاء کی جماعتوں کے اہم ترین اور اولین فرائض میں سے ہے.جس کے بغیر کوئی جماعت ترقی نہیں کر سکتی اور نہ دنیا کو اپنے پیچھے چلنے پر مجبور کر سکتی ہے.اور جس فرض کی طرف سے مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت کے افراد یا جماعتیں ان دنوں غافل ہیں.حالانکہ وہ فرض ایسا ہے کہ ہر نبی کے زمانہ کے لوگوں نے اس کو پورا کیا ہے اور کوئی جماعت ایسی نہیں گزری جو کامیابی کا منہ بغیر اس فرض کی ادائیگی کے دیکھ سکی ہو.یہ فرض کیا ہے یہ فرض ہے صبر جو عند المقدرت ہو اور عدم مقدرت بھی.گو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ صبر وہی ہے جو عند المقدرت ہو.لیکن جب صبر کی حقیقت پر غور کریں تو پتہ لگتا ہے کہ صبر کی بعض قسمیں ایسی بھی ہیں.جن کی خوبی اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب کہ عدم مقدرت ہو.صبر کا لفظ قرآن کریم میں بہت لطیف اور وسیع معنوں میں آیا ہے اور وہ بہت وسیع مطالب پر حاوی ہے.لیکن بہت سے لوگ اس کے حقیقی معنوں سے بالکل ناواقف اور بے بہرہ ہیں.بہت لوگ ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں صبر یہ ہے کہ جب کوئی دکھ یا مصیبت پڑ جائے تو روئیں دہوئیں نہیں.حالانکہ صبر کے یہ معنی نہیں ہیں.صبر کے معنی ہر گز یہ نہیں ہیں کہ جب انسان پر کوئی دکھ یا مصیبت یا اور تکلیف آئے یا اس کا کوئی رشتہ دار فوت ہو جائے تو وہ آنسو نہ بہائے اور روئے نہیں.بلکہ صبر کے یہ معنی ہیں کہ انسان ان تکالیف اور دکھوں پر جزع فزع نہ کرے.مایوس نہ ہو جائے.کام چھوڑ نہ بیٹھے اور اپنا قدم پیچھے نہ ہٹائے.

Page 136

131 درنه رنج و غم اور افسوس طبعی امور ہیں اور ان کو کوئی مذہب روک نہیں سکتا.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ کسی کو جو چیز دی جاتی ہے اسے استعمال کرنے کا بھی وہ حق دار ہوتا ہے.ورنہ دینے کا کیا مطلب مثلاً ہم اگر کسی شخص کو ایک ہاتھ سے کھانا دیں اور دوسرے ہاتھ سے چھین لیں تو یہ دینا نہیں ہوگا.اور وہ ضرور کہے گا یہ کیسا شخص ہے.ابھی تو مجھے کھانا دے رہا تھا اور ابھی مجھ سے چھین لیا ہے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے جو طاقتیں انسان کے اندر رکھی ہیں وہ اس لئے ہیں کہ انسان ان سے کام لے ورنہ انہیں کیوں رکھا گیا.اگر خدا تعالیٰ نے طبعی طور پر ہمارے اندر یہ بات رکھ دی ہے کہ ہم خوش ہوں تو وہ مذہب کبھی سچا نہیں ہو سکتا جو یہ کہے کہ ایسا مت کرو اور اگر غم کا مادہ بھی طبعی طور پر ہمارے اندر خدا کی طرف سے رکھ دیا گیا ہو تو کوئی مذہب جو سچا ہونے کا دعویدار ہے.ہر گز یہ نہیں کہہ سکتا کہ غم مت کرو.مذہب کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ ان طبعی جذبات کو جو خدا تعالیٰ نے ہمارے اندر رکھے ہیں.ان کے اظہار سے ہمیں روکے.مذہب کا کام صرف یہ ہے کہ وہ ان جذبات کی حد بندی کرتا ہے کہ کس حد تک ہم ان جذبات کو استعمال کریں.مذہب یہ بتائے گا کہ کس حد تک ہم خوش ہوں اور کس حد تک غم کریں.کسی حد تک غم کرنا اچھا ہو گا اور کس حد تک نقصان دہ.لیکن یہ نہیں کہ مذہب خوش ہونے سے ہی منع کر دے.یا غمگین ہونے سے روک دے.پس صبر کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ انسان کسی افسوس کے موقع پر غم نہ کرے اور آنسو نہ بہائے.کیونکہ آنسو بہانا طبعی امر ہے.خدا تعالیٰ نے خاص عضو اور ایسے غدود انسان کے جسم کے اندر رکھے ہیں جو آنسو بہانے میں مدد دیتے ہیں.اگر آنسو بہانا شریعت کے خلاف ہوتا تو کہہ سکتے تھے کہ یہ عضو خدا تعالیٰ نے شریعت کے خلاف بنائے ہیں.لیکن ایسا نہیں ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے انسان کے جسم کے اندر کوئی ایسا عضو یا ایسے غدود نہیں رکھے جو خلاف شریعت کاموں کے کرنے میں محمد ہوں.مثلاً پیٹتا ہے.یہ اس لئے منع ہے کہ خدا نے کوئی غدود انسان کے جسم کے اندر ایسی نہیں رکھی جس کو اس لئے بنایا گیا ہو کہ پیٹا جائے.لیکن اس کے مقابلہ میں انسان کے جسم کے اندر ایسی باریک در بار یک غدودیں کثرت سے پائی جاتی ہیں جن میں سے رطوبت نکلتی رہتی ہے اور جس کی وجہ سے آنسو بنتے ہیں.پس رونا ایک طبعی امر ہے.یہ ان غدودوں کے موافق ہے جو محض آنسو بہانے کے لئے خدا تعالیٰ نے انسان کے جسم کے اندر رکھ دی ہیں.اس لئے یہ منع نہیں ہو سکتا.اگر کہا جائے کہ ہاتھ ہلانا بھی طبعی امر ہے اور ہاتھ ہلانے سے ہی پیٹا جاتا ہے.اس لئے پیٹنا بھی جائز

Page 137

132 ہوا.تو یہ صحیح نہیں.کیونکہ ہاتھ ہلانا بے شک طبعی امر ہے.لیکن اس لئے کہ انسان کام ہاتھوں سے کرتا ہے.نہ اس لئے کہ ان سے پیٹا جائے.پس آنسو بہانا ایک طبعی امر ہے.اور صبر کا یہ مفہوم بالکل غلط ہے کہ انسان کسی مصیبت اور دکھ کے وقت آنسو نہ بہائے.پھر بعض کے نزدیک صبر کے یہ معنی ہیں کہ کوئی شخص اگر کسی پر ظلم کرے تو وہ شخص جس پر ظلم ہو رہا ہے وہ چپ کر کے بیٹھا رہے.یا وہ شخص جس کے حقوق چھینے جا رہے ہوں وہ کوئی ایسی تدبیر نہ کرے کہ جس سے اس کا حق اس کو مل جائے.حالانکہ صبر کے یہ بھی معنی نہیں ہیں کہ انسان اپنے حقوق کو چھوڑ دے.کیونکہ حقوق کی نگہداشت بھی شریعت کی رو سے نہایت ضروری ہے.اور جو شریعت یہ کہتی ہے کہ اپنے حقوق کی نگہداشت نہ کرو وہ کسی بچے مذہب کی طرف قطعا منسوب نہیں کی جا سکتی.مبر کے مفہوم کئی ہیں.جن میں سے بعض ایسے ہیں جن کو ہمارے ملک کے لوگ بالکل جانتے تک نہیں.کیونکہ ان کے لئے جو الفاظ ہیں وہ ان معنوں میں یہاں استعمال ہوتے ہیں جو اصل مفہوم کے خلاف ہیں.اصل بات یہ ہے کہ صبر عربی زبان میں کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے اس کی بہت بڑی حکمت بیان فرمائی ہے.چنانچہ صبر کے ایک معنی یہ ہیں کہ انسان متواتر اور استقلال کے ساتھ ان بدیوں کا مقابلہ کرے جو اس کو اپنی طرف کھینچ رہی ہوں.اور ان بدیوں کے مقابلہ کے لئے تیار رہے جو اس کو آئندہ پیش آنے والی ہیں.دوسرے معنی یہ ہیں کہ استقلال کے ساتھ ان نیکیوں پر قائم رہے جو اس کو حاصل ہو چکی ہوں اور ان نیکیوں کے حصول کی کوشش کرے جو اس کو ابھی ملی نہیں.غرض ایک مقصد پر استقلال کے ساتھ قائم رہنے کا نام صبر ہے.ہماری زبان کے مفہوم کے لحاظ سے استقلال ان معنوں میں استعمال نہیں ہوتا جن معنوں میں عربی زبان کے مفہوم کے لحاظ سے صبر کا لفظ استعمال ہوتا ہے.کیونکہ عربی زبان میں صبر کا لفظ استقلال حریت اور اپنی ذات میں کامل ہونے اور عدم احتیاج کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے.لیکن ہماری زبان کے مفہوم میں استقلال ان معنوں میں استعمال نہیں ہوتا اور جو معنی ہم استقلال کے لیتے ہیں اسے عربی زبان میں صبر کہتے ہیں.پس عربی زبان میں استقلال کے ساتھ بدیوں کا مقابلہ کرنے استقلال کے ساتھ نیکیوں پر قائم رہنے اور استقلال کے ساتھ آئندہ نیکیوں کے حصول کی کوشش کرنے کا نام صبر ہے.

Page 138

133 دوسرے معنی صبر کے یہ ہیں کہ انسان جزع فزع نہ کرے.جب کوئی مصیبت اس پر آپڑے تو گھبرائے نہیں اور ہمت نہ ہارے.اگر اس کا کوئی عزیز مرتا ہے.یا اس کا مال کھویا جاتا ہے.یا اور اسی قسم کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو وہ اس امر کو مد نظر رکھے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ اس کا نہیں بلکہ بطور انعام خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو ملا ہوا ہے.یہ ایسا صبر ہے جو دوسروں کے مقابلہ میں کام کرنے میں کام آتا ہے.تاکہ اگر دوسرے لوگ اس کو کسی قسم کا دکھ یا تکلیف دیں تو یہ گھبرائے نہیں.پھر اس کی بھی آگے دو قسمیں ہیں.ایک ان معاملات میں صبر کرنا.جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور بندوں کا ان میں کوئی دخل نہیں ہوتا.اور دوسرے ان معاملات میں جو بندوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.جو معاملات اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ان کی مثال اس طرح ہے مثلاً ایک شخص کا کوئی رشتہ دار فوت ہو گیا یا بیمار ہو گیا.یا ملک میں قحط پڑ گیا.یا کوئی ایسی جنگ چھڑ گئی جس کی وجہ سے اس کے کاروبار میں گھانا پڑ گیا.یہ ایسے واقعات ہیں کہ ان میں اس کا کوئی دخل نہیں.ان میں خدا تعالیٰ کی رضا پر استقلال کے ساتھ قائم رہنا صبر کہلاتا ہے.لیکن ایسے معاملات جو بندوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.وہ اس طرح ہوتے ہیں کہ یہ ہاتھ پاؤں ہلا سکتا ہے.لیکن پھر بھی اگر کوئی شخص اس پر سختی کرتا اور اس کو دکھ دیتا ہے تو یہ چپ رہتا ہے.مثلاً کوئی شخص اس کو تھپڑ مارتا ہے تو یہ آگے سے بولتا نہیں.خدا تعالیٰ تو اگر اس کی جان بھی لے لے تو یہ بول نہیں سکتا اور نہ کسی قسم کا مقابلہ کر سکتا ہے.لیکن اگر ایک انسان اس کو تھپڑ مارتا ہے.تو یہ بھی مناسب موقع پر کارروائی کر سکتا ہے.اگر اس کو تھپڑ مارنا ہی مناسب ہو تو تھیٹر مار سکتا ہے.لیکن اگر اس وقت تھپڑ مارنا قومی فوائد کے لحاظ سے یا اس شخص کی اصلاح کی غرض سے مناسب نہ ہو تو تھپڑ نہیں مارتا.یہ بھی صبر میں داخل ہے.پس بعض مواقع جہاں تھپڑ مارنا ضروری اور مفید ہوتا ہے.وہاں اس کو چاہیے کہ ضرور تھپڑ مارے اور بعض مواقع جہاں تھپڑ مارنا مفید نہ ہو.وہاں اس کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ تھپڑ نہ مارے.لیکن اس حالت میں ایک شرط ہو گی اور وہ یہ کہ یہ بزدل نہ ہو.اور اس وجہ سے چپ نہ ہو کہ یہ بھی مجھے آگے سے مارے گا.خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں تو اس کا چپ رہنا اور صبر کرنا عدم مقدرت پر مبنی ہو گا.لیکن انسانوں کے مقابلہ میں اس کا صبر عند المقدرت ہو گا.وہ بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے لیکن اس لئے بدلہ نہیں لیتا کہ شائد بدلہ نہ لینے سے کوئی مفید نتیجہ نکل آئے.تو یہ اس کا صبر کہلاتا ہے.مگر خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں تو یہ بدلہ کی مقدرت ہی نہیں رکھتا.وہاں اس کا چپ رہنا یا نہ رہنا برابر ہو گا.اس لئے

Page 139

134 وہاں صبر کے یہی معنی ہوں گے کہ گھبرائے نہیں اور ہمت ہار کر بیٹھ نہ رہے.لیکن بندوں کے مقابلہ میں اس کو بدلہ لینے کی مقدرت ہو اور پھر صبر کرے تو صبر صبر کہلانے کا مستحق ہو گا.کیونکہ بدلہ لینے کی طاقت رکھتے ہوئے پھر صبر کرتا ہے.اگر کوئی شخص قید میں کوٹھری کے اندر بند ہو.کوئی رستہ اس کے نکلنے کا نہ ہو.اور وہ کہے کہ میں صبر کر کے بیٹھا ہوا ہوں تو یہ اس کا صبر نہیں ہو گا.کیونکہ اگر دروازہ کھلا ہوتا اور کوئی اس کو نہ روکتا تو ضرور وہ قید سے نکل جاتا.اس کا اس وقت قید میں چپ چاپ بیٹھا رہنا اس سبب سے ہے کہ اس کے بھاگنے کا کوئی رستہ نہیں.پس اس کا یہ صبر صبر نہیں کہلائے گا.انسانوں کے مقابلہ میں صبر ہمیشہ وہ ہوتا ہے جو عند القدرت ہو.مگر شرط یہ ہے کہ انسان بزدل نہ ہو.کیونکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کمزور ہوتا ہے اس میں بدلہ لینے کی طاقت اور ہمت نہیں ہوتی.وہ خیال کرتا ہے اچھا میں صبر کرتا ہوں یہ اس کا صبر نہیں ہوتا.اسے ہم صبر نہیں کہیں گے.بلکہ اس شخص کو بزدل کہیں گے.صبر تو یہ ہے کہ وہ دیکھے مجھ میں اتنی طاقت ہے کہ میں بدلہ لے سکوں.لیکن پھر اگر ایسا شخص بدلہ نہیں لیتا اور صبر کرتا ہے تو یہ صبر ہے.ورنہ ایک ایسے شخص کے دل میں جس کو کسی نے دکھ یا تکلیف دی ہو یہ جوش ہو کہ اگر میں مضبوط ہوتا تو اس کو خوب اچھی طرح پیٹتا وہ اگر بدلہ نہیں لیتا تو بزدل ہے اور اس نے صبر نہیں کیا بلکہ بزدلی دکھائی ہے.اس نے بجائے صبر کا ثواب حاصل کرنے کے گناہ کیا.صبر وہی ہے جو بدلہ کی مقدرت رکھتے ہوئے کیا جائے.ہاں ایک کمزور شخص ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی اس پر ظلم کرے تو خواہ ظلم کرنے والا بادشاہ ہی کیوں نہ ہو وہ کے بادشاہ ہے تو کیا ہے میں بھی اس سے کسی نہ کسی طرح بدلہ لے سکتا ہوں.لیکن چونکہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے صبر کرو اس لئے صبر کرتا ہوں تو ایسے شخص کا صبر بھی واقعی صبر کہلانے کا مستحق ہو گا.کیونکہ اس کی ہمت تو یہ ہے کہ وہ کہتا ہے خواہ میں خود مارا ہی جاؤں لیکن بادشاہ یا اور شخص جو مجھ پر ظلم کرتا ہے اسے بھی مزا چکھا دوں گا.لیکن چونکہ خدا کا حکم ہے اس لئے صبر کرتا ہوں.پس ایسا شخص بزدل نہیں بلکہ اس نے واقعی صبر کیا ہے.صبر کرنے کی کئی وجہیں ہوتی ہیں.بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ذاتی اغراض اور فوائد کے لئے صبر کرتے ہیں.اور میں نے بتایا ہے ایسا صبر نیکی نہیں بلکہ گناہ ہے.مثلاً ایک شخص کسی سے روپے مانگنے جاتا ہے اور وہ آگے سے اسے گالیاں دیتا ہے اور کہتا ہے تو بڑا بے حیا اور بے شرم ہے کہ روپے مانگنے کے لئے آگیا ہے.لیکن وہ ہنس کر ٹال دیتا اور خیال کر لیتا ہے کہ مجھے اس وقت اس شخص سے کام ہے اس لئے اس کی گالیاں بھی سن لینی چا ہیں.ایسا کرنے والا صبر نہیں

Page 140

135 کرتا بلکہ وہ بے حیائی اور بے شرمی کی وجہ سے روپوؤں کی خاطر ایسی ذلت گوارا کرتا ہے.ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک شخص جو اعتقاد سنی تھا ایک شیعہ بادشاہ کے پاس گیا اور اس سے کچھ مانگا.وزیر نے سمجھ لیا یہ سنی ہے.اس نے بادشاہ سے کہا اسے روپیہ نہ دیں.یہ سنی معلوم ہوتا ہے.بادشاہ نے کہا معلوم کر لینا چاہیے.اس پر وزیر نے کئی طریقوں سے پتہ لگانا چاہا کہ آیا یہ سنی ہے یا شیعہ.مگر وہ گول مول جواب دے دیتا.آخر وزیر نے کہا اس طرح تو کچھ پتہ نہیں لگتا اور معلوم یہ سنی ہوتا ہے.اس لئے بہتر ہے کہ تیرا کیا جائے.یعنی حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان کو گالیاں دی جائیں.بادشاہ نے کہا بر ہر سہ لعنت ہو یعنی نعوذ باللہ حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان تینوں پر لعنت ہو.پھر وزیر نے کہا.برہرسہ لعنت وزیر کے بعد اس شخص نے جو روپے مانگنے آیا تھا کہہ دیا برہرسہ لعنت.جب اس طرح بھی اس کا سنی ہونا ظاہر نہ ہوا.بادشاہ نے پوچھا کیا تم شیعہ ہو اس نے کہا نہیں میں شیعہ نہیں سنی ہوں.بادشاہ نے کہا پھر تم نے تبرا کیوں کیا.اس نے جواب دیا میں نے کہا ہے برہرسہ لعنت یعنی ہم تینوں پر جو یہاں بیٹھے ہیں لعنت ہو.تم دونوں پر تو اس لئے کہ خلفاء کرام پر لعنت بھیجتے ہو اور مجھ پر اس لئے کہ میں واقعی لعنت کا مستحق ہوں کہ تمہارے پاس مانگنے آیا ہوں.تو ایسے شخص کا صبر صبر نہیں کہلا سکتا.ایسا شخص گالیاں سنتا اور اپنی ذاتی غرض پورا کرنے کی خاطر ہنس دیتا ہے.پس ایسا کرنا صبر نہیں بلکہ بے حیائی ہے.کیونکہ نفسانی اغراض کی خاطر ایسا انسان صبر کرتا اور گالیاں سنتا ہے.ہاں کبھی قومی اور مذہبی اغراض کے لئے صبر کرنا پڑتا ہے اور یہ صبر نفسانی اغراض کے لئے نہیں ہوتا اس لئے صبر کہلاتا ہے.مثلاً کسی ایسی جگہ جہاں اس کے بدلہ لینے کی وجہ سے اس کی قوم پر کوئی مصیبت آتی ہے وہاں اگر وہ حملہ کرتا ہے صبر نہیں کرتا تو اسے بیوقوف کہیں گے.کیونکہ اس طرح وہ اپنی قوم کو نقصان پہنچاتا ہے.لیکن جب وہ اپنی قوم کے نفع کے لئے بدلہ نہیں لیتا.یا دین کو سے محفوظ رکھنے کی خاطر صبر کرتا ہے.تو اس کا یہ صبر صبر کہلائے گا.پس قومی طور پر صبر اس طرح ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اس واسطے دشمن کا مقابلہ نہیں کرتا اور چپ ہو رہتا ہے کہ اس کی قوم کو نقصان نہ پہنچ جائے تو اس کا ایسا کرنا صبر ہوتا ہے.اور دین کے لئے صبر اس طرح ہوتا ہے.مثلاً ہم کسی شخص کو تبلیغ کرتے ہیں اور وہ آگے سے ہمیں گالیاں دیتا ہے.اگر ہم اس پر صبر کرتے ہیں اور گالیوں کا کوئی جواب نہیں دیتے تو یہ صبر ہے.کیونکہ ہم یہاں اس لئے صبر کرتے ہیں کہ مبادا ہمارے اسی رنگ کا جواب دینے یا سختی کے مقابلہ میں سختی سے پیش آنے پر یہ شخص آئندہ ہماری بات ہی نہ سنے اور ہمیشہ کے لئے گمراہ ہو جائے.یا وہ خود اور دوسرے لوگ یہ خیال کر لیں کہ ہم میں نقصان سے.

Page 141

136 اور ان میں فرق ہی کیا ہے.جب یہ لوگ بھی گالیوں پر اتر آتے اور سختی کے مقابلہ میں سختی سے گفتگو کرتے ہیں تو ان میں مرزا صاحب نے کیا تبدیلی کی کہ ہم بھی انہیں مان لیں.اس وجہ سے بہت سے لوگوں کو ٹھوکر لگ جاتی ہے.اور ہر وہ شخص جو ایسے حالات میں سختی سے پیش آتا ہے.وہ ضرور کبھی دس کبھی سو اور کبھی ہزار شخصوں کے لئے ٹھوکر کا موجب بنتا ہے.ایسے شخص کو ہم باغیرت نہیں کہیں گے.کیونکہ وہ اپنے نفس کی غرض سے سختی کے مقابلہ میں سختی کرتا ہے اور دین کو نقصان پہنچا دیتا ہے.بعض شخص کہہ دیتے ہیں.اس میں ہماری نفسانی غرض نہیں ہوتی.ہم تو محض اس لئے سختی کا جواب سختی سے دیتے ہیں کہ وہ ہمارے دین کو برا بھلا کہتے ہیں.یا ہمارے نبی کو گالیاں دیتے ہیں.کیا ایسے وقت میں ہم چپ رہ کر بے غیرت بنیں.مگر میں کہتا ہوں یہ بھی تو نفسانی غرض ہو جاتی ہے.کیونکہ نبی کو جب ہم اپنا نبی کہہ لیتے ہیں تو اس کے ساتھ ہمارا ذاتی تعلق ہو جاتا ہے اور دراصل ہمیں غصہ اس لئے آتا ہے کہ وہ ہمارے نبی کو گالیاں دیتے اور ہمارے دین کو برا کہتے ہیں.اور ہمارے نبی اور ہمارے دین کو ہمارے ساتھ ذاتی تعلق ہے.پس ایسے موقع پر اگر ہم (میر) نہیں کرتے ہیں تو گویا اپنے نفس کے دھوکہ میں آتے ہیں.بعض لوگ نادانی سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی تو اپنی کتابوں میں دیگر مذاہب کے لوگوں کے متعلق سخت الفاظ استعمال کئے ہیں اور بعض لوگ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ قرآن کریم میں بھی کئی جگہ کفار اور دوسرے لوگوں کو نہایت سختی کے ساتھ مخاطب کیا گیا ہے.مگر ایسے نادان یہ نہیں سمجھتے کہ خدا تعالیٰ اور اس کے انبیاء کی شان اور ہوتی ہے.ان کے یہ نظر لوگوں کی اصلاح ہوتی ہے.اگر وہ ان کی حالت ان پر ظاہر نہ کریں تو وہ اصلاح کی طرف کیونکہ متوجہ ہو سکیں.اس کی کسی قدر مثال مجسٹریٹ سے دی جا سکتی ہے جو چوری کرنے والے کو چور کہتا ہے ڈاکہ ڈالنے والے کو ڈاکو کہتا ہے.بد معاشی کرنے والے کو بد معاش کہتا ہے.اس کا فرض ہے کہ کہے.لیکن کسی اور کا حق نہیں ہے کہ کسی کو چور یا ڈاکو یا بد معاش کہے.پس خدا تعالیٰ حقیقی مجسٹریٹ ہے.اور نبی جو اس کی طرف سے دنیا میں آتے ہیں وہ اس کے قائم مقام ہوتے ہیں.اس لئے وہ ایک مجرم کو مجرم کہہ سکتے ہیں.اور یہ ان کا حق ہوتا ہے کیونکہ وہ دنیا کے لئے بحیثیت مجسٹریٹ ہوتے ہیں.لیکن ہر شخص کا یہ حق نہیں ہوتا کہ وہ دوسروں کو چور یا مجرم کہتا پھرے.ایک مجسٹریٹ چور کو چور کہہ سکتا ہے.مگر ہم اسے چور نہیں کہہ سکتے.ہمارا کوئی حق نہیں کہ اسے چور کہیں.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مجسٹریٹ بھی چور کو چور نہ کہے.کیا یہ ہو سکتا

Page 142

137 ہے.اور کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجسٹریٹ ایک چور کے متعلق سزا کا فیصلہ دیتے وقت یہ کے اور لکھے کہ اے شریف انسان میں تجھ کو چھ جینے کی سزا دیتا ہوں.اگر وہ اپنے فیصلہ میں ایسا لکھتا ہے تو وہ مجسٹریٹ خود ملزم ہے.کیونکہ ایک طرف تو وہ اس کو چور سمجھ کر چھ مہینے کی قید کی سزا دے رہا ہے اور دوسری طرف فیصلہ میں اس کے متعلق لکھتا ہے کہ اے شریف انسان یعنی اے بے گناہ انسان میں تجھ کو سزا دیتا ہوں کیا کوئی مجسٹریٹ ایک شخص کو بے گناہ کہہ کر اس کو سزا دے سکتا ہے.اور اگر وہ ایسا کرے تو کیا وہ خود مجرم نہیں ٹھہرتا.پس خدا تعالی کا نبی جب لوگوں سے کہتا ہے کہ تم بے دین اور گمراہ ہو گئے تو وہ بحیثیت ایک حج اور مجسٹریٹ کے ان کے متعلق یہ فیصلہ دیتا ہے.لیکن اگر ہم ایسا کہتے ہیں تو ہم گناہ گار ہیں.کیا ہر ایک کام جسے ہم کسی دوسرے کو کرتے دیکھیں خود بھی کرنے لگ جاتے ہیں.مثلاً ایک استاد لڑکے کو اس کی غلطی پر سزا دیتا ہے.اس کا حق ہوتا ہے کہ اس کو سزا دے.ہر شخص سزا نہیں دے سکتا.کیا اگر ایک بڑی عمر کا شخص اٹھ کر کے کہ میں بھی لڑکے کو مارتا ہوں کیونکہ میں استاد سے بھی عمر میں بڑا ہوں.تو یہ جائز ہو سکتا ہے.ماروہی سکتا ہے جس کے لئے سزا دینے کا حق مقرر ہے.ہر شخص جسے سزا دینے کا کوئی حق نہیں وہ سزا نہیں دے سکتا.اسی طرح ایک ڈاکٹر کسی مریض کی آنکھوں کا اپریشن کرتا ہے.لیکن اگر دوسرا شخص جو ڈاکٹر نہیں کہے کہ میں بھی آنکھ کا اپریشن کروں گا تو یہ اس کی سخت بیوقوفی ہو گی.کیونکہ اگر وہ ایسا کرے گا تو یقیناً مریض کی آنکھ نکال دیگا.لیکن ایک ڈاکٹر بحیثیت اس فن میں ماہر ہونے کے حق رکھتا ہے کہ مریض کی آنکھوں کا اپریشن کرے.پس نبی بطور جج اور ڈاکٹر کے ہوتے ہیں.وہ لوگوں کو آکر بتاتے ہیں تم نے یہ جرم کیا ہے یا تمہیں یہ بیماری ہے.مگر ان معاملات میں ہمارا حق نہیں ہوتا کہ ہم بھی اسی طرح کہیں.ہر سخت لفظ جو ایک نبی گمراہ شدہ لوگوں کے متعلق بولتا ہے وہ دین کی خدمت ہوتی ہے.کیونکہ اگر وہ بھی ان لوگوں کو ان کے جرائم سے مطلع نہ کرے.اور ان کو تنبیہہ نہ کرے.تو انہیں اپنی غلطیاں.غلطیاں ہی نہ معلوم ہوں اور وہ بدیوں میں ترقی کرتے چلے جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاں کہیں سخت الفاظ استعمال کئے ہیں وہ بطور حج اور مجسٹریٹ کے استعمال کئے ہیں.ورنہ جہاں کہیں اپنی ذات کا معاملہ آپڑتا ہے وہاں تو فرماتے ہیں.گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے جیسا کہ مجسٹریٹ بھی جب کورٹ میں بحیثیت ایک منصف بیٹھا ہو ایک چور کو چورہی کہے گا.لیکن

Page 143

1 138 کمرہ عدالت سے باہر آکر وہ اس چور کے ساتھ بھی دوستانہ اخلاق کے ساتھ پیش آسکتا ہے.اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک مجرم اور چور جب اس کے گھر پر اگر ملتا ہے تو وہ اچھی طرح اور اخلاق کے ساتھ ملتا ہے.لیکن کمرہ عدالت کے اندر وہ ایسا ہر گز نہیں کرتا.کیونکہ یہاں وہ ایک مجسٹریٹ اور فیصلہ کرنے والے کی حیثیت سے بیٹھا ہے.اس وقت وہ اسی نام سے مجرم کو پکارے گا جس جرم کا اس نے ارتکاب کیا ہو گا.پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں بعض سخت الفاظ استعمال ہوئے ہیں تو وہ بطور جج اور مجسٹریٹ کے آپ نے استعمال کئے ہیں.لیکن حضرت صاحب کی ذات جب بولتی ہے.تو وہاں آپ یہی فرماتے ہیں.گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے اور ہمیں بھی آپ یہی تعلیم دیتے رہے ہیں کہ دوسروں کی سختیوں کو صبر کے ساتھ جھیلو اور ان کی گالیاں سن کر جواب نہ دو.لیکن ہم میں سے کئی ایسے ہیں کہ جب مخالفین کی طرف سے ان پر کوئی سختی ہوتی ہے تو وہ بہت گھبرا جاتے ہیں.اور یہاں لکھتے ہیں کہ اس کا انتظام کیا جائے اور امور عامہ کو کارروائی کرنے کے لئے کہا جائے.حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایک وہ زمانہ تھا جب امور عامہ بھی نہ تھا اور لوگوں پر آج کی نسبت بہت زیادہ سختیاں ہوتی تھیں.ایک دفعہ حضرت صاحب لاہور گاڑی میں بیٹھے جا رہے تھے کہ آپ پر شہر کے بدمعاش پتھر پھینکتے جو آپ کی گاڑی پر آکر لگتے تھے.اس وقت کہاں امور عامہ تھا جب آپ پر پتھر پھینکے جاتے تھے.لیکن حضرت صاحب کے ماتھے پر بل تک نہ پڑتا تھا.اسی کا یہ اثر ہوتا تھا کہ انہی لوگوں میں سے سینکڑوں حضرت صاحب کی غلامی میں آکر داخل ہو جاتے تھے.اب ہم بھی اگر مخالفین کی سختیوں کے مقابلہ میں یہی اخلاق دکھائیں تو وہی جو ہم پر سختیاں کرتے ہیں.دکھ دیتے اور ہماری دل آزاری میں لگے ہوئے ہیں.انہی میں سے ہمارے حقیقی دوست اور پورے ہمدرد پیدا ہو جائیں.حضرت عمروبن العاص کہتے ہیں.ایک زمانہ مجھے پر ایسا تھا کہ میں رسول کریم ﷺ کی شکل بوجہ حسد اور بغض کے نہیں دیکھا کرتا تھا.اور میں ہمیشہ یہ چاہتا تھا کہ کوئی ایسا وقت نہ آئے جب میں اور آپ ایک چھت کے نیچے جمع ہوں.لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا کہ جب میں بوجہ محبت.جلال اور عظمت حضور کی شکل نہ دیکھ سکتا تھا.اور اب اگر کوئی شخص مجھ سے آگر آپ کا حلیہ پوچھے تو میں نہیں بتا سکتا.کیونکہ میں نے ساری عمر آپ کے چہرہ مبارک کو نظر بھر کر نہیں

Page 144

139 دیکھا.(1) یہ رسول کریم ان کے سخت ترین دشمنوں کا حال تھا.انہیں دشمنی بھی اتنی تھی کہ آپ کا چہرہ دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے.لیکن جب انہوں نے حقیقت کو سمجھا اور ایمان لے آئے تو آپ کے ساتھ ایسی محبت اور تعلق پیدا ہو گیا کہ بوجہ عظمت و جلال آپ کا چہرہ نہیں دیکھ سکتے تھے.ہزار ہا لوگ ہماری جماعت کے اندر بھی ایسے پائے جاتے ہیں جنہوں نے مخالفت اور ایذا دہی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا.لیکن جب انہوں نے سچائی کو سمجھا اور ہدایت کو قبول کیا تو وہی لوگ آپ کے جاں نثار دوست بن گئے.پھر ہزا رہا ایسے آدمی بھی ہماری جماعت میں پائے جاتے ہیں جو اختلاف خلافت کے موقع پر ہم سے علیحدہ ہو گئے تھے اور مجھے سخت گالیاں دیا کرتے تھے.لیکن آج وہ ہمارے محب ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنی نا سمجھی کی وجہ سے گالیاں دیتے تھے..دراصل ان کا کوئی قصور نہ تھا.اور جب انہوں نے سچائی کو پا لیا تو وہی لوگ محب بن گئے.پس مخالفین ہمیں اپنی نا سمجھی اور کم عقلی کی وجہ سے گالیاں دیتے ہیں.اس لئے ہمارا فرض ہے ہم ان کی گالیوں کے جواب میں ان کو گالیاں نہ دیں اور انہیں قطعاً برا بھلا نہ کہیں.بلکہ میں جماعت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ان کی گالیوں اور سختیوں کو صبر سے برداشت کریں.تا ان لوگوں کو پتہ لگے کہ ہم ان کے لئے تکالیف اٹھا رہے ہیں اور ان کے ظلم صبر کے ساتھ جھیل رہے ہیں.جب ان کے اندر یہ احساس پیدا ہو جائے کہ یہ لوگ ہمارے لئے اتنی تکالیف برداشت کر رہے ہیں تو پھر دیکھنا کس طرح ہزاروں کی تعداد میں وہ ہماری طرف دوڑتے اور جماعت میں داخل ہوتے ہیں.اگر ان کے مقابلہ میں ہم صبر کے ساتھ کھڑے رہیں اور ان کی ماریں کھاتے جائیں.ان کی سختیوں اور ظلم کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے کام میں لگے رہیں اور ان کو سچائی اور ہدایت کی طرف بلائیں.تو ان کے قلوب پر ایسا اثر ہو گا کہ وہ خود بخود ہماری طرف کھنچے چلے آئیں گے.حضرت حمزہ پر اسی بات کا اثر ہوا کہ آپ دیکھتے مسلمان ماریں کھاتے اور تبلیغ سے باز نہ آتے.کفار ان پر سخت سے سخت مظالم توڑنے میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھتے.لیکن وہ ان کو بڑی خوشی کے ساتھ برداشت کرتے.جب آپ نے ان کی یہ حالت دیکھی تو دل میں خیال کیا کہ یہ لوگ کبھی جھوٹ کی خاطر اتنی تکالیف برداشت نہیں کر سکتے.پھر اسی بات کا اثر حضرت عمر ان پر بھی ہوا.کہ آپ بوجہ سخت دشمن اسلام ہونے کے ایک دفعہ گھر سے یہ ارادہ کر کے نکلے کہ آج (نعوذ باللہ) آپ کو قتل کر دونگا.لیکن راستہ میں انہیں ایک شخص ملا جس نے کہا پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو.تمہاری ہمشیرہ اور بہنوئی مسلمان ہو چکے

Page 145

1 140 ہیں.آپ اپنی ہمشیرہ کے گھر گئے.اور غصہ میں ان کو مارنا شروع کر دیا اور کہا میں نے سنا ہے تم مسلمان ہو گئے ہو اور قرآن شریف پڑھتے ہو.انہوں نے نہایت جرات کے ساتھ کہا.ہاں ہم قرآن شریف پڑھتے ہیں.اور پڑھیں گے.آپ بھی اگر چاہیں تو ہم سنا سکتے ہیں.آپ نے کہا اچھا مجھے بھی سناؤ.چنانچہ جب آپ کو قرآن کریم پڑھ کر سنایا گیا تو آپ ایمان لے آئے.(۲) آپ کی ہمشیرہ نے اسلام کی خاطر جس دلیری اور جرأت کا ثبوت دیا اس کا اثر آپ پر اس قدر ہوا کہ آپ نے فوراً سمجھ لیا کہ یہ مذہب کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا.تو جرأت اور دلیری دوسروں پر اثر کئے بغیر نہیں رہتی.جو شخص تبلیغ کرتے وقت مخالفین کے مظالم اور سختیوں پر اس لئے صبر کرتا ہے کہ ان سختیوں کا جواب دینے سے گو میرا تو غصہ دور ہو جائے گا لیکن اس شخص کو ہدایت نہ ہوگی.اور وہ ہمیشہ کے لئے صراط مستقیم سے دور جا پڑے گا.اس کا صبر نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا صبر ہے.اور اس کے اندر ایسی شرافت اور عالی حوصلگی پائی جاتی ہے کہ مخالفین اس نظارہ کو دیکھ کر گھائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے.پس میں اپنے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ دین کی خاطر دلیری کے ساتھ ماریں کھائیں مگر عدالتوں کے دروازے نہ کھٹکھٹائیں.مخالفین کی گالیوں کو صبر کے ساتھ سنیں اور بچے ہو کر جھوٹے کہلائیں.جب ہماری جماعت کے اندر یہ حالت پیدا ہو جائے گی تو ہمارے مخالفین کے قلوب خود بخود ہماری طرف کھنچے چلے آئیں گے اور وہ بھی اسی چشمہ کا پانی پینے کے قابل ہو جائیں گے جس کے شیریں پانی سے ہم سیراب ہو چکے ہیں.خدا تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم بزدل نہ ہوں.بلکہ اس کی رضاء کے حصول کے لئے جو جو مصیبتیں اور تکالیف ہمیں پیش آئیں ان کو صبر کے ساتھ برداشت کریں.اور ہمارے وہ بھائی جو صداقت سے دور پڑے ہوئے ہیں وہ بھی اس دروازے کی طرف آجائیں.جس کی طرف جھک کر ہم نے ہدایت اور سچائی کو پایا.امه مهاجرین حصہ دوم مرتبه شاه معین الدین ندوی ص ۱۵۲ الفضل ۲۳ مئی ۱۹۲۵ء) ۲ سیرت ابن ہشام جزو اول حالات اسلام عمر بن الخطاب

Page 146

141 19 اخلاق اور معاملات کی درستی کی تلقین فرموده ۲۲ مئی ۱۹۲۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں اخلاق کے متعلق اور معاملات کے متعلق کچھ بیان کیا تھا اور اس کی طرف دوستوں کو توجہ دلائی تھی.آج میں اسی سلسلہ مضمون میں بعض اصولی مسائل کو لینا چاہتا ہوں جن کے ذریعہ اخلاق اور معاملات کی درستی میں مدد ملتی ہے.یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انسان کو خدا تعالٰی نے ایسا پیدا کیا ہے کہ اس کی اخلاقی اور دنیوی ترقی بہت حد تک اس کی اپنی ذات کے ساتھ ہی تعلق نہیں رکھتی بلکہ اس کی ترقی کی وابستگی دیگر بنی نوع انسان کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہے.کوئی انسان ایسا نہیں جو اپنی ذات میں اپنی ترقی اور اصلاح میں بعض دوسرے لوگوں کا محتاج نہیں.اور اس کی ترقی دوسروں کے ساتھ وابستہ نہ ہو اس کے سارے کے سارے اعمال دوسرے لوگوں کے وجودوں سے وابستہ ہوتے ہیں.بعض خدا تعالیٰ سے اور بعض انبیاء و رسل سے تعلق رکھتے ہیں.اور بعض امور میں وہ دوسرے انسانوں سے مل کر خدا تعالٰی کا قرب پانے اور اس کے فضلوں کو حاصل کرنے کا محتاج ہے.پس کیا بلحاظ اخلاق اور کیا بلحاظ معاملات.انسان کامل ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ دوسروں سے تعلق نہ رکھے اور ان سے سیکھے نہیں.ہم انسان کی بناوٹ کے لحاظ سے دیکھتے ہیں کہ اس کے علم کا بیشتر حصہ وہ ہے جو وہ دوسروں سے سیکھتا ہے.میں سمجھتا ہوں ایک انسان کے علم کے اگر سو نمبر ہوں تو ان میں سے نانویں نمبر ایسے ہوں گے.جو اس نے دوسروں سے حاصل کئے ہوں گے.اور شائد ایک اس کے تجربہ کا نتیجہ ہو گا.ہمارا کھانا.پینا.سونا.لکھنا.پڑھنا.کوئی پیشہ صنعت یا حرفت کرنا.یہ تمام ایسے امور ہیں جو دوسروں سے سیکھے جاتے ہیں.

Page 147

142 ہم کھانا کھاتے ہیں اور کھانے کے لئے گیہوں کو منتخب کرتے ہیں مگر ہمارا یہ انتخاب اس لئے نہیں کہ ہم نے خود تجربہ کرنے کے بعد اس کو منتخب کیا ہے.بلکہ اس لئے ہے کہ ہمارے ماں باپ اور بڑوں نے اس کو منتخب کیا اور کھایا ہے.اسی طرح ہم سالن میں نمک مرچ ڈالتے ہیں.اس کا مفید ہونا نہ ہونا ہم نے اپنے تجربے سے معلوم نہیں کیا.بلکہ ماں باپ کے تجربہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں.اسی طرح سبزیوں کے متعلق کہ فلاں گرم ہے.فلاں گلے کو نقصان پہنچاتی ہے.فلاں کھانسی پیدا کرتی ہے.کیا ہم نے خود تجربہ کر کے دیکھا اور معلوم کیا ہے.نہیں بلکہ ہم نے ماں باپ سے سنا اور مان لیا.اسی طرح ادویہ کا حال ہے ڈاکٹروں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس نے ہر ایک دوائی کو خود تجربہ کر کے اس کا مفید یا غیر مفید ہونا معلوم کیا ہو.شائد کوئی ایک آدھ دوائی ایسی ہو جو کسی ڈاکٹر کو ذاتی تجربہ سے معلوم ہوئی ہو.ورنہ سب کی سب دوائیں ایسی ہوتی ہیں کہ کتابوں میں لکھا ہوتا ہے.یہ بلغم نکالتی ہے.یہ ورم پیدا کرتی ہے.یا یہ درد دور کرتی ہے وغیرہ.تو انسان کے علم کا اکثر حصہ وہی ہوتا ہے جو دوسروں سے سنی سنائی باتیں ہیں.بلکہ اگر صبح سے شام تک انسان جو افعال کرتا ہے.اور جن کو اچھا یا برا کہتا ہے انہیں دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ بعض دفعہ سارے دن میں ایک بھی ایسی بات نہیں ہو گی جو اس نے اپنے تجربے سے معلوم کی ہو کہ یہ اچھی ہے یا بری.بلکہ سب کی سب دوسروں کی تجربہ شدہ ہوں گی.پس ہمارے علم کا بیشتر حصہ دوسروں کا محتاج ہے.اس لئے ہر ایک بات کی بنیاد صرف اپنی عقل پر رکھنا درست نہیں.یہ صحیح ہے کہ انسان کی اپنی واحد عقل بھی اس کے علوم کی ترقی کا ایک ذریعہ ہے.لیکن یہ بات بھی تو ہے کہ بنی نوع انسان کی مجموعی عقل بھی ایک بڑا بھاری ذریعہ ہے.پس صرف اس کی واحد عقل ہی اس کی ترقی کا ذریعہ نہیں.بلکہ اور بھی بیسیوں عقلیں ہیں.جن کا اس کی ترقی میں ہاتھ ہے اور وہ اپنے مقابلہ میں اپنی واحد عقل کو چھوڑ دیتا ہے.اس وقت یہ نہیں کہتا کہ میں ہی صحیح کہتا ہوں اور دوسرے غلط کہتے ہیں.کیونکہ علم کے حصول کے لئے یہ کافی نہیں کہ اس کی عقل کہہ دے کہ یہ بات یوں ہے تو وہ اسی طرح ہو.بلکہ دوسروں کی عقلیں جو کہتی ہیں وہ درست ہوتا ہے.وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان کی عقلیں کیا چیز ہیں.بلکہ عملی طور سے اسے یہی ماننا پڑتا ہے کہ اس کی عقل ان عقلوں کے مقابلہ میں کچھ چیز نہیں.اپنی واحد عقل کا فیصلہ اسی وقت قابل قبول ہو سکتا ہے جب کہ یہ کہا جائے کہ عقل کبھی غلطی نہیں کرتی.اور جب یہ کہا جائے گا تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ سب عقلوں کو ایک ہی فیصلہ

Page 148

143 کرنا چاہیے.یعنی جو بات ایک عقل کہتی ہے وہی ساٹھ ستریا سو عقلیں کہتی ہوں.لیکن ایسا نہیں ہوتا.عقلوں کے فیصلہ میں اختلاف ہوتا ہے.اس پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ عقل تو دوسروں کی بھی وہی کہتی ہے جو اس کی کہتی ہے.لیکن وہ دھوکہ اور فریب کی راہ سے اس کے خلاف کہتے ہیں.کیونکہ روز مرہ کے واقعات اس امر کی تردید کرتے ہیں.اور ان سے ثابت ہوتا ہے کہ عقل اکثر غلطی کرتی اور ٹھوکریں کھاتی ہے.پس جب عقل غلطی کرتی ہے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ایک عقل ساٹھ یا ستر عقلوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی.ورنہ پھر یہ کہا جائے گا کہ سو آدمی جو ایک آدمی کی عقل کے خلاف فیصلہ دیتے ہیں وہ پاگل ہو گئے ہیں.اور ان کی عقلیں ماری گئی ہیں.لیکن چونکہ یہ بات بھی غلط ہے.اس لئے یہ بھی صحیح نہیں کہ ہم نے اپنی عقل سے جو فیصلہ دیا وہ صحیح ہے.لیکن دوسرے ساٹھ یا ستر آدمیوں نے جو فیصلہ دیا ہے.انہوں نے بیوقوفی کی ہے.جب کہ عقل غلطی کر سکتی ہے اور کرتی ہے تو پھر ایک کی عقل کے مقابلہ میں ساٹھ یا ستر آدمیوں کی عقلیں سچائی اور صحت کے دریافت کرنے کے زیادہ قریب ہوتی ہیں.یہ ممکن ہے کہ ساٹھ یا ستر آدمیوں کی عقلیں بھی غلطی کر جائیں.مگر بالعموم جب وہ بے غرض ہو کر کسی معاملہ کے متعلق سوچیں گے تو اس کا پیشتر حصہ ایسا ہو گا جو صحیح اور درست ہو گا.پس اگر انسان یہ ارادہ کر لے کہ وہ بہتوں کی عقلوں کے استدلال کا نتیجہ قبول کرلے گا تو وہ عموماً صحیح نتیجہ پر پہنچ جائے گا.ورنہ اگر وہ اپنی واحد عقل کو بہتوں کی عقل پر ترجیح دے گا اور ان کو غلطی پر قرار دے کر ان کے فیصلہ کو رد کر دے گا تو وہ کبھی صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے گا.میرے نزدیک اخلاقی تباہی کی یہ بڑی بھاری وجہ ہے.کہ جب کوئی معاملہ پیش آتا ہے تو جس کے خلاف فیصلہ ہوتا ہے وہ ذاتی فوائد کو مد نظر رکھ کر دوسروں کے فیصلہ کے متعلق یہ کہ دیتا ہے کہ میری عقل میں یہ بات نہیں آتی اس لئے میں نہیں مانتا.دنیا میں مختلف معیار سچائی کے پر کھنے کے لئے ہوتے ہیں.دین میں معیار تو یہ ہے کہ جو بات ہماری عقل میں نہیں آتی ہم اس کے ماننے کے لئے مجبور نہیں.اگر کوئی بات دین کی ہماری سمجھ میں نہیں آتی تو خدا تعالیٰ ہمیں معذور قرار دے گا.ہاں اگر ایک دین کی صداقت کسی کی عقل اور سمجھ میں آگئی ہے مگر وہ اس لئے اسے قبول نہیں کرتا کہ دوسرے لوگ یوں کہتے ہیں تو وہ شخص قابل مواخذہ ہو گا.وہ شخص قابل مواخذہ نہیں ہو گا جس نے نیک نیتی کے ساتھ ایک مذہب کو سمجھنے کی کوشش کی مگر اس کی صداقت اس کی سمجھ میں نہ آئی.لیکن جب کوئی مذہب قبول کر لیتا ہے تو تفصیل شریعت میں پھر یہ بات جاری ہو جائے گی کہ کسی امر

Page 149

144 ہیں.کے متعلق کثرت کی کیا رائے ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے.جو شخص جماعت سے الگ ہوتا ہے اس کا ٹھکانا جہنم ہے.یزید کے معاملہ میں بہت سے صحابہ سے دریافت کیا گیا کہ کیا تم واقعی اسے حقدار خلافت سمجھتے ہو تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں.لیکن چونکہ کثرت نے اسے قبول کر لیا ہے.اس لئے ہم نے بھی مان لیا ہے.تو شریعت کی تفصیل میں آکر کثرت کی عقل اور سمجھ کو مقدم رکھا گیا ہے.ان اصولی امور میں دوسروں کی عقلیں معیار نہیں بلکہ اپنی عقل معیار رکھی گئی ہے.تو ان معاملات میں جن کا تعلق دوسروں کے ساتھ ہوتا ہے.صرف اپنی عقل کسی طرح معیار نہیں ہو سکتی.بہت سے لوگ ایسے پائے جاتے ہیں.بلکہ کثرت ایسے ہی لوگوں کی ہے.جو معاملات میں دوسروں کے فیصلہ کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے.اور ان کو غلطی خوردہ قرار دیتے حالانکہ فیصلہ کرنے والے ایسے ہوتے ہیں جن کا فریقین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.بلکہ وہ غیر جانبدار ہوتے ہیں.وہ یہ سمجھ کر کہ ہماری عقل اس فیصلہ کو نہیں مانتی اس کا انکار کر دیتے ہیں.اس طرح وہ اپنی عقل پر بھروسہ کر کے اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں.اس لئے دوسروں کے حقوق ان کو نظر نہیں آتے.ان کے کان بہرے ہو جاتے ہیں اس لئے وہ اپنے فائدہ کی بات کے سوا دوسری کوئی بات سن نہیں سکتے.ان کی ناک کی جس ماری جاتی ہے اس لئے سچائی کی خوشبو ان کو نہیں آتی.ان کی زبان کا ذائقہ جاتا رہتا ہے.ان کی قوت لامسہ ماری جاتی ہے.وہ گردو پیش کے حالات کو محسوس نہیں کر سکتے.اگر ایسا نہ ہو.بلکہ ہر شخص جس کے خلاف کوئی فیصلہ ہو اس بات کو مد نظر رکھے کہ کثرت نے اس کے خلاف فیصلہ دیا ہے.اور اس کی واحد عقل سے ان کی زیادہ عقلیں صحت اور راستی کے زیادہ قریب ہو سکتی ہیں.تو سو میں سے نانویں فیصلے ایسے ہوں کہ جن میں کسی کی حق تلفی نہ ہو اور حقدار کو اس کا حق مل جائے.اگر کثرت کی رائے کو قبول نہ کیا جائے اور اپنی عقل کے مقابلہ میں اسے رد کر دیا جائے تو پھر دیکھو انتظام اور تمدن میں کس قدر تباہی واقعہ ہو سکتی ہے.مثلاً ایک شخص نے دوسرے کا کچھ روپیہ دیتا ہے.دینے والا سمجھتا ہے کہ مجھے اتنا روپیہ دیتا ہے لینے والا سمجھتا ہے کہ مجھے اس سے زیادہ لیتا ہے.اب ضروری نہیں کہ دینے والے نے اتنا ہی دینا ہو جتنا وہ کہتا ہے.یا لینے والے نے اس سے زیادہ ہی لینا ہو جتنا دینے والا مانتا تھا.کیونکہ حرص اور طمع کی وجہ سے اگر ایک گھٹاتا ہے تو دوسرا بڑھا بھی سکتا ہے.لیکن دوسرے لوگ جو ان دونوں کے بیانات کو سنتے ہیں.اور پھر تحقیق کرتے ہیں.وہ بطور قاضی کے یا بطور دوستانہ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ اتنا روپیہ بنتا ہے.

Page 150

145 اس فیصلہ کو اگر دینے والا اس لئے رد کر دیتا ہے کہ یہ میری عقل اور میری سمجھ میں صحیح اور درست نہیں تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگ پھر ہمیشہ لوگوں کا حق مارتے رہتے ہیں.جس نے دینا ہوتا ہے وہ کہتا ہے مجھے تھوڑا دینا ہے.اور جس نے لینا ہوتا ہے وہ کہتا ہے مجھے زیادہ لینا ہے.اور دونوں اپنی اپنی عقل پر اپنے دعوی کی صحت کی بنیاد رکھتے ہیں.حالانکہ عقل نہ دینے والے کی سلامت ہوتی ہے.نہ لینے والے کی.الا ماشاء اللہ.اور ننانویں فی صد ایسے ہی واقعات ہوتے ہیں کہ نہ واقعہ میں دینے والے نے اتنا دینا ہوتا ہے جتنا اس سے مطالبہ کیا جاتا ہے.اور نہ واقعہ میں دوسرے نے اتنا زیادہ لینا ہوتا ہے جتنا وہ لینا چاہتا ہے.دونوں کی عقل بوجہ حرص اور طمع ماری جاتی ہے.ایسی حالت میں جو شخص فیصلہ نہیں مانتا اور اسے رد کرتا ہے اور معاملات میں اپنی عقل کے مقابلہ میں کثرت کی رائے کا احترام نہیں کرتا وہ ہمیشہ خائن ہوتا ہے.میرا اپنا خیال ہے کہ ننانویں فی صد ایسے لوگ خائن ہوتے ہیں کیونکہ وہ چونکہ خود صاحب غرض ہوتے ہیں اور ان کی عقل ٹھکانے نہیں ہوتی.اس لئے وہ خود صحیح فیصلہ دے نہیں سکتے.اور جو بے لاگ اور بے غرض ہو کر فیصلہ دیتے ہیں انہیں وہ جھوٹا اور فریبی قرار دیتے ہیں.ہمیشہ میں نے دیکھا ہے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہماری بات ہی صحیح ہے اور دوسرے لوگ جو کہتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں ان میں سے سو میں سے ایک ایسا ہوتا ہو گا.اور اس ایک کے بھی سو مقدموں میں سے کوئی ایک مقدمہ ایسا ہوتا ہو گا جس میں اس کی رائے اور اس کا فیصلہ صحیح ہو.ورنہ ایسے لوگوں کی مثال اس اندھے کی سی ہوتی ہے جو آنکھوں والوں سے کہے میں کس طرح مان لوں سورج موجود ہے.جب کہ مجھے نظر نہیں آتا.کیا اس اندھے کو سورج نظر نہ آنے سے واقعہ میں سورج نہیں ہوتا.تو جتنے لینے والے ہوتے ہیں یا دینے والے دونوں اندھے ہوتے ہیں.اور اندھا سو جاکھے کو کس طرح جھٹلا سکتا ہے.تو اس کا پہلا اور بد نتیجہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا شخص ان لوگوں کو جو ان کا دین اور ایمان بچانے کے لئے اس کے سامنے صحیح فیصلہ پیش کرتے ہیں منافق قرار دیتا ہے.وہ تو اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ یہ کسی کا حق نہ مارے یا اپنے حق سے زیادہ نہ لے لے.جس سے اس کا دین اور ایمان ضائع ہو جائے گا.مگر یہ ان کی نسبت یہ کہتا ہے کہ یہ فریبی منافق اور دھوکہ باز ہیں.پھر اس روش کا بد نتیجہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا شخص ظالم ہو جاتا ہے.اور ہمیشہ دوسروں کا حق مارتا ہے.تیسرا بد نتیجہ ان کی اس روش کا یہ ہو گا کہ ایسے لوگ اشاعت فاحشہ کے موجب اور مرتکب ہوتے ہیں.جس وقت کثرت ان کے خلاف فیصلہ دیتی ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ساٹھ یا ستر آدمی جو

Page 151

جلدا 146 فیصلہ دیتے ہیں وہ غلطی کر رہے ہیں.اس پر ان سب کو بد معاش اور منافق قرار دیتے ہیں.ایسے لوگوں کے متعلق حضرت مسیح موعود کا فیصلہ موجود ہے.ڈاکٹر عبدا حکیم نے حضرت مسیح موعود کو لکھا کہ سوائے مولوی نور دین کے کوئی جماعت میں دین دار آدمی نہیں ہے.اس پر آپ نے اسے ایک جواب یہ دیا کہ بجائے اس کے کہ میں اپنی جماعت کے لاکھوں دین داروں کو بے دین قرار دوں بہتر ہے کہ میں تم کو جماعت سے خارج کر دوں.چنانچہ آپ نے اسے جماعت سے خارج کر دیا.کیونکہ اس سے نبی کی ذات پر بہت بڑا حملہ ہوتا ہے اور اس کی بعثت کی غرض ہی بالکل فضول ٹھہرتی ہے.خدا تعالیٰ اسے اس لئے مبعوث کرتا ہے کہ اس کے ذریعے دیندار لوگ پیدا ہوں.پھر اگر کوئی شخص نبی کی جماعت کو نیک نہیں سمجھتا تو اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ وہ اسے راست باز یقین نہیں کرتا.وہ خود منافق اور بے دین ہے جو ساری جماعت کو خراب کرنا چاہتا ہے.کیونکہ اشاعت فاحشہ کا جو نتیجہ قرآن میں بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ قوم سے بدی کا رعب جاتا رہتا ہے.اگر صرف ایک آدمی ایک بدی کا مرتکب ہو توہ اپنی بدی کو چھپاتا یا اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ لوگ مجھے کیا کہیں گے.لیکن جب وہ یہ سنے کہ اور بھی بہت لوگ اس غلطی میں مبتلا ہیں تو پھر وہ اس بدی کو حقیر سمجھنے لگتا ہے اور اس کا رعب اس کے دل سے اٹھ جاتا ہے.وہ سمجھتا ہے صرف میں ہی نہیں اور بھی بہت سے لوگ میرے شریک ہیں.بسا اوقات دیکھا گیا ہے.جب ایک شخص کو کہا گیا کہ تم نے یہ فعل کیوں کیا ہے تو جواب میں اس نے کہہ دیا کہ فلاں نے بھی تو کیا ہے.وجہ یہ کہ انسان کی فطرت میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ جب وہ دوسروں کو کسی جرم میں مبتلا سمجھتا ہے تو اس جرم کو حقیر سمجھنے لگتا ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اور بھی بہت سے اس جرم کے کرنے والے پیدا ہو جاتے ہیں.ایسے لوگ پہلے خود ٹھوکر کھاتے اور صداقت سے دور ہو جاتے ہیں.پھر دوسروں کے لئے ٹھوکر کا موجب اور صداقت سے محرومی کا باعث ہو جاتے ہیں.پس ایسے لوگ جو معامالات میں کثرت رائے کا احترام نہیں کرتے.اول وہ ظالم بنتے ہیں.کیونکہ دوسروں کا حق مارتے ہیں.پھر قوم کے اخلاق کو اشاعت فاحشہ کے ساتھ تباہ اور برباد کرتے ہیں.اور پھر مامور اور خدا کے مرسل پر ان کا ایمان متزلزل ہو جاتا ہے.اور وہ مرتدین میں شامل ہو جاتے ہیں.اگر ایسے معاملات میں انسان یہ سمجھ لے کہ میں لینے والا یا دینے والا ہوں.میری عقل جو فیصلہ کرے گی.اس میں حرص اور طمع کا دخل ہو سکتا ہے.اس لئے اپنی حرص اور طمع کی وجہ سے

Page 152

147 میری عقل ماری ہوئی ہے.میرے معالمہ میں دوسرے لوگ بے غرض ہو کر جو فیصلہ دیں گے.وہی زیادہ صحیح اور درست ہو گا.تو پھر وہ کسی کا حق نہیں مارے گا اور ننانویں فی صد ایسے فیصلے ہوں گے جن میں کسی کی حق تلفی نہ ہو گی.کیونکہ اس طرح انسان ہوشیار اور چوکس ہو جاتا ہے اور وہ ظلم اور اشاعت فاحشہ سے بھی بچ جاتا ہے.مامور اور مرسل پر جو اس کا ایمان ہوتا ہے وہ بھی سلامت اور محفوظ رہتا ہے.کیونکہ ایک عقل کے مقابلہ میں زیادہ عقلیں صداقت اور راستی کے دریافت کرنے کے بہت زیادہ قریب ہوتی ہیں اور اگر وہ کبھی سو مقدمات میں سے کسی ایک آدھ مقدمہ کے فیصلہ میں غلطی بھی کریں اور اس کا کچھ نقصان بھی ہو جائے تو یہ نقصان ان فوائد کے مقابلہ میں کچھ حیثیت نہیں رکھے گا جو اسے دیگر مقدمات میں حاصل ہوئے ہیں.اور جن کی وجہ سے وہ نہ صرف بہت سے جرائم سے بچ گیا بلکہ اس کا دین اور ایمان بھی محفوظ ہو گیا.تو اپنی ذات سے جو بات تعلق رکھتی ہو اس کا فیصلہ اپنی عقل سے نہیں کرنا چاہیے.بلکہ اس کے متعلق دوسروں کی عقل کو ترجیح دینی چاہیے اور ان کے فیصلہ کو درست ماننا چاہیے.اپنی ذات سے متعلق معاملہ پر انسان کس طرح غلطی کھا سکتا ہے.اس کا ایک دفعہ مجھے نہایت حیرت انگیز تجربہ ہوا.ایک شخص نے مجھے لکھا میرا لڑکا بہت ہوشیار اور لائق تھا.خصوصاً عربی میں تو بہت ہی لائق تھا.لیکن استادوں نے اس کو فیل کر دیا.اب یہ ایسا معاملہ تھا کہ اس کی فوراً تحقیق ہو سکتی تھی.کیونکہ پرچے لکھے ہوئے موجود ہوتے ہیں.میں نے پرچے منگوائے عربی کے پرچے کے سو نمبر تھے جن میں سے اسے اڑہائی دیئے گئے تھے.اب اس میں غلطی کا پکڑنا بہت آسان تھا اور بہت آسانی سے معلوم ہو سکتا تھا کہ لڑکے کی غلطی ہے یا استادوں کی.لیکن میں نے جب اس پرچے کو دیکھا تو مجھے نمبر دینے والے استاد پر سخت افسوس ہوا کیونکہ وہ پرچہ اڑھاہی نمبروں کے قابل بھی نہیں تھا.اس نے ایسے الٹ پلٹ جواب دیئے تھے کہ معلوم ہوتا تھا اسے عربی سے مس ہی نہیں ہے.مثلاً اس سے سوال کیا گیا مضاف کیا ہوتا ہے.تو ! اس نے لکھ دیا.فعل.اس سے مضارع کی گردان پوچھی گئی تو اس نے جواب دیا کہ ذھب یذھب.اذھب.نمبر دینے والے استاد نے اس کی کسی بات کو صحیح سمجھ کر یہ نمبر دے دیئے مگر دراصل اس نے اپنی طرف سے وہ بھی صحیح نہ لکھی تھی.بلکہ اس کی مثال ایسی ہی تھی جیسے کسی شخص سے پوچھا جائے.انسان کی شکل کیسی ہوتی ہے.اور وہ کہدے انسان وہ ہوتا ہے جس کی ایک سونڈ اور دو آنکھیں ہوتی ہیں.اب یہ صحیح ہے کہ انسان کی دو آنکھیں بھی ہوتی ہیں.لیکن یہ کہہ کر کہ اس کی سونڈ ہوتی ہے.بتا دیا کہ وہ جانتا ہی نہیں انسان کسے کہتے ہیں.اور اس کا دو آنکھیں بتانا بھی کچھ

Page 153

148 حقیقت نہیں رکھتا.اسی طرح اس لڑکے کی حالت تھی.اس نے جو بات صحیح بتائی تھی وہ بھی صحیح سمجھ کر نہیں بتائی تھی.اس پر میں نے اس کے باپ کو لکھا کہ میرے نزدیک تو اس لڑکے کو جتنے نمبر دیئے گئے ہیں ان کا بھی مستحق نہیں ہے.اس نے لکھا لڑکے نے مجھے ایسا لکھا تھا اس لئے میں نے اس کی بات صحیح خیال کر کے شکایت لکھ دی تھی.اب ایک ایسا لڑکا جو ماضی کی گردان ذھب.سب اذھب کرتا ہے اور یفعل کو مضاف بتاتا ہے.اپنی جگہ وہ بھی سمجھتا ہے کہ مجھے فیل کیوں کیا گیا.مجھے اول درجہ کے نمبروں میں پاس کرنا چاہیے تھا.لیکن مجھے تعجب تھا کہ اس کو سو میں سے اڑہائی نمبر بھی کیوں دیئے گئے.تو دنیوی معاملات میں ہمیشہ دوسروں کا فیصلہ ہی زیادہ صحیح اور درست ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ صوفیاء نے مراقبہ کرنا لکھا ہے.مراقبہ کا مطلب یہ ہے کہ ایک انسان دوسرے کے نقائص دیکھے اور اس طرح اصلاح کی جائے.اس کی مثال وہ یہ دیتے ہیں کہ انسان اپنا چہرہ خود نہیں دیکھ سکتا.اس کے چہرے کا نقص دوسرا اسے بتلا سکتا ہے.اسی طرح اخلاق اور معاملات میں اس کے نقائص دوسرے ہی اسے صحیح طور پر بتلا سکتے ہیں.اگر وہ اپنی رائے پر زور دے گا تو سو میں سے ننانویں دفعہ غلطی پر ہو گا.لیکن اگر اپنی رائے کو چھوڑ دے گا اور کثرت کے فیصلہ کو قبول کرلے گا تو ننانویں دفعہ ٹھوکر سے بچے گا.پس جب تک تم ایمان اور اخلاق کی حفاظت کے ان ذریعوں کو استعمال نہیں کرو گے.تم کبھی صداقت اور راستی کو حاصل نہیں کر سکو گے معاملات دنیوی میں دوسروں کی رائے تسلیم کرنے سے ہی انسان صحیح نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے.گو کبھی شاذ و نادر نقصان بھی ہو سکتا ہے.اور اس کے کسی معاملہ کے کسی حصہ میں کثرت کو بھی غلطی لگ سکتی ہے.مگر دوسری صورت کا نقصان اس سے بہت زیادہ ہے.جس سے کہ اس کا دین ایمان بھی برباد ہو جاتا ہے.میں سمجھتا ہوں اگر اس ایک بات کو ہی اچھی طرح سمجھ لیا جائے اور اس پر عملدرآمد کیا جائے.تو نصف سے زیادہ کمزوریاں اللہ چاہے تو دور ہو سکتی ہیں.باقی نصف کے دور کرنے کے لئے بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے میں علاج بتلا سکتا ہوں.جو کسی دوسرے وقت بیان کروں گا.انشاء اللہ امید ہے تمام دوست نہ صرف اپنے دین و ایمان کی حفاظت کریں گے بلکہ دوسروں کے لئے بھی ان کے دین و ایمان کی حفاظت میں محمد اور معاون ہوں گے.خدا تعالٰی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم تمام ان ذریعوں کو استعمال میں لا سکیں جن سے اخلاق اور معاملات کی صحت اور درستی ہوتی ہو.الفضل ۳۰ مئی ۱۹۲۵ء)

Page 154

149 20 20 اخلاق کی درستی کے لئے بہترین زمانہ (فرموده ۲۹ مئی ۱۹۲۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں نے پچھلے جمعہ میں اخلاق فاضلہ اور اعمال کی درستی کے متعلق ایک ایسے دروازہ کا ذکر کیا تھا جس کے ذریعہ نیک اخلاق انسان کے قلب میں داخل ہو سکتے ہیں.وہ نیک اعمال بجا لاتا ہے.اور جس کے مخالف دروازے بند کرنے سے بد اخلاقی اور بد اعمالی سے محفوظ ہو جاتا ہے.آج میں اس کے متعلق ایک اور اہم امر بیان کرتا ہوں جو میرے نزدیک اس سے بہت زیادہ اہم اور ضروری ہے.کیونکہ میرے نزدیک اسے مد نظر رکھے بغیر کوئی قوم اپنے اخلاق اور اپنے اعمال کو درست اور صحیح نہیں بنا سکتی.قبل اس کے کہ میں اس دوسرے دروازے کی حقیقت کو بیان کروں یہ کہہ دینا ضروری ہے کہ اخلاق اور اعمال کی درستی کے لئے صرف ارادہ ہی کر لینا کافی نہیں.بلکہ اس کے ساتھ مشق اور محنت کی بھی ضرورت ہوتی ہے.محنت اور مشق کے بغیر محض ارادہ کچھ فائدہ نہیں دے سکتا.لیکن جہاں ارادہ کے ساتھ محنت اور مشق کا ہونا ضروری ہے اور بغیر محنت مشقت کے محض ارادہ بے فائدہ ہے.وہاں پر یہ بات بھی ہے کہ وہ مشق اور محنت بھی خاص حالات اور خاص اوقات سے تعلق رکھتی ہے.اور بہترین حالات اور واقعات میں سے جو اخلاق اور اعمال کی درستی کے لئے مناسب اور موزوں ہیں ان میں سے سب سے بڑھ کر بچپن کا زمانہ ہے.بچپن کے زمانہ میں جس آسانی کے ساتھ ایک بچہ کسی کسب کو سیکھ سکتا اور اس کے لئے محنت اور مشقت کی تکلیف برداشت کر سکتا ہے.بڑی عمر میں برداشت نہیں کر سکتا.بچے کے احساسات اس قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ محنت اور مشقت کو بہت کم محسوس کرتا ہے.وہ اس خالی پیالے کی طرح ہوتا ہے جس میں ہر ایک چیز ڈالی جا

Page 155

150 سکتی ہے.بچہ ہر ایک کام کے سیکھنے کے لئے تیار ہوتا ہے.اس لئے جس امر کی اس کو مشق کرائی جائے وہ با آسانی کر سکتا ہے.مجھے اپنے بچپن کا زمانہ یاد ہے اور وہ حالات اور واقعات بالکل میری آنکھوں کے سامنے ہیں کہ سخت سے سخت تپش اور شدید گرمی کے وقت میں باہر نکل جاتا اور تپش اور گرمی بالکل محسوس نہ کرتا.بلکہ مجھے خوب یاد ہے میں اپنے نفس میں اپنے اوپر یہ بڑا ظلم سمجھا کرتا تھا جب مجھے والدہ صاحبہ یا دوسرے نگران گرمی میں باہر نکلنے اور کھیلنے سے روکتے تھے.میں اس گرمی میں باہر نکل جاتا اور کچھ محسوس نہ کرتا.میں سمجھتا ہوں کہ جو خیالات بچپن میں میرے ذہن میں پیدا ہوتے تھے وہی دوسرے بچوں کے دلوں میں بھی پیدا ہوتے ہوں گے.جب کہ ان کو گرمی کے وقت باہر نکلنے سے روکا جاتا ہو گا.وجہ یہ ہے کہ بچپن میں ایسی باتوں کا احساس نہیں ہوتا.تو جس قدر محنت اور مشقت کی تکلیف کو ایک بڑا آدمی محسوس کرتا ہے بچہ اس کو محسوس نہیں کرتا.خدا تعالیٰ نے اپنی حکمت کے ماتحت اس کے احساسات کو باطل کیا ہوا ہوتا ہے.اس لئے اس کو کسی امر کے لئے مشق کرنے میں اتنی دقت محسوس نہیں ہوتی اور جن باتوں کی اس وقت مشق کرتا ہے ان کا آئندہ زندگی میں بڑا اثر ہوتا ہے.لیکن جن کی مشق بچپن میں نہ ہو ان میں بڑی عمر میں سخت وقت پیش آتی ہے.تین آدمی مجھے ایسے معلوم ہیں جو نماز میں صحیح طور پر تشہد نہیں بیٹھ سکتے.اس کی وجہ یہی ہے کہ بچپن میں ان کو صحیح طور پر تشہد بیٹھنے کی مشق نہیں کرائی گئی.یا کسی نے ان کو ٹوکا نہیں تا وہ صحیح طور پر تشہد بیٹھنے کی عادت ڈالتے.یا ٹوکنے والوں سے ان کا اس طرح بیٹھنا پوشیدہ رہا اور اب بڑی عمر میں وہ صحیح طور پر نہیں بیٹھ سکتے.دو تو نہایت مخلص اور ہماری جماعت میں شامل ہیں اور ایک کا ہماری جماعت سے تعلق نہیں.اگر اب وہ چاہیں اور کوشش بھی کریں تو صحیح تشہد نہیں بیٹھ سکتے.تو بچپن کا زمانہ ایسا ہوتا ہے کہ بچے کے اس وقت کے حالات کے ماتحت اس سے جس قسم کی مشق کرائیں وہ با آسانی کر سکتا ہے.لیکن اگر بچپن میں جھوٹ یا چوری وغیرہ کی بد عادات پڑ جائیں.تو بڑے ہو کر ان کو کتنے ہی وعظ و نصیحت کئے جائیں.کتنا ہی سمجھایا جائے.اور کتنی ہی ملامت کی جائے.لیکن وہ ان افعال کو برا سمجھتے ہوئے بھی ان میں مبتلا ہو جاتے ہیں.میں نے دیکھا ہے ایسے لوگ جھوٹ بولتے ہیں اور پھر روتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہو گئی.چوری کرتے ہیں اور پھر افسوس کرتے ہیں کہ ہم سے ایسا ہوا بلکہ میں نے دیکھا ہے انہوں نے خود ہی اپنی غلطی کو محسوس کر کے چوری کا اقرار کیا اور اس کا ازالہ بھی کر دیا.لیکن پھر بھی چوری کی عادت سے باز نہیں رہ سکتے.تو بچپن کی عادت انسان کے ساتھ جاتی طور پر

Page 156

151 اور باقی رہتی ہیں.الا ماشاء اللہ.اس لئے بچپن میں بچوں کو اخلاق فاضلہ کی مشق کرانی چاہیے.اس آئندہ نسلوں کی حفاظت ہو جائے گی یہ بچپن میں تربیت نہ ہونے کا نتیجہ ہے کہ کئی ایسے آدمی ہیں جو بہت مخلص اور نیک ہیں لیکن بے ساختہ ان کے منہ سے گالیاں نکل جاتی ہیں.بعض مصنف ہیں جو مخلص ہیں لیکن باوجود احتیاط کے ان کے قلم سے درشت الفاظ نکل جاتے ہیں.اور جب سمجھایا جائے تو نہایت سنجیدگی اور متانت سے کہہ دیتے ہیں ہم نے تو کوئی سخت لفظ نہیں لکھا.بچپن کی عادت کا نتیجہ ہے کہ وہ اس فعل کی مضرتوں سے واقف ہوتے ہوئے بھی اس سے بچ نہیں سکتے.حضرت خلیفہ اول الله فرماتے ہیں ایک شخص کی نسبت مجھے خبر دی گئی کہ وہ بہت گالیاں دیتا ہے.ایک روز علیحدگی میں میں نے اسے نصیحت کی کہ میں نے سنا ہے آپ بہت گالیاں دیتے ہیں.اس سے بچنا چاہیے کیونکہ اس سے انسان کے اپنے اخلاق بھی خراب ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی تکلیف ہوتی ہے.وہ یہ سن کر بے اختیار نہایت گندی اور فحش گالی دے کر کہنے لگا کون کہتا ہے میں گالیاں دیتا ہوں.تب میں نے سمجھ لیا کہ یہ شخص معذور ہے بلا ارادہ گالی اس کے منہ سے نکل جاتی ہے کیونکہ وہ چاہتا نہیں تھا کہ گالی دے مگر بے اختیار اس کے منہ سے گالی نکل گئی اور وہ محسوس بھی نہیں کرتا تھا.کہ میں تو اب بھی گالی دے رہا ہوں.تو جب انسان کو کسی عیب کی عادت ہو جاتی ہے پھر وہ اس عیب کو عیب ہی نہیں سمجھتا اور اگر سمجھتا ہے تو کرتے وقت اس کو محسوس نہیں کرتا.ایسے لوگوں کو اگر سمجھایا جائے تو انکار کر دیتے ہیں کہ ہم نے تو ایسا فعل نہیں کیا.مجھے اس بات کا بہت تجربہ ہے.کیونکہ ہر روز لوگوں سے معاملہ کرنا پڑتا ہے.میں نے دیکھا ہے بہت لوگ ہیں جو ہمیشہ عیب چینی کرتے ہیں مگر وہ ساتھ ہی یہ بھی کہتے جاتے ہیں ہماری عادت نہیں کہ کسی کی عیب چینی کریں.مگر یہ بات یوں ہے اور غالباً اگر وہ دن میں ہزار باتیں بھی دوسروں کی غیبت اور عیب چینی کی کریں.تو ہر بار وہ ساتھ یہ بھی کہیں گے کہ ہماری یہ عادت نہیں ہے کہ کسی کی عیب چینی کریں.حالانکہ سو میں سے پچاس باتیں ان کی عیب چینی کی ہوتی ہیں.مگر وہ عیب چینی کرتے ہوئے بھی نہیں سمجھتے کہ ہم عیب چینی کر رہے ہیں.اگر بچپن میں ان کی اصلاح اور نگرانی کی جاتی تو ان کی یہ حالت نہ ہوتی.غرض بچپن کا زمانہ اخلاق فاضلہ کے سیکھنے کا بہترین موقع ہے.اگر کوئی قوم اعلیٰ اخلاق اور پسندیدہ اعمال میں ترقی کر سکتی ہے تو اس کے لئے بہترین ذریعہ یہی ہے کہ وہ اپنی اصلاح کی بھی کوشش کرے.مگر اپنی نسل کی اصلاح اور اس کے اخلاق کی خاص نگرانی کرے.بچپن کے زمانہ میں جہاں بچہ بہت جلد اور آسانی کے ساتھ اخلاق فاضلہ سیکھ سکتا ہے

Page 157

152 وہاں اگر اس کی نگرانی نہ کی جائے اور اس کے اخلاق خراب ہو جائیں تو ایسا خطرناک ہو جاتا ہے کہ دوسرے بچوں کے اخلاق کو بھی بگاڑ دیتا ہے.بڑے بڑے آدمی تو چونکہ عیب کو عیب سمجھنے کی قابلیت رکھتے ہیں اس لئے اس سے بچنے کی کوشش بھی کرتے ہیں.لیکن بچوں میں چونکہ نقل کرنے کی عادت ہوتی ہے اس لئے وہ جو کچھ دوسرے کو کرتے دیکھتے ہیں.وہی کرنے لگ جاتے ہیں.ایک لڑکے کو اگر جھوٹ بولنے کی عادت ہو گی یا گالیاں دینے یا چوری کرنے کی تو جتنے لڑکوں کا اس سے تعلق ہو گا وہ سارے کے سارے ان حرکات میں اس کی نقل کریں گے اور اس طرح وہ بھی جھوٹ بولنے گالیاں دینے اور چوری کرنے کے عادی ہو جائیں گے.تو بچپن کا زمانہ نہ صرف یہ کہ اخلاق فاضلہ کے سیکھنے کا بہت بڑا میدان ہے بلکہ دوسروں کے اخلاق بگاڑنے کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے.میرے نزدیک بڑے بڑے لیڈر بھی اپنے لیکچروں اور تقریروں میں ایسے کامیاب نہیں ہو سکتے.جتنا ایک بچہ دوسرے بچوں کو اپنی باتوں سے متاثر کرنے میں کامیاب ہوتا ہے.میں مذہبی پیشواؤں کو اس سے متقی کرتا ہوں.کیونکہ ان کے ساتھ ایماء ملا ءنکہ ہوتا ہے.جو ان کی قبولیت کو پھیلاتے ہیں.ایک بچہ جسے جھوٹ بولنے کی عادت ہے وہ سو یا دو سولڑ کے جھوٹ بولنے والے بہت آسانی کے ساتھ پیدا کر سکتا ہے.ایک لڑکا جسے چوری کی عادت ہے وہ با آسانی سو دو سولڑ کا چوری کرنے والا پیدا کر سکتا ہے.غرض بچپن میں جن کے اخلاق خراب ہو جاتے ہیں وہ نہ صرف اپنے پ کو تباہ کر لیتے ہیں بلکہ اوروں کی بھی تباہی کا باعث بنتے ہیں اور بچپن کی عادت کا اس قدر اثر ہوتا ہے کہ بڑے ہو کر ان کی اصلاح مشکل ہو جاتی ہے.حتی کہ بڑے بڑے فلاسفر اور سمجھدار ہو کر بھی ان کے سامنے عاجز رہ جاتے ہیں.پس اخلاق فاضلہ کے لئے میرے نزدیک سب سے زیادہ ضروری امر یہ ہے کہ اپنی آئندہ نسلوں کی اصلاح اور درستی کی پوری پوری فکر اور نگرانی کی جائے اور یہ بات کوئی معمولی نہیں بلکہ بہت بڑی بات ہے.اس کے لئے سب سے پہلا طریق وسطی اور میانہ روی ہے.نہ تو بچے پر اتنی سختی کی جائے کہ اسے دوسرے بچوں سے ملنے کا موقع ہی نہ دیا جائے اور نہ اتنی نرمی کی جائے کہ خواہ وہ کچھ کرتا پھرے اس کی نگرانی نہ کی جائے.اگر اسے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے کودنے سے روک دیا جائے گا تو اس سے اس کے اخلاق درست نہیں ہو سکیں گے.کیونکہ ایسی صورت میں وہ اس بات کے لئے تیار رہتا ہے کہ بدی اس کے سامنے آئے اور وہ جھٹ اسے قبول کر لے.کیونکہ بدی کا مقابلہ ارادہ کی قوت سے ہوتا ہے اور وہ اس وقت تک نہیں پیدا ہو سکتی جب تک بچہ اچھے اور برے

Page 158

153 دونوں قسم کے بچوں سے نہ ملے.جس بچے کو گھر بند رکھا جائے اور کسی سے نہ ملنے دیا جائے وہ پچاس برس کی عمر میں بھی لڑکا ہی رہے گا.کیونکہ اس کی مثال اس کانچ کے برتن کی سی ہو گی جسے ذرا ٹھوکر لگی اور وہ ٹوٹ گیا جب بھی کوئی بدی اس کے سامنے آئے گی.وہ مقابلہ نہیں کر سکے گا.لیکن اگر وہ لوگوں سے ملتا رہے تو اس کے اندر شناخت پیدا ہو جاتی ہے کہ نیکی کیا ہے اور بدی کیا ہے.اور بدی سے بچنے کی طاقت حاصل ہو جاتی ہے.میں نے دیکھا ہے جن بچوں کی ہمیشہ سختی کے ساتھ نگہداشت کی جاتی ہے وہ بہت کمزور ہوتے ہیں.اور وہ اگر نیکی بھی کرتے ہیں تو عادت کے ماتحت نہ کہ بدی کے مقابلہ کی طاقت کی وجہ سے یہی وجہ ہے کہ بدی کے پیش ہونے پر بہت جلد اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں.اسی طرح جن کو بالکل آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے اور کسی قسم کی نگرانی نہیں کی جاتی.ان کی مثال ان بھیڑوں کی ہے جنہیں بھیڑیوں کے آگے چھوڑ دیا جائے.اگر وہ بد اخلاقی سے بچے رہیں.یا ان کی کسی طرح اصلاح ہو جائے.تو اس میں ان کے ماں باپ کا کوئی حصہ نہیں ہوتا.لیکن اگر وہ تباہ ہو جائیں اور ان کے اخلاق برباد ہو جائیں تو اس کے ذمہ دار ماں باپ ہوتے ہیں.کیونکہ انہوں نے اپنے فرض کی ادائیگی سے غفلت کی اور اپنی اولاد کی کچھ نگرانی نہ کی.غرض بچوں کے اخلاق کی درستی میں میانہ روی اختیار کرنی چاہیے.نہ تو اتنی تنگی کرنی چاہیے کہ وہ کسی سے مل ہی نہ سکیں اور نہ اتنی آزادی دینی چاہیے کہ وہ جو چاہیں کرتے پھریں اور ان کی کوئی نگہداشت نہ کی جائے.بچے عام طور پر اخلاق ماں باپ سے نہیں سیکھتے بلکہ زیادہ تر اخلاق دوسرے بچوں.سیکھتے ہیں.مگر ماں باپ کا یہ پتہ لگاتے رہنا فرض ہے کہ بچے کیا سیکھ رہے ہیں.اور یہ کوئی مشکل بات نہیں کیونکہ بچے جو کچھ دوسروں سے سیکھتے ہیں وہ جھٹ ماں باپ کے سامنے بھی کرنے لگ جاتے ہیں اس طرح ان کے عیوب کا فورا پتہ لگ جاتا ہے.اگر ماں باپ عمدگی سے ان کی اصلاح کرنی چاہیں تو بہت آسانی سے کر سکتے ہیں.لیکن بہت ہیں جو بچے کی ایسی حرکات پر کہ جو نا پسندیدہ ہوتی ہیں.پیار اور محبت کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے اور اگر ایک آدھ دفعہ کہہ بھی دیا تو پھر خیال نہیں رکھتے.اور بہت سے ایسے ہیں کہ اگر ان کو ان کے بچوں کے عیب بتلائے جائیں تو وہ لڑنے لگ جاتے اور خوامخواہ اپنے بچے کی تائید کرنے لگ جاتے ہیں.اور بعض اوقات بچوں کی لڑائی کی وجہ سے بڑوں میں لڑائی شروع ہو جاتی ہے.تو سب سے پہلی اور نہایت ضروری بات یہ ہے کہ ماں باپ بچوں سے ناجائز محبت نہ کریں.اگر کوئی ان کے بچے کے متعلق شکایت کرے تو اس کی اصلاح کی 9

Page 159

154 تجویز کریں.اگر بچہ جھوٹ بولتا ہے یا چوری کرتا ہے یا کوئی اور بدی اس میں ہے تو اسے سرزنش کریں.لیکن ایسی سختی بھی نہ ہو کہ بچہ ان سے چھپ کر بدی کرنے لگے.بعض لوگ اتنی سختی کرتے ہیں کہ بچہ پھر یہ کوشش کرتا ہے کہ میرے عیب کا ماں باپ یا کسی اور کو پتہ نہ لگے.اس طرح وہ پوشیدہ عیب کرنے کا عادی ہو جاتا ہے.اور ایسے بچوں کے عیوب کی اصلاح ناممکن ہو جاتی ہے.اس لئے ہمیشہ اس بات کی بھی نگرانی کرنی چاہیے کہ بچہ چھپ کر عیب نہ کرے.تا اس کے عیوب کا پتہ لگتا رہے.اور اس طرح بڑی آسانی سے اس کی اصلاح ہو سکتی ہے.ہر عیب کس طرح پیدا ہوتا اور اس کس طرح چھڑایا جا سکتا ہے.یہ ایک بڑا علم ہے.جسے میں اس وقت چھوڑتا ہوں اس وقت جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ اخلاق اور اعمال کی درستی کے لئے نہ تو بچوں پر سخت پابندی کی جائے کہ وہ کسی سے نہ مل سکیں اور نہ ان کو بالکل آزاد رہنے دیا جائے کہ وہ جو چاہیں کرتے پھریں ان کی کوئی نگرانی نہ کی جائے.دوسرے یہ کہ بچوں سے ناجائز محبت بھی نہ کی جائے.اس بات کی تفصیل کے بعد اب میں یہ بھی بتلاتا ہوں کہ جہاں اپنے بچوں کی اصلاح کی فکر اور نگہداشت ضروری ہے.وہاں دوسرے بچوں کے اخلاق و عادات کی نگہداشت بھی ضروری ہے.پس آپ جب تک دوسروں کے بچوں کے اخلاق کی بھی نگرانی نہیں کریں گے.اپنے بچوں کی طرف سے مطمئن نہیں ہو سکتے.عام علاجوں میں سے ایک یہ بھی ہے جو خلیفہ اول بھی فرمایا کرتے تھے کہ بچوں کو بعض مفید فقرے یاد کرا دیے جائیں.جن میں ان کو بتایا جائے کہ ہم یہ کریں گے.یہ نہیں کریں گے.اس کا بھی بہت بڑا اثر ہوتا ہے.دوسری بات جو رسول کریم ﷺ سے ثابت ہے.وہ یہ ہے کہ رات کو سونے سے پہلے دعا کی عادت ڈالی جائے کیونکہ ذکر الہی کے بغیر سونا جائز ہی نہیں.آنحضرت بلا ناغہ آیت الکرسی اور تینوں قل پڑھ کر اپنے بدن پر پھونکا کرتے تھے ، جس بات کو آپ بلا ناغہ کریں وہ سنت کہلاتی ہے.پس جس طرح نماز کی سنتیں ضروری ہیں اسی طرح یہ سنت بھی ضروری ہے.اور اگر ان کو ترک کرنے میں گناہ ہے تو پھر اس کے ترک کرنے میں بھی گناہ ہونا چاہیے.اگر کہا جائے کہ نماز کی سنتوں کے متعلق آنحضرت ﷺ نے خصوصیت سے فرمایا ہے اس لئے وہ ضروری ہیں.میں کہتا ہوں سونے سے پہلے دعا کے متعلق بھی آپ نے فرمایا ہے اور ثابت ہے کہ بعض آدمیوں کو آپ نے دعا سکھلائی.آخر کسی خاص اہتمام کے ساتھ نہ نماز کی سنتوں کے متعلق آپ نے عام لیکچر دیا اور تاکید کی اور نہ سونے سے پہلے دعا کے متعلق کوئی ایسی

Page 160

155.کارروائی کی جس طرح ان سنتوں کے متعلق آپ نے حکم فرمایا.اسی طرح اس سنت کے متعلق بھی ثابت ہے کہ آپ نے بعضوں کو دعا سکھلائی اور اس کی تاکید کی.تو سونے سے پہلے دعا کرنا اسلام کے ایسے امور میں سے ہے جو ایک مومن کے لئے نہایت ضروری ہے اگر بچوں کو بھی ایک ایک دعا یاد کرا دی جائے اور سونے سے پہلے اس دعا کا پڑھانا شروع کرایا جائے تو اس سے بہت بڑا فائدہ ہو سکتا ہے.عیسائیوں میں دیکھا ہے وہ اپنے بچوں کو سونے نہیں دیتے جب تک کہ پہلے ان سے مذہبی دعا نہ کرالیں.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خواہ بچہ بڑا ہو کر دہر یہ ہی کیوں نہ ہو جائے عیسائیت کے احکام کا اس کے دل میں خوف اور ڈر ضرور رہتا ہے.لیکن مسلمانوں میں یہ بات نہیں.(الفضل ۶ جون ۱۹۲۵ء) بخاری کتاب التفسير باب فضل المعوذات

Page 161

156 21 بچوں کے اخلاق کس طرح درست ہو سکتے ہیں (فرموده ۵ جون ۱۹۲۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں بتایا تھا کہ بچوں کے اخلاق کی درستی کے لئے صحیح تربیت کا ہونا ضروری ہے اور یہ کہ تربیت کا بہترین موقع بچپن کا زمانہ ہے کیونکہ جس قسم کی تربیت طبعا" بچپن کی عمر میں ہو سکتی ہے.وہ بڑے ہو کر بڑی عمر میں نہیں ہو سکتی.مگر میں نے ساتھ ہی یہ بھی بتایا تھا کہ خواہ ماں باپ کتنی بھی کوشش کریں کہ ان کا بچہ بد اخلاقیوں کے بداثر سے محفوظ رہے.جب تک بچے کی صحبت اور مجلس نیک نہ ہو گی.اس وقت تک ماں باپ کی کوشش بچوں کے اخلاق درست کرنے میں کارگر اور مفید ثابت نہیں ہو سکتی.بیشک ایک حد تک ان کی اچھی تربیت سے بچوں میں نیک خیالات پیدا ہوتے ہیں.لیکن اگر بچے کی عمدہ تربیت کے ساتھ اس کی صحبت بھی اچھی نہ ہو تو بد صحبت کا اثر تربیت کے اثر کو اتنا کمزور کر دیتا ہے کہ اس تربیت کا ہونا نہ ہونا قریباً مساوی ہو جاتا ہے.بچپن کی بد صحبت ایسی بد عادات بچے کے اندر پیدا کر دیتی ہے کہ آئندہ عمر میں ان کا ازالہ نا ممکن ہو جاتا ہے.ایسے آدمی کے قلب میں دو متضاد کیفیتیں پیدا ہو جاتی ہیں.ایک طرف تو ماں باپ کی نیک تربیت اس کو نیکی طرف کھینچتی ہے اور دوسری طرف بد صحبت بدی کا میلان اس کے اندر پیدا کرتی ہے.اور وہ ہمیشہ اس کشمکش میں مبتلا رہتا ہے اور نفس لوامہ کے اثر سے اس کو کبھی آزادی حاصل نہیں ہوتی.ماں باپ کی تربیت اگر خشیت اللہ اس کے اندر پیدا کرتی ہے تو بد صحبت اس کے مقابلہ میں اس کی ہمت اور حوصلے کو پست کر دیتی ہے.پس کامل تربیت اسی وقت ہو سکتی ہے کہ جب اچھی تربیت کے ساتھ صحبت بھی اچھی ہو.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا تھا.بچوں کو کسی سے نہ ملنے دینا اور انہیں قید رکھنا بھی کوئی نیک نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا.کیونکہ اس طرح جہاں

Page 162

157 اس کی تربیت نامکمل رہتی ہے.وہاں اس کے اعضاء کا نشود نما بھی اچھی طرح نہیں ہو سکتا.وہ بچہ جسے بدی کے اثر سے بچانے کے لئے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع نہیں دیا جاتا.ایک طرف تو اس کی صحت خراب رہتی ہے.اور اس کے اعضاء پوری طرح نشو نما حاصل نہیں کر سکتے.دوسری طرف ایسے بچے ساری عمر بچے ہی رہتے ہیں.خواہ ان کی عمر چالیس پچاس سال کی ہی ہو جائے کیونکہ وہ اس وقت تک بدی سے بچے رہ سکتے ہیں جب تک کہ بدی ان کے سامنے پیش نہیں ہوتی.لیکن جب بھی بدی ان کے سامنے پیش ہو وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور جھٹ اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں پس بچوں کو دوسرے بچوں سے نہ ملنے دینے اور علیحدہ قید رکھنے سے ہم ان کو بدی کے اثرات سے محفوظ نہیں کہہ سکتے.بلکہ اس طرح اور بھی زیادہ ان کو بدیوں کے اثرات کو جلد تر قبول کرنے کے قابل بنا دیتے ہیں.ان حالات میں ہمیں دیکھنا چاہیے کہ وہ کون سے طریق ہیں جن سے بچوں کی تربیت عمدگی کے ساتھ کی جاسکتی ہے.پہلی صورت جس سے ہم بچوں کے اخلاق درست بنا سکتے ہیں.یہ ہے کہ تربیت صحیح اور پھر صحبت نیک ہو.پچھلے خطبہ میں اس کے متعلق میں نے بعض باتیں بیان بھی کی تھیں کہ کس طرح ہم بچوں کی اچھی تربیت کر سکتے ہیں اور کس طرح ہم ان کو بدیوں کے بد اثرات سے روک سکتے ہیں.مگر وہ جو کچھ میں نے بیان کیا تھا اجمالا " تھا.آج میں اس کے متعلق تفصیلا" بیان کرنا چاہتا ہوں.سب سے پہلی بات جو بچے کی تربیت کے واسطے ماں باپ کے لئے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ بچے کے ذہن میں کسی بدی کی نسبت یہ خیال نہ پیدا ہونے دیں کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں تا وہ اس بدی کو حقیر نہ سمجھنے لگ جائے.بہت سے ماں باپ ہیں جو دل سے چاہتے ہیں کہ بدی کا اثر ان کے بچوں پر نہ ہو لیکن وہ اپنا نمونہ ایسا ان کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ بچوں کی نگاہ میں وہ بدی حقیر ہو جاتی ہے اور اس کی وجہ سے بدی کا خیال ان کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے.مثلاً عام طور پر ماں باپ یہ چاہتے ہیں کہ بچہ جھوٹ نہ بولے.لیکن خود اس کے سامنے جھوٹ بول لیتے ہیں.بعض اوقات ایک کام سے جو انہوں نے کیا ہوتا ہے مگر بچے سے اس کو چھپانے کے لئے.کیونکہ اس کا چھپانا بچے کے حق میں مفید ہوتا ہے.وہ انکار کر دیتے ہیں.یا اگر بالکل صاف انکار نہیں کرتے تو ٹال مٹول اور ہیر پھیر کرنے لگ جاتے ہیں تا بچے کا خیال اس کی طرف سے بدل جائے لیکن بچے کا ذہن خدا نے ایسا بنایا ہوتا ہے کہ وہ نہایت ہوشیار ہوتا ہے.کیونکہ وہ ترقی کر رہا ہوتا ہے.اور اپنا

Page 163

158 علم بڑھا رہا ہوتا ہے اس لئے وہ ہر بات کی زیادہ چھان بین اور جستجو کرتا ہے.اور بات کو فورا تاڑ جاتا ہے.ماں باپ تو یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم اس کی خیر خواہی کر رہے ہیں کہ اس سے اس بات کو چھپا رہے ہیں.اگر نہ چھپائیں تو اس کو نقصان ہو گا.لیکن ان کی اس روش سے وہ یہ سبق حاصل کر رہا ہوتا ہے کہ ایک کام کر کے پھر اس سے انکار بھی کیا جا سکتا ہے یا اس کو ادھر ادھر کی باتوں سے چھپایا بھی جا سکتا ہے.کیونکہ وہ یہ خوب سمجھتا ہے کہ ماں باپ نے ایسا کام کیا تو ضرور ہے مگر اب وہ مجھ سے چھپا رہے ہیں.بچوں کے متعلق یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ کسی بات کو تاڑ نہیں سکتے یا کوئی بات ان کے ذہن سے اتاری جا سکتی ہے.وہ جس طرح جھٹ کسی بات کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں اسی طرح ہر بات جو ان کے سامنے کی جائے اسے سمجھ جاتے ہیں.میں نے ایک تماشہ گر کی کتاب پڑھی ہے جو کہ بہت بڑے تماشاگروں میں سے ہے.وہ خود تماشے کرتا اور بڑے بڑے تماشوں کا موجد ہے وہ اپنی کتاب میں اپنے تجربہ کی بناء پر لکھتا ہے.میں نے اپنے کام میں سب سے زیادہ خطرناک بچوں کو پایا ہے.بڑے بڑے پروفیسروں، سائنس دانوں اور عقل مندوں کے سامنے میں نے تماشے کئے ہیں.مگر مجھے کبھی ذرا گھبراہٹ نہیں پیدا ہوتی.لیکن میں بچوں کے سامنے تماشہ کرنے سے ہمیشہ گھبراتا ہوں کیونکہ بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ بچوں نے میری چوری پکڑ لی ہے اور اس وجہ سے مجھے اپنے تماشہ میں ناکام ہونا پڑا ہے.اس کی وجہ وہ یہ لکھتا ہے کہ بچہ چونکہ بالکل خالی الذہن ہوتا ہے اس نے اپنے دل میں کوئی رائے نہیں قائم کی ہوتی.وہ اس عمر میں سیکھ رہا ہوتا ہے اور اپنے علم کو کامل کر رہا ہوتا ہے.اس لئے اس کی نگاہ معمولی معمولی باتوں پر بھی پڑتی ہے جس سے راز افشاء ہو جاتا ہے.لیکن بڑے آدمی جو تماشہ کو دیکھتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں چھوٹی چھوٹی باتیں ہم سیکھ چکے ہیں ان کی طرف توجہ کی ضرورت نہیں اس لئے ان کا ذہن بڑی بڑی باتوں کی طرف جاتا ہے اور ہمارا کھیل ان کے سامنے بہت کامیاب ہوتا ہے.بچے نے چونکہ یہ رائے نہیں قائم کی ہوتی وہ بہت سادگی سے ہماری معمولی معمولی حرکات پر غور کرتا ہے اور اکثر ایسا ہوا ہے کہ بچوں نے ہمارا کھیل خراب کر دیا.پھر وہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ سب سے بڑا اور ہوشیار اور تجربہ کار تماشا کرنے والا میں اس کو قرار دوں گا جس کا بھید بچے دریافت نہ کر سکیں.غرض بچوں کے ذہن نہایت ہی حساس ہوتے ہیں اور ان سے کوئی چیز چھپانی بہت مشکل ہوتی ہے.جن حالات اور جن وجوہات کی بناء پر ماں باپ بچے سے کوئی چیز چھپا رہے ہوتے ہیں وہ اپنے دل میں خوش ہو رہے ہوتے ہیں کہ اس طرح ہم نے بچے سے

Page 164

159 اس چیز کو چھپا لیا ورنہ بچے کو اس سے نقصان پہنچتا.مگر وہ ایک نقصان سے بچا کر بچہ کو دوسرا نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں.خواہ والدین کے نزدیک حالات کچھ ہی ہوں.چونکہ بچے کی نگاہ ان حالات پر نہیں پڑتی اس لئے وہ ماں باپ کی اس کارروائی سے یہ سبق حاصل کرتا ہے کہ کسی چیز کے چھپانے کے لئے اس طرح جھوٹ بھی بولا جاتا ہے.کیونکہ جس وقت ماں باپ ایک کام کر کے بچے کے سامنے اس سے انکار کرتے یا ادھر ادھر کی باتیں کر کے اس کو چھپانا چاہتے ہیں.تو وہ خوب سمجھ رہا ہوتا ہے.اور چونکہ بچہ حساس اور ذکی ہوتا ہے اور وہ ماں باپ کا ایک اعلیٰ درجہ کا شاگرد ہوتا ہے.اس لئے وہ یہ سبق حاصل کرتا ہے کہ کسی وقت اگر ضرورت پیش آئے اور وہ بھی ایک چیز کے چھپانے کے لئے اپنا طریق بدل ڈالے تو حرج نہیں.کیونکہ وہ دیکھتا ہے میرے ماں باپ ایسا ہی کرتے ہیں.پس پہلی غلطی اولاد کی تربیت میں جو والدین سے سرزد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ گو وہ دل سے چاہتے ہیں کہ اپنے بچوں کو نقص اور عیب سے بچائیں.مگر خود پوری پوری احتیاط نہیں کرتے اور اپنا نمونہ اور عمل ان کے سامنے اچھا پیش نہیں کرتے.جس کی وجہ سے وہ خود ہی بچوں کو جھوٹ سکھانے کے موجب ہو جاتے ہیں.مثلا بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ والدین کوئی چیز گھر میں لاتے ہیں.بچہ بیمار ہوتا ہے اس کو کھلانے میں نقصان کا خطرہ ہوتا ہے اس لئے جب وہ مانگتا ہے تو کہہ دیتے ہیں وہ چیز تو گھر میں آئی ہی نہیں.حالانکہ بچے کو اس کی خبر ہو چکی ہوتی ہے.گو وہ اپنے ذہن میں سمجھ لیں کہ ہم نے جھوٹ نہیں بولا کیونکہ بچہ کا فائدہ کر رہے ہیں.مگر اس میں کیا شک ہے کہ وہ جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں اور وہ در پردہ بچے کو جھوٹ کی تعلیم دے رہے ہوتے ہیں.یا پھر بعض دفعہ وہ انکار تو نہیں کرتے مگر یہ کہہ دیتے ہیں ہم نے وہ چیز کھالی ہے.حالانکہ بچہ خوب جانتا ہے کہ انہوں نے ابھی کھائی نہیں.یا کہہ دیتے ہیں وہ چیز تو کوئی اٹھالے گیا یا ضائع ہو گئی.حالانکہ بچہ جانتا ہے کہ نہ کوئی اٹھا لے گیا اور نہ وہ ضائع ہوئی وہ چیز واقع میں آئی اور والدین نے اس سے چھپ کر کھائی.جسے اس نے چلمن کے پیچھے سے دیکھا ہوتا ہے.اس طرح وہ ماں باپ سے جھوٹ بولنے کا سبق سیکھتا ہے اور اس کے دل میں اس عیب کی کوئی اہمیت نہیں رہتی اور جھوٹ بولنے لگ جاتا ہے.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ خواہ زبانی میرے ماں باپ مجھے منع کرتے ہیں مگر موقع پر وہ خود بھی جھوٹ بول لیتے ہیں اس لئے یہ کوئی بری بات نہیں.اس طرح ایک اور عیب چوری ہے.میرے نزدیک چوری جھوٹ سے بھی زیادہ

Page 165

160 دیانتداری کے ساتھ ماں باپ بچوں کو سکھاتے ہیں اور گویا خصوصیت سے بچوں کو اس کی تعلیم دیتے ہیں.مثلاً بعض دفعہ ماں باپ ایک چیز بچے کو نہیں دینا چاہتے.لیکن اس کے اصرار کی وجہ سے اس کو دے دیتے ہیں اور پھر نظر بچا کر وہ چیز اس سے چھپا لیتے ہیں.بے شک ان کا یہ فعل اخلاقا چوری نہیں کہلا سکتا.کیونکہ وہ ان کی اپنی چیز ہے جسے وہ بچہ کو نہیں دینا چاہتے اور نظر بچا کر اٹھا لیتے ہیں.مگر اس سے بچوں کے اندر اس بات کی حس پیدا ہو جاتی ہے کہ ایسا بھی کیا جا سکتا ہے اور پھر وہ بھی یہ کوشش کرنے لگ جاتے ہیں کہ ہم بھی چیزیں چھپائیں.تو ماں باپ کی اس روش کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ جھوٹ سے بڑھ کر نہایت آسانی سے چوری کی عادت بچہ ان سے سیکھ لیتا ہے.الغرض پہلا طریق جو بچوں کی تربیت کے لئے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ماں باپ ایسا طریق اختیار نہ کریں اور اپنے افعال کو ایسے رنگ میں بچے کے سامنے پیش نہ کریں کہ جس سے بچے کے ذہن میں بد افعال کی طرف توجہ پیدا ہو.دوسرا نقص بچوں کی تربیت میں میں نے دیکھا ہے.اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ ماں باپ غریب ہوتے ہیں یا امیران دونوں صورتوں میں بچوں میں دو نقص پیدا ہو جاتے ہیں جو میں آگے بیان کروں گا.غریبوں کے اندر غربت کی وجہ سے بعض نقائص پیدا ہو جاتے ہیں اور امیروں کی اولاد میں آسودگی اور وسعت مال کی وجہ سے بعض نقائص پیدا ہو جاتے ہیں.بعض امیروں کو میں نے دیکھا ہے بچوں کو اتنا جیب خرچ دے دیتے ہیں.جس سے ان کی عادات اور اخلاق بگڑ جاتے ہیں اور ان میں آوارگی پیدا ہو جاتی ہے.کیونکہ بچے کی وقتی ضرورت سے زیادہ جیب خرچ کا اس کے پاس جمع ہونا رصحبتوں اور بد اخلاقیوں کا منبع ہے.کیونکہ وہ بچے جن کے اخلاق خراب ہو چکے ہوتے ہیں جب ان کے ہاتھ اپنا کوئی پیسہ نہیں ہوتا جس سے وہ اپنی آوارگی کی عادات کو پورا کر سکیں تو وہ پھر امیر لڑکوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور ان سے تعلق پیدا کر کے جہاں وہ اپنی بد عادات کو ان کے تمام بد پیسوں کے ذریعہ پورا کرتے ہیں وہاں ان امیر لڑکوں کے اخلاق اور عادات کو بھی بگاڑ دیتے ہیں.اس سے میرا یہ مطلب نہیں کہ بچہ کے ہاتھ میں پیسہ بالکل دیا ہی نہ جائے کیونکہ بچوں کو ان کی ضرورت کے مطابق دینا بھی ضروری ہے تاکہ اس سے ان کے اندر خرید و فروخت کا ملکہ پیدا ہو.لیکن اتنا خرچ ان کو نہیں دینا چاہیے جسے وہ اپنے پاس جمع رکھ سکیں.کیونکہ ایسی حالت میں شریر اور آوارہ لڑکے ان کے پاس جمع ہو کر ان کے اخلاق کو خراب کر دیتے اور ان کو بھی آوارہ بنا دیتے ہیں.چونکہ غریب لڑکوں کے گرد جمع ہونے سے ان کو کچھ حاصل نہیں ہو سکتا اس لئے جن

Page 166

161 لڑکوں کو بری عادتیں پڑ جاتی ہیں وہ امیر لڑکوں کو تاڑتے رہتے ہیں.اور آوارہ گرد لڑکے اپنی بد عادات کے پورا کرنے کے لئے امیروں کے لڑکوں کی تلاش میں لگے رہتے ہیں.مجھے نہایت حیرت ہوئی اپنے ایک عزیز دوست پر کہ وہ اپنے بچے کو پچاس روپیہ ماہوار صرف جیب خرچ دیتے تھے اور ابھی کہتے تھے میں نے اس کا جیب خرچ آگے سے کم کر دیا ہے.میں اس لئے اسے اتنا جیب خرچ دیتا ہوں کہ تا قادیان میں اس کا دل لگا رہے وہ ایک مخلص شخص ہے اور ان کا لڑکا بھی گو ابھی بچہ ہے لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں مخلص ہے.مگر یہ طریق بچے کے اخلاق کو سخت بگاڑنے والا ہے.بچے کو اس کا جیب خرچ روزانہ اتنا دینا چاہیے جس سے اس کی اس وقت کی ضرورت پوری ہو جائے.پھر ماں باپ کو یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ جس ضرورت کے لئے اس نے پیسے لئے ہیں.اس پر اس نے خرچ بھی کئے ہیں یا نہیں.پہلے اس سے دریافت کر لینا چاہیے کہ کس ضرورت کے لئے وہ پیسے لیتا ہے.مثلاً وہ خربوزے لینا چاہتا ہے.یا آم خریدنا چاہتا ہے یا کیا اور پھر اس بات کی تحقیق کر لینی چاہیے کہ بتائی ہوئی ضرورت کے مطابق اس نے چیز لی بھی ہے یا نہیں.اگر اس طرح نگرانی کی جائے.تو بچے آوارگی سے بچ جائیں گے اور ان کے پاس آوارہ اور بد عادات کے لڑکے جمع نہ ہو سکیں گے.دوسرا نقص بچوں کے اخلاق کو بگاڑنے والا غربت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.اور وہ اس طرح کہ ایسے ماں باپ بعض دفعہ خود حریص ہوتے ہیں.وہ کوئی چیز لاتے ہیں تو خود کھا لیتے ہیں.اور بچہ کو نہیں دیتے اس لئے بچہ گھر سے چوری چیز نکال کر کھانے کا عادی ہو جاتا ہے.اور پھر آہستہ آہستہ باہر کی بھی چوری کرنے لگ جاتا ہے.اس طرح اس کے اخلاق خراب ہو جاتے اور وہ آوارہ ہو جاتا ہے.اس لئے ماں باپ کو چاہیے کہ اگر کوئی چیز گھر میں آئے تو پہلے بچوں کو دیں پھر آپ کھائیں.دوسرا نقص جو اس غربت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے وہ اس طرح کہ بعض ماں باپ ایسا تو نہیں کرتے کہ چیز خود کھا لیں اور بچے کہ نہ دیں لیکن جب بچے کے دل میں کسی چیز کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور وہ خود نہیں خرید سکتے تو وہ دوسروں سے مانگ کر کہ ہمارے بچے کا بھی دل کر رہا ہے اس طرح وہ دے دیتے ہیں.مگر اس طریق سے بجائے اس کے کہ بچے کی خواہشات کو ماریں اور بھی اس کی خواہشات کو ابھارتے ہیں.حالانکہ اگر بچے کو سمجھایا جائے کہ بچہ ہم غریب ہیں ہم یہ چیز نہیں خرید سکتے تو بچے جیسا صابر بھی کوئی نہیں.وہ اتنا کہہ دینے سے بھی خوش ہو جاتا ہے.لیکن اگر اپنے

Page 167

162 پاس کچھ نہیں اور بچے کی خواہش کو دوسرے سے چیز لے کر پوری کریں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ بچے کے اندر صبر اور قناعت کا مادہ نہیں پیدا ہو گا اور اس کی حرص بہت بڑھ جائے گی.پس غرباء کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی خواہشات کو ابھاریں نہیں.بلکہ ان کو مارنے کی کوشش کریں تا ان کے اندر صبر اور قناعت کا مادہ پیدا ہو.پھر ایسے مقامات پر بچے کو کھڑا نہیں رہنے دینا چاہیے جہاں امراء اچھی اچھی چیزیں کھا رہے ہوں.بچوں کو ہی ایسے مقامات پر کھڑا ہونے سے نہیں روکنا چاہیے.بلکہ بڑوں کو بھی یہی حکم ہے.لا تمدن عينيك الى ما متعنا (الحجر ۸۹) کہ جو چیز تمہارے پاس نہیں.اگر وہ دوسروں کے پاس ہے تو اس کو دیکھنا بھی گناہ ہے کیونکہ اس سے خواہش بد پیدا ہو گی.بعض غریب آدمی اپنے بچوں کو ایسے مقامات پر جہاں امراء لوگ کھاتے پیتے ہوں.کھڑے ہونے اور دیکھنے سے نہیں روکتے.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس چیز کی ان کے اندر حرص پیدا ہوتی ہے اور جب ان کی حرص پوری نہیں ہوتی تو پھر کسی نہ کسی طرح اس چیز کے حاصل کرنے کی بے جا کوشش کرتے ہیں.اس لئے ماں باپ کا فرض ہونا چاہیے کہ وہ بچوں کو ایسی جگہوں سے روکیں اور وہاں ان کو کھڑا نہ ہونے دیویں کہ ایسی حالت میں کسی کو کچھ کھاتے دیکھنا بھی عیب ہے.جس سے لالچ اور حرص پیدا ہوتی ہے.جو بچوں کی آوارگی کا موجب ہوتی ہے.غرض والدین اپنے بچوں کی تربیت کے لئے اگر ان باتوں کی احتیاط رکھیں تو ان کے اخلاق کی درستی میں بہت کچھ تقویت پیدا ہو سکتی ہے.اس کے بعد میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بچوں کے اخلاق اور عادات کی درستی اور ر اصلاح کے لئے میرے نزدیک سب سے زیادہ ضروری امر نماز با جماعت ہے.بچوں کو نماز با جماعت ادا کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے.میری عمر زیادہ نہیں لیکن مجھے اتنے لوگوں سے ملنے اور جانچ اور پڑتال کا موقع ملا ہے اور ساتھ ہی میری طبیعت کو خدا تعالیٰ نے ایسا حساس بنایا ہے کہ سو سال کی عمر والے بھی اپنی عمر کے تجربوں کے بعد دنیا کی اونچ نیچ اور اچھے برے کو اتنا محسوس نہیں کر سکتے جتنا میں محسوس کرتا ہوں.میں نے اپنے تجربے میں نماز با جماعت سے بڑھ کر کوئی چیز نیکی کے لئے ایسی مئوثر نہیں دیکھی.سب سے بڑھ کر نیکی کا اثر کرنے والی نماز با جماعت ہی ہے.اگر میں ان الصلوة تنهى عن الفحشاء والمنكر (العنکبوت (۳۶) کی پوری پوری تشریح نہ کر سکوں.تو میں اپنی زبان کا قصور سمجھوں گا.ورنہ میرے نزدیک نماز با جماعت کا پابند انسان خواہ وہ اپنی بدیوں میں ترقی کرتے کرتے ابلیس سے بھی آگے نکل جائے پھر بھی میرے نزدیک اس کی اصلاح کا موقع ہاتھ سے نہیں

Page 168

163 گیا.ایک شمہ بھر اور ایک رائی کے برابر بھی میرے خیال میں نہیں آتا کہ کوئی شخص نماز با جماعت کا پابند ہو اور پھر اس کی اصلاح کا کوئی موقع نہ رہے.خواہ وہ کتنا ہی بدیوں میں مبتلا کیوں نہ ہو گیا ہو نیکی کے متعلق نماز کے مئوثر ہونے کا مجھے اتنا کامل یقین ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر بھی کہہ سکتا ہوں کہ نماز با جماعت کا پابند خواہ کتنا ہی بد اعمال کیوں نہ ہو گیا ہو.اس کی ضرور اصلاح ہو سکتی ہے اور وہ ضائع نہیں ہوتا.اور میں شرح صدر سے کہہ سکتا ہوں کہ آخری وقت تک اس کے لئے اصلاح کا موقع ہے.مگر وہ نماز با جماعت کا پابند اس رنگ میں ہو کہ اس کو اس میں لذت اور سرور حاصل ہو.میرے نزدیک ان ماں باپ سے بڑھ کر اولاد کا کوئی دشمن نہیں جو بچوں کو نماز با جماعت ادا کرنے کی عادت نہیں ڈالتے.مجھے اپنا ایک واقعہ یاد ہے.ایک دفعہ حضرت صاحب کچھ بیمار تھے.اس لئے جمعہ کے لئے مسجد میں نہ جا سکے.میں اس وقت بالغ نہیں تھا کہ بلوغت والے احکام مجھ پر جاری ہوں.تاہم میں جمعہ پڑھنے کے لئے مسجد کو آرہا تھا کہ ایک شخص مجھے ملا.اس وقت کی عمر کے لحاظ سے تو شکل اس وقت تک یاد نہیں رہ سکتی.مگر اس واقعہ کا اثر مجھ پر ایسا ہوا کہ اب تک مجھے اس شخص کی صورت یاد ہے.محمد بخش ان کا نام ہے.وہ اب قادیان میں ہی رہتے ہیں.میں نے ان سے پوچھا آپ واپس آرہے ہیں.کیا نماز ہو گئی ہے.انہوں نے کہا آدمی بہت ہیں مسجد میں جگہ نہیں تھی میں واپس آگیا.میں بھی یہ جواب سن کر واپس آگیا اور گھر میں آکر نماز پڑھ لی.حضرت صاحب نے یہ دیکھ کر مجھ سے پوچھا مسجد میں نماز پڑھنے کیوں نہیں گئے.خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ میں بچپن سے ہی حضرت صاحب کا ادب ان کے نبی ہونے کی حیثیت سے کرتا تھا.میں نے دیکھا آپ کے پوچھنے میں ایک سختی تھی اور آپ کے چہرہ سے غصہ ظاہر ہوتا تھا.آپ کے اس رنگ میں پوچھنے کا مجھ پر بہت ہی اثر ہوا.جواب میں میں نے کہا کہ میں گیا تو تھا لیکن جگہ نہ ہونے کی وجہ سے واپس آگیا.آپ یہ سن کر خاموش ہو گئے.لیکن اب جس وقت جمعہ پڑھ کر مولوی عبدالکریم صاحب آپ کی طبیعت کا حال پوچھنے کے لئے آئے تو سب سے پہلی بات جو حضرت مسیح موعود نے آپ سے دریافت کی وہ یہ تھی.کیا آج لوگ مسجد میں زیادہ تھے.اس وقت میرے دل میں سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی.کیونکہ میں خود تو مسجد میں گیا نہیں تھا.معلوم نہیں بتانے والے کو غلطی لگی یا مجھے اس کی بات سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی ہے.میں ان کی بات سے یہ سمجھا تھا کہ مسجد میں جگہ نہیں.مجھے فکر یہ ہوئی کہ اگر مجھے

Page 169

164 غلط فہمی ہوئی ہے یا بتانے والے کو ہوئی ہے دونوں صورتوں میں الزام مجھ پر آئے گا.کہ میں نے جھوٹ بولا.مولوی عبد الکریم صاحب نے جواب دیا ہاں حضور آج واقعہ میں بہت لوگ تھے میں اب بھی نہیں جانتا کہ اصلیت کیا تھی.خدا نے میری بریت کے لئے یہ سامان کر دیا کہ مولوی صاحب کی زبان سے بھی اس کی تصدیق کرا دی.یا فی الواقع اس دن غیر معمولی طور پر زیادہ لوگ آئے تھے.بہر حال یہ ایک واقعہ ہوا ہے جس کا آج تک میرے قلب پر ایک گہرا اثر ہے.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کو نماز با جماعت کا کتنا خیال رہتا تھا.بڑا آدمی اگر خود نماز با جماعت نہیں پڑھتا تو وہ منافق ہے.مگر وہ لوگ جو اپنے بچوں کو نماز یا جماعت ادا کرنے کی عادت نہیں ڈالتے وہ ان کے خونی اور قاتل ہیں.اگر ماں باپ بچوں کو نماز با جماعت کی عادت ڈالیں.تو کبھی ان پر ایسا وقت نہیں آسکتا کہ یہ کہا جا سکے کہ ان کی اصلاح نا ممکن ہے اور وہ قابل علاج نہیں رہے.دوسری بات جو ان کی تربیت میں نقص ڈالنے والی ہے وہ یہ ہے کہ بے جا محبت کی وجہ سے بچوں کے بے جا آرام و آسائش کا خیال رکھا جاتا ہے اور ان کو سختی اور مشقت کی عادت نہیں ڈالی جاتی.جب بچے کھیلنے کودنے کے لئے سخت گرمی اور دھوپ میں ننگے سر ننگے پاؤں نکل جاتے ہیں.یا سردی میں پھرتے رہتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ نماز با جماعت پڑھانا ان پر سختی اور مشقت تصویر کی جائے.اگر اپنی ضرورتوں کے لئے وہ نہ گرمی کی پرواہ کرتے ہیں نہ سردی کی اور اس میں کسی قسم کی تکلیف محسوس نہیں کرتے تو نماز با جماعت میں ان کو کیا تکلیف ہو سکتی ہے.غرض بچوں میں برداشت اور جفاکشی کی عادت پیدا کرنی چاہیے.آج کل بہت سے اس قسم کے سامان پیدا ہو گئے ہیں جو بچوں میں محنت اور جفا کشی کی روح کو فنا کرنے والے ہیں.اور عام طور پر سکولوں میں ایسے ناز و نخرے کے سامانوں کا رواج پایا جاتا ہے.مثلاً سر کے اگلے حصہ میں خاص صورت کے لمبے بال رکھنا.اس قسم کے ناز و نخروں کی یہی وجہ ہوتی ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہمیں خوبصورت سمجھا جائے.ہم سے لوگ پیار کریں.یہ بالکل زنانہ خصلتیں ہیں اور میں نے دیکھا ہے ہمیشہ ایسے لڑکوں کی چال ، ان کا لب ولہجہ، ان کی گفتگو بالکل زنانہ طرز پر ہوتی ہے.پس کھانے پینے میں.لباس میں.بچوں کو نازو نخرے میں نہ ڈالنا چاہیے.میرے نزدیک بچوں کے لئے گوشت کھانے کی کثرت بھی ان کے عدم استقلال کا موجب ہو جاتی ہے.کیونکہ ان کی ہڈیاں ابھی کمزور ہی ہوتی ہیں کہ ضرورت سے پہلے ان کے اعضاء تناسل

Page 170

165 اور قوائے شہوانیہ جوش میں آجاتے ہیں.اس لئے بچوں کے واسطے سبزیاں اور ترکاریاں زیادہ مفید ہوتی ہیں.میرا مطلب یہ نہیں کہ بچوں کو گوشت بالکل ہی نہ دیا جائے بلکہ مطلب یہ ہے کہ کثرت ان کے حق میں مضر ہے الا ماشاء اللہ.کیونکہ بعض بچے جن کی چھاتی کمزور ہوتی ہے.ان کے لئے یا جن کے متعلق ڈاکٹری مشورہ ہو.ان کو گوشت کھلانا ضروری ہوتا ہے.مگر عام حالتوں میں بچوں کے لئے سبزی ہی زیادہ مفید ہوتی ہے.یہ بچوں کی تربیت کے ذرائع ہیں.جو میں نے اس وقت بیان کئے ہیں.ان کے علاوہ اور بھی ہیں.مگر میں سمجھتا ہوں میں نے آج ان کے بیان کرنے میں کافی وقت لے لیا ہے.الفضل ۱۸ جون ۱۹۲۵ء

Page 171

166 22 بچوں کے اخلاق کس طرح درست ہو سکتے ہیں فرموده ۱۲ جون ۱۹۲۵) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں نے پچھلے ایام میں درستی اخلاق کے متعلق متواتر کئی خطبے پڑھے ہیں.ان میں سے خصوصیت کے ساتھ دو خطبے ایسے تھے.جو بچوں کی اصلاح اور ان کے اخلاق کی درستی اور ان کی ترقی کے ساتھ تعلق رکھتے تھے.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا.ان کے اخلاق کی درستی اور اصلاح کا بہترین موقع بچپن کا زمانہ ہے.اسی واسطے میں نے اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ اس قیمتی وقت سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اس کو ضائع نہ ہونے دینا چاہیے.نیز یہ کہ اس زمانہ میں جتنا گہرا اثر انسان کی طبیعت کے اندر پیدا ہو سکتا ہے بڑی عمر میں نہیں ہو سکتا.اس لئے اس زمانہ میں بچوں کی اخلاقی درستی میں کو تاہی نہ کرنا چاہیے.میرے ان خطبات کا برا یا بھلا جو بھی اثر ہوا.ایک کا تو میں پہلے ذکر کر چکا ہوں.دوسرے کا میں آج ذکر کرنا چاہتا ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ امت اسلامیہ کے لئے یہی مقدر ہے کہ جب کبھی بھی اس کے لئے مصائب اور مشکلات اور خطرات پیدا ہوں تو خدا تعالیٰ انہی خطرات میں سے اس کے لئے بہتری کے سامان پیدا کر دے.حضرت مولانا روم صاحب کا شعر - ہر بلا کیں قوم را حق داده است زیر آن گنج کرم بنهاده است جس کو ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی پڑھ کر فرمایا کرتے تھے.اگر کوئی قوم یا جماعت واقعہ میں مسلمان بن جائے تو اس کے تمام مصائب اور تمام خطرات جن میں وہ گرفتار ہو.اس کے لئے موجب نجات اور ترقی ہو جاتے ہیں اور اس پر کوئی مصیبت نہیں آتی.جس کا نتیجہ اس

Page 172

167 کے لئے سکھ نہیں ہوتا.قرآن شریف ایک قوم کی یہ مثال پیش کرتا ہے کہ اس نے دیکھا گھٹا ٹوپ بادل اٹھا ہے.انہوں نے سمجھا اب بارش ہو گی اور ان کی کھیتیاں سیراب ہو کر خوب سرسبز اور شاداب ہوں گی.لیکن جب وہ بادل آیا تو ایسا برسا کہ بجائے سیرابی اور شادابی کے ان کے لئے تباہی اور بربادی کا موجب بنا.مومنین کی حالت بالکل اس کے برعکس ہوتی ہے.مومنین کے لئے جب ایسے امکان پیدا ہو جاتے ہیں.جن سے بظاہر ان کی تباہی اور بربادی نظر آتی ہے تو خدا تعالیٰ انہیں تباہی اور بربادی کے سامانوں میں سے ان کے لئے ترقی اور کامیابی کے سامان پیدا کر دیتا ہے.در حقیقت مومن وہی ہوتا ہے کہ جس کا استقلال جس کا حوصلہ جس کی ہمت خطرات کے وقت قائم رہتی ہے.بلکہ جتنے مصائب اور خطرات زیادہ بڑھتے جاتے ہیں اس کی ہمت اس کا حوصلہ اس کا استقلال بھی ساتھ ہی ساتھ بڑھتا جاتا ہے.اس کی ہمت پست نہیں ہوتی.جو شخص معمولی حالات اور خطرات میں بالکل خاموش اور سکون کی حالت میں ہوتا ہے وہ زیادہ خطرات کے وقت بھی مطمئن نظر آتا ہے.کیونکہ دوسرے معمولی حالات میں وہ بڑے خطرات سے ہمیشہ لرزاں و ترساں رہتا اور خوف کھاتا ہے.لیکن جس وقت اس پر حقیقتاً خوف اور مصائب آجاتے ہیں.اس وقت اس کے دل میں فوراً یہ خیال آتا ہے کہ ان سے ڈرنا تو میرے ایمان کی کمزوری کی دلیل ہو گی.اس لئے وہ چوکس اور ہوشیار ہو جاتا ہے.میں نے پچھلے خطبہ میں جو نصائح بیان کئے تھے مجھے یہ سن کر نہایت خوشی ہوئی ہے کہ ہمارے طلباء نے اپنے ایمان کا جوش اور اخلاص کا بہترین نمونہ دکھلایا ہے.میں نے نصیحت کی تھی کہ بچوں کو جفاکشی اور مشقت اور ظاہری حالت کی درستی کی بھی عادت ڈالنا چاہیے.جفاکشی کی باتوں سے تعلق رکھنے والی ایک بات سر کے اگلے حصہ کے بال کٹوانا تھی.میں نے بتلایا تھا کہ بچوں کا ایک خاص طرز کے بال رکھنا اور ان کو بنانا سنوارنا زنانہ خصلت ہے اور آج کل ایک طالب علم کو اس قسم کے بال جس قدر اچھے اور پیارے لگتے ہیں وہ ہر ایک شخص خوب جانتا ہے مگر میرے خطبہ کے سننے کے بعد لڑکوں نے جاتے ہی بغیر استادوں کے کہنے کے اپنے بال کٹوا دیئے.اور مجھے بتلانے والوں نے بتلایا ہے کہ انہوں نے ایسے جوش ، ایمان اور اخلاص سے اور اپنے دل کی خوشی سے بال کٹوائے ہیں کہ ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ پہلے میں کٹواؤں پھر کوئی دوسرا کٹوائے.جس طرح آنحضرت ایک رویا کی بنا پر جب عمرہ کرنے کے لئے تشریف لے گئے اور کفار مکہ کی مخالفت کی وجہ سے آپ عمرہ نہ کر سکے.تو صحابہ کو اس پر ابتلاء آیا.حالانکہ رویا میں اسی سال عمرہ کرنا نہیں بتایا گیا الی

Page 173

168 تھا.کیونکہ وہ سمجھتے تھے اسی سال عمرہ ہونا چاہیے.لیکن جس وقت آنحضرت ﷺ نے بال منڈوائے تو پھر سب نے اس جوش کے ساتھ بال منڈوائے کہ آپس میں کشمکش شروع ہو گئی اور ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ مجھ سے پہلے دوسرا نہ منڈوا سکے.ہمارے طالب علموں نے بھی وہی صحابہ والا جوش اور اخلاص دکھلایا ہے.اور میں امید کرتا ہوں کہ انہوں نے جو بال منڈوا کر یہ اقرار کیا ہے.کہ وہ بالوں کو ناپسند کرتے ہیں.وہ آئندہ بھی نہایت اخلاض اور ایمانی جوش کے ساتھ اس ارادے پر پختہ اور اس کے پابند رہیں گے.ان کو اس بات کا بھی علم ہونا چاہیے کہ محض بال کٹوا دینا ہی کوئی بڑی خوبی کی بات نہیں.کیونکہ جس بات کو انسان پھر اختیار کر سکتا ہے اس کے لئے وقتی طور پر دل کو تسلی بھی دے لیتا ہے.اس لئے جب تک بال کٹوانے کے ساتھ وہ ہمیشہ بال کٹوائے رکھنے کا پختہ ارادہ اور نیت نہ کر لیں.کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.ہو سکتا ہے دیکھا دیکھی انہوں نے اس وقت بال کٹوا دیئے ہوں.لیکن جب بال پھر بڑھ جائیں تو کہہ دیا جائے اب نہیں کٹواتے.تو دیکھا دیکھا وقتی جوش کے ماتحت بال کٹوانے کا کوئی فائدہ نہیں جب تک ہمیشہ کٹوانے کی عادت نہ بنا لی جائے.ہر ایک قوم کی ایک قومی عادت ہوتی ہے جو اس قوم کے ساتھ خصوصیت رکھتی ہے.اور اس کو قائم تبھی رکھا جا سکتا ہے کہ تمام قوم اپنی ظاہری حالت کو اس کے مطابق بنائے رکھے.مثلاً سکھوں میں بال رکھنا ایک قومی عادت اور قومی نشان ہے.ہر ایک سکھ برابر بال رکھتا ہے.میرے خیال میں گرمیوں میں سر پر بال رکھنا اتنا بڑا مجاہدہ ہے کہ ہر شخص برداشت نہیں کر سکتا.عورتیں بھی بال رکھتی ہیں.مگر ان کا بال رکھنا نسلا بعد نسل چلا آیا ہے اور اب ان میں یہ خصلت پیدا ہو گئی ہے.اس لئے ان کو تکلیف کا کچھ احساس ہی نہیں ہوتا.لیکن سکھ قوم کی یہ حالت ہے کہ اس نے یکلخت بال بڑہانے شروع کر دیئے.اور اب صدیوں سے برابر وہ بال نہیں منڈواتے.اس طرح کڑا پہننا بھی ان کی قومی عادت ہے اور ڈاڑھی رکھنا بھی.سارے سکھ ڈاڑھی رکھتے ہیں.اس قوم کا جس کے پاس کوئی شریعت نہیں ان عادات کو اپنی قومی عادات بنا لینا ان کی قومیت کو قائم رکھنے کا موجب بن گیا.اس کی وجہ یہی ہے کہ بعض ظاہری شعار انہوں نے اپنی قومیت کے قائم رکھنے کے لئے مقرر کرلئے.اور ان کی وہ قومی طور پر پابندی کرتے ہیں.جس سے ان کے اندر یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ وہ اپنی قومیت کی خاطر اپنے مذہب کی ایسی بیچ کرتے ہیں کہ ہر ایک قربانی کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.تو ظاہری شکلیں اور شعار کوئی بے فائدہ چیز نہیں.بلکہ ان کا بہت گہرا اثر ہوتا ہے.خصوصاً جب کہ وہ قومی عادت کا رنگ اختیار کرلیں.

