Khutbat-eMahmud V7

Khutbat-eMahmud V7

خطبات محمود (جلد 7)

خطبات جمعہ ۱۹۲۰ء تا ۱۹۲۲ء
Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔


Book Content

Page 1

سود خطبات جمعہ) ۶۱۹۲۲-۱۹۲۱ فرموده سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد اصلح الموعود جلد

Page 2

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نحمده ونصلى ع لى رَسُولِهِ الكريم پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے ادارہ فضل عمر فاؤنڈیشن کو حضرت مصلح موعود کے خطبات کی ساتویں جلد احباب جماعت کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے.اس جلد میں ۳-۱۹۲۱ء کے ۸۲ خطبات جمعہ شامل ہیں.قرآن مجید میں تزکیہ نفس ، روحانی ترقی اور تعلق باللہ کے لئے تذکیر و یاد دہانی کو ایک موثر ذریعہ قرار دیا گیا ہے.ہمارے مذہب میں یاد دہانی کے ایسے معین و مؤثر ذرائع موجود ہیں جو دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں پائے جاتے.پنجوقتہ نماز بنیادی ذمہ واریوں کی یاد دہانی کا نہایت عمدہ ذریعہ ہے.اس میں مزید صراحت ، وضاحت اور وسعت و تاثیر کی خاطر ہفتہ وار جمعہ کا انتظام ہے جس میں خطیب پیش آمدہ ضروریات اور اہم قومی و ملی مسائل پر پوری قوم سے خطاب کرتا ہے.خدا تعالی کے فضل سے جماعت کو ایک واجب الاطاعت امام کی عظیم الشان نعمت حاصل ہے.ہمارا مام قرآنی نصیحت ی حکم کی یادہانی کرواتا ہے اس کیلئے دنیا بھر کے احمدی گوش بر آوانہ ہوتے ہیں.اور اس طرح جماعت قدم بہ قدم صراط نت چلتے ہوئے انعام یافتہ خوش نصیب افراد میں شامل ہونے کیلئے مسلسل رواں دواں رہتی ہے اور یہی مجعد کی روح اور حقیقت ہے.حضرت فضل عمر کے خطبات آپکے ہاتھوں میں ہیں.ان کے پڑھنے سے یقینا یہ حقیقت آپ پر عیاں ہوگی کہ امامت و قدرت ثانیہ جماعتی ترقی ورہنمائی کے لئے ناگزیر ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ان خطبات سے استفادہ کرنے کی تو فیق عطا میر فرمائے.اور نعمت امامت سے ہمیشہ متمتع رکھے.آمین.اس جلد کی تیاری میں جن دوستوں نے خاکسار کی علمی معاونت فرمائی ہے ان کی فہرست بہت طویل ہے خدا تعالیٰ ان سب کے علم و فضل میں برکت ڈالے اور اپنے فضلوں اور رحمتوں سے نواز سے اور جماعت کے دوستوں کو اس قیمیتی خزانے سے صحیح رنگ میں فائدہ اُٹھانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین : والسلام.J.

Page 3

فہرست مضامین خطبات محمود خطبات جمعہ ۱۹۲۱ ۶۱۹۲۲ جلد r تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه ر جنوری ۶۱۱۳ خدمت خلق کرو.تاکہ خدا مل جائے.۲۱ جنوری مقابلہ و مسابقت کی روح." دعوت الی اللہ کا دائرہ وسیع کرو.۲۸ جنوری ۴۴ فروری " " چندہ کے لئے مسلسل کوشش کرنے کی تلقین.ار فروری مشیر کا فرض ہے کہ امانت دار ہو ۲۵ فروری ه ر مارچ ار مارچ ۱۸ در مارچ " " " " چنیں زمانہ چنیں دور این چنین برکات تو بے نصیب روی وه چه این شقا باشد فتنوں کے دن اور دعاؤں کی ضرورت ہمارے لئے ایک ہی دروازہ کھلا ہے اور وہ خدا کی رحمت کا دروازہ ہے.مسیح موعود کی غرض بعثت کو پورا کرو 1 IA S ۲۴ ۲۸ si i i ۳۶ ۱۰ ۲۵ مارچ اہی سلسلے اور ان کے دشمن مخالفوں کی زبان سے مسیح موعود کی صداقت ۴۰ در اپریل ۱۵۱۲ر اپریل ۱۳ ورمئی ۱۴ ٫۳جون " " 4 " " ہماری ذمہ داریاں اور ہماری مشکلات خدمت دین کے لئے گھروں سے نکل کھڑے ہو روحانیت کے لئے اخلاق بطور بر تن کے ہیں.قومی نصب العین کے لئے جد و جہد ۴۵ ۵۰ ۵۳ 04

Page 4

۶۳ 55 خطیف نمبر تاریخ بیان فرموده ۱۵ ۱۷ جون ۱۶ ۲۴ جون موضوع خطبہ ۱۹۲۱ء افریقہ میں دس ہزار احمدی " احمدیت ہر طرف پھیل رہی ہے ۱۷ در جولائی اپنی پیدائش کی غرض کو مد نظر رکھو ۱۸ ۱۵ر جولائی صفائی نیت سے اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ کہو 4 ۱۹ ۲۲ جولائی الفاظ درود کی ترتیب میں حکمت " ۲۰ ۲۹ جولائی اپنی زندگی کا ایک مقصد قرالہ دو ۱۹۲۱ اگست ۲۲ ۲۶ اگست ۲۳ ۲ ستمبر " " مسلمان بننے کے لئے اسلام کے ہر ایک محکم پر عمل کرو.ا، ۷۴ 66 69 ۸۲ ۸۷ ۹۵ ۹۸ ۱۰۴ ١٠٩ 114 ۱۴۵ ۱۵۰ 141 144 IAY JAY ۱۹۳ ار " ۲۴ ۳۰ ستمبر " ۲۵ ۷ اکتوبر ۱۳در اکتوبر ۲۷ ۴- نومبر ۲۸ ۱۱ نومبر ار ۲۹ ۱۸ نومبر ۳۰ ۲۵ نومبر ر" 4 " " ۳۱ ۲ر دسمبر ۱ 4 ۱۹۳۲ دسمبر ۳۳ ۱۶ رو نمبر 1 ۳۳ ۲۳ دسمبر " ۳۵ ۳۰ر دسمبر - ایک رنگ میں رنگے جاؤ سورہ کوثر میں اسلام کے چار رکن مومن کا سفر اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو میں صراط ایمان کی خوشبو مقام قرب چاہتے ہو یا ملازمت سالانہ جلسہ کے لئے خدمات پیش کرنے کی تحریک ایک عام نصیحت قرب الہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں.انتظام سلسلہ کے لئے ضروری حکمتیں.اپنی زندگیوں کو نہندہ بناؤ احباب قادیان کو جلسہ کے لئے ہدایات شعائر اللہ کی تعظیم ۲۳۶ جنوری ۱۹۲۳ جماعت احمدیہ کا پروگرام ۱۳۳۷ جنوری ، پابندی نماز کے متعلق فرمان

Page 5

صفحه نمه ۲۰۲ ۲۰۸ ۲۱۳ ۲۱۶ ۲۲۱ ۲۲۶ ۲۲۹ ۲۳۵ ۲۴۳ ۲۵۱ ۲۵۸ ۲۶۴ ۲۶۹ ۲۹۱ ۲۹۶ ٣١٢ F16 ۳۲۲ ۳۲۸ خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه ۳۸ ۲۰ جنوری ۱۹۲۳ پابندی نماز اور رعایت اخلاق.۱۳۹ ۲۷ جنوری - ہمیں دنیا کی تربیت کے لئے تیار ہونا چاہیے.۳۰ ۱۰؍ فروری یہ مساوات کا زمانہ ہے." ۴۱ ۷ار فروری خُدا پر ایمان اور مخلوق کی گواہی.۴۲ ۲۴ فروری تو کل کرنے والا کبھی ضائع نہیں ہوتا " ۳ ۳ مارچ ۷۴۴ در مارچ ۴۵ ۲۴ مارچ ۴۶ ۱۴ را پریل ۴۷ ۲۱ اپریل ۴۸ ۲۸ اپریل ۴۹ درمئی ۵۰ ۱۲ مئی " " " " " پنجاب میں دعوت الی اللہ ہر مومن خلیفتہ اللہ ہے اپنے کام کے مقابلہ میں خدا کے انعام پر نظر کرو کلام الہی کی ضرورت و اہمیت مشاورت کے فوائد و آداب رمضان المبارک احکام الہی افضال الہی ہیں فلسفه صوم وصلواة و ۱۹۵۱ رمئی روزے سے نقومی کس طرح حاصل ہوتا ہے ۲۶۵۲ رمئی " قرب الہی کی راہیں.۲۵۳ جون دو باتیں.دعوت الی اللہ کی اہمیت ، مشق تقریر.۵۴ ۹رجون ۵۵ ۱۶ رجون " " " حفاظت ایمان ایمان سرچشمہ راحت ہے ۵۶ ۲۳ جون تجارت پیشہ احمدیوں کے لئے نصائح ۵۷ ۳۰ جون " " قیام امن مومن کا فرض ہے.۵۸ ، ر جولائی مذہب کی غرض سمجھنے کی کوشش کریں.۱۳۵۹ جولائی ۲۱ جولائی 4 " قرآن کریم کے تمدنی احکام ثبات و ذکر الہی ذریعہ ملاح ہے

Page 6

۳۳۳ ۳۳۹ ۳۴۱ ۳۴۳ ۳۴۸ ۳۵۲ ۳۵۷ ۳۶۷ P<A ۳۸۸ ۳۹۲ ۳۹۹ ۴۰۵ ۴۱۰ ۴۲۰ ۴۲۶ ۴۳۰ ۴۳۲ ۴۳۴ خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبہ ۱ ۲۸ جولائی ۱۹۲۳ مومن اور کافر میں فرق ۶۲ ۴ راگست ۶۳ اراگست " " یوم الحج.اللہ کی طرف رجوع کرنے کا دن روحانیت کا موسم ۶۴ ۱۸ اگست ضروری نصائح ۶۵ ۶۶ 4 ۲۵ را گست حقیقی معتقد بننے کی نصیحت ۶۷ درستمبر ۶۸ ۲۲ ستمبر ۲۹ ۲۹ رستمبر ۱۶ اکتوبر " ۷۳ 4 " " 4 " موجوده افسوسناک حالت ہماری ذمہ داری عظیم الشان ہے ایک خطبہ کی تشریح.شرعی اعمال اور قوتِ اخلاق قوت اخلاق ۱۳ اکتوبر دنیا پر دین کو مقدم رکھیں ۱۲۰ اکتوبر " روحانی ترقی استقامت کے بغیر نہیں ہو سکتی ۲۷ اکتوبر کارکنان جماعت سے خطاب ۴ ۳ نومبر <4 ۷۵ ۱۰ ر نومبر ۱۷ نومبر ۲۲ نومبر یکم دسمبر ۷۸ " " " " ۷۹ درد سمبر " ۸۰ ۱۵ر دسمبر ۱ ۲۲ دسمبر ۲ ۲۹ دسمبر " " " غیر از جماعت لوگوں سے میل جول کی تلقین دعوت د اشاعت کا موزوں طریق ہندوؤں میں سچائی کا پرچار نشر و اشاعت کی دو راہیں.شفقت علی خلق الله جلسہ سالانہ - بعض ضروری ہدایات - مہمانوں سے حسن سلوک کی نصیحت کارکنان جلسہ اور احباب قادیان کو نصیحت جلسہ سے واپس جانے والوں کو نصائح.

Page 7

l خدمت خلق کرو.تا کہ خدا مل جائے (فرموده ۷ / جنوری ۱۹۲۱ء) حضور انور نے تشہد و تعویذ سورۃ فاتحہ اور آیت شریفہ یا ايها الناس اتقوا ربكم الذي خلقكم من نفس واحدة وخلق منها زوجها وبث منهما رجالا " كثيراً ونساء واتقوالله الذي تساء لون به والارحام ان الله كان عليكم رقيباً (النساء : ۲) کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ انسان کی زندگی ایک محدود چیز ہے زیادہ سے زیادہ عمر کے آدمی تاریخی طور پر پونے دو سو برس کی عمر تک کے معلوم ہوتے ہیں.قرآن کریم میں بڑی عمر کے انسان کا ذکر ہے مگر اس سے مراد ان کی قوم کی عمر ہے.پس آدمی کی بڑی سے بڑی عمر پونے دو سو برس معلوم ہوتی ہے اور یہ بھی شاذو نادر ہے.ورنہ یوں انسان کی عمر ساٹھ ستر سال معلوم ہوتی ہے.اس عمر میں وہ کیا کچھ کرتا ہے اور کر سکتا ہے.یہ ایسا سوال ہے جو ہمیشہ الجھن میں ڈالتا رہا ہے.بہت ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ انسان ستاروں اور سیاروں کے اثرات کے ماتحت ایک ار ہے.جہاں اثر زیادہ پڑتا ہے وہاں زندگی کے آثار زیادہ ہوتے ہیں اور جہاں کم وہاں کم.اور جہاں جتنا اثر پڑتا ہے.اس کے مطابق اثر ظاہر ہوتا ہے کہیں انسان اور کہیں نباتات و جمادات.اس سے زیادہ زندگی کی کوئی حقیقت نہیں.نہ اس کی پیدائش کی کوئی غرض ہے.نہ مرنے میں کوئی غرض یہ اپنے آپ کو آپ ہی بڑا سمجھتا ہے.اس کی دنیا سے بڑی بڑی دنیا ئیں اور ہیں.جن کے مقابلہ میں یہ دنیا ایک بالکل حقیر ہے.اس کے مقابلہ میں کچھ اور لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ تمام کائنات انسان کے لئے پیدا کی گئی ہے.اگر انسان نہ ہوتا تو کچھ نہ ہوتا.گویا ایک ایک طرف لئے جاتے ہیں تو دوسرے در سری طرف.اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک شخص کو ایک انسان دیکھتا ہے کہ اس کے لئے ساری دنیا ہے.وہ سب کا ہمدرد ہے اور سب کا بہی خواہ ہے.اور ساری دنیا اس کی محتاج ہے.اور وہ سب دنیا کو فیض پہنچا رہا ہے.وہ نہ صرف انسانوں کا ہمدرد ہے بلکہ حیوانوں تک اس کی ہمدردی کا اثر ہے.مگر دوسری طرف وہ دیکھتا ہے.کہ ایک انسان ہے وہ لمبی عمر بھی پاتا ہے مگر وہ دنیا سے بے تعلق ہے.اس کے

Page 8

وجود سے دنیا کو کوئی نفع نہیں.وہ اپنے محلہ والوں حتی کہ اس کی ہمدردی اپنے رشتہ داروں.بہن، بھائی اور بیوی بچے سے بھی نہیں ہوتی بلکہ اس کو صرف اپنے نفس سے ہوتی ہے.تو وہ خیال کرتا ہے انسان کی غرض پیدائش کچھ بھی نہیں.پس یہ ایک اختلافی سوال ہے.مگر جیسا کہ میں نے بتایا کہ دنیا میں کئی حیثیت کے آدمی آباد ہیں.جب ایک شخص ایسے انسان کو دیکھتا ہے جو دنیا کا ہمدرد اور بہی خواہ مثلاً وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا ہے.تو اس کو معلوم ہوتا ہے.کہ ساری دنیا اسی شخص کے لئے ہے.لیکن دوسری طرف جب وہ ایک زمین دار کو دیکھتا ہے.کہ اس کی بڑی سے بڑی خواہش کھیت میں کام کرنا اور کھانا اور سو رہتا ہے یا ترقی کی تو کسی دوسرے زمین دار کی زمین اپنی زمین میں شامل کر لی یا اس سے ترقی کی تو کسی دوسرے زمین دار پر مقدمہ کھڑا کر دیا.تو وہ کہتا ہے.کہ انسان کی پیدائش سے کوئی غرض نہیں تو یہ اختلاف دراصل نظر کا اختلاف ہے.جس کو جیسے آدمی نظر آتے ہیں.وہ اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے.جب ایک شخص کو بیمار ہی بیمار نظر آتے ہیں تو وہ کہتا ہے دنیا بیماروں ہی کے لئے ہے.اور جب تندرستوں کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ دنیا میں بیماری نہیں.لیکن یہ نتیجہ صحیح نہیں.کیونکہ جس طرح بیمار بھی ہوتے ہیں اور تندرست بھی.اور آم کھٹے بھی ہوتے ہیں اور میٹھے بھی.اسی طرح آدمی بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ہوتے ہیں کہ چاند سورج اپنی تمام خوبیوں کے باوجود ان کے فیوض کے آگے کچھ نہیں ہوتے ہم جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے کلام کو دیکھتے ہیں.تو کہتے ہیں کہ اس میں جو علوم اور جو برکات ہیں وہ کسی چیز میں بھی نہیں.آسمان کے ستارے ان علوم کے مقابلہ میں بیچ ہو جاتے ہیں.تب وہ کہتا ہے کہ انسان کے لئے اس قدر وسعت ہے.اور وہ یہ کہتا ہے کہ دنیا ایسے انسان کے لئے پیدا کی گئی ہے.لیکن جب دوسری طرف ایک اور وجود ہوتا ہے.کہ وہ تمام دنیا کے فائدہ کے مقابلہ میں اپنے ہی فائدہ کو مد نظر رکھتا ہے اور اپنے نقصان کو نقصان سمجھتا ہے اور کسی دوسرے کے رنج و غم کو محسوس نہیں کرتا.اور اس کی نظر کی حد اس کا وجود ہوتا ہے.کسی کو ننگا دیکھتا ہے تو اپنے پاس کپڑا رکھنے کے باوجود اس کو نہیں دیتا.تو وہ کہتا ہے.کہ دنیا اس کے لئے نہیں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا مسیح موعود یا عیسی یا موسی کی آمد اس کے لئے نہ تھی.ایسا شخص دنیا میں کھاد کا کام دیتا ہے.اور ذبیحہ بنایا جاتا ہے اس کے لئے دنیا نہیں ہوتی.بلکہ یہ دنیا کے لئے ہوتا ہے.اس کی پھل کی طرح حفاظت نہیں کی جاتی.بلکہ اس کو کھاد کی طرح درخت کی غذا کے لئے اس کی جڑوں میں ڈالا جاتا ہے.پس میں نصیحت کرتا ہے ہوں کہ اپنے وجود کو ایک نافع اور کار آمد وجود بناؤ.کہ تمہاری پھل

Page 9

کی طرح حفاظت کی جائے.زندگی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے بنی نوع کی خدمت میں اس کو لگا دے ورنہ اپنی ذات میں زندگی کوئی چیز نہیں.ہم اگر آج مر جائیں تو دنیا کے لئے کوئی کمی کی بات نہیں.ہاں اگر ہماری زندگی سے دنیا کو کسی نہ کسی قسم کا فائدہ ہے.تب ہماری موت ایک نقصان دہ چیز ہے.ورنہ اگر ہم سے نفع نہیں تو خواہ ہم پچاس برس اور جئیں تو بھی کچھ نہیں.زندگی سے غرض کھانا پینا نہیں یہ تو زندگی تک ہے.مرنے کے بعد نہیں مثلاً دیکھو.کوئی ریل میں سوار ہو اور جہاں اس کو جاتا ہے وہاں پہنچ کر گاڑی سے نہ اترے اور کہے کہ میں اس لئے نہیں اترتا کہ مجھ کو اچھی جگہ ملی ہوئی ہے.تو یہ اس کی نادانی ہے.کیونکہ ریل پر چڑھنا تو منزل پر اترنے کے لئے تھا نہ کہ اچھی جگہ کے لئے.اسی طرح یہ زندگی کام کرنے اور مرنے کے لئے ہے اور مومن اس مرنے سے نہیں گھبراتا کیونکہ جس کو موت کہتے ہیں.وہ اس کی زندگی کا دن ہوتا ہے.پس تمہاری زندگی دنیا کے فائدہ کے لئے ہے.اگر تمہارا ہمسایہ دکھ میں ہو تو اس کی مدد کرو.اپنے آرام کو تکلیف سے بدل لو.اگر تمہارے آرام سے دوسرے کو فائدہ پہنچتا ہے.اگر تمہاری جان کے خطرہ میں پڑنے سے کوئی جان بچ جائے تو اپنی جان کی فکر نہ کرو.یاد رکھو تم پر کوئی دن نہ آئے.جس میں تم سے جسمانی روحانی، علمی، مالی فائدہ دوسروں کو نہ پہنچے.وہ دن تمہاری موت کا دن ہو گا.جس دن تم سے نفع نہ پہنچے.ورنہ مرنے سے اس کو خوف اور رنج نہیں ہوتا.کیونکہ وہ اس کی کامیابی کا دن ہوتا ہے رنج ہوتا ہے تو اس بات کا کہ میں خدا کی مخلوق کی اور خدمت نہ کر سکا.جو دنیا کو چھوڑتے ہوئے دنیا اور اپنے نفس کے لئے رنج کرتا ہے وہ کافر و منافق ہوتا ہے.لیکن مومن کہتا ہے کہ میں یہاں رہتا تو اور خدمت کرتا.پس اپنی زندگی کو خدمت میں لگاؤ.یہ مت کرو کہ تمہارا ہمسایہ محلہ میں دکھ میں ہو اور تم اس کی مدد نہ کرو کیونکہ تمہاری تو غرض ہی یہ ہونی چاہیے کہ تم دوسروں کے کام آؤ.دوسرا مقصد کہ خدا کو پاؤ وہ اس کے بعد آتا ہے جب تک خدا کی مخلوق سے ہمدردی اور محبت نہ ہو.تم خدا کو نہیں پا سکتے.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ سونا مٹی کے نیچے ہوتا ہے.مٹی کو اٹھاؤ گے تو سونا پاؤ گے ورنہ نہیں.خدا کا سلوک بندوں کی محبت اور ہمدردی کے بعد ہوتا ہے اس لئے تم اپنے نفس کو خدا کی مخلوق اپنے گھر کے لوگوں محلہ شہر ملک بلکہ تمام دنیا کے لوگوں کی ہمدردی میں لگاؤ کہ تم کو خدا کی محبت حاصل ہو.اپنی عمر کو رائگاں نہ کرو.کیونکہ خدا نے تمہیں اس لئے زندگی دی ہے کہ تم اس کو کار آمد بناؤ.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت پر رحم کرے اور اس نمونہ پر چلنے اور اس کو اختیار کرنے کی توفیق

Page 10

دے.جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ قائم ہوا.اور اب پھر حضرت مسیح موعود کے ذریعہ قائم ہوا اللہ زیادہ اور میں موجود کے ذریعہ ہے.الفضل ۱۳ جنوری ۱۹۲۱ء)

Page 11

2 مقابلہ و مسابقت کی رُوح (فرموده ۲۱ جنوری ۱۹۲۱ء) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.تمام دنیا میں ہم دیکھ رہے ہیں.کہ ایک دوڑ ہو رہی ہے.ہر شخص اپنے اپنے رنگ میں بڑھنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے.مدرسہ کے طالب علم بھائی بھائی ہوں.لیکن دونوں کی کوشش ہوگی.کہ میں اچھا پڑھ کر سناؤں.اور اچھے نمبر پاؤں.ادب ہو گا.لحاظ ہو گا.مگر اس مقابلہ میں ایک بھائی دوسرے کا پیچھا نہیں چھوڑے گا.جہاں فائدہ کا سوال ہو گا.وہاں قربانی کرے گا مگر مقابلہ میں ایک انچ پیچھے نہیں ہے گا.پڑھائی کو چھوڑ کر کھیل میں دیکھتے ہیں.اس میں بھی یہی رنگ نظر آتا ہے.اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے.کہ وہ بچے نہیں بادشاہ ہیں.اور ان کے سامنے کھیل کا نہیں موت و حیات کا سوال ہے.ایک کو ٹھوکر لگتی ہے.وہ گرتا ہے.تو اس کی پارٹی کے پکارتے ہیں کہ پروا نہ کرنا.شاباش بڑھے چلو فٹ بال کھیلتے ہیں.گرتے ہیں.بعض کی ہڈیاں ٹوٹ جاتی ہیں.ہاکی کھیلنے میں دانت آنکھ ضائع ہو جاتے ہیں.ایسی حالت میں جن کو چوٹ آتی ہے.وہ پروا نہیں کرتے.نہ ارد گرد والے پروا کرتے ہیں.پھر ہم اقوام کے مقابلہ کو دیکھتے ہیں ان میں بھی عجیب رنگ نظر آتا ہے یہ ارائیں انجمن ہے.یہ سیدوں کی ہے.یہ مغلوں کی ہے اور ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ بڑھ جائیں.کوئی خیال نہیں کرتا کہ ہم سب آدمی ہیں.بلکہ اس جھوٹے فرق کی خاطر کہ یہ سید ہیں.یہ مغل ہیں.یہ پٹھان ہیں یہ راجپوت ہیں اور یہ فرق ایک نمائشی فرق ہوتا ہے.جس کے لئے طاقت خرچ کرتے ہیں.اور یہ محض نمائشی بات ہوتی ہے.ایک ہی سکول کے لڑکوں کو ہم دیکھتے ہیں.آپس میں میچ کھیلتے ہیں تو مقابلہ میں ان کی دشمنوں کی طرح سانس پھولتی ہے.دم اکھڑ جاتا ہے.اور ایک دوسرے کو شکست دینے پر تلے ہوئے ہوتے

Page 12

ہیں.مگر جب کھیل ختم ہو جاتا ہے تو وہی لڑکے آپس میں بانہیں ڈال کر چل پڑتے ہیں سارا جوش رفع ہو جاتا ہے کیونکہ یہ سب کچھ ایک بناوٹی مقابلہ کے لئے تھا.اگر کوئی شخص ایسا ہو.جس نے پہلے یہ نظارہ نہ دیکھا ہو.تو جب وہ انہی لڑکوں کو کھیل کے میدان میں دیکھے گا تو خیال کرے گا کہ یہ آپس میں دشمن ہیں.اور پھر جب کھیل کے بعد ان کو دیکھے گا کہ وہی لڑکے آپس میں بھائیوں کی طرح جا رہے ہیں.تو وہ یہ نظارہ دیکھ کر حیران رہ جائے گا.اسی طرح جب ایک ناواقف شخص سید شیخ، مغل، پٹھان، راجپوت وغیرہ اقوام میں مقابلہ دیکھے گا.تو وہ ضرور حیران ہو گا.کہ یہ ایک سے لوگ ہیں.ان کے کان آنکھ ناک سب ایک طرح کے ہیں.مگر ان میں یہ تقسیمیں کیوں ہیں.اور ان کے دائرے محدود کیوں ہیں.اور یہ کیوں سب کے فائدہ کا خیال نہیں کرتے.یہ روح مقابلہ کی اللہ تعالیٰ نے اس لئے رکھی تھی.کہ جہاں سچا فرق ہے.وہاں کیا کرنا چاہئیے ایک خدا پرست ہے.وہ سکول میں دیکھے.کہ بھائی سے بھائی پڑھائی میں بڑھنا چاہتا ہے.اور فیلڈ میں ایک ہی سکول کی دو ٹیمیں ہیں.مگر وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی فکر میں ہیں.پھر قوموں کو دیکھے.کہ ہر ایک قوم دوسری قوم کے مقابلہ میں اپنے فوائد کو مقدم کر رہی ہے.اس وقت اس کو معلوم ہو گا.کہ سب سے جھوٹا تیرا ہی نفس ہے.یہ جو کچھ فرق تھا جھوٹا اور نمائشی تھا.مگر اس کے لئے اتنی جدوجہد ہو رہی ہے.مگر تجھ میں اور غیر (جو خدا پرست نہیں) میں سچا فرق ہے.مگر تو آرام سے گھر میں بیٹھا ہوا ہے.اور وہ جھوٹے اور نمائشی فرق کے لئے لڑ رہے ہیں.یہ روح توجہ کے لئے پیدا ہوئی تھی.کہ اس مقابلہ کی روح سے اصلی مقابلہ میں سبق لیں.اور اس میں جوش و خروش اور جدوجہد سے کام لیں.جھوٹے مقابلہ میں تو کس جوش سے کام کیا جاتا ہے.اور بچے میں ہتھیار ڈال دیئے جاتے ہیں جھوٹی آگ بجھاتے ہیں.اور حقیقی آگ کے لئے ایک ڈول تک پانی کا نہیں ڈالتے.یہ ایک عجیب بات نظر آتی ہے اصل مقابلہ کی بات میں ستی دکھاتے ہیں.اور جہاں مقابلہ اصلی انہیں وہاں خوب جوش و خروش سے کام کرتے ہیں.جہاں لڑائی کی ضرورت ہے.وہاں خاموش ہیں.جہاں ضرورت نہیں وہاں لڑتے ہیں.یہ مقابلہ اصل مقابلہ کے لئے بطور تحریک تحریص اور تحریض کے تھا.مگر اسی کو اصل بنا لیا اور اصل کو چھوڑ بیٹھے.اس کی مثال ایسی ہی ہے.کہ مدرسہ میں پڑھاتے ہوئے تصویر ایک جانور کی دکھاتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ اس کو ہماری زبان میں اونٹ انگریزی میں کیمل اور عربی میں جمل کہتے ہیں.اب طالب علم بجائے اس کے کہ تصویر سے اتنا ہی کام لیتا.جتنا کہ اس سے مقصود تھا.وہ تصویر کے نقش و نگار اور رنگوں میں پڑ جاتا ہے.اور یہ بھول جاتا ہے.کہ یہ اونٹ تھا یا ہلی.یہی حال جھوٹی ترقی اور کامیابی کا ہے.کہ یہ اصل میں اصلی کامیابی کے لئے ہے.لیکن اس کے لئے نہ

Page 13

عمل کی ضرورت سمجھی جاتی ہے نہ حرکت کی.اس کے لئے ان میں کوئی جوش نہیں ہوتا.بلکہ ان کے دل برف کے ڈلے ثابت ہوتے ہیں.اور ان کی آنکھ نہیں دیکھتی.گویا کہ وہ جمادات کی طرح ہو جاتی ہے.مگر مومن کی یہ حالت نہیں ہوتی.وہ ہر ایک بات میں امتیاز کرتا ہے.اور خیال کرتا ہے کہ کہاں مجھ کو لڑنا چاہیئے.اور وہاں لڑتا ہے.مومن ظالم نہیں ہوتا.مومن کے معنی ہی ہوتے ہیں امن میں آیا ہو.اور امن میں پہنچانے والا.پس امن میں آنے والے غور کریں کہ کیا ان میں حق کی تبلیغ کے لئے وہ جوش و خروش ہے جس کی ضرورت ہے.اور ان کے دل میں ایسی تڑپ ہے کہ اس راہ میں جان و مال کو قربان کر دیں.کیونکہ اصل کامیابی یہی ہے کہ خدا کے لئے ہم ہوں اور ہماری ہر ایک کوشش خدا کے لئے ہو.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے.(الفضل ۲۷ / جنوری ۱۹۲۱ء)

Page 14

3 دعوت الی اللہ کا دائرہ وسیع کرد فرموده ۲۸ / جنوری ۱۹۲۱ء) حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ : چونکہ آج مجھے اطلاع نہیں دی گئی اس لئے دیر ہو گئی.میں ایک ضروری بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ یہ سنت ہے امام کو مؤذن اطلاع دیتا ہے اس مگر ہمارے ہاں اس سنت پر کم عمل ہوتا ہے.بعض وقتوں میں ہوتا بھی ہے.اس کا خیال رکھنا چاہئیے.سورہ فاتحہ ہمیں ایک خاص فرض کی طرف توجہ دلاتی ہے.مگر اس کی طرف بہت لوگ توجہ نہیں کرتے.میں نے بہت نصیحت کی ہے اور بار بار توجہ دلائی ہے.کہ کام کرنے سے ہی ہوتے ہیں.بیٹھنے سے کوئی کام نہیں ہو جاتا.اور بڑے کام بہت سے لوگوں کے کرنے سے ہی ہوتے ہیں.ہیں آدمیوں کا کام دس نہیں کر سکتے.نبی بھی بشریت کے لحاظ سے ایک سے زیادہ کام نہیں کر سکتا نبی ایک وقت میں ایک ہی طرف دیکھ سکتا ہے.دوسری طرف نہیں دیکھ سکتا.ایک وقت میں ایک ہی سے باتیں کر سکتا ہے دو سے نہیں کر سکتا.پس نبی بھی بشریت سے آزاد نہیں ہوتے.تبلیغ کا سلسلہ ایک دو چار علماء سے تعلق نہیں رکھتا.بلکہ اس کا تعلق ہر ایک شخص سے ہے.اور ہر ایک شخص تک تبلیغ تبھی پہنچ سکتی ہے.جب ہر شخص پہنچائے ایک عالم سب تک کیسے پہنچ ر ایک وقت میں بہت سے لوگوں کو سنایا جا سکتا ہے.اور ایک کتاب لاکھوں تک میں ہے.چرا اثر کر سکتی ہے.مگر سوال تو یہی ہے کہ سب کو لیکچر کیونکر سنائے جائیں.اور کتاب کیونکر پہنچائی سکتا جائے.میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنی آواز چھ سات ہزار کے مجمع کو سنا سکتا ہوں.جتنے اس وقت مسجد میں ہیں.ان سے پانچ چھ سات گنے بھی اگر ہوں.تو ان تک میری آواز پہنچ سکتی ہے.لیکن اس وقت تو اتنوں کو نہیں پہنچ رہی کیونکہ اس وقت اتنے آدمی نہیں ہیں.اور باقی خلا ہے.اسی طرح سوال ہوتا ہے.کہ کتاب پہنچے کیونکر؟

Page 15

اس وقت قرآن کریم اور حضرت اقدس کی کتابیں ہمارے پاس ہیں.اور اس وقت اردو بولنے اور سمجھنے والے پندرہ میں کروڑ لوگ ہندوستان میں ہیں.جو ان کتابوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.مگر کس طرح؟ اسی طرح کہ ان کو ان تک پہنچایا جائے.ورنہ کتابیں خود تو اڑ کر کسی کے پاس جاتی نہیں.یا مثلاً حضرت اقدس کی عربی کی کتابیں ہیں اور عربی زبان اس وقت عرب میں.عراق میں.شام میں.مصر میں ، الجزائر میں.مراکش میں.ٹیونس میں بولی جاتی ہے.اور اور بھی علاقے ہیں جن میں عربی رائج ہے.ان کو کتابیں کس طرح فائدہ پہنچا سکتی ہیں.کتاب خود نہیں کہہ سکتی کہ مجھے پڑھو.نہ واعظ ہر شخص کو کہہ سکتے ہیں کہ آؤ اور ہمارا وعظ سنو.Su سنانے کا طریق یہی ہے کہ ہر ایک شخص کو مخاطب کیا جائے.اور اس کو سنایا جائے.واعظ چونکہ محدود ہوتے ہیں.وہ ہر شخص کے پاس نہیں ہونچ سکتے.واعظ کسی وقت جاکر ایک جگہ لیکچر دے سکتے ہیں.مگر کوئی سن لے گا اور بہت سے نہیں سنیں گے.پس ہر شخص کو تبلیغ کرنے کا کام نہ واعظوں سے ہو سکتا ہے نہ کتابوں ہے.بلکہ ہر فرد کو تبلیغ صرف اور صرف افراد ہی کر سکتے ہیں.ورنہ کتابوں اور واعظوں کا وجود معطل ہے.تحریک پیدا کرنا ہر شخص کا فرض ہے.جب تک سب کے سب افراد اس کام میں زور سے حصہ نہیں لیں گے.ہمارا کام محدود رہے گا.اب سال میں نئے مبائعین کی اوسط قریباً تین ہزار ہوتی ہے.اخبار میں تھوڑے ہی نام شائع ہوتے ہیں.کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے.کہ گھر کا کوئی بڑا بیعت کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میری بیعت میں گھر کے سب لوگوں کی بیعت شامل ہے.تو بیعت کرنے والوں کی اوسط فی سال تین ہزار ہے.جس کے یہ معنی ہیں.ایک ہزار سال میں تیس لاکھ آدمی احمدی ہوئے.اور اگر دنیا کی عمر ایک لاکھ سال ہو.تو سارے ہندوستان کی موجودہ آبادی احمدی ہوگی.اور باقی سب دنیا محروم رہے گی.مگر جیسا کہ خیال ہے.کہ دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے.اور ہم اس حساب سے آخر میں پیدا ہوئے ہیں.تو ایسی حالت میں اگر قریباً ۱۵ عمریں دنیا کی اور ہوں.تب ہم صرف ہندوستان کو احمدی بنا سکتے ہیں.اور ساری دنیا کو احمدی بنانے کے لئے کس قدر عرصہ چاہئیے.وہ ظاہر ہے.پس موجودہ رفتار کے لحاظ سے اتنے لیے عرصہ کی ضرورت ہے.جو لاکھوں سال بنتا ہے.اور وہ بھی اس صورت میں کہ ہم موجودہ رفتار ترقی سے بھی نہ گر جائیں.اور اگر ہماری یہ رفتار نہ رہے.اور دنیا کی نسل بڑھتی جائے.تو اس سے بھی بہت زیادہ عرصہ دنیا کو مسلمان بنانے کے لئے درکار ہوگا.اور اگر دنیا کی عمر باقی صرف پانچ سو سال ہو.جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے.تو پھر تمام دنیا کو اسلام کے حلقہ میں لانا موجودہ رفتار کے ساتھ خیال محال ہے.جو مجنونانہ خیال سے بھی بڑھا ہوا ہے.یہ نقص کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ تمام افراد کے اندر تبلیغ کی تحریک نہیں.ہمارے

Page 16

مبلغ محدود دائرے میں پہنچ سکتے ہیں.مثل ہے.چراغ تلے اندھیرا.دنیا میں تو نہیں معلوم کہ اس کی صداقت کہاں تک ہوگی.مگر ہمارے معالمہ میں اس مثل کی صداقت میں شک نہیں.ابھی قادیان تک کو ہم نے فتح نہیں کیا.اور ہمارے ایسے دشمن ہیں جو باہر والوں سے کہیں زیادہ ہیں.پھر قادیان کے ارد گرد احمدی ہوئے ہیں.مگر بہت کم.اور وہ بھی ایسے ہیں کہ عموما یہ ارد گرد کے احمدی باہر کے نیم احمدیوں سے بھی بدتر ہیں.باہر کے تحقیق کرنے والے جو ابھی احمدی نہیں ہوئے محبت و اخلاص میں ان سے بڑھے ہوئے ہونگے گویا یہ اندھیرے میں اندھیرا نظر آرہا ہے.اس کی وجہ یہی ہے.کہ افراد توجہ نہیں کرتے.اور ہر ایک شخص خیال کرتا ہے کہ میں ہی ایک مستقل وجود ہوں.اور میری ہی خدا کو ضرورت تھی.جو پوری ہو گئی.گویا وہ خیال کرنے لگتا ہے.کہ میرے ہی لئے خدا نے مسیح موعود کو بھیجا تھا اور میرے احمدی ہونے سے وہ غرض خدا کی پوری ہو گئی.حالانکہ یہ غلط ہے.مسیح موعود کا مشن سب دنیا کے لئے تھا.میرا منشا ہے کہ آئندہ سے ہمارے افراد اس طرف بہت توجہ کریں.ہر ایک شخص کو سمجھنا چاہیے کہ یہ حکم اسی کو ہے.یہ نہ سمجھے.کہ غیر کو ہے.یہ قاعدہ ہے کہ مثلاً میں اس وقت اگر کہوں کہ فلاں چیز لاؤ تو ممکن ہے کہ کوئی بھی نہ اٹھے.اور ہر ایک خیال کرلے کہ دوسرا اٹھے گا لیکن اگر میں نام لے دوں تو وہ فورا لے آئے گا.پس تبلیغ کے متعلق بھی ہر ایک شخص کو حکم عام سمجھنا چاہیے اور اپنے ہی نفس کو اس حکم کا مخاطب جاننا چاہئیے اور سمجھنا چاہئیے کہ یہ حکم مجھے ہی بجا لانا ہے.اور اگر تم سب کے سب اس پر عمل بھی شروع کر دو گے.تو تم کامیاب ہو جاؤ گے.اور اگر صرف اراده های کرو گے تو پھر کامیابی محال ہے.کیونکہ بہت ارادے بھول جاتے ہیں.جیسا کہ میں نے جلسہ پر اعلان کیا تھا.اس دفعہ ارادہ ہے کہ ہر جماعت کے لئے جس طرح چندہ ہوتا ہے.اسی طرح یہ بھی ہو.کہ ہر ایک جماعت کم از کم اتنے آدمیوں کو سلسلہ میں داخل کرے.اگر اسی طرح پہلے سال اب سے زیادہ پھر اس سے زیادہ پھر اس سے زیادہ توجہ ہوگی تو چند ہی سال میں ہماری تبلیغ کہیں سے کہیں پہنچ جائے گی.سب سے پہلے میں یہاں کے دوستوں کو مخاطب کرتا ہوں.اور ان کو نصیحت کرتا ہوں.کہ اس بارے میں کوشش کریں.میں عنقریب اعلان کرنے والا ہوں کہ کم سے کم ہر جماعت اتنے آدمیوں کو سلسلہ میں داخل کرے گی.یہاں کے لوگوں کو چاہیے کہ پہلے یہ نمونہ بنیں اور ایک انتظام کریں.اور مقامی انجمن کے سیکرٹری سے مل کر انتظام کریں مبلغوں کی دو قسمیں کریں.ایک تبلیغ کے لئے ہوں کہ وہ غیر احمدیوں کو احمدی بنائیں.دوسرے احمدیوں کی تربیت کریں.اور ان کو عمل سکھائیں.اور دین کے لئے محبت و جوش اور خلوص پیدا کریں.یہاں چونکہ ہماری تعداد زیادہ ہے

Page 17

اس لئے بہت دفعہ اس لئے بھی ارد گرد کے لوگ داخل ہو جاتے ہیں.اور خیال کرتے ہیں کہ چلو اس جماعت میں شامل ہوں.مگر ان میں پورا پورا اخلاص اور جوش پیدا نہیں ہوتا.کیونکہ ان کا کچھ نقصان نہیں ہوتا.ان کو احمدی ہونے پر تکلیفیں نہیں پہنچتیں.باہر کے لوگ جو ہر طرف مخالفین میں گھرے ہوتے ہیں.جب سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں.تو سمجھ لیتے ہیں کہ ہمیں ہر قسم کی مصیبت اٹھانی پڑے گی.اور پھر جوش اور اخلاص سے داخل ہوتے ہیں.کیونکہ جب تک مصیبتیں نہ پڑیں.اخلاص نہ پختہ ہوتا ہے نہ ظاہر ہوتا ہے.پس یہاں بہت دفعہ بے سوچے لوگ بھی داخل سلسلہ ہو جاتے ہیں.اس لئے ضرورت ہے.کہ انکی بھی تربیت کی جائے.پس با قاعدہ جدوجہد ہونی چاہئیے.تاکہ قادیان سے تو فارغ ہو جائیں.ایک کمی یہ رہ جاتی ہے کہ یہاں غیر مذاہب کے لوگوں کو تبلیغ نہیں کی جاتی.خصوصا ہندوؤں اور سکھوں میں.باہر بھی تقریباً ایسا ہی ہوتا ہے.مسیح موعود کی آمد غیر احمدیوں ہی کے لئے نہ تھی.بلکہ عیسائیوں، یہودیوں، سکھوں ، ہندوؤں غرض سب کے لئے تھی.اس لئے ان سب میں بلکہ ان قوموں میں تبلیغ ہونی چاہیے جو چوہڑے چمار ہیں.اس کے لئے باقاعدہ اور پوری جدوجہد کی ضرورت ہے، یہ مقابلہ ہو گا تو جوش بھی پیدا ہو گا اور اصلاح بھی ہوگی.پس سب سے پہلے یہاں کے لوگ نمونہ بنہیں.اور اپنی کوشش سے کام لیں.اللہ تعالٰی ہمیں اس صداقت کے سمجھنے اور دنیا تک پہنچانے اور عمل کرانے کی توفیق دے.ہماری زبان اور کوشش میں برکت ڈالے.اور جو لوگ ہمارے ذریعہ داخل ہوں ان کی کوشش میں بھی برکت پڑے.اور وہ ہم میں کسی نقص پیدا کرنے کا موجب نہ ہوں.آمین الفضل ۳ فروری ۱۹۲۱ء) محلوة كتاب الصلوة باب الاذن 000

Page 18

,4 ١٢ چندہ کے لئے مسلسل کوشش کر کوشش کرنے کی تلقین حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ اور آیت یا يابني اذهبوا فتحب وسف واخيه ولا تايسوا من روح الله انه لمس من روح الله الا القوم الكافرون (يوسف : (۸۸) کی تلاوت کے بعد حضرت یعقوب کے بیٹے خود ان کے بھائیوں نے ؟ نکالا.اور قرآن میں ہے کس طرح میں ڈالا.اور نو میں.وہ نکالے گئے تو بان قافلہ والوں کے ہاتھوں ان کے بھائیوں نے بیچا اور پھر قافلہ والوں لوں نے ان کو مصر میں جاکر بیچ دیا.پھر اس میں بتایا ہے.کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو ترقی دی.ترقی دی.اور کے عہدہ پر ان کو سرفراز کیا.اور حکومت کا ان کو وزیر بنا دیا.اور پھر کسی طرح ان کے دل کی تڑپ پر نظر فرما کر اللہ تعالیٰ ے ان کے بھائیوں کو ان کے پاس پہنچا دیا.پھر یہ ظاہر کیا ہے کہ کس طرح بھائیوں نے جھوٹ موٹ باپ کو ان کی موت کا یقین دلانے کے لئے کہنا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا.لیکن یعقوب السلام خدا کی دی ہوئی اطلاع کی بناء پر جانتے تھے کہ ان کا بیان غلط ہے.اور اس واقعہ پر سالہا سال کا عرصہ گذر گیا تھا.مگر یعقوب پھر بھی انکو گویا مردہ بچہ کے لئے کہتا ہے کہ جاؤ اس کو تلاش کرو.یہ اتنی مدت ہے کہ اس میں انسان گمان کر سکتا ہے کہ ممکن ہے وہ مرگیا ہو.لیکن یعقوب بیٹوں کو کہتا ہے کہ اگرچہ ہیں پچیس سال کا عرصہ ہی گذر گیا ہے تم تلاش کرو.اور اس سے مایوس نہ ہو.کیونکہ خدا کی رحمت سے مایوس ہونا کافر قوم کا کام ہے.مومن کچھ بھی حالات ہو جائیں.کبھی بھی اپنے خدا کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا خدا کی ذات ایسی کامل ہے.کہ اس کے متعلق کسی کام کی نسبت نہیں گمان کیا جا سکتا.کہ اس میں مایوسی ہے.مُردوں کو زندہ کرنے کے متعلق خدا نے عہد کیا ہے کہ مردوں کو اس جہاں میں دوبارہ زندہ نہ

Page 19

کرتے ان رہیں ہم جو کہتے ہیں کہ بعد انہاں مردہ زندہ نہیں کرتا تو اس کے مختص لیہ سنتے ہیں کہ خدا ؟ کہتا ہے کہ وہ یہاں مردہ زندہ نہیں کرتا واللہ اگر اس کا عمد نہ ہوتا اور وہی یہ بات نہ کہتاں تو ہم " کبھی انہ کہتے کہ وہ امرد کے سڑناہ نہیں کرتا.نہیں خدا کو مانتے ہوئے کسی بات کی نسبت کہنا کہ نا ممکن ہے درست نہیں.یعقوب علیہ السلام کا قول نقل فرمایا کہ انہوں نے کہا کہ خدا کی رحمت سے نامید نہیں ہوا اوگرا کا فر - جب تک سنت اللہ کے خلاف نہ ہو کسی بات کو نا ممکن کہنا سراسر غلطی یہ واقعہ تھا جو گزر گیا.لیکن خداسی کتاب قصہ کی کتاب نہیں.بلکہ انسانوں کی ہدایت کے لئے ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ یوسف کا واقعہ بیان فرمایا ہے.جس طرح یہ تمام واقعہ مجموعی صورت میں انسانوں کے لئے ہدایت ہے.اسی طرح یہ آیت جو اس تمام سورۃ کا ایک کوا ہے بھی ہر الیتا ہے.جس طرح تمام قرآن بھی ہدایت ہے اسی طرح اس کی تہر ایک سورہ بھی ہدایت ہے.ہر ایک سورۃ کا ہر ایک رکوع اور ہر ایک رکوع کی ہر ایک آیت اور ہر ایک کیت کا ہر ایک لفظ بھی اور یہ مختلف سلسلہ ہوتے ہیں.اور ان میں سے ہر ایک سلسلہ ہر میں ہی ہے.یا آئیٹ جو میں نے اب پڑھنی ہے یوسف علیہ السلام کے واقعہ کی ایک شاخ ہے.اور ہدایت ہے.اور یہ تمام واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بطور پیشگوئی کے ہے.اور ابو اسماعیل کو ؟ ان کے بچا کی اولاد کا ایک واقعہ یاد دلایا ہے.کہ تمہارا بھی ایک یوسف ہے جس کو تم کھوارا ہے ہونا اور وطن سے نکال رہے ہو.اس لئے ان کو ان کے بچا یعقوب کی نصیحت یاد دلائی کہ جاؤ اور تم بھی اس یوسف کی تلاش کرو.اگرچہ تمہاری شرارت سے یوسف گم ہو گیا مگر جب تم اس کو تلاش کرو گے تو تم اس کو پالو گے.چنانچہ مکہ والوں نے جب اس یوسف کو تلاش کیا تو اس کو پالیا.پنی یہ یوسف کا تمام واقعہ الحضر لنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر چسپاں ہوتا ہے.مگر یہ آئین اپنی ذات میں حکمت ہے اور ہدایت ہے.یعقوب کا یوسف گم ہو گیا تھا.یعقوب بیٹوں کو کہتا ہے کہ تم اس کی تلاش میں گھرا مت جانا.ایسے ہی ہر انسان کا بھی ایک یوسف ہوتا ہے.اور ہر ایک شخص کا جو مدعا ہوتا ہے وہی اس کا یوسف ہوتا ہے.یوسف کیا تھا یعقوب کا پیارا تھا.ہر کام جو انسان کرتا ہے وہ اس کا یوسف ہوتا ہے.جب اس کام میں مشکلات آجاتے ہیں.اور مقصد دور ہو جاتا ہے.تو گویا وہ یوسف کم ہو جاتا ہے لیکن اگر وہ شخص آن مشکلات سے گھبرا کر کام چھوڑتا ہے تو وہ یوسف کو پانے سے محروم رہتا ہے.اور اگر وہ گھبراتا نہیں تلاش و جستجو اور کوشش جاری رکھتا ہے.تو اس کا یوسف مل جاتا ہے اور اس کا وہ کام ہو جاتا ہے اور وہ اپنے دعاء کو پا لیتا ہے کی کام کرانے میں موت سے شخص یوسف کے بھائیوں کی طرح مایوس ہو کر ہمت ہار دیتے ہیں.وہ اپنے مقصد کو نہیں پاسکتے.مگر جو یعقوب صفت لوگ ہوتے ہیں.وہ آخر دم تک کوشش جاری رکھتے

Page 20

ہیں اور ہمت نہیں ہارتے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے مقصد کو ضرور پالیتے ہیں کئی ہوتے ہیں جو اپنے مقصد اور مدعا کے حصول میں یوسف کے بھائیوں کی طرح مشکلات سے گھبرا کر بیٹھ جاتے ہیں.اور کئی ہوتے ہیں جو یعقوب کی طرح مایوسی سے بیچ کر کام کرتے ہیں اور مشکلات کا مقابلہ کرتے ہیں اور آخر کامیاب ہو جاتے ہیں.میں یہ نظارہ روز دیکھتا ہوں کہ لوگ تھوڑی تھوڑی ناکامی پر مایوسی ہو کر بیٹھ جاتے ہیں.وہ کسی کو نصیحت کرتے ہیں اور وہ نہیں مانتا تو مایوس ہو کر اس کو نصیحت کرنا چھوڑ دیتے ہیں.میں نے بہتوں کو دیکھا ہے کہ اگر کامیابی کے رستہ میں ذرا سی بھی مشکل آجائے تو وہ ہمت ہار کر بیٹھ جاتے ہیں.حالانکہ بہت سے لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ان پر کسی نصیحت کا اثر دیر میں ہوتا ہے ہدایت ہی کو دیکھو.بعض لوگ مخالف ہوتے ہیں اور شدید مخالف مگر آخر وہ مان لیتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی عمرو ابن العاص کا واقعہ ہے جو بہت بڑے اسلامی جرنیل تھے.وہ انیس سال تک آنحضرت کے سخت مخالف رہے.وہ خود بیان کرتے ہیں کہ مخالفت کے زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ قابل نفرت انسان مجھے اور کوئی معلوم نہیں ہو تا تھا.مگر جب میں مسلمان ہوا تو میری یہ حالت ہوئی اور آپ کی محبت میرے دل میں اتنی پیدا ہوئی اور آپ کو جو خداداد حسن ملا تھا اس کا مجھ پر اتنا رعب پڑا کہ میں مسلمان ہونے کے بعد کبھی آنکھ اٹھا کر آپ کو نہیں دیکھ سکا.اب اگر آپ کا حلیہ کوئی شخص مجھ سے دریافت کرے تو میں نہیں بیان کر ской اگر ہم لوگوں میں تلاش کیا جائے.تو کم لوگ موجود ہونگے جنہوں نے ۱۸۹ء میں حضرت اقدس کی بیعت کی ہوگی.پھر ان سے زیادہ وہ ہونگے جنہوں نے ۱۸۹۲ء میں بیعت کی ہوگی.پھر اسی طرح اور وہ بہت ہونگے جنہوں نے خلیفہ اول کے وقت میں بیعت کی.اور اسی طرح میرے وقت میں.اگر ان سے دریافت کیا جائے تو بہت سے بتائیں گے کہ وہ بیعت کرنے سے پہلے احمدیت کے سخت دشمن تھے.اور احمدیت کے مٹانے کے درپے رہتے تھے.اب اگر وہ لوگ جو ایسے لوگوں کو سمجھانے کے پیچھے پڑے رہے ان کی اس مخالفت کو دیکھتے اور ہمت ہار بیٹھتے تو کیا یہ لوگ سلسلہ میں داخل ہو جاتے.مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری بلکہ ان کے پیچھے لگے رہے آخر انہوں نے ہدایت پائی.اسی طرح دوسرے کاموں میں بھی ہوتا ہے.ایک زمانہ ہندوستان میں مسلمانوں پر ایسا تھا.کہ انگریزی پڑھنا کفر خیال کیا جاتا تھا.لیکن پھر ایسا تغیر آیا کہ جو انگریزی نہ پڑھتے تھے.ان کو "قل اعوزئے.”دقیانوسی" اور دو ہزار سال پہلے کے " وغیرہ.اس قسم کے بیسیوں نام دیئے جاتے

Page 21

تھے.لیکن اب پھر اس کے خلاف ایک رو چلی ہے.اور اب انگریزی پڑھنے کو قابل نفرت اور یونیورسٹیوں کو لعنت قرار دیا جا رہا ہے.پس ہر ایک کام کے ساتھ یہ بات لگی ہوئی ہے.کہ جو کوشش کرتا ہے وہ کامیاب ہوتا ہے.جب تم نصیحت سے باز نہ آؤ گے تو آخر تمہاری فتح ہوگی.اور اگر چھوڑ بیٹھو گے تو اپنی کمزوری ثابت کرو گے.جو شخص اپنی کمزوری کو دوسروں کے سر تھوپتا ہے وہ غلطی کرتا ہے.یعنی نصیحت کرتا ہے یا کوئی اور کام کرتا ہے.مگر لوگ اس کی نصیحت کو نہیں مانتے یا اس کا ساتھ نہیں دیتے.تو یہ اور ان کو برا کہتا ہے یہ اس کی غلطی ہے.اصل میں یہ اس کی کمزوری ہے کہ اس نے نصیحت اور وہ اچھا کام چھوڑ دیا.ایسی باتوں سے تو انتظام کی ضرورت ثابت ہوتی ہے.اصل بات یہ ہے.کہ کئی قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ ہوتے ہیں.جو ایک آدھ دن میں مانتے ہیں.اور ایک وہ جو ایک آدھ مہینہ میں.بعض دو مہینہ میں.بعض شمال میں دو سال میں.بعض دس ہیں، تمہیں سال میں.بعض اس سے بھی زیادہ مدت میں مانتے نہیں پس جو کسی شخص کو نصیحت اس لئے چھوڑتا ہے.کہ اس کی مانتا نہیں.وہ غلطی کرتا ہے کیونکہ جس وقت اس شخص نے ماننا تھا.اس وقت تک اس نے نصیحت نہیں کی.جب اتنی نصیحت نہیں کی تو وہ کیسے مان لیتا.حضرت خلیفہ اول ایک واقعہ سنایا کرتے تھے.میں نے یہ واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام سے بھی سنا ہے.کہ حضرت نظام الدین اولیاء کے ایک شاگرد جو بعد میں ان کے خلیفہ بھی ہوئے.اپنی زندگی میں وہ ایک جگہ شراب پی رہے تھے.اتفاق سے حضرت نظام الدین بھی ادھر سے گذرے.دیکھا تو فرمایا حسن ! یہ کیا؟ وہ مسکرائے اور ایک شعر پڑھا جس کا مطلب یہ تھا کہ ہمارے فق نے آپ کے زہر سے کمی نہ کی سہ یعنی یہ حالت فسق ابھی بڑھی ہوئی ہے.آپ کے زہد کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا.ہمت کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ جتنی ادھر سے سستی ہو اتنا ہی ادھر سے چستی اور ہمت ہو تب وہ مانتا ہے.اگر کوئی ایک شخص کی سستی کی وجہ سے کام چھوڑتا ہے.تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ ہمت ہارتا ہے اور یہ سستی کرتا ہے.میں نے ابھی جو پچھلے دنوں مشورہ کیا اس سے بھی معلوم ہوا.اور جو باہر سے رپورٹیں آتی ہیں ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ چندہ میں بہت سے لوگ شامل نہیں ہوتے.اگر پورا چندہ آئے تو ہمیں زائد چندے نہ کرنے پڑیں.اور ہمارے مالی مشکلات دور ہو جائیں.اگر ان لوگوں کے جو چندہ نہیں دیتے چندہ نہ دینے کے اسباب کو معلوم کیا جائے تو معلوم ہو گا.بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ چند بار محصل کوشش کرتے ہیں.جب کوئی شخص کچھ نہیں دیتا تو اس کو ست اور بے پروا یا کچھ اور کہہ

Page 22

کر چھوڑ دیتے ہیں اور اس طرح یہ لوگ بجائے ان لوگوں کو جو ان کے دو چار دفعہ جانے سے چندہ نہیں دیتے ست ثابت کرنے کے یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ خود بست ہیں.کیا وہ اپنے آپ کو بھول گئے.کہ ان میں سے کئی سالہا سال تک حضرت مسیح موعود کے مخالف رہے تھے.اور بہت عرصہ کے بعد ان کو نصیحت حاصل ہوئی تھی.پس جب تک کوئی شخص احمدیت کا دعوی کرتا ہے مرتے دم تک ہر ماہ بغیر ناغہ چندہ کے لئے اس کے پاس جانا چاہیے.اور سلسلہ کی ضروریات سے اس کو آگاہ کرنا چاہیے.قیامت کے دن تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تم نے کتنے لوگوں کو منوایا.بلکہ تم سے محض یہ سوال ہو گا کہ تم نے کتنے لوگوں کو حق سنایا.پس ہمارا کام محض حق سنانا ہے اور ہمیں اس سے باز نہیں آنا چاہیے.ایک اور بزرگ کا قصہ حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ ان کا ایک مرید ان کو ملنے کو آیا.اور انکے پاس ٹھہرا.ان بزرگ نے رات کو دعا کی.انکو جواب ملا کہ تیری دعا قبول نہ ہوگی اس شخص نے بھی یہ آواز سنی پہلے دن تو ادب سے خاموش رہا دوسرے دن بھی ان بزرگ سے یہی معالمہ ہوا.انہوں نے دعا کی مگر جواب ملا کہ تیری دعا نا منظور ہے.تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا.تب وہ شخص نہ رہ سکا اور اس نے کہا جب آپ کو تین دن سے یہ جواب مل رہا ہے پھر آپ کیوں دعا کرتے ہیں.انہوں نے کہا نادان تو نہیں جانتا کہ میرا کام صرف مانگتا ہے اس کا کام یہ ہے کہ چاہے تو دے چاہے تو نہ دے.میں اپنا کام کرتا ہوں.وہ اپنا کام کرتا ہے.تو تین دن میں گھبرا گیا.میں بیس برس سے یہ جواب سن رہا ہوں.جب ان بزرگ نے یہ جواب دیا تو ان کو الہام ہوا کہ ہمیں تیرا یہ جواب پسند آیا اس لیئے تو نے اس میں برس کے عرصہ میں جس قدر دعائیں کی ہیں وہ سب منظور بی نادان ہے جو کوشش کو چھوڑتا ہے.کوشش کرنا اس کا کام ہے منوانا اس کا کام نہیں.پس میں تمام قادیان دالوں اور باہر والے احباب کو نصیحت کرتا ہوں کہ چندہ مانگنے سے باز نہ آئیں.جب تک کہ ایک شخص احمدی ہونے کا مدعی ہے.خواہ وہ پندرہ سال تک چندہ نہ دے.ممکن ہے کہ اللہ ان کی سعی کی برکت سے اس شخص پر بھی رحم کرے اور یہ اپنے مقصد میں بھی کامیاب ہو.اس کی کامیابی بھی یہی ہے کہ وہ شخص چندہ دینے لگے.جس طرح میں نے پچھلے جمعہ میں تبلیغ کے لئے کہا تھا کہ انجمنیں بنائیں اور نظام قائم کریں.اسی طرح مالی حالت کے متعلق کہتا ہوں کہ باقاعدہ اور مسلسل کوشش ہونی چاہئیے.اور چندہ لینے والوں کو ہر ایک شخص کے پاس پہنچنا چاہئیے.اور ساری عمر فوت ہونے تک پہنچنا چاہئیے.اگر وہ تمہاری بات نہیں مانے گا تو خدا کے حضور جواب دہ ہو گا.اور اگر تم ستی کرو گے اور ہمت ہار دو

Page 23

گے تو اس ہمت ہارنے کا تم سے سوال کیا جائے گا پس مایوس مت ہو.کہ مایوسی دین کے کام میں کفر تک پہنچاتی ہے.اللہ تعالٰی ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی ذمہ داری ادا کریں اور اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں دوسرے کے سستی کرنے سے ست نہ ہو جائیں.ہمارے ہر گھڑی خدا کی رضا مد نظر ہو اور ہمارا ہر قدم اس کو خوش کرنے کے لئے ہوا اور ہمارا ہر قدم آگے بڑھے جب سے خطبہ شروع ہوا تھا.بارش کسی قدر ہو رہی تھی.مگر آخری حصہ میں زور ہو گیا جب حضور دوسرے خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا.اگر آج مسجد کے منتظمین سامانوں کا انتظام کر دیتے تو لوگوں کو اس قدر تکلیف نہ ہوگی.یہ فرما کر حضور ممبر پر اس وقت تک کھڑے رہے.جب تک کہ تمام لوگ مسجد کے مرے دور میں اے نہ داخل ہو گئے.اور کچھ دروازہ کے پاس کے ؟ میں اور لوگوں نے ایک دوسرے کی پیٹھوں پر سجدہ کیا.صفیں جہت نکل جائی گئیں ا الانبياء انات ولا جتي ولا رورية إلى ۲ مهاجرین حصہ دوم مصنفہ شاہ معین الدین ندوی من ۱۵۲ اسلام کے چا کے چار جرنیل مصنفہ حفیظ اللہ خان ص۱۵۳ سیر العارفين مترجم ص 14 ن حياة اتدار آب الموصلى حدیث میں یہ مضمون اس طرح بیان ہوا ہے ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ايشان لاحدكم مالم يستعجل (بخارى كتاب الدعوات مستجاب العبد مالم اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.اللہ تعالیٰ تمہاری دعائیں قبول فرماتا ہے.سے کام نہ لے.مل بینی کرتا رہوں والا جلد باتری جراله جلوت

Page 24

10 5 مشیر کا فرض ہے کہ امانت دار ہو (فرموده ۱۱ فروری ۱۹۲۱ء) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ اور آیت شریفہ یا ایها الذین امنوا لا تخونوا الله والرسول وتخونوا اماناتكم وانتم تعلمون (الانفال ۲۸) کی تلاوت کے بعد فرمایا.آج میرا منشاء ایک اور ہی مضمون بیان کرنے کا تھا.مگر ایک خط نے جو آج ہی ایک دوست کی اور طرف سے ملا ہے توجہ کو اور طرف پھرایا ہے.اور میں اس کے متعلق کچھ بیان کرتا ہوں.خوب اچھی طرح یاد رکھو کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس کے بہت سے افراد میں کام کی اہلیت نہ پائی جائے.جن قوموں کے اکثر افراد میں کام کرنے کی اہلیت نہ ہو.وہ جلد تباہ ہو جاتی ہیں.کیونکہ انسان فانی ہے.ایک عرصہ میں کام کرنے والے افراد مرجاتے ہیں.ان کے بعد جن کے ہاتھوں میں کام جاتا ہے وہ کام کے اہل نہیں ہوتے.اس لئے ایسی جماعتیں بہت جلد تباہ ہو جاتی ہیں.پس وہی جماعت قائم رہ سکتی ہے.جس میں ایک کام کرنے والے کے بعد دوسرا کھڑا ہو.دوسرے کے بعد تیرا.اور تیسرے کے بعد چو تھا.اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا جائے.کام کی اہلیت اور قابلیت دو طرح پیدا ہوتی ہے.اول عملی تجربہ سے دوسرے علمی طریق سے.اگر عملی قابلیت کے ساتھ علم نہ ہو.تو کوئی کامل نہیں ہو سکتا.اگر علم کے ساتھ عمل نہ ہو تو بھی کوئی شخص قابل نہیں ہو سکتا.مثلاً ایک شخص نے عملی طور پر سرجری کو پڑھا ہو اور ایک ذخیرہ کتب پڑھا ہو.مگر عملی تجربہ اس کو نہ ہو.اور وہ محض اپنے علم کی بنا پر چاہے کہ میں آپریشن کروں تو یقیناً شخص عالم ہونے کے باوجود کسی کی جان لے لے گا.لیکن اگر علم کے ساتھ اس نے عمل بھی کیا ہے.یعنی پہلے مردوں پر مشق کی ہے.پھر ماہر ڈاکٹروں کو آپریشن کرتے دیکھا ہے.اور ماہروں کے سامنے خود آپریشن کی مشق کی ہے.تو اس کا علم اور عمل مفید اور کارگر ہوں گے.تمام کاموں میں یہی ہوتا ہے کہ علم کے ساتھ تجربہ کی ضرورت ہوتی ہے.اگر کوئی شخص محض کتاب پڑھ کر طبیب بننا چاہیے.تو محال ہے.ضرورت ہے کہ طب کی کتب پڑھنے کے ساتھ لائق طبیب کے سامنے مریضوں کی تشخیص اور علاج کیا ہو.تب کامل ہو گا.ورنہ علم بغیر عمل کے ناقص رہے گا.اور عمل

Page 25

14 بغیر علم کے مفید نہیں ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی علم اور عمل کے متعلق سناتے تھے کہ ایک طبیب تھا جو بہت بڑا عالم تھا.اس نے طب کا علم خوب پڑھا تھا.اس نے رنجیت سنگھ کا شہرہ سنا تو دلی سے اس کے دربار میں پہنچا کہ شاید ترقی حاصل ہو.رنجیت سنگھ کا وزیر ایک مسلمان تھا.اس نے اس سے ملاقات کی.اور اس سے مہاراجہ سے ملنے کے لئے سفارش چاہی.وزیر کو اندیشہ ہوا کہ اگر اس کا رسوخ ہو گا.تو میں نہ کہیں گر جاؤں.اور طبیب کی سفارش نہ کرنا بھی اس نے مروت کے خلاف سمجھا.مہاراجہ رنجیت سنگھ سے اس نے سفارش کی اور کہا کہ حضور یہ بہت بڑے عالم ہیں انہوں نے فلاں کتاب پڑھی ہے.فلاں کتاب پڑھی ہے.اور اس کے علم کی بہت تعریف کی.مہاراجہ نے پوچھا کہ یہ تو بتاؤ کہ انہوں نے علاج میں کیا کیا تجربے حاصل کئے ہیں؟ وزیر نے کہا کہ تجربہ بھی حضور کے طفیل ہو جائے گا.رنجیت سنگھ دانا آدمی تھا.سمجھ گیا کہ علم بغیر عمل کے کچھ نہیں.اور کہا کہ تجربہ کے لئے کیا غریب رنجیت سنگھ ہی رہ گیا ہے.بہتر ہے.کہ حکیم صاحب کو انعام دے کر رخصت کر دیا جائے.تو ایک لوگ عملی تجربہ کار ہوتے ہیں.جن کو مختلف شعبوں میں کام کی عملی واقفیت ہو.اور ایک عالم ہوتے ہیں کہ جہاں غلطی ہو.ان سے مشورہ لیا جائے.غلطیاں ہونگی.مگر اس سے بھی قابلیت پیدا ہوگی.جب تک ان دونوں باتوں سے کام نہ لیا جائے.کچھ نہیں ہو سکتا.اگر کسی جماعت میں کام کرنے والا پیدا نہ ہو.تو آخر وہ کب تک رہیں گے.وہ دو سال.چار سال.ہمیں حد سے حد سو سال میں مر جائیں گے.تو ایسی جماعت دنیا میں اپنے وجود کو قائم نہیں رکھ سکتی.زندہ جماعت کے لئے ضروری ہے.کہ اس میں اس کے کام کو سنبھالنے والے پیدا ہوں.اور کثرت سے ہوں.افراد مرجاتے ہیں لیکن وہ جماعتیں جن کی یہ حالت ہو کہ ان میں تربیت یافتہ افراد پیدا ہوتے رہیں نہیں مرا کر تیں.یہی روح ہے جو کسی جماعت میں مسلسل چلنی چاہئیے.اس کے دو ذرائع ہیں.ایک وہ ہوں جو علم میں کامل ہوں وہ علمی مشورہ دیں.ہر دقیق مسئلہ اور مشکل معالمہ پر غور کریں.اور استنباط کر کے بہتر رائے دیں.ایک وہ ہوں.جو عمل کریں.اور کام کو خوبصورتی سے انجام دیں.یاد رکھو کہ مشورہ کی یہی غرض نہیں ہوتی کہ جو مشورہ لیتا ہے وہ مشورہ کا محتاج ہے.ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض باتیں اس کی سمجھ میں نہیں آتیں وہ دوسروں سے پوچھتا ہے.لیکن اکثر یہ بھی غرض ہوتی ہے کہ جن سے مشورہ لیا جاتا ہے ان کو سکھانا منظور ہوتا ہے کہ ان میں قابلیت پیدا ہو.پس ہمیشہ مشورہ کی غرض مشورہ لینے والے کی احتیاج نہیں ہوتی.جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ

Page 26

علیہ وسلم نے فرمایا.کہ نبی کے لئے مشورہ کی ضرورت نہیں ہوتی.یہ تو رحم کے طور پر ہوتا ہے چنانچہ یہ بھی جماعت پر رحم ہی ہے کہ ان میں قابل اور مستعد لوگ پیدا ہوں.اور یہ غرض مشورہ کی ہوتی ہے.ماں باپ بوڑھے ہوتے ہیں.تجربہ کار ہوتے ہیں مگر اپنے کام اپنی اولاد کے سپرد کرتے ہیں تاکہ ان کی نگرانی میں ان میں کام کی اہلیت آجائے.اور اگر ماں باپ اپنی نگرانی میں ان سے کام نہ کرائیں تو ان کے بعد اولاد نالائق ثابت ہو اور کوئی کام نہ کر سکے.اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے مشورہ لئے جاتے ہیں.اور وہ کئی طرح لئے جاتے ہیں.کبھی مجلس میں ایک بات کی جاتی ہے اور اس سے غرض مشورہ ہوتا ہے.اور کبھی الگ بلا کر چند آدمیوں کو ان سے مشورہ لیا جاتا ہے.کبھی زیادہ آدمیوں کو جمع کرکے مشورہ لیا جاتا ہے.پہلی غرض یہی ہوتی ہے کہ جن سے مشورہ لیا جاتا ہے ان میں استعداد پیدا ہو اور یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ مشورے کس طرح دئے جاتے ہیں اور ان کی کیا شرطیں ہوتی ہیں.اور کس طرح پیش آمدہ مشکلات کو حل کیا جاتا ہے.مشورہ کی شرائط میں سے ایک اہم شرط جس کو نظر انداز کرنے سے تباہی آجاتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر مشورہ امانت ہوتا ہے.جس سے مشورہ کیا جائے.وہ امانت کی طرح رکھے کیونکہ اس کے اظہار سے بہت دفعہ فتنہ پیدا ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس سے مشورہ لیا جاتا ہے وہ امانت سے کام کرے.یہاں یہ مطلب نہیں کہ خفیہ سوسائٹی بنائے.اور کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے جو کسی سے مشورہ لیا جائے اس کو بھی چھپائے مثلاً کوئی شخص کسی کو کہے کہ میں فلاں کو زہر دوں اور یہ چھپائے.یہ غلط ہے.اگر یہ اس مشورہ کو چھپائے گا تو یہ جرم کرے گا.بلکہ اس کا فرض ہے کہ اس کو ظاہر کرے.اور اس کا اعلان کرے.پس اسلام میں خفیہ انجمنیں جائز ہی نہیں.بلکہ مشورہ کو امانت رکھنے کے یہ معنی ہیں کہ مشورہ لینے والے کا اس میں اپنا کام ہو کسی دوسرے کو نقصان پہنچانا مد نظر نہ ہو.ایسا مشورہ ظاہر کرنا غلطی ہے.مثلاً کوئی شخص کسی کے پاس آئے اور کہے کہ میں نے فلاں جگہ اپنا روپیہ رکھا ہے کیا وہ جگہ محفوظ ہے اور یہ شخص بجائے اس بات کو امانت رکھنے کے اس کا اعلان کر دے.تو چور جائیں گے اور روپیہ نکال کر لے جائیں گے.پس ضروری ہے کہ جس مشورہ میں کسی کو نقصان پہنچانا مد نظر نہ ہو.ایسے مشورہ کو چھپایا اور مخفی رکھا جائے.اگر کسی مشورہ میں کسی کو نقصان پہنچانے کا خیال نہیں یا کسی کام کا سوال ہے کہ فلاں اس کام کا اہل ہے یا نہیں.اس کو بھی پوشیدہ رکھے.کیونکہ اس میں بھی اس کو نقصان پہنچانے کا سوال ہے.بلکہ کام کے قابل یا نا قابل ہونے کا سوال ہے.کیونکہ اگر ایک شخص ایسے مشورہ میں جو کسی اہم کام کے متعلق ہو.اس شخص کے خلاف رائے دے جس کو وہ کام سپرد کرنے کی رائے کسی

Page 27

۲۱ نے دی ہو.اور اس پر کوئی شخص جو اس کو اس کام کا اہل نہ سمجھتا ہو تو چونکہ اس سے مشورہ لیا گیا ہے.اس کا فرض ہے کہ وہ اس شخص کے متعلق جیسی رائے رکھتا ہے.ظاہر کرے.اگر وہ صحیح رائے ظاہر نہ کرے.نالائق کو لائق بتائے تو وہ منافقت کرتا ہے.مشورہ کے تو معنی ہی یہ ہوتے ہیں کہ لوگ صحیح صحیح رائے اپنے علم کے مطابق ظاہر کریں.اگر ایسا نہ کریں تو وہ ایک منافقوں کی جماعت ہو جائیں گے اور ایسی جماعت بہتر ہے کہ نہ ہو.میں افسوس سے کہتا ہوں کہ اس قسم کی غلطیاں ہمارے اس پچھلے مشورہ کے متعلق ہوتی ہیں.مجھے آج ہی ایک رقعہ آیا ہے.جس میں وہ صاحب لکھتے ہیں.کہ ان کو کوئی کام سپرد کرنے کی رائے دی گئی تھی.مگر بعضوں نے ان کے خلاف رائے دی.وہ شخص جس نے ان کو جاکر یہ بات بتائی اس نے خدا اور رسول اور بندوں کی بھی خیانت کی.دیکھو جن سے مشورہ لیا گیا ان سے یہ توقع کی گئی تھی کہ وہ صفائی سے اپنی رائے ظاہر کریں گے.اگر انہوں نے اپنی رائے ظاہر کی تو انہوں نے اپنا فرض ادا کیا.اگر وہ ایسا نہ کرتے تو جھوٹ بولتے اور جو ان کے خیال میں نا اہل تھا اس کو اہل بتا کر خیانت کرتے.اور جس نے اس شخص کو اپنی خیر خواہی جتانے کے لئے کہا.اس نے فتنہ ڈلوانا چاہا اس کا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ آئندہ لوگ کسی کے متعلق صاف رائے نہ دیں.اور اگر صاف رائے دیں تو لوگوں کی ناراضی کو سرلیں اور فتنہ پڑے.ایسا شخص جو مشورہ کی باتیں ظاہر کرتا ہے فتنہ ڈلواتا ہے.فی الحال تو میں نے یہ کیا ہے کہ دفتر امور عامہ میں ہدایت کی ہے کہ معلوم کیا جائے کہ وہ کونسا شخص تھا.اور اگر آئندہ بھی ایسا ہوا.تو ایسے شخص کے متعلق اعلان کر دیا جائے گا کہ اس سے نہ اب نہ آئندہ کبھی مشورہ لیا جائے.دیکھو ہمیں اخلاق سکھائے گئے ہیں ابھی گورنمنٹ نے محکمہ قائم کئے ہیں.نئے وزراء سے عہد لئے گئے ہیں.کہ وہ مشوروں میں رازداری سے کام لیں گے.اور ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے.ہمارے ساتھ تو دینی پہلو بھی لگا ہوا ہے.ہمارے ہاں جو مشورہ میں خیانت کرتا ہے وہ دوسروں میں فتنہ ڈلواتا ہے.اور خدا کا حکم توڑتا ہے اور خدا کا حکم توڑنے والا سمجھ لو کہ کس سزا کا مستحق ہوتا ہے.بے شک کسی کے خلاف منصوبہ ہو تو اس کو ظاہر کرو.لیکن جب کام کرنے کا سوال ہو گا.تو بعض رائیں بعض کے خلاف بھی ہونگی.اسی جلسہ مشاورۃ میں بعض لوگ جو مجلس میں نہ تھے.ان کے متعلق کام کا سوال ہوا.میں نے کہا کہ وہ فلاں کام کے اہل نہیں.اور بعض مجلس میں بیٹھے تھے.ان کے متعلق بھی میں نے اسی خیال کا اظہار کیا.اگر لوگ یونی ہاں میں ہاں ملا دیں تو وہ منافقت کریں گے.اور اگر وہ لوگ جن کے خلاف رائے دی گئی افسوس کریں تو انکی غلطی اور جہالت ہوگی.

