Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔
3 ہمارا آئندہ پروگرام (فرموده ۵ / جنوری ۱۹۲۳ء) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.مجھے کھانسی اور بخار کی شکایت ہے.اس لئے بلند آواز سے میں نہیں بول سکتا.لیکن میں سمجھتا ہوں آج کا دن اس انتظام کو مد نظر رکھ کر جس پر آج کل دنیا کار بند ہو رہی ہے بہت اہم ہے.اس لئے جس طرح بول سکوں.بولتا ہوں.دنیا میں کام کرنے والی ہر ایک قوم آئندہ کے لئے اپنا پروگرام بناتی اور اس کے ماتحت کام کرتی ہے.جب سال گذرتا ہے تو وہ دیکھتی ہے کہ اس سال کے لئے اس نے جو پروگرام بنایا تھا اس پر کہاں تک اس نے عمل کیا.اگر عمل کرنے میں کو تاہیاں ہوئی ہیں تو کیوں ہوئی ہیں.آیا اپنے قضوروں سے یا اتفاقی حادثات سے اور اگر اپنے قصوروں سے تو ان کا شرعی نتیجہ کیا نکلا ہے اور قدرتی کیا.پھر جو غلطیاں معلوم ہوں ان کا تدارک کرتی ہے.یہی طریق ہر سال برابر چلتا جاتا ہے.ہمارا بھی پچھلا سال گزر گیا ہے جو بڑی عمر والے تھے ان کا بھی گزر گیا ہے اور جو چھوٹی عمر والے تھے ان کا بھی.عورتوں کا بھی وہ سال گزر گیا ہے اور بچوں کا بھی.سب کا کسی نہ کسی رنگ میں گذر گیا ہے.تمہارا وہ سال جس طرح گذرا اس پر غور کر کے دیکھ لو کہ جس طرح گذرا ہے اگر اس طرح نہ گذر تا بلکہ اس طرح گذر تا تو بھی گزر ہی جاتا.لیکن جب تک نفسانی خواہشیں، اُمنگیں اور اُمیدیں سامنے تھیں اس وقت صرف وہی تمہیں اپنی زندگی کا مقصد نظر آتی تھیں.لیکن جب وہ گذر گئیں تو معمولی ہو گئیں.تم سوچو اگر اس گذرے ہوئے سال میں اس طرح نہ ہو تا جس طرح تم چاہتے تھے بلکہ اس طرح ہوتا جس طرح اسلام چاہتا تھا.جس طرح بنی نوع انسان کے فوائد چاہتے تھے.جس طرح سلسلہ اور جماعت کے اغراض و مقاصد چاہتے تھے.جس طرح اعلیٰ اخلاق چاہتے تھے.جس طرح عزیزوں اور رشتہ داروں کے تعلقات چاہتے تھے.تو کیا تمہاری زندگی میں کوئی فرق آجاتا ہے.ہرگز نہیں.اب جبکہ وہ وقت گذر گیا جس میں تم ذاتی اور نفسانی فوائد اور اغراض کو اپنی زندگی کا اہم مقصد سمجھتے تھے اور جن کی نسبت خیال رکھتے تھے کہ ان کے بغیر زندگی تلخ ہو جائے گی.وہ تم کو
4 معمولی معلوم ہوں گے.اگر اس طرح تم اپنے گذشتہ سال پر غور کرو گے اور سوچو گے تو آئندہ کے لئے تمہیں بہت مدد مل جائے گی اور تم اپنی زندگی کو بہت زیادہ کار آمد بنا سکو گے بہت لوگ ہیں.جو معمولی معمولی شخصی فوائد پر جھگڑے پیدا کرتے اور سمجھتے ہیں کہ اگر یوں نہ ہوا جس طرح ہم چاہتے ہیں تو اندھیرا ہو جائے گا.وہ اس وقت اپنے اور اپنے دوستوں کی زندگی کا مدار اسی پر سمجھتے ہیں لیکن اگر وہ ایسا نہ کریں تو بھی میں یقین دلاتا ہوں کہ زندہ رہ سکیں بلکہ زیادہ عمدگی سے زندگی بسر کر سکیں.لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس وقت یہ نہیں سمجھا جاتا اور پیچھے یہ معلوم ہوتا ہے.پس تم لوگ ایک تو پچھلے سال پر غور کرو کہ اس میں تم نے شخصی اور ذاتی فوائد کے لئے جو اسلام کے فوائد کو قربان کیا اگر نہ کرتے تو آج دنیا میں اس سے بہتر زندگی بسر کرتے یا نہ.جیسی کر رہے ہو.اگر اس بات پر غور کرو گے تو اگلے سال کے لئے تمہیں طاقت اور مدد مل جائے گی اور تم ذاتی اور نفسانی فوائد کو اسلام کے فوائد پر بآسانی قربان کر سکو گے.بے شک ایک آدھ دفعہ اس بات پر غور کرنے سے فائدہ نہ ہو گا مگر بار بار غور کرنے سے ضرور فائدہ ہوگا.اب رہا.آئندہ کا پروگرام.مسلم اور غیر مسلم میں یہی فرق ہے کہ غیر مسلم کو سوچنا پڑتا ہے کہ آئندہ کیا کرے لیکن مسلم کے لئے پروگرام مقرر ہے صرف اس کی تفصیلیں طے کرنا باقی ہوتی ہیں.اور وہ پروگرام یہ ہے وما خلقت الجن والانس الا ليعبدون (الذاریت ۵۷) خدا تعالی فرماتا ہے میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ میرے عبد بن جائیں.پس چونکہ مسلم کا پروگرام یہی ہے کہ اللہ کا بندہ بنے.اس لئے تم آئندہ کا پروگرام میں بناؤ کہ خدا کا بندہ بن کر دکھاتا ہے اس بندہ کے لئے بہت سے کام ہوتے ہیں.ان فرائض کی تفصیل اس مضمون کو واضح کر سکتی ہے.مگر میں نے بتایا ہے آج مجھے بولنے کی طاقت نہیں اور وقت بھی زیادہ ہو گیا ہے.مگر میں تاکید کرتا ہوں کہ ایک نکتہ کو مد نظر رکھنا.حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے رمضان میں انسان کو یہ عہد کر لینا چاہیے کہ اب کے میں یہ عیب ضرور چھوڑ دوں گا اور اس طرح عیوب کو چھوڑتے جانا چاہیے.اس سال مثلاً ہماری جماعت یہ بات سامنے رکھ لے کہ جماعت میں اتفاق و اتحاد پیدا کرنا ہے.یہ جن اسباب اور ذرائع سے پیدا ہوتا ہے ہر ایک احمدی ان کو مہیا کرے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرے.لڑائیاں جھگڑے محض چھوٹے چھوٹے ذاتی فوائد کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں.اگر وہ فوائد حاصل نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں ہوتا مگر انسان سمجھتا ہے کہ بہت نقصان ہوتا ہے حالانکہ بہت کم ایسی باتیں ہیں جن سے نقصان ہوتا ہے اور جن سے نقصان ہوتا ہے ان کی طرف توجہ نہیں کرتا.اور جن میں نہیں ہوتا ان میں جھگڑے پیدا کرتا رہتا ہے.مثلاً خدا تعالیٰ سے تعلق نہ ہونے
میں نقصان ہوتا ہے.مگر ادھر خیال نہیں کرتا.اور اگر مال نہ ملے تو اس کو نقصان سمجھتا ہے حالانکہ کئی مال جو آتے ہیں اپنے ساتھ ایسی ایسی ذمہ داریاں لاتے ہیں جن کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے خدا سے پہلے جو تعلق ہوتا ہے وہ بھی جاتا رہتا ہے.تو بہت سے فتنے ایک چیز کی غلط اہمیت سمجھنے سے پیدا ہوتے ہیں اور اکثر جھگڑے اسی بات سے پیدا ہوتے ہیں کہ جھوٹی بات کو بڑا سمجھ لیا جاتا ہے.معمولی معمولی باتوں پر انسان تفرقے ڈال دیتا.دنگے پیدا کر دیتا ہے یا ذرا ذرا سے مالی فوائد پر اس قدر لڑتا ہے کہ اخلاق بگاڑ لیتا ہے اپنے بھائیوں سے بولنا چھوڑ دیتا ہے حالانکہ اصل زندگی جس کے بغیر عبودیت قائم نہیں رہ سکتی.اتحاد و اتفاق ہی ہے.وجہ یہ کہ اللہ کی ایک ذات ہے اور جتنی چیزیں ایک نقطہ کی طرف جائیں گی.وہ آپس میں قریب ہوتی جائیں گی اور جتنی اس نقطہ سے دور ہوتی جائیں گی.اتنا ہی ان میں زیادہ بعد ہوتا جائے گا.ایک نقطہ ڈال کر دیکھ لو خطوط جتنے اس کے قریب ہوتے جائیں گے اتنے ہی آپس میں بھی قریب ہونگے اور جتنے دور ہونگے اتنے ہی زیادہ آپس میں بھی دور ہونگے.اسی طرح جو اللہ تعالی کے جتنا قریب ہوتا ہے.اتنا ہی انسانوں سے بھی قریب ہوتا جاتا ہے.خدا تعالیٰ ایک نقطہ اور مرکز ہے جس پر سب چیزیں مجتمع ہوتی ہیں.سب مخلوقات کا منبع خدا کی ذات ہے.اس لئے وہ نقطہ جس سے ساری لکیریں ملتی ہیں جتنا اس کے کوئی قریب ہو گا اتنا ہی دوسروں سے قریب ہو گا اور جتنا لوگوں سے دور ہو گا اتنا ہی خدا سے دور ہو گا.اگر تم دیکھو کہ لوگوں سے تمہیں شقاق ہے تو یہ بھی سمجھ لو کہ تم خدا سے بھی دور ہو.یہ ہو نہیں سکتا کہ تم خدا کے قریب ہو اور بندوں سے دور.یہ تو ہو سکتا ہے کہ خدا سے دور ہونے والا تم سے دور ہو.مگر تم خدا کے قریب ہو کر اس سے دور نہیں ہو سکتے.ابو جهل بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے دور تھا.کیونکہ خدا سے دور تھا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے دور نہ تھے کیونکہ ابو جہل بھی خدا کا بندہ تھا خواہ کتنا ہی شرارت میں بڑھا ہوا تھا.قرآن کریم میں جو یہ آتا ہے کہ لعلك باخع نفسك الا يكونوا مؤمنين (الشعراء ۴) تو کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسلمانوں کے لئے غم کرتے تھے کہ وہ مسلمان نہیں ہوتے.بلکہ ابو جہل عقبہ شیبہ کے لئے آپ کی یہ حالت تھی.پس خوب سمجھ لو کہ خدا تعالیٰ کا قرب پانے کی علامت یا ذریعہ.بنی نوع انسان کی ہمدردی ہے.خصوصاً ایک مذہب والوں کی ہمدردی تو ایمان کا جزو ہے.اس کو مد نظر رکھ کر اپنے حرکات و سکنات اقوال و افعال کو اس کے مطابق بناؤ اور پھر دیکھو کہ خدا کے کیسے کیسے فیضان تم پر نازل ہوتے ہیں.خداتعالی تمہیں اس کی توفیق دے.(الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۲۳ء)
6 2 سورہ فاتحہ کی اہمیت (فرموده ۱۲ جنوری ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.پہلے تو میں اس بات کا اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ گو کھانسی کی ابھی مجھے شکایت ہے لیکن چونکہ یہ شکایت لمبی ہو گئی ہے اور عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ سردیوں میں کھانسی کی شکایت ہو تو لمبی ہوتی ہے.ادھر درس میں بھی لمبا وقفہ ہوتا جاتا ہے.اس لئے ارادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو کل سے عصر کے بعد درس قرآن شروع کر دوں.اس کے بعد تمام دوستوں کو اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ سورۃ فاتحہ ایک ایسا مضمون ہے جس کے اوپر اسلام نے اس قدر زور دیا ہے کہ شاید ہی کسی اور مذہب کی کسی تعلیم پر اتنا زور دیا گیا ہو.آخر ہر مذہب و ملت کے لوگوں کے نزدیک اپنے مذہب کی کوئی نہ کوئی بات خصوصیت رکھتی ہے.مثلاً عیسائی کفارہ اور نجات پر بہت زور دیتے ہیں اور اس کو اپنے مذہب کی نہایت اہم اور ضروری جنموں کی سزا و جزا بھگتنے اور جنموں سے چھٹنے کی تعلیم سمجھتے ہیں.یا ہندو ستایخ اور ج شش ، اہم تعلیم قرار دیتے ہیں.اسلام نے کلمہ شہادت پر بڑا زور دیا ہے اور اس کو ایمان کی جڑ قرار دیا ہے لیکن یہ کیا بات ہے کہ کلمہ شہادت کے پڑھنے پر اتنا زور نہیں دیا گیا جتنا سورہ فاتحہ کے پڑھنے پر دیا گیا ہے.سنن کو اگر چھوڑ دیا جائے تو یوں سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالی کی طرف سے ۱۷ دفعہ روزانہ اس تعلیم کے بطور فرض پڑھنے کا حکم ہوا.وتر جو واجب ہیں.ان کو ملا لیا جائے.تو میں مرتبہ روزانہ پڑھنے کا حکم ہوا.پھر سنن جن کی تعیین رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہوئی ہے.ان کی اونی تعداد کو اگر شامل کیا جائے تو دس اور ملا کر ۳۰ دفعہ روزانہ بن گئی.اور اگر سنن کی اعلیٰ مقدار شامل کی جائے تو پھر ۳۴ دفعہ ہو جاتی ہے.اس کے بعد وہ نوافل جو نہایت پسندیدہ ہیں اور جن پر قرآن کریم نے بھی زور دیا ہے.ان کو ملا لیا جائے تو ۴۲ دفعہ اور اگر وہ نوافل جو عموماً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے.ملالئے جائیں تو پھر پوری پچاس دفعہ
روزانہ بن جاتی ہے.گویا ۷ دفعہ سے لیکر ۵۰ دفعہ تک برابر ایسی حد بندی ہے کہ جس کی ایک حد تو فرض ہے.دوسری حد قریب قریب فرض کے ہے.یعنی سنن اور پھر نوافل اور اگر اور مختلف نوافل شامل کر لئے جائیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پسند فرماتے تھے گو ان پر زیادہ زور نہ دیتے تھے تو ۶۰ تک تعداد پہنچ جاتی ہے اور کوئی نماز بلکہ کوئی رکعت ایسی نہیں رکھی گئی جن میں سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ضروری نہ ہو.حتی کہ جنازہ کی نماز میں بھی سورہ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے حالانکہ بظاہر یہ نماز مرنے والے کے لئے دعا ہے.اس میں کیا حکمت ہے سورۃ فاتحہ کے پڑھنے پر اس قدر جو زور دیا گیا ہے.میرے نزدیک اتنا زور دینے کی وجہ سورہ فاتحہ کے مضمون سے ہی ظاہر ہے.سورہ فاتحہ چونکہ تمام قرآن کے مضامین کا خلاصہ ہے.اس لئے کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم کا کوئی مضمون نہیں جو اس میں نہ ہو.اور چونکہ قرآن کریم تمام روحانی ضروریات کو پورا کرنے والا ہے اور اس میں وہ تمام مضمون ہیں جن کے بغیر خدا نہیں مل سکتا.جن کے بغیر روحانیت مکمل نہیں ہو سکتی.جن کے بغیر اخلاق اعلیٰ نہیں ہو سکتے.اور جن کے بغیر تمدن قائم نہیں رہ سکتا.اس لئے کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب مضامین سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئے ہیں.حضرت مسیح موعود نے ثابت کئے ہیں.اور ہم بھی خدا کے فضل سے اصولی طور پر سب مضامین سورہ فاتحہ سے ثابت کر سکتے ہیں.اگر کوئی معترض کھڑا ہو اور کہے خدا کے قرب کے گر.روحانیت میں ترقی کرنے کے طریق.اخلاقی مضامین یا تمدن کے قیام کے گر بتاؤ.تو ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہ صرف یہ بلکہ ہر قسم کے روحانی مسائل اصولی طور پر اس سورۃ سے نکال سکتے ہیں.لیکن ایک مضامین عبارت کے الگ الگ ٹکڑے اور الفاظ سے تعلق رکھتے ہیں اور دوسرے عبارت کی ترتیب سے.پس اس سورۃ کے ٹکڑوں سے سب مضامین نکلتے ہیں.مگر ساری سورہ فاتحہ ایک خاص مضمون کی طرف توجہ دلاتی ہے.اور جو شخص بھی سورہ فاتحہ پر غور کرے گا فوراً سمجھ - جائے گا کہ اسی مضمون کی وجہ سے اس کے پڑھنے پر اس قدر زور دیا گیا ہے.وہ مضمون کیا ہے.بسم اللہ الرحمن الرحیم کو علیحدہ کر کے کہ یہ سورہ فاتحہ کی کنجی ہے اور کنجی اپنا مستقل وجود رکھتی ہے اس کو چھوڑ کر اس طرح شروع ہوتی ہے.الحمد لله رب العالمين....الخ ساری خوبیاں خداتعالی میں ہی ہیں.اس سے ہر شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ خدا کے سوا اور کسی ذات میں سب خوبیاں نہیں.صرف اللہ ہی کی ذات ایسی ہے جس میں سب خوبیاں ہیں.اس کے بعد بتایا کہ اللہ میں یہ یہ خوبیاں ہیں.تم غور کرکے دیکھ لو.تم میں یہ ہیں یا نہیں.انسان سمجھ لے گا کہ نہیں اور انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے.جب اس میں وہ خوبیاں
نہیں تو کسی اور مخلوق میں بھی نہیں ہو سکتیں.پس اس حصہ میں خدا تعالیٰ کی ذات کے اکمل اور بے مثل ہونے اور باقی چیزوں میں جو خوبیاں پائی جاتی ہیں ان کے خلقی ہونے کا ذکر ہے.اس کے آگے یہ بتایا ہے کہ دنیا میں دو قسم کے نقائص اور کمزوریاں ہوتی ہیں.ایک وہ جو دُور نہیں ہو سکتیں اور دوسری وہ جو دُور ہو سکتی ہیں.مثلاً انسان کی بعض کمزوریاں ایسی ہیں جو کبھی دُور نہیں ہو سکتیں جیسا کہ انسان کے وجود کو ایک خاص حد تک بڑھنے کی اجازت ہے یعنی پانچ چھ فٹ تک لمبا اور ایک حد تک چوڑا ہو.اب اگر کوئی چاہے وہ اتنا موٹا ہو جائے کہ چار پانچ گھماؤں میں بیٹھ سکے.یا اتنا لمبا ہو جائے کہ ہمالیہ کی چوٹی کے برابر ہو جائے تو یہ نہیں ہو سکے گا کیونکہ اس کی حد مقرر ہے.اسی طرح اگر کوئی چاہے (جیسا کہ کئی لوگوں کو کھانے کا اس قدر شوق ہوتا ہے وہ چاہتے ہیں کہ ہر وقت کھاتے رہیں) کہ میں ہر وقت کھاتا جاؤں اور میرا پیٹ نہ بھرے اور وہ سو ہزار یا لاکھ من کھا جائے تو یہ نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ اس کی حد بندی ہے اسی طرح بعض اور کمزوریاں ہیں.مثلاً یہ ہے کہ بعض اعضاء اگر کٹ جائیں تو پھر نہیں لگ سکتے.یا کسی کا ناک کان کٹ جائے تو یہ نہیں ہو گا کہ اور اگنے لگ جائے.یہ تو اس قسم کی کمزوریاں ہوئیں جو دُور نہیں ہو سکتیں اور بعض نقائص ایسے ہیں جو دور ہو سکتے ہیں مثلاً اگر کوئی بیماری سے کمزور ہو جائے تو دوائی کھا کر طاقتور ہو جاتا ہے.ایاک نعبد و ایاک نستعین میں بتا دیا کہ انسان کو دیکھنا چاہئیے اس کے لئے کمزوریاں تو ہیں لیکن کیا اس کے لئے دائرہ ہے بھی یا نہیں.ایک تک کٹے کے لئے دائرہ نہیں کہ اس کا ناک دوبارہ بن جائے.مگر دیکھنا یہ ہے کہ انسان ترقی کر سکتا ہے یا نہیں ایاک نستعین میں بتایا کہ انسان کے لئے ترقی کا دائرہ ہے.کیونکہ مدد کی تب ہی ضرورت ہوتی ہے جب کچھ حاصل کرتا ہے.گویا یہاں تک یہ معلوم ہو گیا کہ ادھر تو انسان کے ساتھ نقائص اور کمزوریاں لگی ہوئی ہیں اور ادھر ترقی بھی کر سکتا ہے.آگے بتا دیا کہ جس چیز میں ترقی ہو سکتی ہے.اس میں تنزل بھی ہو سکتا ہے.جب تغیر انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے تو یہ گندا بھی ہو سکتا ہے اور اچھا بھی.اس لئے بتا دیا کہ اهدنا الصراط المستقیم کے ذریعہ نیک تغیر کی درخواست کرتے رہو.اور کہو کہ اے خدا ہماری ذات کامل نہیں کامل ذات تیری ہی ہے.مگر تو نے ہماری ذات ایسی بنائی ہے جس میں تغیر ہو سکتا ہے.یہ نیچے بھی جا سکتی ہے اور اوپر بھی.مگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا تغیر اچھا ہو.برا نہ ہو.یہ خلاصہ ہے اس دعا کا.اور اسی لئے اس پر اس قدر زور دیا گیا ہے.چونکہ انسان کی ذات میں تفر ممکن ہے اور ہو سکتا ہے.اس لئے یہ دعا سکھائی ہے اور بتایا ہے کہ چونکہ تمہارے لئے جب دونوں امکان ہیں.نیک بھی اور بد بھی اس لئے تم ہر وقت ڈرتے رہو کہ بد نہ ہو :
بلکہ نیک ہو.اور جب تک یہ خوف یہ طمع نہ لگی رہے کوئی شخص ایماندار نہیں ہو سکتا.اس لئے اس طرف اس قدر زور کے ساتھ توجہ دلائی گئی ہے.اور بتایا ہے کہ ایک کامل وجود ہے جس نے تمہارے لئے یہ رکھا ہے کہ تم جگہ سے ہٹ سکتے ہو.یہ ہٹنا خواہ آگے کی طرف ہو خواہ پیچھے کی طرف مگر ہٹنا ضروری ہے اس لئے تم دعا کرو کہ تمہارا ہٹنا آگے چلنے کے لئے ہو.پیچھے ہٹنے کے لئے نہ ہو.نماز، روزه، نیکی، تقوی، اخلاق، تمدن ہر چیز میں یہ بات لگی ہوئی ہے انسان آگے ہوگا یا پیچھے اس کے لئے تباہی ہوگی یا کامیابی.اس لئے مومن کو اس طرف خاص توجہ کرنی چاہئیے اور یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنی جگہ پر کھڑا رہ سکے گا.اسے یا آگے ہونا پڑے گا یا پیچھے.جب کبھی کوئی تباہ ہوا ہے اسی سورۃ کے اس مضمون کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہوا ہے.کیونکہ جب کوئی سمجھتا ہے کہ اب میں محفوظ ہو گیا ہوں.اب میرے لئے کوئی خطرہ نہیں تو وہی اس کا پہلا قدم ہوتا ہے جہاں اسے شیطان پکڑتا اور تباہی کے نچلے غار میں لے جاتا ہے.لیکن افسوس ہے کہ وہ لوگ جو پانچ وقت روزانہ کئی کئی بار اس سورۃ کو پڑھتے ہیں وہ جب روحانی نظارے دیکھتے ہیں تو اس کے اس مضمون کو بھول جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم محفوظ ہو گئے ایسے لوگ بڑے بڑے درجے حاصل کرتے ہیں مگر بے ایمان ہو کر مرتے ہیں.بڑی بڑی محنتیں کرتے ہیں مگر ان کا کچھ نتیجہ نہیں حاصل کر سکتے.مجھے معلوم ہے ایک ایسا شخص ہے جو نماز کا تارک اور چندہ دینے میں سست ہے.جب کوئی اسے کہتا ہے کہ نماز پڑھا کرو اور چندہ دیا کرو.تو وہ کہتا ہے بہت نمازیں پڑھ لیں اور بہت چندے دے دے.یہ شخص اگر یہ قادیان سے باہر کا ہے لیکن اس قسم کے بعض لوگ یہاں بھی پائے جاتے ہیں.ایک وقت تکہ، انہوں نے خدمتیں کیس پھر انہوں نے سمجھ لیا کہ اب ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہم نے ؟ کچھ حاصل کرنا تھا کر لیا.یہ لوگوں کے لئے فتنہ اور اپنے لئے بے ایمانی کا سامان مہیا کرتے ہیں.ایسے لوگ ذرا غور تو کریں کہ کیوں خدا تعالیٰ نے اس سورۃ کو رکھا.کیوں اس پر اتنا زور دیا.کیوں ہر رکعت میں یہ نہیں بدلتی.کیوں دن رات میں اس کثرت سے پڑھی جاتی ہے.اس لئے کہ انسان ایک حالت پر نہیں رہ سکتا.اوپر ہوگا یا نیچے اور اس بارے میں اطمینان اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب موت آجائے.اس وقت انسان پاس ہو جاتا ہے اور پاس کو کوئی فیل نہیں کیا کرتا.پس یہ مت سمجھو کہ کل تک تم نے جو خدمتیں کی ہیں.ان کی وجہ سے ایماندار ہو گئے ہو اور آج تمہیں اختیار ہے کہ دینی خدمات کو چھوڑ دو.اگر ایسا کرو گے تو تمہارا قدم وہاں نہیں ٹھرے گا جہاں پہلی خدمات کی وجہ سے پہنچا ہے بلکہ نیچے آنا شروع ہو جائے گا.کیونکہ خدا تعالی کے سوا کوئی چیز ایک جگہ قائم نہیں رہ سکتی.اگر تم سمجھتے ہو کہ تمہیں آگے بڑھنے کی
10 ضرورت نہیں.تو یاد رکھو تم وہاں بھی نہ ٹھہر سکو گے جہاں پہنچ چکے ہو بلکہ اس سے نیچے گرنے لگ جاؤ گے پس تم اس سورۃ کو لغو نہ پڑھو.بلکہ اس کے مطابق اپنی زندگیاں بناؤ.تا ایسا نہ ہو کہ محمد رسول اللہ بنتے بنتے ابو جہل بن جاؤ.اس سورۃ کو یونہی نہ پڑھو.بلکہ اس پر اس طرح قائم کر رہو.جس طرح ایک تیز گھوڑا جو ٹھو کر کھا کر سر پھوڑ دینے والا ہو.اس پر سوار قائم رہتا ہے.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ لوگوں کو بھی اس سورۃ کے مضمون پر قائم رہنے کی توفیق دے اور اس رستہ سے بچائے جس پر چلنا اس کی ناراضگی کا موجب ہے.وہ شخص جو ٹھو کر کھائے ہوئے ہو اور لوگ اسے سمجھائیں.اس شخص سے زیادہ کامیاب ہونے کے قریب ہوتا ہے جو سمجھتا ہے کہ میں ہدایت پاگیا.مگر حقیقت میں ٹھو کر کھائے ہوتا ہے.کیونکہ اس کو نہ کوئی سمجھانے والا ہوتا ہے اور نہ وہ خود سمجھنے کی ضرورت سمجھتا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ سے ہی دعا ہے کہ ایسے لوگوں کو صحیح الفضل ۱۸ جنوری ۱۹۲۳ء) راستہ پر چلائے.
3 خدمت و قربانی کا خاص وقت (فرموده ۲۶ / جنوری ۱۹۲۳ء) سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.میں نے بارہا اپنے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہماری جماعت کے اہم ترین فرائض میں سے ایک فرض اس حق اور راستی کی اشاعت ہے.جسے پھیلانے کا اس وقت اللہ تعالیٰ کی پاک ذات نے ارادہ کیا ہے.خدا تعالیٰ کے ارادہ اور منشاء کے رستہ میں کوئی چیز روک تو نہیں ہو سکتی اور اللہ تعالٰی کے منشاء کے پورا ہونے میں جو چیز بھی حائل ہوگی وہ ضرور کچلی اور پیسی جائے گی.لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام ارادوں کو پورا کرنے کے لئے قانون جاری کیا ہوا ہے.کوئی وجود دنیا میں ایسا نہیں جو خدا کے ارادوں میں روک ڈال سکے یا ان کے لئے قیود مقرر کر سکے.مگر وہ ذات خود اپنے ارادوں کے لئے شرائط مقرر کرتی ہے.اور اللہ تعالیٰ کے تمام ارادوں کے لئے ایک قانون ہے جو یہ ہے کہ ہر ارادہ کے پورا ہونے کا ایک وقت اور ایک ساعت مقرر ہے.بے شک اللہ تعالی چاہتا تو زمین میں گیسوں کا دانا ڈالتے ہی کھیت اُگا دیتا.اگر اللہ تعالٰی چاہتا تو ماں باپ کے ملنے اور نطفہ قرار پانے کے وقت ہی بچہ پیدا کر دیتا.اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو آم کی گٹھلی زمین میں دباتے ہی آم کا بنو مند درخت پیدا کر دیتا اور اسی وقت اس کے ساتھ آم بھی لگ جاتے.اگر اللہ تعالی چاہتا تو زمین کی کانیں ایک لحظہ میں تیار کر دیتا.مگر خدا تعالٰی نے یہ چاہا نہیں.خدا تعالیٰ نے یہی چاہا کہ ایک عرصہ کے بعد گندم تیار ہو.ایک عرصہ کے بعد بچہ پیدا ہو.ایک مدت کے بعد آم کا درخت تیار ہو.اور لاکھوں سالوں کے بعد کانیں بنیں.تو گو اللہ تعالی کی طاقت اور قدرت ہے کہ کام فورا کرے.مگر کرتا نہیں.اس میں بڑی بڑی عظمتیں ہیں.جن میں سے بعض ہستی باری تعالٰی کے مضمون سے تعلق رکھتی ہیں.مگر اس جگہ چونکہ ان حکمتوں کا مضمون سے تعلق نہیں اس لئے بیان نہیں کروں گا بلکہ صرف یہ بتاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا منشاء اور ارادہ پورا کرنے کے لئے وقت مقرر ہوتا ہے.اس وقت میں درمیانی روکیں آئیں.عرصہ لگے.وقفہ ہو.تو یہ اس
12 بات کا ثبوت نہیں کہ اس کام کو کرنے کا خدا تعالٰی کا منشاء نہیں بلکہ وہ مقررہ قانون کے ماتحت ہے.لوگ کہتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کا منشاء ہوتا کہ دنیا مرزا صاحب کو مان لے تو اب تک کیوں نہ سارے لوگ ان کو مان لیتے.اگر خدا تعالیٰ کا منشاء ہوتا کہ مرزا صاحب کے ذریعہ عیسائیت تباہ ہو تو اب تک کیوں نہ ہو جاتی.اگر خدا تعالی کا منشاء ہو تا کہ احمدیت پھیل جائے تو اس وقت تک کیوں نہ پھیل جاتی اگر اس بات کو صحیح مان لیا جائے تو ہم کہتے ہیں اگر خدا تعالیٰ کا منشا ہوتا ہے کہ بچہ پیدا ہو تو کیوں اسی دن پیدا نہیں ہو جاتا.جس دن میاں بیوی ملتے ہیں.اگر خدا تعالیٰ کا منشاء ہوتا ہے کہ گیہوں پیدا ہو تو کیوں اسی دن نہیں پیدا ہو جاتی جس دن زمین میں بیچ ڈالا جاتا ہے اگر خدا تعالی کا منشاء ہوتا ہے کہ آم پیدا ہوں تو کیوں اسی دن آم کا درخت آگ کر اس پر آم نہیں لگ جاتے جس دن گٹھلی زمین میں دبائی جاتی ہے.اگر خدا تعالیٰ کا منشاء ہوتا ہے کہ کانیں بنیں تو کیوں ایسا نہیں ہو تا کہ ایک دن کو ئلہ کو زمین میں دفن کیا جائے اور دوسرے دن ہیرا بن جائے.تم سب ان چیزوں کو خدا تعالی کی پیدا کردہ چیزیں مانتے ہو.مگر کہتے ہو کہ ان کے لئے ایک وقت ایک عرصہ اور ایک زمانہ مقرر ہے.ہم پوچھتے ہیں کہ کیا گیہوں خدا پیدا نہیں کرتا.خدا ہی پیدا کرتا ہے.مگر کیا اس کو چھ مہینے نہیں لگتے.اسی طرح کیا نطفہ جو رحم میں جاتا ہے اس سے خدا بچہ پیدا نہیں کرتا.خدا ہی پیدا کرتا ہے.مگر اس کو 9 مہینے لگتے ہیں.پھر کیا.آم کی گٹھلی سے آم کا درخت خدا نہیں بناتا.خدا ہی بناتا ہے.مگر اس کو ایک عرصہ لگتا ہے پس اگر گیہوں کے دانے کو گیہوں بنانے کے لئے چھ ماہ کا عرصہ لگتا ہے.اگر آدمی کے نطفہ کو آدمی بنانے میں 9 ماہ لگتے ہیں.اگر آم کی گٹھلی سے آم بنانے میں ۹.۱۰ سال لگ جاتے ہیں تو ہم پوچھتے ہیں اگر شیطان کو انسان بنانے میں دس میں چالیس پچاس یا سو پہال لگیں تو کیا حرج ہے.گیہوں کو گیہوں بنانے آدمی کے نطفہ کو آدمی بنانے اور آم کو آم بنانے کے لئے تو مانتے ہیں کہ اتنا عرصہ لگنا چاہئیے.مگر شیطان کو فرشتہ بنانے پر کہتے ہیں کہ کیوں عرصہ لگتا ہے.بات یہ ہے جیسا عظیم الشان تغیر ہو.اس کے مطابق اس کے لئے عرصہ بھی مقرر ہے.کانیں لاکھوں سال کے تغیر کے بعد بنتی ہیں.روحانی دنیا میں پچاس یا سو سال یا اس سے کم و بیش عرصہ میں تغیر آیا کرتا ہے.اور ہر چیز کے تغیر کا الگ الگ دائرہ جو خدا تعالیٰ نے مقرر کیا ہے.اسی عرصہ میں اس میں تغیر ہوتا ہے.پس کسی تغیر کو وقت اور عرصہ لگنے سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس تغیر کے ہونے کے لئے خدا کا منشاء ہی تمھیں بلکہ یہ کہ خدا کے مقرر کردہ قانون کے ماتحت عرصہ لگ رہا ہے.اللہ تعالی طاقت رکھتا ہے کہ دنیا میں وہ راستی اور صداقت پھیلائے جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ دنیا میں آئی.خدا تعالیٰ کا منشاء ہے کہ تمام دنیا کے کونوں سے کھینچ کھینچ کر لوگوں کو اس راستی کی طرف لائے اور انہیں منوائے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس کے لئے وقت اور
حد مقرر ہے.اور اس ہستی کی حکمت کا تقاضا ہے کہ یہ کام اتنے عرصہ میں ہو.پس خدا تعالی کا بہ نشاء ضرور پورا ہو گا.سوال اگر ہمارے لئے کوئی ہے تو یہ کہ کس کے ہاتھ سے پورا ہوگا.دیکھو اگر ایک آدمی ڈوب رہا ہو.اور اس کو نکالنے کے لئے پچاس تیراک دوڑ پڑیں تو اس میں شبہ نہیں کہ وہ شخص جو بچانے کی کوشش کرتا ہے.قابل تعریف ہے.مگر جس کے ہاتھ سے ڈوبنے والا بچے گا.اس کی جو تعریف ہوگی.وہ اور کسی کی نہیں ہوگی.جس کا ہاتھ ڈوبنے والے پر پڑے گا اس کا ہاتھ پڑنے کو اتفاق کہہ لو.یا اس کا ہنر کہہ لو.یا اس کی کوشش کہہ لو.یا اس کا فن کہہ لو.مگر دنیا اسی کی تعریف کرے گی.پھر اس کی بھی کوئی تعریف نہ ہوگی جو باہر کنارے پر کھڑا رہا.ڈوبنے والا تو نکل آیا.مگر جو تیراک کو دے تھے.ان کے نقطہ نظر سے اہم سوال کیا تھا.یہ نہیں تھا کہ ڈوبنے والا نکل آئے بلکہ یہ تھا کہ کون نکالے.دیکھو انگریز سرحد پر فوجیں بھیجتے ہیں اور سرحدیوں پر حملہ کرتے ہیں.ان کی قوت اور طاقت کے لحاظ سے ہم جانتے ہیں کہ سرحدی سردار ایک ڈاکو سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا.پہاڑی علاقہ کی وجہ سے لٹیروں کی گرفتاری میں دیر لگ جاتی ہے.مگر آخر پکڑ لیتے ہیں.ان لٹیروں کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے ایک گاؤں کا چوہڑا نمبردار کے ہاں چوری کر کے بھاگ جائے اور نمبردار پکڑ نہ سکے یہی حالت سرحدی ڈاکوؤں کی ہوتی ہے.ڈا کو جلدی پکڑا نہیں جاتا.جس کی وجہ عدم علم ہوتا ہے.مگر بہر حال یقین ہوتا ہے کہ اگر آج نہیں تو کل پکڑا جائے گا.چنانچہ پکڑ لیتے ہیں.اب فوجی جو اس کام کے لئے مقرر ہوتے ہیں.ان کے نقطہ نگاہ سے یہ سوال اہم نہیں ہوتا کہ گورنمنٹ پکڑ لے گی بلکہ یہ ہوتا ہے کہ کون پکڑے گا اور جو پکڑتا ہے اسے انعام ملتا ہے اور عہدہ میں ترقی ہو جاتی ہے.اسی طرح منشاء الہی کے پور ہونے کے متعلق سوال یہ نہیں کہ پورا ہوگا یا نہیں.ہوگا اور ضرور ہو گا.اور کون ہے جو اسے روک سکے.اگر کہو دیر لگی تو میں بتا چکا ہوں کہ دیر لگتی ہے اور دیر کا لگتا ضروری ہے.پس اگر سوال ہے تو یہ ہے کہ وہ کون خوش قسمت ہو گا جس کے ہاتھ پر خدا کا ارادہ اور منشاء پورا ہوگا.ہماری دوڑ اور کوشش اس لئے نہیں کہ خدا کا منشاء پورا ہو جائے بلکہ اس لئے ہے کہ ہمارے ہاتھ پر پورا ہو یہی سب سے اہم اور ضروری سوال ہے ہمارے لئے.اس لئے میں نے پہلے بھی بارہا دوستوں کو توجہ دلائی ہے اور اب بھی دلاتا ہوں کہ تم یہ بات مد نظر رکھو کہ یہ کام کس کے ہاتھ سے ہوتا ہے.آئندہ خواہ ہماری ہی اولاد کے ذریعہ ہو.مگر دین میں ماں باپ اور اولاد کا سوال بھی نہیں ہو سکتا کہ اچھا ہمارے ہاتھوں یہ کام نہیں ہوا تو نہ سہی.ہماری اولاد کے ذریعہ ہو جائے گا.بلکہ ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ میرے ہاتھ سے ہو.اسے خود غرضی کہو یا کچھ اور مگر ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ میں کیوں محروم رہوں خدا تعالیٰ کے انعام محدود نہیں.اگر بڑے سے بڑا انعام بھی حاصل ہو جائے تو پھر بھی دوسروں کو مل سکتا ہے.اس لئے
14 خدمت دین کے معاملہ میں ایثار نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ خدا تعالٰی کے انعام کو محدود سمجھے.مثلاً دیکھو.اگر پانی کا ایک گلاس ہو اور ایک شخص کہے کہ میں نہیں پیتا.دوسرا پیئے تو یہ ایثار ہو گا.لیکن اگر چشمے کے کنارے پر بیٹھ کر ایک شخص کہتا ہے کہ میں پانی نہیں پیتا.دوسرا پئے تو یہ ایثار نہیں ہو گا.بلکہ نہ پینے والے کا خواہ مخواہ پیاسا مرنا ہو گا.تو خدا تعالی کے انعامات کے لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ میں نہیں لیتا.میرا بیٹا لے لے گا.پس دینی معاملہ میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اگر ہم نہ کریں گے تو آئندہ آنے والے کرلیں گے بلکہ ہمارا فرض ہے کہ ہم کریں اگلوں کے لئے کام کی کمی نہیں ہوگی بلکہ ان کے لئے بھی بہت کام ہو گا اور جب کام نہ ہوگا تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ گویا خدا تعالی اس دنیا کو ختم کرنا چاہتا ہے اور اسی دن قیامت ہوگی.میں نے یہ نصیحت بارہا کی ہے.مگر آج خاص طور پر اس طرف توجہ دلاتا ہوں، وجہ یہ ہے کہ کام کرنے کے بعض خاص اوقات ہوتے ہیں.دیکھو لوہار روز لوہے کو کو تا ہے مگر لو ہے میں تغیر اسی وقت آتا ہے جبکہ وہ گرم ہو کر نرم ہوتا ہے.اس وقت کا ایک ہتھوڑا دوسرے وقت کے سو ہتھوڑوں کے برابر ہوتا ہے.سرد لو ہے پر مارنے سے کچھ نہیں بنتا لیکن گرم لوہے کو کمزور ہاتھ سے کوٹا جائے تو بھی چپٹا ہو جاتا ہے.یہی حال زمانہ کا ہوتا ہے.یہ کبھی گرم ہوتا ہے اور کبھی سرد.اس زمانہ میں میں دیکھتا ہوں (کیونکہ چاروں طرف سے میرے پاس خطوط آتے ہیں اور اور ذرائع سے بھی علم ہوتا رہتا ہے) کہ تمام ہندوستان میں ایک جوش پیدا ہو گیا ہے کہ اگر کہیں سے حق مل جائے تو لے لیں.کئی سال سے لوگوں کی جمود کی حالت تھی.پھر سیاست کی طرف لوگوں کی بہت توجہ تھی اور اس کے لئے بڑا جوش پیدا ہو گیا تھا.لیکن یہی جوش جب بیٹھا ہے تو اس نے خدا تعالیٰ کی طرف لوگوں کی توجہ کر دی ہے.عام خطوط آرہے ہیں کہ پہلے لوگ ہماری باتیں نہیں سنتے تھے.مگر اب خود پوچھتے ہیں ان میں تڑپ پائی جاتی ہے.اس لئے معلوم ہوا کہ اب لوہا محرم ہے اور تم کو جو خدا کی ورکشاپ میں ملازم ہو.میں کہتا ہوں کہ یہی وقت ہے اس لوہے کو کوٹے کا.پس میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ خصوصیت سے ان دنوں تبلیغ کی طرف توجہ کی جائے.لوگوں میں سیاست سے ٹھوکر کھا کر اور مسٹر گاندھی کے عظیم الشان وعدوں کو ہوائی قلعہ دیکھ کر مایوسی ہو چکی ہے اور اب ان کی توجہ اس طرح پھری ہے کہ کوئی اور راستہ ہونا چاہئیے جس سے ہم کامیاب ہوں اور عام طور پر لوگوں کا میلان احمدیت کی طرف ہو رہا ہے.پہلے لوگ کہتے تھے اور یہاں کے لوگوں نے بھی کہا کہ کیوں سیاسی معاملات میں اپنی رائے ظاہر کی جاتی ہے مگر دوسرے لوگوں نے محسوس کر لیا ہے کہ اگر اس زمانہ میں عقل اور دانش سے کوئی آواز نکلی ہے تو قادیان سے ہی نکلی ہے.پہلے تو انہوں نے ہمیں جاہل، منافق اور خوشامدی وغیرہ کہا.مگر آخر دیکھ لیا کہ جو بات ہم نے کہی دینی کچی نکلی.اس
15 طرح بھی ان لوگوں کے دلوں میں ادب پیدا ہو گیا ہے.جب سارے لوگ ہمیں جاہل کہتے تھے.اس وقت ہم نے جو رائے ظاہر کی وہی درست اور صحیح رائے تھی.اس سے لوگوں کے دلوں میں ادب پیدا ہو گیا اور وہ چاہتے ہیں کہ ہماری باتیں سنیں.پس یہ ایک روچلی ہے کہ غیر احمدی اور دوسرے لوگ بھی ہماری باتوں کو سننا چاہتے ہیں.اس وقت کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئیے اور اپنی کو شش کو اتنا بڑھا دینا چاہیے جتنا انسانی حد کے لئے ممکن ہے.یہ نصیحت میں یہاں کے لوگوں کو بھی کرتا ہوں اور باہر کے لوگوں کو بھی کہ اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں.خدا تعالٰی نے ملائکہ کے ذریعہ بھٹی گرم کر کے لوگوں کے دلوں کو ہلا دیا ہے.اس وقت بھی اگر ہم یونسی بیٹھے رہے تو سخت بد نصیبی ہوگی.دیکھو پچھلے تین سالوں میں ہندوستان میں جو کچھ ہوا.کیا وہ معمولی بات تھی.ہرگز نہیں.اس مل چل میں ہزاروں نے گھر بار کو چھوڑ کر ہجرت کی.کئی گھر برباد ہو گئے.بہت سے لوگ جیلوں میں گئے یہ دراصل لوہا گرم ہو رہا تھا اگر اب بھی ہم یونی بیٹھے رہے تو ہم پر خدا تعالی کی سخت ناراضگی ہوگی.پس اپنے نفوس میں تغیر پیدا کرو اور جہاں جہاں ہماری جماعت کے لوگ ہیں وہ اپنا فرض سمجھیں کہ اس سال خصوصیت سے تبلیغ کرنی ہے.یاد رکھو! میں یہ تو نہیں کہتا کہ دو تین چار مہینے خصوصیت سے تبلیغ کرو.مگر میں یہ کہتا ہوں کہ سارا سال تبلیغ کرو.مجھے آثار نظر آرہے ہیں اور وہ دن قریب ہیں کہ جو لوگ ہم پر ہنتے تھے وہ اذا جاء نصر الله والفتح ورايت الناس يدخلون في دين الله الواجا (النصر ۲-۳) کا نظارہ دیکھ لیں گے.قلوب میں ایسا تغیر ہوتا معلوم ہو رہا ہے کہ میرا دل محسوس کرتا ہے کہ افواجا افواجا داخل ہونے کا زمانہ قریب آگیا ہے.پچھلے دو تین سال ایسے گزرے ہیں کہ بعض لوگوں کے دلوں میں مایوسی پیدا ہو گئی تھی کہ کیا ہو گا.لیکن جس طرح دریا کے پانی کے آگے روک آجانے سے اگر پانی رک جائے تو ایک دن یک لخت پانی اس روک کو ہٹا کر پھینک دیتا ہے اور سیلاب آجاتا ہے.وہی حالت تبلیغ کی اب نظر آتی ہے.اب تم ضرب پر ضرب مارو.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جو چیز تم بنانا چاہتے ہو بن جائے گی.پس ان دنوں کو رائیگاں نہ جانے دو.ایسے مواقع بہت کم ملتے ہیں اور جب ملتے ہیں تو ان میں کام کرنے سے عظیم الشان تغیر پیدا ہو جاتے ہیں.دیکھو جب خدا نبی کو بھیجتا ہے تو اس لئے نہیں کہ لوگ کفر کریں اور اس کا انکار کریں بلکہ اس لئے کہ لوگ مانیں.پس خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ لوگ احمدیت قبول کریں.مگر جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے لوگوں کے قبول کرنے میں جو دیر لگی ہے وہ خدا کی حکمت کے ماتحت ہے.اور اس لئے کہ جو پہلے ایمان لائے ہیں ان کے ذریعہ قبول کریں اور اس طرح ہمارے لئے ثواب کے سامان بہم پہنچائے.پس ہمارے ثواب کے لئے خدا ایسا کر رہا ہے ورنہ خدا تعالیٰ تو دیوار سے بھی ہدایت دے سکتا ہے.یونہی کسی کو خواب
16 آجاتی ہے اور وہ ہدایت قبول کر لیتا ہے اگر خدا تعالٰی سو یا ہزار آدمی کو خوابوں کے ذریعہ احمدی بنا سکتا ہے تو کیوں ساری دنیا کو اسی طرح احمدی نہیں بنا سکتا.کئی آدمی ہیں جو خواب کے ذریعہ احمدی ہوئے.ہو سکتا ہے کہ ایک دن رات ہم یہ جانتے ہوئے سوئیں کہ ہم چھوٹی سی جماعت ہیں لیکن جب صبح کو اٹھیں تو سارے لوگ کہیں کہ ہم احمدی ہیں اور ہم حضرت مرزا صاحب کو مانتے ہیں.خدا تعالیٰ نے کئی سو بلکہ کئی ہزار کو خوابوں کے ذریعہ ہدایت دیگر بتا دیا کہ میں اس طرح بھی کر سکتا ہوں مگر وہ سب کے لئے اس طرح کرتا نہیں تاکہ ہم کو ثواب کا موقع ملے.اگر خوابوں کے ذریعے سارے لوگ احمدی ہو جائیں تو پھر نہ چندہ کی ضرورت رہے نہ تبلیغ کی حاجت پس اللہ تعالٰی کے پاس ایسے سامان اور ایسے طریق ہیں کہ وہ بغیر بندوں کے بھی کام کرلیتا ہے.چنانچہ ہزاروں کو اس نے خوابوں کے ذریعہ ہدایت دی.جن میں سے کئی ایک یہاں بھی بیٹھے ہونگے.اسی طرح سب کے لئے ہدایت ہو سکتی ہے اور اس طرح خدا تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ اگر تم تبلیغ کا کام نہ کرو گے تو میں بغیر بندوں کے بھی اس کام کو کرلوں گا مگر اس میں ہمارا حصہ نہ ہو گا.اس لئے جماعت کو چاہیے کہ ہوشیار ہو جائے اور لوگ کمریں کس لیں اور اس موقع کو رائیگاں نہ جانے دیں.میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ موقع آتا ہے جب خدمات کا یہ رنگ نہ رہے گا کہ ہم طرح طرح کی تکلیفیں اور مشکلات اٹھا کر تبلیغ کرتے ہیں.دیکھو عیسائی بھی تبلیغ کرتے ہیں مگر ہماری طرح نہیں.ہماری تو یہ حالت ہے کہ ایک آدمی جائے اور سو کو پکڑ لائے اور عیسائیوں کی یہ حالت ہے کہ سو جائیں اور ایک کو پکڑ لائیں وہ بھی اپنی کامیابی پر خوش ہوتے ہیں.مگر جو ہمیں مزا اور لطف حاصل ہوتا ہے اس کو کہاں وہ پاسکتے ہیں.ہم تو شیر کے منہ سے شکار نکال کر لاتے ہیں.تو جب بڑی بڑی کامیابیاں حاصل ہونگی.اس وقت بھی خدمت دین کا موقع ہو گا.مگر سرور اور لطف نہ ہو گا جو اب ہے.اس لئے اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دو اور ایسا موقع ہزاروں سال کے بعد حاصل ہوتا ہے.جب خدا کا نہی آئے اور یہ خدا تعالی کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں یہ موقع دیا ہے.اس لئے ہم اس کی جس قدر قدر کریں تھوڑی ہے.خدا تعالی ہمیں اپنے دین کو پھیلانے کا موقع دے ہماری ہمتوں کو استوار کرے، ہمیں لوگوں کے لئے ہدایت کا باعث بنائے.دوسرے خطبہ کے بعد فرمایا.ایک نئے علاقہ میں جہاں اس وقت تک اس رنگ میں تبلیغ نہیں ہوئی جس رنگ میں کہ اب ہونے والی ہے.اور میں نے اس کے متعلق دیکھا تھا کہ تو یوں سے مقابلہ کیا گیا ہے یعنی حیدر آباد دکن کا علاقہ.وہاں مولوی ثناء اللہ گیا ہے اور شیخ عبدالرحمان صاحب اور مولوی فضل الدین صاحب بھیجے گئے ہیں.آج سے وہاں تبلیغ کا کام شروع ہو گیا ہو گا.میں جمعہ کی نماز کی دوسری رکعت میں رکوع سے کھڑے ہونے پر وہاں کے متعلق دعا کروں گا.اس وقت
17 دوسرے لوگ بھی دعا کریں خواہ آمین کہیں تاکہ اللہ تعالٰی اپنا فضل کرکے اس علاقہ میں تبلیغ کے رستے کھول دے....(الفضل یکم فروری ۱۹۲۳ء)
18 4 خانہ خدا کی تعمیر اور احمدی مستورات کی ذمہ داریاں فرموده ۱۲ فروری ۱۹۲۳) سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.دنیاوی معاملہ میں جس طرح کہ یورپین امریکن افریقن ایشائی لوگ برابر ہیں.اور جس طرح کہ ہر رنگ ہر زبان ہر ملک وملت کے ساتھ تعلق رکھنے والے کو ایک نظر سے دیکھنے کا حکم ہے.اسی طرح دین کے معالمہ میں عورت و مرد مساوات رکھتے ہیں یعنی جس طرح دینی احکام مردوں کے لئے نازل ہوئے ہیں اسی طرح عورتوں کے لئے بھی نازل ہوئے ہیں.سورہ فاتحہ جو جڑ ہے قرآن کریم کی اور جو گویا ایک اجمال ہے اس کے مضامین کا اور متن ہے قرآن مجید کا.اس کے بیان میں اللہ تعالی نے کس حکمت سے کام لیا ہے.جہاں دعا سکھائی ہے اور اس میں جو مضمون ترقیات کے متعلق ہے اس کو اس طرح ڈھالا ہے کہ اس میں عورت و مرد کا اشتراک رکھا ہے.گو عربی زبان کا یہ قاعدہ ہے کہ جب قوم کو مخاطب کیا جائے تو اس میں مذکر کے صیغے استعمال ہوتے ہیں.جن میں عورتیں شامل سمجھتی جاتی ہیں.لیکن سورۃ فاتحہ میں الفاظ ہی ایسے رکھے ہیں کہ جس میں مرد و عورت دونوں مساوی ہیں اور دونوں کا ان میں اشتراک ہے مثلاً ایاک نعبد و ایاک نستعین رکھے ہیں.جن کو جس طرح مرد بول سکتے ہیں اسی طرح ان کو عورتیں بھی استعمال کر سکتی ہیں.اور اس میں دونوں کی مساوات رکھی.اس کی ایک بڑی حکمت یہ بھی ہے کہ اس میں عورت و مرد دونوں محاورہ کے لحاظ سے بھی شامل ہیں.یعنی اکیلے مرد بھی وہی الفاظ بولیں گے اور اکیلی عورتیں بھی وہی الفاظ کہیں گی.اور جس طرح بعض احکام مردوں کے لئے خاص ہیں اسی طرح عورتوں کے لئے بھی خاص احکام ہیں.خاص احکام سے یہ مراد نہیں کہ خاص مرد ہی اللہ تعالیٰ کے مخاطب ہیں.بلکہ اس سے یہ مطلب ہے کہ اگر مردوں کے لئے بعض احکام خاص ہیں تو عورتوں کے لئے بھی بعض احکام خاص ہیں.اور ایک وہ احکام ہیں جن میں مرد عورت دونوں مساوی ہیں.مثلاً خطبہ جمعہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے ہے.اسی طرح خطبہ عیدین بھی دونوں کے لئے ضروری ہے.
19 یوں تو مرد الگ ہوتے ہیں اور عورتیں الگ ہوتی ہیں یا وہ پردہ کے پیچھے ہوتی ہیں.یا قنات کے پیچھے بیٹھتی ہیں.جس طرح عورتیں برقعہ پہن کر درس سن لیتی ہیں اسی طرح وہ جمعہ میں قنات یا پردہ کے پیچھے الگ بیٹھ کر خطبہ سنتی ہیں.چونکہ مرد ہی خطیب ہوتا ہے اس لئے مرد سامنے ہوتے ہیں اور عورتیں پردہ میں الگ ہوتی ہیں.ورنہ خطیب کے مخاطب تو دونوں ہی ہیں.عورتوں کے الگ بیٹھنے یا پردہ کے پیچھے بیٹھنے کے یہ معنے نہیں کہ وہ خطبہ میں مخاطب نہیں ہوتیں بلکہ جس طرح مرد اس کے مخاطب ہوتے ہیں اسی طرح عورتیں بھی مخاطب ہوتی ہیں.یہ خطبہ صرف مردوں کے لئے نہیں ہوتا بلکہ عورتوں کے لئے بھی ہوتا ہے.پس جو کچھ میں اب کہنے لگا ہوں وہ بلحاظ وقت اور مقام کے بالکل مناسب حال ہے.وہ کیا بات ہے وہ یہ ہے کہ میں نے سوچنے اور غور کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ جرمن میں جو مسجد بننے والی ہے.وہ عورتوں کے چندہ سے بنے.اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سی عورتوں کی ذاتی جائداد نہیں ہو گی.لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عورتوں کی مالی بنیاد زیوارت پر ہوتی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مرد کا دخل آمدنی میں ہوتا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مردوں میں سے اکثروں کے پاس بوجہ ان کی ذمہ داریوں کے مال نہیں ہوتا.لیکن عورتوں کے پاس زیور کی صورت میں کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے.اسی وجہ سے قحط کے دنوں میں مرد عورتوں سے کچھ لیکر گزارہ کرتے ہیں.اس لئے یہ نہ کوئی خیال کرے کہ عورتوں کے پاس کہاں سے مال آئے گا.آخر وہ ہم سے ہی لیں گی.عورتیں اپنے زیورات وغیرہ سے چندہ دے سکتی ہیں.یہ علیحدہ بات ہے کہ کسی کے پاس زیادہ ہو اور کسی کے پاس تھوڑا ہو.خدا کے حضور تھوڑے بہت کا سوال نہیں.اس کے حضور تو اخلاص کا سوال ہے.پس میرا یہ منشاء ہے کہ جرمن میں مسجد عورتوں کے چندہ سے بنے.کیونکہ یورپ میں لوگوں کا خیال ہے کہ ہم میں عورت جانور کی طرح سمجھی جاتی ہے.جب یورپ کو یہ معلوم ہو گا کہ اس وقت اس شہر میں جو دنیا کا مرکز بن رہا ہے.اس میں مسلمان عورتوں نے جرمن کے نو مسلم بھائیوں کے لئے مسجد تیار کرائی ہے تو یورپ کے لوگ اپنے اس خیال کی وجہ سے جو مسلمان عورتوں کے متعلق ہے.کس قدر شرمندہ اور حیران ہونگے.اور جب وہ مسجد کے پاس سے گذریں گے تو ان پر ایک موت طاری ہوگی اور مسجد بآواز بلند ہر وقت پکارے گی کہ پادری جھوٹ بولتے ہیں جو کہتے ہیں کہ عورت کی اسلام میں کچھ حیثیت نہیں.وہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں عورتیں بالکل جانور ہیں اور ان کو جانور ہی سمجھا جاتا اور یقین کیا جاتا ہے.مسلمان عورتوں کو جانور کی طرح سمجھتے ہیں.اب جب صرف عورتوں کے چندہ سے وہاں مسجد بنے گی.تو ان کو یہ معلوم ہوگا کہ یہاں کی عورتوں کو تو یہ بھی علم ہے کہ ایسے لوگ بھی دنیا میں ہیں جو ایک بندے کی پرستش کرتے ہیں.
520 یوں تو ان میں یہ بھی قاعدہ ہے کہ شادی سے ایک ماہ بعد میاں بیوی آپس میں لڑ پڑتے ہیں اور میاں کسی اور کی تلاش میں پھرتا ہے اور بیوی کسی اور کی تلاش میں پھرتی ہے.وہاں اگر ایک ماہ تک میاں بیوی آپس میں محبت کے ساتھ رہتے ہوئے دکھائی دیں تو بڑا تعجب کیا جاتا ہے اور ہمارے ہاں حقیقی تعلقات جو میاں بیوی میں ہوتے ہیں، ان کی ہوا بھی ان کو نہیں چھو گئی.مگر قلم در کف دشمن والی بات ہے.قلم ان کے ہاتھ میں ہے جو کچھ وہ چاہتے ہیں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق لکھ دیتے ہیں.مولوی مبارک علی صاحب نے ایک خط بھیجا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ فن تعمیر کے ایک ماہر نے مسجد بنانے کے لئے سوا دو لاکھ روپے کا اندازہ لگایا تھا کیونکہ اس نے خیال کیا کہ جس قوم نے ہمارے ملک میں مسجد بنانے کا ارادہ کیا ہے وہ کوئی بڑی مالدار قوم ہوگی.لیکن مولوی صاحب نے اسے کہا کہ اتنا روپیہ ہمارے پاس نہیں تو پھر اس نے پچاس ہزار روپیہ کا اندازہ لگایا.پانچ ہزار کی زمین اور ۴۵ ہزار روپیہ عمارت پر خرچ آئے گا.کیونکہ اس کا نقطہ خیال یہ ہے کہ چونکہ یہ ایک بڑا شہر ہے اور امراء کا شہر ہے اس واسطے اس میں بڑی عمارت چاہئیے کہ جس کا لوگوں پر اثر ہو اور لوگ اس کی طرف توجہ کر سکیں.معمولی عمارت کا ان لوگوں پر اثر نہیں ہو گا.وہ تو پھر ویسے ہی ہے جیسے ایک پختہ مکان ہو.اور پھر اس میں کوئی حصہ کچی اینٹوں کا ہو تو وہ معیوب معلوم ہو گا.خیر اس کے اندازہ کے مطابق پچاس ہزار روپیہ سے مسجد کی عمارت قائم ہو سکتی ہے جو صرف مسجد ہی نہیں ہوگی بلکہ اس میں مبلغین کی رہائش کے لئے بھی مکان ہو گا.یہ معالمہ میں تمام جماعت کی عورتوں کے سامنے پیش کرتا ہوں.یہ زمانہ مقابلہ کا ہے ولایت میں تو عورتیں وکالت اور ڈاکٹر کے امتحان تک مردوں کا مقابلہ کرتی ہیں.مردوں سے برابری بتانے کے لئے.آگے خواہ وہ کام نہ کر سکیں.خیر وہ تو اپنی عمر کو ضائع کرتی ہیں.لیکن ہم کو بھی ایک نیک مقابلہ کرنا چاہئیے.اس لئے ہم کہتے ہیں کہ اب عورتیں یورپ میں مسجد بنوائیں.پہلے لندن والی مسجد میں عورتوں کا دس ہزار چندہ تھا اور شریعت کے لحاظ سے مردوں سے عورتوں کا نصف چندہ ہونا چاہئیے کیونکہ عورتوں کا حصہ شریعت نے نصف رکھا ہے.اس لئے اب عورتیں پچاس ہزار روپیہ چندہ مسجد احمدیہ برلن کے لئے تین ماہ کے اندر دے دیں.حضرت مسیح موعود کی پیش گوئی ہے کہ زار روس کا عصا چھینا گیا ہے اور وہ آپ کے ہاتھ میں دیا گیا ہے اور روس کا دروازہ برلن ہے اور اسی دروازہ کے ذریعہ سے روس فتح ہو سکتا ہے.یوں تو روس میں تبلیغ کرنا تو الگ رہا.اس میں ہمارا موجودہ حالات کی وجہ سے گھسنا ہی مشکل ہے.اس میں تبلیغ کا ذریعہ جرمن ہی ہے.جرمن کے ذریعہ ہم بڑی آسانی سے روس میں تبلیغ کر سکتے ہیں اور عورتوں کے ہاتھ سے
<21 اس اہم پیشگوئی کا پورا ہونا ان لوگوں پر بہت اثر کرے گا.جو بعد میں آئیں گے اور انہیں معلوم ہوگا کہ عورتوں میں بھی مردوں کی طرح بہت اخلاص ہے.اور ادھر یورپ کو معلوم ہو گا کہ کس قدر مسلمان عورتوں میں اپنے مذہب کی اشاعت کا جوش ہے.اور اس مسجد کی پیشانی پر جلی حروف میں لکھا جائے گا کہ احمدی خواتین کی طرف سے نو مسلم بھائیوں کے لئے یہ مسجد بنائی گئی اور پھر دوسرے لوگوں کی بھی آنکھیں کھل جائیں گی اور پیغامیوں کو بھی معلوم ہو جائے گا کہ احمدی خواتین ہی اس قدر چندہ دیتی ہیں جس قدر کہ وہ غیر لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا پھیلا کر جمع کرتے ہیں.پس ہر جگہ عورتوں کو بتایا جائے کہ وہ اس کام کے لئے چندہ دیں اور تمام اخبارات جو قادیان سے نکلتے ہیں اس کام کے لئے چندہ کے واسطے تحریک کریں.اور میرا یہ خطبہ شائع کر دیں تاکہ تمام وہ لوگ جو ان اخباروں سے تعلق رکھنے والے ہیں اپنے گھروں میں عورتوں کو بتائیں اور تحریک کریں کہ وہ تین ماہ کے اندر مسجد کے لئے چندہ دیں اور ہر جگہ مرد اپنی عورتوں کو یہ بات سنادیں اور یہاں جن کی عورتیں جمعہ میں نہیں آئیں وہ بھی اپنے گھروں میں اطلاع دیں اور اس کام کے لئے چندہ کے واسطے تحریک کریں.اور یہ کام میں نے اس انجمن کے سپرد کیا ہے جس کا نام میں نے لجنہ اماء اللہ رکھا ہے.ہندوستان میں ایک انجمن ہے جو اپنے آپ کو خادمان ہند بتاتے ہیں.ہم تو کسی خاص قوم کے خادم نہیں.ہم اللہ کے خادم اور غلام ہیں.لجنہ اماء اللہ یعنی اللہ کی لونڈیوں کی انجمن.اس لئے میں نے یہ نام انجمن کا رکھا ہے اور ان کے سپرد یہ کام کیا ہے.لیکن چونکہ خالی عورتیں اگر تحریک کرتیں تو ان کا اتنا اثر نہ ہوتا اس لئے میں نے ان کی طرف سے یہ تحریک کی ہے.عورتیں یہ نہ سمجھ لیں کہ چندہ جمع کرنا خاص خاص عورتوں کا ہی کام ہے بلکہ ہر عورت کھڑی ہو جائے.اور باقی بہنوں سے تین ماہ کے اندر چندہ جمع کرے.لندن کی مسجد کے لئے زمین تو خریدی جا چکی ہے لیکن چونکہ اس کی عمارت پر ایک لاکھ روپیہ خرچ ہونا تھا.اس لئے وہ فورا نہ بنائی جاسکی.لیکن برلن کی مسجد کے لئے ایسا نہ ہوگا بلکہ ارادہ ہے کہ ادھر روپیہ جمع ہو اور ادھر کام جاری کر دیا جائے.چونکہ ہمیں یقین ہے کہ یہ کام ہو کر رہے گا.اس لئے جوں ہی روپیہ جمع ہونا شروع ہوگا.فوراً عمارت کا کام شروع کر دیا جائے گا.میں اب خطبہ کے ذریعہ تمام احمدی عورتوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ اس کام کے لئے تین ماہ کے اندر پچاس ہزار روپیہ چندہ جمع کر دیں.ہاں یہ یاد رہے کہ مردوں کا ایک پیسہ بھی اس کام میں نہیں لیا جائے گا.اگر کسی مرد کی طرف سے چندہ آگیا تو وہ کسی اور مر کی طرف منتقل کر دیا جائے گا.اس میں
22 صرف عورتوں کا ہی روپیہ ہوگا تاکہ یہ مسجد ہمیشہ کے لئے عورتوں کی ہی یادگار رہے.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ عورتوں کو اس کام کی توفیق عطا کرے.الفضل ۸ فروری ۱۹۲۳ء)...
23 5 دنیا اور آخرت کے دکھوں سے بچنے کا طریق فرموده ۲۳ / فروری ۱۹۲۳ء بمقام بھیرو پیچی) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.دنیا میں جتنے لوگ ہیں وہ سارے کے سارے اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ دکھ اور تکلیف سے بچ جائیں.مسلمانوں کی ہی شرط نہیں غیر مسلمان بھی چاہتے ہیں کہ دکھ سے بچ جائیں.عیسائی بھی ، ہندو بھی ، حتی کہ وہ لوگ بھی جو خدا کو نہیں مانتے.وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ دکھ سے بچ جائیں.اگر یہ خیال انسان کے دل میں نہ ہوتا تو مذہبوں کی گرم بازاری بھی دنیا میں نہ ملتی اتنے مذاہب جو دنیا میں پائے جاتے ہیں اور اتنے لوگ جو ان کے پھیلانے اور قائم رکھنے میں لگے ہوئے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ دکھ سے بچ جائیں اور چونکہ عام طور پر لوگوں کے دل میں خیال ہے کہ جسم کے ساتھ روح بھی ہے اور آئندہ بھی اس کی ہستی باقی رہے گی.اس لئے انسان چاہتا ہے کہ وہ اگلے جہان میں بھی دکھ سے بچ جائے.اس جہان میں وہ ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اور اگلے جہان کے لئے وہ مذہب کو اختیار کرتا ہے.سو دکھ سے بچنے اور سکھ کے حاصل کرنے کی خواہش ہر وجود میں پائی جاتی ہے.ہندو لوگ کیوں اپنے مذہب کے پیچھے لگے ہوئے ہیں.کیوں لاکھوں روپیہ اس کی حفاظت پر خرچ کرتے ہیں.بے شک تبلیغ سے ان کی ترقی نہیں ہوتی.مگر ان میں لاکھوں لاکھ سادھو ہیں اور ان کا گزارہ دوسرے لوگوں کی آمدنیوں پر ہی ہے.کیوں ہندو لوگ لاکھوں سادھوؤں کو سہارا دیتے ہیں.اسی لئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ذریعہ سے ان کا دین قائم رہے گا اور دین سے وہ دکھ سے بچ جائیں گے.مسلمانوں میں بھی ہر گاؤں میں کوئی نہ کوئی ملا ہوگا.اس کو سارا گاؤں خرچ دیتا ہے کیونکہ وہ مردوں کو نہلاتا ہے اور بعض رسوم جو چلی آتی ہیں ان کو بجا لاتا ہے.کیوں وہ ایسا کرتے ہیں؟ اسی لئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مردوں کو اس سے آرام ہو گا.یہ بات ٹھیک ہے یا نہیں.مگر خیال یہی ہوتا ہے کہ وہ دکھ سے بچ جائے گا.کتنے گاؤں ہیں دنیا میں مسلمانوں کے اور کتنے لاکھ آدمی ہیں
24 جن کا خرچ مسلمان برداشت کرتے ہیں.اسی طرح پادری ہیں.پادری کا کیا کام ہوتا ہے.وہ بعض رسوم بجا لاتا ہے.عیسائی لوگ لاکھوں روپیہ ان کے اخراجات کے لئے اپنے اوپر ڈالتے ہیں.اس خیال سے کہ وہ اگلے جہان میں دکھ سے بچ جائیں.اگر غور سے دیکھا جائے تو دنیا کا بہت سا مال اس غرض کے لئے خرچ کیا جاتا ہے.لیکن جہاں یہ خواہش کی جاتی ہے کہ لوگ دکھ سے بچ جائیں وہاں اس کے صحیح طریقوں کے استعمال میں لوگ غفلت کرتے ہیں.یہ خواہش تو ایک علم ہے.اس سے پتہ لگ جاتا ہے مگر خالی پتہ لگ جانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا.دیکھو ایک انسان کو بخار چڑھ جائے اور اس کو پتہ لگ جائے کہ بخار ہے تو کیا اس سے اس کا بخار اتر جائے گا.یا کسی کو کھانسی ہو جائے تو کیا اس کے پتہ لگ جانے سے کھانسی دور ہو جائے گی.یا کسی کو زخم لگ جائے تو کیا اس کو پتہ لگ جانے سے اس کا زخم اچھا ہو جائے گا.پتہ لگ جانے سے فائدہ نہیں ہوتا.اس سے تو فائدہ صرف یہ ہوتا ہے کہ اس کا علاج کرانا چاہیے.مثلاً پاگل ہیں.کوئی پاگل اپنا علاج کرانے نہیں جاتا.کبھی تم نے نہیں دیکھا ہو گا کہ کوئی پاگل اپنا علاج کرائے.پاگل تو کہتے ہی ان کو ہیں جن کو بیماری کا پتہ نہ ہو.سو اننا فائدہ تو ہو گا کہ انسان طبیب کے پاس جائے گا.لیکن محض پتہ لگنے سے بیماری اچھی نہیں ہوگی.بیماری تبھی اچھی ہوگی جب اس کا علاج کیا جائے گا.پتہ لگ جانے کے بعد دوسرا قدم یہ ہوتا ہے کہ بیماری کا علاج کرایا جائے.اگر یہ پتہ لگ جائے کہ بخار ہے تو دوسرا قدم یہ ہوگا کہ کونین سے بخار اتر جاتا ہے.لیکن اس سے بھی بخار اتر نہیں جائے گا.اگر ایسا ہو تو ڈاکٹر بیمار ہی نہ ہوں.حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ان کی بیماری کا علاج درست نہ ہو تو بیماری بڑھ بھی جاتی ہے اور مر بھی جاتے ہیں.سو خالی پتہ لگ جانے سے بیماری اچھی نہیں ہو جاتی نہ بیماری کا علاج معلوم ہونے سے وہ دور ہو جاتی ہے.پہلے یہ معلوم ہو کہ بیماری ہے پھر یہ معلوم ہو کہ علاج کیا ہے.اور صحیح علاج کیا ہے اور پھر علاج میسر ہو اور پھر علاج کیا جائے.تب بیماری اچھی ہوتی ہے.لیکن جہاں لوگ جسمانی بیماریوں کے متعلق سوچ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پہلے تشخیص کرالو اور اس پر بڑا زور دیتے ہیں.نبض دکھانے کے بعد پوچھتے ہیں اور ان کی تسلی نہیں ہوتی جب تک کہ.بیماری کا پورا پتہ نہ لگ جائے.بعض لوگ خلیفہ اول کے پاس آتے تھے اور پوچھتے تھے کہ ہماری بیماری کیا ہے مگر بعض بیماریاں ایسی باریک ہوتی ہیں جن کا مریض کو سمجھانا مشکل ہوتا ہے.اس لئے آپ بعض دفعہ ناراض ہوتے تھے.سو یہ انسان کی فطرت میں ہے کہ بیماری کا پتہ لگائے.لیکن روحانی بیماریوں کے متعلق لوگوں کو یہ فکر نہیں ہوتی.کسی کے دل میں یہ خیال نہیں پیدا ہو تا کہ بیماری کیا ہے.جسمانی بیماریوں کے متعلق پوچھ لیتے ہیں.مگر روحانی امراض کے متعلق نہیں
25 سوچتے.بعض لوگ بیماری کو بھی سوچ لیتے ہیں.لیکن وہ آگے علاج کی فکر نہیں کرتے.مثلاً جھوٹ بولنا، چوری کرنا، تہمت لگانا ، فسق و فجور، اللہ کی محبت کا نہ ہونا، خدا کے کلام سے محروم رہنا.یہ سب روحانی بیماریاں ہیں.ان کا لوگوں کو علم ہوتا ہے مگر وہ کوشش نہیں کرتے کہ ان کا علاج کریں.وہ جانتے ہیں کہ جھوٹ بولنا بیماری ہے مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ اس کا علاج کیا ہے.لوگ جانتے ہیں کہ چوری کرنا بیماری ہے مگر وہ نہیں جانتے کہ اس کا علاج کیا ہے.دوسرا قدم غفلت کا یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگ علاج معلوم کر لیتے ہیں مگر یہ کوشش نہیں کرتے کہ علاج کریں مثلاً لوگ جانتے ہیں کہ کھانسی اور بخار میں بنفشہ مفید ہوتا ہے.مگر خالی اس علم سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا استعمال نہ کیا جائے.لوگوں کا بخار کو نین سے اتر جاتا ہے مگر ایک بیمار کو جو ات استعمال نہیں کرتا اس علم کا کیا فائدہ ہے.قیدی چھوٹ بھی جاتے ہیں.ہزاروں لوگ ہیں جو کر مرتے وقت اچھے ہو جاتے ہیں.مگر اس سے کیا کوئی قیدی یا مریض خوش ہو جائے گا.اصل بات تو اس کا اچھا ہوتا تھا اگر وہ اچھا نہیں ہوا تو اس علم کا کوئی فائدہ نہیں.مگر بہت لوگ ہیں جو دین کے معاملہ میں اس بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ ان کو مذہب کی صداقت کا پتہ لگ گیا.مسلمان عیسائی سے لڑتا ہے کہ ہمارا دین سچا ہے مگر خالی مذہب کی سچائی معلوم ہو جانے سے کیا فائدہ ہے جب تک کہ مسلمان اسلام کے محکموں پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتا.دونوں میں فرق کیا ہے.وہ بھی جہنم میں جائے گا اور یہ بھی.ایک نے حضرت عیسی کو خدا بنا دیا.دوسرے نے اسلام کے احکام کی خلاف ورزی کی.اس کو تو تب فائدہ تھا کہ یہ عمل کرتا اور بچ جاتا.تب بے شک خوشی کی بات تھی لیکن اگر یہ اس پر چلتا نہیں تو کیا فائدہ.یہ مجرم بھی ہے اور بے وقوف بھی ہے.اس کو لوگ برا بھلا کہیں گے کہ اس کو پتہ تھا اور پھر گیا.سو یاد رکھو کہ دنیا میں کوئی فائدہ علم کا نہیں ہوتا جب تک اس علم کو عمل میں نہ لایا جائے.ہماری جماعت میں بھی بعض لوگ ہیں جو اس بات پر بڑے خوش ہوتے ہیں کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہچان لیا.مگر ان کی بعثت کی غرض کو نہیں پہچانتے.اس کی غرض تو نجات دنیا تھی.اگر یہ حاصل نہیں ہوئی تو ان کے لئے آپ کا آنا اور نہ آنا برابر ہے.بلکہ پہلے ہم اندھیرے میں گر رہے تھے اور اب ہم روشنی میں گر رہے ہیں.یہ بات اور الزام کے قابل ہے.جب تک اندھیرا تھا تو ہم خدا کو کہہ سکتے تھے کہ ہم کو پتہ نہ تھا.مولویوں نے دین کی شکل کو بگاڑ رکھا تھا.مگر جب اس نے لیمپ جلا دیا.تو ہمارا یہ عذر بھی جاتا رہا.جب اس نے حضرت مسیح موعود کو بھیج دیا اور اس کے ذریعہ یہ بتا دیا کہ اسلام ہی ایک سچا مذہب ہے.ہمارا خدا زندہ خدا ہے.وہ مومنوں کی مدد کرتا ہے.ان سے باتیں کرتا ہے اور اپنا جلال ظاہر کرتا ہے تو پھر اگر ہم فائدہ نہ
26 اٹھائیں اور اسے مردہ کی طرح چھوڑ دیں تو ہم زیادہ مجرم ہوں گے.اس لئے ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ ہم بہت احتیاط سے قدم رکھیں.بہت لوگ ہیں جو نمازوں میں سست ہیں اور روزہ نہیں رکھتے.بہت ہیں جو اس طرح جھوٹ بولتے ہیں جس طرح وہ پہلے بولتے تھے.شہادت کو چھپاتے ہیں، چوری کرتے ہیں جس طرح وہ پہلے کرتے تھے.بہت لوگ ہیں جو لوگوں کے مال کو کھا جاتے ہیں جس طرح وہ پہلے کھا جاتے تھے.بہت ہیں جو ظلم کرتے تھے جس طرح وہ پہلے کرتے تھے.اسی طرح بہت ہیں جو دوسروں کو نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں جس طرح وہ پہلے دیکھتے تھے.تکبر کرتے ہیں.فتنہ اور لڑائی ڈلواتے ہیں جس طرح وہ پہلے کرتے تھے.بہت ہیں جو اسی طرح تمسخر کرتے ہیں جس طرح پہلے کرتے تھے.ایسے لوگوں کو صرف ایک نسخہ کا پتہ لگا ہے.ان کے لئے کوئی نجات نہیں ہوئی کیونکہ انہوں نے نسخہ کو استعمال نہیں کیا.یاد رکھو کسی کو فائدہ نہیں ہو سکتا اور کوئی نجات نہیں پا سکتا جب تک کہ وہ نسخہ کو استعمال نہ کرے.پس اپنے دلوں کی اصلاح کی فکر کرو.اسلام جو احکام لایا ہے ان پر عمل کرنے کی کوشش کرو.تم کو اگر لوگ جھوٹ بولتا دیکھیں گے تو وہ کیوں احمدی ہوں گے.اس طرح تم اپنے آپ کو ہی دکھ میں نہیں ڈالتے بلکہ وہ سروں کو بھی.پس تمہاری ستیاں دو خطرناک نتائج پیدا کرتی ہیں.ایک تمہاری اپنی ذات کے لئے دوسرا قوم کے لئے.ایک طرف تمہاری بد عملی تم کو دکھ میں ڈالتی ہے دوسری طرف دوسرے لوگوں کو ہدایت سے محروم کرتی ہے.لوگوں کی نظریں تمہاری طرف ہیں.وہ یہ دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود نے آکر کیا کیا.اگر تم ویسے کے ویسے ہی رہو گے تو پھر وہ کس طرح آپ کی صداقت کے قائل ہو سکتے ہیں.جب وہ دیکھیں گے کہ تم کو اس دین سے کچھ فائدہ نہیں ہوا تو کیوں وہ اس کو قبول کریں گے.اگر کوئی تغیر اور کوئی تبدیلی اور کوئی سچا نمونہ اسلام کا اور اخلاق کا تمہاری زندگیوں میں ان کو نظر نہ آئے گا تو بتاؤ کہ کیا ضرورت ہے کہ لوگ قربانیاں کریں.دین کے لئے تو عورتوں کو خاوند چھوڑنے پڑتے ہیں.خاوندوں کو بیویاں چھوڑنی پڑتی ہیں.مال دینا پڑتا ہے.جان دینی پڑتی ہے.سب کچھ قربان کرنا پڑتا ہے.جب آگے کچھ ملنا نہیں تو کیوں کوئی آپ کے دین کے لئے قربانی کرے گا.ہاں اگر وہ دیکھیں گے کہ تم کو کچھ مل گیا ہے اور تمہاری زندگیوں میں ایک پاک تبدیلی پیدا ہو گئی ہے تو بے شک اگلے جہان کے دکھ اور عذاب سے بچنے کے لئے لوگ اپنا جان مال رشتہ دار وغیرہ قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے.پس سب سے بڑی تبلیغ اور تغیر جو ہو سکتا ہے وہ احمدیوں کے اخلاق کے ذریعہ اور ان کی روحانیت کے ذریعہ ہو سکتا ہے.جب لوگ آپ کے اخلاق اور
27 روحانیت کو دیکھیں گے تو دیوانہ وار آپ کی طرف دوڑیں گے.اس لئے ایسا رنگ رکھو کہ لوگ آپ کی طرف بچے آئیں.اپنے اندر ایک تغیر پیدا کریں اور پاک تبدیلی کریں تاکہ آپ کے اندر بھی نور پیدا ہو.اور اور لوگوں کو بھی ہدایت ہو اور فائدہ ہو.اللہ تعالٰی آپ لوگوں میں ایک پاک تبدیلی پیدا کرے اور آپ کو ہر دکھ سے نجات دے.آمین.الفضل ۱۲ مارچ ۱۹۲۳ء)
28 6 برلن میں خانہ خدا بنانے کی تحریک احمدی خواتین کا اولوالعزمانہ ایثار (فرموده ۲ / مارچ ۱۹۲۳ء) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.حضرت مسیح علیہ السلام کا ایک قول جو ایک عام قانون قدرت کی طرف اشارہ کرتا ہے وہ مجھے بہت پسند آتا ہے.فرماتے ہیں.درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے کسی درخت کی قیمت کسی درخت کی حقیقت کسی درخت کا فائدہ اس کی عام نفع رسانی اور اس کا لوگوں کے لئے موجب برکات ہونا اس کا اندازہ اس کے پھل سے ہی لگایا جا سکتا ہے.پھل سے یہ مراد نہیں کہ وہ میوہ جو کھایا جاتا ہے بلکہ پھل سے وہ مقصد اور مدعا وہ کام اور غرض مراد ہے جس کے لئے کوئی درخت لگایا جاتا ہے.ایک درخت جو اس لئے لگایا جاتا ہے کہ اس کے پتوں سے فائدہ اٹھایا جائے.اس کے پتے ہی اس کا پھل ہیں.ایک درخت جو اس لئے لگایا جاتا ہے کہ اس کا ایندھن بنایا جائے.اس کی لکڑی اس کا پھل ہے.ایک ایسا درخت جو میوے کے لئے لگایا جاتا ہے اس کا میوہ اس کا پھل ہے.غرض جو درخت جس مقصد کے لئے لگایا جاتا ہے اگر اسی کے مطابق وہ میوہ پیدا کرتا ہے اور لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو وہ اعلیٰ درجہ کا پھل لاتا ہے.مثلاً ایک ایسا درخت جو چتوں کی غرض سے لگایا جاتا ہے یعنی اس کے پتے ایسے مفید ہوتے ہیں کہ دوائیوں میں پڑتے ہیں.یا اس کی شاخیں ایسی عمدہ اور کار آمد ہوتی ہیں کہ صنعت و حرفت میں کام آتی ہیں.یا اس کا سایہ ایسا اچھا ہوتا ہے کہ لوگ اس سے آرام پاتے ہیں.جب یہ کام دینے لگ جائے تو وہ درخت اچھا ہو گا کیونکہ اس کا پھل اچھا ہے.لیکن اگر وہ اس غرض کو پورا نہیں کرتا جس کے لئے لگایا گیا تو وہ درخت اچھا نہیں ہو گا.اس کو اگر ساری دنیا اچھا کے تو وہ اچھا نہیں بن سکتا.اور اگر اس کی جو غرض ہو اسے وہ پورا کرے تو ساری دنیا کے برا کہنے سے وہ برا نہیں ہو سکتا.یہ ایک ایسی
29 حقیقت ہے کہ اس سے ہزاروں جگہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے.کسی سلسلہ کی سچائی اور اس کی راستی کا معیار بھی یہ بات ہے کہ آیا اس کا پھل قیمتی اور کار آمد ہے یا نہیں.وہ سلسلہ اس غرض اور غائت کو پورا کرتا ہے یا نہیں.جو روحانی سلسلہ کی ہوا کرتی ہے.اگر کوئی سلسلہ اپنی تاثیرات اور اپنے اثرات اور اپنی نفع رسانیوں سے ثابت کردے کہ وہ اس غرض کو پورا کر رہا ہے جو روحانی سلسلہ کئی ہوا کرتی ہے تو وہ اعلیٰ اور سچا ہے لیکن اگر کوئی سلسلہ اپنے پھلوں سے اپنے اعلیٰ ہونے کا ثبوت نہیں دیتا تو وہ سچا کہلانے کا مستحق نہیں ہو سکتا.ہمارے سلسلہ کے متعلق بھی لوگوں کو شبہات پیدا ہوتے ہیں.اور شبہات پیدا کیا ہوتے ہیں؟ یوں کہو کہ چونکہ ہمارا سلسلہ ان لوگوں کے عقائد اور خیالات کو باطل قرار دیتا اور ان کو رد کرتا ہے اس لئے عام طور پر وہ لوگ سلسلہ کی مخالفت پر کھڑے رہتے ہیں اور عیب نکالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.لیکن ایک عظمند اور منصف انسان کے لئے فیصلہ کرنے میں بہت آسانی اور سہولت ہو جاتی ہے.اگر وہ یہ دیکھے کہ کیا اس سلسلہ کے پھل ایسے ہی ہیں جیسے پہلے روحانی سلسلوں کے ہوتے رہے ہیں.اگر اسے ویسے ہی پھل نظر آئیں تو اس سے سلسلہ کو بھی روحانی ماننا پڑے گا.لیکن اگر کوئی پھر بھی اعتراض کرے گا تو یہ اس کی اندرونی خرابی اور نقص کی وجہ سے ہوگا.نہ یہ کہ سلسلہ سچا نہیں ہو گا.دیکھو اگر نیشکر اعلیٰ درجہ کا ہے اور اس کے چکھنے سے کسی کو کڑواہٹ معلوم ہوتی ہے تو یہ نیشکر کا نقص نہیں ہوگا بلکہ چکھنے والے کا ہوگا.اسی طرح اگر شیریں پھل سے کسی کے منہ میں کڑواہٹ پیدا ہوتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پھل خراب ہے بلکہ یہ چکھنے والے کے اندر مرض ہے.اسی طرح اگر ایک کھانے کا عمدہ ہونا دلائل اور مشاہدات سے ثابت ہو جائے اور پھر کچھ لوگ اس کے متعلق اعتراض کریں کہ یہ پھیکا ہے.بد مزہ ہے یا یہ کہ اس میں نمک زیادہ ہے تو اس کے یہ معنی نہیں ہونگے کہ کھانا خراب ہے بلکہ یہ کہ نقص نکالنے والوں میں نقص ہے.اس صورت میں ہمارے لئے یہ ضروری نہیں ہو گا کہ ہم کھانے کی اصلاح کریں بلکہ یہ ضروری ہوگا کہ اعتراض کرنے والوں کی بیماری کی اصلاح کریں.ان کے ناک زبان اور عقل کی شہادت اس امر کے لئے کافی نہیں ہوگی کہ کھانے میں تغیر کریں بلکہ وہ اس امر کی طرف توجہ دلائے گی کہ ان کی بیماری کی طرف توجہ کی جائے.اس وقت ہمارے سلسلہ اور سلسلہ کے کاموں کے متعلق ایک نئی تحریک کے متعلق اسی قاعدہ کے مطابق صداقت ثابت ہوئی ہے.تین چار ہفتے ہوئے میں نے مسجد برلن کے لئے اعلان کیا تھا.ہماری جماعت غریب اور کمزوروں کی جماعت ہے.پھر اس کے اخراجات کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ ایسی بڑی بڑی رقمیں جن کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے جمع کر سکتی ہے.خلافت لڑکی کے لئے
30 چندہ کی سارے ہندوستان میں تحریک کی گئی.اور مسلمانوں میں ایسے ایسے لوگ موجود ہیں جو اکیلے کروڑ کروڑ روپیہ دے سکتے ہیں.مگر اس کے باوجود ان کی رقمیں دس بارہ لاکھ سے زیادہ نہ ہو سکیں.اور اس کا اثر ایسا پڑا کہ اگر خلافت کے لئے چندہ دیتے ہیں تو یہاں کی تحریکوں کو چلانے کے لئے کچھ نہیں رہتا حتی کہ مرکزی خلافت کمیٹی کو فیصلہ کرنا پڑا کہ انگورہ فنڈ سے روپیہ کاٹ کر یہاں کے اخراجات میں لگایا جائے.اس کے مقابلہ میں ہماری جماعت ہے جو مال اور تعداد کے لحاظ سے یہاں کی سب اقوام سے کم ہے.حتی کہ صرف پنجاب میں جتنے چوڑ ہے رہتے ہیں ان سے بھی احمدی کم ہیں اور مال کے لحاظ سے بھا بڑے وغیرہ بہت چھوٹی اقوام بلکہ ان قوموں کے بعض افراد کے پاس جتنا مال ہے اتنا ہماری ساری جماعت کے پاس نہیں ہے.مگر باوجود اس کے اللہ تعالیٰ اس جماعت سے جو کام لے رہا ہے.اس کی طرف دیکھو کہ وہ کیسا عظیم الشان ہے.ہندوستان میں سات آٹھ کروڑ کے قریب کہتے ہیں کہ مسلمان ہیں پھر مسلمانوں کی زندگی اور موت کا سوال تھا.ہمارے چندہ کے متعلق یہ سوال نہیں تھا.مسجد لندن ایک تحریک تھی اور بہت بابرکت اور ضروری تحریک تھی.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اگر لندن میں مسجد نہ بنی تو ہم ہلاک ہو جائیں گے.اسی طرح برلن میں مسجد کی تحریک ہے.یہ مفید ہے مگر یہ نہیں کہ اگر نہ بنی تو ہماری جماعت ٹوٹ جائے گی.مگر مسلمانوں کی تحریک ایسی تھی کہ وہ خود کہتے تھے.اگر اس میں کامیابی نہ ہوئی تو مسلمان تباہ و برباد ہو جائیں گے.لیکن باوجود اس کے ان کے لئے چند لاکھ روپیہ جمع کرنا مشکل ہو گیا.بالمقابل اس کے ہماری جماعت جو ان کا سواں حصہ بھی نہیں بنتی.ایک لاکھ روپیہ چند دنوں میں مسجد لندن کے لئے دے دیتی ہے.اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہماری زندگی اور موت کا سوال ہو تو ہماری مٹھی بھر جماعت دو کروڑ روپیہ بھی جمع کر سکتی ہے.اور اس سے زائد ہم اس لئے نہ جمع کریں گے کہ اور دینا نہ چاہیں گے بلکہ اس لئے کہ ہمارے پاس کچھ اور ہو گا ہی نہیں.وہ سوال جو ہمارے لئے زندگی اور موت کا سوال ہوگا.اس کے لئے روپیہ کی انتہا خواہ کوئی بھی ہو.اس لئے نہ ہوگی کہ اس سے زیادہ ہم دیتا نہ چاہیں گے بلکہ اس لئے ہوگی کہ ہمارے پاس دینے کے لئے کچھ اور ہو گا ہی نہیں.باقی صرف جائیں ہوں گی اور جانوں کے دینے سے بھی دریغ نہ ہو گا.کیا عظمند اور سمجھ دار لوگوں کے لئے یہ بات غورو فکر کے قابل نہیں ہے کہ ایک ایسی قوم جو مدتوں سے مُردہ چلی آتی ہے.اس کے افراد میں ایسی روح ایسا جوش اور ایسا ولولہ پیدا ہو جائے.یہ کوئی معمولی بات نہیں یہ خدا تعالیٰ کا ہی کام ہے کہ اس نے ایسی حالت پیدا کر دی ہے.یہ کسی انسان کا کام نہیں ہو سکتا.دیکھو بڑے بڑے لوگ اٹھے جنہوں نے لوگوں کی عقلوں اور فہموں پر تصرف حاصل کر لیا.مگر ان کا تصرف عارضی اور چند دن کا تھا.مسٹر گاندھی کو کتنا عروج
31 ہوا.مگر عارضی.محمد علی شوکت علی صاحبان کو کس قدر لوگوں نے بلند کیا.مگر عارضی.کچھ عرصہ پہلے مسٹر گاندھی کا کتنا شور تھا مگر دو ہی سال کے عرصہ میں آج ان کو لوگوں پر پہلے اثر کا دسواں حصہ بھی حاصل نہیں.ان عارضی جوشوں کی ایسی ہی مثال ہوتی ہے.جیسے روڑیوں پر پھول اگ آتے ہیں اور چند دن میں مرجھا جاتے ہیں.مگر جو پھول باغ میں ہوتے ہیں ان کی باغبان نگرانی کرتا ہے.ایک مرجھا جاتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ لگا دیتا ہے.تو انسانوں کے پیدا کئے ہوئے جوش مستقل نہیں ہوتے.مگر خدا تعالی کے پیدا کردہ جوش میں استقلال ہوتا ہے.جب کبھی ذرا سستی پیدا ہونے لگے.تو اور جوش پیدا کر دیتا ہے.برلن میں مسجد کے متعلق جو تحریک کی گئی ہے.اس میں دیکھا گیا ہے کہ عورتوں نے اپنے اخلاص کا ایسا اعلیٰ نمونہ دکھایا ہے جو کسی اور جگہ ہرگز نہیں مل سکتا.اس وقت تک ۲۵ ہزار کے وعدے ہو چکے ہیں اور کوئی تعجب نہیں کہ جو رقم کی گئی ہے.اس سے بہت زیادہ ہو جائے.کیونکہ ابھی تک کئی جماعتیں باقی ہیں.اس تحریک کے متعلق بھی دیکھا جائے تو اس میں بھی یہی بات پائی جاتی ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.اور وہی بات آج میں پیش کرنا چاہتا ہوں.جو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے بعض ایسے سامان پیدا کئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو یہ تحریک مقبول ہے.جہاں دوسرے لوگوں کی یہ حالت ہے کہ مال خرچ کرنے کی وجہ سے ان میں سے لوگ مرتد ہو جاتے ہیں.وہاں ہمیں ایک نیا تجربہ ہوا ہے.میں نے اس مسجد کی تحریک کے لئے یہ شرط رکھی تھی کہ احمدی عورتوں کی طرف سے یہ مسجد ہوگی جو ان کی طرف سے نو مسلم بھائیوں کو بطور ہدیہ پیش کی جائے گی اب بجائے اس کے کہ وہ عورتیں جنہیں کمزور کہا جاتا ہے.اس تحریک کو سن کر پیچھے ہٹتیں عجیب نظارہ نظر آیا اور وہ یہ کہ اس تحریک پر اس وقت تک گیارہ عورتیں احمدیت میں داخل ہو چکی ہیں تاکہ وہ بھی اس چندہ میں شامل ہو سکیں.یہ خبر ہیں وقت تک آچکی ہے.اوروں کا پتہ نہیں.میں سمجھتا ہوں کہ یہ عورتیں پہلے ہی احمدی تھیں.کوئی اس لئے مذہب نہیں بدلا کرتا کہ چندہ دے.وہ پہلے احمدی تھیں مگر ان میں احمدیت کے اظہار کی جرات نہ تھی.اب انہوں نے دیکھا کہ اگر اب بھی جرات نہ کی تو اس ثواب سے محروم رہ جائیں گی.گویا اس طرح اس تحریک نے گیارہ روحوں کو ہلاکت سے بچا لیا.اور یہ پہلا پھل ہے جو اس تحریک سے ہم نے چکھا ہے کہ گیارہ روحیں ہلاکت سے بچ گئی ہیں.ایک مثل مشہور ہے اور وہی بات یہاں بن جاتی ہے.کہتے ہیں ایک بادشاہ گذر رہا تھا کہ اس نے دیکھا ایک بوڑھا ۸۰-۹۰ سال کی عمر کا درخت لگا رہا ہے.وہ درخت کوئی اس قسم کا تھا جو لمبے عرصہ کے بعد پھل دیتا ہے.بادشاہ نے اس بوڑھے کو کہا.یہ درخت تو بہت عرصہ کے بعد پھل دے گا.تم اس سے کیا فائدہ اٹھا سکو گے.بڑھے نے کہا بادشاہ سلامت بات یہ ہے کہ ہمارے
32 باپ دادا نے درخت لگائے جن سے ہم نے پھل کھائے.اب ہم درخت لگاتے ہیں جن سے آئندہ آنے والے پھل کھائیں گے.بادشاہ نے یہ سن کر کہا زہ یعنی کیا خوب بات کہی ہے.اور اس کا حکم تھا کہ جس کی بات پر میں زہ کہوں.اسے چار ہزار روپیہ دینا چاہئیے.جب بادشاہ نے زہ کہا تو چار ہزار کی تھیلی اسے دے دی گئی.بڈھے نے تھیلی ہاتھ میں لیکر کہا.بادشاہ سلامت آپ کہتے تھے کہ تو اس درخت کا پھل کب کھائے گا.لوگوں کے درخت تو دیر سے پھل دیتے ہیں میرے درخت نے لگاتے لگاتے پھل دے دئے.بادشاہ نے پھر کہا.زہ اور خزانچی نے چار ہزار کی اور تھیلی اسے دے دی.بڑھے نے دوسری تھیلی لے کر کہا.بادشاہ سلامت لوگوں کے درخت تو سال میں ایک دفعہ پھل دیتے ہیں میرے درخت نے بیٹھے بیٹھے دو دفعہ پھل دے دئے.بادشاہ نے پھر کہا زہ.اور تیسری تھیلی اسے دی گئی.اس پر بادشاہ نے کہا یہ بڑھا تو ہمیں لوٹ لے گا.چلو یہاں سے چلیں اور روانہ ہو گیا.مسجد برلن کے متعلق بھی زہ والی ہی مثال ہے.لوگوں کی مسجدیں تو اس لئے بنتی ہیں کہ جو ایمان لے آئے ہیں وہ نمازیں پڑھیں.مگر ہماری مسجدوں کی تحریکوں میں لوگ ایمان لے آتے ہیں.یہ درخت کا پھل ہے جو بتاتا ہے کہ یہ درخت کسی قسم کی خوبیاں رکھتا ہے.پھل سے ہی درخت کی خوبی معلوم ہوتی ہے اور اس درخت کے پھل نے بتا دیا ہے کہ یہ بہت اعلیٰ ثمرات رکھتا ہے.دیکھو جس درخت کو لگاتے ہوئے اس کی جڑ میں گیارہ آدمیوں کے ایمان کا پانی سینچا جائے گا وہ کیسا اعلیٰ ہوگا اور اپنے وقت پر وہ کیسے ثمرات دے گا.اس کے بعد میں یہاں کی جماعت کے لوگوں کو اور ان کی عورتوں کو اور باہر کی جماعتوں کو اور ان کی عورتوں کو مخاطب کرتا ہوں کہ ابھی تک بہت سی جماعتوں کے چندے نہیں آئے تازہ تازہ کام کے کرنے میں جو ثواب اور لطف ہوتا ہے وہ بعد میں نہیں ہوتا.اور سابقون کو جو درجہ حاصل ہوتا ہے.وہ بعد میں آنے والوں سے بہت اعلیٰ ہوتا ہے.دیکھو ایک صحابی تو ابوبکر بن گیا اور ایک وہ صحابی ہو گا جو بعد میں ایمان لایا.اور اس کا کوئی نام نہیں جانتا.اس کی کیا وجہ ہے یہی کہ ابو بکڑ اس وقت ایمان لایا جب اس کے کان میں آواز پڑی.اور دوسرے بعد میں ایمان لائے.تو دیر سے کام کرنے میں بھی ثواب میں کمی ہو جاتی ہے.یہاں بھی وہ مستورات جنہوں نے چندے نہیں دئے یا ادا نہیں کئے اور باہر کی جماعتوں کی مستورات کو بھی جنہوں نے چندے نہیں لکھائے یا ادا نہیں کئے تحریک کرتا ہوں کہ وقت پر ایک پیسہ جو فائدہ دے سکتا ہے.بے وقت ہزا رہا روپیہ بھی اتنا فائدہ نہیں دے سکتا.پس جن بہنوں نے چندے لکھائے ہیں ان کو چاہیے کہ جلدی ادا کریں اور بھائیوں کو چاہیے کہ ان کو تحریک کرتے رہیں.اگرچہ اس کام میں مردوں کا چندہ نہیں رکھا گیا مگر وہ عورتوں
33 میں تحریک کر کے ثواب حاصل کر سکتے ہیں.اب کئی گھبرا کر لکھ رہے ہیں کہ ہماری عورتیں غیر احمدی ہیں ہم کیا کریں.میں کہتا ہوں کہ یہ تمہاری ستی کا خمیازہ ہے کیوں تم نے ان کو احمدی نہیں کیا.اور جب تم نے اس قدر ستی دکھائی ہے تو یہی وقت ہے کہ تمہیں چوٹ لگے اور تم محسوس کرو کہ تم سے کس قدر کوتاہی ہوئی ہے.پھر یہ بھی ایمان کی علامت ہے کہ کئی لوگ لکھ رہے ہیں کہ آپ دعا فرمائیں میری بیوی چندہ دینے میں کمزوری نہ دکھائے.کہتے ہیں کسی مولوی نے عورتوں میں چندہ کی تحریک کی.اس کی اپنی بیوی بھی بیٹھی ہوئی تھی.وہ بھی ایک بالی دے آئی.جب وہ گھر آیا اور معلوم ہوا کہ اس کی بیوی نے بھی بالی دی ہے تو کہنے لگا تم نے کیوں دی؟ یہ تحریک تو اوروں کے لئے تھی نہ کہ اپنے گھر کے لئے.لیکن ہماری جماعت کے لوگوں کی یہ حالت ہے کہ وہ لکھ رہے ہیں.دعا کی جائے کہ ان کی عورتیں چندہ دینے میں کوتاہی نہ کریں.پھر بعض لکھ رہے ہیں کہ وفات یافتہ بیوی کی طرف سے چندہ دینے کی اجازت دی جائے.غرض یہ ایسا نظارہ ہے کہ جو اپنی نظیر نہیں رکھتا اور جس کا نمونہ صحابہ کے زمانہ میں ہی پایا جاتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے لئے جانیں بھی قربان کرنی پڑیں تو ہماری جماعت دریغ نہ کرے گی.دوستوں کو چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے جلدی اس ثواب کو حاصل کرنے کی عورتوں کو تحریک کریں کیونکہ اگر اس وقت مسجد بننے لگے.تو اس رقم میں بن سکتی ہے ورنہ بعد میں ممکن ہے کہ دس لاکھ میں بھی نہ بن سکے.پس مردوں کو چاہیے کہ تحریک میں جلدی کریں اور عورتیں چندے دینے میں جلدی کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور ان کو پورا کرنے کی توفیق دے اور ہدایت پر قائم رکھے.الفضل ۸ مارچ ۱۹۳۳ء)
34 7 فتنہ شدھی کے لئے احمدی سرفروشوں کی ضرورت (فرموده ۹ / مارچ ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.خطبہ کے شروع کرنے سے پہلے یا اصل خطبہ سے پہلے میں پچھلے جمعہ کے خطبہ کی تکمیل کے طور پر ایک بات سنانا چاہتا ہوں جو یہ ہے کہ وہ فضل جو برلن مسجد کی تحریک کے ذریعہ خدا کی طرف سے ہوا ہے اس کے ذریعہ 9 اور آدمیوں نے بیعت کی ہے.یہ ایک گھر کا گھر ہے.جو احمدی ہوا ہے واقعہ یہ ہے کہ ہمارے خان صاحب منشی فرزند علی صاحب اس چندے کے دورے کے لئے نکلے.ایک غیر احمدی خاندان کہ جس کے نو ممبر ہیں وہ بھی چندہ لایا.ان کو کہا گیا کہ اس چندہ میں تو صرف احمدی ہی شامل ہو سکتے ہیں.ان کو تبلیغ تو پہلے ہی سے ہو چکی تھی لیکن وہ رکے ہوئے تھے.اب اس موقع پر جب ان کو یہ کہا گیا تو وہ سارے کا سارا گھر احمدی ہو گیا.یہ کیا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا نمونہ ہے کہ ایک تو وہ لوگ ہیں جو چندہ کی خاطر احمدیت کو چھوڑتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کا ہم سے یہ معاملہ ہے کہ ہمیں چندہ بھی ملتا ہے اور آدمی بھی ملتے ہیں.کسی نے کیا خوب کہا ہے.بن مانگے موتی میں مانگے ملے نہ بھیک ہم غیروں کا چندہ رد کرتے ہیں تو ہمیں آدمی اور روپیہ دونوں ملتے ہیں.اور ایک وہ لوگ ہیں جو مسیح موعود کو مان کر پھر محروم ہو گئے.اس کے بعد اس مضمون کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں جس کے متعلق پرسوں درس کے موقع پر ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ جمعہ کے موقع پر بیان کروں گا چونکہ یہاں اس وقت بہت ایسے لوگ ہیں جو درس میں شامل نہ تھے.اکثر دیہات کے احباب ہیں.بعض یہاں کے ہیں.جو کسی نہ کسی ضروری کام کی وجہ سے درس میں نہیں آسکے ہونگے.اور بعض شست بھی ہیں.اس لئے اختصارا " اس خطبہ کے باعث اور موضوع کو بیان کر کے جماعت کو اس کام کی طرف توجہ دلاتا ہوں.ہندوستان میں کچھ جماعتیں ہیں جو نام کی مسلمان ہیں مگر ایمان ان میں رچا نہیں.وہ جماعتیں
35 تعداد میں تھوڑی نہیں بڑی بڑی ہیں.واقف لوگ بتاتے ہیں کہ ان کی تعداد ایک کروڑ ہے اگر ہندو ان پر قبضہ جما لیں تو وہ ہندو ہو جائیں.ان جماعتوں میں سے ایک جماعت راجپوتوں کی ہے جو ملکانہ کہلاتی ہے اور یو پی کے علاقہ میں آباد ہے.یعنی آگرہ ، علی گڑھ ، فرخ آباد.متھرا وغیرہ علاقوں میں ان کی تعداد ساڑھے چار لاکھ بتائی جاتی ہے ان میں اسلام کسی وقت داخل ہوا مگر مسلمانوں کی سستی کے باعث اسلام ان میں رچا نہیں.اب ان میں سے بعض میں کچھ رسوم مسلمانوں کی پائی جاتی ہیں.مثلاً ختنہ کراتے ہیں.مُردوں کو دفن کرتے ہیں.نکاح ملا سے پڑھواتے ہیں.لیکن اس کے مقابلہ میں ہندوؤں کی رسوم بھی ان میں موجود ہیں.ان کے بعض گھروں میں بہت ہیں جن پر وہ نذریں چڑھاتے ہیں.مندروں میں جاتے ہیں.غرض ان میں بہت سی رسوم ہندوانہ بھی ہیں.وہ لوگ شاذ کے سوا اسلام سے واقف نہیں.آریوں نے سولہ سال سے کوشش شروع کی ہوئی ہے کہ جس قدر بھی ان لوگوں کو اسلام سے ہے اس سے ہٹا کر اپنے خیالات ان میں پھیلائیں اور ان کو شدھ کر لیں.اس کے لئے آریوں نے ان کو کہنا شروع کیا.تم لوگ تو ہو ہی ہندو.مسلمان بادشاہوں کی سختی یا کسی لالچ کی وجہ سے تمہارے بزرگوں نے اسلام کی یہ ظاہری شکل اختیار کرلی تھی.پھر ہمسایہ مسلمانوں کی بعض غلطیاں اور موجودہ مسلمانوں کی بعض اخلاقی کو تاہیوں اور جبرو تعدی کے باعث ان میں یہ خیال راسخ ہو چلا ہے کہ وہ در حقیقت ہندہ ہیں.آریوں کی کوشش کا یہ نتیجہ ہوا ہے کہ ان میں سے ایک بڑی جماعت تیار ہو گئی ہے کہ اسلام کو چھوڑ کر ہندو ہو جائے.چند مہینے گزرے ہیں کہ یہ بات ظاہر ہوئی.وہ بھی اس طرح کہ جب آریوں کا قبضہ ہو گیا.تو اس وقت آریوں کو روپیہ کی ضرورت پیش آئی.جس کے لئے انہوں نے اپیل کی.اس سے مسلمانوں کو علم ہوا.پہلے عام طور پر مسلمانوں کو یہ حال معلوم نہ تھا اور نہ ان کا اتنا حلقہ عمل معلوم تھا.اس وقت تک مسلمانوں نے جو کوشش کی ہے.وہ بار آور نہیں ہوئی.ہمارے مبلغوں نے لکھا ہے کہ جو لوگ شدھ ہو رہے تھے ان کو کچھ مسلمان سمجھانے کے لئے گئے.انہوں نے کہلا بھیجا کہ اگر تم آؤ گے تو ہم قتل کر دیں گے.یہ جوش بتاتا ہے کہ اسلام سے ان کو کس قدر بعد ہو گیا ہے.ہندوؤں میں سے اگر ایک شخص مذہب تبدیل کرلے اور مسلمان ہو جائے تو ان میں کہرام مچ جاتا ہے اور ہندو لوگ اس کی ہر طرح مدد کرنے اور اسلام سے واپس لانے میں کوشش صرف کرتے ہیں.اور بڑی بڑی تدابیر اختیار کرتے ہیں.چنانچہ شیخ عبدالرحمان صاحب قادیانی جب مسلمان ہوئے تھے.یہاں اگر حضرت صاحب کے پاس رہنے لگے.ان کو واپس لے جانے کی بہت کوششیں کی گئیں.یہ مجھ کو یاد نہیں.ان کے لئے یا کسی اور نو مسلم کے لئے کچھ ہندو عورتیں بازار میں سے روتی ہوئی گذریں گویا وہ ماتم کر رہی تھیں.ان کی
36 غرض یہ تھی کہ اس پر اثر ہو.بہر حال جب ان کی سب کوششیں بے سود ثابت ہو ئیں تو ان کے رشتہ داروں نے کہا کہ یہ ہمارے ساتھ چلے.ہمیں اس کے مسلمان ہونے اور مسلمان رہنے پر کوئی اعتراض نہیں.یہ ہمارا بچہ ہے.ہمارے پاس رہے.غرض اس طرح کے قول و قرار کے ساتھ لے گئے مگر جاتے ہی قید کر دیا.مکان سے باہر نکلنے نہیں دیتے تھے.اور سختی شروع کر دی.جس طرح سکھوں کے زمانہ میں کاٹھ مار کر رکھتے تھے.اسی طرح گویا ان کو گھر میں کاٹھ مار دیا گیا.لیکن جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بشاشت ایمان کسی کے دل میں داخل ہو جائے تو ایسے شخص کو اگر آگ میں بھی ڈالا جائے تو وہ پھرا نہیں کرتا.چونکہ شیخ صاحب کے دل میں بشاشت ایمان داخل ہو گئی تھی.اس لئے یہ سب سختیاں ان پر بے اثر رہیں.غرض مدتوں قید میں رہے.آخر ایک دن موقع مل گیا اور دیوار پھاند کر نکل آئے.بہر حال اس قوم میں اس قدر جوش ہوتا ہے لیکن مسلمانوں میں یہ روح نہیں ہے.لیکن باوجود حس ماری ہوئی ہونے کے جب ایسی حالت ہو تو احساسات کو ٹھیس لگتی ہے.ساڑھے چار لاکھ آدمیوں کا اسلام کو چھوڑنا کوئی معمولی بات نہیں اس سے مسلمانوں میں جوش پیدا ہوا ہے مگر اتنا نہیں جتنا کہ ضروری ہے اور ہو بھی کیسے سکتا ہے کیونکہ یہ خود اسلام کو چھوڑ چکے ہیں.بعض مولوی لوگ جو وہاں پہنچے ہیں.انہوں نے ایسی بے ہودہ حرکات کی ہیں کہ الٹا نقصان پہنچا ہے.مثلاً ان کی دھوتیاں اتروا کر پاجامے پہناتے ہیں وغیرہ وغیرہ.حالانکہ دھوتی اور پاجامہ کو اسلام سے کوئی تعلق نہیں.بہت سے علاقوں کے مسلمان دھوتی باندھتے ہیں یہ ایسی حرکات ہیں کہ وہ اسلام سے دور ہو جائیں گے.کیونکہ بہت لوگ ایسی باتوں کے تغیر میں جو انکی قومی ہوں.اپنی ذلت اور ہتک خیال کریں گے اور اسلام سے دور ہو جائیں گے.اس حالت کو دیکھ کر ہمیں اس علاقہ میں کام کرنے کی ضرورت پیش آئی.گو وہ لوگ احمدی نہیں ہیں کہ ان کے ارتداد کا ہم پر اثر پڑے مگر چونکہ وہ اسلام کے نام سے تعلق رکھتے ہیں اور اسلام کی شوکت کو قائم کرنا ہمارا کام ہے.گو مذہبی طور پر ہم پر اثر نہ پڑے اور نہیں پڑتا کیونکہ مذہبی طور پر ان کے گرے ہوئے ہونے کے باعث ہی مسیح موعود مبعوث ہوئے.اگر وہ اچھے ہوتے تو مسیح موعود کے آنے کی کیا ضرورت تھی.پس اسلام کے نام کی عزت کے باعث میں نے وہاں اپنے دو آدمیوں کو بھیجا.ایک مولوی محفوظ الحق صاحب علمی اور دوسرے میاں عبد القدیر صاحب بی.اے کہ یہ وہاں جائیں اور رپورٹ لکھیں.ان کی رپورٹ سے تو ظاہر ہے کہ وہ لوگ اس قدر متاثر ہو چکے ہیں کہ وہ آریہ ہو کر رہیں گے.ان رپورٹوں کے آنے کے بعد میں نے ایک تدبیر سوچی ہے.اس کی تفصیل خطبہ میں سنانے کا نہ وقت ہے، نہ مصلحت کہ اس کو بیان کیا جاوے لیکن چونکہ جب تک ضرورت کو ایک حد تک
37 بیان نہ کیا جائے.اس وقت تک مدد نہیں مل سکتی اور جب تک کہ کسی کو بتایا نہ جائے کہ تمہارے گھر میں آگ لگی ہوئی ہے.وہ آگ بجھانے پر آمادہ نہیں ہو سکتا.اس لئے قبل اس کے کہ میں سکیم کا اعلان کروں.جماعت کو آگاہ کرتا ہوں کہ وہ اپنے نفوس اور جان و مال کو قربان کرنے کے لئے تیار رہیں.میں نے بتایا ہے کہ کام بہت سخت ہے.ساڑھے چار لاکھ نفوس کی ایک قوم ہے جو مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے.وہ تیار ہیں کہ اسلام چھوڑ کر ہندو ہو جائیں.ظاہر ہے کہ ایک دو کو سمجھانا مشکل ہوتا ہے لیکن یہ اتنی بڑی قوم ہے.پھر ایک دو کو سمجھانے کے لئے بڑے وقت کی ضرورت ہے اور یہ کام برسوں میں کرنے کا نہیں بلکہ دو چار مہینہ کا ہے.ان کے بعض گاؤں آریہ ہو چکے ہیں.ان کے بڑے لوگ شدھ ہو چکے ہیں.ہمیں ایسے قلیل عرصہ میں ساری قوم کو یا معتد بہ کو روکنا ہے..پس یہ کام بڑی کوشش اور قربانی چاہتا ہے گویا جیسا کہ کہتے ہیں کہ لہو پانی ایک کرنا ہے اور جب تک اپنی خواہشات اپنے کاروبار اور آرام جان و مال کی قربانی نہ کی جائے گی.اس وقت تک یہ کام نہیں ہو سکے گا.اس کام کے لئے وہ لوگ تیار ہوں جو ہر ایک قربانی کے لئے تیار ہوں اور جن کا یہ عزم اور ارادہ ہو کہ خواہ کچھ بھی ہو.وہ انشاء اللہ اس کام کو کر کے چھوڑیں گے اور ان کی ایسی حالت ہو.جیسا کہ قرآن میں آتا ہے.قاتلوا وقتلوا مارتے ہیں یا مرجاتے ہیں.یہی دو صورتیں سامنے ہوں کہ یا تو یہ کام کروں گا اور ان کو اپنا ہم خیال بنالوں گا یا اسی کوشش میں فتا ہو جاؤں گا.اس وقت کامیابی کی امید ہو سکتی ہے.یہ ایک بڑی جماعت ہے اور پھر یہی ساڑھے چار لاکھ نہیں بلکہ ایک کروڑ کی اور جماعت ہے.یہاں ایک دو آدمیوں سے کام نہیں ہو سکتا.روپیہ ہمارے پاس نہیں اور نہ تھوڑے آدمیوں کا کام ہے.بیسیوں آدمیوں کے کرنے کا کام ہے اور بڑے اخراجات کو چاہتا ہے.اس حالت کو دیکھ کر میں نے تجویز کیا ہے اور میرا اس وقت یہی اندازہ ہے کہ ہمیں اس وقت ڈیڑھ سو آدمیوں کی ضرورت ہے جو اس علاقہ میں کام کریں اور کام کرنے کا یہ طریق ہو کہ اس ڈیڑھ سو کو تمیں تیس کی جماعت پر تقسیم کر دیا جائے اور اس کے چار حصہ ہیں ہیں کے بنائے جائیں اور تین آدمیوں کو ریزرو رکھا جائے کہ ممکن ہے کوئی حادثہ ہو.کوئی آدمی بیمار ہو جائے یا کوئی اور سانحہ ہو تو ہم ان میں سے بھیج سکیں.اس ڈیڑھ سو میں سے ہر ایک کو یہ اقرار کر کے فی الحال تین مہینہ کے لئے زندگی وقف کرنی ہوگی جو میں اب بیان کروں گا.پہلے بعض لوگوں کی درخواستیں آئی ہیں.میں نے ان کو جواب نہیں دیا.وہ اب سمجھ لیں گویا ان کی درخواستیں واپس کر دی گئی ہیں.ان شرائط کے سننے کے بعد جو درخواستیں آئیں گی وہ منظور کی جائیں گی.اول یہ کہ ہم ان کو ایک پیسہ
" 38 بھی خرچ کے لئے نہ دیں گے.اپنا اور اپنے اہل و عیال کا خرچ انہیں خود برداشت کرنا ہوگا.جو لوگ اس طرز پر زندگی وقف کرنے اور اس علاقہ میں جانے کے لئے تیار ہوں وہ درخواستیں دیں.ڈیڑھ سو آدمیوں کی ضرورت ہے.وہاں کا خرچ کرایہ وغیرہ وہ سب خود برداشت کریں گے.چاہے وہ پیدل سفر کریں یا سواری پر یہ ان کو اختیار ہے.مگر ہم ان کے خرچ کا ایک پیسہ بھی نہ دیں گے.سوائے ان لوگوں کو جن کو ہم خود انتظام کرنے کے لئے بھیجیں گے.ان کو بھی جو ہم کرایہ دیں گے وہ تیسرے درجہ کا ہوگا.چاہے وہ کسی درجہ اور کسی حالت کے ہوں اور اخراجات بہت کم دیں گے.ان لوگوں کے علاوہ زندگی وقف کرنے والے خود اپنا خرچ آپ کریں گے.اپنے اہل و عیال کا خرچ خود برداشت کریں گے البتہ ڈاک کا خرچ یا وہاں تبلیغ کا خرچ اگر کوئی ہوگا تو ہم دیں گے.اس کے لئے جماعت کو پچاس ہزار روپیہ دینا ہو گا.ایسے کاموں کے لئے جو تبلیغ وغیرہ کے ہوں گے باقی مبلغین اسی رنگ میں جائیں گے.وہاں اپنے اخراجات خود اٹھائیں گے ان کے بال بچے ہوں یا اور متعلقین ہوں جن کا خرچ ان کو برداشت کرنا ہوتا ہے تو وہ خود خرچ کریں گے.جو لوگ دفاتر میں کارکن ہیں، مدرس ہیں ہم ان کو چھٹی نہیں دلوائیں گے.وہ اپنا انتظام خود کریں گے.اگر کسی کی استحقاقی چھٹی ہو.تو لے لے.اگر فرلو مل سکتی ہو وہ لے.غرض وہ اپنے لئے رخصت خود حاصل کریں گے.ہم ان کے لئے کوئی نئے قواعد تیار نہیں کریں گے.جس طرح اپنے دنیاوی کاموں کے لئے کسی کو رخصت کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ لیتا ہے اسی طرح وہ اب لیں.اگر اس صورت میں کوئی جانے کے لئے اور زندگی وقف کرنے کے لئے تیار ہو تو چشم ما روشن دل ماشاد.ورنہ کسی کے لئے ہم کوئی خاص قانون بنوانے کے لئے تیار نہیں.جو لوگ ملازمتوں پر ہیں وہ اپنی رخصتوں کا خود انتظام کریں اور جو ملازم نہیں اپنے کاروبار کرتے ہیں کہ جس وقت چاہیں آزاد ہو جائیں.وہ وہاں سے فراغت حاصل کریں اور ہمیں درخواست میں بتائیں کہ وہ چار سہ ماہیوں میں سے کس سہ ماہی میں کام کرنے کے لئے تیار ہیں.اس وقت جلدی اور اعلیٰ انتظام کی ضرورت ہے کیونکہ گوڈیڑھ سو آدمی کم ہیں مگر انتظام کے ماتحت کام انشاء اللہ تعالیٰ اچھا ہو گا.دیکھا گیا ہے کہ یورپ کی چھوٹی فوجیں ایشیا کی بڑی بڑی فوجوں پر غالب آتی ہیں کیونکہ وہ ایک انتظام کے ماتحت ہوتی ہیں اور وہ انتظام بھی نہایت سخت ہوتا ہے جو شخص اس انتظام کے ماتحت ہو.اس کو اختیار نہیں ہوتا کہ اُف بھی کرے.ولایت کے انگریزی اخبارات میں یہ ایک لطیفہ شائع ہوا تھا کہ قطار میں ایک سپاہی کے متعلق افسر کو خیال ہوا کہ وہ ٹیڑھا چل رہا ہے.افسر نے اس کو کہا کہ سیدھے ہو کے چلو.اس نے اپنی چال درست کر لی.اتنے میں پھر افسر کی ادھر توجہ ہوئی اور اس کو خیال ہوا کہ وہ ٹیڑھا ہی چل رہا ہے.اس نے پھر اس کی
39 ادھر توجہ دلائی اور اس کے ساتھ جو عہدیدار چل رہا تھا.اس کو کہا کہ اس پر مقدمہ چلاؤ.اتفاق یہ که در حقیقت وہ سپاہی سیدھا چل رہا تھا.اس نے کہا کہ میرے پر مقدمہ کس بات کا چلایا جائے گا.میں تو سیدھا چل رہا ہوں.دوسرے افسر نے کہا کہ اس پر پہلی بات کا مقدمہ خارج کر کے اس بات کا مقدمہ چلاؤ کہ اس نے عہدیدار کو جواب دیا.اس کو یہ بات اس وقت پیش کرنے کی ضرورت نہ تھی.اگر مقدمہ چلتا تو اس وقت یہ پیش کر دیتا.اسی جنگ کے دوران میں ایک یونیورسٹی کو ر بھی بنی تھی.جس میں تناسب کے لحاظ سے ہمارے احمدی بہت زیادہ تھے.اور یہ اس لئے بنائی گئی تھی کہ دکھایا جائے کہ ملک کا ہر طبقہ ہمارے ساتھ ہے.اس میں بڑے بڑے تعلیم یافتہ سپاہی کے طور پر کام کرتے تھے.ہمارے ایک احمدی کو حکم ملا کہ فلاں جگہ ایک کھمبا لگائے.اس نے لگا دیا.مگر اس کے متعلق رپورٹ ہوئی کہ اس نے کھمبا نہیں لگایا.اس سے جواب طلب ہوا تو اس نے کہا کہ میں نے کھا لگا دیا ہے مگر ساتھ ہی اس سے یہ غلطی ہوئی کہ لکھ دیا کہ افسر نے رپورٹ غلط کی ہے.اس بنا پر اس پر مقدمہ چل گیا.پس اسی انتظام کے ماتحت ہم سخت انتظام کریں گے اور جو ہیڈ بنائے جائیں گے ان کی پوری اطاعت کرنی ہوگی.ممکن ہے کہ بعض اوقات افسر سختی بھی کر بیٹھیں اور مار بھی بیٹھیں.لیکن جو ماتحت ہو کے جائیں گے.ان کا فرض ہو گا کہ وہ اپنے تمام ارادوں کو چھوڑ کر جائیں اور تمام سختیوں کے مقابلہ میں کام کریں اور افسر نے اگر نا واجب تکلیف دی ہوگی تو کام کے ختم ہونے کے بعد رپورٹ کر سکتے ہیں.مگر اس وقت کام کرنا ہو گا.ماتحتوں کو بہر حال افسروں کی اطاعت کرنی اور ان کا حکم ماننا ہوگا اگر وہ زیادتی کریں گے تو خدا تعالیٰ ان کو سزا دے گا.صبر کا اجر ملے گا اور بعد میں رپورٹ کر سکتے ہیں.پس درخواستیں کرنے والے سن لیں کہ افسروں کی اطاعت کرنی ہوگی.اپنے خرچ سے جانا ہو گا اور بیوی بچوں کا خرچ آپ برداشت کرنا ہوگا.سوائے ان مبلغوں کے جن کو ہم لگائیں گے.درخواست میں یہ بھی بتائیں کہ وہ کس سہ ماہی میں تیار ہیں.وہاں ان کو دن رات کام کرنا ہو گا.اگر فاقہ کشی اختیار کرنی پڑے گی تو کریں گے.حضرت مسیح موعود نے بھی زندگیاں وقف کرنے کا اعلان فرمایا تھا.کئی آدمیوں نے زندگیاں وقف کی تھیں.ان میں سے ایک چوہدری فتح محمد صاحب تبلیغ کے کام میں لگے ہوئے ہیں.دو تین اور ہیں.مفتی محمد صادق صاحب بھی تبلیغ کر رہے ہیں.باقی اپنے اپنے کام میں لگ گئے.حضرت مسیح موعود نے سید حامد شاہ صاحب (مرحوم) کو مقرر فرمایا تھا کہ وہ شرائط و قواعد مقرر کریں.شاہ صاحب نے قواعد تیار کئے اور میں نے ہی حضرت صاحب کو سنائے.ان شرائط میں یہ بات تھی کہ
40 میں کوئی تنخواہ نہیں لونگا.پیدل چلوں گا.زمین میرا بچھونا اور آسمان میرا لحاف ہو گا اور درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کروں گا.باہر بعض لوگوں نے ان شرائط کو سن کر ہنسی کی.مگر حضرت صاحب نے ان شرائط کو پسند فرمایا اور کہا کہ اسلام کو ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہے.میں نے اس واقعہ کا ذکر کر دیا ہے کہ زندگیاں وقف کرنے کا طریق حضرت صاحب ہی نے چلایا ہے.ہم تو آپ کے کاموں کو چلانے والے یا حضور کی منشاء کی تفصیل کرنے والے ہیں.یہی اسلامی طریق تھا.اس کے لئے ہمارے احباب کو تیار ہونا چاہیے.اس سکیم کے ماتحت کام کرنے والوں کو ہر ایک اپنا کام آپ کرنا ہو گا.اگر کھانا آپ پکانا پڑے گا تو پکائیں گے.اگر جنگل میں سونا پڑے گا تو سوئیں گے.جو اس محنت اور مشقت کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں.وہ آئیں ان کو اپنی عزت اپنے خیالات قربان کرنے پڑیں گے.ایسے لوگوں کی محنت باطل نہیں جائے گی ننگے پیروں چلیں گے.جنگلوں میں سوئیں گے.خدا ان کی اس محنت کو جو اخلاص سے کی جائے گی ضائع نہیں کرے گا.اس طرح جنگلوں میں ننگے پیروں پھرنے سے ان کے پاؤں میں جو سختی پیدا ہو جائے گی وہ حشر کے دن جب پل صراط سے گزرنا ہو گا.ان کے کام آئے گی مرنے کے بعد ان کو جو مقام ملے گا وہ راحت و آرام کا مقام ہوگا اور یہ وہ مقام ہوگا جہاں کے رہنے والے نہ بھوکے رہیں گے نہ پیا ہے.یہ چند دن کی بھوک اور یہ چند دن کی پیاس اس انعام کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں.تم لوگوں نے چندے دیکر اخلاص ثابت کیا ہے.لیکن تیار ہو جاؤ کہ اب جان کے مطالبے ہوں گے.یاد رکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام مهدی اور مسیح ہی نہیں بلکہ کرشن بھی ہیں.یعنی آپ ہندوؤں کے لئے بھی ہادی ہیں.اب ہم ان میں تبلیغ شروع کریں گے.اور جب تک ہم ہندوؤں میں تبلیغ نہ کریں حضرت مسیح موعود کرشن کیسے ثابت ہو سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود مسیح ہیں.آپ کی جماعت کو مسیحیوں پر غلبہ ملے گا.آپ مہدی ہیں مسلمانوں کو دوبارہ ہدایت آپ کے ذریعہ ملے گی.آپ کرشن ہیں ہندوؤں میں آپ کی جماعت کو غلبہ اور آپ کی قبولیت پھیلی گی.ہمارے لئے حق پھیلانے کی راہیں کھل رہی ہیں.ہم ہندوؤں میں کام کریں گے.اور وحشیوں تک میں دین پھیلائیں گے.یہ سخت مقابلہ کا وقت ہے.ہماری جماعت کے لوگ آگے بڑھیں.پس میں اس اعلان کے ذریعہ یہاں کے احباب کو پہلے اور پھر بیرو نجات کے احباب کو کہتا ہوں کہ وہ اس موقع پر قربانیاں کریں اور اپنی درخواستیں بھجوا دیں.تاکہ جلد سے جلد کام شروع ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس مقابلہ میں کامیاب ہوں اور ہمارے ذریعہ حق پھیلے.اور ہم اس عہد کو پورا کریں.جو ہم نے مسیح موعود کے ہاتھ پر کیا ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کریں گے.
آمین 41 جب حضور نے دوسرا خطبہ پڑھنا شروع کیا تو کچھ لوگ اٹھنے لگے.آپ نے فرمایا کہ جب خطبہ ہو رہا ہو اس وقت نہیں کھڑے ہوا کرتے بلکہ خطبہ کے بعد اٹھتے ہیں.جب حضور خطبہ پڑھ چکے تو فرمایا اب کھڑے ہو جاؤ.(الفضل ۱۵ر مارچ ۱۹۲۳ء)
42 8 ہندوؤں کو دعوت الی اللہ (فرموده ۱۶ مارچ ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.پہلے تو میں اس موجودہ شورش کے متعلق اس تار کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو وفد کی طرف سے آئی ہے کہ وہ خیریت سے پہنچ گئے ہیں.اور اخبارات میں جو یہ تار شائع ہوا ہے کہ راجپوتوں نے جلسہ کر کے فیصلہ کیا ہے کہ ہم مسلمان ہی رہیں گے اس کی تصدیق معلوم ہوتی ہے.اس خبر کے یہ معنے نہیں کہ فتنہ ارتداد رک گیا ہے بلکہ اس کام کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے.اس کا صرف اتنا مطلب ہے کہ وہ قوم جو اسلام چھوڑ رہی تھی.جب یہ شورش پیدا ہوئی تو اس کو خیال ہوا کہ یہ بات معمولی نہیں.میں نے کہا تھا کہ جب وہاں شدھی ہو رہی تھی اور کچھ مسلمان ان کو سمجھانے کے لئے جانے لگے تو انہوں نے کہلا بھیجا کہ ہم مار ڈالیں گے.اس وقت اگر وہ لوگ نہ رکتے.ان کو جاکر سمجھاتے اور اگر ایک آدھ مارا بھی جاتا تو ان کو ضرور ادھر توجہ ہوتی کہ کچھ تو بات ہے جس کے لئے یہ جان دیتے ہیں.ان کو معلوم ہو جاتا کہ ہمارا کفر کی طرف جانا معمولی بات نہیں.بہر حال وہ رک گئے ہیں.پہلے وہ ایک جوش کی حالت میں جا رہے تھے.لیکن اب اس حالت میں تھوڑا سا وقفہ پیدا ہو گیا ہے.اب جو شخص مذہب تبدیل کرے گا وہ پکا ہو گا.چنانچہ یہ بھی خبر ہے کہ چھ گاؤں اور تبدیل مذہب کے لئے تیار ہیں.اب جو مذہب بدلیں گے وہ پکے ہو کر بدلیں گے.اس کے یہ معنے ہیں کہ آئندہ مقابلہ سخت ہو گا.بہر حال وہ جو اندھا دھند تبدیل مذہب پر آمادہ تھے.اب اس میں ایک روک پیدا ہو گئی ہے.یہ ایک خوش خبری ہے.دوسری خبر جو ہمارے لئے خوش خبری اور دشمن کے لئے عذاب ہے.یہ ہے کہ ہمارے مبلغ افغانستان کا خط آیا ہے کہ خوست کا وہ گورنر جس نے بے قصور ہمارے بھائیوں کو پکڑا اور ہزاروں روپیہ وصول کر کے بھی ان کو نہ چھوڑا اور ہتھکڑیاں ڈال کر مچھر میں تشہیر کی تھی.اس کو امیر کے حکم سے گرفتار کر لیا گیا ہے.اس کو تمام علاقہ میں تشہیر کیا جائے گا اور رعایا سے پوچھا جائے گا کہ اس
43 نے کس کس کو تکلیف دی ہے.یہ ہمارے لئے دوسری خوش خبری ہے.اس لئے کہ یہ ان بھائیوں کے متعلق ہے جن کو ہم یہاں سے کوئی مدد نہیں دے سکتے کیونکہ وہ یہاں کی حکومت سے باہر ہیں.ہم ان کو ان کے دکھوں اور تکالیف میں تسلی نہیں دے سکتے.پس اس گورنر کا ماخوذ ہونا ان کے لئے خوشی ہے اور ہمارے لئے یہ دوہری خوشی ہے.اب میں اپنی جماعت کے لوگوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہمیشہ بڑھنے والی جماعت کو اپنے پیش نظر نصب العین رکھنا چاہیئے جب تک نصب العین سامنے نہ ہو.جوش پیدا نہیں ہوتا اگر کسی کام کا ایک ایک حصہ سامنے آئے تو اس کام کی پوری اہمیت سامنے نہیں آسکتی نہ اس کے لئے جوش اور اخلاص پیدا ہو سکتا ہے.اگر کسی طاقتور انسان کو معلوم ہو کہ اس کا ایک دشمن ہے تو وہ اس کا مقابلہ آسانی سے کر سکتا ہے اور بغیر مشقت اور تکلیف کے اس کو مار سکتا ہے.اس وقت یہ خیال نہیں کرے گا کہ میں جلدی کروں لیکن جب ایک شخص کو معلوم ہو کہ میرا ایک نہیں چالیس دشمن ہیں تو وہ اپنی طاقت اور وقت دونوں کو سنبھالے گا اور اگر ایک ایک دشمن ان میں سے اس کے سامنے آئے تو اس سے مقابلہ کرتے ہوئے ۳۹ اور کا بھی خیال رکھے گا جو اس وقت تک پوشیدہ ہونگے.اگر ایسا نہیں کرے گا تو کامیاب نہیں ہو گا.ہمارے دشمن کئی قسم کے ہیں.ایک غیر مسلم کہلاتے ہیں.ہمارے دشمن کے یہ معنے نہیں کہ ہمیں ان سے دشمنی ہے کیونکہ مسلمان کسی کا دشمن نہیں ہوتا.ہم تو ان کے خیر خواہ ہی ہیں.بلکہ یہ کہ وہ لوگ جہالت سے ہمارے دشمن ہیں.یہ لوگ ایک دو نہیں.سینکڑوں مذاہب کے لوگ ہیں.اگر چھوٹے چھوٹے مذاہب کو چھوڑ دیا جائے تو یہ موٹے موٹے مذاہب ہیں.جن کے پیرو ہمارے دشمن ہیں.عیسائی ہمارے دشمن.ہندو ہمارے دشمن.سکھ ہمارے دشمن.زرتشتی ہمارے دشمن.برہمو ہمارے دشمن.بدھ ہمارے دشمن.میٹرلسٹ یعنی دہریہ ہمارے دشمن.سپر چولسٹ یہ وہ لوگ ہیں جو مُردوں کی روحیں بلوا کر اپنے خیال میں صداقت معلوم کرتے ہیں.یہ بھی ہمارے دشمن ہیں.غرض کوئی مذہب نہیں جس کے پیرو ہمارے دشمن نہ ہوں.مگر ہم سب کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں.ہماری خواہش یہ ہے کہ وہ سب خدا کو پالیں.لیکن وہ چاہتے ہیں کہ خود بھی خدا سے دور رہیں اور ہمیں بھی خدا سے دور کردیں.وہ چاہتے ہیں کہ ہم کو جہنم میں ڈال دیں.جنم وہ نہیں.جو عقبیٰ میں ملے گا بلکہ اصل جنم وہ ہے جو خدا سے دوری کا جنم ہے.کیونکہ اصل جنم خدا سے دور ہونا ہی ہے اور آخرت کا جنم اس کا نتیجہ ہے.پس خدا کا بعد اصل میں جنم ہے.اور لوگ چاہتے ہیں کہ خود بھی اس میں پڑے رہیں اور ہمیں بھی ڈالیں..
44 دیگر مذاہب اور ان کی شاخوں کی دشمنی کے علاوہ وہ لوگ بھی ہمارے دشمن ہیں جو مسلم کہلاتے ہیں.جب ہم ان کے سامنے حقیقی اسلام پیش کرتے ہیں تو بجائے اس کے کہ وہ اس سے خوش ہوں.ہم سے لڑتے ہیں.ان کی مثال ایسی ہی ہے کہ کسی گھر میں آگ لگی ہو.کوئی شخص اس کو بجھانے جائے مگر وہ بجائے اس کا شکر گزار ہونے کے اس کو ڈنڈے مارے.ان لوگوں نے وساوس کو اسلام سمجھ لیا ہے.اس لئے اسلام سے ہزاروں لوگ مرتد ہوئے اور ہو رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اسلام اور مسلمانوں پر رحم کر کے اپنے جلال کے اظہار کے لئے ایک مامور کو بھیجا اور اس کے منہ میں اپنا کلام ڈالا اور اس کو اپنا نائب مقرر کر کے اپنے غلاموں کے لئے صلح کا پیغام بھیجا.مگر کیا یہ اندھیر نہیں کہ آقا صلح کرنا چاہتا ہے مگر غلام اس کے مقابلہ میں تلوار اٹھاتے ہیں.خدا نے اپنے غلاموں کی خطاؤں سے درگذر کیا اور فرمایا کہ میں تم پر رحم کرتا ہوں.میں تمہیں مدد دوں گا مگر یہ غلام خدا کے فرستادہ سے لڑنے لگے.ان کی مثال بالکل اس کے مطابق ہے کہ ایک شخص کے گھر میں آگ لگ گئی ہو اور اس کی مدد کے لئے جو شخص آئے اس سے وہ لڑنے لگ جائے.پس یہ دو گروہ ہیں جو ہمارے مخالف ہیں یعنی ایک وہ لوگ جو آریہ عیسائی وغیرہ مذاہب میں شامل ہیں اور دوسرے وہ جو اپنے آپ کو اسلام کے پیرو بتاتے ہیں مگر ہمارا تیسرا دشمن ہمارا اپنا نفس ہے ہمیں اپنے نفسوں میں اصلاح کرنی ہے اور ان کے عیبوں اور نقصوں کو دور کرتا ہے اور پھر اسلام کے لئے وہ جوش پیدا کرنا ہے جو ہمیں خدمت کے لئے ہر دم تیار اور آمادہ رکھے.کئی لوگ ہیں جو احمدی کہلاتے ہیں مگر ابھی ان میں اصلاح کی ضرورت ہے.ہم نے ایک طرف تو عیسائیوں کو مسلمان بنانا ہے جن کے ایک لاکھ مبلغ اس وقت دنیا میں کام کر رہے ہیں جو بڑی بڑی تنخواہیں پاتے ہیں اور انہوں نے بڑی بڑی علوم کی ڈگریاں پائی ہوئی ہیں.یہ ایسے لوگوں کی جماعت ہے جو فلسفہ ادب اور ڈاکٹری کی سندات رکھتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے الگ ہیں.پھر ہمارا ان سے مقابلہ ہے جن کی پشت پر چالیس کروڑ آبادی ہے جن میں اعلیٰ سے اعلیٰ قابلیت کے لوگ ہیں اور ہمارا اس ساری جماعت کے متعلق ارادہ ہے کہ ہم نے ان کو انشاء اللہ مسلمان بنانا ہے.پھر ہندو ہیں.وہ علم میں، دولت میں ، سیاست میں ہم سے بہت زیادہ ہیں.گو حکومت اریا کے پاس نہیں سوائے اس کے کہ چندر جواڑے ہیں.مگر ایک بات ان میں ایسی ہے جو عیسائیوں کے مقابلہ سے بھی مشکل ہے.اور وہ یہ کہ ان میں قومی برتری کا احساس ہے.وہ سمجھتے ہیں ہم سب سے بہتر ہیں.ان کے برتن کو اگر کسی غیر مذہب کے آدمی کا ہاتھ لگ جائے تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارا برتن بھرشٹ (ناپاک) ہو گیا ایک ہندو جس کے جسم کو نجاست لگی ہوئی ہو اور وہ اس قدر غلیظ ہو کہ
45 پچاس گز ڈور سے اس سے بو آتی ہو وہ ایک مسلمان کو جو نہایت پاک و صاف ہو.پلید سمجھے گا اور پسند نہیں کرے گا کہ اس کے برتن کو وہ مسلمان ہاتھ لگا دے.یہ خیال جو ہندوؤں میں پیدا کیا گیا ہے.ایک دیوار ہے جس کا عبور کرنا آسان نہیں اور اس کی وجہ سے ہندوؤں میں تبلیغ ہونے میں روک ہے.علاوہ ازیں ان کے پاس کوئی مستند شہادت نہیں کہ انبیاء سے خدا کا کیا معاملہ ہوتا ہے عیسائیوں کے پاس یہ شہادت ہے اس لئے ہم ان کو بتا سکتے ہیں مگر ہندوؤں کے پاس اس قسم کی کوئی روایت نہیں.اور جو روایات ہیں ان میں پیغمبر کی بجائے اوتار کا مسئلہ ہے کہ خدا کا قائم مقام ہوتا ہے.اور پھر وہ جو چاہے کرے.ان کی روایات بھی عجیب قسم کی ہوتی ہیں.مثلاً ان کے اوتاروں میں سے ایک نیل کنٹھ ہے جو ایک پرندہ ہے.ان کی روایتوں میں آتا ہے کہ نیل کنٹھ ایک ہاتھی کو نگل گیا اور سارے دریا کا پانی پی گیا.اور پھر نیل کنٹھ پرندہ ہی رہا.یہ تو ان کے پرندے اوتار کا حال ہے.اور جو آدمی اوتار ہوں ان کے متعلق تو جو کچھ کہیں کم ہے.ایسے لوگوں میں تبلیغ کا کام بہت مشکل ہے.وہ اس قسم کے جھوٹے اور بے سروپا معجزات بنا لیتے ہیں اور ان کو اس قدر ان پر وثوق ہوتا ہے کہ بچے معجزات ان کی نظر میں نہیں آتے اور ان کے لئے ان کا سمجھنا مشکل ہوتا اسی قسم کے ایک مسلمان جو میر محمد اسحاق صاحب کے رشتہ دار تھے.یہاں آئے.ان کو میر صاحب نے تبلیغ کی.حضرت صاحب کے بعض معجزات سنائے.مثلاً حضرت صاحب کے کپڑوں پر جو سرخی کے چھینٹے پڑنے کا معجزہ ہے.اس کا ذکر کیا.اس نے کہا یہ کیا اولیاء اللہ کے اس سے بڑے معجزات ہیں.آپ جانتے ہیں کہ مکہ میں جو تربوز بکتے ہیں.وہ کہاں سے آتے ہیں.مکہ میں تو تربوز پیدا نہیں ہوتے.اصل بات یہ ہے کہ بدو باہر سے پتھر بھر کر لاتے ہیں اور مکہ میں آکر یہ پتھر تربوز ہو جاتے ہیں.یا مثلاً لیکھرام کی پیشگوئی کا معجزہ پیش کیا.تو اس نے ایک قصہ یوں سنا دیا کہ ہمارے بزرگ جب عرب سے آئے تھے تو اس طرح آئے کہ جب جدہ سے جہاز تیار ہوا تو وہ اس پر سوار نہ ہوئے اور کہدیا کہ میں ٹھر کر آتا ہوں.جہاز روانہ ہو گیا اور وہ پیچھے رہ گئے مگر وہ اپنی کھڑاؤں پہن کر سمندر پر چلتے ہوئے جہاز سے پہلے بمبئی پہنچ گئے (یہ کہتے ہوئے اسے یہ بات بھول گئی کہ ہمیئی تو انگریزوں کے وقت کا بسایا ہوا شہر ہے.اس وقت کہاں موجود تھا) پھر وہ ایٹہ میں پہنچ گئے.اور پھر کشمیر میں جامع مسجد کے امام نے کہا کہ بھائیو گھر جاؤ.ایک جنازہ ہے.لوگ حیران رہ گئے کہ جنازہ کہاں ہے.بہر حال لوگ ٹھر گئے.وہ وہاں آئے اور اسی وقت ان کی جان نکل گئی اور ان کا جنازہ پڑھا گیا.غرض ایسے لوگوں میں بوجہ مجمول روایات کا پابند ہونے کے تبلیغ مشکل ہوتی ہے.
46 یہی حال یہود کا ہے.وہ لوگ بھی اپنے آپ کو تمام دنیا سے افضل جانتے ہیں.قرآن کریم میں پڑھ کر دیکھ لو.وہ ہر جگہ اپنے نسب پر اور اپنے خاندان پر فخر کرتے اور حضرت اسحاق کو تمام برکات کا مورد مانتے اور ان کے سوا سب کو ان برکات سے بے نصیب ٹھراتے ہیں.ایسے لوگوں میں تعلیم اسلام پھیلانا کوئی معمولی بات نہیں.مگر ہمیں ان میں کام کرنا ہے اور ان میں اسلام کو پھیلانا ہے لیکن ہم باہر کے دشمنوں کے حملوں سے محفوظ نہیں ہو سکتے جب تک ہم اپنے نفسوں کے حملوں سے محفوظ نہ ہو جائیں اور ہم ایک لمبے عرصہ تک اپنی مذہبی زندگی کا ثبوت نہ دیں.یہودی حضرت موسیٰ کی امت ہیں.ہندو حضرت کرشن کی طرف منسوب ہوتے ہیں.عیسائی حضرت عیسی کی امت ہیں.زرتشتی حضرت زرتشت کی امت ہیں.سکھ باوا نانک رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھی ہیں.انہوں نے دنیا پر غلبہ پایا مگر ایک زمانہ کے بعد ان میں خرابیاں پیدا ہو گئیں.اس لئے خدا کو پھر نبی بھیجنا پڑا.اس لئے یہ خیال کہ احمدی کہلانے والوں میں کبھی نقص نہ پیدا ہو گا.درست نہیں.ہاں پہلی جماعتوں کے متعلق یہ ہوا ہے اور ہمارے متعلق بھی یہ ہونا چاہئیے کہ ہماری جماعت ایک بڑے زمانہ تک نقائص سے پاک رہے.ورنہ اگر ہماری جماعت کی حالت خدانخواستہ جلدی خراب ہو جائے اور اس کے افراد کے نفوس میں اصلاح نہ ہو تو پھر سخت افسوس ہی ہو گا.اگر جماعت آئندہ زمانہ میں لمبے عرصہ کے بعد خراب ہو تو ہو لیکن کم سے کم سینکڑوں سال تو روحانیت اس میں رہے.یہ تو ناممکن ہے کہ ہمیشہ رہے.مگر کسی نے کہا ہے.پھول تو اپنی بہار جاں فزا دکھلا گئے حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے ایسا تو نہ ہو کہ ایک تو وہ جماعتیں تھیں جنہوں نے سینکڑوں سال تک روحانیت کو زندہ رکھا.مگر ہم ایسے نہ ہوں جن کے متعلق لکھا جائے کہ انہوں نے نہ خود کامل زندگی پائی نہ کسی کو کامل زندگی دینے کے لائق ہوئے.پس کو کوئی جماعت نہیں جو ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو.ہاں اتنا تو ہونا چاہئیے کہ سینکڑوں سال تک محفوظ ہو جائے.مگر اس جماعت پر کتنا افسوس ہو گا جو لاکھوں کروڑوں سال تو الگ رہے سینکڑوں سال تک بھی محفوظ نہ رہے.پس ہماری جماعت کا کسی نیکی کے کام میں حصہ لینا اس وقت تک خوشی کا باعث نہیں ہو سکتا جب تک اس میں کامل زندگی نہ ہو اور سستی دور نہ ہو جائے اور استقلال نظر نہ آئے.فرض کرو کہ شدھی کا کام رک جائے تو کیا ہم پھر سو جائیں گے نہیں یہ نہیں ہو سکتا.کیونکہ مومن ہتھیار باندھ کر اس وقت تک نہیں کھولا کرتا جب تک فتح نہ ہو جائے.جنگ
47 اُحد کے موقعہ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ لیا کہ مخالفین سے کس جگہ مقابلہ کیا جائے.اندر سے یا باہر چل کر.آپ کا منشاء تھا کہ اندر سے مقابلہ کیا جائے مگر وہ لوگ جو بدر کے موقع پر جہاد میں حصہ نہیں لے سکے تھے.چاہتے تھے.کہ اس موقع پر اپنی بہادری کے جوہر دکھائیں آپ نے ان کی خاطر یہ بات منظور کرلی.ادھر صحابہ کو خیال ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاء مبارک باہر تشریف لے جاکر مقابلہ کا نہ تھا.اس لئے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زرہ پہن کر تشریف لائے تو انہوں نے عرض کی کہ آپ کا جس طرح منشاء ہو اسی طرح کیا جائے.بہتر ہے کہ اندر ہی سے مقابلہ ہو.آپ نے فرمایا.اب وہ وقت گذر گیا خدا کے نبی زرہ پہن کر پھر نہیں اُتارا کرتے.حالانکہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم ہو گیا تھا کہ آپ کا ایک رشتہ دار شہید ہو گا.خود آپ کو تکلیف ہوگی مگر آپ نے فرمایا کہ اب زرہ نہیں اتاری جا سکتی بلکہ اب باہر ہی چلنا ہو گا.پس چونکہ ہم نے بھی ایک کام کا ارادہ کیا ہے اب ہم بھی اس کام سے پیچھے نہیں بہت سکتے.نہ ستی سے کام لے سکتے ہیں.اب زمانہ آگیا ہے کہ پورے زور سے ہندوؤں میں تبلیغ کریں تاکہ حضرت اقدس مسیح موعود کے الہامات پورے ہوں جو ہندوؤں کے متعلق ہیں.جیسے غلام احمد کی جے.ظاہر ہے کہ مسلمان جے کے نعرے نہیں لگایا کرتے.اس الہام کا صاف منشاء یہ ہے کہ ہندوؤں کی قوم اسلام میں داخل ہوگی اور وہ اسی طرح جس طرح فاتح کے داخلہ پر اس کی جے کے نعرے لگائے جاتے ہیں.غلام احمد کی جے کا نعرہ لگائے گی کہ یہی انسان ہے جس نے ہمیں یہ دن دکھایا کہ ہم نے برکات اسلام سے حصہ لیا.بے شک ملکانوں میں شدھی کا کام رک جائے.مگر ہندوؤں میں تبلیغ اسلام کا کام نہیں رک سکتا.یہ تو حضرت مسیح موعود کے الہامات کے پورے ہونے کا وقت ہے اور ان کے پورا ہونے کی رہ کھلی ہے.پس ہماری جماعت کو اس کام کے کرنے کے لئے تیار ہونا چاہیے.جس طرح ہم نے غیر ممالک میں تبلیغ اسلام کے مرکز قائم کیے ہیں.اسی طرح ضرورت ہے کہ ہندوؤں میں تبلیغ کا مستقل کام کیا جائے.اور ان کو اسلام میں جذب کیا جائے.اس میں شبہ نہیں کہ اس راہ میں مشکلات ہیں اور یہ کام سخت ہے.مگر جب تک تکالیف اور مشکلات پر غلبہ حاصل نہ کیا جائے.اس وقت تک کوئی انعام نہیں مل سکتا.ہمیں چاہیے کہ ہم خدا کے لئے کام کریں اور خدا میں ہو جائیں.تاہم ہمیشہ کی زندگی پائیں.ہمیں ان تمام مشکلات کو دور کرنا ہے.تمام دنیا ایک طرف ہے مگر خدا ہمارے ساتھ ہے.پھر مومن کیسے ڈر سکتا ہے.تبلیغ کے کام میں ہم سے پہلے لوگوں نے تلواروں کے سایہ میں بھی سستی نہیں کی.حضرت عمر کے زمانہ میں جب مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ وہ ہر طرف سے
48 دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے.قسطنطنیہ میں عیسائیوں کی حکومت تھی اور یہ آدھی دنیا پر چھائے ہوئے تھے.اور ادھر ایران میں جو حکومت تھی اس کا بھی آدھی دنیا پر اثر تھا.اس وقت مسلمانوں پر ہر طرف سے حملے ہو رہے تھے لیکن مسلمان تلواروں کے مقابلہ میں نہیں ڈرتے تھے تو کیا آج ہم دشمن کی زبان اور اس کے روپیہ سے ڈر سکتے ہیں پس ہمیں اس کے لئے تیار ہونا چاہیے اور ہر ایک قربانی جس کی ضرورت ہو اس کے لئے آمادہ ہونا چاہیئے.یاد رکھو قربانیاں کرنے سے ڈرنا نہیں چاہیے.کوئی قربانی ان انعامات سے جو ملنے والے ہیں.بڑی نہیں.مگر اب تک بھی جو انعام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا ہے.وہ بھی اتنا بڑا ہے کہ محض اس کے لئے بھی ہم بڑی سے بڑی قربانیاں کریں تو تھوڑی ہیں.کیا یہ انعام کم ہے کہ ہمارے آقا اور رب نے ہمیں یاد فرمایا ہے اور ہمارا آقا اور پیارا ہم سے محبت کی بات کہتا ہے اور ہمیں یاد کرتا ہے.مومن کی نظر میں جنت کی کوئی قیمت نہیں وہ خدا کی نگاہ مہر کو ہی جنت سمجھتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے آقا رب العالمین نے ہمارے لئے اپنے ایک مامور کو بھیجا کہ اے میرے بندو تم میری طرف آؤ.کیوں بھٹکتے پھرتے ہو.اس کی یہ مہربانی ہی کم نہیں مگر اس کے آئندہ رحم و فضل کرنے کے وعدے انسان کو اپنی محبت میں غرق کر دیتے ہیں کہ ہم ایسے پیارے اور معشوق کے لئے کیا کر سکتے ہیں.ایک شاعر نے شعر کہا ہے.غالبا اس نے بھی خدا ہی کے لئے کہا ہے اور بہت ہی قابل قدر شعر ہے جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جان دی ہے.اور اس نے اس کی راہ میں جان دے دی ہے لیکن یہ کوئی بڑا کام نہیں کیا کیونکہ یہ جان میری نہ تھی بلکہ اسی نے دی تھی.اس لئے میرا جان دینا کوئی بڑی بات نہیں.پس اللہ تعالیٰ کے پہلے احسانات کے مقابلہ میں ہماری قربانیاں جو اب تک کر چکے ہیں اور آئندہ جو کریں گے کچھ بھی نہیں کیونکہ اس کا یہی ایک انعام ایسا ہے کہ اس کا بدلہ نہیں ہو سکتا کہ اس نے اپنا کلام نازل کیا کہ اے میرے بندو میری طرف آؤ یہ اس کی ایک ادا اپنا نظیر نہیں رکھتی.پس ہمیں اللہ تعالیٰ کی محبت کی قدر کرنی چاہئیے اور اس فرض کو سمجھنا چاہئیے اور خدا کے لئے میدان عمل میں کود پڑنا چاہئیے اور اس بات کو خدا پر چھوڑ دینا چاہئیے کہ کیا ہوگا اور اس کے ارادے کو اپنے ارادوں پر مقدم کرتے ہوئے جو قربانی بھی اس راہ میں طلب کی جائے وہ دینی چاہئیے.باقی چیزوں کا اللہ والی اور وارث ہو.آمین.الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۲۳ء)
49 9 خدا کی مدد پر بھروسہ کرو اپنے مناقشات کو چھوڑ دو (فرموده ۲۳ / مارچ ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.پہلے تو میں اس امر کا اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ وہ رو جو تحریک چندہ مسجد برلن کے متعلق عورتوں میں پیدا ہوئی تھی یعنی عورتیں بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہونے لگی تھیں.وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اب تک جاری ہے.اب تک قریباً چالیس عورتیں بیعت کر چکی ہیں.ابھی ایک مہینہ اور اس چندہ کا باقی ہے.اللہ تعالیٰ سے اُمید ہے کہ اس تعداد میں ترقی ہوگی.اللہ تعالیٰ کے سلوک کا جو ہم سے ہے.اور اوروں سے ہے.اس میں زمین و آسمان کا فرق ہے.ایک دوست نے بتایا کہ جب مولوی صاحبان اپنے خیال میں قادیان پر دھاوا کر کے آنے کو تھے تو امرتسر میں ان لوگوں نے جلسہ کیا.اور پھر مولوی صاحبان گھروں پر چندہ مانگنے گئے.جب بعض جگہ چندہ دینے سے انکار ہوا تو ان مولویوں نے کہا کہ تمہاری غیرت کو کیا ہوا.تمہارے پاس تمہارے مولوی چندہ لینے آتے ہیں اور تم انکار کرتے ہو.اور احمدیوں کی عورتیں آتی ہیں پھر تمہاری عورتیں ان کے پاس چندہ لیکر جاتی ہیں اور وہ نہیں لیتیں کہ تم احمدی نہیں وہ کہتی ہیں کہ تم چندہ لے لو.ہم احمدی بھی ہو جاتی ہیں.ان میں سے بعض نے کہا.اسکی وجہ یہ ہے کہ تم کس چیز کے لئے چندہ مانگتے ہو.وہ کس چیز کے لئے؟ وہ اشاعت اسلام کے لئے چندہ مانگتے ہیں اور تم فتنہ کے لئے مانگتے ہو.اس کے بعد میں جماعت کو اس عظیم جنگ کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو ہندوستان میں جاری ہوئی ہے ملکانہ قوم میں کام کرنے کے لئے اس وقت پچیس کے قریب ہمارے بھائی پہنچ چکے ہیں وہ جن سے مقابلہ ہے.ان کے اثر کو زائل کرنا اور ان کے دلوں کو صاف کرنا اور پھر اسلام میں لانا بڑا کام ہے کیونکہ ہماری تعداد ان کی تعداد کے برابر نہیں.وہ پچیس کروڑ ہیں ہم چند لاکھ ہیں.سوسو
50 کے مقابلہ میں بھی ایک ایک آدمی نہیں آتا.ایسی قلیل جماعت کیسے مقابلہ کر سکتی ہے.علاوہ کثرت کے ان کے حق میں ایک بات یہ بھی ہے کہ وہ ان لوگوں کا گھر ہے.ہمارے مبلغ جو جا رہے ہیں وہ کالے کوسوں سے جاتے ہیں.مقامی حکام کو جو ہمدردی ہو سکتی ہے وہ بھی انہی لوگوں سے ہو سکتی ہے.وہ رعایت کریں گے تو انہی کی کریں گے اور لحاظ کریں گے تو ان کا.پس ان حالات میں ایسے لوگوں سے مقابلہ جو ہم سے ہزاروں گنا طاقتور ہیں کوئی معمولی بات نہیں.پھر جن لوگوں کے لئے گئے ہیں ان میں پہلے سے ہندوانہ رسوم تھیں.گویا وہ آدھے ہندو تھے اور آدھا رستہ پہلے ہی طے کئے ہوئے تھے.اب ان کے لئے چند قدم اٹھانے کی بات ہے.یہ لوگ آہستہ آہستہ اسلام سے دور ہوئے ہیں.ہندو راجاؤں کے مظالم نے ان کو اسلام سے دور کیا.یہ وہ قومیں ہیں جو پہلے حملے کے وقت اسلام میں داخل ہوئیں یعنی جب شروع میں ایک ایک مسلمان یہاں اگر پھیلے ہیں اور انہوں نے تبلیغ کی.اور اس کے اثر سے میوات کے علاقہ میں ہندو لوگ مسلمان ہوئے ہیں.بعد میں متعصب ہندو راجاؤں نے ان پر ظلم و جبر کر کے ان کو جبرا " ہندو رسوم کا عادی بنایا ہے.جیسے پر تھی راج وغیرہ.دل پر کسی کا جبر نہیں ہو سکتا.وہ لوگ اندر سے مسلمان تھے اور ان پر ہندو راجاؤں کی طرف سے ظلم و جبر ہوا.اس کے زیر اثر انہوں نے ظاہری شکل میں کچھ ہندو پن قبول کر لیا تھا.پہلے تو محض ظلم و جور کے نتیجہ میں یہ بات تھی.پھر عادتا ان میں یہ باتیں رائج ہو گئیں.ادھر مسلمانوں سے یہ غفلت ہوئی کہ گو وہ دل سے مسلمان تھے.اسلام کی باتیں بھی ان میں تھیں مگر جو رسوم ان میں ہندوانہ جبرا " لائی گئی تھیں.ان کو دور کرنے اور مٹانے کی کوشش اور فکر نہ کی گئی بلکہ الٹا یہ ہوا کہ چونکہ ان میں علم نہ تھا اس لئے ہندوؤں نے یہ بات ان میں مشہور کرنا شروع کی کہ تم لوگوں کو زبر دستی مسلمان بنایا گیا ہے.اس دھوکے میں ہزاروں ہندو ہو گئے ہیں اور کچھ بننے کے لئے تیار ہیں.غرض ہندوؤں کو ہمارے مقابلہ میں چند باتیں حاصل ہیں (۱) وہ زیادہ ہیں ہم کم ہیں (۲) ہم باہر سے جاتے ہیں وہ وہیں کے رہنے والے ہیں (۳) وہاں کے لوگوں سے حکام کو ہمدردی ہے (۴) مال و دولت جو ان کی پشت و پناہ ہے ہمارے پاس نہیں (۵) ملکانہ مسلمانوں کے بعض علاقے ہندو ریاستوں میں ہیں.ان ریاستوں نے حکومت و ریاست کے فرائض و حقوق کو بھلا کر ایسا ظاہر کیا ہے گویا وہ پنڈتوں کا علاقہ ہے اور شاہی فرائض کو فراموش کر دیا ہے.اورنگ زیب پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے جبرا اسلام پھیلایا ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ یہ اقوام تین سو برس قبل اسلام میں داخل ہو چکی ہیں اور تاریخ کا بیان ہے.کیا اور نگ زیب کو خدائی حاصل تھی کہ پیدائش سے بھی تین سو برس پہلے اس نے جبرا ان اقوام کو مسلمان بنا لیا تھا.یہ قومیں ۱۴۶۵ء میں مسلمان ہوئی ہیں اور اورنگ
51 زیب سترھویں صدی میں ہوا ہے.ہندؤوں کو اپنی ہندو حکومتوں کی بھی امداد حاصل ہے.علاوہ اس کے ہمارے لئے ایک اور مشکل ہے کہ مسلمانوں نے اس کام کی اہمیت کو نہیں سمجھا.وہ بجائے جمع کرنے کے اس وقت اس فکر میں ہیں کہ اس کام سے کس کس کو علیحدہ کریں.چنانچہ لاہور میں ایک انجمن بنی ہے اس میں ایک صاحب نے رائے دی کہ اس انجمن کے وہ لوگ ممبر نہیں ہو سکتے جو دوسروں کو کافر کہیں.تعجب کی بات ہے کہ اس وقت بھی یہ لوگ اسی فکر میں ہیں کہ کس کس کو نکال دیں.حالانکہ یہ وقت تھا کہ یہ سوچا جاتا ہے کہ کس کس طرح جمع کر سکتے ہیں ایسی تجویزوں سے سوائے اس کے کہ شقاق بڑھے اور کام کے راستہ میں رکاوٹ پیدا ہو اور طاقت اور خرچ اس طرف بھی صرف ہو اور کیا ہو سکتا ہے.ہمارے مقابلہ میں مکاری اور فریب اور دھوکے سے بھی کام لیا جا رہا ہے.ہم جانتے ہیں کہ حق غالب ہوتا ہے مگر بعض اوقات ایک وقت حق پوشیدہ بھی ہو جایا کرتا ہے.غرض ہمارے راستہ میں بہت سی ظاہری مشکلات ہیں.لیکن ان سب مشکلات کے مقابلہ میں ہمارے ساتھ ایک اللہ ہے اور اس کے فضل کو جذب کر کے ہم فتنہ کو دور کر سکتے ہیں.لیکن خدا کا فضل اندرونی اصلاح سے جذب ہوتا ہے.جب ایک کام کا فیصلہ ہو جائے.اس وقت نیت اور ارادہ کو درست کر لیا جائے.اور پھر پختہ عہد قربانی کا کر لیا جائے پھر باوجود اس کے کہ ہمارے پاس سامان نہیں.مال و دولت نہیں پھر اللہ کے فضل سے ہم فاتح اور کامیاب ہوں گے.یہ مت خیال کرو کہ ہم کیا ہیں.اگر ہم اس بات پر غور کریں تو ایک گھنٹہ میں پاگل ہو جائیں بلکہ ہمیں یہ دیکھنا اور سمجھنا چاہئیے کہ ہم کچھ بھی نہیں.ہاں خدا کیا ہے اور وہ کیا کر سکتا ہے.ہمارا خدا مالک ہے.واسع ہے.مقلب القلوب ہے.عزیز ہے.کوئی ذرہ نہیں جو اس کے قبضہ میں نہ ہو.رب ہے.سمیع ہے.بصیر ہے.حافظ بھی ہے.نصیر ہے.جب ہم ایسے آقا کے غلام ہیں پھر ہمیں گھبراہٹ ہو سکتی ہے؟ دنیا کی حکومتیں اگر ہمیں مٹانا چاہیں تو ہم نہیں مٹ سکتے کیونکہ ہمیں خدا کی نصرت حاصل ہے.کہتے ہیں کہ دلی کے کسی بزرگ سے ایک بادشاہ ناراض ہو گیا مگر وہ سفر پر جا رہا تھا.اس نے کہا کہ آکر سزا دوں گا.جب بادشاہ کی واپسی کا وقت ہوا.تو مریدوں نے عرض کیا کہ بادشاہ آتا ہے.آپ یہاں سے تشریف لے جائیں.انہوں نے کہا کہ ہنوز دلی دور است.آخر چلتے چلتے جب بادشاہ کے شہر میں داخلہ کا دن آگیا تو پھر ان سے عرض کیا گیا.اور انہوں نے یہی کہا کہ ہنوز دلی دور است چنانچہ جب بادشاہ شہر میں داخل ہونے لگا تو دیوار اس پر گر پڑی اور اس کا وہیں خاتمہ ہو گیا.وہ ایک درویش تھے.ان کے مقابلہ میں ایک بادشاہ تھا مگر درویش کی مدد پر اللہ تھا.اسی طرح
52 رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضور دوپہر کے وقت جنگل میں تھے.درخت کے نیچے سو گئے.صحابہ بھی ادھر اُدھر سو گئے.ایک دشمن آیا اس نے آپ کو پہچان لیا اور آپ کی تلوار جو درخت سے لٹک رہی تھی.اُتار کر نیام سے نکال لی اور کہا کہ اب تجھے مجھ سے کون بچا سکتا ہے.تو آپ کے لبوں سے اللہ کا لفظ نکلا.گویا کہ وہ ایک بجلی کی رو تھی جو اس کے جسم کے ریشہ ریشہ میں داخل ہو گئی اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور پھر آپ نے تلوار اٹھائی اور فرمایا کہ تجھے کون بچا سکتا ہے.آپ کا منشاء تھا کہ اس نے اب سبق حاصل کر لیا ہے.ایسا ہی کہے گا.لیکن اس نے کہا کہ آپ ہی رحم کریں آپ نے اس کو چھوڑ دیا.پس اس وقت آپ کو بچانے والی کونسی چیز تھی.وہ اللہ تھا جس کے قبضہ میں ہر ذرہ ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایک مقدمہ تھا.ہندو مجسٹریٹ تھا.اس پر ہندوؤں کی طرف سے زور ڈالا گیا کہ کچھ نہ کچھ سزا ضرور دینی چاہئیے.اس مجسٹریٹ نے وعدہ بھی کر لیا تھا.اتفاق سے ایک غیر احمدی کو معلوم ہو گیا کہ وہ یہ ارادہ رکھتے ہیں.گو وہ مخالف تھا مگر اسلام سے محبت کے باعث اس کی غیرت نے تقاضا کیا کہ وہ اطلاع دے دے.اس نے احمدیوں کو اطلاع دی.جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ لیٹے ہوئے تھے.اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کیا خدا کے شیر پر ہاتھ ڈالنا آسان ہے.چنانچہ وہ آپ کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکا.یہ خدا کی طاقت تھی جس نے آپ کے دشمنوں کو آپ پر غلبہ پانے سے روکا.اور جس کے ساتھ خدا کی نصرت اور تائید شامل حال ہو وہ کبھی ناکام نہیں ہو سکتا.لیکن جب انسان ایک کام کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو ایک نیت کرتا ہے اور اس نیت کی ایک علامت بھی ہوتی ہے.ہر ایک چھوٹے سے چھوٹے کام کے لئے بھی نیت کرنی ہوتی ہے اور اس کی علامت ہے.اگر ایک بچہ ڈوب گیا ہو اور ایک شخص کنوئیں کے کنارے پر کھڑا ہو اور پھر کہے کہ میری نیت تھی کہ میں اس کو بچاؤں مگر کپڑے نہیں اتارے ہوئے تھے.اگر اس کے دل میں نیت ہوگی تو وہ فورا کوئی ذریعہ استعمال کرے گا جس سے وہ بچہ ڈوبنے سے بچ جائے.پس اگر ایک شخص کی نیت کسی کام کرنے کی ہو تو وہ اس کام کے کرنے کے سامان بھی کرتا ہے.جب تک سامان نہ کرے تو پتہ نہیں لگ سکتا کہ اس کی نیت ہے کہ نہیں اور جتنا بڑا کام ہو اس کے لئے اتنی بڑی قربانی کرتا ہے.اگر اونی ہو تو ادنی.جب بڑے دشمن سے مقابلہ پیش ہو تو چھوٹے دشمنوں کی پروا نہیں کی جاتی.اس وقت زید و بکر کی لڑائیاں فراموش ہو جاتی ہیں.اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ وہ بڑے دشمن کے مقابلہ کے لئے تیار ہے مگر حالت اس کی یہ ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی ذاتی لڑائیوں کو نہیں چھوڑتا تو کیسے یقین ہو سکتا ہے کہ وہ بڑے دشمن کے مقابلہ کے لئے تیار
53 ہے.افسوس ہے کہ ہماری جماعت میں ایک حصہ ہے جو خطرناک جنگ کو دیکھتے ہوئے بھی چھوٹی چھوٹی باتوں کو نہیں چھوڑتا.ایک لوگ تو وہ ہیں جو اپنا مال قربان کرتے ہیں.اپنے آرام و اطمینان کو چھوڑتے ہیں کہ خدمت دین کریں مگر ان لوگوں کو کیسے خدمت کے لئے تیار سمجھا جائے جو زید و بکر سے جنگ میں مصروف ہیں.وہ اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں.ان کو کیسے خیال کیا جا سکتا ہے کہ وہ بڑی قربانی کریں گے جبکہ وہ چھوٹی چھوٹی چند روپیہ کی قربانی نہیں کر سکتے.کیا وجہ ہے کہ خدا کے دین کی حالت خطرناک ہے اور وہ اپنے ذاتی جھگڑوں کو نہیں چھوڑتے.یہ وہ فریق ہے جو جماعت کے ماتھے پر داغ ہے اس کو جس قدر جلد منایا جائے اچھا ہے.ممکن ہے کہ وہ لوگ حمیت اسلام کے مدعی ہوں.وہ کہتے بھی ہیں کہ ہمیں اسلام سے محبت ہے مگر وہ بڑی قربانی کیا کریں گے جب وہ بھائی بھائی ہو کر لڑتے ہیں.اگر اسلام کا خطرہ ان سے چند پیسے کے خطرے کو نہیں بھلوا سکتا تو ان کو اسلام کی حالت پر کیا ہے.اگر ایک باپ اپنے بیٹے کو ڈوبتا دیکھے تو وہ کروڑوں روپوں کو پھینک دے گا تاکہ اپنے بچے کو بچا سکے.لیکن جب ایک باپ کی محبت بچے کے لئے اتنی ہے اور وہ اس کو بچانے کے لئے اتنی قربانی کرتا ہے تو وہ لوگ جو اسلام سے محبت رکھتے ہیں جب دیکھیں کہ اسلام کی یہ حالت ہے کب کسی چیز کا خیال کر سکتے ہیں.اگر ان لوگوں کو اسلام سے محبت ہو تو وہ ضرور ان ذاتی جھگڑوں کو بھول جائیں اور ان کے سامنے ایک ہی دشمن رہے.جس شخص کی یہ حالت نہیں ہوتی اس کے متعلق معلوم ہو گا کہ اس کا محبت اسلام کا دعویٰ جھوٹا.جو لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں.ان کو سمجھانے کے لئے ان سے عملی نفرت سے مجبور کیا جائے کہ وہ یا تو ان باتوں کو چھوڑ دیں یا ہم سے جدا ہو جائیں.ان کی اصلاح کا یہی ذریعہ ہے کہ باقی بھائی ان کے افعال سے نفرت کا اظہار کریں.جب تک وہ لوگ ہم میں سے کہلاتے ہیں ہم ان کو مجبور کریں گے کہ وہ اس روش کو چھوڑیں.جب وہ ہمارا کہلانا چھوڑ دیں گے تو ہم ان سے کچھ نہیں کہیں گے.وہ لوگ جماعت کو بدنام کرتے ہیں.ان کو سزا دی جائے یا وہ اس طریق کو چھوڑ کر ہم سے مل کر رہیں یا علیحدہ ہو جائیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جہل سے بولنا منع نہیں فرمایا.مگر ان لوگوں سے بولنے سے ممانعت کی جو مسلمان کہلاتے تھے.جن کا آپ سے تعلق تھا کہ انہوں نے مسلمان کہلاتے ہوئے ایسے افعال کا ارتکاب کیا.اسی طرح یہ لوگ جو اپنے جھگڑوں کے باعث جماعت کی بدنامی کا موجب ہو رہے ہیں.ان کو ہم سے الگ ہو جانا چاہئیے یا اپنی اصلاح کرنی چاہیئے اور اس مقصد کی تکمیل کے لئے جماعت سے مل کر کام کرنا چاہیے جو جماعت کو درپیش ہے.وہ اپنے اعمال و حرکات سے اس کا ثبوت دیں.اپنے
54 جھگڑوں کو بھول جاؤ.تب ثابت ہو گا کہ تم خدا کے دین کی مدد کرنے کے لئے تیار ہو.ہمارا مقابلہ تو محکوم لوگوں یا محکوم ریاستوں سے ہی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ ان سے تھا جو آزاد تھے.وہ صاحب حکومت تھے مگر انہوں نے رسول کریم صلعم کو کیا نقصان پہنچایا بلکہ جو آپ کو مٹانا چاہتے تھے.مٹا دئے گئے اور وہ پتھر جس کو معماروں نے رد کیا وہ عمارت کا آخری پتھر ہوا جو اس پر گرا وہ بھی چور چور ہوا اور جس پر وہ گرا وہ بھی چور چور ہوا.پس تم خدا کی مدد پر بھروسہ کرو.تم میں سے بعض کے جو آپس میں جھگڑے ہیں ان کو چھوڑ دو.زبردست دشمن کے مقابلہ میں خدا سے نصرت طلب کرو.تم اپنا زور لگاؤ.باقی مدد خدا سے آئے گی.اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو صاف کرے اور اپنی محبت سے بھر دے اور ہم میں خدا کے لئے محبت اور اخلاص ہو اور اس کی محبت و اخلاص کے آگے سب چیزیں بیچ ہیں.الفضل ۹ر ایریل ۱۹۲۳ء)
55 10 اپنے مذہب سے واقفیت اور استقامت کی ضرورت فرموده ۳۰ ر مارچ ۱۹۲۳ء) سورہ فاتحہ اور آیات ان الذين قالوا ربنا الله ثم استقاموا تتنزل عليهم الملئكة الا تخافوا ولا تحزنوا وأبشروا بالجنة التي كنتم توعدون نحن اولينوكم في الحيوة الدنيا وفى الأخرة ولكم فيها ما تشتهى انفسكم ولكم فيها ما تدعون نزلا من غفور رحيم حم سجده ۳۱ تا ۳۳) کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ یہ آیات جو میں نے پڑھی ہیں ان میں ایک اہم امر کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کیا گیا ہے اور وہ امر موجودہ زمانہ کے لحاظ سے ایسا اہم اور ضروری ہے کہ باوجود اس کے کہ میری صحت اجازت نہیں دیتی تھی کہ ایسے اہم مسئلہ پر تقریر کروں کیونکہ بات لمبی ہوتی ہے.لیکن میں نے خیال کیا کہ اس اہم بات کو اور وقت پر اٹھا رکھنا مصلحت کے خلاف ہے.بات کا فائدہ اسی وقت ہوتا ہے جب اس کا وقت اور موقع ہو.لیکن جب وقت نہ رہے تو اس کا فائدہ نہیں ہوتا.ایک شخص خدا کی نافرمانی کرتا ہے اور دکھ اٹھاتا ہے.اور ایک شخص خشیت الہی سے روتا ہے.دونوں برابر نہیں.بعض باتیں موقع پر یاد آجاتی ہیں اور اپنا کام کر جاتی ہیں.حضرت خلیفہ اول کا ایک چھوٹا سا بچہ فوت ہوا.اس کی والدہ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور اس پر شریعت کوئی روک نہیں ڈالتی.مگر اس وقت ایک عورت آئی وہ اس طرح رو رہی تھی کہ سب کو حیرت ہوئی رشتہ دار تو اس درد سے روتے نہیں اس کو رونے کی کیا وجہ ہے.آخر اس سے پوچھا گیا کہ اس کا کیا باعث ہے تو اس نے جواب دیا کہ اس وقت ایک شخص مجھے نظر آیا ہے جس کی شکل میرے بھائی جیسی ہے.میرا بھائی فوت ہو چکا ہے.اس کو دیکھ کر میں رو پڑی کہ اس کو دیکھ کر مجھے اپنا بھائی یاد آگیا.وہ شخص اس سے پہلے بھی اس کے سامنے آتا تھا مگر اس کو دیکھ کر رونے کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت دل نرم تھا.بچہ کی موت کا اثر ہوا.دوسرے وقت میں یہ بات نہیں
56 ہوتی تھی.را اس وقت ہندوستان میں ارتداد کا فتنہ پھیلا ہوا ہے.انہی فتنوں کے انسداد کے لئے یہ آیت تھی.یہ فتنہ مسلمانوں کی بے توجہی کا نتیجہ ہے.پس جماعت کو چاہیے کہ ہمیشہ اس مضمون کو مد نظر رکھا کرے اور بھولے نہیں.اس آیت میں مومن بندوں کی ذمہ داری بیان کی گئی ہے.وہ جو کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے جس کو ہم خدا مانتے ہیں.وہ اللہ واحد ہستی ہے.اللہ علم ہے جو ذات کا نام ہے.اللہ رب ہے اور اپنی ذات میں کامل ہے.اس کے سوا ہم کسی کو نہیں مانتے.توحید کامل اسلام کے سوا کہیں نہیں ملتی.یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اسلام کو مانتے ہیں.وہ مانتے ہیں اور ساتھ ہی اس پر استقامت کرتے ہیں یعنی اللہ تعالٰی کو مان کر ان پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس کو ادا کرتے ہیں.جب ان میں یہ دو باتیں پیدا ہو جاتی ہیں تو ان پر ملا نکتہ اللہ نازل ہوتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ تم خوف و حزن نہ کرو.خوف کے مقابلہ میں جب حزن ہو تو اس سے آئندہ ڈر مراد ہوتا ہے.پس ان کو کہا جاتا ہے کہ نہ پچھلی غلطیوں کا خوف کرو.نہ آئندہ کے لئے ڈر کر ہمت ہارو.اور پھر صرف ان کو یہی نہیں کہتے کہ تمہارے لئے کوئی صدمہ نہیں بلکہ وہ ان کو کہتے ہیں کہ تم خوش ہو جاؤ.تمہارے لئے وہ آرام ہیں جن کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے.یہ بات جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے اس میں یہ ذکر نہیں کہ منہ سے کہدیا اور استقامت ہو گئی بلکہ استقامت وہ ہوتی ہے جو اعمال میں ہوتی ہے.استقامت گذشتہ واقعات پر بھی نہیں بلکہ آئندہ آنے والی مشکلات اور تکالیف کے مقابلہ میں مضبوطی دکھانے کا نام استقامت ہے.استقامت میں وہ ذمہ داریاں مراد ہیں جو دعوئی ایمان باللہ کے ساتھ عائد ہوتی ہیں.دوسرے لفظوں میں اس کا یہ مطلب ہے کہ مسلمان یا احمدی ان فرائض کو ادا کریں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عائد کئے گئے ہیں.جب تک مسلمان یا احمدی کہ یہی حقیقی اسلام کی جماعت ہے سمجھتے رہیں گے کہ محض کلمات کافی نہیں بلکہ کلمہ کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے وہ بوجھ اٹھا لیا جو اس کلمہ کے پڑھنے یا بیعت کرنے کے ساتھ ہم پر عائد ہو گیا.تب تک وہ استقامت کے موافق نہیں ہوں گے.کلمہ شہادت پڑھنے اور بیعت کرنے کے موقع میں کہ گویا یہ اقرار ہے کہ میں نے ان ذمہ داریوں کو اٹھا لیا جو بیعت اور کلمہ شہادت کے ساتھ انسان پر عائد ہو جاتی ہیں.جب کوئی شخص ان ذمہ داریوں کو اٹھا لیتا ہے.پھر ان پر فرشتہ نازل ہوتا ہے.کروڑوں مسلمان ہیں جو ربنا اللہ کہتے ہیں اور کہتے رہتے ہیں مگر باوجود اس کے ان پر نزول ملا ٹکہ نہیں ہو تا.ان کو کوئی بشارت نہیں ملتی.ان مہربانی کا سلوک نہیں ہوتا.ہو نہیں سکتا کہ ایک شخص بادشاہ کا درباری ہو اور اس سے بادشاہ مہربانی سے پیش نہ آئے.یہ سچ ہے کہ مراتب ہوتے ہیں.ایک مقرب سے بادشاہ باتیں کرتا ہے
57 لیکن ایک شخص جو اننا مقرب نہ ہو.اس سے گو باتیں نہیں کرتا مگر وہ رہتا بادشاہ کی نظر میں ہے اور بادشاہ کی مہربانیوں سے حصہ لیتا ہے.پس گو اللہ کے پیارے بندوں میں درباری کی حیثیت رکھتے ہوں مگر خوف و حزن سے ان کی حفاظت ضرور ہونی چاہئیے.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی یہ حالت نہیں ہے.آج جتنی آلام اور تکالیف مسلمانوں پر ہیں.اوروں پر نہیں.دولت ان کے پاس نہیں.اخلاقی طور پر ان کی وہ بری حالت ہے کہ شرم آتی ہے.پھر کونسی بات ہے جس سے سمجھا جائے کہ ان پر خوف و حزن نہیں.فرشتوں کا نازل ہو کر بشارت دینا تو بڑا مقام ہے.ان کو ادنیٰ مقام بھی حاصل نہیں.حتی کہ وہ بھی نہیں جو کفار کو حاصل ہے.کفار محفوظ ہیں مگر یہ نہیں.یہ حالت کیوں ہے.یہی کہ نہ یہ حقیقی معنوں میں ربنا اللہ کہتے ہیں نہ ان میں استقامت ہے.ان ذمہ داریوں کو بھلا بیٹھے جو ان پر عائد ہوئی تھیں.اس کا نتیجہ تنزل اور انحطاط ہے یہ فتنہ ارتداد اور قوموں میں بھی ہو گا.کئی جگہ تحریک ہے.گو ظاہر نہ ہو.کوششیں جاری ہیں کہ مسلمانوں کو مرتد کیا جائے.ایک زمانہ میں مسلمانوں پر لالچ اور خوف کا اثر نہ ہوتا تھا اور ان کے پاس حق تھا..حق پر کوئی دلیل نہ چلتی تھی.یہ دوسروں کو حق کے زور سے کھینچ لیتے تھے.مگر آج ہر ایک چیز مسلمان کہلانے والوں کے دل کو ڈگما دیتی ہے.اس کا مطلب یہی ہے کہ ان میں استقامت نہیں رہی.لالچ اور خوف نے اپنا اثر ڈال دیا ہے.صحابہ کے زمانہ میں ربنا اللہ کہتے تھے اور استقامت دکھاتے تھے.ان کی یہ حالت تھی کہ کوئی چیز ان کو ان کے مقام سے نہیں ہٹا سکتی تھی.ایک صحابی کو کفار نے پکڑ لیا اور تجویز کی کہ ان کو قتل کر دیا جائے.سب تیاریاں ہو گئیں.اس وقت ان سے پوچھا گیا کہ کیا تم پسند کرو گے کہ تم آزاد ہو جاؤ اور تمہاری بجائے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو پکڑ کر اس طرح قتل کر دیا جائے اور تم اپنے گھر میں آزادی اور آرام سے بیٹھو.اس وقت اس صحابی نے جواب دیا تم نے جو بات کی ہے وہ تو بہت بڑی ہے.میں تو یہ بھی نہیں چاہتا کہ محمد رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم کے پاؤں میں کانٹا بھی چبھ جائے.۲.ایک شخص جو قتل کیا جانے کے لئے تیار ہے اور اس کو امید دلائی جاتی ہے کہ تم آزاد کر دئے جا سکتے ہو.وہ اتنا بھی سنتا گوارا نہیں کرتا کہ وہ آرام سے بیٹھے اور محمد رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم کے پاؤں میں کانٹا چبھ جائے.یہ استقامت کی بات تھی اور پھر دلائل کی یہ حالت تھی کہ ابھی قسطنطنیہ فتح نہیں ہوا تھا.ایک عیسائی بادشاہ نے ایک مسلمان بادشاہ کو لکھا کہ ایک عالم کو بھیج دیجئے.ہم تحقیقات مذہب کرنا چاہتے قسطنطنیہ میں پادری لوگ جمع ہو گئے.انہوں نے خیال کیا کہ مولوی صاحب کو آتے ہی شرمندہ ہیں.
58 کریں.جب دربار لگ گیا تو پادری نے کہا کہ آپ کے رسول کی بیوی عائشہ پر الزام لگایا گیا ہے اور الزام لگانے والے بھی آپ کی قوم ہی میں سے ہیں.اس لئے یہ اعتراض مضبوط ہے.اس وقت اللہ تعالیٰ نے مسلمان عالم کے دل میں ڈال دی.اور انہوں نے جواب دیا کہ یہ تو معمولی بات ہے.یہ دو واقعات ہیں جو آسانی سے حل ہو جاتے ہیں.دو عورتوں پر زنا کا الزام لگایا ہے.ایک تو وہ ہے جس کا خاوند موجود ہے اور اس پر زنا کا الزام بھی دیا جاتا ہے لیکن اس کے کوئی اولاد نہیں ہوتی.ایک اور عورت ہے جس کی شادی نہیں ہوتی.اس کو زنا کا الزام دیا جاتا ہے اور اس کے بچہ بھی پیدا ہو جاتا ہے.پادری شرمندہ ہوا اور کہا کہ مولوی صاحب آپ نے تو سختی شروع کر دی.وہ تو میں نے یونسی بات کی تھی.اس واقعہ سے پتہ لگتا ہے کہ ایسی ضرورت کے وقت پہلے علماء نے بھی سختی سے جواب دیا.وہ لوگ جو کہا کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے یسوع کو گالیاں دی ہیں.دیکھ لیں پہلے علماء بھی جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر حملہ ہوتا دیکھتے تھے تو دشمن کو اس کے گھر سے آگاہ کرنے کے لئے سختی سے جواب دیا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو وقت پر دلیل سکھاتا ہے.حضرت خلیفتہ المسیح اول رضی اللہ تعالٰی عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جب کوئی دشمن دین پر حملہ کرے تو اللہ تعالٰی فورا مجھے جواب سکھاتا ہے.مانتا نہ ماننا اور بات ہے مگر دشمن سے اس کا جواب نہیں بن پڑتا.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ احمدیوں کو چھوڑ کر دلائل کے رنگ میں بھی مسلمان کرتے جاتے ہیں.جس سے پتہ لگتا ہے کہ انہوں نے ربنا اللہ کہنا اور استقاموا کی حالت کو چھوڑ دیا ہے.دین سے ناواقف ہیں اور اس کے لئے حقیقی درد نہیں.اس لئے ایسی قوم مستحق نہیں ہو سکتی کہ وہ خدا کی تائید کو جذب کر سکے.ایسی قوم ہلاک ہوا کرتی ہے.اگر علماء اسلام ان لوگوں کی جو آج مرتد ہو رہے ہیں کچھ بھی خبر رکھتے اور ان کو مسائل اسلام سے واقف کراتے تو آج آریہ لوگ ان کو اپنے اندر سمیٹ لینے کی جرأت نہ کرتے.حقیقی اسلام تو کہاں ان کو قشر سے بھی واقفیت نہیں ہو سکتی.اس سے ثابت ہوا کہ مسلمانوں نے استقامت نہ دکھائی اور اس ذمہ داری کو نہ سمجھا جو مسلمان ہو کر ان پر عائد ہوئی تھی اور پانچ سو سال تک استقامت دکھائی اور پھر بیٹھ گئے.ا یہ وقت ہماری جماعت کے لئے قابل غور ہے.ہم نے بھی ربنا اللہ کہا ہے.ہمارا فرض ہے کہ استقامت دکھائیں.اس وقت مسلمانوں کی حالت زبان حال سے کہہ رہی ہے کہ من نه کردم شما حذر بکنید ہمیں پچھلے لوگوں کی حالت سے سبق لینا چاہیے اور چوکس ہو جانا چاہئیے.میں کہتا ہوں کہ جہاں ہمیں مرتد ہونے والوں کے بچاؤ کی فکر کرنی چاہئیے ان کو بھی بچائیں جو ان کے قریب ہیں اور پھر اپنی
59 نسلوں کے متعلق بھی اس اصول کو مد نظر رکھیں کہ آئندہ ہماری نسلیں اسلام سے واقف ہوں اور پھر وہ اپنی نسلوں کو اسلام سے واقف کریں اور اسی طرح قیامت تک یہ سلسلہ چلا جائے.اگر ہم نے اس بات کا خیال نہ رکھا تو نعوذ باللہ ہمیں بھی آئندہ اس خطرے سے دوچار ہونا پڑے گا جو راجپوتوں کے درپیش ہے.آریہ لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ ان میں ہندوانہ رسوم ہیں اس لئے وہ پہلے ہی سے ہندو ہیں.مگر ہندوستانی مسلمانوں کی کونسی قوم ہے جس میں ہندوانہ رسوم نہیں.کیا سیدوں میں ہندوانہ رسوم نہیں.کیا مغلوں میں نہیں.کیا یہ بھی ہندو ہیں.بات یہ ہے کہ جب اپنے مذہب سے واقفیت نہ ہو تو ہمسایہ قوموں سے متاثر ہونا بڑی بات نہیں.اگر سیدوں میں رسوم ہیں اور وہ ہندو نہیں، مغلوں اور قریشیوں میں یہ ہندوانہ رسوم ہیں اور وہ ہندو نہیں تو مسلمان راجپوتوں میں اگر کچھ رسوم ہندوانہ پائی جاتی ہیں تو وہ کیسے ہندو ثابت ہو گئے.حقیقت یہ ہے کہ وہ مسلمان تھے اور دل سے مسلمان ہوئے تھے لیکن ان کی تربیت علماء نے نہ کی.جس حال میں تھے اسی میں چھوڑ دئے گئے.تربیت نہ ہونے کے باعث ہندوانہ رسوم ہمسایوں کے اثر سے آگئیں اور راسخ ہو گئیں.پس نئے آنے والوں کی تربیت ضروری ہے.جب تک ایک فرد واحد بھی موجود رہتا ہے جو اسلام سے واقف نہیں.مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس کو آگاہ کریں اور استقامت کے ماتحت ان کا فرض ہے کہ اپنے کمزور بھائیوں کو پختہ اور مضبوط بنائیں.ورنہ کفار ان کو کھا جائیں گے.جب تک جماعت کی یہ حالت بحیثیت مجموعی نہ ہو کہ وہ اسلام پر پختہ اور اصول سے واقف ہو جائے اس وقت تک جماعت محفوظ نہیں کی جا سکتی.اگر افراد خطرے میں رہیں تو جماعت خود بخود خطرے میں ہوتی ہے اگر ایک کمرے کو آگ لگ جائے تو سارا مکان خطرے میں پڑ جاتا ہے.پس اگر ایک بھی کافر رہے گا تو وہ ترقی کرے گا اور کفر پھیلائے گا.مومن کے کام کا وقت ہوتا ہے.اگر وقت پر کام نہ کیا جائے تو خطرہ ہوتا ہے.زندگی کا اعتماد نہیں اس لئے جو کام ہو جائے وہ غنیمت سمجھنا چاہیے.ہمارا فرض ہے کہ اپنی نسلوں کی حفاظت کریں اور آئندہ نسلوں کو وصیت کردیں کہ وہ اپنی نسلوں کو دین سے بے خبر نہ ہونے دیں.اگر ایسا نہ ہوا تو جو قوم استقامت کو چھوڑے گی.اس کی نسل کے لئے یہی خطرہ درپیش ہے.ہمیں چاہیے کہ آئندہ نسلوں کی حفاظت کریں اور ان کی حفاظت کریں جو ہم میں شامل ہوں.اگر دنیا میں ایک بھی ایسا شخص ہے جو لا الہ الا اللہ نہیں کہتا تو پھر ہمارے لئے امن سے بیٹھنے کا وقت نہیں.ایک وقت عیسائی کتنے تھوڑے تھے.مگر آج دنیا پر چھائے ہوئے ہیں.اگر ہم استقامت دکھا ئیں ، اپنا فرض پورا کریں تو خدا کے فرشتوں کی آواز سن سکتے ہیں.ورنہ نہیں.
60 جب ہم اپنا فرض پورا کریں گے تو خدا کے فرشتے ہمیں بشارت دیں گے کہ ہم دنیا میں تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں تمہارے ساتھ رہیں گے.تمہیں خیر اس دنیا میں بھی ملے گی اور آخرت میں بھی.اور اس خیر میں ولكم ما تشتهى انفسكم جو تم چاہو گے وہی ملے گا.وہاں مانگنے کی ضرورت نہ ہوگی بلکہ مانگنے سے پہلے وہ چیزیں موجود ہونگی.اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو خواہشیں ہونگی وہ پوری کی جائیں گی.پھر نئے سامان کئے جائیں گے اور اچھے انعام دیئے جائیں گے.فرمایا.نزلا من غفور رحیم یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو غفور و رحیم ہے بطور مہمانی سامان ہونگے.ایک تو مومن کے اچھے کام فضل کو جذب کریں گے.دوسری صفت مغفرت کے ماتحت کہ جو کمی رہی اس کو وہ پورا کرے گا اور کوشش کے بعد جو کمزوری رہے اس سے چشم پوشی فرمائے گا.پس انسان کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ استقامت دکھائے.اگر صدمہ سے محفوظ رہنا چاہتا ہے تو استقامت کو نہ چھوڑے.ضرورت ہے کہ ہر ایک انسان اپنے نفس کے علاوہ اپنی نسل کی فکر کرے اگر نسل کی فکر نہیں کی جاتی تو خوف و حزین سے بچاؤ نہیں.خوف و حزن سے بچنے کا طریق یہ ہے کہ ہر ایک نسل اپنی آئندہ نسل کو حق کی تعلیم دے اور حق پر قائم رکھنے کی کوشش کرے.یاد رکھو! جب تک تم اس فرض کو ادا کرو گے محفوظ رہو گے اور جب تمہاری کسی نسل نے چھوڑ دیا تو پھر وہ ہلاک ہونگے.اللہ تعالیٰ پہلوں کی ہلاکت سے ہمیں سبق دے اور ہم وہ راہ اختیار نہ کریں جو ہلاکت کی راہ ہے.اللہ تعالیٰ ہم پر ہلاکت کے دروازے بند کردے اور اپنے فضل و رحم کے دروازے کھول دے.الفضل ۲۳ / ایریل ۱۹۲۳ء) ا زید بن وشنه ۲ اسد الغابه جلد ۲ ص ۲۳۰ حالات زید بن وثنه
61 11 احمدی مخلصین آگے بڑھیں (فرموده ۶ / اپریل ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.پچھلے دنوں ہماری جماعت کے مختلف انجمنوں کے نمائندے بغرض مشورہ آئے تھے.ان سے مشورہ کے بعد میں نے چند امور طے کئے ہیں.جن میں سے بعض امور فتنہ ارتداد سے تعلق رکھتے ہیں جو یو پی میں رونما ہوا ہے اور آج میں انہی امور کے متعلق اپنی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں.میں پچھلے دنوں سے قریباً ہر خطبے میں جماعت کو اس فتنہ کی طرف توجہ دلاتا رہا ہوں.جس کی وجہ یہ ہے کہ جمعہ کی نماز کی علت غائی یہی ہے کہ مسلمانوں کو ان امور کی طرف متوجہ کیا جائے جو ان کے ملت و دین سے تعلق رکھتے ہیں اور بحیثیت مجموعی جن کا واسطہ تمام مسلمانوں سے پڑتا ہے.وعظ و نصیحت تو اکیلے اکیلے بھی کئے جا سکتے ہیں.لیکن وہ امور جو اجتماع کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں وہ اجتماع کے بغیر کیونکر حل ہو سکتے ہیں تو ایسی باتوں کے لئے نماز جمعہ مقرر ہے.ہماری شریعت جس کے تمام حکم پر حکمت ہوتے ہیں اور جن کا کوئی بھی ارشاد بلاوجہ نہیں.اس نے ہماری اس ضرورت کو دیکھ کر ہمارے لئے نماز جمعہ مقرر فرمائی جس میں سب مسلمان جمع ہوا کریں اور امام ان کو ضرورت حاضرہ سے آگاہ کیا کریں.اسلامی شریعت میں خطبہ اتنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نماز ظہر کے چار فرضوں میں سے کاٹ کر دو رکعت محض خطبہ کے لئے رکھ دئے.اس میں غرض یہ رکھی کہ تمام لوگوں میں ایک روح پیدا کی جائے اور اجتماعی قوت کو مضبوط کیا جائے اور پیش آمدہ خطرات سے ان کو آگاہ کیا جائے اور ان سے بچنے کا طریق بتایا جائے اور ضروریات سلسلہ کا علم کرایا جائے.لیکن بد قسمتی سے مسلمانوں میں کچھ عرصہ سے یہ طریق جاری ہو گیا ہے کہ خطیب کھڑے ہوتے ہیں اور صدیوں کے پرانے خطبے پڑھ کر سنا دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں سے وہ ترقی کی روح بھی جاتی رہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے احسانوں میں سے ایک احسان یہ بھی ہے کہ آپ
62 نے خطبہ جمعہ کی غرض بتائی اور قوم میں زندگی پیدا کرنے اور دنیا میں ترقی یافتہ بننے کے لئے خطبہ کو قرار دیا.پس یہی وجہ ہے کہ میں بار بار اپنی جماعت کو ان ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور خطبہ میں یہی باتیں بیان کرتا ہوں.پس مجلس مشاورت کے جن مشوروں کو میں نے قبول کیا ہے.یا نمائندگان سے مشورہ لینے کے بعد جن امور کا عزم میں نے کیا ہے.ان پر جماعت کو عمل کرنے کے لئے خاص طور پر توجہ دلاتا ہوں.اس زمانہ کے حالات سے ظاہر ہے کہ آج کل کوئی کام بغیر روپیہ کے نہیں ہو سکتا.پچھلے زمانہ میں اور رنگ تھا.چنانچہ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلعم نے بہت سی جنگیں کیں.مگر سوائے چند غزوات کے آپ نے کسی کے لئے چندہ نہیں کیا بلکہ یہی فرما دیا کہ آؤ چلے آؤ.جس پر صحابہ میں سے کوئی سواری لے آیا اور کوئی نیزہ لے آیا اور کوئی تلوار اٹھائے آرہا ہے اور کوئی ستوہی لیکر چلا آرہا ہے اور اس طرح سے لشکر بن کر دشمن سے مقابلہ ہوتا تھا.سوائے بعض غزوات کے جو بہت اہم تھے اور خاص تیاری چاہتے تھے.ان میں آپ نے چندہ کا اعلان بھی فرمایا.جس پر آپ کی جماعت نے بتادیا کہ وہ صرف ایسے ہی نہیں کہ خدا کی راہ میں جان ہی قربان کریں بلکہ وہ مالوں کی بھی کوئی پروا نہیں کرتے.بعض لوگ ہوتے ہیں جو خدا کی راہ میں جان تو دے دیتے ہیں مگر مال دینا ان کو دو بھر ہوتا ہے.اور بعض مال خرچ کر سکتے ہیں مگر جان نہیں دے سکتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے دونوں قسم کی قربانیاں کیں اور اعلیٰ پیمانی پر کیں.لیکن اس زمانہ میں یہ ہونا مشکل ہے.وجہ یہ ہے کہ کام نہایت وسیع ہو گیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو سب سے لمبے فاصلہ پر جنگ کی وہ جنگ تبوک تھی.جو دو ڈیڑھ سو میل کے فیصلہ پر تھی.گویا یہاں سے جتنا انبالہ ہے اتنے فاصلہ پر.لیکن ہم نے جہاں جہاں دھاوا کرنا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے.ہم نے امریکہ افریقہ یورپ، آسٹریلیا اور دور دور سواحل پر حملہ کرنا ہے.چھ چھ بارہ بارہ ہزار میل کا فاصلہ ہے.پس فاصلوں کی لمبائی اور پھر ان لوگوں کے تمدن کے اختلاف کی وجہ سے روپیہ کا سوال بہت اہم سوال ہے.میں نے اس فتنہ ارتداد کے لئے اپنی جماعت کے ذمہ سر دست ۵۰ ہزار روپیہ چندہ لگایا ہے جو وہاں پر مناسب جگہ پر خرچ کیا جائے گا.پچھلے دنوں درس کے موقع پر یہ تجویز کی تھی کہ قادیان کے لوگوں میں سے جو صاحب ثروت کم از کم سو روپیہ فی کس دے وہ اس میں شریک ہو.اس سے کم کسی سے نہ لیا جاوے بلکہ اس حصہ جماعت کو آئندہ ضروریات کے لئے ریزور رکھا جاوے.میں نے اس تحریک کو صرف قادیان میں
63 بیان کیا تھا جس میں حکمت یہ تھی کہ مجلس مشاورت کے موقعہ پر جب نمائندگان آئیں تو ان سے مشورہ لوں کہ آیا یہ تحریک عام ہونی چاہئیے یا خاص.سو مجلس شوری میں کثرت رائے اس بات پر تھی کہ رقم خاص کر دی جاوے.جو چاہے اس میں شریک ہو جاوے اور وہ رقم کم سے کم سو ہوئی چاہیے.اگر اس ذریعہ سے رقم پوری ہو جاوے تو اچھا ورنہ اس تحریک کو عام کر دیا جائے تاکہ امیرو غریب اس میں حصہ لے سکیں.میں نے مجلس کی اس رائے اور اس مشورہ کو منظور کر لیا ہے.سو آج میں ان لوگوں کو جو میرے سامنے بیٹھے ہیں اور یا جن تک میرا یہ خطبہ چھپ کر پہنچ جائے اور وہ میرے دل اور روحانی آنکھوں کے سامنے بیٹھے ہیں.مخاطب کرتا ہوں کہ جس جس کو اللہ تعالٰی توفیق دے اور وہ اس کام میں حصہ لے سکتا ہو تو وہ جلد سے جلد کم از کم سو اور زیادہ سے زیادہ جتنا چاہے اور دے سکے خزانہ بیت المال میں بھیج دے.قادیان میں ایسے ذی ثروت لوگ بہت کم ہیں.بالعموم قادیان میں بڑی بڑی قربانیاں کر کے آئے ہوئے ہیں.اور معمولی سی آمدنی سے بیوی بچوں کے اخراجات بھی بمشکل چلاتے ہیں.مگر پھر بھی قادیان والوں کی قربانیاں اور ان کا اخلاص قابل رشک ہے.بہت سے ایسے لوگوں نے اس چندہ میں شمولیت کی ہے کہ اگر میں خود اس رقم کے دینے والوں کے نام نامزد کرتا تو کبھی میرے وہم میں بھی نہ آتا کہ وہ یہ بوجھ اٹھا سکیں گے.بعض کی ۱۴.۱۵ روپیہ تنخواہ ہے مگر پھر بھی انہوں نے اس رقم کو ادا کر دیا ہے.معلوم نہیں کتنے عرصہ اور کن اغراض کے لئے وہ یہ رقم بچا بچا کر جمع کر رہے تھے.مگر ان کے اخلاص نے ان کو مجبور کر دیا کہ مالداروں سے پیچھے نہ رہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں غرباء آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہ ہم نوافل پڑھتے اور تسبیح و تحمید کرتے ہیں.امراء بھی یہ کرتے ہیں.ہم نمازیں پڑھتے اور جہاد کرتے ہیں.امراء بھی ایسا کر لیتے ہیں.پھر وہ صدقہ دیتے ہیں ہم کس طرح ان کے برابر ہوں.آپ نے فرمایا کیا میں تم کو ایک ترکیب نہ بتادوں جس سے تم ان امراء پر سبقت لے جاؤ.انہوں نے عرض کیا حضور ضرور بتائیں آپ نے فرمایا کہ تم ہر نماز کے بعد ۳۳.۳۳ دفعہ سبحان اللہ اور الحمد للہ اور ۳۴ دفعہ اللہ اکبر پڑھا کرو.اس سے تم کو ثواب ملے گا.مگر تم ان سے بڑھ جاؤ گے.وہ بہت خوش ہوئے اور چلے گئے.امیروں کو یہ معلوم ہوا تو انہوں نے کہا کہ ہم کیوں پیچھے رہیں.انہوں نے بھی ایسا کرنا شروع کر دیا.چند دن کے بعد پھر غرباء حاضر ہوئے اور عرض کیا حضور امراء نے بھی ایسا کرنا شروع کر دیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے.اور فرمایا کہ یہ خدا کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے.میں ان کو کس طرح روک دوں..اللہ تعالیٰ نے ان کو دل ہی ایسا دیا ہے کہ وہ کسی طرح پیچھے نہیں رہنا چاہتے.
64 اس موقعہ پر امراء نے غرباء کو شکست دے دی تھی.میرے نزدیک وہ جو ۱۳ سو سال کا بدلہ تھا اب اس موقعہ پر غرباء نے نکال لیا ہے اور امراء کو شکست دے دی ہے.جب میں نے اس چندہ کی تحریک کی تو سب سے پہلے وہی لوگ آپہنچے جو فی الواقع سو روپیہ دینے کی کسی طرح طاقت نہ رکھتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ لکھا ہے کہ میں اس لئے آیا ہوں کہ جو قومیں پیچھے رہ گئی ہیں اور ان کے حقوق دبائے گئے ہیں ان کو ان کے حقوق دلاؤں.میں آدم ہوں.اس لئے آیا ہوں کہ پہلے آدم کا بدلہ لوں اور جس طرح شیطان نے اس کو جنت سے نکلوا دیا تھا.میں شیطان اور اس کی ذریت کو ابدی جنت سے نکلوا دوں.مجھے مسیح بنایا گیا تاکہ پہلے مسیح کو صلیب دیا جانے کے بدلے میں صلیب کو توڑ دوں.اور آئندہ ہمیشہ کے لئے اس رستہ کو بند کر دوں.میں یوسف ہوں.پہلے یوسف کو جو بھائیوں نے نکال دیا تھا اس کا بدلہ لینے آیا ہوں تا اسیروں کو رستگاری دلاؤں.اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ پہلے غرباء کو شکست ہوئی اب اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ وہ اپنا بدلہ نکال لیں.اور امراء کو شکست دے لیں.باوجود اس کے کہ غرباء نے نہایت ہی قابل رشک نمونہ دکھلایا ہے.ہمارے اصل مخاطب پھر بھی امراء ہی ہیں.خواہ وہ قادیان کے ہوں یا باہر کے ہوں.انہیں چاہیے کہ اس حد تک حصہ لیں جتنی ان کو وسعت ہے.پیچھے رہنے کی کوشش نہ کریں.جو پانچ سو دے سکتا ہے وہ اس سے کم نہ دے.اور جو ہزار دے سکتا ہے وہ ہزار سے آنہ کم نہ دے.تب ہی یہ کام ہو سکتے ہیں.دنیا کی آسائش کے بہت مواقع مل سکتے ہیں.اللہ تعالی کی ملاقات کے مواقع نہیں ملا کرتے.اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا موقع مل تو ہر وقت سکتا ہے مگر انسان کے دل میں تحریک اور جوش کے پیدا ہونے کے خاص خاص اوقات ہی ہوتے ہیں.جن میں سے یہ موقعہ ایک بڑا عظیم الشان موقعہ ہے اس کو رائیگاں نہ جانے دینا چاہیے.ورنہ پچھتانا ہوگا.اس سے بہتر کونسی بات ہو سکتی ہے کہ غیر احمدی جو ہم سے بہت ہی بغض و عناد رکھتے ہیں جوش سے کھڑے ہو گئے ہیں اور ہر طرح سے ہماری مدد کرنے کو تیار ہیں.کیونکہ یہ مصیبت اسلام پر ہے اور اس کے لئے مقابلہ کرنے والے صرف احمدی ہی ہو سکتے ہیں اور غیر احمدی اس بات کو محسوس کرنے لگ گئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے دین کی حمایت کرنے والے یہی لوگ ہیں.ہماری جماعت میں پیچھے کس قدر قابل افسوس غفلت رہی ہے.میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے فرض کو شناخت کریں.اور ہر شخص اٹھ کھڑا ہو جب تک اکناف عالم میں اسلام نہ پھیل جائے اس کو چین نہ آئے.اٹھو کہ یہ موقعہ پھر نہیں ملے گا.
65 بیرونی جماعتوں کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو یہ غلطی لگی ہے کہ میں نے صرف سو روپیہ کا مطالبہ کیا ہے.انہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ سو روپیہ کم سے کم ہے.اس سے زیادہ ہر شخص جتنی طاقت رکھتا ہے دے.جو شخص پانچ سو دے سکتا ہے مگر صرف سو دیتا ہے اس لئے کہ میں نے کم از کم سو روپیہ کا مطالبہ کیا ہے وہ اپنے لئے آپ رحمت کے دروازے بند کرتا ہے.اور جو ہزار نہیں دیتا باوجودیکہ دے سکتا ہے.وہ بھی اپنے اوپر رحمت کے دروازے بند کرتا اور ایک عظیم الشان موقعہ کو کھوتا ہے.اسی طرح اگر کوئی دو ہزار دے سکتا ہے وہ اتنا نہیں دیتا وہ بھی اپنے ترقی کے رستوں کو بند کرتا ہے.جس طرح یہ فیصلہ نہیں کیا کہ سو سے زیادہ کوئی نہ دے اسی طرح یہ بھی فیصلہ نہیں کیا کہ سو سے کم نہ لیا جاوے.ہاں یہ بات ہے کہ فی الحال وہ ہمارے مخاطب نہیں.میں تمام جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بہت جلد اس رقم کو پورا کر دے اور ہر فرد جو ذی ثروت ہے اپنی ہمت کے مطابق حصہ لے.(۲) مجلس مشاورت کے موقع پر دوسرا فیصلہ یہ ہوا تھا کہ پہلی تجویز کے مطابق جماعت میں پر زور تحریک کی جاوے کہ لوگ اپنے آپ کو تین تین ماہ کے لئے پیش کریں مجلس کے اس فیصلہ کو بھی میں نے منظور کیا ہے.اب تک تین سو درخواستیں وقف کنندگان کی پہنچ چکی ہیں.مگر کام بہت بڑا ہے.سو کے قریب آدمی ہمارے علاقہ ارتداد میں ہمیشہ رہنے ضروری ہیں.اس کے علاوہ اور بھی بہت سے علاقے ہیں جن میں یہی مرض پھوٹنے والا ہے.ان میں بھی تبلیغ کرتا ہے.پس کام کی اہمیت کے لحاظ سے یہ تعداد بہت ہی کم ہے.اس وقت اگر ہم تھوڑا کام بھی ان علاقوں میں کریں گے تو بڑی کامیابی کی امید ہے.پس اس لئے اس موقعہ پر ہماری جماعت کی تین سو درخواستیں بہت کم ہیں.ہزاروں کی تعداد میں ایسی درخواستیں ہمارے پاس پہنچنی چاہئیں تاکہ ہم اطمینان سے تقسیم کر سکیں.اور بعض لوگوں کا ریز رو رہنا ضروری ہے تاکہ وقت پڑے پر کام آسکیں.میں مانتا ہوں کہ شرائط کڑتی ہیں.ان دنوں میں ایسی قربانی کرنا ایک مشکل امر ہے.مگر یاد رکھو اس کے بدلہ میں جو کچھ مل سکتا ہے.اور اس مشقت پر جو انعام ملنے والا ہے.وہ اس تکلیف سے بہت بڑھ چڑھ کر ہے.تم زیادہ سے زیادہ یہی قربانی کرو گے کہ تین ماہ کے لئے بیوی بچوں کی صحبت ترک کرو گے اور کچھ اموال کی قربانی کرو گے اور اخراجات برداشت کرو گے اور کچھ وقت کی قربانی کرو گے.مگر غور کرو کہ تم بیوی بچوں کی صحبت کو چھوڑو گے تو اس کے بدلے میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی صحبت ملے گی.تم تین ماہ کی قربانی کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو ابدی زندگی عطا فرمائے گا.اور جس طرح سے خدا کی ذات کامل اور ابدی ہے وہ ایسے لوگوں کو بھی ابدیت عنایت کرے گا.تم اموال خرچ کرو گے اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ تم کو ایسے انعام دے گا جو عطاء غیر مجذوذ ہونگے اور کبھی
66 چھینے نہ جائیں گے.تم تین ماہ تک اپنے کاروبار چھوڑو گے.تمہیں اس سے کہیں اعلیٰ کا روبار میں گے.پس اس موقع پر ان مشکلات سے مت گھبراؤ اور اس قربانی سے پیچھے مت ہٹو کہ جو کچھ تمہیں ملنے والا ہے وہ اس سے بہت اعلیٰ ہے.صحبت کے بدلہ اعلیٰ صحبت اور مال کے بدلہ اعلیٰ مال اور کاروبار کے بدلے اعلیٰ کاروبار ملیں گے.میں تو جب انعام کو دیکھتا ہوں تو اس قربانی کو قربانی کہنا قربانی کی ہتک کرنا سمجھتا ہوں.پس میں اپنے دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ جنہوں نے ابھی تک اپنے نام پیش نہیں کئے وہ فوراً اپنے نام پیش کر دیں اور اس بستی میں نہ رہیں کہ ابھی وقت بہت ہے.پھر پیش کر دیں گے.وقت تو بہت ہے لیکن اگر ابھی ہمارے پاس درخواستیں نہ پہنچیں گی تو کام میں گڑ بڑ پڑ جائے گی اور ہمیں اطمینان نہ ہو گا اس لئے ایسے دوست بہت جلد نام لکھوا دیں تاکہ جس طبقہ اور موقعہ کے وہ مناسب ہوں اس کے مطابق ان کی تقسیم کی جائے.ورنہ پھر ترتیب میں مشکل پڑ جائے گی.(۳) وہ لوگ جو کسی نہ کسی مجبوری سے ابھی تک نہ گئے ہوں یا نہ جا سکتے ہوں ان کے لئے بھی اس ثواب میں شریک ہونے کا ایک طریق ہے اور وہ یہ ہے کہ جانے والے احباب کے گھر بار والوں کا فکر رکھیں اور ان کی تکلیفوں کو دور کریں.محلہ داروں کو چاہیے کہ ایسے مجاہدین فی سبیل اللہ کے گھروں کی حفاظت کریں.کیونکہ ان کے گھر غیر محفوظ ہیں اور خصوصیت سے ان کا خیال رکھیں اور اپنی ضروریات پر ان کی ضروریات کو مقدم رکھیں اور سودے سلف کا خیال رکھیں.ان مجاہدین کے گھروں میں بیمار بھی ہونگے.اس لئے دوسرے بھائیوں کا فرض ہے کہ وہ ان کا خیال رکھیں اور اپنے گھروں کی نسبت ان کی زیادہ خبر گیری کریں.میں قادیان والوں اور دیگر جہاں جہاں سے احباب اس جہاد میں شریک ہوں کو نہایت زور سے اس ثواب میں شریک ہونے کے لئے تاکید کرتا ہوں.ہمارے دوستوں کو چاہیے کہ پورے جوش اور استقلال سے یہ ثابت کردیں کہ وہ خدا کے بزگزیدہ کی پاک جماعت ہے.خدا اور اس کے دین کی محبت لے کر اٹھیں.پھر ان پر کوئی مصیبت اثر نہیں کر سکتی اور ان کے پاؤں ڈگمگا نہیں سکتے بلکہ ہر ایک تکلیف ان کی ترقی کا موجب ہوگی.پس جو لوگ ملکانہ میں تبلیغ کو گئے ہیں.دوسروں کو چاہیے کہ ان کے گھر جاویں اور روزانہ جاویں اور پوچھیں کوئی تکلیف ہو تو اس کو بقدر امکان دور کریں.بہت سی طبائع جان تو دے دیتی ہیں مگر وہ ایسے کام کہ روزانہ کسی کے گھر جا کر اس کی حاجت پوچھیں.نہیں کر سکتے اور ان کو یہ دو بھر
67 ہوتا ہے.اس لئے یہ بھی ایک بڑی قربانی ہے.جب تک ان کی خدمت کا وقت نہیں.وہ اس طرح سے اس خدمت میں شامل ہو جائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ میں جا رہے تھے.آپ نے فرمایا کہ مدینہ میں ایک جماعت ہے تم کوئی جنگ نہیں کرتے اور نہ کوئی وادی قطع کرتے ہو اور نہ کوئی تکلیف اٹھاتے ہو مگر وہ تمہارے ساتھ شریک ہوتے ہیں.صحابہ نے عرض کیا کہ حضور وہ کون ہیں اور کیونکر شریک ثواب ہو سکتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ وہ وہ لوگ ہیں جن کو مجبوری نے روک دیا ہے.ان کے دلوں میں تڑپ ہے مگر مجبور ہیں.بس چلے تو فورا چل پڑیں.مثلاً اندھے ہیں یا لنگڑے ہیں تو وہ جانے سے مجبور ہیں مگر ان کے دل غمگین ہوتے ہیں کہ ہم کیونکر اس ثواب میں شریک ہو سکتے ہیں.۲.پس جن کے دلوں میں بچے طور پر یہ خواہش ہوتی ہے.ان کو ایسی خدمات سے ثواب کا موقعہ مل جاتا ہے.دل کی خواہش کا پتہ صرف زبان سے نہیں لگ سکتا.یہ کہدینا کہ میں ایسا خیال کرتا ہوں.کافی نہیں.خواہش کی علامت یہ ہے کہ جس حد تک انسان خدمت کر سکتا ہے کرے.اور پھر جو رہ جاوے اللہ تعالیٰ اسے اس ثواب میں شریک کر دیتا ہے.یہ کام کو معمولی ہوتے ہیں مگر بہت سے لوگ ان کو بھی پورا نہیں کر سکتے.پس اگر کوئی کہے کہ مجھے خواہش ہے مگر وہ ایسا کام یا مجاہدین کے گھر والوں کی خدمت وغیرہ نہ کرے تو یہ اس کا وہم ہے کہ مجھے خواہش جہاد ہے.اس کا نفس اس کو دھوکہ دے رہا ہے اور زبان اس کو اور دوسرے لوگوں کو دھوکہ میں ڈالتی ہے اگر اس کی امید اور خواہش کچی ہو تو ضرور اس کو موقعہ مل جاوے اور وہ کسی نہ کسی طرح پوری کوشش سے ثواب میں شریک ہو جائے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اپنے فرائض کے پہچاننے کی اور ان کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.وہ سمجھیں اور اس خدمت کو سرانجام دیں.اور جو بوجھ ان پر رکھا گیا ہے.اس کو پورے طور پر اٹھائیں تاکہ اللہ تعالٰی کے حضور سرخرو ہوں اور ہمیں اس وفادار غلام کی طرح بنادے کہ جو تکلیف کے وقت بھاگ نہیں جاتا بلکہ آقا کے منہ کی طرف دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ اشارہ ہو تو میں سب کچھ قربان کردوں.اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا ہی بنادے.آمین.(۴) دوسرے خطبہ میں فرمایا.میں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ خصوصیت سے راجپوتوں کی ضرورت ہے اپنی قوموں کے رسم و رواج اور اخلاق سے وہ واقف ہونگے اور پھر وہ ملکانہ لوگ راجپوتوں کی باتیں ہی سنتے ہیں.اس لئے میں خاص طور پر راجپوتوں کو مخاطب کرتا ہوں کہ وہ جو ہمیشہ سے اپنی برتری اور خوبی کے قصے بیان کیا کرتے تھے ان کا عملی ثبوت دیں اور ثابت کر دکھلائیں کہ واقعی یہ ایک بنادر اور کام کرنے والی قوم ہے.دوسری قوموں کے لوگ آگے بڑھ رہے ہیں لیکن ان کے لئے
68 افسوس نہ ہوگا کہ قوم ان کی تباہ ہو رہی ہے اور وہ نکلتے بھی نہیں.ہماری جماعت میں راجپوتوں کی کافی تعداد ہے.جالندہر اور ہوشیار پور میں بہت راجپوت ہیں.میں ان کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی غفلت اور ستی کو چھوڑیں.اور اپنے بزرگوں کے احترام کے طور پر چستی اور قربانی دکھلائیں تاکہ ان کا دعوی بزرگی ان کے عمل سے ثابت ہو.یہی موقع ہے جس سے ان کی ان روایات اور قصوں کا جھوٹ، سچ معلوم ہو سکتا ہے.جو وہ اپنی فضیلت کے بیان کیا کرتے ہیں ان کو ہمت دکھلانی چاہیئے تاکہ وہ دوسری قوموں سے پیچھے نہ رہ جائیں.اللہ تعالٰی ان کو توفیق بخشے.آمین.ا بخاری کتاب الصلوة باب الذكر بعد الصلوة بخاری كتاب الجهاد و السير باب من حبسه العذر عن الغزو (الفضل ۱۶ / اپریل ۱۹۲۳ء)
69 12 کیا ہم اپنے عہد پر استوار ہیں ؟ (فرموده ۱۳/ اپریل ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.میں بوجہ بیماری کے نہ زیادہ اور نہ اونچا بول سکتا ہوں.مگر میری ذمہ داری بہت بڑی ہے جو مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں آپ لوگوں کو ان فرائض کی طرف توجہ دلاؤں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ پر لگائے گئے ہیں.ہم لوگ مسلمان ہیں اور پھر ہم احمدی ہیں.اس کے معنے یہ ہیں کہ اسلام کی وہ حقیقت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا پر واضح اور ظاہر فرمائی اور بعد میں وہ دنیا سے مخفی ہو گئی.حضرت احمد علیہ السلام کے ذریعہ سے پھر ہم کو نصیب ہوئی.اور ہم نے اس کو پایا.بلحاظ مسلمان اور احمدی ہونے کے ہم وثوق رکھتے ہیں کہ جس خدا کو ہم مانتے ہیں وہ زندہ ہے مردہ نہیں.ہم کسی قوم کی طرح یہ نہیں کہتے کہ خدا پہلے بولتا تھا مگر اب نہیں بولتا.ہم دوسری قوموں کی طرح یہ نہیں کہتے کہ کسی وقت اللہ کے قرب کے دروازے کھلے تھے مگر اب نہیں.ہم دوسری قوموں کی طرح یہ بھی نہیں کہتے کہ کسی زمانہ میں خدا کی قدرتیں ظاہر ہوتی تھیں مگر اب نہیں.ہم دوسری قوموں کی طرح یہ نہیں مانتے کہ خدا تعالیٰ نے قانون قدرت بنا کر خود دست کشی کر لی ہے.اور اب معطل ہو بیٹھا ہے.ہم نہ تو بعض نادان اور جاہل قوموں کی طرح خدا کو بندوں کی طرح محدود اور مقید مانتے ہیں اور اس کے لئے مرنا اور پیدا ہونا اور کھانا پینا تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی صفات کبھی نہ تھیں.اب ہو گئی ہیں.بلکہ ہم اس کی صفات ہمیشہ سے مانتے ہیں.ہم یہ مانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ذات بیٹا پیدا کرنے سے پاک ہے کسی انسانی یا حیوانی وجود کا جامہ پہننا اس کی شان کے برخلاف ہے.مخلوق کے سامنے اگر آتا ہے تو جلال، جلوہ نمائی ، قدرت اور طاقتوری کے اظہار سے آتا ہے نہ انسانی جامہ میں ہو کر.