Page 174

169 نیس اگر ہمارے نوجوان ہمت اور جرأت کے ساتھ اسلامی شعار کی پابندی اختیار کر کے ان کی پوری پوری حفاظت کریں تو تھوڑے ہی عرصہ میں ہمارے اندر ایک خاص قومی سپرٹ پیدا ہو سکتی ہے.پس جہاں مجھے اس بات سے خوشی ہوئی ہے کہ ہمارے طلباء نے صحابہ کی طرح ایمانی جوش اور اخلاص سے اپنے بال کٹوائے ہیں.اسی طرح مجھے امید ہے کہ وہ اس جوش اور اخلاص کو قائم رکھ کر اسلامی شعار کی پوری پوری حرمت کریں گے.سارے سر کے بال رکھنا بھی اسلامی شعار میں سے ہے.پس خواہ تمام سر کے بال کٹوائے جائیں یا تمام بال رکھے جائیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے بھی سر کے بال رکھے ہوئے تھے.بہر حال ایسا ہونا چاہیے کہ ان کی صورت کو دیکھ کر ہر ایک کو یہ معلوم ہو جائے کہ یہ احمدی ہیں اور اسلامی شعار کے پابند ہیں.اسی طرح نماز باجماعت کی بھی بچوں کو پختہ عادت ڈالنا چاہیے.اور کوئی نماز باجماعت رہ جانے سے ایسا احساس ہونا چاہیے کہ گویا کوئی قیمتی چیز ان کے ہاتھ سے ضائع ہو گئی ہے.اگر ان کے اندر نماز با جماعت رہ جانے سے افسوس اور ندامت پیدا نہ ہو تو پھر یہ عادت نہیں کہلائے گی.یا اس کو ہم پابندی نہیں کہہ سکتے.میں دو قسم کے لفظ بول رہا ہوں ایک عادت ہوتی ہے اور ایک پابندی.جو دو قسم کے ایمانوں کے ماتحت ہوتی ہے.عادت تو یہ ہے کہ انسان کو شوق نہیں ہوتا لیکن وہ اس کی عادت ڈالتا ہے اور ایک یہ کہ اس کو شوق ہوتا ہے اور شوق سے اس کی پابندی کرتا ہے.پس خواہ کسی کو پوری عادت ہو جائے یا پوری پابندی اختیار کرے.دونوں صورتوں میں نماز باجماعت کے ہ جانے سے افسوس کرے گا اور غم کھائے گا.خواہ بیماری کی وجہ سے ہی کیوں نہ رہ جائے اور میں اپنے ان طالب علموں سے صرف یہی امید نہیں رکھتا کہ وہ خود نماز با جماعت کی پکی عادت یا پابندی اختیار کریں گے بلکہ میں یہ بھی امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی جو ان کے زیر اثر ہیں نماز با جماعت کا عادی بنائیں گے بلکہ اپنے حلقہ اثر کو اور بھی زیادہ وسیع کریں گے تاکہ کوئی ان کے مقابلہ کی جرأت ہی نہ کر سکے.اور ان کے ملنے والے ان کا نمونہ اختیار کرنے کے لئے مجبور ہو جائیں اور وہ سمجھ لیں کہ ان سے ملے رہنے کی ایک ہی صورت ہو سکتی ہے کہ وہ ان جیسے بنیں.اس طریق سے مل کر بیٹھنے والے تعلقات رکھنے والے تو کم از کم شعار اسلام کی پابندی کے لئے مجبور ہوں گے.ان کی مجبوری ایسی نہیں ہوگی جو سختی اور تشدد کا نتیجہ ہو.بلکہ انسان میں یہ فطرتی بات ہے کہ جو کچھ وہ دوسروں کو کرتے دیکھتا ہے.اس کے دل میں بھی اس کا احساس ہوتا ہے.آج سے پہلے

Page 175

170 سکول کی یہ حالت تھی کہ تمام طالب علم نمازوں کے بہت پابند ہوتے تھے اور جو کمزور ہوتے تھے وہ بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی نماز با جماعت کے پابند ہو جاتے تھے.اگر پھر بھی کوئی رہ جاتے تھے تو سکول میں چاروں طرف سے ان کی اس حرکت پر اس قدر ملامت شروع ہو جاتی کہ شاذو نادر ہی کوئی ایسا ڈھیٹ ہوتا ہو گا جو اپنی عادت کو نہ چھوڑے.مگر یہ اثر تبھی ہو سکتا ہے کہ ہر ایک طالب علم احمدیوں کا سا شعار اختیار کرے.اگر ہر ایک احمدیت کے شعار کو اختیار نہیں کرتا تو چند ایک کا ایسا کرنا احمدیت کا معیار نہیں ٹھہر سکتا.اور نہ اس کا دوسروں پر کچھ اثر ہو سکتا ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے.اگر تمام طالب علم نماز با جماعت کی پکی عادت ڈال لیں اور پورے پابند ہو جائیں تو کمزوروں کے اندر خود بخود اس کا احساس پیدا ہو جائے گا.پہلے ان کی اپنی اصلاح ہو گی اور پھر اس کا اثر ان کے ملنے والے لڑکوں پر ہو گا.اور اس طرح ان کا حلقہ اثر سکول کے لڑکوں سے باہر تک وسعت پکڑ جائے گا.بلکہ اگر طالب علم ہمت اور جرأت سے کام لیں تو وہ بڑوں کے لئے بھی نمونہ بن سکتے ہیں اور لوگ عام طور پر ان کی اتباع کریں گے.اس بات کے بیان کرنے کے بعد کہ سب سے پہلے ہمارے طلباء دوسروں کے لئے نمونہ بنیں.تاکہ بڑوں میں سے بھی جو نماز با جماعت کے ادا کرنے میں ست ہیں.ان کے نمونہ سے شرمائیں اور ان کے اندر بھی پابندی کا احساس ہو.اس وقت میں دو اور باتیں بھی بیان کرنا چاہتا ہوں.اور وہ بھی اخلاق کی درستی کے لئے ہی ہیں.دنیا میں اخلاق کی درستی دو طرح سے ہوتی ہے.ایک تو ایمان کے ذریعے سے.کہ جس وقت اس سے کوئی بد اخلاقی سرزد ہوتی ہے.ایمان کی وجہ سے وہ فوراً چوکس اور ہوشیار ہو جاتا ہے.گویا سوتا تھا.پھر یکانت جاگ اٹھتا ہے اور ایک اخلاق کی درستی عادت کی وجہ سے ہوتی ہے.اور عادت بھی دو طرح کی ہوتی ہے.ایک عادت وہ ہوتی ہے جو اپنی ذات میں اچھی ہوتی ہے.اور ایک عادت وہ ہوتی ہے جو اپنی ذات میں بری ہوتی ہے.اور پھر جو عادت اپنی ذات میں اچھی ہوتی ہے اس سے اور اچھی عادتیں پیدا ہوتی ہیں.اور جو اپنی ذات میں بری ہوتی ہیں اس سے اور بری عادتیں پیدا ہوتی ہیں.پس وہ اچھی اور نیک عادت کہ جس سے اور بھی اچھی اور نیک عادتیں پیدا ہوتی ہیں.انسان طبعا اس کی بیچ اور عزت کرتا ہے جب وہ اپنے آپ کو اس نیک عادت کی طرف منسوب سمجھتا ہے تو اس کی غیرت اس کے خلاف کرتے ہوئے اس کو ملامت کرتی ہے اور وہ مجبور ہوتا ہے.کہ اپنا سائین بورڈ درست رکھے.

Page 176

171 ایک شخص جس نے سائن بورڈ تو یہ لگایا ہوا ہے کہ اس دوکان پر بوٹ فروخت ہوتے ہیں.لیکن اندر اس نے چاول ڈال رکھے ہوں تو جب کوئی بوٹوں کا گاہک آئے گا دوکان میں چاول دیکھ کر اسے ملامت کرے گا اور وہ کچھ جواب نہ دے سکے گا.کیونکہ بوٹوں اور چاولوں میں اتنا بڑا فرق ہے.کہ اس کے لئے بحث کرنے اور تو جیہیں بیان کرنے کی کوئی گنجائش نہیں.لہذا اس کو خاموشی کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو گا.ہاں اگر چاولوں کا اس نے بورڈ لگایا ہوا ہوتا تو موٹے یا باریک چاولوں کی بحث بھی ہو سکتی تھی.تو بعض باتیں اتنی موٹی اور ایسی واضح اور کھلی ہوتی ہیں کہ جن کے متعلق بحث کا کوئی موقع ہی نہیں ہوتا.مثلاً اگر شریعت میں نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم نہ ہوتا تو ایک بے نماز کو یہ بحث کرنے کا موقع مل سکتا تھا کہ میں تو گھر پر نماز پڑھ لیتا ہوں لیکن جس صورت میں نماز با جماعت ادا کرنے کا حکم ہے.اور وہ مسجد میں نماز با جماعت ادا کرنے کے لئے نہیں آتا وہ یہ عذر نہیں کر سکتا کہ میں گھر پر پڑھ لیتا ہوں.پس ایسے احکام جو کھلے اور نمایاں ہوں ہر ایک کی جن پر نظر پڑتی ہو ان کی پابندی سے انسان کے اندر ایک قومی غیرت پیدا ہو جاتی ہے اور اس کی وجہ سے وہ اخلاق سے اتنا دور نہیں جا پڑتا کہ قوم میں مطعون ہو جائے.ان دو باتوں میں سے ایک ڈاڑھی رکھنا ہے مجھے ہمیشہ حیرت ہوا کرتی ہے کہ لوگ ڈاڑھی کیوں منڈواتے ہیں.میں بھی ڈاڑھی رکھتا ہوں.ڈاڑھی منڈوانے کی کوئی وجہ مجھے نظر نہیں آتی میں نے کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ کوئی شخص سر جھکائے چلا آتا ہو اور دریافت کرنے پر اس نے یہ کہا ہو کہ ڈاڑھی کے بوجھ سے میرا سر جھکا جاتا ہے.یا کسی شخص کو میں نے نہیں دیکھا کہ وہ بیتاب ہو رہا اور گھبرایا ہوا جا رہا ہو اور دریافت کرنے پر اس نے یہ بتلایا ہو کہ سخت گرمی لگ رہی ہے.ڈاڑھی منڈوانے جا رہا ہوں.اسی طرح میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی ضرورت کی بناء پر لوگ ڈاڑھی منڈواتے ہوں دوسروں کی دیکھا دیکھی ڈاڑھی منڈواتے ہیں.محض اس وجہ سے کہہ دوسرے ان پر ہنتے ہیں یا یہ کہ دوسرے بھی سب کے سب نہیں رکھتے.جب ڈاڑھی منڈوانے کی کوئی وجہ نہیں تو پھر ضرورت کیا ہے.کہ ڈاڑھی منڈوائی جائے.ڈاڑھی اسلام کے شعار میں سے ایک شعار ہے.اب ایک غیر جو دیکھے گا کہ ایک شخص مسلمان کہلاتا ہے اور ڈاڑھی منڈواتا ہے.تو وہ یہی کہے گا کہ یہ کہلاتا تو مسلمان ہے لیکن اسلامی شعار کی اس کے دل میں کچھ حرمت اور وقعت نہیں.اس لئے وہ ڈاڑھی منڈوا کر اسلام کی ہتک کرتا ہے.جب ڈاڑھی کا کوئی بوجھ نہیں نہ یہ کہ اس کی وجہ سے سخت گرمی محسوس ہوتی ہے اور ادھر ڈاڑھی رکھنا اسلام کے شعار میں سے ہے.اور آنحضرت صلی

Page 177

172 اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس کا مطالبہ کیا ہے.ا اور یہ حکم ہے بھی ایسا جس کی تعمیل کو ہر کوئی دیکھ سکتا ہے.سر کے اگلے حصہ پر رکھے ہوئے بڑے بال تو ٹوپی یا پگڑی کے نیچے انسان چھپا بھی سکتا ہے.لیکن ٹھوڑی تو چھپائی نہیں جا سکتی.پھر آنحضرت اللہ کی فرمانبرداری اور اسلامی شعار کی حرمت کے لئے اگر ڈاڑھی رکھ لی جائے تو کونسی بڑی بات ہے.ایک شخص نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا ڈاڑھی رکھنا اسلام کے اصول میں سے ہے.دیکھئے سوال کرنے والے بھی کیا کیا راہیں نکالتے ہیں.اس کا مطلب یہ تھا کہ میں کہ دوں گا نہیں تو پھر وہ یہ کہہ دے گا کہ جب ڈاڑھی رکھنا اسلام کے اصول میں سے نہیں تو چاہے کوئی رکھے اور چاہے نہ رکھے ایک ہی بات ہے.مگر میں نے اسے یہ جواب دیا کہ ڈاڑھی رکھنا تو اسلام کے اصول میں سے نہیں.لیکن آنحضرت اللہ کی فرمانبرداری کرنا اسلام کے اصول میں سے ہے.چونکہ آپ نے حکم فرمایا ہے.کہ ڈاڑھی رکھو ۲.اس لئے رکھنا ضروری ہے.یہ ایسا ہی سوال ہے جیسے مثلاً کوئی پوچھے کیا لکڑیاں اٹھانا اسلامی اصول میں داخل ہے اور جب اسے کہا جائے کہ نہیں تو اس سے وہ یہ نتیجہ نکالے کہ جب اس کے باپ نے اسے لکڑیاں اٹھا کر لانے کے لئے کہا اور اس کے انکار کر دینے پر مارا تو یہ بڑا ظلم کیا.بے شک لکڑیاں اٹھانا اصول اسلام میں داخل نہیں.لیکن جب کوئی یہ سنے گا کہ باپ نے اس کو لکڑیاں اٹھانے کے لئے کہا اور اس نے انکار کر دیا تو کوئی بھی اس کو مظلوم قرار نہیں دے گا.بلکہ ہر ایک اس کو ملامت کرے گا.کیونکہ اسلام نے ماں باپ کی فرمانبرداری اور اطاعت کا حکم دیا ہے.یا مثلاً کوئی سوال کرے کیا مجلس میں آگے ہو کر بیٹھنا کوئی اسلامی اصول کی بات ہے.تو ہر ایک یہی جواب دے گا کہ نہیں بلکہ پیچھے بیٹھنے کو انکساری بتائیں گے.لیکن اگر کسی کو یہ پتہ لگے کہ نبی یا خلیفہ نے اسے آگے بیٹھنے کے لئے کہا تھا اور اس نے انکار کر دیا تو پھر اس کے پیچھے بیٹھنے کو کوئی انکساری نہیں کہے گا.کیونکہ اس نے باجود آقا کے حکم کے صدر میں بیٹھنے سے انکار کر دیا.اسی طرح ایک سپاہی اگر کسی ڈاکٹر سے پوچھے گا کہ کیا رات کو جاگتے رہنا اچھی بات ہے تو ڈاکٹر یہ نہیں کہے گا کہ ہاں اچھی بات ہے.بلکہ وہ یہی کے گا آرام کرنا چاہیے.لیکن اگر اس سے وہ یہ نتیجہ نکالے کہ رات کو پہرہ کے وقت سو جانے کی سزا میں جو اس کا کورٹ مارشل کیا گیا ہے.یہ اس پر ظلم ہوا ہے.کیونکہ ڈاکٹر کہتا ہے کہ ساری رات جاگنا نہ چاہیے.تو یہ درست نہیں ہو گا اس وقت ڈاکٹر بھی اسے یہی کہے گا تجھے جاگنا چاہیے تھا کیونکہ فوجی افسر کا تیرے لئے یہ حکم تھا کہ تو جاگے اور پہرہ دے.

Page 178

173 اس قسم کا امریکہ کا ایک واقعہ ہے ایک شخص کو جو ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا.نہایت خطرہ کے وقت پہرے پر مقرر کیا گیا.جس دوسرے سپاہی نے اس کا پہرہ بدلوانا تھا وہ نہ آیا اور زیادہ دیر ہو گئی.وہ چونکہ پہرہ دیتا تھک گیا تھا اس لئے اس نے جب ایک جگہ ٹیک لگائی تو سو گیا.اس حالت میں افسر آگیا.اسے گرفتار کر کے اس پر مقدمہ چلایا گیا.جوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ یہ سپاہی تھکا ہوا تھا.جس کی وجہ سے اس کی آنکھ لگ گئی اور پہرہ بدلوانے والے نے غلطی کی مگر ایسی حالت میں اگر دشمن آجاتا ہے اور اس کو غافل پاتا تو ہزاروں جانیں ضائع ہو جاتیں.اس لئے باوجود اس کے کہ وہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا.اس کو گولی سے مار ڈالا گیا.اب اس واقعہ کو اگر کوئی پیش نہ کرے اور کے اس پر بڑا ظلم ہوا سونا بھی کوئی جرم ہے خصوصاً جب کہ کوئی شخص سخت تھکا ہوا ہو تو یہ اس کی غلطی ہو گی.ہمیشہ سوال کی نوعیت کو دیکھنا چاہیے بعض سوال اخلاقی ہوتے ہیں.جن کی نوعیت کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے.کیونکہ ان کے ساتھ حالات اور واقعات بدلتے رہتے ہیں اور بعض سوال مادی ہوتے ہیں.جن کی نوعیت کو نہیں دیکھا جاتا.بلکہ ان کی صحت دیکھی جاتی ہے.جتنے اخلاقی امور ہیں.ان کو انسان چھپا سکتا ہے.اور ان کے حالات بدلتے رہتے ہیں.لیکن بعض مادی اور ظاہری احکام ہوتے ہیں.ان کو چھپانے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی.مثلاً سر کے بال ہیں کہ ہر ایک کی نظر ان پر پڑ سکتی ہے.بلکہ سر کے بالوں کو تو ٹوپی وغیرہ کے نیچے چھپایا بھی جا سکتا ہے.لیکن ٹھوڑی منڈی ہوئی کو تو کوئی نہیں چھپا سکتا.مجھے افسوس ہے کہ بعض بڑے آدمی بھی ڈاڑھی منڈواتے ہیں.بڑے آدمی سے میری مراد بڑی عمر کے آدمی ہیں.اگر انہیں کوئی منع کرے.تو کہہ دیتے ہیں کیا ڈاڑھی رکھنا اسلام کے اصولوں میں سے ہے.حالانکہ اگر وہ گھر میں بیوی سے کہیں کہ چاول پکانا یا فلاں قسم کا لباس پہننا اور پھر وہ نہ پہنے یا نہ پکائے.اور کہہ دے کہ یہ کوئی اسلام کے اصول میں سے ہے تو اس جواب کو وہ کبھی پسند نہ کریں گے.میں پوچھتا ہوں جس صورت میں ان کی بیوی جب یہ جواب ان کو دے.اسے وہ سنا پسند نہیں کرتے.تو جب اپنے اوپر بات آتی ہے.پھر وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ کیا یہ کوئی اسلام کے اصول کی بات ہے.پس میں ایک تو اپنے طالب علموں سے یہ چاہتا ہوں کہ وہ ان ظاہری احکام اور شعائر اسلام کی پوری پوری پابندی کریں.جن کو ہر ایک شخص دیکھ سکتا ہے اور رائے لگا سکتا ہے.کہ وہ شعائر اسلام کی حرمت کرتے ہیں یا ہتک.دوسری بات جو اخلاق کی درستی کے لئے ضروری ہے اور جس سے اسلام نے اصولاً منع کر دیا ہے.وہ یہ ہے کہ کسی نقصان رساں چیز کی عادت نہ ڈالنا چاہیے.دیکھو شراب سے شریعت نے

Page 179

174 منع کر دیا ہے.کیونکہ اس کی ایسی عادت پڑ جاتی ہے جو چھوٹ نہیں سکتی.اور انسان کئی قسم کے گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے.اس قسم کی عادت انسان کی آزادی کو کھو دیتی ہے.اور دوسرے کا غلام بنا دیتی ہے.حقہ نوشی یا سیگریٹ نوشی یہ دونوں باتیں بھی ایسی ہی ہیں.جن کی عادت سے بڑی بڑی بد اخلاقیاں پیدا ہوتی ہیں.ایک دفعہ ایک احمدی یہاں آئے انہیں ایسا واقعہ پیش آیا.جس سے متاثر ہو کر کہنے لگے.اب میں کبھی حقہ نہیں پیوں گا.اس کی وجہ سے آج مجھے بہت ذلت اٹھانی پڑی.ان ایام میں یہاں عام طور پر حقہ نہیں ملتا تھا.اب تو میں دیکھتا ہوں بازاروں بلکہ گلیوں سے بھی ہمارے گھر تک حقہ کی بو جاتی ہے.ان کو حقے کی عادت تھی وہ تلاش کرتے کرتے مرزا امام دین کے حلقے میں چلے گئے.وہ ہمارے رشتہ دار تھے حضرت مسیح موعود کے چچا زاد بھائی تھے مگر سلسلہ کے سخت مخالف - حقے کی خاطر جب وہ احمدی وہاں جا بیٹھے.تو مرزا امام دین نے حضرت صاحب کو گالیاں دینی شروع کر دیں اور لگے ہنسی اور تمسخر کرنے وہ حقے کی خاطر سب کچھ بیٹھے سنتے رہے.وہ کہتے ہیں اسی وقت میں نے دل میں ارادہ کر لیا کہ اب حقہ نہ پیوں گا.اسی نے مجھے ذلیل کرایا ہے.ان کے اندر کچھ ایمان تھا.اس لئے وہ بچ گئے.ورنہ کئی شخص یہاں آئے اصلاح کے واسطے مگر حقہ کے لئے اس مجلس میں گئے اور خراب ہو گئے.حقے اور تمباکو کی عادت انسان کو نہایت پست ہمت اور دوسرے کا غلام بنا دیتی ہے.پٹھان کشمیریوں کو حقیر جانتے ہیں.گو ہندوستان میں ان کی ایسی حالت نہیں جیسی کشمیر میں ہے.وہاں سے جو لوگ محنت مزدوری کے لئے آتے ہیں.عموماً ان کو لوگ حقیر سمجھتے ہیں.میں نے دیکھا ایک پٹھان جس کی نسوار کی ڈبیہ کہیں گر گئی تھی.وہ نسوار کے لئے بے قرار ہو کر ایک کشمیری سے جو اس کے پاس سے گزرا بڑی لجاجت کے ساتھ کہنے لگا.بھائی کشمیری جی تمہارے پاس نسوار ہے.تو عادت انسان کو غلام بنا دیتی ہے اور اس کے حوصلہ کو پست کر دیتی ہے.میری تو خدا تعالیٰ نے ایسی طبیعت بنائی ہے کہ کسی چیز کی مجھے عادت پڑتی ہی نہیں میں چائے پیتا ہوں گو مجھے عادت نہیں ہوتی تاہم میں چھوڑ بھی دیا کرتا ہوں کہ ممکن ہے کسی وقت کمزوری پیدا ہو جائے.تو سگریٹ پینے والے اور حقہ نوش جہاں کہیں لوگوں کو تمباکو پیتے دیکھتے ہیں.حقہ کی لالچ میں ان کے پاس جا بیٹھتے ہیں.وہ لوگ نیک ہوں یا بد ، حقہ کی حرص ان کو وہاں کھینچ لے جاتی ہے.ایک ہندو کا قصہ بیان کرتے ہیں.اسے حقہ نوشی کی عادت تھی وہ کہیں جا رہا تھا.اسے حقہ کی خواہش ہوئی ایک چوڑھے کا حقہ رکھا تھا.وہ لے کر پینے لگ گیا حالانکہ چوڑھے کا حقہ پینا تو

Page 180

175 در کنار ہندو چوڑھے کو اپنے ساتھ بھی نہیں لگنے دیتے.جب اس نے چوڑھے کو آتے دیکھا تو دل میں خیال کیا یہ اب مجھے جتلائے گا اس لئے اسے آواز دے کر کہنے لگا اس بات کا کسی سے ذکر نہ کرنا اور حقہ پی کر خاموشی سے اٹھ کر چلا گیا.تو ہر ایک قسم کی بد عادت سے بچے رہنا چاہیے.تا انسان غلامی سے آزاد رہے.علاوہ اس کے کہ حقہ نوشی تمام بد اخلاقیوں کا منبع ہے.اور اس سے انسان پست ہمت اور دوسروں کا غلام بن جاتا ہے.اس کی عادت سے بہت سے امراض بھی پیدا ہوتے ہیں.حقہ اعصاب کو نقصان پہنچاتا ہے.دمہ ، رعشہ اور بیسیوں بیماریاں اس سے پیدا ہوتی ہیں.پس دوسری نصیحت میری یہ ہے کہ تمباکو پینے سے بچنا چاہیے.کیونکہ یہ علاوہ بہت سی بد اخلاقیوں کے صحت کی خرابی کا بھی موجب ہے.احمد یہ چوک اور ہمارے بازاروں میں حقہ نہیں ہونا چاہیے.ہمارے کارکنوں کو بہت سختی کے ساتھ اس امر کی نگرانی کرنی چاہیے.مجھے افسوس ہے کہ ہمارے بازاروں میں دوکانوں پر حقہ پیا جاتا ہے.حضرت صاحب کے زمانہ کا ایک واقعہ ہے کہ ایک شخص کی نسبت آپ کو اطلاع دی گئی کہ وہ ہر وقت مہمان خانہ میں بیٹھا حقہ پیتا رہتا ہے.آپ نے اس کو فوراً نکال دیا.کہاں یہ بات کہ حقہ پینے والے کو حضرت صاحب مہمان خانے سے نکال دیں.اور کہاں یہ کہ اب ہمارے چوک اور بازاروں میں بھی حقہ پیا جاتا ہے.اگر کارکنوں سے غفلت ہوئی تھی تو جماعت کے دوسرے دوستوں کا فرض تھا کہ وہ دوکانداروں سے جن کی دوکانوں پر حقہ پیا جاتا ہے.یا سیگریٹ فروخت کئے جاتے ہیں.سودا لینا بند کر دیتے.اول تو کارکنوں کے اندر اس نقص کو دور کرنے کا احساس پیدا ہونا چاہیے تھا.اگر ان میں نہیں ہوا تھا تو دوسرے لوگوں کا فرض تھا کہ وہ ان کو یاد دلاتے.عام لوگوں کو تو حقہ پینے سے جبرا نہیں روک سکتے.مگر چونکہ یہ صحت کو خراب کرتا ہے.اس لئے ہم اپنے طالب علموں پر جبر بھی کر سکتے ہیں.اس وقت تک بہت سے لوگوں نے میری نصیحت پر حقہ چھوڑ دیا ہے.اور ہر طبقہ کے لوگوں نے چھوڑا ہے.چھوٹوں نے بھی اور بڑوں نے بھی امراء نے بھی اور غرباء نے بھی.امید ہے بقیہ لوگ بھی اس بد عادت کو چھوڑ دیں گے..دجال کی ایک یہ علامت بتائی گئی ہے کہ اس کے آگے بھی دھواں ہو گا اور پیچھے بھی ۳ سیگریٹ پینے والا منہ سے دھواں نکالتا ہے.پھر وہ دھواں پیچھے کو چلا جاتا ہے.یورپین لوگ جدھر جائیں گے.سیگریٹ پیتے جائیں گے.یہ بھی دجالی عادت ہے اور مسیح موعود وجالی عادتوں کو مٹانے آئے تھے.پس تم بھی دجالی عادات کو چھوڑ دو.یہ دونوں امور جو میں نے بیان کئے ہیں نہ صرف یہ

Page 181

176 کہ بری عادتیں ہیں.بلکہ دجال کی نشانیاں ہیں.اس لئے دجالی نشانیوں کو مٹاؤ اور اپنی اصلاح کرو اور دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرو.تا دنیا کے لئے نمونہ بنو.اللہ تعالٰی توفیق عطا کرے اور تمام بد اخلاقیوں کے موجب امور سے بچنے میں تمہاری مدد فرمائے آمین بخاری کتاب اللباس و ابو داؤد کتاب الترجل باب اخذ الشارب ا.مسلم برادیت مشکوة کتاب الفتن باب علامات بین یدی الساعة و ذکر الدجال الفضل ۲۳ جون ۱۹۲۵ء)

Page 182

177 23 اخلاق فاضلہ کی اہمیت اور ضرورت (فرموده ۱۹ جون ۱۹۲۵ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں نے پچھلے خطبات جمعہ میں اخلاق فاضلہ کے متعلق بعض باتیں بیان کی ہیں اور میں اسی مضمون کو ابھی جاری رکھنا چاہتا تھا لیکن چونکہ آج سرد درد کا دورہ شروع ہے.جو مہینہ میں ایک دفعہ ہوا کرتا ہے.اور اگر شدید ہو تو تکیہ سے سر بھی اٹھایا نہیں جا سکتا اور بولنے سے عموماً تکلیف زیادہ بڑھ جاتی ہے.اس لئے میں کچھ زیادہ بیان نہ کر سکوں گا.لیکن چونکہ میں چاہتا ہوں کہ اس مضمون کا تسلسل نہ ٹوٹے گو اختصار کے ساتھ ہی کچھ بیان کروں.اس لئے آج بھی میں اسی مضمون کو لیتا ہوں.مگر اپنے مضمون کو شروع کرنے سے پہلے بہت خوشی سے اس بات کا اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے سکول کے طلباء نے میری نصیحت کے ماتحت فیصلہ کیا ہے.کہ آئندہ وہ سب شریعت کے حکم کے ماتحت ڈاڑھی رکھیں گے.اور سگریٹ نہیں پیئں گے.انہوں نے ایک مجلس کر کے یہ اقرار کیا اور آئندہ اس بارے میں احتیاط کرنے کا وعدہ کیا ہے ہر انسان پر دو زمانے آتے ہیں.ایک وہ جب کہ اس پر جبر کرنا جائز ہوتا ہے.اور دوسرا وہ جب جبرنا جائز ہو جاتا ہے.بچپن کا زمانہ ایسا زمانہ ہوتا ہے کہ اس میں جبر جائز ہوتا ہے.بچہ کہتا ہے میں پڑھنے نہیں جاؤں گا.مگر ماں باپ جبراً بھیج دیتے ہیں.بچہ کہتا ہے میں دوائی نہیں پیوں گا مگر ماں باپ زبردستی پلا دیتے ہیں.بچہ کہتا ہے میں نہیں نہاؤں گا.مگر ماں باپ نہلا دیتے ہیں.تو بچپن میں ایک حد تک جبر جائز ہوتا ہے.اس سے زائد نہیں.مگر بڑی عمر کے آدمی پر جبر جائز نہیں ہوتا.اسے کسی کام پر جبراً نہیں بھیج سکتے.سوائے اس کے وہ معاہد ہو.یعنی اس نے یہ معاہدہ کیا ہو کہ اتنا بدلہ لے کر فلاں کام کروں گا.اس صورت

Page 183

178 میں اس سے معاہدہ کا پور کرانا جائز ہو گا.تو بچپن میں ہم جبر سے کام لے سکتے ہیں مگر جبر میں وہ لطف نہیں جو مرضی اور خوشی سے کام کرنے میں ہوتا ہے.اور جو مرضی اور خوشی سے کئے ہوئے کام کے نتائج ہوتے ہیں وہ جبر کے نہیں ہو سکتے.اس لئے میں بجائے اس کے کہ صیغہ کے افسروں سے کہتا ان ہی لڑکوں کو سکول میں رکھیں.جو شریعت کے احکام کی پابندی کرتے ہوں میں نے چاہا کہ خود بچوں کے ایمان کی آزمائش کروں جو میں نے کی.اور میں خوشی سے اعلان کرتا ہوں کہ بچے اس میں کامیاب نکلے.اب مجھے امید ہے کہ ہماری جماعت کے وہ لوگ جو عمر رسیدہ ہیں.جنہیں بچے نہیں کہا جا سکتا اور بچوں کی نسبت زیادہ مضبوط نیت اور ارادہ رکھتے ہیں وہ ان بچوں کی تقلید میں یہ باتیں اختیار کر لیں گے.اگر وہ خود شروع میں قدم نہیں اٹھا سکے.تو اب بچوں کے ابتدا کرنے کے بعد ان سے پیچھے نہ رہیں گے اور اسلام کے اس ظاہری حکم کی پابندی سے دریغ نہ کریں گے.جس کی خلاف ورزی ہر ایک کو نظر آسکتی ہے اور وہ اس قسم کے بہانوں کے نیچے پناہ نہ لیں گے.کہ ڈاڑھی رکھنا روحانیت کے اصول میں داخل ہے.کیونکہ جیسا کہ میں نے ایک خطبہ میں بتایا تھا بے شک یہ بات اصول اسلام میں داخل نہیں.مگر آنحضرت ﷺ نے فرمائی ہے.(1) اور آپ کا فرمانا اصول اسلام میں داخل ہے.پھر حضرت مسیح موعود نے اس کی تصدیق فرمائی ہے.آپ سے عرض کیا گیا جو لوگ احمدی ہو کر ڈاڑھی نہیں رکھتے انہیں تنبیہہ کیوں نہیں کی جاتی.آپ نے فرمایا جو شخص مجھ پر ایمان لاتا ہے.اور مجھے راست باز سمجھتا ہے اسے میری شکل دیکھ کر خود بخود داڑھی رکھنے کا خیال پیدا ہو گا.اس میں کہنے کی ضرورت نہیں.بعض مسائل پوشیدہ ہوتے ہیں اور ان کے متعلق جب تک بتایا نہ جائے پتہ نہیں لگ سکتا.مثلاً ہم نہیں جانتے حضرت مسیح موعود نے جھوٹ.خیانت.امانت کی کیا تعریف کی ہے.کیونکہ یہ باتیں دل سے تعلق رکھتی ہیں اور جب تک ان کا اظہار نہ ہو پتہ نہیں لگتا.مگر ڈاڑھی رکھنا بالکل ظاہر بات تھی اس لئے آپ نے فرمایا جو شخص میری شکل دیکھے گا اس میں اگر اخلاص ہو گا تو خود بخود میری شکل اختیار کر لے گا اب جو شخص اس کے بعد بھی آپ کی شکل اختیار نہیں کرتا اسے سمجھ لینا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود کا فتویٰ اس کے متعلق یہ موجود ہے کہ اگر اخلاص ہو گا تب ایسا کرے گا.اس کے بعد میں تمام جماعت کو مخاطب کر کے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اخلاق فاضلہ روحانی ترقیات کی طرح ایک اصل پر قائم ہیں اور میں تو کہوں گا خدا تعالیٰ نے دنیا کی ہر ترقی کے لئے ایک قانون بنایا ہے.جب تک اس کی اتباع نہ کی جائے کوئی شخص کامیاب نہیں ہو سکتا.خواہ روحانیت

Page 184

179 ہو.خواہ جسمانی صحت، خواہ علوم ہوں، خواہ اعمال کچھ ہو ہر ایک میں ترقی کرنے کا ایک گر ہے جس کی پابندی ضروری ہے.وہ گر یہ ہے کہ جس چیز کے حصول کی کوشش کرنی ہو پہلے اس کی قدرو اہمیت کو سمجھا جائے.کیونکہ جب تک اہمیت کا پورا پورا احساس نہ ہو.اس وقت تک اس کے حصول کے لئے ایسی کوشش نہیں کی جا سکتی کہ انسان ہر رکاوٹ کو دبا سکے.میرے نزدیک یہی ایک ایسا گر ہے جس کی طرف توجہ نہ کرنے کی وجہ سے ۹۰ فیصد لوگ اپنے مقصد میں ناکام ہوتے ہیں اور خصوصیت سے میں نے اس کا شکار مسلمانوں کو دیکھا ہے کسی نے کہا ہے.اے روشنی طبع تو بر من بلاشدی مسلمانوں کو جو پاک تعلیم قرآن کریم نے دی تھی.شامت اعمال کے باعث اسی کی وجہ سے وہ گمراہی میں پڑ گئے ہیں.قرآن کریم میں ایسے اعلیٰ اصول ایسے اعلیٰ عقائد اور ایسی خوبصورت تعلیم دی گئی ہے کہ ہر مسلمان اس کے ذریعہ دیگر مذاہب پر فتح پا سکتا ہے اور جیت سکتا ہے.مسلمانوں کو جب اس رنگ میں غلبہ حاصل ہوا تو انہوں نے اپنے اندرونی نقائص کے باعث یہ سمجھ لیا کہ ہمیں کسی اور بات کی ضرورت نہیں رہی.اسلام کی تعلیم جو اعلی ثابت ہو گئی اور ہم نے دوسرے مذاہب کی تعلیموں پر اس کی برتری ثابت کر دی.حالانکہ قرآن کریم اس لئے نہیں نازل ہوا تھا کہ مسلمان اس کے ذریعہ بحث میں فتح حاصل کیا کریں نہ اس لئے نازل ہوا تھا کہ مسلمان اسے بحث و مباحثہ کا ہتھیار بنائیں.بلکہ وہ اپنے نازل ہونے کی غرض یہ بیان کرتا ہے.کہ نبی نوع انسان کو وہ علوم عقلیہ سکھائے.جن کی معرفت اور جن کے ذریعہ خدا تک پہنچ سکے.ایسی ہدایات دے جن سے نفس میں پاکیزگی پیدا ہو سکے.ایسی صمتیں بتائے جن کے ذریعہ عمل میں بشاشت پیدا ہو اور جو قلب کو ایسا پاک اور مطہر بنا دیں کہ وہ خدا کی صفات کا جلوہ گاہ اور سبط کا کام دے.پس قرآن کے نزول کی چار غرضیں ہیں اور وہ یہ کہ (۱) عرفان کامل ہو (۲) عمل کامل ہو (۳) عقل کامل ہو.پھر (۴) عمل کامل ہو پہلے عمل سے مراد ظاہری عمل ہے اور دوسرے سے مراد تزکیہ نفس اور طہارت.گویا یہ دل کا عمل ہے.جو بعد میں حاصل ہوتا ہے.کیونکہ دو قسم کی عملی ترقیاں ہوتی ہیں اور دو قسم کی ذھنی ترقیاں تو یہ ہیں (۱) عرفان کامل ہو (۲) عقل اور ذہن تسلی پائے اور عملی ترقیاں یہ ہیں (۱) اعضاء کے اعمال کامل ہوں (۲) قلب کے اعمال کامل ہوں گویا دو عقلی اور دو عملی ترقیاں ہیں ان کے متعلق میں ان لوگوں سے جو سلسلہ احمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں کہتا ہوں اگر انہوں نے سلسلہ میں داخل ہو کر ان امور میں تغیر نہیں پیدا کیا ان کے حصول میں کامیابی نہیں حاصل کی.تو قرآن کا نازل ہونا نہ ہونا ان

Page 185

180 کے لئے برابر ہے.ایسے شخص کو اس امر پر خوش ہونے کا کوئی حق نہیں کہ قرآن کریم کی تعلیم سب تعلیموں سے اعلیٰ ہے اور اس کے ذریعہ وہ سب پر غلبہ پا سکتا ہے.افسوس که مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ ہم نے قرآن کو خدا کو اور خدا کے رسول کو مان لیا ہے اس لئے اس میں ایسی فضیلت حاصل ہو گئی ہے.کہ کچھ اور کرنے کی ضرورت نہیں.گویا قرآن کریم کی اعلیٰ تعلیم جس کے ذریعہ وہ دوسروں پر غلبہ پالیتے ہیں وہی ان کو غافل کرنے کا باعث بن گئی.اس تعلیم کی وجہ سے وہ سمجھتے ہیں ہمیں بہت بڑی فضیلت حاصل ہو گئی.حالانکہ فضیلت اس شخص کو نہ ملی جو اس تعلیم کو پیش کر کے جیت گیا بلکہ اس تعلیم کو فضیلت ہوئی جس نے غلبہ حاصل کیا.اس شخص کو تو فضیلت تب ملتی جب اس کا اپنا عمل بھی دوسرے مذاہب کے لوگوں سے اچھا ہوتا.مثلاً قرآن کریم کہتا ہے جھوٹ نہ بولو.اب اگر ایک مسلمان جھوٹ بولتا ہے.مگر ایک ہندو نہیں بولتا تو مسلمان کو اس لئے ہندو پر فضیلت حاصل نہ ہو گی.کہ قرآن کریم میں جھوٹ کی ممانعت لکھی ہے.بلکہ ہندو کو اس مسلمان پر اس بارے میں فضیلت ہو گی.اسی طرح اگر کوئی شخص قرآن کریم کی تعلیم کو پیش کر کے جیت جاتا ہے.تو یہ قرآن کریم کی تعلیم کی فضیلت ہے نہ کہ اس شخص کی اگر دیانت میں امانت میں اخلاق میں غیر مذہب کا شخص ایک مسلمان سے اعلیٰ ہے تو وہ اس سے بہتر ہو گا مگر مسلمانوں کو اپنے اخلاق کی اصلاح کرنے میں ایک یہ بات روک ہو گئی کہ انہوں نے سمجھ لیا جب قرآن کریم کی تعلیم سب سے اعلیٰ ہے تو یہی بات ہماری فضیلت کے لئے کافی ہے ہمیں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں اس وجہ سے وہ اپنے اخلاق کی درستی کی طرف توجہ نہیں کرتے.دوسرے ایک اور اعلیٰ درجہ کی قرآن کریم کی تعلیم ہے جو انسانوں کو پاکیزہ کرنے اور خدا کے محبوب بنانے کے لئے آئی ہے.اس کے غلط استعمال سے بھی گمراہ ہو گئے ہیں.وہ شفاعت کی تعلیم ہے.شفاعت کے معنی ایک کو دوسرے سے جوڑ دیتا ہیں.شفع دو کو جوڑ دینے کو کہتے ہیں.اور شفیع اسے جو کسی کو اپنے ساتھ ملا لیتا ہے.تو شفاعت کا یہ مطلب تھا کہ ایک ایسا مسلمان جو رسول کریم ﷺ کا نمونہ بننے کی پوری پوری کوشش کرے گا.اس میں اگر بعض نقص بھی رہ جائیں گے جن کی وجہ سے وہ باوجود کوشش اور محنت کے رسول کریم اللہ کا جوڑا نہ بن سکے تو آپ اس کے متعلق فرمائیں گے کہ یہ میرا جوڑا ہے.گو اس میں بعض نقائص رہ گئے ہیں مگر اس نے چونکہ کامل ہونے کی کوشش کی ہے.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اسے میرے ساتھ رکھا جائے.یہ مفہوم ہے شفاعت کا کہ بعض لوگ جو کچی کوششوں کے باجود بعض کمزوریوں اور نقائص کے باعث

Page 186

181 یا موت کی وجہ سے اپنے آپ کو کامل نمونہ نہ بنا سکیں گے.اور اس امر کی کوشش کرتے ہوئے میدان جنگ میں مارے جائیں گے.محمد ا ان کے متعلق کہیں گے ان کو میرے ساتھ فاتحین میں شامل کیا جائے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس شخص کے متعلق یہ کہیں گے خدا تعالیٰ اسے منظور کر لے گا.یہ ہے شفاعت.لیکن مسلمانوں میں اس مسئلہ کو غلط طریق پر سمجھنے کی وجہ سے یہ نتیجہ پیدا ہوا ہے.کہ وہ کہتے ہیں جو جی چاہے کرو رسول کریم ان شفاعت کر کے بخشوا لیں گے.ان کے نزدیک مسلمان سب سے بدترین اخلاق رکھیں.ہر قسم کے عیوب میں مبتلا ہوں.ہر قسم کی بد کاریوں کا ارتکاب کریں.کوئی پرواہ نہیں کیونکہ.مستحق شفاعت گناه گاراں اند اگر ہم گناہ گار نہ ہوں گے تو پھر رسول کریم شفاعت کس کی کریں گے.تو وہ مسئلہ جس سے اسلام نے مسلمانوں کی ہمت بڑھائی تھی کہ تم پاک ہونے کی اپنی طرف سے پوری پوری کوشش کرو گویا اس مسئلہ میں ہر ایک مومن کو مثیل محمد بننے کی کوشش کرنے کے لئے کہا گیا تھا.لیکن اب کہا جاتا ہے کہ ابو جمل بننا چاہیے.تا کہ محمد ﷺ شفاعت کر سکیں.اس خیال کی وجہ سے مسلمانوں میں مثیل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں.بلکہ مثیل ابو جہل، عتبہ، شیبہ پیدا ہو رہے ہیں.جس پر کہنا پڑتا ہے.اے روشنی طبع تو بر من بلاشدی قرآن کریم کی اعلیٰ تعلیم جو مسلمانوں کو پاک اور مطہر کرنے کے لئے آئی وہ تعلیم جس کی وجہ سے انہیں دیگر مذاہب پر فتح حاصل ہوئی.اس کی وجہ سے کہتے ہیں ہم کامل ہو گئے.ہمیں کسی چیز کی پرواہ کرنے کی ضرورت نہیں.اسی طرح وہ شفاعت کی تعلیم جو ہمت بندھانے اور حوصلہ بلند کر کے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بروز بنانے کے لئے آئی تھی.وہ بھی ان کی تباہی کا موجب ہو گئی.ان دو باتوں کا نتیجہ یہ ہوا (اس زمانہ سے جب سے کہ مسلمان بگڑے پہلے مسلمان تو ان سے وہی فائدہ حاصل کرتے رہے.جو ان سے مقصود تھا) کہ اخلاق فاضلہ کی طرف مسلمانوں کی بالکل توجہ نہیں رہی.کس قدر افسوس اور رنج کی بات ہے کہ آج مسلمان ہر بات میں دوسروں سے پیچھے ہیں.شستہ اور اعلیٰ اخلاق میں مسلمان پیچھے ہیں.تجارت میں مسلمان پیچھے ہیں.ایک ہندو تاجر پر اعتبار کیا جا سکتا ہے، ایک سکھ تاجر پر اعتبار کیا جا سکتا ہے.ایک انگریز تاجر پر بہت زیادہ اعتبار کیا جا سکتا ہے.لیکن اگر نہیں کیا جا سکتا تو مسلمان تاجر پر.اسی طرح ملازمتوں میں ہندو سکھ عیسائی پر بھروسہ کیا

Page 187

182 جا سکتا ہے.لیکن مسلمان ملازم پر نہیں کیا جا سکتا.اور ان کی بد بختی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ہمیں عیب کرنا بھی نہیں آتا.ایک ہندو اگر رشوت لے گا تو اپنا پہلو بچا کر.لیکن مسلمان ایسے رنگ میں لے گا کہ اپنے آپ کو تباہ کر لے گا.اسی طرح ایک ہندو اپنی قوم کی مدد کرے گا تو ایسے طریق سے کہ کسی گرفت میں نہ آسکے.لیکن اگر ایک مسلمان مدد کرے گا تو اپنے آپ کو پھنسا لے گا.پس مسلمانوں کا نیکی کرنا تو الگ رہا انہیں بدی کرنا بھی نہیں آتا.سیاسی لیڈروں کو ہی لے لو.ایک بھی مسلمان لیڈر ایسا نہیں جو دنیا میں کچھ وقعت رکھتا ہو.خود مسلمان یہ کہتے ہیں کہ گاندھی جی عقل اور اخلاق میں تمام دنیا کے لوگوں سے بڑھے ہوئے ہیں.حالانکہ اعلیٰ اخلاق ہی مذہب کی پہلی سیڑھی ہیں.اگر گاندھی جی کے اخلاق تمام دنیا کے مسلمانوں سے اعلیٰ ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کا مذہب بھی سچا ہے مگر یہ ضرور ہے کہ پھر روحانیت کسی مسلمان میں نہیں ہے ابھی بنگال کے بہت بڑے لیڈر مسٹری - آر - واس فوت ہوئے ہیں.مسلمانوں کو خود اعتراف تھا کہ کوئی مسلمان عقل اور سمجھ اور اخلاق کے لحاظ سے ان کا ہم پلہ نہ تھا.بات یہ ہے کہ ہندو لیڈروں کی باتوں میں سنجیدگی اور متانت ہوتی ہے.وہ کوئی ایسی بات نہیں کہتے جس میں چھچھورا پن پایا جائے.انہیں اپنی غلطی پر اصرار نہیں ہو تا.گاندھی جی کو کبھی اس بات پر مصر نہ پاؤ گے کہ وہ کہیں میں ضرور صحت پر ہوں.باوجود اس کے کہ سوراجیہ کے لئے سب سے زیادہ کوشش کرنے والے وہ ہیں کہتے ہیں اگر انگریزوں سے صلح کا کوئی طریق نکلے تو میں صلح کرنے کے لئے تیار ہوں.مگر مسلمان لیڈر سوائے دھمکی دینے اور ڈراوا بتانے کے اور کچھ جانتے ہی نہیں.مجنونوں کی طرح کہتے رہتے ہیں کہ ہم یوں کریں گے.ہم دوں کر دیں گے اور پیچھے کچھ بھی نہیں کرتے.مثلاً مسلمان لیڈروں کی طرف سے پہلے کہا جاتا تھا کہ اگر خلافت ترکی کا معاملہ ہمارے خیال کے مطابق طے نہ ہوا تو گورنمنٹ برطانیہ کو پتہ لگ جائے گا ہم کیا کر سکتے ہیں.لیکن جب گورنمنٹ نے وہی کیا جو اس کا منشاء تھا البتہ اتنا کر دیا کہ ہم نے ترکوں کے لئے جن مطالبات کو جائز اور مناسب بتایا وہ منظور کر لئے گئے تو مسلمانوں نے کچھ بھی نہ کیا اور آخر جب ترکوں نے خود ہی خلافت کو اڑا دیا تو مسلمان یہ کہنے لگ گئے کہ جس قسم کی پارلیمینٹ مصطفیٰ کمال پاشا نے خلافت کو اڑا کر بنائی ہے دراصل وہی خلافت ہے.اور ہماری خلافت سے مراد اسی قسم کی خلافت تھی.مگر یہ ان کی مراد ایسی ہی تھی جیسی ایک دفعہ پیر جماعت علی شاہ صاحب نے اپنی مراد بیان کی تھی انہیں مجھ سے کچھ کام تھا.انہوں نے میرے لئے چائے بنوا کر منگائی اور کشمش وغیرہ کھانے کے لئے پیش کئے.چونکہ مجھے نزلہ تھا.اس لئے میں نے کھانے سے

Page 188

183 انکار کر دیا.اس پر کہنے لگے جو کچھ تقدیر میں ہوتا ہے.وہی ہوتا ہے کھانے پینے سے کچھ نہیں ہوتا.میں نے کہا یہ بات آپ نے پہلے کیوں نہ بتائی جب ہم لاہور سے روانہ ہونے لگے تھے.آپ اگر اس وقت بتاتے تو ریل کے ٹکٹ کا خرچ خواہ مخواہ برداشت نہ کرنا پڑتا.اگر تقدیر میں ہوتا تو ہم خود بخود اپنے اپنے مقام پر پہنچ جاتے.کہنے لگے تدبیر ہوتی ہے.میں نے کہا نزلہ کی حالت میں ترش چیزیں نہ کھانا بھی تدبیر ہی ہے.اس پر کہنے لگے تقدیر کے ذکر سے میری مراد بھی یہی تھی.تو مسلمانوں کے لیڈروں کی مراد اسی طرح خلافت سے مجلس شوری تھی.جس طرح پیر جماعت علی صاحب کی تقدیر سے مراد تدبیر تھی.اب مسلمان لیڈر یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر حاجی حج کئے بغیر واپس آگئے تو پھر حکومت کو پتہ لگ جائے گا کہ کیا نتیجہ ہوتا ہے.حالانکہ اس سے بڑھ کر بے ہودگی کیا ہو سکتی ہے کہ انگریزوں سے کہا جائے کہ وہ اپنی قوت اور طاقت کے ذریعہ اس معاملہ میں دخل دیں.اس کا مطلب تو اپنے ہاتھ سے اپنی ناک کاٹنا ہے.کیونکہ اگر انگریز آج اس معاملہ میں دخل دیں گے.تو پھر ہمیشہ کے ئے ان کا حق ہو جائے گا کہ دخل دیتے رہیں.ہماری رائے تو اس بارے میں یہ ہے ہم انگریزوں سے یہ کہہ دیں کہ تم پرے بیٹھے رہو.تم اس معاملہ میں دخل نہ دو.یہ ہمارا مذہبی معاملہ اور ہمارے مقامات مقدسہ سے تعلق رکھنے والا معالمہ ہے.تمہارا اس معاملہ میں کچھ بھی دخل ہم گوارا نہیں کر سکتے.یہی بات سب مسلمانوں کو کہنی چاہیے تھی.مگر خدا تعالیٰ مجرموں کو پکڑتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض منذر الہامات جب پورے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ان پر احمدیوں کو خوشی منانی چاہیے.مثلاً کابل میں جب ہمارے آدمی مارے گئے.اور لکھا گیا کہ اس کے متعلق حضرت مسیح موعود کی پیش گوئی تھی.تو انہوں نے کہا احمدیوں کو اس موقع پر خوش ہونا چاہیے کہ ان کے نبی کی پیش گوئی پوری ہوئی.نہ کہ اظہار رنج و غم کرنا چاہیے ہم کہتے ہیں آج بھی انہیں خوشی کرنی چاہیے کہ امیر علی کی وجہ سے حج میں بندش پیدا ہو رہی ہے.اور حج کا رکنا رسول کریم ﷺ کی پیش گوئی ہے.اب کیوں چیختے چلاتے ہیں.اور کیوں یہ پیش گوئی انہیں بھول گئی ہے.دراصل یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے گرفت ہے ہر وہ حملہ جو یہ لوگ ہم پر کرتے ہیں.خدا تعالیٰ ان پر عائد کر دیتا ہے.اب اگر حج نہ ہوا اور حاجی واپس آگئے تو ہم ہی نہیں جانتے یہ لوگ خود بھی جانتے ہیں کہ ان سے پھر بھی کچھ نہ ہو گا.اور یہ اپنی دھمکیوں کو کسی اور موقع کے لئے اٹھا رکھیں گے یعنی پھر اس وقت کہیں گے اگر یہ ہوا تو ہم یہ کر دیں گے.مجھے ان کی اس قسم کی دھمکیوں کی مثال ایک واقعہ میں نظر آتی ہے.جو میں نے ۶-۷ سال

Page 189

184 کی عمر میں دیکھا تھا.میں بازار میں سے گزر رہا تھا کہ میں نے دیکھا دو ہندو لڑ رہے ہیں.ایک کے ہاتھ میں ترازو ہے.اور دوسرے کے ہاتھ میں پنیری.ایک ایک دوکان پر کھڑا تھا اور دوسرا دوسری دکان پر.ایک کے اب گالی دو تو تمہارا سر توڑ دوں گا دوسرا کے ہاں گالی دوں گا.مگر گالی دے نہ.چونکہ میرا بچپن کا زمانہ تھا مجھے شوق تھا کہ لڑائی ہوتی دیکھوں.اس لئے دیر تک ان کی یہ باتیں سنتا رہا.مگر وہ باتوں سے آگے نہ بڑھیں.تھوڑی دیر کے بعد دونوں اپنی اپنی دوکانوں میں گھس گئے.اس وقت پھر ایک نے دوسرے کو گالی دی.جسے گالی دی گئی تھی وہ بڑے جوش کے ساتھ پنسیری اٹھائے پھر باہر آیا.اور کہنے لگا اب گالی دو تو مزا چکھاؤں.حالانکہ اگر وہ کچھ کر سکتا تو جب دوسرے نے اس کا پہلا چیلنج منظور کر لیا اور اسے گالی دی تھی.وہ کچھ کر لیتا مگر پھر اس نے یہی کہنا شروع کر دیا کہ اب گالی دو تو بتاؤں اسی طرح تھوڑی دیر شور مچا کر پھر بیٹھ گئے.اس وقت پھر اس نے گالی دی.اور پھر دوسرا غصہ سے لال پیلا ہو کر کہنے لگا اب گالی دو تو مزا چکھاؤں.ان کی اس قسم کی باتوں پر اس وقت مجھے اتنا غصہ آئے کہ کوئی صورت ہو تو میں خود انہیں گتھم گتھا کر دوں مجھے ان کا یہ طریق بہت برا لگتا تھا.اس وقت بھی میں یہی چاہتا تھا کہ انہیں اگر کچھ کرنا ہے تو کریں.فضول دھمکیاں دینے کا کیا فائدہ.اسی طرح اب بھی مجھے مسلمانوں پر غصہ آتا ہے.چھ سال ہو گئے ہیں یہی سنتے کہ اب کرو تو یہ ہم کر دیں گے.کرنے والے نے پھر کیا.مگر انہوں نے کچھ نہ کر کے دکھایا.سوائے اس کے کہ مسلمانوں کی ان دھمکیوں سے بے عزتی اور بے حرمتی ہوئی.وہ ذلیل اور حقیر خیال کئے گئے اور کوئی نتیجہ نہیں نکلا.سفریورپ کے دوران میں میں نے کسی یورپین کے منہ سے کسی مسلمان لیڈر کی تعریف نہیں سنی.مگر متعدد انگریزوں فرانسیسیوں اٹالین کو ہندو لیڈروں کی تعریف کرتے دیکھا.اگر مسلمان بے دست و پا اور کمزور ہیں.تو ہندوؤں کے پاس کونسی تلوار ہے لیکن ان کی تعریف کرنے والے لوگ موجود ہیں.بات یہ ہے کہ دنیا عظمندی اور ذہانت کی تعریف کرتی ہے.ہندوؤں نے چونکہ ایک حد تک کام کو عقل سے چلایا ہے.اس لئے ان کی تعریف کی جاتی ہے.مگر مسلمانوں کی ہر جگہ مذمت ہو رہی ہے.یہ نتیجہ ہے اس بات کا کہ مسلمان نے اخلاق کو سٹڈی نہیں کیا.ہر قوم اعلیٰ اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے.مگر مسلمان صرف اس امر پر بھروسہ کئے ہوئے ہیں کہ قرآن کریم کی تعلیم سب سے اعلیٰ ہے یہی کافی ہے.اب سچائی دیانت امانت ان کے اندر نہیں.ان کا کوئی فعل اور کوئی کام متانت اور سنجیدگی کو لئے ہوئے نہیں.ان کی کسی بات سے عقل و خرد کا ثبوت نہیں ملتا اور وہ ایسی معجون مرکب بن گئے ہیں.جسے نہ نگلا جائے

Page 190

185 نہ تھوکا جائے.قران کریم کی تعلیم لوگوں کو اپنی خوبی اور صداقت کے ذریعہ اپنی طرف کھینچتی ہے.لیکن جب وہ لوگ مسلمانوں کے پاس آتے ہیں تو ان کے بد نمونہ کو دیکھ کر بھاگ جاتے ہیں.غرض اس بات کا نتیجہ نہایت مملک نکلا ہے.کہ اسلام کی اعلیٰ تعلیم اور شفاعت کا نہایت اعلیٰ مسئلہ جو ترقی کی طرف لے جانے والا تھا.اس سے مسلمانوں نے ٹھوکر کھا کر اپنے آپ کو ہر پہلو میں کمزور بلکہ قابل نفرت بنا لیا ہے.اور یہ بات ان کی تباہی کا موجب ہو گئی ہے کہ انہوں نے اخلاق کی اہمیت کو نہیں سمجھا.میں اپنی جماعت کو اس وقت اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اعلیٰ اخلاق کی اہمیت کو سمجھیں کیونکہ اہمیت سمجھے بغیر کوئی تعلیم کوئی کام اور کوئی عمل فائدہ نہیں دے سکتا.مثلاً اگر کسی شخص کو احمدی ہوتے وقت یہ احساس نہیں ہوتا کہ احمدی ہونے کے بعد مجھے کئی قسم کی قربانی کرنی پڑے گی.تو وفات مسیح یا نبوت مسیح موعود یا الہام کے مسئلہ میں اس کا مخالفوں پر غلبہ پالینا کچھ فائدہ نہ دے گا.اگر اس کے اعمال پر کوئی اثر نہیں ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد سے اسے کیا فائدہ ہو سکتا ہے.اسی طرح اگر ایک مسلمان کے اعمال اچھے نہیں ہیں تو اسے محمد کے آنے سے کیا فائدہ.اور میں تو کہوں گا اگر آنحضرت ﷺ آتے اور دنیا اللا میں کوئی تغیر کئے بغیر چلے جاتے تو آپ کی اس سے بڑھ کر کیا حقیقت ہوتی.جو آندھی یا بارش کی ہوتی ہے.بارش اور آندھی پھر بھی کچھ نہ کچھ اثر کرتی ہے.اگر رسول کریم ﷺ کی بعثت کچھ تغیر نہ کرتی تو اس کی کوئی حقیقت نہ ہوتی.اس تغیر اور اثر کا ہی یہ نتیجہ تھا کہ سینکڑوں سال تک برائی اور بدی کی بیخ کنی ہو گئی.اس طرح اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے سے دنیا میں ایسی رونہ چلے.جو برائیوں کو بہا کر لے جائے.تو آپ کے آنے اور آپ کو ماننے سے کیا فائدہ.اور یہ رو اس وقت تک نہیں چل سکتی.جب تک آپ کو ماننے والا ہر فرد یہ نہیں سمجھتا کہ اخلاق فاضلہ پہلی چیز ہے.جو روحانیت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے.اگر کوئی شخص اخلاق فاضلہ حاصل نہیں کرتا تو اس کے احمدی ہونے کا نہ خود اسے کچھ فائدہ ہے اور نہ وہ جماعت کو کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے.پس سب سے پہلے ہر ایک احمدی کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے کہ وہ اخلاق فاضلہ کی اہمیت سمجھے ورنہ اس کا احمدی ہونا بے فائدہ ہے.پھر یہ ہے کہ نہ صرف اپنے اخلاق کی درستی کا خیال رکھے بلکہ دوسروں کی طرف بھی دیکھے کہ ان کے اخلاق بھی اعلیٰ ہوں.کیونکہ جب تک سب لوگوں کے اخلاق اعلیٰ نہ ہوں دوسروں پر خاص امتیاز حاصل نہیں ہو سکتا.اور یہ کسی کے لئے خوشی کی بات نہیں ہو سکتی کیا کبھی ایسا شخص ہنستا دیکھا ہے.جس کی آنکھ دکھتی ہو اور وہ یہ کہے -

Page 191

186 میرا جسم نہیں دکھتا اس لئے میں خوش ہوں.اس طرح اگر جماعت میں ایک فرد بھی کمزور ہو تو اس کا ساری جماعت پر اثر پڑے گا.دیکھو رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے.تمام انسان ایک جسم کے اعضاء کے طور پر ہیں.پس اگر ایک کو تکلیف ہو گی.تو دوسرے کو بھی ہوگی.اور کوئی ایسی جماعت کامیاب نہیں ہو سکتی.جو یہ نہیں دیکھتی کہ اس کے سب کے سب افراد ایک معیار تک پہنچے ہوئے ہیں.ہمیں حضرت مسیح موعود کے آنے کی خوشی تبھی ہو سکتی ہے.جب ہم اخلاق میں ، اعمال میں، سچائی میں ، عدل میں ، غرباء پروری میں ، خوش خلقی میں ، حقوق العباد ادا کرنے میں دوسروں سے امتیاز رکھتے ہوں.جب تک ایک احمدی میں یہ باتیں نہیں پیدا ہوتیں.ہم نہیں کہہ سکتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آنے کا اسے فائدہ پہنچا.احمدی بننے کا سب سے پہلا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ ہر رنگ میں اعلیٰ نمونہ کا خیال پیدا کرو.جب یہ خیال پیدا ہو گا تو وہ ایک بیج کی طرح ہو گا.جس سے آگے عمل پیدا ہو گا.اگر کسی میں عمل پیدا نہیں ہوتا.تو اس کا یہ مطلب ہے کہ اس میں خیال ہی نہیں ہے.کیونکہ اگر خیال ہو گا.تو عمل بھی ضرور پیدا ہو گا.بے شک ایمان نجات کا باعث ہوتا ہے.مگر وہی ایمان جو اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ اس کے بعد انسان عمل سے رک ہی نہیں سکتا.اور ایسے لوگ اخلاق فاضلہ چھوڑ ہی نہیں سکتے اور وہ صرف اپنے ہی اخلاق کی اصلاح نہیں کرتے بلکہ اس وقت تک انہیں اطمینان نہیں آتا.جب تک دوسروں کے اخلاق کی اصلاح نہیں کر لیتے عام لوگ ایسے امور کے پیچھے پڑے رہتے ہیں جو گناہ نہیں ہوتے.اور اگر گناہ ہوتے ہین تو ان کی ذات سے تعلق نہیں رکھے.مگر جن اخلاق اور عادات کے متعلق انہیں قربانی کرنی پڑتی ہے.ان کی طرف توجہ نہیں کرتے.حالانکہ ان کی طرف توجہ کرنا ضروری ہوتا ہے.اور انہی کی طرف توجہ نہ کرنے سے بنی نوع انسان کی ترقی میں نقائص پیدا ہو جاتے ہیں.لوگ ان کی طرف توجہ نہیں کرتے وہ اپنی آنکھ کا شہتیر نہیں دیکھتے اور تنکوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں.ہمارے دوستوں کو چاہیے کہ اس طرف توجہ کریں اور اب اس بارے میں غفلت نہ کریں مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بحیثیت جماعت ہم نے کوئی خاص نمونہ نہیں دکھایا اب بھی اگر ہم نے اس طرف توجہ نہ کی.تو ہمارے لئے تبلیغی میدان بند ہو جائیں گے اور یہ مٹھی بھر جماعت جو اس وقت ہے خدانخواستہ مفقود ہو کر ہم ایک خطرناک گناہ کے مرتکب ہوں گے اس کا وبال دجال کے لئے نہیں.بلکہ ہمارے لئے ہو گا کہ وہ تعلیم جسے خدا تعالیٰ نے دنیا کی نجات کے لئے بھیجا.اس کے بند کرنے اور اس پر پردہ ڈالنے والے ہم ہوں گے.

Page 192

187 اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے سب لوگوں کو توفیق دے کہ غفلت کو چھوڑ دیں اور آئندہ کے لئے پختہ وعدہ کریں کہ اپنی دیانت ، امانت سچائی.حسن سلوک اور اعلیٰ اخلاق کا ایسا نمونہ دکھائیں گے کہ لوگ تسلیم کریں کہ فی الواقع حضرت مسیح موعود کے آنے سے احمدیوں کو نفع اور فائدہ ہوا ہے.الفضل ۲۵ جون ۱۹۲۵ء) ام بخاری کتاب اللباس و ابو داؤد کتاب الترجل باب اخذ الشارب

Page 193

188 24 اخلاق فاضلہ کس طرح حاصل ہو سکتے ہیں (فرموده ۲۶ جون ۱۹۲۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں نے کچھ عرصہ سے درستی اخلاق کے متعلق مضامین شروع کئے ہوئے ہیں.اور آج بھی اسی سلسلہ کو جاری رکھنے کے لئے اخلاق ہی کے متعلق کچھ بیان کروں گا.میں نے اپنے خطبات کے شروع میں بتایا تھا کہ اخلاق فاضلہ بھی انسان اسی طرح حاصل کر سکتا ہے.جس طرح دنیا کے اور درجے اور عہدے حاصل کرتا ہے.یعنی اخلاق فاضلہ بھی محنت اور کوشش سے ہی حاصل کر سکتا ہے.دنیا میں کوئی گر اور کوئی طریق ایسا نہیں کہ انسان بغیر محنت اور مشقت کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجے اور ترقیات پر پہنچ جائے.چھوٹی سے چھوٹی چیز اور ادنیٰ سے ادنی نعمت ہی کیوں نہ ہو.خدا تعالی نے اس کا حصول بھی کئی تکالیف کے ساتھ معلق کیا ہوتا ہے.چھوٹے بچے بیر توڑنے کے لئے جنگل میں جاتے ہیں اور بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ان کی انگلیاں کانٹوں سے زخمی ہو جاتی ہیں گو وہ بیر جن کو ایک بچہ مفت کی چیز خیال کرتا ہے.وہ بھی اس کو مفت نہیں ملتی.بلکہ اس کے حصول کے لئے بھی اس کو کانٹوں کی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے.پھر جنگلی پھول ہوتے ہیں وہ بھی انسان کو مفت میں نہیں مل جاتے.بلکہ ان کے لئے بھی اس کو محنت اور مشقت اٹھانی پڑتی ہے.کیونکہ ہمیشہ جنگلوں اور پہاڑوں پر پھول ایسے مقامات پر ہوا کرتے ہیں.جہاں انسانوں کے قدم بہت کم پڑتے ہوں.اس لئے ان کے حصول کے لئے انسان ان تک جلدی اور آسانی سے نہیں پہنچ سکتا.پس وہ پھول جن کو انسان مفت خیال کرتا ہے.وہ بھی اسے حاصل نہیں ہو سکتے.جب تک کہ پہلے کانٹے نہ چھوائے یا ان تک پہنچنے کے لئے کئی میل کی مسافت نہ طے کرے.اسی طرح شہد ہے اس کو بھی

Page 194

189 انسان مفت کی چیز خیال کرتا ہے.لیکن جس چیز کو وہ مفت خیال کرتا ہے.اسے خدا تعالیٰ نے مکھیوں کے ڈنکوں کے نیچے رکھا ہوتا ہے.پہلے وہ ان کے ڈنک برداشت کرتا ہے.یا برداشت کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے.محنت اٹھاتا ہے.تب کہیں جا کر اسے شہد نصیب ہوتا ہے.اسی طرح پانی ہے جس پر انسان کی زندگی کا دار و مدار ہے.چونکہ انسان کی زندگی کے قیام کے لئے پانی کا ہونا بھی نہایت ضروری ہے اس لئے اس کا سہل الحصول ہونا بھی ضروری ہے.مگر پانی کو بھی خدا تعالیٰ نے ہزاروں منوں مٹی کے نیچے رکھا ہوتا ہے.اور جب کنواں نکل آئے تو ڈول ڈالنا اور کھینچنا پڑتا ہے.صرف ایک ہی چیز ہے.جو انسان کو مفت حاصل ہوتی ہے اور وہ اس لئے کہ اس کے بغیر ایک منٹ بھی انسان زندہ نہیں رہ سکتا.غافل ہو یا ہوشیار ہو، سوتا ہو یا جاگتا.ہر حالت میں اسے اس کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ہوا ہے اگر یہ بھی انسان کو مفت نہ ملتی تو وہ مرجاتا مگر باوجود اس کے یہ ہوا بھی بعض حالات میں نہایت قیمتی ہو جاتی ہے.مثلاً صحت کمزور ہو جاتی ہے.سل وغیرہ بعض ایسے امراض لاحق ہو جاتے ہیں کہ تبدیلی ہوا کے لئے پہاڑ پر یا سمندر کے کنارے یا ریتلے میدان کی ہوا کی ضرورت ہوتی ہے.اور اس کے لئے سینکڑوں روپیہ خرچ ہو جاتا ہے.تو کبھی کبھی ہوا جیسی عام اور سهل الحصول چیز بھی قیمتی ہو جاتی ہے.پس جب ہر ایک چیز کے حصول کے لئے انسان کو محنت اور مشقت کرنی پڑتی ہے تو کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ وہ اعلیٰ درجے کی روحانی ترقی اور اخلاقی مراتب کے حصول کے لئے یہ چاہے کہ اس کو کوئی محنت اور مشقت نہ کرنی پڑے.اور وہ یونسی سفلی اور ادنی زندگی سے نکل کر اعلیٰ اور ارفع مقام پر پہنچے.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایسی عظیم الشان نعمت کے حصول کے لئے اسے کچھ بھی محنت اور کوشش نہ کرنی پڑے.اگر بیر توڑنے کے لئے پہلے کانٹوں کی تکلیف برداشت کرنا ضروری ہے.اگر پھولوں کے حصول کے لئے مشقت اٹھانی اور مسافت طے کرنی پڑتی ہے.اگر پانی کے لئے ڈول ڈالنا اور پھر کھینچنا پڑتا ہے.اور شروع میں کنواں کھودنا پڑتا ہے.تو پھر وہ اخلاق فاضلہ کہ جن کے ساتھ خدا تعالیٰ کا قرب اور وصل حاصل کر سکتا ہے.بغیر محنت اور مشقت کے کسی طرح حاصل ہو سکتے ہیں.پس اخلاق فاضلہ کے حصول کے لئے یہ خیال دل سے نکال دینا چاہیے کہ وہ کوئی پڑی ہوئی چیز ہے.جو یونہی مل جائے گی.یا کسی کا کھویا ہوا متاع ہے جو یونی دستیاب ہو جائے گا.جب تک دوسری چیزوں کی طرح ان کے حصول کے لئے بھی پوری محنت اور کوشش نہ کی جائے اس وقت تک انسان اخلاق فاضلہ کے حصول سے محروم رہتا ہے.

Page 195

190 حصہ پھر جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اخلاق فاضلہ کا تعلق عادات سے ہے تو ان کے حصول میں اور بھی مشکل بڑھ جاتی ہے.کیونکہ بعض امور ایسے ہوتے ہیں کہ عادات ان میں حائل نہیں ہوتیں.اس لئے ان کا حصول آسان ہوتا ہے.چونکہ انسان کا ذہن اس چیز کو اس کے سامنے حاضر رکھتا ہے.اس لئے اس کے لئے یکسوئی پیدا کرنا بھی کوئی مشکل نہیں ہوتی.لیکن جو امور عادات سے تعلق رکھتے ہیں اور انسان کی عادات ان امور کے خلاف ہوتی ہیں ایسی حالت میں انسان ان کی طرف یکسوئی بھی پیدا نہیں کر سکتا.مثلاً ایک شخص یہ ارادہ کر لیتا ہے کہ میں علم حاصل کروں گا.یا مکان بنواؤں گا.بے شک اس کو محنت کرنی پڑے گی.روپیہ صرف کرنا پڑے گا.لیکن علم حاصل کرنے کا یا مکان بنانے کا خیال بھلانے والی مقابلہ میں کوئی چیز نہیں ہوتی.لیکن اخلاق فاضلہ کے حصول کا انسان ارادہ بھی کرے تو اس کی عادتیں ہر ایک قدم میں اس کے لئے روک ہوتی ہیں.کیونکہ وہ قلبی کیفیات اور اعمال ماضیہ کے اثر کے نیچے دبے ہوئے ہوتے ہیں.جو شخص کہ عمر کا ایک بڑا ظالمانہ رنگ میں بسر کرتا ہے آہستہ آہستہ اس کو اپنا ظلم بھی رحم نظر آنے لگ جاتا ہے.اسی طرح جو شخص جھوٹ کا عادی ہو چکا ہوتا ہے.وہ اپنے جھوٹ کو بھی سچ سمجھنے لگ جاتا ہے.اور اس کو سچ بنانے کے لئے بیسیوں جائز و ناجائز حیلے بہانے بناتا ہے.اس طرح جس کو خیانت کی عادت پڑ چکی ہو وہ خیانت کو امانت سمجھنے لگ جاتا ہے.جس کو بد گوئی اور بد کلامی کی عادت ہو چکی ہو وہ آہستہ آہستہ یہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ وہ کسی کا دل نہیں دکھا رہا.بلکہ حق بات اور مناسب بات کہہ رہا ہے.ایسے لوگ ظلم کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم تو کسی پر ظلم نہیں کرتے.ایسی حالت میں اخلاق فاضلہ کے حصول کا محض ارادہ کر لینا ہی کام نہیں دے سکتا.ایک شخص پورے زور کے ساتھ یہ ارادہ کر لیتا ہے کہ میں ظلم نہ کروں.لیکن جب موقع اور وقت آتا ہے تو وہ اپنی عادت سے مجبور ہو جاتا ہے اور ظلم کرتے ہوئے پھر کہتا ہے کہ میں ظلم نہیں کرتا.یہی حال دوسری بد عادات کا ہوتا ہے.اخلاق کی درستی تب ہی ہو سکتی ہے.جب انسان یہ سمجھے کہ مجھ سے بد اخلاقی ہوئی ہے لیکن جو شخص اخلاق میں ایسا گر جاتا ہے کہ صراحتاً گالیاں دیتا ہے.اور پھر کہتا ہے میں تو گالی نہیں دیتا.حالانکہ وہ اپنے متعلق ایک چھوٹی سی بات کو بھی پہاڑ کے برابر بنا لیتا ہے.ایسے شخص کو اخلاق کی درستی کے لئے اس کا ارادہ بھی اس کو کچھ نفع نہیں دے سکتا.حضرت خلیفہ اول بعض آدمیوں کا مثال کے طور پر ذکر فرمایا کرتے تھے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے.ان میں سے کوئی مجھے رقعہ لکھتا ہے اور میں درس میں نصیحت کے لئے اس رقعہ کا ذکر کرتا ہوں اور وہ شخص بھی موجود ہوتا ہے تو دوسرے دن جھٹ میرے

Page 196

191 پاس اس کا رقعہ آجاتا ہے کہ آپ نے مجھے کافر کہا.منافق کیا اور بے دین بنایا.اور جب پوچھا جاتا ہے کہ کب تم کو کافر بے دین کہا گیا تو کہتا آپ نے مجھے جلد باز کہا ہے.حالانکہ مومن کی شان جلد بازی کرنا نہیں.اور جب میں مومن نہیں تو کافر ہوا.لیکن اگر اس طرح سے بات کو پھیلایا جائے تو کیسی ہی نیک نیتی سے بات کیوں نہ کی جائے.انسان اس کو برے سے برے پیرائے میں ڈھال سکتا ہے.اسی طرح بری سے بری بات کو نیکی کا جامہ پہنا سکتا ہے.یہ عادات کا ہی نتیجہ ہوتا ہے کہ انسان ان کے مقابلہ میں کمزوری دکھا کر اخلاق کی طرف قدم نہیں بڑھا سکتا.بلکہ ان عادات کے نیچے ایسا دب جاتا ہے.کہ بد اخلاقی کو بھی اخلاق شمار کرنے لگ جاتا ہے.حالانکہ وہی بات اگر خود اسے پیش آجائے تو ایک شور برپا کر دے..لیکن دوسرے کے متعلق اپنے اس فعل کو عیب یا بد اخلاقی قرار نہیں دیتا.پس اخلاق فاضلہ کے حصول میں ایک تو اپنے ارادے کی کمزوری دوسرے انسان کی عادت روک ہوتی ہیں.اس لئے اعلیٰ اخلاق کے حصول کے لئے سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ انسان اپنی بد عادات کی اصلاح کرے اور ان کے اثرات سے بچنے کی کوشش کرے.جس کا طریق یہ ہے کہ وہ مراقبہ کرے مسلمانوں کی بد قسمتی سے مراقبہ کے بہت برے معنی ان میں رواج پا گئے ہیں.اس کے اصل معنی تو یہ ہیں کہ انسان اپنے اعمال پر غور کرے.اپنے اعمال کی نگرانی کرے.مثلاً اگر کسی سے اس نے اپنا کوئی حق لینا ہے.اس حق لینے میں اس نے جو طریق اختیار کیا ہے.اس پر غور کرے کہ اگر میں لینے کی بجائے دینے والا ہوتا اور میرے ساتھ ایسا طریق اختیار کیا جاتا تو میں اس کو اخلاق قرار دیتا یا بد اخلاقی یا جو بات میں نے دوسرے کے متعلق کمی ہے اگر وہی بات میرے متعلق کوئی کہتا تو میں کیا سمجھتا.پس مراقبہ کے معنی تو یہ تھے کہ اپنے اعمال کا محاسبہ کیا جائے.لیکن آہستہ آہستہ بد قسمتی سے اب مراقبے کے یہ معنی ہو گئے ہیں کہ سر نیچے کر کے بعض الفاظ رٹے جائیں.حالانکہ اس کے معنی نفس کی نگرانی کرنا ہے.اس لئے صوفیاء کا یہ طریق رہا ہے کہ وہ علیحدگی میں اپنے نفس کا مطالعہ کیا کرتے تھے.کیونکہ اس وقت جوش ٹھنڈے ہو چکے ہوتے ہیں اور اخلاق کا صحیح اندازہ ہو سکتا ہے.جب انسان علیحدگی میں سوچتا ہے.تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ میں نے دوسرے کے ساتھ کیا ہے وہی کچھ اگر کوئی میرے ساتھ کرتا تو میں یقیناً اسے ظالم یا جھوٹا یا فریبی قرار دیتا.اس طرح اسے پتہ لگ جاتا ہے کہ جس بات کی وجہ سے وہ دوسرے کو برا کہہ رہا تھا اسی بات کا وہ خود مر تکب ہوا ہے.تو مراقبہ اخلاق فاضلہ کے حصول اور اخلاق رزیلہ سے بچنے کا ایک بہت

Page 197

192 بڑا ذریعہ ہے.اس لئے ایک تو میری یہ نصیحت ہے کہ آپ لوگ مراقبہ کیا کریں.یعنی اپنے اعمال کا محاسبہ اور اپنے نفس کی نگرانی کیا کریں.اس ذریعہ سے بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ جن باتوں کو کوئی شخص اپنی بد عادات کے اثر کے ماتحت نیکیاں خیال کرتا تھا وہ تو بدیاں ہیں.اور اس طرح بہت آسانی سے وہ اپنے اخلاق کی اصلاح کر سکے گا.ہے عادت کے علاوہ ایک اور چیز بھی اخلاق فاضلہ کے حصول میں روک ہے.اور وہ قانون قدرت ہے.شائد آپ لوگ تعجب کریں گے کہ قانون قدرت تو اخلاق فاضلہ کے حصول میں محمد ہونا چاہیے وہ روک کیسے ہو سکتا ہے.مگر اصل بات یہی ہے کہ قانون قدرت بھی اخلاق فاضلہ کے حصول میں روک ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ نے یہ قانون بنایا ہے کہ انسان کو جس چیز کی ضرورت پیش آتی ہے.اس کے پورا کرنے کے لئے سامان بھی پیدا ہو جاتے ہیں.ان سامانوں کو موقع و محل کے مطابق استعمال کرنے کا نام اخلاق فاضلہ ہے.لیکن اگر ان طبعی تقاضوں کو جو خدا تعالیٰ نے انسان کے پیدا کئے ہیں.کوئی صحیح طور پر استعمال نہیں کرتا.تو ایسا انسان با اخلاق نہیں کہلا سکتا.اور نہ وہ شخص با اخلاق کہلا سکتا ہے جو اپنے طبیعی تقاضوں کو بالکل مار ڈالتا ہے.بلکہ ان طبعی تقاضوں کو بر محل استعمال کرنے کا نام اخلاق فاضلہ ہے.مثلا غصہ ایک طبعی تقاضا ہے.جو اس غرض کے لئے رکھا گیا کہ انسان اس کے ذریعہ کسی مقابلہ کرنے والے کو روکے.اور اس کے ذریعہ مظالم کو بڑھنے نہ دیا جائے.گویا دوسرے کو اس کے ظلم کرنے اور نیکی کو مٹانے کی کوشش سے روکا جائے.اسی طرح انتقام ہے جو غصہ کا عملی پہلو ہے.بعض لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کے تیور دیکھ کر اور اس کے چہرہ سے غصہ کے آثار معلوم کر کے متاثر ہو جاتے ہیں اور ظلم اور بدی ترک کر دیتے ہیں.لیکن بعض انسان ایسے بھی ہوتے ہیں.جو چہرہ کے اثرات تو الگ رہے.زبان سے کہہ دینے سے بھی متاثر نہیں ہوتے.بلکہ وہ سزا اور انتقام چاہتے ہیں.غصہ کا پہلا درجہ تو یہ ہے کہ قلب میں نفرت پیدا ہوتی ہے.اور اس سے انسان کی اپنی اصلاح ہوتی ہے.کیونکہ اس کو یہ پتہ لگتا ہے کہ یہ فعل اچھا ہے یا برا.یہ فعل کرنا چاہیے.یہ نہ کرنا چاہیے گویا کسی چیز سے نفرت پیدا ہونے سے دوسرے کی اصلاح نہیں ہوتی بلکہ اپنی اصلاح ہوتی ہے.دوسرا درجہ غصہ کا یہ ہے کہ آنکھوں اور چہرے سے اس کا اظہار ہوتا ہے.اور تیسرا درجہ یہ ہے کہ سزا دی جائے غرض کبھی تو دل میں غصہ پیدا ہوتا ہے اور انسان سمجھتا ہے اس بات سے مجھے دکھ ہوا ہے.دوسروں کو بھی اس سے دکھ ہو گا اس سے بچنا چاہیے.اس طرح اس کے اپنے نفس کی اصلاح ہوتی ہے.اور کبھی چہرے سے غصہ کا

Page 198

193 اظہار کرتا ہے اور جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو دانت بھی پیتا ہے.کبھی آنکھیں نکالتا ہے.اور چہرہ سرخ ہو جاتا ہے.اور جوش کے مارے اس کی حالت ایسی ہو جاتی ہے جیسے مرگی کا دورہ.پھر دوسرا قدم غصہ کا یہ ہوتا ہے کہ وہ اس غصے کا اظہار زبان سے کرتا ہے.کیونکہ بعض لوگ اتنی قابلیت اور سمجھ نہیں رکھتے.کہ وہ چہرے سے غصہ کے آثار معلوم کر کے اپنی حرکت سے باز آجائیں.یا بعض طبیعتوں کے انسان چہرہ پر غصہ کے آثار معلوم کر کے بھی متاثر نہیں ہوتے.لیکن دوسرے کا زبان سے غصہ کا اظہار ان پر اثر کرتا ہے اور وہ بدی سے رک جاتے ہیں.اس سے بڑھ کر تیسرا قدم غصہ کا وہ ہے جب انسان سزا دیتا ہے.اس سے ان لوگوں کی اصلاح ہوتی ہے جن پر زبان کے ذریعے غصہ کا اظہار کچھ اثر نہیں کرتا.اور وہ اپنی حرکات سے باز نہیں آتے.لیکن یہی صورتیں غصہ کی جن سے انسان کی اپنی اور دوسروں کی اصلاح ہوتی ہے.جب حد سے تجاور کر جاتی ہے تو بد اخلاقی کہلاتی ہیں.مثلاً جب انسان غصہ سے ایسا بھر جائے کہ اپنی.اس کی دیوانوں کی سی حالت ہو جائے.ایک کتے کے پاس تو لوگ جانا پسند کریں.لیکن اس وقت اس کے پاس جانا گوارا نہ کریں.یا زبان سے غصہ کا اظہار کرتے ہوئے اتنا حد سے بڑھ جائے کہ گالی پر گالی دیتا جلا جائے.تو یہ اس کی بد اخلاقی بن جائے گا.اور قانون قدرت نے انسان کے اندر غصہ کا مادہ اس لئے رکھا ہے کہ اس کے ذریعہ وہ اپنی اور دوسروں کی اصلاح کرے.اس کی حد سے تجاوز کر کے اسے بد اخلاقی بنا لیتا ہے.اس سے بڑھ کر غصے کا جو مرتبہ ہے وہ انتقام اور بدلہ ہے.جیسے چور کا ہاتھ کاٹنا قاتل کو قتل کرنا.لیکن بدلہ لینے کے لئے بھی موقع اور محل ہوتا ہے.اور یہ بھی اس وقت تک جائز اور درست ہو سکتا ہے کہ موقع اور محل کے مطابق ہو.لیکن اگر اس میں انسان موقع کا خیال نہ کرے اور حد سے نکل جائے تو یہ بھی بد اخلاقی ہو جائے گی.مثلاً اگر کسی کی انگلی کسی کے پاؤں کے نیچے دب جائے تو اسے طبعا" غصہ آجائے گا انتقام اور بدلہ کی خواہش بھی پیدا ہو گی مگر اس وقت دیکھنا یہ ہو گا کہ بدلہ لینے کا موقع اور محل بھی ہے یا نہیں گو برابر کی سزا جائز اور اخلاق کے اندر داخل ہے.لیکن اگر کسی کا پاؤں غلطی سے اس کی انگلی پر پڑ گیا ہو تو پھر اس سے بدلہ لینا بد اخلاقی ہو گی.کیونکہ بدلہ بد نیتی پر موقوف ہے.ہاں اس کی غفلت کہلائے گی.اور اس وجہ سے وہ نصیحت کا تو مستحق ہے.لیکن سزا کا مستحق نہیں.اسی طرح اگر ایک چھوٹے بچے نے تھپڑ مار دیا ہو.تو یہ دیکھنا ہو گا کہ اگر اس سے برابر کا بدلہ لیا جائے تو کیا وہ اس کی برداشت کی طاقت بھی رکھتا ہے یا نہیں.اگر بچہ سے برابر کا بدلہ لیا

Page 199

F 194 جائے اور تھپڑ کے بدلے اس کو تھپڑ مارا جائے تو وہ ایک تھپڑ سے بے ہوش ہو کر گر پڑے گا.تو بدلہ میں یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ برداشت کی طاقت بھی ہے یا نہیں.پھر یہ کہ بدلہ حد سے زیادہ تو نہیں اور پھر یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ قانون کے مطابق ہے یا نہیں.اگر قانون کے خلاف کوئی بدلہ لیتا ہے تو وہ خود مجرم بنتا ہے.یعنی اگر قانون ملک اسے اجازت نہیں دیتا کہ وہ خود بدلہ لے اور الله پھر وہ لیتا ہے.تو خود مجرم بنتا ہے.ایک شخص نے رسول اللہ اتنا ہی سے پوچھا اگر میں اپنی عورت کے پاس کسی غیر مرد کو بیٹھے دیکھوں اور اسے قتل کر دوں تو مجھ پر کوئی الزام تو نہ آئے گا.آپ نے فرمایا تم اگر قتل کرو گے تو قاتل ٹھہرائے جاؤ گے.بعضوں نے اس کی سزا قتل اور لبعضوں نے کوڑے ہی رکھے ہیں.مگر شریعت اور قانون اس کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ خود سزا دے بلکہ شریعت یہی کہے گی کہ تم اس معاملہ کو حکومت کے سامنے پیش کرو.تو بدلہ لینے کی بھی کئی صورتیں ہوتی ہیں.اور گو بدلہ لینا طبعی تقاضے کے ماتحت ہے.لیکن طبعی تقاضوں کو بھی موقع اور محل کے مطابق پورا کرنا ضروری ہوتا ہے.مثلاً خدا تعالیٰ نے سورج پیدا کیا ہے اب ایک شخص اس خیال سے کہ خدا نے سورج اس لئے پیدا کیا ہے کہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے.ہر وقت دھوپ میں بیٹھا رہتا ہے.تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ سن سٹروک میں مبتلا ہو جائے گا.اور دو چار دن میں اسے شدید بخار ہونے لگ جائے گا.یا وہ سردی کے دنوں باہر برف میں پڑا رہتا ہے.اس خیال سے کہ برف خدا نے اسی لئے پیدا کی ہے کہ اس کو اس طرح استعمال کیا جائے.تو وہ نمونیا یا کسی اور شدید مرض میں مبتلا ہو کر مر جائے گا.دیکھو بارش برستی ہے تا لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں.مگر کسی زمیندار کو نہیں دیکھو گے کہ وہ بارش کا سارے کا سارا پانی اپنے کھیت میں ڈال لے.بلکہ جب دیکھے گا کہ پانی زیادہ ہو گیا ہے.تو فورا بند کاٹ کر نکال دے گا.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سارے کا سارا بارش کا پانی اس کے کھیت کے لئے نہیں بلکہ اس سے ڈہا ہیں وغیرہ بھی بھرتی ہیں.جن سے اور بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں.تو ایک ہوشیار کسان مستعد کھڑا موقع کو دیکھتا رہتا ہے.اگر پانی زیادہ آگیا ہو تو نکال دیتا ہے.اور ضرورت سے کم ہو تو باہر سے اور پانی ڈال لیتا ہے.غرض ہر ایک کام کرنے کے لئے موقع اور محل کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے.یہی بات طبعی تقاضوں کے لئے ضروری ہوتی ہے.جب ان کو موقع اور محل کے مطابق پورا کیا جاتا ہے.تو وہ اخلاق فاضلہ کہلاتے ہیں.ورنہ برائیاں بن جاتے ہیں یہ طبعی امر ہے کہ جس وقت انسان کو کسی سے تکلیف پہنچتی ہے تو اسے فوراً غصہ اور جوش آجاتا ہے.لیکن اسے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس موقع کے لئے کتنا غصہ استعمال

Page 200

195 کرنا چاہیے.یہ نہیں کہ سارے کا سارا غصہ اسی وقت استعمال کر لیا جائے.مثلاً اگر کسی بچہ کا پاؤں اس کے ہاتھ میں پڑ جائے اور وہ اس وقت بے تحاشہ اس کو مکہ مار دے.تو اس کی یہ حرکت ایسی ہو گی جیسے کوئی زمیندار بارش کے سارے پانی کو اپنے کھیت میں ڈال لے.جس طرح اس کا اپنے کھیت میں سارا پانی ڈالنا بے موقع ہو گا.اسی طرح اس کا اس وقت بچے کو مارنا بھی بے موقع اور بے محل ہو گا.یہ تو ایک طبعی امر ہے اور قانون قدرت میں یہ بات رکھی گئی ہے.کہ جہاں اس کو کسی سے دکھ یا تکلیف ہو گی.وہاں فوراً غصہ پیدا ہو جائے گا.مگر اس وقت غصے کو روکنا اور حد کے اندر رکھنا اس کا کام ہے.اسی طرح مالی یا جسمانی ضرورتیں ہیں.جس وقت انسان کو کوئی مالی یا جسمانی ضرورت پیش آتی ہے تو اس کے اندر طبعا" ایک ایسا مادہ پیدا ہو جاتا ہے کہ جس سے وہ یہ چاہتا ہے کہ میں کہیں سے مال حاصل کر کے اپنی ضرورتوں کو پورا کروں.اب اگر اس مادہ کو وہ ایسے رنگ میں استعمال کرے کہ دوسرے کی امانت میں خیانت کر کے اپنی ضرورت کو پورا کرے تو یہ ناجائز ہو گا.اس خواہش کے پیدا کرنے کی تو یہ غرض تھی کہ وہ ہوشیار اور چوکس ہو جائے.اگر یہ خواہش اس کے اندر نہ رکھی جاتی جو حرص کی حد سے نیچے نیچے ہو.تو یہ دنیا میں کچھ بھی نہ کر سکتا.اسی طرح انسان کے اندر جو غدودیں ہیں.ان کے بہت سے فوائد ہیں.دماغ و دیگر قومی کو طاقت دیتے ہیں.بعض غدود عقل و ہمت اور اخلاق اور شہوانی جذبات پیدا کرتے ہیں.لیکن اگر ایک انسان صرف شہوانی قومی کے پورا کرنے میں ہی مصروف ہو جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کی عقل میں فتور آجائے گا.کیونکہ عقل کے پیدا ہونے کا بھی ان میں حصہ تھا.نہ یہ کہ صرف بچے پیدا کرنا ان کا کام تھا.تو طبعی تقاضوں کو ان کے دائرہ اور حدود کے اندر رکھنا اخلاق فاضلہ کہلاتا اور حد سے تجاوز کرنے کی صورت میں نقصان ہوتا ہے.قانون قدرت میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ کوئی حرکت ضائع نہیں جاتی.مثلاً ایک پتھر دیوار سے مارو.تو اس کی حرکت ضائع نہیں جائے گی.بلکہ اس سے پتھر میں گرمی پیدا ہو جائے گی.اسی طرح پانی کی آبشار گرنے سے بجلی پیدا ہوتی ہے.جس سے ہزاروں بڑے بڑے مفید اور طاقت کے کام لئے جاتے ہیں.ابھی انگریزوں نے منڈی کی آبشار سے بجلی پیدا کر کے سارے پنجاب کو روشنی پہنچانے کی تجویز کی ہے.تو ہر ایک طاقت جو پیدا ہوتی ہے اگر اس کو روک لیا جائے اور محفوظ کر لیا جائے.تو اس

Page 201

196 سے بہت بڑے بڑے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں.اسی طرح غصہ بھی ایک طاقت ہے اگر اس کو بھی روک لیا جائے.اور قابو میں کر لیا جائے تو اس سے بعض اور اعلیٰ درجے کے اخلاق پیدا ہوتے ہیں اسی طرح مال کے جمع کرنے کی خواہش جو حرص کی حد سے نیچے نیچے ہو.بہت کی نیکیوں اور دین کے کاموں کی طرف متوجہ کر دیتی ہے.برخلاف اس کے بعض طبعی تقاضوں کو اگر ان کی مناسب حد سے زیادہ روکا جائے تو وہ اور برے اخلاق پیدا کرنے کا موجب ہو جاتے ہیں.مثلاً یہ کہ بعض بچے جب کھیلنے میں مصروف ہوتے ہیں.تو کھیل کی خاطر پاخانہ پیشاب روکے رکھتے ہیں.بڑی عمر میں ایسے لڑکوں کی طبیعت میں بجل پیدا ہو جاتا ہے.حالانکہ کہاں پاخانہ اور پیشاب کا روکنا اور کہاں مال جمع کرنا اور بخل کا پیدا ہو جانا.مگر یہ ایک تجربہ شدہ حقیقت ہے کہ ایسے بچے 99 فی صد بڑی عمر میں جا کر بخل کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں.اور ان میں سے ایک فی صد کو بھی میں اس لئے مستقلی کرتا ہوں کہ بعض دفعہ اور مادی امور ان کے اس بخل کے اثر کو بدل دیتے ہیں.پاخانہ پیشاب کا روکنا ایک مادی امر ہے.لیکن اس سے طبیعت میں بخل پیدا ہو جاتا ہے.غرض اگر طاقتوں کو مناسب اور صحیح طریق سے محفوظ کر لیا جائے اور موقع اور محل کے مطابق ان کو صرف کیا جائے.تو بہت سے عمدہ اخلاق اور اعمال کا موجب ہو سکتی ہیں.اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ اگر روپیہ کسی جواریے کو دیا جائے گا تو وہ اسے جوئے میں صرف کر دے گا.اور اگر کسی نیک آدمی کو دیا جائے گا تو وہ دین کے کام میں صرف کرے گا.تو جو طبعی تقاضے ہیں ان کو صحیح مصرف کے لئے اگر روکا نہ جائے تو پھر وہ طاقتیں انسان کے اختیار سے باہر ہو جاتی ہیں.اور پھر فورا وہ ان پر تصرف نہیں کر سکتا.جیسے کہ ایک موٹر چلانے والا جب موٹر کو حد سے زیادہ تیز چلا بیٹھتا ہے.تو اس کو جلد قابو میں نہیں لا سکتا.قابو میں لانے کے لئے کچھ وقت چاہیے.یہی حال طبعی تقاضوں کا ہے کہ جب وہ جوش میں آتے ہیں.تو ان کو بھی حد اعتدال کے اندر لانے کے لئے کچھ وقت درکار ہوتا ہے.اس لئے رسول کریم اللہ نے فرمایا ہے کہ جب غصہ آئے تو پانی پی لو کھڑے ہو تو بیٹھ جاؤ.تا جو زائد غصہ ہے اور طرف خرچ ہو جائے اور اتنا ہی باقی رہے جو جائز اور مفید ہے.بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی کا پاؤں اگر کسی کے ہاتھ پر پڑ جاتا ہے.تو بہت غصہ کا اظہار کرتا اور زبان سے ایسے کلمات نکالتا ہے کہ اگر کوئی موقع ایسا ہوتا کہ اس کا پاؤں کسی پر پڑ جاتا اور وہ وہی کلمات کہتا تو کبھی پسند نہ کرتا.غصہ کرنے کا موقع تو تب ہے

Page 202

197 کہ کوئی بدنیتی سے پاؤں رکھے مگر وہ جو غلطی سے یا غفلت سے ایسا کرتا ہے.وہ نصیحت کا مستحق ضرور ہے کہ اس کی بے احتیاطی اور غفلت سے دوسرے پر پاؤں پڑ گیا.مگر وہ غصے کا مستحق نہیں.اب اگر غصے کو صحیح طور پر استعمال کیا جاتا تو اس کے اخلاق بھی اعلیٰ رہتے اور اس کے علاوہ اس طاقت کو روکنے کی وجہ سے اس کو کئی اور نیکیوں کی بھی توفیق ملتی.اخلاق فاضلہ اس کا نام ہے کہ انسان طبعی تقاضوں کو شریعت کے مطابق استعمال کرے.پس جو طاقتیں خدا تعالیٰ نے انسان کے اندر رکھی ہیں.اگر انسان ان کو روکتا اور محفوظ رکھتا رہے.تو اتنا بڑا خزانہ اس کے پاس جمع ہو جائے کہ کروڑ پتیوں سے بھی زیادہ مالدار ہو سکتا ہے.اللہ تعالٰی ہم کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم ایسے رنگ میں اپنے اخلاق اپنی عادات میں تبدیلی پیدا کریں کہ دوست اور دشمن بھی یہ مان جائیں کہ حضرت مسیح موعود کو قبول کر کے ہم نے ایسی تبدیلی اپنے اندر پیدا کی ہے کہ اس کے لئے ہر ایک قسم کا دکھ اور تکلیف اٹھانا بالکل بیچ ہے.الفضل نے جولائی ۱۹۲۵ء)

Page 203

198 25 ہر ایک اخلاقی مجرم چشم پوشی کے قابل نہیں (فرموده ۱۰ جولائی ۱۹۲۵ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : چونکہ آج میری طبیعت اچھی نہیں.بخار کی کی شکایت ہے اس لئے اس وقت میں کوئی لمبی تقریر نہیں کرنا چاہتا.مختصراً ایک اعتراض کا جو میرے سامنے پیش کیا گیا ہے جواب دیتا ہوں.ایک شخص نے مجھے خط لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر میرا کوئی مرید شراب کے نشے سے مخمور کسی گلی کی نالی میں پڑا ہو.تو میں بڑی شفقت سے اس کا منہ صاف کروں اور کندھے پر اٹھا کر اپنے گھر لے آؤں.اس سے معترض کی مراد یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کا مغز یہ معلوم ہوتا ہے کہ شرعی اور اخلاقی مجرموں کو کوئی سزا نہ دینی چاہیے.ہمارا کام زیادہ سے زیادہ یہی ہے کہ اس کو وعظ اور نصیحت کریں.مگر آپ سزا دینا چاہتے ہیں.یہ سوال اگر حقیقت کے سب پہلوؤں کو مد نظر نہ رکھا جائے تو ایک حد تک سکتا ہے.لیکن اگر مغز شریعت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کے اصلی منشاء کو مد نظر رکھا جائے.تو آپ کی اس تعلیم پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے اندر خاص معنی رکھتی ہے.جب آپ نے یہ فرمایا کہ اگر میرا کوئی دوست شراب سے مدہوش پڑا ہو.تو میں اسے اپنے گھر اٹھا لاؤں گا تو اس سے یہ مراد نہیں ہو سکتی کہ اگر آپ کا کوئی مرید شراب پیتا ہے تو آپ اس کے لئے کوئی سزا جائز نہیں سمجھتے.درست ہو رسول کریم نے جب شراب پینے والے کے لئے حد مقرر فرمائی ہے.(1) تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کے ایسے معنی کرنا غلطی ہے.ورنہ یہ ماننا پڑے گا کہ نعوذ باللہ رسول کریم ﷺ نے شرابی کے لئے حد مقرر کرنے میں غلطی کی ہے.اور اگر یقیناً آپ

Page 204

199 کی مراد یہی ہے کہ کسی اخلاقی مجرم کو سزا نہ دینی چاہیے.تو پھر مانا پڑے گا کہ چور کے ہاتھ کاٹنے کی جو تعلیم قرآن میں دی گئی ہے وہ غلط ہے.اسی طرح اگر معترض کے نزدیک یقینا آپ کی مراد وہی ہے جو اس نے لی ہے.تو پھر قرآن کریم کی اس تعلیم کو بھی غلط قرار دینا پڑے گا کہ اخلاقی مجرموں کو سزا دینے کے وقت تم میں رافت نہیں آنی چاہیے.اور اگر آپ کی تعلیم کا وہی منشاء ہے جو معترض نے پیش کیا ہے.تو پھر جس طرح آپ نے یہ بات تحریر فرمائی ہے اسی طرح آپ کی یہ بات بھی ڈائری میں موجود ہے کہ میرا ارادہ ہے کہ اخلاق کے متعلق ایک کتاب لکھوں اور پھر جو میری جماعت میں سے اس کی خلاف ورزی کرے.اس کو اپنی جماعت سے خارج کر دوں.پس آپ کی اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیا یہ بات صحیح نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بعض آدمیوں کو ان کی بد اخلاقیوں کی وجہ سے قادیان سے نکال دیا گیا.چنانچہ ایک کو اس واسطے حضرت مسیح موعود نے نکال دیا تھا کہ وہ بہت حقہ پیا کرتا تھا اور ایک کو اس لئے کہ وہ بالکل نکما بیٹھا بیودہ باتیں کیا کرتا تھا.جہاں معترض نے حضرت مسیح موعود کی اس تعلیم کو دیکھا ہے وہاں اس کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ شریعت کے دوسرے احکام اور آپ کی دوسری تعلیم اس پر کیا روشنی ڈالتی ہے.میرے نزدیک وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحیح تعلیم ہے.جو معترض نے پیش کی ہے.اور وہ بھی صحیح ہے.جو دوسری جگہ حضرت مسیح موعود نے بیان فرمائی ہے.اصل میں انسان کے اعمال دو قسم کے ہیں ایک عمل تو وہ ہیں جو ظاہر نہیں ہوتے اور عام طور پر لوگوں کی نظروں سے مخفی ہوتے ہیں اور جن کا دوسروں پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور وہ ایسے امور ہوتے ہیں جن کا حکومت کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا.ایسے معاملہ میں ایک مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے بھائی کے عیب کو چھپائے اور پردہ پوشی اور چشم پوشی سے کام لے.اگر ایسی حالت میں کوئی اپنے بھائی کے متعلق چشم پوشی سے کام نہیں لیتا تو وہ مجرم ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے جو شخص اپنے بھائی کے عیب پر پردہ پوشی کرتا ہے.خدا تعالیٰ اس کے عیوب پر چشم پوشی فرمائے گا.لیکن اگر کوئی ان تشيع الفاحشه (النور (۲۰) کے ماتحت کسی ایسی بد اخلاقی کا مرتکب ہوتا ہے.جس سے دوسروں کے اخلاق پر بد اثر پڑتا ہے.اور بدی کی قباحت اور نفرت لوگوں کے دل سے ملتی ہے یا جو ایسے امور ہیں کہ انتظام سے تعلق رکھتے ہیں.تو ایسے شخص کو سرزنش نہ کرنا اور خاموشی اختیار کرنا جرم ہو گا.مثلا کسی نے جھوٹ بولا جس سے دوسرے لوگ عام طور پر واقف نہیں اور وہ بھی اپنے

Page 205

200 جھوٹ کو چھپاتا ہے.اور علی الاعلان اس بد اخلاقی کا مرتکب نہیں ہو تا تو ایسی حلات میں ایک مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اس کی پردہ پوشی کرے.علیحدگی میں اسے نصیحت کرے اور اس کے حق میں دعا کرے کہ خدا تعالیٰ اس کو اس عیب سے پاک ہونے کی توفیق دے.لیکن جو شخص جھوٹ بولتا اور علی الاعلان بولتا ہے.ایسا شخص دوسروں کے اندر اس بد اخلاقی کے متعلق یہ احساس پیدا کرتا ہے.کہ جھوٹ کوئی بری بات نہیں.اگر جھوٹ بول لیا جائے تو کوئی حرج نہیں واقع ہوتا.خصوصاً بچوں کے اخلاق کو ایسا شخص زیادہ بگاڑتا ہے مثلاً جھوٹ بولتا ہے اور پھر ہنس پڑتا ہے.اور اس طرح بیجوں کے دل سے اس فعل کی نفرت دور کر کے جھوٹ کی رغبت دلاتا ہے.ایسے شخص کو جو شخص سرزنش نہیں کرتا.وہ اس پر رحم نہیں کرتا.بلکہ ہزاروں بچوں کو اس جرم کے ارتکاب کے لئے تیار کرتا ہے.مثلاً ایک جج کے سامنے کسی گواہ نے جھوٹ بولا.کوئی کہے چونکہ حضرت مسیح موعود کی اور اسلام کی یہ تعلیم ہے.کہ پردہ پوشی کرنی چاہیے اس لئے حج کو اس کے خلاف کچھ نہیں کرنا چاہیے تو یہ درست نہیں ہو گا.اگر جج اس کے اس عیب سے چشم پوشی کرتا ہے تو وہ حج خود مجرم ٹھہرے گا.کیونکہ اس کا فرض ہے کہ وہ اس وقت مجرم کے جرم کو ظاہر کرے اور جس نے جھوٹ بولا ہے اس کو جھوٹا کہے اور اس کے جھوٹ کو ظاہر کرے.اسلامی حکومت میں اس غرض کے لئے محتسب مقرر ہوتے تھے.جن کا کام یہ ہوتا تھا کہ وہ ایسے لوگوں کی فہرستیں تیار رکھا کرتے تھے جو دغا باز فریبی اور جھوٹے یا دوسرے جرموں کے عادی ہوتے ہیں.اسلامی حکومت میں جو محتسب ہوتے تھے.ان کی کتابوں میں ہر ایک شخص کی نسبت مفصل لکھا ہوتا تھا کہ اس شخص کا بیان سچا ہوتا ہے.اور اس کا جھوٹا اور کہ فلاں دغا باز فریبی اور مکار ہے.عدالت میں جب کوئی گواہ پیش ہوتا تو حج سب سے پہلے محتسب کو بلاتا اور اس شخص کے متعلق اس سے دریافت کرتا تھا.اگر اس کے کاغذات میں اس کے متعلق یہ نوٹ ہوتا تھا کہ وہ جھوٹا ہے اور اس کا بیان سچا نہیں ہوتا تو اس سے گواہی نہ لی جاتی تھی.آج کل عدالتوں میں بڑی مشکل ہوتی ہے.ایک شخص کا مقدمہ ہوتا ہے اس کو گواہ کی ضرورت ہوتی ہے.وہ اپنے کسی دوست سے کہتا ہے کہ میرا مقدمہ ہے تم گواہی میرے حق میں دے دو وہ دے دیتا ہے.مگر حکومت اسلامیہ میں ایسے لوگوں کی فہرستیں موجود ہوا کرتی تھیں اس لئے عدالتوں میں جھوٹے گواہ پیش نہیں ہو سکتے تھے.جب بھی گواہ پیش ہو تا تھا.پہلے محتسب کی اس کے متعلق شہادت طلب کی جاتی.اگر وہ کہتا کہ یہ ثقہ گواہ ہے اور اس پر کوئی الزام اور اتمام نہیں ہے.تو اس کی شہادت قبول کی جاتی ورنہ رد کر دی جاتی.