Page 28

۳۳ اس میں کیا شک ہے کہ ہر ایک شخص ہر ایک کام کا اہل نہیں ہوتا مثلاً سوال پیدا ہو کہ ہائی سکول کا ہیڈ ماسٹر کس کو بنایا جائے کوئی کہہ دے کہ خود خلیفتہ المسیح ہی ہیڈ ماسٹری کا کام کریں اور کوئی میرے خلاف رائے ظاہر کرے تو میرے لئے اس میں کوئی غصہ کی بات نہیں.کیونکہ سکول میں حساب اور انگریزی بھی پڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے اور مجھ کو یہ چیزیں نہیں آتیں.یا کسی منارہ کی تعمیر کا سوال ہو.کوئی کہے کہ خلیفتہ المسیح ہی اپنے اہتمام میں بنوالیں.اور کوئی کہے کہ یہ تو انجینئر نہیں ہیں.تو یہ اس کا اعتراض غلط نہ ہو گا.یا اگر ہم گزارے کے قابل کوئی عمارت بنوا بھی سکتے ہوں.مگر چونکہ ہماری یہ قابلیت مشکوک ہوگی.اس لئے معترض کا اعتراض غلط نہیں.اور ہمارے لئے غصہ کا مقام نہیں.ہاں خدا کسی کو کسی کام کے قابل بنائے.تو اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا.مثلاً اگر کوئی کہے کہ میں خلافت کے قابل نہیں.تو میں کہوں گا تو جھوٹ کہتا ہے.خدا نے مجھے خلافت کے قابل بنایا اور خلیفہ مقرر کیا ہاں اگر ہیڈ ماسٹری کا سوال ہو.تو میں خود کہوں گا کہ میں قابل نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لا تخونوا الله والرسول وتخونوا اماناتكم وانتم تعلمون اللہ اور اس کے رسول کی خیانت نہ کرو.نہ آپس میں خیانت کرو اور تم جانتے ہو.کیونکہ مشوروں وغیرہ میں خیانت کے نقصان بہت صاف اور کھلے ہوتے ہیں.جو شخص خیانت کرتا ہے وہ خدا کے غضب کا مستحق ہوتا ہے.خفیہ مجالس میں شامل نہ ہو.کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے مشورے نہ کرو.مگر دوسرے امور کے مشوروں کو چھپاؤ.کیونکہ جب مشورہ ہوگا تو کسی کے رائے خلاف ہوگی اور جس کے خلاف ہوگی.اس کو برا معلوم ہوگا.جب اس کو علم ہوگا تو وہ دوسرے کو اپنا خواہ مخواہ دشمن سمجھ لے گا.اس لئے مشوروں کا ظاہر کرنا جرم ہے.میں نے دیکھا ہے.کہ کس طرح اس سے فتنہ پڑتے ہیں.حضرت خلیفہ اول کے وقت میں ایک مدرس کی ترقی کا سوال تھا.میرے خیال میں وہ شخص مستحق تھا.میں نے رائے دی کہ اس کو ترقی ملنی چاہئیے.ایک دوسرے شخص نے کہ وہ بھی ممبر تھا اس کے خلاف رائے دی.اجلاس ختم ہونے کے بعد اس شخص نے جس نے مجلس میں رائے خلاف دی تھی اس کو کہا کہ تمہیں ترقی تومل جاتی میاں صاحب نے مخالفت کی.میں نے جو اس کے حق میں رائے دی تھی اس کی خاطر نہ تھی بلکہ انصاف کی خاطر تھی مگر دوسرے شخص نے مجلس میں خلاف رائے دیگر باہر جاکر اس کو خیر خواہی جتائی ایک مدت کے بعد باتوں باتوں میں یہ راز کھلا.اور اس نے کہا کہ آپ نے میرے خلاف رائے دی تھی.تو میں نے اس کو بتایا کہ میں نے تو خلاف رائے نہیں دی.تو اس طرح شریر شرارت کر گذرتے ہیں.اس لئے مشوروں کے متعلق حکم ہے.کہ ظاہر نہ کئے جائیں.میں نے بتایا ہے کہ دنیاوی معاملات میں بھی راز داری سے کام لیا جاتا ہے.ہمارا معاملہ تو آخرت تک چلتا ہے.

Page 29

پس جب مشورہ لیا جاتا ہے.اور جن سے لیا جاتا ہے اس لئے لیا جاتا ہے کہ وہ صاف اور صحیح رائے دیں اگر یہی سلسلہ رہا.اور اس سے فتنہ پڑنا لازمی ہے.تو یا تو لوگ صاف رائے نہ دیں گے.اور جب صاف رائے نہ ملے گی.تو ہم اس سلسلہ ہی کو بند کر دیں گے.پر اگر تم میں اہلیت پیدا نہ ہوگی.تو تمہارا قصور ہو گا.موجودہ کام کرنے والے مر جائیں گے اور تم کچھ کام نہ کر سکو گے.پس دونوں راہیں کھلی ہیں.چاہے آئندہ کو احتیاط کا پہلو اختیار کرو.اور کام کی اہلیت سیکھو.یا تم سے آئندہ مشورہ نہیں لیا جائے گا.اگر ضرورت ہے کہ جماعت زندہ رہے.اور کام کے اہل پیدا ہوں تو مشورے میں خیانت کا طریق نہایت غداری کا طریق ہے.فتنہ کا طریق ہے.اگر کسی کے خلاف سازش ہو تو اعلان کرو ورنہ مشورہ ظاہر کرنا خدا اور رسول اور بندوں کی امانت میں خیانت ہے.اللہ تعالی تم میں کام کی اہلیت پیدا کرے.اور تم مشورہ کی امانت داری کی اہمیت سمجھو.اور خدا اور رسول اور بندوں کی امانت میں خیانت نہ کرو.اور اس طریق سے بچو جس سے جماعت میں فتنہ پڑے.بلکہ وہ راہ اختیار کرو.جس سے جماعت بڑھے اور اس کا نظم ترقی کرے.آمین.خطبہ ثانیہ میں فرمایا.میں نے جیسا کہ درس میں اعلان کیا تھا.تبدیل آب و ہوا کے لئے نو یا دس روز کے واسطے باہر جاتا ہے.میرے پیچھے مقامی جماعت کے امیر مولوی شیر علی صاحب ہونگے.الفضل ۱۷ فروری ۱۹۳۱ء)

Page 30

۲۴ اس آب الولاك راج او ياحري؟ سامات میلان 6 این چنین زمانہ چنین دور این چنین برکات دی جاتی ہے.نصیب روی وه چه این شقا باشد شقان ایرانی فرموده ۲۵ / فروری (۶۱۹۳۱ مسیح موعود) باشت حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.ہر ایک چیز کا دنیا میں ایک موسم ہوتا ہے.اگر وہ اس موسم سے ادھر ادھر ہو جائے تو پھر اس کا نشو و نما پانا یا اپنے قائم مقام چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے.تمام قدرت میں یہی قانون نظر آتا ہے.یار یک درباریک ذرائع ایسے ہوتے ہیں.جن کے اجتماع سے بعض چیزیں بعض موسموں میں ہی نشوو نما پاتی ہیں.ایک گیہوں کے ہونے کا ہوتا ہے.ایک بڑھنے کا ایک کانٹے کا.اگر وقت پر نہ ہوئیں یا ھنے کے وقت پانی نہ ملے.بارش نہ ہو.یا کاٹنے کے وقت نہ کائیں تو فصل ضائع ہو جائے گی.اسی طرح علم کے پڑھنے کا ایک زمانہ ہوتا ہے.بچپن کا زمانہ محنت کرنے کے لئے ہوتا ہے.اس وقت افکار اور غموں کا تسلط بچوں کے دماغ پر نہیں ہوتا.وہ ترقی کرتے ہیں.مگر جب بڑی عمر ہو جائے تو افکار اور غموں میں انسان مبتلا ہو جاتا ہے اور تعلیم کے لئے جس قدر محنت کی ضرورت ہوتی ہے نہیں کر سکتا.اگر ایسے حالات میں کوئی شخص کامیاب ہو تو وہ استثنائی صورت ہوگی.ورنہ بچپن کے بعد جب انسان افکار میں گھر جاتا ہے تو یہ ایسا زمانہ ہوتا ہے کہ انسان مال اور وقت کی قربانی کر کے عبادت کے لئے مسجد میں جاتا ہے.مگر جب نکلتا ہے تو افکار کا بوجھ لیکر آتا ہے.پس پڑھنے کا زمانہ اور محنت کرنے کا زمانہ بچپن کا زمانہ ہوتا ہے.اگر کوئی شخص جوانی میں چاہے.کہ پڑھائی اس وقت شروع کر کے کامل تعلیم حاصل کرے تو یہ مشکل ہوتا ہے.اور اس میں سوائے شاذ کے کامیابی نہیں ہوتی.اسی طرح ایک زمانہ رائے کی پختگی کا ہوتا ہے.اس زمانہ میں انسان بڑی غلطیاں کرتا ہے.اور دھکے کھا کر ایک اصل پر قائم ہوتا ہے.لیکن رائے کی پختگی میں بھی بعض استثنائی صورتیں ہوتی ہیں.پھر اس کے بعد ایک زمانہ آتا ہے.کہ انسان اس میں پہلا تمام کیا کرایا بھول جاتا ہے.اس میں

Page 31

۲۵ چڑ چڑا پن پیدا ہو جاتا ہے.وہ ہر ایک بات کو اپنی بے عزتی خیال کرتا ہے.یہ وہ زمانہ ہوتا ہے کہ اس میں تمام کیا کرایا ضائع کر دیتا ہے.غرض سب باتوں کا ایک وقت ہوتا ہے.ایک کام دن میں ہونے کے ہوتے ہیں اور رات کے وقت نہیں ہوتے اور جو رات کے ہونے کے ہوتے ہیں.وہ دن میں نہیں ہو سکتے.بعض پھل سورج کی گرمی میں پکنے والے ہوتے ہیں.بعض چاند کی روشنی میں.اگر ایسے درختوں کو جو سورج کی گرمی میں نشو و نما پاتے ہیں ایسی جگہ جالگائیں جہاں مہینوں سورج نہیں نکلتا تو وہ وہاں پھل نہیں دے سکیں گے اسی طرح جو چاند کی روشنی میں پکتے ہیں ایسے علاقوں میں جہاں چاند غائب رہتا ہے وہ پک نہیں سکتے.پس ہر ایک کام کا زمانہ اور وقت ہوتا ہے.اگر اس وقت کام کو نہ کیا جائے اور خیال کر لیا جائے کہ اور وقت میں اس کام کو کریں گے تو یہ نادانی ہوگی.کیونکہ ہر ایک کام کا ایک وقت ہوتا ہے.ہم نے بھی ایک کام شروع کیا ہے.اس کام کے لئے بھی ایک وقت ہے اور وہ وقت یہی ہے جس میں ہم موجود ہیں اگر اس وقت میں یہ کام نہ کیا جائے تو پھر نہیں ہو سکے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے اگر دنیا چاہتی تو نہیں کر سکتی تھی.کیونکہ اس کا وہ وقت نہ تھا.اس وقت اگر لوگ دنیا سے الگ ہوتے بھی تھے تو دنیا کے لئے نہ کہ دین کے لئے.جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.لا ملجأ ولا منجا منك الا الیک اے کہ اے خدا تیرے عذاب سے بچنے کے لئے تیرے سوا کوئی ٹھکانا نہیں اسی طرح وہ لوگ دنیا کو چھوڑتے تھے.لئے کہ دنیا - اس لئے کہ دنیا کی گود میں چلے جائیں.عیسائیوں نے مکتی فوج بنائی.جو بظا ہر دنیا سے الگ ہوئی.مگر دنیا کے حصول کا ایک ذریعہ تھی لیکن حضرت مسیح موعود کے وقت میں یہ بات پوری ہوئی کہ ایسے لوگوں کی جماعت تیار ہو گئی.جو خدا کے لئے دنیا کو چھوڑنے والی اور خدا کے لئے مالوں اور وقتوں کو قربان کرنے والی ہے.اگر اس وقت اس کام کو انجام نہ دیا جائے.جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے.اور خیال کر لیا جائے.کہ کسی آئندہ زمانہ میں اور دیگر کام کریں گے.تو پھر یہ کام نہیں ہو سکے گا.حضرت مسیح موعود کا زمانہ بیج ڈالنے کا زمانہ تھا.اور آپ کی وفات کے قریب نشوونما کا زمانہ تھا.اور یہ زمانہ وہ ہے جس میں ہمیں اس فصل کے کاٹنے کی ضرورت ہے.اگر یہ زمانہ ستی میں گذر گیا.تو پھر ہمیں کامیابی نہ ہوگی.پس اس وقت کو اور اس فرصت کو غنیمت سمجھو.اور یہ مت سمجھو کہ کبھی کرلیں گے کیونکہ خدا نے ہر ایک کام کے لئے ایک وقت رکھا ہوا ہے.اگر اس وقت کام نہ کیا جائے تو وہ کام نہیں ہو سکتا.

Page 32

۲۶ ہاں ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض تائید کے لئے آنی حوادث بھی ہوتے ہیں.اور بعض پھلوں کو پیدا کرنے کے لئے عارضی ذرائع سے کام لیا جاتا ہے.جس سے وہ درخت پھل لاتے ہیں.اگر ان عارضی ذرائع کو بھی دور کر دیا جائے تو پھل نہیں مل سکتے.یہ تجربہ شدہ بات ہے کہ ان عارضی ذرائع سے گرمی کے پھل سردی میں پیدا کئے جاسکتے ہیں.اور سردی کے گرمی میں.غرض خواہ طبعی ذرائع سے کام لیا جائے یا غیر طبعی سے.نتیجہ مفید ہو سکتا ہے.اگر طبعی یا غیر طبعی ذرائع کو چھوڑ دیا جائے.تو پھر وہ بات حاصل نہیں ہو سکتی.ان قواعد کو دیکھ کر جب زمانہ کی حالت کو دیکھتے ہیں.تو وہ زمانہ بھی کام کے لئے مفید ہوتا ہے.جب کسی قدر حوادث ہوں.مثلاً ہم نے اگر ایک گنا اکھیڑنا ہو تو ہم ایک دفعہ دائیں سے بائیں کو ایک دفعہ بائیں سے دائیں کو ہلائیں گے اور تیسری دفعہ اوپر کو جھٹکا دیکر گنے کو نکال لیں گے.لیکن اگر دائیں بائیں ہلا کر چھوڑ دیں اور کہیں کہ چند روز کے بعد اگر نکال لیں گے تو ہمیں پہلے جتنا ہی زور لگانا پڑے گا.کیونکہ اس میں جو کمزوری پیدا ہو گئی تھی وہ اب چند دن کے وقفہ سے دور ہو گئی اور اس کی جڑیں مضبوط ہو گئیں.اسی طرح ہم دنیا کو دیکھتے ہیں کہ حوادث ارضی و سماوی سے خوب ہلا دی گئی ہے اگر ہم اس وقت تھوڑی کوشش بھی کریں.تو اپنے کام میں کامیاب ہو سکتے ہیں.ورنہ اگر ہماری طرف سے ستی رہی تو خدا تعالیٰ ہمیشہ اپنے بندوں کو مصیبت میں رکھنا پسند نہیں کرے گا.یہ مصیبتیں اس لئے ہیں کہ ہم لوگوں کو ہدایت کی طرف بلائیں اور وہ خدا کے فضلوں کے وارث بنیں.اگر ہمارے کام میں سستی ہوئی تو خدا اپنے بندوں کو عذابوں سے ہلاک نہیں کرے گا.ہم اسلام کی طرف دیکھتے ہیں.اسلام نے ترقی کی اور اس زمانہ میں جوش و خروش سے کی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کے قریب کا زمانہ تھا.اس زمانہ میں جہاں جہاں مسلمان گئے قوموں کی قومیں مسلمان ہوتی چلی گئیں.ایران میں مسلمان گئے.تمام ایرانی قوم مسلمان ہو گئی اور صرف پانچ سات لاکھ پارسی بچ گئے.جن کا وجود اب تک چلا آتا ہے.ساری قوم کے مقابلہ میں ان کی کتنی کم تعداد تھی.مگر ساری قوم اتنے تھوڑے عرصہ میں مسلمان ہو گئی لیکن وہ تھوڑے سے لوگ جو بیچ گئے اور جن کی تعداد چند لاکھ تھی وہ آج تک اسی اپنے قدیم مذہب پر قائم ہیں.اسی طرح مصر میں قبطی ہیں.جو فرعونی نسل سے ہیں جو ایک وقت میں عیسائی ہو گئے تھے.ان کی قوم کا بیشتر حصہ ابتداء میں مسلمان ہو گیا.مگر جو باقی ہیں وہ اب تک عیسائی ہی ہیں.اسی طرح ہندوستان میں جب اسلام آیا جو لوگ قبیلوں کے قبیلے مسلمان ہو گئے اس وقت ہو گئے مگر آج ایک ہندو کو بھی اسلام منوانا مشکل ہے.

Page 33

۲۷ پس ہر ایک کام کا ایک موسم ہوتا ہے.اسی موسم اور زمانہ میں جو کچھ ہو سکتا ہے.ہو سکتا ہے.اس زمانہ کی قدر کرنی چاہئیے.اور ان حوادث سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے ورنہ خدا رحمن رحیم ہے وہ دنیا کو دیر تک عذاب میں نہیں رکھے گا ہمیں اس وقت کوشش کرنی چاہئیے اور ہر ممکن ذریعہ سے کام لیکر کامیابی حاصل کرنی چاہیے اور خدا تعالی سے دعا کرنی چاہئیے کہ وہ ہماری کوششوں الفضل ۳ مارچ ۱۹۳۱ء) میں برکت ڈالے....ا محلوة كتاب الدعوات باب ما يقول عند الصباح والمساء والمنام

Page 34

۲۸ 7 فتنوں کے دن اور دعاؤں کی ضرورت (فرموده ۱۴ مارچ ۱۹۲۱ء) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.مجھے ایک ضروری کام کے لئے لاہور جاتا ہے جہاں ایک مقدمہ میں شہادت طلب کی گئی ہے اللہ تعالی چاہے تو کل ہی اس سے فراغت ہو جائے گی.ادھر نواب صاحب کے مالیر کوٹلہ سے خط آرہے ہیں کہ یہاں کے لوگوں کو تبلیغ کی جائے اس لئے لاہور سے ہو کر وہاں دو تین روز کے لئے جاؤں گا.میرے بعد قادیان کی جماعت کے امیر مولوی شیر علی صاحب ہیں.وہ سب کام جو مقامی طور پر لوگ مجھ سے پوچھ کر کرتے ہیں.ان سے پوچھیں.اور باہر کے کام مجھ سے دریافت کئے جائیں.اس کے بعد میں مختصر نصیحت کرتا ہوں کہ بعض ایام دعاؤں کی قبولیت کے ہوتے ہیں اور بعض دعاؤں کی ضرورت کے.معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایام دعاؤں کی ضرورت کے ہیں.مجھے اس بارے میں کئی رویا ہوئی ہیں.اور یہاں کے دوستوں کو بھی.اور باہر کے دوستوں کو بھی ہوئی ہیں گو مجھے ان فتن کا انجام اچھا نظر آیا ہے مگر بعض دوستوں کی خواہیں صرف منذر ہیں.اور مبشر رویا کو منذر پر فضیلت ہوتی ہے.اللہ کی ذات غنی ہے بہت دفعہ ترقی آنے والی ہوتی ہے مگر لوگوں کی غفلت سے وہ ترقی منزل سے بدل جاتی ہے.اور کامیابی ناکامی کی شکل اختیار کر لیتی ہے.اس لئے میں دوستوں کو تاکید کرتا ہوں.اور گو یہ مختصر بات ہے مگر اس کو مختصر نہ خیال کرو.اور خصوصیت سے اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں کے لئے جھک جاؤ.کتنے ہی فتنوں کا ذکر تاریخ کے صفحات میں موجود ہے.مگر تاریخ بتاتی ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے ایک اشارے سے وہ فتنے مٹ گئے.پس مصائب کی آمد سے مومن کو گھبرانا اور کرب میں مبتلا نہیں ہونا چاہئیے.کیونکہ مومن مطمئن ہوتا ہے اور وہ ان ایام فتن میں خدا کے حضور روتا اور زاری کرتا اور انابت الی اللہ سے کام

Page 35

۲۹ لیتا ہے.جب کہ کافران ایام کو نفسی میں گزار دیتے ہیں.مومن کے لئے گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہوتی.کیونکہ اس کے یوم ولادت سے اس کی گھٹی میں الحمد کا دور ہوتا رہتا ہے.اور اس کا انجام بھی اخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین پر ہوتا ہے.پس مومن کو ان ایام بلا و ابتلا وفتن میں خصوصیت سے خدا کے حضور دعا کرنی چاہیے.میں خاص نصیحت کرتا ہوں.ان لوگوں کو بھی جو یہاں ہیں اور ان کو بھی جو باہر ہیں کہ وہ ان فتنوں کے دور ہونے کے لئے دعائیں کریں.کہ خدا تعالیٰ ان فتنوں کو ٹلا دے اور اگر یہ فتنے اس کے علم میں ایسے ہوں جو ٹل نہ سکتے ہوں تو یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کا انجام ہمارے لئے بہتر کرے.اور ان کے ضرر سے بچائے.آمین.الفضل مار مارچ ۱۹۲۱ء)

Page 36

8 ہمارے لئے ایک ہی دروازہ کھلا ہے اور وہ خدا کی رحمت کا دروازہ ہے (فرموده ۱۱ مارچ ۱۹۲۱ء) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.دنیا میں جتنے واقعات ہوتے ہیں وہ دو اقسام میں منقسم ہوتے ہیں بعض کام ایسے ہوتے ہیں کہ انسان سوچ بچار کر نیت اور ارادہ سے کرتا ہے.اور بعض ایسے ہوتے ہیں.کہ ان کے کرنے کے لئے حالات مجبور کر دیتے ہیں.ارادہ اور نیت تو ان کے ساتھ بھی شامل ہوتی ہے.لیکن ان میں بیرونی واقعات مجبور کر کے انسان کو ایسی جگہ لے جاتے ہیں جہاں وہ کام کرنے پڑتے ہیں.ابھی اسی زمانہ میں دیکھ لو دنیا کے تغیرات نے ان دو قوموں کو جو سالہا سال سے ایک دوسری کے خون کی پیاسی تھیں کس طرح اکٹھا کر دیا ہے.ہندو مسلمانوں کی نسبت کہا تو یہ جاتا تھا کہ ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے.مگر یہ دونوں قومیں کبھی ایک مسئلہ پر اکٹھی نہ ہو سکتی تھیں.ہر معالمہ میں ان کی رائیں مختلف ہوتی تھیں.مگر اب حالات ایسے پیدا ہو گئے گونیت اور ارادہ بھی ساتھ شامل ہے.کہ ہندو ایک طرف مسلمانوں سے صلح کرنے کے لئے مجبور ہو گئے.اور مسلمان دوسری طرف ان سے صلح کے لئے مجبور ہو گئے.ہندوؤں نے دنیا کی مالی ترقی دیکھ کر لوگوں کے جاہ و حشم کو دیکھ کر اور ان کی طاقت و قوت کو دیکھ کر خود بھی ویسا ہی بننے کی کوشش شروع کی.پہلے کبھی انہوں نے ہندوستان سے نکل کر دوسرے ممالک کے حالات کو نہ دیکھا تھا کیونکہ ان کے ہاں آیا ہے کہ اگر کوئی سمندر پار جائے تو اپنے مذہب سے مرتد ہو جاتا ہے.مگر باوجود اس کے اب جبکہ انہوں نے غیر ممالک کی سیر کر کے وہاں کے لوگوں کو دیکھا امریکہ جاپان، انگلینڈ اور یورپ کے دوسرے ممالک میں گئے.اور معلوم کیا کہ کس قدر انہوں نے ترقی کر لی ہے.ادھر یہ دیکھا کہ وہ علوم میں ترقی کر چکے ہیں اور یہ بھی دیکھا کہ ہم تعداد میں ۲۰ کروڑ کے قریب ہیں جو کہ یورپ کے بڑے سے بڑے ملک کی.

Page 37

۳۱ - آبادی نہیں.پھر یہ بھی دیکھا کہ یورپین ممالک کی دولت ان ممالک کی وجہ سے ہے جن میں وہ تجارت کر کے روپیہ کماتے ہیں.اس سے انہیں خیال پیدا ہوا.کہ جب دوسرے ممالک ہمارے ذریعہ دولت عزت اور طاقت حاصل کرتے ہیں تو ہم خود کیوں نہ ان باتوں کو حاصل کریں اور ان ہی کی طرح بن جائیں.اس میں ان کے سامنے ایک چیز روک تھی.اور وہ یہ کہ جہاں عزت دولت کا سوال آیا.ہندو نے کہا مجھے ملے.اور مسلمانوں نے کہا مجھے.اس کشمکش میں کسی کو بھی نہ ملی.لیکن اب انہیں خیال آیا اور ان کی نظر اس طرف پڑی کہ اگر ایک مسلمان کو عزت مل جائے تو بھی اپنے ملک میں ہی رہے گی باہر کے آدمی کو تو نہ ملے گی.اس پر انہوں نے مسلمانوں کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھایا اور یقین دلایا کہ ان کی عزت وہ اپنی عزت سمجھیں گے اور کسی قسم کی شکایت نہ پیدا ہونے دیں گے مگر مسلمانوں کو ان کے متعلق پرانا تجربہ تھا.کئی سالوں میں انہوں نے دیکھا تھا کہ ہندوؤں نے ان سے معاہدے کئے اور توڑ دیئے.اس لئے وہ مطمئن نہ ہو سکتے تھے.اور ہندو انہیں اس سے بڑھ کر یقین بھی کیا دلا سکتے تھے.کہ کہہ سکتے تھے.ہم تم سے برا سلوک نہ کریں گے.لیکن مسلمان ان کے بہت سے وعدے دیکھ چکے تھے اس لئے وہ ان کے وعدوں کی کوئی حقیقت نہ سمجھتے تھے.اور باوجود ہندوؤں کے اصرار کرنے کے کہ مسلمان ان سے مل کر غیر ملک کے لوگوں کو ہندوستان سے نکال دیں اور اس کے لئے بھائی بھائی بن کر کوشش کریں.پھر بھی مسلمان ان کی بات کو قبول نہ کرتے تھے.مگر زمانہ میں ایسے تغیرات ہوئے کہ ترکی جنگ میں شامل ہو گیا.اور جس طرح ہمیشہ سے کھانے والی سلطنتیں اٹھاتی ہیں اس نے بھی نقصان اٹھایا.فاتحین نے ترکی سے جو معاہدہ کیا وہ مسلمانوں کی امیدوں کے خلاف تھا.میرے نزدیک اس کے بعض حصے درست ہیں اور بعض فی الواقع ظالمانہ ہیں.مگر مسلمانوں کے مطالبات ایسے تھے کہ کوئی بھی فاتح ان کو پورا نہ کر سکتا تھا.ان کا مطالبہ تھا کہ جنگ میں ہم نے بھی حصہ لیا ہے.ہم نے بھی اپنے مسلمان بھائیوں پر گولیاں چلاتی ہیں.ہم نے بھی اسلامی علاقے فتح کرنے میں جانیں دی ہیں.اس لئے صلح کے وقت ہم سے بھی پوچھا جائے کہ کیا کرنا چاہیئے.اور ہمارے مطالبات کو بھی پورا کیا جائے.آسٹریلیا ،فرانس، بیلجیم، انگلینڈ وغیرہ ممالک کے لوگ بھی لڑے ہیں.ان کے آدمی بھی مارے گئے.ان کی صلح کے وقت باتیں سن لیں.لیکن ایک بات ہماری بھی ترکوں کے معاملہ میں سن لیں.اپنی قربانیوں کے لئے باقی سب کچھ لے لیں.لیکن ہماری قربانیوں کے بدلے ترکوں کو چھوڑ دیں.لیکن ایسا نہ ہوا.ان کی یہ بات نہ مانی گئی.اس وقت انہوں نے دیکھا کہ ترکی تباہ ہو گیا ہے اور ترکی کی تباہی کے ساتھ اسلام کی تباہی ہے.گو واقعہ میں یہ بات نہ تھی.بلکہ اسلام کی ترقی اس میں مرکوز تھی کہ فکت

Page 38

۳۲ مسلمان چاروں طرف سے مایوس ہو جاتے تاکہ خدا تعالی کی طرف جھکتے.مگر وہ سمجھے کہ اس میں اسلام کی تباہی ہے.اس وقت انہوں نے کہا کہ چاہے ہم پس جائیں اور ہندو ہمیں پیس ڈالیں مگر ہم ان کو پیس کر چھوڑیں گے جنہوں نے ترکوں کو تباہ کیا ہے.ان حالات کے ماتحت وہ تمام پرانی دشمنی اور عداوت بھول گئے اور ہندوؤں کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھایا اور کہا.ہندو ہمارے بھائی ہیں.جدھر وہ ادھر ہم.تو ایک تعلقات ایسے ہوتے ہیں جو ارادہ اور نیت کے ماتحت پیدا کئے جاتے ہیں.مثلاً ایک شخص شہر میں رہتا ہے.اس کو اختیار ہے کہ زید سے تعلق پیدا کرے یا بکر سے.لیکن بعض حالات ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں کسی خاص شخص کو دوست بنانے کے لئے انسان مجبور ہو جاتا ہے.جیسا کہ میں نے بتایا کہ حالات نے ہندوؤں کو مسلمانوں سے اور مسلمانوں کو ہندوؤں سے مجبور کر کے ملا دیا.اگر یہ حالات نہ پیدا ہوتے تو ممکن تھا کہ ان میں سے کوئی فرانس سے یا جاپان سے اور کوئی امریکہ یا انگلینڈ سے تعلق قائم کر لیتا لیکن حالات نے انہیں مجبور کر دیا کہ آپس میں تعلق پیدا کریں.- تو دو قسم کے کام دنیا میں ہو رہے ہیں.ایک وہ جو انسان مجبوری سے کرتا ہے.اور دوسرے وہ جو اپنی مرضی اور ارادہ سے کرتا ہے.یہی حال دین کے معاملہ میں ہے.ہر انسان کا کام ہے کہ خدا تعالٰی سے محبت کرے.خدا تعالیٰ تعلق پیدا کرے خدا تعالیٰ سے انس پیدا کرے.لیکن ہر انسان اس کے لئے آزاد ہے.وہ ایسا کر سکتا ہے کہ خدا کو چھوڑ کر شیطان سے تعلق پیدا کرے.خدا کو چھوڑ کر حکومت سے تعلق پیدا کرلے.خدا کو چھوڑ کر دولت سے پیار کرلے.مگر بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کو مجبور کر کے خدا کی طرف لایا جاتا ہے.یہ ایسے لوگوں کے متعلق ہوتا ہے جو اپنے اندر صلاحیت اور قبولیت کا مادہ رکھتے ہیں.جن کے نفس میں ایسی نیکی اور خیر ہوتی ہے کہ خدا تعالی کی محبت نہیں چاہتی کہ وہ ضائع ہوں ان کو خدا تعالیٰ کھینچ کر اپنی طرف لے آتا ہے.اس قسم کی جماعتیں بہت گذری ہیں اور اس زمانہ میں ایسی جماعت تم لوگ ہو.بیشک خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا انسان کی مرضی پر منحصر ہے.مگر ہماری جماعت اگر غور کرے تو اسے معلوم ہو گا کہ اس وقت اسے خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے اور اس تعلق کو مضبوط کرنے کے لئے مجبور کیا جا رہا ہے.خدا تعالیٰ کے تعلق کے سوا باقی تمام تعلقات کاٹے جا رہے ہیں.ہر قوم جو دنیا میں بہتی ہے.ہماری جماعت کو حقارت سے دیکھتی ہے.اور نہ صرف حقارت سے دیکھتی ہے.بلکہ ہمیں مٹانا چاہتی ہے.ہمارے مقابلہ میں عیسائی ہندؤوں سے ہندو عیسائیوں سے مسلمان

Page 39

۳۳ عیسائیوں سے اور عیسائی مسلمانوں سے اور ہندو مسلمانوں سے مل جاتے ہیں.اور کوئی قوم نہیں جو ہمارے مقابلہ میں دوسری قوموں کے ساتھ متفق نہ ہو.گویا دنیا کا کوئی ایسا دروازہ کھلا نہیں جس کی طرف دیانت اور ایمانداری کو قائم رکھ کر ہم جا سکتے ہوں.ہم ہندوؤں کی طرف نہیں جا سکتے جب تک ہم اپنی محبوب ترین چیز ایمان کو قربان نہ کریں.اسی طرح ہم غیر احمدیوں، سکھوں ، یہودیوں عیسائیوں غرضیکہ کسی قوم سے دیانت داری کے ساتھ صلح نہیں کر سکتے.دنیا اس وقت منافقت چاہتی ہے اور کہتی ہے کہ اگر سارا نہیں تو ایمان کا کچھ نہ کچھ حصہ میرے ہاتھ فروخت کرو تب صلح ہو سکتی ہے.مگر ہم نے چونکہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عہد کیا ہوا ہے اس لئے ایسا نہیں کر سکتے.پس ہماری جماعت اگر اپنے اس عہد پر پکی ہے.اگر اس نے یہ عہد کچے دل سے کیا ہے.اور اگر وہ اس کو پورا کرنا چاہتی ہے.تو پھر تم دنیا سے صلح نہیں کر سکتے کیونکہ دنیا تمہارا یہ عہد توڑنا چاہتی ہے.تم یہی کہہ سکتے ہو کہ جاؤ ہماری جان، مال، بیوی، بچے اور جائداد سب کچھ لو.ہمیں ان سب سے پیارا ایمان ہے.وہ ہم تمہیں نہیں دے سکتے.اور نہ کسی کی طاقت ہے.کہ یہ ہم سے چھین سکے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس کا چھیننا کسی کے قبضہ اور اختیار میں رکھا ہی نہیں.ظالم جان لے سکتا ہے.مال چھین سکتا ہے.وطن سے بے وطن کر سکتا ہے.جائداد تباہ کر سکتا ہے.مگر ایمان نہیں چھین سکتا.چونکہ یہ سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے.اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کی ذمہ داری خود لی ہے.اس کو انسان خود ہی نکال دے تو نکال دے.مگر کوئی اس سے ہرگز نہیں چھین سکتا.تم اگر اس عہد پر قائم ہو.تو پھر کسی قوم کے ساتھ دیانت داری سے صلح نہیں کر سکتے.ہندو مسلمانوں سے اس لئے صلح کر سکتے ہیں.کہ وہ جانتے ہیں.یہ مردہ ہے ہم سے کچھ چھین کر نہیں لے جا سکتے.اسی طرح سکھ ہندوؤں سے مل سکتے ہیں.مگر احمدیوں سے ملنے کے لئے کوئی قوم تیار نہیں.وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں.اگر ہم ان سے ملے تو ان میں جذب ہو جائیں گے.اس لئے وہ ہم سے دور دور بھاگتے ہیں.اس طرح ہمارے لئے چاروں طرف سے دروازے بند ہو گئے ہیں.اور صرف ایک ہی دروازہ کھلا ہے.جو خدا تعالی کا دروازہ ہے.پس جہاں یہ زمانہ ہمارے لئے مشکلات کا زمانہ ہے.وہاں خدا کی رحمتوں کا بھی ہے کیونکہ ساری دنیا ہمیں گھیر گھیر کر خدا تعالیٰ کی طرف لے جا رہی ہے.اور سارے دروازے بند ہو کر ہم ایک ہی دروازہ کی طرف کھینچے جارہے ہیں.اس سے زیادہ نعمت ہمیں اور کیا چاہیے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ فتح کیا اور مال و دولت مسلمانوں میں تقسیم کر دیا.تو انصار میں سے کسی نوجوان کو خیال پیدا ہوا.کہ فتح تو ہم نے کی ہے.اور خون ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے.لیکن مال رسول کریم نے اپنے رشتہ داروں کو دیا ہے.اور اس کا اس نے اظہار بھی

Page 40

۳۴ کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب یہ بات سنی تو سب کو جمع کیا.اور پوچھا کیا کسی نے یہ کہا ہے.صحابہ کچے انسان تھے.انہوں نے اس کا انکار نہ کیا.لیکن ساتھ یہ کہا.کہ ایک جاہل اور نادان نے یہ بات کہی ہے.اور اب وہ شرمندہ ہے.آپ اس کا کوئی خیال نہ فرما دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اے انصار ایک بات تھی جو نکل گئی.تم اگر چاہو تو کہہ سکتے ہو.کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وطن والے مارتے اور دکھ دیتے تھے.اس وقت ہم گئے اور تم کو اپنے گھر لے آئے.اور ہمارے ذریعہ تمہیں عزت حاصل ہوئی.مگر تم ایک اور بات بھی کہہ سکتے تھے.اور وہ یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تو مکہ میں پیدا ہوئے مگر مکہ والے تو اونٹ اور مال لے گئے.اور انصار اس کو اپنے گھر لے گئے.فی الواقع میں عظیم الشان نعمت تھی.جو انصار کو حاصل ہوئی.انصار نے بڑی معذرت کی.اور کہا مال و دولت کیا چیز ہے.ہمیں سب سے بڑی نعمت حاصل ہے.در حقیقت مال و دولت کچھ بھی حقیقت نہ رکھتا تھا.مکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہی فتح کیا تھا مدینہ والے تو پہلے بھی تھے.وہ کیوں نہ مکہ فتح کر سکے.مکہ آپ ہی کے ذریعہ فتح ہوا تھا.پھر ہو سکتا تھا کہ جب رسول کریم کا اپنا شہر فتح ہو گیا تھا تو آپ اسی جگہ رہتے.کیونکہ یہ شہر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بسایا ہوا آپ کے باپ دادا کا وطن تھا.اور کس کو اپنے وطن سے محبت نہیں ہوتی.مگر رسول کریم نے کہا وفاداری یہی ہے.کہ مدینہ والوں نے جب تکلیف اور مشکلات کے وقت میرا ساتھ دیا.تو میں بھی اب انہی کے ساتھ ہونگا.اس سے بڑھ کر مدینہ والوں کے لئے اور کیا نعمت ہو سکتی تھی.اس وقت دنیا بڑے بڑے منصوبے کر رہی ہے اور لوگ کہہ رہے ہیں ہم یہ کریں گے اور وہ کریں گے.ہم کہتے ہیں اگر تم کامیاب بھی ہو گئے تو دنیا کا مال و دولت ہی حاصل کرو گے.حالانکہ جس طریق پر چل رہے ہو یہ بھی نہیں ملے گی اور تباہی کا سامنا ہو گا مگر ہم کہتے ہیں کہ اگر تم اس میں کامیاب بھی ہو جاؤ.تو ہمیں ناکام نہیں کر رہے بلکہ ہمارے لئے چاروں طرف سے دروازے بند کر کے ہمیں اس ہستی کی طرف لے جارہے ہو جس سے بہتر کوئی اور نہیں ہے.اس وقت میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس موقع سے فائدہ اٹھائے.اور جو حالات پیدا ہو رہے ہیں.ان کی قدر کرے.اور اپنے ایمان کو جس کی وجہ سے فضل نازل ہو رہے ہیں اور پڑھائے.یاد رکھو دنیا کی چیزیں اگر کافی طور پر نہ بھی میں تو کوئی حرج نہیں.لیکن اگر خدا نہ ملے.تو کچھ بھی نہیں.سب کچھ بیچ ہے.جب خدا مل جائے.تو دنیا کی سب چیزیں مل جاتی ہیں.مگر ان کا خیال

Page 41

۳۵ کرنا کمینگی ہے.دیکھو اگر کوئی شخص کسی دوست کو ملنے کے لئے جائے.تو اسے اچھا کھانا ملے گا لیکن اگر وہ اس لئے جاتا ہے.کہ اچھا کھانا ہے.تو یہ اس کی کمینگی ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ سے اس لئے تعلق پیدا کرنا کہ دنیاوی چیزیں حاصل ہوں.کمینگی ہے.اور مومن کبھی کمینہ نہیں ہو سکتا.تمہیں بھی دنیاوی چیزوں کا خیال نہ چاہئیے.ہاں یہ تمہیں ملیں گی ضرور.اگر دنیا تلوار اور زور سے ہمارا مقابلہ کرے گی.تو چاہے خدا تعالیٰ حکومتوں کو ہمارے ساتھ کر دے.چاہے ہمیں طاقت دے دے.ہم تلوار اور زور سے مقابلہ کر سکیں گے.اور اگر دنیا دلائل سے مقابلہ کرے گی.تو ہم دلائل سے مقابلہ کریں گے اور کامیابی خدا تعالیٰ ہمیں دے گا.درمیانی مشکلات اور تکلیفیں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں یہ سب انبیاء کی جماعتوں کو آتی رہی ہیں.اگر ہماری جماعت خدا تعالٰی کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط رکھے گی اور اس عہد پر قائم رہے گی جو مسیح موعود سے اس نے کیا تو یقیناً ہمیں کامیابی ہو گی.اللہ تعالی ہم پر اپنا فضل کرے.الفضل ۱۷ مارچ ۱۹۲۱ء) اه بخاری کتاب مناقب الانصار

Page 42

9 مسیح موعود کی غرض بعثت کو پورا کرو (فرموده ۱۸ مارچ ۱۹۲۱ء) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.تیرہ سو سال گذرنے کو ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ایک برگزیدہ نے خدا کے حکم کے ماتحت اپنی امت کو ایک دعا سکھائی ہی نہیں بلکہ اس کے بار بار پڑھنے کی تاکید کی.پھر معمولی تاکید نہیں.بلکہ روزانہ اس کے پڑھنے کو فرض کر دیا.اور سترہ دفعہ فرض کے علاوہ سنتوں اور نوافل میں بھی مقرر کیا.حتی کہ یہ فرمایا کہ جو نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی...وہ شخص جس نے دعا سکھائی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اور وہ دعا سورہ فاتحہ ہے.جو شخص نماز پڑھتا ہے اس کو نماز کی ہر رکعت میں پڑھتا ہے.فرائض میں بھی.سنتوں میں اور نوافل میں بھی.قرآن کریم کی دوسری سورتوں کی نماز میں تلاوت بدلتی رہتی ہے.تسبیح و تحمید کے الفاظ بدلتے رہتے ہیں.اور دیگر دعائیں بدلتی رہتی ہیں.مگر ایک سورہ فاتحہ ہے.جو بدلتی نہیں.قرآن کریم کا کوئی حصہ نہیں.جو اس کی بجائے پڑھا جا سکے.اگر قرآن کریم سارے کا سارا پڑھا جائے.اور نماز میں فاتحہ کو چھوڑ دیا جائے.تو سارے قرآن کریم کا اس کی بجائے پڑھنا کافی نہیں.حالانکہ یہ کتنی مختصر سورۃ ہے.صرف سات آیتیں ہیں.اب غور کرنا چاہیے کہ کیا چیز ہے اس میں جس کی بنا پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس قدر زور دیا ہے.سو یا د رہنا چاہئیے اس کا پہلا حصہ ثناء وحمد ہے.اور دوسرا حصہ خدا تعالیٰ کے حضور دعا کے طور پر ہے.حمد وثناء بھی عام ہے اور دعا بھی عام ہے.کوئی ضرورت اور کوئی حاجت نہیں جو اس سے باہر ہو.لیکن سب سے زیادہ مستحق توجہ وہ بات ہے جس کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورہ میں اشارہ فرمایا ہے.فرمایا کہ یہود و عیسائی بننے سے بچانے کے لئے ہے.۲.گو ساری دنیا کے مطالب اس میں ہیں.مگر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ امت محمدیہ میں یہودی و عیسائی نہ ہوں.معلوم ہوتا ہے کہ جو بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفسیر میں

Page 43

۳۷ بیان فرمائی ہے.اسی کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے.جبھی حضور نے خصوصاً اس بات کی تفریح فرمائی.اب سوال ہوتا ہے کہ یہودی کیسے بنے ہیں.خود لفظ یہودی تو برا نہیں.اس کے دو معنی ہوتے ہیں.اول یہودہ کی نسل سے ہونے کی وجہ سے یہودی کہلاتے ہیں اور یہ کوئی برا شخص نہ تھا.بلکہ یہودہ وہ شخص تھا جس کے ساتھ وعدے تھے کہ اس کی نسل سے انبیاء آئیں گے.پس یہ نسبت بری نہیں.یہودہ حضرت ابراہیم کے پڑوتے ہوتے ہیں.یہ بھی نہیں کہ وہ کوئی برے شخص ہوں.بلکہ ان کی ذات سے وعدے تھے.ابو جہل بھی حضرت ابراہیم کی نسل سے تھا.مگر وہ بد عمل اور نالائق انسان تھا.اس لئے باوجود نسل ابراہیم سے ہونے کے آج کوئی شخص ابو جہل کی اولاد سے کہلانے کو پسند نہیں کرتا بلکہ اس کو گالی خیال کرتا ہے.دوسرے یہودی کے معنی ہدایت یافتہ کے ہوتے ہیں.اور ہدایت یافتہ ہونا بھی برا نہیں.اگر یہودی سے مراد وہ قوم کی جائے.جنہوں نے حضرت موسیٰ کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے انعام پائے.یہ بھی بری بات نہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.کہ وعد الله الذين امنوا منكم وعملوا الصالحات ليستخلفنهم فى الأرض كما استخلف الذين من قبلهم (النور : (۵۶) فرمایا کہ مومنین کو اور امت محمدیہ کو وہ انعامات ملیں گے.جو یہودیوں نے پائے تھے.پس ان میں سے کوئی بات بھی بری نہیں جس کی وجہ سے یہ کہا گیا ہو.اس سے یہی مراد ہے.کہ وہ یہودی جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں حضرت عیسی کا انکار و مخالفت کی ہم ایسے نہ ہوں.اسی طرح عیسائی بھی برے نہ تھے قرآن کریم حواریوں کی تعریف کرتا اور مومنوں کو تاکید کرتا ہے کہ انکی پیروی کریں.اگر چہ انجیل ان کے متعلق کہتی ہے کہ ضرورت کے وقت وہ مسیح سے الگ ہو گئے تھے.مگر قرآن کریم ان کی تعریف کرتا ہے پس اس سے مراد وہ عیسائی ہیں جنہوں نے حضرت عیسی کے معاملہ میں غلو کیا.اور ان کی طرف دو صفات منسوب کیں.جو خدا سے مختص ہیں.مثلاً پیدا کرنا.زندہ کرنا.پس انہی عیسائیوں جیسے بنے سے بچنے کے لئے دعا سکھائی گئی ہے.اب سوال ہوتا ہے کہ ہمارے زمانہ میں بھی ایک میسج آیا.جنہوں نے اس کا انکار کیا وہ غضب الہی کے مستحق ٹھرے.اور اسی طرح جنہوں نے مسلمانوں میں سے مسیح ناصری کی شان میں غلو کیا.اور اس کو زندہ آسمان پر چڑھایا.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تجویز کیا کہ وہ مر گئے اور زمین کے نیچے مدفون ہیں اور وہ خوش ہوتے ہیں اگر کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے

Page 44

متعلق کہے کہ وہ فوت ہو گئے.اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ ایک حقیقت کا اقرار کرتا ہے لیکن اگر کوئی حضرت مسیح کے متعلق کہدے کہ وہ فوت ہو گیا تو ان کے منہ میں غصہ سے جھاگ آجاتی ہے.اور وہ جس بات میں رسول کریم کی ہتک نہیں.خیال کرتے ہیں کہ مسیح کی ہتک ہو گئی.پس اب سوال ہوتا ہے.کہ آنے والے مسیح کا انکار کرنا خدا کے نزدیک بڑی ہی بری بات ہوگی جس سے بچنے کے لئے تیرہ سو سال سے دعا کی جا رہی ہے.اور اس کا ماننا بہت ہی بڑے اہتمام کا موجب ہوگا.پس یہ زور دینا اور اہمیت دینا بتلاتا ہے.کہ یہ خاص ہی بات ہے.اور بڑی ہی اہم ہے اگر کوئی خاص بات نہ ہو تو یہ زور دینا بے معنی ہو جاتا ہے.اب میں اپنی جماعت سے پوچھتا ہوں کہ یہ دعا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی کرتے تھے اور ابو بکڑ بھی یہی دعا کرتے تھے.عمر بھی مانگتے تھے.عثمان و علی بھی مانگتے تھے.اور دیگر مجددین امت بھی یہ دعا مانگتے تھے.اور دیگر صلحاء امت بھی یہی دعا کرتے تھے.اس دعا پر اتنا زور دینا کوئی خاص حکمت ضرور رکھتا ہو گا.اگر یہ بات نہ ہو.تو یہ دعا اکارت جاتی ہے.اور یہ کوشش اور اہتمام لغو معلوم ہوتا ہے.بے شک ہر ایک بات کے کئی پہلو ہوتے ہیں.اور کسی امر کو کئی نقطہ نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.یہ سچ ہے کہ یہ بھی بڑی بات ہے کہ ایک شخص ایک خدا کے مامور کو ماننے والا ہے.اور ایک اس کا ہے.نہ مانے والے کافر کہلائیں گے اور ماننے والے مومن.جیسا کہ میں نے پچھے خطبہ جمعہ میں بتایا تھا.کہ جب مکہ فتح ہوا.اور مال غنیمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے نو مسلموں میں تقسیم کیا.تو انصار میں سے بعض نوجوانوں کی زبان سے نکل گیا کہ تلواروں سے ہماری خون ٹپکتا رہا ہے.مال لے گئے مکہ والے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے انصار کو طلب کیا اور ان سے پوچھا.انہوں نے عرض کیا.حضور بعض نادان نوجوانوں کی زبان سے نکلا ہے.آپ نے فرمایا کہ اے انصار بے شک تم یہ کہہ سکتے ہو.کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اکیلا تھا مکہ والوں نے اس کو نکال دیا.اور ہم نے اس کو جگہ دی اور فتح مند ہو کر مال اس نے مکہ والوں کو دیا.اور ہمیں کچھ نہ دیا.اور اے انصار دوسری طرف تم یہ بھی کہہ سکتے ہو.کہ جب مکہ والے اونٹ لے گئے ہم خدا کے رسول کو لے کر اپنے گھروں میں لوٹے.س.پس کئی نقطہ نگاہ ہوتے ہیں.ایک نقطہ نگاہ سے تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا کا ایک مامور آیا دنیا نے اس کو نہ مانا لیکن چند لوگوں نے اس کو مانا.اور دنیا کی مخالفت کو اپنے سر لیا اور ہر قسم کی گالیوں اور ذلتوں کو اس کے لئے برداشت کیا.اس لئے ایسے شخص کے مومن ہونے میں کیا شک ہے.اور اسی طرح ایک شخص خدا کی نعمت کو رد کرتا.اور فضل کو ٹھکراتا ہے.اور اس کے رحمت کے دروازے کو بند کرتا ہے.وہ مومن کیسے

Page 45

۳۹ کہلا سکتا ہے لیکن یہ ایک نقطہ نگاہ ہے.اور بات نہیں ختم نہیں ہو جاتی.بلکہ یہ دعا بہت بڑی دعا ہے.اور کوئی بہت بڑا مقصد ہے.جس کے حصول کے لئے یہ دعا کی جاتی ہے ورنہ اگر ماننا اور نہ ماننا ہی ہوتا تو یہ کوئی بڑی بات نہیں.آگئے تو کیا ہوا.اور نہ آتے تو کیا ہوتا.وہ کوئی خاص پیغام لائے ہیں.جس کے قبول کرنے والے کے لئے انعام ہے.اور منکروں کے لئے لعنت ہے.پس ہم سے ہر ایک کو اپنے کو ٹولنا چاہئیے.اور تلاش کرنا چاہیے.کہ ہم میں وہ بات ہے کہ نہیں.جو مسیح موعود کی غرض بعثت ہے.اور جس کے ماننے پر انعام اور نہ ماننے پر سزا ہے اگر ہم میں وہ بات نہیں.تو یہ دعا نعوذ باللہ اکارت گئی.جو تیرہ سو برس سے مانگی جا رہی ہے.اور آئندہ قیامت تک مانگی جاتی رہے گی.جس کا مطلب ہو گا.کہ خدایا ہمیں مسیح موعود کا جو آچکا ہے ماننے والے بنا.اور جو اس کے منکر ہیں.اور خال ہیں ان میں سے نہ بنا.پس ہمیں وہ امتیاز حاصل کرنا چاہئیے.اگر ہم میں وہ خاص بات ہے تو ہم مبارک ہیں.اور اگر کسی قدر ہے تو اس کو بڑھانے کی ضرورت ہے.اور اگر نہیں تو اس کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ مسیح موعود کو مانے والوں کو اپنے آپ میں دوسروں سے امتیاز پیدا کرنا چاہئیے.اور جس کو دشمن بھی دیکھ کر ماننے کے لئے مجبور ہو.وہ دیکھیں کہ ہم اپنے عقائد میں اعمال میں اخلاق میں عبادت و روحانیت میں معاملات قرابت ولین دین میں رشتہ داروں کے ساتھ سلوک میں کچھ امتیاز رکھتے ہیں.اگر وہ چیز ہمیں مل گئی تو ہم مبارک اور اگر نہیں تو ہمیں اس کی تلاش کرنے کی فکر کرنی چاہئیے.اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے کہ ہم مسیح موعود کی غرض بعثت کو پہچانیں اور اس غرض کو حاصل کریں اور ان امور کو قائم کریں اور اپنی نسلوں تک اور وہ اپنی نسلوں تک اور اسی طرح ایک بڑے سلسلہ تک ہم اس کو پہنچائیں.آمین الفضل ۱۸/ اپریل ۱۹۲۱ء)...ا بخاری کتاب الصلاۃ باب قراءة الامام والماموم في الصلوة که مسند احمد بن حنبل روایت عدی بن خاتم بخاری کتاب مناقب الانصار

Page 46

10 الہی سلسلے اور ان کے دشمن مخالفوں کی زبان سے مسیح موعود کی صداقت (فرموده ۲۵ / مارچ ۱۹۲۱ء) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.بہت سی باتیں دنیا میں ہیں جن کو لوگ حقیر سمجھتے ہیں.جو بڑی سے بڑی بات ہے وہ در حقیقت چھوٹی ابتداء رکھتی ہے.اشیاء کی حقیقت کو دیکھیں تو ہمیں یہی نظارہ نظر آتا ہے.بڑے سے بڑے درخت جو جنگل میں نظر آتے ہیں ان کے بیج چھوٹے ہوتے ہیں.بلکہ بیج جو ہمیں نظر آتا ہے اس سے بھی ایک باریک ذرہ ہوتا ہے.جو بیج کا کام دیتا ہے.اور جس سے درخت پیدا ہوتا ہے.خواہ کوئی درخت ہو پیپل کا خواہ بڑکا.آم کا ہو خواہ جامن کا.اس میں ایک ذرہ ہوتا ہے.جس سے اتنے بڑے درخت کی پیدائش ہوتی ہے.اسی طرح انسان کی پیدائش بھی ایسی ہی ہے.اگر درخت کی گٹھلی کو دیکھیں تو وہ بھی سارا پیج ہونے کے باوجود کچھ بڑی چیز نہیں ہوتی.غرض جتنے بڑے کام ہیں.تمام کی ابتدا نہایت ادنیٰ حالت سے ہوتی ہے.اور ایسی حالت ہوتی ہے کہ انسان کی ننگی آنکھ اس کو دیکھ نہیں سکتی.بلکہ اعلیٰ درجہ کی خوردبین سے نظر آتی ہے.بظاہر دیکھنے والا اور حقیقت سے نا آشنا آم اور بڑ کے درخت کو دیکھ کر ان کے بیج کو دیکھے تو یہی کہے گا.کہ اس خفیف بیچ سے اتنا بڑا درخت کیسے پیدا ہو گیا.اور وہ کیڑا جس کو ڈاکٹر منی کے قطرے میں حرکت کرتا ہوا دیکھتا ہے نا واقف کب باور کر سکتا ہے کہ اس سے انسان پیدا ہو گیا وہ داناؤں پر ہنسے گا اور ان کو پاگل بتائے گا.حالانکہ وہ خود جاہل ہو گا کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ بڑی چیز کی ابتداء باریک شے سے ہوتی ہے.جیسا کہ پاگل اپنے پاگل پن کے باوجود دوسرے پر ہنسی کرے گا اور یہ شخص قابل رحم ہوتا ہے.اس کے دماغ کی کل بگڑ گئی.وہ اپنی جائداد کو چھوڑتا اور مٹی کے چند ڈھیلوں پر خوش ہوتا ہے اس کو اچھی چیز بری نظر آتی ہے.اسی طرح ناواقف شخص قابل رحم ہے.جو انکار کرے کہ چھوٹے بیج سے درخت پیدا نہیں ہو سکتا.لیکن یہ

Page 47

ام حقیقت ہے کہ درخت چھوٹے بیج ہی سے پیدا ہوا کرتا ہے.یہی حال آسمانی سلسلوں کا ہوتا ہے.یہ سلسلے بھی چھوٹے بیج سے پیدا ہوتے ہیں.اور وہ بیج اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ ان کو ننگی آنکھ نہیں دیکھ سکتی.جس طرح درختوں کے بیج کا بڑھنے والا ذرہ خوردبین سے نظر آتا ہے.الہی سلسلوں کا بیج بھی خاص نگاہ ہی سے نظر آتا ہے جس طرح ایک دانا آدمی ایک پیج کو دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے کہ اس میں وہ قوت ہے.جس سے ایک بڑ کا درخت پیدا ہو گا اور بڑھ کر پھیل جائے گا اور ہزاروں پرند اس میں بسیرا کریں گے اسی طرح وہ لوگ جن کو بصیرت ملی ہوتی ہے الہی سلسلوں کے بانیوں کی بیچ ہی کی حالت دیکھ کر مان لیتے ہیں.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رسول اللہ ہونے کا دعویٰ کیا.اور ایک شخص نے بطور تمسخر حضرت ابوبکر کے پاس ذکر کیا.تو آپ نے محض یہ خبر سن کر ہی آنحضرت کے دعوی کی تصدیق کی اور ایک لحظہ کے لئے بھی شک نہیں کیا.جس طرح ڈاکٹر پیج کی حالت کو مشاہدہ کرتا ہے.اسی طرح روحانی خوردبین رکھنے والے دیکھ لیتے ہیں کہ یہ سلسلہ قائم ہونے والا ہے.چنانچہ ابو بکر صدیق نے اس وقت تصدیق کی جبکہ بیج نے سر بھی نہیں نکالا تھا.نہ سبزی نکلی تھی.نہ شگوفہ محض ابھی سویا بیچ تھا.جس وقت لوگوں نے نفسی کی.اس وقت ابو بکر نے پہچان لیا.یہی حال حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہوا.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو الہام ہوا تو آپ خود لرزاں تھے کہ کہیں خدا کی طرف سے ابتلاء نہ ہو.اس وقت خدیجہ صدیقہ نے کہا کہ آپ ایک فیض رساں وجود ہیں خدا آپ کو ضائع نہیں کرے گا.اے اور یہی حال حضرت علی کا ہوا.انہوں نے بھی ابتدا ہی میں آپ کی تصدیق کی اگرچہ لوگوں نے نہیں اڑائی.کہ ایک دوست اور بیوی اور بھائی کی تصدیق سے گویا یہ بڑے ہو گئے.مگر جو کچھ ان تینوں کو پہلے نظر آیا تھا وہ تھوڑے عرصہ کے بعد آہستہ آہستہ لوگوں کو نظر آنے لگا.مگر پہلے وہ ہنسی میں اڑاتے تھے.لوگوں نے بعد میں کہا.اور اب بھی کہتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک ہوشیار آدمی تھے.اس لئے دنیا ان کے ساتھ ہو گئی.مگر ہم کہتے ہیں کہ تمہارے باپ دادا جو آپ کے مخالف تھے وہ تو ابتدا میں اس بات کے ماننے کے لئے تیار نہ تھے.وہ تو ہنتے تھے.اگر انسانی کوشش اور انسانی چالاکی سے یہ کام ہو جانے والے تھے.تو تمہارے باپ دادوں نے کیوں نہ اس کو مان لیا.وہ تو پاگل ہی بتاتے تھے.غرض جتنے سلسلہ بھی ہوتے ہیں ان کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال تو تاریخ سے ثابت اور واضح طور پر ملتی ہے.عیسی علیہ السلام نے جب دعویٰ کیا تو یہود نے آپ پر ہنسی اڑائی.موسیٰ علیہ السلام کے واقعات خود قرن کریم میں ملتے ہیں.آپ پر فرعون ہنسی اڑاتا تھا اور کہتا تھا.کہ اس کو کیا ہو گیا.یہ ہماری روٹیوں پر پلا.اس کی قوم ہماری غلام.ہم

Page 48

۴۲ ان کے مردوں کو مارتے اور ان کی عورتوں کو بے حرمت کرتے ہیں.کیا ایسی ذلیل قوم کا ایسا فرد ہم پر عزت پائے گا.مگر موسیٰ علیہ السلام کے چند مخلصین تھے.جو اس مخالفت کے زمانہ میں آپ پر ایمان لائے.اور آپ سے وابستہ تھے.وہ فرعون کی دھمکیوں کی حقیقت کو جانتے تھے.اور سمجھتے تھے.کہ یہ اس کی گیڈر بھبکیاں ہیں.اور وہ اس کی فوجوں کو مٹی کے پتلوں سے زیادہ نہیں بلکہ کم سمجھتے تھے.یہ کیا بات تھی؟ یہی کہ انہوں نے موسیٰ میں وہ بات دیکھ لی تھی.اور وہ سمجھتے تھے کہ موسیٰ میں وہ بات ہے.اور یہ وہ بیچ رکھتا ہے جس میں بڑھنے کی قوت ہے اور وہ اتنا بڑھے گا کہ جس کی حد نہیں.اس لئے قبل اس کے کہ وہ وقت آئے کہ لوگ ہمیں اس کے نیچے بیٹھنے نہ دیں ہم قریب ہو جائیں.ہمارے زمانہ میں بھی پیج ظاہر ہوا.اس کی مخالفت ہوئی.دور بین نگاہ رکھنے والوں نے اس کو پہچان لیا.اور وہ جن کو چشم بصیرت نہیں ملی تھی.انہوں نے انکار کیا.اور ماننے والوں کو دکھ دینے لگے.حتی کہ ان کے رشتہ دار تک ان کی جان کے دشمن ہوئے.اور مولویوں، ملاؤں، پیرزادوں، گدی نشینوں نے اس کے مقابلہ میں اپنی پوری قوت صرف کرنی شروع کی.لیکن وہ پیچ بڑھنے لگا اور اپنی کونپلیں نکالنے لگا.مگر ان کی مخالفت بیکار ثابت ہوئی.اور اس سلسلہ نے ترقی شروع کر دی.اب جو مخالف اعتراض کرتے ہیں.ان کی مثال اس بزدل کی سی ہے جو فوج میں شامل ہوا.وہاں جو لگا تیر اور خون بہنے لگا.تو بھاگتا بھی جائے اور خون کو دیکھتا جائے اور یہ بھی کہتا جائے کہ خدایا خواب ہو.اسی طرح تمام مخالفتوں کے باوجود خدا کا قائم کردہ سلسلہ ترقی کر رہا ہے.اور یہ دیکھ بھی رہے ہیں مگر یہ لوگ کہتے ہیں.خدایا جھوٹ ہی ہو.اب یہ کیسے خواب ہو سکتا ہے اگر چہ ان میں سے اب یہ کہنے والے بھی پیدا ہو گئے ہیں.کہ مرزا صاحب ہوشیار آدمی تھے.اس لئے ان کا سلسلہ قائم ہو گیا.مگر ہم کہتے ہیں کہ ان کے باپ داداے پہلے مخالف تو اس بات کے منکر تھے.اور آپ پر اور اپ کے سلسلہ پر ہنستے تھے.اور مخالفین کے بڑے مولوی محمد حسین نے تو کہہ بھی دیا تھا.کہ میں نے مرزا صاحب کو بڑھایا ہے اور میں ہی ان کو خاک میں ملادوں گا.مگر دیکھ لو کون مٹ گیا.اور کس کے منصوبے خاک میں مل گئے.اور کس کا سلسلہ دمیدم ترقی کر رہا ہے.ان لوگوں کا جلسہ ہوا.اس میں ایک مولوی نے بیان کیا کہ مرزا صاحب اور ہماری مثال تو چور اور کتے کی ہے.مرزا صاحب چور کی طرح آئے.اور ہم مولوی جو محافظ شریعت تھے.کتے کی طرح ان کے پیچھے پڑے.اس نے ہمیں ٹکڑے ڈال ڈال کر غافل کیا.اور خود مال اٹھانے کے درپے ہو گیا.اس نے جو مثال بیان کی اس کے کئی حصے بچے ہیں اور کئی جھوٹے.اس نے حضرت مسیح موعود

Page 49

۴۳ کو چور کی طرح آنے والا قرار دیا.ہم کہتے ہیں یہ سچ ہے کیونکہ حضرت عیسی نے پیشگوئی فرمائی تھی.کہ مسیح کی آمد چور کی طرح ہوگی ہے.انہوں نے حضرت مرزا صاحب کو چور کہہ کر مان لیا.کہ آپ مسیح موعود ہیں اور اس نے مولویوں کو کتا کہا.میں کہتا ہوں کہ اس سے بھی بد تر.کیونکہ اس نے روٹی جو غذا ہے وہ ڈالی اور انہوں نے اس سے انکار کیا.اور مسیح " کے پاس آسمانی غذا تھی.انہوں نے روٹی سے انکار نہیں کیا.بلکہ آسمانی غذا سے انکار کیا.اور یہ بھی یاد رکھو کہ مسیح ناصری نے کہا تھا کہ بچوں سے روٹی لیکر کتوں کے آگے نہیں ڈال سکتا ہوں.یہ مسیح نے اس لئے کہا تھا کہ اس کے پاس روٹی تھوڑی تھی.مگر یہ مسیح محمدی چونکہ بہت غذا رکھتا ہے.اور اسی لئے اس کے متعلق کہا گیا تھا کہ وہ خزانے لٹائے گا.اس لئے حضرت مرزا صاحب نے جو مسیح موعود تھے کتوں کے آگے بھی وہ غذائیں ڈالیں.مگر کتوں نے چھوڑ دیا اور اگر یہ اس کو کھاتے تو مر جاتے.کیونکہ ان کو روحانیت سے لگاؤ نہ تھا.باقی رہا یہ کہ اس نے کہا کہ وہ بہت بھونکتے رہے اور بھونکتے ہیں.سو ان کا بھونکنا بے اثر ہو گیا.کیونکہ وہ بھونکتے ہی رہے اور وہ چار لاکھ انسانوں کو ان سے چھین کر اپنی طرف لے آیا.ان کا بھونکنا تب موثر کہا جا سکتا تھا جب وہ اکیلا رہتا.پس اس نے اگر چہ مسیح موعود کو چور کہہ کر آپ کی ہتک کرنا چاہی.لیکن اس سے وہ پیشگوئی پوری ہوئی.جو مسیح ناصری نے کی تھی.اور اس نے اپنے اور اپنے ساتھی دیگر مولویوں کے لئے کتے کا خطاب تجویز کیا.اور اپنے آپ کو بھونکنے والا بتایا.سو یہ بھی سچ ہے.کہ ان کا سوائے بھونکنے کے اور کوئی کام نہیں.اور اس سے کوئی حقیقی فائدہ نہیں.سوائے اس کے جو بھلا مانس آئے.اس کو بھونک پڑے.مسیح موعود نے خزانے معارف و حقائق کے لٹائے.مگر کتے جو نجاست خور تھے انہوں نے وہ غذا نہ کھائی بلکہ بھاگ گئے.ان کا کام ہڈیاں چبانا ہے.یہ کہتے ہیں دو احمدیوں نے بیعت فتح کی.اول تو یہ جھوٹ ہے.دوسرے اگر درست بھی ہو تو کیا ہوا.یہ وہی لوگ ہیں جن کو ہم نے پرے پھینک دیا.بات تو تب ہوتی جو کسی ایسے شخص کے متعلق یہ ہو کہ متقی پرہیز گار نماز و روزہ کا پابند ہو.پھر ان کی کامیابی کسی جا سکتی ہے.بات دراصل وہی ہے کہ بیج کو دیکھنے والے چند ہوتے ہیں.اور جوں جوں بڑھتا جاتا ہے.لوگ پہچانتے جاتے ہیں.اسی طرح جب ہمارا سلسلہ بیج کی مانند تھا.چند آدمیوں نے مانا.اور جوں جوں بڑھتا گیا.لوگ اپنی استعداد کے مطابق قبول کرتے گئے اور قبول کرتے جا رہے ہیں.اور قبول کریں گے.اور جب پورے درخت کی شکل اختیار کرے گا.اس وقت جو انکار کرے گا وہ اندھا ہو گا.اور کون ہو سکتا ہے.وہ بہت خوش ہیں، کہ ہماری مسجد اقصیٰ کے پرلی طرف سے نعرے مارتے ہوئے گذر گئے.اور یہ

Page 50

۴۴ انہوں نے بڑی فتح حاصل کی.اس سے کیا ہوتا ہے.وہ تو خود مانتے ہیں.کہ کعبہ پر گولے برسائے گئے.پس نعروں سے کیا ہوا.اگر کعبہ پر گولوں کا برسنا اس کی عظمت پر حرف نہیں لاتا.تو اگر وہ مسجد اقصیٰ کے پاس سے نعرے مارتے ہوئے گذر گئے.تو کیا ہو گیا.دیکھنا تو یہ ہے کہ یہ بیج بڑھا او بڑے درخت کی صورت اختیار کر رہا ہے.اور آس پاس کے درختوں کو خشک کر رہا ہے پھر کیونکر انکار ہو سکتا ہے.کہ اس درخت کی خدا حفاظت کر رہا ہے.اگر کوئی اب بھی انکار کرے تو اس کا کوئی علاج نہیں.اس وقت میں اپنے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی ہر حالت میں اصلاح کریں.اور دشمنوں کو ہنسی کا موقعہ نہ دیں.اور مخالفین کے خاموش کرانے کے لئے صرف اس قدر کہنا کافی ہے کہ تم ہمارے سلسلہ کو ناپاک اور جھوٹا اور کیا کچھ نہیں کہتے.لیکن یہ جو کچھ بھی ہے تمہیں سال سے ہندوستان اور یورپ میں امریکہ میں پھیل رہا ہے.اور تم جو پاک لئے بیٹھے ہو.وہ دن بدن تنزل میں ہے.اور تم لوگ حضرت مرزا صاحب کی بعثت سے قبل پادریوں سے چھپتے پھرتے تھے.اور تم میں سے لاکھوں انسان عیسائی ہو گئے تھے.پس تمہارا سچا اسلام تنزل پاتا رہا اور پاتا ہے.اور ہمارا گندہ اسلام دن بدن دنیا میں پھیل رہا ہے.اس سے کیا صاف طور پر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جو اسلام ہم پیش کرتے ہیں اس کے آگے گردنیں جھکی ہیں اور وہ اسلام جو تم پیش کرتے ہو.اس سے نفرت کی جاتی ہے.مگر میں اپنے دوستوں کو نصیحت کروں گا کہ وہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں تاکہ ہماری ترقی سرعت سے ہو.اور دشمن جو آج ہم پر ہنستا ہے.اس وقت ہم اس پر نہیں گے تو نہیں.البتہ ان کو معلوم کرا دیں گے کہ وہ جس پودے کو کچلنا چاہتے تھے.وہ بڑھ گیا اور باقی سب درخت خشک ہو گئے اور انکی سب عمارتیں منہدم ہو گئیں.یہ بڑی بات نہیں.اگر تم اپنی اصلاح کرلو تو قلیل عرصہ میں تم دنیا میں پھیل جاؤ گے اور دشمن جو تم پر حملہ کرنے آتا ہے.اس کو اپنے بچاؤ کی فکر ہوگی.اور یہ مردے کی طرح ہوں گے اور انکو موقعہ نہ ہو گا کہ تم پر نہیں.الفضل 11/14 اپریل ۱۹۲۱ء) بخاری کتاب بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متی 24/43 متی 15/26

Page 51

۴۵ 11 ہماری ذمہ داریاں اور ہماری مشکلات فرموده ۸ / اپریل ۱۹۲۱ء) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.میرے دل میں تھا کہ جماعت کے متعلق بعض ضروری باتیں آج کے خطبے میں بیان کروں.لیکن صبح سے میرے ناک اور حلق میں تکلیف ہے.اس لئے آج میں اگرچہ تفصیل سے بیان نہیں کر سکوں گا مختصرا بیان کرتا ہوں.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی بار بتایا ہے.ہماری ذمہ داریاں دوسروں سے بہت بڑھی ہوئی ہیں.ہماری مثال اس ڈاکٹر کی ہے.جس کو علاج کے لئے ایک بڑی جماعت پاگلوں کی سپرد کی جائے.ایک سرکاری پاگل خانے ہوتے ہیں.ان میں ڈاکٹر پر بوجھ نہیں ہو تا.وہاں وہ اپنے فرض کو حکومت خیال کرتے ہیں.مار پیٹ بھی لیتے ہیں.ضرورت ہوئی تو دوا بھی دیتے ہیں مگر ان کے علاوہ ایک اور پاگل خانے یورپ اور امریکہ میں ہوتے ہیں.جہاں امراء اپنے پاگل رشتہ داروں کو علاج کے لئے رکھتے ہیں.اور وہ پاگل خانے تجارتی طور پر ہوتے ہیں.وہاں ڈاکٹروں کو معقول معاوضہ ملتا ہے.مگر ڈاکٹروں کی ذمہ واری نازک ہوتی ہے.کیونکہ جتنے مریض شفا پائیں ان کی شہرت کا داران پر ہوتا ہے.چونکہ ایسے مریض کی عقلی حالت اچھی نہیں ہوتی.اس لئے اس کو دوا دیں تو وہ کہتا ہے کہ تندرست ہوں مجھے بیمار کون کہتا ہے.وہاں ایک شرط یہ بھی علاج میں ہوتی ہے کہ مریض کو یقین

Page 52

وم دلایا جائے.کہ وہ بیمار نہیں تندرست ہے.جب ڈاکٹر کا یہ فرض بھی ہو.تو مریض کو دوا کیسے دی جائے.دوائی دو تو وہ کہتا ہے مجھے بیمار کہتے ہو.اور اگر نہ دیں تو علاج کیسے ہو.وہاں بڑی محنت اور ہوشیاری سے کام کرنا پڑتا ہے.یہی حال ہمارا ہے.پھر ایک اور فرق ہوتا ہے کہ ان کو مریض کے رشتہ دار تمام خرچ دیتے ہیں.یہاں ہمیں اپنے پاس سے ہی خرچ کرنا پڑتا ہے.تو ہماری مثال تو ایسے ڈاکٹر کی ہے.جس کو کمرے میں بند کر دیا جائے اور مریضون کو اس پر حاکم مقرر کیا جائے.اور ساتھ ہی حکم ہو کہ ان کا علاج کرو.اس پر پس ہماری ذمہ داریاں بڑھی ہوئی ہیں.ہمارے پاس سامان کم اور طاقت بھی بہت کم ہے.ذمہ داری کے مطابق نہ سامان ہے نہ طاقت.پھر باوجود اس حالت کے جو سامان بھی ہمیں میسر ہیں انہیں سے کسی ایک کو اگر ہم ترک کر دیں تو ہمیں کامیابی کی کیا امید ہو سکتی ہے.ہماری حالت یہ ہے.کہ اس میں بعض وقت ہم پر خطرناک آتے ہیں.اور تکلیف ہمیں گھیر لیتی ہے.اور سکھ کا کوئی پہلو ہمارے سامنے نہیں رہتا.دولت مند کے لئے ہر وقت آرام نہیں.بیمار کے لئے ہر وقت تکلیف نہیں.اگر ہر وقت اس کی ایک سی تکلیف رہے.تو وہ فورآ مر جائے.تکلیف و قفوں کے ساتھ آتی ہے.اور اس طرح ایک مریض لمبے عرصہ تک زندگی پاتا ہے.اسی طرح ہم پر جو اوقات ہوتے ہیں.وہ بعض دفعہ اس قسم کے آتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں پامال کر دیں گے.لیکن پھر ہمیں آرام کا وقفہ دو طرح کا ہوتا ہے.یا تو ہماری طرف سے ہوتا ہے.جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہم کام کرتے کرتے تھک گئے ہیں یا خدا تعالی کی طرف سے کہ وہ خیال فرماتا ہے کہ اب کام کرتے کرتے اس حد پر پہنچ گئے ہیں.کہ ہمیں آرام کی ضرورت ہے.بہر حال کسی طرف سے جو آرام ہمیں ملتا ہے.وہ سانس لینے کے لئے وقفہ ہوتا ہے.پھر جس کو تکلیف کا وقت کہتے ہیں.وہ اصل ذمہ داری کا وقت ہوتا ہے.ایسے ہی وقت میں سے ہم آج کل گذر رہے ہیں.کیونکہ ایک طرف کام کی حالت بڑھتی جا رہی ہے.اور ایک رو ہے جو چل رہی ہے اور طبائع میں ایک جوش ہے جو لوگوں کو ہماری طرف متوجہ کر رہا ہے اور ہندوستان کے ایسے طبقہ میں جوش ہے جس میں پہلے نہ تھا.اور اسی طرح غیر ممالک میں بھی ایک لہر چل رہی ہے باہر سے خطوط آتے ہیں.ان سے اس کی تصدیق ہوتی ہے.امریکہ سے ایک حبشی ولایت میں آیا ہے.وہ افریقہ کا باشندہ ہے.اور اس نے اپنی تمام قوم میں دورہ کیا ہے وہ مذہبا " عیسائی تھا.اور ولایت میں آکر مسلمان ہو گیا ہے.امریکہ میں حبشیوں کی بہت سی آبادی ہے.جو دو کروڑ کے قریب یعنی پنجاب کی آبادی کے برابر ہے.جب یورپ کے لوگوں نے امریکہ میں نو آبادیاں قائم کیں.اور ان کو مزدوروں کی ضرورت پڑی.تو سفید رنگ کے

Page 53

مزدور چونکہ زیادہ مزدوری مانگتے تھے.اس لئے مزدور ہم پہنچانے کا یہ طریق اختیار کیا گیا کہ زبر دستی افریقہ کے حبشیوں کو پکڑتے تھے.اور ان سے بیلوں کی طرح جو کام چاہتے تھے لیتے تھے.اور ان کا قصور محض یہ ہوتا تھا کہ کمزور ہوتے تھے.اور پکڑنے والوں کا حق یہ تھا.کہ وہ طاقتور تھے.ان غلاموں پر بڑے بڑے مظالم ہوتے تھے.آخر ایک عورت نے ایک ناول لکھا.جس میں بتایا کہ کس طرح ان حبشیوں پر ظلم ہوتے ہیں.کس طرح ماں باپ کو بچوں سے اور بچوں کو ماں باپ سے جدا کیا جاتا ہے.اور کس طرح ان کو مارا اور زخمی کیا جاتا ہے.چونکہ اس میں جذبات کو اپیل کی گئی تھی.کئی لاکھ کاپی اس کی چند دنوں میں نکل گئی اور آخر اس کو قانونا " روکنا پڑا.مگر چونکہ وہ اپنا اثر کر چکا تھا اس لئے ملک میں دو پارٹیاں ہو گئیں.ایک وہ جو غلامی کے خلاف تھی.اور ایک تائید میں.دونوں میں جنگ شروع ہو گئی.اور بڑے لمبے عرصے تک یہ جنگ رہی.جس میں غلامی کے حامی ہار گئے.اور مخالف جیت گئے.اور اس طرح ان غریب حبشیوں کو امریکہ میں آزادی ملی.ان میں ایک شخص افریقہ سے گیا.جو اپنی قوم کی فلاح کی تدبیریں سوچتا ہے.اس نے بتایا ہے کہ یہ سب لوگ عیسائیت چھوڑ کر مسلمان ہونے کو تیار ہیں.یہ تو یقینی نہیں کہ سب مان لیں گے.مگر یہ بعید از قیاس بھی نہیں.یہ کروڑوں کا میدان ہے ممکن ہے کہ جلد ہی لاکھوں اسلام میں داخل ہوں.اس کے لئے آدمیوں کی ضرورت ہے.ادھر روس چاہتا ہے کہ اس میں آدمی بھیجے جائیں.تبھی وہ پیشگوئیاں پوری ہونگی جو وہاں کے متعلق حضرت مسیح موعود کی ہیں.کیونکہ وعدے کی پیشگوئی میں ایک حصہ انسان کا ہوتا ہے اور ایک خدا کا.انسان جب اپنا کام کرتا ہے تو باقی کا حصہ خدا خود پورا کر دیتا ہے.زار کا عصا چھینا جا چکا ہے.بخارا کے امیر کی کمان پڑی ہے.اب ضرورت ہے.کہ ہمارے آدمی جائیں.اور اپنے شکار میں مصروف ہوں.لیکن ہماری موجودہ حالت یہ ہے کہ تمہیں ہزار کے بل واجب الادا دفتر بیت المال میں پڑے ہیں.اور چالیس ہزار پہلے لے کر خرچ کیا جا چکا ہے.اور بعض لوگوں کو چار چار مہینوں کی تنخواہ نہیں ملی.اور تنخواہ نہ ملنے سے کئی لوگوں پر فاقہ کی نوبت گذررہی ہے اور ان کی تنخواہ ماہوار اتنی ہے کہ جو باقاعدہ ملے تو ان کا گزارہ ہو سکتا ہے.ایسی حالت میں ہم باہر کس طرح کام کر سکتے ہیں.یہ ان تاریک وقتوں میں سے ایک ہے جن کے لئے حافظ نے کہا ہے.شب تاریک و بیم موج و گرداب چنیں حائل چاروں طرف ظلمت ہے.لیکن ادھر دنیا ہمیں بلا رہی ہے.یہ ایک صدمہ ہے.اور نہایت درد ناک حالت ہے اس وقت ہماری ایسی حالت ہے کہ بچہ مصیبت میں ہے ماں کو بلاتا ہے.مگر ماں مجبور ہے کہ اس کی مدد نہیں کر سکتی.اس حالت سے ایک خوشی بھی ہوتی ہے.اور ایک صدمہ بھی