70 اور ہم مانتے ہیں کہ وہ اب بھی بولتا ہے جیسے پہلے بولتا تھا.اور اب بھی قدرت نمائی کرتا ہے جس طرح پہلے کرتا تھا.جس طرح پہلے اس کے قرب کے دروازے کھلے تھے اور مقرب لوگ اس کی نعمتوں کے وارث ہوتے تھے اب بھی کھلے ہیں اور وہی نعمتیں حاصل کی جا سکتی ہیں.ہمارے یہ عقائد کوئی فروعی مسائل نہیں کہ ماننا یا نہ مانتا برابر ہو بلکہ یہ مسائل وہ ہیں کہ جن کی وجہ سے ہم نے مختلف قوموں سے لڑائی جھگڑا شروع کر رکھا ہے اور ان سے علیحدہ ہو گئے ہیں.ہندوؤں سے ہماری لڑائی ہے تو انہی عقائد کیوجہ سے.عیسائیوں سے ہماری جنگ ہوتی ہے تو محض ان عقائد کی بنا پر.یہودیوں کا جو ہم سے جھگڑا ہے تو وہ بھی ان عقائد کی وجہ سے.ہم سکھوں سے جو علیحدہ ہیں تو ان عقائد کی وجہ سے.زرتشتیوں سے جو ہماری جنگ ہے تو ان عقائد کے لئے.پارسیوں سے بھی ہماری لڑائی ان مسائل کے متعلق ہی ہے ورنہ ہم سب ایک دادا کی اولاد ہیں.کیا وجہ ہے کہ ہم نے ان سے قطع تعلق کر لیا ہے؟ محض ان عقائد کی وجہ سے.پھر انہی عقائد میں سے بعض کی وجہ سے مسلمان کہلانے والے ہم سے جدا ہیں.اگر یہ عقائد نہ ہوں تو ہم میں اور ان میں کوئی اختلاف نہیں.اختلاف اور جھگڑے کی بنیاد یہ عقائد ہیں.اسی وجہ سے ہم نے ان سے علیحدگی اختیار کرلی ہے.کیونکہ جب کسی کے عقائد گندے ہوں تو اس سے مجبوراً علیحدہ ہونا پڑتا ہے.پس یہ فروعی باتیں نہیں بلکہ اصول اور نہایت اہم امور ہیں جن کی خاطر ہم نے مادی دنیا سے جنگ چھیڑی ہوئی ہے.تو اب اگر ان عقائد میں ہی ہم کمزور ہوں اور ان سے عملی فائدہ کوئی نہ اٹھائیں تو ہم سے بد قسمت اور بد نصیب کون ہو گا.اس شخص کی بد بختی میں کیا شبہ رہ جاتا ہے جو ان عقائد کے لئے تو دنیا بھر سے لڑائی کرے مگر ان سے عملی فائدہ کے حصول کی کوشش نہ کرے.ایسا شخص یقیناً ایک حقیقت کو چھوڑتا ہے.مثلاً اگر ہم ہندوؤں یا عیسائیوں سے تعلق رکھیں تو جو فوائد ہم کو حاصل ہو سکتے ہیں وہ ایک حقیقت ہے یا جو فوائد یہودیوں اور زرتشتیوں اور غیر احمدیوں سے ملنے سے ہم کو مل سکتے ہیں.وہ ایک واقعی حقیقت ہے.لیکن اگر ہم ایک لفظ کی کوئی حقیقت معلوم کرلیں اور اس کی کنہ کو پالیں تو یہ صرف ایک لفظی فائدہ لفظی فائدہ حقیقی نہیں ہوتا.تو اب سوچ لو کہ اگر ان عقائد سے ہم نے صرف لفظی فوائد ہی حاصل کئے ہیں تو کیا فائدہ.یاد رکھو حقیقی فوائدہ تب ہی قربان کئے جاسکتے ہیں جب ان سے بڑھ کر ملیں.میں پوچھتا ہوں کہ تم نے ان عقائد کو کہاں تک عملی جامہ پہنایا ہے اور کہاں تک ان سے حقیقی فائدہ اٹھایا ہے.ہمارا اگر غیر احمدیوں سے یہ اختلاف ہے کہ اللہ تعالٰی اب بھی قدرت نمائی کرتا اور سنتا بولتا ہے.جس طرح کہ پہلے کیا کرتا تھا تو اس سے ہم نے عملی فائدہ کیا اٹھایا.اگر کہو کہ ہم اپنی مصائب میں اس سے دعا کرتے ہیں تو یاد رکھو کہ ذاتی مصائب اور تکالیف کے وقت تو دہریہ بھی
71 خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کر لیتا ہے.میں نے بارہا مثال سنائی ہے کہ ۱۹۰۵ء میں جب زلزلہ آیا تو لاہور میں ایک ہندو تھا جو دہریہ تھا.وہ زلزلہ سے گھبرا کر رام رام کہتا ہوا بھاگا.جب زلزلہ تھم گیا تو اس سے دریافت کیا گیا کہ تو تو کہا کرتا تھا کہ خدا کوئی نہیں.اب یہ کیا ہو گیا.اس نے کہا عادت تھی منہ سے نکل گیا.حالانکہ اصل میں عادت نہ تھی وہ تو خدا کو برا بھلا کہا کرتا تھا ذاتی طور پر خطرہ دیکھ کر بے اختیار رام رام بول اٹھا.کیونکہ خطرہ کے اہم خیال نے مصنوعی خیالات کو دبا لیا اور انسان کے اندر جو مخفی شہادت ہستی باری تعالٰی کی ہے وہ منہ پر جاری ہو گئی مگر وقت گذر جانے پر پھر کچھ نہیں.پس ذاتی مصائب میں خدا کی طرف توجہ کرنا مومن سے خصوصیت نہیں رکھتا بلکہ ایسے اوقات میں تو دہریہ بھی اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے.حقیقی یقین اور ایمان اور وثوق کا اس وقت پتہ لگتا ہے کہ جب قومی مصائب میں انسان خدا کی طرف توجہ کرے.جو قوم ایسے اوقات میں خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتی ہے اور اس سے فائدہ اٹھاتی ہے.وہ اس بات کو ثابت کر دیتی ہے کہ اس کا اللہ تعالٰی سے کیا تعلق ہے.مسلمانوں اور ہندوؤں میں کیا نہیں؟ یہی تو کہ وہ قومی مصائب میں دعا نہیں کرتے بلکہ الٹے ساد ہوؤں اور قبروں سے جاکر منتیں مانگتے ہیں.ہم لوگ ان عقائد کے لئے سب دنیا سے جنگ کر رہے ہیں.اگر ان سے پورے طور پر فائدہ نہ اٹھائیں تو بہت افسوس کا مقام ہو گا.میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ خاص طور پر دعاؤں میں لگ جائیں.ساری دنیا اس وقت حملہ کر رہی ہے.کئی سالوں سے عیسائی لوگ اس گھات میں تھے کہ کب موقعہ ملے تو مسلمانوں کو کھا جائیں.سو اب انہوں نے بھی حملہ کر دیا ہے اور بہت سے لوگوں کو اسلام سے مرید کر رہے ہیں.یہ جو کچھ ہوا مسلمانوں کی اپنی سستی اور غفلت کا نتیجہ ہے مگر ان کو تو اسلام سے کوئی تعلق نہیں.ان کو اس بات کا کوئی فکر نہیں کہ وہ یا ان کی اولادیں عیسائی بن جائیں.ان باتوں کا اور ان حملوں کا دکھ اگر کسی کو ہو سکتا ہے تو وہ ہم ہی ہیں کہ جنہوں نے مذہب کو مذہب سمجھ کر قبول کیا اور حقیقت دیکھ کر مانا غیروں کو کیا درد ہے.دوسری طرف ہندوؤں کو دیکھو کہ جن میں کبھی ایک آدمی بھی شامل نہ ہو تا تھا.آج ہزاروں کو اپنے اندر داخل کر رہی ہے.وہ قوم جس میں سے ہمیشہ لوگ جاتے رہے ہیں اور کبھی شامل نہیں ہوئے وہ بھی اسلام کو ملیا میٹ کرنے کی فکر میں ہے.مسلمانوں کی حالت اس وقت بالکل بے بسی کی ہے.یہ حملہ بالکل نیا اور خطرناک ہے جس کا مسلمانوں کو کوئی علاج نہیں سوجھتا.پھر سکھوں نے بھی حملہ کرنا شروع کر دیا ہے.بہت جگہ سے اطلاعیں آرہی ہیں کہ بہت سے مسلمان سکھ ہو رہے ہیں.یہودی قوم نے بھی تبلیغ کا فیصلہ کر دیا ہے اور شام میں شروع بھی کر دی ہے.پس ایسے وقت
72 میں مسلمانوں کی حالت بالکل ایسی لاوارث مال کی ہے.جس کو ڈاکوؤں کی جماعت تقسیم کر رہی ہو.اور اسلام ایک بے بسی کی حالت میں ہے.اب ہماری جماعت اگر اپنے دعاوی میں صادق ہے تو اس کا فرض ہے کہ اسلام کی حمایت میں نکل پڑے.پس ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ اس موقعہ کی خصوصیت کے لحاظ سے دعاؤں میں مصروف ہو جائیں.ہمارے پاس طاقت قوت مال و دولت کچھ نہیں.صرف خدا کی ذات ہے جس سے ہم یہ کام کروا سکتے ہیں.کام کرنا تو اسی کا کام ہے مگر اس نے ہم کو سامان کرنے کا حکم دیا ہے.اس لئے ہارے دوستوں کا فرض ہے کہ وہ ظاہری سامان چندہ وغیرہ بھی مہیا کر دیں.اگر خدا تعالی کا حکم نہ ہوتا تو اتنے بڑے دشمن کے مقابلہ میں میں اپنے سامان کرنا ہنستی سمجھتا اور اس کو جنون خیال کرتا.اگر خدا کے حکم کے بغیر ہم ایسا کرتے تو میں اپنے آپ کو پاگل سمجھتا.مگر کیا کریں اللہ تعالی کا قانون یہی ہے کہ اس کی نصرت پوری سامانوں اور جدوجہد کرنے کے بعد آتی ہے تاکہ اخفا کا پردہ نہ اٹھے کیونکہ وہ نامحرموں سے پردہ کرتا ہے جس طرح ایک عورت نامحرموں سے کرتی ہے.اسی طرح خدا بھی اپنے نامحرموں سے پردہ کرتا ہے اور ان سے مخفی رہتا ہے جب تک کہ خود انسان کو شش کر کے اس پردہ کو چاک نہ کردے.پس یہ اس کی سنت ہے کہ وہ قدرت نمائی اسی وقت کرتا ہے جب ظاہری سامانوں سے کام لیا جائے تا اس نصرت میں اخفا کا رنگ پیدا ہو جائے.مومن بھی سامانوں سے کام لیں مگر جو نتائج ان کے نکلتے ہیں ان کے ساتھ تائید غیبی ہوتی ہے.جب تک کسی کوشش کے ساتھ اللہ تعالٰی کی نصرت نہ ہو تو وہ کامیاب نہیں ہو سکتی اور چھوٹے سے چھوٹا کام بھی اس کے فضل پر موقوف ہے.جب تک خدا کا فضل دستگیری نہ کرے تو انسان کچھ نہیں کر سکتا.پس میں جماعت کو خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اہمیت کے مناسب دعاؤں میں لگ جائیں.ان کے دل کو ٹھیس لگے اور دل سے آہیں نکلیں جو خدا کے فضل کی جاذب ہوں.ان کو ایک اور صرف ایک.ہی امید گاہ نظر آوے اور ان کی مصیبت کا مادی و طلبا صرف اللہ کی ذات ہو.یہ بات حاصل ہو جائے تو اصل ایمان اور وثوق یہی ہے.پھر اگر ساری دنیا بھی تم سے جھگڑتی ہے اور خدا تمہارے ساتھ ہے تو وہ دھو کہ خوردہ ہے کیونکہ تمہاری پشت پناہ وہ ہستی ہے جس کی قدرتوں کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.کامیابیوں کی کنجی نصرت الہی ہے اور وہ اس کے ساتھ محبت اور تعلق پیدا کرنے سے حاصل ہوتی ہے اور توکل کرنے اور اس کے آستانے پر گر جانے سے ملتی ہے.اگر تم ایسا کرو تو خدا تمہارے لئے جلال دکھائے گا اور قدرت نمائی کرے گا اور جس طرح تمہاری ذاتی ضروریات کو پورا کرتا ہے تم کھانا مانگتے ہو تو تمہیں کھانا دیتا ہے.تم پینے کے لئے مانگتے ہو اور تم کو ستر ڈھانکنے کی
73 حاجت ہوتی ہے.تو وہ تم کو پینے کے اور ستر ڈہانچنے کے سامان دیتا ہے.تمہیں رشتہ داروں کے لئے اور اپنے لئے مال کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ تمہاری جائداد سے مدد کرتا ہے.اسی طرح وہ تمہاری قومی مصائب کو دور کرے گا اور تم ان تکالیف سے نجات پاؤ گے.وہ تمہیں نصرت دے گا اور یقیناً دے گا اگر تم یقین کرو اور اس کی ذات پر توکل کرو.پس اس جگہ کے احباب بھی اور باہر کے لوگ بھی خصوصیت سے دعائیں کریں اور آگے سے بہت بڑھ کر کریں کیونکہ ہر ایک وقت اور کام کے لئے الگ الگ ضرورت ہوتی ہے.اللہ تعالی نے انسان میں ایک قوت موازنہ رکھی ہے جس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اندازہ کرتی ہے کہ کس کام کے لئے کتنی ضرورت ہے اور کتنی طاقت خرچ کرنی چاہئیے.یہ حس حواس خمسہ سے زائد ہے.مثلاً اگر ایک سوئی اٹھانی ہے تو اس کے لئے ایک جوش اور قوت کی ضرورت ہے مگر ایک من کے اٹھانے کے لئے جو جوش اور قوت درکار ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے.ایک سوئی کے لئے الگ تیاری ہوتی ہے اور ایک من کے لئے الگ.پس یہ قوت موازنہ ہے جو انسان کو ہر کام کے وقت صحیح اندازہ بتاتی ہے اور اس طرح انسان کی طاقتیں محفوظ رہتی ہیں.وہ ضرورت سے زیادہ طاقت خرچ نہیں کرتا اور جس کام کے لئے زیادہ قوت خرچ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اس کے لئے تھوڑی طاقت خرچ کر کے انسان ناکام نہیں رہ جاتا ہے بلکہ ہر کام کے مناسب طاقت خرچ کرکے کامیاب ہو جاتا ہے.اس میں شک نہیں کہ مومن ہر وقت دعائیں کرتا ہے مگر جس طرح ایک من بوجھ اٹھانے کے لئے اگر کوئی شخص سوئی کی طاقت خرچ کرے گا اور اس کو اٹھانے لگے گا تو اس کی طاقت ضائع ہو جائے گی اور معلوم ہو جائے گا کہ اس کے حواس میں فرق آگیا ہے.جس طرح سننے کی طاقت ہوتی ہے جس سے انسان سنتا ہے جب وہ ضائع ہو جاتی ہے تو اس کو بہرہ کہتے ہیں.اسی طرح اگر تھوڑی طاقت سے بڑا کام کرنے کا ارادہ کرے تو مانا پڑے گا کہ اس میں موازنہ کی حس نہیں یا کمزور ہو گئی ہے اور باطل ہو گئی ہے.بے شک ہماری جماعت دعائیں کرتی ہے مگر آج جو کام در پیش ہے اس کا سینکڑواں حصہ بھی پہلے نہ تھا.پس پہلے جو ہم دعائیں کرتے تھے.وہ اس وقت بہت تھوڑی ہیں.اس سے بہت بڑھ چڑھ کر دعائیں کرو اور گریہ وزاری میں لگ باز تا خدا تعالیٰ کی نصرت تمہارے شامل حال ہو.موقع کے مطابق زور لگاؤ جب تک تم پورے جوش اور خلوص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع نہ کرو گے تو تمہیں کبھی نصرت نہ ملے گی اور تمہاری کوشش رائیگاں جائے گی.یہ مت خیال کرو کہ پہلے بھی دعا کرتے تھے کیونکہ میں بتا چکا ہوں کہ وہ دعائیں اس وقت اس
74 کام سے کوئی نسبت نہیں رکھتیں.اگر تم ایسا کہو تو تم نے یقیناً اس کام کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا.پس تم اس کام کی اہمیت کے لحاظ سے دعائیں شروع کرو.عجز و انکساری اختیار کرو.اگر ہماری جماعت اس بات کو سمجھ لے تو ان پر رحمت الہی کے دروازے کھل جائیں اور جس طرح اب مجھے اپنے سامانوں کو دیکھ کر ہنسی آتی ہے پھر دشمن پر ہنستی آئے کہ خدا کی ہستی ہمارے ساتھ ہے.مگر نادان دشمن ہمارا مقابلہ کرتا ہے.گویا بالکل ہی نقشہ بدل جائے اور یہ صرف دعاؤں عاجزی خشوع و خضرع سے ہی ہو سکتا ہے.پس تم دعاؤں میں لگ جاؤ اور نفس پرستی چھوڑ دو.اگر میری بات مان لو اور ایسا درد اور جوش پیدا کرو جو ایسے موقعہ پر کرنا چاہئیے اور خدا سے مدد مانگو تو دشمن کی ہستی ہی کیا ہے جو تمہارے سامنے ٹھر سکے.کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا.اس وقت فاتح مغلوب اور مغلوب فاتح بن جاوے اور یہ حالت صرف نصرت الہی پر منحصر ہے.دنیا تو ہم پہلے ہی کھو بیٹھے ہیں اگر خدا بھی نہ ملے تو ہماری یہی مثال ہوگی.نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے خدا ہی ما نہ وصالِ صنم پس تم پورے طور پر دعاؤں میں مصروف ہو جاؤ.میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے احباب خصوصیت سے دعا کریں گے اور دعا سے ہی فیضان کے منبع کی قدر پیدا ہوتی ہے.صرف منہ سے کہنا کہ خداتعالی سنتا ہے اور بولتا ہے اور قدرت نمائی کرتا ہے.صرف دعادی ہیں.جب تک ان کے ساتھ مشاہدہ نہ ہو اور وہ مشاہدہ خدا کے فضل سے حاصل ہوتا ہے اور دعائیں فضل کو جذب کرتی ہیں.پس تم دعاؤں میں لگ جاؤ اور عجز و انکساری کرو اور سچے مومن کے کام کرو تا یہ نشان پورے ہوں اور خدائے واحد کا جلال ظاہر ہو اور دنیا سے کفر و فسق مٹ جائے اور دنیا میں امن و امان ہو اور خالص توحید پھیل جائے.آمین.الفضل ۱۳ مئی ۱۹۲۳ء)
75 13 اطمینان قلب خدا کے کلام سے ملتا ہے فرموده ۲۰ ر ایریل ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.انسان کی حالت کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے بڑی چیز جو اس پر اثر کرتی ہے اور جو اس کی زندگی پر گہرا اثر ڈالتی ہے.وہ اس کے خیالات ہیں.عام طور پر لوگ نہ تو اقرار کرنے کے لئے تیار ہیں نہ اس کو محسوس کرتے ہیں کہ سب سے زیادہ اثر کرنے والی چیز جس پر وہ قابض ہیں.یا وہ ان پر قابض ہے.وہ خیالات ہیں جو دماغ میں پیدا ہوتے ہیں.ان میں ادبی تغیر سے انسان کی حالت کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے.اگر نیک تغیر ہو تو اس کی زندگی پاک اور مصفی ہو جاتی ہے.اگر بد تغیر ہو تو زندگی گندی اور بھیانک ہو جاتی ہے.بعض دفعہ انسان ان تغیرات کو محسوس نہیں کرتا.بعض دفعہ کرتا ہے.وہ اس پر غالب ہوتے ہیں یا اور بیرونی حوادث اور روکیں ہوتی ہیں جن کے باعث اس تغیر کو چھوڑ نہیں سکتا.انہی خیالات کے تغیر کو دیکھو تھوڑے سے تغیر سے کیا ہو جاتا ہے.مثلاً ہسٹریا کا بیمار جس کو اختناق الرحم کہتے ہیں چونکہ عام طور پر یہ مرض عورتوں میں زیادہ ہوتا ہے.اس لئے اس کو رحم کی طرف منسوب کرتے ہیں.ورنہ مردوں میں بھی یہ مرض ہوتا ہے.جن مردوں کو یہ مرض ہو ان کو مراقی کہتے ہیں.گو یہ الگ بیماری بھی ہے مگر اس سے یہ اثر شدت سے ظاہر ہوتا ہے.ان بیماریوں میں دماغ کی بناوٹ میں فرق آجاتا ہے اور ایک خاص صفت غالب آجاتی ہے.ہسٹریا میں رونے اور ہننے کی صفات غالب ہوتی ہیں.عام طور پر ایسے مریض کے کاموں میں بے لطفی اور بے مزگی ہوتی ہے.خواہ ایسا شخص امیر ہو یا غریب ہو.بادشاہ ہو یا دوا تند ہو.اس کو کسی رتبہ اور مال میں لطف نہیں آتا.جائداد سے خوشی نہیں ہوتی.رتبہ و عزت سے اس کو اطمینان نہیں ہو تا.وہ سب سامان راحت رکھتا ہے مگر حالت اس کی بے اطمینانی کی ہوتی ہے.غرض وہ ایک زندہ مردہ اور غلام آزاد ہوتا ہے.خیالات کے تغیر سے تمام کوششیں رائیگاں چلی جاتی ہیں.وہ جائداد اور رتبہ جو اس کے
76 آباء نے دس پندرہ پشت کی لگاتار محنت سے حاصل کیا ہوتا ہے.وہ اس بیماری کے باعث ایسے شخص کے لئے بیکار ہوتا ہے.پس معلوم ہوا کہ ظاہری سامانوں کی فراوانی خوشی کا باعث نہیں ہوتی.دماغ کی پراگندگی دولت کو حقیر کر دیتی ہے.خیالات کی تکلیف ظاہری تکلیف سے بڑی ہوتی ہے.بچپن میں میں نے ایک ریڈر میں پڑھا تھا کہ ایک عورت کے بچے کو ایک جانور ایک پہاڑ کی بلند ترین چوٹی پر لے گیا.جب اس عورت کو معلوم ہوا تو وہ بے اختیار اس جانور کے تعاقب میں گئی اور اس چوٹی پر چڑھ گئی.بچہ کو حاصل کر لیا لیکن اب چوٹی سے اتر نہیں سکتی تھی.بمشکل اس کو اتارا گیا.وہ چوٹی جس پر لوگ عام حالات میں چڑھ نہیں سکتے تھے وہ عورت اس مامتا کی ماری چڑھ گئی.اس عورت کے دل میں جو اپنے بچے کی محبت تھی اس نے جوا نیخت کی وہ کمزوری پر غالب آگئی اور وہ اس پر چڑھ گئی.پس معلوم ہوا کہ اصلی اور اعلیٰ درجہ کی چیز جو سب چیزوں میں عمدہ ہے.وہ خیالات کی صفات ہے.ظاہری غلامی سے کہیں بڑی اور خوفناک غلامی خیالات کی غلامی ہے.خیالات سے جو بے اطمینانی ہوتی ہے ان کے باعث بادشاہوں نے اپنی بادشاہیوں کو چھوڑ دیا اور حکومت کی کوئی پروا نہ کی.بدھ نے بادشاہی اس لئے چھوڑی کہ وہ بادشاہی میں اطمینان قلب نہیں پاتا تھا.مسلمانوں میں بھی ایسے بادشاہ ہوئے ہیں جنہوں نے حکومتوں کو خیالات کی بے اطمینانی کی خاطر چھوڑ دیا.احساسات کی صفائی اور خیالات کی درستی کا ذریعہ کلام الہی ہوتا ہے.انسان کے خیالات پاک نہیں ہو سکتے جب تک خدا کی طرف سے مدد نہ آئے.جن لوگوں نے محض اپنی کوشش سے پاک ہونا چاہا وہ اندھیرے میں ٹھوکریں ہی کھاتے رہے.اور آخر جب معلوم ہوا تو یہ کہ وہ بیمار ہیں.ان لوگون کو خاص باتوں کی دھن ہو جاتی ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ وہ پاک ہو رہے ہیں مگر وہ انجام کار نامراد ہوتے ہیں.ایسے لوگ ایک دھوکے میں پڑے رہتے ہیں.ایسے لوگ جو خیالات رائج کرتے ہیں.وہ نہ ان کے لئے باعث تسلی ہوتے ہیں نہ دوسروں کے لئے بلکہ آزادی کی بجائے انہوں نے اپنے آپ کو اور دوسروں کو قید کر دیا.ان کے ذریعہ نہ حقیقی راحت ملتی ہے نہ اطمیان مل سکتا ہے.اطمینان اسی کو ملا ہے جس کو خدا کی آواز آئی اور اس کو راستہ بتایا.وہی تسلی پانے والے ہیں جنہوں نے ان سے تعلق پیدا کیا.جن کو خدا کی آواز آئی.اور ان کے ذریعہ جو صفائی خیالات حاصل ہوتی ہے وہ عام حالات سے بہت ارفع و اعلیٰ اور بالا ہوتی ہے.پس خیالات کی صفائی اور راحت نبیوں کے ذریعہ ملی اور آئندہ ملے گی جو لوگ نبوت کا دروازہ بند کرتے ہیں وہ دنیا کو موت کا پیغام پہنچاتے ہیں.وہ حقیقی راحت حاصل نہیں کرتے.وہ دنیا کو خوشخبری نہیں پہنچاتے.وہ یہ کہہ کر کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے نبوت بند ہو گئی.
77 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ نہیں بڑھاتے بلکہ وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز موت کی گھنٹی تھی.حالانکہ آپ کی آواز بشارت کی آواز تھی جس نے دنیا کو مسرت اور شادمانی اور اطمینان سے بھر دیا اور وہی ایک انسان ہے جو مبشر کہلا سکتا ہے جس نے تمام دنیا کو بشارت دی اور شکوک وشبہات کے تمام پردے اٹھا دئے.جو اس کے خلاف ہے وہ اپنے آپ کو تباہ کرتا اور دنیا کے لئے تباہی کا پیغام ہے.یہ مہینہ جو چل رہا ہے رمضان کا مہینہ ہے.اس میں مسلمان مجاہدہ کرتے ہیں اور خدا کی رضاء کے حصول کے لئے کوشش کرتے ہیں.اسی زمانہ میں دنیا کے لئے سب سے بڑی بشارت کی بنیاد رکھی گئی جس نے دنیا کو شکوک سے نجات دلائی یعنی اس مہینہ میں قرآن کریم اترنا شروع ہوا.جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہے.جبرائیل آتے اور ہر سال اس مہینہ میں آپ کے ساتھ قرآن کا دور کرتے رہے.یہ مہینہ دنیا کی آزادی کے لئے نشان ہے.اس سے ہر ایک مسلمان خوش ہوتا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ لوگ چھوٹی چھوٹی نشانیوں کو سنبھال کر رکھتے ہیں کہتے ہیں کہ یہ ہمارے دوست کے بال ہیں.یا کسی مقام کو یاد رکھتے ہیں کہ اس میں انہیں خوشخبری ملی تھی.کسی عمارت سے خوش ہوتے ہیں کہ وہ اس میں پیدا ہوئے تھے.کہتے ہیں یہ مکان میرے والد نے کرایہ پر لیا ہوا تھا جب وہ یہاں ملازم تھے.تب میں پیدا ہوا تھا.غرض ایسی ادنی ادنی باتوں کو خوشی کی یادگار بناتے ہیں.پھر اس عظیم تعلق کے نشان سے کیوں نہ خوش ہونگے کہ اس میں قرآن کریم کا نزول شروع ہوا.رمضان حضرت مسیح موعود کی صداقت پر بھی دلالت کرتا ہے.اس لئے اگر یہ کلام وائی نہ تھا تو اس کی برکات کو دائمی کیسے قرار دیا گیا.ہمیشہ کے لئے قرآن کریم تب ہو سکتا ہے کہ اس کے ذریعہ مسلمان خدا سے تعلق پیدا کر سکیں.جہاں قرآن کریم کے نزول کا ذکر ہے وہاں دعا کا بھی ذکر ہے اور یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اس کے ماننے والوں اور عمل کرنے والوں پر دائمی برکات ہوتی ہیں ان پر رحمت کے دروازے بند نہیں کئے جاتے.اور اس کو ماننے والا جب متوجہ ہوتا ہے تو خدا کو پانے کی کھڑکی کو کھلا پاتا ہے.اور جب دعا کرتا ہے تو خیالات کی تاریکی سے نکل کر وثوق پیدا کرتا ہے.پس یہ خوشی کا مہینہ ہے.برکتوں کا مہینہ ہے اور اس سے زیادہ سے زیادہ برکتیں حاصل کرلی جاسکتی ہیں.یقیناً سمجھو کہ کوئی راحت یقین سے زیادہ نہیں اور بے اطمینانی سے زیادہ کوئی لعنت نہیں.جیسا کہ پاگل ہونا لعنت ہے ایسا ہی بے اطمینانی بھی کیونکہ اور سب بیماریوں کا انسان علاج کر سکتا ہے اگر ایک یہی بیماری ہے کہ اس میں انسان اپنے آپ کو بھول جاتا ہے.پس سب سے بڑا دکھ پراگندگی خیال ہے اور سب سے بڑا سکھ اطمینان قلب ہے لیکن یہ نہیں حاصل ہو سکتا جب تک
78 انبیاء اور مامور نہ بتا دیں ورنہ عقل کوشش کرتی ہے اور سمجھ نہیں سکتی.جب لوگوں نے قرآن کریم کو چھوڑ دیا.اس سے الگ ہو گئے ان سے اطمینان بھی چھن گیا.باوجود اس کے کہ کسی مذہب کی کتاب میں راحت و آرام کا یہ سامان نہیں جو قرآن کریم میں ہے لیکن نظر یہ آتا ہے کہ مسلمان سب سے کم مطمئن ہیں کیونکہ جتنی بڑی امید ہو اسی کے مطابق مایوسی بھی رنج وہ ہوتی ہے.مسلمانوں کا دعویٰ سب سے بڑا دعویٰ ہے کہ ان میں خاتم النبین آیا.مگر اس وقت ان کی حالت میں کچھ تغیر نہیں.ایک عیسائی یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دے سکتا ہے کہ انجیل تسلی کا موجب ہو سکتی تھی اگر محرف و مبدل نہ ہوتی.یہودی بھی اپنے دل کو یہی کہکر تسلی دے سکتا ہے.مگر مسلمان کے لئے اس طرح بھی تسلی نہیں.دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ قرآن کریم میں کوئی نقص نہیں آیا.پس جب وہ دیکھتا ہے کہ خدا کا کلام تھا.سچا کلام تھا.مگر کوئی اطمینان نہ بخش سکا تو اس کی کیا حالت ہوگی.اس وقت وہ یہی کہے گا کہ کیا خدا کا کلام بھی تسلی نہیں دے سکتا.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے خدا کے دئے ہوئے علم اور اس کی مدد سے قرآن کو پڑھا.ان کے لئے قرآن ایک عقدہ لا نخیل نہ رہا اور ان کو اطمینان حاصل ہو گیا.خدا کا کلام شکوک سے نجات دے سکتا ہے.ان انسانوں کے لئے شک نہیں کہ جنہوں نے خدا کو دیکھا.اس کا کلام سنا.دنیا کے فلاسفران کے سامنے ایک بچہ کی حیثیت میں ہو گئے اور جاہل ثابت ہوئے کیونکہ خدا کے کلام نے لائیجل عقدے اپنے پیاروں کے ذریعہ اچھی طرح حل کر دئے.یورپ سے کل ہی مجھے ایک خط مولوی مبارک علی صاحب کا آیا ہے جس میں انہوں نے وی آنا یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کے ایک خط کی نقل کی ہے.(یہ یونیورسٹی یورپ بھر میں دماغی علوم کے شعبہ کے متعلق سب سے اعلیٰ درجہ کی یونیورسٹی گئی جاتی ہے اس کے بعد بھی اور یونیورسٹیاں ہیں.مگر وی آنا یونیورسٹی اعلیٰ درجہ کی ہے) یہ خط اس یونیورسٹی کے مذہبی تعلیم کے پروفیسر کا ہے جو اس نے ایک اور جرمن پروفیسر کو لکھا ہے.اس میں وہ لکھتا ہے کہ میں تم کو دلیری سے لکھتا ہوں اور تم جانتے ہو مجھے مبالغہ کی عادت نہیں.نہ میں جھوٹ لکھتا ہوں.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مجھ میں ان کتابوں کے مطالعہ نے ایک تغیر پیدا کر دیا ہے.یہ حضرت صاحب کی کتابوں اسلامی اصول کی فلاسفی وغیرہ کی طرف اشارہ ہے کہ مولوی مبارک علی صاحب نے یہ ان کو دی تھیں.وہ کہتا ہے کہ ان کتب کے لفظ لفظ نے وہ وہ مسائل حل کئے ہیں جو اب تک حل نہ ہوئے تھے.اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اشاعت اسلام میں اپنا آئندہ وقت لگاؤں.وہ مسائل جو میری عمر بھر میں حل نہ ہوئے.ان کتب کی روشنی میں وہ معمولی باتیں نظر آتی ہیں.ایک عیسائی لیکچرار جو پچیس سال سے مذہبی لیکچر دے رہا ہے.اور فلسفہ پر اس کی نظر وسیع ہے.وہ کہتا ہے کہ مرزا صاحب کے سادہ سادہ بیان سے اس کے لائیجل مسائل حل ہو گئے.
79 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یونیورسٹیوں کے پڑھے لکھے ہوئے نہ تھے.آپ نے با قاعدہ تعلیم بھی مدارس میں نہ پائی تھی.لیکن یہ کیا بات ہے کہ آپ کے بیان سے علوم کے عقدے حل ہونے لگے.یہی کہ آپ پر خدا کی وحی نے علوم کھول دئے.یہ وحی کی برکت ہے.اس میں انسانی عقل کا دخل نہیں.فلاسفہ کی کتابوں میں یہ بات نہیں ہو سکتی جو حضرت اقدس کی کتابوں میں ہے کہ ان سے تسلی ہوتی ہے.قرآن کریم سے تسلی ہوتی ہے اور یہی حالت حضرت صاحب کی کتب کی ہے کہ یہ بھی وحی کی روشنی میں لکھی گئی ہیں.فلاسفہ اس کوچے سے ناواقف اور اس بات میں بچے ہیں.پس یہ اطمینان اور یہ نصرت اللہ تعالیٰ کی تائید ہے.اللہ تعالٰی دل کا واقف ہے.وہ جس پر جلوہ کرتا ہے اس کو منور کر دیتا ہے.غرض یہ اسلام کی برکت ہے کہ سلسلہ وحی جاری ہے.اس کا تعلق رمضان سے ہے.ہماری جماعت کا فرض ہے کہ اس ماہ مبارک کی قدر کرے اور برکات کو جمع کرے.ہمیں اس خدا کی برکت کے نشان کی قدر کرنی چاہئیے.خدا ہمیں زیادہ برکتیں دے گا.اس لئے ہمیں چاہیے کہ اپنے لئے اور ترقی روحانیت کے لئے اور خصوصاً اس جنگ عظیم میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے جس میں آجکل ہماری جماعت شامل ہے دعا کریں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے کلام کی اشاعت کی توفیق ملے.اس پر عمل کرنے کی توفیق ملے.اگر یہ بات حاصل ہو جائے تو باقی سب دنیا کی چیزیں بیچ ہیں.یہ مل جائے تو اور بھی سب کچھ مل جائے گا.الفضل ۳۰ اپریل ۱۹۲۳ء) ا بخاری کتاب الصوم باب اجود ما کان النبی یکون فی رمضان اجود
80 14 انسانیت کا بقاذکر اللہ سے ہے فرموده ۲۷ / اپریل ۱۹۲۳ء) سورۃ فاتحہ اور آیت شریفہ الذین امنوا وتطمئن قلوبهم بذكر الله الا بذكر الله تطمئن القلوب الذين امنوا وعملوا الصلحت طوبى لهم وحسن ماب (الرعد ۲۹) کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ.انسانی زندگی کئی پہلوؤں پر مشتمل ہے.جس طرح انسان کی ذہانت کئی پہلوؤں پر مشتمل ہوتی ہے.اسی طرح اس پر فتوی بھی مختلف ہوتے ہیں.اس لئے کسی چیز پر ایک پہلو کے لحاظ سے فتویٰ نہیں لگایا جا سکتا.جو لوگ کسی چیز پر غور کرتے ہوئے مختلف حالتوں کو مد نظر نہیں رکھتے.وہ خود ٹھو کر کھاتے ہیں اور دوسروں کے لئے بھی ٹھوکر کا موجب ہوتے ہیں.ایک نبی کی کئی حیثیتیں ہوتی ہیں.نبی ہونے کے لحاظ سے وہ لوگوں کی طرف خدا کا پیغامبر ہے.اس لئے وہ لوگوں کا حاکم اور بادشاہ ہے لیکن وہ کسی ماں باپ کا بیٹا بھی ہے.اس نسبت سے ان کی اطاعت اور خدمت اس پر فرض ہے.پھر وہ کسی عورت یا بعض کا خاوند ہوتا ہے.اس لئے اس کا تعلق محب اور محبوب کا ہوتا ہے.باوجود نبی ہونے کے اسے بیویوں کے ناز اٹھانے پڑتے ہیں اور ان کی دلجوئی کرنی پڑتی ہے.پھر وہ کسی اولاد کا باپ ہوتا ہے.اس لئے اس کو پیار سے اپنے بچوں کو اٹھانا بھی پڑتا ہے.ان کے کام بھی کرنے پڑتے ہیں.اس بارے میں وہ دوسرے لوگوں کی طرح اپنے بچوں کا خادم ہوتا ہے.پھر وہ اص لوگوں کا دوست ہوتا ہے.اس تعلق سے اس کو دوستانہ تعلقات نبھانے پڑتے ہیں.اگر دنیاوی مشکلات ہوں تو اس کو قرض بھی لینا پڑتا ہے اور اس قرض خواہ کے مطالبات برداشت کرنے پڑتے ہیں.غرض نبی کی بھی کئی حیثیتیں ہیں.اگر کوئی ان مختلف حیثیتوں کو مد نظر نہیں رکھے گا.تو دھوکہ کھائے گا.مثلاً حدیث میں آتا ہے کہ جس کوزے سے حضرت عائشہ صدیقہ پانی پیتی تھیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ منہ لگا کر پانی پیتے تھے.اگر کوئی شخص اس واقعہ کو دیکھ کر یہ
81 کہے کہ آنحضرت میں نعوذ باللہ کیا برکت ہوگی کیونکہ آپ تو عائشہ سے برکت ڈھونڈتے تھے.تو یہ اس کی نادانی ہوگی.کیونکہ آپ کا اس جگہ منہ لگا کر پانی پینا بحیثیت نبی کے نہ تھا بلکہ خاوند کے تھا.پس اس طرح آپ نے نمونہ قائم کر دیا کہ اپنی بیویوں سے حسن سلوک اور انکی دلجوئی اور خاطر داری یوں کی جاتی ہے.اسی طرح آپ بعض بچوں کے باپ تھے.لڑکے تو آپ کے بچپن کی حالت میں فوت ہو گئے تھے.لڑکیاں تھیں.ان لڑکیوں کے لڑکے آپ کے نواسے تھے.وہ آپ کی کمر پر چڑھ جاتے تھے اور آپ ان کو اٹھاتے تھے.کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ ان بچوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کر دی کہ آپ نماز پڑھتے تھے اور وہ آپ کی کمر پر چڑھ گئے...اور انہوں نے آپ کو گھوڑا بنا یا.پس یہ حالت نبوت کے لحاظ سے نہیں ہے.یہ حیثیت آپ کی محمد نبی کی نہیں تھی.محمد نانا کی تھی.کیونکہ حسن و حسین رضی اللہ عنما آپ کے نواسے تھے.پس آپ ان کا نانا ہونے کی حیثیت سے ان کے ناز اٹھاتے تھے کیونکہ ماں باپ کی طرح نانا نانی بھی اپنے نواسوں کے ناز اٹھایا کرتے ہیں.پھر آپ کے والدین تو زندہ نہ تھے مگر ایسے رشتہ دار تھے جو آپ کے لئے قابل عزت تھے.چنانچہ آپ ان کا لحاظ کرتے تھے.جہاں آپ کی حیثیت نبوت اور رسالت تقاضا کرتی تھی کہ آپ ہر ایک شخص سے عدل و انصاف کا سلوک کریں وہاں آپ ان تعلقات کو بھی فراموش.نہ کرتے تھے.جنگ بدر میں حضرت عباس مسلمانوں کے ہاتھ میں قید ہو گئے تھے.عمر کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عباس میں چنداں فرق نہ تھا.حضرت عباس چند مہینہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے پیدا ہوئے تھے.اور حضرت عباس کی بھی یہ کیفیت تھی کہ جب بڑائی چھوٹائی کا ذکر کرتے تو یوں کرتے کہ بڑے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں.مگر پیدا پہلے میں ہوا تھا.غرض بلحاظ چچا ہونے کے حضرت عباس کی حیثیت باپ کی تھی.جب آپ قید ہو کر آئے تو دوسرے قیدیوں کے ساتھ زنجیروں میں جکڑ دئے گئے تھے.ایسی سختی سے جکڑے ہوئے تھے کہ وہ حرکت نہ کر سکتے تھے.اس سے ان کو تکلیف ہوتی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی تکلیف برداشت نہ ہو سکتی تھی.آپ بے چینی سے کروٹیں بدل رہے تھے.ایک صحابی نے یہ حالت دیکھی.اور عرض کیا کہ عباس کے بند ڈھیلے کردوں.فرمایا جو سب قیدیوں سے سلوک ہے اس سے وہ ممتاز نہیں کئے جا سکتے.آخر صحابہ نے سب قیدیوں کے بند ڈھیلے کئے.۲.جس سے انہوں نے آرام کیا اور آپ بھی آرام فرما سکے.آپ نے عدل و انصاف میں فرق نہ آنے دیا.گو حضرت عباس کافر نہ تھے دل سے مسلمان تھے.مگر چونکہ کفار کی طرف سے آئے تھے اس لئے آپ کے ساتھ سلوک کفار جیسا ہی آپ نے کیا.بحیثیت بھتیجے کے آپ کو حضرت عباس کی تکلیف سے تکلیف تھی.مگر بحیثیت مسلمانوں کے حاکم اور بادشاہ کے آپ نے حضرت عباس سے کوئی علیہ
82 سلوک نہیں کیا.سوائے اس کے جو سب سے کیا گیا.تو ایک بات کو دیکھ کر فتویٰ نہیں دیا جا سکتا.رسول کریم حضرت عباس کا ادب کرتے تھے.لیکن اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ آپ سے حضرت عباس کا رتبہ بڑا تھا.ایک حیثیت پر دوسری کا قیاس نہیں کیا جا سکتا.رسول کھاتا پیتا بھی ہے اگر صحت کمزور ہو تو نبی کو زیادہ پیاس بھی لگ سکتی ہے.بھوک بھی زیادہ لگ سکتی ہے.نبی کی جسمانی کمزوری کی حالت میں ایک غیر نبی تنومند میں زیادہ قوت برداشت ہو سکتی ہے لیکن ان باتوں سے اس کی نبوت کی شان پر حرف نہیں آسکتا.بشر ہونے کے لئے بشری حالتیں ہوتی ہیں اور نبوت کی حیثیت میں نبوت کی.پس نبی جو باتیں بشری تقاضا سے کرتا ہے وہ اس کی ہتک نہیں اور وہ باتیں اور ہونگی.اور وہ باتیں اور ہونگی جو نبی ہونے کی حیثیت سے کرے گا.غرض حیثیتیں مختلف ہوتی ہیں.جس طرح نبیوں ولیوں کی حیثیتیں مختلف ہوتی ہیں.اسی طرح انسان ہونے کی حیثیت سے بھی مختلف حیثیتیں ہوتی ہیں.کئی لوگ کئی حیثیتوں سے بڑے چھوٹے ہوتے ہیں.انسان نباتات سے بھی ایک نسبت رکھتا ہے.اگر نباتات سے نسبت نہ رکھتا تو سبزیاں اور ترکاریاں پسند نہ کرتا.کیونکہ جنس جنس سے پرورش پاتی ہے.پھر حیوانات سے بھی مشابہت ہوتی ہے.اور حیوانی غذائیں کھاتا ہے اور حیوانات سے اس کو اشتراک مثلا یہ ہے مخصوص آلات کے ذریعہ سانس لیتا ہے.علاوہ ازیں اور بھی چیزیں مشترک پائی جاتی ہیں اس کو کام کے بعد آرام کرنا پڑے گا.نسل کے بقا کے لئے مخصوص طریق سے مادہ سے تعلق رکھنا پڑے گا.اگر ایسا نہ کرے گا تو اس کی نسل قائم نہیں رہ سکتی.غرض اس میں نباتی اجزا بھی ہیں.اور حیوانی بھی.پھر اس کے اندر روحانی قومی بھی ہیں.یہ خدا میں ہو جاتا ہے اور خدا اس سے ظاہر ہوتا ہے.یہ خدا میں اور خدا اس میں نہاں ہو جاتا ہے.دنیا اس کو عقل سے خدا سمجھنے لگتی ہے.حالانکہ یہ انسان ہوتا ہے.انسان کی ان تمام مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے اس کی مختلف غذا ئیں ہوتی ہیں.بلحاظ اس کے نباتی مادے کے اس کی غذا نباتاتی اشیاء ہوتی ہیں.بلحاظ حیوانی حصہ کے اس کی غذائیں حیوانی اجزاء سے مرکب ہوتی ہیں.اگر یہ ان غذاؤں کو نہ کھائے تو اس کے جسم کی تعمیل اور پرورش نہیں ہو سکتی اور بحیثیت انسان کے اس کی غذا یہ نباتات ہو سکتی ہے نہ گوشت بلکہ اس وقت اس کی غذا ذکر اللہ ہوتا ہے.اگر کوئی شخص ان کو سبزیاں کھاتے اور گوشت کھاتے ہوئے دیکھتا ہے تو ان کی انسانیت میں فرق نہیں.لوگ ان کی جس چیز کو دیکھتے ہیں وہ ان کے نباتاتی اور حیوانی حصوں سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہیں.انسانیت کے بقاء اور استحکام کے لئے ذکر اللہ غذا ہے اور نہایت ضروری.روٹی سے انسانیت
83 زندہ نہیں رہتی.چاولوں اور ترکاریوں سے حیوانیت کا بقاء ہے.انسانیت کا بقاء خدا کے ذکر میں ہے.حضرت عیسیٰ کا قول ہے کہ انسان روٹی سے نہیں خدا کے کلام سے زندہ رہتا ہے.۳.اس که اگر انسان گوشت کھاتا ہے تو اس کی حیوانیت زندہ رہتی ہے.اگر وہ ذکر اللہ کا مطلب یہ ہے نہیں کرتا تو وہ حیوان ہو گا.انسان نہ ہوگا.اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے.الذین امنوا وتطمئن قلوبهم بذكر الله الا بذكر الله تطمئن القلوب وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ان کو اطمینان ہوتا ہے.ان میں زندگی انسانی ہوتی ہے اور انکی انسانیت یا روحانیت کے بقاء کے لئے ذکر اللہ کی روٹی ہوتی ہے.انسانیت اسی کی زندہ ہے جو اللہ کا ذکر کرتا ہے.ذکر اللہ سے کیا ہوتا ہے؟ فرمایا خبردار ہو کر سن لو.قلوب کا اطمینان ذکر اللہ سے ہوتا ہے.جو مومن ہیں اور جن کے قلوب اللہ کے ذکر سے زندہ ہیں.ان کے لئے فرمایا.طوئی لهم کوئی عظمند بھلا مردے کے لئے کچھ کرتا ہے.سب زندوں کے لئے ہی کیا کرتے ہیں.پس چونکہ وہ زندہ ہیں.ان کے لئے بشارت ہو.وہ زندہ ہیں اور زندہ کئے گئے ہیں.وحسن ساب ان کے لئے اعلیٰ مقام ہے جس کی طرف جائیں گے.جو روحانی مُردے ہیں ان کو دفن کر دیا جاتا ہے.اور جو روحانی زندہ ہیں ان کو اعلیٰ علیین میں جگہ دیتا ہے.یہ آیت رمضان سے خاص تعلق رکھتی ہے ہم خدا کے لئے کھانا چھوڑتے ہیں.اس سے ہمارا جسم مضمحل ہو جاتا ہے.کوئی ہے جو کے کہ روزہ رکھنے سے انسانیت مرجاتی ہے.نہیں بلکہ انسانیت زندہ ہو جاتی ہے.ہاں جسم کمزور ہو جاتا ہے.جب ہم کھانا چھوڑتے ہیں.جسم کمزور ہوتا ہے.لیکن ہماری روحانیت میں کمی نہیں آتی بلکہ ترقی ہوتی ہے.جب افطار کرتے ہیں تو اس سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ بھوک اور پیاس کے بموجب پانی پیتے ہیں تو ناخنوں تک تری پھیل جاتی ہے.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو چیز جس چیز سے تعلق رکھتی ہے اس کے ملنے سے اس کو نفع پہنچتا ہے.پس جسم میں تراوت آتی ہے جب غذا حیوانی ملتی ہے.اور روحانیت میں ترقی ہوتی ہے جب ذکر اللہ کیا جاتا ہے.اگر جسم کو غذا نہ دیں تو جسم مرجائے گا.اگر انسانیت کی زندگی درکار ہے تو ذکر اللہ کی غذا دینی چاہئیے.پس رمضان کی افطاری سے سبق ملتا ہے.مبارک ہیں وہ جو اس سے سبق لیتے ہیں.مبارک نہیں وہ جن کو اس سبق لینے کی توفیق ملتی ہے اور وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.خدا تعالیٰ ہمیں ان حکمتوں کے سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق دے آمین.جب دوسرے خطبے کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا) میں نے پچھلے جمعہ کہا تھا کہ آجکل ہماری جماعت کو ایک جہاد در پیش ہے.چاروں طرف سے اسلام پر حملے ہو رہے ہیں.روحانیت کی تازگی کا ثبوت قبولیت دعا ہے.اس لئے اس جہاد کے لئے دعا کرنی چاہئیے ان کے لئے جو کام پر گئے ہوے
84 ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے سچے رستے بتائے.اور وہ نکتے اور معرفت بتائیں اور سکھائیں جو دلوں پر بتا اثر کریں.ان کی مخالفت اور دشمنی کرنے والوں کو ہدایت ہو.آج مختلف مقامات سے جو خبریں آئی ہیں وہ اپنے اندر بشارتیں لائی ہیں.دعا کریں کہ کارکنوں کو خلوص کی توفیق دے اور ان کا نمونہ ہدایت کا موجب ہو.(پھر فرمایا) میں نے کہا تھا کہ میں عام طور پر جنازہ غائب نہیں پڑھا کروں گا.مگر آج جس دوست کی وفات کی خبر پہنچی ہے.ان کا نام شیخ عزیز الدین صاحب ہے جو دہرم کوٹ کے رہنے والے تھے.یہ بہت پرانے مخلص تھے اور براہین احمدیہ سے پہلے کے حضرت صاحب کے ملنے والے تھے.ان کا رتبہ سابقون الاولون کا ہے.میں ان کا جمعہ کے بعد جنازہ پڑھوں گا.احباب ان کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالی ان کو اعلیٰ علیین میں جگہ دے.آمین.(الفضل ، مئی ۱۹۲۳ء) تاريخ الخلفاء للسيوطى ص ۱۴۴ حالات حسین بن علی زرقانی جلد ۳ ص ۲۸۰٬۴۷۹ حالات حضرت عباس بن عبدالمطلب ۳ متی باب ۳۳:۱۲
85 15 کامیابی کے دو یقینی گر (فرموده ۱۴ مئی ۱۹۲۳ء) سورہ فاتحہ اور آیت شریفہ قل لله المشرق والمغرب يهدي من يشاء الى صراط مستقیم و كذالك جعلتكم امة وسطا لتكونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهيدا (بقره : ۱۴۳ - ۱۴۴) کی تلاوت کے بعد فرمایا.مثل مشہور ہے کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات.جس قوم یا جس جماعت، جس فرد نے بلکہ انسان کے جس عضو اور حصے نے نشود نما اور ترقی میں کوئی غیر معمولی رنگ دکھانا ہوتا ہے.تو ابتدا ہی سے اس قوم یا جماعت یا فرد یا عضو اور حصے میں اس کے آثار نظر آنے لگتے ہیں.کم از کم عقلمندوں کو جن سے سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ ترقی کرنے والا ہے.پس ہر ایک ترقی کرنے والا وجود اپنے اندر نشانیاں رکھتا ہے اور ہر ایک زندہ رہنے والی ہستی اپنے ساتھ علامتیں رکھتی ہے.ان سے پہچانا جاتا ہے کہ یہ زندہ رہے گی.وہ نشانیاں جن اقوام میں ہوں وہ زندہ رہتی ہیں.جن میں یہ علامتیں ہوتی ہیں وہ چیزیں باوجود مخالفت کے زندہ رہتی ہیں.اسی طرح اگر کسی قوم میں وہ علامتیں ہوں تو پتہ لگتا ہے کہ وہ زندہ رہنے والی ہے.بہت ہی ادمی حالت میں ایک پیج کا پتہ لگ سکتا ہے کہ اپنے اندر کیا طاقتیں رکھتا ہے اور خوردبین کے ذریعہ بچے کی پیدائش کے بہت عرصہ پہلے بتایا جا سکتا ہے کہ اس نطفہ سے کیسے بچے پیدا ہوں گے کیونکہ ان کیڑوں کے ذریعہ پتہ لگ سکتا ہے کہ یہ کیسی نسل پیدا کرنے کی قابلیت اپنے اندر رکھتا ہے.اگر نسل اچھی پیدا کرنے والا ہوگا تو اس کے کیڑے مضبوط ہوں گے اور چالاک ہوں گے.جس نطفے کے کیڑے ناقص ہوں ان کی حالت کمزوری پہلے ہی نظر آجاتی ہے..تو نہایت ابتدائی حالت سے پتہ لگ سکتا ہے.جانوروں اور نباتات کا بھی پتہ نہ بعینہ ذہنی اور علمی حالت کا بھی اندازہ ہو سکتا ہے.میں نے جو سورہ فاتحہ کے بعد آیت پڑھی ہے اس میں ترقیات کا گر بتایا گیا ہے اور اس گر کے ذریعہ پتہ لگ سکتا ہے کہ فلاں قوم یا جماعت ترقی کر
86 سکتی ہے اور کس طرح کوئی قوم یا جماعت زندہ رہ سکتی ہے.چونکہ آج کل فتنہ ہے اور اس کا زیادہ تر بار ہماری جماعت پر ہے میں اس گر کو بیان کرتا ہوں.جن کو توفیق ہو اس کو مضبوطی سے پکڑلیں اور چھوڑیں نہیں.یہ گر دین کے امور ہی سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ گر ہر ایک کام سے تعلق رکھتا ہے.دنیاوی زندگی نہیں مل سکتی اور کوئی قوم زندگی نہیں رہ سکتی اور نہ منزل سے محفوظ رہ سکتی ہے جب تک وہ کسی بات کو دنیا میں بڑا یا چھوٹا نہ سمجھے.یہ گر ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی کہتا ہے کہ تم دنیا کے حاکم ہو گے اور دنیا تمہارے آگے جھکے گی.تم اونچے ہو گے لوگ تمہیں نظر اٹھا کر دیکھیں گے.اگر تم اس کو مد نظر رکھو کہ دنیا میں کوئی چیز بڑی نہیں اور کوئی چھوٹی نہیں.کوئی کام اور مہم اور مرحلہ ایسا نہ ہو جس کو تم بڑا سمجھو اور کوئی ایسا نہ ہو جس کو چھوٹا سمجھو.جب تمہاری نظروں میں یہ گر آجائے اور اصول جم جائے تو دنیا تمہاری غلام ہوگی.تم دنیا کے لئے بطور داروغہ کے ہو گے اور لوگ تمہاری نگرانی میں اور موجودگی میں کام کریں گے جیسے غلام کرتا ہے.بعض کے نزدیک یہ مسئلہ پیچیدہ ہوگا.بعض کے نزدیک یہ بات اضداد میں سے ہوگی.لیکن اصل یہ ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے جس کے بغیر کوئی ترقی نہیں.یورپ کے لوگوں میں یہ بات ہے.ابھی میری آنکھوں کے سامنے وہ نظارہ آگیا ہے جو پچھلے دنوں میں پیش آیا کہ زندہ رہنے والی قوموں میں کسی بات کو چھوٹی نہیں سمجھا کرتیں.سرحد پر انگریزی فوجیں رہتی ہیں.ان کے ساتھ انگریز افسر بھی ہوتے ہیں.انگریزی فوج کا انتظام اس قسم کا ہے کہ بغیر انگریزوں کے چل نہیں سکتا.ایسے مقامات جن کو محفوظ خیال کیا جاتا ہے.انگریز افسر اپنے بیوی بچوں کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں.پچھلے دو ہفتہ کا ایک واقعہ ہے کہ کو ہاٹ میں ایک انگریز افسر میجر ایس رہتے تھے.وہ کسی دورے پر گئے ہوئے تھے.کوہاٹ ایک ایسا مقام ہے کہ وہاں سے سرحد پانچ میل کے فاصلہ پر ہے.وہ مقام خطرے سے بکلی پاک نہیں.ایک پٹھان گروہ جن کو کوئی نقصان پہنچا تھا ان کے سردار نے اپنی ماں کے سامنے قرآن پر ہاتھ رکھ کر اقرار کیا تھا کہ میں جب تک کوئی خاص کام نہ کر لوں دم نہ لوں گا.اس پٹھان گروہ کے لوگ باوجود پہروں کے ہوشیاری سے کوہاٹ میں داخل ہو گئے اور پھر میجر ایس کے گھر میں پہنچ گئے.ان کی بیوی کو قتل کر دیا اور ان کی لڑکی کو اپنے ساتھ لے گئے.اگر یہ واقعہ ہمارے ملک میں ہوتا تو لوگ شور مچا دیتے کہ حکومت ناقص ہے.پھر سوال پیدا ہو تا کہ اس لڑکی کو بچایا جائے تو یہی زور دیا جاتا کہ جس کی لڑکی ہے وہ اپنا روپیہ خرچ کرے دوسرے اس کے لئے کیوں مصیبت اٹھائیں.مگر انگریز قوم زندہ رہنے والی ہے.ان میں اس بات کا احساس ہے کہ یہ واقعہ چھوٹا نہیں اور نہ شخصی ہے.انہوں نے
87 اس واقعہ کو ہندوستانیوں کی طرح نہیں دیکھا بلکہ قومی حیثیت میں دیکھا.ان کے ہاں اس واقعہ سے شور پڑ گیا اور اس عورت کے بچانے کے لئے تمام ملک میں ایک ہنگامہ مچ گیا اور چیف کمشنر جس کی سرحدی علاقہ میں گورنر کی حیثیت ہوتی ہے وہاں پہنچ گیا.کوشش کی گئی کہ یا تو صلح صفائی سے لڑکی واپس مل جائے یا لڑائی کر کے چھین لیں گے.اس وقت انگریز عورت جس کا نام مسٹر سٹار ہے.وہ اپنی خدمات پیش کرتی ہے کہ میں وہاں جاتی ہوں جہاں لڑکی ہے کہ وہ اکیلے ہونے کے باعث گھبرائے نہیں اور اس کو اپنی زبان میں باتیں کرنے والی مل جائے.گو اس کو کہا جاتا ہے کہ وہ لوگ مار ڈالیں گے مگر وہ اس کی پروا نہیں کرتی.ادھر ان سرحدی رؤساء جن کے گورنمنٹ سے تعلقات ہیں، مجبور کیا جاتا ہے کہ زور ڈال کر اس لڑکی کو بچاؤ ورنہ ہمارے تمہارے ساتھ اچھے تعلقات نہیں رہیں گے.تین دن کے اندر سینکڑوں میل تک لوگ کام میں لگ جاتے ہیں اور فوجیں جمع ہو جاتی ہیں.وہ انگریز عورت چند مسلمان افسروں کی معیت میں جاتی ہے اور کسی نہ کسی طرح چند دن میں لے آتی ہے.یہ کام ایسی چالا کی اور پھرتی سے کیا جاتا ہے کہ گویا ساری مشینری اسی کام کے لئے حرکت کر رہی ہے.ادھر وہ لڑکی آتی ہے ادھر بادشاہ کی طرف سے کارکنوں کے لئے شکریہ اور خطابات بھی آجاتے ہیں.اب یہ ایک معمولی واقعہ تھا.ہندو مسلمانوں کی کتنی لڑکیاں سرحدی لے جاتے ہیں.مگر ایک انگریزی لڑکی کے لے جانے پر انگلستان کے گوشہ گوشہ میں تار پہنچائی جاتی ہے.پارلیمنٹ میں کہ اصل میں ملک کی حاکم یہی جماعت ہے اور بادشاہ کو اتنے اختیارات نہیں.تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد پارلیمنٹ کے سوال پر وزیر ہند اعلان کرتا ہے کہ اب وہ لڑکی کہاں ہے اور ہمارے آدمی کہاں ہیں.اس کے کتنے قریب پہنچ گئے ہیں اور اب جلد لڑکی واپس آجائے گی اور اب اس جگہ پہنچ گئے ہیں وغیرہ وغیرہ.غرض ایک ایک لحظہ کے بعد ہاؤس میں سوال ہوتا ہے اور وزیر ہند تازہ ترین تاروں کا اعلان کرتا ہے.یہ ایک چھوٹی سی بات تھی مگر انگریز قوم نے اس کو چھوٹا نہیں سمجھا.اس لئے یہ بات ان کی زندگی کو ثابت کرنے والی ہے.جو قومیں چھوٹی باتوں کی پروا نہیں کرتیں ہلاک ہو جاتی ہیں اور جو بڑی باتوں سے گھبرا جاتی ہیں وہ بھی زندہ نہیں رہ سکتیں.جس وقت جرمن نے جنگ شروع کی تو اس نے بلجیم کے سامنے چند مطالبات پیش کئے.بلجیم کی آبادی چالیس لاکھ کی ہے.حکومت کے لحاظ سے بہت چھوٹا ملک ہے لیکن جرمن کے مطالبہ کو اگر وہ قبول کرتی تو ذلیل ہو جاتی.بلجیم جانتا تھا کہ اگر جرمن کی بات کو تسلیم نہیں کرے گا تو چند گھنٹے میں اس کا خاتمہ ہو جائے گا.جرمن کے بلجیم کے سامنے دو باتیں تھیں.اول یہ کہ اگر ان کے مطالبہ کو تسلیم کریں تو ان کے لئے مطالبہ کی
88 ذلت تھی.اور اگر ان کے مطالبہ کو نہ تسلیم کریں تو ہلاکت اور تباہی.لیکن اس قوم نے ذلت برداشت کرنے کو گوارا نہ کیا اور مرجانا قبول کیا.جرمن نے چند دن میں تمام ملک پر قبضہ کر لیا.ان کے بڑے بڑے آدمی جلا وطن کر دئے گئے اور ان کو مزدوروں کے کام پر لگایا.آخر خدا نے ان کی مدد کے لئے دوسری طاقتوں کو بھیجا اور جرمن کو شکست ہوئی.اب وہی بلیجیم اتنے زوروں پر ہے کہ جرمن کو ڈرا رہا ہے اور اپنے مطالبات منوا رہا ہے.اس قوم نے ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دی.ان کا مقابلہ چڑیا اور باز کا مقابلہ تھا.مگر آخر چڑیا باز پر فوقیت لے گئی.غرض زندہ رہنے والی قومیں کسی بڑی بات کو بڑا نہیں سمجھا کرتیں اور کسی چھوٹی بات کو معمولی نہیں خیال کرتیں.یہ آیت شریفہ جو میں نے تلاوت کی ہے کذالک جعلنكم امة وسطا لتكونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهيدا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تم کو امت وسطی بنایا ہے کہ تم کسی کام کو بڑا نہ سمجھو اور کسی کو چھوٹا نہ سمجھو.اگر کوئی بڑے سے بڑا خطرہ بھی آجائے تو چاہئیے کہ تم کہو کہ کیا ہوا.ہم اس کو اللہ کے بھروسہ پر اٹھائیں گے.اور اگر کوئی چھوٹا ہو تو اس کو معمولی نہ خیال کرو بلکہ خدا سے استغفار کرو اور اس کے استیصال کی پوری کوشش کرونہ یہ حکم کیوں دیا ہے کہ تم نگراں ہو جاؤ گے اور شہداء علی الناس بن جاؤ گے.اور فرمایا کہ اسی قانون پر چل کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارا نگران ہو گیا.وہ کونسا حکم ہے جس پر چل کر مومن کی یہ حالت ہو جاتی ہے.وہ یہ ہے تتجافى جنوبهم عن المضاجع خوفا وطمعا (السجدہ : ۱۷) مسلمان کے لئے حکم دیا ہے کہ سچا مومن وہ ہے جو خدا سے طمع اور خوف کرتا ہے.یعنی اگر چھوٹا خطرہ ہو تو ڈرتا ہے.اگر اپنی جماعت میں کوئی ایک غدار ہو تو وہ ڈر جاتا ہے.اگر کسی جماعت میں جاہل یا بے ایمان ہوتا ہے تو ساری جماعت ڈر جاتی ہے کہ الہی یہ کیا مصیبت آنے والی ہے کیونکہ ایک غدار آدمی سے اور جاہل آدمی سے جماعت میں رخنہ پڑ سکتا ہے.اس لئے وہ خوف کرتے ہیں اور اس کو معمولی بات خیال نہیں کرتے.اس کے مقابلہ میں جب بڑے مصائب غیر اقوام کی طرف سے آتے ہیں اور خطرناک دشمن حملہ آور ہوتا ہے تو ہمت نہیں ہارتے اور اس سے ڈرتے نہیں اور وہ ایسے ہوتے ہیں کہ کوئی بیرونی دشمن ان کو ڈرا نہیں سکتا.اندرونی فساد ہو تو چھوٹے سے چھوٹے فساد سے ڈر جاتے ہیں.اور بیرونی فساد ہو خواہ کتنا بڑا ہو اس سے نہیں ڈرتے.جو لوگ ان تعلیمات پر عمل کرنے والے ہوتے ہیں ہماری طرف سے ان کے لئے زندگی اور کامیابی مقدر کی گئی ہے اور ان کو وہ کچھ ملتا ہے جو ان کے وہم اور خیال سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے.دنیا میں بہت کم لوگ ہوتے ہیں جن کی امید پوری ہو.مگر اللہ کا اس جماعت سے ایسا سلوک ہوتا ہے کہ امیدوں اور خیالات سے بالا ہوتا ہے.یہ کامیابی کا ایسا گر ہے کہ ہماری جماعت کو جو آخری ،
89 جماعت ہے اس پر عمل کرنا چاہئیے.ہماری جماعت آخری ہے.کیا بلحاظ اس کے آخری نبی کی جماعت ہے اور آخری سلسلہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مسیح اور مہدی کے ذریعہ قائم ہوا ہے.پس ہم ہی آخری امت کہلانے کے مستحق ہیں.ہم آخری محمدی امت ہیں.اس لئے کہ آخری شرعی رسول ہمارا رسول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور ہم اس کی آخری جماعت ہیں.اور اس کمال کا رسول آئندہ نہیں پیدا ہو گا.جو ہو گا وہ اسی سے فیضیاب ہو کر ہو گا.پس ہماری جماعت کو ان قواعد کے مطابق عمل کرنا چاہئیے.اور سب سے بڑا جامع فائدہ یہ ہے کہ کسی کام کو چھوٹا نہ سمجھا جائے اور کسی کو بڑا نہ سمجھا جائے اگر اندرونی فتنہ چھوٹے سے چھوٹا ہو تو خوف کھائیں اور اگر ہمارا دشمن بیرونی ہو تو اس کی کثرت سے نہ گھبرائیں.ہمیں امت وسطی بنایا گیا ہے.ایک لمبا آدمی ایک بچے کے لئے لمبا ہے.مگر جو آدمی متوسط درجہ کا ہے اس کے لئے لمبا نہیں.اور اس کے لئے بچہ چھوٹا نہیں.اس لئے متوسط درجہ کا آدمی چھوٹے کو حقیر نہیں خیال کر سکتا.پس حالت یہ ہونی چاہئیے کہ غیروں کی طرف سے خواہ کیسے ہی مصائب آئیں ان سے نہیں ڈرنا چاہیئے اور اگر جماعت کے اندر فتنہ ہو خواہ چھوٹا ہو تو اس سے ڈرنا چاہئیے کہ شیطان نے ہماری تباہی کے لئے یہ راہ نکالی ہے.اسی صورت میں ہم زندہ رہ سکتے ہیں کہ ان باتوں کو سمجھ لیں.اور تبھی ہم امت وسطی بن سکتے ہیں کہ اس وقت ہماری حالت کیسی ہوگی.ہم لوگوں پر نگران مقرر کئے جائیں گے.حاکم بن جائیں گے اور تم پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نگران ہونگے.آپ کا وجود تمہاری نگرانی کرے گا اور ان احکام پر عمل کرنے سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے سامنے آجائیں گے اور آپ کی روح ہزاروں سال تک تم میں کام کرے گی.تم دنیا کے حاکم ہو گے اور تمہارا حاکم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہونگے.تم محمد کی روح کو اپنے اندر کام کرتا ہوا پاؤ گے.یہ کتنی بڑی ترقی کا وعدہ ہے.کام صرف یہ ہے کہ امت وسطی بن جاؤ.وہ ق.وہ قوم مرجانے کے قابل ہے جو جماعت میں پیدا ہونے والے رخنوں کو معمولی خیال کرتی ہے.افراد سے جماعتیں بنا کرتی ہیں.اگر جماعت کے ایک فرد کی اچھی حالت نہیں تو یہ علامت اچھی نہیں.اور دوسری طرف یہ ہونا چاہیے کہ خواہ مخالف کتنا ہی بڑے سے بڑا اور طاقتور ہو اس کی سطوت تمہیں خوف زدہ نہ کرے.تم اس کے مت!! میں ذلت کے لئے تیار نہ ہو.جب تم میں یہ وثوق ہو گا تبھی تم زندہ رہ سکتے ہو الر تم اس گر پر عمل کرو گے تو دنیا کے حاکم ہو جاؤ گے اور دنیا کے فاتح ہوگے.یاد رکھو.خواہ سیاسی امور ہوں یا مذہبی ان سب میں یہ اصول کام کرتا ہے.دوسری نعمت اس اصول پر عمل کرنے سے یہ ملے گی کہ تم پر رسول اللہ نگران ہو جائے گا اور زمانہ کا بعد محمد رسول اللہ سے تمہیں جدا نہیں کر سکے گا.تم دیکھو کہ وہ تم میں آگیا.ایک طرف تم حاکم
90 ہوگے اور دوسری طرف وہ پیارا جو تمہیں تمام انسانوں میں سب سے زیادہ پیارا ہے تم پر حکومت کرے گا.وہ جس کو خواب میں دیکھنے کے لئے تڑپتے ہیں وہ تمہاری نگاہ سے اوجھل نہیں ہو گا.دنیا کے سردار اور محبوب سے دائمی قرب حاصل ہو جائے گا.وہ کبھی جدا نہیں ہو گا.وہی تم پر کمان کرے گا.اور تم اس کی نگرانی میں کام کرو گے.یہ ایسے وعدے ہیں کہ اتنی باتیں انسان کے ذہن میں نہیں آسکتیں.یہ دو باتیں ہیں جن کو جماعت کو مد نظر رکھنا چاہیے.وہ جماعت کے اندرونی فساد پر اندھے کی طرح سے نہ گذر جائیں اور بڑی طاقت سے جو بیرونی حملہ آور ہو.ڈر نہ جائیں.اگر یہ باتیں ان کو مد نظر ہوں تو وہ ہلاک نہیں ہو سکتے میں امید کرتا ہوں کہ ہماری جماعت اس نکتہ کو سمجھے گی اور اس سے فائدہ اٹھائے گی.اس آیت کے آگے پیچھے بڑے بڑے وعدے ہیں اور ان باتوں پر عمل کرنے پر اہم ترقیات وابستہ ہیں بلکہ ان کے ساتھ جماعتوں کی موت اور زندگی وابستہ ہے.اسپر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے.ہم کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک مصائب اور مہمات کو خدا کی مدد سے حقیر خیال نہ کریں گے.اور کبھی نہیں بچ سکتے جب تک اندرونی چھوٹے سے چھوٹے فساد کو برا نہ سمجھیں گے.جب یہ دونوں باتیں ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور وہ بچے وعدوں والا ہے کہ تم ضرور اس کے بندوں پر حاکم ہو گے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اندر جذب کرلو گے.اللہ تعالی ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق دے کہ ہم دنیا کے نگراں ہوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے آجائے.ہم اس کے کام میں عذر نہ کریں گے.وہ خدا سے پاتا ہے اور ہم اس سے پاتے ہیں.اگر ہماری یہ حالت ہو تو اللہ کے فضل سے ہم کوئی غلطی نہیں کر سکتے.الفضل ۱۴ مئی ۱۹۲۳ء)
91 16 قبولیت دعا کے خاص ایام (فرموده اار مئی ۱۹۲۳ء).تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.رمضان کا مہینہ باقی مہینوں میں خصوصیت رکھتا ہے.اور جمعہ کا دن باقی دنوں میں خصوصیت رکھتا ہے اور جمعہ کے بعد کا وقت اور خطبہ کا وقت اور نماز کا وقت یہ سب اوقات اپنے اندر خاص خصوصیتیں رکھتے ہیں.اور پھر ہماری جماعت بھی ایک خصوصیت رکھتی ہے.وہ یہ کہ باقی جماعتیں خدا کے پیغام اور اس کے پیغامبر کی منکر ہیں.ہماری جماعت نے خدا کے آخری فرستادہ کو قبول کیا ہے.پس آج کا دن ایک خاص دن اور آج کا وقت ایک خاص وقت اور یہ مہینہ ایک خاص مہینہ ہے.غرض یہ ایام خصوصیتوں کے ایام ہیں اور ان میں اس قدر خصوصیتیں جمع ہوئی ہیں کہ ان اوقات میں جو خدا کے فضل کی بارش ہو رہی ہے.ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو لیلتہ القدر کی تشریح فرمائی ہے.اس کی وجہ سے بھی لوگوں نے آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ لیلتہ القدر سے مراد مامور کا زمانہ ہے لیلتہ القدر وہ بھی ہے جو رمضان میں آتی ہے ورنہ ایک مامور ہی کا زمانہ ہوتا ہے جس میں قوموں کے عروج و زوال کے متعلق اندازہ کیا جاتا ہے کہ کونسی قوم اونچی کی جائے اور کونسی نچی.مامور کا زمانہ تاریکی کا زمانہ ہوتا ہے.اس کے آنے سے قوموں کی قسمتوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی لیلتہ القدر کو دیکھو.کتنی قوموں کا اس میں فیصلہ کیا گیا.روم کی سلطنت جو نصف حصہ دنیا پر متصرف تھی اور کسری کی سلطنت جو دوسرے نصف پر اثر رکھتی تھی دونوں کے متعلق فیصلہ کیا گیا.یہ بلا و بالا سلتیں پست کی جائیں گی اور عرب کے ننگے بھوکے لوگ جو (ضب) کے کھانے والے شراب میں مست رہنے والے.فتنہ و فساد کے لئے آمادہ.جن کے اخلاق بدترین تھے.دنیا میں بلند کئے جائیں گے.ان بد اخلاقیوں میں اتنا تغیر کیا جاوے گا کہ وہ دنیا کے معلم ہو سکیں.ننگے پھرنے والے دنیا کے حاکم ہونگے.یہ رسول کریم کے
92 زمانہ کی لیلتہ القدر تھی.یہ راتیں بارہا آتی رہی ہیں.اور امت محمدیہ کے تمام مجددوں کے زمانہ میں آتی رہی ہیں جن میں چھوٹے بڑے اور بڑے چھوٹے کئے جاتے رہے ہیں.لیکن ان مجددوں کے زمانہ میں لیلتہ القدر کا ظہور عظیم نہ ہوا تھا.جیسا کہ آج مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہوا ہے.اس لیلتہ القدر میں ساری دنیا کے متعلق فیصلہ کیا گیا ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے بھی مقرر کیا گیا کہ اس زمانہ میں بھی بعض قومیں مٹائی جائیں گی.بعض بڑھائی جائیں گی.پس یہ زمانہ اپنے اندر خاص خصوصیت رکھتا ہے اللہ تعالیٰ نے ہم لوگوں کو بلا استحقاق کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کر دیا.اور اس طرح اس لیلتہ القدر میں ہونے والے فیصلہ کا بہترین حصہ ہمیں نصیب کیا.اب اس کے متعلق جو دوسرے انعامات ہیں.وہ کب ملیں گے.ان کا تعلق ہمارے اعمال سے ہے.ہمیں چاہیے کہ حضرت مسیح موعود کی بعثت کے فوائد دنیا کو دکھائیں.اپنے نفوس میں تغیر پیدا کریں اور ان صداقتوں کو پھیلائیں جو ہمیں مسیح موعود کے ذریعہ ملی ہیں.خدا سے دعا کریں کہ ہمیں ان صداقتوں کا وارث بنائے جن کا اس کی طرف سے وعدہ ہے.یہ بابرکت گھڑیاں ہیں.رمضان کا بابرکت مہینہ ہے.جمعہ کو ممتاز کر کے بیان کیا گیا ہے.اس لئے ہماری جماعت کو چاہیے کہ ان گھڑیوں سے فائدہ اٹھائے.یہ دن سال میں ایک دفعہ آتا ہے.پس یہ قبولیت دعا کی گھڑیاں ہیں.ان سے جہاں تک فائدہ ہو سکے اٹھانا چاہیے.یہ سال خصوصیت سے ہماری جماعت کے لئے بہت اہم ہے اس سال میں ہماری خطرناک جنگ شروع ہے.اگرچہ جنگیں تو ہمیں پہلے بھی آئی ہیں مگر ایسی نہیں.اگر ظاہری حالات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ ہمارے گرنے کے دن ہیں مگر جن جماعتوں کی زندگی خدا کے لئے ہو وہ ہلاک نہیں ہوا کرتیں.پس یہ خطرناک لڑائی کے دن ہیں.ادھر ہمیں عمائد قوم (مسلمانوں) نے اس وقت چھوڑ دیا.گو علماء نے ہماری مخالفت کی ہے مگر طبقہ عوام ہمارے ساتھ ہے اور انکی آنکھیں کھل رہی ہیں کہ دین کا کام کرنے والے کون ہیں.اور یہ ہمارے لئے خوشی کی بات ہے کیونکہ یہی طبقہ ہوتا ہے جس کے راہ پانے کی امید ہوتی ہے کیونکہ مسلمانوں کی ان حالات نے آنکھیں کھول دی ہیں کہ جو دین کی خدمت کریں.ان کی قدر کرنی چاہئیے.یہ احساس ہمارے لئے خوشی کا باعث ہے.گلے میں شدید درد کے باعث میں زیادہ نہیں بول سکتا.یہ اہم مضمون ہے.مگر ہماری جماعت کے لئے دعا کے مضمون کی اہمیت معلوم کرنے لئے بڑے لمبے چوڑے بیان کی ضرورت نہیں.تاہم
93 میں موقع کی اہمیت کے لحاظ سے ادھر توجہ دلاتا ہوں.آج بھی اور یہ رمضان کا آخری عشرہ ہے.اس میں خاص طور پر دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریاں دور کرے.اور دعا کریں کہ ہم ان وعدوں کو پورا ہوتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اور ہمارے ہاتھ سے اسلام کی فتوحات ہوں.الفضل ۷ار مئی ۱۹۲۳ء)...
94 17 روزے سے انسان کو استقلال سیکھنا چاہئیے (فرموده ۱۸ ر مئی ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.رمضان ختم ہو گیا اور اس کے بعد وہ زمانہ شروع ہوا جس میں لوگوں کو کھانے پینے کی بندش نہیں ہوتی.میں نے اسی رمضان کے ایک خطبہ میں بیان کیا تھا کہ رمضان ہمیں ایک سبق سکھاتا ہے.کہ انسان بغیر غذا کے اپنی طاقت قائم نہیں رکھ سکتا.اس سے زائد بات کا چونکہ اس مضمون تعلق نہیں.اس لئے اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں.اس لئے میں اتنا ہی حصہ لیتا ہوں کہ رمضان سے سبق ملتا ہے کہ کھانا ترک کرنے سے انسان کمزور ہو جاتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ چاہتے ہیں کہ روزے کا ان کے جسم پر اثر نہ ہو.صبح کو کھانا کھاتے ہیں اور غذا بھی ثقیل کھاتے ہیں.ایسی جو جلد ہضم نہ ہو اور کمزوری کا بدل ما تحلل ہو تا رہے.مگر باوجود اس قسم کی غذا اور باوجود اس کے کہ کھانا ترک نہیں کرتے رمضان کے دنوں میں کمزور ہو جاتے ہیں.کمزوری شروع دن سے بڑھتی ہے اور رمضان کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ کمزوری جسمانی بڑھتی ہی جاتی ہے حتی کہ اگر روزہ رکھنا ترک نہ کیا جائے تو نقصان ہو جائے.اس لئے شریعت نے حد بندی کی کہ نقصان نہ ہو اور فائدہ ہو جائے.صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لی کہ ہمیشہ روزہ رکھا کریں.مگر آپ نے فرمایا کہ جنم میں ایک مقام ہے جو ہمیشہ کے روزہ داروں کے لئے ہے.گویا روز روزہ رکھنے کو سخت ناپسند فرمایا کہ بجائے خدا کا قرب دینے کے تباہی کی طرف لے جاتا ہے.شریعت روزوں سے فائدہ کی حد تک پہنچانا چاہتی ہے اور نقصان کی حد شروع ہونے سے پہلے روک دیتی ہے.یہ ایک سبق ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ جو کام بھی ہو اس کام میں صیام کا نتیجہ کمزوری ہوتا ہے.جس طرح روزہ رکھنے سے جسم میں کمزوری آتی ہے.مگر اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ تکلیف برداشت کرنے کی بھی طاقت آتی ہے اور مشقت کی طبیعت عادی ہو جاتی ہے.بھوک پیاس کو روکنے کے معنے ہیں کہ بھوک پیاس کی عادت ڈالنا.جب غذا نہیں ملتی تو ضعف ہوتا ہے مگر
قامات محدود جلد ۸ 95 تکلیف کے برداشت کی طاقت بڑھتی ہے.اسی طرح دوسرے امور میں ہے کہ جو کام میں رکاوٹ ہوگی اس میں کمزوری آئے گی.ایک زمیندار جو ہل چلاتا ہے اگر ہل چلانا چھوڑ دے تو کچھ عرصہ کے بعد اس میں طاقت کی کمی آجائے گی.یا اگر ایک طبیب جس کی پریکٹس جاری ہے اس کے مریضوں کو جلدی صحت ہوگی.بہ نسبت اس کے جس نے اس فن کو چھوڑ دیا ہو.کیونکہ موخر الذکر کو نسخہ تجویز کرنے میں دیر اور مشکل ہوگی.پس کامیابی اس کے لئے ہے جو مستقل رہے.پس روزے سبق ہیں کہ انسان کو استقلال سیکھنا چاہیے.کئی لوگ کچھ سیکھتے ہوئے ناغے کرتے ہیں.ناغوں سے مشق کم ہو جاتی ہے.وہ طلبا جو ناغے کرتے ہیں.گر جاتے ہیں اور با قاعدہ سکول میں آنے والے بڑھ جاتے ہیں.یہی حال عبادات کا ہے.جو شخص نماز میں ناغہ کرتا ہے وہ اپنا پچھلا کیا ہوا ضائع کر دیتا ہے صدقہ و خیرات میں ناغہ کرنے والا اپنے کام کو ضائع کرتا ہے.وقفہ کے معنے ہیں پہلے کام کو ضائع کر دینا.اگر زمیندار اپنے کام میں ناغہ کر دے اور ایک سال ہل نہ چلائے.غلہ نہ ہوئے.اس کے معنے یہ ہیں کہ اس نے اپنے پہلے غلہ کو کھالیا اور آئندہ کو بھوکا رہنے کا سامان کر لیا.اس لئے مومن کو اپنے کام میں ناغہ نہیں ہونے دینا چاہئیے کیونکہ بعض نانے کرنا کام کو خراب کرنا ہوتا ہے.رمضان کا تجربہ بتاتا ہے کہ خوراک میں صرف وقت کی تبدیلی سے کتنا فرق پڑ جاتا ہے.اگر روٹی کا وقت بدلنے سے فرق پڑتا ہے تو روٹی کے ترک سے کتنا نقصان ہو سکتا ہے یہ سبق ہے جس پر عمل کرنا چاہئیے.اللہ تعالٰی جماعت کو استقلال دے.اور ہم اس کے (الفضل ۳۱ ر مئی ۱۹۲۳ء) ماتحت کام کریں.ا مسند احمد بن حنبل جزو ۴ ص ۴۷۴
96 Λ 18 خابات محمود جلد بشارات کی آمد - قربانیوں کی ضرورت (فرموده یکم جون ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.پہلے تو میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ عصر کے بعد جو درس میں دیا کرتا تھا اور جو رمضان سے کچھ دن پہلے بوجہ میری علالت بند ہو گیا تھا اور رمضان میں چونکہ سارے قرآن کریم کا درس دینا میں نے حافظ روشن علی صاحب کے سپرد کیا ہوا ہے.اس لئے میرا درس رکا رہا اور رمضان کے بعد بھی رکا رہا.چونکہ ہفتہ کے دن عورتوں میں درس دیتا ہوں.گلے میں تکلیف ہونے کے باعث پہلے ہی دن دونوں درس نہیں ہو سکتے.اس لئے ارادہ ہے کہ اتوار کے دن سے وہ درس شروع کیا جائے.اس کے بعد میں اپنی جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ تمام قسم کی قربانیاں قربانی چاہتی ہیں.وہ کامیابی جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے وہ اللہ تعالٰی کا مقصد ہے.مگر اس کے لئے بھی بتایا ہے کہ قربانی کی ضرورت ہے.وہ کامیابی کیا ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے بندے کو پیدا کیا ہے.وہ اللہ تعالیٰ کا بندے سے تعلق کرنا ہے.لیکن اس کے لئے بھی کتنی فرمانبرداری کی ضرورت ہے.جب تک انسان ایاک نعبد کے مقام پر نہ پہنچے اهلنا الصراط المستقيم پر نہیں پہنچتا.کامل عبودیت اور کلی طور پر جھک جانا یہ دو باتیں ہیں جن کے بعد بندہ انعام کا مستحق ہوتا ہے.ایاک نعبد میں عملا غلام بننے پر دلالت ہے.ہو سکتا ہے کہ ایک شخص عملاً غلام ہو مگر دل میں خیالات مخالف ہوں.لوگ آباء و اجداد سے سن سنا کر حج و زکوۃ اور شریعت کی دوسری باتوں کو بجا لاتے ہیں.مگر جب تک خود ان کو ایمان نہ ہو اور ان کے خیالات پاک نہ ہوں.ایسا ہو سکتا ہے کہ ظاہر میں عبد ہوں لیکن دل دوسری طرف جھکا ہوا ہو.تو عبودیت نہیں کہلا سکتی.عبودیت یہی ہے کہ دل بھی خدا کی طرف جھکا ہوا ہو.اگر کوئی ہستی نظر آتی ہو تو خدا کی ہستی نظر آتی ہو.اس کے سوا کوئی خیال نہ ہو.استعانت الفاظ کو چاہتی ہے کیونکہ
97 خطبات محمود جلد ۸ خواہش اظہار کو چاہتی ہے.جب انسان اپنے خیالات عمال اقوال سب کچھ خدا کی رضاء کے لئے قربان کر دے تب وہ حقیقی عبد کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے.غرض وہ مقصد جس کے لئے خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے وہ بھی بغیر قربانی کے حاصل نہیں ہو سکتا تو دیگر امور خواہ دینی ہوں یا دنیاوی.کوئی ترقی ہو دینی یا دنیاوی.اس کے لئے کیسے قربانی کی ضرورت نہیں ہو سکتی.بعض کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ کہاں قربانی ہر ایک قسم کی ترقی کے لئے ضروری ہوتی ہے.ایک امیر کا بیٹا امیر ہوتا ہے.بلا محنت مال و دولت کا وارث ہو جاتا ہے.مگر میں کہتا ہوں کہ یہ ترقی نہیں.اگر امیر باپ کا بیٹا اس دولت میں اضافہ کرتا ہے تو اس کو قربانی ضرور کرنی پڑتی ہے اور اگر اضافہ نہیں کرتا تو اس درجہ سے تنزل کرتا ہے.جس پر اس کا باپ ہوتا ہے پس امراء کے بیٹوں کا اپنے آباء کی دولت پر قابض ہونا اس امر کی دلیل نہیں کہ انہوں نے بغیر قربانی کے ترقی کر لی ہے.کیونکہ دیکھنا یہ ہے کہ وہ جس حالت میں تھے اس سے انہوں نے ترقی کی ہے یا تنزل.جب غور کیا جائے گا تو معلوم ہو گا کہ ترقی کی بجائے وہ تنزل کر رہے ہوتے ہیں جو قربانی نہیں کرتے.غرض مقصد کے لئے قربانی کرنی ضروری ہے کیونکہ مقصد کہتے ہیں آئندہ حاصل ہونے والی چیز کو اور وہ تبھی حاصل ہو سکتی ہے جب قربانی کی جاوے.پس کوئی چیز بغیر قربانی کئے حاصل نہیں ہو سکتی.ہم بھی ایک غرض کے لئے کھڑے ہوئے ہیں کہ دنیا میں خدا کے نام کو پھیلائیں.اشاعت اسلام کریں.ہمارا فرض ہے کہ اس غرض کے پورے کرنے کے لئے ہر قسم کی قربانی کریں ورنہ کامیاب نہیں ہو سکتے.بہت سے دوست ہیں جن کے دل میں جوش ہوتا ہے.وہ کوشش بھی کرتے ہیں لیکن انہوں نے سمجھا نہیں ہوتا کہ کتنا کام ہے.اس لئے وہ صحیح تدبیر نہیں کر سکتے.ایسا تو کم کوئی شخص ہو گا کہ وہ احمدی ہو اور اس کے دل میں خدمت دین کا جوش نہ ہو.اور احمدی جماعت میں کم ہی کوئی شخص ہو گا کہ اس نے کوئی قربانی نہیں کی.لیکن خالی قربانی کافی نہیں ہو سکتی بلکہ کامیابی اس طرح ہو سکتی ہے کہ قربانی مقصد کے مطابق ہو.مثلاً ایک شخص پڑھتا ہے وہ ایک گھنٹہ مگر امتحان میں کامیاب ہونے کے لئے اس کی ایک گھنٹہ کی قربانی کافی نہیں ہو سکتی بھر پڑھتا ہے.بلکہ پاس ہونے کے لئے ضروری ہے کہ سات آٹھ گھنٹہ پڑھائی پر قربان کرے تب وہ پاس ہو سکتا ہے.دیکھو ابھی تک غیروں کو اسلام میں لانا تو الگ رہا.ابھی تک وہ لوگ بھی جماعت میں سب کے سب داخل نہیں ہوئے جو اسلام کے مدعی ہیں.محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھنے کے مدعی ہیں.قرآن کو ماننے کے مدعی ہیں.اور مدعی ہیں کہ اسلام کے لئے قربانی کریں.اب تک ہم
قطرات المحور جلد ۸ 98 ان مدعیان اسلام کو بھی بچے طور پر خادم اسلام نہیں بنا سکے اور ہندوؤں میں سے تو بہت ہی کم لوگ ہیں جو اسلام میں داخل ہوئے ہیں.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فتنہ ارتداد کھڑا کر دیا ہے تاکہ وہ بتائے کہ تم کدھر جاتے ہو.وہ لوگ جو اسلام میں داخل تو تھے مگر بیمار تھے.وہ مرتد ہونے لگے.اس میں شبہ نہیں کہ ان لوگوں میں سوائے اسلام کے نام کے اور کچھ نہیں.مگر ان پر کیا موقوف ہے.ہر جگہ عموما یہی حالت ہے کہ لوگ اسلام سے بے خبر ہیں.اور تو اور عربوں کی بھی یہی حالت ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ ان کے استاد نے بتایا کہ عرب زندہ جانور کا گوشت کاٹ کر پکا لیتے تھے حالانکہ زندہ جانور کا گوشت کاٹ کر پکانا ظلم ہے مگر عرب اس بے خبری میں مبتلا ہیں.اس میں شبہ نہیں کہ ملکانہ لوگ برائے نام مسلمان ہیں.ان میں بہت سی ہندووانہ رسوم ہیں.مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہو تا کہ وہ مسلمانوں کا حصہ نہیں تھے.گو وہ غیر احمدی ہیں مگر وہ مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں.اس لئے میں نے ان کی حفاظت کے خیال کو چھوڑ نہیں دیا کیونکہ یہ ایک تازیانہ عبرت ہے.وہ مسلمان کہلاتے ہیں.ان کا ارتداد ہمارے دل کو خون کر رہا ہے.ہم بھی ذمہ دار ہیں.ایک عورت کے خواہ کتنے بچے ہوں وہ ایک کے مرنے پر مطمئن اور صابر ہو کر نہیں بیٹھ سکتی.ایک دفعہ ضرور اس کو دھکا لگتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون صابر ہو سکتا ہے.آپ کا ایک نواسہ فوت ہونے لگا.آپ کو آپ کی بیٹی نے بلایا.آپ اس کی جان کنی دیکھ کر چشم پر آب ہو گئے.ایک صحابی نے جنہوں نے صبر کی تعلیم سنی ہوئی تھی.کہا حضور آپ کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے.آپ نے فرمایا کہ میرے دل میں شفقت ہے.غرض دل میں صدمہ محسوس ہوا کرتا ہے.جس شخص کے دل پر صدمہ محسوس نہ ہو.سمجھو کہ اس کا دل مر گیا ہے.اگر کسی شخص کا بچہ ڈوب رہا ہو.یا مر رہا ہویا آگ میں پڑا ہو.اس کا کس قدر صدمہ ہو گا؟ تو کیا ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وہ ہزاروں لوگ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھتے ہیں آپ کی ذریت سے نکل جائیں اور آپ کو گالیاں دینے لگ جائیں.اس کو ہم برداشت کرسکتے ہیں.جو دل ایک شخص کی مصیبت کو برداشت نہیں کر سکتا وہ ہزاروں کی مصیبت کو کیسے برداشت کر سکتا ہے.اگر کسی شخص کو اتنے بڑے سانحہ سے صدمہ نہیں ہوتا تو عدم احساس صدمہ دو حال سے خالی نہیں.ایک کفر کی علامت ہے کہ ہمیں نعوذ باللہ اسلام سے محبت نہ ہو.کیونکہ اگر کسی سے محبت ہو تو ہو نہیں سکتا کہ اس کی مصیبت کا ہمیں احساس نہ ہو اور ہم اپنے محسن یا ہم شہر ہم محلہ کی تکلیف کو بھی محسوس نہ کریں.تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ہمارے اعصاب میں نقص ہے.غرض یہ حالت دو حال سے خالی
خطبات محمود جلد ۸ 99 نہیں.اول کفر ہے بے دینی ہے.اگر کسی سے بھی محبت اور درد کا احساس نہیں تو یہ جنون کی علامت ہوگی.ممکن نہیں سچا مسلمان ہو اور اس کو احساس نہ ہو.صبر کر کے بیٹھنے کا یہ موقع نہیں کہ مصیبت آگئی ہو اور ہم مصیبت زدہ کو مصیبت سے نہ بچائیں.(کوئی شخص خطبہ میں بولا تھا فرمایا کہ خطبہ میں نہیں بولا کرتے) غرض یہ موقع ایسا نہیں جو صبر کا موقع ہو.نہ ایسا ہے کہ اس پر قربانی سے بچنا چاہیے.بلکہ یہی وہ موقع ہے کہ اس پر ہر قسم کی قربانی کی ضرورت ہے اور ہر قسم کی قربانی کرنے والا ہی مستحق انعام ہو سکتا ہے.آگرہ میں بہت سی جماعتوں کے لوگ گئے اور رمضان سے پہلے یا رمضان کے بعد واپس آگئے.اور کچھ ایسے ہیں جو ایک دن وہاں رہے اور اخبارات میں اعلان کر دیا.یہ دین سے تمسخر ہے اور نمود کی خواہش ہے.اگر کام کرنا ضروری ہے تو اس کو کرنے کی طرح کرنا چاہیے.اور اگر کرنا ضروری نہیں تو نہیں کرنا چاہیئے.ہمارا کام ختم نہیں ہو سکتا جب تک مرتد اسلام میں واپس نہ آجائیں بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ جب تک ساری دنیا اسلام کے جھنڈے تلے نہ آجائے اس وقت تک ہمارا کام ختم نہیں ہوتا.میں نے جب اس کام کے شروع کرنے کے متعلق درس میں اعلان کیا تھا کہ خدا کے فرستادوں کی جماعتیں جب کسی کام کو شروع کرتی ہیں تو نہیں لوٹتیں جب تک کامیاب نہ ہوں یا اسی کام پر مرنہ جائیں.پس ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ اس کام میں پوری ہمت صرف کرے.اگر ہمارے مرد خدمت دین میں مرجاتے ہیں تو ہماری عورتوں کا فرض ہو گا کہ وہ اٹھیں اور خدمت اسلام کریں.اگر عورتیں بھی مر جائیں تو ہمارے بچوں کو چاہیے کہ وہ اٹھیں اور کام کریں جب تک یہ حالت اور جذبہ ہماری جماعت میں نہیں ہوتا تو ہم نقال اور بھانڈ ہوں گے جو نبیوں کی جماعتوں کی نقل کرتے ہیں.جب خدا نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے ہمارا فرض ہے کہ اس کے بھولے ہوئے بندوں کو اس کے قدموں میں لائیں اور اس کام میں جان دیں.یا فتح و ظفر کے جھنڈے اڑائیں.اشاعت اسلام کے بارے میں ملکانوں کی خصوصیت نہیں ہے بلکہ ساری انسانی آبادی کو خدا کی عبودیت میں لائیں.جب تک یہ کام نہ ہو چکے ہمارا فرض ہے کہ جدوجہد کریں جب تک خود زندہ ہیں.اور پھر ہماری اولاد پر جدوجہد فرض ہے جب تک وہ زندہ ہے اور یہ سلسلہ چلتا چلا جائے جب تک کہ دنیا سے شیطان مٹ نہیں جاتا.جب تک یہ مقصد حاصل نہیں ہو جاتا ہمارے لئے کوئی آرام نہیں.دنیا کام کی جگہ ہے آرام کی جگہ عقبی ہے.میرے نزدیک یہ کام اب شروع ہوا ہے اور کامیابی انشاء اللہ ہمارے ہی لئے ہے کیونکہ ہو نہیں سکتا کہ ایک شخص خدا کے لئے اٹھے اور خدا اس کو چھوڑ دے.اللہ تعالیٰ غیور ہے.غیرت
100 مند انسان اپنا کام کرنے والے کو نہیں چھوڑتا.پھر خدا کیسے چھوڑ سکتا ہے.پس جب ہم خدا کے لئے نکلے ہیں اور ہماری غرض اس کے سوا کچھ نہیں کہ دنیا اس کی عبودیت میں آجائے تو ہم امید نہیں بلکہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں نہیں چھوڑے گا اور ہمیں ناکام نہیں کرے گا.ہماری جماعت کے سوچنے کا یہ سوال نہیں کہ یہ کام کب ختم ہوگا بلکہ یہ ہے کہ وہ سوچیں کہ ان کو مزید کام کب ملے گا.ہاں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہمارے سامنے جو کام آیا ہے اس میں سے کتنے کو ہم اٹھا سکتے ہیں.اس وقت کام ایک خاص صورت اختیار کر رہا ہے.ہمیں صرف آریوں ہی سے مقابلہ نہیں علماء سے بھی ہے کہ انہوں نے آریوں کو چھوڑ کر ہمارا مقابلہ ضروری خیال کیا ہے.وہ کہتے ہیں آریہ ہونا، چوہڑے چمار ہونا بہتر ہے بہ نسبت احمدی ہونے کے.یہ لوگ ہیں جو ملکانوں کو تبلیغ کرنے گئے ہیں.ہمارے میں سے بعض لوگ گھبراتے ہیں مگر میں ان کو بشارت دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مخالفین ہمارے راستہ میں روک نہیں ہونگے.میں نے ایک رویا میں دیکھا ہے اور میرے گھر والوں نے بھی دیکھا ہے کہ ملکانوں کی طرف سے خوشبو آرہی ہے اور ادھر سے خوشی کی آوازیں آرہی ہیں.میں نے سمجھا کہ پہلے افسوس کی خبر آئے گی اور اس کے بعد خوشی کی خبریں بھی ملیں گی.اسپار مرتد ہوا.ان کے مرتد ہونے سے افسوس ہوا.لیکن مجھے اطلاع دی گئی کہ اس گاؤں کو چھوڑنا نہیں.استقلال رکھنا یہ لوٹیں گے.شرط یہ ہے کہ قربانی کرنی چاہئیے.انشاء اللہ اور بھی آئیں گے.چودہری فتح محمد صاحب ابھی واپس نہیں گئے تھے کہ میں نے ان کو رویا سنا دی تھی.یہ اللہ تعالٰی کا فضل ہے کہ ابھی چند ہی دن گزرے ہیں کہ چودہری صاحب واپس گئے ہیں اور آج اطلاع ملی ہے کہ موضع چارلی گنج سارا اور اکرن کے ۳۲ گھر دوبارہ داخل اسلام ہوئے ہیں.اس یہ وہ مقام ہے جہاں کے ہندو افسران نے پہلے ہمارے مبلغین کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ نکل جاؤ.ورنہ آوارہ گردی میں تم پر مقدمہ چلایا جائے گا.ہماری جماعت خدا کے فضل سے گھبرانے والی نہیں کیونکہ ہم لوگ قانون کے مخالف کوئی کام نہیں کرتے.اس لئے تھانے دار کے فعل کے خلاف پروٹیسٹ کیا گیا اور ریاست کے دیوان کے پاس وفد گیا.اس نے اس کے متعلق یقین دلایا کہ تھانے دار سے باز پرس ہوگی.اکرن کو ایک اور خاص خصوصیت حاصل تھی.وہ یہ کہ سارا گاؤں مرتد ہو گیا تھا.مگر ایک ۸۰ سالہ بڑھیا مسلمان رہی تھی.سارے گاؤں نے اس پر ظلم کیا.بیٹوں تک نے بائیکاٹ کیا.چنانچہ اس کی فصل تک کاٹنے نہیں دیتے تھے.ہم نے تیاری کرلی کہ اس کی فصل ہمارے مبلغ کاٹیں.یا
101 یہاں سے ایک جماعت بھیجیں جو اس کی فصل کاٹ آئے.مگر اللہ تعالیٰ نے اور سامان کر دئے.اس پر پہرہ رکھا جاتا تھا.اس کو مبلغوں سے ملنے نہیں دیا جاتا تھا.رات کے بارہ بجے یہ مبلغین کے پاس آتی تھی.اور ان کو مل کر خوشی حاصل کرتی تھی.اس کو دین کا اتنا جوش تھا کہ میاں یوسف علی صاحب بی.اے جو ہماری طرف سے وہاں مبلغ ہیں ان سے اس نے کہا کہ بیٹا اگر تم جو ملکانوں کو دین سکھانے آئے ہو.دین اسلام کو چھوڑ دو.تب بھی میں نہیں چھوڑوں گی.یہ ایک مخلص عورت ہے اور مردوں سے بہادر ہے.اب یہی عورت جس کو مرتد ہو کر ملکانے کمزور سمجھتے تھے.زیادہ مضبوط ثابت ہوئی.یہ لوگ اس کی عزت کریں گے.اسپار کے موقع پر ہمیں ایک افسوس پہنچا تھا.اب اللہ تعالیٰ نے ہمیں بشارت دی ہے مگر جب تک سارا علاقہ واپس نہ آجائے ہم خوش نہیں ہو سکتے.ہم اکرن کے واپس آنے سے زیادہ خوش ہو کر خاموشی اور اطمینان نہیں حاصل کر سکتے کیونکہ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ فتح شدہ علاقہ واپس بھی ہو جایا کرتے ہیں بلکہ اب ہماری ذمہ داری بڑھ گئی ہے.اس فتح نے موقع کو نازک اور ہماری ذمہ داری کو اہم کر دیا ہے.اس لئے آنے والے خطرات کے لئے تیار ہو جانا چاہیئے.اس لئے ہماری جماعت کو چاہیے کہ جن احباب نے اب تک زندگیاں وقف نہیں کیں.وہ زندگیاں وقف کریں.اور جنہوں نے باوجود استطاعت کے کم از کم سو روپیہ نہیں دیا.وہ دیں.ہمارے زمیندار بھائیوں نے اب تک اس میں زیادہ حصہ نہیں لیا اور ان کا عذر معقول تھا کہ نہیں اٹھائی تھی.اگر پنجاب کی یہ ضرب المثل درست ہے کہ آدھی ذات جاٹ ہے باقی سب راجپوت ہیں.اس لئے دوسرے مسلمانوں کی نسبت راجپوتوں کو ان کے بھائیوں کی حالت پر توجہ دلاتا ہوں کہ چندہ دیں.اگر چہ ہمارے مبلغین آنریری کام کرتے ہیں اور اس طرح کام کرتے ہیں کہ دوسروں کو اس کی مثال بہت کم مل سکتی ہے.اکیلے بھائی عبد الرحمان صاحب قادیانی ہی کے سفروں کو اگر دیکھا جائے تو فی مہینہ ہزاروں میل وہ پیدل سفر کرتے ہیں اور متواتر چار چار دن تک سفر کرتے رہتے ہیں باوجود اس کے انہی سفروں کو دیکھا جائے جو خاص ہماری ہدایت کے ماتحت کئے جاتے ہیں اور کتابیں اور ٹریکٹ اور اشتہارات کے اخراجات کو دیکھا جائے اور ان دوماہ کے خرچ کی اوسط نکالی جائے تو تین ہزار سے زیادہ خرچ ہو چکا ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ ہمیں کم از کم ۸۰-۹۰ ہزار کی ضرورت ہوگی.اگر ہم خاص ہمت اور قربانی سے کام نہ کریں گے تو یہ کام کیسے ہو گا.اس میں شک نہیں ہماری جماعت بڑی مالی قربانیاں کرتی ہے.لیکن ان انعامات کے مقابلہ میں جو ہمیں ملیں گے.اس کو قربانی کہتے ہوئے شرم آتی ہے.اور مجھے تو پسینہ آجاتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ اس کو قربانی قرار دیتا ہے ورنہ سب کچھ اسی کا ہے جو ہم خرچ کرتے ہیں.
102 خدا تعالیٰ کے فرشتے بشارتیں پھیلا رہے ہیں.آج ہی ایک شخص کا بنوں سے خط ملا ہے جس میں اس نے اپنی ایک رویا لکھی ہے کہ روشندان سے ایک لفافہ ملا ہے اور اس میں لکھا ہے کہ ایک شخص مسلمان ہو گیا ہے.وہ کہتا ہے کہ میرے دل میں ڈالا گیا کہ جمعہ کے دن یہ بشارت ملے گی چنانچہ یہ خوشخبری بھی جمعہ ہی کے دن پہنچی ہے.اور بھی لوگوں کو خوشخبریاں ملی ہیں.غرض خدا کے فرشتے زور سے کام کر رہے ہیں.اس لئے ہمیں اپنی قربانی کی رفتار کو تیز کر دینا چاہئیے.اللہ تعالٰی ہمارے کام میں ہماری ہمت میں برکت دے اور ہمیں اپنے فضلوں کا وارث بنائے اور ہم اس کے دین کو دنیا میں پھیلائیں اور قائم کر دیں اور وہ ہم سے خوش ہو جائے اور ہم اس سے راضی ہو جائیں.آمین ثم آمین (الفضل ارجون ۱۹۲۳ء)...
103 19 عہد کی پابندی کی اہمیت ان (فرموده ۸ / جون ۱۹۲۳ء) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.اگر ہم اللہ تعالیٰ کی صنعت اور خلقت کی طرف دیکھیں تو ایک عجیب قاعدہ نظر آتا ہے.قاعدہ پر غور کرنے سے بہت سے سبق ملتے ہیں.اور وہ یہ ہے کہ جتنی مخلوق ہے وہ سچ بولنے کی عادی ہے.راہ راست پر جا رہی ہے.جھوٹ نہیں بولتی.مخلوق سے مراد وہ مخلوق نہیں جو کلام کرتی ہے بلکہ وہ جو انسان نہیں.نہ سچ سے مراد وہ سچ ہے جسے عرف عام میں ہم سچ کہتے ہیں بلکہ مخلوق سے مراد بے جان مخلوق ہے اور سچائی سے مراد یہ ہے کہ وہ ایک رنگ پر چلتی ہے.دھوکہ نہیں دیتی.مثلاً آگ ہے وہ جلاتی ہے.لکڑی کا ایک گھڑ لاؤ.یا کسی اور جلانے والی چیز کا.اس کو جلا ڈالے گی.اور لاؤ اور اس پر ڈال دو وہ بھی جل جائے گا.تیسرا گٹھا لاؤ وہ بھی جل جائے گا اور آگ میں پانی ڈالا جائے تو وہ اس کو بجھا دے گا اور تمام پانی یہی فعل کریں گے.تمام آگیں ایک ہی کام کریں گی.گرمی ایک کام کرتی ہے اور سردی اپنا ایک کام کرتی ہے.غرض ہر ایک چیز ایک دفعہ اپنی جو حقیقت ظاہر کرتی ہے وہ حقیقت بدلتی نہیں.سردی انجماد پیدا کرتی ہے اور گرمی سے اشیاء پھیلتی ہیں.بیش ایک قسم کا زہر ہے.بیش نر تریاق ہے.جس کو ہمارے ہاں جدوار کہتے ہیں.بعض زہروں میں اس کا دینا زہر کی مضرت کو دور کرتا ہے.یہ تو ممکن ہے کہ ہم ان زہروں کی شناخت میں دھو کہ کھا جائیں لیکن یہ نہیں کہ اس کا اثر نہ ہو.اگر صحیح طور پر دیا جائے مثلاً تصویر پر جو آگ بنائی گئی ہو.اس پر اگر پانی ڈالا جائے گا تو آگ نہیں بجھے گی.البتہ وہ تصویر خراب ہو جائے گی.اس سے ثابت ہوا کہ پانی کی تاثیر تو موجود ہے مگر اس کا محل استعمال غلط ہو گیا.اسی طرح نرمیش کا اگر فائدہ نہ ہو تو اس کے یہ معنے نہیں کہ اس سے فائدہ نہیں ہو تا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اس زہر میں نہ دیا جس میں اس کا دیا جانا مفید ہوتا ہے.یا مثلا کو نین بعض قسم کے بخاروں میں مفید ہوتی ہے.ہر ایک بخار میں نہیں.جس میں فائدہ کرتی ہے اس میں مفید ہوتی ہے.اگر کو نین کسی بخار میں فائدہ.
104 نہیں ظاہر کرتی تو اس کے یہ معنے نہیں کہ کونین مفید نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بخار کی صحیح تشخیص نہیں ہوئی.غرض اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق میں صداقت نظر آتی ہے.اس کا دنیا کو فائدہ پہنچ رہا ہے کیونکہ اس سے انتظام صحیح چلتا ہے.اگر یہ بات نہ ہو تو انتظام بگڑ جائے.اگر آگ ہمیشہ جلانے کی بجائے کبھی ٹھنڈا بھی کرتی تو بہت مشکل پڑتی.مثلاً آگ کے ذریعہ روٹی پکتی ہے.اگر کبھی ایسا ہو تا کہ روٹی پکنے کی بجائے پانی ہو کر بہ جاتی تو کس طرح مشکل پڑتی.آج جس طرح ایک جاہل سے بھی جاہل روٹی یقین سے پکاتا ہے اس وقت یہ یقین اٹھ جاتا.اسی طرح پانی پیاس بجھاتا ہے.اگر یہ ہوتا کہ کبھی پیاس بڑھا بھی دیتا.ٹھنڈ پہنچانے کی بجائے آگ لگا تا تو تمام دنیا کا کام درہم برہم ہو جاتا.ہمیں اس قانون سے فائدہ یہ ہے کہ ہر ایک چیز اپنے کام میں ہے.اگر وہ چیز اپنا کام چھوڑ دے تو نتیجہ خراب پیدا ہو گا.عورت آٹا گوندھتی ہے اس کو یقین ہے کہ جب آئے میں پانی ڈالا جائے گا تو وہ گوندھا جائے گا.لیکن اگر اس کا یہ یقین اٹھ جائے اور اس کو معلوم ہو کہ آٹا پانی ملنے سے کبھی آگ بھی بن جایا کرتا ہے تو وہ کب گوندھنے کی کوشش کرے گی.یا اگر پانی کے متعلق یہ معلوم ہو کہ کبھی پیاس بجھانے کی بجائے پیاس کو اور بھڑکاتا اور انتڑیوں کو کاٹ ڈالتا ہے تو کون ہے جو اس کو پینے کی جرات کرے گا.پس معلوم ہوا کہ تمام مخلوق میں یہ قانون ہے کہ ہر چیز اپنی حدود کے اندر ہے اور وہی کام کرتی ہے.جو قدرت نے اسے سپرد کیا ہے.مگر انسان کو کیوں خرابی حاصل ہوتی ہے اس لئے کہ یہ اس طریق کو چھوڑ دیتا ہے.مثلاً تاجروں کا دیوالہ کیوں لکھتا ہے اس لئے کہ لوگ ادھار لیتے ہیں اور وقت مقررہ پر نہیں دیتے اس لئے سوداگر کا دیوالہ نکل جاتا ہے.گورنمنٹ کمزور کیوں ہو جاتی ہے اس لئے کہ اس کو ٹیکس وصول نہیں ہوتا.رعایا کیوں کمزور ہوتی ہے اس لئے کہ حکومت ان کی ضروریات پوری نہیں کرتی.دوسرے کام کیوں خراب ہوتے ہیں کہ افسر اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کرتے اور ماتحت اپنے کام میں غفلت کرتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حکومتیں مٹ جاتی ہیں.لیکن جب تک ہر ایک شخص اسی قانون پر عمل نہ کرے جو قانون عام نظر آتا ہے کہ ہر ایک چیز اپنا فرض ادا کرے تو کوئی کام درست نہیں ہو سکتا.جب ہر ایک شخص اپنا فرض ادا کرتا ہے تو اس کا نتیجہ اچھا ہوتا ہے.اللہ کے فرمانبردار بندے کبھی اپنے عہد سے غافل نہیں ہوتے.جو شخص اپنے عمد بیعت پر قائم ہو وہ ہلاک نہیں ہوتا.دنیا میں ہر ایک سچا سلسلہ ایک شخص سے چلا ہے.جو شخص خدا سے اقرار کرتا اور اس کو نبھاتا ہے وہ کامیاب ہوتا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا سے اقرار کیا اور پھر اس عہد کو نبھایا.
105 نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دنیا ان کی طرف کھینچ کر آگئی.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس عہد کی پابندی نہ کرتے جو آپ نے خدا سے کیا تھا تو لاکھوں انسان کیسے کھینچ سکتے تھے.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں صدق کی طاقت بدرجہ کمال تھی.اور آپ کے صدق نے لاکھوں کو کھینچ لیا تھا.غور کرو لوہے کی ایک لٹھ جس قدر بوجھ اٹھا سکتی ہے جھاڑو کے ہزار تنکے اتنا بوجھ نہیں اٹھا سکتے.اسی طرح جو لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں.وہ دنیا کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں.فرق یہی ہے کہ دوسروں میں اس بات کی کمی ہوتی ہے.احمد کی جنگ میں نتیجہ کیا ہوا تھا اور کیوں ہوا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچی اور صحابہ کو بھی سخت تکلیف کا سامنا ہوا.اس لئے کہ انہوں نے آنحضرت کے حکم کی خلاف ورزی کی تھی.اسی کا یہ نتیجہ خراب تھا.ہماری جماعت بھی ایک عظیم الشان کام کے لئے کھڑی ہوئی ہے.یاد رکھو تمہارے منہ کی باتیں اور اخلاص کا اظہار تمہیں کامیاب نہیں کرے گا جب تک ان اصول حقہ کی اور اقرار بیعت کی پابندی نہ کرو.جس طرح کو تین مفید نہیں ہو سکتی جب تک اسی بخار میں نہ دی جائے جس میں مفید ہو سکتی ہے.اسی طرح تمہارا اخلاص کا اظہار بے اثر ہو گا اگر تم اخلاص کے پابند نہ ہو گے.افسوس ہے کہ بہت لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے زندگیاں وقف کرنے کے لئے لوگ آگے بڑھے مگر اب جبکہ محکمہ نے ان کو بلایا تو بعض خاموش ہو گئے.خط کا جواب ہی نہ دیا اور کچھ نے عذر کیا کہ ہم اس وقت نہیں جا سکتے.کیا ایسی فوج کے ساتھ کوئی جرنیل میدان میں جا سکتا ہے حالانکہ فوج کی تو یہ حالت ہوتی ہے کہ کوئی عذر نہیں سنا جاتا.اور اسلام بھی کہتا ہے كانهم بنیان مرصوص اگر میدان سے آنے والوں کی جگہ پر پورے آدمی نہ جائیں تو ہمیں تین مہینہ کام کرنے کا کیا فائدہ ملے گا.یاد رکھو کوئی کامیابی نہیں ہو سکتی جب تک فوجی نظام کے ماتحت ہم کام نہ کریں.پس یہ افسوس کی بات ہے کہ بعض لوگوں نے یہ غلط طریق اختیار کیا ہے.قربانی کا وقت وہی ہوتا ہے جب اس کی ضرورت ہو اور کچھ چھوڑنا پڑے.ورنہ قربانی کی کیا ضرورت ہے.بے فائدہ عذر بنانے سے کہیں قربانی ہوا کرتی ہے؟ ایک شخص نے زندگی وقف کی ہے.اس کو افسر نے بلایا کہ تمہیں جانا چاہئیے.اس نے کہا کہ میں تو چار سال سے بیمار ہوں.اس شخص کا نام نہ پیش کرنا ہزار درجہ بہتر تھا یہ نسبت اس کے کہ اس نے یہ جواب دیا.ہم نے جب اعلان کیا تھا تو کیا ہم چاہتے تھے کہ جماعت کے بیمار اور اندھے لولے لنگڑے زندگی وقف کر دیں کہ انکو ہم بھیج دیں.ایسے لوگ جماعت کے دشمن ہیں اور ایسے لوگوں کی موجودگی میں کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی.کیا وہ ماں باپ اپنے بچوں کے
106 دشمن ہونگے یا دوست جو بچوں کو سفر پر جاتے ہوئے کھوٹے روپیہ دے دیں کہ جہاں وہ جائیں اور کچھ خریدنے لگیں پکڑے جائیں.یقیناً ایسے ماں باپ بچوں کے دشمن ہیں.ہاں وہ ماں باپ بچے کے دوست ہیں جو بچے کو صاف طور پر کہدیں کہ ہمارے پاس کچھ نہیں جو ہم تم کو دیں.کیا کوئی جرنیل محض اس لئے خوش ہو سکتا ہے کہ اس کے پاس بڑی فوج ہے حالانکہ اس کی حالت یہ ہو کہ وہ وقت پر ہتھیار ڈال دے.ایسے لوگ جماعت کے دشمن ہیں.ایسے لوگ مستحق ہیں کہ ان کو سزا دی جائے.یہ لوگ نفاق سے نام دیتے ہیں ان کو کس نے مجبور کیا تھا کہ وہ نام دیں تاکہ ان کی شہرت ایک شخص وہاں گیا ہوا ہے اس نے لکھا ہے کہ مجھے دفتر میں لگایا ہوا ہے.میں کسی طرح کام نہیں کر سکتا کیونکہ میرا بچہ بیمار ہے.کیا یہ شخص اگر فوج میں ملازم ہوتا تو اس طرح کہہ سکتا تھا کہ اگر اس کے سارے رشتہ دار مرجاتے تب بھی کچھ نہ ہوتا.کیا اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ تلوار کے ڈر سے تو کام کر سکتے ہیں لیکن اخلاص سے کام نہیں کر سکتے.ایسے منافق طبع لوگوں کی سلسلہ کو ضرورت نہیں.جب تک خلوص کے لئے تلوار سے زیادہ جذبہ خدمت دین نہ ہو تو کوئی مستحق انعام نہیں ہو سکتا.میں نصیحت کرتا ہوں کہ دکھاوے کیلئے کوئی کام کرنا کچھ بھی نتیجہ خیز نہیں.کسی شاعر نے کہا ہے.وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو اگر وہ ظالم ظلم نہیں چھوڑتا تو میں اپنی بے پروائی اور استغنا کی حالت کو کیوں ترک کروں اور اس طرح اس کے سامنے ذلیل ہوں.وہ اگر اپنے ظلم پر پختہ ہے تو میں بے پروائی پر پختہ رہوں گا.پس وہ شخص مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں اور مومن نہیں کہلا سکتا جب تک وہ اپنے عہد پر قائم نہ ہو.کیونکہ مومن وہ ہے جو خدا کے لئے لکھتا ہے اس کا فرض ہے کہ آگے آئے اور پیچھے قدم نہ رکھے.اگر وہ قدم آگے رکھ کر پیچھے ہٹاتا ہے تو یہ اس کے لئے قابل شرم ہے.پس چاہیے کہ اپنا رویہ بدلو ورنہ ایسا ایمان خدا کے سامنے قیامت کے دن کام نہیں آئے گا.ایسی باتوں سے تم خدا کو دھوکہ نہیں دے سکتے.بلکہ اپنی جانوں کو دھوکے میں مبتلا کرتے ہو.خدا اسی کی قدر کرے گا جو خالص ہے جس میں عزت طلبی کا مادہ ہے.وہ اس میدان میں نہیں آسکتا.پس اپنے ایمان کی ترقی کی فکر کرو.اللہ تعالیٰ تم پر فضل کرے اور تمہاری کمزوریوں کو دور فرمائے.جو طاقتور ہیں ان کو کام کی توفیق دے اور ارادوں کے پورا کرنے کی توفیق دے.آمین.الفضل ۱۸ جون ۱۹۲۳ء)
107 20 ہندوؤں سے چھوت چھات کوئی مذہبی مسئلہ نہیں (فرموده ۱۵ جون ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.ہر ایک چیز کے دو مقصد ہوتے ہیں ایک وہ مقصد جس کو وہ پورا کر رہی ہوتی ہے اور ایک مقصد جس کے پورا کرنے کے لئے وہ بنائی جاتی ہے.مثلاً ایک شخص ایک مکان بناتا ہے اس مکان کے بناتے وقت اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس کا مال محفوظ ہو جائے.اپنے مال کو محفوظ کرنا مکان کے بنانے کی غرض ہے.مگر بعض نقائص کی وجہ سے وہ مکان چوروں کی نقب زنی سے محفوظ نہیں رہ سکتا.اس کا مال چوری ہو جاتا ہے.گو وہ سردی اور گرمی اور بارش سے اس مکان کے ذریعہ سے محفوظ ہو جاتا ہے.ایک اور شخص ایک مکان بارش سردی گرمی سے محفوظ ہونے کے لئے بناتا ہے.بعض نقائص کے رہ جانے کی وجہ سے وہ مکان اس مقصد کو تو پورا نہیں کرتا جس کے لئے بنایا گیا تھا یعنی مالک مکان بارش سے کما حقہ محفوظ نہیں رہتا مگر چوری وغیرہ سے اس مکان سے اس کا مال محفوظ ہو جاتا ہے.پس معلوم ہوا کہ جس مقصد کے لئے کوئی چیز بنائی جاتی ہے وہ اور ہوتا ہے اور جو مقصد وہ چیز پورا کر رہی ہوتی ہے وہ اور ہوتا ہے.مثلاً ایک بادشاہ اپنے شہر کے اردگر ایک فصیل بناتا ہے کہ شہر دشمن کے حملہ سے محفوظ رہے.ممکن ہے کہ وہ دیوار یا فصیل دشمن کو نہ روک سکے مگر اس کے ذریعہ سے اور فوائد حاصل ہوں.سو ایک مقصد تو ہر چیز کا وہ ہوتا ہے جس کو وہ پورا کر رہی ہے اور دوسرا وہ ہوتا ہے جو اس کے بنانے والا کا ہوتا ہے.ماں باپ بچوں کو پڑھاتے ہیں ان کی تعلیم سے ان کا مطلب مثلاً یہ ہوتا ہے کہ وہ دین کی خدمت کریں مگر بعض دفعہ وہ بچے دہر یہ ہو جاتے ہیں.گو اس تعلیم کے ذریعہ سے وہ اپنی معاش کو کما لیتے ہیں.پس ہر چیز اپنے اندر دو مقصد رکھتی ہے.ایک وہ جس کو وہ پورا کر رہی ہے اور ایک وہ مقصد جس کے پورا کرنے کے لئے وہ بنائی گئی ہے.اب حالتیں مختلف ہوتی ہیں.بعض دفعہ وہ مقصد جس کو وہ چیز پورا کر رہی ہوتی ہے اس مقصد سے بڑا ہوتا ہے جو اس کے بنانے والے کے مد نظر ہوتا ہے.اور بعض دفعہ مد نظر مقصد بہت اعلیٰ ہوتا ہے مگر وہ اس کو پورا نہیں کر رہی
108 ہوتی.یا جو مقصد وہ چیز پورا کر رہی ہوتی ہے وہ اونی ہوتا ہے.اگر وہ مقصد جس کے لئے وہ چیز بنائی گئی ہے اعلیٰ ہو اور جو کام وہ کر رہی ہے اوٹی ہو تو اس کو ترقی دی جا سکتی ہے.یہ تو ان چیزوں کا حال ہے جن کو انسان بناتا ہے.لیکن جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ بناتا ہے ان کا بھی یہی حال ہوتا ہے.وہ بھی دو مقاصد اپنے اندر رکھتی ہیں.اور گو وہ مقصد جس کے لئے بنائی جاتی ہیں ہر بار پورا نہیں ہوتا مگر انسان کی بنائی ہوئی چیزوں کی طرح وہ اپنے مقررہ مقصد سے آگے نہیں نکل سکتیں کہ اس سے اللہ تعالی پر عیب آتا ہے.پھر آگے مقاصد دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ مقاصد جن کو ہر حال میں پورا کرنا ہوتا ہے.اور ایک وہ مقاصد جن کو ہر حال میں پورا کرنے سے ان مقاصد کی غرض ہی باطل ہو جاتی ہے اگر جبر سے ان کو پورا کیا جائے.انسان کو اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ درجہ کی روحانی ترقیات حاصل کرنے کے لئے پیدا کیا ہے.یہ اس کی پیدائش کی غرض ہے.جیسے فرماتا ہے.ما خلقت الجن والانس الا ليعبدون (الذریت : (۵۷) لیکن اگر اللہ تعالیٰ جبری طور پر انسان کو عبد بناتا اور اس کو اپنے افعال میں اختیار نہ دیا جاتا تو وہ مستحق انعام نہ ٹھہرتا اور اس کے عبد بنانے کی غرض باطل ہو جاتی اور انسان کی مثال ایسی ہو جاتی جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کو پیاس لگی ہوئی ہے دوسرا اس کو پانی لا کر دیتا ہے.اس کی پیاس بجھ جاتی ہے.پانی لانے والے انسان کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے.مگر پانی کا کوئی شکریہ ادا نہیں کرتا حالانکہ پیاس پانی سے بجھائی گئی تھی.اس لئے کہ ہر شخص جانتا ہے کہ پانی پیاس بجھانے کے فعل میں مجبور ہے.وہ مستحق شکریہ نہیں.یہی حال حالت جبر میں انسان کا ہو جاتا ہے اور اس کی پیدائش کا مقصد برباد ہو جاتا ہے.انسان کو اپنے افعال میں اختیار دیا گیا ہے جس کا بعض دفعہ یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ جس مقصد کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے اس کو پورا نہیں کرتا بلکہ بسا اوقات اس مقصد کے راستہ میں روک ہو جاتا ہے.جیسے ابو جہل، محمد حسین ، ثناء اللہ وغیرہ نہ صرف یہ کہ وہ اس مقصد کو پورا نہیں کرتے.جس کے لئے وہ پیدا کئے گئے تھے بلکہ اس مقصد کے راستہ میں روک ہو جاتے ہیں.لیکن یہاں پر ان پر جبر نہیں کیا جاتا.اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کی غرض ما خلقت الجن والانس الا ليعبدون کہہ کر فرمایا کہ انسان اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر جذب کرے اور پھر ان کا جلوہ دنیا میں دکھائے.اللہ تعالیٰ کی صفات میں ایک صفت یہ بھی ہے کہ جب وہ کسی سے کوئی سلوک کرتا ہے تو اس کا وہ سلوک ایک قانون کے ماتحت ہوتا ہے.انسان کی طرح وہ سلوک اندھا دھند نہیں ہوتا.ابو جہل نے خدا کے سب سے پیارے رسول کی مخالفت کی.لیکن خدا کا سورج ابو جہل کے لئے بھی ایسا ہی چڑھ رہا تھا جیسا محمد رسول اللہ کے لئے.اسی طرح اس کی آنکھ کان ناک معدہ کو اپنے اپنے کام کرنے کے لئے اللہ تعالی کی طرف سے مدد ملتی تھی جیسے محمد رسول اللہ کی آنکھ کان ناک
109 معدہ کو.دونوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد مل رہی تھی.ابو جہل سے اس بات میں مدد اور نصرت چھینی گئی جس میں اس نے محمد رسول اللہ کی مخالفت کی اور چھینی بھی اس لئے گئی کہ اس نے خود ان روحانی دروازوں کو اپنے اوپر بند کر دیا جو خدا نے کھولے ہوئے تھے.اگر ایسے لوگ ان دروازوں کو کھول دیں تو اللہ تعالیٰ بھی اپنی طرف سے بند کئے ہوئے دروازوں کو کھول دیتا ہے.ہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے کہ وہ صرف اس معاملہ کو دیکھتا ہے جس کے متعلق اس نے سلوک کرنا ہوتا ہے اور وہ سلوک اس معاملہ تک ہی محدود رہتا ہے.پس چونکہ انسان کی پیدائش کی غرض اللہ تعالیٰ کی صفات کا اپنے اندر جذب کرنا اور اپنے افعال سے ان کا اظہار کرنا ہے.اس لئے انسان کا فرض ہے کہ اگر وہ کسی دوسرے انسان سے کسی کام میں مخالفت کرے تو اپنی مخالفت کو اسی کام تک محدود رکھے.نبیوں اور خدا کے پیاروں نے اور قوم کے افراد نے اللہ تعالیٰ کی اس صفت کا اظہار اپنے افعال سے کیا.مگر کسی جماعت نے من حیث الجماعت اس صفت الہی کو نہیں دکھایا.حالانکہ انسان کی پیدائش کی غرض ہی یہ تھی کہ وہ خدا کی صفات کا اظہار کہے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی اس صفت کے اظہار میں بہت کمی ہے.مثلاً ایک امام الصلوۃ ہوتا ہے.اس کی دو حیثیتیں ہوتی ہیں.ایک حیثیت اس کی امام ہونے کی ہوتی ہے اور ایک حیثیت عام انسان ہونے کی.دیکھا گیا ہے کہ اگر اس امام سے کسی ذاتی شخصی معاملہ میں ناراضگی ہوئی تو نمازوں میں آنا چھوڑ دیا جاتا ہے اور اس بات کی پروا نہیں کی جاتی کہ اس ناراضگی کو اس حد تک محدود رکھیں جہاں تک اس کے انسان ہونے کا تعلق ہے.اور ان کا حق نہیں کہ نمازوں میں آنا چھوڑ دیں.یہ ایسی ہی بات ہے کہ ابو جہل رسول اللہ کا مقابلہ کرے اور خدا اس کی روٹی بند کر دے.اگر کوئی انسان خدا کا مظہر بننا چاہتا ہے تو خدا کی صفات کو اپنے اندر داخل کرے اور اپنے افعال سے ان کا اظہار کرے.اس کا انعام خدا کے انعام کے لئے غیر محدود مگر اس کا غضب اس کی ناراضگی خدا کے غضب اور اس کی ناراضگی کی طرح محدود ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ورحمتی وسعت کل شی ء (الاعراف: ۱۵۷) لیکن غضب کے متعلق یہ نہیں فرمایا اور کل شی ء میں غضب عذاب ناراضگی شدید العقاب ہونا عزیز و انتقام ہونا سب کچھ آجاتا ہے.ان سب پر خدا کی رحمت حاوی ہے.پس ہمارا رحم غیر محدود ہونا چاہیئے اور ہمارا غضب اور ناراضگی محدود.مگر افسوس ہے کہ رحم تو محدود رہتا ہے اور غضب وغیرہ غیر محدود ہو جاتے ہیں.جس سے ایک دفعہ ناراضگی ہوئی اس کی طرف تمام عیوب منسوب کئے جاتے ہیں.ایک شخص کو ایک دفعہ جھوٹ بولتا ہوا دیکھ کر اس کی تمام باتوں کو جھوٹا سمجھتے ہیں.لیکن اس کو ایک دفعہ سچ بولتے ہوئے دیکھ کر اس کی تمام باتوں کو سچا نہیں سمجھتے.ان کا رحم محدود اور ان کا غضب ناراضگی، بدظنی غیر محدود ہوتی ہے.حالانکہ اللہ
110 تعالیٰ کا معالمہ اس کے الٹ ہے.انسان اللہ تعالیٰ کا پیارا اور محبوب نہیں بن سکتا جب تک وہ خدا تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر نہیں لیتا.اس بات کو اگر یہ نظر نہ رکھا جائے تو بہت سے نقائص اور فسادات پیدا ہوتے ہیں.مسلمانوں نے خلافت کے سوال کو چھیڑا.ہم ان طریقوں کے مخالف تھے جو وہ خلافت کے سوال کو حل کرنے کے لئے برتتے تھے.مگر ہمیں ان سے ہمدردی تھی کہ وہ ان کی زندگی اور موت کا سوال تھا.لیکن میں نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں میں اس وقت یہ رو چل رہی تھی کہ جو مسئلہ خلافت میں ہمارے ساتھ نہیں ہوتا اس کو مٹا دینا چاہئیے.وہ نہیں دیکھتے تھے کہ باقی کتنی باتوں میں ہم اور باقی دوسرے لوگ بھی ان کے موافق تھے.ہم نے کہا کہ ہم آدمی روپیہ سامان اسلام اور حکومت لڑکی کی موافقت میں تبلیغ کے لئے دینے کو تیار ہیں.مگر ہم سلطان لڑکی کو اپنا خلیفہ نہیں مان سکتے لیکن مسلمانوں نے اس بات کو نہ مانا اور ہمارے متعلق اپنے غضب اور ناراضگی کو غیر محدود کر دیا.اور کہا کہ ان کو مٹا دو.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ احمدی شیعہ وغیرہ الگ ہو گئے.اس لئے ان کا سلوک گورنمنٹ سے بھی ایسا ہی رہا.لیکن انہوں نے جوش میں کچھ نہ سوچا.مگر ہمیں ان سے ہمدردی ہی رہی کیونکہ حضرت مسیح موعود فرما چکے تھے.اے دل تو نیز خاطر ایتاں نگاہدار کا خر کنند دعوی حب پیمبرم محمد رسول اللہ کی خاطر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا لحاظ کیا اور ان کی حالت پر رحم کر کے جلدی ہی ان کی آنکھیں کھول دیں کہ ان کا راستہ غلط ہے.اب میں دیکھتا ہوں کہ ایک اور غلطی شروع ہو رہی ہے.ہندوؤں میں اور ہم میں ایک اختلاف پیدا ہو گیا ہے.ہندوؤں میں اور مسلمانوں میں لوگ اس بات کو نہیں دیکھتے کہ یہ اختلاف صرف ایک بات میں ہے.وہ اس اختلاف کو تمام باتوں پر حاوی کرنا چاہتے ہیں.ہندو اس بات سے شاکی ہیں کہ مسلمان کیوں اپنے حقوق مانگتے ہیں.یہ اور بات ہے کہ واقعہ میں وہ حقوق ہیں بھی یا نہیں.لیکن انہوں نے اس پروٹسٹ میں مسلمانوں کی ہر معاملہ میں مخالفت شروع کر دی ہے.جس کا نتیجہ فسادات ملتان وغیرہ کی شکل میں ظاہر ہوا.شدھی تحریک میں ایک بہت بڑا انکشاف ہوا ہے.ملکانے اس لئے بھی ہندو ہو رہے ہیں کہ ہندو چونکہ مسلمانوں کے ہاتھ کا نہیں کھاتے اور مسلمان ہندوؤں کے ہاتھ کا کھا لیتے ہیں.اس لئے معلوم ہوا کہ ہندو مسلمانوں سے زیادہ معزز ہیں.اس لئے وہ ہندوؤں کو معزز سمجھ کر ہندو ہو رہے ہیں.حالانکہ ویدوں میں چھوت چھات کا کہیں ذکر نہیں.وہ تو گائے کے کباب کو بھی جائز قرار دیتے ہیں اور گائے کے کباب کو ہندوستان میں پہلے استعمال کیا بھی گیا ہے.لیکن کسی نہ کسی طرح سے انہوں
111 نے چھوت چھات کو مذہب کا جزو بنا لیا ہے.اسلام میں چونکہ چھوت چھات نہیں ہے اس لئے مسلمانوں نے اس کو اختیار نہ کیا.مگر چونکہ شریعت اس معالمہ میں چپ ہے اور کوئی خاص حکم نہیں دیتی.اس لئے موقعہ محل کے مناسب ہم اسلام اور اپنی حفاظت کے لئے جو طریقہ حفاظت ہمیں ملے اس کو اختیار کر سکتے ہیں.شریعت نے ہمیں حکم نہیں دیا کہ ہم غیروں کا نہ کھائیں.مگر یہ بھی نہیں کہا کہ ہم ضرور ہی کھائیں.اب چونکہ ہندو مسلمانوں سے چھوت چھات کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ شدھ ہونے والے ملکانے ہندوؤں کو معزز اور مسلمانوں کو ذلیل سمجھ کر ہندو ہو رہے ہیں اس لئے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ بھی ہندوؤں سے چھوت چھات کریں تاکہ ہندو معزز اور مسلمان ذلیل نہ سمجھے جائیں اور تب تک ان کے ہاتھ کا نہ کھائیں جب تک موجودہ حالات بدل نہیں جاتے.کیونکہ ہندوؤں کے ہاتھ کے کھانے کی ہمیں صرف اجازت ہے.حکم کوئی نہیں.مگر میں کہتا ہوں کہ مسلمان ہندوؤں کے ہاتھ کا نہ کھائیں.نہ اس لئے کہ انما المشركون نجس (التوبہ : (۲۹) کے ماتحت وہ نجس ہیں.مذہبی طور پر ان کے ساتھ چھوت چھات کرنے کا ہمیں حکم نہیں.وہ ایسے ہی اہل کتاب ہیں جیسے یہودی اور عیسائی ہیں.ان سے چھوت چھات شریعت کے حکم کے ماتحت نہیں بلکہ حالات سے مجبور ہو کر کی جاتی ہے.اس کی مثال ایسی ہے ہے کہ شریعت کا یہ حکم نہیں کہ امرود نہ کھاؤ.مگر ہیضہ کے دنوں میں ہم امرود نہیں کھاتے.اس وقت ہندوؤں کے ہاتھ کا کھانے سے ایک قوم روحانی طور پر مرتی ہے.اس لئے ہندوؤں کے ہاتھ کا کھانا چھوڑ دو.نہ اس لئے کہ مذہب اس کا حکم دیتا ہے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس بات کو بھی بہت زیادہ بڑھا لیا گیا ہے.مسلمانوں میں بعض جگہ یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ اس کو مذہبی سوال بنالیں.اور ہندوؤں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ مسلمان تو فساد کر رہے ہیں.مگر عجیب بات ہے کہ ہندو سینکڑوں سالوں تک مسلمانوں سے چھوت چھات کر کے تو فسادی نہیں لیکن اگر مسلمان ایک قوم کو روحانی موت سے بچانے کے لئے چھوت چھات اختیار کریں تو وہ فسادی ہیں.یہ غلط ہے اور حقیقت میں دونوں غلطی پر ہیں.ان اختلافات کے ہوتے ہوئے ہم ان سے اتحاد کر سکتے ہیں اور مدتوں ہم سے چھوت چھات کرنے کے باوجود ہم نے ان سے اتحاد رکھا ہے.لیکن جب ہم اس وقت ایک قومی مجبوری سے مجبور ہو کر ایسا کرنے لگے ہیں تو وہ کیوں ہم کو فسادی اور اپنا دشمن اور اتحاد شکن سمجھتے ہیں.یہ اسی تنگ دلی کا نتیجہ ہے کہ انسان اپنی پیدائش کی غرض کو نہیں سوچتا.پہلے مسلمانوں کا ہم سے لڑنا یہ ان کی غلطی تھی.اب ہندوؤں کا مسلمانوں سے چھوت چھات کے متعلق لڑنا اور مسلمانوں کا اس سوال کو مذہبی سوال بنانا غلطی ہے.اس وقت چھوت چھات کا سوال نہیں.حقیقت میں ایک قوم کی موت کا سوال ہے.اس قوم کو بتانے کے لئے کہ ہم ذلیل نہیں بلکہ ہم صرف مذہبی
112 اجازت سے ایسا کرتے تھے.تاکہ وہ روحانی موت سے بچے.ہم ایسا کرنے پر مجبور ہوئے ہیں اور یہ ایک مقررہ وقت تک ہے یا جب تک ہندو چھوت چھات نہ چھوڑ دیں.اگر مسلمان مسئلہ چھوت چھات کو مذہبی سوال بناتے ہیں تو وہ مذہب میں دست اندازی کرتے ہیں.میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ہر بات کو اس حد تک محدود رکھیں جہاں تک اس کا تعلق ہے.شدھی وہاں ہو رہی ہے.یہاں ہندو مسلمان ایک دوسرے کو مکانوں سے نکال رہے ہیں اور ایک دوسرے کا بائیکاٹ کر رہے ہیں.میں بمبئی گیا وہاں ۱۵ دن تک مکان تلاش کرتے رہے.پندرہ دن کے بعد ایک راجا کے دیوان کا مکان ملا.اس نے وعدہ کیا کہ وہ جلدی مکان خالی کرا دے گا لیکن دوسرے دن جب اس کو کہا گیا تو اس نے اس بنا پر مکان دینے سے انکار کر دیا کہ دوسرے ہندوؤں نے اس کو منع کر دیا ہے کہ کسی مسلمان کو مکان نہ دیا جائے.یہ جھگڑے تو آج شروع ہوئے ہیں لیکن ہندوؤں نے اس طرز عمل کو مدتوں سے جاری کر رکھا ہے.مسلمان بہت زیادہ صاف ہوتے ہیں لیکن ہندو یہ بہانہ بنا لیتے ہیں کہ مسلمان مکان کو خراب کر دیتے ہیں.کوئی جو اس حد سے نکلتا ہے اور دشمن کو اس سے زیادہ نقصان پہنچاتا ہے جتنا اس کو دشمن سے پہنچتا ہے.وہ غلطی پر ہے.اس طرح انسانیت باطل ہو جائے گی اور درندگی بڑھ جائے گی ہماری رحمت وسیع ہونی چاہئیے اور ہماری ناراضگی اور غضب محدود ہونا چاہئیے.یہاں قادیان کے ہندوؤں نے ہمیں بہت تکلیفیں دی ہیں.منارۃ المسیح کے متعلق مخالفت کی کہ منارہ نہیں ہونا چاہیے.حالانکہ تمام مسجدوں پر منارے ہوتے ہیں.منارہ کے مقدمہ کے متعلق یہاں تحصیل دار آئے.یہاں کے لالہ بڑھے شاہ تحصیل دار کے پاس موجود تھے.حضرت مسیح موعود نے تحصیل دار کو کہا.تحصیل دار صاحب اس بڑھے شاہ سے پوچھئے کہ جب سے یہ پیدا ہوا ہے کونسی نیکی ہے جو میں نے اس سے نہیں کی اور کونسی برائی ہے جو اس نے مجھ سے نہیں کی.بڑھے شاہ نے شرمندگی سے سر نیچے ڈال لیا.حضرت خلیفہ المسیح اول نے یہاں کے ایک ہندو سے پوچھا کہ ہمارے یہاں آنے سے تمہیں کیا نقصان پہنچا؟ اس نے کہا کچھ نہیں بلکہ فائدہ ہوا ہے.آپ نے فرمایا کہ پھر تم ہمیں کیوں نقصان پہنچانے کی کوشش میں رہتے ہو.اس نے کہا کہ بس دل چاہتا ہے کہ آپ کو نقصان پہنچے.پس ہمارا فرض ہے کہ جس حد تک کوئی ہم کو نقصان یا ضرر پہنچاتا ہے اسی حد تک اس کا مقابلہ کریں اور اس سے مقاطعہ کریں ورنہ اس حد کے با ہر وہ ہمارے بھائی ہیں.ہندو کیا اس حد سے باہر چوڑھے بھی ہمارے بھائی ہیں.ہم ایک آدم کی اولاد ہیں.جس مقابلہ اور مقاطعہ تک اسلام کی حفاظت کا سوال ہے اس حد تک مقاطعہ کرو.جس حد تک مقاطعہ میں اسلام کی حفاظت کا سوال نہیں اور ہمارے مذہب کو اس سے کچھ فائدہ نہیں پہنچتا اس حد تک اپنے ہاتھ کو نیکی اور حسن سلوک سے روکنا انسانیت نہیں بلکہ وحشت ہے.میں اپنی جماعت کو
113 نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے ہر معالمہ میں اس بات کو مد نظر رکھیں.(الفضل ، ۲۵ جون ۱۹۲۳ء)
114 21 مالی قربانی کی خاص ضرورت (فرموده ۲۲ جون ۱۹۲۳ء) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.انسان کے موٹے موٹے دو حصے ہیں.ایک مادیت اور دوسرا روحانیت.یہ دونوں حصے اپنے اپنے دائرے میں قربانی کے محتاج ہیں اور جب تک قربانی ضرورت کے مطابق نہ ہو کامیابی نہیں ہو سکتی.مثلاً انبیاء کی جماعت کے لوگ ہیں.وہ خدا کے ایسے پسندیدہ ہوتے ہیں کہ صوفیاء کے اقوال کے مطابق ان کی شان میں آتا ہے تو لاک ما خلقت الافلاک اے کہ اگر وہ نہ ہوتے تو دنیا نہ پیدا کی جاتی.وہ اللہ سے ایسے قرب کے مقام پر ہوتے ہیں کہ دنیا ان کی خاطر ہوتی ہے اور ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ نبی کے لئے ایک قوم تباہ ہوتی ہے اور ایک قوم ترقی کرتی ہے.گویا قوموں کی ترقی اور تباہی ان کے وجود سے وابستہ ہے.مگر باوجود اتنے قرب کے پھر دیکھتے ہیں کہ دنیا کی حاجات ان کو بھی لگی ہوتی ہیں جہاں اللہ تعالٰی ان کی خاطر بعض قوموں کو تباہ کرتا اور بعض کو ترقیاں دیتا ہے وہاں یہ بھی تو ہوتا ہے کہ ان کو بھوک لگتی ہے.پیاس لگتی ہے.سونے کی حاجت ہوتی ہے.نبی بیمار بھی ہوتے ہیں.ان کو دوا کی بھی ضرورت پڑتی ہے.لباس کی بھی ان کو ضرورت ہوتی ہے.غرض انسانی احتیاجات کے باعث نبی اور غیر نبی میں کوئی فرق نہیں ہوتا اور انبیاء کی روحانیت ان کو مادیت کی احتیاجات سے بچا نہیں سکتی.پس کوئی روحانیت نہیں جس کے ساتھ مادیت نہ ہو حتی کی عبادت میں بھی ظاہری حرکات کرنی پڑتی ہیں.روزہ کے ساتھ جسم کو بھی مشقت اٹھانی پڑتی ہے.نماز میں انسان ہاتھ باندھتا.قعدے میں بیٹھتا ہے جس طرح روح خدا کے حضور جھکتی ہے جسم بھی جھکتا ہے اور جس طرح روح خدا کے حضور دوزانو ہوتی ہے اسی طرح جسم بھی خدا کے حضور روزانو ہوتا ہے.اسی طرح زکوۃ اصل میں اخلاق کی درستی کو کہتے ہیں لیکن اس میں مال بھی دیا جاتا ہے.حج میں روح کا تبتل الی اللہ ہوتا ہے.لیکن اس کے ساتھ جسم کو بھی مشقت اٹھانی پڑتی ہے.غرض حسب عبادتوں میں ظاہر کے ساتھ باطن اور باطن کے ساتھ ظاہر بھی ہوتا ہے پس روحانی سلسلہ میں ظاہر بھی اس کے ساتھ ہوتا
115 ہے.اور ظاہر قربانیاں بھی کرنی پڑتی ہیں اور ان قربانیوں میں سے بڑی قربانی مال کی ہوتی ہے.ہمارے زمانہ میں جانی قربانی کا موقع کم آیا ہے.البتہ سلسلہ ارتداد نے ہماری جماعت کے لئے تعلیم و تربیت کا موقع بہم پہنچا دیا ہے.یہ شرجو اٹھایا گیا ہے مسلمانوں کے لئے ایک تازیانہ ہے.مگر ہماری جماعت اس سے مزید قربانی کرنا اور مشقت برداشت کرنا سیکھے گی اور میرا ارادہ ہے کہ اس طرز تبلیغ کے سلسلہ کو دائمی کر دیا جائے ہمارے احباب کا فرض ہے کہ اس موقع پر ہر قسم کی قربانیاں بجالائیں.ہم اس فتنہ کے بند ہونے سے تبلیغ کو نہیں چھوڑ سکتے بلکہ ہماری تبلیغ کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا.اب ہم اور ہمارے بعد سلسلہ کا انتظام جس کے ہاتھ میں ہو وہ تبلیغ کرتا رہے گا اور جب تک کافروں کا وجود دنیا میں ہے.تبلیغ کا سلسلہ بھی جاری رہے گا.اب جو قربانیاں ہماری جماعت کرتی ہے اور جن کی عادی ہے وہ مالی قربانیاں ہیں.اور نسبت کے لحاظ سے وہ اتنی بڑھی ہوئی ہیں کہ دنیا کی کوئی قوم اتنی قربانیاں نہیں کرتی.اور بعض احباب کی قربانیاں تو بہت ہی بڑھی ہوئی ہیں اور ایسے بھی مواقع آئے ہیں کہ ہمارے احباب نے دین کی ضرورت پر گھر کی چارپائیاں تک بیچ دی ہیں.مگر بعض کے بوجھ اٹھا لینے سے سارا کام نہیں چل سکتا.اس لئے ضروری ہے کہ مجموعی طور پر تمام جماعت قربانی کرے اور وہ لوگ جوست ہیں یا غافل ہیں.وقت آگیا ہے کہ سستی اور غفلت چھوڑ دیں.میں تمام جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ سب مل کر قربانیاں کرو تاکہ جماعت کے چند احباب پر بوجھ نہ ہو بلکہ اس بوجھ کو ساری جماعت اٹھائے.اب خاص وقت ہے جس میں جماعت کے لئے مالی قربانی کی ضرورت بھی بڑھ گئی ہے کیونکہ جب جماعت کے سینکڑوں آدمی چھٹیاں لے کر اور اپنے کاروبار کو چھوڑ کر جانی قربانی کرتے اور تبلیغ کرنے کے لئے جاتے ہیں تو ان لوگوں کے چندوں پر بھی لازمی طور پر کمی آئے گی.ادھر اخراجات بڑھ رہے ہیں جن کی سرسری میزان فی الحال ۲۵ ۳۰ ہزار ہے.ایسے وقت میں اگر جماعت کے سب افراد قربانی نہ کریں گے تو کام کو سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے.اگر کسی شخص میں ضعف ہے.سستی ہے یا غفلت ہے تو ہمارا فرض ہے کہ اس کو چوکس کریں اور اس کی سستی اور غفلت کو دور کریں.بیت المال پر ۳۵ ہزار کے قریب اخراجات کا نیا بار آپڑا ہے.بعض لوگوں کی آمدنیاں کم ہو گئی ہیں.ایسے وقت میں جماعت کے کسی فرد کا قربانی کرنے سے رکے رہنا جماعت سے دشمنی کرنا ہے.اگر وہ لوگ جو اب تک ست رہے ہیں اس ضرورت کے وقت سلسلہ کی خدمت کے لئے آگے بڑھیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے پہلے قصور کو بھی معاف فرما دے گا.پس اس موقع کو رائیگاں نہیں جانے دینا چاہیئے.
116 اس وقت کارکنوں کا بھی فرض ہے کہ بالخصوص سب لوگوں کو جگائیں اگر بعض لوگ ایسے ہیں جنہوں نے سالہا سال سے کوئی چندہ نہیں دیا تو ان کو بھی بیدار کریں.ان سے مایوس ہو کر خاموش نہ ہوں.کیونکہ ممکن ہے ان پر اس وقت اثر ہونا ہو جس وقت وہ مایوس ہو کر خاموش ہو بیٹھیں.اس لئے کہنے سے ڈرنا نہیں چاہیے.کئی لوگ دس سال میں مانتے ہیں.کئی بیس سال میں مانتے ہیں.کئی تمہیں سال میں مانتے ہیں.اپنے لوگوں کو اگر چند سال کہکر چھوڑ دیا جائے تو پھر ان کی اصلاح کی امید کیسے کی جا سکتی ہے.کئی لوگ ہیں جنہوں نے اس وقت مسیح موعود کو نہیں مانا تھا جس وقت آپ نے دعویٰ کیا تھا ۱۸۹۰ء میں وہ مخالف رہے.۱۹۰۰ء میں مخالف رہے اور ۱۹۰۸ء میں جب حضرت اقدس کی وفات ہوئی مخالف رہے بلکہ ایسے بھی ہیں جو ۱۹۴ء تک مخالف رہے پھر ان کو ماننے کی توفیق ملی.ایک شخص نے ۱۹۲۲ء میں بیعت کی ہے.اس نے لکھا کہ میری عمر نوے سال کی ہے.میں احمدیت کا خطرناک دشمن تھا.لیکن اب مجھے سمجھ آگئی ہے کہ حضرت مرزا صاحب مسیح موعود ہیں.پس جب خطرناک لوگ بھی موافق ہو سکتے ہیں تو جو ہمارے کہلاتے ہیں وہ کیوں نہیں ہوں گے.کارکن اپنا کام کرتے رہیں.خود بھی سستی اور لاپروائی کو چھوڑ دیں اور دوسروں کو بھی اکسائیں اور بتائیں کہ یہ وقت خاص قربانی کا ہے.جو اس وقت قربانی کرے گا.خاص انعام پائے گا.اللہ تعالیٰ سب لوگوں کو توفیق دے کہ خدا کے دین کی ضرورت کو محسوس کریں.آمین.الفضل ۳ جولائی ۱۹۲۳ء) موضوعات کبیر ص ۵۹ نز بته النوا طرفی توضیح نحته الفکر ص ۱۳
117 22 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک الہام کا پورا ہونا اور اس کے متعلق جماعت احمدیہ کا فرض (فرموده ۲۹ / جون ۱۹۲۳ء) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.آنکھوں آج کا خطبہ جمعہ میں ایک ایسے امر کے متعلق بیان کرنا چاہتا ہوں جو اتفاقا " آج میری.کے سامنے آگیا.جمعہ کے وقت سے تھوڑی دیر پہلے میں جو غسل کرنے کے لئے کمرہ میں داخل ہوا تو دروازہ بند کرتے ہوئے "الفضل" کا ایک ٹکڑا میری آنکھوں کے سامنے آگیا اور وہ اس کا پہلا صفحہ تھا جو دروازہ کے اوپر چسپاں تھا.اس کے اوپر ایک عبارت تھی جو خود بخود میری آنکھوں کے سامنے آگئی اور وہ یہ تھی کہ ”میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا" (الهام مسیح موعود ).یہ الهام ایک لمبے عرصہ تک الفضل" پر لکھا جاتا رہا ہے.اور الفضل" ہفتہ میں دو بار میرے سامنے آتا رہا ہے اور میں اس لحاظ سے کہ سلسلہ کا آرگن سمجھا جاتا ہے اور اس لحاظ سے کہ چونکہ اس کے مضامین ہماری طرف سے سمجھے جاتے ہیں اور ہماری طرف منسوب کئے جاتے ہیں.اس لئے یہ دیکھنے کے لئے کہ اگر کوئی غلطی ہو.یوں تو انسان سے غلطیاں ہو جاتی ہیں.لیکن اگر کوئی ایسی غلطی ہو جس سے سلسلہ پر حرف آتا ہو.تو اس کی اصلاح کروادی جائے الفضل سارا پڑھتا ہوں اور ہمیشہ پڑھتا ہوں.لیکن وہ پھٹا ہوا ٹکڑا جس پر میری نظر پڑی اس نے میرے اندر عجیب کیفیت پیدا کردی.میں اس کو دیکھ کر اس کے پاس کھڑا ہو گیا اور اس فقرہ کو پھر پڑھا کہ ”میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا" کتنا چھوٹا سا فقرہ ہے.لیکن کیسی عظیم الشان بات اس میں بیان کی گئی ہے.ایک ایسا شخص جس کا نام اس کے ارد گرد کے دیہات کے لوگ بھی نہیں جانتے تھے اور جب جاننے لگے تو ایسی صورت میں کہ اس کے ساتھ چھونا بھی حرام سمجھتے تھے.گویا جب تک وہ انسان دنیا کے سامنے نہیں آیا.گمنام تھا.اور جب سامنے آیا تو بدنام تھا.لیکن وہ اس گمنامی کی حالت میں کہتا
118 ہے خدا نے مجھے کہا ہے ”میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.یہ نہیں کہا کہ میں تیری تبلیغ کو پہنچاؤں گا.نہ یہ کہا کہ تیرے اہل ملک تک پہنچاؤں گا.اور نہ یہ کہا کہ تیرے ہم مذہب تجھے مان لیں گے بلکہ یہ کہا کہ ”میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا یعنی کوئی علاقہ کوئی قوم اور کوئی مذہب مخصوص نہیں کیا جاتا.یہ نہیں کہا جاتا کہ مسلمان کہلانے والے تجھے مان لیں گے کیونکہ اگر یہ کہا جاتا تو کوئی کہہ سکتا تھا کہ چونکہ اس وقت مسلمان محتاج ہیں ایک لیڈر کے.ان میں تفرقہ اور فساد برپا ہے وہ غربت اور فقر کی حالت میں مبتلا ہیں ان پر ذلت اور مسکنت کی چادر چھائی ہوئی ہے.ایسے وقت میں وہ کسی ایسے انسان کی راہ دیکھ رہے ہیں جو آئے اور آکر ان کی دنیاوی حالت درست کرنے کے ساتھ ہی خدا کا قرب بھی حاصل کرائے.اس لئے ممکن ہے کہ اس کی قوم اسے مان لے.مگر یہ نہیں کہا گیا.اسی طرح یہ بھی نہیں کہا گیا کہ فلاں قوم تک تیری تبلیغ پہنچاؤں گا کیونکہ بہت سی قومیں ایسی ہیں جو ذلت اور ادبار میں گرفتار ہونے کی وجہ سے تیار ہیں کہ کوئی شخص ان کی حالت کو بہتر بنانے کا دعوے دار بن کر کھڑا ہو.اور وہ اس کے پیچھے لگیں.پھر یہ بھی نہیں کہا جاتا کہ تیرے ملک میں تیرے نام کو پھیلا دوں گا.کیونکہ بہت سے ملک اس بات کے لئے تیار ہیں کہ ان کو ترقی دینے کے نام سے کوئی کھڑا ہو اور وہ اس کے ساتھ مل جائیں.جیسے یہ ہندوستان ہی ہے.اس میں اگر کوئی کھڑا ہو کہ میں اسے آزاد کراؤں گا تو لوگ اس کے پیچھے چلنے کے لئے تیار ہیں.کیونکہ وہ سمجھتے ہیں اور ان کے دل میں یہ بٹھا دیا گیا ہے کہ انگریز ان پر ظلم کرتے ہیں.انگریز ظلم کرتے ہیں یا نہیں.لیکن چونکہ ان کے خیال میں ایسا ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں اس لئے ہر اس انسان کے پیچھے بغیر سوچے سمجھے اور بغیر عقل و فکر سے کام لئے چلنے کے لئے تیار ہیں جو یہ کہے کہ میں عنقریب تم کو حکومت دلادوں گا.جیسے مسٹر گاندھی نے کہا.یہ قطعا" عقل کے خلاف بات تھی کہ چند ماہ کے اندر اندر کوئی حکومت ولا سکتا.لیکن مسٹر گاندھی کہتا تھا کہ دسمبر تک ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرالوں گا.مگر شرط یہ ہے کہ میں جو کچھ کہوں وہ کرو.اس پر ہندو مسلمان غلاموں کی طرح اس کے پیچھے چل پڑے.مگر چند ماہ کے بعد کیا ہوا.یہ کہ وہ جو کہتا تھا میں ہندوستان کو آزاد کرادوں گا.اس کی اپنی آزادی بھی چھین لی گئی.وہ خود جیل میں چلا گیا اور بقول اس کے ہندوستان کے ۳۳ کروڑ باشندے غلام کے غلام ہی رہے.اس کی ایسی خلاف عقل بات لوگوں نے کیوں مان لی.اس لئے کہ ان کے قلوب تیار تھے کہ ایسی بات مان لیں اور انہوں نے سوچے سمجھے بغیر مان لی.پس اگر یہ کہا جاتا کہ تیرا ملک تیری تبلیغ کو مان لے گا.تو کہا جا سکتا کہ ان لوگوں میں پہلے ہی اس قسم کے سیاسی جذبات پیدا ہو چکے تھے کہ وہ منتظر تھے کہ کوئی آئے اور آگر انہیں آزاد کرانے کی آواز لگائے.چونکہ ایسے موقع پر مرزا صاحب کھڑے ہو گئے اس لئے ان کے
119 ملک کے لوگ ان کے پیچھے چل پڑے.اسی طرح اگر یہ کہا جاتا کہ میں تیری تبلیغ کو ادنی اقوام میں پھیلاؤں گا تو لوگ کہتے چونکہ لوگوں میں تعلیم پھیلتی جاتی ہے اور لوگ جن کو حقیر سمجھتے تھے.ان کو اپنی ذلت کا احساس ہو گیا ہے.اس لئے ان کا اپنی ترقی کے لئے کسی کو راہ نما بنا لینا ضروری تھا اور انہوں نے بنا لیا.وہ پہلے سمجھتے تھے کہ ہمارا یہی حق ہے کہ ہم دوسروں کی خدمت کریں اور خدا نے ہمیں اسی لئے پیدا کیا ہے لیکن اب وہ زمانہ آگیا ہے کہ ان کی بھی آنکھیں کھل گئی ہیں اور ان کے پر دے بھی دور ہو گئے ہیں اب انہوں نے دیکھ لیا ہے کہ غلامی اسی کے لئے ہے جو خود غلام بنا رہنا چاہتا ہے اور آزادی اس سے دور نہیں جو آزادی کے لئے ہاتھ بڑھاتا ہے.ایسے وقت میں اگر کوئی کھڑا ہو جائے اور ان لوگوں کو کہے کہ میں تمہیں آزاد کرانے آیا ہوں تو ان کا اس کے ساتھ مل جانا کوئی تعجب کی بات نہیں.تو ملک بھی ایسے پائے جاتے ہیں جن کے لوگوں پر ظلم ہو رہے ہیں یا وہ سمجھتے ہیں ظلم کیا جا رہا ہے اور وہ آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں.پھر ایسی قومیں بھی ہیں جو گری ہوئی ہیں یا دوسرے لوگ انہیں گرا رہے ہیں.وہ منتظر ہیں کہ کوئی ان کے لئے آئے اور انہیں آزاد کرائے.پس اگر یہ ہو تا کہ فلاں ملک یا فلاں قوم مان لے گی تو کہتے اس نے دیکھا اس ملک یا قوم کی ایسی حالت ہے کہ وہ کسی راہ نما کی منتظر ہے.اس لئے کہہ دیا کہ ایسا ہو گا.مگر یہ نہیں کہا گیا کہ ہندوستان میں تیری تبلیغ کو پہنچاؤں گا.نہ یہ کہا گیا کہ ادنی اقوام میں تیری تبلیغ کو پہنچاؤں گا.بلکہ یہ کہا گیا کہ ”میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا یعنی تیری تبلیغ مسلمانوں میں جائے گی اور ان پر اثر کرتی ہوئی آگے نکل جائے گی.پھر عیسائیوں میں جائے گی اور ان پر اثر کرتی ہوئی آگے نکل جائے گی.پھر یہودیوں میں جائے گی اور ان پر اثر کرتی ہوئی آگے نکل جائے گی.پھر ہندوؤں میں جائے گی اور آگے نکل جائے گی.یہاں تک کہ زمین کا کوئی گوشہ اور کوئی کنارہ ایسا نہ ہو گا جہاں تبلیغ نہ پہنچے گی.پس یہ نہیں فرمایا کہ تیری تبلیغ ہندوستان میں پہنچے گی بلکہ یہ کہا کہ زمین کے کناروں تک پہنچے گی.ہندوستان، افغانستان، عرب، مصر، چین، جاپان، یورپ امریکہ غرضکہ کوئی جگہ نہ رہے گی جہاں نہ پہنچے گی.اب دنیا کے کنارے خواہ مذہبی لحاظ سے لے لو.یا زمین کے پھیلاؤ کے لحاظ سے لے لو.اس میں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں.ان میں سے ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ کسی ہادی کی ضرورت نہیں.ایسی قومیں بھی ہیں جو کہتی ہیں کسی بچانے والے کی ضرورت نہیں ہم خود دنیا کو بچانے والے ہیں.ایسے لوگوں کے متعلق یہ سوچنا اور خیال کرنا کہ ان کو اپنی بات منوائیں گے کسی انسان کی طاقت میں نہیں ہے.وہ مظلوم قومیں جو آزادی کے لئے ہاتھ پھیلا رہی ہوں وہ محکوم ملک جو آزادی کے لئے کوشش کر رہے ہوں وہ تو ہر ایک شخص کی بات مان سکتے ہیں جو ان کو آزادی دلانے اور ترقی کرانے کے لئے کھڑا ہو کیونکہ ان کی حالت اس بیمار کی سی ہوتی ہے جس کے معالج
120 علاج کرتے کرتے تھک جاتے ہیں اور وہ صحت یاب نہیں ہوتا.ایسی صورت میں وہ کہتے ہیں چلو ٹونے ٹوٹکے ہی کر دیکھو.اس وقت کوئی ایسی بڑھیا جو اتنا بھی نہ جانتی ہو کہ طب کا لفظ ط اور ب کے ساتھ لکھا جاتا ہے.جسے یہ بھی معلوم نہ ہو کہ دل کہاں ہوتا ہے اور جگر کہا.وہ سل یا اور اسی قسم کی خطرناک بیماری (جس کا پتہ لگانا ڈاکٹروں کے لئے بھی بہت مشکل ہوتا ہے) کے متعلق کہتی ہے کہ یہ دوا دو تو وہی دے دیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں بیمار مرتو یوں بھی رہا ہے اگر یہ دوائی مفید نہ ہوئی تو اس سے زیادہ اور کیا ہو جائے گا چلو یہ بھی دے دو.شاید اسی سے اچھا ہو جائے.ورنہ موت سے بڑھ کر تو یہ دوائی کچھ نہ کرے گی اور موت پہلے ہی نظر آرہی ہے.اس طرح وہ قوم جو ذلت اور رسوائی کے گڑھے میں گری ہوئی ہو یا سمجھتی ہو کہ گری ہوئی ہے.اس کے پاس جب کوئی ایسا شخص جاتا ہے جو اسے اٹھانے کا دم بھرتا ہے تو خواہ وہ کیسی ہی نادانی کی بات کے وہ قوم یہی کہتی ہے کہ مرتو ہم پہلے ہی رہے ہیں آؤ اس کی بات بھی مان لیں.اس طرح وہ ملک جو تباہی اور ہلاکت میں پڑا ہو وہ بھی سمجھتا ہے کہ تباہ تو ہم پہلے ہی ہو رہے ہیں آؤ جو کچھ کوئی کہتا ہے اس کی بات بھی مان کر دیکھ لیں.ایسی صورت میں لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ جو کچھ کوئی کہتا ہے وہ عقل کی بات ہے یا نہیں.اور اس پر عمل کرنے سے فائدہ ممکن ہے یا نہیں.بلکہ اس بیمار کی طرح جسے اپنی زندگی کی کوئی امید نہیں رہتی جو کچھ کوئی کہتا ہے اپنی حریت کے لئے مان لیتے ہیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو کچھ کہا گیا وہ کسی انسانی عقل میں نہیں آسکتا تھا کہ وہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کیونکہ مذہب کے لحاظ سے دنیا میں ایسے مذاہب ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم مذہب کی اصل حقیقت کو پاگئے جیسے یورپ کے نئے نئے مذاہب ہیں.ان کا دعویٰ ہے کہ ہم دنیا کو بچائیں گے اور ہمارے ذریعہ ہی مذہب کی اصل غرض پوری ہو سکتی ہے.اور اگر ممالک کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ایسی قومیں بن رہی ہیں جو ترقی کی انتہائی حد کو پہنچی ہوئی ہیں جیسے امریکہ والے.وہ کہتے ہیں نہ صرف ہم ترقی کے انتہائی نقطہ پر پہنچ چکے ہیں بلکہ ہم دنیا کو بھی انتہائی درجہ پر لے جائیں گے حتی کہ وہ کہتے ہیں آئندہ نئی قسم کا انسان.امریکہ سے ہی پیدا ہو گا.اور اس کے لئے انہوں نے علاقہ بھی مقرر کر دیا ہے.جو کیلفورنیا ہے.کہتے ہیں اس علاقہ کے لوگوں کا دماغ بہت ہی اعلیٰ ہے اور ان کی نسلیں ان سے بڑھ کر ہوں گی اور ان کی نسلیں ان سے بڑھ کر حتی کہ ایک نئی قسم کا انسان پیدا ہو جائے گا جو موجودہ انسانوں سے مختلف اور نہایت مکمل ہو گا.تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اتنا عروج حاصل کر لیا ہے کہ کوئی طاقت ہمیں ہلاک کر ہی نہیں سکتی.اور وہ یہ نہیں کہتے کہ ہمیں انسانی مصائب کے دور کرنے کا طریق معلوم نہیں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ہی دنیا کے مصائب دور کریں گے.مگر دیکھو خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود کو کہتا ہے کہ وہ بھی تجھے مانیں گے.
121 یہ الہام کتنا چھوٹا سا فقرہ ہے اور کس وقت کہا گیا ہے.اس وقت جبکہ زمین کے کنارے تو الگ رہے اس ضلع کے لوگ بھی آپ کو نہیں جانتے تھے.پھر جب آپ نے دعوی کیا تو وہ دعویٰ کیا کہ ساری دنیا مخالف ہو گئی.عیسائی، ہندو، سکھ، یہودی مسلمان، نئے تعلیم یافتہ یا پرانے علوم کے ماہر سب خلاف ہو گئے اور کوئی قوم ایسی نہیں کہ جس کے خلاف آپ کے دعوئی میں کوئی بات نہیں پائی جاتی.غر منکہ کوئی مذہب کوئی قوم اور کسی خیال کے لوگ نہیں جن پر آپ کے دعوئی سے زد نہیں پڑتی.یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا مخالف ہو گئی.اس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ یہ الہام پورا ہو گا.اس وقت تو اگر کوئی کچھ کہہ سکتا تھا تو یہ کہ اچھا ہوا.ادھر تو دعوی کیا اور ادھر سر منڈاتے اولے پڑنے شروع ہو گئے.اور یہ جھوٹ کی سزا ملی کہ ہر طرف سے مخالفت شروع ہو گئی ہے.چونکہ بڑا بول تھا.اس لئے جھٹ سزا مل گئی.مگر نتیجہ کیا ہوا؟ یہ کہ آپ کے خلاف آندھی پر آندھی آئی.اور اس زور شور کے ساتھ آئی کہ دیکھنے والوں نے آنکھیں بند کرلیں اور خیال کیا کہ سب کچھ اڑا کر لے جائے گی.لیکن جب انہوں نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ احمدیت کا پودا پہلے سے بھی زیادہ مضبوط اور سرسبز ہو گیا تھا.اگرچہ ابھی وہ زمانہ نہیں آیا کہ اس الہام کی پوری حقیقت ظاہر ہو اور یہ اپنی اصل شان میں پورا ہو.مگر یہ تو سب نے دیکھ لیا کہ ہر ملک میں احمدیت کے بیج بو دئے گئے ہیں اور زمین کے کناروں تک احمدیت پہنچ چکی ہے.دیکھو ہندوستان سے یہ پودا چلا اور دیکھنے والوں نے دیکھا اور آنکھوں والوں نے پہچانا کہ امریکہ تک پہنچ گیا.دشمن یہ کہے تو کہے کہ میں احمدیت کو نہیں مانتا مگر اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا یہ بات پوری نہیں ہوئی.کیونکہ وہ صداقت اور نور جو قادیان سے نکلا مختلف ممالک میں پھیل گیا اور پھیل رہا ہے.یہ اتنا بڑا عظیم الشان نشان ہے کہ اس پر نظر کر کے جس قدر بھی لذت اور سرور آئے تھوڑا ہے.اس چھوٹے سے فقرے نے میرے سامنے اگر عجیب کیفیت پیدا کر دی اور میری آنکھوں کے سامنے وہ سارا نقشہ آگیا کہ کس حالت میں یہ کہا گیا اور پھر کس طرح پورا ہوا.مگر میں اپنی جماعت سے کہتا ہوں جو الہام خدا تعالٰی کی طرف سے نازل ہوتا ہے اس کا بوجھ بندوں پر بھی رکھا جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلیمہ کذاب اور اسود عنسی کے متعلق جو رویا دیکھی تھی، اس کو صحابہ نے ہی پورا کیا تھا.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تھا کہ قیصر و کسری کے خزانہ کی کنجیاں آپ کو دی گئی ہیں.کیا ان بادشاہوں نے خود ہی بھیج دی تھیں یا کوئی فرشتہ آیا تھا جس نے لا رکھی تھیں.ایسا نہیں ہوا.پھر کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے ہاتھ میں یونسی آگئیں.نہیں بلکہ ہزاروں مسلمانوں نے گھروں سے بے وطن ہو کو جب کئی میدانوں کو اپنے خون.
122 سے رنگ دیا.تب ہاتھ آئیں.پس بے شک وہ خدا تعالی کی طرف سے بات تھی اور اس نے ضرور پورا ہونا تھا.مگر اس کے پورا ہونے کا ذریعہ انسانوں کو ہی بنایا گیا.اسی طرح حضرت مسیح موعود کا جو یہ الہام ہے کہ ”میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا یہ تبلیغ بھی انسانوں کے ذریعہ ہی زمین کے کناروں تک پہنچے گی.اور جب تک ہماری جماعت اسی ایثار اور قربانی کو کام میں نہ لائے گی جو صحابہ نے دکھائی اور اسی طرح اپنی جانوں اور مالوں کو خدا کی راہ میں نہ لگا دے گی اس وقت تک پوری شان کے ساتھ یہ پیشگوئی بھی پوری نہ ہوگی.کامل طور پر یہ پیشگوئی تبھی پوری ہوگی جب کامل قربانیاں کی جائیں گی.پس میں اپنی جماعت سے کہتا ہوں کہ چونکہ تم نے اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے آثار دیکھ لئے اور تمہیں یقین ہو گیا ہے کہ یہ ضرور پوری ہوگی.اس لئے تم یہ بھی سمجھ سکتے ہو کہ اس کے لئے کتنی قربانی کرنی چاہئیے.جب تک شبہ ہو کہ قربانی کا نتیجہ نکلے گا یا نہیں اس وقت تک اگر انسان قربانی کرنے سے ہچکچاتا ہے تو اور بات ہے مگر تم نے دیکھ لیا کہ تمہاری قربانی ضرور پھل لائے گی.ایسی صورت میں اگر تم سنتی دکھاؤ.تو تم پر بہت بڑا الزام عائد ہو گا.پس چاہیے کہ ہماری جماعت اس پیشگوئی کو مکمل طور پر پورا کرنے کے لئے پوری کوشش سے کام لے.خدا تعالٰی نے کسی حد تک اس کو پورا کر کے بتا دیا ہے کہ ضرور پوری ہوگی.اس لئے اگر تم کو شش کرنے میں پیچھے رہے تو بہت بڑے الزام کے نیچے آؤ گے.پس ہماری جماعت کا ہر ایک چھوٹا بڑا ، مرد، عورت، امیر غریب اس امر کے لئے کھڑا ہو جائے کہ اس پیشگوئی کو پورا کرے.تاہم اس کو پورا ہوتا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اور فخر کریں اور جائز طور پر فخر کریں کہ خدا تعالی نے اس الہام کو ہمارے ہاتھ پر پورا کیا ہے.الفضل ۶ جولائی ۱۹۲۳ء)...
123 23 کارکنان جماعت قابلیت اور تجربہ حاصل کریں (فرموده ۶ / جولائی ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.میں نے ایک پچھلے جمعہ اس امر کے متعلق خطبہ پڑھا تھا کہ ہر ایک دینی امر کے ساتھ کچھ دنیوی امور بھی لگے ہوتے ہیں اور اگر کسی دینی امر میں انسان کامیاب ہونا چاہے تو ان پہلوؤں کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے جو گو دنیاوی ہوتے ہیں مگر اس دینی امر سے وابستہ ہوتے ہیں.مثلاً میں نے بتایا تھا نماز در حقیقت دینی امر ہے اور خدا تعالیٰ سے تعلق اور قرب حاصل ہونے میں اس بات کا کوئی تعلق نہیں ہے کہ کبھی انسان اٹھتا ہے کبھی بیٹھتا ہے.نماز کا تعلق انسان کے قلب اور دل سے ہے.دل میں اگر خدا تعالیٰ کی محبت ہے تو خدا کا قرب حاصل ہو گا.اور اگر دل میں محبت نہیں تو ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونے سے نہیں حاصل ہو جائے گا.مگر میں نے بتایا تھا باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ کے قرب کا تعلق قلب سے ہے مگر جس محبت کو قلب سے تعلق ہے وہ پیدا نہیں ہو سکتی جب تک اس کی ظاہری علامات نہ ہوں کیونکہ انسان کی فطرت ایسی بنائی گئی ہے کہ اس کی توجہ ایک طرف قائم کرنے اور اس کی طبیعت کے انتشار کو روکنے کے لئے ظاہری علامات کا ہونا ضروری ہے.بے شک یہ اصل مقصود نہیں ہیں لیکن اگر یہ نہ ہوں تو اصل مقصود بھی حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ اس کے لئے بطور چھلکا ہیں.اور اگر چھلکا نہ ہو تو مغز بھی نہیں رہ سکتا.دیکھو پیاس کے لئے پانی کی ضرورت ہے مگر پانی رہ نہیں سکتا جب تک برتن نہ ہو.اگر ایک شخص کسی دوست یا ملازم کو کہے کہ پانی لاؤ اور وہ برتن مانگے تو کیا اسے یہ کہا جائے گا کہ مجھے برتن کی ضرورت نہیں.پانی کی ضرورت ہے.بے شک برتن کی ضرورت نہیں.پانی کی ہے.لیکن پانی بغیر برتن کے آنہیں سکتا.اسی طرح عبادت قلبی ہوتی ہے.مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ ایسے ظاہری سامان ہوں کہ انسان کی پراگندگی خیالات دور ہو اور ایسے طریق سے انسان خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے کھڑا ہو کہ جو دنیا میں ادب کے لئے استعمال ہوتے ہیں تاکہ اس کے دل میں ادب پیدا ہو.پھر میں نے اپنی جماعت کے لوگوں کو یہ نصیحت کی تھی کہ دینی ترقی کے لئے یہ بھی ضروری ہے
124 کہ وہ قوم جو دین کے لئے کھڑی ہو.وہ اپنے اموال بھی خرچ کرے.چندے دینا دنیاوی کام ہے مگر بغیر اس کے اشاعت اسلام ہو نہیں سکتی اس لئے میں نے نصیحت کی تھی کہ کارکن یہاں کے بھی اور باہر کے بھی کوشش کریں کہ لوگوں کو جگاتے رہیں تاکہ وہ چندے دینے میں سستی نہ کریں.آج میں ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس میں خصوصیت سے قادیان والے اور پھر باہر کے کارکن بھی مخاطب ہیں.میں نے بار ہا بتایا ہے کہ خالی اخلاص کسی کام کا نہیں ہو تا.بہت لوگ اس دھو کہ میں پڑے ہوتے ہیں کہ ہمارے دل میں اخلاص اور محبت ہے یہی کافی ہے.وہ اسی دھوکہ میں دنیا سے گذر جاتے ہیں اور دین کی کوئی خدمت نہیں کر سکتے.اخلاص اس وقت تک کام نہیں دے سکتا جب تک کہ جس کے متعلق ہو اس کے لئے ظاہری سامان بھی نہ کئے جائیں.مثلاً ماں کو بچہ سے محبت ہوتی ہے.مگر کیا اس محبت سے بچہ بیماری سے بچ سکتا ہے.نہیں جب تک دوا نہ استعمال کی جائے گی صحت نہ ہوگی.اسی طرح اگر بچے کو پھوڑا نکل آئے تو کیا ماں کی محبت سے اچھا ہو جائے گا یا ڈاکٹر کی محبت سے.نہ ماں کی محبت سے اچھا ہوگا نہ ڈاکٹر کی محبت سے.اگر اچھا ہوگا تو اسی طرح کہ اس محبت سے مجبور ہو کر جو علاج خدا نے برکھا ہے اس کو استعمال کریں لیکن اگر علاج نہ کریں گے تو نہیں بچا سکیں گے.میں نے یہ واقعہ کئی دفعہ سنایا ہے کہ لاہور سے روانہ ہوا اور ایسا اتفاق ہوا کہ جس گاڑی میں بیٹھا اس میں پیر جماعت علی صاحب علی پوری بیٹھے تھے اور مجھے گاڑی پر سوار ہونے سے پہلے ہی معلوم ہو گیا تھا کہ دوسرا مسافر کون ہے.اس میں تین بیچ تھے.ایک پر وہ بیٹھے تھے.درمیان کا خالی تھا اور تیسرے پر میں بیٹھ گیا.اسٹیشن پر ان کے مریدوں نے انہیں کیا کیا کھانے کے لئے کچھ لائیں تو انہوں نے کہا کہ مجھے بالکل بھوک نہیں.امرتسر ہی جا کر کچھ کھاؤں گا.لیکن جب گاڑی روانہ ہوئی تو یا ہر سر نکال کر سرونٹ کے کمرہ میں جو ساتھ ہی تھا اپنے نوکر سے کہا کچھ کھانے کو ہے تو لاؤ.سخت بھوک لگی ہوئی ہے.اس پر مجھے تعجب آیا کہ جب ایسی سخت بھوک لگی ہوئی تھی تو مریدوں کے سامنے انکار کرنے کی کیا ضرورت تھی مگر کوئی حکمت ہوگی.نوکر نے کہا کھانے کو تو کچھ نہیں.میاں میرا اتر کر کوئی چائے وغیرہ کا انتظام کروں گا.کہنے لگے تمہارے پاس میوہ تھا کہاں گیا.اس نے کہا.ہے.کہا لاؤ وہی دے دو.اس نے دے دیا اور لیکر اپنی جگہ پر آبیٹھے اس سے پہلے وہ مجھ سے پوچھ چکے تھے کہ کہاں جانا ہے.میں نے کہا بٹالہ.کہنے لگا خاص بٹالہ یا کسی گاؤں میں.میں نے کہا قادیان جاؤں گا.کہنے لگے کیا وہیں کے رہنے والے ہو یا باہر کے.میں نے کہا وہیں کا رہنے والا ہوں.کہنے لگے کیا مرزا صاحب سے آپ کا رشتہ ہے.میں نے کہاں میں
125 ان کا بیٹا ہوں.یہ سن کر انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اور کہا مجھے آپ سے ملاقات کرنے کا بڑا شوق تھا.بعد میں معلوم ہوا انہیں شوق تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا ایک احمدی سے مقدمہ تھا جس کے لئے سفارش کرانا چاہتے تھے.وہ میرے پاس میوہ لے آئے اور کہا کھائیں.میری طبیعت تو یوں بھی متنفر تھی کیونکہ ایک دفعہ حضرت صاحب سیالکوٹ گئے.تو ان پیر صاحب نے فتویٰ دیا تھا کہ جو ان کے لیکچر میں جائے گا.وہ کافر ہو جائے گا اور اس کی بیوی کو طلاق ہو جائے گی.مگر خدا نے ایک وجہ بھی بنادی کہ مجھے نزلہ تھا اور وہ ترشی والی چیزیں تھیں جو میں کھا نہیں سکتا تھا.میں نے معذوری ظاہر کی.اس پر انہوں نے سمجھا پیری دکھانے کا یہی وقت ہے.کہنے لگے کہ آپ بھی ایسی باتیں کرتے ہیں جو خدا چاہتا ہے وہی ہوتا ہے.نزلہ کیا ہے.میں نے سمجھا لمبی بحث کرنے کا تو یہ موقع نہیں اور نہ اس کا کوئی فائدہ ہوگا مختصر جواب دینا چاہئیے.میں نے کہا اگر آپ یہ بات پہلے جاتے تو پیسے بچ جاتے.کہنے لگے کس طرح.میں نے کہا ٹکٹ نہ لیتے.اگر آپ کو خدا نے امرتسر پہنچانا ہوتا اور مجھے بٹالے تو خود پہنچا دیتا.کہنے لگے اسباب بھی تو ضروری ہیں.میں نے کہا یہی اسباب مجھے بھی مد نظر ہیں.تو بعض لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ کوئی کام جس طرح خدا نے کرنا ہوتا ہے اس طرح ہو جاتا ہے انسانی کوشش کا اس میں کوئی دخل نہیں ہو تا مگر یہ غلط ہے.کبھی کوئی دینی یا دنیوی کام نہیں ہو سکتا جب تک انسان ان تدابیر پر عمل نہ کرے جو خدا نے مقرر کی ہیں.تقدیر یہ نہیں ہوتی کہ یہ کام ہو جائے بلکہ یہ ہوتی ہے کہ اس طرح کرو گے تو یہ کام ہو گا.اور نہ کرو گے تو نہ ہو گا.کہتے ہیں کسی بزرگ کے پاس ایک شخص گیا اور کہا دعا کریں میرے گھر اولاد ہو.انہوں نے کہا ہاں دعا کریں گے.وہ چل پڑا اور جدھر سے آیا تھا ادھر نہیں بلکہ دوسری طرف.انہوں نے پوچھا کدھر جارہے ہو.اس نے کہا میں چھ سال کے بعد ملازمت سے آیا تھا اب پھر جا رہا ہوں.انہوں نے کہا.تم تو بیوی کو چھوڑ کر نوکری پر جارہے ہو میری دعائیں کیا کریں گی.جب تک میاں بیوی کے تعلقات نہ ہوں اولاد کیونکر دعا کے ذریعہ پیدا ہو جائے.تو یہ غلط خیال ہے کہ جو خدا کی مرضی ہو گی وہ ہو جائے گا ہمیں کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے.یہ دینی باتوں میں بھی غلط ہے اور دنیوی میں بھی.یہ اور بات ہے کہ وہ کام ہو جائے گا مگر یہ ضروری نہیں کہ تمہارے ہی ہاتھوں ہو جبکہ تم ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھے رہو.ہو سکتا ہے کہ ان طریق اور تدابیر پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے جو خدا نے اس کام کے ہونے کے لئے رکھی ہیں خدا تم کو ہلاک کر کے اور قوم کو کھڑا کر دے اور اس کے ذریعہ کام ہو.پس خوب یاد رکھو کہ کوئی تقدیر ایسی نہیں کہ فلاں کام ضرور ہو جائے گا چاہے کوئی اسے کرے یا نہ کرے.
126 ہماری جماعت میں میں دیکھتا ہوں بہت لوگ اخلاص سے کام کرنے والے ہیں مگر افسوس کہ کئی ایسے ہیں جو کام کا تجربہ نہیں رکھتے.اور زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ تجربہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے.وہ یہی سمجھتے ہیں کہ صرف اخلاص کافی ہے.مثلا کسی صیغہ کا افسر یا ہیڈ کلرک یا مدرسہ کا ہیڈ ماسٹریا قاضی یا مولوی جو کام پر مقرر کیا جاتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ میرے جوش سے کام ہو جائے گا حالانکہ خالی جوش سے یہ تو ممکن ہے کہ نقصان ہو جائے مگر کامیابی نہیں ہو سکتی.کہتے ہیں کسی نے ریچھ پالا ہوا تھا.اس کی ماں بیمار تھی.وہ کسی کام کو باہر گیا اور ریچھ کو بتا گیا کہ مکھیاں اڑاتا رہے.ریچھ نے کچھ دیر تو یہ کام کیا لیکن جب دیکھا کہ ایک مکھی بار بار بیٹھتی ہے تو بڑا پتھر اٹھا کر دے مارا جس سے بیچاری وہ عورت بھی مرگئی.تو خالی اخلاص بعض اوقات مہلک ہو جاتا ہے.میں جب بیماری کی وجہ سے بمبئی گیا تو ہماری چھوٹی لڑکی جو بیمار تھی اسے ایک عورت سمندر کے کنارے کھلانے کے لئے لے گئی.وہاں اسے پیاس لگی تو اس نے سمندر کا پانی پلا دیا جس سے وہ فوت ہو گئی.اس نے تو اپنی طرف سے اخلاص سے ہی کام کیا مگر وہ مفید نہ ہوا.تو بہت لوگ ایسے ہیں جو صرف اخلاص کو کافی سمجھتے ہیں اور کام کرنے کی قابلیت نہیں پیدا کرتے.اس وجہ سے بہت سے کام ادھورے اور ناقص رہ جاتے ہیں.حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ کام اگر کسی ہندو یا اور کسی مذہب کے آدمی کے سپرد کیا جائے تو اچھی طرح چلے کیونکہ وہ تجربہ سے اور سوچ سمجھ کر احتیاط سے کرے گا.پس اگر کوئی شخص اپنے متعلقہ کام کو عمدگی سے نہیں کرتا اور اپنی نا تجربہ کاری سے سلسلہ کو نقصان پہنچاتا ہے تو وہ محض اپنے اخلاص سے اس کی سزا سے نہیں بچ سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ اس سے یہ بھی تو پوچھے گا کہ کیا تمہارا اخلاص یہ نہ چاہتا تھا کہ تجربہ حاصل کرو اور کام کو عمدہ سے عمدہ طریق سے کرو.تو جس کو سچا اخلاص ہو گا وہ کام سیکھنے اور تجربہ حاصل کرنے کی کوشش بھی کرے گا کہ اخلاص کا یہی تقاضا ہے.دیکھا گیا ہے کہ جاہل لوگ جو حکیموں سے نسخہ لکھاتے ہیں وہ اوروں سے پڑھا کر پوچھتے ہیں کہ کیا اس میں کوئی چیز خراب یا نقصان رساں تو نہیں.اس طرح کیوں کرتے ہیں اس لئے کہ جس کے لئے نسخہ لکھاتے ہیں اس سے انہیں کچی محبت ہوتی ہے اور یہ محبت کا ہی تقاضا ہوتا ہے کہ وہ احتیاط کرتے ہیں.جس شخص کے سپرد کوئی دینی کام کیا جاتا ہے.اس کی بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے اور ذاتی کام سے زیادہ ذمہ داری ہوتی ہے اس لئے اس کا فرض ہے کہ وہ ذاتی کام سے زیادہ احتیاط دینی کام کرنے میں صرف کرے.ہر وقت لگے رہنے سے کوئی کام نہیں ہو جاتا جب تک کام کرنے کے طریق سے کام نہ کیا جائے.اگر اندھا دھند لگے رہنے سے کام ہو سکتا ہو تو چپڑاسی مقرر کر دینے کافی ہوں.لیکن جب تعلیم یافتہ اور سمجھ دار انسان کسی کام پر لگایا جاتا ہے تو اس سے امید کی جاتی ہے کہ وہ کام کو
127 سمجھے گا.اور اخلاص سے کام کرے گا.لیکن اگر کوئی شخص اپنے کام کو سمجھتا نہیں اور دن رات دفتر میں بیٹھا رہتا ہے تو وہ اپنے فرض سے سبک دوش نہیں ہو سکتا بلکہ خدا اس سے پوچھے گا کہ تم نے کیا کام کیا.جس طرح ایک الٹا لٹکنے والا.سورج کے سامنے منہ کر کے کھڑا رہنے والا.سردی کے موسم میں پانی میں کھڑا رہنے والا اس وجہ سے قطعا نہیں بخشا جائے گا کہ اس نے زیادہ مشقت اٹھائی ہے اسی طرح وہ شخص جو مشقت تو زیادہ اٹھاتا ہے مگر کام کچھ نہیں کرتا وہ بھی گرفت سے نہیں بچ سکے گا.پس اگر کوئی بزعم خود اخلاص اور دیانت داری سے کام کرتا ہے مگر اخلاص اور دیانت داری کے معنے اس کے نزدیک زیادہ وقت خرچ کرنے کے ہیں تو وہ خدا کے حضور سبکدوش نہیں ہو سکتا.سبکدوش سبھی ہوگا کہ جو ذرائع اور طریق خدا تعالیٰ نے اس کام کے لئے رکھے ہیں.ان سب کو استعمال میں لانے کی کوشش کرے.اگر ایک انگریز ملازم یا اگر ایک ہندو ملازم اس کام کو زیادہ عمدگی کے ساتھ کرتا ہے.تو اس کے یہی معنے ہیں کہ جو بات عقل سے حاصل ہو سکتی تھی وہ اسلام کے لئے حاصل نہ کی گئی اور اس وجہ سے اسلام کو نہ صرف کوئی فائدہ نہ پہنچایا بلکہ الٹا نقصان کا موجب بنا.دیانت داری یہی نہیں کہ روپے میں خورد برد نہ کی جائے.بہت لوگ اسی کو دیانت داری سمجھتے ہیں اور کسی سے سات آٹھ گھنٹے کام کرنے کی امید کی جاتی ہے.مگر وہ تین چار گھنٹے کام کرتا ہے تو اس کو بددیانتی نہیں کہیں گے بلکہ اس کو غفلت سمجھ لیں گے.حالانکہ وہ ایسا ہی خائن ہے جیسا کہ سو میں سے دس روپے چرانے والا.لیکن اگر کسی کے پاس سو روپیہ رکھا جائے اور وہ اس میں سے دس کھا جائے تو اسے خائن کہیں گے.لیکن اگر سات گھنٹے کام کرنا ہے اور چھ گھنٹے کرتا ہے تو اسے خائن نہیں قرار دیا جائے گا اور اگر دوسری باتوں میں اچھا ہے تو اسے ولی اللہ سمجھا جائے گا حالانکہ دونوں ایک ہی جیسے مجرم ہیں بلکہ وقت میں خیانت کرنے والا زیادہ کیونکہ روپیہ کا نقصان تو اتنا ہی ہوتا ہے جتنا روپیہ ہوتا ہے.لیکن وقت کے نقصان کا اثر آئندہ پر پڑتا ہے.پھر اگر کہا جائے کہ فلاں وقت پر حاضر نہیں ہوتا یا وقت سے قبل چلا جاتا ہے تو اس کو برا کہیں گے لیکن جن سے امید کی جاتی ہے کہ کام سیکھ کر کام کریں گے وہ اگر ایسا نہ کریں تو اپنے آپ کو دیانت دار سمجھیں گے.سات کی بجائے ساڑھے چھ گھنٹے کام کرنے والے کو تو خائن کہیں گے.حالانکہ اگر وہ اپنے کام کو سمجھ کر کرتا ہے تو گو وہ بھی خائن ہے مگر وہ جو کام تو سات گھنٹے کرتا ہے.مگر سمجھ کر نہیں کرتا.اس سے زیادہ خائن ہے کہ پہلے نے تو آدھ گھنٹہ کھایا.مگر اس نے سات کے سات گھنٹے ہی کھالئے.بات یہ ہے کہ جب تک امانت کا صحیح مفہوم نہ سمجھا جائے یہ نقص دور نہیں سکتا اور افسوس ہے کہ یہاں کئی ایک لوگ نہیں سمجھتے.اسی طرح یہ بھی ایک نقص ہے کہ آنریری کام کرنے والے کام کرنے کی ذمہ داری کو نہیں سمجھتے.حالانکہ جب کسی نے اقرار کر لیا کہ ہو
128 میں فلاں کام کروں گا اور وہ کرتا نہیں تو وہ ایسا ہی مجرم اور خائن ہے جیسا تنخواہ لیکر کام نہ کرنے والا کیونکہ اس کے کام نہ کرنے سے بھی سلسلہ کو ایسا ہی نقصان پہنچے گا جیسا تنخواہ لیکر نہ کرنے والے ہے.اور یہ ایسی بات ہوگی جیسے اگر کوئی شخص بیمار ہو.جس کا ایک نوکر ہو.اگر نوکر وقت پر اسے دوائی لا کر نہ دے گا تو بیمار کو نقصان پہنچے گا.لیکن اگر کوئی محبت سے اس کی تیمارداری کرنے لگے اور وہ دوائی لا کر نہ دے تو کیا اس کا اثر نہ ہوگا.ہوگا.پس اگر آنریری کام کرنے والا جب دوسروں کو اس کام کے کرنے سے روک دیتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ خود کام کرے نہ کہ نقصان پہنچائے.اگر وہ کام کرنے کا اقرار نہ کرتا تو کوئی اور اس کام کو کر لیتا.مگر اس نے اقرار کر کے پھر کام خراب کیا.پس جو لوگ تنخواہیں نہیں لیتے.ان کا بھی اسی طرح فرض ہے جس طرح تنخواہ لینے والوں کا.اگر وہ کام کو عمدگی کے ساتھ اور پوری کوشش سے نہیں کرتے تو وہ بھی خائن ہیں.اسی طرح جو شخص روپیہ احتیاط سے خرچ نہیں کرتا وہ بھی خائن ہے.جو وقت پورا نہیں دیتا وہ بھی خائن ہے.اور وہ جس کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ کوشش سے کام سیکھ کر کام چلائے گا مگر وہ اس طرح نہیں کرتا کام کی مالہ وما علیہ سے واقفیت پیدا نہیں کرتا وہ بھی خائن ہے.اور یاد رہے کہ خیانت اور ایمان ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے.وہی مومن ہے جو امین ہے اور جو امین نہیں وہ مومن نہیں.پس میں خصوصیت سے یہاں کے لوگوں کو اور باہر کے سیکرٹریوں اور امیروں کو توجہ دلاتا ہوں که آنریری طور پر کسی کام کا ذمہ لینے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کام کا کرنا فرض نہیں ہوتا.اگر آنریری کام کرنے والے اپنے کام میں کو تاہی کرتے ہیں تو ویسے ہی خائن ہیں جیسے تنخواہ لیکر کام میں خیانت کرنے والے.خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو خیانت اور دیانت کا اصل مفہوم سمجھائے.اور ہماری جماعت دینی امور میں ہی نہیں بلکہ دنیوی امور میں بھی سب لوگوں سے بڑھی ہوئی ہو تاکہ جو کام اس کے سپرد ہوں.ان کو عمدگی سے کرے.نماز جمعہ کے بعد ایک جنازہ پڑھا جائے گا میں نے اعلان کیا ہوا ہے کہ اگر کوئی احمدی ایسی جگہ فوت ہو جائے جہاں احمدی نہ ہوں یا ایسا شخص جو دین کی خدمت کرنے کی وجہ سے اس بات کا مستحق ہو کہ ساری جماعت اس کا جنازہ پڑھے تو اس کا جنازہ پڑھا جائے گا.نیک محمد خان افغان غزنوی کے والد صاحب کابل میں ایسی جگہ فوت ہوئے ہیں.جہاں اور احمدی نہ تھے.اس لئے ان کا جنازہ پڑھوں گا.الفضل ۱۱۳ جولائی ۱۹۲۳ء)
129 24 حقیقی خیر خواہ خدا ہی ہے (فرموده ۱۳ جولائی ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.دنیا میں خیر خواہ دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک تو ایسے ہوتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ وہ چاہتے ہیں کہ جس سے ہمیں محبت ہے اس کا بھلا ہو لیکن ان کے کاموں سے ہمیشہ اس کو نقصان پہنچتا ہے جس سے ان کو محبت ہوتی ہے.اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے محبوب کی عارضی تکلیف برداشت نہیں کرتے اس وجہ سے وہ اپنے پیاروں کا نقصان ہی کرتے ہیں.اسی وجہ سے لوگوں نے کہا ہے کہ دانا دشمن نادان دوست سے بہتر ہے.کیونکہ دانا دشمن سمجھ کر نقصان پہنچاتا ہے اور اسے اپنی بدنامی کا خطرہ ہوتا ہے لیکن نادان دوست کو کسی احتیاط کا خیال نہیں ہو تا.نہ وہ لوگوں کی ملامت سے ڈرتا ہے اور نہ اسے یہ خیال ہوتا ہے کہ اس کی بدنامی ہوگی یا اسے کوئی نقصان پہنچے گا تو ایسا انسان اپنے پیاروں کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے.دنیا میں ماں باپ اپنی اولاد کے کیسے خیر خواہ ہوتے ہیں لیکن وہ بھی اپنی اولاد کو بگاڑ دیتے ہیں.مثلاً مدرسہ میں اگر استاد نے لڑکے کو مارا ہے تو اس عارضی تکلیف کا خیال کر کے مدرسہ سے اٹھا لیتے ہیں.یہ الگ سوال ہے کہ استاد کا مارنا جائز ہے یا نہیں لیکن وہ بچہ کو مدرسہ سے اٹھا لیتے اور علم سے محروم کر دیتے ہیں مگر دانا والدین ایسا نہیں کرتے.وہ اپنے بچہ کو مدرسہ سے کبھی نہیں اٹھاتے.ہاں وہ مار سے بچانے کے لئے کوئی اور تجویز کرتے ہیں.اسی طرح بعض ماں باپ اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ ان کے بچے کم سوئیں یا انکو کھانے پینے کی کوئی تکلیف ہو.اور مسلمان کہلانے والے والدین تو اپنے بچوں کو نماز کے لئے بھی نہیں اٹھاتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مست اور غافل اور پست ہمت ہو جاتے ہیں.ان کے اندر جفا کشی پیدا نہیں ہوتی.اسی طرح بعض ماں باپ چاہتے ہیں کہ بچے اچھا کھائیں.اس پر جب وہ چوری کرتے ہیں تو انہیں روکتے نہیں اور وہ بڑے ہو کر چور اور بد اخلاق ہو جاتے ہیں.تو والدین جو محبت کی وجہ سے بچے کو کچھ نہیں کہتے اس کا الٹا نقصان ہوتا ہے کیونکہ وہی بچے بڑے ہو کر اپنے والدین
130 کو بددعائیں دیتے ہیں کہ ہمارے ماں باپ نے ہمیں علم نہ سکھایا نہ ہمارے اخلاق کا خیال رکھا نہ چال چلن کا خیال کیا.لیکن ایک ماں باپ ایسے ہوتے ہیں جو بچوں کی ہر بات کی خبر گیری کرتے ہیں.وہ ان کے جرموں پر پردہ پوشی نہیں کرتے بلکہ بعض دفعہ سزا بھی دیتے ہیں اور ان کو محنت کش بناتے ہیں.وہ نتیجہ کے لحاظ سے خیر خواہ ہوتے ہیں.دیکھنے والے کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بچہ سے محبت نہیں رکھتے.حالانکہ حقیقی خیر خواہ وہی ہوتے ہیں.وہ بد خواہ ماں باپ کی طرح نہیں ہوتے.بچوں کی نگہداشت اور ان کی درستی ہی اصلی خیر خواہی ہوتی ہے اور نتیجہ کے لحاظ سے بھی یہی اصل خیر خواہی ہے.تو دو قسم کے خیر خواہ دنیا میں ہوتے ہیں ایک وہ ہوتے ہیں جن کے دل میں حقیقی خیر خواہی ہوتی ہے.اور ایک وہ جو عارضی خیر خواہ تو ہوتے ہیں لیکن در حقیقت وہ بد خواہ ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں کا خیر خواہ ہے اور حقیقی خیر خواہ ہے.وہ نادان والدین کی طرح خیر خواہ نہیں بلکہ وہ حقیقی خیر خواہی کرتا ہے.بعض لوگ کہتے ہیں خدا نے ہماری دعائیں نہیں سنیں.حالانکہ والدین بھی اپنی اولاد کی بعض باتیں نہیں مانتے.مگر انہیں کوئی نہیں کہتا کہ یہ والدین اپنی اولاد کی کوئی بات بھی نہیں مانتے اور انہیں اپنی اولاد سے محبت نہیں.اسی طرح خدا تعالی جو حقیقی خیر خواہ ہے وہ بندوں کی بعض باتیں نہیں مانتا کیونکہ بعض باتوں کا قبول نہ کرنا ہی در حقیقت قبول کرنا ہوتا ہے کیونکہ ان کے نہ قبول کرنے میں فائدہ ہوتا ہے اور قبول کرنے میں نقصان.دعا کی غرض تو فائدہ پہنچنا ہے.پس بعض وقت دعا کے نہ قبول کرنے میں بندہ کا فائدہ ہوتا ہے اور اس وقت دعا کا قبول نہ ہونا اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ خدا اس کا خیر خواہ ہے اور ایسی دعا قبول کرنا یہ جتاتا ہے کہ خدا کو اس کے ساتھ خیر خواہی کا تعلق نہیں.پس جب انسان کسی بری بات کے لئے دعا کرتا ہے تو اس بات کا نہ ہونا دعا کا قبول ہونا ہے.بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان ملازمت کے لئے دعا کرتا ہے لیکن وہ ملازمت اس کے لئے در حقیقت نقصان دہ ہوتی ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ ایک ایسے افسر کے ماتحت ہو جو اسے ملازمت سے علیحدہ کر دے یا بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان مال دار ہو کر دین سے بے پروا ہو جاتا ہے وہ انسان جو جسمانی تکلیف میں خدا کو یاد کرتا ہے اور آرام میں خدا سے غافل ہو جاتا ہے وہ اگر جسمانی تکلیف میں رہ کر خدا کو یاد کرتا ہے تو بہتر ہے اس سے کہ وہ آرام اور راحت میں رہ کر خدا سے بے پروا ہو جائے کیونکہ جسمانی تکلیف تو چند دن کی ہوگی.لیکن اس کے مقابلہ میں ہمیشہ کے لئے اسے راحت ملے گی.تو جس طرح ایک منٹ کا نشتر راحت کا موجب ہوتا ہے اسی طرح ایسی تکالیف بھی راحت کا
131 موجب ہوتی ہیں.تو خدا تعالٰی نادان ماں باپ کی طرح نہیں.بعض دفعہ بچہ کی انتڑیوں میں درد ہوتا ہے جو سل کی ایک قسم ہے.وہ بچہ درد میں مٹھائی مانگتا ہے تو نادان ماں باپ اسے مٹھائی دے دیتے ہیں جو سخت مضر ہوتی ہے.خدا کی نسبت جو عالم الغیب ہے یہ امید رکھنا کہ وہ ہر ایک بات کو مان لیتا ہے یہ بے وقوفی ہے.کیا خدا ہو شیار اور نادان ماں باپ کی طرح بھی نہیں جو اپنے بچوں کی بعض باتیں نہیں مانتے.وہ دیکھتے ہیں کہ ماں باپ بچوں کی بعض باتیں رد کرتے ہیں اور بعض وقت وہ سزا بھی دیتے ہیں لیکن انہیں وہ یہ نہیں کہتے کہ وہ اپنی اولاد کی کبھی بات نہیں مانتے.مگر خدا تعالیٰ کی نسبت وہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ ہر بات کیوں نہیں مانتا.تو خدا جو عالم الغیب ہے وہ کیونکر بندہ کی ہر ایک بات کو مان سکتا ہے؟.خدا تعالیٰ کو اس بات کی کیا پروا ہے کہ وہ بندہ کی ہر بات کو قبول کرے.خواہ وہ نقصان دہ ہی ہو.مگر اس بات کی پر وا وہ ضرور کرتا ہے کہ بندہ کی ایسی بات مان لے جس سے اس کو نقصان پہنچے یا وہ ہلاک ہو جائے.بعض لوگ اس وجہ سے دعاؤں میں سست ہو جاتے ہیں کہ بعض دعائیں ان کی قبول نہیں ہوئیں.وہ والدین کی نسبت تو یہ نہیں کہتے کہ وہ بچہ کی سب باتیں منظور کرتے ہیں لیکن خدا کی نسبت وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ بندوں کی ہر ایک دعا سنتا اور ہر بات منظور کرتا ہے.اور اگر خدا ان کی کوئی دعا رد کر دیتا ہے تو کہدیتے ہیں بس جی خدا ہی کوئی نہیں اگر خدا ہوتا تو ہماری دعا ضرور سنتا.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کا جوش دعا کے لئے ٹھنڈا پڑ جاتا ہے.آئندہ دعا کے لئے ان کے اندر جوش نہیں رہتا اور بعض لوگ تو دہر یہ ہی ہو جاتے ہیں.ایک شخص کے متعلق مجھے ہمیشہ یہ شبہ رہتا تھا کہ کبھی نہ کبھی یہ ٹھوکر کھائے گا کیونکہ اس کا یقین تھا کہ ہر ایک دعا قبول ہوتی ہے.اس لئے مجھے خطرہ تھا کہ جب بھی اس کی کوئی دعا قبول نہ ہوگی ضرور ٹھوکر کھائے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا.تو اس گمان سے ایسی ٹھوکریں بہتوں کو لگ جاتی ہیں.اس لئے ہمیشہ یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ نادان ماں باپ کی طرح نہیں کہ وہ ہر بات کو منظور کرے وہ دانا والدین کی طرح بلکہ ان سے بھی بڑھ کر اور زیادہ حکمت کے ساتھ کام کرتا ہے.پس اس نکتہ کو یاد رکھو تاکہ تم کو دعاؤں کے معاملہ میں کبھی ٹھوکر نہ لگے.الفضل ۱۲ جولائی ۱۹۲۳ء)
132 25 ہمارے مذہب کی امتیازی شان (فرموده ۲۰ / جولائی ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.ایک سوال ہے جو میرے نزدیک ہر مسلمان کے دل میں پیدا ہونا چاہیے اور میں سمجھتا ہوں تمام سمجھ دار لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے گو ظاہر کو دیکھ کر مجھے افسوس کے ساتھ سمجھنا پڑتا ہے اور عقل اس کی گواہی دیتی ہے کہ شاید سب کے دلوں میں نہیں پیدا ہو تا یا اگر پیدا ہوتا ہے تو وہ اس کے حل کرنے کی جرأت نہیں کرتے یا اگر وہ حل کرنے کی جرات رکھتے ہیں تو ان سے حل ہوتا نہیں اور جب ان سے حل نہیں ہوتا تو یہ جرأت نہیں رکھتے کہ دوسروں سے حل کرانے کے لئے ان سے پوچھیں.یا اگر ان سے حل ہو جاتا ہے تو اس کی تعمیل کرنے کی ان میں جرات نہیں ہوتی.مگر یہ ایسا اہم سوال ہے کہ اس کے حل کئے بغیر در حقیقت ایک خدا کے ماننے والے اور ایک خدا کی پرستش کرنے والے کو کچی راحت نہیں مل سکتی اور کبھی اسے اطمینان حاصل نہیں ہو سکتا.پس جس غرض کے لئے انسان مذہب کو قبول کرتا ہے.ساری دنیا سے جھگڑا مول لیتا ہے.جس غرض کے لئے کسی قسم کے فوائد قربان کرتا ہے یہ ان لوگوں کا ذکر نہیں جو مذہب کی چدر نام کے طور پر اپنے اوپر اوڑھ لیتے ہیں.بلکہ ان کا کہنا ہے جو مذہب کے لئے قسم قسم کی قربانیاں کرتے ہیں.ایسے لوگ باوجود اس کے اس سوال کے حل کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں.وہ سوال کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ ہم میں اور سرے لوگوں میں کیا فرق ہے.میرے نزدیک ہر عقل مند کے دل میں یہ سوال پیدا ہونا چاہیے کہ میں نے جو یہ مذہب قبول کیا ہے تو مجھ میں اور جس نے اسے قبول نہیں کیا اس میں کیا فرق ہے.مجھے اس سوال کے بارے میں ہندوؤں، یہودیوں، عیسائیوں اور سکھوں سے تعلق نہیں.بنی نوع انسان ہونے کے لحاظ سے تو سب میرے بھائی ہیں.مگر اس سوال کی وجہ سے ان سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ میرے دل میں یہ سوال اور طرز پر پیدا ہو گا اور ان کے دل میں اور طرز پر.میرے دل میں تو یہ سوال اس طرز پر پیدا ہو گا کہ ایک مسلمان اور ایک ہندو میں کیا فرق ہے.مگر ایک ہندو کے رو
133 دل میں یہ سوال پیدا ہو گا اور ہونا چاہئیے کہ ایک ہندو اور غیر مذہب والے میں کیا فرق ہے.اسی طرح ایک عیسائی کے دل میں یہ سوال پیدا ہونا چاہئیے کہ ایک عیسائی اور غیر عیسائی میں کیا فرق ہے.اسی طرح ہر مذہب والے کے دل میں یہ سوال اور رنگ میں پیدا ہونا چاہئیے مگر میں اسی رنگ کو لیتا ہوں جو مسلم کے دل میں پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ایک مسلم اور غیر مسلم میں کیا فرق ہے ہم بحیثیت مسلمان اوروں سے جو قسم قسم کے جھگڑے کرتے ہیں.ابھی ملکانوں کی شدھی کا معالمہ ہے ہم جاکر ان سے ملتے اپنے مال خرچ کرتے اور ان کو نصیحت کرتے ہیں کہ مرتد نہ ہوں اور اس کے لئے شدھی کرنے والوں سے مقابلہ کر رہے ہیں.یہ کیوں کر رہے ہیں.کیا ملکانے اس حالت سے بدل گئے جس پر وہ پہلے تھے.کیا ان کی عقل شکل اور علم میں کچھ فرق آگیا.اگر نہیں تو ہم انہیں کیوں سمجھاتے اور اپنا روپیہ خرچ کر رہے ہیں یا اور لوگوں کو جو تبلیغ کرتے ہیں کبھی ماریں کھاتے ہیں کبھی مال کا نقصان اٹھاتے ہیں.اپنے عزیزوں سے الگ ہوتے ہیں.یہ سب کچھ کیوں کرتے ہیں.اس کا موٹا جواب تو یہی ہے کہ لوگ اسلام قبول کرلیں اور مسلمان ہو جائیں مگر اس کے ساتھ معا یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے اور پیدا ہونا چاہئیے کہ لوگ کیوں مسلمان ہو جائیں ہندو کیوں نہ رہیں یا کیوں ہندو ہو جائیں.تم میں کیا بات ہے اور تم کو کون سا سرخاب کا پر لگا ہوا ہے کہ تمہارا مذہب قبول کر لیں اور کیوں تمہیں ہر قسم کی قربانی اس لئے کر دینی چاہئیے کہ لوگ مسلمان رہیں یا مسلمان بنیں.اس کے جواب مختلف رنگوں میں مختلف دئے جا سکتے ہیں.مثلاً یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیا ہے.وہ بھی مان لیں.مگر میرے نزدیک یہ کوئی جواب نہیں.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی کے میری تھیلی میں زیادہ روپیہ ہے کیونکہ مجھے مکہ سے ملی ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے کا کیا مطلب ہے؟ یہ کہ آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے کچھ لائے ہیں.مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا لائے ہیں.ایک چٹھی رساں بہت شریف ہوتا ہے.اور دوسرا اس سے کم.تو کیا جو زیادہ شریف ہو اس کی لائی ہوئی چٹھی زیادہ معزز ہوگی اس سے جو کم شریف چٹھی رساں لائے اور اس پر زیادہ فخر کیا جا سکتا ہے.نہیں تو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعہ کسی چیز کامل جانا شرف کی بات نہیں جب تک کہ وہ جو کچھ کہ ملا.اعلیٰ نہ ہو اور دوسروں کی نسبت بالا نہ ہو.شرف کا موجب تبھی ہو سکتا ہے جبکہ بالا ہو.پھر شاید کوئی کہے.چونکہ ہم خدا کے لئے نمازیں پڑھتے ہیں اس لئے اوروں کو بھی مسلمان ہو کر خدا کی عبادت کرنی چاہئیے.مگر یہ بھی درست نہیں کیونکہ دوسرے مذاہب والے بھی اپنے اپنے رنگ میں عبادتیں کرتے ہیں اور ظاہری طور پر ان کی عبادتیں زیادہ مشکل اور مشقت طلب ہوتی ہیں.