Page 206

201 اسلامی حکام نے محتسب کے تقرر کو قرآن کریم کے اس حکم سے استنباط کیا ہے کہ گواہ عادل ہونے چاہئیں.وہ کہتے ہیں اگر لوگوں کے حالات سے واقفیت نہ رکھی جائے تو کسی گواہ کی نسبت کس طرح معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ واقعہ میں عادل اور ثقہ ہے.اس لئے محتسبوں کے پاس ایسے لوگوں کی لسٹیں موجود رہا کرتی تھیں.جو جھوٹ کے عادی ہوتے یا بازاروں میں لکھتے بیٹھے یونسی ہنسی محول اور تمسخر کیا کرتے اور جب عدالتوں میں کوئی گواہ پیش ہو تا اس وقت وہ اپنی کتاب سے کے متعلق نوٹ پیش کر دیتے.اس سے اسلامی حکموں کی خوبی اور بھی زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے.جب ہم دیکھتے ہیں.عباسی حکومت میں ہر جرنیل کے ساتھ ایسا شخص مقرر کیا جاتا تھا.جو اس کے حالات لکھتا اور اطلاع دیتا رہے کہ وہ جرنیل کیا کچھ کرتا ہے.حتی کہ حضرت ابو عبیدہ اور خالد بن ولید جیسے انسانوں کے ساتھ بھی خفیہ رپورٹر بھیجے جاتے تھے.کہ وہ کس طرح کام کر رہے تو چشم پوشی کی اس تعلیم کے یہاں یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ کوئی خراب کام بھی کر رہا ہو تو رپورٹر چشم پوشی سے کام لیں اور خاموش رہیں.کیونکہ مختلف موقعوں کے مناسب حال مختلف حکم ہوتے اس مخص ہیں.پس ایسے افراد کا جن کے خلاف اخلاق اعمال کا دوسروں پر اثر نہیں پڑتا.اور وہ اپنے اعمال کو چھپاتے ہیں اور دوسرے لوگ ان کے ایسے اعمال سے واقفیت نہیں رکھتے.ان کے متعلق اسلام کی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہی تعلیم ہے کہ ان کی پردہ پوسی کی جائے لیکن جس طرح آپ نے یہ تعلیم دی اسی طرح آپ کی ڈائری میں ان اشخاص کے متعلق جو علی الاعلان بد اخلاقی کے مرتکب ہوں.ان کے برے افعال لوگوں پر ظاہر ہو چکے ہوں اور دوسروں پر اثر کرنے والے ہوں یہ بھی موجود ہے کہ میرا ارادہ ہے میں اخلاق پر ایک کتاب لکھوں اور پھر جو خلاف ورزی کرے.ان کو جماعت سے خارج کر دوں اور پھر آپ کا عمل بھی موجود ہے کہ آپ نے اس قسم کے لوگوں کو قادیان سے نکالا.ہاں ایک ایسا شخص جو کسی بد اخلاقی کا ارتکاب کر بیٹھا ہے اور پھر اس کو چھپاتا ہے.اور لوگ بھی اس کے ایسے افعال سے واقف نہیں.اس کی لغزش کا اگر کسی کو پتہ لگ جاتا ہے.تو اس کا ایک بھائی کی حیثیت سے فرض ہے کہ چشم پوشی کرے.اور علیحدگی میں اس کو نصیحت کرے.اور اس کے لئے دعا کرے.مثلاً کسی کو کسی بھائی کا کوئی جھوٹ معلوم ہو گیا ہے.جس کا دوسروں کو علم نہیں اگر وہ اس کی اشاعت کرے تو اس کو مجرم قرار دیں گے.پس ہر ایک تعلیم اپنے اپنے موقع کے ساتھ تعلق رکھتی ہے ورنہ جو طریق معترض نے

Page 207

202 اختیار کیا ہے.اس پر عمل درآمد کیا جائے تو دس سال کے اندر اندر اعلیٰ سے اعلیٰ اخلاق والی قوم بدترین جماعت ہو سکتی ہے.اور اگر اس تعلیم کو اپنے اپنے موقع پر چسپاں نہ کیا جائے.تو جس طرح آج ہم عیسائیوں کے سامنے حضرت مسیح کی اس تعلیم کو کہ اگر کوئی تمہاری ایک گال پر طمانچہ مارے.تو دوسری بھی اس کے سامنے کر دو (۲) پیش کر کے انہیں شرمندہ کرتے ہیں.اسی طرح اگر ہم بھی حضرت مسیح موعود کی اس تعلیم کو عام کریں گے تو قوم کے اخلاق بگاڑنے والے بنیں گے.اور پھر نتیجہ یہ ہو گا کہ جس طرح عیسائیوں کی اس تعلیم پر لوگ ہنستے ہیں.حضرت مسیح موعود کی اس تعلیم پر بھی نہیں گے.پس ہر سخنے وقتے و ہر نکتہ مقامے دارد.حضرت مسیح کی اس تعلیم کو پیش کر کے جب لوگ کسی پادری پر پہنتے ہیں.تو اس سے اس پادری کی ہتک نہیں ہوتی بلکہ اس تعلیم کا مقصد نہ سمجھنے کی وجہ سے حضرت مسیح کی ہتک ہوتی ہے.اسی طرح اگر ہم بھی حضرت مسیح موعود کی اس تعلیم کو موقع پر چسپاں نہیں کریں گے.تو نہ صرف ہم پر ہنسی ہو گی.بلکہ لوگ حضرت مسیح موعود پر بھی ہنسی کریں گے.چونکہ میری طبیعت اچھی نہیں.اس لئے میں اپنے خطبہ کو اسی پر بس کرتا ہوں.اس کے بعض اور پہلو بھی ہیں.جو کسی اور وقت اللہ تعالٰی نے توفیق دی تو بیان کروں گا.اور وہ بھی اخلاق ہی کے متعلق ہیں.ا مشكوة كتاب الحدود باب في حد الخمر ۲- متی (الفضل ۲۳ جولائی ۱۹۲۵ء)

Page 208

203 26 دعوت الی اللہ (فرموده ۱۷ جولائی ۱۹۲۵ء تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : انسانی کوششیں اور اسباب نہایت ہی محدود ہوتے ہیں.اور غیر معمولی نتائج جو ان سے پیدا ہوتے ہیں.وہ اللہ کے فضل اور احسان ہی سے پیدا ہو سکتے ہیں.اگر خدا تعالیٰ کا فضل اور احسان نہ ہو اور اس کی طرف سے رہنمائی نہ ہو تو انسانی کوششوں کا بار آور ہونا مشکل ہوتا ہے.اور پھر انسانی دلوں کا بدلنا تو ایک نہایت ہی مشکل بات ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ بعض دفعہ ماں باپ نہایت کوشش کر کے اپنی اولاد کو اپنا ہم خیال بنانا چاہتے ہیں.لیکن باوجود کوشش کے بھی اولاد میں سے کسی ایک بچے یا سارے بچوں کو بھی اپنا ہم خیال نہیں بنا سکتے.حالانکہ اولاد ماں باپ کو اپنا حقیقی خیر خواہ سمجھتی ہے اور وہ یقین رکھتی ہے کہ یہ جو کچھ بھی کرتے ہیں.ہماری بھلائی کے لئے کرتے ہیں.ماں باپ اور اولاد میں بعض دفعہ اختلاف بھی ہو جاتا ہے.جس کا باعث اختلاف خیالات ہے نہ کہ بد نیتی یا ایک دوسرے کو نقصان پہنچانا یا ایک دوسرے پر ظلم کرنا.لیکن باوجود اس اختلاف کے ان میں ایک محبت ہوتی ہے اور عشق تک نوبت پہنچی ہوتی ہے.اور باوجود اس کے کہ ایک دوسرے کی نیت کے متعلق غلط فہمیاں بھی نہیں ہوتیں.ہر فردان کا اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ جو بات ان کی جانب سے ہوتی ہے.خیر خواہی سے ہوتی ہے.اور باوجود اتنی موانست کے پھر بھی اختلاف پیدا ہوتے ہیں اور مٹ نہیں سکتے.ماں باپ زور لگاتے ہیں کہ بیٹے ہمارے ہم خیال ہو جائیں.مگر وہ نہیں ہوتے پس اگر اس قدر سامان اتحاد کے باوجود اگر اس قدر بھروسہ کے باوجود اور اگر اس قدر توکل کے باوجود بھی وہ کامیاب نہیں ہو سکتے تو ان لوگوں پر کامیابی حاصل کرنا اور ان لوگوں کے خیالات کو بدل ڈالنا جو کوئی اتحاد نہیں رکھتے اور جن کے ساتھ کسی قسم کے رابطہ نہیں بلکہ الٹی بد ظنیاں ہوتی ہیں کتنا مشکل کام ہے.

Page 209

204 پس ان مشکلات کو دیکھ کر کہنا پڑتا ہے.کہ سب سے زیادہ اہم کام انبیاء کے حصے میں آتا ہے.اس لئے کہ وہ یہ غرض رکھتے ہیں کہ دنیا کے خیال اور دنیا کے عقائد کو بدل ڈالیں.پھر وہ ایسے لوگوں کی طرف مبعوث ہوتے ہیں.جن میں اور ان میں کوئی اتحاد نہیں ہوتا.پھر وہ ایسی حالت میں ان کے سامنے آتے ہیں کہ وہ بظاہر کمزور بے سامان اور غریب ہوتے ہیں اور دنیا خیال کرتی ہے کہ ان کا دعوئی اصلاح نیک نیتی پر مبنی نہیں.اس لئے وہ ان کی مخالفت پر کھڑی ہو جاتی ہے.اور اسی خیال کے ماتحت وہ ان کے مقابلہ پر ضد سے کام لیتی ہے.یہی وجہ ہے کہ ہر نبی کے زمانہ میں شریر لوگ پیدا ہوتے چلے آئے ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے پر فرعون تھا.جس نے کہا یہ ایک معمولی سا آدمی ہے ہم اس کو ہر گز نہیں مان سکتے.پھر رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی کہا گیا کہ یہ بڑا بننا چاہتا ہے چنانچہ کفار نے آپ سے کہا بھی کہ آپ بڑا بننا چاہتے ہیں.تو ہم آپ کو بڑا بنا دیتے ہیں.اگر آپ دولت کی خواہش رکھتے ہیں.تو ہم آپ کے لئے دولت جمع کر دیتے ہیں.(1) ایسا ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے بھی کہا گیا.غرض انبیاء ایسی حالت میں ہوتے ہیں کہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ اپنی عزت اور بڑائی کے لئے کام کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس ڈھنگ سے دنیا کو قبضہ میں لائیں.غرض انبیاء کے متعلق ابتدا ہی سے بدظنی پر بنیاد ہوتی ہے.اہل دنیا سے انہیں کوئی رابطہ نہیں ہوتا.ان کے پاس کوئی سامان نہیں ہوتا کوئی تعلقات نہیں ہوتے.کوئی رتبہ اور شان نہیں ہوتی اس حالت میں ایک نبی دعوی کرتا ہے جسے سن کر لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ چاہتا ہے کہ ہم پر سردار بن جائے اور وہ ہمیشہ مخالفت شروع کر دیتے ہیں.لیکن باوجود اس قسم کی مخالفتوں کے انبیاء نے زمانے کی رو کے برخلاف چل کر لوگوں کی اصلاح کی اور کامیابی حاصل کر لی.بعض لوگ نادانی سے ہر شخص کی کامیابی کو معجزہ قرار دے لیتے ہیں.حالانکہ وہ کامیابی جسے اسے وہ کامیابی سمجھتے ہیں.حقیقی کامیابی نہیں ہوتی مثلاً جیسے پچھلی صدی میں یورپ میں ہوا.نپولین جو بعد ازاں شہنشاہ بن گیا فرانس کی بغاوت کے ایام میں پیدا ہوا.یہ ایسے دن تھے کہ تمام ملک میں بغاوت پھیلی ہوئی تھی.اور ہر ایک شخص ملک سے باغیوں کو نکالنے پر تلا کھڑا تھا.اور دن رات اسی کوشش میں لگا رہتا تھا.چنانچہ ان دنوں میں جب کہ وہ ابھی پیدا ہی ہوا تھا.بڑے بڑے مصنف لوگوں کو اکسا رہے تھے.اور بڑی بڑی زبر دست تصنیفیں اس بارے میں لکھی جا رہی تھیں تو یہ دن بغاوت کے تھے اور ایسے وقت میں لوگوں کو راہنما کی ضرورت ہوتی ہے.سو نپولین پر لوگوں کی نظر پڑی.اور انہوں نے اسے اپنا کماندڑ بنا لیا وہ چونکہ بہادر اور نیک تھا.آخر بادشاہ ہو گیا.مگر کیا یہ

Page 210

205 سامان اس نے آپ پیدا کئے تھے.نہیں بلکہ اس سے تقریباً دو سو سال پہلے سے پیدا ہو رہے تھے پس نپولین فرانس کی بغاوت سے بڑا بنا اور اس لئے بڑا بنا کہ اس کے خیالات ملک کے خیالات کے مطابق تھے.لوگوں نے اسے چن لیا.اس میں اس کی اپنی اتنی عظمت نہیں جتنی اس کے انتخاب کرنے والوں کی ہے کہ انہوں نے ایک ایسے آدمی کو چن لیا جو ہر طرح کام کے قابل تھا اور جس آدمی کی ظاہری حیثیت دنیا میں کوئی بڑی نہیں تھی.یہ بات نپولین نے پیدا نہیں کی تھی.بلکہ لوگوں نے اسے چنا اور وہ اسی طرف چل پڑا جس طرف کہ ملک اس وقت چل رہا تھا.پس یہ کہنا کہ اس کی یہ کامیابی معجزہ کا رنگ رکھتی ہے.درست نہیں.آنحضرت ﷺ کی کامیابی کو دیکھ کر جو فی الحقیقت معجزانہ تھی.بعض لوگوں نے اس کے معجزانہ ہونے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ سب کچھ تلوار کے زور سے ہوا.اور یہی بات یورپ والوں نے بھی کہنی شروع کر دی.لیکن یورپ ہی کے ایک مصنف نے اس کی تردید لکھی ہے.جو لکھتا ہے.میں مسلمان نہیں ہوں لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے جب دوسرے لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا.اگر میں یہ مان بھی لوں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا تو میں یہ کیسے مان لوں کہ اکیلے رسول (صلعم) کی تلوار نے ایسے لوگ پیدا کر دیئے جو سب کے سب اس کے ساتھ جانیں قربان کرنے کے لئے دوڑے پھرتے تھے.آخر یہ تلوار چلانے والے پیدا کس نے کئے.تو رسول کریم ﷺ کی یہ کامیابی معجزانہ رنگ میں تھی.نہ لوگوں کی رو اس طرف تھی جس طرف آپ ان کو لے گئے اور نہ ہی ان کے خیالات ایسے تھے کہ نبی کریم کے خیالات کے مطابق ہوتے.پس باوجود ان حالات کے آپ کا کامیاب ہو جانا صاف طور پر بتلا رہا ہے کہ یہ معجزانہ طور پر تھا اور خدا تعالیٰ کی مدد و نصرت سے تھا نہ کہ انسانی کوششوں اور اسبابوں سے.مگر کیا نپولین کے متعلق کوئی ایسا کہہ سکتا ہے اس کے لئے تو پہلے سے سامان موجود تھے وہ ابھی بچہ تھا کہ اس کے زمانہ میں لوگ رات دن گورنمنٹ کے برخلاف جدوجہد میں لگے رہتے تھے.پس انبیاء میں ایسے وجود ہوتے ہیں.جنہیں مخالف حالات میں کام کرنا پڑتا ہے.اور یہی وجہ ہے کہ ان کی کامیابی معجزانہ اور نشان صداقت کے طور پر ہوتی ہے.بعض لیڈر بھی ترقی کر جاتے ہیں.مگر ان کا بڑھنا اور ایک حد تک کامیابی پا جانا عارضی ہوتا ہے.ایسا ہی لوگوں کی پیر پرستی کو دیکھ کر اگر کوئی شخص خود پیر بن کر لوگوں کو اپنا مرید بنا لیتا ہے تو یہ بھی کوئی معجزہ نہیں کیونکہ وہ اس رو کے مطابق کام کر کے کامیاب ہوتا ہے جس میں لوگ آپ ہی آپ سے چلے جاتے ہیں یہی حال سرسید کا تھا.انہوں نے مسلمانوں میں انگریزی تعلیم جاری کرنے

Page 211

206 کی کوشش کی بے شک ان کی مخالفت کی گئی ان سے ٹھٹھے اور ہنسی بھی کی گئی اور اینٹ پتھر بھی پھینکے گئے ان کے جلسے بھی بند کئے گئے اور طرح طرح سے ان کے کام میں روکیں بھی ڈالی گئیں.مگر اس میں بھی کیا شبہ ہے کہ جو کچھ وہ کہتے تھے اس پر عمل کرنے کے لئے مسلمانوں کو حالات مجبور کر رہے تھے کیونکہ ایک طرف تو گورنمنٹ کی یہی کوشش تھی دوسرے مسلمان دیکھ رہے تھے کہ ہم انگریزی تعلیم حاصل کئے بغیر ترقی نہیں کر سکتے.اور ہندو اس کی وجہ سے بہت ترقی کر رہے ہیں.پس سرسید کی چند سال لوگوں نے مخالفت کی.پھر وہ سمجھ گئے کہ انگریزی تعلیم سے ہم ترقی کر سکتے ہیں.اس وجہ سے انہوں نے نہ صرف مخالفت چھوڑ دی.بلکہ موید بن گئے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے جو کام تھا وہ یہ کام تھا کہ لوگوں کو ان کے خلاف منشاء چلائے اور اس طرف لے جائے جس طرف وہ نہیں جانا چاہتے تھے.لوگ اس وقت یہ بدظنی کرتے ہیں کہ یہ اپنی بڑائی کے لئے کوشش کرتا ہے.حالانکہ اگر وہ اپنی بڑائی کے لئے کرتا ہو تو لوگوں کے خیالات کے خلاف نہ کہے.اور انہیں ادھر ہی لے جائے جدھر وہ جانا چاہتے ہوں.مگر نبی اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتا وہ انہیں ان کی خواہشات عادات اور افعال کے خلاف چلانے کی کوشش کرتا اور اس وجہ سے لوگوں کی بد ظنیوں اور مخالفتوں کا ہدف بنتا ہے.اور صاف ظاہر ہے کہ یہ طریق وہی انسان اختیار کر سکتا ہے.جسے خدا تعالیٰ کی ذات پر کامل بھروسہ ہو اور جسے یہ یقین ہو کہ ساری دنیا کی مخالفت میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی.کیونکہ خدا میرے ساتھ ہے اور جو کچھ میں کہتا ہوں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کہتا ہوں.چونکہ نبی اس اطمینان اور اس یقین کے ساتھ ساری دنیا کے مقابلہ میں کھڑا ہوتا ہے اس لئے اس کا دنیا میں آتا گویا خدا تعالیٰ کا آنا ہوتا ہے.کیونکہ نبی کے ذریعہ دنیا میں خدا کا جلال ظاہر ہوتا ہے.اس امر کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس الہام میں اشارہ ہے کہ یا شمس و یا قمر.دنیا میں اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا ہے.اس وقت نبی آتا ہے.اور خدا تعالیٰ سے روشنی حاصل کر کے دنیا میں اس کے نور کو ظاہر کرتا ہے.اس لحاظ سے وہ قمر ہوتا ہے.اور چونکہ دنیا میں خدا تعالیٰ کو لوگ نہیں جانتے اور نبی کے ذریعہ وہ ظاہر ہوتا ہے اس لحاظ سے نبی شمس ہوتا ہے.تو انبیاء خدا تعالیٰ کو دنیا میں ظاہر کرنے کے لئے آتے ہیں اور یہی کام ان کی قائم کردہ جماعتوں کا ہوتا ہے.اور اسی کام کے لئے ہماری جماعت کھڑی ہوئی ہے.پس ہماری جماعت جو ایک نبی کی جماعت ہے.اس سے میں یہ پوچھتا ہوں کہ اس نے اس کام کو کہاں تک سرانجام دیا ہے اور خدا تعالیٰ کو پوری روشنی میں دنیا والوں کو دکھانے کے لئے کس

Page 212

207 حد تک جدوجہد کی ہے.اگر نہیں کی تو ہم کو اس فرض سے غافل نہیں ہونا چاہیے اور ہر ممکن کوشش کے ذریعہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کام کو جاری رکھنا چاہیے.دنیا کسی پرانے نبی کو تو آسانی سے مان سکتی ہے لیکن کسی نئے نبی کا ماننا اسے دو بھر ہوتا ہے.وجہ یہ ہے کہ پرانا نبی جو گزر چکا اس نے بذات خود تو اپنی تعلیم کا مقصد آکے سمجھانا نہیں.لوگ جو چاہیں اس کا مطلب سمجھ لیں.مثلاً سود کو ہی اگر لیں تو قرآن کریم تو کہتا ہے کہ سود مت لو یہ قطعی حرام ہے لیکن مسلمان اگر یہ کہنا شروع کر دیں جیسا کہ کہنا شروع کر بھی دیا ہے کہ سود کے یہ معنی نہیں بلکہ کچھ اور ہیں اور وہ معنی جو وہ لیں وہ ان کے مطلب کے ہوں تو اب قرآن کریم نے تو بولنا نہیں کہ اس کے یہ معنی نہیں بلکہ یہ ہیں اور نہ ہی دیگر احکامات کے متعلق اگر لوگ ان کے کچھ کے کچھ مطلب بنا لیں وہ کچھ کہے گا.اس لئے قرآن کریم اور رسول کریم ﷺ کے احکام کو نہ مانتے ہوئے بھی لوگ ان کے ماننے کا دعویٰ رکھتے ہیں.ایسی باتوں سے اگر کوئی روک سکتا ہے تو وہی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ کی تعلیم کو صحیح معنوں میں پیش کرنے کے لئے خدا کی طرف سے مامور ہو.ایسا ہی اگر کوئی کہہ دے کہ اب نماز کی ضرورت نہیں یہ اس زمانے کے لوگوں کے لئے تھی جن پر جہالت کا اثر تھا اور اب جب کہ جہالت دور ہو چکی ہے اس کی ضرورت نہیں.اب اگر رسول کریم بھی اس وقت ہوتے اور اس زمانہ میں تشریف لاتے تو آپ بھی یہی فرماتے تو اس صورت میں بھی نہ قرآن کریم بولے گا اور نہ ہی رسول کریم ا اگر فرمائیں گے کہ ان احکام کا یہ مطلب نہیں جو تم سمجھے بیٹھے ہو.اور جب کسی نبی نے آکر اپنی تعلیم کے متعلق کچھ کہنا نہیں اور غلط کاریوں سے ہاتھ پکڑ کے روکنا نہیں تو پھر اس کے ماننے کا دعوی کرنے میں کیا حرج ہو ہے.جو دل میں آیا کر لیا.اور جیسا خیال گزرا معنی بنائے.اب اگر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی غلامی کا دعوی کرتے ہوئے آپ کی تعلیم کا مفہوم کچھ کا کچھ ٹھرا لیا جائے تو بھی مسلمانوں کے نزدیک کچھ حرج کی بات نہیں.قوم کی قوم بھی بنی رہتی ہے.اور اپنا مطلب بھی پورا ہو جاتا ہے.اندریں حالات پرانے نبیوں کا ماننا ان کے لئے مشکل نہیں.لیکن نئے نبی کا ماننا ایسے لوگوں کے لئے موت ہے کیونکہ اس نے تو ایسے موقع پر خاموش نہیں رہنا جب اس کی تعلیم یا اس کے مطاع کی تعلیم کو بگاڑا جائے گا اور نہ ہی اس کے بعد اس کی تیار کردہ جماعت ایسے موقع پر خاموش رہ سکتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی میں نبوت کا دعوی کرنے والا نبی تو نماز، زکوۃ روزہ وغیرہ کے متعلق وہی احکامات بتلائے گا کہ جو اصل ہیں.اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں کرے گا.اس سکتا.

Page 213

208 ر لئے اسے قبول کرنے میں لوگوں کو اپنی خواہشات کی قربانی کرنی پڑتی ہے اور اس وجہ سے انکار کر دیتے ہیں پس لوگ اس نبی کا تو انکار نہیں کرتے جو پہلے گزر چکا ہے.کیونکہ اس کے ماننے کا اقرار کرنے میں ان کا کچھ حرج نہیں ہوتا.لیکن اپنے زمانہ کے نبی کا ماننا ان کے لئے موت ہوتا ہے.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ لوگوں کو صداقت مسیح موعود کا قائل کرنا کس قدر مشکل کام ہے.جو اس زمانہ میں ہمارے سپرد ہوا ہے.اور یہ سوائے خدا کے فضل کے ہو نہیں سکتا.رسول کریم ﷺ کو جو کامیابی حاصل ہوئی وہ بھی محض خدا تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوئی ورنہ مخالفین آپ کے مقابلہ میں بہت قوت اور طاقت رکھتے تھے.ابو جہل جو آپ کا بدترین شمن تھا بہت طاقتور تھا.مگر تباہ و برباد ہو گیا.اسی طرح رسول کریم ال کے بعد صحابہ کرام کو جو کامیابی ہوئی وہ بھی خدا کے فضل سے ہی ہوئی.ابو بکر، عمر، عثمان اور علی تو کامیاب ہو گئے مگر عقبہ شیبہ تباہ و برباد ہو گئے.اب ہمیں بھی خدا کے فضل سے ہی کامیابی حاصل ہو گی مگر خدا کے فضل کو حاصل کرنے کیلئے بھی کوشش کی ضرورت ہے.دیکھو ماں احسان کے طور پر بچے کو دودھ پلاتی ہے مگر جب تک بچہ روتا نہیں اس کی چھاتیوں میں بھی دودھ نہیں اترتا.اسی طرح جب تک ہماری طرف سے کافی جدوجہد نہ ہو گی اس وقت تک خدا تعالیٰ کا فضل بھی ہم پر نازل نہ ہو گا.اور ہمیں کامیابی حاصل نہ ہوگی.ہمارا کام کیا ہے.یہ کہ دنیا کے گوشہ گوشہ میں ہم اس تعلیم کو پہنچا دیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں حاصل ہوئی ہے اور جس کی اس زمانہ کا تمدن اور عام رو مخالفت کر رہی ہے.اس تعلیم کے پہنچانے میں ہماری مخالفتیں ہوئیں اور ہو رہی ہیں ہمیں تکلیفیں دی گئیں اور دی جا رہی ہیں.ہم سے تعلقات منقطع کئے گئے اور کئے جارہے ہیں.ہم سے رشتہ داریاں چھوڑی گئیں اور چھوڑی جارہی ہیں.الغرض ہر قسم کا نقصان ہمیں پہنچایا گیا اور پہنچایا جا رہا ہے.اور اگر خدا کے وعدے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ نہ ہوتے.جن کی صداقت میں ہمیں ذرا بھی شک و شبہ نہیں اور اس کا فضل ہمارے شامل حال نہ ہو تا تو ہماری کیا ہستی تھی کہ ان مخالفتوں کے مقابلہ میں ٹھر سکتے.پھر پہلے انبیاء کے حالات بھی ہمارے دلوں کو مضبوط بنا رہے ہیں.کیونکہ وہاں نظر آتا ہے کہ خدا تعالٰی کس طرح وعدے کرتا اور پھر کس طرح ان کو پورا کر دکھاتا ہے.اور پھر کن حالات میں سے وہ کامیابی کی طرف لے جاتا ہے.پس ہم کو اس کام سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے.بلکہ ہمارا قدم آگے ہی آگے پڑنا چاہیے.ہمیں چاہیے کہ ہم گزشتہ نبیوں کے حالات پر نظر ڈالیں.اس وقت کام وہی کام ہے جو پہلے نبیوں کے وقت میں ہوا یا آئندہ جو نبی آئے گا اس

Page 214

209 وقت ہو گا.دنیا کی مخالفت وہی مخالفت ہے جو پہلے نبیوں کے وقت میں ہوئی.پھر جب ان انبیاء کی جماعتیں کامیاب ہوئیں تو ہم بھی ضرور کامیاب ہوں گے.ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ہماری سستی اور کمزوری کی وجہ سے اس کامیابی میں تاخیر ہو جائے.اب یہ ہمارا کام ہے کہ تاخیر نہ ہونے دیں.مسلمان ہمیشہ اس خیال سے بہت نقصان اٹھاتے رہے ہیں کہ جو بات مقدر ہو گی وہ آپ ہی آپ ہو جاتی ہے.مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی تقدیر تاخیر ہماری مستیوں اور کمزوریوں کے سبب ہوتی ہے.اس میں کچھ شک نہیں کہ تقدیر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے لیکن تاخیر ہماری طرف سے ہوتی ہے.پس ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ تقدیر تاخیر کو بدل ڈالیں اور وہ اسی طرح ہو سکتی ہے کہ ہم کام میں لگ جائیں.اور اگر اخلاق فاضلہ پیدا کر کے ہمارا ہر فرد تبلیغ میں لگ جائے تو بہت جلد ہمیں بے نظیر کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.اور یہ کام کرنے والے اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی خدا کے فضل کے وارث اور اس کی نعمتوں کے پانے والے بن سکتے ہیں.چندہ خاص کی تحریک کرتے ہوئے میں نے بتایا تھا کہ ابھی اور قربانیاں ہیں جن کا میں مطالبہ کرنے والا ہوں.ان کے متعلق میں اس انتظار میں تھا کہ جماعت چندہ سے سبکدوش ہو لے تو میں انہیں پیش کروں.اب خدا کے فضل سے چونکہ جماعت اسے پورا کر چکی ہے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس وقت اتنا ذکر دوں کہ جماعت ان کے لئے تیار ہو جائے یہ قربانیاں جو میں چندہ خاص کے بعد چاہتا ہوں وقتوں اور آراموں کی قربانیاں ہوں گی.پس جماعت کو چاہیے کہ وہ پہلے سے تیار رہے تا وقت پر کوئی شخص کمزوری محسوس نہ کرے.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالٰی ہم سب کو اس کام کی توفیق عطا فرمائے اور ہم اس فرض کو اچھی طرح ادا کر سکیں.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہمارے سپرد کیا گیا اور خدا کرے کہ ہم لوگوں کو کھینچ کر مسیح موعود کی طرف لے آئیں.خدا ہم سب کو توفیق بخشے.(الفضل ۲۵ جولائی / ۱۹۲۵ء) ا سیرت ابن ہشام جلد اول ص ۲۹۳ ہیرو اینڈ ہیرو در شپ مصنفہ کارلائل

Page 215

210 27 کیا لڑ کی اپنا مہر والدین کو دے سکتی ہے؟ (فرموده ۲۴ جولائی ۱۹۲۵ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : ابھی مجھے ایک دوست نے ایک رقعہ دیا ہے جس میں یہ سوال کیا گیا ہے کہ ایک عورت جو عاقل اور بالغ ہے وہ اگر یہ چاہتی ہو کہ اس کے نکاح کے وقت اس کا مہر دے دیا جائے تاکہ وہ اسے اپنے والدین کو دے دے جو قابل امداد ہیں.تو آیا یہ جائز ہے یا نہیں.چونکہ ہمارے ملک میں لڑکیوں کے متعلق والدین کا فائدہ اٹھانا ایسا عام ہو رہا ہے کہ پنجاب میں پچاس فیصد کے قریب لوگ کام کرتے ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ میں اس مسئلہ کے متعلق جو میری رائے ہے اور قرآن اور حدیث سے جو کچھ پتہ چلتا ہے وہ اس خطبہ میں بیان کروں.یہ ایک موٹی بات ہے اور اسے ہر شخص آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے جس میں نہ کسی کو انکار ہے اور نہ اختلاف کہ اگر صدقہ اور خیرات ایک اشد ترین مخالف کو جس کے ساتھ کوئی رشتہ نہ ہو کوئی خونی تعلق نہ ہو کوئی رحمی تعلق نہ ہو.دیا جا سکتا ہے.تو کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کہ عورت والدین کے ساتھ حسن سلوک نہ کرے اور اس روپے کو ان کی اشد ترین ضرورتوں کے وقت ان کو نہ دے.اس لئے یہاں یہ سوال نہیں پیدا ہو تا کہ کوئی عورت اپنے ماں باپ کی مدد کر سکتی ہے یا نہیں کیونکہ اس بات میں کسی مذہب والا بھی اختلاف نہیں رکھے گا کہ جس طرح ایک مرد پر ماں باپ کی خدمت فرض ہے اسی طرح ایک عورت پر بھی ماں باپ کی خدمت فرض ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ جہاں تک اس سے ہو سکے ان کے ساتھ حسن سلوک کرے.یہ بات نہیں کہ ماں باپ لڑکوں کو تو پالتے ہیں.مگر لڑکیوں کو نہیں پالتے اور نہ یہ ہے کہ لڑکے تو پیدا ہوتے ہیں اور لڑکیاں آسمان سے گرتی ہیں.بلکہ دونوں کو ایک ہی طرح پالتے ہیں اور دونوں پیدا ہی ہوتے ہیں اور

Page 216

211 دونوں کے لئے انہیں ایک ہی طرح کی تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں اس لئے جس طرح لڑکوں کے لئے فرض ہے کہ ماں باپ سے حسن سلوک کریں.اسی طرح لڑکیوں پر بھی فرض ہے کہ وہ ان کی مدد کریں.پس یہاں یہ سوال پیدا نہیں ہو سکتا کہ آیا لڑکیوں کے لئے ماں باپ کی امداد کرنا جائز ہے یا نہیں..کسی سوال کے کئی پہلو ہوتے ہیں اور جب تک ان سب پہلوؤں پر غور نہ کیا جائے تب تک سوال اچھی طرح حل نہیں ہو سکتا.ہم نماز کے متعلق ، روزہ کے متعلق، حج کے متعلق ، زکوۃ کے متعلق بلا استثناء کوئی حکم نہیں دے سکتے.شریعت میں استثناء رکھے گئے ہیں اور ہمیں ان کا لحاظ رکھنا پڑے گا.پس اگر اس جگہ یہ سوال ہو تا کہ لڑکی اپنے ماں باپ کی مدد کر سکتی ہے یا نہیں.تو جواب یہ ہوتا ہے کہ ضروری ہے کہ وہ کرے اور جہاں تک اس سے ہو سکتا ہے.ان کے ساتھ حسن سلوک اور مروت کرنے سے دریغ نہ کرے.لیکن اس سوال کے بعض اور پہلو بھی ہیں اور ان کا مد نظر رکھنا ضروری ہے.مثلاً پہلی بات جس کا مد نظر رکھنا ضروری ہے.یہ ہے کہ انسان مال کو وقتی طور پر قربان کر سکتا ہے.جان کو وقتی طور پر قربان کر سکتا ہے.وقت کو وقتی طور پر قربان کر سکتا ہے.آرام کو وقتی طور پر قربان کر سکتا ہے.مگر ان میں سے کسی قربانی کو مسلسل جاری نہیں رکھ سکتا.ایک انسان تو کر سکتا ہے کہ ایک وقت کے لئے کسی تکلیف کو برداشت کر لے.لیکن یہ نہیں کر سکتا کہ کسی ایک چیز کو بھی ان میں سے ہمیشہ ہمیش کے لئے برداشت کرتا رہے.حضرت ابو بکر ان کے اخلاص اور ایثار کا اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ایک دفعہ جب رسول کریم نے چندہ کی تحریک فرمائی اور حضرت عمر اللہ فرماتے ہیں میں نے دل میں کہا آج ابو بکر سے بڑھنے کا میرے لئے موقع ہے.یہ خیال کر کے آپ نے اپنا نصف مال لا کر رسول کریم کے آگے رکھ دیا.جب رسول کریم نے پوچھا کہ کتنا مال لائے ہو تو انہوں نے کہا حضور نصف مال لے آیا ہوں اور نصف گھر والوں کے لئے چھوڑ آیا ہوں پھر آپ نے حضرت ابو بکر امید سے پوچھا.انہوں نے کہا میں سب کچھ لے آیا ہوں.اور گھر میں خدا اور رسول کا نام چھوڑ آیا ہوں یہ سن کر حضرت عمرؓ نے سمجھا آج بھی میں حضرت ابوبکر کا مقابلہ نہیں کر سکا.میرے دل میں شرمندگی پیدا ہوئی کہ میں نیت کر کے بھی نہ بڑھ سکا اور یہ بے نیت ہی بڑھ گئے.اے یہ ایک وقتی قربانی تھی جو پورے اخلاص کے ساتھ کی گئی لیکن اگر یہ ہمیشہ ہمیش کے لئے ہوتی یعنی جو کچھ بھی انہیں میسر آتا وہ سارے کا سارا ہر روز رسول کریم ﷺ کے حضور لا کر رکھ الله انا

Page 217

212 دیتے تو یہ ابو بکر جیسے انسان کے لئے بھی ناممکن اور ناقابل برداشت ہوتی اور وہ اپنے نفس کے حقوق اپنے بیوی بچوں کے حقوق ، ہمسائیوں کے حقوق قرابتیوں کے حقوق ادا نہ کر سکتے جن کا ادا کرنا بھی انسان پر فرض ہے.پس ہمیشہ ہمیش کے لئے ایسا نہیں ہو سکتا البتہ وقفہ وقفہ کے بعد ہو سکتا ہے.اور ہمیشہ کے لئے ایسا کرنا شرعاً بھی ناجائز تھا کیونکہ مال پر ان کی اپنی زندگی کا بھی مدار تھا.ان کی بیوی بچوں کی زندگی کا بھی مدار تھا.انہوں نے کھانا کھانا تھا.کپڑے پہنے تھے.مکان کا انتظام کرنا تھا.رہائش کا بندوبست کرنا تھا اور دوسری ضروریات پوری کرنی تھیں.پس اگر وہ ہمیشہ کے لئے ہی اس طریق کو اختیار کر لیتے کہ ہر روز سب کچھ رسول کریم اینا ان کو لا کر دے دیتے تو یہ نجھ نہ سکتا اور ان کے لئے ایسی مشکلات پیدا ہو جاتیں جو ناقابل برداشت ہو تیں.اسی طرح ایک انسان یہ تو برداشت کر لے گا کہ مال تو مال جان تک بھی ایک دوست کی خاطر دے دے.مثلا " وہ اگر یہ دیکھے کہ اس کا دوست ڈوب رہا ہے تو اس کو بچانے کے لئے خواہ وہ تیرنا نہ بھی جانتا ہو.کود پڑے گا اور یہ بھی وہ خیال نہیں کرے گا کہ مجھے تیرنا نہیں آتا کیونکہ ایک دوست کی خاطر جان دے دینا وہ گوارا کر لے گا.لیکن یہ نہیں گوارا کر سکے گا کہ سسک سسک کر جان دے اور متواتر صدمات سہنے کے لئے اپنی جان پیش کر دے.پس یہ تو برداشت ہو سکتا ہے کہ اپنی زندگی کو ایسی تکلیف میں ڈال دے جو وقتی ہو لیکن ہمیشہ کے لئے کوئی تلخی میں پڑنا گوارا نہیں کر سکتا.ایک دوست ایک دوست کی خاطر ایک گھنٹہ میں تو جان تک دے دیگا لیکن ساری عمر کے لئے اپنی زندگی اس کی خاطر ایسی بنالے کہ ہر وقت اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈالے رکھے یہ نا ممکن ہے.مثلاً ایک شخص کی کسی سے محبت ہو اور وہ اس سے جان طلب کرے تو وہ دے دیگا لیکن اگر وہ یہ کرے کہ ایک نشتر کے ساتھ اس کے جسم کو چھیلنا شروع کر دے یا اس کے بدن سے تھوڑا تھوڑا گوشت کاٹنا شروع کر دے تو اس کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں پائے گا.اسی طرح ایک شخص اپنے کسی دوست یا عزیز کے واسطے کوٹھے سے گر کر جان دے دینا پسند کرے گا کوئیں میں کود کر جان دے دینا گوارا کر سکے گا.آگ میں جل کر جان دینے کے لئے تیار ہو جائے گا لیکن سوئیوں سے چھیدا جا کر جان دینا اس کی برداشت سے باہر ہو گا اور اس کے لئے اپنے آپ کو وہ ہر گز تیار نہ پائے گا.کیونکہ وقتی طور پر جان دینا ممکن ہے لیکن زندہ ہمیشہ کے لئے تکلیف میں پڑے رہنا بہت مشکل بلکہ بعض حالتوں میں ناممکن العمل بات ہے.اب دیکھو مہر کیا چیز ہے.مہر عورت کی آئندہ زندگی کے ایسے اخراجات کے پورا کرنے کے

Page 218

213 لئے ہے کہ جن میں سے بعض کا ذکر وہ اپنے خاوند سے بھی نہیں کر سکتی.یا جن اخراجات کی اسے آئندہ زندگی میں ضرورت پیش آتی ہے اور شادی کے وقت وہ ان کو جانتی بھی نہیں.پھر عورتوں کی بعض ایسی ضرورتیں ہوتی ہیں کہ وہ خاوندوں کو کہ تو سکتی ہیں لیکن بعض حالات کے ماتحت خاوندان کو پورا نہیں کر سکتے.اس لئے ان کے پاس اپنا کچھ مال ہونا چاہیے مثلاً ایک عورت اگر اس کے پاس مال ہو تو وہ اپنے غریب رشتہ داروں یا غریب والدین کی مدد کر سکتی ہے.غریب اقرباء کو مدد دے سکتی ہے.مگر یہ اس کی غیرت کے خلاف ہے کہ خاوند سے کمے میرے ماں باپ قابل امداد ہیں ان کی مدد کردیا میرے رشتہ داروں کو کچھ دو.اس بارے میں عورت بڑی غیرت رکھتی ہے اور وہ فطرتا اس بات کو پسند نہیں کرتی کہ اپنے والدین کو خاوند کے سامنے حاجتمند قرار دے.غرض کئی صورتیں ہیں جن کے لئے عورت کا اپنا مال بھی ہونا چاہیے.اس لئے شریعت نے مہر رکھا ہے تا اگر ضرورت پڑے تو اس سے وہ اپنے ان کاموں میں خرچ کر سکے.جن کے لئے وہ اپنے خاوند سے نہیں کہہ سکتی اور ان قابل مدد رشتہ داروں کی مدد کر سکے جن کے لئے وہ اپنے خاوند سے کہنا مناسب نہیں خیال کرتی پس مہروہ مال ہے جو عورت کی ساری عمر میں کام آنے کے لئے ہے.دوسری بات جس کا مد نظر رکھنا ضروری ہے نیت ہے.اگر یہ بات رائج ہو جائے کہ لڑکی کا مہر والدین لے لیا کریں.تو اس بات کا بہت بڑا خطرہ ہے کہ بہت سے والدین کی نیت اس کی شادی میں صاف اور بے لوث نہیں رہے گی.ماں باپ عورت کے لئے آخری اپیل کی جگہ ہوتے ہیں.جب اسے تکلیف پہنچتی ہے وہ جھٹ ماں باپ سے اس کا ذکر کرتی ہے اور اسے خیال ہوتا ہے کہ اگر اور کسی جگہ میری بات نہیں سنی گئی تو اس جگہ ضرور سنی جائے گی.اس کے لئے ضروری ہے کہ لڑکی کے معاملات میں ماں باپ کی کوئی نفسانی غرض شامل نہ ہو.تا ان کی ہمدردی اس سے متاثر نہ ہو سکے اور ضرورت کے وقت لڑکی کے لئے وہ جائے پناہ بن سکیں.اس کے لئے ضروری ہے کہ ماں باپ کی نیت نکاح کے وقت بالکل پاک اور صاف ہو لیکن اگر یہ بات جائز رکھ دی جائے کہ وہ مہر کی رقم لے لیا کریں یا اپنے لئے کچھ رکھ لیں.تو قطع نظر اس سے کہ اخلاق کیا کہتا ہے.قطع نظر اس سے کہ شریعت کا کیا حکم ہے.قطع نظر اس سے کہ تمدن پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے.اس کا ایک خطرناک نتیجہ یہ ہو گا کہ ان کے مد نظر لڑکی کو کسی مناسب جگہ بیاہنا نہیں ہو گا بلکہ یہ ہو گا کہ کہاں سے انہیں زیادہ رقم مل سکتی ہے.یعنی اگر ان کے لئے یہ اجازت ہو کہ وہ مہر کا روپیہ لے سکیں تو وہ حتی الوسع یہ کوشش کریں گے کہ کسی ایسی جگہ لڑکی بیا ہیں

Page 219

214 جہاں سے انہیں زیادہ روپیہ ملنے کی امید ہو اور یہ نہیں دیکھیں گے کہ لڑکی کے لئے وہ جگہ موزوں بھی ہے یا نہیں وہ طمع کے نیچے آکر کسی مناسب جگہ کے بدلے غیر مناسب جگہ بیاہ دینے کی کوشش کریں گے.مثلاً کسی ایسے امیر سے بیاہ دیں گے جو بعض وجوہ کی بناء پر لڑکی کو اچھی طرح نہ رکھے.جہاں اس کے لئے بجائے سکھ کے دکھ اور بجائے راحت کے تکلیف ہو اور وہ ساری عمر مصیبت میں پڑی رہے.ماں باپ کی خاطر لڑکی ایک وقت تو کنوئیں میں بھی کو د سکتی ہے.لیکن ہمیشہ کی مصیبت اس کے لئے ناقابل برداشت ہوتی ہے اور جو لڑکی والدین کی نفسانی اغراض کا شکار ہو کر کسی ایسی جگہ بیاہی جائے.جو اس کے مناسب حال نہ ہو.وہ ہمیشہ تکلیف میں رہے گی.نا مناسبت کی وجہ سے جب اس کے محبت کے تقاضے ، جذبات کے تقاضے، احساسات کے تقاضے ضروریات کے تقاضے آرام و آسائش کے تقاضے پورے نہ ہوں گے تو اپنی زندگی کو موت سے بد تر خیال کرے گی.اس وجہ سے کوئی لڑکی اس قسم کی تکلیفوں کو تمام عمر برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتی.حالانکہ اگر ایک وقت اسے ماں باپ کے لئے جان بھی دینی پڑے تو وہ دے دیگی.لڑکی فطرتا خواہش مند ہوتی ہے کہ نکاح کے بعد خاوند کے ہاں جا کر آرام و آسائش کی زندگی بسر کرے خوشی اور مسرت سے دن کاٹے.لیکن جب لڑکیوں کی شادیاں بعض اغراض کے ماتحت نامناسب جگہ کر دی جاتی ہیں.وہ ہمیشہ کڑھتی اور غم و غصہ کا اظہار کرتی رہتی ہیں.جس سے صاف طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اس شادی سے مطمئن نہیں اور انہیں اس سے بجائے آسائش کے رنج پہنچ رہا ہے.میرے پاس چونکہ اس قسم کی شکائتیں آتی رہتی ہیں اس لئے مجھے اس بارے میں کافی علم ہے انہیں جب سمجھایا جائے.گزارہ کرنے کی نصیحت کی جائے تو کہتی ہیں ہم کیا کریں.اس مصیبت کی زندگی کی وجہ سے ہمارے اندر سے غم و غصہ کی آگ نکل رہی ہے.ہمارے ماں باپ اندھے تھے کہ انہوں نے ہمیں ایسی جگہ دھکیل دیا.جہاں ہمارے لئے سوائے رنج اور مصیبت کے اور کچھ نہیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان لڑکیوں کو ماں باپ سے محبت نہیں ہوتی یا وہ ماں باپ کی خدمت اور ان سے سلوک نہیں کرنا چاہتیں.بلکہ وہ اپنے آپ کو ہمیشہ کی مصیبت میں سمجھ کر اور اسے ناقابل برداشت پا کر اس طرح کہتی ہیں ورنہ وہی ماں باپ جن کے متعلق ایک لڑکی یہ کہہ رہی ہوتی ہے اگر دریا میں بہ رہے ہوں تو وہ لڑکی ان کو بچانے کے لئے بلا تامل پانی میں کود پڑے گی اور یہ نہ دیکھے گی کہ وہ انہیں بچا بھی سکتی ہے یا نہیں.اس جوش محبت میں جو اسے والدین سے ہو گا اسے

Page 220

215 یہ بھی محسوس نہ ہو گا کہ خود اس کی جان بھی تو اس کوشش میں خطرہ میں نہیں پڑ جائے گی.پس اگر اس بات کی اجازت دی جائے.کہ ماں باپ مہر کا روپیہ لے لیں.تو ہزا رہا ایسی لڑکیاں ہوں گی.جو ایسی نا مناسب جگہ بیاہی جائیں گی.جہاں سے ان کے والدین کو تو روپیہ مل جائے گا لیکن وہ دکھ کی زندگی بسر کریں گی.اب بھی بہت سی ایسی مثالیں مل سکتی ہیں.جو اسی قسم کی اندھا دھند شادیوں کے متعلق ہیں اور جو لڑکی کو بیاہنے کے نہیں بلکہ بیچنے کے مترادف ہیں.بہت لوگ روپے کا لالچ کرتے ہیں اور جہاں سے ان کو زیادہ روپیہ ملتا ہے وہاں وہ بغیر دیکھے بھالے لڑکی کا بیاہ کر دیتے ہیں میں نے اپنی آنکھوں سے ایسے ماں باپ دیکھے ہیں جو اپنی لڑکیوں کو گویا نیلام کرتے اور کہتے ہیں جو سب سے زیادہ روپیہ دے وہی لے جائے.ایسے ماں باپ صرف روپیہ کو دیکھتے ہیں جس سے زیادہ روپیہ ملے اس کے ساتھ اپنی لڑکی کو بیاہ دیتے ہیں.خواہ ان میں کسی قسم کا جوڑ اور مناسبت ہو یا نہ ہو اور بعض ماں باپ تو اس قدر ظلم کرتے ہیں کہ عمر کا لحاظ بھی نہیں کرتے چنانچہ ہندوؤں میں یہ عام رواج ہے کہ خواہ اسی برس کا بڑھا ہو.اس کی شادی پانچ چھ سال کی لڑکی سے کر دیتے ہیں.لیکن شادی نہیں بلکہ بردہ فروشی کی ہے اور بردہ فروشی کی شریعت اجازت نہیں دیتی.کیونکہ آزادی ہر انسان کا حق ہے اور یہ حق چھینے کا کسی کو اختیار نہیں.ممکن ہے کوئی کہے اولاد ماں باپ کی چیز ہوتی ہے اس لئے ان کا حق ہوتا ہے.کہ ان سے فائدہ اٹھائیں مگر یہ بھی جائز نہیں اور میرا تو یہ عقیدہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو بھی نہیں پہنچ سکتا اور میرے نزدیک یہ ناجائز ہے کہ کوئی شخص اپنے آپ کو بیچ دے.چہ جائے کہ کوئی اور اس کی آزادی کو نیچے خواہ وہ ماں باپ ہی ہوں.انہیں بھی اپنے بچوں کی حریت اور آزادی کے بیچنے کا حق نہیں.لیکن ایسے ماں باپ ہیں جو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتے ہمارے گھر میں ہی قریب کے ایک گاؤں کی ایک عورت آیا کرتی تھی.جو زمیندار تھی وہ خوشی سے سنایا کرتی تھی کہ ہم نے اتنے روپے پر فلاں لڑکی کو بیاہ دیا ہے اور اتنے روپے پر فلاں کو اور اس طرح قرض اتار دیا ہے ان لڑکیوں کو اتنی دور دور بیاہ دیا کہ پھر وہ کبھی نہ آسکیں.ان حالات میں اگر اس بات کی اجازت دے دیں کہ ماں باپ لڑکیوں کا مہر لے لیا کریں تو یہ ایک بہت بڑا ظلم اور احکام الہی کی منشاء کے بالکل خلاف ہو گا اور لڑکیوں کو مصیبت اور تکلیف میں ڈالنے کی کھلی اجازت ہو گی.اس میں شک نہیں کہ بعض دفعہ نہایت سوچ سمجھ کر ماں باپ لڑکی کی شادی کرتے ہیں.مگر پھر بھی وہ شادی لڑکی کے لئے آرام کا باعث نہیں ہوتی.لیکن یہ تو صاف ظاہر ہے کہ اس میں ان کی

Page 221

1 216 بد نیتی نہیں ہوتی اور اس صورت میں لڑکی ماں باپ کو کوستی بھی نہیں.کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ میرے ماں باپ نے تو دیکھ بھال کر میرا بیاہ کیا تھا.آگے میری قسمت کہ مجھے اچھا بر نہ ملا.اس پر وہ مبر اور شکر کے ساتھ زندگی گزارنے کی کوشش کرتی ہے.غرض مہر چونکہ عورت کی ساری عمر کے اخراجات کے لئے ہوتا ہے اور ان ضرورتوں کے لئے ہوتا ہے جو اسے آئندہ زندگی میں پیش آتی ہیں اس لئے اس کا نکاح کے موقع پر اسے اس لئے دے دینا کہ وہ اپنے ماں باپ کو دے دے یا کسی اور ایسے مصرف میں لے آئے جو اتنا ضروری نہیں درست نہیں ہو سکتا.کیونکہ اسے اس وقت اتنا بھی معلوم نہیں ہوتا کہ مال کی حقیقت کیا ہے اور اس کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ بیاہتا زندگی کی کیا ضرورتیں ہیں.وہ اس وقت سمجھتی ہے خاوند کے گھر جا کر جو چاہونگی لے لوں گی.لیکن اسے نہیں معلوم کہ جو کچھ وہ اس وقت سمجھ رہی ہے وہ نہیں بلکہ اس کے پاس کچھ اپنا مال ہونا بھی ضروری ہے.جسے وہ اپنے طور پر خرچ کر سکے.درست جیسے مثلاً ماں باپ کی مدد ہے یا بھائیوں کی مدد ہے یا اور رشتہ داروں کی مدد ہے.ان باتوں کے ماسوا مہر کا روپیہ اس کے اپنے اور اس کے بال بچوں کے بھی کام آسکتا ہے خاوند کی زندگی میں بھی وہ اسے خرچ کر سکتی ہے.لیکن خاوند جب مرجائے تو پھر وہ اس سے اپنا گزارہ کر سکتی ہے اور یہی روپیہ اس کی اور اس کے بچوں کی پرورش کا باعث ہو سکتا ہے.لیکن ان حالات سے وہ ابتدا میں ناواقف ہوتی ہے اور اگر ایسے وقت میں اس کے والدین اس کے مہر کا روپیہ لے لیں.تو وہ موقع پڑنے پر بالکل تہی دست ہوگی اور مشکلات میں پڑ جائے گی.پس یہ جائز نہیں کہ مہر پہلے ہی ماں باپ لے لیں.ہاں عورت انہیں قابل امداد سمجھ کر اس میں سے اس وقت دے سکتی ہے جب وہ شادی کے بعد اپنی ضرورتوں اور حاجتوں سے واقف ہو جائے.یوں تو عورت اپنے خاوند کو بھی مہر کا روپیہ دے سکتی ہے.لیکن یہ نہیں کہ خاوند مرادا کئے بغیر ہی لینے کا اقرار کرالے.اس طرح عورت سمجھتی ہے مہر پہلے کونسا مجھے ملا ہوا ہے.صرف زبانی بات ہے اس کا معاف نہ کرنا کچھ فائدہ نہیں دے سکتا اس لئے کہہ دیتی ہے میں نے معاف کیا ورنہ اگر اسے دے دیا جائے اور وہ اس کے مصارف جانتی ہو تو پھر معاف کرالینا اتنا آسان نہ ہو.حضرت عمر اللہ اور دیگر آئمہ کبار اور بزرگوں کا فیصلہ تو یہ ہے کہ کم از کم سال کے بعد عورت اپنا مہر اپنے خاوند کو دے سکتی ہے.یعنی مهر وصول کرنے کے بعد ایک سال تک وہ اسے اپنے پاس رکھے اور پھر اگر چاہے تو خاوند کو دے رضى

Page 222

217 حکیم فضل دین صاحب جو ہمارے سلسلہ میں سابقوں الاولون میں سے ہوئے ہیں.ان کی دو بیریاں تھیں.ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.مہر شرعی حکم ہے اور ضرور عورتوں کو دینا چاہیے.اس پر حکیم صاحب نے کہا میری بیویوں نے مجھے معاف کر دیا ہوا ہے.حضرت صاحب نے فرمایا.کیا آپ نے ان کے ہاتھ میں رکھ کر معاف کرایا تھا.کہنے لگے نہیں حضور یونہی کہا تھا اور انہوں نے معاف کر دیا.حضرت صاحب نے فرمایا پہلے آپ ان کی جھولی میں ڈالیں پھر ان سے معاف کرائیں (یہ بھی ادنی درجہ ہے اصل بات یہی ہے کہ مال عورت کے پاس کم از کم ایک سال رہنا چاہیے اور پھر اس عرصہ کے بعد اگر وہ معاف کرے تو درست ہے) ان کی بیویوں کا مہر پانچ پانچ سو روپیہ تھا حکیم صاحب نے کہیں سے قرض لے کر پانچ پانچ سو روپیہ ان کو دے دیا اور کہنے لگے تمہیں یاد ہے تم نے اپنا مہر مجھے معاف کیا ہوا ہے.سو اب مجھے یہ واپس دیدو.اس پر انہوں نے کہا اس وقت ہمیں کیا معلوم تھا کہ آپ نے دے دینا ہے اس وجہ سے کہہ دیا تھا کہ معاف کیا اب ہم نہیں دیں گی.حکیم صاحب نے آکر یہ واقعہ حضرت صاحب کو سنایا کہ میں نے اس خیال سے کہ روپیہ مجھے واپس مل جائے گا ایک ہزار روپیہ قرض لے کر مہر دیا تھا مگر روپیہ لے کر انہوں نے معاف کرنے سے انکار کر دیا.حضرت صاحب یہ سن کر بہت ہے اور فرمانے لگے درست بات یہی ہے کہ پہلے عورت کو مہر ادا کیا جائے اور کچھ عرصہ کے بعد اگر وہ معاف کرنا چاہے تو کر دے ورنہ دیئے بغیر معاف کرانے کی صورت میں تو ”مفت کرم داشتن" والی بات ہوتی ہے.عورت سمجھتی ہے نہ انہوں نے مہر دیا اور نہ دیں گے چلو یہ کہتے جو ہیں معاف ہی کر دو.مفت کا احسان ہی ہے نا.تو جب عورت کو مہر مل جائے پھر اگر وہ خوشی سے دے تو درست ہے ورنہ دس لاکھ روپیہ بھی اگر اس کا مہر ہو.مگر اس کو ملا نہیں تو وہ دے دیگی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ میں نے جیب سے نکال کے تو کچھ دینا نہیں صرف زبانی جمع خرچ ہے.اس میں کیا حرج ہے.پس عورتوں سے معاف کرانے سے پہلے ان کو مہر دیا جانا ضروری ہے اور اگر یہ مرایسے وقت میں دیا جاتا ہے.جب ان کو اپنی ضروریات کی خبر نہیں یا جب کہ والدین ان سے لینا چاہتے ہیں.تو یہ ناجائز ہے اور بردہ فروشی ہے جو کسی طرح درست نہیں ہو سکتی.اگر بردہ فروشی کی صورت نہ بھی ہو تو بھی ناجائز ہے کہ ایسا فعل کیا جائے جس سے عورت کو نقصان پہنچے ایسا سودا دھوکہ ہے ناجائز ہے ایک بچہ اگر اپنا مکان بیچ دے.تو کیا یہ سودا درست ہو گا یقینا نہیں کیونکہ اس کو ابھی اپنے نفع و نقصان کا علم نہیں.اس لئے اس حالت میں اگر وہ ایسا کام

Page 223

218 کرے گا تو درست نہیں تصور کیا جائے گا.اسی طرح عورت کا مہر اگر اس کی نا سمجھی کی حالت میں جب اس کو آئندہ پیش آنے والے اخراجات کا علم نہیں لے لیا جائے تو یہ ٹھیک نہیں.ہاں اگر عورت کو مہر مل جائے.اور اس پر چار پانچ سال ہو گئے ہوں.یا کم از کم ایک سال تک اس کے پاس روپیہ رہ چکا ہو تو پھر اگر وہ اسے اپنے خاوند کو یا ماں باپ کو دے دے.تو میں کہوں گا درست ہے اور پسندیدہ.اگر کسی عورت کا مہر ایک ہزار ہو اور اسے خاوند ایک لاکھ اپنی طرف سے دے دے تو میں کہتا ہوں وہ عورت اگر گھر بار کی ضروریات اور حالات سے واقف ہونے کے بعد ایک لاکھ ایک ہزار روپیہ بھی ماں باپ کو دے دے تو میں کہوں گا اس نے بہت اچھا کیا.لیکن اگر ماں باپ شادی کے وقت ہی لیتے ہیں تو بردہ فروشی ہے جو گناہ ہے.لیکن جو عورت شادی کے بعد ماں باپ کی مدد کرے گی اور اپنی ضروریات کو سمجھتے ہوئے مہر کی رقم ہی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ماں باپ کو دے گی وہ خدا تعالیٰ کی مقبول ہو گی.رسول کریم ﷺ کی بھی مقبول ہو گی اور وہ ماں باپ کی خدمت کا نیک نمونہ پیش کرے گی.(الفضل یکم اگست ۱۹۲۵ء) امه ابو داؤد و ترندی بحواله تاریخ الخلفاء للسیوطی ص ۳۷

Page 224

219 28 جماعت کی ذمہ داریاں (فرموده ۷ اگست ۱۹۲۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : مجھے پچھلے دنوں یہ بات معلوم کر کے نہایت ہی افسوس ہوا کہ ہماری جماعت کے سیکرٹری اپنے کام کو اچھی طرح نبھا نہیں رہے اور انہوں نے سستی اختیار کرلی ہے.متواتر یہ شکایت میرے کانوں میں پہنچ رہی ہے اور تجربہ اس بات پر شاہد ہو رہا ہے کہ کارکن بھی اور دوسرے لوگ بھی غفلت سے کام لے رہے ہیں.بہت سے ہمارے کارکنوں میں سے یہ خیال کر لیتے ہیں کہ شائد ان کے نام کے ساتھ عہدہ کا لگ جانا ہی کام کرنے کی کافی ضمانت ہو گیا ہے اور وہ جماعتیں بھی جو کام میں غافل ہیں شائد اسی کو کافی سمجھتی ہیں کہ ان کے ہاں عہدہ دار مقرر ہو گئے حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ جب تک کام نہ کیا جائے عہدہ دار بھی کوئی عہدہ دار نہیں اور جماعتوں کا ان کے تقرر سے خوش ہو جانا بھی کوئی خوشی نہیں.کیونکہ خوشی تو اس صورت میں ہو سکتی ہے.جب کچھ کام ہو رہا ہو اور اگر کام کی طرف توجہ نہ کی جائے یا اسے بے دلی سے کیا جاتا ہو تو یہ شرمندگی کا موجب ہوتا ہے.کام کو عمدہ طریق پر کرنے کے لئے ہم نے اسے صیغہ جات پر تقسیم کر دیا ہے اور اس کو ایک انتظام کے ماتحت لانے کی کوشش کی ہے.اس انتظام کے ماتحت کام ہو بھی رہا ہے.اگر یہ انتظام نہ ہوتا جو ہم نے کیا ہے.تو پھر یہ امید ہو سکتی ہے کہ کوئی ایسا نظام مرتب کرنے کے بعد یہ کام ہوں مگر ایسا نظام مرتب ہو چکا ہے عہدہ دار مقرر ہو چکے ہیں.لیکن کام میں غفلت ہو رہی ہے.پس میں اپنی جماعت کے تمام دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بھی جماعت کے کاموں میں دلچسپی لیویں.کیونکہ کارکن جماعت ہی سے مقرر ہوتے ہیں.اور جماعت ہی نے یہ کام کرنے ہیں اور جب تک جماعت ان کاموں میں دلچسپی نہ لے گی اور کارکن ہوشیاری سے کام نہ کریں گے.تو کام نہیں ہو

Page 225

220 سکے گا.یہاں ملازمت کا سوال نہیں.یہاں جماعتی نظام کا سوال ہے اور کام کرنے کا سوال ہے.اس لئے عام مجلس میں میں اسے بیان کر سکتا ہوں.ممکن ہے کوئی اس سے سمجھ لے کر صرف سیکرٹری ہی مخاطب ہیں.اس لئے میں بتا دیتا ہوں کہ یہاں صرف سیکرٹری ہی مخاطب نہیں.بلکہ افراد جماعت بھی مخاطب ہیں.کیونکہ ایک سیکرٹری ہمیشہ نہیں رہ سکتا.ممکن ہے وہ بدل دیا جائے.ممکن ہے وہ ناقابل ثابت ہو.ممکن ہے کہ وہ خود ہی کام کو چھوڑ جائے ممکن ہے کہ وہ فوت ہو جائے.پس بیسیوں ذرائع اور سبب ایسے ہو سکتے ہیں کہ وہ سبکدوش ہو جائے.اس لئے صرف سیکرٹریوں کو مخاطب نہیں سمجھنا چاہیے.بلکہ جماعت کے افراد سارے کے سارے ہی مخاطب ہیں.خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کی بنیاد ڈالی ہے.اور خدا نے اس کے کام صرف سیکرٹریوں پر نہیں ڈالے بلکہ جماعت کے تمام لوگوں پر ڈالے ہیں.ایک اکیلا سیکرٹری کر ہی کیا سکتا ہے جب تک دوسرے لوگ بھی اس کے ساتھ مدد گار نہ ہوں.پس یہ ذمہ داری نہ صرف اکیلے سیکرٹری کے سر ہے.بلکہ ساروں کے سر ڈالی گئی ہے.ایسا ہی کسی خاص شخص کا نام قرآن کریم میں نہیں پکارا گیا کہ اے فلانے تو کام کریا اے سیکرٹریو تم کام کرو.بلکہ وہاں تو تمام کے تمام مسلمانوں کو پکارا گیا ہے کہ تم سب یہ کام کرو.پس یہ تو ایک تقسیم عمل ہے.جو کی گئی ہے اور اس تقسیم عمل کے ذریعے وہ بچ نہیں گئے کہ چلو یہ کام سیکرٹریوں کے ہو جا پڑا بلکہ کام بدستور جماعت کے لوگوں کے سر پر ہے.لیکن ہاں ایک اختیار ان کو مل گیا ہے کہ وہ کہیں اور لوگ مانیں پس نہ صرف سیکرٹری ہی سلسلہ کے کاموں کے ذمہ دار ہیں.بلکہ باقی لوگ بھی ذمہ دار ہیں.پھر سلسلہ کے کاموں کے لئے محبت بھی ہونی چاہیے کیونکہ جہاں محبت ہوتی ہے.وہاں ذمہ داری نہیں دیکھی جاتی اور ایک شخص یہ کہہ کر کہ میری ذمہ داری ہیں تک تھی سلسلہ کے کاموں سے سبکدوش نہیں ہو سکتا.مدرسے میں داخل کر کے باپ اس ذمہ داری سے علیحدہ نہیں ہو سکتا جو بچے کے متعلق اس کے سر ہے اور نہ ہی یہ ہو سکتا ہے کہ تربیت کے لئے کسی دوسرے کے سپرد کر کے ماں بیٹھ جائے.اور سب خیال چھوڑ دے اور کہے کہ اب مجھے اس کی کیا فکر ہے.آپ ہی آپ اس کی تربیت ہو جائے گی.پس جس طرح وہ اپنے بچے کو دوسرے کے سپرد کر کے اس کی طرف سے بے پرواہ نہیں ہو جاتے بلکہ انہیں خود بھی سب باتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے.اسی طرح

Page 226

221 انہیں سلسلہ کے کاموں کا بھی خیال رکھنا چاہیے اور سیکرٹریوں کے مقرر ہو جانے کے باوجود اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھنا چاہیے اور ساتھ ہی محبت بھی ہونی چاہیے.، یہ نظام جماعت کو قام رکھنے اور سلسلے کے کام چلانے کے لئے کیا گیا ہے اور اس کے ماتحت سیکرٹریوں کو بھی مقرر کیا گیا ہے اور گو کہ اس کے کارکن بظاہر اس کے ذمہ دار بنائے گئے ہیں مگر اس کام کے چلانے کی نگرانی کرنا پھر بھی ہمارے سپرد ہے.دین سے اگر محبت ہے تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ ایک شخص باوجود ایک انتظام قائم ہو جانے کے کس طرح ان کاموں کی ذمہ داری سے بری ہو سکتا ہے.اگر کام خراب ہو رہا ہے اور جماعت میں احساس نہیں تو وہ قطعاً خدا کے سامنے بری الذمہ نہیں ہو سکتی.ایک شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ خدا تعالٰی نے سیکرٹریوں کا انتظام مقرر نہیں کیا بے شک یہ انتظام خدا نے نہیں کیا اور اس کی توفیق کے ماتحت ہم نے کیا لیکن جو کچھ بہتر نظر آیا وہی کیا اور اب بھی اگر اس سے بہتر کوئی اور انتظام نکل آئے تو وہ بھی کرنے کو تیار ہیں.لیکن کوئی ہمیں یہ نہیں بتا سکتا کہ قرآن و حدیث میں انتظام کی ضرورت بیان نہیں.یا نظام سلسلہ کو قائم اور سلسلے کے.کاموں کو جاری رکھنے کے لئے جو بندوبست کیا گیا ہے.اس سے اس کی ذمہ داری ہی مل گئی.قرآن و حدیث سے تو امارت کا وجود ثابت ہوتا ہے اور اس میں بھی ہر ایک شخص ذمہ دار ہے.نہ کہ صرف وہی جو امارت پر قائم ہے.حدیث میں آیا ہے تم میں سے ہر ایک شخص پوچھا جائے گا.کلکم راع وكلكم مسئول عن رعیتہ تم میں سے ہر ایک شخص خواہ وہ امیر ہے یا نہیں پوچھا جائے گا اور اسکی ذمہ داری کے متعلق خدا اس سے سوال کرے گا پس تمام کے تمام افراد مسلمانوں کے ذمہ دار ہیں اور قیامت کے دن اپنی اپنی ذمہ داری سے پوچھے جانے والے ہیں.اگر کام خراب ہو اور دوسرے لوگ توجہ نہ کریں تو وہ بھی جواب دہ ہیں نہ کہ صرف سیکرٹری پس میں تمام مجلس میں ان کا ذکر کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ سیکرٹری کام کرے اور دوسرے لوگ بھی اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور یہ نہ خیال کریں کہ چونکہ سیکرٹری مقرر ہو چکے ہیں.ہمیں اب کام کرنے کی ضرورت نہیں سیکرٹری اس غرض کے لئے ہے کہ کام کرائے نہ کہ کرے.سیکرٹری کام کرنے کے لئے مقرر نہیں ہوتے بلکہ کام کرانے کے لئے مقرر ہوتے ہیں.لوگ اگر جنگ کے موقع پر یہ سمجھ کر کہ بھرتی کا افسر مقرر ہو گیا ہے.کام سے غافل ہو جائیں اور بھرتی نہ کروائیں تو کیا یہ سمجھا جائے گا کہ وہ اپنے اپنے کام کو کر رہے ہیں.ہر گز نہیں یا

Page 227

222 اگر وہ چپ ہو رہیں کہ بھرتی کا افسر آپ ہی سب کام کر لے گا اور آپ ہی جنگ میں چلا جائے گا تو ان کے متعلق یہ نہیں خیال کیا جائے گا کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری کو ادا کیا.بھرتی کے افسر کی تو ضرورت ہی یہی ہے کہ وہ بھرتی کرے.جب تک دوسرے لوگ اس کام کو اس کی ماتحتی میں نہ...کرائیں تو وہ اکیلا کچھ نہیں کر سکے گا اور نتیجہ یہ ہو گا کہ اس غلطی سے شکست ہو جائے گی.ہماری جماعت میں اکثر تبلیغ کرنے والے موجود ہیں لیکن وہ اپنے کام کی رپورٹ نہیں بھیجے.پھر بعض انجمنیں بھی ایسی ہیں کہ وہ تبلیغ تو کرتی ہیں.لیکن ان کی طرف سے مرکز میں رپورٹ نہیں آتی اب مرکز کو کیا معلوم کہ ان کی تبلیغ کا کیا اثر ہو رہا ہے.پس جماعت کے لوگ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اگر وہ اس ذمہ داری کے سمجھنے کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تو کسی سیکرٹری کی بھی انہیں ضرورت نہیں.کیونکہ کسی سیکرٹری کا وجود بھی اسی وقت مفید پڑ سکتا ہے.جب افراد اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوں اور اپنے اپنے کام محنت سے کرتے ہوں اور اپنے کاموں کی نگرانی کئے جانے کی ضرورت محسوس کرتے ہوں کہ وہ ضرور کی جائے کہ تا باقاعدگی پیدا ہو.پس میں اس امر کی طرف سب کو توجہ دلاتا ہوں اگر سستی کام نہ کرنے والوں کی وجہ سے ہے تو آپ کون سی اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہیں کام نہ کرنے کی اگر یہی وجہ ہے کہ وہ ست ہیں تو ان کو چست بنا دو.اگر وہ کام نہیں کرتے تو تم ان سے کام لو.اگر وہ جاگتے نہیں تو آپ لوگوں کا فرض ہے کہ ان کو اٹھاؤ.ایک اور نقص بھی ہوتا ہے جس سے کام میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں جب کام کر لیا تو ذمہ داری ختم ہو گئی لیکن یہ بالکل غلط ہے نظام میں یہ نہیں ہو سکتا.البتہ افراد میں یہ بات ہو جاتی ہے کہ کام ختم کرنے کے بعد ذمہ داری ہٹ گئی.لیکن نظام کے ماتحت جب کام ہو رہا ہوتا ہے.تو کام کرنے کے بعد کام کرنے والے کی ذمہ داری ختم نہیں ہو جاتی بلکہ باقی رہتی ہے اسے اپنے کام کی مرکز کو اطلاع دینا ہوتی ہے.لیکن ایک شخص کام تو کر لیتا ہے.اور اگر وہ کوئی رپورٹ نہیں دیتا تو وہ کام نہ کرنے والے کی طرح ملزم ہے.نظام کی غرض یہی ہے کہ کام کرنے والا ہر ایک طرف برابر زور دے سکے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر کوئی نظام نظام بھی نہیں کہلا سکتا.فوج میں اپنے کام کی وقت پر رپورٹ نہ دینے سے افسر علیحدہ کر دیئے جاتے ہیں اور اکثر انہیں سخت سزائیں دی جاتی ہیں.بلکہ بعض دفعہ تو جان ہی سے انہیں مار دیا جاتا ہے.کیونکہ کام کر کے اگر وہ اس کی رپورٹ اپنے افسر کو نہیں دیتے تو اس سے تمام فوج کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا

Page 228

223 ہے.مثلاً ایک افسر جو فوج کے ایک بازو پر اپنے سپاہی لئے کھڑا ہے اور دشمن کو اس نے اپنے سامنے سے ہٹا دیا ہے اور دوسرے بازوؤں سے اچھا کام کیا ہے.لیکن اس کی رپورٹ دوسرے افسروں کو نہیں کرتا اور بلا اطلاع دیئے آگے بڑھ جاتا ہے.تو اس کا یہ نقصان ہوتا ہے کہ دشمن کو اس بازو پر حملہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے.جس کی حفاظت کرنے کے لئے وہ کھڑا تھا.اور جب دشمن حملہ کرتا ہے.تو باقی ماندہ فوج کو چونکہ یہ معلوم ہی نہیں کہ ہمارے آدمی یہاں سے ہٹ چکے ہیں.اس لئے وہ مغالطہ میں رہتی ہے.اور دشمن کو اپنا آدمی سمجھتی ہے اور یوں دشمن اپنے تھوڑے آدمیوں کے ساتھ ان کو شکست دے سکتا ہے اور اس طرح فتح شکست سے بدل جاتی ہے.لیکن اگر اس نے اپنے کام کی رپورٹ کسی افسر بالا کو دی ہوتی تو وہ اس کو سمجھا سکتا تھا کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو.اور اگر آگے بڑھنا مفید نہ ہوتا تو اسے کہتا کہ گو تم نے فتح پالی ہے لیکن آگے بڑھنا بقیہ فوج کے لئے مضر ہے.اس لئے تم اپنی جگہ پر کھڑے رہو اور یا اگر آگے بڑھنا مفید ہوتا تو کہ سکتا تھا کہ بے شک آگے بڑھو.غرض رپورٹ دینے سے یہ فائدہ ہوا کرتا ہے کہ اس کے کاموں کی خبر رہتی ہے اور مرکز کی طرف سے اسے ضروری ہدایات دی جا سکتی ہیں.تو نظام کی ضرورت ہی یہ ہوا کرتی ہے کہ اس بات کی خبر رکھی جائے کہ یہاں کیا حالت ہے اور وہاں کیا حالت ہے.اگر مثلاً ایک جگہ سے رپورٹ نہیں آتی اور سیکرٹری سمجھ لے کہ وہاں کام اچھا ہوتا ہے.حالانکہ وہ لوگ مرتد ہو رہے ہوں یا یہ سمجھے لے کہ وہاں کام بالکل نہیں ہو تا حالا نکہ وہاں زور سے کام شروع ہو اور لوگ گروہ در گروہ سلسلہ میں داخل ہو رہے ہیں.تو اس صورت میں سیکرٹری کو باکل پتہ نہیں ہو سکتا کہ معاملات کو پیش کر کے مشورہ طلب کرے اور پھر لوگوں کو اس کی اطلاع دے سکے یا حسب حال ہدایات تحریر کر سکے.پس اس لئے یہ ضروری ہے کہ اپنے اپنے کاموں کی رپورٹیں بھیجی جائیں.کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو کام کرنے اور کام نہ کرنے والے میں تمیز ہی نہیں ہو سکتی پس جیسا کہ کام نہ کرنے والا مجرم ہے ویسا ہی اطلاع نہ دینے والے بھی مجرم ہیں.ہمارے باہر جانے والے مبلغ اپنے کاموں کی اطلاع نہیں دیتے غیر ممالک والے مبلغ بھی اپنے کاموں کی اطلاع نہیں دیتے سرکاری ملازم اگر ایسا کریں تو ان کو کان سے پکڑ کر باہر نکال دیا جائے.لیکن اصلاح کا کام گھر سے ہی شروع ہوتا ہے.اس لئے گھر میں سے شروع کرتا ہوں اور نصیحت اور اخلاص کے طور پر کہتا ہوں کہ سیکرٹری ہوں یا نہ ہوں افراد جماعت اور مبلغین کا صرف یہ

Page 229

224 کام نہیں کہ صرف کام کریں اور اس کی اطلاع نہ دیں بلکہ ان کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے اپنے کام کی مرکز کو اطلاع بھی دیں اور جب تک یہ نہ ہو گا کوئی برکت اور نتیجہ نہیں ہو گا.پھر میں مرکزی دفتر والوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بھی باہر کی رپورٹوں کا خیال رکھیں.کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ یہاں والے ان باتوں کا خیال رکھنا یا ان کے متعلق مناسب کارروائی تو در کنار بعض دفعہ جواب بھی نہیں دیتے پھر بعض دفعہ تو ایسا الٹ پلٹ جواب لوگوں کو چلا جاتا ہے کہ حد ہو جاتی ہے.ایک دفعہ کسی دوست نے اپنے کسی کام کے متعلق مشورہ پوچھا.یہاں سے اسے جواب گیا آپ کے لئے دعا کی گئی ہے.مگر اس شخص نے پھر لکھا کہ میں نے تو فلاں کام کے متعلق مشورہ پوچھا تھا.مگر آپ کی طرف سے جواب یہ آیا کہ آپ کے لئے دعا کی گئی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض دفعہ خط پڑھے بھی نہیں جاتے اور ان کی طرف توجہ ہی نہیں کی جاتی.سب سے پہلے میں دفتر ڈاک کو لیتا ہوں یہاں جو خط آتے ہیں.ان کے متعلق میرا یہ طریق ہے کہ جس خط کا جواب میں نے خود دیتا ہوتا ہے.اس پر لکھ دیتا ہوں جواب مجھ سے لیکن کئی کئی دن گزر جاتے ہیں کہ ان خطوں کی طرف توجہ نہیں کی جاتی اور وہ جواب کے لئے پیش نہیں کئے جاتے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ باہر کے لوگ مست ہو جاتے ہیں پس مرکز کے لوگ اپنے کام کی طرف پوری پوری توجہ کریں موقع پر کام کو پورا کر دینا یہ ہر شخص کا ان سے میں سے فرض ہے.وہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے چھ گھنٹہ کام کر دیا ہے.یا دفتر کا وقت گزر گیا ہے.ہماری حیثیت جنگ کے ایک سپاہی کی حیثیت ہے اور سپاہی ایسا نہیں کر سکتے.یہ ایک عام میلان ہو گیا ہے کہ جب کبھی کوئی بات پوچھی جائے تو بعض کہہ دیتے ہیں جی دفتر کا وقت ہو گیا ہے.حالانکہ اگر ضروری کام کے لئے آدھی رات بھی کام کرتے ہو جائے تو انہیں بیٹھنا چاہیے اور اگر کوئی کام انسانی طاقت سے بالا ہو یا اور آدمیوں کی مدد کے بغیر نہ ہو سکتا ہو تو وہ آدمی مانگ سکتے ہیں.ان کے ذمہ کام کرتا ہے اور یہی ان کی ذمہ داری ہے.چاہے روزانہ چھ چھ سات سات کیا نو نو دس دس گھنٹے بیٹھ کر بھی انہیں کام پورا کرنا پڑے.لیکن یہ کسی صورت میں نہیں کہہ سکتے کہ دفتر کا وقت ہو گیا یا میں نے اتنے گھنٹہ کام کر دیا بعض دفعہ کسی ضروری بات کے متعلق پوچھا جاتا ہے.تو کہہ دیتے ہیں کہ دفتر خالی ہیں وہاں کوئی نہیں میں یہ نہیں کہتا کہ چھٹی نہ ہو.چھٹی ہو اور ضرور ہو.مگر ہمارا تو جنگ کا سا معاملہ ہے.جس طرح لڑائی میں اس بات کو جائز نہیں سمجھا جاتا کہ کوئی شخص یہ کہہ کے کام کرنے سے انکار کر دے کہ میں نے اتنے گھنٹہ کام کر دیا اسی طرح

Page 230

225 یہاں بھی کوئی شخص یہ کہہ کے کہ دفتر بند ہو گئے ہیں یا میں اتنی دیر کام کر چکا ہوں یا آج چھٹی ہے.اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہو سکتا.ہم پر روح کا بھی حق ہے.جسم کا بھی حق ہے.ہمسایہ کا بھی حق ہے اور اور بھی حق ہیں.لیکن جس وقت دو حق جمع ہو جائیں تو جسم کا حق باقی نہیں رہتا.روزہ کا بھی حق ہے.نماز کا بھی حق ہے.لیکن جب جہاد کا حکم ہو جائے اور جہاد کا حق سامنے آجائے تو جہاد کے متعلق ہمارے جسم کا کوئی حصہ نہیں رہ جاتا.جو اس حق کو ادا نہ کرے اور ایسے وقت میں جسم کا حق قربان کرنا پڑتا ہے.کیونکہ حج نماز روزہ کے حق کا تعلق جسم اور جماعت پر نہیں پڑ سکتا.لیکن جہاد کے حق کا اثر پڑتا ہے.مثلاً حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص روز روزہ رکھتا ہے.اس کے لئے دوزخ ہے اور جہنم کے سب سے نچلے درجہ میں اس کا مقام ہے.جو خطرناک جگہ ہے.پھر دوسری جگہ فرمایا کہ جو میدان قتال سے جان بچاتا ہے.وہ جہنم میں جائے گا.تو بظا ہر یہ تضاد ہے ایک جگہ جان کا بچانا اور دوسری جگہ جان کا گنوانا دوزخ کا موجب ہو جاتا ہے.لیکن یہ تضاد نہیں.اس لئے کہ یہاں جسم کے حق کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اسے محفوظ رکھا جائے.لیکن دوسری جگہ جہاد کے حق کا ذکر ہے کہ اس سے جان بچانا گناہ ہے.کیونکہ اس کا اثر جماعت تک پہنچتا ہے.اس لئے اس سے جان بچانے والے کی سزا جہنم ٹھرائی ہے اور پھر جہاد کرنے والے کو شریعت یہ نہیں کہتی کہ یہ مجرم ہے لیکن کسی دوسرے موقع پر قتل کر کے اگر کوئی بھاگتا ہے تو وہ مجرم ہے.پس ہمارا کام سپاہیانہ طرز کا ہے.اس میں کوئی عذر قابل قبول نہیں ہو سکتا.جو کام ہو اسے بہر حال کرنا چاہیے اور اس سادگی سے کرنا چاہیے کہ اس پر تصنع کا ہر گز رنگ نہ آئے.بعض دفعہ یہ عذر کر دیا جاتا ہے.کہ کام زیادہ ہے اور آدمی تھوڑے ہیں.مگر ذرا اخلاص اگر پیدا کر لیا جائے تو روزانہ بیسیوں خط لکھے جا سکتے ہیں.صرف انگریزی طرز کی تقلید نہ کرنی چاہیے.یہاں مسجدوں میں نمازوں کی انتظار میں کتنا کتنا عرصہ لوگ بیٹھے رہتے ہیں.اس انتظار کے وقت اگر مسجد میں آنے والے دوستوں سے خطوط لکھنے کے لئے کہا جائے تو بہت سے خط لکھے جا سکتے ہیں اور اس طرح کام بھی ہو جاتا ہے.ہمیں بھی کارکنوں کو بھی اور جو کار کن نہیں ہیں.انہیں بھی دعا کرنی چاہیے کہ خدا کا نام روشن ہو اور اس کی عظمت اور اس کا جلال دنیا پر ظاہر ہو آمین خطبہ ثانی میں فرمایا : (۱) آج جمعہ کے بعد میں دو جنازہ پڑھوں گا.ایک تو چودھری محمد ولایت خان مخدوم پور کے ہیں.

Page 231

226 ان کا جنازہ ہے.میں ان کو ذاتی طور پر تو نہیں جانتا.لیکن تار دینے والے دوست نے لکھا ہے کہ یہاں ان کا جنازہ پڑھنے والے نہیں.میں نے کہا ہوا ہے کہ میں ان لوگوں کا جنازہ پڑھوں گا جو یا تو سلسلے میں مشہور ہیں اور یا وہ کسی ایسی جگہ فوت ہو گئے ہیں کہ جہاں جنازہ پڑھنے والا ہی کوئی نہیں یا بہت تھوڑی جماعت ہے.چوہدری محمد ولایت خاں جہاں فوت ہوئے ہیں وہاں جماعت نہیں.اس لئے ایک تو میں ان کا جنازہ پڑھوں گا.(۲) دوسرا جنازہ میں ایک ایسے شخص کا پڑھوں گا.جو ایک ایسی جگہ فوت ہوا ہے کہ وہاں بھی بہت قلیل جماعت ہے اور فوت ہونے والا شخص ایسے خاندان سے تعلق رکھتا ہے.جو اللہ کے فضل سے سارے کا سارا احمدی ہے.سیٹھ عبدالرحمان اللہ رکھا صاحب کو ہماری جماعت کے اکثر دوست جانتے ہیں.ان کے بھائی سیٹھ علی محمد صاحب ہیں ان کے بھتیجے سیٹھ غلام حسین فوت ہو گئے ہیں.سیٹھ عبدالرحمان اللہ رکھا کی اپنی تو کوئی اولاد نہیں ایک لڑکا تھا چار پانچ سال ہوئے وہ بھی فوت ہو چکا ہے.اب یہ ان کے بھائی کا لڑکا ہے.جو جوانی کے عالم میں فوت ہو گیا ہے.سیٹھ عبدالرحمان اللہ رکھا وہ شخص ہیں کہ جن کو حضرت صاحب کی کتابیں پڑھنے والے خوب جانتے ہیں.حضرت صاحب کی کتابوں میں ان کا اکثر ذکر آتا ہے.مالدار لوگ عام طور پر بزدل ہوتے ہیں.لیکن انہوں نے حضرت صاحب کو قبول کیا.ان پر مشکلات بھی آئیں.تکلیفیں بھی ان کو ہوئیں.ان پر ابتلاء بھی آئے لیکن باوجود اس کے ان کے اخلاص کی یہ حالت تھی کہ اگر ان کے اپنے پاس کچھ نہ ہوتا تو بھی وہ حضرت صاحب کو قرض لے کر روپیہ بھیجتے رہتے.ایک دفعہ ان کو کاروبار میں سخت نقصان پہنچا اور سب کچھ نیلام ہو گیا.انہوں نے حضرت صاحب کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا.تھوڑے عرصے کے بعد تین سو روپیہ انہوں نے حضرت صاحب کو بھیجا.حضرت صاحب نے فرمایا آپ کی تو یہ حالت تھی آپ نے روپیہ کیسا بھیجا.جس کے جواب میں انہوں نے عرض کی کہ میں نے کچھ روپیہ اپنی ضروریات کے لئے قرض لیا تھا.اس میں سے خدا کا بھی حق تھا سو میں نے وہ ادا کیا.ان کی محبت اور اخلاص کا اس سے بھی پتہ لگتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ جو الہام مشہور ہے.

Page 232

227 قادر ہے وہ بارگاہ جو ٹوٹے کام بتادے سے بنے بنائے توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے یہ ان کے لئے ہی ہے ان کی اپنی اولاد کوئی نہیں.ان کے بھتیجے سیٹھ غلام حسین ہیں.جن کا میں جمعہ کی نماز کے بعد جنازہ پڑھوں گا.سب احباب اس میں شامل ہوں.الفضل ۲۰ اگست ۱۹۲۵ء) ا بخاری کتاب الاستقراض باب العبد راع في مال سيده.۲.تذکرہ ص ۳۲۶

Page 233

228 29 تم میں سے ہر ایک اپنا فرض ادا کرتا چلا جائے (فرموده ۱۴ اگست ۱۹۲۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : چونکہ میرے گلے میں کچھ تکلیف ہے میں زیادہ بول نہیں سکتا.مختصراً میں ایک ایسے معاملے کے متعلق کہ جو زندگی اور موت کا سوال ہو رہا ہے اور جماعت کے لوگ اس سے بے پرواہ ہو رہے ہیں کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ سوال تبلیغ کا سوال ہے.قرآن کریم سے ہمیں معلوم ہوتا ہے وہ قوم زندہ نہیں رہتی اور وہ قوم کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتی.جو اپنی مذہبی اور دینی حیثیت قائم نہیں رکھتی اور ہرگز وہ اپنے اخلاق کو اس وقت تک درست کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی.جب تک کہ وہ قوم تبلیغ میں مشغول نہیں ہوتی.ہمارا سارا کام اسی نقطہ کے گرد چکر کھاتا ہے اور اس مرکز کے گرد گھوم رہا ہے.ہماری اور دوسروں کی اصلاح کا ذریعہ یہی ہے.ہماری اور دوسروں کی فلاح اسی کے ذریعہ ہے.وہ واحد غرض بھی کہ خدا تعالیٰ کے جلال کو پورے طور پر دنیا میں ظاہر کیا جائے.اسی سے پوری ہو سکتی ہے اور آنحضرت نے جو فرمایا ہے کہ آخری زمانہ میں مسیح موعود شیطان کو قتل کرے گا.یہ بھی اسی کی طرف اشارہ ہے کہ مسیح موعود کے وقت تبلیغ و اشاعت کا کام بڑے زوروں سے شروع کیا جائے گا اور تبلیغ ہی ایک ہتھیار ہو گا جو فی الواقع شیطان کو قتل کرنے کے کام آئے گا.اگر ہم اس کو استعمال کریں تو یہی وہ ہتھیار ہوگا جو ایک ہی وار میں ان تمام مقاصد کو پورا کر جاتا ہے.اگر ہم اس کو چلائیں.تو ایسا ہتھیار ہمارے نفسوں کی بھی اصلاح کرتا چلا جاتا ہے اور دوسروں کو بھی اصلاح پانے کے قابل بناتا ہے.وہ تبلیغ کی تلوار جو ہمارے ہاتھوں میں ہے.ہمارے لئے ہلاکتوں کے دروازوں کو بند کرتی ہے اور اس آگ کو دور کرتی ہے جو ہمارے ارد گرد ہوتی ہے.کیونکہ جو شخص بھی ہماری

Page 234

229 تبلیغ سے متاثر ہو کر سچائی کو قبول کرتا ہے بیشک وہ ہدایت تو پاتا ہے لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ آگ بھی جو ہمارے گھر کے پاس تھی اور بھی دور چلی گئی.تبلیغ ہی سے خدا کا جلال دنیا میں ظاہر کیا جا سکتا ہے اور تبلیغ ہی سے شیطان کا سر بھی کچلا جا سکتا ہے.لیکن افسوس کہ ہماری جماعت کے افراد اس بارے میں غافل ہو رہے ہیں اور اس کی طرف اتنی توجہ نہیں کرتے جتنی کہ اس طرف کرنی چاہئے.اگر دس پندرہ مخصوں نے اتنی بڑی جماعت میں سے اس طرف خیال کر لیا.تو کیا کر لیا.اتنی بڑی ضرورت کے لئے دس پندرہ ہوئے ہی کیا؟ میں جب یہ کہتا ہوں کہ ہماری جماعت کے دس پندرہ آدمی ہی صرف اس کام کی اہمیت سمجھتے اور اسے کرنا ضروری سمجھتے ہیں.تو یہ مبالغہ نہیں ہے بلکہ حقیقت الا مر ہی یہ ہے کہ ہماری جماعت کے افراد اس طرف سے غافل ہیں اور دس پندرہ سے زیادہ نہیں ہیں جو تبلیغ میں مصروف ہیں.حالانکہ تبلیغ ایک فرض ہے جو ہر ایک کے ذمہ ہے اور ہماری جماعت تو اور بھی اس ذمہ داری کے نیچے ہے.ایک فرض قوم پر فرض ہوتے ہیں.وہ ایک آدمی کے کرنے سے پورے ہو جاتے ہیں.ان فرضوں میں سے اگر کسی ایک فرض کو کوئی ایک آدمی بجا لایا تو سمجھا جائے گا کہ اس قوم نے اس فرض کو پورا کر دیا.لیکن جو فرض افراد پر ہوتے ہیں.وہ افراد کے ہی کرنے سے پورے ہوتے ہیں اور کوئی شخص دوسرے لوگوں کے کرنے سے ان سے نجات نہیں پا سکتا.مثلاً نماز ہے اب یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک کی جگہ دوسرا پڑھ لے تو وہ بھی اس سے سبکدوش ہو گیا.ایسا ہی کوئی شخص یہ کہہ کر نجات نہیں پا سکتا کہ زید اور بکر تبلیغ کر رہے ہیں یا ہمسائے تبلیغ کر رہے ہیں.یا بیوی تبلیغ کر رہی ہے.یا بچے تبلیغ کر رہے ہیں.کیونکہ یہ تو ہر ایک پر یکساں فرض ہے جس طرح زید پر اس فرض کا بوجھ ہے اسی طرح بکر پر بھی فرض ہے جس طرح بیوی اس کے کئے بغیر اس سے بری الذمہ نہیں ہو سکتی.اسی طرح خاوند بھی جب تک اسے نہ کرے اس سے سبکدوش نہیں ہو سکتا.غرض یہ سب پر فرض ہے.خواہ وہ کوئی بھی ہو پس اس صورت میں کہ جب یہ ہر ایک پر فرض ہے اور جب کہ اس زمانہ میں اس کی ازحد ضرورت ہے.اگر دس پندرہ فیصد یا اس سے بھی کم لوگ تبلیغ میں لگے ہوئے ہیں.اور باقی اس طرف توجہ نہیں کرتے.تو ان میں سے ہر ایک یہ سمجھ لے کہ وہ ایک گناہ میں مبتلا ہے اور ایک حکم صریح کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور شیطان کے دروازے کھول رہا ہے کہ وہ ہمیں

Page 235

غفلت میں یا کر ہلاک کر دے.230 اگر کسی گھر یا کسی گاؤں کو آگ لگ جائے تو چند لوگ ہی کیا اسے بجھانے کے لئے دوڑتے آگ ہیں.یا کیا اس آگ کا بجھانا صرف مردوں تک ہی محدود ہے؟ نہیں بلکہ سب زن و مرد ہی اسے کو بجھاتے ہیں اور سب کے سب اس کام کو کرتے ہیں.یہاں تک کہ ان کا چھوٹے سے چھوٹا بچہ بھی جو کہ اس وقت چیخ رہا ہوتا ہے.وہ بھی آگ بجھانے میں مصروف ہوتا ہے.کیونکہ اس کی چینیں بھی کئی آدمیوں کو بلا رہی ہوتی ہیں.مگر کیا یہ افسوسناک بات نہیں ہے کہ جس گھر کی حقیقت چند مرلہ زمین اور مالیت چند روپے سے زیادہ نہیں ہوتی.اسے اگر آگ لگ جائے تو اس کے بجھانے کے لئے تو کیا عورت اور کیا مرد.کیا بچہ اور کیا بوڑھا سارے کے سارے لگ جاتے ہیں لیکن اس دنیا میں جو آگ لگی ہوئی ہے.اس کے لئے وہ کوشش نہیں کی جاتی جو ایک معمولی سے گھر کے لئے کی جاتی ہے.دوسرے لوگوں کو چھوڑ دو اور اپنی طرف نگاہ کرو اور اس بات کو اچھی طرح یاد رکھو.ہمارے ذمے یہ فرض ہے کہ ہم ہر وقت تبلیغ میں لگے رہیں.تو بہت سے لوگ ہیں جو یہ کافی سمجھتے ہیں کہ ان کو ہم ایک مبلغ بھیج دیں اور وہ خود کچھ نہ کریں.میں نے کبھی کسی گھر کے لوگوں کو یہ کہتے نہیں سنا کہ ادھر تو ان کے گھر کو آگ لگی ہوئی ہو اور ادھر وہ چارپائیوں پر باہر بیٹھے ہوئے ہوں اور افسوس کرتے ہوں کہ محلے والے نہ آئے کہ اس آگ کو بجھایا جاتا.بیشک وہ افسوس بھی کرتے ہیں لیکن تب جب وہ خود اس کو بجھانے کی پوری کوشش کر رہے ہوں.اور اس کام میں ہمہ تن مصروف ہوں مگر ایسا تو کبھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ خود تو ہاتھ پاؤں نہ ہلائیں اور سامنے گھر کو آگ لگ رہی ہو اور وہ جل کر خاک سیاہ ہو رہا ہو اور وہ دوسروں پر گلہ کریں کہ محلے والے ہماری مدد کو نہ آئے.محلے والے مرد کو کیا آتے.جب وہ خود ہی کچھ نہیں کر رہے.تو کسی کو کیا احساس ہو سکتا ہے کہ فی الواقع تمہیں اس سے درد پیدا ہو رہا ہے.ایسے لوگ اگر خود کچھ کریں تو ہی لوگوں کو پتہ لگ سکتا ہے کہ ان کو اس آگ لگنے کا درد ہے اور وہ مدد کو آسکتے ہیں لیکن جب یہ خود ہی محسوس نہیں کرتے.جب خود ہی انہیں اس آگ کا درد نہیں پیدا ہوتا.جب خود ہی اس آگ کو دیکھ کر ہاتھ پاؤں نہیں ہلاتے تو پھر دوسرا اگر مدد کو نہیں پہنچا تو اس کا گلہ کیا.ایسے لوگوں کی مثال تو ان سستوں کی طرح ہے جن کا حال کسی دانا شخص نے لطیفہ کے طور پر بیان کیا ہے.کہتے ہیں ایک شخص سپاہی تھا سرکاری کام کے لئے کہیں سفر پر جا رہا تھا.سڑک کے پاس سے

Page 236

231 جو گزرا تو اسے کسی نے آواز دی میاں راہ گزر ذرا ادھر آنا.اس پر وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا کہ کہاں سے آواز آئی تو اسے ایک جگہ ایک آدمی لیٹا ہوا نظر آیا.وہ سپاہی اس آواز پر اس کے پاس پہنچا.تو اس آواز دینے والے نے کہا کہ میاں میری چھاتی پر پیر پڑا ہے.ذرا اٹھا کر اسے میرے منہ میں ڈال دینا.قدرتاً ایسے کاموں میں انسان کو غصہ آجاتا ہے.سپاہی کو بھی اس پر غصہ آگیا اور وہ اس پر ناراض ہونے لگا.پاس ہی ایک اور شخص لیٹا ہوا تھا وہ بول اٹھا کہ میاں تم ناراض کیوں ہو رہے ہو.تم نے اس کی سستی کا ابھی دیکھا ہی کیا ہے یہ تو بڑا ہی بے ہمت شخص ہے.ساری رات کتا میرا منہ چاہتا رہا لیکن اس نے ”ہشت" تک نہ کہا.اور اسے ہٹایا تک نہیں.یہ سن کر وہ سپاہی ان کو چھوڑ کر وہاں سے چل دیا.بظاہر یہ لطیفہ ہے لیکن یہ لطیفہ نہیں یہ نقطہ ہے.اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے اس لطیفہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ بعض لوگ ایسے ست ہوتے ہیں کہ کھانا ان کے پاس دھرا ہے لیکن وہ اس انتظار میں ہیں کہ کوئی آئے اور لقمے ان کے منہ میں ڈالے.ایسے لوگ دوسروں کو بتاتے ہیں کہ تم آکر بیر ہمارے منہ میں ڈال دو.اور خود یہ نہیں کر سکتے کہ بیر کو اپنی چھاتی پر سے اٹھا کر منہ میں ڈال لیں.کیا یہی مثال ان لوگوں پر چسپاں نہیں ہوتی جو تبلیغ میں مشغول نہیں کہ ان کی بغل میں تو دشمن ہے اور وہ یہاں چٹھی لکھ دیتے ہیں کہ ہمیں مبلغ بھیج دو اور سمجھ لیتے ہیں کہ کوئی آنے جانے والا یہ کام کر لے گا.حالانکہ یہ کام ان کا اپنا ہے ان کو چاہئے کہ وہ دشمن کے لئے اپنے آپ کو خود تیار کریں.ایسے لوگ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ دور سے جانے والا تو ایک ہی دفعہ بیر ان کے منہ میں ڈال سکتا ہے اور ایک ہی دفعہ ہشت کر کے کتے کو پرے ہٹا سکتا ہے.لیکن ہمیشہ ایسا نہیں کر سکتا اور اگر وہ اس بات پر رہیں گے کہ کوئی اور ہی آئے اور بیر ہمارے منہ میں ڈالے اور ہشت کرکے کتے کو پرے ہٹا دے تو اس کے ایک دفعہ ایسا کرنے کے بعد کون ہو گا جو ان کے لئے ہمیشہ ہمیش کام کرے گا.اسے لطیفہ نہ جانو پس لطیفہ نہیں یہ نکتہ ہے اور نکتہ بھی نکتہ معرفت جو کسی دانا اور عقل مند انسان نے بیان کیا ہے اور لوگوں کی عقل پر سے پردہ اٹھانے کے لئے یہ اچھی تدبیر اختیار کی ہے.میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ جب قادیان کی طرف سے کوئی آدمی ان کے پاس نہیں پہنچتا بڑے پریشان ہو کر کہتے ہیں.افسوس قادیان والوں پر کہ ہماری خبر بھی نہیں لیتے مگر افسوس ان پر ہے کہ بیروں کا تھال تو ان کے سامنے پڑا ہے لیکن خود اٹھا کر کھا نہیں سکتے اور افسوس کرتے ہیں کہ قادیان کی طرف سے کوئی نہیں آیا جو ان کو ہمارے منہ میں ڈالتا.اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض

Page 237

232 دفعہ مبلغین کی ضرورت بھی پڑ جاتی ہے اور مرکز کی مدد کی بھی ضرورت پیدا ہو جاتی ہے لیکن ہر وقت مرکز کی طرف نگاہ رکھنا کہ وہاں سے ہی کوئی آدمی آئے.تو یہ کام ہو بالکل نا مناسب ہے اور نااہل ہونے پر دلالت کرتا ہے.بیشک بعض میوے سخت ہوتے ہیں جو ہاتھ سے نہیں ٹوٹتے بلکہ پتھر سے توڑے جاتے ہیں لیکن ہمیشہ ہمیش جو دوسرے آدمیوں کا منہ دیکھتے ہیں وہ نہ ہاتھوں سے کسی میوہ کو توڑ سکتے ہیں اور نہ پتھروں سے.ہماری جماعت کو ایسا نہیں چاہئے بلکہ اس کے لئے تو یہ ہونا چاہئے کہ وہ ہر میوہ کو توڑنے والی بنے خواہ وہ میوہ ہاتھ سے ٹوٹے اور خواہ پتھر سے.لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری جماعت کے لوگ عام طور پر اس بات پر کار بند ہو رہے ہیں کہ ذرا ضرورت پڑی تو جھٹ پر قادیان مدد کے لئے لکھ دیتے ہیں اور خود اپنے آپ کو اس قابل بنانے کی کوشش نہیں کرتے کہ اپنی ضرورتوں کو آپ پورا کر سکیں اور یہ نہیں سوچتے کہ یہ کام ہمارے اپنے کرنے کا ہے.یہ نقص ہے جس سے ہم شیطان کا سر کچلنے میں کامیاب نہیں ہو سکے اور یہ کمی ہے جس کے باعث ہم خدا کا جلال دنیا میں پورے طور پر ظاہر نہیں کر سکے.پس ہماری جماعت کو چاہئے کہ ایسے ایسے موقعوں پر جب کہ انہیں کسی غیر کی مدد کی حاجت محسوس ہوتی ہے.خود کام کرنے کی اہمیت پیدا کریں.مبلغ کیا ہے.میں نے ایک مثال کے ذریعہ بتایا تھا کہ وہ ایک ایسا وجود ہے کہ اس کی مثال نالی کی سمجھ لو جو تھوڑی دور جا کر خشک ہو جاتی ہے.ریتلے میدان سے ایک نالی نکال کے لے جاؤ تھوڑی دور جا کر وہ خشک ہو جاتی ہے اور ریت ہی میں جذب ہو جاتی ہے لیکن کتنی بڑی ریت ہو آسمان سے گرنے والا پانی دریا بہا دیتا ہے اور نہ خشک ہوتا ہے اور نہ جذب.پرسوں میں کشتی میں سیر کے لئے گیا.میرے ساتھ میری چھوٹی لڑکی تھی.اس نے پوچھا کہ یہ پانی کہاں سے آیا مینہ تو قطرہ قطرہ برستا ہے پھر یہ اتنا پانی کدھر سے آگیا تو یہ بارش ہی کا کام ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ قطرہ قطرہ کر کے برستی ہے.پھر بھی دریا بہا دیتی ہے.ایک انچ اگر بارش ہو تو ایک میل تک گزگز اونچا پانی جمع ہو جاتا ہے.یہاں نشیب جگہ ہے.اس لئے سارا پانی یہاں جمع ہو جاتا ہے.تو یہ بارش ہمارے لئے نمونہ ہے کہ کس طرح وہ گڑھوں کو بھر دیتی ہے اور کس طرح وہ خشک اور ریتلے میدانوں میں دریا بہا دیتی ہے.ہماری جماعت کے افراد کی بارش کے قطروں کی مثال ہے اور مبلغ کی نالی کی.کتنی چوڑی بھی نالی ہو.وہ سیراب نہیں کر سکتی.لیکن بارش کے قطرے چونکہ ہر جگہ پر گز رہے ہوتے ہیں.اس لئے دریا تو دریا وہ طوفان نوح کا نظارہ بھی پیش کر سکتے ہیں.بیشک زمین کو سیراب کرنے کے لئے