Page 54

ہے.ہے.خوشی اس سے ہے.کہ بچہ ماں کو پہچانتا ہے.اور رنج اس کا کہ ماں مدد نہیں کر سکتی.یہ بھی ظلمت ہے.کہ ہم ان کی مدد نہیں کر سکتے.اور لوگوں کی مخالفت کا طوفان بھی ایک ظلمت غرض ظلمت پر ظلمت ہے.اگر چہ یہ خطرے کی بات نہیں.لیکن اس میں شک نہیں کہ اس وقت یہ سوال ہمارے لئے موت اور زندگی کا سوال ہے.اس میں شبہ نہیں.کہ یہ خدا کا کام ہے.لیکن جب تک بندہ اپنا کام نہ کرے.اس وقت تک خدا اپنا کام نہیں کیا کرتا.دو کام خدا کے ہوتے ہیں.پہلے خدا اپنا کام کرتا ہے.پھر انسان کا کام آتا ہے.اگر یہ اپنا کام کرے.تو خدا دوسرا اپنا کام کر دیتا ہے.اس بات پر قرآن میں اتنا زور دیا گیا ہے.جس کی حد نہیں.قرآن کریم کی ہر سورت کے ابتداء میں اسی مضمون پر زور دیا گیا ہے.چنانچہ فرمایا ہے بسم الله الرحمن الرحيم کہ اللہ کے نام سے شروع کرتے ہیں.جو پہلے رحمانیت کے ماتحت کام کر کے ہمیں ہر قسم کے سامان عنایت کرتا ہے.چنانچہ اس نے ہمیں مسیح موعود دیا ہمارے لئے علم کے دروازے کھول دیئے.ہمیں ہدایت دی.یہ اس کی رحمانیت ہے آگے رحیم ہے.اس صفت کا تقاضا ہے کہ جب اس کے ماتحت خوب کام کریں گے تو پھر وہ ہمارے لئے کام کرے گا.پہلا کلام اس کی طرف سے ہو چکا ہے اب اگر ہم اس اپنے کام کو نہ کریں.تو وہ اپنا دوسرا کام نہیں کرے گا.سورہ فاتحہ کی ابتداء میں بھی مضمون پر زور ہے.اور تمام قرآن میں بھی اس مضمون پر زور دیا گیا ہے.اسی ہے.بلکہ وہ ہم میں اگر کرب ہو گا.ہم اگر اس کی طرف رجوع کریں گے.اور اس کے حضور گریں گے.تو وہ ہمیں اٹھائے گا.لیکن اگر ہم مطمئن ہو جائیں.اور اپنے آپ کو اس کے فضلوں کا جاذب نہ بنائیں.تو پھر ہم انعام نہیں پا سکتے.اور خدا اپنا کام جو ہمارے متعلق ہے نہیں کرے گا.کیونکہ وہ ہمیں اہل نہیں پائے گا.ہمارے اس کرب سے خدا کے علم میں اضافہ نہیں ہوتا.کیونکہ وہ تو جانتا دوسروں پر ظاہر کرتا ہے.اور ہماری حالت سے خود ہمیں مطلع کرتا ہے.اس کی مثال ایسی ہے.کہ ماں بچے کو مٹھائی دینے کے لئے ہاتھ بڑھاتی ہے.بچہ لینے کو لپکتا ہے.وہ ہاتھ ہٹا لیتی ہے.اگر بچہ مٹھائی لینے کے لئے ضد کرتا اور روتا ہے.تو دے دیتی ہے.اگر وہ ہاتھ نہ بڑھائے بلکہ اور طرف متوجہ ہو جائے تو وہ نہیں دیتی.کیونکہ جان لیتی ہے کہ اس کو ضرورت نہیں.پس ہمیں کرب پیدا کرنا چاہئیے.اور اس کے حضور گر کر طلب کرنا چاہئیے.تب اس کی مدد آئے گی.مسلمانوں سے یہی غلطی ہوئی.کہ وہ خدا کے حضور نہ جھکے.اور ان میں مصائب اور مشکلات کے وقت کرب پیدا نہ ہوا.اب ہمیں اس غلطی کا مرتکب نہیں ہونا چاہیے.جب تک مسلمانوں کا پہلا حصہ اس حال میں رہا کہ جب دشمن کی طرف سے اسلام پر حملہ ہوا اور حالت نازک ہوئی.وہ

Page 55

۴۹ لوگ خدا کے حضور کرے تو خدا نے سنبھالا.اور ایسا بار بار ہوا.لیکن آخر میں مسلمانوں نے گمان کر لیا کہ خدا تو اسی طرح کیا کرتا ہے.اور اسلام کو بچا ہی لیا کرتا ہے.وہ مطمئن ہو گئے.اور اسلام انکے سامنے ڈوب گیا.اور انہوں نے خبر نہ لی.جب طوفان اٹھا تو انہوں نے کہا کہ ایسا ہوتا ہی ہے.اور بچاؤ کی فکر نہ کی.جہاز گرداب میں پڑا پھر انہوں نے توجہ نہ کی آخر ڈوبنے لگا.وہ ہنس پڑے کہ کیا ہوا ہم جانتے ہیں کہ جہاز نہیں ڈوبے گا.آخر جب وہ ذرا ٹس سے مس نہ ہوئے تو جہاز ان کی آنکھوں کے سامنے غرق ہو گیا اور انہوں نے کچھ نہ کیا.اس وقت ہم مشکلات میں ہیں.ہماری ذمہ داریاں بہت بڑھ رہی ہیں.اور تیس ہزار کے بل پڑے ہیں.اور چالیس ہزار پہلا قرض ہے.اور باہر مبلغوں کے بھیجنے کی ضرورت ہے.جب تک خاص جدوجہد نہ کریں گے.کام درست ہوتا نظر نہیں آتا.پس ہمیں ضرورت بہت دعاؤں کی ہے.اور بہت کوشش کی ہے.میں اس وقت مختصر بولنا چاہتا تھا مگر پھر بھی بہت بول گیا.اور میرے حلق میں تکلیف بڑھ گئی ہے.مگر آخر میں دوستوں کو کہتا ہوں.کہ تکالیف اور مصائب ہر طرف ہیں مگر ہمیں امیدیں بھی بہت ہیں.اور ہم کامیابی کو بھی گھر کے دروازے پر دیکھتے ہیں.دعا کرنی چاہئیے.کہ یہ محض لالچ ثابت نہ ہو.بلکہ خدا ہمیں ان کامیابیوں کے حاصل کرنے کی توفیق دے.آمین.الفضل ۲۱ / اپریل ۱۹۲۱ء) ا تذکره ص ۴۵۸

Page 56

12 ة خدمتے دینے کے لئے گھروں سے نکل کھڑے ہو (فرمود ۵ار اپریل ۱۹۲۱ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.میں نے پچھلے جمعہ بیان کیا تھا کہ ایک ضروری امر کے متعلق میں آپ لوگوں کے سامنے کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.مگر اس دن طبیعت کی خرابی کی وجہ سے میں اس مضمون کو بیان نہ کر سکا.اور اس کی جگہ اور مضمون بیان کرنا پڑا.گو ابھی تک میری طبیعت اسی طرح خراب ہے روزانہ بخار ہوتا ہے بلکہ اس وقت بھی ہے.لیکن میں نے مناسب سمجھا کہ مختصر الفاظ میں ہی وہ بات بیان کر دوں.بعض کاموں کے لئے بعض اوقات ہوتے ہیں اس وقت ان کا کرنا جن اثرات کو پیدا کرتا ہے دوسرے وقت نہیں پیدا کر سکتا.اس واسطے میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ اسی وقت وہ بات بیان کر دوں دنیا میں تمام ترقیات خواہ وہ مذہبی ہوں ، اخلاقی ہوں، روحانی ہوں، علمی ہوں، دنیاوی ہوں، جسمانی ہوں ، بدنی یا مالی ہوں، حکومت اور سیاست کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہوں.دو باتوں کے بغیر کبھی حاصل نہیں ہو سکتیں.ایک بات تو قوت اجتماعی کا پیدا کرنا دوسری بات اس طاقت سے فائدہ اٹھانا.یہ دو چیزیں جب تک نہ ہوں کوئی مہتم بالشان امر پیدا نہیں ہوتا.ہر کامیابی ہر ایک ترقی کے حصول سے پہلے ایک قوت اجتماعی کا پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے.یعنی وہ مادہ پیدا کرنا جس کے واسطے سے وہ مل کر کام کر سکیں یہ آسان بات نہیں کہ زبان سے کہہ دینا چلو مل کر کام کریں.اس کے لئے کچھ قواعد ہوتے ہیں جب تک قواعد کی پابندی نہیں کچھ بھی نہیں.اسی کی طرف حضرت صاحب نے الوصیت میں اشارہ فرمایا.کہ مل کر کام کرو.یعنی قوت اجتماعی پیدا کرو.پھر اس سے کام لو.قوت اجتماعی سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتا.جب تک قوت اجتماعی پیدا نہ ہو.انسان کو دوسرے حیوانات پر فضیلت ہے ہی اس وجہ سے کہ اس کو یہ ملکہ حاصل ہے.کہ یہ اجتماعی طاقت کو ترقی دیتے دیتے انتہا تک پہنچا دیتا ہے.بعض جانوروں میں بھی ملکہ ہوتا ہے مثلاً چیونٹیاں.جس طرح

Page 57

۵۱ انسانوں میں مدارج میں بعینہ چیونٹیوں میں بھی ہوتے ہیں.بادشاہ چوکیدار، معلم، غریبوں مسکینوں کو کھانا بہم پہنچانے والے وغیرہ وغیرہ.پس بعض انسان ایسے بھی ہیں جن کا انتظام ان چیونٹیوں سے کم رہتا ہے.مگر چند مثالوں کو نظر انداز کر کے جانور اور انسان میں یہی فرق ہے.انسان کی طاقت اجتماعی حیوانات سے بالعموم بڑھ کر ہوتی ہے.جسمانیت کے لحاظ سے یہ فرق ہے.روحانیت میں فرق بین ہے.یہ قوت اجتماعی دارو مدار انسان کی ترقی کا ہے.اس سے فائدہ حاصل کرنا چاہیے جیسے مسلمانوں کے پاس قرآن مجید تو تھا مگر اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے تھے.مسلمان طاقتیں تھیں.ان میں انس تھا.طاقت اجتماعی مگر دشمن کے مقابل پر استعمال کرنا نہ جانتے تھے جس سے تنزل کی طرف قدم بڑھا.پس چاہیے کہ مسلمانوں کا ایک مقصد و مدعا ہو جائے.اور پھر اس کے لئے سب کچھ قربان کرنے کے لئے نہ صرف تیار ہوں بلکہ عمل کر کے بھی دکھائیں کیونکہ تکمیل تبھی ہوتی ہے کہ جو قوت اجتماعی ہو اس سے فائدہ اٹھایا جائے.میں اپنی جماعت میں قوت اجتماعی کے حد کمال پر پہنچنے کا قائل تو نہیں.مگر جو اجتماع ہم میں پیدا ہے اس سے بھی ہم اس حد تک فائدہ نہیں اٹھا رہے جس حد تک اٹھایا جا سکتا ہے.لوگ شاید خیال کرتے ہیں کہ ہمارے لئے کوئی موقعہ نہیں حالانکہ موقعے تو بہت ہیں مال کی قربانی تو کچھ دکھائی ہے.اور جانی قربانی کی بھی ایک صورت جو پچھلے دنوں بعض لوگوں کی طرف سے فتنہ برپا کرنے کے ارادوں سے اطلاع پا کر پیش آئی تھی.اس میں بہت سے آدمیوں نے دکھا دیا کہ وہ دین کے مقابل پر اپنی جانوں کی پروا نہیں کرتے.میں نے تو بعض آدمیوں کو بیمار پا کر یہ خیال کیا کہ یہ کچھ کام نہیں دے سکتے.لیکن رویا میں مجھے ایسے شخصوں میں سے ایک کا رقعہ دکھایا گیا جس پر لکھا تھا ایک ضعیف جان جو سلسلہ کے لئے اپنی جان قربان کرنے کو بالکل تیار ہے " غرض قربانی کا جوش تو بعض ایسے دلوں میں بھی ہوتا ہے جن کو بظاہر ہم نہیں دیکھ سکتے لیکن اس سے بڑھ کر جان قربان کرنے کا ایک طریق ہے جس میں ایک موت نہیں بلکہ بہت سے موتوں کا سلسلہ ہے اسی کی طرف حضرت صاحب نے اشارہ کیا ہے ، صد حسین است در گریبانم میں.بظاہر نظر آتا ہے یہ موت نہیں حالانکہ یہ آسان کام نہیں کیونکہ اس موت میں تو خیال آتا ہے کہ بس ایک ہی دفعہ مرنا ہے مگر دوسرے آدمی کو ہر صبح ایک موت دیکھنی پڑتی ہے وہ ہر روز دیکھتا ہے کہ وہ علم وہ فن جو میں نے کوشش سے حاصل کیا اور وہ کاروبار جو بڑی محنت سے جاری کیا ہے اس کے فوائد سے متمتع نہیں ہو رہا بلکہ یہ سب کچھ دین کے لئے قربان کرنا پڑتا ہے.اس موت کے قبول کرنے والے بہت کم ہیں مگر جس قوم کی ترقی ہی ایسی موتوں پر منحصر ہو اور جسمانی موت کی ضرورت نہ ہو.اس کی نسبت کیا کہا جائے ہمارے سلسلہ کی حالت و کیفیت یہی ہے ہمارا سلسلہ اس موت کو نہیں چاہتا جسے

Page 58

۵۲ لوہے کی تلوار لاتی ہے بلکہ وہ موت مانگتا ہے جسے واقعات اور حوادثات کی تلوار کاٹتی ہے اس موت اور قربانی کے بغیر ہمارے لئے کوئی ترقی نہیں مگر ایسے لوگ کم پائے جاتے ہیں اور پھر ان میں سے جن میں یہ جوش ہے ان کو پتہ نہیں کہ اس جوش کو نکالیں کس طرح کام کرنے والی قومیں تو اس طرح کام کرتی ہیں کہ زرد بخار کی حقیقت دریافت کرنے کے لئے کنی ڈاکٹروں نے اپنے آپ کو پیش کیا اور بعض نے اپنی جانیں بھی قربان کر دیں.یہ ایک بخار تھا ہم نے ہزاروں بخاروں کا علاج کرنا ہے.اس وقت چاروں طرف سے آوازیں آرہی ہیں کہ ہمیں مبلغین کی ضرورت ہے مگر ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارے پاس اتنا روپیہ نہیں کہ کرایہ بھی دے سکیں.اس لئے آدمیوں کی ضرورت ہے جو اپنے تمام فوائد ظاہر و دنیاوی کو بالائے طاق رکھ کر مختلف ملکوں میں تبلیغ اسلام کے لئے نکل کھڑے ہوں اور اپنے اخراجات خود بہم پہنچائیں.یہ بات ممکن نہیں اس کی مثال موجود ہے.یہاں ایک لڑکا تھا جو پہلے مدرسہ احمدیہ میں تھا.پھر درزی خانہ میں کام سیکھتا رہا.جو چپ چاپ چلا گیا.اور ہمی سے جہاز پر نوکر ہو کر لنڈن جا پہنچا اور وہاں بھی اپنی محنت سے کماتا اور مبلغین کی امداد کرتا ہے.پس اگر کچھ نظیریں بھی اس قسم کی قائم ہو جائیں تو پھر تحریک عام شروع ہو سکتی ہے.بعض محنت مزدوری کرنے جا سکتے ہیں.بعض اپنی جائدادیں خدا کی راہ میں دے کر یہ کام سر انجام دے سکتے ہیں.جن لوگوں نے کام کرنا ہوتا ہے ہر حالت میں کرتے ہیں دیکھو جاپان والوں نے مغربی ترقی کا راز معلوم کرنے کے لئے اس قربانی سے کام لیا کہ ان کے بڑے بڑے امیر مزدور اور ملازم بن کر ان ممالک میں رہے اور پھر اپنے ہاں ویسی کلیں جاری کر کے مغرب کا مقابلہ شروع کر دیا.اسی طرح ہمارے لوگ چار چار پانچ پانچ آدمیوں کے گروہ ہو کر دوسرے ملکوں میں چلے جائیں.وہاں محنت مزدوری کریں پیٹ پالیں.اور زبان سیکھیں پھر تبلیغ کریں.اور اپنی حرکات سکنات اور کام کا طرز مرکز کے ماتحت رکھیں.ہمارے لوگوں نے بے شک اخلاص پیدا کیا ہے اور یہ مادہ ان میں ہے کہ وہ اپنے فوائد کو دین پر قربان کر سکتے ہیں مگر اب اس سے فائدہ اٹھانا چاہئیے.پہلے یہاں کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں پھر باہر کے لوگوں کو کہ اس قسم کی جماعتیں اٹھیں اور اپنے آپ کو پیش کریں.اور ہ اپنے اوقات و حرکات و سکنات کو دین کے لئے وقف کریں.مال تو ہمارے پاس ہے نہیں سو دعا اور علم دین ہے جو ہم دیں گے اس کے مقابل میں اوقات اور نقل و حرکت کی آزادی وہ خدا کو دیں اور اس کا اجر وہ اللہ سے پائیں.انشاء اللہ پھر چند روز میں وہ کام ہو جائے گا جس کے لئے یہ سلسلہ قائم کیا گیا ہے.خدا ہمارے ذریعے سے اس کام کو تکمیل تک پہنچائے.وہ الفضل ۲۵ / اپریل ۱۹۲۱ء)

Page 59

۵۳ 13 روحانیت کے لئے اخلاق بطور برتن کے ہیں (فرموده ۶ / مئی ۱۹۲۱ء) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.گو بخار کی شکایت تو ابھی مجھے ہے.لیکن حلق کی تکلیف میں افاقہ ہے اس لئے میں نے چاہا کہ مختصراً خطبہ پڑھوں.زمانے کی ضروریات اور زمانے کے تقاضے ہمیشہ انسانی اعمال پر اثر ڈالتے رہتے ہیں پھر علم کی ترقی اور تنزل کا اور مال کی ترقی اور تنزل کا بھی انسانی اعمال پر اثر ہوتا ہے.جس وقت کسی قوم میں علم کی ترقی ہوتی ہے.اس کو اعمال میں تغیر کی ضرورت ہوتی ہے اور جس وقت کسی قوم کے مال میں ترقی ہو.اس وقت اعمال میں بھی تغییر نمودار ہوتا ہے.باوجود اس تغیر کے پھر بھی بعض ایسی باتیں ہوتی ہیں جو کسی زمانے سے تعلق نہیں رکھتیں اور ان کا خیال کرنا ہمیشہ ضروری ہوتا ہے.اور ان کو مد نظر رکھے بغیر کسی زمانے اور کسی سوسائٹی میں انسان عزت سے نہیں دیکھا جاتا.وہ لوگ جو ان باتوں کو مد نظر نہیں رکھتے.اگر فرشتوں کی مجلس میں بھی بیٹھیں تو گزارہ نہیں کر سکتے.یہ باتیں دنیا کی ہر مجلس اور ہر سوسائٹی کے لئے ضروری ہیں.یہ باتیں کیا ہیں.یہ وہ اخلاق ہیں جن کی نگہداشت ایسی سمجھی گئی ہے کہ تمام انبیاء کی تعلیم میں ان کو مذہب کے ساتھ بیان کیا گیا.وہ مذہب نہیں ہیں مگر ان کے بغیر مذہب قائم نہیں رہ سکتا اس لئے تمام انبیاء کی تعلیم میں ان کو لیا گیا ہے ہم نہیں جانتے کہ آدم کے وقت کے لوگوں میں نماز تھی یا نہ تھی.روزہ تھا یا نہ تھا.اگر تھا تو کس قسم کا تھا.زکوۃ تھی یا نہ تھی.اگر تھی تو کس طرح کی تھی.اور کب فرض ہوتی تھی.اور اس کے مصارف کیا تھا.ہم یہ نہیں بتا سکتے.کہ نوح علیہ السلام اپنی قوم کو کیسی نماز کی تاکید کرتے تھے.حج کراتے تھے یا نہ کراتے تھے.ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ابراہیم علیہ السلام اپنے زمانہ میں ان امور پر کیا تعلیم دیتے تھے.پھر ایران اور یورپ کے نبی یا اور جگہیں جہاں جہاں ان من است الاخلا فيها نذیر (فاطر : (۲۵) کے مطابق نبی آئے.وہ نبی اپنی قوموں کو کیا

Page 60

تعلیم دیتے تھے.ان میں نماز، روزہ، حج، زکوۃ ختنہ نکاح ، طلاق کے مسائل کس طرح تھے اور تھے بھی یا نہ تھے.- لیکن اس میں شبہ نہیں کہ گو ہم ان مسائل کے متعلق کچھ نہیں بتا سکتے مگر ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح ہمارے لئے حکم ہے کہ جھوٹ نہ بولو.اسی طرح یہی حکم آدم کے وقت کے لوگوں کے لئے نوح کے وقت کے لوگوں کے لئے اور خواہ کوئی نبی ایران میں ہوا ہو.یا اٹلی میں.یا ایسے علاقوں میں کوئی نبی آیا ہو جن کو عذابوں نے اب بالکل غیر آباد اور چٹیل میدان بنا دیا ہو ان سب کی تھی کہ جھوٹ نہ بولو.اور کوئی نبی ایسا نہیں آیا.جس نے ظلم کی تعلیم دی ہو.اور جس نے یہ کہا ہو کہ لوگوں سے خوش خلقی سے نہ پیش آؤ.نماز روزہ حج زکوۃ نکاح کے مسائل میں اختلاف ہے.یہ باتیں ہر زمانے میں بدلتی رہی ہیں.لیکن یہ اخلاق کی تعلیم نہ بدلی ہے.نہ بدل سکتی ہے.بلکہ یہ تمام انبیاء کی ایک ہی تعلیم رہی ہے.ہمارے پاس ان انبیاء کی کتابیں نہیں جن میں ان کی تعلیم لکھی ہوئی ہو.لیکن آثار ہیں جو ان قوموں کے افکار میں پائے جاتے ہیں.اور نسلا بعد نسل آرہے ہیں.ان سے پتہ لگتا ہے کہ یہ تعلیم تھی کہ جھوٹ سے پر ہیز کریں.اور ظلم سے باز آئیں.ہم جنگل میں جاتے ہیں.اور ایسے جنگلوں میں پہنچتے ہیں جہاں ریل وغیرہ کا نام و نشان نہیں.اور جہاں تعلیم کا اثر نہیں.اور وہ ممالک جن کا دیگر ممالک سے تعلق نہیں.ان میں بھی یہ تعلیم پاتے ہیں.کہ جھوٹ نہ بولو.ان اقوام میں تعلیم نہ ہو.ان کے اعمال میں اختلاف ہو.لیکن باوجود امتداد زمانہ کے ان میں یہ بات ضرور ہے کہ جھوٹ اور ظلم بری چیزیں ہیں.اور اعمال و عقائد میں اختلاف بے حد ہوگا اور ہے.مگر ان اخلاق کے متعلق تعلیم ایک سی ہے.پس یہ احکام کو مذہب و روحانیت نہیں لیکن یہ مذہب کا جزو ہیں جن کے بغیر مذہب قائم نہیں رہ سکتا.سچ بولنا روحانیت نہیں.خوش خلقی مذہب نہیں مگر کوئی روح روح نہیں جس میں اخلاق نہیں.گویا اخلاق قشر ہیں جن میں ایمان کا مغز ہوتا ہے یہ گلاس ہیں جن میں شربت ہوتا ہے.کوئی روحانیت باقی نہیں رہ سکتی جس میں اخلاق نہ ہوں.جیسا کہ گلاس کے ٹوٹنے پر شربت کے بہ جانے میں کچھ شک نہیں ہوتا.اسی طرح اخلاق کے خراب ہونے سے مذہب اور روحانیت کا بھی کچھ نہیں رہ جاتا.میں اپنی جماعت کو اخلاق کی طرف توجہ دلاتا رہا ہوں.مگر افسوس ابھی پوری توجہ نہیں کی گئی.اور بہت ہیں جو توجہ نہیں کرتے.وہ کہتے ہیں کہ ہم نماز پڑھتے اور قرآن کی تلاوت کرتے ہیں.ہم نیک ہیں.زکوۃ دیتے ہیں.لیکن وہ نہیں جانتے کہ گلاس کے پیندے میں یا اس کی دیوار کے ایک

Page 61

۵۵ طرف اگر سوراخ ہو جائے تو شربت اس میں نہیں رہ سکتا.اسی طرح اگر اخلاق میں نقص ہو تو روحانیت باقی نہیں رہتی.ان کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص تیل بازار سے خریدنے گیا برتن میں تیل ڈلوایا برتن چھوٹا تھا اور تیل زیادہ بننے نے کہا کہ تیل کچھ اور ہے.اس نے اس زائد تیل کے لینے کے لئے برتن کو الٹ دیا.کہ پیندے میں تیل ڈلوائے.جب اس نے پیندے میں تیل ڈلوا لیا.اور برتن کو سیدھا کیا تو تمام تیل یہ چکا تھا اور سیدھا کرنے میں پینڈے کا تیل بھی یہ گیا تھا.گویا اس نے دونوں طرف کا تیل ضائع کر دیا.پس یہی حال اس شخص کا ہے.جو اپنے اخلاق کو نہیں دیکھتا.وہ محض اپنے حج یا زکوۃ یا نماز کو دیکھتا ہے.حالانکہ اخلاق کے بغیر کوئی چیز نہیں اور اگر غور کیا جائے یہ عبادتیں بھی قشر ہی ہوتی ہیں.روحانیت وہ تعلق ہے.جو خدا اور بندے میں ہوتا ہے.لیکن عبادتوں کے لئے بھی ایک قشر ہوتا ہے جو اخلاق ہے.میں کہنا تو اور بھی چاہتا تھا.مگر آواز نہیں چلتی.اس لئے ختم کرتا ہوں خدا تعالی توفیق دے کہ آپ لوگ روحانیت پیدا کریں اور اخلاق درست کریں.کیونکہ اخلاق کی درستی سے روحانیت کا قیام ہے.الفضل ۱۲ مئی ۱۹۲۱ء)

Page 62

۵۶ 14 قومی نصب العین کے لئے جدوجہد (فرموده ۳ / جون ۱۹۲۱ء) حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ : کو پچھلے دنوں حلق کی تکلیف کے باوجود ایک ضرورت کے موقعہ پر کسی قدر لمبی تقریر کرنے کی وجہ سے پھر گلے کی شکایت زیادہ ہو گئی ہے.اور چند دنوں سے بخار میں بھی زیادتی ہے.مگر چونکہ آج کا دن خصوصیت رکھتا ہے.اور یہ مبارک زمانہ اور مبارک مہینہ جو اس فضل کی یاد دلاتا ہے.جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعہ ہم تک پہنچا.ختم ہونے والا ہے.اور ایک لمبے عرصہ کے لئے پھر ان خاص گھڑیوں کی انتظار ان لوگوں کو کرنی پڑے گی جو زندہ رہیں گے.اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ بعض باتیں سناؤں.دنیا میں انسان ٹھوکریں بھی کھاتے ہیں.غلطیاں بھی کرتے ہیں اور کسی پیشہ اور فن کے لوگ نہیں جو غلطیاں نہ کرتے ہوں.مگر باوجود اس کے ان کے کام کی قدر گر نہیں جاتی.کوشش ضائع نہیں ہوتی.طالب علم جو مدرسہ میں جاتا ہے.کتنی غلطیاں کرتا ہے.وہ پہلے دن ہی علوم کا استاد نہیں ہو جاتا بلکہ پہلے دن تو اس کے منہ سے لفظ بھی صحیح نہیں نکلتے.بہت بچے ہوتے ہیں.جو الف کو الف یا الف الیھ یا کچھ اور کہتے ہیں.اور کبھی لام کا تلفظ یا ف کا تلفظ ادا نہیں کر سکتے.اور ش، ع ، ق کا ادا کرنا تو بڑی بات ہے.ان بچوں کا ابتداء میں ٹھوکریں کھانا استاد کے لئے ٹھوکر کا موجب نہیں ہوتا.کبھی تجربہ کار استاد بچے کے غلطی کرنے سے چڑتا نہیں.ناواقف شخص کو غصہ آئے گا.حتی کہ ماں باپ ناراض ہوں گے.لیکن استاد کو غصہ نہیں آئے گا.اس لئے کہ ماں باپ تعلیم کے فن سے ناواقف ہیں.مگر استاد واقف ہے.اور وہ جانتا ہے کہ کتنے ہی لوگ ہیں جو اس کے پاس آئے اور وہ ابتدا میں اس نئے طالب علم سے بھی زیادہ غلطیاں کرتے تھے.مگر آج یہ حالت ہے کہ وہ معلم ہیں.اور اس کے کان ان کی زبان سے اعلیٰ سے اعلیٰ لیکچر اور نکات سنتے ہیں.اس لئے وہ جانتا ہے کہ ابتداء میں بچے سے غلطیاں ہونا چڑنے اور غصہ ہونے کی بات نہیں.

Page 63

یہ ابتدائی حالت کا نقشہ ہے.اور اس سے بھی زیادہ ابتدائی حالت نطفہ کی ہوتی ہے.لیکن وہی ترقی کرتا کرتا آخر ،موسیٰ عیسی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن جاتا ہے.پس مشاہدہ نے بتایا کہ ابتدائی غلطی مایوسی کا موجب نہیں.میرا یہ مطلب نہیں کہ استاد ابتدائی غلطی کو پسند کرتا ہے.نہیں.مگر وہ اس سے ناامید نہیں ہوتا وہ اس غلطی کے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس شخص کو اپنے سے دور نہیں کرتا.وہ طالب علم کی غلطیاں دیکھتا ہے مگر یہ نہیں کہتا کہ یہ ناقابل ہے.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ آج کون بڑے سے بڑا عالم ہے.جس کی زبان ابتداء میں اسی طرح لغزش نہ کیا کرتی تھی.محض مگر ایک چیز ہے جو اس کے غصہ کو بھڑکاتی ہے.اور اس کو طالب علم سے نا امید کرتی ہے.جب وہ دیکھتا ہے کہ طالب علم کا مدعا کوئی نہیں خواہ ایسا طالب علم حروف کو اچھی طرح بھی ادا کرے.مگر اس کا حروف کو عمدگی سے ادا کرنا اس کو خوش نہیں کر سکتا.جبکہ اس کو معلوم ہے کہ طالب علم کی نیت پڑھنے کی نہیں.جب تک بچہ چھوٹا ہوتا ہے.اس وقت تک یہ کہا جا سکتا ہے کہ سنبھل جائے گا.مگر جب یہ نظر آئے کہ اس کے دل میں پڑھنے سے کوئی مقصد نہیں.اور وہ شغل ہے.جو یہ نہ ہوا تو کچھ اور سہی.تو پھر ایسا شاگرد استاد کی خوشی کا موجب نہیں ہو سکتا.اگر طالب علم کا کوئی مقصد ہے.تو پھر استاد تمام کمزوریوں سے قطع نظر کر کے اس پر محنت کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ایک دن یہ ضرور اپنے مقاصد کو پالے گا.مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں.کہ جوں جوں عمر میں بڑھتے ہیں پڑھتے اور لکھتے ہیں مگر ان کا مدعا کچھ نہیں.علم آنے کے باوجود اس کی بے قدری کرتے ہیں.ان سے استاد مایوس ہو جاتا ہے.خواہ ایسے لوگ بی.اے ایم.اے یا مولوی ہو جائیں.مگر ان کو کچھ فائدہ نہیں ہوتا.نہ دوسروں کو ان سے فائدہ پہنچ سکتا ہے.ان کی مثال اس پیا سے کی ہوتی ہے.جو اپنے پاس پانی رکھتا ہے.اور نہیں جانتا.کہ اس کو کیونکر استعمال کرے.اس کا علم سیکھنا بیہودہ ہوتا ہے.بعینہ یہی حال انسانوں کا ہوتا ہے مثلاً وہ بالغ ہوتے ہیں.اور دین کی طرف متوجہ ہوتے ہیں مگر اس کے اصل مدعا سے غافل ہوتے ہیں.جس طرح افراد ترقی کرتے ہیں.اسی طرح اقوام کی بھی ترقی ہوتی ہے.افراد غلطی کرتے ہیں.قوموں سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں.جس طرح افراد بچپن میں غلطیاں کرتے اور صحیح تلفظ ادا نہیں کر سکتے.اسی طرح قوموں کی ابتدا بھی ایسی ہی ہوتی ہے.ان کو سوچنے کو کہا جاتا ہے.ان کا دماغ اس کو سوچ نہیں سکتا.جس وقت ان کے احساسات کو بھڑکنے کے لئے کہا جائے وہ بھڑکتے نہیں اور جب ان کی شہوات کو سرد ہونا چاہیے.اس وقت سرد نہیں ہوتیں.جس طرح ابتداء میں بچہ الف کو اچھ یا کچھ اور کہتا ہے.لیکن آخر صحیح تلفظ ادا کرتا ہے.

Page 64

۵۸ یہی حال قوم کا ہوتا ہے.قوم بھی ابتدا میں غلطیاں کرتی ہے.اور سینکڑوں سال کے بعد مقصد کو پاتی ہے.مقصد ابتداء میں حاصل نہیں ہوا کرتا.بلکہ غلطیاں کرنے کے ساتھ مقصد آہستہ آہستہ قریب ہو تا جایا کرتا ہے.ابتداء میں ایک ایک صداقت سامنے آتی ہے.اور لوگ مانتے چلے جاتے ہیں.جیسے پیاسے کے سامنے ایک ایک قطرہ یا ایک ایک گھونٹ مگر آخر وہ صداقتیں ایک مجموعی صورت اختیار کر کے ایسی ہو جاتی ہیں.جیسے ایک ایک قطرہ جمع ہو کر ایک تالاب کی صورت اختیار کرتا ہے.جب صداقتیں مجموعی صورت اختیار کر لیتی ہیں.تو پھر قوم کے سامنے ایک مقصد اور مدعا ہوتا ہے.لیکن یہاں وسعت نظر کی ضرورت ہوتی ہے.اور اس سے کام لینے کا طریق بھی مختلف ہوتا ہے.جس طرح تھوڑے پانی اور تالاب کے پانی سے کام لینے میں فرق ہو گا.اس وقت وسعت نظر کے ساتھ بہت سی جزئیات سامنے آجاتی ہیں.اس وقت جو شخص کسی سلسلہ میں داخل ہوتا ہو.تو اپنی تمام ذمہ دارویوں کو سمجھ کر اور غور کر کے ہوتا ہے.اور جب سمجھ لیتا ہے تو پھر کوئی کمزوری اور کوئی غلطی اس کو اس راہ سے الگ نہیں کر سکتی.اس سے کمزوری سرزد ہوتی.غلطیاں ہوتیں.اور اس کے کام میں ستیاں ہوتی ہیں.مگر ان تمام نقصوں کے باوجود اس کا قدم آگے بڑھتا ہے وہ مدعا کو پاتا ہے اگر اس کا دینی مقصد ہے تو اس کو پاتا ہے اور اگر کوئی اور غرض ہے تو اس کو حاصل کرتا ہے.پس سب سے پہلا سوال یہ ہونا چاہیے اور ہے کہ ہمارے اس کام کا مدعا کیا ہے.اگر مدعا کو درمیان سے نکالا جائے تو تمام کام فضول ٹھرتے ہیں.جب مدعا کو سامنے رکھا جائے تو کوئی کمزوری غفلت، غلطی درمیان میں حائل نہیں ہو سکتی.لیکن جب کسی قوم کا کوئی مقصد یا مدعا نہ ہو تو وہ قوم تباہ ہوگی.دیکھو اسلام کی تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ آئی.اور دوبارہ حضرت مسیح موعود کے ذریعہ سمجھائی گئی.اس لئے غور کر کے مدعا سمجھنا چاہئیے.کیونکہ اس کو سمجھنے کے بعد کامیابی یا ناکامی کا سوال آتا ہے.اور جب مدعا معلوم ہو تو خواہ بظا ہر ناکامی ہو وہ کامیابی ہے.اور جب مدعا معلوم نہ ہو تو بظاہر کامیابی ناکامی ہے.ایک طبیب جسکی طب کا مدار ٹنکچروں پر نہیں.بلکہ وہ علاج جڑی بوٹی سے کرتا ہے.وہ جنگل میں جاتا ہے اس کا جنگل میں جانے کا ایک مقصد ہے.وہ کئی بوٹیوں کو توڑتا ہے اور ان کا تجربہ کرتا ہے کہ ان کے کیا اثرات ہیں.لیکن کئی کو توڑتا اور تجربہ کر کے چھوڑ دیتا ہے.اور جس بوٹی کی تلاش میں ہوتا ہے پھر لگ جاتا ہے.اس طرح گو اس کو ناکامی ہوتی ہے.مگر اس کی ناکامی ہی کامیابی ہوتی ہے.کیونکہ مثلاً اگر پہلے اس کے لئے سو دروازے تھے.تو اب 49 رہ گئے.اور پھر ایک اور کو

Page 65

۵۹ آزمایا تو ۹۸ رہ گئے تو اس کی ناکامی اس کی کامیابی ہے کہ وہ مقصد کے قریب ہو رہا ہے.نادان جس وقت اس کو نا کام کہہ رہا ہے.دراصل اس وقت وہ کامیابی کے قریب ہو رہا ہے.لیکن ایک شخص ہے کہ وہ جنگل میں پھرتا ہے.مگر اس کو تلاش کسی چیز کی نہیں.نہ اس کا کوئی خاص مقصد ہے.اگر اعلیٰ سے اعلیٰ چیزیں اس کے سامنے ہوں.تو وہ ان سے فائدہ نہیں اٹھائے گا کیونکہ اس کے پھرنے کا مقصد کچھ بھی نہیں.تو کامیابی ناکامی کا معیار وہ نہیں جو عام لوگ سمجھتے ہیں بلکہ کچھ اور ہے.عموماً لوگوں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے صداقتیں آتی ہیں اور انکو لیتے جاتے ہیں.لیکن مجموعہ پر انکی نظر نہیں ہوتی.حالانکہ اصل یہ ہے کہ مجموعہ پر نظر ہو اور پھر ایک مدعا معلوم ہونا چاہیئے.اور وہ مدعا ایک دن یا دو دن میں نہیں.نہ ایک نسل یا دو نسل میں حاصل ہو سکتا ہے.بلکہ نسل کے بعد نسل اور پھر نسل کے بعد نسل گذرتی ہے پھر کہیں کوئی قوم مقصد کو پا سکتی ہے.میں تمہیں ایک صداقت بتاتا ہوں جس کو سمجھنے والے سمجھیں گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جزئیات احکام اسلام پر اتنا اور ایسا عمل نہیں ہوا.جو بعد میں ہوا.حضرت عمر جیسا انسان حضرت ابو بکر کی خلافت میں نہیں.اپنی خلافت کے زمانے میں معمولی معمولی مسائل میں جھگڑتا ہے کہ یہ کیا مسئلہ ہے.پس بہت سے امور کی تکمیل آہستہ آہستہ ہوا کرتی ہے.اسی طرح جو مدعا ہوتے ہیں.ان کا پہچاننا قوم کا فرض ہوتا ہے.اور اس سے پھر ترقی ہوتی ہے.اور اسی لئے خدا تعالیٰ نے ماں باپ کے ذریعہ انسان کو پیدا کیا.ورنہ زمین سے یونسی آدمی پیدا ہو جاتے اس کی غرض یہ ہے.کہ ماں باپ سے امانت کے طور پر بچے سیکھتے ہیں.اور اسی قومی غرض کو سکھتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن توحید پھیلانا تھا.مگر یہ آپ کے زمانہ میں تکمیل کو نہیں پہنچا.مگر اب مسیح موعود کے زمانہ میں ہوا.ابو بکر و عمر و عثمان و علی رضوان علیهم اجمعین وغیرہ سب موحد تھے.مگر اس وقت زمانے میں توحید کی وہ رو نہیں چلی.جو آج چلی ہے.کہ ہر ایک ملک میں ہر ایک قوم جن کا شرک اوڑھنا بچھونا تھا.وہ بھی توحید کا اقرار کرتے اور شرک کو برا کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پہلے غلطی ہوئی.لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اور ہنسی اڑائیں اور آپ کی تکذیب کریں.مگر آپ جو توحید قائم کرنا چاہتے تھے.وہ آخر قائم ہوئی اور اس زمانہ میں آکر ہوئی.اگرچہ رسول کریم کے وقت میں توحید کا یہ دور دورہ نہ تھا.مگر کنجی آپ کے پاس تھی اور وہ آپ نے چلائی.وہ آخر اب اپنے عروج میں ہے کہ سب قومیں شرک سے بیزاری ظاہر کر رہی ہیں.اور ابھی اور ہوگی اور شرک دنیا سے مٹ جائے گا.ہمارا سلسلہ ان سچائیوں کے قائم کرنے کے لئے ہے.جو نبی کریم کے ذریعہ دنیا میں آئیں.اور

Page 66

۶۰ مسیح موعود نے ان کو دوبارہ زندہ کیا.اگر تم فردا فردا " متقی و پرہیز گار ہو تو یہ کوئی بڑی بات نہیں.بلکہ ضرورت یہ ہے کہ تم سب کو معلوم ہو کہ سلسلہ کے قیام کی کیا غرض ہے اور سلسلہ کا مقصد کیا ہے.اور پھر اس مقصد کو سامنے رکھنا چاہیے.اور وہ محض چند یا اکثر افراد کے کرنے کا کام نہیں.بلکہ ساری جماعت کا کام ہے.اور جماعت کے ہر ایک فرد کے ذہن میں وہ مقصد ہونا چاہئیے.اور اس کے لئے متفقہ کوشش ہونی چاہیے.اور ایسا ہو کہ جب ہم مریں تو ہماری نسلیں اسی کوشش میں لگی رہیں.کیونکہ جب تک کسی قوم کا متفقہ ایک مقصد نہ ہو اور وہ ہر ایک فرد قوم کو معلوم نہ ہو.اس وقت تک وہ قوم اس مقصد کو پا نہیں سکتی.دیکھو فوج کے ہر سپاہی کو معلوم ہوتا ہے کہ اس فوج کا کیا مقصد ہے.جس کا وہ سپاہی ہے.اور ہر ایک سپاہی اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کرتا ہے.میدان جنگ میں اگر فوج کا کرنل مرجائے تو میجر اس کی جگہ کمان کرلے گا.اور میجر مر جائے.تو کپتان کمان لے گا.اور اسی طرح ایک وقت سپاہی بھی کمان لے گا.اور وہی کام کرے گا وہی کچھ سوچے گا جو جرنیل یا کرنل کرتا اور سوچتا ہے.اور آخر وہ سب فوج کامیاب ہوتی ہے.کیونکہ سب کو اپنا مقصد معلوم ہے کہ ہم نے کس مورچے کو فتح کرتا ہے.یہ اصول ٹھیک نہیں کہ جو فلاں کرے گا وہ کریں گے.بلکہ مقصد سب کا ایک ہونا چاہیئے.اور اس کے حصول کے لئے ہر ایک ممکن کوشش سے کام لینا چاہئیے.پس سوچو کہ تمہارا کیا مقصد ہے.اور اس سلسلہ کی غرض اور مدعا کیا ہے.اگر تمہیں معلوم ہوگا.تو تمہارے قدم کسی خطرناک سے خطرناک مقام پر بھی نہیں ڈگمگائیں گے.اور کوئی روک تمہارے رستہ میں حائل نہ ہوگی.دیکھو جو شخص یونی سیر کرنے نکلے اس کو اگر آگے بڑھنے سے روک دیا جائے.تو وہ رک جائے گا.لیکن جس شخص نے مثلاً بٹالہ جاتا ہے.اگر اس کو سڑک پر چلنے سے روک دیں تو وہ واپس نہ آئے گا بلکہ ایک دوسرے رستہ پر پڑے گا.اور اگر اس سے روکا جائے گا تو پھر دوسرے کسی اور رستہ پر پڑے گا.حتی کہ وہ اپنے مقصد کو پالے گا.لیکن جب مقصد نہ ہو.تو فوراً ایک شخص اس راستہ کو چھوڑ سکتا ہے قرآن کریم اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود کے ذریعہ جو تعلیم ہمیں ملی.اور جو ہمارا مقصد ہمیں بتایا گیا ہے.اگر ہم نے اس کو سمجھ لیا ہے تو ہم کسی وجہ سے بھی اس کو حاصل کئے بغیر نہیں رک سکتے.اور اگر نہیں تو پھر اس رستہ پر قدم بھی نہیں رکھا جائے گا.یہ دن خاص ہیں اور اور ان میں خدا کا وعدہ ہے کہ دعائیں قبول ہوتی ہیں.ان سے فائدہ اٹھا کر خوب دعائیں کرنی چاہئیں.ہمیں جو مرحلہ طے کرنا ہے.اور جس مقصد کو ہم نے پانا ہے ہم نہیں کہہ سکتے.کہ وہ ہمیں کب حاصل ہوگا ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ سینکڑوں برسوں میں حاصل ہوگا یا ہزاروں میں یا لاکھوں برسوں میں یا کروڑوں اور اربوں میں ہو گا.لیکن وہ خواہ کبھی ہو.ہمیں اس

Page 67

کی خاطر جب تک ہم جیتے رہیں خود کوشش کرنی چاہئیے.جب ہم مر جائیں تو اپنی اولاد کو وصیت کر جائیں.اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا چلا جائے.اگر ہم نے مدعا کو سمجھ لیا ہو تو ہم کسی کے روکے سے رک نہیں سکتے.چیونٹیوں کو دیکھو ان کا مقصد یہ ہے کہ وہ گرمی کے موسم میں غلہ جمع کرتی ہیں.تو وہ نہیں رکیں گی.ایک جگہ سے بند کرو.دوسری جگہ سے نکل آئیں گی.لیکن سردی میں اگر کوئی چاہے تو ایک جگہ سے سوراخ بند کر کے اگر مہینوں کے بعد دیکھے گا تو بند ہی ہو گا.اسی طرح ہمیں آنحضرت کی آمد اور مسیح موعود کی بعثت کی غرض کو سمجھنا چاہئیے.جب ہم میں ہر ایک فرد سمجھ لے گا.تو پھر وہ اس مقصد کے حصول کے لئے تمام کوشش صرف کر دے گا.اگر پھر کمزوریاں اور غلطیاں سرزد بھی ہوں.تو کوئی پروا نہیں.اگر مقصد معلوم نہ ہو.تو پھر اس کے کام بے نتیجہ اور عبث ہوں گے.جس شخص کو مقصد معلوم ہو.اس کی مثال اس گیند کی نہیں ہوگی.جو یونہی زمین پر لڑھکتا ہے.بلکہ اس انسان کی ہے.جو ایک مقصد کے ماتحت حرکت کرتا ہے.وہ اگر گرتا ہے.تو پھر اٹھ کر چل پڑتا ہے.پس چاہیے.کہ مدعا کو سمجھا اور یاد رکھا جائے.خدا سے ان دنوں میں خاص دعا کرو.یہ خاص دن ہیں ان میں خدا کا وعدہ ہے کہ جو مانگے گا اس کو ملے گا ایسے ایام عوام کے لئے ہوتے ہیں.جو خدا کے پیارے اور محبوب ہوتے ہیں.ان کی دعا تو ہر وقت قبول ہوتی ہے.اور وہ جس وقت مانگتے ہیں.ان کو ملا کرتا ہے.ماں باپ اپنے بچے کے لئے وقت مقرر نہیں کیا کرتے.اپنا بچہ تو جب مانگے اس کو ملتا ہے.اور یہ غیر کے لئے ہوتا ہے کہ جب اس کو کہا جائے.کہ جو مانگو گے ملے گا.بچہ اور بیوی کے لئے ملاقات کا وقت مقرر نہیں کیا جاتا.غیر اگر ملنا چاہے تو اس کے لئے وقت مقرر کیا جاتا ہے.لیکن جو ایسا وقت ہو کہ عام کو اس میں اجازت ہو.تو جو پیارے اور محبوب ہوں وہ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اپنے تعلق میں ترقی کر سکتے ہیں.پس اس میں سب خدا کے حضور دعائیں کر سکتے ہیں.اور اپنی درخواستیں پیش کر سکتے ہیں.پس خدا سے دعائیں کریں.کہ اللہ تعالیٰ ہمیں وہ مقصد حاصل کرنے کی توفیق دے جو اس کا اسلام بھیجنے سے ہے اور جس کے لئے اس نے ہمیں پیدا کیا ہے.اللہ تعالٰی ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق دے.حضور جب دوسرے خطبے کے لئے کھڑے ہوئے.تو فرمایا کہ مجھے بہت دنوں سے خیال آتا ہے.اگر مجھے فرصت نہ ملے.تو کوئی دوسرا ذہن میں رکھے.کہ ایک چھوٹا سے ٹریکٹ لکھا جائے.جس میں یہ بتایا جائے کہ انسان کی پیدائش کا مقصد کیا ہے.اور احمدی کا فرض کیا ہے.لوگ نیکی کرتے ہیں اور اس کام کی طرف قدم اٹھاتے ہیں.مگر اس طرح نہیں.جس طرح ایک شخص ڈیوٹی ادا کرتا ہے.اگر کوئی شخص چور کو اتفاقا " پکڑتا ہے.تو اس کا پکڑنا محکمہ انسداد جرائم سے مستغنی

Page 68

۶۲ نہیں کر سکتا.یا کوئی شخص کہیں گر جائے.اور اس کا ہاتھ ٹوٹ جائے.دوسرا شخص اتفاقا " وہاں سے گذرے اور پٹی باندھ دے.تو اس کا ہاتھ باندھنا ڈاکٹر سے مستغنی نہیں کر سکتا.یہ تو وہ لوگ ہیں.جن کے سامنے ایک کام آگیا.اور انہوں نے کر لیا.لیکن جس نے اپنی زندگی کا ایک مقصد ٹھہرایا ہو.وہ کبھی اس سے غافل نہیں ہو سکتا.اور پہلا شخص اس کا قائم مقام نہیں کہلا سکتا.(الفضل ۱۳ / ۹ جون ۱۹۲۱ء)

Page 69

15 افریقہ میں دس ہزار احمدی (فرموده ۱۷ جون ۱۹۲۱ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.خطبہ جمعہ کے شروع کرنے سے پہلے ایک اور بات جو ضمنا" پیدا ہوئی ہے بتاتا ہوں کہ کئی کام جو انسان کر سکتا ہے مصلحت سے ترک کر دیتا ہے.ابھی ایک صاحب نے مصافحہ کرنا چاہا.ایک مصافحہ میں مجھے تکلیف نہیں مگر میں نے انکار کر دیا.اس کی وجہ یہ ہے کہ جنہوں نے مصافحہ نہ کرنے کے حکم کی فرمانبرداری کی وہ محروم نہ رہیں.اور دوسرے کامیاب نہ ہوں.میں نے پہلی دفعہ کل شام کھڑے ہو کر نماز پڑھائی ورنہ بیٹھ کر نماز پڑھتا تھا.لاہور میں ڈاکٹر نے تجویز کیا تھا کہ اپریشن کیا جائے مگر بوجہ کمزوری کے کسی اور وقت پر ملتوی کر دیا.مجھ سے زیادہ کھڑا نہیں ہوا جاتا.نماز کے بعد میں ممبر پر بیٹھوں گا احباب مصافحہ کرلیں.اس کے بعد میں مختصرا" بعض باتیں کہتا ہوں.شائد میری حالت کے لحاظ سے مناسب ہو تا کہ کوئی اور دوست خطبہ پڑھائیں.لیکن چونکہ پہلے بھی ایک خطبہ رہ چکا ہے اور اب ڈاکٹر کے مشورہ سے مجھے باہر جاتا ہے.اس لئے خود بیان کرتا ہوں.پہلی بات یہ ہے.کہ دنیا میں باتوں سے کام نہیں ہوتے.بلکہ کام کام کرنے سے اور مستقل کام اور بار بار کی توجہ سے کامیابی ہوتی ہے.تم اپنے نفس کو دیکھو اور اپنی روح کی حالت پر غور کرو.کہ تم میں کتنا اخلاص اور کس قدر قربانی کا جوش ہے اگر ہے تو آگے بڑھنے کے لئے کس قدر کھلا رستہ ہے.اور اس کے لئے کتنی تڑپ ہے.جب تک یہ بات ہر فرد کے دل میں شیخ کی طرح نہ گڑ جائے گی.اور ہر ایک شخص یہ محسوس نہیں کرے گا.کہ تمام اسلامی ترقیات کا مظہروہی ہے تب تک کبھی وہ مقصد حاصل نہیں کر سکتا جس کے لئے ہماری جماعت پیدا ہوئی ہے.دوسری نصیحت میری یہ ہے.کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے لوگوں کو اس سلسلہ میں جوق در جوق لا رہا ہے.مگر ان کے آنے سے ہماری ذمہ داریاں بڑھ رہی ہیں.کسی مدرسہ کو اس بات پر خوش

Page 70

۶۴ ہونے کا حق نہیں کہ اس میں ہزار طالب علم آیا مگر وہ اس کی تعلیم کا انتظام نہ کر سکا اسی طرح اگر ہمارے سلسلہ میں لاکھوں اور کروڑوں لوگ داخل ہوں لیکن ہم ان کی تربیت نہ کر سکیں اور ان کی اسلامی تعلیم کے مطابق تعلیم و تربیت نہ کر سکیں اور انہیں اسلامی اخلاق نہ سکھا سکیں تو ان کا آنا فضول اور ہمارا خوش ہونا فضول ہو گا.اس حال میں ہمارے فخر کی مثال ایسی ہوگی.کہ گھر میں مہمان آئیں.لیکن ان کو کھانا کھلانے کا سامان نہ ہو رشتہ داروں کا آنا خوشی کی بات ہے.مگر یہ شرم اور رونے کا مقام ہوتا ہے کہ ان کو کھانا نہ کھلایا جا سکے.بعینہ اس سلسلہ کی مثال بھی یہی ہے کہ لوگ اس سلسلہ میں آئیں مگر ہم ان کے سامنے روحانی دستر خوان نہ بچھا سکیں.یا ان کے لئے وہ سلوک روا رکھیں جو دستر خوان پر بیٹھے ہوئے شخص جانوروں سے کرتے ہیں.کہ جو بچ گیا وہ ان کو ڈال دیا.اس کے لئے پہلی ضرورت ہے کہ اپنی تربیت کریں.اور دوسری یہ کہ مرکز کے قریب اصلاح کریں.مسیحت کی تباہی کا یہی باعث ہوا.کہ یوروشلم خالی تھا.مگر اناطولیہ اور روما وغیرہ علاقوں میں عیسائیت قائم ہو گئی اس کے مقابلہ میں اسلام کا عروج اس طرح ہوا.کہ مرکز پہلے مضبوط ہوا.جب لاکھوں عرب مسلمان ہو گئے.پھر دیگر علاقوں میں اسلام پھیلا.اگر ہماری حالت مسیحیت کے مشابہ ہوئی تو ہمارے لئے خطرہ ہے.اس لئے ضرورت ہے کہ مرکز کو مضبوط اور اس کے ارد گرد کے علاقہ میں اپنی اشاعت کریں.اس کے بعد ایک خوش خبری سناتا ہوں.جو آج ہی تار کے ذریعہ آتی ہے.ماسٹر عبدالرحیم صاحب دورہ کرتے ہوئے لیگوس کے علاقہ میں پہنچے.یہاں پہلے سے ایک سو کے قریب آدمی احمدی تھے.یہاں کے لوگ مختلف فرقوں میں منقسم تھے.اور ان میں احمدیت کی طرف توجہ پائی جاتی تھی.جماعت کے تعلقات کا بھی اثر تھا.ان کی خواہش تھی کہ وہاں احمدی مبلغ جائے.یہاں کے دس ہزار آدمی سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں.جس کے متعلق ماسٹر صاحب کی طرف سے آج تار موصول ہوا ہے.یہ خوشی کی بات ہے.ہم اس سے خوش ہیں.اور جیسا کہ قرآن کریم نے سکھایا ہے.کہ فسبح بحمد ربك (النصر : (۴) ہم اللہ کی تسبیح کرتے ہیں.یہ اللہ کی مہربانی اور خاص فضل ہے.جو وہ ہماری کوشش کے بغیر کر رہا ہے.لیکن اس سے ہمارے فرائض میں زیادتی ہو گئی ہے.ہمارا فرض ہے.کہ ان کی تعلیم و تربیت کریں.ورنہ جس طرح وہ لوگ وحشی کہلاتے تھے.اب احمدی وحشی کہلائیں گے.لاکھوں انسان سلسلہ میں داخل ہونگے.لیکن ان کی تربیت کے لئے بھی لاکھوں مبلغوں کی ضرورت ہے.اس پر توجہ کرو.اور سستی ترک کرو.اور اپنے ارد گرد کے علاقوں کو فتح کرنے کی پوری کوشش کرو.اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو.جب نماز ختم ہو چکی تو حضور نے اعلان فرمایا.کہ منشی تاج الدین صاحب لاہور جو حضرت

Page 71

صاحب کے نہایت مخلص دوست تھے.ان کا انتقال ہو گیا ہے.ان کا جنازہ ہو گا.جب ایک مخص نے صرف ان لفظوں میں اعلان فرمایا.کہ "جنازہ ہو گا " تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ ”میں نے تو اتنا بڑا فقرہ کہا تھا".پھر پورا اعلان ہوا اس اعلان کے بعد فرمایا.کہ وہ حضرت صاحب کے دعویٰ سے پہلے حضرت صاحب کے ملنے والے تھے.الفضل ۲۳ جون ۱۹۲۱ء)

Page 72

۶۶ 16 احمدیت ہر طرف پھیل رہی ہے (فرموده ۲۴ ؍ جون ۱۹۲۱ء) حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.قرآن شریف ایک ایسی بے نظیر اور اعلیٰ درجہ کی کتاب ہے کہ اس کا کوئی لفظ اور کوئی شعشہ حکمت سے خالی نہیں.بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ فلاں لفظ قرآن کریم میں قافیہ یا وزن کے لئے آیا ہے.لیکن یہ بات غلط ہے.قرآن کریم میں جہاں کوئی لفظ آتا ہے.وہاں ہی مناسب ہوتا ہے.یہ ممکن ہے کہ کسی شخص کی سمجھ میں نہ آئے.لیکن جس شخص کو سو میں سے ۹۵ یا ۶ یا ۹۷ باتیں علیٰ قدر مراتب سمجھ میں آجائیں یا جس کو خود سمجھ میں نہ آئے.بلکہ سمجھنے والوں کو جانتا ہوں.تو اس پر قیاس کرے کہ اگر میری سمجھ میں نہیں آیا تو میری غلطی ہے.آیات کے آخر میں جو لفظ آتے ہیں آیا وہ قافیہ کے لئے ہیں یا حکمت کے لئے.اس کا جواب اگر خود نہیں دے سکتا.تو وہ ان لوگوں کے علم کی بنا پر تسلی کر سکتا ہے جو اس بات کو جانتے ہیں.اگر کوئی شخص میں مقامات سے واقف ہے.تو وہ تمیں مقام کے واقف سے تسلی کر سکتا ہے.اور تمین کا واقف چالیس مقامات کے واقف سے اطمینان حاصل کر سکتا ہے.پس یہ حقیقت ہے کہ قرآن کریم میں قافیہ بندی نہیں بلکہ ہر لفظ اپنے اندر حکمت رکھتا ہے.دنیا میں بہت تمہیدیں ہوا کرتی ہیں.جن کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ان کے بعد لوگ اپنا مضمون بیان کیا کرتے ہیں.مگر آج یہی مناسب ہے کہ میں تمہید باندھوں.اور چھوڑوں.ہر شخص خود غور کرے اور اس علم کی بناء پر غور کرے جو اس کو خدا نے سورہ فاتحہ کے متعلق دیا ہے.اور ان قربانیوں کے لئے تیار ہو جائے.جن کے لئے مسیح موعود کے وقت میں بلایا گیا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ جو شخص سورہ فاتحہ پر یوں غور کرے گا کہ اگر قرآن میں کوئی لفظ قافیہ بندی کے لئے نہیں ہے تو کیوں ہے.اور اگر اس نکتہ کو مد نظر رکھ کر سورہ فاتحہ کو پڑھے گا تو آئندہ زمانے کے حالات کا اس پر انکشاف ہو گا.اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی کی طرف توجہ دلاتا ہوں.رسول

Page 73

کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک رؤیا ہے کہ آپ نے دجال اور مسیح کو کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا.بعض دفعہ صرف مسیح کو اور بعض دفعہ صرف حواریوں کو پھر یہ بھی دیکھا کہ دجال کا طواف خانہ کعبہ کے ارد گرد تھا اور مسیح کا اندرا میں سمجھتا ہوں کہ وہ یہی زمانہ ہے جس کا یہ نقشہ تھا.عجیب بات ہے کہ اس زمانہ میں یہ سوال پیدا ہوا کہ عیسائیت حجاز میں اپنا تصرف جمانا چاہتی ہے جو کہ اب تک عیسائیت کے قبضہ سے باہر تھا.لوگ کہتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ اس کو بہتر جانتا ہے کہ عیسائی مشنری اور حکومت اس علاقہ میں تصرف کرنا چاہتے ہیں یا نہیں.اگر چہ وہ لوگ منکر ہیں جن کی طرف منسوب کیا جاتا ہے مگر مسلمانوں میں یہی مشہور ہے.اور اس کے کسی قدر آثار بھی ہیں.لیکن خواہ یہ بات کچی ہو یا غلط.اتنی بات ضروری کچی ہے کہ حجاز کا ارد گرد عیسائیت کے اثر سے گھرا ہوا ہے.یمن.بصرہ.بغداد فلسطین وغیرہ کے علاقے غرض چاروں طرف سے کعبہ کا طواف عیسائیت کر رہی ہے.اس سے پہلے وہاں اس کا اتنا اثر نہ تھا.ابھی پچھلے دنوں ایک خط مکہ سے ملا ہے.جس سے اس پیشگوئی کا مقصد واضح ہوتا ہے.مولوی میر محمد سعید صاحب کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ وہ امسال حج کے لئے جائیں.ان کی مدت سے خواہش تھی کہ عرب میں تبلیغ ہو.اب وہ بڑھاپے کے باوجود وہاں گئے ہیں.وہ اپنے اس خط میں اطلاع دیتے ہیں کہ مکہ میں ۱۳ مخصوں نے بیعت کی ہے اور پچاس کے قریب بیعت کے لئے تیار ہیں.عرب میں احمدیت کی تبلیغ کا اس وقت شروع ہوتا جبکہ عیسائیت کے متعلق آثار میں ہے کہ وہ حجاز کا احاطہ کر لے گی.اور خدا کو چھوڑنے والے اور مسیح کے جھوٹے مسیحی قبضہ کرلیں گے.بتاتا ہے کہ اس وقت خدا تعالیٰ اپنے بچے صحیح کو وہاں قبضہ دے گا.اس مسیح کو جس کا آنا اسلام کی حفاظت کے لئے ضروری تھا.چونکہ ان دونوں باتوں نے ہونا تھا.اس لئے دکھایا گیا کہ ایک ہی وقت طواف کر رہے ہیں مگر ان دونوں کے طواف کرنے میں فرق ہے.مسیح دجال کا طواف باہر ہے اور مسیح کا اندر.اس لئے کہ جب وہ چکر لگاتا لگاتا اس کے اندر دیکھے تو اس کو نظر آئے کہ گھر محفوظ ہے.یہ بات یقینی ہے کہ احمدیت کے مقابلہ میں عیسائیت نہیں ٹھہر سکتی.آج تلوار سے نہیں دلائل سے مذہب چلتا ہے.غیر احمدی خواہ کتنے ہی کمزور ہوں مگر تھوڑی بہت حکومت ان کی ہے جس پر انہیں ناز ہے.مگر ہمارے پاس کوئی بڑی حکومت تو کیا ایک ریاست بھی نہیں.باوجود اس کے عیسائیت کے پیرو خواہ کسی بڑی سے بڑی حکومت و بادشاہت اور پارلیمنٹ کے پادری ہوں.ہم کو ان پر فضیلت ہے کیونکہ قلوب کے فتح کرنے کے لئے جنگی بیڑے کی ضرورت نہیں نہ اسکے لئے تو ہیں کام آسکتی ہیں نہ دماغ پر تصرف کرنے کے لئے جنگی رسالے کام آسکتے ہیں.یہ تو حق و صداقت ہے

Page 74

۶۸ جس کو دل اور دماغ پر قبضہ کرنے کی طاقت دی گئی ہے اور یہی چیز خدا کے فضل سے احمدیت کے پاس ہے.اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ عرب ابتدا ہی میں سہارے کا سارا احمدی ہو جائے گا نہیں بلکہ آہستہ آہستہ ترقی ہوگی.جب حضرت صاحب نے دعوی کیا تھا تو کس کو وہم تھا کہ اتنے بھی لوگ ساتھ ہو جائیں گے جتنے کہ اس وقت اس مسجد میں بیٹھے ہیں.حضرت صاحب کے وقت کے آخری سالانہ جلسہ میں اتنے آدمی ہونگے.جتنے اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہیں.حضرت صاحب اس دن سیر کو گئے اور واپس آگئے تو گھر میں فرمایا کہ اس دفعہ تو اس قدر لوگ آئے ہیں کہ میں ان کی وجہ سے آگے نہ جا سکا یہ مسجد چھوٹی تھی بازو کا حصہ باہر تھا.جو اب شامل کیا گیا ہے.لیکچر میں میں نے دیکھا کہ اس سے زیادہ آدمی نہ تھے.لیکن اب یہ حالت ہے کہ معمولی جمعوں میں یہ مسجد پر ہو جاتی ہے.پس اس وقت عرب میں احمدیت بیج کی صورت میں ہے جو آہستہ آہستہ درخت ہوگا اور پھر اس سے اور بہت سے درخت پیدا ہونگے.بچپن سے میرا یہ خیال ہے جس کا میں نے دوستوں سے بارہا ذکر کیا ہے کہ میرے نزدیک احمدیت کے پھیلنے کے لئے اگر کوئی بڑا مضبوط قلعہ ہے تو مکہ مکرمہ ہے اور دوسرے درجہ پر پورٹ سعید.اگر کوئی شخص وہاں چلا جائے تو ساری دنیا میں احمدیت پہنچا سکتا ہے وہاں سے ہر ملک کا جہاز گزرتا ہے ٹریکٹ تقسیم کئے جائیں.اس طرح ایسے ایسے علاقوں میں حضرت صاحب کا نام پہنچ جائے جہاں ہم مدتوں نہیں پہنچ سکتے.مگر مکہ مکرمہ سب سے بڑا مقام ہے.وہاں کے لوگ ہمارے بہت کام آسکتے ہیں.بعض لوگ گھبراتے ہیں کہ یورپ کے مسلمان کام کے نہیں مگر میں ان کو کہتا ہوں کہ جب وہ لوگ پشتہا پشت سے ایک قسم کے خیالات میں پرورش پاتے رہے ہیں تو ان کی آہستہ آہستہ تربیت ہوگی.وہ حالات کو آہستگی سے بدل سکتے ہیں.مگر جو لوگ مسلمان ہیں وہ چند سال میں ہو سکتے ہیں.پس میرے نزدیک یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی پیشگوئی کا ظہور ہے کہ جب وہاں دجالی فتنہ کا خیال ہوا.اس وقت وہاں اللہ تعالی نے مسیح کے قدم کو جما دیا.اس کے بعد میں اپنے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ بیماری اور کمزوری صحت اور ڈاکٹروں کے مشورے کے ماتحت میں پہاڑ پر انشاء اللہ جاؤں گا.میں نے پہلے بھی سمجھایا تھا اب بھی سمجھاتا ہوں کہ اپنے اخلاق کو درست کرو.بات بات میں جھگڑے نہ پیدا کرو.ابھی معلوم ہوتا ہے کہ نفس ہے.اور خدا کا خانہ کم ہے.میں نے دیکھا ہے کہ خصوصیت سے فتنے اس وقت رونما ہوتے

Page 75

44 ہیں.جب میں باہر جاتا ہوں.اللہ تعالی بہتر جانتا ہے کہ یہ آسمانی رو کا نتیجہ ہے یا یہ کہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم پر اب کوئی نگرانی نہیں میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جب انہوں نے سلسلہ کو قبول کیا اور صداقت کے نشانوں کو دیکھا ہے.اور پھر ایک آدھ نشان نہیں.سینکڑوں نشانات کو دیکھا ہے اور پھر حضرت مسیح موعود کے وقت ہی میں نشان نہیں دیکھے.بلکہ آپ کے بعد سے اب تک دیکھ رہے ہیں.پھر وہ وقت کب آئے گا.جب اپنے اخلاق کو درست کریں گے.اپنے اخلاق کو درست کرنا ایمان کی ترقی کا پہلا قدم ہے.دوسرے قدم اس کے بعد ہیں.اخلاق کی درستی سے ایمان کا کوئی کم درجہ نہیں بے شک ایمان کے مدارج ہیں.اور ایمان گھٹتے گھٹتے اتنا تھوڑا ہو جاتا ہے کہ اس کو کفر کے نام سے موسوم کرتے ہیں.کیونکہ کفر میں ایمان کا ایک جزو ہوتا ہے.خالی کفر دنیا میں نہیں ہے.اگر ایسے کافر ہوتے کہ جن میں ایمان کا کوئی حصہ نہ ہوتا.تو دنیا پر آسمان سے یک لخت بجلی گرتی.اور اس کو تباہ کر دیتی.بد ترین کافر بھی ایمان کا ایک حصہ رکھتا ہے.ابو جہل، نمرود شداد فرعون وغیرہ بڑے کافر تھے.مگر ان میں بھی ایمان کا ایک حصہ تھا لیکن صرف ایمان کا ایک حصہ نجات نہیں دلا سکتا.بلکہ نجات کے لئے ایک خاص مقدار ایمان کی ضرورت ہے.پس جماعت کے لئے ضروری ہے کہ اخلاق میں ترقی کرے کہ اس سے اقل مقدار نجات کے لئے ایمان کی ہو ہی نہیں سکتی.اور ضروری ہے کہ اپنے فوائد کو قربان کریں.اگر اس درجہ سے انسان ایک خشخاش کے دانے کے برابر بھی ہٹ جائے.تو وہ ایمان کے درجے سے ہٹنے لگتا ہے.پس بڑی بات ابھی جانے دو.کم از کم اقل درجہ اپنے اندر پیدا کرو.اگر ذاتی فوائد کو قربان کرو گے تو دیکھو گے کہ خدا کی نصرت کیا کرے گی یہ نہ کہو کہ ہم خدا کی نصرت دیکھ رہے ہیں.نصرتیں دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک دوسروں کے طفیل.ایک اپنے ذریعہ.اب تک جو کچھ دیکھ رہے ہو یہ دوسروں کے طفیل سے ہے لیکن اگر تم کو وہ نصرتیں ملیں.جو تمہاری ذات کے باعث ہوں تو پھر تم قیاس کر سکتے ہو.کہ ان کی کیا شان ہوگئی مگر جب تم اپنی ذات کو اس قابل بناؤ گے تو پھر ذاتی نصرت ہی نہیں ملے گی.بلکہ ایک اور تیسری قسم کی نصرت حاصل ہوگی.جب جماعت کا اکثر حصہ ایسا ہو جائے گا تو پھر اور انعام ہونگے.وہ جماعت کا احسان ہو گا لیکن تیسری قسم کا فیضان جاری نہیں ہو سکتا.جب تک پہلے دو فیضان جاری نہ ہوں.اگر تم اخلاق کی درستی کرو گے اور اپنے حقوق کو دوسروں کے لئے چھوڑو گے تو دیکھو گے کہ خدا تعالیٰ کے خاص فیضان کس شان سے آتے ہیں.یہ مراحل دعا سے اور کوشش سے حاصل کرو اور دین کی خدمت میں لگے رہو.باہر والوں کے لئے نمونہ بنو.غریبوں سے پیار اور شفقت کرو.حاکم اپنے سے کسی کو کم نہ سمجھے.تمہاری حکومت طاقت سے نہیں.تم میں سے کون ہے جو یہ کہے کہ وہ اپنی طاقت سے حاکم ہو گیا ہے.بلکہ یہ خدا کا

Page 76

6.فضل ہے کہ اس نے ایک نظام قائم کیا اور بہت سی گردنیں تمہارے آگے جھکا دیں.یہ غلطی ہوگی.اگر کوئی سمجھے کہ اس کی طاقت یا حکمت سے اس کو حکومت مل گئی.افسروں کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو خادم سمجھیں اور محبت و پیار کا سلوک کریں.افسر یاد رکھیں کہ انکو حکومت یا افسری محض خدا کی طرف سے احسان کے طور پر ملی ہے.اور یہ تبھی تک قائم رہے گی جب تک کہ وہ جھکے رہیں گے.اسی طرح ما تحت یاد رکھیں کہ ان پر حکومت طاقت دنیاوی سے نہیں ہے بلکہ خدا تعالی نے اپنے فضل سے دی ہے اور خدا جن کو افسری دیتا ہے انکی مدد بھی کرتا ہے.جو انکے مقاصد میں روڑے اٹکاتے ہیں.خدا ان کو تباہ کر دیتا ہے.افسر خدا کا شکر کریں کہ انکی آواز کو بااثر بنایا مگر وہ اس کے باعث بے جانخر سے کام نہ لیں غریبوں کے لئے آزار کا موجب نہ ہوں کیونکہ افسری ان کی اسی لئے ہے کہ وہ اپنے دوسرے بھائیوں کی خدمت کریں اور جو کسی کے ماتحت کام کرتا ہے وہ نہایت تن دہی اور فرمانبرداری سے کام کرے.یہ سلسلہ روحانی ہے.جس کی حکومت جبر سے نہیں.سیاست کے پاس تلوار ظاہری ہوتی ہے.مگر اس کے پاس خدا کی تلوار ہے.پس دونوں خدا کا احسان ہے.میں دونوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ امن سے رہیں.شروفساد کی راہوں سے بچیں.جو لوگ خدا کے لئے اپنے آپ کو گرائیں گے انکو جو عزت ملے گی وہ ہمیشہ رہنے والی ہوگی جس کو کوئی نہیں لے سکے گا.اللہ تعالی آپ پر رحم کرے.آپ کو اپنا مخلص بندہ بنائے.اور آپ کا انجام بخیر کرے.(الفضل ۱۳؍ جولائی ۱۹۲۱ء) ا مشکوة کتاب الفتن باب العلامات بین یدی الساعته وذکر الدجال

Page 77

3 17 اپنی پیدائش کی غرض کو مد نظر رکھو فرموده ۸ ر جولائی ۱۹۲۱ء بمقام سری نگر) تشهد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.انسان کی پیدائش کی غرض اور اس کو دنیا میں بھیجنے کا مدعا ایسا اہم اور ضروری ہے کہ تمام انسانی کوششیں اس کے گرد چکر لگا رہی ہیں.انسان کے خیالات کا اثر اس کے اعمال پر بہت پڑتا ہے.بہت کم لوگ ہیں جو سمجھ سکیں کہ خیالات کا اثر اس کے اعمال پر بہت پڑتا ہے.یہی وجہ ہے کہ عقائد پر بڑا زور دیا گیا ہے.بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ باوجود نیک اعمال کے عقائد پر کیوں اتنا زور دیا جاتا ہے.انسان کی فطرت اور بناوٹ پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ عقل مند اور پاگل میں فرق دراصل خیالات کا ہی ہوتا ہے.شدید پاگلوں کو چھوڑ کر معمولی پاگلوں کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ اسی طرح کھاتے پیتے اور رشتہ داروں سے میل ملاپ کرتے ہیں جس طرح دوسرے لوگ.مگر خیالات میں بڑا فرق ہو گا.تو خیالات کے اختلاف سے ہی تمام قسم کے فرق پیدا ہو جاتے ہیں.ہمیشہ پہلے خیالات پیدا ہوتے ہیں پھر اعمال انکے مطابق ہوتے ہیں.خیالات ہی کی بنا پر دنیا میں ترقی ہو رہی ہے.اور یورپ کی ترقی بھی خیالات کی بنا پر ہی ہے.ایک بچہ تمام دن کھیلتا اور بازارں میں گشت لگاتا پھرتا ہے.اور ایک تاجر بھی گشت لگاتا ہے.مگر تاجر بہت کچھ کما لیتا ہے.اور بچہ یونسی پھرتا ہے.خیالات کی اہمیت کو لغو خیال کرنا جہالت ہے.دینی طور پر بھی دیکھ لو.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی خیال ہی تھا کہ خدا ایک ہے.اس خیال کو آپ نے تمام دنیا میں قائم کیا ہے.آپ کے زمانہ میں تمام اقوام نصاری.یہود.زرتشتی و غیره مشرک تھے.وہ لوگ دریاؤں پہاڑوں کو اپنا حاکم سمجھتے تھے.محکوم نہیں خیال کرتے تھے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال قائم کیا کہ خدا تعالیٰ ایک ہے اور تمام (Nature) نیچر کی اشیاء انسان کے ماتحت اور اس کے لئے مسخر کی گئی ہیں.اسی خیال کا اثر ہے کہ تمام اقوام اب اپنے آپ کو شرک سے بعید سمجھنے لگ گئی ہیں.یورپ کی ترقی صلیبی جنگوں کے بعد ہی ہوئی ہے کیونکہ اس وقت کے

Page 78

۷۲ بعد مسلمانوں کے ساتھ ملنے جلنے سے انکو معلوم ہوا کہ شرک ایسا لغو خیال ہے.اور پھر اس سے انکا دل متنفر ہو گیا اور وہ ترقی کرنے لگ گئے اصل راز اور جڑان کی ترقی کی یہی تھی.خیالات کی درستی انسانی ترقی کے لئے از بس ضروری ہے.جب تک انسان کے خیالات پاک نہ ہوں.ترقی نہیں ہو سکتی.سورہ فاتحہ اور دیگر مقامات قرآن مجید سے یہی ثابت ہوتا ہے.انسان کی پیدائش کی غرض صرف ایک ہی ہے کہ بندہ خدا تعالیٰ کا فرمانبردار اور مطیع ہو جاوے.جو شخص ایک مقصد اور مدعا کے ماتحت کام کرتا ہے وہی کامیاب ہوتا ہے.اور جو یہ نہیں سمجھتا کہ خدا تعالیٰ نے اس کو کیوں پیدا کیا ہے.وہ ہر ایک لالچ میں پھنس کر اس کے پیچھے پڑ جاوے گا.دوسروں کو اچھا کھاتے اور اچھا لباس پہنتے دیکھ کر وہ انہی کے پیچھے لگ جاوے گا.اور اس کی مثال اس ہر دل عزیز آدمی کی طرح ہوگی جو ہر ایک کی مدد کرنے کو تیار ہو جاتا تھا.ہر ایک مفید کام کی ضرور غرض و غایت بھی ہوتی ہے.انسان تب ہی کسی غرض کو پورا کر سکتا ہے جب وہ سمجھ لے کہ وہ اسی غرض کے لئے پیدا کیا گیا ہے.خدا تعالٰی نے انسان کی پیدائش کی یہ غرض بتائی ہے ما خلقت الجن والانس الا ليعبدون (الذاریات : ۵۷) لوگوں کے اعمال کی خرابی کی جڑ یہی ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ کیوں ان کو خدا نے پیدا کیا ہے.خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے سے انسان اس جگہ پہنچ جاتا ہے.جہاں خدا تعالی کی جلوہ گاہ ہے.دوست اور بھائی تو الگ بھی رہ سکتے ہیں.مگر غلام ہمیشہ اپنے آقا کے ساتھ ہی رہتا ہے.ان میں فرق نہیں ہوتا.خدا تعالی کا مقام وہ مقام ہے جہاں ہلاکت کا کوئی خدشہ نہیں.اور یہ بندہ کو وفات کے بعد ملتا ہے.اس کا نام جنت ہے.اس جگہ انسان کا علم کامل اور معرفت درست ہو جاتی ہے.جنت خدا کا گھر ہے.بندہ رہتا تو بندہ ہی ہے.مگر وہ الوہیت کی چادر میں لپیٹا جاتا ہے.انسان کو دنیا میں اس غرض کے لئے بھیجا گیا ہے.کہ وہ روکوں کو دور کر کے خدا کا قرب حاصل کرے کیونکہ کوئی انعام کا مستحق تب ہی ہو سکتا ہے.جب وہ مشکلات اور محنت کے بعد کسی چیز کو حاصل کرتا ہے.چونکہ خدا تعالیٰ کا قرب اور معرفت سب سے بڑا انعام ہے اس لئے یہ بڑی رکاوٹوں اور مصائب کے بعد ہی مل سکتا ہے.انسان کے ساتھ شہوات اور دیگر رکاوٹیں ہمیشہ لگی رہتی ہیں.یوں تو میری مخاطب ساری جماعت ہے.مگر خاص طور پر یہاں کی جماعت کو مخاطب کرتا ہوں.یہ علاقہ اپنے اندر خاص خصوصیت رکھتا ہے.تمام دنیا کے لوگ یہاں سیر کے لئے آتے ہیں.بوجہ ان نعمتوں کے جو یہاں پیدا کی گئی ہیں.بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں.کہ نعمتوں کے ملنے پر وہ خدا تعالٰی کی طرف جھکتی ہیں اور بعض سزا سے جھکتی ہیں.پہلے گروہ کے لئے یہاں بہت آسانی ہے.جو دوست یہاں رہتے ہیں.وہ اپنی زندگی کے مقاصد پر غورو فکر کر کے دیکھیں اور اپنے اعمال کی درستی کریں.بعض دفعہ تکلیف اور بعض دفعہ راحت بطور سزا آتی ہے.ہمارے دوستوں کو خاص طور پر

Page 79

سمجھنا چاہیے کہ پیدائش کی غرض و غایت قرب الہی ہے.وہ کھاتے پیتے اور پہنتے وقت دیکھ لیں کہ آیا یہ اس غرض کے خلاف تو نہیں.یہاں لوگ شرک بکثرت کرتے ہیں.انہیں بندوں کا خوف بہت ہے اور خدا کا خوف نہیں.یہ شرک کی سزا ہے.اس کا علاج صرف یہی ہے.کہ وہ خدا کے بندے ہو جائیں.جو خدا کا ہو جاتا ہے اس کی ترقی اور اس کی راحت و آرام کا سامان خود خداتعالی مہیا کرتا ہے.دنیاوی اور دینی ترقی بھی اسی میں ہے کہ انسان خدا کا بندہ ہو جاوے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت مصائب آئے مگر ان سے آپ پر کبھی خوف طاری نہیں ہوا.آپ کو جنگ احد کے وقت کفار نے پکارا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کہاں ہے؟ آپ نے صحابہ کو جواب دینے سے منع فرمایا.پھر کفار نے ابو بکر و عمر کو پکارا.اور آپ نے خاموشی کا ہی حکم دیا.مگر جب کفار نے پکارا اعل هبل اعل هبل تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت جوش میں آئی اور آپ نے فرمایا کہ کیوں نہیں جواب دیتے الله اعلى واجل اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم نے کبھی اپنی ذاتی اور اپنی جماعت کی عزت کو مد نظر نہیں رکھا.بلکہ آپ کے مد نظر ہمیشہ اللہ تعالٰی کے نام کی عزت رہی ہے.مومن مشکلات اور مصائب کے وقت زیادہ بہادر اور دلیر ہو جاتا ہے.کیونکہ جو خدا کا ہو جاتا ہے.وہ کبھی ہلاک نہیں ہوتا.اگر اس پر مصیبتیں اور تکلیفیں دوسروں سے زیادہ آئیں تو بھی وہ سلامت رہتا ہے.اور آگے سے بھی بڑھ کر اپنے فرض کو ادا کرتا ہے.ہر ایک کام کرتے وقت اس بات کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ یہ کام اس مقصد کے خلاف اور اس سے دور لے جانے والا تو نہیں جس کے لئے ہم پیدا کئے گئے ہیں.یہی خدا تعالیٰ کا قرب اور اس کی معرفت حاصل کرنے کا راز اور گر ہے.الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۲۱ء)

Page 80

18 صفائی نیت سے السلام علیکم کہو فرموده ۱۵ / جولائی ۱۹۲۱ء بمقام سری نگر) تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.میں نے پچھلے جمعہ بیان کیا تھا.کہ نیتوں کا اعمال پر بڑا اثر ہوتا ہے.اس بات کے واضح کرنے کے لئے میں ایک ایسی مثال بیان کرتا ہوں جو ہر ایک مسلمان کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.اور اس ملک میں خصوصاً بہت رائج ہے.نبی کریم فرماتے ہیں کہ افشاء سلام آپس کی محبت اور تعلق کو بڑھاتا ہے...اس کی اہمیت پر آپ نے بہت زور دیا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کے دلوں میں اس مسئلہ کی خاص عظمت گرگئی تھی.بعض بازار میں صرف اس غرض سے جاتے تھے.کہ ایک دوسرے کو السلام علیکم کہیں.ایک دفعہ ایک صحابی نے دوسرے کو کہا چلو بازار چلیں.اس نے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا لوگوں کو ہم سلام کریں گے اور وہ ہم کو.۲.وہ لوگ اس کی غرض اور حقیقت کو خوب سمجھتے تھے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول کہ سلام آپس کی محبت اور پیار بڑھاتا ہے.اور فتنوں کو دور کرتا ہے.یونہی نہیں تھا السلام علیکم وہ سلامتی ہے جس کا خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے اور جو ملا کہ چاروں طرف سے جنتیوں کو دیں گے.اس سے اسی سلامتی کی طرف اشارہ ہے.مومن جب فوت ہوتا ہے.تو اس پر سلامتی کے دروازے چاروں طرف سے کھل جاتے ہیں.یوں تو بیماری سے بچنا بھی سلامتی ہے مگر کامل سلامتی موت کے بعد ہی ہوتی ہے.دنیا میں کامل سلامتی کبھی نہیں مل سکتی.یہاں جتنی راحتیں اور آرام ہوتے ہیں وہ تمام دکھ کے ساتھ ملوث ہیں مگر مرنے کے بعد جو سلامتی مومن کو حاصل ہوتی ہے وہ کامل ہے.جنت میں مومن کو اس کی خواہشات سے بڑھ چڑھ کر ملتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.کہ سب سے نچلے درجے کے مومن کو خدائے تعالی فرمائے گا.کہ مانگ جو مانگتا ہے.تو وہ مانگے گا.پھر حکم ہوگا کہ اور مانگ.آخر کار وہ مانگنے سے قاصر ہو جائے گا.یعنی اسے معلوم نہ ہو گا کہ کیا مانگے.پھر خدا تعالیٰ خود اس کو بہت سی نعمتیں عطا فرما دے گا.۳.