134 شاید کوئی کسے ہم صدقہ دیتے ہیں مگر یہ بھی جواب درست نہیں.اور مذاہب والے بھی بڑی بڑی خیراتیں کرتے ہیں.شاید کوئی کہے ہم خدا کی کتاب پر ایمان لاتے ہیں.ہم کہتے ہیں کتاب پر ایمان لانا تو کوئی فضیلت کی بات نہیں.اور مذاہب کے لوگ بھی اپنے اپنے نزدیک خدا کی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں.شاید کوئی کہے کہ وہ کتا ہیں تو منسوخ ہو گئی ہیں.بے شک وہ منسوخ ہو گئی ہیں مگر سوال تو یہ ہے کہ کیوں منسوخ ہو ئیں.وہ بھی تو خدا کی طرف سے تھیں.غرض پھر وہی سوال سامنے آئے گا کہ ہمیں دوسروں پر کیا شرف اور کیا فضیلت حاصل ہے.عظمند کہا کرتے ہیں اور سچی بات کہتے ہیں کہ کیوں کیا اور کس کا سوال یا تو انسان کو تھکا کر یا پاگل بنا کر بٹھا دیتا ہے.کوئی کہے یہ تو کبھی ختم ہی نہیں ہوتا.مثلاً یہ کہ زمین کس نے پیدا کی.جواب دیا جائے.خدا نے پھر پوچھے خدا کو کس نے بنایا.تو اس کا کیا جواب ہوگا.تو فلسفی کہتے ہیں کہ کیوں اور کیا دھوکے کی طرف لے جانے والے سوال ہیں.مگر یہ درست نہیں کہ ہر کیوں اور ہر کیا پاگل بنا دیتا ہے اور غلطی کی طرف لے جاتا ہے.بلکہ وہ کیوں اور کیا ایسا کرتے ہیں جو انسان کے دائرہ عقل سے بالا ہوتے ہیں.ورنہ ان کا جواب دینا ضروری ہوتا ہے.مثلاً کوئی پوچھے.کھیت میں کیوں پانی ہے.ایک بچہ یہ سوال کرتا ہے.اس کا جواب اسے دینا چاہئیے کیونکہ بچہ کو یہ کہنا کہ "کیوں" نہ کہو.اس کا یہ مطلب ہے کہ بچہ جاہل رہے.کھیت میں پانی ہونے کے دو جواب ہو سکتے ہیں.ایک تو یہ کہ کنوئیں یا نہر سے پانی ڈالا گیا ہے.اور دوسرا یہ کہ بارش کا پانی ہے.اس پر اگر بچہ یہ سوال کرے کہ نہر کیوں چلائی گئی یا یہ کہ پانی کیوں ڈالا گیا ہے تو اس کا جواب نہ دینے پر بھی بچہ جاہل رہے گا.اس کا جواب یہ ہوگا کہ اگر پانی نہ دیتے تو غلہ نہ پیدا ہوتا.اس پر اگر بچہ یہ سوال کرے کہ غلہ کیوں پیدا ہوتا ہے تو اس کا یہ جواب نہ دینے پر کہ غلہ سے انسان خوراک کھا کر زندہ رہتے ہیں تو اس بات سے بچہ جاہل رہے گا.پس ہمیں بچہ کو یہ بات جانی پڑے گی.پھر بچہ کہہ سکتا ہے.کیا ضرورت ہے انسان کے زندہ رہنے کی.اس کا جواب بچہ کے لئے سمجھنا مشکل ہے کیونکہ جواب یا تو فلسفیانہ ہو گا یا مذہبی.اس کا جواب بچہ کو یہی دیا جا سکتا ہے کہ جب تمہیں چھیڑ پڑتی ہے تو کیوں روتے ہو.اسی طرح ہر شخص نہیں چاہتا کہ بھوکے رہنے کی تکلیف اٹھائے اور اس پر موت آئے.لیکن بڑے آدمی کو یہ جواب نہیں دے سکتے.اس کو علمی طور پر جواب دیا جائے گا اور بتایا جائے گا کہ انسان کی پیدائش کی غرض کیا ہے.اس کی زندگی سے چونکہ اگلے جہاں کی ترقیاں وابستہ ہوتی ہیں.اس لئے خدا نے ہر ایک انسان میں خواہش پیدا کی ہے کہ زندہ رہ کر اگلے جہان کے لئے کچھ کما لے.تو بڑے اور سمجھ دار آدمی کو اس رنگ میں سمجھائیں گے.مگر بچہ کو جو جواب دیا جائے گا وہ حقیقی جواب نہیں ہوگا بلکہ ٹلانے والا ہو گا.لیکن بڑے آدمی کے سوال کا بھی دائرہ ایک حد پر جا کر ختم ہو جاتا ہے.مثلاً کہے کہ خدا نے یہ
135 خواہش انسان میں کیوں رکھی ہے.ہم کہیں گے خدا تعالیٰ کی صفات اس کی مقتضی ہیں.پھر اگر کے خدا کی صفات کیوں مقتضی ہیں تو ہم کہیں گے یہ ایسی ہستی کے متعلق سوال ہے کہ جس کی کنہ کو پانا ہمارا کام نہیں.صوفیا تو اس سے بھی آگے جائیں گے.مگر عام انسانوں کا دائرہ سوال اس جگہ ختم ہو جائے گا اور ہم اسے کہیں گے یہ خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق سوال ہے اور خدا تعالیٰ کی ذات کا احاطہ کرنا انسانی طاقت میں نہیں ہے.اسے مثالیں دیں گے اور سمجھائیں گے کہ جب تم دنیا کی چیزوں کی کنہ نہیں پا سکتے تو خدا تعالیٰ کی کنہ کس طرح پاسکتے ہو اور اس کی ذات کا کس طرح احاطہ کر سکتے ہو.غرض ایک مقام پر اس سلسلہ سوال کو روکنا پڑے گا.اس میں شبہ نہیں کہ ایک حد تک کیوں چلے گا اور اس کا جواب دینا ضروری ہوگا.اگر بالکل روک دیا جائے گا تو لوگ جاہل رہ جائیں گے.علم النفس والے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ بچہ اتنا کیوں اور کس طرح اور کیا.کیوں کہتا ہے اور جتنا بچہ اس لفظ کا استعمال کرتا ہے اتنا بڑا آدمی نہیں کرتا.اس کا وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہر اجنبی چیز کی طرف انسان متوجہ ہوتا ہے اور اس کی حقیقت معلوم کرنا چاہتا ہے.بڑوں کے لئے چونکہ اتنی چیزیں اجنبی نہیں ہوتیں جتنی بچوں کے لئے ہوتی ہیں.اس لئے بچوں کو کیوں اور کیا کے ذریعہ دریافت کرنی پڑتی ہیں.ایک مذہبی آدمی اس کا یہ جواب دے گا کہ یہ حس بچے میں خدا تعالی نے اس لئے رکھی ہے کہ وہ ترقی کرے.اگر بچپن میں بچہ اس طرح سوال نہ کرتا.تو بڑا ہو کر علوم میں ترقی نہ کر سکتا.غرض کیوں.کیا.کدھر کس طرف کیسا وغیرہ ایسے سوال ہیں جو انسانی فطرت میں رکھے گئے ہیں اور ان کا زور بچپن میں زیادہ ہوتا ہے یا پھر علم سیکھنے کے وقت اور یہ سوال انسانی ترقی کے لئے ضروری ہوتے ہیں.پس یہ کہنا کہ کیوں کیوں کہتے ہو یہ درست نہیں ہے.بے شک کسی حد تک کیوں بھی ناجائز ہو جاتا ہے مگر ایک حد تک اس کا چلانا ضروری ہے.پس سوال یہ ہے کہ ہم کیوں مسلمان بنیں میرے نزدیک اس کا کوئی اجمالی جواب دیتا سوائے ایک جواب کے ممکن ہی نہیں.اور وہ جواب یہ ہے کہ ہم مسلم اس لئے دوسروں سے بہتر ہیں کہ ہم مسلم ہیں.اس سوال کے جواب میں لمبی تقریر کر سکتے ہیں کہ اسلام میں یہ خوبی ہے اور یہ فضیلت ہے لیکن مختصر اور صحیح جواب نہی ہے کہ ہم دوسرے مذاہب کے لوگوں سے اس لئے بہتر ہیں کہ ہم مسلم ہیں اور دوسرے مسلم نہیں ہیں.اس کے متعلق کوئی کہہ سکتا ہے کہ مسلم تو اپنا نام رکھ لیا گیا ہے اور صرف اپنا کوئی نام رکھ لینے سے انسان دوسروں سے اچھا ہو سکتا ہے.ہم نے صرف اپنا نام مسلم نہیں رکھا بلکہ جب ہم اپنے آپ کو مسلم کہتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے سارے حکموں کو مانتے ہیں اور دوسرے مذہب والے سارے حکموں کو نہیں مانتے.بے شک ایک غیر مسلم کہہ سکتا ہے کہ تم میں بھی خدا کے حکموں کو نہ مانے والے موجود ہیں ہم کہیں گے بے شک مسلمان کہلانے والے بھی
136 ایسے ہیں لیکن اگر کوئی خدا تعالیٰ کے سب حکموں کو مان سکتا ہے تو مسلم ہی مان سکتا ہے اور مسلم کے لئے ہی امکان ہے کہ مانے.مگر تمہارے متعلق امکان بھی نہیں.اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ دو مسافر ایسے سفر پر جا رہے ہوں جہاں پانی نہ ملتا ہو.ان میں سے ایک کے پاس پانی ہے اور دور سرے کے پاس نہیں.جس کے پاس ہے وہ دوسرے سے کسے تم نے غلطی کی کہ پانی ساتھ نہیں لائے.وہ کے اگر میں نہیں لایا تو تم بھی تو نہیں پی رہے.اس پر وہ کہہ سکتا ہے میرے پاس تو پانی موجود ہے جب ضرورت ہوگی پی لوں گا.مگر تم نہیں پی سکو گے.تو غیر مسلم کی اگر نیت بھی ہو کہ خدا کے سارے حکموں کو مانے تو غیر مسلم رہ کر خدا تعالیٰ کا پورا پورا فرمانبردار نہیں بن سکتا.اور جو مسلم ہے وہ گو کہتا ہے کہ میں مسلم ہوں اور بعض دفعہ نہیں ہوتا.مگر مسلم ہو سکتا ہے اس لئے ایک مسلم اور غیر مسلم میں یہ فرق ہے پس مسلم کی یہ تعریف ہے کہ اپنے رب کا پورا پورا فرمانبردار اور مسلم کے سوا کسی اور کے لئے ممکن ہی نہیں کہ ایسا ہو کیونکہ تمام احکام کامل طور پر یر کسی مذہب میں ہیں ہی نہیں اور جب کامل احکام ہی نہیں ہیں تو خواہ کوئی کتنی محنت اور کتنی کوشش کرے.خدا تعالی کا فرمانبردار بننے میں ایک مسلم کے برابر نہیں ہو سکتا.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص کے گھر میں گھوڑا ہو اور دوسرے کے ہاں نہ ہو.یوں پھرنے میں تو دنوں برابر ہوں گے.مگر گھوڑے والے کو جب ضرورت ہوگی تو وہ گھوڑا لیکر چل سکتا ہے.مگر دوسرا اس کے برابر نہیں چل سکتا جب تک کسی سے گھوڑا مانگے نہیں.اسی طرح ایک غیر مسلم خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کے رستہ پر مسلم کے برابر نہیں چل سکتا جب تک کہ مسلمان سے کا سامان مانگے نہیں.اور جب مانگے گا تو مسلمان ہو گا.یہ فرق ہے غیر مسلم اور مسلم میں.مگر یہ تو غیر کے سوال کا جواب ہے.تمہارے اپنے متعلق یہ سوال ہے کہ کیا تم مسلم ہو یا نہیں.کیا جب تم دوسروں سے اس لئے لڑتے ہو کہ ہم مسلم ہیں اور تمہیں دلائل کے ساتھ لڑنا چاہئیے اور لوگوں کو بتانا چاہیے کہ اسلام سب سے اعلیٰ مذہب ہے.تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے اور پیدا ہونا چاہئیے کہ کیا واقع میں تم مسلم ہو.اگر مسلم نہیں ہو تو کو مانا کہ ہم مسلم ہیں.اس لئے دوسروں سے افضل ہیں.نفس کہے گا کہ یہ سوال غلط طریق سے اٹھایا گیا ہے.یہ اس طرح نہیں کہنا چاہیے تھا کہ ہم چونکہ مسلم ہیں اس لئے دوسروں سے افضل ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیئے تھا کہ اگر ہم مسلم ہیں تو دوسروں سے افضل ہیں کیونکہ مسلم کہلانا صرف دعوئی ہے اور جب تک اس کا کوئی ثبوت نہ ہو اس وقت تک کوئی کس طرح افضل ہو سکتا ہے.لوگ جانتے ہیں کہ طبیب علاج کرتے ہیں اور لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے.مگر کیا ہر شخص جو اپنے آپ کو طبیب کے اسے طبیب مان لیا جاتا ہے.کہتے ہیں ایک طبیب جب قبرستان میں سے گذرتا تو اپنا منہ ڈھانک لیتا.کسی نے کہا لوگ تو زندوں سے شرم کرتے ہیں
137.اور آپ مردوں سے کرتے ہیں.کہنے لگا کہ میں مردوں سے اس لئے شرم کرتا ہوں کہ زندوں کو تو مجھ سے کوئی نقصان نہیں پہنچا.مگر مردوں کو پہنچا ہے.یہ سب جو دفن شدہ ہیں میرے ہی علاج کا نتیجہ ہیں.تو کسی کے اپنے آپ کو طبیب کہنے سے وہ طبیب نہیں ہو جاتا بلکہ ایسا شخص جو طب نہ جانتا ہو اور اپنے آپ کو طبیب کے وہ دھوکہ باز ہوتا ہے.اسی طرح اگر کوئی کہتا ہے کہ ہم مسلم ہیں اس لئے دوسروں سے افضل ہیں مگر وہ فی الواقعہ مسلم نہیں تو اس سے زیادہ دھوکہ باز کون ہو سکتا ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی کسے میں چونکہ اپنے آپ کو طبیب کہتا ہوں اس لئے مجھ سے علاج کرانا چاہیے یا کوئی کہے میں چونکہ اپنے آپ کو بادشاہ کہتا ہوں اس لئے سب لوگوں کو میری رعایا بن جانا چاہیے.یا کوئی کہے چونکہ میں کہتا ہوں فلاں جائداد مجھے پسند ہے.اس لئے مجھے دے دینی چاہیئے.ایسے شخص کو لوگ پاگل کہیں گے یا عقمند.اپنے کہنے سے تو کوئی کچھ نہیں بن جاتا.اسی طرح ہم کہنے سے مسلم نہیں بن سکتے اور اس وقت تک نہیں بن سکتے جب تک مسلم نہیں.پس ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم غیر مذاہب کے لوگوں سے اس لئے افضل ہیں کہ ہم مسلم ہیں بلکہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہم مسلم ہیں تو غیر مسلموں سے افضل ہیں.اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم مسلم ہیں.اس سوال کے جواب پر ہماری تمام زندگی کی راحت اور آرام.کامیابی اور کامرانی کا انحصار ہے.اگر نفس کہتا ہے.ہاں تم مسلم ہو.اگر عقل کہتی ہے ہاں تم مسلم ہو.اگر تمہارے اعمال کہتے ہیں کہ بے شک تم مسلم ہو..تو ہم سے زیادہ خوش قسمت اور اطمینان کی حالت اور کسی کی نہیں ہو سکتی.لیکن اگر نفس کہتا ہے کہ خاموش یہ تذکرہ ہی نہ چھیڑو.اگر اس سوال پر تمہارے اندر گھبراہٹ پیدا ہو جاتی ہے.اور تمہارا دل لرزنے لگ جاتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ تھیٹر کے ایکٹر کو جس طرح بادشاہ بناتے ہیں اور وہ ایک لمحہ کے لئے خوش ہو جاتا ہے.مگر اس کے ساتھ ہی اس کی یہ حالت ہوتی ہے کہ گھر تو کھانے کو بھی کچھ نہیں.یہ تماشا کر کے کچھ ملے گا تو کھائیں گے.یہی حالت تمہاری ہے اگر اس سوال کا جواب نفی میں ہے تو یاد رکھو ہم سے زیادہ بد قسمت دنیا میں کوئی نہیں ہو سکتا کیونکہ دوسرا تو کوشش کر کے پہنچنا چاہتا ہے اور پہنچنے کا صحیح رستہ تلاش کرنے میں لگا ہوا ہے.مگر ہم مطمئن ہو کر بیٹھ گئے ہیں.اور اگر کوشش کریں تو دوسرے کہیں گے تم میں اور ہم میں کوئی فرق نہ رہا.جیسی تمہاری حالت ہے ویسی ہی ہماری ہے.تو یہ سوال ہے جس کو حل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے مگر جیسا کہ میں نے بتایا افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے لوگ ہیں جن کے دل میں یہ سوال پیدا ہی نہیں ہو تا.پھر بہت سے لوگ ہیں کہ اگر ان کو پیدا ہوتا ہے تو اس کے حل کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور انہیں پتہ ہی نہیں کہ مسلم کیا ہوتا ہے اگر وہ عمل کرنے کی کوشش کریں تب انہیں پتہ لگے کہ مسلم کیا ہوتا ہے دیکھو اگر کوئی -
138 شخص مولوی کہلاتا ہے مگر اسے پتہ نہیں کہ مولوی کیا ہوتا ہے تو لوگوں کے کہنے پر خوش ہو تا رہے گا.لیکن اگر اسے پتہ ہو کہ مولوی اسے کہتے ہیں جو قرآن اور حدیث سے واقف ہو.تو کسی کے مولوی کہنے پر اسے شرم آئے گی.اور اس کے نفس میں سوال پیدا ہو گا کہ مجھے ایسی واقفیت پیدا کرنی چاہئیے کہ میں مولوی کہلا سکوں.اگر یہ سوال پیدا ہو کہ مسلم کیا ہوتا ہے.تو پھر اس کے حل کرنے کی طرف توجہ بھی پیدا ہو سکے گی.لیکن افسوس ہے کہ بہت سے لوگوں کو یہ توجہ نہیں پیدا ہوتی اور اگر پیدا ہوتی ہے تو حل نہیں کرتے اور اگر حل کرنا چاہتے ہیں تو بہت لوگ حل نہیں کر سکتے.اور جب حل نہیں کر سکتے تو ان میں یہ جرأت نہیں ہوتی کہ دوسروں سے پوچھیں اور اگر دوسروں سے پوچھنے کی جرات کر بھی لیتے ہیں اور حل کر بھی لیتے ہیں تو ان میں یہ جرأت نہیں ہوتی کہ حل شدہ امر کے مطابق عمل کریں.ان کی ایسی ہی حالت ہوتی ہے جیسے کہتے ہیں بدصورت انسان آئینہ نہیں دیکھتا.خوبصورت تو بار بار دیکھتے رہتے ہیں کہ اگر کہیں کوئی داغ یا دھبہ لگ گیا ہو تو صاف کر دیں.لیکن بدصورت سمجھتا ہے داغ اور وصبہ کا لگا رہنا اچھا ہے بہ نسبت اس تکلیف اور صدمہ کے جو مجھے اپنی بدصورتی دیکھنے سے ہوگا.اسی طرح جن لوگوں کا نفس بدصورت ہوتا ہے.وہ اس کا مطالعہ نہیں کرتے.اور جن کا خوبصورت ہوتا ہے وہ مطالعہ کرتے رہتے ہیں.مگر وہ لوگ جو اپنے نفس کی بدصورتی کی وجہ سے اس کا مطالعہ نہیں کرتے وہ بتائیں کیا اگر پاخانہ کو ڈھانپ دیا جائے تو گند دور ہو جاتا ہے یا کبوتر اپنی آنکھیں بند کر لینے کی وجہ سے بلی کے حملہ سے محفوظ ہو جاتا ہے.ہرگز نہیں.نہ گند دور ہوتا ہے نہ کبوتر محفوظ ہو سکتا ہے.وہ دھوکہ میں ہوتا ہے اور پلی اسے کھا جاتی ہے.اسی طرح اگر کوئی پاخانہ پر راکھ ڈالکر سمجھتا ہے کہ صاف ہو گیا تو وہ بھی دھوکہ میں ہے اور اس طرح اس کے گھر کے لوگ بیمار ہو جائیں گے.یا نجاست کپڑوں سے لگ کر انہیں خراب کر دے گی اور عبادت خراب ہوگی.تو یہ جو سوال ہے کہ کیا ہم مسلم ہیں یہ بہت ضروری ہے مگر افسوس بہت سے لوگ اسے حل نہیں کرتے یا حل نہیں کرنا چاہتے یا کر نہیں سکتے.میں بہت لوگوں کو دیکھتا ہوں دین کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں.اور ایسی قربانیاں کرتے ہیں جو قابل رشک ہوتی ہیں.بہت ہیں جو دین کے لئے تکالیف اٹھاتے ہیں اور اس قدر اٹھاتے ہیں کہ ان کے لئے دل کڑھتا ہے کہ کس طرح ان کی مدد کی جائے بہت ہیں جو دین کے لئے محنتیں کرتے ہیں اور پھر ان کی محنتوں کو دیکھ کر ان پر رشک آتا ہے مگر یہی لوگ بعض اوقات ذرا سے نفسانیت کے جوش میں آکر ساری خوشی اور راحت کو برباد کر دیتے ہیں اور وہی حالت ہو جاتی ہے جیسا کہ ایک شاعر نے بیان کی ہے.خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا اور یہی معلوم ہوتا ہے کہ جسے خوبصورت سمجھا گیا تھا وہ اندر سے نہایت ہی بدصورت ثابت ہوا اور
139 وہ جسے باہر عطر لگایا ہوا تھا اس کے اندر سے نجاست نکل رہی ہے.جیسے کسی شخص نے بہت اعلیٰ درجہ کا لباس سلا کر اس لئے رکھا ہو کہ عید پر یا شادی کے موقع پر پہنوں گا.لیکن جب وہ پہننے کے لئے نکالے تو معلوم ہو کہ چوہے نے کتر ڈالا ہے.بعینہ یہ کیفیت ہو جاتی ہے جب معلوم ہوتا ہے کہ ایک مخلص دین کے لئے قربانی کرنے والا اسلام کے لئے اپنی جان کو ہلکان کرنے والا جو ہمارے لئے راحت اور مسرت کا موجب ہوتا ہے ذرا سی بات میں بھول جاتا ہے کہ میں مسلم ہوں اور مجھے خدا تعالی کے احکام کی فرمانبرداری کرنی چاہئیے نہ کہ اس اور اس حکم میں پڑنا چاہیئے.اس اور اس حکم میں تو ہندو، عیسائی، بدھ اور سکھ وغیرہ بھی خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کرتے ہیں.پھر مجھ میں اور ان میں فرق ہی کیا رہا.فرق تو یہی ہے کہ مسلم سب احکام میں فرمانبرداری کرتا ہے اور وہ اس اور اس میں پڑے ہوتے ہیں.ایک مسلم اور ہندو میں ایک مسلم اور عیسائی میں ایک مسلم اور یہودی میں کیا فرق ہے.یہی کہ وہ کہتے ہیں.ہم یہ مانیں گے وہ نہیں مانیں گے.مگر مسلم یہ اور وہ سب کو چھوڑ کر یہ کہتا ہے کہ میں سب کچھ مانوں گا اگر یہی فرق مسلم اور غیر مسلم میں ہے.اگر یہی معیار مسلمان اور غیر مسلمان میں ہے تو پھر اگر کوئی شخص ہزار بات مانتا ہے مگر ایک نہیں مانتا تو اپنے ہاتھ سے اپنے اسلام پر چھری پھیرتا ہے کیونکہ اسلام یہ نہیں کہتا کہ ١٠٠ میں سے ۹۹ احکام مانو.اسلام یہ نہیں کہتا کہ ہزار میں سے ۹۹۹ مانو.اسلام یہ نہیں کہتا کہ لاکھ میں سے 44999 احکام مانو اور اسلام یہ ؟ یہ بھی نہیں کہتا کہ کروڑ میں سے ۹۹۹۹۹۹۹ مانو بلکہ اسلام تو یہ کہتا ہے کہ ہر ایک بات مانو اور اسلام اسی کا نام ہے کہ مسلمان کہلانے والا ہر ایک بات کو مانے.سوائے اس کے جو نفس کی کمزوری کی وجہ سے رہ جائے یعنی اگر کوئی چلتا چلتا گر جاتا اور اس طرح رہ جاتا ہے تو اور بات ہے لیکن اگر کوئی کہتا ہے کہ میرا نفس فلاں بات ماننے کے لئے تیار نہیں تو وہ اسلام سے نکل جاتا ہے نفس کی کمزوری کی وجہ سے کسی حکم کی تعمیل نہ کر سکنے والا مسلم کہلا سکتا ہے مگر ظاہری اطاعت سے انکار کرنے والا اسلام سے باہر نکل جاتا ہے.اس لئے کہا گیا ہے کہ نماز کا تارک کافر نہیں ہوتا.مگر نماز کا منکر کافر ہو جاتا ہے.میں نے آپ لوگوں کو بارہا توجہ دلائی ہے کہ اپنے نفسوں کی اصلاح کرو اور اگلی نسلوں کے لئے اپنا اعلیٰ نمونہ اور اسوہ حسنہ پیش کرو اور ایسا نمونہ نہ چھوڑو کہ جو ان کے لئے ٹھوکر کا باعث ہو.کسی شاعر نے کہا ہے خشت اول چونهد تا ثریا میرود معمار سج دیوار کج اگر پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھی جائے تو دیوار اوپر تک ٹیڑھی جائے گی.اگر آج تم پورا اور کامل نمونہ فرمانبرداری کا نہیں پیش کرو گے تو آئندہ آنے والوں کی حالت اور بھی خراب ہوگی اور اس طرح وہ
تجھے 140 ساری کوششیں باطل ہو جائیں گی جو حضرت مسیح موعود نے لوگوں کی اصلاح کے لئے کی ہیں.پس اے دوستو! اور اے عزیزو! میری نصیحت ہے کہ جب مسلم اور غیر مسلم میں یہی فرق ہے کہ مسلم کامل فرمانبردار ہوتا ہے تو اپنے آپ کو اس کے مطابق مسلم بنا کر دکھاؤ اور اپنے نفس کو مارو.ضرورت اس بات کی ہے کہ ”میں اڑ جائے اور تم مشین کے پرزوں کی طرح کام کرو.مگر میں کارکنوں کو بھی دیکھتا ہوں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑتے اور ان باتوں کو دین میں روک بنا دیتے ہیں.میں تو اپنے نفس کی حالت کو دیکھ کر سمجھتا ہوں کہ میں تو بادشاہ کی اطاعت کے لئے بھی تیار نہیں اگر خدا تعالی کا حکم نہ ہو اور خدا تعالیٰ کے لئے ایک چوہڑے کی اطاعت کرنا بھی میرے لئے ذرا بوجھل نہیں.آج اگر ہمارے دو آدمیوں میں کسی بات پر اختلاف پیدا ہو تو وہ ایسا نہیں ہو سکتا جیسا کہ مولوی محمد علی صاحب سے پیدا ہو گیا تھا کیونکہ اس وقت مسائل میں اختلاف شروع ہو گیا تھا.مگر مجھے اس زمانہ کا ایک واقعہ یاد ہے.میں مدرسہ احمدیہ کا افسر تھا اور مولوی محمد علی صاحب صدر انجمن کے سیکرٹری تھے.ایک ایسی بات پیش آگئی جو ان کے اختیارات سے باہر تھی اور میرے لئے ہتک کا موجب تھی.یعنی مدرسہ کے ایک ملازم کو براہ راست انہوں نے کچھ لکھا اور اسے کہیں بھیج دیا.حضرت خلیفہ اول کو اس کے متعلق شکایت ہوئی.اس کے کام میں خرابی پیدا ہو گئی.آپ نے مجھ سے پوچھا.میں نے مولوی محمد علی صاحب کو لکھا کہ آپ کو میری توسط سے اس کے متعلق کارروائی کرنی چاہیئے تھی تاکہ میں اس کی بجائے پڑھائی کا کوئی اور انتظام کر دیتا.اس پر انہیں برا معلوم ہوا کیونکہ وہ خود مختاری کے عادی تھے اور اپنی رائے کے خلاف کسی کی بات نہ سن سکتے تھے.انہوں نے مجھے لکھا آپ کا یہ طریق غلط ہے.انہوں نے ناصحانہ رنگ میں لکھا گو انہیں اس کا حق نہ تھا.مجھے انجمن نے سیکرٹری مقرر کیا ہے.آپ کو میری اطاعت کرنی چاہئیے اس پر میں نے انہیں یہی جواب دیا کہ قانون نے آپ کو جو اختیار دیا ہے اس کے ماتحت میں آپ کے ادنیٰ سے ادنیٰ حکم بھی ماننے کے لئے تیار ہوں مگر اس بارے میں سوال یہی ہے کہ یہ کارروائی آپ کی قانون کے ماتحت نہیں ہے.انجمن کی فرمانبرداری کا تو میں کبھی قائل نہیں تھا مگر خلیفہ وقت نے جو انتظام کیا ہے اس کو ہر حالت میں ماننے کے لئے تیار تھا.چنانچہ میں نے لکھا.اپنے اختیارات کے ماتحت آپ جو بھی حکم دیں.میں اسے ماننے کے لئے تیار ہوں اور باوجود اختلاف کے میں ان کی باتوں کو مانتا رہا.تو ہر ایک حکم کی اطاعت کرنی چاہئیے نہ کہ جو دل چاہے مان لیا اور جو نہ چاہے اسے نہ مانا.کئی لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اگر خلیفہ یہ بات کہدے تو مان لیں گے.مگر خلیفہ کی کیا حیثیت ہے تم میں سے علم، عقل، دولت اور فراست کے لحاظ سے خلیفہ سے بڑھ کر ہیں.پھر تم کیوں اس کی اطاعت کرتے ہو.اس لئے کہ خدا نے اسے مقرر کیا ہے.اور تم خدا کے لئے اطاعت کرتے ہو.پس جب
141 تم خدا کے لئے اطاعت کرتے ہو تو ہر اس شخص کی کرو جو خدا کے لئے کام کرتا ہے اور اپنے نفس کو بالکل مٹا دو.آپ لوگ اگر میرے کسی ہنر اور فن کی وجہ سے میری اطاعت کرتے ہیں تو میں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں اور میں بچے طور پر کہتا ہوں کہ مجھے اپنے میں کوئی ایسا فن نظر نہیں آتا جس کی وجہ سے لوگ میری اطاعت کریں اور ایسی کوئی چیز نہیں نظر آتی کہ اس جبہ کو اتار کر جو خلافت کا جبہ ہے اس چیز کے لئے کوئی ایک بھی میری اطاعت کرے.میری اطاعت محض اس لئے کی جاتی ہے کہ خدا نے مجھے اس مقام پر کھڑا کیا ہے اور آپ لوگ خدا کے لئے میری اطاعت کرتے ہیں.پس جب تم خدا تعالٰی کے ایسے فرمانبردار ہو تو جو بھی خدا کے لئے کسی کام پر کھڑا ہوتا ہے اس کی اطاعت کرو اور خوب یاد رکھو کہ کامل اطاعت کے بغیر کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی.پس تم اپنے نفسوں کو بھول جاؤ اور اطاعت مجسم بن جاؤ.تمہاری یہ حالت ہو کہ ایک وقت اگر کوئی گالیاں بھی دیتا ہے حتی کہ جوتیاں بھی مارتا ہے مگر پھر اسلام کے لئے بلاتا ہے اور غلاموں سے بد تر سلوک کرتا ہے تو سب کچھ برداشت کرو اور اطاعت سے منہ نہ موڑو اگر تم ایسا نہیں کرتے تو تم اسلام میں نہیں ہو.جب حضرت علیؓ اور حضرت معاویہ میں جنگ ہوئی تو ایک عیسائی بادشاہ نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر حضرت علی پر حملہ کرنا چاہا اس کی خبر جب حضرت معاویہ کو ہوئی تو انہوں نے عیسائی بادشاہ کو کہلا بھیجا کہ اگر تم نے حملہ کیا تو سب سے پہلا جرنیل جو علی کی طرف سے تمہارے مقابلہ پر آئے گا.وہ معاویہ ہو گا.اے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائی ڈر گیا.اگر حضرت علی اور معاویہ اتنی جنگ کے باوجود متفق ہو سکتے ہیں.تو تم میں کونسے ایسے لوگ ہیں جن میں اتنا بڑا جھگڑا ہے.تم میں کونسے دو کے درمیان اتنے حقوق کا جھگڑا ہے جتنے حقوق کا ان کے درمیان جھگڑا تھا.تم میں سے کونسے دو ایسے ہیں جن کے درمیان خون کی ایسی نہریں جاری ہیں جیسی ان کے درمیان تھیں.ان کے درمیان تو پیاروں کے خون اور ان کی ہڈیاں کھڑی کہہ رہی تھیں کہ نہ ملنا.مگر جب خدا کا سوال پیدا ہوا تو علی اور معاویہ میں کوئی اختلاف نہ رہا.اگر لوگ اس بات کو سمجھ لیں کہ دین کے معاملات میں آپس کے ہر قسم کے اختلافات کو دور کر دینا چاہئیے تو اول تو اختلاف پیدا ہی نہ ہوں اور اگر پیدا بھی ہوں تو ایسے ہوں جنہیں دین کے معاملہ میں چھپا سکیں.ہر اختلاف جو پیدا ہوتا ہے اس کی دو حیثیتیں ہوتی ہیں.اول یہ کہ حکومت کی طرف رجوع کیا جائے.دوسرے یہ کہ نہ کیا جائے.اور اگر کوئی رجوع نہیں کرتا تو گویا معاف کر دیتا ہے اور معافی کے بعد اس کا ذکر نہیں ہونا چاہئیے.لوگوں کو لوگوں سے تکلیفیں پہنچتی ہیں اور اعلیٰ درجہ کے لوگ بھی غلطیاں کرتے ہیں مگر جب خدا تعالیٰ کے لئے سوال ہو تو متفق ہو جانا چاہیے یہی وہ چیز ہے جو مسلم کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے.اور یہی وہ چیز ہے جس سے تم مسلم بن سکتے ہو اور جب
142 خود مسلم بن جاؤ تبھی تمہارا حق ہے کہ دوسروں کو اسلام میں لاؤ.خدا تعالیٰ تم لوگوں کو سمجھ دے.اور حقیقی مسلم بننے کی توفیق بخشے.آمین.الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۲۳ء) است مجمع بحار الانوار جلد ا ص ۳۶ زیر لفظ ارس
143 26 26 احمدی مستورات کا عظیم الشان کارنامہ (فرموده ۲۷ جولائی ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.اللہ تعالیٰ کی حکمت اور قدرت جب چاہتی ہے تو ادنیٰ سے ادنی اور کمزور سے کمزور لوگوں سے بھی وہ کام کرا لیتی ہے جو دنیا کے بڑے زبر دست سے زبر دست اور طاقتور سے طاقتور لوگوں سے بھی نہیں ہو سکتے.دیکھو بڑے بڑے بادشاہوں نے چاہا کہ دنیا کو ایک ہاتھ پر جمع کریں.سکندر اعظم اسی نیت اور اسی ارادہ کو لیکر نکلا تھا مگر اپنے ارادہ کو تکمیل تک پہنچائے بغیر مر گیا.اس زمانہ میں بھی بڑی بڑی حکومتیں چاہتی رہی ہیں اور چاہتی ہیں کہ ساری دنیا کو ایک ہاتھ پر جمع کریں مگر ان کی تمام کوششیں بے کار ثابت ہوئی ہیں.لیکن دیکھو جب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ دنیا کو ایک ہاتھ پر جمع کر دے تو اس نے ایک نہایت کمزور اور ضعیف انسان سے جس کے پاس نہ کوئی سامان تھا نہ دولت نہ طاقت تھی نہ قوت سب کو جمع کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا تعالیٰ کے حضور جو درجہ حاصل تھا.اور آپ کو جو قرب الہی میسر تھا اس کے باعث دنیا کے سارے ہی وجودوں سے آپ بڑے تھے.لیکن اگر دنیاوی لحاظ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نبوت سے پہلے کوئی خصوصیت حاصل نہ تھی.آپ کا جو بھی درجہ تھا.وہ آپ کو خدا کے حضور حاصل تھا.ورنہ اپنے شہر میں نہ آپ کے پاس دولت تھی نہ مال تھا نہ اسباب تھا نہ جتھا تھا نہ طاقت تھی حتی کہ جب آپ نے نکاح کیا تو معمولی گزارہ کے لئے بھی آپ کے پاس مال نہ تھا بلکہ اپنی بیوی جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت کا شرف حاصل ہوا اور سب سے پہلے ایمان لانے کا درجہ نصیب ہوا.اس نے اپنا سارا مال آپ کے سپرد کر دیا.ورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود محنت کر کے گزارہ کرتے تھے.چنانچہ حضرت خدیجہ جن سے آپ کی شادی ہوئی.آپ کا مال لیکر آپ تجارت کے لئے گئے اور اس کے نفع سے گزارہ کرتے تھے.نہ آپ زمیندار تھے.اور زمینداری تو مکہ میں ہوتی ہی نہیں.نہ آپ کے پاس گھوڑے یا اونٹوں کے گلے تھے.بے شک آپ کو لوگ صادق کہتے تھے.مگر صادق کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کے پاس مال بھی تھا بے شک آپ کو لوگ امین کہتے
144 تھے ۲.مگر اس کے معنے تو یہ ہیں کہ آپ دوسروں کے مال کی حفاظت کرتے تھے نہ کہ آپ کے پاس بھی مال تھا.بے شک آپ کو لوگ نیک کہتے تھے مگر اس کے یہ معنی تو نہیں کہ لوگ آپ کی اطاعت بھی کریں چنانچہ جب آپ کو خدا نے کہا کہ اٹھ اور ان لوگوں کو ڈرا تو وہی لوگ جو آپ کو نیک کہتے تھے آپ کے مخالف ہو گئے.یہ تو دنیاوی لحاظ سے آپ کے پاس کچھ بھی نہ تھا اور ظاہری سامان جن سے دنیا میں رتبہ اور درجہ حاصل ہوتا ہے وہ آپ کے پاس نہ تھے مگر جب خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس وادی غیر ذی زرع سے ایک ایسا انسان اٹھاؤں جو دنیا کو ایک خدا کی طرف کھینچ لائے اور ایک مرکز پر جمع کردے تو کوئی روک نہ سکا.آپ کا وجود گویا ایک پیج تھا جو بڑھتے بڑھتے ایک بڑا درخت بن گیا اور آپ ہی دنیا کے بادشاہ نہ بن گئے بلکہ آپ کے غلام بھی بادشاہ ہو گئے.حضرت ابو بکر کے متعلق آتا ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے اور حضرت ابو بکر کے والد کو یہ خبر پہنچی تو انہوں نے پوچھا اب کیا انتظام ہو گا.ان کو بتایا گیا ابوبکر خلیفہ ہو گیا ہے.اس پر انہوں نے کہا.کونسا ابوبکر.جب کہا گیا آپ کا بیٹا تو انہوں نے کہا.کیا ابو قحافہ کا بیٹا.گویا ان کے خیال میں یہ بات آہی نہیں سکتی تھی کہ ان کا بیٹا بھی خلیفہ ہو سکتا ہے.حالانکہ جب حضرت ابو بکر کا نام لیا گیا تو قدرتی طور پر انہیں اپنے بیٹے کا خیال آنا چاہئیے تھے.مثلاً اگر عبداللہ نام کا بادشاہ ہو اور اسی نام کا ایک شخص کا بیٹا ہو تو جب اسے کہا جائے عبداللہ آگیا.تو وہ یہ نہیں خیال کرے گا کہ بادشاہ آگیا بلکہ یہی سمجھے گا کہ اس کا بیٹا آگیا.پس قدرتی طور پر انہیں اپنے بیٹے کے متعلق خیال آنا چاہیئے تھا.مگر انہوں نے پوچھا کون ابو بکر.وہ بہت بعد میں اسلام لائے تھے.جب انہیں بتایا گیا کہ آپ کا بیٹا تو انہوں نے کہا کہ مجھے آج ہی پتہ لگا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسا اثر ہے کہ ابو قحافہ کے بیٹے کو عربوں نے سردار مان لیا ہے.حضرت ابو بکر جس قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے.اس کا کوئی جتھا نہ تھا اور سیاسی طور پر کمزور تھا.یوں تو لوگ انہیں نیک سمجھتے تھے.وہ ان کے لڑائی جھگڑوں میں صلح صفائی کرا دیا کرتے تھے.مگر چونکہ ان کا جتھا نہ تھا.اس لئے سرداری کے قابل نہ سمجھے جاتے تھے.مگر آپ کو یہ رتبہ حاصل ہو گیا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طفیل ایسے خاندان جو بہت ہی کمزور تھے ان کو بھی حکومت حاصل ہوگئی.پس خدا تعالیٰ کا جب منشاء ہوتا ہے تو وہ کمزوروں کو بڑھا دیتا اور ان کے ذریعے ایسے ایسے عظیم الشان کام کراتا ہے کہ دنیاوی لحاظ سے بڑا درجہ رکھنے والے لوگ بھی نہیں کر سکتے.اور نبیوں کے آنے کی غرض یہ بھی ہوتی ہیں کہ کمزور کو بڑھا کر بڑا بنا ئیں.چنانچہ حضرت موسیٰ کے متعلق آتا ہے ونرید ان نمن على الذين استضعفوا فى الأرض ونجعلهم ائمة ونجعلهم الوارثين (القصص : 1)
145 فرعون کو اپنی بڑائی اور سازو سامان پر گھمنڈ تھا.اور اس کا منشاء تھا کہ خدا بن جاؤں.ادھر ہمارا منشا یہ تھا کہ وہ لوگ جو فرعون کی نظر میں نہایت ہی ذلیل اور کمزور تھے ان کو حاکم بنا دیں.پھر کیا ہوا.یہی کہ جو کمزور اور ضعیف تھے وہ غالب آگئے اور وہ فرعون جو زبر دست اور بڑا بنا ہوا تھا.ذلیل خوار ہو کر مر گیا.پس جب اللہ تعالی کمزوروں اور ضعیفوں کو بلند کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو پھر کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ غریبوں کو لیتا اور ان کو بڑھاتا ہے اور یہ ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ وہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے.دیکھو اگر امتیں قائم کرنے والے نبی بادشاہ ہوتے تو لوگ کہتے اپنی حکومت کے زور سے انہوں نے لوگوں کو اپنا پیرو بنا لیا.مگر امتیں قائم کرنے والے سارے نبی ایسے ہی ہوئے ہیں جن کی ابتدائی حالت بہت کمزور تھی.حضرت موسیٰ فرعون کی روٹیاں کھا کر پلے.حضرت عیسی علیہ السلام کا کو کوئی باپ نہ تھا.مگر یوسف نجار کے بیٹے کہلائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یتیم رہ گئے تھے اور آپ کی کوئی جائداد نہ تھی.اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود ہوئے ہیں.آپ بھی دنیاوی لحاظ سے کوئی وجہ امتیاز نہ رکھتے تھے.بعض انبیاء بادشاہ ہوئے ہیں.جیسے حضرت سلیمان مگر ان سے کسی سلسلہ کی بنیاد نہیں چلی.اور وہ حضرت داؤد کے سلسلہ کی عظمت کے زمانہ میں ہوئے.اس سلسلہ کے تنزل کے وقت نہیں ہوئے.تنزل کے وقت وہی ہوئے جو کمزور اور ضعیف تھے.اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ ایک جماعت قائم کی ہے اور اس سے بھی وہ کام لے رہا ہے جو آج تک بڑے بڑے بادشاہ بھی نہیں کر سکے.تھوڑا عرصہ ہوا میں نے اسی مسجد میں کھڑے ہو کر اپنا منشاء ظاہر کیا تھا کہ برلن میں مسجد تعمیر کی جائے.اور یہ بھی کہا تھا کہ گو ہماری جماعت پہلے ہی کمزور ہے اور اخراجات کا بہت بوجھ اٹھائے ہوئے ہے.ہے مگر اس کا بھی جو کمزور حصہ ہے اس کے سرمائے سے مسجد بنے.گویا دنیا میں سب سے زیادہ کمزور جماعت جو ہے اس کا بھی کمزور حصہ (یعنی مستورات جو اس لحاظ سے بھی کمزور ہیں کہ ان کی کوئی علیحدہ کمائی نہیں ہوتی اور اس لحاظ سے بھی کہ مردوں جتنا علم نہیں ہوتا) یہ اس کام کو کرے تاکہ یہ ایک زبردست نشان ہو.جب میں نے عورتوں میں یہ تحریک کی تو ہماری جماعت کے بعض لوگ بھی سمجھے کہ اتنا روپیہ نہ جمع ہو سکے گا.پہلے میں نے تمہیں ہزار کا اندازہ لگایا تھا لیکن تحریک کرنے کے وقت پچاس ہزار کر دیا جسے ہماری جماعت کے لوگوں نے بھی بہت بڑی رقم سمجھا.اور جب یہ رقم ۲۰ ہزار کے قریب وصول ہو چکی تو غیر اخباروں نے حیرت اور استعجاب کے ساتھ اس کا ذکر کیا.اور لکھا کہ احمدی عورتوں نے اس قدر روپیہ جمعہ کر دیا ہے.پھر ابھی وہ مدت مقررہ گزری نہ تھی جو اس چندہ کی فراہمی کے لئے مقرر کی گئی تھی کہ مطلوبہ رقم سے زیادہ روپیہ یعنی ۶۰ ہزار جمع ہو
146 گیا.اس کے بعد میں نے ایک اور اعلان کیا جس میں لکھا کہ روپیہ کی ابھی اور ضرورت ہے اب اگر وعدے وغیرہ بھی ملالئے جائیں تو ستر ہزار کے قریب چندہ ہو گیا ہے.یہ اس جماعت کے کمزور حصہ کا کارنامہ ہے جو اس وقت دنیا میں سب سے کمزور ہے ہماری جماعت کی تعداد مسلمانوں کے مقابلہ میں کیا ہے کچھ بھی نہیں.لیکن اگر عام مسلمانوں میں بھی اعلان کیا جاتا کہ ان کی عورتیں تین ماہ کے عرصہ میں اس قدر چندہ دیں تو اگرچہ ان میں کروڑ پتی اور لاکھ پتی بھی ہیں نواب اور راجے بھی ہیں.تو بھی اس آسانی سے اتنا چندہ جمع نہ ہو سکتا تھا.ان کے بڑے بڑے لیڈر سردار خان بہادر وغیرہ باہر دورے کریں گے اور شہر شہر پھریں گے تب جا کر چندہ جمع ہو گا.مگر یہاں نہ میں باہر نکلا نہ کوئی ہمارا وفد چندہ جمع کرنے کے لئے گیا.صرف اخباروں میں اعلان کیا گیا اور ہماری جماعت کی عورتوں نے مقررہ مدت میں چندہ جمع کر دیا.اس سے خدا تعالیٰ نے ثابت کر دیا ہے کہ اللہ تعالی کمزور جماعتوں کو لیکر ان سے جو کام لیتا ہے وہ بڑے بڑے لوگ بھی نہیں کر سکتے.کجا ہندوستان پھر کجا مسلمان احمدی جماعت اور پھر کجا انکی بھی عورتیں کہ ان کے سرمایہ سے برلن میں مسجد تیار ہو.یہ بادشاہوں کے لئے عبرت اور غیرت کا مقام ہے.اور انہیں کہا جا سکتا ہے کہ تمہارے پاس مال تھے.تمہارے پاس ملک تھے.تمہارے پاس سامان تھے.مگر تم عیش و عشرت میں پڑے رہے اور اپنے اموال کو اپنے نفسوں پر خرچ کرتے رہے مگر اس کمزور جماعت کے کمزور حصہ نے جسے تم کافر کہتے ہو اس کی عورتوں نے کفر گڑھ میں مسجد بنانا شروع کر دی.میں تو اس بات کو نہیں مانتا لیکن کہتے ہیں قارون کا خزانہ زمین میں دفن ہے.یہ مثال کے لئے عمدہ بات ہے ہم خزانہ رکھنے والوں کو کہہ سکتے ہیں کہ تمہارے خزانے تو زمین کے نیچے دفن ہیں یا تمہارے نفسوں پر خرچ ہوئے مگر دیکھو ایک غریب جماعت کی عورتوں نے کس طرح خدا تعالیٰ کے لئے اپنا مال خرچ کیا.کہا جاتا ہے کہ ہم مسلمان بادشاہوں کا کیوں ساتھ نہ دیں.میں کہتا ہوں ان کی بادشاہت اور ان کے خزانوں سے اسلام کو کیا فائدہ پہنچا.ان کا خزانہ تو قارون کے خزانہ کی طرح بند ہی رہا.اصل خزانہ احمدی جماعت کا ہی خزانہ ہے جو خدا کے دین کے لئے خرچ ہو رہا ہے.وہ لوگ جو امیر ہیں دراصل غریب ہیں کہ اسلام کے لئے ان کے اموال خرچ نہیں ہوتے اور ہماری جماعت جو غریب ہے حقیقت میں یہی امیر ہے کہ اس کا مال دنیا کے فائدہ کے لئے خرچ ہو رہا ہے.پس یہ کس قدر شکر کا مقام ہے کہ ایک قلیل عرصہ میں قلیل جماعت کی قلیل تعداد اور کمزور حصہ نے مطلوبہ سرمایہ سے بھی زیادہ جمع کر دیا.اور مسجد بننے کا کام شروع ہو گیا.آج میں نے اس بات کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ میں نے لکھا تھا جب مسجد کی بنیاد رکھنے کا کام شروع ہو تو یہاں تار دیں تاکہ جماعت دعا کرے.آج تار آگئی ہے جس میں لکھا ہے کہ آج کے دن 9 بجے بنیادیں کھدنی
147 شروع ہو جائیں گی.چونکہ وہاں یہاں کی نسبت بعد میں سورج طلوع ہوتا ہے اس لئے وہاں کے ؟ بجے کے یہ معنے ہیں کہ اس وقت جو جمعہ کی نماز کا وقت ہے وہاں 9 بجیں گے.اور گویا اس وقت وہاں بنیادیں کھودی جا رہی ہوں گی.چونکہ یہ خصوصیت سے قبولیت دعا کا وقت ہے اس لئے میں جماعت سے درخواست کرتا ہوں کہ دعا کریں خدا تعالیٰ اس کام کو بابرکت کرے اور جس طرح عیسائیت ان ممالک میں پھیلی اس سے بڑھ کر اسلام پھیلے اور جس طرح ہم نے وہاں مسجد بننے کی خوشخبری سن لی ہے اسی طرح اسلام کی ترقی اور عظمت کا نظارہ بھی اپنی زندگی میں دیکھ لیں.اس میں شبہ نہیں کہ یہ کام ہو کر رہے گا اور ضرور ہو گا مگر جو شخص کسی کام کے کرنے میں حصہ لیتا ہے اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی تکمیل کو بھی دیکھے.ہم نے اس کام میں حصہ لیا اور ہماری بھی خواہش ہے کہ ہم اپنی زندگی میں وہاں توحید کی پرستش ہوتی دیکھیں اور سب لوگ ایک خدا کی عبادت کرتے نظر آئیں.یہ کام ہو گا مگر ہماری خواہش ہے کہ ہمیں بھی اس کو دیکھنے کا موقع نصیب ہو.اسی طرح ۵ / اگست کے متعلق بھی اعلان ہوگا اور اس دن جس وقت بنیاد رکھی جائے گی وہ یہاں کے لحاظ سے عشاء کے قریب کا وقت ہو گا.میں دوسرے خطبہ کے بعد کھڑا ہو کر دعا کروں گا جماعت بھی دعا میں شامل ہو.دوسرا عربی خطبہ پڑھنے کے بعد فرمایا.یہ آخری فقره اذكروا الله يذکر کم کہ تم خدا کو یاد کرو.خدا تم کو یاد کرے گا.اس میں بھی اسی بات کا ذکر ہے دیکھو عزت اور شرف کیا ہے.یہی کہ حکومت یاد کرے.انسان بادشاہ کا مقرب ہو جائے خدا تعالیٰ فرماتا ہے اذكروا الله يذكركم تم خدا کو یاد کرو تو خدا کے مقرب ہو جاؤ گے.اور خدا کے ذکر کی سب سے اعلیٰ جگہ مسجد ہے گویا خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا کے ذکر کے سامان مہیا کرو.تمہارا ذکر بھی بلند ہو جائے گا.پس اگر دنیا میں خدا تعالیٰ کی وحدانیت قائم ہو جائے اور لوگ صرف خدا ہی کے آگے سجدہ کریں تو سمجھو ہم بھی کامیاب ہو گئے اور ہمیں اس روحانی جنگ میں فتح حاصل ہو گئی.ورنہ کئی قومیں لڑیں اور تباہ ہو گئیں.اب ان کا نام و نشان بھی نہیں ملتا.پس خدا تعالیٰ کے ذکر سے ہی ہماری یاد قائم رہ سکتی ہے.یوں تو شریروں کی یاد بھی قائم رہتی ہے لیکن کیا ان کا نام کوئی عزت اور توقیر سے لیتا ہے ہرگز نہیں.اصل یاد خدا تعالیٰ کے ذکر سے ہی قائم رہتی ہے.اور پھر کوئی اسے مٹا نہیں سکتا.پس جو نیک کام کرتے ہیں انہی کی یاد قائم رہتی ہے.اب میں دعا کرتا ہوں.عورتیں بھی دعا میں شامل ہوں.(الفضل ۳ اگست ۱۹۲۳ء)
148 ا طبقات ابن سعد جزو اول ص الله ۲ سیرت ابن ہشام جزو اول ص۱۹۷ تاریخ الخلفاء کانپوری ص ۵۳
149 27 ہدایات کی پابندی اور اطاعت (فرموده ۳ اگست ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.ہر ایک چیز جو دنیا میں پائی جاتی ہے وہ اپنے ساتھ کچھ خصوصیات رکھتی ہے.اور جب تک ان خصوصیات کو مد نظر نہ رکھا جائے اور ان کی نگہداشت نہ کی جائے وہ چیز فنا ہو جاتی ہے.اور ہر چیز مختلف اوقات میں مختلف خصوصیات رکھتی ہے.اگر ان خصوصیات کی نگہداشت نہ ہو تو اس وقت ہلاک ہو جاتی ہے.انسان ہی کو لے لو.اس کی مختلف حالتیں ہوتی ہیں.کسی وقت اور حالت میں ہوتا ہے.اس وقت اس کی خصوصیات اور ہوتی ہیں.کسی وقت اس سے مختلف حالت میں ہوتا ہے اس وقت اس کی خصوصیات بھی مختلف ہو جاتی ہیں.جب اولاد باپ کے جسم میں ہوتی ہے اس وقت اس کی غذائیں اور ہوتی ہیں اور اس وقت اس کی نگہداشت کے لئے اور چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے.پھر جب بچہ ماں کے پیٹ میں چلا جاتا ہے تو اس کی پہلی حالت بدل جاتی ہے.بعض انسان ایسے ہوتے ہیں جو کہ بعض غذاؤں کے کھانے یا بعض بد پرہیزیوں کے کرنے سے ان کے وہ جرمز مرجاتے ہیں جن سے اولاد پیدا ہوتی ہے.مگر جب ماں کے پیٹ میں بچہ چلا جاتا ہے تو وہ غذا ئیں اور بد پرہیزیاں ماں کے پیٹ میں بچہ کو ضرر نہیں پہنچا سکتیں بلکہ اس وقت اور احتیاطوں اور پر ہیزوں کی ضرورت ہوتی ہے.اگر وہ نہ کئے جائیں تو بچہ ضائع ہو جاتا ہے.باپ کتنا اچھلے کو دے.اس کے جسم سے اچھلنے کودنے کی وجہ سے اولاد پیدا ہونے کا مادہ ضائع نہیں ہو گا.لیکن جب بچہ ماں کے پیٹ میں چلا جائے تو ماں کے لئے اتنی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کہ کہیں اونچا نیچا قدم نہ پڑ جائے.اب چونکہ بچہ کی حالت بدل گئی اس لئے احتیاطیں بھی بدل گئیں.غذا ئیں بدل گئیں.وہ ادویات جو مرد کھا کر قوت حاصل کرتے ہیں وہ اگر عورت کھا لے تو بچہ ضائع ہو جائے.پھر جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو حالت اور ہو جاتی ہے.ابھی چند منٹ پہلے اگر کسی ذریعہ سے ہوا کا جھونکا بچہ کے ناک تک پہنچا دیا جاتا تو وہ مرجاتا ہے لیکن پیدا ہونے کے بعد اگر معا" اس کے پھیپھڑوں میں ہوا
150 نہیں جاتی تو مر جاتا ہے.پہلے وہ ایک اندھیری کوٹھڑی میں رہتا تھا.اگر وہاں سے اسے جدا کیا جاتا تو مرجاتا لیکن اب اگر اسے اندھیری جگہ میں رکھا جاتا ہے تو مرجاتا ہے.پہلے جس جگہ وہ رہتا تھا اس کو اگر خشک کر دیا جاتا تو مر جاتا.لیکن اب اگر اسے بھگو کر رکھا جاتا ہے تو نمونیہ ہو کر مر جاتا ہے تو حالات بالکل بدل گئے.جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اس وقت اگر کسی طرح غذا اس کے پیٹ میں پہنچا دی جائے تو مر جائے گا.لیکن جب پیدا ہو جائے اس وقت اگر غذا نہ دی جائے تو مر جائے گا.چند سیکنڈ ماں کے پیٹ سے باہر آنے میں بچہ کو لگتے ہیں.لیکن اسی میں حالت بالکل بدل جاتی ہے.پیدا ہونے سے قبل بعض احتیاطوں کی ضرورت ہوتی ہے.وہ اگر نہ کی جائیں تو بچہ مر جاتا ہے لیکن پیدا ہونے کے بعد اور احتیاطوں کی ضرورت ہوتی ہے.وہ اگر نہ کی جائیں تو بچہ ہلاک ہو جاتا ہے.پھر بچپن کی حالت ہوتی ہے.دودھ پینے کی حالت میں اگر بچہ کو کوئی روٹی یا بوٹیاں کھلا دے تو وہ مرجائے گا.بچہ میں خود تو چبانے کی طاقت نہیں ہوتی لیکن اگر کوئی بیوقوف ماں یا رشتہ دار چبا کر بچہ کے منہ میں ڈال دے تو وہ بیمار ہو کر مر جائے گا.مگر بڑے ہو کے اگر اسے صرف دودھ پر رکھا جائے تو مر جائے گا کیونکہ جب بچہ تھا اس وقت اس کی غذا دودھ تھی.جب دانت نکل آئے تو اور غذا ہو گئی.اس وقت دودھ پر وہ گزارہ نہیں کر سکتا لیکن بچپن میں وہ ان غذاؤں پر گزارہ نہیں کر سکتا تھا.اس کے بعد پھر اور تغیر ہوتا ہے.اور وہ یہ کہ بچہ کو اگر آزاد نہ چھوڑا جائے تو وہ دماغی ترقی نہیں کر سکتا.اس وقت ضرورت ہوتی ہے کہ بچہ آزاد چھوڑا جائے تاکہ وہ کھیلے کو دے.مگر کچھ عرصہ بعد ایک اور زمانہ آتا ہے اس وقت اگر اس کا دماغ کسی خاص طرف نہ لگایا جائے تو وہ باکل غبی اور کند ذہن ہو جاتا ہے.وہی بچہ جسے پانچ چھ سال پہلے اگر کسی دماغی کام پر لگایا جاتا تو اس کا دماغ خراب ہو جاتا.اسی کو اگر آٹھ دس سال کی عمر میں دماغی کام پر نہیں لگایا جاتا تو اس کا دماغ خراب ہو جاتا ہے.کتنی الٹ بات ہے پھر بچہ اس سے اوپر ترقی کرتا ہے.اور بالغ کامل ہو جاتا ہے.اس زمانہ میں اور پہلے زمانہ میں عظیم الشان فرق ہوتا ہے.پہلے زمانہ میں تو اس کے متعلق احتیاط یہ تھی کہ اسے اپنے اندر بڑھنے اور مضبوط ہونے دیا جائے.اس کے والدین اس کے استادوں اور نگرانوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس کے اندر ترقی ہو.اور اگر وہ جہالت یا غلطی یا بد محبت کی وجہ سے اپنی طاقتوں کو خرچ کرتا ہے تو اس کی صحت خراب ہو جاتی ہے.لیکن جب بالغ ہو جاتا ہے.اس وقت اگر ان طاقتوں کو خرچ نہ کرے بلکہ بند رکھے تو اس کی صحت خراب ہو جاتی ہے.کتنا بڑا تغیر ہے.اس کے بعد ایک اور زمانہ آتا ہے.یعنی جوانی کے بعد ادھیڑ عمر جوانی میں اگر اپنی طاقتوں کو
151 صرف کرنے سے پر ہیز کرتا ہے تو اس کی صحت کمزور ہو جاتی ہے اور مختلف قسم کے بوجھ اٹھانے کی طاقت اس میں پیدا نہیں ہوتی.اسی طرح اب اگر غذا میں کھانے پینے میں پر ہیز نہیں کرتا تو اس کی صحت کو نقصان پہنچتا ہے جس طرح جوانی میں اگر احتیاط کرتا تو نقصان ہوتا.جو لوگ جوانی میں بہت پر ہیز کرتے ہیں.وہ ادھیڑ عمر میں بہت کمزور ہو جاتے ہیں.تو جوانی کے بعد ادھیڑ عمر کا زمانہ آتا ہے اس میں ایک اور تغیر پیدا ہو جاتا ہے.جوانی میں اگر مجاہدات کی ضرورت ہوتی ہے کہ ان کے ذریعہ ترقی ہوتی ہے تو اب یہ ضرورت ہوتی ہے کہ انسان نفس کی طاقت کو قائم رکھے.ورنہ نقصان پہنچتا ہے.پھر انسان بوڑھا ہو جاتا ہے.اس حالت میں ایک اور تغیر آتا ہے اور وہ یہ کہ پہلے تو پر ہیز کرنے کی ضرورت ہوتی تھی مگر اب قدرتی طور پر ایسے سامان پیدا ہو جاتے ہیں کہ اگر انسان بد پر ہیزی کرنا بھی چاہے تو نہیں کر سکتا.دانت ٹوٹ جاتے ہیں نازک اور کام کرنے کی قوتیں ضائع ہو جاتی ہیں اور نہ صرف جسمانی طور پر بلکہ عقلی اور روحانی حالت کے لحاظ سے بھی انسان ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اللہ تعالی کی تائید اور نصرت ہی قائم رکھے تو رہ سکتا ہے.اسی لئے جسمانی اور روحانی انسانوں میں فرق ہوتا ہے.جسمانی انسان جتنے بوڑھے ہوتے ہیں اتنی ہی ان کی طاقتیں کمزور اور قابلیتیں زائل ہوتی جاتی ہیں لیکن جو روحانی انسان ہوتے ہیں ان کی طاقتوں میں ترقی ہوتی جاتی ہے جسمانی انسان بڑھاپے میں علم بھی بھول جاتے ہیں اور وہ عالم نہیں رہتے.لوگوں کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے.لیکن روحانی انسان جتنے بوڑھے ہوتے ہیں اتنی ہی زیادہ ان کے علوم میں ترقی ہوتی ہے اور وہ یوں دنیا کے لئے زیادہ نفع رساں ہوتے ہیں.یورپ میں سائنس دان جب بوڑھے ہو جاتے ہیں تو پھر ان کی وہ قدر نہیں رہتی جو جوانی کے ایام میں ہوتی ہے اور ان کے متعلق کہدیا جاتا ہے کہ یہ پرانے لوگ ہیں.مگر نبی مجتنے بوڑھے ہوتے ہیں اتنے ہی زیادہ فیوض دنیا کو پہنچاتے ہیں.حضرت سیح موعود ۷۴ سال کی عمر میں فوت ہوئے.گو آپ کی ابتدائی کتابیں بھی بے نظیر ہیں مگر پہلی اور آخری کتابوں میں وہی نسبت معلوم ہوتی ہے جو سورج کے مقابلہ میں ستاروں کو ہے.میں نے بڑے بڑے مصنفوں کی کتابوں کے متعلق رائیں پڑھی ہیں اور مجھے شروع سے شوق رہا ہے کہ مصنفوں کے حالات پڑھوں.میں نے دیکھا کہ بڑے بڑے مصنفوں کی جتنی بڑی اور مشہور کتابیں ہیں وہ ان کے جوانی کے زمانہ کی لکھی ہوئی ہیں.مگر نبیوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ سب سے آخری کتاب اس سے پہلی سے زیادہ شاندار ہوتی ہے اور اس سے پہلی اس سے پہلی سے.یہ تو میں نے تغیرات کی موٹی موٹی باتیں بیان کی ہیں.ورنہ ہر لمحہ اور ہر لہجہ میں تغیر ہوتا ہے اور اگر ان احتیاطوں کو مد نظر نہ رکھا جائے جو اس وقت ضروری ہوتی ہیں تو انسان ترقی نہیں پا سکتا.
152 مثلاً جب انسان باپ کے جسم میں ہوتا ہے اس وقت اگر وہ احتیاطیں نہ کی جائیں جن سے نطفہ پیدا ہوتا ہے تو انسان پیدا نہیں ہو سکتا کیونکہ نطفہ ساتھ کے ساتھ مرتا جاتا ہے.اسی طرح جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اس وقت اگر ضروری احتیاطیں نہ کی جائیں تو ماں کے پیٹ میں ہی مرجائے گا اور دنیا میں نہ آئے گا.پھر جب پیدا ہوتا ہے اس وقت اگر مناسب احتیاطیں نہ کی جائیں یا وہ احتیاطیں کی جائیں جو بلوغت میں کرنی چاہئیں تو بھی نہیں بچے گا یا پھر جب اس کے دانت نکل آئیں اس وقت اس کے لئے وہ احتیاطیں کی جائیں جو دودھ پیتے بچے کے لئے ضروری ہوتی ہیں یا بلوغت کے قریب پہنچے ہوئے بچے کے لئے.تو یا تو وہ مرجائے گا یا اس کی جسمانی اور دماغی حالت بہت کمزور ہو جائے گی.پھر جب وہ بلوغت کو پہنچے اس وقت اگر وہ احتیاطیں کی جائیں گی جو بھرپور جوانی میں کرنی چاہئیں یا جو بچپن کے لئے مناسب ہیں تو یا تو اس کا جسم ضائع ہو جائے گا یا روح ضائع ہو جائے گی.یہی ہر حالت کا حال ہے.تب ہی اور صرف تبھی ترقی ہو سکتی ہے جبکہ ہر زمانہ کے حالات کو مد نظر رکھا جائے اور ان کے مطابق پر ہیز کیا جائے.جس طرح انسانوں میں یہ تغیرات ہوتے ہیں اسی طرح قوموں میں بھی ہوتے ہیں.قوموں کی حالت بھی ایک وقت نطفہ کی ہوتی ہے.قومیں بھی ماں کے پیٹ میں بچہ کی طرح ہوتی ہیں.قومیں بھی بالغ ہوتی ہیں.ادھیڑ عمر کو پہنچتی ہیں.بوڑھی ہو جاتی ہیں اور اس حالت کو بھی پہنچ جاتی ہیں کہ جس طرح کہتے ہیں فلاں انسان مر گیا.اسی طرح قومیں بھی مرجاتی ہیں اور جس طرح انسانوں سے مختلف حالات میں مختلف سلوک ہوتا ہے اسی طرح قوموں کے لئے بھی ایسا ہی ہونا ضروری ہے ورنہ اگر نگران اس بات کا خیال نہ رکھیں تو تو میں بھی ترقی نہیں کرتیں بلکہ مرجاتی ہیں.ہماری جماعت خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت ہے اور خدا تعالیٰ کا قانون جس طرح اوروں پر چلتا ہے اسی طرح ہمارے اوپر بھی چلتا ہے.پیچھے میں نے جو کچھ بنایا ہے.یہ خدا تعالی کا قانون ہے کسی بندہ کا بنایا ہوا نہیں.اگر کسی بندہ کا بنایا ہوتا تو انسان چونکہ وہ ظلمتیں نہ سمجھتے جو خدا تعالیٰ نے اس قانون میں رکھی ہیں.اس لئے وہ تو یہی تجویز کرتے کہ ماں کے پیٹ سے بچہ پیدا ہونے کی کیا ضرورت ہے.یوں ہی پیدا ہو جایا کرے.پھر بچپن کی حالت کی کیا ضرورت ہے پورا انسان پیدا ہو جائے.پھر کہتے موت کی کیا ضرورت ہے انسان ہمیشہ زندہ ہی رہے.حالانکہ انسان کی ساری ترقی انہی تغیرات پر ہے.ان تغیرات کو اگر اٹھا دیا جائے تو ساری ترقی بیخ و بن سے اکھڑ جاتی ہے.پس خدا تعالیٰ نے یہ قانون بنایا ہے اور جس طرح یہ قانون انسانوں کے لئے ہے اسی طرح قوموں کے لئے بھی ہے اور اس سے ہم آزاد نہیں ہو سکتے.بندوں کے قانون سے آزاد ہو سکتے ہیں.لیکن خدا کے قانون سے آزاد نہیں ہو سکتے.اگر افغانستان کی حکومت کوئی قانون بناتی ہے تو
153 ہم اس کی پابندی سے آزاد ہوتے ہیں کیونکہ ہم انگریزوں کے ماتحت رہتے ہیں.اور اگر انگریز کوئی ایسا قانون بناتے ہیں جس کی پابندی ہم نہیں کرنا چاہتے تو اس ملک کو چھوڑ کر عرب افغانستان وغیرہ ممالک میں جا سکتے ہیں.اسی طرح اور ممالک میں ہو سکتا ہے اور بعض جگہ تو وہ قانون ہی بدل دیا جا سکتا ہے جو ناقابل عمل ہو.اور یہ اسی جگہ ہو سکتا ہے جہاں رعایا کو آزادی حاصل ہو.مگر یہ خدا کا قانون ہے اس کو کوئی بدل نہیں سکتا.اور جب تک اس کے ماتحت اپنی زندگی کو نہیں لاتا.کسی قسم کی ترقی نہیں کر سکتا.خدا تعالیٰ نے کامل انسان کی مثال نطفہ سے دی ہے جیسے سورہ مومنون میں بیان فرمایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وضاحت سے اس کی تفصیل براہین احمدیہ حصہ پنجم میں فرمائی ہے.پس قو میں نطفہ کی طرح ہوتی ہیں اور پھر اس سے ترقی کرتی ہیں اور ان کے لئے اسی طرح حالات بدلتے رہتے ہیں جس طرح نطفہ کے لئے.اس کے بغیر کوئی ترقی نہیں کر سکتیں.ہماری جماعت کی حالت بھی ایسی ہے کہ یہ ان مدارج میں سے گذر رہی ہے اور بلحاظ اس کے کہ نئی جماعت ہے اور ان حالات میں سے نہیں گزر چکی.جن میں سے گزرنا کمال تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے.اس کی حالت بچہ کی سی ہے.مگر اس نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے لوگ جو ایمان لاتے ہیں.یا بعض جماعتیں جو ایمان لاتی ہیں، کہتی ہیں جس دن ہم نے بیعت کی اسی دن کامل ہو گئے.حالانکہ یہ ایسی ہی بات ہے جیسا کہ کہا جائے جس دن بچہ نے پیدا ہو کر سانس لیا اسی دن کامل انسان ہو گیا.لیکن کیا وہ بچہ جو آج پیدا ہو.وہ اور وہ جو ماں باپ اور استادوں کی تربیت میں کئی سال رہا ہو.برابر ہو سکتے ہیں.میں نے ابھی بتایا ہے کہ مختلف تغیرات میں مختلف حالات ہوتے ہیں اور جب تک کوئی ان حالات میں سے نہ گزرے ترقی نہیں کر سکتا.دیکھو ایک وقت کہا جاتا ہے کہ اب بچہ کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں خود کھاتا کماتا ہے.مگر ایک وقت وہ ہوتا ہے کہ ماں کو کہا جاتا ہے کسی وقت بچہ کو اکیلا نہ چھوڑے پھر ایک وقت تو اتنا بھی پسند نہیں کیا جاتا کہ ماں بچہ کو چھوڑ کر دوسرے کمرہ میں چلی جائے مگر ایک وقت آتا ہے جب پسند ہی نہیں کیا جاتا بلکہ ضروری قرار دیتے ہیں کہ لڑکا بیوی کو لے کر الگ رہے.یہی حالت روحانیت کی ہوتی ہے.اس میں بھی جب تک انسان مختلف تغیرات میں سے نہ گزرے کامل نہیں ہو سکتا.دنیاوی علوم کے لحاظ سے خواہ کوئی بی.اے یا ایم.اے ہو جائے مگر روحانیت میں اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا.جب تک روحانیت کے لئے کوشش شروع نہ کرے گا اور اس میں لمبے عرصہ کے بعد کامل ہوگا جس طرح دنیاوی علوم لمبے عرصہ اور محنت کے بعد اور استادوں کی نگرانی میں انسان سیکھتا ہے اسی طرح روحانیت بھی لمبے عرصہ میں محنت کرنے اور روحانی انسانوں کی نگرانی میں رہنے سے حاصل ہو سکتی
154 ہے اور کوئی شخص اس قانون کو چھوڑ کر کامیاب نہیں ہو سکتا.اگر کوئی پہلے دن ایم.اے کی کتابیں لیکر پڑھنا سیکھے تو ساری عمر خرچ کر دینے پر بھی کچھ نہ سیکھ سکے گا.پہلے ا ب شروع کرے گا پھر الفاظ سیکھے گا پھر فقرے بنائے گا.اور اس طرح آہستہ آہستہ ترقی کرتا جائے گا.اور ٹکڑے ٹکڑے جوڑ کر عمارت تیار کرے گا.اور ایم.اے یا مولوی کہلائے گا.ورنہ اگر وہ کہے کہ اس قانون پر عمل کئے بغیر ایم.اے بن جاؤں تو ناکام رہے گا.اسی طرح روحانی حالت میں ہوتا ہے پہلے انسان کو اپنے نفس پر ایسے قانون جاری کرنے پڑتے ا.ہیں جیسے چھوٹے بچہ پر جاری ہوتے ہیں.پھر ترقی کرتا ہے اور جوں جوں حالات بدلتے جاتے ہیں اس کے لئے پابندیاں بھی بدلتی جاتی ہیں.ابتدائی حالت میں اس کا یہ کہنا کہ فلاں کی یہ حالت ہے.میں بھی کیوں اس کی طرح نہ کروں.نادانی ہوگی.دیکھو باپ جب بچہ کو کہے کہ میری اجازت لیکر باہر جایا کرو.تو کیا بچہ کا یہ کہنا کہ تم کس کی اجازت سے جاتے ہو.درست ہو سکتا ہے.بات یہ ہے کہ باپ تو وہ زمانہ گزار چکا ہے جب اجازت لینے کی ضرورت تھی اور اب اسے اجازت لینے کی ضرورت نہیں.لیکن بچہ کا اب وہ زمانہ ہے.اسی طرح قوموں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ جب تک ان کی حالت بچپن کی سی ہو.وہ اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں میں بھی اس سے ہدایات لیں جس کے سپرد ان کی نگرانی ہو اور پھر کوئی کام کریں.جب تک کسی قوم کی روایات قائم نہ ہوں.اس وقت تک اسے ہدایات کی سخت پابندی کرنی چاہئیے.جو بچہ اپنے نگران کی ہدایات پر عمل کرنے کی بجائے جوان آدمی کی نقل کرنے لگے گا.وہ ہلاک ہو گا.اسی طرح وہ قوم جس کے لئے اس کی روایات نہیں اور مثالیں موجود نہیں وہ اگر کسی جوان قوم کی نقل کرے گی تو تباہ ہوگی.مگر افسوس کہ بہت لوگ اس بات کو سمجھتے نہیں اور جانتے نہیں کہ کوئی قوم قوم نہیں بن سکتی جب تک سخت مجاہدات کر کے جوانی کی عمر تک اسے نہ پہنچائیں.جب قوم جوانی کی حالت کو پہنچ جائے گی قانون بن جائیں گے روایات قائم ہو جائیں گی، تو پھر اس قدر پابندیوں اور اس قدر نگرانی کی ضرورت نہ رہے گا.دیکھو اگر دو جوان آدمیوں کو کسی جگہ بٹھا دیں تو وہ آپس میں نہیں لڑیں گے لیکن اگر دو بچے بیٹھے ہوں گے تو جھٹ لڑنا شروع کر دیں گے.وجہ یہ کہ ان کی تربیت نہیں ہوئی ہوتی اور وہ نگرانی کے محتاج ہوتے ہیں.اور جب تربیت میں سے انسان گزر جاتا ہے تو پھر اسے خیال ہی نہیں ہوتا کہ کسی بات کی پابندی کر رہا ہوں کیونکہ وہ عادی ہو جاتا ہے.مثلاً چھوٹا بچہ جب منڈیر پر جھانکے اور ماں باپ روکیں تو روتا ہے اور سمجھتا ہے کہ مجھے پر جبر کر رہے ہیں.مگر جب بڑے جھانکا کرتے ہیں.کیوں ان کو کوئی روکتا نہیں.اور حکم نہیں دے رہا ہوتا کہ مت جھکو.لیکن وہی بچپن کا حکم ان کے پیش نظر ہوتا ہے.اور اس حکم کی غیر معلوم آواز کے وہ پابند ہوتے ہیں.
155 ہماری جماعت اگر ترقی کرنا چاہتی ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ سخت مجاہدات کر کے اپنے آپ کو جوانی کے مقام پر پہنچائے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ لوگ چھوٹی چھوٹی پابندیوں پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.حریت کا لفظ انہوں نے سنا ہوا ہے.وہ سمجھتے ہیں اگر اب ہم نے اسے استعمال نہ کیا تو اور کس وقت کریں گے.مگر ان کی حریت ایسی ہی ہوتی ہے جیسے علاقہ ملکانہ سے ایک نے لکھا کہ ادھر تو احمدی ہیں ہی نہیں.سب غیر احمدی اور ہندو ہیں.میں حکم کے ماتحت یہاں ٹھہرا ہوا تو ہوں.مگر خیال آتا ہے کہ قرآن کریم کا یہ حکم کہ لا تلقوا بايديكم الى التهلكة کس وقت کے لئے ہے.اس کو اس حکم کا وہی موقع نظر آیا.اس وقت ہماری جماعت جس حالت میں سے گزر رہی ہے اس میں اسے پابندیوں کی سخت ضرورت ہے.پس میں اپنی جماعت کو یہی نصیحت کروں گا کہ اگر تم ترقی اور کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو.تو تربیت کے ماتحت رہ کر ہی حاصل کر سکتے ہو.جب تک پابندیوں کے لئے تیار نہ ہو گے اور جب تک احکام کے جوئے کے نیچے گردن نہ رکھ دو گے کچھ ترقی نہ کر سکو گے بے شک جوتا پہلے پہل بو جھل لگتا ہے.مگر جب عادت ہو جائے تو پھر اس کا احساس بھی نہیں رہتا.دیکھو بچوں کو بمشکل جوتی پہنائی جاتی ہے گھر میں بچوں کو جب جوتی پہناتے ہیں تو وہ پھینک کر باہر بھاگ جاتے ہیں.اور جب زور دیا جائے تو ان کے چہرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے بڑی پابندی سمجھ رہے ہیں.لیکن بڑے آدمی کو کہو کہ جوتی نہ پہنے تو وہ کہے گا یہ بد تہذیبی ہے.اسی طرح نیک کام کا بھی جب انسان عادی ہو جاتا ہے تو پھر اسے اس کی پابندی گراں نہیں گزرتی.حضرت مسیح کہتے ہیں موت کے لئے روح تو تیار ہے.مگر جسم تیار نہیں.کیوں اس کا عادی نہیں تھا.چاہیے کہ ہماری جماعت کے افراد خواہ وہ قادیان میں رہتے ہوں یا باہر اپنے آپ کو ہر بات میں ہدایات اور قوانین کا پابند بنائیں اور اس کی ایسی عادت ڈالیں کہ ان کو قوانین معلوم ہی نہ ہوں.دیکھو بچے ننگے پاؤں پھرتے ہیں مگر بڑے ہو کر نہیں چاہتے کہ جوتی نہ پہنیں.بچے پڑھتے نہیں مگر بڑے ہو کر پڑھتے ہیں کیونکہ اسی میں فائدہ سمجھتے ہیں.تمہاری یہی حالت ہو.اور اب اگر ہدایات کی پابندی کی عادت ڈالو گے تو پھر ان کی پابندی کرنے میں کوئی تکلیف نہ ہوگی.عادت تو بری بھی جس کو پڑ جاتی ہے وہ کرتا رہتا ہے.پھر اگر نیکی کی عادت ڈالو گے تو وہ کیوں اچھی نہ لگے گی.پس پورے طور پر قوائد کے فرمانبردار بن جاؤ اور اطاعت کی عادت ڈالو ورنہ یاد رکھو قطعا" ترقی نہ حاصل ہوگی.قوانین کی پابندی چھوڑ کر نہ پہلے کسی قوم نے ترقی کی ہے نہ اب کر سکتی ہے.اپنے اپنے زمانہ کی پابندیوں کو مد نظر رکھنے کی وجہ سے پہلے لوگوں نے ترقی کی.اسی طرح تم کر سکتے ہو.اللہ تعالٰی ہماری جماعت کو ان رستوں پر چلائے جو کامیابی کے رستے ہیں اور کامیابی کے لئے جن باتوں کی ضرورت ہے ان کے سمجھنے اور ان پر عمل
کرنے کی توفیق دے.156 الفضل مار اگست ۱۹۲۳ء)
157 28 صراط مستقیم کی دعا قبول نہ ہونے کی وجہ (فرموده ۱۰ / اگست ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.ایک مسلمان دن میں ۲۷-۲۸ دفعہ سے لیکر ۵۰-۶۰ دفعہ تک روزانہ اللہ تعالٰی سے دعا مانگتا ہے.اهدنا الصراط المستقیم کہ سیدھا رستہ دکھا.مگر باوجود اس کے کہ اس قدر دعائیں کرتا ہے.پھر بھی یہ دعا بالعموم ہم دیکھتے ہیں اس زمانہ میں قبول نہیں ہوتی.اس کو سیدھا رستہ نہیں دکھایا جاتا.اس کے مقابلہ میں ہم دیکھتے ہیں ایک عورت کا بچہ بیمار ہوتا ہے اور ایسی حالت کو پہنچ جاتا ہے کہ اطباء اس کی زندگی سے مایوس ہو کر کہدیتے ہیں اب یہ نہیں بچے گا.ڈاکٹر اس کی زندگی کے متعلق شبہ میں پڑ جاتے ہیں.دیکھنے والوں کو یقین ہو جاتا ہے کہ بچہ بچنے والا نہیں.لیکن وہ عورت اللہ تعالٰی کے آگے گڑگڑاتی ہے اور بچہ کی صحت کے لئے دعا مانگتی ہے.اور وہ بچہ بچ جاتا ہے.اسی طرح ہم دیکھتے ہیں جب کوئی انسان انتہائی مشکلات میں مبتلا ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری کرتا ہے تو اس کی مشکلات دور ہو جاتی ہیں.ایک شخص مقدمات میں گرفتار ہو جاتا ہے.اور اس کے بچنے کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی لیکن وہ خدا تعالیٰ کے سامنے عاجزی اور فرونتی اختیار کرکے دعا کرتا ہے اور رہا ہو جاتا ہے.اسی طرح قید خانہ میں پڑا ہوا انسان جب دعا کرتا ہے تو چھوٹ جاتا ہے.حتی کہ بعض دفعہ تلوار کے نیچے آیا ہوا بھی دعا کے ذریعہ بچ جاتا ہے.لیکن جب کہ یہ دعائیں قبول ہوتی ہیں اور کثرت سے قبول ہوتی ہیں اور کوئی انسان ایسا نہیں جس کی اس قسم کی ایک سے زیادہ دعائیں قبول نہ ہوئی ہوں.حتی کہ دہر یہ بھی مصائب میں گرفتار ہو کر جب کہتا ہے کہ اے خدا اگر تو ہے میں تو نہیں مانتا کہ تو ہے لیکن اگر تیری ہستی ہے تو مجھے اس مصیبت سے بچا.تو خدا تعالیٰ اس کی دعا بھی قبول کر لیتا ہے اور وہ بچ جاتا ہے.لیکن تمام کے تمام مسلمان کہلانے والے لوگ مگر ان میں سے وہ جو نماز پڑھتے ہیں.دن میں متعدد بار یہ دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں اھدنا الصراط المستقیم مگر انہیں صراط مستقیم حاصل نہیں ہوتی.اب
158 سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا خدا تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ کسی کا بچہ بچ جائے.بہ نسبت اس کہ وہ ہدایت پا جائے.کیا خدا کو یہ زیادہ پسند ہے کہ کوئی مقدمہ سے بچ جائے.بہ نسبت اس کے کہ وہ ہدایت پا جائے.کیا خدا کو یہ زیادہ مرغوب ہے کہ کسی کو نوکری مل جائے یہ نسبت اس کے کہ وہ ہدایت پا جائے.کیا خدا کو یہ زیادہ منظور ہے کہ کوئی قید سے رہا ہو جائے.بہ نسبت اس کے کہ شیطان کی قید سے رہا ہو جائے.اگر نہیں تو پھر وہ کیوں اور ساری دعائیں تو سنتا ہے مگر جو ہدایت کے لئے دعا کی جاتی ہے رو کر دیتا ہے.بہت لوگ ہیں جن کے دل میں خواہش اور تڑپ ہوتی ہے یا کم از کم جو سمجھتے ہیں کہ ان کے دل میں خواہش ہے کہ ہدایت ملے مگر ان کو نہیں ملتی.گو ان کے دل میں یہ سوال نہ پیدا ہو کہ کیا وجہ ہے اور دعائیں قبول ہو جاتی ہیں اور یہ قبول نہیں ہوتی.مگر یہ ایک اہم سوال ضرور ہے بہتوں کے دل میں یہ سوال تو پیدا ہو گا کہ بیٹا ہونے کے لئے دعا کریں.اور بیٹا نہ ہو تو کہیں گے کیوں یہ دعا قبول نہیں ہوئی.قید سے رہائی کے لئے دعا کریں اور رہا نہ ہوں تو کہیں گے کیوں رہائی نہیں ہوئی.بیوی کے لئے دعا کریں مگر بیوی نہ ملے تو سوچیں گے کیوں ان کی دعا نہیں سنی گئی.مال کا نقصان نہ ہونے کی دعا کریں.مگر نقصان ہو جائے تو فکر کریں گے کہ کیوں دعا قبول نہ ہوئی.مال ملنے کے لئے دعا کریں اور نہ ملے تو انہیں دعا کے قبول نہ ہونے کا خیال آئے گا.اور بہت ہیں جو کہہ دیتے ہیں کہ دعا کبھی قبول ہی نہیں ہوتی.یہ ایک ڈھکوسلا ہے.مگر ایسے بہت کم ہونگے کہ بیٹے کے لئے دعا کریں اور وہ پیدا ہو جائے.قید سے رہائی کے لئے دعا کریں اور رہا ہو جائیں.بیماری سے شفا کے لئے دعا کریں اور شفا ہو جائے.مگر صراط مستقیم کے لئے دعا کریں اور یہ منظور نہ ہو تو ان کے دل میں خیال پیدا ہو کہ کیوں قبول نہیں ہوئی.ایسے لوگ بہت کم بلکہ نہیں ہیں جو یہ کہیں کہ ہدایت کے لئے ہم دعائیں کرتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ ہدایت نہیں ملتی.اس سے میں سمجھتا ہوں یہ سوال ہی ان کے دل میں پیدا نہیں ہوتا.حالانکہ انسان کی پیدائش کی غرض یہی ہے کہ صراط مستقیم حاصل کرے کیونکہ خدا تعالی فرماتا ہے ما خلقت الجن والانس الا ليعبدون (الذریت : (۵۷) ہم نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ ہمارا بندہ بنے اور کوئی بندہ کس طرح بن سکتا ہے جب تک آقا کے پاس نہ ہو.اور جب تک آقا کے پاس جانے کا رستہ ہی معلوم نہ ہو.اس وقت تک بندہ کس طرح بن سکتا ہے.پس اگر انسان کی پیدائش کی غرض خدا تعالیٰ کا عبد بننا ہے.اور یقینا ہے تو یہ بھی اس کی غرض ہے کہ صراط مستقیم پائے.اور دوسرے الفاظ میں صراط مستقیم پانے کی دعا کا یہ مطلب ہے کہ جس مقصد کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے اسے حاصل کرلے.پھر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ان باتوں کے لئے جب انسان دعائیں کرتے ہیں جو اصل مقصد نہیں وہ تو پوری ہو جاتی ہیں اور اصل مقصد کے لئے جو دعا کرتے
159 ہیں وہ پوری نہیں ہوتی.پھر وہ انسان جس کی اور باتوں میں دعا نہیں سنی جاتی وہ تو اپنے دل میں سوال کرتا ہے کہ کیا بات ہے میری فلاں دعا منظور نہیں ہوئی.اور اس کا ذکر دوسروں سے بھی کرتا ہے.مگر اس امر کی شکایت کبھی میرے پاس نہیں پہنچی.یا اس قدر قلیل پہنچی ہے جو شاذو نادر کا حکم رکھتی ہے.اس لئے میں سمجھتا ہوں یہ سوال ہی لوگوں کے دلوں میں پیدا نہیں ہوتا کہ اھدنا الصراط المستقيم کی دعا کیوں قبول نہیں ہوتی.اب سوال یہ ہے کہ کیوں یہ سوال نہیں پیدا ہوتا.میرے نزدیک اس کا وہی حل ہے جو پہلے بیان کیا ہے.ایک پیا سا جب پانی مانگتا ہے اور نہیں ملتا تو وہ کیا کرتا ہے.چڑتا ہے.اور ناراض ہوتا ہے.کہتا ہے اتنی دیر سے پانی مانگ رہا ہوں کیوں نہیں دیا جاتا.ایک بھو کا جو بھوک سے مر رہا ہو.کیا مانگتا ہی چلا جاتا ہے.نہیں.بلکہ جب اسے کھانے کو کچھ نہیں ملتا تو ناراض ہوتا ہے.دیکھو ایک بچہ جب گھر آتا ہے تو وہ ماں باپ پر حاکم نہیں ہوتا.کچھ کمانے والا نہیں ہوتا.اور ظاہر حالات کو اگر دیکھا جائے تو ماں باپ کے صدقہ کھانا کھاتا ہے مگر جب مانگتا ہے.اور اسے کھانے کے لئے کچھ نہیں ملتا تو ناراض ہوتا ہے.کیوں؟ اس لئے کہ بھوک کی خواہش اسے یاد دلاتی ہے کہ میں ابھی پوری نہیں ہوئی.اور جب تک پوری نہیں ہو جاتی اس وقت تک اسے چین نہیں لینے دیتی.اس کے مقابلہ میں ایک شخص رستہ میں چلا جاتا ہے.اسے کوئی بچہ ملتا ہے.اور وہ اسے پیار کرنا چاہتا ہے لیکن بچہ اس سے منہ پھیر لیتا ہے.اس پر وہ بھی منہ پھیر کر آگے چلا جاتا ہے.اور کوئی خیال ابھا نے دن میں پیدا نہیں ہوتا.وجہ یہ کہ اس شخص کو بچہ سے پیار کرنے کی کچی خواہش نہ تھی بلکہ چلتے چلتے ایک چیز نے سامنے اگر جھوٹی خواہش اس کے دل میں پیدا کر دی تھی اگر اس کے دل میں کچی خواہش ہوتی تو جب تک وہ پوری نہ ہوتی.اسے دکھ اور تکلیف ہوتی.اسی طرح جبکہ ایک مسلمان نمازوں میں کہتا ہے اهدنا الصراط المستقیم اور یہ پوری نہیں ہوتی مگر اس کے دل میں درد اور گھبراہٹ نہیں پیدا ہوتی تو اس کی کیا وجہ ہے.بچہ کے پیدا ہونے کے لئے جب دعائیں کرتا ہے اور وہ قبول نہ ہوں تو ناراض ہو کر کہتا ہے کیوں میری دعا قبول نہیں ہوتی.اور وہ جو ہدایت ملنے کی دعا قبول نہ ہونے پر تسلی پا جاتا ہے.وہ بچہ کے متعلق قبول نہ ہونے پر تسلی نہیں پاتا.اسی طرح جس کا بچہ بیمار ہو وہ اس کی صحت کے لئے دعا کرتا ہے اور جب پوری نہ ہو تو دوسروں سے کراتا ہے.اور بعض دفعہ یہاں تک بھی کہہ دیتا ہے کہ خدا دعا قبول ہی نہیں کرتا.اس سے اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ خدا کو نہیں مانتا بلکہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ کی طرح ناراضگی ظاہر کر رہا ہوتا ہے.جیسا کہ بچہ کو بھوک لگی ہو.اور اس کے مانگنے پر اسے کھانے کو کچھ نہ ملے.یا حسب منشا نہ ملے.تو پھر کہادیتا ہے کہ اب میں نہیں کھاتا.اسی طرح وہ شخص کرتا
160 ہے جس کی دعا قبول نہیں ہوتی.گو اس کی ناراضگی نا جائز ہوتی ہے.اور میں اس کے اس فعل کو جائز نہیں قرار دیتا.مگر یہ نتیجہ ضرور نکالتا ہوں کہ اس کے دل میں سچی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے ہاں بیٹا ہو.یا اس کے بچہ کو صحت ہو.یا اسے مال مل جائے.یا وہ رہا ہو جائے مگر جو شخص صراط مستقیم مانگتا ہے.اور ہیں ہیں سال سے مانگتا چلا آتا ہے.مگر اسے نہیں ملتی.اور اس پر اسے کوئی دکھ اور گھبراہٹ بھی نہیں ہوتی.تو کیا نتیجہ نکلا یہی کہ اسے اس کے لئے کچی خواہش نہیں ہوتی اور جب کچی خواہش نہیں ہوتی تو اللہ تعالی کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ اسے پورا کرے.اس دعا کے قبول نہ ہونے پر اس کے دل میں دکھ، تکلیف اور تڑپ کا نہ ہونا ثبوت ہے اس امر کا کہ اس کے لئے اسے کچی خواہش نہیں تھی.اور یہی وجہ اس کے قبول نہ ہونے کی ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کہتے ہیں میں اپنے موتی سوروں کے آگے نہیں ڈالتا ( متی و لوقا ) خدا تعالیٰ بھی ایسے نادانوں کو ہدایت نہیں دیتا.جن کے دل میں اس کے لئے کچی خواہش نہیں ہوتی.ان کے دل میں سچی تڑپ ہوتی ہے کہ بیٹا ہو.سچی تڑپ ہوتی ہے کہ مال مل جائے.سچی تڑپ ہوتی ہے کہ مشکلات اور مصائب دور ہو جائیں.اس لئے یہ دعائیں قبول ہو جاتی ہیں.مگر اهدنا الصراط المستقیم کی دعا پڑھتے ہیں اور کچی خواہش اس کے لئے نہیں ہوتی.اس لئے ہدایت نہیں ملتی.یہ دعا اس لئے پڑھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ الفاظ نماز میں رکھتے ہیں.اگر آپ یہ الفاظ نماز میں نہ رکھ دیتے تو مہینوں اور سالوں گزر جاتے.اور یہ الفاظ ان کی زبان پر نہ آتے.پس نماز میں جب کوئی شخص اهدنا الصراط المستقیم کہتا ہے تو دراصل وہ نہیں کہہ رہا ہوتا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہہ رہے ہوتے ہیں.اگر پڑھنے والے کو یہ معلوم ہو کہ اگر میں نے یہ الفاظ نہ پڑھے تو بھی نماز ہو جائے گی تو وہ کبھی نہ پڑھتا.مگر چونکہ مولویوں نے اسے سکھایا ہوا ہے کہ اگر کوئی یہ نہ پڑھے گا تو اس کی نماز نہ ہوگی.اس لئے وہ پڑھتا ہے.نہ کہ ہدایت کی غرض اور خواہش کے لئے پڑھتا ہے.اور جب تک کچی تڑپ نہیں ہوتی.کوئی دعا بھی قبول نہیں ہوتی.اگر اس کے لئے بھی ویسی ہی تڑپ ہو جیسی بیمار بچہ کے لئے ہوتی ہے کہ اچھا ہو جائے یا قید سے رہائی ہو جائے یا نقصان سے بچ جائے یا بیٹا پیدا ہو جائے یا کوئی عزیز اور رشتہ دار مل جائے یا اور خواہشات کے پورا ہونے کے متعلق ہوتی ہے.تو ان دعاؤں سے بہت جلدی یہ دعا قبول کیونکہ یہی انسانی پیدائش کا مقصد ہے.اتنی جلدی کوئی رہا نہ ہو.جتنی جلدی اهدنا الصراط المستقیم کی دعا قبول ہو.اتنی جلدی کسی کے ہاں بیٹا نہ ہو.جتنی جلدی یہ دعا قبول ہو غرض کہ کوئی بھی اور دعا اتنی جلدی قبول نہ ہو.جتنی جلدی یہ قبول ہو.کیونکہ یہ عین خدا تعالی کی مرضی اور منشاء کے مطابق ہے.کیونکہ خدا نے انسان کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ ہدایت پائے اور ہو.
161 جب انسان کے دل میں ہدایت پانے کی کچی خواہش پیدا ہو جائے تو یہ دعا بہت جلدی قبول ہو جاتی ہے.دیکھو ایک شخص مینار کے پاس کھڑا ہو.اور ایک دوسرا شخص اس کے پاس جانا چاہیے تو وہ اتنا جلدی اس کے پاس نہیں پہنچے گا جتنا جلدی اگر وہ بھی اس کی طرف چل پڑے.تو پہنچ سکے گا.قید سے رہائی پا جانا یا بچہ پیدا ہونا یا مال مل جانا وغیرہ انسان کا اصلی مقصد نہیں.اس لئے ان باتوں کے حصول کے لئے اسے سارا سفر خود طے کرنا ہوتا ہے.لیکن جب صراط مستقیم کے لئے دعا مانگتا ہے تو ادھر سے خدا اس کی طرف بڑھتا ہے اور ادھر سے یہ خدا تعالیٰ کی طرف جاتا ہے اور درمیان میں مل جاتا ہے.چونکہ خدا تعالیٰ کی اور اس کی خواہش ایک ہو جاتی ہے اس لئے جلدی پوری ہو جاتی ہے.پس اگر اس بات کی کچی خواہش ہو تو اس کا پورا ہونا کوئی بھی مشکل امر نہیں.اور اگر یہ دعا قبول نہیں ہوتی.تو یاد رکھو کہ اس کے لئے سچی تڑپ نہیں ہوتی.بلکہ دکھاوے کی دعا کی جاتی ہے.اور ایسی دعا قابل قبول نہیں ہوتی.بلکہ اس قابل ہوتی ہے کہ دعا کرنے والے کے منہ پر ماری جائے.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ بہت ہیں جو سمجھتے ہیں کہ انہیں ہدایت پانے کی سچی اپ ہے مگر وہ غور کریں.کیا ایسی ہی تڑپ ہوتی ہے جیسی دنیاوی باتوں کے لئے ہوتی ہے.اگر ویسی تڑپ نہیں اگر اس طرح اس کے لئے کھانا پینا حرام نہیں ہو جاتا چین و آرام کا فور نہیں ہو جاتا.جیسا دنیاوی امور کے لئے ہوتا ہے تو سمجھ لو کہ تمہارے اندر سچی تڑپ نہیں ہے اور جب یہ حالت ہو تو قطعا " امید نہ رکھو کہ تمہاری دعا قبول ہوگی لیکن چونکہ انسان کی پیدائش کا یہی مقصد ہے اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ اس کے لئے سچی تڑپ اور حقیقی خواہش پیدا کرو تا اس مقصد کو حاصل کر سکو کیونکہ وہ جو اس کے بغیر مر گیا وہ تباہ ہو گیا.اس مقصد کے لئے دو دفعہ کسی کو پیدا نہیں کیا جائے گا.اس لئے اس موقعہ کو رائیگاں نہ جانے دو.اور مقصد پیدائش کو حاصل کرنے کی کوشش کرو.خدا تعالٰی ہماری جماعت کو اپنے فضل سے کچی راہ دکھائے اور دنیاوی آلائشوں سے پاک کر کے اپنا محبوب بنالے.الفضل ۲۱ اگست ۱۹۲۳ء)
162 29 مومن کو دین کے کام کس طرح کرنے چاہئیں (فرموده ۷ار اگست ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.آج میں ایک اہم معاملہ کے متعلق اپنے دوستوں کو کچھ کہنا چاہتا ہوں.گو بہ سبب کھانسی کی تکلیف کے میں ڈرتا ہوں کہ اس خوش اسلوبی سے مضمون کو ادا نہ کر سکوں گا جو اس کا حق ہے.تا ہم میں حتی الوسع کوشش کرونگا کہ ایسے رنگ میں ادا کروں کہ سب دوست اچھی طرح سمجھ سکیں.وہ مضمون جس کے متعلق میں بیان کرنا چاہتا ہوں اور جسے لوگوں کے ذہن میں اچھی طرح داخل کرنا چاہتا ہوں کیا ہے.وہ یہ ہے کہ مومن کو دین کے کام کس طرح کرنے چاہئیں.جب تک کوئی اپنی ذمہ داری کو محسوس نہیں کرتا.جب تک کوئی انسان اپنے فرائض سے آگاہ نہیں ہوتا.جب تک کوئی انسان کسی چیز کی حقیقت سے واقف نہیں ہوتا.اس وقت تک اس کام میں نہ تو کامیابی ہو سکتی ہے نہ برکت ہوتی ہے.در حقیقت تمام کامیابیاں فرائض کی ادائیگیاں حقیقت پر آگاہی اور فرائض کے سمجھنے پر منحصر ہوتی ہیں.ایک نہایت فہیم اور ہوشیار انسان کو اگر ایسے کام پر لگا دیا جائے جس کی حقیقت ، جس کی ماہیت، جس کے فرائض اور جس کی ذمہ داریوں سے وہ آگاہ نہ ہو تو کبھی اچھی طرح اسے نہ کر سکے گا.لیکن اگر ایک جاہل اور کم عقل انسان کو ایسے کام پر لگا دیا جائے جس کی حقیقت اور ذمہ داریوں سے وہ آگاہ ہو تو وہ اسے اچھی طرح کر سکے گا.دنیا میں بہت سے لوگ ہوشیار ہوتے ہیں وہ جب کسی بات کو سمجھ لیں تو عمدگی سے اسے حاصل کر لیتے ہیں.مگر دنیا کے کاموں میں عموما" نامراد رہتے ہیں اور بعض ایسے آدمی ہوتے ہیں جنہیں لوگ بیوقوف اور اُلو کہتے ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ روز بروز ترقی کرتے جاتے ہیں.مثلاً اگر گورنمنٹ کے ملازم ہوں تو ہر سال ان کے عہدہ اور تنخواہ میں ترقی ہوتی جاتی ہے.کہنے والے انہیں الو اور احمق کہتے رہتے ہیں.مگر به نسبت عقل مندوں کے وہ اتو بڑھتے رہتے ہیں.اس کی وجہ کیا ہے.اگر کوئی شخص سچائی کے ساتھ غور کرے اور دونوں کی حالت کا موازنہ کرے تو واقعہ میں وہ عقلمند ہوتے ہیں اور دوسرے واقعہ میں اُتو ہی ہوتے ہیں.مگر ایسے موقع پر پھر یہ کہا جاتا ہے کہ اپنی اپنی قسمت حالا نکہ خدا تعالی
163 کسی کو بد قسمت نہیں بنا تا سارے بندے اس کے ہیں.پھر وہ کسی کو بد قسمت کیوں بناتا اور سارا قرآن کریم اس بات سے بھرا پڑا ہے کہ ہر ایک کو خدا نے خوش قسمت بنایا ہے.آگے انسان خود اپنے آپ کو خوش قسمت ثابت کرتا ہے اور خود ہی اپنے آپ کو بد قسمت ٹھہراتا ہے.ورنہ ترقی کرنے والا انسان نہ اس قسمت کی وجہ سے ترقی کرتا ہے جو خدا کی طرف سے مقرر ہوتی ہے.اور نہ تنزل کرنے والا اس قسمت کی وجہ سے تنزل کرتا ہے بلکہ دونوں میں سے ایک کی کامیابی اور دوسرے کی ناکامی کا راز اپنی اپنی کوششوں میں ہوتا ہے جو شخص ترقی کرتا ہے وہ اس لئے کرتا ہے کہ اپنے فرائض کو سمجھتا ہے.اور جو شخص تنزل کے گڑھے میں گرتا ہے.وہ اس لئے کرتا ہے کہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو نہیں سمجھتا.اگر کوئی شخص عقل اور اعلیٰ حافظہ رکھتا ہے تو کس کام کا کا؟ اگر اسے صحیح طور پر استعمال نہیں کرتا.بعض شاعر لکھتے ہیں اور بہت خوب لکھتے ہیں کہ دنیا کے باغ میں بہت سے پھول ایسے کھلتے ہیں کہ اگر وہ اپنی خوبصورتی اور شادابی دکھا سکیں تو لوگ ان پر لٹو ہو جائیں اور وہ لوگ جو دنیا میں شہرت حاصل کئے ہوتے ہیں ان کے سامنے ماند پڑ جائیں یعنی دنیا میں ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں کہ جن کو اگر کام کرنے کا موقع ملتا اور وہ کچھ کر کے دکھا سکتے تو بڑے بڑے مشہور لیڈر اور شہرت یافتہ لوگ ان کے سامنے حقیر ہو جاتے.مگر شہرت پانے والوں اور ان میں فرق یہ ہے کہ ان کو کام کرنے کا موقع نہ ملا اور دوسروں کو موقع مل گیا اس لئے یہ تو زمین میں پوشیدہ پڑے رہے اور وہ آسمان کے ستارے بن گئے.یہ ایک لطیف مضمون ہے مگر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ دنیا میں بہت سے ایسے لوگ جو اعلیٰ قابلیتیں رکھتے ہیں گمنام اس لئے نہیں رہتے کہ انہیں اپنی لیاقت دکھانے کا موقع نہیں ملتا بلکہ اس لئے گمنام رہتے ہیں کہ ان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اپنی طاقتوں کو کس طرح خرچ کریں یا کس محل پر خرچ کریں اور ایسے وجود ان کی نسبت بہت زیادہ ہوتے ہیں جن کو موقع نہیں ملا ہوتا.مگر میں کہتا ہوں کہ موقع نکالنا بھی تو انسان کی اپنی طاقت میں ہے.اور جو اپنی طاقت سے کام نہیں لیتا اسے طاقت کیا فائدہ دے سکتی ہے.دیکھو سوئے ہوئے کو جگانا آسان ہے مگر جاگتے کو جگانا بہت مشکل ہے.پس جس کو خدا نے طاقتیں دی ہوں وہ اگر ان کو استعمال نہیں کرتا تو اس کو بلند مقام پر کھڑا کرنا کسی انسان کی طاقت میں نہیں ہے.تو بہت لوگ اس لئے دنیا میں ناکام نہیں رہتے کہ ان کو کام کرنے کا موقع نہیں ملتا بلکہ اس لئے ناکام رہتے ہیں کہ وہ اپنی لیاقت کا استعمال نہیں جانتے اور اپنی ذمہ دارویوں سے آگاہ نہیں ہوتے اگر وہ اپنی ذمہ دارویوں اور کام کی حقیقت کو سمجھ لیں تو کامیاب ہو جائیں لیکن چونکہ سمجھتے نہیں اس لئے نا کام ہوتے ہیں.مومنوں کی ناکامی کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے ان میں ایمان ہوتا ہے ان کو سچا دین اور صداقت مل جاتی
164 ا ہے.مگر چونکہ انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس دین کو کس طرح استعمال کریں اور ان کی کیا ذمہ داریاں ہیں جن کو بجا لا کر اللہ تعالیٰ کے فضل کے وارث نہیں.اس لئے ناکام رہتے ہیں.آج میں اس مضمون کے ایک پہلو کو بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ مومن کو کس طرح دینی کام کرنا چاہئیے.میرے نزدیک بہت سے لوگ اس لئے روحانی ترقی اور قرب الہی سے محروم رہ جاتے ہیں کہ وہ نہیں جانتے کس طرح کام کرنا چاہئیے اور بہت سے لوگ اس شبہ میں پڑے رہتے ہیں کہ یہ ہمارا کام نہیں فلاں کا ہے.یا یہ کہ ہم کو کسی نے یہ کام کرنے کے لئے نہیں کہا اس لئے ہم کیوں کریں.اس طرح وہ دینی خدمت سے محروم رہ جاتے ہیں.حالانکہ اگر انسان اپنے اور خدا تعالیٰ کے تعلق پر غور کرے تو اسے یہ عجیب بات معلوم ہوگی کہ خدا تعالیٰ نے اپنے اور بندے کے درمیان کوئی واسطہ مقرر نہیں کیا.اور یہ ایک بہت بڑا فرق اسلام اور دیگر مذاہب میں ہے اور مذاہب نے خدا اور بندے کے درمیان مختلف واسطے رکھے ہیں.لیکن اسلام براہ راست خدا سے تعلق بتاتا ہے اور کسی کو واسطہ نہیں ٹھہراتا.مثلاً عیسائیت بتلاتی ہے کہ خدا اور بندہ کے درمیان مسیح کا وجود کھڑا ہے.کوئی شخص خدا تک پہنچ نہیں سکتا جب تک مسیح کو وسیلہ نہ بنائے.زرتشتی لوگ روحانی طاقتوں کو وسیلہ قرار دیتے ہیں.آگ، سمندر، سورج اور اپنے پرانے بزرگوں کے متعلق کہتے ہیں کہ کوئی انسان خدا تک پہنچ نہیں سکتا جب تک اس وسیلہ کے ذریعہ تعلق نہ پیدا کرے.ہندو بھی یہی کہتے ہیں انہوں نے بھی مختلف ویلے بنائے ہوئے ہیں.کسی نے شوجی کو وسیلہ قرار دیا ہے، کسی نے برہما کو کسی نے رام چندر جی کو کسی نے کرشن جی کو اور جو ہندوؤں میں سے ہی الگ مذہب بن گئے ہیں.مثلاً بدھ اور جینی وغیرہ انہوں نے بھی اپنے الگ الگ و سائل بنا رکھے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے بغیر کوئی انسان خدا تک نہیں پہنچ سکتا پس غیر مذاہب کے لوگ ان وسیلوں کی عبادتیں کرتے ہیں.نہ کی خدا کی.اسلام نے پہلی ضرب ان پر یہ لگائی ہے کہ خدا اور بندہ میں کوئی وسیلہ نہیں.خدا اور بندہ میں وہی وسیلہ ہے جو خدا کو بندہ سے شفقت اور محبت ہے اور جو رحمانیت اور رحیمیت ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کی ہر سورۃ بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع ہوتی ہے کہ میں اس خدا کا نام لیتا ہوں جو رحمان اور رحیم ہے.اور جس کی رحمانیت اور رحیمیت کے ہوتے ہوئے اور کسی کی ضرورت نہیں.دیکھو کسی کے پاس جانے کے لئے دو باتوں کی ضرورت ہوتی ہے اول یہ کہ جانے کے لئے سامان میسر ہو اور دوسرے یہ کہ جس کے پاس جانا ہو.وہ اپنا دروازہ کھول دے اور ملاقات کر لے.مثلاً ایک شخص جو اپنے کسی دوست کے پاس جانا چاہتا ہے اس کے لئے دو ہی رد کیں ہو سکتی ہیں اور وہ یہ کہ دوست کہیں دور رہتا ہو جہاں ریل نہ جاتی ہو اور جانے کا سامان میسر نہ ہو.دوسرے یہ کہ وہاں چلا تو جائے مگر وہ دوست اپنے گھر میں اسے گھنے نہ دے.ان دو روکوں
165 کے سوا اور کوئی روک نہیں ہو سکتی اور نہ کسی وسیلہ کی ضرورت ہوتی ہے.اور ان دو روکوں کے متعلق خدا تعالیٰ نے کہدیا ہے کہ جو میرے پاس آنا چاہتے ہیں انہیں بتادو میں رحمان ہوں اپنے پاس پہنچنے کے سارے سامان میں نے بغیر انسان کی خواہش اور ارادہ کے مقرر کر دیئے ہیں.اب سامان تو میسر ہو گئے مگر کوئی کہہ سکتا ہے کہ جب تک مسیح، کرشن ، شوچی، آگ، سورج، زرتشت و غیره نه کہدے کہ فلاں کو اپنے پاس آنے دیا جائے.اس وقت تک دروازہ نہیں کھلتا.اس کے متعلق فرمایا میں رحیم ہوں جو مجھ سے محبت کرتا اور میری طرف آتا ہے میں اسے آگے بڑھ کے ملتا ہوں.اس سے معلوم ہو گیا کہ خدا اور بندہ کے درمیان کوئی وسیلہ نہیں ہے.مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں میں سے بھی بعض جاہل اس طرف چلے گئے ہیں کہ خدا تعالی تک پہنچنے کے لئے کوئی وسیلہ ہونا چاہیے.ایک وسیلہ تو قرآن نے بھی بتایا ہے مگر اس کے معنے خدا تعالیٰ کا قرب ہے اور یہ صحیح ہے مگر بعض لوگ اس طرف گئے ہیں کہ خدا اور انسان کے درمیان کوئی اور انسان وسیلہ ہونا چاہیے حالانکہ خدا اور بندہ کے درمیان کوئی وسیلہ نہیں.اس لئے ہر حکم ہر انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے براہ راست ملتا ہے.اور اس کا پورا کرنا اس کے ذمہ ہوتا ہے.کوئی کہے اگر یہ سچ ہے تو ہر انسان پر شریعت نازل ہونی چاہئیے مگر یہ اعتراض درست نہیں.شریعت کے نزول کی وجہ اور ہے اور ہر بندہ کو حکم ملنا اور ہے.ہر انسان پر شریعت اس لئے نازل نہیں ہو سکتی کہ اس کے ساتھ نمونہ بھی چاہیے اور جب تک کوئی انسان کامل طور پر پاک نہ ہو اس وقت تک نمونہ نہیں ہو سکتا اور جب تک نمونہ نہ ہو شریعت نہیں نازل ہو سکتی.پس اگر ہر انسان کو شریعت ملنی ہوتی تو ساری دنیا ہی اس سے محروم رہتی کیونکہ ایسے وجود گمراہی کے زمانہ میں کم ہی پائے جاتے ہیں جو کامل طور پر پاک ہوں.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں لوگ گر گئے تھے اور اس قدر ادنی درجہ پر چلے گئے تھے کہ کوئی ان میں سے خدا سے کلام نہ کر سکتا تھا.جب یہ حالت تھی تو اس وقت چونکہ صرف محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی شریعت پانے کے قابل تھے.اس لئے اس وقت صرف آپ ہی ہدایت پاتے اور کوئی نہ پاتا.مگر منشائے الہی یہ ہوتا ہے کہ ساری دنیا ہدایت پائے اس لئے وہ اپنے نبیوں کو کھڑا کرتا ہے اور وہ چونکہ مستحق ہوتے ہیں خدا تعالیٰ سے کلام کرنے کے ، اس لئے ان کو کہتا ہے میں لوگوں سے بوجہ ان کی بد اعمالیوں کے خفا ہوں.تو ان سے کہو کہ اپنی اصلاح کریں اور خدا کے محبوب بن جائیں.جیسے باپ جو بچہ سے خفا ہو دوسرے آدمی کو کہتا ہے کہ تو میرے لڑکے کو یہ بات کہدے.اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ باپ کا بیٹے سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا.ہوتا ہے مگر لڑکے کی حالت چونکہ ایسی نہیں ہوتی کہ براہ راست مخاطب کیا جا سکے اس لئے دوسرے کے ذریعہ اپنی شفقت کی طرف توجہ دلاتا ہے.تو نبیوں کو خدا تعالیٰ شریعت دے کے بھیجتا ہے اور وہ آکر
166 لوگوں کو خدا تعالیٰ کے احکام سناتے ہیں.اور جس دن لوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں اسی دن وہ کلام براہ راست ان کا ہوتا ہے.مثلاً جب کوئی شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہے اسی دن اس پر قرآن کریم نازل ہوتا ہے ورنہ اگر صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قرآن نازل ہوا تو ہم پر اس کی پابندی کیوں؟ ہر شخص جو ایمان لاتا ہے اس پر قرآن نازل ہوتا ہے اسی لئے قرآن کریم میں قرآن اور دوسری کتابوں کے متعلق آتا ہے کہ تم پر نازل کی گئیں.حالانکہ بظاہر تو وہ نبی پر نازل ہوئیں اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام بندے جو مخاطب ہوتے ہیں ان سب پر نازل ہوتی ہیں.اس وقت چونکہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا سے کلام کرنے کے مستحق تھے اور لوگ نہ تھے.اس لئے آپ ہی پر نازل ہوا.ورنہ جب کوئی ایمان لاتا ہے اسی پر نازل ہوتا ہے.اس لئے صوفیا نے کہا ہے کہ نماز میں اس وقت تک لذت نہیں آسکتی جب تک وہ آیتیں جو انسان پڑھ رہا ہو ان کے متعلق یہ نہ سمجھے کہ مجھے پر نازل ہو رہی ہیں تو ہر بندہ اور خدا کا تعلق براہ راست ہے.اگر خدا تعالیٰ اپنا کلام توسط سے پہنچاتا ہے تو اس لئے کہ جسے واسطہ بنایا جاتا ہے اس کے سوا باقی لوگ خدا سے دور ہوتے ہیں.اور جب قریب آجاتے ہیں تو وہ کلام ان کے لئے بھی ایسا ہی ہو جاتا ہے جیسا اس کے لئے جس پر نازل ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے زیادہ ہے اور ہمارے لئے نہیں.سب کے لئے ایک ہی جیسا قرآن ہے اس لئے وہ ہمارے لئے کلام ہے.اور گویا ہم پر نازل ہوا ہے.پس خدا تعالی سے بندہ کا براہ راست تعلق ہوتا ہے حتی کہ رسول کا بھی اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا.بعض صوفیا نے لکھا ہے کہ بندہ اور خدا کا ایسا تعلق ہوتا ہے کہ پیر نہیں جانتا اس کے مرید کا خدا سے کیا تعلق ہے اور مرید کو علم نہیں ہوتا کہ اس کے پیر کا خدا سے کتنا تعلق ہے.کیونکہ بندہ اور خدا کا تعلق بلا واسطہ ہوتا ہے اگر بالواسطہ ہوتا تو پیر کو بتایا جاتا کہ تمہارے فلاں مرید کا خدا سے تعلق ہے اور فلاں کا یہ.مگر ہر انسان کا تعلق خدا سے براہ راست ہوتا ہے اور جب براہ راست ہوتا ہے تو دین کی سب باتیں ہر ایک بندہ سے تعلق رکھتی ہیں اور ان میں بھی کوئی واسطہ نہیں.مثلاً یہ نہیں کہ نماز اس لئے پڑھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے بلکہ اس لئے پڑھے کہ خدا تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کہا ہے اور ہم کو بھی کہا ہے.روزہ اس لئے نہ رکھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے بلکہ اس لئے رکھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خدا نے کہا ہے اور ہم کو بھی خدا نے کہا ہے.پس جب رسول بھی وسیلہ نہیں ہوتے تو اور کوئی وجود تو ہو ہی نہیں سکتا.رسولوں سے اتر کر خلفاء اور مجددین ہوتے ہیں.یہ کس طرح وسیلہ ہو سکتے ہیں.پس در حقیقت ہر مومن خداتعالی سے
167 براہ راست تعلق رکھتا ہے اور براہ راست ساری ذمہ داریاں پاتا ہے.اب سوال یہ ہو سکتا ہے کہ پھر خدا کے رسولوں اور خلفاء کی اطاعت کی کیا ضرورت ہے لیکن ان کی اطاعت کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی سفارش کے بغیر خدا تعالیٰ کسی کی بات نہیں سنتا.وہ خدا اور بندہ کے درمیان وسیلہ نہیں بلکہ نمونہ ہوتے ہیں.وسیلہ تو یہ ہوتا ہے کہ چاہے کوئی شخص کتنا نیک اور پرہیز گار ہو جب تک وسیلہ نہ کے خدا اس سے نہیں ملے گا اور نمونہ یہ ہوتا ہے کہ فلاں انسان نیک اور خدا کا مقرب ہے ہم بھی ویسے بنیں.تو انبیاء نمونہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ کامل اور اکمل وجود ہوتے ہیں.وہ گویا خدا کا مجسم کلام ہوتے ہیں.جس طرح خدا کے کلام کو لفظوں میں قرآن میں پڑھ لیا.اگر اس کو شکل میں دیکھنا ہو تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں.اور چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا کا مجسم کلام بن گئے.اس لئے جس طرح خدا کے کلام کی اتباع ہمارے لئے ضروری ہے اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع بھی ضروری ہے کیونکہ آپ لوگوں کے لئے نمونہ ہیں اور نمونہ کو دیکھ کر انسان بہت جلدی سمجھ سکتا ہے.مثلاً اگر کسی کو وضو کرنے کا طریق سکھانا ہو تو وہ زبانی بتانے سے اتنی جلدی نہیں سیکھ سکے گا جتنی جلدی کر کے دکھانے سے سیکھ جائے گا.تو ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو اطاعت کرتے ہیں یا آپ کے ذریعہ جو حکم دئے گئے ہیں وہ اس لئے نہیں کہ آپ خدا اور ہمارے درمیان وسیلہ ہیں بلکہ اس لئے کہ آپ خدا کے احکام کا نمونہ اور تفسیر ہیں.اور چونکہ آپ کے نمونہ کو دیکھے بغیر ہم خدا کے کلام کو سمجھ نہیں سکتے.اس لئے آپ کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے.چنانچہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں كان خلقه القرآن ۲؎ کہ جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا وہ قرآن کو پڑھ لے.گویا انہوں نے قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک قرار دے دیا.کیونکہ قرآن میں کوئی صفت اور کوئی خوبی ایسی بیان نہیں ہوئی جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں نہیں پائی جاتی.اور قرآن میں کوئی عیب کوئی شرعی برائی اور گناہ اور کوئی کبھی جو بیان ہوئی وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہیں پائی جاتی.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی تفسیر ہیں اور ہر رسول اپنے اوپر نازل ہونے والے خدا کے کلام کی تفسیر ہوتا ہے.اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جاتی ہے کیونکہ آپ ہمارے لئے اسوہ اور نمونہ ہیں نہ اس لئے کہ آپ خدا اور ہمارے درمیان وسیلہ ہیں.جہاں کوئی شخص آپ سے جدا ہوا وہ قرآن کریم سے جدا ہو گیا کہ آپ مجسم قرآن ہیں.پس آپ کی اطاعت بوجہ اسوہ اور نمونہ کے ہے.باقی رہے خلفاء ان کے لئے ضروری نہیں کہ اسوہ ہوں اور ان کی اطاعت ویسی نہیں ہوتی جیسی انبیاء کی ہوتی ہے نبی تو جو کہتا ہے وہ ماننا ضروری ہوتا ہے لیکن ایک خلیفہ اگر اپنے وقت میں کوئی مسئلہ بیان کرتا ہے اور کوئی اسے سمجھ نہیں سکتا تو اس میں اختلاف ہو سکتا ہے.اور اس کی مثالیں موجود ہیں.حضرت ا
168 ابوبکر کے وقت آپ ایک مسئلہ اور رنگ میں بیان فرماتے اور بعض صحابہ اور رنگ میں اور سوائے سیاسی اور انتظامی معاملات کے اس وقت خلیفہ جو کہتا اسی پر عمل ہوتا تو مسائل میں اختلاف کیا جاتا تھا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد جب لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابو بکڑ نے کہا، میں ان سے کافروں والا معاملہ کروں گا.حضرت عمرؓ اور دوسرے صحابہ اس کے خلاف تھے.مگر حضرت ابو بکڑ نے کسی کی نہ مانی اور ان لوگوں کو قید کیا اور غلام بنائے گئے.اسی طرح اور خلفاء کے زمانہ میں بھی بعض مسائل میں اختلاف ہوتا رہا ہے تو رسول کی اطاعت اور خلیفہ کی اطاعت میں فرق ہے.رسول سے کسی بات میں اختلاف کرنا نادانی اور جہالت ہے اور یہ اختلاف ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ خدا نے غلطی کی ہے کیونکہ رسول کا کلام خدا تعالیٰ کے کلام کی تفسیر ہوتا ہے.یہ تو ایسی ہی مثل ہے.کوئی پٹھان قدوری پڑھ رہا تھا.حدیثوں میں آتا ہے کہ نماز میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض حرکات کی ہیں.مثلاً آپ کی پیٹھ پر بچہ چڑھ گیا اور آپ نے ہٹا دیا.یا اٹھا لیا ہے یا اور حرکات کیں.ادھر بعض فقہاء نے لکھا ہے کہ حرکت سے نماز ٹوٹ جاتی ہے.پٹھان نے جب یہ بات پڑھی تو کہنے لگا.خو محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا.وہ یہ نہ سمجھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تو نماز کی تفسیر ہیں.تو انبیاء کی ہر بات ماننی ضروری ہوتی ہے کیونکہ وہ خدا کے کلام کی تفسیر ہوتے ہیں.مگر خلفاء ایسے نہیں ہوتے اگر ہوں تو یہ ان کا ذاتی کمال ہو گا خلافت سے اس کا تعلق نہیں اس لئے ان کی اطاعت نبی کی اطاعت کے مقابلہ میں محدود ہوتی ہے.اور وہ یہ کہ انتظامی معاملات جن میں جماعت کو جمع رکھنا ہوتا ہے ان میں ان کا حکم مانا جائے.مثلاً قاضیوں نے جو فیصلہ کرنا ہو گا وہ خلیفہ کے حکم کے ماتحت کرنا ہو گا.تو خلفاء کی اطاعت محدود ہوتی ہے اور صرف چند باتوں میں ہوتی ہے جو انتظامی معاملات سے تعلق رکھتی ہیں.مسائل فقہ سے تعلق نہیں رکھتیں.پس خلفاء بھی واسطہ نہیں اور جب انبیاء بھی واسطہ نہ ہوئے اور نہ خلفاء تو پھر اور کونسا وجود واسطہ ہو سکتا ہے.اصل بات یہی ہے کہ خدا اور بندہ کے درمیان کوئی واسطہ نہیں.اس لئے ہر فرض جو شریعت نے مقرر کیا ہے وہ ہر مسلمان کا فرض ہے اگر تبلیغ کا فرض ہے تو یہ نبی اور خلیفہ کا فرض نہیں.وہ اپنی اپنی ذات کے ذمہ وار ہیں.باقی ہر ایک مسلمان کا یہ فرض ہے اور وہ اپنی ذات کا آپ زمہ وار ہے.اور ایسا ہی ذمہ وار ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم.پس جب تک ہر ایک مسلمان اس بات کو نہ سمجھے کہ دین کے تمام حکم براہ راست اس کے لئے ہیں اور سب کام اس کے ذمہ ہیں تب تک اچھی طرح ان کو ادا نہیں کر سکتا.اب رہی یہ بات کہ ان احکام اور فرائض کو کس طرح ادا کیا جائے.یہ مضمون چونکہ اور
169 وسعت چاہتا ہے اور آج وقت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے اگلے جمعہ پر ملتوی کرتا ہوں اس دن بیان کروں گا.اگر اللہ تعالٰی نے توفیق دی کہ اس کی روشنی میں ہر مسلمان کا عمل کس طرح ہوتا چاہیے.الفضل ۲۴ اگست ۱۹۲۳ء) ا فتوح الغیب مقالہ نمبر۷ ۲ ۶ مسند احمد بن حنبل جزو ا ص ۲۶ طبقات ابن سعد ذکر صفته اخلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ الخلفاء للسیوطی حالات سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ۴ بخاری بحوالہ سیرت خاتم النبین حصہ دوم ص ۳۱۸
170 30 ہماری جماعت قانون کی پابندی اپنا فرض سمجھتی ہے (فرموده ۲۴ / اگست ۱۹۲۳ء) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا..میں نے پچھلی دفعہ اس امر کے متعلق کچھ بیان کیا تھا کہ مومن کو دین کا کام کس طرح کرنا چاہئیے.چونکہ اس سوال کے حل کرنے کے لئے یہ ضرورت تھی کہ بتایا جائے مومن کا اور خدا تعالٰی کا کیا تعلق ہے.اور مومن کی ایمان کے لحاظ سے کیا ذمہ داریاں ہیں.اس لئے میں نے پہلے اس امر کو بیان کیا کہ مومن اور خدا کا کیا تعلق ہے.باقی حصہ کے متعلق میں نے وعدہ کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اگلے جمعہ بیان کروں گا.لیکن آج چونکہ اتفاقا " دیر ہو گئی ہے اور وقت تنگ ہے.اس حصہ کو اگلے جمعہ پر ملتوی کرتا ہوں اور آج میں ایک اور بات کی طرف دوستوں کو توجہ ولاتا ہوں اور ان لوگوں کو بھی جن تک میرا یہ خطبہ پہنچے.خواہ وہ احمدیہ جماعت میں ہوں یا نہ ہوں.مگر مسلمان کہلاتے ہوں.جو کچھ میں اس وقت کہنا چاہتا ہوں وہ ایسے امر کے متعلق ہے جو واقعات حاضرہ سے تعلق رکھتا ہے مگر میں نے دیکھا ہے لوگوں کو خواہ کیسی ہی اچھی بات بتائی جائے اس وقت تک اس کی طرف توجہ نہیں کرتے جب تک تجربہ کر کے اور ٹھوکریں کھا کر نقصان نہیں اٹھا لیتے.پچھلے دنوں مسلمانوں میں خصوصاً اور تمام اہل ہند میں عموما ایک ہیجان پیدا ہوا تھا.اس وقت مسلمانوں نے ایسی حرکات کیں.جو اخلاقا" عقلا" اور مذہبا " ناجائز تھیں.اس وقت میں نے محض اخلاص سے اپنے اہل ملک کو عموما اور ان لوگوں کو خصوصاً جو نام میں ہمارے ساتھ شریک ہیں.صحیح مشورہ دیا تھا.کیونکہ خواہ عقائد کے لحاظ سے ہم سے ان کا کتنا ہی اختلاف ہو.مگر چونکہ مسلمان کہلاتے ہیں اس لئے سیاسی لحاظ سے اگر ان کو فائدہ پہنچے تو ہم بھی فائدہ کے مستحق ہیں.چاہے ہمیں وہ فائدہ نہ اٹھانے دیں.اور اگر انہیں نقصان پہنچے تو ہم کو بھی نقصان پہنچتا ہے.چاہے وہ ہمیں کافر کہیں کیونکہ دنیا اس برتاؤ سے ہمیں مستثنیٰ نہیں کرتی جو مسلمانوں سے کرتی ہے اور ہم...اس برتاؤ سے الگ نہیں ہو سکتے جو مسلمانوں سے کیا جاتا ہے.اس لئے ہمارا حق ہے کہ ہم ان کے
171 سامنے نیک اور صحیح رائے پیش کر دیں.آگے مانا نہ مانا ان کا کام ہے مگر میں نے دیکھا ہے کہ ایسے موقع پر مسلمان خصوصیت سے ناراض ہوتے ہیں اور کہتے ہیں تم کیوں بول پڑتے ہو.مسلمانوں نے جب کوئی ایسا قدم اٹھایا جس سے ان کو نقصان پہنچ سکتا تھا.اور میں نے اس سے باز رکھنے کی کوشش کی تو مسلمان ناراض ہوئے اور کئی لوگوں نے مجھے کہا کہ آپ نے کیوں دخل دیا؟ اس کے متعلق اول تو میں کہتا ہوں کہ یہ عقل اور انسانیت کے خلاف ہے کہ کسی کو ہلاک اور برباد ہوتے دیکھا جائے اور اسے روکا نہ جائے.یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کوئی گڑھے میں گرنے لگے اور اسے بچانے کی کوشش کی جائے تو وہ کہے تجھے کیا.تو مجھے کیوں نصیحت کرتا ہے.اگر ایک انسان کو دوسرے انسان سے اتنا بھی تعلق نہیں تو وہ انسان ہی کیا ہیں.پس ایسے موقع پر اگر ہم چپ رہیں تو انسانی دائرہ سے نکل جاتے ہیں کیونکہ مومن کا یہ فرض ہے کہ جب کوئی گڑھے میں گرنے لگے تو اسے بچانے کی کوشش کرے.چاہے گرنے والا برا ہی منائے.پس ہمارے دخل دینے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمیں اخلاق اجازت نہیں دیتے کہ کسی کا نقصان ہوتا دیکھیں اور چپ رہیں.دوسرے خواہ تم ہمیں اپنے سے الگ کرو.اور ہمیں مسلمان نہ سمجھو مگر چونکہ تمہارے معاملات کا ہم پر بھی اثر پڑتا ہے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ تمہیں مشورہ دیں.مثلاً اگر دو شخص ایک رسی میں بندھے ہوں ان میں سے ایک کنوئیں میں کرنے لگے اور دوسرا روکے تو وہ کے تجھے کیا ہے.تو کیوں دخل دیتا ہے.تو اس کے یہ کہنے سے دوسرا شخص خاموش نہیں رہ سکتا کیونکہ اس کے ساتھی کے گرنے کا اثر اس پر بھی پڑتا ہے یہی حالت ہماری ہے.مسلمان خواہ ہمیں اپنے سے الگ کریں.لیکن دنیا چونکہ الگ نہیں سمجھتی اس لئے ان کے نقصان کے ساتھ ہمیں بھی نقصان اٹھانا پڑتا ہے.اور یہ کوئی خیالی بات نہیں بلکہ ہمارے پاس ثبوت ہے کہ دوسروں کی حرکات کی وجہ سے ہمارے آدمیوں نے سزا پائی.رولٹ ایکٹ جو پنجابی زبان کے لحاظ سے ایسا "رولا" (شور) تھا جس نے سارے ملک میں رولا ڈالا دیا تھا جب وہ بنا تو اس پر بعض جگہ فساد ہو گیا.اور گولیاں چل گئیں.پہلے تو اہل ملک نے کچھ دنوں تک گورنمنٹ پر یا گورنمنٹ کی وفاداری کرنے والوں پر ہاتھ صاف کئے چونکہ ہماری جماعت کے آمی کسی جگہ بھی فساد میں شامل نہ ہوئے نہ جلسوں میں شریک ہوئے نہ سٹرائکوں میں نہ مظاہروں میں.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعض جگہ ان کی دوکانیں لوٹی گئیں اور ان کو مارا اور پیٹا گیا.طرح طرح سے تنگ کیا گیا یہ تو اس وقت ہوا.پھر جب گورنمنٹ نے انتظام قائم کر لیا تو ادھر تو اعلان کیا کہ احمدی جماعت ہر جگہ فساد سے الگ رہی ہے اور اس نے گورنمنٹ کی بڑی خدمت کی ہے.اور ادھر لوگوں پر جو جرمانہ کیا.اس میں احمدیوں کو بھی شامل کر لیا.چنانچہ امرتسر، قصور، گوجرانوالہ وغیرہ میں احمدیوں کو جرمانہ میں شامل رکھا گیا اور باوجود اپیل پر اپیل کرنے کے ان کو
172 اس جرمانہ سے مستثنیٰ نہ کیا گیا.اور لطف یہ کہ دوسروں نے تو انکار کر دیا کہ ہم نہیں دیتے.مگر ہماری جماعت چونکہ قانون کی پابندی اپنا فرض سمجھتی ہے احمدی جاکر اتنا حصہ جرمانہ کا دے آئے اور گورنمنٹ نے شکریہ سے ان کا جرمانہ رکھ لیا.جتاؤ رولٹ ایکٹ کے متعلق شورش کے زمانہ میں ہم نے کیا کیا تھا.جس کے بدلہ میں ہمارے آدمیوں سے تاوان وصول کیا گیا.یہی کہ ہم بھی مسلمان تھے.اور چونکہ گورنمنٹ نے مسلمانوں پر تاوان لگایا تھا.اس لئے ہم کو بھی ساتھ ہی رکھ لیا.پس جبکہ گورنمنٹ کی نظر میں وہ اور ہم ایک ہی رسی میں بندھے ہوئے ہیں تو ضروری ہے کہ جب ان کو نقصان پہنچے اس وقت ہم کو بھی پہنچے.جب گورنمنٹ باوجود اس اقرار کے کہ احمدی جماعت اس شورش میں شامل نہیں ہوئی.اپنی کسی مصلحت کے ماتحت جو ہماری سمجھ میں نہیں آتی.اور کسی انسان کی عقل میں بھی نہیں آسکتی.ہمارے آدمیوں کو بھی دوسروں کے ساتھ پھنساتی ہے تو ایسی حالت میں ہمارا حق ہے کہ دوسروں کو سمجھائیں.اور نقصان اٹھانے سے باز رکھنے کی کوشش کریں.پس ہمارا حق تھا.اور ہم نے اس وقت بھی سمجھایا مگر لوگ نادانی سے یہ خیال کرتے رہے کہ ہم گورنمنٹ کے ایجنٹ ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی مفت بھی ایجنٹ ہوا کرتا ہے اور نہ صرف مفت بلکہ ایسا ایجنٹ بھی جس کو ادھر سے مار پڑے اور ادھر سے بھی.کیا کوئی ایجنٹ اس لئے کسی کی نوکری کیا کرتا ہے کہ تم بھی مارو اور تمہارے دشمن بھی ماریں.اگر نہیں تو بتاؤ گورنمنٹ نے ہمیں کیا دیا ہے.سب سے زیادہ گورنمنٹ کی تائید میں لکھنے والا تو میں ہوں.اگر میں گورنمنٹ کی تائید ذاتی یا قومی فوائد کے لئے کرتا ہوں تو یہ دیکھنا چاہئیے کہ میں نے یا میرے خاندان نے گورنمنٹ سے کیا حاصل کیا ہے.میں تو گورنمنٹ کے بڑے سے بڑے انعام کو بھی اس کے مقابلہ میں نہایت ہی ادنی سمجھتا ہوں جو مجھے خدا تعالیٰ نے دیا ہے.مگر لوگ گورنمنٹ کے خطاب کو بڑا سمجھتے ہیں.کیا میں نے گورنمنٹ سے کوئی خطاب لیا ہے.پھر لوگ عہدہ کو بڑا سمجھتے ہیں اور اس کے لئے خوشامد کرتے ہیں.کیا میں نے کسی رشتہ دار کو گورنمنٹ کا نوکر کرایا ہے.پھر لوگ اس لئے خوشامد کرتے ہیں کہ زمین ملے.کیا میں نے گورنمنٹ سے زمین لی ہے.پھر لوگ اس لئے خوشامد کرتے ہیں کہ کرسی نشین ہو جائیں.کیا میں نے کبھی، ایسی خواہش کی ہے.یہ تو ذاتی اور خاندانی فوائد کے متعلق ہے.رہا قومی فائدہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا.تو کیا ہوا.قوم کو فائدہ پہنچانے کے لئے گورنمنٹ کی خوشامد کرتے ہو.میں کہتا ہوں ہماری قوم سے مراد احمدی ہیں مغل نہیں.کیونکہ جو مغل احمدی نہیں وہ تو ہماری جان کے دشمن ہیں.احمدی قوم کو گورنمنٹ نے کونسا ایسا انعام دے دیا ہے.جو دوسروں کو نہیں دیا.بلکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے دوسروں کے فساد کرنے پر گورنمنٹ احمدیوں پر جرمانہ کرنے کے لئے تو تیار ہو گئی.گورنمنٹ نے اس موقع پر عیسائیوں کو چھوڑ دیا.
173 جنہوں نے بھاگ بھاگ کر جانیں بچائیں.اور کچھ مدد نہ کی.یورپیوں کو بھی چھوڑ دیا جو اپنی کو ٹھیوں میں بیٹھے رہے.مگر احمدیوں سے جرمانہ وصول کر لیا.جنہوں نے فسادیوں سے گالیاں سنیں.ماریں کھائیں.اور نقصان اٹھائے اور یہی نہیں کہ فساد سے الگ رہے بلکہ گورنمنٹ کی مدد کرتے رہے اور باوجود اس اقرار کے وصول کر لیا کہ احمدیوں نے اس موقع پر بہت اچھا کام کیا ہے.اگر یہی انعام ہے تو کیا اسی کے لئے ہم گورنمنٹ کی خوشامد کرتے ہیں.پھر دوسرے فوائد کے لحاظ سے دیکھے لو کہ ہماری جماعت گورنمنٹ سے کیا حاصل کر رہی ہے.گورنمنٹ کی پالیسی ہی ایسی نظر آتی ہے کہ جو جتنا شور مچائے اور گالیاں دے.اس سے اسی قدر زیادہ ڈرتی ہے.ہمارے تجربات اور ظاہری حالات بتاتے ہیں کہ کوئی خاص سہولت تو الگ رہی ہماری ضروری درخواستوں پر بھی توجہ نہیں کی جاتی.اس قادیان میں آکر غیر احمدیوں نے جلسے کئے صریح اور کھلے الفاظ میں کہا احمدیوں کو قتل کر دینا چاہیے اور ہمارے آقا اور ہادی کو جس کے لئے ہم اپنے جسم کا ذرہ ذرہ اڑانے اور اپنے خون کا ہر قطرہ بہانے کے لئے ہر وقت تیار ہیں.فاسق فاجر کہا.اور گندی سے گندی گالیاں دیں.پولیس اور مجسٹریٹ کی موجودگی میں دیں.ہم نے اس کے متعلق گورنر کو تار بھی دیا.چٹھیاں بھی لکھیں اس وقت کے ڈپٹی کمشنر صاحب کو توجہ دلائی لیکن کسی نے کچھ بھی نہ کیا اور یہی کہا کہ جب فساد ہوگا دیکھا جائے گا.گویا اگر احمدی فساد نہیں کرتے اور گالیاں سن کر خاموش رہتے ہیں تو ان کو گورنمنٹ کی مدد سے ناامید ہو جانا چا ہئیے.جلسہ پر متعین مجسٹریٹ نے اور پولیس نے بھی کچھ نہ کیا.اور مزے سے گالیاں سنتے رہے.مجسٹریٹ صاحب تو محض اپنی عزت اور نیک نامی کے لئے کہ انہوں نے بہت اچھا انتظام کیا.چپ چاپ بیٹھے رہے.اور بالا افسروں نے اس لئے توجہ نہ کی کہ چھوٹی سی جماعت ہے اس کی آواز پر کیا توجہ کرنی ہے.اگر اس کو کسی نے گالیاں دے دیں تو کیا ہوا؟ اس کے مقابلہ میں ہمارے اخباروں میں اگر کوئی مضمون جواب میں بھی چھپ جائے تو بھی گورنمنٹ جواب طلبی کے لئے تیار رہتی ہے کہ مولویوں یا آریوں کے متعلق یہ بات کیوں لکھی گئی.پس گورنمنٹ ہماری ایسی تو دوست ہے کہ اگر کوئی مارنے کے لئے آئے اور ہم اپنا بچاؤ کرنے کے لئے ہاتھ اٹھائیں تو ہاتھ پکڑلے اور کہدے جانے دو ورنہ اور کیا دوستی ہے.عراق کے فتح کرنے میں احمدیوں نے خون بہائے.اور میری تحریک پر سینکڑوں آدمی بھرتی ہو کر چلے گئے لیکن جب وہاں حکومت قائم ہو گئی تو گورنمنٹ نے یہ شرط تو کروائی کہ پادریوں کو عیسائیت کی اشاعت کرنے میں کوئی روک نہ ہوگی.مگر احمدیوں کے لئے نہ صرف اس قسم کی کوئی شرط نہ رکھی بلکہ اگر احمدی اپنی تکالیف پیش کرتے ہیں تو بھی عراق کے ہائی کمشنر اس میں دخل دینے کو اپنی
174 شان سے بالا سمجھتے ہیں.احمدیوں کو وہاں تبلیغ سے روکا جاتا ہے.اپنے گھر پر جلسہ کرنے سے روکا جاتا ہے.رسالوں کی اشاعت سے روکا جاتا ہے.لیکن آریوں اور مسیحیوں کو نہیں روکا جاتا.انگریز افسروں کو توجہ دلائی جاتی ہے مگر وہ یہ کہ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ آپ کو خاموشی سے وقت گزار دینا چاہئیے.مگر ہم تب جانتے اگر مسیحیوں کے راستہ میں روک ڈالی جاتی اور حکام ایسا ہی جواب دیتے.پس ہم نے گورنمنٹ سے کونسا فائدہ اور نفع اٹھایا ہے.اگر کوئی شخص ذرا بھی عقل سے کام لے گا تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ ہم نے نہ صرف کوئی فائدہ ہی نہیں اٹھایا بلکہ نقصان اٹھایا ہے.ایک طرف لوگوں سے دکھ اور مصیبتیں اٹھائیں.کیونکہ جب فسادی فساد کر رہے تھے تو احمدیوں کو الگ رہنے کی وجہ سے انہوں نے دکھ دئے.لوٹا اور مارا.دوسری طرف جب گورنمنٹ اٹھی تو اس نے احمدیوں پر جرمانے کئے.گویا ہم دونوں ہاتھوں سے لوٹے گئے اور دکھ دئے گئے.دائیں سے بھی اور بائیں سے بھی.اگر عدل اور انصاف کوئی چیز ہے تو ہم پر خوشامد کا الزام لگانے والے دیکھیں کہ ہم نے گورنمنٹ سے کیا فائدہ اٹھایا ہے.ہم نے نقصان تو اٹھائے ہیں مگر کوئی فائدہ نہیں اٹھایا.اگر کوئی کہے کہ تم پھر اس کے باوجود کیوں کہتے ہو کہ گورنمنٹ محسن ہے تو اس کا یہ جواب ہے کہ اس سے ہمارا یہ مطلب نہیں کہ گورنمنٹ کا ہم پر کوئی ایسا احسان ہے جو دوسری جماعتوں سے ممتاز ہے بلکہ یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس گورنمنٹ کے ماتحت ہمارے ساتھ وہ سلوک ہوتا ہے جو دوسری گور نمنٹوں سے اچھا اور ممتاز ہے.اور اس کے قانون ایسے ہیں کہ ان کے ماتحت ہم بڑھنے اور پھیلنے کا میدان کشادہ پاتے ہیں.مگر یہ فائدہ ایسا ہے کہ مسٹر گاندھی لالہ لاجپت رائے مسٹر محمد علی وغیرہ کو بھی جو گورنمنٹ کے خطرناک دشمن ہیں ویسا ہی پہنچ رہا ہے جیسا ہم کو پہنچتا ہے.ہم کو ان سے زیادہ نہیں.بلکہ اگر وہ لوگ مقابلہ پر آجائیں تو ہمیں نقصان ہی اٹھانا پڑتا ہے.فائدہ نہیں ہوتا.پس یہ کہنا کہ ہم گورنمنٹ کی خوشامد کرتے ہیں بالکل جھوٹ ہے.اگر لوگ ذرا بھی انصاف سے کام لیتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ ہم گورنمنٹ کی خوشامد کی وجہ سے نہیں بلکہ محض اپنے بھائیوں کی ہمدردی کی وجہ سے اخلاص کے ساتھ انہیں مشورہ دیتے رہے ہیں نہ کہ اس لئے کہ گورنمنٹ ہمیں کچھ دیتی ہے گورنمنٹ کے بعض متعصب افسروں کا جو اپنے افسر ہونے سے زیادہ اپنے عیسائی ہونے کا خیال رکھتے ہیں تو یہ حال ہے کہ یہاں سے رفاہ عام کے ایک کام کے لئے درخواست کی گئی اور وہ کام ایسا ہے جس کے لئے پادریوں کو لاکھوں روپیہ گورنمنٹ دیتی ہے تو اس وقت کے کمشنر نے اس پر لکھا کہ اس جماعت کو مدد دینے کی کیا ضرورت ہے.یہ بہت مال دار قوم ہے.گویا وہ لوگ جو کروڑ پتی ہیں اور لاکھوں روپیہ پادریوں کو عیسائیت کی تبلیغ کے لئے دیتے
175 ہیں.وہ تو غریب ہیں کہ گورنمنٹ پاویوں کو اس مد میں روپیہ دیتی ہے.مگر ہم احمدی ان سے زیادہ مال دار ہیں اس لئے ہمیں دینے کی ضرورت نہیں.ہم گورنمنٹ کی یا اس کے افسروں کی اس قسم کی باتوں پر اس لئے چپ رہتے ہیں کہ کسی قسم کا شور و شر اور فساد نہ ہو کیونکہ ہم مذہبا " فساد کو نا پسند کرتے ہیں.اور آج بھی بالضرورت ان باتوں کا ذکر لایا ہوں تاکہ وہ لوگ جو ہمیں گورنمنٹ کا خوشامدی کہتے ہیں دیکھیں کہ وہ کیسے ظالم ہیں.پس ہم کو گورنمنٹ کی طرف سے نقصان پہنچے ہیں اور دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ تکلیف اٹھانی پڑی ہے.لیکن باوجود اس کے ہم اس اصل کو چھوڑ نہیں سکتے کہ امن سے رہیں اور ہم اس اصل کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ انسان کو خواہ کتنے ہی اعلیٰ فوائد حاصل ہوتے ہوں جن کے لئے اعلیٰ اخلاق چھوڑنے پڑتے ہوں تو ان فوائد کی کچھ پروا نہیں کرنی چاہئیے.اگر دنیا کی بادشاہت بھی جاتی ہو اور ہمیں کہا جائے کہ تم اخلاق کو چھوڑ کر اسے بچا سکتے ہو تو ہم سلطنت کی کوئی پروا نہ کریں گے اور اخلاق نہ چھوڑیں گے اس اصل پر قائم رہنے کی ایک وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیں جو دین ملا ہے وہ ہمیں سب چیزوں پر مقدم ہے اور اس کی ہدایت ہے کہ جس ملک میں رہو اس میں قائم شدہ حکومت کے خلاف شورش مت کرو.لوگ تو کہتے ہیں کہ اس طرح سوراج نہ ملے گا ہم کہتے ہیں سوراج تو الگ رہا اگر ہم سے قرآن کریم کی اتباع کرنے کی وجہ سے سب کچھ بھی چھٹ جائے تو ہم اس کی پروا نہ کریں گے اور ایک ہندوستان کیا اگر ہزار ہندوستان بھی جاتا ہے تو جانے دیں گے.مگر وہ جو یہ کہتا ہے کہ قرآن کریم کی اتباع کرنے سے ملک ہاتھ سے جاتا رہتا ہے جھوٹا ہے.کیا صحابہ کو ملک نہیں ملا تھا.پھر کیا انہوں نے بغاوتیں کی تھیں.ہرگز نہیں.اسی طرح کیا حضرت مسیح کے حواریوں کو ملک نہیں ملا تھا اور کیا انہوں نے بغاوتیں کی تھیں.خدا نے بادشاہوں کو حضرت مسیح کا پیرو بنا دیا تھا.اسی طرح ان لوگوں کو جو اسلام کے مٹانے کے لئے اٹھے اسلام کا حلقہ بگوش کر دیا.ترک کون ہیں.وہی جو اسلام کے دشمن بن کر اٹھے تھے.مگر خدا نے خود ان کو مسلمان بنا دیا.پس ہم صفائی کے ساتھ کہ دینا چاہتے ہیں کہ جس رستہ پر ہم چل رہے ہیں حکومت اسی رستہ پر چل کر ملے گی.اس وقت جو حاکم ہیں خدا ان کی عقلوں کو کھول دے گا.اور صداقت اسلام کے قائل بنا دے گا اور ایک دن آئے گا جبکہ یہ لوگ سمجھیں گے کہ انسان کو خدا بنانا بہت بڑی غلطی تھی.پھر وہ دن آئے گا جب ان کو معلوم ہو گا کہ ہم نے حقیقی وفاداروں کو چھوڑ کر وسروں کی خاطر انہیں دکھ دئے.اس وقت وہ خود شرمندہ ہو کر آئیں گے اور ہم سے معافی مانگیں گے اور ہمارے آگے ادب کے زانو نہ کرکے کہیں گے ہم کو اسلام میں داخل کرو کیونکہ اس کی صداقت ہم پر کھل گئی ہے ہماری ان بد سلوکیوں کو معاف کرو جو ہم تم سے کرتے رہے ہیں.کیونکہ رو
176 خدا تعالیٰ نے ہماری آنکھوں پر سے پردہ اٹھا دیا ہے اور تمہاری اصل شکل ہمیں نظر آنے لگی ہے.تم کہو یہ کب ہو گا اس کا جواب یہ ہے کہ یہ نہ ہم کو بتایا گیا ہے اور نہ ہمارے ہادی کو.جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں بتایا گیا تھا ہاں یہ بتایا گیا ہے کہ جس طرح پہلے نبیوں کے وقت میں ہوا اسی طرح اب بھی ہو گا.یہ ہم نہیں جانتے کہ کب ہو گا.ہاں یہ جانتے ہیں کہ ضرور ہو گا.پس ہم کسی ذاتی فائدہ کے لئے کوئی مشورہ نہیں دیتے رہے.بلکہ جو بھی نصیحتیں کیں محض اخلاص اور محبت سے کیں.مگر افسوس کہ مسلمانوں نے ان کو مانا نہیں اور آج اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں.اب کیا ہو رہا ہے اس کا پتہ ان مظالم سے لگ سکتا ہے جو مالابار میں مسلمانوں پر ہندوؤں کے ہاتھوں ہوئے اور جن کی انتہا نہیں رہی.پہلے تو آپ ان کو کہا کہ گورنمنٹ کے مقابلہ میں کھڑے ہو جاؤ.اور سوراجیہ حاصل کرلو.مگر پھر غدر کے ایام کی طرح غداری کی اور گورنمنٹ سے مل گئے.اور شور ڈال دیا کہ ہم مارے گئے.ہم پر مسلمانوں نے یہ ظلم کئے یہ ستم توڑے.بے شک مسلمانوں میں سے بعض نے ہندوؤں پر ظلم کئے.مگر وہ ان مظالم کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں جو ہندوؤں نے مسلمانوں پر کئے.لیکن افسوس کہ مسلمان اس پر بالکل خاموش رہے.اور غریب موپلوں کی کچھ بھی مدد نہ کی.پھر ملتان امرتسر الہ آباد کی طرف جو کچھ ہوا اس میں بھی مسلمانوں کو سخت سے سخت نقصان پہنچایا گیا.پھر ملکانوں کے علاقہ میں مسلمانوں کو جبر سے آریہ مرتد کر رہے ہیں اور ہندو ریاستیں اس کے لئے جبر کر رہی ہیں.آریہ ان کے علاقوں میں مسلمانوں کو مرتد بناتے ہیں تو کہتی ہیں کوئی حرج نہیں خوشی سے بنائیں.لیکن جب کوئی مسلمان جائے اور ارتداد کو روکنا چاہیے تو کہہ دیتی ہیں بدامنی پیدا ہوتی ہے اور مسلمان مبلغوں کو نکال دیتی ہیں.یہ نتیجہ ہے ان غلط کاریوں کا جو مسلمانوں نے کیں کہ اپنی باگیں ہندوؤں کے ہاتھوں میں دے دیں.اب اگر انہیں ہندو سرمہ کی طرح پیس دیں اور غبار کی طرح ہوا میں اڑا دیں تو کوئی تعجب نہیں.مجھے اس دن کی امید تھی جس دن میں سنتا کہ غدر کے ایام کی طرح ہندو آگے بڑھتے اور گورنمنٹ سے کہتے ہیں کہ سب کچھ مسلمانوں نے کیا ہے ہم نے کچھ نہیں کیا.چنانچہ اب ایسا ہی ہو رہا ہے.خود ہندو فساد کرتے مسلمانوں سے لڑتے اور ان کو مارتے ہیں.اور پھر جاکر حکام کے پاس شور ڈالتے ہیں کہ مسلمانوں نے ہمیں مار دیا.انگریز ایک تو تیسری قوم ہے اور پھر اس کا اس اصل پر عمل ہے کہ جو اونچی آواز سے چلائے گا اسی کی سنی جائے گی.اس لئے ہندو اپنی سنا لیتے ہیں اور مسلمان یہ کہتے ہیں کہ ہم اس گورنمنٹ کے پاس کیوں جائیں جس سے ہم نے ترک موالات کیا ہوا ہے.مگر ہندو باوجود نان کو اپریٹر کہلانے کے جاتے ہیں.اور جاکر مسلمانوں کی شکائتیں کرتے ہیں.اس وجہ سے مسلمان پکڑے جاتے ہیں.اور اگر حکام اپنی تفتیش کے ماتحت ہندوؤں کو پکڑتے بھی ہیں تو وہ عجیب عجیب
177 دھو کے دیگر نکل جاتے ہیں جیسا کہ امرتسر میں ہی ہوا.ہندوؤں نے مسلمانوں کو کہدیا کہ چلو آپس میں لڑائی ہو گئی تو کیا ہوا.گورنمنٹ کو دخل دینے کا موقع نہیں دینا چاہیئے اور اس کا طریق یہ ہے کہ مسلمان ہندو ملزموں کو شناخت نہ کریں اور ہندو مسلمان ملزموں کو نہ پہچانیں.اس پر مسلمانوں نے تو کہدیا کہ ہم ہندو ملزموں کو نہیں پہچانتے اس لئے وہ رہا ہو گئے لیکن ہندوؤں نے سب کے نام لکھوا دئے اور وہ پکڑے گئے.تو مسلمان اس وقت ہر طرف سے مار پر مار کھا رہے ہیں مگر ہوش نہیں کرتے.ایک گڑھے کے بعد دوسرے گڑھے میں گر رہے ہیں مگر ابھی تک انہیں سمجھ نہیں آتی.روزانہ پیش آنے والے واقعات ہی کوئی معمولی نہیں.مگر سب سے زیادہ اثر مجھ پر پنڈت موتی لال صاحب نہرو کی ایک تقریر نے کیا ہے اور میری آنکھوں کے سامنے غدر کا نمونہ پھر گیا ہے.پنڈت صاحب ایک بہت بڑے لیڈر ہیں انہوں نے اپنی ایک تقریر میں جو ہندو مسلم اتحاد کے متعلق تھی کہا ہے کہ اگر چہ میں خود ایک سچا ہندو ہوں تاہم اسلامی تہذیب و شائستگی اور مذہب اسلام کی روایات جمہوریت کا بڑا مداح ہوں.یہ کہکر انہوں نے مسلمانوں سے اپنی ہمدردی اور خیر خواہی جتائی ہے.مگر اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اصل میں تو میں ہندو ہی ہوں.اور ہندوؤں کا ہی خیر خواہ ہوں.اور انہی کی تائید کے جذبات میرے دل میں اٹھتے ہیں مگر پہلے مسلمانوں کو ساتھ ملا کر ہندوستان کی حکومت ملنے دو پھر ان کو نکالیں گے.ابھی کیوں ان کو الگ کرتے ہو.اور دوسری تقریر میں غدر جیسی غداری والی بات کہی ہے.اور وہ یہ کہ افسوس مسلمان بھائیوں نے اپنے علماء کو اپنے سیاسیات میں بہت آزادی دے دی.جس کا نتیجہ برا نکلا ہے.میں ان سے التجا کروں گا کہ انہیں آئندہ اس بات پر اصرار کرنا چاہیے کہ علماء سیاسیات میں ہاتھ ڈالنے سے احتراز کریں.گو پنڈت صاحب کے نزدیک سارا فساد مولویوں کا پیدا کردہ ہے اس لئے ان کو سیا سیاست میں نہیں آنے دینا چاہیے لیکن ادھر مولویوں کا یہ حال ہے کہ مولوی ابوالکلام آزاد مولوی آزاد سبحانی، مولوی ثناء اللہ مولوی ابراہیم وغیرہ کی زبانیں گھس گئی ہیں لوگوں کی خوشامد میں کرتے کہ ہندو خواہ کچھ کریں.تم اتفاق و اتحاد سے رہو اور اگر عملاً نہیں تو عقلاً جبہ سائی کرتے کرتے ان کی پیشانیوں پر گئے پڑ گئے ہیں.مگر نہرو صاحب سے انہیں یہ انعام ملا ہے کہ سارا فساد مولویوں کا پیدا کیا ہوا ہے ان کو سیاسیات میں ہی نہ آنے دو.حالانکہ تھوڑا ہی عرصہ پہلے انہیں مولویوں کو منتیں کر کر کے لاتے اور گورنمنٹ کے خلاف فتویٰ لیتے تھے.مگر اب کہتے ہیں ان کو سیاست میں آنے ہی نہ دو بلکہ باہر نکال دو.میرے نزدیک مولوی صاحبان اسی سلوک کے مستحق ہیں.کیونکہ جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دروازہ چھوڑ کر گاندھی کے دروازہ پر جاتا ہے اسے جتنی بھی سزا ملے اس کا وہ مستحق ہے.مگر یہ جھوٹ ہے کہ مولویوں نے تفرقہ ڈلوایا ہے یا ڈلواتے ہیں وہ تو آج بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ ہندو جو کچھ کریں ہم ان
178 کے پیچھے چلنے کے لئے تیار ہیں.مگر اب مسلمان ان کی نہیں مانتے.کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا ہے کہ ہندو دوستی کے پردہ میں ان کی جڑ ہیں کاٹنا چاہتے ہیں.امرتسر میں مولوی ثناء اللہ نے اور سیالکوٹ میں مولوی ابراہیم نے ہندوؤں سے متحد ہو کر رہنے کے وعظ کئے.ادھر ابو الکلام صاحب اور سبحانی صاحب سی آر داس کا دامن نہیں چھوڑتے اور ان کے پیچھے چل رہے ہیں.مگر باوجود اس کے سارا الزام ان پر لگایا جاتا ہے کہ یہی لوگ فتنہ پھیلاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ان کو سیاست سے علیحدہ کر دینا چاہئیے.جب گورنمنٹ کے خلاف فتوے لینے کی ضرورت تھی تو اس وقت مسٹر گاندھی بھی مولوی عبد الباری صاحب کو اپنے پاس بٹھاتے تھے.اور سارے ہندو لیڈر کہتے تھے کہ اگر سوراجیہ ملے گا تو علماء کے ذریعہ ہی ملے گا.لیکن اب جبکہ اس میں ناکامی ہوئی ہے اور کسی اور رستہ کی تلاش ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ ان مولویوں کی وجہ سے ہی ناکامی ہوئی ہے اور اس طرح سارا الزام مولویوں پر لگا دیا گیا ہے.میں اس امر کو پسند کرتا ہوں کہ مولوی سیاست میں دخل نہ دیں تاکہ کم از کم ان کے فتووں سے عام لوگ تو گمراہ نہ ہوں مگر یہ غلط ہے کہ ان کی وجہ سے سوراجیہ کا کام خراب ہوا ہے.وہ تو لیڈروں کے غلام بنے پھرتے ہیں.اور کیوں نہ پھریں.وہ جو پہلے ان لیڈروں کی مجالس میں بار تک نہ پاتے تھے اور عضو معطل کی طرح پڑے رہتے تھے.وہ جب سٹیج پر بلائے گئے ان کی آؤ بھگت کی گئی تو وہ اسی پر خوش ہو گئے ورنہ وہ جو صرف لیٹ رہنا اپنا کام سمجھتے تھے انہوں نے کیا کیا.اور کر کیا سکتے تھے.جو کچھ کیا سیاسی لیڈروں نے کیا.مگر جب نقصان ہوا تو سارا الزام مولویوں کے ذمہ لگا دیا.مگر تعجب ہے کہ پنڈت صاحب نے باوجود ادعائے بے تعصبی کے اتنا نہ سوچا کہ اگر مولویوں نے سیاست میں دخل دیا ہے تو پنڈتوں نے بھی تو دیا ہے.اگر شنکراچاریہ کا سیاست میں دخل دینا سیاسی معاملات کو خراب نہیں کرتا تو مولویوں کا دخل دینا کیوں خراب کرتا ہے.مولویوں پر یہ الزام ان کے لئے اس امر کی سزا ہے کہ انہوں نے نفسانی خواہشات کے لئے قرآن کریم کو بدنام کیا مگر جنس اصل کے ماتحت ان پر الزام لگایا گیا ہے وہ جھوٹ ہے اور ظلم ہے اور اس سے بھی زیادہ ظلم یہ ہے کہ صرف مولویوں کو ملزم قرار دیا گیا اور شنکراچاریہ جیسے مشہور سیاسی پنڈت کے متعلق ایک لفظ تک نہیں کہا گیا.اس لئے کہ سارے کا سارا الزام مسلمانوں پر قائم رہے.کیا ہندو مسلم اتحاد کا یہی نتیجہ ہونا چاہیئے مسلمان خود سوچ سکتے ہیں.صلح کا ہم سے بڑھ کر کوئی خواہش مند نہیں.ہمارے ہی امام نے سب سے اول صلح کا پیغام دیا مگر ہم کہتے ہیں اپنے اپنے حقوق معین کرکے ہی صلح ہو سکتی ہے.اگر ہمارے بتائے ہوئے اصل کے ماتحت ہندو مسلمان چلتے تو کبھی جھگڑا نہ ہوتا.اور حقیقی صلح ہوتی لیکن چونکہ اس کو نظر انداز کیا گیا ہے.اس لئے یہ حالت ہوئی جو نظر آرہی ہے.ہاں اس اصل کے ماتحت جو صلح ہوتی.وہ ہندوؤں سے ہی نہ ہوتی بلکہ انگریزوں سکھوں اور
179 ہے.مثال دوسری سب قوموں سے بھی ہوتی.اب خدا تعالیٰ نے تجربہ کے بعد بتا دیا ہے کہ صلح اس طریق سے ہرگز نہیں ہو سکتی جو اختیار کیا گیا ہے چونکہ ہمیں اب بھی امید ہے کہ خدا تعالیٰ لوگوں کی آنکھیں کھول دے اور وہ صلح کے صحیح طریق پر عمل کریں.اس لئے ہمارا حق ہے کہ انہیں بتائیں تاکہ ان کے نقصان اٹھانے کا جو اثر ہم پر پڑتا ہے.اس سے ہم محفوظ رہیں.آج جس طرح ملازمتوں سے تجارتوں سے اور دوسرے کاروبار سے دوسرے مسلمان محروم کئے جا رہے ہیں.اسی طرح احمدی بھی الگ کئے جا رہے ہیں.حکومت کی باگ کلی طور پر ہندوؤں کے ہاتھ میں ہے جو جس طرح چاہتے ہیں کرتے ہیں.پس ہمارا حق ہے کہ ہم آواز اٹھائیں تاکہ مسلمان پھر کوئی غلطی نہ کریں اور ان کے ساتھ ہمیں بھی نقصان نہ اٹھانا پڑے.بلکہ بعض حالتوں میں تو ہمیں زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ملکانوں کے ارتداد کا نقصان ہم کو اٹھانا پڑا ہے یا ان کو ؟ ملکانے تھے تو غیر احمدی لیکن چونکہ دین کی خدمت کرنے والے ہم ہی تھے.اس لئے ہمیں ہی ان کے لئے قربانی کرنی پڑی.چنانچہ اس وقت سب سے زیادہ علاقہ ہمارے پاس ہے.سب سے زیادہ ہمارے آدمی کام کر رہے ہیں اور سب سے زیادہ تکالیف ہم اٹھا رہے ہیں.ریاستوں کا مقابلہ ہم کر رہے ہیں.جب مصائب اور تکالیف ہم پر بھی آتی ہیں تو کیوں ہم خطرہ کے وقت آواز نہ اٹھائیں.پس ایک طرف تو میں اپنی جماعت کو کہتا ہوں کہ دیکھو تم لوگوں کو شور و شر کے زمانہ میں عقل سے کام لینے اور میری بات ماننے سے کیا فائدہ ہوا.اور تم کس طرح خوش ہو کہ تم نے اپنے ضمیر کا خون نہیں کیا.دوسری طرف میں مسلمانوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ اگر صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اسے بھولا نہیں سمجھتے.اب بھی اگر آپ لوگ سمجھیں تو کوئی تمہیں بھولا ہوا نہیں کہے گا.خدا تعالیٰ ہماری جماعت کے قدم کو بھی صدق و صفا پر قائم رکھے اور ان لوگوں کو بھی سمجھ عطا کرے جو گو ہمیں مارتے پیٹتے ہیں مگر ہمارے ساتھ اس نام میں شریک ہیں جو خدا تعالیٰ نے خود اپنے بندوں کے لئے تجویز فرمایا ہے.خدا تعالیٰ ان کو ہما کسبت ایدیکم کی سزا سے محفوظ رکھے.وہ صحیح رستہ پر چلیں اپنے اور پرائے دوست اور دشمن میں فرق کر سکیں اور اپنے نفسانی جوشوں سے اسلام کو بد نام نہ کریں.(الفضل ۳۱ ر اگست ۱۹۲۳ء)
180 31 دین کے کام ذاتی لگن اور انہماک سے کریں (فرموده ۳۱ / اگست ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.میں نے پچھلے سے پچھلے جمعہ میں اس بات کے متعلق کچھ بیان کیا تھا کہ مومن کو دینی کام کس طرح کرنا چاہئیے اور اس میں یہ بتایا تھا کہ خدا تعالیٰ کے احکام کے تمام بنی نوع انسان مخاطب ہیں.خاص انبیاء ہی اس کے مخاطب نہیں.شریعت کے تمام احکام ہر ایک انسان کے لئے ہیں.پھر میں نے بتایا تھا کہ خدا تعالیٰ اپنے اور بندہ میں کوئی وسیلہ نہیں بنانا چاہتا.وہ کبھی ایسے آدمی کو مبعوث نہیں کرتا جو اس کے اور بندہ کے درمیان وسیلہ ہو.یہ جو کچھ میں نے بیان کیا تھا.اس کی موٹی مثال تو یہ ہو سکتی ہے کہ کوئی شخص دس آدمیوں کی دعوت کرے اور جس محلہ میں وہ دس آدمی رہتے ہوں.وہاں کے ہی ایک شخص کو ان کے بلانے کے لئے دعوت کرنے والا کہدے.تو اس شخص کے پیغام کے ذریعہ سے جو آدمی دعوت پر گئے ہوں اس کے یہ معنے نہیں کہ اس کی سفارش سے اور اس کی وجہ سے باقی لوگ دعوت پر گئے ہیں.لیکن وسیلہ کے عام معنے جو رائج ہیں ان میں اور واسطہ و رہنما میں یہ فرق ہے کہ جیسے کوئی بادشاہ یا حاکم ہو.اس کے مکان پر کچھ لوگ آئیں.بادشاہ کی یہ غرض نہ ہو کہ وہ لوگ اس کے مکان پر آئیں.لیکن ایک شخص بادشاہ کا پیارا ہے.وہ اس کے پاس سفارش کرتا ہے کہ ان کو آنے دو تو ان کو بادشاہ اپنے مکان پر آنے کے لئے اجازت دے دے گا.یہ تو وسیلہ ہے اور ہادی و رہنما میں بظاہر تو یہی بات نظر آتی ہے کیونکہ ان کے بتائے ہوئے رستہ پر چلنا پڑتا ہے لیکن پھر بھی وہ وسیلہ نہیں ہوتے کیونکہ بے شک ان کے بتائے ہوئے رستہ پر تو ہم چلیں گے لیکن یہ نہیں کہ ان کی وجہ سے ہم اس رستہ پر چل کر خدا تک پہنچیں گے بلکہ ہمارا خدا کے ساتھ براہ راست تعلق ہوگا جس کے لئے ہم کو اس رستہ پر چلنا پڑتا ہے.اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص کو ایک جگہ معلوم ہو گئی ہے.وہ اس جگہ کا اور اس کے راستہ کا واقف ہے.اس جگہ تک پہنچنے کے لئے ہم اس کے پیچھے
181 پیچھے چلیں گے.اب اس کے ذریعہ سے تو بے شک ہم خاص جگہ کو جا رہے ہیں لیکن اس کی وجہ سے نہیں بلکہ اس جگہ کی وجہ سے اس کے پیچھے چل رہے ہیں.تو یہ ایک ذریعہ ہے اور ایسا شخص جس کے پیچھے ہم چل رہے ہیں وہ ہادی اور رہنما کہلائے گا.پس رہنما کا تو صرف یہ مطلب ہے کہ وہ بھی وہیں جاتا ہے اور ہم بھی وہیں جاتے ہیں.فرق اس میں اور ہم میں یہ ہے کہ اس کو کسی طرح سے اس جگہ کا اور رستہ کا پہلے علم ہو گیا ہے.اور ہمیں علم نہیں ہے اس وجہ سے اس کے پیچھے چلنا پڑتا ہے اور وہ ہماری رہنمائی کرتا ہے.اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ جس راہ پر وہ جا رہا ہے اگر ہم اس راہ پر نہیں چلیں گے تو منزل مقصود پر ہم نہیں پہنچیں گے.لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ ہمارے وہاں جانے کے لئے وسیلہ نہیں اور ہم اس کی وجہ سے نہیں جا رہے.پس نبی جو دنیا میں مبعوث ہوتے ہیں اور ولی بزرگ دنیا میں آتے ہیں وہ اسی لئے آتے ہیں کہ وہ خدا تک پہنچنے کا رستہ بندوں کو بتائیں.اس رستہ پر چل کر بندے خدا تعالیٰ تک پہنچیں.اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ان کی وجہ سے ہم خدا تک پہنچتے ہیں.خدا کا تعلق تو ہر بندہ سے براہ راست ہے اور درمیان میں کوئی وسیلہ نہیں نہ کوئی نبی وسیلہ ہے نہ کوئی ولی.میری غرض اس بات کے بیان کرنے سے یہ ہے کہ اس کے نہ سمجھنے کی وجہ سے عام لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ ان کا کیا کام ہے اور کام کس طرح کرنا چاہئیے اور نہ ان کے اندر اس کام کے لئے جوش پیدا ہوتا ہے.عام طور پر لوگوں کے دلوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ اصل مقصود انبیاء و اولیاء ہی ہیں اور ہمارا کوئی کام نہیں اور نہ ہمارا خدا کے ساتھ کوئی براہ راست تعلق ہے.اس کی مثال تو ایسی ہی ہے کہ ایک شخص کو عدالت سے آواز آئے تو اس کے دوست بھی دیکھنے کے لئے ساتھ چلے جائیں تو ان کے اندر وہ جوش نہیں ہوگا جو اس صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ ان کو بھی عدالت میں بلایا جائے.اسی طرح چونکہ عام لوگوں کے دلوں میں یہ خیال بیٹھا ہوا ہے کہ نبی ہی مقصود ہیں اور ان کو یہ خیال نہیں کہ ہم بھی بلائے گئے ہیں اس لئے ان کے اندر وہ جوش نہیں جو اس صورت میں ہونا چاہئیے جبکہ ان کو یہ خیال ہو کہ انہیں بلایا گیا ہے.وہ یہ نہیں سمجھتے کہ تمام انبیاء جیسے حضرت ابراہیم موسیٰ و عیسی یا رسول کریم تھے.یہ اپنے اپنے زمانہ میں چونکہ خدا کی محبت اور اس کے قرب میں بڑھ گئے تھے اس لئے ہمیں ان کے پیچھے چلنا پڑا اور وہ ہمارے ہادی اور رہنما بن گئے.ورنہ خدا تعالیٰ نے تو کسی کو اپنی طرف بلانے میں فرق نہیں رکھا.اس نے تو جیسے انبیاء کو بلایا ویسے ہی ہم کو بلایا.فرق صرف محنت کا ہے.کسی نے اس کی طرف جانے میں اور اس تک پہنچنے کے لئے زیادہ محنت کی.اور زیادہ پیارا ہو گیا.یہ تو ہر شخص کی محنت ہے رسول اللہ نے چونکہ سے بڑھ کر محنت دکھلائی اس لئے وہ خدا تعالیٰ کچھ زیادہ مقرب ہو گئے.یہ اپنی اپنی محنت ہے.ورنہ سب
182 وہ خدا تعالیٰ تو یہی چاہتا ہے کہ سب بندے اس کے بلانے کے لحاظ سے برابر ہوں.کسی شخص کو یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ انبیاء کو اس لئے خاص طور پر مخاطب کرتا ہے کہ صرف وہی مقصود ہیں بلکہ اس لئے مخاطب کرتا ہے کہ وہ اس کے پیارے اور محبوب بن جاتے ہیں اور اس تک پہنچنے کے لئے سب سے آگے ہوتے ہیں.پس جبکہ سارے کے سارے خدا تعالیٰ کے یکساں مخاطب ہیں تو اب سوال یہ ہے کہ ہم لوگوں کو دینی کام کی ذمہ داری کس طرح اٹھانی چاہئیے.یہ سوال تو حل ہو گیا کہ تمام بندے اس کے مخاطب ہیں.اس لئے ہم سب کام کے ذمہ دار ہیں.ہاں وہ اپنے پیاروں کے ذریعہ سے لوگوں کو مخاطب کرتا ہے اور سب سے مخاطب نہ ہونے کی ایک حکمت ہے اور بندہ کسی اور وجہ سے سب سے نہیں بولتا.خدا تعالیٰ کی تو سب سے نہ بولنے میں یہ حکمت ہے کہ اس کا بولنا ایک انعام ہے.نہیں چاہتا کہ یہ انعام ہر شخص کو بغیر کوشش اور محنت کے دیا جائے اور بندہ کی ہر ایک کے ساتھ نہ بولنے کی یہ وجہ ہے کہ اس کی طاقت محدود ہے.مثلاً میں ہوں.میں ہر ایک کے ساتھ نہ بول سکتا ہوں نہ خط و کتابت کر سکتا ہوں اس لئے میں اگر ایک امیریا سیکرٹری یا پریذیڈنٹ کو حکم دوں کہ دوسروں کو یہ کہو کہ یہ کام کرنا ہے تو کیا دوسرے لوگ اس کام کے کرنے میں اس لئے سستی اختیار کر سکتے ہیں کہ میں نے ان کو براہ راست حکم نہیں دیا.میرے حکم کے جیسے امیر مخاطب تھے اسی طرح تمام لوگ مخاطب ہونگے حکم سب کے لئے یکساں ہوگا اور کوئی خاص آدمی اس حکم کا مقصود نہیں ہو گا.لیکن سب کو چونکہ براہ راست حکم نہیں دیا جا سکتا اس لئے امیریا سیکرٹری وغیرہ کے ذریعہ سے دیا جائے گا.پس جبکہ قرآن کریم تمام کے لئے ہے اور تمام مسلمان اس کے مخاطب ہیں تو تمام کی ذمہ داریاں یکساں ہونگی.جس طرح وہ احکام زید کے لئے فرض ہیں.اسی طرح بکر کے لئے.جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس کے احکام فرض ہیں اسی طرح ہمارے لئے فرض ہیں.یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ فلاں شخص اس پر عمل کرنے کا ہماری نسبت زیادہ حق رکھتا ہے.اس کے احکام پر عمل کرنا سب کا یکساں فرض ہے اور سب کا حق ہے.ابوبکر کے اوپر کوئی زیادہ حق نہیں تھا کہ ان احکام پر عمل کریں اور لوگوں سے عمل کرائیں.جس طرح ان پر حق تھا کہ وہ اسلام کی حفاظت کریں اور لوگوں سے شریعت پر عمل کرائیں.اسی طرح ابو عبیدہ اور دیگر مسلمانوں کا حق تھا.عمر پر جیسے اسلام کی حمائت اور حفاظت فرض تھی.بعینہ اسی طرح ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان کا بھی فرض تھا.فرق صرف یہ تھا کہ عمر کے پاس طاقت زیادہ تھی.اور اس میں کوئی شک نہیں کہ طاقتور زیادہ بوجھ اٹھائے گا اور کمزور کم لیکن حکم دونوں کے لئے یکساں تھا.جس قدر طاقت اس کے اندر ہے اس حد تک اس کے لئے احکام ہیں.
183 پس جب یہ ثابت ہو گیا کہ ہر دینی کام ہر مومن کا کام ہے.تو اب سوال یہ رہا کہ مذہبی کام کس طرح کریں.یہ سوال آسانی سے حل ہو جائے گا.اور میری اس تمہید کی یہی غرض تھی کہ میں تمہارے دلوں کو اس طرف لاؤں کہ جبکہ تمام احکام ہمارے لئے ویسے ہی فرض ہیں جیسے نبی کریم صلعم کے لئے تو کیا وجہ ہے کہ ہم ان احکام کے بجا لانے میں سستی کریں.میں تو کہتا ہوں کہ کوئی شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اگر یہ بھی خیال کرے کہ ان کی وجہ سے ہم احکام الہی پر عمل کرتے ہیں تو یہ بھی شرک ہے شرک سے پورا مجتنب اور پورا موحد انسان تب ہی بن سکتا ہے کہ اس کو یہ یقین ہو کہ میرے اور خدا کے درمیان کوئی وسیلہ نہیں.باقی یہ کہ اس نے خود اپنے ایک بندہ کو اپنے دوسرے بندوں کی راہنمائی کے لئے مقرر کر کے بھیجا.یہ تو خدا تعالیٰ کی کمال محبت کا ثبوت ہے کہ اس نے ایک طاقت ور کو کمزور بندوں کے لئے مقرر کر دیا وہ تو خدا کی مخلوق کی خدمت کے لئے مقرر کئے گئے اور یہ اللہ تعالیٰ کی خاص محبت کی نشانی ہے.ہاں وہ اس خدمت کی وجہ سے انسانوں کے مخدوم بن گئے کیونکہ ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد.ورنہ خدا کی طرف سے تو وہ اسی لئے مقرر ہیں کہ لوگوں کو اٹھائیں اور خدا تک لے جائیں.وہ لوگوں کے پیغامبر ہیں.معین ہیں.وہ ستون اور سمارا تو ہیں لیکن وہ انسانوں میں اور خدا میں روک نہیں.یہ نہیں کہ وہی لوگوں کے خدا تعالیٰ تک پہنچنے کی وجہ ہیں.بلکہ وہ تو اس لئے آئے کہ لوگ جو خدا تعالیٰ سے دور تھے ان کو قریب لائیں کیونکہ خدا تعالی یہ نہیں چاہتا کہ اس کے بندے گرے رہیں.جیسے زمیندار گیہوں کو کاتا ہے اور اس کے بعض حصے زمین پر گرے رہ جاتے ہیں تو زمیندار سے اس حصہ کے رہ جانے سے یہ مطلب نہیں کہ اس کا مقصد ہے کہ وہ حصہ گرا رہے بلکہ اس کا مقصد تو یہی تھا کہ تمام کا تمام لے جائے.اسی طرح جو بندہ چھوڑا جاتا ہے وہ خود رہتا ہے ورنہ خدا تعالیٰ کے مقصود و مطلوب تو تمام انسان ہیں.پس ہر انسان کی طرف اسی طرح کلام الہی نازل ہوا ہے.جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف.باقی اپنی اپنی طاقتوں کا فرق ہے.حکم میں کوئی فرق نہیں.اور یہ جو میں کہتا ہوں کہ حکم میں کوئی فرق نہیں.حکم میں سب برابر ہیں.اس کی میں نے پہلے بھی کچھ تشریح کی ہے.اور اب پھر جتاتا ہوں کہ کسی کی طاقت اگر ہم ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے لئے حکم بھی کم ہے بلکہ حکم تو سب کے لئے برابر ہے لیکن جو شخص کمزور ہے وہ کم کام کرتا ہے مگر اس سے اس پر کوئی حرف نہیں آتا.مثلاً ہم لوگوں کو کہیں کہ جتنا تمہارے پاس روپیہ ہے وہ سب کا سب دین کے لئے دے دو.اب ایک کی جیب میں دس روپے ہوں وہ دس ہی دے گا اور دوسرے کی جیب میں اس سے کم ہوں تو وہ کم ہی دے گا.اب دس والے نے اس لئے دس نہیں دئے کہ اس کو حکم تھا زیادہ دیوے
184 اور نہ کم والے نے اس لئے کم دئے کہ اس کو اس سے کم حکم تھا.حکم دونوں کے لئے یہی تھا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ تمام دے دو.حکم میں وہ دونوں برابر ہیں.اسی طرح ایک شخص دین کی خدمت کے لئے دس گھنٹے دے سکتا ہے اور دوسرا پانچ گھنٹے.اب حکم تو دونوں کو اپنا وقت دینے کا ہے اب اگر دس گھنٹے والا پانچ گھنٹے دے تو وہ مجرم ہو گا اور پانچ گھنٹے جو دے سکتا تھا وہ پانچ گھنٹے ہی دے دے تو وہ مقرب ہو جائے گا.تو ہر ایک مومن دینی احکام کا ایک جیسا مخاطب ہے اور ہر مومن پر دین کی تمام ذمہ داریاں عائد ہوں گی.اب ہمیں اسی رنگ میں کام کرنے چاہئیں کہ وہ تمام کام ہم میں سے ہر ایک کے لئے فرض ہیں اور ہم میں سے ہر شخص ان کاموں کا اسی طرح ذمہ دار ہے جس طرح اپنے کاموں کا.مگر اس میں ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ ہم عقل سے اور سمجھ سے کام کریں.بیوقوف اور سست الوجود کی طرح کام نہ کریں.ایک ہوشیار سمجھدار و عظمند کی طرح کام کریں.ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کام تو کرے لیکن وہ بیوقوف ہو یا پاگل ہو یا بیمار ہو یا جاہل ہو.اسی لئے اس کے کام کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا.بہت سے لوگ دنیا میں ایسے ملتے ہیں جن میں کام کی قابلیت تو ہوتی ہے لیکن انہیں کام کرنے کا پتہ نہیں ہوتا.پھر بہت سے ایسے لوگ ملتے ہیں جن میں کام کرنے کی قابلیت ہی نہیں ہوتی.تو ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم دینی کام کریں اور سمجھ دار اور عظمند آدمی کی طرح کام کریں.اب دیکھ لو دنیا میں عقلمند آدمی کس طرح اپنے کام کرتا ہے.عقلمند اپنے کاموں میں دو باتوں کو ہمیشہ مد نظر رکھتا ہے ایک تو یہ کہ اس کا کام کسی وجہ سے تباہ نہ ہو جائے.اس کے لئے کوئی حد بندی اور کوئی شرط نہیں لگائے گا اور اس کے لئے جائز ذرائع مہیا کرے گا بلکہ وہ یہ کہے گا کہ جس طرح سے ہو یہ کام پورا ہو جائے.دوسری بات یہ کہ اس کام کو شوق سے کرتا ہے.پس ایک تو یہ کہ عقلمند آدمی اس کام میں کامیاب ہونے کے لئے جس قدر صحیح و جائز ذرائع ہو سکتے ہیں انہیں مہیا کرتا اور استعمال کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ خود شوق سے اس کام کو کرتا ہے.دیکھو کیا کوئی عقلمند دنیا میں ایسا ہے جو اپنے کام کے لئے حد بندی مقرر کرتا ہو یا کوئی شرط قائم کرتا ہو جب کوئی عقلمند دنیا میں ایسا نہیں ملتا تو ایک مومن دینی کام میں کیونکر حد بندیاں اور شرطیں مقرر کر سکتا ہے.حد بندی کرنے والوں کی مثال تو یہ ہوتی ہے کہ کوئی آقا ظالم تھا جو اپنے نوکروں پر ظلم کرتا تھا.اس کے پاس ایک نوکر آیا اس نے کہا کہ جتنے کام ہیں وہ مجھے بتا دیجئے اور لکھ دیجئے.نوکر محنتی اور کام کرنے والا تھا.وہ تمام کام کر دیتا.ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ آقا با ہر سیر کو گھوڑے پر سوار ہو کر گیا اور اس نوکر کو اپنے ساتھ چلنے کے لئے حکم دیا گھوڑا شریر تھا.وہ آقا ایک جگہ اس گھوڑے پر سے گر گیا اور ایک رکاب میں آقا کا پاؤں پھنس گیا جس کی وجہ سے اس کا سر زمین سے گھٹتا اور رگڑ کھاتا جاتا تھا.نوکر کو اس نے آواز دی کہ جلدی آؤ.اور میرا پاؤں اس رکاب سے نکالو.اس
185 نوکر نے وہ کاغذ نکال کر کہا.دیکھ لیں سرکار اس میں یہ شرط لکھی نہیں تو دیکھو یہ اس نوکر کا اپنا کام نہیں تھا.کیا اگر اس شخص کا اپنا بیٹا ہوتا تو وہ ایسا کر سکتا تھا اور وہ یہ جواب دے سکتا تھا.تو عظمند انسان اپنے تمام کام کرتا ہے اور شوق سے کرتا ہے.دیکھو! دنیا میں کونسا کام ہے جو انسان اپنے گھر میں نہیں کر لیتا بد سے بد تر کام بھی لوگ اپنے گھروں میں کر لیتے ہیں.اپنے بچوں کا پاخانہ پیشاب دھوتے اور ان کی صفائی کرتے ہیں.کیا لوگ اپنے گھر کی صفائی نہیں کرتے.درزیوں کا کام ہے.بڑے سے بڑے گھرانوں میں سینے پرونے کا کام کیا جاتا ہے.مرمت کا پیشہ ہے.کئی ٹوٹی پھوٹی چیزوں کو بنا لیتا ہے معمار کا پیشہ ہوتا ہے کہیں سے ایک دو اینٹیں اکھڑی ہوں تو وہ لگا دیتا ہے گھر کے تھوڑے سے کام کے لئے معمار کو نہیں بلا تا.تو گھر میں وہ لوہار بھی ہوتا ہے ترکھان بھی ہوتا ہے قصاب بھی ہوتا ہے اپنے ہاتھ سے مرغی اور بکرا ذبیح کرتا ہے اور اسے بناتا ہے.باورچی بھی ہوتا ہے دھوبی بھی بن جاتا ہے.غرضیکہ کونسا پیشہ ہے جو گھروں میں نہیں کیا جاتا.چونکہ اس کا وہ اپنا کام ہوتا ہے.اس لئے اس کے کرنے میں دریغ نہیں کرتا.وہ گھر میں یہ تو نہیں کہتا کہ میں ہیڈ کلرک ہوں میں ڈپٹی ہوں.بڑے بڑے بادشاہ بھی گھر میں کام کرتے ہیں کہیں باغوں کو پانی دیتے ہیں کہیں لکڑی پھاڑ لیتے ہیں.سلطان عبد الحمید اپنے ہاتھ سے الماری بنا لیتا تھا.تو اپنے کام میں انسان کسی بات کی پروا نہیں کیا کرتا اور شرطیں بھی نہیں لگایا کرتا.دفتر میں تو چھ گھنٹے کے بعد کہہ دے گا کہ بس جی اب میرا وقت ختم ہو گیا.وہاں چھ گھنٹہ کی شرط لگائے گا.لیکن گھر کے کام میں وہ کبھی نہیں کہتا کہ نہیں کرتا اب وقت پورا ہو گیا ہے بلکہ ہر قسم کے کام کرتا ہے.پھر حد بندی نہیں لگاتا اور شوق سے کام کرتا ہے.کسی کا بچہ ڈوب رہا ہو اور وہ اس کو بچانے کے لئے جا رہا ہو اور کوئی شخص اسے منع کرے تو وہ انسان اگر جوش رکھتا ہو گا تب تو میرے خیال میں پہلے اس روکنے والے کا سر پھوڑے گا بعد میں اپنے بچے کو بچانے کی کوشش کرے گا.اسی طرح اگر دینی کام کو اپنا سمجھا جائے تو وہ کسی کے چڑانے یا روکنے سے اس کام کو نہیں چھوڑ سکتا.بعض لوگ پڑ جاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص چونکہ مجھے کہتا ہے اس لئے میں یہ کام نہیں کروں گا.ہم کہتے ہیں کیا اگر کسی کو کوئی کہے کہ بچہ کو مت نکالو یا اس کی خبر گیری نہ کرو تو کیا وہ بچہ کو غصہ میں آکر نکالے گا نہیں یا اس کی خبر گیری چھوڑ دے گا اس لئے کہ فلاں شخص نے اسے روکا یا اسے چڑانے کے لئے بار بار کہا کہ تم بچہ سے محبت کیا کرو اس کو مارو نہیں یا اس کی خبر گیری اچھی طرح سے کرو تو کیا وہ اس کی خبر گیری چھوڑ دے گا.ایسے آدمیوں کا جو کسی کے چڑانے یا روکنے کی وجہ سے دینی کام کو چھوڑ بیٹھتے ہیں تجربہ کیا جا سکتا ہے کہ انہیں بار بار کہا جائے کہ اپنے بچہ کو ضرور پڑھاؤ اور اس کی خبر گیری ضرور کرو پھر ہم دیکھیں گے کہ آیا وہ اسے پڑھانا چھوڑ دیتے
186 ہیں یا اس کی خبر گیری سے علیحدہ ہو جاتے ہیں.لیکن اگر وہ اس معالمہ میں ایسا نہیں کرتے تو دین میں ایسا کیوں کیا جاتا ہے.یا کیوں ایسا ہوتا ہے کہ وہ کہتا ہے کہ کوئی اسے دینی کام کرنے کے لئے یاد دلانے والا نہیں اور کوئی محرک نہیں.کیا بچہ کی خبر گیری کرنے کے لئے یا اور ایسے ہی ضروری کاموں کے لئے اسے یاد دلانے کی ضرورت ہوتی ہے؟ اسے یہ یاد دلانے کے لئے کہ تم اپنے گھر کا فلاں کام کر دیا اپنے بچہ کی خبر گیری کرو.اس کے کتنے سیکرٹری ہیں اور کتنے پریذیڈنٹ ہیں جو اسے یاد دلاتے ہیں کہ اپنے بچہ سے محبت کر دیا خود تم کھانا کھاؤ.اگر خدا کا کام تم اپنا کام سمجھو تو پھر کسی کے یاد دلانے کی ضرورت نہیں.پس جب تک تمہارے دل میں خدمت دین کے لئے کم از کم اتنی ہی تڑپ نہ پیدا ہو جتنی کہ اپنے گھر کے کاموں کے لئے ہوتی ہے تب تک تم کبھی ترقی نہیں کر سکتے.کوئی تم میں سے کہتا ہے کہ ہم مسجد سے دور چلے گئے اس لئے نماز با جماعت چھوٹ گئی یا کسی نے خبر نہ کی.ہم کہتے ہیں کہ کسی کے یاد نہ دلانے سے کھانا کھانا کیوں نہیں چھوٹ گیا.وہ کہے گا کہ روٹی کی بھوک اندر سے لگتی ہے.ہم کہتے ہیں کہ دین کی محبت معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے اندر سے پیدا نہیں ہوتی اس لئے کسی کی یاد دہانی کا تم اپنے آپ کو محتاج سمجھتے ہو.پس جو اپنے آپ کو مومن سمجھتا ہے یا اپنے آپ کو مومن بنانا چاہتا ہے اس کے لئے میں یہ جتاتا ہوں کہ ہر ایک دینی کام کو اپنا فرض سمجھو اور پھر اسے اپنا کام خیال کرو.نہ کسی کے یاد دلانے کی ضرورت ہو.نہ کسی کے چڑانے یا روکنے سے اس کام کو چھوڑ دو.کیا تم اپنے کام میں کسی کے یاد دلانے کی ضرورت سمجھتے ہو.پھر کیا وجہ ہے کہ دینی کاموں میں بار بار کسی کے یاد دلانے کی ضرورت محسوس کرتے ہو یا شر میں لگائی جاتی ہیں اگر دین تمہارا ہے تو پھر کوئی شرط نہیں تم لگا سکتے.سارے کا سارا دینی کام جب تمہارا کام ہے تو اسے اسی شوق و محبت سے کرو جس شوق و محبت سے دنیا میں اپنا کام کیا جاتا ہے.یہ خلاصہ ہے مومن کے کام کا.اگر اسی طرح کام کیا جائے تو جماعت اس تیزی سے ترقی کر سکتی ہے کہ ایک تیز سے تیز ترین بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.مگر ایسے لوگوں نے کیا کام کرنا ہے جو کچھ کام ہو دوسروں کے ذمہ لگا دیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ یہ کام ہمارے کرنے کا نہیں.فلاں لوگ کریں گے.اور کچھ کام جو اپنے ذمہ لیتے ہیں انہیں بھی اس وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں کہ فلاں نے انہیں کیوں بار بار ان کاموں کے لئے کہا.اگر یاد نہ دلایا جائے تب تو یہ شکایت کہ کیوں یاد نہ دلایا گیا.اور اگر یاد دلایا جائے تب یہ شکایت کہ بار بار کیوں یاد دلایا جاتا ہے.ایسی کوری و غافل قوم کب دنیا میں ترقی کر سکتی ہے.ایک تو پہلے کام کو تقسیم کر کے دوسروں کے ذمہ ڈال دیا اور پھر اس سے بھی بڑھ کر ایک اور قیامت یہ کہ جو کام اپنے ذمہ رکھا اس کے متعلق اگر کوئی یاد دلائے تو کہتے ہیں کہ ہمارے پیچھے پڑ گئے ہماری ہتک ہو گئی ہمیں ذلیل کر دیا.ان
187 لوگوں کی مثال بالکل اسی شخص کی سی ہے.جو شادی میں نیو نذرا نہیں دینا چاہتا اور اس کے لئے بہانہ تلاش کرتا تھا.آخر کوٹھے پر چڑھ کر زور زور سے پاؤں مارنے لگا.گھر والوں نے پوچھا کہ اوپر کون اس پر یہ کہہ کر روٹھ گیا کہ اچھا ہم کون ہوئے اور چلا گیا.تو ایسے لوگ ہمیشہ بہانہ ڈھونڈتے ہیں کہ کسی طرح ہمیں خدمت دین کا کام جو طوق کی مانند نعوذ باللہ لعنت ہو کر ان کے گلے پڑا ہوتا ہے نہ کرنا پڑے گو مومن کا یہ کام ہے کہ جس طرح وہ اپنے کام کرتا ہے اسی طرح دین کا کام کرے.میں نے تو کبھی نہیں دیکھا کہ کسی کی نمبردار کے ساتھ لڑائی ہو جائے اور ڈپٹی کمشنر ا سے بلائے تو وہ نہ جائے.پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا نے جو کام تمہارے ذمہ لگایا ہے اسے کسی کے ساتھ لڑائی کی وجہ سے چھوڑ دو.تمہارا کوئی محبوب ہو اور تم اس کے پاس جا رہے ہو کہ رستہ میں لڑائی ہو جائے تو پھر کیا تم واپس آجاؤ گے پس جب تم اپنے مطلوب کو کسی سے لڑائی ہو جانے پر متروک نہیں کر سکتے تو کسی طرح ہو سکتا ہے کہ تم کسی کے پیچھے نماز پڑھنا اس لئے چھوڑ دو کہ کسی سے تمہاری لڑائی ہو گئی تھی مگر بعض مقتدیوں نے بعض اماموں کے پیچھے نماز چھوڑ دی اس لئے کہ لڑائی ہوئی تھی.اور بعض اماموں نے نماز پڑھانی چھوڑ دی اس لئے کہ بعض مقتدی اس پر ناراض ہیں.پھر میں دیکھتا ہوں کہ کئی لوگ ہیں جو کسی دوسرے آدمی کی وجہ سے دینی کام کو چھوڑ بیٹھتے ہیں.پھر میں دیکھتا ہوں کہ کئی لوگ ہیں جو دینی کاموں میں شرطیں لگاتے ہیں.میں کہتا ہوں کہ یہ سب باتیں نفس کی خرابی کی علامتیں ہیں اور میں اپنے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ تمہارے کام تمہیں سمجھانے میں میرا اپنا کوئی فائدہ نہیں.اگر میں تمہیں کوئی کام کہتا ہوں تو تمہاری ہی ترقی اور تمہارے ہی فائدہ کے لئے کہتا ہوں.اس میں میرا اپنا کوئی فائدہ نہیں.میرے دل میں یہ نہیں کہ میں صرف اپنی ترقی و عزت چاہوں.میں یہ نہیں چاہتا کہ تم جاہل رہو اور سارا کام میری طرف منسوب ہو بلکہ میں چاہتا ہوں کہ تمہاری بھی عزت ہو اور تمہیں بھی ترقی حاصل ہو.وہ خلیفہ خلیفہ نہیں ہو سکتا بلکہ وہ نبی نبی نہیں ہو سکتا جب تک اس کی یہ خواہش نہ ہو کہ دوسرے بھی اس کی مانند ہو جائیں.پس میں کہتا ہوں کہ اپنے فرائض کو سمجھو تاکہ ترقی کر سکو.الفضل ۷ ستمبر ۱۹۲۳ء)
188 32 بڑی سے بڑی قربانیوں کے لئے تیار ہو جاؤ (فرموده ۷ ستمبر ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.اگرچہ میری طبیعت اچھی نہیں.رات کو بہت تکلیف رہی ہے.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میری ذمہ داریاں اور جماعت کی ضرورت اس بات کی مقتضی ہیں کہ کچھ نہ کچھ اپنی طرف سے جماعت کے معاملات کے متعلق جو دین اور تقویٰ و سیاست سے تعلق رکھتے ہیں کم سے کم ہفتہ میں ایک دفعہ ضرور یان کروں تاکہ جماعت زیادہ ہوشیار ہو جائے.اس میں کوئی شک نہیں کہ کئی لوگ ایک کان سے بات سنتے اور دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں.لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کوئی بات بتانے سے بہت لوگ ہیں جو اگر غافل ہوں تو ہوشیار ہو جاتے ہیں اور اگر ہوشیار ہوں تو اور زیادہ ہوشیار ہو جاتے ہیں.پس باوجود اس کے کہ بعض لوگوں پر نصیحت کا اثر نہیں ہو تا مگر پھر بھی نصیحت کے نیک نتائج ضرور نکلتے ہیں.اس وقت میں اختصار کے ساتھ جماعت کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری جو ذمہ داریاں ہیں وہ اس بات کو چاہتی ہیں کہ ہماری قربانیاں بہت زیادہ ہوں اور بہت بڑھی ہوئی ہوں.جب تک تمام کے تمام افراد اپنے ذاتی خیالات اور ذاتی فوائد کو قربان کر کے ایک غرض و غائت پر جمع نہیں ہونگے.تب تک وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتے اور نہ قائم رہ سکتے ہیں.میں تمہارے حالات کو خوب جانتا ہوں کیونکہ میں بھی تمہاری طرح کا ہی انسان ہوں.میرے بھی وہی حالات اور میری بھی وہی ضروریات ہیں جو تمہارے حالات اور تمہاری ضروریات ہیں.میں کوئی غیر جنس نہیں تمہاری ہی جنس کا ہوں.اس لئے میں تمہارے حالات کو خوب سمجھتا ہوں.اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بھی قانون رکھا ہے کہ انسان کو سمجھنانے کے لئے انسان ہی مقرر کئے جاتے ہیں.پھر انسانوں میں بھی آگے اختلاف ہوتا ہے.مشرق کے رہنے والے مغرب والوں کی بات نہیں مانتے.وہ کہتے ہیں ہماری بات درست ہے اور مغرب والے مشرق والوں کی نہیں مانتے.اس لئے خدا تعالیٰ نے یہ قانون رکھا
189 ہے کہ سب سے پہلی قوم جس کو مخاطب کرنا ہوتا ہے.انہیں میں سے ایک شخص کو چھتا.تا ہے.دیکھو تم میں جو شخص آیا وہ تمہاری سی عادات تمہارے سے ہی خیالات رکھتا تھا.اور اس کے بعد جس کے سپرد جماعت کا انتظام کیا گیا وہ بھی تمہاری طرح کا ہی انسان ہے.پس تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم ہمارے حالات کو نہیں سمجھ سکتے.ہماری مجبوریوں اور ہماری ضروریات کو نہیں سمجھتے بلکہ جن حالات و مشکلات میں سے تم گزرتے ہو انہیں حالات میں سے میں بھی گزرتا ہوں.تمہارے لئے جو مشکلات ہو سکتی ہیں.بعینہ وہ میرے لئے بھی ہو سکتی ہیں کیونکہ اسی کل کا میں بھی جز ہوں جس کی تم ایک جز ہو.پس میں اگر تم کو کوئی نصیحت کرتا ہوں تو صرف اسی لحاظ سے نہیں کہ میں امام اور خلیفہ ہوں بلکہ میں اس لحاظ سے بھی نصیحت کرتا ہوں کہ میں تمہاری طرح کا انسان ہونے کی وجہ سے تمہاری مشکلات اور تمہارے حالات کو سمجھتا ہوں.میں اس شخص کی طرح نصیحت کرتا ہوں جو خود ان مصائب و مشکلات سے گزر رہا ہو.جن میں سے تم گزر رہے ہو.پس میری نصیحت محض حاکمانہ نہیں ہے بلکہ اس حیثیت کے علاوہ کہ جو میری خلافت کے لحاظ سے حیثیت ہے میری انسانی حیثیت زیادہ محرک ہوتی ہے کہ میں تمہیں خطرات سے آگاہ کروں.بہت دفعہ میرے اندرونی احساسات ان کاموں کے کرنے کا حکم دینے سے روک دیتے ہیں جو بلحاظ خلافت کے کرانے چاہئیں اور ان کی بجائے میں ان حالات کے ماتحت تمہیں کچھ کہتا ہوں جو بلحاظ تمہاری طرح ایک انسان ہونے کے کہنا چاہئیے اور ان احکام کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ ابھی مجھے کچھ ٹھہرتا ہے.پس یہ بات درست نہیں کہ میں بحیثیت ایک خلیفہ ہونے کے ہر ایک کو حکم دیتا ہوں بلکہ ایک انسان اور پھر ہندوستانی ہونے کے لحاظ سے کئی باتیں کہتا ہوں.پس وہ چیز جو میرے ایسے احکام کا باعث ہوتی ہے وہ زیادہ تر ہندوستانیت اور انسانیت ہوتی ہے.اس حقیقت کے انکشاف کے بعد میں پھر ان دو خطبوں کی طرف متوجہ کرتا ہوں جو پچھلے دو جمعوں میں میں نے بیان کئے ہیں.میں نے ان میں یہ بات بیان کی تھی کہ مومن کو دینی کام کس طرح کرنے چاہئیں اور میں نے یہ شکوہ کیا تھا کہ اکثر مومن اپنے فرائض ادا نہیں کرتے.یا تو وہ اس بات کے متمنی ہوتے ہیں کہ ان کو کوئی یاد ولائے یا اس بات کے متمنی ہوتے ہیں کہ انہیں کوئی نہ یاد دلائے یہ دونوں قسم کے لوگ خطرناک مقام پر ہیں.جو لوگ اس مقام پر ہیں کہ وہ اس بات کے انتظار میں رہتے ہیں کہ انہیں کوئی یاد دلائے وہ خطرہ میں ہیں اور جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ انہیں کوئی یاد نہ دلائے وہ زیادہ خطرہ میں ہیں.ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ کوئی ماں اس بات کا انتظار نہیں کرتی کہ کوئی اسے یاد دلائے کہ تو اپنے بچہ کو دودھ پلا.اور کوئی زمیندار اس بات کا انتظار نہیں کرتا کہ کوئی اسے اگر کہے کہ تو اپنی زمین میں ہل چلا کر پیج ڈال.وہ کسی کے یاد دلانے کی کیوں نہیں انتظار کرتے اس لئے کہ اس ماں کا وہ اپنا بچہ ہوتا
190 ہے اور زمیندار کا اپنا کام ہوتا ہے.اسی طرح ایک مومن جو دیندار ہے دین کا کام اس کا اپنا کام ہے اسے دین کے کام اسی طرح کرنے پڑیں گے جیسے اپنے اور اس کا فرض ہے کہ وہ کام کرتا چلا جائے.ہاں جس جگہ اسے روک دیا جائے وہاں وہ رک جائے لیکن جب تک اسے کسی خاص جگہ پر کام کرنے سے نہ روکا جائے تب تک اس کا فرض ہے کہ وہ کام کرتا جائے جیسے کوئی کہے کہ میں ہر وقت عبادت کروں گا.تو یہ درست نہیں کیونکہ بعض وقتوں پر عبادت کرنا منع ہے.اسی طرح کوئی ہمیشہ روزہ رکھے تو یہ بھی درست نہیں کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ روزہ رکھنے سے روک دیا.مگر مومن کی یہی خواہش ہونی چاہیے کہ وہ ہر وقت عبادت کرے اور ہر روز روزہ رکھے.آگے خدا تعالیٰ خاص وقتوں میں روک دے تو یہ علیحدہ بات ہے اسی طرح ایک مومن کہ جس کو خلیفہ یا امام خدا تعالی کی طرف سے کہے کہ فلاں کام میں تم نے دخل نہیں دینا تو اس سے اسے رک جانا چاہیئے لیکن وہ کام جن سے اسے نہ روکا جائے ان میں اسی طرح اور اسی جوش سے لگا رہے جس طرح اور جس جوش سے وہ اپنے کام کرتا ہے.اس مقام سے جو شخص نیچے ہے وہ شخص خطرے سے خالی نہیں اور در حقیقت وہ دیندار نہیں.حقیقی مومن وہی ہے جو دین کے کام اپنے کام سمجھ کر کرتا ہے ہاں ان کاموں کے لئے مشورہ لے سکتا ہے.جب کام کے خراب ہونے کا خطرہ ہو تو ایسے وقت میں وہ انتظام کی درستی کے لئے دوسروں سے مشورہ تو لے سکتا ہے تاکہ زیادہ عمدگی سے کام کر سکے.لیکن یہ نہیں کہ وہ بیٹھا رہے اور دوسروں کے مشورہ دینے اور یاد دلانے کی انتظار کرتا رہے.ایسا شخص جو دوسروں کے یاد دلانے کا محتاج ہو اس سے ہرگز یہ امید نہیں ہو سکتی کہ وہ ذمہ واری کو اٹھا سکے اور کوئی کام کر سکے گا.جب وہ لوگ بھی جو لمبی زندگی کے مستحق تھے وہ بھی زندہ نہ رہے تو اور کون ہے جو یہ خیال کر سکے کہ اسے لمبی عمر مل جائے گی اور اگر ابھی تک اس نے کچھ نہیں کیا تو پھر کر لے گا.سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک وجود تھا جو ہمیشہ زندہ رہنے کا مستحق تھا اور یہ کوئی آج مثال کے طور پر بات نہیں بیان کی جا رہی بلکہ صحابہ کا بھی یہی خیال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وجود ہمیشہ رکھنے کے قابل ہے مگر آپ بھی فوت ہو گئے.پھر ہمارے زمانہ میں اگر کوئی شخص اس لائق تھا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے تو وہ حضرت مسیح موعود کا وجود تھا.آپ کی بظاہر ابھی ضرورت تھی کہ ظاہر میں بھی دجال کو قتل کریں اور صلیبی فتنہ کو ظاہر میں بھی پاش پاش کریں لیکن وہ بھی دنیا سے چلے گئے اگر لمبی عمر ہی حضرت صاحب کو دی جاتی تب بھی عیسائیت کا فتنہ ظاہر میں بھی پاش پاش ہو جاتا کیونکہ دنیا میں ایسے لوگ ہوئے ہیں جن کی عمریں دو سو سال سے اوپر ہو ئیں.اور تاریخی انسانوں کی عمریں ایک سو اسی برس تک کی ثابت ہیں.اس لحاظ سے اگر آپ کو سو سال
191 اور زندہ رکھا جاتا تو یہ فتنے ظاہر میں فرو ہو جاتے.کیونکہ جو آپ کی پیشگوئیاں ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی فتنہ سو سال کے اندر اندر پاش پاش ہو جائے گا چنانچہ آپ نے لکھا ہے کہ تیری نسل کے آنے تک مسیحیت کا فتنہ پاش پاش ہو جائے گا اور تین نسلوں کے لئے ایک سو سال کا عرصہ لگتا ہے.اس لحاظ سے اگر حضرت مسیح موعود ایک سو سال اور زندگی پاتے تو یہ فتنہ پاش پاش ہو تا.پھر ان کے بعد جس شخص کے ذمہ بوجھ رکھا گیا.اس نے بھی وہ بوجھ اٹھایا اور نہایت عمدگی سے نیا ہا.اس نے ثابت کر دیا کہ وہ اہل ترین تھا بوجھ کے اٹھانے کے لئے اور وہ عالم ترین تھا جماعت میں سے.اور حضرت مسیح موعود پر ایمان لانے میں سب سے پہلے تھا.مگر وہ بھی جماعت کو پورے طور پر نشو نما پاتے ہوئے نہ دیکھ سکا.اور اس عمر میں فوت ہو گیا کہ جس عمر کے کئی لوگ اس کے بعد زندہ رہے.تو جب ہمیشہ رہنے اور لمبی عمریں پانے کا استحقاق رکھنے والے فوت ہو جاتے ہیں تو دوسرے لوگوں کی زندگیوں کا کیا اعتبار ہے جو مستحق نہیں ہیں.اور اگر پہلے لوگوں کے اٹھنے کے بعد ایسے لوگ نہ ہوں جو سلسلہ کا بوجھ اٹھا ئیں تو کس قدر دکھ کی بات ہے.پس ہماری جماعت اس وقت ترقی کر سکتی ہے جب ایسے لوگ تیار ہوں جو قطعا " کسی مشکل اور تکلیف کی پروا نہ کرنے والے ہوں اور نہ وہ اس بات کی پروا کرنے والے ہوں کہ کوئی انہیں یاد دلائے بلکہ وہ ہر ممکن قربانی کے لئے تیار ہو جائیں.اور پھر ہر بیرونی دشمن کے مقابلہ میں خطرناک سے خطرناک قربانیوں کے لئے تیار ہو جائیں.مگر میں نے بتایا ہے کہ یہ بات ہماری جماعت میں ابھی بہت کم ہے.بے شک اخلاص والے نظر آتے ہیں مگر وہ نہیں نظر آتے جن کا اخلاص اس مقام پر پہنچ گیا ہو کہ جو خطرناک قربانیوں کے لئے تیار ہوں اور کسی کی یاد دہانی کے محتاج نہ ہوں کیونکہ خالی ایمان اور خالی اخلاص ترقی کا موجب نہیں ہوتا.پس جب تک ایسے مخلص نہ ہوں تب تک ہماری جماعت کی حفاظت نہیں ہو سکتی اور وہ ہر وقت خطرہ میں ہے.بعض قومیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کا کوئی محافظ نہ بھی ہو تب بھی وہ گرتی پڑتی دنیا میں قائم رہتی ہیں اور مٹتی نہیں.ایسی قوموں کے افراد کروڑوں کی تعداد میں ہوتے ہیں جن کا مٹانا مشکل ہوتا ہے.مثلاً ہندو ہیں.وہ کئی کروڑ کی تعداد میں ہیں.اسی طرح عیسائی ہیں پھر مسلمان کروڑوں کی تعداد میں ہیں.باوجود اس کے کہ ان کا کوئی امام نہ تھا.وہ کسی کی اطاعت اور فرمانبرداری نہیں کرتے تھے.مگر پھر بھی وہ قائم رہے.مگر تمہاری تعداد جو ہے اس کے لحاظ سے تو تم بغیر کسی زبردست انتظام اور زبردست قربانیوں کے دس سال بھی زندہ نہیں رہ سکتے اگر زبردست انتظام نہ ہوگا اور زبردست قربانیاں نہ ہونگی.تو پھر دو ہی صورتیں ہونگی.یا تو تم غم و غصہ میں کڑھ کڑھ کر مرجاؤ گے.یا پھر احمدیت کا نام اپنے اوپر سے ہٹا دو گے اور دوسروں میں شامل ہو جاؤ گے.
-192 کیا اس بات کا خیال کر کے تمہارے اندر درد نہیں پیدا ہوتا.تم اپنی موجودہ حالت کو نہیں دیکھتے اور تم نہیں جانتے کہ تمہاری کیا حالت ہے اور تمہارا کیسا مستقبل ہے.تم سمجھتے ہو کہ تم بہت کام کر رہے ہو حالانکہ تم کچھ نہیں کر رہے.وہ اور ہی ذرائع ہیں جن سے کام ہو رہا ہے اور تم ان ذرائع اور ان ہاتھوں کو نہیں جانتے جو اصل میں کام کر رہے ہیں.ان ذرائع کو جو کام کر رہے ہیں اگر کھینچ لیا جائے تو تم کچھ بھی نہیں کرتے اور تمہارا مستقبل نہایت ہی خطرناک و تاریک ہے.دیکھو باقی قومیں تو اپنے نام تبدیل کر کے قائم رہ سکتی ہیں لیکن تم اپنا نام تبدیل کر کے قائم نہیں رہ سکتے.آریہ لوگ تھے جب ان کو معلوم ہوا کہ ان کی ہستی خطرہ میں ہے تو انہوں نے اپنا نام چھوڑ کر ہندو نام اختیار کر لیا.مگر تم بتاؤ کہ تم اپنی زیست کے لئے کیا انتظام کرو گے.آریوں نے تو کہدیا کہ ہم آریہ نہیں.کیا تم بھی کہہ سکتے ہو کہ ہم احمدی نہیں.جس وقت تم احمدیت سے انکار کرو گے اسی وقت تمہارا خدا سے جو تھوڑا بہت تعلق ہے قطع ہو جائے گا اور تم اس طرح ہو جاؤ گے جیسے سمندر میں اڑتا ہوا پتا.یا اس شخص کی طرح ہو جاؤ گے جو ایک اعلیٰ مقام سے گر کر تحت الثریٰ میں چلا جائے کیونکہ تمہاری اغراض تو تمہارے نام کے اندر ہی پوشیدہ ہیں.اس کو چھوڑ کر تم کس طرح کامیاب ہو سکتے ہو آریہ خواہ اپنے آپ کو آریہ نہ بھی کہیں تب بھی قائم رہ سکتے ہیں اور وہ اپنے نام کی تبدیلیوں سے اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں لیکن تم نہیں بچا سکتے.پس ذرا تو اس بات کو سوچو کہ آخر تم کس بات پر مطمئن ہو.جب تک تم میں سے ہر شخص اپنے ذاتی آرام اور ذاتی فوائد کو قربان نہ کرے تب تک تم کسی طرح بھی محفوظ نہیں ہو سکتے.اور جب تک اس قسم کے وجود تیار نہ ہوں.جن کے اطوار و عادات سلسلہ کے مطابق ہوں تب تک تم ترقی نہیں کر سکتے.پس اس وقت کو پہچانو اور اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو.تم اپنے اندر کی روح کو پیدا کرو کہ جس سے خدا کے فضل لمبے ہو جائیں.خدا اس وقت اپنے فضلوں کو کھینچ لیتا ہے جب اس کے بندے ان فصلوں سے فائدہ نہ اٹھائیں.وہ ایک زمانہ تک مہلت دیتا ہے کہ یہ بندے خود کچھ کریں تب میں فضل کروں.لیکن جب انسان کچھ نہ کرے تو خدا کے فضل سے محروم ہو جاتا ہے.میں نے پچھلے دنوں میں منذر خواہیں دیکھی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ آئندہ جماعت پر کچھ ابتلا آنے والے ہیں.افسوس ہے کہ میں مثالوں کے ساتھ اس مضمون کو واضح نہیں کر سکتا.ورنہ تمہیں بتاؤں کہ تم میں قربانی کا وہ مادہ نہیں جس کی ضرورت ہے.پس خدا کے فضلوں کے چھینے جانے سے اپنی حفاظت کرو.اور یاد رکھو جو شخص سلسلہ کی حفاظت کرتا ہے خدا اس کا محافظ ہو جاتا ہے.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالی ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے اندر تبدیلی پیدا کر کے خدا کے تازہ انعامات کے مستحق نہیں نہ یہ کہ پہلے انعاموں کو بھی ہاتھ سے کھو بیٹھیں اور کبھی اس کی ناراضگی
193 کے موجب نہ ہوں.بلکہ ہمیشہ اس کے فضلوں کے وارث بنیں.(الفضل ۱۴ ستمبر ۱۹۲۳ء) ا مسند احمد بن حنبل جز د ۴ ص ۲۱۴
194 33 ملکانہ تحریک اور جماعت احمدیہ (فرموده ۱۴ تمبر ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.آج کچھ دوست جو تبلیغ کے لئے ملکانہ گئے ہوئے تھے واپس آئے ہیں اور کچھ جانے والے ہیں.میں نے جس وقت اس کام کو شروع کیا تھا اس وقت کچھ دوستوں کو بلا کر ان سے اس بارے میں مشورہ لیا تھا کہ آیا اس کام میں ہاتھ ڈالا جائے یا نہیں.اس وقت ایک یا دو دوستوں کی یہ رائے تھی کہ اس کام میں دخل نہ دیا جائے لیکن باقی احباب کی یہی رائے تھی کہ ضرور اس کام کو اپنے ذمہ لیا جائے اور پورے طور پر اسلام کی حفاظت کرنے کے لئے تیاری کرنی چاہئیے.میرے نزدیک یہ رائے درست تھی لیکن میں نے کئی بار دوہرا دوہرا کر اس امر کو پیش کیا اور بتا دیا کہ اگر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس کام کو شروع کیا جائے تو پھر اسے کسی طرح نہیں چھوڑ سکیں گے.اگر ایک دفعہ اس میدان میں چلے گئے تو پھر ہم نہیں لوٹ سکیں گے.اور لوگ جائیں گے اور کچھ عرصہ کے بعد چھوڑ چھاڑ کر واپس آجائیں گے لیکن ایک دفعہ اس میدان میں جاکر پھر ہمارے لئے وہاں سے لوٹنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی.نہ شرعا" نہ اخلاقا اور نہ اپنی عزت کے لحاظ سے.میں نے بار بار کہا کہ اس امر کو پہلے پوری طرح سوچ لو اور سوچنے کے بعد اپنی رائے قائم کرو.لیکن میری اس تاکید پر دوستوں نے اسی بات پر زور دیا کہ اس کام میں ضرور دخل دینا چاہئیے.اس مشورہ کے بعد میں نے ایک جلسہ کیا جس میں باقی تمام جماعت کو بھی اس کام کی طرف متوجہ کیا اور اس وقت میں نے توجہ ولائی تھی کہ اس کام کے لئے ہمیں اس قدر طاقت اور ہمت خرچ کرنی پڑے گی کہ اس کے مقابلہ میں ہمارے پہلے کام بالکل معمولی ہونگے.جس وقت میں نے پہلی تقریر کی تھی اس وقت سلسلہ ارتداد کی پوری حقیقت اور اہمیت نہیں معلوم ہوتی تھی اور لوگوں کا خیال تھا کہ یہ چند دن کی بات ہے یہاں تک کہ اس میدان میں کام کرنے والوں کا بھی یہ خیال تھا کہ چند دن کے اندر یہ فتنہ فرد ہو جائے گا.لیکن میں نے اس وقت ہی بتا دیا تھا کہ یہ چند دن کا کام نہیں بلکہ کئی سالوں کا کام ہے.