Page 238

233 کنوؤں اور نہروں وغیرہ سے بھی پانی بہم پہنچایا جاتا ہے لیکن کنوئیں اور نہریں وہ سیرابی نہیں کر سکتے جس طرح کہ بارش کا پانی.نہر کے پانی کی اگر فضیلت ہے تو یہ ہے کہ وہ اپنے اختیار میں ہوتے ہیں.جب چاہا لے لیا.اور جتنا چاہا برت لیا لیکن تاہم اس کو وہ درجہ حاصل نہیں جو بارش کے پانی کو ہے اور اگر بارش کا پانی بھی اختیار میں ہو تا.تو پھر نہروں کو کوئی پوچھتا بھی نہ.افراد کی تبلیغ بارش سے مشابہت رکھتی ہے لیکن ہماری بارش رکی ہوئی ہے اور اس بارش کے لئے درد دل اور نیت کی ضرورت ہے اگر دلوں میں یہ درد پیدا ہو جائے کہ دنیا پیاسی ہے اور اسے سیراب کرنا ہے اگر یہ نیت پختہ ہو جائے کہ دنیا کے ریلے میدانوں میں دریا بہا دینے ہیں اور افراد جماعت پانی بن جائیں اور پانی بھی وہ پانی جو آسمان سے برستا ہے.تو پھر چند ہی دنوں میں دیکھ لو گے کہ کس طرح جل تھل ہو جاتا ہے اور کس طرح سبزہ ہی سبزہ پیدا ہو جاتا ہے لیکن یہ اس طرح نہیں ہو گا کہ لوگ خود تو بیٹھے رہیں اور دوسروں کا منہ دیکھا کریں بلکہ اس کے لئے ضرورت ہے کہ وہ بارش کی طرح گرنا شروع ہو جائیں اور دنیا کا کوئی گوشہ نہ چھوڑیں جو ان کی سیرابی سے باہر رہ جائے.بعض جگہ لوگوں نے کوشش کی ہیں اور نتائج بھی اچھے نکلے ہیں.بعض جگہ ایک آدمی کام کرنے والا پیدا ہوا اور اس کی کوشش سے وہاں جماعت پیدا ہو گئی اور سینکڑوں ہزاروں آدمی سلسلے میں داخل ہو گئے.لیکن یہ ایسی باتیں نہیں جو دنیا کی پیاس بجھانے والی ہوں.دنیا کی پیاس تو اسی سے بجھ سکتی ہے کہ افراد جماعت بارش کے قطروں کی طرح اس کو گھیر لیں اور اس کے گوشہ گوشہ کو سیراب کر دیں.پس جو لوگ اس فرض کو نہیں پہچانتے.وہ غفلت کر رہے ہیں اور ایسے لوگوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ ان میں سے ہر شخص جو کوتاہی کر رہا ہے وہ بادل کو پھاڑتا ہے اور یہ یاد رکھو کہ بادل جب پھٹا تو بارش نہیں ہوتی کیونکہ بادل کا پھٹنا اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ اب بارش نہیں ہوگی.اسی طرح جس جماعت کے بعض افراد تو کام میں مشغول ہوں اور بعض سستی کر رہے ہوں.وہ جماعت کامیاب نہیں ہو سکتی اور نہ ہی دوسروں کے لئے فائدہ رساں بن سکتی ہے.پس ہماری جماعت کے افراد کو چاہئے کہ وہ سستی کرنے والے نہ بنیں بلکہ کام کرنے والے بنیں.کیونکہ کام کرنے والے انسان زمین کے سیراب کرنے والے بارش کے بادل ہوتے ہیں جو گھٹا ٹوپ اٹھتے ہیں اور تمام دنیا پر چھا جاتے ہیں اور یہی ہوتے ہیں کہ جن سے کھیتیاں اگتی ہیں.یہی ہوتے ہیں کہ جن سے سبزہ پیدا ہوتا ہے.پس ہماری جماعت کو چاہئے کہ ایسے بادل بننے کی کوشش کریں.اگر وہ ایسا 16

Page 239

234 کریں تو اهدنا الصراط المستقیم کی دعا جو ہر نماز میں مانگتے ہیں.کہ اے خدا تو سب کو ہدایت دے وہ بھی پوری ہو سکتی ہے.اگر سب کے سب تبلیغ میں لگ جائیں.تو یہ دعا ضائع نہ جائے.کیونکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ساتھ ساتھ اسباب سے بھی کام لیا جائے.میں ایک عرصہ سے دیکھ رہا ہوں کہ لٹریری اور ادبی مذاق ہماری جماعت سے ویسے ہی اڑا جا رہا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ.گویا اس لحاظ سے وہ مردہ ہوتی چلی جاتی ہے.میں نے انگریزی خوانوں کو متواتر کہا کہ وہ مضمون لکھیں لیکن وہ اس پر توجہ نہیں کرتے.میں محکموں کو بھی اس سے بری نہیں کر سکتا.ان کا کام یہ بھی ہے کہ وہ مضمون لیں لیکن تعلیم یافتہ طبقہ پر کچھ ایسی جمود اور موت کی حالت طاری ہے کہ وہ یہ دیکھ کر بھی کہ اعتراض پر اعتراض ہو رہے ہیں بالکل خاموش رہتے ہیں لیکن قادیان والے تو بالکل ہی اس بات کی طرف نہیں آتے.ان دنوں تقریباً ڈیڑھ سو آرٹیکل ہمارے متعلق مختلف انگریزی اخباروں میں نکلے ہوں گے.لیکن نہ باہر کے لوگوں نے اور نہ قادیان والوں نے کوئی ان کا جواب دیا.حالانکہ اس کے متعلق کچھ لکھنا بہت ضروری تھا.باہر کے ایک دو دوستوں نے بے شک اس طرف توجہ کی اور ان میں سے بعض مضامین کے جواب لکھے لیکن جب تک تمام کے تمام اس کام کی اہمیت رکھنے والے ادھر رخ نہ کریں کچھ بھی نہیں ہو سکتا.پس ہمارے انگریزی خواں طبقہ کو اس بات کی کوشش کرنا چاہئے اور اپنی خدا داد قابلیتوں کو استعمال میں لانا چاہئے.ورنہ یہ حالت تو موت پر دلالت کرنے والی ہے.میں نہیں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص کسی کے باپ کو گالی دے تو وہ چپ رہے یا دکان کا مال اٹھا لے جائے اور وہ شور نہ مچائے.حضرت مسیح موعود ہمارے باپ ہیں.ان پر لوگ آواز میں کہتے ہیں اور ان پر اور ان کے عقائد پر گندے گندے اعتراض کرتے ہیں.تو کیا ایسی واہیات باتیں گالی کے برابر نہیں جو تم سب خاموش ہو.پھر یہاں تو فی الواقع گالیاں دی بھی گئیں.تمہیں تو ان باتوں سے بہ نسبت گالیوں کے زیادہ غیرت ہونی چاہئے.تین چار سال سے میں کوشش کر رہا ہوں کہ لوگ ایسے مضامین لکھیں.کالج کے لڑکوں کو بھی میں نے مقرر کیا.وہ مخلص بھی ہیں.کام کرنا بھی چاہتے ہیں اور کام کرنے کی اہلیت بھی ان میں ہے لیکن وہ کرتے کچھ نہیں اور سستی میں پڑے رہتے ہیں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جمود ہے اور یہ مرجھاتی ہوئی طبیعتیں ہیں.حالانکہ وہ مومن ہیں اور مومن مردہ نہیں ہمیشہ زندہ ہے.نبیوں کی جماعتوں کی زبان اور تحریر کو بھی خدا تعالی تیز کر دیتا ہے اور یہ انعام نبی کے ذریعے

Page 240

235 اس کی امت کو ورثہ میں ملتے ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کے سامنے عذر کرتے ہیں کہ زبان نہیں چلتی.فرعون کے سامنے کیسے جاؤں.ہارون کو بطور مددگار دے دیجئے.نبی جھوٹا انکسار نہیں کیا کرتے جو یہ سمجھ لیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ازراہ انکسار ایسا کہا ہو.وہ جھوٹ نہیں بولتے تھے.واقع میں وہ کمزوری محسوس کرتے ہوں گے.نبی ہمیشہ سچ سچ کا انکسار کیا کرتے ہیں وہ بناوٹ کے طور پر ایسا نہیں کرتے.اور نہ ہی کسی خوف کے سبب انہیں ایسا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.ان میں فی الواقع ہی کمزوری ہو تو وہ پیش کرتے ہیں اور یہ نہیں کہ کمزوری تو کوئی ہو نہ اور وہ یونسی اپنے آپ کو کمزور ٹھراتے پھریں.غرض وہی موسی جو زبان نہ چلنے کا عذر کر رہے تھے اور ہارون کو بطور مدد گار مانگ رہے تھے.حرام ہے جو ایک لفظ بھی پھر ہارون کو بولنے دیا ہو.وہ ہارون جن کو مدد کے لئے مانگ رہے تھے.جب مل گئے تو ان کو موسی نے بولنے بھی نہ دیا اور سارا کام آپ ہی کیا تو اس سے سمجھ آتا ہے کہ تحریر اور زبان بھی نبوت کا انعام ہیں اور نبی کے ساتھ اس کی جماعتوں کو بھی یہ انعام ملتے ہیں.اپنی طرف ہی دیکھ لو کہ کس طرح تم ان انعامات کے وارث بنائے گئے ہو.جو انعامات کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا کی طرف سے پائے.تم میں کیا ہے کہ تم سب پر بھاری ہو.یہی کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انعامات کے وارث ہو.مولوی بھی تو ڈرتے تھے کہ مرزائیوں کی زبان تو قینچی کی طرح چلتی ہے.ان کے ساتھ بات نہ کرو.مرزائی باتوں میں تو کسی کو ور نہیں آنے دیتے اور پھر ہم تو اس نبی کی امت ہیں کہ جس کے الفاظ کے علاوہ معافی کو بھی معجزہ قرار دیا گیا ہے.معنی تو درکنار دیکھ لو قرآن جیسی عبارت بھی تو کوئی پیش نہیں کر سکتا.باوجود ایسے نبی کی امت ہونے کے پھر بھی اگر ہم پر مہر لگ جائے اور ہم ان انعامات سے فائدہ نہ اٹھائیں تو کیا ہم کو ڈر نہیں کرنا چاہئے اور ہمیں اس حالت کے بدلنے کے لئے ہاتھ پاؤں نہیں مارنے چاہئیں.تا ایسا نہ ہو کہ ان انعامات کا کسی اور کو وارث بنا دیا جائے.پس میں تعلیم یافتہ طبقہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ تحریر آ بھی ان باتوں کا جواب دے جو لوگ ہمیشہ ہمارے متعلق لکھتے رہتے ہیں.آج کل تو تقریباً ہفتہ میں ایک آرٹیکل ضرور ایسا نکلتا رہتا ہے.جس میں ہمارا ذکر ہوتا ہے لیکن ہماری طرف سے کوئی بھی اس طرف توجہ نہیں کرتا.تعلیم یافتہ ہوں یا نہ ہوں.عالم ہوں یا نہ ہوں میں ان سب کو توجہ دلاتا ہوں کہ سلسلے پر جو

Page 241

236 علمی رنگ میں تحریری طور پر اعتراضات کئے جاتے ہیں ان کا اسی طرح جواب دیں اور اس غفلت کو پھینک دیں کہ یہ مردنی کی علامت ہے.لاشوں کے پاس لاشیں نہیں پہنچتیں.لیکن زندے زندوں کے پاس پہنچتے ہیں وہ حی القیوم خدا جو زندہ ہے کب زندوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس آئے گا.اسی طرح مرکز تم اس کے پاس نہیں پہنچ سکو گے.البتہ زندہ رہ کر تم اس کے پاس پہنچ سکتے ہو.پس تم زندہ رہنے کی کوشش کرو.نہ صرف خود زندہ رہنے کی بلکہ دوسروں کو بھی زندہ بنانے کی کوشش کرو.جو عالم ہیں وہ اپنے رنگ میں جو عالم نہیں وہ اپنے رنگ میں.جو انگریزی خواں ہیں وہ اپنے طرز پر اور جو انگریزی خواں نہیں ہیں وہ اپنی طرز پر اس کام میں لگ جاویں.غرض تم میں سے کوئی نہ ہو جو اپنی اپنی استعداد اور اپنی اپنی قابلیت کے مطابق تبلیغ نہ کر رہا ہو.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالی تمہاری فلموں میں زور بخشے اور تمہاری زبانوں میں طاقت عطا فرمائے.اور تمہیں ہر قسم کی اہلیت اور قابلیت بخشے کہ تاسب تم میں سے خدا کا نام دنیا میں روشن کرنے کے لئے ہمہ تن مصروف ہوں اور اس کے جلال کے اظہار میں سب مشغول ہوں.الفضل ۲۵ اگست ۱۹۲۵ء) ا الشعراء ١٤

Page 242

237 30 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے کار ہائے نمایاں (فرموده ۲۸ اگست ۱۹۲۵ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں آج ایک ایسے مضمون کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا تھا جو اس زمانہ میں ہمارے تبلیغی پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے نہایت ہی اہم اور ضروری ہے لیکن چونکہ میری طبیعت کچھ کمزور ہے اور رات سے مجھے کچھ حرارت سی معلوم ہوتی ہے اس لئے میں آج اس مضمون کے متعلق مختصر تمہید بیان کروں گا.یہ مضمون ایسا اہم ہے کہ ایک مستقل کتاب چاہتا ہے اور ایسا باریک ہے کہ کئی رنگ میں اس پر بحث کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ اسے اچھی طرح سمجھ سکیں لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ چونکہ ہماری جماعت کے دوستوں کو اس کی فوری ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور ان کی تبلیغ کے راستے میں بعض دفعہ یہی سوال مشکلات پیدا کر دیتا ہے.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ چند خطبوں میں اس کے بعض حصوں کو بیان کر دیا جائے.پھر اگر توفیق ملی تو تفصیل کے ساتھ اس پر بحث کر دی جائے گی.بعض دوستوں کو اور خود مجھے بھی اس بات کی خواہش رہی ہے کہ اس مضمون کے متعلق ایک کتاب لکھوں لیکن اس وقت میں چند خطبوں کے ذریعے اس مضمون کے بعض حصے بیان کرتا ہوں جو اس وقت تک انشاء اللہ تعالیٰ مفید ہوں گے.جب تک کہ مجھے یا کسی اور دوست کو اس قسم کی کتاب لکھنے کی توفیق ملے.ہمارے بعض دوست جن میں باہر کے دوست بھی شامل ہیں بیان کرتے ہیں اور اب بھی ایک دوست نے جو باہر سے آئے تھے یہ سوال بیان کیا تھا کہ لوگ ہم سے پوچھتے ہیں.حضرت مرزا صاحب نے کیا کیا ہے کہ ہم انہیں مانیں اور ان کی جماعت میں داخل ہوں.ایک عام آدمی کے لئے جو کہ مضامین کی گہرائیوں میں نہیں جاتا اتنا ثابت کر دینا کافی ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود خدا کے

Page 243

1 238 مامور تھے اور پہلی کتابوں کی پیشگوئیاں ان پر صادق آئیں اور ان کی اپنی پیشگوئیاں کچی ثابت ہوئیں اور بعض نشانات بھی ظاہر ہوئے.جن سے معلوم ہوا کہ وہ خدا کی طرف سے تھے اور چونکہ وہ خدا کی طرف سے تھے اس لئے ان کو ماننا چاہیے.کثیر حصہ ایسا ہے کہ اگر اس پر کسی کا خدا کی طرف سے آنا اور بعض پیشگوئیوں کا اس پر صادق آتا اور اس کی اپنی پیشگوئیوں کا بھی پورا ہونا ثابت کر دیا جائے تو وہ ایمان لے آتا ہے.لیکن ہندوستان اور ایشیائی ممالک میں ایسے لوگ بھی ہیں جو محض اتنی بات پر ایمان لانے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور یورپ و امریکہ میں تو کثرت سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم پیشگوئیوں پر کسی کو خدا کی طرف سے مبعوث ہونے والا نہیں مان سکتے.کوئی ایسی بات بتاؤ.جو بندے اپنے آپ نہ کر سکتے تھے اور وہ اس شخص نے آکر کیا اور خدا کی طرف سے کسی شخص کے آئے بغیر جو کام نہیں ہو سکتا تھا وہ اس شخص نے کر دکھایا.کیونکہ پیشگوئیاں ایک نشان ہیں اور بس.لیکن ہم کہتے ہیں کہ اس کی ضرورت کیا پڑی کہ خدا یہ پیشگوئیاں کسی شخص کو دے.آخر کچھ تو وجہ ہے اور وہ وجہ بجز اس کے اور نہیں، کہ ان لوگوں پر اس شخص کی سچائی ظاہر کی جائے جو پیشگوئیوں کو دیکھ کر ایمان لاتے ہیں.لیکن باوجود اس کے ایک گروہ ایسا بھی ہمیں نظر آتا ہے جو پیشگوئیوں کو باوجود نشان ماننے کے ایمان نہیں لاتا اور با ایں ہمہ وہ اسی بات پر اڑا رہتا ہے کہ ہمیں ایسے شخص کے آنے کی ضرورت بتاؤ.کیونکہ جب کسی کے آنے کی ضرورت ہی ثابت نہ ہو تو اسے ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ ان لوگوں کا نقطہ نگاہ ہے گو اس کو ہم غلط اور ناقص کہہ دیں لیکن ان کے نزدیک یہ غلط اور ناقص نہیں اور نہ ہی ہمارے اتنا کہہ دینے پر وہ غلط اور ناقص ہو جائے گا.وہ صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب نے دنیا میں آکے کام کیا کیا تاکہ معلوم ہو سکے کہ وہ ان کے آئے بغیر نہیں ہو سکتا تھا.پس میرے نزدیک ان کا یہ سوال درست ہے لیکن باوجود اس کے کہ ان کا سوال درست ہے میں پھر بھی کہوں گا کہ ان کا حق نہیں کہ وہ یہ سوال کریں حضرت مرزا صاحب نے کیا کیا.کیونکہ ایسا سوال کرنے میں نقص پیدا ہو جاتا ہے اور یہ سوال غلط ہو جاتا ہے.وہ نقص کیا ہے؟ یہ کہ وہ کیوں بغیر سوچے سمجھے اور بغیر تمام انبیاء کے حالات پر نظر دوڑائے ایسا سوال کرتے ہیں.کیونکہ یہ سوال کسی عہدے کے متعلق ہو سکتا ہے نہ کہ ذات کے متعلق اور جب یہ سوال صرف عہدے کے متعلق رہ گیا تو پھر اس کی ضرورت سامنے آئے گی کہ اس عہدہ کی کیا

Page 244

239 ضرورت تھی یا اس عمدہ پر کسی کو کھڑا کرنے کی کیا حاجت تھی.اس صورت میں یہ سوال یکساں طور پر تمام انبیاء پر پڑے گا.کہ وہ کیوں آتے رہے اور آکر کیا کرتے رہے.پس سوال یہ ہونا چاہیے کہ کسی بھی نبی کو خدا تعالیٰ نے کیوں بھیجا اور اس نے آکر کیا کیا.اس میں حضرت مرزا صاحب کی خصوصیت نہیں ہونی چاہیے.یہی سوال حضرت عیسی کے متعلق ہونا چاہیے.یہی سوال حضرت محمد کے متعلق ہونا چاہیے.یہی سوال حضرت زکریا کے متعلق ہونا چاہیے.یہی سوال حضرت داؤد کے متعلق ہونا چاہیے.یہی سوال حضرت موسیٰ کے متعلق ہونا چاہیے یہی سوال حضرت یوشع" کے متعلق ہونا چاہیے.یہی سوال حضرت ابراہیم لوط صالح، شعیب نوح اور آدم علیہ السلام کے متعلق ہونا چاہیے.غرض یہی سوال تمام دوسرے نبیوں کے متعلق ہونا چاہیے.خواہ قرآن شریف الله الله میں ان کا ذکر مذکور ہو یا نہ ہو کہ کیا غرض پیش آئی جو خدا تعالیٰ نے ان کو بھیجا.یہ کہنے سے میری غرض یہ نہیں کہ میں الزامی جواب دوں.بلکہ یہ غرض ہے کہ ایسے لوگوں کو اس سوال کا جواب سمجھنے میں آسانی ہو جو پہلے انبیاء کو مانتے ہیں.پھر یہ طریق میں نے اس لئے بھی اختیار کیا ہے کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے دماغ میں کسی امر کے متعلق عجیب و غریب نقشہ کھینچ لیتے ہیں.مثلاً یہی کہ وہ خیال کر لیتے ہیں.نبی وہ ہوتا ہے جو فلاں کام کرے.اب اگر وہ دنیا کی کایا بھی پلٹ دے تو بھی وہ اسے نہیں مانیں گے.بلکہ یہی کہتے چلے جائیں گے کہ جب تک وہ بات پوری نہیں ہوتی جو ہم کہتے ہیں تب تک ہم نہیں مانیں گے.ایسے لوگوں کی مثال حضرت خلیفہ اول اس نٹ سے دیا کرتے تھے.جو میں نہ مانوں کہا کرتا ہے.تماشا کرنے والا بانس پر الله چڑھ کر کبھی پھر کی کی طرح پیٹ کے بل اس پر پھرتا ہے.کبھی کھڑا ہوتا ہے.کبھی سر نیچے کرتا ہے.کبھی اوپر اٹھتا ہے.غرض کہ وہ کئی طرح پر اپنے کمال دکھاتا ہے.مگر اس کے ساتھ کا ہی ایک اور شخص جو نیچے کھڑا ہوتا ہے تماشہ میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے ہر کھیل کے ختم ہونے پر یہ کہہ دیتا ہے.”میں نہ مانوں میں نہ مانوں" وہ غریب تو ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ وہ شخص اس کے کرتب کی داد دے لیکن وہ اس کے کسی بھی کمال کو نہیں مانتا اور جب بھی وہ پوچھتا کہ کیا یہ تو مانو گے تب وہ ” میں نہ مانوں میں نہ مانوں" کہہ دیتا ہے.پس ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں کہ نبی خواہ کتنا بھی کام کر جائے مگر چونکہ وہ ان کے اس کام کے مطابق نہیں ہوتا.جسے وہ اپنے خیال میں نبی کا کام سمجھے بیٹھے ہوتے ہیں.اس لئے وہ مانتے نہیں اور اس نٹ کی طرح یہی کہتے چلے جاتے ہیں " میں نہ مانوں".میں نہ مانوں".یہ محض نفس کا دھوکہ ہوتا ہے.جس میں انسان پھنس کر کام کو دیکھ کر بھی

Page 245

240 یہی کہتا ہے کہ کچھ نہیں ہوا.پس جب نفس انسان کو دھوکہ دیتا ہے کہ کام ہونے کے باوجود وہ سمجھتا ہے کہ نہیں ہوا تو پھر یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ایسے مخصوں سے یہ پوچھنا چاہیے کہ ان کے نزدیک نبی کا کام کیا ہے اور وہ ایک نبی کے کاموں سے کیا مراد لیتے ہیں.ایسے لوگ اگر کہیں کہ نبی وہ ہوتا ہے.جو مخالفین کے ساتھ جنگ کر کے فتح پائے تو انہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ بات درست نہیں کیونکہ دنیا میں ایسے لوگ بھی فاتح ہوئے ہیں جنہیں وہ نبی نہیں مانتے اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ہر فاتح نبی ہوتا ہے تو پھر ایسے بھی نبی ہیں جو فاتح نہیں.مثلاً حضرت لوط نے کوئی فتح نہیں کی.حضرت ابراہیم نے کوئی فتح حاصل نہیں کی.حضرت نوح فاتح نہیں تھے.حضرت آدم نے بھی کوئی فتح نہیں پائی.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی فتح حاصل نہیں ہوئی.حتی کہ ان کی قوم کی بزدلی نے لڑائی کا موقع ہی نہ آنے دیا اور لڑنے سے انکار کر دیا.رسول کریم کو بیشک کامیابی ہوئی.آپ نے لڑائیاں بھی لڑیں اور فتوحات بھی حاصل کیں لیکن یہ سنت تمام انبیاء کے متعلق نہیں ہے پس معلوم ہوا کہ نبوت سلطنت حاصل کرنے اور فتح پانے کا نام ال نہیں.ایسا ہی ہر نبی کے لئے شریعت لانا بھی ضروری نہیں.کیونکہ اگر شریعت کا لانا ہی نبوت ہو تا تو تمام نبیوں کے پاس شریعتیں ہونی چاہیے تھیں لیکن سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے.بہت سے نبی ایسے ہوئے ہیں جن پر کوئی کتاب شریعت کی نہیں اتری بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ان بے اندازہ نبیوں میں سے صرف چند ہی نبی کتاب لائے تو یہ زیادہ موزوں ہو گا.حضرت ہارون کوئی شریعت نہیں لائے.حضرت یوشع کوئی شریعت نہیں لائے.حضرت داؤد کوئی شریعت نہیں لائے.حضرت زکریا کوئی شریعت نہیں لائے.حضرت یحی کوئی شریعت نہیں لائے.حضرت عیسیٰ بھی ہمارے عقیدہ کے مطابق کوئی شریعت نہیں لائے.ایسا ہی اور بہت سے نبی ہیں جو کوئی شریعت نہیں لائے لیکن اگر شریعت نبوت کے لئے ضروری ہوتی اور ہر نبی تب ہی نبی ہوتا جب کہ اس کے پاس شریعت ہوتی تو پھر ان سب نبیوں کی نبوت کا انکار کرنا پڑے گا جن کے پاس شریعت کا ہونا ثابت نہیں.پس پہلے اس سوال کو عام کر کے اس پر غور کرنا چاہیے کہ نبی کا کام کیا ہونا چاہیے اور پھر حضرت مرزا صاحب کے متعلق اسے پیش کرنا چاہیے.جب تک یہ سوال عام نہ کیا جائے اور یہ تعین نہ کر لیا جائے کہ اس قسم کے سوال سے سوال کرنے والے کی مراد کیا ہے.تب تک یہ فضول ہے کہ اس کے جواب کی طرف توجہ کی جائے.کیونکہ یہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص اپنے خیال کے ماتحت بنی کے

Page 246

241 متعلق کچھ ایسی امیدیں لگائے بیٹھا ہو کہ وہ آئے گا.تو یہ کرے گا وہ کرے گا اور ہوں وہ ساری امیدیں ایسی جو کسی صورت میں بھی نبی کی ذات کے ساتھ وابستہ نہیں کی جا سکتیں.اس لئے جب نبی کے آنے پر وہ پوری نہ ہوں.تو ایسا شخص اس نبی کو نہیں مانے گا اور محض اپنے خیال کے فتور سے وہ تمام رحمتوں کا وارث بننے سے محروم رہ جائے گا.جو اس نبی کے ساتھ آتی ہیں.پس اس سوال کو پہلے عام کرنا چاہیے اور پھر اس قسم کے سوال کرنے والوں کے سوال کی مراد دریافت کرنی چاہیے.بعض لوگ کہتے ہیں ملک کا آزاد کرانا نبی کا کام ہوتا ہے اور ایسے لوگ بھی کسی نبی کو نہیں مان سکتے.جب تک کہ کوئی مدعی نبوت ان کے سامنے آکر ملک کو آزاد نہ کرائے.لیکن ملکوں کا آزاد کرانا کوئی ایسا کام نہیں جو تمام انبیاء میں پایا جاتا ہو.انبیاء کی زندگیوں پر نظر ڈالنے سے بہت سے ایسے نبی نظر آئیں گے جو دوسروں کے ملکوں میں رہتے اور انہیں کے آئین و قوانین کے پابند تھے اور انہوں نے کبھی یہ نہ کہا کہ ہم ملک کو آزاد کرانے کے لئے آئے ہیں.پھر ایسے بھی نبی گزرے ہیں جو اپنے ملکوں میں رہتے تھے لیکن ان کے ملک دوسروں کے قبضہ میں تھے.مگر انہوں نے کبھی یہ نہ کہا کہ ہم دوسروں کا قبضہ اس ملک سے اٹھانے کے لئے مامور ہوئے ہیں.پس معلوم ہوا کہ یہ کام بھی نبیوں کا نہیں کہ وہ ملکوں کو آزاد کراتے پھریں.جب تمام کے تمام نبی نہ حکومت کے لئے آتے ہیں.نہ سلطنت کے لئے.نہ نبی کا فاتح ہونا ضروری ہے اور نہ ہی شریعت لانا تو معلوم ہوا ان کی غرض کچھ اور ہی ہوتی ہے.جب یہ بات ذہن نشین کر دی جائے گی.تو اس صورت میں ہر ایک شخص اس بات کی جستجو کرے گا کہ نبی کے آنے کی اصل غرض کو دیکھے اور جب لوگ اس طرف توجہ کریں گے تو پھر خود مقرر کردہ امر پر نبی کی سچائی بلکہ جس غرض کے لئے کوئی نبی آیا اس غرض کو مد نظر رکھ کر اسے پر کھیں گے.نہ کہ اس وزیر کی طرح کریں گے.جس کا قصہ اس طرح مشہور ہے.ایک مدعی نبوت ایک بادشاہ کے پاس آیا اور آکر کہا.اے بادشاہ میں نبی ہوں مجھے قبول کرو.بادشاہ نے وزیر سے اس کے متعلق پوچھا.وزیر نے کہا کہ اے بادشاہ ابھی فیصلہ ہو جاتا ہے.اور یہ کہہ کر وہ ایک پرانا زنگ خوردہ بگڑا ہوا تالا لے آیا اور کہنے لگا.بادشاہ سلامت اسے کہئے.اگر یہ نبی ہے تو اس کو درست کر دے.بادشاہ نے مدعی نبوت کی طرف دیکھا تو اس نے جواب دیا.میں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے.نہ کہ لوہار ہونے کا.مجھے اگر آزمانا ہے تو نبوت کے کسی کام پر آزماؤ.معلوم ہوتا ہے.اس وزیر کے نزدیک نبی وہ ہو سکتا تھا کہ جو چاہے سو کرے.اسی خیال سے وہ تالا لے

Page 247

242 آیا.ورنہ اگر وہ یہ تعریف نہ سمجھتا تو ایسا نہ کرتا.یہ نبی کے متعلق غلط خیال کا ہی نتیجہ تھا.پس اگر یہ فیصلہ ہو جائے کہ نبی کے کیا کام ہوتے ہیں.تو پھر کسی اور طرف جانے کی ضرورت نہیں رہتی.جس کام کے لئے نبی آتا ہے اسے دیکھنا چاہیے اگر ایک مدعی نبوت اس کام کو کرلے تو یقیناً وہ سچا ہے خواہ لوگوں کے دماغوں میں ہزاروں کام ایسے ہوں.جو نبی نے نہ کئے ہوں.ان سے اس کو کوئی واسطہ نہیں ہو گا اور نہ ہی ان کی بناء پر اس کی سچائی کو یا اس کی آمد کی ضرورت کو پر کھا جا سکتا ہے.پس یہ سوال کہ حضرت مرزا صاحب نے کیا کیا.ہمیں عام کرنا چاہیے اور سوال اٹھانے والوں سے یہ پوچھنا چاہیے کہ وہ نبی کا ایسا کام بتائیں.جو پہلے انبیاء نے کیا ہو.لیکن چونکہ جن لوگوں کو یہ سوال پیدا ہوا اور ہوتا ہے وہ اس وقت میرے سامنے نہیں ہیں کہ میں ان سے پوچھ سکوں اور وہ دوست جس نے یہ سوال میرے سامنے پیش کیا ہے.شائد وہ بھی اس وقت یہاں موجود نہیں.اس لئے میں یہ سوال پیش کر دینے پر ہی اکتفا نہیں کرتا اور نہ اس طرح اپنے آپ کو ذمہ داری سے سبکدوش سمجھتا ہوں اس لئے میں خود ہی بتاؤں گا جن کے رو سے کسی مدعی نبوت کو پرکھا جا سکتا ہے.اس سوال پر غور کرتے ہوئے ہم صاحب شریعت نبیوں کو علیحدہ رہنے دیتے ہیں.رسول اللہ ا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے علاوہ دو اور نبیوں کو مسلمان صاحب شریعت نبی بتاتے ہیں اور زبور اور انجیل دو کتابیں شریعت کی قرار دیتے ہیں.اگر چہ ان کے دیکھنے سے معلوم ہو کہ ان میں کوئی شریعت کی بات نہیں.تاہم ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ ایسے چار نبی ہیں.سلسلہ موسویہ اور سلسلہ محمدیہ کے ان چار نبیوں کو الگ کر لینے کے بعد موسوی سلسلہ میں سینکڑوں ہزاروں انبیاء گزرے ہیں لیکن ان پر شریعت نہیں اتری.حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا علیہ السلام پر کوئی کتاب نہیں اتری.حتی کہ ایک بھی حکم نہیں جو ان پر اترا ہو اور نہ ہی وہ اس بات کے مدعی ہوئے اور نہ ہی مسلمانوں کا ان کے متعلق یہ دعوئی ہے کہ ان پر شریعت اتری.بڑی بڑی تفسیر والوں نے بھی یہی لکھا ہے کہ ان پر کچھ نہیں اترا اور اگر کسی نے کہا بھی کہ ان پر کچھ اترا تو انہوں نے عقلاً اور نقلاً اس کا رد کر دیا.اس طرح شریعت کا سوال تو اڑ گیا کیونکہ یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان لاتعداد انبیاء میں سے سب کے سب شریعت لے کر آئے تھے.بلکہ یہی ثابت ہوتا ہے کہ صرف یہی دو نبی شریعت لائے تھے اور اگر باقی دو کے متعلق بھی تھوڑی دیر کے واسطے ہم یہ تسلیم کر لیں کہ وہ بھی کتاب لائے تو دو کی جگہ چار سہی لیکن باقیوں کے متعلق کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ بھی شریعت

Page 248

243 لائے.پس شریعت کا سوال درمیان سے اڑ گیا اور معلوم ہو گیا کہ ہر نبی کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ شریعت لائے بلکہ بغیر شریعت لانے کے بھی ایک نبی نبی ہو سکتا ہے.کام اب رہا حکومت کا سوال.حضرت بیچی اور زکریا علیہ السلام کے پاس حکومت بھی نہ تھی اور نہ ہی کسی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے متعلق اس قسم کے کام تھے.بلکہ قرآن کریم سے زکریا کے یہ کام معلوم ہوتے ہیں کہ انہوں نے اولاد کے لئے دعا مانگی.حضرت عیسی علیہ السلام کی پرورش اور ان کے متعلق مشورہ میں حصہ لیا.نمازیں پڑھتے ، عبادت گاہوں میں رہتے تھے اور یہ کوئی ایسے نہیں تھے جو دوسرے لوگ نہ کر سکتے تھے.دعا ہے جو ہر ایک شخص کر سکتا اور کرتا ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کی کفالت بھی کوئی ایسی چیز نہیں.ایک وارڈ (Ward) ہے اور وارڈ کوئی ایسی شے نہیں جو نبی ہی کر سکے دوسرا نہ کر سکے.پھر نمازیں پڑھنا اور پڑھانا.عبادت گاہوں میں رہنا یہ بھی ایسی باتیں ہیں کہ ہر ایک شخص کرتا اور کر سکتا ہے.پس ہمیں ان کے متعلق کوئی ایسا کام نظر نہیں آتا جسے دوسرے لوگ کر نہ سکتے ہوں اور دنیا والے بغیر اس کام کے کئے جانے کے رہ نہ سکتے ہوں.ایسا ہی بائبل ہے.اس سے بھی حضرت زکریا کی کوئی ایسی بات نہیں ملتی جو صرف انہی کی ذات سے پوری ہو سکتی ہو بلکہ جتنی باتوں کا پتہ چلتا ہے وہ ایسی ہیں کہ سب لوگ انہیں کر سکتے ہیں.اسی طرح یخنی علیہ السلام کا بھی ایک ہی کام نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ وہ لوگوں کو بتائیں کہ حضرت عیسی آگئے اور وہ بچے ہیں.پس یہ بھی کوئی ایسا کام نہیں کہ دنیا اس کی محتاج ہو اور دوسرے لوگ نہ کر سکتے ہوں.یہی کام حضرت نبی کریم کے وقت حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سعید نے کیا.حضرت یحی کے متعلق اگر سیدا" و حصوراً (آل عمران (۴۰) کہا گیا تو یہ بھی کوئی نرالی بات نہیں.سردار شریف الطبع بھی ہوتے ہیں.اس طرح یہ بات بھی حضرت کی سے خاص نہ رہی اور آنحضرت ﷺ کے متعلق بھی یہ بات پائی جاتی ہے بلکہ درجہ اولی آپ میں ہے اور پھر جو کام حضرت یحییٰ نے نبی ہونے کی حیثیت میں کیا وہی کام آنحضرت ﷺ کے عہد میں غیر نبی اشخاص نے کیا اور لوگوں کو کہا کہ محمد رسول اللہ ا آ گئے اور وہ بچے ہیں اور ایسے لوگوں کے پیشرو حضرت ابو بکر اور حضرت عمر ال و دیگر صحابہ تھے.رہا یہ امر کہ حضرت عیسی کی صداقت کو لوگوں پر ظاہر کیا.تو یہ کام بھی نبیوں کا نہیں کہ وہ کسی دوسرے نبی کی صداقت کو اس طور سے ظاہر کریں.جس طور سے کہا جاتا ہے کہ حضرت یحی" نے کی.کیونکہ اس طرح یہ سوال پیدا ہو گا کہ خود حضرت بیٹی کی صداقت کس نبی نے ظاہر کی.پھر الا

Page 249

244 حضرت موسی کی صداقت کسی نبی نے آکے ظاہر کی.حضرت ابراہیم کی صداقت کسی نبی نے آکے ظاہر کی.حضرت نوح کی صداقت کسی نبی نے آکے ظاہر کی.حضرت آدم کی صداقت کسی نبی نے آ کے ظاہر کی اور پھر دوسرے بے شمار نبیوں کی صداقت کس نے آکے ظاہر کی جو دنیا میں آتے رہے.پس یہ کام بھی نبوت کا کام نہیں بلکہ دوسرے لوگوں کا کام ہے اور نہ ہی یہ کام خاصہ انبیاء معلوم ہوتا ہے کیونکہ جب یہ کام دوسرے لوگ بھی کر سکتے ہیں جو نبی نہیں ہیں اور فی الواقع وہ کرتے رہے ہیں تو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ کام صرف نبیوں کے ساتھ ہی مخصوص ہے.پس اس صورت میں کسی خاص نبی کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کوئی ایسا کام نہیں کر رہا جو دوسرے نہیں کر سکتے اور صرف اس وجہ سے کہ چونکہ دوسرے لوگ بھی وہی کام کر سکتے ہیں جو یہ کر رہا ہے.اس کے ماننے سے انکار نہیں کیا جا سکتا.کیونکہ اگر ایک نبی کے متعلق ہم اس اصل کو قائم کریں گے اور اس کے ماتحت اس کا انکار کریں گے تو یہی اصل ہمیں دوسروں کے متعلق بھی قائم کرنا پڑے گا اور پھر ایک نہیں دو نہیں تمام کے تمام انبیاء کو جواب دینا پڑے گا.لیکن یہ بات قبول نہیں کی جا سکتی ہم باوجود اس کے پہلے نبیوں کے ایسے کام دیکھتے ہیں جو غیر نبی بھی کر سکتے اور کرتے تھے انہیں نبی مانتے ہیں.دراصل انبیاء دنیا میں مادی کام کرنے کے لئے نہیں آتے اور نہ ہی انسان کو مادی طور پر ان کے کاموں کو دیکھنا چاہیے.ان کے سب کام روحانی ہوتے ہیں اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں.حضرت ذکریا، حضرت بیجی، حضرت سلیمان اور حضرت ہارون علیہم السلام اور دوسرے انبیاء کے آنے کی غرض کوئی مادی کام کرنا نہیں تھی بلکہ روحانی کام کرنا تھی.اور پھر وہ بھی کوئی ایسے نہیں جو دوسرے نہ کر سکتے تھے مثلاً قرآن کریم سے ایک ہی کام حضرت ہارون علیہ السلام کا نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ حضرت موسی کی غیر حاضری میں انہوں نے لوگوں سے کہا کہ بت مت پوجو.کیا یہ بات کوئی غیر نبی نہیں کہہ سکتا تھا.پس یہ جو کہا جاتا ہے کہ جو کام مرزا صاحب نے کیا وہ مولوی بھی کر سکتے ہیں.اس لئے انہیں ماننے کی ضرورت نہیں ہم پوچھتے ہیں.حضرت ہارون علیہ السلام نے کون سا ایسا کام کیا جو کوئی غیر نبی نہ کر سکتا تھا کہ انہیں مانتے ہو.امامت تھی وہ غیر نبی بھی کرتے ہیں.پھر انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نیابت کی اور بچھڑا پوجنے والوں سے کہا جلد بازی سے کام نہ لو.حضرت موسیٰ کو آ لینے دو.نبی چھوڑ مولوی چھوڑ ایک عام آدمی بھی یہ کہہ سکتا تھا.پس ان انبیاء کو دیکھ کر یہ معلوم

Page 250

245 ہوتا ہے کہ نبی کا یہ کام نہیں.کہ وہ مادی کام کرے بلکہ اس کے کام روحانی ہوتے ہیں.حضرت ہارون کے متعلق ہرگز یہ پتہ نہیں ملتا.کہ انہوں نے کوئی بڑا کام کیا اور نہ قرآن کریم سے نہ حدیث سے نہ انجیل سے اور نہ ہی کسی اور کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کوئی ایسا تغیر پیدا کیا جسے ہم گنا سکیں.مگر خدا تعالیٰ نے انہیں نبی بنا کر بھیجا اور مسلمان انہیں نبی مانتے ہیں.ایسی صورت میں اگر یہ ثابت ہو جائے کہ حضرت مرزا صاحب نے ایسے کام کئے جو بعض پہلے نبیوں نے نہیں کئے.اور اگر یہ ثابت ہو جائے کہ آپ نے بعض پہلے نبیوں سے کئی گنا زیادہ ایسے کام کئے ہیں اور اگر بعض مادی نتائج بھی نظر آدیں.تو باوجود معترضوں کے اعتراضوں کے ماننا پڑے گا کہ حضرت مرزا صاحب نبی ہیں.اس کے لئے معیار نبوت پر بحث ہوگی ورنہ پہلے اسلام کا انکار کرنا پڑے گا.چونکہ میرے نزدیک انبیاء کے کام مادی نہیں ہوتے روحانی ہوتے ہیں اور ایسے مخفی ہوتے ہیں کہ بعض وقت وہ ظاہر بھی نہیں ہوتے.جیسا کہ حضرت ذکریا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق کوئی پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیوں آئے اور بھی کئی انبیاء ہیں جن کے آنے کے متعلق معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے آنے کی کیا غرض تھی.الفضل ۵ ستمبر ۱۹۲۵ء)

Page 251

246 31 ہم مقامات مقدسہ کی توہین کو نہایت نفرت و حقارت سے دیکھتے ہیں (فرموده مورخه ۴ ستمبر ۱۹۲۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں یہ ارادہ ظاہر کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کاموں کے متعلق کچھ بیان کروں گا لیکن طبیعت آج زیادہ خراب ہے اس لئے میں ایک اور مضمون لیتا ہوں.اس لئے بھی کہ وہ مختصر ہوگا اور اس لئے بھی کہ وہ وقتی معاملہ کے متعلق ہے اور ایک ایسے وقتی معالمہ کے متعلق ہے جو اس وقت نہایت ہی اہم ہو رہا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دوسرے مسلمان ہم احمدیوں کو کافر سمجھتے ہیں اور ایسا کافر سمجھتے ہیں کہ کسی کام میں بھی ہماری شمولیت نہیں چاہتے.لیکن جو تعلقات ہمارے اسلام سے ہیں وہ ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم ان کاموں میں دخل دیں جن کا تعلق اسلام سے ہے اور اس وجہ سے دخل دینے سے باز نہیں رہ سکتے کہ مسلمان کہلانے والے ہم سے ناراض ہیں اور وہ ہمارا دخل گوارا نہیں کرتے.دیکھو اگر ایک بھائی کسی مصیبت میں گرفتار ہو تو اسے اس لئے نہیں چھوڑا جا سکتا کہ وہ ہم سے ناراض ہے بلکہ انسانیت اور شرافت کا یہی تقاضا ہے کہ باوجود اس کی ناراضگی کے بلکہ باوجود اس کے ناپسند کرنے کے پھر بھی اس کی امداد کی جائے اور خاص کر اس وقت جب کہ اس کی مصیبت کا اثر خاندان تک پہنچتا ہو.رسول اللہ ﷺ سے ہمارا ا بنیت کا تعلق ہے وہ ہمارے روحانی باپ ہیں اور ہم ان کے روحانی بیٹے ہیں دوسرے مسلمان بھی آپ سے یہ تعلق رکھتے ہیں اور وہ صحیح معنوں میں رسول کریم کے روحانی بیٹے ہیں یا نہیں.بہر حال وہ دعوی کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے روحانی بیٹے ہیں.پس اگر کسی باپ کے بیٹے آپس میں لڑیں بھی تو جب آپ کی عزت اور حرمت خطرہ میں الله

Page 252

247 ہو اس وقت آپس کی لڑائی کی کوئی پرواہ نہیں کی جا سکتی.چند دن ہوئے ایک سوال پیدا ہوا ہے اور وہ مدینہ منورہ کی لڑائی کے متعلق ہے.اس میں ہمارے دخل دینے سے ممکن ہے مسلمان ناراض ہوں لیکن ہمیں ان کی اس قسم کی ناراضگی کی کوئی پرواہ نہیں ہمارا حق ہے کہ ہم اس معاملہ میں دخل دیں کیونکہ ہم دعوی کرتے ہیں کہ اگر کوئی قوم رسول کریم ﷺ کی سچی فرمانبردار ہے تو وہ ہماری جماعت ہے اگر کوئی جماعت آنحضرت ا کی حقیقی روحانی اولاد اس وقت ہے تو وہ ہماری جماعت ہی ہے.اگر آنحضرت ﷺ کی عزت پر قربان ہو جانے والے کوئی لوگ ہیں تو وہ ہم ہی ہیں پس ہم جو خیالات ظاہر کریں وہ اس حق کی وجہ سے ہیں جو رسول کریم ان سے سے تعلق کے باعث ہمارا ہے اور آپ کے احترام و ادب کی ذمہ داری اگر کسی پر ہے تو وہ ہماری ہی جماعت پر ہے پس ان لوگوں کے کہنے سے ہمارا یہ حق زائل نہیں ہو جاتا اور ہم اسے چھوڑ نہیں سکتے.بہت سے لوگ واقف ہوں گے کہ نجدیوں کی شریفوں کے ساتھ جو لڑائی ہو رہی ہے اس میں نجدیوں کی طرف سے مقامات مقدسہ کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے بعض مقامات کی دیواریں شکستہ ہو گئی ہیں اور بعض کے قبے گر گئے ہیں مسجد نبوی کو بھی نقصان پہنچا ہے.حتی کہ رسول کریم ان کے روضہ مبارک کی عمارت پر بھی اثر پڑا ہے.لیکن افسوس ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے اسے پارٹیوں گروہوں اور فرقہ بندیوں کا سوال بنا لیا ہے ایک فریق مقامات مقدسہ کی توہین کے خلاف اس لئے آواز اٹھا رہا ہے کہ اسے نجدیوں سے عداوت ہے اور دوسرا فریق مقامات مقدسہ کو نقصان پہنچنے سے آگاہ ہوتا ہوا اس لئے نجدیوں کی حمائت کر رہا ہے کہ اسے خاندان شریف مکہ سے عداوت ہے جس کے خلاف نجدی بر سر پیکار ہیں اور جس کی بجائے خود مدینہ پر قابض ہونا چاہتے ہیں اس طرح یہ لوگ اس نہایت اہم اور ضروری معاملہ میں دخل دے رہے ہیں اور وہ چیز جو ان دونوں گروہوں کے مد نظر ہونی چاہیے تھی وہ ان میں نہیں ہے وہ چیز ہے محبت رسول ﷺ اب یہ لڑتے تو ہیں لیکن رسول کریم کی محبت کے لئے نہیں بلکہ اپنی اپنی ذاتی عداوت کے لئے.حالانکہ ایسے موقع پر ان کی یہ روش نہایت ہی معیوب ہے.دیکھو ایک باپ کے بیٹے آپس میں تو لڑ سکتے ہیں لیکن وہ باپ سے نہیں لڑ سکتے اور جب باپ کی عزت اور حرمت کا سوال ہو تو اس وقت ان کی لڑائی نہایت ہی شرمناک ہے.نجدی شریفوں کے ساتھ تو جنگ کر سکتے ہیں اور ان پر گولہ باری بھی کر سکتے ہیں لیکن وہ یہ

Page 253

248 کسی طرح نہیں کر سکتے کہ مقامات مقدسہ کو اس گولہ باری سے نقصان پہنچائیں اور خاص کر مسجد نبوی اور نبی کریم ا کے روضہ مبارک کی ہتک کریں اور دوسرے لوگ بھی اگر ان کے دل میں رسول کریم ان کی عزت ہوتی تو وہ یہ روش اختیار نہ کرتے.اپنی پرانی عداوتوں کی بناء پر ﷺ ایک دوسرے کے خلاف اظہار غصہ کرنے لگ جاتے اور اصل معاملہ کی کوئی پرواہ ہی نہ کرتے.یہ تو مانا نہیں جا سکتا کہ نجدیوں نے جان بوجھ کر روضہ مبارک مسجد نبوی اور دیگر مقامات مقدسہ پر گولے مارے ہوں گے.کیونکہ آخر وہ بھی مسلمان کہلاتے ہیں اور نبی کریم ﷺ کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں اور آپ کی عزت و توقیر کا بھی دم بھرتے ہیں لیکن باوجود ان سب باتوں کے جو کچھ ہوا ہے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ نجدیوں نے جنگ میں صرف اسی بات کو مد نظر رکھا ہے کہ مدینہ ہم نے لینا ہے اور یہ مد نظر نہیں رکھا کہ کسی مقدس مقام کو نقصان نہ پہنچے.انہوں نے یہی خیال کیا کہ ہاشمیوں کو یہاں سے نکال دیں لیکن یہ خیال نہ کیا کہ ہمارے بے تحاشا گولہ باری سے روضہ رسول کریم اللہ اور مسجد نبوی کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے اور دوسرے مقامات پر بھی ضربیں لگ سکتی ہیں اس طرح گو انہوں نے دیدہ دانستہ مقامات مقدسہ کو نقصان نہ پہنچایا ہو مگر ان کی بے احتیاطی سے نقصان ضرور پہنچا.و ہندوستان کے مسلمانوں نے مقامات مقدسہ اور خاص کر روضہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین کی خبروں پر جو رویہ اختیار کیا وہ محض ان کی نفسانی اغراض اور خواہشات کا عکس ہے ان کا ایک گروہ تو وہ ہے جو پیروں کا معتقد ہے یہ تو نجدیوں کے خلاف ہیں جنہیں وہابی کہتے ہیں اور دوسرا گروہ خلافت کمیٹی والوں اور وہابیوں کا ہے جو نجدیوں سے ہمدردی رکھتے ہیں.ایک تیسرا گروہ بھی ہے جو درمیانی ہے وہ دیو بندی ہیں جو کہلاتے تو حنفی ہیں لیکن 99 فیصد وہابی ہیں.پچھلے دنوں جب نجدیوں اور شریفیوں میں لڑائی ہو گئی.پیر پرستوں نے اس بناء پر کہ نجدیوں نے قبے گرا دیئے ہیں.اس سوال کو فرقہ بندی کا سوال بنا دیا اور انہوں نے یہ سب کچھ محض اس لئے کیا کہ نجدی حملہ آور تھے.جو پیر پرستی کے سخت دشمن ہیں اس کے مقابلہ میں دوسری طرف سے بھی فرق نہ کیا گیا جو خاندان شریف کا دشمن ہے اس نے ان سب امور کے جواب کے لئے ایک ہی کام کر دیا اور کہدیا اس قسم کی سب خبریں غلط ہیں مگر دونوں فریق کی نیت صاف نہیں.ایک گروہ تو یہ سب کچھ وہابیوں دیوبندیوں کی مخالفت کے لئے کر رہا ہے اور دوسرا گروہ خاندان شریف کی مخالفت کے لئے.دونوں فریق خواہ کچھ ہی دعوی کریں لیکن ان کے طریق سے یہی معلوم ہو رہا ہے کہ رسول اللہ

Page 254

249 کی محبت درمیان میں نہیں ہے.خلافت کمیٹی کا ایک پرانا حربہ ہے اور وہ یہ کہ سارا قصور دوسرے کے سر پر دھر دیتی ہے میں حیران تھا کہ اس وقت تک اس نے یہ حربہ کیوں استعمال نہیں کیا مگر آخر اس نے اسے چلا ہی دیا.چنانچہ شوکت علی صاحب نے یہ کہہ دیا ہے کہ روضہ رسول ان پر جو گولیاں لگی ہیں.وہ نجدیوں کی نہیں ہو سکتیں بلکہ انہی کی ہوں گی جو مدینہ پر قابض ہیں یعنی ہا شمیوں کی.مگر سوال یہ ہے کہ اگر ہاشمیوں کو یہ منظور تھا کہ دوسرے ممالک کے لوگوں کو نجدیوں کے برخلاف بھڑکائیں تو یہ غرض تو اس طرح بھی پوری ہو سکتی تھی کہ یونسی ایسی باتیں مشہور کر کے لوگوں میں جوش پیدا کرتے رہتے.گولہ باری کر کے اور نقصان پہنچا کر جوش دلانے کی کوئی ضرورت نہ تھی اور اگر مدینہ کے ارد گرد کے لوگوں کو جوش دلانا مقصود تھا تو اس کے لئے خود نقصان پہنچا کر جوش دلانا ناممکن تھا کیونکہ وہ فوراً پتہ لگا سکتے اور خود مدینہ کے لوگ شہادت دے سکتے تھے کہ کس نے گولیاں چلائی ہیں.پس یہ بات قطعاً قابل قبول نہیں ہے کہ ہاشمیوں نے روضہ رسول کریم ﷺ پر گولیاں چلائیں اور اہل مدینہ کے حالات سے تھوڑی بہت واقفیت رکھنے والا یہ خیال بھی نہیں کر سکتا کہ وہ ایسے فعل قبیح کے مرتکب ہوئے ہوں.مدینہ کے لوگوں میں بیشک ہزاروں کمزوریاں ہیں مگر وہ ہمیشہ سے رسول کریم اے کے عاشق اور شیدا چلے آئے ہیں اور تمام تاریخیں اس پر گواہ ہیں اور بڑے زور سے بیان کرتی ہیں کہ وہ آپ کی محبت میں سرشار ہیں اور جو محبت میں اتنے سرشار ہوں ان سے کیا امید کی جا سکتی ہے کہ وہ روضہ مبارک یا مسجد نبوی پر گولیاں چلا ئیں.دراصل یہ خوے بد را بہانہ ہائے بیسار کی مثال ہے کہ جرم تو کسی نے کیا اور الزام دوسروں کے سر پر دھرنے کی کوشش کی جا رہی ہے.چونکہ محبت رسول کا سوال نہیں.امیر علی کی مخالفت کا سوال ہے اس لئے جا و بے جا ہر قسم کی حرکات کی جا رہی ہیں.اس وجہ سے کہ شوکت علی صاحب کے ایک بھائی جو ہمارے ساتھ شامل ہیں انہیں دیکھ کریا اس کی وجہ سے کہ وہ اکثر قومی کاموں میں پیش پیش رہتے ہیں.میں سمجھتا تھا ان کے دل میں رسول کریم ﷺ کی محبت ضرور ہے.لیکن اس واقعہ سے میں سمجھتا ہوں شوکت علی صاحب کے دل میں حب رسول اللہ ہرگز نہیں ہے وہ ایک طرف تو روضہ رسول کی توہین کی تردید کر رہے ہیں اور دوسری طرف یہ تلقین کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کو جوش نہیں دکھانا چاہیے.صبر اور تحمل سے کام لینا چاہیے اور اصل حالات معلوم ہونے تک جو خدا جانے کب معلوم ہوں.ایک لفظ بھی منہ سے

Page 255

250 نکالنا چاہیے میں نہیں سمجھتا اگر کوئی کسی سے آکر کہے کہ تیرے باپ کی قبر گرا دی گئی ہے تو وہ اطمینان سے بیٹھا رہے گا اور کہے گا میں تمہاری بات پر اعتبار نہیں کرتا جب مجھے یقین آجائے گا کہ قبر گرائی گئی ہے تب جا کر دیکھوں گا.بلکہ اسی وقت اس کا چہرہ متغیر ہو جائے گا اور وہ دیوانہ وار بھاگ پڑے گا اسی طرح اگر ایک عورت سے کہا جائے کہ تیرے بچے کو بھینس نے مار دیا ہے تو وہ آرام سے نہ بیٹھی رہے گی بلکہ فورا بھاگ کر اپنے بچے کے پاس پہنچنے کی کوشش کرے گی.حالانکہ بھینس کا بچہ کو مار دینا اتنا قرین قیاس نہیں.جتنا نجدیوں کی گولہ باری سے روضتہ الرسول کو نقصان پہنچنا ہے مگر اس کے متعلق کہا جاتا ہے اطمینان سے بیٹھے رہو.میں ان لوگوں کے ساتھ متفق نہیں جو کہتے ہیں کہ کسی صورت میں بھی حرمین پر حملہ نہیں کیا جا سکتا بلکہ میرے نزدیک ایسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں جن میں حملہ ہو سکتا ہے لیکن مقامات مقدسہ کی حفاظت ہر حال میں لازمی ہے.پہلے زمانوں میں چونکہ تیروں سے جنگیں ہوا کرتی تھیں.اس لئے عمارتوں کا نقصان نہیں ہوا کرتا تھا لیکن اب گولوں کے ساتھ جنگیں ہوتی ہیں جن سے جانوں کا بھی نقصان ہوتا ہے اور عمارتوں کا بھی.اس لئے اب لڑائی کے وقت مقامات مقدسہ کے احترام کو خاص طور پر مد نظر رکھنا ضروری ہے اگر چہ ہم اپنے خیال کے مطابق مجبور ہیں کہ یہ مانیں کہ اللہ تعالیٰ خود حرمین کی حفاظت کرے گا اور انہیں گزند سے بچائے گا مگر جو مقامات مقدسہ کے احترام کا خیال رکھے بغیر گولہ باری کرتا ہے.وہ اپنے خیال میں انہیں گراتا ہے اور باوجود اس عقیدہ کے کہ خدا تعالیٰ انہیں محفوظ رکھے گا ہو سکتا ہے کہ انہیں نقصان پہنچ جائے.کیونکہ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان اپنے اعتقاد کے موافق خیال کرتا ہے کہ ایسا نہیں ہو گا لیکن بعض اسباب ایسے پیدا ہو جاتے ہیں اور بعض ایسے مخفی مصالح ہوتے ہیں جن تک انسانی عقل کی رسائی نہیں ہوتی.اس لئے ان کے ماتحت خیال کے خلاف بات ہو جاتی ہے.مثلا" صحابہ خیال کرتے تھے کہ رسول کریم اتا ہے فوت نہیں ہو سکتے.جب تک تمام کے تمام منافقین دنیا سے نابود نہ ہو جائیں لیکن خدا تعالیٰ کی مصلحت نے ان کا یہ خیال غلط ثابت کر دیا.رسول کریم و تو فوت ہو گئے.لیکن منافق باقی رہ گئے.صحابہ کا یہ خیال ہی اس کی وجہ ہوا کہ حضرت عمر کو حضرت نبی کریم ﷺ کی وفات کے موقع پر تلوار لے کر یہ کہتے ہوئے کھڑا ہونا پڑا کہ جو یہ کہے گا کہ نبی کریم ﷺ فوت ہو گئے ہیں میں اس کا سر کاٹ دوں گا.پس ہم یہ استدلال تو کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالی خود حرمین کی حفاظت کرے گا لیکن اس استدلال کے غلط ہونے کی بھی گنجائش ہے.

Page 256

251 اگر یہ ہماری رائے کہ حرمین کی ظاہری رنگ میں حفاظت ضروری ہے.درست نہیں اور اس کے اندر کوئی اور بات ہو جسے ہم نہ سمجھ سکتے ہوں اور جو ہو ہماری کوششوں سے وابستہ تو ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ یہ فیصلہ کرے کہ مسلمان جب خود نہیں حفاظت کرتے تو ہم کیوں کریں لیکن خواہ کچھ بھی ہو اگر خدانخواستہ روضہ رسول کریم ﷺ کو نقصان پہنچا.تو صدیوں تک مسلمان دنیا کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہیں ہو سکتے.خانہ کعبہ تو کئی دفعہ گرا اور بنا.لیکن رسول کریم لایا ہے کی قبر کو اگر نقصان پہنچا تو پھر اس کا ازالہ نہیں ہو سکتا.الله جب تک جنگوں میں گولے استعمال نہیں کئے جاتے تھے اس وقت اس کا اتنا خطرہ نہیں تھا لیکن اب جبکہ گولوں کا استعمال عام ہو رہا ہے.تو یہ خطرہ بھی پہلے سے زیادہ ہو گیا ہے آج کل کے تو پخانہ کا گولہ تو پچاس پچاس گز زمین اڑا کر لے جاتا ہے اور نہایت گہری خندقیں پیدا کر دیتا ہے.جرمن اور فرانس کی جب لڑائی ہوئی تو اس میں اس قسم کے گولوں نے جو کام کئے ان سے پتہ چلتا ہے کہ جانیں تو جانیں عمارتوں کو بھی نقصان پہنچانے کے لئے یہ ایک نہایت ہی خطرناک شے ہے.جرمنی کے ولی عہد کو لوگ یونہی بد نام کرتے ہیں.دراصل وہ اپنے ملک کا بڑا خیر خواہ تھا.ایک دفعہ جب فرانس کے مقابلہ میں بعض مصلحتوں کی بناء پر جرمنی کو پسپا ہونے کی ضرورت محسوس ہوئی.تو جو افسر انچارج اس وقت تھا اسے ولی عہد جرمنی نے کہا کہ تم فوج کو لیکر نکل جاؤ اور میں دشمن کے حملہ کو روکوں گا.یہ طریق اس لئے اختیار کیا جاتا ہے کہ فوج کا بہت بڑا حصہ صحیح و سلامت پیچھے ہٹ جائے اور تھوڑا سا حصہ دشمن کا مقابلہ کرکے واپس ہونے والی فوج پر حملہ کرنے سے روکے رکھے.یہ کام نہایت خطرناک اور بڑی بہادری کا ہے.ولی عہد جرمنی نے تھوڑی سی فوج کے ساتھ یہ کام اپنے ذمہ لیا اور اس وقت جو طریق فرانس کی فوجوں کو روکنے کا ستعمال کیا وہ یہی تھا کہ گولہ باری کرکے زمین میں اتنے اتنے گہرے گڑھے ڈال دیتا کہ فرانسیسی وہاں پہنچتے تو انہیں گڑھوں سے گزرنے کے لئے پل بنانے پڑے اس طرح انہیں دیر لگ جاتی اور ولی عہد اور پیچھے ہٹ کر پھر گڑھے ڈال دیتا اور بعض موقع پر تو اتنے گہرے گہرے گڑھے پیدا ہو جاتے کہ نیچے سے پانی نکل آتا تھا اور فرانسیسی فوج جب وہاں پہنچتی تو پھر اسے انہیں عبور کرنے کے لئے پل وغیرہ باندھنے پڑتے تھے.اس طرح اس نے فرانس والوں کو روکنے کی کوشش کی تو جو گولے زمین میں اتنے اتنے شگاف پیدا کر سکتے ہیں کہ زمین کے نیچے سے پانی نکل آئے.کیا وہ یہ نہیں کر سکتے کہ روضہ مبارک کو چکنا چور کر دیں بلکہ اس کی زمین تک کو اڑا دیں.پس اگر خدانخواستہ نجدیوں کی اس اندھا دھند گولہ

Page 257

252 باری سے یہی صورت پیدا ہو جائے تو یہ دن مسلمانوں کے لئے موت کا دن ہو گا اور پھر وہ دنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے.میں یہ نہیں کہتا کہ مدینہ پر چڑہائی ہوہی نہیں سکتی.چڑہائی تو ہو سکتی ہے لیکن اس طرح نہیں کہ مقدس مقامات کے احترام کا خیال نہ رکھا جائے.جن سے مسلمانوں کی مقدس روایات وابستہ ہیں.وہاں اس صورت میں چڑہائی ہو سکتی ہے جب کہ وہاں کے لوگ جس کے ماتحت ہوں اس کے خلاف بغاوت کریں.میرے نزدیک اس صورت میں اسلامی احکام کی رو سے جائز ہے کہ وہ حملہ کر دے لیکن ایسے حملے میں بھی ان باتوں کو ضروری طور پر طحوظ رکھنا پڑے گا کہ اس قسم کی عمارات اور دیگر آثار کو نقصان نہ پہنچے مگر اہل مدینہ نجدیوں کے ماتحت نہیں تھے جن پر حملہ کیا گیا ہے اور پھر اس میں اس قدر بے احتیاطی اور لاپرواہی دکھائی گئی ہے.ان نجدیوں سے تو ترک ہی ہزار درجہ بہتر تھے.انہوں نے جب شریف کے بغاوت کرنے کی وجہ سے مکہ پر گولہ باری کی اور ایک گولہ حرم کے قریب جاگرا اور اس کے پردے کو آگ لگ گئی تو اس پر انہوں نے فی الفور ہتھیار ڈال دیئے اور کہہ دیا کہ ہم حملہ نہیں کرتے.تم ہی قابض رہو لیکن نجدیوں نے جو حملہ کیا وہ نا معقول سے نامعقول آدمی کے نزدیک بھی کوئی عمدہ کام نہیں اور پھر ان کی اس گولہ باری کو دیکھ کر جس سے مقامات مقدسہ، مسجد نبوی مسجد و مزار سیدنا حمزہ اور پھر سب سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ کے روضہ مبارک کو نقصان پہنچ رہا ہے.کوئی شخص نہیں جو انہیں اچھا سمجھ سکے یا ان کے حملے کو مناسب خیال کرے.پس نجدیوں کے حملے نے ایک نازک حالت پیدا کر دی ہے اور اس قسم کے خطرہ کی صورت ہو گئی ہے کہ زیادہ نقصانات ہو جانے پر اگر دشمنوں کی طرف سے اعتراض ہوا تو ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہو گا.پس میں اس موقع پر خاموش رہنا پسند نہیں کرتا اور اس خطبہ کے ذریعے یہ اعلان کرتا ہوں کہ ہم نجدیوں کے اس فعل کو نہایت نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور جو لوگ ان کی تائید کر رہے ہیں ان کے سینے رسول کریم ﷺ کی محبت سے خالی سمجھتے ہیں.شوکت علی صاحب اخبارات میں یہ اعلان تو کر رہے ہیں کہ سیٹھ چھوٹانی نے مجھ پر حملہ کیا اور میری ماں کو گالیاں دی ہیں اور اس طرح لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنا چاہتے ہیں.اگرچہ چھوٹانی صاحب نے گالیاں دینے سے انکار کیا ہے.لیکن اگر یہ بات درست بھی ہو تو ان پر حملہ کرنا اور ان کی ماں کو گالیاں دنیا کیا اس سے بھی بڑا ہے کہ مدینہ پر حملہ کیا جائے اور روضہ مبارک کو نقصان

Page 258

253 پہنچایا جائے اور پھر حجازی لوگ تو نجدیوں کے باغی نہیں ہیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مکہ اور مدینہ کی حرمت یکساں ہے ۲.اس پر حملہ کرنا درست نہیں مگر وہ حد لیشوں سے واقفیت رکھتے ہوئے اور اہلحدیث کہلا کر حملہ کرتے ہیں.یہ صرف ان کی نفسانیت ہے اور کوئی شخص نہیں جو ان حالات کے ماتحت یہ کہے کہ ان کی یہ کارروائی درست ہے.ہرگز کوئی عقلمند اسے تسلیم نہیں کر سکتا کہ اہل مدینہ نے نجدیوں کے خلاف بغاوت کی ہے لیکن اگر باغی بھی بغاوت کریں تو بھی میں کہوں گا کہ وہاں گولہ باری نہ کی جائے اور کسی اور ذریعہ سے ان کو مفتوح کیا جائے اور قابو میں لانے کی کوشش کی جائے.مثلا ان کی رسد بند کر دی جائے.ان کا پانی بند کر دیا جائے ان کی دوسری ضروریات کی بہم رسانی بند کر دی جائے اور ایسے طریق استعمال کئے جائیں جو مقامات مقدسہ کو تو نقصان نہ پہنچائیں لیکن ان لوگوں کو مطیع کر دیں ان باتوں کو دیکھتے ہوئے جانتے ہوئے اگر کوئی ایسا نہ کرے تو ظاہر ہے کہ اس کے اندر رسول کریم ﷺ کی محبت نہیں بلکہ نفسانیت ہے جو اسے حملہ کرنے پر اکسا رہی ہے.نجدی جو کچھ کر رہے ہیں.یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں جو معمولی ہو بلکہ یہ واقعہ اسلام کی تاریخ میں نہایت ہی تاریک واقعہ ہے اور اس کے اثرات دیر پا اور ایسے خطرناک ہیں کہ جن کا علاج بعد میں کچھ نہیں ہو گا.اس میں کچھ شک نہیں کہ پہلے زمانوں میں بھی ایک دوسرے پر حملے ہوتے تھے لیکن وہ حملے تیروں اور منجنیقوں سے ہوتے تھے اور ان سے اس قدر نقصان ہونے کا احتمال نہ ہوتا تھا جتنا کہ آج کل کے گولوں سے ہے.اخباروں میں شوکت علی صاحب کے اس بیان کو پڑھ کر تو مجھے بہت ہی تعجب ہوا کہ جو لوگ مدینہ پر قابض ہیں انہیں کی گولیاں روضہ مبارک اور مسجد نبوی وغیرہ مقدس مقامات پر لگتی ہوں گی.میں حیران ہوں کہ شوکت علی صاحب کو یہ کہنے کی جرات کیونکر ہوئی.میرے نزدیک اور نہ صرف میرے نزدیک بلکہ تمام ان مسلمانوں کے نزدیک بھی جو رسول کریم ﷺ سے محبت رکھتے ہیں.نجدیوں کے بالمقابل شریف کے خاندان نے پھر بھی شرافت دکھائی جو یہ کہہ کر مکہ نجدیوں کے حوالہ کر دیا کہ ہم مکہ پر لڑائی نہیں کرتے لیکن تعجب ہے.نجدیوں کی تائید میں کھڑے ہو کر شوکت علی صاحب مکہ کے احترام کی وجہ سے لڑائی نہ کرنے والوں اور مکہ کا قبضہ یونہی دے دینے والوں کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ مدینہ پر آپ گولہ باری کرتے ہیں.کیا اس شخص کے متعلق ایسا تسلیم کیا جا سکتا ہے.جس نے ایک وقت محض ان مقامات کے احترام کی خاطر اور خاص کر ان مقامات کے احترام کی

Page 259

: 254 خاطر جن میں کہ خدا کا رسول پیدا ہوا.چلا پھرا.لڑائی کو بند کر دیا.وہی دوسرے وقت ایسا نا معقول ہو گیا کہ اس سارے ادب و احترام کو بالائے طاق رکھ کر آپ ہی رسول کریم ﷺ کے روضہ پر گولہ باری کرنے لگ گیا.میرے اس کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ میں شریف کا مداح ہوں میں تو پچھلے دنوں شریف کے بعض نقائص اور اس کے طرز عمل کے بعض عیوب اپنے مضمون میں بیان کر چکا ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں کوئی خوبی ہی نہیں.جس طرح دوسرے انسانوں میں خوبیاں بھی ہوتی ہیں اور نقائص بھی.اسی طرح اس میں کئی خوبیاں بھی ہیں اور نقائص بھی اور میں نے نقائص کو نقائص کی جگہ بیان کیا اور خوبیوں کو خوبیوں کی جگہ پر.بہر حال شریف کے لوگوں نے مکہ پر لڑائی نہ کر کے بہت بڑی شرافت سے کام لیا اور پھر ترکوں نے تو اور بھی زیادہ شرافت سے کام لیا کہ باوجود باغیوں پر حملہ آور ہونے کے جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ اتفاقاً ان کا ایک گولہ کعبہ کے پاس جا گرا ہے جس سے اس کے پردے کو آگ لگ گئی.تو انہوں نے جھٹ حملہ چھوڑ دیا اور کہہ دیا ہم نہیں لڑتے.مگر یہ نجدی عجیب ہیں کہ قصور بھی کرتے ہیں اور پھر مکرتے بھی ہیں.پچھلے دنوں ان کا ایک وفد جو ہندوستان میں آیا.ہمارے آدمیوں کے سامنے اس نے خود اقرار کیا کہ بے شک مسجدیں بھی گرائی گئی ہیں.مزارات کو بھی نقصان پہنچا ہے.قبے بھی توڑے گئے ہیں لیکن جب وہ دوسرے لوگوں سے ملے جو نجدی کارروائیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے تو پھر انکار کر دیا کہ کوئی مسجد نہیں گرائی گئی.کسی مزار کو نقصان نہیں پہنچایا گیا.کوئی قبہ مسمار نہیں کیا گیا.یہ سوال کہ قبے جائز ہیں یا نہیں اور بات ہے.رسول کریم کے مقبرے کا سوال سیاسی ہے.یہ سیدھا سادہ مقبرہ ہے.جو اسلئے نہیں بنایا گیا کہ اس کی پرستش کی جائے بلکہ اس کی یہ غرض ہے کہ لوگوں کو شرک سے روکا جائے.کیونکہ ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کے بالکل قریب ہو کر اپنے جوش کو نہ روک سکیں اور قبر سے لپٹ جائیں.یا مٹی سے ہاتھ مل کر منہ پر یا بدن پر پھیرنے لگیں یا بطور تبرک مٹی ہی اپنے ساتھ لے جائیں.جیسا کہ عام بزرگوں کی قبروں کے متعلق ہوتا ہے.اس وجہ سے رسول کریم ﷺ کی قبر کے اردگرد چار دیواری کھینچ دی گئی.تاکہ لوگ اس قسم کے شرک میں مبتلا ہونے سے بچیں اور گنبدوں اور قبوں کا بنانا بھی حفاظتی ہے نہ کہ نمائش کے لئے اور پھر اس زمانہ میں جب کہ ہوائی جہاز نکل آئے ہیں.ان کی اور بھی ضرورت ہے.مثلا اگر ان کو نہ بنایا جائے تو عیسائی یا کوئی اور دشمن اسلام قوم اگر چاہے کہ وہ آنحضرت ا کے مزار کو ہوائی جہازوں اور توپ کے گولوں سے نعوذ باللہ اڑا.

Page 260

255 دے.تو کیا اس کے لئے آسان نہ ہوگا لیکن اس صورت میں جب کہ گنبد وغیرہ سے محفوظ کیا گیا ہے.اس ارادہ کو وہ آسانی کے ساتھ پورا نہیں کر سکتے ایسے موقع پر اگر کوئی کہہ دے کہ یہ شرک ہے یا اس کا بنانا ناجائز ہے.تو درست نہ ہوگا.کیونکہ اس صورت میں نہ یہ ناجائز ہوگا اور نہ ہی شرک بلکہ ضروری ہوگا.یہاں بھی ایک دفعہ جب خطرہ پیدا ہوا تو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار پر کچی چار دیواری کھینچ دی اور اوپر کیلیاں ڈال دیں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ آرائش کے لئے کیا گیا تھا.اس لئے یہ شرک بھی نہیں اور ناجائز بھی نہیں.شرک تو تب ہو تا اگر ہم نے اس پر طرح طرح کی گلکاری کی ہوتی اور بیل بوٹے بنائے ہوتے.اور اسے سجایا بنایا ہوتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بغیر ضرورت کے بنایا ہوتا یہ تو صرف حفاظت کے لئے تھا.نہ کہ شرک کے لئے.پس آنحضرت کا مقبرہ حفاظت کی غرض سے بنایا گیا تھا.ایسا ہی دوسرے مقبروں کے لئے بھی ہے کہ اگر ان کی حفاظت کے لئے ضرورت ہو تو قبے بنانے جائز ہیں لیکن میں کہتا ہوں اگر یہ بھی جائز نہ ہوتا تو بھی نجدیوں کو کوئی حق نہیں ہے کہ قبوں کو مسمار کریں جبکہ بہت سے لوگ موجود ہیں جو ان کا بنانا جائز سمجھتے ہیں.ورنہ جس اصول کے ماتحت نجدی انہیں گرانا چاہتے ہیں.اگر ایسے ہی اصول رکھنے والی قوم کا ہند پر غلبہ ہو جائے تو پھر تو تمام مندر گرائے جائیں.تمام گردوارے مسمار کر دیئے جائیں.تمام گرجے ڈھا دیے جائیں.غرض ہر ایک مذہب کا معبد اور اس کے بزرگوں کے آثار کو توڑ دیا جائے.صرف اس بناء پر کہ یہ ان کے نزدیک جائز نہیں.ہم بھی بلا ضرورت قبے بنانا جائز نہیں سمجھتے.ا اس جگہ بعض طبائع میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر احمدی ایسے موقع پر ہوتے تو کیا کرتے.اس کا جواب یہ ہے ہم اس قسم کی باتوں میں اس طرح دخل نہ دیتے بلکہ وعظ و نصیحت سے سمجھاتے کہ ہر قبر پر قبہ جائز نہیں اور قبروں کی پرستش تو سخت گناہ ہے.نجدیوں کو یہ تو حق ہے کہ وہ اپنے آدمیوں میں سے اگر کسی کو شرک کرتے دیکھیں تو اسے سزا دیں لیکن وہ یہ نہیں کر سکتے کہ غیروں کو سزا دیں یا ان کے ایسے مقامات کی ہتک کریں جو ان کے نزدیک واجب التعظیم ہیں.پس اگر ہمارا تصرف ایسے ملکوں پر ہو جائے.تو ہم ان کو سمجھاتے رہیں گے کہ شرک نہ کریں.لیکن یہ نہ کریں گے کہ ان کو قتل کرنا شروع کر دیں یا ان کی مساجد و مقابر کو گراتے پھریں.گو میں سمجھتا ہوں قبے بنانے ناجائز ہیں مگر ہر جگہ نہیں بلکہ ضرورت کے وقت جائز ہیں.اگر

Page 261

256 ان سے مراد قبر کی حفاظت نہیں تو نا جائز ہیں.یا ان کے لئے ناجائز ہیں جو ہر حال میں ناجائز سمجھتے ہیں مگر خواہ کچھ ہی ہو ان کا یہ کام نہیں کہ ان کو توڑیں.اس معاملے میں ہم نجدیوں کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں کہ قبے بلا ضرورت بنانے نا جائز ہیں اور شرک میں داخل ہیں لیکن اس معاملہ میں ہم ان کے ساتھ اتفاق نہیں کرتے کہ ان کا توڑنا اور گرانا بھی درست ہے.جو شخص جس قوم میں ہے جب تک وہ اس کے اندر ہے اور جب تک وہ اپنے آپ کو کسی اور قوم کی طرف منسوب کر کے بدنام نہیں کرتا تب تک وہ اسی کے عقائد اور خیالات کے مطابق پوچھا جائے گا اور اس کے بقیہ افراد اسے اس بات پر مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ ان باتوں کو ترک کر دے جو اس کے اپنے عقائد کے لحاظ سے بھی درست نہیں لیکن کوئی اور اسے نہیں مجبور کر سکتا مثلاً کوئی شخص اگر احمدی ہو کر قبر پرستی کرے تو ہم اسے مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ اس شرک کو چھوڑ دے اور اس وقت تک ہم اسے مجبور کر سکتے ہیں جب تک کہ وہ اسے چھوڑتا نہیں یا اپنے آپ کو احمدیت سے الگ کر کے کسی اور گروہ کے ساتھ مل نہیں جاتا لیکن اگر ایک حنفی ایسا کرے تو ہمارا کوئی حق نہیں ہم اسے اس سے زبردستی روکیں.حنفی اگر قبے بناتے ہیں تو ان کے خیال کے مطابق وہ درست ہوں گے لیکن ظاہر یہی ہوتا ہے کہ قبوں کا بلا ضرورت بنانا شرک کی ایک قسم کو پیدا کرنا ہے اور نجدی اگر زیادہ سے زیادہ کچھ کر سکتے تھے تو یہ کر سکتے تھے کہ لوگوں کو بشرطیکہ وہاں شرک ہوتا ہو شرک سے روکتے نہ کہ نفسانیت کا شکار ہو کر ان کو توڑتے پھوڑتے اور اس توڑنے پھوڑنے میں ایسے اندھے ہو جاتے کہ مساجد اور روضہ نبوی ﷺ کو بھی نقصان پہنچانے سے خوف نہ کھاتے.اس بات میں نہ کسی حدیث کا دخل ہے اور نہ سنت کا دخل ہے.نہ قرآن شریف کا دخل ہے اور نہ کسی اور بات کا دخل ہے کہ قبے مت بناؤ اور قبروں کو پکا مت کرو اس میں صرف ضرورت کا دخل ہے اگر ضرورت ایسی ہے کہ ان کے بنائے بغیر قبر محفوظ نہیں رہ سکتی تو بہر حال ان کو بنانا پڑے گا.بے شک پکی قبر بنانا منع ہے لیکن اگر کسی جگہ سیلاب آتا ہو یا کوئی اور ایسی بات پیدا ہوتی ہو جس سے لاش کی حفاظت نہ ہو سکتی ہو اور قبر کے گر جانے کا خطرہ لاحق ہو تو وہاں قبر کا پکا بنا لینا جائز ہے اور پھر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسے کیوں پکا بنایا یا اس کے پکا بنانے سے شرک پیدا کیا.کیونکہ اصل غرض تو وہاں لاش کی حفاظت ہے لیکن عام صورتوں میں قبر کا پکا بنانا منع ہے لیکن جس طرح پکی قبر بنانا منع ہے اسی طرح مردہ کو باہر پھینکنا یا اس کی ہتک ہونے دینا بھی منع ہے.اس لئے ہم کہیں

Page 262

257 گے اگر لاش کو نقصان پہنچتا ہے تو پکی قبر بنائی جائے اگر یہ خطرہ ہے کہ کوئی اس کی قبر کو نقصان پہنچائے گا تو اس سے بھی زیادہ حفاظت کر لی جائے خواہ لوہے کا جنگلا بنوا لیا جائے خواہ سیسہ گلا کر ارد ال گرد ڈلوا دیا جائے لیکن اگر کوئی زینت یا آرائش وجہ ہے تو اس کے لئے قبر کا پکا بنانا نا جائز ہے.ہماری ان باتوں کو دیکھ کر نجدیوں کے حامی کہیں گے یہ بھی شریف علی کے آدمی ہیں لیکن اگر رسول اللہ اس کی توقیر کے متعلق آواز اٹھاتے ہوئے شریف کا آدمی چھوڑ کر شیطان کا آدمی بھی کہدیں تو کوئی حرج نہیں.ہم تو رسول اللہ ﷺ کی خاطر سب سے محبت رکھتے ہیں.یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی اگر کوئی محبت رکھتے ہیں.تو صرف اس لئے کہ وہ رسول کریم ان کے غلام تھے اور آپ کو جو کچھ حاصل ہوا.اسی غلامی کی وجہ سے حاصل ہوا حضرت مسیح موعود آپ کی خلیت اور صفات سے ایسا حصہ رکھتے تھے کہ دنیا کے سردار بن گئے بیشک ہم قبوں کی یہ حالت دیکھ کر خاموش رہتے لیکن رسول کریم ان کی محبت اور عزت کی خاطر ہم آواز بلند کرنے کے لئے مجبور ہو گئے ہیں.آج اگر ہماری حکومت ہوتی تو ایک دن کے لئے بھی ہم خاموش نہ رہتے اور فورا" ہم ان لوگوں کو روکتے جو مقامات مقدسہ کی ہتک کر رہے ہیں ہم ان کی لڑائی میں دخل نہ دیتے لیکن انہیں مساجد کے منہدم کرنے اور مقامات مقدسہ کے مسمار کرنے سے باز رکھنے کی ضرور کوشش کرتے.میں اس موقع پر یہ کہنے سے نہیں رک سکتا.کہ شیعوں نے اس وقت اچھا نمونہ دکھایا ہے تمام شیعوں نے اظہار نفرت کیا ہے.ایران کی گورنمنٹ نے تو مصریوں سے بھی پہلے پروٹسٹ کیا ہے اور مصریوں سے زیادہ زور دار کیا ہے.وہاں کے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ہم ہر ممکن کوشش کریں گے کہ ابن سعود کو مقامات مقدسہ کی توہین سے روکیں.مصریوں نے بھی تار دیا ہے لیکن وہ ایرانیوں سے پیچھے بولے ہیں.ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں جس سے ہم نجدیوں کے ہاتھ روک سکیں ہاں ہمارے پاس سہام اللیل ہیں.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ رسول کریم ﷺ کے مزار مقدس اور مسجد نبوی اور دوسرے مقامات کو اس ہتھیار سے بچائیں.ہماری جماعت کے لوگ راتوں کو اٹھیں اور اس بادشاہوں کے بادشاہ کے آگے سر کو خاک پر رکھیں.جو ہر قسم کی طاقتیں رکھتا ہے اور عرض کریں کہ وہ ان مقامات کو اپنے فضل کے ساتھ بچائے.دن کو گڑ گڑا ئیں تاکہ خدا تعالیٰ ان لوگوں کو اس بات کی سمجھ عطا فرمائے کہ ان کے انہدام سے ہاتھ کھینچ لیں کیونکہ ان کے ساتھ روایات اسلامی کا تعلق

Page 263

258 ہے.عمارتیں گرتی ہیں اور ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا لیکن ان عمارتوں کے ساتھ اسلام کی روایات وابستہ ہیں.پس ہمیں دن کو بھی اور رات کو بھی.سوتے بھی اور جاگتے بھی دعائیں کرنی چاہئیں کہ خدا تعالی اپنی طاقتوں سے اور اپنی صفات کے ذریعے ان کو محفوظ رکھے اور ہر قسم کے نقصان سے بچائے.میں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ تفرقہ اور نفاق سے بچو.دیکھو تفرقہ اور نفاق کس قدر نقصان پیدا کر دیتا ہے.یہ بغض کا ہی نتیجہ ہے ورنہ نجدی اگر بغض میں نہ ہوتے اور لڑ نہ رہے ہوتے تو وہ بھی کبھی اس بات کو نہ دیکھ سکتے کہ رسول کریم اپنا کے روضے کی اس طرح تو ہین ہو ان کے دل میں رسول کریم ﷺ کی محبت تو ہے لیکن وہ اس بغض کے نیچے دب گئی ہے.دیکھو ایسا نہ ہو تم میں سے بھی کسی شخص کی محبت بغض کے نیچے دب جائے.اپنے غصوں کو دباؤ.غضب کو پیدا نہ ہونے دو.بغضوں سے دلوں کو خالی کردو اور اپنی ہر حرکت و سکون شریعت کے ماتحت رکھو اور تمہاری روحانیت تمام جوشوں پر اور تمام غموں پر غالب رہے تا ہم سب خدا کی حفاظت میں ہوں اور اس کے ناراض کرنے والے کاموں سے بچیں.آمین ا سیرت ابن ہشام القسم الثانی مقالته عمر بعد وفاة الرسول الا مسلم بردایت مشکوة کتاب المناسك باب في حرم مكه والمدينه (الفضل ۱۰ ستمبر ۱۹۲۵ء)

Page 264

259 32 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے کارنامے (فرموده ۱۸ ستمبر ۱۹۲۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں نے پچھلی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان کاموں میں سے ایک کام بتایا تھا جسے علماء نہیں کر رہے تھے اور اگر کوئی علماء میں سے کر بھی رہے تھے تو وہ وہی تھے جو قرب نبوت کی وجہ سے ایک نبی کی شعاعوں کو اپنے قلب میں جذب کر رہے تھے.آج میں ایک دو سرا کام بتاتا ہوں کہ وہ بھی سینکڑوں سالوں سے بغیر کئے پڑا تھا.علماء اسے دیکھتے تھے لیکن باوجود دیکھنے کے اسے کرتے نہیں تھے.اس کے نتائج دیکھ رہے تھے لیکن یا تو وہ اس کی اصلاح کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے تھے یا اگر اصلاح کی طرف توجہ کرتے تھے تو ایسی طرح کہ وہ اور بھی خراب ہو جاتا تھا اور یہ وہ کام ہے جس کے لئے قرآن کریم بتاتا ہے کہ انبیاء آئے اور وہ توحید کا مسئلہ ہے.شروع سے لے کر آخر تک قرآن کریم کو پڑھ جاؤ.اس میں کوئی بھی رکوع ایسا نہیں ملے گا جس میں اگر تفصیلا " نہیں تو اجمالاً اور اگر اجمالاً نہیں تو اشارۃ" شرک کا رد نہ کیا گیا ہو اور جتنے انبیاء بھی آئے وہ بھی سب دنیا کو یہی کہتے رہے کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ.پس یہی وہ بہت بڑا کام ہے جس کے لئے انبیاء دنیا میں آتے رہے ہیں یا یوں کہو کہ نبیوں کے بڑے بڑے کاموں میں سے یہ ایک بڑا کام ہے جسے وہ دنیا میں آکر کرتے ہیں جہاں یہ ایک بڑا کام ہے.وہاں یہ ایک نہایت ضروری کام بھی ہے.کیونکہ اگر لوگ خدا تعالیٰ کے متعلق یہ یقین کرنے والے نہ ہوں کہ وہ واحد ہے اور اس کے کاموں میں اس کی طاقتوں میں اور اس کی صفات میں اس کا کوئی شریک نہیں تو پھر دنیا میں ایمان پیدا بھی نہیں ہو سکتا اور دنیا اس طرح امن میں بھی نہیں رہ

Page 265

260 سکتی.جس طرح کہ خدا تعالیٰ کو واحد ماننے سے رہ سکتی ہے.اسے پھر خدا کے ساتھ نہ وہ محبت ہو سکتی ہے جو ہونی چاہیے اور نہ ہی اس قدر خوف اس کے دل میں پیدا ہو سکتا ہے کہ وہ اس کی وجہ سے برائیوں سے بچے اور نیکیوں کے کرنے کی حرص اس میں پیدا ہو.پس نبیوں کا بڑا اور پہلا کام یہی ہوتا ہے کہ وہ خدا کے متعلق دنیا کو یہ یقین کرا دیں کہ وہ جو کچھ ہے.اکیلا ہی ہے اس کے ساتھ کوئی اور ساتھی نہیں.یا اس جیسا کوئی اور خدا نہیں.کیونکہ نبیوں کے دنیا میں آنے کی بڑی غرض یہی ہوتی ہے کہ وہ خدا کی وحدانیت کو دنیا میں پھیلا دیں اور دنیا جو شرک کی راہ پر جا رہی ہے اسے اس سے ہٹا کر توحید کی سڑک پر چلا دیں.دوسرا کام خدا تعالیٰ کی صفات کے متعلق ہوتا ہے.اور وہ یہ ہوتا ہے کہ دنیا میں یہ ایمان پیدا کر دیں کہ خدا کے سوا اور کوئی معبود نہیں.اگر عبادت کے لائق کوئی ہے تو وہی ایک ذات ہے جس نے دنیا کو پیدا کیا.انسانوں کو بتایا اور پھر ان کی ضروریات کے سامان مہیا کئے.پس حضرت آدم سے لے کر رسول کریم ﷺ تک جس قدر بھی انبیاء گزرے ہیں.سب کی تعلیم کے اندر ایک یہی مسئلہ ملے گا.جو نہایت اہم ہے کہ خدا پر یقین لاؤ اور اسے ایک سمجھو.چونکہ خدا کو ایک وہی جانے گا جو اسے مانتا ہے.اس لئے انبیاء خدا تعالی کو منواتے بھی ہیں اور کئی طرح کے دلائل پیش کر کے دنیا پر اسے ظاہر بھی کرتے ہیں اور جب دنیا اس بات پر ایمان لے آتی ہے کہ واقعی کوئی خدا ہے جو اس سب کا روبار کا مالک ہے تو پھر وہ اس کی وحدانیت منواتے ہیں.چنانچہ قرآن شریف میں یہی نقطہ مرکزی ہے اور اسی پر سارے انبیاء کام کرتے ہیں اور اس کے اندر سب کچھ آجاتا ہے کیونکہ یہ ایک ایسا اہم مسئلہ ہے جس کے بغیر نہ ایمان پیدا ہو سکتا ہے اور نہ روحانیت پیدا ہو سکتی ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے قرب میں جانے کی کوئی امید ہی نہیں پیدا ہو سکتی.رسول کریم ان کو اس کے متعلق اس قدر جوش تھا کہ آپ کے مخالف بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ آپ اٹھتے بیٹھتے.چلتے پھرتے ہر وقت خدا ہی خدا پکارتے تھے.چنانچہ فرانس کا ایک مؤرخ لکھتا ہے اور خواہ کچھ کہو اور کوئی بھی الزام محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر لگاؤ.لیکن مجھے تو ایک بات ایسی اس میں نظر آتی ہے کہ جب سے دنیا قائم ہوئی ہے.تب سے کسی شخص میں دیکھی نہیں گئی.اور وہ یہ ہے کہ جس وقت سے اس نے نبوت کا اعلان کیا ہے اس وقت سے لے کر موت کے وقت تک ایک ہی لفظ اس کی زبان پر رہا اور وہ اللہ کا لفظ تھا.گویا اسے ایک دھن تھی.اور جنون تھا کہ خدا کو منوانا ہے اور اسے دنیا میں ظاہر کرنا ہے.

Page 266

261 ال اور پس وہ لوگ جو آنحضرت ﷺ کے اس کام کو جنون کہتے ہیں کہ آپ ہر وقت خدا کہتے رہے وہ بھی اس بات کے تو قائل ہیں کہ آنحضرت ا کا اہم ، بڑا اور پہلا کام خدا کو اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو منوانا تھا.یہ جنون ہی سہی مگر یہ وہی چیز ہے کہ اس جنون کے رکھنے والے کو بعد کے لوگوں نے کامل سمجھا اور اگر کامل نہ سمجھا تو کم از کم اتنا تو یقین کیا کہ ایسا شخص برا نہیں ہو سکتا جو دن رات خدا خدا کرتا رہے اور اس کو اس کی وحدانیت کو اور اس کی صفات کو منوانے کی دھن میں، ہر وقت لگا رہے بہر حال آنحضرت ﷺ کی اس حالت کو دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی اور تمام انبیاء کی دنیا میں آنے کی غرض یہی ہوتی ہے.کہ شرک مٹائیں اور خدا تعالیٰ کو منوائیں.اس کی وحدانیت کو دنیا میں پھیلا دیں.اسی کام کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی مبعوث ہوئے.جس وقت حضرت مسیح موعود مبعوث ہوئے.آپ کے آنے سے پہلے شرک ایسا پھیل گیا تھا کہ توحید گویا کبھی دنیا میں آئی ہی نہ تھی اور آپ کے ذریعے خدا نے پھر توحید قائم کی.خدا تعالیٰ کی محبت مسلمانوں کے دلوں سے اٹھ گئی تھی.نہ صرف وہ ایمان اس پر نہیں رہا تھا جو آنحضرت نے پیدا کیا تھا بلکہ لوگ اسے چھوڑ کر اوروں کی پرستش میں لگے ہوئے تھے.اس کی وحدانیت کو بھی بھلا بیٹھے تھے.حضرت مسیح موعود جب تشریف لائے.تو آپ نے خدا کے حکم کے ماتحت سعید روحوں کو صراط مستقیم دکھلایا.ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت ڈال دی اور شرک سے ہٹا کر اس کی طرف لگا دیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی توحید کو دنیا میں پھیلا دیا.اور اب جب تک مسلمان کہلانے والے آپ کے بتائے ہوئے طریق پر نہیں چلیں گے اور اپنے خیالات اور اعتقادات کی اصلاح نہ کریں گے.تب تک اس شرک سے نکل کر جس میں وہ پھنسے ہوئے ہیں توحید پر قائم نہیں ہو سکیں گے.غرض دنیا آپ کے آنے سے پہلے طرح طرح کے شرکوں میں پھنسی ہوئی تھی اور تو اور خود مسلمان بھی اس سے نہیں بچے ہوئے تھے.خدا کو چھوڑ کر دوسروں کے پیچھے لگ گئے تھے.کوئی نہیں تھا جو انہیں سیدھا راستہ دکھاتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مبعوث ہو کر شرک سے بچنے کا طریق بتایا.اور خدا تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کیا.ممکن ہے.کوئی کہہ دے وہابی بھی تھے جو شرک مٹا رہے تھے.قبروں کی پرستش سے روکتے تھے.قبروں پر دیے جلانے سے منع کرتے تھے.مردوں سے حاجتیں طلب کرنے اور مرادیں

Page 267

262 مانگنے کے خلاف تھے.پھر حضرت مرزا صاحب کی شرک کے خلاف آواز بلند کرنے میں کیا خصوصیت ہوئی لیکن یہ کہنے والے اتنا نہیں سوچتے کہ اگر وہابیوں کے اس قسم کے خیال اس بات کی دلیل ہو سکتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب نے کوئی ایسا کام نہیں کیا تو پھر ایک عیسائی کے لئے یہ گنجائش ہے کہ وہ کہدے تاریخوں سے ثابت ہے کہ آنحضرت ا سے پہلے کئی آدمی تھے.جو توحید کی تعلیم دیتے تھے...پس جب ان سے پہلے بھی توحید کی تعلیم دینے والے موجود تھے تو آنحضرت ﷺ کی اس میں کیا خصوصیت ہوئی مثلاً آنحضرت ﷺ سے پہلے توحید کی تعلیم دینے والوں میں سے حضرت عمر کے چچا تھے جو بتوں کی پرستش سے ہٹا کر لوگوں کو خدا کی پرستش کے لئے کہتے تھے.اور انہیں اس پر گھمنڈ بھی تھا کہ میں توحید کی تعلیم پھیلا رہا ہوں.اگر خدا نے نبی بنانا ہو تا تو مجھے بنا تا.اس کا جو جواب عیسائیوں کے لئے ہو گا.وہی جواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق ہمارا ہے اور جس طرح آنحضرت ﷺ ہی باوجود توحید کے تعلیم دینے والوں کے ہوتے ہوئے حقیقی طور پر توحید کے تعلیم دینے والے تھے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی باوجود ان لوگوں کے موجود ہونے کے (اگر ان کے متعلق یہ مان بھی لیا جائے کہ وہ توحید کے دیتے تھے) حقیقی طور پر تعلیم توحید دینے والے تھے مگر میں جانتا ہوں کہ مولوی لوگ آنحضرت کے متعلق عیسائیوں کے اس سوال کا صحیح جواب نہیں دے سکیں گے.اس لئے وہ جو اب الليل بھی میں خود ہی دے دیتا ہوں.بات دراصل یہ ہے کہ لوگوں کا منہ سے کہہ دینا شرک نہ کرو اور توحید پر قائم رہو اور توحید فی الواقع پھیلانا ان دونوں باتوں میں بہت بڑا فرق ہے اور اتنا ہی فرق ہے.جتنا ان باتوں میں ہے کہ ایک شخص تو بیمار سے کہے میاں علاج کر اور دوسرا اسے بیماری کا نسخہ لکھ کر دے دے کہ اسے استعمال کر.وہ لوگ جو آنحضرت ا سے پہلے توحید پھیلاتے نظر آتے ہیں.وہ صرف علاج کرو کہتے تھے.لیکن رسول کریم ﷺ نے آکر نسخہ لکھ دیا اور بتایا کہ توحید یہ ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے بھی لوگ یہ کہتے تھے کہ شرک نہیں کرنا چاہیے اور توحید کا قائل ہونا چاہیے لیکن وہ جانتے نہیں تھے کہ توحید کیا ہے.ایسے لوگوں میں سب سے پیش پیش وہابی تھے مگر انہیں حقیقی توحید سے کوئی تعلق نہ تھا.کیا وہ لوگ بھی توحید سمجھ سکتے ہیں جو یہ مانیں کہ حضرت مسیح ناصری نے بھی پرندے پیدا کئے تھے.حالانکہ خلق کرنے کی صفت صرف خدا تعالیٰ ہی کی ہے.پھر کیا وہ لوگ توحید کی حقیقت پا سکتے ہیں.جو یقین

Page 268

263 رکھتے ہوں کہ مسیح ناصری مردے زندہ کیا کرتے تھے.حالانکہ دنیا میں مردوں کا زندہ ہونا سنت اللہ کے خلاف ہے.پھر کیا وہ لوگ توحید جان سکتے ہیں جو ایک انسان میں دیگر خدائی صفات مانتے ہوں.مثلاً ان وہابیوں کے نزدیک حضرت مسیح کو بھی اسی طرح علم غیب حاصل تھا.جس طرح خدا تعالیٰ کو ہے.چنانچہ وہ کہتے ہیں حضرت مسیح علیہ السلام لوگوں کا روزانہ کھایا پیا بتا دیا کرتے تھے.بے شک وہ یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح یہ سب کچھ باذن اللہ کرتے تھے.لیکن مشرکین میں سے کون ہے جو باذن اللہ نہیں لگاتا.عیسائی - ہندو اور دوسرے تمام اس قسم کے عقائد رکھنے والے سب یہی کہتے ہیں کہ جنہیں وہ خدا کا شریک بناتے ہیں.وہ سب باذن اللہ خدائی کا کام کرتے ہیں پس جب مشرک بھی باذن اللہ کہتے ہیں اور باوجود باذن اللہ کہنے کے ان کے اس قسم کے کاموں اور عقیدوں کو دیکھ کر انہیں مشرک کہا جاتا ہے.تو کیا وجہ ہے کہ مسلمان کہلانے والوں کو مشرکانہ عقائد رکھنے کی وجہ سے اس لئے مشرک نہ کہا جائے کہ وہ حضرت مسیح کے متعلق باذن اللہ کے الفاظ لگاتے ہیں.بات یہی ہے کہ دونوں مشرک ہیں ایک پر ذرا پردہ پڑا ہوا ہے اور دوسرے پر بالکل نہیں.البتہ زر لتشتی کہتے ہیں کہ خدا دو ہیں ایک نیکی کا خدا اور دوسرا شرکا.لیکن ان کی کتابوں میں بھی لکھا ہے کہ آخر شر کا خدا تباہ ہو جائے گا اور نیکی کا خدا رہ جائے گا.پس بدی کے خدا کی ہلاکت بتاتی ہے کہ وہ کسی اور کے ماتحت ہے.جو اس کو ہلاک کر دے گا.اسی طرح جو باقی رہ جائے گا وہ نیکی کا خدا ہو گا.اصل خدا ہر مزکو مانتے ہیں اور اہرمن اور یزدان دو اور خدا قرار دیتے ہیں مگر ان کے کام جو بتاتے ہیں.ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو جبرائیل اور عزرائیل کی طرح سمجھتے ہیں.یعنی جبرائیل اور عزرائیل فرشتوں کو انہوں نے یہ نام دے دیتے ہیں اور بطور خدا ان کو مانا شروع کر دیا ہے.اصل میں وہ بھی ایک ہی خدا قرار دیتے ہیں لیکن باوجود اس کے اذن اللہ کہنے کا ہر ایک میں دستور پایا جاتا ہے.حتی کہ مشرک مقلد قبروں پر سجدے کرنے والوں میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے.تو اذن اللہ کہنے والوں کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس طرح وہ مشرک نہیں ہوتے.سید عبد القادر جیلانی کے مرید بھی یہی اذن اللہ کہا کرتے ہیں مگر ان کے مشرکانہ خیالات سے کون ناواقف ہے.پس وہابیوں کا فریق بڑا ہی توحید کا مدعی تھا اور ہے مگر وہ بھی شرک سے پر ہے جیسا کہ ابھی میں نے ان کے حضرت مسیح کے متعلق عقائد سے بتایا ہے.یہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی تھے.جنہوں نے خاص توحید کو پیش کیا اور مسیح علیہ السلام کی حیات کی تردید کر کے اس شرک کو مٹا دیا.جو اس مسئلے کی وجہ سے عام طور پر کچھیلا ہوا تھا.

Page 269

264 شائد بعض لوگ کہہ دیں گے سرسید احمد خان صاحب بھی حضرت عیسیٰ کی وفات کا قائل تھا.لیکن اس میں بھی فرق ہے.سرسید اس لئے وفات مسیح کے قائل نہ ہوئے تھے کہ اس سے خدا تعالیٰ کی توحید پر اثر پڑتا ہے بلکہ اس لئے تھے کہ موجودہ زمانہ کی سائنس حضرت مسیح کی حیات کے خلاف تھی.پس انہوں نے بھی اس مسئلے کی توحید پر بناء نہیں رکھی.بلکہ نیچریت پر رکھی ہے.دیکھو ایک دہریہ اور نیچری خدا کو نہیں مانتا.وہ بھی وفات مسیح کا قائل ہو گا اور وہ ان معجزات کو بھی نہیں مانے گا.جو حضرت مسیح کے متعلق بیان کر کے انہیں خدائی صفات میں شریک بنایا جاتا ہے لیکن اس سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ توحید الہی کی وجہ سے ایسا کرتا ہے یہی حال سرسید احمد خاں کا تھا.پس ایک شخص تو اس لئے مسیح کی حیات کا انکار کرتا ہے کہ خدا ہی نہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس لئے اس کا انکار کرتے ہیں کہ خدا ہے اور اس کا قانون یہ ہے کہ سب کو وفات دے.سرسید یورپ کے اعتراضات سے بچنے کے لئے حیات مسیح کا انکار کرتا تھا.لیکن حضرت مرزا صاحب خدا تعالیٰ کے جلال کے لئے ایسا کرتے ہیں اور ان دونوں باتوں میں بہت بڑا فرق ہے.دیکھو اگر کسی جگہ کچھ اسباب پڑا ہو.اور اور ایک شخص اسے اٹھا لے کہ میں اس کے مالک کے گھر پہنچاؤں اور ایک اس لئے اٹھائے کہ میں اسے اپنے گھر لے جاؤں.تو ایسے شخص ہرگز برابر نہیں ہو سکتے.سید احمد صاحب نے اگر ایسی کوشش کی تو صرف یورپ والوں کے اعتراضات سے بچنے کے لئے لیکن حضرت مرزا صاحب نے خدا کا جلال ظاہر کرنے کے لئے یہ کام کیا.گو کام ایک ہی ہے.لیکن نتائج کے لحاظ سے ان میں زمین آسمان کا فرق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت تو دینی کہلائے گی.اور سرسید کی قومی تو کہلائے گی لیکن دینی نہیں کہلا سکتی.پس جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا کی توحید کو قائم کیا.اس زمانہ میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں اور یہ صرف نبیوں کا ہی کام ہے.شائد بعض یہ کہیں کہ یہ جو کچھ مرزا صاحب نے کیا.سب کچھ قرآن شریف میں موجود تھا مثلاً قرآن پکار پکار کر وفات مسیح کا اقرار کر رہا تھا.پھر مرزا صاحب نے کیا کیا.مگر سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب کچھ قرآن شریف میں موجود تھا.تو مولویوں نے کیوں نہ نکال لیا اور کیوں نہ اسے دنیا میں پیش کیا اور اس سے کام لیا.اس سے تو مولویوں کی اور بھی زیادہ بیوقوفی کا ثبوت ملتا ہے کہ ایک چیز جس کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ موجود تھی لیکن باوجود اس کے موجود ہونے کے انہوں نے اسے استعمال نہ کیا.افسوس ہے کہ مولویوں کے سامنے قبر پرستی ہوتی رہی.مولویوں کے سامنے لوگ بت

Page 270

265 پرستی کرتے رہے.مولویوں کے سامنے لوگ درختوں پر ٹونے کرتے رہے.پتھروں پر ٹونے کرتے رہے.گدھوں تک کی قبروں کی پرستش کی جاتی رہی لیکن وہ نہ روک سکے اور اب جب کہ حضرت مرزا صاحب نے شرک کو مٹانے والی کئی لاکھ کی جماعت کھڑی کر دی.کہتے ہیں مرزا صاحب نے کوئی نیا کام آکے نہیں کیا اور توحید کو قائم نہیں کیا.اس وقت جبکہ سب کچھ ہو رہا تھا انہوں نے کیا کیا.نہ قرآن سے ہی انہیں وہ کچھ نظر آیا جو حضرت مرزا صاحب نے نکال کر ان کے آگے رکھ دیا اور نہ ہی وہ طریق معلوم ہوئے جن پر چلتے ہوئے حضرت مرزا صاحب نے شرک کی بیخ کنی کی.مگر اب کہنا شروع کر دیا کہ یہ سب کچھ قرآن شریف میں موجود تھا.موجود تو تھا مگر تم نے اس سے کیا فائدہ اٹھایا.کیا تم نے اس کے ذریعہ دنیا کو شرک سے روکا.روکنا کیا تھا.مولوی بیچارے تو آپ ہی قبروں پر چراغ جلاتے تھے اور کئی قسم کے شرکوں میں مبتلا تھے اور ان میں سے جس کسی نے اس کے بر خلاف کچھ کیا وہ بھی دھڑا بندی سے کیا نہ کہ توحید کے لئے.اگر وہابی خدا تعالیٰ کی توحید قائم کرنے کے لئے قبروں وغیرہ کی پرستش سے روکتے تو حضرت مسیح کو ہرگز زندہ نہ مانتے.وہ چونکہ ایسے بزرگوں کے قائم مقام تھے جو اس قسم کے کام کرتے تھے.اس لئے ورا منا یہ کام کرتے تھے اور اپنے آباء کو دیکھ کر ایسا کرتے تھے نہ کہ فی الوقع انہیں توحید کا خیال تھا.وہ چونکہ ان لوگوں کی اولاد تھے جنہوں نے توحید کو پھیلایا.اس لئے ان میں یہ باتیں تھیں.اگر مقلدوں کے ہاں پیدا ہوتے تو یہ بھی مقلد ہی ہوتے.پس ان کا اتنے ہی پر خوش ہونا اور جب حقیقی علاج بتایا گیا.تو اس پر بگڑنا اور ایسا علاج جتانے والے کی مخالفت کرنا بتلاتا ہے کہ وہ توحید پر عقیدة" نہیں تھے.بلکہ رسما " تھے لیکن حضرت مرزا صاحب عقیدة" اس پر قائم تھے اور لاکھوں انسانوں کو قائم کر دیا.حضرت مسیح موعود نے اور کام بھی کئے اور توحید کو بھی پیش کیا.اور خدا کے بتائے ہوئے طریق کے ماتحت اس طرح پیش کیا کہ دنیا کا حال ہی بدل گیا.لوگ شرک میں پھنسے ہوئے تھے.ان کے ہر عقیدہ میں شرکیہ باتیں داخل ہو چکی تھیں.مگر آپ نے عقائد کی بھی اصلاح کی اور عملی طور پر بھی لوگوں کو شرک سے بچایا کیا کوئی مولوی ایسا کر سکتا تھا.یا کسی مولوی نے ایسا کیا.غالبا یہ کہہ دیا جائے گا کہ مولوی بھی ایسا کر سکتے ہیں لیکن کر سکنے کا سوال نہیں کرنے کا سوال ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود کے متعلق کر لینے کا ثبوت موجود ہے.بات یہ ہے کہ چونکہ کامل توحید انبیاء کے ذریعہ ہی آتی ہے اور عقل سے نہیں بلکہ خدا سے علم پا کر آتی ہے.اس لئے انبیاء ہی اس کے لئے

Page 271

266 آتے ہیں اور انبیاء ہی اسے حقیقی طور پر قائم کر سکتے ہیں.پس حضرت مرزا صاحب نے بھی چونکہ اصل توحید قائم کی اور دوسرے کسی کو اس کی توفیق نہ ہوئی.اس لئے آپ سچے نبی تھے.کیونکہ آپ ہی شرکیہ عقیدوں کو بدل کر توحید کو لوگوں میں پیدا کر سکے.آج میں نماز کے بعد تین جنازے پڑھاؤں گا پہلا جنازہ میاں غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل کے بھائی کا ہے.جو چین میں فوت ہوئے ہیں.میں نے کہا ہوا ہے میں ان احمدیوں کے جنازے پڑھایا کروں گا.جو کسی ایسی جگہ فوت ہوں جہاں جنازہ پڑھنے والے موجود نہ ہوں یا اگر ہوں تو بہت کم تعداد میں ہوں.جنازہ اپنے مرنے والے بھائی کی ایک خدمت ہے اور چونکہ ایسی جگہ جہاں احمدیوں کی کافی تعداد نہ ہو.فوت ہونے والے احمدی کا جنازہ اس وجہ سے کم لوگ پڑھنے والے ہوتے ہیں کہ وہ احمدی تھا اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم ایسے بھائی کی آخری خدمت کریں.اس وجہ سے یہ جنازہ پڑھاؤں گا.دو سرا جنازہ حکیم فضل الرحمن صاحب کی والدہ کا ہے.حکیم صاحب دینی خدمت کے لئے افریقہ گئے ہوئے ہیں اور پیچھے ان کی والدہ فوت ہو گئی ہیں.اس لئے ان کا بھی حق ہے کہ ان کی والدہ کا جنازہ پڑھا جائے تاکہ ان کے دل میں نہ گزرے کہ میں اپنی ماں کا جنازہ نہ پڑھ سکا.تیرا جنازہ مولوی فضل کریم صاحب کے بھائی عبد الکریم صاحب کا ہے جو قلعہ صوبہ صوبہ سنگھ میں فوت ہوئے ہیں.وہ وہاں کے انجمن کے پریذیڈنٹ تھے اور پرانے آدمیوں میں سے تھے.سلسلہ کے کاموں میں گہری دلچسپی لیتے تھے.میں نماز کے بعد یہ تین جنازے پڑھوں گا.سب دوست ان میں شامل ہوں.ا بخاری کتاب مناقب الانصار باب حدیث زید بن عمرو بن نفیل.(الفضل ۲۶ ستمبر ۱۹۲۵ء)

Page 272

267 33 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے کارنامے (فرموده ۲۵ ستمبر ۱۹۲۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں نے اس امر کے متعلق پچھلے جمعہ کے خطبہ میں کچھ بیان کیا تھا کہ بتلوا عليهم اینک کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق کیا کچھ تعلیم دنیا کے سامنے پیش کی.وہ تعلیم قرآن کریم میں تو ہے اور رسول اللہ ﷺ نے دنیا کے سامنے رکھی تھی.لیکن بعد کے لوگ جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا.نبوت کے بعد کی وجہ سے اسے بھول گئے تھے اور باوجود اس کے کہ علماء موجود تھے.باوجود اس کے کہ فاضل موجود تھے.باوجود اس کے کہ پیر موجود تھے.باوجود اس کے کہ صوفی موجود تھے.مگر پھر بھی وہ قرآن شریف سے اس کو نکال نہ سکے اور دنیا کے سامنے پیش نہ کر سکے.نیز میں نے بتایا تھا کہ جب کہ ایسی تعلیم بھی موجود تھی اور جب کہ ایسے لوگ بھی موجود تھے جو اپنے آپ کو علماء میں سے گنتے تھے اور فاضل یا پیر یا صوفی یا مولوی کہلاتے تھے اور پھر بھی وہ کچھ نہ کر سکے.اور دنیا کے سامنے اس تعلیم کو قرآن کریم سے اخذ کر کے پیش نہ کر سکے.دنیا ان کے سامنے تباہ ہو رہی تھی مگر وہ کچھ نہ کر سکے.دنیا ان کے دیکھتے دیکھتے شرک میں مبتلا ہوتی چلی گئی مگر وہ اس کا کوئی علاج نہ کر سکے.تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں ضرورت تھی کہ خدا کی طرف سے کوئی آئے تا قرآن شریف سے اس تعلیم کو پیش کرے.آج میں پھر اسی مضمون کے ایک حصہ توحید باری تعالیٰ کے متعلق کچھ بیان کرتا ہوں.پہلے میں نے تفصیلات بیان کی تھیں اور کہا تھا کہ توحید کا مسئلہ ایک نہایت ہی اہم مسئلہ ہے لیکن علماء اس کام کو نہ کر سکے یا یہ کہ خود اس کے برخلاف تعلیم دیتے تھے.آج میں توحید کی وہ تعریف بیان کروں گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا کے سامنے پیش کی ہے اور وہ ایسی ہے کہ اس کے ساتھ تمام شرک مٹ

Page 273

268 جاتے ہیں اور شرک واضح طور پر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور مسلمانوں کے نہ صرف اعمال بلکہ عقیدہ بھی اس کو سمجھتے ہوئے ہر قسم کے شرک سے پاک ہو جاتا ہے.شرک کی لوگوں نے مختلف تعریفیں کی تھیں.بعضوں نے تو یہ کی تھی کہ خدا جیسی اور ذات ماننا یہ شرک ہے مگر ایسے لوگ بھی نکل آئے.جو خدا کی طرح تو کسی اور وجود کو نہیں مانتے تھے مگر یہ کہتے تھے بعض ایسے وجود ہیں جو خدا سے طاقتیں پاکر دنیا میں آئے اور انہوں نے اس کی قدرتوں کا اظہار کیا.اس لئے ہم ان کی پرستش کرتے ہیں.کیونکہ ان سے خدا کی صفات اور قدرتیں اور طاقتیں ظاہر ہوئیں.جب ان لوگوں نے جو توحید کے قائل تھے.یہ دیکھا تو انہوں نے توحید کے لئے یہ قرار دیا ہے کہ خدا کے سوا کامل عبودیت کسی کے سامنے نہیں کرنی چاہیے اور اگر کوئی کرتا ہے تو وہ شرک کرتا ہے.مگریہ تعریف بھی ناقص رہی.کیونکہ ایسے لوگ بھی پیدا ہو گئے جو خدا کے سوا کسی کے آگے کامل عبودیت کا تو اظہار نہ کرتے تھے.مگر خدا کی صفات اوروں کو دیتے تھے.یہ دیکھ کر شرک کی یہ تعریف بنائی گئی کہ خدا کی صفات کسی اور کو دینا شرک ہے مگر اس میں بھی اختلاف ہو گیا کہ خدا کی صفات دوسرے کو دینے سے کیا مراد ہے مثلاً خدا کی صفت ہے کہ وہ سنتا ہے سب مانتے آئے ہیں کہ وہ سنتا ہے اب کیا یہ کہنا کہ انسان بھی سنتا ہے.یہ خدا کی صفت اسے دینا ہے؟ اسی طرح خدا تعالیٰ دیکھتا ہے کیا یہ کہنا کہ کوئی اور بھی دیکھتا ہے شرک ہے؟ یا خدا تعالیٰ رزق دیتا ہے تو کیا یہ کہنا کہ فلاں بھی رزق دیتا ہے شرک ہے؟ پھر اگر کہا جائے کہ جس طرح خدا تعالیٰ سنتا ہے.دیکھتا ہے رزق دیتا ہے.اسی طرح کسی اور کے متعلق کہنا کہ وہ سنتا دیکھتا اور رزق دیتا ہے تو یہ شرک ہے.لیکن مشرک کہتے ہیں ہم جن کی پرستش کرتے ہیں.ان کے متعلق ہم کب کہتے ہیں کہ وہ خدا کی طرح دیکھتے سنتے اور رزق دیتے ہیں.ہم بھی یہ مانتے ہیں کہ خدا جس طرح سب کچھ دیکھتا ہے.اس طرح دوسرے نہیں دیکھتے.خدا ہی سب کا محافظ اور سب کا متصرف ہے.اس کی طرح اور کوئی نہیں.سب کچھ اس کے قبضے میں ہے ہم کب کہتے ہیں کہ سب کچھ بتوں کے قبضے میں ہے ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ خدا نے اپنی صفات اور طاقتوں میں سے کچھ ان بتوں اور معبودوں کو دے دی ہیں.اس طرح شرک کی یہ تعریف بھی کہ خدا کی صفات میں کسی اور کو شریک کرنا شرک ہے نامکمل اور ناقص ہو گئی.غرض شرک کی مختلف زمانوں میں مختلف تعریفیں ہوتی رہی ہیں.اور لوگ جیسا جیسا ان کو ضرورت پڑتی گئی شرک کی تعریف کو ڈھالتے گئے.اس لئے شرک کی مختلف تعریفیں ہو گئیں.یہاں تک کہ قرآن کریم دنیا میں آیا اور اس نے شرک کی ایسی تعریف جتائی.جس سے کوئی

Page 274

269 بات باہر نہ رہ گئی.لیکن افسوس کہ نبوت سے بعد کی وجہ سے وہ تعلیمیں تو رہ گئیں جو پہلے تھیں اور جو اسلام نے تعلیم دی تھی وہ مٹ گئی اور مسلمان بھی مختلف قسم کے شرکوں میں مبتلا ہو گئے.مسلمانوں میں سے موحد کہلانے والے اپنے آپ کو شرک سے بالکل پاک کہتے ہیں.لیکن کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص موحد کہلائے.خدا تعالٰی کو ایک سمجھے اور پھر یہ بھی عقیدہ رکھے کہ سینکڑوں سالوں سے حضرت عیسی زندہ آسمان پر بغیر کسی جسمانی تغیر کے جوں کے توں بیٹھے ہیں.پھر کیا ایسا شخص موحد کہلا سکتا ہے.جو یہ مانے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مردے زندہ کیا کرتے تھے.حالانکہ مردے زندہ کرنا صرف خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.پھر کیا اسے مشرک نہ کہا جائے گا.جو اس بات کو مانتے ہوئے کہ خلق کی صفت صرف خدا تعالی ہی کی ہے.یہ بھی مانے کہ حضرت عیسی پرندے پیدا کیا کرتے تھے.یہ عقائد رکھنے والے لوگ ہرگز موحد نہیں کہلا سکتے بلکہ وہ بھی شرک میں مبتلا ہیں.کس قدر رنج اور افسوس کا مقام ہے.کہ ہندو اور عیسائی وغیرہ جو حقیقتاً توحید کے قائل نہیں اور جن کے مذہب میں شرک کی تعلیم پائی جاتی ہے.وہ بھی اپنے آپ کو توحید پرست کہنے لگ گئے ہیں لیکن مسلمان جن کے مذہب میں سب سے زیادہ زور توحید پر دیا گیا ہے.مشرکانہ عقائد میں پھنس کر توحید سے غافل ہو گئے.چونکہ علی الاعلان شرک کی تعلیم کو کوئی قبول نہیں کر سکتا.اس لئے ہندو اور عیسائی اس بات سے ڈرتے ہوئے کہ لوگ ہمارا مذہب قبول نہیں کریں گے.اپنے مشرکانہ عقائد کے ساتھ یہ دعوئی بھی رکھتے ہیں کہ ہم توحید پرست ہیں مگر مسلمانوں کی حالت اس کے الٹ ہے.ان کا مذہب شرک پر نہیں کہ انہیں بناوٹی طور پر توحید کا ذکر کرنے کی ضرورت ہو بلکہ ان کا مذہب توحید پر ہے لیکن مسلمان اسلام کی اس پاک اور مقدس تعلیم کو اپنے باطل عقائد سے بری شکل میں پیش کر رہے ہیں.دیگر مذاہب کی بنیاد چونکہ شرک پر ہے.اس لئے ان کے پیرو اپنی فطرت کو تسلی دینے کے لئے مشرکانہ تعلیم کو ہی کہتے ہیں یہ بھی توحید ہے اور لوگوں کو خوش کرنے کے لئے کہہ دیتے ہیں.ہمارا مذہب بھی توحید پر ہے مگر مسلمانوں کو اپنی تسلی کے لئے یا دوسروں کو خوش کرنے کے واسطے فرضی طور پر یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہمارا مذہب بھی توحید پر ہے بلکہ مسلمانوں کا مذہب فی الواقع ہے ہی توحید پر اور اگر خالص توحید کسی مذہب نے پیش کی ہے.تو اسلام نے ہی پیش کی ہے اور اسی نے ایسے اصول بتائے ہیں کہ آج بھی اگر ساری دنیا انہیں سمجھ لے.تو شرک کا نام و نشان مٹ سکتا ہے.مگر افسوس مسلمانوں کی حالت دیگر مذاہب کے لوگوں کے الٹ ہے.وہ شرک پر تھے

Page 275

270 اور توحید بناوٹی طور پر اپنی طرف منسوب کرتے ہیں لیکن یہ توحید پر تھے اور شرک میں پھنس گئے.مشرکانہ عقائد اختیار کر لئے.اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں میں یہ خواہش تھی کہ توحید پر قائم ہوں اور اس کے لئے کوشش بھی کرتے رہے لیکن کچھ تو مولویوں کی سستی اور نادانی کی وجہ سے اور کچھ شرک اور توحید کی تعریف کی وجہ سے اس بات کو حاصل نہ کر سکے.بلکہ اور زیادہ شرک میں مبتلا ہو گئے.ایسی حالت میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو بھیجا اور آپ نے توحید کو اس رنگ میں دنیا میں پیش کیا کہ شرک بالکل واضح ہو گیا.آپ نے توحید کی جو تعریف کی وہ یہ ہے کہ خدا تعالی کی صفات دو قسم کی ہیں.ایک وہ ہیں جو اس کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں ان کا تعلق مخلوق سے نہیں یعنی تنزیہی صفات میں کسی مخلوق کو ظاہری اور باطنی مشابہت نہیں ہو سکتی اور خدا کی کچھ صفات ایسی ہیں جن کا تعلق بندوں کے ساتھ ہے.وہ ادنی طور پر بندوں میں بھی پائی جاتی ہیں مگر ان سے یہ غرض نہیں ہوتی کہ ان صفات کا تعلق بندوں سے پیدا کر کے خدا نے خود اپنے بندوں کو شریک بنا لیا.بلکہ یہ محض اپنی عظمت اور جلال کے اظہار کے لئے ہوتا ہے.یا ایسی صفات الوہیت کے متعلق شک و شبہ سے بچانے کے لئے بعض بندوں میں رکھ دی جاتی ہیں مگر ان کو یونہی نہیں چھوڑا جاتا بلکہ ان کی حد بندیاں مقرر ہیں کہ فلاں حد تک بندوں میں پائی جاتی ہیں اور فلاں طریق پر بندوں میں پائی جاتی ہیں.اب یہ بات واضح ہو گئی.جن امور کے متعلق انعکاسی طور پر انسان کچھ اخذ نہیں کر سکتا.خواہ وہ باذن اللہ کہہ کر ہی کئے جاویں شرک ہیں.اور جن امور کو بطور انعکاس اور محل کے پیدا کر سکتے ہیں.وہ شرک نہیں مثلاً شنوائی کی طاقت ہے.یہ انسان پیدا شدہ ہی لاتا ہے اور یہ خدا خود اسے دیتا ہے.اسی طرح بینائی ہے وہ بھی پیدا شدہ ہی لاتا ہے.گویائی ہے وہ بھی پیدا شدہ ہی لاتا ہے اور یہ خدا خود اسے دیتا ہے.خدا خود بھی سنتا ہے اور انسان کو بھی سننے کی طاقت بخشتا ہے.خدا خود بھی دیکھتا ہے اور انسان کو بھی بینائی عطا فرماتا ہے.خدا خود بھی بولتا ہے اور انسان کو بھی قوت گویائی دیتا ہے لیکن یہ ان صفات میں شرکت شرک نہیں بلکہ انعام ہے.جو انعکاسی رنگ میں بندوں پر کیا جاتا ہے تا ان کے یقین و ایمان میں ترقی ہو.شرک کے معنی ہی مفہوم کو واضح کر رہے ہیں.شرک کے معنی ہیں کہ کسی چیز میں دو مساوی ہوں.اب غور کرو خدا بھی رزق دیتا ہے اور ہم بھی لیکن جس قسم کا رزق خدا تعالیٰ دیتا ہے.اس

Page 276

271 میں ہم خدا کے شریک نہیں.کیونکہ جو کچھ ہم کسی کو دیتے ہیں.یہ تو خدا ہی نے ہمیں دیا اور ہم اسی میں سے دیتے ہیں اس لئے ہماری اور اس کی اس رزق دینے میں کوئی شرکت نہیں رہتی.دیکھو اگر ہم کسی کو کچھ دیتے ہیں.تو وہ ہمارا شریک نہیں بن جاتا.کیونکہ ہم عطیہ کے طور پر دیتے ہیں.یہ نہیں کہ اسے اپنا شریک بنا لیتے ہیں.دنیا میں ایسے لوگ تو بہت سے ملیں گے جو دوسرے کو کوئی چیز دے دیتے ہیں لیکن ایسا کوئی نہیں ملے گا جو بطور شریک کسی کو اپنے ساتھ شامل کرے.یہ تو ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص کسی کو کوئی چیز سالم کی سالم دے دے.لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی چیز میں اپنا شریک بنا لے.مثلاً ایک شخص اپنے نوکر کو ایک مکان پورے کا پورا تو دے دے گا.لیکن یہ ہرگز نہیں کرے گا.کہ اسے کسے فلاں مکان میں تو میرا شریک بن جا.جس طرح اس پر میرے حقوق ہیں اسی طرح تیرے بھی ہیں.ایسا نہیں ہوتا.اس بات کو قرآن کریم نے بیان بھی کیا ہے.چنانچہ سورۃ محل میں آتا ہے.ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے نوکروں کو اس قدر مال دے دیتے ہیں کہ وہ فیہ سواء ان کے برابر ہو جاتے ہیں.مگر ایسا کوئی نہیں ملے گا جو نوکر کو اپنے مال میں شریک کرے.پس خدا بھی بطور عطیہ کے ہمیں دیتا ہے.نہ کہ اپنا شریک بنا کر.پس یہ تو ایک شخص کر سکتا ہے کہ اپنا کوئی مکان یا اپنی زمین کا کچھ حصہ کسی کے حوالے کر دے لیکن یہ نہیں کر سکتا کہ اپنے حقوق میں شریک بنائے.ایک کروڑ پتی ایک روپے میں بھی کسی کو شریک نہیں بنائے گا.وہ دس ہزار روپیہ دے دینا آسان سمجھے گا.مگر ایک روپیہ میں کسی کو شریک کرنا اس کے لئے مشکل ہو گا.پس اس آیت کا یہ منشاء نہیں کہ کسی غیر کو اپنے مال میں شریک بنا لیا جاتا ہے بلکہ اس حقیقت کو بیان کرنا ہے کہ دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں جو کسی کو اپنے مال میں مساوی شریک بنا لے.پس جب کوئی انسان ایسا نہیں کرتا.تو خدا کی ذات کے متعلق یہ کیسے سمجھا جا سکتا ہے کہ اس نے بعض صفات کو ظلی اور انعکاسی طور پر بندوں کو دے کر اپنا شریک بنا لیا ہے.جس طرح ایک انسان کسی دوسرے انسان کو کچھ دیتا ہے تو وہ گویا اس کا مظہر ہو جاتا ہے کیونکہ اس دی ہوئی چیز کے ذریعے جو کچھ بھی اس سے ظاہر ہو گا.وہ در حقیقت اس شخص کا ہو گا.جس نے اسے کچھ دیا اور اس قابل بنایا.اسی طرح بندوں میں اگر بعض وہی باتیں پائی جاتی ہیں جو خدا تعالیٰ میں ہیں.تو اس کا یہ تو مطلب نہیں کہ بندے بھی خدا ہو گئے بلکہ اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ وہ خدا کی صفات کے مظہر ہو گئے اور اگر غور سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو پیدا ہی اس لئے کیا گیا ہے کہ وہ بعض صفات میں اللہ تعالی کا مظہر بنے.