Page 81

السلام.السلام علیکم کے معنی ہیں کہ خدا تعالی تجھے موت کے بعد اپنی تمام نعمتیں اور ہر قسم کی راحتیں عطا فرما دے.اکثر لوگ السلام علیکم کہتے ہیں مگر اس کے معنی نہیں سمجھتے.بعض لوگ ظاہر میں تو علیکم کہتے ہیں مگر دل میں ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ اس کا بیڑا غرق کرے.یہاں کشمیر کے لوگوں میں سلام کا بہت رواج ہے.یہاں تک کہ عورتیں بھی بکثرت السلام علیکم کہتی ہیں.اس کی اشاعت یہاں دیگر ممالک سے کہیں بڑھ کر ہے.مگر کیا سلامتی اور آپس میں محبت و پیار زیادہ ہے نہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اصدق الناس تھے.آپ کی بتائی ہوئی بات بھلا کس طرح غلط ہو سکتی ہے.آپ کا مرتبہ تو وہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.ان کنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله (آل عمران : (۳۲) اگر تم خدا کے عاشق بننا چاہتے ہو تو میری پیروی کرو.پھر تم خدا کے نہ صرف عاشق بلکہ معشوق بھی ہو جاؤ گے.سو جو کچھ بھی آپ نے فرمایا ہے سچ ہے پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ گو یہاں سلام کی اشاعت بہت ہے مگر تفرقہ بھی بہت ہے.اس بات کا جواب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے.انما الا عمال بالنيات ۴ ہر ایک کام کا معیار انسان کے ذہن میں ہوتا ہے.قرآن کریم میں اچھے کھانے کا ذکر ہے اس سے ہر ایک اپنے ملک کے معیار کے مطابق ایک اندازہ مقرر کر لیتا ہے.اچھا اور اعلیٰ ایک اندازہ پیدا کرا دیتا ہے.اعمال کا کمال وہ ہوتا ہے کہ ان سے وہ نتائج پیدا ہوں جو ان سے غرض تھی.جو شخص اس نیت سے گھر سے چلا تھا کہ میں نماز پڑھوں اور دوسرا جو لوگوں کو دیکھ کر کھڑا ہو جاوے اور نماز شروع کر دے ان دونوں کے اعمال میں بڑا فرق ہے.یہی بات عام کاموں میں بھی ہے.یہ بات طب نے بھی ثابت کر دی ہے.مثلاً کہتے ہیں کہ موٹا کرنے کے لئے ہر ایک عضو پر پانی پڑتے وقت آدمی خیال کرے کہ جوں جوں پانی پڑتا ہے.اس کو صحت ہوتی جاتی ہے.تو اس طرح اس کو واقعی فائدہ بھی ہو جاتا ہے سو نیتوں اور خیالات کا اثر انسان کے اعمال پر بہت پڑتا ہے ایک عام مثال بیان کرتا ہوں کہ قرآن کریم کی ہر سورۃ کے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے صرف سورۃ براءت کے پہلے نہیں مگر وہ بھی سورہ انفال کا حصہ ہے بسم اللہ میں خدا کے حضور دعا کی جاتی ہے کہ اس کام کو تیرے نام اور مدد سے شروع کرتا ہوں.اسی طرح یہ حکم کہ فانا قرات القرآن فاستعذ بالله من اليشطن الرجيم (النحل : (۹۹) کیوں دیا گیا ہے.نیکی کا کام کرتے وقت اعوذ کے کیا معنی.یہ اس لئے کہ انسان کی نیت کا اثر اچھا پڑے.جو لوگ اعوذ باللہ.بسم اللہ کے ساتھ قرآن مجید نہیں پڑھتے.جیسے پنڈت دیانند صاحب نے پڑھا تھا یا پادری وغیرہ پڑھتے ہیں.وہ اس کے برکات سے محروم رہتے ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں ابو جہل بھی جاتا تھا اور حضرت ابو بکر بھی.مگر دونوں نے جو فائدہ اٹھایا وہ عیاں ہے.ایک آدمی کا ایمان ہر آیت پر بڑھتا ہے.اور

Page 82

44 کڑوا دوسرے کا ہر ایک آیت پر بگڑتا ہے.اور اس کو اعتراض سوجھتے ہیں.ایک ہی پانی سے منگل کے ہو جاتا ہے اور بعض اور پھل شیریں.اعوذ سے انسان شیطان سے خدا تعالی کی پناہ میں آجاتا ہے.اور بسم اللہ میں خدا تعالیٰ سے مدد طلب کرتا ہے.سو ہمیشہ نیتوں کو پاک و صاف کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.تاکہ نیک نتائج پیدا ہوں.ا مشکوة کتاب الاداب باب السلام مشکوۃ کتاب الاداب باب السلام مشکوة كتاب الفتن باب الحوض و الشفاعة ۰۴ بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف كان بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۲۱ء)

Page 83

LL 19 الفاظ درود کی ترتیب میں حکمت فرموده ۲۲ / جولائی ۱۹۲۱ء گاند ھربل) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.عرفان کا لفظ جو ہمیشہ مذہب میں بولا جاتا ہے اس کے معنی پہچاننے کے ہیں.عرف پہچاننے کو کہتے ہیں.عرفان تبھی حاصل ہو سکتا ہے.جبکہ پہلے علم ہو.کیونکہ پہچاننا تب ہی ہو سکتا ہے جبکہ چیز کو پہلے دیکھا ہو.اور پھر دیکھتے ہی یاد آجائے کہ ہاں اس کو پہلے کبھی دیکھا ہے.اس لئے عرفان ہمیشہ علم کے بعد ہوتا ہے اس نکتہ کو نہ سمجھنے سے اکثر لوگ عرفان سے محروم رہے ہیں.نماز اور روزہ کی حقیقت بھی علم ہی کی وجہ سے پیدا ہو سکتی ہے.شریعت کے سب احکام دراصل آئندہ روحانی ترقیات کے ظل ہیں جو مومنوں کو ملتی ہیں.نماز میں مختلف حرکات روزہ رکھنا، زکوۃ دینا یہ باطنی مقامات کے نشان ہیں.جب انسان ظاہری فرمانبرداریوں کو پورا کر لیتا ہے.تو پھر خداتعالی کو بھی پہچان لیتا ہے.اس گر سے عام طور پر مسلمان ناواقف ہیں.ان کو ان احکام شرعیہ کی ماہیت اور حقیقت معلوم نہیں ہوتی اس لئے ان کو عرفان بھی نصیب نہیں ہوتا.وہ ادھر ادھر ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں.حالانکہ اگر بچے طور پر عبادت کی جائے تو پھر عرفان ضرور حاصل ہو جاتا ہے.قرآن کریم کے ہر ایک لفظ میں اتنی قیمتیں ہیں کہ ہر ایک آدمی ان تک نہیں پہنچ سکتا.آج ایک موٹی سی بات بیان کرتا ہوں.اس کا دوسرا حصہ پھر انشاء اللہ کبھی موقع ہوا تو بیان کروں گا.درود شریف سب مسلمان پڑھتے ہیں.مگر اس کا اصل مفہوم اکثر نہیں سمجھتے.ان کو معلوم نہیں کہ ان کے درود پڑھنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا فائدہ پہنچتا ہے.اور ان کے اپنے ایمان کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے.ایک بچہ روپے، ہیرے جواہر کی قدر نہیں کرے گا.مگر روٹی کے ٹکڑے کو منہ میں ڈال لے گا.اس وقت میں درود کے ظاہری الفاظ کو لیکر ان کی خوبی سناتا ہوں.درود میں صل پہلے رکھا ہے اور بارک بعد میں.مسلمانوں کو شاذ ہی خیال آیا ہوگا کہ صل پہلے کیوں اور بارک بعد میں کیوں ہے.اور اس ترتیب میں خوبی کیا ہے جو شخص غور کرے

Page 84

۷۸ گا.اور علم سے اس پر نگاہ ڈالے گا.اس پر اس کی حقیقت ظاہر ہو جاوے گی.عربی میں صلوۃ کے معنی دعا کے ہیں.اللهم صل کے معنی ہوئے اے اللہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعا کر.اب دعا دو قسم کی ہوتی ہے.ایک وہ شخص دعا کرتا ہے.جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا.وہ دوسرے سے التجا کرتا ہے.جیسے ماں باپ یا دوست سے مدد طلب کرنا اور دوسرے اس شخص کی دعا ہوتی ہے جس کا اپنا اختیار ہوتا ہے.اس کے معنی ہیں کہ وہ خود عطا کر دیتا ہے.خدا تعالی بادشاہ ہے.کبھی مانتا ہے کبھی نہیں.خدا تعالیٰ کی دعا کے معنی ہیں کہ وہ ہوا، پانی، زمین، پہاڑ غرضیکہ سب مخلوق کو کہتا ہے.کہ میرے بندے کی تائید کروپس اللهم صل کے یہ معنی ہوئے کہ اے اللہ تو ہر ایک نیکی اور بھلائی اپنے رسول کے لئے چاہ.ایک ہی دفعہ کا پڑھا ہوا درود اگر قبول ہو جاوے تو یہ یہ بہت بڑی کامیابی ہے.ورنہ انسان جو دعا خود تجویز کرے گا اس کی مثال ایسی ہوگی کہ کسی فقیر نے ایک ڈپٹی سے سوال کیا.اس نے اس کو روپیہ یا آٹھ آنے وئے.فقیر نے دعا دی کہ خدا تعالیٰ تجھے تھانے دار کرے.دراصل تو یہ بددعا تھی.مگر اس نے اپنی عقل سے یہی سمجھا.بندہ اپنی عقل سے جو چاہے گا وہ ضرور ناقص ہوگا.اس لئے بندہ خدا تعالیٰ سے کہتا ہے کہ تو چاہ کیونکہ تیرا علم کامل ہے.بارک برکہ سے نکلا ہے.اس کے معنی اکٹھا ہونا جمع ہونا ہیں.اسی لئے برکہ تالاب کو کہتے ہیں.جہاں پانی جمع ہوتا ہے.اللھم بارک کے معنی ہوئے اے اللہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اپنی رحمتیں، فضل اور انعامات جو تو نے ان پر کئے ہیں.ان کو اتنا بڑھا کہ سارے جہاں کی رحمتیں اور برکتیں ان پر اکٹھی ہو جاویں.صل بطور پیج کے ہے.اور بارک اس سے بڑھ کر ترقی ہے یہ ترتیب نہایت ہی اعلیٰ اور اتم ہے.اسی طرح قرآن کریم کی ترتیب بھی احسن و اکمل ہے ایسی باتوں پر غور کرنے سے انسان کو عرفان ملتا ہے جب انسان ایسی باتوں پر غور کرتا ہے.تو اس کا ایمان ترقی کرتا ہے دوسرے لوگوں کی مثال اندھوں کی طرح ہوتی ہے وہ پڑھتے ہیں اور سمجھتے نہیں.الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۲۱ء)

Page 85

44 20 اپنی زندگی کا ایک مقصد قرار دو فرموده ۲۹ ۱ جولائی ۱۹۲۱ء بمقام سری نگر) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.میں نے یہ بات ایک مدت سے بار بار اپنے خطبات میں بیان کی ہے کہ ہر ایک انسان کو اپنے زندگی کا ایک مقصد قرار دینا چاہئیے.بغیر اس کے کوئی شخص اپنے کاموں میں کامیاب نہیں ہو سکتا بیشک وہ اپنی کارروائیوں پر خوش ہو جائے گا.مگر اصل میں کوئی نتیجہ اس کے کام کا نہ ہوگا.اور اس کی مثال ایک مقصد کو مد نظر رکھ کر کام کرنے والے کے مقابلہ میں ایسی ہی ہوگی جیسے ایک شخص تو اراد تا کسی جگہ نیچے اترتا ہے مگر دوسرا پھسل کر جا پڑتا ہے.پہلے کا ایک مقصد تھا.اس میں وہ کامیاب ہو گیا مگر دوسرے کا پھل جانا کامیابی نہیں کہلا سکتا.ایسا ہی ایک وہ شخص ہے جو بستر میں دوسرے کی چادر غفلت سے باندھ لیتا ہے اور اپنے اور بیگانے کی تمیز نہیں کرتا.دوسرا اس ارادہ سے باندھتا ہے کہ میرے ہمراہی کا اسباب محفوظ ہو جاوے ضرورت کے وقت اول الذکر تو بڑی جدوجہد کے بعد اس چادر کو اتفاقا" بستر سے نکال لے گا.مگر دوسرا اس کو اپنی یاداشت کی بنا پر فوراً نکال لے گا.یہ ہر دو آدمی بلحاظ کام کے برابر نہیں ہو سکتے.گو وہ اپنے کام میں کامیاب نظر آتے ہیں مگر ایک کا کام قابل ملامت ہے.اور دوسرے کا قابل ستائش.ایسا ہی ایک وہ شخص ہے جو دریا میں تیرتے ہوئے اپنی مرضی کے مطابق کسی خاص جگہ کنارہ پر جا سکتا ہے.اور دوسرا گو پہنچ تو وہیں جاتا ہے مگر نہ تیر کر بلکہ رو میں بہ کر.ان دونوں میں بڑا فرق ہے.یہی فرق قرآن اور ان دوسری کتابوں میں ہے جو انسانوں کی تصنیف ہیں.قرآن پہلے دعوی کرتا ہے کہ وہ بے نظیر ہے.مگر شیکسپیئر اور حریری کی کتابیں یہ دعویٰ نہیں کرتیں.قرآن کی بیان کردہ باتوں کے مطابق واقعات ظہور پذیر ہوتے ہیں.مگر دوسری کتابیں واقعات کے ماتحت ہوتی ہیں.اور یہی دونوں باتیں ایک کو خدا کا کلام قرار دیتی ہیں دوسری کو انسان کا.قرآن نے شروع میں ہی دعویٰ کیا ہے کہ میں بے نظیر ہوں جیسا کہ فرماتا ہے ان کنتم في ريب

Page 86

۸۰ مما نزلنا على عبدنا فاتوا بسورة من مثله وادعوا شهداء كم من دون الله ان كنتم صادقين (البقرہ : (۲۴) مگر یہ کوئی نہ دکھلائے گا کہ شیکسپیئر اور حریری نے اپنی کتابوں کے شائع ہونے سے پہلے ان کو بے نظیر قرار دیا ہے بلکہ کچھ مدت گذرنے کے بعد لوگوں نے ان کو بے نظیر قرار دیا ہے.حریری نے تو اپنی کتاب کے دیباچہ میں ہی معذرت کی ہے.کہ میں اس کام کے لائق نہیں بلکہ بدیع الزمان کی اقتدا میں یہ کتاب لکھتا ہوں اور اصل فضیلت بدیع کو ہی ہے جس کی طرز پر میں نے اپنی کتاب لکھی...مگر قرآن خود کہتا ہے کہ میں بے نظیر ہوں اس کے مقابل کی کتاب لاؤ.پس ایک مقصد و مدعا کو لیکر کام کرنے اور بے مقصد کام کرنے میں بڑا فرق ہے ایک کے لئے یہ کام عزت کا موجب ہوتا ہے دوسرے کے لئے ذلت کا.بے مقصد اور مدعا کام کرنے کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص دریا میں گر پڑتا ہے.اس کا پرلے کنارہ پر لگتا دریا کی لہروں کے رحم پر منحصر ہوتا ہے.جس جگہ چاہیں اسے پھینک دیں.اب اگر ایسا شخص حسن اتفاق سے ایسی جگہ جا لگتا ہے جہاں سے وہ آسانی سے باہر نکل سکے تو یہ اس کی کوئی بہادری نہیں ہوگی.وہ شخص جو مقصد قرار دیکر کام کرتا ہے اس کی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی خوبصورت معلوم دیتی ہیں.ورنہ بڑے بڑے کام بھی قابل تحسین نہیں ہوتے.بغیر مقصد قرار دینے کے کامیابی ناممکن ہے.ہو سکتا ہے کہ بغیر مقصد قرار دینے کے بھی کبھی کامیابی حاصل ہو جائے.مگر ایسی مثالیں شاذونادر کے طور پر ملیں گی.اکثر مقصد رکھنے والے ہی کامیاب ہونگے.قرآن نے شروع میں ہی انسان کا مقصد بتلا دیا ہے.پہلی سورت کہو.قرآن کا خلاصہ کہو.ام الکتاب کہو.یا سورۃ فاتحہ کہو.اس میں مقصد انسانی کو خوب واضح کر کے بیان کیا گیا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات بیان کرنے کے بعد فرماتا ہے اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم (الفاتحہ : ۶-۷) اے انسان تیری تمام سعی یہی ہونا چاہیے کہ ہدایت حاصل ہو جاوے اس سورت میں تو مقصد بتلایا ہے.اور انگلی سورت میں اس کے حصول کے طریقے اور ذرائع بیان کئے ہیں.مگر باوجود اس کے میں دیکھتا ہوں کہ لوگ سمجھتے نہیں اور بہت کم ہیں جو ان باتوں پر غور کرتے ہیں ان کے اکثر اعمال ایسے ہوتے ہیں جیسے دریا میں کوئی چیز پھینک دی اور وہ دریا کے رحم پر ہو کہ جہاں چاہے اسے پھینک دے پس اگر اس نے کسی کو احمدی بنا دیا ہے تو یہ اس کی خوبی نہیں ہے بہت کم ہیں جنہوں نے حضرت صاحب کو بعد دلائل اور بحث مانا ہو.بہتوں نے ماں باپ سے سن کر مانا ہے کئی ایک نے دوستوں کے ذریعہ سے بعض نے اس بات کو دیکھ کر کہ حضرت صاحب دوسرے مذہب کا خوب مقابلہ کرتے ہیں.بہت کم لوگ ہیں جنہوں نے مہدویت اور مسیحیت کے دعوئی کو سمجھ کر مانا ہو.جب خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے کسی کو باغ میں پہنچا دیا ہے تو اس کو بتائیں کہ فائدہ اٹھائے.اور اگر احمدی ہو کر مسائل طور پر

Page 87

Al کی تحقیقات کو جاری نہیں رکھتا تو نقصان سے محفوظ نہیں ہو سکتا نہ ہی مقصد کو پا سکتا ہے.مدعا ایک ہونا چاہیئے.اس کے نہ ہونے کے باعث چھوٹی چھوٹی باتیں مقصد نظر آتی ہیں.اور انسان بڑے بڑے اخلاق اور کامیابی سے سے محروم رہ جاتا ہے کبھی دولت روک ہو جاتی ہے کبھی عزت کبھی اور کوئی اپنا عمل جس میں وہ لذت حاصل کرتا ہے.اگر اصل مقصد اور مدعا سامنے ہو تو پھر کوئی بات رکاوٹ نہیں پیدا کر سکتی.(الفضل در گست ۱۹۲۱ء)...ا مقدمہ مقامات حریری

Page 88

۸۲ 21 مسلمان بننے کیلئے اسلام کے ہر ایک حکم پر عمل کرو (فرمود ۱۹ار اگست ۱۹۲۱ء بمقام ناسنور کشمیر) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.مسلمان ہر روز پانچ وقتوں میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے کہ اهدنا الصراط المستقيم صراط الذین انعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين (الفاتحه : ۶-۷) یعنی ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا راستہ جن پر تیرا انعام ہوا.پانچ وقتوں میں کم سے کم تھیں چالیس دفعہ یہ دعا کی جاتی ہے صبح سورج چڑھنے سے پہلے زوال کے بعد سورج ڈوبنے سے پہلے اور بعد اور سونے کے وقت اور علاوہ اس کے اور وقتوں میں بھی مثلاً رات کے پچھلے حصہ میں اور سورج نکلنے کے کچھ دیر بعد وہ سیدھا راستہ کیا ہے جس کے لئے مسلمان دعا مانگتا ہے کہ مجھے مل جائے اور مجھے اس پر چلایا جاوے یہاں قرآن کریم نے بیان تو فرمایا نہیں صرف الفاظ رکھ دئے ہیں کہ سیدھا راستہ دکھا اس لئے کسی خاص بات تک اس دعا کو محدود کر دینا درست نہیں.یہ کہہ دینا کہ اس سے فلاں بات مراد ہے یا فلاں غلط ہے.کیونکہ اگر کوئی خاص بات مراد ہوتی.تو قرآن کوئی قرینہ بتلا دیتا.یا بات بیان فرما دیتا.لیکن قرآن نے یہاں اشار تا " بھی نہیں بتایا.کہ کوئی خاص ہدایت مراد ہے.اور نہ کوئی قرینہ بیان کیا ہے.کہ جس سے کوئی حد بندی ہو سکے.عام الفاظ رکھے ہیں.پس عام معنی ہی لیتے ہیں کہ جس امر میں ہمیں سیدھا راستہ درکار ہو اسی امر میں سیدھا راستہ مل جائے.میں ایک اصل بیان کرتا ہوں جس سے یہ عام دعا قبول ہو جائے.اگرچہ ہر ایک دعا کی کیفیت کی حد بندی رکھی گئی ہے مختلف لوگ مختلف وقتوں میں جو دعائیں کرتے ہیں.خاص خاص درجوں کے ماتحت قبول ہوتی ہیں.یہ درجے کچھ اعمال کی وجہ سے ہوتے ہیں اور کچھ اخلاص کی وجہ سے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی دعا کی.اور آپ نبیوں کے سردار بن گئے.ایک طرف تو خدا تعالٰی کا وہ قرب ملا کہ آپ کو خدا سے جدا کرنا مشکل ہو گیا.دوسری طرف بندوں پر وہ فیوض جاری کئے کہ آپ کے متبعین تک نبیوں میں شامل ہو گئے یا

Page 89

۸۳ نبیوں جیسے ہو گئے.حضرت ابو بکر بھی دعا کرتے تھے.مگر خاتم النبین نہیں بنے.آپ کو اللہ تعالٰی نے صدیق کا درجہ عطا فرمایا.اور سرداری اور استاذکی امت کا درجہ ان کو ملا.اور ان کے ذریعہ اسلام کو دوبارہ قائم کیا گیا.مگر پھر بھی رسول کریم والا درجہ نہیں ملا.حضرت عمرہ بھی یہی دعا کرتے تھے.مگر انکو وہ درجہ نہیں ملا.جو صدیق کو ملا.حضرت عثمان بھی یہی دعا کرتے تھے کہ اھدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم الفاتحہ : ۷۶) مگر جو درجہ صدیق اور فاروق کو ملا تھا.وہ حضرت عثمان کو نہ ملا.حالانکہ وہ بھی یہی دعا پڑھتے تھے.بلکہ زیادہ دفعہ پڑھتے نسبت حضرت ابوبکر کے.جیسا کہ حدیثوں میں لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر کو نمازوں کی وجہ سے فضیلت نہیں بلکہ اس بات کی وجہ سے ہے.جو ان کے دل میں ہے.پھر حضرت علی بھی یہی دعا کرتے تھے.مگر ان کو وہ درجہ نصیب نہ ہوا.جو پہلوں کو ملا.پھر صحابہ میں سے عشرہ مبشرہ بھی یہی دعا پڑھتے تھے.زبیر - طلحہ سعید سعد - ابو عبیدہ وغیرہ ان میں بعض بعض سے بڑے اور بعض بعض سے چھوٹے تھے.مگر ابو بکر اور عمر کے درجے کو نہیں پہنچے.پھر اور صحابہ تھے.جو اسلام کی راہ میں شہید ہوئے.یا اسلام کی تعلیم کو لوگوں میں پھیلایا.یا روحانی مدارج کو حاصل کیا.یا قضا کا کام کیا وغیرہ مگر انکو وہ درجہ نہ ملا جو اول الذکر لوگوں کو ملا.پھر وہ لوگ بھی تھے.جو نمازیں بھی پڑھتے تھے.مگر منافق تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسے امام کی اقتدا میں نماز پڑھتے تھے.سوائے عشاء اور صبح کی نمازوں کے.ان کو کچھ بھی نہ ملا.ان کی نسبت فرمایا.في الدرك الأسفل من النار (النساء : ۱۴۶) آج مسلمان بھی یہی دعا پڑھتے ہیں.مسجدوں میں بھی جاتے ہیں.اور بڑے بڑے وظیفے پڑھتے چلے کاٹتے ہیں.نوافل پڑھتے ہیں مگر چہروں پر لعنت برس رہی ہے.ذلت میں بڑھتے چلے جاتے ہیں.پس دعا کے ساتھ معلوم ہوتا ہے اخلاص کا حصہ بھی ضروری ہے.دو آدمی ایک ہی کھانا کھاتے ہیں.ایک موٹا ہو جاتا ہے دوسرا دبلا ہی رہتا ہے.تو ہمیشہ لفظوں کو ہی نہیں دیکھا کرتے.بلکہ اس کے ساتھ اخلاص.ایمان اور اندرونی حالت کو بھی دیکھتے ہیں.جب پانی برستا ہے تو ایک درخت کڑواہٹ میں بڑھ جاتا ہے.دوسرا شیرینی میں تیسرا کھٹاس میں.حالانکہ ایک ہی پانی ہوتا ہے.سیب کا درخت جو کم میٹھا ہے وہ کم ہی میٹھا ہے.جو زیادہ میٹھا ہے.وہ اور زیادہ شیریں ہو جاتا ہے.حضرت ابو بکر نے اپنے کمال کے مطابق فائدہ اٹھایا.حضرت عمر نے اپنے اخلاص کے مطابق چونکہ حضرت ابو بکر والا اخلاص حضرت عمر میں نہ تھا.اگرچہ ان کا اخلاص بھی نہایت اعلیٰ تھا.اس لئے مدارج میں تفاوت ہوا.پس یہ دعا اهدنا الصراط المستقيم جو خدا تعالی نے سکھائی ہے.مختلف لوگوں نے مختلف نتائج اس سے حاصل کئے ہیں.اور اپنے اپنے مدارج کے ماتحت ہر انسان اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے.

Page 90

۸۴ میں اب وہ اصل بتاتا ہوں کہ جس سے ہر شخص اس دعا سے فائدہ اٹھا سکتا ہے.جتنے شریعت کے احکام ہیں.ان کا بڑا یا چھوٹا ہونا انسان کی اپنی حیثیت پر ہوتا ہے.اصل بات اسلام کی یہ ہے.کہ انسان اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہو.اسی لئے ہمارا نام مسلم رکھا گیا ہے.مصلی نہیں رکھا گیا نہ موحد.حالانکہ توحید سب سے بڑا عقیدہ اور صلوٰۃ سب سے بڑی عبادت ہے ہمارا نام حاجی بھی نہیں رکھا اور نہ خیراتی یا صدقہ دینے والا رکھا ہے.ہدایت پر چلنے والے کا نام مسلم رکھا ہے.اس لئے اهدنا الصراط المستقیم کے معنی ہیں ہم کو اسلام دے.یعنی فرمانبرداری کا راستہ.مگر یہ ملتا درجہ کے مطابق ہی ہے.ایک اسلام حضرت ابراہیم کا بھی تھا کہ جب ان کو ان کے رب نے کہا.اسلم تو انہوں نے کہا.اسلمت لرب العلمین (البقرة : ۱۳۲) اس کا نتیجہ نبوت تھا ایک اسلام وہ تھا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خاتم الانبیاء بن گئے.اب آپ کی شریعت قیامت تک چلے گی.ایک شعثہ بھی اس کا کوئی بدل نہیں سکتا.اور آپ کی اتباع کے بغیر اب کوئی کچھ حاصل نہیں کر سکتا.یہ درجہ آپ کو بھی فرمانبرداری سے ملا.ایسی فرمانبرداری کہ کسی انسان نے ویسی نہ کی تھی.ویسا ہی فیض بھی پہنچا.پس سیدھے راستہ کا نام اسلام ہے یعنی فرمانبرداری.اور جیسی جیسی فرمانبرداری ہوگی ویسے ویسے نتائج ہونگے.جس اخلاص کے ساتھ حضرت ابو بکر نے فرمانبرداری کی اس کے مطابق آپ صدیق تھے.پھر جس اخلاص کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمانبرداری کی اس کے مطابق آپ کو اللہ تعالیٰ نے امتی نبی کا درجہ دیا.سو اپنے اپنے اخلاص کے مطابق درجے ملتے ہیں.اخلاص عقائد میں بھی ہوتا ہے اور اعمال میں بھی.جتنی ترقی کوئی اس میں کرتا ہے.اتنی ہی ترقی مدارج میں ہوتی ہے.اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو ہریرہ کا ایک ہی تھا.فرق صرف اعلیٰ اور ادنی کا تھا.پس ایک ہی گر ترقی کا ہے اور وہ یہ کہ انسان پورا مسلم ہے.کوئی خاص حکم مان کر انسان کو نجات نہیں مل سکتی.بلکہ سب حکموں کو مانکر ملتی ہے.صرف نماز پڑھ کر نہ صرف روزہ رکھ کر اور نہ صرف حج کر کے نجات حاصل ہو سکتی ہے.اگر کوئی شریعت کے کسی حکم کو نہیں مانتا یا اس کو ترک کرتا ہے یا حقیر جانتا ہے تو وہ مسلمان نہیں رہتا.جب تک تمام احکام کا ادب نہ کرے.اور کسی ایک حکم کی بھی حقارت کرے اس وقت تک وہ مسلم نہیں ہے.حکم کوئی بھی چھوٹا بڑا نہیں ہے.جس حکم کو وہ چھوٹا سمجھ کر اس کی حقارت کرتا وہی اس کے لئے بڑا ہے.بعض اوقات ایک رسم معمولی ہوتی ہے.مگر ایک شخص اسے نہیں چھوڑ تا حالا نکہ وہ نماز بھی پڑھتا ہے.اور سب نیکیاں کرتا ہے.مگر جب اس نے کہا کہ میں ماں باپ دادا کی یہ رسم نہیں چھوڑتا تب ہی وہ اسلام سے نکل گیا.خدا تعالیٰ نہیں چاہتا کہ باپ دادا اس کے شریک ہوں یا کوئی

Page 91

۸۵ اور.یاد رہے کہ حقارت اور چیز ہے اور کمزوری اور چیز ہے.پس انسان اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کو بھی حقیر نہ سمجھے ورنہ کامل نتائج نہیں پیدا ہو سکتے.لوگ بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں مگر بعض اوقات ایک چھوٹی سی بات ترک نہیں کر سکتے.جیسے طالوت کا واقعہ قرآن میں ہے.لوگ جہاد کے لئے مال اپنے بال بچے اور وطن چھوڑ کر چلے اور جان دینے کو تیار تھے.مگر نہر کا پانی نہ چھوڑ سکے.اس حکم کی حقارت کر دی.جس سے ساری قربانی برباد ہو گئی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جوش کی وجہ سے نکلے تھے.خدا کی خاطر نہیں نکلے تھے ورنہ ایسی نافرمانی نہ کرتے.پس اگر کامیابی یا ترقی کرنا چاہتے ہو تو جہاں خدا کا حکم آوے اسے کبھی حقیر نہ سمجھو.رسم و رواج کو جب تک خدا کے لئے چھوڑنے کو تیار نہ ہوگے تب تک نمازیں روزے اور دوسرے اعمال آپ کو مسلمان نہیں بنا سکتے.جہاں نفس فرمانبرداری سے انکار کرتا ہے.اس موقع پر حقیقی فرمانبرداری کرنے کا نام اسلام ہے.اگر کوئی ایسا فرمانبردار نہیں ہے اور رسم و رواج کو مقدم کرتا ہے تو اس کا اسلام نہیں ہے.یہاں کے رواج جو اسلام کے برخلاف تھے.ان کی بابت میں پہلے کہہ چکا ہوں.اب ایک اور بات بتاتا ہوں.وہ حکم قرآنی یہ ہے کہ عورتوں کے لئے خدا کی طرف سے پردہ مقرر کیا گیا ہے.جو حالات کے ماتحت تین قسم کا ہے (۱) ان عورتوں کا پردہ جن کو کام کاج کے لئے مجبوراً نکلنا پڑتا ہے.بغیر باہر نکلے اور روزی کے لئے کچھ کام کرنے یا خاوند کو روزی میں مدد دئے بغیر کنبہ کا گزارہ نہیں ہو سکتا.ایسی عورتوں کے لئے جائز ہے کہ کام کاج کے وقت ہاتھوں اور پاوں کو اور ماتھے سے لیکر ٹھوڑی اور کانوں کے سامنے تک چہرہ کو نگا کر لیں (۲) اس سے اوپر کے درجہ کی عورتیں جن کو کام کاج کے لئے مجبور آباہر نہیں نکلنا پڑتا وہ تمام جسم کو چھپاویں.سوائے قد اور چال کے جو مجبوراً ظاہر ہوتے ہیں (۳) تیسرا درجہ امہات المومنین کا ہے کہ وہ اکثر گھر سے باہر نہ نکلا کریں.یہاں مجھے معلوم ہوا ہے کہ عورتوں کے گریبان لمبے ہوتے ہیں.اس طرح چھاتی کا پردہ نہیں رہتا.یہ خلاف شریعت ہے.چونکہ یہ گریبان لمبا اس وجہ سے رکھنا پڑتا ہے کہ بچے کو دودھ پلایا جا سکے.کیونکہ جسم پر صرف ایک ہی کرتہ ہونے کی وجہ سے دامن کو اوپر نہیں اٹھایا جا سکتا.اس لئے ایک گناہ کے نتیجہ میں (کہ وہ پاجامہ نہیں پہنتیں) دوسرا گناہ پیدا ہو گیا.یہ قرآنی حکم ہے گو بظاہر چھوٹی بات ہے.مگر دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لئے جائے اعتراض ہے.پردہ کے تمام مذاہب مخالف ہیں.مگر جب ان کو تبلیغ کی جائے تو وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ پہلے اپنے مذہب کو لوگوں میں جو فلاں ملک میں ۹۵ فیصدی آباد ہیں اس کا رواج دیں.اور اگر نہیں رواج دے سکتے تو یہ حکم ناقابل عمل ہے.اس طرح پر اسلام جائے اعتراض ٹھہرتا ہے.پس ہر مرد عورت کو سوچ لینا چاہئیے کہ وہ

Page 92

AY اس پر عمل کر کے یا ترک کر کے کسی گروہ میں شامل ہوتا ہے آیا نیک کرداروں میں یا اسلام کو بدنام کرنے والوں میں.اسی طرح اور رسومات ہونگی جن سے میں واقف نہیں.ان کے لئے بھی چاہئیے کہ اگر وہ اسلام کے برخلاف ہیں تو ان کو ترک کر دیا جاوے.مسلم اسی کا نام ہے.جو ہمیشہ فرمانبردار رہے.جو شخص نہ عمل کرے.بلکہ الٹا اسی مذہب کی باتوں کو حقارت سے دیکھے وہ نہ مسلم کہلا سکتا ہے نہ کوئی برکات اور قبولیت دعا حاصل کر سکتا ہے.اللہ آپ کو اسلام کی توفیق دے.آمین (الفضل یکم ستمبر ۱۹۲۱ء) ا نزہتہ المجالس مصنفہ شیخ عبد الرحمان ۱ اسفوری البقرة : ۲۴۷ تا ۲۵۰

Page 93

AL त ༡༡ ایک رنگ میں رنگے جاؤ (فرمود ۳۶ ر اگست ۱۹۲۱ء بمقام آسنور) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.جمعہ کے خطبہ کی غرض تو یہی ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو ان کے دین کے متعلق ضروری امور سے آگاہ کیا جاوے لیکن آج صبح سے برابر دین ہی کے متعلق باتیں ہو رہی ہیں.اور نماز جمعہ کے بعد بھی وہی ذکر ہو گا.اس لئے آج خطبہ لمبا کرنے کی ضرورت نہیں.صرف اس امر کی طرف آپ کو توجہ دلاتا ہوں کہ جمعہ کا لفظ جمع سے نکلا ہے جس کے معنی اکٹھا ہونا ہیں.جمعہ کے دن لوگ جمع ہوتے ہیں.اس سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مومنوں کو تمام روکیں تو ڑ کر آپس میں اکٹھا ہونا چاہیئے جس طرح لوہا اور مقناطیس الگ نہیں رہ سکتے اسی طرح دو مومن بھی الگ نہیں رہ سکتے.اگر کبھی کوئی تنازع ہو بھی جاوے تو جلد سے جلد صفائی کی کوشش کرنی چاہئیے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص پہلے صلح کرے وہ پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل کیا جائے گا.چنانچہ روایت ہے کہ امام حسن اور حسین میں کسی بات پر جھگڑا ہو گیا.دراصل امام حسین کی زیادتی تھی.اور امام حسن حق پر تھے.دوسرے دن صبح ہی صبح امام حسن امام حسین کی طرف دوڑے جا رہے تھے.کسی نے دیکھا تو دریافت کیا کہ کیوں جا رہے ہیں.امام حسن نے جواب دیا.حسین سے معافی مانگنے.اس نے کہا کہ زیادتی تو ان کی تھی.تو جواب دیا کہ اسی لئے تو میں جلدی کر رہا ہوں.کہ وہ مجھ سے پہلے معافی نہ مانگ لے.اور اس طرح دنیا میں بھی مجھ پر زیادتی کر کے پھر آخرت میں مجھ سے آگے بڑھ جاوے.اور میں دنیا و آخرت میں پیچھے رہ جاؤں.تو جمعہ تمہیں اس بات کی طرف بلاتا ہے کہ تمام کدورتیں دور کرو.اور سب ایک جاؤ.جس طرح بنے ہوئے کپڑے کے ایک حصہ پر پیشاب پڑ جائے تو سارا کپڑا ناپاک ہو جاتا ہے.مگر کھلے سوت میں ایسا نہیں ہوتا.اور کپڑے کے کسی ایک حصہ کو اللہ کا پیارا بندہ ہاتھ لگاوے تو وہ سارا متبرک ہو جاتا ہے.بر خلاف اس کے سوت کے جس طرف ہاتھ لگے وہی متبرک ہوتا ہے.تو اس طرح جمع ہونے میں ہی برکت

Page 94

^^ ہے گو عیب بھی ایک کا دوسرے کو لگتا ہے.مگر جس طرح پاکیزگی نجاست پر غالب آتی ہے اس طرح نیکوں کی نیکی بُروں کی برائی پر غالب آجاتی ہے.میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ ہمیشہ اکٹھے ہو کر رہو اور ایک ہی رنگ میں رنگے جاؤ.اگر اس ایک مقصد کے اندر جمع ہو جاؤ جس کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے تو آپ اس مقصد کو حاصل کرلیں گے.اللہ تعالی آپ کو اس بات کو توفیق عطا فرمائے.آمین.(الفضل ۱۲ ستمبر ۱۹۲۱ء)...ا مکاشفتہ القلوب از امام غزالی اردو ترجمه ص ۲۹۷

Page 95

23 سورہ کوثر میں اسلام کے چار رکن فرموده ۲ ستمبر ۱۹۲۱ء بمقام آسنور) حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سورہ کوثر کی تلاوت کر کے فرمایا.میں نے غالبا عید کے موقعہ پر یہ سورت پڑھی تھی.اور گو جو مضمون میں نے اس خطبہ میں بیان کیا تھا وہ اس کے ساتھ ہی تعلق رکھتا تھا.مگر خاص اس سورۃ کا ترجمہ اور تفسیر بوجہ قلت وقت نہ کر سکا.اس لئے میں اس جمعہ کے خطبہ میں جو غالباً اس مقام میں ہمارا آخری جمعہ ہو گا.کیونکہ انشاء اللہ اسی ہفتہ میں جانے کا ارادہ ہے.اس سورت کے متعلق بیان کرنا چاہتا ہوں.سورہ کوثر ایک چھوٹی اور مختصر سورۃ ہے.گو اس کی صرف چار آیتیں ہیں لیکن اگر اس کے مضمون پر غور کیا جاوے تو معلوم ہوتا کہ اس کے اندر اسلام کے چار رکن بیان ہیں.جن پر اسلام قائم ہے.اور وہ یہ ہیں (۱) بسم الله الرحمن الرحيم (۲) انا اعطیناک الکوثر (۳) فصل لربک وانحر (۴) ان شانئک هو الابتر یہ چار ٹکڑے چار ستون ہیں جن پر اسلام قائم ہے.ہر ایک ٹکڑہ ایک ستون کا کام دیتا ہے.اور جس طرح اگر کسی عمارت کا کوئی ستون نکال لیا جائے تو عمارت گر جاتی ہے.اسی طرح ان میں سے اگر کوئی حصہ نکال لیا جاوے تو اسلام کی عمارت قائم نہیں رہ سکتی.جب تک یہ چاروں باتیں کسی مذہب میں نہ ہوں وہ مذہب سچا نہیں ہو سکتا.یہ چاروں باتیں اسلام کی سچائی بلکہ اسلام کی فضیلت دوسرے مذاہب پر ثابت کرتی ہیں.پہلا رکن بسم الله الرحمن الرحیم یعنی ہم اللہ کا نام لیکر شروع کرتے ہیں ہر ایک کام کو.اس اللہ کا نام لیکر جو رحمن اور رحیم ہے.یعنی وہ بغیر کسی محنت کے اپنی طرف سے فضل اور انعام کرتا ہے.خدمت یا محنت کا اس میں کوئی دخل اور تعلق نہیں.مثلاً آنکھیں ، ناک، کان وغیرہ ہمیں کسی کام کے بدلے میں نہیں ملے.روٹی تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ محنت سے حاصل ہوتی ہے.مگر آنکھ کان وغیرہ کسی محنت کے بدلے میں نہیں.اسی طرح محنت سے کیوں پیدا نہیں ہوئی.کیونکہ

Page 96

۹۰ بیج تو خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے.اگر بیج نہ ہوتا تو انسان کتنی بھی محنت کرتا گیہوں نہ پیدا کر سکتا.پھر محنت سے پانی نہیں پیدا ہو سکتا.اسی طرح گٹھلی یا شاخ کے بغیر انسان کتنی بھی محنت کرے درخت نہیں اگا سکتا.تو بندہ عرض کرتا ہے میں اسی کے نام سے شروع کرتا ہوں.جو بغیر کوشش کے فضل کرنے والا ہے پھر جو رحیم بھی ہے.یعنی یہ نہیں کہ چیزیں ایک دفعہ بنا کر چھوڑ دے بلکہ اگر کوئی ان نعمتوں کو اچھی طرح استعمال کرے تو اور انعام کرتا ہے.صدقہ تو بہت لوگ کرتے ہیں مگر ان کے اور اللہ کے صدقہ میں بہت فرق ہے.لوگ صدقہ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا کام پورا کر لیا مگر اللہ تعالٰی صدقہ کرتا ہے اور جب بندہ اچھا استعمال کرتا ہے تو اور انعام کرتا ہے پھر بندہ کرتا ہے اور اللہ اور بڑھاتا ہے.پہلوان کی مثال دیکھ لو.وہ پہلے دن اکھاڑے میں جاتا ہے تو اس کا جسم اور لوگوں کی طرح کا ہوتا ہے.لیکن وہ جوں جوں خدا تعالٰی کے دئے ہوئے جسم کو اچھی طرح استعمال کرتا ہے.توں توں اس کا زور بڑھتا ہے.یہ تو جسم کے متعلق ہوا.اب دماغ کے متعلق دیکھ لو.ایک لڑکا محنت کرتا ہے تو اس کا دماغ خالی نہیں ہو جاتا.بلکہ زیادہ تیز ہوتا ہے.پھر وہ اور کوشش کرتا ہے.اور دن بدن ترقی ہوتی ہے.حتی کہ وہ عالم کہلانے لگتا ہے.اور لوگوں کے نزدیک اپنے علم کی وجہ سے قابل تعظیم ہو جاتا ہے.پس ہر بچے مذہب کا ایک رکن یہ ہوتا ہے یعنی یہ یقین کہ خدا ہے.اور اس میں تمام طاقتیں ہیں.اور وہ بندوں پر فضل کرتا ہے اور ان کی ہمت کو بڑھاتا ہے اور اس کا قانون بنا ہوا ہے.جس پر چل کر بندہ انعامات کا مستحق ہو جاتا ہے.اس کے سوا مذہب نہیں ہو سکتا.تو بسم الله الرحمن الرحیم سے عقیدہ کی درستی کا اظہار ہو گیا.یعنی ہم اللہ کو مانتے ہیں اور تمام صفات حسنہ کا مالک یقین کرتے ہیں.دوسرا رکن اسلام کا انا اعطیناک الکوثر ہے یعنی وہ خدا جو رحمن ہے اور رحیم ہے کہتا ہے کہ اے رسول میں نے تجھ کو کوثر دیا ہے.ایک تو کوثر اس چشمہ کا نام ہے جو جنت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کے لئے مخصوص فرمایا ہے.یہ آنحضرت کے خاص انعامات میں سے ہے.اور اس میں سے پینا معرفت الہی میں ترقی کرنے کے ذرائع میں سے ہے.دوسرے کوثر کے معنی بڑی خیر والے آدمی کے بھی ہیں.اس لئے اس آیت کے یہ معنی ہوئے کہ اے رسول میں نے تیرے لئے ایک ایسا آدمی مقرر کیا ہے جو دنیا کی بڑی اصلاح کرے گا.یہ بھی بچے مذہب کی علامت ہے کہ دشمن کے حملہ کو بچا سکے اور جب مذہب کو ضرورت ہو اس وقت ایسا آدمی بھیجا جاوے جو اصلاح کرے.دیکھ لو حضرت عیسی علیہ السلام کے مذہب کی کیا حالت ہے.وہ بندہ جو خدا کی توحید قائم کرنے آیا تھا.اب اس کی پرستش ہو رہی ہے.ایک سے تین خدا بنا لئے بلکہ بعض تو حضرت مریم کو بھی خدا خیال کرتے ہیں.تو عیسائیت کی اصل حالت نہیں رہی یہ لوگ شریعت کو لعنت سمجھتے

Page 97

۹۱ ہیں.نیا مسئلہ کفارہ پر یقین کرتے ہیں.غرضیکہ یہ عقائد وہ نہیں جو حضرت عیسی لائے تھے.اور یہ اس لئے ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مذہب کی حفاظت نہ کی.اور اب دور رسالت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے مقرر تھا.اگر اب یہ مذہب مقبول خدا ہوتا تو ان میں سے کوئی آتا جو اس کو صاف کرتا اور اس کے اندر جو میل ملا دی گئی تھی اس کو دور کرتا.جس طرح کپڑا میلا ہو جائے تو اس کو دھو کر صاف کر لیتے ہیں.لیکن اگر دوبارہ نہ پہنتا ہو.تو پھاڑ کر پھینک دیتے یا جلا دیتے ہیں.چونکہ اب اللہ تعالیٰ نے نیا دین بھیجا تھا.ایک نیا جامہ تیار کرنا تھا.جس کو رسول کریم لائے.اور جس کو ابو بکر عثمان عمر علی اور دوسرے صحابہ نے پہنا.اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا.اس لئے خدا کو اس پرانے کپڑے کا رکھنا منظور نہ ہوا.خرابی تو ضرور پیدا ہو جاتی ہے.اور ہر مذہب میں ہو جاتی ہے.مگر جس طرح کپڑے میلے ہو جاتے ہیں پہننے والے دھوئے جاتے ہیں اور نہ پہننے والے پھینک دئے جاتے ہیں.اسی طرح جو دین ہمیشہ رکھنا ہو.اس کو صاف کرنے کی غرض سے اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندے بھیجتا رہتا ہے.اور اگر کسی دین میں خرابی تو پیدا ہو گئی ہو.مگر اس کی اصلاح کرنے والے نہ آئیں تو جان لو کہ اس مذہب کا قیام خدا کو منظور نہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی تو نہ گھبرا کہ تیرا جامہ پہلے نبیوں کے جاموں کی طرح نہ ہو گا.جو صفانہ ہوئے بلکہ پھینک دئے گئے.ہم نے تیرے لئے ہر ایک قسم کے خزانے مقدر کئے ہیں حتی کہ ایسے آدمی مقرر کئے ہیں جن کے اندر بڑی پاکیزگی ہوگی.جو تیرے دین کی صفائی کریں گے.اور دنیا کی اصلاح کی قابلیت رکھتے ہوں گے.اور جب کبھی دین کے اندر خرابی پیدا ہوگی.وہ اس کی اصلاح کے لئے آئیں گے.اور اس طرح یہ مذہب مٹ نہیں سکے گا.کہتے ہیں چوں قضا آید طبیب اللہ شود.جب موت آتی ہے حکیم کی عقل ماری جاتی ہے.چونکہ مسلمانوں کے لئے ادبار مقدر تھا.اس وجہ سے معمولی عقل کے مسائل بھی ان کے ذہن سے نکل گئے.یہ کیسا موٹا مسئلہ ہے.جس مکان کی مرمت نہ ہوگی وہ کب تک سلامت رہے گا.جس کھیت کی خبر گیری نہ ہوگی.وہ خراب و تباہ ہو جائے گا.اسی طرح جو دین خدا کی طرف سے ہمیشہ قائم رہتا ہے.اس کی حفاظت اور صحت کے لئے ہمیشہ خدا آدمی مقرر کرتا رہتا ہے یہ لوگ مانتے ہیں کہ اسلام ہمیشہ رہے گا.مگر اس کی حفاظت کے سامانوں کو نہیں مانتے.ہمیشگی کے دو ہی طریق ہیں.یا تو وہ خراب ہی نہ ہو.اور اس میں تغیر ہی نہ آئے یا اگر اس میں خرابی اور تغیر ہو تو اس کی درستی کے سامان بھی ہوتے رہیں.جیسے سورج اور چاند جن میں خرابی نہیں ہوتی.ان کو کسی بیرونی اصلاح کی ضرورت نہیں.مگر سیب کے درخت تباہ ہو جاتے ہیں.اس لئے ان کی حفاظت انسان کے سپرد ہے.اگر ایک درخت خراب ہو جاوے.تو اس کی جگہ نیا لگایا جاتا ہے اور اگر نہ لگایا جائے.تو آخر ایک دن یہ درخت ہی دنیا سے معدوم ہو جائے.پس یا تو وہ چیز

Page 98

۹۲ قائم رہتی ہے جو خراب ہی نہ ہو.یا وہ جس میں بار بار درستی ہوتی رہے مسلمان کہتے ہیں کہ اسلام قیامت تک رہے گا.مگر اس پر غور نہیں کرتے کہ کس طرح رہے گا یا تو یہ کہیں کہ اسلام بدلا نہیں.اور آج کل بھی صحابہ جیسے ہی مسلمان موجود ہیں.لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتے.اسلام بدلا تو ضرور ہے.اس لئے یہ مانا پڑے گا.کہ اسلام کی اصلاح کا سامان بھی خدا نے پیدا کیا ہے.مگر عجیب بات ہے.کہ ایک طرف تو ہمیشگی کا اعتقاد ہے.اور دوسری طرف اس کی اصلاح کے سامان نہیں مانتے اگر اسلام نے قیامت تک رہتا ہے.تو اس کی درستی اور اصلاح کے لئے آدمی آنے چاہئیں.انا اعطیناک الکوثر میں یہ پیشگوئی ہے.کہ اے رسول تیری قوم بگڑے گی تو سہی.مگر تیرے لئے ایک ایسا عظیم الشان مصلح مقرر ہے.کہ وہ قوم کی اصلاح کر کے ان کو اصل حال پر لاوے گا.یہ اللہ تعالیٰ کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ ہے.پہلی بات صفات کاملہ کے مالک خدا پر ایمان، دوسری ایمان کی درستی کے سامان ہیں.اور باقی دو باتیں بندوں کے متعلق ہیں.تیزار کن فصل لربک وانحر ہے یعنی نفس کی اصلاح اور حقوق العباد کی نگہداشت کرو قربانیاں دو قسم کی ہوتی ہیں.جسم کی یا مال کی.اور ان دونوں سے اپنے آپ کو بھی فائدہ ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی مثلا زکوۃ دینے والے کو بھی فائدہ پہنچتا ہے.اور جن کو ملے ان کو بھی.اسی طرح اخلاق حسنہ انسان کو خود بھی خوشنما بناتے ہیں.اور لوگوں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے.اس کی عزت ہوتی ہے.اور لوگوں کو تکلیف اور دکھ سے نجات.تو فرمایا کہ نمازیں پڑھ کر اپنی اصلاح کرو.اور قربانی کر کے لوگوں کو فائدہ پہنچاؤ.چوتھا رکن جس کے بغیر کوئی مذہب مکمل نہیں ہوتا یہ ہے.کہ اس کے دشمن تباہ کئے جاویں.کیونکہ اگر یہ نہ ہو.تو نیکی اور بدی میں ہمیشہ لڑائی جاری رہے.اور ترقی امن کے بغیر نہیں ہو سکتی.ایک بزرگ کا قصہ لکھا ہے جب ان کا ایک شاگرد تعلیم حاصل کر کے واپس جانے لگا تو انہوں نے اس سے سوال کیا کہ اگر شیطان نے حملہ کیا تو کیا کرو گے اس نے جواب دیا مقابلہ کروں گا.انہوں نے کہا.اگر اس نے پھر حملہ کیا تو پھر اس نے جواب دیا کہ پھر مقابلہ کروں گا.تیسری دفعہ انہوں نے یہی سوال کیا.اور اس نے وہی جواب دیا.اس پر انہوں فرمایا.اس طرح تو مقابلہ میں ہی ساری عمر گذر جائے گی.اس نے عرض کی.پھر آپ ہی فرمائیے میں کیا کروں؟ انہوں نے کہا اچھا ایک بات بتاؤ.اگر تم اپنے دوست کو ملنے جاؤ اور اس کے دروازے پر ایک کتا بندھا ہو جو تمہیں اندر جانے سے روکے تو تم کیا کرو گے؟ اس نے جواب دیا کہ کتے کو ماروں گا.انہوں نے جواب دیا.اگر کتا پیچھے ہی پڑ جاوے تو؟ اس نے کہا اگر باز نہ آئے تو مالک کو آواز دوں گا کہ اس کو ہٹائے.انہوں

Page 99

۹۳.نے فرمایا یہی طریقہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہونا چاہئیے.شیطان خدا کی راہ میں کتنے کا کام کرتا ہے.اول تو انسان اس کو ہٹانے کی کوشش کرے.اگر نہ ہے تو پھر خدا ہی کو آواز دے اور اس سے مدد مانگے.پس جب تک دشمن راستے سے نہ ہٹ جائے.اس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی.اس لئے فرمایا تیرا دشمن ہلاک ہو گا.اور تیرا راستہ صاف کیا جاوے گا.تاکہ مسلمان بے خوف و بے خطر خدا تک پہنچ سکیں.جب تک یہ چاروں رکن نہ ہوں.تب تک نہ کسی مذہب کی صداقت ثابت ہو سکتی ہے.نہ اس کا قیام ہو سکتا ہے.سو اللہ تعالیٰ نے فرمایا.اے رسول یہ چاروں ستون تیرے مذہب میں موجود ہیں.اور جب تک بندہ ان چاروں ستونوں پر کھڑا نہ ہو.اس کا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا.میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے ایمانوں کو ان چاروں ستونوں پر قائم کرو اول تمام صفات کاملہ کے مالک واحد خدا پر ایمان لاؤ.پھر خدائی سامانوں پر بھی یقین رکھو.جیسا کہ اس زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی اصلاح کے لئے مسیح موعود کو بھیجا.اور اپنے اس وعدہ کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا.فراموش نہیں کیا.دیکھو ایک وہ زمانہ تھا کہ عیسائیوں کے سامنے مسلمانوں کا دم نکلتا تھا.اب ہم ان کے گھر پر حملہ کرتے ہیں اور وہ ہمارے آگے آگے بھاگتے ہیں.تیسری بات آپ کے ذمہ ہے کہ اپنے اعمال کی درستی کرو.اور دوسروں کی اصلاح کی بھی فکر کرو.آپ بھی فائدہ اٹھاؤ.اور لوگوں کو بھی فائدہ پہنچاؤ.چوتھے یہ کہ تمہارے دشمن خائب و خاسر ہونگے.مگر شرط یہ ہے کہ بندہ بھی کوشش کرے.جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی پورے زور سے لڑتے تھے.اب دشمن کو ہلاک کرنے کی کوشش سے مراد مارنا نہیں.بلکہ حق کے دلائل و براہین پیش کر کے اسے شرمندہ کرے.پھر جب بندہ اپنا کام کرتا ہے.اور دشمن ضد سے باز نہیں آتا.تو خدائی تلوار اٹھتی ہے.اور اسے ہلاک کرتی ہے.چونکہ اس سورت میں اپنوں اور دوسروں سے بھلائی کا ذکر ہے.اس لئے ایسی باتوں کا پھر اعادہ کرتا ہوں.جو اس ملک میں خصوصیت سے ہیں.یہاں عام طور پر عورتیں شاکی ہیں.کہ خاوند گالیاں دیتے ہیں.گالی دینا کمزوری اور بزدلی کی علامت ہے بعض وجوہات سے اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر حاکم بنایا ہے.لیکن یونہی مارنا، پیٹتا اور گالیاں دینا جائز نہیں.گالیاں تو کسی صورت میں جائز نہیں مارنا بھی مجبوری کے وقت جب عورت کھلی کھلی بے حیائی کرے.جائز ہے.مگر وہ بھی اتنا کہ جسم پر نشان نہ پڑے.عورتوں سے رافت اور حسن سلوک کا حکم ہے.لوگوں کے اس حکم کو قطع نظر کرنے سے آج کل دشمن اسلام پر اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے نزدیک عورت کی بڑی گری ہوئی حیثیت ہے.لیکن دراصل عورتیں ویسی ہی ہیں جیسے مرد یہ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے

Page 100

۹۴ تمہارے ذمہ امانت ہے سو اس کو پورا کرنے میں کو تاہی نہ کرو.جو عورتوں پر سختی کرتا ہے.وہ اپنی بزدلی کا اظہار کرتا ہے.بہادر تو بہادر سے مقابلہ کرتا ہے.کمزوروں پر ہاتھ نہیں اٹھاتا.پس عورتوں سے نیک سلوک کرو.پردہ کے متعلق پہلے بھی کہا تھا اب پھر کہتا ہوں.گھر میں سرنگا رکھنا ناجائز نہیں.باہر جانے کے لئے چادر یا برقعہ کی ضرورت ہے.لیکن عادت کا اثر ہوتا ہے.اسی وجہ سے عام طور پر مسلمان عورتیں گھر میں بھی سر پر کپڑا رکھتی ہیں.تاکہ باہر جا کر بھی رکھنے کی عادت ہو جائے.مجھے یہ سنکر بہت تعجب ہوا.کہ یہاں قریب ہی اہل حدیث کا ایک گاؤں ہے.جہاں عورتوں میں پائجامہ پہننے کا رواج ہے.مگر احمدی ابھی پیچھے ہیں.میں نے پچھلی دفعہ سیکرٹری محاسب وغیرہ کے انتخاب کے لئے کہا تھا مگر مجھے اب تک بتایا نہیں گیا کہ کون کون مقرر ہوئے ہیں.اگر ابھی تک مقرر نہیں ہوئے.تو اب جمعہ کے بعد مشورہ کرکے مجھے اطلاع دیں.میں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ یہ خدا نے ایک موقع دیا ہے.اس کو غنیمت جانو.اپنے نفسوں کی درستی کرو.اپنے اعمال سے اپنے احمدی ہونے کا اظہار کرو.بچے دین کی سچائی بچے اعمال سے ثابت کرو.محض دعویٰ سے کچھ نہیں ہوتا.اسلام کا دعویٰ کرنے والے تو پہلے بھی بہت موجود تھے.تم اپنے اندر بین فرق پیدا کرو.تاکہ تمہاری اصلاح سے لوگوں کو فائدہ ہو.مومن کی یہ شرط ہے.کہ خدا اس کے لئے غیرت رکھتا ہے.اور اس کے دشمن کو ہلاک کرتا ہے.اگر خدا اس کی نصرت اور حفاظت نہیں کرتا.تو اس کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں کوئی کمی ضرور ہے.مومن کو تو ہر وقت ڈرنا چاہیے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حالت تھی.کہ زور کی آندھی آجائے.تو گھبرا جاتے تھے.مگر زندہ مومن سے خدا کا معالمہ ایسا ہوتا ہے.کہ خدا اس کی حفاظت کرتا ہے.تم زندہ مومن ہو.ایسا نہ ہو کہ خدا کے وجود کا پتہ ہی نہ ہو.مومن وہی ہے جس کو خدا نظر آجائے.اس کو معلوم ہو جائے.کہ واقعی خدا ہے خدا ان آنکھوں سے تو نظر نہیں آتا.مگر اس دنیا میں اندھے کو کس طرح پتہ لگتا ہے کہ اس کے رشتہ دار ہیں ان کے سلوک سے.اسی طرح خدا کے سلوک سے پتہ لگ جانا چاہیے کہ خدا ہے.اور جب تک کوئی ایسا مومن نہیں اس کا ایمان لغو اور فضول ہے.الفضل ۲۲ ستمبر ۱۹۲۱ء)...ا بخاری کتاب الرقاق باب فی الحوض

Page 101

۹۵ 24 مومن کا سفر فرموده ۳۰ ستمبر ۱۹۲۱ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.دو آدمی جب آپس میں ملتے ہیں تو انہیں بہت کچھ آپس میں سننا سنانا ہوتا ہے.اسی قانون کے ماتحت مجھے آپ لوگوں سے بہت کچھ سننا اور سناتا ہے.مگر چونکہ کل ہی میں یہاں پہنچا ہوں اور پانچ روز کے متواتر سفر کے بعد کوفت ہے اس لئے میں زیادہ نہیں بول سکتا.مگر مختصرا ایک بات بیان کرتا ہوں.جو سفر سے تعلق رکھتی ہے.انسان جن حالات سے گذرتا ہے ان کے مطابق مضامین بھی دماغ میں آتے ہیں.سفر سے آیا ہوں.اور سفر ہی کے متعلق حالات سناتا ہوں.لیکن وہ سفر دنیاوی نہیں اور نہ یہاں کا سفر ہے.اس سفر کا ذکر سورہ فاتحہ میں ہے.گو بہت ہیں جنہوں نے غور نہیں کیا حالانکہ وہ روزانہ پانچوں وقت متعدد بار پڑھتے ہیں کم از کم ۳۲ دفعہ اور زیادہ سے زیادہ چالیس پچاس ساٹھ دفعہ.مگر کم ہیں جو اس سفر کی طرف توجہ کرتے ہیں جس کی طرف اس میں توجہ دلائی گئی ہے.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ سب کام کو چھوڑ کر تاجر تجارت کو صناع صنعت کو مزدور مزدوری کو طالب علم سبق کو اور استاد پڑھانے کو چھوڑتا ہے اور وضو کرتا ہے.گویا سب کاموں سے قطع تعلق کرتا ہے اور ایک خاص جگہ جاتا ہے.اور اپنے کانوں کی طرف اپنے ہاتھ لے جاتا ہے.اور اپنی توجہ کو ایک خاص طرف لگاتا ہے.یعنی اپنے خدا سے اپنا معاملہ درست کرتا ہے.اور اظہار کرتا ہے کہ میں اس سفر پر جا رہا ہوں.اور یہ میرا مقام نہیں بلکہ میں مسافر ہوں.کیا سورۃ فاتحہ پڑھنے والا یہی نہیں کہتا کہ اهدنا الصراط المستقيم (الفاتحه : (۶) میں مسافر ہوں اور اپنے گھر کی طرف جا رہا ہوں مجھے سیدھا رستہ بتایا جائے میرا گھر یہ نہیں.بلکہ اور جگہ ہے.ایسا نہ ہو کہ میں غلطی سے ایسے رستہ پر چل پڑوں کہ گھر کی بجائے تاریکیوں کے گڑھوں میں پڑ جاؤں.پھر کہتا ہے صراط الذین انعمت عليهم الفاتحہ : ( ایک شخص آرام سے سفر کرتا ہے مگر جس غرض

Page 102

44 کے لئے سفر کرتا ہے اس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکتا کیونکہ دوران سفر کے آرام کو کوئی نہیں پوچھے کو ئی میں پا گا بلکہ سفر کے نتیجہ کو پوچھے گا.سفر مختلف اغراض کے ماتحت کئے جاتے ہیں.کوئی صحت کے لئے کوئی تجارت کے لئے کوئی ملازمت یا تعلیم کے لئے کوئی تبلیغ کے لئے وغیرہ اگر ان اغراض میں سے کسی غرض کے لئے بھی سفر کیا گیا ہو اور وہ پوری نہ ہوئی ہو.تو گھر میں گھسنا مصیبت ہو جاتا ہے.خالی ہاتھ مسافر خود کہتا ہے کہ جب گھر جاؤں گا تو گھر والوں کو کیا منہ دکھاؤں گا.یہ نکتہ پٹھان کوٹ کے سٹیشن پر معلوم ہوا.وہاں ایک ہندو سٹیشن ماسٹر تھے.میں وہاں حضرت خلیفہ اول کے وقت میں صحت ہی کی غرض سے گیا تھا.اس سٹیشن ماسٹر کو شکار کا شوق تھا.بندوق لیکر وہ بھی ہمارے ساتھ چل پڑا اس نے ایک فاختہ ماری.میں نے کہا یونہی ضائع جائے گی.اس نے کہا کہ نہیں اس میں کچھ حکمت ہے.کئی دفعہ انسان شکار کے لئے نکلتا ہے اور کوئی چھوٹا یا بڑا شکار نہیں ملتا.چونکہ بچے گھر میں منتظر ہوتے ہیں کہ ہم شکار لائیں گے اس لئے جب واپس جاتے ہیں تو وہ پوچھتے ہیں کیا کیا لائے تو کچھ بھی پاس نہ ہونے کی صورت میں ان کے دل کو صدمہ پہنچتا ہے.اس لئے میرا قاعدہ ہے کہ پہلے کچھ نہ کچھ ضرور شکار کرلیتا ہوں تاکہ جب گھر جاؤں اور بچے پوچھیں تو ان کہ کہدوں کہ یہ لو یہ شکار ہے چونکہ اس کو محض اپنے بچوں ہی کی خوشی مد نظر تھی.اس لئے یہ کہا مگر اس سے ہمیں ایک نکتہ معلوم ہو گیا کہ ہم جو دنیا میں ایک حالت سفر میں ہیں.اگر ہم اپنے گھر میں خالی ہاتھ جائیں تو ان لوگوں کو جو ہمارے منتظر ہیں کیسی مایوسی ہوگی.قرآن کریم میں آتا ہے الحقنا بهم فرياتهم (الطور : (۲۲) جو لوگ نیک کام کریں گے اس کی جزا ان کی اولاد کو بھی ملے گی.جس طرح سفر سے واپس آنے پر بچے اور بڑے پوچھتے ہیں کیا لائے ہو ؟ وہاں یہی سوال ہو گا کہ ہم نے تو جو کچھ کرنا تھا کر چکے.اب ہمیں امید تھی کہ ہمارا بیٹا بھائی، بہن، خاوند ہمارے لئے کچھ لائیں گے.جس سے ہمارے روحانی مدارج میں ترقی ہوگی.اس لئے صرف مومن ہی نہیں کہتا کہ اهدنا الصراط المستقيم (الفاتحه : ۶ کہ راستہ صاف اور سیدھا ملے اور امن سے ختم ہو.کیونکہ گھر میں جانے پر یہی نہیں پوچھا جاتا کہ آپ کا سفر کیسا ختم ہوا بلکہ سوال ہوتا ہے کیا لائے.اس لئے ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے صراط الذين انعمت عليهم (الفاتحہ : ۷) ان لوگوں کی راہ پر چلا جو کچھ کما کر لائے.اور خالی ہاتھ اپنی منزل مقصود پر نہیں پہنچے.پھر بہت لوگ کماتے بھی ہیں مگر یا تو راستہ گم کر دیتے ہیں یا نعمت کھو دیتے ہیں.اس لئے سکھایا کہ غیر المغضوب عليهم ولا الضالين (الفاتحہ : (۷) کہ نہ تو ہم راستہ میں ہی بھٹک جائیں اور نہ ان انعامات کو ضائع کریں.ا

Page 103

46 لیکن بہت لوگ ہیں جو طوطے کی طرح پڑھتے ہیں.اور بار بار اقرار کرنے کے باوجود کہ ہم مسافر ہیں.اپنے آپ کو مسافر نہیں سمجھتے حالانکہ یہاں کا آرام کوئی چیز نہیں دراصل آرام اور راحت وہ ہے جو انجام کار ملتا ہے.جو شخص ایسا نہیں کرتا.بلکہ اس دنیا کو مسافر خانہ کی بجائے اپنا گھر ہی سمجھتا ہے.اور اصل گھر کی فکر نہیں کرتا نہ یہ سوچتا ہے کہ وہاں کیا لے جائے گا.وہ خسران اور حرمان کے سوا کچھ نہیں پائے گا.راستہ کا آرام اچھی چیز ہے مگر یہی اصل چیز نہیں.مومن کو چاہیے کہ سورہ فاتحہ کو مد نظر رکھے.وہ سیدھا راستہ بھی مانگے اور انعام یافتوں والا بھی ایسا نہ ہو کہ مغضوب علیہم اور خیال میں شامل ہو جائے.وہ نہ گم کردہ راہ ہو نہ انعام ضائع وہ کرے.حضرت مسیح موعود فرماتے تھے.کہ آپ کے والد صاحب کا قاعدہ تھا کہ ایک موسم میں خاص مقدار میں غرباء میں غلہ اور نقدی تقسیم کرتے ایک شخص بٹالے کا بھی آیا کرتا تھا اس کو آپ نے ایک دفعہ چنے اور کچھ پیسے دئے.وہ چنوں کا بڑا حصہ راستہ ہی میں ختم کر گیا.حالانکہ جو کچھ اس کو ملا تھا وہ گھر کے لئے تھا.یہ مت خیال کرد که چلو جس طرح یہاں غریبی مسکینی میں گزارہ ہو جاتا ہے وہاں بھی ایسا ہی کریں گے.تنگی ترشی میں گزارہ کر لیں گے.خدا تعالی کے پاس کوئی ایسی جگہ نہیں وہاں یا تو انعام یافتوں میں رہنا ہے یا شیطان کے ساتھ جہنم میں داخل ہوتا ہے.لوگوں نے اعراف بنا رکھا تھا لیکن حضرت مسیح موعود نے وہ بھی نہ رہنے دیا بلکہ بتا دیا کہ وہ درمیانی درجے کے لوگوں کے لئے نہیں بلکہ بہت ہی اعلیٰ درجہ کے لوگوں کا مقام ہے اور جنت ہی کا اعلیٰ حصہ ہے.پس وہاں روکھی سوکھی والوں کا گزارہ نہیں.ایک انسان وہاں یا تو خدا کا مہمان ہو گا.یا اس کو جیل میں رہنا ہو گا.حیرت کا مقام ہے کہ ایک شخص پچاس دفعہ کہتا ہے کہ میں مسافر ہوں اور ایک دفعہ بھی اس پر غور نہیں کرتا.کیا اس کی یہی مثال نہیں کہ وہ اپنے آپ کو جھوٹ موٹ کہتا ہے کہ میں نوکر ہوں اور وہ کوئی نوکر نہیں کیا اس کا انجام اچھا ہو گا؟ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر غور کرنے اور عمل کرنے کی توفیق دے ہم اپنے آپ کو مسافر اور آخرت کے لئے کچھ کما کر لے جائیں تا خدا کے غضب سے بچیں.سمجھیں الفضل ۱۰ر اکتوبر ۱۹۲۱ء)...