195 اور اس کام میں سینکڑوں اور ہزاروں آدمیوں کی ضرورت نہیں بلکہ لاکھوں آدمیوں کی ضرورت ہے کیونکہ مجھے اس وقت وہ کچھ نظر آتا تھا جو آج دوسرے لوگوں کو نظر آ رہا ہے.میری آنکھ بہت دور تک دیکھتی تھی.مگر دوسروں کی آنکھ وہ کچھ نہیں دیکھتی تھی.کام تو دونوں کو نظر آتا تھا لیکن دور بینوں کا فرق تھا.میری آنکھ پر جو دور بین تھی.وہ بہت دور تک دیکھتی تھی اور صاف دیکھتی تھی.لیکن دوسروں کی آنکھ پر جو دور بین تھی وہ اس قدر دور تک نہیں دیکھتی تھی اس سے دھندلی نگاہ پڑتی تھی.اسی لئے میں نے اپنی ابتدائی تقریروں میں ہی کھول کر بتا دیا تھا ممکن ہے اس وقت لوگ سمجھتے ہوں کہ شاید جوش دلانے کے لئے اور مبالغہ کے طور پر میں تقریر کرتا ہوں.لیکن مجھے دنیا کے اثرات پر نظر ڈالنے سے جو اس وقت معلوم ہو تا تھا وہی درست نکلا.اور واقعات نے ثابت کر دیا کہ جو کچھ میں نے کہا تھا وہی درست تھا.اور محض جوش دلانے کے لئے نہیں کہتا تھا.اس وقت جتنا وقت وہاں کام کرنے کے لئے لوگوں کے ذہن میں تھا وہ قلیل وقت تھا.جب کہ ابھی لوگوں کے خیال میں بھی نہ تھا اس وقت میں نے کہا تھا کہ یہ مت سمجھو کہ یہ سلسلہ ارتداد ملکانوں تک ہی محدود رہے گا بلکہ دوسری قوموں تک بھی چلے گا چنانچہ تھوڑے ہی دنوں کے بعد یہ سلسلہ کشمیر، چسبہ سندھ وغیرہ میں بھی شروع ہو گیا اور ابھی اور علاقے ہیں جن میں ریشہ دوانیاں شروع ہیں.تھوڑے ہی دن ہوئے ہیں.مجھے ایک دوست کی طرف سے چٹھی آئی جس میں اس نے بتایا کہ ایک اور قوم کے متعلق آریہ کوشش کر رہے ہیں.ایک مخفی چٹھی ایک آریہ سماج نے پھیلائی ہے جس کی نقل اس دوست نے بھیجی ہے تو اس وقت چھ سات قومیں ہیں جن کے متعلق یہ تحریک جاری ہے.پس ان واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ جو کچھ میں نے بتایا تھا وہ خدا کی طرف سے القا تھا.جوش دلانے کے لئے اور مبالغہ کے طور پر نہیں کہا تھا.مگر میں افسوس کرتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ میں نے قبل از وقت بتا دیا تھا کہ اس کام میں ہمیں پہلے کی نسبت بہت زیادہ طاقت اور ہمت خرچ کرنی پڑے گی اور اس فتنہ کو روکنے کے لئے بہت سی قربانیاں کرنی پڑیں گی.اس فتنہ کو روکنے کے لئے جماعت کو جس قدر کوشش کرنی چاہیے تھی اس قدر کوشش سے کام نہیں لیا گیا.میں اب بھی کہتا ہوں کہ تمام مسلمان جو ہند میں ہیں وہ اس وقت خطرہ میں ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا اور جو کچھ میں نے کہا تھا وہ آج واقعات سے ثابت ہو رہا ہے.چنانچہ پچھلے دنوں بنارس میں جو ہندوؤں کی سبھا قائم ہوئی تھی اس میں مدن موہن مالوی کی صدارت میں تمام مسلمانوں کو ہندو بنا لینے کی تجویز پاس کی گئی ہے.اسی طرح ایک جگہ سے خط آیا ہے جس میں لکھا ہے کہ عیسائیوں کی طرف سے اس فتنہ ارتداد کی تحقیقات کے لئے کہ یہ کب تک رہے گا ایک کمیٹی قائم ہوئی ہے جس نے دریافت کیا ہے کہ اس وقت ہندوؤں کا ارادہ ہے کہ ہندوستان کی وہ قومیں جو
196 ہندوؤں سے مسلمان ہوئی ہیں ان کو پھر واپس لیا جائے.اور اس کے لئے فی مسلمان ایک ہزار روپیہ تک خرچ کرنے کے لئے ہندو تیار ہیں.ہندوستان میں ایسے مسلمانوں کی آبادی آٹھ کروڑ کے قریب ہے اور ایک ہزار فی آدمی خرچ کرنے کے یہ معنے ہیں کہ ۸۰ ارب روپیہ مسلمانوں کو ہندو بنانے کے لئے خرچ کیا جائے گا یہ وہ رقم ہے جسے انگریز قوم نے چھ سالہ جنگ میں دشمن کے مقابلہ میں خرچ کیا ہے.مگر ہندو قوم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اتنی رقم خرچ کر کے مسلمانوں کو ہندو بنا لیا جائے.اب ان لوگوں کے جو ارادے ہیں وہ اگر چہ ارادے ہی ہیں.کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ارادے خدا کے ارادوں کے مقابلہ میں ہیں کیونکہ خدا کا تو یہ ارادہ ہے کہ یہ ہندو قوم جو مسلمانوں کو ہندو بنانے کا ارادہ رکھتی ہے اسی کو اسلام میں لاکر ان کے ہی منہ سے کہلایا جائے کہ غلام احمد کی جے.مگریہ زندہ اور کام کرنے والی قوم کے ارادے ہیں.اس لئے ان کے ارادوں کو دیکھ کر ہمیں بھی پوری محنت اور طاقت سے کام کرنا پڑے گا.مجھے تو ایسے ارادوں کو سننے سے خوشی پیدا ہوتی ہے کیونکہ اس قوم نے آخر مسلمان ہو کر ہم میں شامل ہوتا ہے اور ہمارے ساتھ مل کر کام کرنا ہے اگر ان کی ہمتیں پست ہونگی تو ہمیں کیا مدد دے سکیں گے ہاں جب ان کے ایسے بلند ارادے ہونگے تو ضرور مفید ثابت ہونگے.پس خدا کا منشاء تو ضرور پورا ہوتا ہے اور ہندو اسلام کے حلقہ بگوش ہونگے مگر میں نے با رہا بتایا ہے کہ یہ کوئی شرط نہیں کہ کس کے ہاتھ سے پورا ہو.اس لئے ہمارا دل یہ چاہتا ہے کہ ہمارے ہی ہاتھوں سے خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ اور وعدہ پورا ہو لیکن ہم اگر کچھ نہ کریں گے اور کوئی اور قوم آکر دشمن کو پامال کرے گی تو ہمارے لئے کونسی خوشی ہوگی.ہمارے لئے تو خوشی تب ہی ہے جب ہم دشمنوں کا مقابلہ کریں اور ہمارے ہاتھوں سے خدا تعالٰی کے وعدے پورے ہوں.مگر مجھے افسوس آتا ہے کہ جن دوستوں نے کہا تھا کہ خواہ کچھ ہو ہم کام کریں گے اور اسلام کی حمایت کریں گے.انہوں نے اس کام میں بہت کو تاہی کی ہے اور جس قدر حق تھا کام کرنے کا اس قدر کام نہیں کیا.وہ مشورہ مشورہ نہیں ہوتا جب مشورہ دینے والا خود اس پر نہ چلے.مگر مشورہ دینے والے بہت سے لوگوں نے اپنے اعمال سے یہ ثابت نہیں کیا کہ انہوں نے دوسروں میں جوش پیدا کرنے کے لئے اور اس کام کو جاری رکھنے کے لئے کوئی ممتاز کام کیا ہو.پھر ان سے شکوہ کے علاوہ مجھے باقی جماعت سے بھی شکوہ ہے کہ لوگوں نے علاقہ ملکانہ میں جانے کے لئے نام لکھائے مگر جب ان کو علاقہ ارتداد میں جانے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے بہت چھوٹے چھوٹے عذر پیش کر دیئے اور بعضوں نے تو بعد میں مجھے لکھا کہ جو آپ نے خطبہ پڑھا ہے اگر ہمیں پہلے پتہ ہوتا کہ اس قسم کا خطبہ تم پڑھو گے تو ہم نام درج ہی نہ کراتے.گویا انہوں نے پہلے نام لکھا کر ہم سے تمسخر کیا.دیکھو ابھی جانوں کی قربانی کا وقت نہیں آیا.لیکن ہماری آج کی قربانیوں سے
197 آئندہ کی قربانیوں کا اندازہ ہو سکتا ہے اور ہماری آج کی قربانیوں پر قیاس ہو سکتا ہے کہ ہم آئندہ کیسی قربانیاں کریں گے.پس میں پھر کہتا ہوں کہ فتنہ ارتداد کو صحیح طور پر روکنے کے لئے ہزاروں آدمیوں کی ضرورت ہے.اور ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جن کے سامنے محض دین ہو.بے شک اس سے زیادہ شاندار مثال قربانی کی اور اس سے زیادہ خوبصورت مثال قربانی کی اس سے پہلے جماعت میں نہیں پائی جاتی.جو لوگ تبلیغ کے لئے گئے ان کا بہت بڑا حصہ ایسا تھا جو دین کے لئے ہر ایک قربانی کرنے کے لئے تیار تھا اور جو کچھ ان سے توقع کی جاتی تھی وہ انہوں نے پوری کی.اسی طرح آئندہ جانے والوں میں بھی بہت سے ایسے دوست معلوم ہوتے ہیں جو بچے اخلاص اور جوش کے ساتھ قربانیاں کرنے کے لئے تیار ہیں.چنانچہ ابھی ایک ڈاکٹر نے جو دس سال سے سرکاری ملازم تھا اس نے علاقہ ارتداد میں جانے کے لئے استعفی دے دیا کیونکہ اسے رخصت نہ مل سکی.اس نے یہ گوارا نہ کیا کہ پیچھے رہے بلکہ یہ پسند کیا کہ اپنی ملازمت کو قربان کر دے.حالانکہ لوگ پرانی ملازمتوں کو کسی طرح بھی نہیں چھوڑا کرتے کیونکہ پرانی ملازمت سے ان کے بہت سے حقوق قائم ہو جاتے ہیں.دس پندرہ سال کی ملازمت کو تین ماہ کے کام کے لئے بالکل چھوڑ دینا یہ ضرور اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کے اندر ایمان نہایت مضبوطی سے گڑ گیا ہے.تو ایسے لوگ ہماری جماعت میں موجود ہیں مگر باوجود اس کے اگر ایک آدمی بھی ایسا نظر آئے کہ جو اپنے ایمان اور اخلاص میں کمزور ہو تو مجھے چین نہیں آسکتا.دیکھو اگر کسی ماں کے سو بیٹے ہوں جن میں سے ایک بیمار ہو تو کیا وہ اس لئے چین سے سو سکتی ہیں کہ اس کے 99 بیٹے تندرست ہیں.ہرگز نہیں بلکہ وہ بیمار بیٹے کے لئے ہر وقت بے چین رہے گی اور جب تک اسے شفا نہ ہو جائے گی آرام نہ کرے گی.اسی طرح وہ لیڈر اور وہ امام جو کسی جماعت کی ترقی کا خواہاں اور ایک دور بین نگاہ رکھنے والا ہو.وہ قطعا " اس بات پر راضی نہیں ہو سکتا کہ اس کی جماعت کا کوئی بھی فرد ایمان اور اخلاص سے خالی رہے.اور جب تک جماعت کے تمام کے تمام افراد اس ایمان پر قائم نہ جائیں اور اس قربانی کے لئے تیار نہ ہو جائیں کہ جس کی ایک مومن جماعت کو ضرورت ہے تب تک وہ رئیس یا سردار نہیں کہلا سکتا.اگر جماعت کے کسی فرد میں کسی قسم کی کوتاہی ہو تو وہ رات اور دن غم کھا کھا کر ان کے لئے دعائیں کرے گا تاکہ خدا تعالیٰ وہ حالت پیدا کرے کہ وہ دین کے لئے ہر قسم کی قربانیاں کرنے کے لئے تیار ہو جائیں.پس میں دیکھتا ہوں کہ کئی تو ایسے لوگ ہیں جو پروا ہی نہیں کرتے کہ ہمیں کیا کہا جاتا ہے.اس لئے وہ معمولی معمولی عذر پیش کر کے انکار کر دیتے ہیں اور کئی ایسے ہیں جن کو ایک طرف دنیاوی حالات اپنی طرف کھینچتے ہیں اور ایک طرف دین ملکی ضروریات اپنی طرف کھینچتی ہیں.یہ لوگ اپنے
198 حالات میرے پاس پیش کرتے اور میرے منہ سے نکلوانا چاہتے ہیں کہ میں انہیں کہدوں تم ابھی نہ جاؤ.اور کئی لوگ ایسے ہیں جو جاتے تو ہیں لیکن افسردہ خاطر ہوتے ہیں.ہاں ایک گروہ اور بڑا ایسا بھی ہے کہ جو خوش ہوتا ہے کہ انہیں خدمت دین کی توفیق ملی.میں اپنے دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ یہ کام کوئی معمولی کام نہیں اس لئے اس کی اہمیت کو سمجھو اور اس کے لئے جس قربانی کی ضرورت ہے وہ کرو.معمولی معمولی عذرات نہ پیش کرو.وہ دوست جنہوں نے ابھی تک نام پیش نہیں کئے ان کو توجہ دلاتا ہوں کہ ایسے موقعے بار بار نہیں آیا کرتے.بے شک قربانیوں کے اور بھی زمانے آتے رہیں گے لیکن ایسی قربانیوں کے موقعے نہیں آئیں گے جو ان خلفاء کے زمانہ میں آتے ہیں جنہوں نے مسیح موعود کو دیکھا آپ سے تربیت پائی آپ کے صحابی کہلائے.ان کے بعد تابعین کا زمانہ ہوگا اور اس وقت قربانیوں کا وہ ثواب نہیں ملے گا جو آج کی قربانیوں کا مل سکتا ہے.اس لئے کہ ان کے لئے جو آسانیاں ہونگی وہ آج ہمارے لئے نہیں ہیں.ہم اس وقت دین کے لئے اپنے مال گھروں سے نکالتے ہیں جب پیچھے کچھ بھی نہیں رہتا لیکن وہ لوگ اس وقت اپنے مال نکالیں گے جب کہ ان کے پاس باقی مال بھی بہت سا ہو گا.پھر ہم اس وقت دین کی خدمت کے لئے نکلتے ہیں جبکہ ہمارے پیچھے کوئی نہیں ہوتا لیکن وہ لوگ اس وقت نکلیں گے جبکہ ایک آدمی اگر باہر نکلے گا تو ہزار آدمی اور اس کی جگہ موجود ہو گا.پھر وہ ایسے وقت قربانیاں کریں گے جب ان کے خزانے مال و دولت سے پُر ہونگے اور ضرورت سے زیادہ ان کے پاس آدمی ہونگے.مگر ہم اس وقت نکل رہے ہیں جب ہمارے پاس نہ خزانے ہیں نہ فوجیں ہیں نہ کافی آدمی ہیں تو اس وقت قربانیوں کی بہت ضرورت ہے اور ہماری اور ان کی قربانیوں میں بہت بڑا فرق ہے.پس میں اپنے دوستوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ستی کو چھوڑ دیں اور قربانی کے لئے تیار ہو جائیں کیونکہ یہ ایک خاص موقع ہے اس سے فائدہ نہ اٹھانا سخت غلطی اور نادانی ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ جو بھی وہاں جائے گا وہ ضرور ایمان دار ہو گا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص جاہلیت کی وجہ سے جائے جیسے نبی کریم کے زمانہ میں ایک شخص ایک جنگ میں بڑی شجاعت سے لڑ رہا تھا اور کئی لوگوں کو اس پر رشک آرہا تھا کہ نبی کریم نے فرمایا.اگر کسی نے دنیا میں چلتا پھرتا جہنمی دیکھنا ہو تو اسے دیکھ لے.بعض صحابہ حیران ہوئے کہ یہ شخص جو کفار کے ساتھ لڑائی میں اس قدر ہلکان ہو رہا ہے یہ کیسے جہنمی ہو سکتا ہے اس خیال کا پیدا ہونا ایک صحابی کو ناگوار گزرا اور اس نے ارادہ کیا کہ جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی تصدیق نہ کرلوں.اس شخص کا پیچھا نہ چھوڑوں گا.اس ارادہ سے وہ اس کے پیچھے لگ گیا.آخر وہ زخمی ہو کر جب گرا اور لوگوں نے اسے
199 کہا کہ تجھے جنت کی بشارت ہو تو وہ کہنے لگا جنت کی نہیں جہنم کی بشارت دو کیونکہ میں دین کے لئے نہیں لڑا بلکہ اس قوم سے مجھے دشمنی تھی اور میں انتقام لینے کے لئے لڑتا رہا.چونکہ اس کے اندر ایمان نہ تھا.اور نہ دین کی خاطر لڑتے ہوئے زخمی ہوا تھا.اس لئے زخموں کی تکلیف نہ برداشت کر سکا اور نیزہ گاڑ کر اور اس پر اپنے آپ کو گرا کر خود کشی کر کے مرگیا اور اس طرح جہنم میں چلا گیا.تو ایسے لوگ ہو سکتے ہیں کہ جو حمیت جاہلیت کی وجہ سے کام میں حصہ لیں لیکن ایسے لوگ کم ہوتے ہیں زیادہ تر وہی ہوتے ہیں جن کی ایسے وقت میں ایمان کی آزمائش ہوتی ہے اور یہ ان کے ایمان کی مضبوطی اور تازگی کا وقت ہوتا ہے.پس بہت ہی افسوس ہو گا ان لوگوں پر جنہوں نے اپنے بھائیوں کو جاتے ہوئے دیکھا مگر وہ اپنی جگہ پر بیٹھے رہے اور انہوں نے اپنے آپ کو پیش نہ کیا.اس وقت ان قربانیوں کا یہ ثواب نہ ہو گا جس کا آج موقعہ ہے جبکہ احمدیت چاروں طرف پھیل جائے گی اور جبکہ قوت اور طاقت اس کے پیچھے ہو گی.اس لئے اس وقت کو غنیمت سمجھو اور جو کچھ کما سکتے ہو.کما لو.بہت سا زمانہ ہماری غفلتوں اور سستیوں میں گذر گیا ہے.اب جن لوگوں کو مسیح موعود کا نام پہنچے گا وہ کس قدر افسوس کریں گے اور ہم پر غصہ ہوں گے کہ کیوں انہوں نے ہمیں پہلے نہیں بتایا.ابھی چند دن گزرے ہیں علی گڑھ کے ضلع سے کچھ لوگ آئے تھے.جنہوں نے نہایت افسوس کا اظہار کیا کہ ہمیں مسیح موعود کا زمانہ نہیں ملا اور افسوس کہ ان کے زمانہ میں ہمیں کسی نے نہ بتایا کہ مسیح موعود آگئے ہیں.ان کے دل میں مسیح موعود کی اس قدر محبت تھی کہ جب انہوں نے حضرت مسیح موعود کا ذکر سنا تو بار بار افسوس کرتے کہ ہمیں مسیح موعود کی زندگی میں ان کا پتہ نہ لگا اور اس وقت ان پر ایمان نہ لا سکے.ایسے لوگ اگر مسیح موعود کا زمانہ پاتے تو کس قدر انہیں خوشی ہوتی.پس کیسے افسوس کی بات ہے کہ اس قدر زمانہ غفلت میں گزر گیا اور ہم ہندوستان کے لوگوں کو بھی مسیح موعود کی آمد کی خبر نہ دے سکے.ذرا تم اپنے متعلق ہی اندازہ لگاؤ تمہارے اندر مسیح موعود کی محبت ہوتی اور مسیح موعود مثلاً چین میں پیدا ہوتے اور تمہیں ان کے زمانہ میں کوئی نہ بتاتا بلکہ ان کے بعد کچھ لوگ تمہیں بتاتے تو کس قدر تمہیں ان پر رنج آتا.غرضکہ ہماری اس کو تاہی اور غفلت کی وجہ سے بہت کچھ ملک کو نقصان پہنچا ہے.ہم نے یہ ذمہ داری سمجھ لی ہے کہ چند مبلغ جاکر تبلیغ کر چھوڑیں اور بس.اس طرح سب کا فرض ادا ہو گیا.اسی لئے میں نے اب یہ فیصلہ کیا ہے کہ جماعت کا ہر فرد تبلیغ کے لئے سال میں ایک ماہ باہر نکلے.جب تک تمام کی تمام جماعت اس فرض کو اس طرح سے ادا نہ کرے گی تب تک کبھی ترقی نہیں کر سکتی.مجھے کتنی شرم آئی جبکہ ایک شخص نے مجھے لکھا کہ
200 wwwwww آپ کی جماعت میں مبلغ تو ہیں لیکن مجاہد بہت کم ہیں.یہ ایسی طنز تھی کہ اس کی بجائے اگر وہ شمشیر سے ہمیں قتل کر دیتا تو بہتر تھا.آج ہی بخارا کے متعلق کسی قدر مفضل رپورٹ میاں محمد امین خان کی طرف سے آئی ہے وہ کو ئٹہ پہنچ گئے ہیں.لکھتے ہیں کہ جب میں چھوٹ کر بخارا سے بھاگا اور میں نے سمجھا کہ اب تو وہ مجھے مار ہی ڈالیں گے اس لئے مرنے سے پہلے پہلے کسی کو جلدی سے کچھ سنا دوں تو اس گھبراہٹ میں میں نے ایک عالم حاجی کے پاس پہنچ کر اسے تبلیغ شروع کر دی اور بڑے جوش کے ساتھ اس نیت سے تبلیغ شروع کی کہ میں تو شاید مارا جاؤں گا اس سے پہلے کچھ تبلیغ کر جاؤں.اس وجہ سے تبلیغ کا اتنا اثر ہوا کہ جب میں نے کہا کہ مسیح موعود آگیا.تو وہ کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا میں مانتا ہوں.پھر میں اس کو بٹھاتا اور تبلیغ شروع کرتا لیکن جب حضرت مسیح موعود کا نام لیتا تو پھر کھڑا ہو جاتا اور کہتا کہ میں مانتا ہوں اور یہ حاجی اس جگہ کے بڑے عالم ہیں.پھر وہ لکھتے ہیں کہ ایک اور رئیس کے پاس پہنچا جو بڑا تاجر بھی ہے اور جس کا مکان کئی لاکھ کا ہے اس نے وہ مکان مبلغوں کے لئے وقف کر دیا ہے اس کو جب تبلیغ کی گئی تو اس پر بھی اسی وقت انتنا اثر ہوا کہ جب اس کے سامنے وہ حاجی صاحب زیادہ تحقیق کے لئے اور لوگوں کے سوالات کا جواب پوچھنے کے لئے کچھ جرح کرتے تو وہ تاجر غصہ میں آکر کہتا کہ تم کیوں سوال کرتے ہو.جب ہم نے ان کی باتوں کو مان لیا ہے اور یہ مہدی کے نائب کا نائب ہے تو بس جو یہ کہتا ہے وہی صحیح ہے.تم یہ کیوں کہتے ہو کہ یہ بات کس طرح ہے.یہ حال ہے ان لوگوں کا جو ماموروں کی محبت رکھنے والے ہیں.پھر اس تاجر نے کہا کہ ہم سب خرچ مبلغوں کا برداشت کریں گے تو باہر خدا تعالیٰ ایسی جو شیلی جماعتیں تیار کر رہا ہے جو ہر طرح کی قربانی کے لئے تیار ہو رہے ہیں.افریقہ کے احمدیوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اخلاص میں چور ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے تھوڑے عرصہ کے اندر ہی ہزاروں کی تعداد تک پہنچ گئے ہیں اور وہ لوگ احمدیت پر فدا ہو رہے ہیں.جب ان لوگوں کا یہ حال ہے تو وہ لوگ جو مرکز کے رہنے والے ہیں ان کی غفلت نہایت ہی قابل افسوس ہے.مرکز سے مراد یہ ہے کہ جو اس ملک کے لوگ قادیان سے تعلق رکھتے ہیں.پس میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ مستیاں چھوڑ دو اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو.اللہ تعالی ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ہمارے کاموں میں برکت ہو.اور ان کامیابیوں کے نظارے کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں جن کی خبر حضرت مسیح موعود کو خدا تعالیٰ نے دی ہے.است بخاری کتاب القدر باب العمل بالخواتيم...الفضل ۲۱ ستمبر ۶۲۲)
201 34 اسلام کا سب سے بڑا رکن نماز ہے (فرموده ۲۱ / نمبر ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.سورۃ فاتحہ جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے یہ ام القرآن ہے یعنی قرآن کریم کی جڑ ہے.جس طرح شاخوں میں وہی کچھ آجاتا ہے جو جڑ میں موجود ہوتا ہے گو وہ اس میں شکلا" نہ ہو مگر بالقوة وہ سب کچھ جڑ میں موجود ہوتا ہے جو شاخوں میں جاکر ظاہر ہوتا ہے.اسی طرح قرآن کریم میں جو کچھ بیان ہے وہ مختصراً اس سورۃ میں بھی بیان کیا گیا ہے.شاخ میں جو پھل ہوتے ہیں وہ شکل کے لحاظ سے تو بیج میں نہیں ہوتے مگر اھل کے لحاظ سے وہ بیچ میں موجود ہوتے ہیں.اسی طرح سورۂ فاتحہ قرآن کریم کے لئے بطور جڑ کے ہے.یعنی جو مضامین قرآن کریم میں تفصیلا " بیان کئے گئے ہیں اور جو گل کاریاں جو پھل اور پھول اور جو سرسبزی و شادابی اس کے مطالب میں نظر آتی ہے وہ ساری کی ساری بطور پیج کے سورہ فاتحہ میں موجود ہے اگر کوئی بار یک نگاہ رکھنے والا ہو تو وہ قرآن کریم کے مطالب کو سورہ فاتحہ سے نکال سکتا ہے.دنیوی چیزوں میں تو بیج ایسی حالت میں ہوتے ہیں کہ ان پر درخت کے چھوٹے یا بڑے اور سرسبز و میٹھے ہونے کا اندازہ نہیں لگا سکتے مگر قرآن کریم اس خوبی میں ممتاز ہے کہ اس کی یہ چھوٹی سی سورۃ قرآن کریم کے مطالب کو اس طرح اپنے اندر رکھتی ہے کہ اس پر غور کیا جائے تو قرآن کریم کے تمام مطالب اس سے معلوم ہو سکتے ہیں.تو یہ قرآن مجید کو ہی خوبی حاصل ہے کہ اس کے بیج کے اندر ہی وہ حالت پائی جاتی ہے جس پر ہم قرآن کریم کا اندازہ لگا سکتے ہیں.گیہوں کے پیج پر اس کے درخت کا ہم صحیح اندازہ نہیں قائم کر سکتے.ایک خربوزہ کے بیج سے خربوزہ کا صحیح اندازہ نہیں معلوم ہو سکتا مگر قرآن کریم کی جڑ ایک ایسی جڑ ہے کہ جس پر ہم قرآن کریم کا صحیح صحیح اندازہ لگا سکتے ہیں اور باوجود اس کے کہ سورۃ فاتحہ کے الفاظ بہت تھوڑے ہیں اور اس کی سات آیتیں جو ہیں وہ بھی اس قدر چھوٹی ہیں کہ قرآن کریم کی چھوٹی سے چھوٹی آیت بھی سورہ فاتحہ کی آیت سے لمبی
202 ہے.مگر باوجود اس کے اس کے اندر ایسے الفاظ رکھے گئے ہیں کہ جن کے مطالب عمر بھر نہیں ختم ہو سکتے.اور اس کے اندر اس قدر وسیع مضامین ہیں کہ جو کبھی ختم ہونے میں نہیں آتے.چنانچہ حضرت صاحب نے قدر وضاحت سے اس کے مطلب کو بیان کیا ہے کہ اگر کوئی ضدی اور متعصہ نہ ہو تو اس کو اس بات سے کبھی انکار نہیں ہو گا.یہ سورۃ نماز میں متواتر پڑھنے کے لئے بنائی گئی ہے اور میں نے بتایا ہے کہ یہ سورۃ قرآن کریم کی جڑ ہے کہ جس میں قرآن کریم کے مضامین کو بیان کیا گیا ہے.چنانچہ ان مضامین میں سے ایک خاص مضمون اس سورۃ میں بیان کیا گیا ہے جو ہر وقت مسلمان کے زیر نظر رہنا چاہیے.ایسے مضمون کی ہی وجہ سے یہ سورۃ اپنے اندر ایسا اثر رکھتی ہے کہ اس کا پڑھنے والا خواہ کسی مذہب کا انسان ہو مسلمان ہو یا ہندو اس کا دل اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا بشرطیکہ وہ اس کے معنوں کو جانتا ہو.پس وہ مضمون ہر وقت مسلمان کی نظر کے سامنے رہنا چاہیے.وہ مضمون یہ ہے کہ انسان کی دو حالتیں ہمیں ایک حالت وہ ہے جو اس کو اوپر کی طرف لے جاتی ہے.وہ ایاک نعبد سے شروع ہو کر انعمت علیھم پر ختم ہوتی ہے.پس اس مضمون میں انسان کی دو حالتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.ایک حالت تو اس کو اوپر کی طرف لے جانے والی ہے جو ایاک نعبد سے شروع ہو کر انجمت عليهم پر جا کر ختم ہوتی ہے.اور ایک حالت اس کو نیچے کی طرف لے جانے والی ہے.جو مغضوب علیھم سے شروع ہو کر ضالین تک جا ختم ہوتی ہے.اب یہ دو رہتے ہیں جو ہم کو بتائے گئے ہیں اور ایک مسلمان کو نصیحت کی گئی ہے کہ ان میں سے اچھا رستہ اختیار کرے.اور برے کو اختیار نہ کرے اور دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اسے اچھے رستہ پر چلائے.برے رستہ پر نہ چلائے.اب یہ مضمون ہر شخص سمجھ سکتا ہے اور اس مطلب کو ہر شخص اس سورۃ سے نکال سکتا ہے اس سے کم مطلب قرآن کریم سے نہیں نکال سکتا.وہ یہ کہ ایک اچھا رستہ ہے جو اسے مل جائے اور ایک برا رستہ ہے جس سے وہ بچ جائے.جب ایک مسلمان کو اس کے پڑھنے کی اس قدر تاکید کی گئی ہے تو آخر اس کی کوئی وجہ ضرور ہوگی اور اس کا ضرور کوئی مطلب ہو گا ورنہ تاکید بے فائدہ ہو گی.اس کو متواتر پڑھنے کی تاکید بتاتی ہے کہ اس کی کوئی وجہ ہے.وہ وجہ یہ ہے کہ انسان اصل میں ہر وقت خطرہ میں ہے.اور کسی وقت وہ خطرہ سے خالی نہیں چونکہ اسے ہر وقت خدشہ لگا رہتا ہے.اور وہ ہر وقت خطرہ کے مقام میں ہوتا ہے اس لئے اس خطرہ سے بچنے کے لئے اس سورۃ کو باربار پڑھنے کے لئے اور اس کے مطلب کو اپنی نظر کے سامنے رکھنے کے لئے تاکید کی گئی ہے.پھر اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو خطرہ سے محفوظ سمجھنا یہ نادانی ہے.جب انسان اپنے آپ کو محفوظ اور مصون سمجھنے لگتا ہے تو وہ
203 پہلا قدم ہوتا ہے اس کے نیچے گرنے کا.اب میں وہ مضمون اور مطلب جو اس سورۃ کے اندر ہے اور جس کی طرف میں نے پہلے اشارہ کیا ہے.وہ وضاحت سے بیان کرتا ہوں کہ وہ انسان جو اوپر کی طرف جاتا ہے اس کا پہلا قدم ایاک نعبد ہے اور دوسرا قدم ایاک نستعین ہے.پہلا قدم اوپر کو جانے کے لئے یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا عابد بنے اور اس کی فرمانبرداری کرے یہ پہلا قدم ہوگا اس رستہ پر جو اوپر کی طرف لے جانے والا ہے.اس سے پہلا قدم ایمانیات ہے جو ایاک نعبد سے پہلی آیات میں بیان ہے مگر عملی حصہ کا پہلا قدم ایاک نعبد سے ہی شروع ہوتا ہے.عملی حصہ میں سب سے پہلا قدم عبادت اور فرمانبرداری ہے پھر جب انسان خدا کی عبادت کرتا ہے تو اس کا حق ہو جاتا ہے کہ خدا سے کچھ مانگے.جب خادم بنے گا تب ہی وہ اعانت کا حق دار ہوگا تو ایاک نعبد میں تو خدا تعالی کو انسان کہتا ہے کہ میں آپ کا خادم بنتا ہوں اب خادم بننے کے لئے دنیا سے انقطاع ہوگا اور انقطاع کے بعد سامانوں کی ضرورت ہوتی ہے جن کو وہ آقا سے مانگتا ہے.اور آقا کی طرف سے دو طرح کی اعانت ہوتی ہے.ایک تو خدمت کے لئے خدمت گار کو ہتھیار دیتا ہے.مثلاً مزدور ہے اس کو ٹوکری وغیرہ سامان دیتا ہے.اور بدلہ خدمت کا یہ ہوتا ہے کہ اس کی اور اس کے بیوی بچوں کی پرورش کا انتظام کرتا ہے.اسی طرح مسلمان کا دوسرا قدم استعانت ہے.پس جب یہ عبودیت کرتا ہے تو یہ مانگتا ہے کہ خدمت اور پرورش کے لئے سامان دیجئے.پہلے تو یہ کہتے ہے کہ میں آپ کا خادم ہوں آپ کی خدمت کے لئے تیار ہوں.اب اگلا رستہ یہ ہے کہ اچھا جی اب بتاؤ میں نے کیا کرنا ہے پوری ہدایت دو کہ میں کیا کروں.مثلاً پہلے سامان دیتا ہے جب سامان مل جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اب بتاؤ کہ کیا کرنا ہے تو مسلمان جب اهدنا الصراط المستقیم کہتا ہے تو گویا یہ کہتا ہے کہ سامان تو مل گیا اب بتائیے کہ مجھے کیا کرنا چاہئیے.تو صراط مستقیم جب اسے ملتا ہے تو اسے کام کا پتہ لگ جاتا ہے.اور استعانت کے بعد اخلاق فاضلہ اور روحانیت حاصل کرتا ہے.پس نماز روزے وغیرہ تو اس قسم کے دعوے ہیں کہ ہم آگئے ہیں اور وہ چیزیں جو ہمیں پہلے دی گئی ہیں ان کے استعمال کے لئے ذرائع دئے جائیں تو پہلے طاقتیں دی جاتی ہیں پھر فرائض بتائے جاتے ہیں.اور اس کے بعد چوتھا درجہ انعمت علیہم کا ہے صراط مستقیم کا مطلب تو یہ ہے کہ ایسا رستہ بتایا جائے جو آپ کا منشاء ہو اب منشاء کئی ہوتے ہیں.ایک منشاء ادنیٰ ہوتا ہے ایک اعلیٰ تو یہ انسان انعمت علیہم کہہ کر یہ دعا کرتا ہے کہ ایسے رستہ پر چلائے جس پر چلنے سے آپ کا اعلیٰ منشاء حاصل ہو جس سے آپ کا دوست بن جاؤں.کیونکہ دنیا میں دو قسم کے خادم ہوتے
204 ہیں ایک خادم تو معمولی خادم ہوتے ہیں اور ایک ایسے خادم ہوتے ہیں جو اپنے آقا کے دوست بن جاتے ہیں.تو مسلمان یہ دعا کرتا ہے کہ خدمت کرنے میں ایسے طریق پر چلائے جس پر چلنے سے میں آپ کا دوست بن جاؤں.اس مقام سے آگے کوئی مقام نہیں.اب اوپر سے نیچے کیسے جاتا ہے اور وہ کیا مقام ہے.وہ اسی طرح ہے کہ مغضوب علیہم پہلا قدم نیچے جانے کا ہے یعنی عابد ہونے سے نکل جائے.عبادت سے نکل جانے والا مغضوب علیہ بنتا ہے جو پہلا قدم اس رستہ کا ہے کہ جو انسان کو نیچے کی طرف لے جاتا ہے.پس ایاک نعبد کے مقام سے نیچے آجانے کا مقام مغضوب علیہم عبادت میں ستی کرتا ہے.جو شخص ایاک نعبد کے مقام سے نیچے آجاتا ہے اس کے عقائد تو درست ہوتے ہیں لیکن اعمال میں وہ ستیاں کرتا ہے اس وجہ سے وہ مغضوب علیہم کے مقام پر پہنچ جاتا ہے.پھر اس کا دوسرا قدم ضالین ہے یعنی ایسی حالت پر پہنچ جاتا ہے کہ اس کو کچھ پتہ ہی نہیں رہتا کہ اس نے کیا کام کرنا ہے.گویا وہ مٹ ہی گیا.ضالین کے معنے ہیں کھوئے گئے مٹ گئے، دین کے لحاظ سے ان کا نام و نشان مٹ گیا.مغضوب علیہم میں تو پھر بھی کچھ نشان باقی تھا لیکن اس مقام پر پہنچنے سے بالکل مٹ گیا.مثلاً یہود عبادت کرتے ہیں.شریعت کو مانتے ہیں.اب خواہ غلط طریق پر چلتے ہیں لیکن ایک نہ ایک طریق پر چلتے تو ہیں لیکن عیسائی شریعت کو سرے سے ہی لعنت قرار دیتے ہیں.ان کی کسی بات پر شریعت کا اثر نہیں ہوتا.پس ظاہر احکام کو چھوڑ دینا اور صحیح طور پر ادا نہ کرنا مغضوب علیہم کہلاتا ہے.ایک شخص کو اس کا آقا کام کرنے کے لئے کہدے اور وہ آگے کوئی اور کام کرتا رہے اب خواہ وہ کتنا کام کرتا رہے.لیکن غلط طریق پر چلنے سے وہ آقا کے غضب کا مورد بنتا ہے.مثلاً ہم کسی کو مبلغ بناویں وہ آگے جا کر سارا دن لڑتا رہے تو اس نے وہ کام تو نہ کیا جس پر ہم نے اسے مقرر کیا تھا.پس ظاہر میں تو یہودی نظر آئے گا کہ وہ شریعت کی پابندی کرتا ہے لیکن عیسائیوں کے ساتھ اگر کوئی دس ماہ بھی رہے تو وہ نہیں سمجھ سکتا کہ یہ کس مذہب پر قائم ہیں.تو پہلا قدم نیچے کرنے کا مغضوب علیہم ہے پس وہ قوم جو عبادت کو پورے طور پر ادا نہیں کرتی وہ مغضوب علیہ ہے چاہے وہ اور کام بڑی اچھی طرح سے کرے.مثلاً ایک شخص نماز نہیں پڑھتا اور چندہ دیتا ہے تو وہ مغضوب علیہ ہو گا.نوکر اور خادم کے معنے تو یہ ہیں کہ آقا کی مرضی کے مطابق کام کرے.اسی طرح عابد کے تو یہ سنے ہیں کہ وہ خدا کی مرضی کے مطابق عبادت کرے اور اس کے احکام پر چلے نہ کہ اپنی مرضی کے مطابق کام کرے اگر وہ خدا کی مرضی کے مطابق عبادت نہیں کرتا تو خواہ وہ ناک رگڑے وہ عابد نہیں کہلا سکتا.مثلاً ہندو ہیں.وہ بڑی بڑی سخت عبادات کرتے ہیں لیکن خدا کی مرضی کے مطابق کام
205 نہیں کرتے.اس لئے وہ مغضوب علیہم ہیں.پس جو شخص شریعت کے مطابق چلے گا وہی عابد کہلائے گا اور انعمت علیھم میں داخل ہو گا اور شریعت کے موٹے موٹے احکام مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ ہیں ان میں سب سے بڑا رکن نماز ہے جو شخص اس بڑے رکن یعنی نماز کا تارک ہے وہ در حقیقت اسلام کا تارک ہے اور جب تک نماز نہیں پڑھتا تب تک وہ جھوٹا اور منافق ہے.اس کا اور کاموں میں کوئی حصہ نہیں ہو گا.اس کا بحثیں کرنا اس کا چندے دینا اور دینی کام کرنا خدا کے حضور کچھ حیثیت نہیں رکھتا.میں نے تو جہاں تک غور کیا ہے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جو شخص نماز پڑھتا ہے خواہ وہ عیبوں میں کہاں تک نکل جائے اس کے لئے پھر بھی بچاؤ اور نجات کی صورت ہے.لیکن جو شخص نماز نہیں پڑھتا وہ خواہ کس قدر بھی اور نیکیاں بجا لائے اس کے لئے پھر بھی خطرہ ہے.میرے نزدیک مسلمانوں کی تباہی کا بہت بڑا موجب نماز کا چھوڑنا ہے.اول تو امراء نے نماز ہی پڑھنی چھوڑدی اور جو پڑھتے ہیں.وہ گھروں میں ہی پڑھتے ہیں عام طور پر لوگ چھوٹی چھوٹی لڑائیوں پر نماز چھوڑ بیٹھتے ہیں لیکن ہماری جماعت کے متعلق تو یہ خیال بھی دل میں لانا خطرناک ہے کہ اس میں سے کوئی آدمی تارک نماز ہو.میرے نزدیک تو جو شخص سال میں ایک بھی نماز چھوڑتا ہے اس کا وہ تارک ہے بلکہ پندرہ سال میں بھی اگر ایک دفعہ نماز چھوڑی تو وہ تارک ہے کیونکہ نماز میں ایک ایسا لطف اور سرور ہے کہ اس کی وجہ سے وہ کبھی کوئی نماز نہیں چھوڑ سکتا.جب سے وہ ایک دفعہ توبہ کر لیتا ہے پھر اس کے بعد اگر ایک بھی نماز چھوڑتا ہے تو وہ تارک کہلائے گا.میں نے بہت دفعہ یہاں تقریر کی ہے کہ بہت لوگ ہیں جو نماز با جماعت نہیں پڑھتے لیکن باجماعت نماز کا مسئلہ تو پیچھے ہو گا پہلے تو ضروری ہے کہ نماز کو کسی صورت میں ترک نہ کیا جائے.میں نے سنا ہے کہ یہاں چند آدمی جو بظاہر اپنا گھر بار چھوڑ کر تھوڑے دنوں سے یہاں آئے ہیں وہ نماز نہیں پڑھتے اگرچہ میرا دل اس بات کو نہیں مانتا کہ ہماری جماعت کا کوئی شخص ایسا ہو جو نماز نہ پڑھتا ہو مگر پھر بھی میرے دل پر اس بات کا اتنا اثر ہے کہ میں نے اس مضمون پر آج خطبہ کہا ہے حالانکہ میرا ارادہ کسی اور مضمون پر بیان کرنے کا تھا.پس خوب یاد رکھو کہ نماز کے بغیر کوئی اسلام نہیں ہرگز کوئی شخص نماز چھوڑ کر مسلمان نہیں رہ سکتا.ایک ہی کڑی ہے جو خدا اور بندے کے درمیان ہے اور وہ نماز ہے.پس کون ہے جو اس کڑی کو توڑنا پسند کرتا ہے.جو قوم نماز کی پابند رہے گی وہ ہر وقت بچی رہے گی.دیکھو ٹوٹی ہوئی کڑی کسی طرف بھی نہیں رہتی.تم خدا کی کڑی اپنے آپ کو سمجھتے ہو.بتاؤ اگر تم ٹوٹے ہوئے ہو گے تو کس
206 طرف جاؤ گے.تم پھر نہ دنیا کے رہے نہ دین کے.نماز جو ہے وہ پہلا قدم ہے عبودیت کا.جو شخص کبھی کبھی نماز چھوڑ دیتا ہے وہ یہودیوں اور ضالین میں شمار ہو گا.پس جن سے خطا ہوئی ہے وہ سنبھل جائیں اور اپنے ایمان کی فکر کریں.جو شخص نماز چھوڑتا ہے میں اس کو یقین دلاتا ہوں کہ اس کو کبھی ایمان کی موت نصیب نہ ہو گی.موت سے پہلے کوئی ضرور ایسا حادثہ اسے پیش آجائے گا کہ جس کی وجہ سے وہ ایمان سے محروم ہو گا اور اس طرح بے ایمان ہو کر مرے گا.کیا ساری عمر تم قربانیاں کر کے پھر مرتے وقت بے ایمان ہو کر دنیا سے چلے جاؤ گے.پس نماز کو چھوڑنا کوئی معمولی بات نہیں.عام طور پر لوگ جو نماز پڑھتے ہیں اور کبھی کبھی چھوڑ دیتے ہیں وہ رسم کے طور پر جنبہ داری کے طور پر دکھلاوے کے لئے نماز پڑھتے ہیں.میں یہاں کی جماعت کو اور پھر زمینداروں کو خصوصیت سے نصیحت کرتا ہوں وہ نمازوں میں ستی کو چھوڑیں.خدا کے لئے نمازیں پڑھو.پھر دیکھو خدا کے کیا فضل تم پر ہوتے ہیں.میں تو کہتا ہوں خواہ کتنا ہی نقصان ہو.نماز کو کبھی نہ چھوڑیں.بعض کہتے ہیں کہ نماز بھول جاتی ہے.میرے نزدیک بھول کر نماز کا چھوڑنا بھی درحقیقت عمدا " نماز کا چھوڑنا ہے.کیا وہ ماں جس کا بچہ ایک دفعہ اس کے ہاتھ سے نکل جانے کی وجہ سے سٹیشن پر گاڑی کے نیچے آجاتا ہے کیا پھر کبھی وہ اپنے بچہ کو اپنی انگلی سے جدا رکھے گی.پھر کیوں کر ممکن ہے کہ ایک شخص کو نماز بھول جاتی ہے.یا نماز پڑھنے سے پہلے وہ سو جاتا ہے.اگر تم دیکھتے ہو کہ عشاء سے پہلے چار پائی پر لیٹنے سے نیند آجاتی ہے تو تم کیوں اپنی جگہ پر لیٹتے ہو جہاں تم پر غفلت طاری ہوتی ہے.اگر تمہاری آنکھوں کے سامنے نماز چھوڑنے کی سزا کا بھیانک نظارہ آجائے تو پھر تم کیسے نماز سے پہلے سو سکتے ہو.پس جو شخص بار بار بھول جاتا ہے وہ بھی جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے کے مطابق ہے اور بار بار نماز بھول جانا بھی خطرناک ہے.اس لئے اس سے بھی بچو اور نماز کو مضبوطی کے ساتھ پکڑو.کم از کم ہمارے اور دوسروں کے درمیان یہ امتیاز تو ہو کہ ہم میں سے ایک بھی بے نماز نہ ہو.کوئی تارک نماز نہ ہو.باقی میرا تو یہ بھی عقیدہ ہے کہ جو باجماعت نماز نہیں پڑھتا وہ بھی تارک نماز ہے.اللہ تعالی ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم سچا نمونہ اس کی اطاعت کا ہوں اور کم سے کم یہ کہ ہم نماز با جماعت کے پابند ہوں.الفضل ۲۸ ستمبر ۱۹۲۳ء)
207 35 جماعت میں احتساب اور اصلاح کی ضرورت فرموده مورخه ۲۸ ستمبر ۱۹۲۳ء).تشهد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.میں نے بارہار اس امر کو بیان کیا ہے کہ کسی قوم کی صحیح تربیت کس طرح ہو سکتی ہے مختلف اوقات میں اور مختلف پیراؤں میں ایک ہی بات بیان کرنے سے فائدہ ہوتا ہے اور جو لوگ ایک ہی دفعہ بات کہہ کر چپ ہو جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب ہمیں دوبارہ کہنے کی ضرورت نہیں وہ فطرت انسانی سے واقف نہیں.فطرت انسان کا مطالعہ کرنے سے جو امر معلوم ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ انسان کو بار بار کہنے سے فائدہ ہوتا ہے اور مختلف آدمیوں کی مختلف طبائع ہوتی ہیں.ایک آدمی دس دفعہ کہنے سے فائدہ اٹھاتا ہے اور دوسرا آدمی میں دفعہ کہنے سے.پھر پیرایوں میں بھی بہت فرق ہوتا ہے.ایک پیرایہ سے ایک پر اثر ہوتا ہے اور دوسرے پر اس کا اثر نہیں ہوتا اور اس پر کسی اور پیرایہ سے اثر ہوتا ہے تو گو میں نے بارہا مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب مجھے پھر بیان نہیں کرنا چاہئیے.یاد رکھو کہ جب تک کسی قوم کی تربیت درست نہیں ہوتی وہ کبھی زندہ نہیں رہ سکتی.قوم وہی زندہ کہلا سکتی ہے جو چوکس اور ترقی کناں ہو.لیکن اگر کوئی قوم بڑی محنت سے کام کرتی ہے مگر اس کا جانشین کوئی نہیں جو اس کے کام کو جاری رکھے تو وہ قوم کبھی زندہ نہیں رہ سکتی.قوم وہی محفوظ رہ سکتی ہے جو اپنے کام کو جاری رکھے.یہ اور بات ہے کہ غیر معمولی اسباب سے اس کا کام تباہ ہو جائے.بہت سی ضرب المثلیس دنیا میں ایسی ہوتی ہیں جو سننے والوں کی طبائع پر اثر کرتی اور ان کے حوصلوں کو بلند کرتی ہیں.لیکن وہ مثالیں بالکل غلط ہوتی ہیں جن سے عام لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اگر اپنی اصلاح کی تو ہم سکھ میں ہو گئے.اگر اپنے آپ کو سکھ حاصل ہے تو تمام جہان سکھ میں ہے حالانکہ یہ مثال غلط ہے.اگر یہ سکھ میں ہو اور سارا جہان دکھ میں ہو تو وہ دکھ بھی اس کی طرف منتقل ہو گا مثلا کسی کے مکان کو آگ لگ جائے تو اس کا ہمسایہ اگر یہ خیال کر کے بیٹھ رہے گا کہ دوسرے کے مکان کو آگ لگی ہوئی ہے، مجھے کیا.تو یہ اس کی
208 غلطی ہوگی کیونکہ اگر وہ آگ نہیں بجھائے گا تو آخر اس کو بھی نقصان پہنچے گا.اسی طرح بے دینی بھی متعدی امراض کی طرح ہے.دیکھو ایک شخص اگر اپنے آپ کو زہر سے بچائے گا تو کل کو اس زہر کے نیچے اس کی اولاد آجائے گی جو اس نے دور نہیں کیا.اللہ تعالی جو قانون جاری کرتا ہے وہ یکساں تمام مخلوق میں جاری کرتا ہے.اس کی سنت سب کے لئے یکساں جاری ہوتی ہے.ان سنتوں میں سے ایک یہ بھی سنت ہے کہ افراد کے حالات اور قوم کے حالات یکساں ہوتے ہیں.قرآن کریم میں قوم کے حالات کی مثال افراد کی بتائی گئی ہے.پس خدا کا قول بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ جو قانون افراد میں جاری ہوتا ہے.وہی قوم میں جاری ہے.افراد میں ہم دیکھتے ہیں کہ جو بیماریاں باریک ہیں مثلاً سل، تپ دق.اس کے پیدا کرنے والے باریک کپڑے ہوتے ہیں وہ کیڑے پاس بیٹھنے والے کے جسم میں چلے جاتے ہیں.وہ اس قدر باریک ہوتے ہیں کہ جو انسان کو نظر نہیں آتے.ایک باجرے کے دانے کا کروڑواں حصہ اس کے اندر جاتا ہے جو مضبوط سے مضبوط انسان کو گرا دیتا ہے کہ جس کو ایک پہلوان بھی نہیں گرا سکتا.اسی طرح انفلوئنزا ہے اس کا بھی اس قدر باریک کیڑا ہوتا ہے کہ انفلوئنزا کے بیمار کی ایک چھینک ا کے ساتھ کروڑوں کیڑے نکلتے ہیں.وہ بھی انسان پر ایسا قابو پاتا ہے کہ طاقت ور انسان کو بھی گرا دیتا ہے.اسی طرح موسمی بخار ہوتا ہے جو نتیجہ ہے مچھر کے کاٹنے کا.اچھا بھلا تندرست آدمی ہوتا ہے جو اس مچھر کے کاٹنے سے اور اس کے زہر سے بیمار ہو جاتا ہے.تو جتنی بیماریاں ہم دیکھتے ہیں وہ نہایت ہی قلیل مقدار سے پیدا ہوتی ہیں.جب بیماریوں کے اتنے باریک ذرات مضبوط سے مضبوط انسان کو گرا دیتے ہیں تو اس قوم کا کیا حال ہو گا جس میں چند افراد ایسے موجود ہوں جو غلط کار ہیں، غافل ہیں، احکام الہی کی خلاف ورزی کرنے والے ہیں.برا نمونہ قائم کرتے ہیں.ہماری جماعت تو لاکھوں سے زیادہ نہیں.کروڑوں کی تعداد کی جماعتوں میں اگر ایک آدمی بھی کمزور ہو تو وہ قوم ہلاکت سے محفوظ نہیں.پھر وہ جماعت جو لاکھوں سے زیادہ نہیں اس کے اندر اگر چند کمزور افراد ہوں تو اس کی تباہی میں کیا شک ہو سکتا ہے.جب چھوٹے ذرے جو بولتے نہیں وہ ایک مضبوط آدمی کو گرا دیتے ہیں تو وہ قوم جس میں ایک بولنے والا زہر پھیل جائے وہ کس طرح قائم رہ سکتی ہے.وہ قوم جو ان زہروں کو دور نہیں کرتی وہ کبھی محفوظ نہیں رہ سکتی.پس جو قوم زندہ رہنا چاہے اس کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے باقی افراد کا بھی خیال کرے.اگر بولنے والے زہر کا قوم خیال نہیں کرتی تو اس کی دو ہی و جہیں ہو سکتی ہیں یا تو یہ کہ وہ قوم غافل ہے یا خود کشی کر کے اپنے آپ کو ہلاک کرنا چاہتی ہے.اور ان دونوں صورتوں میں سے کسی صورت میں بھی قوم زندہ نہیں رہ سکتی.پس ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کے افراد کا
209 خیال رکھے.جب ان کے سامنے اپنے آدمی موجود ہوتے ہیں جو منافق یا شریر ہیں لیکن ان کی اصلاح کا اور ان کے مقابلہ کا کسی کو خیال نہیں.ان کی حرکات کو برا نہیں منایا جاتا تو ہماری ملی زندگی ہر وقت خطرہ میں ہوگی.یہ مت خیال کرو کہ زہر ہمیشہ نکلتا ہی رہتا ہے کیونکہ اس کے لئے بھی میں پہلے کی طرح قانون قدرت ہی کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو تم کو یہ بتاتا ہے کہ تم اس کے شر سے بھی محفوظ رہ سکتے ہو.مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ تم بے فکر ہو جاؤ.دیکھو بیماریاں بھی تو ہر وقت موجود رہتی ہیں.ایک ہیضہ کی بیماری ہے.اس کے متعلق بعض ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ کپڑے سے ہیضہ پھیلتا ہے اور ڈاکٹروں نے تحقیقات کی کہ کیڑا تو اب بھی موجود ہے پھر کیا وجہ ہے کہ ہیضہ نہیں؟ سوبات یہ ہے کہ زہر ہر وقت موجود رہتا ہے لیکن جب تک زہر کھانے والے کے اندر مادہ موجود نہ ہو تب تک اس کا اثر نہیں ہوتا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کوئی قوم منافقوں اور شریروں سے محفوظ نہیں رہ سکتی لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اگر وہ قوم ان کا مقابلہ کرتی رہے گی تو وہ منافق اس کے کاموں کو برباد نہیں کر سکیں گے.لیکن اگر وہ قوم ان قومی غداروں کا مقابلہ نہیں کرتی.ان کی حرکات پر برا نہیں مناتی بلکہ خاموش رہتی ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کے اندر اس زہر کی قبولیت کا مادہ موجود ہے.جب تک تو ان کے کاموں کو بری نظر سے دیکھا جائے گا اور ان کا مقابلہ کیا جائے گا تب تک تو وہ قوم قائم رہے گی اور تباہی سے محفوظ رہے گی لیکن جس وقت ایسے افراد ہونگے جو ان کو دیکھ کر خاموش رہیں گے وہ پہلا قدم ہو گا اس کی تباہی کا.پس میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ ایسے افراد کا خیال رکھو اور ان کی بری حرکات دیکھ کر خاموشی مت اختیار کردو.ہماری تمام کوششیں برباد جائیں گی اگر اپنے مستوں اور کمزورں کی اصلاح نہ کریں گے اور آئندہ نسلوں کی اصلاح ابھی سے شروع نہ کر دیں گے.اگر یہ جماعت قرآن کی حقیقی اشاعت کرنا چاہتی ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے تمام افراد کی اصلاح کے لئے کوشش کرے.اب تک تو ہماری کامیابی گمان اور دلائل پر ہے لیکن کیا واقع میں شرک اور کفر مٹ گیا.کیا واقع میں دنیا داری مٹ کر اس کی جگہ دینداری قائم ہو گئی ہے.صرف ہمیں محسوس کرا دیا گیا ہے کہ ہماری تلوار کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.حالانکہ جب تک شرک اور کفرمٹ نہیں جاتا اس وقت تک ہماری یہ خوشی خوشی نہیں.اصل ہماری خوشی اس وقت ہی ہوگی جب اسلام کی حکومت تمام دنیا کے دلوں پر قائم ہو جائے گی.لیکن اگر ہم قومی غداروں کا علاج نہ کریں گے تو ہماری کامیابیاں موہوم ہونگی.اللہ تعالی جماعت کو اس بات کی توفیق دے کہ وہ اپنے فرض کو سمجھے.اور شیطان کا سر کچلا جائے اور ہمارے ہی ہاتھوں سے اس طرح کچلا جائے جس طرح کہ پہلے انبیاء نے
210 ہمارے ہاتھ سے اس کے کچلا جانے کی خبر دی ہے.(الفضل ٫۵ اکتوبر ۱۹۲۳ء)
211 36 فتنہ شدھی اور جماعت احمدیہ (فرموده ۵ / اکتوبر ۱۹۲۳ء) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.فتنہ ارتداد کے شروع ہونے پر میں نے بعض اعلانات اس قسم کے کئے تھے کہ اس وقت مسلمانوں کو دشمن کا مقابلہ مل کر کرنا چاہیے کیونکہ دشمن کا یہ حملہ اس قسم کا حملہ ہے کہ اگر فوراً اور ابھی سے اس کی روک تھام نہ کی گئی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلام کا رعب داب جو دنیا پر دیر سے جما ہوا ہے اس کو نقصان پہنچے گا.اور دشمن کو اسلام کی عمارت میں نقب زنی کا موقع مل جائے گا.اور اگر ایک قوم ہزاروں کی تعداد میں بلا روک ٹوک اور بلا مقابلہ دشمنوں میں چلی جائے.تو خواہ وہ کیسی ہی گری ہوئی قوم کیوں نہ ہو.اسلام کے نام پر دھبہ لگے گا اور پھر یہی نہیں بلکہ اور بہت سی قومیں تیار ہو جائیں گی کہ اسلام کو چھوڑ کر چلی جائیں.میرا مطلب اس اعلان سے کیا تھا وہ ہمارے طریق عمل نے ظاہر کر دیا ہے اور جس رنگ میں ہم نے اپنی طرف سے مل کر کام کرنے کی کوشش کی ہے باجود مخالفین کی طرف سے رستہ میں روڑے اٹکانے کے وہ اس بات کو اچھی طرح ظاہر کرتی ہے کہ ہماری نیت شروع سے یہی تھی کہ مل کر کام کریں.اتفاق اور اتحاد سے کام ہو اور میدان عمل میں ایک دوسرے کا مقابلہ اور مخالفت نہ کی جائے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ غلطی سے میرے اعلانات سے ایسا مطلب اخذ کر رہے ہیں جو میرا نہیں تھا اور ہم سے ایسی امید رکھتے ہیں جو کوئی عقل مند کسی عقل مند سے نہیں رکھ سکتا.بعض لوگ اس اتحاد کے معنے یہ لیتے ہیں کہ ہمیں آئندہ سلسلہ احمدیہ کی تبلیغ بالکل چھوڑ دینی چاہیے اور اپنے مذہب کی اشاعت نہیں کرنی چاہئیے.میرے نزدیک کسی ایسے شخص سے جو کسی مذہب کو سچا اور نجات کا ذریعہ سمجھتا ہو یہ امید رکھنا کہ وہ کسی غرض کے لئے اپنے مذہب کی تبلیغ چھوڑ دے گا اس امر کا ثبوت ہے کہ یا تو جو ایسی امید رکھتا ہے وہ پاگل اور مجنون ہے اور یا جو اس قسم کا وعدہ دیتا ہے وہ جھوٹا اور مکار ہے یا مجنون ہے.یہ خیال کرنا کہ ایک شخص جس مذہب کو اپنی
212 نجات کا موجب سمجھتا ہے جس کے متعلق اسے یقین ہے کہ اس کے بغیر ترقی ناممکن ہے جس کو وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے قرار دیتا ہے اس کے متعلق یہ معاہدہ کرے گا کہ میں اس کی اشاعت نہیں کروں گا.اس سے بڑھ کر بد گمانی اور کیا ہو سکتی ہے کیونکہ اس بات کو سمجھتے ہوئے کہ اس مذہب کے بغیر ترقی ناممکن ہے اس کے بغیر نجات نہیں ہو سکتی.دنیا اسی کے ذریعہ تباہیوں اور بربادیوں سے بچ سکتی ہے کس طرح ممکن ہے کوئی یہ امید دلائے کہ وہ اس مذہب کی تبلیغ نہیں کرے گا اور کس طرح ممکن ہے کہ دوسرے لوگ کسی کو خاص عقیدہ کا پیرو مانتے ہوئے اس سے یہ امید رکھیں.کیا کوئی کسی کو کہہ سکتا ہے کہ کل تم نے کہا تھا میں اپنے بیوی بچوں کے سرکاٹ کر تمہارے پاس لاؤں گے مگر تم نہیں لائے اور جب وہ کہے کہ میں نے کہا تھا تو وہ کہے شاید مجھے غلط فہمی ہو گئی ہوگی.تم نے کچھ اور کہا ہو گا.اگر یہ نہیں کوئی کہہ سکتا اور اس قسم کی غلط فہمی نہیں ہو سکتی تو اس تحریک، متعلق کس طرح اسی قسم کی غلط امید قائم کی جا سکتی ہے جو بیوی بچوں سے زیادہ پیاری اور زیادہ ت ہے.مذہب کے مقابلہ میں بیوی بچے یا مال و جائداد یا اپنی جان کی اتنی بھی حقیقت نہیں جتنی چیونٹی کی ہوتی ہے.پس اگر اس چیز کے متعلق جو دین کے مقابلہ میں چیونٹی سے بھی حقیر ہے کوئی قربانی کی امید نہیں رکھ سکتا تو یہ خیال کس طرح کر لیا گیا کہ ہم نے اقرار کر لیا ہے یا کرنا چاہتے ہیں کہ اپنے مذہب کی تبلیغ چھوڑ دیں گے.یہ کبھی نہیں ہو سکتا.اور اس پر کبھی صلح کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی.کیا دو آدمیوں میں اس امر پر صلح کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے کہ دونوں زہر کھا کر مر جائیں جب مرگئے تو پھر صلح کس کام کی اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ میں اپنے دین کی تبلیغ چھوڑ دوں گا وہ روحانی طور پر مر جاتا ہے اور خدا تعالی کے حضور ملعون اور لعنتی گھر جاتا ہے اس کو صلح کیا فائدہ دے سکتی ہے.پس کیا ہم اپنے ایمانوں کو جن کی قیمت ہم ساری دنیا سے بھی زیادہ سمجھتے ہیں اس لئے قربان کر سکتے ہیں کہ ملکانوں کو جو دین کا نام تک نہیں جانتے ان کی پہلی رسوم پر قائم رکھیں.میں حیران ہوں ان لوگوں کی عقلوں پر جو یہ خیال رکھتے ہیں کہ ہم نے اس قسم کا وعدہ کیا ہے کہ ہم اپنے مذہب کی تبلیغ چھوڑ دیں گے.میں ایسے لوگوں کو ہوشیار کرنا چاہتا ہوں اور کھول کر بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہم نے اس قسم کا نہ کوئی وعدہ کیا ہے اور نہ کر سکتے ہیں.خواہ اس کے بدلے میں ساری دنیا بھی مل جائے.لمکانے تو الگ رہے.اگر ساری دنیا کے کافر بھی اگر کہیں کہ ہم مسلمان ہوتے ہیں تم اپنے مذہب کی کوئی تعلیم چھوڑ دو.تو بھی ہم کبھی نہ مانیں گے.کیونکہ دین کے معاملہ میں سب سے پہلے اپنے دین اور اپنے ایمان کی فکر ضروری ہوتی ہے.اور یہ ہو نہیں سکتا کہ ساری دنیا کے لئے ہم اپنا ایمان برباد کر لیں.اگر ہزار آدمی بھی ایک شخص کے جھوٹ بولنے سے مسلمان ہوتا ہے تو شریعت اس شخص کو ہرگز اجازت نہ دے گی کہ جھوٹ بول لے.اسی طرح اگر ساری دنیا اس شرط پر مسلمان
213 ہونے لگے کہ ایک مومن کافر ہو جائے تو اسلام اس کی ہرگز اجازت نہ دے گا کیونکہ اسلام میں ایمان اور صداقت کا کوئی بدلہ نہیں رکھا گیا.پس یہ کسی چیز کے لئے قربان نہیں کئے جا سکتے.قربانیاں ان چیزوں کی ہوتی ہیں جو ایمان سے نیچے ہیں.مثلاً مال جان عزیز قربان کئے جا سکتے ہیں لیکن اگر کوئی چیز قربان نہیں کی جاسکتی خواہ ایک شخص کی قربانی کے مقابلہ میں کروڑ مسلمان ہوتے ہوں تو وہ ایمان ہے اور یہ ایمان کا جزو ہے کہ انسان اپنے مذہب کو دوسروں تک پہنچائے.کوئی شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کے مگر یہ کہے کہ میں تبلیغ اسلام چھوڑتا ہوں تو وہ مومن ہی نہیں.اور یہ ایسی بات ہوگی کہ کوئی کہے میں زندہ رہوں گا مگر کھاؤں کا کچھ نہیں.جو شخص یہ نیت کرتا ہے کہ میں تبلیغ نہ کروں گا اس کا ایمان اسی وقت نکل جاتا ہے اور وہ اسلام کے دائرہ سے خارج ہو جاتا ہے.پس کس طرح ممکن ہے کہ ہم ایسے لوگوں کی خاطر جن کے متعلق معلوم ہی نہیں کہ کیا فائدہ دیں گے ایسے لوگوں کو ضائع کر دیں جو ساری دنیا کو اس ایمان سے فائدہ پہنچا رہے ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں ملا.اور جس کے متعلق وہ یقین اور وثوق رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے نبی کے ذریعہ ملا اور جو ساری دنیا میں اسلام کی اشاعت کر رہے ہیں.پس یہ ہرگز ممکن نہیں کہ ہم کہیں کہ ہم احمدیت کی تبلیغ نہیں کریں گے.ہاں یہ کہنا کہ فلاں علاقہ میں فلاں وقت فلاں فلاں بات نہ کہیں گے یہ ایک حد تک درست ہو سکتا ہے مگر یہ اقرار بھی حالات کے بدلتے ہی نا جائز ہو جائے گا.مثلاً ایک شخص خدا کا منکر ہو مگر اسے بتایا جائے اگر تم زکوۃ نہ دو گے تو کافر ہو جاؤ گے تو یہ درست نہیں ہو گا.زکوۃ کے متعلق بتانے والے کو کہیں گے.ابھی اس کو یہ تعلیم دینے کا وقت نہیں ہے پہلے خدا منواؤ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا اقرار کراؤ اور پھر زکوۃ کا حکم سناؤ.اسی طرح اگر ایک استاد ایم.اے یا بی اے کی کتابیں بچہ کے آگے رکھے اور اسے کہا جائے کہ پہلے قاعدہ شروع کراؤ مگر وہ کہے کیا میں پڑھانے سے رک جاؤں تو اسے کہیں گے تم اس طرح پڑھانے سے رکتے نہیں بلکہ جو طرز تم نے اب اختیار کر رکھی ہے اس میں پڑھائی کا حرج ہے اور اس طرح تم پڑھاتے نہیں بلکہ پڑھنے سے روکتے ہو پس اگر تم پڑھانا چاہتے ہو تو پہلے قاعدہ پڑھاؤ.اسی طرح وہ لوگ جن پر آریوں کا اثر ہے اور جو ان کے دعا اور فریب میں آرہے ہیں ان کے متعلق اگر ہم کہیں کہ انہیں ہم اس وقت آریوں کے حملہ سے بچاتے ہیں تو یہ تبلیغ احمدیت سے رکنا نہیں بلکہ تبلیغ کرتا ہے.لیکن اگر ایسا موقع ہو کہ ان لوگوں کو ہمارے آدمیوں کے متعلق پتا ہو کہ یہ احمدی ہیں اور وہ پوچھیں کہ احمدی کیا ہوتے ہیں.اس وقت اگر ہم احمدیت کے متعلق نہ جائیں تو یہ تبلیغ سے رکتا ہے کیونکہ جب کوئی احمدیت کے متعلق پوچھتا ہے تو معلوم ہوا کہ اس میں کی قابلیت ہے اور اس کے سمجھنے کا وقت آگیا ہے.اس وقت ہمارا فرض ہے کہ اسے
214 - سمجھائیں.یہی وعدہ تھا جو میں نے کیا تھا یعنی یہ کہ ہم ملکانوں میں احمدی تبلیغ کی خاطر نہیں جاتے ان کو آریوں کے حملوں سے بچانے کے لئے جاتے ہیں.اور ہمارا مقصد اولی یہی ہے کہ آریوں سے ان کو بچائیں اور ہم نے اس وعدہ کو پورا کیا.ہمارے آدمیوں کو سخت ہدایات تھیں کہ وہ احمدیت کی تبلیغ نہ کریں اور سب زور آریوں کے مقابلہ میں خرچ کریں اور ہمارے مبلغوں نے الا ماشاء اللہ اس حکم کی تعمیل پوری طرح کی اور آریوں کے مقابلہ میں ہر ایک اختلاف کو نظر انداز کئے رکھا.لیکن افسوس کہ ہمارے ان اعلانات کو ہماری کمزوری پر محمول کیا گیا اور ہماری صلح کی خواہش کو ہماری شکست سمجھا گیا اور ہماری اعانت کو ہماری جاہ طلبی قرار دیا گیا.جونہی کہ مولوی صاحبان نے دیکھا کہ اس جماعت کی قربانیاں لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیں اور لوگ ان کے کام کے مقابلہ میں ہمارے کام کو حقیر سمجھ رہے ہیں.ان کے دلوں سے اسلام کی خدمت کا سوال جاتا رہا اور ہمارے مقابلہ کا خیال جاگزین ہو گیا.اب آریہ ان کو بھول گئے اور ہمارا وجود ان کی آنکھوں میں کھٹکنے لگا.مولوی صاحبان کو یا تو جغرافیہ کا کوئی علم نہیں اور مردم شماری کی رپورٹیں اور بعض دیگر ذرائع معلومات سے وہ واقف نہیں یا یہ کہ ان کو ان گاؤں میں جہاں ہمارے احمدی جاتے تھے کوئی خاص کشش معلوم ہوتی تھی.انہوں نے اپنا یہ وطیرہ اختیار کر لیا کہ ہمارے آدمیوں کے پیچھے پیچھے نکل کھڑے ہوئے اور جہاں ہمارے آدمی پہنچتے وہاں وہ بھی جا پہنچے، بعض جگہ ہمارے ہی آدمیوں کے مہمان ٹھہرے، انہیں کے پاس کھانا کھایا، شربت پیئے.غریب مسافر احمدی مبلغ نے اپنے ہاتھوں سے کھانے پکا کر ان کے آگے رکھے.جاتے وقت اگر موقع ملا تو زبانی نہیں تو خط کے ذریعہ سے گاؤں کے لکھیا کو ہوشیار کر گئے کہ قادیانیوں کو ہرگز یہاں ٹھرنے نہ دینا یہ لوگ آریوں سے بد تر ہیں.آریہ ہو جانا بہتر ہے لیکن ان لوگوں سے تعلق نہیں رکھنا چاہئیے ان باتوں کا اثر بعض جگہ پر یہ ہوا کہ ہمارے مبلغ نکالے گئے ایک جگہ سخت گرمی کے دنوں میں ہمارا ایک مبلغ جو اس علاقہ سے بالکل نا واقف تھا تین دن بلا کھانے کے تپتی دوپہر میں جنگل میں پڑا رہا.کیونکہ وہ بغیر حکم کے اپنی جگہ کو نہیں چھوڑ سکتا تھا اور مولویوں نے گاؤں والوں کو بھڑکا کر اسے گاؤں سے نکلوا دیا تھا کہ یہ آریوں سے بدتر ہے.بعض جگہ مولویوں کی باتوں کا الٹا اثر ہوا لوگوں نے اس بات سے انکار کر دیا کہ جانوروں کی طرح مولوی صاحبان کی لاٹھیوں کے آگے ہانکے جائیں.انہوں نے اپنی عقلیں اور آنکھیں مولوی صاحبان کے سپرد کر دینے سے صاف جواب دے دیا اور ہمارے آدمیوں کے پاس آئے اور پوچھنے لگے کہ آپ لوگوں کو یہ مولوی صاحبان کیوں کافر کہتے ہیں.آپ میں تو سب باتیں اسلام کی معلوم ہوتی ہیں آپ لوگ نمازیں پڑھتے ہیں.اسلام کی خدمت مفت کرتے پھرتے ہیں وہ
215 کونسی بات ہے جس کی وجہ سے آپ کا فر ہیں.ہمارے آدمیوں نے اکثر مقامات پر پھر بھی یہی جواب دیا کہ ہم میں تو کوئی کفر کی بات نہیں آپ دیکھ سکتے ہیں پس ان لوگوں نے ذاتی عداوت سے ایسا کہا ہے لیکن مولوی صاحبان کو کب چین آتا تھا انہوں نے دوسرے دورہ میں لوگوں کو یوں کہنا شروع کیا کہ یہ جھوٹ بولتے ہیں اور اپنے عقیدہ کو چھپاتے ہیں.یہ پنجاب کے ایک شخص کو نبی مانتے ہیں اور نیا کلمہ انہوں نے بنا لیا ہے اور قرآن کے منکر ہیں.ان باتوں کا بھی یہی اثر ہوا کہ بعض جگہوں کے لوگوں نے بلا تحقیق ہمارے آدمیوں کی مخالفت شروع کر دی اور بعض جگہ کے لوگوں نے پھر آگر ہمارے آدمیوں سے سوال کرنے شروع کر دئے اور آخر ان کو جواب دینا پڑا.جب انہوں نے جواب وئے تو احمدیت کی تبلیغ کا سوال بعض جگہ ضرور پیدا ہوا اور ان حالات میں ضرور پیدا ہونا چاہیے تھا لیکن اس کے ذمہ دار ہم لوگ نہیں وہ مولوی صاحبان ہیں جنہوں نے خود ان علاقوں میں جاکر لوگوں کو ہمارے خلاف اکسایا.گوہٹہ ضلع ایٹہ میں ایک جلسہ آریوں کے خلاف کیا گیا تمام مولوی صاحبان وہاں اگر جمع ہو گئے اور آریہ لیکچراروں کی موجودگی میں انہوں نے لیکچر گاہ میں کھڑے ہو کر شور مچا دیا کہ احمدی آریوں سے بدتر ہیں.اس جلسہ میں ایک لفظ احمدیت کے متعلق نہیں کہا گیا تھا خود غیر احمدی مولوی صاحبان بھی بطور لیکچرار کھڑے کئے گئے تھے لیکن باوجود اس کے آریوں کی موجودگی میں ہمیں گالیاں دی گئیں اور آریہ اخبارات نے اس پر پھبتیاں اڑائیں اور خوشی کا اظہار کیا.کوئی شخص ثابت نہیں کر سکتا کہ اس وقت مخدوش علاقوں میں احمدیت کی تبلیغ کی جاتی تھی لیکن جب اس طرح جلسہ میں جہاں مختلف جگہوں کے نمائندے آئے ہوئے تھے سلسلہ کی مخالفت کی گئی تو لوگوں میں خود تحریک ہوئی.نبی حسن خان صاحب دار پٹی کے اس جلسہ میں موجود تھے ان کو یہ حرکت مولویوں کی ناپسند ہوئی اور انہوں نے کہا کہ یہ عجیب حرکت ہے کہ دشمن کے مقابلہ کے وقت بلا وجہ آپس میں جنگ ہو رہی ہے.لیکن مولوی صاحبان پر اثر نہ ہوا اس سے ان کے دل پر اس امر کا گہرا اثر پڑا کچھ دنوں کے بعد وہ قادیان آئے اور یہاں آکر احمدی ہو گئے.اسی طرح اس واقع کے بعد کچھ لوگ اور قادیان آئے اور احمدی ہو گئے.غرض ہم نے پوری طرح اپنے عہد کو نباہا لیکن ہر ایک معاہدہ اپنی شرائط کے ساتھ ہوتا ہے اگر مولوی صاحبان نے ان شرائط کو توڑ دیا جن سے وہ معاہدہ تھا اگر انہوں نے ان حالات کو بدل دیا جن کے ماتحت اس قسم کے معاہدہ ہو سکتا تھا.لوگوں کے دلوں میں احمدیت کے متعلق جستجو پیدا کر دی ان کو اس اہم امر کے لئے بیدار کر دیا تو کیا پھر بھی وہ ہم سے یہ امید رکھتے ہیں کہ ایسے علاقوں میں ہم خاموش رہیں اور ان سوالوں کا جواب نہ دیں جو مولوی صاحبان نے لوگوں کے دلوں میں پیدا کئے
216 ہیں.اگر یہ امید ان کے دلوں میں ہے تو اس امید کو اپنے دلوں سے نکال دیں.ہم بیشک ان لوگوں میں احمدیت کی تبلیغ نہیں کرتے جو آریوں کے زیر اثر ہیں اور ان لوگوں میں نہیں کرتے جو ابھی اسلام کے ابتدائی مسائل کے سمجھنے کی بھی قابلیت نہیں رکھتے.لیکن ملکانوں کے سوا دوسرے لوگوں میں جو اسلام کو سمجھ سکتے ہیں یا ان راجپوت لوگوں میں جن کو خود مولویوں نے سوالات کرنے پر آمادہ کر دیا ہے ہم اپنی تبلیغ کس طرح بند کر سکتے ہیں.کیا آریوں کے حملہ کے روکنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم قائم گنج اور فرخ آباد اور دیگر شہروں میں جہاں ملکانے لوگ نہیں ہیں اپنی تبلیغ نہ کریں.غرض ہم نے کبھی وعدہ نہیں کیا اور نہ کر سکتے ہیں کہ ہم احمدیت کی تبلیغ کسی جگہ بھی اور کسی حال میں بھی نہیں کریں گے ہمارا وعدہ مشروط تھا اور صرف یہ تھا کہ ہم اس قوم میں اس غرض کے لئے نہیں جائیں گے احمدیت کی تبلیغ کریں یعنی ابتداء نہیں کریں گے لیکن دوسرے لوگوں کے مجبور کرنے پر بھی ہم چپ رہیں.یہ ہمارا ارادہ کبھی نہیں ہوا اور یہ وعدہ ہم نے کبھی نہیں کیا.اگر ایسا کوئی وعدہ اشارہ " اور کنایتہ " بھی کیا ہو تو اس کو پیش کیا جائے.ہم اس امر کے لئے تیار ہیں کہ غیر جانبدار کمیٹی بنائی جائے جو دیکھے کہ کیا غیر احمدی مولویوں نے جاکر ان لوگوں کو ہمارے مبلغین کے متعلق نہیں کہا کہ یہ کافر ہیں.ان کو اپنے گاؤں سے نکال دو ان کی باتیں سننے سے آریہ ہو جانا بہتر ہے.اگر یہ ثابت ہو جائے تو کون عظمند ہے جو اپنے اپ کو دنیا کے سامنے عقلمند کی حیثیت سے پیش کرنے اور کہے کہ احمدی مبلغ اس وقت بھی جواب نہ دیتے.اگر اس وقت جواب نہ دیتے تو وہ منافق اور بے ایمان بنتے.ہمیں سنایا جاتا ہے اور دھمکی دی جاتی ہے کہ اگر تم احمدیت کی تبلیغ سے نہ رکے تو یہ کر دیا جائے گا اور وہ کر دیا جائے گا.مگر ہم کب دنیا سے دبے اور کب ہم نے کسی کی غلامی کی اور کب کسی سے مرعوب ہوئے کہ اب ہو جائیں گے.ہم تو اس وقت ساری دنیا سے نہ ڈرے جب چند تھے.خدا تعالیٰ نے ہماری اس وقت کی کمزوری کو دیکھ کر ہماری مدد کی اور لاکھوں انسانوں کو احمدیت میں داخل کر دیا.ہمیں اپنے فضل اور رحم سے قوت، طاقت، رعب اور شوکت دی.پھر کیا ہم خدا تعالیٰ کے اتنے احسانوں کے بعد اب ڈر جائیں گے.ہرگز نہیں.جو غلامی کا عادی ہوتا ہے.وہی کسی کی غلامی کر سکتا ہے.ہم کو خدا تعالیٰ نے اپنے سوا کسی کا غلام نہیں بنایا بلکہ آزاد بنایا ہے.اور ہم کسی کے غلام نہیں ہو سکتے.ہم نے جو وعدہ کیا تھا.اسلام کے نام کی عزت کے لئے کیا تھا.یونکہ اسلام کا صدمہ ہمارا صدمہ تھا.اس لئے ہم مسلمان کہلانے والوں کی خبر گیری کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور ہم نے کسی سے ڈر کر کسی کے خوف سے اور کسی کی دھمکی سے یہ وعدہ نہیں کیا تھا بلکہ ضرورت وقت کے لئے کیا تھا.کیونکہ جو قوم اسلام کے موٹے موٹے مسائل کو ہی نہیں سمجھ سکتی تھی اس کے سامنے حیات و وفات مسیح کا مسئلہ چھیڑنا غلطی تھی.لیکن جب مولویوں نے ان
217 کو ہمارے خلاف اکسایا اور خود ان کو اس طرف توجہ دلائی تو جس طرح مکہ والوں نے مسلمانوں کو چھیٹر کر مکہ پر ان کا قبضہ کرایا.اسی طرح ان مولویوں نے لوگوں کو اکسا کر ہمارے لئے تبلیغ احمدیت کا رستہ کھول دیا.چونکہ اسلام کا مسئلہ ہے کہ خود کسی پر حملہ نہ کرو.اس لئے اگر مکہ والے مسلمانوں پر حملہ نہ کرتے تو مکہ پر مسلمانوں کی حکومت نہ ہوتی اور اگر قیامت تک حملہ نہ کرتے تو مسلمانوں کی حکومت کبھی نہ ہوتی.سوائے اس کے کہ وہ لوگ مسلمان ہو جاتے.مگر چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا تھا کہ مسلمانوں کی وہاں حکومت ہو.اس لئے ابو جہل اور ابو سفیان وغیرہ کفار کے ذریعہ جنہوں نے قوم کو تیار کرایا.مدینہ پر حملہ کر دیا.اور اس طرح مسلمانوں کو جائز حق دے دیا کہ وہ مکہ پر حملہ کر کے اسے فتح کرلیں.ہم اس بات سے ناراض نہیں ہیں کہ مولویوں نے ہمارے راستہ میں روڑے اٹکائے.ہمارے خلاف لوگوں کو اکسایا کیونکہ ہم نے نہ چاہا تھا کہ جب تک وہ لوگ پختگی سے مسلمان نہ کہلانے لگ جائیں اس وقت تک ان میں احمدیت کی تبلیغ کریں.اور ہم نے نہ چاہا تھا کہ جب دشمن بالمقابل ہے تو ان مولویوں سے دست و گریباں ہوں.مگر بعض مولوی صاحبان نے اس کو پسند کیا اور سمجھا کہ کام کرنے کی وجہ سے احمدیوں کی جو شہرت ہو رہی ہے اس سے ان کی آمدنی بڑھ رہی ہے.حالانکہ ہم کسی سے ایک پیسہ بھی نہیں لینا چاہتے مگر مولویوں نے ہمارے خلاف لوگوں کو بھڑکانا شروع کر دیا.اور جب انہوں نے ہم سے احمدیت کے متعلق پوچھا تو ہم نے بتایا.اب بھی اگر کوئی ہمیں روکنا چاہتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم ابھی احمدیت کو پیش نہ کریں جب تک دشمن مقابلہ سے بھاگ نہ جائے.تو اس کا پہلا فرض یہ ہے کہ اپنے مولویوں کو روکے کہ ہمارے خلاف لوگوں کے دلوں میں وسوسے نہ ڈالیں.اور انہیں بھڑکانے کی کوشش نہ کریں ورنہ اس سے بڑھ کر نادانی کیا ہوگی کہ اپنے آدمیوں کو تو نہ روکا جائے اور ہمیں رکنے کے لئے کہا جائے.اگر گھر کے آدمی ان کی بات نہیں مانتے تو ہمیں روکنے کا ان کو کیا حق ہے.اگر ان میں طاقت ہے، اگر ان کا کوئی رعب ہے، اگر ان کی کوئی بات سنتا ہے تو وہ جائیں اور اپنے مولویوں کو ہماری مخالفت کرنے سے روکیں.اگر مولوی باز آجائیں تو ہم پھر اقرار کرتے ہیں کہ جب تک دشمن وہاں ہے ہم اس طرز کی تبلیغ نہ کریں گے جس طرز کی مولویوں کی مخالفت کرنے کی وجہ سے ہمیں کرنی پڑتی ہے.لیکن اگر مولویوں کو نہیں روکا جاتا جو ان کے اموال سے پرورش پاتے ہیں تو ہم کو وہ کس طرح روک سکتے ہیں.جنہیں کافر قرار دیتے ہیں.جن کو اپنے گھروں سے نکالتے اور ہر قسم کے دکھ پہنچاتے ہیں ان کو چاہیے کہ پہلے ان لوگوں کو جن کی خاطر ہمیں یہ دکھ دئے گئے ہیں اور دئے جاتے ہیں روکیں اور اگر وہ ان ملانوں کو نہیں روکتے تو ہم کو روکنے کی کس طرح جرأت کر سکتے ہیں.جن سے وہ ہر قسم کا بد سلوک کرتے رہے ہیں اور جن کو دکھ.
218 دینے اور ستانے میں انہوں نے کوئی کمی نہیں کی.اگر وہ اپنے مولویوں کو روکیں اور مولوی ہمارے مخالفت سے باز آجائیں.تو پھر وہ ہم سے درخواست کر سکتے ہیں مگر بطور حکم کے نہیں بلکہ بطور التجا کے اور تب ہم دیکھیں گے کہ یہ موقع ایسا ہے کہ ہم ان کی درخواست کو منظور کریں تو منظور کرلیں گے اور اگر دشمن بھاگ گیا ہو گا تو ہم ان کی درخواست کو رد کر دیں گے.مومن کا ہاتھ ہمیشہ اونچا ہوتا ہے.نیچا نہیں ہوتا.اس لئے ہم کسی کی حکومت کی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہیں ہم مذہبی لحاظ سے ایک ہی کی حکومت مانتے ہیں اور وہ خدا ہے اور ہم پر کسی کا کوئی رعب داب نہیں.سوائے اس کے جو حق لے کر آتا ہے.پس جو کوئی ہم سے کسی قسم کی درخواست کرنا چاہتا ہے وہ پہلے حق پیدا کرے.اور پھر ہمارے پاس آئے.اور جب کوئی حق پیدا کر لیتا ہے تو خواہ وہ سب سے کمزور اور دنیوی لحاظ سے کتنا ہی ادنی درجہ کا ہو.ہمارے نزدیک سب سے زبردست ہوگا.اور اس کے علم، مال درجہ کی کمزوری اس کے رستہ میں حائل نہ ہوگی.اور ہم یہ نہیں کہیں گے کہ چونکہ یہ کسی قوم کا سردار اور لیڈر نہیں اس کی کوئی حیثیت نہیں.اس لئے ہم اس کی بات نہیں سنیں گے.بلکہ اگر کوئی حق لے کر آئے گا تو دلی خوشی سے ہم اس کا استقبال کریں گے.ادب کے ساتھ اس سے ملیں گے اور شوق سے اس کی بات کو قبول کریں گے مگر شرط یہی ہے کہ وہ حق لیکر آئے.پس میں اس خطبہ کے ذریعہ ان لوگوں کو جن کو اس امر کے متعلق دھوکہ لگا ہوا ہو.خواہ دوسرے لوگوں میں سے ہوں یا احمدی جماعت کے ہوں.بتاتا ہوں کہ وہ اچھی طرح سن لیں کہ ہم نے نہ کبھی کہا ہے اور نہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم احمدیت کی تبلیغ کلی طور پر چھوڑ دیں گے ہاں ہم نے یہ کہا کہ ملکانہ لوگ جو اسلام کے ابتدائی مسائل سے بھی ناواقف ہیں ان میں تبلیغ احمدیت کے مقصد کو لیکر نہیں جائیں گے اور اس وقت تک ان میں تبلیغ نہیں کریں گے جب تک دشمن کا حملہ دور نہ ہو جائے اور وہ اسلام کے نام پر قائم نہ ہو جائیں.کیونکہ ان میں تبلیغ کرنے کا یہ موقع نہیں مگر جب دوسروں نے ہمیں چھیڑا.ہماری خاموشی کو شکست قرار دیا اور لوگوں کو ہمارے خلاف اکسایا اور غلط خیالات ان کے دل میں ڈالے تو پھر ہم کس طرح خاموش رہ سکتے ہیں اب تبلیغ کرنا ہمارا مقصد نہیں کہلا سکتا.بلکہ دفاع ہے.پھر میں دنیا کو یہ بھی بتلا دینا چاہتا ہوں کہ صلح یہ نہیں ہوتی کہ اپنا اپنا مذہب چھوڑ دیا جائے.اس طرح پر نہ صلح ہو سکتی ہے اور نہ قائم رہ سکتی ہے.صلح کی خاطر صرف انہی باتوں کو چھوڑا جا سکتا ہے جن کا چھوڑنا شریعت نے جائز قرار دیا ہے مگر شریعت یہ جائز نہیں کرتی کہ عقائد کے متعلق کوئی پوچھے.پھر انسان نہ بتائے.فروعی مسائل میں اختلاف ہو اور ان میں اگر مصلحتا خاموشی اختیار کی جائے تو حرج نہیں لیکن جو امور عقائد سے تعلق رکھتے ہیں اور ان پر ایمان کی بنیاد سمجھی جاتی ہے ان کو کسی صورت میں بھی چھوڑ نہیں سکتے اور ان کے متعلق OF ہے
219 خاموشی ناممکن ہے.پس اس بات کی نہ ہم ان سے امید رکھتے ہیں اور نہ وہ ہم سے رکھیں کہ ہم اس قسم کا اقرار کر سکتے ہیں.اتفاق اس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک دوسرے کو گالیاں نہ دی جائیں.مخالفت نہ کی جائے.تبلیغ میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے جو مبلغ جہاں رہتا ہے وہاں دوسرے عقائد کا مبلغ نہ جائے.اور اگر جائے تو اختلافی مسائل نہ چھیڑے.اگر کوئی مبلغ ملکانوں کو یہ بھی سکھلائے کہ حضرت مسیح زندہ ہیں تو ہمارے نزدیک ملکانوں کی حالت اس سے اچھی رہے گی کہ وہ آریہ ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے گا.اس لئے ہم اس وقت اس کے متعلق کچھ نہ کہیں گے.پس چاہیے کہ مبلغ اپنے اپنے علاقہ میں کام کریں اور ایک دوسرے کے خلاف کوئی کارروائی نہ کریں.اس بات کو ماننے اور اس پر عمل کرنے کے لئے ہم ہر وقت تیار ہیں.مگر یہ کہ ہم احمدیت کو چھپائیں یہ امید ہم سے قطعا نہیں رکھنی چاہئیے صلح کے معنی فراعی مسائل کو نہ چھیڑنے کے ہیں اصولی مسائل کو چھپانا مداہنت ہے جسے ہم ہرگز اختیار نہیں کرتی ہے.دوسرے علاقوں میں بھی ہم اسی قسم کی صلح کی تحریک کرتے رہتے ہیں.اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ کوئی شخص اپنے مذہب کی تبلیغ نہ کرے یا ہم اپنے مذہب کی تبلیغ نہ کریں.بلکہ اس کے یہ بھی معنی ہوتے ہیں کہ جن باتوں میں ہم ایک ہیں ان میں دشمن کے مقابلہ میں ایک ہو جائیں.اور مسلمان کہلانے والا کوئی فرقہ دوسرے کو گالیاں نہ دے اور ایک دوسرے کے خلاف طبائع میں جوش نہ پیدا کریں.اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو توفیق دے کہ وہ اصول اور فروع کے فرق کو سمجھیں اور جان لیں کہ اصولی مسائل کے چھڑانے کا مطالبہ پاگل پن ہے اور ان کے سینوں کو کھولے تاکہ وہ بھی ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں اور یہ روز کے جھگڑے ہی مٹ جائیں.آج ایک جنازہ پڑھاؤں گا.جھنگ میں ہمارے ایک مخلص دوست غلام مصطفیٰ صاحب رہتے تھے جو بہت مخلص اور سلسلہ کے لئے محنت سے کام کرنے والے تھے.میں سمجھتا ہوں کہ وہ اپنے علاقے میں ایسے شخص تھے کہ ان کا جنازہ پڑھایا جائے.الفضل ۱۶ اکتوبر ۱۹۲۳ء)
37 37 220 اذان سے سبق (فرموده ۱۳ اکتوبر ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.دنیا میں جتنے کام قوموں سے تعلق رکھتے ہیں ان کو قومیں ہی کر سکتی ہیں.ایک آدمی ان کاموں کو پورا نہیں کر سکتا.ایک آدمی ایک ہی آدمی کا بوجھ اٹھا سکتا ہے.دنیا میں کوئی آدمی دو آدمیوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا.شائد کوئی شخص غلطی سے یہ کہدے کہ ایک آدمی کیوں نہیں دو آدمیوں کا بوجھ اٹھا سکتا.ہم تو دیکھتے ہیں کہ ایک طاقتور انسان ہوتا ہے وہ دو آدمیوں کا بوجھ اٹھا لیتا ہے.ہم کہتے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا میں بعض طاقتور ہوتے ہیں اور بعض کمزور ہوتے ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ خاص کمزوری اور طاقت پر مدار اور معیار نہیں رکھا جاتا بلکہ اصل معیار عام انسانی طاقت ہے.جب کبھی کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے تو حقیقی معیار کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے اور حقیقی معیار کے مطابق جو آدمی بھی کسی کام کے لئے مقرر ہوگا اس کے لئے اسی کی طاقت کے مطابق ہی کام مقرر ہو گا.جب ایک طاقتور آدمی کسی کام کے لئے مقرر کیا جاتا ہے تو اسے اپنی طاقت کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے.پھر کیا کوئی ایسا انسان ہے جو اپنی طاقت سے دگنا کام کر سکے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک آدمی دس سیر بوجھ اٹھا سکتا ہے اور دوسرا ایک من لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ چار آدمیوں کا بوجھ اٹھا لیتا ہے بلکہ وہ ایک ہی آدمی کا بوجھ اٹھاتا ہے کیونکہ اس کی اتنی ہی طاقت ہے.مگر یہ دو من بوجھ نہیں اٹھا سکے گا.تو کوئی آدمی نہیں ایسا مل سکتا جو دو آدمیوں کا کام کرے.اسی طرح قومی کام بھی کوئی ایک شخص نہیں کر سکتا بلکہ وہ کام بھی قومیں ہی کیا کرتی ہیں.میں نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ جماعت کا یہ خیال کر لینا کہ فلاں کام خلیفہ ہی کرے گا.یہ بہت بڑی غلطی ہے.خلیفہ صرف منتظم ہوتا ہے جو جماعت کے انتظام کو قائم رکھتا ہے لیکن وہ کتنا ہی محنت سے کام کرنے والا ہو.کتنا ہی سوز و گداز رکھتا ہو اور کتنی ہی خواہش کرنے والا ہو.تمام کاموں کے کرنے کے لئے پھر بھی وہ ایک ہی آدمی کا کام کر سکتا ہے.جب تک اس کے ساتھ کے
221 لوگ سارے کے سارے کام کے لئے جمع نہ ہوں اور تن دہی سے کام نہ کریں.اس وقت تک وہ قوم اپنے اغراض و مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی.جس طرح یہ ممکن نہیں کہ تم میں سے ایک آدمی دو آدمیوں کا کام کر سکے.اسی طرح صرف مولویوں اور خاص مبلغین پر یہ امید رکھنی کہ وہی اسلام پھیلائیں گے اور دنیا کو مسلمان کریں گے.یہ درست نہیں.ہماری جماعت کے سب کے سب لوگ اگر تبلیغ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں تو بھی ان کی تعداد اس قدر نہیں کہ ساری دنیا کو تبلیغ پہنچا سکیں چہ جائے کہ چند آدمیوں پر اس کام کا انحصار رکھا جائے.بیشک دنیا کے کناروں تک احمدیت کا نام پہنچ گیا ہے لیکن اکثر مقامات پر مخالفین کے ذریعہ پہنچا ہے جنہوں نے احمدیت کو بگاڑ کر پیش کیا ہے.اور دنیا میں کوئی آدمی حق کو نہیں قبول کو سکتا جب تک اسی صورت میں حق کو نہ پیش کیا جائے کہ جس صورت میں لوگ حق کو قبول کر سکتے ہیں.ایک جنگل میں بیٹھا ہوا شخص باوجود شدید پیاس کے پانی نہیں پی سکتا.اور اسی طرح وہ پانی جس میں زہر ملا ہوا ہو.اس کو بھی نہیں پی سکتا کیونکہ وہ زندگی چاہتا ہے اور اس پانی کے پینے پر وہ زندہ نہیں رہ سکتا.پس ہدایت اسی طرح پھیل سکتی ہے کہ لوگوں تک پہنچائی جائے اور اسی صورت میں کہ جس میں لوگ اس کو قبول کر سکتے ہیں.اب دیکھ لو کہ ہمارے پاس جو مولوی ہیں کیا وہ دنیا کے ہر فرد کے پاس پہنچ سکتے ہیں پندرہ نہیں مبلغ تو پندرہ میں ہزار تک بھی ہدایت نہیں پہنچا سکتے.اگر یہ کہو کہ.ساری دنیا سلسلہ کے نام سے واقف ہے.میں کہتا ہوں کہ کیا پیاسے کو صرف پانی کا پتہ ہونا پیاس سے بچا سکتا ہے.یا وہ پانی اس صورت میں پی سکتا ہے جب کہ اسے یہ کہا جاتا ہو یا اس کو شبہ ہو کہ اس پانی میں زہر ملا ہوا ہے.لوگوں کے سامنے پانی تو رکھا گیا ہے لیکن ایسی صورت میں وہ پیش کیا گیا ہے کہ ان میں سے بیشتر حصہ کو وہ دشمنوں کے ہاتھوں سے پہنچا ہے.دشمن کہتے ہیں کہ یہ شخص جس نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا جھوٹا ہے.مفتری ہے.اس کی جماعت کے لوگ نہ روزہ رکھتے ہیں نہ نماز پڑھتے ہیں نہ حج کرتے نہ زکوۃ دیتے ہیں.ان کا کوئی اور ہی مذہب ہے.اب ایسی صورت میں وہ کب ہدایت کو قبول کر سکتے ہیں.پس یہ بھی غلط ہے کہ تمام دنیا میں چند مولوی سلسلہ کو پہنچا سکتے ہیں اور یہ بھی غلط ہے کہ مخالف لوگ صحیح طریق پر احمدیت پہنچا رہے ہیں.اگر کوئی شخص کہے کہ ہم سارے مل کر بھی تو ساری دنیا تک ہدایت نہیں پہنچا سکتے تو ہم کہتے ہیں کہ کم از کم ہم خدا کے حضور تو سر مجرد ہونے کے لئے کہہ سکتے ہیں کہ جہاں تک ہم پہنچا سکتے تھے.وہاں تک ہم نے اپنی طرف سے ہدایت کو پہنچا دیا.پھر جب ساری کی ساری جماعت حق کو پہنچائے گی اور اس صورت میں پہنچائے گی کہ جس صورت میں دنیا حق کو مان سکتی ہے تو اگلے سال اور جماعت ہمارے ساتھ شامل ہوگی.پھر اس سے اگلے سال اور پھر اور یہاں تک کہ دنیا کا کثیر حصہ حق کی طرف آجائے گا.
-222 پس اگر کوئی کامیابی کی امید ہو سکتی ہے تو اسی طرح کہ جماعت کے تمام افراد اپنے فرض کو سمجھیں.میں اذان سے تھوڑی دیر ہی پہلے جب رقعے لے رہا تھا اور ان کو پڑھ رہا تھا تو پڑھنے کے بعد حتى على الفلاح کی آواز میرے کان میں آئی جس سے میرے دل میں خاص کیفیت پیدا ہوئی.میں نے سمجھا موذن مسلمانوں کی طرف سے نمائندہ ہو کر کھڑا ہوتا ہے.وہ اکیلا ہوتا ہے اور آواز دیتا ہے کہ سب کے سب فلاح اور ہدایت کی طرف آجاؤ.اب کیا وہ اپنی طرف سے یہ کہہ رہا ہوتا ہے بہرگز نہیں کیونکہ بعض اوقات وہ چھوٹا بچہ ہوتا ہے.کبھی نابینا ہوتا ہے کبھی جاہل ہوتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ وہ خود نہیں بول رہا ہو تا بلکہ وہ تمام عالم اسلام کی طرف سے بول رہا ہوتا ہے.اس کے پیچھے تمام مسلمان دنیا کا زور ہوتا ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا وہ مسلمان جن کی طرف سے کھڑا ہو کر موزن دنیا کو بلاتا ہے.اپنے قول اور اپنے عمل سے اس کی سچائی کو پورا کرتے ہیں.اور اس کے بلانے میں اس کے مددگار بنتے ہیں.جب پانچ وقت آدمی کھڑا ہوتا ہے اور ہمارے نام پر ہماری طرف سے کھڑا ہو کر عیسائیوں، ہندوؤں، سکھوں غرضیکہ ہر مذہب کے آدمیوں کو کہتا ہے کہ آؤ ہم راستہ دکھا ئیں تو کتنے مسلمان ہیں جو اس بات کو پورا کرنے اور اس کو سچا ثابت کرنے کے لئے کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنی طرف سے کہنے کی طاقت نہیں رکھتا بلکہ سب کی طرف سے کہتا ہے.دیکھو کیا شادیوں اور بیاہوں کے موقع پر گھر والا چپ بیٹھا رہتا ہے کہ آپ ہی لوگ آجائیں گے اور خود بخود ہی دعوت کا سامان تیار ہو جائے گا.نہیں بلکہ وہ اپنے دوستوں اپنے رشتہ داروں کو بلا کر کہتا ہے کہ آؤ میری مدد کرو اور یہ علامت ہوتی ہے اس بات کی کہ اس نے بچے طور پر دعوت کی ہے.لیکن اگر کوئی لوگوں کو دعوت کے لئے بلا کر خاموش بیٹھا رہے اور کوئی سامان نہ کرے تو کیا لوگ سمجھیں گے کہ اس نے واقعی ہماری دعوت کی ہے یا اسے جھوٹا خیال کریں گے.اسی طرح جب ایک شخص ہماری طرف سے دنیا کو بلاتا ہے کہ آؤ حق کی طرف اور ہدایت کو قبول کرو.لیکن ہمارے دلوں میں اس آواز پر نہ کوئی جوش پیدا ہوتا ہے نہ کوئی تغیر پیدا ہوتا ہے تو کیا وہ لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ جھوٹے ہیں.صرف رسم کے طور پر یہ کام کرتے ہیں جب اس روحانی مائدہ کے لئے کہ جس کی طرف لوگوں کو بلایا جاتا ہے ہم کچھ سامان نہیں کرتے اور کوئی تیاری نہیں کرتے تو لوگ ہمیں جھوٹا ہی سمجھیں گے.لیکن اگر پانچ وقت کی دعوت کے ساتھ ہی ہمارے اندر ایک جوش پیدا ہو اور ہمارے حالات میں ایک تغیر واقع ہو اور ایک نئی روح پیدا ہو جائے اور ہماری طرف سے اذان کے ساتھ ہی سامان بھی شروع ہوں.تو سوائے اشد ترین مخالف لوگوں کے باقی تمام ہماری طرف آجائیں گے کیونکہ کھانے میں ملے ہوئے زہر کو تو پہچانا مشکل ہوتا ہے.مثلاً دودھ میں زہر ملا
-223 ہوا ہو تو اس کو نہیں پہچان سکتے سوائے اس کے کہ ڈاکٹر دودھ کو پھاڑ کر دکھلا دے.لیکن دین میں زہر کا پہچاننا خدا تعالیٰ نے آسان رکھا ہے.ہر آدمی اسے اپنی عقل سے پہچان سکتا ہے.دین کی شناخت کے لئے ہر آدمی کے دماغ میں خدا تعالٰی نے کیمیکل اگزا مینر کا دفتر بنایا ہوا ہے.پس دین کے متعلق جو شبہ پیدا ہوتا ہے اس کے فیصلہ کرنے کے لئے لوگوں کے دماغوں کے اندر ہی مشین رکھی ہوئی ہے.ہم اگر صرف یہ ثابت کر دیں کہ ہم نے بچے طور پر دعوت کی ہے اور ہر شخص جو مسجد میں آتا ہے اس کے اندر ایک روح پیدا ہو جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ فورا لوگوں کی توجہ ہماری طرف پھر جائے.پس یاد رکھو کہ تم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک تم سب کے اپنے فرض کو نہ پہچانو اور بچے طور پر لوگوں کو ہدایت کی طرف نہ بلاؤ.اگر تم موذن کو اکیلا رہنے دو گے تو تمہیں کبھی کامیابی نہیں حاصل ہوگی.پس موذن کو اکیلا مت چھوڑو.موذن کی کیا حیثیت ہوتی ہے کہ وہ اکیلا اپنی طرف سے دعوت دے.وہ تو خود بعض دفعہ روحانی غذا سے سیر نہیں ہوتا اور بعض دفعہ وہ ایک نوکر کی طرح ہوتا ہے.اس لئے جماعت کے ہر فرد کا فرض ہے کہ جب دعوت کے لئے اس نے اذان دلائی ہے تو اس کے لئے پورے طور پر تیاری بھی کرے اور سامان مہیا کرے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کی توفیق دے کہ وہ اپنے فرض کو سمجھے اور یہ روح اور گندی روح ہمارے اندر سے دور ہو کر ہم میں سے ہر شخص ہدایت کے پہنچانے کے لئے تیار ہو جائے تاکہ وہ صداقت ہمارے ذریعہ سے دنیا میں پھیل جائے کہ جس کے بغیر دنیا میں کوئی چین نہیں اور کوئی امن نہیں.الفضل ۱۹ اکتوبر ۱۹۲۳ء)...
i 224 38 اقوام عالم کیلئے صلح کے شہزادے بنو (فرموده ۲۶ / اکتوبر ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.صوفیاء کہتے ہیں کہ انسان عالم صغیر ہے.یعنی دنیا میں جو کچھ نظر آتا ہے اللہ تعالی نے ان تمام چیزوں کا نقشہ انسان کی ذات میں جاری کیا ہے.دنیا میں جس قدر کاروبار ہو رہے ہیں وہ سب کسی نہ کسی رنگ میں انسان کی ذات میں نظر آرہے ہیں.چاند سورج، ستارے اور دیگر کرے یہ عالم کبیر کہلاتے ہیں.یعنی حجم کے لحاظ سے انسان سے بڑے ہیں.مگر یہ تمام چیزیں چھوٹے پیمانے پر انسان میں پائی جاتی ہیں گویا انسان تمام کائنات کا فوٹو ہے.اسی کے اندر سورج ہے جو اپنے فیض سے اور اپنی شعاعوں سے منور کرتا ہے.اس میں چاند ہے جو سورج سے روشنی لیکر نور تقسیم کرتا ہے.پھر انسان میں زمین کی قوت بھی پائی جاتی ہے.اس زمین پر آرام کیا جاتا ہے.اس سے وہ چیزیں نکلتی ہیں جو راحت اور زندگی کا موجب ہیں.اس سے ایسے درخت پیدا ہوتے ہیں جو پھیلتے ہیں اور ان کے سائے میں آرام حاصل ہوتا ہے.بعض ایسی بیلیں پیدا ہوتی ہیں جو لیٹی رہتی ہیں.اس میں چشمے نکلتے ہیں جن سے دنیا سیراب ہوتی ہے.پھر انسان میں علوم کے پہاڑ بھی بلند ہوتے ہیں.غرض عالم کبیر کا کوئی نقشہ نہیں جو اس میں نہ ہو.صوفیاء کی یہ بات بہت لطیف ہے اور جو ان کی غرض کو سمجھے وہ اس سے لذت حاصل کر سکتا ہے.مگر میں کہتا ہوں کہ جس طرح انسان عالم صغیر ہے اسی طرح کسی جماعت کی درستی کرنے کے لئے جو انبیاء آتے ہیں وہ آئندہ امت کے لئے عالم صغیر ہوتے ہیں جو اس نبی میں ہوتا ہے وہ آئندہ امت ظاہر میں ہوتا ہے.یہاں یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ جب نبی عالم صغیر ہوتا ہے تو گویا اس کا کم درجہ ہوا کیونکہ یہاں جب صغیر کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو وہ حجم کے لحاظ سے ہوتا ہے.ورنہ حقیقت کے لحاظ سے یہ بات نہیں.حقیقت تو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتا ہے لولاک لما خلقت الافلاک اور نی کریم کی شان کی تو کیا بات ہے.آپ کے غلاموں میں سے بھی مسیح موعود کو انہی الفاظ میں مخاطب
225 کیا گیا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود کو یہی الہام ہوا.پس کبیر اور صغیر حجم کے لحاظ سے ہے.ورنہ وہ سب کچھ نبی میں ہوتا ہے.جو امت میں پایا جاتا ہے.پس انبیاء عالم صغیر ہیں اور وہ اپنی امت کے لئے آئینہ کی طرح ہوتے ہیں.نبیوں کے مدارج آئندہ ان کی امت میں پائے جاتے ہیں اور انہی میں ان کا ظہور ہوتا ہے اور جو اس نبی سے تعلق قطع کر لیتے ہیں وہ ان مراتب اور مدارج سے محروم ہو جاتے ہیں.پس ہر ایک امت جو قائم کی جاتی ہے یا جو کسی مامور کے ذریعہ اصلاح حاصل کرتی ہے اس کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو سوچے کہ ہمارے نبی یا مامور کے کیا نام رکھے گئے ہیں کیونکہ وہ نام ہمارے اندر وسیع طور پر ظہور کریں گے.نبی میں وہ بیج کی طرح ہوتا ہے مگر ہم میں درخت کی طرح ہوگا یہاں بھی یہ نکتہ ملحوظ رکھنا چاہئے کہ بیج میں بھی جو قوت نامیہ ہوتی ہے وہ درخت میں نہیں ہوتی.اس لئے یہ نہیں کہہ سکتے کہ بیچ درخت کے مقابلہ میں ادنی ہے.اصل بیج ہی ہوتا ہے اور وہ پھیل کر درخت کی شکل اختیار کر لیتا ہے.اسی طرح دیکھو دریا کا پاٹ جہاں زیادہ چوڑا ہوتا ہے وہاں بہاؤ کمزور ہوتا ہے.اور جہاں تنگ ہوتا ہے وہاں زور کا ہوتا ہے.وجہ یہ کہ چوڑی جگہ میں پانی پھیلا ہوا ہوتا ہے اور تنگ جگہ اکٹھا ہوتا ہے اور طاقت زیادہ جمع ہوتی ہے.اسی طرح نام یا صفت جس سے کوئی مامور اور نبی مخاطب کیا جاتا ہے.جب نبی کی ذات میں ہوتی ہے تو پوری قوت سے ہوتی ہے.گو پیمانے کے لحاظ سے مختصر ہو مگر قوت میں زیادہ ہوتی ہے.اور امت میں چونکہ وہ صفت پھیل جاتی ہیں.اس لئے اس میں زیادہ وسعت ہو کر مقابلہ کمزوری پیدا ہو جاتی ہے.تم کو یہ غور کرنا چاہئیے کہ جس نام سے اس نبی کو مخاطب کیا گیا جس نے تمہاری اصلاح کی ہے.اس سے خدا تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ تم وہ صفات اپنے اندر پیدا کرو.جو اس نام میں پائی جاتی ہیں.میں نے جو یہ کہا ہے کہ خدا کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ نبی کی امت کے لوگ اس کی صفات کے مظہر بنیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نبی کی مختلف صفات کا مظہر مختلف لوگوں کو بناتا ہے.اور ان میں وہ صفات مختلف رنگوں میں ظاہر ہوتے ہیں کسی حصہ امت کو کسی صفت کا مظہر بنا تا ہے اور کسی کو کسی حصہ کا.یوں تو خدا یہی چاہتا ہے کہ سب ان صفات کے مظہر بن جائیں.نہیں جو وعدے کسی مامور سے ہوتے ہیں وہ کچھ کسی حصہ میں پورے ہو جاتے ہیں اور کچھ دوسرے حصہ میں.اور ایک جماعت ان وعدوں کی مظہر ہو جاتی ہیں گو خدا تو چاہتا ہے کہ سب مظہر بن جائیں مگر سب نہیں ہوتے.ہاں اسی نبی کی جماعت کا کوئی نہ کوئی حصہ ان وعدوں کا مظہر اور حامل ضرور ہوتا ہے اگر نہ ہو تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ خدا نے عبث طور پر اس کا وہ نام رکھ دیا.جس کا مصداق کوئی نہیں ہونا تھا.مگر جو نام خدا تعالیٰ کسی نبی کے رکھتا ہے ان کے مظہر ضرور بناتا ہے.اور ہر ایک نبی کی جماعت کا فرض ہے کہ اس بات پر غور کرے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
226 کے خدا تعالٰی نے بہت سے نام رکھے ہیں.مگر اب جبکہ مسلمان بگڑ گئے اور خدا تعالی ان سے ناراض ہو گیا تو ان کی اصلاح کے لئے اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک مظہر اتم کو آپ کے سب نام دئے اور ان کی وہ تشریح دی جو اب خدا تعالیٰ پھیلانا چاہتا ہے.پس ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ ان ناموں پر غور کرے اور ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کی کوشش کرے.حضرت مسیح موعود کو جو نام دئے گئے ہیں ان میں سے ایک نام صلح کا شہزادہ بھی ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس میں وہ بیچ مخفی ہے جس کا مظہر جماعت نے بنتا ہے اور جب حضرت مسیح موعود کو صلح کا شہزادہ قرار دیا گیا ہے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ آپ میں وہ پیج رکھا گیا جو آپ کی جماعت میں ظاہر ہوگا.اور آپ کی جماعت دنیا کے کسی فساد عظیم کے وقت صلح کرائے گی.بیج کے طور پر یہ بات حضرت مسیح موعود میں ہی پائی جاتی تھی مگر درخت کے طور پر آپ کی جماعت میں ظاہر ہوگی.یہاں کسی کو یہ غلطی نہ لگے کہ ہمارا نام تو نہیں لیا گیا کہ ہمارے ذریعہ کام ہو گا اس لئے ہم کیوں اس فکر میں پڑیں یہ بات ہمیں اصل کام سے بے پروا نہیں کر سکتی کیونکہ اگر یہ نہیں بتایا گیا کہ تمہارے ذریعہ یہ کام ہو گا تو ہمیں یہ بھی تو نہیں بتایا گیا کہ تمہارے ذریعہ یہ کام نہیں ہو گا.کہتے ہیں کوئی میراثی تھا اور کچھ کام نہیں کیا کرتا تھا.ایسا ہوا کہ ملک میں کوئی بڑی لڑائی شروع ہو گئی جس میں ہر قسم کے لوگ بھرتی کئے جاتے تھے جیسا کہ گزشتہ جنگ کے وقت ہوتا تھا اس کی بیوی نے اسے کہا کہ تم بھی فوج میں بھرتی ہو جاؤ اس نے جواب دیا کہ یہ مجھے مت کہو.کیا تم یہ چاہتی ہو کہ میں مرجاؤں.اس کی بیوی نے کچھ دانے لئے اور پینے لگی جب میں چکی تو اس کو دکھایا کہ دیکھو باوجود چپکی کے دونوں پائوں میں سے گذرنے کے کچھ دانے ایسے ہیں جو نہیں پے اور جب چکی میں سے کچھ دانے سلامت نکل سکتے ہیں تو لڑائی تو ایسی نہیں ہوتی کہ جس میں سب ہی مر جائیں.اس میں باقی رہنے والوں کی مرنے والوں سے زیادہ تعداد ہوتی ہے.پس تم بھرتی ہو جاؤ.میراثی نے کہا کہ تو مجھے انہیں میں سے کیوں نہیں سمجھ لیتی جو لڑائی میں مرجاتے ہیں اور وہ دانہ کیوں نہیں قرار دیتی جو پس جاتا ہے.تو جن لوگوں نے کام نہیں کرنا ہوتا وہ صاف اور سیدھی بات میں بھی حجت پیدا کر لیا کرتے ہیں اگر تم کام کرنا چاہو تو سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا کہ ممکن ہے اس خطاب کے مستحق ہم نہ ہوں.کیونکہ اگر یہ نہیں معلوم تو یہ بھی تو نہیں معلوم کہ ممکن ہے تم ہی اس کے مستحق ہو اور ممکن ہے کہ یہ مقام تمہارے ہی مقدر میں ہو.پس یاد رکھو کہ تمہیں اس غرض سے بنایا گیا ہے کہ تم دنیا میں امن پیدا کرو.اس وقت ہم دنیا میں ہر طرف لڑائی دیکھتے ہیں اور فساد برپا پاتے ہیں.ممکن ہے کہ اس لڑائی میں صلح کا انعام اور اس فساد کے فرد کرنے کی عزت ہماری اس نسل کو ملے یا ہماری آئندہ نسل کو مگر یہ ضرور ہے کہ ملے گی مسیح موعود ہی کی جماعت کو.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ
227 ہماری جماعت کے لوگ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے اس الہام کو مد نظر رکھتے ہوئے اس حقیقت اور اس نکتہ پر غور کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت میں افراد کو جمع کیا گیا اور آپ نے ان کے سامنے صلح پر زور دیا اور اس طرح صلح کرانے کی بنیاد رکھی.اب اس جماعت کا جسے اس مامور کے ہاتھ پر جمع کیا گیا ہے یہ کام ہے کہ اقوام میں صلح کرائے.اور ممکن ہے یہ کام تمہاری اس موجودہ نسل سے ہی لیا جائے.پس میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ آپس میں نہ لڑو.میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ ایک بھائی دوسرے بھائی کے خلاف زبان درازی نہ کرے.میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ بڑے چھوٹوں پر شفقت کریں اور چھوٹے بڑوں کا ادب کریں.میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ خاوند بیوی سے اور بیوی خاوند سے نہ لڑے.میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ بھائی بہن سے اور بہن بھائی سے نہ لڑے.اور میں تمہیں یہ بھی نہیں کہتا کہ اپنے بچوں سے پیار اور شفقت کا سلوک کرو.بلکہ میں تمہیں وہ کہتا ہوں جس کا حضرت مسیح ناصری نے ارادہ ظاہر کیا تھا کہ تم اپنے دشمنوں کے لئے مہربان اور دنیا کے لئے امن قائم کرنے والے بنو.مگر اس پر عمل نہ کرا سکے.اور ان کی جماعت اس کی مصداق نہ بنی.حضرت مسیح ناصری نے خیال کیا تھا کہ شاید وہی ”امن کا شہزادہ" کے خطاب کے مخاطب اور اس بشارت کے مستحق ہیں.اس لئے انہوں نے اپنے ماننے والوں کو یہ کہا مگر ان کی قوم تو جنگ کی بانی ہوئی.در حقیقت یہ ان کے لئے بشارت نہ تھی بلکہ ان کے عظیم الشان مثیل کے لئے تھی جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی مظہر تھا.پس خدا نے مسیح موعود کی جماعت کے لئے چاہا کہ وہ دشمنوں میں صلح کا موجب ہو خواہ دشمنوں کی کتنی ہی زیادہ اور اس جماعت کی کتنی ہی قلیل تعداد ہو.یہ زمانہ اپنے فسادات کی کثرت کے لحاظ سے پہلے زمانوں سے بڑھا ہوا ہے.قوم پر قوم نے چڑھائی کی ہوئی ہے ملک پر ملک چڑھائی کر رہا ہے.ہر ایک مذہب والا چاہتا ہے کہ دوسرے مذہب والے کو فنا کر دے.اگر ہر ایک مذہب والے کی یہ خواہش ہوتی کہ چونکہ اس کے پاس صداقت ہے اور دوسروں کے پاس نہیں اس لئے صرف وہ قائم رہے دوسرے مٹ جائیں تو یہ خواہش بری نہ تھی بلکہ قدر کے لائق تھی مگر جن مذاہب میں ذاتی زندگی کے آثار نہیں.جن میں کوئی خوبی نہیں.جن میں صداقت نہیں وہ چونکہ چاہتے ہیں کہ سلامت رہیں اور دوسرے مٹ جائیں تو اس حال میں ان کی یہ خواہش قدر کے لائق نہیں بلکہ نفرت کے لائق ہے.کیونکہ تو میں ضد سے چاہتی ہیں کہ اپنے سے غیر کو فنا کر دیں.نہ اس لئے کہ ان کے پاس صداقت ہے اس لئے وہ غیر کو فنا کر کے اس صداقت پر قائم کرنا چاہتی ہیں.اگر ہندو سمجھتے کہ ان کے مذہب میں چونکہ صداقت اور خوبی ہے اس لئے اس سے دنیا حصہ لے اور اپنے مذاہب کو جو صداقت سے خالی ہیں چھوڑ دے تو میں ان کے اس خیال کی قدر کرتا خواہ
228 اس خیال کو صحیح نہ تسلیم کرتا.لیکن میں جانتا ہوں ان کا یہ خیال ہرگز نہیں ہے اگر ان کا خیال یہ ہوتا تو سارے ہندوستان کی پڑھی لکھی قوموں کو چھوڑ کر جاہل اور ان پڑھ لوگوں کے پیچھے کیوں دوڑے پھرتے.پھر ہندو قوم کی عملی حالت سخت ابتر ہے.وہ ہندو لیکچرار جو سٹیج پر کھڑے ہو کر ویدک دھرم کی تعریف اور ستائش میں زور دار لیکچر دیتے ہیں اور ایم.اے اور بی.اے ہیں تجارت اور ملازمت اور دیگر کاروبار میں تو سرگرم اور محو ہیں مگردید سے سراسر غافل ہیں.ان کو نہیں معلوم ویدوں میں کیا ہے اور عملی زندگی کے متعلق دید کیا تعلیم دیتے ہیں.دنیا میں فائدہ پہنچانے والے علوم میں وہ اپنی عمریں صرف کرتے ہیں.ان کے لئے بڑی بڑی محنتیں کرتے ہیں مگروید کی شکل تک سے واقف نہیں ہوتے.وید کا اگر ذکر ہوتا ہے تو سٹیج پر.اور باقی تمام زندگی کے شعبوں میں ویدوں کی تعلیمات کا خیال تک نہیں کیا جاتا.اگر وہ فی الواقع ویدوں کو روحانیت کا سرچشمہ سمجھتے ، ساری خوبیوں اور صداقتوں کا حال یقین کرتے تو کیوں اس کے پڑھنے پڑھانے کی کوشش نہ کرتے مگر وہ ایسا نہیں کرتے.اس حال میں ان کو کوئی نیک نیت کس طرح خیال کر سکتا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ ان کی جنگ ویڈوں کے لئے نہیں.وید کیا ہیں قومی لڑائی شروع کرئے کا آلہ ہیں جن کا نام لیکر ہندو قوم کے ناواقفوں اور بے خبروں میں ایک جوش اور ہیجان پیدا کیا جاتا ہے.وید قومی لڑائی برپا کرنے کی رسی ہیں جن سے ایک قوم باندھی جاتی ہے اور لڑائی شروع کی جاتی ہے.اس سے دید مقصود نہیں بلکہ ہندو قوم کو ایک سیاسی نقطہ پر جمع کرنا مقصود ہے.اسی طرح اگر عیسائی انجیل کو سمجھتے کہ وہ حق و حکمت کا سرچشمہ ہے اور دنیا کے لئے باعث نجات و فلاح ہے اور اس لئے دنیا کو انجیل کی طرف بلاتے تو میں ان کے اس جذبہ کو قدر کی نظر سے دیکھتا اور ان کو تحسین کرتا.گو میں جانتا کہ یہ ان کی کوشش غلط ضرور ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ عیسائیوں میں دہریہ بھی شامل ہیں جو انجیل پر ہنسی اڑاتے اور تمسخر کرتے ہیں اور جو انجیل کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ نہ انجیل کی تعلیم پر عمل کرتے نہ عمل کرنا چاہتے اور نہ عمل کر سکتے ہیں.اگر ان میں جوش ہے تو اس لئے کہ یہ جھنڈا عیسائیت کا ہے.وہ انجیل کو عمل میں ناقابل عمل سمجھتے ہیں لیکن ان کی خواہش یہ ہے کہ وہ ایک جھنڈے کے نیچے رہیں اور لوگ چونکہ کسی اور طرح جمع نہیں ہو سکتے اس لئے وہ انجیل کا نام لیتے ہیں.اسی طرح دوسری قوموں کے مبلغ اگر اس اصول کے ماتحت کام کریں کہ خدا کی محبت دنیا میں پھیل جائے تو قابل قدر بات ہے.مگر غور کر کے دیکھو تو یہ جذبہ ان میں مفقود ہے.سکھ مبلغ بھی دنیا میں تبلیغ کے لئے نکلے ہیں لیکن جب ہم گرونانک کے اعمال پر غور کرتے ہیں اور پھر سکھوں کے طریق عمل کو دیکھتے ہیں تو دونوں میں فرق عظیم نظر آتا ہے.گرونانک صاحب کے اعمال پر غور کیا
229 جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے حج بھی کیا.روزے بھی رکھے.نماز بھی پڑھتے تھے.اور خدا تک پہنچنے کا صحیح راستہ اسلامی طریق عبادت ہی کو سمجھتے تھے.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے تھے.اور اس پر عمل کرنے کو کامیابی کا ذریعہ یقین کرتے تھے مگر کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ جو لوگ سکھ مذہب کی طرف دنیا کو دعوت دیتے ہیں وہ خود اپنے بانی کے اعمال سے اتنے دور اور بیگانہ ہیں.پس اس وقت صرف ایک ہی جماعت ہے جو محض دین اور صرف دین کے لئے سرگرم عمل ہے.باقی جس قدر جماعتیں ہیں وہ سب کی سب سیاست کے لئے ساعی اور کوشاں ہیں.اور وہ جماعت مسیح موعود کی جماعت ہے.اس نکتہ کو ملحوظ رکھ کر غور کیا جائے تو سوائے ہماری جماعت کے مذہبی جماعت اور مذہب کے لئے کام کرنے والی جماعت اور کوئی نظر نہیں آتی.اگر مقابلہ میں لاکر باقی مسلمانوں کو بھی دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ عمل کے لحاظ سے وہ بھی پیچھے ہیں.ان کا شور اور جوش و خروش مذہب کے لئے نہ تھا.خلافت کے لے لیکچر ہوتے تھے مگر عمل نہیں ہوتا تھا.بیسیوں خلافت کے عہدہ دار تھے جو مذہب مذہب پکارتے تھے مگر قرآن کریم پڑھنے تک کی ان کو فرصت نہیں ہوتی تھی.ہندوستان کے سوشل لیڈر سرسید احمد خان صاحب کے متعلق آتا ہے کہ ان سے پوچھا گیا آپ نماز کیوں نہیں پڑھتے تو جواب ملا کہ قومی کاموں سے مجھے فرصت نہیں ہے.پس مذہبی دنیا میں اگر مذہب کا مرکز اور مذہب کے لئے جان توڑ کوشش کرنے والی اور مذہب کے لئے تکالیف برداشت کرنے والی کوئی جماعت ہے تو وہ صرف ہماری ہی جماعت ہے اگر مذہبی دنیا میں.کوئی تغیر ہو سکتا ہے اور صلح عظیم کسی جماعت کے ذریعہ ظہور میں آسکتی ہے تو وہ ہماری ہی جماعت ہے کیونکہ باقی جس قدر جماعتیں ہیں وہ صلح کے سرچشمہ سے جو خدا تعالیٰ ہے دور ہیں.وہ فرزند کیسے جمع ہو سکتے ہیں جو باپ سے تعلق نہ رکھتے ہوں.ماں باپ کا ہی تعلق ہے جو بیٹوں کو جمع کر سکتا ہے.دیکھو جب حضرت موسی "بارون" سے خفا ہوئے اور ان کی داڑھی پر ہاتھ ڈالا تو ہارون نے کیا کہا.یہی کہ اے میری ماں کے بیٹے میری داڑھی نہ پکڑ.اگر جڑ کو نہ پکڑا جائے تو شاخ کیسے ہاتھ آئے.پس جنہوں نے روحانی باپ خدا کو چھوڑ دیا.وہ کیسے صلح دنیا میں پھیلا سکتے ہیں.دنیا میں محبت خدا ہی کے رشتہ سے ہو سکتی ہے.جب خدا کو درمیان سے ہٹا لیا جائے تو محبت پیدا کرنے کا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہ جاتا.اسی تعلق کو پیدا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے مسیح موعود کو مبعوث کیا اور اس کو صلح کے شہزادے کا خطاب دیا.مسیح موعود میں یہ بات بیج کے طور پر تھی جو اب تم میں پھیلے گی اور تمہارے ہی ذریعہ صلح پھیل سکتی تھی.تمہیں اس کے مطابق اپنی زندگی بنانا چاہیے.اگر تم ابھی سے اس کے لئے تیاری نہ کرو گے.تو جب کام کرنے کی ضرورت پیش آئے گی تم نا قابل ثابت ہوگے.اور کچھ
230 نہ کر سکو گے.اور اگر آج سے مشق کرو گے تو وقت پر کام کر سکو گے.پس جب تم اس نکتہ کے ماتحت غور کرو گے تمہاری امنگیں بدل جائیں گی.خیالات بدل جائیں گے.علوم بدل جائیں گے.چاہیے کہ تم کوشش کرو کہ تم اس نام کے مظہر بنو.جس کا مسیح موعود سے وعدہ کیا گیا ہے.پس میری ی نصیحت ہے کہ تم ایک مقصد کے لئے پیدا کئے گئے ہو جو یہ ہے کہ تم دنیا کے فساد کو دور کرو اور دنیا میں صلح کراؤ تاکہ دنیا کو پتہ لگ جائے کہ مسیح موعود محض بھائی کو بھائی بنانے نہیں بلکہ دشمن کو بھائی بنانے آیا تھا.(الفضل ۶ / نومبر ۱۹۲۳ء)...
231 39 میدان شدھی میں کام کرنے والوں کی ضرورت (فرموده ۲ نومبر ۱۹۲۳ء) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.میرے پچھلے خطبوں میں اس بات کے متعلق زور دیا گیا ہے کہ ہمارا کام دنیا کی اصلاح ہے اور اس کام کے لئے تمام دنیا پر نظر ڈالیں تو صرف ہماری جماعت ہی ایسی نظر آتی ہے جو اس مقصد کو لیکر کھڑی ہوئی ہے کیونکہ ان کوششوں میں سے جو دنیا کے لئے موجب اصلاح ہو سکتی ہیں اور جن کے ذریعہ سے امن قائم ہو سکتا ہے ایک بہت بڑی کوشش اور بہت بڑا ذریعہ تبلیغ اسلام ہے اور یہ ذریعہ ہماری جماعت ہی استعمال کرتی ہے.گو جس پہلو کو میں نے نمایاں طور پر لیا تھا وہ دنیوی حصہ ہے مگر بوجہ ان ایام اور خاص حالات کے جو پچھلے دنوں پیدا ہو گئے تھے وہی پہلو مقدم تھا اور حالات کے لحاظ سے ضروری تھا.یوں تو تبلیغ ہماری جماعت ہمیشہ کرتی ہے اور جب تک وہ اپنے مقام کو سمجھتی رہے گی وہ ہمیشہ تبلیغ اسلام ہی کرتی رہے گی لیکن بعض اوقات خاص قسم اور خاص طور پر تبلیغ کرنی پڑتی ہے.اس زمانہ میں جو تبلیغ کا پہلو اللہ تعالی نے نکالا ہے وہ اپنے اندر خصوصیت رکھتا ہے کیونکہ اس میں ہم کو جنگی طور پر تبلیغ کرنی پڑتی ہے.اس رنگ میں تبلیغ مسلمانوں میں بھی کبھی نہیں ہوئی بلکہ ۱۳۰۰ سال کے اندر اس کی نظیر نہیں پائی جاتی.پہلے زمانہ میں انفرادی طور پر تبلیغ ہوتی تھی اور ایک حصہ ملک کا دوسرے حصہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتا اور نہ ایک کا اثر دوسرے پر پڑتا تھا.امریکہ والوں کا جرمنی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا.جرمنی کا امریکہ پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا.ایک ملک کی فتح دوسرے کی فتح کا موجب نہیں ہوتی تھی اور نہ ایک کا نقصان دوسرے کے نقصان کا باعث ہو تا تھا.اس طرح جن جن علاقوں میں مبلغ ہوتے تھے ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا ہر ایک علیحدہ علیحدہ کام کرتا تھا.وہ ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے تھے اور نہ مل کر کام کرنے کا موقع ملتا تھا.اسی وجہ سے ایک کی کامیابی دوسرے کی کامیابی کا باعث نہیں ہوتی تھی.وہ صرف افراد کا ہی کام تھا اور وہ تبلیغ اپنی ذات میں افراد کے ساتھ تعلق رکھتی تھی.مگر اس زمانہ
232 میں تبلیغ کے لئے نیا دروازہ کھلا ہے اور وہ یہ کہ اب تبلیغ جنگی طور پر کرنی پڑتی ہے جس میں ایک مبلغ کا تعلق دوسرے کے ساتھ ہوتا ہے اور ایک کی کامیابی دوسرے کی کامیابی کا موجب ہوتی ہے.جس طرح جنگ میں فوج چلتی ہے اور ہر شخص کے قدم بڑھانے سے فوج آگے بڑھتی ہے اور ایک ساتھ آگے بڑھتی ہے اسی طرح ہمیں بھی کرنا پڑتا ہے اور جس طرح فوج میں ایک دستہ اگر آگے بڑھ جائے تب بھی خطرہ ہوتا ہے اگر پیچھے رہ جائے تب بھی خطرہ ہوتا ہے اسی طرح یہاں ہے اور اسی لئے سب سے ایک وقت میں برابر کام لیا جاتا ہے.بے شک اس طرح کی تبلیغ میں خطرات بھی زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ اس صورت میں ایک فرد کی بھی سستی سے تمام پر اثر پڑتا ہے اور تمام جماعت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے.لیکن اس میں فوائد بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں.اول تو مل کر کام کرنے سے اطاعت و اتحاد کا مادہ پیدا ہوتا ہے.پھر یہ طریق جو ایک گونج پیدا کر دیتا ہے جس سے عظیم الشان نتائج نکلتے ہیں جو لوٹ لوٹ کر کامیابی کا باعث بنتے ہیں اور ان سے تمام عالم میں ایک گونج پیدا ہو جاتی ہے.اگر دوسرے لوگوں کو اس میدان میں ناکامی حاصل ہوئی ہے تو اس کی یہی وجہ ہے کہ ان میں یہ انتظام نہیں تھا.وہ کسی انتظام کے ماتحت کام نہیں کرتے تھے.ایک مولوی کو اگر ناکامی ہوئی تو دوسروں نے پوچھا بھی نہیں یا ایک کو کامیابی حاصل ہوئی ہے تو اس کا اثر دوسروں پر کوئی نہیں پڑا.اگر وہ ہمارا طریق اختیار کرتے تو ان کو بھی کامیابی حاصل ہوتی.تو اس قسم کی تبلیغ میں بہت بڑے فوائد ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کام میں ایک سرعت پیدا ہو جاتی ہے جو دوسری صورت میں نہیں پیدا ہوتی.ہم میدان ارتداد میں آٹھ ماہ سے کام کر رہے ہیں مگر کام کے دن اب آئے ہیں.وہ لوگ لیے عرصہ کے بعد اب اگر ہماری باتوں کو سننے لگے ہیں.کئی ماہ کام کرنے کے بعد اب انہیں معلوم ہوا ہے کہ ہماری جماعت کوئی آوارہ جماعت نہیں.وہاں کے لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ مولوی لوگ بلاوجہ ہماری مخالفت کرتے ہیں یہ بھی تو مسلمان بلکہ اعلیٰ درجہ کے مسلمان ہیں.اور یہ بھاگنے والے نہیں بلکہ مستقل کام کرنے والے ہیں.پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ اب زور سے کام کرنے کا وقت ہے اگر اب ہم اپنے رنگ میں اپنے کام میں ایسا زور نہ دیں کہ تمام علاقہ کو جوش میں بہالے جائیں تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہمارا پہلا کام بھی تمام کا تمام ضائع ہو جائے گا.جس طرح فوج میں جسموں کا آگے پیچھے ہونا خطر ناک ہوتا ہے اسی طرح تبلیغ میں خیالات کا بھی آگے پیچھے ہونا خطرناک ہے.اگر خیالات میں تفرقہ پڑ جائے تو ایسی ناکامی ہوتی ہے جس کی تلافی کی کوئی صورت ہی نہیں رہتی مثلاً اگر اس وقت ہم پوری کوشش نہ کریں اور پورے زور سے کام نہ لیں تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ پہلا ہمارا تمام کام بگڑ جائے گا.ان لوگوں سے نہ وہ تعلقات رہیں گے نہ وہ
233 محبت رہے گی جو اس عرصہ میں پیدا ہو چکی ہے.وہ ایسی قوم ہے جو اس بات کی عادی ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں سے الگ نہیں ہو سکتی اور ان سے کٹ نہیں سکتی.اب اگر ہم بھی ان کو چھوڑ دیں تو ان کے اندر اس بات کی عادت پڑ جائے گی کہ وہ اپنی برادری سے الگ ہو جائے اور یہ رواگر ان میں پیدا ہو گئی تو اچھے نتیجے نہیں پیدا کرے گی.اس لئے اس وقت ضرورت ہے کہ ہمارے مبلغ پہلے سے بھی زیادہ جائیں.پس قادیان کے لوگوں کو خصوصاً اور باہر کے دوستوں کو عموماً توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو اس موقعہ پر پیش کریں اور کم از کم سو (۱۰۰) آدمی وہاں جانے کیلئے تیار ہو جائے.یہ کام اب ایسی صورت میں آگیا ہے کہ اس کا خاتمہ نظر آنے لگ گیا ہے اگر اس وقت ہم پوری کوشش اور ہمت سے کام لیں تو ہم جلدی کامیاب اور مظفر و منصور ہو سکتے ہیں لیکن اگر اس وقت ہم نے سستی کی تو پہلی کارروائیوں پر پانی پھر جائے گا.دیکھو وہاں ہمارے قریباً ہزار (۱۰۰۰) آدمی جاچکے ہیں اور ہزاروں روپیہ خرچ ہو چکا ہے.یہ تمام کارروائی ہماری تھوڑی سی سستی سے ضائع ہو.جائے گی.حالانکہ کوئی زندہ قوم اپنے کام کو نہیں چھوڑتی بلکہ جس کام کو شروع کرتی ہے اس کو.جاری رکھتی ہے.پس ہر شخص جس کے دل میں اسلام کا درد ہے اس سے میں اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس وقت میدان میں نکلے.دیکھو اور میدان بھی تبلیغ کے لئے کھلنے والے ہیں.تم اس وقت اپنے دنیاوی کاموں کا خیال نہ کرو اور دنیاوی روکوں کی طرف نہیں دیکھنا چاہیئے.اس وقت خدمات دین کی ضرورت ہے.پس جو شخص اس وقت درد رکھتا ہے وہ خدمت کے لئے تیار ہو جائے اور ہر شخص جو میرے ہاتھ پر بیعت کر چکا ہے اس کو میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ در حقیقت بیعت پر وہی قائم ہے جو پورے طور پر ارادہ رکھتا ہے کہ وہ دین کے لئے ہر قسم کا کام کرے گا اور ہر قسم کی قربانی کرے گا.لیکن بہت ہیں جو ارادہ ہی نہیں رکھتے اور پھر بہت ہیں جو ارادہ تو رکھتے ہیں لیکن جب کام کا وقت آتا ہے تو پیچھے ہٹ جاتے ہیں.میں نے بتایا ہے کہ یہ خاص طور پر کام کا وقت ہے.اس میدان میں چند مہینوں میں انشاء اللہ تم فتح پاؤ گے پھر ان قربانیوں کے بعد اور راستے تبلیغ کے کھلنے والے ہیں جن میں تمہارا قدم اور آگے بڑھے گا اور تمہارے بوجھ ہلکے ہو جائیں گے.(الفضل ۱۹ نومبر ۱۹۲۳ء)
-234 40 جلسہ سالانہ کے لئے چند ہدایات (فرموده ۹ ر نومبر ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.اگرچہ حلق کی تکلیف اور نزلہ کی زیادتی کی وجہ سے میں کوئی خاص تقریر نہیں کر سکتا.تاہم چونکہ جلسہ کے دن قریب آگئے ہیں اس لئے باوجود تکلیف کے میں خود ہی خطبہ پڑھنا مناسب سمجھتا ہوں.پہلی ہدایت جس کے بغیر کوئی مدعا اور مقصد پورا نہیں ہو سکتا.یہ ہے کہ اس جلسہ کی غایت اور غرض کو مد نظر رکھا جائے.جب تک کسی کام کی غرض اور غائت معلوم نہ ہو تب تک اس کام کے لئے انسان پوری کوشش نہیں کر سکتا اس لئے دوستوں کو چاہئیے کہ وہ اپنے کاموں کا حرج کر کے بھی جلسہ میں شامل ہوں.چونکہ خطبہ تمام قومی ضروریات کے مطابق ہوتا ہے اور وہ چھپ کر باقی دوستوں تک پہنچتا ہے اس لئے میں خطبہ ہی کے ذریعہ قادیان سے باہر کے دوستوں کو بھی خاص طور پر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلسہ میں شامل ہونے کے لئے ہمت اور کوشش کریں اور اپنے کاموں کا حرج کر کے بھی آئیں.نہ صرف خود آئیں بلکہ اپنے زیر اثر لوگوں کو بھی یہاں لانے کے لئے ابھی سے کوشش کریں.بہت سے لوگ خیال کرتے ہیں کہ جس طرح ہم احمدی ہیں اسی طرح ہمارے زیر اثر دوست بھی ہیں.ان کو چلتے وقت اپنے ساتھ لے لیں گے اور وہ فورا چلی پڑیں گے.حالانکہ وہ لوگ جو ابھی سلسلہ میں داخل نہیں ہوئے جن کے دلوں میں ابھی سلسلہ کی عظمت نہیں ان کو چلتے وقت کہنا کہ چلئے.حالانکہ وہ کئی کام پہلے سے مقرر کر چکے ہوتے ہیں ایک ناممکن بات کا مطالبہ کرنا ہے.اس وقت ان کو ساتھ چلنے کے لئے کہنا کچھ فائدہ نہیں دے سکتا.وہ لوگ کہ جن کو انہی دنوں میں تعطیلیں ہوتی ہیں اور فراغت ہوتی ہے وہ تو دو دو ماہ پہلے اپنے کاموں کی تجویز کر لیتے ہیں.کوئی کسی کی شادی کا فیصلہ کر لیتا ہے کوئی دوستوں کی ملاقات کا فیصلہ کر لیتا ہے.کوئی اور کسی کے گھر کے کام کا فیصلہ کر لیتا ہے.اس وقت ان سے یہ چاہتا کہ وہ اپنے پہلے فیصلے کو منسوخ کر دیں ایک ناممکن
235 بات کی خواہش کرنا ہے.پس پیشتر اس کے کہ وہ کسی اور مشغلہ کا فیصلہ کر لیں ہماری جماعت کو چاہئیے کہ اپنے دوستوں میں جلسہ میں شمولیت کے لئے تحریک کریں.کیونکہ جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر چکیں تو پھر فیصلہ کو منسوخ کرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے.پہلے تو میں ان لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جن کے ایسے لوگوں سے تعلقات ہیں جو صداقت پسند اور حق جو ہیں تحریک شروع کر دیں.بہت سے لوگ ہیں جو حجاب کی وجہ سے ہمارے سلسلہ سے پیچھے ہٹے ہوئے ہیں.ان کے لئے یہی دن حجاب کے دور ہونے کا ذریعہ ہیں کیونکہ جب ایک رو پیدا ہو جاتی ہے تو ان کو دیکھ کر اور لوگوں میں بھی وہ رو جاری ہو جاتی ہے.جب وہ چاروں طرف سے لوگوں کو آتے ہوئے دیکھیں گے تو ان کے اندر بھی خواہش پیدا ہوگی.عام طور پر لوگوں کا ایک جگہ پر جانا بھی ایک دل چسپی پیدا کر دیتا ہے.انسان کی یہ عادت ہے کہ جس کام کو بہت سے لوگوں کو کرتے ہوئے دیکھتا ہے اس کے دل میں اس کے لئے ایک شوق پیدا ہو جاتا ہے چونکہ سینکڑوں ہزاروں لوگ چاروں طرف سے ان دنوں آرہے ہوتے ہیں.اس لئے ان کو جو دیکھتا ہے اس کے دل میں ا بھی تحریک پیدا ہوتی ہے.پھر جلسہ کا ایک خاص طور پر اثر ہوتا ہے.دیکھو آریہ سماج کے مندروں میں کوئی غیر قوم کا مشخص نہیں جاتا.لیکن ان کے جلسہ پر بہت سے مذاہب کے لوگ جمع ہو جاتے ہیں کیونکہ انسان کی طبیعت عجوبہ پسند بھی ہے.اسی طرح یہاں بھی جلسہ کے دنوں میں لوگ خیال کرتے ہیں معلوم نہیں وہاں کیا ہوتا ہے.چلو چل کر دیکھیں تو سہی کہ وہاں کیا ہوتا ہے.پھر عام طور پر لوگ یہ بھی نہیں پسند کرتے کہ وہ اکیلے یہاں آئیں.ان کے دلوں میں حجاب ہوتا ہے کہ اگر کسی نے پوچھا تو کیا کہیں گے.لیکن جب جلسہ کے دن ہوں اور لوگ ان دنوں میں کثرت سے آرہے ہوں تو ان کو کسی قسم کا حجاب نہیں ہوتا کیونکہ وہ کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح اور لوگ جلسہ دیکھنے کے لئے جا رہے ہیں اس طرح ہم بھی جا رہے ہیں.جلسہ دیکھنے میں تو کوئی حرج نہیں آخر ہم اور جلسے بھی تو دیکھتے ہیں.در حقیقت ہمارے کام کی وسعت چاہتی ہے کہ ہماری عام ہمدردی ہو اور عام لوگوں کی طرف ہماری توجہ ہو کیونکہ یہ ہماری تبلیغ کے لئے نہایت مفید چیز ہے.اس لئے میں تو کہتا ہوں اگر کوئی دشمن سے دشمن بھی قادیان میں آئے اور دشمن ہی چلا جائے تب بھی ہماری ہی فتح ہوگی کیونکہ سلسلہ کی کچھ نہ کچھ عظمت اس کے دل میں ضرور پیدا ہو جائے گی.اور بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ باہر ایک مولوی نے ہماری مخالفت میں ہمارے سلسلہ کے متعلق جب غلط بیانیاں کیں تو ایک غیر احمدی نے ہی جو عقائد کے لحاظ سے ہمارا مخالف تھا مگر کسی موقع پر یہاں آیا تھا اس مولوی کی تردید کردی اور کہا کہ نہیں میں خود قادیان گیا ہوں.یہ لوگ بڑے دین دار ہیں.یہ الگ بات ہے کہ میں احمدی نہیں ہوں
236 مگر وہ باتیں ان میں نہیں پائی جاتیں جو ان کی طرف منسوب کی جاتی ہیں.ایسے آدمی کی گواہی عوام پر بہت اچھا اثر کرتی ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ مخالف کی شہادت ہے.پس چاہئیے ایسے لوگ خواہ دشمن ہی رہیں لیکن وہ بہتوں کو ہمارا دوست بنانے کا باعث ہو جاتے ہیں اور دشمن ہونے کی وجہ سے ہماری صداقت کے زیادہ عمدہ گواہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ باوجود دشمن ہونے کے پھر ہماری خوبی کا اقرار کرتے ہیں.تو قادیان میں لوگوں کا لانا بہت مفید ہوتا ہے.اور قادیان میں دوسرے لوگوں کو لانے کے لئے جلسہ کے دنوں سے زیادہ بہتر اور کوئی موقع نہیں ہے.پس تمام دوست جس قدر بھی زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے ساتھ لا سکیں وہ ضرور ان دنوں میں لائیں اور یہاں لانے کے لئے ابھی سے تحریک شروع کر دیں.پھر یہاں کے کارکنوں کو خاص توجہ دلاتا ہوں کہ جب بیرونی دوست اپنے ساتھ دوسرے لوگوں کو بھی لائیں گے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ یہاں زیادہ آدمی آئیں اور کام بھی زیادہ ہو گا.اس لئے وہ بھی ابھی سے تیاری شروع کر دیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے آفسیر بہت ہوشیار ہیں اور اس بات کو سمجھتے ہیں کہ سامان یکدم جمع نہیں ہوا کرتے.اس لئے وہ بہت مدت پہلے سامان جمع کرنا شروع کر دیتے ہیں.لیکن میرے نزدیک ابھی ان کے اندر یہ احساس نہیں پیدا ہوا کہ جس طرح سامان کا پہلے سے جمع کرنا ضروری ہے اسی طرح کام کرنے والے آدمیوں کا بھی پہلے جمع کرنا اور ان کو کام کے لئے تیار کرنا اور پہلے سے ہی کام سکھانا ضروری ہے.دیکھو گورنمنٹ کتنے سپاہی تیار رکھتی ہے.اور کس قدر اخراجات ان کے لئے برداشت کرتی ہے کیا ان پر فضول خرچ کرتی ہے.نہیں بلکہ اس لئے کہ وہ وقت پر کام آسکیں کیونکہ کوئی کام کرنے والا اپنے فرض منصبی کو عمدگی سے ادا نہیں کر سکتا جب تک اس کو پہلے سے اس کام کے کرنے کی مشق نہ ہو.ایک مثال ہے کہ ایک بیوقوف بادشاہ نے اپنی کثیر فوج کو یہ سمجھ کر کہ اتنی فوج رکھنے کی کیا ضرورت ہے بر طرف کر دیا.اور اس کی بجائے قصابوں کے ایک ایک دو دو روپے مقرر کر دئے کہ یہ تو چھری چلانا جانتے ہیں جب ضرورت پڑے گی ان سے کام لے لیا جائے گا.جب اس کی اس بے وقوفی کا پاس والی حکومت کو پتہ لگا تو اس نے چڑھائی کر دی.ادھر بادشاہ نے تمام قصاب لڑنے کے لئے بھیج دئے مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ سب دوڑے دوڑے آئے اور کہنے لگے حضور وہ تو نہ رگ دیکھتے ہیں نہ پٹھا.بے تحاشا مارے جاتے ہیں یہ تین چار مل کر ایک آدم کو پکڑیں اور الٹا کر اس کے گلے پر چھری پھیریں.مگر اتنی دیر میں وہ ان کے کئی آدمی ماردیں.یہ ایک مثل ہے اور مثل ایسی ہی بنائی جاتی ہے جو انتہائی درجہ کو ظاہر کرے.پس مثال ہمیشہ اپنے آخری نتیجہ کو ظاہر کیا کرتی ہے.ایسا نہیں تو اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ایسے واقعات ضرور ہوتے رہتے ہیں اور ہر روز ہوتے ہیں.پس انسان کو جس کام کو کرنے
237 کی مشق نہ ہو وہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو.اسے نہیں کر سکتا.میرا اپنا ہی واقعہ ہے کہ مکان بن رہا تھا اور مستری لکڑ گھڑ رہے تھے.میری چھوٹی عمر تھی.میں نے جو ان کو لکڑی پر تیشہ مارتے دیکھا تو سمجھا کہ آسان کام ہے اور میرے دل میں بھی اس کے کرنے کا شوق پیدا ہوا.جب وہ آدمی کہیں گیا تو میں نے تیشہ چلانا چاہا.ابھی پہلا ہی تیشہ مارا تھا کہ اس سے میری انگلی زخمی ہو گئی.اسی طرح ایک دفعہ کوئی مزدور کام کر رہا تھا اسے دیکھ کر میں پیچھے پڑ گیا کہ مجھے کسی دو.میں بھی چلاؤں گا کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ یہ کونسی مشکل بات ہے لیکن جب کسی مارنے لگا تو وہ میرے پاؤں پر لگی.تو ہمیشہ کام کرنے سے آتے ہیں.میں نے بار بار سمجھایا ہے کہ جن لوگوں سے کام لیتا ہوتا ہے ان سے مصنوعی طور پر دو دو ماہ پہلے وہ کام کرائے جائیں.دیکھو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کس قدر مشق کرانے کا شوق تھا.آپ کو یہاں تک خیال تھا کہ آپ مسجد میں جنگی مشقیں کرایا کرتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ مسجد میں حبشیوں سے گت کا کھلایا.اس حدیث کا ترجمہ کرنے والے بعض مولویوں نے اس کو تماشا لکھا ہے اور کتنے کو تماشا میں شامل کر کے نبی کریم کو تماشا دیکھنے والا اور اپنی بیوی کو دکھانے والا قرار دیا ہے لیکن یہ وہ تماشا ہے کہ جس کے بغیر کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی.جو قوم یہ تماشا نہیں جانتی دنیا اس کا تماشا دیکھتی ہے.اور جس طرح قلندروں کے ہاتھ میں بندر ہوتے ہیں جو ناچتے ہیں.اسی طرح وہ دوسری قوموں کے قبضہ میں ہوتی ہے جو اس کو نچاتی ہیں.پس گو ایسے کام دیکھنے میں تماشا ہی معلوم ہوں لیکن در حقیقت یہ مشقیں ہوتی ہیں.میں نے بارہا ایسی مشقوں کے لئے توجہ دلائی ہے لیکن میں نے دیکھا ہے کہ ایک دفعہ بھی اس طرح توجہ نہیں کی گئی.اب پھر میں توجہ دلاتا ہوں کہ جن لوگوں سے کام کرایا جائے گا وہ ابھی سے اپنے آپ کو پیش کر کے ان کاموں کی جن پر انہیں لگایا جائے گا مشق کریں.اور ایسی مشقوں کو خلاف وقار نہ سمجھیں.جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جیسے انسان نے اس قسم کے کام کئے تو ہمارا کیا ہرج ہے اور جو کام آئندہ کرنا ہوتا ہے اس کی مشق تماشا نہیں کہلاتی وہ در حقیقت ایک قسم کی تیاری ہوتی ہے.پس کام کے لئے قبل از وقت مشق کرنی نہایت ضروری ہے.مثلاً ایک بڑی جماعت سے بہت سے بوجھوں کے اٹھوانے کی مشق کرائی جائے اور ایسے کام جن کی ضرورت پیش آتی ہے ان کی مشق کرائی جائے.دیکھو آگ بجھانے والوں سے آگ بجھانے کی اس طرح مشق کرائی جاتی ہے کہ مصنوعی مکان بنائے جاتے ہیں اور ان میں سامان رکھے جاتے ہیں پھر ان کو آگ لگا دی جاتی ہے جس کو انہوں نے بجھانا ہوتا ہے.اور مال کو بچانا ہوتا ہے اس طرح اگر ان کو مشق نہ کرائی جائے تو وقت پر وہ گھبرا جائیں اور دیکھتے رہ جائیں.پس ایسی مشقیں قومی زندگی کے آثار ہوتی ہیں.جو شخص اپنے کاموں کو خلاف وقار سمجھتا ہے وہ کو نہ اندیش ہے.
0238 پھر میں کارکنوں کو ایک یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ انسان خود اپنی عقل سے اپنے کام کو پورے طور پر نہیں سمجھتا اگر اپنی عقل سے سمجھنے لگے تو بیسیوں باتیں ان سے رہ جائیں گی.اس لئے یہاں کے کارکن دوست ابھی سے بیرونی دوستوں کی طرف چٹھیاں لکھ کر ان سے پوچھیں کہ ان کو رستہ میں اور یہاں کیا کیا مشکلات پیش آتی ہیں اور ان کو دور کرنے کا کیا ذریعہ ہے اور کیا تدابیر ہیں گویا مشکلات بھی ان سے پوچھیں اور ان کے دور کرنے کی تجاویز بھی ان سے دریافت کریں.یہ تمام کام ایسے ہیں جن کے لئے ابھی سے تیاری کرنی ضروری ہے.اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی کہوں گا کہ افسر بھی انتظام نہیں کر سکتے جب تک کہ دوسرے لوگ ابھی سے اپنے آپ کو خدمت کے لئے پیش نہ کریں.اس لئے جو لوگ اپنے آپ کو جلسہ میں کام کرنے کے لئے پیش کر سکتے ہیں وہ ابھی سے پیش کریں.اس سے میری مراد یہ نہیں ہے کہ بعض نہ پیش کریں تو حرج نہیں بلکہ اس سے مراد وہ تاجر ہیں جو جلسہ پر اپنی دوکان لگا کر سال بھر کا خرچ پیدا کرتے ہیں.پس سوائے تاجروں کے باقی تمام اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہیں.کارکن افسروں کو چاہیے کہ ابھی سے کام کرنے والوں کے جتھے بنا کر ان کو کام کرنا سکھائیں.میں امید کرتا ہوں کہ اگر اسی طرح دوست کام کریں گے تو پہلے سے بہت زیادہ اپنے کام میں کامیاب ہوں گے.الفضل ۱۱۶ نومبر ۱۹۲۳)
239 41.جماعت احمدیہ کے مقصد کی اہمیت اور اس کے حصول کی کوشش (فرموده ۱۲۶/ نومبر ۶۱۹۲۳ تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.ہر ایک انسان دنیا میں اپنے لئے کوئی نہ کوئی مقصد اور مدعا رکھتا ہے.جس کسی آدمی کو بھی دیکھو اس کی زندگی میں حرکت اس کے کاموں میں جوش اور اس کے ارادوں میں بلندی تبھی ہوگی جبکہ وہ کوئی ایسا کام کر رہا ہوگا جس کے ساتھ اس کا مدعا اور مقصد وابستہ ہوگا اور جب کسی کے سامنے کوئی مقصد اور مدعا نہ رہے.اسی وقت اس کی زندگی موت سے بدل جاتی ہے وہ گو زندوں میں نظر آتا ہے مگر دراصل وہ مُردوں میں شامل ہوتا ہے.پس زندگی کے کیا معنے ہیں.اس کے معنے کوئی مقصد اور مدعا اپنے سامنے رکھنا ہے.بے شک ایسی چیزیں ہیں جو کوئی مقصد نہیں رکھتیں اور پھر بھی زندہ رہتی ہیں.مگر وہ حیوانات والی زندگی ہے.اور انسانوں اور حیوانوں میں یہی فرق ہے کہ انسان اپنا ایک مقصد رکھتے ہیں اور حیوانوں کے سامنے جو چیز آجائے وہ ہی مقصد بن جاتی ہے.ان کے برخلاف انسان ایک چیز کو مقصد کے طور پر سامنے رکھ کر اس کی طرف چلتا ہے.اور جب اسے وہ حاصل ہو جاتی ہے تو پھر اور کو مقصد قرار دے لیتا ہے اور جب وہ بھی حاصل ہو جاتی ہے تو پھر اور کو.اور یہی سلسلہ چلتا رہتا ہے.بچپن سے لیکر بڑھاپے تک دیکھ لو تمام انسانوں کی یہی حالت ہے جونہی بچہ ہوش سنبھالتا ہے اور تمیز حاصل کرتا ہے اسی وقت سے دانا اور عظمند لوگ اس میں زندگی کی روح پیدا کرنے کے لئے اس کے سامنے مقصد رکھتے ہیں.مثلاً بچہ کھیلیں کھلیتا ہے اس وقت اس کے سامنے یہ مقصد ہوتا ہے کہ فتح حاصل کرنی ہے.ہمارے ملک میں عام طور پر بچے کبڈی اور گیند سے کھیلتے ہیں ان کھیلیوں میں بچوں کا جب تک یہ مقصد ہوتا ہے کہ مقابل والے کو ہرانا اور خود فتح حاصل کرنی ہے اس وقت تک جوش سے کھیلتے ہیں اور جب مقابل والے کھیلنا چھوڑ دیں تو بیٹھ
240 جاتے ہیں.کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ گیند کو ڈنڈا مارنے سے کیا لطف حاصل ہوتا ہے اور نہ کھیلنے والوں کی یہ غرض ہوتی ہے بلکہ ان کی غرض اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ گیند کو فلاں جگہ پہنچانا ہے اس سے بچوں میں ہوشیاری اور چستی پیدا ہوتی ہے اور اس طرح انہیں کچھ مشق ہوتی ہے کہ وہ اپنے سامنے کوئی مقصد اور مدعا رکھیں.مگر ان کا اس وقت کا مقصد چھوٹا ہوتا ہے جو چند منٹ میں حاصل ہو جاتا ہے.پھر جب بچے سکولوں میں داخل ہوتے ہیں تو ذرا بڑا مقصد ان کے سامنے ہوتا ہے.جو ایک سال میں حاصل ہوتا ہے.یعنی سال کے بعد امتحان دیتے ہیں اور اگلی جماعت میں جاتے ہیں.اگر لڑکوں کا امتحان نہ ہو تو بہت سے لڑکے جاہل ہی رہیں امتحان ہی ان سے محنت کراتا ہے اور یہی صحیح طور پر وقت صرف کرنے کی طرف مائل کرتا ہے.وہ جانتے ہیں کہ امتحان دینا ہے اس لئے محنت کرتے ہیں.اور ایک امتحان جب پاس کر لیتے ہیں تو دوسری جماعت کا امتحان دینا ان کا مقصد بن جاتا ہے.پھر تیسری جماعت کا.پھر چوتھی کا.یہاں تک کہ جب تعلیم کے زمانہ کو ختم کر لیتے ہیں تو ان کو اپنا مقصد بدلنا پڑتا ہے اور اس وقت ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مال و دولت پیدا کریں تاکہ آرام و آسائش کی زندگی بسر کر سکیں.وہ اس کے لئے محنت کرتے رہتے ہیں.اور پھر اس سے اوپر ترقی کرتے ہیں شادی کرتے ہیں، بچے پیدا ہوتے ہیں.ان کی تعلیم و تربیت کے سامان مہیا کرنے کے لئے محنت و مشقت کرتے ہیں.اگر ان باتوں کو علیحدہ کر دیا جائے تو کوئی آدمی محنت نہ کرے.امتحانات کو ترک کر دیا جائے.بیوی بچوں کے خیال کو علیحدہ کر دیا جائے.معیشت کی فکر کو چھوڑ دیا جائے تو انسان مردوں کی طرح ہو جائے گا.اور اس کا صرف یہ کام رہ جائے گا کہ جب کھانا سامنے آگیا تو کھا لیا.پس مقاصد ہی انسان کی حیات کو حقیقی طور پر ظاہر کرتے ہیں اور انہی سے زندگی کی روح پیدا ہوتی ہے جس انسان کے سامنے یہ مقصد ہو کہ بیوی بچوں کو کھلانا پلانا ہے وہ اور رنگ میں کوشش کرے گا اور جس بادشاہ کے سامنے سارے ملک کا انتظام ہو وہ اور رنگ میں کوشش کرے گا.دونوں کی کوششوں میں فرق ہو گا.عام انسان کم کوشش کرے گا اور بادشاہ کی کوشش بہت زیادہ ہوگی.حتی کہ بعض ممالک کے حکمراں انسانوں کی ذمہ داریاں اس قدر بڑھی ہوئی ہوتی ہیں کہ میں نے ایک اخبار میں پڑھا جو لکھتا ہے کہ امریکہ کی پریذیڈنٹی انسانوں کی قاتل ہے.کیونکہ تین سال کے عرصہ میں ملک کے بہترین انسان کو مار دیتی ہے.یا مار دینے کے برابر کر دیتی ہے.تو جتنا بڑا کوئی مقصد ہوتا ہے اس کے لئے اتنی ہی زیادہ کوشش کی ضرورت ہوتی ہے.اور حقیقی زندگی مقاصد سے ہی حاصل ہوتی ہے.پس جبکہ ہم یہ عام نمونہ دیکھتے ہیں اور تمام انسانوں کی زندگی مقاصد سے وابستہ پاتے ہیں تو اس سے بڑھ کر خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ کسی کو ایسا اعلیٰ درجہ کا مقصد مل جائے جس کے مقابلہ کا اور کوئی مقصد نہ ہو.اور اس کے لئے اسے ایسی کوشش کرنے کا موقع ملے.جیسی
241 کسی اور مقصد کے لئے نہ کی جاتی ہو.اور نہ کی جانی ممکن ہو.رہے اسلام نے اس مقصد کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ حیات مقصد سے وابستہ ہوتی ہے اور حیات انسان کو اس لئے دی گئی ہے کہ جو اس کا مقصد ہے اسے حاصل کر کے دکھائے اور دنیا میں خدا تعالیٰ کا مظہر بنے.اسلام نے انسان کا یہ مقصد رکھا ہے کہ اسے خدا مل جائے یہ اتنا بڑا اور عظیم الشان مقصد - جو کبھی ختم نہیں ہو سکتا اس لئے اس کے حاصل کرنے والوں کو کبھی سُست نہیں ہونا چاہیے.کئی لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم نے دنیا کے سارے کام کر لئے.اب ہمیں اپنے کھانے پینے کے لئے یا بیوی بچوں کو کھلانے کے لئے محنت کرنے کی ضرورت نہیں.بچے جوان ہو گئے ہیں وہ سب کچھ کر رہے ہیں.ایسا انسان چارپائی پر لیٹا رہتا ہے اور کوئی کام نہیں کرتا یا کچھ کام کر ہی نہیں سکتا.کیونکہ قومی اس کو جواب دے چکے ہوتے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیاوی مقاصد ایسے ہیں کہ وہ یا تو ختم ہو جاتے ہیں یا انسان ان کے حصول کی کوشش کرنے سے رہ جاتا ہے.اور وہ ایسے ہوتے ہیں کہ انسان ان کو پورا کر ہی نہیں سکتا.جیسے کہ اگر کوئی بوڑھا چاہے کہ کچھ کمائے تو سکما نہیں سکتا.ایسی حالت میں جو لوگ ہوتے ہیں وہ کڑھتے ہیں.مگر اسلام نے انسان کے لئے ایسا مقصد رکھا ہے کہ اس کے لئے جتنی کوشش کریں تھوڑی ہے اور خواہ کسی حالت میں ہوں اس کے لئے کوشش کر سکتے ہیں.دنیاوی مقاصد کی تو یہ حالت ہے کہ مثلاً کوئی ملازمت کی تلاش میں ہے اسے جب ملازمت مل گئی تو اس کا مقصد حاصل ہو گیا.بیوی بچوں کے لئے مال جمع کرنا چاہتا ہے.جب مال ملے گا تو اس کا مقصد پورا ہو گیا.بیماری سے صحت یاب ہونا چاہتا ہے جب صحت ہوگی تو اس کا مقصد ختم ہو گیا.مگر اسلام نے انسان کا جو یہ مقصد رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات حاصل ہو وہ ایسا ہے کہ جو کبھی خو نہیں ہو سکتا.کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے خدا مل گیا ہے اور اب مجھے اور ترقی کرنے کی ضرورت نہیں رہی.بعض نادان اعتراض کیا کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو اهلنا الصراط المستقيم کہا کرتے تھے تو کیا ان کو سیدھا راستہ نہیں ملا تھا.مسلمان کہتے ہیں کہ وہ ساری دنیا کے لئے ہادی اور راہ نما ہیں.مگر ان کو تو خود سیدھا راستہ نہ ملا ہوا تھا کیونکہ وہ کہتے رہے کہ اے خدا مجھے سیدھا راستہ دکھا.اگر کہو کہ ان کو سیدھا راستہ ملا ہوا تھا تو معلوم ہوا (نعوذ باللہ) وہ جھوٹ کہتے تھے اور اگر نہیں ملا ہوا تھا تو وہ دوسرے کے ہادی کس طرح ہو سکتے ہیں.مگر یہ اعتراض کرنے والوں کی نادانی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سیدھا راستہ تو ملا ہوا تھا مگر وہ راستہ کبھی ختم نہ ہونے والا راستہ ہے.اعتراض کرنے والے اهدنا الصراط المستقيم
242 کی دعا کو اس طرح سمجھتے ہیں جس طرح بچے مٹھائی وغیرہ مانگتے ہیں کہ جب ان کو مل گئی تو ان کا مقصد حاصل ہو گیا.مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ مانگتے تھے وہ کبھی نہ ختم ہونے والا مقصد تھا.اور اگر آپ اس درجہ سے جو آپ کو حاصل تھا کروڑوں اور اربوں درجہ بھی زیادہ بڑھ جائے تو بھی آپ کا مقصد ختم نہیں ہو سکتا تھا.یہی مقصد عالی تھا جس کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ایسی روح پیدا ہو گئی تھی کہ آپ کا کوئی لمحہ ضائع نہ جاتا تھا.کیونکہ آپ سمجھتے تھے کہ آپ کا اتنا اعلیٰ مقصد ہے کہ خواہ اس کے لئے آپ کتنی بھی کوشش کریں پھر بھی رستہ باقی ہی رہے گا پس نادان ہیں وہ لوگ جو اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اتنی بڑی شان کے ہوتے ہوئے کیوں اهدنا الصراط المستقیم کی دعا کرتے تھے.ہم کہتے ہیں آپ کی زندگی تو الگ رہی اب بھی آپ درجہ میں آگے ہی آگے چل رہے ہیں جس دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہوئے تھے اس دن روحانیت کے لحاظ سے آپ جو تھے وہ آج نہیں ہیں.آئندہ یہی نہیں رہیں گے بلکہ اور ہونگے کیونکہ ہر لمحہ اور ہر گھڑی آپ ترقی کر رہے اور آگے ہی آگے قدم بڑھا رہے ہیں.کیونکہ آپ نے اپنی ترقی کے لئے وہ راستہ چنا ہے.جو کبھی ختم ہی نہیں ہو سکتا.پھر اسلام نے انسان کے لئے وہ مقصد رکھا ہے کہ اگر اس کے ہاتھ پاؤں شل ہو جائیں تو بھی اس مقصد کو چھوڑ نہیں سکتا اور اس سے الگ نہیں ہو سکتا.کیونکہ اس کے لئے یہ شرط ہے کہ جیسے سامان کسی کو میسر ہوں اور جس حالت میں کوئی ہو اس کے مطابق کوشش کرے.پس کوئی مخص اس مقصد کو اس لئے نہیں چھوڑ سکتا کہ اس کے لئے سامانوں کی کمی ہے.بلکہ جب کوئی ایسی حالت میں ہی کوشش کرتا ہے تو جو کمیاں ہوتی ہیں وہ خدا تعالیٰ خود پوری کر دیتا ہے.دنیاوی مقاصد کی تو یہ حالت ہے کہ مثلاً کوئی شخص موٹر پر سفر کر رہا ہو جو رستہ میں ٹوٹ جائے یا خراب ہو جائے ایسی حالت میں وہ آگے نہیں چل سکے گا.لیکن اسلام یہ کہتا ہے کہ جس حالت میں بھی تم ہو گے اور جتنی طاقت تم میں ہوگی اگر وہ خرچ کر دو گے تو بقیہ کا خدا خود سامان کر کے تمہیں منزل مقصود تک پہنچا دے گا.اگر تمہاری سواری کی گاڑی ٹوٹ جائے تو کوئی پروا نہیں.خدا کے فرشتے تمہیں اپنی گودیوں میں بٹھا کر خدا کے پاس لے جائیں گے.مگر شرط یہ ہے کہ تم اپنی طرف سے پوری پوری کوشش کرو.اگر کسی کے پیر ہیں اور وہ ان سے کام نہیں لیتا تو خدا کی طرف سے بھی اسے کوئی مدد نہیں ملے گی.مگر جس کے پاؤں ہوں اور وہ ان سے کام لے تو پھر جو کمی رہ جائے اپنے خدا تعالیٰ کے فرشتے پوری کر دیتے ہیں.اب اگر کوئی لولا لنگڑا مسجد میں جا کر جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھتا یا جس کے پاس مال نہیں وہ زکوۃ نہیں دیتا تو وہ اسی طرح اپنے مقصد کو حاصل کرے گا جس طرح ایک شخص جس کے پاس مال ہے اور وہ اس کو خدا کے لئے خرچ کرتا ہے.ہاتھ پاؤں ہیں اور ان سے
243 خدا کے رستہ میں کام لیتا ہے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جہاد پر جا رہے تھے کہ آپ نے فرمایا.مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو ویسا ہی ثواب حاصل کرتے ہیں جیسا تم لوگ جو جہاد کے لئے نکلے ہو.تم کسی وادی میں سے نہیں گذرتے جس میں وہ تمہارے ساتھ نہیں ہوتے اور تم کوئی مشقت نہیں اٹھاتے جس کا ثواب ان کو نہیں ملتا.صحابہ نے کہا یہ عجیب بات ہے کہ وہ آرام سے گھروں میں بیٹھے اتنا ہی ثواب حاصل کر رہے ہیں جتنا جہاد کے لئے نکلنے والے.آپ نے فرمایا وہ ایسے لوگ ہیں جن کے دل چاہتے ہیں کہ وہ بھی اسی طرح جہاد کے لئے نکلیں جس طرح تم نکلے ہو مگر ان کے پاس سامان نہیں اور وہ مجبور ہیں.اس لئے خدا تعالیٰ ان کو بھی وہی ثواب دے گا جو تم کو دے گا.تو دنیا کے مقاصد اور روحانی مقاصد میں دو عظیم الشان فرق ہیں.روحانی مقصد کبھی بدلتا نہیں.شروع سے چلتا ہے اور انتہا کو چلا جاتا ہے.اس میں تبدیلیاں نہیں ہوتیں.دوسرا فرق یہ ہے کہ اس کے حصول کے لئے کوشش کریں.اور جو کمی رہ جائے اسے خدا تعالیٰ خود پورا کر دیتا ہے.سکولوں میں تو ہوتا ہے کہ اگر کوئی طالب علم کند ذہن ہو تو وہ امتحان میں فیل ہو جاتا ہے.لیکن اس میں یہ ہے کہ خواہ کوئی کند ذہن ہو اگر وہ محنت کرتا ہے تو فیل نہیں ہو گا.اور یہ ایسا وسیع علم ہے کہ دین کا یہ حساب بندوں کے سپرد ہی نہیں کیا گیا.نادان لوگ کہتے ہیں کہ جب اسلام میں اعمال کے زو سے بدلہ ملے گا تو ایک ذہین اعمال میں ترقی کرکے بڑا درجہ حاصل کرے گا اور ایک کم فہم اس سے محروم رہے گا.مگر اس مسئلہ کو سمجھ لینے سے یہ اعتراض دور ہو جاتا ہے کہ وہ کمیاں جو کسی کو قدرت کی طرف سے ملی ہوں ان کو مد نظر رکھا جائے گا اور ان کا لحاظ رکھ کر اعمال کا بدلہ دیا جائے گا.یہی وجہ ہے کہ بدلہ دینا خدا تعالٰی نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے کیونکہ بندے کسی کے متعلق صحیح فیصلہ نہیں کر سکتے.ممکن ہے کہ ایک شخص کی مجبوری کی وجہ سے کوئی دینی کام نہ کر سکے.اور لوگ سمجھ سکیں کہ سستی اور کو تاہی سے ایسا کرتا ہے.مگر خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ اس میں یہ کمی رکھی گئی ہے اس کی وجہ سے ایسا کرتا ہے اس لئے وہ اس کو اتنا ہی بدلہ دے گا جتنا اگر اس میں کمزوری نہ ہوتی اور وہ کام کر کے بدلہ پاتا.پس ایسے عظیم الشان مقصد اور بدلے کے ہوتے ہوئے اگر کوئی اس کے لئے کوشش نہ کرے تو اس پر افسوس بھی بہت زیادہ ہو گا.اگر کسی کے سامنے مقصد نہ ہو تو وہ کہہ سکتا ہے کہ اب میں کیا کروں.مگر ایک مسلمان یہ نہیں کہہ سکتا.کیونکہ اس کو کہیں گے کہ سورۃ فاتحہ میں جو صراط مستقیم بتایا گیا ہے.وہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا.اور اگر کہو کہ ہمارے پاس سامان نہیں تو کیا کریں.اس کے متعلق کہیں گے اسلام یہ کہتا ہے جتنے سامان ہیں ان کو استعمال کرو بقیہ کا خدا بدلہ دے دے گا.پس اس قدر آسانیوں کے ہوتے ہوئے اور اتنا اعلیٰ مقصد ہوتے ہوئے
-244 اگر کوئی سستی کرتا ہے تو بہت ہی افسوس کے قابل ہے.مگر میں افسوس سے کہتا ہوں کہ اپنی جماعت میں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ابھی تک اپنے مقصد کو ہی نہیں سمجھا.ایک زمانہ میں انہوں نے بخشیں کیں.وفات مسیح.نبوت مسیح موعود کے مسائل حل ہو گئے.تو بیعت کرلی.مگر پھر انہوں نے یہ نہ سمجھا کہ کیوں ہندوؤں، سکھوں، عیسائیوں اور غیر احمدیوں سے لڑتے ہیں (لڑنے سے میری مراد دلائل سے لڑنا ہے) اگر ہم نے اپنے اندر کوئی تبدیلی نہیں کی تو دوسرے لوگوں سے اختلاف کرنے کا فائدہ کیا.بات یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنے مقصد اور مدعا کو سمجھے بغیر بیٹھ گئے انہوں نے سمجھا حضرت مسیح موعود کا مان لینا کافی ہے.حالانکہ آپ کو مان لیتا تو ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی مقام تک پہنچنے کا رستہ پوچھ لیا جائے اور صرف رستہ پوچھ لینے سے کوئی اس مقام تک کس طرح پہنچ سکتا ہے.حضرت مسیح موعود کا ماننا ایسا ہی ہے جیسے رستہ پوچھ لیا.آگے عمل کا درجہ شروع ہوتا ہے.مگر وہ عمل نہیں کرتے.اور اس کو کامیابی کس طرح ہو سکتی ہے جو صرف یہ کہے کہ میں نے مان لیا.مگر آگے محنت نہیں کرتا.اگر وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود کو مان لیا.ان کی قربانیوں اور سروں کی قربانیوں میں زمین و آسمان کا فرق نہیں تو پھر ان کا مان لیتا ایسا ہی جیسا کہ دروازہ پر پہنچ کر کوئی اندر نہ داخل ہو.اور ایسے لوگوں کی حالت ان سے بد تر ہے جن کو اس مقام کا ابھی پتہ نہیں رو لگا.دیکھو اگر ایک شخص پیاسا ہو.مگر اسے پانی کا پتہ نہ ہو کہ کہاں ہے تو قابل الزام نہیں ہوگا قابل افسوس ہو گا.مگر ایک شخص جسے پیاس لگی ہوئی ہو اور یہ بھی معلوم ہو کہ فلاں جگہ پانی ہے مگر پیتا نہیں تو وہ قابل افسوس بھی ہے اور قابل ملامت بھی.افسوس ہے کہ میں اپنی جماعت میں ایسے لوگ دیکھتا ہوں جنہوں نے حضرت مسیح موعود کے دعوی کو پرکھ کر قبول تو کر لیا.مگر آگے اس کو پیش نہیں کیا اور بعض تو ایسے ہیں کہ نہ صرف دوسروں کے سامنے انہوں نے پیش نہیں کیا بلکہ اپنی جانوں کی حفاظت کے لئے جو کچھ کرنا ضروری تھا وہ بھی نہیں کیا اور انہوں نے حضرت مسیح موعود کو اس طرح نہیں مانا کہ اصل مدعا حاصل کر سکیں اور نجات پا سکیں.میں اپنی جماعت کے لوگوں سے کہتا ہوں کہ صرف مان لینے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا اگر فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنی زندگی اس رنگ میں بتاؤ کہ تم میں اور دوسروں میں نمایاں فرق ہو.احمدی اور غیر احمدی کی مثال میرے نزدیک اس طرح ہے کہ غیر احمدی تو بھٹکا ہوا جنگل میں پھر رہا ہے اور احمدی کو راستہ مل گیا ہے.لیکن اس حالت تک کوئی بڑا فرق نہیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ جو جنگل میں پھر رہا ہے اور راستہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے اسے رستہ مل جائے.اور وہ منزل مقصود پر پہنچ جائے.مگر وہ احمدی جو حضرت مسیح موعود پر ایمان لاکر یعنی کچھ راستہ طے کر کے بیٹھ جائے وہ اسی حالت میں مرجائے اور اسے کچھ
245 حاصل نہ ہو.پس جس قدر اہم مقصد ہو اس قدر زیادہ کوشش جب تک نہ کی جائے کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہیے کہ اپنی زندگی میں ایسی تبدیلی پیدا کریں اور ایسی روح پیدا کریں کہ جو اس مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کیونکہ بستیوں سے کبھی کام نہیں چلتا.پچھلی لڑائی کے متعلق دیکھو وہ یورپ میں ہو رہی تھی.مگر کس طرح دنیا کے سارے ملک ملتے جا رہے تھے.ہمارے ملک سے پانچ ہزار میل دور وہ جنگ تھی.مگر ہمارا ملک بھی سارے کا سارا تھرا رہا تھا اور تمام لوگ اس کام میں لگے ہوئے تھے.لیکن وہ جنگ بھی اس جنگ کے مقابلہ میں کیا حقیقت رکھتی ہے جو تمہیں در پیش ہے.وہاں تو یہ لڑائی تھی کہ تلواریں لے کر ایک دوسرے کو قتل کر رہے تھے.مگر ہم نے لوگوں کے دلوں کو فتح کرنا ہے.پھر وہ لڑائی تو چند ممالک کی دوسرے چند ممالک سے تھی.مگر ہماری لڑائی ساری دنیا کے خلاف ہے.اس لئے ہماری لڑائی کے مقابلہ میں وہ لڑائی حقیر ہے کیونکہ قتل کرنا اتنا مشکل نہیں جتنا دل کو فتح کرنا ہے.قتل تو آوارہ اور بدمعاش لوگ بھی کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں.لیکن کیا کوئی بدمعاش اور بد افعال انسان کسی کو بدی سے نیکی کی طرف لا سکتا ہے.ایسے انسان کا کسی کو نیکی کی طرف لانا تو الگ رہا بہت سے نیک بھی اس میں رہ جاتے ہیں.پس چونکہ ہماری تلوار کا کاٹ بہت دیر میں ہوتا ہے اس لئے ہمارا کام بہت مشکل ہے.مگر ساتھ ہی عظیم الشان بھی کیونکہ ظاہری زخم اچھا بھی ہو جاتا ہے مگر ہماری تلوار کا زخم سیا نہیں جا پھر جنگ عظیم میں جو طاقتیں لڑ رہی تھیں.ان میں تھوڑا فرق تھا.مگر ہم دنیا کے مقابلہ میں کچھ بھی نسبت نہیں رکھتے.ہم بہت تھوڑتے ہیں اور جن سے ہمارا مقابلہ ہے وہ بہت زیادہ ہیں اس سے سمجھ لو کہ ہمیں زندگی پیدا کرنے اور کام کرنے کی روح حاصل کرنے کی کس قدر ضرورت ہے.کیا لڑائی کے زمانہ میں کوئی انگریز آرام کی نیند سوتا تھا ہر گز نہیں.پس اگر وہ نہیں سوتے تھے اور ہم اس جنگ میں آرام سے سو جائیں.تو معلوم ہوگا کہ یا تو ہمیں پتہ ہی نہیں کہ ہمارا مقصد اور مدعا کیا ہے.یا ہم جان بوجھ کر اپنی ذمہ داروں سے غفلت کر رہے ہیں.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ لاہور کی جماعت (اس وقت میں اس کو مخاطب کرتا ہوں) جس کو میں کئی سال سے توجہ دلا رہا ہوں کہ یہ شہر جو صوبہ کا مرکز ہے اس میں خاص طور پر تبلیغ کی کوشش کرو.اور زندہ ہو کر کام کرو.مگر متواتر توجہ دلانے پر بھی کوئی اثر نظر نہیں آتا.تبلیغ کے لئے انجمن بنتی ہے اور ٹوٹ جاتی ہے.کام کرنے والوں سے پوچھتا ہوں تو وہ کہتے ہیں دوسرے لوگ کام نہیں کرتے اس لئے ہم بھی کچھ عرصہ کر کے چھوڑ دیتے ہیں.میں کہتا ہوں بیوی بچوں سے تو زیادہ خدا کا تعلق ہے مگر کیا بیوی بچوں.
246 کے لئے چند دن کام کر کے پھر چھوڑ دیا جاتا ہے ہرگز نہیں.پھر خدا کے کام کو کیوں چھوڑ دیتے ہیں.یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئیے کہ مومن کے لئے اس دنیا میں آرام نہیں اور جب تک تم اس بات کو نہ سمجھ لو کامیابی نہیں حاصل ہو سکتی.مومن کے آرام کا وقت اس کے مرنے کے بعد ہوتا ہے.اسی لئے اہل اللہ کہتے ہیں کہ مومن کے لئے خوشی کی گھڑی وہ ہوتی ہے جب اس پر موت آتی ہے.اور کافر کے لئے وہ دکھ کی گھڑی ہوتی ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اب میرا آرام ختم ہو گیا اور دکھ شروع ہو گا.مگر مومن یہ دیکھتا ہے کہ اب میرا دکھ ختم ہو گیا اور آرام شروع ہو گا.پس وہ جو اس دنیا میں آرام سے بیٹھ جاتا ہے اور خدا کی راہ میں تکالیف نہیں اٹھاتا وہ مومن نہیں.کیونکہ مومن کے آرام کا وقت وہ ہے جبکہ وہ مرتا ہے.پس تم لوگ اس بات کو سمجھ کر اپنے اعمال کی اصلاح کرو.بے ہمتی اور بے استقلالی نہایت افسوس ناک باتیں ہیں.پھر کسی کی نگرانی اور راہنمائی کا اپنے آپ کو محتاج سمجھنا بھی نادانی ہے.نگرانی کے محتاج بچے ہوتے ہیں.مگر مومن جوان ہوتا ہے اور وہ اپنا نگران خدا کو ہی سمجھتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ ہی اصل نگرانی کر سکتا ہے.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہو گئے اور حضرت مسیح موعود بھی فوت ہو گئے.پھر کون ہو سکتا ہے جو ہمیشہ نگرانی کر سکتا ہے.اس لئے ایسے زمانے بھی آتے ہیں جب کہ کوئی نگران نہیں ہوتا.جیسے مسلمانوں پر زمانہ آیا کہ نہ ان کی خلافت رہی اور نہ امامت.اس لئے مومن کو چاہیے کہ اپنے فرض کو خود پہچانے اور کسی کی یاد دہانی کا محتاج نہ رہے.یہ خاص وقت ہے جب تم لوگ کام کر کے بڑے بڑے اجر پاسکتے ہو.حضرت مسیح موعود کا شعر ہے.امروز قوم من نه شناسد مقام من روزی بگریه یا دکند وقت خوشترم کہ آج میری قوم میرا درجہ نہیں پہچانتی مگر ایک وقت آئے گا جبکہ کے گی.کاش ہم مانتے اور اس نعمت سے محروم نہ رہتے.پس جب وقت گذر جاتا ہے تو انسان پچھتاتا ہے.اس لئے میں آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ گو یہ مامور کا زمانہ نہیں.لیکن مامور کے قرب کا زمانہ ہے.آپ کی تعلیم موجود ہے.آپ کو دیکھنے والے موجود ہیں.اس لئے اس زمانہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھو.اور اپنی اصلاح کرو.تبلیغ میں سستی نہ کرو اور دوسروں تک پہنچاؤ کیونکہ ایمان اور سستی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے.خدا کرے آپ لوگ اس بات کو سمجھیں اور اپنے فرض کو پہچانیں.تا جلد وہ دن آئے جب ہم دیکھیں کہ کفرمٹ کر ہر طرف اسلام ہی اسلام ہو گیا ہے.الفضل ۷ در نومبر ۱۹۲۳ء)
247 42 الانذار (فرموده ۲۳ نومبر ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جب بھی وہ اپنا کوئی مامورو مرسل دنیا میں بھیجتا ہے تو اس کی شان اور اس کے درجہ اور رتبہ کے مطابق اس کے ساتھ ملائکہ کی فوجیں بھیجتا ہے.کیونکہ وہ روحانی بادشاہ ہوتا ہے اور کوئی بادشاہ بغیر فوج کے نہیں ہو سکتا.ہمیشہ نادان کافر اور جاہل معترض کہا کرتے ہیں کہ اس نبی کے پاس تو فوج نہیں.مگر چونکہ نبی جسمانی بادشاہ نہیں ہوتا.روحانی ہوتا ہے.اس لئے اس کے ساتھ روحانی فوجیں ہوتی ہیں.اس کا تخت روحانی ہوتا ہے.اس کا تاج روحانی ہوتا ہے.اس لئے اس کی فوجیں بھی روحانی ہوتی ہیں.جبکہ دنیاوی بادشاہ اپنی حکومت تلواروں کے زور سے قائم رکھنا چاہتے ہیں اور جبر اور زور سے اپنی حکومت منواتے ہیں اور اپنی توپوں اور بندوقوں سے دشمن پر زور ڈالتے ہیں.اس وقت انبیاء اپنی دعاؤں کے گولوں سے مخالفین کو زیر کرتے ہیں اور دوستوں کی مدد کرتے ہیں.ظاہری حکومتیں تلاش کر کے اپنی فوجوں میں بہادر قوموں سے جوان بھرتی کرتی ہیں.مگر نبیوں کی فوج میں فرشتوں کی بھرتی ہوتی ہے.پھر بادشاہ ظاہری سامانوں میں اپنے دشمن کو غارت کرتے ہیں تو انبیاء کے دشمن آسمانی سامانوں سے غارت کئے جاتے ہیں.انبیاء میں تمام بادشاہوں کی باتیں ہوتی ہیں بلکہ ان سے زیادہ ہوتی ہیں.وہ تاج و تخت و حکومت کے مالک ہوتے ہیں.مگر انکی یہ سب چیزیں روحانی ہوتی ہیں اور ان کے سب سامان خدا تعالیٰ کی طرف سے مہیا کئے جاتے ہیں.جس طرح ظاہری حکومتوں کے باغی ہلاک کئے جاتے ہیں اسی طرح انبیاء کے دشمن باطنی سامانوں سے باطنی پھانسی دئے جاتے ہیں جہیں طرح حکومتوں کے دشمن تلوار کے گھاٹ اتارے جاتے ہیں اسی طرح انبیاء کے دشمن جن کے حالات سے خدا تعالیٰ خوب واقف ہوتا ہے ان سے وہی سلوک کرتا ہے جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں.ظاہری حکومت کے قیدی قید میں رہ کر خوش ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں.لیکن خدا جس کو قید
248 - کرتا ہے وہ خوش نہیں ہو سکتا.ظاہری حکومتیں ایک شخص کو قید کرتی ہیں اس جرم میں کہ اس نے بغاوت کی مگر وہ شخص خوش ہو سکتا ہے اس لئے کہ وہ سمجھتا ہے کہ میں اپنی قوم کو آزاد کرانا چاہتا تھا.وہ اس قید کو عزت کا باعث سمجھتا ہے.اسی طرح ایک سپاہی جو ملک کی عزت و احترام کے لئے مرتا ہے وہ موت پر بھی خوش ہوتا ہے.لیکن خدا کا مارا ہوا نہ یہاں خوش ہوتا ہے نہ وہاں.خدا کا جس پر غضب نازل ہوتا ہے اور جو خدا کی قید میں ڈالا جاتا ہے وہ خوش نہیں ہو سکتا.خدا کی طرف سے قید یہ ہوتی ہے کہ وہ عزت کو تباہ کر دیتا ہے.جسم میں ایسی بیماری پیدا کر دیتا ہے جس سے راحت و آرام مفقود ہو جاتا ہے.اور خوشی سے محروم ہو جاتا ہے.ہمارے اس زمانہ میں بھی خدا نے اپنا ایک مرسل بھیجا ہے.یہ اس کا احسان تھا کیونکہ باوجود اس کے کہ لوگ گمراہ ہو گئے.انہوں نے بدی اختیار کرلی اور خدا کو بھلا دیا مگر خدا نے انعامات کا جو دروازہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ کھولا تھا نہ چاہا کہ اس کو بند کردے.باوجودیکہ لوگوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے رسول کی بے قدری کی خدا تعالٰی نے اپنا ایک مامور و مرسل بھیجا اس مامور و مرسل سے بھی ایسا ہی سلوک کیا گیا جو اس سے پہلے ماموروں سے ہوتا آیا ہے.لوگوں نے چاہا کہ اسے مٹا دیں اور اس کے سلسلہ کو درہم و برہم کر دیں مگر خدا نے اپنی بات پوری کر کے دکھادی.جب حضرت مسیح موعود نے دعوی کیا اس وقت آپ کی حالت اور آپ کے ماننے والوں کی حالت بظاہر بہت کمزور تھی.میری پیدائش دعوے سے پہلے کی ہے اور گو میں نے ابتداء نہیں دیکھی مگر ابتداء کے قرب کا زمانہ دیکھا ہے.وہ زمانہ بھی کمزوری کا زمانہ تھا.طرح طرح مولوی لوگوں کو جوش دلاتے تھے اور ہر ممکن طریق سے دکھ اور تکالیف پہنچاتے تھے.مجھے یاد ہے کہ حضرت صاحب ایک شہادت میں ملتان تشریف لے گئے.میں بھی ساتھ تھا اس وقت میری عمر آٹھ سال کے قریب ہوگی.جب آپ وہاں سے واپس آئے تو لاہور میں کسی جگہ دعوت تھی یا کیا بات تھی یہ مجھے یاد نہیں.آپ دہلی دروازہ کے اندر گئے اور سنہری مسجد یا وزیر خان کی مسجد کے پاس میں نے بہت بڑا مجمع دیکھا جن کے ہاتھوں میں پتھر تھے.اور وہ بڑا شور و غوغا کر رہے تھے اس تمام مجمع میں اس وقت کی عمر کے تقاضے کے مطابق مجھے ایک نظارہ خاص طور پر یاد ہے.ایک شخص جس کا ایک ہاتھ کٹا ہوا تھا وہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارمار کر شور مچاتا اور ہو ہو ہاہا کر رہا تھا.عمر کے تقاضے کے ماتحت اس وقت تو اس کی حالت قابل رحم نظر نہ آتی تھی بلکہ قابل تمسخر نظر آتی تھی.وہ سمجھتا تھا کہ ایک نہایت اعلیٰ درجہ کا کام کر رہا ہے.مگر آج میں جب ان حالات پر غور کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ ان کے دو چار کنکروں یا ان کی گالیوں نے حضرت اقدس کا یا آپ کے سلسلہ کا کیا بگاڑ لیا.حق کے اظہار کے لئے تو لوگوں کی گردنوں پر تلواریں رکھی گئیں.تب بھی کچھ نہ ہوا.غرض وہ
$249 ایک بے بسی کی حالت تھی جس میں وہ لوگ مبتلا تھے.اور خیال کرتے تھے شاید اس طرح کچھ بنالیں.مجھے یاد ہے کہ میں گاڑی کی پچھلی نشست پر گھوڑے کی طرف منہ کر کے بیٹھا ہوا تھا اور گاڑی کی ناقی میں سے قریباً نصف باہر جھک کر دور تک اس تماشہ کو دیکھتا رہا کہ یہ لوگ شور کیوں کرتے ہیں.پس یا تو وہ زمانہ تھا کہ رب العالمین کے مامورو مرسل پر لوگ تالیاں بجاتے اور خوش ہوتے تھے کہ ہم نے بڑا کام کیا.لیکن آج آپ کے خادم کہیں جاتے ہیں جو آپ کے درجہ کے مقابلہ میں کچھ حقیقت نہیں رکھتے تو لوگ ان کا ادب کرتے اور ان کو آنکھوں پر بٹھاتے ہیں.سینکڑوں آتے اور ادب سے ملتے ہیں.اگر مخالف بھی ہوتے ہیں تو بھی اتنا ضرور کہتے ہیں کہ ان کی ایک معزز جماعت ہے اور بڑی کام کرنے والی جماعت ہے ان کی عزت کرنی چاہئیے.کجا وہ حالت کہ حضرت اقدس پر پھر چلائے جاتے تھے اور آپ پر تالیاں بجائی جاتی تھیں.اور کجا یہ حالت کہ آپ کے خدام کی بھی عزت کی جاتی ہے.یہ حالت کیسے پیدا ہوئی.یہ بات کیسے دنیا کے قلوب کے اندر سما گئی اور یہ رنگ کیسے پیدا ہو گیا.کیا ہم نے وہ بات کہنی چھوڑی دی جو حضرت اقدس پیش فرماتے تھے.نہیں ہم وہی بات کہتے ہیں.لوگوں کو آج بھی ہم سے اختلاف ہے.مگر اس وقت اور موجودہ وقت میں فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت ملائکہ کی فوج نے کام شروع کیا تھا.اور اب ایک حد تک کام کر چکی ہے.اس تغیر میں خدا کے قہری نشانوں کا بھی دخل ہے جو کہیں زلزلہ کی صورت میں ظاہر ہوئے.کہیں طوفان اور طاعون کی صورت میں کہیں انفلوئنزا کی شکل میں اور کہیں قحط اور دبا کے رنگ میں کہیں کسی اور رنگ میں.یہ نشانات وہ لڑائیاں تھیں جو خدا کی طرف سے اپنے مامور و مرسل کی تائید میں لڑی گئیں.ان سے بہت سے لوگوں کی دشمنیاں ماری گئیں جن میں نیکی مخفی تھی وہ مان گئے.کچھ ایسے ہیں جنہوں نے مخالفت چھوڑ دی.مگر ابھی یہ کام ختم نہیں ہوا.اور جیسا کہ حضرت اقدس کے الہامات سے پتا لگتا ہے کہ ان حملوں کا سلسلہ ختم نہیں ہو گا جب تک کہ دنیا میں غالب دین اسلام نہ ہو جائے.ہاں کبھی خدا ڈھیل بھی دیتا ہے اور وقفہ ڈالتا ہے تاکہ اس عرصہ میں لوگ غور کریں اور اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں.جیسا کہ حضرت اقدس کا الہام ہے.انی مع الرسول اقوم افطر و اصوم استادان اس الہام پر بنتے ہیں اور کہتے ہیں کیا خدا بھی روزے رکھتا اور افطار کرتا ہے.مگر اس الہام کا یہ مطلب ہے کہ میں رسول کے ساتھ کھڑا ہوں.کبھی دنیا پر عذاب لاتا ہوں اور کبھی یہ حالت ہوتی ہے کہ چھوڑی دیتا ہوں اور لوگوں کی فریادوں کو سنتا ہوں.عذاب کے زمانہ کو روزے کھولنے سے تشبیہ دی.اور عذاب روکنے کے زمانہ کو روزے رکھنے سے.کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ عذاب مسلسل آتا جائے بلکہ خدا وقفہ دیتا ہے.اور پھر عذاب
250 نازل کرتا ہے.ایک زمانہ میں تلوار چلائی جاتی ہے.اور ایک زمانہ میں نیام میں رکھ دی جاتی ہے.سلسلہ چلتا چلا جائے گا جب تک وعدہ الہی پورا نہ ہو جائے.ے میں نے جو آج یہ خطبہ پڑھا ہے یہ ایک رویا کی بنا پر پڑھا ہے جو میں نے پرسوں دیکھی.جس معلوم ہوتا ہے کہ دنیا پر کوئی اور عذاب آنے والا ہے اور قریب کے زمانے میں آنے والا ہے.میں نے دو نظارے دیکھے ہیں.اول میں نے ایک مریض کو دیکھا.جس کے متعلق مجھے بتایا گیا کہ طاعون کا مریض ہے.پھر ایسا معلوم ہوا کہ ہم کچھ آدمی ایک گلی میں سے گزر رہے ہیں.ہمیں ایک شخص کہتا ہے.پرے ہٹ جاؤ یہاں سے بھینسیں گزرنے والی ہیں.ایسا معلوم ہوا کہ گویا گلی کے پاس ایک کھلا میدان ہے جس کے ارد گرد احاطہ کے طور پر دیوار ہے اور ایک طرف دروازہ بھی ہے.جس کو کواڑ نہیں ہیں.اور میں اور میرے ساتھی اس دروازے میں داخل ہو گئے ہیں.ہم نے گلی میں سے گذرنے والی بھینسوں کو دیکھا کہ وہ مارنے والی بھینسوں کی طرح گردن اٹھا کر دوڑتی چلی آتی ہیں.میں نے انتظار کیا کہ وہ گزر جائیں لیکن اتنے میں ہمیں بتایا گیا کہ وہ اس گلی سے نہیں دوسری سے گزر گئیں.تعبیر الرویا میں بھینس کی تعبیر وبا یا بیماری ہوتی ہے اور طاعون سے مراد بھی عام بیماری یا کوئی وبا ہوتی ہے.اور طاعون بھی ہو سکتی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عنقریب اس رنگ میں کوئی اور نشان ظاہر ہو گا.خدا تعالی کی طرف سے مختلف رنگ کے نشان آیا کرتے ہیں.کبھی سیاسی اور کبھی مالی اور کبھی کسی اور رنگ میں تاکہ لوگ ایک ہی قسم کے عذاب کے عادی نہ ہو جائیں.اس وجہ سے دو امور کی طرف اپنی جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.اول تو یہ کہ ان ایام میں بہت زیادہ استغفار اور توبہ کی ضرورت ہے.چاہئیے کہ ہمارے احباب خصوصیت سے اس میں لگ جائیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے متعلقین کو اس قسم کی موت سے بچائے.موت سب کو آتی ہے.حتی کہ نبی بھی نہ بچے اور تو اور نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بروز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام جن کے ذریعہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو پہچانا وہ بھی نہ بچے.پس جب وہ بھی نہ بچے جن کی دنیا کو اتنی ضرورت تھی.اور کون ہے جو موت سے بیچ جائے.مگر موتوں کی بھی قسمیں ہیں.بعض موتیں شہادت بھی ہوتی ہیں.مگر بعض لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہیں اور امر حق مشتبہ ہو جاتا ہے.جو وباء مخالفین کے لئے آئی ہو.اگر تم میں سے یا تمہارے متعلقین میں سے کوئی اس میں مبتلا ہو جائے تو لوگ اعتراض کریں گے کہ یہ کیسا عذاب ہے کہ ماننے والوں پر بھی آتا ہے.گو ان کا یہ اعتراض غلط ہو گا.مگر کہنے والے کو کون روک سکتا ہے.خدا کی ذات تو غنی ہے اگر کوئی انسان عفو طلب نہیں کرتا تو خدا کو اس کی پروا نہیں ہو
251 سکتی.ماننے والوں میں سے اگر کوئی کسی مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے یا کسی مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ کسی اپنی شامت اعمال کی وجہ سے اس کا مستحق ہوتا ہے.اپنی حالت میں ایسا شخص دو پتھروں کے نیچے کچلا جاتا ہے.ایک پتھر تو یہ ہوتا ہے کہ جو ہلا دین کے دشمنوں کے لئے تھی وہ اس میں مبتلا ہو گیا.اور دوسرا یہ کہ دشمنوں کے لئے ٹھوکر کا باعث ہوا.اور جس کا سر دو پتھروں کے نیچے ہو.اس کا بچنا مشکل ہوتا ہے.دوسرا امر یہ ہے کہ عذاب جن کے لئے ہے وہ ہمارے بھائی ہیں اور بھائی بھی کئی قسم کے.اول وہ اس رسول کو ماننے والے ہیں جس کو ماننا اور منوانا ہمارا فرض ہے.اس لئے وہ اس رسول میں سے ہو کر ہمارے بھائی ہیں.پھر وہ ہمارے اہل وطن ہیں.اس لئے وہ ہندوستان میں ہو کر ہمارے بھائی ہیں.پھر وہ انسان ہیں اور ہم اور وہ ایک انسان کی اولاد ہیں.اس لئے ہمارے بھائی ہیں.پھر بعض ان میں ہمارے رشتہ دار اور قریبی بھی ہیں.ہمارے ہمسائے بھی ہیں.اس لحاظ سے بھی ہمارے بھائی ہیں پس کئی وجوہ سے وہ ہمارے بھائی ہیں.ان تمام تعلقات کو مد نظر رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ اگر ان کو تکلیف پہنچے تو ہمیں ضرور رنج ہوتا ہے.اور ہم ان کی تباہی پر خوش نہیں ہو سکتے.بلکہ ہم اس صورت میں خوش ہو سکتے ہیں اگر وہ عذاب سے بچ جائیں.اس لئے میں اپنی جماعت کو یہ بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس امر کی بھی کوشش کریں کہ جہاں تک ہو سکے وہ لوگ عذاب میں مبتلا ہونے سے بچائے جائیں.اور ان کو بچانے کا طریق یہی ہے کہ ان کو تبلیغ کی جائے.اور وہ اس زمانہ کے مامورو مرسل پر ایمان لائیں.جب خدا کسی کو عذاب میں مبتلا کر رہا ہو تو اس کو نہیں بچایا جا سکتا.مگر اس طرح کہ ان حالات کو بدل دیا جائے اور اس میں اصلاح پیدا ہو جائے.ورنہ اور ذرائع سے خدا کے عذاب میں گرفتار شخص کو بچانے کی سعی کرنا جنون ہے.پس اگر کسی کا بچنا ممکن ہے تو تبلیغ کے ذریعہ ہی.اور اگر تبلیغ نہ کی جائے تو اس کے معنے ہیں کہ ان کی ہلاکت میں گویا ہم بھی مددگار ہیں.پس ہمارے دو فرض ہیں.اول یہ کہ دعا و استغفار کثرت سے کریں.اور عاجزی اور انکساری اختیار کریں.دوسرے یہ ہے کہ تبلیغ کے سلسلہ میں سعی بلیغ کریں تاکہ لوگ سلسلہ حقہ میں داخل ہو کر خدا کے عذاب سے بچ جائیں.اللہ تعالٰی ہم پر بھی رحم کرے اور ان پر بھی جو اب تک صداقت کو قبول کرنے سے محروم ہیں اور ان کو حق کے قبول کرنے کی توفیق دے.دوسرا خطبہ پڑھنے کے بعد فرمایا.جمعہ کی نماز پڑھ کے ایک جنازہ پڑھوں گا.جن دنوں میں لاہور میں تھا.میری چھوٹی بیوی کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا.چونکہ میں ان کا جنازہ پڑھ نہیں سکا تھا.اس لئے ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی خواہش ہے اور خود مجھ پر بھی مرحومہ کا حق ہے کہ میں ان کا
252 جنازہ پڑھوں کیونکہ وہ میری ساس تھیں.اس لئے نماز کے بعد میں ان کا جنازہ پڑھوں گا.احباب بھی میرے ساتھ اس نماز میں شامل ہوں.ا تذکرہ من ۳۹۵...الفضل ۱۳۰ نومبر ۱۹۲۳ء)
253 43 حسن ظنی میں ترقی کا راز فرموده ۳۰ / نومبر ۱۹۲۳) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.دنیا میں بعض باتیں بہت چھوٹی سمجھی جاتی ہیں لیکن عمل میں وہ بڑی ہوتی ہیں.بعض بہت چھوٹے اصل ہیں ان کو جب بیان کیا جاتا ہے تو سننے والے کے دل پر بوجہ ان کی اہمیت کا خیال نہ ہونے کے یا روز سننے کے ذہن سے ان کی وقعت نکل جاتی ہے یا سننے والا اس سے واقف نہیں ہوتا اس لئے اس کا ایسا چھوٹا اور خفیف اثر ہوتا ہے گویا ایک ادنی بات سنائی گئی.لوگوں کے قلوب اس کے تاثر سے انکار کر دیتے ہیں اور دراں حالیکہ اگر غور سے دیکھیں تو دنیا کے کارخانے ہی اس پر چل رہے ہوتے ہیں.اگر ان کو چھوڑ دیا جائے تو دنیا میں ہلاکت آجاتی ہے.ان چھوٹے اصول میں سے جو دراصل بڑے ہیں ایک اصل پر دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں، جس پر گو پہلے بھی کئی دفعہ توجہ دلا چکا ہوں.مگر میں افسوس سے کہتا ہوں کہ اسے ستی یا غفلت یا امور محمہ میں غور نہ کرنے کی عادت کہنا چاہئیے جس کی وجہ سے اس پر غور نہیں کی گئی.دنیا کا امن اسی پر منحصر ہے اس کو مد نظر رکھنے سے دنیا میں امن ہوتا ہے لیکن بوجہ اس کے کہ اس بات کو لوگوں نے اخلاق میں داخل کیا ہوا ہے.اس لئے لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے.بلکہ الٹا اس خلق کو تباہی کا موجب سمجھتے ہیں.حالانکہ یہ بات تباہی کا موجب نہیں ترقی کا موجب ہے.دنیا کے امن کا کارخانہ اس سے چلتا ہے وہ کونسی بات ہے جو اس قدر اہم ہے وہ حسن ظن ہے جس قدر حس ظن سے تمسخر کیا جاتا ہے.کسی اور بات سے نہیں کیا جاتا.دنیا میں کوئی شخص نہیں جو قتل و غارت کو ترجیح دیتا ہو.قاتلوں کو بھی یہ کہتا سن سکتے ہو کہ قتل بری چیز ہے.دوسروں کا مال کھانا برا سمجھا جاتا ہے.مگر کئی ہوں گے جو خود خائن ہوں گے مگر خیانت کی مذمت کریں گے.بہت ہوں گے جو جھوٹ بولنے کو برا کہیں گے مگر ان میں سے کئی جھوٹ بولتے ہوں گے.لیکن اس کے مقابلہ میں حسن ظنی ایک ایسی چیز ہے جو اچھی ہے مگر اکثر لوگوں کو اس کے خلاف کہتے سنو گے حالانکہ ان میں سے اکثر ہوں گے جو حسن ظن پر عمل کر رہے
254 ہوں گے اور ان کے لئے بد ظنی کرنے کی کوئی وجہ نہ ہوگی مگر باوجود اس کے وہ حسن ظنی کی شکایت کریں گے.اور اسی وقت کسی نہ کسی وقت میں وہ مجبور ہوں گے کہ حسن ظن کریں.تو جس قدر بے دردی سے اس خلق کو پامال کیا گیا ہے اور کوئی نہیں.حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ قوموں کے نظام تمام قسم کے آپس کے تعلقات اس ایک خلق پر چلتے ہیں.عدالتیں عدالت نہیں رہ سکتیں اگر اس کو چھوڑ دیں.دوستی اور رشتہ داری نہیں رہ سکتی.ایک خاوند اپنی بیوی کے سپرد گھر کا سب کام کرتا ہے.اگر وہ خاوند خیال کرے کہ اس کی بیوی خائن اور بے وفا ہے تو اس کے گھر کا انتظام نہیں چل سکتا.یا اگر ایک شخص کسی سے دوستی کرتا ہے اور وہ سمجھ لے کہ یہ میرا دوست دراصل دوست نہیں دشمن ہے تو ایسے شخص کو سچا دوست نہیں مل سکتا.اگر کسی آقا میں یہ مرض ہو کہ وہ سمجھے کہ اس کے نوکر وفادار اور کارکن نہیں تو اس کا کارخانہ درہم برہم ہو جائے گا.اسی طرح اگر نوکر یہ سمجھے کہ میں جس شخص کی نوکری کرنے لگا ہوں وہ مجھے تنخواہ نہ دے گا تو پھر وہ کسی کی ملازمت نہ کر سکے گا.غرض بدظنی ہر ایک کام کو برباد کرنے والی ہے.اگر مزدور مزدوری کرنا ہے تو حسن ظنی کرتا ہے کہ یہ مجھے میری اجرت دے دے گا لیکن اگر وہ بد ظنی کرے تو وہ شام کو محرام گھر کو جائے گا.وہی مزدور کام مہیا کر سکتا ہے جو یہ حسن ظن رکھتا ہے کہ میری مزدوری مل جائے گی.کئی دفعہ اس کے پیسے مارے بھی جائیں گے مگر زیادہ تر اس کا خیال یہی ہو گا کہ نہیں مارے جائیں گے.اور اس کے مطابق وہ عمل بھی کرے گا.اسی طرح جو شخص کسی مزدور کو اپنے کام پر لگاتا ہے اس کو بھی اگر یہی خیال ہو کہ ممکن ہے یہ مزدور غدار ہو تو اس کو مزدور نہیں مل سکتا.اگر مجسٹریٹ یہ بدظنی کرے کہ جو بھی ملزم اس کے پاس آتا ہے وہ ضرور مجرم ہی ہے.اس نے ضرور کچھ نہ کچھ کیا ہی ہو گا.کسی نے جھوٹا الزام تھوڑا ہی لگایا ہے اس سے سینکڑوں ہزاروں بے گناہ پھانسی پر لٹک جائیں.یا اسی طرح اگر مجسٹریٹ یہ بدظنی کرے کہ تمام الزام لگانے والے جھوٹے ہیں.تو بہت سے چور، ڈاکو، قاتل، غاصب تو آزاد ہو جائیں اور وہ لوگ جن کو در حقیقت نقصان پہنچا ہے تباہ ہو جائیں.اور ان کی کسی قسم کی داد رسی نہ ہو سکے.مجسٹریٹ تبھی انصاف کر سکتا ہے اگر وہ دونوں طرف سے حسن ظن لیکر بیٹھے.پھر وہ دونوں کے بیانات پر غور کرے تب وہ حق کو پا سکتا ہے.گورنمنٹ نے شک کا فائدہ ملزم کو دیا ہے اور عدالتیں اس اصول کے ماتحت کام نہ کریں تو وہ انصاف کو نہیں پا سکتیں.عدالتیں بدظنی کریں تو کئی جھوٹے بچ جائیں اور بچے سزا پا جائیں.غرض جماعتوں اور حکومتوں اور عدالتوں اور دوستیوں اور رشتہ داریوں اور کاروبار کے دیگر شعبوں میں جتنا حسن ظنی کا دخل ہے بدظنی کا نہیں ہے.اور حسن ظنی پر ہی یہ تمام کام چل رہے ہیں.ان امور میں جتنا حسن ظنی سے کام لیا جاتا ہے اگر اس کے بجائے بد ظنی ہو تو تمام کارخانے ہی
255 درہم برہم ہو جائیں.شریعت اسلام نے ایسے مواقع پر بھی جہاں بدظنی کے کچھ وجوہ موجود ہوں حسن ظن کرنے پر اپنے امور کی بنیاد رکھی ہے.ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک جنگ کے موقع پر ایک مسلمان نے ایک کافر پر حملہ کیا.وہ اس حملہ سے بچنے کے لئے کسی درخت کی اوٹ میں ہو گیا.مسلمان نے اس کو مجبور کیا کہ وہ درخت سے ہٹ جائے.آخر جب کا فر نے اپنی جان بچتی نہ دیکھی تو لا اله الا الله محمد رسول اللہ پڑھ لیا.بعض نے لکھا ہے کہ چونکہ کفار مسلمانوں کو صابی کہا کرتے تھے اس لئے اس نے کہا کہ میں صابی ہوتا ہوں.جس کے دوسرے لفظوں میں یہ معنے ہیں کہ اس نے کہا کہ میں مسلمان ہوتا ہوں.اس صحابی نے اس کو نہ سمجھا اور مار دیا.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ خبر ہوئی تو آپ اس قدر ناراض ہوئے کہ احادیث میں آتا ہے کہ ایسے کبھی ناراض نہ ہوئے تھے.صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ جھوٹا تھا اور بچنے کے لئے مسلمان بنتا تھا.اور آپ نے فرمایا هل شققت قلبه هل شققت قلبه هل شققت قلبه ا کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا.کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا.چاہے وہ کتنا بڑا قاتل تھا اور اس نے مسلمانوں کو کتنا ہی نقصان پہنچایا تھا.بہر حال جب اس نے کہا کہ میں مسلمان ہو تا ہوں تو تمہیں کیسے پتہ لگا کہ وہ جھوٹ بولتا تھا.بظا ہر حالات دیکھئے کہ اس شخص کے خلاف کس قدر حالات موجود ہیں اور اس کے مقابلہ میں اس صحابی کی بات درست معلوم ہوتی ہے لیکن جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں وہ عقل اور اخلاق کو نظر انداز کرتے ہیں.اور جو لوگ عمیق مطالعہ کرنے والے ہیں وہ جانتے ہیں کہ کس طرح بعض دفعہ بجلی کی طرح حالات کھل جاتے ہیں.حضرت عمر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مارنے کے لئے نکلے تھے مگر راستہ میں کس طرح مسلمان ہو گئے تھے.کیا ایک شخص جو بہت بڑا بہادر ہو اور اس کے مقابلہ میں اٹھارہ سالہ نوجوان نکلے وہ تلوار لے کر اس کے مقابلہ میں آئے اور ایسا حملہ کرے کہ وہ بہادر اپنی حفاظت نہ کر سکے تو کیا یہ ناممکن ہے کہ اس کے دل میں یہ بات پڑ جائے کہ یہ انسانی طاقت نہیں بلکہ کوئی اور طاقت ہے جو ان کے ساتھ ہے اور اس خیال کے ساتھ ہی وہ مسلمان ہو جائے.اگر بدظنی نہ ہو تو کیا ایسی استثنائی صورتیں نہیں جن سے اس شخص کے حق میں فیصلہ ہوتا ہے.حضرت عمرؓ کے واقعات یہ ہیں کہ وہ تلوار لے کر گھر سے چلے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کریں.ایک شخص نے راستہ میں پوچھا تو انہوں نے اپنا ارادہ بتایا.اس نے کہا کہ پہلے گھر کی تو خبر لو تمہاری بہن اور بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں.چنانچہ وہ گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا.اتفاق سے وہاں ایک صحابی تھے اور وہ قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے.وہ ڈر گئے.جب یہ اندر آگئے تو انہوں نے اصرار کیا کہ دکھاؤ کیا پڑھتے تھے.پہلے تو وہ ٹالتے رہے آخر انہوں نے سختی کی.یہاں تک کہ بہن کو مارا اور اس کے
256 جسم سے خون بہنے لگا.تب انہوں نے کہا کہ جو چاہو سو کرو ہم مسلمان ہو گئے ہیں.انہوں نے قرآن کریم دیکھنے کے لئے کہا مگر انہوں نے کہا کہ تم ناپاک ہو تم اس کو ہاتھ نہیں لگا سکتے.ان کو نہلایا اور پھر قرآن کریم کا ان پر ایسا اثر ہوا کہ آنکھوں میں آنسو آگئے اور مسلمان ہو گئے ۲.کیا عمر جو مکہ کے اشد ترین مخالفین میں سے تھے اور گھر سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کرنے کے لئے ہی نکلے تھے ان کے لئے راستہ میں ہی ایسے حالات پیدا نہیں ہوئے کہ جن سے وہ یک دفعہ مسلمان ہو جاتے ہیں.پھر کیا وہ بات جو عمر کے لئے ہو سکتی ہے ایک اور کافر کے لئے نہیں ہو سکتی.پس اس تعلیم پر عمل کئے بغیر کوئی انتظام نہیں ہو سکتا.کوئی جماعت اتفاق سے کام نہیں کر سکتی.علاوہ ازیں رشتہ داری، محبت ، دوستی، تجارت و حکومت کوئی کام نہیں جو حسن ظن کے بغیر چل سکے.الفسوس ہے کہ بہت سے سے لوگ ہیں جو حسن ظن سے کام نہیں لیتے اور اسلامی احکام کے ماتحت اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے.بہت ہیں جو بدظنی خود کرتے ہیں اور الزام دوسروں پر ڈالتے ہیں.یہ بات میں نے آج تمہیر کے طور پر کسی ہے.آج میں صرف اسی قدر تفصیل پر توجہ دلاتا ہوں اگر توفیق ملی تو اگلے جمعہ اس مسئلہ کی طرف توجہ دلاؤں گا.یہ ایک بڑی عظیم الشان بات ہے اگر اس کی طرف غور کیا جائے تو اس سے بہت سے فوائد مترتب ہو سکتے ہیں.اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری جماعت ترقی کرے تو بد ظنی چھوڑ دو.اور حسن ظن سے کام لینا شروع کر دو.خواہ تم بظاہر کسی قدر مخالف حالات بھی دیکھو تو بھی بدظنی نہ کرو.دیکھو اس صحابی نے بد ظنی کی اس شخص پر جس نے مسلمانوں کو قتل کیا تھا اور جو اس کی تلوار سے بچنے کی حتی الوسع کوشش کر رہا تھا مگر باوجود اس کے اس نے آخر میں اپنے اسلام کا اظہار کیا.صحابی نے اس پر بدلنی کی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس صحابی پر کس قدر ناراض ہوئے تھے.تمہارے پاس کس شخص پر بدظنی کرنے کے اتنے اسباب نہیں ہوتے مگر تم کرتے ہو.اگر تم سمجھو تو یہ بدظنی ایسی بلا ہے کہ اس سے خدا اور رسول کی ناراضگی ہوتی ہے.اپنے اندر حسن ظن کی عادت ڈالو.اگر تم حسن ظنی کو نظر انداز کرو گے تو تمہاری جماعت میں ترقی نہ ہوگی.اللہ تعالی توفیق دے کہ آپ لوگ اس خلق عظیم کو سمجھیں اور اس کے مطابق آپ کی زندگیاں ہو جائیں....ا مسلم کتاب الایمان باب من ما مت لا یشرک بالله دخل الجنته ۲ سیرت ابن ہشام جزو اول حالات اسلام عمر بن الخطاب رضی اللہ الفضل ۷۴ دسمبر (۱۳)
257 44 مولوی عبید اللہ صاحب مبلغ ماریشس کا ذکر خیر (فرموده ک کر دسمبر ۱۹۲۳ء) سورہ فاتحہ اور آیات پایها الذين امنوا استعينوا بالصبر والصلوة ان الله الصابرين ولا تقولوا لمن يقتل في سبيل الله اموات بل احياء ولكن لا تشعرون ولنبلونكم بشئى من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات وبشر الصابرين الذين اذا اصابتهم مصيبة قالوا انا لله وانا اليه راجعون (البقرة ۱۵۳ تا ۱۵۷) کی تلاوت کے بعد فرمایا.دنیا میں جب تک انسان رہتا ہے اس وقت تک اس کو خوشی و غم سے ایک ہی دم میں پالا پڑتا ہے.کبھی ایسا ہوتا ہے غم پہلے ہوتا ہے اور خوشی پیچھے اور کبھی خوشی پہلے ہوتی ہے اور غم پیچھے.کبھی یہ دونوں باتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں.آدمی نہیں جانتا کہ میں خوشی کروں یا غم تو ایک طرف انسان خوشی کے جذبات سے سرور حاصل کر رہا ہوتا ہے تو دوسری طرف رنج کی کیفیات اپنی طرف کھینچ رہی ہوتی ہیں اور اس کو بتا دیتی ہیں کہ تو خواہ کسی حالت میں ہو مگر پھر بھی تو انسان ہے اور رنج اور خوشی دنوں تیری لئے ہیں.ہاں صرف خدا ہی کی ذات ہے جو ان جذبات سے پاک اور بالا ہے.اس کے سوا کوئی ہستی ایسی نہیں جو خوشی اور رنج کے صدمات و اثرات سے پاک ہو.سوائے اس کے کہ جس کا انجام نیک ہو جائے اور وہ نجات پا جائے.ایسے شخص کے لئے خوشیاں ہی خوشیاں ہوتی ہیں رنج نہیں ہوتا.زندوں کے لئے موت مصیبت سمجھی جاتی ہے.اور اس سے بڑھ کر اور کوئی مصیبت خیال نہیں کی جاتی.یہی وجہ ہے کہ لوگ کہتے ہیں جان ہے تو جہان ہے.یعنی دنیا کے ساتھ تعلق یا دنیا کے آراموں سے لطف اس وقت تک ہے جب تک زندگی ہے.جب جان نہیں تو خواہ ساری دنیا کوئی دے دے کچھ نہیں.جب تک جان ہے سب کچھ ہے اور جب مرگئے تو دنیا کے لحاظ سے کچھ بھی نہیں.جان کی حفاظت کے لئے مال اور جائداد خرچ کی جاتی ہے اور کچھ پروا نہیں کی جاتی کہ جان کے بچانے کے لئے کیا خرچ کریں اور کیا بچائیں.مگر جس کا انجام اچھا ہو اور جس پر موت اس وقت آئے جبکہ وہ خدا سے راضی اور خدا اس سے راضی ہو اس کے لئے موت کی گھڑی خوشی
258 کی گھڑی ہوتی ہے.زندے اس پر روتے ہیں.اس لئے کہ ان کے لئے اس کی جدائی رنج اور غم کی بات ہے.مگر وہ خوش ہوتا ہے کہ اس کا خدا اس سے راضی ہو گیا اور اس کا انجام اچھا ہو گیا.کیونکہ وہ موت کے بعد دکھوں سے نجات پا گیا.اور خدا کے لطف و کرم کے دائمی سایہ کے نیچے آگیا.ایسے اشخاص جن کا انجام اس طرح ہو کہ خدا تعالیٰ ان سے راضی ہو وہ ابدالاباد تک راحت و چین میں رہتے ہیں.پس وہ موت کی گھڑی جو زندوں کے لئے مصیبت کی گھڑی ہوتی ہے ایسے مرنے والوں کے لئے نیک ساعت ہوتی ہے زندوں کو چونکہ اپنی جان سے واسطہ ہوتا ہے.وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے لئے مرنے والے کی جدائی تکلیف ہے اس لئے ان کا خیال اس طرف نہیں جانتا کہ مرنے والے کے لئے موت کیسی ہے.بہر حال انسان کے لئے خوشی اور رنج ساتھ ساتھ ہیں.اس کی تازہ مثال ہی دیکھو.ابھی اترسوں کی بات ہے کہ مفتی صاحب امریکہ سے خدمت اسلام کر کے جب واپس آئے تو ان کی اس کامیاب واپسی پر ہمارے دل خوش تھے.اس خوشی میں ہر ایک سمجھتا تھا کہ خدا نے ہمارے لئے اپنے فضل سے ایک خوشی کا دروازہ کھولا ہے کہ ہمارا ایک دوست جو ہم سے بہت دور تھا وہ ہم میں واپس آگیا ہے.یہ ایک خوشی تھی جس میں ہماری ساری جماعت نے حصہ لیا اور جوں جوں باہر خبر پہنچے گی.حصہ لے گی.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ بحیثیت انسان ہمارے لئے خوشیاں بھی ہیں اور رنج بھی.اس لئے جہاں یہ بات ہمارے لئے خوشی کا موجب تھی اور ابھی تین دن بھی اس خوشی نہیں گزرے تھے کہ آج میں ایک غمناک بات کے متعلق خطبہ پڑھنے لگا ہوں.میں جو خطبہ پڑھنا چاہتا ہوں وہ ان آیات سے ظاہر ہے کہ وہ خود اس مضمون کو ظاہر کر رہی ہیں.میں نے بتایا ہے کہ نیک انجام انسان کے لئے خوشی کی گھڑی موت ہے.جو شخص نیکی اور تقوالے اور خدمت دین کی حالت میں اس جہان سے گزرتا ہے.اس کی جدائی اگر شاق ہے تو زندوں کے لئے ہے اس کے لئے تو راحت اور مسرت کی گھڑی ہے.کسی شاعر نے خوب کہا ہے پر ایک با کيا " انت الذي ولدتک والناس حولک يضحكون سرورا " فاحرص على عمل تكون اذا بكوا " في وقت موتک ضاحكا مسرورا کہ جب تو پیدا ہوا تھا تو روتا تھا.اور جو تیرے قرابت دار تھے وہ تیری پیدائش پر ہنستے تھے.جن کے پیدا ہوا تھا تو وہ پر ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے وہ تو اس کی پیدائش کی خوشی میں ہنس رہے ہوتے ہیں.لیکن بچہ چونکہ تنگ رستہ سے ہو کر پیدا ہوتا ہے اور اس کے جسم کی ہڈیاں ہل جاتی ہیں.شاعر کہتا ہے اپنے رونے پر
259 ہنستے والوں سے تو اس طرح بدلہ لے کہ ایسے اعمال نیک بجا لا کہ جب تو فوت ہو تو اس وقت تو ہنس رہا ہو کہ خدا کے فضل کے نیچے جا رہا ہے اور وہ لوگ جو تیری پیدائش کے وقت ہنتے تھے وہ روئیں کہ ایسا نیک انسان ہم سے جدا ہو رہا ہے.اور ایسے عزیزوں کی جو خدمت دین کرنے والے ہوں.جدائی ایک تلخ گھونٹ ہے.مگر قرآن کریم ایسے لوگوں کو جو خدمت دین میں جان دیں.شہید کہتا ہے اور ان کو زندہ ٹھراتا ہے کیونکہ حقیقی زندگی وہی ہے جو خدا کے نزدیک زندگی ہو.پس خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ جو میرے لئے اور میرے دین کی خدمت کرتا ہوا مرتا ہے.وہ مردہ نہیں بلکہ زندہ ہے کیونکہ ایسے شخص کو مردہ کہنا خدا کے کلام کی ہتک ہے کیونکہ وہ شخص جو خدمت دین کرتا ہوا مر گیا.اس پر خدا راضی ہو گیا.اور جس پر خدا راضی ہو وہ کیسے مرسکتا ہے.جو خدا کے کام میں مرے خدا اس کو کیسے مُردہ قرار دے سکتا ہے.مرنے کے معنی فنا ہونے اور مٹنے کے ہیں.مگر خدا کی راہ میں جو جان دے.وہ فنا نہیں ہو سکتا.اور خدا چونکہ باقی ہے اسلئے وہ بھی بقا پاتا ہے.میں نے بتایا ہے کہ میں آج ایک دین کی خدمت میں جان دینے والے عزیز کی یاد کے لئے اور دوستوں کو اس کے لئے دعا کی تحریک کرنے کے واسطے خطبہ پڑھنے لگا ہوں.وہ دوست جس کو خدمت دین میں شہادت ملی ہے وہ ہمارا عزیز بچہ عبید اللہ ۲ ہے.بہت لوگ جو مادیت کی طرف توجہ رکھتے ہیں کہتے ہیں بڑی آواز کدھر سے آتی ہے.وہ لوگ اس آواز کو جو امریکہ اور انگلستان وغیرہ سے آئے زیادہ اہم سمجھتے ہیں.اور وہ لوگ جو ایسی ہی قربانی کے ماتحت دین کی خدمت کے لئے کسی اور ملک میں گئے ہوں ان کی آواز ان کے نزدیک زیادہ اہمیت نہیں رکھتی.حالانکہ ان کی قربانیاں بھی ایسی ہی ہیں جیسے انگلستان اور امریکہ وغیرہ جانے والوں کی ہیں.یورپ سے آنے والی آواز کو اہم سمجھتے ہیں حالانکہ خدا کی راہ میں کام کرنے والے سب برابر ہیں خواہ وہ کہیں ہوں.پس جو شخص کسی معروف علاقہ اور غریبوں میں تبلیغ کرتا ہوا جان دیتا ہے.خدا کے نزدیک اس شخص کے برابر ہے جو امیروں میں خدمت دین کرتا ہوا جان دے.اور جس طرح امریکہ اور انگلستان میں خدمت دین کرنے والے معزز ہیں اسی طرح وہ بھی معزز ہیں جو ادنی اقوام میں خدمت دین کرتے ہیں.اور میرے نزدیک دونوں بوجہ خدمت دین کے واجب التعظیم ہیں.گو مادیت کے اثر کی وجہ سے ماریشیس کے مبلغ بعض لوگوں کی نگاہ میں نہ آتے ہوں لیکن وہ دین حق کے مبلغ ہیں.انہوں نے بھی اپنے رشتہ داروں اور پیاروں کو دین کی خدمت کے لئے اسی طرح چھوڑا ہے جیسا کہ امریکہ اور انگلینڈ میں جانے والوں نے چھوڑا ہے.انہوں نے بھی وطن سے جدائی اختیار کی ہے.جیسی کی امریکہ و انگلستان جانے والوں نے کی ہے.جس طرح امریکہ و انگلستان میں کام کرنے والے مبلغ خدا کا نام پھیلانے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کئے ہوئے ہیں.اسی طرح انہوں نے بھی وقف کی
260 ہیں.اس لئے یہ نہیں کہ بوجہ جرمن یا انگلستان یا امریکہ میں کام کرنے کے کسی کی قربانی بڑھ جاتی ہے اور جو دوسرے ممالک میں کام کرتے ہیں ان کی قربانی کم ہوتی ہے.مگر باوجود اس حقیقت کے اور باوجود برابر کی قربانی کے ماریشیس کے مبلغ گمنامی کے گڑھے میں پڑے ہیں اور ان کے اچھے کام کی داد دینے والے دنیا میں کم ہیں.حالانکہ وہ خدا کے دین کے خادم ہیں اور ان کا خدمت دین میں جان دیتا ان کو شہادت کا رتبہ دلاتا ہے.ہر ایک شخص ان حالات کو نہیں سمجھ سکتا جن کو میں سمجھتا ہوں کیونکہ میرے سامنے تمام جماعت کے حالات آتے ہیں.علاوہ اس کے اگر دوسرے بھی ان خطوط کو دیکھیں جو میں دیکھتا ہوں اور جن سے نتائج اخذ کرتا ہوں تو بھی وہ باتیں نہ معلوم کر سکیں جو میں سمجھ سکتا ہوں.اللہ تعالیٰ میرے قلب میں ان کے متعلق ایک خاص احساس پیدا کرتا ہے.اور باوجود اس کے کہ وہی باتیں دوسروں کے سامنے آتی ہیں وہ ان کو اور رنگ میں لیتے ہیں.مگر جب مجھ تک پہنچتی ہیں تو میں ان سے اور مطلب اخذ کرتا ہوں کیونکہ مجھے تمام حالات کا علم ہوتا ہے اور ان کو سارے حالات کا علم نہیں ہوتا.بہت سی ایسی باتیں ہوتی ہیں جن سے دوسرے خوش ہوتے ہیں مگر مجھے ان سے رنج ہوتا ہے.کیونکہ ان میں ایک رنج کا پہلو پوشیدہ ہوتا ہے جو مجھے خدا کے فضل سے معلوم ہو جاتا ہے.اسی طرح ایک رنج کی خبر ہوتی ہے جس سے دو سرے رنج محسوس کرتے ہیں.مگر میں خوش ہوتا ہوں کیونکہ اس کے ساتھ ایک خوشی کی اہم بات بھی لگی ہوتی ہے.جسے دوسرے نہیں دیکھتے.پس میں اپنے علم و یقین کی بنا پر کہتا ہوں کہ ہمارے ماریشیس کے مبلغوں نے نہایت اخلاص کے ساتھ خدمت دین کی اور وہ ہمارے اعلیٰ مجاہدوں میں شامل ہیں اور انہوں نے جو کچھ کیا ہے.خدا کے لئے کیا ہے.عزیز عبید اللہ کی موت معمولی موت نہیں اور طبعی طور پر ہمارے لئے صدمہ اور رنج کا باعث ہے.ماریشیس میں اس کے رشتہ دار نہ تھے.وہ وہاں اپنے رشتہ داروں کے لئے نہ گیا تھا.نہ وہ بڑی تنخواہ کے لئے گیا تھا.وہاں اس کو جو تنخواہ ملتی تھی یہاں کے لحاظ سے بھی زیادہ نہ تھی.حالانکہ یہاں جتنے میں آٹا دس سیر فروخت ہوتا ہے وہاں ۲ سیر بکتا ہے.مگر وہ اپنی اس تنخواہ میں گزارہ کرتا رہا.پھر وہ عمر رسیدہ نہ تھا کہ ابتدائی عمر میں دنیا کی خوشیاں دیکھ چکا تھا.اور آخری عمر میں دین کی خدمت کے لئے نکلا تھا.وہ سترہ اٹھارہ برس کا نوجوان تھا جب اس نے اپنی زندگی دین کے لئے وقف کی.دنیا کی خوشیوں میں سے ایک بڑی خوشی یہ ہوتی ہے کہ انسان اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں میں رہے.مگر اس عزیز نے شروع سے یہ حاصل نہ کی.اس کی ابتدائی عمر والدین سے جدائی میں طالب علمی کے رنگ میں قادیان میں گزری.اور جب وہ تعلیم سے فارغ ہوا تو ہندوستان سے باہر چلا گیا باپ کے پاس رہنے کا اس عزیز کو بہت کم موقع ملا.کیونکہ اس کی جس قدر عمر تھی یا
261 قادیان میں تعلیم کے لئے یا ہندوستان سے باہر تبلیغ دین میں بسر ہوئی.گویا کہ اس کو یتیم کی موت ملی.وہ دنیا میں اکیلا آیا.اور اکیلا چلا گیا.ایسے وقت اور ایسی صورت میں جو احساسات غم ہو سکتے ہیں ان کا اندازہ لگانا آسان نہیں.اس کے اور حالات جانے دو.اس کی یہ موت ہی بہت بڑی قربانی اور اس کے ساتھ نہایت درجہ غم کو اپنے ساتھ لئے ہوئے ہے.لیکن میں نے اور خوبیوں کے علاوہ اس میں ایک خاص خوبی پائی تھی اور اس خوبی کو اس کی موت نے اور زیادہ نمایاں کر دیا ہے.وہ یہ تھی کہ اس نے دین کے لئے زندگی وقف کرنے کا جو عہد کیا تھا.اس کو نہایت صبر اور استقلال کے ساتھ نباہا.اور آخر وقت تک کسی قسم کی شکایت یا تکلیف کے اظہار کا ایک لفظ بھی اس کے منہ سے نہ نکلا.حالانکہ کئی بڑے بڑے آدمی مشکلات میں گھبرا جاتے اور شکایت کرتے ہیں کہ ہمیں مالی مشکلات پیش آتی ہیں.کبھی ان کو رشتہ دار یاد آتے ہیں.کبھی وطن کا خیال آتا ہے.لیکن اس لمبے عرصہ میں اس عزیز نے کبھی اپنے کسی خط میں کسی امر کی شکایت اشارۃ " یا کنایتہ " نہیں لکھی.اور میں نے کبھی اس کے خط سے محسوس نہیں کیا تھا کہ اس کو کوئی تکلیف پہنچ رہی ہے یا اس کو اپنے عزیز و اقارب یاد آتے ہیں.مگر اس سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرحوم نے اپنے عہد وقف کو کس درجہ تک نباہا کہ اس کے تازہ خطوط سے معلوم ہوا ہے (ماریشیس سے خطوط بہت دیر کے بعد آتے ہیں) کہ مرحوم کو سل کی مرض ہو گئی تھی اور یہ ایسی مرض ہے کہ جب ڈاکٹر اس کا نام جتا دے تو بڑے بڑے آدمی گھبرا جاتے ہیں.مگر اس کی حالت عجیب تھی.آخری خط میں اس نے لکھا کہ ڈاکٹر کہتے ہیں مجھے سل ہو گئی ہے لیکن میرا خیال ہے ان کی بات غلط ہے.اور اگر ہو تو بھی خیر.میں نے بہر حال خدا کے دین کا کام کرتا ہے.اور وہ میں کر رہا ہوں.خیال کرو.جب کہ بڑے بڑے لوگ ڈاکٹروں کے فتوئی کو بہت اہم قرار دیتے ہیں اور سل کا نام سن کر گھبرا جاتے ہیں.یہ عزیز کس اطمینان کے ساتھ اپنے آپ کو خدا کے کام میں مصروف رکھتا ہے اور دلیری سے اس بات کی تردید کرتا ہے.گویا کہ وہ اپنی اس نازک حالت میں بھی اپنے کام اور عہد سے غافل نہیں تھا.اس کے خط سے معلوم ہوا تھا کہ اب کچھ آرام ہے.مگر معلوم ہوتا ہے.چونکہ اس بیماری والے کے لئے بولنا سخت منع ہے.اس لئے درس اور لیکچر دینے کی وجہ سے اچانک موت واقع ہوئی ہے.کیونکہ کل ۶ / دسمبر تار آیا تھا کہ وہ بیمار ہیں.اور آج تار آیا ہے کہ فوت ہو گئے ہیں.ان کی موت اس مجاہد کی موت کی طرح ہے جو دشمنوں کی فوج کو مسلمانوں کو پامال کرتا دیکھ کر تلوار ہاتھ میں لے اور کفار کی فوج پر حملہ آور ہو جائے اور لڑتے لڑتے میدان جنگ میں ہی جان دے دے.وہ وطن سے دور عزیزوں سے دور اور ایسی بیماری میں جس میں اپنے گھر کی چھت کے نیچے عزیزوں کی
262 خدمت کی ضرورت ہوتی ہے وہ جان دیتا ہے.اور اس طرح خدمت دین کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے کے اقرار کو آخری سانس تک پورا کر دیا.اور دکھا دیا کہ خدا کی راہ میں میرے لئے کوئی تکلیف نہیں.پس وہ ہمارے شکریہ اور حمد کا مستحق ہے.اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کی تعریف کریں.اور دراصل جس کی حمد و تعریف خدا کرتا ہے.اس کی حمد اور کون کر سکتا ہے.میں خدا کے پر بھروسہ کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ اس کو خدا کی حمد حاصل ہو گئی.اللہ تعالیٰ صحابہ کے متعلق قرآن کریم میں فرماتا ہے.من المومنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه فمنهم من قضى نحبه و منهم من ينتظر و ما بدلوا الاحزاب (۲۴) مسلمانوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اس عہد کو جو انہوں نے اللہ سے کیا تھا کہ ہم نے اپنی زندگی خدا کے لئے وقف کر دی.آخری گھڑی تک پورا کر دیا.اور کچھ ایسے ہیں جو اس عہد پر قائم ہیں کہ آخری دم تک پورا کریں گے.میں سمجھتا ہوں مولوی عبید اللہ اپنے عمل سے آیت کا مصداق ثابت ہوا ہے.صحابہ ا کرام میں اس کی بہت سی مثالیں ہیں لیکن ہماری جماعت میں ابھی اس کی زیادہ مثالیں نہیں ہیں.حدیث میں آیا ہے کہ جب بدر کی جنگ ہو چکی تو ایک صحابی جو اس جنگ میں کسی وجہ سے شامل نہیں ہو سکے تھے کہنے لگے اگر میں ہوتا تو یوں لڑتاب پھر جب احد کا موقع آیا اور مسلمانوں کے قدم غلطی سے اکھڑ گئے حتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک وقت ایسا آیا کہ آپ اکیلے رہ گئے.چنانچہ ایک صحابی نے اس حالت میں آپ کو دیکھا مگر اس نے آپ کو نہ پہچانا.آپ بلندی کی طرف جا رہے تھے.آپ کا چہرہ چھپا ہوا تھا.آپ کے ساتھ صحابہ میں سے کوئی نہ تھا اور کفار کا زور ادھر ہی تھا جس طرف آپ تھے.وہ ایسا وقت تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مشہور ہو گیا کہ آپ شہید ہو گئے ہیں.وہی صحابی جنہوں نے جنگ بدر کے بعد کہا تھا کہ اگر میں ہوتا تو اس طرح لڑتا.انہوں نے دیکھا کہ حضرت عمرؓ سر جھکائے ہوئے سوچ رہے ہیں کہ اب کیا کریں.یہ شدت غم کی وجہ سے تھا.اس صحابی نے حضرت عمرؓ سے پوچھا کیا بات ہے انہوں نے کہا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں.ان صحابی نے کہا.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو پھر ہم نے زندہ رہ کر کیا کرتا ہے.چلو ہم بھی ادھر ہی چلیں جدھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گئے ہیں.یہ کہا اور تلوار ہاتھ میں لے کر کفار کے لشکر میں گھس گئے اور شہید ہو گئے.جب ان کی لاش دیکھی گئی تو ان کے جسم پر ستر زخم تھے.اور ان کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا.ایک اور صحابی کے متعلق آتا ہے کہ لڑائی میں ان کی ٹانگیں کٹ گئی تھیں وہ شدت درد سے تڑپ رہے تھے.کہ ایک صحابی ان کے پاس پہنچے اور پوچھا کیا حال ہے انہوں نے کہا پہلے یہ بتاؤ که رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا حالت ہے انہوں نے جواب دیا رسول کریم صلی اللہ علیہ
263 وسلم محفوظ ہیں.صحابی نے کہا میری طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دینا کہ جب اس کو یہ معلوم ہوا کہ آپ محفوظ ہیں تو اس نے آرام سے جان دی.اور میری قوم سے کہنا کہ مرتے دم تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کریں.وہ ان میں خدا کی امانت ہیں.ایسا نہ ہو کہ انکو نقصان پہنچے.۴؎ تو صحابہ میں ایسے ایسے نمونے تھے یہی وجہ ہے کہ ہمارے دلوں میں ان کی عزت اپنے آباء و اجداد سے بھی بہت زیادہ ہے.آباء و اجداد میں نے زبان کے محاورہ کے طور پر کہا رپرا ہے ورنہ خدا کی قدرت نے مجھے ایک ایسے انسان کی نسل سے پیدا کیا ہے جو اپنے عملوں اور قربانیوں کے باعث پچھلے لوگوں سے فائق ہو گیا اور درمیانی رشتہ توڑ کر اپنے آقا محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے براہ راست جا ملا.اس کو چھوڑ کر دادا اور اس سے اوپر کی تمام نسلوں کی تعریف میں اگر کتنے ہی بڑے بڑے قصائد پڑھے جائیں تو بھی ہمارے خوشی ظاہر کرنے والے اعصاب میں جنبش نہیں پیدا ہو سکتی.لیکن اگر ان صحابہ کی تعریف کی جائے جو ہماری قوم اور ملک کے نہیں تھے مگر جو دین کی خدمات کے باعث ہمیں اپنے پیاروں سے زیادہ پیارے ہیں تو جسم میں خوشی کی لہریں دوڑنے لگتی ہیں.ہماری ہندوستان کی جماعت میں تاحال اس قسم کے نمونے بہت کم ہیں جو صحابہ میں پائے جاتے ہیں.اور پھر ایسے بہت کم ہیں جو خدمات دین کے اقرار کو نباہنا جانتے ہوں.بہت ہیں جو قربانی کرنا نہیں جانتے یا نہیں کرتے یا نہیں بنا ہے.مگر مولوی عبید اللہ ہمارے ملک میں سے تھا جس نے عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ دین کے لئے زندگی وقف کرنا اور پھر اس عہد کو نباہنا دونوں باتوں کو جانتا تھا.ہماری جماعت میں پہلے شہید حضرت سید عبد اللطیف تھے.یا دوسرے کہ ان سے پہلے ان کے ایک شاگرد شہید ہوئے تھے.مگر وہ ہندوستان کے نہ تھے.بلکہ ہندوستان کے باہر کے تھے.ہندوستان میں سے شہادت کا پہلا موقع عبید اللہ کو ملا.ہمیں اس کی موت پر فخر ہے گو اس کے ساتھ صدمہ بھی ہے کہ ہم میں سے ایک نیک اور پاک روح جو خدا کے دین کی خدمت میں شب و روز مصروف تھی جدا ہو گئی.میں ان کے لئے خدا سے دعا کرتا ہوں اور ان کے پس ماندگان کے لئے بھی اللہ تعالیٰ مرنے والے کو اپنے قرب کا اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور پس ماندگان کو صبر بخشے.پڑھ میں جمعہ کی نماز کے بعد ان کا جنازہ پڑھوں گا اور میں باہر کی جماعتوں سے امید کرتا ہوں کہ جہاں جہاں اطلاع پہنچے پہلے جمعہ میں مولوی عبید اللہ مرحوم کا جنازہ پڑھیں.اور خطبہ میں میرا یہ خطبہ کر سنائیں.اگر اس کے علاوہ کچھ اور بھی خطبہ میں کہنا ہو تو کہہ سکتے ہیں.لیکن یہ خطبہ ضرور پڑھیں.ہم مرنے والے کے لئے دعا ہی کر سکتے ہیں.وہ شخص جس نے اس کام کو کرتے ہوئے جان دی جس کا کرنا ہمارا فرض ہے.اگر ہم اس کی یہ چھوٹی سے چھوٹی خدمت بھی نہ کریں تو اس سے
-264 بڑھ کر کیا بخل ہو سکتا ہے اور ایسی قوم زندہ نہیں رہ سکتی جو اپنے شہیدوں کو اعلیٰ اور عزت کا مقام نہیں دیتی.پس احباب خلوص اور اخلاص کے ساتھ نماز میں مرحوم کے لئے دعا کریں.ہمارے اس عزیز نے اس قربانی سے ثابت کر دیا ہے کہ ہندوستانی بھی دین کے لئے قربانی کر سکتے ہیں.ہمارے دوستوں کو چاہیے کہ مرحوم سے سبق لیں اور آگے قدم بڑھا ئیں اور اس مقام پر کھڑے ہوں جو خدا کے قرب کا مقام ہے اور دیکھ کی خدمت کے میدان میں ان کا قدم آگے ہی بڑھے.پیچھے نہ ہے.الفضل ار د سمبر ۱۹۲۳ء) ا محافی الادب حصہ دوم بحواله دردس الادب ص ۹۰ ۱۲ مولوی عبید اللہ صاحب بن حافظ غلام رسول صاحب بخاری کتاب المغازی غزوہ احد ۴ موطا امام مالک کتاب الجہاد باب الشہداء فی سبیل اللہ.
265 45 بعض بدلتیوں کا ازالہ (فرموده ۱۲ / دسمبر ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.میں نے پچھلے سے پچھلے خطبہ جمعہ میں اس بات کی طرف توجہ دلائی تھی کہ تمام کارخانہ عالم کا دارد مدار حسن ظنی پر ہے.اگر ہم حسن ظنی کو ترک کر دیں تو کوئی صیغہ انتظام کے ساتھ نہیں چل سکتا.نہ بیوی بچوں کے تعلقات درست رہ سکتے ہیں نہ دوست دوستوں کے ساتھ تعلق رکھ سکتا ہے.نہ سودا لینے والا کوئی سودا لے سکتا ہے.اور نہ سودا بیچنے والا سودا بیچ سکتا ہے.نہ حاکم محکوم تعلق رکھ سکتا ہے.نہ شہروں اور محلوں کے تعلقات درست رہ سکتے ہیں.غرض کوئی بھی شعبہ زندگی ایسا نہیں ہے جس میں حسن ظنی چھوڑی جا سکتی ہے.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر ایک کام حسن ظنی سے ہی شروع ہوتا ہے.جب تک اس کے ابتدا میں حسن ظنی نہ ہو تب تک وہ کام شروع ہی نہیں ہو سکتا.میں نے اس خطبہ میں بتایا تھا کہ یہ مضمون تمہید کے طور پر ہے اور اگلے جمعہ میں اصل مضمون بیان کروں گا لیکن اللہ تعالٰی کی حکمت کے ماتحت پچھلے جمعہ مولوی عبید اللہ صاحب کی وفات کی اطلاع ملی جس پر مجھے کچھ بولنا پڑا اور وہ مضمون بیان نہ کر سکا.اس لئے آج میں اس مضمون کو بیان کرتا ہوں جس کی پچھلے جمعہ میں تمہید بیان کی تھی.پچھلے دنوں جب میں لاہور گیا تو وہاں ایک عزیز نے بعض باتیں میرے پاس بیان کیں.وہ باتیں ایسی تھیں کہ ان کا دل کے اوپر نہایت ہی گہرا اثر پڑتا تھا کیونکہ وہ تمام بدظنی پر مبنی تھیں اور نہایت خطرناک نتائج پیدا کرنے والی تھیں.ان سے ایسا خطرناک نتیجہ پیدا ہو سکتا تھا کہ اس کے مقابلہ میں پیغامیوں کا فتنہ بھی کچھ حقیقت نہیں رکھتا.چونکہ وہ اہم معاملہ تھا اس لئے میں نے فوراً چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو تحقیقات پر مقرر کیا.اس تحقیقات کے نتیجہ میں جو رپورٹ انہوں نے پیش کی اس سے معلوم ہوا کہ راوی نے وہ باتیں واقع میں بیان کی تھیں.اس کا نام تو میں لینا پسند نہیں کرتا.کیونکہ جس نے وہ باتیں بیان کی تھیں وہ ایک نا تجربہ کار بچہ تھا اس کو ابھی بہت کچھ
266 سلام سیکھنا باقی تھا اور جو باتیں اس نے بیان کیں ان میں اس کی بہت کچھ نا تجربہ کاری کا بھی دخل تھا اور پھر اس نے بچے دل سے بعد میں تو بہ بھی کرلی.اس لئے میں نے چشم پوشی سے کام لیا اور اسے معاف کر دیا.پھر میں اس کا نام بھی نہیں لیتا جس نے مجھے وہ باتیں بتائیں.کیونکہ وہ بھی بچہ ہے اور ممکن ہے کہ کوئی اس سے زور دیکر پوچھے کہ بتاؤ وہ کونسا شخص ہے جس نے یہ باتیں بیان کی ہیں.باقی چوہدری صاحب کا نام اس لئے لیا ہے کہ میں سمجھتا ہوں وہ سمجھ دار آدمی ہیں ان سے کوئی شخص کوئی بات نہیں پوچھ سکتا.اور اس لئے بھی کہ میں نے تحقیقات کے لئے ایک ذمہ دار آدمی کو مقرر کیا تھا.انہوں نے رات کے دو تین بجے تک تحقیقات کی چنانچہ چوہدری صاحب کی تحقیقات سے یہ معلوم ہوا کہ جو باتیں مجھ تک پہنچی تھیں.وہ ضرور کہی گئی تھیں.اور وہ یہ تھیں.اس نے کہا قادیان میں مولویوں کو انگری خوانوں سے بڑی عداوت ہے.اور وہ ان کو حقیر سمجھتے ہیں نہ صرف یہ کہ انکے دلوں میں عداوت ہے بلکہ آئندہ نسلوں کو بھی یہی سکھایا جاتا ہے.اور ان میں اس قسم کی عادات پیدا کی جاتی ہیں.چنانچہ مدرسہ احمدیہ کے لڑکے انگریزی سکول کے استادوں کو نہیں کہتے.لیکن انگریزی مدرسہ کے استاد اور لڑکے مدرسہ احمدیہ کے لڑکوں اور استادوں کو السلام علیکم کہتے ہیں.اور ان کا ادب اور احترام کرتے ہیں.پھر بیان کیا کہ خصوصیت سے اس جرم کے مرتکب اور بانی مبانی مولوی سید سرور شاہ صاحب اور شیخ عبدالرحمان صاحب مصری ہیں.اور اس بدظنی کی بنیاد اس امر پر رکھی کہ مولوی صاحب نے ایک دفعہ مبلغوں کے متعلق خطبہ پڑھا تھا جس میں بتایا تھا کہ ضروری ہے کہ ایسے مبلغ باہر بھیجے جائیں جو دین سے واقف ہوں.ان کیسے بعض فقروں سے ظاہر ہوتا تھا کہ ان کے نزدیک اب جو مبلغ جا رہے ہیں وہ ناقص ہیں اور وہ چونکہ انگریزی خواں ہیں اس لئے ان کا یہ مطلب ہے کہ انگریزی خواں کام نہیں کر سکتے.اس شخص نے یہ بیان کیا کہ اس خطبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مولویوں کے دل میں انگریزی خوانوں سے کتنا بغض ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ انگریزی خواں تبلیغ کا کام نہیں کر سکتے.پھر اس شخص نے یہ بیان کیا کہ مولوی سرور شاہ صاحب کھلے طور پر خطبہ جمعہ میں ایسا نہیں کہہ سکتے تھے جب تک ان کے ساتھ مولویوں کا ایک جتھا نہ ہوتا.اس لئے ظاہر ہے کہ دوسرے مولوی بھی ان کے ساتھ ہیں.پھر انگریزی خوانوں کے خلاف اس قدر نفرت بڑھ رہی ہے کہ بعض انگریزی خواں کام کرنے والوں کو بھی مولوی کا نام دیا جاتا ہے تاکہ باہر کی جماعتوں کو یہ بتایا جائے کہ جو کچھ کام ہو رہا ہے وہ مولویوں کے ذریعہ ہو رہا ہے اور سلسلہ کے کام مولوی ہی کر رہے ہیں.جیسے مولوی رحیم بخش صاحب مولوی عبد المغنی صاحب مولوی ذوالفقار علی خان صاحب اور مولوی بشیر احمد صاحب نے اس بارہ میں زیادہ اہتمام کیا ہے اور تحریک کی ہے کہ ان لوگوں کو مولوی ہی کے لقب سے پکارا جائے تاکہ
267 مولویوں کا نام مشہور ہو.پھر اس نے بیان کیا کہ اس میں خلیفہ کا بھی کچھ دخل ہے.کیونکہ تمام مشوروں میں مولویوں کو ہی بلایا جاتا ہے.جب خلیفہ مولویوں کو مشوروں میں بلاتا ہے تو معلوم ہوا کہ ان کو لائق خیال کیا جاتا ہے.پھر اس کا ثبوت یہ ہے کہ مدرسہ احمدیہ کے استادوں کو تو مشوروں میں بلایا جاتا ہے لیکن مدرسہ انگریزی کے استادوں کو نہیں بلایا جاتا.لیکن حقیقت یہ ہے کہ کام انگریزی خواں کر رہے ہیں.بیرونی ممالک میں جو کام ہو رہا ہے وہ انگریزی خوانوں کے ہاتھوں سے ہو رہا ہے.تبلیغ کے لئے اصل میں انگریزی زبان کی ہی ضرورت ہے عربی صرف معمولی جاننے کی ضرورت ہے.جب اسے کہا گیا کہ بعض اوقات ایسے مسائل بھی پیش آتے ہیں جن میں عربی کی ضرورت پڑتی ہے.وہ پیچیدہ مسائل ہوتے ہیں جو عربی زبان کی واقفیت سے ہی حل ہو سکتے ہیں.تو اس نے کہا انہیں عربی کی ضرورت نہیں.ایسے مسائل انسان اپنی عقل سے بھی معلوم کر سکتا ہے.پھر سننے والے نے اسے کہا کہ اگر خلیفہ بھی مولویوں کو ہی مشوروں میں بلاتا ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی ہی لائق ہیں.اس نے جواب میں کہا کہ اصل وجہ یہ ہے کہ جب خلافت کا جھگڑا ہو اتو انگریزی خوانوں نے ہی یہ جھگڑا کھڑا کیا تھا.اور مولوی خلافت کی تائید میں تھے.اس لئے خلیفہ ان کی رعائت کرتا ہے.دوران تحقیقات میں جب اس لڑکے سے پوچھا گیا کہ تم نے واقعی یہ باتیں کہی ہیں تو اس نے کہا کہ مجھے تپ چڑھا ہوا تھا.اور میں نے آپ کے جوش میں یہ باتیں کہی تھیں.لیکن جب اسے کہا گیا کہ اب تمہارا کیا خیال ہے تو اس نے کہا اب بھی میرا یہی خیال ہے.ہاں اس نے یہ بھی کہا کہ مولوی جو وعظ کرتے ہیں جو تقریر کرتے ہیں.ان کے مقابلہ میں انگریزی خواں زیادہ عمدہ تقریر کر سکتے ہیں.ایک طرف شیخ عبد الرحمان صاحب کو حوالجات نکالنے پر بٹھایا جائے اور دوسرے طرف ایک انگریزی خواں لڑکے کو تو انگریزی خواں لڑکا زیادہ کام کر سکے گا.اور اسی طرح شیخ عبدالرحمان صاحب قرآن کے وہ معارف بیان نہیں کر سکتے جو فلاں انگریزی خواں بیان کر سکتا ہے.جس سے معلوم ہوا کہ مولویوں سے زیادہ خدمت اسلام کرنے کی قابلیت انگریزی خواں رکھتے ہیں بلکہ در حقیقت انگریزی خواں ہی خدمت کرتے ہیں.ان باتوں کے اندر بہت بڑی خطرناک روح معلوم ہوتی ہے جو اگر جاری رہے تو بہت بڑا فتنہ پیدا ہو سکتا ہے.یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ خیالات کسی ایک آدھ آدمی کے ہیں اس لئے کوئی فکر کی.بات نہیں.کوئی شخص تندرست نہیں رہ سکتا جب تک اس کے تمام اعضاء تندرست نہ ہوں اور اس کا تمام جسم صحیح نہ ہو.ایک عضو بھی اگر بیمار ہو جائے تو سارے اعضاء پر اس کا اثر پڑتا ہے.اسی طرح وہ جماعت بھی فتنوں سے محفوظ نہیں کہلا سکتی جس کے بعض افراد میں یہ روح موجود ہو.