Page 277

: 272 پس ان صفات کو بندوں میں پیدا تو کیا گیا لیکن ایک حد تک اور ان کی حد بندی کر دی مگر بعض نادان ان صفات کو ایک بندہ میں دیکھ کر شرک میں مبتلا ہو جاتے ہیں.حالانکہ ان صفات کو انسان میں داخل کرنے کی یہ غرض ہے کہ وہ خدا کا مظہر بنے.کیونکہ بغیر ان کے وہ مظہر ہو ہی نہیں سکتا.بینائی ہے.شنوائی ہے.گویائی ہے.علم ہے اور اور ایسی باتیں ہیں جو خدا تعالیٰ نے انسان میں اپنا مظہر بنانے کے لئے رکھیں اور پھر یہ باتیں بعد میں بھی پیدا نہیں ہو ئیں بلکہ یہ پہلے دے کر انسان کو بھیجا ہے اور جس حد تک یہ انسان میں رکھی ہیں.اس سے بڑھ بھی نہیں سکتیں.اب اس تعریف کے ماتحت دیکھو.کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ حضرت مسیح بھی مردے زندہ کرتے تھے.کیونکہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے مردے زندہ کرنا ہمارا کام ہے.باوجود اس کے اگر کوئی ایسا کرتا ہے.وہ شرک کرتا ہے.اسی طرح کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا.کہ حضرت مسیح پرندے پیدا کرتے تھے.کیونکہ اس کے متعلق بھی خدا فرماتا ہے کہ پیدا کرنا ہمارا کام ہے.پس اگر توحید کی یہ تعریف مسلمانوں کے ذہن میں ہوتی تو پھر وہ کس طرح یہ کہہ سکتے تھے کہ کوئی انسان بھی مردے زندہ کر سکتا ہے ہے یا کوئی انسان پرندے بنا سکتا ہے.مگر یہ سب توحید اور شرک کی حقیقی تعریف نہ سمجھنے کا نتیجہ ہوا.کہ لوگ ایسے ایسے شرکوں میں پھنس گئے کہ باوجود بتانے کے بھی وہ نہیں سمجھ سکتے کہ یہ بھی کوئی شرک کی قسم ہے.غرض وہ قوتیں جو خدا تعالیٰ بندوں کو دیتا ہے اور وہ طاقتیں جو اس کی طرف سے انسان کو دی جاتی ہیں.وہ موہبت ہوتی ہیں.اور عطیہ کے طریق پر ہوتی ہیں.وہ خدا تعالیٰ اس لئے بندوں کو دیتا ہے.تا اس کی صفات کا اظہار ہو اور اس طور پر بندے میں ان صفات کا ہونا شرک نہیں.مثلا کسی کے پاس ہزار روپیہ ہے.اگر وہ کسی کو سو روپیہ دے دے تو حرج نہیں.کیونکہ اس طرح دینا خدا تعالیٰ نے انسان کے اختیار میں رکھا ہے مگر کسی کو بیٹا دینا یہ کسی انسان کے اختیار میں نہیں.یہ خدا تعالیٰ کے ہی اختیار میں ہے.اب اگر کوئی یہ کہے.میں بیٹا دے سکتا ہوں.تو وہ مشرک ہوگا کیونکہ انسان کو تو اتنا بھی علم نہیں ہوتا کہ یقینی طور پر کسی کے متعلق یہ کہہ سکے کہ اس کے ہاں بٹیا ہو گا یا بیٹی.پس روپیہ دینا خدا نے بندے کے اختیار میں رکھا ہے لیکن بیٹا دینا بندے کے اختیار میں نہیں رکھا.کیونکہ اس طرح خدا اور بندہ دونوں ایک کام میں مشترک ہو جاتے ہیں اور شرک لازم آتا ہے.پس ایسا شخص جو یہ کہے کہ میں بیٹا دے سکتا ہوں وہ مشرک ہے.پس سب سے بڑھ کر حربہ شرک کے برخلاف یہی ہے.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ

Page 278

273 والسلام نے بتایا اور اگر اسے پورے طور پر چلایا جائے.تو شرک کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.اس زمانہ میں توحید اور شرک کا مضمون ایسا باریک ہو گیا ہے کہ باوجود سمجھانے کے بھی اکثر لوگ اسے نہیں سمجھ سکتے اور اگر اور بحث کرو.تو وہ اتنا فلسفیانہ ہو جاتا ہے کہ اور بھی بہت کم لوگ اسے سمجھ سکتے ہیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کی طرف سے علم پا کر اس مضمون کو بالکل صاف کر دیا اور بعض ایسے قوانین بیان فرمائے جو کبھی ٹوٹ نہیں سکتے.جیسا کہ انبیاء کا کام ہے کہ دنیا میں بیج ڈال دیتے ہیں.آگے اسے بڑھانا اور پھل سنبھالنا بعد کے لوگوں کا کام ہوتا ہے.ایک استاد صرف سبق پڑھاتا ہے.آگے یہ کام شاگرد کا ہوتا ہے کہ اسے یاد کرے اور اس سے فائدہ اٹھائے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی تعلیم کا بیج بو دیا اور توحید کی تخم ریزی کی اب ہمارا یہ کام ہے کہ ہم اس سے فائدہ اٹھائیں اور میں نے دیکھا ہے کہ اس تعلیم پر چل کر مجھے ایسے لوگوں کے جواب کے لئے کبھی تکلیف نہیں ہوئی.جو مشرکانہ عقائد رکھتے ہیں اور وہ تعلیم یہ ہے کہ جن کو تم خدا کا شریک سمجھتے ہو.ان کا اپنا دعویٰ پیش کرو کہ ہم یہ کر سکتے ہیں.پھر ہم مان لیں گے.اگر کوئی آکے یہ کہے کہ کالی دیوی یوں کرتی ہے تو ہم کہیں گے.بہت اچھا ثابت کرو.اس کا اپنا دعویٰ اس کے متعلق یہ ہے.غرض کالی دیوی ہو یا سومنات - حضرت عیسی ہوں یا امام حسین.مشرک ان کی طرف جو باتیں منسوب کرتے ہیں.انہیں ہم ماننے کے لئے تیار ہیں.بشرطیکہ یہ دکھا دیں وہ خود ان باتوں کے مدعی ہوں..پھر یہ بات بھی ان کا رد کرتی ہے کہ ہم جسے اللہ مانتے ہیں.وہ تو اپنے آپ کو ظاہر کرنے کے لئے دنیا میں نبی بھیجا کرتا ہے اور اس وقت تک کئی نبی اس کی طرف سے آچکے ہیں لیکن ان کو جنہیں تم خدا کے ساتھ شریک کرتے ہو کبھی نبی بھیجا ہے.خدا تو اپنے بھیجے ہوئے نبیوں کو الہام کرتا ہے.مگر دنیا کی تاریخ میں کہیں یہ نہیں دیکھنے میں آیا کہ کسی شخص نے یہ دعوی کیا ہو کہ میں فلاں بت یا معبود کی طرف سے نبی ہوں اور وہ مجھے الہام کرتا ہے.کیا وجہ ہے کہ جب ان کو طاقتیں دی گئیں تو وہ نبی نہیں بھیجتے.تاکہ دنیا کو ان کا پتہ لگے.پس یہ دعوی ہی دعوئی ہے اور وہ بھی غلط کہ کسی اور کو بھی ویسی ہی طاقتیں اور قدرتیں حاصل ہیں جیسی خدا تعالیٰ کو.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ گر بتایا ہے.اس سے ایک انسان شرک سے بکلی بچ جاتا ہے اور باتیں بھی ہیں جو حضرت مسیح موعود نے توحید کے متعلق بتائی ہیں اور جو سراسر مفید ہیں.ان کو انشاء اللہ تعالی اگلے جمعہ میں بیان کروں گا.فی الحال میں اسی پریس کرتا ہوں.پھر اگر توفیق ملی تو اس آیت کے

Page 279

274 باقی مطالب پر انشاء اللہ تعالٰی بحث کروں گا.اب غور کرنا چاہو مولوی موجود تھے.عالم موجود تھے.پیر موجود تھے.مگر کچھ نہ کر سکے.مولوی سینکڑوں سالوں سے چلے آتے ہیں لیکن شرک کا مقابلہ کرنے سے وہ عاجز رہے اور یہی حال اب بھی ہے.اگر اس زمانہ کے بگڑے ہوئے مولوی یہ کام کر سکتے تھے.تو تین چار سو سال سے توحید جو دھکے کھا رہی تھی.کیوں نہ اسے قائم کر سکے.ہر طرف سے توحید پر حملے ہو رہے تھے.عیسائی اور ہندوؤں جیسی مشرک قومیں ان کے سامنے یہ کچھ کر رہی تھیں.اور ہر طرز پر حملے کر رہی تھیں لیکن یہ دیکھتے تھے اور کچھ نہ کرتے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ کچھ کر بھی نہ سکتے تھے.کیا ان باتوں سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس بات کی ضرورت تھی کہ کوئی اور شخص آئے.جو خدا سے الہام پا کر اس حقیقت کو بیان کرے.پس حضرت مسیح موعود نے آکر یہ سب کچھ بتایا اور توحید کو پورے طور پر بیان کیا.جو کام مولوی اتنے عرصہ سے نہ کر سکے.اسے مسیح موعود نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر دکھایا اور یقیناً وہ کامیاب بھی ہو گئے.یہ سب کچھ نظر آسکتا ہے.بشرطیکہ کوئی آنکھ کھولے اور اس کے دیکھنے کی کوشش کرے.خدا تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم شرک سے بچیں اور اس توحید کے عامل ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لائے اور جو آج سے تیرہ سو سال پہلے قرآن کریم نے بتائی اور آنحضرت ا نے دنیا کے سامنے پیش کی اور اس تعلیم پر چلنے کی ہمت عطا فرمائے.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دی.اور اس بات کی بھی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس کو صحیح معنوں میں دنیا میں پھیلانے والے بہنیں.(آمین) (الفضل ۳ اکتوبر ۱۹۲۵ء)

Page 280

275 34 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے کارنامے (فرموده ۲ اکتوبر ۱۹۲۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں نے مثال کے طور پر پچھلے دو خطبوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ تعلیم توحید کے متعلق بیان کی تھی.جو آپ نے نور نبوت کے ذریعہ حاصل کر کے لوگوں تک پہنچائی اور بتایا تھا کہ جو کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا ہے وہ نہ مولویوں سے ہو سکتا تھا نہ ان کے کرنے کا تھا.نہ وہ کر سکے اور نہ وہ اب کر سکتے ہیں.آج بھی میں توحید ہی کی تعلیم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ تحقیق بیان کرتا ہوں.جو بیشک قرآن کریم میں تو مذکور ہے اور آنحضرت اپنا ہی نے تو دنیا کو بتائی ہے لیکن مولویوں کو نظر نہ آئی اور حضرت مسیح موعود نے جو کچھ حاصل کیا وہ قرآن کریم اور آنحضرت ہی سے سیکھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت سے پہلے دنیا نے اس طرف توجہ ہی نہیں کی کہ توحید کیا ہے اور قرآن شریف اس کے متعلق کیا کہتا ہے.توحید قرآن میں تھی.مگر نہ کسی مولوی نے اس کی طرف خیال کیا.اور نہ کسی عالم نے.وہ خزانہ تھا مگر مخفی.جس کو کوئی مولوی ہاتھ نہ لگا سکا.وہ ایک موتی تھا جو قرآن کریم کے علوم کے سمندر کی تہہ میں پڑا ہوا تھا.جیسے وہاں سے کوئی نہ نکال سکا کیونکہ اس تہہ میں سے اگر کوئی نکال سکتا تھا تو وہی غوطہ خور نکال سکتا تھا جو گہرا غوطہ لگا سکتا تھا.مگر مولویوں میں یہ ہمت نہ تھی.توحید کے متعلق جس چیز پر لوگوں نے زور دیا ہے اور مولوی اور علماء نے بھی جس پر زور دیا ہے وہ یہ ہے کہ خدا کی ذات میں کسی کو شریک نہ قرار دیا جائے.خدا کی صفات میں کس کو اس کا شریک نہ قرار دیا جائے.خدا کے مرتبہ میں کسی کو شریک نہ سمجھا جائے اور خدا کے اظہار قدرت

Page 281

276 میں کس کو اس کا شریک نہ بنایا جائے.جو کچھ بھی مولویوں نے لکھا اور جتنی بھی کتابیں علماء کی ہیں.ساری کی ساری جب توحید بیان کرتی ہیں.تو انہی باتوں میں اسے محدود کرتی ہیں.انہوں نے اس کی حد باندھ دی ہے.وہ ساری کی ساری یہی کہتی ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ذات میں خدا تعالیٰ کی صفات میں.خدا کے مرتبہ میں اور خدا تعالیٰ کے اظہار قدرت میں کسی کو شریک مت قرار دو.مولویوں کی نظر اس سے اوپر نہیں گئی اور ان کا سارا زور اسی پر ختم ہو گیا ہے.صوفیاء اس سے اوپر گئے ہیں.انہوں نے مولویوں سے ایک قدم آگے بڑھایا ہے.انہوں نے کہا ہے کہ یہ کوئی توحید نہیں ہے کہ خدا کی ذات میں خدا کی صفات میں.خدا کے مرتبہ میں اور خدا کے اظہار قدرت میں کسی کو شریک نہ قرار دیا جائے.اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ خدا ہے اور ایک ہی ہے تو یہ کوئی توحید نہیں.ایسا ہی اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ خالق اور محی کی صفات صرف خدا ہی کے لئے ہیں.تو اتنا کہہ دینا توحید کی حقیقت کو پورا نہیں کر دیتا.بلکہ توحید یہ ہے کہ اسباب پر کسی قسم کا بھروسہ نہ کیا جائے.دیکھو خدا کے سوا کوئی نہیں جو اولاد عطا کرے.اس لئے اگر کوئی شخص یہ خیال کرے کہ فلاں شخص نے بیٹا دیا.خواہ وہ ساتھ یہ بھی کہے کہ خدا سے حاصل کر کے دیا ہے.خواہ ” باذن اللہ " ہی اس کا نام رکھے.پھر بھی یہ شرک ہے.اسی طرح اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ فلاں شخص کی مدد سے میں فلاں کام کر لوں گا یا خود ذریعہ اور سبب کا پتہ لگا کر فلاں مشکل کو حل کرلوں گا یا روپے کے ذریعے اس کو درست کرلوں گا تو یہ بھی سب شرک ہے.ایسا ہی اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ میں علاج کے ذریعے مرض دور کر لوں گا یا یہ سمجھتا ہے کہ کپڑوں کے ذریعہ میں سردی یا گرمی سے اپنے آپ کو بچالوں گا یا پانی سے پیاس بجھالوں گا یا کھانے سے بھوک مثالوں گا یا علم سے جہالت دور کر لوں گا تو وہ بھی مشرک ہے کیونکہ وہ اسباب پر حصر کرتا ہے اور اسباب بنانے والے کو چھوڑتا ہے.مولوی کی نظریہاں تک نہیں گئی.وہ عام طور پر اسی حد تک رہے ہیں کہ خدا کی صفات ذات اور اظہار قدرت میں کسی کو شریک کرنا شرک ہے اور جو اس سے آگے بڑھے ہیں وہ صحیح راستہ پر نہ رہے اور جدھر صوفیاء لے جانا چاہتے تھے ادھر نہیں گئے بلکہ اور طرف چلے.یعنی قدری اور جبری بن گئے.یہ بھی اسباب ہی کے پیچھے گئے.جبریوں نے تو کہہ دیا کہ جو فعل انسان سے سرزد ہوتا ہے وہ خدا ہی کراتا ہے.اس میں انسان کا کوئی اختیار نہیں ہے.چور اگر چوری کرتا ہے تو خدا ہی کراتا ہے.ڈاکو اگر ڈاکہ ڈالتا ہے تو خدا ہی ڈلواتا ہے.قاتل اگر قتل کرتا ہے تو خدا ہی قتل کراتا ہے

Page 282

277 کیونکہ سب کام خدا ہی کراتا ہے لیکن نادان نہیں جانتے.اگر خدا ہی یہ سب کام کراتا ہے.اگر خدا ہی کہتا ہے کہ تو فلاں کے ہاں چوری کر.اگر خدا ہی کہتا ہے کہ فلاں جگہ ڈاکہ ڈال.اگر خدا ہی کہتا ہے تو فلاں شخص کو قتل کر دے.غرض اگر خدا ہی تمام اس قسم کے کام کرنے کے لئے بندوں سے کہتا ہے.تو پھر اس قسم کے کام کرنے پر سزا کیوں دیتا ہے.یہ عجیب بات ہے کہ ایک فعل خود کرائے اور پھر اس کے کرنے پر سزا بھی دے.ان کے مقابلہ میں قدریوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ خدا انسان سے کوئی فعل نہیں کراتا.بلکہ اس انسان کو ہر کام کرنے کا اختیار دے دیا ہے اور انسان جو کچھ کرتا ہے اس میں وہ مختار ہے اس پر کسی کا اختیار نہیں ہے.انہوں نے اختیار کے مطلب کو ہی غلط سمجھا.وہ کہتے ہیں انسان کو خدا نے اختیار دیا ہوا ہے.جو چاہے کرے لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ اگر اختیار ہے تو پھر سزا کیسی.اسی طرح تقدیر کا مسئلہ ہے.اسے بھی مولویوں نے نہایت برے طریق پر بیان کیا ہے.میں اس وقت اس میں نہیں پڑنا چاہتا کیونکہ یہ علیحدہ مسئلہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پر بھی ایسی روشنی ڈالی ہے کہ اس میں کوئی مشکل نہیں رہے گی.صوفیاء نے توحید کے متعلق جو تعلیم دی.گو وہ مولویوں کے خیال سے اعلیٰ تھی.اور اس کا علم انہوں نے خدا تعالیٰ سے حاصل کیا تھا لیکن پھر بھی وہ اس تعلیم کا مقابلہ نہیں کر سکتی.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے توحید کے متعلق بیان فرمائی ہے.مولویوں نے تو کہا تو خدا کو ایک سمجھ.اس کی ذات میں اسے ایک سمجھ.اس کی صفات میں اسے ایک سمجھ.اس کے منصب میں اس کو ایک سمجھ.اس کے اظہار قدرت میں اسے ایک سمجھ.یہی توحید ہے.لیکن صوفی یہاں تک نہیں ہے بلکہ انہوں نے اس سے آگے قدم بڑھایا.اور یہ کہا کہ تو خدا کو ایک بھی سمجھ اور اپنے عمل سے بھی ایسا ہی ثابت کر.یہ نہ کر کہ تیری زبان تو کہے کہ خدا ایک ہے اور تیرا دل خدا کے سوا اوروں کو حاجت برار سمجھے.یعنی اسباب پر بھروسہ کرے.جب تو روٹی کھاتا ہے تو یہ خیال نہ کر کہ روٹی سے پیٹ بھرے گا.بلکہ یہ یقین کر کہ خدا نے ہی روٹی کو یہ طاقت بخشی ہے کہ وہ بھوک مٹا سکے.اسی طرح جب تو پانی پیتا ہے تو یہ یقین رکھ کہ خدا ہی سیری دے گا تو ہوگی.ورنہ پانی کی یہ طاقت نہیں کہ پیاس بجھا سکے.اگر تو بیمار ہو تو بیشک علاج کر.لیکن وہ یہ یقین ہرگز نہ رکھ کہ اس علاج سے مجھے فائدہ ہو گا بلکہ یہ سمجھ کہ خدا تعالٰی نے اس میں وہ صفت رکھ دی ہے کہ جس سے شفا ہوتی ہے اگر وہ ان صفتوں کو ان اشیاء میں پیدا نہ کرے تو یہ اپنے آپ کچھ بھی نہیں کر سکتیں.پس اس بات پر یقین رکھ کہ روٹی اگر بھوک مٹاتی ہے.پانی اگر پیاس بجھاتا ہے.علاج اگر

Page 283

278 مرض دور کرتا ہے.تو یہ سب خدا ہی کے حکم سے ہوتا ہے.نہ کہ ان میں اپنے آپ کوئی ایسی طاقت ہے جو فائدہ پہنچا سکے.یہ سب باتیں خدا نے ہی ان میں رکھی ہیں اور وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ ان چیزوں سے وہ ان طاقتوں کو لے بھی لے.پس جس طرح تو خدا کو سمجھتا ہے کہ ہے اور جس طرح تو یہ یقین کرتا ہے کہ وہ ایک ہی ہے.اسی طرح یہ بھی ایمان لا کہ سب کچھ اسی کی طرف سے ہو رہا ہے اور پھر اس ایمان کو اس طرح ظاہر کر کہ اپنے ہر قول و فعل سے اس کا ثبوت دے.صوفیاء نے یہ توحید پیش کی ہے.مولویوں کی نظر یہاں تک نہیں پہنچی.وہ ان سے بہت نیچے رہے ہیں.ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص شفاف پالش شدہ میز میں اپنی شکل دیکھ لے.ان لوگوں نے خدا کی شکل ایک پالش شدہ میز میں دیکھی.لیکن صوفیاء نے شیشے میں دیکھی.جو زیادہ صاف طور پر نظر آئی.چونکہ شیشے میں جو شکل نظر آتی ہے وہ کسی پالش شدہ چیز پر سے نظر آنے والی شکل سے زیادہ واضح ہوتی ہے اس لئے صوفیاء نے جو کچھ دیکھا وہ مولویوں سے زیادہ واضح طور پر دیکھا اور یہ صاف بات ہے کہ مولویوں نے جو شکل دیکھی وہ شیشے میں نظر آنے والی صورت سے کیسی بھونڈی ہو گی.صوفیاء نے تو خدا کی شکل کو اس طرح دکھایا جس طرح شیشہ میں شکل دیکھی جائے.لیکن مولویوں نے اس سے زیادہ کچھ نہ دکھایا.جیسے پالش شدہ چیز میں دھندلی سی شکل نظر آجائے.غرض صوفیاء مولویوں سے آگے بڑھ گئے.لیکن حضرت مسیح موعود نے اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھایا اور توحید کو پورے طور پر سمجھایا.اور خدا تعالیٰ کو اس کے اصل رنگ میں دکھایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام " آئینہ کمالات اسلام میں فرماتے ہیں ا..توحید کے تین درجے ہیں.سب سے ادنی درجہ تو یہ ہے کہ انسان یہ خیال کرے کہ خدا اپنی ذات میں اپنی صفات میں.اپنے منصب میں اور اپنے اظہار قدرت میں لا شریک ہے.کوئی اس کا شریک نہیں.اور کوئی اس قابل نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے.یہ ادنی درجہ کی توحید ہے.دوسرا درجہ توحید کا اس سے بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال کی تفصیل میں خیال کرے کہ جو کچھ میں کرتا ہوں.یہ میں اپنے آپ نہیں کرتا بلکہ خدا نے کہا ہے کہ ایسا کر.اس لئے کرتا ہوں اور جن چیزوں سے میں فائدہ اٹھاتا ہوں.ان میں فائدہ پہنچانے کی قوت خدا نے ہی رکھی ہے اور اسی کے حکم سے وہ فائدہ پہنچاتی ہیں.ورنہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے.گویا وہ یہ خیال کر لے کہ میں اس بات سے اس لئے فائدہ اٹھاتا اور ان سے کام لیتا ہوں کہ خدا نے وہ پیدا کئے ہیں.نہ اس لئے کہ میں انہیں فائدہ پہنچانے والا سمجھتا ہوں.جب یہ یقین اور یہ ایمان

Page 284

279 پیدا کر لے کہ خدا تعالیٰ نے ہی یہ قانون بنائے ہیں.جن کے ماتحت سب کچھ ہو رہا ہے.تو سمجھ سکتا ہے کہ سب کچھ اللہ تعالٰی کے حکم اور منشاء سے ہو رہا ہے.غرض یہ تعلیم کہ روٹی کھانے میں خدا نے پیٹ بھرنے کی طاقت رکھی ہے یا پانی پینے میں ایسی صفت رکھ دی گئی ہے کہ وہ پیاس بجھا سکے.یا علاج میں یہ طاقت خدا نے پیدا کر دی ہے کہ صحت ہو جائے.ورنہ ان میں کوئی طاقت نہیں ہے اور نہ مجھے ان پر کسی قسم کا بھروسہ ہے.یہ دوسرے درجہ کی توحید ہے اور اس یقین کے ساتھ ایک شخص صرف صوفیاء والی توحید پر پہنچتا ہے.یہ دونوں توحیدیں عقائد پر اثر کرتی تھیں.انسان ذات کے لحاظ سے صفات کے لحاظ سے منصب کے لحاظ سے اظہار قدرت کے لحاظ سے خیال کرتا تھا کہ خدا ایک ہے اور ان سب چیزوں میں جو طاقتیں دیکھی جاتی ہیں.ان کو ان میں رکھنے والا خدا ہی ہے.لیکن مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.یہی توحید کافی نہیں بلکہ جب انسان ان دونوں درجوں کو طے کر لے تو پھر یہاں تک آ کے رک نہ جائے بلکہ اور بھی ترقی کرے اور کامل مشاہدات کے ذریعہ معلوم کرے کہ واقعی ایک خدا ہے جس کا جلوہ ہر چیز میں نظر آتا ہے.صوفیاء نے تو توحید کو آئینہ کی طرح دکھایا گو آئینہ میں خدا کی شکل دکھا دی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس سے بھی آگے بڑھایا.اور فرمایا کہ تو خدا کو خود دیکھ.ذرائع میں نہ دیکھ.وسائط سے نہ دیکھ.بلکہ تو اپنے آپ کو گداز کر کے اس کو دیکھ.تو اس کے جلال کو اس طرح دیکھ کہ جس طرح کوئی چیز بغیر کسی پردہ یا روک کے سامنے کھڑی ہو اور تیری یہ حالت ہو کہ دنیا کی ہر ایک چیز بلکہ اپنے وجود کو بھی کالعدم سمجھ لے.یہ اصل توحید ہے.جس سے روحانی زندگی حاصل ہوتی ہے اور جس کے لئے توحید کا مسئلہ ہے.جب ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں دوائی میں یہ اثر ہے کہ وہ مرض کو دور کرتی اور مریض کو شفا دیتی ہے تو اس سے وہ غرض توحید کی پوری نہیں ہوتی.جو یہ یقین کرنے سے ہوتی ہے کہ دوائی میں یہ اثر اپنے آپ نہیں آگیا بلکہ کسی ایسی ہستی نے رکھا ہے جو اگر چاہے تو اب بھی اس سے واپس لے سکتی ہے.تو اس طرح صرف خیال کر لینا کہ خدا ہے.اور ایک ہے کوئی اس کی ذات صفات اور قدرت میں شریک نہیں.یہ کافی نہیں یہ خیال تو عیسائیوں میں بھی پایا جاتا ہے.یہودیوں میں بھی پایا جاتا ہے.ہندوؤں میں بھی پایا جاتا ہے.پس یہ ایمان کہ خدا ہے یہ کافی نہیں.یہ ایمان بالغیب ہے جو کامل نہیں ہوتا.ایمان بالمشاہدہ ہونا چاہیے اور ایمان بالمشاہدہ صرف اسی صورت میں پیدا ہوتا ہے کہ ایک انسان اس حد تک گداز ہو کہ آخر خدا اس کے آئینہ قلب پر اپنا پر تو ڈالے اور صاف طور پر اسے نظر آجائے.

Page 285

1 280 یہی وہ مقام ہے جس پر خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سرخ چھینٹوں والی رؤیا دکھائی.اس پر نادان مولویوں نے اعتراض کئے ہیں اور اپنی لاعلمی سے کہا ہے.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کو صحیح تسلیم کر لیا جائے مگر وہ نہیں جانتے اس مقام پر جو شخص پہنچ جاتا ہے اور خدا کی محبت میں اس حد تک محو ہو جاتا ہے کہ نہ صرف یہ یقین کرتا ہے کہ خدا ہے.نہ صرف اسی پر اکتفا کرتا ہے کہ اسر اس یقین کے ماتحت اس بات کو مانے کہ خدا ہی سب کچھ کرتا ہے بلکہ وہ ذریعوں سے دیکھنے کے بعد آگے قدم بڑھا کر بغیر ذریعوں کے اسے دیکھتا ہے اور ایسا گداز ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کئی طور پر اپنے آپ کو اس پر ظاہر کرتا ہے.ہر رنگ چند کیمیاوی چیزوں سے بنتا ہے اور وہ چیزیں آگے کئی چیزوں سے بنتی ہیں.گیسیں ہیں.روشنیاں ہیں اور کئی چیزیں ہوتی ہیں.جن سے رنگ بنتا ہے.روشنی کی کرنوں کا اس سے تعلق ہوتا ہے اور سورج کا بھی.ان کے علاوہ ملا کہ ہیں.پھر خدا کا حکم ہوتا ہے.غرض بیسیوں، سینکڑوں چیزیں ہوتی ہیں.جن سے رنگ تیار ہوتا ہے اور سینکڑوں ہی اجزاء ہوتے ہیں.جن سے یہ ترکیب پاتا ہے.پھر سینکڑوں ہی وسائل ہوتے ہیں جن سے یہ اس طرح ظاہر ہوتا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے مسبب الاسباب ہونے کا مشاہدہ کرانے کے لئے اس رنگ میں ظاہر کیا کہ عالم رویا میں قلم چھڑکا.جس سے سرخی مادی چیز کی طرح کپڑوں پر آپڑی.اب کہاں گئیں وہ گیسیں اور شعائیں اور کہاں گئے وہ ہزاروں سامان جن کا ہم کو علم بھی نہیں کہ وہ کتنے ہیں.کیسے ہیں اور کیونکر ہیں.خدا نے بغیران سامانوں کے یہ رنگ پیدا کر دیا اور بغیر ذرائع کے بالمشافہ اس کو چھڑکا.جس کا کپڑوں پر بھی داغ رہ گیا.یہ ہے وہ توحید جو کامل ہے اور اس کے حصول کے لئے کہا گیا ہے.اس کے معنی یہی ہیں کہ انسان ایسا گداز ہو کہ خدا تک پہنچنے کے لئے تمام سامان بیچ سے اڑ جائیں اور وہ بغیر کسی ذریعہ کے خدا کو دیکھ لے اور اس کی صفات پورے طور پر اس پر جلوہ گر ہوں.اسی لئے توحید پر اس قدر زور دیا گیا ہے.کیونکہ اگر اس کا یہ فائدہ نہ ہوتا تو اس کا مان لینا ایسا ہی تھا.جیسا ہمالیہ پہاڑ کا مان لینا یا زمین کا گول ماننا.کیونکہ جن لوگوں نے ہمالیہ پہاڑ کو نہیں دیکھا اور جنہیں پتہ نہیں کہ زمین گول ہے وہ بھی یہ مانتے ہیں.پس توحید کا مسئلہ انسان کو پاک کر کے خدا کا قرب دلانے کے لئے ہے جو شخص توحید کا قائل نہیں اور کامل توحید پر عامل نہیں.وہ قرب الہی نہیں حاصل کر سکتا.کیونکہ جو خدا سے دور ہو وہ اس مقام پر پہنچ نہیں سکتا جو انسان کی پیدائش کا اصل مدعا ہے.اسی لئے توحید پر ایمان لانے سے ایک

Page 286

281 شخص جنت میں اور نہ لانے سے دوزخ میں جاتا ہے.یہ وہ توحید اور تعلیم توحید ہے.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش کی.پچھلے صوفیاء نے بھی توحید پیش کی ہے.سید عبد القادر جیلانی نے فتوح الغیب میں اور ان سے دوسرے درجہ پر محی الدین ابن عربی نے اس کے قریب قریب مفہوم پیش کیا مگر وہ اس حد تک نہیں پہنچ سکے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے چند سطروں میں اس ساری حقیقت کو بیان کر دیا کہ کوئی شخص محض خیال پر ایمان نہ رکھے بلکہ رؤیت پر رکھے تب جا کر توحید مکمل ہوتی ہے اور ایک آدمی پورا موحد کہلا سکتا ہے.سید عبد القادر جیلائی اور محی الدین ابن عربی نے جو کچھ بیان کیا.وہ بھی عجیب کیفیت رکھتا ہے مگر ابن عربی تو وحدت وجود کی طرف نکل گئے اور سید عبد القادر اپنے حال بیان کرنے میں لگے رہے.کہ میں نے یہ دیکھا اور مجھے یہ نظر آیا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اور آگے بڑھ کر فرمایا.توحید صرف حال نہیں بلکہ مقصد ہے اور اس مقصد کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے.انسان محض خیال پر نہ ایمان رکھے بلکہ رؤیت اور مشاہدہ پر رکھے.تب وہ توحید ہو سکتی ہے جو اصل مقصد ہے.شائد کوئی کہے کہ تم اپنے قول سے آپ پکڑے گئے.اگر عبد القادر جیلانی اور محی الدین ابن عربی نے بھی توحید کے متعلق وہ بات بیان کی جو حضرت مرزا صاحب نے بیان کی اور خدا سے علم حاصل کر کے کی تو پھر حضرت مرزا صاحب میں ان سے بڑھ کر کونسی بات ہے لیکن ہم نے کب کہا ہے کہ ان کا علم خدا سے حاصل کردہ نہ تھا.بے شک ان کا علم خدا سے ہی حاصل کیا ہوا تھا لیکن نور نبوت نہ ہونے کی وجہ سے ان کا علم کامل نہ تھا.اس لئے ابن عربی تو وحدت وجود کی طرف نکل گئے اور سید عبد القادر حال کی کیفیات بیان کرنے تک محدود ہو گئے.اس سے آگے ایک قدم بھی نہ اٹھا سکے اور ہرگز اصول بتانے کی طرف نہ آئے.جن سے دوسرے لوگ بھی فائدہ اٹھا سکتے.لیکن حضرت مسیح موعود نے اصول بیان کئے اور آپ میں اور ان میں بیٹی تو فرق ہے کہ حضرت مسیح موعود نے آکر توحید کے اصول اور مقاصد بیان فرمائے مگر ان لوگوں نے ایسا نہ کیا.پس ان میں فرق حال اور اصول کا ہے اور یہ اتنا بڑا فرق ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مبعوث ہو کر توحید کو اس سے زیادہ پیش نہیں کیا.جتنا کہ سید عبد القادر جیلائی اور محی الدین ابن عربی نے کیا.رہے مولوی.وہ تو ایسا کرہی نہیں سکے.باوجود اس کے کہ آج سے ۶۰۰ سال پہلے بھی مولوی موجود تھے.پھر ان میں نیک بھی تھے.پرہیز گار بھی تھے مگر

Page 287

282 چونکہ ان کے علم کسی تھے.اس لئے وہ توحید کو اس رنگ میں نہ پیش کر سکتے تھے.اور نہ انہوں نے کیا.البتہ صوفیاء نے اسے کیا ہے مگر وہ بطور اصول کے نہیں.اب اگر کوئی اس کے بعد کہے کہ فلاں نے توحید کو پیش کیا یا فلاں نے اسے اس طور پر بیان کیا.یا اصول ہی بتائے تو اول تو یہ ناممکن ہے.لیکن اگر مان بھی لیا جائے تو پھر بھی وہ حضرت مسیح موعود کے برابر نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ صرف ایک صداقت کو پانے والا ہو گا نہ کہ اصل کو پیش کرنے والا.مثلاً نیوٹن نے تھیوری نکالی کہ زمین میں کشش ہے اور وہ ہر ایک شے کو اپنی طرف کھنچتی ہے اسے یہ بات اس طرح معلوم ہوئی کہ ایک دفعہ وہ باغ میں بیٹھا ہوا تھا کہ سیب گرا اور وہ زمین پر آ پڑا.تھوڑی دیر کے بعد ایک اور سیب گرا وہ بھی زمین پر آپڑا.اس پر اس کی توجہ اس طرح پھری کہ کیا وجہ ہے کہ یہ سیب زمین پر ہی گرتے ہیں کیوں نہیں اوپر چلے جاتے یا کیوں نہیں دائیں یا بائیں پڑتے.اس طرف توجہ ہونے کے بعد اس نے اس پر مزید غور کیا.اور آخر اس نتیجہ پر پہنچا.یہ زمین ہی میں کوئی ایسی خاصیت ہے کہ وہ اشیاء کو اپنی طرف کھینچتی ہے.اس سے اس نے کشش ثقل کی تھیوری قائم کی اور اب بعض سائنس دان کہتے ہیں کہ ساری سائنس کی بنیاد اسی پر ہے مگر خیراب اگر کوئی شخص سیب کو گرتا دیکھ کر یہ کہے کہ زمین پر آپڑا کیونکہ بھاری چیز ہمیشہ زمین پر گرتی ہے.تو اس کے متعلق یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے زمین پر گرنے کی وجہ معلوم کر لی بلکہ یہ کہا جائے گا کہ اسے یہ معلوم ہو گیا کہ ہر وزن دار شے زمین پر گرتی ہے کیونکہ وہ صرف حال بیان کرتا ہے.یہ اصل کہ کیوں گرتی ہے.اسے نیوٹن نے ہی دریافت کیا تھا اور اسی نے اس ”اصل" کو بیان کیا.اس کے بعد اب جو شخص بھی کسی وزن دار شئے کو زمین پر گرتے دیکھ کر یہ کہے گا کہ ہر بھاری شے زمین پر گرتی ہے.وہ حال بتانے والا ہو گا.اور نیوٹن کی طرح اصل کو معلوم کرنے والا نہ ہو گا.سید عبد القادر جیلانی نے اپنے آپ کو اپنے حال کی کیفیات بیان کرنے تک رکھا.کیونکہ وہ مامور نہیں تھے.مجدد تھے اور مجددیت کے مقام پر کھڑے تھے.اس لئے انہوں نے اپنے اندر کی کیفیت بیان کر دی کہ یہ کچھ میرے اندر گزر رہا ہے اور میں نے یہ کچھ دیکھا ہے.وہ مجدد تھے.مخاطبہ مکالمہ الیہ سے مشرف تھے اور اپنے زمانہ میں لوگوں کے لئے رحمت تھے.مگر توحید کو اصولی طور پر بیان کرنا ان کے لئے نہ تھا.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے رکھا گیا تھا.جو مامور کر کے بھیجے گئے.اس لئے آپ سے پہلے لوگ ایسا نہ کر سکتے تھے کہ توحید کے اصول بھی بیان کرتے توحید کا حال اور خاص کر وہ حال جو ان کے ساتھ گزر رہا تھا.وہی بیان کر سکتے تھے.اور یہ حضرت مسیح موعود

Page 288

283 علیہ الصلوۃ والسلام کا ہی کام تھا.کہ توحید کا اصل اور اس کے اصول اور اس کی غرض بیان فرماتے.پس یہ فرق ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور گزشتہ صوفیاء حضرت سید عبدالقادر جیلانی وغیرہ کے درمیان توحید بیان کرنے کے متعلق ہے.اب اس بات پر غور کرنے سے جو حضرت مسیح موعود نے پیش کی ہے.توحید چیز ہی اور بن گئی.حضرت مسیح موعودؓ فرماتے ہیں جتنا جتنا اس دنیا کی چیزوں پر غور کرو گے.تمہیں معلوم ہوگا کہ وہ تمہاری خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہیں اور اس لئے بنائی گئی ہیں کہ تمہیں نفع پہنچائیں.حتی کہ انسان بھی ایک دوسرے کی خدمت اور نفع کے لئے پیدا کیا گیا ہے.وہ اپنی ذات سے بھی نفع اٹھاتا ہے اور دوسروں کو بھی نفع پہنچاتا اور خود بھی دوسروں سے نفع حاصل کرتا ہے.یہ بات عام لوگوں کے ساتھ ہی تعلق نہیں رکھتی بلکہ خواص کا بھی یہی حال ہے.ایک نبی ہی کو لے لو.اگر وہ لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے تو وہ خود بھی دوسروں سے نفع اٹھانے اور دوسروں کی مدد حاصل کرنے کا محتاج ہوتا ہے.روٹی پکانے میں وہ دوسروں کا محتاج ہوتا ہے.کپڑے سلانے میں وہ دوسروں کا محتاج ہوتا ہے.حجامت بنوانے میں وہ دوسروں کا محتاج ہوتا ہے جنگوں میں پہرہ کے لئے وہ دوسروں کا محتاج ہوتا ہے.پھر ادنی اونی چیزیں ہیں.ان میں بھی وہ دوسروں کی مدد کا محتاج ہوتا ہے.غرض دنیا کی ہر چیز ہمارے نفع کے لئے ہے.اور اس نفع رسانی میں ایک دوسرے کا انسان محتاج ہے.پس جب دنیا کی ہر چیز ہمارے نفع کے لئے پیدا کی گئی ہے تو ہم کو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ در حقیقت توحید کا مسئلہ اسی لئے ہے کہ ہم ان سب چیزوں کو اسباب سمجھیں اور اصل مقصد خدا کو پانا ہو.وہی ہر وقت ہر حالت اور ہر بات میں ہمارے مد نظر رہے.وہ لوگ جو دنیا کی نفع رساں چیزوں کو دیکھ کر ان کی پرستش شروع کر دیتے اور انہیں خدا سمجھنے لگ جاتے ہیں.ان سے بڑھ کر نادان کون ہو سکتا ہے.وہ مسبب الاسباب کو چھوڑ کر اسباب کے پیچھے جا پڑتے ہیں اور اس سے بڑھ کر اور کوئی گمراہی نہیں ہے.ہندو گنگا کی پرستش کرتے ہیں.حالانکہ وہ ان بے شمار چیزوں میں سے ایک ہے.جو خدا نے انسانوں کے آرام کے لئے بنائیں اور اتنا بھی نہیں دیکھتے کہ خدا کی بھی کوئی چیر پھاڑ کر سکتا ہے.گنگا سے نہر نکالی گئی ہے.جب گنگا سے نہر نکالنے لگے تو ہندوؤں نے بہت شور مچایا کہ دیکھو جی مائی جی کا پیٹ پھاڑنے لگے ہیں.خدا کی قدرت چند بار کوشش کی گئی مگر گنگا میں سے نہر نہ نکل سکی.اس پر ہندوؤں نے کہنا شروع کر دیا ہم نہ کہتے تھے.گنگا مائی کا پیٹ پھاڑا نہیں جا سکتا.لیکن آخر کار کاٹلی نام ایک انگریز نے اس میں سے نہر کاٹ

Page 289

284 لی.اس پر کسی نے کہا اے کاٹلی نے نہر گنگا کاٹ لی تو توحید اعمال کی درستی کے لئے ہے.ایک طرف تو انسان کے لئے خدا تک پہنچنے کا اور ترقیات کا راستہ کھول دیتی ہے.یہ ادنیٰ درجہ اثر کا ہے.جو مادیات پر پڑتا ہے.کامل اثر یہ ہے کہ انسان اعمال میں اصلاح کرتا ہے کیونکہ انسان سمجھتا ہے ایک ہی ہاتھ ہے جو یہ کام کر رہا ہے اور وہ خدا کا ہاتھ ہے.یہ سمجھ کر انسان ایک طرف تو جسمانی اصلاح کرتا ہے اور دوسری طرف روحانی اصلاح کے لئے کوشش کرتا ہے.اب کیا کسی موحد مولوی یا صوفی (میری صوفی سے بھی مراد مولوی ہے.کیونکہ مولوی وہ ہوتا ہے جو پڑھ کر علم حاصل کرے.ایسے لوگوں نے بھی جو اب صوفی کہلاتے ہیں.مشاہدہ نہیں کیا ہوتا.سنی سنائی یا پڑھی پڑھائی باتیں کہتے ہیں.اس لئے وہ بھی مولوی ہیں) نے ایسے پیرا یہ میں توحید کو پیش کیا.اگر نہیں کیا تو دیکھو قرآن موجود تھا.اور اس میں یہ سب کچھ موجود تھا.پھر کیوں وہ اسے پیش نہ کر سکے.بات یہ ہے کہ وہ کرہی نہیں سکتے تھے.ورنہ کیا وجہ ہے کہ دنیا کے سامنے ایسے بنیادی مسئلہ کو پیش نہیں کر سکے.پھر محدث اور اہلحدیث موحد کہلانے والے بھی موجود ہیں.یہ اپنے بڑوں کی کتابوں سے نکال کر تو دکھائیں.اس درجہ کا پانا تو الگ رہا.اگر اتنے لمبے عرصہ میں اسے یہ سمجھ بھی سکے ہوں تو بھی بات ہے.یہ تو اسے سمجھ ہی نہیں سکے.کہ اصل توحید کیا ہے.فیح اعوج میں یہ نہ سمجھے اور اس زمانہ میں تو سمجھنا ذرا مشکل بھی تھا یہ تو اس زمانہ میں بھی توحید کو نہ سمجھ سکے جبکہ قرب نبوت تھا.اور ہر طرف حال ہی حال تھا جب حال کے زمانہ میں یہ اسے نہ سمجھ سکے تو پھر قال کے زمانہ میں یہ کب سمجھ سکتے تھے.جبکہ قال ہی قال باقی رہ گیا تھا.اسلام پر صدیاں ایسی گزر گئیں کہ اگر ان میں یہ کوشش کرتے تو شائد سمجھ سکتے لیکن انہوں نے نہ سمجھا اور نہ سمجھنے کی کوشش کی.اسلام کا نبوت کے قرب کا زمانہ گزرا جو حال کا زمانہ تھا لیکن اس میں نہ سمجھے اور سورج نکلے ہوئے میں یہ جب کچھ نہ دیکھ سکے تو سورج غروب ہو چکا تب یہ کیونکر دیکھ لیتے.پھر صحابہ کا زمانہ گزرا.اس میں بھی یہ کچھ نہ سمجھے.تابعین کا زمانہ گزرا اس میں بھی یہ نہ سمجھ سکے.تبع تابعین کا زمانہ گزرا.اس میں بھی یہ نہ سمجھ سکے.پھر سید عبد القادر جیلائی کے وقت بھی کچھ نہ سمجھے.دسویں صدی میں حضرت احمد سرہندی تشریف لائے ان کے وقت میں بھی یہ نہ سمجھ سکے.اس کے بعد گیارہویں صدی میں شاہ ولی اللہ صاحب تھے.ان کے وقت میں اور

Page 290

285 بھی یہ نہ سمجھ سکے.غرض جب فیح اعوج کا وقت شروع ہو گیا اس وقت یہ کیونکر سمجھ لیتے.قرون اولی کا وقت تو ایسا تھا جیسے سورج نکلا ہوا ہو.اور چاروں طرف روشنی ہی روشنی ہو لیکن یہ مولوی اس روشنی میں بھی اس نور کو نہ دیکھ سکے.بعد ازاں جب سورج ڈوب گیا اور فیج اعوج کا زمانہ شروع ہو گیا اس میں بھلا کیونکر اس بات کو دیکھ سکتے.ان کی مثال ایک چور اور مراثی کی ہے.ایک دفعہ مراثی کے ہاں چور گھس گیا.مراثی کے گھر میں کچھ نہ تھا.چور نے ہر چند تلاش کیا مگر کچھ نہ ملا.آخر ایک جگہ کچھ سفید سی چیز ا سے نظر آئی.اس نے سمجھا آتا ہے یہی لے چلو.اس کے لئے اس نے چادر بچھائی.لیکن دراصل روشنی تھی جو کسی سوراخ سے اندر پڑ رہی تھی.مراثی بھی جاگتا تھا اور سب کچھ دیکھ رہا تھا لیکن چونکہ اس کے گھر میں تھا ہی کچھ نہیں.اس لئے وہ خاموش رہا لیکن جس وقت چور نے روشنی کو آٹا سمجھ کر چادر بچھائی تو وہ بول اٹھا اور کہنے لگا جمان سانوں دن نوں ایتھے کچھ نہیں لبھ داتینوں رات نوں ایتھے کی لبھے گا" یعنی ہمیں تو اس گھر میں دن کو کچھ نہیں ملتا کہ کھائیں پئیں.تمہیں رات کو کیا ملے گا.اس پر چور بھاگ گیا اور چادر بھی وہیں چھوڑ گیا.مراثی نے وہ چادر اٹھالی اور کہا ”جمان جو ہوئے کچھ دے ہی جاناں سی.یہی حال ان لوگوں کا ہے جب نور نبوت جلوہ گر تھا تب ان کو کچھ نہ ملا.تو فیح اعوج کے زمانہ میں کیا مل سکتا تھا.جو روشنی کا زمانہ تھا اس میں ان کے گھروں سے کیا ملتا تھا جو اس وقت کچھ امید رکھی جائے جبکہ اندھیرا چھا گیا تھا.پس کچی توحید تیرہ سو سال کے عرصہ میں سوائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کوئی نہیں لایا.لوگ لاکھ عقل و تدبیر سے کام لیتے تو بھی ایسی توحید پیش نہیں کر سکتے تھے.یہ وہ کام ہے جو توحید کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا اور توحید کے متعلق تعلیم دی ہے.اس وقت میں نے بطور نمونہ اس کا ذکر کیا ہے.ورنہ اس پر سینکڑوں خطبے کے جا سکتے ہیں.اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی.تو یتلوا عليهم ایتک کے مفہوم پر اور اس کے دوسرے حصوں کے متعلق اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ اس بارے میں کیا ہے اس کی بابت انشاء اللہ تعالیٰ پھر بتاؤں گا کہ وہ کیسے کیسے ضروری کام تھے.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا میں آکر کئے.پس یہ غلط خیال ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کی ضرورت نہ تھی.اگر کوئی

Page 291

286 آنکھیں کھول کر دیکھے اور روحانیت کا کوئی شائبہ اس میں پایا جائے تو وہ یہ یقین کر لے گا کہ سورج کے بغیر دنیا کا گزارا ہو سکتا تھا وہ یہ تو یقین کر لے گا کہ چاند کے بغیر دنیا کا گزارہ ہو سکتا تھا وہ یہ تو یقین کر لے گا کہ بارش کے بغیر دنیا کے گزارا ہو سکتا تھا لیکن وہ یہ ہرگز یقین نہیں کرے گا کہ حضرت مسیح موعود کے بغیر ایک دم بھی گزارا ہو سکتا تھا.لوگ کہتے تو ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کے آنے کی کیا ضرورت تھی.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اگر آپ نہ آئے ہوتے تو نہ معلوم - کہاں سے کہاں پہنچ جاتے اور میرے لئے تو آپ کی صداقت کی یہی دلیل کافی ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہ آتے تو ہم لوگوں کی ایسی بدتر حالت ہوتی جو خیال میں بھی نہیں آسکتی.خدا جانے ہم کن کن گناہوں اور بدیوں میں پھنسے ہوتے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہی احسان ہے کہ ہمیں جو کہ ہلاکت کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے ہاتھ سے پکڑ کر تباہی اور بربادی سے بچا لیا اور ہماری پیدائش کی جو غرض ہے کہ خدا کا قرب پائیں اس کے حصول کے نہ صرف طریق بتائے بلکہ خدا تعالیٰ کے جلوہ کا مشاہدہ بھی کرا دیا.غرض حضرت مسیح موعود نے ہمیں جس مقام پر کھڑا کر دیا ہے ہمارے لئے آپ کی بعثت کی ضرورت کا اندازہ لگانے کے لئے وہی کافی ہے اور دوسرے لوگ بھی اگر غور کریں تو انہیں اس کی اہمیت معلوم ہو سکتی ہے لیکن اس کے دیکھنے کے لئے آنکھ چاہیے.دیانتداری کے ساتھ اگر کوئی شخص اس پر غور کرے گا.تو اسے سب کچھ مل جائے گا اور سب باتیں جن کی اس وقت دنیا کو روحانیت کے حصول کے لئے ضرورت تھی آپ کی تعلیم میں سے مل جائیں گی.مگر یاد رکھو نبی ہمیشہ بیج ڈال دیتا ہے اس لئے اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ ہر مضمون پر اسے علیحدہ لکھی ہوئی کتاب مل جائے تو یہ مشکل ہے.قرآن کریم نے بھی ہر مضمون پر علیحدہ کتاب نہیں رکھی.اس میں بھی بعض موقعوں پر بعض مسائل اجمالی طور پر اور بعض اشارات سے سمجھائے گئے ہیں.پس اگر کوئی یہ چاہے کہ بنی بنائی علیحدہ علیحدہ کتابیں اسے ہر مضمون پر مل جائیں.تو یہ اس کی غلطی ہے.ہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتابوں میں تمام مسائل بیان فرما دیئے ہیں اور بے شمار علوم ان میں جمع کر دیئے ہیں.انسان اگر ان پر غور کرے.تو گہرے سے گہرے مسائل کا پتہ ان سے لگ جاتا ہے اور پھر عجیب معارف و نکات کا بھی انکشاف ہوتا ہے.میں نے کئی دفعہ ارادہ کیا کہ براہین احمدیہ کو مسلسل پڑھ جاؤں لیکن ایسا نہیں کر سکا.جب بھی دو چار دس سطریں پڑھیں.تب ہی ایسے گرے اور لمبے خیال میں پڑ گیا.اور اس قدر معارف اور نکات

Page 292

287 ذہن میں آنے لگے کہ ایسا معلوم ہوتا کہ یہ الفاظ دروازہ تھا.جس کے آگے وہ سرسبز و شاداب باغ ہے کہ جس میں طرح طرح کے پھل اور میوے ہیں.اسی طرح آپ کی دوسری کتابوں کا حال ہے.ان کو اگر پڑھا جائے.تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ علوم کا دریا بریں مار رہا ہے.پس جہاں میں یہ بتانا چاہتا ہوں.کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کام کئے وہ دوسرے نہیں کر سکتے تھے.وہاں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ آپ کی کتابوں کو قصہ کہانی کے طور پر نہ پڑھو بلکہ نیک نیتی کے ساتھ ان کا مطالعہ کرو.تو معلوم ہو گا کہ ان میں ہر عقل والے کے لئے علم رکھا گیا ہے اور ہر قسم کا علم رکھا گیا ہے اور جب اس طرح کوئی شخص انہیں پڑھے گا تو اسے خود بخود معلوم ہو گا کہ جو کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا ہے.وہ کس قدر عظیم الشان ہے اور یہ بھی معلوم ہوگا کہ وہ آپ ہی کے کرنے کا تھا.علماء اسے کر ہی نہ سکتے تھے بلکہ وہ تو سمجھ بھی نہ سکتے تھے.الفضل ۲۰ اکتوبر ۱۹۲۵ء) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے "آئینہ کمالات اسلام" کے صفحہ ۲۲۳ ۲۲۴ میں حسب ذیل سطور ارقام فرمائی ہیں جن کی تشریح اور توضیح حضرت خلیفہ المسیح ثانی نے اس موقع پر کی ہے.یاد رہے کہ توحید کے تین درجے ہیں.سب سے ادنی درجہ یہ ہے کہ اپنے جیسی مخلوق کی پرستش نہ کریں.نہ پتھر کی نہ آگ کی.نہ آدمی کی نہ کسی ستارہ کی.دوسرا درجہ یہ ہے کہ اسباب پر بھی ایسے نہ گریں کہ گویا ایک قسم کا ان کو ربوبیت کے کارخانہ میں مستقل دخیل قرار دیں.بلکہ ہمیشہ مسبب پر نظر رہے.نہ اسباب پر.تیسرا درجہ توحید کا یہ ہے کہ تجلیات الیہ کا کامل مشاہدہ کر کے ہر ایک غیر کے وجود کو کالعدم قرار دیں اور ایسا ہی اپنے وجود کو بھی.غرض ہر ایک چیز نظر میں فانی دکھائی دے.بجز اللہ تعالی کی ذات کامل الصفات کے.یہی روحانی زندگی ہے کہ یہ مراتب ثلاث توحید کے حاصل ہو جائیں".اکبر الہ آبادی

Page 293

288 35 ایمان کی حفاظت کرو اور اعمال میں دوام پیدا کرو (فرموده ۱۶ اکتوبر ۱۹۲۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : گو میں بعض پچھلے خطبات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آکر جو کام کیا اس کے متعلق معیار نبوت کے مطابق بعض امور بیان کر رہا تھا اور ابھی بعض امور باقی ہیں.جن کا بیان کرنا ضروری ہے لیکن آج میں ایک ضرورت کے لئے مضمون کو بدل کر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس پر توجہ دلانا میرے نزدیک نہایت ضروری ہے.ایمان ایک ایسی چیز ہے کہ جو بہت ہی قیمتی ہے.اگر واقعہ میں کوئی خدا ہے.اگر واقعہ میں ہم اس کی مخلوق ہیں.اگر واقعہ میں انسان خدا کا ایسا قرب حاصل کر سکتا ہے کہ خدا کا جلوہ گاہ بن جائے.تو ایمان سے قیمتی اور کوئی چیز نہیں.دنیا میں لوگوں کو جان پیاری ہوتی ہے.لیکن یہ باتیں اگر صحیح ہیں اور ہر مسلمان اقرار کرتا ہے کہ وہ ان کو صحیح سمجھتا ہے تو پھر جان کی ایمان کے مقابل میں کیا قیمت ہے.جان کی اگر خواہش ہے تو اس لئے کہ وہ کوئی اچھی چیز حاصل کرے.زندگی کی خواہش اچھے احساسات کے لئے ہے.ورنہ جب انسان سمجھ لیتا ہے کہ دنیا میں اس کے لئے تکلیف ہی تکلیف ہے تو خود کشی کر لیتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کی خواہش نیک احساس سے پیدا ہوتی ہے.جب یہ حالت ہے تو پھر زندگی بغیر ایمان کے کچھ نہیں رہ جاتی.سوائے غلط ، تکلیف دہ غم پیدا کرنے والے گندے اور ناپاک احساسات کے اور کیا چیز باقی رہ جاتی ہے.پس ایسی صورت میں جان کی ایمان کے مقابل میں کوئی قیمت نہیں بلکہ بسا اوقات زندگی کی خواہش وبال جان ہو جاتی ہے.پس اگر وہ اس قسم کے امور پر خیال کرے.تو زندہ رہنے کو وہ مصیبت خیال کرے گا نہ کہ خوشی.علاوہ ازیں اگر اگلی زندگی کو مد نظر رکھا جائے.تو پھر اس دنیا کی زندگی کو زندگی کہنا ہی غلط

Page 294

289 ہوگا.کیونکہ یہ زندگی در حقیقت اس زندگی کے مقابلے میں جو کہ اگلے جہان کی زندگی ہے اور دائمی ہے کوئی قدر نہیں رکھتی اور اس کے سامنے اس کی کوئی قیمت نہیں.کیونکہ وہ عارضی نہیں مستقل ہے اور نہ ہی وہ اس کی طرح فانی ہے بلکہ وہ دائمی ہے.دنیا میں کون سا شخص ہو گا.جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو.کوئی بھی ایسا نہیں.اگر کسی کے پاس اور کچھ نہیں تو ایک بار یک چیتھڑا ستر ڈھانکنے کے لئے ضرور ہو گا.یہ بھی نہ سہی.انسان کے بالوں اور ناخنوں وغیرہ کی بھی قیمت ہے.ناخن اور بال بھی فروخت ہوتے ہیں بلکہ انسان کا وہ فضلہ بھی فروخت ہوتا ہے جس سے کھیتیاں ہوتی ہیں.پس اگر کوئی مادر زاد نگا بھی ہو.تو بھی اس کے پاس اس قسم کی چیزیں ہوں گی.پھر کیا وجہ ہے کہ تم اس کو مالدار نہیں کہتے.اسی لئے کہ وہ مال میں قلیل ہے.پس معلوم ہوا کہ کثرت کے لحاظ سے نام رکھے جاتے ہیں اور جسے ہم امیر کہتے ہیں.مال کی کثرت کی وجہ سے کہتے ہیں.جب یہ بات ہے کہ کثرت کے سبب نام رکھے جاتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ وہ عرصہ جو ابدی، قطعی اور غیر مقطوع ہے اس کو زندگی نہ کہا جائے اور دنیا میں چند روز کے لئے عارضی طور پر رہنے کو زندگی کہا جائے.اگر کثرت کو اصل چیز کہا کرتے اور قلیل کو چھوڑتے ہیں تو ایمان اور کفر کا بھی یہی حال ہے.جن کو ہم مومن کہتے ہیں.ممکن ہے کہ کفر کا کوئی حصہ ان کے اندر ہو اور جن کو ہم کافر کہتے ہیں ان کے اندر ایمان کا حصہ ہو لیکن باوجود اس کے ہم ایک کو مومن کہتے ہیں اور دوسرے کو کافر.کیونکہ اس وقت ہماری نگاہ کثرت پر ہوتی ہے اور جس چیز کی کثرت کسی شخص میں پائی جائے اسی کے لحاظ سے ہم اس کا نام رکھتے ہیں.مومنوں میں تو ایسے انسان ہوتے ہیں.جن میں ذرا بھی کفر نہیں پایا جاتا لیکن کافروں میں سے کم ایسے ہوتے ہیں جن میں ایمان ہوتا ہے.لیکن جن میں ہوتا ہے وہ اتنا تھوڑا ہوتا ہے کہ اس کی بناء پر انہیں مومن نہیں کہا جا سکتا.جب یہ حالت ہے.تو پھر کیا وجہ ہے کہ دنیا کی عارضی زندگی کو تو زندگی کہیں اور موت کے بعد کی حالت کو جس میں ہمیشہ ہمیش رہنا ہوتا ہے زندگی نہ کہیں اور اس کا نام زندگی نہ رکھیں.موت دراصل تبد یلئی حالت کا نام ہے اور دراصل زندگی اس کے بعد شروع ہوتی ہے جو دائمی ہے اس لئے یہاں بھی کثرت و قلت کا لحاظ ہوگا اور جس کی کثرت ہوگی.وہی حقیقی زندگی ہو گی.اور وہ وہی زندگی ہے جو اس فانی زندگی کے بعد ہے اس بارے میں مال و جان کا کوئی سوال نہیں رہ جاتا.کیونکہ انسان دنیا میں مال و جان کو اپنا مقصد نہیں سمجھتا.بلکہ عزت اور نیک نامی کو اصل چیز

Page 295

290 سمجھتا ہے.دیکھو مال کی خاطر کوئی جان نہیں دیتا بلکہ عزت کے لئے دیتا ہے.اگر کسی شخص کو یہ یقین ہو جائے کہ وہ مال دے کر بچ جائے گا تو وہ مال دے دے گا مگر اس کی خاطر اپنی جان نہ دے گا جو لوگ مال کی خاطر لڑتے ہیں وہ اس لئے لڑتے ہیں کہ جانتے ہیں ذلت کی زندگی عزت کی موت سے ادتی ہے اور ظالم کے آگے سرجھکا دینا بے حیائی ہے.اس لئے اگر انہیں جان بھی دینی پڑے تو وہ اس سے دریغ نہیں کرتے.تو ایسے لوگ بھی عزت کے لئے ایسا کرتے ہیں.پس اصل چیز عزت ہے.عزت کے معنی ہیں غلبہ اور الزام سے بریت اور ایک شخص الزام سے بری اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتا ہے اور آخرت کی عزت بغیر ایمان کے نہیں ہو سکتی.پس جب تک ایمان نہیں.تب تک کسی کی بھی عزت نہیں کیونکہ اگر خدا ہے اور اس کا قرب حاصل ہو سکتا ہے.اگر ہم لوگوں کو خدا کی صفات میں سے حصہ لینے اور ان سے متصف ہونے کی توفیق ملی ہوئی ہے.تو عزت کے یہی معنی ہیں کہ خدا کے قریب ہوں اور اس کی صفات سے متصف.پس عزت کے یہی معنی ہیں کہ ایک شخص ان ذمہ داریوں کو ادا کرے.جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس پر عائد کی گئی ہیں.پس جو شخص اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرتا.وہ معزز نہیں.کیونکہ جس کے اندر ایمان نہیں.اسے کسی غالب ہستی کا سہارا نہیں.جب یہ حالت ہے تو پھر کون سی چیزیں ہیں.جن کے لئے وہ قربانیاں کرے.اخلاق، علم ، حب وطن.یہ سب ایمان ہی کا ایک حصہ ہے.حب وطن یہی ہے کہ ایک شخص یہ جانتا ہو.اگر میرا ملک کسی دوسرے کے قبضہ میں آگیا تو میں امن میں نہیں رہ سکوں گا.اس طرح حب وطن بھی عزت کا حصہ ہے.علم بھی عزت کا حصہ ہے.مال تو ادنی چیز ہے سب سے اعلیٰ چیز ایمان ہے.پھر ایسی چیز کی حفاظت کی کوئی شخص اگر کوشش نہیں کرتا تو پھر کس کی کرے گا.کیا تم نے کسی کو دیکھا ہے کہ مال کی نگرانی ایک دفعہ کر کے پھر چھوڑ دے.کیا زمین دار زمین میں بیج ڈال کر پھر اس کی حفاظت ترک کر دیتا ہے.کیا ایک ماں اپنے بچے کو ایک دفعہ دودھ پلا کر پھر دودھ پلانا بند کر دیتی ہے.کیا کسی عقلمند کو دیکھا ہے آج لباس پہنے اور کل نہ پہنے.کبھی کسی شخص کو دیکھا ہے آج کھانا کھائے اور کل نہ کھائے.سوائے اس کے کہ وہ عبادت یا حفظان صحت کے لئے ایسا کرے.کبھی نہیں دیکھو گے کہ ایک شخص ایک دفعہ کھائے اور پھر بند کر دے.کبھی نہیں دیکھو گے کہ ماں ایک دفعہ اپنے بچے کو دودھ پلا کر پھر چھوڑ دے.کبھی نہیں دیکھو گے کہ ایک وقت پانی پی

Page 296

291 کر ہمیشہ کے لئے کوئی شخص پانی پینا بند کر دے.مگر سوال یہ ہے کہ کیوں ایسا ہوتا ہے اور کیوں ان کاموں کو مسلسل کیا جاتا ہے.اس کا جواب یہی ہے کہ ہر شخص سمجھتا ہے اور ہر فطرت اس بات کو پہچانتی ہے کہ محبوب چیزیں ہر وقت کی حفاظت چاہتی ہیں.جتنی کوئی چیز محبوب ہوگی.اتنی ہی اسکی حفاظت ضروری ہوگی.پس ایمان جو کہ سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہے کیا اس کے لئے یہ درست نہیں کہ اس کی ہمیشہ حفاظت کی جائے.دنیا میں بعض چیزیں ایسی ہیں.جو بعض محبوب چیزوں کو نقصان پہنچاتی ہیں اور لوگ ان سے بچانے کے لئے ہر طرح کی کوشش کرتے ہیں.مثلاً انسان کے لئے بیماری ہے.مال کے لئے چور ہے.کھیتی باڑی کے لئے خراب موسم ہیں.گویا یہ ان چیزوں کے دشمن ہیں.جو اس تاک میں لگے ہوتے ہیں کہ ان کو نقصان پہنچائیں.کوئی شخص ایسا نہیں ہو گا جو ان کے بچانے کے لئے ان کی حفاظت نہ کرتا ہو.ہر شخص ان کی حفاظت کرتا ہے اور خوب سمجھتا ہے کہ اگر حفاظت نہ کی جائے تو نقصان ہو گا.ایسا ہی ایمان کی حالت ہے.اس کی بھی اگر حفاظت نہ کی جائے تو اس کے بھی چور ہیں جو اس کو فور اتباہ کر دیتے ہیں.مگر میں تعجب کرتا ہوں کہ لوگ ان چیزوں کی تو ہر طرح حفاظت کرتے ہیں جو گو محبوب تو ہیں لیکن اتنی نہیں جتنا ایمان ہے مگر ایمان کی حفاظت نہیں کرتے.جو سب سے زیادہ محبوب ہے اور جس کے لئے ہمیشہ کی حفاظت کی ضرورت ہے.میں نے کبھی کسی کو غصہ سے ران پر ہاتھ مار کر یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ ہر روز کم از کم دو دفعہ کھانا پڑتا ہے.میں نے کبھی کس کو افسوس کے ساتھ ہاتھ مل کر یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ ہر دم سانس لینا پڑتا ہے.میں نے کبھی کسی ماں کو سرد آہیں بھر کر یہ کہتے نہیں سنا کہ مجھے ہر وقت بچہ کو دودھ پلانا پڑتا ہے.کیوں؟ اس لئے کہ وہ ان چیزوں کو قیمتی سمجھتے ہیں اور یہ چیزیں ان کی نگاہ میں محبوب ہیں.اس لئے وہ ان کی حفاظت کرتے ہیں اور اس میں کوئی تکلیف اور دقت محسوس نہیں کرتے.بلکہ راحت اور خوشی محسوس کرتے ہیں.ایک ماں ہی کو دیکھو.وہ بچہ کو دودھ بھی پلاتی ہے.اس کے لئے طرح طرح کی تکلیفیں اور مشقتیں بھی برداشت کرتی ہے.اس کے لئے اپنی جان کو بھی خطرہ میں ڈالتی ہے مگر وہ اس بات کو نہیں چھوڑتی جو اس کے نزدیک محبوب ہے وہ ہر طرح بچے کی حفاظت کرتی ہے.دودھ پلانے سے اگر وہ سمجھتی ہے کہ بچے کے آرام میں ابھی کسر ہے تو وہ اسے تھپکنا شروع کر دیتی ہے.تھپکنے سے اگر وہ سمجھتی ہے کہ آرام نہیں آیا.تو وہ لوریاں دینا شروع کر دیتی ہے.اگر لوریاں دینے سے بھی

Page 297

.292.اس کا دل تسلی نہیں پکڑتا تو اسے گود میں اٹھائے پھرتی ہے غرض وہ اپنی عقل ، اپنی سمجھ اپنی طاقت کے مطابق ہر طرح اس کی حفاظت کرتی ہے اور اس سے تھکتی نہیں اور نہ ہی اس سے تکلیف محسوس کرتی ہے بھلا کسی ماں کو کہہ تو دیکھو کہ تو کیوں سردیوں میں تکلیف برداشت کرتی ہے.کہ گیلی جگہ سوتی ہے اور بچہ کو سوکھی جگہ سلاتی ہے.آپ سردی برداشت کرتی ہے اور اسے گرم رکھنے کے لئے بے چین رہتی ہے.تجھے کیا پڑی ہے کہ یہ تکلیفیں اٹھاتی ہے.بچہ اگر پیشاب کرتا ہے تو دھوتی ہے اور شکایت نہیں کرتی.اس کی خاطر اپنی نیند خراب کرتی ہے.ساری ساری رات اس کو آرام پہنچانے میں جاگتی ہے.کوئی اگر کسی ماں سے یہ کہے کہ تو کیوں ایسا کرتی ہے تو دیکھو پھر کس طرح وہ پیچھے پڑتی ہے.چونکہ وہ بچہ اسے محبوب ہوتا ہے.اس لئے وہ اس کے لئے سب کچھ کرتی ہے.پس جس چیز کی جتنی قیمت زیادہ ہوگی.اتنی ہی اس کی حفاظت و نگرانی کی جائے گی.ایمان جو ساری عزتوں سے بڑھ کر ہے.جو سارے مالوں سے بڑھ کر قیمتی ہے.جو ساری محبوب چیزوں سے زیادہ محبوب ہے.سب سے زیادہ حفاظت بھی چاہتا ہے.جس طرح ایک شخص دوسری محبوب اور قیمتی چیزوں کی حفاظت کرتا ہے اور تھکتا نہیں.اس طرح ایمان کی بھی متواتر حفاظت ہونے چاہئے اور متواتر حفاظت کرتے ہوئے تھکنا نہیں چاہئے.مگر افسوس ہے کہ لوگوں پر مختلف دور آتے ہیں.ہم ایک وقت تو ایمان کی حفاظت کرتے ہیں.مگر دوسرے وقت میں نہیں کرتے اگر ہمیں ایمان کی محبت ہے تو کیا وجہ ہے کہ جس طرح ہم روز روٹی کھاتے ہیں اور تھکتے نہیں.روز پانی پیتے ہیں اور بیزار نہیں ہوتے.روز سوتے ہیں مگر گرانی محسوس نہیں کرتے.اسی طرح ایمان کی حفاظت نہیں کرتے.ہم ایک وقت تو اس کی حفاظت کے کام کو اختیار کرتے ہیں مگر دوسرے وقت میں اسے ترک کر دیتے ہیں.کیا وجہ ہے.کہ ماں ہر روز بچے کو دودھ پلاتی ہے اور اس دودھ پلانے سے وہ تھکتی نہیں مگر وہ ایک ایسی چیز کی حفاظت سے تھک جاتی ہے یا حفاظت کا نام ہی نہیں لیتی جو اس کے بچے سے بھی زیادہ قیمتی اور زیادہ محبوب ہے اور اس کے بچہ سے زیادہ حفاظت کی محتاج ہے.ایمان بھی غذا سے پالتا ہے.کبھی علم سے اسے غذا دی جاتی ہے اور کبھی عمل سے اسے پانی دیتے ہیں.بغیر اس کے ایمان کمزور ہو جاتا ہے اور ایک نازک پودے کی طرح جو ذرا سی بے احتیاطی سے مرجھا جاتا ہے.ذرا سی بے احتیاتی سے ضائع ہو جاتا ہے لیکن افسوس ہے کہ بعض افراد ایک وقت تو اس کی حفاظت کرتے ہیں مگر دوسرے وقت چھوڑ دیتے ہیں بعض جماعتیں ہیں جو ایک وقت

Page 298

293 تو کام پر بے حد زور دیتی ہیں لیکن دوسرے وقت پھر غافل ہو جاتی ہیں اور اس طریق سے ایمان کی وہ حفاظت نہیں ہو سکتی جو ہونی چاہئے.جس طرح ہم جان کی حفاظت کے لئے باقاعدہ غذا کھاتے ہیں.اسی طرح ایمان کی حفاظت کے لئے ہمیں علم و عمل کی باقاعدگی کی ضرورت ہے.اگر یہ نہیں تو ہمارا ایمان بھی محفوظ نہیں.پس اس کی طرف توجہ کرنی چاہئے.بے شک خدا تعالٰی نے آرام کے لئے بھی وقت رکھتے ہیں.مثلا" نیند ہے.جس کی غرض یہ ہے کہ جب انسان کام کرتے کرتے تھک جائے تو سو کر تازہ دم ہو جائے لیکن نیند کے یہ معنی نہیں کہ ایک شخص ہمیشہ سویا ہی رہے.نیند تو کام کرنے کے بعد آرام لینے کو کہتے ہیں.کیا تم سال بھر لگا تار سویا کرتے ہو.اگر نہیں تو اس کے کیا معنی کہ ایک وقت تو کام کرو اور پھر ایک لمبا عرصہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہو اور اس حد تک غفلت اختیار کرد که ایمان خطرہ میں پڑ جائے.بیشک قبض اور نبسط کے ماتحت انسان پر دونوں کیفیتیں آتی ہیں.مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ ہر وقت ہی انسان اپنے آپ کو قبض کی حالت میں رکھے اور خیال ہی نہ کرے کہ مجھ پر کبھی بسط کی حالت بھی آسکتی ہے.دیکھو تم سوتے بھی ہو اور جاگتے بھی ہو.یہ نہیں ہوتا کہ تم ہمیشہ سوتے ہی رہو.اسی طرح قبض اور بسط کی حالت ہے.قبض آتی ہے مگر وہ کسی بسط کے لئے آتی ہے نہ یہ کہ ہمیشہ انسان پر مستولی رہنے کے لئے آتی ہے اور یہ کبھی نہیں ہوتا کہ ایک انسان کو جب نیند آگئی تو پھر بیداری آ ہی نہیں سکتی.اگر ایسا ہو کہ بیداری نہ آئے تو لوگ مر جائیں اور زندہ نہ رہیں.ابھی نیند کی ایک بیماری نکلی ہے.جس میں انسان دو تین ماہ سوتا ہے اور پھر مرجاتا ہے لیکن بعض آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ اگر ان کے سونے کے اوقات کی نسبت جاگنے کے اوقات سے لگائی جائے.تو وہ سال میں چھ ماہ سوتے ہیں لیکن مرتے نہیں.کیونکہ وہ مسلسل نیند میں نہیں رہتے.اگر یہ بھی متواتر سوئیں.تو مر جائیں.یہی حالت ایمان کی ہے.اس پر بھی قبض اور بسط کی حالت آتی ہے لیکن قبض کی حال مسلسل اور متواتر چلی جائے تو ایمان مرجاتا ہے.اگر کوئی شخص ایسا کرے گا اور ہمیشہ اپنے آپ کو قبض کی حالت میں رکھے گا تو یقیناً اس کے ایمان پر موت آجائے گی.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ایمان کی حفاظت کریں اور یہ نہ کریں کہ ایک وقت تو ہوشیار ہوں اور دوسرے وقت غافل اور کمزور.کیونکہ جو لوگ ہر وقت ہوشیار اور چوکس نہ ہوں گے ان کے ایمان ضائع ہو جائیں گے.ایمان ایک موہت اور انعام ہے.اگر کوئی شخص اس کی بے قدری کرتا ہے تو وہ اس سے

Page 299

294 چھن جاتا ہے.میں کسی اور موقع پر اس کو بیان کروں گا.کہ موہبت بھی بغیر کسی عمل کے ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی.اس وقت میں قادیان کی جماعت کو خصوصاً اور باہر کی جماعتوں کو عموماً یہ تاکید کرتا ہوں کہ انہیں ہرگز ست نہ ہونا چاہئے.ایک دن کی سستی بعض اوقات ایمان کے ضائع ہو جانے کا باعث ہو جاتی ہے اور ذرا سی بے قدری صلب نعمت کا باعث بن جاتی ہے.ایمان کا پودا سب سے نازک پودا ہے.اگر اس کے متعلق ستی کی جائے تو فوراً مرجھا جاتا ہے.اس کا بڑھانا مشکل ہوتا ہے لیکن اسے سکھانا آسان ہے.انسان ایک وقت میں ولی نہیں ہو جاتا بلکہ بڑی محنت اور بڑے بڑے مجاہدات کے بعد ولی ہوتا ہے اس میں کچھ شک نہیں.بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک فوری تغییر انسان میں پیدا ہو جاتا ہے اور وہ چور سے قطب بن جاتا ہے لیکن مجھے اس جگہ اس کی بحث کی ضرورت نہیں کیونکہ اس میں بعض ایسی باریک باتیں ہیں کہ انسانی عقل ان کو دیکھ کر دنگ رہ جاتی ہے اور پھر یہ بات بھی یونہی نہیں ہو جاتی.بلکہ اپنے جذبہ عقیدت اور خیالات کے فوری تغیر سے محض بطریق موہت ایک شخص ان سب مراحل کو برخلاف عام لوگوں کے جلدی طے کر لیتا ہے جو اس مقام پر پہنچنے کے لئے ضروری ہوتے ہیں.مگر اس قسم کے واقعات تقدیر خاص کے ماتحت ہوتے ہیں.عام طور پر واقع نہیں ہوتے.عام طور پر تو یہی بات ہے کہ بڑی بڑی محنتوں بڑی بڑی ریا منتوں اور بڑے بڑے مجاہدوں کے بعد ایک شخص مقام ولایت پاتا ہے لیکن اس کے بالمقابل کفر کی یہ حالت ہے کہ آنکھ جھپکتے ابھی دیر لگتی ہے لیکن کفر کے گڑھے میں گرتے دیر نہیں لگتی.ایک لمحہ کے اندر اندر انسان کے قلب سے ایمان اس طرح نکل جاتا ہے جس طرح تیر کمان سے.دیکھو جب حضرت موسیٰ کے مقابلے میں بلعم باعور کھڑا ہوا تو وہ کس سرعت کے ساتھ گرا.سالہا سال کی کوششوں اور محنتوں کے بعد اس کی دعائیں قبول ہوئی شروع ہوئی تھیں.مگر حضرت موسیٰ“ کے مقابلہ میں کھڑے ہونے سے یک لخت گر گیا.یہ عام بات ہے.چڑہائی مشکل ہوتی ہے اور اترائی آسان ہے.اوپر سے بوجھ پھینک دینا آسان ہے لیکن نیچے سے اٹھا کر اوپر چڑھانا مشکل ہے.یہی حال ایمان کا ہے.پس ایمان کی حفاظت کرو اور اس کی حفاظت یہی ہے کہ اس کی طرف سے غفلت نہ کرو.تم دنیا میں معمولی سے معمولی چیزوں کی حفاظت میں لگے رہتے ہو.لیکن اگر ایمان جیسی قیمتی چیز کی حفاظت تم چھوڑ دو.تو اس سے بڑھ کر خطر ناک بات اور کوئی نہیں ہوگی.پس اس بات کا خیال رکھو کہ متواتر اس کی حفاظت ہو.یہ نہیں کہ ایک وقت تو تم جوش سے کام کرو اور

Page 300

295 دوسرے وقت بالکل خاموش ہو جاؤ.آنحضرت ﷺ ایک دفعہ ایک عورت کے ہاں تشریف لے گئے.اس نے چھت کے ساتھ ایک رسی باندھ رکھی تھی.آپ نے جب اسے دیکھا تو پوچھا.یہ رسی کیسی ہے.اس نے عرض کی کہ اپنے آپ کو عبادت کے لئے بیدار رکھنے کے لئے اس سے اپنے سر کی چوٹی باندھ لیتی ہوں.یہ سن کر آنحضرت ﷺ نے فرمایا.عبادت وہی اچھی ہے جس میں دوام ہو اور جسے آسانی کے ساتھ ایک شخص نبھا سکے.تو دوام نہایت ضروری چیز ہے اور ہر ایک شخص کے لئے یہ ضروری ہے کہ ایمان کی حفاظت کے لئے ہمیشگی اختیار کرے.اس موقع پر شائد کوئی کہے کہ چونکہ ہم پر بڑے بڑے بوجھ لا دے گئے ہیں.اس لئے ہم اپنی کوششوں کو دائم برقرار نہیں رکھ سکتے.ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ اپنی مالی اور جسمانی قربانیوں کو پہلی قربانیوں کے سامنے رکھ کر دیکھے.جو پہلے لوگوں نے کیں.اسے معلوم ہو جائے گا کہ ان کے مقابل پر ان کی کوئی حقیقت نہیں.جب یہ بات ہے کہ پہلی قربانیوں کے بالمقابل ہماری قربانیاں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتیں.تو کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ ہم پر بوجھ لادے گئے ہیں اور ہم دائمی طور پر انہیں اٹھا نہیں سکتے.ابھی تو تم نے فرض بھی پورے نہیں کئے.کجا سفن وتر اور نفل - نوافل کے متعلق تو یہ کہہ سکتے ہو کہ یہ زیادہ ہیں یا کم لیکن ابھی تو جو کچھ تم کر رہے ہو یا جو کچھ کرنے کے لئے کہا جاتا ہے.یہ سب فرائض میں ہی داخل ہے.ابھی تو تم نے وہ قربانیاں کرنی ہیں جو بطریق سفن سمجھنی چاہئیں.پھر ایسی قربانیاں بھی کرنی ہیں جن کا تمہیں حکم تو نہیں مگر تم نے اپنی خوشی سے کرنی ہیں.ان کو بطور نوافل کے سمجھنا چاہئے.لیکن ابھی سے یہ کہنا جبکہ ابھی فرض بھی پوری طرح ادا نہیں ہوئے کہ یہ بوجھ ہیں اور ہم دائمی طور پر انہیں قائم نہیں رکھ سکتے.خطرناک بات ہے اور اگر یہی حال ہے تو پھر ان قربانیوں کی کوئی امید نہ کرنی چاہئے جو بطریق سنت تم نے کرنی ہیں اور ان قربانیوں کی بھی کوئی امید نہ رکھنی چاہئے جو بطریق نفل تم نے کرنی ہیں کیونکہ جب تم فرائض کے ادا کرنے سے ہچکچاتے ہو تو سنت، نفل ، و تر وغیرہ کی کس طرح توقع ہو سکتی ہے.پس تمہیں ہوشیار ہو جانا چاہئے تا ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں ورغلائے کہ تمہاری قربانیاں بڑھ گئیں.میں سچ کہتا ہوں کہ بڑھ نہیں گئیں بلکہ وہ تو ابھی پوری بھی نہیں ہوئیں اور بہت ہی کم ہیں جب تم اس مقام پر پہنچو گے کہ یہ پوری ہو جائیں تو پھر ایسی قربانیاں شروع ہونگی جو سنت کے طور پر ہونگی پھر ان کے بعد وہ قربانیاں ہونگی جو اپنی خوشی کے ساتھ کی جائیں گی.اور وہ نفل کے طور

Page 301

296 پر ہونگی.پس فرائض کی ادائیگی پر نہ اتراؤ کیونکہ ایسا شخص جو فرائض پر اتر آتا ہے ہلاک ہو جاتا ہے.میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ایمان میں سستی نہ کرو.وہ جماعتیں جو کل کام کرتی تھیں اور آج نہیں کرتیں.وہ شخص جو ایک وقت کام کرتا تھا اور دوسرے وقت اس نے کام کرنا چھوڑ دیا.وہ پہاڑ سے نیچے گر رہا اور خدا سے دور جا رہا ہے.پس ان کو ڈرنا چاہئے.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہم میں سے سب کو ایمان کی حفاظت کی توفیق دے اور میں یہ نصیحت بھی کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کے لوگ مستی نہ کریں.میں پناہ مانگتا ہوں.اس سے کہ کسی کا ایمان ہم میں سے لے لیا جائے.لیکن ہمیں چاہئے کہ ہم ہر لحظہ اس کے فضل کی تلاش کرتے رہیں اور اس کا رحم طلب کریں کیونکہ اس کے فضل کے بغیر ہم میں سے کسی ایک کے لئے ایک گھڑی بھی گزارنی مشکل ہے.پس میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہر وقت ہم پر اپنا فضل اور رحم فرماتا رہے اور ہمیں ایمان کی حفاظت کی توفیق بخشے ہم میں سے کسی کا ایمان نہ چھینے بلکہ اس کو محفوظ رکھے اور محفوظ رکھنے کے طریق اختیار کرنے کی ہمت عطا فرمائے.آمین.(الفضل ۵ نومبر ۱۹۲۵ء) ا بخاری کتاب الایمان باب احب الدین الی اللہ ادومہ.

Page 302

297 36 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے کارنامے (فرموده ۲۳ اکتوبر ۱۹۲۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں نے بعض پچھلے خطبات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض کام جو بتلوا علیهم اینک کے ماتحت تھے.بیان کئے تھے.آج میں پھر اسی حصہ آیت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اور کام بیان کرنا چاہتا ہوں.آیات اللہ سے مراد تمام وہ چیزیں ہیں.جو خدا تعالیٰ کی طرف اشارہ کرتی ہیں کیونکہ آیت کے معنی دلیل کے ہیں اور دلیل کے معنی وہ چیز ہے جو اور چیز کی طرف راہ نمائی کرتی اور اس کا پتہ دیتی ہو پس ہر وہ چیز جو خدا تعالی کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور اللہ تعالٰی کا پتہ دیتی ہے.آیت کہلاتی ہے.اسی لئے کلام الہی کو آیت کہا جاتا ہے اور اس کے ہر ٹکڑے کا نام بھی آیت ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کے تمام جملے اور فقرے آئتیں کہلاتی ہیں.کیونکہ ہر جملہ خدا تعالیٰ کی طرف دلالت کرتا ہے اور اس کی طرف راہ نمائی کرتا ہے.قرآن کریم کا کوئی حصہ اور کوئی ٹکڑا ایسا نہیں.جو اپنی ذات میں ایسے کمال اور ایسی خوبیاں نہ رکھتا ہو جو خدا تعالیٰ کی ذات پر دلالت نہ کرتی ہوں اور کوئی حصہ نہیں جو خدا تعالیٰ کا پتہ نہ دیتا ہو.پس قرآن کریم کے تمام ٹکڑے آئتیں کہلاتی ہیں.اسی طرح جس قدر خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام نازل ہوتے ہیں.وہ بھی چونکہ خدا کی طرف راہنمائی کرتے اور انسانوں کو پاک بناتے ہیں اس لئے آیات کہلاتے ہیں.اور یہی وجہ ہے کہ خدا کے انبیاء آیت کہلاتے ہیں.کیونکہ وہ بھی خدا کی طرف راہ نمائی کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ معجزات بھی آیات کہلاتے ہیں کیونکہ ان سے بھی خدا کی طرف اشارہ ہوتا ہے.