Page 104

۹۸ 25 اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو (فرموده ۷ اکتوبر ۱۹۲۱ء) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.انسان کی ترقی اور اس کی کامیابی اور خدا کے حضور سرخرو ہونے کے لئے کچھ قواعد مقرر ہیں.ان کی نگہداشت کے بغیر نہ ترقی ہو سکتی ہے نہ انسان کامیاب ہو سکتا ہے اور نہ خدا کے حضور سرخرو ہو سکتا ہے.بلکہ یہ سب باتیں ناممکن ہو جاتی ہیں.جب تک اس رستہ کو اختیار نہ کیا جائے کوئی کامیاب نہیں ہو سکتا.خالی زور کسی جگہ کام نہیں آتا آج علوم کی ترقی میں جاہل سے جاہل انسان بھی جانتا ہے کہ زور تدبیر کا مقابلہ نہیں کر سکتا.بڑے بڑے پہلوانوں کو چنے کے برابر گولی ختم کر سکتی ہے.گاؤں کے گاؤں کا صفایا آنکھ سے نظر نہ آنے والے کیڑوں کے ذریعہ ڈاکٹر اور سائنس دان لوگ کر سکتے ہیں.یہ جنگ جو جرمن فرانس اور انگلستان وغیرہ ممالک کے درمیان ہوئی اس میں جانبین نے ایک دوسرے کے مقابلہ میں اس طریق کو اختیار کیا کہ کہیں آپ محرقہ کے جراثیم اور کہیں ہیضہ کے جراثیم سے اپنے بنی نوع کی جانیں لیں.یہ وہ ہتھیار تھے جو نظر نہ آتے تھے.مگر کس طرح ان سے ہزاروں آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا.ریل کا ایک انجن اس قدر وزن کھینچ کر لے جاتا ہے کہ پچاس ہاتھی بھی اتنے بوجھ کو جنبش نہیں دے سکتے.یہ سب تدبیر کے کھیل ہیں.غرض وہی کام جو زور سے نہیں ہو سکتا تدبیر سے احسن طور سے ہو سکتا ہے.اسی نکتہ کو نہ سمجھنے کے باعث لوگوں نے اسلامی عبادات کی حقیقت کو نہیں سمجھا.اسلام نے پانچ وقت نماز فرض کی ہے مگر یہی نماز بعض اوقات میں پڑھنی ناجائز قرار دی ہے.روزے رکھنے حلال ہیں اور فرض ہیں مگر زیادہ سے زیادہ اگر کوئی نفلی روزے رکھنے چاہے تو ایک دن چھوڑ کر رکھ سکتا ہے.ہمیشہ روزہ نہیں رکھا جا سکتا.اور بعض ایام میں قطعا حرام قرار دیا گیا ہے.اپنے اموال کا غربا میں تقسیم کرنا ثواب کا موجب ٹھہرایا بلکہ بعض اوقات فرض کیا ہے.مگر مرنے والے کو اپنے مال سے ایک ثلث "

Page 105

۹۹ سے زیادہ دینے کی ممانعت کی ہے.تو عبادات مقرر کی ہیں.اور ان پر زور دیا ہے مگر انہی عبادتوں کے بجا لانے سے دوسرے وقت میں روک بھی دیا ہے.لیکن اسلام کے مقابلہ میں دوسرے مذاہب نے اس نکتہ کو نہیں سمجھا بعض نے رات کی عبادت کو ضروری بتایا ہے اور کہدیا کہ ساری رات الٹے لٹکے رہو.یا کھڑے رہو.بعض نے مال خدا کی راہ میں دینے کا حکم دیا اور کہدیا کہ سارے کا سارا دو.روزے کا حکم دیا اور ساری عمر کے لئے دیا.غرض اسلام نے عبادت کو ایک گر اور قاعدے کے ماتحت رکھا ہے.تاکہ اس کا کوئی نتیجہ اور فائدہ مترتب ہو.اس کی مثال ایسی ہی ہے.کہ تم اگر ایک گز زمین میں دس من غلہ ڈھیر کر دو اور توقع یہ رکھو کہ اس سے بہت ساغلہ پیدا ہو گا.تو یہ غلطی وگی بلکہ اس دس من کی بجائے ایک چھٹانک غلہ اتنی زمین میں ڈالا جائے تو وہ اس دس من سے زیادہ پھل دے گا.کیونکہ یہ بھی قاعدہ ہے کہ ایک پیج جو زمین میں ڈالا جائے اس میں سے ہر ایک دانے میں کچھ فاصلہ ہونا چاہئیے.گیہوں یا مکی یا باجرہ یا کوئی اور جنس من بھر زمین میں ڈال دی جائے اور اس قاعدے کو مد نظر نہ رکھا جائے تو بے وقوفی ہوگی.من بھر وہ کام نہیں دے سکتا جو قاعدے کے ماتحت ڈالا ہوا ایک چھٹانک دے سکتا ہے.بہت لوگ ہیں جو اس نکتہ کو نہیں سمجھتے وہ خدا کو خود ساختہ اور ایسے رستوں سے ملنا چاہتے ہیں جن سے وہ نہیں ملتا.خود قاعدے بناتے ہیں.اور قدرتی اور خود خدا کے بتائے ہوئے قاعدوں کو چھوڑ دیتے ہیں.مگر ان سے کہاں خدا مل سکتا ہے.اس طرح تو خواہ ساری عمر لٹکتے رہو.خواہ اپنا سارا مال اپنے بنی نوع کی خاطر قربان کردو.خواہ تم کتنا ہی خوف ظاہر کرو.عبادت میں سختی اٹھاؤ.اپنا مال خرچ کرنا.خدا سے خوف ظاہر کرنا جب اس طریق پر ہو گا جس طریق پر خدا نے بتایا ہے تو اس کا کوئی مفید نتیجہ ہو گا.زکوۃ دو.مگر اس طرح دو جس طرح خدا اور رسول نے بتایا ہے.اگر غور سے دیکھا جائے تو سچے مذہب والے دوسرے مذاہب کے مقابلہ میں کم عبادت کرتے ہیں.غیر احمدی تم سے زیادہ نمازیں پڑھتے ہیں تم سے زیادہ مالی قربانیاں کرتے ہیں.تم سے زیادہ حاجی ہیں.تم سے زیادہ شب بیدار اور تسبیح خواں ہیں ان میں سے اکثروں کی تسبیح کو اگر بچھایا جائے تو اس سارے صحن میں پھیل جائے.وہ ہزار ہزار دانے اور اس سے بھی زیادہ کی تسبیح پڑھتے ہیں.مگر باوجود اس کے وہ خدا رسیدہ نہیں ہیں.وہ راتوں کو کھڑے ہوتے ہیں.اور ان کے پاؤں سوچ کر پھٹنے کے قریب ہو جاتے ہیں.وہ روزے رکھتے ہیں بھوک سے ان کی کمریں کمزور ہو جاتی ہیں.اور آنکھیں گڑھوں میں د تھنس جاتی ہیں.باوجود اس کے ان میں سے بہت سے ابلیس سے کم نہیں ہوتے.وہ کرتے ہیں اور بہت کچھ کرتے ہیں.مگر جس قدر کرتے ہیں وہ خدا کے حکم اور رسول کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق نہیں کرتے دیکھو اگر تم قاعدے سے کام لو تو ایک دیا سلائی کو خشک پتوں یا باریک ٹہنیوں میں

Page 106

لگاؤ اور پھر ان پر بتدریج موٹی لکڑیاں رکھتے جاؤ تو وہ دیا سلائی جنگل کے لئے کافی ہوگی.لیکن اگر آگ کے ڈھیر پر سبز درخت کاٹ کر ڈال دو تو وہ نہیں جلے گا.پس خوب یاد رکھو کہ خدا تب ہی مل سکتا ہے جب خدا کے مقرر کردہ ذرائع کے مطابق عمل کیا جائے.مگر بہت ہیں جنہوں نے اس پر عمل نہیں کیا اور نہ اس پر غور کیا ہے.زبان پر ان کے احمدیت ہے مگر دل میں نہیں.ایسے بہت کم ہیں جنہوں نے کچھ حاصل کیا ہے.اور بہت ہی کم ہیں جن کے چہروں پر مجھے ایمان نظر آتا ہے.ان کے دل یقین سے خالی ہیں.وہ یقین جس سے خدا ملتا ہے میں نے تمہاری حالت پر اس وقت بھی غور کیا جبکہ مجھ پر تمہاری کس قسم کی ذمہ داری نہ تھی.اور اس وقت بھی غور کیا جبکہ تمہاری تمام تر ذمہ داری مجھے ہی پر پڑگئی.لیکن میں نے تمہیں دونوں زمانوں میں کچا پایا.اور اس بات کا مشاہدہ کیا جو مسیح موعود کے منہ سے تمہارے متعلق نکلی تھی کہ میں جدھر تمہیں لے جانا چاہتا ہوں ابھی تو تم نے ادھر منہ بھی نہیں کیا.بعض نادان کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس پیشگوئی کو پورا کریں گے.میں کہتا ہوں کہ مومن کے حق میں جو بری پیشگوئی ہو مومن کا فرض نہیں ہوتا کہ اس کو پورا کرے مومن کا یہ تو فرض ہوتا ہے کہ اگر اس کے متعلق یہ پیشگوئی ہو کہ وہ خدا کی راہ میں روپیہ دے گا.یا جائداد کو خدا کی رضا کے لئے لٹا دے گا.تو وہ اس کے دینے میں سستی نہ کرے اور اس وقت کا منتظر نہ رہے کہ آسمان سے فرشتہ آئے اور اس سے جائداد چھوڑا دے.چاہیے کہ خود چھوڑ دے تاکہ اس کو دو ثواب ملیں اول یہ کہ اس نے خدا کے دین کی خدمت کی اور دوسرے یہ کہ اس نے اس اچھی پیشگوئی کو پورا کیا.لیکن ایسی پیشگوئی اگر اس کے متعلق ہو کہ یہ فلاں کو قتل کرے گا یا اس سے اور کوئی بدی یا گناہ کا کام سرزد ہو گا.تو اس کا فرض ہے کہ اس کو ٹلانے کے لئے خدا کے حضور میں سر رکھ دے اور اپنی ناک کو اس قدر رگڑے کہ خواہ وہ گل جائے یا گھس جائے مگر اس وقت تک سر نہ اٹھائے جب تک کہ خدا تعالیٰ کا یہ وعید اس سے نہ ٹل جائے.پس اگر کوئی نادان کہہ دے کہ ہم اس پیشگوئی کو پورا کریں گے.تو ایسا کہنا اس کی جہالت اور نادانی ہوگی.نیز میں کہتا ہوں کہ کہ مسیح موعود کا یہ فرمانا کہ جدھر میں بلاتا ہوں یا لے جانا چاہتا ہوں تم میں سے بہتوں نے ادھر منہ بھی نہیں کیا بطور پیشگوئی نہیں ہے.بلکہ آپ نے پچھلا واقعہ بیان فرمایا ہے.کہ تم نے ابھی ادھر منہ بھی نہیں کیا.یہ تو تمہاری اس وقت کی حالت کا اظہار ہے.اب دیکھو مسیح موعود کا زمانہ گزر گیا.اور اس کے خلیفہ اول کا زمانہ بھی گذر گیا.اب تم دوسرے خلیفہ کے زمانہ سے گزر رہے ہو تم نے اب بھی ادھر منہ نہیں کیا پھر تم ہی بتاؤ کہ اگر تم نے اب تک ادھر منہ نہیں کیا تو وہ کونسا وقت آئے گا جب تم ادھر منہ کرو گے اور جب کہ ابھی تم نے منہ بھی ادھر نہیں کیا.تو نہیں معلوم وہ کونسا زمانہ

Page 107

14 ہو گا جو تم اس راستہ پر چلو گے.کیا تم لوگوں نے زندگی کا ٹھیکہ لیا ہے.کہ تم نہیں مرد گے.جب تک کہ تم اپنے مقصد کو پاؤ گے وہ کیا تبدیلی آئے گی.اور کب آئے گی جب تم مسیح موعود کے بتائے ہوئے راستے پر چلو گے.مومن اور مسلم کے الفاظ سے ہی تمہارے فرائض کا پتہ لگتا ہے مگر تم اس پر غور نہیں کرتے.مسلم کہتے ہیں فرمانبردار کو ایسا فرمانبردار جو اپنے آپ کو خدا کے سپرد کردے.مومن اس کو کہتے ہیں جس کو خدا پر کامل یقین ہو.جو امن میں ہو اور دنیا کو امن دینے والا ہو.لیکن تم میں سے ہر ایک اپنی حالت پر غور کرے کہ کیا تم میں یہ حالت ہے تم ان صفات کو اپنے اندر پاتے ہو ؟ چھوٹی چھوٹی باتوں پر تم کو ابتلا آجاتا ہے.ترقی نہ ملے تو تمہارا ایمان خطرہ میں پڑ جاتا ہے.معمولی باتوں پر جو لوگ کہتے ہیں کہ ان کو ابتلا آگیا وہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ابتلا برداشت نہیں کر سکتے.اگر کہیں کہ بڑی بڑی ٹھوکریں انہوں نے کھائیں.اور سلامت رہے تو میں کہوں گے کہ وہ ٹھوکریں ان کے لئے ابتلا نہ تھیں ان کے لئے یہی ابتلا تھا جس کو برداشت نہ کر سکے.کیا ترقی کا نہ ہونا یا کسی اور معاملہ میں ان کی خواہش کا پورا نہ ہونا ایسا ہے جس سے ان کا ایمان متزلزل ہو جائے.میں دیکھتا ہوں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے جن کا مسیح موعود کی آمد یا صداقت سے کوئی تعلق نہیں تم میں سے بڑے بڑوں کو یعنی ان کی جو دوسروں کو بڑے اور اہل الرائے نظر آتے ہیں.مسیح موعود پر شک پیدا ہو جاتا ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر ایسی کمزرویاں ایمان کی کمزوری پر دلالت کرتی ہیں تو اس قسم کی کمزوریاں تو صحابہ میں بھی تھیں.مگر میں کہتا ہوں بعض صحابہ نے بھی کمزوریاں دکھائیں لیکن کمزوریاں دکھانے والوں کے مقابلہ میں ثبات اور جرأت ایمانی دکھانے والوں کی تعداد بہت اور بہت زیادہ ہے.تم میں سے تو کمزوریاں دکھانے والوں کی تعداد زیادہ ہے.اور صحابہ میں جرأت ایمانی دکھانے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے.تم میں ثبات دکھانے والے ایک دو ہیں اور وہ بھی ہندوستان سے باہر ہیں.تم میں کم ہیں جن کے متعلق میرا دل گواہی دیتا ہو کہ وہ خواہ کیسے ہی حالات میں سے گزریں.ان پر کوئی ابتلا نہیں آسکتا.، تم میں ابھی ایسے لوگ ہیں جو توقع رکھتے ہیں کہ ان سے مولفۃ القلوب والا معاملہ کیا جائے.حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ایک شخص جو کئی برس سے مسلمان ہو چکا تھا مجھے کہنے لگا مولفہ القلوب سے مدد دو.حالانکہ مولفۃ القلوب وہ لوگ ہوتے ہیں جو بعض دنیاوی رکاوٹوں سے اسلام کا اظہار نہ کر سکتے ہوں اور ان روکوں کے دور کرنے میں ان کی مدد کی جائے.تاکہ وہ جرأت سے اسلام کا اظہار کر سکیں.اگر تم باوجود زبان سے اقرار اسلام و ایمان کرنے کے پھر بھی مولفۃ القلوب کے سے سلوک کے متوقع ہو تو مومنوں میں کب شامل ہوگے.ایسے لوگوں سے مولفۃ القلوب اچھے ہیں

Page 108

کیونکہ ان کی امید ہے اور یہ اقرار کے باوجود پھر پیچھے ہٹ رہے ہیں.اور ایمان پر مضبوط نہیں اور ان کے قدم لڑکھڑا رہے ہیں.ابھی تو تمہاری وہ حالت بھی نہیں جو تم دعوی کرو کہ تم مومن ہو.مگر خدا کے کہ تم مومن نہیں بلکہ مسلم ہو.گویا ابھی خدا سے مسلم کا خطاب پانے کے لئے ایک اور زمانہ آنے کے امیدوار ہو.پس ابتلا وہی ہے جس کو انسان محسوس کر سکے اور قدم لڑکھڑانے لگیں.اور پھر ایمان پر ثابت قدمی ہو.یہ نفس کا دھوکہ ہے کہ کہا جائے ہم نے فلاں فلاں ابتلا کو برداشت کیا اصل بات یہ ہے کہ جس کو برداشت کر لیا وہ ابتلا تمہارے لئے نہ تھا.بلکہ اوروں کے لئے تھا.اگر تم خدا سے ملنا چاہتے ہو تو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ تم ان قواعد پر عمل کرو جن سے خدا ملتا ہے ورنہ تمہارے تمام دعاوی سراب کی طرح ہوں گے.جن سے کچھ حاصل نہ ہو گا.اگر تم اصلاح کرو.جیسا کہ یہ اصلاح کا زمانہ ہے.تو عرفان کے ایسے ایسے دروازے کھلے ہیں.جن میں داخل ہو کر انسان کی ہستی بالکل بدل جاتی ہے.جو شخص ابتلاء میں اپنی جگہ سے ہل جاتا ہے.اصل میں اس نے لطف ایمان دیکھا ہی نہیں.ایمان تو کیا اس میں بشاشت ایمان بھی داخل نہیں ہوئی.کیونکہ رسول اللہ فرماتے ہیں.کہ جس کے دل میں بشاشت ایمان داخل ہو جائے.پھر خواہ اس کو آگ میں ڈالا جائے.تب بھی وہ ایمان سے منہ نہیں پھیر سکتا.لیکن جس شخص کی آنکھیں قرآن ہوں.دماغ قرآن ہو.اور کان اور منہ قرآن ہو.ہاتھ پیر اور جسم کے باقی اعضاء قرآن ہوں.پھر اس پر ابتلاء آنے کے کیا معنی؟ تمہاری حالت بہت خطرناک ہے.تم نجات کے دروزاے سے ابھی بہت دور ہو.تمہارے اچھے لیکچرار جو بہت اچھا بیان کر سکتے ہیں اور خوب دلائل دے سکتے ہیں ان کی حالت بھی ایسی ہی ہے کہ وہ اس پیاسے کی مانند ہیں جس نے لق و دق بیان میں پانی کا چشمہ پا لیا اور اس پر پہنچ کر بجائے پانی پینے کے ناچنے لگ گیا.تم اپنی تقریروں میں حقانیت اسلام کے دلائل دیتے ہو.جس کے معنی ہیں کہ ہم نے چشمہ پا لیا.لیکن اپنی تشنہ لبی تم نے نہیں بجھائی.مسیح کی وفات کی دلیل دینا مسیح موعود کی صداقت کے دلائل بیان کرنا یہی بتاتا ہے کہ حق کیا ہے شیریں پانی کا چشمہ کہاں ہے.مگر اس سے کیا جبکہ تم پیاسے کے پیاسے ہی رہے.تمہارے دلائل سے یہ تو معلوم ہوا کہ تمہیں صحیح راستہ معلوم ہو گیا مگر جب تم اس پر چلتے نہیں تو کیا حاصل؟ شاید تم موازنہ کرنے لگو.کہ غیر احمدیوں ، عیسائیوں اور یہودیوں کی نسبت ہم اچھے ہیں.مگر یہ غلطی ہوگی.کیونکہ خوبی یہ نہیں کہ کہا جائے فلاں اندھا ہے.ہم کانے ہیں.یا فلاں کے دونوں ہاتھ نہیں.ہمارا ایک ہاتھ ہے.خوبصورتی یہ ہے.کہ دونوں آنکھیں یا دونوں ہاتھ ہوں.ضرورت یہ ہے کہ پاس ہونے کے لئے جتنے نمبروں کی ضرورت ہو.اتنے لئے جائیں نہ یہ کہ کسی فیل ہونے

Page 109

والے سے ایک آدھ نمبر میں بڑھ کر اپنی کامیابی کی توقع رکھی جائے.یہ باتیں ایسی نہیں جو غفلت سے گزار دو.اب مہلت دینے کا وقت نہیں.اب ضرورت ہے.کہ تم میں سے ہر ایک تمہارے واعظ اور جن کو وعظ کیا جاتا ہے.تم میں سے استاد اور شاگرد معلم اور متعظیم لیڈر اور پبلک مقتدا اور مقتدی ، امام اور پیچھے چلنے والے چھوٹے اور بڑے غور کریں کہ انہوں نے کہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود کی لائی ہوئی تعلیم کو سمجھا ہے.اور اس پر عمل کر رہے ہیں اور ان کا کہاں تک خدا سے تعلق ہے.اور کہاں تک اسلام ان کے دلوں میں ہے.اور ان کی حالتوں سے ظاہر ہے.اگر انہوں نے ان باتوں کو نہ چھوڑا.جو اسلام کے خلاف ہیں.اور اپنی حالت میں کوئی تبدیلی نہ کی.تو تم نے دو آگوں کو اپنے گرد جمع کر لیا.دنیا سے بھی جنگ کی اور خدا سے بھی.باقی لوگ جو ہیں وہ صرف خدا سے بر سر جنگ ہیں اور تم اس صورت میں دنیا سے بھی اور خدا سے بھی بر سر جنگ ہو.اس حالت کو تم خود سوچ لو.کہ تمہاری حالت کس قدر خطر ناک ہے.ام بخاری کتاب الایمان باب حلاوة الایمان (الفضل حار اکتوبر ۱۹۲۱ء)

Page 110

۱۰۴ 26 پل صراط (فرموده ۱۴ اکتوبر ۶۱۹۲۱ ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.ہمارے ملک میں عام طور پر یہ بات مشہور ہے کہ جب لوگ قیامت کے دن اکھٹے کئے جائیں گے.اور خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے تو حساب کتاب کے بعد بظاہر اسلام کا دعویٰ کرنے والوں کو جنت کا راستہ بتایا جائے گا.جب وہ ادھر چلیں گے تو ان کا راستہ دوزخ پر سے ہو کے گذرے گا.اور دوزخ پر ایک پل ہو گا.جو تلوار کی دھار سے بھی زیادہ تیز ہو گا.جو لوگ متقی اور پرہیز گار ہوں گے.اور خدا تعالی کے حضور برگزیدہ اور پسندیدہ ہوں گے.وہ اس پل پر سے بجلی کی طرح گذر جائیں گے.اور جو ان سے کم رتبہ کے ہوں گے مگر ہونگے خدا کے پسندیدہ وہ ہوا کی طرح پل کو عبور کریں گے.اور جو ان سے کم ہوں گے وہ تیز گھوڑے کے سوار کی طرح اور جو ان سے کم ہونگے وہ نہایت تیز دوڑنے والے انسانوں کی طرح اور جو ان سے بھی کم ہوں گے وہ پیدل چلنے والے انسان کی طرح اور پھر جو ان سے بھی کم ہوں گے وہ لڑکھڑاتے ہوئے اس پل کو طے کریں گے.کچھ ایسے ہوں گے کہ جو اس طرح اس پر سے گزریں گے جس طرح کوئی گھٹنوں کے بل چلتا ہے...اور جو آخری درجے کے ہونگے یعنی جن میں ایمان نہیں ہوگا اور جو خدا کے پسندیدہ ہونے کی بجائے راندہ درگاہ ہوں گے.وہ جونہی اس پل پر چڑھیں گے کٹ کر دوزخ میں گر جائیں گے.ان واقعات کو واعظ اور ناصح اپنے وعظوں میں بیان کر کے طبائع میں رقت اور نرمی پیدا کرتے ہیں جس سے لوگ وعظ کو قبول کرتے ہیں.بظاہر یہ واقعہ معمولی ہے.اور بہت سے تعلیم یافتہ اس کو سن کہا جبکہ ان کو دین کی واقفیت نہ ہو مولویوں کا ایجاد کیا ہوا ڈھکوسلہ کہہ دیں گے لیکن وہ لوگ جن کو دیر سے کسی حد تک بھی واقفیت ہے مگر مادیت نے بھی ان پر اثر کیا ہوا ہے وہ کہہ دیں گے کہ اگلے جہاں کی بات ہے.ہمیں اس کی تلاش اور تحقیق کی ضرورت ہی نہیں برخلاف ان کے وہ لوگ جن میں قدامت پرستی حد درجہ کی ہے اور جو لفظوں سے ادھر ادھر ہونا پسند نہیں کرتے ان کے

Page 111

۱۰۵ نزدیک واقعی ایک پل ہے جس پر سے گذرنے والوں کی یہی حالت ہوگی.مگر میرے نزدیک کسی نے اس روایت کی اہمیت پر غور نہیں کیا نہ تو یہ ڈھکوسلہ ہے نہ موضوعات میں سے کوئی قصہ ہے اس کی اہمیت تو اسی سے ظاہر ہے کہ قریباً تمام بڑے بڑے مذاہب میں اس کا ذکر پایا جاتا ہے.جس طرح خدا کے وجود پر تمام مذاہب متفق ہیں.اور جس طرح خدا کے وجود پر تمام مذاہب کو اتفاق ہے.سوائے بعض کے جنہوں نے دوری کی وجہ سے انکار کر دیا اور جس طرح قریباً تمام مذاہب میں ملا مکہ کا وجود پایا جاتا ہے جس طرح مرنے کے بعد احیاء کا عقیدہ بہت حد تک متفقہ عقیدہ ہے.اسی طرح پل صراط کا عقیدہ بھی قریباً تمام مذاہب میں پایا جاتا ہے.اور معلوم ہوتا ہے.کہ اس کی بھی کچھ حقیقت ہے.اسلام کی مذہبی کتب میں اس کا ذکر ہے.یہود کی کتب میں بھی اس کا ذکر موجود ہے.پھر اس کی حکمت کیا ہے.اس پر بھی اسی طرح ایمان لانے کی ضرورت تھی جس طرح اور امور ایمانیہ پر ایمان لانا ضروری اور اہم ہے.اگر اہل مذاہب اس پر غور کرتے اور اس کی حقیقت سمجھتے.تو وہ جو وادی ظلمت میں بھٹکتے پھرتے ہیں ہدایت پا لیتے.بہت جو اب تک خدا سے غافل ہیں ان کو خدا کا پتہ مل جاتا.لیکن کیسے افسوس کی بات ہے کہ پرانے زمانہ کے لوگوں نے تو اس کو پل سے آگے نہ جانے دیا کیونکہ اس وقت لفظ پر ستی غالب تھی.اور آج جبکہ مادیت کا زمانہ ہے اس کو قصہ سمجھ کر انکار کر دیا گیا.لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ بات سچی ہے.پل صراط ہے.مگر اس صورت میں نہیں جس طرح لوگ کہتے ہیں.ہاں وہ اس دنیا کی علامت ضروری ہے.حضرت صاحب نے اس امر پر بحث کی ہے.کہ مومنوں کو جب قیامت کے دن میوے ملیں گے تو وہ کہیں گے ایسے تو ہمیں پہلے بھی ملے تھے.وہ میوے ہوں گے تو متشابہ مگر کیا یہی میوے ہوں گے جیسے ہم آج بازار سے خرید کر کھاتے ہیں.حدیث سے تو معلوم ہو تا کہ وہاں کی چیزیں دنیا کی چیزوں سے قیاس میں ہی نہیں آسکتیں.کیونکہ ان کے متعلق آتا ہے.لا عين رأت ولا اذن سمعت اب کہ وہ نہ آنکھوں نے دیکھے ہوں گے.نہ کانوں نے سنے ہوں گے.پھر یہ کیسے کہہ دیا گیا ہے کہ وہ میوے یہاں کے میووں سے متشابہ ہوں گے حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ وہ میوے ایسے نہیں ہوں گے جو ہم یہاں کھاتے ہیں.ان میووں اور ان میووں میں زمین آسمان کا فرق ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں کے میوے یہاں کی روحانی لذت کے مشابہ ہوں گے.جیسے ایک مومن کو نماز یا روزے یا حج یا زکوۃ یا کسی غریب کی ہمدردی میں لذت آتی ہے وہاں اس کو جو میوے ملیں گے ان سے یہی لذت اسے حاصل ہوگی.اور ان کا دل اسی طرح سرور سے پر ہو گا جس طرح یہاں عبادت الہی کے بجالانے سے ہوتا تھا.تو وہاں جو پھل ملیں گے ان کی لذتیں متشابہ ہوں گی ان لذتوں کے جو مومن کو یہاں عبادت الہی میں حاصل ہوتی ہیں.جو لذت نماز یا روزے یا کسی اور

Page 112

1.4 عبادت میں ملتی ہے وہ وہاں کے انگور یا انار یا کیلے یا کسی اور پھل میں ہوگی.جب مومن کو وہ پھل میں گے تو وہ محسوس کرے گا کہ پھل مجھے فلاں عبادت یا خدمت کے بدلے میں ملا ہے.یا فلاں کے.بعینہ اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ پل صراط بھی ہے.حضرت صاحب کی تشریح و تاویل کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں میوے نہیں ہوں گے.میوے تو ہوں گے.مگر ایسے میوے نہیں ہوں گے.جیسے کوئٹہ کے میوے ہوتے ہیں.بلکہ ان میووں میں ذکر الہی کی ایک لذت ہوگی نماز کی ایک لذت ہوگی.روزے کی ایک لذت ہوگی.اور یہ لذتیں انگوریا انار یا کیلے کی شکل میں ہوں گی.وہ مادی انگوروں.اناروں یا کیلوں کی ایسی لذتیں نہیں ہونگی بلکہ وہ پھل چونکہ روحانی ہوں گے اس لئے ان کی لذت ان مادی میووں کی لذت سے مختلف ہوگی.جو اس دنیا کے مادی پھل ہیں ان کی لذتیں اس جہان کے پھلوں کی لذتوں کے مقابلہ میں پیچ اور حقیر ہوں گی.ورنہ اگر اسی دنیا کے میوے جنت میں بھی ملے تو کچھ نہ ملا.کیونکہ مثلاً جب ایک بچہ ہوتا ہے تو اس کی خوشی صرف اس میں ہوتی ہے کہ اس کو کھیلنے کو وقت مل جائے یا معمولی سے معمولی چیز کھانے کو مل جائے مگر جب وہی بچہ بڑی عمر کا ہو جاتا ہے تو وہ چیزیں اس کو خوش نہیں کر سکتیں.بچہ جب چھوٹا ہوتا ہے تو کھیلنے میں خوش ہوتا ہے لیکن اگر ایک شخص کو کہا جائے کہ تم پڑھو تو تمہیں کھیلنے کو وقت ملے گا.تو وہ پڑھنے کے لئے آمادہ نہیں ہو سکتا.ایک پڑھے لکھے شخص کے آگے ایک جلیبی رکھ دی جائے.اور اس کو کہہ دیا جائے کہ یہ تمہارے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا نتیجہ ہے تو وہ سمجھے گا کہ یقیناً میرا وقت ضائع ہوا.اب غور کرو کہ بچپن میں ایک شخص زیادہ کھیلنے یا مٹھائی کو اپنی امیدوں کا انتہا خیال کرتا ہے.اور اس پر خوش ہو جاتا ہے.مگر وہی بچہ جب پڑھ لکھ کر جوان ہو جاتا ہے اس وقت اگر اس کے سامنے اس کی تعلیم کے نتیجہ کے طور پر مٹھائی رکھی جائے یا کہا جائے کہ تم کھیلتے رہو تو وہ اس سے خوش نہیں ہو سکے گا، یہی سمجھے گا.کہ تعلیم حاصل کرنے میں میں نے اپنا وقت ضائع کیا.یہ کیوں ہے؟ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ چونکہ بچپن کی نسبت جوانی میں انسان کے عقلی اور دماغی اور ذہنی قومی بہت اعلیٰ درجہ پر پہنچ چکے ہوتے ہیں اس لئے بچپن کی باعث مسرت اشیاء اس کو ادنی اور ذلیل نظر آنے لگتی ہیں.اسی لئے ایک ایم.اے پاس یا ایک سائنس کے عالم کے سامنے مٹھائی کی تھالی بطور اس کی تعلیم کے نتیجہ کے رکھنا اس کی ہتک کرنا ہے.اسی طرح اس روحانی عالم میں ایک روحانی ترقی یافتہ شخص کے آگے اس دنیا کے مادی انگور یا انار یا کوئی میوے رکھنا اس کی ہتک ہے.جس طرح یہاں ایک اعلیٰ امتحان میں کامیاب ہونے والے طالب علم کے لئے انعام کوئی نادر ادبی کتاب یا کوئی ڈاکٹر ہو تو طب کی نہایت بیش قیمت کتاب دینا جس کو خود طالب علم حاصل نہ کر سکتا ہو یا حاصل تو کر سکتا ہو مگر وہ کتاب تازہ شائع ہونے کے باعث مشہور نہ ہو مگر

Page 113

104 استاد کے علم میں ہو اس کے مناسب ہے.اسی طرح ایک شخص جو خدا کے راستہ میں مال، جان، عزت عزیز و اقارب سب کو قربان کر دیتا ہے.اس کو اگر اس جہان کے مادی میوے وہاں دئے جائیں تو یہ اس کی ہتک ہو گی اس لئے اس کو جو کچھ ملے گا وہ بہت ہی اعلیٰ ہو گا.گو اس کی شکل انہی میووں کی سی ہوگی جس کی وجہ یہ ہے کہ تا خدا تعالٰی یہ دکھائے کہ دشمنوں نے اس خدا کے بندے سے جو نعمتیں چھین لی تھیں.وہ اس سے کہیں زیادہ اور اعلیٰ اس کو حاصل ہو گئیں.پس یہ نعمتیں اس کو ملیں گی اور ان سے وہ لذت یاب ہوگا اور اس سے اس کا عرفان اور ترقی کرے گا اور ذوق بہت بڑھ جائے گا اور یہ تمام لذتیں وہی ہونگی جو تبلیغ دین سے یا ذکر الہی سے یا غربا کی مدد کرنے وغیرہ یہی حال پل کا ہے.وہ پل در حقیقت تلوار سے کہیں زیادہ تیز ہو گا.اور اس پر سے لوگ اس طرح گذریں گے جس طرح کسی کا مذہبی ثبات ہو گا.کچھ بجلی کی طرح کچھ ہوا کی طرح کچھ گھوڑے کے سوار کی طرح کچھ دوڑتے ہوئے.اور کچھ پیدل کی مانند اور کچھ بیٹھ کر اور کچھ گھٹنوں کے بل.اور کچھ دوزخ میں کٹ کر گر جائیں گے مگر یہ ایک تماشہ کی طرح نہیں ہوگا بلکہ اس کی ایک حیثیت ہوگی.اس پل پر سے عبور کرنے کے لئے دنیا میں بھی خدا نے ایک پل بنایا ہے.جیسا کہ یہاں خدا کے لئے نعمتیں چھوڑنے والے کے لئے وہاں نعمتیں ہیں اسی طرح یہاں بھی ایک پل ہے جو اس دنیا کے پل پر سے گزرے گا.وہ اس جہان کے پل پر سے بھی گزر سکے گا.اور جس طرح اس نے اس دنیا کے پل کو عبور کیا ہو گا اسی طرح اس جہان کے پل کو بھی طے کرے گا.اگر یہاں بجلی کی طرح گذرا تو وہاں بھی اگر یہاں ہوا کی طرح گزرا تو وہاں بھی اسی طرح گزرے گا.لیکن اگر اس پل پر سے گر کرکٹ گیا تو اس پل کو عبور کرنے میں بھی کٹ کر دوزخ میں گر جائے گا.وہ پل کونسا ہے جس پر دنیا میں گزرنا پڑتا ہے.وہ شریعت کی پابندی اور کچے مذہب کی اطاعت کامل ہے.جو اس پر سے گذرتے ہیں.کوئی ان میں سے اخلاق کی پابندی نہ کرنے کی وجہ سے اس پل سے گذرتا ہوا کٹ جاتا ہے.اور کوئی حسد اور کینہ اور بغض کی وجہ سے مارا جاتا ہے.بعض شریعت کے دیگر احکام کی پابندی نہ کرنے کی وجہ سے اس پل پر سے گذرنے میں ناکام رہتے ہیں.لیکن جو لوگ اخلاق میں اعلیٰ درجہ کے ہوں گے دین کی اطاعت میں کامل ہوں گے.اور خدا تعالی کے احکام کو کامل شوق سے مانتے رہے ہوں گے.وہ اس پل سے بجلی کی طرح گذر جائیں گے.یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی اس دنیا کے پل سے لڑھکتا ہوا گزرے اور اگلے جہان کے پل پر سے آسانی سے گذر جائے.جو یہاں دوڑتے ہوئے نہیں گزرتے وہ شیطان کے حملوں سے محفوظ نہیں.اس دنیا میں جو پل ہے وہ دوسرے جہان کے اس پل پر چلنے کے لئے بطور مشق ہے جو لوگ اس

Page 114

•A دنیا کے پل پر چلنے کی مشق کریں گے یعنی حتی الوسع شریعت کے احکام کی اتباع کریں گے.وہ اگلے جہان کے پل پر سے گذریں گے.لیکن جو یہاں مشق نہیں کریں گے.وہ پل صراط پر سے نہیں گذر سکیں گے.کیونکہ روحانی کام ہو یا جسمانی اس کے لئے مشق کرنا ضروری ہوتا ہے.مثلاً دیکھ لو کہ نٹ کس طرح رسوں پر چڑھ کر چلتے ہیں.اس کی وجہ مشق ہے.وہ ایک آدھ دن میں رسے پر چلنے نہیں لگ جاتے بلکہ مدتوں مشق کرتے ہیں.تب ان کو کامیابی ہوتی ہے.یا مثلا ڈاکٹر کیسے کیسے نازک اور خطرناک آپریشن کرتے ہیں.مگر ایک شخص جس کو مشق نہ ہو چاہے وہ روز ڈاکٹر کو آپریشن کرتے دیکھتا ہو.آپریشن میں کامیاب نہ ہو گا.آنکھ کا آپریشن کیا جاتا ہے.ایک پردہ چیر کر اندر سے ایک گٹھلی نکال دی جاتی ہے.ایک ماہر اور مشاق ڈاکٹر کس ہوشیاری سے اس کام کو انجام دیتا ہے مگر دوسرا شخص اگر ہاتھ ڈالے تو یقیناً آنکھ کو ضائع کر دے گا.تو مشق سے کام آیا کرتے ہیں یہ مت سمجھو کہ یہاں تو تم اس پل پر سے گذرنے کی مشق نہ کرو جو خدا نے شریعت کی پابندی کرنے کی صورت میں تمہارے سامنے کھڑا کیا ہے اور امید یہ رکھو کہ ہم اگلے جہان کے پل پر سے گذر جائیں گے.یہ خیال باطل ہے.جس کو یہاں چلنے کی مشق نہیں وہ اس پل پر نہیں چل سکے گا وہ جنت میں پہنچنے سے پہلے دوزخ میں گرے گا.اگر یہ خیال کیا جائے کہ جس طرح یہاں لوگ کرتے ہیں کہ اگر کہیں جانے کا ارادہ کیا مگر راستہ مشکل ہوا تو نہ گئے اور وہاں جانے کا ارادہ فخ کر دیا.اسی طرح وہاں بھی کریں گے تو یہ خیال بھی غلط ہے.وہ راستہ ضرور اختیار کرنا پڑے گا.اور اس پل پر سے ضرور گذرنا پڑے گا.اس لئے یا تو کٹ کر جہنم میں گر جائیں گے یا اپنی مشق کے مطابق تیزی سے طے کر کے جنت میں پہنچ جائیں گے.یہاں بے ہمتی ہو سکتی ہے.اور ایک جگہ کا عزم ملتوی کیا جا سکتا ہے مگر وہاں یہ نہیں ہو سکتا.پس اس پل کے مفہوم پر یقین رکھو.اس کو مت بھلاؤ اور یہاں جو پل تمہارے واسطے بنایا گیا ہے اس کو کامیابی سے عبور کرنے کی کوشش کرو.اگر اس کو عبور کرنے میں سستی اور غفلت کرو گے تو خسران اور تباب کے سوا کچھ نہیں حاصل ہو گا.اب اس مضمون کو اپنی زندگیوں پر لگاؤ اور دیکھو کہ تمہیں اس دنیا میں بنائے ہوئے خدائی پل پر چلنے کی مشق ہے یا نہیں.اگر ہے تو بڑی خوشی کی بات ہے اگر نہیں تو مشق کرو.اور اگر مشق نہیں کرو گے تو علاوہ شرمندگی کے اس جہان میں ذلت اٹھانی پڑے گی.الفضل ۲۴ اکتوبر ۱۹۲۱ء) ا بخارى كتاب التوحيد قول الله تعالى وجوه يومئذ ناضرة الى ربها ناظره که مشکوة باب صفة الجنته واهلها

Page 115

1.4 27 27 ایمان کی خوشبو (فرموده ۱۴ نومبر ۱۹۲۱ء) تین بار تشہد کے بعد سورہ فاتحہ کی تلاوت کی اور فرمایا.میں جس امر کی طرف آپ لوگوں کو ایک عرصہ سے توجہ دلاتا ہوں آج بھی اسی مضمون کی ایک شاخ کی طرف توجہ دلاتا ہوں.لیکن اصل مضمون کے تسلسل کو ایک حکمت کے ماتحت اگر منشاء الہی ہو تو اگلے جمعہ پر ملتوی کرتا ہوں.اور اس کی ایک اور شاخ کو لیتا ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ پچھلے دنوں میں میں نے جو کچھ کہا.اور جو کچھ آئندہ کہنے کی نیت ہے.محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسی کے ارادے کے موافق ہے.میں جانتا ہوں میں نے یہ باتیں جس وقت کہنی چاہی ہیں وہ وقت خدا کے نزدیک مناسب اور صحیح ہے.اور یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ انسان جو اب بھی اپنی نفسانی خواہشات میں مبتلا رہے گا اور نیکی کی طرف قدم نہیں اٹھائے گا وہ خدا کے مقربین کے رجسٹر سے کاٹ دیا جائے گا.خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا اور وہ لوگ جو سنیں گے اور سنکر عمل کرنے کی سعی کریں گے وہ خدا کے فضل کے وارث ہوں گے اور ان پر خدا کی رحمت نازل ہوگی.میں نے جو کچھ تم لوگوں کو کہا ہے اس میں میرا ذاتی نفع کوئی نہیں.نہ مالی نفع ہے.نہ اعزازی نفع ہے.نہ رتبہ کے طور پر نفع ہے.تم زیادہ سے زیادہ جو کچھ کر سکتے تھے وہ تم کر چکے.تم میری بیعت کر چکے.اور تم نے بیعت کرکے جو اعزاز دینا تھا تم نے یا خدا نے وہ مجھے دے دیا.اب یہ معاملہ تمہارے اختیار سے باہر ہو گیا.اب تمہارے پاس کوئی چیز نہیں جو تم مجھے دو اور پہلے نہ دے چکے ہو.تمہارا جو کچھ تھا وہ تم میں سے بعض ایک سال قبل بعض دو سال قبل بعض تین سال اور بعض سات سال قبل دے چکے.تم نے وہ سب کچھ جو تمہارا تھا قربان کر دیا.کیونکہ تم نے بیعت کرلی اور بیعت کے بعد بیعت کرنے والے کی کوئی چیز نہیں رہا کرتی.نہ اس کی جان اس کی رہتی ہے.نہ اسکا مال اس کا رہتا ہے.نہ اس کی عزت اس کی عزت رہتی ہے.نہ اس کی جائداد اس کی رہتی ہے.غرض جو کچھ تمہارا تھا وہ آج سے مدت پہلے تم دے چکے.پس اب تم سے میرا کوئی

Page 116

خواہش کرنا عبث فعل ہے.اگر تم سچے ہو اور تم نے بیعت کے اقرار میں فریب نہیں کیا.اور تم جھوٹ نہیں بولے.تو اب تمہارے پاس تمہارا کچھ نہیں رہا.کیونکہ تم کہہ چکے ہو کہ ہم وہ قربان کر چکے.اس لئے میں جو کچھ تمہیں کہتا ہوں وہ اپنے ذاتی نفع اور فائدہ کے لئے نہیں.بلکہ محض اس لئے کہتا ہوں کہ تم نے جو مجھ سے معاہدہ کیا ہے تمہیں بھی اس سے کوئی فائدہ ہو.اور جو کچھ مجھے ملا ہے میں تمہیں دے دوں.مجھ سے دیانتداری تقاضا کرتی ہے کہ جو معاہدہ تم نے مجھ سے کیا ہے اس کے مطابق تمہیں وہ کچھ دوں جو مجھے ملا ہے اور تمہیں صحیح راستہ دکھاؤں.اور تمہیں بتاؤں کہ اب تک تم اس راستے کو چھوڑ کر دوسری طرف جا رہے ہو.پس میں نے جو کچھ کہا اور آئندہ جو کچھ کہوں گا وہ اپنے لئے نہیں بلکہ تمہارے ہی فائدہ کے لئے ہے.میں نے تمہیں بتایا ہے کہ جو کچھ میں نے کہا ہے.وہ خدا کے منشاء کے مطابق ہے.میں نے رڈیا میں ایک شخص کو دیکھا ہے.اس نے مجھ سے کہا کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں اس لئے کہ تم خوشبو سے محبت کرتے ہو.میں نے اس وقت اپنے کپڑوں کو سونگھا تو مجھے ان میں خوشبو معلوم نہیں ہوئی.میں نے اسی حالت رویا میں سمجھا کہ اس خوشبو سے مراد وہ خطبے ہیں جو میں نے ایمان کی مضبوطی کے لئے بیان کئے ہیں.کیونکہ ایمان کو خوشبو سے تعبیر کیا گیا ہے.چونکہ میں ایمان کو دنیا میں پھیلانا چاہتا ہوں.اس لئے اس شخص نے کہا کہ چونکہ تم خوشبو سے محبت رکھتے ہو اس لئے میں تم سے محبت رکھتا ہوں ورنہ ظاہری طور پر اس وقت میرے کپڑوں کو خوشبو نہیں لگی ہوئی تھی.اس وقت میں سمجھا کہ یہاں خوشبو سے مراد یہ خطبات ہیں جن میں دعوت ایمان دی گئی ہے.پس خوب یاد رکھو کہ اجتماع کوئی چیز نہیں.تم یہ مت خیال کرو کہ تم تھوڑے تھے اب بہت ہو گئے.تم ذلیل تھے اب معزز ہو گئے.تمہاری نظر اس طرف مت جائے کہ آج ہندوستان میں پیدا ہونے والی ہر ایک تحریک تمہاری ہمدردی کی طالب ہوتی ہے.اور اس کے محرک چاہتے ہیں کہ تم بھی ان کے ساتھ مل جاؤ کہ ان کی آواز مؤثر ہو جائے.لیکن کیا تم اپنے لوگوں سے اس لئے علیحدہ ہوئے تھے کہ لوگ تمہاری طرف انگلیاں کریں گے.اور لوگوں کی تم پر نظر پڑے گی کہ یہ بھی کوئی ہیں.لیکن تم یقین کرو کہ تمہارا یہ کام اس نیت سے نہ تھا.جب تم اپنے اصل سے جدا ہوئے تھے.تو اس وقت کسی عقل میں نہ آتا تھا کہ تم کو لوگ عزت کی نظر سے دیکھیں گے.اور تم سے ہمدردی چاہیں گے.بلکہ اس وقت تو تمہاری یہ حالت تھی کہ تم پر انگلیاں اٹھنے کی بجائے تم پر سے لوگ گذرتے تھے تاکہ تمہیں کچل دیں.پس یہ غلط ہے.کہ ہم اس لئے جدا ہوئے تھے.کہ لوگوں کی انگلیاں ہماری طرف اٹھیں.بلکہ ہم دیکھتے تھے.کہ ہم کو کچلنے کی ہر ایک کوشش ہوگی اور لوگ

Page 117

HE ہمیں پامال کرنے کے درپے تھے.اس وقت اگر ہمارا کوئی مدعا تھا تو سوائے چند مستثنیات کو چھوڑ کر جن کے دل میں عزت کی خواہش ہو ہماری یہ کوشش اور خواہش تھی کہ ہم خدا کو خوش کریں گے.اگر خداتعالی خوش ہو.اور وہ ہم سے راضی ہو تو دنیا کی نظر میں معزز ہونا یا ذلیل کوئی قیمت نہیں رکھتا.چندوں کا بڑھ جانا نہیچ ہے.اور ہمارے کاموں کا پھیل جانا کوئی اہمیت نہیں رکھتا.اگر ہم ایسی ہی باتوں پر خوش ہو سکتے ہیں تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بچہ اپنی ماں سے ملنے کے لئے جاتا ہے مگر راستہ میں اس کو ایک شیشے کی گولی مل جاتی ہے جس پر سورج کی شعائیں پڑتی ہیں اور ترچھی ہو کر نکلتی ہیں جو بہت خوبصورت معلوم ہوتی ہیں.اور بچہ اس پر خوش ہو جاتا ہے.حالانکہ ماں کی ملاقات سے بڑھ کر وہ محبت کی چیز نہیں.پس دنیا کی عزت یا مال کی طرف نظر کرنا خدا کے مقابلہ میں ایسی ہی ہے.جیسی ماں کی محبت کے مقابلہ میں شیشہ کی گولی پر خوش ہو جانا بلکہ اس سے بھی حقیر.جو لوگ خدا کے مقابلہ میں دنیا کی عزت میں پڑ جاتے ہیں.وہ اپنی عمر کو ضائع کرتے ہیں.اور ایسا شخص نجات کا مستحق نہیں.ہاں اگر کوئی شخص خدا کو مقدم کرتا ہے اور اس کی حالت سے یہ بات ظاہر ہے تو وہ خوش ہونے کا مستحق ہے.اس میں شبہ نہیں کہ خدا کا فضل ہی ہوتا ہے جس سے نجات ہوتی ہے.اور کوئی شخص اپنے عمل کی بناء پر دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ نجات پائے گا.کیونکہ سب سے بڑے عامل اور سب سے بڑے خدا کے فرمانبردار محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں.آپ بھی اپنے اعمال پر بھروسہ نہیں کرتے.چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عائشہ صدیقہ نے سوال کیا کہ آپ تو اعمال سے ہی بہشت میں جائیں گے؟ آپ نے فرمایا نہیں عائشہ میں بھی خدا کے فضل سے ہی جاؤں گا.پس جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان جس کا ہر ایک سانس.جس کا چلنا پھرنا عبادت میں داخل تھا جس کا سونا اور جاگنا عبادت میں گنا جاتا تھا جس کی ہر حرکت و سکون عبادت تھی.حتی کی جس کا پاخانے پیشاب کے لئے جانا اور اپنی بیویوں کے پاس جانا بھی عبادت تھا.اتنا بڑا عبادت گزار انسان جب کہتا ہے کہ میں اپنے اعمال سے بہشت میں نہ جاؤں گا.بلکہ خدا کے فضل سے.تو اور کون ہے جو کہے کہ میں عمل سے بہشت میں داخل ہو جاؤں گا.یہ مت خیال کرد که رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فعل کیسے عبادت میں داخل ہو گیا.کیونکہ ان کے متعلق خدا نے یہ بتایا ہے کہ ان کی ہر ایک حالت عبادت تھی.ناواقف کہہ سکتا ہے کہ آنحضرت کی ہر حرکت کیسے عبادت ہو گئی مگر تم یاد رکھو.کہ یہ بالکل صحیح بات ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہر فعل عبادت تھا.ہاں آپ کے سوا کسی کا ہر ایک فعل عبادت نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق خدا نے فرمایا.ولكم في رسول الله اسوة حسنه

Page 118

۱۱۲ (الاحزاب (۲۲) کہ تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فعل میں ایک نمونہ ہے.کیا اس کے یہ معنی نہیں.کہ رسول کریم اپنے عمل سے بتلائیں کہ کونسا فعل جائز ہے اور کونسا نا جائز.کونسا مستحسن ہے.اور کونسا مکروہ.اور کونسا حلال ہے اور کونسا حرام.پس رسول کریم کا ہر ایک کام ایک بیان ہے.اور ایک ڈسکرپشن (Description) ہے.مثلاً آپ کا نماز پڑھنا نہ صرف خدا کے ایک حکم کی تعمیل تھی.بلکہ اعلان تھا کہ یہ فرائض ہیں.یہ سنتیں ہیں.اور یہ نوافل ہیں جو فرائض کے علاوہ ہیں.اور جن کا پڑھنا قرب الہی کے لئے ضروری ہے.آپ کا کھانا کھانا اعلان تھا کہ جو کچھ آپ کھاتے ہیں وہ حلال ہے.اور جن چیزوں کو آپ نہیں کھاتے تھے وہ کھانے کے ناقابل تھیں.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فعل چونکہ نمونہ بنایا گیا ہے لوگوں کے لئے.اس لئے آپ جن چیزوں کو جائز بتاتے تھے اور استعمال فرماتے تھے.یہ عبادت تھی.اسی طرح جن سے منع فرماتے تھے اور استعمال نہ کرتے تھے.یہ بھی عبادت میں شامل تھے.غرض آپ کا ہر فعل عبادت تھا.کیونکہ خدا کے حکم کے ماتحت تھا.چنانچہ اس کی ایک مثال ہے کہ ایک شخص نے عصر کی نماز کا وقت دریافت کیا.ظاہر ہے کہ اول وقت پر نماز پڑھنا مستحسن ہے.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی دیر کی کہ وقت نہایت تنگ ہو گیا آپ کا نماز میں یہ دیر کرنا بھی عبادت تھا.کیوں؟ اس لئے دیری کہ آپ یہ سبق دے رہے تھے.کہ اگر انسان کسی وجہ سے کسی وقت اول وقت میں نماز نہ پڑھ سکے.تو اگر آخری وقت تک پڑھ لے.تو بھی اس کی نماز ہو جائے گی.غرض فرائض میں اعلان تھا.واجبات میں اعلان تھا.نوافل و سنن میں اعلان تھا کہ یہ سب کچھ عبادت الہی ہے.اس حالت پر بھی آپ فرماتے ہیں کہ خدا کے فضل سے بہشت میں جائیں گے.پھر ہم لوگ جن کے اعمال بہت تھوڑے ہیں کیسے کہہ سکتے ہیں.کہ ہم اعمال سے بہشت میں چلے جائیں گے.اس سے تمہیں معلوم ہو گیا ہو گا کہ فضل کیسی ضروری چیز ہے مگر وہ محض دعوئی سے حاصل نہیں ہوتا.اس کے حصول کے لئے بھی کسی چیز کی ضرورت ہے.محض دعویٰ ایمان سے کچھ نہیں بنتا.کیا تم نے قرآن کریم میں آدم کے دو بیٹوں کا قصہ نہیں پڑھا؟ کہ یہ مت سمجھو کہ وہ آدم کے بیٹے تم نہیں ہو.تم میں سے جو قربانی لاتا ہے.اور سچائی اور راستبازی کے ساتھ لاتا ہے اور محض دعویٰ ایمان نہیں کرتا آدم کا وہ فرزند ہے جس کی قربانی قبول ہوئی.اور دوسرا جو محض دعویٰ ایمان لیکر آتا ہے.اور اس کی قربانی میں صداقت اور راستبازی نہیں ہوتی.وہ گویا ایک نجاست کا ٹوکرا قربانی کرتا ہے.اور وہ آدم کے اس فرزند کی مانند ہے جس نے کہا جاتا ہے کہ ایک پیاز کا ٹوکرا قربانی پیش کیا تھا جو ایسی بدبو دار چیز ہے کہ اسے کھا کر انسان کے لئے مسجد میں جانا منع ہے.پس تم میں

Page 119

۱۱۳ سے ہر ایک اپنے ایمان اور عملی حالت کے لحاظ سے آدم کے دونوں فرزندوں میں سے کسی ایک کے مطابق ہے.جو نیکی اور ایمان کے ساتھ خدا کے حضور آتا ہے.وہ اس فرزند کے مطابق ہے جس کی قربانی مقبول ہوئی.اور جو ناپاکی اور بری نیت اور غیر خالص ایمان لاتا ہے.وہ دوسرے فرزند کے مطابق ہے جس کی قربانی مقبول نہ ہوئی.یاد رکھو کہ محض دعویٰ سے قبولیت حاصل نہیں ہوتی بلکہ دعویٰ کے ساتھ کچھ حقیقت بھی ہو تو قبولیت حاصل ہوتی ہے.اگر قربانی سچے دل سے جان اور مال کی نہیں کی جاتی.بلکہ ایمان کے دعوئی کے ساتھ جب تک کوئی نہ کوئی بلندی راستہ میں رہتی ہے جو روکتی ہے وہ کوئی ایمان نہیں.کیونکہ تم دیکھتے ہو اگر کوئی بلندی حائل ہو تو تم اپنے محبوب کو نہیں دیکھ سکتے.اسی طرح اگر خدا تعالی تک پہنچنے میں تمہارے راستے میں عزت کا ٹیلا ہے یا جاہ و مال کا ٹیلا ہے جس کو تم پامال نہیں کرتے.تو تمہارا ایمان کچھ نہیں.ایمان تو وہ چیز ہے کہ جس کے بعد ایک امن آجاتا ہے.اور اس کے بعد کوئی دنیاوی خلش باقی نہیں رہتی.کیا تمہاری حالت ایسی ہے؟ کیا یہ لطیفہ نہیں کہ اگر کوئی شخص گلاب کا عطر لگاتا ہے یا کیوڑا چھڑکتا ہے تو اس سے اس کی روح کو فرحت حاصل ہوتی ہے اور اس کی خوشبو سے فضا مہک جاتی ہے لیکن تم کہو کہ تمہیں خدا پر ایمان ہے اور خدا کی محبت تمہارے دل میں ہے.مگر تم سے کوئی خوشبو نہ آئے.ان لوگوں کو چھوڑ دو جن کے حواس درست نہیں وہ بیمار ہیں مگر جن کے حواس بجا ہیں ان کو تم سے خوشبو آنی چاہیئے.اگر واقعہ میں تمہیں ایمان حاصل ہے اور تم نے خدا کو پالیا ہے.اور وہ تم سے علیحدہ نہیں اور اس کی محبت تم میں سما گئی ہے تو تم سے کیوں خوشبو نہیں آئے گی.تم کہہ سکتے ہو کہ ہم نے کب کہا کہ ہم نے خدا کو پالیا.ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں.مگر یہ کہنا تمہاری غلطی ہوگی کیونکہ خدا کا پانا اور مومن ہونا ایک ہی بات ہے.مومن وہ ہے جس نے مشاہدہ کر لیا اور اس کو یقین حاصل ہو گیا.مومن امن میں ہے.اور امن میں وہی ہوتا ہے جو محافظ کے پاس ہوتا ہے.پس جب تم مومن ہونے کا دعوی کرتے ہو تو ساتھ ہی یہ بھی ظاہر کرتے ہو کہ تم نے خدا کو پالیا اور خدا تمہارے پاس ہے.اور تمہیں خدا کے قرب کا مقام حاصل ہو گیا ہے.جس کے معنی یہ ہیں کہ تمہارے دل و دماغ معطر ہیں اور خدا کی محبت کا پھول تمہارے دل میں ہے.اس لئے جس طرح گلاب کا پھول کپڑوں میں لپٹا ہوا کپڑوں کو مہکا دیتا ہے.اسی طرح خدا کی محبت سے تمہارا جسم ملک اٹھنا چاہیے.کیا تم خدا کی محبت کی خوشبو کو اتنا حقیر یا اتنا بے اثر خیال کرتے ہو کہ وہ گلاب کے پھول کی خوشبو سے بھی کم ہے.ایمان کا تو یہ تقاضا ہونا چاہیے کہ مومن کے دل سے ایمان کی خوشبو آئے.لیکن جس شخص کے دل سے خوشبو نہیں آتی وہ کیسے مطمئن ہو گیا کہ اس کو ایمان حاصل

Page 120

۱۱۴ ہے.ایک چیونٹی کو دیکھ کر اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا.اگر سورج کو دیکھا جائے تو بالکل ہی انکار کی کوئی گنجائش نہیں رہتی.پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ خدا کو دیکھ بھی لیا ہو.مگر اس دید کا کوئی اثر باقی نہ ہو.اگر واقعی تم نے خدا کو دیکھ لیا ہے تو پھر تمہارے اندر کوئی ایسی بات نہیں رہ سکتی جو خدا کی دید کے بعد نہیں رہنی چاہئیے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ نہایت معمولی باتوں سے لوگوں کو ٹھوکر لگتی ہے اور ان کے قدم متزلزل ہو جاتے ہیں.بات یہ ہے کہ ان کا دعویٰ ایمان جھوٹا اور غلط ہوتا ہے.کیونکہ ایمان رویت اور تسلی کو چاہتا ہے.جب تک رویت اور تسلی نہ ہو.جب تک ایمان کی خوشبو نہ آئے اس وقت تک ایمان کا دعویٰ بے معنی ہے.اب تم اپنی اپنی حالت کو دیکھ لو.تم میں سے کتنوں کو خدا پر چیونٹی کے برابر بھی ایمان ہے.جب تک اتنا بھی ایمان نہ ہو.کوئی مومن کس طرح کہلا سکتا ہے.اگر تمہارے دن رات کسی اور طرف لگے رہتے ہیں.اگر تم میں خدا کے لئے تڑپ نہیں.اور نہ تم کو اس کا احساس ہے.اور نہ کوئی روحانی زندگی کی علامت ہے.تو ایسی حالت میں تمہیں کون مومن سمجھ سکتا ہے.کون عقل مند ہے جو تمہارے دعوئی ایمان کو سچا مان سکتا ہے.میں تو کہتا ہوں اگر کسی میں ایمان کی خوشبو ہے تو خواہ وہ ہزار نیکی نہ کرتا ہو خدا کا مقرب ہے.لیکن اگر کوئی ساری عبادتیں بجالاتا ہے.مگر اس کی روح میں بدی ہے اور وہ روحانی اور ایمانی خوشبو اپنے اندر نہیں رکھتا.تو اس کی یہ تمام عبادتیں اکارت ہیں.اور اس کی عبادتیں خس و خاشاک کی مانند ہیں.جن کو آگ کی ایک لپٹ جلا کر راکھ کر دیتی ہے.ہاں وہ لوگ جو ایمان رکھتے ہیں.خواہ ان میں بعض نیکیوں کی کمی ہو ان کی مثال اس شخص کی مانند ہوتی ہے جو خزانہ پر بیٹھا ہوتا ہے جب کوئی خطرناک وقت آئے وہ مال نکال کر اپنے استعمال میں لا سکتا ہے.جس کو قرب حاصل ہے.اس میں اگر کوئی سستی ہو تو اس قدر خطرہ کی بات نہیں.برخلاف اس کے جس کو قرب نہیں.اس کی حالت قابل اطمینان نہیں.ان دونوں کی یعنی ایک جس کو قرب حاصل ہے مگر اس کے اعمال میں کسی قدر سستی ہے.اور دو سرا وہ جس کو ایمان حاصل نہیں گو وہ عمل کرتا ہے ایسی مثال ہے جیسا کہ جنگل میں دو شخص ہوں ایک کے پاس اس کی ماں کی تصویر ہو شیر اس پر حملہ کرے اور وہ ماں کی تصویر کو چھاتی سے لگالے ظاہر ہے کہ یہ تصویر اس کو نہیں بچا سکتی.اور دوسرا اپنی ماں کی گود میں ہے.گو اس کی آنکھیں بند ہیں.اور وہ سویا ہوا ہے مگر اس کے لئے کوئی خطرہ نہیں.پہلا باوجود ہوشیار ہونے اور ماں کی تصویر کو سینے سے لگانے کے محفوظ نہیں اور دوسرا غافل ہے مگر ماں کی گود میں ہے.پس تمہیں اپنے اندر اس روح کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے.ورنہ تمہاری زندگی عبث ہے.

Page 121

اور کوشش بیکار.110 བ اه بخاری کتاب الرقاق باب القصد والمقاومة على العمل المائده : ۲۸ الفضل ۱۱۴ نومبر ۱۹۲۱ء )

Page 122

114 28 مقام قرب چاہتے ہو یا ملازمت (فرموده ر نومبر ۱۹۲۱ء) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.دنیا میں بہت بڑی نعمتوں میں سے ایک دیانت داری بھی ہے.ایک کروڑ پتی بددیانت وہ عزت نہیں حاصل کر سکتا جو ایک فاقہ مرنے والا دیانت دار حاصل کر سکتا ہے.عزت قلب سے تعلق رکھتی ہے.اور منہ کی تعریفیں عزت بڑھانے میں محمد نہیں ہوتیں.منہ کسی کی کتنی ہی تعریف کرے.مگر دل خالی ہو.یا ممدوح کے پیٹھ پھیرتے ہی اور باتوں میں مشغول ہو جائے.تو اس سے ممدوح معزز نہیں بنتا.اگر کسی کی منہ سے تعریف کرنے والے دس ہزار ہوں مگر ان کے دل میں اس شخص کے لئے عزت نہیں.اور اس کے مقابلہ میں ایک اور شخص ہے جس کی تعریف کرنے والا صرف ایک ہے اور وہ دل سے کرتا ہے تو وہ شخص معزز نہیں جس کی منہ سے تعریف کرنے والے دس ہزار ہیں.اور یہ شخص معزز ہے جس کی تعریف کرنے والا ایک ہی ہے مگر دل سے کرتا ہے.مقدم الذکر کی عزت نقلی ہے اور موخر الذکر کی اصلی.کیونکہ منہ سے دس ہزار تعریفیں کرنے والے موقعہ پر کام نہیں آئیں گے.اور دل سے عزت کرنے والا ایک شخص موقعہ پر کام آئے گا.اور اپنے ممدوح کے لئے جان دے دے گا.اور سچا دوست وہی ہے جو موقع پر کام آوے.مثل مشہور ہے کہ کوئی امیر تھا اس کے پاس بہت سے امراء آتے تھے.لیکن اس کی توجہ زیادہ تر ایک غریب پر تھی جو اس سے ملنے کے لئے آیا کرتا تھا.امیر کی بیوی اس کو ملامت کیا کرتی تھی کہ تم جس سے زیادہ محبت سے ملتے ہو وہ ایک ذلیل آدمی ہے.امیر ہمیشہ ٹالتا رہتا تھا اور صرف یہ کہہ دیا کرتا تھا کہ اس میں بھی ایک حکمت ہے.آخر جب اس کی بیوی کا اصرار بہت بڑھا تو اس نے کہا چلو میں تمہیں دکھاؤں.بیوی کو ساتھ لیا اور دونوں میاں بیوی نے غریبانہ لباس پہنا.اور بیوی کو ایک بوسیدہ چادر اوڑھا کر پہلے اپنے امیر دوستوں میں سے سب سے بڑے کے گھر گیا اور دروازے پر جاکر اطلاع کرائی کہ مجھے سخت نقصان پہنچا ہے.آپ سے ملنے کی ضرورت ہے.امیر دوست نے

Page 123

114 بھیجا کہ کہدو کہ میں تو آپ سے واقف نہیں.دوسرے کے ہاں گیا.اس نے بھی اندر سے کہلا بھیجا کہ وہ گھر نہیں.اسی طرح سب امیر دوستوں میں سے کسی نے کوئی عذر کیا کسی نے کوئی.اس نے اپنی بیوی کو کہا کہ ان امیر دوستوں کو دیکھ لیا.اب اس غریب کے پاس چل کر دیکھ.بیوی نے کہا کہ جب امیروں کی یہ حالت ہے تو اس غریب کی ان سے بدتر ہو گی.خاوند نے کہا کہ چلو تو سہی.آخر اس غریب کے گھر پہنچے.دروازے پر دستک دی وہ اندر سے آیا.کواڑ کھولتے ہی جب اس نے میاں بیوی کو اس حال میں کھڑے دیکھا تو فوراً اندر واپس چلا گیا.بیوی نے کہا لو اس شخص کو بھی دیکھ لیا یہ بھی ویسا ہی ہے.امیر نے جوابد یا ابھی صبر کرو.دیکھو ہوتا کیا ہے.اگر یہ بھی ویسا ہی نکلا تو ہمارا کوئی حرج نہیں.اور اگر ان کے خلاف ہوا تو ظاہر ہو جائے گا.تھوڑی دیر میں وہ شخص گھر سے نکلا.وردی اس نے پہنی ہوئی تھی.ایک ہاتھ میں تلوار تھی اور دوسرے میں ایک تھیلی رویوں سے پر تھی امیر کے سامنے آیا اور کہا کہ اگر تمہیں مالی نقصان پہنچا ہے تو یہ میری ساری عمر کا اندوختہ ہے اس کو اپنا سمجھو اور اگر کسی شخص نے تم پر ظلم کیا ہے اور اس طرح تمہارے مال کو نقصان پہنچایا ہے تو یہ میری تلوار ہے میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں.اور اس ظلم کا بدلہ لیتا ہوں اس وقت اس امیر نے اپنی بیوی کو کہا کہ دیکھ یہ باعث ہے میرے اس شخص کو زیادہ عزیز رکھنے کا.کیا اس غریب کی محبت اور اخلاص عزت بڑھانے والا تھا یا گھٹانے والا تو بچے دوست کی عزت دل سے ہوتی ہے.جو شخص بناوٹ سے عزت کرتا ہے.وہ عزت حقیقی نہیں ہوتی.جو عزت ایک دیانتدار غریب شخص کی ہوتی ہے.وہ ایک بددیانت امیر کی نہیں ہوتی.دیانت دار شخص کی عزت تو دشمن بھی کرنے پر مجبور ہوتا ہے.دیکھو حضرت صاحب کے مخالف بھی آپ کی عزت کرتے تھے اور آپ پر بھروسہ کرتے تھے.جائداد کے مقدمات میں مخالفوں نے آپ کے فیصلہ کو تسلیم کیا.اور رشتہ دار آمادہ اس لئے نہ ہوتے تھے کہ آپ سچ کہیں گے اور جائداد جاتی رہی گی.چنانچہ دعوی سے قبل اسی قسم کے فیصلے جب مخالفوں نے آپ پر منحصر کئے تو.آپ نے صاف صاف بات کہہ دی.اور اس طرح جائداد مقبوضہ کا ایک حصہ آپ کے خاندان کے ہاتھ سے نکل گیا.تو میں نے بتایا ہے کہ دیانتدار شخص کی عزت اس کا دشمن بھی کرتا ہے.اگر کوئی حقیقی عزت کا طالب ہے تو اس کو چاہیے کہ دیانت کو اختیار کرے.یہی نکتہ ہے جس پر میری تمام سیاسی تجاویز کی بنیاد ہوتی ہے.میں لوگوں کو کہتا ہوں کہ گورنمنٹ سے دیانت سے معاملہ کرو.اگر گورنمنٹ واقعی ایسی بری ہو تو دیانتداری سے اس کو بتا دینا چاہئیے.مگر میری یہ نصیحت سیاست تک ہی محدود نہیں.بلکہ ہر ایک شخص کو یہی کہتا ہوں اور اپنی جماعت کے لوگوں کو بھی یہی کہتا ہوں کہ وہ دیانتداری سے اعمال بجالائیں.وہ دیکھیں کہ ان کے اعمال میں دیانت کہاں تک ہے.اگر ایک

Page 124

کے نزدیک ایک بات غلط ہے تو وہ دیانتداری سے کہدے کہ میں اس کو غلط سمجھتا ہوں.یہ بات جدا ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کو زیادہ دانا سمجھ کر اس کے پیچھے چل پڑے اور کہے کہ گو میں اس بات کو نہیں سمجھا مگر چونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ دانا شخص ہے اس لئے میں اپنی رائے کو اس شخص کی رائے پر قربان کرتا ہوں لیکن اگر کوئی شخص ایک بات کو غلط سمجھ کر اور اس کی غلطی پر مصر ہونے کے باوجود پھر ظاہر میں تو اس کے مطابق کام کرتا ہے.مگر باطن میں اس کا مخالف رہتا ہے اور موقع کا متلاشی رہتا ہے تو اس کا یہ فعل نا واجب اور دیانت کے خلاف ہے.جب تک تم میں یہ بات پیدا نہ ہو کہ تم خواہ سیاسی معاملات ہوں یا دینی یا تمدنی یا کوئی اور ان میں دیانت کے پہلو کو مد نظر رکھو.تم مستحق عزت نہیں ہوگے.نہ انسانوں کی نظر میں نہ خدا کی نظر میں.دیانت تو دیانت اگر دیانت کی شکل بھی اختیار کی جائے تو انسان کی ایک عزت قائم ہو جاتی ہے.مثلاً مسٹر گاندھی ہیں.میرے نزدیک اس وقت ان کے سب کے سب افعال دیانت دارانہ نہیں.پہلے میں یہ سمجھتا تھا کہ ان کا ہر ایک فعل دیانت داری سے ہے مگر اب اس قسم کے واقعات پیدا ہوئے ہیں.جن کے باعث میں نے اپنے رائے کو بدل لیا ہے.اور میں کہتا ہوں کہ مسٹر گاندھی کے رویہ میں صاف ہندو مسلم سوال کام کر رہا ہے.اور وہ در حقیقت ہندوؤں کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں.مسلمانوں سے ان کو کوئی سچی ہمدردی نہیں.چنانچہ ابھی جو سول نافرمانی کا ریزولیوشن پاس ہوا ہے.اس میں شرائط اس قسم کے رکھے گئے ہیں جن کی وجہ سے بالعموم مسلمان ہی اس فیصلہ پر اول کاربند ہونے والوں میں سے ہوں گے.اور اس کا برا نتیجہ بھی زیادہ تر انہی کو بھگتنا پڑے گا.ایک شرط یہ ہے کہ جو لوگ سول نافرمانی کرنے کے لئے آمادہ ہوں.چھوت چھات ترک کر دیں.اب ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوؤں نے تو جیسا کہ ہزاروں سال سے تجربہ ہو چکا ہے اس امر کو چھوڑنا نہیں اور اس طرح اس کام کے وہ مجاز بھی نہ ہوں گے پس مسلمانوں پر ہی بالعموم (مستثنیات کو علیحدہ کر کے) اس کا بار پڑے گا.اس کا نتیجہ کیا ہو گا یہ کہ سب سے پہلے جو قوم توپ کے منہ کے آگے رکھی جائے گی وہ مسلمان قوم ہوگی.اسی طرح محمد علی شوکت علی صاحبان کے معاملہ میں ان کی قید کے بعد جو رویہ مسٹر گاندھی نے اختیار کیا ہے وہ ان کی بہت بڑی ہمدردی کا پتہ نہیں دیتا.ان تمام باتوں کے باوجود مسٹر گاندھی کے اعمال کی ظاہری شکل دیانت دارانہ ہے.اس لئے گورنمنٹ بھی یہی سمجھتی ہے اور انگریزی اخبار بھی.گورنمنٹ اور انگریزی اخبار محمد علی شوکت علی کے ہر فعل کو شرارت سمجھتے ہیں.اور مسٹر گاندھی کو دھوکہ خوردہ.اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر انسان کے اکثر اعمال دیانت داری پر مبنی ہوں اور وہ اپنی وضع دیانتدارانہ رکھے تو بھی وہ عزت حاصل کر لیتا ہے.اس نصیحت کے بعد ایک امر کے متعلق خاص نصیحت کرتا ہوں.

Page 125

119 جس طرح رعایا کا گورنمنٹ سے ایک معاہدہ ہوتا ہے.اسی رنگ میں مذہبی سلسلوں میں بھی ہے جو لوگ ایک ملک میں رہتے ہیں.وہاں کی قائم شدہ گورنمنٹ سے انکا ایک معاہدہ سمجھا جاتا ہے.یہ ضروری نہیں کہ اس معاہدہ پر دستخط بھی ہوں.بلکہ ہر ایک عقل مند اپنے آپ کو کو ایک معاہدہ کا پابند خیال کرتا ہے.اسی طرح جو لوگ مذہبی سلسلوں کو قبول کرتے ہیں.ان کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ یہ اس سلسلہ کے احکام کے پابند اور اس انتظام کے ماتحت ہیں.جو سلسلہ کے منتظموں یا منتظم نے قائم کیا ہے.جس طرح دنیاوی گور نمنٹوں کے ماتحت رہنے والوں کے متعلق سمجھا جاتا ہے.کہ یہ اس کے احکام کے پابند رہیں گے.اسی طرح مذہبی سلسلوں میں داخل ہونے والوں کے متعلق بھی یہی سمجھا جاتا ہے کہ پابندی کریں گے.اگر کوئی شخص اس انتظام کی پابندی نہ کر سکتا ہو تو دیانت داری چاہتی ہے کہ وہ کہہ دے کہ میں پابندی نہیں کر سکتا.اور اگر کر سکتا ہے تو کرے.اب میں بتاتا ہوں کہ ہمارا بھی ایک روحانی سلسلہ اور ایک انتظام ہے.جس کی غرض یہ ہے کہ اسلام کی ترقی اور اشاعت ہو.اور ہماری آئندہ نسلوں میں دین کی محبت اور دین کا جوش اور دین کے لئے خلوص پیدا ہو.اور تمام ارواح خدا تعالیٰ کے مقدس دین کے جھنڈے کے نیچے آجائیں.اور دشمنوں کو بھی آمادہ کریں.کہ وہ اس حق کو قبول کریں.اور اسلام کی منتشر طاقتوں کو ایک اتحاد کی رسی کے اندر باندھ دیں.یہ غرض ہے جس کے لئے یہ سلسلہ قائم کیا گیا ہے.جو شخص اس سلسلہ میں داخل ہوتا ہے.اس کا ایک معاہدہ ہو جاتا ہے.کہ وہ ان شرائط کا پابند رہے گا.جو اس انتظام کے ذمہ دار قائم کریں.جس طرح دنیاوی بادشاہ اور رعایا کا تعلق ہوتا ہے.اسی طرح منتظموں کے خیالات کی پابندی سلکین سلسلہ کے لئے لازم ہے.اگر ان کو وہ طریق جو منتظمین پیش کرتے ہیں.ناپسند ہو اور وہ اس کے مخالف ہوں اور دل میں اس کی خرابی کو محسوس کرتے ہوں.تو دیانت کے خلاف ہو گا کہ یہ ظاہری طور پر اس کی پابندی کریں اور دل سے اس کی تباہی کے منصوبے سوچیں یا ایسا رویہ اختیار کریں جس سے وہ کام خراب ہو جائے.اب میں بتاتا ہوں کہ وہ کیا چیز ہے جو ہم چاہتے ہیں.مجھ سے پہلے جو تھے.ان کے کیا خیالات تھے میں اس بارے میں بحث نہ کروں گا.اور جو آئندہ ہوں گے نہ ان کے بارے میں.بلکہ میں کھول کر بتاتا ہوں کہ میں کیا چاہتا ہوں.تاکہ جو ہم سے ملکر کام نہ کر سکیں وہ صاف کہہ دیں کہ ہم متفق نہیں.اور اگر وہ متفق ہوں تو بھی بتا دیں اگر وہ نہ کر سکیں گے تو وہ کہدیں اور دیانت داری چاہتی ہے کہ کہدیں کہ ہم مل کر کام نہیں کر سکتے.اس وقت ہم کہہ دیں گے هذا فراق بینی وبينكم (الكمت (۷۹) تمہارا راستہ وہ ہے اور ہمارا یہ ہے.