268 اگر یہ روح جماعت میں جاری رہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تفرقہ بڑھے گا اور تمام جماعت یوں معلوم ہوگی جیسے فرانس کے میدان میں انگریز اور جرمن لڑ رہے تھے یا جیسے ایک پنجرے میں دو شیر بند کر دئے گئے ہیں.لیکن یاد رکھو جماعت دلوں کے اتحاد سے بنا کرتی ہے اگر کسی جماعت کے دل ایک نہیں تو وہ جماعت نہیں کہلا سکتی.جیسے حضرت صاحب نے پیغام صلح میں مسلمانوں کی نسبت فرمایا ہے کہ ان کی کوئی جماعت نہیں ہے کیونکہ ان کے دل پراگندہ ہیں.پس ہم اگر اپنے آپ کو جماعت احمدیہ کہیں لیکن ہمارے دل ایک نہ ہوں تو یہ جھوٹ ہو گا.میں نے جو باتیں اب بیان کی ہیں ممکن ہے کہ اور بھی کچھ آدمی اس قسم کے خیالات کے ہوں اور گو یہ خیالات ابھی مخفی ہیں اور دو چار آدمی اس میں مبتلا ہیں.لیکن اس خیال سے کہ یہ خیالات دوسرے لوگوں میں نہ پھیلیں اور جماعت کے اور افراد ایسے خیالات میں مبتلا نہ ہوں اور چونکہ یہ باتیں بہت اہم اور خطرناک نتائج پیدا کرنے والی ہیں اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ ان پر کچھ بیان کروں.یہ اس قدر اہم معالمہ تھا کہ اگر وہ نوجوان بچے دل سے توبہ نہ کرتا تو میں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اس کو جماعت سے الگ کر دوں کیونکہ خلیفہ کا یہی کام ہے کہ وہ تمام جماعت کو ایک ہاتھ پر اور ایک کلمہ پر جمع رکھے.میں سمجھتا ہوں میں اپنی ذمہ داریوں کے ادا کرنے سے قاصر رہتا یا قاصر رہوں گا اگر اس قسم کے واقعات اور حالات سے چشم پوشی کروں.کیونکہ وہ خلیفہ خلیفہ نہیں ہو سکتا جو دیکھتا ہے کہ اس کے سامنے جماعت ٹکڑے ٹکڑے ہو کر کئی جماعتیں بن رہی ہے اور وہ خاموش رہے.خلافت کی غرض ہی یہی ہے کہ وہ سب کو ایک جگہ پر اور ایک کلمہ پر جمع رکھے.مجھے شام کو ان باتوں کے متعلق اطلاع ہوئی اسی وقت میں نے دوستوں کو بلا کر مشورہ کیا.اور چوہدری صاحب کو بلا کر کہا کہ صبح سے پہلے پہلے مجھے تحقیقات کر کے اصل حالات بتائیں.آج میں نے اس خیال سے یہ خطبہ پڑھا ہے کہ باقی لوگ ان خیالات میں مبتلا نہ ہوں اور اصل حالات کو بیان کرتا ہوں.یہ جو اس نے بیان کیا کہ عربی خواں انگریزی خوانوں سے عداوت رکھتے اور ان کو حقیر سمجھتے ہیں اس کا جواب میں حدیث هل شفقت قلبہ اس کو پیش کر کے دیتا ہوں.اس حدیث سے ظاہر ہے کہ باوجود اس کے کہ صحابی ظاہر حالات میں راستی پر معلوم ہوتا ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی کو غلطی پر ٹھہراتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تم نے کیوں نہ اس پر سے تلوار اٹھالی اور کیوں نہ سمجھا کہ وہ تیرا بھائی ہے جب کہ اس نے کہا تھا کہ میں مسلمان ہو تا ہوں.کیا تو نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھا تھا.نبی کریم نے حسن ظنی کی ایسی تاکید کی ہے کہ باوجود اس کے کہ واقعات خلاف ہوں پھر بھی حسن ظنی سے کام لینا چاہئیے.مولویوں اور انگریزی خوانوں کی جو عداوت ہے وہ دل کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور حقارت کا تعلق بھی دل سے ہے.اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ عربی خواں
269 انگریزی خوانوں کو حقیر سمجھتے اور ان سے عداوت رکھتے ہیں یا نہیں.کیونکہ ہم نے ان کے دل پھاڑ کر نہیں دیکھے.پھر میں کہتا ہوں اس نے کس طرح سمجھ لیا کہ ان مولویوں کو انگریزی خوانوں سے عداوت اور نفرت ہے جو سالہا سال سے خدمت دین کر رہے ہیں.جنہوں نے اپنے وطنوں کو چھوڑا.آبائی مذہب کو چھوڑا.رشتہ داروں کو ترک کر دیا جنہوں نے اس قسم کی قربانیاں کیں جو قابل قدر ہیں اور پھر جو وہ منہ سے اقرار کرتے ہیں اس کے مطابق کام کر کے بھی دکھلاتے ہیں پھر جبکہ وہ اس بات سے انکار کر رہے ہیں کہ ان کو انگریزی خوانوں سے عداوت ہے ایسے لوگوں کے متعلق اگر کہا جائے کہ ان کے دل میں عداوت ہے تو اس سے بڑھ کر اور کیا بدظنی ہو سکتی ہے.اگر کسی کے متعلق بدظنی سے کام لینا چاہئیے تو پھر میں بھی ہر ایک بیعت کرنے والے پر بد ظنی کروں کہ معلوم نہیں کہ یہ کس غرض سے بیعت کرتا ہے اور جو بھی کام کرے اس کے متعلق سمجھوں کہ نہ معلوم کسن نیت سے کام کرتا ہے تو پھر کام کس طرح ہو.دنیا میں بہت سے ایسے نالائق بادشاہ گزرے ہیں جو بد ظنی کرتے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنے خادموں کو قتل کرا دیتے تھے.لیکن وہ دنیا میں کبھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھے گئے.دوسرے لوگ ہمیشہ ان کو ذلیل سمجھتے رہے ہیں انہوں نے محض بدظنی کی بنا پر اپنے وفادواروں کو قتل کرایا.پس بدظنی کرنے والا کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا.بعض لوگوں کو بدظنی سے نفع کا خیال ہوتا ہے لیکن یہاں تو بدظنی سے کوئی نفع نہیں حاصل ہو سکتا.اس بدظنی سے انگریزی خوانوں کو بھلا کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے.پس میں بھی نبی کریم کی طرح کہتا ہوں کہ کیا تم نے عربی خوانوں کے دلوں کو پھاڑ کر دیکھ لیا ہے کہ ان کے دل میں انگریزی خوانوں سے عداوت ہے.باقی مولوی سرور شاہ صاحب کے خطبہ سے جو نتیجہ نکالا گیا تھا.اور جو غلط مفہوم سمجھا گیا تھا.اس وجہ سے میں نے اگلے جمعہ میں ہی تردید کر دی تھی.میں نے کہا تھا کہ میں نے وہ خطبہ نہیں سنا.بعض اوقات جب میں تکلیف کی وجہ سے بول نہ سکوں تو جمعہ میں آجاتا ہوں اور خطبہ میری موجودگی میں ہوتا ہے لیکن اس دفعہ میں آبھی نہیں سکا تھا.اور میں نے نہیں سنا تھا کہ مولوی صاحب نے کیا کہا تھا.اس لئے میں نے کہا تھا میں امید نہیں کر سکتا کہ جو مضمون مولوی صاحب کی طرف منسوب کیا جاتا ہے وہ واقع میں انہوں نے بیان کیا ہو.اور میں نے اس بات کی تشریح کر دی تھی مگر دیکھو کہ بدظنی کا پہلا خطرناک نتیجہ کیا نکلتا ہے.اور بدظنی سے انسان کہاں تک پہنچتا ہے اس شخص نے بدظنی سے ایسے شخص کے متعلق استدلال کیا جو اس کا محسن تھا.سب سے پہلے جس شخص کی طرف سے مولوی صاحب کے خطبہ کے متعلق مجھے یہ کہا گیا کہ چونکہ مولوی صاحب کے مضمون سے لوگوں نے غلط نتیجہ نکالا ہے اور خطرہ ہے کہ انگریزی خوانوں کے دلوں کو اس سے تکلیف پہنچے اس لئے مولوی صاحب کو جلدی تدارک
270 کرنا چاہئیے اور اس غلط فہمی کو دور کر دینا چاہیے وہ شیخ عبد الرحمان صاحب مصری تھے.اور سب سے پہلے ایک مولوی ہی نے ان کی طرف سے مجھے یہ بات کہی.تو جس شخص نے اس خطبہ کے متعلق مجھے اطلاع کرائی اس کے متعلق یہ بدظنی کی گئی کہ اس کی صلاح اور مشورہ سے یہ خطبہ پڑھا گیا تھا.اگر وہ بدظنی نہ کرتا تو ایسے خطرناک امر میں مبتلا نہ ہوتا کہ ان لوگوں کو دشمن قرار دیتا جن کی طرف سے حسن سلوک کیا گیا تھا.پھر یہ بات اس نے بیان کی کہ مدرسہ احمدیہ کے لڑکے انگریزی سکول کے اساتذہ کو سلام نہیں کہتے.اس کے متعلق میں کچھ رائے نہیں دے سکتا.کیونکہ نہ میں ان مدرسوں کا طالب علم اور نہ ہائی سکول کا استاد ہوں.اور میرے سامنے وہ لڑکے ایسا کر بھی نہیں سکتے اور نہ میں ان پر بدظنی کرتا ہوں کہ وہ ایسا کرتے ہیں.لیکن اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یہ نہایت گندی اور خلاف اسلام بات ہے.مدرسہ احمدیہ میں پڑھنے کی تو غرض یہ ہے کہ وہ خدمت اسلام کے لئے تیار ہوں.اور اسلام کا یہ حکم ہے کہ خواہ کوئی ہو.اسے سلام کہا جائے.بعض صحابہ مثلاً عبداللہ بن عمر و غیرہ اسی غرض سے بعض اوقات بازار یا کوچہ میں جاتے کہ لوگوں کو سلام کہیں.مدرسہ احمدیہ خدمت اسلام کے لئے ہے نہ کہ اس کے خلاف چلنے کے لئے.پس میں ان پر بد ظنی نہیں کرتا.لیکن پھر بھی کہتا ہوں اگر ان میں سے کوئی اس مرض میں مبتلا ہو تو اس کو توبہ کرنی چاہیے اور اپنی اصلاح کرنی چاہئیے.اس سے زیادہ میں اس بات کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا.باقی رہا یہ کہ میاں بشیر احمد صاحب نے ماسٹر عبد المغنی صاحب ماسٹر رحیم بخش صاحب خان صاحب ذوالفقار علی خان صاحب کو مولوی کہا ہے اور لوگوں کو بھی ترغیب دی ہے کہ وہ ان کو مولوی کہا کریں تاکہ مولویوں کی شہرت ہو اور انگریزی خوانوں کے اچھے کام ان کی طرف منسوب ہوں.مجھے تحقیقات سے اب تک معلوم نہیں ہوا کہ میاں بشیر احمد صاحب نے ایسا کہا ہے اور نہ کوئی اس بات کا گواہ ملا ہے.اور ہمیں تو اب تک یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ ہم میں سے کون ہے جو مولوی کہلانا چاہتا ہے اور مولویت کے ساتھ انس رکھتا ہے.کیونکہ مولوی لفظ کا قدرتا" ہماری جماعت کے لوگوں میں ادب و احترام نہیں رہا.اور نہ اس سے انس ہے.کیونکہ نہ تو ابتدائی زمانہ اسلام میں کوئی مولوی کہلایا اور نہ درمیانی زمانہ کے بزرگوں نے اپنے آپ کو مولوی کہلایا.وہ امام پکارے جاتے تھے.اور اب ہمارے سامنے جو مولوی آئے وہ تو وہ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود کی شدید مخالفت کی اور آپ پر کفر و فسق کے فتوے لگائے.باقی جو بزرگ اسلام میں گزرے ہیں وہ امام کے لفظ سے پکارے گئے ہیں جیسے شیخ عبد القادر ، فقہا اور دوسرے عالموں کو امام یا علامہ کہا جاتا تھا.آج کل جو مولوی ہیں وہ ہمارے اشد ترین دشمن ہیں.اس لئے میری تو عقل میں ہی یہ نہیں
271 آتا کہ ہم میں سے کسی کو مولویت سے انس ہو.یا مولوی کہلانا چاہتا ہو.پھر یہ کہ ان لوگوں کو مولوی کہہ کر جماعت کو یہ دھوکہ دیا جا سکتا ہے.کہ مولوی ہی ہیں جو سب کام کر رہے ہیں یہ بھی غلط ہے.مجھے تو آج تک کبھی باہر سے کوئی چٹھی نہیں آئی کہ فلاں جگہ مولوی شاء اللہ سے مباحثہ ہے مولوی عبد المغنی کو بھیج دو یا مولوی ذوالفقار علی صاحب یا مولوی رحیم بخش صاحب کو بھیج دو.پس یہ ممکن ہی نہیں کہ اگر ان لوگوں کو مولوی کہا جائے تو جماعت کو یہ خیال ہو کہ یہ لوگ مولوی ہیں جو کام کر رہے ہیں.تمام جماعت ان کو انگریزی خواں سمجھتی ہے.ان کے متعلق یونسی زبانوں پر مولوی کا لفظ جاری ہو گیا.جس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ واقع میں مولوی سمجھے جاتے ہیں.مثلاً مولوی رحیم بخش صاحب ہیں.اگر ان کو کبھی مولوی کہا جاتا ہے تو اس لحاظ سے کہ انہوں نے عربی میں ایم.اے پاس کیا ہے اور کبھی ماسٹر بھی کہا جاتا ہے.کیونکہ وہ انگریزی خواں بھی ہیں.اسی طرح ماسٹر عبد المغنی صاحب کے متعلق بھی جماعت کو دھوکہ نہیں لگ سکتا کیونکہ جماعت کے لوگ جانتے ہیں کہ وہ انگریزی خواں ہیں.باقی رہا یہ کہ میں مولویوں کو ہی مشورہ میں بلاتا ہوں یہ بھی بالکل خلاف واقعہ ہے.مثلاً پیچھے مکانوں کے متعلق جن لوگوں کو مشورہ میں بلایا جاتا تھا.وہ صرف مولوی ہی نہ تھے بلکہ انگریزی خواں بھی تھے اور انگریزی دانوں کی تعداد زیادہ تھی.انگریزی خوانوں میں سے میاں بشیر احمد صاحب ، ماسٹر رحیم بخش صاحب ، ماسٹر عبد المغنی صاحب مولوی شیر علی صاحب ذوالفقار علی خان صاحب تھے.اور مولویوں میں سے حافظ روشن علی صاحب شیخ عبدالرحمان صاحب مصری، مولوی سرور شاه صاحب، مولوی اسماعیل صاحب تھے.باقی شیخ محمد یوسف صاحب قاضی اکمل صاحب میر قاسم علی صاحب وہ لوگ ہیں جو نہ انگریزی خواں کہلا سکتے ہیں نہ عربی خواں، قاضی اکمل صاحب نے اگرچہ درسی کتب عربی کی پڑھی ہیں لیکن انہوں نے اپنی آئندہ زندگی کو ایسے رنگ میں نہیں چلایا کہ وہ مولوی کہلاتے.پھر ولی اللہ شاہ صاحب بھی تھے.وہ بھی آدھے انگریزی خواں اور آدھے عربی خواں ہیں.انہوں نے عربی پڑھی ہے مگر وہ بھی انگریزی کی طرز پر.پس اگر مشورہ میں تعداد مد نظر رکھی جائے تو مولویوں کی کم ہے.ہاں چوہدری نصر اللہ خان صاحب بھی تھے وہ بھی نہ انگریزی خواں نہ عربی خواں ہیں.وہ وکیل ہیں.باقی صیغوں کے ناظر بھی انگریزی خوان ہیں مولوی نہیں.پھر یہ کہ میں عربی خوانوں سے کام لیتا ہوں انگریزی خوانوں سے نہیں لیتا یہ بھی غلط ہے.میں جب کسی کو کسی کام پر مقرر کرتا ہوں تو میرے ذہن میں یہی ہوتا ہے کہ یہ اس کام کا اہل ہے اور اس کام کو کر سکتا ہے لیکن میرے ذہن میں یہ کبھی نہیں آیا کہ یہ انگریزی خواں ہے یا عربی خواں.میرے ذہن میں جو سوال اٹھتا ہے وہ یہی ہوتا
272 ہے کہ آیا فلاں شخص فلاں کام کر سکتا ہے یا نہیں اور جس کو میں کسی کام کا اہل سمجھتا ہوں خواہ وہ انگریزی خواں ہو یا عربی دان یا اور کوئی اسے کام پر مقرر کرتا ہوں کیونکہ میرے مد نظر کسی کی ڈگری یا سند نہیں ہوتی بلکہ کام کرنے کی اہلیت ہوتی ہے.پس ہمارے پاس وہ رہ سکتا ہے جو یہ خیال کرے کہ میں احمدی ہوں اور وہ شخص کبھی اس جماعت میں نہیں ٹھر سکتا جو اپنے آپ کو انگریزی خواں یا عربی خواں ہونے کی حیثیت سے ہمارے پاس ٹھرنا چاہے.کیونکہ یہ ایک جماعت یا ایک کمیونٹی ہے جس میں احمدیت کے نقطہ اتحاد پر چل کر کام کرتا ہے نہ کہ مولوی یا انگریزی خواں ہو کر.پھر یہ کہ مدرسہ احمدیہ کے استاد مشورہ میں بلائے جاتے ہیں اور انگریزی مدرسہ کے استاد نہیں بلائے جاتے.اس کی وجہ یہ ہے کہ انگریزی خوانوں کی تعداد زیادہ ہے ان میں سے زیادہ لائق آدمی اعلیٰ کاموں کے لئے ہم نے چن لئے ہیں.لیکن عربی خواں تھوڑے ہیں اور ان میں سے لائق آدمیوں کو ہم نے مدرسہ میں لگایا ہوا ہے کیونکہ اور آدمی مدرسہ کا کام چلانے کے لئے ہمارے پاس نہیں.اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئیے کہ ان کو معمولی مدرس کی حیثیت سے بلایا جاتا ہے بلکہ اس حیثیت سے کہ وہ سلسلہ کے عالم ہیں باوجود علم و فضل کے یہ ان کی قربانی ہے کہ وہ مدرسہ کا کام چلا رہے ہیں ورنہ اصل ان کا یہ کام نہیں اگر ان کی جگہ ہمیں عربی خواں کافی تعداد میں مل جائیں تو ان کو ہمیں اور کاموں پر لگانے کی ضرورت ہے.پھر خلیفہ کے متعلق یہ کہنا کہ اس کا بھی ان باتوں میں دخل ہے.اور وہ عربی خوانوں کی رعائت کرتا ہے کیونکہ خلافت کے جھگڑے میں عربی خواں ہی اس کی تائید میں کھڑے تھے.یہ ایسا خیال ہے کہ اس کے رکھنے والا خلیفہ کی بیعت میں نہیں رہ سکتا.کیونکہ اس کا اس سے یہ مطلب ہے کہ خلیفہ اتنا بے وقوف ہے کہ اس کو پتہ ہی نہیں کہ خلافت کیا ہے اور خلیفہ کون بناتا ہے.خلافت کے جھگڑے کے وقت تہ اگر کچھ انگریزی خواں مخالفت کے لئے کھڑے ہو ئے تھے تو کچھ انگریزی خواں تائید میں بھی کھڑے تھے.جیسے مولوی شیر علی صاحب ذوالفقار علی خان صاحب وغیرہ.پھر اگر بعض مولوی تائید میں تھے تو بعض مخالف بھی تھے.جیسے مولوی غلام حسن صاحب پشاوری.پھر میں کہتا ہوں کسی کو خلیفہ ہونے سے فائدہ کیا ہے.سوائے اس کے کہ لوگوں کے مصائب اور ان کی اصلاح کے لئے غم کھاتا اور کڑھتا رہے.کہ کس طرح جماعت کا جہاز پار ہو جائے.خلافت اس سے زیادہ نہیں کہ وہ ایک مردم کش چیز ہے وہ کسی کے قتل کے لئے ایک نہایت سریع التاثیر آلہ ہے.جو مضبوط سے مضبوط اور جوان سے جوان آدمی کو تھوڑے عرصہ میں مار دیتا ہے.اور یہ ایک آزاد آدمی کو غلام بنا دیتی ہے.اور گھن کی طرح اس کو کھا جاتی ہے.باقی رہے خدا کے فضل اور احسانات وہ صرف خلافت کے ساتھ وابستہ نہیں.کیا نبوت براہ راست نہیں ملتی.بے شک روحانی
7273 فضل خلیفہ پر بھی ہوتے ہیں لیکن خدا کے فضلوں میں داخل ہونے کے لئے صرف یہی روحانی دروازہ وہ اگر کوئی اپنی خواہش سے خلیفہ بنتا ہے تو اس قسم کی خلافت تو بجائے رحمت کے زحمت ہے اور ہ شخص ایک ملعون انسان ہے.جو ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے اور کبھی بھی وہ کوئی تائید الہی نہیں حاصل کر سکتا پھر میرے نزدیک خلافت کی عظیم الشان مشکلات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خلیفہ خلافت سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا.وہ مجبور و معذور ہوتا ہے.وہ اعتراض کرنے والوں کو عملی جواب نہیں دے سکتا.ایک ہیڈ ماسٹر پر لوگوں کو اعتراض ہو.وہ کسی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہیڈ ماسٹری سے استعفا دے سکتا ہے کہ لو میں اس سے الگ ہوتا ہوں.لیکن ایک خلیفہ خلافت سے نہیں ہٹ سکتا.اور وہ اس طرح جواب نہیں دے سکتا اور یہی وہ منصب ہے کہ اس پر قائم ہونے والے کو پیچھے ہٹنے کے اختیار سے محروم کر دیا جاتا ہے خلیفہ ہی وہ شخص ہوتا ہے کہ جس کے ہاتھ بند ہوتے ہیں اس لئے دوسرے کے مکا کا جواب نہیں دے سکتا.اس کی زبان بھی بند ہوتی ہے اور کسی شریف انسان کے نزدیک اس سے بڑھ کر اور کوئی کمینگی نہیں ہو سکتی کہ اس شخص پر حملہ کیا - جائے.پس جس کی زبان اور ہاتھ بند ہوں جس شخص کے ہاتھ جواب دینے سے بند ہیں.اور جس کی زبان بھی بند ہے اس پر حملہ کرنا نہایت کمینگی ہے.اگر خلیفہ کو دست بردار ہونے کا اختیار ہوتا تو کئی خلیفے ایسے ہوتے جو معترضوں کو کہہ دیتے کہ لو تم خلافت کو سنبھالو ہم الگ ہوتے ہیں.لیکن چونکہ خلیفہ سے یہ اختیار چھین لیا جاتا ہے اس لئے خواہ کیسی حالت ہو وہ خلافت سے دست بردار ہونے کا خیال بھی نہیں کر سکتا.ان جوابوں کے بعد میں دونوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر اس قسم کے خیالات ان کے دل میں ہوں تو ان کو نکال دیں یاد رکھو کہ تفرقہ اندازی کسی طرح بھی مفید نہیں ہوتی.کوئی ترقی کرنے والی بھی دنیا میں ایسی نہیں گزری جس کا ایک حصہ دینی علوم کی طرف متوجہ نہ ہوا ہو.اور نہ کبھی کوئی ایسی قوم ترقی کر سکتی ہے جس کا ایک حصہ دنیاوی علوم کی طرف توجہ نہ کرے.جس طرح کبھی کوئی مکان بغیر دیواروں کے نہیں بن سکتا.اور نہ قائم رہ سکتا ہے اسی طرح وہ طبقہ جو زیادہ قابل ہو اس بات کے کہ وہ دنیوی طور پر سلسلہ کا عمود اور ستون ہو اور مالی خدمت سلسلہ کی کرے.اس کے نہ ہونے سے بھی ایسی جماعت ترقی نہیں کر سکتی.اسی طرح اگر مولویوں کو نکال دیا جائے تب بھی جماعت قائم نہیں رہ سکتی.اور نہ ترقی کر سکتی ہے.یہ جماعت نہ انگریزی دانوں سے بنی ہے.اور نہ مولویوں سے.جماعت میں انہی دو طبقوں کے لوگ نہیں ہیں.بلکہ جماعت کا ۹۸ فی صدی حصہ ان دونوں کے علاوہ بھی ہے اور وہ زیادہ سلسلہ کا کام کرتا ہے.ہاں ایک بات رہ گئی کہ ایک انگریزی
274 تعلق خواں شیخ عبدالرحمان مصری سے زیادہ جلدی حوالے نکال سکتا ہے مگر حوالوں کے ساتھ علم کا کیا ہے.حضرت مسیح موعود بھی دوسروں سے حوالے نکلوایا کرتے تھے.اسی طرح میں بھی دوسروں سے حوالے نکلواتا ہوں.مضمون بتا دیا اور آئتیں نکلوا لیں.ایک دفعہ لاہور میں میں نے لیکچر دیا.اور حافظ روشن علی صاحب سے آیت پڑھوائی.تو ایک اخبار نویس نے لکھا کہ لیکچر تو اچھا.مضمون تھا.لیکن ایک اور شخص سے پوچھ کر بولتے تھے.حوالہ نکالنا تو حافظ کا کام ہے.عالم کا کام تیار کرنا ہے باقی رہی یہ بات کہ ایک انگریزی خواں مولویوں سے زیادہ معارف بیان کر سکتا ہے اور اس نے تو ایسی طرز سے کہا تھا کہ گویا اس انگریزی خواں نے معارف بیان بھی کر دئے ہیں اگر ایسا ہے تو یہ ہمارے لئے خوشی کی بات ہے لیکن اس سے انگریزی خواں علماء کی ضرورت سے مستغنی نہیں ہو سکتے.دیکھو نسخے تو سارے لوگ جانتے ہیں لیکن اگر دنیا میں کوئی ڈاکٹر نہ رہے تو نسخے بھی نہ رہیں.کیوں کہ نسخے ڈاکٹروں کے ذریعہ سے ہی پائے جاتے ہیں.اسی طرح تم جو معارف بیان کرو وہ وہی تو ہونگے جو مولویوں سے سیکھے ہونگے خواہ کتنی بھی معارف بیان کرنے میں ترقی کر جاؤ.پھر بھی وہ مولویوں کے ہی بیان کردہ ہونگے.یا انہی کی تعلیم کا نتیجہ ہونگے.اور یہ معارف تب ہی حاصل ہو سکتے ہیں کہ ایک جماعت ایسی ہو جو رات دن اس کام میں لگی رہے.پس دونوں کو اپنی جگہ پر یہ سمجھنا چاہئیے کہ دونوں جماعت کی مشینری کے پرزے ہیں اگر انگریزی خواں انگلستان اور امریکہ وغیرہ میں کام کر رہے ہیں تو وہ یہاں وہ کام نہیں کر سکتے جو مولوی کر رہے ہیں.پھر جو کام مولوی مصر ایران اور افغانستان وغیرہ ممالک میں کرتے ہیں انگریزی خواں نہیں کر سکتے.پھر ان کے علاوہ اور لوگ ہیں جو سلسلہ کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں.ابھی ہمارا ایک بھائی محمد امین خاں بخارا سے ہو کر آیا ہے جو نہ انگریزی خواں ہے نہ عربی خواں.اس نے جو قربانیاں کی ہیں وہ بہت بڑھی ہوئی ہیں وہ جیل خانوں میں رہا ہے.عربی خواں یا انگریزی خوانوں میں سے کون ہے جو جیل خانوں میں رہا ہو.تو جماعت کا ہر شخص کام کر رہا ہے.ادنیٰ سے ادنیٰ مخلص احمدی بھی خدمت کر رہا ہے.پس پنے خیالات میں حسن ظنی کا مادہ رکھو اور بھائی بھائی بن کر رہو.وہی بچے ماں باپ کی محبت اور پیار کو کھینچتے ہیں جو آپس میں محبت اور پیار کو کھینچتے ہیں جو آپس میں محبت کے ساتھ رہتے ہیں.اسی طرح اگر تم خدا کے فضلوں اور اس کے رسول اور اس کے خلیفہ کی دعاؤں کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنے دلوں سے بد ظنی نکال دو.اور ہر ایک کو بھائی سمجھو کہ اسی میں تمہاری ترقی کا راز ہے.میں دعا الفضل ۲۱ ۱ دسمبر ۱۹۲۳) کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی تم میں محبت و پیار پیدا کرے.000 - ا مسلم کتاب الایمان باب من مات لا یشرک بالله دخل الجنته
-275 46 جلسہ کے متعلق اہل قادیان کا فرض (فرمود ۲۱ دسمبر ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.اللہ تعالیٰ کے مرسل اور مامور اور اس کے بھیجے ہوئے انسان کے احکام کے ماتحت سلسلہ عالیہ احمدیہ کا سالانہ جلسہ اس ہفتہ میں ہونے والا ہے.تین دن تک اور زیادہ سے زیادہ چار دن تک جلسہ میں شامل ہونے والوں کا کثیر حصہ قادیان میں حاضر ہو جائے گا.اور بعض لوگ تو فرط محبت یا فرصت کی زیادتی کی وجہ سے ابھی سے آنے شروع ہو گئے ہیں.جیسا کہ پہلے جلسوں پر تجربہ ہوا ہے.اللہ تعالی کی یہ سنت رہی ہے کہ ہر آنے والے سال میں پچھلے سالوں کی نسبت جلسہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی رہی ہے.اس دفعہ بھی ہم امید کرتے ہیں کہ پچھلے جلسوں سے زیادہ آدمی آئیں گے.اس لئے ہمارے منتظمین جلسہ کے لئے زیادہ ہوشیاری کی ضرورت ہے کیونکہ تعداد کی کثرت سے ان کی ذمہ داری بھی زیادہ ہو گئی ہے.معمولی جماعتوں کا انتظام بہت مشکل ہوتا ہے.مگر جہاں سات آٹھ ہزار کا مجمع ہو اور ان کی ہر قسم کی ضروریات مہیا کرنا منتظمین کے ذمہ ہو کتنا مشکل ہے.اگر بڑے شہروں میں اس قسم کے جلسے ہوں تو وہاں منتظمین کے لئے ایک حد تک آسانی بھی ہوتی ہے کہ ہوٹلوں وغیرہ میں کھانے اور ٹھہرنے کا انتظام ہو جاتا ہے اور پھر جمع ہونے والوں کی نسبت وہ لوگ زیادہ ہوتے ہیں.جن کے ہاں وہ لوگ آتے ہیں.یہ بات کسی جگہ نہیں ہوتی کہ جہاں جلسہ میں آنے والوں کی تعداد اصل باشندوں اور منتظموں سے بڑھ جائے.کانگریس وغیرہ کے اجلاس لاہور، کلکتہ، دہلی، ہمیتی وغیرہ مقامات پر ہوتے ہیں.ان اجلاسوں میں بیرو نجات سے شامل ہونے والوں کی تعداد دس بارہ ہزار سے زیادہ نہیں ہوتی.لیکن اگر مہمانوں کی تعداد دس بارہ ہزار ہوتی ہے تو ان شہروں کے لوگوں کی آبادی لاکھوں نفوس کی ہوتی ہے جن کا بیشتر حصہ مہمان داری کا کام کرتا ہے.ایسے بڑے شہروں کے کئی کئی گھر ایک ایک مہمان کو رسیو کرنے والے ہوتے ہیں.مگر ہمارے ہاں یہ خصوصیت ہے کہ مہمانوں کی تعداد میزبانوں سے بڑھ جاتی ہے.
276 اگر قادیان کے احمدیوں کے علاوہ ساری قادیان کی آبادی غیر احمدیوں ہندوؤں اور چوڑھوں کو بھی میزبان فرض کر لیا جائے تب بھی مہمانوں کی تعداد میزبانوں سے بڑھی ہوئی ہوگی.کیونکہ قادیان کی ساری آبادی چالیس ہزار کے قریب ہے جس میں چوڑھے سائنسی ہندو اور سکھ غیر احمدی سب شامل ہیں.مگر آنے والوں کی تعداد قریباً آٹھ ہزار تک پہنچ جاتی ہے.پس اتنے سے گاؤں میں اتنے زیادہ مہمان آتے ہیں اور یہ اپنی قسم کی ایک مثال ہے بعض ہندوؤں کے تیوہاروں پر لوگ کثرت سے جاتے ہیں مگر جہاں وہ لوگ جمع ہوتے ہیں وہاں کے رہنے والے ان کے میزبان نہیں ہوتے.باہر سے آنے والے اپنا ہر ایک انتظام آپ کرتے ہیں.اسی طرح مکہ مکرمہ والوں سے حاجیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے مگر مکہ مکرمہ کے لوگ میزبان نہیں ہوتے.جو لوگ حج کو جاتے ہیں وہ اپنے رہنے اپنے کھانے اور اپنی دیگر ضروریات کا خود انتظام کرتے ہیں.مکان کرایہ پر لیتے ہیں کھانا خریدتے ہیں یا پکاتے ہیں مکہ والوں کو اس سے کچھ غرض نہیں ہوتی.اگر ان کو فکر ہوتی ہے تو یہ کہ ان آنے والوں سے سال بھر کا خرچ کس طرح حاصل کیا جائے.پس ہمارے جلسہ کو ہی یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں مہمانوں کی میزبانوں سے تعداد بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہاں مہمانوں کی ساری ضروریات پوری کی جاتی ہیں.اس امتیاز میں نہ مسلمانوں کا نہ عیسائیوں کا نہ ہندوؤں کا نہ کسی اور قوم کا کوئی اجتماع ہمارے جلسہ کی مثال پیش کر سکتا ہے.اور یہ بات ہمارے جلسہ کو تمام دنیا کے مجامع سے اسی طرح ممتاز کر کے دکھاتی ہے.جس طرح ہماری جماعت کے دینی کام اور اس کی تحریکات ہماری جماعت کو دیگر جماعتوں سے الگ کر کے دکھاتی ہیں.مگر ہم اس پر خوش نہیں ہو سکتے کہ ہمارے جلسہ کو یہ امتیاز حاصل ہے کیونکہ امتیاز کام سے ہوتا ہے نام سے نہیں ہوتا.عزت کام سے حاصل ہوتی ہے نام سے نہیں.پس ہمیں یہ امتیاز تبھی حاصل ہو سکتا ہے جب ہم اپنے آپ کو اپنے کاموں کے ذریعہ ممتاز کر کے دکھائیں.جس شخص کے گھر میں کوئی مہمان نہیں آتا اور وہ کسی کی مہمان داری نہیں کرتا تو وہ کسی الزام کا مستوجب نہیں.مگر جن کے گھر مہمان آتے ہیں وہ اگر اپنے فرض کو ادا نہ کریں.تو وہ الزام سے نہیں بچ سکتے.اس لئے میں اپنے دوستوں کو جو قادیان میں رہتے ہیں کہتا ہوں کہ وہ پہلے سے زیادہ اپنے فرض کی طرف متوجہ ہوں جیسا کہ ہر سال مہمانوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے.اس دفعہ بھی اللہ تعالٰی کے فضل سے امید ہے کہ تعداد بڑھ جائے گی.یہ لوگ دور دور سے آتے ہیں.بنگال سے مدر اس سے بمبئی سے یوپی سے لوگ آتے ہیں.یہاں کوئی تماشہ کی جگہ نہیں جس کے لئے وہ آتے ہیں.وہ خدا کی تحریک اور اس کے منشاء کے مطابق آتے ہیں اور یہ خدا کا منشاء ہے کہ وہ ہر سال تعداد کو بڑھا کر لاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہم سے ہر سال پہلے سے زیادہ ایمان اور بڑی خدمت کی خواہش کرتا ہے.اس کا
277 زیادہ تعداد میں لوگوں کو لانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ہم سے زیادہ ایمان و اخلاص کا مطالبہ کرتا ہے.اس لئے اگر ہم اللہ تعالی کی مشیت کو پورا نہیں کرتے تو ہم اس کی مدد و نصرت کے امیدوار نہیں ہو سکتے.اس پر ظاہر ہے کہ ہم اپنے مہمانوں کی ویسی مہمانداری نہیں کرتے جیسی کہ کرنی چاہیے.کیونکہ نہ ہمارے پاس مہمان نوازی کے لئے آدمی ہیں.اور نہ سامان.دنیا کا قاعدہ ہے کہ جب کسی کے ہاں مہمان آتا ہے تو وہ مہمان کے لئے خاص کھانا پکاتا ہے مگر ہم یہ بات نہیں کر سکتے ان کی رہائش کے لئے بھی اعلیٰ انتظام نہیں کر سکتے.کثرت تعداد کی وجہ سے بجائے چارپائیوں کے کسیر بچھاتے ہیں کہ سوئیں.باقی اور مہمانداری کی اشیاء میں بھی ہم کمی کرتے ہیں.اور باہر سے آنے والے احباب اس کمی پر گزارہ کرسکتے ہیں.اگر اس کمی کے عوض کارکن احباب خوش خلقی سے مہمانوں کی تکلیف کو دور کریں تو کر سکتے ہیں.خوش خلقی ایک ایسی چیز ہے جو تمام تکلیفوں کو دور کر دیتی ہے.کسی کو ہر روز کھانا کھلاؤ.مگر خوش خلقی سے پیش نہ آؤ تو وہ کھانے سے یہ نہ سمجھے گا کہ اس کی عزت کی گئی بلکہ کھانا اس کے حلق سے نہ اترے گا.حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے ایک جگہ دوزخ کی ابدیت پر بحث تھی میں نے کہا کہ اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ جہنم ابدی نہیں بلکہ ایک زمانہ کے بعد لوگ اس سے نکالے جائیں گے اور بہشت میں بھیج دئے جائیں گے.ایک رئیس نے کہا پھر تو بڑے مزہ کی بات ہے یہاں جو جی چاہے کر لیں آخر یہاں بھی آرام وہاں بھی آرام چند دن کی تکلیف ہے.آپ نے فرمایا آپ بازار میں چل کر دو جوتیاں کھا لیجئے پھر میں آپ کو اس کے عوض کچھ روپے دے دوں گا کہنے لگا.مولوی صاحب آپ یہ کیسی باتیں کرتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ جب کہ تمہاری غیرت یہ گوارا نہیں کرتی تو جہاں تمہارے باپ دادے اور دوسرے لوگ جمع ہوں گے وہاں کی رسوائی کیسے برداشت کرو گے.پس اگر کسی شخص کی ذلت کی جائے مگر اس کو کھانے اعلیٰ سے اعلیٰ دئے جائیں تو وہ اس کو گلے میں انکیں گے.لیکن اگر عزت کی جائے اور خوش اخلاقی سے پیش آیا جائے اور اخلاص دکھایا جائے تو خشک روٹی اچھی معلوم ہوگی.اللہ تعالیٰ نے انسان کی کمزوریوں کو ملحوظ رکھ کر اس کو ایسی حسیں عطا کی ہیں جن کے ذریعہ تمام کمزوریاں چھپ جاتی ہیں.ان میں سے ایک خوش اخلاقی اور نیک برتاؤ ہے اگر ایک بچہ کو بادشاہ یا ملکہ اپنے محل میں لے جائے کہ تمہیں بادشاہ کے محل میں رکھتے ہیں اور اچھے سے اچھے کھانے دے اور نوکرانیاں خدمت کے لئے مقرر کر دے تو بچہ وہاں رہنے کی نسبت اپنی ماں کی گود کو ترجیح دے گا.خواہ ماں بے چاری اس کو پھٹے پرانے کپڑے پہنانے کے بھی نا قابل ہو.غریب سے غریب ماں باپ کا بچہ بھی اس پر خوش نہ ہوگا کہ اس کو اس کی ماں سے جدا کر
***278 لیا جائے خواہ اس کو کوئی نعمت دی جائے.وہ روئے گا، چلائے گا کیونکہ دنیا کی کوئی نعمت ماں کی محبت اور محبت بھری نگاہ کی ہم وزن نہیں ہو سکتی.پس خدا نے غریبوں کی کم سامانی کو چھپانے کے لئے محبت کو پیدا کیا ہے.جب انسان محبت سے ملتا ہے تو اس کی کمزوری چھپ جاتی ہے محبت کے روکھے ٹکڑے میں جو مزہ آتا ہے وہ ترش روئی اور کج خلقی کے ساتھ اعلیٰ کھانے پیش کرنے میں نہیں پایا جاتا.پس آپ لوگوں کو چاہیے کہ جو مہمان آئیں ان سے خوش خلقی سے پیش آئیں.ان کی بچے دل سے خدمت کریں.چونکہ میری طبیعت اچھی نہیں زیادہ تفصیل سے نہیں بول سکتا.اور امید کرتا ہوں کہ پہلے جلسوں کے متعلق جو ہدایات دی گئی تھیں.اور جو چھپ چکی ہیں ان پر عمل کیا جائے گا.یاد رکھو جو شخص مہمان کی عزت نہیں کرتا وہ عزت نہیں پاتا.اللہ تعالی آپ لوگوں کو اپنے فرض کے پورا کرنے کی توفیق دے تاکہ آنے والی زندگی کے لئے اعلیٰ سامان تیار کر سکو اور وہ عمل کر سکو جس سے خدا خوش ہو جائے.الفضل دار جنوری ۱۹۲۴ء)...
5279 47 خدمت دین کا زمانہ (فرموده ۲۸ / دسمبر ۱۹۲۳ء) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.گو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں خطبہ کا یہی طریق تھا کہ جمعہ کی نماز جو دو رکعت ہوتی ہے اس کی نسبت مختصر ہوتا تھا مگر اس زمانہ کی ضروریات کو مد نظر رکھ کو خطبہ لمبا کیا جاتا ہے.مختصر خطبہ پڑھنا سنت یا فرض نہیں کیونکہ عرب میں رواج یہ تھا کہ بڑی سے بڑی نصیحت کو چھوٹے سے چھوٹے فقرے میں ادا کرتے تھے.اور لمبی سے لمبی بات کو ضرب المثل کے طور پر بیان کر دیتے تھے.ہمارے ملک میں لوگ لمبی گفتگو سے مطلب سمجھتے ہیں مگر عرب میں کوشش کی جاتی تھی کہ وسیع مضمون کو دو جملوں میں ادا کیا جائے.چونکہ خطبہ سے غرض اصلاح ہے اس لئے ملک کی حالت کو مد نظر رکھ کر لمبا خطبہ بیان کرنا پڑتا ہے مگر جس طرح چھوٹا خطبہ پڑھنا فرض نہیں اسی طرح لمبا خطبہ پڑھنا بھی فرض نہیں.چونکہ آج خطبہ کے بعد جلسہ کا بقیہ حصہ ہوگا اس لئے مختصر خطبہ پڑھتا ہوں کیونکہ ممکن ہے جلسہ کی تقریر لمبی ہو جائے.جمعہ کو مسیح موعود سے ایک مشابہت ہے زمانہ کے مختلف دور ہیں.ایک دور وہ ہے جس کے لحاظ سے وہ ساتویں ہزار کا زمانہ ہے.میں زمانہ کے دور اس لئے کہتا ہے ہوں کہ بعض لوگ غلطی سے دنیا کی عمر صرف سات ہزار سال کہتے ہیں.پس دنیا کے دوروں میں سے اس دور کا ساتواں ہزار ہے.یہ دور آخری ہے یا نہیں اس کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے.بہر حال یہ ساتواں دور ہے.اور صحیح موعود کی بعثت ساتویں ہزار کے لئے ہے.اور ہفتہ کے ساتھ میں دن جمعہ کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص عبادت کا حکم دیا ہے.اس دن دو طرح کی عبادت کی جاتی ہے.ایک روزانہ عبادت جو لوگ کرتے ہیں اور ایک جمعہ کی اور دونوں کو ملا کر ایک کر دیا جاتا ہے.اس دن ایک علاقہ کے لوگ ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اور عبادت الہی میں مصروف ہوتے ہیں گویا یہ دور جو مسیح موعود کے زمانہ کا دور ہے.تبلیغ و اشاعت کا دور ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تکمیل.
280 ہدایت کا زمانہ تھا اور مسیح موعود کا زمانہ تبلیغ و اشاعت ہدایت کا زمانہ ہے.جمعہ کے دن جب لوگ جمع ہوتے ہیں تو اس سبق کی یاد دلائی جاتی ہے جو تیرہ سو برس سے ان کو پڑھایا گیا ہے کہ ساتواں ہزار بالفاظ دیگر مسیح موعود کا زمانہ دنیا کو اکٹھا کرنے کا زمانہ ہوگا.اس زمانہ میں تمام دنیا جمع کی جائے گی (اس دوران میں کوئی صاحب حاضرین میں سے حضور کو رقعہ دینے کے لئے کھڑے ہونے لگے.حضور نے فرمایا جب خطبہ ہوتا ہو تو کوئی کام نہیں کرنا چاہئیے ) اور یہ فرض یعنی تبلیغ ہدایت کا فرض جمعہ کے دن پوشیدہ طور پر بتایا گیا ہے.اس کے بعد میں ایک احمدی بہن کی درخواست پیش کرتا ہوں کہ اس کا ایک ہی بچہ تھا.ایک مہینہ کا عرصہ ہوا کہ وہ گم ہو گیا ہے.میں دوسرے بھائیوں سے بھی درخواست کرتا ہوں اور اللہ تعالی چاہے تو خود بھی اس کے لئے دعا کروں گا.اللہ تعالی اس بہن کو تشفی دے اور اس کے دل کے اطمینان کی صورت پیدا کرے.جب دوسرے خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا احباب جمعہ کے معا بعد اکٹھے ہو جائیں تا کہ تقریر جلد ختم ہو اور رات کو زیادہ وقت نہ لگانا پڑے.دوسری بات یہ ہے کہ نماز کے بعد مجھے سٹیج کے لئے راستہ دے دیں کہ میں جلد پہنچ جاؤں جیسا کہ کل بھی دیا تھا.اس کے لئے میں ان کے واسطے دعا کرتا ہوں.الفضل ر جنوری (۱۲۴)...ا مشكوة كتاب الصلاة باب الجمعة
283 48 فرموده ۴ جنوری ۱۹۲۴ء خدا کی نظر قربانیوں پر ہوتی ہے مشهدد تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا پہلے تو خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جس نے اپنے فضل و کرم سے اس سالانہ جلسہ کو نہایت کامیابی کے ساتھ ختم فرمایا.اس دفعہ موسم کے تغیرات کو اور مہمانوں کی زیادتی کو مد نظر رکھتے ہوئے بہت سی دقتیں انتظام میں تھیں اور میری طبیعت بھی بیمار تھی.لیکن خدا کے فضل سے ایک طرف تو احسن طور پر انتظام ہوا اور دوسری طرف با وجود کثرت مہمانوں کے دوستوں کو اچھی طرح کام کرنے کی توفیق ملی اور میں دعا کرتا ہوں کہ آئندہ بھی اللہ تعالٰی ہماری بہت بہت نصرت فرمائے.اس کے بعد میں دوستوں کی خدمات پر بھی بہت خوشی کا اظہار کرتا ہوں ان لوگوں کا بھی وقت گذر گیا جو اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے رہے.اور ان لوگوں کا بھی وقت گذر گیا جنہوں نے جلسہ کے دنوں میں کام میں رات دن ایک کر دیا لیکن اس جلسہ پر کام کرنے والوں کو جو ثواب لینے کا موقع ملا.وہ آرام سے بیٹھنے والوں کو نہ ملا گو وقت بہت تھوڑا تھا.مگر اس تھوڑے وقت میں کام کرنے والوں کو ثواب مل گیا.پس وہ لوگ جنہوں نے خدمت میں حصہ نہیں لیا.ان کو کہتا ہوں کہ آج وہ خدمت کرنے والوں کے برابر نہیں بلکہ ان سے رتبہ میں کم ہیں.آئندہ جلسہ پر وہ خدمت میں حصہ لینے کی کوشش کریں.پچھلا سال گذر گیا جلسہ آیا اور ختم ہو گیا اب نیا سال شروع ہوا ہے اور نیا معاملہ ہے اس کے لئے نئی تیاریوں اور نئی کوششوں کی ضرورت ہے پس میں دوستوں کو اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے اپنے علاقہ میں جماعت کے بڑھانے کی طرف توجہ کریں.اگر کوئی جماعت حفاظت اسلام کے قابل ہے اور حفاظت اسلام کرتی ہے اور اس کا ارادہ رکھتی ہے تو وہ احمدی جماعت ہی
ہے.284 میں یہ نہیں کہتا کہ تم اس لئے جماعت بڑھاؤ کہ اور لوگ تمہارے ساتھ شامل ہوں اور تم ایک مضبوط جماعت بن جاؤ.جو دنیا میں معزز ہو اور دشمنوں کے حملہ سے محفوظ ہو بلکہ اس سے اعلیٰ بات کے لئے تبلیغ کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ تم اس لئے جماعت کو بڑھاؤ کہ تا اسلام کی حفاظت ہو اور اعلاء کلمتہ اللہ ہو پس تمہاری تبلیغ کی صرف یہی غرض ہو کہ اسلام بڑھے اور اس کی حفاظت ہو.اپنی نفسانی اغراض کے لئے یہ کام مت کرو بلکہ اعلاء کلمتہ اللہ کے لئے یہ کام کرو.میں جانتا ہوں کہ دلوں کا پھیرنا بہت مشکل کام ہے.ایک آدمی کو پھیر کر لانا بہت مشکل ہے.بہ نسبت اس کے کہ پہاڑ کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ پر رکھا جائے.لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ دنیا میں بہت کم ایسے دل ہیں جو سچائی کا مقابلہ کر سکتے ہیں.سارے ابو جہل یا عقبہ نہیں ہو سکتے.ان کے مقابلہ میں لاکھوں آدمی وہ بھی تو تھے.جنہوں نے اسلام کو قبول کیا.بعض ضدی طبائع کو دیکھ کر مایوسی مت اختیار کرو.بلکہ اس کے مقابلہ میں نیک اور اثر قبول کرنے والی طبائع کا خیال کرو.میں اس سال کا پروگرام یہ بتاتا ہوں کہ اس سال ہندوستان میں ایسے طور پر لوگوں کو اپنے ساتھ ملاؤ کہ ہندوستان میں کوئی جماعت ہمیں حقیر اور ذلیل نہ قرار دے سکے او ریہ اس لئے نہیں کہ ہماری عزت ہو اور ہم بڑھیں بلکہ اس لئے کہ اسلام کی عزت ہو اور اسلام بڑھے اور پھر ہمارا کام بڑھنے کی وجہ سے ہمیں زیادہ قربانیوں کا موقع ملے.اور ہم خدا کے فضلوں کے اور زیادہ مستحق ہوں.ہمارے مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ جتنا کوئی ہمیں حقیر اور ذلیل سمجھتا ہے.اتنا ہی ہمارا ایمان اور بڑھتا ہے کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ باوجود ہمارے ذلیل اور کمزور ہونے کے پھر ہمارے کام طاقتوروں سے بھی زیادہ ہیں اور ہمارا امام واقع میں خدا کی طرف سے تھا اور ہماری جماعت واقعی خدا کی طرف سے ہے.اس لئے ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے.خدا کی نظر جماعتوں پر نہیں بلکہ زیادہ قربانیوں پر ہوتی ہے پس جب جماعت بڑھے گی.تو قربانیاں بھی زیادہ ہوں گی اور جب قربانیاں زیادہ ہوں گی تو ان کے نتیجہ میں اور بھی خدا کے فضل ہم پر نازل ہوں گے.اس لئے میں تمام جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس سال پہلے سے زیادہ تبلیغ کی طرف توجہ کرے.خصوصیت سے میں جماعت قادیان کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ خصوصیت سے تبلیغ کی طرف توجہ
285 کرے.کیونکہ دوسروں کے لئے نمونہ قائم کرنے کے لئے ان کا تبلیغ کی طرف خصوصیت سے متوجہ ہونا ضروری ہے کم سے کم وہ اس ضلع کے تو بیشتر حصہ میں احمدیت پھیلا دیں (الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۲۴ء) :
286 49 فرموده ۱۱ جنوری ۱۹۲۴ء محبت اور جبر کی حکومتیں مشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا آج نماز کے وقت میں دیر ہو گئی ہے.اس لئے میں مختصراً بعض باتیں بیان کرتا ہوں.حکومتیں دنیا میں دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک حکومت محبت کے ذریعے سے اور ایک جبر کے ذریعہ سے قائم ہوتی ہے.جو حکومت جبر کے ذریعہ ہوتی ہے.وہ ظاہری حکومت ہے اور جو حکومت محبت سے قائم ہوتی ہے وہ خدا کی حکومت ہے.لوگ کہتے ہیں.اصل تعلیم وہ ہے جو دل سے قبول ہو.نہ کہ خوف سے اور اس وجہ سے وہ اس تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نے جزا اور سزا لالچ اور خوف دلانے کے لئے رکھی ہے گو ہم اس کے جواب میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ معترضین کے مذاہب میں بھی یہ باتیں ہیں.اس لئے یہ اعتراض لغو ہے.بہت ہیں جو دوسرے پر اعتراض کرتے ہیں اور اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ یہ بات ہمارے مذہب میں بھی پائی جاتی ہے.تو یہ اعتراض باطل ہے.کیونکہ دیگر مذاہب میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے.لیکن ایسا نہ ہوتا تو بھی ہمیں اسلام کی حالت قابل ندامت نظر نہ آتی.اگر دوسرے مذاہب میں یہ بات نہ ہوتی.تو اسلام اور روشن نظر آتا کہ جو بات کسی مذہب نے پیش نہیں کی تھی.وہ اس نے پیش کی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ مذہب کو جنت اور دوزخ کے خیال سے قبول نہیں کرتے.بلکہ مذہب کو اس کی صداقت کے خیال سے قبول کرتے ہیں.کیا کبھی کسی شخص نے ہندو مذہب اس لئے ترک کیا ہے کہ اس میں چھوٹے چھوٹے گناہوں کی سزا ملتی ہے.یا کبھی عیسائیت سے لوگ اس لئے دست بردار ہوئے ہیں کہ اس میں جنم کا بہت بھیانک نقشہ کھینچا گیا ہے.ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ ایک شخص اگر ساری عمر بدی کرتا رہے اور مرتے ہوئے کنواں تالاب یا کوئی اور رفاہ عام کا کام کر دے تو
287 اس کے اس فعل سے اس کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور حضرت مسیح پر کوئی شخص اس لئے ایمان نہیں لاتا کہ ان کو ماننے سے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں.لیکن اس کے مقابلہ میں کوئی شخص کھڑا ہو کر کہے کہ یہ مسیحیت کی تعلیم کے لالچ کا اثر ہے تو اس کو کہا جائے گا کہ تمہارا یہ خیال غلط ہے کیونکہ کوئی عیسائی کوئی ہندو اور کوئی اور مذہب والا لالچ اور خوف کے سبب سے ان مذاہب کو قبول نہیں کرتا کیونکہ مرنے کے بعد دوزخ اور جنت کا لالچ دنیا میں موجب اعمال نہیں ہوتا.اور محض لوگ اس خیال سے کہ ہمیں دوزخ یا جنت میں جانا ہو گا.نیک نہیں ہو جاتے اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس بات کا اثر نہیں.بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہ باتیں مذہب کی قبولیت کا ابتدائی ذریعہ نہیں ہیں.مذہب قبول ہونے کے لئے پہلا ذریعہ یہ ہے کہ خدا ہے اور ہمیں اس سے تعلق پیدا کرنا ہے محض لالچ اور خوف سے لوگ نیک اعمال کی طرف متوجہ نہیں ہوتے.دیکھ لو ایک شخص جو جنات کے وجود کا قائل نہیں اس کو اگر کہا جائے کہ تم اس رستہ نہ جاؤ.وہاں جن رہتا ہے جس کے دس سر ہیں.اور پچاس ہاتھ ہیں اور انگاروں سی آنکھیں ہیں.تو وہ اس سے کچھ بھی خوف زدہ نہ ہو گا مگر بر خلاف اس کے جو شخص جنات کا قائل ہو.اس کو اگر دس سر کی بجائے دوسر اور پچاس کی بجائے پانچ ہاتھ بتاؤ تو بھی خوف زدہ ہو جائے گا.پس مسلمانوں میں گو دوسرے مذاہب کی دیکھا دیکھی جو جہنم کے متعلق یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ جہنم کی سزا ابدی ہو گی اور اس سے کبھی نجات نہ ہو گی.حالانکہ قرآن اور حدیث میں اس تعلیم کا کچھ بھی اثر نہیں باوجود اس کے اس جہنم اور اس نقشہ کی بہشت کا جو مسلمان واعظ پیش کیا کرتے ہیں.مسلمانوں کے اعمال پر کچھ بھی اثر نہیں.کیونکہ خالی خیال سے اعمال پر اثر نہیں ہو سکتا.جب تک خیال وثوق سے نہ بدل جائے اور جب وثوق پیدا ہوتا ہے تو عمل کرنے والے لالچ اور خوف سے نہیں بلکہ یہ کہا جائے گا کہ اعمال یقین سے کرتے ہیں.پس خدا کی اطاعت محبت سے ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ خدا نے سزا کو پوشیدہ رکھا ہے.لیکن جس کی غرض ڈرا کر کوئی کام کرانا ہو.وہ سزا کو پوشیدہ نہیں رکھتا.بلکہ ظاہر میں دیتا ہے.خدا کا جنت اور دوزخ کو پوشیدہ کرنا اس لئے نہیں کہ وہ چاہتا ہے کہ اس سے لوگ ادھر آئیں بلکہ اس لئے کیا ہے کہ لوگوں میں تقدیس پیدا ہو.پس آسمانی حکومتیں محبت سے پیدا ہوتی ہیں خدا کے مظاہر یعنی انبیاء اور ان کے مظاہر یعنی خلفاء اور مجددین کی حکومت کا تعلق محبت سے ہوتا ہے پھر یہ اعمال سے ظاہر ہوتی ہے اور جو شخص.
288 اعمال میں تلوار کے خوف کو ڈھونڈتا ہے وہ خدائی حکومت سے بے خبر ہے.کیونکہ تلوار سے ماننا خدا کی حکومت میں نہیں خدا کی تلوار چلتی ہے.مگر وہ مخفی تلوار ہے جس کا ظاہر سے تعلق نہیں.خدا کی تلوار پوشیدہ ہے.اسی طرح اللہ تعالٰی کے انبیاء کو لوگ محبت سے مانتے ہیں.جبر سے نہیں.مثلاً حضرت ابو بکر صدیق نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلیم کیا تو انہوں نے محبت سے مانا کسی لالچ یا تلوار کے خوف کا اس میں دخل نہ تھا.وہ صداقت کی محبت تھی.جس نے حضرت ابو بکر کو کھینچ لیا.اس کے مقابلہ میں ابو جہل نے انکار کیا.اس کے سامنے کوئی خوف اور لالچ نہ کام کرتا تھا.بلکہ وہ سمجھتا تھا کہ میں نعوذ باللہ محمد صلی اللہ علیہ سلم کو مسل ڈالوں گا اور مسلمانوں پر جو سختیاں ہوتی تھیں.وہ اس کے ارادہ کی گواہ ہیں.پس خدا اور اس کے نبیوں کے انکار کی جزا اور سزا پوشیدہ ہے ان کی مخالفت میں جو دکھ اور ماننے سے انعام ہو سکتا ہے.یہ دونوں پوشیدہ ہیں اور کچی بات یہ ہے کہ جس وقت انبیاء آتے ہیں ان کے ساتھ دوزخ اور بہشت ہوتے ہیں وہ دوزخ اور بہشت ان کا انکار اور ماننا ہوتا ہے اس کی جو تکلیف اور راحت ہے.وہ پوشیدہ ہے دنیا کے دانا نا ممکن سمجھتے ہیں کہ ان کے انکار سے ہمیں کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے اور یا ان کے ماننے سے کوئی انعام مل سکتا ہے.پس خدا کی طرف سے انبیاء کی جنت اور جنم پوشیدہ کی جاتی ہیں.اس لئے ان سے جو تعلق ہوتا ہے.وہ محض محبت کی بناء پر ہوتا ہے اور انبیاء کے جو قائم مقام ہوتے ہیں.ان کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے.بے شک کوئی کہہ سکتا ہے.انبیاء کے پاس بھی تو تلوار ہوتی ہے حضرت داؤد کے پاس تلوار تھی.حضرت سلیمان کے پاس تلوار تھی.بیشک بعض انبیاء کے پاس تلوار تھی.لیکن اس کا تعلق امور سیاسیہ سے تھا.نہ کہ امور ایمانیہ اور روحانیہ سے یہ انبیاء بادشاہ تھے اور ان کو بادشاہت مجبور کرتی تھی کہ تلوار سے بھی کام لیں.کیونکہ ان کو قیام امن کے لئے دنیاوی سزائیں دینی پڑتی مثلاً ایک شخص چوری کرتا ہے اس کی سزا ہماری شریعت نے قطع ید رکھی ہے.اس جرم کے مجرم کے ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کی وجہ سے تلوار سے کام لیا گیا ہو.پس اگر تلوار دی گئی تو اس کا استعمال سیاسی اور انتظامی امور کے متعلق ہو تا تھا..
289 شریعت نے جو جسمی سزائیں مقرر کی ہیں.وہ امور سیاسی اور حکومت کے متعلق ہیں.لیکن دین کا تعلق محض محبت اور تقدیس سے ہے.دیکھ لو باوجود بادشاہت کے امور روحانیہ کے لئے تلوار کبھی استعمال نہیں ہوئی.جس سے ثابت ہوا کہ تلوار دین سے نہیں بلکہ سیاست سے تعلق رکھتی ہے.تو اللہ کی حکومتیں جو روحانی امور کے متعلق نظر آتی ہیں ان کی بناء جبر نہیں.محبت ہوتی ہے اور سیاسی حکومتیں جبر سے کی جاتی ہیں دینی اور دنیاوی حکومتوں میں یہ نمایاں فرق محبت اور جذبہ محبت کا ہے.پس اس امتیاز کو جو دینی حکومت محبت کی صورت میں رکھتی ہے.نظر انداز کرتے ہوئے اس بارے میں بھی جبر کا منتظر رہنا حد درجہ کی غلطی اور ایک دھوکا ہے.اس میں جو مبتلا ہو.وہ خدا کی حکومت کو نہیں سمجھتا جو محبت سے قائم ہوتی ہے کیونکہ وہ منتظر ہے کہ خدا کی رضاء حاصل کرنے کے لئے اس پر جبر ہو مگر ایسے شخص کی اطاعت کسی کام کی نہیں خدا کے نبیوں کے انکار کی سزا تلوار نہیں.ہاں دنیاوی حکومت میں بغاوت کی سزا تلوار ہے.پس مذہب سزا سے نہیں محبت اور تقدیس سے قائم ہوتا ہے.محبت وہ پیار جو محبت سے پیدا ہوتا ہے اور تقدیس وہ لگاؤ جو ایک کو دوسرے سے ہوتا ہے.جب تک کسی میں یہ تڑپ اور یہ لگاؤ نہ ہو اس کی دین میں اطاعت قابل قبول نہیں ہوتی.تقدیس تقدیس کو کھینچتی ہے.کوئی شخص کسی کا دوست لگاؤ کے بعد ہوتا ہے اور اس کی محبت میں لگاؤ ہی سے ترقی ہوتی ہے.جب انسان اپنے اندر خدا سے محبت اور لگاؤ محسوس کرتا ہے تو خدا کی طرف قدم بڑھاتا ہے.اور یہی تقدیس ہوتی ہے.خدا کے معاملات میں کوئی تبھی راستباز سمجھا جا سکتا ہے اور اس کا خدا سے محبت کرنے کا دعوی تبھی خوش کن ہو سکتا ہے کہ خدا اور اس کے رسل اور اس کے خلفاء کی اطاعت ذاتی تقدیس سے کی جائے.انسان کی ذات محدود ہے اور خدا کی ذات غیر محدود.جب تک تقدیس نہ ہو تعلق نہیں ہو سکتا اور رسول کریم نے فرمایا ہے کہ جس کے دل میں بشاشت ایمان داخل ہو جائے وہ کسی بھی طرح حق سے نہیں پھرتا.مگر بہت سے لوگ ایسے غافل ہیں جو اس شیرینی کو چکھ نہیں سکتے.دینی حکومت میں جو سزائیں ہوتی ہیں.ان میں انتقام نہیں ہوتا اس لئے جو لوگ اس امر کے منتظر ہوتے ہیں کہ فلاں کام نہ کرنے پر ہمیں کیا سزا مل سکتی ہے اور ہمارا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے وہ روحانی محبت سے بے خبر ہوتے ہیں اور ان کے ایمان میں نقص ہوتا ہے.میں اس بات کو زیادہ تفصیل سے نہیں بیان کر سکتا.کیونکہ پہلے ہی میں اس سے زیادہ کہہ چکا ہوں.جتنا بولنا مد نظر تھا.اور عقلمند کے
290 لئے تو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے.اللہ تعالی آپ لوگوں کو توفیق دے.تا مذہب کی حقیقت کو آپ لوگ سمجھیں اور جان لیں کہ وہ آپ سے کیا چاہتا ہے اور لفظی بحثوں میں نہ پڑیں.تاکہ ایمان دل میں داخل ہو.جب دوسرے خطبے کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا.آج میں تین وفات یافتوں کے جنازے پڑھوں گا.محمد حسین صاحب حوالدار کا جنازہ جو ایک زمانہ میں مدرسہ احمدیہ میں پڑھتے تھے وہ ایسی جگہ فوت ہوئے ہیں جہاں اور کوئی شخص ان کا جنازہ پڑھنے والا نہ تھا.دو سرا جنازه سید بشارت احمد صاحب کی والدہ کا ہے جن کی نیکی اور تقویٰ کا اثر باوجود اس کے کہ وہ ایک نواب خاندان سے تھیں.سب خاندان پر تھا.اور انہوں نے ان کے مقابلہ میں احمدیت کا وقار قائم رکھا اور وہ بہتوں کے لئے ہدایت کا موجب ہوئیں.تیسرا جنازہ ہمارے ایک بھائی احمد کا ہے.جو کالی کٹ مالا بار میں تھے.ان کے بھائی محمد کئی دفعہ قادیان آئے ہیں.وہ بھی آئے تھے.نیک آدمی تھے.وہاں ان کا جنازہ پڑھنے والی جماعت معقول تعداد میں نہ تھی.سب لوگ ان کا جنازہ پڑھیں اور دعا کریں.الفضل ۱۸ جنوری ۱۹۲۴ء)
291 50 50 فرموده ۱۸ جنوری ۱۹۲۴ء تقریر و تحریر میں مہارت پیدا کریں مشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو پیدا کرتے ہوئے ایک قانون مقرر کیا ہے.اور وہ یہ کہ ہر ایک کام کے لئے ذرائع تجویز فرمائے ہیں.گویا تمام کاموں کی مثال ایک گاؤں یا ایک مکان کی سی ہے کہ جن تک رسائی ان سڑکوں کے ذریعے ہی ممکن ہے.جو وہاں پہنچنے کے لئے مقرر ہوں.جب تک وہاں جانے کا خواہاں ان سڑکوں کو اختیار نہیں کرتا.وہاں پہنچ نہیں سکتا.بلکہ ادھر ادھر بھٹکتا پھرتا ہے.انسان کی نشو و نما کے خدا نے کچھ قوانین مقرر فرمائے ہیں.مثلاً انسان کے لئے غذا مقرر کی گئی ہے جس سے جسم کو طاقت ملتی ہے.اگر انسان چاہتا ہے کہ اس کے جسم کو نشوونما حاصل ہو.تو ضروری ہے کہ مناسب غذا استعمال کرے لیکن اگر غذا کی بجائے لاکھ روپیہ کا لباس پہن لے تو اس کا پیٹ نہیں بھر سکتا.مگر لاکھ روپیہ کی بجائے دو پیسہ کے چنے چبائے.تو بھوک دور ہو جائے گی.اس طرح اگر مقوی سے مقوی اور اعلیٰ سے اعلیٰ غذائیں کھائے اور خیال کرے کہ ان سے اس کا جسم ڈھنپ جائے گا.تو یہ غلطی ہو گی.ستر ڈھانپنے کے لئے قیمتی اور اعلیٰ غذا کی ضرورت نہیں.اس لئے صرف ۲ گزیا اس سے بھی کم قیمت کا کپڑا ہو تو اس سے ستر ڈھنپ جائے گا.اسی طرح عورت روٹی پکاتی ہے اگر وہ روٹی پکانے کی بجائے کوئی اور کام کرتی رہے.یا کسی چیز پر کوئی رقم یا اپنا وقت صرف کر دے اور خیال کرے کہ اس کی روٹی پک گئی ہو گی تو یہ اس کی غلطی ہو گی اور ایسی غلطی کرنے والی عورت کوئی نہ ہو گی.اسی طرح اگر ایک زمیندار بجائے ہل چلانے کے سارا دن ڈنڈ پیلتا رہے یا ٹوکریاں اٹھا کر ادھر سے ادھر پھینکتا رہے.اور سمجھ لے کہ میں نے اتنی محنت کی ہے.اس لئے چاہئے کہ میرا کھیت تیار ہو جائے اور مجھے اناج مل جائے.تو اس کا یہ خیال خام ہو گا.
292 کھیت میں دانہ اگانے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے کھیت میں ہل چلایا جائے اور پھر قاعدہ سے بیج ڈالا جائے اور اس میں مناسب وقت پر پانی دیا جائے تو کھیت تیار ہو گا لیکن اگر پانی کی بجائے اعلیٰ درجہ کی قیمتی شراب کے خم کے خم اس کھیت میں لنڈھا دے تو کبھی اس کا کچھ فائدہ حاصل نہ ہو گا.پس ہر ایک کام کے لئے قدرت نے کچھ ذرائع مقرر فرمائے ہیں.جب تک انسان ان قواعد پر عمل پیرا نہ ہو اس وقت تک اس کی کوشش کے نتائج برآمد نہیں ہو سکتے.مگر باوجود اس کے لوگ چاہتے ہیں کہ وہ ان ذرائع کو جو کسی کام کے لئے قدرت نے مقرر فرمائے ہیں.استعمال کئے بغیر ان کا کام سرانجام پا جائے.لیکن ایسے لوگ دیکھ لیں کہ کوئی عورت ایسی نہ ہوگی جو صبح کو اٹھ کر ہاتھ جوڑ کر بیٹھ جائے اور کے خدایا میری روٹی پک جائے.عورتوں کو ناقصات العقل کہا جاتا ہے.یہ ایک پُر حکمت کلمہ ہے اور بڑی صداقت ہے.مگر اس کے معنے غلط کئے جاتے ہیں.بہر حال عورتوں کو کم عقل کہنے کے باوجود ان میں تو اس قسم کی باتیں نہیں پائی جاتیں مگر مرد جو اپنے آپ کو عقلمند خیال کرتے ہیں.وہ چاہتے ہیں کہ کسی کام کی صرف خواہش کرنے سے وہ کام ہو جائے حالانکہ یہ جنتیوں کے متعلق آتا ہے.لھم ما يشاؤن کہ وہ جو خواہش کریں گے.ان کو مل جائے گا یا دوسرے الفاظ میں یہ کہ وہ خواہش ہی منشاء الہی کے ماتحت اس چیز کی کریں گے جو ان کو ملنی ہو گی یہ بات دنیا کے متعلق نہیں ہے.یہاں تو ہر ایک کام کرنے سے ہی ہوتا ہے چونکہ بسا اوقات لوگوں کی رشتہ داری اور حالات یا عقل کی کمزوری کا نتیجہ بعض آرزوئیں ہوتی ہیں.اس لئے وہ ان کے لئے کام کرنے کے متعلق جو ذرائع ہوتے ہیں.ان کو غور سے نہ معلوم کرتے ہیں.نہ عمل کر سکتے ہیں.مگر ظاہر ہے کہ محض خواہش سے کوئی کام نہیں ہو تا.جب تک صحیح ذرائع کے ساتھ پوری محنت نہ کی جائے.اگر خواہش ہو اور محنت بھی ہو مگر صحیح ذرائع کے ماتحت نہ ہو تو کام نہ صرف ناقص رہتا ہے.بلکہ اس کا کچھ بھی مفید نتیجہ نہیں ہوتا.اس لئے کام کے کرنے کے لئے یہ باتیں ضروری ہیں کہ اول اس کے کرنے کی کچی خواہش ہو جب تک کچی خواہش نہ ہو کوئی کام نہیں ہو سکتا.پھر اگر کچی خواہش تو ہو لیکن اس کے لئے محنت اور کوشش نہ کی جائے.تو بھی وہ نہیں ہو سکتا.پھر اگر محنت بھی کی جائے.لیکن صحیح اور درست ذرائع کے ماتحت نہ کی جائے.تو بھی نہیں ہو سکتا اس لئے خواہش اور کوشش کے ساتھ صحیح ذرائع کے ماتحت کوشش ضروری ہے لیکن کئی لوگ ہیں جو ان باتوں کی پروا نہیں کرتے اور مجھے ایسے آدمیوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے.
293 مثلاً کئی لوگ مجھے خط لکھتے ہیں کہ دعا کیجئے.ہمیں خدا مل جائے.یا ہمارا فلاں کام ہو جائے.مگر اس کے بعد وہ بھول جاتے ہیں کہ ہم نے کیا کہا اور ہمیں کیا کرنا چاہئے.اور وہ خدا کے ملنے اور کام کے انجام پانے کے متعلق کوئی کوشش نہیں کرتے.مشہور ہے ایک بزرگ کے پاس ایک شخص گیا اور درخواست کی میرے لئے دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اولاد عطا فرمائے.بزرگ نے کہا ہم دعا کریں گے اس کے بعد وہ جس سمت سے آیا تھا.اس سے دوسری طرف جانے لگا اس بزرگ نے پوچھا کہ تم کدھر جاتے ہو اس نے جواب دیا کہ میں فوج میں ملازم ہوں چھٹی پر آیا تھا.اب جاتا ہوں.دو سال وہاں رہوں گا انہوں نے فرمایا پھر میری دعا سے کیا حاصل؟ جبکہ تو وہ طریق اختیار نہیں کرتا.جس سے کہ اولاد پیدا ہوتی ہے اسی طرح لوگ کہتے ہیں کہ فلاں کام ہو جائے.مگر وہ کوشش نہیں کرتے.ان کی مثال اس عورت کی سی ہے جو روٹی تو پکائے نہیں.مگر خواہش کرے کہ پھلکے پک جائیں لیکن میں نے بتایا ہے.عورتوں میں ایسا خیال اور ایسی خواہش کرنے والی کوئی عورت نہیں ہوتی.مگر تم مرد کہلانے والوں میں کئی ایسے ہیں جو خواہش کرتے ہیں.مگر کوشش اور صحیح ذرائع کے ماتحت کوشش نہیں کرتے.آج میں جس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کے لوگوں کی خواہش ہے کہ اسلام تمام دنیا میں پھیل جائے.یہ ان کی خواہش کچی ہوتی ہے.جس وقت وہ اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں.اس وقت ان کی آنکھوں میں ایک صداقت کی چمک ہوتی ہے.اور ان کے چہرے پر صداقت کے آثار ہوتے ہیں.ان کی آواز ان کے ہونٹ غرض ان کے چہرہ کی حالت بتاتی ہے کہ یہ بات ان کے دل سے نکل رہی ہے.جب میں ان کی یہ حالت دیکھتا ہوں تو سمجھتا ہوں کہ ان کی یہ خواہش کچی ہے.لیکن اس خواہش کے ساتھ جب میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ کوشش نہیں تو پھر حیران ہو تا ہوں کہ ان کی یہ خواہش کیسے پوری ہو سکتی ہے.ساری دنیا کو اسلام قبول کرانے کا کتنا بڑا کام ہے.یہ ساری دنیا سے جنگ ہے اور جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ایک ملک کے فتح کرنے کے لئے کتنی طاقت اور قوت کی ضرورت ہوتی ہے.تو اس کے لئے کسی قدر کوشش اور محنت کی ضرورت ہے.ٹرانسوال کتنی چھوٹی سی ریاست ہے اس کے مقابلہ میں انگریزوں جیسی بڑی طاقت تھی.عمر ٹرانسوال والے نہیں چاہتے تھے کہ ان کے ماتحت رہیں اس لئے وہ مقابلہ کے لئے کھڑے ہو گئے.اس چھوٹی سی ریاست کو زیر کرنے کے لئے انگریزوں کو چار سال تک جنگ کرنی پڑی.بڑی بڑی
294 قربانیاں کی گئیں اور اس عرصہ میں فوج پر فوج گئی اور جرنیل پر جرنیل بدلا گیا.تب کہیں جا کر انگریزوں کو فتح نصیب ہوئی.اور وہ فتح بھی ایسی کہ تھوڑے عرصہ کے بعد ہی ان لوگوں کو آزاد کرنا پڑا.یہ انگریزوں کا ان پر احسان نہ تھا کہ انہوں نے آزادی دے دی.اگر وہ اتنے ہی آزادی دینے کے خواہاں ہوتے تو ہندوستان کو کیوں آزاد نہیں کر دیتے.ٹرانسوال کو آزادی دینے کے یہ معنے تھے کہ وہ ایسا نوالہ تھا جو ان کے گلے سے نیچے نہیں اتر سکتا تھا پس وہ احسان یا رحم دلی نہ تھی.بلکہ وہ نتیجہ تھا نا ممکن کام پر ہاتھ ڈالنے کا کیونکہ جب کوئی قوم کسی کے ماتحت رہنے کے لئے تیار نہ ہو تو اس کو کوئی طاقت اپنے ماتحت نہیں رکھ سکتی.یہ ایک چھوٹی سی قوم کے مقابلہ کا حال ہے.لیکن ہمارا جن سے مقابلہ ہے وہ تم سے کسی بھی میدان میں پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے.اور تم ان کے مقابلہ میں مٹھی بھر ہو.پھر وہ ایسے نہیں جو یونی میدان سے ہٹ جائیں کیا تم خیال کرتے ہو کہ عیسائی یونسی تمہاری باتیں مان لیں گے وہ چپہ چپہ نہیں چاول چاول بھر زمین پر تم سے مقابلہ کریں گے.وہ اپنے جھوٹے عقائد کو یونہی نہیں چھوڑ دیں گے.وہ ان کے لئے جنگ کریں گے اور اس وقت تک کریں گے جب تک کہ ان کی مذہبی جنگ کی طاقت نہ ٹوٹ جائے گی.پس عقائد کا بدلتا کوئی آسان کام نہیں اور یہ عیسائیوں ہی پر موقوف نہیں یہی حال دیگر مذاہب کے لوگوں کا ہو گا.کیا تم خیال کرتے ہو.ہندو خوشی سے تمہارے ہم عقیدہ ہو جائیں گے.اور اپنے آپ کو اس لئے تمہارے سپرد کر دیں گے.کہ ہمیں اسلام سکھاؤ.وہ اپنے عقیدوں کی حفاظت کے لئے اپنا آخری پیسہ اور اپنے خون کا آخری قطرہ تک گرا دیں گے.تب وہ مسلمان ہوں گے اور یہی حال سکھوں کا چینیوں کا اور جاپانیوں کا ہو گا.تمہارے پاس خود بخود کوئی قوم نہیں آئے گی.جو کہے کہ ہمیں مسلمان بنا لو.ہر ایک سے مقابلہ کرنا پڑے گا.لیکن اگر تم اس کے لئے کوشش نہیں کرتے.اور وہ ذرائع اختیار نہیں کرتے.جو اس مقصد میں کامیاب ہونے کے لئے مقرر ہیں تو تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ دعا ہی سے یہ کام ہو جائے گا.حالانکہ دعا کوشش کے بعد ہوتی ہے پہلے خدا تو یہ دیکھتا ہے کہ جو تمہارے پاس تھا وہ خدا کے لئے نکال دیا ہے یا نہیں.خواہ وہ ایک پیسہ ہی کیوں نہ ہو اس کے بعد جس قدر سامانوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ خدا تعالیٰ مہیا کر دیتا ہے.پس خدا تعالی ان کو کچھ دیتا ہے جو پہلے جو کچھ ان کے پاس ہو.اس کو خرچ کر دیتے ہیں.دیکھو خدا کھیتوں میں بیچ ڈالے بغیر غلہ پیدا نہیں کرتا.بلکہ اسی زمیندار کے کھیت میں غلہ پیدا کرتا ہے جو پہلے اپنے گھر کا غلہ نکال کر زمین میں بکھیر دیتا ہے کیا اگر کوئی کہے کہ
295 زمین میں غلہ بکھیرنے کی کیا ضرورت ہے.خدا نے جتنا غلہ پیدا کرنا ہے.اس میں سے اتنا کم پیدا کر دے.جتنا بیج کے لئے ڈالا جاتا تھا.اور باقی کا دے دے تو کیا اس کی یہ بات مانی جائے گی.ہرگز نہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ پہلے خرچ کراتا ہے اور پھر اس سے کئی گنا زیادہ واپس کر دیتا ہے یوں تو ایک ایک دانہ جو زمیندار ڈالتا ہے اس کے بدلے سو سو بلکہ اس سے بھی زیادہ دانے دیتا ہے لیکن اگر کوئی دانہ ہی نہ ڈالے تو اس کو سو کی بجائے ایک بھی نہیں دے گا.پس خدا تعالٰی کمی کو پورا کیا کرتا ہے.مگر پہلے ان چیزوں کو نکلوا لیتا ہے جو انسان کے پاس ہوتی ہیں.میں اس بات کو مانتا ہوں اور سب سے زیادہ مانتا ہوں کہ دعا سے کام ہوتا ہے لیکن قبولیت دعا کے لئے یہ ضروری ہے کہ خود انسان پہلے محنت کرے اس کے بعد دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی کمی کو پورا کر دیا جاتا ہے جب تک یہ نہ ہو کوئی کام نہیں ہو سکتا.ہم چاہتے ہیں کہ اسلام دنیا میں پھیل جائے اور صداقت پر لوگ جمع ہو جائیں لیکن اگر اس لڑائی کے لئے جن ہتھیاروں کی ضرورت ہے.جب تک ہم ان کو مہیا نہ کریں.کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں بہر حال ہمیں وہ ہتھیار اور سامان مہیا کرنے چاہئیں.خواہ وہ دشمن کے مقابلہ میں کتنے ہی تھوڑے کیوں نہ ہوں اور اپنی ساری قوت اور طاقت اس کے لئے صرف کر دینی چاہئے.جب ہم ایسا کریں گے تو خدا تعالٰی کی مدد اور نصرت ہمارے لئے نازل ہو گی.اور ہم ہر میدان میں فتح یاب ہوں گے.مجھے ایک واقعہ یاد کر کے حیرت کے ساتھ ہنسی بھی آتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے.جب روس نے بخارا پر فوج کشی کی تو امیر بخارا نے علماء و عمائدین کو جمع کیا اور پوچھا اس وقت کیا کرنا چاہئے.روس کی طرف سے یہ یہ شرائط پیش کی گئی ہیں اور یہ مفید ہیں.ان سے صلح کر لینی چاہئے.کیونکہ روسیوں کی تعداد زیادہ اور ان کے پاس سامان جنگ بہت ہے ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے.علماء نے جو آج کل کے مولویوں ہی کی طرح کے ہوں گے.اس کی مخالفت کی.اور مقابلہ کرنے پر آمادگی ظاہر کی.چنانچہ صلح کا پیغام مسترد کر دیا گیا.اور تیاریاں شروع ہو گئیں.علماء اور ان کے توابع جمع ہو گئے.تلواریں اور نیزے اور بھالے اٹھالئے اور قرآن کریم کی آیتوں کو بطور منتر پڑھتے ہوئے روسیوں کے مقابلہ کے لئے میدان میں نکلے.مگر جب ان کے جواب میں روسی فوج نے گولہ باری شروع کی.تو علماء سحر سحر جادو ہے.جادو ہے.کہتے ہوئے پیچھے کو بھاگے.اس کے بعد روس نے بخارا کے ساتھ وہی سلوک کیا جو فتح یاب دشمن کیا کرتا ہے.یہ کس بات کا نتیجہ تھا.
296 اسی کا کہ انہوں نے جنگ کا سامان مہیا کرنے کی طرف توجہ نہ کی.شخص اسی طرح آج بھی اگر کوئی نادان یہ سمجھے کہ یوں ہی کام ہو جائے گا.تو یہ اس کی غلطی ہو گی.اس زمانہ کو خدا نے اشاعت ہدایت کا زمانہ قرار دیا ہے اور یہ زمانہ دلائل کا زمانہ ہے.تلوار کا نہیں آج جو جہاد ہوتا ہے.وہ تقریر اور تحریر سے کیا جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تلوار چلانا نہیں سیکھتا تھا.وہ قومی مجرم تھا.کیونکہ وہ زمانہ تلوار سے جہاد کرنے کا تھا.اور آج جو شخص تقریر اور تحریر میں مشق بہم نہیں پہنچاتا.وہ بھی مجرم ہے.آج جو شخص اپنی زبان اور اپنے قلم کو تیز نہیں کرتا وہ اس زمانہ کی جنگ کے لئے گویا نہ تلوار کو تیز کرتا ہے نہ اس کو استعمال کرنا سیکھتا ہے.اس لئے اگر اس کے دل میں اشاعت اسلام کی خواہش اور تمنا ہے.تو یہ کچی تمنا نہیں.بلکہ جھوٹی ہے.کیونکہ جو شخص دشمن پر فتح پانے کے لئے جاتا ہے.وہ نہتا نہیں جایا کرتا.بلکہ جس قدر اس سے ممکن ہوتا ہے.لڑائی کا سامان لے کر جاتا ہے.اسی طرح اس جنگ کے لئے ضروری ہوتا ہے.کہ جو اس میں کامیابی حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہو.وہ ان سامانوں کو مہیا کرے.جو اس میں فتح پانے کے لئے ضروری ہیں.اور اس کے بعد خدا کی نصرت کا امیدوار رہے.قرآن کریم میں مقابلہ کے لئے تیاری نہ کرنے والوں کو منافق قرار دیا گیا ہے کہ ولو ارادوا الخروج لا عدو الدعدة (التوبہ ۴۶) اگر ارادہ کرتے مخالف کے مقابلہ میں نکلنے کا تو یقیناً اس کے لئے پہلے سے کچھ سامان بھی تیار کرتے.چونکہ وہ تیاری نہیں کرتے.اس لئے معلوم ہوا کہ ان کا ارادہ ہی نہیں ہوتا.اور جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ صرف ان کی زبانی باتیں ہوتی ہیں.جو قوم پہلے سے تیار نہیں ہوتی.وہ وقت پر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی.جیسا کہ میں نے بتایا ہے.یہ زمانہ دلائل اور براہین سے اشاعت اسلام کرنے کا ہے.اس لئے اگر ہماری جماعت تقریر کرنے او رلکھنے کی مشق نہیں کرتی.تو پھر وہ اشاعت اسلام کے میدان میں کامیاب نہیں ہو سکتی.مگر میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت نے اس کی طرف توجہ نہیں کی.گو میں نے بار بار مختلف اوقات میں ادھر توجہ دلائی ہے.مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلا.جماعت کے احباب چندہ دینے میں چست ہیں.گو کئی لوگ چندے میں بھی سستی کرتے ہیں.مگر عموماً چندوں میں ست نہیں لیکن میں دیکھتا ہوں.جماعت کی اس طرف توجہ کم ہے کہ جو قلم چلانا جانتے ہیں یا چلا سکتے ہیں وہ قلم سے کام لیں یا جو تقریر کر سکتے ہیں یا تقریر کرنا سیکھ سکتے ہیں.وہ زبان سے کام لیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ عالم جو موقع پر حق نہ کہے.شیطان اخرس یعنی گونگا شیطان ہے.اول تو شیطان
297 ہی کیا کم تھا.اخرس فرما کر بتایا کہ وہ شیطانوں میں سے بھی ذلیل درجہ کا شیطان ہے کیونکہ شیطان اپنی شیطانی باتیں تو پھیلاتا ہے.مگر وہ حق بیان کرنے کی بھی جرات نہیں کرتا.میرے نزدیک اس سے بڑھ کر اور کیا زجر ہو سکتی ہے.جو ایسے لوگوں کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے.جو حق کو بیان کرنے کی طاقت رکھتے ہوئے خاموش رہیں.مگر بہت ہیں جو حق کے کہنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.اور نہ حق کو بیان کرنے کی قابلیت پیدا کرنے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.میں احباب کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس بستی کو چھوڑیں خدا تعالٰی نے ہر ایک شخص کو زبان دی ہے اس سے وہ حق پھیلانے کا کام لے اور جو لکھنا جانتے ہیں.وہ زبان اور قلم سے کام لیں.جن کو قلم سے کام لیتا نہیں آتا.وہ سیکھ سکتے ہیں.وہ کون سا کام ہے.جو کوشش کے بعد نہیں آ سکتا.مگر میں دیکھتا ہوں کہ جو قلم سے کام لے سکتے ہیں.وہ بھی نہیں لیتے.میں نے پہلے بھی اس طرف توجہ دلائی تھی اور اب بھی توجہ دلاتا ہوں.گو پہلی دفعہ کا تو کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا.مگر اب کے امید رکھتا ہوں کہ میرا کہنا را نگاں نہ جائے گا اور ہماری جماعت کے اہل قلم اس طرف توجہ کریں گے.میں سلسلہ کے اخبارات باقاعدہ پڑھتا ہوں اور یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.کہ اتنی بڑی جماعت کے جو اخبار اور رسالے نکلتے ہیں.ان میں مضامین لکھنے والے صرف دو تین ہوتے ہیں.باقی لوگوں نے مضامین لکھنا صرف ایڈیٹروں کا فرض سمجھ رکھا ہے.اور اپنے آپ کو اس سے آزاد سمجھتے ہیں.یہ نہایت ہی افسوسناک بات ہے میں اپنی جماعت کے علماء کو بھی توجہ دلاتا ہوں.اور ہماری جماعت کے علماء قادیان ہی میں نہیں باہر بھی ہیں.قادیان والے بھی تحریر میں سست ہیں.انہیں خصوصیت سے ستی کو دور کرنا چاہیئے.پھر علماء سے مراد ظاہری علوم رکھنے والے ہی نہیں.بلکہ وہ بھی ہیں جو دینی علماء ہیں.اور خشیتہ اللہ رکھتے ہیں.میں اُن سب کو مخاطب کر کے کہتا ہوں.وہ خاموشی کی عادت چھوڑیں اور قلم سے کام لینے کی مشق کریں.ہماری جماعت کے ایسے لوگ جو دین کی اشاعت کا جوش رکھتے ہیں.گوجرانوالہ گجرات ، لاہور، امرت سر، سیالکوٹ راولپنڈی، لدھیانہ، پٹیالہ شملہ دہلی انبالہ غرض کہ ہر جگہ موجود ہیں.کوئی ضلع ایسا نہیں جہاں ہماری جماعت کے پڑھے لکھے احباب نہ ہوں عربی دان بھی ہیں اور اگر عربی دان نہ بھی ہوں تو فارسی اردو انگریزی زبانیں جانے والے ہیں ان زبانوں کے ذریعہ وہ خدمت دین کر سکتے ہیں.مگر ان کو اس طرف توجہ نہیں.اب یا تو اخبارود میں ایڈیٹر مضمون لکھتے ہیں.یا وہ چند طالب علم جو اپنا قلم صاف کر رہے ہیں اور مشق کر رہے ہوتے ہیں.اور وہ لوگ جن کو
298 مضمون لکھنے کی مشق ہے.یا تھوڑی مشق سے اچھے لکھنے اور بولنے والے ہو سکتے ہیں.خاموش ہیں.میں نصیحت کرتا ہوں کہ بولنے اور لکھنے کی طرف توجہ کرو.مگر اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ہر شخص جو کچھ لکھنے وہ ضرور چھپ جائے.کئی لوگ میرے پاس شکایت کرتے ہیں کہ ہم نے مضمون بھیجا تھا.مگر ایڈیٹر نے درج نہیں کیا میں کہتا ہوں.ایڈیٹر اسی لئے رکھا جاتا ہے کہ مضمون کو درج کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے اور دیکھے کہ کون سا مضمون درج ہونے کے قابل ہے اور کون سا نہیں.یہ اس کا فرض ہے.اسے کرنے دو.اور اس کی جگہ نہ چھینو.اگر ایسا ہو کہ جو کچھ کوئی لکھے وہ ضرور چھپ جائے.تو پھر ایڈیٹر رکھنے کی کیا ضرورت تھی.ایک پوسٹ بکس لگا دیا جاتا.جو کچھ کوئی اس میں ڈالتا وہ کاتب نکال کر لکھ دیتا اور اس طرح اخبار تیار ہو کر شائع ہو جاتا.پس ضروری نہیں کہ ہر ایک مضمون جو لکھا جائے وہ ضرور اخبار میں درج ہو جائے.ایڈیٹر جس کو مناسب سمجھے گا.شائع کرے گا.لیکن ہر ایک کو چاہیئے مضمون نویسی کی مشق ضرور کرے.اور کوشش کرے کہ اس کا مضمون اخبار میں درج ہونے کے قابل ہو جب وہ اس قابل ہو گا.تو ایڈیٹر کیوں نہ درج کرے گا.لیکن مشق کے لئے مضمون کا اخبار میں چھپنا ضروری نہیں بلکہ تم اپنے احباب اور دوستوں کو خطوط لکھ کر لکھنے کی مشق کرو.ایڈیٹر اگر تمہارے مضمون کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتا ہے.تو تمہارے دوست ایسا نہیں کریں گے.بلکہ وہ شوق سے تمہارے مضامین کو پڑھیں گے.لیکن میں کہتا ہوں سب ایسے نہیں کہ ان کے مضامین ناقابل اندراج ہوں بلکہ ہماری جماعت میں سینکڑوں مضمون نویس ہوں گے یا ہو سکتے ہیں کہ جن کے مضامین کو فخر سے ایڈیٹر اپنے اخبار یا رسالہ میں درج کریں گے.اسی طرح لیکچروں کے متعلق بولنے کی مشق کی جائے.علاوہ لیکچر کے ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ مجالس میں بیٹھ کر مذہبی گفتگو کی جائے.مگر میں دیکھتا ہوں.وہ لوگ جو اس طرح مجالس میں باتوں باتوں میں دین کی خدمت کر سکتے ہیں.وہ بجاے مذہبی باتوں کے عام دنیوی امور کے متعلق گفتگو کرتے رہتے ہیں.حالانکہ اگر مجالس میں تبلیغ کرنے کی کوشش کریں.تو بہت مفید ہو سکتا ہے.پس میں جماعت کے تمام اصحاب کو کہتا ہوں کہ جو بول سکتے ہیں وہ بولنے اور جو لکھ سکتے ہیں.وہ لکھنے کی طرف زیادہ توجہ کر کے دین کی خدمت میں مشغول ہوں.
299 میں امید کرتا ہوں کہ آج کی نصیحت کارگر ہو گی.ہماری جماعت کو تحریر اور تقریر کے میدان میں ترقی کرنے کی نہایت ضرورت ہے.ہر ایک احمدی کو قلم اور زبان چلانے کی مشق کرنی چاہئے جو شخص مشق کر کے زبان اور قلم سے دین کی خدمت میں کام لے گا.وہ فتح کو قریب لائے گا.ہماری جماعت کو چاہیئے کہ وہ مفید سامان اشاعت سے کام لے.تاکہ خدا کی عظمت و جلال ظاہر ہو.اور دین حق کی صداقت روشن ہو اور باطل پیٹھ دکھا کر بھاگ جائے.اللهم آمین الفضل ۲۵ جنوری ۱۹۲۴ء)
300 51 فرموده ۲۵ جنوری ۱۹۲۴ء) سورہ فاتحہ کی لطیف تفسیر مشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا میں بوجہ گلے کی تکلیف کے زیادہ نہیں بول سکتا.لیکن چونکہ خطبہ جمعہ ہی ایک ایسا موقع ہوتا ہے.جس میں ارد گرد کے دوست اکٹھے ہوتے ہیں.اور بعض باتوں کے سننے کا ان کو موقع ملتا ہے.اس لئے میں خود ہی اختصار کے ساتھ خطبہ پڑھانے کے لئے کھڑا ہو گیا ہوں.میرا یہ طریق ہے کہ ہمیشہ اور اگر ہمیشہ نہیں تو کبھی کبھی رہ جاتا ہو گا.لیکچر یا خطبہ سے پہلے سورۃ فاتحہ پڑھتا ہوں.میرے نزدیک یہ سورۃ ان تمام امور پر مشتمل ہے.جن کی طرف اسلام متوجہ کرتا ہے.اس سورۃ کا ایک ایک لفظ اپنے اندر وسیع مطالب رکھتا ہے.اور جیسا کہ ایک عرصہ سے مسلمانوں کا خیال چلا آتا ہے قرآن کریم کی تعلیم کا خلاصہ اس میں بیان کیا گیا ہے اس سورۃ کو اللہ تعالی نے بسم اللہ کے بعد جو کہ تمام سورتوں کی کنجی ہے اور سورہ فاتحہ سے اس کو خصوصیت نہیں.الحمد للہ سے شروع فرمایا ہے.اور غیر المغضوب عليهم ولا الضالین پر ختم کیا ہے.بظاہر یہ عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ جو شخص حمد سے کام شروع کرتا ہے وہ مغضوب علیہم اور ضال جماعت میں پڑنے کے خطرے میں کیونکر پڑ سکتا ہے.ایک ایسا کامل الایمان کہ جو ساری خوبیاں خدا کے لئے سمجھتا ہو اور جسے خدا کے سوا کسی ذات میں خوبی کا خیال نہ ہو کیونکہ حمد کا لفظ مصدر ہے اور یہ صیغہ معروف و مجہول کا مصدر ہے.پس حمد کے معنے ہیں حمد کرنا اور کیا جاتا.جب انسان الحمد للہ کہتا ہے تو وہ اقرار کرتا ہے کہ نہ تو مجھ میں یہ طاقت ہے کہ کسی کی حمد کر سکوں اور نہ خود کسی حمد کا مستحق ہوں.اور میرے علاوہ جو مخلوق ہے.وہ بھی مستحق نہیں کہ اس کی حمد کی جائے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ایسا سمجھتا ہے.جو حمد کی مستحق ہے.اور جو کسی کی متحد کر سکتی
301 ہے.اب دیکھو کہ انکسار اور کس حد تک انکسار تذلل اور کس حد تک تذلل ہے کہ انسان اپنی ہستی کی بھی نفی کر دیتا ہے.اور اپنے اندر کسی بھی ہنر اور خوبی کو نہیں دیکھتا.ایسا انسان اقرار کرتا ہے کہ مجھ میں حسن ذاتی نہیں.نہ کسی غیر میں ذاتی حسن ہے.دنیا میں دو چیزیں ہوتی ہیں.علم یا حقیقت کسی چیز میں کوئی حقیقت ہو گی یا کسی شخص کو اس حقیقت کا علم ہو گا.یہی دو باتیں ہیں کہ جو کسی چیز کو تعریف کا مستحق بناتی ہیں.مثلا کو نین تعریف کی مستحق ہے.کیونکہ اس میں طاقت ہے کہ بعض قسم کے بخاروں کو دور کر دیتی ہے.لیکن ایک ڈاکٹر بھی قدر کئے جانے کا مستحق ہے.کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ کونین سے فلاں فلاں قسم کے بخاروں میں آرام ہوتا ہے.یا لکڑی اور لوہا قدر کی چیزیں ہیں کہ ان سے عمارتیں تیار ہوتی ہیں.جہاز بنائے جاتے ہیں.مگر ایک بڑھئی.ایک لوہار اور ایک معمار بھی قابل تعریف ہیں.اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ لکڑی لو ہے.اینٹ پتھر سے کس طرح کام لیا جاتا ہے.پس جتنی حقیقتیں ہیں.وہ دو قسم کی ہیں.یا تو کسی میں کسی خوبی کا ہونا.یا اس خوبی کا علم ہوتا.خود انسان الحمد للہ کہہ کر تسلیم کرتا ہے.کہ کسی میں کوئی خوبی نہیں.مگر خدا میں ہیں.گویا خدا تعالی ہی کی ذاتی خوبی ہے.یہ کمال تذلل اور کمال انکسار ہے.گویا بندہ اپنے وجود سے ہر ایک خوبی کا انکار کر دیتا ہے.اور پھر تمام مخلوقات کو دیکھتا ہے کہ اس میں اپنے وہ خوبی نظر نہیں آتی.جس کو وہ خدا کے مقابلہ میں قابل تعریف کہہ سکے.اس طرح وہ تمام مخلوق پر نظر کرنے کے بعد کہتا ہے.خدا کے سوا کسی میں کوئی خوبی نہیں.اس عظیم الشان ابتداء کے بعد جو الحمد للہ سے ہوتی ہے کہتا ہے.غیر المغضوب عليهم ولا الضالین که خدایا مجھ پر غضب نہ نازل کرنا اور ایسا نہ ہو کہ میں تیری رضا کی راہ سے بہک جاؤں.لوگ کہتے ہیں.اور سچ کہتے ہیں کہ علم و معرفت سے انسان ہلاکت سے بچتا ہے.لوگ کہتے ہیں اور صحیح کہتے ہیں کہ جس جنگل میں شیر ہو وہاں کوئی نہیں جاتا.یا جس جنگل میں ڈاکہ پڑتا ہو وہاں سے لوگ بغیر حفاظت کے نہیں گذرتے.پھر باوجود عرفان حاصل ہونے کے سمجھ میں نہیں آتا کہ غير المغضوب عليهم ولا الضالین کیوں فرمایا.عرفان کے بعد غضب اور ضلالت کا کیا خوف مگر کھتا ہوں.یہ سچ ہے کہ عرفان کے بعد اس کا خوف نہیں ہوتا.لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ عرفان کھویا بھی جاتا ہے.پس اعلیٰ سے اعلیٰ عرفان اور علم کسی کو مطمئن نہیں کر سکتا کہ وہ غضب اور میں
302 ضلالت سے بالکل مصون ہو گیا.کیونکہ ممکن ہے کہ ایک شخص کو عرفان اور علم ہو.مگر وہ اس سے چھینا جائے یا کھویا جائے.دنیا میں دیکھ لو.ایک انسان دوسرے کو ملتا ہے.اس حال میں کہ وہ دونوں ایک لمبا عرصہ جدا رہتے ہیں.جب وہ ملتا ہے.تو کہتا ہے آپ نے مجھے پہچانا.وہ کہتا ہے.نہیں.تو وہ کہتا ہے کہ میں اور آپ اکٹھے کھیلتے اور پڑھتے رہے ہیں.وہ کہتا ہے کہ ابھی تک میں نے آپ کو نہیں پہچانا.کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بہت کچھ تعارف سابقہ کی باتیں بتانے کے بعد بھی ایک شخص یہی کہتا ہے کہ افسوس میں نے آپ کو اب تک نہیں پہچانا.اس سے ثابت ہوا کہ علم اور عرفان مٹائے بھی جاتے ہیں.اور اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص مخلص تھا.بڑا خادم تھا.اس کو کیونکر ٹھوکر لگ گئی.اس کو ٹھو کر اسی وقت لگتی ہے جب اس کا اخلاص کھویا جاتا ہے یا مٹ جاتا ہے.کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ صحیح راستہ معلوم ہونے کے باوجود لوگ راستہ سے ہٹ بھی جایا کرتے ہیں.محبت کو اختیار کر کے بھول بھی جایا کرتے ہیں.ان کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے.جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے.و من نعمره ننگسه فی الخلق (یس : (19) جب عمر بڑھتی ہے تو قویٰ میں کمزوری آجاتی ہے.پس جس طرح عمر میں بڑھاپا آنے سے علوم میں کمی آجاتی ہے اس طرح بعض انسانوں پر روحانی طور پر بھی بڑھایا آجاتا ہے.ایسی حالت میں کوئی عارف یا عالم جو الحمد للہ کہنا جانتا ہو.مگر پھر اس سے اس کی حقیقت کم ہو جائے.وہ مغضوب علیہم میں شامل ہو سکتا ہے.سورۃ فاتحہ میں یہ بات بتا کر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ کسی کی ٹھوکر سے کوئی ٹھو کر نہ کھائے.اور کسی کے گرنے سے کوئی نہ کرے.جب تک کسی شخص کے متعلق خدا نہ کہدے کہ یہ شخص غلطی سے محفوظ ہو گیا.اور اب یہ ٹھوکر نہیں کھا سکتا.تب تک کسی شخص کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ شخص منزل مقصود پر پہنچ گیا اور ایسے لوگ جن کو غضب اور ضلالت سے محفوظ کر دیا جاتا ہے.وہ خدا کے انبیاء ہوتے ہیں وہ بچے کی طرح خدا کی گود میں ہوتے ہیں.خدا ان کے وجود کو اپنا وجود قرار دے دیتا ہے ان پر اپنی الوہیت کی چادر ڈال دیتا ہے.ان میں خدا کی الوہیت تو نہیں آجاتی.مگر وہ خدا کے مظہر ہو جاتے ہیں.ان کی تعریف کچی تعریف اور ان کی حمد کچی حمد ہوتی ہے ان کے علاوہ کوئی شخص ایسا نہیں ہوتا.جس کے متعلق کہا جائے کہ وہ ٹھو کر کیوں کھا گیا.ایک شخص کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اگر کسی شخص نے جہنمی دیکھنا
303 ہو.تو اس شخص کو دیکھ لے یہ کہہ کر آپ نے ایک شخص ایسے کی طرف اشارہ فرمایا جو لڑائی میں کفار سے بڑی سرفروشی سے لڑ رہا تھا ایک صحابی کہتے ہیں.مجھے خیال ہوا کہ بعض لوگوں کو اس بات سے ابتلاء نہ آجائے کہ ایک ایسے مخلص شخص کو جہنمی کہا گیا ہے.کیونکہ وہ اس طرح لڑ رہا تھا کہ مسلمان کہہ رہے تھے کہ خدا تعالٰی اس کو جزائے خیر دے.وہ صحابی اس کے پیچھے ہو لئے.آخر وہ زخمی ہوا.اس نے رونا شروع کیا.صحابہ آکر کہتے تجھے جنت کی بشارت ہو.مگر وہ کہتا کہ تم مجھے جنت کی بشارت نہ دو.بلکہ جہنم کی بشارت دو.کیونکہ میں خدا کے لئے نہیں اپنے نفس کے لئے لڑ رہا تھا.آخر جب وہ درد سے بے تاب ہو گیا.تو اس نے اپنا نیزہ گاڑا اور اپنا پیٹ اس پر رکھ کر ہلاک ہو گیا.ا.اس طرح خود کشی کر کے اس نے ثابت کر دیا کہ وہ جہنمی تھا پس کسی شخص کی حالت محفوظ نہیں ہوتی.جب تک کہ خدا تعالیٰ اس کے وجود کو اپنا وجود نہ کہدے اور اس کی یہ حالت نہ ہو جائے.من تو شدم تو من شدی من جان شدم تو تن شدی تاکس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری پس کتنا ہی مخلص اور کتنی ہی خدمت کرنے والا کوئی ہو.یہ کہنا کہ وہ ٹھوکر نہیں کھا سکتا.درست نہیں.ہماری جماعت کے بعض لوگوں نے اس لئے ٹھوکر کھائی ہے کہ پیغامیوں میں ایسے لوگ مل گئے.جو بڑے مخلص اور خدمت گزار تھے.لیکن میں کہتا ہوں کہ بے شک انہوں نے خدمتیں کیں مگر یہ بھی تو ظاہر ہے کہ علم و عرفان چھینے بھی جاتے ہیں.اور کھوئے بھی جاتے ہیں.ان کے متعلق ایسا ہی ہوا.دوسرا نکتہ جو اس سورۃ میں قابل لحاظ ہے.وہ خوف و رجا کی حالت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.۲۰ اور قرآن کریم میں بھی آتا ہے.کہ ایمان خوف اور رجا میں ہے.اور ایمان کی حقیقت خوف و رجا کے درمیان ہے.سورۃ فاتحہ بھی اسی کی طرف رہبری کرتی ہے.الحمد للہ کہہ کر رجاء پیدا کی ہے.اور غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہہ کر خوف سامنے آجاتا ہے.یہ راستہ ہے جس پر مسلمان چلتا ہے اور یہی پل صراط ہے جس کے ایک طرف بہشت ہے اور ایک طرف دوزخ.ایمان اسی پل پر چلنے سے مکمل ہوتا ہے.پس خواہ کسی میں کتنا ہی اخلاص ہو.اس کے لئے بھی ان دونوں باتوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کے لوگ تمام کاموں میں اس نکتہ کو نہ بھولیں.
304 اللہ تعالی ہمیں اپنا عرفان دے.تا اس کی طرف سے جو علوم آتے ہیں.ان کو ہم حاصل کریں اور پھر وہ ہم سے نہ چھینے جائیں.اور نہ ہم ان کو کھوئیں اور ہمارا ایمان خوف و رجاء کے درمیان رہے.اللہ تعالی ہمیں ان تمام مستیوں سے بچائے.جو ہلاکت کی طرف لے جاتی ہیں.اور ان راہوں پر چلائے جو جنت کی طرف لے جاتی ہیں.اور ان میں سے بنائے.جن کو جنت اسی دنیا میں مل جاتی ہے.جب تک یہ مقام حاصل نہ ہو.تب تک ہلاکت کا خوف ہے.لیکن اس مقام کے آگے ہلاکت نہیں.بلکہ کامیابی ہی کامیابی ہے.بخاری کتاب القدر باب العمل بالخواتيم سے بخاری کتاب الرقاق باب الرجاء مع الخوف (الفضل یکم فروری ۶۲۴)
305 52 ہدایت کے لئے ہمیشہ دعا کرنے کی ضرورت (فرموده یکم فروری ۱۹۲۴ء) مشهد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.میں بہت دفعہ لوگوں سے یہ بات سنتا ہوں یا کتابوں میں دیکھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ بعض لوگ اپنی نادانی کی وجہ سے یہ خیال کر لیتے ہیں کہ جو چیز پہلے موجود ہو.اس کے لئے ہدایت کی ضرورت نہیں صرف انہیں چیزوں کے بتانے کی ضرورت ہوتی ہے.جو پہلے موجود نہ ہوں.حالانکہ اس سے زیادہ جہالت کی اور کوئی بات نہیں.دنیا میں جہالتیں دو قسم کی ہیں ایک جہالت تو یہ ہوتی ہے.کہ آیا فلاں قسم کی ضرورت کی چیز موجود ہے یا نہیں.اور کیا وہ ضرورت پوری ہو سکتی ہے یا نہیں.دوسری جہالت یہ ہے کہ وہ ضرورت کس جگہ سے پوری ہو سکتی ہے.یہ دونوں جہالتیں تباہی کا موجب ہوتی ہیں ایک ایسا شخص جس کو یہ معلوم نہیں کہ میری بیماری کا علاج ہے اور ایک وہ جس کو یہ معلوم نہیں کہ اس بیماری کا علاج کہاں ہو سکتا ہے.لیکن اسے یہ معلوم نہیں کہ اس کی بیماری کا علاج کہاں ہو سکتا ہے.تو وہ بھی ادھر ادھر دھکے کھاتا پھرے گا.کبھی وہ ترکھانوں کے پاس جائے گا.کہ مجھے کو نین دو کبھی لوہاروں کے پاس چلا جائے گا کہ مجھے فلاں دوائی دے دو.غرضیکہ بیسیوں چیزیں ہم دیکھتے ہیں کہ جن کو لوگ باوجود ان کے روزانہ استعمال کے پھر ان کو معلوم نہیں کہ وہ کہاں سے ملتی ہے.مثلاً چائے ہی ہے.جس کے متعلق بہت لوگ نہیں جانتے کہ وہ کہاں سے پیدا ہوتی ہے.حالانکہ وہ رورانہ اسے استعمال کرتے ہیں.لیکن ان کو معلوم نہیں کہ جائے ہندوستان میں بھی پیدا ہوتی ہے.لیکن پنجاب کے ضلع کانگڑہ میں کثرت سے پیدا ہوتی ہے عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ جائے ولایت میں ہی پیدا ہوتی ہے.پس جہالت صرف اسی بات کا نام نہیں کہ کوئی چیز معلوم نہ ہو.اور کسی چیز کا علم نہ ہو بلکہ یہ بھی جہالت ہے کہ کسی چیز کی ضرورت
306 معلوم ہو.اور اس کی جگہ معلوم نہ ہو.حضرت صاحب کے دعوئی کے مقابلہ میں بھی سب سے بڑی روک جہالت ہے کیونکہ دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ جب ہدایت آچکی ہے.تو پھر مرزا صاحب کو ماننے کی کیا ضرورت ہے.حالانکہ ان کو یہ معلوم نہیں کہ فلاں حصہ ہدایت کا ہے کہاں؟ اور کیسے پورا ہو سکتا ہے.اب ایک ماں کا گم شدہ بچہ جو اپنی ماں کے لئے روتا پھرتا ہے.کیا اسے یہ کہہ کر تسلی دے سکتے ہیں.کہ تیری ماں فلاں جگہ ہے.یا اسے اس کی ماں کے پاس پہنچایا جائے.اسی طرح اگر ساری دنیا بھی کہ ہدایت سے بھری ہوئی ہو.لیکن ہمیں علم نہ ہو.کہ وہ ہدایت ہے کہاں اور کس کے پاس مل سکتی ہے.اور دونوں صورتوں میں ہلاکت ہے.اب ایک شخص ہے.جس کو معلوم نہیں کہ اس کی بیماری کا کیا علاج ہے اور ایک دوسرا شخص ہے.جس کو معلوم نہیں کہ بیماری کا علاج کہاں ہوتا ہے.ان دونوں کے لئے ہلاکت تیار بیٹھی ہے.اور دونوں کے لئے خطرہ ہے.اسی طرح وہ قوم کہ جس کو معلوم نہیں کہ ہدایت ہے کہاں.وہ اسی قوم کی طرح ہے.جو یہ نہیں جانتی ہے کہ آیا ہدایت ہے یا نہیں.اھد نا میں اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ ہدایت تو آگئی ہے لیکن ہمیں یہ پتا نہیں کہ ہدایت ہے کہاں.کیونکہ اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کے ماننے والے تو ہم سب اپنے آپ کو کہتے ہیں.اس لئے یہ بھی خدا کا ہی کام ہے کہ وہ بتائے کہ قرآن کے ماننے والوں میں سے کون سا گروه انعمت علیھم میں شامل ہے.تو اھد نا میں بتایا ہے کہ ہدایت کے ہوتے ہوئے ہمیں ضرورت ہے کہ ہم تلاش کریں.کہ ہدایت ہے کہاں کیونکہ صرف قرآن کے مان لینے سے ہدایت نہیں ہوتی.بلکہ اس کی تعلیم پر چلنے سے ہدایت ہوتی ہے.اگر ہم پہچان نہ سکیں.کہ کون اس کی تعلیم پر چل رہا ہے.تو ہمیں اس ہدایت سے کیا فائدہ اگر قرآن کریم موجود نہ ہوتا تو ہمارے لئے ایسی ہی بربادی کی صورت تھی کہ جیسے اس حالت میں کہ جب کہ قرآن کے ہوتے ہوئے پھر اس کی صحیح تعلیم اور صحیح مفہوم بتانے والا اور اس پر چلنے والا ہمارے سامنے نہ ہوتا.پس اس ضرورت کے ماتحت ہمیشہ انبیاء و مرسلین کی ضرورت ہے اور ضرورت رہے گی جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ ہدایت کہاں سے مل سکتی ہے اور کون اس پر چل رہا ہے.تب تک ہم خطرہ سے محفوظ ہوں گے تو صداقتوں کے لئے یہ بھی ضرورت ہے کہ ان کے کون سے مطالب درست ہیں.دیکھو حضرت صاحب کی تعلیم کے ہوتے ہوئے اختلاف پایا جاتا ہے.اس کے لئے بھی خدا ہی کی مدد کی ضرورت
307 ہے.جو فیصلہ کرے کہ دو گروہوں میں سے کون حق پر ہے ورنہ امر مشتبہ ہو جائے.کیونکہ ایک جماعت تو اسبات کو نکال کر دکھاتی ہے کہ حضرت صاحب نبی نہیں اور ایک جماعت یہ نکال دیتی ہے کہ وہ نبی ہیں.اور ایک جماعت حضرت صاحب کی تعلیم سے یہ ثابت کرتی ہے کہ حضرت صاحب کا منکر کا فر ہے اور اس کا جنازہ جائز نہیں اور دوسرا گروہ اس کے خلاف ثابت کرتا ہے بیشک ہمارے پاس دلائل ہیں.لیکن پھر بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اللہ تعالی کے حضور دعا کریں کہ وہ ہمیں گمراہی سے بچائے اور صداقت پر قائم رکھے.پس سورۃ فاتحہ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہم ہر لمحہ ہدایت کے محتاج ہیں.دیکھو یہاں ہی حضرت صاحب کی کتب کی تشریحات و تاویلات شروع ہو گئی ہیں.وہ لوگ جو اپنی حالت پر مطمئن ہو جاتے ہیں وہی ہمیشہ ٹھو کر کھاتے ہیں.لیکن وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہر وقت ہدایت کے محتاج ہیں اور خدا کی مدد کے محتاج ہیں.وہ ٹھوکر سے محفوظ رہتے ہیں.دیکھو ہمارا جب اختلاف شروع ہوا تو اس وقت باوجود اس کے کہ ان عقائد کے متعلق میرے پاس کافی دلائل تھے.پھر میں نے بار بار متواتر کئی دنوں تک یہ دعا کی کہ اے خدا! اگر یہ عقائد درست نہیں اور مجھے ان پر قائم نہیں رہنا چاہئے.تو تو مجھ پر ظاہر کر دے کہ یہ میرے خیالات درست نہیں اور مجھے ان عقائد سے ہٹا لے.مجھے قطعا اس بات کی ضرورت نہیں کہ مرزا صاحب نبی ہیں یا نہیں.مجھے تو صرف تیری رضا کی ضرورت ہے.اس دعا کے بعد جب بڑے وثوق کے ساتھ مجھ پر خدا تعالی کی طرف سے ظاہر کیا گیا کہ جن عقائد پر میں قائم ہوں اور یہ کہ حضرت مسیح موعود واقعی نبی ہیں.تب مجھے اطمینان ہوا.جب ولا ئل اور ہدایت دونوں جمع ہو جائیں تب پھر کسی شک اور شبہ کی گنجائش نہیں رہتی.پس وہ انسان کہ جو ایمان کی ضرورت سمجھتا ہے.اسے دعا کرتے رہنا چاہئے کہ خدا اسے بچے راستہ پر قائم رکھے صرف اللہ تعالی کی ہی ذات ہے.جو غلطیوں سے پاک ہے.باقی کوئی انسان غلطی سے محفوظ نہیں اس کے لئے ہر وقت ٹھوکر لگنے کا خطرہ ہے.اس لئے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالٰی سے دعا کرتا رہے کہ میں ہدایت پر قائم رہوں اور اے خدا میں تیری مدد کا ہر وقت محتاج ہوں.ہو سکتا ہے کہ میں ایسے شخص کے پاس ہدایت سمجھوں کہ جو در حقیقت خود گمراہ ہو اور ہو سکتا ہے کہ ایک کے پاس ہدایت ہو لیکن مجھے معلوم نہ ہو کہ ہدایت اس کے پاس ہے.جب اخلاص کے ساتھ
308 انسان دعا مانگتا رہے تو ضرور اسے خدا تعالیٰ صحیح بات پر قائم کر دیتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ اخلاص کے ساتھ واقعی اپنے آپ کو ہدایت کا اور اللہ تعالی کی مدد کا محتاج سمجھ کر دعا کرے اگر اس کی ایسی حالت نہیں تو وہ خدا سے دھو کہ کرنا چاہتا ہے اور اس سے زیادہ کون گمراہ شخص ہے جو خدا سے دھوکہ کرنا چاہتا ہے جب کہ نفس تو اس کا یہ کہہ رہا ہے کہ مجھے ہدایت کی کوئی ضرورت نہیں اور ظاہر وہ یہ کرتا ہے کہ اسے ضرورت ہے.ایسے شخص کی دعا کچھ فائدہ نہیں دے گی پس ہر مسلم کا فرض ہے کہ سورہ فاتحہ پڑھتے وقت اس کے مطالب پر غور کرے اور دعا کرے کہ وہ ہدایت پر قائم رہے.اللہ تعالی تمام دوستوں کو توفیق بخشے کہ اس کے جلال کو سمجھیں اور اپنے آپ کو اس کے آٹے بے جان کی طرح ڈال دیں تاکہ اس کی نفرتیں ہمارے شامل حال ہوں.اور ہم کو سچائی پر قائم رکھے.(آمین) الفضل ۱۸ فروری ۱۹۲۴ء)
309 53 (فرموده ۸ فروری ۱۹۲۴ء) سورہ فاتحہ سے ایک سبق مشهد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا گلے کی تکلیف کی وجہ سے میں زیادہ بول نہیں سکتا.اور اسی وجہ سے آج کل درس بھی نہیں دے سکتا.کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ تھوڑا سا بھی بولنے کی وجہ سے گلے کی تکلیف اس قدر بڑھ جاتی ہے اور اس میں سے ایسا زہر جذب ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے بخار ہو جاتا ہے.لیکن پھر بھی جمعہ کے موقعہ پر میں نے یہی مناسب سمجھا کہ چند لفظ بولوں.میں نے اپنی جماعت کے دوستوں کو پچھلے دو خطبوں میں اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ سورۃ فاتحہ ہمیں دو سبق دیتی ہے.ایک تو یہ کہ علم کی کتنی قسمیں ہیں.اور دوسرا یہ کہ جہالت کی کتنی اقسام ہیں.آج میں تیرے سبق کی طرف اپنے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں.پہلے سبق تو انسان کی اپنی ذات کے متعلق ہیں کہ اس کو اپنی ذات کی اصلاح کرنی چاہئے.وہ یہ ہے کہ دنیا میں کوئی انسان اپنے آپ کو علیحدہ وجود سمجھنے کا مستحق نہیں نیک مقابلہ کے لئے بیشک اللہ تعالیٰ نے یہ سکھایا ہے.کہ وہ اپنے آپ کو علیحدہ وجود قرار دے.لیکن صرف اپنے فائدہ کے لئے کوئی انسان اپنے آپ کو علیحدہ وجود نہیں ٹھہرا سکتا.حتی کہ اس کی تمام ترقیات دوسروں کے ساتھ وابستہ کر دی گئی ہیں.یہ امر بتاتا ہے کہ منشا الہی یہی ہے کہ انسان اپنے آپ کو علیحدہ وجود قرار نہ دے.مثلاً بیماری ہے.اب کوئی بیماری ایسی نہیں.جو ایک شخص کے ساتھ مخصوص ہو.یہ کبھی نہیں ہوتا کہ ایک خاص بیماری میں ایک ہی شخص مبتلا ہو اور دوسرا اس میں کوئی نہ مبتلا ہو.بلکہ ہر بیماری دوسرے پر بھی اثر ڈالتی ہے.بعض متعدی بیماریاں تو مشہور بھی ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ مجلس میں ایک آدمی آیا سی لیتا ہے.تو دوسروں کے منہ بھی کھل جاتے ہیں.ایک افسردہ سے افسردہ مجلس ہو.اس میں اگر کوئی ایسا شخص آوے.جس کے دل میں بچے طور پر خوشی ہو تو وہ تمام غمزدہ لوگ خوش ہو جائیں گے.اسی
310 طرح اگر رفت والا انسان کسی خوشی کی مجلس میں آجائے.تو سب پر رقت طاری ہو جائے گی مثلاً خطبہ میں ایک شخص کسی بات پر سبحان اللہ کہے تو دوسرے کی زبان پر بھی سبحان اللہ جاری ہو جاتا ہے.ایک شخص نماز میں رونے لگ جائے.تو دوسروں کی آواز میں بھی رقت معلوم ہو گی ایک شخص عمدہ محنت کرتا ہے.تو اس سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے.ایک تندرست ملازم ہے تو اس کے کام اور محنت سے اس کے بیوی بچوں کو اور اس کے آقا کو بھی فائدہ پہنچتا ہے.تو نہ تو غم اور نہ خوشی نہ سکھ اور نہ دکھ کی کوئی ایسی بات ہے.جو ایک کے ساتھ محدود ہو.سلسلہ کیوں خدا نے رکھا ہے.حتی کہ عذاب بھی ایک حد تک ایک انسان کے ساتھ تو اس کا خاص تعلق ہوتا ہے.لیکن اس کا اثر دوسروں پر بھی ضرور ہوتا ہے.مثلاً عذاب کے ماتحت ایک شخص جوان مرگ ہوتا ہے.تو اس کا لازمی نتیجہ اس کے بیوی بچوں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے.اس طرح جن لوگوں پر رحمتیں نازل ہوتی ہیں.تو اس کے نتیجہ میں ان کے متعلقین کو بھی فائدہ پہنچتا ہے.ایک شخص خدمت دین کرنے والے شخص کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.تو اس کو بھی اس نیک کام میں کے ساتھ تو حصہ ملے گا.اگر کوئی عالم کے ساتھ بیٹھے گا.تو اسے بھی علم حاصل ہو گا.پس یہ قانون بتا رہا ہے کہ ہم ہر ایک کام کو دیکھیں کہ یہ ہماری ذات تک محدود نہیں رہے گا.کیونکہ اگر وہ مثلاً بیمار ہے اور اس کی بیماری غالب ہے.تو ہم بھی بیمار ہوں گے.یا ہماری بیماری غالب ہے تو دوسروں کو بیماری حاصل ہو گی.اسی طرح اگر ہم تندرست ہیں اور ہماری صحت غالب ہے.تو دوسروں کو بھی صحت حاصل ہو گی.اسی بات کی طرف سورۃ فاتحہ میں اشارہ کیا گیا ہے جب کہ اس میں سے میں کا لفظ ہی اڑا دیا ہے جہاں متکلم کا صیغہ استعمال کیا ہے.وہاں لفظ ہم ہی رکھا ہے.تینوں جگہ ہم کا لفظ رکھا ہے.ہم عبادت کرتے ہیں ہم خدا سے مدد مانگتے ہیں.اور ہم اس سے ہدایت مانگتے ہیں.جب ہم کوئی لفظ بولتے ہیں.اور اس کی تعیین نہیں ہوتی تو ہم اس کلام کے بولنے کی طرف دیکھیں گے کہ اس کی پہلی کلام سے اس لفظ کی کیا تعیین ہوتی ہے.تو ہم کو یہاں معلوم ہوتا ہے کہ اس سورۃ میں پہلے رب العالمین آیا ہے.جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کم سے کم اگر اس کے معنے ہم لئے جائیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ تمام کے تمام انسان جو ہیں اُن کی طرف سے ہم کہتے ہیں کہ ہم تیری مدد کے طالب ہیں.تیری طرف سے ہدایت کے طالب ہیں.بیشک نیک مقابلہ کے لئے اور ایک دوسرے کو مدد دینے کے لئے تو میں کا لفظ بولا جاتا ہے.لیکن مجموعی کاموں کے لئے ہم آتا ہے.پس یہاں جو ایاک نعبد سے لے کر اهدنا الصراط المستقیم
311 تک آیا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان تبھی بچے طور پر عبادت کر سکتا ہے کہ اس کے سوا تمام انسانوں کو بھی ہدایت ہو اور یہ تبھی ہلاکت سے بچ سکتا ہے.جب کہ تمام آدمیوں کو خدا کی طرف سے ہدایت ہو اور مدد ہو کیونکہ اگر صرف اسی کو ہدایت مل گئی ہے اور دوسروں کو نہیں ملی تو دوسرے گمراہ لوگ اس کو گمراہ کر سکتے ہیں.اگر اس کو گمراہ نہیں کریں گے.تو اس کی اولاد کو ضرور گمراہ کریں گے.پس یہ تبھی محفوظ رہ سکتی ہے جب کہ اس کے ارد گرد کے لوگ بھی محفوظ ہوں.پس سورہ فاتحہ ہمیں سبق دیتی ہے کہ ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم باقی لوگوں کو بھی ہدایت کی طرف لانے کے لئے توجہ کریں.اگر خالی منہ سے ان کی ہدایت کے لئے دعا مانگتے رہیں.لیکن ان کی ہدایت کے لئے کوشش نہ کریں.تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم جھوٹ بولتے ہیں.تبلیغ انسان کے ابتدائی اور اعلیٰ درجہ کے فرائض میں سے ہے.اب جب کہ یہ دعا مانگتا ہے.کہ ہم سب کو ہدایت دے تو عجیب بات ہے کہ جب اسے ہدایت دی جاتی ہے.تو دوسروں کا حصہ بھی اپنے پاس رکھ چھوڑتا ہے یہ پھر چور اور ڈاکو ہے.اس لئے خطرہ ہے کہ اس کو جو ہدایت دی گئی ہے.وہ بھی چھینی جائے.اس لئے وہی شخص قبولیت کا شرف حاصل کر سکتا ہے کہ جو دو سروں کو بھی جو ہدایت میں ان کا حصہ ہے پہنچا دیتا ہے.اس میں چوری نہیں کرتا.لیکن وہ شخص جو دوسروں تک ہدایت نہیں پہنچاتا وہ خطرہ میں ہے کہ وہ سبھی ہدایت سے محروم نہ رہے.پس میں تمام جماعت کو اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جلد سے جلد اس زمانہ میں ہدایت کو دوسروں تک پہنچا دے.اللہ تعالی ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم اپنے فرائض کو سمجھیں.اور اپنی ذمہ داری کو ادا کریں.اور ہدایت کو ہم دوسروں تک پہنچا دیں.الفضل ۱۵ فروری ۱۹۲۴ء)
312 54...4 (فرموده ۲۹ فروری ۱۹۲۴ء) احمدیت کا نفوذ اکناف عالم میں پیاسی دنیا کی پیاس بجھاؤ مشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا گو ابھی میری طبیعت کچھ خراب ہی ہے.اور اب بھی اس وقت کچھ بخار معلوم ہوتا ہے.لیکن چونکہ میں اسی غرض کے لئے باہر سے روانہ ہوا کہ جمعہ قادیان میں پڑھوں.اس لئے میں نے یہی مناسب سمجھا.خود ہی خطبہ جمعہ پڑھوں.میں نے اپنے دوستوں کو بارہا توجہ دلائی ہے کہ دنیا اس وقت حق کی پیاسی ہے.اور اس کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہے.جو کہ کئی دنوں سے سخت پیاسا ہو.اس کے حلق میں کانٹے پڑ گئے ہوں.زباں خشک ہو رہی ہو.اس بگی طاقت پیاس کے مارے ضائع ہو گئی ہو اور آخر وہ مرنے کی انتظار میں ہو کہ ایسی حالت میں اس کے سامنے تھوڑے سے فاصلہ پر نہایت شیریں اور ٹھنڈا پانی رکھا جائے.پس جس طرح یہ شخص پانی کے لینے کے لئے کوشش کر رہا ہو.اس کی زبان باہر نکل رہی ہو اور وہ سارے کا سارا التجا بن رہا ہو.بعینہ اسی طرح آج دنیا روحانیت کے لئے پیاسی ہو رہی ہے.کئی صدیاں گزر گئی ہیں کہ دنیا سے سچا مذہب مفقود ہو گیا.حتی کہ اسلام بھی اس زمانہ میں پردوں کے نیچے چھپ گیا.اور مسلمان پکار اٹھے تھے کہ اسلام کہاں ہے.اسی طرح عیسائی چلا اٹھے تھے.کہ وہ خدا جو مسیح کی شکل میں ظاہر ہوا تھا.کہاں ہے.ہندو پکار اٹھے.وہ محبت کرنے والا خدا اب کیوں نہیں بولتا اور اپنے بندوں سے کیوں نہیں کلام کرتا.جب ہر مذہب و ملت کے لوگوں کی ایسی حالت ہو گئی.تو کئی صدیوں کے بعد خدا کی طرف سے آواز آئی اور قادیان سے ایک شخص اٹھا
313 جس نے کہا کہ مجھے خدا نے اس زمانہ میں روحانی پانی کر کے بھیجا ہے.اور خدا نے جب دیکھا کہ تمہاری روحانیت جاتی رہی ہے.تو اس نے آپ تمہاری طرف توجہ کی اور اپنا ہاتھ بڑھایا اب ایسی قوم کے لئے یہ آواز کس قدر خوش کن ہو سکتی ہے.شاید ہمیں کوئی کہے کہ پھر لوگوں نے حضرت صاحب کا مقابلہ کیوں کیا.اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگوں کو یقین نہ تھا کہ واقعی اس وقت خدا کی طرف سے ہمارے لئے یہ شخص روحانی پانی لایا ہے.اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک بھوکا ہو اور اس کے ساتھی بھی بھوکے ہوں.ان میں سے ایک شخص جس کو کہیں سے کھانا مل گیا ہو.دوسروں سے کسے کہ مجھے روٹی مل گئی ہے.اس پر پہلے پہل اس کے ساتھی اسے ٹھٹھا کرنے والا سمجھیں گے.اور اس پھر ناراض ہوں گے اسی طرح حضرت صاحب کی جو مخالفت کی گئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ مایوس ہو گئے تھے اور سمجھتے تھے کہ ہم خدا کو نہیں پاسکتے.اس وقت جب حضرت مسیح موعود نے کہا کہ خدا اب بھی مل سکتا ہے.مجھے مل گیا ہے.اور مجھے اس نے اس لئے بھیجا ہے.کہ جو لوگ خدا سے دور ہو چکے ہیں.مگر خدا سے ملنا چاہتے ہیں انہیں اس سے ملاؤں تو لوگوں نے سمجھا مرزا صاحب ہمیں چڑاتے ہیں.پس حضرت صاحب کی پہلے پہل مخالفت کی وجہ یہی تھی.ورنہ کیا وجہ ہے کہ اب دنیا کے چاروں گوشوں سے لوگ کھینچے چلے آتے ہیں.کچھ عرصہ ہوا ایک ترک ایک عجیب بات چین میں احمدیت کے متعلق اپنی تصنیف میں لکھتا ہے کہ ایک شہر میں میں گیا.تو مجھے معلوم ہوا کہ ایک مسجد کے متعلق جھگڑا ہے اور کچھ لوگوں کو اس میں نماز پڑھنے سے روکا جاتا ہے.میں نے دریافت کیا.تو بتایا گیا کہ یہ احمدی لوگ ہیں جو ہندوستان کے ایک شخص کو مسیح موعود مانتے ہیں.ان کو ہم مسجد میں نماز نہیں پڑھنے دیتے.اس سے معلوم ہوا کہ چین میں بھی احمدی ہیں.حالانکہ آج تک وہاں کوئی احمدی مبلغ نہیں گیا.مگر اس ترک نے جو ترکی پارلیمنٹ کا ایک ممبر ہے.مندرجہ بالا واقعہ لکھا ہے اب یہ وہ ملک ہے کہ جہاں نہ ہمارا کوئی مبلغ ابھی تک گیا ہے اور نہ وہاں کوئی ہماری تصنیف پہنچی ہے اور وہاں کی احمدیت کے متعلق ایک ایسا شخص خبر دیتا ہے جس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں.اس سے پتا لگتا ہے کہ لوگ حق کے لئے پیاسے ہو رہے ہیں.پھر ا بھی اس سفر میں ایک خط مجھے ملا ہے.جو ایک ایسے شخص کی طرف سے ہے جو گورنمنٹ کا اعلیٰ سیاسی ممبر ہے.اس نے عجیب واقعات لکھے ہیں.وہ چونکہ سرحدوں کے قائم کرنے پر مقرر تھا.
314 اس لئے اسے کبھی روسیوں کی موجد مقرر کرنے اور کبھی ایرانیوں کی سرحد کبھی چین کی سرحد مقرر کرنے کے لئے جانا پڑتا تھا.کوئی وجہ نہیں کہ ایسا شخص جھوٹ بولے.اس نے لکھا ہے کہ میں دنیا کے مختلف گوشوں میں گیا ہوں جہاں جہاں میں گیا ہوں وہاں احمدیت کے متعلق لوگ مجھ سے پوچھتے تھے.چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ ۵ یا ۶ء میں چین میں سرحد قائم کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا.اس سفر میں میں ایک چینی جہاز پر سوار ہوا تو اس جہاز کے ایک افسر نے جو کہ اس جہاز کا کپتان تھا.مجھ سے پوچھا ہندوستان میں ایک احمد نبی ہوا ہے.اس کے متعلق تم کوئی زیادہ بات بتا سکتے ہو.میں نے اسے کہا.وہ تو کافر اور مرتد ہے.تمام مولویوں نے اس پر کفر کے فتوے لگائے ہیں.اس پر وہ کپتان بہت ناراض ہوا اور کہنے لگا.وہ تو بہت اچھا اور ایک بہت بڑا آدمی ہے اسے تم نے کیوں کافر کہا ہے.وہ اس قدر ناراض ہوا کہ اس نے کئی دن تک پھر کلام نہ کی.پھر وہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ مکان میں جو کہ عرب کا ایک علاقہ ہے.گیا وہاں ایک عرب عالم میرے پاس آیا.اس کی ہیئت سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے وہ دیوانہ اور عاشق ہو رہا ہے.اس نے میرے پاس ذکر کیا کہ ہندوستان میں ایک احمد گذرا ہے جس کی عربی کتاب میں نے پڑھی ہے.میں نے بڑے بڑے فصیح علماء کی کتابیں دیکھی ہیں.لیکن میں نے کسی کتاب میں ایسی لذت نہیں دیکھی جیسی اس کتاب میں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے خاص انسان ہے.اور اس نے وہ کتاب خدا کی خاص تائید سے لکھی ہے.کیا تمہارے پاس اس کی کوئی اور کتاب ہے میں نے کہا کہ نہیں میرے پاس تو اس کی کوئی کتاب نہیں.وہ صاحب لکھتے ہیں کہ میں پہلے تمام سفروں میں مرزا صاحب کو کافر و مرتد بتلاتا تھا.لیکن جب مجھے شملہ میں بعض احمدیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا اور ان کی بہت سی اچھی باتیں مجھے معلوم ہوئیں.تو پھر میرا تعصب جاتا رہا.اگرچہ میں احمدی نہیں ہوا اور نہ ہی اب احمدی ہوں.لیکن میرا تعصب دور ہو گیا.اس لئے میں پھر مرزا صاحب کے متعلق سوال ہونے پر یہی کہتا رہا کہ وہ اچھے آدمی ہیں اور احمدی اچھے لوگ ہیں.پھر جنگ کے موقعہ پر ایک روسی سرحد قائم کرنے کے لئے ایک علاقہ میں گیا جہاں مجھے ارسلان پاشا سے گفتگو کا اتفاق ہوا.جو ایک بادشاہ کی طرح سمجھا جاتا تھا.وہ بڑے شوق سے مجھے ملا اور دوران گفتگو میں اس نے پوچھا کہ احمد مسیح جنہوں نے ہندوستان میں مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے.ان کے متعلق کیا حالات آپ کو معلوم ہیں اور ان کی کوئی تصنیف تمہارے پاس ہے.میں نے کہا کہ نہیں میرے پاس تو ان کی کوئی تصنیف شدہ کتاب نہیں.انہوں نے کہا کہ آپ پھر جب کبھی آئیں تو
315 ان کی کوئی کتاب تحفہ کے طور پر لائیں.وہ اور ان کے ساتھی کئی گھنٹے مرزا صاحب کے متعلق گفتگو کرتے رہے.پھر وہ لکھتے ہیں کہ میں تھوڑے عرصہ بعد جب وہاں گیا اور ان سے ملاقات ہوئی تو سب سے پہلے انہوں نے یہی سوال کیا کہ تم کتاب لائے ہو میں نے کہا کہ میں تو ابھی ہندوستان گیا نہیں.اس لئے میں نہیں لا سکا.یہ سن کر ان کی آنکھیں سرخ ہو گئیں.پھر میں ایک دفعہ ان سے ملا اور انہوں نے پہلی طرح ہی سوال کیا کہ ہمارے لئے کیا تحفہ لائے ہو.مجھے ان کی بات بھول گئی تھی.اس لئے میں نے جواب دیا کہ میں مشک نافہ تحفہ کے طور پر لایا ہوں.انہوں نے نہایت افسردہ ہو کر کہا کہ ہم نے اس تحفہ کو کیا کرنا ہے.ہم تو اس تحفہ کے یعنی احمد کی کتاب کے خواہشمند تھے.اب دیکھو کہ ان واقعات سے پتہ لگتا ہے کہ کس طرح غیر ممالک میں احمدیت کے لئے جوش پیدا ہو رہا ہے.پھر وہ لکھتے ہیں کہ میں ایک دفعہ ابی سیدنیا بھیجا گیا وہاں ایک شخص ملا جو ابی سیدنیا کے بادشاہ کا بھائی تھا.وہ لوگ چونکہ کوئی دین نہیں رکھتے تھے.اس لئے میں نے کہا کہ تم کوئی دین کیوں نہیں اختیار کرتے.اس نے کہا کہ ہم میں ایک بڑا آدمی گذرا ہے.اس نے ایک کتاب لکھی تھی.جس پر ہماری قوم عمل کرتی تھی.اس کتاب کو اتفاقا " ایک گائے کھا گئی جس کی وجہ سے اب تک وہم کے طور پر ہم میں یہ رواج پڑا ہوا ہے کہ جب کوئی گائے بیچے تو وہ خریدار سے اس وعدہ پر بیچتا ہے کہ جب کبھی اس گائے کو ذبح کرو.تو اس کا پیٹ چاق کر کے کتاب کو دیکھنا.پھر اس نے ایک اور بات بتائی تھی کہ ہمارے اس بزرگ نے یہ کہا ہوا ہے کہ جب تمہارے پاس سے وہ کتاب ضائع چلی جائے اور تم اس کی ہدایت پر عمل نہ کر سکو.تو اس وقت مشرق کی طرف سمندر پار ایک آدمی قودی میں ہو گا.اس کی بات کو ماننا ہو گا.اور اسی کی ہدایت پر چلنا.وہ صاحب لکھتے ہیں کہ اس وقت تو میرا ذہن اس طرف نہیں گیا کہ قودی سے مراد قادیان ہے لیکن بعد میں میرا ذہن اسی طرف گیا کہ قودی سے مراد قادیان ہے.ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا صداقت کے قبول کرنے کے لئے کس قدر تڑپ رہی ہے اور اس کی یہ تڑپ نہیں پوری ہو سکتی.جب تک موجودہ تہذیب کے انتظام کو چھوڑ کر وہی مجنونانہ طریق نہ اختیار کیا جائے.جو آج سے تیرہ سو سال پہلے صحابہ نے اور پھر ان کے بعد دیگر اولیاء نے اختیار کیا تھا اور وہ یہ کہ کفنی پہن کر نکل جائیں.اسی وجہ سے بہت سے انبیاء نے یہ شرط لگائی تھی کہ جو مبلغ ہو وہ مانگ کر کھائے.حضرت عیسی نے بھی یہ شرط لگائی تھی کہ مبلغ مانگ کر کھائیں.
316 اسلام تو ایسی طرز کو پسند نہیں کرتا.لیکن وہ اس سادگی کا حکم دیتا ہے.جو اس حالت کے قریب اور اس سے مشابہ ہے.جو ایک مانگنے والے کی حالت ہوتی ہے پس ایسے زمانہ میں جبکہ ساری دنیا صداقت کے لئے چلا رہی ہے.اس وقت اگر ہمارے آدمی عقد ہمت کر کے تبلیغ کے لئے نکل پڑیں اور خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیں.تو چند ہی دن کے اندر تمام دنیا میں ایک شور پڑ جائے گا اور تم دیکھو گے کہ بہت سے لوگ ایسے نکلیں گے جو کہیں گے کہ ہم تو کئی سال سے ان باتوں کو مان رہے ہیں.کیونکہ دنیا میں اکثر لوگ یونسی ڈرا کرتے ہیں.اور اپنے خیالات کے اظہار کی جرات نہیں کرتے.پس بہت سے لوگ موقعہ کا انتظار کر رہے ہیں.کہ کچھ آدمی ان کے ساتھ ہوں تو وہ اپنے آپ کو ظاہر کر دیں.سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ نکلیں گے.جو کہ دل میں تو مان رہے ہیں.اور موقعہ کی تاک میں لگے ہوئے ہیں.حالانکہ اس وقت وہ بظاہر مخالف نظر آتے ہیں.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بغیر سامان لئے دنیا میں تبلیغ کے لئے نکل پڑیں.اور جس طرح سے بھی ہو.وہ ان علاقوں تک پہنچیں اور تبلیغ اسلام کریں تا کہ پھر اسلام کے روشن ہونے کے دن آئیں.اس قسم کے لوگ اگر ہمارے اندر پیدا ہوئے.تو میں سمجھتا ہوں کہ بڑی سرعت کے ساتھ اسلام دنیا میں پھیل جائے گا ایسے طریق پر تبلیغ کے لئے نکلنے کے واسطے صرف ہمت کی ضرورت ہے.ایک دفعہ اگر انسان ہمت باندھ لے تو پھر اسے کوئی کام مشکل نہیں معلوم ہوتا.دیکھو دنیا میں اکثر مذہب اس طرح پھیلے ہیں.عیسائیت اسی طرح پھیلی ہے.پھر اسلام بھی اسی طرح پھیلا ہے اور اب احمدیت بھی اسی طرح قائم ہوئی ہے.اور ہماری جماعت میں بہت سے دوستوں نے قربانیاں کی ہیں.پس اگر پہلے لوگ بھی قربانیاں کر سکتے تھے.اور ہماری جماعت میں سے بہت سے دوست قربانیاں کر چکے ہیں.تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے دوسرے بھائی ایسی قربانیاں نہ کر سکیں.جبکہ ان قربانیوں سے ثواب الگ ملے گا اور تاریخوں میں نام الگ روشن ہو گا دنیاوی عزتیں بھی قربانیوں کے بعد ہی ملتی ہیں اور دینی عزتیں بھی قربانیوں سے ہی حاصل ہوتی ہیں پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بہت جلد تیار ہو جائیں.تاکہ ہم ان کو ان ممالک میں بھیج دیں.جہاں اس وقت زیادہ ضرورت ہے اور جو زیادہ تڑپ رہے ہیں.اللہ تعالٰی ہمیں توفیق دے کہ ہم بہت جلد حق کو تمام لوگوں تک پہنچا دیں.اور اسلام کو دنیا میں پھیلا دیں.الفضل ۷ مارچ ۱۹۲۴ء)
317 55 (فرمودہ کے مارچ ۱۹۲۴ء) ہر کام کے لئے تیاری ضروری ہے مشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا میں نے پچھلے بعض خطبات میں اپنی جماعت کے احباب کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ یہ زمانہ تبلیغ کا ہے.اس لئے ہمارے تمام احباب کو چاہئے کہ اس اسلام کی اشاعت میں جو ہمیں مسیح موعود کے ذریعے ملا ہے.اپنی تمام تر توجہ سے لگ جائیں.جب تک یہ صداقت دنیا کے گوشہ گوشہ میں نہ پھیل جائے.اس وقت تک ہم چین نہ لیں.لیکن ایک سوال یہ ہے کہ تبلیغ کس رنگ میں کی جائے.ظاہر ہے کہ جب تک ہتھیار نہ ہوں دلائل اور ثبوت نہ ہوں.انسان دوسرے کو قائل نہیں کر سکتا.اس لئے میں لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ سلسلہ کی صداقت کے ثبوت یاد کریں اور خوب سمجھ لیں.کیونکہ اس کے بغیر آپ دوسرے کو سمجھا نہیں سکتے.دنیا میں جس قدر صداقتیں ہیں ان سے ایک نور پھیلتا ہے اور اس نور سے صداقت چھن چھن کر قلوب تک پہنچتی.لوگ نہیں جانتے مگر صداقت پہنچ جاتی ہے.ایسی حالت میں انسان ایک دو دلیلوں سے سمجھ جاتا ہے مگر دوسرے کو نہیں سمجھا سکتا.اگر ایسا شخص جو خود تو صداقت کو سمجھ چکا ہے.مگر دلائل اس کے پاس اتنے نہیں ہیں کہ دوسرے کو سمجھا سکے اور سمجھانے کی کوشش کرے گا تو اس کی کوشش رائگاں جائے گا.دو ذریعہ ہیں جن سے صداقت پھیل سکتی ہے ایک یہ کہ خدا سے تعلق ہو.دعائیں قبول ہوتی ہوں.خدا کی طرف سے ایک اثر دیا گیا ہو.دوسری بات یہ ہے کہ وہ صداقتیں جو اس کو ملی ہوں ان کو ایسے طریق سے پیش کر سکے کہ لوگ ان کا انکار نہ کریں.بہت سے لوگ ہوتے ہیں.جن کو خود تو یقین ہوتا ہے مگر اتنا علم نہیں ہوتا جو دوسرے کو سمجھا سکیں ایسے لوگ خود بھی ٹھو کر کھاتے ہیں اور دوسروں کی ٹھوکر کا بھی موجب ہوتے ہیں یا کم از کم موجب ہدایت ہوتے اور ان کی کوششوں
318 سے لوگوں کے دل متاثر نہیں ہوتے.ان زبردست دلائل میں سے جو حضرت صاحب کے لئے ہم پیش کیا کرتے ہیں ایک میں یہاں پیش کرتا ہوں.یہ دلیل اپنے اندر اتنی شقیں رکھتی ہے کہ ان کو بہت سے لوگ جانتے بھی نہیں سمجھنا تو بڑی بات ہے اور اسی لئے ان کی بات کا دوسروں پر اثر نہیں ہوتا.یاد رکھنا چاہئے کے جتنے دلائل ہوتے ہیں وہ اور دلائل سے مل کر ایک مدعا کو ثابت کیا کرتے ہیں.جس طرح علم کے درجہ ہوتے ہیں اول جماعت دوم جماعت سوم جماعت و غیره و غیره اسی طرح دلائل کے بھی درجے ہوتے ہیں.ایک دلیل ایک حصہ کو ثابت کرتی ہے.دوسری دلیل اس کے ساتھ مل کر اوپر کے حصوں کو ثابت کرتی ہے اگر پہلی جماعت کا طالب علم سمجھے کہ میں لائق ہو گیا.اور انتہائی ترقی پا گیا.تو وہ نادان ہو گا.اسی طرح اگر دلیل کا ایک حصہ پیش کر کے کوئی یہ خیال کرے کہ اس سے میرا مخالف خاموش ہو جائے گا.تو یہ اس کی نا سمجھی ہوگی کیونکہ دلائل میں یہ بات ہوتی ہے کہ دلیل کا ایک حصہ ایک بات ثابت کیا کرتا ہے.مثلاً خدا ہے یہ ایک بہت بڑا دعویٰ ہے اس پر زمین و آسمان گواہ ہیں لیکن اتنی بڑی دلیل سے بھی صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ خدا ہونا چاہیئے.مگر یہ بات کہ خدا ہے بھی یا نہیں وہ اس سے ثابت نہیں ہوتا.اس پر حضرت صاحب نے بڑی بحث کی ہے اور فرمایا ہے کہ زمین و آسمان سے اتنا ثابت ہوتا ہے کہ خدا ہونا چاہیئے.لیکن خدا کے ہونے کی قطعی دلیل یہ نہیں بلکہ یہ ہے کہ خدا آپ اپنے آپ کو ہمارے سامنے ظاہر کرے اور کہے کہ میں ہوں.زمین و آسمان یہ بات پیدا نہیں کرتے ان سے صرف اتنا پتہ لگے گا کہ خدا ہونا چاہیئے.اور خدا کی ضرورت ہے اور جب تک خدا اپنے آپ کو ہم پر ظاہر نہ کرئے تب تک یہ یقین نہیں ہوتا کہ خدا ہے، زمین و آسمان سے خدا کی طرف توجہ ہوتی ہے اور جب خدا انسان کے دل پر نازل ہوتا ہے اور بتاتا ہے کہ میں ہوں تب یقین ہو جاتا ہے.اس میں ایک تیسری بات بھی ہے اور وہ یہ کہ جس بات کو کوئی انسان خدا کی بات کہتا ہے وہ اس کی اختراع یا غلطی تو نہیں ہے اور اسے کوئی دھو کہ تو نہیں لگ گیا بعض اوقات یوں ہی معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے آواز دی ہے.مگر ہوتا کچھ نہیں صرف کان بجتے ہیں.میرے ساتھ کئی دفعہ ایسا ہوا ہے اور کئی آدمیوں کے ساتھ بھی ہوا ہو گا کہ پیچھے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی آواز آئی ہے.مگر جب اس طرف دیکھا جاتا ہے.تو کوئی آواز دینے والا نہیں ہوتا.پس اس وقت یہ بھی دیکھنا
319 معلوم ہو گا کہ جس آواز کو اس نے سنا ہے.وہ واقعی آواز تھی.یا محض اس کے کان بجے تھے.اس کے کرنے کے لئے یہ علامت ہے کہ جو بات خدا کی طرف سے ہو اس کے ساتھ نشان بھی ہوتے ہیں.مثلاً مجھے آواز آئے "محمود" جب میں اس آواز پر مڑ کر دیکھوں اور کسی کو نہ پاؤں تب میں یہی سمجھوں گا کہ یہ آواز نہ تھی.بلکہ محض میرے کانوں کی غلطی تھی.مگر جب مجھے محمود کی آواز آئے اور میں پیچھے مڑ کر دیکھوں کہ ایک شخص دوڑتا ہوا میری طرف آبھی رہا ہے.تب میں یہی کہوں گا کہ یہ میرے کانوں کی غلطی نہ تھی.واقعی اس آدمی نے مجھے بلایا تھا.پس جب کسی کو کوئی آواز آتی ہے اور اس آواز کے مطابق نصرت بھی ہوتی ہے.تو وہ آواز دماغ کی کمزوری کا نتیجہ نہیں ہو گی.اب غور کر لو کہ ایک دلیل کے ساتھ کس قدر دلائل نے مل کر خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت دیا ہے اگر دلیل کے ایک حصہ پر ہی اکتفا کر لیا جائے.اور باقی نہ لئے جائیں.تو مطلب ثابت نہیں ہوتا.یہ میں نے ایک مثال خدا کی ہستی کی دلیل کے متعلق بتائی ہے.اب میں حضرت صاحب کے دعوئی کے ثبوت میں یا ہر ایک رسول کے دعوئی کے ثبوت میں.ایک دلیل بیان کرتا ہوں.اور میں بتاؤں گا کہ کس طرح قدم قدم صداقت ثابت ہوتی ہے اور ایک درجہ سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے درجہ میں جا کر بات صاف ہوتی ہے.مثلاً حدیث میں آیا تھا اور قرآن شریف سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود کو اس زمانہ میں آجانا چاہیئے مگر اس سے حضرت مرزا صاحب کا سچا ہونا ثابت نہیں ہوتا.یا مثلاً چاند اور سورج کو گرہن لگ گیا اور یہ مسیح موعود کی آمد کی نشانی ہے.مگر محض اس سے ثابت نہیں کہ حضرت مرزا صاحب مسیح یا مهدی ہیں بلکہ کچھ اور دلائل ہیں جن کے ملنے سے یہ بات ثابت ہو سکتی ہے لیکن اگر کوئی شخص صرف چاند اور سورج کے گرہن سے ہی خیال کرے کہ حضرت مرزا صاحب کی صداقت ثابت ہو گئی اور اسی دلیل سے چاہے کہ کسی کو صداقت مسیح موعود کا قائل کرلے تو وہ ٹھوکر کھائے گا اس لئے میں ایک موٹی دلیل صداقت کی پیش کرتا ہوں اور یہ بھی بتاؤں گا کہ اس دلیل سے کس طرح صداقت ثابت ہوتی ہے.اور وہ یہ ہے فرمایا که فقد لبثت فيكم عمرا من قبله اللا تعقلون (یونس ۱۷) یہ دلیل ہے جو قرآن کریم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی دی گئی ہے.اس کے متعلق ہم دیکھنا یہ چاہتے ہیں کہ کہاں تک صداقت کے معلوم کرنے میں مدد دیتی ہے.عام طور پر لوگ خیال کیا کرتے ہیں کہ اس سے سب دعاوی کی صداقت ثابت ہو جاتی ہے حالانکہ بات یہ نہیں.بلکہ اس
320 دلیل سے دعوئی کا ایک حصہ ثابت ہوتا ہے.عام طور پر لوگ اس سے صرف یہ استدلال کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جھوٹ نہیں بولا.آپ پر کبھی اتہام نہیں لگایا گیا.لہذا ثابت ہوا کہ آپ اپنے دعوئی میں بچے ہیں مگر اس سے آپ کی صداقت ثابت نہیں ہوتی.کیونکہ طریق استدلال درست نہیں ہے بلکہ اس آیت کے اندر کئی شرطیں ہیں.جو کسی رسول کے دعوئی کے اثبات کا ایک حصہ بنتی ہیں.وہ شرطیں کیا ہیں.اور ان سے کیا ثابت ہوتا ہے.اول یہ کہ فرمایا فقد لبثت فیکم عمرا اس میں ایک شرط یہ ہے کہ وہ جن لوگوں میں آیا ہو.ان میں اس نے عمر کا ایک بڑا حصہ گزارا ہو.لوگ کسی کو پرکھ نہیں سکتے.جب تک ایک عرصہ تک اس سے واسطہ نہ پڑے.وہ دیکھ نہ لیں کہ اس کے حالات بدلتے نہیں رہے.اس نے ہمیشہ صداقت کو پکڑے رکھا ہے.کبھی صداقت سے ادھر ادھر نہیں ہوا.جب تک یہ نہ معلوم ہو.تب تک اس پر اعتماد نہیں ہو سکتا.پس ہمیں مدعی کی پہلی حالت معلوم ہونی چاہیئے.جس سے معلوم کر سکیں کہ وہ معظم امور میں ہمیشہ ایک بات پر قائم رہا.جزوی امور میں اگر اختلاف ہوا ہو تو کوئی بات نہیں اصولی امور میں وہ ایک جگہ پر قائم رہا ہو.یہ نہ ہو کہ آج وہ ہندو ہے تو کل عیسائی اور پرسوں کسی اور مذہب کا پیرو اگر کوئی ایسا شخص ہو تو اسے ہم اوتار اور نبی نہیں مان سکتے.ہاں مولوی اور عالم ہو سکتا ہے کیونکہ مولوی اور عالم دلیل سے جہاں ٹھو کر کھاتے ہیں.اور سمجھ بھی جاتے ہیں.اگر کوئی مولوی پچاس مذہب بھی بدلے تو کوئی تعجب نہیں اور عقلی طور پر اس کی اتباع میں حرج نہیں کیونکہ مولوی یا عالم اپنے علم و فکر سے ایک بات کہتا ہے اور وہ اس میں غلطی بھی کر سکتا ہے.مگر نبی کے علم اور کلام کا ماخذ خدا ہوتا ہے.ہے.اس لئے اصولی مسائل میں اس میں اختلاف نہیں ہونا چاہیئے اور نہ ہوتا ہے اسی لئے وہ ٹھوکریں نہیں کھاتا.یہ بات دیکھنے کے لئے مدعی کی پہلی زندگی کا معلوم ہونا ضروری ہے.دوسری بات اس آیت سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ چند دن کے حالات سے صداقت یا عدم صداقت پر بحث نہیں ہو سکتی.کیونکہ دو دو تین تین سال تک دھوکا لگ سکتا ہے ایک آدمی اس عرصہ میں دھوکہ دینے کا منصوبہ باندھ سکتا ہے.لیکن ایک لمبا عرصہ پہلے دھوکے کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی.اور جب کسی کی ساری عمر سامنے گذری ہو تو معلوم ہو سکتا ہے کہ بچپن میں وہ کیسا تھا.جوانی میں کیسا رہا.ادھیڑ عمر میں کیسا ہو.اگر یہ بات نہ ہو تو امر مشتبہ ہو سکتا ہے.غرض ضروری ہے کہ ایسے شخص کی ساری زندگی سامنے رہی ہو.
321 یہ ہے کہ اس کی زندگی غیر معروف نہ ہو بلکہ ایسی ہو کہ لوگوں نے اس پر نوٹس لیا ہو کیونکہ عموماً اس تنکیر سے عظمت ظاہر ہوتی ہے یعنی ایسی زندگی ہو کہ کفار اس کی زندگی کی بناء پر پکار اٹھیں کہ کنت فینا مرجوا تجھ سے ہمیں بڑی بڑی امیدیں تھیں.غرض اس کی زندگی نہایت اہم اور شاندار ہو.لوگوں کے اس سے معاملات پڑتے رہے ہوں.اور لوگوں نے ہر حال میں اس کی نیکی اور اعلیٰ زندگی کو مشاہدہ کیا ہو.پھر جب وہ کہے کہ میں تم میں رہا ہوں میرا بچپن.میری جوانی اور میری ادھیڑ عمر تم نے دیکھی ہے.پھر وہ ضرور قابل توجہ ہوتا ہے.پھر فرمایا کہ "من قبلہ اس میں ایک اور شرط پائی جاتی ہے کہ اس کی نیکی اور متقیانہ زندگی دعوئی سے پہلے پائی جاتی ہو.جب دعویٰ کرتا ہے.تو لا محالہ دعوی کے مطابق یہ تکلف بھی بننا پڑتا یہ چار نشان ہیں جو ایک مدعی میں ہونے چاہیئیں.اور یہ اس آیت میں بیان ہوئے ہیں.اول یہ کہ وہ شخص اپنی قوم میں زندگی بسر کرے (۲) لمبی زندگی بسر کرے.(۳) دعوئی سے پہلے کی عمر کا حصہ اس شان سے گزارا ہو کہ اس پر لوگوں کی توجہ پڑتی ہو اور اس کے متعلق لوگوں کا یہ خیال ہو کہ اس کی زندگی بڑی ہو نہار اور فائدہ بخش زندگی ہے.(۴) کہ وہ زندگی دعوی سے قبل کی ہو.یہ چار شرطیں ہیں.جو اس آیت کے ماتحت کسی مدعی میں پائی جانی ضروری ہیں.اور ان کے بغیر اس کا دعویٰ کوڑی کی قیمت کا بھی نہیں ہوتا.سال دو سال تین یا چار سال کی عمر سند نہیں ہو سکتی.اتنے اتنے عرصے میں لوگوں دھوکہ دے سکتے ہیں.ہاں بچپن میں منصوبہ نہیں ہو سکتا.اس لئے بچپن کی حالت ہو.پھر جوانی میں دیکھا ہو.ادھیڑ عمر میں لوگوں کے سامنے رہا ہو.ایسا شخص اگر کے کہ تم میری عمر پر اعتراض تو کرو تو وہ حق بجانب ہو سکتا ہے نہ کہ ایسا شخص جو چند سال کسی جگہ گزارے اور اس کی زندگی نمایاں زندگی نہ ہو وہ یہ دعوی کر بیٹھے کہ میرے اس حصہ عمر پر کوئی اعتراض تو کرو.یہاں سے ایک شخص مرتد ہو کر لاہور گیا.اس نے کہا کہ اے قادیان والو! میری زندگی پر کوئی اعتراض کرو اور اس نے یہ آیت پیش کی.اگر ہر ایک شخص اس دلیل کو اس لئے پیش کر سکتا ہے کہ اس کی چند سالہ زندگی کے عیب کسی کو معلوم نہیں تو قادیان کے پنڈورے کے کئی چوڑھے اور سانسی بھی اٹھ کر کہہ سکتے ہیں کہ ہماری زندگی پر کوئی عیب تو دکھا.ہم لوگ جو ان کے حالات سے واقف نہیں ہیں ان کو کیا کہہ سکتے ہیں.بات اصل میں یہ ہے کہ اس آیت کی رو سے یہ ضروری ہے کہ مدعی نے دعوے سے پہلے اس شان سے زندگی بسر کی ہو کہ ہر ملت کے لوگ اس کے
322 متعلق پکار اٹھیں کہ کنت فینا مرجوا (صور) تجھ پر بڑی بڑی امیدیں تھیں.یہ بات نہ ہو تو ہر شخص مدعی بن بیٹھے گا.پھر یہ بھی اس آیت سے ظاہر ہے کہ دعویٰ سے قبل کی زندگی ہو.کیونکہ دعوئی کے بعد ایک شخص تو تکلف سے بھی اپنی حالت کو سنبھال سکتا ہے.پس اس دلیل میں چار شرطیں ہیں.وہ چاروں ہی پائی جانی چاہئیں.اگر ان کو مدنظر نہ رکھا جائے.تو یہ دلیل ہی نہیں بن سکتی.اب دیکھو حضرت مرزا صاحب کی پہلی زندگی ایسی عظیم الشان تھی.کہ آپ سمجھ دار لوگوں کی نظر میں خاص وقعت رکھتے تھے.اور جائدادوں کے متعلق کہہ دیا کرتے تھے.کہ جو آپ فیصلہ کریں گے ہم اس کو تسلیم کرلیں گے.کیونکہ وہ لوگ باوجود عداوت کے جانتے تھے کہ آپ حق سے ادھر ادھر نہ ہوں گے.اگر یہ بات نہ ہو تو فَقَدْ لَبِثْتُ فيكم عمرا کا کچھ مطلب ہی نہیں رہتا اور نوے فیصدی ایسے لوگ ہو سکتے ہیں.جن پر بوجہ ناواقفیت کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا.لیکن وہ اس آیت کے مصداق نہیں ہو سکتے.کیونکہ سینکڑوں لوگ ہوتے ہیں کہ وہ ایسی گمنامی کی زندگی بسر کرتے ہیں کہ لوگوں کی ان پر نگاہ بھی نہیں پڑتی.ان پر کسی نے اعتراض کیا کرنا تھا.اب اس کے ماتحت دیکھو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ثابت ہے.ہم حضرت ابراہیم حضرت موسیٰ وغیرہ کو سچا مانتے ہیں.گو ان کی زندگی ہمارے سامنے نہیں ہے.مگر چونکہ ان کی صداقت کی شہادت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ثابت ہے.جس کے متعلق دوست و دشمن کی گواہی موجود ہے کہ آپ کے دعوئی سے قبل کی زندگی نہایت شاندار اور پاک بازانہ تھی.اس لئے گذشتہ انبیاء کو بھی ہم سچا یقین کرتے ہیں.تو یہ آیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے صداقت کی دلیل ہے اور حضرت مسیح موعود کے لئے شہادت ہے.ہر ایک اس شخص کے لئے نہیں جو کس مپرسی کی حالت میں پڑا رہا ہو.پس ہر ایک شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرا کوئی جرم ثابت کرو.ورنہ مجھے نبی مانو.اس طرح تو (۸۰) اسی فیصد لوگ نبی بن جائیں گے.یہ دلیل اس کے لئے ہے جس کی زندگی اور حالات لوگوں کی نظر میں ہوں اور دعوئی سے قبل لوگ جھوٹ اور خیانت کو اس سے ناممکن سمجھتے ہوں اور یقین رکھتے ہوں کہ جو یہ کہے وہ سچ ہے.وہ اپنی خوبیوں کے لحاظ سے ایسا ہو کہ لوگ اس کی بظاہر خلاف عقل بات کو بھی ماننے کے لئے تیار ہوں.ایسا شخص سینکڑوں سال میں ایک پیدا ہوا کرتا ہے.لیکن یہاں تک ایک بات ثابت ہوئی کہ ایسا شخص جھوٹ نہیں بولتا.مگر ہو سکتا ہے کہ پاگل
323 ہو گیا ہو.جیسا کہ پاگل اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا ہے.ایسا شخص اگر اپنے آپکو نبی کہتا ہے.اور کہتا ہے کہ مجھ کو الہام ہوتا ہے تو ں جھوٹ نہیں کہہ رہا ہو تا بلکہ اس کی دماغی حالت درست نہیں.اس لئے وہ کہتا ہے.ایسی حالت میں اور دلائل کی ضرورت پڑے گی.جو دعوئی کے بعد اس کے دعوی کو ثابت کریں گے.غرض لوگ اس دلیل کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اسے غلط طور پر پیش کرتے ہیں.جیسا کہ محمد نصیب نے کہا کہ ارے قادیان والو مجھ پر کوئی اعتراض تو کرو.حالانکہ مشہور ہے کہ خبث نفس نہ گردد بسالیا معلوم کہاں لوگوں نے اس پر غور کیا اور اس کو کامل روحانیت والا سمجھا.چند دن رہنے سے کوئی شخص اس آیت کا مصداق ثابت نہیں ہو سکتا.اس کے لئے ضروری ہے کہ ساری عمر کی پاکیزگی دکھائی جائے اس کے بعد غور کیا جائے گا کہ جو کچھ وہ کہتا ہے کسی عقیدے کی وجہ سے تو نہیں کہتا جیسا کہ برہمو سماج والے اس بات کو جو دل میں پیدا ہو.الہام کہتے ہیں یا پاگل تو نہیں.یہ سب باتیں ہیں جو اس میں دیکھی جائے گی.جھوٹا اس کو کہا جائے گا.جس میں ان باتوں میں سے کوئی نہ پائی جائے.اگر ان باتوں کو ملحوظ نہ رکھا جائے.تو انسان دوسروں کو بھی صداقت نہیں منوا سکتا.اور خود بھی ٹھوکر کھا جاتا ہے اور یہ اس کی اپنی غلطی ہوتی ہے.پتھری نکالنے کے آلہ سے آنکھ کا کیٹرک نہیں نکل سکتا.لوہار کو برے کی ضرورت ہو تو اس کا کام ہتھوڑے سے نہیں چل سکتا.جو دلیل جتنا ثابت کرتی ہو.اس سے اتنا ہی ثابت کرو.اور اگلے حصہ کو اور دلیل سے مضبوط کرو تب فائدہ ہو سکتا ہے.یہ دلیل میں نے جس رنگ اور جس طریق سے پیش کی ہے اس پر غور کرو.اور دیکھو کہ کس طرح کس بات سے کیا اور کہاں تک ثابت ہوتا ہے.غرض حضرت مسیح موعود نے جو دعویٰ کیا ہے.اس کی تبلیغ ضروری ہے.مگر اس کے لئے جن جن ولائل کی ضرورت ہے.ان کے جاننے کے بغیر تبلیغ میں کامیابی نہیں ہو سکتی.احباب دلائل کو پیش کرنا اور صحیح طور پر پیش کرنا سیکھیں.تاکہ ان کی باتوں کا اثر ہو اور لوگ حق کو قبول کریں.اللہ تعالٰی توفیق دے کہ ہم حق کو سمجھیں اور اس کے دلائل معلوم کریں.اور ان کے استعمال کرنے کی توفیق دے.آمین الفضل ۱۴ مارچ ۱۹۲۴ء)
324 56 (فرموده ۱۷۴ مارچ ۱۹۲۴ء) خلافت ترکی اور مسلمانان ہند تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا عام قدرتی قواعد کے ماتحت یہ بات بری سمجھی جاتی ہے کہ کوئی شخص کسی موقع پر اپنے بھائی کو یہ کہے کہ تم نے میری فلاں بات نہ مانی تو یہ نقصان ہوا.قرآن کریم نے ایک لڑائی کے موقع کا ذکر کر کے بعض لوگوں کے متعلق کہا ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم نے جو مشورہ دیا تھا اس کے خلاف جن کی رائے تھی.ان کی رائے پر عمل کیا گیا.اس لئے نقصان ہوا.۱.(آل عمران ۱۵۵) اس بات کو اللہ تعالٰی نے ناپسند فرمایا ہے.اور کہا کہ یہ منافقت ہے.اگر تمہارے منشاء کے خلاف تھا اور اس سے نقصان بھی ہوا.تو بھی نہیں کہنا چاہئے تھا.کیونکہ یہ ضروری نہیں تھا کہ جو تم نے مشورہ دیا تھا وہ ضرور مانا جاتا.تو یہ ایک تمرنی غلطی ہے جو قوموں میں رائج ہے.اور اس کی قرآن کریم نے تصدیق فرمائی ہے.اور ایسا کہنے کو منافقت ٹھرایا ہے.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رائے کے خلاف چلنے والوں کو بھی بات کی ہے.جو عام تمدنی حالات میں درست نہ کہ تم نے اس کی رائے کے خلاف کیا.اس لئے نقصان ہوا.یہ کیوں کہا گیا.اس کی وجہ یہ ہے کہ بھائی بھائی کو یا دوست دوست کو یا چھوٹا بڑے کو یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ تم نے میری رائے کے خلاف کیا.اس لئے نقصان اٹھایا.مگر جو بڑا ہے.اور جس کو یہ حق ہے کہ دوسروں کی راہ نمائی کرے اور جس کا کام سمجھانا ہو.اور لوگوں کی نگرانی کرنا ہو.وہ کہہ سکتا ہے.بچہ کو حق نہیں کہ ماں باپ کو کہے.تم نے میری فلاں بات نہ مانی.اس لئے نتیجہ اچھا نہ نکلا مگر ماں باپ کو حق ہے کہ وہ ایسا کہیں.ماں باپ کے ایسا کہنے پر کوئی اعتراض نہیں کرتا.بچہ ایسی جگہ کھیلتا ہو جہاں اسے نہیں کھیلنا چاہئے اور جہاں سے ماں باپ نے اسے روکا ہو.پھر اگر اسے تکلیف
325 پہنچے تو ماں باپ کہتے ہیں.ہم نے تمہیں پہلے نہیں کہا تھا کہ وہاں نہ کھیلو.یہ ایک اخلاق کی بات ہے.اور درست ہے ماں باپ کو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ان کو یہ نہیں کہنا چاہئے لیکن اگر برابر کا یا چھوٹا بڑے کو یہی بات کہے تو اس کو متکبر اور بے ادب کہا جائے گا.کیونکہ اس کو شرعا".عرفا" اخلاقا قانوناً حق نہیں کہ ایسا کہے جس کو حق حاصل ہوتا ہے.وہ کہتا ہے کہ میں نے تمہیں پہلے نہیں کہہ دیا تھا کہ تمہیں ایسا کرنے میں نقصان ہو گا.اس تمہید کے بعد میں ایک ایسے واقعہ کی طرف توجہ دلاتا ہوں.جو واقعہ مسلمانوں کے لئے نہایت اہم ہے اور وہ خلافت کا سوال ہے جب ترکوں کی انگریزوں سے لڑائی شروع ہوئی تو مسلمانوں نے انگریزوں کی مدد کی مولویوں نے فتوے دیئے کہ انگریزوں کی مدد کرنا فرض ہے.اس لئے کہ وہ ہمارے حلیف ہیں اور حلیف کی مدد کرنا ضروری ہے.اس قسم کے فتوے تنخواہوں کے خیال سے یا مربعوں کی امید پر یا عہدوں اور خطابوں کے لالچ میں یا حکام کی نظر میں پسندیدہ ہونے کے لئے دیئے گئے اور انگریزی فوج کے لئے رکروٹ بھرتی کروائے گئے.اس وقت بھی مسلمان ترکوں کے سلطان کو خلیفتہ المسلمین کہتے تھے.مگر خلیفتہ المسلمین کی فوجوں کے مقابلہ میں بندوقیں کندھوں پر رکھ کر گئے.اور ان ہی مقامات مقدسہ کو جن کے لئے بر سر جدال ہوئے.خلیفتہ المسلمین سے گولیوں اور تلواروں کے زور سے چھین لیا.اس وقت کسی نے اس کے خلاف آواز نہ اٹھائی کیا اس وقت قرآن کریم کا حکم یاد نہ رہا تھا.اگر چہ وہ عقیدہ جو یہ لوگ اب ظاہر کرتے ہیں.اسلامی نہیں.مگر میں پوچھتا ہوں.اس وقت اس عقیدے کے لحاظ سے ان کا کیا فرض تھا.اور انہوں نے کیا کیا.ہم نے بھی انگریزوں کی مدد کی مگر ہم اپنے مذہبی عقیدے کی رو سے فرض سمجھتے تھے کہ ہم جس حکومت کے ماتحت رہیں.اس کی مدد اور اس کی ہمدردی کریں ہم انگریزوں کے ساتھ ہو کر ترکوں سے لڑنے کے لئے گئے.مگر خلیفتہ المسلمین سے لڑنے نہ گئے تھے.کیونکہ ہم سلطان لڑکی کو خلیفتہ المسلمین نہیں مانتے.ہم اس لئے لڑنے کے لئے گئے کہ ترک ہمارے بادشاہ کے مخالف تھے.اور ہم اپنے بادشاہ کے مخالف سے لڑنے گئے تھے.پس ہمارا فعل جائز اور شریعت کے مطابق تھا.مگر جب جنگ کا نتیجہ نکلنے لگا اور صلح ہونے لگی.تو وہ لوگ جو نہ صرف ترکوں سے لڑنے کو تیار تھے.بلکہ لڑے تھے.اور جنہوں نے اپنے خلیفہ کے قائم مقاموں کے سینوں پر گولیاں چلا کر اور ان سے ملک چھین کر انگریزوں کے قبضہ میں دیا تھا بگڑ گئے اور کہنے لگے.یہ کیوں کرتے ہو.اگر ایسا کرو گے تو یہ ہمارے مذہب میں دست اندازی ہوگی اور اس بات کے لئے انہوں نے انگریزوں کے ملک
326 میں وہ طوفان بے تمیزی برپا کیا کہ اس کو دیکھ کر حیرت ہوتی تھی.اس بارے میں ہمیں بھی ترکوں سے ہمدردی تھی.اس لئے کہ ہمارے نزدیک ترکوں سے وہ سلوک نہیں کیا گیا تھا.جو دوسرے مفتوحین سے کیا گیا.ہمارے نزدیک دوسرے مفتوحوں کے مقابلہ میں ترکوں سے زیادہ سختی کی گئی تھی.اور وہ محض اس لئے تھی کہ ترک مسلمان تھے.گو آسٹریا ہے بھی سختی کی گئی تھی.مگر وہ سختی جو ترکوں سے کی گئی تھی.زیادہ تھی کیونکہ آسٹریا کے علاقے آزاد تھے.اور آزاد ہونا چاہتے تھے.مگر ترکوں کے ماتحت جو علاقے تھے.ان سے نہیں پوچھا گیا تھا کہ تم ترکوں کے ماتحت رہنا چاہتے ہو یا نہیں.انہیں انگریزوں اور امریکنوں اور فرانسیسیوں نے جبراً ترکوں سے علیحدہ کر لیا.اگر ان علاقوں سے پوچھا جاتا.تو ان میں کتنے ہی ترکوں کے ماتحت رہنے کو پسند کرتے.جن علاقوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا.ان کی سنی نہ گئی.پھر آسٹریا کا جو کچھ باقی رکھا گیا وہ آزاد تھا.لیکن ترکوں کو جو آزادی دی گئی.وہ برائے نام تھی.اور چار پانچ طاقتوں کا ان پر تسلط تھا.پس ترکوں کے متعلق اس فیصلہ سے مذہبی تعصب کی بو آتی تھی.ہم نے فاتحین کے اس فیصلہ کے متعلق اس طریق پر کام کیا اور توجہ دلائی جو رعایا کے لئے ضروری ہے.اور جس طرح توجہ دلانا ہمارا حق تھا کہ ترکوں کے ساتھ وہ کیا جائے.جو سیاسی طور پر ضروری ہے.نہ یہ کہ ان کے ساتھ فیصلہ میں مذہبی تعصب کو دخل دیا جائے.بعد میں اس کے مطابق فیصلہ ہوا.اور یہ مان لیا گیا کہ پہلے صلح نامے میں سختی تھی.اور ضروری تھا کہ اس میں تبدیلی کی جائے.لیکن باوجود اس کے وہ لوگ ہمیں بزدل اور خوشامدی کہنے لگے جو باوجود ترک سلطان کو اپنا خلیفہ سمجھنے کے اس کے خلاف لڑنے کے لئے گئے تھے اگر ہم ترکوں کے سلطان کو اپنا خلیفہ مان کر اس سے لڑنے جاتے.تو یہ ہماری بے غیرتی انگریزوں کی خوشامد اور انگریزوں کے مقابلہ میں بزدلی ہوتی.مگر جب یہ بات نہ تھی.تو خوشامد اور بزدلی کیسی؟ ہم تو ترکوں کے ساتھ لڑنے کے لئے اس لئے نکلے کہ وہ ہمارے خلیفہ نہ تھے اور ان سے لڑنے میں ہمارے لئے کوئی مذہبی روک نہ تھی.مگر غصہ میں انسان سوچتا نہیں.اور وہ لوگ جن پر الزام آتا تھا.غصہ میں آکر ہمیں الزام دینے لگے.اسی غصہ کی حالت میں ایک غلط راستہ اختیار کر لیا گیا.ابتدا میں ترکوں کے خلاف فیصلہ کے متعلق سوچنے کے لئے دو جلسے کئے گئے.اور ان دونوں جلسوں میں مجھے بلایا گیا.میں جانتا تھا کہ ذاتی طور پر ان جلسوں میں میرا شامل ہونا غیر ضروری ہے.کیونکہ جس امر کے متعلق پہلے سے فیصلہ کر لیا جائے.اس میں لوگوں کو بلا کر مشورہ کرنے کے معنے بجز اس کے کچھ نہیں کہ لوگوں کو اپنے
327 کھیٹتے پھریں.تاہم میں نے حجت قائم کرنے کے لئے ان جلسوں میں دو ٹریکٹ لکھ کر بھیج دیئے.جن میں میں نے بتایا کہ جو رویہ تم اختیار کر رہے ہو.اور جس پر اپنے مطالبات کی بنیاد رکھ رہے ہو.یہ ترکوں کے لئے مفید نہیں ہو سکتا.بلکہ خطرناک ہے.مثلاً یہ کہنا کہ ترکوں کے بادشاہ کو سب مسلمان خلیفہ مانتے ہیں.اس لئے ہم ان کی امداد کے لئے کھڑے ہوئے ہیں یہ اصولا " اور وا قعتہ " غلط تھا.شیعہ ترک سلطان کو خلیفہ نہیں مانتے.سات سو سال سے ایرانی حکومت عرب حکومت کے خلاف نبرد آزما رہی ہے.اور ۶۵ سو سال سے کرو اور ترک عرب کو زیر کرنے کی کوشش میں مصروف رہے ہیں اگر ایرانی خلیفہ سمجھتے.تو ایسا کیوں کرتے.علاوہ ازیں اگر خلافت کا حق مقدم سمجھا جائے تو ابو بکر عمر عثمان زیادہ مستحق ہیں کہ ان کو خلیفہ مانا جائے.لیکن شیعہ جوان کو خلیفہ نہیں مانتے وہ سلطان لڑکی کو کس طرح خلیفہ مان سکتے ہیں.پھر ہم لوگ ہیں ہم کسی بھی صورت میں ترک سلطان کو خلیفہ نہیں مان سکتے.ہمارے نزدیک خلیفہ وہ ہو سکتا ہے.جو اس زمانہ کے مامور حضرت مسیح موعود کا متبع ہو.اور اس کے سوا کوئی خلیفہ نہیں ہو سکتا.اہلحدیث کا یہ مذہب ہے کہ خلیفہ قریش میں سے ہونا چاہیئے.ان میں سے جن لوگوں نے شورو ہنگامہ میں خلافت لڑکی کی تائید میں آواز اٹھائی اور خلافت کو جائز سمجھا.وہ ان کے مذہبی عقیدے کے مطابق رائے نہ تھی.بلکہ بزدلی اور خود غرضی کے ماتحت رائے تھی.علاوہ اس کے سینیوں میں سے بھی اس خیال کے لوگ پائے جاتے ہیں.جو ترک سلطان کو خلیفہ تسلیم نہیں کرتے.اس لئے میں نے کہا تھا کہ ترکوں کی ہمدردی کی تحریک کی بنیاد ایک ایسی بات پر رکھنا غلطی ہے.جس پر سب مسلمان متفق نہیں ہو سکتے.بلکہ اس کی بجائے اس تحریک کو سیاسی طور پر چلایا جائے اور مخالف رائے کو موافق بنایا جائے.اور ترکی حکومت کو بحیثیت ایک اسلامی سلطنت کے پیش کیا جائے.میری اس بات کو حقارت سے دیکھا گیا.یا ظاہر کیا گیا کیونکہ بعض ذی اثر اصحاب نے اپنی پرائیویٹ ملاقاتوں میں میری تجویز کی تعریف کی اور کہا کہ ہونا تو ایسا ہی چاہئے.مگر اب حالات ایسے ہیں کہ ہم عوام کی مخالفت نہیں کر سکتے.لیکن جو ہجرت کی تحریک کا نتیجہ ہوا اور بائیکاٹ کی تحریک کا ہوا.وہی آخر کار خلافت کا نتیجہ ہوا.خلافت کی تحریک کے جوش کے زمانہ میں کہا جاتا تھا کہ نماز کا چھوڑنا زکوۃ نہ دینا کوئی بات نہیں.مگر جو خلافت کا منکر ہے.وہ کافر ہے.اور وہ شخص جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ خلافت کا
328 منجی ہے.اور خلافت کو قائم کرنے والا ہے.وہ آج خلافت کے متعلق ایسا فعل کرتا ہے.جو نہایت شرمناک ہے.وہ خلافت کو مٹا کر ہی دم نہیں لیتا.بلکہ ایک ایسے ظالمانہ فعل کا مرتکب ہوتا ہے جو بہت ہی شرمناک اور ظالمانہ ہے.ނ وہ نہ صرف خلیفہ کو معزول کرتا ہے.بلکہ اس کے خاندان کے بیوی بچوں اور کل افراد کو ملک نکال دیتا ہے.اور ملک کا داخلہ ان پر بند کر کے ان کو ان کے آبادئی وطن میں آنے سے محروم کر دیتا ہے.یہ وہ سزا ہے.جو چوروں اور ڈاکوؤں کو بھی نہیں دی جاتی.چور قید کیا جاتا ہے.مگر اس کی نسل کو قید نہیں کیا جاتا.اس کی بیوی اور اس کے بچوں کو جلا وطن نہیں کیا جاتا کیونکہ ان کا قصور نہیں ہو تا.مگر ترک خلیفہ کے ساتھ یہ سب کچھ کیا جاتا ہے.اگر خلیفہ ترکی خلافت کے اہل نہ تھا.اگر وہ اپنے افعال کی بنا پر قابل سزا تھا.تو یہ کون سا اخلاق کا قانون ہے کہ اس کے اہل کو بھی جلا وطن کر دیا جائے.اور ان کی جائدادیں زیر نگرانی کرلی جائیں.یہ وہ فعل ہے جو کسی ظالم ترین بادشاہ سے کیا جاتا ہے.پھر اس شرمناک طریق پر اس کو معزول کیا گیا ہے کہ جس سے افسوس ہوتا ہے.یہ نہیں کیا گیا کہ معمولی طور پر خط لکھ دیا ہو کہ آپ چلے جائیں.آپ معزول کر دیئے گئے ہیں.بلکہ جب وہ تخت پر بیٹھا ہوتا ہے.تب اس کو کہا جاتا ہے کہ ملک کی طرف سے حکم ہے کہ تخت سے اتر آؤ یہ کیسی ذلت کا نظارہ ہو گا جو وہاں پیش آیا.ایک وقت تھا.جب دنیا کو اس کی مدد کے لئے ابھارا جاتا تھا.اس بات کا خیال کر کے اس وقت خلیفہ کے دل میں مسلمانوں کی ہیں کروڑ تعداد کی وفاداری کا کیا احساس ہو گا جب اسے کہا گیا ہو گا کہ تم تخت سے اتر آؤ اور دو گھنٹے کے اندر اندر ملک سے باہر نکل جاؤ.تم اور تمہاری اولاد بیوی اور خاندان کے دوسرے لوگوں کو اس ملک میں گھنے کا حکم نہیں ہے اگر کوئی اور سلطنت ہوتی.تو مجھے امید ہے کہ وہ ایسا بزدلانہ سلوک نہ کرتی.مگر یہ کیوں ہوا یہ اس لئے ہوا کہ ترکوں کا خیال ہوا کہ خلافت کا مسئلہ سخت پیچیدہ ہو گیا ہے اور کہ اس سے جمہوریت کے خلاف طوفان اٹھایا جا سکتا ہے.میرے نزدیک ترکوں کی یہ کارروائی مسلمانوں کے اس جوش کا نتیجہ ہے جو انہوں نے خلافت ترکی کے متعلق دکھایا.ترکوں کو یہ خیال ہوا کہ اگر خلیفہ اور جمہوریت کا سوال اٹھا.تو خلیفہ کے ساتھ لوگوں کو ہمدردی ہو گی.اور ہماری حکومت ٹوٹ جائے گی.سیاسی طور پر ان کا یہ خیال درست تھا اور ان کو اس خطرہ سے بچنے کے لئے خلافت کا نام و نشان مٹانا ضروری تھا.مگر جو غیر شریفانہ سلوک خلیفہ کے ساتھ انہوں نے کیا ہے.وہ نہایت ہی قابل افسوس اور قابل نفرت ہے.امید ہے کہ مسلمانوں کی سمجھ میں اب وہ باتیں آجائیں
329 گی.جن کو وہ پہلے نہیں سمجھتے تھے.میں افسوس سے کہتا ہوں.اور اس لئے کہتا ہوں کہ جس مقام پر خدا نے مجھے کھڑا کیا ہے.اس کے لحاظ سے مجھے کہنے کا حق ہے کہ دیکھو میں نے کہا تھا کہ تم سلطنت ٹرکی کے متعلق ایسا نہ کرو.مگر تم نے وہی کیا.اب اس کی خوفناک غلطی تم پر ظاہر ہو گئی.میں یہ بات کہہ سکتا ہوں اور دوسرا نہیں کہہ سکتا اب بھی وہ راستہ کھلا ہے.جو خدا نے کھولا تھا اس آواز کو سنیں جو خدا کے مامور نے بلند کی اس آواز کے مقابلہ میں کوئی آواز نہیں ٹھہر سکتی.اب کوئی خلیفہ نہیں ہو سکتا.جس کی گردن میں مسیح موعود کی اتباع کا جوا نہ ہو.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیارات حضرت مسیح موعود کو ملے.اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں جذب ہو کر ملے ہیں.اب اسی کو خلافت مل سکتی ہے جو مسیح موعود میں ہو کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ ہو.جس وقت حسین کامی قادیان میں آیا تھا.اس وقت حضرت صاحب نے فرمایا تھا کہ میں کشفی نظر سے دیکھتا ہوں کہ سلطان کے دربار میں کچھ کچے دھاگے ہیں جو نازک وقت پر ٹوٹ جائیں گے.۲۰ چنانچہ وہ ٹوٹ گئے اور سلطان کو بھی لے کر غرق ہو گئے.یہ کیسی عظیم الشان خبر تھی.جو پوری ہوئی.اور پندرہ سال کے عرصہ میں متعدد بار پوری ہو چکی ہے.پہلے سلطان عبدالحمید خان کے وقت میں پوری ہوئی پھر موجودہ خلیفہ سے پہلے کے وقت میں پوری ہوئی اور اب پھر پوری ہوئی.جبکہ خلافت ٹوٹ گئی اور خدا کی بات پوری ہو گئی.ہمارے متعلق کہا جاتا ہے کہ ایک ایسے گاؤں میں رہنے والے جو سٹیشن سے بھی گیارہ میل دور ہے.سیاست کو کیا سمجھ سکتے ہیں.ہم کہتے ہیں دیکھو سٹیشن سے میل پرے رہنے والے کی بات پوری ہوئی.اس لئے کہ اس میں صداقت بھری ہوئی تھی.سیاست دان بے خبر رہے.مگر وہ جسے سیاست سے بے خبر کہا جاتا تھا.اس کی بات کچی نکلی.اگر اس کی بات مانی جاتی.تو آج سیاست دان منہ کے بل نہ گرتے.اب بھی مسلمانوں کے لئے موقع ہے کہ سمجھ سے کام لیں اور ٹوٹنے والے ناگوں کی نظیر سے فائدہ اٹھائیں جیسا کہ مولوی رومی نے کہا ہے.ہر بلا کیں قوم را حق داده اند و زیر آن گنج کرم بنهاده اند اس وقت تمام جہان کی نگاہ ہندوستان پر پڑ رہی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آئندہ ترقی کا سامان ہندوستان کی طرف سے ہو گا.اس بات کو کوئی مانے یا نہ مانے ہندوستان کی طرف توجہ کا ہونا
330 اس بات کو ظاہر کر رہا ہے کہ ہندوستان کو خاص درجہ حاصل ہو رہا ہے.دیکھو وہ شخص جو کل تک خلیفہ تھا.آج مظلوم ہے اور جس کو سلطان المعظم کہا جاتا تھا.وہ کہتا ہے کہ ہم ہندوستان کی آواز کے منتظر ہیں.پھر مسٹر گاندھی نے مسٹر محمد علی کو خلافت کے ٹوٹنے پر جو تار دیا ہے.اس میں لکھا ہے کہ اسلام کا مستقبل مسلمانان ہند کے ہاتھ میں ہے.اس کی کیا وجہ ہے کہ ہندوستان کی طرف نگاہیں پڑ رہی ہیں.یہ دراصل خدا کی مخفی انگلی کام کر رہی ہے اور دنیا کو ہندوستان کی طرف متوجہ کر رہی ہے.اس لئے نہیں کہ ہندوستان میں گاندھی اور محمد علی ہیں ان کی طرف دنیا کو لائے بلکہ اس لئے کہ غلام احمد ہندوستان میں پیدا ہوا ہے.اور خدا چاہتا ہے کہ اس کی طرف دنیا کو لائے اور یہ ظاہر کرے کہ دنیا کی آئندہ نجات کس سے وابستہ ہے.یہ قدرت کی آواز امریکہ اور انگلستان کی طرف متوجہ نہیں کرتی.جہاں ڈوئی اور پگٹ ہوئے یہ ایران اور شام کی طرف متوجہ نہیں کرتی.جہاں باب اور بہاء اللہ ہوئے.یہ افریقہ کی طرف نہیں لے جاتی کہ وہاں چارہ کار تلاش کیا جائے.بلکہ ہندوستان کی طرف متوجہ کرتی ہے.اس لئے کہ وہ راست باز ہندوستان میں آیا جس سے دنیا کی آئندہ ترقی وابستہ ہے.یہ جمعہ کا خطبہ ہے.میں اس کو لمبا کرنا نہیں چاہتا.مگر یہ میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جب وہ کسی طرف دنیا کی توجہ پھیر نی چاہتا ہے.تو اس کے لئے غیر معمولی اور غیر متعلق سامان پیدا کر دیتا ہے.اب جہاں سیاسی امور کی وجہ سے ہندوستان پر نظر پڑ رہی ہے.اسی طرح ہندوستان کو لوگوں کی نظروں میں لانے کے لئے اور سامان بھی کر دیئے گئے ہیں کیونکہ دنیا میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جو مذہب پر براہ راست متوجہ ہونے کے لئے تیار نہیں ہوتے.اس لئے خدا تعالی نے ہندوستان میں ٹیگور کو پیدا کیا کہ لٹریچر سے مذاق رکھنے والے ہندوستان کی طرف متوجہ ہوں اور اس طرح ٹیگور مسیح موعود کی طرف لوگوں کو لانے کا ایک ذریعہ ہو گیا.پھر خدا کے نبی سائنس کے مسائل حل کرنے کے لئے نہیں آتے.مگر اس زمانہ میں چونکہ سائنس کی طرف دنیا متوجہ ہے.اس لئے خدا نے ہندوستان میں بوس کو پیدا کیا.جس نے اپنے اکتشافات سے ہندوستان کو دنیا کی نظر میں ممتاز کر دیا اور یہ اس لئے ہوا کہ وہ لوگ جن کو سائنس سے لگاؤ ہے.وہ اسی ذریعہ سے ہندوستان کی طرف متوجہ ہوں اور اس طرح یہ ذرائع اختیار کر کے خدا تعالٰی نے دنیا کو مسیح موعود کے پاس لا کھڑا کیا ہے.اور یہ سامان اس لئے ہو رہے ہیں کہ دنیا کو معلوم ہو جائے کہ دنیا کی آئندہ مصلح قوم ہندوستان میں ہی ہوگی اور دنیا کا ہادی ہندوستان میں آیا ہے.اور وہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ
331 والسلام ہیں.اب بھی مجھے امید ہے کہ ہمارے بھائی اگر غور کریں تو ٹھوکر سے بچ سکتے ہیں اور اس بات پر غور کر کے اسلام کو ہلاکت سے بچائیں کیونکہ حق کے قبول کرنے میں شرم نہیں ہوتی نہ بزدلی ہوتی ہے.بزدل وہ شخص ہوتا ہے.جو حق کو پا کر قبول نہ کرے اگر وہ ۲۰ - ۳۰ سال تک مخالفت کرتے رہے ہیں اور اب ان کی سمجھ میں حق آگیا ہے تو اسے تسلیم کرنے میں کوئی عیب نہیں.اب بھی سستی سے کام نہ لیں.میں اپنے بھائی مسلمانوں اور دیگر اہل وطن کو کہتا ہوں کہ وہ خدا کی آواز کو سنیں.خدا نے جو ہاتھ بڑھایا ہے.اس کو پکڑ لیں.خدا کے پیغام کو معمولی نہ سمجھیں.اور خدا کے ہو کر اور خدا میں ہو کر زندگی بس کریں.الفضل ۲۱ مارچ ۱۹۲۴ء) آل عمران : ۱۵۵ تذکره ۳۰۰
332 57 (فرموده ۲۱ مارچ ۱۹۲۴ء) سچ اور جھوٹ کے پر لکھنے کا معیار مشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا دنیا میں مختلف مذاہب پائے جاتے ہیں جو سارے کے سارے اس بات کے مدعی ہیں کہ ہم خدا کی طرف سے ہیں.لیکن ایک سمجھ دار انسان کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے اتنے سامان مہیا کر دیئے گئے ہیں کہ جن کے ذریعہ وہ بچے اور جھوٹے میں فرق کر سکتا ہے.اور اگر تعصب کی پٹی اس کی آنکھوں پر نہ بندھی ہو.یا غفلت کی وجہ سے اس کی آنکھیں بند نہ ہوں.یا اس کے دماغ میں فتور نہ ہو.تو وہ دھوکہ نہیں کھا سکتا.خدا تعالٰی کے مقرر کردہ نشانوں میں سے ایک نشان ایسا ہے.جس سے ہر مذہب کی صداقت کا ہی پتہ نہیں لگ سکتا.بلکہ اس کی زندگی بھی معلوم ہو سکتی ہے.وہ نشان سورہ فاتحہ میں بیان کیا گیا ہے.میں نے بارہا بتایا ہے کہ سورہ فاتحہ اپنے اندر اتنے کمالات اور اس قدر معارف رکھتی ہے.جو کبھی ختم ہونے میں نہیں آتے.خود مجھے بیسیوں مواقع ایسے پیش آئے ہیں کہ میں نے سورۃ فاتحہ پڑھی اور مجھے اس کے معنی سکھائے گئے.اس کا باعث میری ایک رویا ہے جو میں نے ۶ یا ۱۷ یا ۱۸ سال کی عمر میں دیکھی تھی.خواب میں مجھے ایک ایسی آواز سنائی دی جیسے پیتل یا تانبے کی چیز کو ٹھکورنے سے پیدا ہوتی ہے.وہ آواز میرے دل سے نکلی اور میرے کانوں نے سنی.پھر وہ بلند ہونی شروع ہوئی.جوں جوں بلند ہوتی جاتی تھی.ایک وسیع میدان بنتا جاتا تھا اس میدان میں سے ایک صورت نمودار ہوئی.جو فرشتہ تھا وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ تمہیں قرآن کی تفسیر سکھاؤں میں نے کہا.ہاں ضرور سکھاؤ.اس نے مجھے سورہ فاتحہ کی تفسیر شروع کرائی.جب وہ ایاک نعبد و ایاک نستعین تک پہنچا تو کہنے لگا.سب مفسروں کی تفسیریں یہاں ختم ہو جاتی ہیں.آگے کسی نے تفسیر نہیں کی.میں خواب میں اس بات پر حیران نہیں ہو تا.حالانکہ میں جانتا تھا.کہ آگے بھی تفسیریں لکھی گئی ہیں.میں سمجھا یہ کوئی خاص بات بتانے لگا ہے.اس نے
333 مجھے ولا الضالین تک تغییر سکھائی.جب وہ اس قدر تغییر سنا چکا.تو میری آنکھ کھل گئی.اس وقت اس تفسیر میں سے ایک دو نہایت لطیف نکتے مجھے یاد تھے.میں نے خیال کیا.صبح لکھ لوں گا اور پھر سو گیا.لیکن صبح کو جب اٹھا تو وہ بھی بھول گئے.ان دنوں میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے طب پڑھا کرتا تھا.یہ رویا انہیں سنائی.تو فرمانے لگے.واہ میاں اسی وقت وہ باتیں لکھ لینی چاہئے تھیں.میں نے کہا.میں نے سمجھا صبح تک یاد رہیں گی جو نہ رہیں.مگر بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ جو کچھ مجھے سکھایا گیا تھا.وہ یاد رکھنے کے لئے نہ تھا.بلکہ ایک ذخیرہ تھا.جو میرے دماغ میں بھرا گیا.اس رڈیا کے بعد جب بھی میں سورۃ فاتحہ کو پڑھتا ہوں اسی وقت مجھے اس کے نئے معانی سمجھائے جاتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور پھر حضرت مسیح موعود نے سورہ فاتحہ پر بہت زور دیا ہے.اور اس کے نکات اور معارف کا دائرہ بہت وسیع بتایا ہے.ہم ایمانی طور پر اس بات کو مان سکتے تھے.لیکن ذاتی طور پر دعوئی نہیں کر سکتے تھے.اب اپنے تجربہ کی بنا پر میں یقین اور حق الیقین پر پہونچا ہوں کہ اس میں سے بڑی بڑی تفسیریں نکلتی ہیں.اور اس میں اس قدر معارف اور نکات ہیں جو کبھی ختم نہیں ہو سکتے.معیار صداقت کے متعلق بھی میں نے دیکھا ہے.اگر باقی قرآن کریم کو نہ بھی دیکھیں.تو بھی سورۃ فاتحہ ہی اس بات کا فیصلہ کرنے کے لئے کافی ہے.اس میں ایک معیار پیش کیا گیا ہے.اس سے بچے اور جھوٹے مدعی نبوت کو با آسانی پر کھا جا سکتا ہے.اس میں بتایا گیا ہے کہ کوئی نبی صرف اس لئے نہیں مبعوث کیا جاتا کہ وہ اپنا نمونہ لوگوں کو دکھا کر چلا جائے.اور لوگوں کو کچھ نہ دے جائے.اگر ایسا ہوتا اور نبی کی بعثت کی غرض صرف نمونہ دکھانا ہوتی.تو قرآن کریم میں اعدنا الصراط المستقيم نہ آتا.بلکہ امدنی الصراط المستقیم آتا.مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خدا تعالٰی فرماتا ہے.یہ کہو کہ اے خدا ہم کو سیدھا رستہ دکھا اور ہمیں کامیاب کر.یہ نہیں سکھاتا کہ کہو مجھ کو کامیاب کر.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے کوئی اور الفاظ نہیں رکھے.اور دوسروں کے لئے کوئی اور بلکہ ایک ہی الفاظ سب کے لئے رکھے ہیں پس اگر کوئی نہی یہ دعوی کرتا ہے.کہ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے انعام ملے.لیکن آگے اس کے اتباع کو وہ انعام نہ ملیں تو سب لوگ یہی سمجھیں گے کہ اسے کچھ نہیں ملا.نبوت کا دعویٰ کرنے والا اگر زبانی سناتا رہے کہ مجھے خدا نے یہ کچھ دیا ہے.مگر عملی طور پر کسی کو کچھ نہ دلائے تو اس کے آنے کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے.مثلاً کوئی شخص آئے اور ایک لڑکے کو کہے کہ میں تمہارے باپ کے پاس سے آیا ہوں.اس نے
334 تمہارے لئے کرینہ ٹوپی اور جوتی دی ہے.مگر اسے کچھ نہ دے اور یہ کہہ کر چل پڑے تو یہی کہا جائے گا کہ جو کچھ اس نے کہا غلط کہا ہاں اگر وہ چیزیں دے تب سمجھا جائے گا کہ وہ سچ کہتا ہے.چونکہ جو انبیاء آتے ہیں.وہ احد نا کہتے ہیں اور خدا سے اوروں کے لئے بھی مانگتے ہیں.اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ دوسروں کو بھی کچھ دیں.تاکہ معلوم ہو کہ وہ اس خدا کی طرف سے آئے ہیں.جس نے اپنی مخلوق کی بھلائی اور بہتری کے لئے انہیں بھیجا ہے.لیکن اگر کوئی شخص نبوت کا دعوی کرتا ہے.مگر مانے والوں کو کچھ نہیں دیتا تو صاف ظاہر ہے کہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہے.پچھلے دنوں ہم ایک جگہ سفر پر گئے.وہاں کی ایک عورت کا لڑکا یہاں پڑھتا ہے.اس نے اپنے لڑکے کے لئے مٹھائی دی کہ اسے دے دیں.یہ محبت اور الفت کا تقاضا تھا.مگر ایک شخص جو خدا کی طرف سے آنے کا دعوی کرے.اور لوگوں کو کہے کہ میں تمہاری طرف آیا ہوں.مگر نہ کچھ ان کے لئے لائے.اور نہ انہیں کچھ دے.تو کس طرح مان لیں کہ خدا نے اسے بھیجا ہے.کیونکہ اگر خدا اسے اپنی مخلوق کی طرف بھیجتا تو کوئی چیز بھی اسے دیتا کہ جا کر مخلوق کو دے.اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ کسی نبی کے ذریعہ جو کتاب ملتی ہے.وہ دنیا کے لئے انعام ہوتا ہے.مگر یاد رہے صرف لطائف اور نکات سن لینے سے کسی کی تسلی نہیں ہو سکتی.کیا اگر کسی بھوکے کے پاس کوئی آئے اور پچا کے مار کے چلا جائے تو بھوکے کا پیٹ بھر جائے گا.اور اس کی بھوک دور ہو جائے گی.اسی طرح اگر کوئی نبی آئے اور کچھ باتیں سنا کر چلا جائے.تو خواہ وہ باتیں کیسی ہی اعلیٰ ہوں.فائدہ نہیں دے سکتیں.خدا تعالی اگر کوئی نبی بھیجتا ہے.تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگ علی قدر مراتب نبی کے سے کمال حاصل کر سکیں ان میں ایسی تبدیلی اور تغیر واقعہ ہو کہ انبیاء سے مشابہت اور تعلق پیدا کر لیں.اس معیار کے مطابق دیکھو جھوٹے نبی کبھی نہیں ٹھر سکتے.کوئی شخص ایسا نہیں ہوتا جو ساری دنیا تک پہنچے ایک طبقہ ہو گا.جس میں رہے گا.اس لئے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کچھ بے وقوفوں کو جمع کرے اور ان سے اپنی باتیں منوالے اور پھر وہ اپنے جیسے اوروں سے منوا لیں.اس طرح کچھ نہ کچھ لوگوں کو منوا سکتے ہیں.اور کچھ نہ کچھ بے وقوف ہر شخص کو کسی نہ کسی نسبت سے مان لیتے ہیں.جیسا کہ ابن عربی لکھتے ہیں.میں نے ایک کوا اور ایک کبوتر کو اکٹھے بیٹھے دیکھا.اور حیران ہوا کہ ان کی رفاقت کی کیا وجہ ہو سکتی ہے.اس بات کے دریافت کرنے کے لئے میں ٹھر گیا.تھوڑی دیر کے بعد جب دونوں چلے تو میں نے دیکھا.دونوں لنگڑے تھے ان کا جوڑ لنگڑے پن کی وجہ سے تھا.جس رنگ کا کوئی آدمی ہوتا ہے.اسی رنگ کے آدمی سے مل جاتا ہے.بچے نبی بھی چونکہ ساری دنیا تک
335 نہیں پہنچ سکتے.نہ آئندہ کے لئے ان کی کارروائیاں نمایاں رہتی ہیں.اس لئے خدا تعالی انہیں ایسے نشانات کے ساتھ بھیجتا ہے.جو ہر جگہ اور ہر زمانہ میں زندہ اور روشن ثابت ہوں جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے بھی فرمایا ہے کہ جو نشانات مجھے دیئے گئے ہیں.یہ اگر تمہیں میں تب بات ہے.ورنہ میرے بعد میرے نشانات اگر قصوں کے طور پر رہ گئے تو اسی طرح ہوں گے جس طرح اوروں کے پاس ہیں ان کو لوگ کس طرح مانیں گے مثلاً ہمارے آدمی غیر ملکوں میں جائیں.اور وہاں کے لوگوں کو جا کر سنائیں تو وہ کہیں گے.یہ تو ایسے ہی قصے ہیں جیسے یسوع مسیح کے ہیں پھر ان میں اور ان میں فرق کیا رہا.فرق تبھی ہو سکتا ہے جب کہ سنانے والا انسان اپنے اندر نبوت والا امتیاز اور نشان رکھتا ہو اور رسول کے انعام سے اسے بھی حصہ ملا ہو.یہی صداقت کا نشان ہے اور احدنا میں اسی کی طرف اشارہ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہتے ہیں.اٹھی مجھے ہدایت ملنے سے دنیا میں ہدایت نہیں پھیل سکتی.جب تک میرے ساتھیوں کو بھی نہ ملے.کیونکہ نبی کے قبع جہاں بھی جائیں جا کر دکھا سکتے ہیں کہ دیکھو یہ انعام اس نبی کی صداقت کا ثبوت ہے.جو اس کے ذریعہ ہمیں ملا.اس معیار کے مطابق کوئی بھی جھوٹا نبی نہیں ٹھہر سکتا.کیونکہ جو نبوت کا دعویٰ کرے گا.وہ یہ بھی کہے گا کہ مجھے نبیوں والے انعام ملے ہیں.وہ اس کے ماننے والوں میں دیکھنے چاہئیں.مگر کوئی جھوٹے مدعی کا پیرو یا خود جھوٹا مدعی نہیں دکھا سکے گا اس کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود کی جماعت میں ہزاروں ایسے آدمی ہیں جنہیں نشان دکھائے جاتے ہیں.وہ چونکہ مامور نہیں.اس لئے دوسروں کو سناتے نہیں.لیکن اگر ان کے نشانات کو جمع کریں تو ایک بہت بڑی کتاب بن جائے.کیونکہ کوئی مخلص احمدی ایسا نہیں کہ جسے خدا نے نشان نہیں دکھائے اور دوسروں نے دیکھے نہیں.ایسا شخص اگر مسیح موعود کے نشانات کو سورج کی طرح دیکھ کر اپنے نشانات کا ذکر زبان پر نہ لائے.تو اور بات ہے.لیکن اگر کہا جائے کہ تم انکسار نہ کرو اور نشانات بتاؤ.تو کوئی ایسا احمدی نہیں ہو گا کہ جس میں اخلاق کا شائبہ بھی ہو.اور اس لئے خدا کے نشان نہ دیکھے ہوں.کوئی شاذو نادر ہی ایسا شخص ہو گا جس نے تعلق کو بڑھانے کی کوشش نہ کی ہوگی ورنہ اور کوئی نہیں ہو سکتا لیکن کیا کوئی اور مدھی بھی ہے جس کے پیرو ایسے ہیں..کہی جو بہائی فتنہ ہے.کیا ان میں سے کوئی ہے.جو نشان دکھا سکے.کوئی نہیں دکھا سکتا.کچھ عرصہ ہوا.رنگون سے کسی نے لکھا تھا.بہائی بھی نشان دکھانے کا دعویٰ کرتے ہیں.میں نے جواب میں لکھایا کہ وہ اپنے خلیفہ کو میرے مقابلہ پر کھڑا کریں اور پھر دیکھیں کہ خدا کس کی مدد اور تائید کرتا
336 ہے.یقیناً خدا میری مدد کرے گا اس لئے نہیں کہ میں مامور ہوں.بلکہ اس لئے کہ میں خدا کے بچے نبی کا جانشین ہوں اور نبی خدا کی نعمتوں اور فضلوں کے قاسم ہوتے ہیں.یعنی دوسروں میں بانٹتے ہیں.جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نام ہی قاسم تھا پس جس قسم کے نشان نبی دکھاتے ہیں.ویسے ہی اگر مدعی نبوت کی امت میں نظر آئیں.تو وہ سچا نبی ہو گا اور اگر نہ نظر آئیں تو سچا نہیں ہو گا.ہاں نبی اور اس کی امت کے نشانات میں قلت اور کثرت کا فرق ہو گا اس کی مثال ایسی ہی ہو گی.تازہ بتازہ سنگترے تو باغ ہی سے مل سکتے ہیں.لیکن وہ بھی سنگترے ہی ہوتے ہیں.جو دکان سے مل جائیں.یہ ایسا زبر دست معیار ہے کہ جس سے بچے اور چھوٹے میں بین فرق ہو جاتا ہے اس کے مطابق میں عام چیلنج دیتا ہوں کہ اگر کوئی مرگی ہے.تو بالمقابل آئے اور دیکھے کہ خدا ہماری تائید کرتا ہے یا اس کی.ہمارے لئے نشان دکھاتا ہے یا اس کے لئے.اگر خدا تعالٰی ہماری مدد نہ کرے اور اس کی کرے تو وہ سچا اور اگر ہماری کرے.اس کی نہ کرے تو معلوم ہوا کہ ہمارے سلسلہ کا بانی سچا اور خدا کا برگزیدہ ہے.باقی سب قصے کہانیاں ہیں کہ ان کے بانیوں نے اپنے مریدوں کو کچھ نہیں دیا.اگر اس بات کو ہماری جماعت کے لوگ یاد رکھیں تو کبھی ٹھو کر نہ کھائیں.ہر اس شخص سے جو کسی جھوٹے مدعی کا پیرو ہونے کا دعوی کرے.اس سے پوچھنا چاہئے کہ تمہیں کیا ملا ہے؟ ہم کو حضرت مسیح موعود کے ذریعہ یہ نشان ملے ہیں اور اگر وہ خود ایسا نہیں کہ اسے نشان ملے تو کہے کہ ہماری اور اپنی جماعت کے لوگوں کے نشانات کا مقابلہ کر لو.اس مقابلہ میں کوئی شخص تمہارے سامنے نہیں ٹھر سکے گا.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے ہر ایک فرد کو ان نشانات کا وافر حصہ دے.جو اس نے حضرت مسیح موعود کو دیئے ہیں تاکہ کوئی جھوٹا ان کے سامنے نہ ٹھر سکے.اور خدا تعالیٰ دنیا کی آنکھیں کھولے.تاکہ لوگ جھوٹ اور فریب حق اور صداقت میں فرق کر سکیں.اور جھوٹ و فریب کو چھوڑ کر حق اور راستی اختیار کر سکیں.(الفضل یکم اپریل ۱۹۲۴ء)
337 58 (فرموده ۲۸ مارچ ۱۹۲۴ء) مومن وسیع الاخلاق مگر غیور ہوتا ہے شهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا سورۃ فاتحہ جہاں ہمیں اور باتوں کی طرف توجہ دلاتی ہے.وہاں وہ ایک ایسی غیرت کی طرف بھی متوجہ کرتی ہے.جو آگ کی طرح انسان کے دل میں جو شنزن ہو.میں حیران ہوتا ہوں کہ مسلمان روزانہ سورہ فاتحہ پڑھتے ہیں.مگر مطالب سے ناواقف ہیں بھلا سوچو تو سہی کہ ہم جو دن میں چالیس پچاس دفعہ روزانہ خدا تعالٰی کے سامنے کھڑے ہو کر دعا مانگتے ہیں.غیر المغضوب عليهم ولا الضالین یعنی نہ تو یہ ہو کہ ہم ان لوگوں سے تعلق رکھیں.اور ان سے ہماری شراکت ہو اور ان کے ساتھ ہمارا واسطہ ہو.جنہوں نے خدا کے مامورو مرسل و انبیاء کی تکذیب کی اور ان کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں اور قسم قسم کے دکھ پہنچا کر مغضوب علیہم بن گئے.اور نہ ہی ہم ان لوگوں کے ساتھ ہوں.جنہوں نے گو خدا تعالٰی کے مرسلوں اور ماموروں کو دکھ تو نہیں دیئے اور نہ ان سے برا سلوک کیا ہے.مگر انہوں نے اس کے درجہ میں غلو کیا اور خدا کی محبت پر ان کی محبت کو فوقیت دی اور مقدم سمجھا اور جو تعلق خدا سے چاہئے وہ انہوں نے بندوں سے پیدا کیا.یہ ایسی جامع دعا ہے.کہ دنیا کی سب بدیاں اور سب گناہ اس میں آجاتے ہیں کیونکہ بدیاں یا تو وہ ہیں جن میں ماموروں کے احکام کو توڑا جاتا ہے اور ان کی مخالفت کی جاتی ہے اور یا وہ ہیں جن میں خدا کے حقیقی اور واقعی تعلق کو چھوڑ کر کسی بندے سے خواہ وہ مامور ہو.مجدد ہو نبی ہو معمولی انسان ہو یا کافر ہو سے جھوٹا تعلق جس کا وہ حقدار نہیں پیدا کیا جاتا ہے اور اسکی محبت میں حد سے زیادہ غلو کیا جاتا ہے.کون سی بدی ہے جو اس سے باہر رہ جاتی ہے ہر قسم کی اخلاقی بدیاں پہلی شق میں آجاتی ہیں.
338 چوری ڈاکہ فساد مخالفت رسل سب غیر المغضوب علیھم میں داخل ہیں.اور تمام اقسام شرک بت پرستیاں قبر پرستیاں ہر قسم کے غلو ولا الضالین کے نیچے آجاتے ہیں.غرض کوئی بدی نہیں.جس پر یہ دعا حاوی نہ ہو.گویا ہم روزانہ اللہ تعالی کے سامنے اقرار کرتے ہیں کہ ہم تمام قسم کی اخلاقی بدیوں کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.اور ہم ان لوگوں سے کسی قسم کا تعلق پیدا نہیں کرنا چاہتے.جو مخلوق کی محبت میں حد سے بڑھ گئے ہیں.ایسا کہ گویا خدا کی محبت کو نظر انداز ہی کر دیا.اور انسانوں کی شان کو اتنا بڑھایا کہ خدا کی شان سے مشابہ کر دیا.یہ دونوں گروہ ہم سے بے تعلق ہیں.ہم صراط مستقیم چاہتے ہیں.سیدھا راستہ جو نہ ادھر ہو نہ ادھر وہ راستہ جس میں تیرے احکام کو توڑا جاتا ہے اور وہ جس میں خدا کی محبت کے بہانے سے انسانوں کو وہ مرتبہ دیا جائے.جو خدا نے ان کو نہیں دیا.ہم تو در میانہ راستہ چاہتے ہیں.یعنی نبیوں کا مانتا اور ان کے احکام کو قبول کرنا اور ان کی تعلیم پر چلنا اور ان کو وہی درجہ دیتا جو خدا نے ان کو دیا ہے.جب ایک مسلمان بار بار اور متواتر اصرار سے خدا کے سامنے کہتا ہے کہ تو مجھے مغضوب علیہم اور ضالین بننے سے بچا تو گویا وہ یہ کہتا ہے کہ میں غیرت مند ہوں.میں نہ کسی قسم کی بدی کو خود اختیار کروں گا.اور نہ اختیار کرنے والوں سے تعلق رکھوں گا.یہ غیرت کی علامت ہے کہ بدی سے اس قدر متنفر ہوں.کہ بدی کرنے والوں سے تعلق بھی نہیں رکھنا چاہتا.اور اپنے لئے بار بار پناہ مانگتا ہوں.پڑھنے کو تو سب لوگ یہ دعا پڑھتے ہیں کہ خدایا ہمیں مغضوب علیہم اور ضالین بننے سے بچا.مگر کتنے ہیں.جو اس مضمون پر غور کرتے اور سوچتے ہیں اور پھر اس پر عمل کرتے ہیں.اور کتنے ہیں جن کے دلوں میں غیرت پیدا ہو کہ جو خدا سے بے تعلق ہیں ہم بھی ان سے بے تعلق رہیں اور پھر اس پر عمل بھی کرتے ہوں.بہت کم اور بہت ہی کم بلکہ بہت لوگ ہیں.جو اس پر عمل کرنے والوں کو تنگ دل کہتے ہیں اور ان کو کم حوصلہ سمجھتے ہیں.یاد رکھو.اسلام سے باہر کوئی وسعت حوصلہ نہیں وسعت حوصلہ کے کیا معنے ہیں؟ کیا وسعت حوصلہ اس کا نام ہے.کہ طبیب بھی وہ کڑوی دوائی پی لے.جو بیمار کو پلاتا ہے.ورنہ وہ تنگ دل ہے.کیونکہ خود بامزہ غذائیں کھاتا ہے.یا اس لئے کہ وہ بیماروں کو ان کے مزاج کے مطابق میٹھا گوشت نمک، چاول وغیرہ سے منع کرتا ہے اور خود کھاتا ہے.وہ تنگ دل کھلائے گا؟ جب کہ وہ خود تکلیف اٹھا کر ان کا علاج بھی کرتا ہے تنگ دلی اس بات کا نام نہیں کہ مجرم کو وہ سزا دی جائے.
339 جس کا وہ مستحق ہے.ہاں ہم اگر ڈوبتے کو نہ بچادیں.تو یہ کم حوصلگی اور تنگ دلی ہو گی.یہ نہیں کہ ہم اس لئے تنگ دل ہیں کہ ہم ڈوبنے والے کے ساتھ کیوں نہیں ڈوبتے.جو شخص ہم سے ایسی امید کرتا ہے.وہ ہمیں جاہل اور بے وقوف بنانا چاہتا ہے ہاں وسعت حوصلہ یہ ہے کہ ڈوبنے والے کو بچایا جائے.چنانچہ اسلام نے جہاں غیر المغضوب عليهم ولا الضالین کی دعا میں غیرت سکھلائی ہے.وہاں اس نے وسعت حوصلہ کی بھی تعلیم دی ہے.چنانچہ فرمایا.اهدنا الصراط المستقیم اے اللہ ہم سب کو صراط مستقیم عنایت فرما.جن لوگوں کے تعلق سے بچنے کے لئے دعائیں کرتا ہے.اب ان ہی کے متعلق کہتا ہے کہ اے اللہ تو ہم سب کو نیک اور صالح بنا.دیکھو کس قدر وسعت حوصلہ ہے کہ جن سے اس قدر نفرت تھی کہ ان سے بے تعلقی کے لئے مہ- مہ دفعہ دعائیں کرتا تھا.مگر اب دعائیں مانگتا ہے کہ خدایا یہ ہلاک نہ ہوں.تباہ نہ ہوں.ان سے میرا تعلق نہ ہو.مگر ان کا مجھ سے ضرور ہو کیونکہ میں صراط مستقیم اور محفوظ راستے پر جا رہا ہوں.گویا جہاں یہ کھڑے ہیں.مجھے تو ان کے پاس نہ لے جا مگر ان کو میرے پاس لے آ.ڈاکٹر بیمار کو اپنی طرف کھینچتا ہے نہ یہ کہ خود بیمار ہو جاتا ہے.ڈاکٹر کی ہمدردی یہ نہیں کہ اگر مریض کو انفلوانزا یا طاعون ہے تو وہ بھی ٹیکہ کر کے طاعون یا انفلوئنزا کے جراثیم اپنے اندر داخل کرے اور بیمار کے ساتھ بیمار ہو جائے.جو اس کے ایسا نہ کرنے کو تنگ دلی کے گاوہ پاگل اور مجنون ہو گا.وہی ڈاکٹر ہمدرد اور وسیع حوصلہ ہو گا.جو بیماروں کو اچھا کرنے کی کوشش کرے گا.وسعت حوصلہ وہی ہے جو اسلام نے سکھایا ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعا میں جو کسی شہر میں داخل ہوتے وقت پڑھی جاتی ہے سکھایا ہے.آپ نے اس میں فرمایا ہے کہ اے اللہ میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے اس شہر کے نیک اور صالح بندوں سے محبت ہو.مگر بدوں سے نہ ہو.لیکن ان سب کو نیک ہوں یا بد مجھ سے محبت ہو.تاکہ وہ سب مجھ سے تعلق پیدا کر کے نیک بن جائیں.گویا میرا ان پر اثر ہو.ان کا مجھے پر اثر نہ ہو.اس دعا میں آنحضرت صلعم نے اس مکمل اور کامل طریق کو بیان فرما دیا ہے کہ جس پر چل کر انسان کو ہر قسم کی ہدایت حاصل ہو جاتی ہے.مومن کو اس بات کی غیرت ہونی چاہیئے کہ بدوں سے میرا تعلق ہو.غیرت شریف انسان کا جزو ہے.غیرت اعلیٰ درجہ کا خلق ہے.مگر افسوس ہے کہ بہت لوگ وسعت حوصلہ اور غیرت کو منافی سمجھتے ہیں.اور خیال کرتے ہیں کہ غیرت وسعت حوصلہ کے ساتھ
340 جمع نہیں ہو سکتی.لیکن یہ بات غلط ہے.کیونکہ غیرت بدی سے نفرت کرنے اور جدا رہنے کا نام ہے اور وسعت حوصلہ بد کو اپنی طرف کھینچ کر نیک بنانے کا نام ہے.دونوں ایک ہی وقت میں جمع ہو سکتی ہیں.ان میں مخالفت اور مغائرت نہیں.غیرت اپنے محل اور وقت پر نیکی میں داخل ہے.لیکن بہت لوگ معترض ہوتے ہیں.مجھے اس مضمون پر خطبہ پڑھنے کی یہ وجہ ہوئی کہ چند لوگوں نے جماعت میں فتنہ ڈالنا چاہا تھا.میں نے ان کو سزا دی اور جماعت سے خارج کر دیا اور ان سے تعلق رکھنا منع کر دیا.مگر افسوس ہے کہ قادیان میں بھی ہیں پچھتیں آدمیوں کی نسبت رپورٹ پہنچی جنہوں نے لیکچر اور تعلقات قطع کرنے کا حکم سنا اور پھر تعلقات رکھے.آج ہی ایک آدمی کا خط آیا ہے.جس کو میں اس سے پیشتر دانشمند سمجھتا تھا کہ محفوظ الحق یہاں آیا اور اس نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا.میں مصافحہ سے انکار نہیں کر سکا اور یہ بھی لکھا کہ باقی جماعت برابر کلام کرتی ہے.یہ وہی بات ہے.ماں سے زیادہ چاہیے پھاپھا کٹنی کہلائے.خدا سے زیادہ تعلق اور محبت کا دعویٰ کسی انسان کا ہر گز صحیح نہیں اور میں یہ قطعاً تسلیم کرنے کو تیار نہیں میں نے وہ سلوک اپنی آنکھوں دیکھتے ہیں.جو لوگ ایک دوسرے سے کرتے ہیں.اور جو سگے بھائی بھائیوں سے اور باپ بیٹے سے اور بیٹا باپ سے کرتا ہے.میں نے غیر احمدیوں کے آپس کے سلوک اور عیسائیوں ہندوؤں اور سکھوں کے سلوک دیکھے ہیں اور پھر احمدیوں کے آپس کے تعلقات دیکھے ہیں.میں دیانتداری سے کہہ سکتا ہوں کہ لوگوں کے لئے جو اخلاص اور محبت میرے دل میں میرے اس مقام پر ہونے کی وجہ سے جس پر خدا نے مجھے کھڑا کیا ہے اور جو ہمدردی اور رحم میں اپنے دل میں پاتا ہوں.وہ نہ باپ کو بیٹے سے ہے اور نہ بیٹے کو باپ سے ہو سکتا ہے.اور پھر میں اپنے دل کی محبت پر انبیاء کی محبت کو قیاس کرتا ہوں.جیسے ہم جگنو کی چمک پر سورج کو قیاس کر سکتے ہیں.تو میں ان کی محبت اور اخلاص کو حد سے بڑھا ہوا پاتا ہوں.مگر جو کہے کہ میں ان سے کہیں زیادہ خیر خواہ اور ہمدرد ہوں وہ جھوٹا ہے.اس کی وہی مثال ہے.”ماں سے زیادہ چاہے بھا پھا کٹنی کہلائے.ان سے بڑھ کر محبت باپ بیٹے کے تعلقات میں بھی نہیں ہو سکتی.وسعت حوصلہ اور غیرت ایک وقت میں جمع ہو سکتے ہیں.مخالف اور نقیض نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا واقعہ لکھا ہے کہ آپ لاہور تشریف لے گئے آپ ایک جگہ کھڑے تھے کہ پنڈت لیکھرام آگیا.ہندو لوگ بڑے آدمیوں کا لحاظ کرتے ہیں.گو ان کے مخالف ہی ہوں.لیکھرام نے آپ کے سامنے ہو کر سلام کیا.آپ نے دوسری طرف منہ پھیر لیا.وہ دوبارہ جواب کے لئے
341 دوسری طرف سے آیا.اور پھر سلام کیا.آپ نے پھر جواب نہیں دیا.اور دوسری طرف منہ کر لیا.دوسروں نے سمجھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو معلوم نہیں وہ بہت خوش ہوئے کہ آریوں کا ایک بڑا آدمی سلام کرنے آیا ہے.ایک دوست نے توجہ دلا کر کہا کہ حضور پنڈت لیکھرام صاحب سلام کرتے ہیں.آپ نے اس کو خطاب کر کے فرمایا.”میرے آقا کو گالیاں دیتا ہے.اور مجھے سلام کرنے آیا ہے.ایک مقام غیرت کا ہوتا ہے.یہ نہیں تھا کہ حضرت مسیح موعود چاہتے تھے کہ لیکھرام تباہ ہو.آپ نے لکھا ہے کہ جب وہ میرے سامنے آتا تھا.تو میں دعا کر تا تھا کہ خدایا اس کو ہدایت دے.ee دیکھو! دونوں باتیں جمع ہیں.غیرت کے لحاظ سے آپ نے اس کے سلام کا بھی جواب نہ دیا.مگر وسعت حوصلہ کے لحاظ سے آپ اس کے لئے دعا فرماتے تھے.کیونکہ انبیاء کو لوگوں سے باپ سے.بڑھ کر محبت ہوتی ہے.مگر اس کے لئے اللہ تعالٰی سے تعلقات کے منتظر ہوتے ہیں.قطع تعلقات اختلاف مذہب کی وجہ سے نہیں ہزاروں عیسائیوں ہندوؤں غیر احمدیوں اور سکھوں سے ہمارے تعلقات ہیں.پس اختلاف مذہب سے تعلقات منع نہیں ہو جاتے.بلکہ حد شرافت سے گزر جانے سے تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں.دہریہ سے جو خدا کا بھی منکر ہے.ہمارے تعلقات ہوں گے.مگر بعض اوقات ایک احمدی کہلانے والے سے نہیں ہوں گے.آنحضرت صلعم ابو سفیان اور مکہ کے دوسرے لیڈروں سے باتیں کر لیتے تھے.لیکن تین خاص صحابیوں سے بات نہ کرتے تھے.۲ پس غیرت اور وسعت دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں.ان لوگوں نے یہی ہم میں سے ہو کر ہمارے کہلا کر ہم کو دھوکہ دیا.ان کی یہ کارروائی شرافت کے لحاظ سے جائز نہ تھی بھائی بنے تھے.تو صاف کہتے بہائی ہو کر احمدی کہلانا یہ منافقانہ چال ہے ہمیں ان سے اس بات کا شکوہ نہیں کہ وہ بہائی کیوں ہوئے بلکہ ہمیں جو شکوہ ہے وہ یہ ہے کہ ہماری بیعت کر کے ہم کو فریب دیا.اگر ان کو شکوک پیدا ہوئے تھے.تو وہ مجھے بتاتے.بتایا نہیں اور مخفی طور پر تبلیغ بھی شروع کر دی.اور ان کو آگے کہہ دیا کہ دیکھو نا کسی کو بتانا نہیں.وہ ان کاموں پر لگے رہے.جو محض احمدیت کی تبلیغ اور اشاعت کے لئے جاری کئے گئے ہیں.مگر انہوں نے ان کاموں پر تنخواہیں لے کر احمدیت کے خلاف مضامین شائع کئے.ان کی یہ حرکات اخلاق اور شریعت سے گری ہوئی ہیں.اخلاق کے مختلف اقوام میں مختلف مدارج ہوتے ہیں.مگر دنیا کی ادنی ترین اقوام جن کو بعض دفعہ لوگ اچھوت کہہ دیتے ہیں کے معیار اخلاق سے بھی گرا ہوا یہ فعل ہے.میں قطعا یہ نہیں کہتا
342 کہ تم مسلمانوں یا عیسائیوں یا موسائیوں یا ہندوؤں سے جا کر پوچھو.بلکہ تم چوہڑے چمار اور سائنسی لوگوں سے پوچھو کہ اگر کوئی ایسا کرے تو وہ کیسا ہے.تو وہ بھی اس کو بہت ہی گندہ قرار دیں گے اور اخلاق سے گرا ہوا جائیں گے.پس ان سے قطع تعلق غیرت کی وجہ سے تھا بھلا مومن کیونکہ برداشت کر سکتا ہے کہ ہمارے اندر ہو کر اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتا ہوا یہ کہے کہ آنحضرت صلعم کی شریعت منسوخ اور آنحضرت صلعم سے بہاء اللہ افضل ہے.حضرت مسیح موعود ہم کو پیارے ہیں.ساری دنیا سے آپ کی وجہ سے ہم نے لڑائی شروع کر رکھی ہے.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ پیارے نہیں.میں روز ایسے لوگوں کو ملتا اور دیکھتا ہوں جو حضرت مسیح موعود کے کمالات کے قائل نہیں اور آپ کی دعاوی کے منکر ہیں.لیکن یہ بات قطعاً میری طبیعت پر اتنی شاق نہیں گزرتی جتنی یہ کہ آنحضرت صلعم کی تعلیم کی موجودگی میں فلاں کی تعلیم اعلیٰ ہے.اور فلاں آنحضرت صلعم سے علم اور اخلاق میں بالا ہے بلا شبہ حضرت مسیح موعود نہ ہوتے تو آنحضرت صلعم کی ہمیں بھی وہ شناخت نہ ہوتی.جس نے ہمارے دلوں میں آپ کی محبت کی آگ لگا دی ہے جس سے غیر احمدی محروم ہیں.لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ گو تصویر سے اصل کی خوبی کا اندازہ کیا جاتا ہے.مگر تصویر اصل پر فائق نہیں ہو سکتی.عکس عکس ہی ہے.اور اصل اصل ہی ہے.آنحضرت صلعم کی جو شان حضرت مسیح موعود نے بیان فرمائی.واللہ ہم اس کو اس لئے نہیں مانتے کہ حضرت مسیح موعود نے فرما دیا ہے.بلکہ ہم خود اس باغ میں داخل ہوئے اور خوب سیر کی.مرزا صاحب کے الفاظ جادو کا اثر رکھتے تھے.دراصل انبیاء کے کلام دروازہ کھولنے والے اور دائرہ قلب تک پہنچانے والے ہوتے ہیں.قرآن کریم کے مطالب کی کنجیاں ہم کو دی گئیں.ہم نے ان کنجیوں کو لگا کر وہ معارف نکالے ہیں.اور ہمیں اس کے اندر وہ علوم نظر آتے ہیں جو آج تک سب مذاہب کی کتابوں میں نہیں پائے جاتے.خواہ وہ مذہب نئے ہوں یا پرانے قرآن کریم کی تعلیم کے مقابلہ پر جب بہاء اللہ کی تعلیم کو رکھا جاتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے.جیسے ایک چڑیل کو ایک حور کے سامنے لاکھڑا کیا جائے.بلکہ یہ نسبت بھی قرآن کریم کی نہیں ہے کیونکہ آخر بدصورت اور خوبصورت انسان انسانیت میں تو شریک ہیں.مگر بہائی تعلیم کو اتنی بھی شراکت نہیں.اصل بات یہ ہے کہ بہائی تعلیم ہو یا کوئی اور ان کو قرآن کے مقابلے میں اتنی بھی حیثیت حاصل نہیں جتنی ایک خوبصورت اور حسین ترین عورت کے مقابل ایک چڑیل کو ہوتی ہے اور میرا یہ کہنا کوئی سنی سنائی بات نہیں.بلکہ میں اس علم کی بناء پر جو حضرت مسیح موعود کے ذریعے مجھے دیا گیا
343 ہے.کہتا ہوں کہ قرآن کی ایک ایک آیت کے علوم و معارف تمام موجودہ مذہبی کتابوں سے کہیں بڑھ کر ہیں.اور وہ اس کے مقابلہ میں ایک پھٹے ہوئے اور سڑے ہوئے چیتھڑے کے برابر بھی نہیں جو نجاست سے بھرا ہوا اور روڑی پر پڑا ہو اور میرا یہ کہنا صرف دعوئی ہی نہیں بلکہ دلائل بھی ساتھ ہیں تم قرآن کی ایک آیت کو لو اور تمام کتابوں کو مقابل پر رکھ کر دیکھو.کس طرح وہ چمگادڑ سے بھی حقیر صورت میں چھپ جاتی ہیں.ہم نے صرف قرآن کے لفظوں کو نہیں دیکھا.بلکہ ہم خود اس کی محبت کی آگ میں داخل ہوئے اور وہ ہمارے وجود میں داخل ہو گئی.ہمارے دلوں نے اس کی گرمی کو محسوس کیا اور لذت حاصل کی.ہماری حالت اس شخص کی نہیں جو دیکھتا ہے کہ بادشاہ باغ کے اندر گیا ہے اور وہ باہر کھڑا اس بات کا انتظار کرتا ہے کہ کب بادشاہ باہر نکلے تو میں اس کی دست بوسی کروں.بلکہ ہم نے خود بادشاہ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا.اور اس کے ساتھ باغ میں داخل ہوئے.اور روش روش پھرے اور پھول پھول کو دیکھا.ہم رازی کو نہیں جانتے.ہم ابن حیان کو نہیں مانتے.بلکہ مسیح موعود کی صحبت سے ہم کو وہ علوم حاصل ہوئے کہ اگر یہ لوگ بھی ہمارے زمانہ میں ہوتے تو ہماری شاگردی کو اپنے لئے فخر سمجھتے.خدا تعالٰی نے ہمیں وہ علوم عطا فرمائے ہیں کہ جن کی روشنی میں ہم نے دیکھ لیا کہ قرآن ایک زندہ کتاب ہے.اور محمد رسول اللہ ایک زندہ رسول ہے.لیکن ان لوگوں نے ہم میں سے کہلا کر یہ کہا کہ دنیا میں مسیح موعود اس لئے تشریف لائے تھے.کہ قرآن کو منسوخ کریں اور بہائی تعلیم کو رواج دیں.اس سے زیادہ ہماری ہتک اور کیا ہو سکتی ہے.ایک شخص جو کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلحم مفتری تھے نعوذ باللہ اور مسیح موعود بھی نعوذ باللہ مفتری ہیں اگر وہ یہ کہے کہ قرآن منسوخ اور فلاں شخص محمد رسول اللہ سے افضل ہے.تو اور بات ہے.کیونکہ اس کی آنکھیں اس نور سے اندھی ہیں.اور اس پر وہ صداقتیں مخفی ہیں.لیکن جو شخص اسلام کو مانتا ہوا اور قرآن کو ہدایت تسلیم کرتا ہوا یہ کہے کہ مرزا صاحب قرآن کو موقوف کرنے کے لئے آئے تھے اور اسلام کو منسوخ اس سے زیادہ دھوکہ دینے والا اور کون ہو گا.ایسا شخص ہم کو پاگل ترین انسان خیال کرتا ہے اور ہم سے وہ امید کرتا ہے جو پاگل خانوں کے پاگلوں سے بھی نہیں کی جاتی.وہ ہم سے یہ منوانا چاہتا ہے کہ مرزا صاحب جن کی عمر کی ایک ایک گھڑی اور ایک ایک لمحہ قرآن کی خدمت اور محمد رسول اللہ صلعم کی عزت کے اظہار میں گذرا.وہ نعوذ باللہ دل میں مانتے تھے کہ قرآن منسوخ ہے اور بھائی تعلیم اس سے افضل ہے.وہ شخص ہم کو اندھا.بہرہ
344 مجذوم اور پاگل قرار دیتا ہے.اور ہم سے محال بات منوانا چاہتا ہے.اس سے زیادہ اور کیا ہتک ہو گی.اور کون سا موقعہ غیرت کا ہو گا.وہ شخص جس کی پیدائش سے لے کر وفات تک ہر منٹ قرآن کی عزت کو ثابت کرنے میں خرچ ہوا.جس کی زندگی کا مقصد قرآن کو زندہ کرنا تھا اور جس نے قرآن کو زندہ کیا اور اس کے حسن کو دنیا پر ظاہر کیا اور اس کے بند دروازوں کو وا کر دیا.جس کی نسبت میں نے ایک غیر احمدی سے سنا تھا.گو وہ فقیر مجھے اس وقت برا لگا تھا.مگر اسے ایک عجیب لذت حاصل ہوتی ہے.وہ کہتا تھا کہ مرزا صاحب کی زندگی کو جن لوگوں نے دیکھا ہے.وہ جانتے ہیں کہ مرزا صاحب کو خدا کے لئے اتنی غیرت نہ تھی.جتنی محمد رسول اللہ کے لئے تھی.یہ تو غلط ہے کہ آپ کو خدا کے لئے محمد رسول اللہ سے کم غیرت تھی.لیکن اس نے آپ کی محمد رسول اللہ کے لئے غیرت کو دیکھ کر یہ غلط قیاس کر لیا.اس کی آنکھوں پر پردہ ڈالا گیا.اور اس غیرت کو نہیں دیکھ سکا.جو آپ کو اللہ تعالٰی کے متعلق تھی.ایسے انسان کو یہ کہنا کہ وہ محمد رسول اللہ کی تعلیم کو موقوف کرنے کے لئے آیا تھا.اور اس کے دین کو مٹانے کے لئے مبعوث ہوا تھا.اور وہ بہاء اللہ کے لئے بطور ا رہاص تھا.اس سے بڑھ کر مسیح موعود اور محمد رسول اللہ اور ہماری کوئی ہتک نہیں ہو سکتی.گویا کہنے والا یہ سمجھتا ہے کہ ہم ایسے کم عقل ہیں.اور جانوروں سے بھی گئے گزرے ہیں.جو اس بات کو مان لیں گے وہ انسان جس کی محبت اور عقیدت کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے شعروں میں بھی کہتا ہے.قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآن ہے کہ چاند اگر مٹ جائے تو مٹ جائے مجھے پرواہ نہیں اور سورج اگر جاتا رہے.تو مجھے کوئی غم نہیں کیونکہ قرآن کی روشنی اور نور میرے لئے کافی ہے.اس کو کہنا کہ وہ قرآن کی موقوفی کے لئے آیا تھا.اس سے بڑھ کر اور ہتک کیا ہو سکتی ہے.میں جتنا اس بات پر غور کرتا ہوں.اتنا ہی میرا جوش اور بڑھتا جاتا ہے.یہ ایک خطرناک ہتک ہے.جو مسیح موعود اور آنحضرت صلعم اور ہماری کی گئی ہے اگر دنیا میں غیرت دلانے کا کوئی موقعہ ہو سکتا ہے.تو یہ ہے.اس سے بڑھ کر اور غیرت دلانے والی کیا بات ہو گی.مگر بعض لوگ خیال کرتے ں کہ وہ کہیں گے کہ ہم سے ایسا سلوک کیا گیا.لیکن میں پوچھتا ہوں.کہ کیا کوئی انسان غیرت کو روک سکتا ہے.یہ وسعت حوصلہ نہیں.بلکہ پرلے درجے کی بے غیرتی ہے.اسلام بے غیرتی نہیں سکھاتا.کون سا مذہب ہے جس میں غیرت کو برا کہا گیا ہو.بہائیوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اس سے ہیں
345 لاکھوں کروڑوں درجہ کم معاملات میں غیرت دکھاتے ہیں.اور قتل تک کر دیتے ہیں.گو ہم قتل کو جائز نہیں سمجھتے.مگر بے غیرتی کو نہایت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں.بہاء اللہ کے دو بیٹے تھے.عباس آفندی اور محمد علی آفندی بہاء اللہ نے پہلے عباس کو اپنا جانشین اور اس کے بعد محمد علی کو قرار دیا.لیکن اس کا بیٹا عبد البہاء خلیفہ بن گیا.اور لوگوں کو محمد علی آفندی سے ملنے سے منع کر دیا.خیر اللہ امریکن مبلغ عباس کا مرید امریکہ سے عکس میں آتا ہے.اور محمد علی بہا اللہ کا اپنا بیٹا اس سے ملنے کے لئے آتا ہے.مگر وہ انکار کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے آقا نے تم سے ملنے سے منع کیا ہے.دیکھو معمولی سے اختلاف پر بہاء اللہ کے اپنے بیٹے سے ملنا بند کر دیا.کسی دھوکہ اور فریب کی وجہ نہیں.تو اب تم ان کے دھوکا اور قریب کی وجہ سے جو سلوک کرو.وہ کیونکر اس کا ناواجب سلوک کہہ سکتے ہیں.اور تم پر تنگ دلی کا الزام آ سکتا ہے.یاد رکھو کہ ایک خلق پر عمل کرنے والا خوش خلق اور نیک اخلاق والا نہیں کہلا سکتا.اس کی وہی مثال ہے.کہتے ہیں کہ ایک بندر کو ہلدی کی گرہ مل گئی تھی.وہ اسی کو لے کر پنساری بن بیٹھا.نیک اخلاق محض مہربانی کا نام نہیں.اگر موقعہ غیرت کا ہے.اور وہ اس جگہ بھی کہے کہ مجھے مہربانی کرنی چاہیئے.تو وہ بے غیرت ہے.نرمی وہی نرمی کہلائے گی.جو اپنے محل اور موقعہ پر ہو.حضرت مسیح موعود فرماتے تھے.کہ اگر کوئی بزدل کھے کہ دیکھو میں کس قدر رحمدل ہوں کہ کسی انسان کو قتل نہیں کیا.تو وہ رحمول نہیں کہلائے گا.اسی طرح ملک کی عزت خطرے میں ہو اور لوگوں کے اموال اور جانیں ہلاکت میں ہوں اور اس کو کہا جائے کہ تلوار پکڑ کر دشمنوں سے لڑو.تو وہ تلوار کو پھینک دے اور کہے کہ میں نے امن کے زمانہ میں کسی کو قتل نہیں کیا.تو اب میں کیوں قتل کروں یہ رحمدلی کے خلاف ہے.تو وہ شخص کیا رحمدل کہلائے گا؟ نہیں بلکہ وہ بزدل اور بے غیرت کہلائے گا.کیونکہ وہ جھوٹا ہے.یہ موقعہ رحمدلی کا نہیں.بلکہ بہادری اور غیرت کا مقام ہے.پس نیکی تمام قسم کے اخلاق کے پائے جانے کا نام ہے.تم اگر لوگوں سے مہربانی کرتے ہو.لیکن غیرت کے موقعہ پر غیرت نہیں دکھاتے ہو.تو وہ مہربانی محض بزدلی اور کمزوری ہے اور یہ نیکی کی وجہ سے نہ تھی.بلکہ نفس کی وجہ سے تھی بلکہ نیکی اور تقویٰ وہی ہے.جو بر محل ہو.میں اپنی جماعت کے احباب کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سب اخلاق حسنہ پر کاربند ہوں اور جھوٹے چھلکوں پر خوش نہ ہو جائیں.اور ایک قشر کو حقیقت نہ سمجھ بیٹھیں.غیرت کے موقع پر غیرت دکھائیں محبت اور غضب کو صحیح طریق اور موقعہ پر استعمال کریں جھکنے کے موقعہ پر جھک جائیں
346 اور غضب کے موقعہ پر غضب کا اظہار کریں.تب جا کر وہ خوش خلق کہلا سکیں گے.ایک پہلو کو بالکل ترک کر دینا اور ایک پر زور دینا خوش خلقی نہیں.تم قشر سے دنیا اور واقعات کو دھوکہ نہیں دے سکتے.تم اس سے اپنے نفس کو خوش کر سکتے ہو.مگر نتائج تم کو آگاہ کر دیں گے پس تم اس پر خوش مت ہو.اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے اور اپنی محبت کو ہمارے اندر داخل فرمائے.ہماری نفسیات اور ذاتی عزت مٹ کر سب کچھ خدا کے لئے ہی ہو جائے.ہم خدا میں ہو کر خدا کے لئے بن جائیں.ہم میں اس کے رسولوں کے لئے غیرت محبت اور جوش پیدا ہو.اور ان کی صحیح اور سچی محبت ہم میں پیدا ہو.جس سے خدا کی رضا حاصل ہو.اور بندوں کی اصلاح ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل سے توفیق بخشے آمین حضور نے دوسرے خطبہ میں فرمایا.کہ میں دو باتیں کہنی چاہتا ہوں.ایک تو یہ کہ کل میں نے کہا تھا کہ کل لیکچر کا اگلا حصہ بیان کروں گا.مجھے معلوم نہ تھا کہ کل جمعہ ہے.اس لئے وہ لیکچر آج نہیں ہو گا.بلکہ کل عصر کے بعد ہو گا.دوسری بات یہ ہے کہ ایک نہایت مخلص دوست تر گڑی کے شاعر محمد اسماعیل صاحب فوت ہو گئے ہیں.بہت جوش اور اخلاص رکھنے والے تھے.ان کی بعض نظموں نے تبلیغ میں بہت مدددی ہے.حضرت مسیح موعود نے ان کی کتاب چٹھی مسیح کو بہت پسند کیا تھا.حقہ کے بہت دشمن تھے.اس کے متعلق ہمیشہ بحث کیا کرتے تھے.اور کہتے تھے کہ اگر آپ نے یہ عیب نہ مٹایا تو کیا مٹایا.گو ایک بات پر ہی زور دینا اصل دانائی نہیں.لیکن ان کی غیرت ایمانی اور بدی سے نفرت کی وجہ سے ان کا یہ اصرار بھی بہت اچھا لگتا تھا.میں نماز کے بعد ان کا جنازہ پڑھوں گا.باقی دوست بھی شامل ہوں.الفضل ۴ اپریل ۶۱۹۲۲ حضرت کعب بن مالک اور ان کے دو ساتھی جو باوجود اخلاص کے غزوہ تبوک میں شامل نہ ہو سکے شد ابن حیان و طبرانی تھے (بخاری کتاب المغازی حدیث کعب بن مالک)
347 59 (فرموده ۴ اپریل ۱۹۲۴ء) جھوٹ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا مشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا آج میں جمعہ کی تیاری کر کے جب گھر سے نکلنے لگا تو کسی نے پیغام صلح کا ایک پرچہ مجھے بھیجا میرا نشاء تو آج تبلیغ کے متعلق ایک مضمون بیان کرنے کا تھا.لیکن اس پرچہ کے آجانے سے مجھے خیال پیدا ہوا کہ اس کے اندر کوئی ایسا مضمون ہو گا جو میری ذات سے تعلق رکھتا ہو گا یا جو میرے پڑھنے کے قابل ہو گا.لہذا میں نے اس کو کھولا اور اس کے مضامین پر نظر ڈالی.دوسرے ہی صفحے پر ایک لیڈر دیکھا جس میں مولوی محفوظ الحق کا خط درج تھا.جو اس نے قادیان سے نکل کر مولوی محمد علی صاحب کے نام لکھا.اور جس سے خط بھیجنے والے کی غرض بھی ظاہر ہو جاتی ہے.میں نے اس خط کو پڑھا اور اس تنقید کو بھی پڑھا جو اس خطہ پر یا اس کی بناء پر ہم پر کی گئی ہے.یہ مضمون کیا بلحاظ اس کے کہ جب کوئی شخص صداقت کو چھوڑتا ہے.اور کچے مذہب سے دور ہوتا ہے اور تبدیلی کرتا ہے.تو وہ کس طرح صداقت کو چھوڑتے ہی نجاست پر منہ مارنے لگ جاتا ہے.اور کیا بلحاظ اس کے کہ جب کوئی شخص کسی کی عداوت کو اپنا شعار بنا لیتا ہے اور اس کی دشمنی میں اندھا ہو جاتا ہے تو وہ کس طرح محل بے محل اعتراض کرنے لگ جاتا ہے.اور کس طرح الزام لگانے میں دلیری کرتا ہے.نہایت ہی حیرت میں ڈالنے والا تھا.میں اس پرچہ کو ساتھ ہی لے آیا ہوں کیونکہ میں نے سمجھا کہ چونکہ خطبہ کی غرض یہی ہوتی ہے کہ جماعت کو ان امور سے جو اس سے تعلق رکھتے ہوں اطلاع دی جائے اس لئے میں نے ارادہ کیا کہ اسی مضمون کے متعلق کچھ بیان کروں.پہلے میں وہ خط جو محفوظ الحق نے مولوی محمد علی کی طرف لکھا ہے سنا دیتا ہوں وہ لکھتا ہے.خیال تھا کہ جب جناب والا کا اختلاف جماعت قادیان سے ظاہر ہوا تھا.تو کیوں جناب کو قادیان
348 چھوڑنا پڑا.مگر اب ہمیں اس کی وجوہ بچشم خود نظر آگئے.ہم نے دیکھ لیا کہ جماعت قادیان اس روح کو فنا کر چکی ہے جو حضرت صاحب نے پیدا کی تھی.ہم حضرت صاحب کو نبی نہیں مانتے.آپ کے انکار کے باعث مسلمان کو کافر نہیں کہتے ہیں.غیر احمدی کے پیچھے نماز جائز سمجھتے ہیں.غیر احمدی سے رشتہ جائز سمجھتے ہیں.قادیان میں جو غلو حضرت صاحب کی ذات کے متعلق ہو رہا ہے.اس کو دنیائے اسلام کے لئے مضر خیال کرتے ہیں.ہماری جماعت نے کوئی فتنہ پردازی اور بددیانتی نہیں کی.خدا شاہد ہے کہ ہم نے ہر طرح امن و عافیت کی راہ اختیار کی تھی.مگر اس کو کیا کیجئے کہ ارباب قادیان نے ہمارے ساتھ وہ ناجائز برتاؤ کیا جس کو وہ خود بھی شرمندگی کے ساتھ ناجائز قرار دینے پر مجبور ہوں گے.ہمیں بطور مجرم کے بلایا گیا.ہم سے تمسخر کیا گیا.غیظ و غضب کی نظریں ہم پر ڈالی گئیں.ہم پر آوازے کے گئے.ہمیں اپنی گلیوں میں چلنے سے روکا گیا.ڈنڈے والے بھیجے گئے.جو ہمیں ادھر سے ادھر لے گئے.ہر طرح ہمارا بائی کاٹ کیا گیا.چلتے وقت ہمیں اپنے گھر والوں سے بھی نہ ملنے دیا گیا.تعجب ہے کہ وہ اخلاقی طاقت جس کا فخر اخباروں میں کیا جاتا ہے کہاں چلی گئی.اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہم ارباب قادیان کی نظر میں کافر اور مرتد ٹھہرے تھے اور ہم نے ان کی بعض راؤں سے اختلاف کیا تھا.تو کیا ہم اسی سلوک کے مستحق تھے.جو کیا گیا.کیونکہ کسی غیر احمدی کے احمدی ہو جانے پر لوگ جب ایسے ہی معاملات عمل میں لاتے ہیں.تو ارباب قادیان شیخ پڑتے ہیں.اور اخباروں میں واویلا مچاتے ہیں.عجیب تریہ کہ جناب میاں صاحب نے اپنے مریدوں میں کہا کہ تین روز تک یہ لوگ مجھ سے جو چاہیں دریافت کر سکتے ہیں.لیکن ہمیں کوئی باقاعدہ اطلاع نہیں دی گئی.جناب نے آخری نبی میں خوب فرمایا کہ میاں صاحب اپنے جدید عقائد نبوت کے باعث باہیوں سے جا ملے ہیں.سو اس میں شک نہیں کہ جناب میاں صاحب کے بیانات نے اس باب میں ایک بڑا کام کیا ہے اور اسی تحریک سے ہم لوگ بھی آج اس رنگ میں رونما ہوئے ہیں.اور قادیانی گروہ میں کئی دوسرے لوگ بھی آج اسی رنگ میں رنگے جاچکے ہیں." یہ وہ خط ہے.اس اخبار والا کہتا ہے کہ ہم تو پہلے ہی شور مچایا کرتے تھے کہ محمودی عقائد تباہی ڈالیں گے.چنانچہ ایسا ہو گیا کہ اب ان عقائد کی وجہ سے لوگ بابی ہونے شروع ہو گئے.اور اس کا اصل سبب میاں صاحب کے عقائد ہیں.پہلے میں اخبار والے کا جواب دیتا ہوں.دیکھو جس وقت انسان تعصب سے اندھا ہو جاتا ہے.تو وہ کس طرح غلط اور الٹ نتیجے نکالتا ہے.وہ کہتا ہے کہ بہائیت اور بابیت نتیجہ ہے میاں صاحب
349 کے عقائد کا مگر یہ تو بتاؤ با بیت پہلے کہاں سے شروع ہوئی.حشمت اللہ آگرہ والا اور محمد اسماعیل اور دوسرے بہائی جو بمبئی کراچی میں پائے جاتے ہیں.وہ کن میں سے بہائی ہوئے ہیں.کیا وہ بھی "محمودیوں میں سے بہائی ہوئے ہیں.یہ لوگ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دعویٰ الہام کو بھی جائز سمجھتے تھے یہ کیونکر بہائی ہو گئے.پھر ایران مصر وغیرہ میں ہزاروں مسلمان کہلانے والے بابی ہو گئے.کیا وہ بھی محمودیوں سے نکل کر ہوئے تھے.اگر ہمارے عقیدہ کی اشاعت سے پیشتر دنیا میں بابی اور بہائی مذہب نہ تھا.تب تو یہ بات کہی جا سکتی تھی.اور اس مذہب کو ہمارے عقائد کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا تھا.لیکن اگر باب میری پیدائش سے بھی پچاس سال پہلے دعوی کر چکا تھا.اور اگر میرے پیدا ہونے سے چالیس برس پہلے بہاء اللہ دعوی کر چکا تھا.اور اگر ہزاروں لوگ ان میں سے جو آنحضرت صلعم کو ان معنوں سے خاتم النبیین مانتے تھے کہ اس کے بعد کسی قسم کا بھی نبی نہ آئے گا اور جو قرآن کو ان معنوں سے کامل سمجھتے تھے کہ پہلے مفسروں کے مرنے کے بعد قرآن کا فہم بھی مٹ گیا ہے.ہابیت اور بہائیت میں داخل ہو چکے ہیں.تو کون سی عقل ہے جو یہ کہہ سکتی ہے کہ بہائیت ان خیالات کے نتیجہ میں پھیلتی ہے.جو میں نے شائع کئے.پھر وہ مولوی محمد احسن صاحب جن کے تعلق وہ کہتے ہیں کہ وہ ابتدا سے ہمارے ساتھ تھے مگر اہل بیت کی محبت کی وجہ سے انہوں نے میاں صاحب کی بیعت کر لی تھی.ان کے بیٹے کا بہائی ہونا کن خیالات کی وجہ سے تھا.وہ محمد احسن صاحب جن کو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم پر پورا کار بند سمجھتے ہیں.اور ان کو نبوت کا منکر جانتے ہیں.ان کا بیٹا کیونکر بہائی ہو گیا.اور ہوا بھی اس اختلاف سے پہلے جس نے بڑے جوش سے بابیت کا اعلان کیا حتی کہ بعض لوگ شک کرتے ہیں کہ برہان الصریح وغیرہ کتابیں بھی اس کی لکھی ہوئی ہیں.واللہ اعلم یہ امر کہاں تک صحیح ہے.بہر حال بہائیت وہابیت پیغامیوں کے گھر سے نکلی ہے.پس جب ہابیت میرے خیالات کا نتیجہ نہیں تو مجھ پر کیسا الزام ؟ پھر ان لوگوں میں سے جو قرآن کے قسم کو بھی پرانے علماء کے بعد بند سمجھتے ہیں.ہزاروں کا بابی ہو جانا کن خیالات کا نتیجہ ہے.ان لوگوں کو اپنے گھر کی خرابی نظر نہیں آتی.ذرا سوچیں تو سہی کہ یہ جو ہزاروں بابی اور بہائی ہیں.یہ کسی اثر کے نیچے ہیں.حضرت مسیح نے سچ کہا ہے.دوسرے کی آنکھ کا تنکا بھی نظر آجاتا ہے.مگر اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا.یہی وجہ ہے کہ غیر مبایع ہم پر اعتراض کرتے ہیں مگر اپنے گھر کو نہیں دیکھتے.پھر میں پوچھتا ہوں کیا کوئی ایسا زمانہ آیا ہے کہ مرتدین نہیں ہوئے.کیا حضرت مسیح موعود علیہ
350 السلام کے زمانہ میں عبدالحکیم ان ہی مسائل پر مرتد نہیں ہوا.کہ آپ تمام مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں.اور اپنے درجہ کے بارے میں غلو کرتے ہیں.وغیرہ وغیرہ پھر کیا عبدالحکیم کا ارتداد میری تعلیم کا نتیجہ تھا.اسی طرح جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں پہلے ایمان لائے اور پھر مرند ہو گئے.کیا وہ بھی محمودی خیالات کا نتیجہ تھے ؟ یا وہاں بھی آنحضرت صلعم نے کوئی غلو کیا تھا.جس کے نتیجہ میں وہ جماعت مرتد ہو گئی تھی.پھر حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں ان کے سامنے جو سینکڑوں مرتد ہوئے وہ کس غلو کا نتیجہ تھے.کیا وہاں بھی میں موجود تھا اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ارتداد ہوا وہ کن خیالات کا نتیجہ تھا.قرآن کریم میں ان مرتدوں کا ذکر موجود ہے.وہ خسف کئے گئے.مٹائے گئے ذلیل کئے گئے.وہ کن خیالات کا نتیجہ تھے.کیا حضرت موسیٰ کے غلو کایا اس وقت بھی میں ہی موجود تھا جس کے نتیجہ میں ارتداد رونما ہوا تھا.جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں مرتد ہوئے.طالوت علیہ السلام کے زمانہ میں ارتداد ہوا.عیسی علیہ السلام کے وقت میں بکثرت مرتد ہوئے.پھر آنحضرت صلعم اور حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کے زمانوں میں لوگ مرتد ہوئے.تو کیا وجہ ہے.اگر آج دو تین مرتد ہو گئے.تو جو وجہ وہاں تھی.وہ اس جگہ چسپاں نہیں کی جاتی.پھر کیا وہ لوگ موجود نہیں.جنہوں نے میرا انکار کیا اور پیغامیوں سے ملے.مگر پھر وہر یہ ہو گئے یہ کس تعلیم اور کن عقائد کا نتیجہ ہے.مگرسچ ہے.دوسرے کی آنکھ کا تنکا نظر آجاتا ہے.مگر اپنی آنکھ کا شہتیر بھی نظر نہیں آتا.ان پیغامیوں میں سے دہریہ ہوئے.احمدیت سے مرتد ہوئے.بد عمل اسلام کو چھوڑنے والے ہوئے مگر انہیں وہ یاد نہیں.مسیح موعود کے زمانے میں مرتد ہوئے.آنحضرت صلعم کے وقت میں مرتد ہوئے.مگر وہ ان کی نظروں سے غائب ہیں.لیکن ان دو تین کا ارتداد ان کی آنکھوں میں ایسا کھٹکا ہے.گویا اس سے پہلے کبھی کوئی مرتد ہی نہیں ہوا.اللہ تعالٰی نے ان کو کیسا جواب دیا ہے.انہوں نے ہم پر یہ الزام لگایا کہ گویا ہمارے عقائد بہائیت کی طرف لے جاتے ہیں.مگر اللہ تعالیٰ نے مولوی محمد احسن صاحب کے لڑکے کو پہلے سے بہائی بنا کر ان کے منہ پر چھیڑ لگا دی.کاش وہ سمجھیں کہ بہائیت تو ان کے گھر سے نکلی ہے.اور وہ الٹا ہم پر الزام لگاتے ہیں.اب میں خط کا مضمون لیتا ہوں.مخط لکھنے والا لکھتا ہے.”خیال تھا کہ جب جناب والا کا اختلاف جماعت قادیان سے ظاہر ہوا ہے.تو کیوں جناب کو قادیان چھوڑنا پڑا.مگر اب ہمیں ان کے
وجوہ بچشم خود نظر آگئے ہیں." 351 وہ وجوہ آگے بیان کی ہیں.اسی لئے اس جگہ ان کا جواب دوں گا.پھر لکھا ہے.”ہم حضرت صاحب کو نبی نہیں مانتے.مگر عجیب بات یہ ہے کہ یہاں بیان میں اس نے لکھایا ہے کہ حضرت صاحب ایک رنگ میں دعویٰ نبوت میں صادق تھے.اور پھر گواہوں نے بڑے تواتر سے کہا کہ وہ جانے سے چار پانچ دن ہی پہلے یہ کہتا تھا کہ محمد علی کی عقل کو کیا ہو گیا ہے.جو نبوت سے انکار کرتا ہے.نبوت سے تو کوئی انکار کرہی نہیں سکتا.مگر قادیان سے جانے کے بعد لکھتا ہے کہ میں حضرت صاحب کو نبی نہیں مانتا.اس میں بھی کس قدر دھوکہ دیا ہے.یہ نہیں لکھا کہ میں چونکہ بہاء اللہ کو مانتا ہوں.اس لئے حضرت صاحب کو نبی نہیں مانتا.بلکہ یہ لکھا ہے.کہ ہم حضرت صاحب کو نبی نہیں مانتے.تاکہ اس طرح مولوی محمد علی صاحب خوش ہو جائیں کہ ہماری تصدیق کر رہا ہے حالانکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ میں مرزا صاحب کو بھی کیونکر مان سکتا ہے.جب کہ بہاء اللہ کا معتقد ہوں اور یہ اس کے خلاف ہے.اس کا پہلے بھی یہی عقیدہ تھا.مگر ہم میں جذب ہونے کے لئے اور شامل رہنے کے لئے کہتا رہا کہ مرزا صاحب نبی تھے.اب ان میں شامل ہونے کے لئے یہ کہہ دیا کہ ہم مرزا صاحب کو نبی نہیں مانتے.حقیقتاً وہ مرزا صاحب کو نہ نبی اور نہ راستباز سمجھتا ہے.پھر لکھتا ہے."آپ کے انکار کے باعث مسلمان کو کافر نہیں کہتے ہیں." مرزا صاحب کے انکار سے کیونکر کافر ہونا تھا وہ تو اس کے نزدیک بہاء اللہ کے انکار کی وجہ سے کافر بن چکے ہیں.مگر پڑھنے والوں کو دھوکا دینے کے لئے یہ لکھ دیا کہ مرزا صاحب کے انکار کے باعث ہم مسلمانوں کو کافر.نہیں کہتے.گویا ان کو پکا مسلمان سمجھتے ہیں.حالانکہ اصل مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ تو باب اور بہا اللہ کے انکار سے کافر قرار پا چکے.باب نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ جو میری کتابوں کا انکار کرتا ہے.وہ کافر ہے.جو آج سے قریباً سو سال پہلے کا فربن چکے ہیں.ان کے دوبارہ کافر بننے کے معنے ہی کیا ہیں.پھر لکھا ہے.”غیر احمدی کے پیچھے نماز جائز سمجھتے ہیں یہ غیر احمدیوں کی خصوصیت بھی محض دھوکہ دینے کے لئے ہے.یہ لوگ تو عیسائیوں کے گرجے میں جانا اور ان کے پیچھے نماز پڑھنا بھی جائز سمجھتے ہیں.بہائی تعلیم کی رو سے غیر احمدی کیا کسی گرجے میں عیسائی کے پچھے بھی نماز جائز ہے.چنانچہ ان کے مبلغ یورپ اور امریکہ میں ایسا ہی کرتے ہیں.