Page 303

298 اب میں اس تلاوت آیات کے متعلق کچھ بیان کرتا ہوں.جو حضرت مسیح موعود نے کلام الہی کی کی ہے اور جس سے ایک طرف تو بہت سی غلطیوں کی اصلاح ہو گئی ہے اور دوسری طرف بہت سے نئے علوم معلوم ہوئے ہیں.پہلی اصلاح جو حضرت مسیح موعود نے قرآن کریم اور کلام الہی کے ذریعہ کی.وہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں یہ عام عقیدہ رائج ہو گیا تھا کہ رسول کریم ال کے بعد سلسلہ وحی اور الہام بند ہو گیا ہے اور لوگ اس عقیدہ پر اس قدر پختہ تھے کہ اگر کہیں وحی کا لفظ ایسے کلام کے متعلق جو کسی انسان پر خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہو.بولا جائے تو معا" کفر قرار دے دیتے تھے.مجھے یاد ہے 1911ء میں ہم چند آدمی وفد کے طور پر ہندوستان کے عربی مدارس دیکھنے کے لئے گئے.جس وقت ہم اس دورہ کے لئے نکلے اسی زمانہ میں لکھنو میں ندوہ کا جلسہ تھا.جس میں سید رشید رضا صاحب ایڈیٹر المنار صدارت کے لئے مصر سے آئے تھے.ہم نے اپنے دورہ کے دنوں میں سے وہ دن لکھنو کے لئے رکھے.جو ندوہ کے جلسہ کے دن تھے.کیونکہ ہم ندوہ کی تعلیمی کوششوں کو جاننا چاہتے تھے جو ہمارے وفد کا مقصد تھا.ندوہ والوں نے چاہا کہ ہم ان کے مہمان ٹھہریں.پہلے تو ہم نے انکار کیا لیکن جب انہوں نے کہا اس طرح ہماری دل شکنی ہوگی تو ہم نے منظور کر لیا.جلسہ کے دو دن ہم انہیں کے ہاں ٹھرے.جس کمرہ میں ہمیں ٹھرایا گیا.اسی میں ایک اور صاحب جو پیشنر سیشن جج اور کانپور کے رہنے والے تھے ، بھی تھے.ان کے ساتھ ان کا لڑکا بھی تھا.جو بی اے تھا یا بی اے میں پڑھتا تھا.عام لوگوں کو علم تو ہو چکا تھا کہ ہم قادیان سے آئے ہیں.اس لئے وہ ہم سے باتیں کرنے کے لئے آتے تھے.ان میں سے ایک ندوہ کا عالم بھی تھا.ندوہ آزادئی خیال کی وجہ سے مشہور تھا اور کہا جاتا تھا کہ وہ خیال یا وہ رسوم جو رسول کریم ﷺ اور سلف صالحین کے خلاف ہوں.یہ لوگ انہیں ترک کر چکے ہیں.ایسے وسیع الخیال لوگوں کے مدرسہ کا مدرس آیا اور اس نے آتے ہی جو سوال کیا.وہ یہ تھا کہ کیا یہ درست ہے.مرزا صاحب پر وحی نازل ہوتی تھی.میں نے کہا ہاں.اس پر جھٹ اس نے یہ سوال کیا کیا امت محمدیہ کے اجماع کے مطابق وحی کا سلسلہ رسول کریم کے بعد جاری ہے.اس پر میں نے کہا.امت محمدیہ کا اجماع ایسا سوال ہے.جس کا حل ناممکن ہے.کون ایسا انسان ہے جو ہر زمانہ کے ہر انسان سے ملا ہو اور اس سے اس کا عقیدہ دریافت کیا ہو.پس اجماع خیالی بات ہے.پھر اجماع کیا.ایک آدمی بھی اگر قرآن کریم کے مطابق کوئی بات کہے.تو ہمارا فرض ہے کہ اسے مانیں.اس لئے ہمیں قرآن کریم پر غور کرنا چاہئے کہ وہ وحی کا سلسلہ جاری

Page 304

299 بتاتا ہے یا بند.اس پر اس نے کہا.آپ عجیب تاویلیں کر کے میرے سوال سے بچنا چاہتے ہیں.یہاں قرآن کا کیا سوال ہے.سوال تو یہ ہے کہ مسلمانوں کا عقیدہ کیا ہے اور کیا آپ مسلمان نہیں؟ میں نے کہا مسلمان وہ ہوتا ہے جو قرآن کو مانے اور میں ایسا ہی مسلمان ہوں اس پر جھلا کر کہنے لگا.میں نے کیسا صاف اور سیدھا سوال کیا تھا کہ علماء نے سلسلہ وحی کے جاری رہنے کے متعلق کیا کہا ہے.کیا انہوں نے جاری بتایا ہے مگر آپ قرآن کو پیش کرتے ہیں.میں.آپ قرآن کو پیش کرتے ہیں.میں نے کہا.میرا بھی بالکل سیدھا جواب ہے کہ قرآن کریم نے جاری رکھا ہے.بند نہیں کیا.اس کے متعلق گھنٹہ بھر تک وہ باتیں کرتا رہا.میں کہوں ہم کسی مولوی کے پابند نہیں.ان کے آپس میں بے حد اختلافات ہیں.قرآن کو دیکھو وہ کیا کہتا ہے اور وہ کہے آپ قرآن کیوں پیش کرتے ہیں.علماء کا عقیدہ بتائیں چونکہ مجھے اور کام تھا.اس لئے میں نے اسے مولوی سرور شاہ صاحب کے سپرد کر دیا کہ آپ اس سے باتیں کریں.آخر جب وہ باہر نکلا تو سیشن جج صاحب پاخانہ کر کے اندر آ رہے تھے.لوٹا ان کے ہاتھ میں تھا.اس سے بھی انہیں شرم سی محسوس ہوئی.وہ جلدی جلدی اندر داخل ہونے لگے کہ مولوی صاحب ان سے لپٹ گئے اور کہا شکر ہے آپ یہاں اہلسنت ہیں.غضب ہو گیا.یہ لوگ کہتے ہیں وحی کا سلسلہ جاری ہے.وہ انگریزی تعلیم یافتہ تھے اور سیشن جج رہ چکے تھے.وہ اس حرکت کو کس طرح برداشت کر سکتے تھے.سخت گھبرائے اور مولوی صاحب کو دھکہ دے کر کہنے لگے.تمہیں کس طرح معلوم ہے کہ میں وحی کے نزول کا قائل نہیں.کیسا بد تہذیب ہے.خواہ مخواہ چمٹ گیا ہے.جاؤ میں بھی احمدی ہوں میرا پیچھا چھوڑو.یہ اس مدرسہ کے مدرس کی حالت تھی.جو آزادی اور آزاد خیالی کا جھنڈا اٹھانے والا سمجھا جاتا تھے.غرض ایک طرف تو مولویوں نے وحی کا سلسلہ اس لئے بند کر دیا کہ ان کے نزدیک اس سے ختم نبوت ٹوٹ جاتی تھی اور دوسری طرف نو تعلیم یافتہ لوگ جنہیں ختم نبوت سے واسطہ ہی نہیں اور ہر بات کو اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھنا چاہتے ہیں اور جو اس بات کے تو قائل ہیں کہ کوئی سلسلہ دنیا میں جاری ہو کر بند نہیں ہو جاتا.مگر وہ یہ ماننے کے لئے بھی تیار نہیں کہ کوئی اور طاقت ان کی غفلتوں پر حاکم ہے.اس لئے اس زمانہ میں وحی کا نازل ہونا تو الگ رہا وہ تو یہ بھی نہیں مانتے کہ رسول کریم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام پر بھی وحی نازل ہوئی تھی.انبیاء کے متعلق وہ صرف یہ کہتے ہیں کہ عقل مند اور ہوشیار انسان تھے.غور فکر سے اچھی

Page 305

300 باتیں نکال لیتے تھے.اس قسم کا موقع اگر ہمیں بھی ملے تو ہم بھی نکال سکتے ہیں.غرض انہوں نے ہمیشہ کے لئے ہی انکار کر دیا کہ وحی کبھی نازل ہی نہیں ہوئی تھی.ایسے نازک زمانہ میں اسلام دو مصیبتوں میں گھرا ہوا تھا.ایک طرف خدا تعالیٰ کے متعلق نعطل صفات کا عقیدہ علماء میں پایا جاتا تھا.اور اسی وجہ سے وہ سلسلہ وحی کو بند قرار دیتے تھے.اور دوسری طرف انگریزی خواں وحی اعلیٰ خیالات اور پاک تصورات کا نام رکھ رہے تھے.ان کے نزدیک خداتعالی کی طرف سے آواز سنائی دینا یا نظارے دکھانا درست نہیں تھا.بلکہ بات یہ تھی کہ جب انسان سوچتا ہے تو اس کے قلب پر جو خیالات منعکس ہوتے ہیں.اسی کا نام وحی رکھا جاتا ہے.ان دو مصیبتوں میں اسلام آیا ہوا تھا.جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے.ایسے وقت میں کون تھا جو اصلاح کر سکتا؟ کیا مولوی؟ ان کی طاقت تھی کہ اس خرابی کی اصلاح کر سکتے.جن کا یہ خیال تھا کہ سلسلہ وحی بند ہو چکا ہے.امید تو بڑی بات ہے.ان مولویوں میں سے تو کوئی خیال بھی نہ کرتا تھا کہ مجھ پر وحی نازل ہو سکتی ہے.پھر مایوسی تو الگ رہی کہ انسان سمجھتا ہے میں اس چیز کے قابل نہیں ہوں کہ مجھے حاصل ہو.بلکہ مولوی تو یہ کہتے تھے کہ جو شخص کہے کہ مجھے وحی ہوتی ہے وہ کافر ہے.کیا ایسے مولوی اس رختہ کو بند کر سکتے تھے ؟ جو شخص بھیڑیے کو بکری سمجھ کر کان سے پکڑ کر لے آئے اور لاکر بکریوں میں چھوڑ دے.کیا وہ یہ امید رکھ سکتا ہے کہ اس کی بکریاں محفوظ رہیں گی.پھر وہ لوگ جو اس خیال کو جو اسلام کی بیخ کنی کرنے والا تھا.جب اسلام کا جزو بتاتے تھے.تو ان کے متعلق کس طرح امید کی جا سکتی تھی کہ اس کے نقصان سے اسلام کو بچا الليل سکیں گے.علماء کی تو یہ حالت تھی.دوسرا فریق نئی تعلیم حاصل کرنے والا تھا.وہ رسول کریم ﷺ کی وحی کا ہی منکر تھا.اس سے کیونکر امید ہو سکتی تھی کہ اس مشکل کو حل کرے گا جب ایسی حالت تھی.تو پھر یہ کہنا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی آنے والے کی کیا ضرورت تھی.کیسی جہالت اور نادانی ہے.ذرا غور تو کرو.دنیا کی کیا حالت تھی.وحی کے متعلق دو قسم کے خیال پائے جاتے تھے.یا تو یہ کہ اب نہیں آسکتی اور یا یہ کہ کبھی آئی ہی نہیں.محمد اس پر بھی نہیں نازل ہوئی تھی.یہ خیال ہی خیال ہے.جب " مسلمان کہلانے والوں کی یہ حالت ہو اور صوفیاء تک اسی میں مبتلا ہوں.سڑک پر چلتے ہوئے آواز آئی تو کہہ دیا استخارہ نکلا ہے.اس طرح وہ بھی وحی کو بند سمجھتے تھے.اپنے خیالات، افکار اور آراء پر بنیاد سمجھتے تھے.ایسے لوگ کب اصلاح کر سکتے تھے.ایسی حالت میں ایک

Page 306

301 ہی انسان اصلاح کر سکتا تھا اور وہ وہی ہو سکتا تھا.جو خود خدا تعالیٰ کا کلام سنے اور بتائے کہ یہ وحی ہے.پس اس اصلاح کے لئے ایک ہی شخص کھڑا ہو سکتا تھا اور وہ وہی جو خود خدا تعالیٰ کی وحی حاصل کرے.اور یہ مامور کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا.بھلا سوچو تو وہ مولوی جس نے کبھی صحیح خواب بھی نہ دیکھی ہو.جس کے کان خدا تعالیٰ کی آواز سے قطعا " نا آشنا ہوں.کیا وہ کہہ سکتا تھا کہ وحی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور اگر وہ کہتا تو اس کی بات سنتا کون اور وہ کیا دلیل دیتا.قرآن کریم کی آنتیں پیش کرتا؟ یہ تو پہلے بھی موجود تھیں.پھر سلسلہ وحی کو بند کرنے کا عقیدہ کیوں پیدا ہوا.ایسے مولوی کی مثال وہی ہوتی جو اس طرح مشہور ہے.کہ سکھوں کے زمانہ میں گیہوں لوٹ لی جاتی تھی.چونکہ فساد بہت پھیلا ہوتا تھا.اس لئے کھیتی باڑی کم کی جاتی تھی اور گیہوں کی پیداوار کم ہوتی تھی اور جو ہوتی تھی.اسے سکھ لوٹ کر لے جاتے تھے تاکہ فوج کے کام آئے.اس وقت کے متعلق ایک لطیفہ بیان کرتے ہیں اور وہ یہ کہ کوئی شخص مجلس میں کہہ رہا تھا.گیہوں کی روٹی بڑی مزے دار ہوتی ہے.سب لوگ حیران تھے کہ اس نے گیہوں کی روٹی کہاں کھائی ہے.ایک شخص نے سوال کیا.کیا کبھی تم نے گیہوں کی روٹی کھائی ہے؟ اس نے کہا.میں نے تو نہیں کھائی.میرے دادا صاحب بیان کرتے تھے.کہ انہوں نے ایک آدمی کو گیہوں کی روٹی کھاتے دیکھا تھا.وہ بچا کے مار مار کے کھا رہا تھا.پس اگر کوئی مولوی یہ کہتا کہ وحی جاری ہے تو اس کی یہی مثال ہوتی کہ ہمارے دادا صاحب ایسا کہتے تھے اور اسے کون مان سکتا تھا.اسے وہی جواب دیا جاتا.جو گیدڑ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ رات کو غار سے نکل کر کہتا ہے.پدرم سلطان بود اور دوسرے گیدڑ کہتے ہیں.ترا چہ.ترا چہ.تراچه - ترا چہ.پس اگر ایسے مولوی یہ کہتے بھی کہ وحی کا سلسلہ جاری ہے تو ان کے پاس کیا ثبوت تھا اور ہمیں ان کے کہنے سے کیا فائدہ ہو سکتا تھا.جس شخص نے خود وحی کا مزہ ہی نہ چکھا ہو.ممکن ہی نہ تھا کہ وہ با آواز بلند کہہ سکتا کہ وحی جاری ہے اور اللہ تعالیٰ کو اس الزام سے بری قرار دے سکتا کہ دنیا میں چاہے کتنی بربادی اور سیاہ کاری پھیل جائے.وہ اپنا کلام نہیں نازل کر سکتا.اس بہت بڑے الزام سے اگر خدا تعالیٰ کی ذات کو پاک کر سکتا تھا تو وہی جو مامور ہو.اور یہ غلط ہے کہ کوئی مولوی یہ اصلاح کر سکتا تھا.اول تو ہم کہتے ہیں.جتنی اصلاحیں حضرت مرزا صاحب نے کی ہیں.خواہ وہ بغیر

Page 307

4112 وحی کے ہوں اور لوگوں نے کیوں نہ کیں.لیکن اگر بفرض محال یہ مان لیا جائے کہ وہ اصلاحیں جو آپ نے بغیر وحی کے کیں.مولوی کر سکتے تھے.گو انہوں نے نہیں کیں.تو یہ اصلاح ایسی تھی کہ جسے مولوی کسی طرح کر ہی نہ سکتے تھے.یہ حضرت مرزا صاحب نے ہی بتایا ہے کہ وحی اب بھی نازل ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے اور اس کے بغیر کامل یقین اور ایمان حاصل نہیں ہو سکتا.اور نہ کوئی شخص رسولوں کو مان سکتا ہے.کون مان سکتا تھا.جس نے وحی نہیں سنی کہ محمد ﷺ پر وحی نازل ہوتی تھی.مسلمانوں کا سنی سنائی باتیں بیان کرنا ایسا ہی تھا جیسے ہندوؤں میں نیل کنٹھ وغیرہ کے قصے مشہور ہیں.اگر اس قسم کے خرافات کو کوئی نہیں مان سکتا تو اسبات کو کون مانے گا کہ آج سے تیرہ سو سال قبل تو وحی ہوتی تھی مگر اب نہیں ہو سکتی.حالانکہ جو بات خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوئی ہوتی ہے.خصوصا وہ جس کی ضرورت ہو.وہ کبھی بند نہیں ہو سکتی.مگر وہ یہ تو مانتے ہیں کہ ۱۴ سو سال کے عرصہ میں جیسے علم ہیت کے تغیرات کی ضرورت تھی.اسی طرح وحی کی ہے مگر کہا یہ جاتا ہے کہ آئندہ وحی کبھی آنے کی نہیں.اس بات کو کون عقل مند مان سکتا ہے کہ پہلے کبھی وحی آیا کرتی تھی جواب نہیں آتی.فطرت انسانی انہی باتوں کو تسلیم کرتی ہے جو ہوتی رہتی اور جن کے آئندہ ہونے کا امکان ہوتا ہے.پس یہ مسئلہ صرف مامور من اللہ ہی حل کر سکتا تھا اور یہ غلط ہے کہ کوئی مولوی یا صوفی بھی اسے کر سکتا تھا.ساری دنیا کے مولوی اسے حل نہ کر سکتے تھے اور اگر حل کرنے کی کوشش کرتے تو اور زیادہ پیچیدگی پیدا کر دیتے.وہ مولوی جو یہ کہتے کہ ہمیں کبھی وحی نہیں ہوئی.وہ اگر کہتے کہ وحی نازل ہوتی ہے.تو اس سوال کا کیا جواب دے سکتے کہ کس پر نازل ہوتی ہے.اس طرح تو وحی کے نازل نہ ہونے کا یقین اور بڑھ جاتا کہ جس سے پوچھا جائے وہی کہتا ہے مجھ پر نازل نہیں ہوتی.اس لئے یہ بات ہی غلط ہے کہ نازل ہوتی ہے.ہر ایک عقل مند اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ بغیر اس کے کہ الہام کا دروازہ کھلا ہو اسلام اور ایمان قائم نہیں رہ سکتا.اور اگر اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کے مامور حضرت مرزا صاحب نہ آئے ہوتے تو اسلام اور ایمان بھی نہ ہوتا.رسول کریم نے جو یہ فرمایا ہے کہ آخری زمانہ میں قرآن دنیا سے اٹھ جائے گا.تو اس کا یہی مطلب ہے.الہام لائے گا.جب کہا گیا کہ وحی نازل ہونا بند ہو گیا ہے.تو وحی آسمان پر چلی گئی اور قرآن کے صرف الفاظ رہ گئے.اب حضرت مرزا صاحب نے جب یہ ثابت کر دیا کہ وحی جاری ہے تو الفاظ میں روح آگئی.پس جو شخص بے تعصبی سے غور کرے گا.اسے ماننا پڑے گا کہ یہی اکیلا کام ایسا عظیم الشان

Page 308

303 ہے.کہ اگر ساری اسلامی دنیا حضرت مرزا صاحب کی شکر گزاری اور تحمید میں عمر بسر کر دے.تو عمدہ برا نہیں ہو سکتی.اللہ تعالٰی ہمیں توفیق دے.کہ ہم اس وحی کا دروازہ جس کا پتہ حضرت مسیح موعود نے بتایا ہے نہ صرف اپنے لئے کھلا رکھیں.بلکہ دوسروں کو بھی اس سے فائدہ پہنچائیں اور اس کے بچے عامل ہوں.الفضل ۷ نومبر ۱۹۲۵ء)

Page 309

304 37 تخلقوا با خلاق الله (فرموده ۳۰ اکتوبر ۱۹۲۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : آج میں اپنے اس مضمون کو ترک کر کے جس کا سلسلہ گزشتہ چند جمعوں کے خطبات میں جاری تھا.اپنی جماعت کے دوستوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اخلاق فاضلہ جس حد تک دنیا میں امن اور امان قائم رکھنے میں ممدو معاون ہو سکتے ہیں اور کوئی شے اس حد تک نہیں ہو سکتی.اخلاق فاضلہ کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ اپنے حق سے زیادہ مانگا جائے اور نہ مانگنا ظلم نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیشہ مثال کے طور پر فرمایا کرتے تھے کہ کسی کے ہاں مہمان آیا.صاحب خانہ نے دل کھول کر اس کی خاطر و مدارت کی اور جب مہمان رخصت ہو کر روانہ ہونے لگا.تو میزبان نے معذرت کرتے ہوئے کہا.میں آپ کی اس طرح خدمت نہیں کر سکا جیسی کہ کرنی چاہئے تھی.جو کچھ میں نے کیا وہ آپ کی شان کے لائق نہ تھا.اس لئے اگر کوئی غلطی ہو گئی ہو تو معاف فرمائیں.مہمان نے جواب دیا آپ نے مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا.جو آپ اس رنگ میں اپنا احسان مجھ پر جتانا چاہتے ہیں.احسان تو میرا ہے آپ پر اور آپ الٹا اپنا احسان مجھ پر جتاتے ہیں.اس پر میزبان نے کہا کہ میں کوئی احسان نہیں جتا رہا.بلکہ میں تو اپنی کو تاہی کے لئے عذر خواہی کر رہا ہوں.جو آپ کی تواضع کرنے میں مجھ سے ہو گئی ہو.لیکن اگر مجھے یہ بھی معلوم ہو جائے کہ آپ نے مجھ پر احسان بھی کیا ہے.تو میں اور بھی ممنون ہوں گا.اس پر مہمان نے کہا.اگر اور باتوں کو میں چھوڑ بھی دوں تو بھی میرا یہ احسان کیا کم ہے کہ میں نے تمہارے ہزاروں روپے کے مال کو آگ نہ لگائی.جب تم میرے لئے اندر کھانا لینے جاتے تھے.اس وقت میرے لئے یہ آسان تھا کہ میں مکان کو آگ لگا دیتا.مگر میں نے ایسا نہیں کیا.تم ذرا سوچو تو سہی.اگر میں آگ لگا دیتا تو

Page 310

305 میرا کیا کر سکتے تھے.کیا یہ میرا احسان نہیں ہے؟ جب مہمان نے اس قسم کی باتیں کیں.تب میزبان پر یہ بات کھلی کہ یہ شخص کسی اخلاق کا آدمی ہے.پس اگر احسان کے یہ معنی ہیں کہ کسی کو نقصان نہ پہنچایا جائے تو یہ غلط ہے کیونکہ کسی کو نقصان نہ پہنچانا احسان نہیں اس شخص نے زیادہ سے زیادہ اگر کچھ کیا تو یہ کیا کہ اسے نقصان نہیں پہنچایا.اب اس نقصان نہ پہنچانے کو وہ احسان سمجھتا تھا جو سراسر غلط ہے.بعض آدمی سمجھتے ہیں کہ ہم نے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا اور اس پر خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے احسان کیا.مگر یہ بات کوئی ایسی بات نہیں جس پر فخر کیا جائے.کیونکہ کسی کو نقصان نہ پہنچانا احسان نہیں ہے.بلکہ ظلم سے رکنا ہے اور ظلم سے رکنا اور احسان کرنا دو الگ الگ چیزیں ہیں.وہ شخص بڑا ہی احمق ہے.جو ان دونوں میں تمیز نہیں رکھتا اور میرے نزدیک ظلم سے رکنے کو احسان سمجھنا پرلے درجہ کی مسخ شدہ فطرت کا کام ہے.احسان یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے قصور کیا ہے اور جس کا اس نے قصور کیا ہے.اگر وہ یہ دیکھ کر اسے معاف کر دے کہ سزا سے الٹا اثر ہو گا اور بجائے اصلاح کے سزا فساد پیدا کرے گی.تو یہ احسان ہے.کیونکہ اس میں اس کی بھلائی مقصود ہے.چنانچہ بعض لوگ ایسا ہی کرتے ہیں کسی کے قصور کرنے پر وہ دیکھتے ہیں کہ کونسا طریق بہتر ہو گا.اگر وہ سزا دینے میں بھلائی پاتے ہیں تو اسے سزا دیتے ہیں اور اگر معاف کرنا بہتر نظر آتا ہے تو اسے معاف کر دیتے ہیں.مگر میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے لوگ قصوروں کی معافی کے لئے تیار نہیں ہوتے اور جھٹ بدلہ لینے پر تل جاتے ہیں.خواہ بدلہ لینے میں اس سے بڑھ کر ہی نقصان کیوں نہ ہو.کسی کا نام لینے کی ضرورت نہیں.لمبے عرصہ کی بات ہے.ایک شخص کی بیوی فوت ہو گئی اس کا جنازہ یہاں شہر سے باہر لا کر رکھا گیا.چونکہ ایسے موقعوں پر عورتوں کا جانا مناسب نہیں ہوتا اور نہ ہی عورتیں میت کے ہمراہ جایا کرتی ہیں.پھر ان کے لئے ایسے مقامات پر جانا پسندیدہ بھی نہیں.اس لئے ہمارے ہاں کی عورتیں نہ گئیں.میں اس وقت قادیان میں نہ تھا.باہر گیا ہوا تھا.جب واپس آیا تو میں نے اس شخص کو تعزیت کا خط لکھا.اس نے جواب میں لکھا.میں اس تعزیت کا ممنون ہوں.بے شک آپ نے میرے ساتھ ہمدردی کا اظہار فرمایا اور بیشک آپ نے میرے دل کے زخموں پر پھاہا رکھا.لیکن افسوس کہ آپ کے گھر کی عورتیں اس موقع پر نہ آئیں.یہ ایسا ظلم ہے کہ میں کبھی بھلا نہیں سکتا.اگرچہ اس شخص نے یہ کہا کہ میں اسے کبھی نہیں بھلا سکتا.مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس

Page 311

306 نے اب یہ بات بھلا دی ہوگی.کیونکہ میں سمجھتا ہوں.انسانی فطرت ہمیشہ ایسی باتیں یاد نہیں رکھ سکتی.اگرچہ اس کو میرے ساتھ اختلاف ہے مگر میرا خیال ہے کہ اس قسم کے شکوے اب مٹ چکے ہوں گے اور اس شخص نے بھی ان باتوں کو بھلا دیا ہو گا.کیونکہ یہ کوئی اچھے اخلاق نہیں کہ اس قسم کی باتوں کو یاد رکھا جائے.مگر بعض لوگ دیر تک شکووں کو یاد رکھتے ہیں.ایک شخص نے لکھا ہے کہ یہاں ایک میت ہو گئی اور اس کے لواحقین نے کہا مرنے والی نے کہا تھا.فلاں فلاں عورتیں میرے جنازے پر نہ آئیں.مرنے والی تو مرگئی اب یہ زندوں کے سر پر تھا کہ اگر اس قسم کی بات ہوئی بھی تھی تو اس کا ذکر نہ کرتے.اس طرح گویا وہ ان شکووں کو پھر تازہ کرتے ہیں جو ایک فریق کے مرنے سے مٹ چلے تھے.اگر کسی مرنے والی نے ایسا کہا ہو.تو میں کہوں گا وہ ہذیان تھا یا بیماری کا اثر کہ اس نے ایسی باتیں کہیں.ورنہ جب موت قریب ہوتی ہے تو اس وقت مرنے والا یہ دیکھ کر کہ میں کوئی دم کا مہمان ہوں اپنے قلب سے ہر قسم کے بغض نکال دیا کرتا ہے.چنانچہ یہ ایک عام بات ہے اور ہر شخص جانتا ہے کہ لوگ جب موت کے قریب ہوتے ہیں تو اکثر دوسروں سے کسے سنے کی معافی مانگتے ہیں اور خود بھی دوسروں کی خطائیں اور قصور معاف کر دیتے ہیں.پس ایسے وقت میں جبکہ لوگ تلاش کر کر کے قصوروں کی معافی کراتے ہیں.یہ کہنا کہ کسی مرنے والی نے ایسی وصیت کی تھی.بالکل فضول ہے اور پھر اس کے مطابق عمل کرنا یہ اور بھی واہیات کی بات ہے.کیونکہ جب یہ ایک عام بات ہے کہ ایسے وقت میں لوگ دوسروں سے معافی مانگتے اور خود بھی ان کو معافی دیتے ہیں.تو اگر کوئی اس قسم کی بات کرے اور اس قسم کی وصیت کرے کہ فلاں عورت میرے جنازے پر نہ آئے.یا فلاں مرد میرے جنازے کو ہاتھ نہ لگائے تو یہ یا تو بیماری کا اثر ہے یا ہذیان ہے جس کی فی الحقیقت کوئی اصل نہیں اور جب اس قسم کی باتیں ہذیان سے زیادہ نہیں.تو پھر زندوں کا اس کے مطابق عمل کرنا درست نہیں.عربوں میں تو یہ دستور تھا کہ کسی کی جانکنی کے وقت وہ لوگوں کو پکڑ پکڑ کر لاتے اور ان سے مرنے والے کو معافی دلاتے اور اس سے ان کو اور اگر جانکنی کے وقت کسی کو زیادہ تکلیف ہوتی تو وہ سمجھتے کہ شائد اس کی معافی نہیں ہوئی اور جب کبھی اس قسم کا واقعہ ہوتا وہ شہر والوں اور تمام ان لوگوں کے پاس جاتے.جن کے ساتھ مرنے والے کا تعلق ہو تا یا جن کے ساتھ اس کا پیارو محبت ہو تا تھا.ان کو لا کر معافی کراتے.پس جبکہ یہ ایک عام بات ہے اور مرتے وقت انسان ایسے خیال رکھتا کوا

Page 312

307 ہے اور کوشش کرتا ہے کہ معافی کر اور کرالوں.تو یہ امید نہیں رکھی جاتی کہ کوئی مرنے والا ایسی وصیت کر جائے کہ جس کے مرنے کے بعد بھی جھگڑا پیدا ہو یا وہ اس قسم کی کوشش کرے کہ اس جھگڑے کو جو اس کی زندگی میں پیدا ہوا.اس کے مرنے کے بعد بھی قائم رکھا جائے.اور اگر ہو تو ہذیان ہو گا.اور کسی عقل مند کے لئے یہ مناسب نہیں کہ اس کی پابندی کرے پس اگر ایسا ہو.اور کسی جگہ اس قسم کا معاملہ پیش آجائے کہ سچ سچ کسی مرنے والے انسان نے اس قسم کی باتیں کمی ہوں اور ہوش و حواس کے ساتھ کسی ہوں تو بھی لواحقین کو چاہئے کہ وہ اس قسم کی باتوں کو چھپائیں نہ کہ ظاہر کریں کیونکہ اس طرح مرنے والے کی برائی پھیلے گی.نہ کہ نیکی.اس سے زیادہ کیا برائی ہو سکتی ہے کہ زندہ لوگ مرنے والے کے ذکر کے ساتھ ایسی بات لگا دیں کہ جس سے اس کا ذکر ہمیشہ کے لئے برے طریق سے کیا جائے.ایسے موقعوں پر تو اس قسم کی باتوں کو چھپانا چاہئے نہ ان کو ظاہر کر کے ان کے موافق عمل کرنا چاہئے.آخر عداوتیں اور جھگڑے دونوں طرف سے ہوتے ہیں.اگر یہ دیکھ کر کہ کوئی ہمدردی کے لئے آتا ہے.ہم اس کی پرواہ نہ کریں اور اس کی ہمدردی کی قدر نہ کریں.تو یہ ہمارا قصور ہے.جھگڑوں کو مٹانے اور عداوتوں کو دور کرنے کے لئے کوئی شخص قدم اٹھائے یا صلح کے لئے ہاتھ بڑھائے اور ہم اگر ہاتھ کھینچ لیں تو افتراق اور شقاق اور فساد کا الزام ہم پر ہے.مرنے والا تو مر گیا.اب یہ جھگڑا زندے پیدا کرتے ہیں کہ فلاں مرنے والا یہ کہہ گیا تھا.پس اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ مرنے والے کے ذکر کے ساتھ ایسی باتیں لگاتا ہے جو ہمیشہ اس کو برا بنا دیں.پس اس سے بچنا چاہئے.بدلہ لینا اسلام کی تعلیم نہیں لیکن اسلام کی یہ تعلیم بھی نہیں کہ بدلہ نہ لو.اسلام تو یہ سکھاتا ہے کہ موقع کے مناسب کارروائی کرو.اگر بدلہ لینا مفید ہے اور قصور وار کی بہتری اسی میں ہے تو بدلہ لو.نہیں تو بدلہ نہ لو بلکہ معاف کر دو.پس اسلام کی تعلیم میں یہ کسی جگہ نہیں کہ ضرور ہر موقع پر بدلہ لویا ہر موقع پر بدلہ نہ لو بلکہ اسلام کی تعلیم میں یہ داخل ہے کہ خواہ کتنا ہی کسی نے تمہارا قصور کیا ہو اور خواہ کتنا ہی اس قصور کی وجہ سے تمہارا غصہ بھڑکا ہوا ہو.تم نہ تو آپے سے باہر ہو جاؤ اور بالنضرور بدلہ لو.اور نہ ہی اس قدر نرم ہو جاؤ کہ بدلے کا نام ہی نہ لو بلکہ تم اس وقت یہ دیکھو کہ قصور کرنے والے کا بھلا کس میں ہے.بدلہ لینے میں یا بدلہ نہ لینے میں.اور پھر جس میں تمہیں بھلائی نظر آئے وہی کرو.مگر افسوس ہے کہ لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے اور ایسے موقع پر فوراً بدلہ لینے پر اتر آتے ہیں.خواہ اس بدلہ لینے میں کتنا ہی نقصان ہو تا ہو اور وہ شخص کتنا ہی

Page 313

308 بگڑتا ہو.پس اس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح اسلام کی یہ تعلیم نہیں کہ ضرور بدلہ لیا جائے.اسی طرح اس کی یہ تعلیم بھی نہیں کہ بدلہ نہ لیا جائے بلکہ اس کی تعلیم میں رحم بھی ہے.سورۃ فاتحہ جو ام القرآن ہے اور جس کو تمام خوبیوں کا جامع قرار دیا گیا ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کا خلاصہ یہ چار صفتیں ہی آئی ہیں.رب العالمین الرحمن الرحیم ، مالک یوم الدین.ان پر غور کر کے دیکھ لو.یہ کس قدر مظہریت کا تقاضا کرتی ہیں.انسان کا یہ کام ہے کہ وہ ان کا مظہر بن جائے اور اس کی ذات سے.اس کے قول سے.اس کے فعل سے ان کا اظہار ہو.خدا تعالیٰ کی ان صفات کا یہ خلاصہ جو سورہ فاتحہ میں بیان ہوا ہے.وہ رحم پر ہی تو دلالت کرتا ہے.پس ان کا مظہر بننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم بھی رحم سے کام لیں اور اس کا صحیح استعمال سیکھیں.بیشک بعض موقعوں پر سزا دی جاتی ہے.بیشک بعض امور کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے خوفناک گرفت ہوتی ہے.بیشک بعض افعال کے سرزد ہونے پر خطرناک عذاب میں ڈال دیا جاتا ہے اور ایک شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ جب خدا تعالیٰ کی صفات کا خلاصہ رحم ہے تو پھر اس رحم کے ہوتے ہوئے یہ عذاب اور یہ سزائیں کیسی؟ مگر اس کا یہ کہنا درست نہیں.کیونکہ یہ سزائیں قانون کے طور پر ملتی ہیں.نہ کہ غصہ کے سبب یا بدلہ لینے کی نیت سے.اور اگر ایک شخص غور کرے تو اس پر فورا یہ بات کھل جائے.کہ قانون کے طور پر بعض سزاؤں کا ملنا ضروری ہے.جیسے احکام ظاہری شرعی کی نافرمانی.اب اگر ان کے متعلق سزا نہ دی جائے.تو ایک ابتری پھیل جائے اور کسی کے دل میں نہ شریعت کی عظمت رہے اور نہ صرف شریعت لانے والے اور ان شریعتوں کے احکام پر عملدرآمد کرانے والے انبیاء اور دیگر تمام صلحاء اور آئمہ وغیرہم کی قدرو منزلت اور ان کی اہمیت گھٹ جائے.بلکہ خدا تعالیٰ کا خوف بھی کسی کے دل میں نہ رہے.پس اس کی خلاف ورزی یا نافرمانی کرنے والے کے لئے بطور قانون کے سزا کا ملنا ضروری ہے اور یہ سزا آئندہ کی اصلاح اور گزشتہ کے لئے بطور کفارہ کے ہوتی ہے اور در حقیقت سچا کفارہ ہے بھی یہی کہ انسان اپنی نافرمانی کے بدلے سزا کو برداشت کرے.پس یہ سزائیں جو بعض احکام کی خلاف ورزی کرنے پر بطور قانون ملتی ہیں.بطور کفارہ کے ہیں.جو رحم ہی ہے نہ کہ غصہ اتارنا یا بدلہ لینا.پس غور کر کے دیکھ لو.رب العالمین کی صفت رحم پر دلالت کرتی ہے خدا تعالی ربوبیت کرتا ہے اور یہ رحم کی صفت ہے انسان خواہ کچھ ہی کرتا چلا جائے مگر خدا تعالی کی یہ صفت ربوبیت کرنے سے رکتی نہیں بلکہ برابر ربوبیت کرتی چلی جاتی ہے.یہ رحم ہی تو ہے کہ ایک ایسی ہستی کی کوتاہیوں

Page 314

309 اور غلطیوں کے باوجود جو بالکل بیکس اور بے بس ہے.خدا تعالٰی کی یہ صفت برابر ربوبیت کرتی چلی جاتی ہے.اسی طرح رحمٰن کی صفت بھی ہے.یہ بھی رحم پر دلالت کرتی ہے.رحمن کے معنی ہیں بے حد رحم کرنے والا.اسی طرح رحیم کی صفت بھی رحم پر دلالت کرتی ہے.اس کے معنی ہیں بار بار رحم کرنے والا.پھر مالک یوم الدین بھی رحم کی صفت ہے.یعنی وہ حج ہے مگر مالکانہ طور پر قضا کرتا ہے.اس کا اختیار ہے کہ ملزم کو سزا دے یا چھوڑ دے.گویا یہ بھی آدھی صفت رحم کی ہو گئی.اور چار صفتوں میں سے ساڑھے تین صفات رحم کی ہیں.پھر چونکہ مالک یوم الدین کے یہ معنی بھی ہیں کہ خدا تعالیٰ اس دن کا مالک ہے جو جزا اور سزا کا دن ہے.اس لئے وہ اگر چاہے تو معاف بھی کر سکتا ہے.پس معاف کر دینے کی جو گنجائش اس میں ہے.اگر اسے صفت رحم کے ساتھ شامل کر دیں تو اس طرح ۳/۴ حصہ رحم اور آر ا حصہ سزا کا رہ جاتا ہے.کیونکہ مالک کا اختیار ہوتا ہے کہ معاف بھی کر دے لیکن صرف حج ایسا نہیں کر سکتا.مثلاً زید کا بکر کے ساتھ جھگڑا ہے اور یہ دونوں مجسٹریٹ کے پاس جاتے ہیں.اب اگر مجسٹریٹ یہ دیکھ کر کہ فی الواقع بکر نے زید کا یہ دیکھ کر کہ فی الواقع بکر نے زید کا سو روپیہ دینا ہے.یکر کو معاف کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا لیکن اگر خود مجسٹریٹ کا ہی روپیہ دیتا ہو تو مجسٹریٹ چونکہ اس روپے کا مالک ہو گا.وہ اگر چاہے تو اپنا مطالبہ معاف کر سکتا ہے مگر باوجود حج ہونے کے زید کا مطالبہ معاف نہیں کر سکتا اور اس طرح جو حصہ ان چار صفتوں میں سزا کے لئے باقی رہ گیا تھا.اس کو بھی ما کیت نے اڑا دیا اور سب صفات کا سولہواں حصہ سزا کا جو رہ جانا تھا.وہ بھی نہ رہا.سب صفات الہیہ رحم پر دلالت کرتی ہیں اور ان میں ذرا بھی ایسی کوئی بات نہیں جو رحم کے منافی ہو.لیکن ہو سکتا ہے کسی کے دل میں یہ خیال گزرے کہ سولہواں حصہ تو ضرور سزا کے لئے رہ جاتا ہے.مگر یہ بات نہیں.مالکیت کے نیچے آکر تو سوائے رحم کے کچھ نہیں رہتا.اس لئے یہ احتمال کہ شائد اس کے ماتحت سزا دی جائے اور رحم کو مد نظر نہ رکھا جائے.درست درست نہیں کیونکہ قرآن کریم نے اس بات کو بالکل صاف کر دیا ہے اور ایک دوسری جگہ پر صاف لفظوں میں فرمایا ہے.رحمتی وسعت کل شیئی (الاعراف ۱۵۷) کہ میری رحمت بہت وسیع ہے اور ہر ایک چیز کو گھیرے ہوئے ہے.پھر یہی نہیں بلکہ صفات غصبیہ پر بھی میری رحمت چھائی ہوئی ہے.وہ محدود ہیں مگر رحمت غیر محدود ہے.پس خدا تعالیٰ کی رحمت اس قدر وسعت رکھتی ہے کہ کوئی بھی چیز اس کے گھیرے سے باہر نہیں.حتی کہ اس کا غضب بھی اس سے باہر نہیں.اس طرح جو ۱/۱۶ حصہ سزا کا

Page 315

310 باقی نظر آتا تھا وہ بھی نہ رہا.تو اصل حکم شریعت میں عفو کا ہے لیکن مناسب موقع پر.یہ نہیں کہ ہر جگہ عفو ہی کیا جائے.بعض مواقع ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہاں عفو کیا جائے تو اور بھی نقصان ہوتا ہے.اس لئے یہ حکم ہے عفو کرو تو سہی لیکن اس کا موقع اور محل دیکھ لو.یہ نہ کرو کہ بے موقع اور بے محل کرد کہ بجائے فائدہ کے الٹا نقصان ہو اور وہ اصلاح جو مقصود ہے.اس کے بے محل استعمال سے نہ ہو.دراصل بعض سزاؤں میں بھی عضو ہوتا ہے.بعض دفعہ کسی کے قصور پر سرزنش کی جاتی ہے یا سزا دی جاتی ہے تو یہ بھی عضو ہوتا ہے.کیونکہ اس سے اس کی بھلائی مقصود ہوتی ہے اور اسے آئندہ کے لئے اس غلطی سے بچانا مد نظر ہوتا ہے.گو بظاہر یہ عفو نظر نہیں آتا.مگر حقیقت میں یہ عفو ہی ہے.کیونکہ عفو کا حکم بھی تو اسی لئے ہے کہ دوسرے کے ساتھ بھلائی کی جائے اور جب بھلائی گوشمالی سے ہو.تو پھر یہ گوشمالی ہی عضو ہوتی ہے.جیسے بعض دفعہ بیمار کو کڑوی دوائی دینا اس پر رحم کرنا ہوتا ہے.بیمار ہرگز نہیں چاہتا کہ کڑوی کسیلی دوائیں کھائے لیکن تیماردار اسے ایسی دوائیں کھلاتے ہیں.کیونکہ اس میں اس کی بھلائی دیکھتے ہیں.ایسے موقع پر یہی رحم ہے خواہ بظاہر مریض کے لئے دوائی کھانا تکلیف کا باعث ہو.مگر حقیقت یہی ہے کہ ایسا کرنا مریض پر رحم کرنا ہوتا ہے.ایسا ہی بعض دفعہ تھپڑ مارنا جائز ہوتا ہے لیکن اس کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ اصلاح کی غرض سے ہو اور رحم کے جذبات کے ماتحت ہو.اگر یہ رحم کے جذبات کے ماتحت ہے تو درست ہے ورنہ نہیں.ایسا ہی دوسری سزاؤں کے متعلق ہے.اگر وہ اصلاح کی غرض سے ہیں اور رحم کے جذبات کے ماتحت ہیں تو جائز ہیں لیکن اگر ایسا نہیں تو پھر ہرگز جائز نہیں اور اگر کوئی شخص غصبیہ جذبات کے ماتحت یا انتقام کی خاطر یا کسی اور وجہ سے کہ جو نہ اصلاح پر دلالت کرتی ہے اور نہ ہی رحم کے ماتحت ہے ایسا کرتا ہے تو غلطی کرتا ہے وہ رحم نہیں کرتا بلکہ ظلم کرتا ہے وہ اصلاح نہیں بلکہ بگاڑتا ہے.وہ عفو نہیں کرتا بلکہ انتقام لیتا ہے اور ایسا شخص خود سزا کا مستحق ہے.پس میں اپنی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اخلاق میں رحم اور عفو کا مادہ پیدا کرے.ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ وہ سزا اگر دیں تو اس لئے دیں کہ دوسرے کی اصلاح ہو اور وہ آئندہ اس قسم کا فعل نہ کرے جو اس کے لئے اور دوسروں کے لئے نقصان دہ ہو.نہ اس لئے سزا دیں کہ اس کو تباہ کر دیں.ایسا ہی عفو اگر کریں تو اس لئے کہ دوسرے کی بھلائی اس میں مقصود ہو اور رحم کے جذبات کے ماتحت ہو.لیکن اگر ایسا نہیں تو اس کے یہ معنی ہونگے کہ وہ عمدہ اخلاق نہیں رکھتے.اخلاق یہی

Page 316

311 ہے کہ رحم کے موقع پر رحم اور عفو کے موقع پر عفو کیا جائے.لوگ سورہ فاتحہ بار بار پڑھتے ہیں.جس میں خدا تعالیٰ کی صفات کا خلاصہ رحم ہے.مگر پھر بھی یاد نہیں رکھتے.اس کے پڑھنے کی یہ غرض نہیں کہ ہر روز پڑھو اور یونہی گزر جاؤ بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ اسے ہر وقت یاد رکھو لیکن اگر بار بار پڑھنے کے باوجود اسے یاد نہیں رکھتے.تو سمجھ نہیں آتی کہ کس طرح یاد رکھو گے اور کب یاد رکھو گے.پس سب احمدیوں کو چاہئے کہ اسے یاد رکھیں.اور اپنے اخلاق سنواریں اور رحم اور عفو کو ان کے موقع و محل پر استعمال کریں.اللہ تعالی ہمیں توفیق دے.کہ ہم اخلاق میں رحم اور عفو کو داخل کر سکیں اور پھر اس کو مناسب موقع پر استعمال بھی کر سکیں.ہمارے غصے اور نارا منگیاں خدا کے لئے ہوں نہ کہ اپنے غضب کے ماتحت.خدا ہم سب کو اس کی توفیق دے.آمین.خطبہ ثانی میں فرمایا : نماز کے بعد آج دو جنازے پڑھے جائیں گے.احباب کو چاہئے کہ ان میں شامل ہوں.پہلا جنازہ چیف مہدی گولڈ کوسٹ (افریقہ) کا ہے جو فوت ہو گئے ہیں.یہ بہت مخلص احمدی تھے.وہ ابھی احمدی نہیں ہوئے تھے کہ انہیں رڈیا میں ایک سفید آدمی کے آنے کے متعلق بتایا گیا کہ وہ آکر مہدی معہود کی خبر دے گا.ان کے نزدیک ہم بھی سفید آدمی ہیں.گو انگریزوں کے نزدیک ہم کالے بین مگر وہاں کے لوگوں کی رنگت کے بالمقابل ہندوستان کے باشندوں کی رنگت سفید ہی سمجھی جاتی ہے.ان کی رڈیا کو ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر نے وہاں جا کر پورا کیا جب ماسٹر صاحب وہاں پہنچے.تو انہوں نے خود آگر بیان کیا کہ میں نے یہ رویا دیکھی تھی جو آپ کے ذریعہ پوری ہو گئی.اس علاقہ میں وہ سب سے پہلے اسلام میں داخل ہوئے اور پھر ہزارہا آدمی ایسے پیدا کر دیے جنہوں نے اسلام ، قبول کر لیا.ماسٹر عبدالرحیم صاحب کے وہاں پہنچنے پر وہ خود بھی اور باقی کے سارے کے سارے اشخاص بھی احمدی ہو گئے.ان کے دل میں تبلیغ کا بہت جوش تھا اور ہمارے مبلغوں کی انہوں نے مدد بھی بہت کی.اب تار آئی ہے کہ وہ تھوڑی سی بیماری کے بعد فوت ہو گئے ہیں.ایک جنازہ تو ان کا ہے جو میں پڑھوں گا.دوسرا جنازه خیر دین صاحب کچھا ماڑی واڑہ کا ہے جو اپنے گاؤں میں فوت ہو گئے ہیں.ان کا جنازہ غیر احمدیوں نے پڑھا ہے اور میں نے یہ اعلان کیا ہوا ہے کہ میں ان لوگوں کا جنازہ بھی پڑھا کروں گا.جو یا تو جماعت میں دینی خدمات کی وجہ سے مشہور ہوں.یا ان کا جو کسی ایسی جگہ فوت

Page 317

312 ہوں.جہاں ان کا جنازہ پڑھنے والے احمدی نہ ہوں.یا اگر ہوں تو بہت کم ہوں.سو ہمارا یہ بھائی جہاں فوت ہوا ہے وہاں اس کا جنازہ پڑھنے والے احمدی کوئی نہ تھے.اس لئے میں اس کا بھی جنازہ پڑھوں گا.اور جہاں میں یہ جنازے پڑھوں گا وہاں میں باہر کی جماعتوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ ایسے جنازے پڑھا کریں تا کہ ایک دوسرے کی مدد اور ایک دوسرے کے رنج و غم میں شریک ہونے کا احساس پیدا ہو.اس وقت ہم دنیا میں تھوڑے ہیں اور ہمیں اگر اپنے بھائیوں کے ساتھ ہمدردی نہ پیدا ہو.تو یہ ایک قابل افسوس بات ہوگی.پس میں باہر کی جماعتوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ بھی ایسے جنازے پڑھا کریں.تاکہ لوگوں کو معلوم ہو.کہ ہمارے آپس کے تعلقات بہت گہرے ہیں اور ہم میں ایک دوسرے کا احساس بے حد ہے.پھر احمدیوں کو اور دوسروں کو بھی معلوم ہو جائے.جن احمدیوں کا جنازہ پڑھنے والا کوئی نہیں ہوتا.ان کا جنازہ پڑھنے والی ساری جماعت ہوتی ہے اور ساری جماعت کی دعائیں ان کے ساتھ ہوتی ہیں.(الفضل ۱۰ نومبر ۱۹۲۵ء)

Page 318

313 38 بشاشت اور خوشی سے قربانی میں بڑھتے چلے جائیں (فرموده ۶ نومبر ۱۹۲۵ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون و ما تنفقوا من شئى فان الله به عليم ( آل عمران ۹۳) میرا غشاء تو آج اسی مضمون کے متعلق تقریر کرنے کا تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کاموں کے متعلق شروع کیا ہوا ہے لیکن ابھی ابھی راستے میں آتے ہوئے مجھے ایک کارکن کی طرف سے جس کے سپرد سالانہ جلسہ کا انتظام ہے.ایک رقعہ ملا ہے جس میں لکھا ہے چونکہ وقت بہت گزر گیا ہے اور اس سال بعض وجوہ سے سالانہ جلسہ کی تحریک کے لئے موقع نہیں ملا.اس لئے آپ خطبہ جمعہ میں اس کے لئے تحریک کریں تاکہ کام جلد شروع ہو جائے.اور تمام سامان وقت پر جمع کیا جا سکے.پس میں نے اس کو ضروری سمجھ کر آج پھر مضمون بدل ڈالا ہے.چونکہ جلسہ کا موقع نہایت ہی قریب آگیا ہے اور اتنے عرصہ میں سامان کا جمع کرنا بھی ناممکن اور مشکل ہے اور یہاں ابھی روپے کا ہی سوال در پیش ہے.اس لئے میں بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ اس کے متعلق میں دوستوں کو تحریک کروں.کیونکہ آج اگر کوئی تحریک مقدم ہے تو سالانہ جلسہ کی تحریک ہے.اس لئے میں آج اس تحریک کے متعلق بیان کرنا چاہتا ہوں.جو اس وقت دوسری سب تحریکوں سے مقدم ہے.جلسہ سالانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مقرر کردہ ہے اور آپ نے نہایت ہی زور سے اس میں شامل ہونے کی تاکید فرمائی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام متواتر اور بار بار توجہ دلایا کرتے تھے کہ اس میں تمام احمدیوں کو آنا چاہیے.کیونکہ اس میں آنے سے بہت سے روحانی فائدے حاصل ہوتے ہیں.یہ حضرت صاحب کی اس توجہ دلانے کا ہی نتیجہ ہے کہ ہمارے

Page 319

314 جلسہ میں کثرت سے لوگ آتے ہیں.پس جو کثرت لوگوں کی ہمارے جلسہ میں ہوتی ہے.وہ دوسرے لوگوں کے باقاعدہ جلسوں میں نہیں ہوتی.البتہ میلوں وغیرہ میں ہو جاتی ہے.یا پیروں کے عرس پر ہوتی ہے.مگر عرس بھی تو میلے ہی ہیں کیونکہ وہاں وعظ و نصیحت نہیں ہوتی بلکہ میلوں کی طرح وہاں بھی راگ رنگ اور ناچ گانا ہوتا ہے.جسے لوگ سن کر واپس چلے جاتے ہیں.ایسے موقعوں پر لوگوں کی کثرت ہو جاتی ہے لیکن کسی باقاعدہ جلسہ میں لوگوں کی اس قدر کثرت نہیں ہوتی جس قدر خدا کے فضل سے ہمارے جلسہ پر ہو جاتی ہے.ان میلوں اور عرسوں پر نسبتا زیادہ لوگ آتے ہیں مگر کثرت انہیں لوگوں کی ہوتی ہے جو قریب کے ہوتے ہیں لیکن برخلاف اس کے ہمارے جلسہ میں دور دور کے علاقوں سے لوگ آتے ہیں.اور اس کثرت سے آتے ہیں کہ ان کی تعداد نو دس ہزار تک پہنچ جاتی ہے اور اگر نزدیک کے لوگوں کو بھی شامل کر دیا جائے تو جلسہ کی حاضری بارہ بلکہ چودہ ہزار تک پہنچ جاتی ہے اور اگر قادیان کے رہنے والے لوگوں کو بھی شامل کر دیا جائے تو تعداد اور بھی بڑھ جاتی ہے.پس جس کثرت کے ساتھ ہمارے جلسہ پر لوگ آتے ہیں.وہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور ایسی کامیابی ہے کہ جس کا مقابلہ کوئی اور جلسہ نہیں کر سکتا.حتی کہ اگر بعض جلسوں کی استثناء کر دی جائے تو کانگرس کے جلسے بھی مقابلہ نہیں کر سکتے.کانگرس کے جلسوں میں لوگ کثرت سے جاتے ہیں مگر پھر بھی ان میں جانے والوں کی تعداد اس حد تک نہیں پہنچتی جس حد تک ہمارے جلسوں میں پہنچ جاتی ہے.ہمارے جلسہ کی کثرت اس توجہ کا نتیجہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جلسہ کی طرف تھی.حضرت صاحب نے اس جلسہ کی بنیاد رکھی اور بار بار لوگوں کو اس میں آنے کے لئے توجہ دلائی اور دعائیں بھی کیں.آخر یہ جلسہ با رونق ہوا اور ہر سال اس کی رونق بڑھتی چلی جاتی ہے اور لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے.مگر آدمیوں کی کثرت کے ساتھ اخراجات کی کثرت لازم ہے جوں جوں جلسہ پر آنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے گی.اخراجات میں بھی زیادتی ہوتی چلی جائے گی اور یہ سب خرچ جماعت ہی نے اٹھانا ہے.اگر جماعت اس کی طرف سے سستی کرے تو پھر ان اخراجات کے پورا کرنے میں کئی طرح کی مشکلات پیش آسکتی ہیں.پس جیسے جیسے ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جائے جو جلسہ پر آتے ہیں.ویسے ویسے جماعت کو بھی جلسہ کے زیادہ اخراجات برداشت کرنے کے لئے تیار ہونا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ ایثار کے لئے آمادگی پیدا کرنی

Page 320

315 چاہیے.آدمی اگر زیادہ آنے شروع ہو جائیں اور جماعت کے لوگ اس طرف توجہ کرنا چھوڑ دیں اور بجائے قربانیوں میں ترقی کرنے کے کمی پیدا کر لیں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ آنے والوں کو تکلیف پہنچے گی اور پھر جلسہ پر آنے والے کم ہو جائیں گے.جس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم کام کی اس بنیاد کو اکھیڑنے والے ہونگے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود اپنے ہاتھوں رکھی اور خدانخواستہ ایسا ہو تو وہ دن ہمارے لئے سخت افسوس کا دن ہو گا.جب کہ ہماری وجہ سے لوگ جلسہ میں آنا چھوڑ دیں.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلسہ پر آنے والوں کی کثرت کو دیکھ کر اور اخراجات کے اضافہ سے آگاہ ہو کر اپنی قربانیوں کو بھی بڑھائیں کیونکہ آنے والوں کی کثرت کے ساتھ ساتھ اخراجات میں بھی کثرت ہو رہی ہے.یہ مشکل ہے کہ دوسرے صیغوں سے لے کر ادھر خرچ کر لیا جائے.اول تو دوسرے صیغوں میں اتنی گنجائش نہیں کہ ان سے روپیہ نکال کر جلسہ پر خرچ کیا جائے.لیکن اگر ایسا کر لیا جائے تو کارکنوں کو بھی تکلیف پہنچے گی.اور دوسرے کاموں میں بھی حرج واقع ہو گا.کارکنوں کا تو یہ حال ہے کہ ان کو دو دو تین ماہ کی پہلے ہی تنخواہیں نہیں ملیں اور اب اگر یہ کیا جائے کہ بعض دوسرے صیغوں سے روپیہ نکال کر جلسہ پر خرچ کر لیا جائے تو اس سے دوسرے کاموں کا بھی نقصان ہو گا اور کارکنوں کو چار چار ماہ کی تنخواہیں نہ مل سکیں گی.اس لئے یہ ضروری ہے کہ جلسہ کا بار جلسہ پر ہی پڑے.تا کہ دوسرے کاموں کو نقصان نہ پہنچے.پس میں آج دوستوں کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ جلسہ کے اخراجات بہت جلد مہیا کر دیں.میں نے ابھی جو آیت پڑھی ہے وہ اپنے مضمون میں اس قدر صاف اور اس قدر واضح اور اس قدر روشن ہے کہ ادنی سے تامل سے بھی ایک شخص اس کی حقیقت کو سمجھ سکتا ہے.اس آیت کا مطلب بالکل روشن ہے.اس میں ”بر کو پانے کے لئے یعنی نیکی حاصل کرنے کے لئے ان چیزوں کی قربانی کا مطالبہ کیا گیا ہے.جو سب سے زیادہ پیاری ہوں اور ان میں سے ایک یہ بھی ہے.پس میں نہیں سمجھ سکتا.کہ ایک شخص جو " بر " کو پانا چاہتا ہے.ایک ایسے دینی کام کے لئے جس کی ضرورت ہر طرح مسلم ہو.کس طرح مال خرچ کرنے سے ہاتھ کھینچ سکتا ہے اور کیونکر گوارا کر سکتا ہے کہ وہ اپنی پیاری شے کو اس کے لئے قربان نہ کر دے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون.تم اپنا ایک مقصد بیان کرتے ہو اور اس کے حصول کے لئے کوشش کرتے ہو.نماز پڑھتے ہو.زکوۃ دیتے ہو.صدقہ و خیرات کرتے ہو.

Page 321

316 حج کرتے ہو.روزہ رکھتے ہو.جہاد کرتے ہو.لوگوں کے ساتھ اخلاق فاضلہ سے پیش آتے ہو اور اس کے سوا اور ذرائع سے بھی ایک مقصد حاصل کرنے کے لئے کوشش کرتے ہو.وہ مقصد کیا ہے؟ وہ "بر" ہے."بر" نیکی کے اس مقام کو کہتے ہیں کہ جہاں سے گرنے کا خطرہ نہ رہے.گویا اس مقام پر پہنچ کر ایک شخص چاروں طرف سے نیکی کے اندر گھر جاتا ہے اور پھر اسے گرنے کا خوف نہیں رہتا.دیکھو اگر کوئی شخص سیڑھی کے نچلے درجہ پر ہو تو اس کے گرنے کا خطرہ ہوتا ہے.لیکن اگر ایسی جگہ ہو کہ اس کے آگے بھی آدمی کھڑے ہوں اور پیچھے بھی تو وہ نہیں گر سکتا.کیونکہ پچھلے آدمی اسے سہارا دیے کھڑے ہوتے ہیں.پس ”بر " اس مقام نیکی کو کہتے ہیں.جو وسیع ہے اور جس میں گرنے کا خوف نہیں ہوتا.جو ”بار ہوتا ہے.اس کے دائیں بائیں آگے پیچھے.نیچے اوپر نیکیاں ہی نیکیاں ہوتی ہیں اور وہ نیکیوں میں پورے طور پر گھرا ہوتا ہے.اسلئے اس کا گرنا ناممکن اور محال ہو جاتا ہے.لن تنالوا البر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اس مقام پر پہنچنے کے لئے جس میں کثیر حصہ نیکی کا مل جاتا ہے اور ایک کے تباہ ہونے کا خدشہ نہیں رہتا.قربانی کی بھی ضرورت ہے کیونکہ ایسا مقام جس پر پہنچ کر ایک شخص بالکل محفوظ ہو جاتا ہے.یونہی نہیں مل جاتا بلکہ اس کے لئے بعض ایسی چیزوں کو قربان کرنا پڑتا ہے جن سے اسے پیار ہوتا ہے اور وہ انہیں اپنے سے جدا کرنا نہیں چاہتا.حتی تنفقوا مما تحبون میں خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ وہ قربانی جو "بر" کے پانے کے لئے تمہیں کرنی چاہیے یہ ہے کہ محبت والی چیزوں کو قربان کر دو.اور جن چیزوں کے ساتھ تمہیں پیار ہو.انہیں خدا کی رضا کے لئے اس کے ہی راہ میں خرچ کر ڈالو.اگر تم ایسا کرو گے.تو ”بر" کو پا لو گے.کیونکہ ”بر" کے پانے کا یہی ایک ذریعہ ہے کہ اپنی پیاری چیزوں اور محبت والی اشیاء کو قربان کر دو.کیا عجیب بات ہے کہ خدا کی محبت کے حصول کے لئے جو ”بر " کا اصل مقصد ہے.ایسی قربانی طلب کی گئی ہو جو خدا کی محبت کو جذب کرنے والی ہے مگر باوجود اس کے اس کا درجہ سب سے آخیر پر ہے.انسان کی خدا کے ساتھ محبت یہی ہے کہ وہ خدا کے قریب ہو جائے مگر یہ محبت پیدا ہوتے ہی بچہ میں نہیں پیدا ہو جاتی.بلکہ بڑے ہو کر اس کے اندر پیدا ہوتی ہے اور مختلف محبتوں کے بعد اس کے دل میں یہ محبت پیدا ہوتی ہے.غور کر کے دیکھ لو دنیا کی ہر چیز میں محبت رکھی گئی ہے.ایک انسان اگر کہیں کھڑا ہو کر غور کرے.تو اسے معلوم ہو.اس کے دائیں جو چیزیں ہیں ان میں بھی محبت رکھی گئی ہے اور اس کے پر

Page 322

317 ہائیں جو چیزیں ہیں ان میں بھی محبت رکھی گئی ہے اس کے آگے جو چیزیں ہیں.ان میں بھی محبت رکھی گئی ہے اور اس کے پیچھے جو چیزیں ہیں.ان میں بھی محبت رکھی گئی ہے اور خود اس کی پرورش میں محبت رکھی گئی ہے.پھر نیچر کے ہر ذرہ میں محبت رکھی گئی ہے.پھر حیوانوں میں بھی محبت ہے.جمادات میں بھی محبت ہے.نباتات میں بھی محبت ہے.غرض ہر چیز میں محبت ہے اور ایک انسان خدا کی محبت سے پہلے اور بہت سی چیزوں سے محبت کرتا ہے.دنیا میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں.جن سے وہ پیدا ہوتے ہی محبت کرتا ہے مگر خدا کی محبت اس کے اندر اس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ شعور پاتا ہے.نیچر میں جو محبت ہے.حیوانات میں جو محبت ہے.نباتات میں جو محبت ہے.جمادات میں جو محبت ہے اور اور چیزوں میں جو محبت ہے ان سب کی غرض صرف یہی ہے کہ انسان میں وہ محبت قائم رہے.جو خدا تعالیٰ کی ذات کے لئے شروع سے ہی اس کے اندر بطور پیج رکھی گئی ہے.یہ چیزیں ونکہ انسان کے لئے غذا بہم پہنچاتی ہے اور دنیا میں آنے کے بعد انسان نے ان سے غذائیں لینی ہوتی ہیں.اس لئے خدا تعالیٰ نے ان میں بھی محبت رکھ دی تاکہ انسان کے دل میں جو محبت رکھی گئی ہے.ایسی غذائیں کھانے سے اس کی نشوونما بھی ہوتی جائے اگر ان چیزوں میں محبت نہ ہوتی تو انسان اپنی پہلی محبت کو ضائع کر لیتا.پس ان سب چیزوں میں جو محبت رکھی گئی ہے.وہ اس لئے ہے کہ انسان کی غذائیں بھی محبت سے ہوں اور خدا تعالیٰ کی محبت کا وہ پیج جو ایک انسان کے قلب میں رکھا گیا ہے نشو نما پاتا چلا جائے.پس لن تنالوا البر میں جس ”بر " کا ذکر ہے اس ”بر" کے مقام تک نہیں پہنچ سکتے جب تک خدا کے ساتھ محبت کرنے کے لئے ان چیزوں کو کہ جن کے ساتھ محبت کرتے ہو قربان نہ کر دی جائیں.انسان کے لئے سب سے پہلی محبت تو اپنے نفس کی ہی محبت ہے.جس کی خاطر پیدا ہوتے ہی وہ غذا کے لئے تڑپتا ہے.اسے اس وقت اور کسی بات کی ہوش نہیں ہوتی.وہ ماں باپ تک کو نہیں جانتا لیکن غذا مانگتا ہے جو کہ اس کی زندگی کے لئے ضروری ہوتی ہے اور یہ اس کی اس محبت کا ثبوت ہوتا ہے جو اسے اپنی ذات سے ہوتی ہے.پھر دوسری محبت بچہ کو ماں سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ اس سے اسے غذا ملتی ہے.جوں جوں اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے اسے غذا ملتی ہے.توں توں وہ ماں سے زیادہ محبت کرتا جاتا ہے.پھر تیسری محبت باپ سے ہوتی ہے.جیسے جیسے بچہ کو سمجھ آتی ہے کہ میرا باپ میری ماں کی زندگی کے قیام کا مددگار ہے.وہ کماتا ہے اور وہ کھاتی ہے اور کپڑے

Page 323

318 پہنتی ہے تو وہ اس سے بھی محبت کرنے لگتا ہے.اس وقت بچہ یہ نہیں جانتا کہ میری پیدائش میں بھی اس کا دخل ہے لیکن وہ اس سے محبت کرنے لگتا ہے.پھر اسی طرح اور چیزوں سے بھی محبت کرتا ہے اور پھر جب عمر بڑھتی جاتی ہے اور وہ جوان بالغ ، باشعور ہوتا ہے.تب جاکر اللہ تعالیٰ کی محبت اس کے اندر بڑھنے لگتی ہے.مگر خدا تعالیٰ کی محبت سے پہلے جو محبتیں انسان کے اندر پیدا ہوتی ہیں.وہ جب تک خدا تعالیٰ کی محبت کے لئے کائی نہ جائیں.تب تک خدا کی محبت بڑھ نہیں سکتی اور جب تک یہ محبتیں جو ایک درخت کی مانند انسان کے اندر ہو جاتی ہیں.قربان نہ کر دی جائیں.تب تک خدا تعالیٰ کی وہ محبت جو ابھی ایک ننھے سے پودے کی طرح ہوتی ہے بڑھتی نہیں.یہ ناممکن ہے کہ یہ محبتیں بھی انسان قربان نہ کرے اور خدا تعالیٰ کی محبت صادق بھی اس کے اندر ہو.دیکھو ایک چھوٹا پودا اگر سایہ دار درختوں کے نیچے ہو.تو وہ بڑھتا نہیں.بلکہ اس سایہ کے نیچے خشک ہو جاتا ہے.کیونکہ بڑے درخت زمین سے اس قدر غذا لے لیتے ہیں کہ چھوٹا پودا کچھ نہیں لے سکتا.چھوٹے پودے میں چونکہ ابھی اتنی قوت جاذبہ پیدا نہیں ہوئی ہوتی.اس لئے وہ زمین سے غذا نہیں لے سکتا.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خشک ہو جاتا ہے.اس کے لئے دو ہی صورتیں ہوتی ہیں.بڑے درختوں میں سے بعض کی شاخیں کاٹی چھانٹی جائیں تاکہ سورج کی روشنی چھوٹے پودے تک بھی پہنچ سکے اور بعض درختوں کو اکھیڑ دیا جائے تاکہ وہ پودا جس کی حفاظت کی ضرورت ہے زمین سے غذا پا سکے.اگر بڑے بڑے درخت کاٹے چھانٹے نہ جائیں اور اگر ان میں سے بعض درختوں کو اکھیڑا نہ جائے.تو وہ پودا جو ابھی چھوٹا ہوتا ہے بڑھ نہیں سکتا بلکہ مرجھا جاتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کی محبت ہے اور یہ محبت ایک انسان میں جب کہ وہ باشعور ہو جاتا ہے.ایک پودے کی مانند ہوتی ہے.اس لئے جب تک وہ محبتیں جو ایک درخت کی مانند انسان کے اندر جگہ پکڑ چکی ہیں کاٹی چھانٹی نہ جائیں اور اکھیڑ کے پرے نہ پھینک دی جائیں.تب تک خدا کی محبت پورا پورا نشو و نما نہیں پا سکتی.پس جس طرح ایک مالی ایک ضروری پودے کے لئے اگر اس کی ضرورت پڑے تو دس ہیں درختوں کو اکھیڑ دیتا ہے.اسی طرح خدا کی محبت کے ضروری پودے کے لئے دوسری محبتوں میں سے جن کے قربان کرنے کی ضرورت ہو.قربان کی جائیں تو خدا تعالیٰ کی محبت بڑھ سکتی ہے اور لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون میں خدا تعالیٰ یہی فرماتا ہے کہ جب تک محبت والی چیزوں کو قربان نہ کر دو گے اور وہ مال جو اس راستے میں روک ہو خدا کے راستے میں لٹا نہ دو گے ”بر " نہیں پاسکتے.اور اس مقام پر نہیں پہنچ

Page 324

319 سکتے جس پر پہنچ کر پھر گرنے کا خطرہ نہیں ہوتا.وہ کون سی محبت والی چیزیں ہیں جن کو قربان کرنا چاہیے.وہ وہی ہیں جو دین کے راستہ میں روک ہوں اور ان میں سب سے بڑھ کر مال ہے جو سب سے زیادہ روک ڈالتا ہے.پس وہ مال جو دین کے کام نہیں آتا.اس کی قربانی کی ضرورت ہے.جس طرح باغبان ان درختوں کو کاٹ دیتے ہیں جو ایک ضروری پودے کے نشو نما میں روک ہوتے ہیں.اسی طرح وہ مال بھی جو دین کے کام نہیں آتا اور خدا کی محبت کو دلوں میں پیدا نہیں ہونے دیتا.خدا کی محبت کے پودے کے نشود نما کے لئے قربان کرنا چاہیے.پس ایسا مال جو دین کے راستے اور خدا کی محبت پیدا کرنے اور بڑھانے میں روک ہے خرچ کرنے کے قابل ہے اور اس کی قربانی کی ضرورت ہے.یہ مال اسی لئے روک ہوتا ہے کہ انسان کو پیارا ہوتا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ اسے خرچ کرے مگر خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اسی کو خرچ کیا جائے.کیونکہ اس کے بغیر "بر " نہیں پاسکتے.پس اگر وہ مال جو تمہارے پاس ہے.اس میں سے دین کے کام بھی آتا ہے اور خدا کی راہ میں بھی خرچ ہوتا ہے.تو پھر تمھارے لئے حلال اور طیب ہے اور تمھارے لئے فائدہ بخش ہے.لیکن اگر دین کے کام نہیں آتا اور خدا کی محبت کے راستہ میں روک ہو رہا ہے.تو پھر تمھارے لئے فائدہ مند نہیں ہو سکتا.مما تحبون میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے.کہ ایسے مال کی اس حد تک قربانی کا مطالبہ کیا جاتا ہے جس حد تک وہ دین کے کام نہیں آتا اور اس کی راہ میں روک ہے.پس دینی ضروریات پر چوکس رہنا فرض ہے کیونکہ اگر ان کی طرف سے غفلت کی جائے تو انسان کے دل میں خدا کی محبت نہیں پیدا ہو سکتی اور اگر کوئی شخص ان ضرورتوں کو دیکھ کر بھی ان کے پورا کرنے کے لئے کوشش نہیں کرتا.تو وہ خدا کی محبت کے پودا کی حفاظت نہیں کرتا.جو اس کے اندر ہے اور اسے اپنے ہاتھ سے ضائع کرتا ہے اور ایسا شخص خود بھی محفوظ نہیں رہ سکتا.اور جس کے لئے وہ اس پودے کی حفاظت سے غافل ہو جاتا ہے اور مال کو دین کے کام میں خرچ کرنے سے رکتا ہے وہ مال اس کے لئے وبال جان ہو جاتا ہے.ایسے شخص کا دل خدا تعالیٰ کی محبت سے خالی رہتا ہے نہ دین کے کاموں کے ساتھ اسے محبت رہتی ہے اور نہ ہی خدا کی راہ میں اپنی پیاری چیزوں کو قربان کرنے کی توفیق پاتا ہے.پس ایسے شخص کا کوئی حق نہیں کہ وہ کہے کہ خدا کی محبت اس کے دل میں پیدا نہیں ہوتی.خدا کی محبت پیدا کیونکر ہو جبکہ وہ ان کاموں کو کرتا ہی نہیں جو خدا کی محبت کو پیدا کرنے والے ہیں.وہ اپنی پیاری چیزوں کو

Page 325

i 320 قربان نہیں کرتا.وہ اپنے مال کو دین کی راہ میں خرچ نہیں کرتا.وہ ان مختلف محبتوں کو قطع نہیں کرتا.جو اس محبت کی حفاظت اور قیام کے لئے جو خدا کی محبت کہلاتی ہے.اس میں پیدا کی گئی تھیں.وہ ان بڑے بڑے درختوں کو اکھیڑتا نہیں.جو دوسری چیزوں کی محبتوں کے اس کے اندر پیدا ہو گئے اور اس پودے کی حفاظت اور نشوونما کے لئے کوئی کوشش نہیں کرتا جو خدا کی محبت کا پودا ہوتا ہے.پھر خدا کی محبت پیدا ہو تو کس طرح خدا کی محبت اس طرح پیدا نہیں ہوتی کہ انسان اپنی پیاری اور محبوب چیزوں کو قربان نہ کرے.بلکہ اس طرح پیدا ہوتی ہے کہ اس ایک محبت کے لئے وہ سب کچھ ترک کر دے.اس کے لئے جن محبتوں کو نکالنے کی ضرورت ہو ان کو دل سے نکال دے اور جن پیاری چیزوں کو دین کی راہ میں خرچ کرنے کی ضرورت ہو.انہیں خرچ کر دے.ایسے لوگ شکایت تو کرتے ہیں کہ خدا کی محبت دلوں میں پیدا نہیں ہوتی مگر ان کی شکایت بالکل بے جا ہوتی ہے کیونکہ وہ ان باتوں پر عمل نہیں کرتے جو محبت پیدا کرنے والی ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ خدا کی محبت پیدا نہیں ہوتی.ان کی شکایت درست تب ہو.جب وہ ان کاموں کو کریں.جو محبت الہی پیدا کرنے والے ہیں.اور پھر خدا کی محبت ان میں پیدا نہ ہو.ایسے آدمی بھی ہیں جو خدا کی محبت کے متلاشی ہیں اور جو اس " بر " کو پانا چاہتے ہیں.جس پر پہنچ کر ایک انسان نیکیوں ہی نیکیوں میں گھر جاتا ہے.میں ایسے لوگوں کو مخاطب کرتا ہوں کہ خدا کی محبت کو پانے اور مقام "بر" تک پہنچنے کے واسطے تمہارے لئے ایک ہی راستہ ہے کہ تم ہر اس چیز کو جو خدا کی محبت کے رستہ میں روک ہوتی ہو راہ سے کاٹ دو اور اس مال کو جو اپنی محبت کے سبب خدا کی محبت سے رکھینچتا ہے قربان کر دو.اگر تم ایسا کر سکو تو پھر تمہارے ”بر " حاصل کرنے میں کوئی شبہ نہیں رور ہو سکتا.ہماری جماعت میں ہر جگہ ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو مال کو قربان کر کے خدا کی محبت کو پاتے اور مقام ”بر " تک پہنچنے کے لئے تڑپ رکھتے ہیں.پس میں ان کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ کارکنوں کی مدد ایسے طور پر کریں کہ نومبر کے اندر ہی اندر جلسہ کا تمام ضروری سامان مہیا ہو جائے اور دیر نہ لگے کیونکہ دیر لگنے کی صورت میں تکلیف کے سوا نقصان بھی ہے.جہاں میں باہر کی جماعتوں کو یہ تاکید کرتا ہوں کہ وہ جلد از جلد جلسے کے لئے ضروری چیزیں ہم پہنچائیں.وہاں میں قادیان کی جماعت سے بھی کہتا ہوں کہ وہ بھی اپنے فرض کو پہچانے.اس کی حیثیت ایک میزبان کی ہے اور میزبان مہمان کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے.

Page 326

321 پس تم بھی مہمانوں کے لئے وہ سب کچھ کرو جو ان کی مہمانی کے لئے ضروری ہے اور یہ بات بھول نہ جاؤ کہ اہل قادیان کے ذمہ باہر کے لوگوں کی مہمان نوازی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وقت باہر سے آنے والوں کی مہمان نوازی مدینہ کے لوگوں کے ذمہ ہوتی تھی.اب قادیان والوں کے ذمہ ہے اور در حقیقت جلسہ سالانہ کا خرچ قادیان میں رہنے والوں کے ذمہ ہے لیکن اس بات کو دیکھ کر کہ قادیان کی جماعت ابھی کمزور ہے یہ بوجھ دوسروں پر ڈالا جاتا ہے.ورنہ سنت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھ کر یہ کہنا چاہیے کہ یہ کام قادیان والوں کا ہی ہے اور قادیان والوں کو ہی کرنا چاہیے.پس سب سے زیادہ قادیان والوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے.تقریبا پندرہ ہزار روپے کے خرچ کا جلسہ سالانہ کے لئے اندازہ لگایا گیا ہے مگر میرے نزدیک سولہ ہزار سے بھی زائد خرچ ہو گا.اندازے عموماً غلط ہو جاتے ہیں اور ان میں کمی بیشی کی ضرورت پیدا ہو جاتی ہے.سو اگرچہ میرا خیال تو یہ ہے کہ اس اندازہ سے زیادہ روپیہ خرچ ہو گا.مگر پھر بھی میں اسے سولہ ہزار ہی سمجھ لیتا ہوں.پس اس سولہ ہزار میں سے کم از کم چار ہزار قادیان والوں کو دینا چاہیے اور چار ہزار روپیہ آٹے کی قیمت کا اندازہ ہے.قادیاں والوں کو چاہیے کہ آٹا بہم پہنچا کر ضیافت کا فرض ادا کریں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے دراصل قادیان والوں کے ذمے تو یہ تھا کہ وہ سب اخراجات برادشت کر کے ضیافت کا حق ادا کرتے لیکن چونکہ وہ ابھی کمزور ہیں.اس لئے چار ہزار آٹے کی رقم ان کے ذمے ڈالی جاتی ہے اور بقیہ بارہ ہزار باہر کی جماعتوں کے لئے چھوڑا جاتا ہے.پس قادیان والوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اس فرض کو پہچانیں اور ابھی باہر کی جماعتوں میں یہ تحریک پہنچنے بھی نہ پائے کہ وہ اس رقم کو فراہم کر دیں.رسول کریم ﷺ کے عہد کا ایک واقعہ حدیثوں میں بیان ہوا ہے.ایک دفعہ بہت سے مہمان آپ کے پاس آئے.چونکہ آپ کے پاس ان کی مہمان نوازی کے لئے کافی سامان نہ تھا.اس لئے آپ نے اعلان فرمایا.کون لوگ ہیں جو ان کو اپنے اپنے گھروں میں لے جائیں.اس پر بہت سے لوگ مہمانوں کو اپنے گھروں میں لے گئے.ان میں سے ایک ایسا صحابی بھی تھا جو بہت غریب تھا.وہ بھی ایک مہمان کو لے گیا.لیکن جب وہ گھر پہنچا تو بیوی سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ صرف دو روٹیاں ہیں اور کچھ نہیں اور بچے بھوکے ہیں.اس پر اس نے کہا.کسی طرح بچوں کو سلا دو تاکہ روٹی نہ مانگیں اور ہم یہی روٹیاں مہمان کے آگے رکھ دیں گے.بچے تو بھوکے ہی سلا دیئے

Page 327

322 - گئے.مگر پھر اسے خیال آیا کہ مہمان کے گا تم بھی میرے ساتھ کھاؤ.اس پر بیوی نے کہا جب کھانا کھانے لگو تو مجھے کہنا چراغ اونچا کرو.میں بھی اونچی کرتے ہوئے اسے بجھا دوں گی اور پھر کہیں گے جلانے کا سامان نہیں ہے اس لئے مجبوری ہے.اس زمانے میں دیا سلائی نہیں ہوتی تھی اور لوگ آگ وغیرہ سلگا کر چراغ روشن کیا کرتے تھے.جب کھانا رکھا گیا تو مہمان نے کہا آؤ تم بھی کھاؤ اس پر چراغ بجھا دیا گیا اور وہ ساتھ بیٹھ کر یونسی بچا کے مارنے لگے اور مہمان نے دونوں روٹیاں کھا لیں.صبح جب وہ شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا.تو آپ رات کے واقعہ کا ذکر کر کے ہے اور فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ میں کیوں ہنسا؟ مجھے خدا تعالیٰ نے یہ سارا واقعہ بتایا.اور خدا بھی اس پر ہنسا.خدا کا ہنسنا اس کی خوشی کا اظہار ہوتا ہے.چونکہ خدا اس پر ہنسا اس لئے میں بھی ہنستا ہوں اے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں مہمان نوازی کے لئے اس حد تک کوشش کی جاتی تھی.اسے مد نظر رکھ کر جلسہ سالانہ پر آنے والوں کی مہمانی کے لئے تم بھی تیار ہو جاؤ.قادیان اور گردو نواح کے لوگوں کو جلسہ کا خرچ ادا کرنا چاہیے گو ابھی یہ حالت نہیں پہنچی.مگر اس کی امید رکھنی چاہیے انشاء اللہ تعالٰی وہ دن آجائیں گے کہ قادیان اور اس کے قرب و جوار کے لوگ اس خرچ کو برداشت کر سکیں گے.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت دن بدن مالی قربانی میں ترقی کر رہی ہے.ایک وقت تھا جب آمدنی پر ایک پیسہ فی روپیہ دینا بھی بڑی بات سمجھی جاتی تھی.مگر یہ ابتدائی حالت تھی.پھر دو پیسے فی روپیہ چندہ رکھا گیا.پھر ایک آنہ فی روپیہ اور اب یہ تحریک ہو رہی ہے کہ اس سے بھی بڑھایا جائے.کیونکہ بجٹ پورا نہیں ہوتا.یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جماعت مالی قربانیاں کرنے میں ترقی کر رہی ہے.اب تو خدا کے فضل سے ایک حصہ ایسا بھی جماعت کا ہے.جو بہت بڑھ چڑھ کر قربانیاں کر رہا ہے.صحابہ کرام مالی اور جانی دونوں قسم کی قربانیاں کرتے تھے.اور قربانیاں کرتے ہوئے ایک لذت اور سرور محسوس کیا کرتے تھے.یہی حال ہمارا بھی ہونا چاہیے ہم قربانیاں کریں لیکن دل میں تنگی اور پریشانی پیدا نہ ہو.بلکہ ایک قربانی کے بعد دوسری قربانی کے لئے حرص پیدا ہو اور ہر قربانی آئندہ کی قربانیوں پر آمادہ کرنے والی ہو نہ یہ کہ ایک دفعہ کوئی قربانی کی اور پھر رک گئے.ایسی قربانی کوئی قربانی نہیں.قربانی وہی ہے جس سے آئندہ کے لئے تحریک پیدا ہو.پس میں جہاں باہر کی جماعتوں کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ قربانیاں کرنے میں صحابہ کا نمونہ دکھائیں.وہاں میں قادیان

Page 328

323 والوں کو بھی کہتا ہوں کہ وہ بھی باہر والوں کے لئے نمونہ بننے کی کوشش کریں اور اخراجات جلسہ میں کم از کم پچیس فیصد کے حساب سے حصہ لیں.قادیان والوں کی حیثیت چونکہ میزبان کی ہے.اس لئے میں انہیں یہ کہہ رہا ہوں.اگر اس تحریک کے ہوتے ہی سب لوگ اپنا اپنا چندہ ادا کر دیں.تو ایک مہینے کے اندر اندر سب سامان بہم پہنچ سکتے ہیں اور جلسے کے کارکن جلسے کا انتظام جلد اور سہولت کے ساتھ عمدہ طریق پر کر سکتے ہیں.باہر کے لوگوں کے لئے تو میں یہ پسند کرتا ہوں کہ ان میں سے جو ذی ثروت ہیں.وہ اخراجات جلسہ میں حصہ لیں.مگر قادیان کے لوگوں سے میں یہ کہتا ہوں کہ چونکہ وہ میزبان ہیں اور میزبان پر به نسبت مہمان کے زیادہ حقوق ہوتے ہیں.اس لئے انہیں چاہیے کہ سب کے مہمان نوازی میں شریک ہوں اور نہ صرف خود بلکہ اپنے بچوں اور اپنی عورتوں کو بھی اس میں شامل کریں تاکہ وہ سب میزبان بنیں.چندہ میں بھی ان کو شامل کریں اور مہمانوں کی خدمت کرنے میں بھی اور ان میں سے کوئی باہر نہ رہے.بلکہ قادیان کا ہر فرد اس میں شامل ہو.پس میں پھر کہتا ہوں کہ قادیان کے دوست چار ہزار روپیہ جو آٹے کے لئے تجویز کیا گیا ہے.جلدی ادا کر دیں تاکہ میزبانی کی حیثیت کو قائم رکھ سکیں.میں اس دعا کے ساتھ یہ خطبہ ختم کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمارے ایمانوں میں ترقی دے.اللہ کی محبت ہمارے دلوں میں پیدا ہو اور قائم رہے.اس کی محبت کے سامنے کوئی محبت باقی نہ رہے اور اس کی محبت میں کوئی کمی نہ پیدا ہو.ہم عہد بیعت کو پورا کرنے والے بنیں اور جیسا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں بنانا چاہتے تھے بنیں.ہم ان کاموں کو جاری رکھنے والے ہوں.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جاری کئے اور ان کاموں کو کرنے والے بنیں جو آپ نے بتائے اور کئے.ہم خائن نہ بنیں کہ کہیں تو کچھ اور اعمال کچھ اور ہوں بلکہ ہم دیانتدار بنیں تاکہ جو کہیں اسی کے مطابق کریں.خدا تعالیٰ ہمارے کاموں میں برکت ڈالے اور ترقیات بخشے اور قربانیاں کرنے کے لئے انشراح صدر عطا فرمائے.آمین الفضل ۱۲ نومبر ۱۹۲۵ء) امه بخاری و مسلم برادیت مشکوة کتاب جامع المناقب

Page 329

324 39 ایک پیش خبری کا پورا ہونا (فرموده ۱۳ نومبر ۱۹۲۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کام دنیا میں آکے کئے.ان کا ذکر کرتے ہوئے ایک کام یہ بھی بیان کیا تھا کہ انبیاء کی آمد کے بغیر کامل یقین اور ایمان صفات الہیہ پر حاصل نہیں ہو سکتا.کیونکہ انبیاء اللہ تعالٰی کا نشان اور اس کی آیت ہوتے ہیں.جن کے ذریعے خدا تعالیٰ کی ذات پر اور خدا تعالیٰ کی صفات پر ایمان پختہ ہوتا ہے.آج میں اسی سلسلہ میں ایک تازہ واقعہ بطور مثال بیان کرتا ہوں.یہ واقعہ وہ واقعہ ہے جس نے ان دنوں میں خطرناک اور خوفناک تباہی پیدا کر دی اور ہر شخص کو جس کے سینے میں دل اور دل میں درد ہے حیران کر رکھا ہے.اور جس نے ہر ایک شخص کے دل کو درد اور دکھ سے بھر دیا ہے.وہ واقعہ دمشق کی تباہی ہے جو شام کے ملک کا دارالسلطنت ہے.دمشق ان پرانے شہروں میں سے ایک شہر ہے.جسے تاریخ کی تبدیلیاں اور مرور زمانہ کا اثر مٹا نہ سکے اور چند ہی شہر دنیا کے ایسے ہیں جو کہ اسی طرح اسی نام پر کہ جو پہلے دن ان کا رکھا گیا اور اسی حالت پر جو کہ ابتداء میں ان کی تھی اور اسی مقام پر کہ جس پر شروع میں وہ قائم کئے گئے.بدستور چلے آتے ہوں.جس طرح کہ دمشق چلا آتا ہے.اڑہائی ہزار سال کی تاریخ تو اس کی یقینی ہے اور اس سے پہلے کہ کب سے یہ آباد چلا آتا ہے.صحیح اندازہ نہیں.حضرت سلیمان" کے زمانہ میں بھی یہ شہر موجود تھا اور بڑا بارونق تھا.پھر اس شہر کے بادشاہوں اور ان کے کارناموں کا ذکر داؤد علیہ السلام کے حالات میں بھی آتا ہے.پھر رسول کریم ﷺ کے بعد بھی اس شہر نے پورا پورا عروج پایا.بلکہ مجھے یہ کہنا چاہئے کہ رسول کریم اس سے پہلے بھی اس کو پوری پوری تاریخی اہمیت حاصل

Page 330

325 پولوس جس پر عیسائی مذہب کا دارو مدار ہے.وہ اسی شہر کا تھا.انجیل سے پتہ چلتا ہے کہ دمشق کے متعلق مسیح کے شاگرد حشیاہ کو رڈیا میں خبر دی گئی تھی کہ دمشق میں جا کر سائل کو عیسائی بنا.ا.چنانچہ اس نے ایسا ہی کہا.یہی ساؤل بعد میں پولوس ہو گیا اور اس نے تبلیغ کا کام اسی شہر سے شروع کیا.اور عیسویت کا چرچا یہاں پھیلایا.غرض موسوی زمانہ کے بعد عیسوی زمانہ میں بھی اس شہر کو خاص عظمت حاصل ہو گئی.پولوس نے دمشق میں اس کام کے لئے کھڑا ہو کر اس کی شان ا و شوکت کو بڑھا دیا اور اس کی تاریخی عظمت اور بھی زیادہ کر دی.پولوس کے زمانہ میں عیسائیت بہت کچھ ترقی پر پہنچ گئی تھی.پھر رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں دمشق سب سے اہم گورنری تھی.رسول کریم ا کے زمانہ سے میری مراد وہ زمانہ ہے.جو آپ کی بعثت سے شروع ہوا.تو زمانہ خلافت میں جب کہ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی حکومت بھی تھی.حضرت عمر ا نے اس جگہ مستقل گورنری قائم کی اور امیر معاویہ کے بھائی کو سب سے پہلے یہاں کا گورنر بنا کے بھیجا.پھر ان کے بعد خود امیر معاویہ ان کو اور اس وقت سے لیکر امیر معاویہ کی وفات تک یہ شہر اس صوبہ کا اور پھر سارے عالم اسلامی کا دارالخلافہ رہا.امیر معاویہ الله اور امام حسین الله کے درمیان جب جنگ چھڑی اور جب امام حسین اس نے یہ فیصلہ کر لیا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کرلیں.اور خلافت کے حقوق سے دست بردار ہو جائیں تو اس وقت بجائے مدینہ منورہ کے دمشق تمام عالم اسلامی کا دار الخلافہ بن گیا اور ایک عرصہ تک مستقل طور پر تمام عالم اسلامی کے لئے بطور دارالخلافہ رہا اور اس عرصہ میں مسلمانوں نے بہت سی فتوحات بھی حاصل کیں.ان دنوں میں مسلمان جو جو بھی علاقے فتح کرتے.وہ اسی دارالخلافہ کے ماتحت ہوتے تھے.حتی کہ بنو عباس نے بھی جب سپین وغیرہ کے علاقے فتح کئے.جو اپنی شان میں بغداد سے بھی بڑھ جاتے تھے تو وہ بھی اسی کے ماتحت تھے.بغداد کو بغداد شریف کہتے ہیں اور بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اسے بغداد شریف اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمتہ ہوئے ہیں.مگر اسے بغداد شریف کہنے کی یہ وجہ نہیں.اسے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی وجہ سے بغداد شریف نہیں کہتے.بلکہ دارالخلافہ ہونے کی وجہ سے کہتے ہیں کیونکہ بغداد عالم اسلامی کے لئے ایک وقت تک دارالخلافہ رہا.

Page 331

326 پس بغداد اگر اس وجہ سے بغداد شریف کہلا سکتا ہے.تو دمشق بھی دمشق شریف کہلا سکتا ہے.کیونکہ بغداد کی طرح یہ بھی عالم اسلامی کا دارالخلافہ رہا ہے بلکہ بغداد سے بڑھ کر رہا ہے.کیونکہ اس کے ماتحت سارا عالم اسلامی رہ چکا ہے.تمام مفتوحہ علاقے اس کے ماتحت تھے.خواہ وہ علاقے سپین کے ہوں خواہ افریقہ کے.خواہ وہ ایران کے علاقے ہوں خواہ روس کے.خواہ وہ چینی علاقے ہوں.خواه افغانستان کے.خواہ وہ بلوچستان کے علاقے ہوں.خواہ ہندوستان کے.وہ سارے کے سارے دمشق کے ماتحت تھے اور دمشق کو یہ ایک ایسی خصوصیت حاصل ہے کہ جو کسی اور کو حاصل نہیں.آنحضرت ﷺ کی پیش گوئیوں میں بھی دمشق کا ذکر آیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں جو پیشگوئیاں آئی ہیں.ان میں خصوصیت سے اس شہر کا نام لیا گیا ہے.یہ ذکر بلا وجہ نہیں تھا بلکہ اس کی ایک وجہ تھی اور وہ یہی کہ اس زمانہ میں دمشق میں ایک فساد واقع ہو گا جس سے خطرناک تباہی پیدا ہوگی اور اس تباہی اور بربادی کے بعد پھر ایک ترقی ہوگی جو احمدیت کے ذریعے ہوگی اور جس طرح پہلے مسیح کے زمانہ میں تنزل کے بعد اس نے ترقی پائی.اسی طرح دوسرے مسیح کے زمانہ میں بھی یہ ترقی پائے گا اور بربادی کے بعد اسے آبادی حاصل ہوگی اور چونکہ وہ آبادی اور ترقی دوسرے مسیح کے ذریعے ہوئی تھی.اس لئے اس کا ذکر کیا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں سے ایک الہام یہ بھی ہے.بدعون لک ابدال الشام ۲؎ کہ شام کے ابدال تیرے لئے دعائیں کرتے ہیں.یہ الہام بھی اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ مسیح موعود کے ذریعے ملک شام کی تباہی کے بعد ایک ایسی ترقی اور آبادی ہوگی جو پہلے سے زیادہ بڑھ چڑھ کر ہوگی اور جسے دیکھ کر ہر کس و ناکس کے منہ سے بالعموم اور خواص و ابدال کے منہ سے بالخصوص اس کے لئے اس کے کاموں کے لئے اس کے احسانوں کے لئے دعائیں نکلیں گی.پس دمشق نے جس طرح موسوی خلفاء کے زمانہ میں ترقی پائی.جس طرح عیسوی خلفاء کے زمانہ میں ترقی حاصل کی اور تاریخی کاموں میں حصہ لیا ہے.اسی طرح معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں بھی وہ ترقی پائے گا.اور تاریخی کاموں میں بھی حصہ لینے والا ہے.اس وقت اس کا تاریخی کاموں میں حصہ لینا اور ترقی پانا یہی ہے کہ اس پر ایک خطرناک تباہی آئے اور یہ تنزل پا جائے اور اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ پھر ترقی پائے اور عروج پر پہنچے.آج سے پہلے شائد یہ بات لوگوں کی سمجھ میں نہ آتی لیکن اب جب کہ اس پر تباہی آئی اور یہ گر کر تنزل میں پڑ گیا تو یہ بات بخوبی معلوم ہو سکتی ہے کہ یہ اب ترقی کرے گا.چنانچہ اس کے آثار

Page 332

327 اب پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں.چونکہ یہ شہر بہت ہی پرانا شہر ہے اور قدیم سے ہی اس کے ساتھ قوموں کے تعلقات رہے ہیں اور خاص کر موسویت.عیسویت اور محمدیت کے اس سے تعلق رہے ہیں.اس لئے یہ ضروری ہے کہ ان اقوام اور ان مذاہب کے بعض مقامات مقدسہ بھی یہاں ہوں.چنانچہ ان تینوں قوموں کے آثار یہاں پائے جاتے ہیں اور ان کے متبرک مقامات اس جگہ موجود ہیں اور ان میں سے ہر ایک کو پرانے مذہبی واقعات کے ساتھ وابستگی ہے.آج تک باوجود بڑے بڑے انقلابات کے اور باوجود ایک لمبا عرصہ گزرنے کے یہ یادگاریں بدستور قائم تھیں اور اس شہر کو جسے تین ہزار سال کے عرصہ میں وحشی سے وحشی لوگ اور جابر سے جابر بادشاہ بھی تباہ نہ کر سکے.جس پر بڑے بڑے انقلاب آئے.مگر اس کی یادگاریں بدستور قائم رہیں.امتداد زمانہ نے بھی اثر نہ کیا اور اس کے آثار محفوظ رہے.اسے حال میں فرانسیسیوں نے تباہ کر دیا ہے.فرانسیسی تو اس کا ظاہر ذریعہ بن گئے.در حقیقت اس کے لئے مقدر ہو چکا تھا کہ وہ اس وقت تباہ ہو اور ایسے خطرناک طریقے پر تباہ ہو کہ جس کی مثال اس کی ساری عمر میں نہ پائی جائے.اگر یہ بات پہلے ہی مقدر نہ ہو چکی ہوتی تو فرانسیسیوں کی کیا طاقت تھی کہ اس میں ایسی خطرناک بربادی پیدا کر دیتے اور پھر اگر ان قوموں اور ان بادشاہوں کو دیکھا جائے جو فرانس سے کہیں بڑھ چڑھ کر طاقت ور اور جائز تھے.وہ بھی اسے تباہ نہ کر سکے.تو یہ بات اور بھی مضبوط ہو جاتی ہے.پس فرانسیسی ظاہراً اس کی بربادی کی وجہ ہو گئے.ورنہ یہ تو قضاء و قدر میں فیصلہ ہو چکا تھا کہ یہ شہر اس وقت تباہ ہو.اس شہر کی تاریخی اہمیت بالکل ظاہر ہے اور ایسے شہر کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک الہام "بلاء دمشق" ۳ - آج سے ایک مدت پہلے ہو چکا ہے.جو ظاہر کرتا ہے کہ دمشق پر آفت اور مصیبت آنے والی ہے.پچیس سال کے بعد اب ایسا واقعہ ہوا ہے کہ لوگ تعلیم کرتے ہیں کہ تین ہزار سالوں میں اس پر ایسی تباہی نہیں آئی.جیسی کہ اس وقت آئی ہے.حالانکہ اس پر بڑے بڑے انقلاب آئے اور بڑے بڑے جابر اور ظالم حکمرانوں کے ماتحت رہا.انگریزی اخباروں نے بھی اس پر شور مچایا کہ وہ شہر جس میں بڑے بڑے آثار اور مقامات مقدسہ تھے.آج مٹی کا ڈھیر بنا ہوا ہے.اس کی عظیم الشان عمارتیں گر گئی ہیں.اس کے محلے کے محلے ویران ہو گئے ہیں.مسجدیں ، گرجے اور معبد نیست و نابود ہو گئے ہیں اور وہ یاد گاریں جو ہزاروں

Page 333

328 سالوں سے محفوظ چلی آتی تھیں.ویران ہو گئی ہیں.وہ شہر جو سالہا سال سے ہے.صدیوں سے ان آثار و مقامات کے لئے مشہور چلا آتا تھا اور جسے نہ دست انقلابات.نہ مرور زمانہ.نہ کسی ظالم و جابر بادشاہ کا ظلم تباہ کر سکا.آج فرانسیسیوں کی مسلسل گولہ باری سے خاک میں مل گیا.نہ وہ رہا نہ اس کے وہ مقامات جو مقدس سمجھے جاتے تھے رہے.یہ کتنی بھاری مصیبت ہے جو اس شہر پر آئی اس سے بڑھ کر کوئی آفت کسی شہر پر نازل نہیں ہو سکتی اور اس سے بڑھ کر کوئی تباہی نہیں آسکتی کہ ایک ایسا شہر جو نہایت ہی قدیمی ہو.جس میں دنیا کی تین مشہور قوموں کی مذہبی یادگاریں ہوں.جس کی طرف دنیا کا ایک بہت بڑا حصہ محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہو.وہ اس طرح ویران و برباد کر دیا جائے.جس کا کسی کو وہم و خیال بھی نہ ہو سکتا تھا.کوئی ہے جو اس پر غور کرے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اس شہر کے متعلق جو خبر تائی.وہ اس صفائی کے ساتھ پوری ہوئی.کوئی نہیں جو اس کا انکار کر سکے کہ یہ خدا ہی کی بتائی ہوئی بات تھی.بشرطیکہ وہ سلیم طبع ہو.اور شرارت پر آمادہ نہ ہو.کیا اس ایک واقعہ سے ہی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بولتا تھا اور پھر یہ کہ وہ قادر ہے اور ہر ایک شے پر قدرت رکھتا ہے.یہ عظیم الشان نشان جو ظاہر ہوا ہے اور جس سے ایمان پہاڑوں کی طرح مضبوط ہو جاتا ہے اور چٹانوں کی طرح راسخ ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت بڑے زور سے ثابت کر رہا ہے.خدا نے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آج سے کئی سال پہلے خبر دی کہ دمشق پر ایک بلا نازل ہونے والی ہے.اور خدا نے ہی اسے آج پورا کر دکھایا اور ایسے کھلے کھلے رنگ میں پورا کیا کہ کوئی عظمند اور سلیم الطبع شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا.کیا مولویوں سے ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ بھی اس قسم کے نشان دکھاتے یا کسی عظیم الشان واقعہ کی پہلے خبر دے سکتے.جو پھر پوری ہو جاتی.ہر گز نہیں.مولوی تو اس قابل ہی نہ رہے تھے کہ خدا تعالٰی اس طرح انہیں اپنے مصفی غیب سے آگاہ کرتا.وہ تو خود طرح طرح کے گندوں میں پھنسے ہوئے تھے.یہ اسی کا کام تھا.جسے خدا نے لوگوں کو پاک کرنے کے لئے خود مامور فرمایا کہ وہ خدا سے خبر پا کر پیش آنے والے واقعہ کی خبر پہلے سے دے دیتا.کیا اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ظاہر نہیں ہوتی؟ اور کیا اس سے ایمان مضبوط اور دلوں میں پہاڑ کی طرح جاگزیں نہیں ہو جاتا ؟ آج مسلمان.عیسائی اور یہودی رو رہے ہیں کہ سب کے مقامات مقدسہ برباد ہو گئے ہیں

Page 334

329 کیونکہ ان سب کے مقامات مقدسہ اس شہر میں واقع ہیں اور ان کی تباہی پر ان کا رونا ایک قدرتی بات ہے جب وہ شہر ہی تباہ ہو گیا جس میں یہ سب کچھ تھا تو وہ مقامات کیسے بچ سکتے تھے.فی الحقیقت دمشق پر جو تباہی آئی وہ نہایت خطرناک ہے.اس تباہی کے ظاہر اسباب یہ ہوئے کہ دروز کی جو لبنان کے پہاڑوں میں رہنے والی ایک قوم ہے.عیسائیوں کی ایک قوم سے پرانی دشمنی ہے.فرانسیسی اس ملک کے بادشاہ نہیں لیکن بعض انتظامات کے ماتحت اس ملک کی انتظامی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ہے.انہوں نے جب دروزیوں اور عیسائیوں کے درمیان لڑائی دیکھی.تو عیسائیوں کی طرفداری کی اور دروزیوں کو نقصان پہنچانا چاہا.فرانسیسی حکام کی اس روش کو دیکھ کر دروزیوں کے قبیلوں کا ایک سردار جو دروزی قبائل میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا.فرانسیسی اعلیٰ افسر کے پاس اس لئے گیا تا اس بات کی شکایت کرے کہ فرانسیسی افسر خواہ نخواہ عیسائیوں کی حمایت کرتے ہیں.حالانکہ ملک ہمارا ہے مگر وہ عیسائیوں کی مدد کرتے اور ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں.ان کو چاہئے تھا کہ وہ ہماری مدد کرتے کیونکہ ملک ہمارا ہے نہ ان کا لیکن وہ ایسا نہیں کرتے اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے تو انہیں چاہئے تھا کہ خاموش رہتے یا ہمیں جو شکائتیں عیسائی قوم سے ہیں.ان کو دور کرنے کی کوشش کرتے.مگر وہ بجائے اس کے الٹا عیسائیوں کی مدد کرتے ہیں لیکن فرانسیسی افسر نے اس سردار سے ملنے سے انکار کر دیا.کہتے ہیں فرانسیسی افسر کا انکار سن کر جب دروزیوں کا سردار کمرے سے باہر نکلا.تو یہ کہتے ہوئے باہر نکلا کہ تم ہمارے منہ سے باتوں کو نہیں سنتے تو تو یوں کے گولوں سے سنو گے اور واپس آکر اس نے عام اعلان کر دیا کہ اپنے آپ کو بچانے اور فرانسیسیوں سے آزادی پانے کے لئے ہتھیار اٹھا لو.فرانسیسی افسر کے انکار اور دروزی سردار کے اس اعلان نے ملک میں آگ لگا دی اور اخباروں میں بیان کیا گیا ہے کہ اس شورش میں بارہ ہزار عیسائی مارے گئے.وروزی لبنان کے پہاڑوں کی ایک پہاڑی قوم ہے.وہ چونکہ مسلمان کہلاتے ہیں.اس لئے عیسائی ان کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں اس سبب سے وہاں عیسائیوں اور ان کے درمیان دشمنی ہے اور دروزیوں کی بہت سی باتیں مسلمانوں کی سی ہیں لیکن ان کے بعض عقائد ایسے ہیں جو اسلام کے خلاف ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کسی وقت وہ اسلام لائے مگر بعد ازاں ان کی خبر گیری نہیں کی گئی اور مکانوں کی طرح ان کی حالت رہی جس طرح ملکا نے کسمپرسی کی حالت میں رہ کر اسلام سے دور جا پڑے.اسی طرح دروزیوں کا بھی حال ہوا.دروزی قرآن کریم کو مانتے ہیں لیکن اس کے سوا اپنی 20 q

Page 335

330 خاص کتاب پر بھی عمل کرتے ہیں.جس میں اور ہی قسم کا احکام ہیں.وروزیوں نے دیکھا کہ اسلام کے ساتھ نام کا تعلق رکھنے کی وجہ سے جب ہمیں دکھ دیا جاتا ہے.تو کیوں نہ ہم اسلام کے ساتھ پورا تعلق پیدا کریں اور مسلمانوں کے ساتھ اتحاد کر لیں.اس پر دروزیوں نے یہ وعدہ کرتے ہوئے کہ ہم آئندہ اپنی حالت سنواریں گے اور پورے طور پر اسلام کے حکموں کو مانیں گے.عام مسلمانوں کو بلایا کہ عیسائیوں کے مقابلہ میں ہماری مدد کرو اور دشمنوں سے جنگ جاری رکھنے کے لئے ہر قسم کی مدد دو.دروزیوں کے سردار کی طرف سے اس آواز کا اٹھنا تھا.کہ شام کے ملک میں چاروں طرف اک شور برپا ہو گیا اور لوگ ان کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے.اس سے دمشق میں بھی شورش پیدا ہو گئی اور فرانسیسیوں کے برخلاف اس علاقے کے تمام باشندوں میں ایک ہلچل مچ گئی.جب ان میں سے بعض لوگوں نے دیکھا کہ وہ فرانسیسیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو انہوں نے ڈاکووں کی طرح جتھے بنائے اور جہاں ان کو موقع ملتا.لوٹ مار کرنے لگے.اس پر فرانسیسیوں نے متعدد ایسے گاؤں جلا دئیے.جن کے متعلق انہیں یہ خیال گزرا کہ وہ ڈاکووں لو پناہ دیتے ہیں.بعض دفعہ سزا الٹا اثر پیدا کرتی ہے اور بجائے نرمی پیدا کرنے کے اشتعال دلا دیتی ہے.فرانسیسیوں نے جب کچھ گاؤں جلا دیئے تو ان گاؤں کے لوگوں کو اس پر جوش پیدا ہوا اور بجائے اس کے کہ وہ خائف ہو کر دروزیوں سے علیحدہ ہو جاتے.دروزیوں کے ساتھ مل گئے اور دروز اور وہ دمشق میں داخل ہو گئے.انہیں روکنے کے لئے پہلے پولیس سامنے آئی لیکن وہ مقابلہ نہ کر سکی اور اپنی جان بچا کر بھاگ گئی بلکہ ہتھیار تک پھینک گئی.پھر فوج آئی لیکن فوج بھی مقابلہ نہ کر سکی.دروزی بعض دفعہ شہر کے گلی کوچوں میں گھس کر فرانسیسیوں پر گولیاں برساتے.جن کا جواب فرانسیسی نہ دے سکتے اور پھر جب فرانسیسی بھی ان گلی کوچوں میں گھنے کی کوشش کرتے تو ان پر مکانوں کی چھتوں سے اینٹ اور پتھر پڑتے.ان حالات میں یہی کہنا چاہئے کہ فرانسیسیوں کی عقل ماری گئی اور ان کی آنکھوں پر پٹی بندھ گئی جو انہوں نے دمشق کے باشندوں سے کہا کہ لڑنے والوں کو گھروں اور کوچوں اور بازاروں سے نکال دو.نہیں تو ہم گولہ باری کر دیں گے.وہ دروزی جو پولیس سے نہ رک سکے اور مسلح فوج جن سے عہدہ بر آنہ ہو سکی.انہیں شہر کے نہتے لوگ کس طرح نکال سکتے تھے.جب شہر والے ان کو باہر نہ نکال سکے.تو فرانسیسیوں نے ستاون گھنٹے بلکہ بعض خبروں کی بناء

Page 336

331 پر اس سے بھی زیادہ عرصہ تک شہر پر گولہ باری کی.اس گولہ باری کے متعلق جو دوسری رپورٹیں ہیں.ان سے معلوم ہوتا ہے کہ لگا تار جاری رہی اور فرانسیسی اس اثناء میں ٹھہرے نہیں.لیکن فرانس کی رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ گولہ باری مسلسل نہیں ہوئی.بلکہ درمیان میں وقفہ ملتا تھا اور ہمارے مبلغین وہاں ہیں.ان کے خطوط سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ گولہ باری کے درمیان وقفہ ملتا تھا.گو وہ بہت ہی قلیل ہو تا تھا.اس گولہ باری کا نتیجہ کیا نکلا؟ دمشق جو کہ بڑا بارونق شہر تھا اور جس میں ماسوا مقامات مقدسہ کے بڑی بڑی پرانی اور تاریخی عظیم الشان عمارتیں تھیں.بالکل ویران ہو گیا.وہ بازار جو بڑے بارونق اور مشہور تھے بالکل تباہ ہو گئے اور اب ان کو کوئی پہچانتا بھی نہیں.ہر جگہ مکانوں کی اینٹیں اور لکڑیاں پڑی ہیں.طلبہ اور مٹی کے ڈھیر جابجا نظر آتے ہیں.حتی کہ وہ بازار بھی کہ جسے عیسائی مقدس سمجھتے تھے بالکل برباد ہو گیا اور اس میں اس شدید گولہ باری سے غار پڑ گئے ہیں.اس تباہی کے ساتھ لوگوں کی جانوں پر بھی تباہی آئی.جو نقصان اس گولہ باری سے ہوا.اس کا صحیح اندازہ بھی نہیں ہو سکتا.تاہم اس کے متعلق مختلف رپورٹیں ہیں.بعض رپورٹیں یہ کہتی ہیں پچھتیس ہزار آدمی اس سے مارے گئے.فرانسیسی رپورٹیں کہتی ہیں.صرف دو ہزار آدمی مارے گئے.بعض دوسری رپورٹوں سے ظاہر ہے کہ پانچ چھ ہزار مارے گئے.یہ مختلف رپورٹیں ہیں.ممکن ہے بعض میں افراط سے کام لیا گیا ہو اور بعض میں تفریط سے.اس لئے یہ قیاس ہے کہ سات آٹھ ہزار جانوں کا ضرور نقصان ہوا ہے.یہ تو ہے جانوں کا نقصان اور مال کے لحاظ سے تو کئی کروڑ کا نقصان ہوا.جانوں اور مالوں کے نقصانات کے ساتھ ساتھ ایک اور نقصان بھی ہے.جو ایک عرصہ تک لوگوں کو تکلیف میں ڈالے رکھے گا.وہ نقصان ان زندہ لوگوں کا حال ہے جو حال سے بے حال ہو گئے.جن کے گھر تباہ ہو گئے.جن کے مال برباد ہو گئے.جن کے لئے سر چھپانے کی کوئی جگہ نہ رہی.اور اس ہولناک تباہی کے بعد ایک نہیں دو نہیں سینکڑوں ہزاروں اشخاص ایسے ہوں گے جو زندہ تو رہے مگر بالکل تباہ حال.جو اس آفت سے بیچ تو رہے مگر بالکل بے خانماں برباد.ان میں سے ہزاروں ایسے ہوں گے جو تن کے لئے کپڑا بھی ہم نہ پہنچا سکیں گے.ان میں سینکڑوں ایسے ہوں گے.جو ویران شدہ اشیاء کو درست بھی نہ کر سکیں گے ان میں ہزاروں ایسے ہوں گے جو مسمار شدہ گھر نہ بنا سکیں گے.اور ایشیائیوں کی مظلومیت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان خانماں

Page 337

332 بربادوں کی کوئی خبر لینے والا بھی نہ ہوگا.پس غور کرو کہ کس صفائی سے ”بلاء دمشق" کا الہام جو آج سے کئی سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہوا.پورا ہوا ہے.تین ہزار سال میں ایسی تباہی اس شہر پر نہیں آئی جو اب آئی ہے.اور ہم اس کو پیش کر کے ان لوگوں سے جو کہتے ہیں ہم مرزا صاحب کو خادم اسلام تو مانتے ہیں مگر مامور من اللہ نہیں مانتے پوچھتے ہیں.کیا آپ کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی یا نہ جو " بلاء دمشق" کے الفاظ میں آپ نے آج سے بہت سال پہلے کی تھی کہ دمشق پر ایک آفت آنے والی ہے؟ کیا وہ لوگ جو دیانتداری کا دعویٰ کرتے ہیں.اس پیشگوئی کو دیکھ کر اقرار کریں گے کہ ایسی عظیم الشان خبر دینا کسی مولوی کا کام نہ تھا بلکہ یہ م کسی مامور کا تھا اور حضرت مرزا صاحب خدا تعالیٰ کی طرف سے اس زمانہ کے لئے مامور تھے.اگر وہ لوگ اس بات کا اقرار نہیں کریں گے کہ حضرت مرزا صاحب خدا کے مامور تھے اور خدا تعالٰی ان سے ہمکلام ہوتا تھا اور ہر رنگ میں ان کی مدد کرتا تھا تو مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ وہ سنجیدگی اور شرافت کے ساتھ اس معاملہ میں غور نہیں کرتے بلکہ اس معاملہ کو کسی اور آنکھ سے دیکھتے ہیں.اس کے بعد میں اس اظہار سے بھی نہیں رک سکتا کہ دمشق میں ان لوگوں پر جو پہلے ہی بے کس اور بے بس تھے.یہ بھاری ظلم کیا گیا ہے.ان لوگوں کی بے بسی اور بیکسی کا یہ حال ہے کہ باوجود اپنے ملک کے آپ مالک ہونے کے دوسروں کے محتاج بلکہ دست نگر ہیں.میرے نزدیک شامیوں کا حق ہے کہ وہ آزادی حاصل کریں.ملک ان کا ہے.حکمران بھی وہی ہونے چاہئیں.ان پر کسی اور کی حکومت نہیں ہونی چاہئے.یہ ظلم اس لحاظ سے اور بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ پچھلی جنگ میں اہل شام نے اتحادیوں کی مدد کی اور اس غرض سے مدد کی کہ انہیں اپنے ملک میں حکومت کرنے کی آزادی دی جائے گی.پھر کتنا ظلم ہے کہ اب ان کو غلام بنایا جاتا ہے.وہ ملک جو تلوار کے ذریعے زیر نہ کئے جائیں بلکہ معاہدات کی رو سے سیاست اور علم کا چرچا نہ ہونے کے سبب جن کی تربیت کرنے کا ذمہ لیا جائے.کیا ان کی یہی حالت ہونی چاہئے کہ انہیں بالکل غلام بلکہ غلاموں سے بھی بد تر بنانے کی کوشش کی جائے.انہیں ہر طرح تکلیف دی جائے اور بجائے مدد کرنے کے ان کو نقصان پہنچایا جائے.پس نہ انگریزوں کا اور نہ کسی اور سلطنت کا حق ہے کہ وہ شامیوں کے ملک پر حکومت کریں اور نہ ہی فرانسیسیوں کا حق ہے کہ وہ ملک پر جبراً قبضہ رکھیں.شامیوں نے اتحادیوں کی مدد کی اور انہیں فتح دلائی.جس کا بدلہ یہ ملا کہ فرانسیسیوں نے ان کے ملک کو تباہ اور ان کے گھروں کو ویران کر دیا.اس سے زیادہ کیا غداری ہو سکتی ہے کہ جس نے ان کو فتح دلائی اسے ہی

Page 338

333 غلامی کا حلقہ پہنایا جاتا ہے.میں چونکہ دمشق کو خود دیکھ آیا ہوں.اس لئے وہاں کے حالات سے واقفیت رکھتا ہوں.وہاں لوگوں کا آپس میں سخت تفرقہ ہے اور چھ قسم کی رائیں اس ملک میں پائی جاتی ہیں.بعض لوگ تو فرانس کے ماتحت رہنا چاہتے ہیں مگر یہ بہت ہی قلیل ہیں.بعض انگریزوں کے ماتحت رہنا چاہتے ہیں.ان کی تعداد پہلوں سے کچھ زیادہ ہے.بعض ترکوں کے ماتحت رہنا چاہتے ہیں.ان کی تعداد بھی بہت ہی کم ہے.بلکہ ان لوگوں سے بھی کم ہے جو فرانسیسیوں کے ماتحت رہنا چاہتے ہیں.بعض کی رائے ہے کہ حجاز اور فلسطین کو ملا کر ایک حکومت قائم کرلی جائے.مولویانہ رنگ کے لوگ اس خیال کے ہیں اور جو دوسرے ہیں وہ کہتے ہیں حجاز چونکہ بہت پس ماندہ ہے اس کے ساتھ ہم ترقی نہ کر سکیں گے.اس لئے شام اور عراق کی ایک حکومت بنائی جائے جو امیر فیصل کے ماتحت ہونی چاہئے.ان کے علاوہ ایک اور جماعت ہے جو یہ کہتی ہے کہ نہ حجاز اور فلسطین کی حکومت مفید ہو سکتی ہے اور نہ شام اور عراق کی.اس لئے شام اور لبنان کو ملا کر ایک حکومت قائم کرنی چاہئے.یہ چھ پارٹیاں ہیں جو آپس میں لڑتی رہتی ہیں.لیکن ملک میں سے دو فیصد بھی ایسے لوگ نہ ہوں گے جو فرانس کی تائید کرتے ہوں.پس گو ان میں یہ خانہ جنگی یا کشمکش نظر آتی تھی لیکن ان خیالات کے نیچے وہ ضمیر حریت بول رہی تھی جو آزادی چاہتی تھی اور جو کسی کے ماتحت نہیں رہنا چاہتی.یہ قدرتی بات ہے کہ ہر ایک قوم اور ہر ایک ملک چاہتا ہے کہ اس کی اپنی حکومت ہو مگر بعض وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب وہ خود حکومت حاصل نہیں کر سکتے.تو کسی اور اجنبی حکومت کو چاہتے ہیں اور ایک دوسری حکومت کے لئے جدوجہد کرتے ہیں جو ان کے لئے ویسی ہی اجنبی ہوتی ہے جیسی کہ پہلی.اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ اپنی حکومت ہی نہیں چاہتے بلکہ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ موجودہ حکومت کی بعض غلطیوں سے بیزار ہو جاتے ہیں اور ایک دوسری حکومت کی تمنا کرنے لگ جاتے ہیں.حالانکہ انہوں نے اس حکومت کو دیکھا نہیں ہوتا کہ وہ کیسی ہوگی وہ خیال کرتے ہیں کہ شائد نئی حکومت موجودہ حکومت سے بہتر ہو.اس لئے وہ اس کوشش میں لگ جاتے ہیں اور اس کی تہہ میں ان کی یہ غرض بھی ہوتی ہے کہ وہ کسی دوسری حکومت کی مدد حاصل کریں اور موجودہ حکومت کو اس کی مدد سے نکال دیں.یہی حال شام کا تھا.شامی لوگ اگر یہ کہتے تھے کہ وہ انگریزوں کی حکومت چاہتے ہیں تو وہ یہ بھی کہتے تھے کہ ہم در حقیقت انگریزوں کو نہیں چاہتے بلکہ

Page 339

334 فرانسیسیوں کو نکالنے کے لئے اس رنگ میں ان کی مدد حاصل کرنا چاہتے ہیں.کیونکہ ہم ان کو بغیر کسی کی مدد کے نکال نہیں سکتے اور جب ان کو نکال لیں گے تو پھر دیکھا جائے گا.حکومت کا بھی وہاں عجیب انداز ہے.چار حکومتیں ایک ہی وقت میں وہاں قائم ہیں ان میں سے ایک فرانسیسی حکومت بھی ہے.اس کے دو ٹکڑے ہیں.فرانسیسیوں کی طرف سے ایک گورنر وہاں رہتا ہے.ایک ترک حاکم بھی اس علاقہ میں تھا.وہ اصلی ترک نہیں تھا بلکہ ایسا ترک تھا جو باہر سے آکر اس ملک میں بس گئے ہیں.یہ شخص بڑا ہی ہوشیار تھا.فرانسیسی حاکم جو اس ملک میں رہتا تھا.وہ ریذیڈنٹ کہلاتا تھا.جس طرح ہندوستان میں ریاستوں کے ساتھ ایک ریذیڈنٹ رہتا ہے.اسی طرح کا یہ بھی تھا.میں اس سے بھی ملا.دیر تک سیاسی معاملات پر گفتگو ہوئی.پھر مولویوں کی بھی حکومت ہے.پریس پر مولویوں کا قبضہ ہے.جو کتاب چاہیں چھاپنے دیں اور جو نہ چاہیں نہ چھپنے دیں.وہاں ایک مفتی بھی ہے.جو پریس پر بکلی اختیار رکھتا ہے.اور اگر وہ کسی کتاب کو روک دے تو کسی کی طاقت نہیں جو اسے شائع کر سکے.ہم جب دمشق میں تھے تو ہم نے ایک ٹریکٹ چھپوایا اور گورنر سے پوچھ کر چھپوایا.بعد میں کسی نے شکایت کی.یا خدا جانے کیا بات ہوئی.مفتی نے اس کی اشاعت روک دی.ہم نے ہر چند کہا کہ ہم نے گورنر کی اجازت سے چھپوایا ہے مگر ایک نہ سنی گئی اور اس کی ضبطی کا حکم دے دیا گیا.آخر گورنر کے پاس گئے اور کہا ہم نے آپ کی اجازت سے ٹریکٹ چھپوایا ہے لیکن مفتی اسے ضبط کرنے کا حکم دے رہے ہیں.اس نے کہا.مفتی کے حکم کے بعد میں کچھ نہیں کر سکتا.کیونکہ پریس مفتی کے ماتحت ہے اور اس ملک میں قانون ہے کہ جس بات کو چاہیں مفتی چھپنے دیں اور جس کو چاہیں نہ چھپنے دیں یا روک دیں یا ضبط کر لیں.ان دو حکومتوں کے ساتھ ساتھ ایک اور حکومت بھی ہے جو کونسل کی حکومت ہے.کونسل فرانسیسیوں نے بنائی اور ایک شخص کو گورنر منتخب کیا.یہ گورنر لبنان کو چھوڑ کر سارے شام کا گورنر تھا.یہ شخص جو لبنان کے سوا سارے شام کا گورنر تھا.خالد بن ولید ان کی اولاد سے تھا مگر افسوس کہ ایسے نامی گرامی اور بہادر شخص کی اولاد سے ہونے کے باوجود جو کہ خالص عربی نسل سے تھا.وہ عربی نہیں بول سکتا تھا مگر شریف آدمی تھا.اس کے ساتھ جب میں ملا.تو بہت عمدگی کے ساتھ گفتگو کرتا رہا.اس نے افسوس کے ساتھ کہا کہ میں باوجود عربی النسل ہونے کے عربی نہیں بول

Page 340

335 سکتا ہاں تھوڑی تھوڑی سمجھ لیتا ہوں.میں ترکی بولتا ہوں.میرے بچے ترکی بولتے ہیں اور میری بیوی ترکی بولتی ہے.دیر تک اس سے گفتگو ہوتی رہی.پھر سلسلہ کے متعلق ذکر آیا اور جب اس نے ہماری زبان سے یہ سنا کہ اس ملک کے مولویوں نے کہا ہے کہ احمدیوں کو یہاں تبلیغ نہیں کرنی چاہئے.تو حیران ہو کر کہا.سمجھ میں نہیں آسکتا کہ کس طرح وہ لوگ احمدیوں کو جو کہ اسلام کا ایک فرقہ ہے.یہاں تبلیغ کرنے سے روک سکتے ہیں.حالانکہ اس ملک میں غیر اسلامی لوگوں کے مشن قائم ہیں.عیسائیوں کے مشن یہاں ہیں.یہودیوں کے مشن یہاں ہیں.پھر ان کے ہوتے ہوئے مسلمانوں کے ایک ایسے فرقہ کے لئے جو خالص مذہبی ہو.کیو نکر یہ لوگ روک پیدا کر سکتے ہیں.غرض دیر تک اس سے مختلف امور پر پر گفتگو ہوتی رہی اس کی گفتگو سے یہی پایا گیا کہ وہ بھی فرانس والوں کی حکومت کے برخلاف تھا.اس ملک میں کسی افسر یا حاکم یا گورنر کا تقرر چونکہ ملک کے انتخاب کے ماتحت ہوتا ہے.اس لئے ملک کی عام رو کے مطابق اس کی رائے بھی فرانسیسیوں کے برخلاف تھی اور اس کا میلان بھی یہی تھا کہ ملک کو آزادی حاصل ہونی چاہئے.غرض اسی طرح ملک میں مختلف رائیں تھیں.اور ان میں سے بیشتر حصہ کی رائے فرانسیسیوں کے برخلاف تھی.اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ملک میں تین سکے چلتے تھے.فرانسیسی نوٹ جو دو دو پیسے کے تھے اور ان کی کوئی قدر و قیمت نہ تھی.ہمارے ہاں پانچ پانچ روپے تک کے نوٹ ہیں.جب ایک ایک روپے کے نوٹ چلے تو شور پڑ گیا اور آخر وہ بند کر دئے گئے مگر فرانس کے دو دو پیسے کے نوٹ چلتے تھے.فرانسیسی نوٹ کی عام طور پر کوئی قدر نہ تھی ان نوٹوں کے سوا ترکی سکہ بھی چلتا تھا اور مصری سکے بھی مروج تھے.ان سب میں سے مصری سکہ سب سے زیادہ چلتا تھا.بازار میں فرانسیسی نوٹ لے کر سودا لینے جاؤ تو دکاندار نوٹ کے عوض سودا دینے سے انکار کر دیتے اور کہتے.ترکی یا مصری سکہ لاؤ.اس پر صراف کی دوکان پر جا کر بٹہ دے کر سکہ لینا پڑتا.پھر اگر ڈاک خانہ میں ٹکٹ خریدنا چاہیں تو وہ نہ ترکی سکہ لیتے نہ مصری.کہتے نوٹ لاؤ.اس کے بدلے میں ٹکٹ مل سکیں گے.یہی حال ریلوے والوں کا تھا.وہ بھی کوئی سکہ نہ لیتے بلکہ فرانسیسی نوٹ لیتے.اگر کوئی شخص مصری یا ترکی سکہ لے کر ریلوے یا ڈاک خانہ میں جائے تو وہ اسے لوٹا دیتے.اس لئے پھر صرافوں کی دکانوں پر آنا پڑتا اور پھر کمیشن دے کے سکوں کے بدلے نوٹ لینے پڑتے.ان میں سے جتنے وہاں خرچ ہوں.وہ تو خیر کام آئے.بقیہ نوٹ سب ضائع گئے.یہی وجہ ہے کہ وہاں ہر دو تین دکانوں کے بعد صراف کی دکان نظر پڑتی ہے.