Page 126

بڑی ۱۳۰ سنو ہر ایک شخص جو قادیان آتا ہے اور اس کے سپرد سلسلہ کا کوئی کام کیا جاتا ہے.خواہ وہ تنخواہ پاتا ہو یا چھوٹی خواہ اس کو الاؤنس ملتا ہو یا کچھ اور ان میں سے ہر ایک کو میں بتاتا ہوں کہ جس قسم کے آدمی ہم چاہتے ہیں ان کی کیا شرائط ہیں.جو شخص ان شرائط کو سنکر محسوس کرے کہ وہ ان کی پابندی نہیں کر سکتا.وہ صاف صاف کہدے.ک وہ شرائط کیا ہیں؟ میں نے اپنے نفس پر غور کیا اور ان کے نفس پر بھی غور کیا ہے.جو مجھ سے پہلے تھے اگرچہ میں ان کی خواہشات پر بحث نہ کروں گا.ہاں اگر ضمنی طور پر ان کا ذکر آجائے.تو خیر.جہاں تک میں نے غور کیا ہے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہم نوکروں سے مل کر کام نہیں کر سکتے.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ میں نوکر نہیں رکھ سکتا.یہ طریق صحیح ہے یا غلط یہ بحث الگ ہے.مگر میں جو کام لینے والا ہوں.آپ لوگوں کو کھول کر سناتا ہوں.کہ میرے نزدیک نوکروں سے یہ کام نہیں ہو سکتا.جہاں تک میں نے غور کیا ہے.مجھے اسلام میں اسلام کا کام کرنے کے لئے نوکروں کا پتہ نہیں ملتا.اس کی وجہ یہ ہے.کہ اسلام کی خدمت نوکروں کے ذریعہ نہیں ہو سکتی.اور وہ شخص جو کسی مقرر رقم کی خاطر خدمت اسلام کرتا ہے.اس کی خدمات پر ترقی اسلام کی بنیاد رکھنا لغو ہے.خدا کے جلال کا اظہار ایسے شخص کے کام پر رکھنا جس کے نزدیک روپیہ نہیں تو کچھ نہیں بالکل عبث ہے.روپیہ کا رشتہ سب سے کمزور رشتہ ہے.اور خدا کے جلال کا رشتہ بہت ہی بڑا اور اہم رشتہ ہے میں کبھی پسند نہیں کروں گا کہ میرے بچوں کی تربیت نوکروں کے ذمے ہو.میں کبھی نہیں چاہتا کہ میرے آرام کی اشیاء کی کنجی نوکر کے پاس ہو.بلکہ میں اپنے بچوں کی تربیت اور اپنے آرام کی چیزیں اگر کسی کے سپرد کروں گا تو اپنے اعلیٰ سے اعلیٰ اور قریب سے قریب کے رشتہ داروں میں سے ایک کے ذمہ کروں گا.یعنی اپنی بیوی کے سپرد بچوں کی تربیت کروں گا.اور میری آرام دہ اشیاء بھی اس کے قبضہ میں ہوں گی.جسطرح میری ذات کے متعلق ہر ذمہ واری کا کام نوکر کے سپرد نہیں بلکہ بیوی کے سپرد ہو گا.اسی طرح بیوی کبھی پسند نہ کرے گی کہ اس کے آرام کا سوال نوکروں کے سپرد ہو.بلکہ وہ اپنے آرام کا انتظام میرے سپرد کرے گی.پس جب ہم اپنے گھر کی کوئی قیمتی چیز نوکروں کے سپرد نہیں کر سکتے تو خدا اور اس کے رسول کے تعلق کو کیسے نوکروں کے سپرد کر دیں.جیسا کہ حضرت مسیح نے کہا ہے.کہ میں موتی کتوں اور سوروں کے آگے نہیں ڈال سکتا.اسی طرح خدا کے تعلق کی ایسی قیمتی چیز ملازموں کے سپرد نہیں کی جا سکتی.نوکر خواہ ہزاروں کا ہو یا چند روپیہ کا.تاہم نوکر ہے.اس لئے ذاتی آرام کا کام اس کے سپرد نہیں کیا جا سکتا اسی طرح دین کا کام بھی قطعا " قطعا " نوکر کے سپرد نہیں ہو سکتا.اگر یہ سلسلہ دینی ہے اور ضرور دینی ہے.اگر اسلام اڑ گیا تھا.اور اس کو حضرت مرزا صاحب

Page 127

ثریا سے اتار کر لائے ہیں.تو اس کا کام اور اس کی خدمت اور حفاظت کا کام نوکروں کے سپرد نہیں کیا جا سکتا.اور اگر کیا جائے تو جرم ہو گا.سنو اور غور کرو.میں اس وقت کوئی ایسی زبان نہیں بول رہا.جس کو تم نہ سمجھ سکو.نہ میں ایسی عبارت میں باتیں کر رہا ہوں جو تمہارے فہم سے بالا ہو.مجھ میں جس قدر اظہار مدعا کی قابلیت ہے.اس کے مطابق میں صاف صاف بغیر کسی الجھاؤ کے کہتا ہوں کہ خدمت دین ایک ایسا خزانہ ہے.جس کو میں نوکروں کے سپرد کرنا خلاف تجربہ اور خلاف عقل سمجھتا ہوں.نوکری کا رشتہ نہایت ادنیٰ اور بہت ہی کمزور رشتہ ہے.اور یہ کام ان کے سپرد نہیں کر سکتا جن کا میرے ساتھ اتنا کمزور رشتہ ہو.بلکہ اس کام کے لئے ان لوگوں کی ضرورت ہے.جو عربی میں اصحاب کہلاتے ہیں یا جن کو پرانے زمانے میں حواری بھی کہتے تھے.خدمت دین کا کام ملازموں کے سپرد نہیں ہو سکتا.بلکہ اصحاب کے سپرد ہو سکتا ہے.صحابی وہ ہے جو صرف صحبت چاہتا ہے.وہ کوئی مقررہ رقم نہیں مانگتا.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جو لوگ تھے اور جنہوں نے خدمت دین کی وہ مال کے لئے آپ کے پاس نہ آئے تھے ان میں سے وہ لوگ جو مرتے ہوئے دولت پیچھے چھوڑ گئے وہ اس دولت کے لئے نہ آئے تھے.نہ بادشاہت ان کا مقصد تھا.نہ گور نریاں.یہ دولت اور رہتے جو ان کو ملے محض بطور تحفہ تھے نہ کہ بطور بدلہ کے.وہ لوگ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت چاہتے تھے.وہ اصحاب تھے.ملازم نہ تھے.وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ایک کام کرنے کو تیار تھے جس کو ملازم نہیں کر سکتا.بادشاہ کا پاخانہ بھی اگر ہو تو اس کو اٹھاتے ہوئے بھنگی تک ایک نفرت محسوس کرتا ہے.مگر ان لوگوں کو موقع پڑے تو اس کے اٹھانے میں بھی کراہت نہ تھی.نہ صرف کراہت نہ تھی بلکہ فخر سمجھتے تھے.صلح حدیبیہ کے موقعہ پر مکہ والوں نے اپنے میں سے ایک امیر کو شرائط صلح کے تصفیہ کے لئے بھیجا.وہ آیا اور اس نے کہا کہ کیا تم ان لوگوں پر جو تمہارے گرد جمع ہیں بھروسہ کرتے ہو وقت پر یہ تمہیں چھوڑ کر بھاگ جائیں گے بھروسہ بھائیوں پر ہوتا ہے.کیا تم ان کی خاطر بھائیوں سے بگاڑتے ہو.اس نے تو یہ کہا.مگر ان لوگوں کی جو اصحاب تھے ملازم نہ تھے.کیا حالت تھی.یہ کہ آنحضرت کے تھوک کو زمین پر نہ گرنے دیتے تھے.بلکہ ہاتھوں پر لیتے اور جسم پر مل لیتے تھے.اور وضو کے پانی کا ایک قطرہ تک زمین پر نہ جانے دیتے.ہر ایک اسے حاصل کرنا چاہتا تھا.اور ایسی حالت تھی کہ قریب تھا کہ اس کشمکش میں ان میں تلوار چل جائے.وہ واپس گیا اور جاکر کہا کہ میں نے قیصر و کسری کے دربار دیکھے ہیں.مگر ان کے درباری بھی اتنے جاں نثار نہ تھے جتنے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھی ہیں.۲.یہ کیا بات تھی؟ یہی کہ قیصر و کسریٰ کے دربار میں ملازم تھے.اور آنحضرت کے ساتھ اصحاب

Page 128

تھے ملازم نہ تھے.وہ رسول کریم کے گرد کسی معاوضہ کے لئے جمع نہ تھے.بلکہ آپ کی صحبت کے لئے تھے.اس لئے وہ اس بات کی پرواہ نہ کرتے تھے کہ ان کو کچھ ملتا ہے یا نہیں.نہں جب تک یہ خصوصیت نہ پس ہو.اور اس بنیاد پر کام نہ ہو.کچھ نہیں ہو سکتا.اس لئے میں کھول کر بتاتا ہوں کہ میرا عقیدہ ہے کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی چیز ہے جو دوبارہ واپس آئی ہے.یہ کوئی نئی چیز نہیں.ایک طرح نئی بھی کہلا سکتی ہے.اور وہ اس طرح کہ دوبارہ آسمان سے آئی ہے.کیونکہ اس کے متعلق کہا گیا تھا لو کان الایمان معلقا بالشريا لناله رجل من ابناء الفارس ، اور نئی بھی نہیں اس لئے کہ اس کی شکل وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں تھی.پس جب یہ وہی چیز ہے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے.اور صرف فرق یہ ہے کہ یہ آسمان پر چڑھ گئی تھی اور اس کی بازیابی کے لئے ایک مامور و مرسل مبعوث ہوا.اور پھر وہ ٹریا سے واپس لائی گئی.تو پھر میری سخت غلطی ہوگی کہ میں اس کی حفاظت نوکروں کے سپرد کروں.جس طرح اس کی حفاظت پہلی آمد پر کی گئی اب بھی اس کی حفاظت اسی طرح پر ہو سکتی ہے.یہ کام جب میرے سپرد کیا گیا تو میں نے ان نوکروں کے سپرد کیا جن کو میں "اصحاب" سمجھتا تھا.میں نے یہ امانت یہ کام صحابہ کی جماعت کے سپرد کیا.مگر بہتوں نے اپنے رتبہ کو نہ سمجھا.انہوں نے اصحاب بنتا نہ چاہا بلکہ نوکر بنا چاہا.حالانکہ وہ شخص جو صحابیت پر نوکری کو ترجیح دے.اس کی ایسی ہی مثال ہے.کہ ہم اس کو آسمان پر بٹھائیں.اور وہ گڑھے میں نیچے گرنا پسند کرے پس ابتدا سے دین کا کام صحابہ سے لیا جاتا رہا ہے.اور اب بھی اس کو صحابہ ہی کریں گے.جو و شخص صحابی بنکر رہنا چاہتا ہے.وہ ہمارا بھائی ہے.اور جو روپیہ کے لئے یہاں رہنا چاہتا ہے.وہ سن لے کہ یہاں نوکروں کے لئے جگہ نہیں.کیونکہ ہم نوکروں سے کام لینا نہیں چاہتے.اس کو خواہ کوئی کسی نام سے یاد کرے اس کو ہماری غلطی کے یا خود پسندی یا خوشامد پسندی کا نام دے.جیسا کہ ایک دشمن نے لکھا تھا کہ چونکہ مسیح موعود کے بیٹے ہیں.اس لئے صاحبزادے بنتے ہیں اور خوشامد سے عادت خراب ہو گئی ہے.غرض خواہ کوئی کچھ بھی کہے.میں تو یہ کہتا ہوں.اور صاف صاف کھلے لفظوں میں کہتا ہوں کہ ہم نوکر نہیں رکھ سکتے.ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہم خدا کے کام کے لئے نوکر رکھیں گے تو ہمیں خدا ہی کے حضور جواب دہی کرنی ہوگی.پس اس بات کو سامنے رکھ کر ہر ایک شخص فیصلہ کرلے کہ اگر وہ یہاں رہنا چاہتا ہے تو کس طرح آیا صحابی بن کر یا نوکر بن کر اگر صحابی بنکر رہنا ہے تو سو.پچاس کا سوال نہیں رہے گا.نہ اس کی یہ غرض ہوگی.ہم جو اس کو دیں گے وہ اس

Page 129

۱۲۳ کے اخراجات کے لئے ہوگا.جس کی کمی بیشی سے اس کو کوئی تعلق نہ ہوگا اور چاہے ہم اس کو کچھ بھی نہ دیں.اس کی مثال محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابیوں کی ہوگی جو ایک جنگ میں خالی ہاتھ رہے.اور وہ دشمن جن کے خلاف وہ تلوار لیکر گھر سے نکلے تھے اونٹوں کی قطاریں لے گئے.اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی نوکر ہوتے تو مجھے اسی خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے.ایک بھی اونٹ مکہ میں نہ جاتا.بلکہ سب ان کو ملتے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر دیانت دار اور کوئی نہیں.ایک منافق طبع نے اس وقت کہہ ہی دیا تھا کہ خون تو اب تک ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور مال مکہ والے لے گئے ہے.اور ایک دوسرے نے کہہ دیا کہ آپ کی تقسیم منصفانہ نہیں.جس کے جواب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی نسل سے وہ لوگ ہونگے جن کے منہ پر ایمان ہو گا مگر دل ایمان سے خالی ہونگے.ھ.پس خوب کان کھول کر سنو.کہ وہ جو دین کا جھنڈا بلند کرنے کے لئے قادیان میں رہتے ہیں.اور جو ہمارے لئے یہاں آئے ہیں.اور انکی غرض خدا کے دین کی خدمت ہے.اور انکو یہ باتیں میسر ہیں.ان کے گزارہ کے لئے ہم جس قدر دے سکیں گے دیں گے.جس کو وہ شکر گزاری سے قبول کریں گے.اس روپیہ میں ان کی خواہش کو دخل نہ ہو گا.لیکن جو نوکری کے لئے یہاں آیا ہو وہ یہاں سے چلا جائے.کیونکہ ہم نوکر نہیں چاہتے.ہم ان کو چاہتے ہیں جو ہمارے ساتھ رہنا چاہتے ہیں ہم لازم چاہتے ہیں، ملازم نہیں چاہتے.جن کی غرض ملازمت نہیں.بلکہ جو دین کی خدمت کے لئے یہاں آئے ہیں اور صحابی بننا چاہتے ہیں وہ ہماری آنکھوں کا نور اور دل کی ٹھنڈک ہیں.صحابی تنخواہ نہیں چاہا کرتا.اور جو تنخواہ کے لئے آئے ہوں میں ان کو کہتا ہوں.خواہ وہ موسیٰ ہی ہوں کہ تمہارا راہ وہ ہے اور ہمارا یہ.اپنے دلوں کو مولو.جس طرح میں نے صاف صاف کہہ دیا ہے.اسی طرح صفائی دیانتداری کو مد نظر رکھ کر کہدو کہ دونوں میں سے کیا چاہتے ہو.اگر تم روپیہ نہیں چاہتے.عزت تمہیں مطلوب نہیں.جاہ و حشم تمہاری غرض نہیں.صرف خدا اور اس کے رسول کی خوشنودی کے حصول کے لئے اس کے خلیفہ کی صحبت اور معیت چاہتے ہو تو تم ہمارے بھائی ہو.اور دنیا وی بھائی سے بھی بڑھ کر پیارے ہو.لیکن اگر یہ نہیں کر سکتے.تو تم صاف صاف کرده که اذهب انت وریک فقاتلا انا ههنا قاعدون (المائدۃ (۲۵) جس طرح یہ کہنے والے بیٹھے رہے.اور خدا اور خدا کے رسول نے موعود ملک کو فتح کیا.اسی طرح اگر تم میں ایسا کہنے والے پیدا ہو جائیں.اور وہ صاف کہدیں.تو میرا دل نہیں گھبرائے گا.اور میں سچ سچ کہتا ہوں.اگر سارے بھی یہ کہدیں اور ایک

Page 130

۱۳۴ بھی صحابی نہ رہے.تو بھی میرا دل نہیں گھبرائے گا.بلکہ وہ کام جو تمہارے ہوتے ہوئے اس حالت میں ہو رہا ہے.میں یقین کرتا ہوں.جب تم نہیں رہو گے.اس سے بہت جلد مجھ اکیلے سے خدا کرا لے گا.کیونکہ اب تو کل پر انسانوں کے واسطے کا پردہ پڑا ہوا ہے.اور پھر بے پردہ خدا آئے گا.اور اس کام کو انجام دے گا.پس تم اپنے دلوں کو ٹولو.اور دونوں صورتوں میں سے جس صورت کو تم پسند کرتے ہو اس کے متعلق صاف طور پر جس طرح میں نے بتا دیا ہے.تم مجھے بتا دو.الفضل ۲۱ / نومبر ۱۹۲۱ء) امتی باب ۷...بخاری کتاب الشروط باب الشروط في الجهاد والمصالحة مع اهل العرب.بخاری کتاب التفسير سورة الجمعه واخرين منهم لما يلحقوا بهم بخاری کتاب مناقب الانصار بخاری کتاب التوحيد بابا العرج الملائكة والروح الله

Page 131

۱۲۵ 29 سالانہ جلسہ کے لئے خدمات پیش کرنے کی تحریک (فرموده ۱۸/ نومبر ۱۹۲۱ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.میرا منشاء ہے کہ آج بھی اس سلسلہ مضامین کی ایک اور شاخ کے متعلق میں آپ لوگوں کو کچھ سناؤں جس کے متعلق میں کئی ہفتوں سے بیان کر رہا ہوں.مگر اس دفعہ بھی میں ایک شاخ کو ہی لینا پسند کرتا ہوں.اور اصل مضمون کو اور پیچھے ڈالتا ہوں.تاکہ وقفے وقفے سے بات کانوں میں پڑے اور اس پر آپ لوگوں کو زیادہ غور کرنے کا موقع مل سکے.لیکن پیشتر اس کے کہ میں اس شاخ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کروں ایک اور بات جو اس وقت کی ضروریات کے متعلق ہے.بیان کرنا چاہتا ہوں.سالانہ جلسہ پھر قریب آرہا ہے.اور جیسا کہ حضرت صاحب کے زمانہ سے چلا آرہا ہے.یہاں کے لوگوں کا مہمان نوازی کرنا ضروری فرض ہے.اور اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا.مہمان نوازی چونکہ فرائض اسلام میں سے ایک فرض ہے.اس لئے اس کے متعلق میں کچھ زیادہ بیان کرنا نہیں چاہتا.اور جو کچھ بیان کرنا ہے.اسے بھی میں اس وقت کے لئے چھوڑتا ہوں جو جلسہ کے زیادہ قریب ہو گا.اس وقت میں ایک اور بات بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے.میں نے پچھلے سال بیان کیا تھا کہ کوئی چھوٹے سے چھوٹا اور معمولی سے معمول کام بھی بغیر مشق کے نہیں آسکتا.ایک مزدور جو ایک جگہ سے نوکری اٹھا کر دوسری جگہ ڈال دیتا ہے.اسے دیکھنے والا سمجھتا ہے یہ بہت معمولی کام ہے اور میں اسے بآسانی کر سکتا ہوں.تم میں سے بیسیوں نے مزدور کو ٹوکری اٹھاتے دیکھا ہوگا.اور وہ کہتے ہونگے کہ اس کے لئے کسی مشق کی ضرورت نہیں ہے.لیکن ذرا ڈھو کر دکھاؤ تو حقیقت معلوم ہو.تین چار ہی بار جب ٹوکری اٹھانے کے لئے جھکو گے اور اٹھا کر دوسری جگہ ڈالو گے تو پتہ لگ جائے گا کہ یہ کام بھی ایسا نہیں ہے کہ یونہی آجائے.بلکہ

Page 132

ٹوکری اٹھانے والے مزدور کی کمر کئی مشقوں کے بعد ایسی بنی ہے.کہ وہ دیر تک نوکری کی مشقت برداشت کر سکتا ہے.یہ ہو سکتا ہے کہ تم اس سے زیادہ طاقتور ہو.اسے اٹھا کر زمین پر گرا سکو.اس کی گردن ہاتھ سے پکڑ کر اس قدر زور سے دبا سکو کہ اس کی چیخیں نکل جائیں اور چھڑا نہ سکے.مگر اس کے مقابلہ میں تم نوکری نہیں اٹھا سکو گے.ایک پہلوان جو بڑے طاقتور انسان کو گرا سکتا ہے.یا کلائی پکڑنے کا ماہر جو مضبوط سے مضبوط آدمی کی کلائی پکڑ کر چھوڑتا نہیں.اور اس کی ہڈی ٹوٹنے کے قریب کر دیتا ہے.اس کے مقابلہ میں ایک مزدور جو نہ تو کشتی کر سکتا ہے.اور نہ کلائی پکڑنا جانتا ہے.جب ٹوکری اٹھائے گا تو پہلوان اور کلائی کا ماہر رہ جائے گا.اور ہرگز مقابلہ نہیں کر سکے گا.کیونکہ ٹوکری اٹھانے کی اسے مشق نہیں.اور مزدور کو اس کام کی مشق ہوگی.پس کوئی معمولی سے معمولی کام بھی بغیر مشق کے نہیں آسکتا.میں نے بتایا تھا کہ ہمارے جلسہ کے انتظامی معاملات میں جو نقص رہ جاتے ہیں.وہ اس لئے نہیں کہ کام کرنے والوں میں اخلاص اور محبت کی کمی ہے.یا وہ اپنے طرف سے پوری کوشش نہیں کرتے.بلکہ اس کی وجہ مشق کی کمی ہے.کیونکہ وہ ایک ایسے کام کو کرنے لگتے ہیں جو انہوں نے سال بھر نہیں کیا ہوتا.اور بغیر مشق کے کام پر کھڑے کر دئے جاتے ہیں.میں تو ایک گاؤں کا رہنے والا ہوں مجھے ایسی باتوں کے دیکھنے کا موقع نہیں ملا.اور ہمارے ہاں تو شہروں میں بھی ایسی باتیں دیکھی نہیں جاسکتیں.مگر میں کتابوں کے پڑھنے کا بہت شائق ہوں.اور اتنا کہ کتابوں کا کیڑا کہنا چاہئیے.میں ہر فن ہر مذاق اور ہر رنگ کی کتابیں پڑھتا رہتا ہوں میں نے پڑھا ہے.کہ بڑے بڑے مشاق ایکٹر (Actor) بھی جب کوئی کھیل کرنے لگتے ہیں تو پہلے اس کی مشق کر لیتے ہیں.اور اپنے طور پر وہ کھیل کر کے دیکھ لیتے ہیں کہ کوئی نقص اور کمی تو نہیں رہ گئی.حالانکہ اس فن میں وہ بہت ماہر ہوتے ہیں.بات یہی ہے کہ ہر کام کرنے سے پہلے اس کی مشق ضروری ہے.دیکھو ایک پولیس مین جو اکیلا کھڑا ہوتا ہے.ہزاروں گاڑیوں کو ایسے مقام سے بآسانی گزار دیتا ہے جہاں چوراہا یا چھ رہا ہوتا ہے.جیسے کہ ہمیٹی جیسے شہروں میں ایک مقام پر کئی کئی رستے ملتے ہیں.اگر وہ ذرا بے احتیاطی سے کام لے.تو ایک دن ایسا نہ گزرے جس میں بیسیوں خون نہ ہو جائیں.ایک طرف سے بیل گاڑی آتی ہے.دوسری طرف سے گھوڑا گاڑی.تیسری طرف سے موٹر.لیکن اکیلا پولیس مین ایک سیٹی سے سب پر حکومت جمائے رکھتا ہے.اس کی نظر چاروں طرف پڑتی ہے.اور وہ عمدگی سے سب کو اپنے انتظام کے نیچے رکھتا ہے.اور احتیاط کے ساتھ گزارتا ہے.اس کی بجائے اگر پچاس بی.اے بھی کھڑے کر دئے جائیں تو کچھ نہیں کر سکیں گے.کیونکہ انہیں اس کام کی مشق نہ ہوگی.عقل، فہم، فراست اور علم اس موقع پر کچھ کام نہ دے

Page 133

گا.بلکہ وہی پولیس مین کام کر سکے گا جو مشاق ہو گا.اسی طرح ایک زمیندار جو یہ بھی نہیں جانتا.اور فی الواقع نہیں جانتا.کہ بیج سے سبزہ کس طرح نکلتا ہے.وہ ہر سال بیج ڈالتا ہے اور کھیتی کاتا ہے.اس سے اگر پوچھو کہ کیونکر بیج سے سبزہ نکلتا ہے.کس طرح کھیتی بڑھتی ہے.ایک چھوٹی سی چیز (پیج) کس طرح ایک بڑے پودے کا باعث بنتی ہے.ایک دانے سے سو بلکہ اس سے بھی زیادہ کس طرح بن جاتے ہیں.تو اول تو وہ کچھ جواب نہ دے سکے گا.اور اگر زیادہ سے زیادہ کچھ کہے گا.تو یہ کہے گا کہ اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے.بے شک یہ اللہ کی باتیں ہیں.لیکن ایسی نہیں کہ اللہ ہی جانتا ہے.بلکہ ایسی ہیں کہ بندہ بھی جان سکتا ہے کہ سائنس کی معمولی باتیں ہیں.مگر جس طرح ایک زمیندار عمدگی سے بیج ہوتا اور کھیتی کاشا ہے.اس طرح زراعتی کالج کے پروفیسر سے بھی نہیں ہو سکے گا.کیونکہ اسے علم تو حاصل ہے.لیکن مشق نہیں.اور مشق کے بغیر کوئی کام نہیں کیا جا سکتا.پس چونکہ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی مشق سے ہی آسکتی ہیں.اس لئے میں نے کہا تھا.کہ جلسہ پر جو کام کرنے ہوتے ہیں.ان کی پہلے مشق کرائی جائے.مثلاً لوگوں کو ریسیو (Receive) کرنا ان کا اسباب اٹھانا.زیادہ تعداد میں آجائیں تو ان کا انتظام کرنا.یہ سب باتیں مشق چاہتی ہیں.ورنہ خواہ مہمانوں کو (Receive) کرنے کے لئے بی.اے چلے جائیں.کچھ نہیں کر سکیں گے.اور انتظام میں نقص ہی رہے گا.سٹیشنوں پر دیکھا ہے.اسباب کے لئے جب قلی کئے جائیں.اور پھر کوئی خود کوئی چیز اٹھانے لگے.تو قلی شور مچا دیتے ہیں.کہ نہ اٹھاؤ.حالانکہ اس میں انہی کا فائدہ ہوتا ہے.کہ بوجھ کم ہو جاتا ہے.مگر چونکہ دوسرا آدمی بوجھ اٹھانے کا مشاق نہیں ہوتا.اس لئے ایسے رنگ سے اٹھاتا ہے.جو ٹھیک نہیں ہوتا.انہیں آسانی نہیں ہوتی.قلی مشاق ہوتے ہیں اور ترکیب سے کئی کئی چیزیں ایک بار اٹھا لیتے ہیں.میں نے گذشتہ سال نصیحت کی تھی کہ جلسہ کے کام کے لئے مشق کی جائے.جو کام کسی نے کرتا ہے وہ تقسیم کر دیا جائے.مثلاً سالن کون تقسیم کرے گا.روٹی کون تقسیم کرے گا.اسباب کے لئے کون کون جائے گا.مہمانوں کو اتارنے کا کام کون کرے گا.اسی طرح سب کاموں کی تقسیم کر دی جائے.اور جن کے ذمے یہ کام لگائے جائیں.وہ مشق کریں.سرکاری درباروں میں جو جو کام کسی کے سپرد ہوتا ہے.اس کی کئی کئی بار مشق کرائی جاتی ہے.جنہوں نے پہرہ دیتا ہوتا ہے.یا راستہ کا انتظام کرنا ہوتا ہے.انہیں وہاں کھڑا کر کے مشق کراتے ہیں.اور جو غلطیاں ہوں.ان کی اصلاح کراتے ہیں.

Page 134

۱۲۸ اسی رنگ میں یہاں بھی مشق ہونی چاہئیے.مگر پچھلے سال جو خطبہ میں نے پڑھا تھا.وہ تو ہوا میں ہی اڑ گیا.کیونکہ زمین پر مجھے اس کا کوئی نشان نہ ملا.اور جس طرح پہلے شکائتیں ہوتی تھیں اسی طرح اس سال بھی ہوئیں.اس سال پھر میں نے بتایا ہے کہ اس طرف توجہ کرو.افسر نے تو توجہ کی ہے اس نے مجھے یاد دلایا ہے کہ آپ نے گذشتہ سال یہ کہا تھا.اس سے معلوم ہوا اس کو تو یاد ہے.اب میں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں.جن جن سے ممکن ہو.حتی کہ وہ بھی جنہیں اپنا کام ترک کرکے حصہ لینا پڑے.سوائے ان کے جو سارا سال کام کرتے ہیں.وہ ریزرو کے طور پر اس وقت تک رہیں گے.جب تک ان کے کام کرنے کا موقع نہیں آتا.وہ اپنا کام کریں.باقی اپنے آپ کو پیش کر دیں.اور جو جو خدمت ان کے لئے مقرر ہو.افسروں کے ماتحت اس کی مشق کریں.اور اپنے آپ کو کام کرنے کا عادی اور مشاق بنا ئیں.میں نے دیکھا ہے بہت سی شکایات اسی وجہ سے ہوتی ہیں.کہ کام کرنے والوں کو اس کام کی مشق نہیں ہوتی.مثلاً اسباب کے متعلق ہی شکایت ہوتی ہے.کہ سٹیشن پر آدمی موجود نہیں ہوتے.اس کی بڑی وجہ یہ ہے.کہ جن کو وہاں مقرر کیا جاتا ہے.انہیں ایک جگہ بہت دیر تک کھڑے رہنے کی عادت نہیں ہوتی.وہاں طالب علموں کو بھیجا جاتا ہے.ایک طالب علم یہ تو کر سکتا ہے.کہ پندرہ گھنٹے ایک کتاب کے پڑھنے میں لگادے.لیکن یہ نہیں کر سکتا کہ اتنا عرصہ دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا رہ سکے.کبھی اسے پیشاب آجائے گا.کبھی پاخانہ.کبھی کوئی اور بات پیدا ہو جائے گی.اور ایسا ہونا ضروری ہے.کیونکہ اس کی طبیعت اور مشق کے خلاف کام ہے.لیکن جو کھڑا رہنے کا عادی ہو گا وہ باقاعدہ کھڑا رہ سکے گا.یا اور کام ہیں مثلاً کھانا کھلانا.دیکھا گیا ہے کہ پرچیاں تقسیم کرنے والے گھبرا جاتے ہیں.اور اس طرح ان کے کام نہ کر سکنے کی وجہ سے شکائتیں پیدا ہوتی ہیں.اس کی وجہ بھی یہی ہے.کہ انہیں مشق نہیں ہوتی.اور وہ ایسا کام کرنے کے عادی نہیں ہوتے.لیکن اگر مشق کرائی جائے.اور زیادہ نہ سہی پچاس ہی آدمی ہوں.جو بار بار پرچیاں مانگیں.اور ہجوم بن کر ان کے گرد جمع ہو جائیں.تو معلوم ہو سکتا ہے کہ کام کرنے والوں میں کیا کیا ہو نقص ہیں.اور پھر ان کو دور کیا جا سکتا ہے.پس پہلے تو میں یہ نصیحت کرتا ہوں.کہ جن جن سے ممکن ہو سکے اور اکثر سے ممکن ہے.اور چند مستثنیات کو چھوڑ کر باقی کام کر سکتے ہیں اور انہیں کرنا چاہئیے انہیں جلسہ کے افسر کے بلانے پر اپنی خدمات پیش کرنی چاہئیں.اور افسروں کے ماتحت مشق شروع کر دینی چاہئیے.تاکہ موقع اور وقت پر مفید ثابت ہو سکیں.

Page 135

۱۲۹ اب میں اس مضمون کی طرف آتا ہوں.جس کا بیان کرنا آج میرا مقصد ہے.لیکن اس کے شروع کرنے سے پہلے میں ایک فرع بیان کرتا ہوں.اور وہ یہ ہے.ہم دیکھتے ہیں دنیا میں جتنے کام ہوتے ہیں.ان میں کچھ تو اصل حقیقت ہوتی ہے.اور کچھ ارد گرد کے اثرات ہوتے ہیں مثلاً انسان کا ارادہ اور نیت اصل ہے.مگر اور کئی چیزیں ایسی ہیں جو ارادہ اور نیت پر اثر ڈالتی ہیں.یہ چیزیں چونکہ ضمنی ہوتی ہیں.اور نظر نہیں آتیں.اس لئے ان کی طرف توجہ نہیں کی جاتی.اور یہ تباہی کا زیادہ باعث ہوتی ہیں.مثلاً پاخانہ کو لوگ دیکھتے ہیں اور اس سے کراہت کرتے ہیں اور ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ یہ نہ تو کپڑوں کو لگے اور نہ کھانے کی چیزوں کو.یہ تو اس کے براہ راست علم کی وجہ سے ہے.لیکن کبھی ضمنی طور پر یہ لگ جاتا ہے اور اس وقت کوئی پروا نہیں کی جاتی.مکھیاں اس پر بیٹھتی ہیں اور پھر کھانے پر آبیٹھتی ہیں.ان کے جسم کے ساتھ جو گندگی لگی ہوتی ہے وہ چونکہ نظر نہیں آتی اس لئے اس سے کراہت نہیں کی جاتی.یہی وجہ ہے کہ براہ راست کوئی گندی چیز کھا کر بیمار ہونے والے کم نظر آئیں گے.لیکن مکھیوں کے ذریعہ گندگی کھانے والے ہزاروں اور لاکھوں بیمار ہوتے ہیں.مکھیاں کہیں گلے سڑے زخم پر کہیں پیپ پر کہیں پاخانے پر کہیں کسی اور گندی چیز پر بیٹھتی ہیں اور پھر کھانے پر آبیٹھتی ہیں اور اس طرح اس میں گندگی داخل کر دیتی ہیں.یہ ضمنی چیز ہے.مگر اس کے جو نقصان ہیں.وہ ظاہرہ گندگی نہیں ہیں.تو ضمنی باتوں سے یہ نسبت نظر آنے والی چیزوں کے زیادہ نقصان ہوتے ہیں.مکھی آجاتی ہے اور کھانے پر آبیٹھتی ہے.مگر اس کی پروا نہیں کی جاتی.کیونکہ اس کے ذریعہ جو گند آتا ہے وہ ایسا باریک ہوتا ہے کہ نظر نہیں آتا.نیکیوں کے متعلق بھی یہی بات ہوتی ہے.کہ ایک حصہ چیز اصل ہوتی ہے اور ایک.ضمنی.جن کے ذریعہ ترقی ہوتی جاتی ہے.مثلاً کسی نیکی کے لئے نیت اور ارادہ ہوتا ہے.لیکن انسان کر نہیں سکتا.کیونکہ ارادہ اور نیت کمزور ہوتی ہے.مگر بعض اوقات ایسی ضمنی باتیں شامل ہو جاتی ہیں.کہ انسان کر لیتا ہے.اسی طرح بعض دفعہ ارادہ تو مضبوط ہوتا ہے.مگر ضمنی باتیں ایسی آجاتی ہیں.کہ انسان ان کی وجہ سے کر نہیں سکتا.اصلی اور ضمنی باتوں کی ایک مثال یہ ہے کہ فوجی لوگ لڑائی میں لڑنے کے لئے جاتے ہیں جن میں سے بعض تو بہت ڈرپوک ہوتے ہیں.ان کی اصل نیست تو یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح اپنی جان بچائیں نہ کہ لڑیں.مگر دوسروں کی بہادری دیکھ کر وہ بھی لڑنا شروع کر دیتے ہیں.اور بعض اوقات بڑی بہادری کا کام کر لیتے ہیں.یا اس طرح کہ پچھلی فوج بہت بہادر ہوتی ہے.وہ آگے بڑھتی ہے.اور اس کے آگے جو فوج ہوتی ہے اسے بھی مجبوراً آگے بڑھنا پڑتا ہے لوگ اسے دیکھ کر کہتے ہیں کہ.حصہ

Page 136

١٣٠ یہ فوج بڑی بہادر ہے جو آگے آگے جا رہی ہے.لیکن دراصل وہ پچھلی فوج کے مجبور کرنے سے آگے بڑھ رہی ہوتی ہے لیکن کبھی اس کے الٹ بھی ہو جاتا ہے.کہ بہادر بزدلوں کے حلقہ میں آتے ہیں.اور ان کے قدم اکھڑ جاتے ہیں.جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت غزوہ حنین میں ہوا تھا.ایسے لوگ جو تازہ تازہ مسلمان ہوئے تھے.اور جن کے حوصلے ایسے نہ تھے.جیسے کہ دوسرے لوگوں کے.وہ وقت پر بھاگ پڑے.اور ان کے بھاگنے پر صحابہ کے قدم اکھڑ گئے.ان کے ارادے تو قربان ہونے کے تھے.اور اس کے لئے وہ کوشش بھی کرتے تھے.چنانچہ ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں بھاگتے اونٹ کو پیچھے موڑنے کے لئے اس کی رسی اس زور سے کھینچتا کہ اس کا سر مجھے آلگتا.مگر پھر جب میں چھوڑتا تو آگے کو ہی بھاگ پڑتا تو ان کی خواہش تھی کہ جان دے دیں اور میدان سے نہ ہیں.مگر سامان ایسے ہو گئے کہ بزدلی دکھانی پڑی.تو کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی کام کرنے کی نیت اور ارادہ تو ہوتا ہے مگر اس کے باوجود ایسے مخالف حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ ارادہ کے خلاف انسان کر بیٹھتا ہے.اور کبھی ایک کام کے کرنے کا ارادہ نہیں ہوتا.مگر حالات ایسے پیدا ہو جاتے ہیں.کہ انسان کر لیتا ہے مثلاً کوئی ایسی مجلس میں جائے جہاں ہنسی مذاق کی باتیں ہو رہی ہوں.مگر وہاں کوئی دیندار آدمی آگیا.اور اس نے دین کے متعلق گفتگو شروع کر دی.اب وہ شخص جو ہنسی مذاق کی باتیں سننے کے لئے آیا تھا.اٹھنے سے شرم کرتا ہے اور بیٹھا رہتا ہے.اور دینی باتوں سے فائدہ اٹھا لیتا ہے.یا ایسا ہو کہ ایک شخص نماز کے لئے جانے لگے.رستہ کے درمیان کوئی برات اتری ہو.اور تماشہ ہو رہا ہو اسے دیکھنے لگ جائے اور نماز کے لئے نہ جائے اگر چہ وہ نماز پڑھنے کی نیت اور ارادہ کر کے گھر سے نکلا تھا.لیکن حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ وہ نیک کام نہ کر سکا تو ضمنی حالات ایسے ہوتے ہیں کہ کبھی تو نیکی کو بدی بنا دیتے ہیں اور کبھی بدی کو نیکی.اس بات کو خوب اچھی طرح مد نظر رکھنا چاہئیے.اب میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں ہمارا اصل کام تو وہ ہے.جس کے لئے ہم نے حضرت مسیح موعود کے ہاتھ پر بیعت کی ہے.اور آپ کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے وعدہ کیا ہے.لیکن ہو ہے کہ ایسے حالات پیدا ہو جائیں.جن کی وجہ سے آنکھوں پر پردہ پڑ جائے.اور غفلت کی ہوا ہمیں تھپک تھپک کر سلا دے.اور ہم اس وقت اٹھیں.جب سورج بہت چڑھ گیا ہو.اس لئے ان حالات کو بغور دیکھنا اور ان کا خیال رکھنا ضروری ہے.یہ حالات کئی طرح کے ہیں مثلاً ایک جس کا لوگوں پر بہت زیادہ اثر ہوتا ہے.ملازمت کا سوال ہے.جب کام کرنے والوں کے نام کاغذات میں بطور ملازم لکھے جاتے ہیں.اور کہا جاتا ہے کہ یہ انجمن کا ملازم ہے.اور یہ نظارت کا ملازم ہے.یہ فلاں صیغہ کا نوکر ہے.اور یہ فلاں دفتر کا نوکر.تو سکتا

Page 137

۱۳۱ یہ ملازم“ اور ”نوکر" کا لفظ بولتے ہی وہ تمام باتیں ذہن میں آجاتی ہیں.جو دنیاوی کاروبار کرنے والے نوکروں سے تعلق رکھتی ہیں.یا دنیا کے نوکروں اور ملازموں کے جو حالات ہوتے ہیں ان کو سامنے لاکر یہ لوگ بھی خیال کرتے ہیں کہ ہمیں بھی ایسے ہی حالات میں ہونا چاہیئے.اور اس وجہ سے وہ اپنا اصل کام جو خدمت دین ہے بھول جاتے ہیں.ان کی ایسی ہی حالت ہوتی ہے جیسے بچے کھیلتے ہوئے ایک کھیل کا نام ”ہوا" رکھتے ہیں.مگر جب انہی میں کوئی لڑکا ہوا بن کر ہو ہو کرتا ہے تو بعض لڑکے واقعہ میں ڈر جاتے اور رونے لگتے ہیں.حتی کہ بے ہوش جاتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ انہوں نے جس کا نام ہوا رکھا ہے.وہ اصل بھول جاتا ہے.اور نام غالب آجاتا ہے.حالانکہ اول تو وہ اسے شروع ہی کھیل کے طور پر کرتے ہیں.اور پھر دیکھتے ہیں.کہ ہم میں سے ہی ایک لڑکا ہے.لیکن نام کا ان پر ایسا اثر ہوتا ہے کہ رونے لگتے ہیں.یہی حال ایسے لوگوں کا ہوتا ہے.ان پر بعض باتیں ایسا اثر کرتی ہیں کہ وہ حقیقت کو بھول جاتے ہیں.اور یہ بات دنیا کے کاموں میں اس کثرت کے ساتھ پھیلی ہوئی ہے کہ مجھے مثالوں کے ذریعہ اسے واضح کرنے کی ضرورت نہیں ہے.پھر یہ یہ ایک وسیع مضمون ہے.اگر میں اس کی طرف متوجہ ہو گیا.تو جو بات آج بیان کر رہا ہوں وہ رہ جائے گی.بات یہ ہے کہ لوگ جو نام اختیار کرتے ہیں باوجود اس کے کہ اس کی خصوصیات ان میں نہ پائی جائیں اس کا ان پر اثر ہوتا ہے.اور آہستہ آہستہ اس کی خصوصیات ان میں پیدا ہو جاتی ہیں.کسی کو بادشاہ بادشاہ کہنے لگ جاؤ.کچھ عرصہ میں اس کی چال رفتار اور گفتار میں زمین آسمان کا فرق پڑ جائے گا.نوکر اور ملازم کا لفظ ایسا ہے کہ اپنے اندر کچھ خصوصیات رکھتا ہے.بعض ایسے بھی الفاظ ہوتے ہیں جن کی خصوصیات کم ظاہر ہوتی ہیں اور انکی خصوصیات سے کم لوگ واقف ہوتے ہیں.لیکن نوکر کا لفظ چونکہ عام ہے.لوگ خود نوکر رکھتے ہیں.اور نوکر رہتے ہیں.دوسروں کو نوکر ہوتا دیکھتے ہیں.نوکروں سے ملتے ہیں.گفتگو کرتے ہیں اس لئے اس کی خصوصیات سے سارے لوگ واقف ہیں.اور جب یہی لفظ ہمارے ہاں کام کرنے والے اپنے متعلق سنتے ہیں.تو یہ بات ہی بھول جاتے ہیں کہ وہ قادیان کس غرض کے لئے آئے.اور ان کا کام اور مقصد کیا ہے.نوکر نوکر اور ملازم ملازم کا لفظ آہستہ آہستہ ان کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے.اور وہ بھول جاتے ہیں.کہ وہ کیوں یہاں آئے.یہاں کام کرنے والوں میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو ملازمت کی غرض سے یہاں آیا ہو.اور ان میں سے کئی ایسے ہیں.کہ اگر باہر کام کرتے.تو انہیں بہت زیادہ تنخواہ ملتی.اور اچھی ملازمت حاصل کر لیتے.مگر اس لفظ نے ان کی عقل پر پردہ ڈال دیا اور وہ اپنے آپ کو ملازم کی حیثیت سے

Page 138

1y سمجھنے لگ گئے.ان حالات کے پیدا ہونے کی وجہ سے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ انجمن اور نظارت کے ماتحت جتنے کام کرنے والے ہیں.انہیں آئندہ ملازم نہ کہا جائے بلکہ کارکن کہا جائے.کار کن" کے لفظ میں تنخواہ کا خیال ہی نہیں آتا.اور ہمارے ہاں بہت سے کام ایسے ہیں جو بغیر تنخواہ کے کرائے جاتے ہیں.اور اگر کچھ دیا بھی جاتا ہے.تو وہ بدلہ کے طور پر نہیں ہوتا.بلکہ محض گزارہ کے طور پر ہوتا ہے.ورنہ اگر نوکری کا معاملہ ہو تو پھر مانا پڑے گا.کہ انہیں بہت کم تنخواہ ملتی ہے اور زیادہ تنخواہ کا مطالبہ کرنے کا انہیں حق ہے.لیکن اگر نوکر کا لفظ ہی نہ رہے.تو ملازمت کے حقوق کا سوال ہی نہیں اٹھے گا.کیونکہ یہ خدا کا کام ہے.اور اس کے کرنے پر جس کو جو کچھ بھی ملتا ہے.اس کا نام تنخواہ نہیں ہے.بلکہ وہ انعام ہے.اور بہت بڑا انعام ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے اسے بدلا تو پہلے ہی دیا ہوا ہے جو کچھ دیتا ہے وہ زائد انعام کے طور پر دیتا ہے.اس طرح بالکل نقشہ ہی بدل جاتا ہے.ایک صورت میں تو یہ نقشہ ہوتا ہے کہ تنخواہیں کم ہیں اور کام زیادہ.مگر دوسری صورت میں تنخواہ کا سوال ہی نہیں رہتا.جو کچھ کوئی کرتا ہے خدا کے لئے کرتا ہے.اس لئے میں نے حکم دیا ہے کہ آئندہ کے لئے ملازم کا لفظ ہی اڑا دیا جائے اور کام کرنے والوں کو کارکن کہا جائے.میرے پاس ایک شکایت پہنچی ہے.اور جائز شکایت ہے.کہ جو لوگ لیکن ریزرو (Reserve) ہیں.اور یہاں رہتے ہیں.ان کو ایک اعلان میں غیر کارکن کہا گیا ہے.اس طرح وہ غرض پھر فوت ہو جائے گی.جس کے لئے میں نے کارکن کا لفظ تجویز کیا ہے.کیونکہ جب ایسے لوگوں کو غیر کارکن کہا جائے گا.تو وہ اپنے آپ کو بے کار سمجھ لیں گے.اور کام کرنے کے ناقابل ہو جائیں گے.یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ بعض ایسے نام ہوتے ہیں.جن کا الٹ استعمال نہیں کیا جا سکتا.مثلاً مجاہد کا لفظ ہے.مجاہد عربی میں اس کو کہتے ہیں جو دین کی خدمت میں اپنی جان تک لگا دے.مگر دوسروں کو غیر مجاہد نہیں کہا جا سکتا.ایک شخص جو دینی جنگ پر گیا ہے.مجاہد ہے.لیکن ایک کمزور جو جنگ پر نہیں جا سکا.غیر مجاہد نہیں ہو گا.اور یہ لفظ اس کے متعلق استعمال نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس سے اس کے ایمان پر اثر پڑتا ہے.پس جس طرح مجاہد کے لفظ کا الٹ غیر مجاہد ان لوگوں کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا.جو جہاد میں شامل نہ ہوں.اسی طرح کارکن کے لفظ کا الٹ غیر کارکن نہیں استعمال ہو سکتا.کارکن سے مراد صرف یہی ہے کہ وہ لوگ جو کام پر لگے ہوئے ہیں اور دوسرے وہ ہیں جو منتظر ہیں کہ انہیں کام پر لگایا جائے.مگر ابھی لگائے نہیں گئے.غیر کارکن کا لفظ سنتی اور غفلت پر دلالت کرتا ہے.اور اس کے استعمال کا نتیجہ بھی اچھا نہیں نکل سکتا.اس لئے یہ استعمال نہیں ہونا چاہئیے.کارکن اصطلاح ہے.جو کام پر لگے

Page 139

ہوئے لوگوں کے لئے استعمال کی جائے گی.پس ایک تجویز یہ ہے کہ ملازم" یا "نوکر" کا لفظ اڑا دیا جائے.کیونکہ دین کی خدمت کرنے والے نوکر نہیں کہلا سکتے.اور جو خدمت کرتے ہیں وہ بطور ملازم اور نوکر نہ رہیں بلکہ بطور کارکن رہیں.ہاں یہ فرق ہونا چاہیے اور یہ ضروری ہے کہ اگر ہم اس اصطلاح کو صحیح طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں تو اگر کوئی غیر احمدی یا ہندو یا سکھ یا عیسائی ملازم ہے تو اسے نوکر ہی کہا جائے.وہ نوکر ہوگا.لیکن اگر کوئی احمدی کام کرتا ہے خواہ اس کا کام کتنا ہی چھوٹا ہے تو بھی اس کا چونکہ یہ فرض ہے.اس لئے وہ ملازم نہیں.بلکہ کارکن ہو گا.یہ تجویز میں نے اس لئے کی ہے.کہ اسماء کے فرق کی وجہ سے حقیقت میں بھی بہت فرق پڑ جاتا ہے.تم ایک لڑکے کو شریر شریر کہتے رہو.اگر وہ شریر نہیں ہو گا تو شریر ہو جائے گا اسی طرح اگر کسی کو نیک نیک کہو.تو وہ کئی شرارتیں چھوڑ دے گا اور نیک ہو جائے گا.اسی لئے شریعت نے رکھا ہے.کہ کسی کو گالی نہ دو.کیونکہ جس قسم کی گالی دے جائے.اس قسم کی اس میں حرکت پیدا ہو جاتی ہے.اس کے علاوہ میں اور باتیں بھی سوچ رہا ہوں.بعض دوستوں نے مشورہ دیا ہے.کہ تنخواہ کو اڑا دیا جائے اور ضروریات کے لئے کچھ دیا جائے.اس میں شک نہیں.کہ یہ طریق مفید ہو سکتا ہے.مگر تنخواہ اڑانے سے بعض ایسے فتنے پیدا ہونے کا احتمال ہے کہ جن کا ازالہ ہم فی الحال نہیں کر سکتے.اور اس وقت اس تجویز کے خطرات فوائد کی نسبت زیادہ ہیں.مگر میں اس پر بھی غور کر رہا ہوں.اور اور تجویز میں بھی میرے زیر غور ہیں.اور ایک بات بھی ہے.جو دنیا میں فتنہ فساد کی بہت بڑی موجب ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کسی قوم سے قناعت مٹتی ہے.تو پھر اس کی حالت گرتی چلی جاتی ہے.اور بہت سا دخل ان جھگڑوں میں جو تنخواہوں.معاوضوں.درجوں اور ترقیات کے متعلق ہوتے ہیں.اسی عدم قناعت کا ہوتا ہے.ایسا شخص جو عدم قناعت کی وجہ سے تنخواہ کے متعلق جھگڑا کرتا ہے.اس کو اگر ایک لاکھ تنخواہ بھی دے دو تو پھر بھی اس کی حالت درست نہ ہوگی.کیا ہم دنیا میں نہیں دیکھتے کہ جن کے پاس لاکھوں اور کروڑوں روپے ہوتے ہیں وہ بھی اور جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں.اور انہیں ہر وقت یہی خیال ہوتا ہے کہ اور کمائیں ان کے مقابلہ میں ہم دنیا میں ایسے لوگ بھی دیکھتے ہیں.جو غریب اور کنگال ہوتے ہیں.دس بیس روپے جو ان کی آمدنی ہوتی ہے اس کو استعمال کرتے.اور جو کچھ ملتا ہے صبر شکر سے کھا کر آرام کی نیند سو رہتے ہیں.پھر یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ روپیہ کی زیادتی اور زیادہ جمع کرنے کی خواہش پیدا کرتی ہے.کیونکہ ہم کئی کروڑ پتی ایسے بھی دیکھتے ہیں جنہیں یہ خواہش نہیں ہوتی.برخلاف اس کے کئی ایسے غریبوں کو دیکھتے ہیں.جنہیں ہر وقت یہی دھن ہوتی ہے.کہ روپیہ

Page 140

۱۳ جمع کریں.پس دنیا میں ہمیں جو کچھ نظر آتا ہے.وہ یہ ہے.کہ کئی امیر روپیہ جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں.اور کئی غریب صبرو شکر سے گزارہ کرتے ہیں.پھر کئی غریب دولت اکٹھا کرنے کی فکر میں رہتے ہیں.اور کئی امیر اطمینان کی زندگی بسر کرتے ہیں.اس سے صاف ظاہر ہے کہ اصل چیزوں کی قناعت ہے.جس کے دل میں قناعت ہو چاہے وہ امیر ہو یا غریب وہ اپنی حالت پر مطمئن ہو گا.اور جس کے دل میں یہ نہ ہو.وہ خواہ امیر ہو یا غریب اسے اطمینان حاصل نہ ہوگا.اور کبھی حاصل نہ ہوگا.اگر دنیا کی ساری دولت اور مال بھی اسے حاصل ہو جائے.تو پھر بھی وہ ستاروں کی طرف دیکھے گا.کہ یہ کیسے خوبصورت ہیں.یہ بھی مجھے حاصل ہو جائیں.ایسے شخص کو اگر ساری دنیا کا سونا چاندی، لعل و جواہرات دے دئے جائیں.دنیا کی تمام نعمتیں اسے دے دی جائیں تمام لوگوں سے کھانے پینے کی اشیاء چھین کر اس کے سپرد کر دی جائیں.ہر قسم کے کپڑے سب سے لیکر اس کے حوالہ کر دئے جائیں.تو بھی وہ کبھی پاتال کی طرف دیکھے گا اور کبھی آسمان کی طرف اور کہے گا نہ معلوم زمین میں کیا کیا خزانے اور کیا کیا چیزیں مدفون ہیں وہ مجھے مل جانی چاہئیں.اور نہ معلوم آسمان پر کیا کیا چیزیں ہیں.اور یہ چمکنے والے ستارے کسی قدر قیمتی ہیں.یہ بھی میرے پاس ہونے چاہئیں.پھر اگر زمین کے سارے خزانے اور ساری قیمتی چیزیں بھی نکال کر اس کے حوالہ کر دی جائیں.اور آسمان کے ستارے بھی اس کو مل جائیں.تو بھی اسے صبر نہیں آئے گا.اور وہ اور کے لئے خواہش رکھے گا.مگر جس کے دل میں قناعت ہوگی.اس کی یہ حالت ہوگی کہ وہ فاقہ سے رات کو سوئے گا.اور یہ کہتے ہوئے خدا کا شکر ادا کرے گا.کہ مجھے صبح تو کھانے کو روٹی مل گئی تھی.معلوم نہیں کتنوں کو صبح کی روٹی بھی میسر نہ آئی ہوگی.یا اگر دیندار ہو گا تو کہے گا الحمد للہ میں بھوکا تو سویا مگر کسی سے سوال نہیں کیا.اور خواہ میری جان بھی بھوک سے نکل جائے میں کسی امیر سے سوال نہیں کروں گا.اور اس بات پر خوش ہونگا.کہ میں صرف اللہ کا ہی بندہ ہوں.بندوں کا بندہ نہیں بنتا.تو اصل چیز دل کی قناعت ہوتی ہے.اور قوم کی ترقی اور سربلندی کے لئے اس کا پیدا کرنا ضروری ہے.جس قوم کے دل سے یہ نکل گئی.وہ قوم تباہ ہو گئی.اور تباہ ہو جائے گی.دیکھو ہمارے ملک کے زمیندار غریبی اور تنگ دستی میں جس اطمینان سے زندگی گزارتے ہیں.وہ یورپ کے بڑے بڑے مالداروں کو حاصل نہیں ہے.حالانکہ ہمارے ملک کے لوگوں کی یہ حالت ہے.کہ یہاں کے نمبرداران کپڑوں کو جو ولایت کا چوہڑا بھی ردی کر کے پھینک دے.خوشی سے خرید کر پہنتے ہیں.مگر ان لوگوں میں چونکہ قناعت نہیں.اور ان میں ہے اس لئے ان کی زندگی ان کے مقابلہ میں آرام سے گذرتی ہے.یہ لوگ جوار کی روٹی کھائیں زمین پر سوئیں.اور پتھر کا تکیہ لگائیں.تو بھی کہتے

Page 141

۱۳۵ ہیں.اللہ کا بڑا شکر ہے.مگر وہاں کا مال دار بھی یہی کہے گا کہ ہم بھوکے مر گئے.فاقہ زدہ ہو گئے.اور اس فاقہ کے یہ معنی ہوں گے کہ فلاں امیر نے آج جو کھانا کھایا ہے وہ اس نے نہیں کھایا.وہ کے گا ہم چیتھڑوں میں زندگی بسر کرتے ہیں.حالانکہ وہ چیتھڑے یہاں کے لاکر نیچے جائیں تو یہاں کے کئی امیرا نہیں خرید لیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دلوں سے قناعت اڑگئی ہے.انہیں دولت کا نشہ ایسا چڑھ گیا ہے کہ جسے پورا کرنے کے لئے انہیں زیادہ سے زیادہ کی خواہش لگی رہتی ہے.ان کی ایسی ہی حالت ہے.جیسے ایک شرابی کا جب تھوڑی دیر بعد نشہ ٹوٹ جاتا ہے.تو وہ بے چین ہو کر اور مانگتا ہے.لیکن جو پیتا ہی نہیں وہ آرام سے لیٹا رہتا ہے.ہر نشہ والا حرص کی طرف.جاتا ہے.اور اس کا پیٹ کبھی بھرتا ہی نہیں.کیونکہ نشہ کی کوئی حد ہی نہیں.کہ کہا جائے فلاں حد تک جا کر نشہ والے کو صبر حاصل ہو جائے گا.تو قناعت کے ٹوٹنے سے تو قومی عمارت کی ساری دیواریں ٹوٹ جاتی ہیں.اور اسی سے سب فتنے پیدا ہوتے ہیں.میں سمجھتا ہوں.بعض غلطیوں کی وجہ سے قناعت ٹوٹی ہے.اگر قناعت نہ ٹوٹتی تو خواہ یہ صورت بھی ہو جاتی کہ کپڑے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ستر ڈھانکنے کے لئے اور ایک کھیل منہ میں ڈالنے کے لئے مل سکتی تو بھی یہ حالت نہ ہوتی.جو اب ہوئی ہے.بات یہ ہے کہ ہم اپنی غفلتوں اور سستیوں میں پڑ کر یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ہمارے آقا راہ نما رسول خدا جس کی جوتیاں اٹھانا بھی ہمارے لئے بہت ہی بڑے فخر کی بات ہے.اس کی خوراک بعض اوقات اتنی بھی نہیں ہوتی تھی کہ آپ کا پیٹ بھر سکے.اور یہ بات ہمارے ذہن سے نکل جاتی ہے.کہ تیرہ سو سال گذرے جب ہمارا آقا پیٹ پر پتھر باندھے کام کے لئے چلا جا رہا تھا.اس بات کو بھول جاتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ خدا نے محض اپنے فضل سے ہمیں وہ سامان عطا کر دئے ہیں.جن سے ہم فائدہ اٹھاتے ہیں.ایک مومن کو تو اگر یہ خوف نہ ہو کہ وہ خدا کی بخشی ہوئی نعمتوں کی بے قدری کرنے والا ٹھرے گا.تو وہ کہہ سکتا ہے.کہ کیا ہی اچھا ہوتا.اگر وہی حالت ہوتی.جو رسول کریم کے وقت میں تھی.مگر اس کا دل ڈرتا ہے.کہ خدا نے جو نعمت دی ہے.اسے وہ کیونکر رد کرے.تو قناعت کے نہ ہونے سے ایسی حالت پیدا ہو گئی ہے اور اس کی وجہ سے ایک یہ بات پیدا ہو جاتی ہے.کہ سوال کی عادت بہت بڑھ جاتی ہے.اس عادت کے مٹانے سے قناعت پیدا ہو سکتی ہے.کیونکہ مانگنے والے کو دیکھ کر دوسروں کی نظر سے مانگنے کی برائی اٹھ جاتی ہے.اور وہ بھی سوال کرنے لگ جاتے ہیں.حالانکہ سوال کرنا ہماری شریعت نے بہت برا قرار دیا ہے.اور حضرت عمر تو مانگنے والوں کی تھیلیاں چھین کر پھینک دیتے تھے.سوال کرنا ایک بہت بری بات ہے.لیکن ہماری جماعت کے کئی لوگوں نے اس کو محسوس نہیں کیا.اور بہت ہیں جو اسے معمول بات سمجھتے ہیں..

Page 142

ایک صحابی کے متعلق آتا ہے.اس نے رسول کریم سے کچھ مانگا.آپ نے دیا.اس نے پھر مانگا.آپ نے دیا.پھر مانگا.آپ نے دیا.اور اس پر وہ مطمئن ہو گیا.اس وقت آپ نے فرمایا مال تو تم نے لے لیا ہے.اب میں تمہیں ایک نصیحت کرتا ہوں.جو اس مال سے بھی قیمتی ہے.اور وہ یہ کہ سوال کرنا بہت برا ہے.یہ نصیحت اس نے سن لی اور چلا گیا.دیکھو ان لوگوں کے ایمان کیسے مضبوط تھے.ایک موقع پر عین اس وقت جبکہ لڑائی کی حالت تھی.اسی صحابی کے ہاتھ سے کوڑا گر گیا.اور وہ گھوڑے پر سوار تھا.ایک دوسرا شخص اس کوڑا پکڑانے لگا.تو اس نے کہا خدا کی قسم مجھے نہ دینا میں خود نیچے اتر کر اٹھاؤں گا.میرا گھوڑے پر خاموش بیٹھے رہنا بھی سوال کرنے کی ایک صورت ہے.اور میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وعدہ کیا ہوا ہے کہ کبھی سوال نہ کروں گا.چنانچہ اس نے خود اتر کر اٹھایا.تو قناعت سوال کرنے سے ٹوٹتی ہے.اس سے پر ہیز کرنا چاہئیے.میں اس کے متعلق اور باتیں بھی بیان کرنا چاہتا تھا.لیکن چونکہ وقت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے آج اسی پر ختم کرتا ہوں.اه بخاری کتاب المغازی باب غزوة حنين...الفضل ۲۴ نومبر ۱۹۲۱ء)

Page 143

30 ایک عام نصیحت (فرموده ۲۵ / نومبر ۱۹۲۱ء) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.اس سلسلہ مضمون کے متعلق جس پر میں پچھلے چند ہفتوں سے اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہوں.اور اسی تسلسل میں جو پچھلے خطبہ جمعہ میں بیان کیا گیا تھا.آج بھی میں کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.کیونکہ اس دن ایک سوال تھا جو رہ گیا تھا.مگر اس کی تشریح کرنے سے پہلے آج بھی میں چند ضمنی باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں.پہلی بات تو یہ ہے کہ دنیا میں کسی قوم کسی جماعت اور گروہ کے قابل ہونے اور کوئی کام کرنے کی لیاقت رکھنے کی بعض علامتیں ہوتی ہیں.جن میں سے ایک یہ ہے.کہ وہ جماعت یا قوم یا گروہ صحیح سیاست کو سمجھے.نظام اجتماعی کے لئے جن باتوں کی ضرورت ہے.ان کا علم رکھے.اس لفظ (نظام اجتماعی) کو بہت لوگ نہ سمجھتے ہونگے.اس لئے یہ کہو کہ اکٹھے مل کر رہنے اور کام کرنے کے لئے جن باتوں کی ضرورت ہے.جب تک جماعت کے افراد ان کو نہ سمجھتے ہوں.اور سمجھنے کے یہ معنی نہیں کہ جب ان کو سمجھایا جائے.تو سمجھیں.بلکہ یہ ہیں کہ موقع اور محل کے مناسب ان باتوں کے متعلق خود ان کے اندر ایسی طاقت ہو.ایسی قوت اور سمجھ ہو کہ جسے استعمال کر سکیں.اس وقت تک کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی.ایک بزرگ کا واقعہ ہے.اور وہ اس موقع پر صحیح طور پر منطبق ہوتا ہے.اس لئے سناتا ہوں.کہتے ہیں ان کے پاس تصوف کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایک شخص آیا.اور پڑھتا رہا.ان کا نمونہ دیکھ کر سبق حاصل کرتا رہا.جب اس نے بہت علم حاصل کر لیا تو چاہا کہ واپس وطن جائے اور جا کر دوسروں کو یہ علم سکھائے.بزرگ نے اس سے سوال کیا تم واپس تو جانے لگے ہو.مگر یہ تو بتاؤ تمہارے ملک میں شیطان ہوتا ہے یا نہیں؟ اس نے کہا.حضور شیطان کہاں نہیں ہوتا.ہر جگہ ہوتا ہے اور وہاں بھی ہے.انہوں نے پوچھا.اگر وہاں بھی ہوتا ہے تو تمہارا مقابلہ کرے گا یا نہیں؟ اس

Page 144

نے کہا حضور کرے گا انہوں نے کہا.پھر یہ بتاؤ.جب تم خدا کا قرب حاصل کرنے اور لوگوں کو ہدایت کی طرف لانے کی کوشش کرو گے.اور شیطان تمہارا مقابلہ کرے گا.تو تم کیا کرو گے؟ اس نے کہا میں اس سے لڑوں گا.انہوں نے کہا اچھا تم اس سے لڑو گے اسے ہٹا دو گے اور دور کر دو گے مگر پھر جب تم نے خدا کی طرف توجہ کی وہ پھر آجائے گا.پھر کیا کرو گے؟ اس نے کہا.پھر دھتکار دوں گا.انہوں نے کہا اس پر وہ چلا گیا.لیکن جب تم توجہ کرنے لگے.پھر آگیا؟ شیطان چونکہ کتا یا کوئی اور جانور نہیں.جس کے متعلق وہ یہ کہہ سکتا کہ مار ڈالوں گا اس لئے وہ یہی کہہ سکتا تھا کہ بھگا دوں گا اور بزرگ کہتے.وہ پھر آجائے گا.اس پر وہ حیران ہو گیا.بزرگ نے کہا اچھا میں ایک اور بات پوچھتا ہوں.اور یہ کہ تمہارا ایک دوست ہے.جس نے اپنی حفاظت کے لئے ایک کتا پالا ہوا ہے.تم اس سے ملنے کے لئے گئے.لیکن کتے نے تمہیں روک دیا اس وقت کیا کرو گے؟ اس نے کہا کہ میں کتے کو مار کر ہٹاؤں گا.انہوں نے کہا وہ پھر آجائے گا.دوست کا کتا ہونے کی وجہ سے وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا.کہ مارڈالوں گا.اس لئے صحیح اور سچی بات کی طرف راہ نمائی ہوئی.اس نے کہا.میں دوست کو کہوں گا کہ آؤ اور اپنے کتے کو ہٹاؤ.اس پر بزرگ نے کہا کہ بس شیطان کے مقابلہ میں بھی تم اسی طرح کرنا.جب وہ بار بار تمہارے مقابلہ میں آئے تو خدا تعالیٰ کو ہی کہنا کہ خدایا آپ ہی اسے بنائیے کہ یہ مجھے آپ کی طرف آنے نہیں دیتا.تب وہ ہے گا.اس میں ایک نکتہ ہے.اور وہ یہ کہ کوئی انسان کوئی قوم کوئی جماعت کوئی ملک کوئی حکومت اس وقت تک اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتی.جب تک اس کے پاس اس کتے کے ہٹانے کا سامان نہ ہو.جو پیچھے سے اسے پکڑتا اور مقصد اور مدعا کی طرف جانے سے روکتا ہے.جب کوئی قوم کسی مقصد اور غرض کے لئے کھڑی ہوتی ہے اور جب کوئی حکومت کسی ملک پر چڑھائی کرتی ہے.تو اس کو کچھ تو سامنے سے کرنا ہوتا ہے.اور کچھ پیچھے سے.مثلاً ایک حکومت ہے جس کی کسی دوسرے ملک سے لڑائی شروع ہو گئی ہے.اس وقت ایک تو آگے سے اسے دشمن کا مقابلہ کرنا ہوگا.اور کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو اس خیال سے کہ لڑائی شروع ہونے کی وجہ سے ان پر ٹیکس لگیں گے کہیں گے لڑائی چھوڑ دو.ہم نہیں لڑنا چاہتے.کچھ ایسی عورتیں ہوں گی جو اس وجہ سے کہ لڑائی میں ان کے بچے مریں گے.کہیں گی.لڑائی نہیں کرنی چاہئیے کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو سمجھیں گے کہ فوجیں ان کے کھیتوں میں سے گذریں گی.کہیں خندقیں کھودی جائیں گی.کہیں قلعے بنائے جائیں گے.کہیں کھیتیاں کائی جائیں گی.کہیں مکان اور عمارتیں گرائی جائیں گی اس لئے کہیں گے.ہمیں لڑائی میں پڑنے کی ضرورت نہیں گویا آگے سے تو دشمن کی تلوار چمک

Page 145

رہی ہو گی.اور دشمن کی توپیں گرج رہی ہوں گے.اور پیچھے سے ایسے لوگ پکڑ پکڑ کھینچیں گے.اور رکاوٹیں ڈالیں گے کہ ہم لڑنے کے لئے نہیں جانے دیں گے.ایسے موقع پر اور ایسی گھڑی میں ملک کے افراد جب تک یہ نہ جانتے ہوں گے کہ اس لڑائی کے نتیجے میں ہمیں بہت بڑا نفع حاصل ہو گا.بچوں کا مرنا ہمارے آزاد رہنے کا باعث ہو گا.اور ٹیکسوں کا لگتا لاکھوں اور کروڑوں روپے لانے کا ذریعہ ہو گا اس وقت تک دشمن کے مقابلہ میں فتح نہیں بلکہ شکست ہوگی.لیکن جب ملک کا ہر ایک فرد یہ سمجھتا ہو کہ یہ روپیہ ضائع نہیں جائے گا.بلکہ بیج ہوگا جس سے لاکھوں اور کروڑوں روپے پیدا ہوں گے یہ بچے مریں گے نہیں.بلکہ قوم کی کھیتی کے لئے آبیاری کا کام دیں گے.یہ گاؤں اور کھیتیاں برباد نہیں ہوں گی.بلکہ در حقیقت ملبہ ڈال کر ایک ایسا اونچا چبوترا بن رہا ہو گا جسے کوئی سیلاب نہ گرا سکے گا.تب فتح ہوگی.کیونکہ اس وقت ہر ایک کھڑا ہو جائے گا.اور جو کوئی اس کے خلاف کوئی بات کہے گا.اس کو گرا دے گا.اس وقت حکومت کو ضرورت نہ ہوگی کہ پیچھے سے کھینچنے والوں کی طرف توجہ کرے.کیونکہ دوسرے لوگ خود اس کام کو سنبھال لیں گے اور حکومت کو کہیں گے جاؤ تم جاکر دشمن کا مقابلہ کرو ہم ان لوگوں کا انتظام خود کر لیں گے.تب حکومت کی توجہ نہ ہٹے گی.اور وہ دشمن کو شکست دینے میں کامیاب ہو سکے گی.پس وہ قوم اور وہ جماعت جس کے افراد میں یہ عقل اور یہ سمجھ نہ ہو کہ سیاست کو سمجھ سکیں.وہ کامیاب نہیں ہو سکتی.اس لئے پہلے تو میں عام نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اندر ایسی عقل اور سمجھ پیدا کرو کہ تمہارے دماغ بے عقلی اور جہالت کی طرف متوجہ نہ ہوں بلکہ اپنے دماغ اور عقل کو نیک باتوں کی طرف لگاؤ.جس قوم نے ترقی کرنی ہوتی ہے.اس کے افراد ایسے نہیں ہوتے کہ ہر ایک چھوٹی سے چھوٹی بات انہیں سمجھائی جائے.تب ہی وہ سمجھیں.بلکہ ان کے اندر ایسا مادہ ہوتا ہے کہ خود بخود ایسی باتوں کو سمجھ لیتے اور ان کے مطابق اپنا طرز عمل بنا لیتے ہیں مگر میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے ایسے لوگ ہیں.جن میں یہ مادہ نہیں ہے.”بہت سے" سے مراد اکثر نہیں ہے.جیسا کہ پہلے جب میں نے اس قسم کا فقرہ کہا تھا.تو دشمنوں نے اس سے اکثر لوگ سمجھ لئے.اور سلسلہ کے مسلمہ مخالف (ثناء اللہ) نے اس پر پھبتیاں اڑائیں.پس اکثر اور ہے.اور بہت اور ان میں بڑا فرق ہے.تو بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں.جن میں اتنی عقل و خرد نہیں ہوتی.کہ بات کو صحیح طور پر سمجھیں.بلکہ وہ ہر بات سے الٹا نتیجہ نکال کر اپنی بھی عقل مارتے ہیں.اور دوسروں کو بھی تنگ کرتے ہیں.ان باتوں میں سے ایک بات جس پر سلسلہ خطبات شروع ہے.یہ ہے کہ جو کام اس وقت ہو رہا ہے.اس کا بوجھ موجودہ حالات میں جماعت کی برداشت سے باہر ہے.اس وجہ سے مالی بجٹ

Page 146

۱۴۰ میں کارکنان کو بہت سی تخفیف کرنی پڑی.اور بعض کو الگ کیا گیا.کئی تو ہٹائے گئے.اور بعضوں کی تنخواہوں میں کمی کی گئی.اور بعض اور اخرجات کم کر دئے گئے.اس کے متعلق جو کچھ ہوا.پہلے اپنے اپنے صیغوں نے کیا.پھر میرے پاس لائے.اور میں نے کئی دن لگا کر اخراجات میں اور بھی کمی کی.جو کم از کم تھیں چالیس ہزار کے قریب ہوگی.اور اس طرح ایسی صورت پیدا کی.کہ جو موجودہ آمد ہے.اس سے پچھلے مشکلات ایک دو سال میں رفع کئے جا سکیں.یہ تخفیف جو پہلے یا میرے سامنے ہوئی ایک اصل کے ماتحت کی گئی.پہلے تو یہ تجویز کی گئی کہ تحط الاؤنس اڑا دیا جائے.یا کوئی اور ایسی تجویز کی جائے جس سے سب کی تنخواہوں پر اثر پڑے.لیکن میں نے کہا یہ طریق غلط ہے.جن کو تھوڑی تنخواہ ملتی ہے ان کی تنخواہ میں کمی کرنے سے ان کا گزارہ نہیں ہو سکے گا.کیونکہ وہ بمشکل ضروریات زندگی مہیا کر رہے ہیں.لیکن بڑی تنخواہوں والے کچھ ایسے بھی اخراجات رکھتے ہیں.جن میں کمی کی جا سکتی ہے.اس لئے سب کی تنخواہ کم نہیں کرنی چاہئیے.بلکہ صرف ان کی کم کرنی چاہئیے.جن کا کھانے اور کپڑوں کے علاوہ اور چیزوں پر خرچ ہوتا ہے.اس لئے ہمیں ان کی تنخواہوں پر ہاتھ صاف کرنا چاہیئے.چنانچہ سو سے اوپر.تنخواه رکھنے والوں کی ۲۰ فیصد اور سو سے ساٹھ تنخواہ والوں کی ۱۵ فیصد تنخواہ کم کر دی گئی.جب یہ فیصلہ ہوا.تو صیغہ جات نظارت والے سب موجود تھے.میں نے انہیں کہا تم کو اگر یہ منظور ہے.تو بڑی خوشی کی بات ہے.ورنہ ہم ان کو رکھ سکتے ہیں.جو اس تجویز کے ماتحت رہیں.اور جو نہ رہنا چاہئیں وہ ہماری طرف سے آزاد ہیں.ہمیں ان پر کوئی گلہ نہیں ہو گا.لیکن ان لوگوں نے نہایت خوشی اور پرجوش طور پر اس تجویز کو قبول اور منظور کرلیا.اور کہا بے شک ہماری تنخواہوں کو کاٹ لیا جائے.بلکہ میں نے تو یہاں تک نمونہ دیکھا کہ ایک شخص کی تنخواہ ۶۲ یا اس کے قریب قریب تھی.اس کو کہا گیا.کہ تمہاری تنخواہ پر اس تجویز کا اثر نہیں ہوگا.اس نے کیا کیوں نہیں ضرور ہونا چاہئیے.اس کے بعد صدر انجمن کے کارکن آئے.ان کو میں نے لکھ کر تحریر دی کہ جو اس کے مطابق کام کرنا چاہیں کریں.اور جو نہیں کرنا چاہتے ان کو بھی ہم مجبور سمجھتے ہیں.ہماری حالت یہ ہے.اس کے مطابق جو کام کرنا چاہیں کریں.تو ایک یہ بات تجویز کی گئی.کہ جو تھوڑی تنخواہ لینے والے ہیں.ان کی تنخواہوں میں کمی نہ کی جائے اور دوسری یہ کہ جن کی تنخواہ زیادہ ہے ان کی کم کی جائے.اور تیسری یہ کہ ایسے ملازم (یہ لفظ پہلے استعمال کی وجہ سے غلطی سے نکل گیا ہے) ایسے کارکن کہ جن کے بغیر کام چل سکتا ہے ان کو ہٹا دیا جائے.اور ان کا کام دوسروں پر ڈال دیا جائے.اس تجویز کے ماتحت کچھ کام کرنے والے

Page 147

۱۴۱ ہٹائے گئے اور بڑی تنخواہوں والوں کی تنخواہیں کم کی گئیں.اب بجائے اس کے کہ وہ لوگ جنہوں نے یہ قبول کیا کہ ان کی تنخواہیں ۲۰ فیصد اور ۱۵ فیصد کاٹ لی جائیں دوسرے انہیں شکر اور امتنان کی نظر سے دیکھتے کہ انہوں نے خوشی سے دین کے لئے قربانی دی ہے.یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ تھوڑی تنخواہ والوں کو تو علیحدہ کر دیا گیا ہے.اور بڑی تنخواہ والوں کو رکھ لیا گیا ہے.جن لوگوں کے دل میں یہ خیال آیا ہے.میں ان کو بتانا چاہتا ہوں.کہ ان کا یہ خیال کیسا پاگلانہ ہے.فرض کرلو.ایک ایسی گارڈ ہو جس میں سو سپاہی اور ایک افسر ہو.ان کے متعلق فیصلہ کیا جائے.کہ کچھ سپاہی کم کر دئے جائیں، اس پر کوئی کہے.یہ تو بڑا ظلم کیا گیا ہے.کہ تھوڑی تھوڑی تنخواہ والے دس سپاہی علیحدہ کر دئے گئے ہیں.اور ایک افسر پانچ سو تنخواہ لینے والا علیحدہ نہ کیا تو یہ کیسی جہالت کی بات ہوگی.کیونکہ اگر افسر علیحدہ کر دیا جائے تو سپاہی لڑیں گے کس طرح؟ اسی بات کو مد نظر رکھ کر دیکھ لو.مثلاً دفتر امور عامہ ہے.جس میں دو کارکن اور ایک ان کا افسر ہے.اب اگر افسر ایک کارکن کا کام بھی اپنے ذمہ لے لے.تو ایک کارکن کو ہٹایا جا سکتا ہے.لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا.کہ افسر کو ہٹا دیا جائے.وہ دونوں کام کر لیں گے.اس طرح کام نہیں چلے گا.یا مثلاً زمیندار ایک نوکر رکھے جو ہل چلائے.اور چار بیل رکھے (چونکہ زمینداروں کو بھی سلسلہ کی باتوں سے تعلق ہے.اس لئے ان کے گھر کی مثال پیش کرتا ہوں.تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ اعتراض کرنے والے کیسے جاہل ہیں) نوکر کی حیثیت افسر کی سمجھ لو.اور بیلوں کے ماتحت کام کرنے والوں کی.اس پر ایسے حالات پیدا ہو جائیں.کہ زمیندار اخراجات کی تنگی کی وجہ سے ان کا خرچ نہ برداشت کر سکے.اب وہ ایک یا دو بیلوں کو ہٹا لے گا.یا کامے (ملازم) کو اگر کامے کو ہٹائے گا تو کیا بیل آپ ہی آپ ہل چلائیں گے.وہ ایک دو بلکہ ضرورت مجبور کرے گی.تو تین بیلوں کو بھی ہٹا دے گا.لیکن ایک کا ماں ضرور رکھے گا.کیونکہ چار بیل بھی اس کے سوا کچھ نہیں کر سکتے.تو اس سے زیادہ پاگلانہ اعتراض ہو ہی نہیں سکتا.کہ افسروں کو کیوں نہیں ہٹایا گیا.اور ماتحت کام کرنے والوں کو ہٹا دیا گیا.اور یہ محض اس لئے کہا گیا.کہ ان کے قلب ایسے ہو گئے ہیں کہ وہ محض اعتراض کرنے کے لئے اعتراض کرتے ہیں.نہ کہ اصلاح کی غرض سے.اگر افسر کو الگ کر دیا جائے.تو کام کس طرح چل سکتا ہے.ایک گھر کا ایک کماؤ ہوتا ہے اور اس سے نیچے اس کے بال بچے ان میں سے کو نسا مر جائے تو پیچھے گھر میں امن قائم رہ سکتا اور ابتری نہیں پھیل سکتی.باپ یا دس بارہ بچے جنہیں وہ پال رہا ہوتا ہے.یا ماں جو اس کی نگرانی کرتی ہے وہ مرجائے تو فتنہ نہیں پڑتا.اگر آٹھ یا دس بچے بھی مر جائیں.لیکن ایک کام کرنے والا باپ زندہ رہے.یا ایک نگرانی کرنے والی ماں موجود رہے.تو وہ ابتری نہیں پڑے گی جو ایک باپ یا ماں کے مرنے اور

Page 148

۱۴۲ سارے بچوں کے زندہ رہنے سے پڑتی ہے.اسی طرح افسر کے ہٹانے کے معنی ہوں گے.کہ سارا کام خراب کر دیا جائے.ایک ہیڈ ماسٹر جس کے ماتحت دس بارہ مدرس کام کرتے ہیں اس کو ہٹانا مناسب ہو گا.کہ اس کی تنخواہ زیادہ ہے یا مدرسوں میں سے کچھ الگ کر دینے مناسب ہوں گے.جن کی تنخواہ کم ہوگی.اگر ہیڈ ماسٹر کو ہٹایا جائے گا.تو اس کا کام دوسروں پر تقسیم کر دیا جائے گا.اور کام چلتا رہے گا.اسی طرح تخفیف کا سوال اٹھے گا.تو ضلع کے ڈپٹی کو ہٹایا جائے گا اس کے ماتحت جو چار پانچ تحصیل دار کام کر رہے ہوں گے ان میں کمی کی جائے گی.یا تخفیف کی ضرورت کے ماتحت تھانے داروں میں سے بعض کو.انسپکٹر ہٹا دیا گیا تو کام کس طرح چلے گا.اور تھانے داروں سے کام کون لے گا.اسی طرح اگر ڈپٹی نہ رہا.تو تحصیل داروں سے کام کون کرائے گا.ہر ایک اپنی اپنی رائے کے ماتحت کام کرے گا.اور اس طرح کام میں ابتری پڑ جائے گی.تو یہ اعتراض جو کیا گیا ہے.سخت جاہلانہ اعتراض ہے اور میرے نزدیک اس بات پر دلالت کرتا ہے.کہ جس قلب میں یہ اعتراض پیدا ہو رہے ہیں.اس سے نیکی اور صداقت مٹ گئی ہے.کیونکہ جہاں یہ موجود ہوتی ہے.وہاں ایسا غلط اور نا درست قدم نہیں اٹھایا جاتا.وہاں بات کرنے سے پہلے سوچ لیا جاتا ہے.اور کہنے سے قبل اپنے دل پر قابو پا لیا جاتا ہے.اور دیکھ لیا جاتا ہے کہ کیا کہنے لگا ہوں.جن آدمیوں کے دل میں یہ بات پیدا ہوئی ہے.اور دو نے تو مجھ تک یہ بات پہنچائی ہے.وہ ایک پنجابی مثل کے مطابق ہے کہ جس بات پر بیٹے کی بیوی کو گالیاں دینی ہوتی ہیں.وہ اپنی بیٹی کی طرف منسوب کر کے اسے گالیاں دی جاتی ہیں.اور چونکہ وہ کام اس نے نہیں کیا ہوتا.اس لئے وہ اپنے آپ کو اس بارے میں مخاطب نہیں سمجھتی.اور اس طرح اس کو آگے رکھ کر بیٹے کی بیوی کو گالیاں نکالی جاتی ہیں.اسی طرح یہ لوگ دوسروں کے نام لیکر کہ انجمن نے یا نظارتوں نے فلاں بے وقوفی کی بات کی ہے.مجھے بے وقوف بناتے ہیں.کیونکہ کام میں نے کیا ہوتا ہے.اس لئے جو کچھ وہ دوسروں کا نام لیکر کہتا ہے.مجھے ہی کہتا ہے.میں یہ نہیں کر سکتا.کہ کام تو خود کروں اور ذمے دوسروں کے لگادوں کیونکہ غدار نہیں ہوں.جو کام میں نے کیا.میں اس کی ذمہ داری سے بری نہیں ہوتا.اس لئے میں یہی کہہ سکتا ہوں.کہ اگر یہ کوئی غلطی ہوئی ہے تو میں اس کا ذمہ دار ہوں.اور اگر درست اور مناسب بات ہوئی ہے.تو بھی میں ایک حد تک اس کا ذمہ دار ہوں.مگر میں نے بتایا ہے کہ یہ اعتراض کسی طرح بھی ٹھیک نہیں ہے.خدا تعالی بھی جب تخفیف کرنے پر آتا ہے.اور جب زمین پودوں کے لئے پوری غذا مہیا نہیں

Page 149

۱۴۳ کر سکتی.تو درختوں کے پتے گرا دیتا ہے.کیا کسی نے دیکھا ہے.کہ ایسے موقع پر جڑ کو اکھاڑ دیا جاتا ہے.نہیں اس وقت شاخوں پر ہی تخفیف کا اثر ہوتا ہے.اور جڑ کو اسی وقت کاٹا جاتا ہے.جب درخت کو اکھیٹر پھینکنا ضروری ہوتا ہے.ہم ہر سال درختوں کے متعلق خدا تعالی کی تخفیف دیکھتے ہیں.ایک موسم آتا ہے.جبکہ زمین پوری غذا مہیا نہیں کر سکتی.اور دوسرے درختوں کو خوراک دینی ہوتی ہے.اس وقت کئی درختوں کے پتے کم کر دئے جاتے ہیں.مثلاً سنگترے کو پتے دینے کی ضرورت ہے تو آم کے پتوں میں تخفیف کر دی جائے گی.کہ وہ پتے جھاڑ دے.اور سنگترہ نکال لے.خدا تعالٰی اس وقت جڑ سے نہیں اکھیڑ دیتا.جڑ سے اسی وقت اکھیڑتا ہے.جب وہ چیز قائم رہنے کے قابل نہیں رہتی.تو تخفیف کا اثر فرع پر پڑتا ہے.اصل پر نہیں پڑا کرتا.کیا تم نہیں دیکھتے.کہ جب لڑائی ہوتی ہے.تو کوئی یہ نہیں کہتا.کہ جرنیل اتنی بڑی تنخواہ لیتا رہا ہے.اس کا بہت سا روپیہ بینک میں جمع ہے.سپاہی مر گیا.تو اس کے بال بچوں کو کون پالے گا.اس لئے جرنیل کو آگے کر کے مرداؤ.سب یہی کہیں گے.کہ سپاہیوں کو آگے کرو.کیوں.اس لئے کہ جرنیل کے مرنے سے سارے سپاہی مارے جائیں گے.اور سب کی تخفیف ہو جائے گی.مگر سپاہی کے مرنے سے ملک نہیں مرتا.بلکہ زندہ ہوتا ہے.پس یہ ایسی موٹی بات ہے.کہ فطرتاً " اور عقلا " بآسانی معلوم ہو سکتی ہے.مگر ایسے لوگ جو اس پر بھی اعتراض کرتے ہیں.ایسے لوگوں سے کوئی کس طرح معاملہ کرے.جن کی عقل ایسی کند ہے کہ معمولی معمولی اور موٹی موٹی باتیں جو انہیں گھروں میں پیش آتی ہیں.روزانہ کاروبار میں دیکھتے ہیں.اور خدا کے قانون میں پائی جاتی ہیں.ان پر ٹھیک طور سے حاوی نہیں ہوتے.دیکھو.اگر گھر کے اخراجات میں تخفیف کا خیال پیدا ہو.تو کیا روٹی کی تخفیف کی جائے گی.جس پر دس بارہ پندرہ بیس روپیہ ماہوار لگتے ہیں.یا ایک ریشمی رومال جو چار پانچ روپیہ کو خریدا جاتا تھا.بات یہ ہے کہ تخفیف کے لئے صرف قلیل اور کثیر خرچ کو نہیں دیکھا جاتا.بلکہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے.کہ اس خرچ کو ہٹا کر کام کس طرح چلایا جائے گا.اور آیا کام خراب تو نہیں ہو جائے گا.ایک تو یہ بات ہے.جو میں کہنا چاہتا تھا.دوسری بات یہ ہے کہ ایک شخص نے مجھے لکھا ہے.کہ ”افسران کو متنبہ کر دو.کہ ان کا معاملہ ماتحتوں سے ٹھیک نہیں ہے.ورنہ تمہارے ان خطبات کے اثر سے ڈر کر اس وقت لوگ چپ تو ہو جائیں گے.لیکن چار پانچ ماہ بعد دیکھنا کیا نتیجہ نکلے گا.اس نے تو چار پانچ ماہ کا عرصہ بتایا ہے.لیکن میں آج ہی بتاتا ہوں.کہ کیا ہوگا.مجھے کسی دنیاوی حکومت نے کھڑا نہیں کیا.اور نہ