352 پھر کہتا ہے.غیر احمدی سے رشتہ جائز سمجھتے ہیں." یہ بھی دھوکا ہے اور یہ بتانا چاہا ہے کہ گویا ہمارے عقیدہ سے بیزاری ظاہر کی ہے.حالانکہ بہائیوں کے عقیدہ کے ماتحت نکاح کی یہ قید فضول ہیں.ان کے نزدیک عیسائی اور ہندو اور زرتشتیوں اور سکھوں سے بھی رشتہ جائز ہے.چنانچہ امریکہ میں بہائی عورتیں عیسائی خاوندوں کے ساتھ رہتی ہیں.پھر لکھتا ہے.”قادیان میں جو غلو حضرت صاحب کی ذات کے متعلق ہو رہا ہے.اس کو دنیائے اسلام کے لئے مضر خیال کرتے ہیں." یہ عجیب بات ہے.جب کہ تم اسلام کو منسوخ سمجھتے ہو.تو اس کے لئے مضر یا مفید سمجھنا کیا معنے.لیکن اسلام سے وہ اسلام مراد نہیں.جو اس تحریر کے پڑھنے والوں کے ذہن میں آتا ہے..بلکہ اسلام سے وہی مذہب مراد ہے.جو بہاء اللہ لایا.چنانچہ یہ لوگ بہاء اللہ کے مذہب کو اسلام کہنے پر یہ دلیلیں دیا کرتے ہیں کہ چونکہ پہلے نبیوں کے مذہبوں کو بھی اسلام کہا گیا ہے اس لئے اسلام ہر بچے مذہب کا نام ہے.اور اب چونکہ بہا اللہ کا مذہب ہی سچا ہے.لہذا وہی اسلام ہے اور دنیائے اسلام سے وہی مراد ہے.چونکہ یہ بات بالکل درست ہے کہ حضرت اقدس کی تعلیم کا یہ نتیجہ ہو گا.کہ بہائی مذہب بالکل نہیں پھیل سکے گا.اس لئے اس نے یہ لکھا ہے کہ احمدیت کو بہائی مذہب کے لئے مضر خیال کرتے ہیں مگر اس نے ہر فقرہ منافقت سے لکھا ہے.تاکہ ظاہر میں لوگ یہ.سمجھیں کہ اس نے اسلام کی حمایت کی ہے.مگر اصل مراد بہائیت کی تائید ہے.پھر لکھتا ہے ہماری جماعت نے کوئی فتنہ پردازی اور بددیانتی نہیں کی.خدا شاہد ہے کہ ہم نے ہر طرح امن و عافیت کی راہ اختیار کی تھی." گویا مخفی طور پر یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا کہ امن و عافیت قائم رہے اور کسی قسم کا فساد نہ ہو جائے لیکن اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ کوئی چور کو پکڑے اور اس کو کہے کہ تو نے چوری کیوں کی.تو وہ کے.حضور! اس لئے کہ اگر میں اس کی چیز اس کے سامنے اٹھاتا.تو یہ مجھ سے لڑتا.لہذا امن قائم رکھنے کے لئے میں نے یہ راہ اختیار کی ہے.تو یہ عجیب قسم کا امن ہے.سیندھ لگاتے ہو.اور کہتے ہو.خدا شاہد ہے.محض امن کے لئے ایسا کیا ہے.کیا اسی کو امن کہتے ہیں.کسی قوم میں داخل رہ کر اس کے عقائد کی اشاعت پر تنخواہ لے کر اپنے عقائد کی اشاعت کرنا اس کے مبلغ کہلا کر اس قوم کے افراد کو اس کے اصول کے خلاف تعلیم دینا اور یہ بھی کہنا کہ کسی کو یہ بتانا نہیں.تا کسی طرح دوسرا اس زہر کا ازالہ نہ کر دئے.اگر یہ امن پسندی ہے.تو بے حیائی.بے
353 شرمی.خیانت اور بددیانتی کس چیز کا نام ہے.یہ الفاظ جو دنیا میں پائے جاتے ہیں.پھر ان کا مورد کیا ہے.اگر یہ امن پسندی ہے تو جیل خانوں والے تو بڑے پارسا اور نیک ہوں گے چور جو چوری کے لئے جاتا ہے رات کو چلتا ہے.اور اپنی نیند خراب کرتا ہے.وہ بھی بڑا امن پسند ہو گا.کیونکہ وہ دنیا میں لڑائی نہیں کرنا چاہتا.اسی طرح وہ قاتل بہت امن پسند ہو گا جو قتل کر کے چھپ جاتا ہے.تاکہ دنیا میں لڑائی کی آگ نہ بھڑک اٹھے.وہ دنیا کو لڑائی سے بچاتا ہے اور خود تکلیفیں اٹھاتا ہے.جنگلوں میں مارا مارا پھرتا ہے اسی طرح خفیہ زہر دینے والا کتنا امن پسند انسان ہے کہ اگر وہ بتا کر دے تو لڑائی ہو جائے.اسی طرح وہ دھوکہ باز جو دوسرے کی جائداد لینے کے لئے جھوٹی دستاویز میں بناتا اور جھوٹے تمسک لکھتا ہے.یہ کہہ کر امن پسند کہلا سکتا ہے کہ میں نے گورنمنٹ کی معرفت جھوٹی دستاویزوں کے ذریعہ سے اس لئے قبضہ کیا ہے.تا امن رہے اور لڑائی نہ ہو.اگر اسی کا نام امن پسندی ہے.تو یہ سب لوگ جو قید خانوں میں ہیں.نہایت ہی امن پسند تھے.اور بڑے را ستہاز اور پار سا تھے.اگر یہ سب لوگ امین ہیں تو وہ لوگ بھی جنہوں نے نیکی و تقویٰ کو بالائے طاق رکھ کر ہم سے تنخواہیں لیں.اور ہمارے خلاف مضامین لکھے مولوی کہلا کر احمدیت کے مبلغ بن کر ہمارے لوگوں کو ورغلایا.اور پھر ان کو کہا کہ دیکھو کسی کو بتانا نہیں نا کہ کوئی اس زہر کا ازالہ نہ کر دے.جو ہم تم کو پلا رہے ہیں.امن پسند کہلا سکتے ہیں.پھر لکھتا ہے.کہ ہمارے ایسی با امن راہ اختیار کرنے کے باوجود ہم سے ارباب قادیان نے ناجائز سلوک کیا." بچپن میں ایک قصہ سنا کرتے تھے.کہ ایک بیوقوف بادشاہ تھا اس نے کہا کہ میں تو اپنی لڑکی کا رشتہ اس شخص سے کروں گا جو آسمان سے گرے گا.اتفاق سے بگولا جو آیا.تو اس نے ایک پہاڑی آدمی کو جنگل سے اٹھا کر وہاں لا پھینکا لوگوں نے بادشاہ کو اطلاع دی.اس نے کہا یہ آسمان سے گرا ہے.اور اپنی لڑکی کی شادی اس سے کر دی.وہ بیچارہ زمین پر لیٹ رہنے والا جوار کی روٹی کھا کر گزارہ کرنے والا.اگر وہ بھی مہیا نہ ہو.تو درختوں کے پھل وغیرہ پر زندگی بسر کرنے والا تھا اس کے لئے شاہی محل میں رہنا مصیبت ہو گئی.جب وہ واپس گھر آیا.تو ماں نے کہا.بیٹا تیرا کیا حال رہا.اس نے کہا.اے ماں وہاں میرے نیچے بھی روئی بچھا دیتے تھے.اوپر بھی روئی اڑھا دیتے تھے اوپر سے خوب تھکتے تھے.(یعنی لحافوں اور تو شکوں میں لٹا کر اوپر سے دباتے تھے) اے ماں میں
354 تب بھی نہیں مرا.اس پر ماں شیخ مار کر روتی اور کہتی کہ اے لڑکے تجھ پر یہ یہ مصائب آئے.اسی طرح اس لڑکے نے پلاؤ کے متعلق شکایت کی کہ کھانے کو مجھے کپڑے دیتے تھے.مگر میں پھر بھی نہ مرا.وہی مثال ان کی ہے اتنے احسانات کے ہوتے ہوئے ایسے بے شرم نکلے کہ ہمارے ہو کر ہمارے کہلا کر ہم سے کھا کر ہم پر ہی حملہ شروع کر دیا.اور پھر شکایت کرتے ہو کہ ہم سے بلا وجہ بد سلوکی کی گئی.بلا وجہ کا نکتہ ستم ظریفی تو آپ ہی ظاہر ہے.ظلم یہ بیان کئے ہیں کہ ہم سے تمسخر کیا گیا.لیکن یہ نہیں لکھا کہ کیا تمسخر کیا گیا.طرز سے معلوم ہوتا ہے کہ تحقیق کے وقت جو سوالات کئے گئے ہیں.ان کا نام تمسخر رکھا گیا ہے.اگر تحقیق تمسخر ہے تو سنجیدگی کس چیز کا نام ہے.پھر لکھا ہے کہ غیظ و غضب کی نظریں ہم پر ڈالی گئیں.نظروں کا اندازہ لگانا تو ایک مشکل امر ہے.لیکن اگر مذکورہ بالا افعال پر لوگوں کو غضب آیا تو اس میں برائی کی کون سی بات ہے.پھر لکھا ہے کہ ہم پر آوازے کے گئے.یہ بھی ایک معمل فقرہ ہے.اور صرف حقیقت کو مٹانے کے لئے ہے.کس نے آوازے کے اور کیونکر کے ہمیں تو جہاں تک معلوم ہے.ایسا بالکل نہیں کیا گیا.پھر لکھا ہے کہ گلیوں میں چلنے پھرنے سے ہمیں روکا گیا.یہ بھی بالکل افتراء ہے کسی نے ان لوگوں کو گلیوں میں چلنے پھرنے سے نہیں روکا.آپ لوگ جو سامنے بیٹھے ہیں.جانتے ہیں کہ یہ بالکل جھوٹ ہے.پھر لکھا ہے کہ ڈنڈوں والے بھیجے گئے جو ہمیں ادھر سے ادھر لے گئے.یہ عجیب خلاف شرم اور حیا سوز بیان ہے.اور احسان فراموشی کا ایک حیرت انگیز نمونہ ہے.اصل بات یہ ہے کہ مجلس شوری کے وقت مولوی رحیم بخش صاحب نے ایک رقعہ مجھے دیا.جو مہر محمد خاں کا تھا.اور میر محمد اسحاق صاحب کے نام تھا.اس میں یہ خواہش کی گئی تھی کہ مجھ تک وہ معاملہ پہنچا دیا جائے.اس رقعہ کا مضمون یہ تھا کہ محفوظ الحق صاحب کو اپنی بیوی کے بعض رشتہ داروں کی طرف سے خطرہ ہے کہ وہ فساد نہ کریں.چونکہ ایسے موقعہ پر طبائع میں اشتعال کا پیدا ہو جانا طبعی امر ہے مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں ایسا ہی نہ ہو جائے.تو یہ لوگ ایک تھپڑ کو قتل کے نام سے منسوب کر دیں گے.میں نے اس وقت مولوی رحیم بخش صاحب کو مقرر کیا کہ میاں بشیر احمد صاحب کو کہیں کہ فوراً ان لوگوں کو سمجھا دیں اور ایسا پہرے کا انتظام کرا دیں کہ کوئی ان کو کچھ کہے نہیں.انہوں نے محمد امین خان صاحب بخارائی اور چند اور آدمیوں کو مقرر کر دیا.چونکہ مولوی محفوظ الحق نے جانا تھا.وہ اس کے ساتھ ہو کریکہ تک سوار کر آئے.تاکہ ان کا کوئی رشتہ دار ان کے ساتھ جھگڑے نہیں.اور یہ لوگ ان کا بو جھل اسباب بھی اٹھا کر لے گئے.اس احسان کا نام اس کی حفاظت کا نام اس شخص نے یہ
355 رکھا ہے کہ ڈنڈے والے ہمیں ادھر سے ادھر لے گئے.کیا یہ شرمناک احسان فراموشی نہیں.کیا ڈنڈے والے جو ادھر سے ادھر پہنچانے کے لئے مقرر کئے جاتے ہیں وہ اسباب بھی اٹھا کر چھوڑ آتے ہیں.اور کیا وہ اس طرح چپکے سے نکل جانے دیا کرتے ہیں." پھر کہتا ہے.” ہر طرح ہمیں بائیکاٹ کیا گیا.یہ محض افترا ہے ہم نے صرف بات کرنے سے رو کا تھا.اور یہ کوئی نئی بات نہیں بہاء اللہ نے تو دو دو سال تک بات کرنی ترک کر دی تھی ہم نے اگر ترک کر دی تو کون سا ظلم کیا؟ ہمارا حق تھا کہ ہم تم جیسے خائن اور منافق سے یہ سلوک کرتے ہمارا فرض تھا کہ ہم تم کو سزا دیتے.اور جب تم جماعت سے نکل گئے.تو اس کے علاوہ اور کیا سزا ہو سکتی تھی کہ احباب کو بات کرنے سے روک دیا جائے.اور یہ بات کہ ہر طرح بائیکاٹ کیا گیا محض افترا ہے کھانے پینے کی چیزوں کے متعلق مجھ سے سوال کیا گیا کہ ان کو دیں یا نہ دیں.میں نے کہا.ضرور دو.یہ ظلم ہو گا اگر ہم ضروریات زندگی ان کے لئے مہیا نہ کریں.جب تک وہ یہاں ہیں.ان کا انتظام کرو.ورنہ ہم میں اور غیر احمدیوں میں کیا فرق رہ جائے گا.اور ایسا کیا گیا.لیکن پھر بھی یہ کہنا کہ ہمیں ہر طرح بائیکاٹ کیا گیا.بالکل جھوٹ نہیں.تو اور کیا ہے.پھر لکھتا ہے.چلتے وقت ہمیں اپنے گھر والوں سے بھی نہ ملنے دیا گیا." اس ڈھٹائی پر تعجب آتا ہے وہ لکھتا ہے کہ مجھے اپنے گھر والوں سے ملنے نہ دیا گیا مگر اسے شرم نہیں آتی کہ اس نے میرے مریدوں کو ورغلایا.اور ان کو کہا کہ اس کے آگے اپنے شک نہ پیش کرنا.مرید کا تعلق تو بیوی سے زیادہ ہوتا ہے.پھر اس کا کیا حق ہے کہ کسے گھر والوں سے ملنے نہ دیا گیا اس نے تو زہر کھلایا.اور کہا کہ طبیب کے پاس نہ جانا تاکہیں وہ تریاق سے اس کا اثر دور نہ کردے.اس نے دھوکہ دے کر اپنے آپ کو احمدی ظاہر کر کے احمدی لڑکی سے شادی کی.کیا اب بھی وہ اپنا حق سمجھتا ہے کہ اسے اس سے ملنے دیا جاوے.پھر ہم نے تو اسے نہیں روکا.اس کے والدین نے چاہا کہ وہ کچھ عرصہ یہاں ہمارے پاس ٹھہرے اور بہاء اللہ کے دین کی تعلیم سے اسے معلوم ہو جائے.پھر بعد میں اس کی جو مرضی ہو کرے.پھر کہتا ہے.کسی غیر احمدی کے احمدی ہو جانے پر لوگ جب ایسے ہی معاملات عمل میں لاتے ہیں.تو ارباب قادیان چیخ پڑتے ہیں.اول تو غیر احمدی ہم سے وہ سلوک نہیں کرتے جو ہم نے کیا ہے.دوم ہم اس لئے ان سے تنخواہیں نہیں لیتے اور ان کے مذہب کی اشاعت کا عہد کر کے غداری سے اپنے عقائد نہیں پھیلاتے.ہم ان کے مبلغ بن کر ان کی ملازمت کر کے خفیہ تبلیغ نہیں کرتے.
356 اور خیانت اور بد دیانتی نے پیش نہیں آتے.باوجود یکہ ایسا نہیں ہوتا.پھر بھی جب ہم تبلیغ کرتے ہیں.علی الاعلان کرتے ہیں اور دوسروں کے مقابل پر کرتے ہیں اور پھر جو ہم سے بیعت کرنا چاہتا ہے.اس کہتے ہیں.ابھی ٹھہرو اور سمجھو اور لوگوں سے پوچھو.تاکہ بعد میں ٹھو کر نہ کھاؤ.پھر لکھتا ہے " عجیب تریہ کہ جناب میاں صاحب نے اپنے مریدوں میں کہا کہ تین روز تک یہ لوگ مجھ سے جو چاہیں دریافت کر سکتے ہیں.لیکن ہمیں کوئی باقاعدہ اطلاع نہیں دی گئی." یہ بالکل افترا ہے کہ میں نے کوئی ایسا اعلان کیا تھا.جس وقت ان کے فیصلہ کی تجویز ہوئی.تو میری یہی رائے تھی کہ ان کو مہلت دی جائے تاکہ اگر وہ کچھ پوچھنا چاہیں تو پوچھ لیں.مگر دوستوں نے کہا کہ ہم اس وقت ان کے مقدمہ کا فیصلہ کرنے کے لئے بیٹھے ہیں اور ان کے لئے سزا تجویز کرنی ہے ان کو موقعہ دینا یا نہ دینا اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں.ہاں اگر وہ درخواست کریں.تو پھر ان کے لئے کوئی آدمی مقرر کر دیا جائے.ان کی یہ دلیل عقلا درست تھی.اس لئے میں نے ان کی رائے کو تسلیم کیا.یہ تو محفوظ الحق اور اللہ دتا کے متعلق تھا.مہر محمد خان کو بلا کر کہا گیا کہ اگر کچھ پوچھنا ہو تو پوچھ لو اس نے کہا مجھے پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں.میری پوری طرح تسلی ہو چکی ہے.کیا صر محمد خاں بالکل ساکت ہو گیا تھا.اس نے جا کر ان کو نہ کہا ہو گا.اگر کہا ہو گا.تو یہ کیسا جھوٹ ہے کہ ہم کو موقعہ نہیں دیا گیا.جب ان میں سے ایک کو بلا کر کہا گیا کہ ہم آدمی مقرر کر سکتے ہیں.لیکن اس نے انکار کیا اور سمجھنا نہ چاہا.تو یہ کہنا کہ ہمیں موقع نہیں دیا گیا کب درست ہو سکتا ہے.مہر محمد خاں کو مجلس فیصلہ میں بلا کر جب پوچھا گیا کہ کچھ پوچھنا ہے تو اس نے کہا کہ میری پوری تسلی ہو گئی ہے.کہا گیا کہ بعض دفعہ انسان کو فیصلے میں غلطی لگ جاتی ہے پوچھنے کا فائدہ ہو جاتا ہے.اس نے کہا مجھے ہر گز پوچھنے کی حاجت نہیں.میں نے جو فیصلہ کیا ہے.وہ درست ہے.مگر باوجود اس کے کہا جاتا ہے کہ ہمیں بتایا نہیں گیا.اور کون سا طریق ہے جس سے ان کو بتایا جاتا جو فیصلہ سنایا گیا تھا وہ تو سزا کے متعلق تھا.اگر انہوں نے کچھ پوچھنا تھا.تو خود کہتے اگر ہم انکار کرتے تو یہ کہنے کا حق تھا کہ ہمیں موقعہ نہیں دیا گیا.یہ ان کا کام تھا نہ کہ ہمارا.یہ خط شروع سے اخیر تک تمام کا تمام جھوٹ ہی جھوٹ ہے.پھر لکھا ہے.”قادیانی گروہ میں کئی دوسرے لوگ بھی اسی رنگ میں رنگے جاچکے ہیں." یہ بھی محض فریب اور جھوٹ ہے جو ان کے اثر کے نیچے تھے.وہ ہمیں معلوم ہیں.خفیہ سوسائٹیاں بھائی کو بھائی پر شک و شبہ میں ڈالنے کے لئے ہمیشہ ایسا ہی کہا کرتی ہیں.پیغامی ہمیشہ کہتے رہے ہیں کہ
357 قادیان کے بڑے بڑے لوگ ہمارے ساتھ ہیں.خاندان نبوت کے ایک شخص نے ہمارے پاس وصیت کی ہے.اسی طرح یہ کہ قادیان کے کئی لوگ ہمارے ساتھ ہیں.تاکہ ہر ایک کو دوسرے پر شبہ ہو جائے.انسان فورا" بد قلنی کی طرف جھک جاتا ہے اسے معلوم نہیں ہو تا کہ دشمن کا اس سے کیا مطلب ہے اور اس نے کون سا رویہ مد نظر رکھا ہے.بھلا اگر قادیان کے علماء یا دوسرے لوگ بہائی ہیں تو کون سی چیز ہے جو ان کو اس کے اظہار سے روکتی ہے اور چھپانے پر مجبور کرتی ہے.سارے لوگ منافق نہیں ہوتے.اگر کچھ منافق ہوتے ہیں.تو کچھ دیر بھی ہوتے ہیں.ایسے سارے بزدل ہی نہیں ہوتے.کیا بہائیت کوئی ایسی چیز ہے جو انسان کو پرلے درجے کا منافق بنا دیتی ہے.اور چوروں ڈاکوؤں زہر کھلانے والوں کی طرح کا امن پسند بنا دیتی ہے.ایسا لکھنے سے ان کی غرض یہ ہے کہ ہر ایک کو دوسرے پر شبہ ہو جائے.اور محبت قطع ہو جائے.اور تعلقات ٹوٹ جائیں.حالانکہ یہ بات محض جھوٹ ہے.غرض اس خط کے پڑھنے سے مجھے نہایت تعجب ہوا کہ حق کو چھوڑتے ہی انسان کس طرح جھوٹ میں مبتلا ہو جاتا ہے.حفاظت کا نام رکھتا ہے.ڈنڈے والے ادھر سے ادھر لے جاتے تھے.خود بلا کر موقع دیا جاتا ہے مگر کہا جاتا ہے کہ کوئی موقع نہیں دیا گیا مولوی فضل الدین صاحب نے آکر مجھ سے پوچھا کہ محفوظ الحق کہتا ہے ہمارے لئے تین دن پوچھنے کی اجازت کا اعلان ہوا ہے.میں نے کہا کہ نہیں ایسا کوئی اعلان نہیں ہوا.ہاں فیصلہ کی کمیٹی میں یہ ذکر ہوا تھا.مگر فیصلہ یہ ہوا کہ سمجھنا ہو تو وہ خود درخواست دیں..اب اگر وہ کچھ پوچھنا چاہتا ہے تو درخواست دینے پر کوئی آدمی مقرر کیا جا سکتا ہے.لیکن دیکھو قادیان میں وہ خود پچھواتا ہے کہ کیا اعلان ہوا ہے مگر باہر جا کر یہ شائع کرتا ہے کہ ایسا کہا گیا مگر ہمیں اطلاع نہیں دی گئی.الغرض شروع سے لے کر آخر تک منافقت کا پہلو ہی اختیار کیا گیا ہے.پھر عقائد میں سے ایسے عقائد ظاہر کئے اور ایسی طرز سے ظاہر کئے گئے کہ جس سے دوسروں کو معلوم ہو کہ یہ تو ظلما" اور دھوکہ میں نکالدیئے گئے ہیں.یہ تو بڑے اعلیٰ اخلاق والے ہیں.دنیا میں امن و عافیت کے حامی ہیں.اصل غرض اس تحریر کی یہ ہے کہ اب خفیہ کوشش کے لئے غیر احمدیوں یا غیر مبایعین میں کوئی میدان تلاش کیا جائے.اور اس طرح اپنی تبلیغ کی جائے.مگر جھوٹ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا جھوٹ کی بھی حد ہوتی ہے.گذشتہ زمانوں میں باطنیوں اور قرامطہ کی قومیں گزری ہیں.مگر آخر تباہ
358 ہوئیں.سچ اور جھوٹ میں یہ فرق ہوتا ہے کو صداقت سچ کے ساتھ پھیلتی ہے اور جھوٹ جھوٹ کے ساتھ باطل پرست قومیں ہی جھوٹ کی محتاج ہوتی ہیں.دیکھو ہماری ہر جگہ مخالفت ہوتی ہے.مگر ہم علی الاعلان تبلیغ کرتے ہیں.یہ نہیں کہ ان کے اندر خفیہ داخل ہو جائیں اور ان کے ہی عقائد ظاہر کریں.اور جھوٹ بول کر اپنے مذہب کی اشاعت کریں.ہم اسلام کے پابند ہیں.اور آنحضرت صلعم کا قاعدہ تھا کہ رات کو حملہ نہیں کرتے تھے بلکہ صبح کی نماز کے بعد حملہ کرتے تھے.اسی طرح ہم بھی اپنے دشمن پر دن کو حملہ کرتے ہیں.اور لڑتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ اے سجادہ نشینو! علماء پنڈ تو! پادریو! آؤ مقابلہ کر لو ہم تمہارے گھر پر حملہ کرنے لگے ہیں.مگر یہ لوگ چور کی طرح قیام امن کی کوشش کرنے کے بہانے شبخون اور ڈاکہ مارتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں مقابلہ کی طاقت نہیں.علی الاعلان سامنے کھڑے نہیں ہو سکتے یہ وہ فرق ہے.جو سچ کو جھوٹ سے بالکل ممتاز کر دیتا ہے.مگر بہت کم ہیں جو اس بات کو سمجھتے ہیں.تاہم وہ دن آئیں گے کہ جن لوگوں نے اسلام کو تنگ اور تاریک خیالات کا مجموعہ سمجھ رکھا ہے.ان کی غلطی ان پر واضح ہو جائے گی.اور قرآن پر تنگ ظرفی کا الزام دینے والوں کی آنکھیں کھل جائیں گی.قرآن وسیع تعلیم دیتا ہے.آئندہ دنیا کی ضروریات کو صرف اور صرف قرآن ہی پورا کر سکتا ہے.باقی سب خیالات تنگ ناؤ کی مانند ہیں.جو جلد مٹ جائیں گے.الفضل ۱۵ اپریل ۱۹۲۴ء)
359 60 رمضان المبارک کے روزے اور ان کی غرض (فرموده ۱۸ اپریل ۱۹۲۴ء) مشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیت پڑھی و اذا سألك عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوة الداع اذا دعان فليستجيبوالی ولیو منوابی لعلهم يرشدون (البقره (۱۸۷) اور پھر فرمایا.جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں پچھلے پانچ دنوں سے رمضان کا مہینہ شروع ہو گیا ہے یہ وہ مہینہ ہے.جس میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کا نزول ہوتا ہے.اور قرآن شریف جو رمضان سے پہلے نازل ہوتا تھا.وہ رمضان کے مہینے میں دوبارہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا جاتا تھا.رمضان کے روزے بظاہر ان عبادتوں میں سے ایک عبادت ہے.جو اپنے اندر قریبا" قریبا" ظاہری اور جسمانی رنگ نہیں رکھتی ہیں.حج کو لو.اس کے لئے سفر اختیار کیا جاتا ہے.اور حاجیوں کے لئے خاص دعائیں مقرر ہیں.جو وہ حج کو جانے اور حج کرنے میں پڑھتے ہیں.یہ حج کی ظاہری شکل ہے.نماز میں بھی تسبیح و تحمید رکوع سجود قیام قعدہ موجود ہیں.اور ان کی موجودگی کی وجہ سے نماز یہ ظاہری رنگ رکھتی ہے پھر جب سے دنیا کا پتہ تاریخ کے ذریعہ چلتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے.صدقہ و زکوۃ کا مسئلہ بہت پرانا ہے.اور قدیم سے غرباء و مساکین کی امداد کرنے کا طریق چلا آیا ہے.یہ بھی اپنے اندر ظاہری رنگ رکھتا ہے.کیونکہ محتاجوں کی ضروریات ظاہری طور پر پوری کی جاتی ہیں.لیکن روزوں میں کوئی ظاہری بات نہیں.بلکہ ان کا اثر انسان کی طبیعت پر پڑتا ہے.اور اس اثر کے مخفی ہونے کی وجہ سے بعض لوگ روزوں کو سزا خیال کرتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ خدا نے روزے بھوکا پیاسا رکھ کر سزا دینے کے لئے مقرر کئے ہیں.
360 چونکہ روزوں میں کوئی خاص دعائیں نہیں پڑھی جاتیں کوئی خاص کام نہیں کرایا جاتا.اس لئے روزوں کا وقت صبح سے لے کر شام تک کا ان لوگوں کے لئے جو کہ ان کی اصل حقیقت سے نا آشنا ہوتے ہیں.بڑا مشکل گذرتا ہے.اور وہ خیال کرتے ہیں کہ خدا تعالٰی ہم کو بھوکا پیاسا رکھنا چاہتا ہے.اس کے سوا روزہ کی اور کوئی غرض اور فائدہ نہیں ہے.ایک معمولی اور روحانیت سے بے بہرہ انسان کا قلب روزے کی حقیقت کو اس سے زیادہ قبول نہیں کر سکتا.یہی وجہ ہے کہ عام طور پر لوگ روزے کو چٹی خیال کرتے ہیں.حالانکہ حقیقت میں روزہ چٹی نہیں ہے.بلکہ روحانیت اور خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہونے کا بہت بڑا ذریعہ ہے.لیکن اگر اس کی ظاہری حیثیت کو ہی لے لیا جائے جو یہ ہے کہ روزہ نام ہے بھوکے اور پیاسے رہنے اور اپنے جلدی کے کاموں میں بلا وجہ اللہ کے حکم سے تاخیر ڈالنے کا.تو بھی میں کہتا ہوں کہ روزے خدا کی ایک عظیم الشان عبادت ہیں.اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ.کیونکہ روزے کا اگر کوئی بھی فائدہ نہ ہو تو کیا یہ فائدہ کم ہے کہ روزہ رکھنے والا خدا تعالٰی کے لئے بھوکا اور پیاسا رہتا ہے.اور خدا کے لئے اور اس کے حکم کی تعمیل میں بھوکا پیاسا رہنا ہی بڑی عبادت ہے.لیکن روزہ اپنے اندر بڑی بڑی حکمتیں رکھتا ہے.جن میں سے ایک یہ ہے کہ روزے کے ذریعے انسان اپنے جسم کو اس امر کی عادت ڈالتا ہے کہ اگر اس کو کسی وقت خدا تعالیٰ کے راستہ میں نکلنے کا حکم ہو تو.بلا تامل بھوک اور پیاس کی تکلیف کی پروا نہ کرتے ہوئے نکل کھڑا ہو اور خدا کے حکم کو بسر و چشم بجالائے اس کی مثال بعینہ یہ ہے کہ جیسے ایک سپاہی کو تیز رو گھوڑے پر چڑھا دیا جاتا ہے.اور اس کے راستہ میں کئی ایک کھائیاں کھور دی جاتی ہیں اور اس کو کہا جاتا ہے کہ گھوڑا دوڑا کر ان کھائیوں کو عبور کرو.وہ جانتا ہے کہ میری جان کسی دشمن کی وجہ سے خطرے میں نہیں کہ مجھے بھاگنا چاہیئے.وہ جانتا ہے کہ حکومت کو بھی اس وقت کسی بیرونی دشمن کے حملہ کا ڈر نہیں.لیکن باوجود ان تمام باتوں کو جانتے ہوئے.پھر وہ اپنی جان کو خطرے میں ڈالتا ہے.اور ان گہری کھائیوں کو عبور کرتا ہے.کیوں اس لئے کہ اس طرح اس کو مشق کرائی جاتی ہے.تاکہ اس وقت جب کہ اس کے ملک پر کوئی بیرونی دشمن حملہ کرے یا اس کے ملک کو کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنا پڑے تو وہ بہادری اور ہمت سے کام کر سکے.اگر اس کو اس بات کی شروع سے مشق نہ کرائی ہو گی.یعنی اس سے بڑی بڑی کھائیاں عبور نہ کروائی ہوں گی.تکلیف اور مشقت برداشت کرنے کا عادی نہ بنایا ہو گا.تو وہ ضرور ضرورت کے وقت بھاگ جائے گا.اور اگر بھاگے گا نہیں.تو کوئی
361 کارنامہ نہ دکھا سکے گا.کوئی سنجیدہ اور عقلمند انسان اس بات پر اعتراض نہیں کرتا اور نہیں کہتا کہ سپاہیوں سے کلرکوں کا کام لینا چاہئے یا کسی اور کام پر لگانا چاہئے.بے فائدہ ان سے محنت و مشقت کیوں کرائی جاتی اور کیوں ان پر روپیہ صرف کیا جاتا ہے.اگر کوئی بیوقوف یہ کہے.تو اسے جواب دیا جاتا ہے کہ یہ سپاہی خطرے کے مقابلہ کے لئے تیار کئے جاتے ہیں.ان کو دلیر اور جری بنایا جاتا ہے.انہیں تکلیف اور مشقت اٹھانے کا عادی بنایا جاتا ہے.تاکہ آڑے وقت دشمن کا مقابلہ بہادری سے کر سکیں.اور عین لڑائی کے وقت پیٹھ نہ دکھائیں.اسی طرح روزوں کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی راہ میں تکالیف برداشت کرنے کی مشق کرے.اور یہ صاف بات ہے کہ جو شخص بلا وجہ اپنی جان کو خطرے میں ڈالتا ہے.وہ اگر حقیقی وجہ خطرے کی پیدا ہو جائے تو ضرور اپنی جان کو خطرے میں ڈال دے گا.اور اس سے ہر گز دریغ نہ کرے گا.پس اگر یہی فرض کر لیا جائے کہ روزہ صرف بھوکے اور پیاسے رہنے کا نام ہے اور اس میں یہ تکلیفیں انسان کو اٹھانی پڑتی ہیں.تو یہ بطور مشق کے ہیں.اور یہ تھوڑے عرصہ کے لئے ہوتی ہیں.بہ نسبت اس تکلیف کے جبکہ مسلمانوں کو کسی بیرونی دشمن کی وجہ سے بھوکا پیاسا رہنا پڑے.اگر وہ اس کے عادی نہ ہوں گے تو گھبرا جائیں گے.پس جس طرح ایک سپاہی جس کو لڑائی کی پریکٹس نہ کرائی جائے اور لڑائی کے لئے ٹرینڈ نہ کیا جائے وہ لڑائی کو دیکھ کر گھبرا جاتا ہے.اسی طرح اگر مسلمانوں کو روزوں کے ذریعے بھوکا اور پیاسا رہنے کی مشق نہ کرائی جائے تو وہ بھی گھبرا جائیں.اگر یہ کہا جائے کہ سپاہی تو اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کی اس لئے مشق کرتا ہے کہ اس کی حکومت کو دشمنوں کا خطرہ ہوتا ہے لیکن ایک مسلمان کے لئے کون سا خطرہ ہوتا ہے.جس کے لئے وہ اپنی جان کو تکلیف میں ڈالے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر ایک مسلمان کو اسلام کی حفاظت کے لئے روزے کے ذریعہ پریکٹس کرائی جاتی ہے.پس روزہ اسلام کے فرضوں میں سے ایک اہم فرض ہے اور اس فرض کے پورا کرنے کے لئے ہمیں بچوں کو بھی شروع سے تیار کرنا چاہیئے تاکہ وہ بڑے ہو کر روزہ رکھنے سے دل نہ چرائیں.بعض بچے جن کو روزے کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی کہ کیوں ہم بھوکے اور پیاسے رہتے ہیں وہ بڑے ہو کر روزے نہیں رکھتے.لیکن وہ جو روزے کی حقیقت سے خوب واقف ہوتے ہیں کبھی ایسا نہیں کرتے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے لوگ جو روزہ نہیں رکھتے.یہ عذر پیش کر دیتے ہیں کہ چونکہ ہم کو تکلیف ہوتی ہے.اس لئے ہم روزہ نہیں رکھتے.ایسے لوگوں کی مثال بعینہ
362.اس طرح ہے جیسے کوئی زخمی کہے کہ میں ڈاکٹر سے اپریشن اس لئے نہیں کراتا کہ مجھے تکلیف ہوتی ہے یا جس کو بخار ہو وہ کہے میں کونین اس لئے نہیں کھاتا کہ کڑوی ہے.حالانکہ اپریشن کی تکلیف ہی زخم سے گندہ مواد کو خارج کرتی اور کونین کی کڑواہٹ ہی ملیریا کے کیڑوں کو مارتی ہے پس جبکہ روزہ ہے ہی اس لئے کہ تمہارے جسموں کو اس بات کے لئے تیار کیا جائے کہ تم ان تکالیف کو برداشت کر سکو.جو کبھی خدا کے راستہ میں تمہیں برداشت کرنی پڑیں تو پھر یہ کہنا کس قدر نادانی ہے کہ ہم اس لئے روزہ نہیں رکھ سکتے کہ تکلیف ہوتی ہے.اگر اب تم اس قدر بھی تکلیف برداشت نہیں کر سکتے.تو کس طرح امید کی جا سکتی ہے کہ جب کبھی اسلام کے لئے کوئی بڑی تکلیف اٹھانے کا موقع آئے.اس وقت تم اٹھا سکو گے.اگر اس طرح اپنے آپ کو عادی نہ بناؤ گے تو ضرورت کے وقت قطعاً کام نہ آسکو گے.دیکھو کسی بات کے عادی نہ ہونے کا کیا نتیجہ ہوتا ہے اب اگر کسی کو تھوڑے سے فاصلہ پر بھیجا جاتا ہے.تو وہ ٹمٹم تلاش کرنے لگ جاتا ہے.اور بعض دفعہ کہہ دیتا ہے.کہ میں اس وقت اس لئے نہیں جا سکا کہ کوئی ثم تم نہیں ملی.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وقت صحابہ ساتھ ساٹھ میل کا سفر پیدل کرتے تھے.اس وجہ سے میں یہ نہیں کہتا کہ ان میں زیادہ اخلاص تھا اور تم میں کم ہے اور نہ میں نے اخلاص کا مقابلہ کرنے کے لئے یہ بات کہی ہے.بلکہ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تم چونکہ پیدل سفر کرنے کے عادی نہیں ہو.اس لئے نہیں کر سکتے اور وہ چونکہ عادی تھے.اس لئے لمبے لمبے سفر پیدل کیا کرتے تھے.یہی حالت سب کاموں میں ہوتی ہے.جو آدمی بھوک کی تکلیف برداشت کرنے کا عادی نہیں ہوتا.اس کو اگر کہیں فاقہ آ جائے تو گھبرا جاتا ہے.اکثر دفعہ جب میں باہر جاتا ہوں جس کی غرض بالعموم یہ ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو قابل مشقت بنایا جائے تو کچھ ایسے لوگ میرے ساتھ جاتے ہیں جو سفری تکالیف کے عادی نہیں ہوتے جنہیں گھر کی طرح آرام نہیں ملتا.وہ گھبرا جاتے ہیں.اور عادی نہ ہونے کی وجہ سے تکلیف برداشت نہیں کر سکتے.ہاں جو میرے ساتھ سفر میں رہ چکے ہوں.وہ کسی قسم کی گھبراہٹ ظاہر نہیں کرتے.پس رمضان ہم کو عادی بتاتا ہے ایک اہم امر کے لئے اور وہ یہ ہے کہ اگر کوئی موقعہ ایسا آجائے کہ دین کے لئے بھوکا رہنا پڑے.تو ہم چھ چھ ماہ تک بھی بھوکے رہ سکیں.لیکن جو عادی نہیں ہوتے.وہ گھبرا جاتے ہیں.دیکھو جو لوگ بچپن میں نماز کے عادی نہیں ہوتے.وہ بڑے ہو کر نماز کے نام سے بھاگتے ہیں اور اگر نماز پڑہنے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو اس عمدگی سے ادا نہیں کر سکتے.جس طرح بچپن سے پڑہنے والے
363 ادا کر سکتے ہیں میرے لڑکے ناصر احمد کی طرف ایک انگریز کا خط امریکہ سے آیا ہے وہ لکھتا ہے کہ میں نے تمہاری نماز پڑھنے کی تصویر نماز کی کتاب میں دیکھی ہے.مجھے تعجب ہے کہ تم تشہد میں کس طرح بیٹھ سکتے ہو.میں باوجود بہت کوشش کرنے کے نہیں بیٹھ سکتا اب یہ نہیں کہ اس انگریز میں اخلاص کم ہے.اس لئے اس سے بیٹھا نہیں جا سکتا.اس نے تو اپنے اخلاص کا یہاں تک ثبوت دیا کہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر اسلام قبول کیا.نہ اپنی حکومت کی پروا کی ملک اور نہ دوسرے تعلقات کی بات یہ ہے کہ چونکہ اسے تشہد میں بیٹھنے کی عادت نہیں اس لئے نہیں بیٹھ سکتا لیکن ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے گھنٹوں ہمارے ساتھ تشہد میں بیٹھے رہتے ہیں.کیا اس انگریز سے بچے اخلاص میں زیادہ ہوتے ہیں.نہیں بلکہ وہ عادی ہوتے ہیں اور وہ عادی نہیں.تو عادت انسان کو مشکل کاموں کے لئے تیار کر دیتی ہے.اسلام انسان کو قربانی کے لئے تیار کرتا ہے اور روزوں کی ایک غرض یہ بھی ہے.پھر رمضان کی بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس میں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے بہت لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کہا ہے کہ رمضان میں دعائیں قبول کی جاتی ہیں لیکن ہماری دعائیں تو نہیں سنی جاتیں اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ وہ اپنی دعاؤں میں وہ اخلاص پیدا نہیں کرتے جو قبولیت دعا کے لئے شرط ہے اور جسمانی تغیر کے ساتھ وہ روحانی تغیر نہیں کرتے جو دعا کے لئے ضروری ہے.اس لئے ان کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں.اور روح اور جسم کا ایسا تعلق ہے کہ ایک پر دوسرے کا اثر پڑتا ہے.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو زیور پہننے یا ریشمی کپڑا پہننے سے منع فرمایا ہے.کیونکہ یہ ایسی چیزیں ہیں جو جسم میں آسائش اور آرام طلبی کا مادہ پیدا کرتی ہیں.اور اس کا اثر روح پر پڑتا ہے.پھر روزوں کے ایام میں ایک بہت بڑا فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ جو لوگ رمضان سے پہلے تہجد کے لئے نہیں اٹھ سکتے وہ بھی رمضان میں چونکہ سحری کھانے کے لئے اٹھتے ہیں.اس لئے انہیں تسجد پڑہنے کا موقع مل جاتا ہے.حتی کہ بچے بھی روزہ رکھنے کی خوشی میں اٹھ کر دو رکعتیں ہی تجد کی پڑھ لیتے ہیں رمضان کے علاوہ وہی لوگ تہجد کے لئے اٹھتے ہیں جنہیں تہجد پڑہنے میں لذت اور سرور حاصل ہوتا ہے لیکن رمضان میں بڑے چھوٹے سب کو تہجد کا موقعہ مل جاتا ہے.پس رمضان ایک بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ اس میں تہجد کا موقعہ اور دعاؤں کا خاص وقت عام لوگوں کو ملتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی رمضان کے مہینے میں بندوں کی
364 دعاؤں کو سننے کے لئے سماء الدنیا پر آجاتا ہے.اور کہتا ہے اے میرے بندو دعا مانگو میں سنتا ہوں خدا کے سماء الدنیا پر آنے سے مراد یہ نہیں کہ نعوذ باللہ خدا مجسم ہے اور وہ قریب آجاتا ہے بلکہ یہ ہے کہ اخلاص کے لحاظ سے کمزور اور کم طاقت رکھنے والی دعا کو بھی سنتا ہے.دعا میں جس قدر اخلاص ہو گا اسی قدر اس میں زیادہ قوت ہو گی اور وہ زیادہ بلندی تک جا سکے گی.اور جتنی کمزور ہو گی.اتنی نیچی رہے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا یہ مطلب ہے کہ رمضان میں وہ دعائیں جو زیادہ بلندی پر جانے کے قابل نہیں ہوتیں وہ بھی خدا تعالیٰ قبول کر لیتا ہے.دعا مومن کا تیر ہے.جسے وہ چلاتا ہے لکھا ہے کہ کوئی بزرگ تھے.جن کے مکان کے قریب بادشاہ کے وزیر کا مکان تھا.اس کے ہاں ساری رات گانا بجانا اور ناچ ہوتا رہتا تھا.جس سے ہمسائیوں کو تکلیف ہوتی تھی.چونکہ وہ بادشاہ کا درباری تھا.اس لئے کوئی شخص اس کو روکنے کی جرأت نہ کرتا تھا.ایک دن اس بزرگ نے جا کر اس کو کہا کہ آپ کے اس طرز عمل سے ہمسائیوں کو سخت تکلیف ہوتی ہے.اس نے کہا میں تمہاری نیند کے لئے اپنے عیش کو نہیں چھوڑ سکتا جاؤ پولیس میں رپورٹ کرو اس بزرگ نے کہا بہتر ہے کہ تم باز آجاؤ ورنہ میں سہام اللیل یعنی رات کے تیروں سے مدد چاہوں.اس نے پوچھا کہ وہ کیا ہیں؟ بزرگ نے کہا کہ وہ رات کی دعائیں ہیں یہ فقرہ ایسے جوش اور اخلاص سے کہا گیا تھا کہ وہ شخص کانپ گیا اور اس نے توبہ کی کہ میں آئندہ شور و شر نہیں کروں گا.آپ سام الیل نہ چلا ئیں.تو دعا ایک تیر ہے اور تیر جس قدر زور سے چلایا جائے.اتنا ہی دور جاتا ہے.اور اگر آہستہ چھوڑا جائے تو دور نہیں جاتا.قریب ہی گر جاتا ہے.وہ دعا جو پختہ ایمان والے مومن کی ہو گی.وہ چونکہ جوش خشوع اور خضوع سے کی جائے گی.اس لئے وہ اس زور والے میری طرح ہو گی جو بوجہ اپنی تیزی اور زور کے دور تک پہنچتا ہے ایسی دعا عرش تک پہنچ جائے گی اور وہ دعا جو کمزور ایمان والے کی ہوگی.اس تیر کی طرح ہو گی.جو قریب ہی گر جاتا ہے اور یہ دعا سماء الدنیا تک پہنچے گی لیکن رمضان میں یہ بھی قبول ہو جائے گی.سات آسمانوں سے مراد سات درجے ہیں.جس جس درجہ کی کوئی دعا ہوتی ہے.اس اس درجہ کے آسمان پر سنی جاتی ہے.تو دعاؤں کی قسمیں بھی سات ہیں.وہ کمزور ایمان والے لوگ جو اتنی ایمانی طاقت نہیں رکھتے کہ ان کی دعا عرش تک پہنچے.وہ جب رات کے پچھلے پر دعا کرتے ہیں تو خدا اسی کو قبول کر لیتا ہے.یہ مطلب ہے.خدا کے نچلے آسمان پر ہونے کا اور عرش پر ہونے کا یہ مطلب ہے کہ بہت اور الی دعا کو خدا سنتا ہے اور وہ تیر جو زور سے جاتا ہے.اس کو قبول کرتا ہے.ورنہ خدا تو
365 حبل الورید سے بھی زیادہ قریب ہے.وہ لوگ جو دعاؤں کے عادی ہیں اور قبولیت دعا کا مزا پاتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ دعاؤں کے لئے پچھلے پہر کا وقت کیا اچھا وقت ہے.اور اس میں کیسی لذت حاصل ہوتی ہے.اگر دوسرے لوگوں کو اس لذت کا ایک ذرہ بھی کسی طرح چکھایا جا سکتا تو بھی رات کے سونے اور آرام کرنے کو اس لذت کے حاصل کرنے پر قربان کر دیتے بعض نادان رمضان کے روزوں کے متعلق کہتے ہیں کہ سحری کو اٹھنے اور دن بھر بھوکے اور پیاسے رہنے کی کیا ضروت ہے اس میں اس قدر ترمیم کر دینی چاہیئے کہ پیٹ بھر کے نہ کھایا جائے تھوڑا بہت ناشتہ کر لیا مثلاً چائے پی لی یا پھل کھا لیا اور بابی کہتے ہیں کہ دن چڑھے سے روزہ رکھنا چاہئے.لیکن ایسے روزہ کی مثال بعینہ یہ ہے کہ ایک شخص کا ناک کان کاٹ دیئے جائیں.آنکھیں نکال دی جائیں اور پھر کہا جائے کہ یہ انسان ہے.روزہ کی جان اور روح چونکہ سحری کا وقت اور تہجد کا پڑھنا ہے.اس لئے دن چڑھے کھانا کھا کر روزہ رکھنے سے ایسا ہی روزہ ہو گا.جو بے جان ہو گا.اور جس میں روح نہیں ہو گی.سحری کا وقت وہ وقت ہے.جب کہ خدا تعالیٰ سماء الدنیا پر آجاتا ہے.پس اگر روزہ کی یہ روح نکال لی جائے.تو اس کے لاشہ سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے اگر سحری کے وقت انسان نہ اٹھے اور تہجد نہ پڑھے تو بھوکا اور اسا رہنے سے کیا فائدہ.روح کے بغیر جسم ایک مردار شے ہے.اور مردار چیز سے سوائے بدبو اور تعفن کے کچھ حاصل نہیں ہوتا.بیٹا اپنے باپ کی لاش کو عزیز اپنے دوست کی لاش کو.روح کے جسم سے جدا ہو.جدا ہونے پر دفن کر دیتا ہے.کیونکہ اس لاش کا رکھنا مفید نہیں بلکہ سخت مضر ہوتا ہے.اسی طرح اس مردہ روزہ کا رکھنا جس میں روح نہ ہو نہ صرف یہ کہ کوئی فائدہ نہ دے گا.بلکہ الٹا نقصان پہنچائے گا کیونکہ رکھنے والا اس سے مدارج کی ترقی سمجھے گا حالا نکہ وہ اور زیادہ گر رہا ہو گا.اصل روحانی ترقی اسی روزہ سے حاصل ہو سکتی ہے.جس میں روح ہو.اور روح اسی روزہ میں ہے.جو اسلام نے بتایا ہے.جو لوگ روزہ میں ترمیم کرنا چاہتے ہیں وہ تہجد کی لذت سے ناواقف ہیں.روزہ میں ترمیم کرنا کیا نئی شریعت بنا لینا بھی آسان ہے.لیکن نئی حقیقت پیدا کرنا مشکل ہے.تصویر بنا لینی آسان ہے.لیکن تصویر میں جان نہیں ڈالی جا سکتی.اسی طرح روزے بنائے جا سکتے ہیں.اور پیسوں قسم کے بنائے جاسکتے ہیں.لیکن ان میں وہ روح نہیں پیدا کی جا سکتی.جو خدا نے رکھی ہے.اس روح اور جان کو نہیں جانتے.جو خدا نے رمضان میں رکھی ہے.میں اپنے تجربہ کی بنا پر کہتا ہوں کہ اگر وہ لذت اور سرد رجو ایک دفعہ کی تہجد کی نماز میں
366 حاصل ہوتا ہے.اس کا کچھ حصہ ہی بہاء اللہ کو مل جاتا تو وہ ہرگز نیا روزہ نہ بناتا.وہ لذت اور سرور ایسا ہوتا ہے کہ انسان نہیں چاہتا کہ میں ساری رات بستر پر لیٹا رہوں.اور اس لذت سے محروم رہوں وہ اس کے حاصل کرنے کے لئے اپنی نیند اور آرام قربان کر دے گا حتی کہ مرنا قبول کر لے گا.لیکن اس لذت کے حاصل کرنے سے باز نہیں رہے گا.ایسے روزے میں تبدیلی کرنا اپنے آپ کو روحانیت سے بیگانہ ثابت کرنا ہے.روزہ کی یہی روح اور یہی جان ہے جس کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ روزہ کا بدلہ خدا ہوتا ہے.اور یہی خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.واذا سالک عبادی عنی جب میرے بندے سوال کریں کہ ہم نے روزے رکھے.اور ہم بھوکے پیاسے رہے.اب بتاؤ خدا کہاں ہے.تو ان کو کہدو فانی قریب کہ وہ تمہارے روزے رکھنے اور تہجد پڑھنے کی وجہ سے تمہارے قریب ہو چکا ہے اور قریب کی تشریح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمائی ہے.کہ وہ رمضان میں مسملہ الدنیا پر آجاتا ہے پس ان دنوں وہ تمہارے قریب آگیا.تاکہ تمہاری عرض جلدی سے.جب چاہو.تم اس سے ملاقات کر سکتے ہو.آگے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس سے کس طرح ملاقات کر سکتے ہیں.وہ اس طرح کہ جب انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص موجود ہے.لیکن اندھیرا ہونے کی وجہ سے اسے دیکھ نہیں سکتا.تو وہ آواز دیتا ہے کہ تم کدھر ہو.اس پر وہ جواب دیتا ہے کہ میں یہاں ہوں.اسی طرح جب تم خدا تعالیٰ کو پکارو گے اور کہو گے کہ کہاں ہے.تو اجیب دعوة الداع اذا دعان میں پکارنے والے کی پکار کو قبول کروں گا.اور جواب دوں گا کہ میں تمہارے روزے رکھنے کی وجہ سے قریب ہی ہوں.دیکھو اگر تمہارا ایک عزیز بٹالہ بیٹھا ہو.تو تم یہاں سے اسے آواز نہیں دو گے.لیکن اگر تمہارا ایک دوست اندھیرے میں بیٹھا ہو.لیکن تمہیں پتہ نہ ہو کہاں ہے.تو تم اسے آواز دو گے.اسی طرح رمضان چونکہ خدا تعالیٰ کو قریب کر دیتا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ اب مجھے پکارو.میں پکارنے والے کی پکار کو قبول کروں گا.نادان کہتے ہیں.ہماری دعائیں سنی نہیں جاتیں.حالانکہ خدا تعالی فرماتا ہے.جو لوگ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں.مجھے تلاش کرتے ہیں.اور میری جستجو میں سرگردان اور پریشان رہتے ہیں.قسم ہے مجھے اپنی ذات کی کہ وہ ہم کو ضرور پالیتے ہیں چنانچہ دوسری جگہ فرماتا ہے.والذین جهد وافینا لنهدينهم سبلنا (العنكبوت (۷۰) جو مجھے پانے کی کوشش کرتے ہیں.میں انہیں ضرور مل جاتا ہوں.
367 یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جو بچے دل سے ہماری صداقت کی تلاش کرے گا.وہ ضرور پالے گا.پس جب انسان کی پیدائش کی غرض خدا کو ملنا ہے.تو جب وہ اس کے لئے کوشش کرے گا.ضرور اس کو مل جائے گا.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.جب بندہ مجھے پکارے گا.تو میں بھی اسے آواز دوں گا لیکن ملاقات کی شرط یہ ہے کہ بندہ میری اس آواز کی اتباع کرے اور اس کے پیچھے چلے.تاکہ مجھ تک پہنچ سکے.بعض دفعہ انسان آواز تو سنتا ہے.لیکن اس کے پیچھے نہیں چلتا.اس لئے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ منزل مقصود پر نہیں پہنچ سکتا.اس لئے فرمایا.آواز کی اتباع کرنا ملاقات کے لئے ضروری ہے.آگے فرمایا.فلیو منو ابی لعلهم بر شدون اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا تعالٰی کو مانتا ہو.کیونکہ خدا کو پہلے مانے گا تبھی پکارے گا.بلکہ یہ ہے کہ اسے یقین اور توکل ہو کہ میں خدا تک ضرور پہنچ جاؤں گا رشد کے دو معنے ہیں.ایک استقامت (یعنی نہ گرنے والا مقام) دوم ہدایت جب وہ نہ گرنے والے مقام پر پہنچ جائے گا.تو اگر اس وقت تمام لوگ بھی مخالف ہو جائیں.اور سب دکھ دیں.تب بھی اس کا قدم متزلزل نہ ہو گا.اور دنیا کی حکومتیں بھی اس کو اس کی جگہ سے ہلانہ سکیں گی.وہ کبھی یہ نہیں کہے گا کہ فلاں نے میری مدد نہیں کی.یا فلاں مشکل پیش آئی.اس لئے میرا قدم لڑکھڑا گیا.بلکہ ہر قسم کے شدائد کے وقت ثابت قدم رہے گا.یہ کتنی بڑی نعمت ہے.جو خدا تعالٰی نے تم کو رمضان میں دی ہے.تم کہتے ہو کہ لباس پہننے کے لئے چاہیئے.روٹی بھوک دور کرنے کے لئے چاہیئے.مال خرچ کرنے کے لئے چاہیئے.اسی طرح اور بہت کچھ چاہیئے.لیکن میں کہتا ہوں کہ تمہارا مقصد اس خدا کو ملتا ہو.جس نے یہ سب چیزیں پیدا کی ہیں.اگر وہ مل جائے.تو پھر سب کچھ مل گیا.کون نادان ہے جو چشمے کے بدلے ایک گلاس پانی لینے پر راضی ہو جائے گا اور خزانے کے بدلے چند روپے لینے پسند کرے گا.پس جب ہر ایک چیز کا چشمہ اور خزانہ خدا تعالیٰ ہے تو کون کم عقل ہو گا.جو دنیاوی عہدوں اور عزتوں کو خدا اور اس کے رسول کے بدلے لے گا.پس رمضان کے بدلے خدا ملتا ہے.تم لوگ خدا کو پانے کی کوشش کرو.اور وہ اسی طرح کہ اس وقت جب کہ خدا قریب ہوتا ہے.اسے پکارو.اور اس کی آواز کی اتباع کرو اور یقین اور توکل رکھو کہ ضرور خدا کو پا لو گے.ایسا شخص کبھی بھی ناکام نہ ہو گا.جو شخص یہ کہتا ہے کہ اسے خدا نہیں ملا.اسے ہم کہیں گے.اس نے ڈھونڈنے کی کوشش ہی نہیں کی.خدا اپنے قسمی وعدے کو جھوٹا نہیں کر سکتا.یہی ماننا پڑے گا کہ اس شخص کے کوشش کرنے میں کمی رہی.
368 مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے اکثر لوگ رمضان میں خدا تعالیٰ کو پانے کی اس طرح کوشش نہیں کرتے جس طرح کرنی چاہیئے اور وہ دعاؤں میں نہیں لگ جاتے ورنہ لاکھوں احمدی غوث اور قطب ہو جاتے.تم میں سے بہتوں نے ابھی تک وہ رنگ اختیار نہیں کیا.جو خدا تعالیٰ کو پانے والوں کے لئے اختیار کرنا ضروری ہے.اور نہ اس یقین کو تم نے اپنے دل میں پیدا کیا ہے.جس سے خدا کی محبت جوش میں آتی ہے اگر تم ایسا رنگ اور ایسا یقین پیدا کر لیتے تو یقیناً تم روحانیت کے بہت اعلیٰ مقام پر پہنچ جاتے.اور خدا کے جلال کی بتی جلتی ہوئی دیکھتے.افسوس کہ تم نے اس نعمت کی قدر نہ کی.جو تمہارے لئے کھولی گئی اور اس برکت کو حاصل نہ کیا.جو تمہیں مل سکتی ہے.ورنہ اس وقت تک کئی تم میں سے اولیاء اور اقطاب ہوتے.میں سمجھتا ہوں.آپ لوگ ابھی سوتے ہیں اور تمہیں معلوم نہیں.کہ انعام پانے کی کتنی راہیں تمہارے لئے کھل چکی ہیں.اور کتنے ترقی کے سامان تمہارے لے پیدا ہو چکے ہیں.تم میں سے بعض صداقت مسیح موعود کے مسئلہ کے ولائل معلوم ہو جانے پر خوش ہو جاتے ہیں.اور سمجھتے ہیں.ہمیں مسیح موعود کی صداقت پر انشراح صدر ہو گیا.تم میں سے بعض یہی کافی سمجھ لیتے ہیں کہ وفات مسیح کا مسئلہ حل ہو گیا اور کوئی اس میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا.تم میں سے بعض اسی پر پھولے نہیں سماتے کہ ان کی دعائیں بعض دنیاوی امور میں قبول ہوتی ہیں.حالانکہ یہ سب اشارے ہیں خدا تعالیٰ کو ملنے کے لئے.ان کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی طرف راہ نمائی ہوتی ہے.یہ انسانی مقصد نہیں.پھر وہ وقت کب آئے گا جب تم آواز سے خدا کو پکارو گے.اور وہ کہے گا.میں تمہارے ملنے کے لئے قریب ہی ہوں.چاہیئے کہ خدا تعالیٰ کی طرف بڑھو.تاکہ وہ بھی تمہاری طرف بڑھے.خدا تعالی کی سنت یہی ہے کہ ادھر سے بندہ بڑھے اور ادھر سے خدا تعالی بڑھے.خدا تعالیٰ بندہ کی نسبت بہت زیادہ اس کی طرف بڑھتا ہے.لیکن شرط یہ ہے کہ بندہ پہلے بڑھے.کیونکہ خدا کہتا ہے.میرا جلال اور میری عظمت مطالبہ کرتی ہے کہ تم پہلے میری طرف بڑھو.اس کے بعد میری شفقت و محبت اور تمہاری کمزوری مطالبہ کرتی ہے کہ میں بھی آؤں.پس تو ایک قدم آ.تو میں دو قدم آگے بڑھوں گا.اور تو چل کر آ.تو میں دوڑ کر آؤں گا.پس ہماری جماعت کو چاہئے.رمضان کی قدر کرے.اور جان لے کہ دعا ایک آسمانی حربہ ہے.تمہاری یہ دعا ہونی چاہئے کہ خدا کے عاشق بن جاؤ.اور خدا سے خدا ہی کو مانگو یہی تمہارا اصل مقصد ہو.یوں تو تمام چیزیں خدا ہی سے مانگی جاتی ہیں جیسے کہ حدیث میں ہے کہ تسمہ جوتی کا
369 ٹوٹ جائے تو وہ بھی خدا سے مانگ.لیکن مانگنے میں تمہارا سب سے بڑا مقصد خدا کا مانگتا ہو.اور اس کی ملاقات ہو.حضرت صاحب فرماتے ہیں.انبیاء خدا کے صور ہیں.ان کی دعائیں خاص طور پر قبول ہوتی ہیں.اسی طرح جو ان کے جانشین ہوتے ہیں.ان کی دعائیں بھی خصوصیت سے سنی جاتی ہیں.ان سے فائدہ اٹھانا چاہیئے.اور خدا کا قرب حاصل کرنے کے لئے ان سے دعائیں کرانی چاہئیں.کیونکہ یہی تمہارا سب سے بڑا مقصد ہے ابھی تھوڑے دن ہوئے.مجھے بتایا گیا کہ ایک آدمی نے کسی سے کہا.خلیفہ کو دعا کے لئے لکھنے کی کیا ضرورت ہے.لیکن وہ نہیں جانتا کہ جس جگہ خلیفہ بیٹھا ہے.وہ خدا کے فرستادہ کی جگہ ہے پھر یہ وہ مقام ہے.جہاں کئی لوگ خدا کے مقرب ہیں اور اسی کی آواز کو سننے والے ہیں.اور یہاں کی اینٹ اینٹ خدا کے مسیح موعود کی صداقت کی دلیل ہے.دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مارٹن کلارک کے مقدمہ کے وقت مجھے بھی دعا کے لئے کہا تھا.میری عمر اس وقت دس سال کے قریب ہو گی.مجھے دعا کے لئے کہنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ میرے اندر بہت اخلاص تھا.وہ تو بچپن کی عمر تھی.بلکہ اس لئے کہا تھا کہ خدا چھوٹے بڑے نیک و بد سب کی دعا سنتا ہے لیکن جب دس سال کے محمود کو خدا کا نبی دعا کے لئے کہتا ہے.تو کون ہے کہ ۳۵ سال کے محمود کو دعا کے لئے لکھنے سے منع کرنا جائز سمجھتا ہو.جو کوئی یہ خیال رکھتا ہو اس کی یہ نابینائی ہے کو نہ نظری ہے اور اندھا پن ہے جس کا علاج کرانا چاہیئے.اور وہ علاج یہی ہے کہ تم خدا کے حصول کے لئے خود بھی دعاؤں میں لگ جاؤ.اور جو خدا کے مقرب ہیں.ان سے بھی دعائیں کراؤ.اور تمہاری اصل دعا ایک ہی ہو کہ اے خدا ہم تجھے ملنا چاہتے ہیں.تو کہاں ہے.اور اس دعا کو ختم نہ کرو.جب تک کہ ہر شدون نہ سن لو تم سنتے ہو کہ پیچھے قطب اور ولی گذرے ہیں.لیکن اگر تم اس نصیحت پر عمل کرو گے تو یقیناً تمہارے بچے اور عورتیں بھی قطب اور ولی ہو جائیں گی بخاری کتاب الصوم باب اجود ما كان النبي يكون في رمضان ۲ مسلم کتاب اللباس باب تحریم استعمال خاتم الذهب والتحرير على الرجل ۳۰ ترندی و ابن ماجه بروایت مشکوة کتاب الصوم باب قيام شهر رمضان ۴۰ بخاری کتاب الصوم باب انی صائم اذا شتم الفضل ۲۲ اپریل ۱۹۲۴ء)
370 61 (فرموده ۱۸ اپریل ۱۹۲۴ء) پیدائش انسان کی غرض شهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا میں نے پچھلے جمعہ میں اس امر کے متعلق توجہ دلائی تھی کہ رمضان کے فوائد میں سے ایک بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کے اندر خدا تعالٰی نے ایسے اوقات عبادتوں کے لئے رکھ دیئے ہیں.که اگر انسان ان اوقات میں خدا تعالیٰ کی عبادت کامل تذلل اور پورے خشوع و خضوع سے کرے تو یقیناً اپنے محبوب سے مل سکتا ہے.اور اس مقام پر پہنچ سکتا ہے کہ اگر اس مقام سے اس کو تمام دنیا کی حکومتیں مل کر بھی گرانا چاہیں.تو بھی اس کے پائے ثبات کو لغرش نہیں دے سکتیں.یہ وہ مقام ہے جس پر پہنچنے کے بعد اس کو گرنے کا ذرا احتمال نہیں رہتا.اور اس کو خدا کا قرب حاصل ہو جاتا ہے جس سے بڑھ کر دنیا و آخرت کا کوئی انعام نہیں.آج پھر میں اسی مضمون کے دوسرے پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.و ما خلقت الجن والانس الا لیعبدون الدرایت (۵۷) کہ میری جن و انس کے پیدا کرنے سے صرف ایک غرض ہے اور وہ یہ ہے کہ میرے عبد بن جائیں.اور میرا قرب حاصل کرنے کے لئے جو تکالیف ان کو میری راہ میں پیش آئیں.ان کو برداشت کرتے ہوئے ان میں سے بآسانی گذر جائیں اور حرف شکایت زبان پر نہ لائیں.جب کوئی اس طرح کرتا ہے.تب وہ اس بات کا مستحق ہوتا ہے.کہ میرا عبد کہلا سکے.عبودیت کے معنی عربی زبان میں کامل عاجزی اور تذلل کے ہیں.تذلل کہتے ہیں.کسی چیز کا کسی دوسری چیز کے اثر سے متاثر ہونا.اور اس کے نقش کو قبول کرنا.مثلاً انسان نرم مٹی پر ہاتھ مارتا ہے.تو اس پر ہاتھ کا نقش بن جاتا ہے.اس نقش کو عربی زبان میں تذلل کہتے ہیں اور چونکہ
371 گیلی مٹی کسی فاعل کے اثر سے جلدی متاثر ہو کر اس کے نقش کو جو وہ پیدا کرنا چاہتا ہے.قبول کر لیتی ہے.اس لئے جو لوگ اپنا عجز اور انکسار ظاہر کرنا چاہتے ہیں.وہ اپنے آپ کو خاک سے تشبیہہ دیتے ہیں.اور خاکسار کہلاتے ہیں.اس طرح تذلل اور عاجزی کے اظہار کو مد نظر رکھتے ہوئے عربی زبان میں یہ محاورہ ہے کہ تربت یدکی یعنی خاک آلودہ ہوں تیرے ہاتھ.یہ محاورہ عرب لوگ اس وقت بولتے ہیں.جب کسی کی ذلت اور عاجزی ظاہر کرنا یا اس کے استحقار کو ظاہر کرنا منظور ہو.اور اس محاورہ میں مٹی کے لفظ کو لانے کی یہی حکمت ہے کہ مٹی میں جس قدر تذلل اور بجز ہے اور کسی چیز میں نہیں.یہ اپنے اندر کامل تذلل کا سامان رکھتی ہے.اور سامان رکھنے کے ساتھ ہی یہ مختلف قسم کی شکلیں بھی اختیار کر سکتی ہے اگر تم باریک مٹی کو کسی چوڑے برتن میں ڈالو گے تو وہ چوڑی شکل اختیار کرلے گی.اور اگر گول برتن میں ڈالو گے تو گول شکل اختیار کرلے گی.اسی طرح گیلی مٹی کو جن شکلوں میں ڈھالنا چاہو گے وہ ڈھل جائے گی.اور تم اس سے مختلف قسم کے برتن لوٹے پیالے وغیرہ بنا سکتے ہو.اسی طرح اینٹیں بن سکتی ہیں.جن سے تمہارے اعلیٰ درجے کے رہائشی مکان تیار ہوا کرتے ہیں.اس امر کی طرف متوجہ کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کے متعلق فرمایا ہے کہ ہم نے انسان کو مٹی سے بنایا ہے.اور مٹی کے بنانے سے یہ غرض ہے کہ جس طرح مٹی ہر قسم کے اثرات سے متاثر ہو کر اپنے اندر بیسوں قسم کے نقوش جذب کر سکتی ہے.اور وہ اس قابل ہو سکتی ہے کہ مختلف قسم کی شکلیں اختیار کر سکے.اسی طرح بندہ میں خدا تعالٰی نے ایسی طاقت رکھ دی ہے کہ وہ نیکی اور بدی دونوں راہوں پر چل سکتا ہے اور دونوں صفتوں کو اپنے اندر جذب کر سکتا ہے.اگر بندہ کے اندر بدی کو قبول کرنے کا مادہ نہ رکھا جاتا اور یہ فرشتوں کی طرح نیکی ہی پر قادر ہوتا اور بدی کے نزدیک نہ جا سکتا تو یہ ہر گز اس قابل نہ ہوتا کہ اس کو اعلیٰ درجے کے انعام دیئے جائیں.اور نہ ہی اس لائق ہوتا کہ اس کے مدارج کی ترقی ہوتی.پس خدا تعالٰی کا انسان کو بار بار یہ فرمانا کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے دراصل اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ تو مٹی کی طرح اپنے اندر تبدیلی کر سکتا ہے.اور مختلف قسم کے نقوش نیکی اور بدی کے اپنے اندر جذب کر سکتا ہے.اور ان کے اثرات سے متاثر ہو سکتا ہے.باوجود مختلف تاثرات کو قبول کرنے کے پھر ایک خاص صورت اور شکل اختیار کرنے کا حکم دیا.اور فرمایا کہ نیک ہو جا اور میرا عبد بن جا اور ہماری ذات کے عکس کو اپنے اندر جذب کر اور کامل
372 عبد کہلا.کامل عبد وہی ہو سکتا ہے.جس میں دونوں صفتیں موجود ہوں.یعنی جہاں وہ اپنے مالک کی اطاعت کرتا ہو.وہاں اس میں یہ بھی طاقت ہو کہ نافرمانی کرنے پر بھی قادر ہو.اور باوجود نا فرمانی کی طاقت رکھنے کے پھر وہ اپنے مالک کی اطاعت کرے.اور اس کا فرمانبردار ہو.آگے ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ جو کہتا ہے کہ میرے عبد بن جاؤ تو کیا اس عبد کے لفظ کے معنے خدا تعالیٰ کے نزدیک بھی وہی ہیں.جو عرف میں استعمال ہوتے ہیں.اور کیا ان ہی اغراض کو پورا کرنے کے لئے عبد بنے کا حکم دیا ہے.جن اغراض کو پورا کرنے کے لئے ایک آقا ایک غلام کو خریدتا ہے.اور اس سے مختلف کاموں میں اپنا ہاتھ بٹاتا ہے.جیسا کہ بعض اوقات ایک آقا ایک غلام کو اس لئے خریدتا ہے کہ وہ مختلف قسم کے بوجھوں کے اٹھانے میں اپنے آقا کا ہاتھ بٹائے.اور اس کی مدد کرے یا بعض اوقات ایک مالک ایک نوکر اس لئے رکھتا ہے کہ وہ اگر باہر سفر پر جائے یا کسی اور غرض سے گھر سے نکلے تو وہ اس کی عدم موجودگی میں گھر کی حفاظت کرے یا جب وہ سایہ دار درخت کے نیچے آرام کرنے کی خاطر بیٹھ جائے تو نوکر اس کی جگہ ہل چلائے اور اس کے کام میں اس کی مدد کرے.پھر بعض اوقات ایک آقا غلام کو اس لئے خریدتا ہے کہ دشمنوں کے دلوں میں اس کی دہشت بیٹھ جائے اور کسی دشمن کو طاقت نہ ہو کہ وہ اس پر کسی غفلت کے وقت حملہ کر سکے.بسا اوقات ایک آقا ایک غلام کو اس لئے خریدتا ہے کہ وہ آقا کے لئے باڈی گارڈ بننے کا کام دے سکے اور ہر وقت اس کے ساتھ سایہ کی طرح لگا رہے تاکہ کوئی دشمن اس پر کہیں اچانک حملہ نہ کر دے.اور اس کو جان سے نہ مار دے.پھر بعض دفعہ غلام ظاہری شان و شوکت کے دکھلانے کے لئے خریدا جاتا ہے اور جب اس کا آقا بازار میں سیر کے لئے نکلتا ہے تو وہ لوگوں کو راستہ سے ہٹاتا جاتا ہے اور کہتا جاتا ہے کہ راستہ صاف کر دو میرا آقا آتا ہے اور اس طرح لوگوں پر اپنے آقا کی شان و شوکت ظاہر کرتا ہے.لیکن کیا خدا بھی تمہارا محتاج ہے اور تمہیں اس لئے عبد بناتا ہے کہ تم اس کے کاموں میں اس کا ہاتھ بٹاؤ یا اگر وہ باہر سفر کو جائے.تو تم گھر کی حفاظت کرو یا اس لئے کہ تمہارے عبد بننے کی وجہ سے اس کے دشمنوں کے دلوں میں اس کی دہشت اور خوف بیٹھ جائے.یا اس لئے کہ تم اس کے باڈی گارڈ بنو اور اس کے غفلت کے وقتوں میں اس کی اس کے دشمنوں سے حفاظت کرو.یا اس لئے کہ وہ تمہارے ذریعے اپنی شان و شوکت اور جلال ظاہر کرے.ہر گز نہیں، خدا اپنے جلال اور شان و شوکت کے ظاہر کرنے میں تمہارا محتاج نہیں اس کا جلال تو اب بھی اسی طرح ظاہر ہے جس طرح پہلے ظاہر تھا اور جب تم نہ ہو گے تب بھی اسی طرح
373 ہو گا.پس جب وہ ان تمام غرضوں کے پورا کرنے کے لئے تمہیں عبد بنانا نہیں چاہتا تو پھر وہ کون سی غرض ہے جس کے پورا کرنے کے لئے تمہیں کہتا ہے کہ میرے عبد بن جاؤ.اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اس غرض کے لئے تم کو عبد بنانا چاہتا ہے کہ تم اپنے فائدہ کے لئے نیک بنو اور اس کے لئے تذلل اختیار کرو اور اسی کے ہو جاؤ.اسی کی طرف خدا تعالیٰ قرآن شریف میں اشارہ فرماتا ہے کہ تمہاری ائش کی غرض ہی یہ ہے کہ تم میرے عکس کو اپنے اندر جذب کرو اور میری صفات میں رنگین ہو جاؤ تا کہ میرے کہلاؤ اور اس گیلی مٹی کی طرح ہو جاؤ.جس پر آسانی سے قسم قسم کے نقش پڑسکتے ہیں تاکہ تم پر خدا کا عکس پڑے اور اس کی صفات تمہارے اندر منقش ہو جائیں.پرانے زمانہ میں یہ دستور تھا کہ کاغذوں کی قلت کی وجہ سے کتابیں مٹی پر لکھی جاتی تھیں.چنانچہ اب بھی ایسی مٹی کی تختیاں ملتی ہیں.جن پر مختلف کتابیں لکھی ہوئی نہیں.پس تم گیلی مٹی ہو جاؤ.تاکہ تم پر میرے جلال کا عکس پڑے.اور میں تم کو اپنا نشان نینا سکوں اور تم میرے ظہور ہو اور ان لوگوں کے لئے نمونہ بنو جو ابھی تک عبد نہیں بنے.وہ تمہارے اندر میرے نشانات دیکھیں اور میری صفات کو ملاحظہ کریں تاکہ ان کو یہ معلوم ہو کہ جب خدا کے وہ بندے جو اپنے اندر اس کی صفات جذب کئے ہوئے ہیں.اس قدر رحم دل اور شفیق ہوتے ہیں تو وہ خدا کیسا شفیق اور محبت کرنے والا ہو گا جس کے یہ آئینہ ہیں.اسی کی طرف بائبل میں اشارہ ہے کہ انسان کو خدا نے اپنی شکل پر پیدا کیا.(پیدائش) تاکہ خدا اپنے صفات اپنے بندے کے اندر جلوہ گر کرے اور اس کو دوسرے بندوں کے لئے بطور نمونہ ظاہر کرے جس کی وہ تقلید کریں.جب بندہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ لوگوں کے لئے اسوہ حسنہ ہو.تو تمام گناہوں سے نجات پالیتا ہے اور اس کو وہ مقام حاصل ہو جاتا ہے.جس کی طرف قرآن شریف میں خدا تعالیٰ اس طرح اشارہ فرماتا ہے : فادخلی فی عبادی و ادخلی جنتی (الفجر: ۳۱) که چونکہ تو میرا عبد بن گیا ہے اور میری صفات کا جلوہ گاہ ہو گیا ہے.اس لئے اب تو میرے مقام پر کھڑا ہو سکتا ہے اور میرا مقام وہ مقام ہے جس میں کسی قسم کی احتیاج انسان کو دکھ نہیں دیتی نہ بھوک اس کو ستاتی ہے نہ پیاس اس کو تنگ کرتی ہے.اور نہ ہی اس کو فنا ہونے کی خلش دامنگیر ہوتی ہے.اس کے ساتھ کن فیکون کا معالمہ کیا جاتا ہے.جیسا کہ فرمایا لھم مايشاءون فيها ولدينا مزيد (ق : ۳۶) یعنی جو وہ چاہیں گے.ان کو مل جائے میں اور یہی مفہوم کن فیکون کی آیت میں ادا کیا گیا ہے.جو کچھ خدا کہتا ہے ہو جاتا ہے.غرض کہ مرنے کے بعد اس مقام پر پہنچ کر انسان خدا کی
374 صفات کو اپنے اندر لے لیتا ہے اور اس کے رنگ میں رنگین ہو جاتا ہے.کسی قسم کے حوائج کی تکالیف اسکو نہیں ہوتیں.اور نہ ہی اس کو دکھ دیتی ہیں جس طرح کہ خدا کو وہ نہیں ہوتیں.غرض یہ کہ خدا کی صفات بندہ کو جنت میں ملتی ہیں.اس دنیا میں نہیں ملتیں کیونکہ اگر یہاں بندہ خدا کی صفات کو اس طرح ظاہر کرے تو شرک کا ڈر ہے.لیکن چونکہ قیامت میں شرک کا ڈر نہیں ہو گا.اس لئے بندہ خدا کی صفات کا پورا مظہر ہو گا.ہاں خدا اور بندہ میں یہ فرق ہو گا کہ خدا کی صفات ذاتی ہیں.وہ صمد ہے بے نیاز ہے.اس نے کسی اور سے صفات نہیں لیں.لیکن بندہ صمد نہیں.بلکہ محتاج ہے اور اس نے ان صفات کو خدا تعالیٰ سے حاصل کیا ہو گا.اور وہ ہر دم اسی کا محتاج ہو گا.یہ بیان کرنے کے بعد میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا تم خدا سے غنی ہو.اور خدا کے محتاج نہیں ہو.کیا تم نے انسان کی پیدائش کی غرض کو پورا کیا.اور اس کے لئے کوشش کی ہے کہ اخدا کی صفات میں رنگین ہو جاؤ.اس کو حاصل کر لو.اس کے لئے کھڑے ہو جاؤ.اور اس کے حصول کے لئے تڑپتے رہو تم خوش قسمت ہو کہ تم نے خدا کے ایک نبی کو دیکھا اور اس کی صحبت سے فائدہ اٹھایا تمہیں خدا نے وہ نعمت دی جس کے لینے کے لئے دوسری قومیں تڑپتی ہیں لیکن ان کو نہیں ملی 1990 انیس سو سال گذرے کے عیسائیوں نے نبی کی شکل نہیں دیکھی.۳۳ سو سال گذرے کہ یہودیوں نے خدا کے فرستادہ کا چہرہ نہیں دیکھا اور تیرہ سو سال گذرے کہ مسلمانوں نے کسی برگزیدہ کی صحبت سے فائدہ نہیں اٹھایا.اس لئے تم جتنا اس نعمت کے حاصل ہونے پر خوش ہو کم ہے اور جتنی خوشی مناؤ تھوڑی ہے.لیکن تمہارا خوش ہو لینا ہی کافی نہیں.بلکہ تمہیں چاہیئے کہ اس نعمت کی قدر کرو اور اس آفتاب کی روشنی سے فائدہ اٹھاؤ.اگرچہ دوسری قومیں اس آفتاب کے مقابلے میں چمگاڈروں کی حیثیت رکھتی ہیں اور وہ اس نور کی قدرو منزلت نہیں جانتیں.اس لئے اس آفتاب کی روشنی سے چھپنا چاہتی ہیں.کیونکہ ان کی آنکھیں بیمار ہیں.اور ان میں طاقت نہیں کہ اس آفتاب کی روشنی کو دیکھ سکیں لیکن تم نے آفتاب کو دیکھا ہے.اس کی روشنی کو ملاحظہ کیا ہے اس لئے میں تم سے پوچھتا ہوں کہ تم میں سے کتنے ہیں جن کی یہ خواہش ہے کہ ہم نے خدا کو ملنا ہے اور اس کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرتا ہے.افسوس ہے کہ بہت کم لوگ ہیں.جن کی یہ خواہش تو ہے اور پھر وہ بہت کم ہیں جن کی یہ خواہش ہے.مگر وہ اس کے پورا کرنے کے لئے بے چین ہیں.اکثر لوگوں کا وقت غفلت میں گذرتا ہے تم میں سے بہت ہیں جنہوں نے حضرت صاحب کے وعظ اور.
375 لیکچر سنے پھر حضرت خلیفہ اول کے درسوں اور وعظوں میں شامل ہوئے اور پھر میرے خطبے اور درسوں کو سنا ہے لیکن باوجود اس کے تم میں ایسا نمایاں تغیر نہیں آتا جس سے یہ معلوم ہو کہ تم کسی امر کے حاصل کرنے کے لئے دیوانے ہو رہے ہو اور سخت بے چین ہو اور تمہیں ایک منٹ بھی چین نہیں آتا.یہی وجہ ہے کہ تمہاری ترقی کی رفتار بہت سست ہے اور تم میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو کئی قسم کے عیبوں سے ملوث ہیں تم دیکھو گے کہ کئی ایسے ہوں گے جنہیں غیبت کی عادت ہو گی بہت ایسے ہوں گے جنہیں خیانت کی عادت ہو گی کئی ایسے ہوں گے جنہیں جھوٹ کی عادت ہو گی.باوجود ان عادات قبیحہ کے پھر وہ مطمئن ہیں یہ نہیں کہ وہ عادات قبیحہ کو ترک کر دیں اور اپنے اندر ایک نمایاں فرق پیدا کر لیں.اور اس کوشش میں لگے رہیں کہ اپنے آپ کو خدا تعالٰی کی صفات کا جلوہ گاہ بنا ئیں.میں یہ نہیں کہتا کہ فوراً تغیر آجائے.صحابہ میں بھی تغیر فوراً نہیں ہوا تھا.بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ بے اطمینانی اور بے چینی کا پیدا ہونا اصلاح کے لئے نہایت ضروری ہے.اور مومن کو اپنی اصلاح کے لئے ہر وقت کوشاں رہنا چاہیئے.دیکھو کڑوی دوا انسان کی طبیعت میں گھبراہٹ پیدا کر دیتی ہے.لیکن وہی کڑواہٹ بیماری کو دور کر دیتی ہے.بیماروں کو بحران پڑتا ہے.جس کے متعلق طبیب کہتے ہیں کہ یا تو بیمار مر گیا یا بچ گیا پس اس وقت بیمار کی بے چینی اس کی حالت کو اکثر اوقات اچھا بنا دیتی ہے.اور وہ تندرست ہو جاتا ہے.تم میں خدا تعالیٰ کو پانے کے لئے بے چینی بے اطمینانی اور گھبراہٹ پیدا ہو جانی چاہیئے.تاکہ تمہارا علاج جلدی ہو سکے.اور تمہیں جلد شفا حاصل ہو جائے.وہ مریض کیسے شفا پا سکتا ہے جو یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ بیمار ہے اور اگر اس کو لوگ کہتے ہیں کہ تم اپنا علاج کرو تاکہ تم تندرست ہو جاؤ.تو وہ ڈانٹ کر جواب دیتا ہے کہ تم غلط کہتے ہو.میں تندرست ہوں.ایسے مریض کا جانبر ہونا نہایت ہی مشکل ہے.ڈاکٹر کو وہی مریض تلاش کرے گا جسے اپنے بیمار ہونے کا احساس ہو گا اور اپنی بیماری کے متعلق جس کو بے چینی اور بے اطمینانی ہوگی.پس تم اپنے اندر بے اطمینانی اور بے چینی پیدا کرو.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں نے تم کو کتنے ہی خطبے ایسے سنائے ہیں کہ اگر تم ان پر عمل کرتے اور تم میں ان پر کاربند ہونے کی گھبراہٹ ہوتی تو تم ضرور اپنی کمزوریوں کا علاج کر لیتے اور اپنے غرض کو حاصل کر لیتے.لیکن افسوس کہ تم میں سے بہتوں نے ان خطبوں ان وعظوں ان
376 لیکچروں کو کانوں سے سنا لیکن قلب میں جگہ نہ دی.وعظوں کے سننے کے بعد اٹھ کر چلے گئے.اور ایسے ہو گئے کہ گویا کچھ سنا ہی نہیں.اور نہ ہی کبھی ان پر عمل کرنے کی کوشش کی میں کہتا ہوں کہ ایسے وعظوں اور لیکچروں کے سننے سے کیا فائدہ.لیکچروں اور وعظوں کے سننے کی غرض تو ان نصائح پر عمل کرنا ہوتی ہے.جو ان میں بتلائی جاتی ہیں.اور جب تک انسان ان نصائح پر عمل کر کے اپنے اندر ایسا تغیر نہ پیدا کرلے کہ جس سے وہ دنیا ہی میں خدا تعالیٰ سے ملاقات حاصل کرلے اور اس کے نورانی چہرہ کو دیکھ لے.اور اس سے مل جائے.تب تک اس کے لئے مرجانے کی جگہ ہے.تم میں سے بہت ہیں جو اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ ان کو صداقت مسیح موعود کے مسئلہ کے دلائل معلوم ہو گئے.اور سمجھتے ہیں کہ مسیح موعود کی صداقت پر ہمارا انشراح صدر ہو گیا.تم میں سے بعض یہی کافی سمجھ لیتے ہیں کہ وفات مسیح کا مسئلہ ہم نے ایسا حل کر لیا ہے کہ اور کوئی اس میں ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا تم میں سے بعض اس پر پھولے نہیں سماتے کہ ہم کو قرآن کے متعلق علوم و - فنون پر کافی اطلاع ہے.اور اس میں ہمارا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.تم میں سے بہت ہیں.جو اس بات پر شاد ہیں کہ ہم بڑے اچھے مناظر ہیں.ہمارا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.یا ہم بڑے اچھے مولوی ہیں ہم سے بڑھ کر کوئی نہیں.لیکن میں کہتا ہوں.سب سے بڑے مولوی ہونے سے تم خدا تک نہیں پہنچ سکے.اور نہ ہی تم اس کی ملاقات حاصل کر سکتے ہو.تمہاری کتابیں اور تمہارا علم تم کو خدا تک پہنچانے سے قاصر ہے.ہاں اگر کوئی چیز تم کو خدا تک پہنچا سکتی ہے تو وہ ایک ہی چیز ہے اور وہ خدا تعالیٰ کو پانے کے لئے بے چینی گھبراہٹ اور بے اطمینانی ہے.اگر تم نے اس بے اطمینانی اور گھبراہٹ کو اپنے اندر پیدا نہیں کیا.جس کے ذریعہ تمہارا جوڑ خدا تعالٰی سے ہو جائے تو میں کہتا ہوں تم نے کچھ بھی نہ کیا.تم اپنے اندر اس بے اطمینانی اور بے چینی کو ظاہر کرو اور اس کے پورا کرنے میں کوشاں رہو اور اس دن کے لئے تیاری کرو.جبکہ تم رب العزت کے سامنے پیش کئے جاؤ گے.پس قبل اس کے کہ تم اس کے سامنے پیش ہو.اور تم سے تمہارے اعمال کی نسبت باز پرس کی جائے اپنے اخلاق درست کرو.کیونکہ یہی سیڑھی خدا تک پہنچنے کی ہے.میں اپنی واقفیت کی بنا پر کہتا ہوں کہ میں نے خدا کی صفات خوشنودی اور غضب کو دیکھا ہے.اور معلوم کر لیا ہے کہ اخلاق کی درستی اور ان کا سنوارنا خدا تعالیٰ کے حصول کے لئے ایک لابدی امر ہے.اور مجھ پر یہ ظاہر ہو گیا ہے کہ بد اخلاقی ایک نجاست ہے جو خدا تعالیٰ سے دور پھینک دیتی ہے کیا تم اپنے بدن پر نجاست کے ہوتے ہوئے بادشاہ کے سامنے جا سکتے ہو کیا کوئی تم میں سے نجاست کے ٹوکرے کو سرپر
377 اٹھا کر بادشاہ کے حضور جا سکتا ہے ہرگز نہیں پھر تم بد اخلاقی کی نجاست سے ملوث ہوتے ہوئے کس طرح رب الکائنات کے دربار میں حاضر ہو سکتے ہو.پس تم اگر چاہتے ہو کہ اس رب الکائنات کے دربار میں باریابی حاصل کرو.تو اس کے لئے تم کو اخلاق فاضلہ کا حاصل کرنا اور مختلف اوقات میں اپنے جوشوں کو دیانا اور اپنی زبان کو لگام میں رکھنا پڑے گا تمہیں اپنے نفسوں کو خدا کے لئے قربان کرنا پڑے گا مخلوق خدا کی ہمدردی میں ہر وقت کوشاں رہنا ہو گا.اور تمہیں اپنے اندر ایک نمایاں تغیر پیدا کرنا ہو گا تب تم کافر کی قبر کی بجائے مومن کی قبر میں ڈالے جاؤ گے اور تمہارے لئے ایک کھڑ کی جنت کی طرف کھولی جائے گی تاکہ تم اس کی خوشبوؤں سے اپنے دل کو خوش کرو.بعض نادان اخلاق فاضلہ کو ہی غرض و غایت ٹھرا لیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ اخلاق فاضلہ ہی انسان کا مقصد اعظم ہے اور یہی کامیابی کی کلید ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ اخلاق فاضلہ ہرگز انسان کی پیدائش کی غرض و غایت نہیں ہیں بلکہ انسانی پیدائش کی غرض و غایت خدا کو حاصل کرنا اور اس کا قرب پانا ہے اور اخلاق تو صرف خدا تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہیں.انہیں سنوارنے اور درست کرنے سے ہم خدا تک پہنچ سکتے ہیں.اور یہ خدا کے حاصل کرنے میں ایک سیڑھی کا کام دے سکتے ہیں.لیکن یہ ہمارے اصل مقصود نہیں.اگر بفرض محال تھوڑی دیر کے لئے یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ اخلاق فاضلہ کا حاصل کرنا انسان کی پیدائش کی غرض و غایت ہے تو ہم کو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہر ایک وہ شخص جو اخلاق فاضلہ اختیار کئے ہوئے ہو.خدا کا مقرب اور اس کا محبوب ہے.حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.عیسائی لوگ اپنے اندر ایک حد تک اخلاق فاضلہ رکھتے ہیں.تو کیا اس سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ وہ خدا رسیدہ ہیں اور خدا کو ان سے محبت ہے.اور وہ خدا سے محبت کرتے ہیں.بسا اوقات ایک آدمی جو اپنے خلق کی وجہ سے نہایت شریف اور سنجیدہ معلوم ہوتا ہے.خدا کی درگاہ سے راندہ ہوا ہوتا ہے.اور اس قابل نہیں ہوتا کہ خدا تعالٰی اس کو زمرہ صلحا میں داخل کرے.پس یہ تو درست ہے کہ اخلاق فاضلہ خدا تعالیٰ تک پہنچانے کا ایک ذریعہ ہیں جو انسانی زندگی کا اصل مدعا اور مقصد ہے لیکن یہ درست نہیں کہ وہ خود مستقل انسانی زندگی کی غرض و غایت ہیں.اس کی مثال بعینہ اس طرح ہے جیسے انٹرینس.ایف اے اور بی اے اور ایم اے تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے.اور اسے پاس کرنے کے بعد طلباء بی اے اور ایم اے کے امتحانات پاس کر کے ڈگریاں حاصل کر لیتے ہیں.اسی طرح اخلاق فاضلہ بمنزلہ انٹرفیس ہیں.ان کے اختیار کرنے کے بعد خدا کا حصول اور قرب
378 انسان حاصل کر سکتا ہے.تو اخلاق فاضلہ صرف خدا تک پہنچانے کا ایک ذریعہ ہیں.اور ایک بلندی پر پہنچنے کے لئے بمنزلہ سیڑھی ہیں.پس تم اس بلندی پر پہنچنے کے لئے اور اپنے محبوب کو حاصل کرنے کے لیئے اخلاق فاضلہ اختیار کرو.تاکہ اس تک تم پہنچ سکو.میں افسوس سے کہتا ہوں کہ کتنے تم میں سے ایسے ہیں جو اپنی کمزوری کی وجہ سے ذرا سی مشکل کے پیش آنے پر احمدیت سے ہی انکار کر بیٹھتے ہیں.اور غصے میں کئی ایک ایسے فقرے ان کی زبان سے نکل جاتے ہیں جو نہ صرف خدا کے پہنچنے میں روک کا کام دیتے ہیں بلکہ وہ انسانیت کی حد سے بھی گرے ہوئے ہوتے ہیں.سو میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر تم خدا کی صفات کو اپنے اندر جذب کرنا چاہتے ہو تو پہلے اپنے اندر ایک نمایاں تغیر پیدا کرو.اور اخلاق فاضلہ اختیار کرو.تاکہ تم آسانی سے اس کی صفات کو اپنے اندر جذب کر سکو.خدا ہم سب کو اخلاق فاضلہ حاصل کرنے کی توفیق دے.اور اس زیست کے پانے کی توفیق دے جو ہمیں مرنے کے بعد ملے گی.اور خدا ہمارے اندر ایسے تغیرات پیدا کر دے کہ ہم اس کی صفات کو آسانی سے اپنے اندر جذب کر سکیں آمین الفضل ۲ مئی ۱۹۲۴ء)
379 62 (فرموده ۲۵ اپریل ۱۹۲۴ء) نیا آسمان اور نئی زمین پیدا کرنا مشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے اس آیت کی تلاوت فرمائی وقالوا اتخذ الرحمن ولد القد جئتم شيئا اداه تكاد السموات يتفطرن منه و تنشق الارض و تخر الجبال هذا ان دعو اللرحمن ولد او ما ينبغى للرحمن ان يتخد و لدا: (سورة مريم ۸۹ تا (۹۳ فرمایا.بہت سی باتیں دنیا میں ایسی ہیں جو جہالت اور نادانی کی وجہ سے انسان کی سمجھ میں نہیں آتیں اور بعض ایسی ہوتی ہیں.جو انسانی عقل سے بالا ہوتی ہیں.اور عام لوگ بوجہ ناواقفیت یا روحانیت کی کمی کے ان کو نہیں سمجھ سکتے.اور اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں.ایسے اعتراض کرنے والے عموماً وہی لوگ ہوتے ہیں.جو روحانیت سے گرے ہوئے ہوتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہی لوگوں میں سے مسیح موعود کے زمانہ کے علماء کو قرار دیا ہے.اور فرمایا ہے کہ علماء بدترین مخلوقات میں سے ہوں گے.اور ان کی شرارت حد سے بڑھی ہوئی ہو گی.یہاں تک کہ آپ نے ان کو اشرالناس کا خطاب دیا.اور دابتہ الارض فرمایا ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ ان کے سطحی خیالات ہوں گے اور روحانیت سے بالکل عاری ہوں گے وہ عالم کہلائیں گے لیکن در حقیقت جاہل ہوں گے وہ ہدایت یافتہ سمجھے جائیں گے لیکن اصل میں گمراہ ہوں گے.اور ان کی گمراہی نہ صرف ان کے نفسوں تک ہی محدود ہو گی بلکہ وہ اوروں کو بھی گمراہ کریں گے اور ان کے سردار بن جائیں گے وہ ظاہر میں تو عالم ہوں گے انہوں نے منطقی اصطلاحوں کو رٹا ہوا ہو گا.وہ فلسفے کے حافظ ہوں گے اور تقریر کرنے میں بڑے طرار ہوں گے لیکن اصل علم ان کے پاس نہ ہو گا یعنی وہ علم جس کے ہونے کی وجہ سے قرآنی اصطلاح کی رو سے ایک شخص عالم کہلاتا
380 ہے.اور جس کے نہ ہونے کی وجہ سے ایک شخص جاہل کہلاتا ہے.وہ ان کے پاس نہ ہو گا.قرآنی اصطلاح میں جاہل اس کا نام نہیں.جو منطق و فلسفہ کی اصطلاحات نہ جانتا ہو.اور نہ ہی قرآنی اصطلاح کی رو سے اس شخص کو جاہل کہا جاتا ہے.جو قرآن اور حدیث کی عربی عبارت کو اچھی طرح نہ پڑھ سکے.بلکہ قرآنی اصطلاح میں عالم اس کو کہتے ہیں.جو دین کی سمجھ اور خدا کا قرب اور اس کا عرفان رکھتا ہو اور جو خدا کی درگاہ سے دور ہو اسے جاہل کہتے ہیں.اسی قرآن کے اصطلاحی علم کی تعریف کے ماتحت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ کے لوگ عالم اور جاہل کہلاتے تھے اور یہی قرآنی علم اس وقت عالم اور جاہل کے درمیان فرق کرنے کا ذریعہ تھا.نہ کہ وہ علم جو آج کل مروج ہیں.اور اگر آج کل کے علوم مروجہ کو اس وقت کے لوگوں کے لئے معیار علم بنائیں.تو بڑے بڑے جید صحابہ جاہل ٹھہریں گے.کیونکہ یہ علوم مروجہ اس وقت نہ تھے.کیا کوئی شخص یہ ثابت کر سکتا ہے کہ منطق و فلسفہ آنحضرت کے وقت موجود تھا اور آنحضرت اور ابو بکڑ نے منطق پڑھی تھی.اور آپ منطقی اصطلاحات کو خوب جانتے تھے.ہرگز نہیں.کیونکہ یہ تمام علوم بعد کے ہیں یہ صحابہ کے وقت میں مروج نہ تھے.منطق و فلسفہ تیسری صدی میں یونانی سے ترجمہ ہوا ہے.کیا اس وقت اگر حضرت ابو بکڑ سے کوئی منطقی اصطلاح پوچھی جاتی.تو آپ اس کا جواب دے سکتے اور سائل کی تسلی کر سکتے.یا اگر عربی کے لفظ کے وہ زائد معنے جو بعد میں رواج پکڑ گئے ہیں.آپ سے پوچھے جاتے تو آپ بتا دیتے پھر کیا حضرت ابو ہریرہ سے اگر کوئی پوچھتا کہ ابو ہریرہ بتاؤ کہ حسن حدیث کون سی ہوتی ہے اور مرفوع کون سی؟ تو کیا وہ اس کا جواب دے کر اس کی تسلی کر دیتے ہرگز نہیں.وہ سائل کے جواب میں یہی کہتے کہ میں حسن اور مرفوع نہیں جانتا میں یہ جانتا ہوں کہ میں نے یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے.حضرت ابو ہریرہ کے نہ بتلانے کی وجہ یہی ہوگی کہ اس وقت یہ قسمیں نہ قرار پائی تھیں.آج بھی بہت سے لوگ اس علم سے ناواقف ہیں.چنانچہ اگر یہ کہا جائے کہ مرفوع متصل حدیث کون سی ہوتی ہے.تو کئی حیران ہو جائیں گے اور جواب نہ دے سکیں گے لیکن اگر مرفوع متصل کی تعریف بتا دی جائے اور کہا جاوے کہ وہ حدیث ہوتی ہے.جس کا کوئی راوی چھٹا ہوا نہ ہو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک روایت کا سلسلہ پہنچے.تو اس کا کوئی انکار نہ کرے گا اور ان پڑھ سے ان پڑھ بھی سمجھ لے گا.حالانکہ یہ وہی تعریف ہے.جو مرفوع متصل کے الفاظ میں مجملاً رکھی گئی ہے.پس علم کیا ہے.صرف چند اصطلاحوں کا نام ہے.ان
381 کے جاننے والے کو عالم اور نہ جانے والے کو جاہل کہتے ہیں.مگر قرآنی اصطلاح کی رو سے ہم اس کو عالم کہیں گے.جو خدا کا مقرب ہو اور اس کو اس کا عرفان حاصل ہو.اس تعریف کی بناء پر ہم حضرت ابو بکر کو لبید سے عالم کہیں گے.حالانکہ ظاہری اصطلاحی علم کی رو سے لبید عالم ہے اور ابو بکر جاہل.پس آخری زمانہ کے علماء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تعریف کی رو سے جاہل ہوں گے باوجود عالم کہلانے کے وہ قرآن کو پڑھیں گے.لیکن قرآن ان کے حلقوں سے نیچے نہ اترے گا.وہ قرآن کے حافظ کہلائیں گے.لیکن قرآن کے مغز اور قسم سے ناواقف ہوں گے.قرآن کریم کے فہم اور مغز سے ناواقف ہونے کی وجہ سے اس زمانہ کے ایسے علماء نے اس عظیم الشان پیش گوئی کا انکار کر دیا.جو حضرت مسیح موعود کے وجود باجود سے پوری ہوئی.اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ میں نے کشف میں دیکھا کہ میں خدا ہوں.اور پھر میں نے زمین و آسمان کے پیدا کرنے کا ارادہ کیا.اس پر نئی زمین اور نیا آسمان بنایا.آج عالم کہلانے والے اس کشف کو پڑھ کر کہتے ہیں کہ مرزا صاحب مشرک تھے.وہ خدائی کا دعویٰ کرتے تھے.حالانکہ حضرت مسیح موعود نے کشف بیان کر کے قرآن کریم کی ایک عظیم الشان پیش گوئی کی طرف اشارہ فرمایا ہے.اور اگر آپ کو یہ کشف نہ ہوتا تو گویا یہ پیش گوئی پوری نہ ہوتی.وہ پیش گوئی یہ ہے: خدا تعالیٰ فرماتا ہے : وقالوا اتخذ الرحمن ولدا کہ ایک فرقہ آخری زمانہ میں ایسا ہو گا جو یہ کہے گا کہ رحمن کا بیٹا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.لقد جئتم شیئا ادا کہ یہ ان کا مشرکانہ عقیدہ ہے جو اس زمانہ میں اس قدر پھیل جائے گا.تکاد السموات يتفطرن مند و تنشق الارض و تخر الجبال ہذا اس کے پھیلنے کی وجہ سے قریب ہو گا کہ زمین اور آسمان پھٹ جائیں.اور پہاڑ آواز دیتے ہوئے گر جائیں.کیونکہ اس باطل عقیدہ کے پھیلنے کی وجہ سے روحانیت کے تمام راستے مٹ جائیں گے.وہ زمین کہ جس پر خدا کی عبادت کی جاتی تھی.اور وہ آسمان جو کہ رحمتوں کو نازل کرتا تھا.اور وہ دین کے بڑے بڑے جید عالم جو وقتاً فوقتا دین کو اپنے علم سے مدد پہنچایا کرتے تھے قریب ہو گا کہ ! آسمان اور زمین ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں اور علماء فوت ہو جائیں.کیونکہ نظام عالم توحید سے قائم ہے اور اس میں توحید ہی کا جلوہ ہے.اگر توحید نکال لی جائے تو نہ صرف یہ کہ زمین و آسمان پھٹ جائیں بلکہ نظام عالم تہ و بالا ہو جائے اور دنیا کا کچھ باقی نہ رہے.
382 توحید جڑ ہے اور توحید ہی ہے جس کی کہ تمام انبیاء حضرات آدم سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیه و آله و سلم تک تاکید کرتے آئے ہیں.اور ان کی بعثت کی غرض ہی توحید منوانا تھی.ان کا اپنے آپ کو منوانا صرف اسی لئے تھا کہ وہ توحید لائے تھے وہ صدقات اور زکوۃ کی اس وجہ سے تاکید کرتے تھے.اور ان کو فرض بتلاتے تھے کہ خدا تعالیٰ کے قریب کرنے کا ایک ذریعہ ہیں اور اس کے حاصل کرنے میں مدد گار ہیں.اسی طرح اگر وہ اخلاق فاضلہ کا حکم دیتے تھے.تو وہ بھی اسی غرض سے کہ خدائے واحد کے پیدا کردہ بندے دوسروں کو دکھ نہیں دیتے اور جانتے ہیں کہ یہ سب ہمارے بھائی ہیں.پس خواہ مذہب کو لو.یا اخلاق فاضلہ کو لو.صدقہ و زکوۃ کو لو کوئی بات ان میں سے خود مقصود نہیں بلکہ ان سب کا اصل مقصد توحید ہی ہے جو ان سب کی جڑ ہے اور اسی سے نظام عالم قائم ہے کیونکہ اگر خدا کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے اور اس کا بیٹا تصور کر لیا جائے تو نظام عالم میں گڑ بڑ پیدا ہو جائے.اسی نظام عالم کی ابتری کی طرف قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نے بطور پیش گوئی اشارہ فرمایا ہے.کہ آخری زمانہ میں عیسائیت کی ترقی ہو جائے گی اور ابن اللہ کا عقیدہ یہاں تک پھیل جائے گا اور ترقی کر جائے گا کہ گویا خدا تعالیٰ کی توحید مٹ جائے گی اور نہ صرف توحید ہی نہ مٹے گی.بلکہ وہ زمین جس پر عبادت کی جاتی تھی.اور وہ آسمان جو کہ برکتوں اور رحمتوں کو بنی نوع انسان پر نازل کرتا تھا.قریب ہو گا کہ پھٹ جائے اور علمائے دین فوت ہو جائیں گے.اس وقت ایسا وجود ظاہر ہو گا جو زمین اور آسمان کو پھٹنے سے بچائے گا اور ان کو ان کی جگہ پر دوبارہ قائم کرے گا اور وہ وہی مریمی صفت عیسی ہو گا جو ولدیت کے مسئلہ کو باطل کر دے گا اور وہ وہی ہو گا.جو کہے گا کہ محلہ خان یار میں عیسی کی قبر ہے اور میں اس عیسی سے افضل ہوں جسے اے عیسائیو! تم خدا اور ابن اللہ کہتے ہو.پس یہ پیش گوئی بڑی صفائی سے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ پوری ہو گئی اور ایک ایسا وجود پیدا ہو گیا اور ایسا سامان خدا کی طرف سے کیا گیا کہ جس نے ان روحانی زمین اور آسمانوں اور پہاڑوں کو پھٹنے اور ٹکڑے ہونے سے بچا لیا.یہ پھٹنے کے قریب تھی لیکن اس کے وجود نے ان کو پھٹنے نہ دیا.اور ان کو دوبارہ نئے سرے سے قائم کیا.گویا آپ نے زمین اور آسمان ہی نیا پیدا کیا.دیکھو ایک قریب المرگ آدمی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ چند منٹ تک مرجائے گا لیکن جب وہ بچ جاتا ہے تو تم کہتے ہو کہ اس نے دوبارہ زندگی پائی.اور ایسے موقع پر
383 ہر زبان میں یہی کہا جاتا ہے.اسی طرح چونکہ زمین اور آسمان پھٹنے کے قریب پہنچ گئے تھے.کیونکہ خدا نے جو یہ فرمایا ہے کہ ایک انسان کو خدا کا بیٹا کہنے سے قریب ہے کہ زمین اور آسمان پھٹ جائیں تو یہ نہیں کہ خدا نے یونسی کہہ دیا.بلکہ فی الواقعہ ایسی ہی حالت ہو گئی تھی.لیکن ان کے پھٹنے سے پہلے خدا نے مریمی صفت انسان کو بھیجا تاکہ وہ اہنیت کے مسئلہ کو باطل کر کے روحانی زمین اور آسمان اور پہاڑوں کو دوبارہ قائم کرے.اس آیت میں جسمانی اور مادی زمین و آسمان مراد نہیں ہیں اور نہ مادی پہاڑ مراد ہو سکتے ہیں کیونکہ ان کا تعلق عیسائیوں سے جو مسیح کو ابن اللہ کہتے ہیں.بتایا گیا ہے اور عیسائیوں نے اپنے علوم اور سائنس کے ذریعہ مادی زمین و آسمان اور پہاڑوں کو اور زیادہ ترقی دی ہے.پس اس آیت میں مادی زمین و آسمان اور پہاڑ مراد نہیں ہو سکتے.یہ ایک پیش گوئی اور پیش گوئی میں استعارے اور کنائے استعمال ہوتے ہیں.یہ روحانی زمین اور آسمان اور پہاڑ مراد ہیں.اور اس میں کیا شک ہے کہ یہ روحانی زمین اور آسمان پھٹنے کے قریب تھے.لیکن ایسا سامان پیدا ہو گیا جس نے ان کو ان کی جگہ پر دوبارہ قائم کر دیا.اور حضرت مسیح موعود کا ایسا وجود آ گیا جس نے براہین اور دلائل سے ثابت کر دیا کہ مسیح جسے عیسائی خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں.مرگیا ہے اور میں اس سے افضل ہوں.تب روحانی زمین آسمان اپنی جگہ پر دوبارہ قائم ہوئے.اور ایسا معلوم ہوا کہ گویا دوبارہ بنائے گئے ہیں.یہی مطلب ہے اس کشف کا جس میں حضرت صاحب لکھتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ میں خدا ہوں اور پھر میں نے زمین اور آسمان کے پیدا کرنے کا ارادہ کیا اور ان کو بنایا.۲۰ یہ ایک کشف ہے اور قابل تعبیر ہے.جیسے کہ سارے کشف اور رویا قابل تعبیر ہوتے ہیں.چنانچہ تعطیر الا نام جو کئی سو سال کی کتاب ہے اور جس میں بڑے بڑے بزرگوں کی خوابوں کی بناء پر تعبیریں جمع کی گئی ہیں.اس میں لکھا ہے کہ جو شخص خواب میں یہ دیکھے کہ میں خدا ہو گیا ہوں تو اس کی یہ تعبیر ہوتی ہے کہ خدا اس کو مل گیا اور وہ صراط مستقیم پر چل رہا ہے.یہ تعبیر اس کتاب میں لکھی ہے.جو ان علماء سے کئی سو سال پہلے کی ہے پس کشف میں مسیح موعود کے خدا ہونے کے یہ معنے ہوئے کہ اس زمانہ کے تمام لوگ گمراہ تھے صرف حضرت صاحب ہدایت یافتہ تھے.اور آپ ہی توحید پر قائم تھے.پھر آپ نے اس توحید کو جو خدا نے آپ کو دی تھی.دنیا میں پھیلایا.اور روحانی زمین و آسمان اور پہاڑ جو گرنے اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے قریب تھے.ان کو
384 دوبارہ قائم کیا.یہی مطلب نئی زمین اور نیا آسمان پیدا کرنے کا تھا کہ خدا تعالیٰ کے کلام کو اور اس کی توحید کو دنیا میں پھیلایا جائے.چنانچہ انجیل میں اسی کی طرف یہ فقرہ اشارہ کرتا ہے کہ ابتداء میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا.اور کلام خدا تھا.اور یہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا." اس کا یہی مطلب ہے کہ دنیا میں روحانی زندگی خدا تعالیٰ کے کلام کے نازل ہونے سے بندوں کو حاصل ہوتی ہے.اور دنیا کی تبدیلی بھی خدا تعالیٰ کی وحی پر موقوف ہے نہ کہ مولویوں کی باتوں اور ڈھکونسلوں پر اور یہ تبدیلی وحی کے ذریعے اور خدا کے کلام کے ذریعے اس وقت دنیا میں ہوتی ہے جبکہ روحانی زمین اور آسمان گرنے لگتے ہیں.تب ان کو قائم کرنے کے لئے ایک تبدیلی دنیا میں کی جاتی ہے اور خدا کا کلام نازل ہوتا ہے.پس اسی اصل کے ماتحت قرآنی پیش گوئی کی رو سے حضرت مسیح موعود کے لئے ضروری تھا کہ ایک تبدیلی دنیا میں کرتے اور نئی روحانی زمین اور نیا روحانی آسمان بناتے اس کی طرف یہ کشف اشارہ کرتا ہے لیکن یہ مولوی حضرت صاحب کو اس کشف کی وجہ سے مشرک کہتے ہیں اور کہتے ہیں.انہوں نے کہا میں خدا ہوں مگر یہ جاہل نہیں جانتے کہ اس کا مطلب کیا ہے.حضرت مسیح موعود نے ہی تو آکر توحید قائم کی ہے ورنہ پہلے کہاں توحید تھی.کیا ان مولویوں کے پاس توحید تھی جنہوں نے دجال کو خدائی صفات دے رکھی ہیں.دجال کی نسبت یہ کہتے ہیں کہ وہ بارش برسائے گا.سوکھی کھیتی کو ہرا کرے گا بیمار کو تندرست کر دے گا.اور ہر امر اس کے اختیار میں ہو گا میں حیران ہوں کہ یہ مولوی کیسی الٹی عقل کے ہیں کہ خدائی صفات دجال کو دیتے ہیں.اور منتظر ہیں کہ کب خدائی صفات والا دجال ان کے پاس آتا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود کے کشف پر بھی اعتراض کرتے ہیں.کیا کوئی نادان یہ کہہ سکتا ہے کہ زندہ کرنا اور مارنا اور بارش برسانا اور سوکھی کھیتی کو ہرا کرنا خدائی صفات نہیں.اسی طرح کون کہہ سکتا ہے کہ دنوں کا چھوٹا اور بڑا کرنا بغیر سورج اور چاند اور ستاروں پر اختیار حاصل ہونے کے ممکن ہے.دجال کا دنوں کو چھوٹا بڑا کرنا اسی صورت میں ہو سکتا ہے.کہ خدائی صفات اس کو حاصل ہوں اور سورج اور چاند اور ستاروں کو اس کے قبضہ میں مانا جائے.پھر یہ لوگ دجال کو خدائی صفات ہی نہیں دیتے.بلکہ خدا سے بڑھ کر قادر اور صفتوں والا مانتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ تو کہتا ہے کہ میں اپنی سنت کو نہیں بدلتا اور یہ اس کی سنت ہے کہ دنیا میں کسی
385 مردہ کو زندہ نہیں کرتا.جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک صحابی جابر کو ان کے شہید باپ کے متعلق فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے آپ کے باپ کو فرمایا کہ کوئی آرزو کرو.میں اسے قبول کرلوں گا.اس نے کہا مجھے پھر دنیا میں بھیجا جائے.تاکہ میں پھر تیرے رستہ میں قتل کیا جاؤں.اس پر خدا تعالیٰ نے فرمایا.میرا یہ قانون ہے کہ مرنے کے بعد لوگ دنیا کی طرف لوٹائے نہیں جاتے.اس سے معلوم ہوا کہ خدا اپنے اس قانون کو کسی مردہ کو دوبارہ زندہ کر کے نہیں توڑتا.لیکن یہ مولوی کہتے ہیں کہ دجال مارے گا اور پھر زندہ کرے گا اسی طرح دجال کے پرستار خدائی صفات سے بھی زیادہ صفتیں دجال کو دے دیتے ہیں.یہ بھی ان لوگوں کی نادانی ہے کہ دجال کے مارنے اور زندہ کرنے کو حقیقی معنوں میں سمجھتے ہیں.اور کہتے ہیں.وہ جسمانی طور پر مارے گا اور زندہ کرے گا حالانکہ اس سے مراد یہ ہے کہ دجال اس زمین کے جس پر خدا کی عبادت کی جاتی تھی.ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور اس روحانی آسمان کو جو برکتوں کو نازل کیا کرتا تھا.پھاڑ دے گا اور وہ دینی علماء جو پہاڑ ہوں گے.ان کو اپنے ساتھ شامل کرے گا اور جو شامل ہونے سے انکار کریں گے اس کو مٹا دے گا پس جس طرح دجال اپنا کام کرے گا.اسی طرح خدا تعالیٰ دجال کی شرارت کو باطل کرنے کے لئے مسیح موعود کو بھیجے گا جو آکر زمین و آسمان کو ان کی جگہ پر قائم کر دے گا.اور اس کے قبضہ سے چھڑا کر اپنے قبضہ میں لائے گا اور دین کو ایسے دلائل سے قائم کرے گا کہ سائنس دان بھی ان کو نہ توڑ سکیں گے پس یہی مطلب ہے نئی زمین اور نیا آسمان بنانے کا اور اسی کی طرف حضرت مسیح موعود کا کشف اشارہ کر رہا ہے لیکن حیرت ہے کہ مولوی اس پر اعتراض کرتے ہیں.حالانکہ اگر آپ یہ نہ فرماتے تو محل اعتراض تھا.حضرت مسیح موعود فرمایا کرتے تھے.معلوم نہیں.مولویوں کی عقل کو کیا ہو گیا ہے.اگر کسی کے مرنے کی بلا شرط پیش گوئی کی جائے تو کہتے ہیں کیا خدا کے نبی لوگوں کو مارنے کے لئے آتے ہیں اور اگر شرطیہ پیش گوئی کی جائے.تو کہتے ہیں کہ پوری نہیں ہوئی.مثلاً لیکھرام کے متعلق بلا شرط پیشگوئی تھی کہ چھ سال کے عرصہ میں مارا جائے گا اور وہ مارا گیا.اس پر کہہ دیا گیا کہ سازش سے قتل کرا دیا ہے اور آتھم کے متعلق شرطی پیش گوئی تھی کہ اگر وہ رجوع کرے گا تو بچ جائے گا اس نے اس شرط سے فائدہ اٹھایا اور بیچ گیا.اس پر کہہ دیا کہ پیش گوئی جھوٹی نکلی.غرض کہ ان کی حالت
386 بعینہ اسی طرح ہے جیسے حضرت صاحب نے فرمایا ہے.ع آنکھ کے اندھوں کو حائل ہو گئے سو سو حجاب ان کی آنکھوں کے آگے حجاب پڑے ہوئے ہیں یہ حقیقت کو نہیں دیکھ سکتے.میں کہتا ہوں کہ مسیح موعود کا کام ہی یہ بتایا گیا تھا کہ وہ نئی زمین اور نیا آسمان پیدا کرے گا.اگر حضرت صاحب یہ کشف نہ بتلاتے تو یہی علماء کہنے لگ جاتے.کہ یہ مسیح موعود کیسا ہے جو اس کی بعثت کی غرض بتائی گئی تھی.وہ اس نے پوری نہیں کی.یعنی شرک کا ابطال نہیں کیا.پس اس کشف نے حضرت مسیح موعود کی تصدیق کی ہے نہ کہ آپ کو نعوذ باللہ من ذالک مشرک ٹھہرایا ہے کیونکہ آپ نے روحانی زمین و آسمان کو قائم کیا اور عیسائیت کو مٹایا ہے.آپ نے بڑے بڑے پادریوں کو ہر قسم کے مقابلے کے لئے بلایا.لیکن وہ نہ آئے.آپ نے ایسے دلائل اور براہین جمع کر دیے کے جن کے مقابلہ پر عیسائیت نہیں ٹھر سکتی.پس عقلاً ثابت ہو گیا کہ حضرت صاحب کی بعثت کی غرض پوری ہو گئی.باقی رہا عملاً تو یہ ضروری نہیں کہ وہ فوراً ہو جائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث ہوئے ۱۳۰۰ سال ہو گئے کیا دین اسلام تمام دنیا میں پھیل گیا.اور تمام دنیا مسلمان ہو گئی.پھر یہ لوگ کیا حق رکھتے ہیں کہ کہیں مرزا صاحب کو کیوں نہیں تمام دنیا نے قبول کر لیا اور کیوں نہیں ان کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا.میں کہتا ہوں کہ تم ان نشانات کو دیکھو.جو آہستہ آہستہ پورے ہو رہے ہیں.اور لاکھوں کو سلسلہ کی طرف لا رہے ہیں اور ہزاروں عیسائی حضرت مسیح موعود کے سلسلہ کی طرف آرہے ہیں.معترضین کے قلوب ان اثرات کو دیکھ کر انکار نہیں کر سکتے اور وہ عنقریب دیکھیں گے کہ مسیح موعود نے آکر نئے سرے سے زمین و آسمان پیدا کیا اور وہ عظیم الشان پیش گوئی آپ کی بعثت سے پوری ہوئی.جو قرآن نے آخری زمانہ کے متعلق بتائی تھی.خدا اس پیش گوئی کو پورا کرے گا اور دنیا پر آپ کی صداقت ثابت کر دے گا.چاہے مخالفوں کی دعائیں کرتے کرتے ناکیں گھس جائیں.مشکوہ کتاب العلم باب فی فضيلته الفصل الثالث ۲۰ تذکره ۱۸۹ الفضل ۶ مئی ۱۹۲۴ء)
387 63 فرموده ۲ مئی (41917 حقیقی لیلتہ القدر مشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے سورہ قدر پڑھ کر فرمایا : الفضل میں ایک نوٹ شائع ہوا تھا.اور وہ نوٹ کتاب سیرۃ المہدی کی اس روایت کی بناء پر تھا.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبانی بتایا گیا تھا.”جب رمضان کی ۲۷ تاریخ اور جمعہ مل جائیں.تو وہ رات یقیناً لیلتہ القدر کی رات ہوتی ہے." اس روایت کو دیکھ کر ہماری جماعت کے تمام طبقات کے لوگوں میں یہ جوش پیدا ہو گیا کہ اب کے ہماری خوش قسمتی سے رمضان کی ۲۷ جمعہ کا دن ہے.اس لئے یقیناً شب قدر ہو گی.اس خیال کو اپنے دل میں پختہ کرتے ہوئے ہماری جماعت کے لوگوں میں ایک غیر معمولی جوش پیدا ہو گیا.اور انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ ایک دعاؤں کے لئے نایاب اور بیش بہا موقعہ ہے اور یہی وہ رات ہے.جس میں روحانی برکات کا نزول ہوتا ہے.اور دعاؤں کی قبولیت ہوتی ہے.چنانچہ یہ جوش اور برکات کے حاصل کرنے کی تڑپ اور اس کے لئے بے چینی اس دن یہاں تک بڑھ گئی کہ بہت سے لوگوں نے مجھ کو دعا کے لئے لکھا.اور دعا کی درخواستیں اس قدر میرے پاس جمع ہو گئیں کہ جب میں دعا کے لئے اٹھا.۴۵ منٹ میں میں صرف ان درخواست کنندگان کے نام پڑھ سکا اور اگر میں کہیں ان درخواستوں کے مضمون کی طرف توجہ کرتا.تو نہ معلوم کتنا وقت صرف ہوتا اور کب میں فارغ ہو تا باوجود ان درخواست کنندگان کی کثرت کے اور اس روایت کے راوی کے ثقہ ہونے کے میں ان علوم کی بناء پر جو روحانیت سے تعلق رکھتے ہیں.اور جن کے اتار چڑھاؤ اکثر دنیا میں ہوتے رہتے ہیں اور جو ایسے پیچیدہ اور مغلق ہوتے ہیں کہ عام فہم لوگ ان کو آسانی سے حل نہیں کر سکتے.میں ان کی پیچیدگیوں اور ان کے مغلق ہونے کو مد نظر رکھتے ہوئے اور روایت کے بیان کرنے اور راوی کے کوئی بات سمجھنے کی
388 مشکلات کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ نہیں کہہ سکتا کہ جب بھی کبھی جمعہ اور ۲۷ تاریخ رمضان کی اکٹھے ہو جائیں.تو یقیناً اس رات شب قدر ہوتی ہے.کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ روحانی امور کے سمجھنے میں بہت وقت ہوتی ہے.بسا اوقات ان روحانی امور میں اشاروں سے کام لیا جاتا ہے پھر بعض اوقات ان امور میں سے کچھ مستثنیات ہوتیں اور بعض اوقات ان میں استعارے اور کنائے اس کثرت سے استعمال کئے جاتے ہیں کہ عام فہم لوگ اس کو آسانی سے سمجھ نہیں سکتے.مگر باوجود ان پیچیدگیوں اور استعاروں کے پھر اس میں شبہ نہیں کہ لیلتہ القدر عام طور پر رمضان کی ۲۷ تاریخ کو ہوتی ہے.کیونکہ یہی مذہب صوفیاء کا تھا اور یہی خیال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا معلوم ہوتا ہے اور نہ صرف یہ عقیدہ صرف صوفیاء کا اور حضرت مسیح موعود کا تھا.بلکہ اس کی تائید تواتر سے بھی ہوتی ہے اور اسی کی تائید میں ایک کثیر حصے کا خیال اور عقیدہ ہے.چنانچہ ساٹھ فیصدی علماء اور صوفیاء اس عقیدے کی تائید کرتے ہیں.اور چالیس فیصدی کا یہ خیال ہے کہ لیلتہ القدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کسی میں ہوتی ہے اور پھر ایک اور خیال یہ بھی ہے کہ رمضان کی پہلی دس راتوں میں بھی لیلتہ القدر ہو جاتی ہے.ان تمام روایتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جمعہ کی رات اور دن میں جو خصوصیات ہیں وہ اور دنوں میں نہیں اور جب اس دن رمضان کی بھی ۲۷ تاریخ ہو تو وہ خصوصیات اس بات کی متقتضی ہیں کہ لیلتہ القدر جمعہ کی رات کو ہو لیکن ہم یہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ جب رمضان کی ۲۷ تاریخ اور جمعہ مل جائیں.تو ضرور ہی اس رات لیلتہ القدر ہو گی.پھر اس روایت کے متعلق یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ حضرت صاحب نے وہ بات کسی اور رنگ میں بیان کی ہو اور سننے والے نے اسے اور رنگ میں سمجھ لیا ہو پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سننے والے کو غلطی لگ گئی ہو اور وہ اس منشاء کو نہ سمجھا ہو جس کو مد نظر رکھ کر یہ بات حضرت صاحب نے بیان کی ہو.پھر یہ بھی ممکن ہے کہ جس بات کے ضمن میں یہ بات کہی گئی ہو.اسے وہ بھول گیا ہو اور صرف اتنی بات اسے یاد رہی ہو.پس کسی بات کو سمجھنے کے لئے موقعہ اور محل کا معلوم ہونا نہایت ضروری ہے کیونکہ موقعہ اور محل اور طرز کلام اور سلسلہ گفتگو یہ سب کلام کے جزو اعظم ہیں.بعض دفعہ انسان ایک بات ایک سلسلہ کلام میں ایسی کہہ جاتا ہے کہ اگر اس کو یوں کہے تو سننے والے کو بری لگے.پس ہو سکتا ہے کہ سلسلہ گفتگو اور طرز کلام یا موقعہ محل اس کو یاد نہ رہا ہو.اور وہ بھول گیا ہو.پس یہ ایک روایت ہے اور روایتوں میں ہزارہا قسم کے شبہات ہو سکتے ہیں.اور پیدا ہوتے
389 ہیں.لیکن باوجود ان تمام شبہات کے پیدا ہونے کے ہم اس کو ایسا خیال نہیں کرتے کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے.یا اس کا راوی ثقہ نہیں ہے اور ایسا شخص ہے کہ اس کی بات مانی نہ جائے.پس میں اس روایت کو مان کر تم سے پوچھتا ہوں کہ تم نے اس لیلتہ القدر کے لئے تو اتنا جوش دکھایا.اور اتنی درخواستیں دعا کے لئے لکھیں لیکن کیا تم اس لیلتہ القدر کی برکات کے حاصل کرنے کے لئے جو در حقیقت نبیوں کا زمانہ ہوتی ہے.اسی قدر بے چین اور متفکر ہو.لیلتہ القدر کوئی معمولی رات نہیں.بلکہ فرشتوں اور برکتوں کے نزول کی رات ہے.اور یہ وہ رات ہے.جس کے اندر خدا تعالیٰ نے دعاؤں کی قبولیت کے لئے خاص وقت رکھا ہے وہ اس وقت میں دعاؤں کو سنتا ہے اور ان کو قبول کرتا ہے.مگر اس لیلتہ القدر میں ہم کو خدا تعالیٰ نے دو سبق دیئے ہیں.اول یہ کہ اختلاف کرنے اور لڑائی جھگڑا کرنے سے لیلتہ القدر کی برکات دور ہو جاتی ہیں.اور انسان ان روحانی برکتوں سے جو اس رات میں نازل ہوتی ہیں.محروم رہتا ہے.اور اس کا محروم رہنا نہایت بد بختی کی علامت ہے.کیونکہ وہ شرف اور وہ برکات جو اس میں نازل ہوتی اور انسان کو حاصل ہوتی ہیں وہ ہزار مہینے کی عبادت سے بہتر ہیں اور یہ رات ہزار مہینے کی راتوں سے بہتر ہے.دوسرے یہ کہ کوئی نعمت بغیر محنت اور کوشش کے میسر نہیں آسکتی.پس اتنی عظیم الشان برکتوں والی رات جو ایک ہزار مہینے سے بہتر قرار دی گئی ہے.اور برکتوں اور رحمتوں کے نزول کے لئے معین کی گئی ہے.کوئی معمولی نعمت نہیں.ان ہی برکات کے نزول کو مد نظر رکھتے ہوئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خیال ہوا کہ میں اپنے صحابہ کو اس کا صحیح علم دوں.تاکہ وہ اس میں عبادت کر کے خدا کی رحمتوں اور برکتوں سے سے مالا مال ہو جائیں.چنانچہ اسی خیال کو مد نظر رکھتے ہو.آپ ایک دفعہ باہر تشریف لائے.اور آپ کا ارادہ تھا کہ صحابہ کو وہ راز بتائیں.لیکن جونہی کہ آپ باہر نکلے آپ نے دو آدمیوں کو لڑتے جھگڑتے دیکھا.ان کی یہ حالت دیکھ کر آپ لیلتہ القدر کا معین وقت بھول گئے اور آپ کا خیال لڑائی کی طرف لگ گیا.اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ اس کی برکتوں سے عام لوگ فائدہ اٹھانے سے محروم رہ گئے.اس سے معلوم ہوا کہ لڑائی اور اختلاف لیلتہ القدر کی برکتوں کو دور کر دیتا ہے.اور ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہو گیا کہ آپ کے ذہن میں کوئی معین وقت لیلتہ القدر کا نہ تھا.کیونکہ معین وقت اور تاریخ آپ کے ذہن میں ہوتی تو آپ نہ بھولتے.آپ کا بھول جانا بتاتا ہے کہ آپ کے ذہن میں کوئی خاص نکتہ تھا.جس کی بنا پر آپ نے تعبیر کی تھی.اور وہ نکتہ آپ کو یاد تھا.لیکن جب آپ اس
390 تعبیر کو بتانے کے لئے باہر تشریف لائے تو لڑائی اور جھگڑا دیکھ کر آپ اس نکتہ کو بھول گئے اور وہ آپ کے دماغ سے نکل گیا.چنانچہ آپ نے فرمایا کہ میں تم کو لیلتہ القدر کے متعلق بتانے آیا لیکن تمہارے اس اختلاف اور لڑائی کو دیکھ کر بھول گیا.اب تم لیلتہ القدر کو رمضان کے پچھلے عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی لیلتہ القدر کو معین نہ کیا.اسی طرح بعض صوفیاء کرام اور روحانی علماء کے نزدیک بھی لیلتہ القدر رمضان کی پہلی دس راتوں میں سے کسی میں بھی ہو سکتی ہے پس اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام رمضان کا ہی مہینہ لیلتہ القدر ہے اور خدا کی رحمتوں اور برکتوں کو جذب کرنے والا ہے.اب جب کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی معین رات بیان نہیں کی.اور نہ ہی کسی خاص رات کو صوفیاء کرام اور علماء روحانی نے معین کیا ہے بلکہ ان کا اس میں اختلاف ہے.حتی کہ بعض ۲۷ تاریخ رمضان کی قرار دیتے ہیں.اور بعض پہلی دس راتوں میں سے کوئی قرار دیتے ہیں.اور حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ جمعہ اور ۲۷ رمضان کی تاریخ اکٹھی ہو جائے.تو لیلتہ القدر اس شب ہوگی پس ان تمام روایات کے ہوتے ہوئے ہم حضرت صاحب کے متعلق اس روایت کی تعبیر کریں گے اور یہ کہیں گے کہ جمعہ کی خصوصیات اس بات کی مقتضی ہیں کہ جمعہ اور ۲۷ تاریخ رمضان مل جائیں.تو اس رات لیلتہ القدر ہو لیکن یہ ہم یقینی اور حتمی نہیں کہہ سکتے.کیونکہ خدا کسی قاعدے کا پابند نہیں.اس کے لئے ضروری نہیں.کہ وہ ۲۷ کو ہی لیلتہ القدر کرے.اور نہ ہی خدا نے تمہارے ساتھ یہ عہد کیا ہے کہ میں ۲۷ کو ہی لیلتہ القدر کروں گا اور اس سے پہلے نہ کروں گا.پھر خدا تعالیٰ اپنے پاس استثنا رکھتا ہے.اور وہ استثناؤں سے اپنے قولوں اور فعلوں میں تغیر کر سکتا ہے.تم خدا کو مجبور نہیں کر سکتے کہ ضرور وہ تمہارے کہنے کے مطابق ہی کرے اور تمہاری مرضی کے موافق کرے.ہاں تم اس کو رمضان کے آخری عشرے کی و تر راتوں میں تلاش کر سکتے ہو اور تم ان روحانی برکتوں کو جو اس میں نازل ہوتی ہیں حاصل کر سکتے ہو.بشرطیکہ تم اختلاف اور لڑائی جھگڑوں کو چھوڑ دو.کیونکہ یہی نکتہ لیلتہ القدر میں بتایا گیا ہے کہ لڑائی جھگڑے اور اختلاف روحانی برکات کو مٹا دیتے ہیں اور خدا کے غضب کو کھینچتے ہیں.اب میں تم سے پوچھتا ہوں کہ تم نے اپنے شوقوں اور تیاریوں سے بتا دیا تھا کہ تم کس قدر لیلتہ القدر کے برکات کے حصول کے لئے بے چین ہو مجھے تمہاری درخواستوں سے تمہاری بیچینی اور گھبراہٹ کا اندازہ ہوتا تھا کہ تم اس کے برکات کے حاصل کرنے کے لئے بڑے مشتاق ہو.
391 لیکن تم نے ان برکات کے حصول کے لئے کتنی قربانیاں کیں.کتنے اختلافات کو دور کیا.کتنے جھگڑوں کو مٹایا.یا کتنی جگہ ایثار کیا.اگر تم نے جھگڑوں اور اختلافوں کو نہیں مٹایا اور اپنے اندر تبدیلی نہیں کی.تو اس کا کیا فائدہ اگر تم نے رسمی طور پر اس لیلتہ القدر کی خوشی منائی اور تم نے عارضی جوش ظاہر کیا.اور حقیقی جوش نہ پیدا کیا.ایسی صورت میں کون ضامن ہے.کہ تم سے لیلتہ القدر کے برکات نہ چھین لئے جائیں گے.جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ان دونوں صحابیوں کی لڑائی اور آپ کے اختلاف کرنے کی وجہ سے اس کے برکات کو اٹھا لیا گیا.تو میں پوچھتا ہوں.کیا تم نے نہ اٹھائے جانے کے متعلق خدا سے عہد لے لیا.یا لیلتہ القدر کوئی رسی ہے کہ تم نے اس کو مضبوط پکڑ لیا ہے.اور وہ تم سے چھٹ نہیں سکتی.اور تم کو معلوم ہو گیا ہے کہ ہم کو لیلتہ القدر کے برکات ضرور حاصل ہو جائیں گے خواہ ہم میں کس قدر اختلاف موجود ہوں.مگر ایسا نہیں.تو تمہارا فرض ہے کہ تم ان شرائط کی پابندی کرو جو خدا نے اس کے برکات کے حاصل کرنے کے لئے ضروری قرار دی ہیں.اور وہ یہ ہیں کہ اختلاف اور جھگڑوں کو چھوڑ دو اور تبدیلی پیدا کرو.ور نہ یاد رکھو.جب تک تبدیلی نہ کرو گے.اس کی برکات کو حاصل نہ کر سکو گے.خواہ تم لیلتہ القدر کی ساری رات ہی کیوں نہ جاگتے رہو اور دعائیں کرتے رہو.وہ تمہارے ہاتھ سے اسی طرح نکل جائیں گی.جس طرح ایک مچھلی تڑپ کر ماہی گیر کے ہاتھ سے اور ایک گولی سنسناتی ہوئی زخمی کے بدن سے نکل جاتی ہے.پھر دوسرا نکتہ لیلتہ القدر میں یہ بتایا گیا ہے کہ آرام سے بیٹھنے کے ساتھ کامیابی نہیں ہو سکتی.تم ست بیٹھے رہنے سے لیلتہ القدر کی برکات کو حاصل نہیں کر سکتے.جب تم تکلیف کو برداشت کرو گے.اسی وقت اس قابل ہو گے کہ لیلتہ القدر کی برکات سے تم کو حصہ دیا جائے چونکہ اس کی برکات معمولی برکات نہیں ہیں.اس لئے خدا نے چاہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور تحفہ اس سے اطلاع دے.آگے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ میری امت اس سے محروم نہ رہے اور آپ نے ان کو اطلاع دینی چاہی.لیکن خدا کا چونکہ یہ منشاء نہ تھا کہ آپ اطلاع دیں.اس لئے ایسے اسباب پیش آگئے.کہ آپ بھول گئے.اور وقت یاد نہ رہا.خدا تعالیٰ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا پتہ بتانا اس لئے نہیں تھا کہ آپ کو وہ وقت کبھی میسر نہ آیا تھا.یا اس لئے کہ آپ کو آسانی ہو جائے یا اس لئے کہ آپ اس کی حقیقت اور برکتوں کے نزول سے واقف ہو جائیں.کیونکہ آپ خدا تعالیٰ کے ذکر اور اس کی یاد سے کسی وقت غافل نہ ہوتے تھے.اور نہ ہی
392 کسی یاد کے وقت کو ضائع کرتے تھے.اس لئے آپ کے لئے تو ہر وقت لیلتہ القدر تھی.اور آپ کا زمانہ ہی لیلتہ القدر تھا.پس جب آپ کا زمانہ ہی لیلتہ القدر تھا.تو خدا تعالی کا آپ کو بتلانا اسی طرح تھا.جس طرح ایک دوست دوسرے دوست کی کوئی ہدیہ دیتا ہے.تاکہ اپنی خوشی کا اظہار کرے جس طرح عام طور پر تحفہ دینے سے خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے.یا یہ بتلانا اسی طرح تھا جس طرح دو دوست کسی لیکچر سے واپس آتے ہیں تو راستے میں ایک دوسرے سے کہتا ہے لیکچر بہت عمدہ تھا حالا نکہ دونوں نے سنا ہوتا ہے اور دونوں لیکچر سے واپس آ رہے ہوتے ہیں.وہ دوست دوسرے کو اس لئے جتاتا ہے کہ وہ اس لیکچر پر خوشی کا اظہار کرنا چاہتا ہے نہ کہ اس لئے کہ دوسرے کو پتہ نہیں ہوتا.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو لیلتہ القدر بتانے کی صرف ایک یہی غرض ہو سکتی ہے اور وہ خوشی کا اظہار ہے.ورنہ آپ تو شب و روز عبادت کرتے تھے اور آپ کا زمانہ ہی لیلتہ القدر تھا.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ کیا کہ میں جاکر لوگوں کو خبر دوں لیکن خدا کا منشانہ تھا کیونکہ خدا چاہتا تھا کہ لوگ رمضان کی راتوں میں کوشش کر کے تلاش کریں.اس لئے آپ کو بھلا دیا گیا لیکن افسوس ہے کہ عام طور پر لوگوں نے اس نکتہ کو نہ سمجھا.اور ان کی سہولت پسند طبائع چاہتی ہیں کہ انہیں کوئی خاص وقت معلوم ہو جائے.جس میں دعائیں کر کے قبول کرا لیں اور محنت و کوشش سے بچ جائیں اسی لئے وہ چاہتے ہیں کہ لیلتہ القدر کا معین وقت معلوم ہو جائے.اور میں سمجھتا ہوں.اسی خواہش کی وجہ سے جب الفضل میں حضرت مسیح موعود کے متعلق وہ روایت شائع ہوئی جس کا میں نے ذکر کیا ہے.تو ہماری جماعت کے اکثر لوگوں نے سمجھا کہ بس اب لیلتہ القدر کا پتہ مل گیا اور اس کے لئے وہ تیاریوں میں مصروف ہو گئے.مگر ان کی یہ تیاریاں ایسی ہی تھیں.جیسے عام مسلمانوں میں یہ مشہور ہے کہ جو کوئی رمضان کے آخری جمعہ میں حاضر ہو کر نماز پڑھ لے اس نے گویا تمام سال کی نمازیں پڑھ لیں بلکہ اس دن نماز پڑھنے کا نام تو ان لوگوں نے قضاء عمری رکھا ہوا ہے.اور معلوم ہوتا ہے اسی قسم کے بیہودہ خیالات کی وجہ سے آج میرے سامنے بھی پہلے کی نسبت زیادہ ہجوم ہے.اگرچہ یہ ہجوم لاہور امرتسر وغیرہ مقامات کے اس دن کے ہجوموں کی طرح نہیں وہاں تو عام دنوں کی نسبت کئی سو گنا زیادہ لوگ جمع ہوتے ہیں.تاہم یہاں بھی پانچ فیصدی کے قریب زیادتی ضرور ہے اور خاص کر آج عورتوں میں غیر معمولی طور پر زیادتی ہے یہ زیادتی انہی بے ہودہ خیالات کی بناء پر ہے.لیکن میں پوچھتا ہوں کیا اس طرح لوگ جمعتہ الوداع میں حاضر ہو کر خدا کو دھوکا دینا چاہتے ہیں اور اس سے مکرو فریب اور دعا کرنا
393 چاہتے ہیں.اور اس پر یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ہم بڑے نمازی اور تہجد گزار ہیں.یہ لوگ سال میں ایک دفعہ نماز پڑھ کر چاہتے ہیں کہ خدا پر احسان کریں اور اس کو دھوکا دیں.بات یہ ہے کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کو ایسی نماز مل جائے.جس کو مرنے سے پہلے ایک دفعہ ہی پڑھیں اسی لئے اسے قضاء عمری کہتے ہیں.اور کوئی کوشش نہیں کرنا چاہتے.اسی طرح یہ چاہتے ہیں کہ سوتے رہیں.اور لیلتہ القدر کی برکات سے حصہ مل جائے.لیکن میں کہتا ہوں.لیلتہ القدر کی برکتوں کو بغیر کوشش اور سعی کے کوئی حاصل نہیں کر سکتا.اور نہ کوئی جمعتہ الوداع اور قضاء عمری کسی کے گناہوں کا کفارہ ہو سکتی ہے اور نہ ہی جمعتہ الوداع اکیلا ان کو گناہوں سے نجات دے سکتا ہے بلکہ میں تو یقین اور وثوق سے کہتا ہوں کہ قضاء عمری اور جمعتہ الوداع ان کی باقی نمازوں کو بھی لے ڈوبے گا اور وہ بالکل کو رے کے کو رے رہ جائیں گے ان کی حالت اس شخص کی سی ہو گی.جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ صبح کے وقت دریا پر نہانے کے لئے گیا.سردی کا موسم تھا.راستہ میں اکڑتا چلا جاتا تھا.جب دریا کے قریب پہنچا.تو دریا کو دیکھ کر نہانے سے سردی کی وجہ سے رک گیا اور ایک کنکر اٹھا کر مارا اور یہ کہہ کر واپس آگیا.تو را اشنان مورا اشنان یعنی تیرا نہانا اور میرا نہانا ایک ہی ہے.راستہ میں اسے ایک اور شخص ملا.وہ بھی نہانے جا رہا تھا.اس نے پوچھا.کس طرح نہائے.جب اس نے بتایا.تو اس نے وہیں راستہ سے کنکر اٹھایا.اور وہی بات کہہ کر پھینک دیا اور چلا آیا.پس جمعتہ الوداع اور لیلتہ القدر کے متعلق عام لوگوں کی یہی حالت ہے.کیونکہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ ستیوں اور آراموں میں بھی پڑے رہیں اور خدا کے انعامات کے بھی وارث بن جائیں.لیکن ایسا کبھی نہیں ہو سکتا.ا ان کو اس وقت لیلتہ القدر کی برکات حاصل ہوں گی جب راتوں کو جاگیں گے اور اس کی انتظار میں بیٹھیں گے.یہ نہیں کہ انہیں خاص وقت بتا دیا جائے.اور وہ آسانی سے اس وقت اٹھ کر لیلتہ القدر کی برکات حاصل کر لیں.جو لوگ ایسی باتوں میں پڑ جاتے ہیں.اور محنت و کوشش پر آرام طلبی کو مقدم کر کے چاہتے ہیں کہ بیٹھے بٹھائے نعمت حاصل کر لیں.وہ کبھی ترقی نہیں کرتے.ترقی وہی قومیں کرتی ہیں.جو کام پر کام کرتی ہیں.اور فراغت یا آرام طلبی کو پاس نہیں آنے دیتیں.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کے لوگوں کو دیکھو.وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہیں کہ رمضان میں خدا تعالیٰ کی عبادت میں اس قدر لطف آیا ہے کہ دوسرے مہینوں میں بھی اسی طرح عبادت کرنے کا طریق بتائیے.تاکہ ہم فارغ نہ رہیں.اور عبادت میں لگے رہیں.یہ تھی صحابہ کی
394 حالت لیکن آج کل کے مسلمانوں کو دیکھو.یہ وہ ہیں جو مقرر شدہ نمازوں کی بجائے بھی کوئی ایسی نماز تلاش کرتے ہیں.جو قضاء عمری کہلائے اور جسے ایک دفعہ پڑھ کر مرتے دم تک کے لئے تمام نمازوں سے فارغ ہو جائیں.اسی طرح ایسے روزے مل جائیں.جو ساری عمر کے روزوں کی کفایت کریں.ان کی ہمتیں دیکھو اور ان کی دیکھو.صحابہ وہ تھے کہ انہوں نے بے سروسامانی کی حالت میں اور بہت تھوڑے ہوتے ہوئے کسری کی ہزاروں سال کی حکومت اور شان و شوکت کو پاش پاش کر دیا.کسری ان کے سامنے مٹی کے ایک ایسے کھلونے کی طرح تھا.جسے ذرا ٹھیس لگے اور ٹوٹ جائے انہوں نے اس کی زبر دست اور دیرینہ حکومت کو اس طرح اڑا دیا جس طرح دھنی ہوئی روئی اڑائی جاتی ہے اور مسلمان اژدھے بن کر اس کی حکومت کو نگل گئے اس بلند حوصلہ ثابت قدم جماعت کوشش کرنے والی قوم اور نہ تھکنے والی طاقت کا مقابلہ جب حضرت عمر کے وقت کسری کی کثیر التعداد فوجوں سے ہوا تو کسریٰ کے لئے باوجود ہر طرح کے سازو سامان اور وسیع حکومت کے کوئی امن کی جگہ نہ رہی.اس کے اپنے غلام اور نوکر غدار اور بے وفا نکلے.اس کی سپاہ مقابلہ پر نہ ٹھہر سکی ایسا کیوں ہوا؟ اس لئے کہ حکومت کسریٰ کا مقابلہ اس جماعت سے ہوا.جو کبھی نہ تھکنے والی بلکہ زیادہ مشکلات میں زیادہ کام کرنے والی تھی جو ترقی کا یہ گر سمجھ چکی تھی کہ مسلسل محنت اور کوشش اس کے لئے ضروری ہے لیکن آج کل کے مسلمان جو کروڑوں کی تعداد میں ہیں.ان کی حالت دیکھو.اپنا سب کچھ کھو چکے ہیں ہر جگہ ذلیل اور رسوا ہیں.نہ عزت باقی ہے نہ شوکت کیوں؟ اس لئے کہ یہ تعویذوں اور ٹونوں سے جیتنا چاہتے ہیں.یہ چاہتے ہیں کہ سوتے رہیں اور لیلتہ القدر کی برکات سے حصہ مل جائے.یہ چاہتے ہیں کہ بغیر کوشش اور جدوجہد کے انعامات حاصل کر لیں.جو بالکل عبث اور بیہودہ خیال ہے.اگر مسلمان کامیاب ہونا چاہتے ہیں.تو انہیں کام کرنے سے جی چرانا چھوڑ کر کام کرنا پڑے گا.ہاتھ پاؤں تو ڑ کر بیٹھے رہنے کی بجائے کوشش کرنی پڑے گی اور جب کوشش کریں گے اور انسان کی پیدائش کی اصل غرض کو پورا کریں گے تب جا کر کامیاب ہوں گے.خدا تعالی انسان کی ائش کی غرض یہ بتاتا ہے : و ما خلقت الجن والانس الا لیعبدون (الذرایت ۵۷) انسان اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ عبد بن جائے اور عبد اس وقت تک نہیں بن سکتا.جب تک غلاموں کی طرح کام نہ کرے.کیا غلام بھی کبھی آرام کرتا ہے.ہر گز نہیں.بلکہ وہ رات دن کام کرتا ہے اور کام کی وجہ سے ہی آقا اس کو پسند کرتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کا عبد بھی وہی بن سکتا ہے.جو اس کی کوشش اور سعی کرتا ہے اپنے آرام و آسائش کو ترک کر دیتا ہے.اور ہر وقت خدا تعالیٰ کو پانے کی.
395 فکر میں رہتا ہے.دیکھو جو نفس کا آرام حاصل کرنے کے لئے کام کرتے ہیں.وہ نفسانی آرام پا لیتے ہیں اور جو خدا سے ملنے کے لئے کوشش کرتے ہیں.وہ خدا کو پالیتے ہیں.یہ ہو نہیں سکتا کہ تم اپنے آپ کو خدا کے لئے نہ لگاؤ اور پھر خدا کی ملاقات کی تمنا میں کامیاب ہو جاؤ.تم جس شعبے میں چلو گے اور کوشش کرو گے.اسی میں کامیابی حاصل کر سکو گے پس جو شخص چاہتا ہے کہ اسے بیٹھے بٹھائے لیلتہ القدر کی برکات حاصل ہو جائیں وہ قطعا ان برکات کو حاصل نہیں کر سکتا.کیونکہ اس کے لئے کوشش اور سعی شرط ہے.پھر میں کہتا ہوں کہ ایک اور لیلتہ القدر اسلام نے بیان کی ہے اور وہ وہ لیلتہ القدر ہے کہ جو برکتوں کے لحاظ سے اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ رمضان کی لیلتہ القدر کی برکتیں بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں.یہ لیلتہ القدر وہ ہے جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ان الله ببعث لهذه الامة على راس كل مائة سنة من يجدد لها دینھا یہ لیلتہ القدر اس مجدد کے زمانے میں جو صدی کے سر پر آتا ہے.آتی ہے مگر اس سے بھی بڑھ کر ایک اور لیلتہ القدر ہے جو تیرہ سو سال کے بعد آئی اور وہ حضرت مسیح موعود کا زمانہ ہے.یہ لیلتہ القدر ان تیرہ سولیلتہ القدروں سے جو رمضان میں آئیں اور ان گیارہ لیلتہ القدروں سے جو مجددوں کے زمانے کی صورت میں ہر صدی کے سر پر نمودار ہوئیں.بڑھ چڑھ کر ہے.پس وہ زمانہ جس میں حضرت مسیح موعود مبعوث ہوئے سب سے بڑی لیلتہ القدر ہے.نادان ہیں وہ جو حضرت مسیح موعود کے مقابلہ میں غزالی اور بخاری اور رازی کو پیش کرتے ہیں وہ آپ کی شان سے ناواقف ہیں.کیونکہ آپ وہ امام ہیں.جو نہ صرف کسی ایک مجدد سے بلکہ ان تمام مجددوں سے جو تیرہ سو سال میں گذرے بڑھ کر ہیں.اسی لئے آپ کی لیلتہ القدر اوروں کی لیلتہ القدروں سے بڑھ کر ہے.کیونکہ اس کی لیلتہ القدر کا زمانہ نبوت والی لیلتہ القدر کے زمانہ سے شروع ہوتا ہے.اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوسری لیلتہ القدر ہے.مگر میں پوچھتا ہوں.تم نے اس نوٹ کی بناء پر جو الفضل میں چھپا.کتنی خوشیاں منائیں.اور کتنا شوق ظاہر کیا.لیکن کیا ایسا ہی شوق اور ایسی ہی خوشی تم نے اس لیلتہ القدر کے لئے جس کی نسبت قرآن کہتا ہے کہ تیرہ سو سال کے بعد ایک لیلتہ القدر آئے گی.ظاہر کی بتاؤ تم نے اس کے لئے کیا تیاری کی اور اس کی کتنی عزت اور وقعت تمہارے دل میں ہے.اگر تمہارے دل میں اس کی عزت نہیں تو میں سمجھوں گا کہ تم نے اس لیلتہ القدر کی ایک رسمی عزت کی اور اس کے لئے ایک رسمی خوشی منائی اور اصلی شوق اس لیلتہ القدر کے لئے ظاہر نہ کیا جس کے برکات کے
396 حاصل کرنے کے لئے بہت سے بزرگ تڑپتے مرگئے لیکن پا نہ سکے.ایسے ایسے بزرگوں نے اس لیلتہ القدر کا انتظار کیا جن کا اپنا زمانہ لیلتہ القدر ہوتا ہے اور جن کی ہر گھڑی خدا کی عبادت اور اس کی یاد میں کٹتی ہے اور ان کے لئے ہر وقت لیلتہ القدر ہوتی ہے.پھر ایسے پاک نفس لوگوں نے اس لیلتہ القدر کا انتظار کیا کہ لیلتہ القدر جن کی غلام ہوتی ہے.اور پھر وہ لوگ اس کا انتظار کرتے ہوئے فوت ہو گئے اور اس کا راستہ دیکھتے دیکھتے دنیا سے گذر گئے جنہیں خدا تعالیٰ کا خاص قرب حاصل تھا.پھر نہ صرف ایسے ہی لوگ بلکہ صدہا علماء اور مجدد روتے ہوئے دنیا سے گذر گئے.جو حضرت مسیح موعود کے دیدار کو ترستے رہے لیکن انہوں نے آپ کا چہرہ نہ دیکھا.مگر تم پر خدا کا خاص فضل اور رحم ہوا کہ خدا نے تمہیں اس لیلتہ القدر کی برکات سے حصہ پانے کا موقع دیا.لیکن اس لئے نہیں کہ تم نے کوئی ایسے اعمال کئے جو خدا تعالیٰ کو خاص طور پر پسند آئے.یا تم نے کوئی ایسی قربانی کی.جو خدا تعالیٰ کے حضور منظور ہوئی.بلکہ اس لئے اس لیلتہ القدر کی برکات سے حصہ پانے کا موقعہ دیا کہ تم بہت زیادہ تاریکی کے زمانہ میں پیدا ہوئے.اس وجہ سے خدا نے تمہاری کمزوریوں پر رحم کیا اور تم کو اس کی برکات سے حصہ دیا تم ایسی تاریکی کے زمانے میں پیدا ہوئے جو بعینہ چاند کی ۲۷ / تاریخ سے بوجہ اپنی تاریکی کے مشابہ ہے.کیونکہ ۲۷ تاریخ کی ساری رات تاریک ہو جاتی ہے.اور چاند تمام رات نہیں نکلتا.پس تمہیں اس تاریک زمانہ میں پیدا ہونے کی وجہ سے لیلتہ القدر کے برکات کے حصول کا موقع ملا.لیکن میں پوچھتا ہوں.تم نے ان برکات سے کیا فائدہ اٹھایا.اگر نہیں اٹھایا اور اس کے لئے کوشش نہیں کی.مگر رمضان کی ۲۷.تاریخ کو لیلتہ القدر کی جستجو کرتے ہو تو تمہاری حالت بعینہ اس شخص کی سی ہے جو جواہرات اور اشرفیاں لٹاتا ہے اور کوئلے جمع کرتا ہے بلکہ کوئلوں کی بجائے تنکے.یہ میں نے اس لئے کہا ہے.کوئلے پھر بھی کسی کام آجاتے ہیں لیکن تنکے ان سے بھی کم درجہ اور کم مصرف کی چیز ہیں ایسی صورت میں کیا میں تمہیں یہ نہ کہوں کہ اے اس لیلتہ القدر پر خوش ہونے والو! تم نے اصلی لیلتہ القدر کو ضائع کر دیا اور اس کی پروا نہ کی.بیشک تمہیں دنیاوی ترقی حاصل ہو گی کیونکہ خدا تعالیٰ فرما چکا ہے کہ تمہیں غلبہ حاصل ہو گا.پس وہ وقت آئے گا اور ضرور آئے گا.جبکہ تم کو حکومت ملے گی.تم حاکم ہو گے اور لوگ تمہارے محکوم.تم لوگوں کے حقوق کا فیصلہ کرو گے اور لوگ تم سے مطالبہ کریں گے.لیکن وہ ترقیات کا زمانہ اس لیلتہ القدر سے بہتر نہیں ہو گا.جو حضرت مسیح موعود کی زندگی کی لیلتہ القدر تھی.یہ وہ رات
397 تھی کہ جب تمہارے لئے سلامتی ہی سلامتی تھی.اگر تم کو کسی قسم کا شبہ پیدا ہو تو تم نے نہبی سے عرض کیا.جس نے اسے دور کر دیا یا اگر کوئی جھگڑا ہوا تو جھٹ اس نے فیصلہ کر دیا.پس میں سچ سچ کہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود کا زمانہ ہمارے لئے سلامتی اور امن کا زمانہ تھا اور وہ رات ہمارے لئے دن سے بہتر تھی کیونکہ اس میں کوئی اختلاف موجود نہ تھا نہ کوئی پیغامی تھا.نہ کوئی بابی تھا.اس وقت تم میں اختلاف عقائد رکھنے والے موجود نہ تھے.تمہارا وہ زمانہ امن اور سلامتی کا زمانہ تھا اور وہ وقت تمہارے لئے نہایت آرام دہ وقتوں میں سے تھا.اس لئے وہ رات جو کہ ۲۷ - تاریخ کی رات تھی.یعنی نہایت تاریکی کی رات وہ ان دنوں سے بہتر تھی.جن میں ترقیات ہوں گی حکومتیں ملیں گی.دنیا میں احمدی ہی احمدی پھیل جائیں گے.لیکن اختلافات بھی رونما ہوں گے.تم اس وقت بے خوف اور تمام اختلافوں سے امن میں تھے.کیونکہ تم میں خدا کا نبی موجود تھا.اور تمہاری حالت بعینہ اس شعر کے مطابق تھی.دل کے آئینہ میں ہے تصویر یار جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی خدا کا معشوق تمہارے دل میں موجود تھا.جب کوئی شک و شبہ پیدا ہوا.تم نے اس کی طرف توجہ کی اور وہ شک دور ہو گیا.یہ موقع نبی کے زمانہ میں ہر طبقہ کے لوگوں کو ملتا ہے کہ ان کے شبہات دور کئے جاتے ہیں.لیکن نبی کی وفات کے بعد یہ سعادت خاص خاص لوگوں کو ہی ملتی ہے اور ان ہی کے شکوک کا ازالہ ہوتا ہے.باقی اپنی اسی حالت میں رہتے ہیں.اور وہ اس وقت شبہات کا ازالہ نہیں کر سکتے.جس طرح کہ وہ نبی کے زمانہ میں آسانی سے کر سکتے تھے.اسی لئے وہ بات جو آج بڑوں کو حاصل ہے.حضرت مسیح موعود کی زندگی میں چھوٹوں کو بھی حاصل تھی اور وہ برکات ان کو حاصل ہو جاتے تھے جو آج بڑوں کو حاصل ہیں.پس لیلتہ القدر کیا ہے ایک نبی کا زمانہ ہے اور ایک نبی کی بعثت کا وقت ہے.تم اس سے فائدہ اٹھاؤ اور خدا کا قرب حاصل کرو.اس لیلتہ القدر میں خدا کے فرستادہ ایک بیج بو جاتے ہیں.جو بعد میں نشو و نما پاتا اور بڑھتا ہے اور یہی وہ رات ہوتی ہے.جس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے.تنزل الملائکتہ و الروح کہا جاتا ہے.قرآن میں حضرت عیسی کو روح کہا گیا ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ روح کلام اللہ کو بھی کہا گیا ہے.اور مجدد کو بھی کیونکہ وہ کلام الہی کا حامل ہوتا ہے.پس وہ مجدد جو روح کہلاتا ہے.تمہاری ہدایت کے لئے کھڑا کیا گیا ہے اور یہ زمانہ وہ زمانہ ہے کہ جس میں فرشتوں
398 کا بھی نزول ہوا ہے اور یہ رات امن اور سلامتی کی رات ہے.جس میں ملائکہ کا نزول صبح تک ہوتا رہتا ہے.پس اب چونکہ صبح ہونے کو ہے اور طلوع آفتاب نزدیک ہے اور وہ دن چڑھنے والا ہے کہ تمہارے ہاتھ میں حکومت دی جائے.تم لوگوں پر حاکم بنائے جاؤ.لوگ تمہارے محکوم ہوں.تم لوگوں کے حقوق ادا کرو اور وہ تم سے ان حقوق کی ادائیگی کا مطالبہ کریں.تم اس وقت حاکم ہو گے.مظلوم نہ ہو گئے لیکن وہ برکات جو تم کو اس وقت ملتی ہیں.نہ ملیں گی کیونکہ وہ دن ہو گا جو اختلافوں اور اجتہادوں سے بھرا ہوا ہو گا پس فجر ہونے سے پہلے ہوشیار ہو جاؤ.کیونکہ فجر ہونے والی ہے تم اس وقت سے فائدہ اٹھا لو.اور اپنی روحانی اصلاح کر لو.خدا تعالی تمہیں توفیق دے.ا بخاری باب رفع معرفت لیلتہ القدر التلاحی الناس ۲۰ ابو داؤد جلد ما ۲۳ و مشکوة کتاب العلم ۳۴ الفضل ۲۰ مئی ۱۹۲۴ء)
399 64 (فرموده ۹ مئی ۱۹۲۴ء) سورہ فاتحہ کی لطیف تفسیر مشهد تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا : مومن کا فرض جیسا کہ سورۃ فاتحہ میں بتلایا گیا ہے یہ ہے کہ وہ ساری دنیا کو ہدایت دے اور اسلام نے اس امر پر خصوصیت سے زور دیا ہے کہ انسان کو خدا نے اس لئے نہیں پیدا کیا کہ وہ اپنے ہی فائدہ کو مد نظر رکھے.اور بحیثیت فرد زندگی بسر کرے.بلکہ انسان کی پیدائش کی غرض یہ ہے کہ وہ جماعتی زندگی بسر کرے.اس جماعت کے افراد کو فائدہ پہنچانے کا خیال رکھے.اور ان کو ہدایت دینے میں کوشاں رہے.اگر ہم غور کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ انسان اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ تمام کے فوائد کے لئے زندگی بسر کرے.اور اسی لئے خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے : کنتم خیر امة اخرجت للناس (آل عمران (۱) تم سب سے بہتر امت ہو.کیوں؟ اس لئے کہ تمہاری صفت یہ ہے کہ تم اپنی ذات کی تکمیل ہی کرنے کے لئے پیدا نہیں کئے گئے.بلکہ تم لوگوں کے قیام کے لئے پیدا کئے گئے ہو.پس مسلم کا یہ فرض عین ہے کہ وہ اپنی ذات کے فائدہ کو نہ دیکھے بلکہ اوروں کو فائدہ دینے کے لئے زندگی بسر کرے یہی مسلم کی غرض اور اس کا عین مقصود ہے اور اسی مضمون کو سورہ فاتحہ میں ادا کیا گیا ہے کہ انسان اپنے وجود کے فوائد کو مد نظر نہ رکھے.بلکہ اوروں کو فائدہ پہنچانا اس کا اولین مقصد ہو.چنانچہ سورہ فاتحہ کے شروع میں الحمد للہ رب العالمین میں خدا اور بندے کے تعلق کا ذکر نہیں کیا گیا نہ ہی الرحمن الرحیم میں بندے کے تعلق کو خدا سے بتایا گیا ہے اور نہ ہی مالک یوم الدین میں ہی اس کے خدا سے تعلق کا اظہار کیا گیا ہے.بلکہ صرف تین جگہ خدا اور بندے
400 کے تعلق کا اظہار کیا گیا ہے اور تینوں جگہ جماعت کا ذکر ہے کسی فرد کا نہیں ہے..چنانچہ پہلی جگہ ایاک نعبد ہے جب انسان خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے.تو اس وقت خدا اور بندہ میں میں اور تو کا سوال ہوتا ہے.لیکن وہ کہتا ایاک نعبد ہے کہ اے خدا "ہم" تیری عبادت کرتے ہیں.یہاں نعبد فرمایا ہے.اعبد نہیں فرمایا.یعنی ہم کہا ہے میں نہیں کہا.حالانکہ عبادت میں کرتا ہے ہم نہیں کرتے.اور ہم کہنا اسی صورت میں صحیح ہو سکتا ہے جبکہ دو باتیں پائی جائیں.اول یہ کہ سب انسان خدا کی عبادت کرتے ہوں لیکن یہ مشاہدہ کے رو سے بالکل غلط ہے..کیونکہ دہریے بھی دنیا میں رہتے ہیں.جو خدا کو گالیاں دیتے ہیں اور مشرکین بھی ہیں.جو بتوں کے آگے اپنی ناکیں رگڑتے ہیں اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں.پس یہ کہنا کہ ساری دنیا خدا کی عبادت ، کرتی ہے بالکل غلط ہے.ہاں ایک دوسری صورت ہے "ہم" کہنا صحیح ہو سکتا ہے.اور وہ یہ کہ قاعد ہے کہ کسی کی طرف کوئی فعل منسوب کر دیا جاتا ہے.اس لئے کہ وہ آئندہ اس کو کرے گا یا اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ آئندہ کسی زمانہ میں اس سے کرائے گا.اس لحاظ سے ایاک نعبد کہا جا سکتا ہے کہ سب انسانوں کو ہم خدا کی عبادت کرنے والے بنا کے چھوڑیں گے.اور زبان کی خصوصیت بھی بتلاتی ہے کہ اس فقرہ میں غیر لوگوں کو بھی اپنے اندر شامل کیا گیا ہے.پس اس لحاظ سے ایاک تعبد کے معنے یہ نہ ہوں گے کہ ساری دنیا عبادت کرتی ہے.کیونکہ یہ واقعہ کے خلاف ہے بلکہ یہ معنے ہوں گے کہ میں سب کو تیری عبادت کراؤں گا گو فی الحال سب لوگ تیری عبادت نہیں کرتے.لیکن میں ان سے تیری عبادت کراؤں گا اور اگر اب تیری طرف نہیں آتے تو پھر آجائیں گے.پس یہی مطلب ٹھیک ہے اور اسی سے میں کی جگہ "ہم" کہنا درست ہے دوسری جگہ سورہ فاتحہ میں جہاں بندے اور خدا کے تعلق کو ظاہر کیا گیا ہے وہ مقام ایاک نستعین ہے.یہاں بھی استعین نہیں بلکہ نستعین کیا ہے اور اس میں یہ اقرار ہے کہ ہم تجھ سے مدد چاہتے ہیں.یہ اقرار بھی بظاہر صحیح نہیں معلوم ہوتا کیونکہ نہ تو تمام دنیا مسلمان ہی ہے کہ وہ صرف خدا سے مدد چاہے اور پھر جو مسلمان ہیں.وہ بھی سب کے سب خدا سے مدد نہیں چاہتے پس یہ معنے کرنے کہ ہم سب تجھ سے مدد چاہتے ہیں غلط ہیں.بلکہ اس کے یہ معنے صحیح ہیں.اور یہی ہو سکتے ہیں، کہ میں سب کو تیری عبودیت کی طرف لاؤں گا اور پھر وہ عبد بن کر تجھ سے مدد چاہیں گے.پھر تیسری جگہ سورۃ فاتحہ میں خدا اور بندے کے تعلق کو اس فقرہ میں جمع کیا گیا ہے کہ اھدنا......
401 الصراط المستقیم.یہاں بھی بندہ امدنی نہیں کہتا بلکہ اهدنا کہتا ہے کہ ہم سب کو ہدایت دے.نہ کہ صرف مجھے ہدایت دے.اس میں مومن کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ سب کو اپنے ساتھ شامل کر اور سب کے فائدہ کا خیال رکھنا.جب ایک مومن کی یہ شان ہے تو کیا یہ عجب بات نہیں ہے کہ اگر ہر احمدی کہلانے والے کو یہ کہا جائے کہ اپنے علاقہ میں تبلیغ کیا کرو.تو وہ کہے کہ مجھے کیا ضرورت ہے.میں خود ہدایت پا چکا ہوں.اوروں کی کیا پروا ہے.اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے اور اگر کہتا نہیں.بلکہ اپنے عمل سے یہ ظاہر کرتا ہے.یعنی دوسروں کو حق کی تبلیغ نہیں کرتا.تو اس کی حالت پر بہت ہی افسوس ہے.کیونکہ وہ خدا کے آگے جھوٹ بولتا ہے.جبکہ امدنا پکارتا ہے.کیا ایک ایسا شخص جس کا ہاتھ زخمی ہو.وہ کہہ سکتا ہے کہ میں اچھا ہوں.یا وہ شخص جس کا پاؤں اچھی طرح نہ اٹھ سکتا ہو کہہ سکتا ہے کہ میں توانا ہوں.یا کیا وہ شخص اپنے آپ کو خوبصورت کہہ سکتا ہے جس کا ناک کٹا ہوا ہو یا جس کی آنکھ کان میں قصور ہو.اگر نہیں تو کوئی انسان اپنے آپ کو ہدایت یافتہ سمجھ کر کس طرح مطمئن ہو سکتا ہے جبکہ خدا تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک وجود کی طرح قرار دیا ہے.جیسا کہ سورۃ فاتحہ سے میں نے بتایا ہے کہ اس میں انسان کو بحیثیت مجموعی خدا کے سامنے کھڑا کیا گیا ہے.نہ کہ فرویت کے لحاظ سے اور یہ سکھایا ہے.کہ تمہاری نگاہ کسی کام کے فائدے پر جماعت کے لحاظ سے پڑے نہ کہ فردیت کے لحاظ سے اور تمہیں تمام پر نگاہ ڈالتے ہوئے اپنے پر غور کرنا چاہیئے.یہ نہیں کہ اپنے فوائد کو مد نظر رکھو اور اوروں کی خبر نہ لو.پس وہ انسان جو اهدنا اور اخرجت للناس کی حقیقت کو جانتا ہے.کس طرح کہہ سکتا ہے کہ میں اچھا ہوں.مجھے کسی اور کی فکر کی کیا ضرورت ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ انسان کو بنی نوع کی ہمدردی کرتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے.اور ہر ایک مسلم کا فرض ہے کہ وہ اپنی عمر تمام بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے خرچ کرے.اگر کوئی شخص اپنی عمر کو ہدایت پہنچانے میں خرچ نہیں کرتا.تو اس کی نماز مداہنت اور منافقت کا رنگ رکھتی ہے.کیونکہ وہ اھدنا الصراط المستقیم صحیح طور پر نہیں کہہ رہا ہو تا.میں نے بارہا تبلیغ کی طرف جماعت کو توجہ دلائی ہے.لیکن اکثر لوگ ابھی تک اس کام کو سرانجام دینے میں سست ہیں.بعض لوگ دین کے اور کاموں میں تو حصہ لیتے ہیں.اور اگر کوئی لیکچر یا وعظ ہو رہا ہو.تو انتظام وغیرہ کرنے.لوگوں کو بٹھانے.انہیں خاموش کرانے میں لگے رہیں گے.لیکن خود تبلیغ کرنا ضروری نہیں سمجھیں گے.اگر تمام کے تمام احمدی تبلیغ کرنا اپنا فرض سمجھ لیں.تو
402 بہت جلد ساری دنیا ہدایت کی طرف آجائے.کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ اگر اہل دنیا کو اچھی طرح حق سمجھا دیا جائے تو وہ نہ سمجھیں.اگر اس طریق پر لوگوں کو سمجھایا جائے کہ ان میں ضد اور تعصب نہ پیدا ہو اور ان کو یہ معلوم ہو جائے کہ جدھر وہ جا رہے ہیں اس طرف ان کے آگے آگ ہے لیکن جس طرف تم انہیں بلاتے ہو ادھر جنت ہے.تو یہ ممکن نہیں کہ انہیں ہدایت نہ ہو پس پہلی شرط تبلیغ کے لئے یہ ہے کہ لوگوں میں یہ ظاہر ہو جائے کہ ان کے آگے آگ ہے اگر وہ ادھر ہی چلے گئے.تو آگ میں جا پڑیں گے.اس سے تم انہیں بچانا چاہتے ہو جب انہیں یہ یقین ہو جائے گا تو وہ ضرور تمہاری طرف آجائیں گے لیکن اگر ان کو اپنے آگے آگ ہونے کا یقین نہ ہو گا.تو وہ تمہاری طرف متوجہ نہ ہوں گے اور نہ ہی ہدایت پائیں گے.دوسری شرط تبلیغ کے لئے یہ ہے کہ تم ان کو ایسے طور پر بتاؤ کہ تمہاری گفتگو سے وہ اپنی حقارت نہ سمجھیں کیونکہ بعض اوقات انسان اپنی حقارت کو دیکھ کر ہلاکت کی طرف چلا جاتا ہے اور ہلاکت کو ہدایت کے مقابلہ میں پسند کر لیتا ہے.پس تم ان کے دل میں حقارت نہ پیدا کرو.مگر یہ ضرور کہو کہ تمہارے سامنے آگ ہے.اس سے بچ جاؤ.پیغامی حقارت اور نفرت کو دوسرے کے دل میں پیدا کرنے سے تو بچے لیکن انہوں نے یہ نہ بتایا کہ تمہارے سامنے آگ ہے.اور جس کی طرف ہم بلاتے ہیں.وہ جنت ہے.انہوں نے ایک شرط پوری کی.مگر دوسری چھوڑ دی.اس کا نتیجہ کیسا برا نکلا.تم میں سے بعض یہ تو بتا دیتے ہیں کہ ان کے سامنے آگ ہے.اور جس کی طرف وہ بلاتے ہیں.جنت ہے لیکن ان کی تبلیغ سے ان کے دل میں ان کی طرف سے حقارت اور نفرت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ ہدایت کی طرف نہیں آتے.اور رک جاتے ہیں.تمہاری طرف سے لوگوں میں حقارت اور نفرت نہ پیدا ہو.اور نہ ہی تم ان کے سامنے آگ بتلانے میں سستی کرو.پس میں تم لوگوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اس طرح سمت رہنے سے کبھی احمدیت نہ پھیلے گی او رنہ ہی اس خیال سے احمدیت پھیلے گی کہ مولوی لوگ ہماری جگہ تبلیغ کر رہے ہیں.پھر نہ ہی اس خیال سے ترقی ہو گی کہ ہما را چندہ ہی دینا کافی ہے.اور تبلیغ کرنے کی ضرورت نہیں.جب تک تمام لوگ احمدیت کے پھیلانے میں نہ لگیں گے.ترقی نہ ہو گی.مولویوں کی غرض تو صرف یہ ہوتی ہے کہ وہ دین کو قائم رکھیں اور اس میں خلل نہ آنے دیں.دوسرے لوگوں کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ دین جو خدا کی طرف سے ان کو نبی کے ذریعہ ملا ہو سب تک پہنچائیں.اسی طرح ہمیں بھی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے اور
403 احمدیت پھیل سکتی ہے.ہماری جماعت کو چاہیئے کہ ایک دفعہ یہ عقد ہمت باندھ کر کھڑی ہو جائے.کہ اسلام کو تمام وسرے لوگوں تک پہنچا دیتا ہے.اور ستی چھوڑ دے کیونکہ یہی کامیابی میں ہارج ہے اور یہی ہماری ترقی میں روک ہے.ورنہ خدا تعالیٰ کو کامیابی دینے میں بخل نہیں اور نہ اس کے خزانے میں کمی ہے.اور نہ ہی اس کے خزانے میں پہلوں کو دینے سے کمی آئی ہے بلکہ خدا کے خزانے اسی طرح بھرے ہوئے ہیں.جس طرح پہلے بھرے ہوئے تھے.نقص اور ستی تمہاری طرف سے ہے.تم وہ شرط پوری نہیں کرتے.جو خزانے کے منہ کھولتی ہے.خدا تعالیٰ ہای جماعت کو توفیق دے کہ وہ شرطیں پوری کر ہے.جن سے خدا تعالٰی کے خزانے کا منہ کھلتا ہے.تاکہ ہم انعامات حاصل کر الفضل ۲۳ مئی ۱۹۲۴ء)
404 65 (فرموده ۱۶ مئی ۱۹۲۴ء) روحانی بیماروں کو چنگا کرنے کی ضرورت مشهد تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: میں نے پچھلے جمعہ اس بات کی طرف توجہ دلائی تھی کہ تبلیغ کی طرف ہماری جماعت خصوصیت سے توجہ کرے کیونکہ اسلام نے انسان کی پیدائش کی جو اغراض رکھی ہیں.ان میں سے ایک غرض تبلیغ بھی ہے.مجھے حیرت ہوتی ہے اور تعجب آتا ہے.جب کہ میں بہت سے لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ کسی غریب یا مسکین کو گزرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اس پر انہیں رحم آتا ہے کسی زخمی کو دیکھتے ہیں تو اس پر رحم کھاتے ہیں.ایسا شخص اگر دکھائی دے جس کے جسم میں کیڑے پڑے ہوں.تو اس کی حالت پر ان کی طبیعت رحم کھائے گی.کوئی لولا لنگڑا اور اپانچ دیکھ لیں.تو انہیں رحم آئے گا.غرض لوگوں کی جسمانی و مالی تکالیف کو دیکھ کر آپس میں ایک دوسرے پر رحم کھاتے ہیں اور ان کے قلوب میں ایک جوش ہمدردی کا پیدا ہوتا ہے.لیکن روحانی امر میں ایک دوسرے کے متعلق رحم نہیں پیدا ہوتا.انسان دو ہی چیزوں سے بنا ہے.ایک جسم سے اور دوسرے روح سے جس طرح جسم کے لئے مال کی کمی فقر و فاقہ کی نوبت پیدا کر دیتی ہے.جس طرح جسم کے لئے لباس ضروری ہے اور اگر لباس نہ ہو تو انسان ننگا ہو جاتا ہے.جس طرح جسم کے ساتھ بیماریاں لگی ہوئی ہیں.جن سے اس کی حالت دردناک ہو جاتی ہے.اور دیکھنے والے کو اس کے لئے ہمدردی پیدا ہوتی ہے.جس طرح جسم کے بعض اعضا ضائع ہو جاتے ہیں.اسی طرح انسان کی روح پر ساری کیفیات آتی ہیں.جس طرح مال جسم انسانی کو نشوونما دینے اور تکالیف سے بچانے کا ذریعہ ہے اسی طرح علم روحانی بھی روح کی نشو نما کا ذریعہ ہے جس طرح انسان کا جسم ضائع ہو جاتا ہے.بعض بیماریوں کی وجہ سے آنکھ کان ناک ضائع ہو جاتے ہیں اسی طرح لوگوں کے یہی حصے روحانی طور پر ضائع ہو جاتے ہیں.جس طرح
405 جسم انسانی میں بعض بیماریوں کی وجہ سے کیڑے پڑ جاتے ہیں.اسی طرح روحانی اعضاء میں بھی کیڑے پڑ جاتے ہیں.کیڑے پڑنے سے کیا مطلب ہے یہی کہ اس حصہ جسم میں غذا حاصل کرنے کی طاقت نہیں رہتی.اور چونکہ قانون قدرت یہ ہے کہ جو چیز بڑھتی نہیں ہے وہ گھٹتی ہے.اس لئے وہ حصہ گل کر علیحدہ ہو جاتا ہے.جب انسان کے جسم کا کوئی حصہ غذا حاصل نہیں کرتا.اور طاقت و قوت کی لہر جو جسم میں جاری ہوتی ہے.وہ اسے نہیں پہنچتی.تو کیڑے پڑ جاتے ہیں اور جیسے انسانی جسم کا کوئی حصہ جب انسانی حفاظت سے باہر رہتا ہے.تو کیڑے اس کو کھاتے ہیں.اسی طرح روحانی حالت ہے کہ جب کسی روح کا تعلق مبدأ مرکز سے نہیں رہتا تو کیڑے اسے گندہ کر دیتے ہیں اور اپنی غذا بنا لیتے ہیں.اگر روح ظاہر میں نظر آتی اور اس کی بیماریاں بھی مجسم صورت میں نظر آتی ، نہ کہ عقل سے معلوم ہو تیں تو جیسے تم کوڑھیوں کے پاس سے گذرتے ہوئے ان سے ہمدرد را کر.اور گھن محسوس کرتے ہو.اسی طرح روحانی بیماروں کی روحیں اور بیماریاں نظر آنے پر تم کو کو ڈھیر ، سے بھی زیادہ ان سے گھن آتی اور ہمدردی پیدا ہوتی.اگر تمہارے روحانی ناک ہوتے.تو جس طرح ظاہری ناک کی وجہ سے بڑی بڑی گھنونی اور بدبو دار چیزوں سے بدبو محسوس کر کے تمہیں کراہت ہوتی ہے اور ہمدردی پیدا ہوتی ہے اسی طرح تمہاری روحانی ناک تم کو بتا دیتی کہ فلاں شخص میں بدبو ہے پس تم کو اس سے ہمدردی سے جو جسمانی مریضوں سے ہوتی ہے کئی درجہ زیادہ ان لوگوں سے ہمدردی ہونی چاہیئے جو صداقت سے محروم ہیں.مگر میں دیکھتا ہوں کہ بہت لوگ ہیں جو ایک مالدار صاحب ثروت کو جسمانی تکلیف میں دیکھ کر اس سے ہمدردی کرتے ہیں اور یہ نہیں کہتے کہ اے خدا اس کا مال ہم کو دے دے کیونکہ اس کی حالت دیکھ کر مالی حالت کو بھول جاتے ہیں.اور یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ مال کس کام ہے اگر جان نہ بچی مگر بہت ہیں جو روحانی بیماروں کے مال کو دیکھ کر تعجب کرتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ان کافروں کے پاس کتنا مال ہے.مثلاً عیسائی ہیں.ان کے مال کو دیکھ کر لوگ تعجب کرتے ہیں.انہیں اپنے سے بہتر اور آرام میں خیال کرتے ہیں.حالانکہ وہ روحانی لحاظ سے قابل رحم بیماریوں میں مبتلا اور لائق ہمدردی ہیں لیکن چونکہ ان کی بیماری نظر نہیں آتی اور اصل حقیقت لوگوں پر منکشف نہیں ہوتی.اس لئے اس کی پروا نہیں کی جاتی.اور ایسے لوگوں کی حالت پر ترس نہیں کھایا جاتا.حالانکہ اگر ایک بادشاہ بھی جو ساری دنیا کا حاکم ہو.زمانہ کے امام کو نہیں پہچانتا تو اس سے زیادہ بد قسمت کون ہو سکتا ہے.اس کا مال کس کام آئے گا اگر اس نے دنیا میں تھیں یا چالیس سالہ زندگی آرام و
406 آسائش میں بھی گزار لی تو کیا کر لیا.اس زندگی میں جس کی نسبت ہمیں یقین ہے.کیونکہ ایک صادق ہستی نے اس کی خبر دی ہے.اور جو ہمیشہ کی زندگی ہے.اس میں اس کے لئے دانتوں کا پینا اور رونا پیٹنا ہو گا.پس اس کا مال کیا فائدہ دے سکے گا.کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اس کی زبان پر تھوڑی دیر کے لئے ایک لڈو رکھ کر پھر اسے کاٹ دیا جاوے یا اسے ایک خوش منظر دکھانے کے بعد اس کی آنکھوں میں سوئی چبھو کر اسے اندھا کر دیا جائے.اگر تم اسی چھوٹی تکلیف کو ایک وقتی آرام کے بعد برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں.تو ایسے مالدار کو دیکھ کر کیسے خوش ہو سکتے ہو.جس نے اگلی زندگی میں اس سے بھی بڑھ کر تکالیف جھیلنی ہیں.پس یہی نہیں کہ تمہارے غریب اور بیکس ہمسائے حق و صداقت کے محتاج ہیں.بلکہ وہ بڑے بڑے متکبر لوگ جو گردنوں کی چربی کی وجہ سے اس صدات کی طرف توجہ نہیں کر سکتے.جو روحانی زندگی کے لئے خدا نے نازل کی ہے.اور جن کے پاؤں فخر و خیلاء کی وجہ سے زمین پر نہیں پڑتے.وہ بھی زیادہ محبت و ہمدردی کے قابل ہیں.کیونکہ جس کو وہ راحت خیال کر رہے ہیں.وہ ان کے لئے وبال جان ہے.میں کہتا ہوں.اگر دنیا کی چھوٹی چھوٹی تکلیفیں تمہارے دل میں لوگوں کے لئے رقت پیدا کر دیتی ہیں.تو وہ عظیم الشان تکلیف - جس میں وہ مبتلاء ہیں.کیوں تمہارے دل میں رقت پیدا نہیں کرتی یہ بڑا سوچنے کا مقام ہے.یاد رکھو کہ خدا کے مامورین نہیں آتے.جب تک کہ دنیا ہدایت سے محروم نہیں ہو جاتی.وہ اسی وقت بھیجے جاتے ہیں.جبکہ دنیا ہدایت کی محتاج ہوتی ہے اگر دنیا میں ہدایت اور راستی موجود ہو تو کوئی سلسلہ قائم کرنے والے انبیاء نہیں آیا کرتے.وہ ایسے ہی وقت میں آتے ہیں.جب مرض پر مرض بڑھ جاتی ہے تاریکی پر تاریکی چھا جاتی ہے.جب دنیا کے فرزند کو ڑہی کی طرح ہو جاتے ہیں.اس وقت خدا اپنے ماموروں کو بھیجتا ہے کہ جاؤ جا کر ان کے کیڑے نکالو اور ان کوڑھیوں کو اچھا کرو.ماموروں کا یہ فرض ان کے بعد ان کی جماعت کے ذمہ عائد ہوتا اور اس کی ادائیگی ان پر واجب ہو جاتی ہے.مگر افسوس ہے کہ ہمارے دوست اس امر کی طرف توجہ نہیں کرتے.میں نے گذشتہ سالانہ جلسہ پر اور پھر مجلس مشاورت میں اعلان کیا تھا کہ چند ضلعے منتخب کر لئے جاویں جہاں کے تمام احمدیوں سے سال میں پندرہ دن وقف کرا کے ان ضلعوں میں تبلیغ کرائی جاوے.مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بیرونی لوگ تو الگ رہے.ہمارے دفاتر نے بھی اس طرف کوئی توجہ نہیں کی.اور تاحال کوئی کارروائی متعلقہ دفتر سے شروع نہیں کی گئی.اگر ایک امر کا فیصلہ کر کے پھر خاموش ہو کر بیٹھ رہیں.تو کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی ہم جنگ کی حالت میں ہیں.اس لئے
407 کسی امر کے متعلق فیصلہ کرنے کے بعد اس پر جلدی عمل کرنا چاہئے.دیکھو اگر انگریز گذشتہ جنگ کے دوران میں ایسا کرتے کہ ایک امر کے متعلق فیصلہ کرتے اور پھر اس کو عمل میں نہ لاتے تو آج لنڈن میں ان کا پھریرا نہ لہرا رہا ہوتا.پھر کاموں کا فیصلہ کر کے خاموشی اختیار کر لینا ذلت کا بھی موجب ہوتا ہے.جب پندرہ روزہ لازمی تبلیغ کے لئے تحریک کی گئی اور چند اضلاع کے قائم مقاموں نے اسے جاری کرنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا تو اس وقت قادیان کے دوستوں نے بھی کہا تھا کہ ان ضلعوں میں گورداسپور کا بھی ضلع رکھا جائے میں نے ان کے کہنے کی وجہ سے گورداسپور کو بھی شامل کیا تھا.مگر مجلس شوری کے بعد کوئی باقاعدہ کام شروع نہیں کیا گیا.باقاعدہ کیا ابتدائی کارروائی بھی ابھی تک نہیں ہوئی.قاعدہ ہے کہ تمام اعضاء مرکز سے قوت پاتے ہیں.دل کی حرکت اگر رک جائے تو کسی عضو میں طاقت یا خون نہیں پہنچے گا.اور تمام اعضاء مردہ ہو جائیں گے اور جب تک دل میں طاقت ہوگی جوارح بھی طاقتور ہوں گے قادیان مرکز ہے باقی جماعتوں کا.باہر کی جماعتیں قادیان کی جماعت سے نمونہ پکڑتی ہیں.لیکن قادیان کی جماعت نے اس تحریک میں کوئی ایسا ممتاز حصہ نہیں لیا کہ باہر کی جماعتیں اس کی تقلید کرتیں.ملکانہ تحریک میں قادیان سے جتنے آدمی گئے ہیں.وہ دوسری جماعتوں کے لحاظ سے چار پانچ گنا زیادہ ہیں.مگر پھر بھی یہ زیادتی کوئی ایسی نہیں.جو اعلیٰ نمونہ ہو جب تک قادیان کے ہر فرد کو بیرونی لوگ دینی جوش سے بھرا ہوا نہ دیکھیں.تب تک وہ کامل طور پر تبلیغ کی طرف متوجہ نہیں ہو سکتے.اس وجہ سے میں قادیان کے لوگوں کو خاص طور پر کہتا ہوں کہ وہ تبلیغ کے لئے اپنے اوقات خرچ کریں.ساری دنیا تو علیحدہ رہی.صرف اپنے ضلع کو ہی سنبھالیں کیا یہ افسوس کی بات نہیں کہ ۳۴ سال سے سلسلہ احمدیہ کام کر رہا ہے.مگر ایک ضلع کو ہم احمدی نہیں بنا سکے.- اگر ۳۴ سال میں ہم سے پورے ایک ضلع گورداسپور کو احمدی نہ بنایا گیا تو وہ دنیا جس میں ہزاروں لاکھوں گورداسپور جیسے اضلاع ہیں.اس کے لئے کتنا عرصہ چاہیئے.اگر اتنا عرصہ ہی رکھا جاوے تو ۳۴ لاکھ برس میں تمام دنیا میں تبلیغ کی جاسکے گی.مگر میں کہتا ہوں اتنی مدت کس امت کو ملی ہے.حضرت آدم کی امت کو ایک ہزار سال کی مدت ملی جس میں ان کی قوم کی ترقی بھی ہوئی اور تنزیل بھی ہوا جس پر حضرت نوح کی ضرورت پڑی.پھر حضرت نوح کی امت کو بھی ایک ہزار سال ملا
408 اسی میں ان کی ترقی ہوئی اور تنزل بھی ہوا.پھر آخری خلیفہ ان کی امت کے حضرت ابراہیم آئے.ان کی امت کو بھی اتنا ہی وقت دیا گیا.بعض کا اندازہ ہے کہ بارہ سو سال اور بعض کا اندازہ ہے چودہ سو سال دیئے گئے اسی میں ان کی قوم نے کمال عروج حاصل کیا اور پھر کمال انحطاط بھی ہوا.پھر حضرت موسی آئے.اور ان کی امت کو دو ہزار سال دیئے گئے.ان کی امت میں کئی بار ترقی و تنزل کا دور چلا.چار بار ترقی ہوئی اور چار ہی بار تنزل ہوا.پہلی ترقی حضرت موسیٰ" کے زمانہ میں ہوئی اور پھر وہ قوم تباہ ہوئی.دوسری ترقی حضرت داؤد و حضرت سلیمان علیہما السلام کے وقت میں ہوئی.انہوں نے اپنے زمانوں میں بنی اسرائیل کو ترقی دی اور تنزل سے نکالا.مگر ان کے بعد بنی اسرائیل ذلیل ہو گئے.یہ تنزل تین سو سال کے اندر ہوا.پھر جب عزرا نبی کا زمانہ آیا.تب حضرت موسیٰ" کی امت کی ترقی ہوئی پھروہ تنزل و انحطاط میں پڑ گئے کہ حضرت مسیح کا زمانہ آیا.اس وقت انہوں نے چوتھی دفعہ ترقی کی.مگر چوتھی بار آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آنے سے قبل گر گئے گویا دو ہزار سال کے اندر اندر ان پر چار دور گذرے اور فی دور پانچ سو سال کا ہوا.جس میں انہوں نے اپنے مقصد کو حاصل بھی کیا اور پھر کھو بھی دیا.اگر اس عرصہ کو بھی آدھا آدھا تقسیم کریں.تو گویا اڑھائی سو سال میں انہوں نے اپنے مقصد کو پایا.اس کے مقابلہ میں ہماری ترقی کی موجودہ رفتار سے اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کا اندازہ چونتیس ہزار سال گمان کیا جائے.کس قدر سادہ لوحی کی بات ہے.اس قدر زمانہ ہمیں کس طرح مل سکتا ہے.ہم کو بھی اتنا ہی زمانہ ملے گا جو پہلی امتوں کو ملا اور وہ اڑھائی سو سال یا تین سو سال ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت کو بھی ترقی کا زمانہ اتنا ہی ملا.چنانچہ آپ نے فرمایا کہ خیر القرون قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين یلونهم حضرت صاحب نے بھی یہی فرمایا کہ تین سو سال کے اندر ترقی ہوگی.پس یاد رکھو.جب تک ہم اپنے ہر لمحہ کو تبلیغ کے لئے صرف نہ کر دیں گے تب تک ہم ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہو سکیں گے.تم لوگ جب تک اپنی تمام قوتوں کو دین کے لئے خرچ نہ کر دو.اپنی ہمتوں کو بلند نہ کر لو.ہر قسم کی قربانی و ایثار کر کے نہ دکھا دو.اس وقت تک دنیا بھی فتح ہونی مشکل ہے.دنیا فتح ہو گی.اسلام کا غلبہ ہو گا ہر طرف احمدیت ہی احمدیت پھیلے گی.میرا اس پر ایمان ہے.اور پورا پورا یقین ہے کیونکہ خدا کے نبی نے فرمایا ہے مگر ہمیں اس سے کیا؟ اگر دوسروں کے ذریعے ایسا ہوا.مثل مشہور ہے.جان ہے تو جہان ہے اگر خدانخواستہ ہم ناکاموں اور نامرادوں کی صف میں
409 کھڑے کئے جائیں تو دوسروں کی فتوحات ہمیں کیا نفع دے سکتی ہیں.پس ضرورت ہے کہ ہم اپنی ساری طاقتیں تبلیغ کے لئے صرف کریں.تبلیغ ایسا کام نہیں جو دوسروں پر چھوڑا جاوے اور نہ یہ ہندوؤں کا اشنان ہے کہ ایک ہندو نے سردی کے مارے دوسرے کے نہانے کو اپنا نہانا سمجھ لیا تھا.تم میں سے ہر ایک کو یہ کام خود کرنا ہو گا اور جب تک ہمارا ہر فرد سکندر کا سا حوصلہ و ہمت نہیں رکھتا.ہم کو دنیا کی فتح کی امید نہیں ہو سکتی.آخر سوچو کہ نبیوں کی جماعتوں کو ایسی فتوحات دی گئیں.جو دوسرے بڑے سے بڑے بادشاہوں کو بھی نصیب نہ ہوئیں.کیا وجہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ کو سکندر سے بڑھ کر فضیلت حاصل ہے.اسی لئے کہ وہ اپنی ہمت اور ارادہ میں سکندر سے بڑھ کر تھے.ہر فرد ان صحابہ میں سے یہ سمجھتا تھا کہ ساری دنیا اگر کفر پر ہے تو میں اکیلا ہی اسے فتح کرلوں گا سکندر پھر بھی اپنی فوج پر نظر رکھتا تھا لیکن انبیا کی فوج کا ہر فرد یہ ہمت رکھتا ہے کہ دوسرے پر بھروسہ نہیں رکھنا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کی ہمت دیکھو.ایک دفعہ نبی کریم نے مردم شماری کا حکم دیا کہ شمار کرو کتنے مسلمان ہیں عرض کیا گیا ہے کہ یا رسول اللہ تقریباً سات سو کی تعداد ہے اور پھر خود ہی حیرت ظاہر کی کہ یا رسول اللہ اب تو ہم سات سو ہو گئے ہیں.کیا اب بھی دنیا سے مغلوب ہو جاویں گے اور دنیا ہم کو تباہ کر دے گی.اب ہم کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں مٹا سکتی.۲؎ کجا وہ حالت اور کجا یہ کہ ذرا سی قربانی پر بعض لوگ گھبرا جاتے ہیں.میں نے ابھی تھوڑے دن ہوئے چندہ کا اعلان کیا تھا.بعض مخلصین نے تو یہاں تک لکھا کہ جو آپ نے لکھا ہے کہ میرے چندہ مانگنے سے کوئی یہ نہ کہہ دے کہ چندہ ہی چندہ ہوتا رہتا ہے.ہم نہیں سمجھتے کہ وہ کون سا احمدی ہے جس کے متعلق یہ کہا جاوے کہ وہ ایسا کہے گا.ہم تو اس انتظار میں رہتے ہیں کہ آپ کوئی خدمت دین کا موقعہ بتائیں اور ہم پر آپ کا احسان ہوتا ہے کہ آپ ہمارے لئے مبارک موقع سوچتے رہتے ہیں اور ہمیں بھی ایسے موقعہ پر شریک فرماتے ہیں.مگر کئی ایسے بھی تھے کہ جنہوں نے افسوسناک کلمات کہے بعض جگہ سے خطوط آئے کہ بعض نے ایسا کہہ بھی دیا ہے کہ ہر وقت چندہ ہی چندہ کی آواز آتی رہتی ہے.بیشک منافقین کی جماعت ہر قوم میں ہوتی ہے.اور اس کا ہونا ضروری ہے کیونکہ وہ دوسروں کے لئے ہوشیاری کا باعث ہوتی ہے.مگر اس سے خوش نہ ہونا چاہیئے.منافق ضرور ہوتے ہیں.مگر بابرکت نہیں ہوتے بیماریاں ہوتی اور موت آتی ہے.مگر کون چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ بیمار رہے یا اس پر موت آئے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ
410 منافقین کا گروہ ہو تا آیا ہے.مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم منافقین کی منافقت کو نکالنے کی کوشش نہ کریں.اپنے فرائض اور ذمہ داری کو ادا نہ کرنا نفاق ہے.پس اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو سمجھو اور ان کے ادا کرنے کی کوشش کرو.نفاق کئی قسم کا ہوتا ہے ایک نفاق تو پوشیدہ ہوتا ہے اور ایمان اس پر غالب ہوتا ہے لیکن دوسرا نفاق یہ ہوتا ہے کہ ایمان پوشیدہ ہوتا ہے اور نفاق غالب ہوتا ہے تمہیں ایسا خیال نہ کرنا چاہیئے کہ ہمارا ایمان غالب ہے تو اس نفاق کا علاج نہ کرو.کیونکہ نفاق جو ایمان کے نیچے چھپا ہوا ہو.آگ کے اس انگارے کی طرح ہوتا ہے جو راکھ کے نیچے دبا ہوا ہو.جب بھی ہوا کا جھونکا آگیا.وہ آگ ظاہر ہو جائے گی.اگر تم اس منافقت کا علاج نہ کرو گے.تو کسی وقت تمہارے ایمان کی راکھ بھی اڑ جائے گی.اور نفاق ظاہر ہو جائے گا پس محض اس بات سے خوش نہ ہو کہ تمہارا ایمان نفاق پر غالب ہے.اگر کسی کے دل میں ایسی بات ہے تو اس کو اصلاح کرنی چاہیئے.دیکھو خدا نے ہم کو حق دیا ہے یہ ممکن ہی نہیں کہ ہم حق کو لے کر اٹھیں اور مغلوب ہو جاویں.جو لوگ یہاں بیٹھے ہیں.وہ غور سے سنیں.اور آج سے تہیہ کر لیں کہ ہم نے حق پھیلانا ہے.اگر تم میں سے ہر ایک یہ ارادہ کرلے اور مقدور بھر اس کو پورا کرنے میں لگ جائے تو میں بچ سچ کہتا ہوں کہ ایک سال ختم نہیں ہو گا کہ تم دنیا میں تغیر عظیم پیدا کر دو گے.مگر ساری بات ارادے اور ہمت کی ہے.افسوس! کئی ہیں جو سنتے ہی نہیں.اور کئی ہیں جو سنتے ہیں.مگر یاد نہیں رکھتے پھر کئی ہیں جو سنتے ہیں.اور یاد بھی رکھتے ہیں.مگر کہتے ہیں کہ یہ دوسروں کے لئے کہا گیا ہے اور ہم اس سے مراد نہیں اور یہ کہہ کر اس کام کو دوسروں پر ڈال دیتے ہیں.پھر کئی ہیں جو سنتے ہیں اور یاد بھی رکھتے ہیں.اور اپنے آپ کے لئے ہی اس کو سمجھتے ہیں.مگر ان کے نفوس میں ایسی بات ہوتی ہے.جس کی وجہ سے وہ اسے غلط قرار دے دیتے ہیں.پھر کئی ہیں جو سنتے ہیں یاد رکھتے ہیں.اپنے آپ کو ہی اس کا مصداق قرار دیتے ہیں اور ٹھیک بھی سمجھتے ہیں.مگر صحیح طور پر عمل نہیں کرتے.جو لوگ کہ سنتے ہیں.یاد رکھتے ہیں.پھر اپنے آپ کو اس کا مصداق بھی سمجھتے ہیں.اور صحیح خیال کرتے ہوئے عمل کرتے ہیں.وہ بہت تھوڑے ہوتے ہیں اور ان کی قلت ہی عظیم الشان تغیر میں روک بن رہی ہے.آخر ایک زمانہ آئے گا جب ایسے مخلصین کی قلت نہ ہو گی.بلکہ کثرت ہو گی.اور عظیم الشان ترقی ہو گی.مگر میں کہتا ہوں تم کو اس ترقی سے کیا فائدہ جب تم ناکاموں کی صف میں داخل ہو چکے.میں نے تمہیں بارہا اس بات سے آگاہ کر دیا ہے.کیونکہ میرا فرض ہے کہ میں
411 تمہیں کہتا چلا جاؤں اور خدا تعالیٰ کے حضور سرخرو ہو جاؤں.آگے اگر تم عمل نہ کرو.تو تمہاری قسمت.تم خوب اچھی طرح سمجھ لو.کہ ہم میں سے ہر شخص تبلیغ کر سکتا اور صداقت سے محروم تک حق پہنچا سکتا ہے اور ہر شخص ہم میں سے دین کے لئے قربانی کر سکتا ہے.کیونکہ خدا تعالٰی کی طرف سے جو دین آتا ہے.وہ ایسا ہوتا ہے.کہ ہر شخص اسے دوسروں تک پہنچا سکتا ہے.کیونکہ اس کی شان ہے کہ وہ ایسی ہی باتیں بیان کرتا ہے.جن کو ہر شخص دوسرے کو سمجھا سکے.ہاں لوگوں کی طرف سے پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں.جیسا کہ مولویوں نے اسلام کو مشکل بنا دیا ہے.حالانکہ اسلام ایک نہایت آسان مذہب ہے اسلام کیا ہے.خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری یہ کوئی مشکل بات نہیں.ہر شخص اسے سمجھ سکتا ہے اور دوسروں کو سمجھا سکتا ہے.حضرت صاحب کیا لے کر آئے تھے یہی کہ خدا کی محبت اپنے دلوں میں قائم کرو.دین کو دنیا پر مقدم کرو.ہر اچھی بات کو قبول کر لو.اس میں کون سی مشکل ہے.جو تم نہیں سمجھ سکتے.یا نہیں سمجھا سکتے.خدا تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم حق پہنچانے والے بنیں ہماری ستیاں دور ہوں.ہمتیں مضبوط ہوں.اور بڑے چھوٹے امیر و غریب سب دین کی تبلیغ کرنے میں کوشش کریں.ا بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم مسلم کتاب الایمان باب جواز الاسترار للخائف الفضل ۱۰ جون ۱۹۲۴ء)
412 66 آداب ملاقات اور سفریورپ کی اصل غرض (فرموده ۲۳ مئی ۱۹۲۴ء) شهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا : میں نے پچھلے دنوں ایک امر کے متعلق مشورہ لیا تھا.اور اب بھی اسی امر کے متعلق ایک الگ مشورہ لیا ہے.ان مشوروں کے لینے کی وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ وہ امر ایسے طور پر مشہور ہو چکا ہے کہ اس کا اب مخفی رکھنا ٹھیک نہیں.اس لئے میں اس میں حرج نہیں سمجھتا کہ خطبہ میں اس کا اظہار کر دوں.وہ امر میرے ولایت جانے کے متعلق ہے.اس کی نسبت میں نے جماعت سے مشورہ لیا ہے کہ یہ وقت میرے ولایت جانے کے لئے بہتر ہے یا نہیں اور جماعت کے لوگوں سے آراء طلب کی گئی ہیں.تاکہ جانے کے متعلق فیصلہ ہو.چنانچہ رائیں اور مشورے باہر کی جماعتوں کے آرہے ہیں.اور انہی مشوروں کی ضمن میں اور اسی تحریک کی اثناء میں ایک دوست نے خط لکھا ہے.جس میں وہ لکھتے ہیں گو میں غیر مبائع ہوں.لیکن مجھے آپ سے بعض مبایعین سے بھی زیادہ محبت ہے.اس لئے اس تحریک کے موقعہ پر میں بھی مشورہ دیتا ہوں اور اپنی رائے کا اظہار کرتا ہوں.چنانچہ انہوں نے خط میں میرے جانے کے متعلق مشورہ دیا ہے.لیکن قبل اس کے کہ میں ان کے مشورہ کو بیان کروں ان کے اس فقرہ کے متعلق جو انہوں نے لکھا ہے کہ مجھے آپ کے ساتھ بعض مبایعین کی نسبت زیادہ محبت ہے.کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.وہ یہ کہ اس قول کو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کیونکہ اگر کوئی شخص کسی امر کا دعوی کرے اور اس کے دعوی کی کوئی مخالفت نہ کرے اور نہ ہی اس کے دعوئی کے برخلاف ہمارے پاس ایسے دلائل موجود ہوں جن سے اس کے دعوئی کی تردید ہو سکے تو ہم اس صورت میں اس کے دعوی کو تسلیم کر
413 لیں گے.بہ نسبت اس شخص کے دعوئی کے کہ اس کے دعوئی کے برخلاف کوئی کھڑا ہو اور وہ اس کے دعوے کو توڑ دے..یا ہمیں اس کے دعوے کو بطلان کے متعلق کافی دلائل مل گئے ہوں یا دلائل تو نہ ملے ہوں لیکن خود ہی اس نے اپنے دعوی کو چھوڑ دیا ہو اس صورت میں ہم اس شخص کے دعوئی کو قبول نہیں کریں گے چونکہ یہ صاحب لکھتے ہیں کہ مجھے آپ کے ساتھ بعض مبایعین کی نسبت زیادہ محبت ہے.جب تک ان کے اس دعوئی کے برخلاف ہمارے پاس کوئی ایسی دلیل نہ ہو.جو اس دعوی کو توڑ دے یا اس دعوے کی تردید کر دے.تب تک ہم اس دعوے کو تسلیم کرتے ہیں.اور ان کے مشورے دینے کو ایک مخلصانہ فعل قرار دیتے ہیں.گو وہ سلوک جو غیر مبایعین نے ہمارے ساتھ کیا ہے.وہ ایسا برا سلوک ہے کہ ایسا ہم سے ہندوؤں نے سکھوں اور عیسائیوں نے اور دیگر مذاہب والوں نے بھی نہیں کیا.اور وہ فحش کلامی اور وہ ایذا رسانی جو ان لوگوں کی طرف سے ہمارے متعلق برتی گئی ہے.اس کی مثال دوسری قوموں میں نہیں ملتی.ان کی اس ایذا رسانی کے ہوتے ہوئے ان کے متعلق یہ خیال کر لیتا کہ کوئی شخص ان میں ایسا بھی ہے.عجیب بات ہے.لیکن چونکہ خط لکھنے والے صاحب اس بات کے مقر ہیں کہ ان کا تعلق ہمارے ساتھ بعض مبایع کی نسبت بھی زیادہ ہے اور پھر ان کے اس کہنے کے برخلاف ہمارے پاس کوئی ایسی دلیل بھی نہیں.جو اس دعوئی کو توڑ دے.اس لئے میں ان کے اخلاص کو تسلیم کرتا ہوں.اور سمجھتا ہوں کہ ان کا مشورہ ایک مخلصانہ مشورہ ہے.لیکن چونکہ میں نے ولایت جانے کے متعلق ابھی تک رائے قائم نہیں کی.اور چالیس آدمیوں کو استخارہ کے لئے کہا ہے کہ وہ استخارہ کر کے بتائیں کہ یہ وقت ولایت جانے کے لئے مناسب ہے یا نہیں اور خود بھی استخارہ کر رہا ہوں.اور خیال ہے کہ جب تمام جماعت کی رائیں آجائیں.اور استخارے بھی ہو جائیں تب ولایت جانے کے متعلق فیصلہ ہو.اس لئے ولایت جانے کے امر کو چھوڑ کر میں فی الحال خط کی ایک اور بات کی نسبت جو انہوں نے لکھی ہے.کچھ کہتا ہوں گو میں اس بات کی نسبت ایسا نہیں سمجھتا کہ ہماری جماعت میں اس حد تک پائی جاتی ہے.لیکن پھر بھی اس کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.کیونکہ اسی بات کی نسبت جو انہوں نے اپنے خط میں لکھی ہے مجھے باہر سے اور کئی لوگوں کی شکایت بھی آئی ہے.وہ اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ قادیان میں عموماً " عام لوگ آپس میں السلام علیکم نہیں کہتے.لیکن خصوصیت سے وہ لوگ جو کہ بڑے عہدوں پر متمکن ہیں.میرے خیال میں یہ ان کا خیال صحیح نہیں موجودہ زمانہ میں سلام کا مسئلہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہو گیا ہے جس کی کئی وجوہات ہیں.مثلاً بعض طبائع
414 میں حجاب ہوتا ہے.جس سے وہ آپس میں بلند آواز سے سلام نہیں کر سکتے اور جب کسی سے ملتے ہیں.تو آہستہ سے سلام کہہ دیتے ہیں یا آہستہ سے جواب دے دیتے ہیں.اس پر سلام کرنے والا سمجھتا ہے کہ میں نے سلام کیا ہے.یا جواب دینے والا خیال کرتا ہے.کہ میں نے جواب دے دیا ہے.لیکن دوسرا اس کے جواب کو بوجہ آہستہ ہونے کے نہیں سن سکتا.اور خیال کرتا ہے کہ یہ متکبر ہے.اس نے میرے سلام کا جواب تک نہیں دیا.اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ جواب دینے والا ایسا آہستہ جواب دیتا ہے کہ سلام کرنے والا اس کے جواب کو نہیں سنتا.کیونکہ اس کے کان اونچی آواز سننے کے منتظر ہوتے ہیں.جب آہستہ جواب ملتا ہے.تو وہ سن نہیں سکتے.اس پر وہ شخص خیال کر لیتا ہے کہ اس نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا.حالانکہ اس نے جواب دیا ہوتا ہے مگر اس نے سنا نہیں ہو تا تو یہ ایک قسم کا حجاب ہوتا ہے.یہی حجاب میرے اندر شروع میں تھا لوگ مجھ کو سلام کرتے تھے.اور میں ان کے سلام کا جواب دیتا تھا.لیکن چونکہ میں اپنی عادت کے مطابق آہستہ جواب دیتا تھا.اس لئے وہ سن نہ سکتے تھے.اور خیال کرتے تھے کہ میں نے سلام کا جواب نہیں دیا.حالانکہ میں ان کے سلام کا جواب دیتا تھا.جواب نہ سننے کی وجہ سے بعض مجھے متکبر کہتے تھے.چنانچہ وہ لوگ جو غیر مبایع ہو گئے.انہوں نے اسی وجہ سے میری نسبت کہا کہ وہ متکبر ہیں.سلام کا جواب تک نہیں دیتے اور وہ یہ کہنے میں معذور تھے کیونکہ یہ میری عادت تھی کہ میں سلام کا اونچا جواب نہیں دے سکتا تھا چونکہ لوگ مجھے سلام کہہ کر اونچا جواب سننے کے منتظر ہوتے تھے.اور ان کے کان اونچا جواب سننے کے لئے تیار ہوتے تھے.اور میں ان کی امیدوں کے برخلاف آہستہ جواب دیتا تھا.اس لئے وہ سن نہ سکتے تھے.اور خیال کرتے تھے کہ ان کے سلام کا جواب نہیں دیا گیا.شاید کسی کی سمجھ میں یہ بات نہ آئے کہ اونچی آواز سننے کے منتظر ہونے کی وجہ سے کیونکر نیچی آواز نہیں سنائی دے سکتی.مگر یہ بالکل آسان ہے.اس کی مثال بعینہ یہ ہے کہ اگر ایک پنسل ایک میز پر پڑی ہو اور ایک آدمی اس کو اٹھانا چاہیے.تو اسے اٹھانے کے لئے اس کے ہاتھ کے اندر اتنی ہی طاقت پیدا ہو گی جس کے ذریعہ وہ پنسل کو اٹھا لے گا.اور اٹھانے میں اس کو اپنے ہاتھ کی تھوڑی سی طاقت خرچ کرنی پڑے گی.لیکن اگر وہی پنسل لیوی کے ذریعے میز سے چپکائی ہوئی ہو جس کا اسے علم نہ ہو.تو وہ اتنی طاقت سے جو اس نے پہلے پنسل کے اٹھانے میں خرچ کی تھی.پنسل کو میز سے نہ اٹھائے گا پھر اور طاقت ہاتھ کے اندر پیدا کر کے پنسل کو میز سے اٹھائے گا.دوسری دفعہ وہ
415 پنسل کے اٹھانے میں کیوں ناکام رہا.اس لئے کہ اس نے اتنی طاقت پنسل کے اٹھانے میں خرچ کی تھی.جتنی کہ اس نے پہلی دفعہ جبکہ پنسل لیوی سے چپکی ہوئی نہ تھی.خرچ کی تھی.اور چونکہ اس کا ہاتھ اس قدر طاقت خرچ کرنے کے لئے تیار ہو کر نہ آیا تھا.جس قدر چاہیئے تھی.اس لئے پنسل اٹھائی نہ جا سکی.لیکن جب اسے معلوم ہوا کہ پنسل چپکی ہوئی ہے.تو اور طاقت اس نے صرف کر کے پنسل کو اٹھایا.یہی حال انسان کے اعضاء کا ہے.کہ وہ کسی کام کے کرنے کے وقت اندازہ لگا لیتے ہیں.کہ اس کام کے کرنے میں کتنی طاقت صرف ہو گی.اور پھر وہ اتنی ہی طاقت اپنے اندر مہیا کر کے اس کام کو کر لیتے ہیں.بعینہ یہی حالت کانوں کی ہے.وہ چونکہ اونچی آواز سننے کے عادی ہوتے ہیں اس لئے اونچی آواز سننے کے منتظر رہتے ہیں.اور اتنی ہی طاقت اپنے اندر مہیا رکھتے ہیں کہ اونچی آواز سن سکیں.لیکن جب وہ اپنی توقع کے خلاف آہستہ آواز سنتے ہیں.تو اسے نہیں سن سکتے اور سننے والے کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کچھ سنا ہی نہیں اور نہ سننے کی وجہ سے سلام کرنے والا خیال کرتا ہے کہ اس کے سلام کا جواب نہیں دیا گیا.اور اس کے سلام کی پرواہ نہیں کی گئی.مگر دونوں اصل میں معذور ہوتے ہیں.کیونکہ اصل وجہ وہی ہے.جو میں پہلے بتلا آیا ہوں.ایک ہمارا ہم جماعت بہرہ تھا اور دوسرے بہروں کے برخلاف بہت آہستہ بولتا تھا.اس سے بات چیت تو بلند آواز سے کی جاتی تھی.لیکن بہرہ ہونے کی وجہ سے وہ چونکہ بہت آہستہ سنتا تھا.اس لئے بولتا بھی آہستہ تھا.اور بعض اوقات کلام کرتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ منہ میں بڑبڑا رہا ہے ایسے شخص سے اگر کوئی بلند آواز میں سلام کے جواب کی توقع رکھے.اور پھر نہ سنے.تو دونوں اپنی اپنی جگہ معذور ہوں گے.پس بعض لوگ سلام کا جواب اپنی عادت کے موافق آہستہ دیتے ہیں.اور سلام کرنے والا ان کے جواب کو اچھی طرح سن نہیں سکتا.اس لئے وہ خیال کرتا ہے کہ میرے سلام کا جواب نہیں دیا گیا.اور بد ظن ہو کر شکایت کرتا ہے.تو جیسا کہ مجھے آہستہ جواب دینے کی عادت تھی.ایسا ہی ہماری جماعت کے بعض لوگوں میں ہے اور ان کے لئے میری مثال عذر ہے.لیکن پھر بھی میں کہتا ہوں کیا شریعت کے مقررہ سلام سے یہی منشاء ہے کہ انسان صرف سلام کے لفظ کو منہ سے ادا کر دے.خواہ اس کو دوسرا سنے یا نہ سنے.اگر صرف کہہ دینا ہی کافی ہوتا.اور دوسرے کو سنانا اور اس کا جواب لینا ضروری نہ ہوتا تو شریعت میں سلام کو آہستہ کہنے کا ہی حکم ہوتا اور جس طرح ہم آہستہ نماز میں تسبیح اور تحمید پڑھتے ہیں اسی طرح ہم آہستہ سلام بھی کہہ دیتے اور شریعت میں یہ نہ قرار دیا جاتا کہ سلام سن کر اس کا جواب
416 وعلیکم السلام دیا جائے.شریعت نے جب السلام علیکم کے جواب میں وعلیکم السلام رکھا ہے.تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ السلام علیکم بلند آواز سے کہنا چاہیئے تاکہ دوسرا سنے اور سلام کا جواب دے پس چونکہ آہستہ سلام کہنے سے وہ غرض جس کے لئے شریعت نے سلام کو جاری کیا ہے.مفقود ہوتی ہے.اور آہستہ سلام کرنا نہ صرف شریعت کی غرض کو ہی پورا نہیں کرتا.بلکہ سلام نہ کہنے کے برابر ہے اس لئے تمہیں چاہیئے کہ تم اونچا سلام کہو تاکہ شریعت کی غرض پوری ہو اور اس شکایت کو دور کرو جو آسانی سے دور کی جاسکتی ہے.کیونکہ جس طرح تمہارے متعلق شکایت کی جاتی ہے.اسی طرح جب میرے متعلق متواتر مجھ کو شکایت پہنچی کہ میں لوگوں کے سلام کا جواب نہیں دیتا.تو میں نے کوشش شروع کی کہ میں سلام کا جواب اتنی اونچی آواز سے دوں کہ سلام کرنے والا وعلیکم السلام سن لے اور سلام کا جواب نہ دینے کی شکایت نہ کرے میں نے آواز کو اونچا کیا اور اب اونچی آواز سے جواب دیتا ہوں.میں نے چونکہ یہ تبدیلی جلدی کر لی اور آہستہ جواب دینے کی عادت کو چھوڑ دیا ہے.اس لئے میں اس تجربہ کی بناء پر کہتا ہوں کہ وہ لوگ جن کو آہستہ سلام کا جواب دینے کی عادت ہو.جلدی اس عادت کو چھوڑ سکتے ہیں.اور وہ جلدی عادی ہو سکتے ہیں کہ سلام کا جواب اونچی آواز سے دیں پس تم اونچی آواز سے سلام کا جواب دو اور اس آہستہ جواب دینے کی عادت کو چھوڑ دو.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کی علامتوں میں سے ایک سلام کے کہنے کو بھی قرار دیا ہے.جیسا کہ آپ فرماتے ہیں.مسلم علی من عرفت ومن لم تعرف اے یعنی سب کو سلام کہنا چاہئے.خواہ واقف ہو یا نہ ہو.چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے جب یہ سنا.تو انہوں نے عیسائیوں.یہودیوں اور دیگر مذاہب والوں کو بھی سلام کہنا شروع کر دیا.اس پر کسی نے کسی صحابی پر اعتراض کیا کہ آپ غیر مسلموں کو کیوں سلام کہتے ہیں.انہوں نے جواب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے.سلم على من عرفت ومن لم تعرف کہ تو جس سے ملے.خواہ وہ واقف ہو یا نہ ہو.سلام کہو.اس لئے ہم جس سے واقف نہیں ہوتے.اور نہیں جانتے کہ اس کا کیا مذہب ہے.اسے بھی کہہ دیتے ہیں.تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشاد کے بعد صحابہ میں سلام اس حد تک جاری ہو گیا کہ حدیث میں آتا ہے ایک صحابی عصر کے وقت صرف سلام کرنے کی خاطر بازار جایا کرتے تھے.کوئی سودا وغیرہ لینا ان کا مقصد نہ ہوتا تھا.صرف سلام کی غرض سے بازار جاتے تھے ۲.اس سے معلوم ہوا کہ سلام کہنا کوئی چھوٹی سی نیکی نہیں جسے یوں ہی چھوڑ دیا جائے.اور اس
417 کی نگہداشت نہ کی جائے.یہ اخوت اسلامی کے قائم کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے.اور اس سے اخوت اسلامی پیدا ہو سکتی ہے لیکن ہماری جماعت اس میں سست ہے.اور ان میں آہستہ سلام کہنے یا سلام کا آہستہ جواب دینے کی مرض ہے.وہ آہستہ سلام کا جواب دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے سلام کا جواب دے دیا.حالانکہ سلام کہنے والے نے ان کے جواب کو سنا تک نہیں ہوتا اور نہ سننے کی وجہ سے وہ غرض جو سلام کے کہنے میں اخوت اسلامی کے قائم کرنے کی شریعت نے رکھی تھی اور جس کے قیام کے لئے یہ جاری کیا گیا تھا.مفقود ہو جاتی ہے.یہ میں جانتا ہوں کہ یہ عادت ہماری جماعت میں ان کی سابقہ صحبت کی وجہ سے پڑی ہوئی ہے.کیونکہ آج کل مسلمانوں میں سلام کہنا یا اس کا جواب دینا عادت کے طور پر رہ گیا ہے اور اس کی اصل غرض مفقود ہو گئی ہے.چونکہ بعض اخلاق انسان میں مصاحبت کی وجہ سے آجاتے ہیں اور بعض اخلاق اور عادات انسان میں وراثنا آتے ہیں اس لئے یہ مرض ہماری جماعت میں سابقہ مصاحبت کا ہی نتیجہ ہے جس سے السلام علیکم کی غرض تو مفقود ہو گئی ہے صرف ایک رسم اور عادت رہ گئی ہے.جس کی وجہ سے لوگ صرف سلام کے جواب میں ہونٹ ہلا دیتے ہیں اور بلند آواز سے سلام نہیں کہتے اور نہ ہی اس کی غرض کی طرف کبھی انہوں نے توجہ کی ہے وراثتا کسی عادت کے پائے جانے کی مثال یہ ہے کہ ایک بچہ ہوء ہو ء سے تو ڈرتا ہے لیکن ڈھول بجانے سے نہیں ڈرتا اور ایک علم طبعیات کا ماہر لکھتا ہے کہ بچے عموما ڈھول سے نہیں ڈرتے.مگر ہوء ہوء کی آواز سے ڈر جاتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ جب پہلے زمانہ میں لوگ جنگلوں میں رہتے تھے.اور شیروں کی آواز سنتے تھے.تو اس سے خوف زدہ ہوتے تھے.اس کا اثر اب تک چلا آتا ہے.اور جب کسی بچہ کے سامنے ہوء ہوء کیا جاتا ہے تو وہ اس خوف کی وجہ سے ڈر جاتا ہے اگرچہ اس کے سامنے شیر تو نہیں ہوتا اور نہ اس نے شیر کی آواز سنی ہوتی ہے پس شیر تو مٹ گیا.مگر اس کی آواز کا اثر رہ گیا.اسی طرح سلام کے متعلق ہے کہ غرض تو مٹ گئی ہے.اور رسم رہ گئی جس کے اظہار کے لئے لوگ صرف ہونٹ ہلا دیتے ہیں.یہ ہونٹ ہلانے کی مرض احمدیوں میں غیر احمدیوں کی سابقہ مصاحبت کی وجہ سے آئی ہے یہ نہیں کہ یہ لوگ متکبر ہیں اور بلند آواز سے سلام کہنا نہیں چاہتے بلکہ اصل میں یہ ایک حجاب ہے اور کچھ نہیں.ہمیں اس حجاب کو چھوڑ دینا چاہیئے.اور سلام کے حکم کی پابندی کرنی چاہئے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کو اخوت اسلامی کی ایک ضروری علامت قرار دیا ہے اور اس کو اخوت اسلامی کے لئے ایسا ضروری قرار دیا ہے.جیسے آپ نے نماز کی صفوں کا
418 سیدھا ہونا ضروری قرار دیا ہے.جب سے مسلمانوں نے ان احکام کی پروا نہ کی اور انہیں چھوٹا سمجھتے ہوئے ترک کر دیا اسی وقت سے انہیں زوال شروع ہو گیا.مسلمانوں نے سلام اور صفوں کے ٹھیک کرنے کو معمولی حکم قرار دے کر ان کی کماحقہ نگہداشت نہ کی.نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے اخوت مٹ گئی اور جن حکموں کو انہوں نے چھوٹا سمجھ کر چھوڑ رکھا تھا وہی ان کے زوال کا باعث بن گئے کیونکہ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی بڑے بڑے نتائج پیدا کرتی ہیں.پس تم سلام کو چھوٹی اور معمولی بات سمجھ کر نہ چھوڑ دو بلکہ اس کی نگہداشت کرو کیونکہ یہ کوئی معمولی سی بات اور چھوٹا سا حکم نہیں بلکہ اخوت اسلامی کے قیام کے لئے ایک ضروری اور لابدی امر ہے شریعت نے اسے ایک شعار قرار دیا ہے.پس چھوٹے اور بڑے بوڑھے اور بچے سب اس کی نگہداشت کریں وہ لوگ جو بڑے درجوں پر ہیں چھوٹوں کو سلام کریں.یہ نہ ہو کہ وہ یہ خیال کر کے چپ رہیں کہ ہم بڑے ہیں چھوٹوں کو چاہیئے ہمیں سلام کہیں اور چھوٹے یہ خیال کر کے چپ رہیں کہ بڑے ہمیں سلام کریں جس کا نتیجہ یہ ہو کہ کوئی بھی ان میں سے سلام نہ کہے دونوں چپ چاپ گذر جائیں اور اخوت پیدا کرنے کی وہ غرض مفقود ہو جائے جس کے لئے سلام کو شریعت نے مقرر کیا ہے.پس جب کبھی وہ لوگ جو بڑے درجوں پر متعین ہیں چھوٹے درجے کے لوگوں سے ملیں تو پہلے سلام کریں اور اس بات کا خیال نہ کریں کہ ہم بڑے میں ہمیں سلام نہیں کرنا چاہیئے چھوٹوں کو چاہیئے کہ ہمیں سلام کریں.بلکہ میرے نزدیک انہیں سلام کرنے میں پہل کرنی چاہیئے.اسی طرح جب ایک درجہ کے دو مومن ایک دوسرے کو دیکھیں تو دیکھنے کے ساتھ ہی سلام کریں یعنی جس کی پہلے پڑ جائے وہ سلام کے.سلام کرنا اسلامی اخلاق میں سے ایک بہت بڑا خلق ہے اور یہ خلق ہماری جماعت کے ہر فرد میں پایا جانا چاہیئے.کیونکہ یہ ایک ایسا قومی شعار ہے کہ جس کے مضبوط کرنے سے ہم میں اخوت اسلامی قائم رہ سکتی ہے پس میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست سلام کہنے میں کو تاہی نہیں کریں گے.اسلامی شعار کو اسی طرح ادا کریں گے جس طرح کہ صحابہ کے وقت ادا ہوتا تھا.ولایت جانے کی غرض اور اخراجات دوسری بات جو وہ اپنے خط میں لکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ روپیہ جو آپ کے ولایت جانے پر خرچ ہو گا اگر اسی کو یتیم خانے پر لگا دیا جائے تو بہت اچھا ہو.اول تو میں نے بتلایا ہے کہ ابھی جانے کی
419 نسبت فیصلہ نہیں ہوا.جماعت کا مشورہ لیا گیا ہے اور احباب سے کہا گیا ہے کہ وہ استخارہ کر کے بتائیں کہ یہ وقت ولایت جانے کے لئے مناسب ہے یا نہیں.پس جماعت کے مشوروں اور استخاروں کے بعد اس امر کا فیصلہ ہو گا کہ جانے کے لئے یہ وقت مناسب ہے یا نہیں.لیکن فی الحال میں اس غلط خیال کی تردید کرنا چاہتا ہوں جو اخراجات کے متعلق بیان کیا گیا ہے.کیونکہ ممکن ہے.یہ خیال کسی اور کے دل میں بھی پیدا ہو اور دوسرے لوگ بھی اس دھوکے میں پڑیں.اسلام کے تمام رکن معین اور مقرر ہیں اور ان کی حد بندی ہے.زکوۃ کو لو تو اس کی حد بندی ہے کہ چالیس روپے ہوں.اور ان پر سال گذر جائے تو ایک روپیہ دو.یہ نہیں کہا کہ سب مال دے دو.پھر روزے ہیں.ان کے متعلق یہ نہیں کہا گیا کہ ہمیشہ ہی روزے رکھا کرو.بلکہ خاص رمضان کے مہینے میں روزے رکھنے کا حکم ہے.برخلاف اس کے وہ شخص جو شریعت کے اس حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے.اور تمام سال روزے رکھتا ہے.اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس کے ٹھرنے کی جگہ دوزخ کا سب سے نچلا درجہ ۳؎ ہے.تو دیکھو.آپ نے اس شخص کے لئے جو ہمیشہ روزے رکھتا ہو.کیسی سزا مقرر کی ہے.پھر جس طرح زکوۃ اور روزوں کی حد بندی ہے.اسی طرح حج کے متعلق ہے کہ تمام عمر میں ایک دفعہ کرنا فرض ہے.یہ نہیں کہا کہ ہر سال کیا کرو.اور پھر اس کے کرنے کے متعلق شرائط مقرر کر دی ہیں.جن میں وہ پائی جائیں.وہ حج کریں.اور جن میں نہ پائی جائیں.وہ نہ کریں.اسی طرح نماز کو لو.نماز بھی پانچ وقت کی مقرر کی ہے.یہ نہیں کیا کہ تمام دن نماز ہی پڑھتے رہا کرو.پھر بعض اوقات میں نماز نہ پڑھنے کا حکم دیا ہے.مثلاً سورج کے طلوع ہونے کے وقت یا غروب ہونے کے وقت یا دو پہر کے وقت.اس طرح صدقہ و خیرات کی بھی حد بندی ہے.خدا تعالٰی فرماتا ہے کہ نہ تو تو اپنے ہاتھوں کو بالکل کھولدے.اور نہ ان کو بالکل بند رکھ بلکہ درمیانہ چال چل ہے.پس شریعت نے تمام ارکان کی حد بندی کی ہے.اور ہر ایک کی کچھ نہ کچھ حد مقرر کر دی ہے.تاکہ انسان اس حد سے آگے بڑھ کر نقصان نہ اٹھائے پس شریعت نے ان رکنوں میں مال خرچ کرنے کی حد بندی کر دی ہے.جن میں مال خرچ کیا جاتا ہے.اور تمام مال کے خرچ کرنے سے منع فرمایا ہے اور ان رکنوں میں وقت خرچ کرنے کی حد بندی کر دی ہے.جن میں وقت کی قربانی کی جاتی ہے.یہ نہیں فرمایا کہ تمام دن خدا تعالیٰ کی عبادت ہی کرتے رہو.اور کچھ نہ کرو بلکہ شریعت نے اپنے نفس کا بھی حق مقرر کیا ہے.بیوی کا حق بھی رکھا ہے اور دوسرے حقوق بھی قرار دیئے ہیں.اپنے نفس کے حق کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی
420 ہے.اما بنعمت ربک فحدث (الضحی (۱۲) یعنی اے انسان جو انعام اور نعمتیں خدا نے تم کو دی ہیں.ان کا شکر کر اور ان کو لوگوں میں ظاہر کر اور بتا کر میرے رب نے مجھ کو یہ نعمت دی ہے.پس خدا تعالیٰ کی نعمت کو لوگوں میں ظاہر کرنا چاہیئے یہ نہیں کہ جو روپیہ ملے.اس کو ایک ہی شاخ میں خرچ کر دینا چاہیئے اور دوسری شاخوں کو نظر انداز کر دینا چاہیئے.مثلاً جو روپیہ آتا ہے.اگر وہ قیموں پر ہی خرچ کر دیا جائے.اور دیگر شاخوں کا لحاظ نہ رکھا جائے.تو سلسلہ میں جلد ہی تباہی آجائے.اگرچہ تیموں کا خیال رکھنا ضروری ہے اور اسی وجہ سے اب بھی ۴۰ ہزار روپیہ سالانہ کے قریب ان پر خرچ کیا جاتا ہے.اور اس کے علاوہ وہ روپیہ بھی ہے جو الگ الگ جماعتوں کے ذریعہ سے خرچ کیا جاتا ہے اگر وہ بھی ملا لیا جائے.تو نصف چندہ کے برابر ہو جاتا ہے.موجودہ صورت میں ہم بتا ئی کا جس قدر خیال رکھ سکتے ہیں.اتنا رکھا ہوا ہے.لیکن اگر ہم یہ خیال کر لیں کہ چندہ کا جس قدر روپیہ آئے.وہ یتیموں پر ہی خرچ کر دیں.اور دیگر سلسلہ کے کام روک دیں.مثلاً لنگر خانہ بھی بند کر دیں.تبلیغ پر خرچ نہ کریں.نہ ہی تألیف و تصنیف پر خرچ کریں.تو نتیجہ یہ ہو کہ سلسلہ چند دن میں تباہ ہو جائے.سلسلہ کو قائم رکھنے کے لئے مختلف رنگوں میں کام ہو رہا ہے اور مختلف طریقوں سے اس کو قوت پہنچائی جا رہی ہے.اور یہ ضروری ہے کہ سلسلہ کے قیام کے لئے ساری شاخوں کا خیال رکھا جائے اس میں شک نہیں کہ بتائی کا معاملہ نہایت ضروری ہے.اس کا خیال رکھنا ایک لابدی امر ہے.اور اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نصف کے قریب چندہ نیا طبی پر خرچ کرتے ہیں.اگرچہ ہمارا ان پر خرچ کرنا عام لوگوں پر ظاہر نہیں ہوتا.کیونکہ ہم نے کوئی یتیم خانے نہیں بنائے ہوئے اور نہ ان پر بورڈ لگائے ہوئے ہیں.جن سے ظاہر ہو کہ اتنے یتیم خانے یہاں ہیں اور اتنے یتیم ان میں رہتے ہیں.اور اتنی ہیوائیں ان میں سکونت پذیر ہیں لیکن باوجود اس کے کہ ہم نے ظاہری یتیم خانے نہیں بنائے ہوئے.پھر بھی میں ۵۶ ہزار کے قریب روپیہ ان پر خرچ کرتا ہوں اور باقی نصف اور صیغوں پر خرچ ہوتا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ جتنا روپیہ بتائی پر خرچ ہوتا ہے اوروں پر خرچ نہیں ہوتا کیونکہ کل چندہ ایک لاکھ ۴۰ ہزار کے قریب ہوتا ہے جس میں سے ۵۶ ہزار قیموں اور بیواؤں پر خرچ ہوتا ہے اور باقی نصف تمام صیغوں پر خرچ ہوتا ہے یہ ضروری ہے کہ تمام صیغوں پر یکجائی نظر رکھی جائے اور سب کا خیال رکھ کے سب پر خرچ کیا جائے کیونکہ اگر ہم ایسا نہ کریں.اور سب پر روپیہ برابر خرچ نہ کریں.تو سلسلہ تباہ ہو جائے اور کام رک جائے.