Page 341

336 ان باتوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ ملک اس بات پر آمادہ ہے کہ آزادی حاصل کرے.یہ فساد جو اس وقت پیدا ہوا.اسی روح کا نتیجہ ہے جو اس ملک میں اس وقت پیدا ہو رہی تھی.چنانچہ دروز نے جب مدد کے لئے مسلمانوں کو بلایا تو سارا شام اسی روح کے ماتحت ان کی مدد پر کھڑا ہو گیا.بے شک شام میں مختلف آراء کے رکھنے والے لوگ ہیں.مگر ان کی آراء کے اس اختلاف کے نیچے سوائے اس روح کے جو آزادی کی روح ہے اور کوئی روح کام نہیں کر رہی اور یہ وہی روح ہے جس نے ایک پہاڑی قوم کی آواز پر سب کو بیدار کر دیا اور وہ آزادی کے لئے جمع ہو گئے.خواہ ان کے متعلق کوئی کچھ ہی کے مگر یہ بات ہر ایک شخص کو ماننی پڑے گی کہ شام کی جدوجهد آزادی درست ہے.فرانسیسیوں کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کی یہ کوشش درست ہے.ہر ایک شخص کو آزاد رہنے کا حق ہے اور ہر ایک شخص کی فطرت یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ غیر کی غلامی میں نہ پھنسے اور اگر پھنس جائے تو نجات حاصل کرے.اس لئے میری رائے میں شام کو ایک حد تک آزادی ملنی چاہئے.پس میں جہاں اس بات پر خوشی کا اظہار کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کو ظاہر فرمایا اور اپنے اس کلام کو پورا فرمایا.جو تقریباً ۲۵ سال آج سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل کیا تھا.وہاں میں اس ظلم کے لئے جو شام پر کیا گیا شام سے دلی ہمدردی رکھتا ہوں.شام والے مظلوم ہیں اور ان کی وفاداریوں اور جانبازیوں کا اچھا صلہ ان کو نہیں دیا گیا.انہوں نے اپنی جانیں دے کر اتحادیوں کو فتح دلانے کی کوشش کی مگر جب ان کی باری آئی تو بجائے حسن سلوک کے ان پر ظلم کیا گیا.ان کی جائیں تباہ کی گئیں.ان کا ملک ویران کیا گیا.ان کے مال برباد کئے گئے.پس وہ مظلوم.پس وہ مظلوم ہیں اور میں ان مظلوموں کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہوں.بہر حال یہ تاریخ کا ایک نہایت تاریک واقعہ ہے.جس کی نظیر تاریک در تاریک زمانوں اور تاریک در تاریک حالات میں بھی ملنی مشکل ہے.اس واقعہ کی نوعیت پر اگر غور کیا جائے تو تھوڑی سے تھوڑی عقل رکھنے والا شخص بھی سمجھ لے گا کہ کسی تاریک واقعہ کی مثال اس واقعہ سے بڑھ کر دنیا میں نہیں مل سکتی.یہاں تو ستاون گھنٹہ تک گولہ باری کی گئی.حالانکہ گزشتہ جنگ یورپ میں جرمن کا کوئی گولہ اگر اتفاقاً کسی شہر پر آکر گرا.تو ان لوگوں نے شور مچانے پر اپنی ساری طاقت صرف کر دی.مثلاً ”ورڈن" کے حملہ کے وقت ایک گولہ اتفاقیہ طور پر شہر پر آگرا تھا.اس گولے کا گرنا تھا کہ ان کے چھوٹے اور بڑے.بوڑھے اور جوان سب نے شور مچا دیا کہ یہ بہت بڑا ظلم ہے

Page 342

337 مگر دمشق پر ستاون گھنٹہ گولہ باری کی گئی اور ایسے اندھا دھند طور پر کی گئی کہ کسی زبردست سے زبر دست قلعے پر بھی اس قسم کی گولہ باری نہیں کی جاتی مگر باوجود اس کے ان لوگوں کو محسوس تک نہیں ہوا کہ کیا ہوا.اور اگر اس بات کو مد نظر رکھا جائے کہ یہ گولہ باری عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور نستے شہریوں پر کی گئی تو میرے خیال میں کوئی بھی ایسا شخص نہ ہو گا.جو فرانسیسیوں کے اس فعل کو برا نہ کے اور اسے ظلم نہ قرار دے.ان حالات کے ماتحت ہر ایک شخص مانے گا کہ یہ جو کچھ ہوا.سخت ظلم ہوا اور یہ ان لوگوں کی خطرناک غلطی ہے مگر تعجب ہے کہ اس غلطی کے معلوم ہو جانے پر بھی یورپ سے کوئی آواز نہیں اٹھی اور مظلوموں کی ہمدردی کے لئے کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا گیا.اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یورپ والے باوجود انسان ہونے کے ہمدردی پر جو مائل نہیں ہوتے.تو یہ کارروائی ان کی طرف سے بالا رادہ ہوئی.میں کہتا ہوں.ہمدردی اگر وہ نہیں کر سکتے تھے.تو کیا ظالم کا ہاتھ بھی نہیں روک سکتے تھے؟ فرانس کے اس ظلم کو دیکھ کر وہ فرانس کو اس سے روک سکتے تھے.مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا اور بالکل خاموش رہے.ان کی یہ خاموشی ظاہر کر رہی ہے کہ یہ غلطی نہ تھی جو اتفاقیہ ہو گئی ہو بلکہ ارتکاب جرم تھا جو بالا رادہ کیا گیا.نہیں ہو اگر یورپ کے کسی شہر پر اس قسم کی کیا اس سے بدرجہا کم گولہ باری کی جاتی تو پھر دیکھتے.وہ کیا کچھ نہ کر گزرتے.اگر ایک شخص بھی کسی جگہ ان کا مرجاتا ہے تو کئی لاکھ فوجیں اس جگہ جا کر جمع ہو جاتی ہیں.مگر یہ لوگ جو مارے گئے.ان کے لئے ان کے اندر ایک خفیف سی ہمدردی کی حرکت بھی پیدا نہیں ہوئی.اس گولہ باری سے جو لوگ مرے.ان کی تعداد کا صحیح اندازہ اس وقت نہیں ہو سکتا.گو ان کی تعداد کے متعلق مختلف رنگ آمیزیوں سے کام لیا جا رہا ہے.مگر اس بات سے تو انکار سکتا.کہ اس حادثہ سے کوئی مرا ہی نہیں.ان دروزیوں کو الگ کر دو.جن کے متعلق بغاوت کا الزام ہے مگر ان باشندوں کی ہلاکت کے متعلق فرانس کے پاس کیا جواب ہے جو ان کی بے پناہ گولہ باری سے مرگئے اور جن کا کوئی قصور بھی نہیں تھا.عجیب بات یہ ہے کہ دروز مرے ہی نہیں.مارے گئے شہر کے باشندے.مگر افسوس کہ اتنے بڑے واقعہ پر جس نے دلوں کو ہلا دیا.یورپ کی طرف سے کوئی بھی ہمدردی کی آواز نہیں اٹھی اور کوئی قوم اس واقعہ کی تحقیق کے لئے تیار نہیں ہوئی اور نہ اس کے ازالہ کے واسطے آمادہ؟ کس قدر افسوس ہے کہ ہزاروں آدمی بے گناہ مارے جائیں.لیکن سارے یورپ سے ان کی ہمدردی.ان کی مدد.ان کی تائید اور ان کی دل جوئی

Page 343

338 کے لئے کوئی نہ اٹھے.خود فرانس میں اس واقعہ کے متعلق جوش پیدا ہو رہا ہے اور وہاں کے لوگ سمجھ رہے ہیں کہ ہم اتنا بڑا ظلم کر کے مہذب قوموں میں منہ دکھانے کے لائق نہیں رہے لیکن دوسری سلطنتوں نے اس کے متعلق بالکل خاموشی اختیار کر رکھی ہے.اس سے ایشیائی باشندوں میں جو پہلے ہی احساس ہے کہ اہل یورپ کے نزدیک ہماری جانوں کی کوئی وقعت نہیں اس میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا اور ان کا خیال یقین تک پہنچ جائے گا کہ یورپ کو ہماری جانوں کا کوئی خیال نہیں.اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ خطرہ جسے ایشیائی خطرہ کہا جاتا ہے.فی الواقعہ خطرناک صورت اختیار کرلے گا.پس ہمیں یورپین قوموں کو مشورہ دینا چاہئے کہ وہ ایسے موقع پر سوچ سمجھ کر کارروائی کریں.نہ کہ جوش اور غضب میں بھر کر یا اپنی طاقت کے گھمنڈ میں آکر انسانوں کی تباہی پر اتر آئیں اور خصوصاً گورنمنٹ انگلشیہ کو مشورہ دینا چاہئے کہ وہ ایسے کاموں میں دخل دے کر ان لوگوں کو جو ظلم پر کمر بستہ ہوں سمجھائے اور ظلم سے روکے اور اس موقع پر بھی اسے چاہئے کہ فرانس نے جو دمشق پر تباہی برپا کی ہے اس کے متعلق اپنی ناراضگی اور ناپسندیدگی کا اظہار کرے اور مظلوموں کے ساتھ ہمدردی پر آمادہ کرے اور خود بھی مظلوموں سے ہمدردی کرے.اب میں اللہ تعالٰی سے یہ دعا کرتے ہوئے اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں کہ وہ لوگوں کو اس پیشگوئی کی صداقت اور اس پیشگوئی کے کرنے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت ماننے کی توفیق عطا فرمائے.میں ان لوگوں کے لئے بھی دعا کرتا ہوں جنہوں نے قوم کی حریت اور آزادی کے لئے کوشش کی اور اس کے لئے مارے گئے.پھر میں ان لوگوں کے لئے بھی دعا کرتا ہوں جو زندہ ہیں اور اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ وہ تباہی سے بچیں اور کامیاب ہوں.چونکہ سب سے ہمدردی ہمارا فرض ہے.اس لئے میں اہل یورپ کے لئے بھی دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے تا وہ عدل کریں اور ظلم سے بچیں اور بجائے اس کے کہ وہ آزادی اور حریت کا خون کریں.اس کو قائم کرنے والے بنیں.ایسے موقع پر میں اپنی جماعت کے لئے بھی دعا کرتا ہوں کہ خدا اس کو بھی ترقی عطا فرمائے اور جبکہ خدا تعالیٰ نے ایسا عظیم الشان نشان دکھایا ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ اور بھی زیادہ لوگوں کو احمدیت کی طرف متوجہ کرنے والی.خدا کی رحمت کو پانے والی اور اس کے عذاب سے ڈرنے والی بنے.پھر اس کے عذاب سے پناہ مانگتے ہوئے اور اس

Page 344

339 کی رحمت کو جذبہ کرتے ہوئے میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہم کو ہماری ذمہ داری سمجھنے کو توفیق عطا فرمائے.اپنی مخلوق کی سچی ہمدردی ہمارے دلوں میں پیدا فرمائے.میں یہ بھی دعا کرتا ہوں که خداتعالی ہماری جماعت کو اپنے عذاب سے ڈرنے والا اور اپنی رحمت کے جذب کرنے والا (الفضل ۲۱ نومبر ۱۹۲۵ء) بنائے.آمین ثم آمین ا اعمال الرسل باب ؟ ۲- تذکره صه ۱۲۶

Page 345

340 40 نماز باجماعت کی تاکید (فرموده ۲۰ نومبر ۱۹۲۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے.باوجود اس کے کہ نماز باجماعت کی تاکید ایسی شدت کے ساتھ آئی ہے.جس کے بعد مسلمان کہلاتے ہوئے کسی شخص کو انکار کی گنجائش رہتی ہی نہیں لیکن پھر بھی ابھی تک بعض لوگ اس میں سستی کرتے ہیں.باجماعت نماز پڑھنے کی جس قدر تاکید کی گئی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایمان کی جان اور روح ہے اور ایمان کے بہت بڑے حصہ کا اس پر دارومدار ہے.مگر باوجود اس کے کہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں ساری نمازوں میں شامل نہ ہونے والا تو الگ رہا صبح اور عشاء کی نمازوں میں شامل نہ ہونے والا بھی منافق ہے.1.افسوس ہے بہت سے لوگ اس طرف جیسی کہ چاہئے توجہ نہیں کرتے.میں نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ نماز باجماعت میں ستی نہیں کرنی چاہئے مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور میں نہیں سمجھتا کہ مسلمان کہلا کر پھر احمدی مسلمان کہلا کر اس قدر غفلت اور سستی کے کیا معنی ہیں؟ ہماری جماعت کا جو حصہ نماز با جماعت کی قدر نہیں کرتا یا اس کی اہمیت نہیں سمجھتا.میں اس کے متعلق یہ تو خیال ہی نہیں کر سکتا کہ وہ مسلمان کہلاتا ہو اور نمازیں نہ پڑھتا ہو مگر یہ بات میں ضرور کہوں گا کہ وہ نمازیں پڑھنے میں سستی سے کام لیتا ہے اور اگر میرے مدنظر ان کی کم علمی جهالت، نادانی یا بعض ایسی مجبوریاں جو بعض اوقات انسان کو لاحق ہو جاتی ہیں نہ ہوتیں تو میں یہی کہتا کہ جو شخص نماز باجماعت نہیں پڑھتا.وہ مسلمان نہیں اور احمدی کہلانے کے لائق نہیں.مگر بہت سے لوگ جاہل ہوتے ہیں جو اپنی جہالت کے سبب ایک شے کی حقیقت نہیں سمجھ سکتے.بہت

Page 346

341 سے کم علم ہوتے ہیں جو اپنی کمنی علم کی وجہ سے ایک بات کے متعلق پورا پورا علم نہیں رکھتے پھر بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو جاہل تو نہیں ہوتے اور کم علم بھی نہیں ہوتے مگر مجبور ہوتے ہیں.اس لئے ایسے لوگ کسی حد تک رعایت کے مستحق ہوتے ہیں لیکن اگر ایک چنگا بھلا آدمی جو جاہل بھی نہیں جو کمئی علم کے سبب نا واقف بھی نہیں.جس کے کان میں وقتا فوقتا یہ آوازیں بھی پڑتی رہی ہوں کہ نماز باجماعت پڑھنے کی رسول کریم اللہ نے از حد تاکید فرمائی ہے.وہ اگر اس میں غفلت کرے اور سستی سے کام لے تو وہ کسی رعایت کا مستحق نہیں ہو سکتا.رعایت کیا اس کے زے تو گناہ لگ رہا ہے کہ واقفیت رکھتے ہوئے بھی وہ ایک ایسی بات کے کرنے میں غفلت کرتا ہے جس کے متعلق بہت ہی تاکید کی گئی ہے.پس میرے نزدیک جو نماز نہیں پڑھتا.وہ مسلمان نہیں.مسلمان منہ سے نہیں بن جاتا.کوئی شخص اتنا کہہ دینے سے کہ میں مسلمان ہوں مسلمان نہیں ہو سکتا.مسلمان بننے کے لئے عملی صورت ہونی چاہئے اور وہ عملی صورت سوائے نماز کے اور کوئی نہیں.پس جب تک ایک شخص جو منہ سے کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں نماز باجماعت نہیں پڑھتا.وہ مسلمان کہلانے کا بھی مستحق نہیں.نماز معمولی سی چیز نہیں.بلکہ وہ چیز ہے جو ایک شخص کو بہت سی بدیوں اور برائیوں سے بچاتی ہے.یہ ایک مسلمان اور غیر مسلمان کے درمیان امتیاز پیدا کرنے والی چیز ہے.ایمان اور کفر کے درمیان کا پردہ نماز ہی ہے لیکن نماز با جماعت.نماز با جماعت معمولی مسئلہ نہیں بلکہ بڑا اہم مسئلہ ہے.ایمان اور اسلام کا فرق دکھانے والا مسئلہ ہے.اس سے ایک شخص کے ایمان اور اسلام کا اندازہ ہو سکتا ہے اور اس کے اخلاص اور محبت کا پتہ لگتا ہے کہ وہ جو ایمان کا دعویٰ کرتا ہے.کیا وہ اس دعوے کے ساتھ اخلاص اور محبت بھی اپنے اندر رکھتا ہے.یا صرف ایمان کا دعوی ہی دعویٰ کرتا ہے.پس نماز با جماعت کے مسئلے سے ایک شخص کے متعلق ان سب باتوں کا امتحان ہو سکتا ہے.اس لئے یہ کوئی چھوٹا سا مسئلہ نہیں کہ اس کی طرف توجہ نہ کی جائے.بلکہ یہ بڑا اہم مسئلہ ہے اور اس کی طرف ہر ایک شخص کو پوری پوری توجہ کرنی چاہئے.جب رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ صبح اور عشاء کی نمازیں جماعت کے ساتھ نہ پڑھنے والا منافق ہے.تو میں نہیں سمجھتا کہ ان کے متعلق کیا فرماتے.جو پانچ پانچ یا چار چار یا تین تین نمازوں میں نہیں آتے اور انہیں جماعت کے ساتھ ادا نہیں کرتے.ایسے لوگ جو باجماعت نمازیں نہیں پڑھتے.وہ سمجھتے ہیں جب ہم گھروں میں نماز پڑھ لیتے ہیں

Page 347

342 تو کیا حرج ہے اور یہ کوئی عیب نہیں کہ ہم باجماعت نمازیں نہیں پڑھتے مگر ایسا سمجھنے میں وہ غلطی پر غلطی کرتے ہیں.کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ رسول کریم ﷺ کے وقت میں دو نمازیں بھی اگر با جماعت نہ پڑھی جائیں تو منافق ہو جائیں اور اب اگر ساری نمازیں باجماعت نہ پڑھی جائیں تو خیال کیا جائے کہ ہم منافق نہیں.یہ کس قدر بے ہودگی ہے کہ نمازیں تو باجماعت نہ پڑھیں مگر یہ امید رکھیں کہ خدا تعالیٰ ہم سے وہ سلوک کرے جو سب نمازوں کو باجماعت پڑھنے والوں کے ساتھ کرتا ہے.یاد رکھو مسجدوں کو چھوڑ کر گھروں پر بلا عذر نمازیں پڑھنے والے با اخلاص نہیں ہو سکتے اور کے کے نہ ہی منافق نام دھرانے سے بچ سکتے ہیں.میں پوچھتا ہوں کہ کیا وجہ ہے کہ رسول کریم انا ہے وقت تو عشاء اور صبح کی نمازیں باجماعت نہ پڑھنے سے لوگ منافق بن جائیں مگر اس وقت ایسا کرنے پر منافق نہ ہوں.اگر اس زمانہ کے لوگ ان دونوں نمازوں کو باجماعت ادا نہ کرنے کے سبب منافق تھے.تو اس وقت کے لوگ بھی ایسا کرنے پر ضرور منافق ہیں.اس وقت کی حالت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری جماعت سے ایک طبقہ عشاء اور صبح کی نمازوں میں غیر حاضر ہوتا ہے اور یہ ایک قابل افسوس بات ہے کہ ہم احمدی کہلا کر بھی وہ باتیں کریں جو منافق بنا دیں.یہاں قادیان میں ہی اگر کوئی شخص ظہر و عصر کی نمازوں میں آنے والوں کو دیکھے اور پھر صبح اور عشاء کی نمازوں میں پھر جائے.تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ کثرت سے لوگ ان دو نمازوں میں نہیں آتے اور ایسے لوگ جو ان دو نمازوں میں نہیں آتے.رسول کریم الله وقت تو منافق ہوں اور ہمارے وقت میں نہ ہوں.یہ ناممکن بات ہے ان دو نمازوں میں نہ آنے والے لوگ اسی طرح منافق ہیں.جس طرح آنحضرت ان کے وقت میں ان دنوں نمازوں میں نہ آنے والے منافق تھے.پس تم جو احمدی ہوئے ہو.تو دیکھو اور سوچو کہ کیا منافق بننے کے لئے احمدی ہوئے ہو؟ کیا یہ افسوس کا مقام نہ ہوگا کہ باوجود طرح طرح کی تکلیفوں کے جو احمدی بننے کے لئے تم نے برداشت کیں.باوجود طرح طرح کی مشکلات کے جو اس راستے میں تمہیں جھیلنی پڑیں.باوجود طرح طرح کے جھگڑوں اور طرح طرح کے فسادوں کے جو اس راہ کو اختیار کرنے کے سبب رشتہ داروں سے اور دوستوں اور دوسرے لوگوں سے تمہیں کرنے پڑے.پھر بھی تم منافق کے منافق ہی رہو.صرف اس لئے کہ تم نے نفس پر اتنی تکلیف لادنے سے پر ہیز کیا.جو منافق بننے سے بچا سکتی ہے.اور ذرا سی بستی سے نفاق کی طرف الٹ پڑے.میں افسوس کرتا ہوں جنہوں نے گھروں کو وطنوں کو خویش و اقارب کو رفیقوں کو اور اور چیزوں کو چھوڑا.اور یہ سمجھ کر چھوڑا کہ

Page 348

343 قادیان میں چل کر کچھ حاصل کریں گے مگر وہ یہاں آکر حاصل کرتے کرتے الٹے گنوانے لگ گئے.باہر کے لوگ باجماعت نماز کے متعلق عذر کر سکتے ہیں اور ان کا عذر ایک حد تک درست بھی ہے کیونکہ مختلف جگہوں پر جماعتیں ہیں اور ان کے افراد بکھرے ہوئے ہیں اور مسجد میں دور دور ہیں.ان کے لئے یہ ایک تکلیف مالا يطاق پر ہے کہ وہ پانچوں نمازوں کے لئے اپنی مسجد میں آئیں.وہ ہر جگہ قادیان کی طرح اکٹھے ہی ایک جگہ پر نہیں ہیں بلکہ اپنے اپنے شہروں میں مختلف مقامات پر رہتے ہیں.اس حالت میں وہ کس طرح پانچوں نمازوں میں اکٹھے ہو سکتے ہیں.وہ مجبور ہیں.ان کے لئے پانچوں نمازوں میں آنا ایک تکلیف مالا يطاق ہے.اس لئے ایسے لوگوں کو شریعت نہیں پکڑے گی.مثلاً لاہور میں مسجد ایک جگہ واقع ہے.شہر بڑا وسیع ہے.اس کے مختلف حصوں میں احمدی آباد ہیں.اب اگر ان کو مسجد میں پانچوں نمازوں میں آنا پڑے.تو ان کے لئے یہ ایک ایسی تکلیف ہوگی جو ان کی برداشت سے باہر ہے.اوسطاً دو میل کا فاصلہ سمجھ لو.اب اگر وہ دو دو میل سے آئیں تو پانچوں نمازوں کے لئے انہیں میں میل روزانہ مسافت طے کرنی پڑے.جو موجب تکلیف ہے.اتنا سفر تو ہر کارے بھی نہیں کرتے.پھر بلحاظ وقت کے ان پانچوں نمازوں پر ان کے بارہ چودہ گھنٹے خرچ ہو جائیں.اس طرح پھر وہ نمازوں ہی کے لئے رہیں اور کوئی کام نہ کریں لیکن یہ درست نہیں کہ ایک شخص دن رات نمازوں میں ہی گزار دے اور دوسرے فرائض ادا نہ کرے.پس ایسے حالات میں شریعت معاف کر دیتی ہے مگر قادیان کی یہ حالت نہیں.یہاں لوگوں کے مکانات کچھ اتنے فاصلہ پر واقع نہیں کہ وہ اگر پانچوں نمازوں کے لئے مسجد میں آئیں تو کوئی دوسرا کام نہیں کر سکتے.پھر یہاں تو ہر محلہ میں مسجد ہے.اپنے اپنے محلہ کی مسجد میں نمازیں پڑھ سکتے ہیں.جب کوئی شخص قادیان سے باہر ہوتا ہے.جہاں مسجد اس کے گھر سے فاصلہ پر واقع ہوتی ہے.وہاں اگر کوئی شخص نماز با جماعت نہیں پڑھتا تو وہ معذور ہے لیکن قادیان میں آکر یہ عذر ٹوٹ جاتے ہیں.یہاں کوئی عذر نہیں ہو سکتا کہ یہاں نمازیں باجماعت پڑھنا تکلیف مالا طاق ہے.کیونکہ اول تو قادیان کی آبادی سے مسجدیں دور نہیں.پھر اس کی حالت تو مدینہ کی حالت سے ملتی ہے.یہاں ہر محلہ میں مسجد ہے.اگر کوئی مسجد مبارک میں نہیں آسکتا تو اپنے محلہ کی مسجد میں نماز میں ادا کر سکتا ہے.مگر باوجود اس کے اگر کوئی شخص پھر بھی گھر میں نمازیں پڑھتا ہے اور مسجد میں نہیں آتا تو وہ اپنے اندر نفاق کا مادہ رکھتا ہے.جو اسے روحانی ترقی نہیں کرنے دیتا.

Page 349

344 ایک دفعہ نہیں دو دفعہ نہیں تین دفعہ نہیں چار دفعہ نہیں بیسیوں دفعہ میں نے خطبات میں.درس میں.تقریروں میں کہا ہے کہ نمازیں مسجدوں میں باجماعت پڑھو.اور خاص کر صبح اور عشاء کی نمازیں ضرور ہی مسجدوں میں پڑھا کرو لیکن افسوس کہ بعض لوگ نہیں مانتے.اس لئے اب یہ ضروری ہے کہ آخری علاج کیا جائے اور وہ آخری علاج سوائے اس کے نہیں کہ ایسے منافقوں کو الگ کر دیا جائے تاکہ لوگوں کو پتہ لگ جائے کہ یہ منافق ہیں.آنحضور الله کے زمانہ میں بھی منافقین کو الگ کر دیا گیا تھا.پس یہاں بھی جب یہی کیا جائے گا تو کچھ اثر ہو گا.اس کے سوا مجھے کوئی اور تدبیر نظر نہیں آتی.میں نے انہیں سختی سے بھی سمجھایا اور نرمی سے بھی سمجھایا.عقل سے بھی سمجھایا اور دلیل سے بھی.لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں کہ ان پر اثر نہیں ہوتا.باوجود ہر چند سمجھانے کے پھر بھی وہی کرتے ہیں.جس پر پہلے قائم ہیں اور اس بات کو سمجھتے ہی نہیں کہ نماز باجماعت کے کیا فوائد ہیں.اس لئے اس کا یہی علاج ہے کہ جو شخص اپنی اصلاح نہ کرے اور اس بات کی اہمیت نہ جانے کہ نماز باجماعت کی کس حد تک تاکید ہے.اسے علیحدہ کر دیا جائے.کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو اس سے دوسروں کو بھی جرأت ہوتی ہے وہ کہتے ہیں کل جب ان لوگوں پر جو نماز باجماعت پڑھنے کی پرواہ نہیں کرتے کوئی گرفت نہیں ہوتی تو دوسرے بھی سستی کرنے لگ جاتے ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی نمازوں کو بجائے مسجدوں میں پڑھنے کے گھروں میں پڑھنا شروع کر دیتے ہیں چونکہ دوسروں پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے.اس لئے میری ذمہ داری کے لحاظ سے میرا یہ فرض ہے کہ میں ایسے لوگوں کو الگ کروں.میں دیکھتا ہوں مہمان جو باہر سے آتے ہیں.وہ بھی باجماعت نمازوں میں سستی کرتے ہیں.باہر سے تو دین سیکھنے کے لئے آتے ہیں مگر یہاں آکر نمازوں میں بھی سستی کرنے لگ جاتے ہیں یہاں تک کہ مسجد مبارک میں بھی جو بالکل مہمان خانہ کے قریب ہے نہیں آتے.پھر قرآن شریف کا درس ہوتا ہے.اس میں بھی نہیں آتے.عام طور پر مہمان عشاء اور صبح کی نماز میں تو ضرور ہی سستی کرتے ہیں.اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ سفر میں ہوتے ہیں لیکن سفر سفر میں بھی فرق ہے عام سفر کی حالت اور قادیان کے سفر میں فرق ہے.سفر میں بے شک قصر کر سکتا ہے لیکن قادیان میں چونکہ اور غرض کے لئے آتا ہے اور یہاں آنے سے اس کی غرض عبادت ہوتی ہے.دین سیکھنا ہوتی ہے.

Page 350

345 نفس کی اصلاح مد نظر ہوتی ہے.اس لئے یہاں آکر عبادت زیادہ کرنی چاہئے نہ کہ سستی اختیار کرنی چاہئے.سفر میں بیشک شریعت نے سہولتیں رکھی ہیں.اور قصر کی اجازت دی ہے مگر حج کے لئے جو سفر اختیار کیا جاتا ہے.کیا وہاں عبادتیں معاف ہو جاتی یا ان میں کمی کی جاتی ہے.ہرگز نہیں بلکہ وہاں تو اور بھی زیادہ عبادتیں کی جاتی ہیں.کیونکہ وہ عبادتیں کرنے کا خاص موقع ہوتا ہے پس قادیان کے سفر اور دوسرے سفروں میں فرق ہے یہاں آکر عبادتیں کرنی چاہیں اور دین سیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے.اگر کوئی شخص ان رخصتوں کو جو شریعت نے سفر کے لئے رکھی ہیں.ایسے موقع پر بھی استعمال کرے تو وہ اپنی نیکیوں اور اپنی عبادتوں کو ضائع کرتا ہے اور ان موقعوں کو کھوتا ہے جو اس کی روحانی ترقی کے لئے پیدا ہوئے.پھر میں نے دیکھا ہے درس میں بھی مہمان کم آتے ہیں.حالانکہ درس میں آنا ان کے لئے بہت ضروری ہے اتنی دور سے جو چل کر آتے ہیں اور اتنا خرچ برداشت کر کے جو یہاں پہنچتے ہیں تو کیا اس لئے کہ بغیر کچھ حاصل کئے واپس چلے جائیں؟ مہمانوں کے درس میں کم آنے کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ عین اس وقت مہمان خانہ میں کھانا بٹتا ہے جب کہ ادھر درس کا وقت ہوتا ہے اور مہمان اگر اس وقت اپنا کھانا نہ لیں تو بعد میں یا تو ملتا نہیں یا ملنے میں کسی قدر دقت اور تکلیف ہوتی لیکن تعجب ہوگا اس محکمہ پر جس کی غرض ہی یہ ہو کہ وہ لوگوں کے لئے دین سیکھنے میں سہولت کا ذریعہ بنے اور لوگ رہائش اور تردد سے بے فکر ہو کر اس صداقت کے پانے کی کوشش کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دنیا میں لائے کہ وہی محکمہ یہاں آنے والوں کے لئے دین سیکھنے میں روک ہو کہ اس نے کھانا تقسیم کرنے کا وقت ایسا رکھا ہوا ہے جو درس کا ہے.اب لوگ کھانا کھائیں یا درس سنیں.اس لئے وہ مجبور ہیں کہ کھانا کھائیں.چونکہ لوگ فاقہ کے عادی نہیں اور نہ فاقہ کر سکتے ہیں.اس لئے وہ کھانا کھانے کے لئے درس سے رہ جاتے ہیں.میرے نزدیک منتظمین لنگر خانہ کا اس وقت کھانا تقسیم کرنا جو کہ درس کا وقت ہے اور درس میں شامل ہونے والوں کے لئے روک پیدا کرنا سخت غداری ہے لیکن درس تو خیر دوسرے درجے پر ہے.یہاں نمازوں میں شامل ہونے سے بھی مہمان رہ جاتے ہیں جو سب سے مقدم فرض ہے.پس میں آج کے خطبہ میں جماعت کے لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ باجماعت نماز فرض ہے اور ایسا فرض ہے جو سوائے کسی خاص عذر کے ترک کرنا بہت بڑا جرم ہے.جس سے بچنے کی کوشش

Page 351

346 کرنی چاہئے.باجماعت نماز قریب ترین مسجد میں پڑھنی چاہئے.مجھے معلوم ہوا ہے کئی لوگ مسجد مبارک کے پاس سے گزر کر بڑی مسجد میں چلے جاتے ہیں کیونکہ وہاں کسی قدر جلدی نماز ہو جاتی ہے ہم دوسری یا تیسری رکعت میں ہوتے ہیں کہ مدرسہ احمدیہ کے طالب علم نماز پڑھ کر واپس آرہے ہوتے ہیں.جن کے شور سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اب واپس آرہے ہیں.کیونکہ وہ آتے ہوئے اس طرح شور مچاتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے بھیڑوں کا گلہ آرہا ہے.ان کے آنے کے وقت ہم دوسری یا تیسری رکعت پڑھ رہے ہوتے ہیں.جس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ کوئی پندرہ بیس منٹ کا آگا پیچھا ہوتا ہے.اس پندرہ میں منٹ کے عرصہ کے لئے مسجد مبارک سے پاس سے گزر کر دوسری مسجد میں جانا کہاں تک ان کی روحانیت پر دلالت کرتا ہے.پس جو پندرہ میں منٹ کے لئے مسجد مبارک کو چھوڑ کر جو ان کے قریب بھی ہے دوسری مسجد میں جاتے ہیں انہیں بھی اپنی روحانیت کی فکر کرنی چاہئے.ایسا شخص جو مسجد مبارک کو اس خیال سے چھوڑ کر کہ اس میں ذرا دیر سے نماز ہوتی ہے.دوسری مسجد میں اس لئے جاتا ہے کہ اس میں نماز ذرا جلدی ہو جاتی ہے.اسے اگر یہ معلوم ہوتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس مسجد کے متعلق کیا الہام ہیں.اور کیسے کیسے وعدے خدا تعالیٰ کے اس کے متعلق ہیں.تو وہ کبھی کسی دوسری مسجد میں جانے کا نام نہ لیتا خواہ نماز کی انتظار میں اسے آدھی رات ہی کیوں نہ ہو جاتی.پس اگر وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان رکھتا اور اس بات پر بھی ایمان رکھتا ہے کہ خدا کے وعدے بچے ہیں اور حضرت مسیح موعود سے بھی اس نے مسجد مبارک کے متعلق بعض وعدے کئے ہیں.تو خواہ لنگڑا بھی ہوتا تو بھی آتا اور لنجا بھی ہو تا تو بھی وہ پہنچتا.اور ہر گز یہ بات گوارا نہ کرتا کہ وہ اس مسجد کو چھوڑ کر کسی اور مسجد میں جا کر نماز پڑھے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو اس مسجد کے پاس سے گزر کر دوسری مسجد میں جاتے ہیں.یا تو ان کے اندر نفاق کا مادہ ہے یا انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان نہیں.کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ ایک شخص کو حضرت مسیح موعود پر ایمان بھی ہو اور وہ اس مسجد کے پاس سے گزر کر دوسری جگہ نماز پڑھنے کے لئے چلا جائے.ایسے بھی تو لوگ ہیں جو سردیوں میں ٹھٹھرتے ہوئے دور سے آکر اس مسجد میں نماز پڑھتے ہیں.میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو اس مسجد سے بہت زیادہ فاصلہ پر رہتے ہیں لیکن خواہ کچھ ہو پانچوں نمازیں مسجد مبارک میں آکر پڑھتے ہیں.وہ لوگ جانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ

Page 352

347 الصلوۃ والسلام کے ساتھ خدا نے وعدے کئے ہوئے ہیں اور اس مسجد کے متعلق حضرت مسیح موعود کے الہامات موجود ہیں.وہ خوب جانتے ہیں کہ اس مسجد کی کیا قدر ہے اور اس میں نماز پڑھنے سے کتنا ثواب حاصل ہوتا ہے.چونکہ بار بار سمجھانے کے باوجود کئی لوگ ہیں.جو نماز باجماعت کی پابندی نہیں کرتے.اس لئے اب میں نے یہ تجویز کی ہے کہ ہر محلہ میں ایسے آدمی مقرر کئے جائیں جن کا کام یہ دیکھنا ہو کہ با قاعدہ لوگ نمازوں میں شامل ہوتے ہیں یا نہیں.نمازوں میں نہ آنے والوں کی اگر وہ اطلاع نہ دیں گے تو میں ان کو ذمہ دار قرار دوں گا.عشاء کی نماز میں عام طور پر لوگ غیر حاضر ہوتے ہیں.اس لئے مختلف مسجدوں کے اماموں کا فرض ہے کہ وہ دیکھ بھال کریں کہ کون آتا ہے اور کون نہیں.اور اپنے محلہ کے لوگوں کو نگاہ میں رکھیں تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ کون با قاعدہ آتا ہے اور کون نمازوں میں آنے سے سستی کرتا ہے.تمام محلوں کی لٹیں (فہرستیں) بنا کر ان کو دیجائیں.کہ فلاں شخص فلاں فلاں محلہ میں رہتا ہے پھر اس کے مطابق وہ دیکھیں کہ کیا محلے کے لوگ نماز میں آتے ہیں یا نہیں.ان کا فرض ہے کہ جب وہ چاہیں اس لسٹ کے مطابق ان کی پڑتال کریں اس پڑتال کے لئے کوئی دن مقرر نہیں کیا جانا چاہئے.بلکہ جس دن چاہے امام پوچھ لے.اس کام کے لئے ہر محلہ میں ایک ایک شخص مقرر کرنا چاہئے کہ وہ ان تمام لوگوں کے متعلق جو اس کے محلے میں رہتے ہوں.پوری پوری واقفیت رکھے اور امام نماز جب چاہے ہفتہ میں ایک دن اس سے پوچھ لے کہ لاؤ اپنے محلے کے آدمی پیش کرو.اس کام کے لئے کوئی دن مقرر نہیں کیا جائے گا.بلکہ جس دن امام چاہے اس بات کو پوچھ سکتا ہے اور دیکھ سکتا ہے کہ کتنے آدمی اس محلہ میں آباد ہیں اور کتنے نمازوں میں اور خصوصاً عشاء اور صبح کی نمازوں میں آتے ہیں.بعض دفعہ عادت سے بھی اصلاح ہو جاتی ہے.ممکن ہے کہ اگر اس طرح کیا جائے تو ان لوگوں کو پھر عادت ہو جائے کہ باجماعت نماز پڑھا کریں.اگر ایک شخص نمازوں میں سستی کرے اور اس کی سستی دور کرنے کے لئے کوئی کوشش نہ کی جائے تو اس کی سستی اور بھی بڑھتی ہے.جو بڑھتے بڑھتے بعض دفعہ اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ ایسا آدمی نماز پڑھنا ہی چھوڑ دیتا ہے لیکن اگر ستی کرنے والے کی سستی دور کرنے کے لئے کوشش کی جائے اور اسے نمازوں میں نہ آنے پر باز پرس کی جائے تو وہ پھر آہستہ آہستہ سستی چھوڑنا شروع کر دیتا ہے.اور نمازوں میں باقاعدگی اختیار کرلیتا ہے.

Page 353

348 پس عادت بھی بعض اوقات اصلاح کا باعث ہو جاتی ہے.اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ ایسے لوگوں کو نماز باجماعت کی عادت پڑ جائے اور وہ مسجدوں میں آنا شروع کر دیں.اس میں کچھ شک نہیں کہ یہاں آنے والے سارے ہی بہادر نہیں ہوتے جو محبت اور اخلاص سے آئے ہیں.بعض یہاں آنے والوں میں سے ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو بزدل اور کمزور ہوتا ہے.قادیان کا عشق ان کو یہاں نہیں لاتا.سلسلہ کی محبت سے وہ یہاں نہیں آتے بلکہ باہر کی تکلیفوں سے ڈر کر یہاں آتے ہیں.دلیری تو وہ کرتے ہیں کہ احمدی ہو جاتے ہیں مگر بعد میں جو تکلیفیں آتی ہیں اور جو مشکلیں پیدا ہوتی ہیں ان کے مقابلہ سے عاجز آکر اور رشتہ داروں اور دوستوں اور دوسرے لوگوں کے آئے دن کے جھگڑوں سے تنگ آکر یہاں آئے ہیں.تو ایک طبقہ کمزور آدمیوں کا ضرور یہاں ہے جو بعض کمزوریاں دکھاتا ہے مگر وہ طبقہ جو کمزور نہیں اور اخلاص کے رنگ میں یہاں آیا اور ایمان اسے یہاں لایا ہے چاہئے تو یہ تھا کہ وہ کمزور طبقہ کو اپنے پیچھے لگاتا اور ان میں ایمانی ترقی پیدا کرتا.مگر وہ خود کمزوروں کے طبقے کے پیچھے ہو لیتا ہے.اگر اسے ان کے پیچھے ہی لگتا تھا تو قادیان آنے کی کیا ضرورت تھی.کیونکہ قادیان نہ آنے کی صورت میں وہ اگر ترقی نہ کرنا تو منزل بھی تو اختیار نہ کرتا مگر افسوس ہے کہ وہ قادیان آیا تو اس لئے تھا کہ پہلے سے زیادہ روحانی ترقی کرے لیکن یہاں آکر ایسے لوگوں کے پیچھے لگ جاتا ہے جو دین میں کمزور ہوتے ہیں.ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک سبزہ کھانے والی بکری اور ایک نجاست کھانے والی بھیٹر ہو.ایسے شخص نجاست کھانے والی بھیڑ کے پیچھے لگتے ہیں اور سبزہ کھانے والی بکری کے پیچھے نہیں لگتے.اگر یہاں نماز کے چور اور نماز کے ست موجود ہیں تو دوسری طرف وہ بھی تو موجود ہیں جو میل میل ڈیڑھ ڈیڑھ میل سے چل کر مسجد میں آتے ہیں.وہ کیوں کمزوروں کے پیچھے لگتے ہیں اور کیوں ان کے پیچھے نہیں لگتے.جو میل میل ڈیڑھ ڈیڑھ میل دور سے آتے ہیں اور اپنے اخلاص اور اپنے ایمان میں ہر لحظہ ترقی کر رہے ہیں مگر ان کی رغبت ان کی طرف تو ہے جو نمازوں میں سستی کرتے ہیں مگر ان سے انہیں کوئی مناسبت پیدا نہیں ہوتی.جو ماسوا فاصلہ کے تکلیفوں کو بھی برداشت کرتے ہیں.مگر اپنے ایمان میں اور اپنے اخلاص میں کوئی کمزوری پیدا نہیں ہونے دیتے اور نمازیں مسجدوں میں پڑھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ جالینوس ایک جگہ کھڑا تھا.ایک دیوانہ دوڑتا ہوا آیا اور آکر اس سے چمٹ گیا جب جالینوس کو اس نے چھوڑا.تو اس نے کہا میری فصد نکلواؤ.اس پر لوگوں نے پوچھا.فصد کیوں کھلواتے ہو؟ کہنے لگا.یہ دیوانہ جو آکر مجھے کو

Page 354

349 چمٹ گیا ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجھ میں بھی کوئی رگ جنون کی ہے کہ یہ اوروں کو چھوڑ کر مجھے سے آچمٹا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میرے اندر جنون کی کوئی رگ ہے جس سے اس دیوانہ کو مناسبت ہوئی اور وہ میری طرف کھنچا آیا تو ایسے آدمیوں کو ادھر جھکنا اور ان کے پیچھے چلنا جو نمازوں میں سست ہیں بتاتا ہے کہ انہیں بھی سست لوگوں سے مناسبت ہے.پس جب تک نماز باجماعت پر ہماری جماعت کا ہر شخص عامل نہ ہو میں نہیں کہہ سکتا کہ جماعت ترقی کی طرف قدم مار رہی ہے اس لئے میں پھر کہتا ہوں کہ نماز باجماعت پڑھنے کی عادت ڈالو.تم میں سے کوئی نہ ہو جو نماز کے وقتوں میں مسجد میں موجود نہ ہو.سوائے بیمار کے مگر یہ نہیں کہ ہر وقت ہی ایک شخص یہ کہے کہ میں بیمار ہوں.بیماری کبھی کبھی آتی ہے ہمیشہ نہیں آتی اور نہ ہی ایسی کوئی بیماری ہے جس سے ایک شخص صبح اور عشاء کے وقت بیمار ہوتا ہو اور پھر تندرست رہے.جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم بیماری کی وجہ سے مسجد میں نماز کے لئے نہیں آسکتے.وہ لوگ غفلت سے ایسا کرتے ہیں.کیونکہ بیماری ہمیشہ نہیں آتی.میری صحت ہمیشہ کمزور رہتی ہے مگر ہمیشہ بیماری طبیعت پر غالب نہیں آتی.اکثر طبیعت بھی بیماری پر غالب آجاتی ہے.پس ہمیشہ کسی کا یہ عذر کہ میں بیمار ہوں قبول نہیں کیا جا سکتا.جو فی الواقع دائم المرض ہوتے ہیں ان پر بھی وقفے آتے ہیں.کبھی ان کی طبیعت بیماری پر غالب آجاتی ہے اور کبھی بیماری طبیعت پر.ایسا کوئی بھی نہیں جو ہمیشہ ہی بیمار رہتا ہو اور ہمیشہ ہی اس کی مرض اس کی طبیعت پر غلبہ پائے رکھے.پھر نہ ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ عشاء کے وقت یا صبح کے وقت کوئی بیماری پیدا ہو جاتی ہے.اس میں کچھ شک نہیں کہ ایک دو مرمیں ایسی بھی ہیں جو صبح و شام کو زیادہ بڑھ جاتی ہیں.مثلاً دوران سر وغیرہ.مگر یہ ایسی نہیں کہ ان کا پتہ نہ لگ سکے.ایسی بیماری والے کا تو فوراً پتہ لگ سکتا ہے.وہ چارپائی پر پڑا ہوتا ہے.ہاتھ پاؤں سرد ہو جاتے اور وہ سخت بیتاب ہوتا ہے.لیکن وہ لوگ جو ادھر ادھر تو پھر لیتے یا کسی اور کام میں تو مصروف ہیں.اگر کہیں کہ ہم بیمار ہیں یا ہمیں فلاں وقت بیماری پیدا ہو جاتی ہے.اس لئے نماز کے لئے نہیں آسکتے تو وہ جھوٹ بولتے ہیں اور ان کی سستی انہیں ایسا کہنے پر مجبور کرتی ہے.میں پھر قادیان کے لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جب باہر سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ دین کی خاطر یہاں آئے ہو تو دینی فرائض میں مستیاں نہ کرو بلکہ یہاں آنے سے کچھ فائدہ حاصل کرو.تمہیں دیکھ

Page 355

350 کر مہمان بھی سستی کرنے لگ جاتے ہیں.پس تم مستی چھوڑ دو تاکہ تمہیں سستی کرتے دیکھ کر باہر سے آنے والے بھی سستی نہ کر سکیں.لیکن اگر تم مستی ترک نہیں کرتے تو یاد رکھو کہ دو ہرا وبال تم پر پڑے گا.ایک تو تمہاری اپنی سستی کا اور دوسرے ان لوگوں کا کہ جن کی مستیوں کے لئے تمھاری ستیاں موجب ہوں گی.پس تم ان سے بچو.تاکہ تم خدا کی رحمت کے پانے والے بن سکو.ہماری یہاں کی تعداد کے لحاظ سے ایک ہزار کے قریب آدمی مسجدوں میں ہر نماز میں آنے چاہئیں.مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس قدر لوگ نہیں آتے.عشاء کو زیادہ سے زیادہ پچاس چھوٹی مسجد میں آجاتے ہیں اور بڑی مسجد میں چونکہ مدرسہ کے لڑکے بھی نماز پڑھنے جاتے ہیں اس لئے ملا جلا کر ایک سو پچاس کے قریب ہو جاتے ہیں.اسی طرح اگر مختلف مسجدوں میں آنے والوں کو جمع کیا جائے تو چار پانچ سو کے قریب نمازوں میں جمع ہو جاتے ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ پچاس فیصد لوگ نماز پڑھتے ہیں.یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ پچاس فیصد نماز نہیں پڑھتے.اور ستی کرکے منافق بن رہے ہیں.اس حالت میں ایک ہی صورت رہ گئی ہے اور وہ یہ کہ نگرانی کی جائے کہ کون آتا ہے اور کون نہیں آتا.اور جو نہیں آتا اسے تنبیہ کی جائے اور اگر وہ اصلاح نہ کرے تو اسے علیحدہ کر دیا جائے.پس یا تو سستی کرنے والے سستی ترک کر دیں اور باقاعدگی اختیار کریں اور نمازیں مسجدوں میں پڑھنے کی عادت ڈالیں یا پھر اس کئے ہوئے جسم کی طرح ہو جائیں جسے اکارت اور مضر سمجھ کر کاٹ کر پھینک دیا جاتا ہے.روز روز کی تکلیف نہیں برداشت کی جاسکتی.روز روز کے دکھ کی نسبت یہ بہتر ہے کہ ایک دفعہ کی تکلیف برداشت کرلی جائے اور ایسے لوگوں پر ایک دن رو کر یہ سمجھ لیں کہ وہ ہمارے نزدیک روحانی طور پر مر گئے ہیں.گو میں بد دعا نہیں کرتا کہ ایسے لوگ مر جائیں بلکہ دعا کرتا ہوں کہ زندہ رہیں کیونکہ وہ یہاں زندہ رہنے کے لئے آئے ہیں.مگر نہ میں نہ حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام اور نہ رسول کریم ﷺ ان کی روحانی زندگی کے لئے کچھ کر سکتے ہیں.جب تک کہ ابتدائی کوشش ان کی طرف سے نہ ہو.زندہ رہنے کے لئے ابتداء ان کی طرف سے ہونی چاہئے.پس میں پھر تاکید کرتا ہوں کہ اس کی ابتداء کرو تا ایسا نہ ہو کہ تمہاری یہ ستیاں تم پر سچ سچ کی موت لے آئیں.

Page 356

351 میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں ستیاں دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور شریعت کے حکموں کے ماننے اور ان کی عزت کرنے کی ہمت بخشے اور ہم نیک نمونہ پیش کرنے والے بنیں اور بد نمونہ پیش کرنے والے نہ ہوں.آمین ثم آمین.خطبہ ثانی میں فرمایا:.آج میں جمعہ کی نماز کے بعد ایک عورت کا جنازہ پڑھوں گا.مولوی محمد اسماعیل صاحب ممدانہ ضلع گجرات کے ہیں.ان کی بیوی فوت ہو گئی ہے.میں آج اس مرحومہ کا جنازہ پڑھوں گا.میں نے اعلان کیا ہوا ہے کہ جن کا جنازہ پڑھنے والا کوئی احمدی نہیں ہوتا یا جو ایسی جگہ فوت ہوتے ہیں جہاں بہت ہی کم تعداد میں جنازہ پڑھنے والے احمدی ہوتے ہیں.ان کا جنازہ میں یہاں پڑھا کروں گا.مولوی اسماعیل صاحب نے لکھا ہے کہ یہاں اس کا جنازہ پڑھنے والا کوئی نہ تھا.اس لئے میں مرحومہ کا جنازہ یہاں پڑھوں گا.سب لوگ اس میں شامل ہوں.(الفضل ۲۶ نومبر ۱۹۲۵ء) ام بخاری و مسلم برادیت مشاوة كتاب الصلوة باب فضائل الصلوة

Page 357

352 41 ہمارا سلسلہ دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے ہے (فرموده ۲۷ نومبر ۱۹۳۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : چند دن ہوئے.مجھے ایک دوست نے خط لکھا کہ انہیں ایک جگہ پر بعض اہل حدیث لوگوں سے ملاقات کا موقع ملا اور انہوں نے شکایت کی کہ ہم موحد ہیں اور شرک کے کاموں سے بچتے ہیں اور توحید کے مسئلہ کے متعلق ہمارے اور تمہارے عقائد برابر ہیں اور ایک دوسرے سے ملتے ہیں مگر باوجود اس کے ابن سعود کے معالمہ میں تم لوگ ہماری مخالفت کر رہے ہو اور حنفیوں کی تائید کرتے ہو.جو کہ اکثر شرک سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے اور ان میں مشرکانہ رسوم رائج ہیں.ہم تو.احیائے سنت اور ابطال شرک کے کام کر رہے ہیں مگر تم باوجود یہی عقیدہ رکھنے کے عملی طور پر ہمارے ساتھ متفق نہیں ہوتے بلکہ مخالف چلتے ہو.اس کے ساتھ دبے الفاظ میں یہ بھی کہا کہ اگر آپ اس کی اصلاح نہیں کریں گے.تو پھر ہمیں بھی اپنا رویہ بدلنا پڑے گا اور مختلف خلافت کمیٹیوں کو کہنا پڑے گا کہ احمدیوں کے ساتھ اب اور طرح کا معاملہ کیا جائے.یہ خلافت کمیٹیاں اس وقت تک آپ کے لیکچروں کی موید رہی ہیں مگر آئندہ ایسا نہیں ہو گا.اس بات کو چھوڑ کر کہ دبے الفاظ میں انہوں نے کیا کہا.میں سمجھتا ہوں کہ یہ سوال یا وہم ان لوگوں کا اس قابل ہے کہ اس کا ازالہ کیا جائے اس لئے میں آج کے خطبہ میں یہی مضمون بیان کروں گا اور اس کے متعلق بعض ایسے امور کا ذکر کروں گا جن پر روشنی ڈالنا میرے خیال میں ضروری ہے.یہ بات جو بیان کی گئی ہے اس کے کئی حصے ہیں جو جواب چاہتے ہیں.مگر میں ایک ایک بات کو بیان کرتا ہوں.سب سے پہلی بات یہ کسی گئی ہے کہ احمدیوں کو اہلحدیث کے ساتھ توحید میں اتفاق

Page 358

353 ہے.میں خوش ہوں کہ اہلحدیث کو آخر تسلیم کرنا پڑا کہ ہماری جماعت موحد جماعت ہے مشرک نہیں اور اسے اہلحدیث کے ساتھ اس رنگ میں مشابہت ہے اور احمدی جماعت اور اہلحدیث کے عقائد توحید کے مسئلے میں ملتے ہیں اور مشترک ہیں.پھر ہم نہ صرف ان کے ہم خیال ہی ہیں بلکہ شرک کے توڑنے اور توحید کے پھیلانے میں ہم ان کی مدد بھی کرتے ہیں.پس میں خوش ہوں کہ آخر ان لوگوں کو محسوس ہو گیا کہ ہم مشرک نہیں موحد ہیں اور ہماری تعلیم شرک سے پاک ہے.لیکن سوال یہ ہے کہ یہ توحید کی تعلیم آج ہم میں آئی ہے یا پہلے بھی ہم میں موجود تھی.آج سے تیس سال پہلے بھی ہم یہی کام کرتے تھے اور ان کاموں کو کرتے ہوئے ویسے ہی موحد چلے آئے تھے جیسے کہ اب ان کو نظر آئے مگر اس وقت ان کے خیال میں یہ بات نہ آئی کہ احمدی بھی موحد ہیں.اس وقت تو سب سے زیادہ مشرک ان کو اگر کوئی نظر آتے تھے تو احمدی ہی نظر آتے تھے اور اسی سبب سے وہ ہمارے دشمن بھی بنے ہوئے تھے.سب سے زیادہ ہماری مخالفت کس نے کی؟ سب سے زیادہ تکلیف ہمیں کس نے دی؟ اور ہندوستان کا دورہ کر کے ہم پر کفر کے فتوے کس نے لگائے؟ کیا یہی اہلحدیث نہیں تھے ؟ ہم یہی نہ کہہ رہے تھے کہ خدا کے مقابلہ پر عیسی علیہ السلام کو نہ کھڑا کرد؟ مگر اسی وجہ سے انہوں نے ہماری مخالفت کی اور ہم پر کفر کے فتوے لگائے.ورنہ الہام کا مسئلہ زیر بحث نہیں تھا کیونکہ مولوی محمد حسین بٹالوی لکھ چکے تھے کہ الہام ہو سکتا ہے اور بعض لوگوں کو ہوتا ہے اور یہ جائز ہے.پس الہام کا مسئلہ تو ان کفر کے فتوؤں کی وجہ نہ تھا.جو ان لوگوں نے ہم پر لگائے اور نہ ہی ان کی مخالفتیں اور عداوتیں اس مسئلہ کا سبب تھیں کہ ہم نہ صرف الہام کے قائل بلکہ اس کے مدعی بھی تھے.اس صورت میں جو مسئلہ ہمارا جدا گانہ تھا.اور جسے ہم پیش کرتے تھے اور جس پر لوگ سب سے زیادہ ہمارے دشمن بن گئے تھے.وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی کا مسئلہ تھا اور ہماری یہ تعلیم تھی کہ عیسیٰ علیہ السلام دوسرے انبیاء کی طرح فوت ہو گئے ہیں اور آسمان پر نہیں گئے لیکن اس کے برخلاف یہ لوگ اس کے قائل نہیں تھے بلکہ عیسیٰ علیہ السلام کو خدائی صفات کے ساتھ زندہ آسمان پر مانتے تھے اور اب بھی مانتے ہیں.پس ان لوگوں کی وحدانیت کی تعلیم نے اگر زمین پر بت توڑے گو سارے نہ توڑے تو ہماری تعلیم نے نہ صرف زمین پر ہی بت توڑے بلکہ آسمان پر بھی جا کر توڑا اور ایسا تو ڑا کہ اس بت کو خدا کے برابر کھڑا کرنے والوں میں سے ہزاروں لاکھوں تسلیم کر گئے.یہ بت ہمارے ہاتھوں سے ٹوٹا اور ایسا ٹوٹا کہ اگر ساری دنیا مل کر بھی چاہتی کہ اس کو توڑے تو بھی نہ توڑ سکتی.

Page 359

354 اہلحدیث کہتے ہیں کہ وہ موحد ہیں اور توحید کو پھیلاتے ہیں اور شرک سے بچتے بلکہ اس سے روکتے ہیں.یہ ٹھیک ہے کہ وہ ایسا کرتے ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ بہ نسبت اور لوگوں کے یہ زیادہ موحد ہیں اور توحید سے پیار کرتے ہیں مگر یہ بھی اس بت کے پرستار ہیں.جس کے دوسرے.لوگ ہیں اور اس کو خدائی صفات دیتے ہیں.انہوں نے بھی دوسروں کی طرح اسے آسمان پر پہنچا دیا ہے اور جب ہم نے اسے بھی توڑنے کی کوشش کی اور ظاہر کیا کہ خدا کی صفات خدا کے لئے ہی ہیں اور کسی انسان میں نہیں آسکتیں.تو یہی لوگ تھے جنہوں نے سب سے زیادہ ہماری مخالفت کی جنہوں نے سب سے زیادہ ہمیں تکلیفیں دیں اور اس بات سے برا منایا کہ ہم کیوں اس بت کے توڑنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ موحد ہونے کا دعوی کرنے کی صورت میں یہ ان کا بھی کام تھا کہ وہ اگر ہمارے ساتھ متفق ہو کر اس بت کو نہیں تو ڑنا چاہتے تھے تو الگ ہو کر ہی اس کو توڑتے.کیا اہلحدیث کے سب سے بڑے مولوی جو اہلحدیث گروہ میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور ان کے ایڈووکیٹ محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان کے ساتھیوں نے صرف اسی وجہ سے ہماری مخالفت نہیں کی اور ہر طرح کی عداوت ہمارے ساتھ نہیں روا رکھی اور کیا انہوں نے اس کام میں جو اوروں سے نہ ہو سکا اور ہمیں اس کی توفیق ملی.ہمارے ساتھ اشتراک عمل کیا ؟ پس آج ان کا شکوہ بے جا ہے.آج سے پہلے ان کو اس کا خیال کرنا چاہئے تھا.توحید کی تعلیم ہم نے آج جاری نہیں کی ہمارا تو سلسلہ ہی خدا تعالیٰ نے توحید کی تعلیم کے لئے جاری کیا ہے اور ہم شروع سے ہی توحید کی تعلیم دیتے چلے آئے ہیں اور اس وقت بھی توحید ہی کی تعلیم دیتے ہیں.لیکن اسی توحید کی تعلیم کے سبب اہلحدیث لوگوں نے ہماری مخالفت کی.جو خیال ان کو آج پیدا ہوا ہے.اگرچہ انہیں آج سے پہلے کرنا چاہئے تھا لیکن باوجود اس کے ہم پھر بھی کہتے ہیں کہ ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے بہت حد تک توحید کو دنیا میں پھیلایا اس لئے توحید کے پھیلانے میں اب بھی ہم ان کے ساتھ ہیں.بشرطیکہ وہ جائز طریق پر ہو.ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ دنیا میں امن سے رہو اور ہر معالمہ میں انصاف سے کام لو اور جو حق بات ہو اس کی تائید کرو.پس میں یہ کہتا ہوں کہ اہلحدیث نے بہت حد تک شرک کو مٹایا اور ہم ان کی اس کوشش کو بے انصافی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے مگر تعجب ہے کہ ایک طرف تو یہ شرک کے مٹانے والے بنتے ہیں اور دوسری طرف جب ہم بھی شرک کو مٹانے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو ہماری مخالفت پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں.ان کے لئے سیدھی راہ تو یہ تھی کہ فوراً ہمارے ساتھ متفق

Page 360

355 ہو کر اس شرک کو بھی مٹاتے جو زمین پر ہو رہا تھا اور شرک کی اس کڑی کو بھی توڑتے جسے لوگوں نے آسمان تک پہنچا دیا تھا مگر انہوں نے خود ایسا نہیں کیا اور جو کام ان سے رہ گیا اور ہم نے کیا.اس کی وجہ سے وہ ہمارے دشمن بن گئے.چنانچہ آج بھی اہلحدیث یا اہلحدیث نما ہی ہمارے سب سے زیادہ دشمن ہیں.دیو بندی جو کچھ ہمارے برخلاف کر رہے ہیں وہ ان کو خود معلوم ہے اور ایسا ہی ان کے دوسرے ہم خیال اشخاص کی طرف سے جو سلوک اس وقت بھی ہمارے ساتھ ہو رہا ہے.وہ ظاہر ہے.باوجود اس کے کہ ان کی کئی تعلیمیں ہمارے ساتھ ملتی ہیں جن کو کہ یہ خود بھی مانتے ہیں کہ ملتی ہیں لیکن پھر بھی ان کی مخالفت کم نہ ہوئی مگر میں نہیں سمجھ سکتا کہ کونسی ایسی بات اب کسی گئی ہے جس کی بناء پر وہ ہماری مخالفت کرنے میں حق بجانب ہو سکتے ہیں.میں نے نہ مضامین میں کوئی ایسی بات کہی ہے نہ خطبہ میں.نہ ہی ہماری جماعت نے کبھی کوئی ایسی تجویز کی اور نہ ہی ہم نے کوئی ایسا کام کبھی کیا.جو ان کو نقصان پہنچائے.سوائے اس کے کہ ان کے بعض ناپسندیدہ افعال کے خلاف اعلان کیا ہے کہ ہم ان کو پسند نہیں کرتے.میں نہیں سمجھ سکتا کہ جو شخص توحید کا قائل ہو وہ خواہ کچھ کرے جائز کہلا سکتا ہے.اسے تو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ اس کا ہر فعل توحید کی پر کھ پر کسا جاتا ہے اور اگر کوئی توحید کا قائل ہو کر ایسے کام کرے جو توحید ہی کے منافی ہوں.تو اس پر اگر کوئی ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے.تو حق بجانب ہے اور اس لائق ہے کہ اس کی ناپسندیدگی کی قدر کی جائے نہ الٹا اس کی مخالفت.اہلحدیث کو یاد رکھنا چاہئے کہ رسول کریم ﷺ کی ایک حدیث ہے انصر اخاک ظالما او مظلوما.اے کہ اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو خواہ مظلوم.جب رسول کریم ﷺ نے یہ حدیث بیان فرمائی.تو صحابہ میں سے بعض نے عرض کی.یا رسول اللہ مظلوم کی تو مدد ہو سکتی ہے.مگر ظالم کی کیسے مدد کی جائے.اس پر آپ نے فرمایا.ظالم کی مدد ہے کہ تو اس کا ہاتھ روکے.تا وہ ظلم کرنے سے باز رہے.جس فعل کو ہم سمجھتے ہیں کہ وہ پسندیدہ نہیں.اس سے فساد ہوگا یا فتنہ پیدا ہو گا.یا اس سے دین میں رخنہ پیدا ہو جائے گا اور لوگوں کے لئے بجائے فائدہ مند ہونے کے مضر اور نقصان دہ ہو گا.ہم اس کے نقصوں کو بیان کریں گے.اور مشورہ دیں گے کہ اسے نہیں کرنا چاہئے اور اسے سمجھائیں گے کہ اس سے بچو.جب سے ہماری جماعت قائم ہوتی ہے ہمارا یہی طریق ہے کہ ہم عین قرآن کریم کے منشاء

Page 361

356 کے مطابق اس بات کی تعلیم دیتے آئے ہیں کہ جو بات منوانا چاہو نرمی سے کہو.سختی اور زبردستی جائز نہیں اور آج تک اسی پر ہمارا عمل ہے.ہمارا سلسلہ اس لئے دنیا میں نہیں آیا کہ دنیا کے امن میں خلل انداز ہو بلکہ امن قائم کرنے کے لئے آیا ہے اور عدل اور انصاف کے لئے آیا ہے.ہمارے نزدیک چونکہ یہ خدا کا منشاء ہے اس لئے اس کے بالمقابل ہم کسی کی پرواہ نہ کریں گے اور حق و انصاف کی خاطر اگر اپنوں کے خلاف بھی کہنا پڑے گا تو کہیں گے.اور اگر غیروں سے کچھ کہنا پڑا تھ ان سے بھی کہیں گے خواہ وہ کسی قوم سے ہوں.مگر جبر سے کوئی بات منوانا ہم جائز نہیں سمجھتے.نجدیوں سے مکہ اور طائف میں غلطیاں ہوئیں اور ان غلطیوں کے ساتھ ساتھ جبر بھی جو بالکل ناجائز تھا.بیشک توحید کے مسئلہ میں ہمارا ان کے ساتھ اتفاق ہے لیکن اس بات میں ان کے ساتھ کوئی اتفاق نہیں کہ قتل و خوں ریزیاں کی جائیں.لوگوں کے مال و املاک کو تباہ کر دیا جائے.قبروں کو گرا دیا جائے اور ان سب نشانات کو معدوم کر دیا جائے جو بطور یاد گار ہوں اور جن سے انسان عبرت یا نصیحت حاصل کر کے اصلاح کر سکتا ہو اور روحانیت میں بھی ترقی کر سکتا ہو.کیا توحید کے قائلین کے لئے یہ جائز ہے کہ جبراً قبریں توڑ دیں.اگر جائز ہے تو کیا وجہ ہے کہ یہ جائز نہیں کہ تلوار کے ساتھ لوگوں سے اسلام منوایا جائے.جب ایک جگہ تشدد اور جبر جائز ہے تو دوسری جگہ کیوں جائز نہیں؟ پھر توحید کے لئے اگر یہ ضروری ہے کہ جبراً قبریں گرائی جائیں.تو پھر چند قبروں کے گرانے سے کیا ہوتا ہے.ساری قبروں کو مٹا دینا چاہئے نہ صرف قبروں کو بلکہ تمام ان یادگاروں کو بھی گرا - دینا چاہئے جو یا تو عبرت کے لئے ہیں یا نصیحت کے لئے اس وقت تک قائم کھڑی ہیں.مگر میرے نزدیک توحید اس طرح نہیں پھیلتی.توحید کے پھیلانے اور لوگوں کو اس پر عامل بنانے کے لئے دل کے بت جب تک نہ توڑے جائیں تب تک توحید نہیں پھیل سکتی.لاکھ ان قبروں کو گراؤ.لاکھ ان مقبروں کو مسمار کرو.جب تک دل سے اس بات کو نہیں مٹایا جاتا کہ شرک بری شے ہے اور قابل ترک ہے تب تک توحید نہیں پھیل سکتی اور ایک بھی شخص موحد نہیں بن سکتا لیکن یہ بات کہ کسی کو زبر دستی کہا جائے کہ مسلمان ہو جاؤ یا کسی کو بزور اس بات پر مجبور کیا جائے کہ توحید پر عامل ہو جائے اور ایسا کرنے کے لئے اسے تشدد کے ساتھ مجبور کیا جائے.درست نہیں اور میرے نزدیک یہ بھی درست نہیں کہ بعض ایسی چیزوں کو توڑا پھوڑا جائے جسے توڑنے پھوڑنے والے اپنے خیال کے مطابق اسباب شرک میں سے سمجھتے ہوں.مگر دوسرے انہیں مقدس قرار دیتے ہوں.پس بجائے قبروں وغیرہ کو جبرا گرانے کے دل کا بت گرانا چاہئے مگر اس کے لئے بھی

Page 362

357 جبر نہیں ہونا چاہئے کو پہلے یہی خیال کیا جاتا تھا کہ جبراً مسلمان بنا لینا بھی جائز ہے.مگر اب تو اس بات کے مولوی بھی قائل نہیں کہ غیر مسلم کو تلوار سے مسلمان بنانا جائز ہے پس جب یہ جائز نہیں تو مقبروں اور آثار کو شرک کا باعث سمجھ کر جبرا گرانا بھی درست نہیں.اگر یہ جائز ہے کہ اسلامی ممالک میں عیسائی گرجے بنائیں اور دوسرے لوگ اپنے معبد قائم کریں تو کیا وجہ ہے کہ مسلمان اگر مسجدیں بنائیں یا ایسی یادگاریں قائم رکھیں.جو عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کے کام آئیں تو وہ نا جائز ہوں پس جب کہ دوسرے یہ کام کر سکتے ہیں تو مسلمانوں کا تو یہ زیادہ حق ہے کہ وہ اسلامی ممالک میں اپنی عبادت گاہیں قائم کریں اور ان چیزوں کی حفاظت کریں جن کا احترام ان کے لئے ضروری ہے.ہاں یہ ضروری بات ہے کہ اس بات کو دیکھا جائے کہ وہ احترام کرتے کرتے کہیں شرک کرنا نہ شروع کر دیں.اس سے انہیں روکا جائے مگر دلائل کے ساتھ.نہ کہ جبر کے ساتھ.اگر کہیں ایسا خطرہ پیدا ہو جائے اور لوگ شرک میں پھنس گئے ہوں.تو ان پر تشدد اور زبردستی پھر بھی درست نہیں.بلکہ بجائے تشدد اور زبردستی کے دلائل اور براہین کا ہتھیار استعمال کرنا چاہئے اگر نجدی ایسا کریں تو ہم ان کے ساتھ ہیں.اگر وہ دلائل سے ایسے لوگوں کا مقابلہ کریں اور براہین سے ان کو شرک سے بچانے کی کوشش کریں جو مقبروں وغیرہ پر شرک کرتے ہیں تو یہ کام ہم بھی ان کے دوش بدوش مل کر کرنے کے لئے تیار ہیں.اگر وہ ایسا کریں تو ہم ان کی مدد پر ہیں اور ہر وقت ان کی د کریں گے.ہم جانتے ہیں کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ میں شرک ہوتا ہے اور ان ہر دو مقدس مقامات کو شرک سے پاک کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے مگر یہ فرض صرف دلائل اور براہین ہی سے بجا لانا چاہئے.نہ کہ زور اور تشدد سے.انہیں ایسی تعلیم دینی چاہئے کہ وہ شرک سے نفرت کرنے لگ جائیں اور یہ تعلیم صرف دلائل ہی سے ہو سکتی ہے.اگر ایسا کیا جائے تو میں پھر کہتا ہوں کہ ایسا کرنے والوں کے ساتھ ہیں.پس جہاں میں یہ کہتا ہوں کہ دلائل سے توحید کی خوبیاں ان کے دلوں میں بٹھاؤ تاکہ وہ آپ ہی آپ اس کی طرف کھنچے چلے آئیں.وہاں میں یہ بھی کہتا ہوں کہ نجدی اس بات کا خیال رکھیں کہ کہیں سختی تو نہیں کر رہے.اگر سختی کرتے ہوں اور جیسا کہ واقعات بتلاتے ہیں کہ نجدیوں نے طائف اور مکہ میں سختی کی تو میں زور کے ساتھ کہتا ہوں کہ ایسا نہ کریں اور یہ میں اسلام کی خاطر اور نجدیوں کے فائدہ کے لئے کہتا ہوں.کیونکہ سختی سے اسلام کی عزت پر حرف آتا ہے اور اسلام کے متعلق جو یہ بات کہی جاتی ہے کہ وہ دلائل کے زور سے پھیلا اور اپنی عمدہ تعلیم کے سبب اس نے دنیا مدد

Page 363

358 میں اشاعت پائی.اس میں شک پڑ جاتا ہے اور لوگ نجدیوں سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں.پس انہیں چاہئے کہ بجائے سختی کے دلائل سے کام لیں اور یاد رکھیں سختی وہ کام نہیں کر سکتی جو دلائل کر سکتے ہیں.جو کچھ اس وقت تک ہو چکا ہے سب کو معلوم ہے.مگر آئندہ کے لئے امید دلائی جاتی ہے کہ ایسا نہیں ہو گا.بہت اچھا.اگر آئندہ ایسا نہیں ہوگا اور آئندہ اس قسم کی سختی جو اب تک کی گئی نہ کی جائے گی بلکہ دلائل سے کام لیا جائے گا.تو پھر ہم کہتے ہیں کہ ہم بھی اس کام میں ان کے ساتھ ہوں گے اور ان کی تائید کریں گے.ابھی یہ خبر چھپی ہے کہ مدینہ طیبہ ابن سعود کے قبضہ میں آگیا ہے اگر یہ خبر صحیح ہے (کیونکہ بعض دفعہ خبریں غلط بھی ہوتی ہیں اور ان کی بعد ازاں تردید ہو جاتی ہے اور اس خبر کی ابھی تک دوسرے ذرائع سے تصدیق نہیں ہوئی کہ فی الواقع مدینہ طیبہ پر ابن سعود کا قبضہ ہو گیا ہے.اگر انہوں نے وہاں کے لوگوں کے مشرکانہ عقائد کی تردید غیر متشددانہ طریق پر کی تو ہم یہ سمجھیں گے کہ ان کا یہ فعل تبدیلی حالات پر دلالت کرتا ہے.پس اگر انہوں نے قبوں وغیرہ پر دست درازی نہ کی اور وہاں کے مقامات کو نقصان نہ پہنچایا اور لوگوں کے امن میں خلل نہ پیدا کیا بلکہ ان کی حفاظت کرنی شروع کی اور دلائل سے عمدہ تعلیم سے اور عمدہ نمونہ سے ان لوگوں میں توحید پھیلائی تو ہم نہ صرف یہ سمجھیں گے کہ ان کا یہ فعل تبد یلئی حالات پر دلالت کرتا ہے.بلکہ ہم ان کی مدد بھی کریں گے.میرے نزدیک کسی حکومت کے لئے جائز نہیں کہ وہ مذہبی معاملات میں زبردستی کرے یا زبردستی کسی قوم کے قابل احترام مقامات کو گرائے یا ان پر قبضہ کرے.پس ایک اسلامی حکومت کے لئے یہ درست نہیں کہ وہ اپنے علاقے کے مسلمانوں کی عبادت گاہوں یا قابل احترام مقامات کو گرا کر ملک میں فتنہ پیدا کرے.لیکن ہاں میرے نزدیک دو مقام ایسے ہیں جن میں اگر کوئی مشرکانہ فعل ہوتا ہو تو اسلامی حکومت کے لئے جائز ہے کہ جبراً اس میں دست اندازی کرے اور ان مقامات کو اپنی حفاظت اور نگرانی میں رکھے.ان مقامات مقدسہ میں سے ایک تو خانہ کعبہ ہے اور دوسرا مسجد نبوی.مسلمانوں کی دست اندازی ان میں جائز ہے اور ایک اسلامی حکومت کا حق ہے کہ ان پر اپنا قبضہ رکھے.وہ بہر حال اسلامی حکومت کے قبضے میں رہنے چاہئیں.اور اس قبضہ کی غرض صرف حفاظت ہونی چاہئے نہ کہ ان کے استعمال میں کسی قسم کی مشکل پیدا کرنا.پس ان دونوں مقامات پر

Page 364

359 اسلامی حکومت کا قبضہ رہنا چاہئے جو یہ دیکھتی رہے کہ ان کی حفاظت کما حقہ ہو رہی ہے یا نہیں اور ان میں کوئی فعل شریعت کے خلاف تو نہیں کیا جاتا.اگر کیا جاتا ہو.تو اسے جبراً روک دے مثلاً اگر خانہ کعبہ میں بت پرستی ہوتی ہو یا قبریں پوجی جاتی ہوں اور اسی طرح مسجد نبوی میں بھی کوئی مشرکانہ فعل ہوتا ہو.تو میں کہوں گا کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے اور اس حکومت کا کہ جس کے قبضہ میں یہ دونوں مقام ہوں حق ہے کہ لوگوں کو وہاں ایسا کرنے سے جبراً روک دے.مکہ اور مدینہ میں بہت سی قبریں بنی ہوئی ہیں.جن کا احترام کیا جاتا ہے.اس میں کچھ شک نہیں کہ ان میں سے پچاس فیصد سے بھی زیادہ فرضی ہیں اور یہ محض ڈھکونسلے ہیں کہ یہاں فلاں صحابی دفن ہوئے اور یہاں فلاں صحابیہ - جب میں حج کے لئے وہاں گیا تو میں ان کو دیکھ کر حیران رہ گیا.لوگوں نے بعض قبریں یورنسی بنا رکھی ہیں.کوئی تاریخی ثبوت ان کے متعلق نہیں ہے اور خود وہاں کے اہل علم لوگوں کا خیال ہے کہ ان میں سے چند قبریں اصلی اور کچی ہیں باقی سب فرضی.وہ جن لوگوں کے قبضہ میں ہیں.وہ ان کے متعلق عجیب عجیب قسم کی برکتوں کا ذکر کرتے ہیں.مگر یہ برکتیں ان برکتوں کے طور پر ہیں جو مندر کی برکتوں کی طرح ہوتی ہیں یا جو عقیدہ کے طور پر مانی جاتی ہیں اور ان کی کوئی اصلیت نہیں ہوتی اور ان کی مثال بالکل اسی طرح کی ہے جس طرح کہ یہاں پیروں کی گدیاں ہوتی ہیں.مگر اس صورت میں بھی یہ مناسب اور جائز نہیں کہ سختی اور تشدد سے کام لیا جائے بلکہ ان لوگوں کو ایسی تعلیم دینی چاہئے کہ انہیں ترک کر دیں مگر خانہ کعبہ میں اگر ایسا ہو تو جو حکومت ہوگی میرے نزدیک اس کا فرض ہو گا کہ وہ وہاں سے لوگوں کو اس قسم کی باتوں سے روک دے اور مسجد نبوی بھی ایسی ہی ہے.اس میں بھی اس قسم کی باتیں ہوں تو اس کے متعلق بھی حکومت کا فرض ہے کہ روک دے.بعض لوگ جب دوسری قبروں کے متعلق یہ دیکھتے ہیں کہ وہ شرک کا منبع بن رہی ہیں تو انہیں آنحضرت کے مقبرہ کے متعلق بھی یہی خیال گزرتا ہے کہ اس سے بھی شرک پیدا ہوتا ہے مگر اس کے متعلق ان کا یہ خیال کرنا غلطی ہے کیونکہ رسول کریم ﷺ کے مزار مبارک پر جو گنبد بنایا گیا ہے وہ اس لئے نہیں کہ اس سے روضہ کی شان بڑی بنا کر پرستش کی جائے بلکہ وہ اس لئے بنایا گیا تھا کہ شرک نہ ہو.رسول کریم ﷺ کی قبر کو چھپانے کے لئے اس پر گنبد بنایا گیا تھا.پس اس گنبد سے یہ قیاس کرنا کہ اس سے شرک پیدا ہوتا ہے سراسر غلطی ہے.وہ تو بنایا ہی اس لئے گیا تھا کہ آنحضرت ﷺ کی قبر کو چھپا دیا جائے تاکہ آنکھوں کے سامنے ہونے کی وجہ سے ایسے

Page 365

360 جذبات نہ پیدا ہو جائیں جو مشرکانہ حرکات سرزد کرا دیں.جبکہ اس کی غرض ہی یہ تھی کہ آپ کی قبر کو چھپا دیا جائے تا اس کے ذریعہ شرک نہ پھیلے تو اس کے متعلق یہ کہنا کہ اس سے شرک پھیلتا ہے میری رائے میں کہنے والوں کی کمئی تدبر اور قلت عقل پر دلالت کرتا ہے.پس میں پھر کہتا ہوں کہ کسی اعزاز کے لئے آنحضرت ﷺ کی قبر پر گنبد نہیں بنایا گیا بلکہ اس کی حفاظت کے لئے بنایا گیا اور اس غرض کے لئے بنایا گیا کہ تا آپ کی قبر چھپی رہے.کسی اعزاز کے لئے رسول کریم ہے کی قبر گنبد کی محتاج نہیں.اعزاز اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ بجائے خود ہے اور کسی بیرونی کوشش سے نہیں ہو سکتا.پس اس کے لئے کسی گنبد کی یا کسی اور شے کی ضرورت نہ تھی.آنحضرت ا جب زندہ تھے.اس وقت صحابہ آپ کی حفاظت کرتے تھے.پھر کوئی وجہ نہیں کہ آپ کی وفات کے بعد دشمنوں سے بچانے کے لئے آپ کے جسم مبارک کی حفاظت مسلمان نہ کریں.جس طرح آنحضرت ﷺ کی زندگی میں دشمن تھے اسی طرح آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کے دشمن ہیں جو آپ کے جسم مبارک کو بے حرمت کرنے کی ناپاک خواہش رکھتے ہیں.وہ لوگ جو روضہ مبارک کو بے حرمت کرنے کی ناپاک خواہش رکھتے ہیں.وہ لوگ جو روضہ مبارک پر اعتراض کرتے ہیں اور کسی صورت میں بھی اس کا بنانا جائز نہیں قرار دیتے.کیا وہ حدیثوں میں نہیں پڑھتے کہ صحابہ باری باری آنحضرت ﷺ کے مکان پر پہرہ دیتے تھے.کئی حدیثیں موجود ہیں جو بتاتی ہیں کہ صحابہ کرام آپ کی ہر وقت اور ہر طرح حفاظت کرتے تھے.پھر کیا حدیثوں میں یہ نہیں ہے کہ جب رسول کریم جنگ میں جاتے تھے.تو صحابی آپ کے آگے پیچھے دائیں ای بائیں رہتے تھے اور آپ کی ہر ممکن ذریعہ سے حفاظت کرتے کیونکہ سب سے زیادہ زور دشمنوں کا آپ ہی کی ذات پر ہوتا تھا اور سب سے بہادر وہی سمجھا جاتا تھا.جو آپ کے قریب رہتا تھا.تو جب آپ زندہ تھے اور آپ کے جسم کی حفاظت کی ازحد ضرورت تھی.تو جب آپ وفات پا گئے.اس وقت آپ کے جسم کی حفاظت کی کیوں ضرورت نہیں؟ پس آپ کی قبر پر جو گنبد ہے.وہ حفاظت کے لئے بنایا گیا ہے.نہ کہ احترام کے لئے اور نہ اس بات کے لئے کہ اسے شرک کا منبع بنایا جائے.یہ آپ کی قبر کے گنبد میں اور دوسری قبروں کے قبوں میں فرق ہے.مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ زید یا بکر کی قبر پر جو گنبد بنایا گیا ہے.وہ اس لئے بنایا گیا ہے کہ اس طرح اس قبر کا احترام قائم ہو.زید بکر عمر کی قبریں شائد اس طرح احترام کی محتاج ہوں لیکن آنحضرت ﷺ کی قبر اس قسم کی احتیاج سے مستغنی ہے.پس اس پر جو گنبد بنایا گیا ہے وہ صرف حفاظت کے لئے ہے اور کون

Page 366

361 ہے ایسا شخص جو مسلمان کہلاتا ہو اور پھر ہر وہ بات کرنے کے لئے تیار نہ ہو جو آپ کے جسم کی حفاظت کے لئے ضروری ہو.یا جو بات آپ کے جسم کی حفاظت کے واسطے کی گئی اس کو رد کرنے کی کوشش کرے.یقینا کوئی ایسا مسلمان نہ ہوگا.جو آپ کے جسم کی حفاظت نہ کرنا چاہتا ہو.یا جس طریق سے اس کی حفاظت کی گئی ہو.اس کو نا پسند کرتا ہو.اگر مخالفوں کی ان کوششوں اور ان منصوبہ بازیوں پر نظر کی جائے جو رسول کریم ﷺ کی قبر سے آپ کے جسم مبارک کو نکال لینے کے متعلق کی گئیں.تو آپ کے جسم کی حفاظت کا سوال اور بھی اہم ہو جاتا ہے اور تقاضا کرتا ہے کہ آپ کے جسم کی حفاظت کے لئے ہر ممکن تدبیر اختیار کی جائے.دشمنوں کی طرف سے اس قسم کی کوششیں ہوتی رہی ہیں کہ سرنگ لگا کر آپ کے جسم کو قبر میں سے نکال لیا جائے اور عجائب گھر میں رکھا جائے.ایسا ہی اور بیسیوں قسم کے منصوبے دشمنوں کی طرف سے ہوتے رہتے ہیں.ایسی حالت میں آپ کی قبر کی حفاظت کرنا اور اس پر گنبد بنا کر اسے محفوظ کر دینا شرک نہیں ہو گا بلکہ عین اسلام ہو گا.مسلمان آنحضرت ا سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں مگر کیا محبت کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ جس کے ساتھ محبت کی جائے اس کے مرنے کے بعد اس سے محبت کرنا چھوڑ دیا جائے.خالص محبت کے تو یہ معنی ہیں کہ جس طرح زندگی میں اس کے ساتھ محبت کی جائے.اسی طرح مرنے کے بعد بھی اس کے ساتھ محبت کی جائے یہ نہیں کہ جب تک وہ زندہ رہا.محبت کرتے رہے اور جب وہ مر گیا تو محبت بھی مر گئی.پھر یہاں تو معاملہ ہی اور ہے.یہاں نہ صرف رسول کریم ﷺ کی محبت کا سوال ہے بلکہ آپ کے احسانات کا بارگراں بھی ہمارے سروں پر ہے.اس صورت میں کیا یہ ضروری نہیں کہ ہم آپ کے بعد آپ کے جسم مبارک کی کما حقہ حفاظت کریں.آپ کی تو یہ شان ہے کہ خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے.ان کنم تحبون اللہ فاتبعونی یحببكم الله ( آل عمران (۳۲) یعنی اگر تم یہ چاہتے ہو کہ خدا سے محبت کرو تو اس کا یہ طریق ہے کہ اس کے رسول سے محبت کرو.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تمہارے ساتھ محبت کرے گا.پس آپ سے دراصل محبت کرنے والا وہی شخص ہو گا.جو خدا کے بعد ہر ایک چیز سے بڑھ کر آپ سے محبت کرنے والا ہو.اگر ہم یہ دعوئی کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت ﷺ سے محبت کرتے ہیں.تو ہمیں یہ بات ثابت کر دینی چاہئے کہ ا خدا تعالیٰ کے سوائے ہمارے دلوں میں اور کسی چیز کی محبت آنحضرت ا سے بڑھ کر نہیں.کیا حدیثوں میں نہیں آیا کہ حضرت عمر نے ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کی خدمت وضي ،

Page 367

362 میں عرض کی.کہ آپ مجھے بہت پیارے ہیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا.کیا جان سے بھی بڑھ کر میں پیارا ہوں؟ حضرت عمر اللہ نے کہا.ایسا تو نہیں.آپ نے فرمایا کہ جب تک میں تمہیں جان سے بڑھ کر پیارا نہ لگوں.تب تک تمہارا ایمان بھی کامل نہیں ہو سکتا ۲؎ تو جب ایمان کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ آپ کی محبت سب سے زیادہ ہو.تو پھر کیونکر یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ کے مرنے کے بعد آپ کے جسم سے اگر محبت نہ بھی ہو.تو کوئی حرج نہیں.پس کیا بلحاظ آپ کے احسانات کے اور کیا بلحاظ اس ایمان کے جو ہم میں پیدا کیا گیا.ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم آپ کے جسم کی حفاظت آپ کی وفات پانے کے بعد بھی اسی طرح اور اسی محبت سے کریں.جس طرح اور جس محبت کے ساتھ کہ آپ کی زندگی میں آپ کے جسم اور جان کی حفاظت کی جاتی تھی اور آپ کی وفات کے بعد آپ کے جسم کی حفاظت کرنا یہی ہے کہ اسے دشمنوں کی منصوبہ بازیوں اور ان کی شرارتوں سے بچایا جائے.مجھے حیرت ہے کہ وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ وفات کے بعد رسول کریم ﷺ کے مزار کی حفاظت کی ضرورت نہیں اور اس کے احترام کی حاجت نہیں.حالانکہ ان کے بڑے تو بڑے اگر ایک بچہ بھی مرجاتا ہے تو وہ اس کے بے جان جسم کی حفاظت کے لئے سب کچھ ہی کرتے ہیں.کیا ایک چند دن کا چھیچھڑا بھی جو مرجاتا ہے.اس کے جسم کو احتیاط کے ساتھ زمین میں دفن نہیں کیا جاتا اور اس کی قبر کی حفاظت نہیں کی جاتی.اگر کی جاتی ہے تو کیا یہ شرک ہے.کیا ہم پسند کرتے ہیں کہ کوئی جا کر ہمارے بچہ کی قبر کھود ڈالے.اگر کوئی ایسا کرے تو اس وقت ہمیں تکلیف نہیں ہوگی.پس اگر ایک بچے کی قبر کو ملیا میٹ کرنے کے لئے کوئی شخص ہاتھ اٹھاتا ہے تو ہمارا جوش انتہائی درجہ پر آجاتا ہے اور وہ محبت جو اس کے لئے ہمارے دل میں مرنے کے بعد بھی ہوتی ہے.ہمیں مضطرب کر دیتی ہے.تو جب ایک بچے کے لئے جس کی کوئی بھی قدر و قیمت نہیں ہوتی ہمیں جوش آجاتا ہے.تو کیا وجہ ہے کہ رسول کریم ان کے مزار کے لئے جن کی قدر و قیمت کی کوئی حد ہی نہیں.ہمیں جوش پیدا نہ ہو.پس وہ موحد قوم جس نے شرک کی بعض کڑیوں کو توڑ دیا.اس پر غور کرے اور دیکھے کہ وہ اپنے اس فعل سے کیا بات ثابت کر رہی ہے اور حفاظت کے سوال کو کس حد تک مد نظر رکھ رہی ہے.یہاں تو ایک گنبد کے لئے شور برپا ہے مگر میں کہتا ہوں حفاظت کے لئے اگر ایک سے زیادہ گنبد بھی بنانے پڑیں تو بنانے چاہئیں.جس قدر بھی ہم آپ کے جسم کی حفاظت کر سکیں.اتنی کرنی

Page 368

363 چاہئے.آج کل ہوائی جہازوں اور توپ کے گولوں اور دیگر اسی قسم کی ایجادوں سے پل بھر میں ایک عالم کو تباہ کر دیا جا سکتا ہے.اس لئے آپ کی قبر کی حفاظت کا سوال اور بھی اہم ہو گیا ہے.پس اگر ان ہوائی جہازوں ، توپ کے گولوں اور سرنگوں وغیرہ کے ذریعے آپ کے جسم کو نکال لے جانے کے منصوبوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اور بھی گنبد بنانے پڑیں اور اگر اور بھی ایسی تدابیر اختیار کرنی پڑیں جن سے کما حقہ حفاظت ہو جائے تو وہ شرک نہیں ہوگا.بلکہ عین اسلام ہو گا.بیشک جو حکومت وہاں ہو وہ ان لوگوں کو جو مشرک ہوں شرک کرنے سے روکے یا ان کو وہاں سے نکال دے مگر مزار رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کے پورے سامان کئے جائیں.پس اگر ابن سعود ایسا کریں یعنی آنحضرت ا کے مزار کی حفاظت ہر طرح کریں اور ایسا ہی دوسرے ضروری مقامات کی بھی تو ہمیں ان سے اتفاق ہے.کیونکہ یہ لوگ ایک حد تک اصلاح کی طرف قدم اٹھا رہے ہیں.ان چیزوں سے جو مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے بنائی جاتی ہیں یا جن کی غرض نصیحت یا عبرت دلانا ہوتی ہے.ہمیں ایک حد تک اتفاق بھی ہے اور ایک حد تک اختلاف بھی.اتفاق تو اس لئے ہے کہ یہ حفاظت کی غرض اور بعض دوسری مفید غرضوں کے لئے بنائی جاتی ہیں.اس لئے یہ ضروری ہیں اور اختلاف ان کی پرستش کے متعلق ہے اور شرک پھیلنے کے لئے ہے اور یہ اختلاف خود حنفیوں میں بھی ان مقامات کے متعلق موجود ہے.لیکن اس میں کچھ شک نہیں کہ ایک گروہ ان کے ذریعے شرک میں پھنس رہا ہے پس ہمارا حق ہے کہ ہم انہیں سمجھائیں اور اس غلط طریق سے جسے وہ اختیار کر رہے ہیں بچائیں.باقی یہ کہنا کہ چونکہ حضرت عمرؓ نے اس درخت کو جس کے نیچے صلح حدیبیہ کے وقت بیعت ہوئی تھی.کاٹ ڈالا تھا اس لئے قبوں کو بھی گرا دینا چاہئے.درست نہیں.معلوم نہیں اس وقت کیا حالات تھے اور حضرت عمرؓ کو کیا ضرورت پیش آئی تھی اور اس درخت کے قائم رہنے سے واللہ اعلم ان کے نزدیک کیا خطرہ تھا.اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ چونکہ حضرت عمر نے اس درخت کو کاٹ دیا تھا.اس لئے ہم اب تمام مقبروں اور تمام قبوں اور تمام قبروں اور تمام ان مقامات کو گراتے ہیں.جو کسی نہ کسی وجہ سے اس قابل ہیں کہ قائم رہیں.خواہ رسول اللہ ﷺ نے ہی کسی کی بنیاد کیوں نہ رکھی ہو.یا خواہ خدا تعالیٰ نے ہی اسے اپنے شعائر میں سے کیوں نہ قرار دیا ہو.پس ایسی باتیں اس قوم کے منہ سے اچھی نہیں لگتیں جو شرک کے مٹانے کا دعویٰ رکھتی ہو.کیونکہ شرک تو اس لئے مٹایا جاتا ہے کہ توحید پھیلے لیکن جب توحید ہی کو پھیلانے کے ذرائع منقطع

Page 369

364 کے نشانات اور شعائر اللہ کئے جائیں تو پھر یہ بات کہ ہم شرک کو مٹاتے ہیں.صرف دعوی ہی دعوئی رہ جاتی ہے.پس میں کہتا ہوں کہ شرک کو مٹاؤ لیکن شرک کو مٹاتے ہوئے رسول کریم سیتی نہ گراؤ.اور ان مقامات کو ملیا میٹ نہ کرو کہ جن کو دیکھ کر ایک شخص کے دل میں توحید کی لہر پیدا ہوتی ہے.پس وہ قوم جو اہلحدیث کہلاتی ہے اور جس کا بڑا دعوئی شرک کی بیخ کنی ہے، وہ بالضرور شرک کے مٹانے کے لئے کوشش کرے اور ہم اس کوشش میں اس کے ساتھ ہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ یہ نہ کرے کہ شعائر اللہ پر ہی کلہاڑا رکھ دے...یا ان مقامات کی بنیادوں میں ہی پانی پھیر دے جن سے روایات اسلامی وابستہ ہیں.لیکن اگر اس کا یہی عقیدہ ہے کہ سب قبروں کو گرا دیا جائے اور سب مقبروں کو مسمار کر دیا جائے.حتی کہ آنحضرت کے مزار پر جو گنبد ہے اسے بھی ہٹا دیا جائے.تو پھر میں کہتا ہوں کہ انہیں صفا و مروہ کو بھی مٹا دینا چاہئے جن پر حضرت ہاجرہ بیقراری کے ساتھ دوڑیں اور ان کی تنتج میں اب بھی حج کے موقع پر لوگ ان کے درمیان دوڑتے ہیں.پھر خانہ کعبہ کو بھی گرا دینا چاہئے کہ اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بنایا.اور پرانی روایات کو برقرار رکھنے کے لئے بنایا اور ایسا ہی دوسرے ان سب مقامات کو بھی گرا دینا چاہئے جن پر خدا کا جلال ظاہر ہوا کیونکہ لوگ ان کو مقدس سمجھتے اور ان کا احترام کرتے ہیں.ال ان مقامات پر لوگ اس لئے جاتے ہیں کہ دلوں میں روحانیت پیدا کریں اور یہ خیال کرکے کہ یہاں خدا کا جلال ظاہر ہوا.خشیت اللہ پیدا ہوتی ہے.اس لئے ان کا قائم رہنا توحید الہی پر ایمان لانے کے لئے ضروری ہے نہ کہ مضر.پس وہ قوم جو مقابر وغیرہ کو گرا دینا چاہتی ہے.اس کا فرض ہے کہ وہ دیکھے لوگ کس نیت سے وہاں جاتے ہیں.ان کی نیت میں روحانیت پیدا کرنا ہوتا ہے کیونکہ وہ جب دیکھتے ہیں کہ یہ وہ مقام ہے جس پر خدا کا جلال ظاہر ہوا تھا اور یہ وہ مقام ہے جہاں رسول اللہ ﷺ کی خدا نے مدد کی تھی.یہ وہ مقام ہے جہاں حضرت ہاجرہ نے خدا کے لئے خطرات میں قیام کیا تھا.تو ان کے ایمان میں ترقی ہوتی ہے.ان کے اندر روحانیت بڑھتی ہے.ان کے دلوں میں خشیت اللہ پیدا ہوتی ہے.اگر لوگوں کا ان مقامات پر جانا شرک ہے تو سب سے سے پہلے خانہ کعبہ کو اڑا دو کہ لوگ وہاں بھی جاتے ہیں.پھر صفا اور مروہ کو مٹا دو کہ حضرت ہاجرہ کی اسی بیکلی اور اضطراب کی یاد میں لوگ اب بھی وہاں دوڑتے ہیں.جو انہیں اپنے بچے کے لئے پانی تلاش کرتے وقت ہوئی تھی اور جس کو دیکھ کر خدا تعالیٰ نے فرمایا.ہاجرہ جا آرام سے بیٹھ ہم نے تیرے بچے کے لئے پانی پیدا کر دیا.کیونکہ جب دوسری جگہوں پر محض جانا شرک ہے تو ان جگہوں پر جانا بھی

Page 370

365 شرک ہو سکتا ہے.پس ان کے ساتھ ان کو بھی گرا دینا چاہئے.مگر میں پھر کہتا ہوں کہ لوگ وہاں شرک کے لئے نہیں جاتے.وہ ان مقامات کے اعزاز و اکرام کے لئے ان پر نہیں جاتے.ان کی نیت روحانیت پیدا کرنے کی ہوتی ہے.اگر احترام اور اعزاز و اکرام کے لئے لوگ جاتے تو جوتیاں پہن کر صفا مروہ پر کیوں دوڑتے پھرتے.پھر وہاں لوگ کھاتے پیتے بھی ہیں اور وہیں چھلکے بھی پھینک دیتے ہیں.پس اگر محض اعزاز و اکرام مد نظر ہو تا.تو وہ کبھی ایسا نہ کرتے کہ اس مقام پر جوتے پہنے چلے جاتے اور وہیں چھلکے پھینکتے اور کوڑا کرکٹ بھی پھیلاتے.پس وہ اس لحاظ سے وہاں جاتے ہیں کہ یہاں خدا کا جلال ظاہر ہوا تھا.گرانے اور منہدم کرنے کا عقیدہ رکھنے والوں کے پاس بڑی سے بڑی دلیل اس شجر کی ہے.جس کے نیچے رسول کریم ﷺ نے بیعت رضوان نی.مگر وہ واقعات اس وقت ہمارے سامنے نہیں جو حضرت عمرؓ کے وقت میں پیش آئے اور نہ ہی وہ واقعات اس وقت موجود ہیں.میں اس وقت کے حالات کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا.مگر میں یہ بات بغیر کسی قسم کے ڈر کے کہتا ہوں کہ میرے سامنے اگر یہ واقعہ ہوتا اور مجھ سے اس کے کاٹنے کے متعلق پوچھا جاتا.تو میں یہی کہتا کہ اس درخت کو ہرگز نہیں کاٹنا چاہئے.اگر کوئی اس کے ذریعہ شرک کرتا ہے تو اسے روکنا چاہئے لیکن اس درخت کو جس پر خدا کا جلال ہوا اور جس کے نیچے آنحضرت ﷺ کی صداقت کا ایک اور نشان نظر آیا.مطلقاً نہیں کاٹنا چاہئے بلکہ اس کی حفاظت کرنی چاہئے کہ وہ دیر تک قائم رہ سکے.جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ ان حالات کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ اس درخت کو نہیں کاٹنا چاہئے تھا.ہاں شرک کے پھیلنے کا اگر کوئی خطرہ اس کے وجود سے پیدا ہو گیا تھا تو اسے دور کیا جا سکتا تھا ممکن ہے کوئی ایسا ہی خطرہ پیدا ہو گیا ہو جس سے اس کا نہ رکھنا ہی حضرت عمرؓ نے مناسب جانا ہو.ورنہ کسی معمولی سی بات کے لئے حضرت عمر جیسے انسان سے یہ امید نہیں ہو سکتی کہ وہ اس درخت کو کاٹ دیتے.یہ درخت جس کے نیچے صلح حدیبیہ کے سے اہم موقع پر بیعت لی گئی.معمولی درخت نہیں بلکہ شعائر اللہ میں سے تھا اور شعائر اللہ سے جس حد تک ایمان میں تازگی اور دلوں میں روحانیت پیدا ہوتی ہے.اس کا اعتراف اہلحدیث گروہ کو بھی ہو گا.پس جو شخص اس کے پاس اس نیت سے جاتا کہ ایمان میں مضبوطی پیدا ہو اور خدا تعالیٰ کے جلال کے ظاہر ہونے کی جگہ کو دیکھنے سے روحانیت پیدا کرے.میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایک نیک کام کرتا.پس میں یقین کرتا ہوں کہ جو کوئی بھی اس "

Page 371

366 درخت کے پاس اسے شعائر اللہ سمجھ کر جاتا ہو گا.وہ ایمان سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ لوٹتا ہو گا نہ کہ شرک کرتا ہوگا.صفا اور مردہ اور بعض دوسرے مقامات شعائر اللہ میں سے ہیں اور جو ان پر اعتراض کرتا ہے.وہ ان پر اعتراض نہیں کرتا بلکہ قرآن کریم پر کرتا ہے.کیونکہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ صفا اور مروہ کے متعلق فرماتا ہے کہ ان پر میرا نشان ظاہر ہوا اور یہ شعائر اللہ میں سے ہیں.یہاں حضرت ہاجرہ اکیلی دوڑی تھیں.جہاں میلوں تک پانی نہ تھا اور اس وقت جو بیقراری اور اضطراب انہیں تھا اس کو دیکھ کر خدا تعالیٰ نے کہا تھا کہ ہاجرہ! صبر کر تو نے میرے لئے وطن کو چھوڑا.میں تیرے لئے یہاں پانی پیدا کرتا ہوں.پس خدا نے اس مقام پر کہ جہاں سینکڑوں میلوں تک پانی نہ تھا.حضرت ہاجرہ اور ان کے بچہ کے لئے ان کے اضطراب اور بے چینی کو دیکھ کر پانی پیدا کیا.اور پانی پیدا نہیں کیا بلکہ اپنا نشان دکھلایا کہ میں قادر مطلق ہوں اور یہ میری قدرت میں ہے کہ میں ان مضطرب اشخاص کے لئے لق و دق میدان میں بھی کہ جہاں لوگ پیاس سے تڑپ تڑپ کر مرجاتے ہیں.اپنی قدرت سے پانی پیدا کر سکتا ہوں.پس وہاں حضرت ہاجرہ اضطراب میں دوڑیں اور دوڑتے ہوئے اسی اضطراب کے ساتھ خدا تعالیٰ سے عرض بھی کرتی رہیں کہ تو ہی ہے جو کچھ کر سکتا ہے.سو ان کی یہ حالت زار خدا کے رحم کو جوش میں لانے والی ہوئی.جس کے ذریعہ اس کا جلال دنیا پر آشکارا ہوا.پس وہاں کا تو پتھر پتھر اک نشان ہے اور پھر ان پہاڑیوں کے متعلق تو خود خدا نے بھی فرما دیا ہے کہ وہ شعائر اللہ میں سے ہیں.اب جس طرح صفا و مروہ پر خدا کا نشان ظاہر ہوا اور وہ شعائر اللہ بن گئے.اسی طرح وہ درخت بھی شعائر اللہ بن گیا.جس کے نیچے آنحضرت ا ان کے ہاتھ پر حدیبیہ کے موقع پر بیعت کی گئی.پس ان مقامات پر جہاں جہاں خدا کا نشان ظاہر ہوا جانے سے ایک شخص کے دل میں روحانیت پیدا ہوتی ہے.اس کے ایمان میں تازگی آتی ہے.اس کے اندر خشیت اللہ پیدا ہو جاتی ہے.وہ نصیحت کا اگر موقع ہو تو نصیحت پکڑتا ہے اور عبرت کا اگر موقع ہو تو ان سے عبرت حاصل کرتا ہے.اگر کسی کو اس کے ساتھ اتفاق نہیں اور وہ یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ ان مقامات سے یہ فوائد حاصل ہوتے ہیں.تو کیا وہ اس بات سے بھی انکار کر سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا.کہ قبروں پر جایا کرو تا عبرت حاصل ہو.پھر قبروں پر دعائیں مانگنے کے لئے بھی فرمایا ہے اور حد یثوں سے ثابت ہے کہ آپ قبروں پر جا کر دعائیں کیا کرتے تھے.رسول اللہ ان مشرک نہیں تھے.

Page 372

367 آپ تو شرک مٹانے کے لئے آئے تھے اور آپ نے ایسا ہی کیا.پس آپ کا ایسا کرنا ضرور اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ کام شرک نہیں بلکہ اس سے روحانیت بڑھتی اور خشیت اللہ پیدا ہوتی ہے.کیونکہ قبروں پر جا کر جب انسان یہ دیکھتا ہے کہ یہ انجام ہے انسان کا.تو اسے عبرت عبرت حاصل ہوتی ہے کہ ایک دن میرا بھی یہ انجام ہو گا.اس سے اس کے دل میں خدا کا خوف پیدا ہو جاتا ہے.بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ ایک انسان جو اپنی طاقت اور اپنی دولت کے لحاظ سے فرعون بنا پھرتا ہے.جب وہ قبروں میں سے گزرتا ہے.تو اسے اپنا انجام یاد آجاتا ہے اور وہ فرعونیت کو چھوڑ دیتا ہے.یا یر کسی کی نصیحت کا اثر نہیں ہوتا تھا یا یہ حال ہوتا ہے کہ اس کے دل میں خشیت خدا پیدا ہو جاتی ہے.اس کا دل نرم ہو جاتا ہے اور وہ ان سب چیزوں کو فانی اور اپنی ہستی اور زندگی کو زوال پذیر سمجھ کر خدا کے آگے جھک جاتا ہے اور ایسی عبرت حاصل کرتا ہے کہ اس کے اندر ایک حیرت ناک تغیر پیدا ہو جاتا ہے.پس یہ ثابت شدہ بات ہے کہ ایسے مقامات کا اثر انسان کی طبیعت پر ہوتا اس پر ہے.حد ثوں میں آتا ہے ایک دفعہ آنحضرت ا مع صحابہ جب اس مقام پر سے گزرے.جہاں قوم ثمود پر عذاب نازل ہوا تھا.تو فرمایا.اس رستہ سے نہ گزرو اور اگر گزرتے ہو تو روتے ہوئے گزرو اور اگر کسی نے اس حصہ کے پانی سے آٹا گوندھ لیا ہے تو اسے پھینک دو کیونکہ یہاں خدا کا عذاب نازل ہوا تھا.اس سے ظاہر ہے کہ اس جگہ سے جہاں خدا کا عذاب نازل ہوا.آپ نے اسی طرح خوف کھایا.جس طرح کہ آپ ا نے اس جگہ سے خوشی حاصل کی جہاں خدا کا جلال ظاہر ہوا.اب اگر کوئی کہے کہ جگہوں میں کیا گھس گیا ہے کہ ان کی طرف خاص توجہ کی جائے اور ان کا احترام کیا جائے.تو یہ اس کی غلطی ہوگی.اسے نہیں معلوم کہ خدا تعالیٰ نے اپنی مصلحتوں کے ماتحت انہیں اپنے بعض نشان دکھانے کے لئے مخصوص کر لیا اور ان میں سے بعض کو شعائر اللہ قرار دے دیا.پس جب خدا تعالیٰ ان کو مخصوص کرتا ہے.تو کیا بندہ کے لئے یہ ضروری نہیں کہ جس جگہ خدا کا جلال ظاہر ہو.اس جگہ کی عزت کرے اور جس جگہ پر اس کا غضب بھڑکا اور عذاب نازل ہوا ہو.اس جگہ سے خوف کھائے.خدا تعالیٰ جب خود بعض مقامات کو شعائر اللہ میں سے قرار دیتا ہے.تو یہی بات اس امر کے لئے کافی ہے کہ شعائر اسلام کا احترام ضروری ہے.پھر یہی نہیں کہ یونسی ان مقامات کا احترام ضروری قرار دیا گیا ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت

Page 373

368 بھی ہے.اور وہ حقیقت یہی ہے کہ ان میں اگر عبادت کی جائے تو بہ نسبت دوسرے مقامات کے ایک خاص لذت محسوس ہوتی ہے.وہاں جب ایک شخص جاتا ہے اور وہ جب اس بات کا خیال کرتا ہے کہ یہاں خدا کا جلال ظاہر ہوا تھا اور یہاں خدا نے اپنا نشان دکھایا تھا تو اس کے دل کی عجیب حالت ہو جاتی ہے.ایک شخص جب خانہ کعبہ میں عبادت کرتا ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ کجا یہ عظیم الشان شہر اور اور کجاوہ جنگل جہاں پانی کا نام و نشان نہ تھا.وہ دیکھتا ہے کہ اس بے آب و گیاہ میدان میں کیونکر خدا نے یہ شہر بسایا.تو کیا اس کے ایمان میں کوئی تازگی پیدا نہیں ہوتی.اور اس کی روحانیت میں کچھ اضافہ نہیں ہوتا.اور کیا جہاں وہ پہاڑ سامنے ہوں کہ جن پر خدا جلوہ آرا ہوا.جہاں وہ ٹیلے نظر میں ہوں کہ جن پر خدا کا جلال ظاہر ہوا.جہاں وہ رتیلا میدان دھیان میں ہو.جس پر خدا کے کئی نشان ظاہر ہوئے.جہاں وہ مقامات نگاہ کے نیچے ہوں کہ جن پر خدا نے آنحضرت کی مدد و نصرت کی.وہاں عبادت کرنے سے جو لطف آ سکتا ہے وہ اور جگہ آسکتا ہے.پھر کیا ان چیزوں کا احترام ضروری ہے یا نہیں.کیا ان کی حفاظت اور ان کے قیام کے لئے کوشش کرنا مناسب ہے یا غیر مناسب؟ وہابیوں نے بیشک شرک کو مٹایا مگر ہم یہ کہنے سے بھی باز نہیں رہ سکتے کہ اس شرک کو مٹاتے مٹاتے انہوں نے شعائر اللہ کی بے حرمتی بھی کی اور پھر حضرت عیسی کے ایک بت کو بھی قائم رکھا.جسے آخر ہم نے توڑا.پس وہابیوں سے بڑھ کر ہم شرک کے دشمن ہیں.ہم نے نہ صرف حضرت عیسی کے بت کو جسے وہابیوں نے بھی چھوڑ دیا تھا.تو ڑا بلکہ اس کے سوا اور بھی بت توڑے اور اور بھی کئی قسموں کے شرکوں کو مٹایا ہے مگر ان بتوں کو توڑتے اور ان شرکوں کو مٹاتے ہوئے ہم نے شعائر اللہ کی بے حرمتی نہیں کی اور کسی رنگ میں جبر نہیں کیا اور نہ ہی جبر کرنا ہم جائز سمجھتے ہیں.پھر ہم نے ان کی طرح یہ بھی نہیں کیا کہ شعائر اللہ کے اندر جو عظمت ہے اس کا انکار کر دیں اور یہ کہہ دیں کہ یہ شرک ہے.کیونکہ شعائر اللہ کو ہی اگر شرک کہیں تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ خدا نے خود (نعوذ باللہ) شرک کو پھیلایا اور ایسا شائد وہانی بھی نہ کہیں.گو عملاً ان کے فعل کا یہی نتیجہ نکلتا ہے.پس ہم تو وہابیوں سے بڑھ کر شرک کے دشمن ہیں..پس شعائر اللہ اگر شرک ہیں تو مکہ معظمہ اور مسجد نبوی بھی پھر شرک ہے.ان کی طرح ان کو بھی گرا دینا چاہئے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ان مقامات میں عبادت کرنے کا زیادہ ثواب آیا ہے.بہ نسبت دوسری مسجدوں کے مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کا زیادہ ثواب ہے اور پھر صفا و مروہ اور منیٰ میں بھی

Page 374

369 ثواب ہوتا ہے مگر کیوں ہوتا ہے.آخر کوئی وجہ تو ہونی چاہئے کیا یہی وجہ نہیں کہ خدا نے ان مقامات کو چن لیا ہے؟ پس جن مقامات کو خدا نے چن لیا.ان کے ساتھ اس نے خاص برکات کو بھی وابستہ کر دیا ہے اور اگر ایسی برکات جو ان جگہوں پر جمع ہو گئیں.کسی اور جگہ جمع ہو جائیں.تو خدا اس کو ہی چن لیتا.مکہ کی اینٹوں پتھروں میں تو کچھ نہیں.اصل چیزیں برکات ہی ہیں.جو اس جگہ جمع ہو گئیں اور خدا نے اس مقام کو چن لیا.پس ایسے موقعوں پر جا کر عبادت کرنے والا اسی لئے زیادہ ثواب کا مستحق ہوتا ہے اور یہ بھی ایک وجہ ہے ان مقامات کی حفاظت اور احترام کی.پس جو شخص ان کی حفاظت اور احترام کرتا ہے وہ شرک نہیں کرتا بلکہ توحید قائم کرتا ہے.ایسا ہی ان مقامات پر عبادتیں کرنا یا دعائیں مانگنا بھی عین توحید ہے.پس ہم نجدیوں کی غلطیوں پر انہیں زور سے آگاہ کرتے ہیں اور انہیں ان کے ترک کرنے کے لئے کہتے ہیں اور انہیں کے فائدے کے لئے کہتے ہیں اور باوجود اس مخالفت کے جو تمہیں سال سے اہلحدیث ہماری کر رہے ہیں اور باوجود ان تکلیفوں کے جو اب تک وہ ہمیں پہنچا رہے ہیں.ہم کہتے ہیں کہ ہم جب بھی دیکھیں گے کہ نجدی اپنی غلطیوں کی تلافی کرتے ہیں.تو شرک کے مٹانے اور توحید کے پھیلانے میں ہم ان کے ساتھ ہوں گے اور ہم ان کی مدد کریں گے.باقی رہا یہ امر کہ خلافت والوں نے ہماری مدد کی.ممکن ہے کہ یہ امر درست ہو لیکن اگر کوئی مدد انہوں نے کی ہے تو وہ اکیلے اہل حدیثوں نے نہیں کی.حنفیوں نے بھی کی ہے.کیونکہ حنفی بھی خلافت کمیٹیوں میں شامل تھے.گواب الگ ہو رہے ہیں.اس لئے خلافت کمیٹی والوں کا یہ کہنا کہ ہم نے تمہاری مدد کی.اس حد تک درست نہیں جس حد تک درست وہ بتاتے ہیں.ہم نے ان کی جو مدد دیکھی.وہ تو یہ تھی کہ جب غیر احمدیوں کا جلسہ قادیان میں ہوا تو بٹالہ سے خلافت کمیٹی کے والنیٹرز آئے.جنہوں نے گلیوں میں پھر کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق نہایت گندے شعر پڑھے اور گالیاں دیتے رہے اور پھر اسی پر بس نہ کیا بلکہ ہمارے اشتعال دلانے اور ہمیں دکھ پہنچانے کے لئے اور بھی ایسی حرکات کرتے رہے جو کسی مسلمان کہلانے والے کے ہرگز شایان شان نہیں تھیں.پھر میرے لیکچر میں جو امرت سر میں ہوا جو کچھ ان لوگوں نے کیا وہ ان کو بھولا نہیں ہو گا.حالانکہ بات کچھ بھی نہیں تھی.مگر ان لوگوں کے ایک لیڈر نے حوالہ حوالہ " کہہ کر شور مچا دیا.ان شور مچانے والوں میں سب سے بڑا مولوی عطاء اللہ تھا اور وہاں یہ صاحب بھی تھے جنہوں

Page 375

370 نے اب یہ بات کہی ہے کہ خلافت کمیٹیوں نے احمدیوں کی مدد کی ہے.پھر اور بھی بہت سے واقعات ہیں جو اس قسم کے امور کو روشنی میں لا رہے ہیں مگر باوجود اس کے ہم پھر بھی یہی کہتے ہیں کہ شرک کے مٹانے کے لئے اگر یہ لوگ کسی جائز طریق کو اختیار کریں تو ہم ان کی مدد کریں گے.میں نے الفضل میں پچھلے دنوں ایک سلسلہ مضامین شروع کیا تھا.مجھے یاد نہیں کہ ان میں سے کسی میں میں نے لکھا یا نہیں لکھا.مگر میرا خیال تھا کہ میں اس بات کو ظاہر کر دوں کہ ابن سعود سے ہمیں زیادہ قرب ہے.میں جب مکہ میں گیا تو اس گروہ کے آدمیوں سے ملا تھا.وہ شہری طرز کے ہیں اور بہ نسبت دوسرے لوگوں کے ان کی باتیں زیادہ سنجیدہ تھیں.وہ بات کو نہایت معقول رنگ میں بیان کرتے تھے.یہ غلط ہے کہ وہ حنبلی ہیں انہوں نے بتایا عبدالوہاب پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ وہ حنبلی ہیں.حالانکہ اس کی تردید کی گئی ہے.اس پر میں نے پوچھا کہ آپ لوگ پھر حنبلی کیوں کہلاتے ہیں.کہنے لگے چونکہ لوگ یہاں ہماری مخالفت کرتے ہیں.اس لئے مجبوراً حنبلی کہلانا پڑتا ہے.ہمارے بعض استاد خیلی تھے اور بعض شافعی اس لئے بھی ہم حنبلی کہلاتے ہیں.وہابیوں میں چونکہ جوش زیادہ ہوتا ہے.اس لئے وہ ایسی باتوں کو جو شرک کے منافی ہوں جلدی مان لیتے ہیں.اس ملک میں بھی اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہابیوں میں سے ہماری جماعت میں زیادہ آدمی آئے ہیں.میرا یہ مطلب نہیں کہ پچاس ساٹھ فیصد آئے ہیں بلکہ اپنی تعداد کی نسبت سے زیادہ آئے ہیں.حنفیوں کی تعداد ان سے زیادہ ہے.اس لئے ان کی تعداد کے لحاظ سے دیکھنا ہو گا کہ کون زیادہ آیا.سو جتنی ان کی تعداد ہے اس کے لحاظ سے وہ ان سے زیادہ ہماری جماعت میں آئے ہیں جتنے حنفیوں کی تعداد کے لحاظ سے حنفیوں میں سے آئے.وہ حنفیوں کے مقابلہ میں تھوڑے ہیں.اس لئے بظاہر وہ تھوڑے نظر آتے ہیں.مگر تناسب کے لحاظ سے زیادہ آئے ہیں.پس اہل حدیث میں تبلیغ کا کام ہمارے لئے آسان ہے.اگر وہ اس ملک میں قائم ہو جائیں.تو ہمارے لئے آسانی ہو سکتی ہے کہ ہم ان کو جلدی احمدی بنا سکتے ہیں اور شرک کی باقی ماندہ کڑی جو کہ وہابیوں سے نہ ٹوٹ سکی وہ بھی ٹوٹ سکتی ہے.پس اگر وہ قائم ہو جائیں اور احمدیوں کو اس بات کا موقع مل جائے کہ وہ اپنی موحدانہ تعلیم وہاں پھیلا سکیں.تو بہت جلد وہ لوگ ماننے کے لئے تیار ہو جائیں گے اور اگر سعودی وہاں عدل اور انصاف سے کام لیں گے تو اس میں ان کا بھی بھلا ہو گا کہ وہ ترقی بھی پائیں گے اور دوسروں کا بھی کہ انہیں آرام حاصل ہو گا.