Page 150

۱۳۴ کوئی ایسی حکومت ہے.جو مجھے ہٹا سکے.ہمارے بادشاہ جارج پنجم ہیں.میں ان کا ادب کرتا ہوں.لیکن باوجود اس کے کہتا ہوں کہ بادشاہ معظم نہیں دنیا کے سارے بادشاہ بھی مل کر مجھے اس منصب سے ہٹانا چاہیں تو نہیں ہٹا سکتے.کیونکہ مجھے اس پر کسی انسانی طاقت نے کھڑا نہیں کیا.بلکہ خدا نے کھڑا کیا ہے.اور خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں انسانوں کے منصوبے کچھ نہیں کر سکتے.بڑے بڑے منادید کیا کرسکے.مولوی محمد علی صاحب صدر انجمن کے سیکرٹری تھے مولوی صدرالدین ہیڈ ماسٹر تھے.خواجہ صاحب بڑے لیکچرار سمجھے جاتے تھے.اور جماعت کا ان پر بہت بڑا انحصار خیال کیا جاتا تھا.یہ اور ان کے ساتھی سارے کاموں پر حاوی تھے ان کے مقابلہ میں وہ تھا جسے انہوں نے ہمیشہ کوشش کر کے کاموں سے علیحدہ رکھا.جس کی عمر ایسی عمر نہ تھی کہ بڑی عمر والے اس کے سامنے ادب سے بات کرتے.جس کا علم کوئی ایسا علم نہ تھا کہ دنیاوی طور پر عالموں کو کچھ سکھا پڑھا سکتا.جس کی عقل و خرد کا کوئی ایسا نمونہ نہیں دیکھا گیا تھا.جس کا خاص اثر ہوتا.اور جس کا خاندانی لحاظ سے اثر چھ سال پہلے مٹ چکا تھا.کیونکہ اگر خاندانی اثر کا لحاظ کیا تھا.تو محمود خلیفہ بنتا.نور دین نہ بنتا.ان حالات کے باوجود جب وہ سارے کے سارے مقابلہ پر کھڑے ہو گئے.تو انہوں نے کیا بنا لیا.کچھ حاصل نہیں کیا.بلکہ کھویا ہی ہے.آج سے ساٹھ سال پہلے جماعت میں ان کی جو عزت تھی.کیا اب بھی ہے.کس زور سے انہوں نے اعلان کیا تھا کہ ۹۹ فیصدی لوگ ان کے ساتھ ہیں.لیکن کس صفائی کے ساتھ ان کا یہ اعلان باطل ہوا.تو یہ خدا تعالیٰ کے قبضہ میں بات ہے.جب تک وہ سمجھے گا کہ یہ انتظام سلسلہ کے لئے مفید ہے اس وقت تک سے چلائے گا.اور جب سمجھے گا یہ مفید نہیں تو ایسی مخفی صورتیں پیدا کر دے گا.جن کا کسی کو پتہ بھی نہیں.اور یہ مٹ جائے گا.ان صورتوں کا آج علم نہیں ہو سکتا.اسے مگر میں نے تو اپنے پہلے خطبوں میں بتایا ہے کہ لوگوں کو چاہیے کہ صفائی سے کہہ دیں کہ کس کے لئے یہاں رہتے ہیں.خدا اور رسول اور ان کے خلفاء سے ان کا تعلق ہے یا ملازمت کرنے سے.جب یہ کہدیا گیا.تو پھر جو ایسا منافق طبع انسان ہے.جو مال و دولت کے لئے.ملازمت کے لئے.ہیڈ ماسٹریا منیجر سکول کے لئے یہاں رہتا ہے.وہ کیا کر سکتا ہے.کیا منافق بھی کبھی مومن کے مقابلہ میں جیتا کرتا ہے.اگر یہاں کوئی دل میں شکوہ و شکایت رکھ کے رہتا ہے تو وہ منافق ہے اور منافق خواہ لاکھ بھی ہوں کچھ نہیں کر سکتے.پہلے منافقوں نے کیا کر لیا تھا کہ اب کوئی کر لے گا.منافق کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا.اول تو اسے ظاہری کامیابی بھی کم ملتی ہے اور اگر مل جائے تو بہت ہی جلدی ذلیل ہو کر گر جاتا ہے.حضرت عثمان کے زمانہ کا واقعہ ہے.جسے عام لوگ سمجھے نہیں.مگر مجھے خدا تعالیٰ نے خاص

Page 151

۱۴۵ طور پر سمجھایا ہے.اس وقت اس پر بحث کی ضرورت نہیں مگر اتنا بتاتا ہوں.ایک صحابی کہتے ہیں.اس فتنہ میں شامل ہونے والوں میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا.جو تلوار سے نہ مارا گیا ہوا.سینکڑوں ہی تھے.جو اس فتنہ کے بعد دس ہیں، تمھیں سال تک جے.لیکن جب بھی مرے.تلوار سے مرے.آخری آدمی کی نسبت ایک صحابی کہتا ہے کہ وہ اندھا ہو کر سوال کرتا پھرتا تھا.اس حالت میں بھی خدا نے اس کے لئے یہی رکھا تھا کہ تلوار سے مارا جائے.وہ سوال کرتے کرتے ایک دن حجاج کے سامنے آگیا.اس نے پوچھا یہ کون ہے؟ بتایا گیا یہ بھی اس فتنہ میں شامل تھا.اس نے کہا اسے لے آؤ.اس کا صدقہ کریں.اور تلوار سے اسے مار دیا گیا.پس یہ مت سمجھو کہ میں کسی خفیہ منصوبہ یا کوشش سے ڈر سکتا ہوں اور میں نے سب کارکنوں کو بتایا ہے کہ ان کا دل بھی ایسا ہی ہونا چاہیے.جیسا اس کا ہے.جس کے ساتھ ہو کر انہوں نے کام کرتا ہے.اور میرا دل ایسا ہے.جو کسی سے نہیں ڈرتا.میں خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہوں.اور ڈر کا لفظ بھی اس حقیقت کو بیان نہیں کر سکتا.جو خدا تعالٰی کے متعلق اپنے اندر رکھتا ہوں.لیکن اور کسی سے مجھے کوئی ڈر نہیں.اور میری ہدایات کے ماتحت کام کرنے والوں کو بھی چاہئیے کہ وہ بھی نہ ڈریں.وہ دیانت اور امانت سے صداقت کو مد نظر رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ کے لئے کام کریں.اور کسی سے نہ ڈریں وہ یقینا کامیاب ہونگے اگر خدا تعالیٰ کی رضا ان کے مد نظر ہوگی.اور اگر یہ نہ ہوگی تو دنیا کو ان کے مقابلہ میں اٹھنے کی ضرورت نہیں.خدا تعالیٰ خود انہیں تباہ کر دے گا.جو اس کا نام لیکر فتنہ و فساد پھیلائیں گے اور دوسروں کے حقوق کی پروا نہ کریں گے.یہ بات بیان کرنے کے بعد میں اس سوال کی طرف آتا ہوں جو گذشتہ خطبہ جمعہ کے متعلق باقی رہ گیا تھا.میں نے بتایا تھا کہ کامیاب ہونے والی جماعت کے لئے قناعت پیدا کرنا ضروری ہے.کیونکہ اس کے ذریعہ امن قائم ہو سکتا ہے.اس کو مٹا دو.تو فساد اور فتنہ پھیل جائے گا.میں نے بتایا تھا کہ یورپ میں چونکہ قناعت نہیں.اس لئے فساد برپا ہے وہاں کے غریب کی حالت یہاں کے امیر کی حالت سے بہت اچھی ہے.وہاں ایک مزدور کو چار سو کے قریب تنخواہ ملتی ہے جو یہاں ڈپٹی کو بھی نہیں ملتی.اور اب تو نہیں.لیکن پچھلے دنوں ڈپٹی بنا ایک معراج سمجھا جاتا تھا.وہاں کی مالی حالت یہاں کی نسبت بہت اچھی ہے.مگر باوجود اس کے ان لوگوں میں اطمینان نہیں.اور لڑائی جھگڑے ہو رہے ہیں کہ ہم بھوکے مر گئے.مگر وہ اس لئے نہیں مررہے کہ ان کے پاس مال نہیں.بلکہ اس لئے مر رہے ہیں کہ ان کے دل مر گئے.امیر و غریب نو کرو آقا افسر و ما تحت سب یہی کہتے ہیں کہ مر گئے.لیکن وہ باہر سے نہیں مرے.ان کا دل مر گیا ہے.میں نے بتایا تھا کے بے اطمینانی کی رو مٹانے کے لئے قناعت ضروری ہے.اور اس کے لئے

Page 152

الم ضروری ہے کہ "سوال" کرنا مٹا دیا جائے.کیونکہ یہی بے اطمینانی پیدا کرنے اور قناعت نہ رہنے دینے کا بہت بڑا موجب ہے.یہی وجہ ہے.کہ اسلام نے سوال کرنے سے منع کیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے برا منایا ہے.اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو بہت ہی برا سمجھتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ انہوں نے ایک سوال کرنے والے کی تھیلی چھین لی.اور اس لئے مارا کہ وہ سوال کرتا پھرتا ہے.تو سوال کرنے کو اسلام نے بہت حقیر اور ذلیل فعل قرار دیا ہے.۳.در حقیقت سوال کرنے سے انسان میں ایسی دنائت آجاتی ہے کہ جس کی وجہ سے بہت کمینگی پیدا ہو جاتی ہے.اس لئے میں نے بتایا تھا کہ قناعت پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سوال کی عادت کو مٹایا جائے.کیونکہ جب لوگ دیکھتے ہیں کہ وہ شخص جس نے کام کچھ نہیں کیا ہوتا.سوال کر کے کچھ حاصل کر لیتا یا حاصل کرنا چاہتا ہے.تو وہ کہتے ہیں.ہم جو کام کرتے ہیں ہم کیوں سوال نہ کریں.اس وجہ سے وہ یہی کہہ دیتے ہیں کہ تنخواہ بڑھا دو.اور یہ بات بھول جاتے ہیں کہ وہ تو خدا کے لئے کام کر رہے ہیں.اور انکو تنخواہ نہیں مل رہی.بلکہ گزارہ مل رہا ہے.تو ایک سوال کرنے والے کو دیکھ کر دوسرے کو بھی اس کی جرأت اور تحریک پیدا ہوتی ہے.اس کی مثال دیکھئے.ایک بچہ جب پیسہ مانگے.تو دوسرا بھی مانگنے لگ جاتا ہے.چاہے اسے ضرورت نہ ہی ہو.اور یہاں تک ہوتا ہے کہ چھوٹا بچہ بھی جب بڑے بھائی کو مانگتے دیکھتا ہے.تو وہ بھی ہاتھ پھیلا دیتا ہے.حالانکہ وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ پیسہ کیا ہوتا ہے اور اسے کیا کرنا ہے.اسی طرح سوال کرنے والوں کو دیکھ کر دوسروں کو بھی سوال کرنے کی جرات ہوتی ہے.اس لئے سوال کا مٹانا ضروری ہے.مگر سوال کرنا کس طرح مٹ سکتا ہے؟ یہ بھی ایک سوال ہے.جس پر غور کرنا ضروری ہے.اس کے متعلق یا تو یہ کہدیا جائے کہ سوال کبھی نہیں کرنا.مگر یہ وہی کہہ سکتے ہیں.جو اس درجہ پر پہنچے ہوئے ہوں.کہ خدا ہی دے گا تو کھائیں گے.ورنہ بھوکے مر جائیں گے.لیکن نہ تو تمام لوگ اس درجہ کے ہو سکتے ہیں.اور نہ لاکھوں کی جماعت سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ایسا کرے گی.اس لئے یہ کہنا کہ سوال نہیں کرنا چاہئیے.کافی نہیں ہو سکتا.اگر دنیا میں سارے کے سارے لوگ ولی اللہ ہوتے یا فرشتے بستے.تو ہم انہیں اتنا ہی کہنا کافی سمجھتے کہ سوال نہ کرو.اور کوئی نہ کرتا.مگر دنیا میں تو غریب بھی ہیں.اور امیر بھی.طاقتور بھی ہیں اور کمزور بھی.نیک بھی ہیں اور بد بھی.پھر نیکوں میں اعلیٰ درجہ کے نیک بھی ہیں.اور ادنی درجہ کے بھی.اور نیک جماعتوں میں بھی یہی حال ہوتا ہے.کسی جماعت کے نیک ہونے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس کا کثیر حصہ نیکی کی طرف مائل ہو.یہ نہیں کہ اس میں شامل ہونے والا کوئی کمزور نہیں.

Page 153

۱۴۷ کمزور بھی ہوتے ہے.صحابہ میں بھی ہوئے.ان سے پہلے بھی تھے.اور بعد میں بھی ہوں گے اور دنیا میں کوئی جماعت ایسی نہیں.جس کے سارے کے سارے لوگ ولی اللہ ہوں.اگر کوئی یہ خیال رکھتا ہے تو واقعات کا انکار کرتا ہے.اور قدم قدم پر ٹھو کر کھاتا ہے.پس چونکہ سارے لوگ ولی اللہ نہیں.اس لئے کیا یہ کہہ دینے سے کہ سوال نہیں کرنا چاہئیے.سارے لوگ سوال کرنا چھوڑ دیں گے ؟ ایک جماعت تو ایسی ہوگی جو چھوڑ دے گی.اور کہے گی ہم فاقے مرنا منظور کریں گے مگر سوال نہیں کریں گے.لیکن اور جماعت ہوگی جو ایسے مضبوط ایمان والی نہیں ہوگی.وہ کچھ مدت تک تو سوال نہ کرے گی.لیکن جب دیکھے گی کہ بچے فاقے مرنے لگے ہیں.اور عورت کے پاس ستر ڈھانکنے کے لئے بھی کپڑا نہیں تو کہے گی اب ہم سے برداشت نہیں ہو سکتی اور سوال کرے گی.ایسی صورت میں سوال نہ کرنا کس طرح ممکن ہے.اس کے لئے دو طریق ہیں اور دو طاقتیں ہیں جو ملکر جب تک کوشش نہ کریں سوال نہیں مٹ سکتا.ایک طاقت تو وہ ہے.جو حاکم طاقت ہے.اور انتظام کی بات خدا نے اس کے سپرد کی ہے.اور ایک وہ جو افراد ہیں.اور جن کے متعلق انتظام کیا جاتا ہے.یہ دونوں مل کر مٹانا چاہیں تو رسم سوال مٹ سکتی ہے.منتظم جماعت سے مراد مثلاً ناظر امور عامہ اور ناظر بیت المال ہیں.اور ہر وہ جس کو خدا نے علم دیا ہے.وہ دوسروں کو وعظ کرے اور بتائے کہ سوال کرنا بہت بری چیز ہے.واعظ اپنے وعظ میں.لیکچرار اپنے لیکچر میں.مدرس اپنے شاگردوں کو.افسر اپنے ماتحتوں کو.نگران ان لوگوں کو جن پر اس کی نگرانی ہو.مرد اپنے بیوی بچوں کو اور بیویاں اپنی اولاد کو جائیں.اور ذہن نشین کرائیں کہ سوال کرنا ایک بری چیز ہے.یہ بات حکومت کے ساتھ تعلق رکھتی ہے یعنی ہر رنگ کی حکومت.خواہ وہ سیاسی ہو یا علمی یا تمدنی جسے حاصل ہو وہ سمجھائے.کہ سوال کرنا بہت بری اور بے غیرتی کی علامت ہے.مگر اس سمجھانے کے ساتھ خدا تعالی کے قانون کو توڑا نہیں جا سکتا.کیونکہ ایسے لوگ ہوتے ہیں.جنہیں فاقہ کی نوبت آتی ہے.جن کے پاس پہننے کو کپڑا نہیں ہوتا ایسے لوگ ہیں.اور ہوتے رہیں گے.پھر سوال ہوتا ہے کہ ایسی حالت میں کیا کیا جائے؟ اس کے لئے یہ ہونا چاہئیے کہ ہم اپنے بھائیوں اور ساتھ والوں کی ضرورت کو دیکھ کر اس کی اطلاع ان لوگوں تک پہنچائیں.جو انتظام کر سکتے ہیں.مثلاً دارالعلوم میں جو لوگ رہتے ہیں.ان کا کام ہے کہ اگر ان کے محلہ میں کسی کی حالت فاقہ کشی تک پہنچ گئی ہے تو وہ اس بات کو فاقہ کش پر نہ چھوڑیں کہ وہ اپنی حالت دوسروں کے سامنے پیش کر کے سوال کرے.بلکہ وہ خود اس کی حالت کو دیکھیں.اور منتظمین کو اطلاع دیں کہ ہمارے ہمسایہ میں فلاں شخص ہے.جس کو فلاں ضرورت ہے.اس کی حالت فاقہ کشی تک پہنچ گئی ہے یا وہ نگا ہے.اور مستحق ہے کہ بھائی اس کی مدد کریں.

Page 154

۱۳۸ گویا وہ لوگ جن کو مشکلات پیش آئیں.ان کو اپنی مشکلات پیش کرنے کا موقع نہ دیا جائے.بلکہ ان کی مشکلات پیش کرنے کی ذمہ داری دوسرے اپنے سر لے لیں.اور خلیفہ یا اس کے نائب یا اور جماعتوں میں جو کام کرنے والے ہیں.ان کے پاس پہنچائیں.ہر شخص دیکھتا رہے کہ کسی کو کیا تکلیف ہے.جس کا دور کرنا ضروری ہے.ان تکلیفوں میں سے اصل یہی ہیں کہ کھانا نہ ملنا.دوا نہ ملنا.مکان نہ ہونا.اور کپڑا نہ مل سکتا یہ ایسی تکالیف ہیں.جن کا دور کرنا فرض رکھا گیا ہے.ان کا انتظام کرنا خدا تعالیٰ نے ضروری قرار دیا ہے جو شخص کمانے کے ناقابل ہے.دوائی حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا.رہنے کے لئے اس کے پاس مکان نہیں ہے یا کپڑا نہیں ہے تو جماعت کا فرض ہے کہ اس کی مدد کرے اور ایسا انتظام کر دے کہ وہ پیٹ بھر سکے.یا ستر ڈھانک سکے یا سر چھپا سکے.یا دوائی پاسکے.یہ ذمہ داری اسلام سب پر رکھتا ہے.اور گو یہ فرض کفایہ ہے مگر ہے فرض.جیسا کہ جنازہ فرض کفایہ ہے.اگر کوئی مرجاتا ہے تو یہ ضروری نہیں.کہ تم سب اس کے جنازہ پر جاؤ.لیکن اگر تم میں سے کوئی بھی نہیں جاتا.تو سب گنہگار ہونگے.اسی طرح اگر کسی کے پاس کپڑا نہیں.مکان نہیں.دوائی نہیں.تو جماعت کا فرض ہے کہ اس کا انتظام کرے.لیکن ہر شخص کا علیحدہ علیحدہ یہ فرض نہیں.بلکہ سب پر ہے.اور اگر جماعت انتظام نہ کرے گی تب سب گناہ گار ہونگے.اور اگر ایک بھی کر دے گا.تو کوئی گناہ گار نہیں ہو گا.اس کے لئے اسلام نے ایک حصہ زکوۃ کا رکھا ہے.اگر یہ انتظام قائم ہو جائے.تو سوال کرنا اٹھ جاتا ہے.اور جب کوئی شخص دیکھے گا کہ ایک فاقہ سے ہے.مگر سوال نہیں کرتا.تو وہ کہے گا.میں پیٹ بھر کے کھانے کے بعد اچھی روٹی کے لئے سوال کروں.تو میرے لئے شرم کی بات ہے اسی طرح جب دیکھا جائے گا کہ ایک بے چارہ ستر ڈھانکنے سے بھی عاری ہے.اور پیوند لگا لگا کر ڈھانکتا ہے.تو کہے گا مجھے شرم نہیں آتی کہ میں لٹھے ، ململ کے لئے سوال کرتا ہوں.اور موٹا کپڑا پہنے پر صبر نہیں کرتا.تو سوال کے مٹانے کے لئے یہ ضروری ہے.کہ جن کو سوال کی حاجت ہو.ان کی حاجت کو دوسرے محسوس کریں.اور اس کے پورا کرانے کا انتظام کریں.اگر یہ بات ہو جائے.تو سوال کرنے کی عادت خود بخود مٹ جائے گی.خص اب ہمارے پاس بیسیوں درخواستیں آتی ہیں کہ یہ ضرورت ہے یہ حاجت ہے.اسے پورا کیا ائے.مثلاً کئی طالب علم لکھتے ہیں.کہ انہیں فلاں چیز کی ضرورت ہے.وہ دی جائے.لیکن اگر افسر دیکھ لے کہ فلاں محتاج ہے.اور اسے فلاں چیز کی ضرورت ہے.جس کا علم آسانی سے ہو سکتا ہے.کیونکہ جب اس کے پاس کاپی یا پنسل نہ ہوگی تو معلوم ہو جائے گا.کہ اس کی اسے ضرورت

Page 155

۱۴۹ ہے.اور اس کے پاس نہیں ہے.ایک لڑکا فیس نہیں لاتا.جب پوچھا جائے گا.تو کہے گا.ہے نہیں.اس طرح ان کی حالت کا پتہ لگ سکتا ہے.اگر افسر اس ذمہ داری کو سمجھے کہ لڑکوں کی ضروریات کا خیال رکھنا اس کا فرض ہے.اور وہ آگے ان کے پاس پہنچائے جو انتظام کر سکتے ہیں.اور وہ اپنے طور پر تحقیقات کر رہے ہوں.کہ ضرورت مند فریب تو نہیں کر رہا.بلکہ اسے فی الواقع ضرورت ہے.تو وہ ضرورت کے پورا کرنے کا خود انتظام کر دیں گے.اور ضرورت مند کو کہنے کی ضرورت ہی نہ رہے گی.اور نہ انہیں سوال کی عادت پڑے گی.ان ضروریات سے میری مراد کھانا پینا، دوائیاں اور ایک حد تک مکان بھی ہے.اور انسانیت کے قیام کے لئے لباس اور ایک حصہ مکان کا ہے.مکان دونوں صورتوں میں شامل ہے.انسانیت کے قیام کے لئے بھی اور زندگی کے قیام کے لئے بھی.وہ عورت جو جنگل میں بیٹھی ہو.محفوظ نہیں ہوتی.اور جو ننگی ہو.وہ بھی انسانیت کو قائم نہیں رکھ سکتی.تو جس طرح مذہب کا قائم رکھنا ضروری ہے.اسی طرح حیات کا قائم رکھنا بھی ضروری ہے.اور جہاں ان دونوں کے ضائع ہونے کا خطرہ ہو.اور ان کے قیام کے لئے کسی چیز کی ضرورت ہو اس کا انتظام کرنا دوسروں کا فرض ہوتا ہے.یہ نہیں کہ کہا جائے کہ فلاں جو کھدر پہنتا ہے اسے بانات کی کی ضرورت ہے.یا فلاں سادہ خوراک کھاتا ہے اس لئے اعلیٰ خوراک کی ضرورت ہے.بلکہ ضروریات سے مطلب ان چیزوں سے ہے.جو انسانیت یا زندگی کے قیام سے تعلق رکھتی ہیں.ان میں مدد کرنا ضروری ہے.اور جو چیزیں تعیش سے تعلق رکھتی ہیں انہیں اس پر چھوڑ دو کہ اتنی قربانی وہ کرے.پس اگر ان ذمہ داریوں کو سمجھ لو تو سوال کرنا مٹ جائے گا.اور سوال کرنے کی عادت کے مٹنے سے قناعت صحیحہ حاصل ہو جائے گی اور اس کے نتیجہ میں تمہیں وہ اطمینان حاصل ہو گا.کہ دنیا تم پر رشک کرے گی.اور وہی حالت ہوگی.کہ ریما بودالذين كفروا لو كانوا مسلمين (الحجر : ۳) لوگ خواہش کریں گے.کہ کاش ہم بھی احمدی ہوتے.اور ہمیں بھی یہ اطمینان حاصل ہوتا.(الفضل ۱۵ دسمبر ۶۱۹۲۱ ) ا تاریخ الخلفاء للسيوطى حالات حضرت عثمان بن عفان مشكوة كتاب الزكوة باب من لا تحل له المسالة ومن تحل له الفاروق حصہ دوم ص ۹۳

Page 156

18, 31 قرب الہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں (فرموده ۱۲ دسمبر ۱۹۲۱ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.چونکہ تین چار دنوں سے نزلے کی وجہ سے حلق میں درد کی شکایت ہے.اس لئے میں بلند آواز سے ایسی آواز سے جو سب تک پہنچ سکے آج بول نہیں سکتا.اس لئے جن اصحاب کو جگہ مل سکے قریب آجائیں.مجھے جلسہ سالانہ کے منتظم کی طرف سے ایک رقعہ ملا تھا جس کو دو ہفتے کا عرصہ ہوا.اس میں جہاں یہ درخواست کی گئی تھی.کہ میں یہاں کے احباب کے پاس سفارش کروں کہ وہ جلسہ کے کاموں میں پورے طور پر مدد دیں.اور اپنی خدمات پیش کریں.وہاں ایک یہ بات بھی لکھی تھی کہ قادیان کے لوگوں نے جلسہ کی اعانت اور مدد کے لئے بہت سے وعدے کئے ہوئے ہیں.مگر بعض نے یا بہت نے ابھی تک پورے نہیں کئے.ان کو میں سفارش کروں کہ پورے کر دیں.تاکہ جلسہ کے لئے جو سامان منگوانا ضروری ہے.منگوا لیا جائے.میں نے ایک ذاتی غرض اور ذاتی فائدہ کی وجہ سے اس امر کو اس وقت نہیں بیان کیا تھا.جب کہ جلسہ کی اعانت اور امداد کے لئے تحریک کی تھی.اور وہ ذاتی فائدہ اور غرض یہ تھی کہ میں نے بھی وعدہ کیا تھا.جو اس وقت تک پورا نہیں کیا تھا.اس لئے شرم آتی تھی.کہ میں دوسروں کو اس کے لئے کس طرح کہوں.جب تک خود نہ کروں.مگر اب چونکہ میں اپنا وعدہ پورا کر چکا ہوں.اس لئے وہ بات آپ لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں.جو خود کر چکا ہوں.اس سے پہلے میں اس بات سے ڈرتا تھا.کہ لم تقولون ما لا تفعلون (الست : (۳) جو بات خود نہیں کی اس کے متعلق آپ لوگوں کو کیا تحریک کروں.مگر اب چونکہ خدا نے مجھے توفیق دی ہے.اور میں اسے پورا کر چکا ہوں.اس لئے آپ لوگوں کو بھی کہتا ہوں.کہ وعدہ کو خدا تعالیٰ نے بہت قیمتی چیز قرار دیا ہے.اور وعدہ کا ایفاء بہت ضروری رکھا ہے.اس لئے جنہوں نے وعدے کئے ہیں وہ پورا کریں.ا بنی اسرائیل : ۳۵

Page 157

میں جانتا ہوں.کہ وعدہ کرنے کے وقت کئی آدمی ہمت اور طاقت سے زیادہ جرات دکھاتے ہیں اور اگر ان کی نیت پورا کرنے کی ہوتی ہے.ریا کی غرض نہیں ہوتی.تو میں سمجھتا ہوں یہ بھی ایک نیکی ہے.گو اس سے ایک نقص بھی پیدا ہو جاتا ہے.کہ بار بار انسان وعدہ کرتا ہے.تو بار بار اسے پورا نہیں کر سکتا.اور جب بار بار پورا نہیں کر سکتا.تو وعدہ کی اہمیت اور قدر اس کے دل میں نہیں رہتی.ایسے حالات میں میں جانتا ہوں کہ ایسے بھی لوگ ہونگے جن کے لئے اب وعدہ پورا کرنا مشکل ہو گا.مگر میں جانتا ہوں کہ اس غلطی کی اصلاح بھی اسی طرح ہو سکتی ہے کہ وعدہ پورا کیا جائے.کیونکہ ایک دفعہ جب تکلیف اٹھا کر کوئی شخص وعدہ پورا کرے گا.تو دوسری دفعہ محتاط رہے گا کہ وہی وعدہ کروں جو پورا کر سکوں.پس میں ان لوگوں کو جنہوں نے جلسہ کے متعلق وعدے گئے ہیں یاد دلاتا ہوں کہ اپنے وعدے پورے کریں.میں منتظم صاحب سے اس بات میں متفق نہیں ہوں.کہ قادیان کے لوگ وعدہ کر کے اسے پورا کرنے میں سستی کرتے ہیں.میرا تجربہ ہے کہ قادیان کے لوگ چندوں کے وعدوں اور ان کے ایفا میں بہت بڑہے ہوئے ہیں.اس میں شک نہیں.کہ جتنی جماعت قادیان میں ہے.اتنی اور کسی شہر میں نہیں ہے.یہاں قریباً اڑھائی ہزار احمدی ہیں.اتنی جماعت کس اور شہر میں نہیں ہے.اور کوئی قصبہ ایسا نہیں ہے.جہاں اتنی جماعت اکٹھی ہو.اب کمزوروں کا اندازہ لگاتے وقت بھی اس تعداد کو مد نظر رکھنا چاہئیے.اگر کسی جگہ دو سو میں سے دس کمزوری دکھاتے ہیں.تو اسی نسبت سے یہاں سوا سو میں کمزوری ہو سکتی ہے.تو یہاں کی کثرت معیار نہیں ہو سکتی.کیونکہ یہاں آبادی کی تو کثرت ہے.کسی اور جگہ اگر ایک کمزور ہو.اور یہاں پر دس تو تعجب کی بات نہیں.کیونکہ جہاں ایک کمزور ہے.وہاں کل تعداد دس ہے.اور جہاں دس کمزور ہیں.وہاں کی تعداد اڑہائی ہزار ہے.پس اس نسبت سے دیکھنا چاہیے.اور اس کے مطابق میں تو دیکھتا ہوں کہ یہاں کے لوگ ایثار اور قربانی میں دوسروں سے بہت بڑہے ہوئے ہیں.اس کا مطلب یہ نہیں کہ جہاں انہوں نے پہنچنا ہے.وہاں پہنچ گئے ہیں.کیونکہ پچھلے ہفتوں میں انہوں نے دیکھ لیا ہے.جو میں ان کے متعلق خیال رکھتا ہوں.بات یہ ہے.کہ نہ تم اس مقام ابھی پہنچے ہو جہاں تمہیں پہنچنا چاہئیے.اور نہ میں نے وہ رستہ طے کر لیا ہے جو مجھے کرنا ہے.تمہارے آگے بھی اور میرے آگے بھی بہت وسیع رستہ ہے.جسے عبور کرنا ہے.اس لئے خوشی اور مسرت کا وہی موقع ہو گا.جب ہم اس جگہ پہنچ جائیں گے جہاں ہمیں پہنچنا ہے.دیکھو ایک عیسائی ایک یہودی سے کم کافر ہے.مگر یہ اس کے لئے خوشی کا مقام نہیں.اسی طرح ایک ہندو ایک دہریہ

Page 158

۱۵۲ سے کم گنہ گار ہے.مگر کیا وہ خوش ہونے کے قابل ہے.پھر خداتعالی فرماتا ہے.منافق جنم کے ادنیٰ درجہ میں ہونگے.کیا اوپر کے درجہ والا جہنمی خوش ہو سکتا ہے.اسی طرح قادیان والوں کو جو نسبتی ترقی حاصل ہے.یہ خوشی کا موجب نہیں ہو سکتی.اور جہاں مجھے دوسروں کے مقابلہ میں ان کے نسبتی درجہ سے انکار نہیں.وہاں اس سے بھی انکار نہیں.کہ ابھی ان کے سامنے بہت لمبا رستہ ہے جو عبور کرتا ہے.اور اس کی طرف پچھلے خطبوں میں میں نے توجہ دلائی ہے.میں اس سلسلہ مضمون کو تو اس وقت بیان نہیں کر سکتا.کیونکہ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں.میرے حلق میں درد ہے.اس لئے زیادہ بول نہیں سکتا.البتہ خلاصتہ " سناتا ہوں کہ میرا مقصد اور مدعا ان خطبات سے کیا ہے.میں نے اب تک جو کچھ بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے.کہ یہاں جو لوگ آتے ہیں.دین کی خدمت کے لئے آتے ہیں.اور اشاعت اسلام کی غرض سے آتے ہیں.وہ خدمت خواہ دینی رنگ میں ہو.یا دنیاوی رنگ میں.مثلاً مسجد میں نماز کے لئے جو لوگ آتے ہیں.انہیں گرم پانی دینا یہ ایک کام ہے.مگر تم نہیں کہہ سکتے.کہ یہ کام کرنے والا دنیاوی کام کرتا ہے.جو کچھ وہ لاتا ہے.وہ پانی ہے.اور اس کا گرم کرنا بھی مادی کام ہے.پھر مسجد میں لاکر رکھنا بھی مادی کام ہے.پھر جس غرض کے لئے استعمال ہوتا ہے.وہ یہ ہے کہ نزلہ زکام نہ ہو.گویا صحت کے لئے.یہ بھی دنیاوی ہے.مگر پھر بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ دنیاوی کام ہے.صحابی جب لڑائی کے لئے جاتے تھے.تو تلوار ان کے ہاتھ میں ہوتی تھی.یہ جسمانی چیز تھی.گھر بار بال بچے چھوڑ کر جاتے تھے.یہ بھی جسمانی چیزیں تھیں.اور جس چیز کے لئے لڑتے تھے.وہ بھی جسمانی تھی.ایمان نہ تھا.بلکہ مسلمانوں کی جان تھی.اگر حضرت ابو بکڑ مارے جاتے تو کیا انکا ایمان جاتا رہتا یا اگر حضرت عمر مارے جاتے تو ان کا ایمان ضائع ہو جاتا؟ نہیں.لیکن ان کی جان چلی جاتی.کافر مسلمانوں کے ایمان کو چھین نہیں سکتے تھے.البتہ جانیں نکال سکتے تھے.کافر مسلمانوں کے گھروں، کھیتوں اور جسموں کو مٹانا چاہتے تھے.اور یہ سب چیزیں جسمانی تھیں.مگر کیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ صحابہ سات آٹھ سال دنیاوی غرض کے لئے کفار سے لڑتے رہے.جنگ بدر اور احد کس بات کے لئے کی گئی.کیا اسی لئے نہیں کہ مسلمانوں کے گھر مسلمانوں کے کھیت اور مسلمانوں کی جانیں بچائیں.اس سے زیادہ کفار اور کرہی کیا سکتے تھے.کیا وہ قرآن چھین کر لے جاسکتے تھے.یا ایمان اٹھا کر لے جا سکتے تھے.ان چیزوں کا لے لینا ان کی طاقت سے باہر تھا.اور گو جن چیزوں کی حفاظت کی جاتی تھی.وہ جسمانی تھیں.مگر ایمان پانی کی طرح ہے.اور جس طرح پانی برتن میں ٹھہرتا ہے.اسی طرح ایمان مومنوں کے قلب میں ٹھہرتا ہے.اور مومنوں کا بچانا اگرچہ

Page 159

۱۵۳ جسمانی کام ہے.مگر یہ دین ہے.کیونکہ ایمان مومنین کے قلب کے بغیر نہیں رہ سکتا.اسی طرح یہاں کے کام جو بظا ہر دنیاوی معلوم ہوتے ہیں دینی ہیں.مثلاً مدرسہ ہے.جس میں لڑکے اپنے فائدہ کے لئے علم پڑھتے ہیں.ہسپتال ہے لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.یہ اور اسی طرح دوسرے کام ایک دنیاوی رنگ رکھتے ہیں.مگر یہ نہیں کہہ سکتے.کہ یہ دنیاوی ہیں.کیونکہ ان کی غرض دین ہے.اور بالواسطہ دین کا اثر ڈالنا ہے.مثلاً مدرسہ میں جو تعلیم دی جاتی ہے.اس کا نتیجہ یہ نہیں کہ لوگ دین حاصل کریں.مگر جب بچہ کے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ اسے اس لئے گھر سے جدا کر کے ایک ایسے گاؤں میں جو الگ تھلگ ہے چھوڑا گیا ہے کہ وہ دیندار بنے.تو یہی خیال بہت قیمتی ہے.پھر جب روز مرہ اس کی نظر ایسی جگہوں پر پڑتی ہے.جہاں خدا کا رسول اور مامور رہتا تھا.اور پھر جب وہ دیکھتا ہے.کہ وہ جگہ جو بالکل غیر آباد اور جنگل تھی.اس کے متعلق خدا کے فرستادہ نے جو یہ خبردی تھی.کہ دور تک آباد ہو جائے گی.پوری ہو رہی ہے.تو اس پر خاص اثر ہوتا ہے.پھر اس کے کان میں آواز آتی ہے.کہ تمام دنیا کے ساتھ اسلام کی جنگ شروع ہے.اور یہ آواز گھر میں اس شدت کے ساتھ وہ نہیں سن سکتا تھا.ان حالات میں اگر وہ ایک لفظ بھی دین کا نہیں سیکھتا.تو بھی ایک ایسی روح آہستہ آہستہ اس میں پیدا ہو رہی ہے.جو آج نہیں تو کل ضرور کام دے گی.لیکن اگر مدرسہ کو ہٹا دو.تو یہ روح ملیا میٹ ہو جائے گی.مگر یہ جو کچھ میں نے بتایا ہے.ادنیٰ حالت کو مد نظر رکھ کر بتایا ہے.ورنہ سکول میں دینی تعلیم بھی دی جاتی ہے.لڑکے درس سنتے ہیں.جب میں درس دیتا ہوں تو لڑکے میرا درس سنتے ہیں.اور اب میں نے اور کو مقرر کر دیا ہوا ہے.پھر مختلف لیکچر.خطبہ سنتے ہیں.اور دینی باتیں ان کے کانوں میں پڑتی رہتی ہیں.اسی طرح مدرسہ احمدیہ ہے.اس میں عربی، فلسفہ پڑھ لیا.اور بالواسطہ دین کی تعلیم بھی حاصل کرلی.لیکن اگر غرض ملازمت ہی ہو تو بھی اگر اس کام کو چھوڑ دیا جائے تو دین کی حفاظت کرنے والے کون ہونگے.ہو سکتا ہے.کہ عربی پڑھنے لکھنے.قرآن کا ترجمہ پڑھ لینے اور دوسرے علوم حاصل کر لینے کے بعد کوئی ملازمت کرلے.لیکن اگر اس جماعت کو مٹا دو.تو پھر کون دین کی حفاظت کرے گا کیونکہ ان ہی میں سے ایسے بھی نکلتے ہیں.جو دین کی خدمت کرتے ہیں.تو گویہ دنیاوی کام ہو مگر اصل میں دینی ہے.غرض یہاں کے جتنے کام ہیں سارے کے سارے حتی کہ پہرے دینا.تجارت زراعت کرنا بھی دینی کام ہی ہے.کیونکہ ان کے نتیجہ میں بھی دین کی طاقت کو فائدہ پہنچتا ہے.پس دینی اور دنیوی کام میں اگر فرق کیا جا سکتا ہے تو اسی طرح کہ وہ کام ذاتی نہیں جس سے بلا واسطه یا بالواسطه اسلام کو فائدہ پہنچے.وہ دینی ہے.اور دنیوی وہ ہے جو صرف اپنی ذات سے تعلق

Page 160

۱۵۴ رکھتا ہو.اور دین پر اس کا کوئی اثر نہ پڑے.ا میں نے بتایا تھا.کہ آپ لوگ دینی کام کے لئے یہاں آئے ہیں.اور سب کسی نہ کسی رنگ میں دینی کام کرتے ہیں.ورنہ اگر ان کاموں کو دینی نہ کہا جائے گا تو دین نماز روزہ ہی رہ جائے گا.یا سارا دن اور کام کرنے کے بعد اگر کسی کو تبلیغ کی جائے گی.تو وہ دینی کام ہو گا.مگر اصحاب الصفرو شمولیت اعلیٰ درجہ کی چیز سمجھی گئی ہے.اور اس کی وجہ یہی ہے.کہ ان کی ہر گھڑی دینی کام میں صرف ہوتی ہے.پھر میں نے بتایا تھا.کہ جب ہمارے کام دینی کام ہیں.تو ملازمت اور نوکری کا کیا سوال.جب خدا اور رسول کے لئے.اور اس کے جانشینوں کی مدد کرنے کے لئے اور اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم (النساء) کی تینوں شقوں کو پورا کرنے کے لئے یعنی خدا اور رسول اور تم میں جو اولی الامر ہو اس کے احکام بجا لانے کے لئے جمع ہوئے ہو تو پھر ملازمت کیسی.اور ایسے اہم اور ضروری کام کو ملازموں کے سپرد کس طرح کیا جا سکتا ہے.پھر میں نے بتایا تھا.کہ اس مقصد کو پورا کرو.میری اس تعلیم کی غرض کیا ہے.کیا محض یہ کہ شورش اور بے اطمینانی مٹ جائے.نہیں.کیونکہ اس میں میرا کوئی نقصان نہیں اور نہ مجھے اس کی وجہ سے گھبراہٹ ہے.روپیہ میرے پاس نہیں آتا.خرچ میں نہیں کرتا.میرا تو یہی ہے کہ ہاتھ جھاڑ کر الگ رہوں.روپیہ اگر میرے پاس آتا اور میں خرچ کرتا تو مجھے فکر ہوتی.کہ مجھ سے چھیں گے کہاں ہے.مگر نہ روپیہ میرے پاس آئے نہ میں حساب رکھوں.پس اس وجہ سے جو لڑائی جھگڑا ہوگا تمہارا آپس کا ہوگا.اگر میں یقین اور وثوق سے یہ نہ سمجھوں کہ یہ باتیں خدا تعالی سے بعد کی علامت ہیں تو مجھے دخل دینے کی کوئی ضرورت نہیں.مجھے صرف اس لئے فکر ہے کہ اس طرح وہ غرض مٹ جائے گی جس کے لئے تم لوگ یہاں آئے ہو.اور جس کے لئے خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو پیدا کیا ہے.ہمارا پیدا کرنا اور انبیاء کا آنا اس کے اندر ایک غرض ہے.اور وہ یہی کہ ہم ایسی تبدیلی پیدا کریں.کہ خدا تعالیٰ کا قرب اور وصال حاصل ہو جائے.اس قرب اور وصال کے حاصل ہونے کے رستہ میں جو روکیں ہیں.ان سے چونکہ ہمارا تعلق ہے.اور وہ روکیں ہمیں متفکر کر دیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان باتوں سے میں متفکر ہوتا ہوں.ورنہ ذاتی طور پر میری اس میں کوئی غرض نہیں.پس خدا تعالیٰ کا قرب اور وصال حاصل کرنا ہی وہ غرض ہے.جس کے لئے تم لوگ یہاں آئے ہو.اور اس کے لئے خدا نے سب کو پیدا کیا ہے.اوروں میں اور تم میں فرق یہ ہے کہ تم نے اس غرض کو سمجھ لیا ہے.اور انہوں نے نہیں سمجھا.دنیا میں تین گروہ ہیں.ایک وہ جنہوں نے سمجھا ہی نہیں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں اس غرض

Page 161

۱۵۵ کے لئے پیدا کیا ہے یا وہ سمجھتے ہیں خدا ہی نہیں.دوسرا وہ گروہ ہے جو سمجھتا ہے کہ اس غرض کے لئے پیدا کیا گیا ہے مگر انہیں اس کے حاصل کرنے کے ذرائع میں ہم سے اختلاف ہے.وہ کہتے ہیں.جو تم کہتے ہو وہ نہیں.بلکہ اور ہیں.انہوں نے غلط ذرائع سمجھ رکھے ہیں.اور تیسرا گروہ وہ ہے.جسے معلوم ہے.کہ اس غرض کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اور اس غرض کو حاصل کرنے کے لئے جو صحیح ذرائع ہیں.وہ بھی اسے معلوم ہیں.اور وہ تم ہو جو اس گروہ سے تعلق رکھتے ہو.ابتدائی شرائط کو تم نے پورا کر لیا.اور انتہائی شرائط کے پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہو.تم نے اپنی پیدائش کی غرض کو سمجھ لیا ہے.وصال الی اللہ کے صحیح ذرائع بھی سمجھ لئے ہیں.اور اب تیسری شق باقی ہے.کہ اگر انسان کوشش کرے.تو قرب الی اللہ حاصل کر سکتا ہے.گویا اب تم اس مقام پر پہنچ گئے ہو کہ ذرا پردہ ہے اور تم اپنے محبوب کا چہرہ دیکھ لو.ایسے وقت میں اگر تم کسی اور بات میں مشغول ہو جاؤ.تو کیسے افسوس کی بات ہوگی.اور وہ جو تمہیں گھیر گھار کر ایسے موقع پر لانے والا ہے.اس کو فکر ہوگی یا نہیں.دیکھو ایک شخص جو اپنے محبوب سے بچھڑا ہوا ہو.اسے ایک شخص کئی سال کی محنت و مشقت سے جب تلاش کر کے لائے.اور محبوب کے دروازہ پر کھڑا کر دے.لیکن وہ بجائے اندر جانے کے ایک بین بجائے والے کی طرف متوجہ ہو جائے.جو پاس ہی سانپ نکال رہا ہو.تو لانے والے کو کسی قدر صدمہ اور افسوس ہوگا.اور اس شخص کی حالت بھی کیسی قابل افسوس ہوگی.اس طرح اگر دس میں سال کی محنت کے بعد ایک کو قائم مقام بنا کر کہا جائے.کہ لو اب تم کام کرو.مگر وہ بجائے اس کام کو کرنے کے کسی اور شغل میں لگ جائے.تو کام سپرد کرنے والے کو کس قدر صدمہ ہوگا.وہ لوگ جنہوں نے سیدھا اور سچا رستہ پا لیا ہے.وہ اگر اس کو دیکھ کر اور سمجھ کر اور باتوں میں لگ جائیں تو ان کی مثال ایسی ہی ہوگی.جیسے ایک شخص نے بہت اعلیٰ درجہ کی عمارت بنائی ہو.اور اپنی بیوی بچوں کو اس میں لے جانے والا ہو.لیکن زلزلہ آئے اور ساری عمارت کو پاش پاش کر جائے.تو میرے فکر کی یہ وجہ ہے.اور میں اس ذمہ داری کو سمجھ کر آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں.کہ اپنا قدم دنیا کی بجائے دین کی طرف بڑھاؤ.یہ ممکن نہیں کہ تم دنیا کو بالکل چھوڑ دو.اور سب کاموں سے علیحدہ ہو جاؤ.مگر تمہیں دنیا کے بیچ رہ کر اس سے علیحدہ ہوتا ہے.حافظ صاحب نے ایسے ہی لوگوں کے متعلق ایک شعر کہا ہے.گو اسے اپنے اوپر چسپاں کیا ہے.مگر یہ اولیاء اللہ کا طریق ہے کہ وہ اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہیں.مگر مراد اس سے حافظ نہیں.بلکہ اور لوگ ہیں.کہتے ہیں درمیان قعر دریا تخته بندم کرده سة

Page 162

۱۵۶ باز میگوئی که دامن ترمکن ہشیار باش یعنی ایسی جگہوں اور ایسے مقامات میں رکھ کر جہاں دنیاوی ابتلاؤں اور کشمکشوں سے انسان بچ نہیں سکتا.کہا گیا ہے کہ گنہگار نہ بنو.یہ ایسا سوال ہے.جو ہر دنیا دار کے دل میں پیدا ہوتا ہے کہ یا تو کہو کہ بیوی بچوں کو چھوڑ دو.نہ یہ ہونگے اور نہ ان کے کھانے پینے اور پہننے کی فکر ہوگی.تم یہ جو کہتے ہو کہ ان کے کھانے پینے کی فکر نہ کرو.کیا بیوی کو طلاق دے دیں بچے پیدا ہی نہ کریں یا بچوں کو گھر سے نکال دیں یا انکو چھوڑ چھاڑ کر نکل جائیں؟ مگر آگے حکم ہے.ایسا بھی نہ کرو.بیوی بچوں میں ہی رہو.اور انکو کھانے پینے کے لئے دو.اور اولاد پیدا ہونے سے روکنا سوائے اس صورت کہ بیوی کی جان کا خطرہ ہو بہت بڑا گناہ کرنا ہے.پھر کریں تو کیا کریں.اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ کھانے والے تو لاؤ.مگر کماؤ نہیں بظاہر یہ بات بہت عجیب نظر آتی ہے.مگر یہی وہ معمہ ہے جس کے حل کرنے سے انسان کا قدم ادھر اٹھ سکتا ہے جدھر چلنے سے خدا ملتا ہے.جب تک انسان ایسی بھٹی میں نہیں پڑتا.اس وقت تک کس طرح سمجھتا ہے کہ واقع میں اس نے کوئی قربانی کی ہے.یہی باتیں ہیں.جن کے حل سے معلوم ہو سکتا ہے کہ قربانی کیا ہے.قربانی کے معنی قریب کر دینے والے کے ہیں.اور قریب انسان اسی وقت ہو سکتا ہے.جب اس بھٹی میں سے گذرتا ہے.ایک طرف اسے کہا جاتا ہے.کسی قسم کا لالچ اور حرص نہ کر.اور دوسری طرف کہا جاتا ہے.بیوی بچوں کو پال.ایک طرف کہا جاتا ہے.دنیاوی باتوں کی طرف توجہ نہ کر.اور دوسری طرف کہا جاتا ہے.اپنا اور اپنے لواحقین کی ضروریات کا انتظام کر.بظاہر یہ ایک ایسی مشکل ہے کہ جس کا حل نظر نہیں آتا.پھر اس کے حل کا کیا طریق ہونا چاہئیے ؟ وہی جو حضرت ابراہیم نے اختیار کیا کہ وہ بظاہر آگ میں کو دے.مگر دیکھا کہ وہ آگ نہیں بلکہ گلزار تھا.جب انسان خدا پر توکل کرکے کو دتا ہے.تو گو اس وقت معلوم نہیں ہو تا کہ کیا ہوگا.اور ایسا خیال کرتا ہے کہ اس مشکل کا حل ہی نہیں.مگر کودنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو ایسی آسان اور سادہ بات ہے کہ اس کے متعلق حل کا لفظ ہی استعمال کرنا بے وقوفی ہے.جیسا کہ جب سورج چڑھا ہوا ہو تو یہ کہنا کہ بتاؤ سورج کہاں ہے بے وقوفی ہے.پس اس وقت اس میں اخفا ہی نہیں رہتا یعنی یہ حالت جب انسان پر گزرتی ہے.اور جب وہ دین اور دنیا کے دونوں رستوں کے اندر سے گزرتا ہے جو خدا تعالیٰ نے بنائے ہیں.تب خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے سامان پیدا ہوتے ہیں.اور یہ ہیں وہ قربانیاں جو قرب الی اللہ کے لئے ضروری ہیں.تم یہ مت خیال کرو.کہ تم میں کمزوریاں ہیں.اور تم بہت سے گناہوں سے نہیں بچ سکتے.

Page 163

۱۵۷ ب سب گناہوں سے بچ جائیں گے اور ساری کمزوریاں دور ہو جائیں گی تب ہم خدا کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں گے.یہ شیطان کے دھوکے اور وسوسے ہیں.کوئی گناہ اور کوئی کمزوری خدا کے قرب سے نہیں روک سکتی.گناہ اور کمزوریاں چلتے چلتے اس طرح جھڑتی جاتی ہیں جس طرح ایک آدمی چلتا جاتا ہے اور اس کی جوتی سے کانٹے جھڑتے جاتے ہیں جس طرح مضبوط کپڑے کا کوٹ پہن کر کانٹوں میں سے گذرنے والا جب کسی کانٹے سے انکتا ہے تو ٹھرتا نہیں.بلکہ جھٹکا دیکر چھڑا لیتا ہے.اور آگے روانہ ہو جاتا ہے.اسی طرح تمہارے کاندھوں پر بھی دین کا کوٹ ہے.اور تم اس قسم کی رکاوٹوں سے ٹھرو نہیں بلکہ انہیں پیچھے چھوڑ کر آگے گذرتے جاؤ.یہ چیزیں تمہارے راستہ میں روک نہ ہوں.اور تم اس فکر میں مت پڑو کہ ان کو ہٹا لیں تو پھر آگے بڑھیں گے.اگر تم اس کے ہٹانے میں لگے رہو گے تو اسی میں رہ جاؤ گے.دیکھا گیا ہے.ایک کانٹا لگنے پر اگر اسے ٹھر کر ہٹانے لگیں تو دوسرا لگ جاتا ہے.لیکن اگر بغیر ٹھرے جھٹکا دے دیا جائے تو آسانی سے چھٹکارا ہو جاتا ہے.پس ان روکوں کی فکر میں مت رہو.یہ خود گرتی اور ہمتی جائیں گی.تمہارا کام یہ ہے کہ قرب الی اللہ کے لئے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے جاؤ.نمازوں میں روزوں میں.ایک دوسرے سے سلوک میں، معاملہ کرنے کرانے میں، قرضہ لینے اور دینے میں بات چیت میں افسر یا ماتحت ہونے کی حالت میں، بیوی بچوں کے معالمہ میں غرضیکہ ہر بات میں یہی غرض تمہارے مد نظر ہونی چاہیے.کہ قرب الی اللہ حاصل ہو.اگر تم سے کوئی غلطی ہوتی ہے.کوئی کمزوری سرزد ہوتی ہے.کوئی نقص واقع ہوتا ہے تو یہ نہیں کہ اس مقصد کو چھوڑ دو.بلکہ اور زیادہ کوشش کرو.جس طرح ایک لکھنے والا پہلے خراب لکھتا ہے.لیکن بار بار لکھنے سے اچھا لکھنے لگ جاتا ہے.اسی طرح اگر تم بھی مستقل رہو گے.تو سب نقص دور ہو جائیں گے.پس تم اپنی کسی کمزوری کی طرف مت دیکھو.بہت لمبے رستہ تک کمزوریاں ساتھ جاتی ہیں.ان سے ڈرنا نہیں چاہئیے.اور ہاتھ آگے ہی آگے بڑھانا چاہئیے.اگر کسی بات میں کمزوری ہو تو اسے پھر کرو.پھر کرو.پھر کرد حتی کہ تمہیں خوب مشق ہو جائے.اور جب مشق ہو جائے گی.تو اس کے کرنے میں کوئی روک نہ پیش آئے گی لیکن اگر تم یہ کہو کہ کمزوری دور کر کے پھر اسے کرنا شروع کریں گے.تو پھر نہیں کر سکو گے.اصل مقصد کو تمہیں مد نظر رکھنا چاہئیے.کانٹے مد نظر نہیں ہونا چاہئیں.ان کو نکالنے نہ بیٹھ جاؤ.بلکہ ان کو دور کرو.جس طرح راستہ چلتا ہوا مسافر جھٹکا دیکر اپنا دامن چھڑا لیتا ہے اور اس مقام پر پہنچنے کی کوشش کرو.کہ جہاں پہنچ کر انسان ابتلاؤں سے بچ جاتا ہے.اور جہاں یہ خطرہ نہیں رہتا کہ وہ غلط راستہ پر ہے.اعمال میں کمزوری ہو تو ہو.مگر یہ ایسی حالت ہوگی جیسے ایک بیمار اچھا تو ہو گیا.مگر کمزوری کی وجہ سے اس کا قدم صحیح طور پر نہ پڑتا ہو.

Page 164

10^ دیکھو نمونیہ یا محرقہ کی بیماری ہے.محرقہ پہلے تھوڑا ہوتا ہے مگر جس کو ہو گا ڈاکٹر سے دیکھ کر کانر جائے گا.کہ نہ معلوم اس کا کیا حال ہو گا.لیکن جب محرقہ انتہا کو پہنچنے کے بعد کم ہو جاتا ہے.تو وہی ڈاکٹر جو پہلے دن 49 درجہ پر خطرہ محسوس کر رہا تھا.وہی اب ۱۲ درجہ پر خوش ہو گا.اس پر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اس دن تو وہ ۹۹ درجہ پر گھبراتا تھا مگر آج پندرہ دن کے بعد ۴۲ درجہ پر خوش ہو رہا ہے تو بیوقوف ہو گا.کیونکہ اس دن وہ 49 درجہ میں ترقی کی روح دیکھتا تھا اس لئے گھبراتا تھا.اور اب ۲ درجہ میں تنزل کے آثار دیکھتا ہے.اس لئے خوش ہے.پس جب قدم آگے کو بڑھ رہا ہو اور دیکھے کہ قرب الی اللہ کی طرف جا رہا ہے.تو کمزوریاں خواہ کیسی ہی ہوں.ان کی پرواہ نہ کرے لیکن اگر دیکھے کہ وہ کوئی گناہ نہیں کرتا.مگر خدا کے قرب کی طرف اس کا قدم نہیں جا رہا.اس کے دل میں قرب الی اللہ کے لئے کوئی تڑپ نہیں تو وہ سمجھ لے کہ اس کی محرقہ بخار چڑھنے کی حالت ہے.جو سخت خطرناک ہے.پس تم اپنے ہر کام ہر فعل اور ہر بات میں اس اصل کو مد نظر رکھو.رات دن تمہارے دل میں ایک ہی خواہش ہو کہ تم دنیا میں رہ کر خدا سے جا ملو.دنیا کے علوم اور دنیا کی ترقیات تمہیں اپنی طرف نہ کھینچیں.میں حیران رہ جاتا ہوں جب دیکھتا ہوں کہ بڑے بڑے عالم ہوتے ہیں.مگر ان کو دنیا اپنی طرف کھینچ کر لے جاتی ہے.لالچ مال میں ہی نہیں ہوتا.بلکہ علم میں بھی ہوتا ہے.اور مسلمانوں کی تباہی کا باعث یہ علم کا لالچ بھی ہوا ہے انہیں علم کلام کی حرص پیدا ہوئی.دوسروں کو فلسفہ میں باتیں کرتے دیکھ کر علم کلام بنایا.اور اسلام کا ستیا ناس کر دیا کیونکہ انہوں نے پیشاب کو دودھ میں ملا دیا.بات یہ ہے کہ انسان کو اپنی طرف کھینچنے والی جو چیزیں ہیں.ان کی طرف جب متوجہ ہو جاتا ہے.تو اصل مقصد اور مدعا کے پانے سے رہ جاتا ہے.لیکن جب اس میں یہ روح پیدا ہو جائے کہ ان باتوں کی طرف توجہ نہ کرے.تو پھر خواہ کتنی روکیں اس کے راستہ میں آئیں.ان سے نکل جائے گا.اور اسے کوئی نقصان نہ ہوگا.پس یہ خواہش اپنے اندر پیدا کرو.کہ خدا تعالیٰ کو پانا ہے اور اس کا قرب حاصل کرنا ہے.دنیا کے مال دنیا کے فوائد دنیا کے منافع تمہاری نظر میں کچھ حقیقت نہ رکھتے ہوں.اگر یہ صورت ہو.تو خواہ تم میں لاکھ کمزوری ہو کوئی خطرہ نہیں رہتا.اگر سارے نہیں تو تم میں سے ایک جماعت ضرور منزل مقصود پر پہنچ جائے گی.لیکن اگر یہ نہیں تو پھر کچھ نہیں.خواہ تم کیسے دعوے کرنے والے اور کیسی باتیں بنانے والے ہو.کیا مسلمانوں میں مسیح موعود سے پہلے ایسے لوگ نہیں تھے ؟ انہوں نے کیا بنا لیا اور وہ کیا کر سکے؟

Page 165

109 میں اس روح کو لفظوں میں تمہارے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں.مگر جب پکڑنے اور بیان کرنے لگتا ہوں.تو رہ جاتا ہوں.اور بیان نہیں کر سکتا.یہ روح ذہنی طور پر پیدا ہو جاتی ہے اور جب پیدا ہو جائے تب ہی اس کی حقیقت معلوم ہو سکتی ہے.لفظوں میں اسے بیان نہیں کیا جا سکتا.جس طرح میٹھی میٹھی درد ہوتی ہے اور ہاتھ لگانے سے معلوم نہیں ہو سکتا کہ کہاں ہوتی ہے.اسی طرح اس روح کا بھی پتہ نہیں لگایا جا سکتا.میں چاہتا ہوں.کہ اسے پکڑ کر تمہارے سامنے رکھ دوں.اور تم اس کو معلوم کر کے اسے اپنے اندر پیدا کر لو.مگر کیا کروں وہ پکڑی نہیں جاتی.میں نے اس بات پر بڑا غور.فکر اور تدبر کیا ہے کہ اس روح کی حقیقت بتا اور سمجھا سکوں.مگر مجھے اس میں کامیابی نہیں ہوئی.اس لئے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ ایسی چیز ہے کہ کوئی انسان کسی کو نہیں دے سکتا.صرف خدا ہی دے سکتا ہے اور خدا ہی انسان کے اندر یہ بات پیدا کر سکتا ہے.جس طرح بینائی کوئی انسان کسی کو نہیں دے سکتا.ہاں اشاروں سے ایک اندھے کو سمجھا سکتا ہے کہ بینائی ایسی چیز ہوتی ہے، جس کے ذریعہ بغیر آواز کے انسان دوسرے کو پہچان لیتا ہے.اب اگر اسے یک لخت یہ بات حاصل ہو جائے تو وہ سمجھ لے گا.کہ مجھے بینائی مل گئی ہے.اسی طرح اس کے متعلق بھی میں صرف اشارے ہی کر سکتا ہوں.اصل حقیقت نہیں بتا سکتا.کیونکہ یہ بات قلب سے تعلق رکھتی ہے.میں یہ جانتا ہوں کہ تم میں سے ایسے لوگ ہونگے جن پر دین کی بنیاد رکھی جائے گی.مگر میں یہ بھی کہنے سے نہیں رک سکتا.کہ میں دیکھتا ہوں تمہارے عالموں میں نئے علوم سے تعصب اور انگریزی خوانوں میں نیچریت کا مادہ پایا جاتا ہے.جب تک ظاہری علوم پڑھنے والے قدرت خاص اور قدرت عام کا اعتراف نہ کریں اور دل سے اعتراف نہ کریں.اس وقت تک دین نہیں آسکتا.اگرچہ ابھی تک واسطہ نہیں پڑا.لیکن اگر کبھی پڑے تو ہمارے ایسے مولوی ہیں.کہ جب کوئی نیا علم ان کے سامنے آئے.تو وہ اس کا انکار کر دیں.(یہ نہیں کہ خدا کے دین کے ماتحت اس کو لے آئیں، جیسا کہ پادریوں نے کیا.جب سچی باتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اٹھے.اور اس طرح لوگوں کے دلوں سے ان کی وقعت اٹھ گئی.تو پھر وہی باتیں بھی ان کے مقابلہ میں پیش کر کے لوگوں سے منوالی گئیں.اسی طرح اگر کوئی موقع آجائے.تو یہ علماء انکار کر دیں گے.اور ان کے مقابلہ میں ایسے بھی ہیں جو معجزات کا انکار کر دیں گے.اور اگر انکار نہ کریں گے.تو ایسے معجزے جیسے چھینٹے پڑنے کا ہے.پیش کرتے ہوئے جھجکیں گے.اور اگر پیش کر دیں گے تو ان کے دل میں یہ خواہش نہ پیدا ہوگی کہ ہم پر بھی چھینٹے پڑیں.اور یہ مخفی علامت ہے نیچریت کی.ورنہ وہ کیوں خواہش نہ کریں.کہ ہمارے لئے بھی خدا تعالیٰ قدرت خاص جاری کرے.

Page 166

میرے نزدیک یہ سخت کمزوریاں ہیں.قرب الی اللہ کے لئے ضروری ہے کہ انسان اس مقام پر پہنچ جائے.جہاں وہ خدا تعالیٰ کی قدرت خاص کا مشاہدہ کر سکے.جو بھی بات اس کے ماتحت ظاہر ہو.اس کا انکار نہ کرے.دیکھو سورج چاند کے مقابلہ میں نہیں چمکتا.لیکن اگر ایسا موقع آجائے کہ سورج بھی چمک رہا ہو اور چاند بھی.تو عظمند اس کو کہا جائے گا جو یہ کہے گا کہ میں چاند کو بھی چمکتا دیکھ رہا ہوں اور سورج کو بھی.مگر میں یہ نہیں بتا سکتا کہ ایسا کیوں ہے.یہ پہلے تجربہ کے خلاف ہے مگر ہے ٹھیک.پس میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں.کہ تمہیں ایسا ایمان حاصل ہو کہ دنیاوی روکیں تمہارے راستہ سے مٹ جائیں.اور تمہارے ایمان کی بنیاد روئت پر ہو.تمہارے اندر قرب الی اللہ کی خواہش ہو.اور تمہارے سب کام اسی خواہش کے نیچے ہوں.جو نہ تو اسے ہٹا سکیں.اور نہ اس کے ماتحت کام کرنے سے ہٹا سکیں.یہ بات اگر تم میں پیدا ہو جائے تو تمہیں وہ درجہ حاصل ہو سکتا ہے جو مشاہدہ کا درجہ ہے.اور ایسی جماعت کے لئے پھر کوئی گھبراہٹ نہیں ہوگی.کہ ٹھوکر کھا جائیں گے.حضرت معین الدین چشتی.حضرت شہاب الدین سہروردی اور دوسرے بزرگوں نے دین کی بڑی خدمت کی ہے.ان کے مقابلہ میں امام ابو حنیفہ امام شافعی امام مالک امام حنبل اور ائمہ جو گذرے ہیں.یہ سب اہل اللہ تھے.اور ان سب کا روحانیت سے تعلق تھا.گو انہوں نے علم کی مختلف شاخیں تقسیم کر لی تھیں.میں چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت میں بھی ایسے ہی لوگ پیدا ہوں.لیکن اس کے ساتھ ہی ایک اور بات بھی چاہتا ہوں.اور پچھلوں کی غلطی سے فائدہ اٹھاتا ہوں جو یہ ہے کہ ہماری جماعت میں جنید بغدادی اور ابن عربی و معین الدین چشتی جیسے لوگ تو ہوں.مگر باتیں اس رنگ میں نہ کریں جس رنگ میں انہوں نے اپنے وقت میں کسی وجہ سے کی تھیں.کیونکہ ان باتوں سے لوگوں نے ٹھوکر کھائی ہے.پس ایسے لوگ ہوں تو سہی اور میں امید رکھتا ہوں کہ ہونگے.اور اب بھی ایسے ہیں.جن میں خدا تعالیٰ نے اس مقام پر پہنچنے کا مادہ رکھا ہے.مگر میں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے الفاظ کو ظاہر شریعت کے ماتحت رکھیں.تاکہ لوگ ٹھوکر نہ کھائیں.یہ غرض ہے میرے ان خطبوں کی کہ تمہیں قرب الی اللہ کا ایسا درجہ حاصل ہو جائے جس سے دنیا کی کوئی چیز تمہیں ہٹا نہ سکے.(الفضل ۱۲ دسمبر ۱۹۲۱ء)

Page 167

191 32 انتظام سلسلہ کے لئے ضروری حکمتیں (فرموده ۱۹ دسمبر ۱۹۲۱ء) حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.میں آج اس سلسلہ مضامین کو جسے پچھلے خطبات میں بیان کرتا رہا ہوں ختم کرنا چاہتا ہوں.کیونکہ گو اس کے اور بہت سے پہلو ہیں لیکن انسان کی یہ فطرت ہے.کہ ایک بات جس کو وہ متواتر سنتا رہے اس کا عادی ہو جاتا ہے.اور اس فطرت انسانی کا لحاظ بندے تو الگ رہے اللہ تعالیٰ کو بھی انسان کی بناوٹ اور خلق کا لحاظ کر کے بندوں سے معاملہ کرتے وقت کرنا پڑتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.دوزخ والے جب کچھ مدت عذاب میں رہیں گے.یعنی اس کے عادی ہو جائیں گے.تو ہم ان کی جلدوں کو بدل دیں گے.پس جب معمولی باتیں تو الگ رہیں انسان عذاب کا بھی عادی ہو جاتا ہے.اور اس کا احساس کم ہو جاتا ہے.تو کجا یہ کہ وہ عام باتیں جن کے اندر احساسات اور جذبات کو اس قدر ابھارنے کی طاقت نہیں ہوتی.جس قدر حد درجہ کے عذاب یا خوشی میں ہوتی ہے.ان کو مسلسل بہت عرصہ تک بیان کیا جائے.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس سلسلہ کو ختم کردوں.اور اس کے ختم کرنے پر بعض علمتیں جن کے ماتحت کسی جماعت اور سلسلہ کا انتظام چلایا جاتا ہے.اور بہت حد تک ان کی ناواقفیت کی وجہ سے لوگوں کو دھو کہ لگتا ہے.ان کو بیان کردوں.کوئی تقسیم کرنے والا اعتراضوں سے نہیں بچ سکتا بہت حد تک دھوکہ کی وجہ تقسیم ہوتی ہے.خواہ تقسیم عمل ہو.یا تقسیم مال.یا تقسیم مدارج یہی باتیں اصل باعث فتنوں کا ہوتی ہے.بعض انسان اس بات کو سمجھنے کی طاقت نہیں رکھتے.کہ تقسیم عمل اور تقسیم مال اور تقسیم مدارج کن حکمتوں پر مبنی ہوتی ہے.اور اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے دھوکہ کھا جاتے اور سمجھتے ہیں فلاں بات میں بے انصافی کی گئی ہے.اس میں شبہ نہیں کہ دنیا میں بے انصافی ہوتی ہے.اور لوگ دوسروں کے حق مار لیتے ہیں.مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ کوئی انتہائی دیانت داری سے بھی کام لے.تو بھی سارے لوگ اس سے خوش ہو سکیں.ممکن

Page 168

144 نہیں.انسان تو انسان سارے لوگ خدائی تقسیم پر بھی خوش نہیں ہوتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی ایک شخص کے متعلق فرماتے تھے.جسے پھر تو خدا تعالٰی نے ہدایت دے دی اس نے حضرت مسیح موعود کی بیعت کرلی.آپ سے تعلقات بھی ہو گئے.اور اس کا انجام بھی اچھا ہو گیا.اس کے متعلق آپ فرماتے.کہ ابتدا میں اس سے بہت اچھے تعلقات تھے.لیکن ایک ایسا واقعہ پیش آیا.کہ آپ اس سے الگ ہو گئے.اور وہ واقعہ یہ تھا کہ اس کا ایک لڑکا فوت ہو گیا میں بھی اس کے ہاں گیا.اور بڑے بھائی صاحب بھی اور لوگ بھی تھے.وہ بڑے بھائی صاحب کو دیکھ کر ان سے لپٹ گیا اور چیخ مار کر کہنے لگا.مرزا صاحب خدا نے مجھ پر بڑا ظلم کیا ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے.ہمارا اس سے بڑا تعلق تھا.لیکن یہ بات سنکر ایسی نفرت ہو گئی کہ اس جنازہ میں شامل ہونا بھی دو بھر ہو گیا.اور اس سے علیحدگی اختیار کرلی.تو بندہ تو بندہ سارے لوگ خدا پر بھی راضی نہیں ہوتے.پھر وہ کون انسان ہے جو کسی قسم کی تقسیم کرے اور سارے کے سارے لوگ اس سے خوش ہوں.پھر وہ انسان جس کے متعلق حضرت صاحب نے فرمایا ہے.کہ بعد از خدا بعشق محمد مخمرم گر کفر ایس بود بخدا سخت کا فرم کہ اے مخالفو! تم مجھے کافر کہتے ہو.چونکہ کفر کا فتویٰ عقیدہ پر ہی لگایا جاتا ہے اس لئے میرا عقیدہ سن لو کہ اگر میں خدا کے بعد کسی سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہوں تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اگر یہ کفر ہے.تو خدا کی قسم میں بڑا کا فر ہوں.کیونکہ یہ کفر مجھ میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے.کہ میں سب سے زیادہ محبت خدا سے اور خدا کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے رکھتا ہوں.اور یہ کفر میری رگ رگ اور ریشہ ریشہ میں بھرا ہوا ہے.تو وہ انسان جس کی طرف تمام انصاف منسوب کیا جا سکتا ہے.اور جو عدل کا منبع اور خزانہ ہے وہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں.مگر آپ کے وقت کے واقعات دیکھنے سے بھی معلوم ہوتا ہے.کہ ایک دفعہ جبکہ آپ مال تقسیم کر رہے تھے.تو ایک شخص نے کہا تھا کہ عدل و انصاف کو مد نظر رکھئے.جس پر آپ نے فرمایا."کیا میں عدل و انصاف مدنظر نہیں رکھتا.اگر میں نہیں رکھتا.تو اور کون مد نظر رکھے گا؟.تو عدل و انصاف کی تعلیم دینے والے آپ کے لئے بھی کھڑے ہو گئے تھے.جن کے نزدیک آپ عدل مد نظر نہیں رکھتے تھے.چنانچہ کہنے والے نے کہا.انصاف مدنظر رکھیں اور خوف خدا کریں.گویا آپ خوف خدا کو دور کر کے اور جان بوجھ کر ایسا کر رہے تھے.غلطی سے بے انصافی نہ کر رہے تھے.تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بھی اعتراض کرنے والوں نے اعتراض کر ہی

Page 169

۱۶۳ دیا.اور خداتعالی پر بھی کرتے ہیں.ممکن ہے کوئی کہے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے متعلق یہ روایت ہے.ممکن ہے یہ کچی ہو کہ نہ ہو.گو اس کی سچائی کے ثبوت ہیں.مگر ہم کہتے ہیں.کہ یہ گذشتہ بات ہے اسے جانے دو.مگر آج جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خادموں میں سے ایک آپ کا نمونہ اور بروز کھڑا ہوا دیکھ لو ایسا ہوا یا نہیں.آپ پر اعتراض کرنے والے یہاں بھی تھے اور باہر بھی.جو کہتے تھے کہ جس قدر مال آتا ہے.اس کی حفاظت نہیں کی جاتی.گھر کے آرام اور بیوی کو خوش کرنے کے لئے خرچ کر دیتے ہیں.یہ کہنے والے اس وقت میں موجود تھے.اور بیسیوں ایسے گواہ اس وقت بھی ہیں جو اس کی شہادت دے سکتے ہیں.اور خود حضرت مسیح موعود کی گواہی موجود ہے.الحکم میں آپ کی طرف سے شائع ہو چکا ہے کہ معلوم ہوا ہے ایک شخص مال کے متعلق اعتراض کرتا ہے.میں اعلان کرتا ہوں وہ آئندہ مجھے چندہ نہ بھیجے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق جو مثال میں نے پیش کی ہے.اسے پرانی روایت کہہ دو مگر اس کو نہیں کہہ سکتے.کیونکہ اس کے گواہ ہزاروں موجود ہیں.پھر لوگوں کی ہی شہادت نہیں.حضرت مسیح موعود کی اپنی شہادت ہے.ان باتوں سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص ایسا نہیں جس پر اعتراض نہ کیا گیا ہو.اور کوئی شخص تو الگ رہا.خدا کی ذات جو منبع ہے تمام خوبیوں کا اور جو پیدا کرنے والا ہے تمام صفات کا اس پر بھی انسان اعتراض کرنے سے باز نہیں رہتے.اور کہہ دیتے ہیں.اس کا معاملہ درست نہیں.ایسے اعتراض خدا کے منکر ہی نہیں کرتے.بلکہ ماننے والے بھی کر دیتے ہیں.جیسے کہ میں نے وہ مثال سنائی ہے جو حضرت مسیح موعود نے بیان فرمائی.اور نہ ماننے والے تو اندھیر ہی مچا دیتے ہیں.پس تم جب بھی کسی انسان کے متعلق رائے قائم کرنے لگو تو سوچ لو کہ کس طرح انسان کے متعلق رائے قائم کرنی چاہئیے.اور دیکھو کہ رائے قائم کرنے سے قبل کن باتوں کا دیکھنا ضروری ہے.اور خاص کر یہ دیکھ لو کہ رائے قائم کرتے وقت تمہاری اپنی حالت کیسی ہے.ایک ہی بات اگر ایک آدمی کے متعلق سنی جائے.تو کہہ دیتے ہیں.بہت بری ہے.ایک بات جو اپنے مذہب میں پائی جائے.اس سن کر سہلاتے اور جھوم جھوم کر کہتے ہیں.کیا ہی خوب ہے.لیکن وہی بات جب دوسرے مذہب میں دیکھیں.تو کہہ دیتے ہیں.کیسی بے ہودہ اور لغو ہے.یہ مشاہدہ ہے اور غیروں کے متعلق ہی نہیں.بلکہ اپنی جماعت کے بعض لوگوں کے متعلق بھی ہے.جو سناتے ہیں کہ فلاں مذہب میں یہ بات جو پائی جاتی ہے.غلط ہے.حالانکہ وہی بات ان کے مذہب میں بھی پائی جاتی ہے.اور اسے وہ درست اور صحیح سمجھتے ہیں.بات اصل میں یہ ہوتی ہے کہ انہوں نے اس بات پر غورہی نہیں کیا ہوتا.اپنی کتاب میں جب وہ بات آتی ہے تو اس کی خوبی کی وجہ سے اسے نہیں مانتے بلکہ

Page 170

۱۶۴ اس لئے مانتے ہیں.کہ اپنی کتاب میں آئی ہے.اور جب دوسرے مذہب میں دیکھتے ہیں تو اس کی برائی کی وجہ سے اس کی مذمت نہیں کرتے.بلکہ اس لئے مذمت کرتے ہیں.کہ غیر کی کتاب میں درج ہے.تو رائے احساسات اور جذبات کے ماتحت عام طور پر نہیں بلکہ اکثر اوقات ہوتی ہے.جس کے ساتھ کوئی بات تعلق رکھتی ہو.اگر اس سے کبھی رنج پہنچا ہو.تو وہ بات بری نظر آتی ہے.اور اگر نفع پہنچا ہو.تو بری بات بھی اچھی دکھائی دیتی ہے.تو کبھی رائے لگانے اور قائم کرنے والے کی اپنی حالت رائے کو بدل دیتی ہے.اور کبھی ایسا شخص جس کے متعلق رائے قائم کی جانی ہو اس کی حالت رائے کو بدل دیتی ہے.ہمیں اس سے نہ عداوت ہوتی ہے نہ محبت.مگر جو کام اس نے کیا ہوتا ہے وہ ایسا ہوتا ہے کہ اس کے صحیح حالات کا علم نہیں ہوتا.اور اس وجہ سے اس پر حملہ کر دیا جاتا ہے.ایسی صورت میں رائے زنی کرنے والے کی نیت تو اچھی ہوتی ہے.لیکن جو حالات اس کے سامنے آتے ہیں.وہ صحیح نہیں ہوتے بلکہ غلط ہوتے ہیں.اس لئے اس کی رائے بھی غلط ہوتی ہے.اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جس کے متعلق رائے زنی کی جاتی ہے اس سے نہ رنج پہنچا ہوتا ہے نہ فائدہ اور نہ واقعات اور حالات غلط طور پر پہنچے ہوتے ہیں.بلکہ رائے زنی کرنے والے کی اپنی غلطی ہوتی ہے.وہ جو کچھ کہتا ہے بدنیتی سے نہیں کہتا بلکہ غلط کہتا ہے.پس یہ تین باتیں ہیں.(۱) یہ کہ کبھی ہمارے اندر جذبات اور احساسات کے ماتحت ایسی تبدیلی ہو جاتی ہے.کہ غلط رائے قائم کر لیتے ہیں اور (۲) کبھی واقعات غلط طور پر سامنے آتے ہیں.اس لئے غلط رائے قائم کی جاتی ہے اور (۳) کبھی صحیح واقعات سامنے آتے ہیں.اور ہم نیک نیتی سے جذبات سے علیحدہ ہو کر رائے لگاتے ہیں.لیکن ہماری رائے غلط ہوتی ہے.رائے لگانے کے متعلق یہ تین باتیں ضرور مد نظر رکھنی چاہئیں.اور ہر شخص کو خواہ ہندو ہو یا سکھ یا مسلمان ہو یا عیسائی ماننا پڑے گا.کہ ان تینوں باتوں کی وجہ سے رائے لگانے میں غلطی واقع ہوتی ہے.یہ تو رائے لگانے کے متعلق باتیں ہیں.اب میں واقعات کے متعلق کچھ بتاتا ہوں.جن میں رائے قائم کی جاتی ہے.ایک بات جو واقعات کے متعلق نہایت ہی ضروری ہے یہ ہے کہ انسان جو ہے خواہ وہ کتنا بڑا اور کتنے اعلیٰ درجہ کا ہو جائے بشریت اس کے ساتھ ہی رہتی ہے.حتی کہ رسولوں کے ساتھ بھی رہتی ہے.اندازے اور رائے کی غلطیاں ان میں بھی پائی جاتی ہیں.وہ کتنی باتوں کے متعلق فیصلہ کرتے ہیں.مگر پھر خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں بشریت کہ وجہ سے غلطی ہو گئی.انبیاء شریعت اور