421 ہم کو بعض دفعہ روپیہ اس لئے خرچ کرنا پڑتا ہے.کہ دنیا میں اسلام کی شان و شوکت ظاہر ہو.اور اس کے نام پر جو دھبہ لگایا جا رہا ہو.وہ مٹ جائے.اگر ہم ہمیشہ اور صیغوں کا خیال رکھیں.اسلام کی شان و شوکت کے لئے کچھ نہ خرچ کریں تو اس سے بھی اسلام کو نقصان پہنچے گا.پس اسلام کی شان و شوکت کو ظاہر کرنے کے لئے بھی ضروری ہوتا ہے کہ اس کے لئے روپیہ خرچ کیا جائے.چنانچہ ملکانہ میں جو ہم نے تبلیغ شروع کی ہے.اس کی ایک غرض یہ بھی تھی کہ اسلام کے رعب اور شوکت کو مٹانے کے لئے آریوں نے جو شدھی کا سلسلہ جاری کیا تھا اسے روکا جائے.اور اسلام کی شوکت کو مشتبہ نہ ہونے دیا جائے.اس غرض کے لئے ہماری جماعت کو اپنا مال و جان اور وقت خرچ کرنا پڑا.بڑی بڑی تکلیفیں اٹھائیں.جس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ سلسلہ کا نام ایک شان کے ساتھ شہرت پا گیا.اور ایسے لوگوں کو جو پہلے اس کی طرف توجہ نہ کرتے تھے توجہ پیدا ہو گئی.جس کا ثبوت یہ ہے کہ ملکانہ تحریک کے بعد سے بہت سے لوگ سلسلہ میں داخل ہونے شروع ہو گئے ہیں.غرض کبھی اسلام کی شہرت کے لئے بھی روپیہ خرچ کرنا پڑتا ہے.اور تکلیفیں اٹھانی پڑتی ہیں میرے ولایت جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے.لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آیا اس وقت جانا مناسب ہے یا نہیں اس وقت روپیہ کا سوال نہیں ہے اور اگر میں ولایت جانے کو ملتوی اس لئے کر دوں کہ یہ روپیہ قیموں پر خرچ ہو جائے.تو میں کہتا ہوں اس طرح سلسلہ کی ترقی کا وہ پہلو چھوٹ جائے گا.جو شہرت سے تعلق رکھتا ہے اور جو عظیم الشان ترقی کا باعث ہو سکتا ہے.علاوہ ازیں اگرچہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ میرے جانے سے سب لوگ مسلمان ہو جائیں گے.لیکن کم از کم یہ تو ضرور ہو گا کہ اسلام کی اصل تعلیم ان کے سامنے پیش ہو سکے گی.پھر اگر ہم اس خط کے لکھنے والے کا کہنا مان کر یہ روپیہ قیموں کی تربیت پر خرچ کرنے کا ارادہ کریں.تو کئی لوگ ایسے کھڑے ہو جائیں گے.جو یہ مشورہ دیں گے کہ یہ روپیہ تبلیغ پر خرچ ہو.قیموں کا گزارہ تو ہو ہی رہا ہے اور جب ہم ان کا کہنا مان کر تبلیغ پر خرچ کرنے کا ارادہ کریں گے تو کئی لوگ ایسے کھڑے ہو جائیں گے.جو تعلیم سے محبت رکھتے ہوں گے اور یہ کہیں گے کہ روپیہ تعلیم میں خرچ ہو.اس طرح خرچ کرنے کے متعلق فیصلہ ہو ہی نہیں سکتا.تو اب ہم کو سب صیغوں پر یکجائی نظر رکھنی چاہیئے اور کسی خاص پہلو پر زور نہیں دینا چاہیئے ورنہ سلسلہ پر تباہی آجائے گی اور اس صورت میں سلسلہ کو مضبوط سمجھنا ایسا ہی ہو گا جیسا کہ کہا جائے فلاں شخص خوبصورت ہے.مگر اس کی آنکھ اندھی ہے.یا ناک کٹا ہوا ہے پس سلسلہ اسی وقت تباہی سے بچ سکتا ہے.جب تک کہ
422 وہ سارے صیغوں کا خیال رکھے.اور ہم نے تو یہاں تک کیا ہے کہ قیموں کی خبر گیری کے لئے ہم نصف روپیہ خرچ کرتے ہیں.اور باقی نصف چندے کا اور صیغوں میں خرچ ہوتا ہے.پس قیموں کی خبر گیری کا ہم نے سب سے زیادہ اہتمام کیا ہے.اگر چہ وہ اہتمام ظاہر نہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر ہمارے ہاں اس طرح یتیم خانے نہیں بنے ہوئے.جس طرح اور انجمنوں نے بنائے ہوئے ہیں اور ان پر بورڈ لگے ہوتے ہیں.ہم نے یہ اس لئے نہیں کیا کہ ہم شہرت نہیں چاہتے.ہم فی سبیل اللہ ان کی تربیت کرتے ہیں اور ان کی تربیت کے لئے ۵۶ ہزار روپیہ خرچ کرتے ہیں اگر آج اس رقم کو ان پر خرچ کرنا بند کر دیا جائے.تو سب کو پتہ لگ جائے کہ یہاں کتنے یتیم ہیں.اور اگر آج بیواؤں کی مدد اور ان کے وظائف بند کر دیئے جائیں.تو تین چار سو آدمی قادیان میں بھوکے پھرتے نظر آئیں.اور پتہ لگ جائے کہ کتنی بیوائیں اور یتیم بچے قادیان میں رہتے ہیں.پس ہم یتیموں اور بیواؤں کا خیال سب سے زیادہ رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی دوسرے صیغوں کا بھی خیال رکھتے ہیں.اور یہی صورت کامیابی کی ہے ورنہ اگر سب صیغوں پر نظر رکھنی چھوڑ دی جائے تو فوراً سلسلہ میں تباہی آجائے.اور جب کبھی تم اس نکتہ کو چھوڑو گے یقیناً وہ وقت تمہاری تباہی کا پہلا قدم ہو گا اور اسی وقت سے تمہاری تباہی شروع ہو جائے گی.پس تم سلسلہ کے قیام کے لئے سب صیغوں کا خیال رکھو.اور ان کی ضرورتوں کے مطابق ان پر خرچ کرو.(الفضل ۱۳ جون ۱۹۲۴ء) ا بخاری و مسلم بروایت مشکوة کتاب الاداب باب السلام ۲۰ مشکوة کتاب الاداب باب السلام ۳۰ مسند احمد جزو ۴ ص ۴۱۴ ۴۰ بنی اسرائیل : ۳
423 67 غلطیوں سے بچنے اور کامیاب ہونے کا طریق (فرموده ۳۰ مئی ۱۹۲۴ء) مشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا : انسانی علم اور انسانی سمجھ نہایت ہی محدود ہے اور ان دونوں کے محدود ہونے کی وجہ سے انسان بعض دفعہ ایک بات کو اپنے لئے مفید سمجھتا ہے حالانکہ وہ اس کے لئے مضر ہوتی ہے اور بسا اوقات وہ ایک بات کو اپنے لئے مضر خیال کرتا ہے اور وہ اس کے لئے مفید ہوتی ہے اور اس وجہ سے وہ یقینی طور پر کسی امر کے متعلق فیصلہ نہیں کر سکتا کہ آیا یہ امر میرے لئے مفید ہے یا مضر ہے فیصلہ نہ کر سکنے کی وجہ سے اس کی حالت ایک متردد شخص کی سی ہوتی ہے.جو کسی امر کو مفید سمجھ کر نہ تو اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے.اور نہ ہی کسی امر کو مضر خیال کر کے اس سے بچ سکتا ہے.اس وقت اس کی حالت نہایت قابل رحم ہوتی ہے.اسی حالت کے متعلق خدا تعالی فرماتا ہے.وعسی ان تكرهوا شيئا وهو خير لكم وعلى أن تحبوا شيئا و هو شر لكم (البقره ۲۱۷) یعنی بعض دفعہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو.لیکن وہ تمہارے لئے مفید ہوتی ہے.اور بعض دفعہ تم ایک چیز کو مفید خیال کرتے ہو.حالانکہ وہ تمہارے لئے مضر ہوتی ہے.تم کبھی اپنی طرف سے کسی چیز کا اچھا نتیجہ حاصل کرنے کے لئے سامان مہیا کرتے ہو.لیکن باوجود اس کے پھر نتیجہ برا نکلتا ہے.جس کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ وہ سامان جو تم نے اچھا نتیجہ پیدا کرنے کے لئے مہیا کئے تھے.ان میں وہ سامان موجود نہ تھے.جن کے استعمال کرنے سے اچھا نتیجہ نکلنے کی امید کی جا سکتی تھی.اور وہ مخفی سامان تم اچھا نتیجہ پیدا کرنے کے لئے اس لئے مہیا نہ کر سکے کہ وہ اپنے خفا کی وجہ سے تمہاری نظروں سے اوجھل رہے اور تمہاری نظر ان تک نہ پہنچ سکی.اس لئے نتیجہ برا نکلا اور تمہارے لئے مہلک ثابت ہوا.دیکھو کہ کوئی شخص حالات کی ناواقفیت کی وجہ سے لنڈن میں اس طرز کا مکان بنائے جیسا کہ ہندوستان میں بنایا جاتا ہے اور پھر اس میں آرام و آسائش سے رہنے کی امید کرے اور دل سے
424 چاہے کہ اس مکان میں اپنی زندگی کے دن باسہولت گذاروں تو کیا اس کی یہ خواہش پوری ہو جائے گی.ہرگز نہیں.اگرچہ اس نے اپنی طرف سے کمال ہوشیاری کے ساتھ مکان بنایا ہو.لیکن اس میں آرام سے رہنے کی اس کی غرض پوری نہ ہو گی کیونکہ اس نے ان حالات کو اپنی ناواقفیت کی وجہ سے مد نظر نہ رکھا ہو گا جن کا مد نظر رکھنا وہاں کے لئے ضروری ہے اور وہ سامان مہیا نہ کئے ہوں گے جو اس ملک میں آرام پہنچا سکتے ہیں اس کا مکان برف سے امن میں نہ ہو گا.اور اس سے وہ تباہ ہو جائے گا کیونکہ وہاں وہی مکان برف کے طوفان سے محفوظ رہ سکتے ہیں.جن کی چھتیں نوکدار ہوتی ہیں.ان پر برف پڑنے سے برف ادھر ادھر چھتوں پر سے گر جاتی ہے اور ان کو نقصان نہیں پہنچاتی.لیکن چوڑی چھتوں والے مکانوں سے جس طرح کہ یہاں بنائے جاتے ہیں.برف گر نہیں سکتی تو وہاں وہی مکان محفوظ رہ سکتے ہیں.جن کی چھتیں نوکدار ہوتی ہیں.پس اگر کوئی جس طرح یہاں مکان بنایا جاتا ہے وہاں بھی بنائے تو ضرور اس کا مکان برف سے تباہ ہو جائے گا جس کی وجہ بنانے والے کی ناواقفیت ہو گی.اس نے اپنے ذہن میں یہ سمجھ لیا کہ جس طرح یہاں مکان بنایا جاتا ہے اور محفوظ رہتا ہے.ایسا ہی اگر وہاں بنایا جائے.تو وہاں بھی محفوظ رہے گا.اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس کا مکان برف کے طوفان سے تباہ ہو جائے گا.اسی طرح دیگر معاملات میں انسان اپنے ذہن میں کچھ باتیں ایسی سمجھ لیتا ہے جن سے وہ خیال کرتا ہے کہ نتیجہ اچھا نکلے گا لیکن نتیجہ اس کے خیال کے ماتحت اچھا نہیں نکلتا پس جبکہ انسان کی ایسی حالت ہے کہ اس کے خیال کے ماتحت ہر وقت اچھے نتیجے نہیں نکلتے.بلکہ بسا اوقات برے نکلتے ہیں تو پھر وہ کیا کرے.اس کے لئے صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے جو اھدنا الصراط المستقیم میں بتایا گیا ہے کہ انسان خدا کے حضور گرے اور عاجزی سے دعا کرے کہ اے خدا مجھ کو ہر امر میں خواہ وہ دینی ہو یا دنیوی صحیح اور سیدھا راستہ دکھاتا کہ میں غلطیوں سے محفوظ رہوں چنانچہ خدا تعالیٰ نے کمال شفقت سے ہر قسم کی غلطیوں سے محفوظ رہنے کے لئے یہ دعا سکھائی.جو عام دعا ہے.نہ کہ صرف خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے اسے صرف روحانی امور کے لئے مخصوص کرنا غلطی ہے اور یہ ایسی غلطی ہے.جو کئی آیات کے متعلق مسلمانوں نے کھائی اور بہت نقصان اٹھایا ہے.ایک حکم جو مخصوص تھا.اسے عام کر دیا گیا.اور جو عام تھا اسے مخصوص بنا لیا گیا.وہ آیت جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اھدنا الصراط المستقیم کی دعا عام ہے.اور ہر امر میں کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے.كلا نمد هؤلاء (بنی اسرائیل : ۲۱) یعنے انسان جس قسم کی زندگی چاہتا ہے ہم اس کو اس قسم کی
425 زندگی دے دیتے ہیں.اور جس قسم کی مدد ہم سے چاہتا ہے.اسی قسم کی مدد پہنچاتے ہیں.اگر کوئی شخص دنیا کی جاہ و حشمت ہم سے مانگتا ہے.تو ہم اس کو دنیا کی جاہ و حشمت دے دیتے ہیں.اور اگر کوئی ہم سے ہمارا قرب اور ہماری ملاقات چاہتا ہے.تو ہم اسے اپنے قرب میں جگہ دیتے ہیں.غرض کہ جس قسم کی دعا وہ ہم سے مانگتا ہے اور جس قسم کی مدد وہ ہم سے چاہتا ہے.ہم اسے دیتے ہیں.کامیابی کا یہی ایک نکتہ ہے کہ جو تکلیف ہو.اس کے دور کرنے کے لئے خدا تعالٰی سے دعا کی جائے.اگر اس بات کو سمجھ لیا جائے.تو انسان غلطیوں سے محفوظ رہ سکتا اور ہر بات میں کامیابی حاصل کرتا ہے.لیکن افسوس کہ ہماری جماعت کے بعض لوگوں نے بھی اس نکتہ کو اچھی طرح سے نہیں سمجھا.اور یہی وجہ ہے کہ آج اگر کسی کو کہا جاتا ہے کہ تم دعا کرو.خدا تمہاری مشکلات حل کر دے گا تو وہ کہتا ہے یورپ والے کون سی دعا کرتے ہیں.کہ ہم دعا کریں جس طرح وہ دعا نہیں کرتے اور ان کی مشکلات حل ہو جاتی ہیں.اسی طرح ہماری بھی حل ہو جائیں گی کیا وہ نہیں جانتا کہ اپنے گھر کے آدمی اور باہر کے آدمی سے الگ الگ معاملہ کیا جاتا ہے.دیکھو ایک طالب علم جو ہر روز سکول جاتا ہے اس کے جانے پر یہ نہیں ہو تا کہ استاد آگے بڑھ کر اسے ملنے کے لئے آئے اور ساتھ لے جا کر سکول کی ایک ایک چیز دکھائے اور نہ ہی اس کا دوسرے استادوں اور ہیڈ ماسٹر وغیرہ سے تعارف کرایا جاتا ہے لیکن اگر کوئی اجنبی معزز شخص سکول میں آئے تو اسے ہیڈ ماسٹر اپنے ساتھ لے جا کر سکول کے استادوں سے تعارف کراتا ہے سکول کی اشیاء دکھاتا ہے.غرض کہ اس کی ہر طرح خاطر مدارات کرتا ہے.ایسا کیوں کیا جاتا ہے.اس لئے کہ دونوں کی الگ الگ ہیں.اور حیثیتوں کے الگ ہونے کی وجہ سے ان سے الگ الگ معاملہ کیا جاتا ہے.اسی طرح کافروں اور مومنوں سے بھی الگ الگ معالمہ کیا جاتا ہے.وہ کافر جو خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کا منکر ہے.قیامت کو جھٹلاتا ہے.اسے مہلت دی جاتی ہے اور اسے شرارتوں میں یہاں تک ڈھیل دی جاتی ہے کہ اس کی شرارتوں کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے اور آخر وہ مستوجب سزا ہو کر سزا یا جاتا ہے.لیکن اس کے خلاف وہ انسان جو خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے.اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے.اور قیامت کا قائل ہے.اسے دنیا میں بھی ترقی دی جاتی ہے اور آخرت میں بھی وہ جنت میں داخل کیا جاتا ہے.غرض کہ مومن اور کافر کے حسب حال دونوں سے الگ الگ معاملہ کہا جاتا ہے.کافر کو اس کی نافرمانیوں پر یک لخت نہیں پکڑ لیا جاتا اور نہ انعامات الہی سے جو عام قانون قدرت کے ماتحت انسانوں کے لئے خدا تعالٰی نے رکھے ہیں.ان سے محروم کر دیا جاتا ہے.کیونکہ حیثیتیں
426 اسے اسی طرح ڈھیل دی جاتی اور اس سے در گزر کیا جاتا ہے جس طرح کسی آقا نے چند ہی دن سے کوئی نوکر رکھا ہو اور وہ گھر کی اشیاء کے متعلق پورا پورا علم نہ رکھتا ہو.ایسا نوکر اگر کوئی کام آقا کی منشاء کے خلاف کر دے تو آقا کو اس پر کم غصہ آئے گا اس ملازم کی نسبت جو سالہا سال سے گھر میں رہتا ہو.سب باتوں کے متعلق کافی علم رکھتا ہو.کیونکہ اس نے سالہا سال آقا کی خدمت میں گزارے لیکن اس کی مرضی سے ناواقف رہا.لیکن نئے ملازم پر اس لئے خفا نہیں ہو گا.کہ وہ ابھی ابھی آقا کے گھر آیا اور اسے ابھی پوری واقفیت حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا.تو ایک ہی معاملہ میں دونوں سے الگ الگ سلوک کیا جائے گا.اسی طرح مومن اور کافر کی حالت ہے.کافر اگر خدا تعالٰی سے دعا نہ کرے تو وہ قابل گرفت نہیں اور اس کے نہ دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں.کیونکہ اس کو تو گناہ کرنے اور گناہوں میں بڑھنے کے لئے ڈھیل دی گئی ہے.اگر وہ اس ڈھیل کے زمانہ میں خدا کو یاد نہ کرے.اور نہ اس سے دعا مانگے تو اس پر الزام نہیں.لیکن وہ مومن جو کہ خدا تعالیٰ کو ہر ایک چیز کا مالک جانتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ وہ ہر قسم کی دعائیں سنتا ہے.اور اپنے بندوں کی مشکلات دور کرتا ہے.وہ اگر دعا نہ کرے تو وہ گستاخ ہو گا اور اس کا دعا نہ کرنا ایسی گستاخی ہو گی جس کی نسبت وہ پوچھا جائے گا.دعا کامیابی کا ذریعہ ہے.خزانے کی کلید ہے اور مومن کا معراج ہے اور قرآن شریف میں ایسی کامل دعائیں سکھائی گئی ہیں.جو دید زبور اور انجیل میں نہیں پائی جاتیں.پھر قرآن شریف میں نہ صرف دعاؤں کے سکھانے پر ہی اکتفاء کیا گیا ہے.بلکہ ان کی حقیقت بتلائی گئی ہے.لیکن پھر کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ مسلمان تو دعاؤں میں سست ہیں اور وہ قومیں جن کی مذہبی کتابوں میں نہ تو ایسی کامل دعائیں سکھائی گئی ہیں اور نہ ہی ان کی حقیقت بتلائی گئی ہے.وہ دعاؤں کی پابند ہیں چنانچہ عیسائیوں میں دعا کرنے کی ظاہری صورت اب تک قائم ہے اور ان کے دعاؤں کے اوقات مقرر ہیں.مثلاً کھانا کھانے کے بعد وہ دعا کرتے ہیں.رات کو اپنے بچوں کو بغیر دعا کرانے کے سونے نہیں دیتے.اس طرح ان کے بچوں کے دلوں میں دعا کی عظمت قائم ہوتی رہتی ہے.جو بڑے ہو کر بھی اہم معاملات میں دعا کرتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ یورپ کے بڑے بڑے خاندانوں کے رکن گو مذہب سے تعلق نہیں رکھتے.لیکن دعائیں کرتے ہیں.جنگ کے دنوں میں فتح کے لئے گرجوں میں دعائیں کی جاتی تھیں.اور متواتر ایک عرصہ تک کی جاتی رہیں.لیکن مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ جہاں شریعت کے دیگر احکام کو ترک کر بیٹھے ہیں.وہاں دعاؤں سے بھی لا پروا ہو گئے ہیں.خواہ کوئی چھوٹا معاملہ ہو یا بڑا کسی میں بھی دعا کی طرف انہیں توجہ نہیں پیدا ہوتی.
427 خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس لئے بھیجا تاکہ آپ ان کو دعاؤں کی حقیقت بتلائیں چنانچہ آپ نے آکر جس قدر دعاؤں پر زور دیا.اور ان کی قبولیت کی طرف توجہ دلائی.وہ آپ کی زندگی کے ایک ایک لمحہ سے ظاہر ہے.آپ نے کھول کھول کر بتا دیا اور اپنے عمل سے دکھا دیا کہ دعا ہی اصل چیز ہے.اور یہی کامیابی کا ذریعہ ہے.پھر آپ نے جہاں مسلمانوں کو دعا تحریض دلائی.وہاں اور قوموں کو بتلایا کہ تمہاری کتابوں میں کامل دعائیں نہیں ہیں.یہ خصوصیت قرآن کریم میں ہی پائی جاتی ہے.اور اسلام نے قبولیت دعا کے جو طریق بتلائے ہیں.وہ اور کسی مذہب نے نہیں بتلائے.اب اگر ہم قبولیت دعا کے وہ طریق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتائے ہیں.نہ استعمال کریں.تو ہماری مثال اس شخص کی سی ہو گی کہ جو کھیت کے منڈیر پر بیٹھ جائے.اور سمجھ لے کہ کھیت خود بخود سر سبز ہو جائے گا.یا ہماری مثال اس شخص کی سی ہوگی.جو گھر تو بناتا ہے لیکن سردی اور گرمی سے بچنے کے لئے اسے استعمال نہیں کرتا.اگر ہماری جماعت کے لوگ کامیابی کے ان طریقوں سے کام نہیں لیتے.جو حضرت مسیح موعود نے فرمائے ہیں.تو صرف احمدیت میں داخل ہونے سے کیا فائدہ.حضرت مسیح موعود نے آکر دعا کی حقیقت کو کھول دیا ہے.ورنہ آپ کی بعثت سے پہلے لوگ دعا کی حقیقت سے ناواقف تھے.وہ دعائیں کرتے تھے.لیکن ان کی مثال ایسی تھی.جیسے ایک بچہ سرکنڈے کے کانے کو یا کسی اور لکڑی کو گھوڑا قرار دے کر ادھر ادھر دوڑتا پھرتا ہے.جس طرح اس کی حالت قابل مضحکہ اور لائق رحم ہوتی ہے.اسی طرح ان لوگوں کی حالت تھی جو حضرت مسیح موعود کی بعثت سے قبل دعائیں کرتے تھے لیکن دعاؤں کی حقیقت سے ناواقف تھے.بے شک وہ اس بچے کی طرح جو کانے کو گھوڑا سمجھ کر پھولا نہیں سماتا.اپنی دعاؤں پر پھولے نہ سماتے تھے.حالانکہ ان کی دعائیں اس کانے کے گھوڑے سے زیادہ وقعت نہ رکھتی تھیں.لیکن وہ دعائیں جو حضرت مسیح موعود نے سکھائی ہیں.اور وہ طریقے جو آپ نے بتائے ہیں وہ اس عربی النسل گھوڑے کی طرح ہیں.جو خوب تیزی سے دوڑتا اور جلدی منزل مقصود پر پہنچا دیتا ہے.پس یہ نہ سمجھو کہ پہلے ہم جس طرح دعائیں کرتے تھے.اسی طرح اب بھی کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود نے آکر کیا کیا.آپ نے دعا کی حقیقت کو کھول دیا.اور اس کی قبولیت کو دکھا دیا.پس اب وہی دعا قابل قبول اور ذریعہ کامیابی ہے جو حضرت مسیح موعود کی بیان کردہ حقیقت اور آپ کے فرمودہ طریقوں کے مطابق کی جائے.میں اپنی جماعت کے لوگوں کو خاص طور پر تاکید کرتا ہوں کہ سورۃ فاتحہ کے مضمون کی طرف
428 توجہ کرو اور اس کے مطابق دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ ہر بات اور ہر امر میں تمہیں سیدھا راستہ دکھائے.اور جو طریقے حضرت مسیح موعود نے دعا کی قبولیت کے بیان کئے ہیں.ان کے مطابق دعا کرو.ورنہ تمہارا احمدیت میں داخل ہونا اور نہ ہونا برابر ہو گا.حدا تعالٰی ہم سب کے لئے رحمت کے دروازے کھول دے.اور اپنے قرب میں جگہ دے.آمین الفضل ۱۷ جون ۱۹۲۴ء)
429 68 (فرموده ۱۳ جون ۱۹۲۴ء) حقیقی اور کامل توحید مشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا : ایک مسلمان جس وقت سے مسلمان ہوتا ہے یا جس وقت سے ہوش سنبھالتا ہے.اسی وقت سے اقرار کرتا ہے یا یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ اقرار کرتا ہے کہ وہ ایک خدا پر یقین لاتا ہے.اور ایسی حالت میں یقین لاتا ہے کہ سوائے ایک خدا کے اور کسی کو معبود نہیں سمجھتا.نہ وہ یہ مانتا ہے کہ خدا کے سوا کوئی اور ویسا خدا ہے نہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ خدا کی سی صفات کسی اور وجود میں پائی جا سکتی ہیں نہ وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ خدا کے سوا کوئی اور ہستی ایسی ہے.جس کی اطاعت اور فرمانبرداری اسے ایسی کرنی چاہیئے جیسی خدا تعالیٰ کی کرنی ضروری ہے اور اگر خدا کی فرمانبرداری کے مقابلہ میں آجائے تو نہیں چھوڑنی چاہیئے.پھر وہ یہ یقین کرتا ہے کہ اللہ تعالٰی کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنی چاہیئے.یعنی وہ انتہائی تذلل ، انتہائی اطاعت اور انتہائی محبت کو محض خدا تعالیٰ کے لئے مخصوص کرتا ہے.عبادت کیا ہے؟ اگر ایک شخص کو دیکھ کر کوئی کھڑا ہو جاتا ہے.اس کا ادب اور احترام کرتا ہے.اس کے لئے مرکز کی جگہ چھوڑ دیتا ہے.کھانا یا کوئی اور عمدہ چیز اس کی خاطر کے لئے لاتا ہے یا اس کے ہاتھ دھلاتا ہے.تو ادب اور احترام کا اظہار کرتا ہے.اسی طرح سجدہ کیا ہے؟ یہ بھی طریق اظہار ہے ادب و احترام کا.مگر ایک طریق کو تو ہماری شریعت نے جائز رکھا ہے.اور دوسرے کیا ناجائز یہ جائز ہے کہ کسی کے استقبال کے لئے جائیں یا کسی کو چھوڑنے کے لئے جائیں.یہ بھی جائز ہے کہ کسی کے سامنے اپنے ہاتھ سے کھانا رکھیں.یہ بھی جائز ہے کہ کسی کو صدر میں جگہ دیں.ان تمام طریقوں سے ہم کسی کا ادب اور احترام کر سکتے ہیں.اور یہ بیان بھی کر سکتے ہیں کہ ہم آپ کو معزز سمجھتے ہیں، مگر کسی کے لئے ایسی حرکت جو سجدہ یا رکوع کہلاتی ہے.کرنے سے منع کیا گیا ہے.
430 اس کی کیا وجہ ہے؟ یہ کہ ہر چیز کے مدارج ہوتے ہیں.انسانوں نے جس بات کو اپنی فطرت یا استعمال کے ذریعہ یا دنیوی اثرات کے ماتحت سب سے اعلیٰ اظہار ادب و احترام کا طریق قرار دیا.اسے خدا تعالیٰ نے اپنی ذات کے لئے مخصوص کر لیا.اور اسے دوسروں کے لئے جائز نہیں رکھا.خواہ کوئی کسی کو بغیر خدا سمجھے ہی سجدہ کرے جیسا کہ ہندوؤں میں ماں باپ کو کرتے ہیں.اور اسے پیریں پونا (پاؤں پڑنا) کہتے ہیں.وہ اس لئے سجدہ نہیں کرتے کہ ماں باپ کو خدا سمجھتے ہیں.بلکہ انسان ہی سمجھتے ہیں.مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہم انتہائی تذلل اور انتہائی احترام تمہارے لئے کرتے ہیں.اور جب کسی کے لئے ایسا کیا جائے گا.تو ماننا پڑے گا کہ وہ اور خدا برابر ہو گئے.کیونکہ دو مختلف مدارج والوں کے لئے ایک جیسا انتہائی تذلل اور ادب نہیں کیا جا سکتا.اسی وجہ سے خدا کے سوا کسی اور کو سجدہ اور رکوع کرنے سے روکا گیا ہے.ورنہ یہ حرکت اپنی ذات میں شرک نہیں.کسی کو سجدہ کرنے اور اس کے آگے جھکنے سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اسے خدا سمجھنے لگ گئے تو رکوع اور سجدہ اپنی ذات میں شرک نہیں.لیکن انسانوں نے چونکہ اپنی فطرت اور عادت کے مطابق اسے انتہائی تذلل کا طریق قرار دے لیا ہے.اس لئے خدا تعالٰی نے کسی اور کے لئے اس کے اظہار سے روک دیا.اس سے ایک بات شرک کے متعلق معلوم ہوتی ہے.اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کسی بات کے انتہائی درجہ کو اپنے سوا کسی کے لئے پسند نہیں کرتا.گویا شرک کی تعریف یہ نکل آئی کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک شرک یہ ہے کہ جس چیز سے خدا کے سوا انتہائی تعلق ہو.خواہ وہ تعلق احترام کا ہو.خواہ محبت کا خواہ ادب کا خواہ کسب علم کا خواہ کسی اور بات کے حاصل ہونے کا وہ شرک ہے.ہر ایک بات کے متعلق خدا تعالٰی یہ چاہتا ہے کہ انتہائی تعلق اسی سے ہو.اگر وہ یہ نہ چاہتا تو کسی اور کو سجدہ و رکوع کرنے سے نہ روکتا.اس میں کون سی خدائی آجاتی ہے.یہ محض ایک رسم ہے.جو انسانوں نے اختیار کی ہے.اگر انسان یہ قرار دے لیتے کہ سجدہ اظہار نفرت کا طریق ہوتا.اور آج سے ہزار دو ہزار سال قبل اظہار نفرت کے لئے اس طریق کو استعمال کیا جاتا.تو کبھی کسی اور کو سجدہ کرنا منع نہ ہوتا.اور اگر منع ہوتا تو بطور ایک ناپسندیدہ حرکت کے ہوتا.بطور شرک کے نہ ہوتا.کیونکہ بے جا اظہار نفرت سے بھی اسلام روکتا ہے.تو اس میں شرک کی وجہ انسانوں کی پیدا ہوئی ہے.انسانوں نے جب اسے انتہائی تذلل اور عبودیت کے اظہار کا ذریعہ بنایا.تو خدا تعالیٰ نے اپنے سوا کسی اور کے لئے اس کے اظہار سے اس لئے روک دیا کہ جبکہ تم خود تسلیم کرتے ہو کہ یہ
431 انتہائی تذلل اور فرمانبرداری کے اظہار کا طریق ہے.تو اسے صرف خدا کے لئے ہی مخصوص کرو.کسی اور کے لئے نہیں ہونا چاہیئے.اس سے یہ نکتہ معلوم ہوا کہ جس بات سے خدا تعالیٰ روکتا ہے.اور جو شرک ہے.وہ یہ ہے کہ انتہائی تعلق ہر قسم کا سوائے خدا کے کسی سے نہ ہونا چاہیئے.خواہ وہ تعلق محبت کا ہو یا عزت کا یا ادب کا یا علم کا مثلا یہی کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ مجھے فلاں سے سب سے زیادہ علم مل سکتا ہے یا فلاں سے سب سے زیادہ محبت ہے.تو یہ اسلامی شریعت کے ماتحت شرک ہے.اور جس طرح کوئی قوم اگر کسی بات کو انتہائی قرار دے لے.تو وہ خدا کے سوا کسی اور کی طرف منسوب کرنے سے شرک ہو جاتی ہے.اسی طرح فرد بھی اگر کسی بات کو انتہائی قرار دے کر خدا کے سوا کسی اور کی طرف منسوب کرے تو شرک ہوتی ہے.اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی رو سے شرک ایک نہایت باریک بات ہے.کسی چیز کو اتنا اعلیٰ قرار دینا کہ خدا تعالیٰ کی ہستی اس میں مد نظر نہ رہے شرک ہے.مثلا" تو کل ہے.اگر کوئی کہے متفق کہ یونہی کام چل جائے گا.تو یہ شرک ہے یا یہ کہے کہ یہی ذریعہ کسب علم کا ہے.اور کوئی نہیں تو یہ بھی شرک ہے.حتی کہ اگر کوئی مذہبی کتاب پر ہی انحصار رکھتا ہے کہ یہی نجات کے لئے کافی ہے تو بھی مشرک ہے اس لئے کہ کافی محض اللہ ہے وہی ایک ایسی ہستی ہے جس کے علوم کبھی ختم نہیں ہو سکتے.باقی جو علوم خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں.وہ وقتی ضروریات کے لئے آتے ہیں.اور وقتی ضروریات پر کھلتے ہیں.قرآن کریم میں علوم ہیں.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں.مجھ پر الہام کے ذریعہ تسبیح نازل ہوتی ہے.اگر یہ بھی قرآن کریم میں موجود تھی.تو علیحدہ الہام کے ذریعہ نازل ہونے کی کیا وجہ تھی.اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کے علاوہ بھی علوم ہیں.اور خدا تعالی کے علوم کا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا.ہاں چونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دنیا کے اس آخری دور کے لئے قرآن کریم کو بھیجا گیا ہے.اس لئے ہم یہ یقین رکھتے ہیں.کہ ہماری حاجات کے لئے سارے خزانے اس میں بند کر دئے گئے ہیں.مگر یہ کہنا کہ خدا کا سارا علم اس کے اندر بند ہے.یہ شرک ہے ہماری روحانی ضروریات کے لئے قرآن کریم میں سب کچھ موجود ہے.مگر خدا تعالٰی کا علم اتنا ہی نہیں.جتنا قرآن کریم میں ہے.بلکہ خدا تعالٰی کا علم وہی ہے جس کے متعلق اس نے فرمایا ہے.ولا يحيطون شئ من علمه الا بما شاء (البقرہ.۶۵۲) قرآن کریم میں بما شاء ہے علمہ نہیں کیونکہ خدا تعالٰی فرماتا -
432 ہے کہ میرے علم کا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا مگر اتنا ہی جتنا خدا تعالیٰ چاہتا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کے پاس بھی علم رہتا ہے.پس قرآن کریم بما شاء ہے.علمہ نہیں.تو ہر بات میں یہ سمجھنا کہ اس میں خدا تعالیٰ کی صفات کے برابر کوئی نہیں ہو سکتا.یہ توحید ہے.اسباب پر بھروسہ کرنا کہ ان کے ذریعہ کام ہو جائے گا.انسانوں پر بھروسہ کرنا کہ فلاں انسان کے ذریعہ کام ہو جائے گا.قرآن پر بھروسہ کرنا کہ جتنی ضروریات اس دنیا کی اور آخرت کی ہیں.وہ سب اس میں موجود ہیں.یہ شرک ہے.پس کامل توحید کے یہ معنے ہیں کہ انسان کسی ہستی پر ٹھہرتا نہیں بلکہ یہی کہتا ہے کہ مجھے خدا کی طرف جاتا ہے.اسے کوئی چیز خدا سے نیچے نہیں روک سکتی.اگر وہ رسول کو قبول کرتا ہے تو محض اس لئے کہ وہ خدا کا دروازہ ہوتا ہے جس میں سے ہو کر وہ خدا تک پہنچتا ہے.اگر قرآن کو قبول کرتا ہے تو محض اس لئے کہ وہ خدا کی طرف کھینچنے والی رسی ہوتی ہے.اگر اسباب کو استعمال کرتا ہے.تو محض اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے ان کے استعمال کا حکم دیا ہوتا ہے.اس طرف شیخ عبد القادر صاحب جیلانی نے اشارہ فرمایا ہے جسے بعض لوگ نہیں سمجھے.وہ کہتے ہیں میں اس وقت تک کھانا نہیں کھاتا.جب تک خدا تعالیٰ نہ کہے کہ تمہیں میری توحید کی قسم کھالو.اس کے یہ معنی نہیں کہ شیخ عبد القادر صاحب بھوکے رہ کر خود کشی کے لئے تیار ہو جاتے تھے یا خدا تعالیٰ سے منتیں کرانا چاہتے تھے.بلکہ ان کے کہنے کا یہی مفہوم ہے کہ مجھے کھانے پر بھی تو کل نہیں.اور میں کھانا اس لئے نہیں کھانا کہ زندہ رہ سکوں.بلکہ اس لئے کھاتا ہوں کہ خدا تعالٰی نے کھانا زندگی کا ذریعہ بنایا ہے.اگر خدا کی توحید و تفرید مجھے اجازت نہ دیتی کہ میں کھاؤں تو نہ کھانا.پس ان کے کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ خدا سے منتیں کراتے تھے کیونکہ یہ بے ادبی ہے.بلکہ ان کے کہنے میں یہی علمی نکتہ تھا کہ چونکہ خدا کی توحید نے یہ جائز رکھا ہے کہ میں کھاؤں.اس لئے میں کھاتا ہوں اگر وہ جائز نہ رکھتی تو میں کبھی نہ کھاتا اور کھانے کی مجھے کوئی پروا نہ ہوتی.اسی طرح اگر خدا تعالیٰ کی توحید کپڑا پہننے کی اجازت نہ دیتی تو نہ پہنتا.اور کہتا کہ مجھے کپڑے کی بھی کوئی پروا نہیں.میں کپڑے کا محتاج نہیں بلکہ خدا کا محتاج ہوں.اسی طرح میں اور اسباب کو بھی استعمال نہ کرنا.اگر ان کا استعمال کرتا خدا تعالیٰ کی توحید کے خلاف ہو تک لیکن چونکہ انہیں استعمال کرنے کا خدا نے حکم دیا ہے.اور اجازت دی ہے اس لئے استعمال کرتا ہوں باقی رہا ان کا یہ کہنا کہ مجھے خدا کہتا ہے کہ میری توحید کی قسم کھا لو.اس کی وجہ وہ عرفان ہے جو خدا تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو دیتا ہے.جب کوئی انسان اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ سمجھتا ہے.خدا نے ہی سب کچھ دیا ہے تو خدا تعالیٰ کی توحید اس سے
433 کلام کرتی ہے وہ انسان ترقی کرتا کرتا اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اس وقت جب وہ لقمہ اٹھاتا ہے تو کانٹے کی طرح اس کے حلق میں پھتا ہے.وہ سمجھتا ہے کیا میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اس وقت دیکھتا ہے کہ خدا تعالٰی آکر کہتا ہے.کلو او اثر ہوا ان الفاظ کو سنکر وہ سمجھتا ہے.خدا تعالیٰ کی توحید حکم دے رہی ہے کہ میں کھاؤں.تب وہ کھاتا ہے.اسی طرح جب وہ لباس پہنے لگتا ہے.تو نفس سے سوال کرتا ہے.کیا ستر ڈھانکنے کے لئے تو کپڑے کا محتاج ہے.اور کیا الیس الله بکاف عبده (الزمر ۳۷) کا حکم منسوخ ہو گیا ہے.تب وہ کہتا ہے کہ میں کپڑے کا محتاج نہیں ہوں.میں خدا ہی کا محتاج ہوں.اس وقت خدا اس کلام کے ذریعہ اس سے بولتا ہے کہ خذو از ینتکم (الاعراف ۳۲) اور وہ سمجھتا ہے.خدا تعالی کی توحید مجھے کہتی ہے کہ کپڑا پہنوں تب وہ پہنتا ہے.اسی طرح ہر ایک ضرورت وہ اپنی پوری کرتا ہے.حضرت مسیح موعود" ایک واقعہ سنایا کرتے تھے.فرماتے ایک بزرگ تھے.وہ ایک اور بزرگ کو جو دریا کے پار رہا کرتے تھے روز کھانا دینے جایا کرتے ایک دن بیمار ہو گئے.انہوں نے اپنی بیوی سے کہا آج تم کھانا پکا کر دریا کے پار فلاں بزرگ کے پاس لے جانا اور اسے کھلانا اس نے کہا.دریا سے کسی طرح گزروں گی.انہوں نے کہا دریا پر جا کر کہنا.اے دریا فلاں (اپنا نام بتا کر) آدمی کی خاطر جس نے کبھی اپنی بیوی سے صحبت نہیں کی.مجھے رستہ دے دے.اس نے کہا.یہ تو جھوٹ ہے.اتنے بچے موجود ہیں.اور تم کہتے ہو کبھی صحبت نہیں کی.انہوں نے کہا تمہیں کیا تم اس طرح کہہ دینا.تمہیں رستہ مل جائے گا.اس نے جا کر اسی طرح کہا.تھوڑی دیر بعد ایک کشتی آگئی.اور وہ سوار ہو کر دریا سے پار ہو گئی.کھانا کھلانے کے بعد کہنے لگی.میں نے آنے کے وقت تو دعا سیکھ لی تھی.اب کیا کروں.کیونکر پار اتروں.بزرگ نے کہا.یہ معمولی بات ہے.دریا پر جا کر کہنا.مجھے اس شخص کی خاطر اپنا نام بتا کر) رستہ دیدے.جس نے کبھی اپنے منہ میں ایک دانہ بھی نہیں ڈالا (حالانکہ ابھی ابھی اس کے سامنے کھانا کھا چکے تھے) اس نے کہا.یہ جھوٹ ہے.کہنے لگے تمہیں کیا.تم اسی طرح کہنا.اس نے جا کر کہا.کشتی آگئی اور وہ پار اتر گئی.گھر جا کر اس نے اپنے خاوند سے کہا.آج دو جھوٹوں کے ذریعہ دعا قبول ہوتی دیکھی ہے.اس کا کیا مطلب ہے انہوں نے کہا.بات یہ ہے کہ نہ ہم نے کبھی نفس کی خاطر صحبت کی اور نہ انہوں نے کبھی نفس کے لئے کھانا کھایا ہم نے تعلق رکھا، تو اس لئے کہ خدا نے کہا.اور انہوں نے کچھ کھایا تو اس لئے کہ خدا نے حکم دیا.پس نہیں کا مطلب یہ نہیں کہ وہ فعل نہیں ہوا بلکہ یہ کہ اپنی خواہش اور لذت اس میں نہ تھی.تو کامل توحید اس وقت
434 مریکہ ہوتی ہے کہ تمام چیزوں سے لذت کھینچ کر ایک ہی لذت باقی رہ جاتی ہے.اس کا یہ مطلب نہیں.کہ کسی چیز میں مزا نہیں آتا نمکین چیز نمکین نہیں معلوم ہوتی.اور میٹھی چیز میٹھی نہیں لگتی.بلکہ یہ ہے کہ انسان ہر ایک چیز اس لئے کھاتا ہے.کہ خدا نے حکم دیا ہے، مطلب تو دونوں کا حاصل ہو جاتا ہے، جو اس نیت سے کھاتا ہے کہ خدا کا حکم ہے، وہ بھی لذت حاصل کرتا ہے اور جو اپنے نفس کی خاطر کھاتا ہے، وہ بھی مزا پاتا ہے، اس لئے مجھے ہمیشہ تعجب آیا کرتا ہے.نیت سے اتنا فرق پڑ جاتا ہے.تو لوگ کیوں نیت نہیں بدل لیتے، اگر یہ نیت ہو کہ خدا نے کہا ہے اس لئے میں یہ کام کرتا ہوں، تو کیا مزا نہیں آئے گا ضرور آئے گا.مگر یہ نیت کرنے والے کو دوہرا فائدہ ہو گا.کیونکہ وہ میٹھا بھی کھائے گا اور عبادت بھی کرے گا خدا تعالٰی نے یہ جو فرمایا ہے.الذين يذكرون اللہ قیاماً و قعوداً و على جنو بهم (ال عمران (۱۹۲) یہ انسان کی تین حالتیں ہوتی ہیں اور تینوں میں ذکر کرنے سے مراد یہ ہے کہ انسان ہر وقت خدا کو یاد کرتا رہتا ہے.اگر کھڑا ہوتا ہے، تو بھی خدا کو یاد کرتا ہے، اگر بیٹھا ہوتا ہے تو بھی خدا کو یاد کرتا ہے، اگر لیٹا ہوتا ہے تو بھی خدا کو یاد کرتا ہے، اگر اس کا یہ مطلب ہو کہ مقررہ عبادت میں لگا رہتا ہے، تو پھر اور کام کس وقت کرتا ہے ، مگر یہ ناممکن ہے، ہاں اگر وہ ہر ایک کام اس لئے کرے کہ خدا نے کہا ہے تو جو کام کھڑا ہو کر کرتا ہے، وہ بھی عبادت ہے جو بیٹھ کر کرتا ہے، وہ بھی عبادت ہے اور اگر سونے کے لئے لیٹ جاتا ہے، تو وہ بھی عبادت ہے، اگر ایک تاجر اس نیت سے کام کرتا ہے کہ خدا نے کہا ہے کسب معاش کرو تو اس وجہ سے اسے گھاٹا نہیں ہوتا، بلکہ جس طرح کسی اور کو نفع ہو گا اسے بھی ہو گا مگر نیت بدل جانے کی وجہ سے اس کا یہ کام عبادت ہو جائے گی اسی طرح اگر کوئی سوتا ہے اور اس لئے سوتا ہے کہ خدا نے رات آرام کے لئے بنائی ہے، تو ساری رات اس کی عبادت سمجھی جائے گی، یہ ہے مطلب کھڑے، بیٹھے، اور لیٹے خدا کو یاد کرنے کا اور یہ ہے کامل توحید کہ کوئی کام انسان کا اپنا نہیں رہتا، یہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے، ہر کام سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ لیا کرو ورنہ وہ کام تباہ ہو جائے گا.اس کا بھی یہی مفہوم ہے کہ یہ نیت کر لیا کرو کہ خدا کی خاطر میں یہ کام کرتا ہوں، ورنہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے کا اور کیا تعلق ہو سکتا ہے.اس میں نیت کی درستی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.جب ایک مسلمان یہ اقرار کرتا ہے کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ تو اس کا کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا.جب تک اس کے تمام اعمال میں توحید نہ جاری ہو جائے، جب تک اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے
435 کھاتے پیتے، عورتوں بچوں سے تعلقات رکھتے توحید ہی توحید مد نظر نہیں ہوتی اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہو سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو ایک ارشاد فرمایا ہے.اس سے دیکھ لو.یہ سب باتیں کس طرح عبادت میں داخل ہو جاتی ہیں.آپ نے فرمایا ، اگر کوئی بیوی کو لقمہ کھلاتا ہے، تو یہ بھی اس کی عبادت ہے، اب لقمہ دیکر اس نے تو خود ناز اٹھایا اور مزا پایا ، پھر عبادت یہ کس طرح ہو گئی.لیکن چونکہ وہ اس نیت سے لقمہ دیتا ہے کہ خدا نے کہا ہے.اس لئے یہ عبادت ہو گی.اسی طرح انسان کھانا کھاتا ہے.اور مزا لیتا ہے، کپڑا پہنتا اور آرام پاتا ہے، لیکن اگر اس کی نیت یہ ہوتی ہے کہ یہ چیزیں خدا کی دی ہوئی ہیں.تو اس کی عبادت سمجھی جاتی ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق آتا ہے، جب بارش ہوتی تو آپ اسے جسم پر ڈالتے ، منہ میں ڈالتے اور فرماتے خدا نے یہ تازہ نعمت بھیجی ہے.اس کا مطلب یہ نہیں کہ عرش سے خدا نے بارش بھیجی، بلکہ یہ کہ خدا نے نعمت دی ہے.اس کی قدر کرنی چاہئے.پس اگر ہر نعمت کے لئے یہ کہا جائے کہ خدا نے دی ہے تو یہ توحید ہو گی.اگر ہر بات میں اس نکتہ کو مد نظر رکھا جائے تو پھر کوئی انسان خدا سے دور نہیں ہو سکتا.لوگ خدا سے دور ہوتے ہیں کھانے پینے کے لئے یا آرام و آسائش کے لئے، لیکن جو شخص یہ خیال کرے گا کہ سب کچھ خدا ہی دیتا ہے، وہ خدا کو بھولے گا یا ہر وقت یاد رکھے گا دیکھو اگر کسی کو کوئی دوست کھانا بھیجے تو کھاتے وقت بھیجنے والا دوست یاد آئے گا.یا بھول جائے گا، اگر کوئی کسی کے لئے کپڑے لائے تو انہیں پہنتے وقت لانے والا یا د یا فراموش ہو جائے گا.کئی لوگ تھے لاتے ہیں.مثلا " جائے نماز وہ اس لئے نہیں لاتے کہ بھول جائیں.بلکہ اس لئے لاتے ہیں کہ یاد آتے رہیں.اسی طرح انسان اگر سب اشیاء کو خدا تعالیٰ کی طرف سے تحفہ سمجھ لے تو ان کی وجہ سے خدا کو یاد کرتا رہے گا.بھلائے گا نہیں، اور یہی توحید ہے.اس صورت میں ہر چیز خدا کو دیکھنے کا آئینہ بن جاتی ہیں.اور آئینہ جب آنکھ کے سامنے آجائے تو نظر گھٹ نہیں جاتی.بلکہ بڑھ جاتی ہے، جو لوگ عینک لگاتے ہیں وہ اس لئے نہیں لگاتے کہ نظر گھٹ جائے، بلکہ اس لئے لگاتے ہیں کہ بڑھ جائے، اس طرح جن چیزوں کو انسان خدا تعالیٰ کی نعمت سمجھ کر استعمال کرتا ہے، وہ خدا کو اور زیادہ یاد دلانے والی ہوتی ہیں.لباس جب ایسا انسان پہنتا ہے تو خدا کو زیادہ یاد کرتا ہے، مکان میں جب انسان داخل ہوتا ہے تو خدا کے زیادہ قریب ہو جاتا ہے اور یہ چیزیں اسی طرح اسے خدا دکھاتی ہیں.جس طرح اعلیٰ درجہ کی عینک صحیح اور زیادہ عمدہ منظر کمزور نظر والے کو دکھاتی ہے.
436 یہ وہ کامل توحید ہے، جس کا اسلام ہم سے مطالبہ کرتا ہے اور اسی وجہ سے سجدہ اور رکوع خدا کے سوا کسی اور کو کرنے سے منع کیا گیا ہے.بعض لوگ حیران ہوتے ہوں گے کہ کسی کے آگے جھکنے سے خدا کی کیا ہتک ہو گئی.مگر اس سے اسی لئے روکا گیا ہے کہ انسان کا ہر قسم کا انتہائی تعلق خدا سے ہونا چاہیئے جب تمام دنیاوی معاملات میں ایسا ہو تب کامل توحید حاصل ہوتی ہے.اور اس طرح تمام کاموں میں پڑکر بھی انسان خدا کی راہ میں ترقی کرتا اور روحانی مدارج حاصل کرتا رہتا ہے.لیکن اگر اس توحید کو چھوڑ دے تو خواہ ننگ دھڑنگ ہو کر جنگلوں میں پھرتا رہے، درختوں کے پتے کھا کر پیٹ بھرے تو بھی توحید نہیں پاسکے گا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے دست در کار و دل با یار کے مطابق عمل ہونا چاہیئے.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ تم جو کلمہ توحید پڑھتے ہو.اور اس پر زور دیتے ہو کہ اس کے سوا کوئی مسلمان نہیں ہوتا.تم اپنے اعمال پر بھی نظر کرو.اور دیکھو کہ ہر چیز جو تمہیں ملتی ہے، اس کی آخری کڑی تم خدا تعالیٰ کو سمجھتے ہو یا نہیں، اگر تم اپنے کاموں میں اس بات کو جاری کر لو.تو یہی توحید ہے ورنہ منہ سے لا الہ الا اللہ کہنے کا نام توحید نہیں.اور جب تک کوئی صرف منہ سے کہتا ہے اس وقت تک اسے کچھ نفع نہیں ہوتا.خدا تعالٰی آپ لوگوں کو سچی اور حقیقی توحید سکھائے اور ہر قسم کے شرسے بچائے، خدا تعالٰی یہ کہتا ہے کہ شرک معاف نہیں ہو گا.اس کی یہی وجہ ہے کہ خدا کہتا ہے کیا وہی چیزیں جو میری یاد دلانے والی تھیں.وہی روک بن گئیں.آج نماز جمعہ کے بعد ایک جنازہ پڑھا جائے گا.یہاں ایک احمدی پٹھان ہیں.ان کے بھائی کے متعلق خط آیا ہے کہ وہ اپنے وطن میں مار ڈالا گیا ہے، وہاں چونکہ اور احمدی نہیں تھے اور مخالفت کی وجہ احمدیت ہی ہے اس لئے اس کا جنازہ پڑھوں گا.ا سفینتہ الاولیاء مصنفہ دارا شکوہ ۷۴ الفضل ۲۴ جون ۱۹۲۴)
437 69 (فرموده ۲۰ جون ۱۹۲۴ء) روحانی کمالات حاصل کرنے کا گر مشهد و تعوذ سورہ فاتحہ اور آیت قل ان صلوتی و نسکی و محیای و مماتي لله رب العلمین (الانعام (۱۹۳) کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا : قرآن کریم کے الفاظ نہایت مختصر ہیں.لیکن ان کے مطالب نہایت وسیع ہیں.اور واقع میں ایک ایسی کتاب جس کا یہ دعوئی ہو کہ وہ تمام اخلاقی و تمدنی اور روحانی ضروریات کا ذکر کرے گی.وہ یا تو اتنی بڑی ہونی چاہیئے کہ اس کے پڑھنے کے لئے بڑی لمبی عمر کی ضرورت ہو یا پھر ایسی تدبیر اختیار کی جائے کہ نہایت مختصر الفاظ میں وسیع معانی بیان کئے جائیں اور اس کی ترتیب ایسی اعلی درجہ کی ہو کہ الفاظ پر غور کرنے سے نہایت وسیع مطالب نکلیں اب اگر ان تمام ضروریات اور حالات کو جو ۱۳۰۰ سو سال میں پیش آئے.اور آئندہ پیش آئیں گے مفصل طور پر قرآن کریم میں بیان کیا جاتا.تو ہزاروں بڑی بڑی ضخیم جلدوں میں قرآن کریم ہوتا اور اتنی ضخیم کتاب کو پڑھنے کے لئے موجودہ انسانی زندگی کافی نہ ہوتی یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے متعلق یہ صورت اختیار کرنے کی بجائے دوسری صورت رکھی ہے کہ الفاظ نہایت مختصر ہوں لیکن نہایت وسیع معافی اور مطالب کے حامل ہوں پس قرآن کریم کو ایسی طرز پر بیان کیا گیا ہے کہ اس کے وسیع مطالب اور معافی کو نہایت مختصر الفاظ میں بند کر دیا گیا ہے جیسا کہ اہل یورپ بعض غذاؤں کا تھوڑی سی مقدار میں اثر نکال لیتے ہیں وہ تو مادی اشیاء کا خلاصہ ہوتا ہے اور یہ میں نے بطور مثال بیان کیا ہے ورنہ اسے اس خلاصہ سے کوئی نسبت ہی نہیں ہے جو خدا تعالیٰ نے حقائق اور معارف کا قرآن کریم کے الفاظ میں رکھ دیا ہے یہ آیت جو میں نے پڑھی ہے اس میں کل ۱۲ - الفاظ ہیں.لیکن اس کے مطالب اتنے وسیع ہیں کہ ان پر ایک مبسوط کتاب لکھی جاسکتی ہے.میں ان میں سے آج صرف ایک مطلب کی
438 تشریح کروں گا.صلوۃ عربی زبان میں دعا کو کہتے ہیں.اور دعا مانگنے اور طلب کرنے کو کہتے ہیں.اس لئے صلوتی کے معنے ہوئے میرا مانگنا اور مانگتا کوئی اسی وقت ہے.جب اسے کسی چیز کی کمی ہوتی ہے.مثلاً اگر ایک شخص کھانا مانگتا ہے.تو اس لئے کہ اس کے پاس کھانا نہیں ہوتا.اور وہ کھانے کا محتاج ہوتا ہے یا اگر کوئی کپڑا مانگتا ہے تو اس لئے کہ وہ کپڑے کا محتاج ہوتا ہے پس دعا نام ہے اپنی احتیاج اور ضرورت کے پورا ہونے کے لئے درخواست کرنے کا اور جب کوئی انسان اس آیت کا لفظ صلوتی کہتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ میری ہر قسم کی عبادتیں جو مانگنے کے لئے کی جاتی ہیں اور روحانی ضروریات کے پورا کرنے کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.وہ خدا ہی کے لئے ہیں.میری تمام روحانی ضروریات پوری کی جائیں.تو اس لفظ میں اس حصہ عبادت کا ذکر کیا گیا ہے.جس میں انسان کچھ طلب کرتا ہے.پھر اس کے بعد نسکی فرمایا ہے.نسک ان عبادات کو کہتے ہیں.جن میں انسان خدا تعالیٰ سے کچھ مانگنے کی بجائے اس کے حضور کچھ پیش کرتا ہے نسکی کہہ کر بندہ یہ کہتا ہے کہ اے خدا میں تیرے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہوں.پس ان صلوتی و نسکی کے یہ معنے ہوئے کہ یہ الفاظ کہنے والا خدا تعالیٰ کے حضور کہتا ہے کہ تمام عبادتیں جن میں میں کچھ مانگتا ہوں یا وہ تمام عبادتیں جن میں میں اپنے آپ کو پیش کرتا ہوں وہ سب رب العالمین کے لئے ہیں.پھر اس کے بعد معیلی کہتا ہے.یعنی یہ کہ میری زندگی بھی خدائے رب العالمین کے لئے ہے.زندگی کا مطلب کام کرنے کا زمانہ ہوتا ہے اور زندہ رہنے کے لئے انسان دوسری چیزوں کا محتاج ہے مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص زندہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ باہر کی چیزوں کو لے کر اپنے اندر جذب کرتا ہے.درخت جانور اور انسان اسی وقت تک زندہ کہلاتے ہیں.جب تک کہ وہ باہر کی چیزوں کو اپنے اند رکھینچتے ہیں.تو محیلی کہہ کر انسان یہ ظاہر کرتا ہے کہ میرا وہ عملی حصہ جس میں میں باہر سے دوسری چیزوں کو اپنے اندر جذب کرتا ہوں.وہ بھی خدا کے لئے ہے.پس جس طرح انسان اپنی جسمانی زندگی کے لئے پانی اور غذا کا محتاج ہے.اور ان کو اپنے اندر داخل کرتا ہے.اسی طرح اپنی روحانی زندگی کے لئے صلوٰۃ کا محتاج ہے.اس کی روحانی زندگی صلوۃ کے ذریعہ قائم ہوتی ہے.پھر نسکی کے مقابل مماتی بیان کیا یعنی بندہ کہتا ہے.میں اپنی جان بھی خدا کے ہی سپرد کرتا
ہوں.439 پس اس آیت میں روحانی ترقیات کا ایک گر بتایا گیا ہے اور یہ بیان کیا گیا ہے.انسان کی روحانی ترقیات اور تکمیل کے لئے دورے ضروری ہیں.پہلے تو یہ کہ انسان خدا سے وہ سامان طلب کرے جن کے ذریعہ وہ روحانی ترقی کر سکتا ہے اور یہ صلوۃ کے ساتھ حاصل ہو سکتی ہیں.انسان خدا کے ساتھ تعلق قائم ہونے کے لئے دعائیں کرے.پھر جب اس پر فضل ہونے شروع ہو جائیں تو نسکی کے.یعنی جو کچھ خدا نے دیا.اسے خدا کے لئے ہی خرچ کرے.پھر اتنا ہی کافی نہ سمجھے.بلکہ محیای.اپنی زندگی کی ہر ایک حرکت خدا ہی کے لئے کردے.اور پھر انتہا یہ کہ مماتی اپنی موت بھی خدا ہی کے لئے قرار دے اور خدا کے لئے موت قبول کرنے کے لئے بھی تیار رہے اور خدا کی مخلوق کو خدا تک پہنچانے کے لئے اپنی جان کی بھی پروا نہ کرے.جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے.لعلک باخع نفسک الايکونو امو منین (الشعراء ۴) کہ تجھے لوگوں سے اس قدر ہمدردی اور محبت ہے کہ تو اپنی جان ان کی خاطر بلاک کر دے گا.ہر ایک مومن کو دوسرے انسانوں کی بہبودی اور ترقی کے لئے ایسا ہی کرنا چاہیئے پس اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ تمام ترقیات کے لئے دو قدم اٹھانے پڑتے ہیں.ایک یہ کہ پہلے انسان وہ سامان مہیا کرے جن کے ذریعہ اپنے اندر ترقی کرے.اور پھر بنی نوع انسان کی ہمدردی کے لئے سب کچھ خرچ کرے.یعنی ایک طرف سے لے اور دوسری طرف دیتا چلا جائے.اس مرتبہ پر پہنچا ہوا انسان سب کچھ رب العالمین کے لئے کرتا ہے.یعنی ایسی ہستی کے لئے جس سے تمام دنیا کی چیزیں فیض حاصل کر سکتی ہیں.اور جو ایسا سرچشمہ ہے.جس سے ہر ایک چیز سیراب ہوتی ہے.ایسی ہستی کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا.کہ میں اس کے لئے کوئی قربانی کیوں کروں کیونکہ کیوں کا سوال اپنی جنس کے متعلق پیدا ہوا کرتا ہے.اور مقابلہ اپنی جنس سے ہی کیا جاتا ہے قو میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتی ہیں.ایک قوم کوشش کرتی ہے کہ دوسری سے بڑھ جائے لیکن یہ کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی قوم ہاتھیوں سے طاقت میں بڑھنے کے لئے کوشش کرے تو غیرت کا سوال تبھی پیدا ہوتا ہے.جب مقابل میں اپنی جنس ہو.لیکن جہاں جنس کا سوال نہ ہو.بلکہ اس سے بالا ہستی ہو وہاں مقابلہ کا خیال نہیں پیدا ہوتا.اس لئے فرمایا کہ ہر شخص کو یہ مد نظر ہونا چاہیئے کہ میری تمام قربانیاں اور عبادتیں اس خدا کے لئے ہیں.جو سارے جہانوں کا رب ہے.اور اس کے لئے کامل تذلل اور کامل اطاعت کرنے میں کوئی شرم کی بات نہیں.بلکہ فخر کی بات ہے.
440 کوئی شخص زندہ نہیں رہ سکتا اور نہ ترقی کر سکتا ہے.جب تک اس سرچشمہ سے اس کا تعلق نہ ہو.جس سے اس کی حیات قائم اور وابستہ ہوتی ہے.اور یہ وابستگی دعا کے ذریعہ ہی ہو سکتی ہے.لیکن دعا قبولیت کے مقام پر نہیں پہنچ سکتی.جب تک کہ دعا کرنے والا قربانی کے لئے تیار نہ ہو.پھر روحانی حیات جو دعا اور قربانی کے بعد حاصل ہوتی ہے.قائم نہیں رہ سکتی جب تک آگے ان فیوض کو انسان جاری نہ کرے.جو خدا سے اسے حاصل ہوتے ہیں.وہ شخص روحانیت میں ترقی نہیں کر سکتا.جو ان علوم اور ان طاقتوں کو خرچ نہیں کرتا.جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے ملتی ہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ قادر ہے اور وہ چاہتا ہے کہ جو کچھ میں دوں.اسے خرچ کیا جائے تاکہ میں اور دوں.لیکن جو انسان خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی انعام حاصل ہونے پر اسے دوسروں تک نہیں پہنچاتا.وہ گویا یہ سمجھتا ہے کہ خدا میں مجھے اور دینے کی قدرت نہیں ہے.اگر وہ جو مجھے ملا ہے.دے دوں گا تو میرے پاس کچھ نہیں رہے گا.ایسے انسان کو اور کیا مل سکتا ہے.غیر احمدی جو یہ کہا کرتے ہیں کہ خدا نے اسی مسیح کو مسلمانوں کی اصلاح کے لئے آسمان پر زندہ رکھا ہوا ہے.جو انیس سو سال ہوئے بنی اسرائیل میں آیا تھا.اور یہ اس کے قادر ہونے کا ثبوت ہے.اس پر ہمیشہ مجھے تعجب آیا کرتا ہے کہ یہ قادر ہونے کا کیونکر ثبوت ہے.قادر تو وہ ہوتا ہے.کہ جب چاہے کوئی چیز مہیا کر لے.نہ یہ کہ ایک چیز کو اس لئے رکھ چھوڑے کہ دوسرے وقت میں اسی سے کام لوں گا.دیکھو ایک امیر آدمی جو تازہ کھانا پکوانے کی قدرت رکھتا ہے.وہ صبح کا کھانا شام کے لئے نہیں رکھ چھوڑتا بلکہ شام کو تازہ پکواتا ہے لیکن ایک غریب آدمی صبح کا بچا ہوا کھانا شام کو کھانے کے لئے سنبھال رکھتا ہے.پس اگر خدا تعالی قادر ہے اور یقینا ہے.تو اس کی قدرت کا یہ ثبوت ہے کہ ضرورت کے وقت نیا مسیح بھیج دے.نہ یہ کہ پہلے مسیح کو رکھ چھوڑے یہ خدا تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے.اسی طرح یہ بھی خدا تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے کہ کوئی سمجھ لے کہ جو کچھ ملا ہے اس سے زیادہ خدا نہیں دے سکتا.جو لوگ ناکام و نامراد رہتے ہیں.ان میں بہت سے تو اس وجہ سے ناکام رہتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ سے وہ تعلق نہیں پیدا کرتے جو دعاؤں کے ذریعہ پیدا ہوتا ہے.وہ شکایت کرتے ہیں کہ ہمیں روحانیت حاصل نہیں ہوتی لیکن روحانیت حاصل ہونے کا طریق اختیار نہیں کرتے پھر بہت سے لوگ ہیں.جن پر خدا کے فضل ہوتے ہیں.ان پر نئے علوم بھی کھلتے ہیں.لیکن چونکہ وہ آگے کچھ خرچ نہیں کرتے اس لئے وہ بھی اعلیٰ درجہ کی روحانیت حاصل نہیں کر سکتے.
441 ایسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ہر ایک ترقی ہمیشہ خرچ کرنے سے ہوتی ہے.میں نے ایک دفعہ دعا کی قبولیت کے ایسے طریق بیان کئے.جو خاص سمجھے جاتے تھے.اور اگر کسی کو ان میں سے کوئی معلوم تھا تو اسے پوشیدہ رکھتا تھا.اس پر مجھے کہا گیا کہ آپ نے یہ کیا غضب کر دیا.راز کی باتیں ظاہر کر دیں.لیکن مجھے جس قدر طریق معلوم تھے وہ میں نے بیان کر دیئے.آخری جمعہ جس میں وہ طریق ختم ہوئے پڑھانے کے بعد گھر جا کر میں نے دو نفل پڑھے اور دعا کی.الہی جو کچھ دعا کے متعلق مجھے علم دیا گیا تھا.وہ میں نے سارے کا سارا بیان کر دیا.اب میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں.کہ کیا قبولیت دعا کے کوئی اور بھی طریق ہیں یوں تو میرا ایمان ہے کہ ہوں گے.لیکن میں اپنے اطمینان کے لئے معلوم کرنا چاہتا ہوں.یہ دعا کرنے کے بعد رکوع سے قیام کے وقفہ کے اندر اندر جو ایک آدھ منٹ کا تھا.مجھے دونئے عظیم الشان گر سکھائے گئے.یہ نتیجہ تھا اس بات کا کہ مجھے پہلے جو علم دیا گیا.اسے میں نے خدا کے لئے خرچ کیا اگر میں یہ خیال کرتا کہ جو کچھ میں بیان کروں گا.وہ لوگوں کو معلوم ہونے سے پھر وہ میرے برابر ہو جائیں گے.تو وہ دو عظیم الشان طریق مجھے نہ معلوم ہوتے.پس خدا اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ کوئی شخص ان فیوض اور ان علوم کو اپنے اندر بند رکھے.جو اللہ تعالیٰ اس پر کھولے.کیونکہ اس سے وہ گویا خدا کے خزانے بند اور محدود سمجھتا ہے.اور پھر کچھ اور ملنے سے محروم رہتا ہے.لیکن اگر خرچ کرتا جائے تو اور اضافہ ہوتا جاتا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کے خزانوں میں کبھی کمی نہیں آسکتی.خدا تعالیٰ کے خزانہ کی تو یہ شان ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جیسے عظیم الشان انسان کو بھی حکم ہوتا ہے کہ یہ دعا کرو.رب زدنی علماً اے میرے رب میرے علم میں ترقی ہو.پس جب محمد رسول اللہ بھی علمی ترقی کے محتاج ہیں اور آپ جیسے انسان کو بھی اللہ تعالیٰ علمی ترقی کے حصول کے لئے دعا مانگنے کے واسطے فرماتا ہے تو اور کون ہے جسے ضرورت نہ ہو.تو کوئی شخص خدا کے فیضان کو نہیں حاصل کر سکتا.جب تک کہ وہ پہلے علوم کو خرچ نہ کرے اور جب وہ پہلے علوم کو خرچ کرتا ہے.تو نئے فیضان اسے حاصل ہوتے ہیں.اور نئے علوم کے دروازے اس پر کھولے جاتے ہیں اور اس طرح ایک طرف سے لینے اور دوسری طرف دینے کا چکر شروع ہو جاتا ہے.پس احباب کو چاہیئے.خدا تعالیٰ کی طرف جھکیں اور اس سے دعائیں کریں.پھر اس فیض کو جو دعاؤں کے بعد انہیں حاصل ہو.بنی نوع انسان کے لئے خرچ کریں.دیکھو اسی کنوئیں کا پانی صاف رہتا ہے.جس میں سے پانی نکلتا رہے.اگر تم خدا کے فیوض کو اپنے اندر بند کر
442 کے رکھ دو گے تو تمہیں اور ترقی حاصل نہ ہو گی.اگر تم ترقی کرنا چاہتے ہو تو اس گر پر عمل کرو.جو اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ خدا تعالٰی سے حاصل کرو.اور پھر اسی کی راہ میں خرچ کر دو.اس طرح تمہیں روحانی کمالات حاصل ہو سکیں گے.الفضل ۸ جولائی ۱۹۲۴ء)
443 70 (فرموده ۲۷ جون ۱۹۲۴ء) بعض دینی احکام کی حکمت مشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا : ابھی موذن نے اذان دی ہے.اور اس اذان میں بلند آواز سے کچھ فقرات کے ہیں.یہ اذان کوئی نئی اذان نہیں.آج ہی یہ الفاظ ہمارے کان میں نہیں پڑے، بلکہ جب سے ہم مسلمانوں کے گھر پیدا ہوئے ہیں.اسی وقت سے یہ الفاظ ہمارے کانوں میں پڑتے چلے آئے ہیں حتی کہ جب مسلمانوں کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے، تو حکم ہے کہ پیشتر اس کے کہ اسے کوئی چیز کھلائی جائے.اس کے دائیں کان میں اذان کہی جائے اور بائیں کان میں اقامت تو ایک مسلمان کے کان میں پیدا ہوتے ہی اذان کے کلمات پڑتے ہیں.اور آج جو الفاظ ہم نے سنے ہیں.وہ کوئی جدید نہیں، بلکہ انہی کی تکرار ہے، جو پیدائش کے وقت سے سنتے ہیں ، مگر سوال یہ ہے کہ یہ الفاظ کیوں کے جاتے ہیں اور ان میں کیا حکمت ہے.اس کے متعلق بہت لوگ کہہ دیں گے کہ یہ اس لئے کہے جاتے ہیں کہ نماز کے لئے لوگوں کو بلایا جائے.یہ سن کر لوگ نماز پڑھنے کے لئے آئیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان الفاظ میں بلانے کی کیا ضرورت ہے کیوں نہ ایک آدمی کھڑا ہو جاتا جو لوگوں کو کہتا، نماز کے لئے آؤ.یا کیوں نہ ڈھول بجا دیا جاتا جس سے لوگوں کو نماز کے وقت کی اطلاع ہو جاتی.یا کیوں نہ کسی بلند جگہ پر آگ جلا دی جاتی جسے دیکھ کر لوگ نماز کا وقت معلوم کر لیتے یا کیوں نہ ناقوس بجا دیا جاتا.جس سے لوگ نماز کے وقت کا اندازہ کر لیتے.یا کیوں نہ گھنٹی بجا دی جاتی جس سے نماز کے وقت کا پتہ لگ جاتا.ان سب کو چھوڑ کر یہ الفاظ کیوں اختیار کئے گئے.اس میں ضرور کوئی حکمت ہونی چاہیئے.اور جب تک ہم اس حکمت کو نہیں سمجھتے.اذان کی حکمت سے غافل ہیں.مگر میں دیکھتا ہوں، بہت لوگ پانچ وقت اذان
444 سنتے ہیں، مگر خیال نہیں کرتے کہ اس میں کیا سبق ہے، حالانکہ اذان میں بہت سی حکمتیں ہیں، جو میں نے پہلے بیان کی ہیں.اور آج ایک اور کی طرف توجہ دلاتا ہوں.دیکھو پہلے موذن زور سے اللہ اکبر کہتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرتا ہے، پھر رسالت کا اقرار کرتا ہے، پھر حتی علی الصلوۃ کہتا ہے کہ اے لوگو ! نماز کی طرف آؤ.نماز کی طرف آؤ پھر حتی علی الفلاح کہتا ہے.کہ اے لوگو کامیابی کی طرف آؤ پھر عجیب بات ہے دوبارہ اذان کہنے لگتا ہے.یعنی اللہ اکبر اللہ اکبر کہتا ہے.اب سوچنا چاہیئے کہ یہ خاص الفاظ کیوں رکھے گئے اور اس ترتیب سے کیوں رکھے گئے ہیں.اور کیا وجہ ہے کہ جب موذن اذان شروع کرتے وقت اللہ اکبر کہتا ہے تو پھر خاتمہ پر کیوں انہی الفاظ کو دہراتا ہے.اس کے جواب میں بہت لوگ کہیں گے کہ دوبارہ کہنے میں تکرار ہے.اور پہلے ہی الفاظ کو دہرایا گیا ہے ، مگر سوال یہ ہے کہ اس تکرار میں حکمت کیا ہے.الفاظ کے لحاظ سے کوئی تو ازن قائم نہیں ہوتا کہ اس کے لئے تکرار ہو.مضمون کے لحاظ سے کوئی نئی بات نہیں مضمون وہی ہے جو پہلے تھا، پھر تکرار کیوں؟ اس کے لئے جب ہم اذان کو دیکھتے ہیں.تو ایک لطیف حکمت اس تکرار میں پائی جاتی ہے.موذن توحید اور رسالت کا اقرار کرنے کے بعد حتی علی الصلوۃ کہتا ہے کہ نماز کی طرف آؤ پھر حی علی الفلاح کہتا ہے کہ کامیابی کی طرف آؤ اس سے یہ معلوم ہوا کہ اسلام یہ سکھاتا ہے کہ نماز کامیابی کی جڑ ہے.کیونکہ پہلے کہا کہ نماز کی طرف آؤ پھر کہا کہ کامیابی کی طرف آؤ اس سے پتہ لگا کہ ایک کامیابی کے متلاشی روحانیت کے دلدادہ اور خدا سے تعلق پیدا کرنے والے کے لئے ضروری کہ اگر وہ کامیابی چاہتا ہے تو نماز پڑھے اور نماز باجماعت پڑھے.کیونکہ اگر نماز باجماعت کی شرط کامیابی کے لئے ضروری نہ ہوتی تو مئوذن حتی علی الصلوٰۃ نہ کہتا بلکہ یہ کہتا کہ پڑھ لو پڑھ لو.ہے.تو یہ الفاظ ہی بتلاتے ہیں کہ مسجد میں بلایا جاتا ہے اور باجماعت نماز پڑھنے کے لئے بلایا جاتا ہے.مگر سوال یہ ہے کہ کیونکر نماز باجماعت پڑھنے میں کامیابی ہے.اس کا جواب آگے دیا ہے.اور وہ یہ کہہ کر اللہ اکبر اللہ اکبر یہ تکرار کے لئے نہیں لایا گیا.بلکہ نئے مضمون کا اظہار کیا گیا.پہلی دفعہ جب موذن اللہ اکبر کہتا ہے تو اپنے عقیدہ کا اظہار کرتا ہے اور اپنے مسلمان ہونے کا اقرار کرتا ہے.اور جب یہ اقرار کر لیتا ہے.تو یہ حکم سناتا ہے کہ نماز کے لئے آؤ.اور آگے بتاتا ہے.که اگر نماز با جماعت ادا کرو گے.تو کامیابی ہو گی کیوں ہو گی باجماعت نماز کا نتیجہ یہ ہو گا کہ خدا کی بڑائی ظاہر ہو گی.اور یہ ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی توحید اور بڑائی سے کامیابی ہوتی ہے.اور اگر خدا
445 تعالی کی توحید اور بڑائی سے کامیابی ہوتی ہے.اور اگر خدا تعالیٰ کی توحید اور بڑائی نہ ہو.تو کوئی کامیابی نہیں.روحانی طور پر تو یہ بات صاف ہی ہے کہ وہی انسان روحانیت میں کامیاب ہو گا جو خدا تعالیٰ کی توحید کا قائل ہو گا.مگر دنیاوی کامیابی اور شان و شوکت بھی اسی سے وابستہ ہے.کامیابی کے معنی کیا ہیں کہ روکیں اور مشکلات راستہ سے دور ہو جائیں اور روکیں دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک وہ جو انسانوں کی طرف سے ظاہری طور پر آتی ہیں.اور دوسری روحانی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں.اب جو شخص خدا کے لئے سب کچھ چھوڑ کر نماز کے لئے آتا ہے.اس کے لئے خدا تو روکیں نہیں ڈالے گا کیونکہ جب کوئی خدا کے لئے آتا ہے.تو اس کے راستہ میں خدا روکیں نہیں ڈالتا.بلکہ روکوں کو دور کرتا ہے.دوسری کامیابی کے راستہ میں روکیں ڈالنے والی چیز انسان ہیں.لیکن اگر دشمن دوست بن جائیں.تو وہ بھی روکیں نہیں ڈالتے.دیکھو ماں باپ بچوں کے کیسے ہمدرد ہوتے ہیں ان کی تربیت کرتے ہیں.ان کو پڑھاتے ہیں.ان پر روپیہ خرچ کرتے ہیں.خود فاقے اٹھاتے ہیں.کیوں؟ اس لئے کہ ان کے دلوں میں بچوں کی محبت ہوتی ہے.وہ چونکہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے ترقی کریں.اس لئے وہ ان کے راستہ میں روکیں نہیں ڈالتے.بلکہ ان کی مدد کرتے ہیں.اسی طرح اگر تمام بنی نوع انسان دوست بن جائیں.تو ان کی طرف سے بھی روکیں حائل نہ ہوں گی.بلکہ وہ مدد گار ثابت ہوں گے تو فرمایا یہ نماز با جماعت کا نتیجہ ہو گا.اب سوال یہ ہے کہ نماز باجماعت ادا کرنے سے یہ کیونکر ہو جائے گا اس کے لئے یاد رکھو کہ خدا تعالی نماز با جماعت سے یہ بتاتا ہے کہ جو کام مل کر ہو سکتے ہیں.وہ علیحدہ نہیں ہو سکتے اگر نماز سے صرف خدا تعالٰی کا نام ہی لینا مقصود ہے تو یہ گھر میں بھی لیا جا سکتا ہے.کیا مسجد میں آکر دو دفعہ فاتحہ پڑھی جاتی ہے.اور اگر گھر میں ایک دفعہ یا مسجد میں آکر لمبے سجدے کئے جاتے ہیں اگر کوئی ایسا کرتا ہے یعنی مسجد میں لوگوں کو دکھانے کے لئے لیے سجدے کرتا ہے تو یہ اس کی ریا کی نماز ہوگی اور اس کے منہ پر ماری جائے گی پھر کیا وجہ ہے کہ مسجد میں آنے کا حکم دیا گیا اس لئے کہ مل کر کام کیا جائے اور یہی کامیابی کا ذریعہ ہے.دیکھو جب ایک فوج کو کوچ کا حکم دیا جاتا ہے.تو اس میں بعض کا قدم لمبا ہوتا ہے اور بعض کا چھوٹا لیکن مارچ کے لئے ایک خاص اندازہ رکھا جاتا ہے اور سب کو ایک چال پر چلایا جاتا ہے جس سے تیز چلنے والا اپنی تیزی کو روک کر باقیوں کے ساتھ چلتا ہے اور آہستہ چلنے والا تیزی اختیار کر کے دوسروں کے ساتھ رہتا ہے.اس طرح سب مل کر چلتے ہیں.اسی
446 طرح نماز ادا کرنے میں کئی ایسے ہوتے ہیں.جن کا دل چاہتا ہے کہ لمبی نماز پڑھیں اور کوئی ایسے ہوتے ہیں.جو چھوٹی نماز پڑھتے ہیں.لیکن جماعت کے ساتھ سب کو سب کے ساتھ مل کر نماز پڑھنی پڑتی ہے اور اس سے آپس میں اتحاد پیدا ہوتا ہے اسی کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں اشارہ فرمایا ہے کہ صفیں سیدھی کرو.ورنہ تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے.تو نماز باجماعت سے یہ بتایا کہ جو چیز ادنی ہو.مل کر کام کرنے سے وہ بھی اعلیٰ نتائج پیدا کر سکتی ہے.اور نماز با جماعت سے اتحاد پیدا ہو سکتا ہے.اور جب اتفاق و اتحاد مضبوط ہو جائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اور لوگ بھی آکر ہمارے ساتھ شامل ہونے لگتے ہیں.اس کی مثال اس برف کے ٹکڑے کی طرح ہوتی ہیں.جو پہاڑ سے گرتا ہے.اور اس کے ساتھ اور برف راستہ میں شامل ہوتی جاتی ہے.حتی کہ وہ اتنا بڑا بن جاتا ہے کہ پہاڑ کے دامن کے بعض گاؤں کو تباہ کر دیتا ہے.بعض دفعہ وہ اتنا بڑا ہو گیا ہے کہ سو سو گاؤں کو دبا کر لے گیا ہے.حالانکہ پہلے وہ ایک گیند جتنا ہوتا ہے لیکن گرتے گرتے اور برف کو اپنے ساتھ ملا کر بہت بڑا بن جاتا ہے قاعدہ یہ ہے کہ جتنا زیادہ اتحاد ہو.اتنا ہی زیادہ دوسری چیزوں کو کشش کرتا ہے.اس لئے جتنا ہم میں زیادہ اتحاد پیدا ہو گا اتنے ہی زیادہ لوگ ہماری طرف کھنچے چلے جائیں گے.لکھا ہے جب ریل چل رہی ہو تو ساتھ چلنے والا بھی اس کے قریب ہوتا جاتا ہے کیونکہ اس کی رفتار کی کشش کھینچتی جاتی ہے.اس طرح جو قومیں متحد ہوتی ہیں ، کرتی ہیں.ان میں کشش ہوتی ہے اور وہ دوسرے لوگوں کو کھینچنا شروع کر دیتی ہیں.تو فرمایا! جب متحد ہو جاؤ گے اور اپنے کاموں کو چھوڑ کر نماز باجماعت پڑھو گے تو کامیاب ہو جاؤ گے کیونکہ اس طرح جمع ہونے سے خدا تعالی کا جلال روشن ہو گا اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہاری مخالفت کم ہوتی جائے گی اور تم کامیاب ہو جاؤ گے.نماز میں یہ بہت بڑا سبق ہے اور اذان اس کی طرف اشارہ کرتی ہے.مگر افسوس کہ بہت لوگ اس کی حقیقت کو نہیں سمجھتے.کئی جگہ سے نماز با جماعت نہ پڑھنے کی شکایات آتی ہیں کسی جگہ کوئی شخص اس لئے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے نہیں جاتا کہ امام صاحب سے اس کی لڑائی ہوتی ہے.لیکن اذان میں تو موذن یہی کہتا ہے کہ خواہ کچھ ہو.نماز باجماعت کے لئے آؤ کیونکہ اگر لڑائیوں اور جھگڑوں کی وجہ سے مسجدوں میں آنا چھوڑ دو گے.تو اللہ تعالیٰ کی توحید دنیا میں قائم نہ ہو گی.اور جب توحید قائم نہ ہو گی.تو تم کامیاب بھی نہ ہو گے.
447 ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہیئے کہ اذان کی حکمت سے سبق سیکھیں اور سمجھیں کہ دوبارہ جو اللہ اکبر اللہ اکبر کہا جاتا ہے.یہ تکرار کے لئے نہیں بلکہ یہ نتیجہ ہے نماز با جماعت کا جو بیان کیا جاتا ہے.کیونکہ اس طرح توحید پھیلے گی اور جب توحید پھیلے گی.تو ترقی اور کامیابی حاصل ہو گی اور اگر لوگ اس میں سست ہوں گے تو ان کے لئے تباہی اور بربادی ہوگی.ہر ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ خواہ مسجد کا امام اس کا دشمن ہو تو بھی جائے اور یہ سمجھے کہ میں خدا کے لئے جاتا ہوں تاکہ اس کی توحید پھیلے اور اس کی بڑائی کا ذکر بلند ہو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم کامیاب ہو جاؤ گے.میں نے بارہا کہا ہے کہ نماز باجماعت نہایت ضروری ہے لیکن ابھی تک بہت جگہ سستی پائی جاتی ہے.خوب اچھی طرح سن لو.جب تک یہ ستی دور نہ ہو گی.کامیابی نہ ہوگی.بہت لوگ پوچھتے ہیں کہ ہماری ترقی کب ہو گی میں کہتا ہوں.خدا کے نبی نے جن الفاظ کو ترقی کے گر کے طور پر رکھا ہے.گو یہ الفاظ آپ کو نہیں بتائے گئے.لیکن آپ کے لئے اور کو سکھائے گئے.مگر چونکہ آپ ہی نے ان کو مقرر کیا ہے.اس لئے آپ ہی کے ہیں.ان میں ترقی کا گر نماز باجماعت کی پابندی بتایا گیا ہے.جب تک اس گر پر عمل نہ ہو گا.ترقی نہ ہوگی.پس جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ کیوں ہماری جلد جلد ترقی نہیں ہوتی.وہ اپنے نفس کو الزام دیں.جو نماز با جماعت کی پابندی نہیں کرتا.اور اپنی اس سستی اور کو تاہی کو دور کریں.خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو توفیق دے کہ وہ اسلام کے احکام پر عمل کرنے والی ہو.اسلام کے مطابق ہمارے عمل ہوں اور ہمارا کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، خلوت و جلوت سب اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہو جائے.ایک دوست شیر زمان صاحب نائب تحصیلدار جو ایک عرصہ سے بیمار تھے.اور بہت مخلص تھے.ایسی جگہ رہتے تھے جہاں ایک بھی احمدی نہ تھا.وہ فوت ہو گئے ہیں.انہیں فوت ہوئے ایک ماہ کے قریب عرصہ ہو گیا.میرا خیال تھا.میں نے ان کا جنازہ پڑھا دیا ہے.مگر اب معلوم ہوا ہے نہیں پڑھایا اس لئے آج پڑھاؤں گا.اسی طرح ایک عورت بھی ایسی جگہ فوت ہو گئی ہے جہاں احمدی نہ تھے.اس کا بھی جنازہ پڑھوں گا.الفضل جولائی ۱۹۲۴ء) بخاری کتاب الصلوۃ باب تسوية الصفوف
448 71 (فرموده ۴ جولائی ۱۹۲۴ء) چند ضروری باتیں مشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو لوگ مبعوث ہوتے ہیں ان کی تعلیم اس زمانہ کے خیالات کے مخالف ہوتی ہے کیونکہ وہ دنیا کی اصلاح کے لئے آتے ہیں.اور یہی نبیوں اور دوسرے لوگوں میں فرق ہوتا ہے کہ باقی جس تعلیم کو پیش کرتے ہیں وہ وہی تعلیم ہوتی ہے جس کی طرف دنیا خود جا رہی ہوتی ہے جیسے آج کل مسٹر گاندھی ہیں.گو انہوں نے کوئی دعویٰ نہیں کیا لیکن لوگ چونکہ بطور مثال انہیں پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو انہیں کس قدر کامیابی ہوئی.اس لئے ان کا ذکر کیا جاتا ہے.اول تو ان کی کامیابی کا نتیجہ جلد ہی نکل آیا.وہ ہندو اور مسلمان جو انہیں اپنا لیڈر اور پیشوا کہتے تھے.آج ان کا بڑا حصہ انہیں چھوڑ چکا ہے اور اس طرح تھوڑے عرصے میں ہی ان کا عروج تنزل سے بدل گیا.اس کے خلاف انبیاء سے خدا تعالیٰ کا یہ سلوک ہوتا ہے کہ ان کا قدم کو آہستہ آہستہ اٹھتا ہے مگر آگے ہی آگے بڑھتا ہے پیچھے نہیں ہٹتا.دنیا میں اور لوگوں کو بھی بڑی بڑی فتوحات ہوئیں مگر نبیوں کو ان کے مقابلہ میں ہمیشہ یہ امتیازات حاصل رہے کہ اول جن لوگوں کے ذریعہ انبیاء فتوحات اور کامیابیاں حاصل کرتے ہیں.وہ ان کے خود پیدا کردہ ہوتے ہیں.دوسرے انبیاء زمانہ کی رو کے مخالف چلتے ہیں.تیسرے ان کا ہر قدم ترقی کی طرف ہی جاتا ہے.تنزل کی طرف نہیں جاتا.چوتھے خدا تعالیٰ ان کی خبر اور شہرت کو آپ پھیلاتا ہے.اسی سال یعنی گزشتہ بارہ مہینوں میں کئی نئی باتیں احمدیت کے متعلق معلوم ہوئی ہیں.چنانچہ معلوم ہوا کہ چین میں احمدیہ جماعت موجود ہے.وہاں کون گیا.وہ لوگ کس طرح احمدی ہوئے.ہمیں اس کا بھی علم نہیں اور نہ اس جماعت کے متعلق
449 کوئی علم تھا کہ ترکی پارلیمینٹ کا ایک ممبر چین میں گیا.اس نے اپنا سفرنامہ لکھا جس میں وہ لکھتا ہے.میں نے چین کے ایک شہر کانٹن میں یہ جھگڑا فساد سنا کہ احمدی جامع مسجد کے متعلق کہتے تھے.یہ ہماری ہے اور دوسرے مسلمان کہتے تھے ہماری ہے.اس سے معلوم ہوا کہ وہاں جماعت موجود ہے اور اتنی بڑی جماعت ہے کہ مسجد پر قبضہ کرنے کا استحقاق رکھتی ہے.پھر مسجد بھی کوئی عام مسجد نہیں بلکہ جامع مسجد ہے.ہمیں اب تک بھی اس جماعت کا علم نہیں مگر ایک غیر شخص اس کا ذکر کرتا ہے جو ہمارا دشمن ہے.اسی طرح ایک پولٹیکل افسر کا خط پچھلے دنوں الفضل میں شائع ہوا تھا جس سے معلوم ہو سکتا تھا کہ دنیا میں کس طرح ہر جگہ احمدیت کا چرچا ہو رہا ہے.ایک بہت بڑے رئیس نے تو انہیں یہاں تک کہا کہ تم ہندوستان سے میرے لئے کیا تحفہ لائے ہو.انہوں نے کہا کہ نافہ لایا ہوں.اس پر وہ ہنس کر کہنے لگا کہ حضرت احمد کی کوئی کتاب لائے ہو یا نہیں؟ یہ چر چا کس طرح ہوا.کیا ہماری کوششوں سے.ہرگز نہیں خدا تعالٰی نے ہی حضرت مسیح موعود کا ذکر پھیلا دیا.کیونکہ وہ اپنے ماموروں کی خبر خود پھیلاتا ہے.آج بھی ایک خط آیا ہے.جو اسی قسم کی بشارت لایا ہے.اور ایسی جگہ سے آیا ہے.جہاں آج تک کوئی احمدی نہیں گیا.بلکہ وہاں کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ چونکہ سنوسی خیالات کے لوگ ہیں اس لئے احمدیت کی طرف توجہ نہیں کر سکتے.مگر آج ایک عرب کا رجسٹری خط ملا ہے.وہ ترکی فوج میں کپتان تھے اور آج کل سیاحت پر ہیں.وہ مصر میں احمدی ہوئے تھے.وہ لکھتے ہیں یہاں ایک بہت بڑے پیر ہیں جن کے بہت سے مدارس ہیں.اور ہزاروں مرید ہیں.وہ احمدی ہو گئے ہیں.ان کے لئے سلسلہ کی کتابیں جلدی بھیجیں.کیونکہ ان کا ارادہ ہے کہ اس علاقہ میں تبلیغ کے لئے نکلیں.اب دیکھو ان علاقوں میں کون پہنچا.یہ اللہ تعالی کا فضل ہی ہے.جو لوگوں کو کھینچ کر احمدیت کی طرف لا رہا ہے.کہاں ایک شخص مصر میں احمدیت کا ذکر سنتا ہے اور احمدی ہو جاتا ہے.اور خدا اس کے دل میں ایسا اخلاص ڈال دیتا ہے کہ وہ تبلیغ شروع کر دیتا ہے.اس کے متعلق خیال تھا کہ نہ معلوم کہاں چلا گیا.کیونکہ عرصہ سے اس کا کوئی خط نہ آیا تھا.لیکن اب اس نے لکھا ہے کہ افسوس کہ میں اس سے پہلے کوئی خط نہ لکھ سکا.میں تبلیغ میں مصروف ہوں.اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ بہت سے لوگ تیار ہیں اگر کوئی مبلغ آئے تو ہزاروں آدمی سلسلہ میں داخل ہو جائیں گے.ایک یہ بات ہے جو میں آج سنانا چاہتا ہوں :-
450 دوسری بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے سنا ہے کہ بعض لوگوں کے اندر یہاں یہ خیال ہے کہ مہدی کی پیشگوئی حضرت خلیفہ اول پر چسپاں ہوتی ہے میں کسی شخص سے اس تعلق کے لحاظ سے جو مجھے حضرت خلیفہ اول سے ہے کم نہیں ہوں.اس لئے کہ بچپن سے آپ کے ساتھ میرا تعلق رہا.اور جب سے میں نے ہوش سنبھالی.ان کو دیکھنا شروع کیا.اور جتنی جتنی عمر بڑھتی گئی تعلق بھی بڑھتا گیا.عربی تعلیم جو میں نے تھوڑی بہت حاصل کی انہی سے حاصل کی.قرآن کریم کا ترجمہ انہیں سے پڑھا.بخاری انہی سے پڑھی.پھر وہ زمانہ بھی آیا جبکہ ان کا اور ہمارا تعلق پیری مریدی کا ہوگیا.اس تعلق سے بھی میرا مقابلہ نہیں کر سکتا کیونکہ دوسروں کے تعلق محدود ہیں اگر کسی کو شاگردی کا تعلق ہے تو یہ نہیں کہ وہ بچپن سے آپ کے پاس رہا اور اگر کوئی بچپن سے آپ کے پاس رہا ہے تو اسے آپ سے فیض حاصل کرنے کا وہ موقعہ نہیں ملا جو مجھے ملا ہے جو محبت مجھے ان سے تھی اور جو پیار انہیں مجھ سے تھا.اس کے متعلق بارہا مجلس میں فرمایا کرتے تھے مجھے میاں سے عشق ہے اور مجھے خود بھی انہوں نے کئی بار کہا مجھے تم سے عشق ہے تو کسی کو ایسا موقع نہیں ملا جو مجھے ملا اور ایک شخص بھی جماعت میں ایسا نہیں جو حضرت خلیفہ اول سے تعلق کے لحاظ سے اس درجہ پر ہو جو مجھے حاصل ہے اور جب میں کہتا ہوں کہ ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جسے مجھ جتنا تعلق ہو تو میں کسی کو بھی مستقلی نہیں کرتا حتی کہ حضرت خلیفہ اول کے بچوں کو بھی مستثنیٰ نہیں کرتا.آپ بارہا فرمایا کرتے تھے اور ایک دفعہ تو مجھے لکھا بھی تھا کہ مجھے اپنے بچوں سے بھی زیادہ تم سے محبت ہے.پھر حضرت خلیفہ اول کے بچوں کو نہ تو آپ کی شاگردی کا رتبہ حاصل ہوا اور نہ صحبت علمی سے مستفیض ہوئے ہیں.گویا ان کا تعلق محض نبی ہے.مگر میرا تعلق آپ سے علمی ہے.لیکن باوجود اس تعلق کے میں ان کی طرف یہ بات منسوب کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ آپ مہدی موعود تھے کیونکہ حضرت مسیح موعود نے اس امر پر بہت زور دیا ہے کہ لا مہدی الا عیسی کہ عیسیٰ جو موعود ہے سوائے ان کے اور مہدی نہیں ہو گا پس اگر مہدی سے مراد وہ مہدی ہے جسے مسیح موعود کے زمانہ میں ہونا تھا تو وہ سوائے حضرت صاحب کے اور کوئی نہیں ہے اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور مہدی مراد ہو تو ایسے بہت گزرے ہیں اور بہت سے ہوں گے میں جس امر کی تردید کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مسیح موعود کی موجودگی میں سوائے آپ کے کوئی دوسرا مہدی نہ تھا اور اگر آپ کے وقت میں آنے والے مہدی سے کوئی اور مراد لیا جائے تو یہ غلط ہے لیکن اگر اور مہدی مراد ہے تو سب خلفاء کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مہدی کہا ہے اس لحاظ سے حضرت ابو بکڑ بھی مہدی تھے.حضرت عمرؓ بھی
451 مهدی تھے.حضرت عثمان بھی مہدی تھے.حضرت علی بھی مہدی تھے.حضرت خلیفہ اول بھی مہدی تھے اور میں بھی مہدی ہوں اگر کوئی حضرت ابو بکر حضرت عمر حضرت عثمان حضرت علی حضرت خلیفہ اول پر بعض علامات کی بنا پر مہدی والی پیشگوئی چسپاں کرتا ہے تو وہ مجھ پر بھی چسپاں ہوتی ہے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ ۳۶ سال کی عمر میں خلافت کرے گا.اور یہ بات سوائے میرے اور کسی پر چسپاں نہیں ہوتی.تو کوئی خلیفہ ایسا نہیں جو مہدی نہیں.مگر پھر بھی ہم اس پر زور نہیں دیتے.کیونکہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر خلیفہ ہیں.حضرت عمرؓ خلیفہ ہیں.حضرت عثمان خلیفہ ہیں.حضرت علی خلیفہ ہیں تو ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس حدیث کے ماتحت وہ بھی مہدی تھے.اس پر خاص زور دینے کی ضرورت نہیں اور خاص کر ایسے زمانہ میں جب کہ یہ بحث ہو رہی ہو کہ مہدی اور مسیح ایک ہی ہے اس پر زور دینا اس بات کو مشتبہ کرنا ہے جس پر جنگ ہو رہی ہے.پس اس مہدویت کے علاوہ جو خلافت سے تعلق رکھتی ہے.مسیح موعود کے سوا کسی کے لئے کوئی موعودہ مہدویت نہیں ہو سکتی.کیونکہ وہ مہدیت دعوے سے تعلق رکھتی ہے اور مہدویت اور مجددیت میں فرق ہی یہ ہے کہ مجددیت کسی خاص انسان کے لئے نہیں ہوتی.اس کے متعلق تو یہ کہا گیا ہے کہ مجدد تجدید دین کرتا رہے گا.یہ نہیں کہا کہ فلاں مجدد ہو گا اس لئے اگر کوئی مجدد مجددیت کا دعوی بھی نہ کرے بلکہ اسے پتہ بھی نہ ہو کہ میں مجدد ہوں تو بھی وہ مجدد ہو سکتا ہے لیکن جس کے متعلق پیشگوئی ہو کہ ان ان علامات کے ساتھ ہو گا وہ ہو اور دعوی نہ کرے یہ نہیں ہو سکتا.اور دعوے کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ ان علامات کو جو بیان کی گئی ہوں اپنے اوپر چسپاں کرے.یہ دعوی نہیں جس طرح میں نے بھی کہہ دیا ہے کہ میں بھی مہدی ہوں دعوے یہ ہیں کہ اس منصب پر زور دے اور لوگوں کے سامنے اس کا مدعی بن کر پیش کرے.مگر حضرت خلیفہ اول نے نہ اس طرح دعوی کیا نہ لوگوں کے سامنے پیش کیا اگر کوئی علامت آپ پر چسپاں ہوتی ہے تو اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ ایسا خلیفہ ہو گا.نہ یہ کہ آپ وہ مہدی تھے جس کا وعدہ دیا گیا تھا.پس ایسے وقت میں جب کہ دنیا سے اس بات پر جنگ کی جارہی ہے مسیح اور مہدی ایک تھے کس قدر نادانی اور جہالت ہے.اگر ہم اس بحث کو خود خراب اور مشتبہ کر دیں.تو اس وقت دوسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ اس بات کا ازالہ ہے کہ حضرت خلیفہ اول باوجود اپنے علم و فضل تقویٰ و طہارت بزرگی اور برتری کے بحیثیت خلیفہ تو مہدی تھے مگر وہ مہدی جس کی خبر مسیح موعود کے زمانہ میں آنے کی دی گئی ہے وہ نہیں تھے بلکہ مہدی کے خادموں میں سے ایک خادم تھے.اور جو بھی رتبہ آپ کو حاصل ہوا وہ اسی
452 لئے حاصل ہوا کہ آپ نے مہدی کی غلامی کی اس سے زیادہ درجہ آپ کا کچھ نہیں.تیسری بات جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے سنا ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ حضرت مسیح موعود شرعی نبی نہ تھے.اس لئے ان کے بیان کئے ہوئے مسائل ہمارے لئے حجت نہیں ہیں.اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتا ہے بعض لوگ کہتے ہیں خدا کا بیٹا ہے.فرماتا ہے.قریب ہے کہ آسمان و زمین پھٹ جائیں.اس بات کو سن کر کہ بعض لوگ کہتے ہیں.خدا کا بیٹا میں سمجھتا ہوں اس قسم کے خیال کے لئے بھی ہم یہی فقرہ کہہ سکتے ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے.انت منی بمنزلة توحیدی و تفریدی ۳۰ کہ تو مجھے ایسا ہی پیارا ہے جیسے توحید یعنی جس طرح مجھے یہ ناپسند ہے کہ کوئی شرک کرے.اسی طرح مجھے یہ بھی ناپسند ہے کہ تیرے درجہ میں کوئی کمی کرے.پس اگر خدا کا بیٹا کہنے سے زمین و آسمان پھٹنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں تو وہ جو توحید جیسا خدا کا مقرب ہے.اس کے درجہ میں اگر کمی کی جائے گی تو کیوں آسمان و زمین پھٹنے کے لئے تیار نہ ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ واسلام خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے نبیوں میں سے ایک نبی تھے اور اس رسول کے بھیجے ہوئے رسولوں میں سے ایک رسول اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جو رسول آئیں وہ شریعت لائیں یا نہ لائیں.وہ خدا سے علم پاتے ہیں.خدا تعالیٰ جو نبی بھیجتا ہے کسی غرض کے لئے بھیجتا ہے یا یونہی.اور ساری دنیا سے لڑائی جھگڑے کرا کر نتیجہ کیا نکالتا ہے کیا یہی کہ ساری دنیا سے لڑائی جھگڑے تو نبی کرے.سب لوگوں سے دکھ اور تکالیف تو وہ اٹھائے.ہر وقت لوگوں کے غم اور فکر میں تو وہ ہلکان ہوتا رہے لیکن اس کی بجائے مسائل کا فیصلہ کرنا اوروں کے سپرد ہو جائے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی شیر ہوتے ہیں اور شیر کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ شکار مارے.اور گیڈر کھائیں.خدا تعالیٰ کے نبی شیروں کی طرح ہوتے ہیں اور ہماری مثال گیڈروں کی سی ہوتی ہے کہ شیر شکار مار کر جاتا ہے اور ہم پیچھے کھاتے ہیں.پس خدا تعالٰی نے جو رتبہ اور درجہ نبی کو دیا ہے وہ اسے دو اور جو تمہارے لئے رکھا ہے وہ اپنا سمجھو یہ اور بات ہے کہ ان تعلیمات اور مسائل کو لے کر جو حضرت مسیح موعود نے بیان کئے.اور اس رعب کی وجہ سے جو آپ نے قائم کیا اور اس جماعت کے سہارے جو آپ نے بنائی.کوئی بات ہم بھی بنا لیں اور کسی مقصد میں ہم بھی کامیاب ہو جائیں.لیکن دراصل وہ ہماری کسی خوبی کی وجہ سے نہیں ہو گا.
453 دیکھو آج یہ جو ہزار ۱۲ سو یا اس سے بھی زیادہ لوگ میرے سامنے بیٹھے ہیں ان میں شاید کوئی غیر بھی ہو لیکن باقی سارے کے سارے ایسے ہیں جنہوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے.جو میں انہیں کہوں گا کرنے کے لئے تیار ہوں گے اور اپنے اخلاص اور ایثار میں دنیا کی کسی جماعت سے کم نہیں بلکہ اپنی نظیر آپ ہی ہیں.ہر حکم ماننے کے لئے تیار ہیں.مگر سوال یہ ہے کہ یہ جماعت پیدا کس نے کی؟ صاف بات ہے کہ ان میں جو اخلاص اور ایثار پایا جاتا ہے وہ حضرت مسیح موعود ہی کی کوشش کا نتیجہ ہے اگر میں اس بات کو دیکھ کر کہ اتنے لوگ میری بات مانتے ہیں جتنے حضرت مسیح موعود کے وقت نہ تھے اور اتنے لوگ میری باتیں سنتے ہیں جتنے حضرت مسیح موعود کی باتیں نہ سنتے تھے یہ خیال کر لوں کہ میرا درجہ آپ سے بڑھ کر ہے تو یہ کیسی بے وقوفی کی بات ہو گی ہمیں اصل منبع دیکھنا چاہیئے اور ہر کامیابی کا باعث اس کو قرار دینا چاہیئے.اگر آج ہمارا رعب دنیا پر پہلے سے زیادہ ہے اور پہلے کی نسبت زیادہ لوگ ہماری باتیں مانتے ہیں تو یہ ہماری کسی قابلیت کا نتیجہ نہیں بلکہ حضرت مسیح موعودہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے.کیا آپ سے پہلے لوگ وعظ و نصیحت کرنے والے نہ تھے.ان کی باتوں کا کیوں لوگوں پر اثر نہ ہوتا تھا.یا اب ایسے لوگ نہیں ہیں.جو آپ سے علیحدہ ہو کر وعظ و نصیحت کرتے ہیں مگر کوئی ان کی بات نہیں سنتا اس کی کیا وجہ ہے یہی کہ ان میں وہ نور اور روشنی نہیں جو حضرت مسیح موعود کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے.انہیں وہ جذب اور وہ قوت نہیں جو حضرت مسیح موعود سے حاصل ہوتی ہے.اس لئے ان کی باتیں بے اثر تھیں اور اب بھی ہیں.خوب یاد رکھو.یہ مسئلہ میرے نزدیک بہتوں کے لئے حل نہیں ہوا.ہماری جماعت کے کئی لوگوں کے لئے بھی حل نہیں ہوا.غیر مبایع اور غیر احمدی تو الگ رہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا میں ایک ہی چیز ہے جس کا انکار کفر ہے.اسی لئے میں کسی بھی انسان کی اتنی عظمت کا قائل نہیں ہوں کہ اس کی ذات کا انکار کفر ہو.کفر صرف خدا کی ہستی کا انکار ہے اور ہم جو یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی کا انکار کفر ہے تو اس کے یہ معنی نہیں ہوتے.کہ ان کی ذات کا انکار کفر ہے بلکہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی جو باتیں وہ لائے ان کا انکار کفر ہے ورنہ اگر اس بات کو علیحدہ کر دو.تو پھر وہ کیا تھے.ایک بڑھئی کے گھر پیدا ہونے والے اور ایک یہودی خاندان کے فرد تھے.جنہیں زیادہ سے زیادہ فریسی اور فقہی کہہ سکتے تھے.اس سے زیادہ کیا تھے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ہیں رسالت کو علیحدہ کر کے دیکھو تو آپ عربوں میں سے ایک عرب تھے اور عرب ہونے کی حیثیت سے لوگ آپ کی غلامی کرنے کے
454 لئے تیار نہ تھے.ہماری قوم جو ہزاروں سالوں سے حکمران چلی آئی تھی کیا وہ بغیر رسالت کے آپ کی غلامی کے لئے تیار ہو سکتی تھی.کسی عرب میں اور کیا بات ہو سکتی تھی جو ہم سے خادمیت اور غلامی کا اقرار کرا سکتی تھی.زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا تھا کہ آپ بڑے خاندان کے ہوتے مگر آپ کا خاندان کیا تھا.مکہ کا غریب خاندان تھا.لیکن جب خدا تعالٰی نے آپ کو رسالت دی تو آپ بڑے بنے آپ کا انکار کفر ہو گیا.حتی کہ آپ نے فرمایا.لو کان مومنی و عیسى جبين لما وسعهما الا اتباعی ۴۰ کہ اگر موسیٰ اور عیسی بھی زندہ ہوتے تو وہ بھی میری غلامی کرتے.یہ رتبہ اور یہ مرتبہ آپ کو خدا تعالیٰ کے کلام کی وجہ سے ملا.پس جن پر خدا کا کلام نازل ہوتا ہے.وہ معمولی انسان نہیں ہوتے بلکہ ان کی ہستیاں دنیا سے جدا ہوتی ہیں اور ان کے لئے خدا تعالیٰ یہاں تک کہتا ہے کہ اگر کوئی میرا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ ان کے ذریعہ حاصل کرو اور ایسے انسان شرعی ہوں.یا غیر شرعی ایک ہی مقام پر ہوتے ہیں.اگر کسی کو غیر شرعی کہتے ہیں تو اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ وہ کوئی نیا حکم نہیں لایا.ورنہ کوئی نبی ہو ہی نہیں سکتا جو شریعت نہ لائے.ہاں بعض نئی شریعت لاتے ہیں اور بعض پہلی شریعت ہی دوبارہ لاتے ہیں.پس شرعی نبی کا مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے کلام لائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریعی نبی ہیں.جس کے یہ معنی ہیں کہ آپ قرآن پہلے لائے اور حضرت مسیح موعود غیر تشریعی نبی ہیں.تو اس کے یہ معنی ہیں کہ آپ پہلے قرآن نہیں لائے.ورنہ قرآن آپ بھی لائے اگر نہ لائے تھے تو خدا تعالیٰ نے کیوں کہا کہ اسے قرآن دے کر کھڑا کیا گیا ہے.پس اگر مسائل کا فیصلہ ہم نے کرنا ہے.تو پھر خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو کیوں بھیجا.کوئی ڈپٹی اس لئے مقرر نہیں کیا جاتا کہ وہ اپنے آپ کو ڈپٹی منوائے کوئی تحصیلدار اس لئے نہیں بنایا جاتا کہ وہ اپنے آپ کو تحصیلدار منوائے.ڈپٹی اور تحصیلدار کے معنی ہی یہ ہیں کہ کوئی کام ان کے سپرد کیا گیا ہے.اسی طرح جب ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں خدا کا نبی ہے تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ خدا نے اس کے سپرد کوئی کام بھی کیا ہے اور کام یہی ہوتا ہے کہ یا تو جدید شریعت پر عمل کرائے یا پہلی شریعت کو قائم کرے.پس وہ جو وہ دیتے ہیں.اس سے ذرا بھر بھی ادھر ادھر ہونا جائز نہیں ہوتا.چنانچہ حضرت مسیح موعود بڑی وضاحت سے فرماتے ہیں.مولوی لوگ حدیثیں لئے پھرتے ہیں.مگر حدیثوں کا یہ کام نہیں کہ میرے متعلق فیصلہ کریں بلکہ میرا کام ہے کہ میں بتاؤں.فلاں حدیث درست ہے اور فلاں غلط.تم ہی بتاؤ.ایک شخص کسی کے منہ سے کوئی بات سنے اور دوسرا کسی اور کے ذریعہ بنے تو کس
455 کی بات قابل وثوق ہو گی.اسی کی جس نے خود سنی.ہم یہ نہیں کہتے کہ حضرت مسیح موعود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات کو منسوخ کر سکتے تھے.یا اآپ نے منسوخ کیا بلکہ یہ کہتے ہیں آپ وہی باتیں کہتے تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہیں.لیکن دوسرے جو کہتے ہیں وہ ایک دوسرے سے سنی سنائی کہتے ہیں.پس سوال مسیح موعود کے تشریعی یا غیر تشریعی نبی ہوے کا نہیں بلکہ راویوں کا سوال ہے کہ کونسا راوی زیادہ مضبوط ہے.آیا وہ جو دس بیس حدیث میں آتے ہیں اور ایک دوسرے سے سنی سنائی بات بیان کرتے ہیں.یا وہ جو خدا کا مسیح ہے اور جس نے خدا سے سن کر بات پہنچادی.اسی طرح قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے- لا يمسه الا المطهرون کہ سوائے پاکیزہ لوگوں کے کوئی اسے چھو نہیں سکتا.اس کے یہ معنی نہیں کہ جو لوگ پاکیزہ نہیں وہ ہاتھ نہیں لگا سکتے.بلکہ یہ ہے کہ قرآن کریم کے علوم انہی پر کھلتے ہیں.جو خدا تعالیٰ کے مقرب ہوتے ہیں.اور جو جتنا زیادہ خدا کا مقرب ہو گا اتنے ہی زیادہ اس پر علوم کھلیں گے.چنانچہ صوفیا جو ظاہری علوم میں معروف نہیں ہوتے.ان پر ایسے علوم کھولے جاتے ہیں جو مولوی اور عالم کہلانے والوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں آتے.میں محی الدین ابن عربی کی کتابیں پڑھ کر حیران ہو جاتا ہوں کہ وہ کئی آیتوں کے معنی وہی کرتے ہیں جن کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تصدیق کی ہے مثلا " تمام مفسرین اس آیت کے کہ و ما ارسلنا من قبلک من رسول و لا نبي الا اذا تمنى القى الشيطن في امنیت (الج ۵۳) یہ معنی کرتے ہیں کہ جب نبی کوئی خواہش کرتا ہے تو شیطان اس میں دخل دے دیتا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں یہ معنی صحیح نہیں کیونکہ نبی مس شیطان سے پاک ہوتا ہے اور باوجود اس کے کہ کوئی مفسر اس طرف نہیں گیا.محی الدین ابن عربی یہی کہتے ہیں کہ نبی اور شیطان کا کیا تعلق.اسی طرح اور کئی آیات میں نے دیکھی ہیں.جن کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ ان کے جو معنی ہم کرتے ہیں وہ یورپ کے اثر کی وجہ سے کرتے ہیں.مگر صوفیا کی آج سے سات سو برس پہلے کی کتابوں میں وہی معنی موجود ہیں.اس کی وجہ کیا ہے.یہی کہ صوفیا کو وہ علوم اور معارف دیئے گئے جو علماء کو حاصل نہ ہوئے.تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے.کہ خدا کا نبی تو مسیح موعود ہو اور قرآن کریم کے علوم آپ سے زیادہ ہم پر کھولے جائیں.ہمیں اگر کچھ مل سکتا ہے تو فرع کے طور پر مل سکتا ہے.اس کا پیج مسیح موعود کو ہی ملے گا.اور کوئی ایک بھی بات ایسی نہیں جس کا بیج ہم کو ملے پھر ہم کس طرح کہہ
456 سکتے ہیں کہ ایک انسان کو خدا تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا.مگر یہ بھول گیا کہ لوگوں کو اس وقت کس کس بات کی ضرورت ہے.وہ میں اس نبی کو بتا دوں.یہ غلط ہے.فروع ہمارے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور اصول حضرت مسیح موعود نے ہی بیان کئے ہیں.چنانچہ آپ نے کہا بھی ہے کہ نبی بیج بونے کے لئے آتا ہے آگے درخت کا اگنا پھل پھول پیدا ہونا بعد میں ہوتا ہے.اس درخت کو بھی پھل لگیں گے اور وہ پھیلے گا.جس کا بیج حضرت مسیح موعود نے ڈالا است دیکھ کر ہو سکتا ہے ایک جاہل کے.بیج کی کوئی حقیقت نہیں.اصل درخت ہی ہے لیکن کسی ہوش مند کے منہ سے یہ بات نہیں نکل سکتی ہے اسی طرح ہو سکتا ہے کہ ہمارا درس کوئی سنے اور حقائق اور معارف سن کر کہہ دے کہ یہ حضرت مسیح موعود سے بڑھ گیا.مگر عظمند یہ دیکھے گا کہ ان سب باتوں کا پیج حضرت مسیح موعود نے رکھا ہے.ورنہ حضرت مسیح موعود سے پہلے بھی یہی قرآن موجود تھا.اس وقت اس سے معارف کیوں نہ نکلتے تھے.پس حضرت مسیح موعود کی تعلیم جس بات کی تصدیق کرے گی.وہ صحیح ہو گی.اور جسے آپ کی تعلیم رد کر دے گی وہ غلط ہوگی اور اس کی قیمت ایک پیسہ بھی نہ ہوگی بلکہ وہ مصیبت ہے اور ایمان کے لئے کیڑا ہے.یہ خیال کہ نبی پر وہ علوم نہیں کھلے.جو ہم پہ کھلے ہیں.کبر اور تجب پر دلالت کرتا ہے اور یہ ایمان کو تباہ کر دیتا ہے.مجھے کبھی حضرت مسیح موعود کی کتابوں پر اتنا ایمان نہیں بڑھتا جتنا کوئی مضمون لکھتے وقت بڑھتا ہے کوئی ایک بات اور کوئی ایک علم بھی ایسا نہیں جس کا گر حضرت مسیح موعود کی کتب میں درج نہ ہو.پس خدا تعالیٰ کی طرف سے جو انبیاء آتے ہیں.ہمارا کام یہ ہے کہ ان کی تعلیم کو پھیلائیں.ان کی تعلیم سے ایک قدم ادھر ادھر ہونا کفر ہے.اس سے بچنا چاہیئے اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ سے مقدم نہیں کرنا چاہیئے.کیونکہ انبیاء کو خدا بھیجتا ہے.اور ہمارے خیالات ہمارے اپنے ہوتے ہیں.پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ جب کوئی نبی آجائے تو پہلے نبی کا علم بھی اسی کے ذریعہ ملتا ہے.یوں اپنے طور پر نہیں مل سکتا اور ہر بعد میں آنے والا نبی پہلے نبی کے لئے بمنزلہ سوراخ کے ہوتا ہے.پہلے نبی کے آگے دیوار کھینچ دی جاتی ہے اور کچھ نظر نہیں آتا.سوائے آنے والے نبی کے ذریعہ دیکھنے کے.یہی وجہ ہے کہ اب کوئی قرآن نہیں.سوائے اس قرآن کے جو حضرت مسیح موعود نے پیش کیا اور کوئی حدیث نہیں سوائے اس حدیث کے جو حضرت مسیح موعود کی روشنی میں نظر آئے.اور کوئی نبی نہیں سوائے اس کے جو حضرت مسیح موعود کی روشنی میں دکھائی دے اسی طرح رسول کریم صلی اللہ وسلم کا وجود اسی ذریعہ سے نظر آئے گا کہ حضرت مسیح موعود کی روشنی میں
457 دیکھا جائے.اگر کوئی چاہے کہ آپ سے علیحدہ ہو کر کچھ دیکھ سکے تو اسے کچھ نظر نہ آئے گا.ایسی صورت میں اگر کوئی قرآن کو بھی دیکھے گا تو وہ اس کے لئے پھدی من يشاء والا قرآن نہ ہو گا.بلکہ يضل من يشا عوالا قرآن ہو گا.جیسا کہ مولویوں کے لئے ہو رہا ہے.لیکن جب حضرت مسیح موعود کے بتائے ہوئے معانی اور گروں کے ذریعہ دیکھے گا.تو قرآن کو بالکل نئی کتاب پائے گا.جو عقل کو صاف کرنے والی روحانیت کو تیز کرنے والی اور خدا تعالیٰ کا جلال دکھانے والی ہو گی.وجہ یہ کہ جو لوگ خدا کے نبی کی دی ہوئی عینک سے دیکھتے ہیں ان کے مقابلہ میں دنیا کے علوم حیض کے چیتھڑوں سے بھی کم حیثیت رکھتے ہیں.اسی طرح اگر حد شوں کو اپنے طور پر پڑھیں گے.تو وہ حد مداری کے پٹارے سے زیادہ وقعت نہ رکھیں گے.حضرت مسیح موعود فرمایا کرتے تھے کہ یشوں کی کتابوں کی مثال تو مداری کے پٹارے کی ہے.جس طرح مداری جو چاہتا ہے اس میں سے نکال لیتا ہے.اسی طرح ان سے جو چاہو نکال لو.فی الواقعہ یہ صحیح بات ہے اور یہ نبی کا ہی کام ہے کہ بتائے کونسی ایسی حدیث ہے.جو دست برد کا نتیجہ ہے اور کونسی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سچا کلام ہے.اسی طرح دیکھنے سے معلوم ہوا گا کہ احادیث علوم کو بیٹھانے والی اور روحانیت کا رستہ دکھانے والی ہیں اور اگر اس سے علیحدہ ہو کر دیکھیں گے تو مجموعہ تضاد ہو گا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ و اسلام سے جدا ہو کر کوئی علم نہیں ہے اور انبیاء کی جماعتوں کا کام یہ نہیں ہو تا کہ نئے نئے مسئلے نکالیں.بلکہ یہ ہوتا ہے کہ جو تعلیم نبی دے گیا اسے پھیلائیں.حضرت مسیح موعود امام ابو حنیفہ، امام شافعی امام حنبل، امام مالک نہیں ہیں کہ ان کی طرح لوگوں نے آپ کو امام بنایا.آپ کو خدا نے امام بنایا ہے اور آپ کے مقابلہ میں کوئی آواز بلند نہیں کی جا سکتی.کوئی یہ تو کہہ سکتا ہے کہ امام ابو حنیفہ یوں کہتے ہیں اور میں یوں کہتا ہوں کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ امام حنبل یوں کہتے ہیں اور میں یوں کہتا ہوں.کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ امام شافعی یوں کہتے ہیں اور میں یوں کہتا ہوں.کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ امام مالک یوں کہتے ہیں اور میں یوں کہتا ہوں.بلکہ میں تو کہتا ہوں کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ سارے کے سارے امام یوں کہتے ہیں اور میں یوں کہتا ہوں.مگر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ خدا کا مسیح یوں کہتا ہے اور میں یوں کہتا ہوں.کیونکہ اس کو خدا نے امامت پر کھڑا کیا ہے اور اماموں کو لوگوں نے.اور انہوں نے خود دعوے بھی نہیں کئے.کب امام حنبل نے کہا ہے کہ میں امام ہوں.کب امام شافعی نے کہا ہے کہ میں امام ہوں.کب امام مالک نے کہا ہے کہ میں امام ہوں.کب ابو حنیفہ نے کہا ہے کہ میں امام ہوں.ان کے
458 شاگردوں نے انہیں امام بنایا مگر مسیح موعود علیہ السلام کی اتھارٹی اور تصرف خدا تعالی کی طرف سے آیا.تم میں سے کسی نے نہیں دیا اور خدا تعالٰی دئے ہوئے کو واپس نہیں لیا کرتا.بلکہ قائم رکھتا ہے.جب خدا تعالیٰ نے آپ کو کہا ہے کہ میں تمہارے ذریعہ نور کو قائم کروں گا.تمہیں مٹنے نہیں دوں گا.تیری تعلیم کو دنیا میں قائم کروں گا.تو اور کون ہے جو اسے مٹا سکے.پھر فرمایا میں نے خود تجھے قرآن سکھایا.اور جسے خدا تعالٰی قرآن سکھائے.اس کے مقابلہ میں اپنی باتیں کس طرح پیش کی جا سکتی ہیں.پس وہ جس کا استاد خدا ہو.اس کے مقابلہ میں یہ کہنا کہ ہماری بات سچی ہے.اس سے زیادہ جہالت اور کیا ہو سکتی ہے.اگر خدا تعالٰی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق نہ بھی کہتا کہ میں خود اسے سکھاتا ہوں تب بھی آپ نبی تھے.اور آپ کی بات دوسروں پر فوقیت رکھتی تھی.مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے.میں نے خود تجھے قرآن سکھایا.پھر آپ زیادہ قرآن کو سمجھ سکتے ہیں یا ہم.خوب یاد رکھو کہ حضرت مسیح موعود غیر شرعی نبی تھے مگر اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ آپ پہلے قرآن نہیں لائے اور نہ یہ کہنا کہ ہم آپ کی رائے کے خلاف بھی کوئی رائے قائم کر سکتے ہیں.یہ باطل بات ہے.یا یہ کہنا کہ شاید کوئی بات آپ نے منسوخ کر دی ہو.اس لئے آپ کی ہر ایک بات حجت نہیں.یہ بھی غلط ہے کیونکہ اس طرح تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شاید رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کوئی بات منسوخ کر دی ہو.حضرت مسیح موعود کی تو باتیں لکھی ہوئی موجود ہیں.حدیثیں تو لکھی ہوئی نہ تھیں.کوئی کہہ دے ظہر کی چار رکھتیں نہیں.دو ہیں.کیونکہ ہو سکتا ہے کہ دو بعد میں منسوخ کر دی گئی ہوں تو اس کو کیا کہا جا سکتا ہے.اور ایسے وہموں کا کیا علاج ہو سکتا ہے.اس طرح تو جس بات کو چاہا مروڑ لیا.لیکن یاد رہے کہ علوم کی بنیاد شاید پر نہیں ہوتی.بلکہ حقیقت پر ہوتی ہے.یہ چند باتیں ہیں جو میں آج آپ لوگوں کو سنانا چاہتا ہوں.پہلی تو خوشخبری ہے.اور دوسری دو توجہ کے قابل امور ہیں.یاد رکھو جس دن تمہارے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا کہ حضرت مسیح موعود سے علیحدہ ہو کر بھی ہم کچھ کر سکتے ہیں.وہی دن تمہاری تباہی کا دن ہو گا.اسی لمحہ سے نئے نبی کی ضرورت محسوس ہو گی.جو آکر نئی جماعت بنائے گا.اور تم برباد کئے جاؤ گے.وہی بات سچ ہے جو حضرت مسیح موعود نے کی.اور جو آپ کے خلاف کوئی دوسرا کے.وہ غلط ہے اور حضرت مسیح موعود کی وہ باتیں جو موجود ہیں.انہیں ہم شاید کے ذریعہ رو نہیں کر سکتے.ہمارے علم بڑھیں گے.نئی نئی باتیں پیدا ہوں گی مگر ان سب کا بیج حضرت مسیح موعود نے رکھ دیا ہے.اور سب کچھ اس سے
459 نکلے گا.اس لئے جو باتیں بالصراحت حضرت مسیح موعود کے خلاف ہوں.وہ یقیناً " غلط ہیں کیونکہ آم کی گٹھلی سے آم ہی نکلتے ہیں کیکر نہیں نکلتے.دیکھو تم ایسے زمانہ میں پیدا کئے گئے ہو.جس کی تیرہ سو سال سے لوگ خواہش کرتے چلے آئے ہیں.امام شافعی، ابن حزین، ابن حجر، ابن قیم محی الدین ابن عربی، عبد القادر جیلانی، شهاب الدین سہروردی.یہ لوگ اور حضرت ابو بکر حضرت عمرؓ حضرت عثمان " حضرت علیؓ جن کے متعلق مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ آئمہ سے بڑھ کر ہیں.ان سب سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود ہیں اور پہلے جن کا ذکر کیا گیا ہے وہ وہ ہیں جو حسرتیں کرتے فوت ہو گئے ہیں کہ ہمیں مسیح موعود کا زمانہ میسر ہو.ہمیں چاہیئے کہ اس زمانہ کو قائم رکھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.نہ کہ اپنے وہموں سے اس کو بدلنے کی کوشش کریں.اگر کوئی شخص ایک بال بھر بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کے خلاف چلتا ہے تو وہ اپنے ہاتھوں تباہی کی بنیاد رکھتا ہے اور وہ جواب دہ ہو گا.خدا تعالیٰ کے حضور اس تباہی اور بربادی کا.اور دوسرے نبی کے آنے تک جتنے گناہ ہوں گے وہ ایسے لوگوں کی گردن پر ہوں گے.پس تمہارا فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود کی تعلیم کو ایسی مضبوطی سے پکڑو.جیسے سمندر میں ڈوبنے والا اس رسہ کو پکڑتا ہے جو اس کے بچانے کے لئے پھینکا جاتا ہے.اگر تم یہ رستہ اختیار کرو گے تو دنیا ترقی اور عروج حاصل کر سکو گے اور اگر اسے چھوڑ دو گے تو سوائے اس کے کہ سمندر کی تہ میں مچھلیوں کا لقمہ بنو اور کوئی ٹھکانا نہیں.خدا تعالیٰ اس قسم کے شر سے ہمیں محفوظ رکھے اور اس تعلیم پر چلنے اور عمل کرنے کی توفیق دے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لائے.میں نے اس وقت جن دو مسائل کا ذکر کیا ہے انہیں جن لوگوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے وہ مخلص لوگ ہیں.اور میں نے اس خیال سے ان باتوں کے متعلق بیان نہیں کیا کہ فی الواقعہ انہوں نے یہ کہا ہے کیونکہ جب تک ان سے دریافت نہ کر لیا جاوے.میرا حق نہیں ہے کہ میں کہوں انہوں نے یہ کہا ہے میں ان کو مخلص سمجھتا ہوں.بلکہ یقین رکھتا ہوں کہ مخلص ہیں اور میرا ہرگز یقین نہیں کہ انہوں نے اس طرح کہا ہو.اس وقت میں نے ان مسائل کو علمی طور پر بیان کر دیا ہے ناکہ اگر کسی کے ایسے خیالات ہوں تو ان کی اصلاح ہو جائے ورنہ میں ان باتوں کو کسی کی طرف منسوب نہیں کرتا.کئی دفعہ غلط فہمیاں ہو جاتی ہیں.کہنے والے کا کچھ اور مطلب ہوتا ہے اور سننے والا کچھ اور سمجھتا ہے.بارہا ایسا ہوا کہ میرے سامنے ایک بات بیان کی گئی ہے.میں نے اسے کچھ
460 اور سمجھا اور بیان کرنے والے نے اس کا کچھ اور مطلب بتایا.پس یہ مت خیال کرو کہ یہ باتیں زید یا بکرنے کی ہیں.بلکہ یہ بات مد نظر رکھو.کہ یہ باتیں صحیح نہیں.اگر کسی نے کہی ہیں تو بھی غلط ہیں اور اگر نہیں کی تو بھی غلط ہے اسی غرض سے میں نے یہ خطبہ پڑھا ہے ورنہ میں کسی پر الزام نہیں لگانا کہ اس نے یہ باتیں کہی ہیں.خصوصا ان پر جن کی طرف منسوب کی گئی ہیں.کہ ان پر مجھے بہت کچھ حسن ظن بلکہ اعتماد ہے.ابن ماجه باب شدة الزمان ۲۰ تاریخ الخلفاء ص ۱۴ ۳۰ تذکره ۴۴ ۴۰ ابن کثیر جلد ۲ ص ۲۴۶ الیواقیت و الجواهر جلد ۲ ص ۲۳ (الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۲۴ء)
461 72 (فرموده ۱۱ جولائی ۱۹۲۴ء) سفر یورپ اور جماعت احمدیہ کا انتظام مشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ سورۃ فلق اور سورۃ والناس کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا : جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ ہوا تو تجویز ہے کہ اس کے فضل اور رحم کے ماتحت اس سفر کو اختیار کیا جائے.جس کے متعلق اعلان کیا جا چکا ہے.اس سفر کی خبر سن کر ہی بہت سے دوست آج بیرون جات سے تشریف لائے ہوئے ہیں.جنہوں نے اپنے اخلاص اور اپنی محبت کا اس طرح ثبوت دیا ہے.میں آج کا خطبہ جمعہ اسی سفر کے متعلق ہدایات کے بیان کرنے میں صرف کرنا چاہتا ہوں :.سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے دو آدمی ہوں تو ان میں ایک امیر ہونا چاہیئے.مجھے ہندوستان میں جب کبھی سفر کا موقع پیش آیا ہے اس وقت اس بات کی ضرورت ہوتی تھی کہ قادیان کی جماعت کے لئے امیر مقرر کیا جائے.لیکن یہ سفر چونکہ ہندوستان سے باہر کا ہے اس لئے اس وقت یہی ضرورت نہیں کہ قادیان کے لئے کوئی امیر مقرر کیا جائے بلکہ یہ ضرورت ہے کہ ایسا نائب مقرر کیا جائے جو سارے ہندوستان کی جماعتوں کے معاملات سے تعلق رکھتا ہو اور میں نے اس غرض کے لئے مولوی شیر علی صاحب کو تجویز کیا ہے.وہ ایسے معاملات کے متعلق جو فوری اور ضروری ہوں اور جن کے متعلق مجھ سے مشورہ بذریعہ خط یا بذریعہ تار نہ لیا جا سکتا ہو فیصلہ کریں گے.اور چونکہ یہ کام نہایت اہم ہے اور چونکہ خلیفہ اور نائب میں فرق ہے.کیونکہ خلیفوں کے لئے تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ ان کی حفاظت کرتا ہے اور ایسے امور کی طرف ان کی رہنمائی کی جاتی ہے.جن میں جماعت کی بہتری ہوتی ہے.اور فرماتا ہے ان کا انتخاب خود خدا کرتا ہے گو بندوں کے ذریعہ ہی انتخاب ہوتا ہے.مگر ان کی
462 زبانوں پر خدا بول رہا تھا لیکن نائبوں کے لئے یہ نہیں.اس لئے میں نے تجویز کی ہے کہ مولوی صاحب کے ساتھ دو نائب رکھے جائیں.جن کے مشورہ سے وہ کام کریں.وہ دو میں نے مفتی محمد صادق صاحب و میاں بشیر احمد صاحب کو تجویز کیا ہے.وہ ایسے امور کو کہ جو خلافت سے وابستہ ہوں اور جن میں وہ مجھ سے بذریعہ تار یا خط مشورہ نہ لے سکتے ہوں.یا ایسے چھوٹے امور کہ جن میں مشورہ کی ضرورت نہ ہو طے کریں گے.اس کے علاوہ یہ دو نائب ہوں گے.ایک مجلس شوری بھی تجویز کی گئی ہے.اس کے ممبر بھی جو قادیان میں رہتے یا باہر سے آتے ہیں.ان سے مشورہ لیں گے.اس کے ممبر یہ قرار دیئے گئے ہیں.مولوی سید سرور شاہ صاحب قاضی امیر حسین صاحب سید ولی اللہ شاہ صاحب ماسٹر عبد المغنی صاحب قاضی عبداللہ صاحب، مولوی فضل دین صاحب ظیفه رشید الدین صاحب، مولوی محمد اسماعیل صاحب، میر قاسم علی صاحب، قاضی اکمل صاحب شیخ محمد یوسف صاحب، ماسٹر عبدالرحمن صاحب ماسٹر عبدالرحمن صاحب پرانے اور مخلصوں میں سے ہیں.ان کے علاوہ اور لوگ بھی ہیں.جو ان سے دیرینہ ہیں.بعض ان سے اخلاص بھی زیادہ رکھتے ہیں.لیکن بیماری یا ضعف یا اور نقائص کی وجہ سے انہیں چھوڑ دیا ہے.دفتری معاملات کے علاوہ جو اور معاملات ہوں اور جن میں مشورہ لے لیا کرتا ہوں.ان میں ان لوگوں سے مشورہ لے لیا جایا کرے.لیکن صرف یہی لوگ مشورہ کے لئے مخصوص نہیں جو بھی کسی فن کا ماہر ہو اسلامی طریق یہی ہے کہ اس سے مشورہ لے لیا جائے.ہو سکتا ہے کئی ایسے امور ہوں جن میں عورتوں سے بھی مشورہ لینے کی ضرورت ہو.علمی کام کو جاری رکھنے کے لئے یہ تجویز ہے کہ مولوی شیر علی صاحب درس قرآن بھی دیں اور اس درس کے بعد مولوی سید سرور شاہ صاحب بخاری کا درس دیں.یہ دونوں درس اسی مسجد اقصیٰ میں ہوں.اور باری باری ہوں.میں امید کرتا ہوں کہ قادیان کے دوست اور بیرون جات سے آنے والے دوست ان درسوں سے فائدہ اٹھائیں گے.اور درس دینے والوں سے امید ہے کہ وہ درسوں کو ایسے علوم پر مشتمل کریں گے.جو عام طور پر مفید ہوں گے.بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر چاہیں تو ان کو درسوں میں شامل کر سکتے ہیں.مگر عام لوگ انہیں سمجھ نہیں سکتے.اس وجہ سے میں دونوں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ایسے امور پر اپنے درس مشتمل کریں جنہیں عام لوگ سمجھ
463 ا اور مختصر کریں تاکہ سننے والوں کو ملال پیدا نہ ہو.پس یہ درس عام نہم اور مختصر ہوں وعظ و نصیحت کا رنگ غالب ہو.لوگوں کی ابتدائی تعلیم کو مد نظر رکھا جائے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کوئی نبی نہیں آتا.جو ربانی نہیں ہوتا یعنی جو چھوٹے علوم پہلے نہیں پڑھاتا اور بڑے بعد میں.پس جب نبی کے لئے یہ شرط ہے کہ چھوٹے علوم پہلے پڑھائے اور بڑے بعد میں.تو دوسروں کو بھی اس پر عمل کرنا چاہیئے.چونکہ عام درسوں میں ایسے لوگ شامل ہوتے ہیں جو موٹی باتیں سمجھ سکتے ہیں.اس لئے ایسی باتوں پر ہی زیادہ زور دینا چاہیئے.یہ لوگ جو انتظام کے لئے مقرر کئے گئے ہیں.اپنی طرف سے سوچ سمجھ کر کئے گئے ہیں.اور میرے ذہن میں اس سے بہتر نظام اور کوئی نہیں آیا.اگر اس سے بہتر کوئی اور انتظام ہو سکتا یا ان لوگوں سے بہتر کام کرنے والے اس وقت نظر آتے تو میں اس انتظام سے بھی بخل نہ کرتا.اس وقت کی شرط اس لئے لگائی ہے کہ حالات بدلتے رہتے ہیں.اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ یہی لوگ قابل ہیں.ہو سکتا ہے کہ جن کو مشیروں میں شامل نہیں کیا گیا.وہ اپنے اخلاص اور علم میں ان سے بڑھ کر ہوں لیکن اس موقع اور اس کام کے لئے بہتر سمجھ کر میں ان کو مقرر کرتا ہوں.نظارت کا کام چونکہ انتظامی ہے اور اور رنگ کا ہے اس لئے جماعت کا امیر ناظر اعلیٰ نہیں ہو سکتا.مولوی شیر علی صاحب چونکہ امیر بنائے گئے ہیں.جو ناظر اعلیٰ تھے.اس لئے یہ تجویز ہے کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ناظر اعلیٰ کا کام کریں.اصل ناظر اعلیٰ تو چوہدری نصر اللہ خان صاحب ہیں.جو ان دنوں حج کے لئے گئے ہوئے ہیں.ان کے آنے تک میر صاحب جو رخصت پر ہیں اور اگر ضرورت ہوئی تو اور رخصت لے سکتے ہیں.یہ کام کریں.میں نے جیسا کہ بتایا ہے نہایت غور اور آپ لوگوں کی بھلائی کے لئے یہ انتظام تجویز کیا ہے.مولوی شیر علی صاحب نهایت مخلص لوگوں میں سے ہیں.اور حیا والے آدمی ہیں.انتظام کے لئے سختی کی بھی ضرورت ہوتی ہے.مگر میں دیکھتا ہوں وہ ان میں نہیں ہے.باوجود اس کے میں سمجھتا ہوں.خلیفہ کی عدم موجودگی میں ایسے ہی آدمی کی ضرورت ہے کہ جو لوگوں کے دلوں کو رکھ سکے.خلیفہ بطور باپ کے ہوتا ہے اور اگر ایک باپ مر جاتا ہے تو خدا تعالیٰ روحانی بچوں کو دوسرا باپ دے دیتا ہے لیکن جب باپ ہو مگر موجود نہ ہو تو دل بہت نازک ہوتے ہیں.اس لئے نرم آدمی کی ہی ضرورت ہے.مفتی محمد صادق صاحب بھی پرانے مخلصین میں سے ہیں اور سلسلہ کی خدمات میں انہوں نے بہت
464 حصہ لیا ہے.حضرت مسیح موعود کو ان سے خصوصیت سے محبت تھی.وہ حضرت مسیح موعود کے ایسے خدام میں سے تھے جو ناز بھی کر لیا کرتے تھے.اس زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ نے انہیں تبلیغ کی خدمتوں کا موقع دیا ہے مگر مجھے ان سے انتظامی امور میں تجربہ کا موقع نہیں ملا.لیکن میں دیانتداری سے یقین رکھتا ہوں کہ وہ مشورہ دینے اور اپنی عقل و فہم کے ساتھ سلسلہ کی خدمت کرنے میں ایسا حصہ لیں گے جو مبارک ہو گا.اور ان کی مدد اس کمیٹی کے لئے مفید ثابت ہوگی.میاں بشیر احمد صاحب کو خدا تعالیٰ نے ایک فخر بخشا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ واسلام کی اولاد میں سے ہیں.یہ ایسا فخر ہے کہ انسان کا اس میں اپنا دخل نہیں اور اس میں کسی کو بغض و حسد کرنے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ یہ فخر اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے.مجھے ہمیشہ حیرت ہوا کرتی تھی جب پیغامی مجھے پر مسیح موعود کا بیٹا ہونے کی وجہ سے ناراض ہوا کرتے تھے.میں سوچا کرتا تھا کیا میں خود حضرت مسیح موعود کے گھر میں پیدا ہو گیا.اگر میرا اس میں کچھ بھی دخل نہیں تو پھر بغض کی وجہ کیا ہو سکتی ہے.اگر میں نے خدا تعالٰی سے درخواست کی ہوتی کہ مجھے وہاں پیدا کیا جائے تو کہہ سکتے تھے کہ اس نے خود کہہ کر اپنے آپ کو مسیح موعود کے ہاں پیدا کر لیا.اور ہمارے لئے روک بن گیا.لیکن پیدا ہونا تو میرے اختیار میں نہ تھا.یہی فخر میاں بشیر احمد صاحب کو حاصل ہے.مگر اس کے ساتھ ہی ان کی ذمہ داریاں بھی بہت بڑھ گئی ہیں.دنیا میں دو قسم کے فخر ہوتے ہیں.ایک اوپر سے.نیچے کی طرف آتے ہیں اور ایک نیچے سے اوپر کی طرف جاتے ہیں.بعض لوگوں کو تو اس بات پر فخر ہوتا ہے کہ ہم نے فلاں پر احسان کیا لیکن کبھی اس پر بھی فخر کیا جاتا ہے کہ فلاں نے مجھ پر احسان کیا.جو فخر نیچے سے اوپر کو ہوتا ہے اس کی ذمہ داریاں اور ہوتی ہیں اور جو اوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے اس کی ذمہ داریاں اور ہوتی ہیں.وہ احسان جو نیچے والوں پر کئے جاتے ہیں ان کے متعلق احسان کرنے والا یہ کہتا ہوا اچھا بھی لگتا ہے کہ میں نے یوں کیا.لیکن وہ نیچے والا جس پر احسان ہوا ہو.اس کا اس بات پر فخر کیسا کہ مجھ پر فلاں نے یہ احسان کیا.ایسا فخر بہت بڑی ذمہ داریوں کے نیچے انسان کو لے آتا ہے.اور ایسے انسان کا فرض ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو اس فخر کے قابل ثابت کرنے کے لئے ان ذمہ داریوں کو پورا کرے.میں امید کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے جو حضرت مسیح موعود نے اپنی اولاد کے متعلق کی ہیں.میاں بشیر احمد صاحب کو توفیق دے گا کہ وہ اس فخر کو جو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کی ذریت میں ہونے کا انہیں بخشا ہے.جائز ثابت کریں.
465 ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب جن کو ناظر اعلیٰ تجویز کیا گیا ہے ان کے دل میں حضرت مسیح موعود کی محبت بلکہ عشق خاص طور پر پایا جاتا ہے.اس محبت کی وجہ سے روحانیت کا ایک خاص رنگ ان میں پیدا ہو گیا ہے.اس لئے میں سمجھتا ہوں ایسی ٹھوکر سے وہ جو دوسروں کو لگ جاتی ہیں یا لگ سکتی ہیں خدا نے ان کو محفوظ کیا ہوا ہے.اور میں امید کرتا ہوں کہ اس تعلق کی وجہ سے جو برکات ان پر نازل ہوتی ہیں ان کے باعث جماعت کے لئے بہت مفید ثابت ہوں گے.دوسرے جو لوگ مقرر کئے گئے ہیں وہ بھی اپنی اپنی جگہ کار آمد انسان ہیں.مولوی سید سرور شاہ صاحب علماء جماعت احمدیہ میں سے بڑے عالم ہیں.اور میں سمجھتا ہوں بہت مخلص آدمی ہیں.میں امید رکھتا ہوں کہ ان کے وجود سے بھی فائدہ پہنچے گا.قاضی امیر حسین صاحب بھی پرانے لوگوں میں سے ہیں.اور بہت مخلص ہیں.سید ولی اللہ شاہ صاحب کو نوجوان ہیں.جو نظارت کا کام کرتے ہیں لیکن ان میں میں نے یہ خوبی دیکھی ہے.باوجود اس کے کہ غیر ملک میں رہنے کی وجہ سے انہوں نے ایسے نمونے دیکھے ہیں جن میں حکومت کا رنگ اسلامی نہیں.ان میں اطاعت کا مادہ پایا جاتا ہے.اور جب کوئی حکم دیا جائے تو اسے قبول کر لیتے ہیں.ماسٹر عبد المغنی صاحب کی بھی قدر کرتا ہوں سلسلہ کے کاموں کے تفکرات کی وجہ سے وہ بوڑھے ہو گئے ہیں.ان کی عمر اتنی نہیں جتنی عمر کے وہ نظر آتے ہیں.لیکن مالی معاملات میں اعتراضوں اور تنبیہوں کی وجہ سے وہ جوانی میں ہی بوڑھے ہو گئے ہیں.قاضی عبد اللہ صاحب ایک مخلص شخص کے لڑکے ہیں.ان کے والد صاحب حضرت مسیح موعود کے پیارے لوگوں میں سے تھے.وہ خود بھی مخلص ہیں.اور میں سمجھتا ہوں کہ ان کا اخلاص ان کے باپ کے اخلاص سے مل کر مفید ثابت ہو گا.قاضی اکمل صاحب بھی نہایت مخلص لوگوں میں سے ہیں.اور میں سمجھتا ہوں کہ کام کے لحاظ سے بہتوں سے زیادہ قابلیت رکھتے ہیں.اور باوجود بیمار رہنے کے زیادہ کام کر سکتے اور جلدی کر سکتے ہیں.اس لحاظ سے سلسلہ کی بہت سی خدمات کا انہیں ایسا موقع مل جاتا ہے جو اوروں کو حاصل نہیں ہوتا.اور یہ قابل قدر بات ہے.مولوی فضل الدین صاحب کو اتنے پرانے نہیں ہیں کہ انہیں حضرت مسیح موعود سے قرب حاصل ہوا ہو مگر میرا تجربہ ہے کہ جب سے آئے ہیں.حضرت مسیح موعود کے خاندان اور حضرت
466 مسیح موعود سے خاص اخلاص رکھتے ہیں.میر محمد اسحاق صاحب نے تو حضرت مسیح موعود کے سایہ میں عمر بسر کی ہے اور ان کی حالت ایسی ہی تھی جیسی مسیح موعود کے باقی بچوں کی.وہ ہماری طرح ہی حضرت مسیح موعود کے گھر میں رہے.باتیں سنتے رہے.اور حالات کا مطالعہ کرتے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے انہیں ذہن رسا بھی دیا ہے.سلسلہ کے کاموں کے متعلق ان میں غیرت بھی ہے.اللہ تعالٰی سے امید ہے کہ ان کو توفیق دے گا کہ سلسلہ کے لئے مفید ہو سکیں.مولوی محمد اسمعیل صاحب حضرت مسیح موعود کی کتابوں کو یاد رکھنے کی وجہ سے اس قابل ہیں کہ مشوروں میں انہیں شریک کیا جائے کیونکہ وہ ہمارے قانون دان ہیں.ایڈیٹر فاروق و ایڈیٹر نور اپنے اپنے رنگ میں اچھی خدمت کر رہے ہیں.ایڈیٹر صاحب فاروق غیر احمدیوں کے مقابلہ میں اور ایڈیٹر صاحب نور غیر مذاہب کے مقابلہ میں خوب کام کر رہے ہیں.ایڈیٹر اور بھی ہیں جیسے الفضل کے ایڈیٹر لیکن مشوروں میں عمر کی بڑائی کا سوال بھی ہوتا ہے.اور اس کو بھی مد نظر رکھنا پڑتا ہے دوسرے ایڈیٹروں کو اس لئے شامل نہیں کیا گیا کہ وہ ایڈیٹر ہیں.اگر یہ وجہ ہوتی تو اوروں کو بھی شامل کیا جاتا بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اچھی عمر گزارنے کی وجہ سے ان کے تجربہ میں اضافہ ہو گیا ہے.اس لئے وہ مشورہ دے سکتے ہیں.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب نے حضرت مسیح موعود کو بالکل ابتدائی زمانہ میں قبول کیا اور اس وقت سے برابر سلسلہ کے ساتھ ان کا تعلق رہا ہے.یہ ڈاکٹر عبدالحکیم کے ذریعہ داخل سلسلہ ہوئے تھے.وہ تو مرتد ہو گیا.مگر یہ اپنے اخلاص میں دن بدن بڑھتے گئے.جب یہ احمدی ہوئے تو کالج میں ہی انہوں نے انجمن بنائی اور تبلیغ شروع کر دی.حضرت مسیح موعود نے انہیں ان 12 آدمیوں سے قرار دیا ہے جنہیں کہا ہے کہ یہ میرے حواری ہیں.ماسٹر عبدالرحمن صاحب کا را آمد کارکن ہیں.تبلیغ کا انہیں ایسا جوش ہے کہ بعض لوگوں کی نظروں میں جنون کی حد تک پہنچا ہوا ہے.ایسے آدمی ست لوگوں کو ہوشیار کرنے کے لئے بہت مفید ہوتے ہیں.غرض یہ سارے کہ سارے ایسے ہیں کہ جو سلسلہ کا کام اچھا کر سکتے ہیں.ایک اور صاحب ہیں.جن کا نام میں نے اس وقت نہیں لیا.وہ حضرت مسیح موعود کے پرانے مخلصوں میں سے ہیں.بلکہ آپ سے انہیں اور بھی تعلقات ہیں لیکن چونکہ ابھی وہ قادیان میں نہیں
467 آئے اس لئے ان کا نام نہیں لیا.وہ نواب محمد علی خان صاحب ہیں.آج کل اگرچہ وہ قادیان میں ہی ہیں مگر ابھی اپنا کام ختم کر کے نہیں آئے.اگر اس عرصہ میں کام کو ختم کر کے آجائیں تو وہ بھی مشوروں میں شامل ہوں.میں امید کرتا ہوں کہ جن لوگوں کے سپرد کام کیا گیا ہے.وہ اسے اخلاص سے کریں گے.اور نہ صرف اس بات کو مد نظر رکھیں گے کہ کسی کے دل کو ٹھیس نہ لگے بلکہ میں یہ بھی امید کرتا ہوں کہ وہ دلیری اور جرات دکھانے کے وقت بزدلی بھی نہ دکھائیں گے.دو ملکے ایسے ہیں جن سے حکومت کی جا سکتی ہے.ایک یہ کہ انسان نرمی کے وقت نرم ہو جائے اور سختی کے وقت سخت.اگر کسی میں یہ ملکے نہیں تو وہ حکومت نہیں کر سکتا.حکومت وہی کر سکتا ہے جو نرمی کے وقت اتنا گرے کہ گویا اس کا اپنا وجود ہے ہی نہیں.بات دیکھے اور ہنس دے.قصور وار پائے اور چھوڑ دے.لیکن جب سختی کا موقعہ ہو تو یکدم اس طرح مضبوطی کے ساتھ باگیں پکڑ لے جس طرح شاہسوار تیز رفتار گھوڑے کی ڈھیلی چھوڑی ہوئی باگوں کو ضرورت کے وقت معا کھینچ لیتا ہے.جب تک کسی میں یہ مادہ نہ ہو کہ وہ سمجھ سکے کس وقت ڈھیل دینی چاہیئے اور کس وقت پکڑ لینا چاہیئے اور جب تک یہ ہمت نہ ہو کہ جب سمجھے کہ اب ڈھیل دینے کا موقع نہیں اور اس وقت ایسا سخت ہو جائے کہ ساری دنیا کی طاقتیں بھی اسے ہلا نہ سکیں.اس وقت تک انتظام نہیں کر سکتا.میں امید کرتا ہوں کہ وہ لوگ جن کے سپرد کام کیا گیا ہے.ان دونوں باتوں کو مد نظر رکھیں گے.وہ ایک طرف تالیف قلوب کو مد نظر رکھیں لیکن دوسری طرف اگر دیکھیں کہ نرمی سلسلہ کے لئے مضر ہے تو ایسی عمدگی سے حقیقی رستہ پر کام کریں کہ کوئی طاقت انہیں ہلا نہ سکے.یہی طاقت کسی کو حاکم بناتی ہے اور اسی سے انتظام قائم رہتا ہے.دیکھو جب حضرت موسیٰ پہاڑ پر گئے تو بنی اسرائیل نے بت پرستی شروع کر دی.خدا تعالٰی نے حضرت موسیٰ کو بتایا کہ جا دیکھ تیرے پیچھے بنی اسرائیل کو کیا ہو گیا.جب وہ آئے تو دیکھا کہ بنی اسرائیل نے بت رکھے ہوئے ہیں.اور ان کی پرستش کر رہے ہیں.انہوں نے حضرت ہارون سے پوچھا یہ کیا بات ہے اور تو نے ان کو کیوں نہ روکا.انہوں نے کہا کہ میں نے اس لئے نہیں روکا کہ تم کہو گے تو نے بنی اسرائیل میں فساد ڈال دیا.یہ نرمی تھی مگر حد سے بڑھی ہوئی حالانکہ کوئی وقت ایسا بھی آجاتا ہے جب یہ بھی پروا نہیں کی جا سکتی کہ ایک بھی بچتا ہے یا نہیں.اور جب تک ایسی ہمت نہ ہو کہ ایسے موقع پر کسی کی پروا نہ کی جائے.اس وقت تک انتظام قائم نہیں رہ سکتا.اور جس کو
468 ایسی ہمت ہو کہ ایسے موقعہ پر وہ اس سے کام لے سکے.اس سے لوگ جاتے بھی نہیں دیکھو جب حضرت موسیٰ پہاڑ سے واپس آئے ہیں.اس وقت وہ اپنے ساتھ لشکر نہیں لائے تھے.لیکن جب حضرت ہارون سے کہتے ہیں.یہ تم نے کیا کیا.تو وہ کہتے ہیں.غلطی ہو گئی حضرت ہارون بھی ایک ہی تھے اور حضرت موسی بھی ایک ہی.لیکن جب حضرت موسیٰ آگئے.تو سارے کانپنے لگتے ہیں.اور جب انہوں نے کہا کہ مشرکوں کو قتل کرو.تو باپ بیٹے کو اور بیٹے باپوں کو قتل کر دیتے ہیں.یہ اسی قوت کا نتیجہ تھا.جو حضرت موسی میں پائی جاتی تھی.اور یہی قوت ہوتی ہے.جس کا موقع اور محل پر استعمال قوموں کو ہلاکت سے بچا دیتا ہے.اور اس کی کمی کی وجہ سے جماعتیں ہلاک ہو جاتی ہیں.اس عرصہ میں ڈاک کا انتظام یہ کیا گیا کہ جو دوست خط لکھنا چاہیں.وہ بدستور قادیان کے پتہ پر خط لکھیں.کیونکہ سب لوگوں کے مقدور میں یہ نہیں کہ اپنے خطوں پر تین تین آنے کے ٹکٹ لگائیں.پھر سب کو میرا پتہ بھی معلوم نہیں ہو گا کہ آج ہم کہاں ہیں.اور کل کہاں ہوں گے.ایک ماہ کا تو سفر ہی ہے.اس لئے یہ انتظام کیا گیا ہے.کہ ہفتہ کی ڈاک کا اکٹھا پارسل بنا کر بھیج دیا جائے.اس طرح غرباء بھی خط و کتابت کر سکیں گے.کیونکہ وہ دو پیسے کا کارڈیا ایک آنہ کا لفافہ ہی بھیج سکتے ہیں اور پارسل پر کوئی زیادہ خرچ نہیں ہو گا.متفرق خطوط پر اگر پچاس روپے فی ہفتہ خرچ ہوں گے.تو اس طرح دو تین روپیہ میں پارسل چلا جائے گا.پس جن دوستوں نے خطوط لکھنے ہوں.وہ اپنے خطوط قادیان میں بھیج دیں.اور خط پر لکھ دیا جائے کہ یہ خط ان (حضرت خلیفتہ المسیح) کو بھیجا جائے.جن خطوط پر یہ لکھا ہو گا.وہ مجھے بھیج دیئے جایا کریں گے.ورنہ باقی خطوں کو یہاں ہی کھولا جائے گا اور ان کا مناسب جواب دے دیا جائے گا.اس کے بعد میں جماعت کو عام ہدایت کرتا ہوں کہ یہ سفر محض اس لئے اختیار کیا گیا ہے کہ اسلام کی تبلیغ کے لئے وہ رستے تلاش کئے جائیں.جن سے اسلام دنیا میں آسانی سے پھیل جائے.اس وقت اسلام کے رستہ میں کوئی مذہب روک نہیں.بلکہ یورپ کا تمدن روک ہے عیسائیت اور ہندو مذہب ٹوٹ چکے ہیں.ان کا لوگوں پر کچھ اثر نہیں رہا.لوگ انہیں ترک کرنے کے لئے تیار ہی نہیں بلکہ ترک کر چکے ہیں.لیکن لوگ اس بات کے لئے تیار نہیں کہ اپنی عادتیں چھوڑ دیں ہم نے اس وقت یہ دیکھنا ہے کہ لوگوں کی وہ عادتیں جو اسلام کے خلاف ہیں.ان کی کیونکر اصلاح کی جا سکتی ہے اور وہ عادتیں جو اسلام کے تو خلاف نہیں.لیکن خلاف سمجھی جاتی ہیں.انہیں کس طرح اسلام کے مطابق ثابت کیا جا سکتا ہے.پھر وہ عادتیں جو اسلام کے لئے مفید ہیں.ان سے کیوں کر
469 کام لیا جا سکتا ہے ان ہر قسم کی عادتوں کو دیکھنا ہے اور یہ کوئی معمولی کام نہیں.بلکہ ایک بنیاد ہے جو آئندہ سلسلہ کے لئے رکھی جاتی ہے لکھا ہے.W شاہجہان کی بیوی نے اپنے فوت ہونے سے پہلے خواب دیکھی کہ ایک ایسا مقبرہ ہے جس میں میں دفن ہوئی ہوں.جب اس نے بادشاہ کو یہ خواب سنائی.تو اس نے انجینئروں کو بلا کر کہا.ایسا مقبرہ تیار کرو انجینئروں نے کہا کہ یہ نہیں بن سکتا.جب بادشاہ مایوس ہو گیا.تو ایک شخص آیا اور آ کر کہا.میں ایسا مقبرہ بنا سکتا ہوں مجھے وہ جگہ دکھا دی جائے.جہاں مقبرہ بننا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس جگہ تک کشتی میں بیٹھ کر چلیں اور کشتی میں ایک لاکھ روپیہ کی تھیلیاں رکھ دی جائیں.بادشاہ نے اس شرط کو منظور کر لیا.جب کشتی میں بیٹھ کر چلے تو اس نے ایک تھیلی اٹھائی.اور روپے دریا میں بکھرتے ہوئے کہا.بادشاہ سلامت روپیہ یوں ڈالنا پڑے گا تب مقبرہ تیار ہو گا.بادشاہ نے کہا.کوئی پروا نہیں پھر اس نے دوسری تھیلی اٹھائی.اور اسی طرح کہہ کر دریا میں ڈال دی.حتی کہ دریا کے دوسرے کنارے پہنچنے تک ایک لاکھ روپیہ دریا میں ڈال دیا بادشاہ نے کہا کہ بے شک اسی طرح خرچ کرو.مگر مقبرہ ضرور بنا دو.کنارے پر جا کر اس نے کہا کہ اب ضرور مقبرہ بن جائے گا.دوسرے انجینئر اسی لئے کہتے تھے.نہیں بنے گا کہ آپ خرچ سے گھبرا جائیں گے لیکن میں نے تجربہ کر لیا ہے.جب ایک لاکھ روپیہ دریا میں ڈال دینے سے آپ کے ماتھے پر بل بھی نہیں پڑا تو مقبرہ ضرور تیار ہو جائے گا.چنانچہ اس نے تیار کرا دیا.اور شاہجہان کی بیوی نے دیکھ کر کہا کہ ایسا ہی میں نے خواب میں دیکھا تھا.وہ ایک مقبرہ تھا جس کے لئے ایک لاکھ روپیہ کی تھیلیاں دریا میں پھینکی گئی تھیں اور کئی لوگ سمجھتے ہوں گے.مقبرہ کی کیا حقیقت ہے.لیکن ہم نے مقبرہ نہیں بلکہ زندگی کے گھر بنانے ہیں.پھر ایک نہیں بلکہ اربوں...لیکن باوجود اس کے کئی لوگ سمجھتے ہیں.بیٹھے بٹھائے یہ کام ہو جائے گا.اگر ہم نے دنیا کو فتح کرتا ہے.اور ان لوگوں کے قلوب پر قبضہ پانا ہے جن کے سامنے ہماری اتنی بھی حیثیت نہیں.جتنی ان کے نزدیک اپنے گھر کے جانوروں کی ہے.تو سمجھ لو.ہمارا کام کس قدر مشکل اور کتنا بڑا ہے.انگلستان کا ایک امیر ہیں ہزار کو کتا خریدنے کے لئے تیار ہو جائے گا اور تیس ہزار پر گھوڑا خرید لے گا.مگر دس ہزار پر کسی ہندوستانی کو خریدنے کے لئے تیار نہ ہو گا.مگر باوجود اس کے ہم سمجھتے ہیں.ان لوگوں کو ہم نے احمدی بنانا ہے.وہ ہمیں جانوروں سے بدتر سمجھتے ہیں.لیکن ہم کہتے ہیں.ان کے گلے میں ہم نے پٹے ڈالنے ہیں.وہ ہمیں انسان ہی
470 نہیں سمجھتے لیکن ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم انہیں باخدا انسان بنائیں گے.اس سے سمجھ لو کہ ہمارا کام کس قدر اہم ہے.ایسے اہم کام کے لئے ہم جب تک مستقل سکیم تیار نہیں کرتے اس وقت تک کامیابی کے امیدوار بھی نہیں ہو سکتے.یورپ میں تبلیغ اسلام کا سوال ایک یا دو دن میں حل ہونے والا سوال نہیں.بلکہ صدیوں کا سوال ہے لیکن اگر ہم غلط رستہ پر چلیں گے.تو صدیاں کیا.ہزاروں سال میں بھی حل نہیں کر سکیں گے.اس وقت ہمارے سفر کی غرض یہ نہیں کہ یورپ کو مسلمان کر آئیں.بلکہ یہ ہے کہ اس بات پر غور کریں کہ مغربی ممالک کس طرح اسلام کو قبول کر سکتے ہیں.گویا ہمارا یہ سفر تشخیص مرض کے لئے ہے نسخہ کے لئے نہیں.یورپ میں دو قسم کے ڈاکٹر ہوتے ہیں ایک مرض کی تشخیص کرتے ہیں اور دوسرے نسخہ دیتے ہیں.خلیفہ کا کام مرض کی تشخیص کرنا اور علاج تجویز کرنا ہے.اس کے بعد دوسرے لوگ جو خلیفہ سے کم حیثیت رکھتے ہیں.وہ نسخے دیں گے.پس یہ سفر اس لئے نہیں کہ ہم جا کر اہل یورپ کو کلمہ پڑھا آئیں.گو یہ بھی نہیں کہ اگر کوئی پڑھنا چاہے.تو بھی نہیں پڑھائیں گے.مگر اس سفر کی غرض یہ نہیں.اگر اس سفر میں بھی خدا تعالٰی بعض روحوں کو ہدایت دے دے تو یہ اس کا احسان اور فضل ہو گا.مگر ہماری یہ غرض نہیں کہ چند لوگوں کو مسلمان بنا آئیں.بلکہ یہ ہے کہ کون سا طریق ہے کہ جس سے ساری دنیا کو مسلمان بنا ئیں اتنی بڑی غرض بغیر قربانیوں کے حاصل نہیں ہو سکتی.حضرت مسیح کہتے ہیں.یہ دیو روزے اور قربانی سے نکلتے ہیں.مگر ان کے زمانہ کے دیو بہت کمزور تھے جن کی ایک چھیڑ سے جان نکل سکتی تھی.لیکن جن دیوؤں سے ہمیں مقابلہ پڑا ہے.وہ بہت خطرناک ہیں اور انہیں ہم روزے اور دعاؤں کے بغیر نہیں نکال سکتے.یہاں روزے کے یہ معنی ہیں کہ خود بھوکے رہیں اور مال دین کے لئے خرچ کر دیں.دیکھو حضرت مسیح کے حواریوں کے ایک حصہ نے اس کو کس طرح پورا کیا.وہ فقیر کہلائے لیکن اس لئے نہیں کہ مانگتے پھرتے تھے بلکہ اس لئے کہ جو کچھ ان کے پاس ہوتا.وہ خرچ کر دیتے.ہمارا مسیح تو اس مسیح سے بڑھ کر تھا جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے.مسیح محمدی مسیح ناصری سے تمام شان میں بڑھ کر ہے.پس جس طرح ہمارا مسیح مسیح ناصری سے بڑھ کر ہے.اس طرح آپ کی جماعت کو بھی مسیح ناصری کی جماعت سے بڑھ کر ہونا چاہیئے.امید ہے کہ آپ لوگ اس فضیلت کو ثابت کر دیں گے.اور دین کے رستہ میں قربانی کرنے میں کوئی چیز تمہارے رستہ میں حائل نہ ہوگی پھر دعائیں بھی کریں گے کہ خدا تعالٰی ہمیں اپنے مقصد میں کامیاب کرے.
471 پھر میں یہ ہدایت کرتا ہوں کہ جب وہ انسان جس کے ہاتھ پر بیعت کی ہو سامنے نہ ہو تو کئی قسم کے وسوسے پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں.اس لئے میں یہ نصیحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایسے وقت میں خصوصیت سے محبت کا رنگ دکھائیں.تمام وعظ و نصائح عمل کرنے کے لئے ہوتے ہیں.نہ کہ صرف سن چھوڑنے کے لئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ فرمایا ہے کہ بچے ہو کر جھوٹے بنو.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جھوٹ بولو بلکہ یہ ہے کہ جو حقوق سچے ہونے کی حالت میں حاصل ہو سکتے ہیں.ان کے لئے اگر تم سے جھوٹوں جیسا سلوک کیا جائے.تو اسے بھی قبول کرو.پس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ سب لوگ آپس میں محبت اور سلوک ہے رہیں.یہ بات خوب اچھی طرح یاد رکھو.کوئی فوج لڑ نہیں سکتی.جس کے آگے دشمن ہو اور پیچھے بغاوت.اگر تم لوگ میرے اس سفر کو کامیاب بنانا چاہتے ہو.اور جس کثرت سے اس سفر کو اختیار کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے.اس کے مطابق اسے اہم سمجھتے ہو.تو یہ بھی عہد کرو کہ کوئی ایسی بات نہ کریں گے.جو مناسب نہ ہو.دیکھو ایک ماں جب سنتی ہے کہ میرا فلاں بچہ بیمار ہے.تو خواہ وہ دنیا کے دوسرے سرے پر ہو.تو بھی بے چین ہو جاتی ہے اور کوئی کام نہیں کر سکتی.اسی طرح اگر مجھے ایک یا دو کے متعلق ہی فتنہ و شرارت کی خبر پہنچے گی یا بری بات معلوم ہو گی.تو اس کا یہ اثر ہو گا.کہ سارا سفر بے چینی میں گزرے گا.اسلام تو کہتا ہے.کبھی فساد نہ کرو مگر میں کہتا ہوں.کم از کم چار ماہ کے لئے تو اقرار کرو کہ کوئی فتنہ و فساد نہ پیدا ہونے دیں گے.اور جب اتنے عرصہ کے لئے اقرار کر کے اس پر قائم رہو گے.تو ہمیشہ کے لئے خدا تعالیٰ تمہیں اس اقرار کو نباہنے کی توفیق دے گا.پس اگر ایک کو کسی سے نقصان بھی پہنچے.گلہ شکوہ بھی پیدا ہو.تو بھی میں امید کرتا ہوں کہ دوسرا اخلاص کا نمونہ دکھائے گا.اور فساد نہیں پیدا ہونے دے گا.پھر جو انتظام کیا گیا ہے.اس کے ماتحت اطاعت کا پورا نمونہ دکھاؤ.جن کو انتظام کے لئے مقرر کیا گیا ہے.ان کے فیصلے خواہ تمہاری رائے کے موافق ہوں یا مخالف ان کو منظور کرو.اسی طرح میں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ تبلیغ کی طرف خاص توجہ رکھو.ایک طرف زور دینے کے یہ معنی نہیں کہ دوسری طرف سستی پیدا ہو جائے.کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ چاروں طرف پورے زور سے کام کیا جائے.ادھر ہم مغرب میں جاتے ہیں.ادھر تم مشرق میں پورا زور لگاؤ تاکہ ایک ہی وقت میں مغرب بھی گرایا جائے.اور مشرق بھی.
472 پھر بہت لوگ ہوتے ہیں جن میں عفو کی طاقت نہیں ہوتی.اگر وہ کسی بات میں عفو نہ کر سکیں.تو صبر سے کام لیں.عضو تو یہ ہوتا ہے کہ بات کو بالکل مٹا دیا جائے.اور صبر یہ ہوتا ہے کہ دوسرے وقت تک اس کے متعلق انتظار کیا جائے.پس وہ انتظار کریں.جب تک کہ خلیفہ کو خدا تعالیٰ خیرت سے واپس لائے.پھر قادیان آنے کے لئے بیرون جات کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں.قادیان با برکت جگہ ہے.اور اپنی ذات میں بابرکت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس میں رہتے تھے.اور اب آپ کا مزار اس میں ہے.پھر اس میں وہ مسجدیں ہیں.جو مبارک ہیں پس احباب یہاں پہلے کی طرح ہی آئیں.بلکہ پہلے سے بھی زیادہ آئیں.تاکہ کارکنوں کو کام میں ان سے مدد ملے پھر ہر جگہ کے کارکنوں کو چاہیئے کہ لوگوں کو ایثار اور قربانی کی تعلیم دیں اور تبلیغ کی طرف توجہ دلائیں.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں.کلکم راع و کلکم مسئول کہ تم گڈریئے ہو.اور سب سے خدا تعالیٰ سوال کرے گا کہ تم نے کیا کام کیا.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کے سب کے سب لوگ اپنے کام کو سمجھیں اور اسے کرنے کی پوری پوری کوشش کریں پھر میں یہ کہتا ہوں کہ خصوصیت سے ہماری کامیابی کے لئے دعاؤں پر زور دیں.ہر ایک انسان انسان ہے.خواہ وہ کتنا بڑا ہو.اور سوائے اس کے کہ خدا سے مدد آئے.کوئی انسان کچھ نہیں کر سکتا.میں نے جو انتظام کیا ہے.نہایت دیانتداری سے کیا ہے اور آپ لوگوں سے امید ہے کہ آپ اس کو کامیاب بنانے میں ہر طرح مدد دیں گئے اور دعاؤں سے ہماری مدد کریں گے کہ خدا تعالیٰ ہر قسم کے شرور سے محفوظ رکھ کے اس سفر کو کامیاب بنائے جس کام کے لئے ہم جا رہے ہیں.وہ کوئی معمولی کام نہیں.بلکہ عظیم الشان کام ہے.اور جب تک خدا تعالیٰ کی نصرت نہ ہو.کامیابی نہیں ہو سکتی.ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ اس سفر کے فوری نتائج نہیں نکل سکتے.کیونکہ کسی سکیم کے نتائج فوری نہیں ہوا کرتے دیکھو ایک کمانڈر جب کوئی سکیم تیار کرتا ہے.تو اسی وقت اس کے نتائج نہیں نکل آتے.بلکہ اس کے مطابق لڑائی لڑنے کے بعد نکلتے ہیں.یہ سفر جس طرح بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے.اسی طرح بعض ایسے کو تاہ اندیشوں کے لئے.ٹھوکر کا باعث بھی ہو سکتا ہے.جو یہ خیال کریں کہ ادھر ہم یورپ گئے.اور ادھر بادشاہ بیعت کرنے کے لئے آجائیں.میں اس لئے نہیں جا رہا.اور جو اس خیال سے جاتا ہے.وہ خدا تعالی کا امتحان کرتا ہے.اور وہ مستحق ہے.کہ ٹھو کر کھائے اور ابتلا کے گڑھے میں ڈالا جائے.پس میں اس لئے نہیں جاتا کہ بادشاہ بیعت میں
| 473 داخل ہوں.بلکہ اس لئے جاتا ہوں کہ ان ممالک میں جا کر اسلام بگڑ نہ جائے.دیکھو عیسائیت دیگر ممالک میں جا کر اپنی اصلی شکل میں نہ رہی بلکہ بگڑ گئی.لوگ تو بہت عیسائی ہو گئے.مگر ان کے پاس وہ عیسائیت نہ رہی.جو حضرت مسیح لائے تھے.بلکہ وہ دہریت تھی ہم نے یورپ کو اسلام پر قائم کرتا ہے.اس کے لئے اگر سکیم نہ سوچیں تو ممکن ہے.بے دینی کی ایک نئی بنیاد قائم ہو جائے.جب عیسائیت کی تبلیغ کے لئے لوگ غیر ممالک میں گئے.اور لوگوں نے کہا کہ ہم سے ان باتوں پر روز مرہ عمل نہیں ہو سکتا.تو انہیں کہہ دیا گیا کہ صرف مسیح پر ایمان لے آنا کافی ہے.اگر خدا نخواستہ اسلام کے متعلق بھی اسی طرح کیا گیا.اور اس طرح پھیلایا گیا.تو اس کا پھیلانا نہ پھیلانے سے برا ہو گا.ہم نے اس وقت یہ دیکھنا ہے کہ وہ کون سی باتیں ہیں.جو اسلام قبول کرنے میں حارج ہیں.اور کس طرح اسلام ان لوگوں سے منوایا.اور کیونکہ اسلامی احکام پر عمل کرایا جا سکتا ہے.جب تک یہ سکیم نہ تیار کریں.اس وقت تک ہم مغرب میں کامیاب نہیں ہو سکتے.اور اگر اس کے بغیر کامیاب ہوں.تو وہ دین کی کامیابی نہیں ہو گی.بلکہ اپنی نفسانیت کی کامیابی ہو گی.جو رحمت کا موجب نہ ہو گی.بلکہ عذاب کا باعث ہو گی.اور اللہ تعالیٰ رحم کرے اس پر جس کی طرف سے ایسی بنیاد رکھی جائے.جو اس کے لئے لعنت کا موجب ہو تو جو کام تجویز کیا گیا ہے وہ ایسا ہے کہ اس کے نتائج فوری نہیں نکل سکتے.مگروہ ہے اتنا ضروری کہ اس کے بغیر نتائج نکل بھی نہیں سکتے.پس جب تک خاص دعائیں نہ کی جائیں.ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.اس لئے میں دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اس عرصہ میں خصوصیت سے دعاؤں میں لگے رہیں کہ خدا تعالیٰ ہمیں یورپ کو اسلام میں لانے کی توفیق دے.اور اسلام بھی وہ جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لائے.اس وقت دنیا یہ مانے کے لئے تیار نہیں کہ وہ اسلام اب پھیل سکتا ہے.ابھی ذوالفقار علی خان صاحب پاسپورٹ لینے کے لئے گئے.تو ایک بڑے انگریز افسر نے کہا.کیا یہ ہو سکتا ہے کہ تم ہماری عورتوں کو پردہ کا پابند بنا سکو.اگر کوئی اس بات کو دیکھ کر یہ کہہ دے کہ اچھا پردہ کو جانے دو.تو پھر کہا جائے گا.ان ممالک میں شراب نہیں چھوڑی جا سکتی.اس کے لئے یہ کہہ دیا جائے کہ اچھا نشہ نہ ہو.ایک دو گلاس پی لیا کرو.اس طرح تو اسلام میں وہی خرابیاں پیدا ہو جائیں گی جنہیں دور کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود آئے تھے.پس دعاؤں کی سخت ضرورت ہے.میں بھی یقین دلاتا ہوں کہ میں آپ لوگوں کے لئے دعائیں کرتا رہوں گا کہ آپ پر جو ذمہ داریاں ہیں.وہ عمدگی کے ساتھ بجالا سکیں.اور آپ لوگ ہمارے لئے دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ
474 ہمیں کامیاب کرے.اس موقعہ پر یہی ایک دوسرے کا تعاون ہے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے اخلاص میں تقویٰ و طہارت میں ترقی دے.اسلام سے محبت اور لگاؤ پیدا کرے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود کی محبت دے.اسلام اور احمدیت کی محبت دین کی تڑپ پیدا کرے.نفس کی ٹھوکروں سے بچائے.اور اپنے فضل کے سائے کے نیچے رکھے.خدا تعالیٰ آپ لوگوں سے ایسا راضی ہو کہ پھر ناراض نہ ہو.اور ہم اس سے ایسے راضی ہوں کہ کبھی ناراض نہ ہو.وہ ہمیں اس طرح نظر آئے کہ کبھی ہماری نظروں سے پوشیدہ نہ ہو.اور اس طرح ہم اسے پائیں کہ پھر کبھی نہ کھوئیں.الفضل ۲۲ جولائی ۱۹۲۴ء) ه اسورة طهرا
475 73 (۵) ستمبر مسجد پیٹی لنڈن) کامیابی کے لئے صحیح ذرائع کی ضرورت شهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا سورہ فاتحہ کی جس کو ہم بار بار پانچوں وقت نماز میں پڑہتے ہیں ایک آیت ہے.جو دشمنوں کے لئے ہمیشہ ٹھوکر کا موجب ہوتی رہی ہے.ہمارے لئے بہت ہی قابل غور ہے.اور وہ اھدنا الصراط المستقیم ہے.ایک مسلمان جو اسلام قبول کر چکا ہے.بلکہ اسلام کے موافق زندگی بسر کرنا چاہتا ہے.اور اپنے وقت اور آرام کی قربانی کرنا چاہتا ہے.جب عبادت کے لئے کھڑا ہوتا ہے.تو کس غرض کے لئے دعا کرتا ہے.یہ سوچنے کے قابل بات ہے.اهدنا الصراط المستقیم کے معنی کئی رنگ میں کئے جاتے ہیں.ایک مشہور معنے تو یہ ہیں کہ ہدی کے تین معنے ہیں.رستہ دکھانا.اس پر چلانا.چلاتے رہنا.ایک شخص جو نہیں جانتا کہ سچا مذہب کون سا ہے.وہ جب اهدنا الصراط المستقیم کی دعا کرتا ہے.تو اس کا مطلب اور مقصد یہ ہے کہ حقیقی مذہب کا راستہ دکھا.اور جو مذہب قبول کر چکا ہے.اس کی دعا یہ ہوگی کہ اس پر چلنے کی توفیق عطا فرما.اور جس کو توفیق ملی ہے.اس کی دعا اس غرض سے ہے کہ اس توفیق عمل کو قائم رکھ کر اس صحیح راستہ پر چلاتا ہی رہ اور اس طرح پر استقامت عطا کر.یہ عام اور مشہور معنے ہیں.جو کئے جاتے ہیں.اور اپنی جگہ درست ہیں.لیکن اس کے ایک اور معنی بھی ہیں جس کی حقیقت نہ سمجھنے کی وجہ سے مسلمانوں کو بھی اور دوسرے لوگوں کو بھی دقتیں پیدا ہوتی ہیں میرے خیال میں بہت سے لوگ مسلمانوں میں بھی اور دوسری اقوام میں بھی ایک غلطی میں مبتلا ہیں.اور وہ اس غلطی کو یہی نہیں کہ غلطی نہیں سمجھتے بلکہ
اس پر مصر ہیں.اور وہ یہ ہے کہ ان کے خیال میں کسی کامیابی کے لئے اتنا ہی ضروری ہے کہ یہ معلوم ہو جاوے کہ فلاں صحیح راستہ ہے.ایشیا کے اکثر مذاہب برہمو وغیرہ اسی غلطی میں مبتلا ہیں.وہ کہتے ہیں کہ سچائی کے معلوم ہو جانے پر اس کامل جانا کیا مشکل ہے.مگر یہ نفس کا دھوکہ اور غلط خیالی ہے.دیکھو یہ مان لینے کے بعد کہ خدا موجود ہے.خدا مل نہیں جاتا.ایک شخص جانتا ہے کہ امریکہ موجود ہے.لیکن اس کے علم کے ساتھ وہ امریکہ پہنچ نہیں جاتا.یہ جان لینے پر کہ مونٹ ایورسٹ ہمالیہ کی سب سے اونچی چوٹی ہے.وہ اس پر چڑھ نہیں جاتا.تو پھر یہ کہہ دینے سے کہ ہم نے خدا کو مان لیا ہے کوئی شخص خدا تک کس طرح پہنچ جاتا ہے.اس مادی عالم میں جب کہ محض علم کسی چیز کا اس کے حصول کا باعث نہیں ہو جاتا.تو خدا تعالیٰ کا قرب محض اس علم سے کہ خدا موجود ہے.کیونکہ حاصل ہو سکتا ہے.بہت لوگ ہیں.جو اس غلطی میں مبتلا ہیں.اور مجرد علم اور مان لینے کو کافی سمجھے ہوئے ہیں حالانکہ یہ بہت ہی ادنی اور ابتدائی درجہ ہے.پھر ایک جماعت ہے.جو اس سے بڑھ کر کہتی ہے کہ اس کے حصول کے لئے کوشش کی ضرورت ہے.بے شک یہ درست ہے جب تک کسی سچائی کے حاصل کرنے کے لئے کوشش نہ کی جائے.ہم اس کو نہیں پاسکتے.لیکن اس کوشش کے ساتھ جس چیز کی ضرورت ہے.اور جس کے بغیر مطلب حاصل ہو ہی نہیں سکتا.وہ یہ ہے کہ ہماری کوشش ان ذرائع سے ہو.جن کے ذریعہ کامیابی ہوتی ہے.دنیا میں ناکامیوں کی بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ صحیح ذریعہ سے لوگ کوشش نہیں کرتے.اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے مقصد میں ناکام رہ جاتے ہیں.پس سورۃ فاتحہ کی یہ آیت اس اصل کی طرف توجہ دلاتی ہے.اور اس سے یہ بھی سبق ملتا کہ صحیح ذرائع کی طلب ہمارا پہلا مقصد ہے.امدنا میں اول انسان ہدایت چاہتا ہے کہ صحیح ہے راستہ مل جائے.مگر صرف اسی قدر کہہ کر نہیں چھوڑ دیا کہ انسان کو ہدایت کا علم ہو جاوے.نہیں بلکہ الصراط المستقيم کہہ کر انسان کے اندر ایک جوش پیدا کر دیا ہے کہ صحیح ذرائع جو ہدایت تک پہنچنے کے ہیں.ان کی توفیق ملے.وہ میسر آجائیں.اگر وہ صحیح ذرائع نہ ملیں.تو سوائے سوزش اور جلن کے کیا ہو گا؟ انسان کو ناکامی پر کس قدر تکلیف ہوتی ہے.جب وہ اپنی محنت اور کوشش کو دیکھتا ہے کہ را نگان چلی گئی.پس اس سوزش اور تکلیف سے بچانے کے لئے.اصل ذرائع کامیابی کی توفیق پاتا ہے.ایک پیاسا آدمی اتنا تو جانتا ہے کہ پانی ہے.مگر اس تک پہنچ نہ سکنے کے باعث اس کی شدت 0/+
477 پیاس اور بھی زیادہ بڑھ جاوے گی.اتنے علم سے اسے فائدہ نہیں ہو گا.پس کامیابی کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے.وہ اس کے صحیح ذرائع کا حصول ہے.اور یہ خدا تعالٰی کے فضل اور راہنمائی کے بغیر ممکن نہیں.اس لئے قرآن مجید نے اهدنا الصراط المستقیم کی تعلیم دی ہے.افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت میں بھی پورے طور پر اس کا احساس نہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے لئے مان لینا اور اس پر عمل کرنا کافی ہے.مگر عمل کے لئے جب تک صحیح ذرائع ساتھ نہ ہوں.وہ عمل بھی ناقص اور بے معنی ہو جائے گا.میں جانتا ہوں کہ بعض لوگ بڑی قربانی کر کے کام کرتے ہیں.مگر اس میں نقص ہوتا ہے.اور نتیجہ ناکامی ہوتی ہے.میں جب اعتراض کرتا ہوں.تو دوسرے لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو بہت بڑی محنت کرتے ہیں.صبح سے لے کر رات کے نو بجے تک کام کرتے رہتے ہیں.میں ان کی محنت کا انکار نہیں کرتا.لیکن جب تک صحیح ذرائع پاس نہ ہوں گے.اس محنت کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا.ہاں جب صحیح ذرائع سے عمل ہو گا تو محنت اور وقت دونوں میں کمی ہو جائے گی.یہ ضرورت نہیں کہ ایک شخص پندرہ گھنٹہ کام کرے.مگر نتیجہ کچھ نہ ہو.ضرورت اس امر کی ہے کہ کامیابی ہو.اور اس کے لئے جب تک صحیح ذرائع کو اختیار نہ کیا جائے گا.کوئی فائدہ نہ ہو گا.ان صحیح ذرائع کے حصول کی تعلیم اهدنا الصراط المستقیم کی دعا ہے.اس بات کو خوب یاد رکھو کہ محض کام کرنا اوقات یا روپیہ کا صرف کر دینا یا احساسات اور جذبات کا قربان کر دینا کافی نہیں ہے.اور اس سے کوئی فائدہ بھی نہیں ہوتا.اصل چیز جس کے لئے انسان ساری محنتیں اور قربانیاں کرتا ہے.کامیابی اور حصول مقصد ہے.اگر وہ حاصل نہیں ہوتا.تو کیا فائدہ اور اس کا سب سے بڑا ذریعہ یہی ہے کہ ان اسباب کو حاصل کیا جائے.جو اس کے لئے ضروری ہیں.اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل اور توفیق سے ملتے ہیں.اسی کے لئے یہ دعا ہے.پہلے اصل مقصد کا علم حاصل کر لو.پھر اس کے صحیح ذرائع حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کرو.اور پھر استقامت کے ساتھ ان ذرائع سے کوشش کرو.اور یہ عزم کر لو کہ اس مقصد کو حاصل کرنا ہے.اس کے لئے تھکو نہیں.اور ہمت نہ ہارو.ورنہ بغیر صحیح ذرائع کے اصل مقصد دور ہوتا جائے گا.ایک شخص دن میں پانچ نمازیں پڑھتا ہے.اور ایک ہندو ہے.جو رات دن الٹا لٹکا رہتا ہے.اور ایسی شدید محنت برداشت کرتا ہے کہ تصور سے بھی تکلیف ہوتی ہے.بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نمازوں کے مقابلہ میں اس کی محنت اور عمل بہت بڑا ہے.مگر کیا اس طریق سے خدا مل جاتا ہے؟ خدا کو کسی کے الٹے سیدھے لٹکنے کی ضرورت نہیں اور نہ اس کے اعمال کے ساتھ پاکیزگی اور وہ
478 اخلاص جو خدا تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہے وابستہ ہے.خدا تعالیٰ کے احکام تکلیف کے لئے نہیں ہوتے.بلکہ ان سے کامیابی اور ابدی راحت وابستہ ہوتی ہے اگر چار پائی پر بیٹھ رہنے یا سونے سے کامیابی ہو تو خدا یہی حکم دیتا.انسان بعض اوقات اس حقیقت کو نہیں سمجھتا.اور دھوکہ کھاتا ہے.خدا تعالیٰ انسان کو مشقتوں میں ڈالنا نہیں چاہتا.بلکہ خدا تعالیٰ تو انسان کے لئے پسر پسند کرتا ہے.ہاں انسان اپنی نادانی سے صحیح راستہ اور صحیح ذرائع کو چھوڑ کر خود مصیبتوں اور مشقتوں میں پڑ جاتا ہے.ہاں یہ بیچ ہے کہ بعض اوقات کامیابیوں کا صحیح ذریعہ مختلف قسم کی مشقتیں بھی ہوتی ہیں اور کئی قسم کی قربانیاں اسے کرنا پڑتی ہیں.لیکن ان مشقتوں اور قربانیوں میں اسے تکلیف نہیں ہوتی.بلکہ دل امید اور خوشی سے بھرا ہوا ہوتا ہے.جو اپنے مقصد کی کامیابی کی ہوتی ہے اس لئے وہ ان کو شوق اور جوش سے اختیار کرتا ہے.پس میں اپنے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ صرف اتنی ہی بات پر خوش نہ ہوں کہ انہیں راستہ مل گیا ہے.یا وہ حصول مقصد کے لئے کوشش کر رہے ہیں.بلکہ انہیں دیکھنا چاہیئے کہ کیا وہی طریق کامیابی کا ہے.جس پر وہ چل رہے ہیں.اگر نہیں تو انہیں فکر کرنی چاہیئے کہ ان کی محنت وقت اور روپیہ ضائع نہ ہو.صحیح اسباب محنت کو کم کر دیتے ہیں.بعض دو گھنٹہ میں کام ختم کر لیتے ہیں.جبکہ کام کرنے کا صحیح طریقہ انہیں معلوم ہو.اور بعض پندرہ گھنٹہ بھی کام کر کے ختم نہیں کر سکتے اور اس کا کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوتا.ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی نسبت فرمایا کہ ابوبکر کی فضیلت اس وجہ سے ہے جو اس کے دل میں ہے ا.اس کا یہی مطلب ہے کہ ابو بکر اپنے اخلاص و وفا کے ساتھ جو خدمت دین کی کرتے ہیں وہ عقل اور فکر سے سوچ سمجھ کر ایسے طریق سے کرتے ہیں.جو کامیابی کا موجب ہوتی ہے.یاد رکھو کہ ایک شخص ساری نماز پڑھتا ہے.مگر اس میں خشیت یدا نہیں ہوتی.وہ اس کے برابر نہیں جو ایک بار سبحان اللہ کہتا ہے.اور اس کے ساتھ ہی اس کا قلب پکھل جاتا ہے.اور یہ بات صرف صحیح طریق کے حاصل ہونے سے پیدا ہوتی ہے.پس اپنے تمام کاموں میں ان امور کو نظر رکھو کہ بغیر اس کے کامیابی مشکل ہے.پھر یہی نہیں کہ ناکامی ہوتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ایک سوزش اور جلن ہوتی ہے.جو انسان کو اپنی محنت وقت اور روپیہ کے صرف کرنے سے ہوتی ہے.
479 میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم کو توفیق دے کہ ہم ایسے طریقوں سے خدمت دین کریں.جو اسلام کی ترقی کا موجب ہوں.اور ہم کو اس کے فضلوں اور برکات کے حاصل کرنے کا موقعہ ملے.آمین انز هته المجالس مصنفہ شیخ عبدالر حمن الصفوری جلد ۲ ص ۱۵۳ الفضل ۱۸ اکتوبر ۱۹۲۴ء)
480 74 تمام بدیوں سے بچنے کا طریق فرموده ۱۲ ستمبر ۱۹۲۴ء بمقام لندن) شهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا : سورہ فاتحہ ایک عجیب نکتہ ہم کو بتاتی ہے.اور وہ نکتہ ایسا اہم ہے کہ اگر اس کو لوگ نظر کے نیچے رکھیں.اور اس کی حقیقت کو عملاً نظر انداز نہ کریں.تو ان کی زندگیوں میں عظیم الشان تغیر پیدا ہو جائے.میرے نزدیک جس قدر عملی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں.وہ اس نکتہ کے نہ سمجھنے اور یاد نہ رکھنے کی وجہ سے ہوتی ہیں میں جہاں تک خیال کرتا ہوں.جب کبھی انسانی اعمال میں کوئی ایسی بات پیدا ہوتی ہے.جو منشاء الہی اور تقدیر کے خلاف ہوتی ہے.تو اس کا موجب یہی ہوتا ہے کہ وہ اس نکتہ کو نظر انداز کر دیتا ہے.اور یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ میرے لئے اس پر عمل کرنا زیادہ مناسب ہے.اور وہ بغیر کسی قسم کے پس و پیش کے اس فعل کو کر گذرتا ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ وہ غور کر لیتا ہے کہ قرآن کریم کی فلاں آیت اس کی اجازت دیتی ہے یا نہیں.اس لئے میں اسے لوں یا نہ لوں.بلکہ اسے غور کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی.اس کی راہ میں آنے والی چیزیں آپ ہی حل ہو جاتی ہیں.اور جس قدر اعمال وہ کرتا ہے.خود بخود ان کا فیصلہ دماغ کرتا چلا جاتا ہے.البتہ ان امور کے متعلق بے شک سوچتا ہے.جن کی طرف اسے میلان نہیں ہوتا یا جن کے فوائد اس کی نظر میں ظاہر نہیں ہوتے.لیکن جن امور کی طرف میلان ہو جاتا ہے.یا جن کے فوائد اس کی نظر میں ظاہر ہو جاتے ہیں.ان کا فیصلہ اتنی جلدی اس کا دماغ کر دیتا ہے.کہ وہ خود بھی نہیں جانتا کہ اس نے اس کے متعلق سوچا ہے یا نہیں.مثلاً ایک شخص چوری کرنے کا عادی ہے.جب اسے موقع ملتا ہے.فور آ ہاتھ ڈال دیتا ہے.وہ جانتا ہے کہ چوری کرنا بری بات ہے.خدا نے منع کیا ہے.لوگ برا سمجھتے ہیں.اور پکڑا جانے پر سزا ہوتی ہے.مگر باوجود ان تمام باتوں کے جب اسے موقعہ ملتا ہے وہ رکتا نہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ
481 پہلے پہل جب اس نے چوری کی تھی تو کچھ شک نہیں سوچ کر کی تھی.وہ جانتا تھا کہ اس سے نقصان ہو گا.اور اگر پکڑا گیا.تو سزا اور بدنامی بھی ہوگی.مگر میلان ایسا تھا اور ضرورت ایسی تھی کہ کسی طرح پوری ہو اور پھر وہ پکڑا نہ گیا.اس سے اس نے نتیجہ نکال لیا.کہ ہر چوری ایسی نہیں ہوتی کہ انسان پکڑا جائے.اور اس چوری سے اس کی ضرورت موجودہ کسی حد تک رفع ہو گئی.پس اس نے اس سے یہ فیصلہ کر لیا کہ چوری ٹھیک ہے.جب موقعہ ملا.ان خیالات نے تحریک کر دی اور اس نے ہاتھ ڈال دیا.غرض پہلی دفعہ اس نے جو جرأت کی تھی.تو اس وجہ سے کہ ضرورت ایسی ہی تھی.اس لئے یہ سمجھ کر کہ گو خدا کا حکم نہیں ہے.مگر اپنی ضرورت کو مقدم کر کے اس نے وہ فعل کر لیا.اور اس کے ان نتائج کو دیکھ کر دوبارہ غور کرنے اور فیصلہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی.یہ کیوں ہوتا ہے! اس کی ایک ہی وجہ ہے.اور اس عمل کے پیچھے ایک ہی خیال ہے کہ اس کے بغیر گزارہ نہیں.گو یہ بھی ممکن ہے کہ بار بار کے فعل کے بعد یہ سوال ضرورت کا بھی پیدا نہ ہو.جس قدر بھی بدیاں پیدا ہوتی ہیں.وہ اسی خیال سے پیدا ہوتی ہیں کہ یہ چیز سب سے زیادہ ضروری ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں کیا ہی عمدہ طریق تمام بدیوں سے بچنے کا بیان کیا ہے.اور اسی کو مد نظر نہ رکھنے یا نہ سمجھنے کی وجہ سے انسان ان غلط کاریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے.وہ طریق اور فیصلہ الحمد للہ رب العالمین کے الفاظ میں ہے.اس کے معنے ہیں.تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں.رب العالمین یعنی تمام زمانوں کا رب ہے.انسان کی تمام حالتوں اور وقتوں میں اس کی طرف سے ربوبیت ہوتی ہے.کوئی زمانہ ہو.ماضی ہو ، حال ہو، مستقبل ہو.ہر زمانہ میں وہی رب ہے.اس نکتہ کے ماتحت تمام تعلقات کو چسپاں کر لو.کوئی ہستی بھی ظاہری طور پر بھی اور حقیقی طور بھی کامل حمد کی مستحق نہیں.عام سلوک کے معاملات تو صاف نظر آتے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں.مگر دنیا کے تمام رشتوں میں یہ امکان نظر آتا ہے کہ زید مستحق ہے یا بکر.میاں بی بی شادی کرتے ہیں.میاں کے ذمہ ہے کہ بیوی کی ضروریات اور اخراجات کا انتظام کرے.اور اس کی عصمت کی حفاظت کرے.اور اسی لحاظ سے مرد قابل تعریف سمجھا جاتا ہے.مگر بارہا ایسا ہوتا ہے کہ مرد بڑھا ہو جاتا ہے.اور بعض ایسے امراض کا نشانہ بن جاتا ہے کہ حرکت بھی نہیں کر سکتا.اس حالت میں عورت محنت و مشقت کر کے کماتی اور اس کی خدمت کرتی ہے.قادیان میں ایک بڑھا ہے.اور گنٹھیا کی وجہ سے لاچار ہے.بارہا اس کی بیوی میرے پاس آتی ہے.کہ اس کی مدد کی جاوے اس سے معلوم ہوا کہ بے شک خاوند محسن ہوتا ہے.مگر بعض اوقات حالات بدل جاتے
482 ہیں.اور عورت محسن ہو جاتی ہے.تو اس سے ثابت ہوا کہ وہ ہستی حمد کی کامل مستحق نہیں ہو سکتی.جس میں کمزوری کا امکان ساتھ لگا ہوا ہے بلکہ کامل تعریف کی مستحق وہی ہو گی جس میں کبھی اور کسی حال میں بھی کوئی کمزوری واقع نہیں ہوتی.اسی طرح نوکر کی مثال ہے دنیا عرفاً سمجھتی ہے.کہ آقا کو نوکر پر فضیلت ہے.گو میں اب تک فیصلہ نہیں کر سکا کہ بجز حکم دینے کے کیا فضیلت ہے.آقا روپیہ دیتا ہے.نوکر اس کے بدلہ میں کام اور محنت کرتا ہے.اپنا وقت اور جسم دیتا ہے.تاہم عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ نوکر ادنیٰ اور آقا اعلیٰ ہے.اور اس لئے مستحق تعریف ہے.مگر بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ چور آتا ہے اور وہ حملہ کرتا ہے.نوکر اپنے آقا کی جان اور مال کی حفاظت کے لئے لڑ کر اپنی جان دے دیتا ہے.اس وقت لوگ نوکر کی تعریف کرتے ہیں کہ ایسا وفادار ہے کہ اس نے آقا کے لئے لڑ کر جان دے دی اس حالت میں نوکر حمد کا مستحق ہو جاتا ہے.اسی طرح گورنمنٹ پولیس یا فوج میں نوکر رکھتی ہے.مگر وہ لڑائی میں مرکر جب جان دے دیتے ہیں.تو سپاہی قابل تعریف اور قابل عزت ہو جاتے ہیں.نتیجہ کے لحاظ سے دیکھو.گورنمنٹ ان کو کیا دیتی ہے.زیادہ سے زیادہ ان کے بیوی بچوں کو مریعے یا جاگیر دے دی.مگر اصل مرنے والے کو کیا فائدہ ہوا.اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے.اس لئے بہر حال حمد سپاہی کی ہوگی نہ گورنمنٹ کی.غرض جس قدر ان معاملات پر غور کریں.اسی فیصلہ کا امکان رہتا ہے کہ مستحق کون ہے مگر خدا تعالٰی کے معاملات میں یہ امکان نہیں رہتا.وہاں یہ فیصلہ شدہ امر ہے کہ خدا ہی کی حمد ہے.اور وہی کامل حمد کا مستحق ہے.اگر کوئی شخص خدا کے لئے جان دیتا ہے.تو وہ جان دے کر اس کے فضل کو پہلے سے زیادہ پاتا ہے.اور اس کے قریب تر ہو جاتا ہے.آقا دوست بیوی کے لئے کہہ سکتے ہیں کہ تیری خاطر ہم نے جان دی ہے.مگر خدا کے لئے کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا.کیونکہ اس کے فضل کے ہم بہر حال محتاج ہیں اور اس کی ربوبیت ہر حالت میں ہم کو مطلوب ہے وہ رب العالمین ہے.اور اس کی ربوبیت کا سلسلہ بدستور ہے.جس کے بغیر ایک لحظہ بھی ہم زندہ نہیں رہ سکتے اور مرنے کے بعد اس کی ویسی ہی ضرورت باقی رہتی ہے.تین زمانے ہیں ماضی حال اور مستقبل تینوں پر غور کرو کہ ربوبیت کی کیسی ضرورت ہے.اور بغیر اس کے گزارہ ہی نہیں.مثلاً انسان بننے سے پیشتر ایک زمانہ ایسا ہوتا ہے کہ نباتی یا حیوانی حالت ہوتی ہے.اس حالت
483 میں بھی ربوبیت اگر ساتھ نہ ہو تو آگے ترقی اور بقا نہیں ہو سکتی.دوسرا ایک زمانہ یہ آتا ہے کہ جب اس میں تغیر ہو کر روح پیدا ہوتی ہے.اور جو انسانی حالت میں ہوتا ہے.تیسرا جبکہ روحانیت ہی کا تعلق ہوتا ہے.پہلا زمانہ ایک نباتی یا حیوانی صورت رکھتا تھا.دوسرا جبکہ جسم اور روح کا تعلق تھا.تیسرا جبکہ خالص روح ہو گا.ان سب میں اس زمانہ کی حسب حال ضروریات ربوبیت ہی پورا کرتی ہے.اس سے صاف ظاہر ہے کہ کامل حمد کا مستحق خدا ہی ہے نہ کوئی اور.پس جبکہ ہر زمانہ میں خدا ہی سے تعلق ہے.تو کسی قربانی کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کے کرتے میں نقصان ہو گا.سب سے بڑی قربانی جان دے دینا ہے.یا جان دے دینے کے خوف سے مرعوب نہ ہونا.مگر حقیقت کیا ہے؟ کیا اس قربانی سے ہم نقصان اٹھاتے ہیں.یا ترقی کرتے ہیں.خدا کے لئے جان دے کر انسان خدا کے اور قریب ہو جاتا ہے.پس کوئی زمانہ اور کوئی قربانی ہماری راہ میں روک نہیں.ایک شاعر کہتا ہے..جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا خدا کی راہ میں بڑی سے بڑی قربانی جان دے دیتا ہے.مگر اس سے بھی حق ادا نہیں ہو جاتا کیونکہ جان بھی تو اسی کی دی ہوئی ہے.اگر جسم کو قربان کر دیتا ہے تو بھی روح باقی ہے.یہ تو ماضی کی بات ہے.اگر حال مراد لو تو یہ انسان کے اختیار میں کب ہے؟ اس کی موجودہ حالت اور بقا تو خدا کے اختیار میں ہے.یہ موجودہ زندگی اس کے فضل کے ماتحت ہے.وہ شامل حال ہو تو زندہ رہے گا.پس موجودہ حالت بھی انسان کے قبضہ میں نہیں.اگر مستقبل لو تو جان دیتے ہی ابدی زندگی مل جائے گی اس میں بھی خدا کے احسان کا پہلو غالب ہے.پس الحمد لله رب العالمین کے لفظ پر اگر غور کریں.تو تینوں زمانوں کی قربانی کام آتی ہے.بسا اوقات ڈاکٹر نہایت محبت اور محنت سے ایک شخص کے لئے دوائی بناتا ہے.اور اس کو خیال ہوتا ہے کہ اس دوائی سے فائدہ ہو گا اور وہ میرے اس احسان و مروت کی قدر کرے گا.لیکن مریض مرجاتا ہے یا وہ خود مرجاتا ہے.اور اس طرح اس قدر وقیمت سے محروم رہ جاتا ہے جو وہ اس دوائی کے بدلے میں پانے کی امید رکھتا تھا.اور وہ محنت کسی نہ کسی طرح ضائع ہو جاتی ہے.لیکن خدا کی ذات سے صحیح بدلہ ملنا یقینی ہے.اور کسی صورت میں بھی وہ اخلاص اور محبت سے دی ہوئی
484 قربانی ضائع نہیں جاتی.جو خدا کی راہ میں کی جاتی ہے.مجھے بارہا خیال آتا ہے کہ گورنمنٹ اپنے وفادار اور جاں نثار لوگوں کو مربعے اور جاگیریں دیتی ہے اور وہ ان سے روپیہ کماتے ہیں.اگر اگر کھانے کے شوقین ہیں.تو عمدہ سے عمدہ کھانے تیار کراتے ہیں.لیکن قے کا مرض ہو تو وہ کیا لطف اس کھانے کا اٹھا سکتے ہیں.یا کپڑے کا شوق ہو اور عمدہ سے عمدہ کپڑے تیار بھی کرالیں.لیکن اگر جذام یا کھجلی کی بیماری ہو جائے تو کیا فائدہ ہو گا.یا اگر سواری کا شوق ہے.اور عمدہ سے عمدہ گھوڑے موجود ہیں.لیکن اپانچ ہو جائے تو اس کو کیا لطف آئے گا لیکن اگر ایسے لوگ جو اپنی خدمات کو قربانی کی حد تک پہنچا دیتے ہیں اور قربانیاں کرتے ہیں زندہ بھی رہیں تو بھی گورنمنٹ یا کوئی اور ان کو حقیقی بدلہ نہیں دے سکتا.مگر خدا تعالی کے اختیار میں سب کچھ ہے.اس لئے اللہ کے لئے جو شخص کام کرتا ہے.وہ ضائع نہیں ہوتا.پس جب کہ یہ صورت ہے تو مومن کو چاہیئے کہ اس کی ساری قربانیاں خدا ہی کے لئے ہوں.کیونکہ خدا تعالیٰ کے انعامات کا سلسلہ اور اس کے صحیح بدلہ کا خاتمہ نہیں ہوتا.مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے.گورنمنٹ بھی بعض قربانی کرنے والوں کو وکٹوریہ کراس دے دیتی ہے.بیشک یہ ایک عزت اور انعام ہے مگر مرنے کے ساتھ ختم ہو گیا.اور اس کا کچھ اثر مرنے والے پر نہیں رہ جاتا لیکن خدا کی طرف سے جو انعام مرنے والوں کو ملتا ہے.وہ غیر منقطع ہوتا ہے.خدا تعالیٰ ان کی عزت ہمیشہ کرتا ہے.ان کو حیات ابدی ملتی ہے.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اسی ابدی زندگی اور دائی عزت کے لئے کوشش کریں.اور اس کے لئے وہ اپنے اعمال میں اس نکتہ کو یاد رکھیں جو الحمد للہ رب العالمین میں بیان کیا گیا ہے کہ خدا کے فضل کے بغیر کوئی فائدہ نہیں اٹھا ہے.بچپن میں ہم ایک کہانی پڑھا کرتے تھے.میرے دل پر اس کا بڑا اثر رہتا ہے.لکھا ہے کہ ایک تھا.اس کی زمین سے بہت غلہ آتا تھا.ایک مرتبہ بڑے شوق اور خوشی سے بیٹھا ہوا تھا.اور چائے پینے لگا تھا کہ نوکر نے آکر کہا.کھیت میں سور آ گیا ہے.اس نے چائے کی پیالی رکھ دی اور کہا مخص کہ سور کو مار کر آکر پیوں گا.مگر سور نے ایسا حملہ کیا کہ وہ مر گیا.اس لئے یہ ضرب المثل رہ گئی.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں.کہ خدا اللہ تعالیٰ کے لئے قربانی کریں.ہمارے سامنے مثالیں موجود ہیں.خدائے تعالٰی نے ہماری جماعت کو خالی نہیں رکھا.ہم کو ایسے ملک میں پیدا کیا جہاں قتل اس طرح پر نہیں ہوتے.مگر خدا تعالیٰ نے ایسے ملک میں بھی ہماری جماعت کو پیدا کر دیا.
485 جہاں قتل ہوتے ہیں.اور اس طرح پر ٹریڈیشن کو قائم کر دیا.ٹریڈیشن بڑا کام کرتی ہے.اور اس کا بڑا اثر ہوتا ہے اس سے جوش پیدا ہو جاتا ہے.ابتدا مشکلات ہوتی ہیں.لیکن جو شخص پہلے جاتا ہے.وہ راستہ کھول دیتا ہے.اسی طرح ہمارے لئے راستہ کھل گیا ہے.افغانستان کے بعض دوستوں نے اس راستہ کو کھولا ہے.انہوں نے خدا کے لئے موت کو آسان کر دیا ہے.میں نے ابھی کہا ہے کہ خطرناک راستہ میں اگر ایک چل پڑے تو سب چل پڑتے ہیں.پہلے ہی کے لئے مشکل ہوتا ہے.اس طرح اس راستہ کو ہمارے دوستوں نے آسان کر دیا ہے.بعض تقویٰ اور علم کے لحاظ سے کم سمجھے جاتے تھے.مثلاً نعمت اللہ ایک طالب علم تھا.اور اسے دراصل وہاں جماعت کے حالات معلوم کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا.مگر بعد میں اس کو مبلغ مقرر کر دیا گیا اس نے اپنی جان دے کر ثابت کر دیا کہ خدا کی راہ میں قربانی کرنا اس کے لئے بہت آسان تھا.اس نے اپنے بھائیوں کے لئے اس راستہ کو جان دے کر کھولا ہے.تو کیا اب وہ جو اس کے استاد تھے یا جن کے ہاتھ میں اس مدرسہ کا انتظام ہے.نہیں سوچیں گے کہ جب وہ قربانی کر سکتا ہے تو کیوں ہم قربانی نہیں کر سکتے.اس کی قربانی نے تو اس مرحلہ کو آسان کر دیا.اس لئے کہ پچھلوں نے دیکھ لیا کہ خدا کی راہ میں مرنے والوں کی کیا عزت ہوتی ہے.آج تار آیا ہے کہ اس نے بڑی بہادری سے جان دی.اس کو اصرار سے کہا گیا کہ تو بہ کر لو.مگر وہ چٹان کی طرح قائم رہا.پھر اس کو شہر میں پھرایا گیا.اور اعلان کیا گیا کہ اسے ارتداد کی وجہ سے قتل کیا جائے گا.اور چھاؤنی میں جا کر سنگسار کیا گیا.اب گورنمنٹ افغان کوئی اور حیلہ تراش نہیں سکتی.خود اس کے ہاتھ کٹے ہوئے ہیں.میں جان دینا ادنیٰ قربانی سمجھتا ہوں.اعلیٰ درجہ کی قربانی وہ ہے.جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اشارہ کیا ہے.کر بلائے است سیر ہر آنم صد حسین است در گریبانم اعلیٰ مقام حاصل نہیں ہو سکتا.جب تک جان دے دینے کے لئے تیار نہیں ہو جاتا.اس لئے پھر یہ ادنی قربانی نہیں ہوتی بلکہ اعلیٰ ہو جاتی ہے.یہ مقام انہیں لوگوں کو ملتا ہے.جو اپنے عمل سے دکھا دیں کہ موت ان کی نظر میں حقیر ہے.ہماری جماعت کے لوگوں کو اس اعلیٰ شہادت کے لئے تیار ہونا چاہیئے میرا یہ مطلب نہیں کہ جنہوں نے جان دی ہے.ان کی قربانی حقیر ہے.وہ تو بہت بڑی قربانی ہے.کیونکہ انہوں نے راستہ کو
486 صاف کیا ہے اور اپنے عمل سے بتا دیا کہ موت کی کچھ حقیقت ان کی نظر میں نہیں.اور ان مرنے والوں کے لئے بڑا درجہ ہے کیونکہ انہوں نے شجاعت ایمان کا مقام پا نیا تھا.اور اس کا ثبوت انہوں نے جان دے کر دے دیا.غرض ہم کو اس مقام کے حاصل کرنے کے لئے تیار ہونا چاہیئے.اور اس کے لئے قربانی کے لئے تیار رہنا ضروری ہے.خدا تعالیٰ ہمیں توفیق دے.کہ اس کی محبت اور عظمت کے سوا اور کسی کی محبت یا عظمت ہمارے دلوں میں نہ رہے.آمین الفضل ۱۴ اکتوبر ۶۹۲۴)
487 75 قومی کریکٹر کی اہمیت اور ضرورت (فرموده ۱۹ ستمبر ۱۹۲۴ء بمقام لنڈن) تشھد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: دنیا میں جس قدر اثر ان اعمال کا ہوتا ہے جو کسی قوم کا خاصہ ہوتے ہیں (گو وہ کیسے ہی ادنی اور چھوٹے کیوں نہ ہوں) اتنا اثر ان عظیم الشان واقعات اور حالات کا نہیں ہوتا.جو اس قوم کے افراد ے متعلق ہوں.قوموں کی ترقی اور تباہی کے اسباب قطعا " بڑے واقعات میں نہیں ملیں گے بلکہ جب ہم تحقیق کریں گے.تو ان کی ترقی اور تنزل کے اسباب بالکل چھوٹے واقعات میں ملیں گے جو قومی حیثیت اور اثر رکھتے ہوں گے.انگلستان ہی کو دیکھو اس کی دینوی ترقی اور مذہبی تنزل کے موجبات کو اگر دیکھا جائے.تو یہ دونوں باتیں قطعا " عظیم الشان واقعات سے وابستہ نہ ہوں گی.انگلستان کی ترقی اور عروج دنیاوی شریفا لگر یا واٹرلو کی فتح سے متعلق نہیں.بلکہ انگریزی قوم کے اخلاق اور تمدن سے تعلق رکھتے ہیں اور عظیم الشان فتوحات بھی انہیں اسباب کا نتیجہ ہیں.گویا انگلستان واٹرلو یا ٹریفا لگر کی وجہ سے نہیں بنا.بلکہ خود ان کی شان انگلستان کی وجہ سے ہے.اسی طرح یورپ کے لوگوں نے اگر مذہب کو چھوڑ دیا ہے تو اس کی جڑ یہ نہیں ہوگی کہ انہوں نے بعض بڑے بڑے احکام اور قوانین مذہب کو ترک کر دیا ہے.بلکہ اس کی جڑ بھی محض قومی اخلاقی نظر آئیں گے.عیسائیت کے سب سے بڑے مسائل تثلیث اور کفارہ ہیں.اور یہ ایسے احمقانہ مسائل ہیں کہ کوئی شخص جو کسی قسم کے تعصبات کے نیچے دبا ہوا نہیں.اگر علیحدہ ذرا بھی فکر کرے گا.تو اس کے عقلی قومی ان مسائل کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے اور وہ ان کو سرا سر لغو اور غلط یقین کرے گا.مگر باوجود اس کے عیسائیت کا تنزل ان مسائل کے لغو یا غلط ہونے سے نہیں.حالانکہ یہ قابل نفرت و انکار ہیں.بلکہ عیسائیت کے تنزل کی وجہ باریک اور چھوٹے مسائل اور بعض
488 قومی حالات و اثرات ہیں.انگلستان کی حریت کی روح مذہب نہیں ہے.کوئی قوم مذہب کو قبول کرتے ہوئے آزاد نہیں ہوتی.یہ روح اولا " یورپ کے مقابلہ میں آئی اور بعض مذہبی اختلاف پیدا ہو کر اس کی اطاعت سے جدا ہوئے.اور اس علیحدگی کی روح نے آہستہ آہستہ نشو نما پایا.اور پھر آزادی کی روح پیدا ہونے لگی.اور حالات نے دوسری صورت اختیار کی.مثلاً ایک شخص نے کوئی ایجاد کی کسی ایجاد کو مذہب سے کیا تعلق مگر پادریوں نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ اگر اسے قبول کرو گے.تو مذہب سے نکل جاؤ گے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس مخالفت اور کشمکش میں مذہب سے دور ہوتے چلے گئے کسی جگہ اباحت نے مذہب سے دور کر دیا.مباحثات اور عقلی باتوں نے ان کو مذہب سے دور نہیں کیا ہے.تمام یورپ کے حالات کا اگر غور سے مطالعہ کریں.تو یہی حالت نظر آئے گی روس کو دیکھو کہ وہاں کیا حالت ہے کیا یہ حالت فلسفہ نے پیدا کر دی ہے؟ ہر گز نہیں.بلکہ سچ یہ ہے کہ فلسفہ خود اسی حالت سے پیدا ہوا ہے.اصل بات یہی ہے کہ قومی حالات قومی ترقی یا تنزل پر اثر ڈالتے ہیں اور یہ حالت افراد کے بعض معمولی افعال سے شروع ہوتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ وہ قومی عادت ہو جاتی ہے اور پھر اس کا اثر قوم کی ترقی یا تنزل پر ہوتا ہے.عام لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے بلکہ ان باتوں کو حقیر سمجھتے ہیں لیکن علم النفس (سائیکالوجی) نے اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ چھوٹی سی بات کس طرح پر بڑی بن جاتی ہے اور اس کے اثرات قوم کے عروج و زوال پر کس طرح پڑتے ہیں یہ بات صاف سمجھ میں آجاتی ہے.میں نے ایک زمانہ میں دیکھا ہے کہ اسلام کے بعض احکام کو کس طرح نظر انداز کیا جاتا ہے؟ اس کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے کہ فلاں بات کا اسلام سے کیا تعلق؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک شخص آپ کے سلسلہ میں داخل ہوا.کسی نے کہا کہ ڈاڑہی منڈی ہوئی ہے.حضرت نے فرمایا کہ جب اس نے میری بیعت کی ہے.تو جب مجھ کو دیکھتا ہے کہ میں نے ڈاڑہی رکھی ہوئی ہے.تو وہ بھی رکھ لے گا مگر اس کے ساتھ ہی دوسرے موقعہ پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ اخلاق پر کتاب لکھوں پھر جو شخص اس کے مطابق عمل نہ کرے.اس کو خارج کر دوں.یہ کیوں؟ اس لئے کہ قوم افراد کا مجموعہ ہوتی ہے.اگر افراد کے اخلاق اور عادات درست نہ ہوں تو قومی کریکٹر نہیں بنے گا.اور جب تک قومی کریکٹر درست نہ ہو قوم ترقی نہیں کر سکتی.