Page 376

371 اس کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ میرے بیان میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا اور چونکہ میرا خیال ہے اس سے ان لوگوں کے تمام خیالات کا ازالہ ہو گیا ہو گا جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم سلطان ابن سعود کے مخالف ہیں.اس لئے میں اس پر اپنے خطبہ کو ختم کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اہل حدیث گروہ بھی ان باتوں سے اتفاق کرے گا اور جبر اور تشدد کو چھوڑ کر امن اور آرام سے کام کرے گا اور مقامات مقدسہ کے گرانے اور شعائر اللہ کی بے حرمتی کرنے سے بچے گا.چونکہ ہمارا فرض ہے کہ ہم رسول کریم ﷺ کے مزار کی حفاظت کریں.اس لئے ہم دعا کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے کہ خدا تعالیٰ اس کی حفاظت کرے اور ہر اس ہاتھ کو روک دے جو مقامات مقدسہ کی بے حرمتی کے لئے اٹھے.اگر حنفیوں کا ہاتھ بے حرمتی کے لئے اٹھے تو حنفیوں کے ہاتھ کو روک دے اور اگر وہابیوں کا اٹھے.تو ان کے ہاتھ کو روک دے اور خدا ہر ایک کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ اس قسم کے معاملات میں سوچ سمجھ کر کام کرے اور ہر ایک پہلو کو خیال میں رکھ کر فیصلہ دے.ا بخاری و مسلم برادیت مشکوة کتاب الاداب باب الشفقته على الخلق ۲ بخاری کتاب الایمان باب حسب الرسول من الایمان ۳ بخاری کتاب المغازی باب غزوة تبوک و نزول النبي الحجر (الفضل ۵ دسمبر ۱۹۲۵ء)

Page 377

372 42 نماز با جماعت اور مساجد کا احترام (فرموده ۴ و سمبر ۱۹۲۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں اس بات پر خوشی کا اظہار کرتا ہوں کہ میں نے جماعت کے دوستوں کو جو یہ نصیحت کی تھی کہ نماز باجماعت کی طرف زیادہ توجہ کریں.سو اس کے مطابق انہوں نے عمل کرنا شروع کر دیا ہے اور اس نصیحت کے بعد لوگوں میں چستی نظر آتی ہے.وہ با قاعدہ جماعت کے ساتھ نمازیں پڑھنے کے لئے آتے ہیں.پس میں اس بات پر خوشی کا اظہار کرتا ہوں کہ میری نصیحت پر عمل کرنا شروع کر دیا گیا ہے.مگر اس کے ساتھ افسوس بھی ہے کیونکہ جہاں کثیر حصہ جماعت نے اس نصیحت کے مطابق یا جماعت نمازیں پڑھنی شروع کر دی ہیں.وہاں بعض ایسے بھی ہیں جن پر نصیحت کا یا تو اثر نہیں ہوا یا اگر ہوا ہے تو بہت کم.چنانچہ ایسے لوگ ابھی ہیں جنہوں نے اس طرف توجہ نہیں کی اور انہوں نے جماعت کے ساتھ نمازیں پڑھنے کے لئے مسجدوں میں آنا شروع نہیں کیا.وہ سمجھتے ہیں کہ نماز پڑھنے کا ہی حکم ہے.سو نماز تو ہم پڑھتے ہیں مسجد میں اگر نہ پڑھی تو گھر میں پڑھ لی.آخر پڑھ تو لیتے ہیں اور جب نماز پڑھ لیتے ہیں تو فرض ادا ہو گیا مگر یہ بات درست نہیں کیونکہ اسلام میں نماز پڑھنے کا حکم نہیں بلکہ اقامت نماز کا حکم ہے.یعنی با جماعت نماز پڑھنے کا ہے اور اکیلے پڑھنے کی رعائیت صرف اس لئے ہے کہ اگر کوئی شخص بعض مجبوریوں کی وجہ سے کسی وقت جماعت میں نہیں شامل ہو سکتا تو اکیلا ہی پڑھ لے تا اس کی نماز رہ نہ جائے.پس اصل حکم نماز باجماعت کا ہے مگر باوجود اس کے بعض لوگ ہیں جو اس کی طرف توجہ نہیں کرتے.قرآن کریم میں دیکھ لو.اقیموا الصلوۃ اقیموا الصلوۃ ہی آتا ہے اور صلوا نہیں آتا اور اگر آتا ہے تو بہت کم اور وہ بھی حکم کے طور پر نہیں.حکم کے طور تو اقیموا الصلوة اور يقيموا الصلوۃ ہی آتا

Page 378

373 ہے پس میں نہیں سمجھ سکتا کہ کیونکر لوگ اس بات کو پسند کر لیتے ہیں کہ بغیر جماعت کے نماز پڑھیں کیونکہ حکم یہی ہے کہ نماز قائم کرو اور جب محکم یہی ہے کہ نماز باجماعت ادا کرو تو جب تک انسان باجماعت نماز ادا نہ کرے.وہ اس فرض کی ادائیگی سے سبکدوش نہیں ہو سکتا..ހ پھر بعض لوگ خیال کر لیتے ہیں کہ اگر ہم دو یا تین یا چار نمازیں باجماعت ادا کر لیتے ہیں تو ہم نے فرض ادا کر دیا.ایسے لوگ سمجھتے ہیں فرض ادا ہو گیا لیکن در حقیقت یہ فرض ادا نہیں ہوتا.یہ تو ستی ہے اور میرا بھی یہی شکوہ تھا کہ وہ نمازوں میں آنے میں سستی کرتے ہیں اور اسی کو مد نظر رکھ کر میں نے نصیحت بھی کی تھی لیکن افسوس کہ ابھی ایسے آدمی ہیں جو اسے ترک نہیں کرتے.پس ایسے لوگوں کا یہ خیال بھی غلط خیال ہے کہ تین یا چار نمازیں باجماعت پڑھ لینے سے فرض ادا ہو گیا.نمازیں پانچ مقرر کی گئی ہیں اور اقامت کا حکم بھی پانچوں ہی کے لئے ہے اور پانچوں ہی کو باجماعت پڑھنا چاہئے اور ہر شخص پر پانچوں ہی کو باجماعت پڑھنے کا فرض یکساں طور پر عائد ہوتا ہے.سوائے اس شخص کے جو مجبور ہو یا بیمار ہو.یا کسی اور سبب سے نہ آسکتا ہو.مثلا " تیمار دار ہے.یا ڈاکٹر ہے کہ وہ مریض کے دیکھنے کے لئے جا رہا ہے.جس کی حالت خطرناک ہے اگر وہ رکے تو مریض کی جان کا خطرہ ہے یا کوئی حادثہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے کوئی شخص مسجد میں نہیں آسکتا کیونکہ حادثوں کی وجہ سے بھی بعض ایسی مجبوریاں پیش آجاتی ہیں کہ ایک شخص نماز با جماعت نہیں پڑھ سکتا یا پھر کوئی اور ایسی مجبوری پیش آگئی ہو جس کے سبب وہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے سے قاصر ہے تو وہ اکیلا بھی پڑھ سکتا ہے.لیکن اس قسم کی مجبوریوں کے سوا اگر ایک وقت میں بھی کوئی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے نہیں آتا تو وہ غلطی کرتا ہے.ایسا شخص جو مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے نہیں آتا اور بلا وجہ گھر ہی میں پڑھتا ہے وہ اپنی محنت ضائع کرتا ہے.کیونکہ گھر میں نماز ہوتی ہی نہیں اور گھر میں اگر کوئی شخص ایک گھنٹہ بھی نماز پر خرچ کر دے تو بھی وہ اس نماز کے برابر نہیں ہو سکتی.جس پر مسجد میں پندرہ منٹ ہی صرف کرے.کیونکہ گھر کی نماز جس پر اس نے ایک گھنٹہ خرچ کیا.حقیقی نماز نہیں ہوگی.اور مسجد کی نماز کہ جس پر اس نے صرف پندرہ منٹ لگائے حقیقی نماز ہوگی.پس جب گھر میں گھنٹہ خرچ کرنے پر بھی نماز حقیقی نماز نہیں ہو سکتی تو جو لوگ گھروں پر ہی نماز پڑھتے ہیں.انہیں اس پر خوش اور مطمئن نہیں ، ہونا چاہئے کہ نماز پڑھ لی.ان کی نماز تب حقیقی نماز ہوگی جب وہ مسجد میں پڑھیں گے ورنہ بغیر اس کے ان کی نماز حقیقی نہیں ہے.

Page 379

374 ایسے لوگ جو ساری نمازیں مسجدوں میں نہیں پڑھتے.اکثر کہہ دیا کرتے ہیں کہ اگر ساری نہیں تو قریباً ساری نمازیں ہم مسجد میں پڑھتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک دو نمازیں مسجد میں نہیں پڑھتے تو کیا ہوا.مگر یہ قریبا" کا لفظ کوئی عذر نہیں.کیونکہ ضرورت تو ہے پانچوں نمازوں کے مسجد میں پڑھنے کی.کیا ایسے لوگ اپنے دوسرے کاموں میں بھی قریباً کے لفظ سے اطمینان حاصل کر سکتے ہیں.کوئی شخص اس بات پر مطمئن ہو کر نہیں سو سکتا کہ قریبا تمام دروازے مکان کے بند ہیں.مثلاً اگر ایک امیر آدمی جس کے پاس کثرت سے مال و دولت ہو اور جسے حفاظت کی ضرورت ہے.نوکر سے پوچھے کہ تمام دروازے بند ہو گئے اور نوکر کے جی قریباً تمام بند ہو گئے تو جانتے ہو وہ اس سے کیا سلوک کرے گا.وہ ہرگز اس جواب سے مطمئن نہیں ہوگا اور جب تک سب دروازوں کو بند نہ کرا لے گا تب تک وہ اپنے آپ کو امن میں نہیں سمجھے گا.پس ایسے موقعوں پر جس طرح تمام دروازوں کے بند کرنے کی ضرورت ہو قریباً کا لفظ نہیں سنا جاتا.اس کے لئے ایک قطعی جواب کی ضرورت ہوتی ہے کہ ہاں سب بند ہو گئے.اسی طرح نماز کے لئے قریباً کہہ دینا کافی نہیں.کیونکہ قریباً کے لفظ میں شک کی گنجائش ہے اور حفاظت کے لئے شک مضر ہوتا ہے.ایسے موقعوں پر تو یقین اور وثوق چاہئے.پس جس طرح وہ امیر آدمی جسے حفاظت کی از حد ضرورت ہے جب تک تمام دروازے بند نہ ہوں مطمئن نہیں ہوتا.اسی طرح وہ جماعت بھی کامیاب نہیں ہو سکتی جس کے سب کے سب افراد ایسے نہ ہوں جو احکام دین پر پورا عمل کریں.پس ہمیں خوش نہیں ہونا چاہئے کہ قریبا تمام نمازیں باجماعت پڑھتے ہیں بلکہ ہمیں پوری پانچوں نمازیں باجماعت پڑھنی چاہئیں اور ایسا ہی بلحاظ افراد کے بھی ہمیں یہ کہہ کر خوش نہیں ہونا چاہئے کہ ہم میں سے زیادہ لوگ نماز پڑھتے ہیں یا زیادہ لوگ نماز باجماعت ادا کرتے ہیں کیونکہ یہ زیادتی بھی کسی کام نہیں آ سکتی جب تک کلیت نہ ہو.پس کلیت پیدا کرنے کی کوشش کرو اور تمام کے تمام نمازیں پڑھو اور باجماعت نمازیں پڑھو.اس کے بعد میں ایک اور نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جس طرح باجماعت نماز پڑھنا شریعت کا حکم ہے اور باجماعت نماز پڑھنا نہایت ضروری ہے.اسی طرح مساجد کا احترام اور ادب بھی نہایت ہی اہم اور ضروری ہے.مساجد اس لئے ہیں کہ ان کے اندر خدا کا ذکر کیا جائے اور اس کا نام لیا جائے.ان میں ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دینا ان کے احترام اور ادب کے منافی ہے.پس مسجدوں میں آکر ان کا ادب و احترام کرنا چاہئے اور ان کا ادب و احترام یہی ہے کہ ماسوا ان امور کے

Page 380

375 جو ادب و احترام کے منافی نہیں ان میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے.مساجد چونکہ مسلمانوں کے جمع ہونے کی جگہ ہیں.اس لئے سوائے نماز اور ذکر الہی کے وہ بعض ایسے کاموں کے لئے بھی استعمال ہو سکتی ہیں جن کا اثر قومی رنگ میں ہوتا ہو.مثلاً وہاں قومی معاملات سرانجام دیئے جا سکتے ہیں.تعلیم و تعلیم جاری کی جا سکتی ہے.علم پڑھایا جا سکتا ہے.درس دیئے جا سکتے ہیں.اور اور کام ہو سکتے ہیں جو قومی کام ہوں اور جن کا اثر قوم پر پڑتا ہو.لیکن افراد کی باتیں گھروں میں بہ نسبت مساجد کے زیادہ طے ہونی چاہیں اور ان کے لئے مسجد کو استعمال نہیں کرنا چاہیے.یہی وجہ ہے کہ مسجد نبوی میں جنگی امور کے متعلق بحثیں کرتے ہوئے تو نظر آتے ہیں.تعلیم دیتے ہوئے تو نظر آتے ہیں اور درس دیتے ہوئے تو نظر آتے ہیں لیکن دنیاوی امور یا ذاتی معاملات یا خانگی باتیں کرتا ہوا کوئی نظر نہیں آتا اور اگر کوئی شخص اس میں کھڑے ہو کر یہ کہہ دیتا کہ میری فلاں چیز گم گئی ہے.اگر کسی کو ملی ہو تو مجھے دیدے.تو کہا جاتا ہے کہ خدا تمھاری اس چیز میں برکت نہ ڈالے.مسجد گی ہوئی چیزوں کے لئے نہیں.پس مسجد اگر ہے تو نماز کے لئے ہے یا ذکر الہی کے لئے ہے اور پھر یا قومی معاملات اور تعلیم وغیرہ کے واسطے ہے.ان میں جنگی معاملات کے متعلق تو مشورہ ہو سکتا ہے.ان میں قضاء کے امور تو طے پا سکتے ہیں ان میں تعلیم تو دہی جا سکتی ہے.ان میں درس تو دیئے جاسکتے ہیں.اس لئے کہ یہ وہ باتیں ہیں.جن کا قومی معاملات پر اثر پڑتا ہے لیکن ان کے سوا کوئی اور کام ان میں نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اور کام مساجد میں کرنا درست ہے اور خاص کر کوئی ایسا کام تو مساجد میں کرنا ہرگز درست نہیں.جس کا اثر قومی نہیں بلکہ انفرادی ہے.مسجد ونکہ مسلمانوں کے اجتماع کی جگہ ہے.اس لئے اس میں اس قسم کے امور جائز قرار دیئے گئے ہیں اور قضاء اور جنگی معاملات اور تعلیم و تعلم اور درس و تدریس کی اجازت دی گئی ہے مگر ذاتیات کی باتوں اور غیر قومی امور کو درست نہیں رکھا گیا.الا ماشاء اللہ پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ مساجد میں بیٹھ کر ذکر الہی کیا کریں.تعلیم دیں.درس جاری کریں.اور دوسرے قومی معاملات طے کریں.بیشک یہاں کے محکموں والے مسجدوں میں بیٹھ کر ایک دوسرے سے مشورہ لے سکتے ہیں اور فیصلے کر سکتے ہیں.کیونکہ ان کے کام ذاتی نہیں.قومی ہیں اور ان کا اثر صرف افراد پر نہیں پڑتا.بلکہ قوم پر بھی پڑتا ہے.پس مساجد میں قومی کام تو کئے جاسکتے ہیں لیکن ادھر ادھر کی باتیں نہیں کی جا سکتیں اور گئیں نہیں ہانکی جا سکتیں.میں اپنی جماعت کے چو

Page 381

376 دوستوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ خود بھی ایسا نہ کریں بلکہ مسجدوں میں آکر ذکر الہی کریں.قومی کام کریں.تعلیم دیں.وعظ و نصیحت کریں.درس دیں اور اگر کسی دوسرے کو دیکھیں کہ وہ کوئی ایسا کام کر رہا ہے.جس سے مسجد کے ادب و احترام میں فرق آتا ہے.تو اگر وہ ان کا دوست اور واقف ہے تو اسے سمجھا دیں اور اگر واقف نہیں تو کسی کے مخاطب کئے بغیر بلند آواز سے کہہ دیں.مساجد نماز یا ذکر الہی کے لئے ہیں یا تعلیم اور قومی کاموں کے لئے ہیں.ادھر ادھر کی باتوں کے لئے نہیں.میں نے دیکھا ہے چونکہ مجھے مسجد میں بیٹھنا پڑتا ہے اور بعض امور کو سرانجام دینا پڑتا ہے.اس لئے میں نے دیکھا ہے ادھر تو میں کام میں لگا ہوتا ہوں اور ادھر بعض لوگ اپنی باتوں میں مصروف ہوتے ہیں.بیشک کچھ بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو میری وجہ سے چپ رہتے ہیں.مگر بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ میں مسجد میں بیٹھا ہوا بعض ضروری کام کر رہا ہوتا ہوں.وہ اپنی باتیں کرتے رہتے ہیں.حتی کہ بیعت بھی اگر ہو رہی ہوتی ہے تو بھی وہ خاموش نہیں ہوتے.ادھر بیعت ہو رہی ہوتی ہے اور ادھر وہ گپیں مار رہے ہوتے ہیں اور ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہتے ہیں.حالانکہ بیعت ایک ایسا اہم معالمہ ہے کہ اگر اس کی حقیقت اور اس کی عظمت پر خود کریں تو باتیں کرنا تو در کنار دم تک لینا چھوڑ دیں.بیعت ایک ایسا مسئلہ ہے جو بہت ہی اہم ہے.جب ایک شخص بیعت کر رہا ہو تو فطرت صیحیحہ کہتی ہے کہ پوری توجہ کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہونا چاہئے.بیعت کیا ہے؟ بیعت اقرار ہے جو ایک شخص خدا سے باندھتا ہے.بیشک بیعت کرنے والا بظاہر ایک انسان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتا ہے لیکن در حقیقت اس کا ہاتھ خدا کے ہاتھ میں ہوتا ہے.خدا دنیا میں نہیں آتا.اس کے ہاتھ کا یہی مطلب ہے کہ وہ کسی کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دے دیتا ہے.پس کسی ایسے شخص کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اقرار کرنا جسے خدا تعالیٰ مقرر کرے.بیعت کہلاتا ہے اور جب ایک شخص بیعت کے لئے ہاتھ پر ہاتھ رکھتا ہے تو اقرار کرتا ہے کہ میں اپنے آپ کو ، اپنی جان کو اپنے مال کو اپنے اوقات کو ، اپنی طاقت کو اپنے عزیز و اقارب کو اپنے دوستوں کو ، اپنی جائداد کو ، اپنے ملک کو غرض اپنی ہر چیز کو خدا تعالی کے لئے قربان کرتا ہوں.دیکھو کتنا ہیبت ناک اقرار ہے کہ ایک شخص اپنا سب کچھ خدا کے لئے قربان کرتا ہے.پاس بیٹھے ہوئے تو الگ رہے اگر گلی میں سے گزرتا ہوا کوئی شخص بھی سن پائے کہ ایک شخص اپنا سب کچھ خدا پر قربان کر رہا ہے.تو اس کے رونگٹے گھڑے ہو جانے چاہیں مگر

Page 382

377 کئی پاس بیٹھنے والے ادھر توجہ کرنا تو درکنار اپنی باتوں کو بھی نہیں چھوڑتے.جب کوئی شخص بیعت کے لئے آتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ سب کچھ قربان کرنے کے لئے آتا ہے اور جب کوئی دیکھتا ہے کہ یہ شخص خدا کے آستانہ پر اپنی ہر چیز قربان کرنے کے لئے آیا ہے.تو اس وقت ہر وہ شخص جس کے اندر خشیت اللہ ہوتی ہے.اس بات کو دیکھ کر کانپ جاتا ہے.مگر مجھے تعجب ہے کہ موجود ہوئے رالے شخصوں میں سے بعض ایسے ہیں کہ اس کا خیال ہی نہیں کرتے اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے دل میں بیعت کا احترام نہیں اور جب بیعت ہوتے وقت اس کا احترام نہیں کرتے تو دوسرے مواقع پر ان سے کب امید ہو سکتی کہ وہ بیعت کو پورا کریں گے اور مسجد کے احترام کا خیال رکھیں گے.میں اگر مسجد میں بیٹھتا ہوں تو جائز اور ضروری قومی کاموں کو سرانجام دینے کے لئے بیٹھتا ہوں.اس موقع کو ادھر ادھر کی باتیں کرنے کا موقع نہیں بنا لینا چاہئے.انسان اگر غور سے دیکھے کہ وہ پیدا کیوں کیا گیا تو اس کو اپنی کمزوریوں اور نقصوں کا پتہ چلے.انسان کی پیدائش کی غرض یہی ہے.جو و ما خلقت الجن والانس الا لیعبدون (الذاریت ۵۷) میں بیان ہوئی ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ از ان معبود حقیقی کا پورا پورا عبد ہے اور پھر سورۂ فاتحہ میں بھی خدا تعالٰی فرماتا ہے.اھدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم جس میں یہ سکھایا گیا ہے کہ ہم یہ دعا مانگتے ہیں کہ اے خدا ہمیں سیدھا راستہ دکھا.وہ راستہ جو تو نے ہم سے پہلے منعم علیہ گروہ کو کھایا.جو تیرے پیارے مقرب کہلاتے ہیں.وہ راستہ جو منعم علیہ گروہ کو دکھایا گیا تھا.وہ راستہ میں تھا کہ ان کے دل خدا کی صفات کے جلوہ گاہ بن گئے تھے.ان کے قلوب انوار الہی کے جاذب ہو گئے تھے.ان کے کان خدائی آوازوں کو سنتے تھے.ان کی آنکھیں خدا تعالیٰ کے جلال کو دیکھتی تھیں.پس یہ چیز ہے جس کے لئے انسان پیدا ہوا.جس کے لئے انبیاء آئے.جس کے لئے خدا تعالیٰ نے طرح طرح سے دنیا کی رہنمائی کی اور جب تک یہ عرض حاصل نہیں ہوتی.تب تک انسان اپنی پیدائش کی غرض کو نہیں پا سکتا.ایسا انسان اپنی جان و مال کو خطرہ میں ڈالتا ہے لیکن باوجور اس کے اسے یہ مقصد نہیں ملتا.وہ اپنا سب کچھ اس لئے قربان کرتا ہے کہ اس مقصد کو پالے لیکن سب کچھ قربان کرنے کے باوجود صرف بعض باتوں میں سستی کرنے سے اس مقصد کو گنوا لیتا ہے اور ایسے لوگ باوجود قربانیوں کے کچھ حاصل نہیں کرتے.پس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی پیدائش کے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہر ایک پہلو سے احتیاط کرے اور اس کے لئے نماز کے سوا ذکر الہی ایک عمدہ ذریعہ ہے.پس جماعت کو چاہئے کہ ذکر الہی میں بھی اپنے اوقات خرچ کرے تا 25

Page 383

378 اس کا قلب خدا کی صفات کا جلوہ گاہ بن جائے اور اس کے انوار کا اس پر نزول ہونا شروع ہو جائے تو اس کا یہ مقصد پورا ہو جاتا ہے جس کے لئے اسے دنیا میں بھیجا گیا.پس میں پھر جماعت سے کہتا ہوں کہ وہ نماز کے سوا ذکر الہی بھی کرے.اگر چہ ذکر الہی کرنے کے لئے کوئی خاص وقت مقرر نہیں جس وقت بھی انسان چاہے ذکر الہی کر سکتا ہے لیکن اس کے لئے بہترین وقت مسجد میں آکر امام کی انتظار کرنے کا جو وقت ہے وہ ہے کیونکہ ایک تو اس سے مسجد میں آکر ادھر ادھر کی باتوں سے انسان بچا رہتا ہے.دوسرے یہ وقت فرصت کا ہوتا ہے خواہ کوئی زمین دار ہو یا تاجر ملازم ہو یا پیشہ ور.وہ سمجھتا ہے یہ فارغ وقت ہے اور وہ جانتا ہے کہ جب تک نماز نہیں ہو لیتی میں مسجد سے نہیں جا سکتا.پس وہ اس خالی وقت میں اچھی طرح ذکر الہی کر سکتا ہے اور اگر اس کو ضائع نہ کرے اور اس میں ذکر الہی کرنے کی عادت ڈالے تو قلب میں بہت بڑی اصلاح ہو جاتی ہے اور پھر انوار الہی کا نزول ہونا شروع ہو جاتا ہے.پس امام کی انتظار میں جو وقت مسجد میں گزرتا ہے اس کو رائیگاں نہیں گنوانا چاہئے بلکہ اس میں ذکر الہی کرنا چاہئے کیونکہ ذکر الہی ایک ایسی چیز ہے.جس سے مومن کا آئینہ دل صاف ہو جاتا ہے جس میں وہ خدا کی شکل کو دیکھتا ہے اور انوار الہی کا سبط بن جاتا ہے.ہمارے ایک دوست ہیں ان کا نام میں نہیں لیتا.وہ ابھی احمدی نہیں ہوئے تھے کہ انہوں نے خط میں لکھا.احمدیت کے متعلق فلاں فلاں بات میری سمجھ میں نہیں آتی.اس کے بعد میں نے رؤیا میں دیکھا ایک تخت بچھا ہوا ہے جس پر میں نے ان کو بیٹھے ہوئے دیکھا پھر دیکھا کہ آسمان سے ایک نور ان کے قلب پر گر رہا ہے اور وہ ذکر الہی کر رہے ہیں.یہ اس وقت کا خواب ہے جب کہ وہ ابھی احمدی نہیں ہوئے تھے اور سلسلہ کے کاموں میں ان کو حصہ لینے کا موقع نہیں ملا تھا.اس کے بعد خدا نے انہیں سلسلہ میں داخل ہونے کی توفیق بخشی اور ان کو سلسلہ کے کاموں میں حصہ لینے کے بہت سے موقعے ملے تو ذکر الہی انوار الہی کو جذب کرنے والا بن جاتا ہے.اس لئے جماعت کو چاہئے کہ اس میں مصروف ہو اور مسجد میں آکر امام کی انتظار میں جو وقت گزرتا ہے.اسے خالی نہ جانے دیا جائے بلکہ اس میں ذکر الہی کریں.اگر گھر میں بھی موقع مل جائے تو نور علی نور ہے لیکن کم از کم مسجد میں تو ذکر الہی ضرور ہونا چاہئے.ذکروں میں سے بھی بعض ذکر ایسے ہیں جو زیادہ مفید ہیں اور جلدی ہی ایک شخص کے دل کو پاک اور انوارالٹی کا سبط اور نزول گاہ بنا دیتے ہیں اور ذکروں میں سے خصوصیت کے ساتھ تسبیح و

Page 384

379 تحمید ہے.اس سے انسان جلدی ترقی کرنی شروع کر دیتا ہے.دنیا میں ہر ایک شخص جو بات حاصل کرتا ہے.عام طور پر سامنے نمونہ رکھ کر حاصل کرتا ہے.اسی طرح جب کوئی اعمال کو درست اور صحیح بنانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ بھی کسی نمونہ کو سامنہ رکھتا ہے اور یہ دیکھ کر کہ فلاں شخص کے اعمال اچھے ہیں اور اعمال کے اچھا ہونے سے اسے یہ فوائد حاصل ہو رہے ہیں.وہ بھی کوشش کرتا ہے کہ اپنے اعمال بھی اس شخص جیسے بنائے.پھر اس کے ساتھ ساتھ ایک اور فرض بھی ہے جو انسان کے زمہ ہے اور وہ اس غرض کا حاصل کرنا ہے.جس کے لئے کہ وہ دنیا میں بھیجا گیا مگر یہ غرض حاصل نہیں ہو سکتی.جب تک انسان ویسے عمل نہ کرے جو اس غرض کے حاصل کرنے والے ہیں اور چونکہ انسان اکثر نمونہ کو دیکھ کر کچھ حاصل کرتا ہے.اس لئے اس غرض کے حاصل کرنے کے لئے بھی وہ بعض ایسے لوگوں کے اعمال سامنے رکھ لیتا ہے.جنہوں نے اس غرض کو حاصل کر لیا.پھر جب وہ ان پر عمل پیرا ہو تو اس غرض کو حاصل کر لیتا ہے جس کے لئے وہ دنیا میں بھیجا گیا.پس ہماری جماعت کو بھی اس غرض کے حصول کے لئے منعم علیہ لوگوں کے اعمال کو نمونہ بنانا چاہئے تاکہ ان کا دل بھی ایسا ہو جائے کہ خدا کی صفات اس پر جلوہ گر ہوں اور اپنی پیدائش کی غرض کو پالیں.تسبیح و تحمید انسان کے دل کو ایسا بنا دیتی ہے اور وہ غرض جو کہ انسان کے دنیا میں آنے کی ہے اس کے ذریعہ پوری ہو جاتی ہے.کیونکہ جب ایک شخص خدا کی تسبیح و تحمید کرتا ہے تو دونوں باتیں، اس کے سامنے آجاتی ہیں.جب ہم کہتے ہیں.خدا پاک ہے تو ہمیں بھی پاک بننے کا خیال آتا ہے کیونکہ اس کے بغیر ہم اس کو پا نہیں سکتے اور چونکہ وہ پاک ہے اور اس کو پانے کے لئے پاک ہونا ضروری ہے.اس لئے ہم اگر اس کو پانا چاہیں تو ہمیں پاک ہونا چاہئے اس لئے جب ہم خدا کو پاک کہتے ہیں تو ہمیں بھی پاک ہونے کا خیال پیدا ہوتا ہے.اسی طرح جب ہم تسبیح و تحمید کریں گے.تو بہترین نمونہ صفات اللہ کا ہمارے سامنے آجائے گا اور خدا تعالیٰ کی صفات کے نمونہ کو دیکھ کر ہمیں خیال پیدا ہو گا کہ ہم میں بھی یہ صفات پیدا ہوں.نیز پھر اس سے یہ خیال پیدا ہو گا کہ ہمیں اپنے عیوب دور کرنے چاہئیں اور بجائے ان کے اپنے اندر خوبیاں پیدا کرنی چاہئیں.ان دونوں صورتوں میں تسبیح و تحمید مفید ہوگی.دوسرا خاص ذکر الہی استغفار ہے.اس میں بظاہر ایک شخص اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے.رحقیقت اس میں بھی خدا کی صفات ہی کا ذکر رہتا ہے.کبھی نہیں دیکھو گے کہ ایک شخص وکیل سے جا کر کے کہ مجھے فلاں مرض ہے اس کے لئے نسخہ لکھ دیجئے.اسی طرح کبھی نہیں دیکھو ور

Page 385

380 گے کہ ایک شخص ڈاکٹر کے پاس جائے اور اپنا مقدمہ بیان کرکے اس سے کہے کہ اس کے متعلق مشورہ دیجئے.کیوں؟ اس لئے کہ انسان کا خاصہ یہ کہ وہ اس کے پاس جاتا ہے جس سے اسے امید ہو کہ میرا فلاں کام کر سکتا ہے.ایک وکیل چونکہ نئی نہیں لکھ سکتا.اس لئے وہ اس کے پاس اس غرض کے لئے نہیں جاتا بلکہ ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ڈاکٹر نسخہ لکھ سکتا ہے.پس ینب ہم کہتے ہیں کہ اے خدا ہمیں معاف فرما.تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ رہ منور ہے.رحیم ہے.حلیم ہے.اور معاف کرتا ہے.پس استغفار بھی ذکر الہی ہے اور ایسا ذکر الہی ہے کہ اسے کثرت سے کرنا چاہئے کیونکہ انسان بغیر خدا کی مدد و نصرت کے کچھ کر نہیں کر سکتا اور نہ ہی بغیر اس کے اسے کچھ مل سکتا ہے.پھر استغفار میں اپنی غلطیوں کی معافی بھی ہوتی ہے اور خدا کی 20 و نصرت بھی ملتی ہے.پس استغفار میں یہ دونوں باتیں ہیں کہ انسان اپنی غلطیوں کا اقرار بھی کرتا ہے.جس سے اسے معافی ملتی اور مدد و نصرت حاصل ہوتی ہے اور صفات الہی کو بھی سامنے لاتا ہے.اس کے علاوہ درود ہے.درود سے بھی انسان روحانی فوائد پاتا ہے.اور روحانی ترقی کرتا ہے.ہماری جماعت کو چاہئے کہ خصوصیت کے ساتھ درود کی کثرت، کو اپنے لئے لازم کرے اور مسجد میں آ کر تو بالضرور آنحضرت ان پر درود پڑھے.درود در اصل اس احسان کا قرار ہے جو آنحضرت ا نے ہم پر کیا اور احسان کا اقرار انسان کے لئے از حد ضروری ہے.کبھی کسی شخص کے اعمال میں پاکیزگی نہیں پیدا ہو سکتی جب تک وہ اپنے احسان کرنے والے کا احسان مند نہیں ہوتا.کیونکہ تمام صفائی اعمال میں احسان مندی سے ہی پیدا ہوتی ہے.اس لئے ہمارے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم کثرت سے درود پڑھیں تاکہ ہم آنحضرت کے احسانوں کے لئے آپ کے احسان مند ہوں اور پھر ہمارے اعمال میں بھی پاکیزگی اور صفائی پیدا ہو.جو شخص کسی کے احسانوں کے لئے اپنے محسن کا احسان مند نہیں ہوتا.وہ فتنہ و فساد کا بیج ہوتا ہے کیونکہ نا احسان مندی اور نا شکر گزاری ہمیشہ فساد و جھگڑے پیدا کرتی ہے.غور کر کے دیکھ لو جتنی لڑائیاں اور جھگڑے پیدا ہوتے ہیں.وہ نا احسان مندی سے ہی ہوتے ہیں.پس ہمیں احسان فراموش نہیں بننا چاہئے.آنحضرت ﷺ کے بے شمار احسان ہم پر ہیں.ہمیں ان کو یاد رکھنا چاہئے اور ان کا اقرار کرتے رہنا چاہیئے.آنحضرت جب مدینہ تشریف لے گئے.تو مدینہ کے بعض لوگوں نے اس سے برا ال

Page 386

381 منایا.حالانکہ آپ کے بہت سے انسان ان پر تھے مگر ان لوگوں نے ناشکری کی اور طعن وغیرہ کرنے شروع کر دیئے.اگر چہ بعض ان میں دبی زبان سے کرتے تھے.مگر ایسے لوگوں نے آپ کے احسانوں کی ناشکری ضرور کی.جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ ناشکری کا بیج بڑھتا بڑھتا ان کو منافق بنا گیا.اگر مدینہ کے تمام لوگ آپ کی قدر کرتے تو یہ منافق بھی نہ پیدا ہوتے.مگر ان لوگوں نے بجائے اس کے کہ آنحضرت ا کی شکر گزاری کرتے اور جان و مال کو قربان کر دیتے.الٹا طعن کرنے شروع کر دے.طعن کی زبان ناشکری سے ہی کھلتی ہے.از ان طبعی طور پر جن کا شکر گزار ہوتا ہے ان کو کبھی طعن نہیں کرتا.وہ مرد جو بیوی کا شکر گزار ہو.کبھی نہیں دیکھو گے کہ وہ طعن کرتا ہو یا بیوی کی شکایت کرتا ہو.اسی طرح وہ بیوی جو خاوند کی احسان مند ہو.کبھی اسے طعن نہیں کرتی اور کبھی کسی سے اس کا گلہ نہیں کرتی.ایسا ہی ایک بیٹا اگر باپ کا احسان مند ہے اور اس کے احسانوں کی قدر کرتا ہے اور ان کے لئے اس کا شکر گزار ہے تو وہ کبھی کسی کے پاس اپنے باپ کا شکوہ نہیں کرے گا.یہی حال روحانی امور کا ہے کہ اگر شکر گزاری ہو.تو کوئی شخص زبان طعن نہیں کھولتا.آنحضرت کے احسانوں کی قدر اگر انہیں ہوتی.تو مدینہ کے بعض لوگوں میں ناشکری نہ پیدا ہوتی اور وہ منافق نہ بنتے.پس رسول اللہ کے احسانوں کو یاد کرتے ہوئے خدا سے کہنا چاہئے کہ ہم تو ان کا کچھ بدلہ نہیں دے سکتے.تو ہی ان کا عوض رسول کریم کو دے اور اس کا اجر آپ کو عطا فرما.یہی درود کا مطلب ہے.پس چاہئے کہ اس کی کثرت اختیار کی جائے اور اس کے ذریعہ اپنی احسان مندی کو بہترین صورت میں ظاہر کیا جائے.میں نے بتایا ہے کہ درود رسول کریم ﷺ کے احسانوں کہ باز کرنا اور اپنی احسان مندی جتانا اور خدا سے اس کا عوض دینے کی درخواست کرتا ہے.آنحضرت ﷺ کے بعد ہم پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بھی بے شمار احسانات ہیں.اس لئے درود میں ان کو بھی شامل کرنا چاہئے ایک یہی کیا کم احسان حضرت مسیح موعود کا ہم پر ہے کہ آپ کے ذریعہ آنحضرت ﷺ کا پتہ ہم کو ملا آج لوگوں نے بھوٹی اور بناؤٹی اور ہتک آمیز روایتوں سے آنحضرت کچھ بنا دیا تھا.نہ صرف یہ بلکہ مختلف قسم کی باتوں سے آپ کی اصل شان کو ہی، گھٹا دیا تھا اور بعض ایسی غلط اور بے ہودہ باتیں آپ کی طرف منسوب کر رکھی تھیں.جو ہرگز آپ کے شایان شان نہ تھیں.غرض لوگوں کی غلط روایتوں نے آپ کو پس پردہ چھپا دیا تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ ال کو کچھ کا

Page 387

382 الصلوۃ والسلام نے آکر ان سب پردوں کو اٹھا دیا.اور اس مبارک اور خوبصورت چہرہ پر سے تمام پردے اٹھا کر ہمیں دکھا دیا.پس یہ کیا کم احسان ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کہ آپ نے آکر آنحضرت ا کی اصل شان کو ظاہر فرما دیا.اور ان سب باتوں سے آپ کو پاک کر دیا جو آپ کی طرف منسوب کی جاتی تھیں.پس درود میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی شامل کرنا چاہئے اور بھی احسان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہیں اور بیشمار احسان ہیں.پس ہمارا یہ بھی فرض ہونا چاہئے کہ ہم ان کو بھی درود میں شامل کریں.ہم مختلف اوقات میں آنحضرت ﷺ پر درود پڑھیں اور اس درود میں آپ کے خلیفہ مسیح اور مہدی کو بھی شامل کریں اور ان پر بھی درود پڑھیں.تا ان کے احسانوں کا بھی اقرار ہو اور شکریہ ادا ہو سکے.پھر یہی نہیں کہ درود میں صرف احسان کا اقرار یا شکریہ ہی ہے بلکہ اس میں ہمارا بھی فائدہ ہے اور اس فائدہ کو اگر الگ بھی کر دیا جائے.جو اقرار احسان سے حاصل ہوتا ہے تو بھی درود ہمارے فائدہ کی چیز ہے.کیا ہم درود میں یہ نہیں کہتے.اللهم صل علی محمد و على آل محمد؟ پھر کیا ہم خود آل میں شامل نہیں؟ یقیناً ہم بھی آل میں شامل ہیں اور اس صورت میں درود نہ صرف آنحضرت کے احسانوں کا اقرار ہے بلکہ اپنے لئے بھی ایک دعا ہے.پھر ہم درود میں اور دعاؤں میں رسول کریم ﷺ کے لئے یہ دعا تو نہیں کرتے کہ الہی تو الليل ان کو جائداد دے.باغ دے.زمین دے.مکان دے.دولت دے.یہ چیزیں تو آنحضرت نے اس دنیا میں جمع نہ کیں.پھر وہاں آپ کو ان کی کیا ضرورت ہے.جب دنیا میں جہاں سے ان چیزوں کا تعلق ہے آپ نے ان کی پرواہ نہیں کی.آپ نے مال نہیں جمع کیا.جائداد نہیں بنائی.باغ نہیں لگائے.محل نہیں تیار کئے.تو اگلے جہان میں آپ کو ان کی کیا احتیاج ہو سکتی ہے.پس ہم اگر آپ کے لئے دعا کرتے ہیں.تو یہی کہ آپ کے روحانی مدارج میں ترقی ہو.خدا آپ کو اور بھی ترقی دے اور یہ صاف بات ہے کہ جب آپ روحانیت میں ترقی کریں گے.تو امت بھی آپ کے ساتھ ترقی کرے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے.تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے پس جوں جوں آنحضرت ا آگے بڑھیں گے.توں توں ہم بھی بڑھیں گے.اس لئے درود نہ صرف آپ کے مدارج بڑھنے کے لئے ہے.بلکہ ہمارے لئے بھی ہے.پھر درود سے ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ جو شخص درود کثرت سے پڑھتا ہے.اس کی دعائیں

Page 388

383 کثرت سے قبول ہوتی ہیں.دنیا میں یہ طریق ہے کہ اگر کسی سے کچھ کام کرانا ہوتا ہے.تو اس کی پیاری چیز سے پیار کیا جاتا ہے.کسی عورت سے اگر کوئی کام کرانا ہو تو اس کے بچہ کو پیار کرو.اگر ایک باپ سے کوئی کام کروانا ہو تو اس کے بچے سے محبت کرو.پھر دیکھو وہ کیسا مہربان ہوتا ہے.فقیر بھی جب خیرات لینے کے لئے دروازہ پر جاتا ہے تو یہ صدا کرتا ہے.”مائی تیرے بچے جیئیں“.کیونکہ فقیر بھی جانتے ہیں کہ اس صدا کا ماں پر بہت اثر ہوتا ہے.جب ماں یہ آواز سنتی ہے.تو دوڑی آتی ہے اور فقیر کو خیرات دیتی ہے.دیکھو اس آواز کو سنتے ہی جو اس کے پیارے بچے کے لئے ایک دعا ہوتی ہے وہ کس طرح دوڑی آتی ہے.اسی طرح درود پڑھنے والے شخص کے متعلق جب خدا دیکھتا ہے کہ اس نے اس کے پیارے کے لئے دعا کی تو کہتا ہے تو نے میرے پیارے کے لئے دعا کی آ.میں تیری دعا بھی قبول کرتا ہوں.پس جو شخص کثرت سے درود پڑھتا ہے.وہ نہ صرف آنحضرت کے احسانوں کا اقرار کرتا ہے.بلکہ اپنی دعائیں بھی قبول کرواتا ہے.ہمیں چاہئے کہ کثرت سے آنحضرت ﷺ پر درود پڑھیں اور اس درود میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی شامل کریں.ہم مسجدوں میں جب آئیں.تب بھی درود پڑھیں اور گھروں میں جب جائیں تب بھی آنحضرت ﷺ پر درود پڑھیں.خدا تعالیٰ ہم سب کو اپنی کامل فرمانبرداری کی توفیق دے اور اپنا جلال ہمارے قلوب پر نازل فرمائے.اس کے قرب کے دروازے ہم پر کھولے جائیں اور ہم تسبیح و تحمید استغفار اور درود پڑھنے والے بہنیں اور اپنی زندگی کی غرض کو پالیں.خدا ہمارے کاموں میں برکت ڈالے اور ہمیں ایسا بنا دے کہ ہم اس کے نور کو اپنے اندر جذب کریں اور دن بدن اور نور اور نئی برکات کو جذب کریں الله آمین (الفضل ۱۱ دسمبر ۱۹۲۵ء)

Page 389

384 43 ھدنا الصراط المستقیم کی دعا (فرموده ۱۱ دسمبر ۱۹۲۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : میں آج اس مضمون کی طرف اپنی جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں.جو سورہ فاتحہ کے کا مضمون ہے.اہم مضامین میں سے ہے.اور وہ اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم.ہدایت ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے بغیر دنیا میں کوئی کامیاب نہیں ہو سکا.کیونکہ انسان کے سامنے ہر وقت جو سفر در پیش ہے.وہ ایک ایسے مقام کا ہے جس کی اسے اطلاع نہیں.پس ایک ایسے شخص کی مثال جو اپنے اس مقام کو نہیں جانتا جس کے لئے وہ سفر کر رہا ہے.بالکل اس شخص جیسی ہے.جسے یہ تو معلوم ہے کہ مجھے میدان جنگ میں بھیجا جا رہا ہے.لیکن یہ معلوم نہیں کہ کس جگہ کھڑا کیا جائے گا.وہ کسی سے پوچھ بھی نہیں سکتا کہ مجھے کس جگہ کھڑا کیا جائے گا.کیونکہ دوسرے بھی تو اسی طرح کے ہوتے ہیں اور انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ خود انہیں کہاں کھڑا کیا جائے گا اس لئے اگر وہ ان سے اس کے متعلق پوچھے بھی تو وہ کچھ نہیں بتا سکتے.ہاں وہی اس کو بتا سکتا ہے.جس کے سپرد کام کا مقرر کرتا ہے.یہی حال روحانی امور کا ہے.روحانی ترقیات کا مقام بالکل پوشیدہ ہوتا ہے.روحانی ترقیات کی عرض خدا تعالیٰ سے قرب اور اس سے وصال ہے اور چونکہ خدا کی ذات غیر محدود ہے اور اس کے غیر محدود ہونے کے سبب ہم ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ فلاں کا فلاں مقام ہے اور فلاں کا فلاں.حتی کہ مقامات کے لحاظ سے صوفیاء نے لکھا ہے کہ مرید کو پیر کے مقام کا پتہ نہیں ہوتا اور پیر کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ مرید کا کیا مقام ہے اور یہی نہیں بلکہ خود اس سے آگے بھی کچھ پتہ نہیں ہوتا.حتی کہ ایک پیر کو بھی پتہ نہیں ہوتا کہ آگے کون سا مقام آنے والا ہے.پس جب ایک پیر اپنے متعلق بھی نہیں

Page 390

385.جانتا کہ آگے کون سا مقام ہے اور جب ایک نبی بھی نہیں جانتا کہ اس کے بعد کون سا مقام آنے والا ہے.جب ایک رہنما بھی نہیں جانتا کہ اس کے بعد میں نے کس مقام پر جانا ہے.جب ایک مجدد بھی نہیں جانتا کہ اب دوسرا کون سا مقام ہے.تو وہ کسی دوسرے کو کس طرح کسی اگلے مقام کا پتہ بتا سکتے ہیں.صرف خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو ان مقامات کو جانتی ہے جو انسان کے آگے آنے والے ہوتے ہیں اور وہی ان کے لئے ہدایت بھی کر سکتا ہے.یہی وجہ ہے کہ باوجود انبیاء ہونے کے باوجود مجددین کے سلسلے اور صالحین کی جماعت کے موجود ہو نے کے ہر مومن اهلنا الصراط المستقیم کہتا ہے بلکہ ہر مجدد بلکہ ہر نبی بھی باوجود نبی ہونے کے کہتا ہے.اهدنا الصراط المستقیم - کیونکہ نبی بھی نہیں جانتا کہ میرے آگے کیا مقام ہے اور جب ایک نبی بھی اگلے مقام کو نہیں جانتا.تو دوسرے بالکل ہی اس کو نہیں جان سکتے اور یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں کے سوا صلحاء بلکہ مجددین بلکہ انبیاء کو بھی ہر قدم پر اھدنا الصراط المستقیم کہنا پڑتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ رہنمائی خدا کی طرف سے آتی ہے اور ایک شخص اس کی رہنمائی سے ہی ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچتا ہے.اس لئے ہر شخص کو خواہ وہ کتنے ہی بڑے مقام پر کیوں نہ ہو.یہی کہنا پڑتا ہے کہ اھدنا الصراط المستقیم - الہی تو ہی رہنمائی فرما اور جو مقام ہمارے آگے ہے.اس تک تو آپ ہی پہنچا.یہ تمام ایسی چیزیں کہ جن کے متعلق بڑے سے بڑے انسان کو بھی پتہ نہیں ہوتا کہ کیا ہے اور کیسی ہیں.مہم.غیر معین اور غیر محدود شہ کی طرح ہیں.اور آئندہ ترقی کی بھی کوئی حد نہیں.انسان نہیں جانتا کہ اس قسم کی روحانی ترقیات کی آخری حد کون ہی ہے.سوائے اس کے کہ جو مقامات اعلیٰ سے اعلیٰ ہیں ان میں سے سب سے بڑا مقام خدا تعالیٰ کے قرب کا ہے اور کوئی بات نہیں جس سے وہ اگلے مقام کا اندازہ لگا سکے.ایسے نازک موقع پر سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے آگے جھکا جائے اور اسی سے پوچھا جائے کہ اب آگے کہاں جائیں..حق تو یہ ہے کہ اگر انسان کے دوسرے کام نہ ہوتے اور دوسرے واجبات اور فرائض ادا کرنا اس کے ذمے نہ ہوتے.تو وہ ہر وقت یہی کہتا رہتا.اهدنا الصراط المستقیم کیونکہ انسان میں ہر لحظہ تغیر پیدا ہوتا ہے اور اسے نہیں معلوم کہ اب اس تغیر کے بعد کیا کرنا ہے.اس کام میں شریعت بھی مدد نہیں کر سکتی.شریعت کی مثال طب کی طرح ہے مگر طب کے موجود ہونے سے بیماری کا علاج تو نہیں آجاتا.دوائیاں خدا نے پیدا کی ہیں.لیکن پھر بھی ایک شخص ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا.پھر

Page 391

386 طب یہ بھی نہیں بتا سکتی کہ فلاں دوائی قطعی اور یقینی طور پر فلاں مرض کے لئے مفید ہے.کیونکہ یہ ہر روز مشاہدہ میں آتا ہے کہ ایک دوائی ایک مریض کو فائدہ دیتی ہے اور دوسرے کو فائدہ نہیں دیتی.پس شریعت کی مثال طب کی سی ہے.صرف اس کے ہونے سے کوئی شخص ایک مقام سے دوسرے مقام تک ترقی نہیں کر سکتا.شریعت صرف اعمال کے متعلق امر و نہی کرتی ہے اور یہ روحانی حالات ہیں اور روح چونکہ پوشیدہ ہے.اس لئے اس نے خود یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اب یہ مرض ہے اور اب اس کی دوا کی ضرورت ہے اور یہ وہ بات ہے جو انسانی عقل میں نہیں آسکتی.سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کشف کے ذریعے یہ بات بتا دے یا کسی کی ذات میں ہی کوئی بات ایسی پیدا ہو جائے ورنہ صرف شریعت اس معاملہ میں کچھ نہیں کر سکتی.بعض لوگ جو اهدنا الصراط المستقیم کے اس نکتہ کو نہیں سمجھتے.وہ بڑے سے بڑے مقام پر پہنچ کر بھی گر جاتے ہیں.بعض دفعہ ان کا قدم اتفاقی طور پر کسی ایسے مقام پر جا پڑتا ہے.جو درست ہوتا ہے اور وہ ترقی کرنی شروع کر دیتے ہیں.اس سے وہ غرور میں آجاتے ہیں کہ ہمیں اس نکتہ کا پتہ لگ گیا اور پھر وہ دھو کہ میں پڑ جاتے ہیں کہ اب کسی کی مدد کی ضرورت نہیں.ایسا شخص اهلنا الصراط المستقیم پڑھتا تو ہے لیکن صحیح مفہوم کے ساتھ نہیں پڑھتا.اس لئے وہ کسی اچھے مقام پر پہنچ کر بھی گر پڑتا ہے.مومن کو چاہئے کہ ہر مقام پر گریہ وزاری کرے اور ہر منٹ اور ہر لحظہ اور ہر حالت میں گریہ و زاری کرکے کے کہ اے خدا تو آپ ہی ہمیں صراط المستقیم دکھا.پس ہر ایک کو چاہئے کہ وہ غرور نہ کرے اور نہ دھوکہ کھائے کہ اب مدد کی ضرورت نہیں بلکہ گریہ وزاری کرے اور خدا ہی سے مدد طلب کرے اور جب وہ ایسا کرتا ہے.تب جا کر خدا اسے ہدایت دیتا ہے.بعض لوگ اپنی عقل سے دینی امور کو طے کرنا چاہتے ہیں لیکن ایسا بھی نہیں ہوتا.اپنے فہم و فراست سے قرب خدا کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا.یہاں عقل کچھ نہیں کر سکتی.علم کچھ نہیں کر سکتا.فلسفہ کچھ نہیں کر سکتا بلکہ خالی شریعت بھی کچھ نہیں کر سکتی ہے اور نہ ہی ان پر بھروسہ کرنے سے کچھ حاصل ہو سکتا ہے.ہاں اگر خدا کے آگے انسان گریہ وزاری کرے اور اس کے آگے روئے کہ تو ہی بتا کہ کس طرح عقل سے کام لوں.کس طرح علم سے کام لوں.کس طرح شریعت سے استنباط کروں.تب وہ فائدہ اٹھا سکتا ہے اور خدا تعالیٰ ایسے شخص کی رہنمائی فرماتا ہے اور اسے صراط المستقیم پر چلاتا ہے.پس میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ دینی مسائل میں استدلال کرتے ہوئے اس بات

Page 392

387 کو مد نظر رکھیں کہ خدا کی طرف سے ہی روشنی آتی ہے اور جب تک اس کی طرف سے روشنی نہ آئے.تب تک نہ ہمارا علم کام دے سکتا ہے.نہ ہماری عقل کام دے سکتی ہے اور نہ ہی ہماری کوئی اور طاقت کسی کام کو سنوار سکتی ہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ ایسے موقعوں پر خدا کے ہی آگے گڑ گڑانا چاہئے کہ وہ روشنی عطا فرمائے.ہم اس معالمہ میں قرآن پر بھی تو کل نہیں کر سکتے.کیونکہ صرف قرآن کا ہونا اس بات کے واسطے کافی نہیں ہو سکتا.بیشک وہ ہادی ہے مگر ان کے لئے جو اس سے ہدایت حاصل کرنا چاہتے ہیں.دیا نند جی ساری عمر قرآن پر اعتراض ہی کرتے رہے.اور انہیں اس میں ایک بات بھی ایسی نظر نہ آئی.جو ہدایت دے سکتی ہو.پس قرآن ہدایت تو کرتا ہے مگر ان کو جو صراط المستقیم پر چلنے کی کوشش کریں.پکڑ کر لوگوں کو اس راہ پر چلانا اس کا کام نہیں.یہی وجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ قرآن نازل ہو گیا.مگر پھر بھی کہا جاتا ہے کہو اھدنا الصراط المستقیم - باوجود صحبت صالحین میسر ہونے کے پھر بھی کہا جاتا ہے.کہو اهدنا الصراط المستقيم - باوجود سلسلہ مجددین کے پھر بھی کہا جاتا ہے کہو اهدنا الصراط المستقيم باوجود ایماندار ہونے کے کہا جاتا ہے.کہو اھدنا الصراط المستقيم با وجود حضرت نبی کریم دنیا میں مبعوث ہو گئے مگر پھر بھی کہا جاتا ہے.کہو اھدنا الصراط المستقيم باوجود آنحضرت خاتم النسین بن گئے.مگر پھر بھی کہا جاتا ہے.کمو اهدنا الصراط المستقیم اور جبکہ بڑے سے بڑے مقام پر پہنچ کر بھی ایک شخص کو معلوم نہیں ہو سکتا کہ آگے کیا ہے اور کس طرح آگے پہنچا جائے تو اس صورت میں سوائے اس کے چارہ ہی کیا ہے کہ خدا ہی سے مدد مانگی اور اسی کے آگے گریہ وزاری کی جائے کہ تو آپ ہی ہمیں صراط المستقیم کی ہدایت فرما.پس جب تک خدا کی طرف سے ہدایت نہ آئے کوئی شخص خواہ وہ کسی بڑے سے بڑے مقام پر ہی کیوں نہ کھڑا ہو.ایک قدم بھی آگے نہیں اٹھا سکتا اور نہ ہی کوئی اور شے بجز خدا کی ذات کے اس کی مدد اور رہنمائی کر سکتی ہے.پس ہر حال میں انسان کو چاہئے کہ وہ خدا ہی سے رہنمائی طلب کرے اور اسی سے مانگے اور کبھی بھی غرور نہ کرے.کہ میں نے فلاں بات کو پا لیا بلکہ جو کچھ ملا اس کو پا کر بھی تذلل و انکساری کو اختیار کرے اور ہر وقت صراط المستقیم کی ہدایت کے لئے گریہ وزاری کرتا رہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کو اور خصوصاً علماء اور مبلغین کو چاہئے کہ ہمیشہ خدا پر سہارا رکھیں اور اس کی مدد چاہتے رہیں اور اس سے صراط المستقیم کی ہدایت طلب کرتے رہیں.کبھی اپنے علم.اپنی عقل اور اپنی طاقت پر گھمنڈو غرور نہ کریں.کیونکہ نہ علم کچھ کر سکتا.ہے

Page 393

388 اور نہ عقل.خدا ہی کی طرف سے ہوتا ہے جو کچھ ہوتا ہے.پس ہماری جماعت کے لوگوں کو ہرگز نہیں چاہئے کہ وہ کبھی خدا تعالیٰ کا دامن چھوڑیں بلکہ مضبوطی سے اسے پکڑ لیں.مدد اور صراط المستقیم کی ہدایت اور روشنی کے واسطے اس کے آگے سرجھکائیں اور ہر خوبی اسی کی طرف منسوب کریں.اسی پر بھروسہ رکھیں اور اسی پر توکل کریں تا روحانی میدان میں ان کی ترقیات بڑھیں اور وہ صراط المستقیم پر چلتے رہیں.میں دعا کرتا ہوں کہ ہمارا تو کل اور بھروسہ صرف اسی کی ذات پر ہو.ہم غرور نہ کریں.ہم ہر ٹھوکر سے محفوظ رہیں.تاکہ اس کی راہ سے بھٹک نہ جائیں اور ہم نہ صرف خود ہی ٹھوکر سے بچے رہیں بلکہ دوسروں کو بھی بچا سکیں.خدا تعالیٰ ہم سب کو روشنی عطا فرمائے اور ہر وقت صراط المستقیم کی ہدایت دیتا رہے.آمین (الفضل ۱۸ دسمبر ۱۹۲۵ء)

Page 394

389 44 جلسہ سالانہ کے سلسلہ میں بعض ہدایات (فرموده ۱۸ دسمبر ۱۹۲۵ء) تشہیر، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : چند ہی دنوں میں ایک اور نشان ظاہر ہونے والا ہے اور دنیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی صداقت کا ایک اور نشان دیکھنے والی ہے.اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے کہ اس نشان کے ذریعے بھی لوگوں کی آنکھوں کو کھولے اور یہ نشان ایک ہفتہ تک انشاء اللہ ظاہر ہو گا.یہ قادیان کا وہ سالانہ اجتماع ہے جسے جلسہ سالانہ کہا جاتا ہے اور جس کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود رکھی اور جس کے متعلق آپ کی پیشگوئی ہے کہ یہ ترقی کرے گا اور کثرت سے لوگ اس میں شامل ہوا کریں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس اجتماع کے متعلق بطور خبر فرمایا تھا زمین قادیاں اب محترم ہے ہجوم خلق سے ارض حرم ہے پس یہ وہ اجتماع ہے جس سے قادیان کی زمین پر اس کثرت سے لوگ آئیں گے.جس کثرت سے مکہ مکرمہ آتے ہیں اور یہ کہ ہر سال کثرت سے لوگ آیا کریں گے.چنانچہ ہم ہر سال دیکھ رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ بتائی ہوئی خبر جو بطور پیشگوئی ہے ہر لحظہ بڑی مزائی سے پوری ہو رہی ہے اور آئندہ بھی پوری ہوتی رہے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت بڑی سے بڑی تعداد جلسے پر آنے والوں کی سات سو ہوئی تھی.لیکن اب جس کثرت سے لوگ اس موقع پر آتے ہیں اس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ در حقیقت یہ اس زمانہ کے لئے خبر تھی اور ایک پیشگوئی تھی جسے پورا ہوتے ہوئے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں..اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا تعالی کی طرف سے نہ ہوتے اور اگر یہ خیبر جو

Page 395

390 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسے کے متعلق دی.خدا کی طرف سے نہ ہوتی تو ضرور تھا کہ بانی سلسلہ کے بعد اس میں ضعف پیدا ہو جاتا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں کوئی ایسی بات پیدا نہیں ہو رہی.جو کمی پر دلالت کرے.بلکہ اس میں ہر لحظہ ترقی ہو رہی ہے جو بتاتی ہے کہ یہ خبر خدا کی طرف سے تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی خدا کی طرف سے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آخری جلسہ میں جس کے بعد آپ فوت ہو گئے.جلسہ پر آنے والوں کی تعداد سات سو تھی لیکن اب خدا کے فضل سے بارہ تیرہ ہزار تک آدمی آتے ہیں.بلکہ بعض وقت تو ان کی تعداد چودہ ہزار تک بھی پہنچ جاتی ہے جو اس تعداد سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت میں تھی دس گنا سے بھی زیادہ ہے.کیا اس قدر ہجوم کو دیکھ کر جو صرف خدا کی خاطر یہاں آتا ہے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ قادیان میں حرم کی طرح ہجوم کے متعلق جو پیشگوئی ہے.وہ پوری نہیں ہو رہی.ایک شخص واقعات سے منہ پھیر کر اور آنکھیں بند کرکے یہ کہہ دے کہ جلسہ پر آنے والوں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا تو الگ بات ہے ورنہ یہ واقعات ایسے کھلے کھلے ہیں کہ کوئی ان سے انکار نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش از وقت اس جلسہ کے متعلق خبردی کہ اس میں کثرت سے لوگ آیا کریں گے اور سب دیکھتے ہیں کہ ہر سال آنے والوں میں ترقی ہو رہی ہے.اس سے ماننا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ پیشگوئی ہر سال ہمارے ایمان کو تازہ کرنے کے لئے پوری ہوتی ہے اور ہر سال اپنی صداقت کا پھل دیتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس پیشگوئی کی مثال جو ہر سال پوری ہو کر پھل دے رہی ہے.اس شخص کی طرح ہے.جو بہت بوڑھا تھا مگر درخت لگا رہا تھا.درخت لگاتے ہوئے اسے ایک بادشاہ نے دیکھا اور اسے کہا.درخت تو کئی سال کے بعد پھل لاتا ہے اور تم بوڑھے ہو.اس کا پھل تو تم نہیں کھا سکو گے پھر اسے کیوں ہوتے ہو کم از کم یہ دس پندرہ سال کے بعد پھل لانے کے قابل ہو گا اور اس وقت شائد تم قبر میں ہوگے.بوڑھے باغبان نے جواب دیا.بادشاہ سلامت ہمارے بڑوں نے درخت لگائے.تو ہم نے پھل کھائے.اب ہم لگاتے ہیں تا ہماری اولاد پھل کھائے.ہمارے باپ دادا اگر یہ خیال کر کے کہ ہم کو پھل کھانا نصیب نہ ہو گا درخت نہ لگاتے.تو پھر ہم ان کا پھل کس طرح کھا سکتے اسی طرح ہم بھی آنے والی نسل کے لئے لگاتے ہیں.بادشاہ کو یہ بات بہت پسند آئی.اس نے کہا.”کیا خوب اور اس کا حکم تھا کہ جب وہ کسی بات پر کہے کیا

Page 396

391 خوب تو وزیر چار ہزار درہم کی ایک تھیلی اس شخص کو دے جس کی بات پر بادشاہ ایسا کیے.چنانچہ بوڑھے کی اس بات پر وزیر نے چار ہزار درہم کی تھیلی اس کو دیدی.اس پر بوڑھے نے پھر کہا.اے بادشاہ آپ کہتے تھے.تمہیں اس درخت کا پھل کھانا نصیب نہیں ہو گا مگر دیکھئے لوگوں کو تو درخت لگا کر پھل کے لئے کئی سال انتظار کرنی پڑتی ہے مگر میرے درخت نے لگاتے لگاتے پھل دے دیا ہے.اس پر پھر بادشاہ نے کہا "کیا خوب" اور وزیر نے ایک اور تھیلی چار ہزار درہم کی نکال کر اس کو دے دی.پھر اس نے کہا بادشاہ سلامت اور درخت تو سال میں ایک دفعہ پھل لاتے ہیں مگر میرا درخت لگاتے ساتھ ہی دو دفعہ پھل لایا.اس پر پھر بادشاہ نے کہا کیا خوب اور وزیر نے ایک اور تھیلی اسے دے دی.اس پر بادشاہ نے کہا.کہ چلو.نہیں تو یہ بوڑھا اپنی باتوں سے ہمیں لوٹ لے گال پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو درخت لگایا.اسے بھی اسی قسم کی بلکہ اس سے بڑھ چڑھ کر برکت ملی.اس کا درخت تو دو یا تین بار پھل لا کر رہ گیا لیکن حضرت مسیح موعود کا لگایا ہوا درخت ہر سال پھل لا رہا ہے اور کثرت سے لا رہا ہے.پس جن لوگوں کے دلوں کی آنکھیں اس بادشاہ کی طرح کھلی ہیں.وہ جانیں گے کہ اس کی حقیقت کیا ہے.ورنہ نادان تو ان باتوں سے آنکھیں بند کر کے چلا جاتا ہے.دنیا میں کئی عرس ہوتے ہیں.بڑے بڑے بزرگوں کی قبروں پر عرس اور میلے لگتے ہیں.ان میں لوگ کثرت سے جاتے ہیں مگر یہ عرس اور یہ میلے اس قسم کے دینی اجتماع کے برابر نہیں ہو سکتے.جیسا کہ ہمارا جلسہ ہے.یہ سچ ہے کہ ان عرسوں اور میلوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قائم کردہ اجتماع سے کوئی نسبت نہیں.کیونکہ ان عرسوں کے متعلق کسی نے پہلے نہیں کہا کہ ان میں اس قسم کی ترقی ہوگی.لیکن ہمارے سالانہ جلسہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پہلے ہی سے بتا دیا تھا کہ دینی اغراض کے لئے قادیان میں اس موقع پر اس کثرت سے لوگ آیا کریں گے کہ ان کے اس ہجوم سے جو صرف دین کی خاطر ہو گا قادیان کی زمین ارض حرم کا نام پائے گی.دیکھو وہ شخص جو شیکسپیئر کے کلام کی مقبولیت کو دیکھ کر اسے قرآن کریم کے بالمقابل کھڑا کرنے کی کوشش کرے.وہ بھی نادان ہو گا بیشک شیکسپئیر کو علم کلام میں جو درجہ حاصل ہے.وہ کسی کو نہیں.علم ادب میں وہ اس حد تک ترقی کر گیا تھا کہ اس کی نقل کو بھی اب امر موہوم خیال کرتے ہیں اور اگر کوئی شخص اس کی نقل کی کوشش کرے تو اسے مجنون کہتے ہیں لیکن باوجود اس

Page 397

392 الله کے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ شیکسپیئر کا کلام قرآن کریم کے برابر ہے یا شیکسپئیر خود آنحضرت جیسا درجہ رکھتا ہے.جس طرح عرب کے فصحاء اور بلغاء قرآن کریم کی مثل نہیں لا سکتے.اسی طرح انگریزوں نے بھی مانا ہے کہ شیکسپئیر کے کلام کی کوئی مثل نہیں لا سکتا مگر کیا اس سے وہ آنحضرت این اے کے برابر ہو گیا ہرگز نہیں کیوں؟ اس لئے کہ آنحضرت ﷺ نے جب اس کلام کو پیش کیا تو ساتھ ہی کہہ دیا کہ یہ وہ کلام ہے جس کی کوئی نظیر نہیں لا سکے گا.اور نہ ہی اس کی کوئی مشتری لا سکتا ہے.لیکن شیکسپئیر نے یہ نہیں کہا.اسے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کے کلام میں اس قسم کی منو بیاں ہیں کہ اس قدر مقبول ہو گا.بلکہ اسے تو خوف رہتا تھا کہ میرا کلام شائد قبول بھی ہو یا نہ.پس ٹیکسپیئر کا کمال اتفاقی تھا مگر آنحضرت ﷺ کا دعوئی تحری کے ساتھ تھا.شیکسپئیر کے کلام کی قدر اس کے بعد ہوئی اور اس کے بعد ہی یہ کہا گیا کہ اس کی نقل کرنا امر موہوم ہے یا جنون.لیکن آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ہی لوگ باوجود ادیب ہونے اور اس بات کی کوشش کرنے کے کہ اس کی مثل اور نظیر لائیں.اس کی مثل اور نظیر نہ لا سکے.اسی طرح ہمارے اس جلسہ کا حال ہے دوسرے عرسوں کے متعلق کسی نے پہلے اس تم کی کوئی خبر نہیں دی کہ یہ ترقی کریں گے لیکن ہمارے جلسہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا سے خبر پا کر پہلے ہی اطلاع دے دی تھی کہ یہ ہر لحظہ ترقی کرتا چلا جائے گا اور ہر سال اس میں آنے والوں کی تعداد میں زیادتی ہوتی رہے گی.عرسوں میں اگر کوئی ترقی ہوئی تو وہ اتفاقی طور پر ہوئی.اگر ہمارے جلسہ کو جو ترقی ہو رہی ہے.وہ بطور پیشگوئی کے ہے.نہیں عرسوں کے ساتھ اس کی کوئی مناسبت نہیں.اسی طرح اگر چار پانچ شخص اکٹھے دوڑیں.تو ان روڑنے والوں میں سے کوئی نہ کوئی تو آگے نکلے گا.بیشک ان دوڑنے والوں میں سے آگے نکل جانے والے کا کمال ہے.لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسے پہلے ہی معلوم تھا کہ میں آگے نکل جاؤں گا اور اس نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ایسا ہو گا.ہاں اگر کوئی لولا یا لنگڑا یہ کہے کہ آؤ میرے ساتھ دوڑو.تم میں سے کوئی نہیں جو مجھ سے آگے نکل جائے اور فی الواقع اس راز کا نتیجہ یہی ہو کہ اس سے کوئی آگے نہ نکل سکے تو اسے معجزہ قرار دینا پڑے گا اور یہ ماننا پڑے گا کہ یہ ایک نشان ہے ایسا ہی کسی زبان کے مصنفوں میں سے اگر کوئی مصنف سب سے بڑھ پائے تو بے شک یہ اس کا کمال ہو گا لیکن اس کے کمال کے مقابلہ میں کچھ حیثیت نہیں رکھتا.جو ایک کلام کے متعلق پہلے ہی کہہ دے کہ کوئی شخص اس کی نظیر نہیں لا سکتا اور فی الواقع اگر کوئی، اس کی نظیر نہ لا سکے تو وہ معجزہ ہو جائے گا.یہی حال قرآن کریم کی تحدی کا

Page 398

393 ہے.قرآن کریم نے پہلے کہہ دیا کہ میری کوئی نظیر نہیں لا سکتا اور آنحضرت ﷺ نے جب اسے پیش کیا تو ساتھ ہی فرما دیا کہ اس کلام کی کوئی مثل نہیں لا سکے گا اور ایسا ہی ہوا اس وجہ سے یہ ایک معجزہ ہے لیکن شیکسپئیر یا کسی اور مصنف کے کلام کو یہ درجہ حاصل نہیں شیکسپیئر نے کبھی یہ دعوئی نہیں کیا کہ میرے کلام کی کوئی مثل اور نظیر نہیں لا سکے گا.بلکہ اسے تو پتہ ہی نہ تھا کہ اس کا کلام مقبول بھی ہو گا یا نہیں.اسی طرح عام میلے اور عرس جو بعض بزرگوں کی جگہوں پر ہوتے ہیں یا اور جلے.ان کے متعلق کسی قسم کی کوئی خبر پہلے نہیں دی گئی اور کوئی ایسی پیشگوئی ان کے متعلق کسی کی طرف سے نہیں کی گئی کہ یہ ترقی کریں گے.لیکن ہمارے جلسہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیاں ہیں کہ یہ ترقی کرے گا اور اس میں اس کثرت سے لوگ جمع ہونگے.جس طرح کہ مکہ مکرمہ میں جمع ہوتے ہیں.جس طرح وہاں جمع ہونے والوں کی غرض دین ہوتی ہے.اسی طرح یہاں آنے والوں کی غرض بھی محض دین ہوتی ہے.اس وجہ سے یہ ایک بہت بڑا نشان ہے جس سے ہر سال ایمان تازہ ہوتا ہے.یہ اس لئے نشان ہے کہ اس کے ترقی کرنے کے متعلق پہلے ہی سے اطلاع دی گئی تھی.اسی طرح قادیان کی ہر وہ چیز جو سلسلہ احمدیہ سے متعلق ہے نشان ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پہلے بتا دیا تھا کہ قادیان ترقی کرے گا اور بڑھے گا.پس یہاں کی ہر ایک چیز اور ہر ایک آدمی اک نشان ہے.قادیان میں جو لوگ مکان بناتے ہیں وہ بھی نشان ہیں کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے پورا ہونے میں حصہ لیتے ہیں.پس میں ان لوگوں سے جنھیں قادیان میں مکان بنانے کی توفیق خدا تعالیٰ نے دی ہے کہتا ہوں.کہ انہیں چاہئے کہ وہ اپنے مکانات کو حقیقی نشان بنانے کی کوشش کریں اور وہ اس طرح کہ دینی ضروریات کے لئے جس قدر حصہ دے سکتے ہوں دیں.یوں تو قادیان میں ہندو بھی مکان بناتے ہیں.سکھ بھی بناتے ہیں غیر احمدی بھی بناتے ہیں مگر ان کے مکان اس پیشگوئی کے مصداق نہیں ہو سکتے.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قادیان کی ترقی کے متعلق فرمائی ہیں.کیونکہ وہ سلسلہ کے کام نہیں آتے بلکہ ان میں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کی جاتی ہے.پس حقیقی طور پر اس پیشگوئی کے مصداق وہی مکان ہو سکتے ہیں جن میں آپ کی تصدیق ہو اور آپ کے اغراض و مقاصد کے لئے استعمال کئے جا سکیں اور سالانہ جلسہ ایک موقع ہے جس میں مکان بنانے والے اصحاب اچھی طرح اس نشان اور پیشگوئی کے مصداق اپنے مکانوں کو بنا سکتے ہیں.جو حضرت

Page 399

394 مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قادیان کی ترقی کے لئے کی.پس میں تمام ایسے احمدیوں کو جنھیں قادیان میں مکان بنانے کی خدا تعالیٰ نے توفیق دی ہے کہتا ہوں کہ وہ جس قدر بھی حصہ اپنے مکانوں سے مہمانوں کے لئے دے سکتے ہوں..کارکنان کو دے دیں تاکہ وہ مہمانوں کو ان میں ٹھہرائیں.اس طرح وہ اس پیشگوئی کو خود بھی پورا کرنے والے ہوں گے.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی.پس دوستوں کو چاہئے کہ جس قدر حصہ مکان وہ فارغ کر سکتے ہیں کر دیں اور اس کی اطلات کارکنان کو جلد سے جلد دے دیں.دوسری نصیحت میں یہ کرنی چاہتا ہوں کہ ایسے موقع پر صرف مکان دے دینے سے کام نہیں چل سکتا.جب تک ایسے آدمی نہ ہوں جو کارکنوں کے ساتھ بطور مدد گار کام نہ کریں.پس جو دوست اپنے کام سے فارغ ہو سکتے ہیں.سوائے دوکانداروں کے ان کو چاہئے کہ وہ اپنی خدمات اس موقع پر پیش کر دیں.پھر مختلف صیغوں میں کام کرنے والوں کو بھی چاہئے کہ سوائے اس صیغہ کے آدمیوں کے جنھیں ان دنوں ضروری طور پر اپنے کام پر رہنا پڑتا ہے.باقی سب مہمان نوازی میں حصہ لیں.میں پیشہ وروں کو بھی ان میں شامل سمجھتا ہوں اور ان سے بھی یہ کہتا ہوں کہ وہ بھی اس کام کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں اور کارکنوں کی مدد کریں.رو دکاندار اور پیشہ وروں میں فرق ہے.پیشہ ور نے تو ان دنوں میں بھی وہی معمولی تین چار روپے کمانے ہوتے ہیں.جو عام طور پر کمایا کرتا ہے.لیکن دوکاندار نے ان دنوں اپنے سال کی کمائی کرنی ہوتی ہے.پس پیشہ وروں کو چاہئے کہ کچھ وقت شمولیت جلسہ میں دیں اور کچھ وقت جلسہ کے کام میں لگائیں.کچھ وقت خدا تعالیٰ کے لئے بھی وقف کرنا چاہئے.کام تو ہر روز کرتے ہی ہیں مگر سال کے بعد یہ تین چار دن ایسے آتے ہیں.جن میں اگر خدا ان کو توفیق دے تو اپنے کام کے سوا وسرا کام کرنا پڑتا ہے.پس انہیں چاہتے کہ اس ثواب سے محروم نہ رہیں.آخر باہر سے تاجر بھی آتے ہیں.زمیندار بھی آتے ہیں.پیشہ ور بھی آتے ہیں.وہ اپنے کام چھوڑ کر ہی آتے ہیں.پھر کیا؟ وجہ ہے کہ قادیان یا اس کے ارد گرد کے زمیندار اپنے کام کو ان کے لئے نہ چھوڑیں اور قادیان کے پیشہ ور مہمانوں کی خدمت کرنے کے لئے اپنا وقت صرف نہ کریں.میں سوائے تاجروں کے سب سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو اس کام کے لئے پیش کریں.تیسری بات جو میں کہنی چاہتا ہوں وہ اخراجات کے متعلق ہے جلسہ کے موقع پر ہر ایک شخص کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اسی طرح کام کرے.جس سے اخراجات بے جا نہ ہوں.دس ہیں

Page 400

ふゆう مہمان جہاں آجائیں وہاں لوگ گھبرا جاتے ہیں تو جس جگہ تیرہ چودہ ہزار آجائیں.وہاں گھبرا جانا کوئی بڑی بات نہیں.لیکن اگر ایک انتظام کے ماتحت کام کیا جائے تو تیرہ چودہ ہزار کیا اس سے دو چند بھی آدمی اگر آجائیں.تو بھی کسی قسم کی گھبراہٹ پیدا نہیں ہو سکتی.بڑی بات جو اس موقع پر مد نظر رکھنی چاہئے وہ اقتصاد ہے.عام انتظام کے علاوہ اقتصادی پہلو کو بڑی احتیاط سے مد نظر رکھنا چاہئے کیونکہ بعض اوقات انسان زیادہ کام کی گھبراہٹ میں اقتصادی پہلو کو خاطر خواہ طور پر مد نظر نہیں رکھ سکتا اور بعض دفعہ تو حالات ہی کچھ ایسے پیدا ہو جاتے ہیں کہ اسے اقتصادی پہلو کو مد نظر رکھ کر کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے اس لئے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خاص طور پر کوشش کی جائے کہ اقتصادی پہلو ہاتھ سے نہ نکلے.اس وقت مالی تنگی بڑھی ہوئی ہے.یہاں تک کہ کارکنوں کو تین تین چار چار ماہ کی تنخواہیں نہیں ملیں اور بعض کو تو عملاً " فاقے آ رہے ہیں.اب اگر اقتصادی پہلو کو مد نظر نہ رکھا گیا اور اخراجات کے متعلق احتیاط نہ کی گئی تو یہ تنگی اور بھی بڑھ جائے گی.چونکہ جلسہ کے اخراجات ناگہانی طور پر پڑتے ہیں اور ان دنوں مالی تنگی اور بھی بڑھ جاتی ہے اس لئے اگر اخراجات میں کفایت اور اشیاء کی احتیاط کی طرف توجہ نہ کی جائے.تو اخراجات بڑھنے کے ساتھ مالی تنگی اور بھی بڑھ جاتی ہے.پس جلسہ میں کام کرنے والوں کو خصوصاً اور دوسرے لوگوں کو عموماً کہتا ہوں کہ وہ اس بات کو مد نظر رکھیں کہ چیزیں ضائع نہ ہوں.پھر جن دوستوں کے گھروں پر بعض لوگ ٹھریں.ان کا یہ اہم فرض ہے کہ وہ اس بات کو پورے غور کے ساتھ مد نظر رکھیں اور جتنے آدمی ہوں اتنے آدمیوں کا ہی کھانا لیں.تا ایسا نہ ہو وہ ضرورت سے زیادہ کھانا لے لیں جو ضائع ہو.اس بات کو پہلے ہی خوب غور سے دیکھ لو کہ کتنے آدمی ہیں اور کتنا کھانا ان کے لئے ضروری ہے.پس جتنے کی ضرورت ہو.اتنا ہی لیا جائے.پھر ایک اور طریق بھی ہے جس سے کھانا ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے اور وہ یہ کہ اگر پچاس آدمی ہوں اور ان کو الگ الگ کھانا کھلایا جائے تو اس طرح بہت ضائع ہو جاتا ہے اور خود ان کو بھی پورا نہیں ہوتا لیکن اگر ان کو اکٹھا کھانے کے لئے بٹھا دیا جائے.تو تمہیں آدمی کا کھانا بھی پچاس آدمیوں کو کفایت کر سکتا ہے.الگ کھلانے سے بہت نقصان ہو سکتا ہے اسی طرح اگر سارے جلسے میں یہ انتظام قائم رکھا جائے کہ سب کو اکٹھا کھانا کھلایا جائے تو بہت سی بچت ہو سکتی ہے.اگر الگ الگ ہی کھلایا جائے تو چار پانچ ہزار روپیہ کا نقصان ہو سکتا ہے.بعض دفعہ کھانا کھلانے والے اس خیال سے کہ ہمیں تکلیف نہ ہو.اس بات کا خیال نہیں

Page 401

396 کرتے بلکہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ہمیں تکلیف کسی طرح کم ہوتی ہے.حالانکہ دیکھنا یہ چاہئے کہ نقصان کس طرح کم ہوتا ہے.پس ان کو چاہئے کہ وہ ایسے موقعوں پر تکلیف تو برداشت کر لیں بلکہ اگر کوئی ہتک آمیز سلوک بھی ہو تو بھی سہہ لیں لیکن کوئی ایسی بات نہ کریں جن سے نقصان ہو اور پریشانی پھیلے.پس میں امید کرتا ہوں کہ وہ ہر طریق سے اس بات کی کوشش کریں گے کہ کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے نقصان ہو اور مالی تنگی اور بھی بڑھے.پھر میں یہ بھی امید کرتا ہوں کہ علاوہ ان باتوں کے وہ آنے والوں کے ساتھ اخلاق اور محبت سے پیش آئیں گے.کیونکہ میزبانی خدا کی نعمتوں اور رحمتوں کو بڑھانے کا ذریعہ ہے.خدا کی محبت ا کرنے کا ذریعہ ہے.ایمان کے بڑھانے کا ذریعہ ہے.صوفیاء لکھتے ہیں ہر انسان خدا کا مہمان ہے اور بعض نے تو اس بات میں اتنا غلو کیا ہے کہ جو اس مقام پر پہنچ جائے کہ اسے یہ نظر آجائے کہ خدا میزبان ہے اور ہم اس کے مہمان.تو وہ کسب معیشت کو ترک کر دے.محی الدین ابن عربی کے ایک استاد تھے.وہ کسب معیشت نہیں کیا کرتے تھے.ایک دن ایک شخص نے کہا کہ حضرت آپ اتنے بزرگ ہیں لیکن کسب معیشت نہیں کرتے حالانکہ معیشت کے سامان مہیا کرنا فرض ہے.فرمانے لگے ہم خدا کے مہمان ہیں اور یہ اس کی ہتک ہے کہ ہم اس کے مہمان ہو کر خود کھانا پینے کا انتظام کریں.اس شخص نے کہا.حدیث میں آیا ہے کہ مہمان تین دن کے لئے ہوتا ہے.اس پر انہوں نے فرمایا.بے شک یہ دن اگر ہوتے.تو ہماری مہمانی ختم ہو جاتی لیکن خدا کے ہاں دس ہزار سال بلکہ پچاس ہزار سال کا دن ہے.جب میری عمر ڈیڑھ لاکھ برس کی ہو جائے گی تو اعتراض کرنا.میرا مطلب اس سے یہ ہے کہ انہوں نے خدا کی حیثیت میزبان کی اور انسان کی حیثیت مہمان کی قرار دی ہے.پس میزبانی معمولی چیز نہیں.بلکہ بہت اعلیٰ شے ہے اور اس لئے اعلیٰ ہے کہ اس میں خدا کی صفت کی جھلک ہے کیونکہ خدا بھی میزبان ہے.اللہ تعالیٰ جب دیکھتا ہے کہ میرے بندے نے جب اپنے محدود سامانوں سے میزبانی کی ہے تو میں جو کہ غیر محدود سامانوں والا ہوں.میں کیوں نہ اس کی میزبانی کروں.پس یہ ایک نہایت اعلیٰ اور عمدہ شے ہے.جس سے خدا مہربان ہوتا ہے اور اس کی رحمت جوش میں آتی ہے.اس لئے میں قادیان والوں کو اور خاص کر جلسہ میں کام کرنے والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ پورے طور پر میزبان بنیں اور خدمت اور تواضع کے علاوہ محبت اور اخلاق سے آنے والوں کے ساتھ پیش آئیں.

Page 402

397 پس یہ ایک نہایت ہی بابرکت کام ہے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی بھی ایک حیثیت مہمان نوازی کی ہے.یہی وجہ ہے کہ نبوت کے کمالات میں سے مہمان کی خاطر بھی رکھی گئی ہے.آنحضرت پر جب پہلے پہل کلام اترا اور آپ کو سخت اضطراب اور گھبراہٹ پیدا ہوئی.تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا نے کہا.آپ مہمانوں کی خدمت کرنے والے ہیں.کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا آپ کو ضائع کرے.پس چونکہ مہمان نوازی کمالات نبوت کا ایک حصہ ہے بلکہ خدا کی شانوں میں سے ایک شان ہے.اس لئے اگر اس کو ادا کرتے ہوئے کوئی تکلیف بھی ہو یا بظاہر کوئی ہتک بھی ہو تو بھی اس میں کمی نہیں کرنی چاہئے.کیونکہ یہاں آنے والے صرف مہمان ہی نہیں.بلکہ شعائر اللہ بھی ہیں اور و من يعظم شعائر الله فانها من تقوى القلوب (الحج ۳۳) کے ماتحت شعائر اللہ کا اعزاز و اکرام کرنا اس بات کے ہم معنی ہے کہ ہمارے دلوں میں تقویٰ ہے.پس ایک مہمان ایک میزبان کے تقویٰ کے اظہار اور امتحان کا ذریعہ ہوتا ہے.اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ آنے والوں کی ہر طرح خدمت کی جائے گی.دیکھو کیا یہاں کوئی سیر کی جگہ ہے.جس کی خاطر لوگ یہاں آتے ہیں.یا یہاں کوئی قابل دید مقامات ہیں جن کو دیکھنے کے لئے لوگ آتے ہیں.کیا یہاں کوئی منڈی ہے کہ خرید و فروخت کے لئے یہاں آتے ہیں.کیا یہاں کوئی بادشاہ ہے کہ لوگ اس لئے آتے ہیں کہ اگر اس کی نظر میں بچ گئے تو اچھی اچھی نوکریاں مل جائیں گی.کیا یہاں کوئی اور دنیاوی چیز ہے.جس کی خاطر لوگ یہاں چلے آتے ہیں کون سی دنیاوی کشش ہے جو لوگوں کو یہاں کھینچ رہی ہے ایک بھی نہیں.پھر لوگ کیوں یہاں آتے ہیں.ان کے آنے کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ کوئی دنیاوی نہیں بلکہ دینی غرض ہے اور وہ یہ کہ خدا کے نبی نے کہا کہ یہاں تم آؤ تا تمہیں روحانی غذا ملے اور خدا نے اسے کہا کہ تم دن مقرر کرد کہ لوگ سفروں کو طے کر کے یہاں جمع ہوں.پس قادیان میں لوگ صرف اسی ایک، غرض کے لئے آتے ہیں.اور صرف اسی روحانی غذا کی خواہش ان کو یہاں لاتی ہے.پس ہمارا جلسہ شعائر اللہ ہے بلکہ ہر آنے والا شعائر اللہ ہے اور و من يعظم شعائر الله فانها من تقوى القلوب کے مطابق جو اللہ تعالیٰ کے نشانوں کی عظمت کرتا ہے.وہ اپنے تقویٰ کا ثبوت دیتا ہے.شعائر اللہ کی عزت اور قدر نہایت ضروری ہے اور سالانہ جلسہ کا موقع ہم میں سے ہر ایک کے تقویٰ کے امتحان کا وقت ہے.پس ہمیں چاہئے کہ ہم اس امتحان میں پورے اتریں.ہم میں سے ہر ایک کے دل میں مہمانوں کی عزت کے لئے وسعت پیدا ہونی چاہئے اور اگر برخلاف اس کے

Page 403

398 انقباض پیدا ہوتا ہے تو سمجھ لو کہ تقویٰ کی کمی ہے.ہاں اگر ایسے موقع پر بشاشت پیدا ہو تو سمجھ لوکہ تقویٰ ہے.پس میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے قادیان کے دوست صرف ان باتوں کو سنیں گے ہی نہیں بلکہ ان پر عمل بھی کریں گے.جو لوگ قادیان ہی میں رہتے ہیں.ان کو بچوں سے جدا نہیں ہونا پڑتا.بیویوں سے علیحدگی اختیار نہیں کرنی پڑتی.سفر کی تکلیف برداشت نہیں کرنی ہوتی.وہ میں رہتے ہیں اور انہیں ان باتوں میں سے کوئی بھی برداشت نہیں کرنی پڑتی.جو باہر سے آنے والوں کو یہاں آنے کے لئے کرنی پڑتی ہیں.وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بال بچوں کو چھوڑ کر نہیں آ سکے.وہ یہ عذر نہیں کر سکتے کہ وہ اپنے کاروبار سے علیحدگی اختیار کرکے قادیان آنے سے مجبور ہیں.کیونکہ وہ یہیں رہتے ہیں.پس ان کو چاہئے کہ اس ثواب کے موقع کو ضائع نہ جانے دیں.وہ مہمانوں کی خدمت کر کے اسی طرح ثواب کے مستحق ہو سکتے ہیں.جس طرح باہر سے آنے والے خدا کے فضل سے اس کے مستحق ہو گئے ہیں.خطبہ ثانی میں فرمایا :- ہمارے ایک دوست اڑیسہ میں رہتے تھے.ان کا نام جعفر خان تھا.وہ اپنے علاقہ میں ایک ہی احمدی تھے.حتی کہ ان کے بچے بھی احمدی نہیں وہ فوت ہو گئے ہیں میں نے کہا ہوا ہے جو دوست اکیلے ہوں یا جن کا جنازہ پڑھنے والے کم ہوں.قادیان میں ان کا جنازہ پڑھا جائے گا.آج جمعہ کے بعد میں اس مرحوم بھائی کا جنازہ پڑھوں گا.میں یہ اعلان اس لئے کرتا ہوں کہ تاسب دوست شامل ہوں.(الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۲۵ء) ا مجانى الادب في حدائق العرب جزو نانی هه ۱۷۴

Page 404

اشاریہ جلد نمبر ۹ ۲۷۱ ،۲۷۰،۲۶۹ ، ۲۶۸ ،۲۶۵ ،۲۶۴ ،۲۶۳ ۲۹۰ ،۲۸۸ ،۲۸۲ ،۲۸۵ ،۲۸۳ ،۲۸۰ ، ۲۷۹ - ۲۶۰، ۲۴۴۰۲۴۰ ،۲۳۹،۴۸ ،۳۵.آدم - آسٹریلیا.۱۰۲ آئینہ کمالات اسلام - ۸ اللہ تعالی - ۰۰۰،۵،۲،۳،۲۰۱، ۱۴۰۹، ۱۸.٣١٩٠٣١٨٠٠۳۱۷،۳۱۶ ، ۳۱۵ ،٣١١،٣ ۳۳۶،۳۳۲،۳۲۸ ،۳۲۵،۳۲۴ ،۳۲۳،۳۲۲،۳۲۰ ۳۵۶،۳۵۴ ،۳۵۳،۳۵۱۰۳۴۶۰۳۴۲ ، ۳۳۹، ۳۳۸ ۳۸۰ ،۳۷۹ ،۳۷۷ ، ۳۷۶ ،۳۷۵ ،۳۷۴،۳۷۱ ۳۸۹ ،۳۸۸ ،۳۸۷ ،۳۸۶ ،۳۸۵ ،۳۸۴ ،۳۸۳ - ۳۹۷ ،۳۹۶،۳۹۴ ،۳۹۳ ،۳۹۰ ۰۳۶۴ ،۲۴۴ ،۲۴۰ ،۲۳۹ ، ۳۵ ، ۸ -.۲۲۹ ،۲۲۸ ، ۱۱۵ ، ۱۱۲ ،۶۳ - ابراہیم ابلیس شیطان - -۲۹۵ ،۲۵۶ ابن سعود - ۲۵۶ ، ۳۵۲ ابوجہل.ابو بکر ۲۳ ، ۲۶ ۴۰۰، ۴۳ ، ۱۳۵ ۲۰۸۰ ۲۱۱۰ ، ۲۱۲ -10- ۲۴۴۳ ۳۱،۲۸،۲۷،۲۶ ،۲۵ ،۲۴ ، ۲۳ ،۲۲۰۲۰ ۴۳۰۴۲۰۴۱۰۴۰۰ ۳۹،۳۷ ،۳۶،۳۵،۳۳ ۶۱ ،۵۶،۵۵ ، ۴۸ ، ۴۰۰ ۴۶ ،۴۵ ،۴۴ ۱۰۹ ، ۱۰۸ ۱۰۷ ، ۱۰۵ ،۱۰۴ ، ۱۰۳ ، ۱۰۲ ، ۱۰) 119 ،116 ، ۱۱۶ ،۱۱۳ ، ۱۱۲ ، ۱۱۹ ، ۱۱۰ ۱۳۶ ، ۱۳۴،۱۳۳ ،۱۳۲،۱۳۱ ،۱۲۹ ، ۱۲۱ ۱۷۳ ، ۱۵۰ ،۱۴۸،۱۴ والها والده JAA 61A661AY/1A-616961646146 ۲۰۵ ،۲۰۳،۱۹۹،۱۹۷ ، ۱۹۴ ، ۱۹۲ ،۱۸۹ ۲۲۸،۲۲۶ ،۲۲۱ ، ۲۲۰ ، ۲۰۹ ،۲۰۸،۲۰۶ ۲۵۰ ،۲۴۵ ،۲۳۹ ،۲۳۸ ،۲۳۶،۲۳۵ ،۲۳۴ ۲۷۲ ،۲۶۱ ،۲۶۰، ۲۵۹ ، ۲۵۸ ۲۵۶ ، ۲۵۱

Page 405

ابوداؤد - ۲۱۸ - ابوعبیده ۲۰۱۰ - امام حسین - المنار (اخبار) - ۲۹۸ - -۳۲۵،۲۷۳ ،۹۰ ،۷۴ - ابو ہریرہ - ۲۶ - امت محمدیہ امت اسلامیہ - -7977194 ابى سينيا - 4 احمد سرہندی - ۲۸۴ امرت سر - ۴۵ - ۳۶۹ - امریکہ - امیر امان اللہ خاں ۵ امیر فیصل - ۳۳۳ - احمدیت.۱۰۶۰۹۱۱۹۷۷، ۱۲۶، ۱۷۰ ، ۳۲۶ ، ۳۷۸ - -PAID 11-1644- -47644640.• ۲۵۶ ، ۱۸۳ امیر علی شریف علی - -.اہیں.۲۴۵ ۳۲۵۰ انگلستان /برطانیه - ۵۳،۵۲، ۷۸، ۱۸۲ اہل حدیث راخبار ) - ۳۵۳ ، ۳۵۵ - ایران - ۱۰۱ ، ۳۲۶ بائیبل - ۲۴۳ -.۲۶۶ ،۲۲۷،۱۸ بٹالہ.۳۶۹ - بخاری (صحیح).- ۳۷۱، ۳۵۱،۳۲۳۰۲۹۶ ٣٩٨ - 16.461 اریہ اسلام.۱۲۴ ، ۱۲۳ ،۱۱،۱۰ ،۱۰۰۰۹۱۰۷۱۰۹۲ ۱۷۱ ،۱۷۹ ،۱۵۵ ،۱۴۰ ، ۱۳۹ ،۱۲۷ ، ۱۲۶ ،۱۲۵ ۲۴۵ ،۲۰۵ ،۲۰۰، ۱۸۵ ، ۱۷۸ ،۱۷۳،۱۷۲ ۳۰۰،۲۸۴،۲۶۹۰۲۵۸ ،۲۵۴ ، ۲۵۳ ، ۲۴۶ ۳۳۲،۳۳۰،۳۲۹۰۳۲۵ ، ۳۱۱ ،۳۰۰، ۳۰۷ ٠٣٧٢٤٣۶۷،۳۶۳ ، ۳۵۷ ، ۳۵۶۰۳۴۱ ،۳۳۴ اعمال الرسل - ۳۳۹ الفريقية - ۳۲۶۰۳۱۱۰۲۶۶ ،۱۲۵،۱۲۴ ،۱۲۲ - براہین احمدیه - ۲۸۶ - افغانستان - ۴۹، ۵۹، ۶۰ ،۶۶، ۳۲۶،۷۹ - اکبر الہ آبادی - ۲۸۷ - الفضل.۵۶۵۰،۴۵،۴۱ ،۳۳۰۲۹،۲۰۰ 1-15-0 ۱۲۹،۱۲۰ ، ۱۱۳ ، ۱۰۶ ،۱۰۰ ،۹۱ ،۸۱ ، ۶۹ ،۵۸ ۲۰۲،۱۹۷۰۱۸۶ ،۱۷۶،۱۶۵ ،۱۵۵ ، ۱۴۸،۱۴۰ ۲۷۴،۲۶۶۰۲۵۸،۲۴۵ ،۲۳۶،۲۲۷ ، ۲۱ ، ۲۰۹ ۳۷۰ ،۳۵۱۰۳۳۹،٣٢٣،٣١١،٣٠٣،٢٩٩،٢٨ بغداد - ۳۲۵ ، ۳۲۶ - بلعم باعور - ۲۹۴ - بلوچستان - ۳۲۶ - بمبئی - ۶۶ ۶۷۰ - بنگال.۱۸۲ ،۱۱۳ ، ۱۱۲ - ۳۹ - بنی اسرائیل - ۹ بنو عباس - ۳۲۵

Page 406

بھائی عبدالرحیم.پنجاب ۱۰ ۰۹۳ پولوس - ۳۲۵ - - پھیر و چیچی (گاؤں کا نام) - ۴۲ پیرا (نام) - ۸۴ ، ۸۵ - پیرس ۱۰۲۰ تاریخ الخلفاء - ۲۱۸.تذکره - ترکی.1-461-06116466166.۱۴۰،۱۳۹ ،۱۳۰ ، ۱۲۶ ، ۱۲۰ ، ۱۱۴ ، ۱۱۲ ، ۱۱۰ ۲۰۹ ،۲۰۸ ، ۱۸۷ ، ۱۸۵،۱۷۹ ،۱۷۸ ،۱۵۰۰ ۱۴۶ ۲۳۳۰۲۳۳ ،۲۲۴ ۲۲ ۲۲۲،۲۲۱۰۲۲۰ ، ۲۱۹ ۲۹۷،۲۶۷،۲۶۶۰۲۵۶ ،۲۴۳ ،۲۳۷ ،۲۳۴ ۳۴۰،۳۳۹،۳۳۸ ،۳۲۲،۳۲۰۰ ۳۷۰ ،۳۵۶،۳۵۵۰۳۵۳،۳۵۲،۳۴۳ ، ۳۴۲ ۳۸۶۱۳۸۴ ،۳۷۹ ،۳۷۸ ،۳۷۷ ، ۳۷۵ ،۳۷۲ ت جنت - - ۳۳۹ ،۲۲۷ ترمذی (جامع) - ٢١٨ ۰۲۸۱ ،۴۴۰۶ جهنم / دوزخ - ۱۶ ۱۴۴ ، ۲۲۵ ، ۲۸۱ چ چوہدری حسن محمد - ۱۰۰ ث ثمود - حمود - ۳۷۷ - چوہدری محمد ولایت خان آف مخدوم پور - ۲۲۵ ، ۲۲۶ - چوہدری نصر اللہ خاں.۱۰۰ ج چیف مهدی - ۳۱۱ جالینوس - ۳۴۸ - جبرائیل.چین - ۲۶۶ - ح جرمنی - ۲۵۱ - حافظ روشن علی - ۱۱۳ جعفر خاں.۳۹۸ حشیاه - ۳۲۸ - جلس الانه - ۳۱۳۱۱، ۳۲۳،۳۲۲،۳۲۱،۳۲۰،۳۱۵،۳۱۴ حجاز - ۳۳۳ - ۳۹۲،۳۹۰۳۸۹ ،۳۹۳، ۳۹۴ ، ۳۹۵ ، ۳۹۷،۳۹۶ - حدیمیه - ۳۶۳ ، ۳۶۵ ، ۳۶۶ - جماعت احمدیہ سلسلہ احمدیه ۸۰ A- ۲۸ ،۲۰،۱۸۰۹ ، ۴۵ ۴۴ ۴۱،۳۷۱۳۶ ، ۳۵ ،۳۳،۳۲ ،۳۱،۳۰ ۶۴ ،۶۳۰۶۲،۲۰۰۵۹ ،۵۲ ،۵۱۰۴۹ ،۴۸،۴۶ - 714- حکیم فضل سیم فضل الرحمن - - -744- حلیم محمد حسین.- ۴۱.

Page 407

۲۱۱ ، ۲۰۸ ،۲۰۷،۲۰۵ ،۲۰۴ ، ۱۹۹ ،۱۹۸ ، ۱۹۷ ۲۴۶۰۲۴۳ ۲۴۰۰۲۳۹ ، ۲۲۸ ،۲۲۵ ،۲۱۸ ،۲۱۲ ۲۵۴ ،۲۵۳ ۲۵۲ ،۲۵۱،۲۵۰،۲۴۹ ،۲۴۸ ،۲۴۷ ۲۷۴ ،۲۷۰،۲۶۲ ،۲۶۱ ، ۲۶۰ ، ۲۵۰ ، ۲۵۷ ، ۲۵۵ ۳۲۲،۳۲۱،۳۰۲ ،۳۰۰،۲۹۹ ، ۲۹۸ ،۲۹۵ ،۲۷۵ ۳۵۰،۳۴۴ ،۳۴۲،۳۴۱، ۳۴۲۰ ، ۳۲۶ ، ۳۲۵۰۳۲۴ ۳۶۶۳۶۵،۳۷۴ ،۳۶۳ ،۳۶۱ ، ۳۶۰۰۳۵۹ ، ۳۵۵ حمزة - ۴۳ ، ۱۳۵، ۲۵۲ - خالد بن ولید - خ -۳۷۸ ،۳۷۴ ،۲۵۹ ،۲۵۸ ،۲۵۴ ، ۲۵۱۰ خانه کعبه.خلیفہ اول / مولوی نورالدین - ۸ ،۱۵۱ ، ۱۱۲ ،۵۱۰۳۸ - ، ۲۳۹ ، ۱۹۰ خدیجه - ۴۳، ۳۹۷ - خنساء - ۸۱ - خواجہ غلام نبی - ۲۶۶ - خیر دین آف کچھار ماڑی والا.اللہ ۴۶ راود - ۲۳۹۰۸، ۳۲۴ - دمشق - ۳۲۴ ، ۳۲۵ ، ۳۲۶ ، ۳۷۷ ، ۳۳۰ ، ۳۳۲ ،۳۳۳ - ۳۳۸۰۳۳۷،۳۳۴ دیا نندھی - ۲۸۷ - دیوبند - ۶۸ - ڈاکٹر عبداللہ.- ۹۳ ڈاکٹر محمد رمضان - ۵۷ - 12 ۳۹۷ ،۳۹۳ ،۳۹۲ روس -۸ ۳۲۶ ،۷۹ ، زکریا - ۲۳۹ ، ۰ ساؤل.-.ز - ۲۴۵ ۲۴۴ ،۲۴۳ ، ۲۴۲ ،۲۴۰ ،۲۳۹ - pro - سبین ۳۲۶،۳۲۵ - سردار محمود طرزی - -46.44- سرسید احمد خان - ۲۰۵، ۲۰۶، ۲۶۴ - سفینۃ الاولیا ء ۲۷۰ سلیمان - ۳۲۴ ،۲۴۵ ،۲۴۴۰۸ سورة آل عمران - ۴۳.۳۲،۳۱،۳۰،۲۶ ،۲۳،۲۲،۱۵ ،۱۳۷۸ ،۷ رسول کریم - - ،۳۹،۳۸،۳۶،۳۵ ۱۱۶ ،۱۱۴ ، ۱۱۲ ،۱۱۰۰۹۹۰۹۶ ، ۹۵ ، ۹۴ ، ۷۵ ،۶۷ ، ۱۹۸ ،۱۶۷ ،۱۵۴ ، ۱۴ ۴۴ ، ۱۳۸ ،۱۳۱ ، ۱۲۵ ،۱۲۰ ۱۹۴ ،۱۸۶،۱۸۵ ، ۱۸۳ ، ۱۸۱ ،۱۸۰۱۷۸ ،۱۰ سورة الاعراف - ۲۵ ، ۳۰۹ ، ۳۱۳ - سورة البقره - ٩٠ ۰۳۹۷ ، ۱۶۲ سورۃ الحج.سورة الحجر - ۱۶۲ - سورة الذاريات - ٣٤٧.

Page 408

- ۲۵۰ ، ۲۰۹ ، ۱۴۰۰ ۶۵ ، ۴۵ -44 سورة الشعراء - ۲۳۶ - سورة الضحى - ۶ -74 سورة العنكبوت.-147 - سیرت ابن ہشام - ۵ سیرت خاتم النبيين.سیلون - ۱۱۳ سورۃ فاتحہ - ۵۰۱ ۵۵۰۴۶،۴۲۰۳۴ ،۲۸ ،۲۱۰۱۱،۵٠١٠ ۲۷۵۰۲۶۷۰۲۵۹۰۲۴۶۰۲۳۷،۲۲ ، ۲۱۹ ، ۲۱۰ ۰۸،۳۰۴،۲۹۷ ،۲۸۸ - ۳۸۹،۳۸۴ ،۳۷۷ ،۳۷۲،۳۵۲ ،۳۴۰ سینا - ۱۰۱ ش شام - شاہ ولی اللہ شاہ ۲۸۴ شعیب - ۲۳۹ شوکت علی (مولانا) - ۲۵۳ ،۲۵۲۷۲۴۹ سورۃ المائده - ۳۸ - سورة النحل - ۲۷۱ - سورۃ الناس - ۶۳ - سورة النور - ١٩٩ - سومناتھ.- 714- سیاست اخبار - ۱۲۸ - سیالکوٹ - ۴۹ - سی.اگر والی.سیٹھ چھوٹانی.- 1AY.سیٹھ عبدالرحمن اللہ رکھا.۲۲۶ - سیٹھ علی محمد - سیٹھ غلام حسین - سید مید رشید رضا - ۲۹۸ سید عبدالقادر جیلانی : ۱۲۵ ۳۲۵ ،۲۸۴ ،۲۸۳ سید محمد سرور شاه - ۲۹۹ - شیکسپیئر - ۳۹۱، ۳۹۲، ۳۹۳ - ص صالح - ۲۳۹.صحابه و.۱۶۸ ،۱۴۴ ،۱۲۵ ،۱۲۰،۴۷ ، ۳۱ ،۲۳ ۳۵۵ ، ۳۲۲ ،۲۸۴ ،۲۵۰ ،۲۰۸ ،۱۷۹ 0746074.صفار پہاڑی.طائف.طاعون.b -784- - P.1616- طبری - ا - ع عبدالحکیم (ڈاکٹر) ۹ ، ۱۳۲ - عبدالکریم آف قلعه صور سنگھ - - 744

Page 409

عبد الوہاب (امام) - ۳۷۰ علبه.۲۰۸ ،۱۸۱.عثمان - - ۲۰۸ ، ۱۳۵ ، ۶۸ عراق - ۳۳۳ - عرب - ۹۶ ، ۱۰۰، ۳۹۲ - عزرائیل - ۲۶۳ - - PAYA- عمر ۳۰۰ ،۴۳ ، ۴۵ ، ۱۳۵ ، ۱۳۹، ۲۰۸ ، ۲۱۱ ، ۲۱۶ یم ۳۴، ۳۴۵،۳۴۸۰۳۴۵، ۳۶۹، ۳۹۰۰۳۸۹ - ٣٩، ٣٩٨،٣٩٠۶۰۳۹۴ ،۳۹۳ ،۳۹۱ قاری نعیم الدین - قرآن کریم.۹۷ ،۹۰ ،۶۵،۶۳ ،۴۳ ،۳۹،۳۸،۲۶۰ ۲۰۱ ،۱۹۳،۱۸۵،۱۸۴،۱۸۱،۱۸۰ ، ۱۷۵ ،۱۷۷ ۲۴۳،۲۳۹۰۲۳۴۰۲۲۸ ،۲۲۱ ،۲۲۰ ، ۲۱۰ ،۲۰۷ ۲۶۷۲۶۵،۲۶۴ ، ۲۶۰۰ ۲۵۹ ، ۲۵۶ ، ۲۴۵ ۲۴۴ ۳۴۴ ،۳۲۹،۳۰۱ ، ۲۹۹ ، ۲۹۸ ،۲۹ ،۲۸۶ ۳۹۳،۳۹۳ ،۳۹۱، ۳۸۷ ، ۳۷۲ ، ۳۶۶ ،۳۵۵ ۰ ۳۶۵،۳۶۳،۳۶۲ ، ۳۶۱ ، ۳۲۵ ،۲۶۲ ،۲۴۳ عمر و بن العاص.عیسی ریخ - ۳۶،۳۵۰۸، ۵۸، ۶۷ ،۱۰۰۷۵۶، ۱۳۶ ۲۵۰۰۲۴۳ ۲۴۰۰۲۳۹،۲۰۲،۱۸۵ ،۱۲۸۰۱۲۷ ۲۷۳ ،۲۷۲،۲۶۹۰۲۶۵ ،۲۶۴۰۲۶۳ ،۲۶۲ -۳۶۸ ،۳۵۳،۳۲۶،۳۲۵، ۲۹۹ ک کابل - ۲۸ ، ۴۹ ، ۵۵ ، ۶۰ ، ۶۱ ، ۶۴، ۶۵ ۶۶ ۶۷، ۶۸ -١٨٣ فتوح الغيب.PAI- فرانس - ۵۷ ، ۶۶، ۷۹ ، ۱۰۳، ۲۰۳، ۲۰۵ ، ۲۵۱ ۳۳۸،۳۳۷،۳۳۴ ،۳۳۳ ،۲۷۰ کاٹلی (نام) - ۲۸۳ کانور.۰۲۸۴،۲۸۳ - 497 - کانگریس - ۰۳۱۴ فرشتے ملائکہ.فرعون - ۲۰۴ ، ۲۳۴ - فلسطين - ق قادیان - ۳۲ ۱۷۴ گجرات - ۳۵۱ گورداسپور - ۱۲۴ - گولڈ کوسٹ - ۳۱۱ - ۱۶۳، ۱۸۲ ، ۱۹۳، ۲۰۱ ، ۲۳۱، ۲۳۳۴، ۲۹۸،۲۹۳ گنگا دریا ) - ۲۸۳، ۲۸۴ - ۳۴۳۳۴۲،۳۲۳،۳۲۲،۳۲۱۰۳۲۰،۳۱۴ ، ۳۰۵ گلیل.۱۰۱.

Page 410

ل لاہور - ۴۵ ۵۰۰ ۳۴۳،۱۸۳،۱۳۸۰۶۰۰.لبنان - ۳۲۹ ، ۳۳۳ ، ۳۳۴ - لکھنو.۲۹۸ - لوط.- ۲۴۰۰۲۳۹ لیگ آف نیشنز ۸ م ماسٹر عبدالرحیم دنیر ) ۳۱۰۰ - مالابار - ۰۱۱۳ ۱۱۲ ، ۱۱۰۰۱۰۴ ،۹۷ ،۹۲،۸۹ ،۸۸ ،۸۵ ،۵۸ ۱۳۶۰۱۲۹،۱۲۷۰۱۲۶،۱۲۴ ، ۱۱۷ ، ۱۱۶ ، ۱۱۵ ، ۱۱۴ ۱۹۹ ،۱۹۸ ،۱۹۷،۱۸۷ ، ۱۸۶ ، ۱۸۵،۱۸۳،۱۷۸ ۲۰۹ ، ۲۰۰۰ ۲۰۷ ،۲۰۶،۲۰۴ ،۲۰۲،۲۰۱۰ ۲۰۰ ۲۳۹،۲۳۸ ،۲۳۷،۲۳۵ ،۲۳۴ ،۲۲۸ ،۲۲۶۰۲۱۷ ۲۵۹،۲۵۰ ،۲۵۵،۲۴۶ ،۲۴۵ ،۲۴۴ ،۲۴۲ ، ۲۴۰ متی - ۲۰۲ - حجافی الادب - ۵۶ ، ۳۹۸ - ۶۰ مجلس مشاورت / مجلس شوریی - ۵۲، ۱۱۸ ، ۱۸۹ - مجمع بحار الانوار - 19 ۳ محمد بخش.- 145 - محی الدین ابن عربی.- مدرسه احمدیه - ۳۲۶، ۳۵۰ - ۲۹۶۰۲۸۸،۲۸۷ ،۲۸۶،۲۸۵ ،۲۸۳ ،۲۸۲۰۲۸۱ ۳۳۶،۳۳۲،۳۲۸ ،۳٢٠٠٣٢٦٠٣٢٤٠٣۷۳ ،۳۱۵ ۳۸۱،۳۶۹ ،۳۵۰،۳۴۸ ،۳۴۷،۳۴۶ ،۳۴۵ ، ۳۳۸ مشكواة -.- ۳۷۱ ،۳۵۱،۳۲۳ ،۲۵۸ ،۲۰۲۰ ۱۰- مصر - ۱۰۱ ، ۲۹۸ - مصطفی کمال پاشا - ۱۸۲ مد بنه - ۴۲، ۶۵، ۲۴۷ ، ۲۴۹ ، ۲۵۲ ،۲۵۳، ۳۲۵ مرزها امام الدین - 114-1 مردہ (پہاڑی) مسجد مبارک (قادیان) - ۳۴۳ : - ۳۴۶ ،۳۴۴ ، معاویه ۰۳۲۵ ، ۱۱۷ مکه - ۴۲، ۴۴ ، ۶۵ ، ۶۶ ، ۱۶۷ ، ۲۴۷، ۲۵۳ ، ۲۵۴ -۳۹۳ ،۳۸۵،۳۶۸ ،۳۵۹ ، ۳۵۰ ، ۳۵۶ منی - ۳۷۸ - عر موسی - ۳۹،۳۸،۳۵،۸، ۸۵ ، ۲۰۴،۱۰۱، ۲۳۹،۲۳۵ مسجد نبوی.- ۳۷۸ ،۳۵۹ ، ۲۵۸ ،۲۵۳ ۲۵۲ ،۲۳۸ - ۳۷۱۰۳۵۱۰۳۲۳،٢٥٠١٦ - مسلم (صحیح) - ۵۸۰۱۷۶ مسیح موعود مرزا صاحب حضرت صاحب - ۹۰۸ مولانا روم ۵۰،۴۵،۴۱،۳۹ ، ۳۸ ،۳۶ ،۳۵ ،۲۴ ،۲۰۱۷ - 144 - -144-147 مولوی عبدالکریم -.

Page 411

مولوی عطاء اللہ (بخاری) - ۳۶۹ - مولوی فضل کریم - ۲ - 444 - ۱۱۳.مولوی محمد ابراهیم مالا باری.مولوی محمد اسمعیل آف ممدانه - ۳۵۱ مولوی محمد حسین بٹالوی - ۳۵۳، ۳۵۴ مولوی محمد علی ایم.اے.۶۰.مولوی نعمت اللہ خاں.- 8476666)696694 - مهاجرین جلد دوم - ۱۷۰ - وزیر آباد - ۱۸ ہاجره - ۳۶۴ ، ۶۷ بارون - ۲۴۰ ، ۲۴۴ ، ۳۷۶ - ہمالیہ - ۲۸۰ - ہندوستان - ۴۸ ، ۶۷ ، ۷۹ ، ۱۱۸، ۱۲۰، ۱۲۴ ۲۹۸،۲۵۴۰۲۴۸ ،۲۴۷،۲۳۸ ،۱۷۴ ، ۱۲۵ ۰۳۵۳ ،۳۳۴ ،۳۱۱ ن ناتھ پور (گاؤں) - ۷۲ نپولین - ۲۰۴، ۲۰۵ نجاشی (اصحہ).-41- ندوه - ۰۲۹۸ ۲۷ نزہتہ المجالس.نمار (علاقہ) - ۴۱ نوح - - ۲۴۴ ،۲۳۹ ،۳۵ نیوٹن.۲۸۲ - ورڈن.-rry - ہیرو اینڈ ہیر وورشپ - ۲۰۹ - ی یحیی - ۲۴۰ ، ۲۴۲ ، ۲۴۳، ۲۲۴ یزید - ۱۴۲ - یورپ ۳۰۰ ، ۷۷ ، ۷۰، ۷۸ ۰ ۱۰۲ ، ۱۱۸ ، ۲۰۴، ۲۰۵ - ۳۹۸،۳۳۷۰ ۳۳۶ ،۲۶۴ ،۲۳۸ - ۲۴۰ ،۲۳۹ - یوشع یوگنڈا.۱۲۲

Page 412

قرآن کریم می احادیث نبوید بخاری (صحیح) مسلم (صحیح) ترمذی (جامع) ابو داؤد (سنن) مشكاة المصابيح عهد نامه قدیم و جدید متى اعمال الرسول سیرت و سوانح تاریخ الخلفاء کتابیات سیرت ابن هشام سیرت خاتم النبيين طبری "/ " سورة الشعراء امام ابو عبد الله محمد بن اسمعیل البخاری ابوالحسن مسلم بن الحجاج القشیری نیشاپوری ء ابوعیسی محمد بن عیسی الترمذی " ابو داؤد سلیمان بن الاشعث السجستانی محمد بن عبد الله الخطيب حافظ جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی البو محمد عبد الملک بن ہشام صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم.اسے البوجعفر محمد بن جریر الطبري مهاجرین دسته صحابه ی جلد دوم - معین الدین ندوی ہیرو اینڈ ہیرو ورشپ کارلائل ٹامس اردو جامع انسائیکلو پیڈیا.شائع کردہ شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور

Page 413

تذکره ۱۰ مصفر سفينة الاولیاء - مجاني الادب في حدائق العرب مجمع بحار الانوار نزهته المجالس ن " " مجموعہ الہامات وكشوف حضرت بانی سلسلہ احمدیہ دارا شکوه الاب لولس شیخو اليسوعي امام محمد تقی السباقر الشيخ عبد الرحمن الصفورى

Page 413