489 میں یقیناً جانتا ہوں.اور قوموں کی ترقی اور تنزل کے اسباب و وجوہات پر غور کر کے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر ہم اپنا قومی کریکٹر نہ بنادیں گے.تو ہماری ترقی نہ ہوگی.اور ہماری مثال ایسی ہو گی جیسے آگ کے ذریعہ سے ایک جوش اور ابال پیدا ہوتا ہے اور جب آگ بجھ جاتی ہے.تو وہ جوش بھی ٹھنڈا ہو جاتا ہے.رفتہ رفتہ اس پانی کی حرارت بھی دور ہو کر وہ سرد کا سرد رہ جاتا ہے.قومی زندگی کے لئے ایسی آگ کی ضرورت ہے.جو باہر سے نہیں بلکہ اندر سے پیدا ہو اور وہ با کٹر کی طرح کام کرتی رہے.تب قوموں کی زندگی قائم رہتی ہے.پس جب تک ہمارے اندر ایسی حرارت اور آگ پیدا نہ ہو.ہم زندہ قوم بننے کی توقع نہیں کر سکتے.ایک اور بات قابل غور ہے.اور وہ یہ ہے کہ نقطہ نگاہ کے بدلنے سے ایک چیز کی صورت بدل جاتی ہے.شکل بنانے والی چیز وہ نقطہ نگاہ ہے.مثلاً ماں باپ کا احسان ہے.ایک نقطہ نگاہ کی وجہ سے احسان کا اعتراف کیا جاتا ہے.اور وہ یہ ہے کہ وہ ہمارے وجود کا باعث ہوئے اور انہوں نے خبر گیری کی اور ہمارے لئے تکلیفیں اٹھائیں یہ ان کا احسان ہے.اور ان کی عزت و احترام کرنا چاہیئے لیکن ایک شخص اس نقطہ نگاہ کو بدل لیتا ہے اور اس کام کو اور واقعات کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ کہتا ہے کہ ان کی غرض کیا تھی؟ ایسے لوگ دنیا میں موجود ہیں.جو یہ کہتے ہیں کہ ماں باپ کا کیا احسان ہے؟ انہوں نے جو کچھ کیا اپنی شہوانی اغراض کے لئے کیا.اب غور کرو کہ ایک نقطہ نگاہ کے بدلنے سے کیا صورت تبدیل ہو گئی.غرض نقطہ نگاہ بدلنے سے شکل بدل جاتی ہے.یہی حال مذہب کی تعلیمات اور احکام کا ہے.ایک نقطہ نگاہ سے ایک فعل مذہب کا جزو اور ضروری جزو معلوم ہوتا ہے.لیکن اگر اسے بدل دیا جاوے تو غیر ضروری ہو جاتا ہے.پس نقطہ نگاہ کو کبھی ہاتھ سے نہ دو.مجھے اس نقطہ نگاہ پر ایک کہانی یاد آگئی ایک شخص تھا جو بڑا بہادر بنا ہوا تھا.وہ ایک گودنے والے کے پاس گیا.اور اسے کہا کہ میری پیٹھ پر شیر کی تصویر گود دو اس نے جب شیر کی دم بنانی چاہی تو اسے تکلیف ہونے لگی.اس سے پوچھا کہ کیا بناتا ہے.اس نے کہا دم.اس پر اس نے سوال کیا کہ کیا بغیر دم کے شیر نہیں ہوتا.اس نے کہا کہ کیوں نہیں.تو کہا اچھا دم رہنے دو.اسی طرح ہر عضو پر وہ کہہ دیتا اور اسے چھوڑوا دیتا رہا.آخر کچھ بھی نہ بنا.یہ سب کچھ ایک نقطہ نگاہ کی نذر ہو گیا.وہ نقطہ کیا تھا؟ کہ وردنہ ہو جس کو وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ شیر نہ بن سکا.بعینہ یہی حالت مذہب کی ہے.انسان سمجھ لیتا ہے کہ اس چیز کے بغیر کیا مذہب باقی نہیں رہتا؟ یہ بہت معمولی اور چھوٹی سی بات ہے.جیسے بعض بے باک کہہ دیتے ہیں کہ کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا.
490 ہ سمجھتا ہے کہ ایک چلو ہے اور ایک چلو میں ایمان نہیں بہہ جائے گا.مگر وہ اتنا نہیں سوچتا کہ یہ ایک چلو نہیں رہے گا.بلکہ بہت بڑھ جائے گا کیونکہ انسان ایک مقام پر نہیں ٹھہر جائے گا.یہ خیال بالکل غلط اور ہلاک کرنے والا خیال ہے.کہ مذہب کے کسی چھوٹے سے چھوٹے حکم کو بھی غیر ضروری سمجھ لیا جائے.انسان کی صحت کا سوال لو اگر اس کے متعلق یہ سمجھ لیا جائے کہ اس چھوٹی سی بد پرہیزی اور حفظ صحت کے قانون سے بے پرواہی کا کوئی یہ نتیجہ تو نہیں ہو گا کہ ہلاک ہو جاؤں گا.اس لئے اس کی پرواہ نہ کرو اس طرح پر وہ تھوڑی ہی علالت نہ رہے گی.بلکہ رفتہ رفتہ اپنی صحت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا.اس کا باعث وہی ابتدائی بے پرواہی ہو گی.یہی حال روحانیت اور مذہب کا ہے.ابتدا انسان چھوٹی چھوٹی باتوں کو غیر ضروری سمجھتا ہے.اور یقین کر لیتا ہے کہ یہ معمولی بات ہے.اس کا مذہب کے اصولوں سے کوئی تعلق نہیں.مگر وہ اس پر نہیں رہتا.اور آخر مذہب سے دست بردار ہو جاتا ہے.اور خود اس کی اس حالت کا اثر قومی ترقی پر پڑتا ہے.میں نے یہاں انگلستان میں دیکھا ہے کہ قد بڑے ہوتے ہیں.خصوصاً عورتوں کے قد بڑے قابل رشک ہیں.ہزاروں ہزار عورتیں بیعت کرنے کے لئے آئی ہیں.مگر ان میں ایسی قد آور نہیں تھیں.یہاں جو اتنے بڑے قد ہو گئے ہیں.یہ کسی دوائی کا نتیجہ نہیں ہیں.بلکہ یہ حفظان صحت کے اصول کی پابندی کا یا ان کے کاموں کا نتیجہ ہے.آدمی کے قد کا تو کیا ذکر ہے.یہاں سبزیوں کے قد برما لئے گئے ہیں.شلجم اور کدو اتنے بڑے بڑے ہوتے ہیں کہ بعض تو ایک ایک فٹ قطر کے ہوتے ہیں.میں نے انگلستان اور امریکہ کی زراعت پر کتابیں پڑھی ہیں.ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی طرح یہ ڈویلپمنٹ کر کے چھوٹی چیزوں کو بڑی بنا لیتے ہیں.یہ مشاہدات اور تجربے ہم کو کیا بتاتے ہیں؟ یہی کہ چھوٹی چیزیں بڑی بن جاتی ہیں یہی قانون قومی اخلاق کے متعلق ہے.اور چھوٹی چیزوں سے بڑے نتائج یقیناً نکلتے ہیں.پس اگر قوم زندہ رہنا چاہتی ہے تو اس کا پہلا کام یہ ہے کہ اس کا قومی کریکٹر اعلیٰ اور مضبوط نفسی اخلاق پوشیدہ ہوتے ہیں.اور وہ نظر نہیں آتے.مگر قومی کریکٹر کا عام مشاہدہ ہوتا ہے.اس قومی کریکٹر میں بعض عادات ہوتی ہیں.بعض لباس کی صورتیں ہوتی ہیں.پھر یہ عادتیں اور لباس بطور گر کے ہو جاتا ہے.مثلاً اس ملک کا یہ قومی کریکٹر ہے کہ کوئی کام ہو اس میں ترتیب کو ہاتھ سے نہ دیں گے.ہر موقعہ پر اس کو مد نظر رکھیں گے.سٹیشن پر جائیں یا کسی دوسری جگہ وہ دھکا دے کر آگے نہ بڑھیں گے.بلکہ جیسے جیسے آتے ہیں اپنی جگہ پر کھڑے رہیں گے.کیسی ہی ضرورت ہو.
491 ہو عجلت ہو مگر اپنی ترتیب کو ہاتھ سے نہ دیں گے.اس ترتیب کا نتیجہ کیا ہے؟ تمام کام عمدگی سے ہو جاتے ہیں.اور کسی کو کوئی تکلیف اور گھبراہٹ نہیں ہوتی.یہی حال حکومت کا ہے.لبرل اور کنسرویٹو اپنے پولٹیکل ویوز کے لحاظ سے ایک دود سرے کے سخت مخالف ہیں.لیکن جب ایک پارٹی بر سرکار ہو جاتی ہے.تو دوسری اس کی اخلاقی مدد کرتی ہے اپنے مخالف فریق کی وجہ سے حکومت کو توڑنے یا ملکی قانون کے احترام کو کم کرنے کی کوشش نہیں کرتی بلکہ مل کر کام کرتے ہیں.ہمارے ملک کا یہ حال نہیں ہے.میں خود اپنے انتظام میں دیکھتا ہوں کہ جب نیا افسر کسی صیغہ کا آتا ہے اور میں رپورٹ طلب کرتا ہوں تو وہ نئی سکیم بنانے میں مصروف ہو جاتا ہے.اور اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ پہلے نے جو کام کیا تھا وہ درست نہیں تھا.یہ طریق کامیابی کا نہیں ہے.بلکہ جہالت ہے.اس سے قومی کریکٹر قائم نہیں ہوتا.کسی کام کے جاری رکھنے میں فائدہ ہوتا ہے.اگر اس میں خرابی بھی ہو تو اس حصہ کی اصلاح ہو سکتی ہے.لیکن روز نئی سکیم بنانے سے کام نہیں چلتا.سکیم محض کامیاب نہیں بنایا کرتی.اس انگریزی قوم کا قومی کریکٹر اس پہلو میں یہ ہے کہ وہ مخالف ہونے کے باوجود بھی اس کام کو جاری رکھیں گے.مگر جب تک پورا تجربہ نہ ہوئے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کس قسم کی عادتیں قومی کریکٹر ہو جاتی ہیں.اور یہی چیزیں بطور جڑ کے ہوتی ہیں.یہ بھی سچ ہے کہ ایک نسل قومی کریکٹر نہیں بنا سکتی.مگر وہ بنیاد رکھ سکتی ہے.پھر دوسری نسل اس پر ترقی کرے گی اور اسی طرح آخر ایک وقت آجائے گا کہ وہ دوسری قوموں کو اپنے اندر اس قومی کریکٹر کی طاقت سے جذب کرنے لگے گی.اور اگر اس کی پرواہ نہ کی جائے.تو رفتہ رفتہ خود دوسروں میں جذب ہو کر اپنی حقیقت اور اصلیت کو کھو دے گی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی بعض لوگ مرتد ہوئے.مگر رفتہ رفتہ یہ سلسلہ بند ہو گیا.کیونکہ قومی کریکٹر پیدا ہو گیا تھا.جس قدر جھوٹے مدعیان نبوت شروع اسلام میں ہوئے.اس کے بعد نہیں ہوئے پانچ سو سال تک ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے.جنہوں نے یہ بھی کہا کہ قرآن کریم منسوخ ہو گیا.جیسے حسن بن صباح وغیرہ ان کے جھوٹے دعوؤں کو بعض نے قبول کر لیا.اس لئے کہ ابھی قومی کریکٹر کی کمی تھی.لیکن جب قومی کریکٹر قائم ہو گیا.تو پھر ایسے مدعی بھی مٹ گئے.اس کی یہ وجہ نہیں کہ اخلاص ترقی کر گیا.بلکہ اس کی وجہ محض قومی کریکٹر ہے.آج یورپ میں اگر دیکھا جاوے.تو ۸۰ فیصدی لوگ عیسائیت سے بیزار ہیں.اور اسے ناپسند
492 کرتے ہیں مگر وہ اسے چھوڑ نہیں سکتے.اس لئے کہ ان کا قومی کریکٹران کو الگ نہیں ہونے دیتا.وہ کریکٹران کو دوسری جگہ نہیں ملتا.اور اس لئے باوجود عیسائیت کے عقائد کو غلط تسلیم کرنے کے بھی وہ اس سے الگ نہیں ہوتے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قومی کریکٹر کس قدر زبردست چیز ہے.بس یاد رکھو کہ یہ ظاہر کی باتیں ایک دیوار ہوتی ہیں.جن کو کوئی توڑ نہیں سکتا.لیکن عقائد اندر کی باتیں ہیں.اس لئے قومی کریکٹر کو مضبوطی سے پکڑ لو اور اسے قائم رکھو.اگر ہم رندی لفاظی سے کام لیں.اور قومی کریکٹر کی حفاظت نہ کریں.تو ہماری مثال اس شیر گدوانے والے بہادر کی ہوگی.میں دیکھتا ہوں کہ یہ ہمارے ملک کے لوگ اس ملک میں آکر لباس تبدیل کر لیتے ہیں ان کو اگر کہا جائے کہ تم ایمان سے کہو کہ کیا یہ زیادہ آرام دہ اور اچھا ہے؟ تو کہیں گے کہ ہر گز نہیں پھر کیوں پہنتے ہو.تو یہی جواب ہوتا ہے کہ لوگ ہمارے لباس پر ہنستے ہیں.میں کہتا ہوں کہ یہ انسی تمہاری بزدلی کا نتیجہ ہے کہ تم اپنی چیز کی حفاظت نہیں کر سکتے.اگر تم مضبوطی سے اپنے لباس کو نہ چھوڑتے اور اس ہنسی کی پرواہ نہ کرتے تو تھوڑے دنوں کے بعد بننے والے تمہاری اخلاقی قوت اور قومی محبت کے قائل ہو جاتے مگر تم نے خود اپنے عمل سے بتا دیا کہ تمہارے اندر قومی دل نہیں بلکہ ایک ڈرپوک دل ہے.یاد رکھو جس قوم کے اندر ایسے افراد نہیں کہ اپنی چیز کی حفاظت کریں.وہ اپنے ملک مذہب اور عزت کو کیا بچائیں گے؟ وہ غلام ہیں اور غلامی ان میں داخل ہو چکی ہے.روح آزاد چیز ہے اس پر کوئی قبضہ نہیں کر سکتا جسم پر قبضہ ہو سکتا ہے.لیکن جس کی روح پر قبضہ ہو.وہ غلامی کی بدترین مثال ہے.اور ایسا شخص اپنے جسم کو کیا بچائے گا.جب تک ہم یہ یقین نہ کرلیں کہ ہم اپنی ذات میں اچھے ہیں.اور ہمارے اندر خود اعتمادی کی قوت پیدا نہ ہو.ہم یہ آزاد روح اپنے اندر نہیں رکھ سکتے.مجھ سے بعض انگریزوں نے پوچھا ہے کہ کیا ہندوستانی حکومت کے قابل ہیں.تو میں نے ان کو جواب دیا کہ اگر آپ کا یہ مطلب ہے کہ کیا ہندوستانی انگریزوں پر حکومت کے قابل ہیں.تو میرا جواب یہ ہے کہ نہیں اور اگر یہ مطلب ہے ہے کہ وہ ہندوستانیوں پر حکومت کر سکتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ وہ ہندوستانیوں پر حکومت کی قابلیت رکھتے ہیں.انگریزوں اور فرانسیسیوں پر بے شک حکومت نہیں کر سکتے.یہ جواب میں انگریزوں کو دیتا ہوں دوسروں کے سوال پر اس کا اور جواب ہے.میرا مطلب اس جواب سے یہ ہے کہ جیسے حاکم ہوں ویسی رعایا ہو گی.قابلیت کا سوال ہو تو ہم میں حکومت کی قابلیت ہے.اس لئے کہ ہم نے ان لوگوں پر حکومت کرنی ہے.جو ہم میں
سے ہی ہیں.493 سلف گورنمنٹ کے متعلق میں تو کہتا ہوں کہ غیروں کو آتا ہی نہیں چاہیئے تھا.ہر ملک کو اپنے لوگوں پر آپ حکومت کرنی چاہیئے اور وہ کر سکتا ہے لیکن جس بات سے ہم کو اختلاف ہے.وہ یہ ہے کہ اب ہم میں (ہندوستانیوں) قومی تعصبات ایسے پیدا ہو گئے ہیں کہ ہم امن کو نہیں قائم کر سکتے انگریز نہ آئے ہوتے تو میں کہتا ہوں کہ آپس میں لڑتے رہے مگر اپنی حکومت رکھتے لیکن اب حالت بدل گئی ہے.ہم حکومت کرنے کے عادی نہیں رہے.اور امن کی زیادہ ضرورت ہے.حکومت ایک ایسی شے ہے کہ اس کے ساتھ احساس بھی پیدا ہو جاتا ہے.اور پھر باہمی تعصبات بھی کم ہو جاتے ہیں.دیکھو سرحد پر دوسروں کو تو قتل کر دیتے ہیں.مگر اپنے بھائیوں کو نہیں کریں گے.مثلاً اگر کوئی لکھنو کا آدمی مل جاوے تو اس کو قتل کرنے میں دلیر ہوں گے.جانتے ہیں کہ اس کے بھائی بندوں اور رشتہ داروں میں سے کوئی انتقام لینے نہیں آگئے.مگر اپنے ملکی آدمیوں کے متعلق یہ و ہم ان کو نہیں ہو سکتا.غرض حکومت کے ساتھ ایک ایسا انما سفیر (ATMOSPHERE) پیدا ہو جاتا ہے کہ حالات بدل جاتے ہیں.غرض جب تک قومی کریکٹر قائم نہ ہو کامیابی نہیں ہوتی.میں نہایت افسوس سے کہتا ہوں کہ ہمارے طالب علم یہاں آکر ایسا نمونہ دکھاتے ہیں کہ ہم یقینا امید نہیں کرتے کہ وہ کوئی نتیجہ پیدا کریں جو اپنے چہرہ اور سر پر اس بات کا بورڈ لگائے ہوتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود بچے نہیں اور جس کا ہر لقمہ اس کی شہادت نہیں دیتا.وہ کس دیانت داری سے کہہ سکتا ہے کہ مسلمان ہو جاؤ.یہ محض جوش اور شہوات نہیں.جو نظر نہیں آتے بلکہ ایک ایسی کھلی چیز ہے.جو سب کو نظر آتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا کہ دجال کے ماتھے پر کافر لکھا ہوا ہو گا.اس کا یہی مطلب ہے کہ اس کے سائین بورڈ سے فوراً اس کی شناخت ہو جائے گی.کیا عیسائیوں کے متعلق کوئی دھوکا کھا سکتا ہے.ان کا قومی لباس ان کو الگ کر دیتا ہے.ہندوستان میں یہ لوگ جاتے ہیں.وہاں کی گرمی میں تڑپتے ہیں.مگر کسی نے دیکھا ہے کہ انہوں نے اپنے قومی لباس کو بدل دیا ہو.اندر سوتے ہیں تکلیف ہوتی ہے.مگر اس لباس کو نہیں چھوڑتے کیوں؟ اس لباس کو قومی کریکٹر سمجھتے ہیں.بہت سے لوگوں سے میں نے بات چیت کی ہے.وہ کہہ دیتے ہیں.جیسا دیس ویسا بھیس یعنی جس ملک میں جائیں.وہاں کا لباس اختیار کر لینا چاہیئے.مگر یہ اصول ان کے لئے ہی ہے.یا دوسروں کے لئے بھی.کیا انگریز دوسرے ممالک میں جا کر اپنا
494 لباس چھوڑ دیتے ہیں؟ جیٹھ ہاڑ کی گرمیوں میں میں نے ان کو ایسے ہی کپڑے پہنے ہوئے دیکھا ہے گرمی ستاتی ہے مگر اس کو نہیں چھوڑتے بلکہ اس کا نتیجہ ہوتا ہے جو بعض اوقات بدحواس ہو کر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں.اور سٹیشنوں پر دیوانہ وار لڑنے لگتے ہیں.تھوڑے دن ہوئے مجھ سے ایک شخص نے پوچھا کہ ڈاڑھی اور اسلام کا کیا تعلق ہے میں نے جب کہا کہ کچھ نہیں تو بہت خوش ہوا.مگر میں نے اس کو کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بڑا تعلق ہے.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لئے اسوہ جینہ ہے.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر ڈاڑھی تھی.یہاں کی عورتیں جب مردوں سے کہہ دیتی ہیں کہ لباس کا یہ فیشن ہے تو اس کا جواب ہوتا ہے کہ اتنے پونڈ لے کر بنا لو مگر.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حکم دیتے ہیں تو پھر ہم کیوں نہ مائیں.اگر ڈاڑھی رکھنے میں تکلیف بھی ہو تو کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تم اتنی بھی تکلیف برداشت نہیں کر سکتے یہ سب باتیں ہیں.اور دراصل بات وہی ہے کہ تمہارے اندر ایک ہو بزدلی ہے.ایک غلامی کی روح ہے.جو تم کو ان کے قومی کریکٹر کے آگے جھکا دیتی ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈاڑھی رکھنے کے راز کو بتا دیا تھا.اور وہ قومی کریکٹرہی تھا.آپ نے فرمایا کہ ایرانی ڈاڑھی منڈواتے ہیں.تم ڈاڑھیاں رکھو.۲۰ کہ تم میں اور ان میں ایک امتیاز نظر آ جاوے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اس امر کا بڑا خیال تھا کہ میری جماعت ممتاز نظر آئے.ایک دفعہ قریباً چھ ماہ تک اس سوال پر بحث رہی کہ ایک خاص قسم کا لباس یا پگڑیاں ہوں یہ کس لئے صرف اس ایک امر کے لئے کہ ہمارا بھی کوئی قومی کریکٹر ہو اب ہر شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ کیا دین ہے؟ دین تو نہیں مگر کیا کوئی مغزیدوں چھلکے کے رہ سکتا ہے.کوئی مذہب قوم کے بغیر نہیں رہ سکتا.اور کوئی قوم قومی کریکٹر کے بغیر نہیں رہ سکتی یہی ایک چیز ہے.جس کے ذریعہ وہ دوسروں سے ممتاز ہوتی ہے اور یہی چیز ہے جو اسے محفوظ رکھتی ہے.یہ ایک ایسا بورڈ ہے جو اس کی قومی حیثیت اور امتیاز کی حفاظت کرتا ہے.پس جب تک ہم اپنے قومی کریکٹر کا لحاظ نہیں رکھیں گے.زندہ رہنے کے قابل نہیں.یاد رکھو یہ غلامی کی روح ہے.جو دوسروں سے ڈر کر قومی کریکٹر کو چھڑوا دیتی ہے.تو اب سوال ہو سکتا ہے کہ کیا کوئی بات بھی ان کی نہیں لینی چاہیئے.مگر بعض باتیں انسان
495 قبول کر لیتا ہے.گو ان کا قومی کریکٹر سے تعلق نہیں ہوتا.وہ علم و فن کی باتیں ہیں.اور ان کو لے لینا نہ صرف درست بلکه ضروری ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے.کلمة الحكمة ضالة المؤمن ۳۰ حکمت مومن ہی کی گم شدہ چیز ہوتی ہے وہ ہم اپنی ہی چیز لیتے ہیں.پس میں یہ نہیں کہتا کہ دوسری قوموں سے کچھ بھی نہ لو.نہیں بلکہ جو چیز تم ان میں علم و حکمت کی دیکھو اسے اپنی ہی چیز سمجھ کر لے لو.اور دیکھ لو کہ اس کا کوئی تعلق شعار مذہبی اور قومی کریکٹر سے تو نہیں ہے.ایک ڈاکٹر کہتا ہے کہ تم بارہ بجے تک لیٹے رہو.اور آرام کر لو.تو تم کبھی نہیں کہتے کہ ساڑھے گیارہ تک کیوں نہ لیٹیں.یا وہ ایک دوائی کے سات قطرے کہتا ہے تو کبھی نہیں کہتے کہ پانچ کیوں نہیں.یہ تفاصیل ہیں.جن کو تجربہ بتاتا ہے کہ اس قدر تعداد ضروری ہے.اسی طرح قومی کریکٹر کے ساتھ دلیل کا تعلق نہیں ہو تا گو وہ بے دلیل نہیں ہوتا) بلکہ اس کو قومی شعار سمجھ کر اور ایک تجربہ کار معلم اور ہادی کے عمل اور حکم کے ماتحت دیکھ کر اختیار کرنا ہوتا ہے.غرض یہ بات نہایت افسوس ناک ہے کہ وہ لوگ جو یہ عوئی کرتے ہیں کہ ہم نے دنیا کو فتح کرنا ہے.جب یہاں آتے ہیں.تو شہر میں داخل ہونے سے پہلے ہی مفتوح ہو جاتے ہیں.ایک لڑکا یہاں میڈیکل تعلیم کے لئے آیا میرے ساتھ اس کو بڑی محبت تھی خواجہ صاحب کی ایک تصویر اس نے دیکھی.جس میں ان کی ڈاڑھی چھوٹی تھی.اس کو بہت ہی ناگوار گذرا اور کہا کہ میں وہاں جا کر دکھا دوں گا.میں نے اس کو منع کیا کہ ایسے دعوئی نہ کرو.لیکن جب وہ آیا تو اس نے پورٹ سعید ہی میں اپنی ڈاڑھی منوالی.جب قومی حالت یہ ہو کہ تم دوسروں کے ایسے غلام بن جاؤ جیسے ایک کتا میم کے پیچھے چلتا ہے.تو پھر تم نے دنیا کو کیا فتح کرتا ہے.میں اپنے نفس میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ دوسروں کے اتنے غلام ہیں.ان کا آزادی کا دعوئی ایک خیالی دعوئی ہے.مگر میں اپنی ذات پر اس قدر اعتماد رکھتا ہوں.اور میرے دل میں ہے کہ اگر آدھا ہندوستان بھی اپنے قومی کریکٹر کو مضبوطی سے پکڑے تو ایک دن میں آزاد ہو سکتے ہیں.ایک نے مجھ سے سوال کیا کہ گاندھی ناکام ہوا.میں نے کہا کہ مجھے تین لاکھ آدمی دو میں خون کا ایک قطرہ بھی گرانے کے بغیر ہندوستان کو آزاد کرا دیتا ہوں.اور میں عدم تعاون نہیں کراؤں گا.بلکہ تعاون کراؤں گا.اگر پچاس ہزار ایسے آدمی ہوں.جو ملک کے لئے نوکریاں کریں.اور ان کا مقصد یہ ہو کہ ہم نے ملک کی خدمت کرنی ہے.تب وہ جھوٹی رپورٹیں نہ کریں گے.اور ان کی صحیح رپورٹوں کا ایسا اثر ہو گا کہ حکومت کا معاملہ ہمارے ساتھ سیدھا ہو گا.اور حکومت ہماری ہو جائے
496 گی.میں سچ کہتا ہوں کہ انگریز ہم پر ہمارے اپنے لوگوں سے حکومت کرتے ہیں.تحصیلدار اور پولیس والے ہمارے ہی بھائی ہیں.وہ روپیہ کے لئے نوکری کرتے ہیں.جب ملک کی خدمت کے جذبہ سے نوکری کریں گے.تو حکومت غلط راستہ پر نہیں جائے گی.ایسے لوگ جو ملک کی خدمت کے لئے نوکری اور تعاون کریں گے.اگر ایک دو ان میں سے نکالے بھی جائیں تو سب کو نہیں نکالا جا سکتا.غرض آزادی دنیا میں دماغی آزادی ہے.اگر دماغی آزادی نہیں تو پھر بد ترین غلامی ہے ہم عقل سے انصاف اور دیانت سے تعاون کرتے ہیں.اور بہترین چیز کو لینا اپنا حق سمجھتے ہیں.مگر ہماری جماعت کے لئے یہ شرم کی بات ہو گی کہ ہم محض اس خیال سے کہ دوسرے ہمارے لباس پر ہنتے ہیں.اپنا قومی لباس چھوڑ دیں.ان چھوٹی باتوں سے جن کی بظاہر عقلی حقیقت کچھ نہ ہو.بڑے بڑے نتائج پیدا ہوتے ہیں.ایک شخص جب چرہ اور سر کو دیکھے گا کہ اس پر اسلامی نشان نہیں.تو وہ اسی نتیجہ میں حق پر ہو گا کہ اس کو اسلام سے تعلق نہیں.میں سمجھتا ہوں کہ جو شخص صدق دل سے سمجھتا ہے کہ میرا مذہب سچا ہے.تو وہ اپنے عمل میں بھی ثابت کرے گا.خواہ وہ عمل کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہوں.ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ ڈاڑہی رکھنے میں کیا فائدہ ہے.یا ہیٹ پہنے میں کیا حرج ہے؟ میں اس کے فوائد بھی بتا سکتا ہوں.مگر میں کہتا ہوں کہ سوال دوسری طرح اس پر بھی تو ہوتا ہے.کہ نہ رکھنے میں کیا فائدہ ہے اور ٹوپی نہ پہننے میں کیا نقصان ہے.ان باتوں کو صحیح نقطہ نگاہ سے دیکھو اور وہ ہمارا قومی کریکٹر ہے.پس قومی کریکٹر کو قائم رکھو تا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ کتے کی طرح پیچھے چلتے ہو.اس کو خوب یاد رکھو کہ نقل علم میں ہوتی ہے کریکٹر میں نہیں ہوتی.اور وہ نقل جو علم میں ہوتی ہے.غلامی نہیں ہوتی.بلکہ اس کا نام اڈا پٹیشن ہوتا ہے اور یہ ایڈا پٹیشن تدریجی ہوتا ہے.غلامی کا نتیجہ نہیں ہو تا بلکہ واقعات کے باریک اثر کے ماتحت ہوتا ہے.اسلام تم کو ہر قسم کی غلامی اور بدترین غلامی جو دماغی غلامی ہوتی ہے.اس سے نجات دیتا ہے.اگر تم اپنے قومی کریکٹر کو مضبوط رکھو تو تم دنیا کو نہ صرف فتح کر سکتے ہو.بلکہ اوروں کو اس غلامی سے نجات دلا سکتے ہو.میں نہایت افسوس اور تکلیف سے کہتا ہوں کہ یہاں آنے والوں نے مبلغ سے لے کر نیچے تک یہ غلطی کی ہے کہ عورتوں سے مصافحہ کرتے رہے ہیں.حالانکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصافحہ نہیں
497 کیا.۴۰ پھر کیا تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر ہو.میں جب اس کا خیال کرتا ہوں.تو مجھے تکلیف ہوتی ہے.سوال لا کا ہے آیا یہ جائز ہے.یا نہیں.میں جانتا ہوں.ایسے لوگ ہو سکتے ہیں.جو مبادی کے انتہائی نقطہ تک پہنچ جائیں.اور ان پر اثر نہ ہو.بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ ایسے لوگ ہو سکتے ہیں.جو اس سے بھی آگے ہوں کہ وہ ایک جگہ لیٹے ہوئے ہوں اور پھر بھی پاک ہوں.بلکہ اس سے آگے جا کر بھی ان کے قلب متاثر نہ ہوں.یہ ممکن ہے لیکن ان کی مثال دوسروں کے لئے نہیں ہو سکتی.ہم قانون کو دیکھیں گے کہ وہ کیا حکم دیتا ہے.شریعت کمزوروں کا خیال رکھتی ہے.اور وہ عام قانون دیتی ہے.اگر ایسا ہو تا تو ممکن تھا دست بکار و دل به یار کے ماتحت نماز روزہ ترک کر دیا جاتا اور ایسے لوگ ہو سکتے تھے کہ فی الحقیقت دنیا کی کوئی مصروفیت ان کو اپنے موٹی سے الگ نہ کر سکتی مگر یہ نماز روزہ اور ظاہری احکام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی ساقط نہیں ہوئے.اس لئے کہ ایک قانون عمومی تھا.حضرت ابو بکڑ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی فضیلت نمازوں سے نہیں ۵۰ اور ہم نے تو یہ تجربہ کیا ہے کہ بعض وقت ایک مرتبہ کی تسبیح ۱۵ سال کی عبادت سے بڑھ جاتی ہے مگر ایسی تسبیح والے کو بھی نماز چھوڑنے کی اجازت نہ ہو گی.ورنہ دوسرے بھی چھوڑ دیں گے پس یاد رکھو اور خوب یاد رکھو کہ یہ احکام بظاہر چھوٹے ہوں.مگر ان کے اثرات بہت بڑے ہوتے ہیں.مصافحہ کیا چیز ہے؟ میں نے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے اس سے بھی بڑھ کر مبادی ہوں.مگر قلبی اثر نہ ہو.جس کے روکنے کا حکم دیا ہے.مگر مصافحہ سے کیوں منع کیا؟ اس لئے کہ دوسروں کے لئے ٹھوکر کا موجب نہ ہو.اعمال صرف کولے ہوتے ہیں.حقیقت ان کے اندر نہیں ہوتی.یہ خود روحانی پاکیزگی نہیں.مگر اس کا اثر روحانی پاکیزگی پر ہوتا ہے.میں مانتا ہوں کہ بعض ارواح ان حالات سے متاثر نہیں ہوتی ہیں.مگر یہ قانون نہیں ہو سکتا اور اس لئے باوجود متاثر نہ ہونے کے بھی قانون کی پابندی سے مستثنیٰ نہیں کی جا سکتیں کوئی کہہ سکتا ہے کہ نیک آدمی مصافحہ کر کے بھی نیک رہ سکتے ہیں.اور ان کی روحانی حالت پر کوئی برا اثر نہیں پڑتا.میں نے تو اس سے بھی بڑھ کر کہا ہے کہ اگر ہر شخص ایسا نہیں ہو سکتا.اور نہ ایسے لوگوں کا بھی قانون شریعت نے کوئی استثنا کیا ہے.اسی طرح قرآن مجید کے دوسرے احکام میں مثلاً جس ذبیح پر خدا کا نام نہ لیا جائے.وہ کھانا نہیں چاہیئے.مگر لوگ اس کی پرواہ نہیں کرتے.اس معاملہ میں مبلغوں نے اور دوسروں نے بھی غلطی کھائی ہے.ایسی باتوں سے دین کی تحقیر ہو جاتی ہے.ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے طرز عمل سے یہ ثابت کر دیں کہ قومی طور پر ہم ایک چٹان ہیں
498 کوئی چیز ہم کو جنبش نہیں دے سکتی.میرا یہ مطلب نہیں کہ انفرادی طور پر اجازت دے رہا ہوں.ہر گز نہیں قوم افراد کا مجموعہ ہوتی ہے اور افراد کے افعال و اعمال آخر قومی اعمال بن جاتے ہیں.دنیا میں دو قسم کی چیزیں ہیں.ایک ڈیپ (عمیق) جاتی ہیں.افراد کے گناہ اس قسم میں داخل ہیں.ان کا اثر گہرا ہوتا ہے چوری یا ڈاکہ کچھ شک نہیں.افراد سے تعلق رکھتے ہیں.مگر وہ اتنے گہرے جاتے ہیں کہ بالآخر قوم کو تباہ کر دیتے ہیں.مگر قومی گناہ پھیلاؤ میں زیادہ ہوتے ہیں.ان کا اثر دل پر کم پڑتا ہے.مگر وہ دریا کے پاٹ کی طرح پھیل جاتے ہیں.پھر اس نتیجہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ (جس کے ذریعے سے کوئی گمراہ ہو اس پر بھی اس کا اثر ہوتا ) ۶ اثر بڑھ جاتا ہے.جب تک ہمارے طالب اپنے لباس اپنے چہرہ اور اپنے کھانے پینے کی احتیاط سے ثابت نہ کر دیں کہ وہ احمدی ہیں.اور یہ ان کا قومی کریکٹر ہے.اس وقت تک کچھ فائدہ نہ ہو گا.دیکھو ہندوستان میں ہر جگہ احمدی کو شناخت کر لیتے ہیں.تعلیم یافتہ لوگ اپنے طبقہ کے احمدیوں کو ڈاڑھیاں رکھنے اور نمازوں کی پابندی سے پہچان لیتے ہیں.دوسرے لوگ بھی احمدیوں کے چال چلن اور طرز عمل سے ان کو جھٹ پہچان لیتے ہیں.میں چاہتا ہوں کہ یہاں بھی یہی بات ہو.ابھی تک یہاں یہ بات نہیں کہ احمدی ہندوستانیوں یا دوسروں سے ممتاز ہوں.جب ایسا ہو گا.خود بخود لوگوں کو نہ صرف توجہ ہو گی.بلکہ وہ عزت کریں گے.جب وہ ان کو دیکھیں گے کہ اپنے قومی کریکٹر میں مضبوط ہیں.لوگ کہتے ہیں کہ وہ اس لباس میں ہم پر پہنتے ہیں میں تو کہتا ہوں کہ اگر اینٹ پتھر بھی ماریں تب بھی ان کو اس پر قائم رہنا چاہیئے.جب وہ اس پر قائم رہیں گے تو لوگ خود تسلیم کر لیں گے کہ یہ غلام نہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا کو فتح کر سکتے ہیں.میں نے ان حالات کو دیکھ کر یہ ارادہ کیا ہے.کہ ایک سال تک پرا پیگیشن کروں.اور ایک سال کے بعد اگر کسی کو دیکھوں کہ وہ عمل نہیں کرتا.تو اس کے متعلق اعلان کر دوں کہ وہ ہماری جماعت سے تعلق نہیں رکھتا.میں نے کہا ہے کہ حضرت صاحب نے بھی ایسا ارادہ کیا تھا.جبکہ ایک شخص جس کی ڈاڑھی منڈی ہوئی تھی.آپ کی بیعت میں داخل ہوا اور کسی کے سوال کرنے پر آپ نے فرمایا تھا کہ میری ڈاڑھی دیکھ کر رکھ لے گا.غرض میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ ایک سال تک پرا پیگیشن کروں.چونکہ بعض شائد کمزور ہوں.اور عملی قدم اٹھانے کے لئے ابھی تیار نہ ہوں.میں نے ایک سال کا
499 موقعہ دیا ہے.میں یہاں والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ آنے والوں کے لئے ٹھوکر کا موجب نہ بنیں.بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ یہاں سے جانے والے آنے والوں کو کہتے ہیں کہ اس کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا.میں درخواست کے طور پر کہتا ہوں کہ تم اپنے عمل سے نمونہ دکھاؤ کہ تم ڈرتے نہیں.تم میں ہمت اور جرأت ہے.نہیں کیا مار کی بھی تم پرواہ نہیں کرتے اور پھر اس حالت میں تم لوگوں کو لیڈ کر سکتے ہو.پس ہمت بلند کرو اور اپنے نمونہ سے امتیاز قائم کرو اور آنے والوں کے لئے نمونہ بنو نہ کہ ٹھوکر کا موجب اب تک یہ حالت ہے کہ ایک احمدی اگر مضبوط بھی ہو تو تم کو دیکھ کر کمزور ہو جائے گا.حضرت خلیفہ اول کے صاحبزادہ میاں عبد السلام کو ایک شخص نے کہا کہ میں وہاں جا کر نمونہ دکھاؤں گا مگر اس نے بھی آکر ڈاڑھی مونچھ منڈوا ڈالیں.اس کا گناہ ان پر ہے رہتے تھے.میں نے خوب سوچا ہے.یہ ایک شبہ اور وہم ہے جو لوگوں کے دلوں میں بیٹھا ہوا ہے کہ اس کے بغیر گزارہ نہیں چل سکتا.یہ بزدلی اور کمزوری ہے.اس کو دور کرو اور دماغی غلامی کو چھوڑ کر حقیقی معنوں میں آزاد ہو کر اپنے عمل سے قومی وقار کو قائم کرو.اسے ہمیشہ یاد رکھو کہ چھوٹی چیزیں بڑے بڑے نتائج پیدا کر دیتی ہیں.اللہ تعالی ہم کو سمجھ اور توفیق عنایت کرے.آمین.الفضل ۱۲۸ کتوبر ۱۹۲۴ء) الاحزاب : ۲۲ ۲۰ بخاری کتاب اللباس باب تعلیم الا ظفار و ابو داؤد کتاب الترجل باب فی اخذ الشارب ۳۰ ترندی و ابن ماجه بروایت مشکوۃ کتاب العلم باب في فضيلته نے اہم مسلم کتاب امارة باب کیفیتہ بیتہ النساء ۵۰۰ نزهته المجالس مصنفه شیخ عبد الرحمن الصفوری جلد ۲ ص ۵۳ مسلم کتاب الزكاة باب الحث على صد منه ولو بشق تمرة او كلمته طيبة
500 76 سفر یورپ میں کامیابی اور تکالیف فرموده ۲۶ ستمبر ۱۹۲۴ء بمقام لنڈن) مشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا ہمارے سفر کی جو غرض تھی اور جس مقصد کے لئے یہ سفر اختیار کیا تھا اس اصل غرض کا ایک حصہ خدا کے فضل سے ہو گیا.اور جو ضمنی اغراض تھیں.ان کا وقت بھی ہو چکا.اور کانفرنس میں ہمارا مضمون ہو چکا.مجھے جیسا کہ بعض خوابوں کے ذریعہ معلوم ہوا تھا یورپ میں اسلام کی ترقی میرے آنے کے ساتھ وابستہ تھی.مجھے رڈیا میں دکھایا گیا تھا کہ میں انگلستان کے ساحل پر اتر رہا ہوں.اور میرا نام ولیم دی کانگر (فاتح) ولیم ہے اور بھی بعض خواہیں ہیں جن سے اس کی تائید ہوتی ہے.حضرت صاحب نے جب ٹیچنگ آف اسلام لکھی تھی.اور وہ مضمون وہرم مہوتسو میں پڑہا گیا.اور سب نے اس مضمون کی فضیلت کا اقرار کیا.تو وہ پیشگوئی جو اس کے متعلق تھی پوری ہو گئی.مگر وہ اس وقت ایک وسیع اثر نہ رکھتی تھی گو جلسہ کی کامیابی بڑی چیز تھی.لیکن اب اس کتاب کی قبولیت اور اس کے اثر کی دعوت کو جب دیکھتے ہیں.تو وہ کامیابی کچھ حقیقت ہی نہیں رکھتی.پہلا اثر اور احساس اس کا جماعت پر یہ ہوا کہ وہ ایمان اور یقین میں ترقی کر گئی اور اس میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ اسلام دلائل اور براہین سے دشمنوں کے حملوں سے اپنے آپ کو بچاتا ہے.اور اس کی دائمی تاثیرات ایسی ہیں کہ ہم دوسرے مذاہب کو جیت جاتے ہیں.یہ احساس اصل فتح تھی.جب اس مضمون کے سننے کے بعد ایک آدمی کے دل میں یہ یقین پیدا ہو جائے تو سمجھو کہ ایک شخص نبی کا قائم مقام پیدا ہو گیا.جس کو یہ یقین کامل ہے کہ ہم جیتیں گے.اگر دس کے دل میں ہو تو دس اور سو کے دل میں ہو تو سو جس جس قدر ایسے لوگوں کی جماعت
501 بڑھے گی.اسی قدر اس فتح کا دائرہ بڑھے گا.خدا تعالٰی کی یہ سنت ہے کہ آہستہ آہستہ ترقی ہوتی ہے پس اس وقت جو جلسہ مہوتسو میں کامیابی ہوئی تھی.آج اس کے اثر اور وسعت کی شان کو دیکھتے ہیں.تو اس فتح کا مرتبہ بہت بڑھ جاتا ہے.اسی طرح پر اس جگہ آنے کے جو اغراض ہمارے تھے.ممکن ہے کہ بعض کا جوڑ نظر نہ آئے.اور اگر غور کریں تو آبھی سکتا ہے.لیکن خدا تعالٰی نے جماعت کا نام جس طرح پر بلند کیا ہے.وہ بہت بڑی کامیابی ہے.اور خدا تعالٰی اپنے فضل سے اس کے اثرات اور اس کے دائرہ کو جس رنگ میں چاہے بڑھائے گا اور اس نے آپ بعض ایسے اسباب پیدا کر دیئے کہ انگلستان کی پبلک کو سلسلہ کی طرف خصوصیت سے توجہ ہو گئی.ہمارے آنے کے ساتھ کچھ ایسا سلسلہ شروع ہو گیا کہ لوگوں کے سامنے یہ سلسلہ بار بار آنے لگا.ہمارے آنے کے تھوڑے دنوں بعد ہی نعمت اللہ خان شہید کا واقعہ ہو گیا.اگر ہم قادیان میں ہوتے اور یہ واقعہ ہو جاتا تو انگلستان میں یہ اثر نہ ہوتا اور اگر ہمارے یہاں آنے پر نہ ہوتا تو بھی جس قدر اثر اب ہوا ہے نہ ہو سکتا.پہلے بھی اسی کابل میں دو شہادتیں ہو چکی ہیں.ایک ان میں سے اپنے مرتبہ کے لحاظ سے بہت بڑھ کر تھی.مگر اس شہادت کا یورپ پر کوئی اثر نہیں ہوا.کیونکہ نہ یہاں جماعت تھی.اور نہ سلسلہ کی ابھی یہاں شہرت ہوئی تھی.مگر اب جبکہ میں خود یہاں موجود تھا.اور یہاں کی پبلک سلسلہ کی عظمت سے واقف ہو چکی تھی.نعمت اللہ خان کے واقعہ نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا.غرض ہمارے آنے سے ایک حصہ پورا ہو گیا.ایک شخص نے مجھ کو کہا کہ اگر آپ دس ہزار پونڈ بھی خرچ کر دیتے تو اس قدر کامیابی نہ ہوتی.جیسی کہ اب ہوئی ہے کہ ہر شخص کی زبان پر سلسلہ کا نام ہے.اور لوگ یقین کرتے ہیں کہ احمدی جماعت کوئی معمولی تحریک نہیں.بلکہ وہ ایک عظیم الشان جماعت ہے اور یہ خدا کا فضل ہے.جس طرح پر مجھ کو یہ معلوم ہوا تھا کہ یہ سفر سلسلہ کی ترقی کا موجب ہو گا.مجھے اس کے ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ بعض رنجیدہ امور بھی واقع ہوں گے میں نے اشتہار میں لکھا تھا کہ اگر کسی کو میری حالت کا علم ہو تو اسے رونا آجائے.اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے رویا میں بعض ایسے امور معلوم ہوئے تھے کہ بعض ہموم اور عموم اپنے اندر رکھتے تھے.اس وقت ان کی کیفیت بیان نہ ہو سکتی تھی.مگر اب واقعات نے بتایا کہ اس سفر میں قادیان سے بعض مخلص دوستوں کی وفات کی خبر آئی اور بعض عزیز بھی فوت ہو گئے اور نعمت اللہ خان کی شہادت کا واقعہ ایسا ہے کہ اس کا اثر تمام جماعت سے تعلق رکھتا ہے.
502 انسان جب گھر میں ہوتا ہے.اور اس کے سامنے کوئی واقعہ ہو تو اس کی اور حالت ہوتی ہے.اور جب سفر میں ہو تو اس کا اثر اور رنگ کا ہوتا ہے اور وہ زیادہ گہرا اثر ہوتا ہے.غور کرو کہ وطن سے دور جب ایک کام کرنے والے آدمی کو کوئی غم کی خبر پہنچے.تو اس کی کیا حالت ہو گی.ایک طرف اس کا فرض مجبور کرتا ہے کہ وہ کام کرے دوسری طرف فکر و غم کی ایک کوفت ایسی ہو جاتی ہے کہ کام چھوڑ کر آرام کی ضرورت محسوس ہوتی ہے.لیکن باوجود اس کے کام کرنا پڑے تو کیا حالت ہو گی پہلے ہی کام کی کثرت کی وجہ سے ایک منٹ کی فرصت نہیں ملتی اور اس پر نعمت اللہ خان کی شہادت کی خبر پہنچی.میں جلسہ کا نفرنس کے لئے مضمون لکھ رہا تھا کہ یہ خبر پہنچی.ایک طرف اس مضمون کی تکمیل کا خیال دوسری طرف یہ صدمہ اور پھر سلسلہ کے اغراض کے لئے اس خبر کی عام اشاعت اور اس پر مناسب کارروائی کرنا ایک بہت بڑا کام ہو گیا.پھر اسی سلسلہ میں قادیان میں ہیضہ کے کیس ہو جانا.اور ملیریا کا حملہ اور ہیضہ اور ملیریا سے بعض موتوں کا ہو جانا بہت تکلیف دہ امر تھا.اور یہ سب کچھ اسی طرح ہوا.جس طرح خدا تعالٰی نے رڈیا میں ظاہر کیا تھا.ان اسباب سے بعض ہموم اور عموم پہنچے.ابھی اور بھی بعض امور ہیں وہ خاص باتیں ہیں جن کی طرف میں اشارہ نہیں کرتا.ایسے خوابوں کا اظہار ضروری نہیں ہوتا کیونکہ کبھی ان کی اشاعت خدا تعالٰی کی غیرت کا موجب ہو جاتی ہے.میں یہ کہتا ہوں کہ جو حصے معلوم ہوئے تھے اور ابھی باقی ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے تلا دے.اور ان غموں سے محفوظ رکھے.اس لئے میں اپنے دوستوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ بھی اس کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے ہموم اور غموں سے ہم سب کو محفوظ رکھے.اور خیرو عافیت سے یہ سفر پورا ہو میں نے پہلے بھی ظاہر نہیں کیا کہ کس قسم کے خطرات کا خدشہ ہے.اور اب رویا کے اس حصہ کو بیان کرتا ہوں.کیونکہ یہ صلح کا طریق نہیں کہ اس قسم کے رویا کو ظاہر کریں.میں یہی کہتا ہوں کہ دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے صدمات سے محفوظ رکھے.اکثر لوگوں کے خطوط گھبراہٹ کے آتے ہیں کہ آپ یہاں نہیں ہیں.اور ہم کو بھی بیماری وغیرہ کے حالات سن کر گھبراہٹ ہوتی ہے کہ ایسے موقعہ پر وہاں نہیں ہیں.قدرتی طور پر انسان چاہتا ہے کہ ایسے وقت میں اپنے دوستوں اور عزیزوں میں ہو.بھیرہ ہی کا واقعہ ہے کہ اس کی خبر سے تشویش ہوئی ایسے نازک وقت میں وہاں ہونا ضروری معلوم ہوتا تھا.مگر کسی کو کیا علم تھا کہ کوئی ایسا واقعہ ہو جائے گا.ایک شخص نے مجھے کو اس واقعہ کے بعد خط لکھا کہ اب خلافت کی ضرورت کا علم ہوا
503 ہے.اور اس سے جس پیدا ہو گئی ہے.کہ ساری جماعت کو حصہ لینا چاہیئے پرسوں میر صاحب کی وفات کی خبر آئی.میں کام کر رہا تھا.اس خبر کو پڑھ کر جسم کی یہ حالت تھی کہ وہ کہتا تھا کہ میں کام نہیں کر سکتا.مگر دوسری طرف فرض تھا اور لیکچر دینا تھا وہ مجبور کرتا تھا کہ لکھو.اسی طرح نعمت اللہ خان کی شہادت کی خبر آئی.اور شیخ فضل کریم کی وفات کی خبر وہ بہت ہی مخلص آدمی تھا اور اس سے سلسلہ کو بہت بڑی مالی مدد ملتی تھی.سو روپیہ کے قریب ماہوار دیتا تھا.اور بعض دوستوں کی وفات کی خبریں آئیں.پھر عزیزوں میں بڑے اور چھوٹے بھی ہوتے ہیں مگر ان کی وفات پر صدمہ ہوتا ہے میر محمد اسحاق صاحب کی لڑکی کی وفات ہوئی.اور اب میر صاحب کی وفات کی خبر آئی.اس طرح پر آٹھ دس موتیں ہو چکی ہیں.بھیرہ کا واقعہ ہے.پھر قادیان کے بلوہ کا مقدمہ ہے جس میں بعض معززین سلسلہ کے خلاف بھی کارروائی کی گئی ہے.مالی صدمات الگ ہیں.ان دو مہینوں کے اندر ایسے واقعات جمع ہو گئے ہیں کہ ساری عمر میں یاد نہیں کہ دو مختلف حیثیتوں میں آکر جمع ہوئے ہوں.ایک طرف ایسے واقعات ہیں کہ باوجود صدمہ کے مجبور کرتے ہیں کہ کام کرو اور ایک طرف اس قسم کے ہیں کہ تقاضا کرتے ہیں کہ فراغت ہو پھر باوجود صدمات کے کام کو مقدم کرنا پڑتا ہے.اس سے اندازہ کر لو کہ کس قدر بوجھ معلوم ہوتا ہو گا.اور جب غور کرتے ہیں تو صدمہ ہی صدمہ باقی رہ جاتا ہے.اس کا علاج دعا ہے اللہ تعالیٰ چاہے تو مصائب دور ہو جاتے ہیں.اور قوت آجاتی ہے.میرا تجربہ ہے کہ بعض وقت آثار بھی ظاہر ہو جاتے ہیں.لیکن خاص طور سے دعائیں کرنے سے اللہ تعالیٰ ان مصائب کو ٹلا دیتا ہے.اور دوسروں کو پتہ بھی نہیں لگتا.اس لئے میں تاکید کرتا ہوں کہ دوست خاص طور پر دعائیں کریں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سفر کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور یہ واقعات خصوصیت سے دعا کی تحریک کرتے ہیں.پس میں بار بار کہتا ہوں کہ دعائیں کرو کہ اللہ تعالٰی بقیہ سفر خیر و عافیت سے گزار دے.نہ یہاں کوئی بری خبر آئے اور نہ یہاں سے وہاں پہنچے.آمین ا حضرت میر ناصر نواب صاحہ الفضل ۶ نومبر ۱۹۲۴ء)
504 77 ایمان کی پختگی اور مضبوطی مد نظر رکھیں (فرموده ۳ اکتوبر ۱۹۲۴ء بمقام ! چیشم پیلیس بلگریویا لنڈن) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا اس ملک میں ایک احمدی کی حالت بالکل اس پتہ کی طرح ہوتی ہے.جو سمندر میں دریا کے پانی کے ساتھ ساتھ بہتا چلا جاتا ہے.بظاہر اس کی حرکات ایسی ہوتی ہیں کہ دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ ارادے سے کرتا ہے.مگر دراصل اس کی حرکات ذاتی نہیں ہوتی ہیں.بلکہ وہ سمندر کی لہروں کا نتیجہ ہوتی ہیں.دنیا میں ہر ایک حرکت سے تین نتیجہ پیدا ہوتے ہیں.اور تین قسم کے مقابلے ہوتے ہیں.جو ایک چیز دوسری کا کرتی ہے ایک چیز ہے جو زمین میں گڑی ہوئی ہے.سمندر کی لہریں آکر اس سے مکر کھاتی ہیں.مگر وہ چیز اپنی جگہ سے جنبش نہیں کھاتی.اور سمندر کی لہریں باوجود اپنی طاقت کے ہلا نہیں سکتی ہیں.یہ نہیں کہ اس کو ٹکر نہیں لگی.ٹکر تو پہاڑ سے بھی آکر لگے گی.تو اس کے باریک ذرات میں حرکت ضرور ہو گی.مگر اس کی مضبوطی اور ثبات اس حرکت کا احساس نہیں ہونے دے گا.جاندار چیزوں پر اثر کی اور نوعیت ہوتی ہے.اور جب ان کو کوئی عمر لگتی ہے.تو دوسری چیزوں سے توجہ ہٹتی ہے.بے جان چیز اس وقت تک اپنے آپ کو قائم رکھے گی.جب تک اس کا ثبات اور مضبوطی اس فکر اور حرکت کا مقابلہ کرے گی.دوسری قسم کی چیزیں وہ ہوتی ہیں.جو حرکت سے متاثر تو ہوتی نظر آتی ہیں.مگر ان کی مثال سمندر میں بوائز کی ہے.ان کی حرکت کا دوسرے بھی مشاہدہ کرتے ہیں.ان کو حرکت ہوتی ہے.لہریں ان کو ہلاتی ہیں.مگر چونکہ وہ ایک مضبوط چٹان سے وابستہ ہوتے ہیں.اس لئے وہ اپنی جگہ سے ہٹ نہیں سکتے.اور اپنے دائرہ کے اندر رہیں گے.ان کا انجام مکمل چیز سے مشابہ نہیں.کیونکہ اس کی حرکت کا تواتر ظاہر ہی نہیں ہوتا.یہ اگرچہ ہلتی نظر آتی ہے.مگر ایک دوسری چیز کی وجہ سے قائم ہے.تیسری حرکت اور مثال پتہ کی ہے کہ جو بے
505 اختیار بہتا چلا جاتا ہے اور کہیں سے کہیں نکل جاتا ہے.ایک احمدی کی مثال اس ملک میں اگر وہ کمزور ہے.تو اس پتہ کی طرح ہے جو سمندروں کی لہروں سے کہیں کا کہیں چلا جاتا ہے.اگر وہ شاخ کے ساتھ مضبوط تعلق رکھتا ہے.تو ہوا کے ساتھ وہ ہلتا ہے.مگر اس کا زور کم ہو جانے کے بعد پہلی جگہ پر آ جاتا ہے.میں جب کہتا ہوں کہ ایک احمدی کی مثال پتہ کی سی ہے.تو اس کے یہ معنے نہیں کہ احمدی دوسروں کی نسبت کمزور ہوتے ہیں.نہیں احمدی دوسروں کی نسبت خدا کے فضل سے اس سمندر میں مضبوط ہیں.دوسروں کی یہ حالت ہے کہ وہ دریا کے پانی کی طرح ہیں جب وہ سمندر میں آکر گرتا ہے تو وہ اپنی ہستی کو کھو دیتا ہے اور سمندر ہی کا پانی ہو جاتا ہے.دریا کا میٹھا پانی سمندر میں اپنی مٹھاس کو بھی کھو دیتا ہے.اور وہ سمندر ہی کی جنس ہو جاتا ہے.مگر احمدی کی مثال کم از کم پتہ کی طرح ہے.اگرچہ وہ جن اخلاق اور جس تعلیم پر عمل کے لئے پابند ہے.اس کی کوشش کرتا ہے اور یہاں آکر پورے طور پر نہیں کر سکتا.مگر بہر حال وہ پتہ ہے.اور شاخ سے الگ ہے مگر ہر شخص دیکھنے والا جانتا ہے کہ وہ سمندر کی جنس میں سے نہیں گو حرکات ویسی ہی ہیں.اس سے دوسری مثال بوائے کی ہے.خود ہلتا ہے مگر دو سروں کو بتاتا ہے کہ یہاں خطرہ ہے.اپنی جنس اور جڑ سے ایسا لگاؤ ہے کہ آنے والوں کو بتاتا ہے کہ یہاں خطرہ ہے.مجھ سے پرے رہو.دوسروں کو اس خطرہ سے بچاتا اور کہتا ہے کہ اس سے بھی بڑھ کر ثبات رکھنے والا پہاڑ ہے اس کو زمین سے تعلق ہے اور وہ دوسروں کو بتاتا ہے.کہ میری طرح مضبوط اور ثابت قدم ہو جاؤ.پس جو بالکل محفوظ ہوں گے.اور یہاں کے حالات ان پر اثر نہ کریں.گو ممکن ہے کہ ان لہروں کے مقابلہ کے لئے ان کی کچھ توجہ خرچ ہو.مگر سمندر اس کو اپنی جگہ سے جنبش نہیں دے سکتا.یہ اعلیٰ مقام ہے اور ہر ایک احمدی کو ایسا ہی ہونا چاہیئے.غرض تین قسم کے درجہ ہیں.جن میں سے ایک احمدی کو گذرنا پڑتا ہے.یا وہ گزر سکتا ہے.پہلی حالت تو وہی پتہ کی ہے اور اکثر کو میں نے ایسا ہی دیکھا ہے.دوسرے شاذو نادر ہیں.پس اگر سردست تم پہاڑ کی طرح نہیں.تو کم از کم بوائز کی طرح تو بنو کہ جس چیز کے ساتھ تم کو باندہا گیا ہے.اس سے الگ نہ ہو اور دوسروں کو اس خطرہ سے بچاؤ جو یہاں ہے اس پر کچھ خرچ نہیں ہوتا.اگر وہ خود ہلتا ہے تو دوسروں کو یہ تو بتائے کہ وہ خطرہ سے بچیں.پس میں تو یہ چاہتا ہوں کہ تم سب پہاڑ کی طرح ہو جاؤ.اور کوئی چیز تم کو جنبش نہ دے سکے.لہریں آئیں اور تم سے ٹکرا کر واپس چلی جاویں لیکن اگر یہ نہیں تو دوسرے درجہ سے تو نیچے نہ گرو.ہر آنے والے کو خطرات سے آگاہ کرو
506 اور ان کو سمجھاؤ کہ وہ جڑ سے اپنے تعلقات کو مضبوط رکھیں.اگر یہ بھی نہیں تو اس کا کوئی احسان نہیں.لوگ اس کو پھر بھی الگ ہی سمجھیں گے.عبدالحکیم مرتد ہو گیا.مگر وہ وفات مسیح کے مسئلہ کو اور بعض دوسرے مسائل کو نہ چھوڑ سکا.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے.میں تب مانوں کہ وہ اس کو بھی چھوڑ دے.غرض ہماری یہ خواہش ہے کہ تم چٹان بنو.اگر یہ نہیں تو کم از کم بوائز کی حیثیت سے خود ہلتے ہو.تو دوسروں کو خطرہ سے آگاہ کرو اور بچاؤ.اللہ تعالی توفیق و (الفضل ۱۳ نومبر ۱۹۲۴ء)
507 78 اتحاد اور اختلاف فرموده ۱۰ اکتوبر ۱۹۲۴ء بمقام پٹنی احمد یہ بیت الذکر) شهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا انسانی زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے اور ہوتا ہے.دنیا میں جس قدر چیزیں ہیں.ان میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی قسم کی بہت سی چیزیں ہیں.بعض باتوں میں اتفاق اور بعض میں اختلاف ہوتا ہے.مثلاً پھلوں میں آم کو لے لو.بعض باتوں میں تمام آم ایک ہی بات رکھتے ہوں گے اور بعض میں ایک قسم کے دو آم بھی مشترک نہ ہوں گے.اسی طرح خربوزہ کو لے لو.سیب یا انار کسی کو لو سب میں یہ اصول موجود ہو گا.یعنی بعض باتیں سب میں مشترک ہوں گی اور بعض باتوں میں ایک دوسرے سے جدا ہوں گے.اسی طرح جمادات ، حیوانات اور انسانوں کی حالت ہے کوئی دو چیزیں ایک جنس کی ایسی نہ میں گی.جن میں اتحاد اور اختلاف نہ ہو.یہی حال پھر انسان کے مختلف طبقوں میں ہے اور پھر مختلف ملک کے باشندوں میں بھی یہی حالت ہے.بعض باتیں ایسی مشترک ہوں گی کہ دنیا کے تمام انسانوں میں پائی جائیں گی اور بعض ایسی مختلف کہ دو بھائیوں میں بھی نہ ملیں گی.بعض میں انگریز عرب اور دوسرے متفق ہوں گے.اور بعض میں مختلف یہی حال مذہب کا بھی ہے مسلمان عیسائی کو لے لو.بہت سی باتیں اور ہدایتیں ایسی ہوں گی کہ ہندو مسلمان اور عیسائی سب ان میں متفق ہوں گے.اور بعض ایسی ہوں گی کہ ان میں ایک مذہب کے دو فرقے بھی مختلف ہوں گے.یہ امر چھوٹی باتوں میں ہی نہیں پایا جاتا اور تفاصیل ہی میں نہیں.بلکہ بڑے بڑے مسائل میں یہ اتحاد اور اختلاف پایا جاتا ہے.مثلاً ہستی باری تعالیٰ کا مسئلہ ہے.اس کے متعلق عجیب قسم کے اختلافات ہوتے ہیں.اور اتفاق بھی ہے اسی طرح ایمان کے متعلق اختلاف بھی ہوتا ہے.اور اتفاق بھی.اخلاق کے متعلق بھی یہی حالت ہے.اور یہ اختلاف اور اتحاد
508 کا دائرہ جزئیات اور تفاصیل میں بڑھتا جاتا ہے.اسی طرح انسانی پیدائش کی غرض اور مقصد سب کے لئے ایک ہے.اور سب کے سب اسے پورا کرتے ہیں.یا پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.خواہ کسی نہ کسی رنگ میں ہو.مگر پھر ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی غرض اور مقصد مختلف بھی ہے اور اسی اتحاد میں ایک اختلاف نظر آتا ہے.جس طرح انسانیت میں سب ایک ہیں.مگر مختلف حیثیتوں میں ایک اختلاف بھی نظر آتا ہے.جس اختلاف نے بعض کو بعض سے ممتاز کر دیا ہے.اسی طرح اغراض اور مقاصد میں اختلاف ہو جاتا ہے.وہ غرض جو سب نوع انسان میں مشترک ہے اور وہ مقصد جس پر سب دنیا کے انسان متحد ہیں.یہ ہے کہ ہر ایک میں یہ خواہش ہے کہ ترقی کریں اور آرام پائیں.اس میں سب کے سب متفق ہیں.ہر ایک چاہتا ہے کہ اس کو آرام ملے اور وہ ترقی کے انتہائی مقام کو پالے.مگر باوجود اس ایک مقصد میں سب کے متفق ہونے کے اس آرام اور ترقی کی تفاصیل اس کے حاصل کرنے کے متعلق طریق عمل اور اس کے متعلق خیالات میں ایک وسیع سلسلہ اختلاف کا ہے.پہلے آرام کی حقیقت ہی میں اختلاف شروع ہو جاتا ہے ایک شخص کام میں مصروف رہنے اور قربانی کرنے کا نام آرام رکھنا ہے.دوسرا آرام اس کا نام رکھتا ہے.اور ترقی کا مقصد یہ قرار دیتا ہے.کہ کسی نہ کسی طرح دوسروں کا روپیہ چھین لے اور صرف لیٹے رہنے اور کام نہ کرنے کا نام آرام کو رکھتا ہے.غرض مشترک میں ترقی کو بھی میں نے بیان کیا ہے.لیکن حقیقت میں صرف ایک خوشی ہی ہے.چونکہ ترقی میں خوشی محصور ہو گئی ہے.اس لئے ترقی چاہتے ہیں.ورنہ زیادہ غور کریں.تو صرف خوشی ہی رہ جاتی ہے.اس خوشی کے خیال کے ساتھ ترقی کا خیال لازمی ہے.پھر اس خوشی کے مدارج اور وسائل ہیں.علم ، وقت زبان کے مزے.قوت شنوائی کے مزے ہیں.آنکھ، ناک اور لمس کے مزے ہیں.پھر ان خواہشوں کے بھی مختلف مدارج ہیں.غرض خوشی کی ان مختلف خواہشوں کے پورا کرنے کے لئے ترقی کا خیال پیدا ہوتا ہے.پھر جس چیز کو زیادہ پسند کرتا ہے.اس کے لئے ترقی کا رنگ اور ہے جس کو کم پسند کرتا ہے.اس کے لئے اور.غرض مقصد عظیم یہی نظر آتا ہے کہ خوشی حاصل ہو.اور آرام ملے.تفاصیل میں بے حد اختلاف ہے.اور اس قدر اختلاف ہے کہ دو نہیں ملتے.ایک کام کرنا چاہتا ہے.دوسرا بیکار رہنا.
509 ایک مال جمع کرنا چاہتا ہے دوسرا خرچ کرنا.ایک لوگوں کو آرام پہنچاتا ہے.اور دوسروں کی خدمت کرتا ہے.دوسرا لوگوں کو دکھ دیتا ہے.اور ان کو تکلیف پہنچا کر اسے مزا آتا ہے.اس قدر اختلاف شروع ہوتے ہیں کہ اس کی تفصیل نہیں ہو سکتی.چھوٹے سے چھوٹے مسئلہ میں بھی اتحاد خوشی کا نہیں.ایمانیات میں بھی یہی حال ہے.اور پھر ایمان ہی کو لو.ایک کہے گا کہ خدا ہے.اب آگے فرق ہو گا کہ خدا کس طرح ہے.چونکہ فہم خواہشات اور تجربہ جدا جدا ہیں.اس لئے ان کے ماتحت فرق ہوتے جائیں گے.اور یہی چیزیں ہیں جو دنیا میں فرق پیدا کرتی ہیں اسی تجربہ اور خواہش کے مطابق امتیاز ہوتا ہے.ایک کو ترقی مل جاتی ہے اور دوسرا وہیں رہ جاتا ہے.تیسرا گر جاتا ہے اور چوتھا بالکل تباہ ہو جاتا ہے.جس قدر ترقیات ہیں.ان کی اصل جڑ یہی ہے کہ وہ اس بات کے ساتھ وابستہ ہے.اول اس مقصد کی صحت ہو.جس میں سب متفق ہیں.دوم اس مقصد کی صحت جس میں سب مختلف ہیں ایک میں اتحاد کامل اور دوسرے میں اختلاف کامل پیدا کرنا.ترقیات کی جڑ ہے.پس اس خوشی کو صحیح اور درست بنانے کی کوشش کرنی چاہیئے.جب انسان اس طریق پر چلتا ہے.تو وہ نہ صرف ترقی کرتا ہے بلکہ اس کو حقیقی خوشی حاصل ہوتی ہے.اور جو لوگ اس بات سے مثلاً تسلی پالیتے ہیں کہ علم کامل ہو گیا.وہ ترقیات نہیں کر سکتے.اور نہ ان پر کوئی فیض نازل ہو سکتے ہیں اس بات کو خوب یاد رکھو کہ اختلاف احوال و اتحاد احوال ترقیات کی دو مضبوط جڑیں ہیں.اتحاد میں کوشش کرے.تاکہ بنی نوع انسان سے الگ نہ ہو جاوے.اور اس میں ایسا اشتراک پیدا کرے جیسے انسانیت کا اشتراک ہے کہ کسی صورت میں اس سے الگ نہیں ہو سکتا.اور دوسری طرف اختلاف میں ترقی کرتا جاوے اور اس قدر اختلاف میں ترقی کرے کہ نہ صرف لوگوں سے اختلاف ہو.اسے اپنی ذات سے بھی اختلاف ہو.اور اپنی ذات سے اختلاف یہ ہے کہ کل جس مقام پر تھا.آج وہاں نہ ہو.بلکہ اس سے آگے نکل جاوے.مومن کے دو دن برابر نہیں ہونے چاہئیں.جب انسان اس اختلاف میں ترقی کرتا ہے.تو بھی اختلاف اس کے مدارج کی ترقی کا موجب ہوتا ہے اس کی طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد کیا ہے اختلاف امتی رحمت جب تک اختلاف میں ترقی نہ ہو.ہر قسم کی ترقی رک جاتی ہے.مثلاً ایک انسان ساری دنیا کے لوگوں کو دیکھے کہ سفید چگڑیاں پہنے ہوئے ہیں.اب اگر اس کی خواہش اس سفید پگڑی تک ہی محدود ہو گی.تو جب سفید پگڑی میسر آ گئی.تو پھر خواہش پیدا نہ ہو گی.یا مثلاً فلالین کا کوٹ دیکھنا ہے جب وہ مل گیا تو ترقی سے رہ جائے
510 گا.لیکن جب وہ مختلف رنگوں کو دیکھتا ہے.تو ان کے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.پھر ایک کی بجائے دو تین چاہتا ہے اور اس طرح اس کی کوشش اور محنت بڑھ جائے گی.کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ ایک سے زیادہ ہوں.اور اس کی ترقی کا یہ ایک ذریعہ ہو گا.اسی اصل پر اپنے معاملات کو دیکھ لو.اور اگر صرف نماز ہی ہوتی تو اس کی ترقی محدود ہو جاتی.لیکن جب مختلف قسم کے اعمال ہیں تو ان سے ایک ویرائٹی ( تنوع) پیدا ہو کر ترقیات کا سلسلہ وسیع ہو جاتا ہے.غرض یاد رکھو کہ اختلاف ترقی کی خواہش پیدا کرتا ہے یہ خواہش اس چیز کو دیکھ کر ہوتی ہے جو اس کے پاس نہیں ہے.اس اختلاف سے وہی مراد ہے.جو ویرائٹی کو پیدا کرتا ہے اور غرض مشترک کے لئے اتحاد کامل کی ضرورت ہے.ایسا اتحاد کہ کل کے کل ایک وجود کا حکم رکھیں پس ترقی کے لئے یہ اختلاف ضروری ہے.اور اس سے مراد اختلاف رکھنا نہیں.بلکہ اختلاف بڑھانا ہے جس جس قدر یہ ویرائٹی کا اختلاف بڑھے گا.اس قدر ترقی ہو گی.اور دوسری طرف اتحاد کامل کے رشتہ کو ہاتھ سے نہ دو.روحانیت کی ترقی اور جڑ اسی سے وابستہ ہے.قرآن کریم اسی اختلاف اور اتحاد کی طرف رہنمائی کرتا ہے.غور کرو کہ قرآن کریم نے ان دونوں اصولوں کو کس طرح جمع کیا ہے.فرماتا ہے.ایاک نعبد و ایاک نستعین یہ اتحاد کامل کی طرف اشارہ ہے.بندہ درخواست کرتا ہے کہ تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تیری ہی مدد چاہتے ہیں.باوجود یہ کہ وہ اکیلا اس کو پڑھتا ہے مگر دوسروں کو بھی شریک کرتا ہے.یہ اتحاد کی تعلیم ہے.وہ گویا اتحاد چاہتا ہے.اور وہ اتحاد انسانیت کا اتحاد ہے.جس مقصد میں سب ایک ہو سکتے ہیں.پھر آگے کہتا ہے.اھدنا الصراط المستقیم اس میں اس اختلافی خواہشات کا اشارہ ہے.صراط مستقیم میں کئی منازل ہوں گے.کچھ بہت آگے جا رہے ہیں.کچھ ان سے پیچھے پھر ان کو دیکھ کر خواہش پیدا ہو گی کہ ان سے ملیں.اس اختلاف نے ترقی کی تحریک پیدا کر دی ہے.پہلی آیت نے اتحاد کامل کی تعلیم دی ہے.جب اتحاد کامل ہو جاتا ہے.تو وہ ایک قسم کے فیضان کو حاصل کرتا ہے.جو اس اتحاد سے ہی وابستہ ہے.اور اس کے بعد دوسری آیت میں اختلاف کامل کی طرف رہنمائی کی ہے جس سے مدارج ترقیات کے پیدا ہوتے ہیں.غرض یہ دو باتیں ہیں جو اسلام انسان سے چاہتا ہے.اور انسان اس کی خواہش تو کرتے ہیں.مگر مفہوم نہیں سمجھتے کہ کیا کر رہے ہیں پس تم ان دونوں باتوں کو ہمیشہ مد نظر رکھو.الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۲۴ء)
511 79 عبودیت ہی حقیقی حریت ہے فرموده ۱۷ اکتوبر ۱۹۲۴ء بمقام لنڈن) مشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا انسانی اعمال اور انسانی حالتوں کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ انسان ایسے حالات میں گھرا ہوا ہے.جن کی موجودگی میں صحیح اور حقیقی طور پر اس کی رائے آزاد رائے نہیں کہلا سکتی.بلکہ حقیقی آزاد رائے حاصل کرنے کے لئے حقیقی جدوجہد کی ضرورت ہے.صوفیا کہتے ہیں کہ ہر ایک چیز میں ایک دور پایا جاتا ہے جس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ راستہ بدل کر چکر کھا کر پھر اس جگہ پر آجاتا ہے.جہاں تک غور کیا جاتا ہے.انسانی ترقی کا بھی یہی معیار ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یولد على فطرة ا کہہ کر یہی بتایا ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے.فطرۃ اور اسلام کے یہی معنے ہیں کہ وہ خدا کی کامل فرمانبرداری اور سچی خواہشوں کو لے کر پیدا ہوتا ہے.پھر فرمایا کہ اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں.اس سے یہ مطلب ہے کہ گردو پیش کے حالات اس پر اثر ڈالتے ہیں.پیدائش کے وقت وہ آزاد فطرت لے کر آتا ہے.پھر ارد گرد کے انسانوں کے خیالات اعمال اور طرح طرح کے حالات رنگ بدل بدل کر اور اس پر اثر ڈال کر اپنے رنگ میں رنگین کر لیتے ہیں.یہاں تک کہ بلوغت کے زمانہ تک جب اس میں شعور اور رائے پیدا ہوتی ہے.وہ ہزاروں کڑیوں میں مبتلا اور اسیر ہو جاتا ہے.چھ مہینے چار سال دس سال تک وہ آزاد نہیں ہوتا بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ کوئی رائے ہی نہیں رکھتا بلکہ رائے کا وقت بلوغت کے ساتھ شروع ہوتا ہے.اور جب یہ وقت آتا ہے.اور اس عمر تک پہنچتا ہے.تو وہ غلام ہو چکا ہوتا ہے.وہ کہنے کو تو کہہ دیتا ہے کہ میں آزاد رائے رکھتا ہوں.لیکن اس نظارہ کو دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ اس کی کوئی آزاد رائے نہیں ہوتی.99 فی صدی ایسے لوگ
512 ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہماری رائے آزاد ہے.ہم میں حریت ہے مگر سچ یہ ہے کہ یہ آزادی رائے یہ حریت لفظوں سے آگے نہیں ہوتی.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ ایک شخص جیل میں ہو.اور جب اس کو کہا جاوے کہ تو جیل سے باہر نکل آ اور وہ یہ کہے کہ میں جیل سے باہر نہیں آتا اس لئے کہ میری رائے آزاد ہے.اور اس آزادی رائے کا یہ فیصلہ ہے کہ جیل سے نہ نکلوں.تو کون عظمند اس کو آزادی رائے کے گا یہ غلامی ہے.یہ اسیری ہے.اسی طرح ایک انسان جو حقیقت سے دور ہے.وہ آزادی رائے کہہ کر حقیقت سے دور ہو جاتا ہے.آزادی رائے تب ہوگی کہ وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا نہ ہوتا.وہ زنجیریں جو بچپن سے دوسروں کی رائیں سننے سے اور ان کے اثر سے پیدا ہوئی ہیں.وہ زنجیریں جو مختلف نظاروں کے دیکھنے اور کانوں کے ذریعہ بہت سی باتیں سننے کا ایک اثر اس کی فہم و فراست پر چھوڑ گئی ہیں.اور اس وقت سے یہ اثر پیدا ہو رہا ہے.جب اس نے فہم و ذکا سے حصہ نہ لیا تھا.لیکن جب اس کو کہا جاتا ہے کہ اس معاملہ میں غور کرو اور سوچو تو کہہ دیتا ہے کہ میں حریت رائے کا پابند ہوں.دوسروں کی رائے کا پابند نہیں.میں دماغی غلامی نہیں کرتا.حالانکہ وہ ہزارہا زنجیروں میں گرفتار اور پابند ہے.لیکن اگر وہ سوچنے لگتا ہے.اور فکر کرتا ہے کہ فی الحقیقت میری رائے ارد گرد کے حالات اور اثرات کا نتیجہ ہے.مجھے کو خود خالی الذہن ہو کر فکر کرنا چاہیئے.تو وہ ان غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر آزادی کی طرف آتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے صرف ان خیالات یا اعتقادات کو محض اس لئے نہیں مان لینا چاہئے کہ مجھے ورثہ میں ملے ہیں اور یا میرے ہم نشینوں کی صحبت کا اثر ہیں.تو وہ پھر فطرۃ اسلام پر لوٹتا ہے اور یہی وہ دور ہے.جس کی طرف صوفیا اشارہ کرتے ہیں.اور یہ دور روحانی ترقیات میں بھی آتا ہے.اور اسی دورہ کے بعد انسان ترقی کے مدارج شروع کرتا ہے.پس اہم سوال یہ ہے کہ ہم یہ سوچیں.اور فکر کریں کہ کیا ہم غلامی کی قید اور زنجیروں میں تو مبتلا نہیں.جو محض انسان کے ان خیالات کا نتیجہ ہیں.جو ارد گرد کے حالات اور اثر نے پیدا کئے ہیں.اور اگر ایسا ہے.تو کیا طریق ہے کہ ہم اس قید سے آزاد ہوں.بظاہر یہ ایک مشکل سوال ہے.اور ایسا سوال ہے کہ اس کا حل نظر نہیں آتا.اور جب تک حل پیدا نہ ہو.دنیا کی نجات کا حل بھی نہیں ہو سکتا.میں سچ کہتا ہوں.لوگ کبھی کسی صحیح عقیدہ پر جمع نہ ہوں گے.جب تک کہ یہ کڑیاں دور نہ ہوں جب تک اس طوق و سلاسل میں انسان گرفتار ہے.وہ حقیقی طور پر حریت حاصل نہیں کر سکتا.
513 کوئی ایسی پیدائش تو نظر نہیں آتی کہ انسان ۱۸ یا ۲۰ سال کی عمر میں پیدا ہو.جب کہ عقل اور شعور کی قوتیں نشو نما پا رہی ہوں اور اس میں فکر و عقل پیدا ہو چکی ہو.مگر وہ ان قیود سے آزاد ہو.جو ارد گرد کے حالات کا نتیجہ ہوتی ہیں.کیونکہ انسان پیدا تو آزاد ہوتا ہے.اور جب رائے کا وقت آتا ہے.اس وقت تک غلام ہو چکا ہوتا ہے.بظاہر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ایسے گھر میں ہو، جہاں نیک اور متقی لوگ ہوں اور ان کے خیالات کا اثر اور ان کے اعمال و افعال کی تحریکیں اس پر ہوتی رہی ہوں اور وہ ان اثرات کے ماتحت نیک بھی ہو.لیکن میں پھر بھی اس کو آزاد نہیں کہتا.کیونکہ وہ نتیجہ انہیں گردو پیش کے حالات کا ہے.ہو سکتا ہے کہ ایک شخص غلام ہو کر بھی اعلیٰ رائے رکھتا ہو.اور یہ اسی حد تک ہو گا.مگر غلامی کی قید سے آزاد نہیں.اور اس کو حریت نصیب نہیں آزاد رائے تب ہی ہو گی.جب خود محقیق کر کے صحیح نتیجہ پر پہنچا ہو اس کے لئے ہم دیکھتے ہیں کہ شریعت اسلامی نے ایک نکتہ بتایا ہے که آزادی رائے کس طرح پیدا ہوتی ہے اور یہ راز سورہ فاتحہ میں بیان کیا گیا ہے.اگر غور کیا جاوے کہ دنیا کی ساری غلامیاں کس طرح پیدا ہوئی ہیں تو اس کی ایک ہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ انسان کے ذاتی فوائد اور خود غرضی کا نتیجہ غلامی ہوتا ہے.وہ اپنے مطلب کے مطابق دوسرے لوگوں کو ڈھالتا ہے.اور ہر ایک یہی کوشش کرتا ہے.اس لئے ایسے لوگوں کا اتباع یا ایسے لوگوں کا اثر غلامی کی تعریف پیدا کرتا ہے.پس آزادی اور حریت کا کوئی ذریعہ ہے تو ایک ہی ہے کہ دنیا یا کم از کم خدا پرست لوگوں کے دلوں میں یہ بات پیدا کی جائے کہ جب تک تحقیق کا موقعہ نہ ملا ہو.اپنے خیالات کو اپنے خیالات نہ سمجھنے اور اپنے معاملات کو خدا تعالیٰ کے سپرد کرے.کیونکہ خدا تعالٰی ہم سے کوئی فائدہ اٹھانا نہیں چاہتا.سب چیزیں اسی کی محتاج ہیں.اور اس کو کسی کی غلامی کی ضرورت نہیں.اس لئے سورہ فاتحہ میں فرمایا.الحمد لله رب العالمين الرحمن الرحیم مالک یوم الدین پس جب انسان اپنے خیالات کو خدا کے سپرد کر کے تحقیق کا ایک دروازہ کھولتا ہے.تو اس کی غلامی کی زنجیریں ٹوٹنی شروع ہو جاتی ہیں.اور اس میں حقیقی عبودیت کا مفہوم پیدا ہونے لگتا ہے.اور وہ بچے معنوں میں عبد اللہ کہلاتا ہے.اگرچہ عبد اللہ کے معنے ہیں اللہ کا غلام.مگر اس غلامی کی وہ حقیقت نہیں.جو انسانی غلامی کی ہے.اس لئے کہ انسان دوسرے کو غلام بناتا ہے.اپنے فوائد اور اغراض کے لئے.اور اللہ تعالی کی غلامی اس کو ہر قسم کی غلامی سے آزاد کر کے صحیح معنوں میں حریت
514 عطا کرتی ہے.اور اس کو عبودیت کہتے ہیں بلکہ اگر زیادہ غور کیا جاوے تو ہم دیکھتے ہیں کہ دراصل (گو ادب ایسا) کہنے کی اجازت نہیں دیتا.مگر مفہوم کو واضح کرنے کے لئے کہتے ہیں) خدمت تو خدا کرتا ہے اور وہ خدمت مجبوری کی نہیں.بلکہ محبت اور فضل کی ہے.جیسے ماں کرتی ہے.وہ سب بچہ کی محبت کا نتیجہ ہے.اسی طرح خدا (جس نے ماں کو بھی اس لئے پیدا کیا کہ وہ بچہ کی محبت سے خدمت کرے) کی خدمت جس کا نام ربوبیت ہے.محبت اور رحم کا نتیجہ ہے.ورنہ حقیقتاً ہمارے تمام فوائد اس نے خود اپنے ذمہ لئے ہوئے ہیں.اور اس کے رحم اور فضل کے بغیر ہم زندہ ہی نہیں رہ سکتے.پس عبد اللہ کا لفظ کامل حریت اور آزادی کو ظاہر کرتا ہے.اور الحمد لله رب العالمين الرحمن الرحيم مالک یوم الدین میں اس کی طرف اشارہ ہے.اب یہ بات صاف ہو گئی کہ کامل حریت عبودیت الہی میں ہے پس اگر یہ مسئلہ تمام دنیا کو سکھا دیا جاوے اور میں سمجھتا ہوں کہ تمام مذاہب میں جو خدا کا اقرار کرتے ہیں.یہ مسئلہ یکساں ہے کہ تمام انسانوں کو ہر امر کا فیصلہ خدا سے جاننا چاہیئے تو دنیا میں حقیقی حریت پیدا ہو سکتی ہے.تم خود عبد اللہ بنو اور پھر اسی مقام عبودیت کی طرف دنیا کو لاؤ.تب نہ صرف تم آزاد ہو گے بلکہ دنیا کو آزادی کی طرف لانے والے بھی ہو جاؤ گے.عالم سے عالم اور فلاسفر سے فلاسفر بھی یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ فلاں خیال میں نے خود پیدا کیا ہے.جب اس کی تحقیقات کی جاوے گی.تو وہ ارد گرد کے حالات اور اثرات کا نتیجہ ہو گا بہت ہی کم اسے خیال کیا انسان ثابت ہوں گے.جنہوں نے خدا سے سیکھا ہے.اور خدا تعالیٰ سے ہدایت پانے کے لئے اور صحیح علم حاصل کرنے کے لئے سورہ فاتحہ میں بتایا ہے اھدنا الصراط المستقیم اور خدا تعالٰی نے ایسے لوگوں کو کچی آزادی کا عطیہ دینے کے لئے قرآن مجید میں یہ وعدہ کیا ہے.والذين جاهد و افينا لنهدينهم سبلنا (العنکبوت) پس یاد رکھو کہ کامل آزادی اس سے پیدا ہوتی ہے کہ انسان کامل طور پر اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دے کہ یا اللہ مجھے غم نہیں کہ کون سے خیالات کس نے ڈالے مدرسہ والوں نے یا محلہ والوں نے یا کسی اور نے.اس لئے اھدنا الصراط المستقیم تو آپ ہی آزادی کا راستہ دکھا.ایسا راستہ جو تحقیق کے بعد قائم ہوا ہو.کیونکہ تو ہی جانتا ہے کہ جو خیالات پیدائش سے لوگوں نے اب
515 تک ڈالے ہیں.یا ملک کی پیداوار ، آب و ہوا ماں باپ احباب یا دوسرے حالات کا نتیجہ ہیں.ان میں کوئی امتیاز اور فرق نہیں کر سکتا.اس لئے تو آپ مجھے سچائی اور حقیقت کی راہ دکھا.پس حقیقی آزادی کا ایک ہی علاج ہے کہ خدا کی طرف جھک جاؤ.یہی قرآن سکھاتا ہے.اور عقل سلیم یہی تعلیم دیتی ہے کہ اگر خدا ہے.اور ضرور ہے تو اسی راہ سے آزادی نصیب ہو سکتی ہے.ورنہ حریت اور آزادی رائے کا دعوئی اس قیدی سے بڑھ کر نہیں جو جیل سے نہ نکلنے کا نام آزادی رائے رکھتا ہے.اور یہ طریق ایسا طریق ہے کہ جس کی کامیابی یقینی ہے.جیسا کہ والذین جاهد و افينا لنهدينهم سبلنا میں وارد ہے.حقیقی آزادی کی یہی ایک راہ ہے کہ خدا سے دعا مانگے.اس پر گھمنڈ کر کے نہ بیٹھ جاوے کہ میری رائے آزاد ہے.میں نے کھول کر بتا دیا ہے کہ آزادی رائے کا دعوئی ایک خیالی دعوئی ہے.ایسی رائے غلامی کی رائے ہے.بلکہ میں کہوں گا کہ غلامی سے بھی بد تر اس لئے کہ غلامی جانتا ہے کہ میں غلام ہوں مگر یہ نہیں جانتا کہ میں غلام ہوں.اور غلام ہو کر اپنے آپ کو آزاد سمجھتا ہے.اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ ہم سب اس حقیقت کو سمجھیں.اور وہ ہم کو سچی آزادی عطا فرمادے.جس کو میں عبداللہ کے لفظ سے تعبیر کرتا ہوں.اور اس طرح پر ہم کو وہ مقام عطا کرے جو عبودیت کا مقام ہے.جہاں تمام برکات اور فضل نازل ہوتے ہیں اور آزادی اور نجات ملتی ہے.آمین مسلم کتاب القدر باب كل مولود يولد على الفطرة (الفضل ۴ دسمبر ۱۹۲۴ء)
516 80 بيت الفضل لندن میں پہلا خطبہ جمعہ (فرموده ۲۴ اکتوبر ۶۹۲۴) مشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ تلاوت کے بعد فرمایا : نوٹ: یہ خطبہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی کا مرتب کردہ ہے خطبہ کے ابتدا میں ان کی طرف سے درج ذیل نوٹ شائع ہوا ہے.19 اکتوبر کو جس مسجد کی بنیاد رکھی گئی.۲۴ اکتوبر کو اسی مسجد میں پہلا جمعہ حضرت خلیفہ المسیح نے پڑھایا.محراب کی چھوٹی سی دیواریں صرف کھڑی تھیں اور فرش زمین پر بچھایا گیا تھا خطبہ جمعہ شروع ہو چکا تھا خادم اس وقت آکر شریک ہوا میں نے جہاں سے سنا ہے لکھا ہے.مگر اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ابتدا کس طرح ہوئی اور ابھی غالبا" چند فقرے ہی آپ نے بولے تھے! آپ فرما رہے تھے : جب ایسی ترقی ہو.اور ایسے حالات کے ماتحت ہو.جو انسانی اندازہ اور قیاس و فکر کے خلاف ہو.منے کوئی حالات اور اسباب ایسے نہ ہوں.جن کے ماتحت وہ ترقی ہو سکتی ہو.اور قبل از وقت اس ترقی کا اندازہ اور قیاس کیا جا سکتا ہو.تو وہ ترقی خدا تعالیٰ کی وحی اور الہام کے ماننے پر مجبور کر دیتی ہے اور اس بات پر ایمان لانے کے لئے مجبور کرتی ہے کہ کوئی بالا تر ہستی ہے.اور وہ عالم الغیب اور مدبر بالا رادہ ہستی ہے.قرآن کریم میں جن انبیاء کا ذکر آیا ہے.اور جو حالات ان کو پیش آئے.اور قبل از وقت ان مشکلات اور غیر موافق حالات میں انہوں نے جو خبریں اپنی ترقی اور کامیابی کے متعلق دیں اور یہ کہا کہ خدا نے ہم کو ایسا بتایا ہے.اور پھر باوجود خطرناک مخالفت اور شدید ترین مشکلات کے وہی ہوا.جو خدا نے کہا تھا.جس کا انہوں نے خدا کے نام سے اعلان کیا تھا.تو ان ترقیات کو دیکھ کر انسان حیران ہو جاتا ہے اور آج بھی جب ان کی تاریخ کو پڑھتا ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح پر سالہا
517 سال مشکلات اور مخالفت میں گزارنے کے بعد وہ کامیاب ہوئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطرناک مشکلات کے وقت خدا سے خبر پا کر اپنی کامیابی اور ترقی کے متعلق کہا تھا.وہ کس طرح پورا ہوا ؟ اس کو دیکھ کر صاف طور پر اقرار کرنا پڑتا ہے کہ جو کچھ کہا گیا تھا.وہ خدا کا کلام تھا.نہ آنحضرت صلی اللہ اللہ علیہ وسلم کا.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق بعض لوگوں کو دھوکا لگا ہے کہ آپ عالم الغیب تھے.یہ درست نہیں.خدا تعالیٰ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں ہوتا.اور نہیں ہے.عالم الغیب وا شہادت وہی پاک ذات ہے اور اس کی صفات میں کوئی شریک نہیں.انبیاء علیہم السلام عالم الغیب نہیں ہوئے.البتہ خدا تعالی کی طرف سے وحی پا کر وہ بعض پیش گوئیاں کرتے ہیں.اور یہ علم غیب ان کا اپنا نہیں بلکہ خدا کا ہوتا ہے.اور وہ غیب کی خبریں جو وہ قبل از وقت خدا کی وحی سے دیتے ہیں.خدا کی ہستی اور ان کی صداقت کا ثبوت ہوتی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیاء کے سردار ہیں.اور آپ کو جو غیب کی خبریں دی گئی ہیں.ان کا سلسلہ بہت لمبا ہے.اس لئے کہ آپ کی نبوت کا دامن بہت وسیع ہے.مگر باوجود اس کے بھی آپ عالم الغیب نہ تھے.ہم جب آپ کے حالات کو دیکھتے ہیں.تو ان میں بعض عجیب واقعات نظر آتے ہیں.آپ نے خدا سے الہام پا کر مکہ معظمہ کا ارادہ کیا.اور آپ ایک بہت بڑی جماعت کو لے کر عمرہ کے ارادے سے چل پڑے.مگر حدیبیہ کے مقام پر آپ کو رک جانا پڑا.اور آپ کو بغیر عمرہ کرنے کے واپس آنا پڑا.آپ کو بڑی تکلیف ہوئی.جو جماعت صحابہ کی آپ کے ساتھ تھی.ان سب کو اپنے اموال خرچ کرنے کے باوجود واپس ہونا پڑا.یہاں تک کہ بعض کو ابتلا بھی آیا کہ اگر رسول تھے.تو خدا تعالٰی نے آپکو کیوں نہ بتا دیا کہ اس سال آپ عمرہ نہ کر سکیں گے.مگر یہ واقعہ بتاتا ہے کہ آپ نے جو کچھ خدا سے خبر پائی تھی.اس پر پورا یقین تھا کہ وہ خدا ہی کی طرف سے ہے اور وہ اپنے وقت پر اسی طرح پوری ہوئی اور آپ کا اس سال عمرہ کے لئے آجانا اور مکہ میں داخل ہو سکتا اس امر کی دلیل ہو گیا کہ آپ عالم الغیب نہ تھے.ورنہ آپ کو اس سال آنے کی ضرورت نہ سکتی.غرض یہ درست نہیں کہ کوئی نبی یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی عالم الغیب تھے.اس کا علم اسی حد تک ہوتا ہے.جو خدا سے اسے ملتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا تعالیٰ سے خبر پا کر اسلام کی ترقی کی پیش گوئی کی ہے.اسلام کو ایک کامیابی آپ کے اور صحابہ کے عہد میں ہوئی اور وہ بہت بڑی کامیابی تھی.مگر آخری
518 زمانہ کے متعلق بھی اس کی ترقی اور کامیابی کی ایک پیش گوئی ہے اور اسلام اپنی تعلیم کے کمالات اور دلائل و براہین سے کل ادیان پر غالب آئے گا.وہ علمی اور عملی سچائیوں کے ساتھ غالب ہو گا.اس میں شبہ نہیں کہ اسلام کو پہلے غلبہ ہوا ہے.مگر یہ وہ زمانہ تھا کہ اگرچہ اسلام کے لئے تلوار نہیں اٹھائی گئی.تاہم ظاہر میں تلوار نظر آتی ہے.لیکن ایسے زمانہ میں جبکہ مسلمان تلوار کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ ہوں گے اور اپنی علمی اور عملی کمزوریوں میں بے نظیر ہو جائیں گے اس وقت اسلام کے غلبہ کی خبر دینا اور اسلام کا غالب آنا ایک ایسا زبردست اور کھلا کھلا نشان ہے کہ اس کے تسلیم کئے بغیر چارہ ہی نہیں رہ سکتا.خدا تعالیٰ نے سورہ صف میں اسلام کی اس کامیابی کی خبر آخری زمانہ کے متعلق دی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی آخری زمانہ میں فارسی النسل کے ذریعہ غلبہ اسلام کی خبر دی ہے.اور آپ کے تیرہ سو سال بعد اس غلبہ کی ابتدا ہو گی.پہلے مسلمانوں کہ زوال ہو گا.ہر طرح سے ان میں زوال آجائے گا.ان کی دینی دنیوی مادی اخلاقی اور روحانی ہر قسم کی حالتوں میں ضعف پیدا ہو گا.اور باوجود اس ضعف و زوال کے خدا تعالی اسلام کو غالب کرے گا.یہ خبر ایک خصوصیت رکھتی ہے.دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب کوئی قوم تباہ ہو جاتی ہے تو شاذ ہی پھر وہ ترقی کرتی ہے.اس وقت مسلمانوں کی جو حالت تھی.کوئی اس سے یہ قیاس نہیں کر سکتا کہ یہ قوم پھر غالب ہو گی.مگر خدا تعالیٰ نے اس کے پھر غالب ہونے کی خبر دی ہے.اور یہ ہو کر رہے گا.اور یہ غلبہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے.اس طرح پورا ہو گا کہ ایرانی النسل میں سے بعض لوگوں کے ذریعہ پورا ہو گا.جن میں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وہ پہلا وجود ہے.جو اس غلبہ کا اصل ذریعہ ہے.اور آپ کے بعد جو ترقیات ہوں گی.وہ آپ ہی کی ترقیات ہیں.آج تم دیکھو کہ ان ترقیات کے آثار پیدا ہو چکے ہیں.یکدم تبدیلیاں نہیں ہوا کرتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ابتدائے دعوئی میں جو حالت تھی.اس پر غور کرو.اور آج جو حالات پیدا ہو چکے ہیں.ان کو دیکھو کہ وہ بیچ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ سے بویا گیا.باوجود یہ کہ تمام قومیں اور حکومت بھی چاہتی تھی کہ اس پیج کو تباہ کر دیا جائے.مگر وہ بڑھا اور پھلا اور اب وہ وقت آ رہا ہے کہ اس کے لذیذ اور شیریں اثمار دنیا میں اسلام کے لئے ایک کامل غلبہ کی رو کو پیدا کر دیں.حالات ایک زور کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں.وہ لوگ جو اپنے حظوظ
519 نفس کے لئے شراب کو صرف جائز ہی نہیں بلکہ ضروری سمجھتے ہوئے اسلام پر اعتراض کرتے تھے کہ اس نے شراب جیسی ضروری چیز کو حرام کیا ہے وہ کس طرح پر خدا کا دین ہو سکتا ہے.آج ان کے گھروں میں ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں اور حالات وقت نے ایسی صورت نمایاں کی ہے کہ خود مغربی لوگوں میں یہ تحریک پیدا ہو گئی ہے کہ شراب بند کی جائے لڑائی کے ایام میں بھی اس کی مخالفت ہوئی.مگر اب تو بڑے زور سے یہ تحریک کی جا رہی ہے.امریکہ قطعی طور پر قانونا شراب بند کر چکا ہے اسی طرح پر سود کے متعلق ساڑھے تیرہ سو سال کے قریب ہونے کو آئے ہیں.قرآن مجید نے یہ حکم دیا تھا کہ سود حرام ہے اور یہ بتایا گیا تھا کہ سود جنگوں کو پیدا کرتا ہے.اب اس کی حقیقت کھل چکی ہے.پچھلی جنگ عظیم ہی کو لو.اگر سود کی بلا نہ ہوتی تو اتنی دیر تک وہ جنگ جاری نہ رہ سکتی اور اب اقتصادیات کے ماہر اور فلاسفر یہ آواز بلند کر رہے ہیں کہ سود جنگ کا موجب ہوتی ہے.جب کبھی کوئی بڑی لڑائی ہوئی ہے تو اسے سود نے لمبا کیا ہے.اسی طرح کثرت ازدواج پر اعتراض ہوتے رہے.اب تک بھی بعض لوگ کرتے ہیں.مگر عورتوں کی کثرت نے جو پہلے ہی تھی.اور اب لڑائی کے بعد اور بھی اس میں اضافہ ہو گیا ہے اس آواز کو بھی بلند کیا ہے کہ ایک سے زیادہ عورتیں کی جائیں.کچھ شک نہیں.یہ آواز دھیمی ہے.مگر اٹھ رہی ہے اور وہ وقت قریب معلوم ہوتا ہے.جب اس صداقت کو عملاً تسلیم کر لیا جائے گا.بہت لوگ ہیں جو اس کے حامی ہیں.مگر وہ سوسائٹی کے رسم و رواج سے ڈرتے ہوئے آواز نہیں اٹھاتے.اسی طرح طلاق کے متعلق بھی آواز اٹھ رہی ہے کہ یہ مشکلات کا علاج ہے.امن کے ذریعہ سے جو تغیرات ہوتے ہیں.ان کی رفتار آہستہ ہوتی ہے.جو گاڑی تیزی سے چل رہی ہو.اس کو یکدم نہیں روکا جا سکتا.پس جو رو پہلے سے مغرب میں چلی ہوئی ہے.اب اسے روکنے کے لئے ایک وقت کی ضرورت ہے.لیکن یہ ظاہر ہے کہ تغیرات ہو رہے ہیں.انہیں تغیرات میں سے ایک یہ مسجد بھی ہے.سو سال پہلے یہ خیال میں بھی نہ آتا ہو گا کہ لندن میں مسجد بنائی جائے گی.یہ خیال کرتے ہوئے مجھے بچپن کی آوازیں یاد آتی ہیں.میری عمر اس وقت ۳۵ سال کی ہے.اس وقت یورپ کا بڑا علاج اسلام کے متعلق یہ سمجھا جاتا تھا کہ اپالوجی کی جاوے جس سے عیسائیت اور اسلام میں اتحاد ہو جائے مگر میں اس وقت یہی سمجھتا تھا اور خواہ کوئی اس وقت مجھ کو پاگل ہی کہتا.میرے خیال میں اپالوجی کی ضرورت نہیں تھی.میں یقین رکھتا تھا کہ اسلام پھیل جائے گا.اور اب تو میں دیکھتا ہوں کہ اسلام پھیل رہا ہے.اور مغرب اسلام کی طرف آ رہا ہے یہ تغیر جواب ہو رہا ہے.معمولی نہیں ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ
520 والسلام نے جب پیش گوئی کی تو اسے بالکل خیالی سمجھا جاتا تھا.مگر آج واقعات بتا رہے ہیں کہ آپ کے غلام ان ملکوں میں اس تبلیغ کو پھیلا رہے ہیں اور اس پیغام کو پہنچا رہے ہیں.جو آپ لے کر آئے تھے.اب اس تغیر کو دیکھتے ہوئے یقین ہو جاتا ہے کہ وہ پیج جو حضرت مسیح موعود کے مبارک اور مقدس ہاتھوں نے خدا سے علم پا کر بویا تھا.اس کا درخت اب نکل رہا ہے اور درخت کی حفاظت کا بہترین وقت وہی ہے جب کہ کونپل نکل رہی ہو.اگر اس وقت اس کی حفاظت اور غور و پرداخت عمدگی سے ہو.تو اس کے بہترین اور خوش کن پھل یقینی ہوتے ہیں.لیکن اگر بے پروائی اور غفلت کی جائے.تو اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے.پس محنت اور ہوشیاری سے اس کی نگرانی کرو.ہم سب کا فرض ہے کہ اس کونپل کی نگہداشت اور آبیاری میں غفلت نہ کریں.اور اپنی ساری توجہ کوشش اور احساسات اس طرف لگا دیں.تاکہ ہم اس کے پھلوں کے لئے موقع پائیں.ورنہ اس کو نپل کی نگہداشت ہو گی.اور اس کے پھل شیریں ہوں گے.درخت بڑھے گا.کیونکہ خدا کی یہی منشاء ہے.لیکن افسوس ہو گا کہ اس کا ذریعہ اگر ہم نہ ہوں پس میں پھر تاکید کرتا ہوں کہ اپنی ساری توجہ اس طرف لگا دو.خدا تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے.آمین بخاری کتاب التفسير تفسير سورة الجمعه (الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۲۴ء)
+ 521 81 پسنا نامی جہاز کے تختہ پر حضور کا خطبہ جمعہ (فرموده ۱۴ نومبر ۶۹۲۴) شھد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا معمولی حالات کے ماتحت خدا تعالیٰ کا فضل شامل حال رہے تو اور کوئی جمعہ ہندوستان کے باہر نہ آئے گا.اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ باوجود یکہ ہم بوجہ مسافر ہونے کے ظہر کی نماز پڑھ سکتے ہیں.جمعہ کی نماز پڑھ لیں.انسانی زندگی کو اگر دیکھا جاوے تو اس میں دو کیفیتیں پائی جاتی ہیں.اور وہ دونوں ہی اپنی ذات میں شدید ہوتی ہیں ایسی شدید کہ انسان سمجھتا ہے کہ ان کیفیات کا ہی ساری زندگی پر اثر ہے.لیکن دونوں حالتوں کا دوسرے وقت میں انسان اندازہ ہی نہیں کر سکتا کہ وہ پیدا ہی کیونکر ہو سکتی ہیں.وہ کیفیتیں کیا ہیں ایک یہ کہ جس وقت انسان کو کوئی معاملہ پیش آتا ہے.وہ خیال کرتا ہے کہ جس رنگ میں یہ خواہش پیدا ہوئی ہے.ترقی کا یہی ایک ذریعہ ہے.اور اگر یہ نہ ہو تو وہ تباہ ہو جاوے.دوسرے یہ کہ جب وہ بات ہو جاتی ہے.تو وہ کہتا ہے کہ یہ معمولی بات تھی ہوتی تو کیا اور نہ ہوتی تو کیا؟ اگر جوش دکھالیا تو کیا نہ دکھاتا تو کچھ ہرج نہ تھا.یہ کیفیتیں دنیا کے ہر کام میں نظر آتی ہیں.ایک وقت ہوتا ہے.خاص رو میں جذبات سے چلے جاتے ہیں.اور جب وہ کام ہو چکتا ہے.تو دوسرا رنگ پیدا ہو جاتا ہے.ہم لوگ اس کا نام قوت فاعلی اور انفعالی رکھتے ہیں.اور مغربی لوگ اس کو ایکشن اور ری ایکشن کہتے ہیں.بات ایک ہی ہے.ایک شخص نقصان کرتا ہے.تو غصہ کے جذبات جوش میں آتے ہیں.اس وقت یہی سمجھ میں آتا ہے کہ ناراض نہ ہوں تو کیا ہو لیکن جب وہ وقت گذر جاتا ہے تو دوسری کیفیت اپنا اثر شروع کرتی ہے.تب کہتا ہے کہ اگر میں خاموش رہتا تو کیا حرج تھا.جب ایکشن ہوتا ہے تو سمجھتا
522 ہے کہ یہ ضروری تھا.اور جب ری ایکشن ہوتا ہے تو اسے سمجھتا ہے کہ یہ ضروری تھا.انسان کی یہ نارمل حالت ہے.جب انسان ان کیفیات کی اس حالت میں سے گذرتا ہے تو موجودہ حالت اور مستقبل قریب کی حالت میں جوش نمو کام کرتا ہے.اور گذشتہ کے بھلانے کا جوش پیدا ہوتا رہتا ہے.پھر اس کے بعد غیر معمولی تغیرات کا سلسلہ چلتا ہے.ان میں سے پھر کبھی یہ حالت پیدا ہوتی کہ قوت فاعلی ہی کا اثر چلا جاتا ہے اور انفعالی قوت آتی ہی نہیں.اور زمانہ قوت فاعلی کے ہے اثرات کو مٹاتا نہیں.ری ایکشن کی حالت پیدا نہیں ہوتی تو دماغ کی حالت بیکار نہیں.اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اپنی ہی قوتیں ٹکرا کر بیکار ہو جائیں گی.پھر ایک اور تغیر ہے کہ قوت فاعلی حد سے نہیں گزرتی.موقعہ پر سختی کرتا اور ناراض ہوتا.مگر موقعہ سے زیادہ نہیں بڑھتا.اس سے قوت فاعلی کا ذخیرہ کافی رہتا ہے.چونکہ عین محل پر غصہ اور عین موقعہ پر خوش ہوتا ہے اس لئے دونوں قوتیں زندہ رہتی ہیں نہ ضائع ہوتی ہیں اور نہ زنگ آلود ہوتی ہیں.ایسا ہی قوت انفعالی کا حال ہے چونکہ شدید غصہ نہیں ہوتا.اس لئے بھی افسوس کمزور ہوتا ہے.اس لئے دونوں طاقتیں محفوظ رہتی ہیں.یہ بہت اعلیٰ درجہ کی بات ہے جو روحانی کہلاتی ہے.تو اب تین درجے ہوئے.ایک طبعی ایک حیوانی اور ایک روحانی.یہ ایک قانون ہے جس کو ہم دیکھتے ہیں.اس کے علاوہ ایک اور قانون ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالٰی نے انسان کی زندگی کو ایسا بنایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی دو صفتوں کے ماتحت چلتی ہے.اگر ایسی حالت نہ ہو.تو ان صفات کا انسان سے کوئی تعلق نہ رہے.وہ صفات قبض اور بسط کی ہیں.اور خدا کا نام القابض اور الباسط ہے.يقبض و بسط اگر غور کریں.تو انسانی حالت ان ہر دو صفات کے ماتحت ہمیشہ جاری ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور رونے لگا کہ یا رسول اللہ میں منافق ہو گیا آپ نے پوچھا کیوں.عرض کیا کہ جب میں آپ کی مجلس میں ہوتا ہوں.تو میری یہ حالت ہوتی ہے.کہ جنت ونار میرے سامنے ہوتے ہیں.اور جب میں گھر جاتا ہوں تو یہ حالت جاتی رہتی ہے اور میں سب کچھ بھول جاتا ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی تو ایمان ہے.شہ ایمان ایسی حالت میں سے گذرتا ہے اور مومن کے ساتھ یہی معاملہ ہوتا ہے.یعنی اس پر قبض اور بسط کی حالت آتی رہتی ہے.ایک وقت اس پر ایسا آجاتا ہے.کہ خدا تعالیٰ علم اور معرفت کو اس سے ایسے طور پر ہٹا لیتا ہے کہ اسے خوف پیدا ہو جاتا ہے کہ آیا وہ مومن ہے یا نہیں.پھر ایک وقت
523 آتا ہے کہ وہ حالت جاتی رہتی ہے.اور پھر وہ معرفت اور بصیرت پیدا ہو جاتی ہے.حقیقت میں انسان کی زندگی اور ترقی اور کامیابی کے لئے یہ ضروری ہے کہ مختلف حالتیں اس پر وارد ہوتی رہیں.ایک وقت روحانی حالت کی ترقی اور درستی کی طرف متوجہ ہوتا ہے.تو دوسرے وقت وہ حالت نہیں پاتا اور فکر کرتا ہے.جب وہ روحانی ترقی کی طرف متوجہ ہوتا ہے.تو بعض وقت سمجھتا ہے کہ کھانے پینے کے حوائج ضرور یہ میں جو وقت خرچ ہوتا ہے.یہ بھی ضائع جاتا ہے.سارا وقت خدا ہی کے لئے لگانا چاہیئے.حالا نکہ منشا الہی یہ ہے کہ دوسری طرف بھی لگانا چاہیئے.اگر وہ ان چیزوں کی طرف خدا کے لئے متوجہ ہوتا ہے تو وہ حالت بھی اس کی روحانی ہی ہو جاتی ہے.اور سب کچھ خدا کے لئے ہو جاتا ہے.سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ مجھے پر ایک حالت ایسی آتی ہے کہ جب تک خدا تعالی مجھ کو نہیں کہتا کہ اے عبد القادر میری ذات کی قسم ہے کھا میں نہیں کھاتا.اور نہیں پیتا اور نہیں پہنتا.۲۰ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دیتے ہیں میں ایسے بزرگ کی نسبت یہ خیال نہیں کر سکتا.اور یہ بھی درست ہے.جو انہوں نے کہا ہے حقیقت میں یہ سوال و جواب شریعت کا ہے.ایک مومن قسم کھا کر کہہ سکتا ہے کہ ایک مومن کا کھانا پینا او رپہننا سب اللہ ہی کے لئے اور اس کے حکم سے ہے.اگر اس کا حکم نہ ہوتا تو ایک مومن کبھی نہ کھاتا اور نہ پیتا اور نہ پہنتا پس جب انسان الہی شریعت کے اس طرح پر تابع ہو جاتا ہے اور اپنی مرضی اور خواہش کو درمیان سے نکال کر خدا تعالیٰ کی مرضی اور رضا کو مقدم کر لیتا ہے.تو اسے اللہ کے حکم کے سوا کسی کام کے کرنے سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے.پھر جو کچھ وہ کرتا ہے.وہ اللہ ہی کے حکم کی تعمیل ارشاد ہوتی ہے.یہ حالت ہر شخص پر خواہ وہ نبی ہو یا عام آدمی آتی ہے.پھر ایک اور روحانی قانون جاری ہے کہ قبض اور بسط سے مختلف نتائج پیدا ہوتے ہیں.یعنی قبض سے قبض اور بسط سے بسط پیدا ہوتا ہے.کسی نے کہا ہے.افسرده دل افسرده کند انجمن را ایک شخص جو خود ایک زبردست قبض کی حالت میں مبتلا ہے.وہ ایک مجلس میں چلا جاوے.تو اس کی قبض کا اثر دوسروں پر بھی نمایاں ہونے لگتا ہے.اور وہ افسردہ خاطر ہو جاتے ہیں اور ایک شخص جو بسط کی زبردست حالت میں ہے.اس کی مجلس میں اگر غم و ہم میں مبتلا شخص بھی چلا جاوے.تو رفتہ رفتہ اس کی وہ حالت قبض بسط اور انشراح صدر سے تبدیل ہو جائے گی.اس کے لئے اجتماع تخیل کی ضرورت ہے.زبردست انسان ایسی حالتیں پیدا کر دیتے
524 ہیں.اور خدا تعالیٰ کے نبیوں اور ماموروں کی صحبت میں یہ نظارے عام طو رپر نظر آتے ہیں.اور دوسرے لوگوں میں بھی.ایک شخص سخت غصہ کی حالت میں کسی مجلس میں آجاوے اور اس غصہ کا اظہار اس کے چہرہ اور زبان سے ہو رہا ہو دو چار گالیاں بھی سناوے تھوڑی ہی دیر میں سب کی حالت بدل جائے گی.اور منغص ہو جائیں گے.اور اگر وہ خوش ہے اور ہنستا ہوا آتا ہے.تو اس کے اثر سے باقی بھی خواہ کیسے افسردہ خاطر ہوں.ہنسنے لگ جائیں گے.یہ عام مشاہدات ہیں.جن کا کوئی انکار نہیں کر سکتا.پھر ایک تیسرا قانون ہے کہ جب ایک جماعت اکٹھی ہو.اور اس کو مل کو رات دن رہنا پڑے.تو مختلف حالتیں پیدا ہو کر ایک رنگ ان میں پیدا کرتی رہتی ہیں.گویا ایسی حالت ہے کہ ایک دوسرے سے باندھ دیا ہے.کبھی فاعلی اور انفعالی قوتوں کا ظہور ہو رہا ہے.کبھی قبض اور بسط کے اثرات نمودار ہیں.رات دن اکٹھے رہتے ہیں.اور ان حالتوں میں سے یکساں گذرتے ہیں.گویا ان کو باہم باندھ دیا ہے.اس مذکورہ تقسیم کے لحاظ سے یہ ۶ قسم کی حالتیں ہو جاتی ہیں.چونکہ وہ سب اکٹھے رہتے ہیں.اس لئے یہ بھی قدرتی بات ہے کہ ایسی جگہ باہم اختلاف بھی پیدا ہو جاتا ہے.اور بعض اوقات تنازعہ بھی ہو جاتا ہے اور پھر اس سے تنافر اور تحاسد بھی پیدا ہو سکتا ہے.اس طبعی قانون سے ہم الگ نہیں ہو سکتے.ہم سب ایک لمبے سفر میں ساتھ رہے ہیں.اور وہ دن خدا کے فضل سے ختم ہو رہے ہیں.ایسی حالت میں وہ لوگ جن کو باہم اکٹھا رہنا پڑتا ہے.ان میں سے بعض میں قبض اور بعض میں بسط کا پیدا ہونا ضروری ہے.اگر ایک رفیق میں قبض یا بسط ہے.تو دوسروں کا اس سے متاثر ہونا ضروری ہے.یہ طبعی قانون ہے نبی نہیں بچ سکتے.تو اور کی کیا ہستی ہے.اور پھر اگر اختلاف ہو اور مختلف خیال ہوں.تو ایک مشرق کو اپنے خیالات کی رو میں جا رہا ہو گا.تو دوسرا مغرب کو اس سے لازماً اثر پڑ کر اختلاف پیدا ہو گا.پس اس کے دور کرنے کے لئے لفظوں کی ضرورت نہیں.بلکہ قلبی خیالات سے ہی اصلاح ہو گی.جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ فاعلی اور انفعالی قوتیں اپنا کام کرتی ہیں.اب اگر وہ طبعی نہیں ہیں.تو حیوانی رنگ میں نقصان رساں ہوں گی.اور لانسا نتیجہ خطرناک ہو گا اور اس صورت میں یہ خطرہ ہر وقت سامنے ہے کہ طبعی حالت کا حیوانی حالت سے ٹکراؤ ہو جاوے.اور اس سے پھر یہ نتیجہ پیدا ہو گا کہ وہ ان جھگڑوں کو ہمیشہ اپنے دل میں یاد رکھے.جس سے اس کا دل اور دماغ
525 دونوں خراب ہو کر اس کی اخلاقی اور روحانی حالت تباہ ہو جائے گی.اور نہ صرف اس کی بلکہ اپنے متعدی اثر کی وجہ سے وہ سوسائٹی کو بھی خراب کر دے گا.لیکن اگر وہ اپنے دل میں جگہ نہیں دیتا.اور حیوانی جذبات سے نکل کر وہ روحانی حالت میں چلا گیا ہے.تو اس کی مثال اس شخص کی سی ہے.جو تیل مل کر پانی میں غوطہ مارتا ہے.جب یہ اس میں سے باہر آتا ہے.تو پانی اس کے جسم پر ٹھر نہیں سکتا.اور فوراً جسم خشک ہو جاتا ہے.اس کے دل میں بھی قبض اور بسط کی حالتیں پیدا ہوتی ہیں.دوسروں کے اثرات بھی پڑتے ہیں.مگر وہ ان کے برے اثرات سے صاف نکل آتا ہے.چونکہ یہ سفر ختم ہونے والا ہے.اس لئے ہم اس گذرے زمانہ میں طبعی قوانین سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے.اس لئے میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ان تین حالتوں میں کامل مومنوں کی حالت پیدا کرنے کی کوشش کرو اور کم از کم طبعی حالت پیدا ہو کر نسیانی کیفیت پیدا ہو جاوے یعنی اگر خود کوئی ایسی بات کی ہے.جو دوسروں پر برا اثر ڈال سکتی ہے.تو حالت انفعالی پیدا کرو.اور اس انفعال سے پھر نسیان پیدا کر کے اس کو اپنے دل سے محو کر دو.اگر ایسا کرو گے تو یہ جذبات حیوانی رنگ پیدا نہ کریں گے.اور خوشی کا موجب ہوں گے.میں نے اسی غرض سے تم کو اکٹھا کیا تھا کہ یہ نصیحت کر دی جاوے.اور جمعہ بھی پڑھ لیا جاوے.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس سفر کے نیک نتائج سے ہم کو بہرہ مند کرے اور اس کے برے نتائج سے محفوظ رکھے.آمین پھر دوسرے خطبہ میں فرمایا جب ہم اس سفر کے لئے چلے تھے.تو ہمارے احساسات اور تھے.میرے اور تھے اور تمہارے اور میرے احساسات تو اسی حد تک تھے کہ تبلیغ کے آئندہ نظام کے لئے میرا خود حالات کو دیکھنا ضروری ہے.اس سے زیادہ کچھ نہ تھے کہ وہاں جاتے ہی لوگ سب کے سب مسلمان ہو جائیں گے یا کیا ہو گا.بهر حال مختلف احساسات تھے.کسی کا یہ بھی خیال ہو گا کہ انگلستان میں قدم رکھتے ہی سارا انگلستان مسلمان ہو جائے گا مگر جس خیال اور ارادہ کو لے کر ہم آئے تھے.ان کو مد نظر رکھتے ہوئے اور ان حالات کو جو پیش آئے دیکھتے ہوئے میں یہ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے بہت بڑا احسان فرمایا ہے.ہر ملک میں جہاں ہم گئے ہیں جو کامیابیاں ہوئی ہیں.اور جس طرح پر خدا تعالیٰ نے ہماری تائید کی ہے.یہ ہمارے وہم و قیاس اور خیال سے بہت ہی بالا تھی.بلکہ میں کہتا ہوں.اسے ہمارے قیاس سے نسبت ہی نہیں.اس لئے وہ ہمارے کام کا نتیجہ نہیں.بلکہ محض اس کا فضل ہے انسان
526 جب سمجھتا ہے کہ ایسا ہو گا اور اس سے کچھ بڑھ کر ہو تو وہ کہتا ہے کہ یہ فضل ہے.لیکن جہاں جو کچھ ہوا ہو.وہ خیال سے بالا تر ہی ہو اور ہماری کوشش کے مقابلہ میں سینکڑوں گنا نتیجہ ظاہر ہو.تو کون ہے.جو یہ اقرار نہ کرے گا کہ یہ محض خدا کا فصل اور اس کے رحم کے برکات ہیں اگر ایک شخص بھی ہمارے پاس نہ آتا.ایک بھی ہمارا لیکچر نہ ہوتا تو میرے لئے یہ ایک معمولی امر ہوتا.کیونکہ میں تو اس امید اس خیال اور غرض سے نکلا ہی نہ تھا.میری غرض تو وہی تھی کہ خود جا کر حالات کا معائنہ کروں.پس میرے لئے جو کچھ ہے وہ تو سرا سر اس کا رحم اور فضل ہی ہے.اور اگر تم میں سے کسی کو یہ خیال تھا.تو اس کی امید اور خیال سے بھی بہت بڑھ کر خدا نے فضل کیا ہے.اور یہ اس کا محض احسان اور کرم ہے ایسی حالت میں مومن کا فرض ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر کرے.یہ شکر اس کے انعام کو بڑہائے گا کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.ان شکر تم لازیدنکم و ان کفر تم ان عذابی شدید (ابراہیم (۸) میری نعمت کا اگر تم شکر کرو گے.تو ضرور ضرور ہم ان انعامات کو بڑھائیں گے.اور اگر تم شکر نہ کرو اور قدر نہ کرو.تو پھر یاد رکھو کہ یہی نہیں کہ وہ انعام چھن جائے گا بلکہ عذاب ہو گا.اس سے بڑھ کر واپس دینا پڑے گا پس ضروری ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے ان انعامات پر اس کے بہت ہی شکر گزار ہوں.اور اس شکر گذاری کو اپنے اعمال سے ثابت کر کے دکھائیں.دیکھو اتنے قلیل عرصہ میں کہ خواب کی طرح گذر گیا.اس نے کس قدر فضل اور کرم ہم پر کیا ہے.جو کامیابی ہوئی ہے اور جس رنگ میں ہوئی ہمارے وہم و خیال میں بھی نہ تھی.اور نہ ہمارے پاس اس کے اسباب تھے.مگر اس نے آپ ہی اسباب پیدا کئے.اور آپ ہی ان فضلوں سے ہم پر احسان کیا.پس ان انعامات کو قدر اور شکر کی نظر سے دیکھو.تاکہ اس کے فضلوں کے اور دروازے تم پر کھلیں.ایسا نہ ہو کہ تم ناقدری کر بیٹھو.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہم میں شکر گزاری کی روح نفخ کرے.اور ہم کو توفیق دے کہ اس کے شکر گزار بندے بن جاویں.آمین.(الفضل ۱۶ دسمبر ۱۹۲۴)
80 82 527 سفر یورپ سے واپسی پر حضرت خلیفتہ المسح کا پہلا خطبہ جمعہ فرموده ۲۸ نومبر ۱۹۲۴ء) مشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا میں آج بوجہ حلق کی خرابی اور بوجہ اس کے کئی دنوں سے متواتر دن کے بہت سے حصوں میں تقریریں کرتا رہا ہوں.کوئی لمبی بات نہیں کہنا چاہتا.لیکن چونکہ خطبہ جمعہ اسلامی طریق کے مطابق اعلانات کا موقعہ ہے.اس لئے میں اس خطبہ میں جو واپسی سفریورپ کے بعد پہلا خطبہ ہے.جو مجھے اس ملک میں پڑھنے کا موقعہ ملا ہے.اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ میں اس خدمت اس اخلاص اس قربانی اور اس ایثار کا شکریہ ادا کروں.جس اخلاص جس محنت جس جانفشانی جس قربانی اور جس ایثار کے ساتھ میرے بعد ان لوگوں نے جن کو ہندوستان کی جماعت احمدیہ کا انتظام سپرد کیا گیا ہے.انتظام کو چلایا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں.من لم يشكر الناس لم يشكر الله ل جو انسانوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا.وہ خدا کا بھی نہیں کرتا.مجھے خوب یاد ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام گھر میں بیٹھے ہوئے تھے.حضرت والدہ مکرمہ تھیں اور میں تھا.کوئی بات شروع ہوئی.آپ نے فرمایا.مولوی صاحب حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ) کا وجود خدا تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے.اگر مولوی صاحب اپنی جگہ پر ہوتے.تو لوگوں کے لئے مرجع کے طور پر ہوتے.کیونکہ بڑے بھاری طبیب اور مخلوق کے بڑے خیر خواہ ہیں.مگر باوجود اس کے کہ خدا تعالی نے انہیں یہ عزت اور یہ رتبہ دیا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یہاں آگئے اور سلسلہ کا کام اور غریبوں کا علاج کرنے لگے.اس کا ثواب ہم کو بھی ملے گا کیونکہ وہ ہماری وجہ سے یہاں آئے ہیں.اگر ہم ان کا شکریہ نہ کریں تو یہ خدا تعالیٰ کی ناشکری ہو گی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دلوں پر قبضہ خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اپنی کسی خوبی اور اپنی عقل سے لوگوں کے دلوں پر قبضہ کر لیا.خوبصورتی، علم، لیاقت قابلیت
528 بہت اچھی چیزیں ہیں.مگر ان کا لوگوں کو نظر آنا کسی بندہ کے اختیار میں نہیں ہے.بہت سی خوبصورتیاں بغیر کسی کے دیکھے اور بغیر اپنا کوئی قدردان پیدا کئے برباد ہو جاتی ہیں بہت سی لیاقتیں بغیر لوگوں کی توجہ کے چھپی رہتی ہیں.بہت سے علوم بغیر کسی پر ظاہر ہوئے مٹ جاتے ہیں.اس لئے اگر کسی کو یہ سب خوبیاں مل بھی جائیں تو بھی کلام چلانے والے اور اس کے دست و بازو بننے والے آدمیوں کا اسے مل جانا.اس کی کسی خوبی کی وجہ سے نہیں کہا جا سکتا.کیونکہ خوبیوں کی طرف لوگوں کو توجہ دلانا خدا تعالٰی کا ہی کام ہے.لیکن اگر ان خوبیوں سے خالی ہو.تو اس کی طرف لوگوں کی توجہ کا پھرنا محض خدا تعالیٰ کا فضل ہی ہو سکتا ہے.پس میں ان دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں.جنہوں نے میرے بعد جماعت کا اخلاص سے کام کیا.یعنی امیر جماعت احمدیہ ہند مولوی شیر علی صاحب اور ان کے نوائب مفتی محمد صادق صاحب و میاں بشیر احمد صاحب اور مجلس شوری کے تمام ممبروں کا شکریہ ادا کرنے اور خدا تعالیٰ سے انہیں اعلیٰ بدلے ملنے کی التجا کرنے کے بعد اس رب ودود کا شکریہ ادا کرتا ہوں.جو حق کے لحاظ سے سب سے پہلے شکریہ کا مستحق ہے.لیکن چونکہ وہ دل کے خیالات اور قلبی احساسات پر مطلع ہے.پیشتر اس کے کہ ہم زبان سے اس کا شکریہ ادا کریں.وہ دلی حالات سے واقف ہوتا ہے.اور پیشتر اس کے کہ اپنے خیالات کو الفاظ میں لائیں.وہ ذرہ ذرہ سے آگاہ ہے.اس لئے میں نے خیال کیا کہ اس کا ذکر بتدریج بعد میں آئے.یعنی پہلے ادنی کا ذکر ہو.پھر اعلیٰ کا پس میں اس کے حضور دعا او ر التجا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت کے اخلاص محبت قربانیوں اور ایثار کو اور زیادہ کرے.ہمارے اندر ایسے آدمی پیدا ہوں.جو سلسلہ کے کاموں کو چلانے کی قابلیت اور اہلیت رکھتے ہوں.جن کے دل خدا تعالیٰ کی محبت سے پر ہوں.ان کے قلوب اس کی مخلوق کی شفقت سے معمور ہوں.ان کا ایک سرا ذات باری کی صفات سے وابستہ ہو.تو دوسرا سر اپنی نوع انسان کی ہمدردی کے کنڈے سے بندھا ہوا ہو.وہ اپنے مفاد اور اپنے کاموں کو ترک کر کے اللہ تعالی کے لئے زندگی وقف کریں.خدا تعالیٰ ان کی کوششوں کو زیادہ سے زیادہ بار آور کرے.جو کچھ اب تک ہوا ہے.محض خدا کے فضل سے ہوا ہے.اور آئندہ بھی جو کچھ ہو گا.اس کے فضل سے ہو گا.انسانی کوششوں سے نہ پہلے کچھ ہوا ہے.نہ آئندہ ہو گا.مگر ہماری کو تاہیوں ہماری بستیوں سے خدا تعالیٰ کی نعمتیں ہلائی جا سکتی ہیں.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمیں ان غفلتوں ان بستیوں اور ان کمزوریوں سے بچائے.ہم پر اپنے رحم کی نظر رکھے اور ناراض نہ ہو.
529 میں پھر ساری جماعت احمدیہ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ جس طرح اخلاص اور محبت سے یہ زمانہ گذرا ہے.ایسے ہی اسے ہمیشہ کے لئے آپس کی محبت سے معمور رکھے.اور ہمیشہ خدا سے اس کا تعلق قائم رہے.کسی دن وہ خدا سے دور نہ ہوں.اور خدا ان سے دور نہ ہو.وہ خدا کے ہوں.اور خدا ان کا ہو.اور رضی اللہ عنہ و رضواعنہ کے پورے پورے مصداق بن جائیں.اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جیسا کہ پچھلے سال اسی ماہ میں آج سے تین چار دن پہلے ایک خواب کی بنا پر اعلان کیا گیا تھا کہ پھر طاعون پھیلنے والی ہے وہ خواب پوری ہوئی.اور ایسی حالت میں پوری ہوئی کہ گورنمنٹ کے اعلان بتا رہے تھے.کہ طاعون کو بالکل مٹا دیا گیا ہے.اور اب وہ نہیں پھیل سکتی.مگر اس کے خلاف طاعون کے پھیلنے کی خبر قبل از وقت شائع کر دی گئی تھی.اس کے بعد طاعون پڑی اور ایسی شدید پڑی کہ گذشتہ ۸ - ۱۰ سال میں ایسی نہ پڑی تھی.اب کے پھر اپنے موسم سے قبل شروع ہو گئی ہے.اور قادیان میں بھی ہے جس کے متعلق ڈاکٹروں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ تدابیر کریں.مگر اس کے متعلق اصل تدبیر تو خدا تعالیٰ ہی کے آگے کرنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا تھا.آگ تیری غلام بلکہ تیرے غلاموں کی غلام ہے.اس آگ سے مراد طاعون بھی ہے.اور حضرت مسیح موعود کی غلامی میں داخل ہونا اس کا علاج ہے پس خدا تعالیٰ سے دعا مانگنا اصل علاج ہے.اور اس کا فضل چاہنا صحیح تدبیریں ہیں.مگر اس نے خود ہی ایسی تدبیریں بتائی ہیں کہ جن سے مومن اور کافر دونوں فائدہ اٹھا سکتے ہیں.بلکہ مومن کا کام یہ ہے کہ ان سے زیادہ فائدہ اٹھائے.کیونکہ وہ اس کے رب کی طرف سے ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بارش کا قطرہ منہ کھول کر اس میں ڈالتے اور فرماتے یہ خدا کی تازہ نعمت ہے.کیا ہی شکر گذار دل ہے.تو اگر یہ تدبیریں کسی اور ہستی کی طرف سے ہوتیں تو مومن ان کے قریب بھی نہ جاتا لیکن جب یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں.تو کوئی وجہ نہیں کہ ان پر عمل نہ کریں.پس چاہیئے کہ دوست ان ایام میں مکانوں اور کپڑوں کو دھوپ لگوائیں ہیں.جن کو میسر ہو جرابیں پہنیں.کونین کافور اور جدوار کی گولیاں ایک ایک صبح و شام کھائیں اور صفائی کا خاص طور پر خیال رکھیں.جہاں کوئی مریض ہو.وہاں حفظان صحت کی رو سے احتیاط کی جائے.مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمدردی نہ کریں.مومن کا فرض ہے کہ خواہ کوئی ہو.مصیبت کے وقت اس کی ہمدردی کرے.یہاں ہندوؤں اور غیر احمدیوں سے ہمارے اختلاف رہے ہیں.اور ہیں.ان کا کوئی خیال نہیں کرنا چاہئے.میں سب احمدیوں کو اور خاص کر ڈاکٹروں کو ہدایت کرتا ہوں کہ ان کی نظر
530.میں احمدی اور غیر احمدی سب برابر ہوں.خواہ کوئی آریہ ہو.ہندو ہو.ہمارا شدید مخالف بھی ہو.تو بھی یہی خیال رہے کہ اس کی جان ایسی ہی قیمتی ہے.جیسی خدا تعالیٰ کی دوسری مخلوق کی پس ہر ایک سے ہمدردی کی جائے.ہر ایک کی بیماری کا علاج کیا جائے.اور ہمارے دروازے سب کے لئے کھلے ہوں.خواہ کوئی ہمارا دشمن ہی ہو.ہماری جماعت کے وہ لوگ جو اپنے وقت کا کچھ حصہ بچا سکتے ہیں.اپنے آپ کو والنٹیر کریں.تاکہ ڈاکٹر ان سے کام لے سکیں.پھر دعاؤں میں بھی سب کو یاد رکھو.خواہ کوئی کسی مذہب و ملت کا ہو.مومن اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا مظہر سمجھتا ہے.اور خدا کے فیض مومنوں پر ہی نہیں ہوتے.بلکہ اس کے بہت سے فیض ایسے ہیں.جو مومن کا فرسب کو حاصل ہوتے ہیں.امید ہے کہ دوست میری ان باتوں پر غور اور عمل کر کے اخلاص اور بچے تقویٰ کا ثبوت دیں گے.تاکہ دوسروں کے لئے نمونہ ہوں.اور تا سچا ایثار خدا کے رحم کو جذب کرے.میں پھر خصوصیت سے دعاؤں پر زور دینے کی طرف توجہ دلاتا ہوں.ہم کمزور ہیں.اور ہو سکتا ہے.کہ کسی کی یا عام جماعت کی کمزوری کی وجہ سے لوگوں کی ٹھوکر کا موجب ہوں.اس لئے خاص طور پر اپنے لئے اپنے سب بھائیوں کے لئے اپنے ہمسائیوں کے لئے دعائیں کرو.اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے کہ اس کی رضا کو حاصل کر سکیں.اور اس کے منشاء کے مطابق عمل کر کے ہر قسم کے دکھوں سے محفوظ رہیں.اور شماتت اعداء کا موجب نہ ہوں مجمع بحار الانوار جلد ۲ باب التین الفضل ۱۹ مارچ ۱۹۲۵ء)
531 83 (فرموده ۱۲ دسمبر ۱۹۲۴ء) خدا تعالیٰ کی کامل توحید پر ایمان لاؤ اور باہم محبت و اخلاص پیدا کرد مشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا در حقیقت ہر قسم کی حمد اور تعریف اور ثناء کی مستحق وہی ذات ہو سکتی ہے.جو رب العالمین ہے اور وہ دونوں جہانوں میں انسان کی تربیت اور ربوبیت کرتی ہے.بلکہ اس کی ربوبیت تمام زمانوں پر وسعت رکھتی ہے.وہ خدا جو رب العالمین خدا ہے.وہ ماضی میں بھی اور حال میں بھی اور استقبال میں بھی انسان کی ربوبیت کرتا ہے.پس اس کی ربوبیت کسی خاص زمانہ کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی.بلکہ ہر زمانہ میں اس کی ربوبیت انسان کے شامل حال رہتی ہے.انسانی تعلقات کیسے محدود اور کیسے کمزور ہوتے ہیں.ان کو مد نظر رکھتے ہوئے در حقیقت تمام تعریفوں کا مستحق خدا تعالیٰ ہی ہو سکتا ہے.کیونکہ انسان نہ ماضی سے واقف نہ استقبال سے آگاہ نہ بولوں کے خیالات پر اس کو کچھ نظر ہے اس کا معاملہ صرف ایک نہایت ہی چھوٹے سے حصہ علم پر منحصر ہوتا ہے بسا اوقات وہ اپنے معاملات میں بہت سی غلطیاں کر بیٹھتا ہے اور اس کو اپنی غلطی کا علم اس وقت جا کر ہوتا ہے.جبکہ اس غلطی کا ازالہ علاج سے باہر ہو جاتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کا معالمہ ایسا ہے کہ اس کی ربوبیت کا نہ صرف یہ کہ سارے جہانوں اور سارے زمانوں کے ساتھ تعلق ہے.بلکہ اس کی ربوبیت کا اثر اس کے علیم بذات الصدور ہونے کی وجہ سے انسان کے دلی خیالات پر بھی مرتب ہوتا ہے.اس لئے دنیا میں رب
532 تو بہت ہیں مگر رب العالمین خدا تعالی کے سوا کوئی نہیں پس تمام حمد اور تعریف کا مستحق بھی وہی ہو ایک غلطی کرنے والا انسان جو کسی انسان کی غلطی کرتا یا اس کے کسی حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھتا ہے اور پھر وہ اس کے پاس جس کا اس نے قصور کیا معافی مانگنے کے لئے جاتا ہے.تو اس کی حالت دو حالتوں سے خالی نہیں.یا تو جس کا اس نے قصور کیا ہے.اس کو اس امر کا یقین ہو گا کہ قصور وار واقعہ میں نادم اور پشیمان ہے اس لئے وہ اس کی معافی کی درخواست کو درست سمجھے گا اور یا اس کو اس امر کا یقین ہو گا کہ معافی مانگنے والا جھوٹ بول رہا ہے اور اس کو دھوکہ اور فریب دے رہا کا ہے.تو وہ اس کا قصور کبھی بھی معاف نہیں کرے گا ہاں دوسری صورت میں وہ کبھی معاف کر دیتا ہے اور کبھی نہیں بھی کرتا لیکن جھوٹ اور فریب کی حالت میں وہ یہی خیال کرے گا کہ اس وقت تو اس کا راز فاش ہو چکا ہے اور اس کی غلطی ظاہر ہو چکی ہے.اس لئے یہ دھوکہ کی راہ سے معافی مانگنا چاہتا ہے.لیکن جب اس کو معافی مل جائے گی.اور اس کے راز کا اخفا کر دیا جائے گا تو ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی ایسی راہ اختیار کرے جس کا مجھے علم ہی نہ ہو سکے اور معلوم نہیں یہ مجھے کیا نقصان پہنچا دے اور جب اس کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ معافی مانگنے والا سچے دل سے معافی مانگ رہا ہے تو بعض دفعہ تو کہہ دیتا ہے کہ جامیں نے تجھے معاف کر دیا اور کبھی یہ کہہ دیتا ہے کہ اب معافی مانگنے کا کیا فائدہ؟ جو نقصان تم نے کرنا تھا وہ تو کر دیا.مگر وہ خدا جو رب العالمین خدا ہے.اس کے حضور ایک قصور وار نہایت نادم اور شرمندہ ہو کر توبہ کرتا ہے اور اس کو یقین ہوتا ہے کہ میں اپنے قصور کی بچے دل سے معافی مانگ رہا ہوں.مگر باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ اس توبہ کرنے والے نے کل کو تو بہ توڑ دینی ہے.کیونکہ وہ عالم الغیب اور علیم بذات الصدور ہے اس لئے وہ جانتا ہے کہ آج تو اس کے دل کی یہ کیفیت ہے کہ یہ سخت نادم اور پشیمان ہو کر اپنے قصور سے توبہ کر رہا ہے مگر کل کو اس کے دل کی یہ حالت نہ رہے گی.مگر کیا اس علم کے ہوتے ہوئے کہ یہ توبہ کرنے والا انسان کل کو پھر اس کی نافرمانی کرنے والا ہے.آج تو یہ نادم اور پریشان ہے.لیکن کل کو پھر یہ اس کی حکم عدولی کرے گا کیا خدا تعالیٰ اس انسان کو ٹھکرا اور دھتکار دیتا ہے؟ نہیں بلکہ وہ خدا جو رب العالمین خدا ہے وہ کہتا ہے کہ جس طرح میں کل کا خدا ہوں آج کا بھی خدا ہوں.پس جو حالت آج اس کے قلب کی ہے.اسی کے مطابق آج میں اس سے سلوک کروں گا حالانکہ وہ جانتا ہے کہ کل کو اس نے توبہ توڑ دینی ہے اور اس کو
.533 معلوم ہے کہ کل کو اس سے بھی زیادہ مجرم ہو گا اور فلاں فلاں حالتوں میں اس نے فلاں فلاں نا فرمانیاں کرنی ہیں اور فلاں فلاں وجوہ سے پرسوں ترسوں مہینہ چھ مہینہ سال دو سال چھ سال یا دس سال یہ شخص فلاں فلاں جرم کا ارتکاب کرے گا اور پھر اس وقت اس پر گرفت نازل ہو گی وہ پھر توبہ کرے گا.اور اس وقت اس کی تڑپ سچی تڑپ ہو گی اور وہ اسی دن کے لئے ہو گی.مگر باوجود اس علم کے کہ اس کا مستقبل تاریک ہے.اور یہ ہمیشہ اس کی نافرمانی کرے گا وہ کہتا ہے کہ اے انسان جو اس وقت تیرے دل کی حالت ہے.اسی کے مطابق میں تیرے ساتھ سلوک کرتا ہوں جا میں نے تجھے معاف کیا انسان کی حالت اس کے مقابلہ میں کیسی کمزور ہے.ایک شخص بچے حالات اور کچی مجبوریوں کی بناء پر ایک انسان کا قصور کر بیٹھتا ہے.اور وہ بچے دل سے اس پر نادم اور پشیمان ہوتا ہے.مگر بسا اوقات انسان اپنے قصور وار سے ایسا سلوک کرتا ہے کہ جس کا وہ مستحق نہیں.اس کے نیک سلوک بھی ہوتے ہیں مگر کبھی ایسے معاملات بھی پیدا ہو جاتے ہیں کہ جو کچھ اسے نہ کرنا چاہیئے وہ بھی کر لیتا ہے بے شک یہ رب تو بن جاتا ہے.کیونکہ دنیا میں کوئی انسان نہیں جو رب نہیں.مگر وہ رب العالمین نہیں.انسان بھی ربوبیت کرتا ہے مگر اس کی ربوبیت محدود اور اس کا دائرہ نہایت تنگ ہے.پس یہ حقیقی حمد اور تعریف کا مستحق نہیں.اور وہ رحمٰن بھی ہے.کیونکہ وہ رب العالمین ہے.ہر اک زمانہ کا علم رکھتے ہوئے اور ہر دل پر اور اس کی کیفیات اور تغیرات پر آگاہ ہوتے ہوئے ایک قصور وار کے قصور کو اس وقتی ندامت اور پشیمانی کی بناء پر جس کو خدا ہی جانتا ہے.معاف کر دیتا ہے گو بندہ اس وقت سچی توبہ کر رہا ہوتا ہے.اور اس کا دل بالکل صاف ہوتا ہے.مگر اپنے دل کی کل کی حالت کو وہ بھی نہیں جانتا پس خدا تعالیٰ ہی ہر ایک حمد کا مستحق ہے.اور صرف وہی ہستی بلا مبادلہ انعام کر سکتی ہے.جس کی ربوبیت صرف حال کے ساتھ ہی تعلق نہ رکھتی ہو.کیونکہ جو چیز سامنے موجود ہے اور جسے ہم دیکھ رہے ہیں وہ تو ہمارے لئے کسی نہ کسی رنگ میں مفید ہی ہے.رحمانیت تو اس سلوک کا نام ہے.جو کسی امر کے ظہور سے پہلے ہو.پس وہ رحمن ہے.کیونکہ وہ رب العالمین ہے کہ اثرات کے ظہور سے پہلے وہ بلا مبادلہ ربوبیت کرتا ہے.پھر وہ رحیم ہے.اس لئے کہ وہ رب العالمین ہے اگر وہ رب العالمین نہ ہو تا تو رحیم بھی نہ ہوتا ہر ایک انسان کو اس کے نیک کام کا وہ بدلہ دیتا ہے.انسانوں میں سے کون سا انسان ہے جو ہر ایک نیک کام کرنے والے کو بدلہ دے سکتا ہو.وہ لوگ جو اپنے عمل اور اپنے فعل سے اپنے آپ کو کامل
534 طور پر پر کسی انسان کی خدمت میں لگا کر اپنے وجود کو چور کر دیتے ہیں.یا وہ سپاہی جو اپنے ملک کے لئے یا اپنے بادشاہ کی جان کی حفاظت کے لئے اپنی جان دے دیتا ہے.اس کو اس قربانی کا بدلہ بادشاہ یا دوسرے لوگ کیا دے سکتے ہیں.کیونکہ وہ تو ملک اور بادشاہ اور آقا کے لئے اپنی جان دے چکا ہے ایسی حالت میں اس کے کام کا بدلہ خود اس مرنے والے کو کوئی انسان نہیں دے سکتا.پس حقیقتاً رحیم بھی خدا ہے کیونکہ وہ رب العالمین ہے.تمام زمانوں کا وہ خدا ہے نہ ماضی اس کے تصرف سے باہر ہے نہ مستقبل.پھر وہ مالک یوم الدین ہے اس لئے کہ وہ رب العالمین ہے کیونکہ جب تک زمانہ کے تغیرات سارے کے سارے کسی کے قبضے اور تصرف میں نہ ہوں کون کسی کو حقیقی طور پر جزا یا سزا دے سکتا ہے.ایک منصف حاکم یا عادل بادشاہ جن کی ساری کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی کی حق تلفی نہ ہو.حقدار کو حق مل جائے.کسی پر ظلم اور تعدی نہ ہو.اور رعایا امن و امان کے ساتھ زندگی بسر کرے.مگر وہ دعاوی اور فیصلہ جات میں غلطی کر سکتا ہے.کیونکہ وہ عالم ظاہری کا رب ہے.عالم باطنی کا رب نہیں.اس لئے وہ حقیقی طور پر جزا اور سزا نہیں دے سکتا.مگر ایک ہستی ہے جو دیتی ہے.اور وہ ایک ہی ہے.جو کہ رب العالمین ہے.پس اگر کوئی وجود ایسا ہو سکتا ہے جس سے ہم تعلق پیدا کر سکتے ہیں اور جس کی عبودیت کو ہم اپنے لئے فخر سمجھ سکتے ہیں.اور اپنا تمام وجود اور ذرہ ذرہ اس کے لئے قربان کر سکتے ہیں تو وہ صرف وہی خدا ہے جو رب العالمین ہے.جو رحمان ہے جو رحیم ہے جو مالک یوم الدین ہے اس لئے ہم صرف اسی ذات کو ایاک نعبد کے الفاظ سے یاد کر سکتے ہیں کیونکہ ایسے مالک کی غلامی میں ہمیں کلام کے ضائع ہو جانے کا کوئی اندیشہ نہیں اور دوسروں کی غلامی میں کام کے ضائع جانے کا خدشہ ہے کیونکہ اگر ہم کسی دوسرے کی خدمت یا غلامی کریں.ممکن ہے کہ ہماری حالتوں کے بعض بدلے مستقبل سے تعلق رکھتے ہوں اور اس پر اس کو حکومت نہیں کیونکہ وہ عالم الغیب نہیں اور ممکن ہے.ہماری حالتوں کے بعض بدلے ماضی سے تعلق رکھتے ہوں اور وہ ان کے قبضہ اور تصرف سے نکل چکا ہے.اس لئے یہ کام اور خدمت بے فائدہ اور رائیگاں جائے گی ایک شخص جس کی پشت پناہ ایک زبردست بادشاہ ہو.مگر ہزاروں بیماریاں اس کے پیچھے پڑی ہوئی ہوں اور ماضی میں ہی ان کے سب اسباب مہیا ہو چکے ہوں تو وہ بادشاہ کس طرح اس کا بدلہ دے ہے اور ان مخفی در مخفی اسباب کا کس طرح تدارک کر سکتا ہے تاکہ اس کے خادم کو ان کی وجہ سے صدہا بیماریوں کا شکار نہ ہونا پڑے.پھر بہت سے لوگ ہوتے ہیں.جن سے اس کو تعلق یا عشق سکتا.
535 ہوتا ہے.اور بہت سے عزیز و رشتہ دار ہوتے ہیں جو جدا ہو جاتے ہیں.مگر کوئی ایسا انسان نہیں جو اس کو بدلہ دے سکے.پھر وہ کون سی ہستی ہے.جو حقیقی جزا دے سکتی ہے.وہ وہی ہے جس کا ہر ایک چیز پر تصرف اور قبضہ ہے دوسرا کوئی نہیں ہمارے دل اخلاص سے پر ہوں اور ہمارا ذرہ ذرہ کسی کی ہمدردی میں ہو.لیکن جب اس کو ہمارے حالات کا علم نہیں وہ ہمارے دل کو دیکھ نہیں سکتا تو وہ ہمیں حقیقی جزا کب دے سکتا ہے وہ تو ہمارے اعمال کو دیکھے گا.ممکن ہے اس کو مال کی ضرورت ہو اور ہمارے پاس پیسہ بھی نہ ہو اور ممکن ہو.اس پر دشمن حملہ آور ہو اور ہمارے ہاتھ ہی نہ ہوں.پاؤں ہی نہ ہوں.پس ہمارے اخلاص کا وہ حقیقی بدلہ نہیں دے سکتا کیونکہ ہمارے دل پر اس کی نظر نہیں.وہ ہمارے ظاہر کو دیکھتا ہے پس وہ کب ہماری جزا اور سزا کا مالک ہو سکتا ہے اس کا بدلہ تو نہایت محدود ہے پس ایاک نعبد کے لائق کوئی دوسرا وجود نہیں ہو سکتا.ایک شخص جو بچے دل سے کے ایاک نعبد کہ اے خدا! میں تیرا ہی غلام ہوں.تو پھر یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ خدا کے سامنے تو کہے.میں تیرا ہی غلام ہوں اور اپنی حاجات کو کسی دوسرے کے سامنے لے جائے کیونکہ غلام کی تمام ضروریات کا متکفل آقا ہوتا ہے.پس جب خدا تعالیٰ کو انسان کہتا ہے کہ میں تیرا ہی ہوں تو پھر خدا ہی کا حق ہے کہ وہ اسی سے مانگے ایاک نعبدو ایاک نستعین کہ اے خدا جب میں تیرا ہی ہوں تو اب کس طرح بے شرمی کر کے اوروں سے مانگوں اور سوال کروں.پھر وہ کہتا ہے.اهدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت عليهم.عبودیت اور غلامی بغیر علم کے نہیں ہو سکتی.کیونکہ ہمیں کیا علم کہ ہمارے آقا کے دل میں کیا ہے اور وہ کیا چاہتا ہے.اس لئے بچے غلام اور بچے خادم کا یہ طریق ہوتا ہے کہ وہ پہلے اپنے آقا سے دریافت کر لیتا ہے کہ حضور میرا کام کیا ہو گا اور میں نے کیا کرنا ہے اس لئے وہ کہتا ہے کہ اے خدا جو ہدایات اور جو سچائیاں تو نے اپنے پہلے بندوں کو عطا کی ہیں اور جو کام تو نے ان کے سپرد کیا تھا وہی کام تو میرے بھی سپرد کر مجھے کام دیجئے.مگر وہ ایسا ہی عظیم الشان کام ہو جو آپ نے پہلے خادموں اور غلاموں کو دیا ہے.کوئی چھوٹا موٹا کام میرے سپرد نہ کیجئے اور پھر میرا تجربہ کیجئے کہ میں نے بھی وہی کر کے دکھایا یا نہیں.جو آپ کے پہلے خادموں نے کیا.معمولی حالات میں یہ کیسا معجبانہ مقولہ ہے.مگر محبت اور اخلاص کے مقام پر اس سے بڑھ کر کوئی پیارا مقولہ نہیں.اس لئے خدا تعالیٰ اپنے بندے کے اخلاص اور اس کی محبت کا احترام کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم ساتھ یہ بھی کہہ دو.غیر المغضوب عليهم ولا الضالین کہ یہ تو ہمارا اس
536 وقت کا احساس ہے کہ وہ کام جو تو نے موسیٰ عیسی علیہم السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا.ہم کہتے ہیں کہ وہ کام تو ہم کو بھی دے ممکن ہے کہ کل کو حالات ہی بدل جائیں اور ایسے واقعات پیدا ہو جائیں کہ ہمارے دل کی یہ کیفیت ہی نہ رہے.اور ہم دعائیں کرنی ہی بھول جائیں اے خدا ایسا نہ ہو کہ ہم اس خدمت کے میسر آنے کے بعد غلطیاں کریں یا اس خدمت کو ہی بھول جائیں.پس جب کوئی اس مقام کو حاصل کر لیتا ہے تو وہ ایک محفوظ قلعے میں آجاتا ہے.جس قلعے میں بلائیں نازل نہیں ہوتیں وہ خدا جو رب العالمین ہے.وہ اس کی ہر ایک چیز کی حفاظت کرتا ہے خواہ وہ کسی جگہ ہی ہو.انگریزوں کا ایک افسر مصر میں مارا گیا سینکڑوں ہندوستانی اور پٹھان روز مارے جاتے ہیں.ان کو کوئی پوچھتا بھی نہیں لیکن وہ افسر ایک زبر دست آقا کا غلام تھا.انگریزوں نے اس کا بدلہ لینے کے لئے ہزاروں لاکھوں روپیہ خرچ کر کے دور دراز کا سفر اختیار کر کے جنگی بیڑا لا کھڑا کیا ہے کہ ہمارا آدمی کیوں مارا گیا.اب یا تو تاوان دو.ورنہ یہ جنگی بیڑا ہے.اور یہ جنگی فوج پانچ لاکھ پونڈ پچہتر لاکھ روپیہ کا ان سے مطالبہ کیا ہے.تا وہ رقم اس افسر کے پسماندگان میں تقسیم کی جاوے.اور یہ کہ مجرموں کو گرفتار کر کے ان کے حوالہ کیا جائے.تاکہ ان کو انگریز پھانسی دیں.اور یہ کہ آئندہ کے لئے مصری عہد کریں کہ آئندہ ہمارا کوئی آدمی نہیں مارا جائے گا.کہاں انگلستان اور کہاں مصر مگر چونکہ اس کا ایک غلام مارا گیا.برطانیہ کو اس کی غیرت اور محبت نے خاموش نہیں رہنے دیا.حالانکہ اس کی مقدرت سے اس کا زندہ کرنا باہر ہے.مگر جہاں تک اس سے ہو سکتا ہے وہ بدلہ لینے کے لئے تیار ہے.اور اس ایک جان کے بدلے اگر ہزاروں جانیں بھی چلی جائیں.تو ان کو دریغ نہیں.جب انگریزوں کو اپنے ایک غلام کے لئے ایسی غیرت اور حمیت ہو سکتی ہے.تو کیا وہ خدا جو ماضی کا خدا ہے.اور حال کا بھی اور استقبال کا بھی خدا ہے.وہ ایاک نعبد و ایاک نستعین کہتے والے غلام کو یونہی کس مپرسی کی حالت میں چھوڑ دے گا.اگر ایک شخص بچے دل اور اخلاص سے خدا تعالیٰ کے حضور ایاک نعبد و ایاک نستعین کہتا ہے.تو یقیناً وہ خدا جو رحمان ہے جو رحیم ہے.مالک یوم الدین ہے.وہ انگریزوں سے کم وفادار ثابت نہیں ہو گا.اگر انگریز اپنے ایک غلام کے لئے لاکھوں روپیہ خرچ کر کے اس کی مدد کر سکتے ہیں.تو خدا کب اپنے ایک خادم کو بغیر مدد چھوڑ دے گا.
537 آج ایک حال کی چیز ماضی ہو سکتی ہے.مگر ساتھ ہی اس کا یہ قانون بھی ہے کہ وہ جو اس کے حضور کھڑے ہو کر ایاک نعبد و ایاک نستعین کہتا ہے اس کی کوئی چیز خواہ کتنی ہی دور ہو.خواہ کسی زمانہ اور کسی دنیا میں ہو.اس کی حفاظت کرتا ہے.میں ایسے خدا پر جو رب العالمین ہے رحمان ہے اور رحیم ہے.مالک یوم الدین ہے کامل یقین اور ایمان لاتے ہوئے اپنی جماعت کے لوگوں کو جو یہاں موجود ہیں اور ان کو جو باہر ہیں.اس آواز کی طرف بلاتا ہوں جو ایاک نعبد میں پائی جاتی ہے.دنیا ایک حالت پر قائم نہیں زمانہ بدلتا ہے اور انسانی خادموں میں سے بعض خادم جو اسباب کے لحاظ سے نہایت مفید اور کار آمد ہوتے ہیں وہ انسان سے جدا ہو جاتے ہیں.پس میں آپ لوگوں کو اس ایک ہی کہف اور غار کی طرف بلاتا ہوں.جس کہف اور جس غار سے باہر رہ کر تم محفوظ اور مامون نہیں رہ سکتے.ایاک نعبد و ایاک نستعین کہنے والو تمہاری مثال اس بچے کی نہ ہو جو سمجھتا ہے کہ کوٹ کی جیب میں روپے ہیں.حالانکہ وہ بالکل خالی ہو.پس تم اس زبان کے ساتھ ایاک نعبد و ایاک نستعین مت کہو اگر تمہارے دل اس حقیقت سے خالی ہیں.تم اپنی حالتوں پر غور کرو.تمہاری حالتیں ایک کمزور بچے سے بھی زیادہ کمزور ہیں.مجھے تمہاری حالتوں کو دیکھ کر ایک جنون کی سی حالت ہو جاتی ہے ایک چھوٹا بچہ جنگل میں اپنی ماں سے جدا نہیں ہوتا.میں بھی تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس خدا سے جو ماں سے بھی زیادہ محبت کرنے والا ہے.تم جدا نہ ہو.میں نے آدھی دنیا کا سفر کیا ہے اور پھر کر دیکھا ہے.ہر جگہ تمہاری مخالفت ہو رہی ہے.نہ کسی ملک میں تمہاری جانیں محفوظ ہیں.نہ تمہارے مال محفوظ ہیں.کوئی چیز تمہاری حفاظت اور پناہ کا موجب نہیں ہو سکتی.صرف ایک ہی دروازہ ہے.جہاں تم کو پناہ مل سکتی ہے.وہ خدا تعالیٰ کی گود ہے.جو ماں اور باپ سے بھی زیادہ حفاظت کی جگہ ہے..میں اپنے جسم کو طاقتوں سے خالی پاتا ہوں لیکن میں جانتا ہوں کہ اگر تم میری اس نصیحت کو مانو گے تو ہر ایک زمانہ میں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کرے گا.لڑائیوں جھگڑوں کو چھوڑ دو.اپنے معاملات کو درست کرو.دنیا کی کسی چیز کو اپنا خدا نہ بناؤ.آج دنیا میں کسی جگہ بھی حقیقی پرستش خدا تعالی کی نہیں ہو رہی.پس تم بھی اپنی بستیوں اور غفلتوں کی وجہ سے اپنے آپ کو اس کے عذابوں کا مستحق نہ بناؤ.بدر کی جنگ میں آنحضرت مسلم رو رو کر دعا کرتے تھے کہ الہی اگر اس چھوٹی سی
538 جماعت کو تو نے ہلاک کر دیا.تو پھر دنیا پر تیری پرستش کرنے والا کوئی نہیں رہے گا.پس جس خدمت کو تم نے اپنے ہاتھ میں لیا ہے.اس کو پوری توجہ سے سرانجام دو.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو روح اور جو کچی روحانیت اور اخلاص پیدا ہو سکتا ہے.تو وہ اسی جماعت میں ہی پیدا ہو سکتا ہے.مگر مجھے اس روحانیت کے آدمی تم میں کم نظر آتے ہیں.پس پیشتر اس کے کہ اصلاح کا موقعہ جاتا رہے تم اپنی اصلاح کرو.وہ کیسی بھیانک اور تکلیف دہ موت ہے جو شک اور شبہ کی حالت میں ہو ایسی موت کا خیال بھی موت سے بدتر ہے.اپنے کمزور بھائیوں کی مدد کرو.اور اپنے قصور واروں کے قصور معاف کرو.کب تم میں دو بھائیوں والی محبت جو حضرت مسیح موعود کی وجہ سے پیدا ہوئی چاہیئے تھی پیدا ہو گی؟ میں برابر اس سفر میں اپنے خطوں کے ذریعے سے تم کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا رہا ہوں.مگر اس سفر کی واپسی پر میں کچھ ایسی مشکلات میں مبتلا ہو گیا کہ میں اس تحریک کو جاری نہ رکھ سکا.مگر پرسوں خدا نے اپنی مشیت کے ماتحت اس بوجھ سے مجھے فارغ کر دیا.پس اب میں پھر اسی سلسلہ کو شروع کرتا ہوں.مجھ میں لمبے وعظ و نصیحت کی بھی طاقت نہیں.اس لئے اس وقت میں صرف یہی کہتا ہوں کہ آپ اپنی حالتوں کو دیکھیں.حضرت مسیح موعود کے کلام پر غور کریں تمہاری حالت دنیا میں قیموں سے بھی بد تر ہے.قیموں کے تو کچھ نہ کچھ رشتہ دار بھی ہوتے ہیں جن کو کبھی نہ کبھی ان کی خبر گیری کا خیال آ جاتا ہے.مگر تمہارے تو رشتہ دار بھی کوئی نہیں.تمہاری مثال اس زبان کی ہے.جو بتیس دانتوں کے درمیان ہوتی ہے مگر اس کے لئے تو وہ دانت بھی حفاظت کا موجب ہوتے ہیں.مگر تمہارے دانتوں میں وہ قوت ور استقامت بھی نہیں.وہ چاروں طرف سے ہلتے رہتے ہیں.پس اپنے اندر محبت اور الفت پیدا کرو.پیشتر اس کے کہ کوئی مسیح موعود کی روح کا انسان تم میں نہ رہے.تم اپنے اندر اس روح کے نئے آدمی پیدا کرو.تاکہ خدا تم کو اس طرح نظر آجائے.جس طرح سورج یا چاند نظر آجاتا ہے.میں زیادہ تم کو کیا کہوں.میں خدا ہی کو کہتا ہوں.ایاک نعبد و ایاک نستعین اهدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت عليهم غير المغضوب علیہم ولا الضالین آئین میں نے جہاز کے تختوں پر اپنے آنسو بہائے اور متعدد بار غیر ملکوں کی زمین کو اپنی آنکھ کے پانی سے تر کیا.تاکہ خدا تم کو اپنا بنا لے.اور تم کو اپنی رحمت کی گود میں لے لے.اور وہ تم پر اور تمہارے کاموں پر راضی ہو جائے.مگر میری بے تابی ابھی تک دور نہیں ہوئی.کیونکہ مجھے ابھی تک وہ اصلاح تم میں نظر نہیں آتی.میری مثال اس شمع کی ہے.جو دوسروں کو روشن کرنے کے لئے خود پگھل جاتی ہے.اگر
539 میرے پگھل جانے سے تمہاری اصلاح ہو جائے.تو میرے لئے اسی میں میری خوشی اور راحت ہے.غالب کا ایک شعر مجھے اکثر یاد آ جاتا ہے.اور اس کو میں ہمیشہ مسیح موعود اور آپ کی جماعت پر چسپاں کیا کرتا ہوں داغ فراق صبحت شب کی جلی ہوئی اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے یعنی وہ آخری وجود جس کو خدا تعالیٰ دنیا کی بہبودی اور اصلاح کے لئے مبعوث کرے گا.وہ اپنی ساری ہمت اور کوشش سے تمہاری بہتری اور بھلائی چاہے گا.وہ دکھ اٹھائے گا وہ غم کھائے گا.مگر تمہارے لئے وہ جلے گا.مگر اس لئے کہ تم کو روشن کرے.مگر آخر تم کہو گے کہ وہ شمع تو خاموش ہو گئی.اب کوئی اور شمع روشن ہونی چاہیئے.پس تم اپنے اندر سچا اخلاص اور کامل روحانیت پیدا اب میں کچھ اپنی ذاتی بات بھی کہتا ہوں.آج کا خطبہ تو میں نے کسی اور بات پر کہنا تھا.لیکن میں نے اس کو کسی دوسرے وقت پر ملتوی کر دیا ہے.وہ بات جو میں کہنی چاہتا ہوں.کسی کا عقیدہ ہو یا نہ ہو.میرا یہ عقیدہ ہے کہ میں میت کے لئے دعاء مغفرت اور جنازہ ایک ایسی چیز خیال کرتا ہوں جو کئی دفعہ ادا ہو سکتا ہے.اور صحابہ کی سنت سے یہ بھی ثابت ہے کہ انہوں نے چھ چھ آٹھ آٹھ دفعہ بھی جنازہ کی تکبیریں کہی ہیں.تاکہ دعا کا زیادہ موقعہ ملے.میں نے کل اپنی دوسری بیوی کے جنازہ پر آٹھ تکبیریں کسی تھیں.تاکہ مرحومہ کے لئے زیادہ دعا کی جاسکے.میرے دل کی یہ بھی خواہش ہے کہ میں ان کا جنازہ آج پھر اس بابرکت مقام میں بھی پڑھوں جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے بشارت دی ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ ہے.اگر کوئی اس عقیدہ کا قائل ہے کہ جس کے نزدیک جنازہ ایک سے زیادہ دفعہ نہیں ہو سکتا.تو میں اس کو اس جنازہ میں شریک ہونے کے لئے نہیں کہتا.باقی سب دوستوں سے میں درخواست کرتا ہوں.کہ نماز کے بعد میں مرحومہ کا جنازہ پڑھوں گا.وہ دعا میں میرے ساتھ شامل ہوں.میں اس بات کے کہنے سے بھی نہیں رک سکتا کہ عورتوں پر خصوصیت سے میری اس بیوی کا احسان ہے حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد میرا منشاء نہیں تھا کہ میں عورتوں میں درس دیا کروں.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بہت ہی بڑی ہمت کا کام ہے کہ ایسے عظیم الشان والد کی وفات کے تیسرے روز ہی امتہ الحی نے مجھ کو رقعہ لکھا.اس وقت میری ان سے شادی نہیں ہوئی تھی کہ
540 مولوی صاحب مرحوم اپنی زندگی میں ہمیشہ عورتوں میں قرآن کریم کا درس دیا کرتے تھے.اب آپ کو خدا نے خلیفہ بنایا ہے.حضرت مولوی صاحب نے اپنی آخری ساعت میں مجھے وصیت فرمائی کہ میرے مرنے کے بعد میاں سے کہہ دینا کہ وہ عورتوں میں درس دیا کریں.اس لئے میں اپنے والد صاحب کی وصیت آپ تک پہنچاتی ہوں.وہ کام جو میرے والد صاحب کیا کرتے تھے.اب آپ اس کو جاری رکھیں.وہ رقعہ ہی تھا.جس کی بناء پر میں نے عورتوں میں درس دینا شروع کیا اور وہ رقعہ ہی تھا.جس کی وجہ سے میرے دل میں ان سے نکاح کا خیال پیدا ہوا.پس اگر اس درس کی وجہ سے کوئی فائدہ عورتوں کو پہنچا ہو.تو یقیناً اس کے ثواب کی مستحق بھی مرحومہ ہی ہے.کیونکہ میرا اپنا منشاء عورتوں میں درس جاری رکھنے کا بالکل نہ تھا.بلکہ حق تو یہ ہے کہ عورتوں میں خطبہ لیکچرز اور سوسائٹیاں اور ہر ایک خیال جو عورتوں کے متعلق ہو سکتا ہے.اس کی محرک وہی ہیں.بعض دفعہ محبت کے رنگ میں مجھ پر وہ ناراض بھی ہو جاتیں کہ آپ عورتوں کی طرف پوری توجہ نہیں کرتے.اور میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کے تمام افراد سے ہی ان کو ایسی محبت تھی جو اور عورتوں میں بہت کم پائی جاتی ہے.چنانچہ مرحومہ کی آخری باتوں میں سے ایک یہ بھی تھی.کہ تمام احمدی بھائیوں کو میری طرف سے اسلام علیکم پہنچا دی جائے.چونکہ میں ہی اس وقت مخاطب تھا.اس لئے میں ان کا سلام تمام دوستوں کو پہچاتا ہوں و علیها السلام في العقبي و الآخرة ایسے وقت میں عورتوں کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی طرف متوجہ ہوتی ہیں مگر وہ بار بار مجھے پوچھتی تھیں کہ مجھے بتاؤ.میری کیسی حالت ہے.مگر مومن چونکہ مایوں نہیں ہوتا.اس لئے میں ان کو تسلی دیتا.مگر پھر انہوں نے کہا کہ خدا کے واسطے مجھے میری حالت سے خبر دو کیونکہ میں بہت سی دعائیں کرنا چاہتی ہوں.تب بھی میں نے ان کو یہی جواب دیا کہ دعائیں تو ہر حالت میں ہو سکتی ہیں.پس ان کا حق ہے کہ تمام جماعت ان کے لئے دعائے مغفرت کرے.اور جماعتیں اپنی اپنی جگہ ان کا جنازہ پڑھیں.اور مجھ پر تو ان کا اتنا بڑا حق ہے کہ میں کسی طرح اس حق سے عہدہ بر آنہیں سکتا.میں سمجھتا ہوں کہ ان کا اخلاص اور ان کی محبت ساری جماعت کی عورتوں کے لئے بلکہ بہت سے مردوں کے لئے بھی قابل رشک ہے.اس لئے جو لوگ اس وقت میرے ساتھ دعا میں شریک ہوں گے.وہ یقیناً ان کے احسان کا بدلہ ہی دیں گے ایک ذرہ بھی زیادہ نہ کریں گے.(الفضل ۲۰ دسمبر ۱۹۲۴ء) ہو ا: حضرت سیدہ امتہ الحی مرحومه
541 84 موت اور مصائب کی حکمت خطبه جمعه فرموده ۱۹ دسمبر ۱۹۲۴ء) مشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا : میں آج خطبہ جمعہ میں کسی ایک مضمون پر نہیں.بلکہ بہت سے مضمونوں کے متعلق بعض باتیں کہنے والا ہوں.سب سے پہلے میں اس امر کی طرف دوستوں کی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ خدا کے دین اور اس کے پاک سلسلوں کے ساتھ تعلقات پیدا کرنے سے ایسی برکات نازل ہوتی ہیں کہ ان سے بڑے بڑے مصائب اور بڑی بڑی مشکلات مختلف رنگوں میں رحمتوں اور برکتوں کا موجب ہو جاتی ہیں.اگر ہم غور سے دیکھیں.تو دنیا کا ہر ایک فعل اور قانون قدرت کے ہر ایک امر سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہر خرابی ایک بڑی ترقی کا اور ہر تباہی ایک بڑی آبادی کا موجب بن جاتی ہے.انسان عمدہ سے عمدہ غذائیں کھاتا ہے.اور پھر فضلہ بنا کر خارج کر دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ گویا وہ ضائع ہو گئی لیکن وہی غذا جس کو اس نے فضلہ سمجھا.اور ایک ضائع شدہ چیز خیال کیا وہی کھاد بن کر ایک نئی پیدائش کا موجب بن جاتی ہے اور اس غلہ سے بہت زیادہ غلہ پیدا ہوتا ہے.جو کہ کھاد کے تیار کرنے میں صرف ہوا.اسی طرح انسانوں کی موتیں بھی در حقیقت اگر فکر اور نظر سے کام لیا جاوے تو وہ بھی کسی کام آتی ہے.اور وہ بھی دنیا کی ترقیات کے لئے کھاد کا کام دیتی ہیں.انسانی قوئی خواہ کتنے ہی مضبوط ہوں اور انسانی عمر میں خواہ کتنی ہی لمبی ہوں.مگر وہ ایک حد تک جا کر ختم ہو جاتی ہیں.اور پھر انسان کی ساری قوتیں اور طاقتیں صنعف اور کمزوری کے ساتھ بدل جاتی ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.و من نعمره تنكسه في الخلق یسین (۶۹) جب انسان ترقی کرتے کرتے ایک حد تک پہنچ جاتا ہے.تو اس کی دماغی قوت مضمحل ہو جاتی ہے.وہی انسان جو بڑا عقلمند اور مدبر سمجھا جاتا تھا.وہی انسان پھرپاگل
542 اور بیوقوف کہلانے لگتا ہے.لوگ کہتے ہیں کہ یہ سٹھیا گیا ہے.بڑہاپے نے اس کی عقل ماردی ہے.تو وہ علوم اور فنون جن میں کوئی قوم ترقی کرتے کرتے آگے نکل جاتی ہے ایک وقت اور ایک حد ایسی آجاتی ہے کہ وہ اپنی دماغی طاقتوں کو صرف کر بیٹھتے ہیں تب وہ قوم دنیا سے مٹ جاتی ہے.اور ایک دوسری قوم اپنی تازہ قوتوں کے ساتھ اس کے قائم مقام ہو جاتی ہے.اگر دنیا میں ایک ہی نسل قائم رہتی تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ تمام علوم اور فنون دنیا سے مٹ جاتے پس سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ جس وقت ایک نسل اپنی قوت اور طاقت کو خرچ کر لیتی ہے اور اس کے قومی کمزور پڑ جاتے ہیں.تو پھر خدا تعالٰی ایک اور نسل کو کھڑا کر دیتا ہے جو پہلی ترقی اور علوم و فنون کو اور زیادہ ترقی دینے کا موجب ہوتے ہیں.اسی نشو و نما اور اس ارتقاء کا نتیجہ وہ حالت ہے.جو آج کل جاری ہے.اور اسی تبدیل ہونے والے مزدوروں کی مزدوری کا نتیجہ اسلام بھی ہے.اگر آدم کے بعد اعلیٰ سے اعلیٰ نسلیں دنیا میں نہ پیدا ہو تیں تو اسلام کی اعلیٰ تعلیم بھی دنیا میں نہ آتی.جو تعلیم خدا تعالیٰ نے آدم کو دی تھی.وہی تعلیم بعد میں آنے والے انبیاء کو بھی دی جاتی اگر اس ارتقائی ترقی کا سلسلہ دنیا میں نہ ہوتا تو پھر یہودیت کے بعد قرآن کریم کی پاک اور اعلیٰ تعلیم نہ آتی.کیونکہ انسانی دماغ ایک حد تک ترقی کرتے ہیں.اور پھر کام کرتے کرتے تھک جاتے ہیں تب ان پر ہلاکت وارد ہوتی ہے اور وہ اپنی ہلاکت کے ساتھ دوسری قوم کی ترقی کا موجب ہو جاتی ہے.اگر دنیا میں موت نہ ہوتی تو صرف یہی نہیں کہ تمام ترقیات کا دروازہ بند ہو جاتا بلکہ تھوڑے ہی عرصہ میں زندگی لوگوں کے لئے وبال جان ہو جاتی.اور بیٹے اپنے والدین کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کرنے کے لئے تیار ہو جاتے مثلاً چار پانچ سو سال کسی انسان پر موت وارد نہ ہو اور آدمیوں کی اتنی کثرت ہو جائے کہ زمین پر چلنے پھرنے سونے بلکہ قدم رکھنے کی بھی جگہ نہ رہے.تو اولادیں اپنے بزرگوں کو ذبح کرنے کے لئے چھرے لے کر تیار ہو جائیں.غرض دنیا کے تمام کاروبار میں ہمیں ایک ارتقاء نظر آتا ہے.مگر جو الٹی سلسلے ہوتے ہیں.ان کا ارتقا ایک نمایاں ارتقا ہوتا ہے.الہی سلسلوں پر بھی مصائب اور مشکلات آتی ہیں.مگر ان پر خدا تعالٰی کا ایک خاص فضل ہوتا ہے.جو کہ اللہ تعالی کے پاک نبیوں کی جماعتوں سے ہی خصوصیت رکھتا ہے.مثلاً یہ بھی ایک فضل ہے کہ اللہ تعالیٰ مصائب کے آنے سے پہلے ان کو مصائب کے آنے کی اطلاع دیتا ہے.پس جب اس علم کے مطابق ان پر کوئی مصیبت
543 آتی ہے.تو ان کو اپنے ایمان اور عرفان میں اور ترقی حاصل ہوتی ہے.اگر ایک طرف ان کو غم اور صدمہ ہوتا ہے.تو دوسری طرف ان کو اس بات کی خوشی بھی ہوتی ہے کہ ہمارے خدا نے جو ہمیں قبل از وقت بتایا تھا.وہ پورا ہوا.ہماری جماعت کے متعلق خدا تعالیٰ نے جہاں مجھے رویا کے ذریعے ترقیات کی بشارتیں دی تھیں.وہاں پہلے سے ہی کئی ابتلاؤں کی بھی اس نے خبر دی تھی.وہ موتیں جو ان دنوں واقعہ ہو ئیں وہ خاص خصوصیت اور شان رکھتی ہیں.کیونکہ اگر دیکھا جائے.تو اتنی موتیں جو ان چند دنوں میں ہوئیں.گذشتہ دس سالوں میں بھی نہیں ہوئیں.مختلف جماعتوں میں ایسے ایسے لوگ فوت ہوئے ہیں جو مختلف جماعتوں میں ایک رکن کا کام دیتے تھے.اور ایسے بھی تھے.جو تمام جماعت کے لئے ایک رکن تھے.اور بعض ایسے بھی تھے کہ جو خود تو رکن نہیں تھے.لیکن ان کی وفات سے سلسلہ کو بہت بڑی عزت اور شہرت حاصل ہوئی ہے.اگر یہ مصائب اور یہ مشکلات اچانک آجائیں اور خدا تعالی قبل از وقت ان کے متعلق اطلاع نہ دیتا.تو ایک نادان ٹھو کر کھا سکتا تھا.اور وہ کہہ سکتا تھا کہ کس طرح آناً فاناً اس جماعت پر یا اس جماعت کے بڑے گھرانے پر موت کی وارداتیں شروع ہو گئی ہیں.لیکن اگر وہ ان اخبار پر غور کریں.جو ان حادثات سے پہلے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیں دی گئیں.تو بجائے اس کے کہ وہ ان کو ہمارے لئے عذاب قرار دیں.وہ یہ کہیں گے کہ یہ ایسے ابتلا ہیں.جن کے ساتھ اللہ تعالٰی کی مخفی عمتیں ہیں.جو اس کی رحمت اور برکات کا موجب ہوں گی.پیشتر اس کے کہ میں سفر یورپ کے لئے رخصت ہوتا.میں نے دعا اور استخارہ کیا.جس میں مجھے بتلایا گیا کہ میری دو بیویوں کو بعض صدمات پہنچنے والے ہیں.چنانچہ استخارہ کے دنوں میں بھی میں نے رویا دیکھیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ کچھ ابتلا اور مصائب پیش آنے والے ہیں.استخارہ کے ایام میں میں نے دیکھا کہ مکان گر رہے ہیں.بڑا سخت دھماکا ہوا اور بجلی کی طرح آواز آئی.جب میں نے دیکھا.تو وہ میری پہلی اور دوسری بیوی کے مکان تھے.جو دھڑا دھڑ گر رہے تھے.اور ابھی یہ نظارہ میں دیکھ رہا تھا کہ یکلخت وہ مکان بنے بھی شروع ہو گئے اور پہلے سے بہت زیادہ عمدہ اور اعلیٰ بنے ہیں ایک مکان کی تیاری میں تو کچھ آدمی کام کرتے نظر آتے ہیں اور ایک بغیر آدمیوں کی مدد تیار ہو رہا ہے.وہ مکان جو بغیر آدمیوں کی مدد کے بنا ہے.وہ میری دوسری بیوی کا مکان تھا.اور اس میں اس کی وفات کی خبر دی گئی تھی.اور جس میں آدمی کام کر رہے تھے.جن میں
544 ایک شیخ عبدالرحمان صاحب قادیانی تھے اور ایک شیخ فضل الہی وہ میری پہلی بیوی کا مکان تھا.یہ نام بھی بہت عمدہ ہیں.جو خدا کے فضل اور رحم پر دلالت کرتے ہیں.اس میں کسی ایسی تکلیف کی طرف اشارہ تھا.جس کے ازالہ کے لئے انسانی کوشش اور سعی کو دخل ہے.چنانچہ کل میری پہلی بیوی کا لڑکا فوت ہو گیا.اور لڑکوں کی قائم مقام مائیں ہو سکتی ہیں.لیکن ماؤں کے قائم مقام بچے نہیں ہو سکتے.اس لئے مجھے دوسری بیوی کے مکان کی تیاری میں آدمیوں کو کام کرتے نہیں دکھایا گیا.اس کی تیاری محض خدا کے فضل پر منحصر ہے.یہ رویا جس دن میں نے دیکھی.اسی روز میں نے اپنی دوسری بیوی کو سنا بھی دی اور اسی کے گھر میں میں نے یہ خواب دیکھی تھی.اور بھی کئی رڈیا ان مصائب اور مشکلات کے متعلق ہو ئیں.میں نے دیکھا کہ ایک عورت فوت ہو گئی ہے.اور میں جنوب کی طرف دوڑا ہوں وہاں دیکھا کہ میر صاحب (مرحوم) لیٹے ہوئے ہیں.اور وہاں کچھ شور ہو رہا ہے اور میں منع کر رہا ہوں کہ میر صاحب ضعیف اور کمزور ہیں.ان کو تکلیف ہو گی.تب میر صاحب اٹھ کر بیٹھ گئے.اور کہا نہیں میں تو بالکل اچھا اور تندرست ہوں.تب میں نے سمجھا کہ بڑہانے سے صحت پانا.تو اس دنیا کی بات نہیں اور اس عورت کی وفات سے میری بیوی کی طرف اشارہ تھا.چنانچہ ان کی قبر بھی میر صاحب کے پاس بنائی گئی.جب میں نے اس قسم کی بار بار خواہیں دیکھیں تو اس وقت میں نے دعا کی کہ الٹی حالات اس قسم کے ہیں کہ جو غم دینے والے اور صدمہ پہنچانے والے ہیں اور لوگ ان حالات سے واقف نہیں.اور تفصیل کے ساتھ میں بتا بھی نہیں سکتا.کیونکہ منذر خوابوں کو تفصیلاً " بیان کرنا منع ہے.ایسی حالت میں اگر میں سفر یورپ کی تیاری نہیں کرتا تو لوگ شاید یہ کہیں کہ ایک لمبے سفر کی صعوبت سے بچنا چاہتا اور اپنے آرام اور آسائش کو مقدم کرتا ہے.جس کا اثر یہ ہو کہ پھر ساری کی ساری قوم بزدل ہو جائے اور کہہ اٹھے کہ خلیفہ کو ایک موقعہ دین کے لئے باہر جانے کا پیش آیا.وہ تو گیا نہیں ہم پھر کیوں جائیں.اور اگر تمام حالات اور مشکلات کو نظر انداز کر کے دور دراز کا سفر اختیار کرتا ہوں تو ممکن ہے لوگ یہ کہیں کہ یہ تو سیرو سیاحت کے لئے جاتا ہے اور میں ان کو حالات کھول کر بتا بھی نہیں سکتا.اور ان کو میرے حال کی کیا خبر اگر وہ مشکلات جو مجھے درپیش ہیں.ان کو بھی در پیش ہوں.تو وہ کبھی ایسے سفر کی جرأت نہ کریں.جب میں نے دعا کی تو اس شب میری زبان پر یہ کلام جاری ہوا.قل ان صلواتی و نسکی و :
545 محیای و مماتي لله رب العالمین (الانعام (۱۲۳) که میری زندگی اور موت تو سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہے.یعنی ان باتوں کی کچھ پرواہ نہ کرو.تمہاری زندگی بھی خدا کے لئے ہے اور اگر اس کے لئے موت بھی آئے تو اس کو بھی برداشت کرو.اور جو کام خدا تعالیٰ کی طرف سے پیش آیا ہے.اس کو پورا کرو تب میں نے اللہ تعالیٰ کی مشیت کو معلوم کر کے اس سفر کو اختیار کیا.اور پھر راستہ میں بھی متواتر میں نے ایسی خوابیں دیکھیں.میر صاحب کو تندرست دیکھا.جس کے معنے موت کے ہیں.کیونکہ بڑہاپے سے تندرستی بعد الموت ہی حاصل ہو سکتی ہے.پھر جب واپس آیا.اس وقت میں نے دیکھا کہ میری ایک بائیں ڈاڑھ مل گئی ہے.اور تعبیر میں ڈاڑھ سے مراد عورت ہوتی ہے.پھر جہاز میں جاگتے ہوئے ایک عورت کی زور زور کے ساتھ چیخوں کی آواز سنی اور وہ تاریخ وہی تھی جس میں میری دوسری بیوی کے ہاں لڑکا پیدا ہوا میں نے جہاز کے سوراخوں سے دیکھا کہ کیا کوئی جہاز آ رہا ہے جس سے یہ آواز آئی.یا کوئی خشکی قریب ہے.لیکن سمندر میں بالکل خموشی تھی.اور سینکڑوں میل تک اس تاریخ کو کوئی جہاز نہ تھا.اور خشکی بھی ایک طرف تو سینکڑوں میل اور دوسری طرف ہزاروں میل دور تھی.تب میں نے سمجھا کہ کوئی حادثہ ہوا ہے یا ہونے والا ہے.میں نے حافظ روشن علی صاحب سے بھی اس واقعہ کا ذکر کیا کہ اس طرح تین چار دفعہ میں نے چیخوں کی آواز سنی ہے اور یہ بھی حافظ صاحب سے میں نے کہہ دیا تھا کہ آواز عورت کی تھی.غرض خدا تعالیٰ کی طرف سے تمام حالات اور واقعات کے متعلق قبل از وقت اطلاع ملتی رہی.چنانچہ وہ دونوں مکانوں کے گرنے اور پھر فورا" تیار ہونے کی رؤیا جس میں میں نے دیکھا کہ ایک مکان کی تیاری آدمیوں کے ذریعہ ہو رہی ہے اور دوسرا بغیر آدمیوں کے تیار ہو گیا ہے ایک مکان سے میری بیوی کی وفات کی خبر دی گئی تھی.اور دوسرے سے جس میں آدمی کام کر رہے تھے.میرے بچے کی وفات کی خبر دی گئی تھی.کیونکہ عورتوں کا قائم مقام انسان نہیں بن سکتا لیکن بچوں کا قائم مقام انسان بن جاتا ہے.جیسا کہ میری پہلی بیوی جو ہیں ان کے بچے کی وفات سے چند روز پہلے بھی میں نے ایک رویا دیکھی.جو ہمشیرہ اور والدہ صاحبہ کو بھی میں نے سنا دی تھی اور بتلایا تھا کہ کوئی پھر غم پیش آنے والا ہے میں نے دیکھا کہ چوہدری علی محمد ہولیں بھون رہا ہے.اور چنے خواب میں غم پر دلالت کرتے ہیں.چنانچہ کل جب وہ بچہ فوت ہوا.تو کسی نے مجھے آکر کہا کہ باہر کوئی آدمی کھڑا ہے.میں نے پوچھا کہ کون ہے.تو معلوم ہوا چوہدری علی محمد ہے.میں نے کہا وہ خواب پوری ہو گئی.غرض ایک ایک واقعہ کی خدا تعالیٰ
546 نے قبل از وقت اطلاع دنی.پس یہ خبریں جو قبل از وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کو دی جاتی ہیں.ایک مومن کے لئے کس قدر ازدیاد ایمان اور یقین کا موجب ہوتی ہیں اور یہ وہ برکتیں ہیں.جو اللہ تعالی کے نبیوں کے ذریعے ہی مل سکتی ہیں.پس وہ خدا جو رنج اور مصیبت کے آنے سے پہلے اس کے متعلق ہمیں خبر دے کر ساتھ ہی ہماری تسلی بھی کر دیتا ہے.اس پر ہم کتنی بڑی بڑی امیدیں رکھ سکتے ہیں.ایسے خدا پر ہم جتنی بھی امیدیں رکھیں وہ تھوڑی ہیں جیسا کہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ ان امور کے بعد بعض بڑی بڑی برکات کا نزول ہونے والا ہے.یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ کس رنگ میں ان کا نزول ہو گا.اور آیا میرے یا میرے خاندان پر ان کا نزول ہو گا یا وہ برکات جماعت کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں مجھے اس کے متعلق تفصیلی اطلاع نہیں دی گئی.مگر یہ ضرور ہے کہ ان مصائب کے بعد انعامات بھی ہونے والے ہیں.جیسا کہ مثنوی مولوی رومی کا ایک شعر ہے.ہر بلا کیس قوم را حق داده است زیر او گنج کرم بنهاده است اللہ تعالیٰ کی یہ بھی سنت ہے کہ وہ غموں کے نیچے انعامات کا سلسلہ بھی رکھ دیتا ہے.پس یہ حادثات اور مصائب ہمارے لئے کسی مایوسی کا موجب نہیں ہو سکتے.رنج اور غم ہوتے ہیں.اور ان کا ہونا ضروری ہے.کیونکہ جس دن کسی کا دل غم سے خالی ہو گیا اس دن ایمان سے بھی اس کا دل خالی ہو جائے گا.اس لئے خالی خوشی مومن کو اس دنیا میں نہیں دی جاتی.دنیا نہ خالص اطمینان کی جگہ ہے نہ خالص غم کی.مومن کی خوشی غمی سے لیٹی ہوئی ، ن ہے.ہاں مومن پر اس دنیا میں کوئی ایسا غم اور کوئی ایسی مصیبت ہر گز نہیں آسکتی.جو اس کو کر دے.جب اس کے لئے کوئی مصیبت مقدر کی جاتی ہے.تو پھر یقینا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے انعامات بھی اس کے لئے مقدر کئے جاتے ہیں.جو خدا تعالیٰ کی نصرتوں اور اس کے احسانوں پر دلالت کرتے ہیں اور اس کی رحمتوں کے دروازے اس پر کھولے جاتے ہیں.میرے نزدیک یہ ایک بڑی بھاری نعمت ہے.جو انبیاء کے تعلق سے اس دنیا میں مومن کو ملتی ہے.جس کی وجہ سے مومن کو کمر توڑ دینے والا اور مایوس کر دینے والا کوئی صدمہ نہیں ہو سکتا.مومن پر مصیبتیں آتی ہیں.اور.اس کا دل غم کو محسوس کرتا ہے (کیونکہ مومن کا دل ایک کافر کی نسبت بہت زیادہ حساس ہوتا ہے اور مومن عارف ہوتا ہے اور کافر عارف نہیں ہوتا) مگر وہ اس کی کمر توڑنے اور اس کو تباہ کرنے والا
547 نہیں ہوتا کیونکہ ایک مومن کو عارف ہونے کی وجہ باوجود زیادہ حساس ہونے کے ان صدمات کی برداشت ہوتی ہے جو ایک کافر کو نہیں ہو سکتی.ایک مومن کے غم کی مثال تو ایسی ہے جیسے ایک تاگے کا ٹکڑا ہاتھ میں رکھ کر اوپر ایک سیر کا پتھر رکھ دیا جائے.جس سے اس تاگے کو کوئی ضرر نہیں پہنچ سکتا.لیکن کافر کی مثال ایسی ہے.جیسے ایک شاخ کے درمیان جس کے نیچے کوئی سہارا نہ ہو ایک پتھر رکھ دیا جائے.جس سے وہ ٹوٹ جائے گی.پس ایک مومن کے صدمات میں اللہ تعالیٰ اس کا سہارا ہوتا ہے.اس لئے غموں کے مقابلہ میں ایک کافر مومن کے برابر کبھی برداشت نہیں کر سکتا باوجود اس کے کہ ایک مومن کے اندر تکلیف کا احساس اتنا بڑا ہوتا ہے کہ ہزار کافر اور ہزار غیر مومن کو بھی اتنا احساس نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ چونکہ مومن کے لئے ڈہارس ہوتا ہے.اس لئے اس کو ان صدمات کا کوئی نقصان نہیں پہنچتا.بلکہ جہاں اس کو رنج ہوتا ہے.وہاں ان اخبار کے پورا ہونے کی وجہ سے اس کی خوشی بھی ہوتی ہے.کہ یہ تو وہی کچھ ہوا.جو میرے خدا نے مجھے پہلے ہی بتلا دیا تھا.اس لئے میری اس دوسری بیوی کی وفات پر یا ان صدمات پر جو مجھے اور میرے خاندان کو ہوئے جن دوستوں نے اظہار ہمدردی کی ہے.میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کو اظہار ہمدردی سے کوئی کسی کے صدمے کو بدل نہیں سکتا لیکن اس کا اظہار ہمدردی تعلق اور محبت کو ضرور بڑھاتا ہے.اور وہ ایک طرح سے تسلی کا موجب بھی بنتا ہے.کیونکہ ایک صدمہ یافتہ آدمی جب یہ دیکھتا ہے کہ دوسرے لوگ بھی اس کے صدمے کو محسوس کرتے ہیں تو اس کے احساس میں کمی واقع ہو جاتی ہے.جو اس کے صدمے کو کم کر دیتی ہے.ان واقعات نے اس بات کو اچھی طرح ثابت کر دیا ہے.کہ جماعت میں خدا کے فضل سے بڑی محبت اور اخلاص ہے.اور ان کے اس احساس رنج اور صدمہ نے اس بات کو ظاہر کر دیا ہے کہ گو وہ ہزاروں قالب ہیں.مگر ان کی جان ایک ہے چونکہ اس وقت اور بہت سے اہم کام در پیش ہیں اس لئے میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں.اور اس کو کسی دوسرے وقت پر ملتوی کرتا ہوں.مگر میں پھر ان ہی ابتلاؤں کے سلسلے میں اس بات کا بھی اظہار کر دیتا ہوں کہ جہاں خدا نے سفر یورپ پر جانے سے پہلے ان ابتلاؤں سے مجھے مطلع فرمایا.وہاں اپنے فضل سے اس امر کی بھی اس نے بشارت دی ہے کہ ان مصائب کے بعد ہمیں بڑی عزت اور ریاست حاصل ہونے والی ہے.مگر ساتھ ہی یہ بھی بتلایا گیا ہے.کہ بعض اور ابتلاء بھی ایسے مقدر ہیں.جن سے بعض دوستوں کی
548 طرف سے تکلیفیں پہنچنے والی ہیں ان کو ٹھوکر لگنے والی ہے یا ان کے تعلقات میں کمی واقعہ ہونے والی ہے.جن کا جانے سے پہلے بعض رؤیا کے ذریعے مجھے علم دیا گیا تھا.بعض کے نام بھی بتائے گئے ہیں.مگر میں ان کو ظاہر نہیں کرتا.کیونکہ خدا تعالیٰ ان کو ٹلا بھی سکتا ہے اور بعض نہیں بھی ملتے.جیسا کہ میں نے دعا کی تو جواب قل ان صلوتی و نسکی و محیای و مماتي لله رب العالمین ملا جس کے معنے یہ تھے کہ یہ حادثات ملنے والے نہیں.اور بہت سے مل بھی جاتے ہیں.پس وہ ابتلا جن کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کو ٹال دے اور ان کے ایمانوں کو سلامت رکھے اور ان کا ظاہر بھی محفوظ رہے.اور ان کا باطن بھی اور میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اگر وہ ابتلا آئیں تو پھر وہ اور بھی زیادہ سلسلہ کو عزت دے گا.اور ایسی برکات نازل کرے گا.جو شفاء لما فی الصدور ہوں.ایک اور بات جس کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.وہ یہ ہے کہ میں نے اپنی بیوی مرحومہ کے ذکر میں ایک فقرہ کہا تھا کہ ایک رنگ میں آپ کی والدہ بھی ہیں.جس سے بعض دوستوں کو غلط فہمی ہوتی ہے.اور انہوں نے میری بیویوں کی نسبت ام المومنین کا لفظ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے.اس خیال سے کہ کسی کے لئے یہ امر ٹھوکر کا موجب نہ بن جائے.میں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ام المومنین کا خطاب صرف انبیاء کی بیویوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے بعض محاورے خاص ہوتے ہیں.جن کو عام نہیں کیا جا سکتا پس ام المومنین کا لفظ محاورہ کے طور پر صرف ان ہی کے ساتھ خصوصیت رکھتا ہے.ہاں مشابہت اور تعلق کی وجہ سے ایک خاص محاورہ کو دوسرے معنے کے لئے بھی استعمال کر لیا جاتا ہے.جیسا کہ ایک استاد کی بیوی کو ماں کہا جاتا ہے.مگر ماں والے احکام اس پر جاری نہیں ہوں گے.چونکہ استاد بھی ہمدردی محبت اور ربوبیت کی وجہ سے حقیقی باپ کی ابوت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.پس وہ ایک رنگ میں باپ کا درجہ رکھتا ہے.پس بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ایک خاص مقام پر جا کر استعمال کئے جاتے ہیں.اس سے پہلے ان کا استعمال جائز نہیں ہوتا.جیسا کہ ایک شخص جس کے پاس ایک پیسہ یا پانچ سات روپے ہوں.ہم کہتے ہیں کہ اس کے پاس مال ہے لیکن ہم اس کو مالدار نہیں کہہ سکتے.کیونکہ یہ ایک ایسا محاورہ ہو گیا ہے کہ ایک خاص مقدار پر پہنچ کر اس کا استعمال کیا جاتا ہے اسی طرح ام المومنین کا لفظ انبیاء کی بیویوں کے ساتھ ہی خصوصیت رکھتا ہے.اور یہ مرتبہ انبیاء سے قرب اور تعلق کی وجہ سے ان کو دیا جاتا ہے.کیونکہ جب خاوند ایک عزت اور مرتبہ حاصل کرتا ہے تو ساتھ ہی اس کی
549 بیوی بچے بھی عزت اور احترام کے لحاظ سے اس مرتبے کو حاصل کر لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے و الذين امنو او انبعتهم ذريتهم بايمان الحقنا بهم ذريتهم (الطور (۲۲) پس جس روز ایک شخص بادشاہ ہو جاتا ہے.اس روز سے اس کی بیوی بھی ملکہ ہو جاتی ہے.کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ ملکہ کیوں ہو گئی.اس طرح ایک سپاہی فوجی خدمت بجالاتا ہے.اپنی عقل خرچ کرتا ہے.دکھ اٹھاتا ہے اور بہادری دکھاتا ہے.وہ دفعدار جمعدار اور لیفٹیننٹ ہو جاتا ہے اس روز سے اس کی بیوی بھی لیفٹیننٹ ہو جاتی ہے.کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے تو کوئی عقل اور ہمت نہیں خرچ کی یہ کیوں لیفٹیننٹ ہو گئی.کیونکہ وہ اپنے خاوند کے غم اور خوشی میں شریک تھی.ایک جرنیل کی بیوی جرنیل بن جاتی ہے.شاہی دربار میں کوئی اس کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ تو پیچھے رہ.جرنیل تو تیرا خاوند ہے.وہ دربار میں جائے گا.اس مسئلہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے شیعوں نے ٹھو کر کھائی ہے.ایک طرف تو اتنی افراط سے کام لیا کہ اولاد کو نبوت میں بھی شریک سمجھ لیا اور دوسری طرف اتنی تفریط کی کہ آنحضرت کی ازواج کی کچھ شان ہی نہیں سمجھی انبیاء کی عظمت ایسی بلند ہوتی ہے.جیسا کہ زمین کے لوگ ستاروں کو تھیں.مگر تعلق کی وجہ سے اور ان کے غم اور خوشی میں شریک ہونے کے باعث قرب کے لحاظ سے ان کے بیوی بچے بھی بلند کئے جاتے ہیں.ان کے اس حق کو کوئی مٹا نہیں سکتا.پس نسبتی طور پر تو ہو سکتا ہے کہ کوئی عورت کسی نسبت کے لحاظ سے ماں کہلائے.جیسا کہ خلیفہ ایک رنگ میں روحانی تربیت محبت اور ہمدردی کے باعث ایک باپ ہوتا ہے.اور اس کی بیویاں اس کی وجہ سے مائیں کہلا سکتی ہیں.مگر ام المومنین کے نام کی صرف نبیوں کی بیویاں مستحق ہیں.کیونکہ ان پر وہی احکام جاری ہوتے ہیں.جو ماؤں کے متعلق ہیں.نبی کی وفات کے بعد نبی کی بیوی سے نکاح اسی طرح حرام ہوتا ہے.جس طرح کہ سگی ماں سے لیکن استاد یا خلیفہ کی بیوی سے نکاح جائز ہے.اور خلفاء کی بیویوں کا خلفاء کی وفات کے بعد نکاح کرنا ثابت ہے.پس ام المومنین کی اصطلاح انبیاء کی بیویوں کے ساتھ ہی تعلق رکھتی ہے.ہاں استاد کی بیوی کو خلیفہ کی بیوی کو والدہ کہہ سکتے ہیں.مگر ام المومنین نہیں کہہ سکتے.اس لئے کسی اور کی نسبت ایسا لفظ استعمال کرنا شریعت کے خلاف ہے.اسی طرح ایک اور سوال ہے ہمارے کسی اخبار میں حضرت صاحب کو آخر الزمان نبی لکھا گیا ہے.ایک صاحب نے اعتراض کیا ہے کہ جب رسول کریم آخری نبی اور خاتم النبین ہیں.تو پھر
550 ایسا کیوں لکھا گیا.کیوں نہیں ظلی بروزی امتی نبی لکھا جاتا.میرے نزدیک معترض کی غلطی ہے.کیونکہ نبی کریم کے زمانہ کو کسی نے آج تک آخری زمانہ نہیں قرار دیا.بلکہ مسیح موعود کے زمانہ کو سب نے آخری زمانہ قرار دیا ہے.پس نبی کریم آخر الزمان نبی نہیں ہیں.ہاں آخری نبی ضرور ہیں.ان معنوں سے کہ آپ کے بعد کوئی شرعی نبی نہیں.آخر الزمان نبی الگ سمنے رکھتا ہے.اور آخری نبی الگ اور پھر آخر الزمان نبی کی تو ایک ایسی اصطلاح ہے.جو حضرت مسیح موعود کی زندگی میں استعمال کی جاتی تھی.خود مولوی محمد علی صاحب نے حضرت صاحب کو آخر الزمان نبی لکھا ہے ہاں اگر کوئی آخری نبی کے معنوں میں آخر الزمان نبی کے لفظ کو استعمال کرتا ہے.یا خاتم النبیین کو ن کا لفظ حضرت صاحب پر استعمال کرتا ہے.تو وہ ہرگز جائز نہیں.کیونکہ یہ ایک عہدہ ہے جو صرف نبی کے لئے مخصوص ہے.اسی طرح آنحضرت کا لفظ بھی صرف نبی کریم کے لئے مخصوص ہو گیا ہے.میں جائز نہیں سمجھتا کسی دوسرے پر اس لفظ کو استعمال کیا جائے.مقررہ اصطلاحوں کا ضرور خیال رکھنا چاہیئے.اگر ان کو بگاڑا جائے.تو پھر شبہ ہو سکتا ہے کہ اس سے کون مراد ہے.چونکہ مسلمانوں میں عرصہ سے یہ مشہور ہو چکا ہے کہ نبی کریم آخری نبی ہیں اس لئے یہ پسندیدہ امر نہیں کہ حضرت صاحب کو آخری نبی کہا جائے.معترض علیہ کو یہ اعتراض سوجھا ہے.ان کو تو اس وقت اعتراض کرنا چاہیئے تھا.جبکہ حضرت کی زندگی میں آخر الزمان نبی کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا.اگر وہ کہیں کہ اس وقت اس سے مراد غیر شرعی ظلی بروزی نبی ہوتی تھی.تو میں کہتا ہوں اب کس نے کہا کہ حضرت صاحب شرعی نبی ہیں.اور ظلی بروزی نہیں.اگر کوئی ایسا کہتا ہے تو وہ اسلامی اصطلاح کی ہتک کرتا ہے.اگر کوئی نادان یہ کہے کہ ہم نبی کے ساتھ امتی ظلی بروزی کا لفظ کیوں نہیں لگاتے.خالی نبی کیوں استعمال کرتے ہیں.تو یہ ایک غلط خیال ہے.ہر جگہ ان الفاظ کے بڑہانے کی ضرورت نہیں.کیا ہم رسول کریم کے ساتھ ہر جگہ خاتم النبیین اور شرعی نبی وغیرہ الفاظ استعمال کرتے ہیں پس جب ہم نے بحثوں کی وجہ سے اپنے عقائد کا پورا پورا اظہار کر دیا ہے.تو ہمیں بار بار تشریح کی ضرورت نہیں.ایک دفعہ زید کی نسبت جب ہم نے سید ہونے کا اظہار کر دیا.تو کیا صرف زید کر کے پکارنے سے یہ لازم آئے گا کہ ہم اس کے سید ہونے کے قائل نہیں رہے یا ایک شخص کو ہم نے پٹھان تسلیم کر لیا اس کے نام کے ساتھ خان صاحب نہ پکارنے سے یہ لازم آ جائے گا کہ ہم اس کو پٹھان تسلیم نہیں کرتے.پس جب ہم نے تمام اصطلاحات کی تعریف او تنقید کر دی.تو پھر جس وقت بھی ہم صرف نبی
551 کہتے ہیں.اس تعریف کے ماتحت مفہوم ہوتا ہے.ہمارے عقائد ہم سے الگ نہیں ہم رسول کریم کو ماجی حاشر عاقب مانتے ہیں.مگر کیا ہر دفعہ ان کے نام کے ساتھ ان ناموں کو ہم بولتے ہیں.گو ہم موقعہ محل پر ان کو بھی بولتے ہیں.اور استعمال میں لاتے ہیں.معترض صاحب کہتے ہیں کہ میں حضرت صاحب کی نبوت کا منکر نہیں.کیونکہ میری موجودگی میں حضرت صاحب کو الہام ہوا تھا اطعموا الجائع والمعتر پھر تو وہ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ خدا نے بھی ظلی بروزی بغیر صرف نبی کا لفظ استعمال کیا ہے.اور حضرت صاحب نے تو بکثرت اپنی نسبت خالی نبی کا لفظ استعمال کیا ہے.اگر وہ کہیں کہ ہم اس سے ظلی بروزی نبی سمجھتے تھے.تو میں کہتا ہوں کہ بندہ خدا ہم کب نبی کا لفظ بول کر حضرت صاحب کو شرعی نبی کہتے ہیں.اب میں جلسہ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.کیونکہ جلسہ کا وقت بہت قریب آگیا ہے اور گو جمعہ کا وقت بہت تنگ ہو گیا ہے.مگر میں جمعہ کے وقت کو بہت وسیع سمجھتا ہوں.اس لئے میں اس بات کی چنداں پرواہ بھی نہیں کیا کرتا.لیکن دونوں نمازوں کے اکٹھا ہو جانے میں دوستوں کے لئے تکلیف کا موجب سمجھتے ہوئے میں کچھ زیادہ نہیں کہہ سکتا.احباب کو چاہیئے کہ اس وقت جب کہ اس جلسہ کی تقریب پر بکثرت مہمان آنے والے ہیں.دوست اپنے آپ کو اس موقعہ پر کام کے لئے وقف کریں.اور اس سال پچھلے سالوں سے زیادہ محنت اور توجہ سے کام کریں.کیونکہ مومن ترقی کرتا ہے اور اس کا ہر قدم پہلی حالت سے آگے بڑھتا ہے.اس لئے احباب اپنے عمل سے اپنے ایمان سے یہ ثابت کریں کہ انہوں نے گذشتہ سالوں کی نسبت بہت ترقی حاصل کر لی ہے پہلے سے زیادہ محنت ایثار اور قربانی کے ساتھ کام کریں پھر جن کے پاس مکان ہوں وہ مہمانوں کے لئے مکان بھی دیں مجھے یہ سن کر بہت افسوس ہوا کہ باوجود کوشش اور کافی تحریک کے صرف دو تین صاحبوں نے مکان دیئے ہیں.کیونکہ اس سال جبکہ بہت کثرت کے ساتھ ایسے لوگوں نے بھی آتا ہے جو ہمارے سلسلہ میں داخل نہیں.مگر ان کو سلسلہ سے ایک انس پیدا ہو گیا ہے.یا ان کے دل میں سلسلہ کی عظمت ہے.اور وہ کوئی تعصب نہیں رکھتے.اور وہ بڑے بڑے معزز اور شرفاء ہیں.بغیر مکانوں کے ان کی رہائش کا کیونکر انتظام ہو سکے گا.جو احمدی ہیں وہ تو علیحدہ مکانوں کے بغیر بھی گذارہ کر سکتے ہیں.اور کھوری پر بھی لیٹ سکتے ہیں لیکن وہ لوگ جن کی کوٹھیوں پر کوئی غریب قدم بھی نہیں رکھ سکتا اور وہ احمدیوں کی طرح اس قسم کی مشکلات برداشت کرنے کے عادی بھی نہیں.اس لئے ایسے لوگوں کے لئے ایسی تکلیفیں ٹھو کر اور بعد کا موجب ہو جاتی ہیں.یا وہ بیمار ہو جاتے ہیں.اس
552 لئے ایسے رؤساء اور معززین کے لئے ضروری ہے کہ پہلے سالوں کی نسبت بہت زیادہ مکان مہیا کئے جائیں.جن جن کے پاس مکان ہیں.جہاں تک ممکن ہو سکے.خود وہ قلیل سے قلیل تنگ جگہ میں گزارہ کریں اور باقی حصہ مہمانوں کے لئے خالی کر دیں تاکہ اللہ تعالیٰ ان مکانوں کو برکت دے.اور ان کو وسیع کرے.میں یہ اعلان بھی کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ بعض بعض گاؤں میں شدید طاعون ہے.پس جہاں کہیں ایسی طاعون جارف اور شدید ہو.وہ اس جلسہ میں شریک نہ ہوں (اکا دکا آدمی کا مرنا وبا نہیں کہلا تا ) اگر کہیں ایسی بیماری ہو کہ ایک آدھ آدمی مرتا ہو.تو وہاں کے دوستوں کو میں نہیں روکتا کیونکہ شریعت کا حکم ہے کہ جہاں دیا ہو.وہاں سے نکل کر دوسری جگہ نہیں جانا چاہیئے.اس لئے ان کا جلسہ میں آنا گناہ ہو گا اور ایک گناہ دوسری نیکی کا جاذب نہیں ہو سکتا.ہاں یہ رسول کریم کا حکم ہے کہ ایسے مقامات کے لوگ گھر سے نکل کر باہر میدانوں میں ہو جائیں اور وہاں اپنے مکان اور رہائش کا انتظام کریں کیونکہ حضرت مسیح موعود نے گھر سے باہر نکلنے کے حکم کو حضرت نبی کریم کی طرف منسوب کیا ہے.اس لئے میں یقین رکھتا ہوں کہ حضرت صاحب نے الہام الہی سے فرمایا ہے.گو حدیث شریف سے بھی استدلال ہو سکتا ہے.جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے.اتقوا مواضع الفتن لیکن اگر حدیث نہ بھی ہو جس میں کوئی ایسی تفصیل معلوم ہو سکے.تو میں بخاری مسلم کی حد یشوں سے حضرت مسیح موعود کی حدیث کو بہت زیادہ معتبر اور یقینی سمجھتا ہوں.کیونکہ بخاری مسلم تو ایک حدیث رادیوں کے ذریعے بیان کرتے ہیں.لیکن حضرت مسیح موعود براہ راست حضرت نبی کریم سے حدیث بیان کرتے ہیں پس حضرت صاحب نے جو بغیر حوالہ دینے کے اس حدیث کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے.تو اس لئے کہ آپ کو الہام الہی سے آنحضرت کی اس حدیث پر مطلع کیا گیا ہے.پس جہاں اس قسم کی شدید طاعون ہو.ایسے لوگوں کو الهام اللی کی یقینی خبر کی بناء پر گھر سے باہر ہو جانا چاہیئے جہاں کھلی ہوا اور دھوپ لگتی ہو.کارکنوں کو چاہیے کہ وہ مہمانوں کی عزت اور ان کے احترام کا پورا خیال رکھیں.اور کسی امر کو جو مہمان کے ساتھ تعلق رکھتا ہو.ہتک اور بے عزتی نہ سمجھیں.بلکہ اپنے خیال میں جس بات کو وہ ہتک اور بے عزتی خیال کرتے ہیں.مہمان نوازی میں اس کو بھی برداشت کریں.بے عزتی کے بھی بہت غلط معنے سمجھ لئے گئے ہیں.ایک باپ اگر بیٹے کو مارتا ہے اور وہ خاموشی سے مار کھاتا اور برداشت کرتا ہے تو یہ اس کی بے عزتی نہیں.اس کی عزت ہے.بے عزتی اس کی اس میں ہے کہ باپ اس کو مارنے لگے.تو وہ بھاگ جائے یا مقابلہ کرے اسی طرح آپ مہمانوں کا احترام مد نظر
553 رکھتے ہوئے ان کی سختیوں کو بھی برداشت کریں اور دوسرے دوستوں کو بھی اس کی نصیحت کریں.جہاں تک ہو سکے.آپ مہمانوں کی پورے زور کے ساتھ خدمت کریں.اور میں اپنے باہر کے دوستوں کو بھی خصوصیت کے ساتھ اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں.کہ وہ کوشش کر کے خود بھی اس جلسہ میں شریک ہوں.اور اپنے دوسرے دوستوں کو بھی لانے کی کوشش کریں.اور خصوصیت کے ساتھ ایسے لوگوں کو ہمراہ لانے کی کوشش کریں.جو تعصب نہیں رکھتے.اور ان کے دل میں احمدیت کا انس ہے.گو وہ ابھی سلسلہ میں داخل نہیں ہوئے.میں بیمار ہوں.اور روز مجھے بخار ہو جاتا ہے.لیکن پھر بھی میرا ارادہ ہے کہ انشاء اللہ میں تقریر کروں گا.یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ میں کر سکوں یا نہ کر سکوں.لیکن میرا ارادہ ہے کہ میں تھوڑا بہت بیان کروں.گو ڈاکٹر صاحب جو میرے معالج میں.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب وہ مشورہ نہیں دیتے کہ میں ایسی حالت میں کوئی تقریر کروں اس لئے دوستوں کو اپنی یہ غلط فہمی دور کر دینی چاہیئے کہ میں جلسہ پر تقریر نہیں کرنی چاہتا.پس احباب پوری کوشش کے ساتھ ان لوگوں کو بھی ہمراہ لاویں.جو سلسلہ سے دلچسپی رکھتے ہوں اور وہ خود بھی اخلاص اور محبت بھرے دل کے ساتھ قادیان میں آویں.اور اپنے آپ کو میزبان سمجھ کر آویں.کیونکہ جو قادیان میں آئے ہوئے ہیں.وہ بھی تو ثواب کے لئے آئے ہوئے ہیں.اتنے آدمی اور نوکر تو یہاں ہیں نہیں.اس لے چاہیئے کہ دونوں اپنے آپ کو میزبان ہی سمجھیں.ورنہ گزارہ مشکل ہو جائے گا کیونکہ کارکن قادیان میں کم ہیں.اس لئے آنے والے دوستوں کو اپنے آپ کو مہمان سمجھ کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ رہنا چاہیئے بلکہ جو غیر احمدی اصحاب وہ اپنے ہمراہ لاویں.ان کا بھی وہ خود زیادہ خیال رکھیں.کیونکہ کثرت کام اور آدمیوں کی قلت کی وجہ سے ممکن ہے.قادیان والے پوری توجہ نہ کر سکیں.خدا تعالیٰ اپنے فضل اور کرم کے ساتھ ہر قسم کے فساد اور مصائب اور لغزشوں سے محفوظ رکھے.اور تمام ترقیات کا ہم کو وارث بنائے.جن ترقیات کی بشارات اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے ہم کو دی ہیں حضرت میر ناصر نواب صاحب الفضل ۲۳ دسمبر ۲۵ دسمبر ۱۹۲۴ء)
554 85 (فرموده ۳۶ دسمبر ۱۹۲۴ء) وقت اور موقعہ سے فائدہ اٹھاؤ مشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا آج جمعہ کا دن ہے.اور اس دن کا بھی وہ حصہ ہے کہ جس میں دعائیں خصوصیت کے ساتھ قبول ہوتی ہیں.یہ وہ وقت اور وہ گھڑی ہے کہ جس گھڑی اور ساعت میں تمام دنیا کے ہر علاقہ کے لوگ اپنے اپنے کاموں اور اپنے اپنے شغلوں میں لگے ہوئے ہیں.ایسے وقت اور ایسی گھڑی میں جبکہ تمام لوگ اپنے اپنے کاموں اور شغلوں میں لگے ہوئے ہیں.اور ان میں ایسے مصروف اور منہمک ہیں کہ ان کو کسی اور طرف توجہ بھی نہیں ایسے وقت میں ایک مومن اپنا سب کچھ بھلا کر محض اس لئے کہ خدا تعالیٰ کی بزرگی اور اس کا جلال اس کی عظمت اور اس کی شوکت ظاہر ہو سکے مقدس مقام میں حاضر ہوتا ہے.تاکہ سب مل کر اپنی عبودیت اور بندگی کا اقرار کریں اور اس کے فضلوں اور اس کے احسانوں کا جو کہ روحانی اور جسمانی طور پر اس کی طرف سے ان پر ہوئے شکریہ ادا کریں.یہ وہ وقت ہے کہ باقی دنیا تو لہو و لعب نہیں اور کھیل میں مشغول ہے.وہ لوگ جو گورنمنٹ کے ساتھ کسی نہ کسی ملازمت کا تعلق رکھتے ہیں وہ ایک عرصہ سے ان چھٹیوں کا انتظار کر رہے تھے.اس وقت وہ ان تعطیلوں کا حظ اور لطف اٹھا رہے ہیں.بعض وہ ہیں جن کو اپنی بیوی بچوں کے ملنے کی انتظار تھی.وہ ان کی ملاقات سے اس وقت خوش ہو رہے ہیں.بعض وہ ہیں.جنہوں نے کئی ضروری کاروبار اس وقت پر چھوڑ رکھے تھے.وہ اپنے ان ضروری کاروبار میں مصروف ہیں.اور دوکاندار اپنی تجارت اور سوداگری میں مشغول ہیں.غرض ہر ایک اپنے مقصد کو حاصل کر کے خوش ہے.اور خیال کرتا ہے کہ اس اچھے دن کا میں نے اچھا نفع حاصل کیا.
555 لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں.جو ان تمام لذات سے منہ پھیر کر محض خدا تعالیٰ کی رضا کے واسطے اس کی بندگی اور پرستش کے لئے اس کے حضور حاضر ہوتے ہیں.یہ وہ وقت اور یہ وہ گھڑی ہے کہ لاکھوں گاؤں اور قصبوں کے لوگ ان رخصتوں سے اپنے اپنے رنگ میں جسمانی فوائد اور نفسانی حظ اٹھا رہے ہیں.کیونکہ گورنمنٹ برطانیہ یا عیسائیوں کے ملکوں اور حکومتوں میں رہنے کے سبب ان ایام سے لطف اور حظ اٹھانے کا موقعہ ان کو حاصل ہوتا ہے.کوئی اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے ملنے کے لئے جا رہا ہے.کوئی اپنی بیوی کے شوق میں اور کوئی اپنے ماں باپ اور بھائی بہنوں کی ملاقات کی غرض سے خوش خوش جا رہا ہے.غرض اس وقت وہ سب کے سب اپنے اپنے رنگ میں دینی اور دینوی فوائد اور قریب کے نفع حاصل کرنے کی خوشی میں مست اور سرشار ہیں.لیکن ایسے وقت میں جبکہ لوگ اپنی لذتوں اور اپنی خواہشات کے پورا کرنے میں ہمہ تن مصروف اور مشغول ہیں ایک جماعت ہے.جو اپنی تمام لذتوں کو ترک کر کے اور اپنی تمام خواہشات کو پامال کر کے گھر سے بے گھر اور وطن سے بے وطن ہو کر سفر کی صعوبت اور اس کچی سڑک کی تکلیف اور موسم کی سردی برداشت کر کے اور اپنے عزیز اموال کو خرچ کر کے اپنی لذتوں اور نفعوں پر لات مار کر محض خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے تاکہ اس کی بزرگی اور جلال دنیا میں ظاہر ہو.اس مقدس مقام قادیان میں حاضر ہوئے ہیں.پس یہ دن ایک بزرگ دن ہے اور یہ گھڑی ایک مبارک گھڑی ہے اور یہ مقام نہایت مبارک مقام ہے.اور جمعوں میں سے یہ مبارک جمعہ ہے.جس میں خدا تعالیٰ کے جلال اور اس کی عظمت کے اظہار کے لئے اور اس لئے کہ اس کے دین کی حفاظت ہو اس مقدس مقام کی طرف اس جماعت نے ایسے وقت میں اور ایسی حالت میں رخ کیا.جبکہ لوگ بڑے شوق سے اپنی اپنی لذتوں اور اپنی اپنی خواہشوں کے پورا کرنے میں لگے ہوئے ہیں.یہ مقام وہ مقام ہے.جس کو خدا تعالیٰ نے تمام دنیا کے لئے ناف کے طور پر بنایا ہے.اور اس کو تمام جہان کے لئے ام قرار دیا ہے کہ ہر ایک فیض دنیا کو اسی مقدس مقام سے حاصل ہو سکتا ہے.اس لئے یہ مقام خاص اہمیت رکھنے والا مقام ہے ہمیں چاہیئے کہ ہم اس مبارک اجتماع اور اس مبارک دن سے جو آنے والے عظیم الشان دنوں کا مقدمہ ہے.قدر کریں اور پورا فائدہ اٹھائیں.جب ہم نے ہر ایک لذت اور ہر ایک آرام کو ان ایام کے عظیم الشان نفع کے لئے قربان کر دیا.تو پھر ہماری تمام تر توجہ اسی امر کی طرف ہونی چاہیئے کہ ان دنوں کے اجتماع سے بڑے سے
556 بڑے نفع ہم حاصل کریں جو عظمند ہوتا ہے.وہ اپنے کسی کام کو رائیگان نہیں جانے دیتا بلکہ وہ وقت اور موقعہ کو غنیمت جان کر اپنے کام کو نقصان سے بچاتا ہے پس جب آپ لوگ اپنی جانوں کو تکلیف میں ڈال کر اپنی خواہشوں اور لذتوں سے الگ ہو کر ایک جگہ جمع ہوئے ہیں اور باوجود اس مبارک اجتماع اور اس نادر موقع کے حاصل ہونے کے اگر آپ لوگ ان برکات اور فیوض سے اپنے آپ کو محروم کر دیں جو اس مبارک اور مقدس مقام اور اجتماع کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں تو پھر آپ کی مثال ایسی ہی ہوگی کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے.پس اے عزیزو! اور اے دوستو! جو ان دنوں اس مقدس مقام اور مبارک دن اور مبارک گھڑی اور مبارک تقریب پر جمع ہوئے ہو.تم خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اور اس کے جلال کے اظہار کے لئے اس وقت کی قدر کرو تاکہ آپ پر اور آپ کی نسلوں پر خدا تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں اور تاکہ جس طرح دنوں میں سے اس نے اس دن کو چنا اور اس تقریب کو چنا اور اس مبارک مقام کو چنا.اسی طرح خدا تعالیٰ تم کو بھی چن لے اور اپنے خاص بندوں میں شامل کر لے اور جس طرح اس نے تم کو اپنی بزرگی اور اسلام کے نام کے لئے ایک مقام پر جمع کیا اس کا یہ نتیجہ ہو کہ خدا تعالیٰ کی بزرگی اور اس کے جلال کے لئے اور اسلام کے نام کے لئے تمام دنیا اور تمام ملکوں کے لوگ اس کی بزرگی اور اس کے جلال کے اظہار کے لئے ایک جگہ جمع ہوں.اور جس طرح خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو پسند کیا.اسی طرح خدا تعالیٰ ان سب کو اپنی پسندیدہ قوم بنائے اور جس طرح یہ گھر خدا کا گھر ہے.اس طرح تم سب کو اس گھر کے آدمی بنائے.پس اس مدعا کے حصول کے لئے ان دنوں اور وقتوں کو بلکہ منٹوں اور سیکنڈوں کو خدائی رضا میں اور اس کی مشیت کے پورا کرنے میں صرف کرو اور ایک ایک منٹ اور ایک ایک سیکنڈ کو غنیمت جانو.یہ اس کا احسان ہے کہ اس نے اپنے دین کی خدمت تم کو عطا کی.ادھر ادھر پھر کر یونہی وقت ضائع نہ کرو اور غنیمت جانو کہ یہ دن اور یہ موقعہ ایک دفعہ پھر تم کو حاصل ہو گیا.اس لئے سب مل کر عبادت الہی اور دعاؤں میں حصہ لے کر خدا کے جلال کو ظاہر کرو.کیونکہ یہ موقعہ اور یہ دن خدا تعالٰی کی نصرتوں اور برکات کے نزول اور قبولیت دعا کے دن ہیں آنحضرت نے فرمایا ہے یداللہ علی الجماعۃ کہ خدا کا ہاتھ جماعت کے ساتھ ہوتا ہے پس یہ وہ موقعہ ہے کہ مختلف شہروں اور مختلف علاقوں اور مختلف ممالک کے دوست یہاں جمع ہیں.پس یقیناً خدا تعالیٰ کا ہاتھ آپ کے سر پر ہے.جبکہ خدا تعالیٰ اس قدر آپ کے قریب ہے تو آپ زیادہ سے زیادہ ان دنوں سے فائدہ اٹھائیں کسی کو
557 کیا معلوم کہ اگلا جلسہ اس کو نصیب ہوتا ہے یا نہیں اور یہ با برکت موقع اس کو پھر بھی میسر آتا ہے یا نہیں الا ان يشاء اللہ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ جس مقصد کے لئے ہم یہاں جمع ہوئے.اس کو فراموش نہ کریں.اور عقل و دانش کا یہ تقاضا ہے کہ ان گھڑیوں سے فائدہ اٹھایا جائے.اس لئے خدا تعالیٰ کی باتوں کو توجہ سے سنو اور دوسروں کو سناؤ کیونکہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو سب دنیا کے لئے مبعوث فرمایا ہے.دنیا کی کوئی قوم ہماری مددگار نہیں.پس آپ خدا سے دعائیں کریں کہ وہ ہمارا ہو جائے.جب وہ ہمارا ہو جائے تو کسی قوم کی عداوت ہمیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی.خدا تعالیٰ کے انبیاء کی بہت بڑی شان ہوتی ہے.خدا تعالیٰ کے حضور انکساری اور خشوع و خضوع میں ان کے برابر کوئی نہیں ہو تا.اور خدا تعالیٰ کی ان پر نظر ہوتی ہے.ایسے قرب کے مقام پر ہوتے ہوئے بھی جہاں پر حضرت مسیح موعود نے اور دوستوں کو ہنری مارٹن کلارک کے مقدمہ کے دوران میں دعا کے لئے فرمایا وہاں مجھے بھی دعا کے لئے ارشاد فرمایا اس وقت میری عمر دس سال کی تھی.اور یہ عمرایسی ہوتی ہے کہ مذہب کا بھی کوئی ایسا احساس نہیں ہوتا.میں نے اس وقت رویا میں دیکھا کہ ہمارے گھر میں پولیس کے لوگ جمع ہیں.اور دوسرے لوگ بھی ہیں.پاتھیوں کا (اوپلوں کا ڈھیر ہے.جس کو وہ آگ لگانا چاہتے ہیں.لیکن جب بھی وہ آگ لگاتے ہیں.آگ بجھ جاتی ہے.تب انہوں نے کہا کہ آؤ تیل ڈال کر پھر آگ لگائیں.تب انہوں نے تیل ڈالا.لیکن پھر بھی آگ نہ لگی.اس وقت میری نظر اوپر کی طرف گئی.اور میں نے دیکھا کہ ایک لکڑی پر موٹے الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ خدا کے بندوں کو کوئی نہیں جلا سکتا.پس اگر خدا ہمارا ہو جائے اور اس کی رضا ہمیں حاصل ہو جائے.تو دنیا ہزار روکیں ہماری راہ میں پیدا کرے.ہمارا کچھ نقصان نہیں کر سکتی.اور اگر خدا تعالٰی ہمارے ساتھ ہے.تو دنیا کی بادشاہتیں اور حکومتیں بھی ہمارا کچھ بگاڑ نہیں سکتیں.اس وقت ہماری مثال ایک بچے اور اس کی ماں کی مثال ہو گی کہ وہ اپنی ماں کی گود میں بیٹھ کر دل میں کسی کا بھی خوف و خطرہ نہیں رکھتا.اس کو اپنی ماں پر ایسا ناز اور ایسا گھمنڈ ہوتا ہے کہ اگر اس کو کوئی چھیڑے.تو وہ جھٹ کہہ دیتا ہے کہ میں اپنی ماں سے کہہ دوں گا.اس وقت ایک بادشاہ بھی اس کو ڈرا نہیں سکتا.یہ علیحدہ بات ہے کہ اس کا اپنی ماں پر ایسا گمان سچا ہے یا جھوٹا.مگر اس کے نزدیک جو کچھ ہے اس کی ماں ہی ہے.جس کی شہ پر وہ کسی کی بھی پرواہ نہیں کرتا.حالانکہ
558 بعض وقت اس کی ماں اس گھر کی نوکر اور خادمہ ہوتی ہے.پس جب ہم اپنے مولی کی گود میں آ جائیں گے جو کہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے.تو پھر ہمارا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے.ہم فورا کہہ دیں گے کہ اگر ہمیں چھیڑا تو ہم اپنے مولیٰ سے کہہ دیں گے.پس میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمیں اپنی عظمت اور اپنے جلال اور اپنی بے انتہا قدرتوں کا مظہر بنا دے.اور اس کی شان اور عظمت تمام دنیا اور اس کے ہر ہر گوشہ میں ظاہر ہو.اور خدا تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کے لئے اور اس کے دین کی خاطر اپنا سب کچھ اس کی راہ میں قربان کر دیں اور ہماری نسلوں کو بھی توفیق عطا فرما دے اور کوئی وسوسہ ہمیں اس سے جدا نہ کر سکے.وہ ہمارا ہو اور ہم اس کے ہو جائیں.اللهم امین میں اس امر کا بھی اعلان کرتا ہوں کہ اس سفر کے دوران میں اور اس کے بعد بھی بعض صدمات مجھ کو اور جماعت کو پہنچے ہیں.جو ایک حیثیت سے تمام جماعت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.اور وہ وہ موتیں ہیں.جو اس تھوڑے سے عرصہ میں واقعہ ہوئی ہیں میں ان تمام دوستوں کا نمازیں جمع کرنے کے بعد جنارہ پڑھوں گا اور اپنی بیوی مرحومہ کا بھی جنازہ پڑھوں گا کیونکہ عورتوں کا بھی حق ہوتا ہے اور مجھے پر تو ان کا بہت بڑا حق ہے.جس کو میں کسی طرح بھی بھلا نہیں سکتا اس لحاظ سے بھی کہ وہ استاذی المکرم حضرت خلیفہ اول کی لڑکی تھیں.اسی طرح جماعت کے بڑے بڑے آدمیوں نے وفات پائی ہے.میر صاحب ہیں.میر محمد سعید صاحب اور جماعت لیگاس کے پریذیڈنٹ اور سیلون کے سیکرٹری اور شیخ فضل کریم صاحب وہ بھی نہایت مخلص آدمی تھے.ان سب کا اور اپنے گھر والوں کا بھی نماز کے بعد جنازہ پڑھوں گا.تاکہ سب دوست دعا میں شریک ہو جائیں : مجمع بحار الانوار جلد ۳ زیر لفظ ید الفضل ۳ جنوری ۱۹۲۵ء)