Page 171

144 خدا کے احکام توڑنے کے متعلق بالکل معصوم ہوتے ہیں.مگر وہ احکام جو ان کی عقل پر چھوڑے جاتے ہیں.ان میں غلطی کر بیٹھتے ہیں.چاہے وہ دوسروں کے مقابلہ میں کتنے ہی دانا ہوں لیکن پھر عقل عقل ہی ہے.اور غلطی کر بیٹھتی ہے.تو شرعی امور کو چھوڑ کر دوسرے امور میں ان سے بھی غلطی سرزد ہو جاتی ہے.ایک رائے قائم کرتے ہیں.مگر پھر کہتے ہیں ایسا نہیں ہے..پس جب انبیاء سے بھی غلطی سرزد ہو جاتی ہے تو پھر یہ کہنا کہ انسانوں کو ضرور صحیح فیصلہ کرنا چاہیے ورنہ وہ بددیانت ہونگے.ایک بڑی زبردستی ہے.بہت لوگ اس لئے جھگڑا پیدا کر لیتے ہیں کہ ان کے نزدیک ہر رائے کی غلطی بد دیانتی ہوتی ہے.لیکن اگر رائے کی غلطی بددیانتی ہوتی ہے تو وہ نبیوں سے بھی ہوئی.اور جب نبی کر سکتے ہیں.تو اور کون ہے.جو اس سے بچ سکے دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ جنگی سپاہی جرنیل.کرنل اور کمانڈر جو لڑائی میں عمریں گزار دیتے ہیں.مگر بیسیوں موقعوں پر ان سے غلطی ہو جاتی ہے.جسے وہ خود بھی غلطی تسلیم کرتے ہیں.اور د سرے بھی تو جب وہ لوگ جو دنیا کے کاموں میں سے ایک خاص کام چن کر اپنی زندگی اس میں لگا دیتے ہیں.رات دن اس میں صرف کرتے ہیں.بہت سے معاون اور مددگار رکھتے ہیں.بڑے بڑے سامان اور اسباب ان کے لئے مہیا ہوتے ہیں کہ صحیح اور درست رائے قائم کر سکیں.وہ بھی غلطی کر بیٹھتے ہیں.اس جنگ میں دیکھو جو تھوڑے عرصہ سے بند ہوئی ہے کہ بڑے بڑے جرنیلوں نے غلطیاں کیں.پس جب ہر قسم کے سامان اور علوم جن سے رائے کی صحت کا یقین کیا جا سکتا ہے استعمال کرنے والے بھی غلطیاں کرتے رہے ہیں.اور اب تک کوئی نہیں.اور ایک نے تو لکھا ہے.کہ ایک بھی جرنیل ایسا نہیں جس نے کوئی غلطی نہ کی ہو.تو کوئی اور شخص جس کے ذمہ بیسیوں کام ہوں.اس سے غلطی ہو جاتا کوئی تعجب کی بات نہیں.اور جب کوئی انسان حتی کہ کوئی نبی بھی ایسا نہیں جسے رائے کی غلطی نہ لگ سکتی ہو.تو کیسی بے ہودگی ہے اگر کوئی یہ کہے کہ جو غلطی کرتا ہے اس کی بد دیانتی اور شرارت ہے.غرضیکہ ہر طبقہ کے لوگوں میں بڑوں میں برابر کے لوگوں میں چھوٹوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ غلطی کرتے ہیں.اور زیادہ دانا اور کم دانا کے صرف یہ معنی ہیں.کہ کسی کی ۹۹ کسی کی ۸۰ کسی کی ۷۰ فیصد رائیں درست ہوتی ہیں.مگر یہ نہیں کہ کسی کی ۱۰۰ کی ۱۰۰ رائیں درست نکلیں.جب یہ بات ہے.تو کسی کے کام کے متعلق یہ کہنا کہ یہ رائے کی غلطی نہیں بلکہ بددیانتی ہے.بڑی خطرناک جرات ہے.اور قانون قدرت کا مقابلہ کرنا ہے.کیونکہ یہ قانون جتاتا ہے.کہ کوئی انسان ایسا نہیں.جو غلطی نہ کر سکتا ہو.ان چار باتوں کے بعد میں کہتا ہوں.تم اپنے آپ میں غور کرو اور دیکھو کہ جب کسی کے متعلق

Page 172

رائے قائم کرتے ہو تو ان باتوں کو مد نظر رکھ لیا کرتے ہو؟ جب تم ان پر غور کرو گے.تو معلوم ہوگا کہ بہت سے جھگڑے اور بہت سے فتنے صرف اس لئے پیدا ہوتے ہیں.کہ اکثر حصہ اعمال میں دوسرے سے ایسی امید لگائی جاتی ہے جو خدا تعالیٰ سے لگانی چاہیے اور اپنے متعلق ایسا فیصلہ کر لیتے ہیں جو خدا کے متعلق کرنا چاہئیے.یا اپنی رائے کو ایسی وقعت دے لیتے ہیں.جو نہیں دینی چاہئیے.یا پھر دوسرے کو ایسا مکمل سمجھ لیتے ہیں.کہ جو نہ صرف ایسا ہوتا ہی نہیں.بلکہ ہو بھی نہیں سکتا.اور پھر اس کی غلطی کو بد دیانتی قرار دے لیتے ہیں.یہ عجیب بات ہے کہ اس طرح درجہ تو وہ دیا جاتا ہے جو نبیوں کو بھی حاصل نہیں ہو تا.مگر پھر فیصلہ وہ کیا جاتا ہے.جو ابو جہل سے بھی بدتر ٹھہرانے والا ہوتا ہے.ایک انجمن کے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ کو درجہ تو وہ دیا جاتا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بھی نہ تھا.کیونکہ آپ رائے میں غلطی کر سکتے تھے.مگر اس کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ وہ غلطی نہیں کرتا.لیکن پھر فیصلہ یہ کیا جاتا ہے کہ چونکہ اس کو غلطی لگ ہی نہیں سکتی اس لئے اگر یہ کوئی غلط رائے دیتا ہے تو چونکہ غلط بات اس کے دل میں آہی نہیں سکتی اس لئے بددیانتی کرتا ہے.گویا درجہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑا دیا جاتا ہے.اور فیصلہ ابو جہل سے بھی بد تر کیا جاتا ہے.کیونکہ اس کی نیت پر بھی بلاوجہ شک کرنے کا کسی کو حق نہیں.مگر اس کی نیت پر شک کر کے اسے ابو جہل، فرعون، شداد غرضیکہ بڑے سے بڑے برے انسان سے بھی بد تر قرار دے دیا جاتا ہے.جو شخص اس طرح کرتا ہے اس کے دل پر زنگ لگ جاتا ہے.اور پھر خدا پر حملہ کرنے لگ جاتا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود کے سامنے اس شخص نے کہا کہ خدا نے مجھ پر بڑا ظلم کیا ہے.پس جب انسان یہ نہ سمجھ سکے کہ ظلم کس حالت کو کہتے ہیں.اور بدنیتی اور شرارت کیا ہوتی ہے.اور جلدی سے فیصلہ کر بیٹھے تو خدا تعالیٰ کے افعال پر بھی اعتراض کرنے لگ جائے گا.اور اسے بھی ظالم قرار دے دے گا.اس کے بعد میں آپ لوگوں کو بتاتا ہوں کہ کام کرنے کی صمتیں کیا ہیں.یعنی کن حکمتوں کے ماتحت کام کیا جاتا ہے پہلے تو میں نے یہ بتایا ہے کہ اگر کوئی اپنی رائے اور عقل کے ماتحت کام کرے.اس کے مد نظر کوئی قوانین نہ ہوں.تو بھی ایسا فیصلہ کرنا کہ اس نے بددیانتی اور شرارت کی ہے جائز نہیں.یہ بہت بڑا حملہ ہے.اور اس کے لئے کافی ثبوت کی ضرورت ہے.مثلاً گواہوں سے یا اور ذریعہ سے ثابت ہو جائے کہ فلاں نے رشوت لی ہے.تو یہ ایک دعوئی ہو گا.مگر پھر بھی یہ نہیں کہ اسے عام لوگوں کے سامنے بیان کیا جائے.بلکہ عدالت میں پیش کیا جائے.اسی لئے ہم نے عدالتیں مقرر کر دی ہیں.یا مثلاً ملزم خود اقرار کر لے کہ میں نے فلاں بے انصافی کی ہے.یا گواہ پیش کئے جا سکیں.یہ بھی ثبوت ہو گا اور اس کے متعلق حق ہوگا کہ خلیفہ کے سامنے یا اس کی مقررہ

Page 173

146 کردہ عدالت کے سامنے اس معاملہ کو پیش کیا جائے.ورنہ محض گمان کی بنا پر کسی پر الزام لگانے کی صورت میں عجیب رنگ اختیار کیا جاتا ہے.اس طرح تو یہ حالت ہوتی ہے کہ اسے درجہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ کر دیا جاتا ہے.اور حملہ ابو جہل سے بھی بدتر سمجھ کر کیا جاتا ہے.اس صورت میں کیا تعجب ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی حملہ کردو کیونکہ جب وہ شخص جسے رسول کریم سے بڑھ کر درجہ دیا جاتا ہے.اس پر حملہ کیا جاتا ہے.تو رسول کریم پر حملہ کرنا کونسا مشکل ہو گا.اب میں یہ بتاتا ہوں کہ کام کے لئے وہ کون سے قوانین مقرر ہیں کہ جب ان کو مدنظر رکھا جائے تو اور بھی رائے کی کمزوری اور نقص معلوم ہو جاتا ہے اور پتہ لگ جاتا ہے.کہ وہی صحیح طور پر رائے قائم کر سکتا ہے جس کے ہاتھ میں کام ہوتا ہے.یہ تین باتیں ہیں جن کے ماتحت کوئی تقسیم کی جاتی ہے اور یہ تینوں امور میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے اور قرآن کریم سے ثابت کر سکتا ہوں.اور حضرت مسیح موعود کے عمل اور عقل سے ثابت کر سکتا ہوں.کہ جب کوئی کام اختیار کرے تو ان کا مد نظر رکھنا ضروری ہے.اگر کوئی مد نظر نہیں رکھتا.تو دنیا کی نظر میں تو میں نہیں کہتا.خدا کی نظر میں وہ اچھا نہیں ہو گا.ہر دینی کام اور سلسلہ میں ان کا مد نظر رکھنا ضروری ہے.دنیاوی کاموں کے متعلق میں کچھ نہیں کہتا.لیکن دینی کام جو ہر امیر ہر حاکم ہر خلیفہ اور ہر نبی سے تعلق رکھتے ہیں.ان میں ان باتوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے.ان میں سے ایک تو یہ ہے.جسے دنیاوی معاملات میں لحاظ " یا " رعایت" کہتے ہیں.اسے دینی کاموں میں جائز نہیں رکھا گیا.بلکہ واجب قرار دیا گیا ہے.عام اصطلاح جو دنیا کی ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے اسے رعایت اور لحاظ کہا ہے.لیکن شریعت نے اس کو جائز ہی نہیں بلکہ واجب رکھا ہے.یہ دنیا کے کاموں میں ناجائز نہیں بلکہ واجب ہے.پھر اگر شریعت کی اصطلاح ر نظر رکھ کر کہا جائے.تو کہیں گے کہ شریعت نے بعض ایسے حق رکھے ہیں.کہ دنیا کے معاملات میں دنیا داروں نے تسلیم نہیں کئے.یہ حق جو حکام امراء خلفاء بلکہ انبیاء پر ہیں.یہ ہیں.اول یہ کہ سابقون کا ایک حق رکھا گیا ہے.اور شریعت کی رو سے ان کا لحاظ رکھنا ضروری قرار دیا گیا ہے.اس لئے کہ ان لوگوں نے خدا کے نام کو بلند کیا ہوتا ہے.اور جو خدا کے نام کو بلند کرتا ہے.خدا کی غیرت برداشت نہیں کرتی کہ اس کا نام نیچا ہو.کیونکہ اس طرح خدا تعالی پر اس کا یہ احسان رہ جاتا ہے کہ میں نے تیرا نام اس وقت بلند کیا جب دوسرے اس نیچا کر رہے تھے لیکن تو نے میرا نام بلند نہ کیا.لیکن خدا کی غیرت یہ پسند نہیں کرتی کہ اپنے اوپر احسان رہنے دے.اس لئے

Page 174

- جتنا کوئی اس کا نام بلند کرتا ہے خدا اس سے زیادہ اس کا نام بلند کر دیتا ہے.تاکہ خدا تعالیٰ کا احسان اپنے بندہ پر رہے.بندہ کا خدا پر نہ رہے.تو سابقون کا خدا تعالیٰ نے ایک حق رکھا ہے.وہ خواہ دوسروں کی نسبت کام کے لحاظ سے ادنیٰ بھی ہوں.تو بھی خدا نے ان کا حق مقرر کیا ہے.تاکہ خدا پر ان کا احسان نہ رہے.اس لحاظ اور حق کے متعلق دونوں قسم کی مثالیں ملتی ہیں.یعنی ایک یہ کہ جہاں برابر کا مقابلہ ہو وہاں سابقون کو ترجیح دی گئی ہے.اور دوسرے جہاں برابری نہیں بلکہ سابق ادنی اور دوسرے اعلیٰ ہوں.وہاں بھی سابق کو ہی ترجیح دی گئی ہے.اور یہ دونوں مثالیں ان لوگوں میں پائی جاتی ہیں جن کے اعمال کے اعلیٰ ہونے کو مسلمان تسلیم کرتے ہیں.اور دو مثالیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت بھی ملتی ہیں.ایک دفعہ حضرت عمرؓ اور حضرت ابو بکر کی لڑائی ہو گئی.کسی بات پر جھگڑا ہو گیا.حضرت ابو بکر کو خیال آیا میں ہی در گذر کر دیتا تو بات نہ بڑھتی.چلو اب میں معافی مانگ کر صفائی کر لیتا ہوں.اس پر انہوں نے حضرت عمر سے معافی مانگی.حضرت عمر اس وقت غصہ میں تھے انہوں نے معافی نہ دی.حضرت ابو بکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے.اور آکر عرض کی کہ عمر سے میرا جھگڑا ہو گیا ہے.اور میں اپنا قصور تسلیم کرتا ہوں.مگر عمر مجھے معاف نہیں کرتے.حالانکہ واقعہ کو دیکھنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا قصور نہ تھا.زیادتی حضرت عمر کی تھی مگر انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی کہا کہ میرا قصور ہے جس کی میں معافی مانگتا ہوں مگر عمر مجھے معاف نہیں کرتے.اب دیکھو حضرت ابو بکڑ کہتے ہیں میری غلطی ہے.اس طرح گویا سابق (ابوبکر) نیچے ہے اور دوسرا ( عمر ) اوپر اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو علم الغیب نہیں کہ آپ باوجود حضرت ابو بکر کے اقرار کے کہ غلطی ان کی ہے.حضرت عمر کی غلطی سمجھتے.لیکن جب حضرت عمرؓ آئے تو کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ غصہ سے ایسا تمتما رہا تھا کہ جیسا کبھی کم دیکھنے میں آیا ہے.اور آپ نے حضرت عمر کو دیکھتے ہی فرمایا.تم کو کیا ہو گیا ہے.مجھے اور ابو بکڑ کو نہیں چھوڑتے.حالانکہ ابو بکڑوہ ہے کہ جب تم خدا کی باتوں کا انکار کر رہے تھے تو یہ تصدیق کر رہا تھا...یہ سابق کے متعلق رسول کریم کا فیصلہ ہے کہ اگر ان کی غلطی بھی تھی تو بھی حضرت عمر کا یہ کام تھا کہ معافی مانگتے.نہ کہ معافی مانگنے پر بھی معاف نہ کرتے اس سے معلوم ہوتا ہے.کہ رسول کریم نے حضرت عمر کے مقابلہ میں حضرت ابو بکر کا حق تسلیم کیا ہے.اور ایسا ہونا ضروری بھی ہے.کیونکہ سابقون دین کے عمود ہوتے ہیں ان کا حق مٹنے سے دین کی ہتک ہوتی ہے.ان کا کام دوسروں تک خدا تعالیٰ کا کلام پہنچانا اور دین کو قائم رکھنا ہوتا ہے.اور دوسرے ان کے ذریعہ سے حق سے ستفیض ہوتے ہیں.اور دین کے مغز کو سابقون نے محفوظ رکھا ہوتا ہے.پھر کیا ان کا حق نہیں ہوتا

Page 175

199 کہ ان کے ساتھ رعایت کی جائے.تو تقسیم عمل، تقسیم مال اور تقسیم مدارج میں یہ بھی مد نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے.کہ سابق کون ہے.اور جب تک دین کے کسی معالمہ میں فرق نہ آئے.یعنی یہ نہیں کہ سابق اگر دین کے متعلق کوئی غلط بات کہے تو مان لیں.قرآن و حدیث کے خلاف کوئی بات نہ ہو.اور شریعت کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو.تو ایسی حالت میں رسول کریم نے سابقون کو مقدم رکھا اور انکا حق ہے.اور رسول کریم سے بڑھ کر شریعت کا سمجھنے والا اور عمل کرنے والا اور کوئی نہیں ہو سکتا.دوسری ایک اور مثال بتاتا ہوں.جس میں سابق کو مقدم رکھا گیا ہے.گو اس میں اختفا کا رنگ ہے.لیکن میرے نزدیک ظاہر ہے.ایک دفعہ رسول کریم بیٹھے تھے.حضرت ابو بکڑ بھی آپ کے بائیں طرف بیٹھے تھے اور ایک لڑکا دائیں طرف بیٹھا تھا تو رسول کریم کے پاس دودھ لایا گیا.آپ نے دودھ پیا اور پھر لڑکے سے مخاطب ہو کر فرمایا اگر تم کہو تو یہ دودھ ابو بکر کو دے دوں.دائیں طرف ہونے کی وجہ سے اس کا حق تھا.اس لئے آپ نے اس سے پوچھا.ادھر لڑکے کو خیال تھا.کہ رسول کریم کا تبرک ہے.میں کیوں چھوڑوں اس لئے اس نے کہا مجھے دیجئے.میں اپنا حق نہیں چھوڑتا ہیں.یہ بھی محبت کا ایک رنگ تھا.ادھر رسول کریم کا خیال تھا کہ حضرت ابو بکر کو مل سکے.یہ تو رسول کریم کے زمانہ کی مثالیں ہیں.اس کے بعد حضرت عمر کے وقت ابو عبیدہ کے ماتحت خالد بن ولید کو کیا گیا.خالد بن ولید فنون جنگ میں ایسے مشاق اور ماہر تھے کہ یورپ آج تک ان کی قابلیت کا اعتراف کر رہا ہے.اور بعض نے تو حد ہی کر دی ہے.کہتے ہیں عمر کو ساری شہرت خالد ہی کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی.تو خالد فنون جنگ کا ماہر ہونے کے لحاظ سے بے نظیر انسان تھا.آنا" فانا اس نے اسلام کے جھنڈے کو دور دراز ممالک میں جا گاڑا.اور تھوڑے تھوڑے لشکر کے ساتھ دشمن کے بڑے بڑے لشکر کو اس طرح پراگندہ کر دیتا تھا کہ دنیا حیران رہ جاتی تھی.اور اب تک حیران ہے.حضرت عمر نے اس کو ہٹا کر ابو عبیدہ کے ماتحت کر دیا.اگرچہ حضرت عمر نے اس کی وجہ نہیں بتائی اور یہاں تک کہا ہے.کہ ایک وجہ تو ایسی ہے.کہ اگر میرے کرتے کو بھی معلوم ہو جائے.تو میں اسے جلا دوں.مگر ایک وجہ بتائی ہے.اور وہ یہی ہے.کہ ابو عبیدہ سابق تھے.ابو عبیدہ ایسے ماہر جنگ نہ تھے.جیسے خالد بن ولیڈ تھے.اور خالد بن ولیڈ سے ہی مشورہ لیا کرتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ انہوں نے خالد کو بلا کر مشورہ پوچھا.کہ بتائیے کس طرح کرنا چاہیئے.آگے دیکھئے ادب بھی کتنا کیا جاتا تھا.انہوں نے کہا آپ کو خدا تعالیٰ کے رسول کے خلیفہ نے اس کام کے لئے مقرر کیا ہے.میں کس طرح آپ کو مشورہ دوں.انہوں نے کہا ہاں یہ ٹھیک ہے میں آپ کو حکم دیتا ہوں کہ

Page 176

14.مشورہ دو تب انہوں نے مشورہ دیا.تو ایک حد تک کام میں سابقون کا لحاظ رکھنا ضروری ہے اور ان کے درجہ کو مد نظر رکھنا لازمی ہے.گو وہ کام اور لیاقت کے لحاظ سے دوسروں سے کم ہی ہوں.اب دیکھئے رائے کی غلطی کس طرح لگ سکتی ہے.یوں تو ہر ایک اپنے آپ کو لائق سمجھتا ہے.اور اپنی چیز کو اچھا جانتا ہے.کہتے ہیں کسی بادشاہ نے دربار میں یہ تجربہ کرنے کے لئے کہ اپنی چیز کو کس طرح اچھا سمجھا جاتا ہے.ایک حبشی کو ٹوپی دی اور کہا لڑکوں میں سے جو لڑکا تمہیں خوبصورت معلوم ہو اس کے سر پر رکھ آؤ.وہ سیدھا گیا.اور امراء کے لڑکوں کو چھوڑ کر اپنے بدشکل لڑکے کے سر پر رکھ آیا.بادشاہ نے پوچھا یہ کیا.تو اس نے کہا.مجھے یہی لڑکا سب سے خوبصورت نظر آتا ہے.اس کے سر پر ٹوپی رکھ آیا ہوں.بیٹا تو پھر بھی ایک واسطہ سے اپنا ہوتا ہے.اپنی نسبت تو انسان یہی سمجھتا ہے.کہ میں ہی سب سے بڑا ہوں.اور ہر بات میں دوسروں سے زیادہ قابلیت رکھتا ہوں.لوگ جنگ کی خبریں پڑھتے ہیں.اور سمجھتے ہیں جنرل جافرے اور جنرل فاش نے یہ غلطی کی.اگر میں ہوتا.تو اس طرح نہ کرتا.لیکن اگر ان کے سپرد کام کر دیا جائے تو پھر پتہ لگے کہ وہ کیا کر سکتے ہیں.مگر ہم کہتے ہیں لوگ اپنے آپ کو جو بھی درجہ دیتے ہیں اگر مان لیا جائے کہ ٹھیک ہے.تو پھر ضروری ہے کہ سابقون کی ان کے مقابلہ میں خاص رعایت کی جائے.اور میں نے اس بات کا خاص لحاظ رکھا ہے.صدر انجمن کے ممبروں میں اس وقت تک کسی اور کو داخل نہیں ہونے دیا.حالانکہ علمی لحاظ سے بھی اور دوسرے حالات کی وجہ سے بھی کئی اور لوگ موجود ہیں.مثلاً مولوی عبد الماجد صاحب پروفیسر ہیں.خاں غلام اکبر خان صاحب حج ہیں.سیٹھ عبداللہ صاحب ہیں.منشی فرزند علی صاحب ہیں.ملک صاحب خان صاحب اکسٹر اسٹنٹ ہیں.حسام الدین صاحب کلکٹر ہیں.خان صاحب محمد حسین صاحب پینشنر حج ہیں.یہ دنیاوی لحاظ سے بڑے بڑے عہدوں پر ہیں.علمیت اور قابلیت بھی اچھی رکھتے ہیں.مگر چونکہ حضرت مسیح موعود کی صحبت میں نہیں رہے.میں ان کے مقابلہ میں ان کو جو دنیاوی لحاظ سے چھوٹے ہیں مگر مسیح موعود کی صحبت میں رہے ہیں مقرر کرتا ہوں.اور ان کو مقرر نہیں کرتا اب اگر وہ سمجھیں کہ ہم لائق ہیں ہمیں مقرر کرنا چاہیئے.اور دوسرے لوگ بھی خیال کریں کہ ان کی بجائے کم قابلیت کے لوگوں کو داخل کرنا بے وقوفی ہے.تو ان کی مرضی.مگر در حقیقت ایسا نہیں ہے.کیونکہ یہ لوگ سابق ہیں.اور ان کا حق ہے.کہ دوسروں پر انہیں مقدم کیا جائے.اور جب تک یہ جماعت ہے اور کام کو معمولی حیثیت سے بھی کر سکتی ہے.اس کا حق ہے.کہ اس کے سپرد کیا جائے.اور اس کے مقابلہ میں دوسروں کا حق نہیں ہے.ایک تو یہ حکمت ہوتی ہے.تقسیم مدارج تقسیم مال اور تقسیم عمل میں کہ یہ دیکھ لیا جاتا ہے کہ

Page 177

فلاں کام کر سکتا ہے یا نہیں.حضرت عمر نے خالد کی جگہ ابو عبیدہ کو تو مقرر کیا.مگر ابو ہریرہ کو مقرر نہ کیا کہ وہ یہ کام نہ جانتا تھا.تو یہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص جو ایک کام کرنے کی کم لیاقت رکھتا ہے اس کے سپرد اس کے مقابلہ میں کام کر دیا جائے جو سابق نہیں.لیکن زیادہ لیاقت رکھتا ہے.لیکن یہ نہیں ہو سکتا.کہ مثلاً جو انگریزی نہ جانتا ہو.اسے ہائی سکول کا ہیڈ ماسٹر بنا دوں.کم لیاقت کو مد نظر رکھ کر تھوڑی خرابی بھی گوارا کی جا سکتی ہے.اور سابقون کا جو حق اسلام نے مقرر کیا ہے.اور جو صحابہ کے وقت ملتا رہا ہے.وہ دینا ضروری ہے.دوسری بات اس کے الٹ ہے.اور وہ مولفتہ القلوب کی رعایت ہے.چونکہ یہ بات خدا نے مقرر کی ہے اس لئے رعایت نہ ہوئی.بلکہ ان لوگوں کا حق ہوا ایک زیادہ کام کرنے والا ہے اور ایک مولفتہ القلوب کی مد کا.خدا نے بھی یہی رکھا ہے اور شریعت بھی یہی کہے گی کہ زیادہ کام کرنے والے کو نہ دو مگر مولفتہ القلوب کو دے دو.رسول کریم ایک دفعہ مال تقسیم کر رہے تھے.کہ کسی کو جوش آیا کہ آپ نے فلاں کو نہیں دیا.عرض کی کہ فلاں کو کچھ نہیں ملا.رسول کریم نے کوئی توجہ نہ کی.پھر اس نے کہا.پھر آپ نے توجہ نہ کی.پھر کبھی رسول کریم مال تقسیم کرتے وقت ایسے شخص کو دے دیتے.جو کمزور ایمان والا ہوتا.فتح مکہ کے بعد جو مال آئے وہ آپ نے مکہ والوں کو دے دئے.حالانکہ جنگ کرکے خون بہانے والے جو تھے ان کو نہ دئے.اس موقع پر ایک کمزور نے کہہ بھی دیا.کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے.اور مال اوروں کو دے دیا گیا ہے.اس پر رسول کریم نے ان لوگوں کو بلوایا.اور کہا انصار تم کہہ سکتے ہو.کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اکیلا تھا.اسکی قوم نے اس کو رد کر دیا تھا.اس وقت ہم اس کو لائے اور جب کوئی اس کی مدد نہ کرتا تھا ہم نے اس کی مدد کی.ہم نے اس کے لئے خون بہائے لیکن جب لوٹ کا مال آیا تو اس نے اپنے ہم قوموں کے دے دیا.اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا.اس بات کا ایک اور پہلو بھی ہے.اور اگر چاہو تو تم یہ بھی کہہ سکتے ہو.کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہمارے پاس آیا.ہمارے گھر آیا.اور جب اس کا وطن فتح ہوا.تو اس کی قوم والے تو اونٹ بکریاں لے گئے.اور ہم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ساتھ لے آئے.اب جو چاہو کہو.میرے خیال میں اس سے زیادہ زجر کوئی نہیں ہو سکتی تھی.یہ کافر اور فاسق نام رکھ دینے سے بھی زیادہ سخت تھی کہ تم اونٹ لے جانا چاہتے ہو یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو.محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) مکہ والا تھا.مکہ اس کا وطن تھا.مگر وہ مکہ نہیں گیا.مدینہ گیا.اس پر انصار رو پڑے.اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ کسی نادان نوجوان نے یہ بات کی ہے.آپ نے فرمایا.جو بات کہی گئی.وہ تو کسی گئی اب تم دنیاوی ترقی کی امید نہ رکھنا.اور حوض کوثر پر ہی آکر مجھ سے مانگنا.اور ایسا

Page 178

ہی ہوا.پھر دنیاوی ترقی ان کو نہیں ملی.ہم مغل اور پٹھان جو بہت پیچھے آئے.ہمیں خدا نے دنیا کی حکومت دے دی.مگر وہ انصار جنہوں نے رسول کریم کے لئے اور آپ کے ساتھ اپنے خون بہائے ان کو ایک ریاست بھی نہ دی.صرف ایک فقرہ کی وجہ سے.تو کبھی مولفتہ القلوب کو مال دینا پڑتا ہے.کام میں ان کا خیال رکھنا پڑتا ہے.اور کبھی سابق ہونے کی وجہ سے تقسیم مال.تقسیم درجہ اور تقسیم اموال کی جاتی ہے.چنانچہ سب سے زیادہ رسول کریم کی بیویوں کو مال دیا جاتا تھا.پھر بعد میں ایمان لانے والوں کو پھر ان سے بعد ایمان لانے والوں کو.پھر سبقت کا لحاظ مدارج میں بھی رکھا گیا ہے.اور عمل میں بھی.دوسری بات مولفتہ القلوب ہے.جو گویا سابق کی ضد ہے.کہ تعلق کی کمی کی وجہ سے سلوک کیا جاتا ہے.ایسے موقعہ پر بھی بعض لوگوں کو خیال آتا ہے.کہ ہمیں نہیں دیا گیا.اور فلاں کو دے دیا گیا.حالانکہ اسے تو ایمان میں کامل نہ ہونے کی وجہ سے دیا گیا ہے.اور اس لئے رعایت کی گئی ہے.کہ ٹکا رہے.مگر تم مضبوط ایمان والے ہو.اس لئے تمہیں نہیں دیا گیا.کیا تم بھی ویسا ہی بننا چاہتے ہو.تیسرا امر جس کو پہلے بھی بیان کر آیا ہوں.قیاس اور رائے ہے.ایک اچھی سے اچھی چیز کے متعلق سوکی سو رائے ہو سکتی ہے کیونکہ ایک ہی چیز کے متعلق ہر ایک الگ الگ رائے قائم کرے گا.اور یہ ممکن نہیں کہ سب کی رائے کسی معالمہ کے متعلق ایک ہو.مجسٹریٹ ایک فیصلہ کرتا ہے.جو صحیح بھی ہو سکتا ہے.اور غلط بھی.اس کی آگے اپیل کی جاتی ہے.اپیل پر جو فیصلہ ہو وہ بھی غلط ہو سکتا ہے اور صحیح بھی پھر اس کی اور آگے اپیل ہو سکتی ہے.اس پر بھی جو فیصلہ ہو گا.وہ غلط بھی ہو سکتا ہے.اور صحیح بھی.لیکن آخر کسی جگہ جا کر یہ سلسلہ ختم بھی ہوگا.یا اپیل در اپیل ہی ہوتی رہے گی.باوجود اس کے کہ سمجھا جا سکتا ہے کہ آخری فیصلہ بھی غلط ہو.لیکن کام چلانے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ختم کیا جائے.ورنہ سارا ملک ہی ہائی کورٹیں بنانا پڑے.تو عقلاً بھی یہ ضروری ہے.کہ ایک جگہ آخری فیصلہ ہو جائے اور پھر اس سے آگے سلسلہ نہ چلے.ورنہ ہر ایک انسانی عدالت کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے اس کا فیصلہ غلط ہو.اور اس طرح کا سلسلہ آخر خدا تعالیٰ تک جاکر ختم ہو.کہ خدا تعالٰی فیصلہ کرے.لیکن اعتراض کرنے والے اس پر بھی اعتراض کر ہی دیتے ہیں.پس جو شخص بھی فیصلہ کرے گا اس کی رائے غلط بھی ہو سکتی ہے اور صحیح بھی.لیکن آخر مانا پڑتا ہے.کہتے ہیں عورتیں ناقص العقل ہوتی ہیں.اس لئے ان کو مردوں کے ماتحت رکھا جاتا ہے.لیکن کیا سارے کے سارے مرد صحیح اور درست ہی فیصلہ کرتے ہیں.ہرگز نہیں لیکن گھر کا انتظام چلانے کے لئے ایک حد مقرر کر دی گئی.کہ مرد کا فیصلہ تسلیم کر لیا جائے.

Page 179

سر ہے پس یہ باتیں نہایت ضروری ہیں جو آپ لوگوں کے مد نظر رہنی چاہئیں.اول سابقون کا حق دوسرے مولفتہ القلوب کی رعایت تیرے دیانت داری سے رائے قائم کرنا اور جو فیصلہ کیا جائے اسے تسلیم کرنا.رائے لگانے میں کس طرح جلد بازی سے کام لیا جاتا ہے.اس کا پتہ اس سے لگتا ہے کہ جب ماسٹر محمد دین صاحب ہیڈ ماسٹر تھے تو مدرسوں میں سے ہی کئی میرے پاس آتے اور کہتے یہ خرابی ہے.یہ نقص ہے.میں نے ان کے کہنے پر نہیں بلکہ اور وجوہات سے ماسٹر محمد دین صاحب کی بجائے قاضی عبداللہ صاحب کو ہیڈ ماسٹر مقرر کر دیا.اور انہیں منیجر بنا دیا.اس پر کہا گیا کہ ماسٹر محمد دین صاحب لائق تھے.اچھا کام کرتے تھے.اب یہ نقص پیدا ہو گیا ہے.یہ خرابی ہو گئی ہے.اور بعض نے کہا مولوی شیر علی صاحب مقرر ہوں.تو بہت اچھی بات ہوگی.ہم نے اس شخص کی طرح جو ہر دل عزیز بننا چاہتا تھا.مولوی شیر علی صاحب کو مقرر کر دیا.اب خطوط آتے ہیں کہ تجربہ کاروں کو ہٹا کر دوسروں کے سپرد کام کر دیا گیا ہے.کس طرح چلے گا.اسی طرح ایک جلسہ کیا گیا.جس میں ناظروں کو جمع کرکے کہا گیا کہ اپنے اپنے صیغوں میں تخفیف کریں.مگر عین اس وقت جبکہ ہر محکمہ والا کہہ رہا تھا کہ میرے صیغہ میں یہ تخفیف کر دی جائے.میرے صیغہ کا یہ خرچہ بند کر دیا جائے اور ۲۰ اور ۱۵ فیصدی تنخواہ کم کرنے کی تجویز ہو رہی تھی.ایک بڑے ثقہ جو بڑے لوگوں میں سے ہیں.انہوں نے مجھے لکھا کہ یہ لوگ غلط طور پر اپنے کاموں کی تعریفیں آپ کے سامنے کر کے کہتے ہیں.تخفیف نہیں کرنی چاہئیے.اس کے متعلق دوسرے لوگوں سے پوچھا جائے.یہ ان کا محض قیاس تھا.اور اصل واقع کے بالکل الٹ اور اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ ایک شخص تو جان قربان کر رہا ہو.مگر دوسرا کہے کہ وہ مجھے زہر دینا چاہتا ہے.رائے قائم کرنے کا صحیح اور درست طریق یہ ہے.کہ جس کے متعلق رائے ہو.اسے قائل کرنے کی کوشش کی جائے.اگر وہ قائل ہو جائے.تو اچھی بات ہوگی.اور اگر قائل نہ ہو تو سمجھ لیا جائے کہ اس بارے میں میرا بھی قیاس ہے اور اس کا بھی.ہو سکتا ہے کہ میرا قیاس غلط ہو اور اس کا صحیح کیونکہ وہ کام کرنے والا ہے اور کام کی حقیقت کو مجھ سے زیادہ سمجھنے والا ہے.یا پھر سمجھ لیا جائے کہ سابقون کی وجہ سے نیا مولفتہ القلوب کی وجہ سے رعایت کی جاتی ہے.جو ان باتوں کو نظر انداز کر کے اعتراض کرتے ہیں.ان کو ہم کہتے ہیں.اگر مان بھی لیا جائے کہ ان کے اعتراض درست ہیں.تو کیا وہ خود یہ کہنے کے لئے تیار ہیں کہ ان پر کوئی اعتراض نہیں کرے گا.اگر وہ یہ کہدیں کہ ان پر کوئی اعتراض نہیں کرے گا.تو میں ان کو عہدہ دار بنا دوں گا.جو چار

Page 180

پانچ سات دس آدمی مجھے لکھ دیں گے کہ ان پر کوئی اعتراض نہ کیا جاوے گا.میں انہیں انجمن کے ممبر بنا دوں گا.مدرسہ احمدیہ کا منیجر یا اور صیغوں کا آج ہی انچارج کر دوں گا.موجودہ کام کرنے والوں کے جس قدر بھی عہدے ہیں.سب ان کو دے دوں گا.اور پہلے کارکنوں کو خدا مجھے جو کچھ دے گا اپنے پاس سے دوں گا.اگر کوئی اس بات کے لئے اپنے آپ کو خود نہ پیش کرتا ہو اور کسر نفسی کرے.تو دوسرے پیش کر دیں.کہ فلاں فلاں ایسا ہے.جس پر کوئی اعتراض نہ کرے گا.میں انہیں کو مقرر کر دوں گا.مجھے تو کام سے غرض ہے.لیکن یہ خوب اچھی طرح یاد رکھو.کہ جو لوگ کام اچھی طرح کرنے کا زیادہ دعوی کرتے ہی.ان پر زیادہ اعتراض ہوتے ہیں.بات یہی ہے کہ رائے اور قیاس میں غلطیاں ہوتی ہیں.اور ممکن ہے.کہ کسی کام کے متعلق کسی کی جو رائے ہو.وہ غلط ہو.مگر کام چلانے کے لئے اس کا مانا ضروری ہوتا ہے.پس ان باتوں کو مد نظر رکھو جو میں نے رائے قائم کرنے کے متعلق بتائی ہیں.اور جو کام کرنے والوں کے متعلق بتائی ہیں.کہ ہو سکتا ہے کام کرنے کی لیاقت کی وجہ سے ایک زیادہ کا مستحق ہے.لیکن مولفتہ القلوب کی وجہ سے دوسرے کو زیادہ دیا جاتا ہے.یا اس کی عادت کا لحاظ رکھا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود کے وقت کہا گیا کہ یہاں جو لوگ آتے ہیں.ان سب کو ایک جیسا کھانا دینا چاہیے.فقراء کے دربار میں یہ نہیں ہونا چاہئیے.کہ امیر کو اچھا اور غریب کو معمولی کھانا دیا جائے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا میں کیا کروں.خدا نے ہی یہ فرق رکھا ہے کہ کسی کو امیر بنایا ہے اور کسی کو غریب.تو جن کی عادت ہو.اس کو مد نظر رکھنا پڑتا ہے.پس سبقت کی وجہ سے یا عادت کی وجہ سے یا لیاقت کی وجہ سے جو اگرچہ کم ہوتی ہے.لیکن اور میں اتنی بھی نہیں ہوتی.اس لئے اسے رکھنا پڑتا.اور سلوک کرنا پڑتا ہے.ان باتوں کو زیر نظر رکھ کر رائے قائم کرنی چاہئیے محض لیاقت کوئی چیز نہیں سبقت اور تالیف قلب بھی ضروری ہے.پھر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ایک کی رائے میں ایک لائق ہوتا ہے.اور دوسرے کی رائے میں وہ ایسا نہیں ہو تا.اس لئے کس کی رائے کی پابندی کی جاوے.بات یہی ہے کہ لوگوں کی رائے کی پابندی نہ ہو سکتی ہے اور نہ کی جا سکتی ہے.خدا تعالیٰ نے ایسے معاملات کے متعلق جو قوانین بتائے ہیں اور جن کا میں ذکر کر آیا ہوں.انہی کی پابندی کی جائے گی.اور چونکہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے ہیں.اس لئے قیامت تک تفرقہ نہیں ہوگا.کیونکہ جو لوگ خدا کے مقرر کردہ قوانین کی پابندی کرتے ہیں.وہ مضبوطی کی طرف جاتے ہیں.کمزوری کی طرف نہیں جاتے.اگر ان باتوں کو تم مد نظر رکھو گے.تو جو بھی دشمن تم سے ٹکرائے گا.پاش پاش ہو جائے گا.اور تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچے گا.اور اگر ان کو یہ نظر نہ رکھو گے.تو کسی دشمن اور کسی فوج کی ضرورت نہیں تم خود بخود کھائے جاؤ گے اور ملیا میٹ ہو جاؤ گے.

Page 181

140 ان دونوں باتوں میں سے جو چاہو قبول کرو.چاہے خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کی پابندی کر کے مضبوط چٹان بن جاؤ.چاہے معمولی معمولی باتوں میں پڑ کر اور غلط اور بے ہودہ رائے زنیاں کر کے ملیا میٹ ہو جاؤ.یہ دونوں راستے تمہارے سامنے ہیں.چاہے تم خدا تعالیٰ کی طرف قدم اٹھاؤ.چاہے نفس پرستی کے پیچھے پڑ کر وہ موتی جو خدا تعالیٰ نے تمہیں دیا ہے ہتھوڑا مار کر توڑ ڈالو.(الفضل ۱۱۹ دسمبر ۱۹۲۱ء) ا بخاری کتاب التوحيد باب قول الله يحرج الملائكة والروح اليد بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي باب مناقب المهاجرين بخاری کتاب الاشربه باب هل يستاذن الرجل من عن يمينه في الشرب للمعطى الاكبر ہ بخاری کتاب المناقب باب مناقب الانصار

Page 182

144 33 اپنی زندگیوں کو زندہ بناؤ (فرموده ۱۶ دسمبر ۱۹۲۱ء) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.بسبب نزلہ اور کھانسی چونکہ حلق میں تکلیف ہے.اس لئے آج میں کچھ زیادہ بات کرنا نہیں چاہتا.مگر مختصر الفاظ میں ایک امر کی طرف اپنے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں میں نے اس کے متعلق پہلے بھی بتایا ہے.مگر مجھے افسوس ہے کہ میں اب تک لوگوں میں ایسی روح نہیں دیکھتا جس سے معلوم ہو سکے کہ انہوں نے اس بات کو سمجھ لیا ہے.اور اگر سمجھ لیا ہے تو عمل کرنے کی طرف توجہ کی ہے.وہ بات یہ ہے کہ صرف کسی طریق کو اختیار کر لینا کسی مقصد کا پالینا نہیں ہوتا.کسی طریق کے اختیار کرنے کے صرف یہ معنی ہوا کرتے ہیں کہ ایک صداقت کا انسان اقرار کر لے.مگر صرف صداقت کا اقرار کافی نہیں ہوتا.صداقتیں دنیا میں موجود ہوتی ہیں.لیکن صرف ان کے اقرار سے کسی کو کوئی نفع نہیں پہنچتا.اور نہ صرف صداقت کا اقرار کر لینے سے دنیا میں ایسی روح پیدا ہو سکتی ہے.جو کسی تغیر کا موجب ہو سکے.بہت لوگ ہیں جو عیسائیت کو سچا مانتے ہیں.مگر باجود ان کے عیسائیت کو سچا ماننے کے.ہندوؤں کے ہندو مذہب کو سچا ماننے کے مسلمانوں کے اسلام کو سچا ماننے کے ان کی زندگیاں بچپن سے موت تک کوئی ایسی حرکت نہیں پیدا کر سکتیں جسے دائمی حرکت کہا جا سکے.کروڑں بچے ہندوؤں ، عیسائیوں اور مسلمانوں کے ہاں پیدا ہوتے ہیں اور مرجاتے ہیں.ان کے پیدا ہونے سے نام کے طور پر عیسائیوں ، ہندوؤں یا مسلمانوں کو کوئی فائدہ ہو تو ہو.مگر ان کی وجہ سے جس مذہب میں وہ پیدا ہوتے ہیں اسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا.وجہ یہ کہ ان کے کسی مذہب کو مانے کا اقرار اسی حد تک ختم ہو جاتا ہے.کہ ہم مانتے ہیں کہ یہ سچائی ہے.لیکن اس طرح مان لینے پر وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ان پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.اور نہ یہ جانتے ہیں کہ وہ سچائی جسے انہوں نے مانا ہے دنیا کے لئے کیسی مفید ہو سکتی ہے.اور کیسے نیک نتائج پیدا کر سکتی ہے.اس سچائی

Page 183

144 کو مان کر وہ اپنا ایسا طرز عمل قرار دیں کہ جس سے معلوم ہو سکے کہ ان کا مدعا اور مقصد کیا ہونا چاہئیے.یہ نہیں کرتے.ان کا ایمان ایسا افرادی رنگ کا ہوتا ہے.جیسا چلتے چلتے راستہ میں کسی کو پیاس لگے اور وہ پانی پی لے.اس کے پانی پینے سے اس مقصد اور مدعا پر جس کے لئے وہ گھر سے نکلا ہو.کوئی اثر نہیں ہوتا.یا اس طرح کہ سفر پر جاتے ہوئے رستہ میں کوئی پھل فروخت ہو رہا ہو اسے خرید لے.اس کا اثر اس کے رستہ چلنے اور گھر سے نکلنے پر نہیں پڑے گا.کیونکہ جو شخص کوئی مقصد قرار دے کر گھر سے نکلتا ہے.اس کی ساری کوشش اس کے لئے ہوتی ہے.ایسے شخص کو اگر راستہ چلتے کوئی ایسی چیز بھی مل جائے جس کی اسے ضرورت ہو اور جسے وہ خریدنا چاہے.تو بھی اصل مقصد اور مدعا کے حاصل کرنے میں دیر ہو جانے کی وجہ سے وہ کہتا ہے.چلو آتے وقت خرید لیں گے.غرض رستہ چلنے والا راستہ میں جو عمل کرتا ہے.کسی سے بات کرتا ہے.کسی سے ملتا ہے.کوئی قدم اٹھاتا ہے.ہر وقت اس کے سامنے وہی بات رہتی ہے جس کے لئے وہ گھر سے نکلتا ہے.اور وہ اس کا مقصد اور مدعا ہو جاتی ہے.اور جو انفرادی اعمال ہوتے ہیں ان کا اس پر اثر نہیں پڑتا.جو لوگ اپنا کوئی مقصد قرار دے لیتے ہیں.ان کی اور حیثیت ہوتی ہے.اور جو نہیں قرار دیتے ان کی اور اسلام میں پیدا ہو کر اس کو سچا مانے والے.عیسائیت میں پیدا ہو کر عیسائیت کو سچا ماننے والے.ہندوؤں میں پیدا ہو کر ہندو مذہب کو سچا ماننے والے جو اپنے اپنے مذہب کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے.وہ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں.جو اپنا مقصد اور مدعا مذہب کو قرار نہیں دیتے.اور جو لوگ مقصد قرار دے لیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ انہیں اپنے مذہب کے ذریعہ دنیا میں صداقت قائم کرنی ہے.وہ ساری زندگی اس میں لگا دیتے ہیں.اور ہر کام جو وہ کرتے ہیں.اس میں ان کے مد نظر یہی بات ہوتی ہے.اب دیکھو ایک احمدی ہے یعنی ایسا شخص جس کے سامنے دلائل پیش کئے گئے اس سے مجھے اور مان لئے.اور وہ احمدی بن گیا.اب اگر اس کے احمدیت کے اقرار کو زبان سے ہٹا دیا جائے اس کے یقین کو دل سے نکال دیا جائے.اور صداقت کے خیال کو دماغ سے علیحدہ کر دیا جائے.تو وہ ویسے کا ویسا ہی رہ جائے گا جیسا کہ پہلے تھا.کیونکہ احمدیت کا اس پر کوئی اثر نہ تھا.اور اس نے احمدیت کو اپنا مقصد اور مدعا قرار نہ دیا.لیکن جو مذہب کو اپنا مدعا اور مقصد قرار دے لیتا ہے.وہ صداقت کو قبول کرنے پر ہی بس نہیں کرتا.بلکہ اس کے ساتھ ہی کئی اور باتیں بھی دریافت کرنے لگ جاتا ہے.مثلاً وہ پوچھے گا کہ جو تعلیم میں نے مانی ہے اس کا اثر انسان کی زندگی پر اس زمانہ میں یا مرنے کے بعد کیا پڑتا ہے.پھر

Page 184

14A یہ کہ اس کا اثر انفرادی طور پر کیا پڑے گا اور عام طور پر کیا.پھر یہ کہ آیا ممکن ہے کہ میں اس سچائی کو اختیار کروں اور مجھے پر کوئی ذمہ داری عائد نہ ہوتی ہو.یا یہ کہ میرا مانا اور نہ ماننا برابر ہے یا اس میں کچھ فرق ہے.میری نہ ماننے کی حالت اور ماننے کی حالت یکساں ہونی چاہئیے.یا اس میں کوئی فرق ہونا چاہیے.یہ ایک سلسلہ سوالات شروع ہو جائے گا.اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ سمجھ لے گا کہ اس پر دو قسم کے فرض عائد ہوتے ہیں.ایک یہ کہ چونکہ وہ سب سے ضروری چیز ہے.جو اس نے اختیار کی ہے.اور دنیا میں جو کام بھی وہ کرتا ہے.علم پڑھتا ہے.ملازمت کرتا ہے.یا کوئی اور کام کرتا ہے.اس سے جو فائدے پہنچ سکتے ہیں.اس سے زیادہ اس سے پہنچتے ہیں.اور اسے ترک کرنے سے باقی تمام چیزوں کے ترک کرنے سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے.اور اس پر اس کی ساری زندگی کا مدار ہے.یہی اس کا مقصد اور مدعا ہے.اس صورت میں جو بھی کام وہ کرے گا.اس میں دیکھ لے گا کہ اس سے اس کے مذہب اور اس کی قبول کردہ صداقت پر تو کوئی الٹا اثر نہیں پڑتا.میرے تعلقات اور معاملات تو اس جڑ کو صدمہ نہیں پہنچاتے جس کو میں نے ساری چیزوں سے مقدم رکھا ہے.جب وہ اس بات کو سوچے گا.اور اس کے نزدیک احمدیت تمام چیزوں سے پیاری چیز ہوگی.تو وہ ہر بات کے متعلق بآسانی فیصلہ کر سکے گا.کہ اس میں وہ شامل ہو سکتا ہے یا نہیں.اگر اس میں شامل ہونے یا اسے اختیار کرنے سے احمدیت پر برا اثر پڑے گا تو وہ اختیار نہیں کرے گا.اور اگر اس سے احمدیت کو فائدہ پہنچے گا تو اختیار کرلے گا.اور جب اس کی یہ حالت ہوگی تو وہ سمجھے گا.کہ میں دنیا سے علیحدہ کوئی وجود نہیں ہوں.بلکہ نہر انسان کا اثر مجھ پر پڑ رہا ہے.اور ہر تغیر کا مجھ پر اثر ہو رہا ہے.جس طرح چاند سورج، ستاروں کا اثر اس تک پہنچتا ہے.اسی طرح انسانوں کا اثر بھی پہنچتا ہے.اور ممکن نہیں کہ کوئی کہدے کہ امریکہ یا یورپ یا چین یا جاپان کا یہ خیال ہے مجھے اس سے کیا تعلق؟ کیونکہ کوئی عقیدہ اور کوئی خیال ایسا نہیں جو پیدا ہوا ہو اور پھر اپنی جگہ پر ہی رہا ہو.اس کا اثر ساری دنیا میں پھیل جاتا ہے.اور اگر ایسی بات عقل صریح کا مقابلہ نہیں کرتی تو خواہ جھوٹی بھی ہو تو دنیا میں اثر کرتی ہے.دیکھو یورپ میں جو حالات پیدا ہوئے ان سے ہندوستانیوں کو کیا تعلق مگر اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ ہندوستانیوں کو اپنے ملک میں کوئی دانا نظر ہی نہیں آتا.سیاسی باتوں کو جانے دو.کیونکہ یہ محدود حلقہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.اور اپنے فوائد کی وجہ سے اختیار کی جاتی ہیں.ایک ہندوستان کا رہنے والا اپنے فوائد کی وجہ سے مسٹر گاندھی کے پیچھے چلے تو چلے.علمی رنگ میں اور دانائی و عظمندی کی خاطر پیچھے نہیں چل رہا.اس لئے یہی کہا جا سکتا ہے.کہ مسٹر گاندھی کے پیچھے ہندوستانی چل رہا ہے.آدمی نہیں چل رہا.کیونکہ اگر آدمی چلتے تو یورپ والے بھی پیروی اختیار کرتے.کیونکہ وہ بھی

Page 185

144 لیکن چونکہ وہ اپنے فوائد مسٹر گاندھی کے پیچھے چلنے میں نہیں سمجھتے.اس لئے نہیں چلتے.تو سیاسی خیالات ایک محدود طبقہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.اور ان کا دائرہ محدود ہوتا ہے.مگر علمی باتوں کا اثر بہت وسیع ہوتا ہے.وہ جرمنوں سے تعلق نہیں رکھتیں.مگر وہ ان کے پیچھے چلتے ہیں.ان کا تعلق فرانسیسیوں سے نہیں ہوتا.مگروہ ان کی پیروی کرتے ہیں.اسی طرح اور لوگ ان کو تسلیم کرتے اور ان سے متاثر ہوتے ہیں.یہی لالہ لاجپت رائے جو آریہ سماج سے تعلق رکھتے ہیں.انہوں نے کہہ دیا تھا کہ یورپ کے عقل مند ویدوں کے رشیوں منیوں سے کم نہ تھے.اتنی عداوت کے باوجود جو یورپ کے لوگوں کے متعلق یہ لوگ ظاہر کرتے ہیں.لالہ لاجپت رائے یہ کہنے پر مجبور ہی ہو گئے.اور ان کی فضیلت کا اقرار انہیں کرنا ہی پڑا.وجہ یہ کہ یہ علمی بات ہے جو وسیع سوال ہے.اور ایسا سوال آدمیت سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ ملکوں سے.اور سارے انسانی دماغوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے.پس یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ یورپ کا خیال ہے.یا جاپان کا خیال ہے.یا امریکہ کا خیال ہے.اس سے ہمیں کیا غرض.میں نے صداقت کو قبول کر لیا ہے.اور اتنا ہی میرے لئے کافی ہے.کیونکہ وہ خیال اگر ایسے لوگوں میں پیدا ہوا ہے.جن میں جوش ہے اور وہ.عقلی بات ہے تو بہت سے لوگ اس کے اثر میں آجائیں گے اور انہیں دھوکہ لگ جائے گا.اور آج جو نور ہم نے اپنے گھروں میں داخل کیا ہے.بعد میں آنے والے ممکن نہیں بلکہ اغلب ہے کہ اسے اپنے گھروں سے نکال دیں.کیونکہ جب کسی بدی کو مٹایا نہیں جاتا.تو وہ پھیلتی ہے.مثلاً بیماریاں ہی ہیں جب تک ان کا مقابلہ نہیں کیا جاتا پھیلتی جاتی ہیں یا جب تک خدا ہی ان کی تباہی کے اسباب نہ کرے بڑھتی جاتی ہیں.یہ نیچر کا قانون ہے.کہ ایک وقت تک ایک چیز اپنا جوش دکھا کر ٹھنڈی پڑنے لگ جاتی ہے.طاعون کے متعلق ہی دیکھ لو.انگریزوں نے تو بڑی بڑی کوششوں کے بعد یہی نکالا کہ جس کو طاعون ہو جائے وہ یہ علاج کرے.یا اس کے لئے یہ احتیاط کی جائے.لیکن خدا تعالیٰ نے اس کو ٹھنڈا کر دیا کہ اب پہلے کی طرح اس کے حملے نہ ہوں.تو وسیع اثر کرنے والی باتیں اور چیزیں اس طرح بھی دب جاتی ہیں.لیکن ایک اگر دب جائے تو دوسری نکل آتی ہے.دوسری کے ٹھنڈے پڑنے پر تیسری.اور جب تک صداقت کو نہ پھیلا دیا جائے یہ خطرہ لگا ہی رہتا ہے.پس جب انسان یہ سمجھ لے کہ وہ دنیا میں اکیلا نہیں بلکہ اور لوگ بھی ہیں.اور جب یہ سمجھ لے کہ اگر وہ آبادی سے الگ تھلگ کسی جنگل اور قلعہ میں بھی ہو تو بھی دوسروں کے خیالات کے اثر سے بچ نہیں سکتا.اور اگر وہ متاثر نہ ہو تو اس کی اولاد یا اولاد کی اولاد متاثر ہو جائے گی.پھر جب وہ یہ بھی سمجھے گا کہ جو صداقت اس نے قبول کی ہے راحت و آرام حاصل کرنے کا وہی ذریعہ

Page 186

ہے.تب وہ اس بات کو اپنا مقصد اور دعا قرار دے لے گا.کہ جب تک دوسرے خیالات مٹا کر وہی خیالات جو میں نے قبول کئے ہیں نہ پھیلاؤں.صبر نہ کروں گا.ایک ایسے انسان کی زندگی میں اور اس انسان کی زندگی میں جس کو اس بات کا احساس نہیں ہو گا بہت بڑا فرق ہو گا.وہ جس نے احمدیت کو قبول کیا اور اس نے سمجھا کہ یہ بہترین سے بہترین چیز ہے.اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کے مقابلہ میں کچھ بھی آجائے.اس کی وہ کوئی پروا نہیں کرے گا وہ اس کے لئے قطعا مفید اور فائدہ بخش نہیں ہوگی.اور اس کے ساتھ ہی جب وہ یہ سمجھے گا کہ اور لوگوں کا اثر ضرور پڑتا ہے.اور کوئی چیز ایسی نہیں.کہ جب تک اسے روکا نہ جائے بڑھتی ہے.جب ان باتوں پر غور کرے گا تو اس کی زندگی ایک عام زمیندار کی زندگی کی طرح نہیں ہوگی.بلکہ اس کی زندگی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کی سی زندگی ہوگی اور حقیقت میں وہ زندہ ہو گا.ایک زمیندار اور ایک تاجر بھی زندہ ہوتا ہے.مگر وہ ایسے ہی زندہ ہوتے ہیں جیسے بھیٹر بکری.جیسے وہ کھانا کھاتی اور پانی پیتی ہے.اسی طرح یہ کھانا کھاتے اور پانی پیتے ہیں.جس طرح وہ گھاس تلاش کرتی ہے.اسی طرح یہ بھی اپنی خواراک تلاش کرتے ہیں.یہ کوئی روحانی زندگی نہیں ہوتی.روحانی زندگی ایک الگ زندگی ہوتی ہے.اس میں یہی نہیں ہوتا کہ انسان کھاتا پیتا پہنتا ہے.بلکہ ان سے بالا چیز حاصل کرتا ہے.اور پھر اس سے بالا ہوتا ہے.کہ دوسروں تک اس چیز کو پہنچاتا ہے.اور ایسے ہی لوگ واقع میں زندہ ہوتے ہیں.جن کے آگے دوسرے مردوں کی طرح جا پڑتے ہیں.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسی ہی زندگی حاصل نہ تھی.تو پھر کیا وجہ ہے کہ آپ ابو بکر، عمر کو جس طرح کہتے اسی طرح وہ کرتے.کیا ان میں ظاہری زندگی نہ تھی.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سوا کوئی تھا جو عمر کی گردن اپنے آگے جھکا سکتا؟ مگر آپ اگر ان کو موت میں بھی ڈالتے تو جاتے اور ذرا حیل و حجت نہ کرتے.ان کی مثال ایسی ہی تھی.جیسے تنور والے کے ہاتھ میں لکڑیاں ہوتی ہے.جو انہیں تنور میں ڈالتا جاتا ہے.اور وہ کچھ نہیں کر سکتیں.کیونکہ وہ مردہ ہوتی ہیں.اسی طرح ابو بکر عمرہ جو کھینچی ہوئی تلوار تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں جاکر لکڑیاں بن گئے تھے.اور وہ مردہ تھے.اور مردہ چیز زندہ کے ہاتھ میں بولا نہیں کرتی زندہ جس طرح چاہتا ہے اس کے ساتھ کرتا ہے.پس یہ روحانی زندگی ہوتی ہے.جو دنیا میں تغیر پیدا کرتی ہے.اور یہ انہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے.جو اپنی زندگی کا مقصد اور مدعا مذہب کو قرار دے لیتے ہیں.ان کے مقابلہ میں وہ لوگ جن کا عدم وجود برابر ہوتا ہے.وہ ایسے ہی ہوتے ہیں.جو اس بات کو اپنا مقصد نہیں بناتے وہ کھانے پینے

Page 187

IAI کو اپنا مقصد اور مدعا سمجھتے ہیں.اور دین کو ایک ضمنی بات.مثلاً ایک زمیندار ہے.وہ اپنا کام کہی سمجھے گا.کہ کھاؤں پیوں.ہاں ساتھ کوئی مذہب بھی اختیار کرلوں.اس کا مذہب اختیار کرنا ایسا ہی ہو گا.جیسے کچھری جاتے ہوئے کسی جگہ سے پانی پی لیتا ہے.یا کوئی میوہ کھا لیتا ہے.کوئی اس حالت میں اسے دیکھے.اور کے یہ کچری نہیں جا رہا بلکہ یہی کام کرنے آیا ہے.تو اس کی غلطی ہوگی.اور اس کا پتہ بھی لگ جاتا ہے.جبکہ پانی پینے میں اسے دیر لگ جائے.اور کچھری سے آواز آئے کہ فتح محمد ہے.تو وہ پانی چھوڑ دے گا.اور یہ درمیانی چیز قربان کر کے ادھر بھاگ پڑے گا.تو بالعموم ایسے لوگ ہوتے ہیں.جن کا مقصد اور مدعا دنیاوی چیزیں ہوتی ہیں.اور مذہب کو وہ اسی طرح ایک درمیانی اور ضمنی چیز سمجھتے ہیں.جس طرح کوئی کچھری جاتے ہوئے پانی پی لیتا ہے.میوہ کھا لیتا ہے.یا کوئی چیز خرید لیتا ہے.اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا.کہ اس کا اصل کام یہی تھا.بلکہ یہ کہ اسے کچری کے کام سے فرصت مل گئی تو اس نے اس کام کو کر لیا.ان لوگوں کا مذہب کے متعلق یہی حال ہوتا ہے.کہ زمینداری سے یا اور دنیاوی کام سے فرصت مل گئی تو ظہر و عصر کی نماز پڑھ لی.یا نماز پڑھنے سے ان کے کام میں کوئی ہرج نہ ہوا تو پڑھ لی.لیکن اگر کوئی کام ہو.اور اس کو چھوڑنا پڑے تو پھر نہیں پڑھیں گے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل مقصد زمینداری یا اور کوئی دنیاوی کام ہے.کیونکہ اس پر وہ دین کے کام کو قربان کر دیتا ہے.ورنہ اگر وہ اپنا مقصد مذہب کو قرار دیتا.تو اس کے الٹ کرتا.جب وہ اپنا مقصد مذہب کو سمجھ لے گا.تو پھر ایسا ہو گا.کہ جس طرح کچھری کی طرف سے آواز آنے پر مٹھائی خریدنا چھوڑ کر ادھر بھاگ پڑتا ہے.اسی طرح جب دین کی طرف سے آواز آئے.تو سب کچھ چھوڑ کر ادھر متوجہ ہو جائے گا.اور پھر یہ نہیں ہو گا کہ وہ مذہب کو اپنا مقصد بنائے نماز پڑھے.روزے رکھے.حج کرے.زکوۃ دے.مگر پھر بھی اس کی بیوی اور رشتہ داروں کو پتہ نہ ہو.کہ اس کا کیا مذہب ہے.بلکہ وہ زندہ کی طرح ہوگا.اور کہے گا.کہ مجھے خطرہ ہے کہ اگر میں نے اپنی بیوی.اپنے رشتہ داروں اور اپنے قریب رہنے والوں کو دین نہ سکھایا تو میری اولاد پر ڈاکہ ڈالیں گے اور اس کو تباہ کر دیں گے.اس صورت میں اس کی اور زندگی ہوگی.یہ زندہ نظر آئے گا.اور دوسرے اس کے سامنے زندہ مردہ ہونگے اور جس طرح وہ چاہے گا.ان کو سکھائے گا.یہ بات ہے جس کی طرف میں نے پہلے بھی آپ لوگوں کو توجہ دلائی ہے.اور اب بھی دلاتا ہوں کہ اپنی زندگیوں کو زندہ بناؤ.اور مذہب قبول کر کے دیکھو کہ اسے تم نے اپنا مقصد بنا لیا ہے یا دنیا کی اور چیزیں تمہارا مقصد ہے.اگر مذہب ہے تو دیکھو تم نے اس کے لئے کیا کیا قربانیاں کی ہیں؟

Page 188

1사 اگر تم اس بات کو سمجھ لو.تو تمہاری موجودہ زندگی خواہ تم کسی پیشہ میں ہو.ایک لفظ بھی نہ پڑھے ہوئے ہو.لوہار اور ترکھان کا کام کرتے ہو.تو بھی ایسی تبدیلی کر سکو گے کہ دنیا حیران رہ جائے گی.اور میں جانتا ہوں.کہ جب کوئی قوم کسی کام کو اپنا مقصد قرار دے لے.تو اسے کر کے ہی چھوڑتی ہے.سکھوں کی قوم کو ہی دیکھ لو یہ ایک جاہل قوم تھی.اس نے جب اپنا ایک مقصد قرار دے لیا.تو باوجود یکہ ان پر بڑے بڑے ظلم ہوئے.جیسے کہ پھر انہوں نے کئے.ان کے گوروؤں کے لڑکے زندہ چن دئے مگر آخر کامیاب ہو گئے.یہ الگ بات ہے کہ ان سے غلطی ہو گئی.اور بجائے اس کے کہ وہ مذہب کو اپنا مقصد قرار دیتے.اور دنیا کو اس کے لئے حاصل کرتے.انہوں نے یہ کیا کہ سمجھ لیا کہ مذہب کی تب حفاظت ہو سکتی ہے کہ دنیا پر حکومت ہو.مگر پھر وہ مذہب کو بھول گئے.اور حکومت ہی حکومت ان کے مد نظر رہ گئی.تو یہ زمینداریا پیشہ ور لوگ تھے لوہار، ترکھان، جو حکومت کے لئے کھڑے ہو گئے.ادھر مغلوں کی حکومت تھی.اور ادھر انگریز.مگر یہ حاکم بن گئے.رنجیت سنگھ ایک معمولی زمیندار تھا.لیکن آخر بادشاہ بن گیا.وجہ یہ کہ انہوں نے اپنا جو مقصد قرار دے لیا تھا اس کے لئے ہر چیز کو قربان کر دیا.حتی کہ اصل چیز کو بھی بھول گئے.اگر وہ اپنا مقصد یہ رکھتے کہ مذہبی آزادی حاصل کرنی ہے.تو ایسا نہ ہوتا.جیسا کہ اسلام نے کیا.اسلام کے مقابلہ میں حکومتیں آئیں کہ اسے پھیلنے نہ دیں گے.انہیں مسلمانوں کو مٹانا پڑا.مگر اصل مقصد انہوں نے اپنا مذہب رکھا نہ کہ حکومت کرنا اس لئے وہ مذہب پر قائم رہے.پس جس قوم کے مد نظر اپنا ایک مقصد ہوتا ہے.اس میں اور دوسری میں ایسا ہی فرق ہوتا ہے.جیسا مردہ اور زندہ ہیں.یہ بات میں پہلے بھی کئی بار بتا چکا ہوں اور اب بھی کہتا ہوں کہ جب تک تم میں یہ روح نہ ہوگی.تم ترقی نہ کر سکو گے.مذہب کو صرف قبول کر لینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا.بلکہ آئندہ زندگی کے لئے بطور مقصد اور مدعا سمجھنے سے فائدہ ہوتا ہے.کیا ہم یہ نہیں مانتے کہ فلاں فلاں پہاڑ ہے.یا بٹالہ ایک شہر ہے.مگر اس سے ہم پر کیا اثر پڑتا ہے.اگر یہ نہ ہو تو ہمارا کیا حرج ہوتا.ہاں ہمیں یہ پتہ نہ ہو کہ بٹالہ ایک شہر ہے اور وہاں فلاں چیز ملتی ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے.تو حرج ہو گا.اور جب اس کا پتہ لگے گا.تو ہم اس طرف جائیں گے.اور یہ ہمارا مقصد ہو جائے گا.پس مذہب کو صرف مان لینا ہی کافی نہیں اس کو اپنا مقصد قرار دو.تب تمہیں وہ بات حاصل ہوگی.جس کے حاصل کرنے کی تمہارے دل میں تڑپ ہے.مگر تم صحیح ذرائع پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے اسے حاصل نہیں کر سکتے.الفضل ۱۳۱ دسمبر ۱۹۲۱ء)

Page 189

34 احباب قادیان کو ہدایات جلسہ کے لئے (فرموده ۲۳ و کمبر ۱۹۲۱ء) حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.چونکہ نیا آنے والا ہفتہ ہمارے سالانہ اجتماع کا ہفتہ ہے اس لئے میں آج اس اجتماع کے متعلق دوستوں کو کچھ ہدایات دینا چاہتا ہوں.اول تمام احباب کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہدایات ہماری زندگی کی درستی اور نفع اور فائدہ کے لئے دی ہیں.ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہر ایک مومن کا فرض ہے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے.اکرام ضیف آج کل ذلیل بات سمجھی جاتی ہے لیکن یہ ایسے اعلیٰ درجہ کے رکنوں میں سے ہے کہ اس کے پابند کو اللہ تعالی دنیا و آخرت میں ضائع نہیں کرتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی ہوئی تو آپ کو طبعا " گھبراہٹ ہوئی کہ الہام کبھی انعام کے طور پر ہوتا ہے کبھی ابتلاء کے طور پر.اسلئے آپ نے گھبرا کر اپنی بیوی سے ذکر کیا کہ ایسے نظارے دیکھے ہیں.اور اس قسم کی آوازیں سنی ہیں.مجھے ڈر آتا ہے.حضرت خدیجہ نے کہا کہ میرے نزدیک یہ خیر ہے.کلا والله لا يخزيك الله ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ تجھے ضائع کرے.اب سوال ہوتا ہے کہ کیوں نہ کرے.ان باتوں میں سے ایک بات کے متعلق حضرت خدیجہ فرماتی ہیں.آپ میں مہمان نوازی اور غرباء کی ہمدردی کی صفت پائی جاتی ہے.حضرت خدیجہ کی یہ بات کیسی سچی تھی.دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں آئی.لیکن ہر حالت میں حضرت خدیجہ کا یہ فقرہ سنہری حرفوں میں آسمانوں پر لکھا ہوا نظر آتا ہے کلا والله لا يخزیک الله رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور آپ کی خوبیاں جتنی انواع و اقسام کی تھیں.ان

Page 190

۱۸۴ کا اندازہ نہ تھا.پھر بھی حضرت خدیجہ کا ان چند کو لینا جن میں اکرام ضیف بھی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے.کہ یہ ان باتوں میں سے ہے کہ جن کا آپ کو بہت خیال رہتا تھا.اس بات کو اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کا محبوب اور مقرب بنانے میں مہمان نوازی بھی دخل رکھتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو فیضان اترے.وہ پہلی زندگی کا نتیجہ تھے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ظلما " وحی نہیں اتاری گئی.کہ خدا نے یونسی بغیر کسی وجہ کے اپنی وحی سے آپ کو عزت بخشی.بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا آئینہ ایسا تھا.کہ اس میں خدا کا چہرہ نظر آتا تھا.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس درجہ پر پہنچانے والی بات مہمان نوازی بھی تھی.گویا دنیا پر جو یہ احسان ختم نبوت کا ہوا.اس میں ایک ہاتھ مہمان نوازی کا بھی ہے.اس لئے قادیان والوں کو یاد رکھنا چاہیے.کہ یہاں بھی مہمان آنے والے ہیں.اس لئے ان کا فرض ہے.کہ وہ ان کی خدمت بجالائیں.شہور ہے کہ اگلے زمانہ کے لوگ مہمانوں کو ڈھونڈا کرتے تھے.مگر یہاں خدا تعالی مہمانوں کو خود لاتا ہے.بعض لوگ مہمان کو بوجھ سمجھتے ہیں.مگر ان کو غور کرنا چاہئیے.کہ کیا وجہ ہے.کہ مهمان حضرت اقدس مسیح موعود کے پاس آتے تھے.کیوں محمد حسین بٹالوی اور ثناء اللہ یا ابراہیم کے پاس نہیں جاتے تھے.کیا وہ روٹی نہیں دے سکتے تھے.میرے نزدیک شاید دنیا میں کوئی ایسا شخص نہ ہو گا کہ جب اس کے گھر میں مہمان آئے.اور وہ شام کے وقت اس کو روٹی نہ دے.اور اس کو گھر سے نکال دے پس یہ خدا کا فضل ہے کہ کسی کے گھر مہمان آئے.مہمان چٹی نہیں بلکہ احسان الہی ہوتا ہے.خدا تعالیٰ جب کسی پر فضل کرتا ہے تو اس کے گھر مہمان لاتا ہے.کیونکہ گویا لوگوں نے محسوس کر لیا ہے.کہ وہ اس قابل ہے کہ اس کے پاس جائیں.اور اس سے کچھ حاصل کریں.اور وہ زمین پر خدا کی ربوبیت کا مظہر ہوتا ہے.ڈاکوؤں اور چوروں کے پاس شریف لوگ مہمان نہیں جایا کرتے.حالانکہ اگر کوئی ڈاکو کے پاس جائے.تو وہ بھی روٹی دے گا.پس سوال روٹی دینے کا نہیں.بلکہ یہ ہے کہ کوئی اس کے پاس سے کھا بھی سکتا ہے کہ نہیں.پس مہمانوں کو کسی کے گھر لانا خدا کے فضل ہے اس لئے اس کی قدر کرنی چاہئیے.اس کو ضائع نہیں کرنا چاہئیے.میں نے بتایا ہے کہ مہمان نوازی کے اصول میں یہ بھی ہے.کہ میزبان دیتا ہے.بعض دفعہ نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے.لیکن یہ نقصان مضر نہیں.لوگ ہمارے پاس آتے ہیں.جب باہر جائیں.تو وہاں ملتے ہیں.اور باہر جہاں ٹھرتے ہیں.وہ بھی ہمارے ہی گھر ہوتے ہیں.کیونکہ ہماری جماعت کے ہوتے ہیں یا کرائے کے مکان پر ٹھرتے ہیں.تو وہ بھی اپنے ہی مکان ہوتے ہیں.تو جب وہ لوگ آتے ہیں تو بہت دفعہ سختی اور سخت کلامی بھی کرتے ہیں.مگر جب وہ جاتے ہیں.تو وہ دل میں محسوس کرتے ہیں.کہ یہ لوگ کس قسم کے ہوتے ہیں.

Page 191

1A0 پس بعض دفعہ مہمان کے سامنے دینا پڑتا ہے.لیکن وہ دینا ذلت نہیں.کیونکہ نیچا اور اونچا ہونا نسبتی امر ہے دیکھو چھت ہمارے سر پر ہے.اور اونچی ہے.مگر ایک چیونٹی جو چھت پر چل رہی ہو.اس کے لئے زمین اونچی ہے.اور چھت نیچی.مقابلہ کرنا جرأت کا کام ہے.لیکن ماں باپ سے مقابلہ بری بات ہے.اور ذلت ہے.دشمن کے مقابلہ میں بعض اوقات اڑنا عزت کی بات ہے.تو ایک تو یہ ہدایت ہے کہ مہمانوں کے ساتھ نرمی کا سلوک ہونا چاہیے.علاوہ ہمارے بھائیوں کے سینکڑوں غیر احمدی ہوتے ہیں.تم ہزار تقریر کرو.اگر تمہارا سلوک سخت ہو تو وہ تمہاری تقریروں پر یہی کہیں گے کہ یہ مکار لوگ ہیں.اوپر سے کچھ ہیں اور اندر سے کچھ.تمہاری میٹھی باتوں کو وہ برے سلوک سے کڑوی سمجھیں گے.پس مہمان سے اچھا سلوک کیا بلحاظ خدا کا قرب حاصل کرنے کے اور کیا بلحاظ اس کے کہ سینکڑوں غیر احمدیوں کو جو ہمارے جلسہ پر آتے ہیں.اس کی وجہ سے ہمارے متعلق فیصلہ کرنا ہوتا ہے.اگر سلوک اچھا ہو تو وہ لوگ ہماری دلیلوں کے محتاج نہ ہوں گے.اور حضرت اقدس کی صداقت کو ثابت شدہ حقیقت سمجھیں گے.دوسری نصیحت یہ ہے کہ ہزاروں قسم کے خطرات ہوتے ہیں.کئی لوگ جوش میں بیماروں کو چھوڑ کر آتے ہیں.کئی حفاظت صحت کا خیال نہیں کرتے.اور بھی کئی قسم کے ابتلاء ہوتے ہیں.جہاں انعام ہوتے ہیں.وہاں ابتلاء بھی ہوتے ہیں.ممکن ہے رستہ میں تکلیف ہو یا یہاں مہمان داری میں بوجہ انہوہ اور کثرت کے تکلیف ہو.کیونکہ جیسے ایک آدھ آدمی کی خدمت ہو سکتی ہے ویسی اتنے احباب کی نہیں ہو سکتی.اس لئے ممکن ہے جسمانی یا روحانی رنگ میں صحت روحانی یا جسمانی کو تکلیفات ہوں.اس لئے میں احباب کو نصیحت کرتا ہوں کہ مخلصانہ طور پر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انعامات سے متمتع کرے.اور نقصانات کے پاس جانے سے بھی بچائے.آمین.الفضل ۲۶ جنوری ۱۹۲۲ء) بخاری باب بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 192

LAY 35 شعائر اللہ کی تعظیم فرموده ۳۰ / دسمبر ۱۹۲۱ء مسجد نور) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.چونکہ آج احباب جانے والے ہیں.اس لئے مختصر طور پر چند باتیں بیان کرتا ہوں.دوسری وجہ مختصر بیان کرنے کی یہ بھی ہے کہ تین دن سے متواتر بولنے اور کل تو سارا دن لیکچر دینے سے کیونکہ مردوں میں ختم کرنے کے بعد عورتوں میں لیکچر دینا پڑا.آواز اول تو اچھی طرح نکلتی نہیں.اور جو نکلتی ہے.وہ سب تک نہیں پہنچے گی.اس لئے مختصراً چند نصائح کرتا ہوں.اول تو ایک غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں.جو کل کے لیکچر سے پیدا ہوئی ہے.میں نے کہا تھا کہ میری طرف سے ایک چٹھی بھیجی گئی تھی جس کا کئی لوگوں نے جواب نہ دیا.بیرونی جماعتوں کے سیکرٹریوں نے سمجھا ہے کہ ان کی طرف بھیجی گئی ہوگی.ان کی طرف سے رقعے آرہے ہیں کہ انہیں نہیں پہنچی.ان کی تسلی کے لئے میں کہتا ہوں کہ ان کو نہیں بھیجی گئی تھی.بلکہ ایسے لوگوں کے پاس بھیجی گئی تھی جو با حیثیت سمجھے گئے تھے.اور جن کے متعلق خیال تھا کہ اس تحریک میں شامل ہو سکتے ہیں.گو تنگیاں اور مشکلات ایسے لوگوں کو بھی ہوتی ہیں.مگر ان کے متعلق یہ سمجھ کر کہ وہ شامل ہو سکیں گے.لکھا گیا تھا.اور کہا گیا تھا کہ جواب دیں.اس لئے سیکرٹریوں کو گھبراہٹ کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کو وہ چھٹی نہیں بھیجی گئی تھی.دوم یہ کہ چونکہ یہ پہلی دفعہ ہے.اس لئے جنہوں نے جواب نہ دینے کی وجوہات مجھے لکھی ہیں.ان کو میں معاف کرتا ہوں اور بقیہ کے لئے فی الحال یہی سزا تجویز کرتا ہوں کہ وہ وجہ لکھ دیں کہ انہوں نے کیوں جواب نہیں دیا.اس کے بعد میں احباب کو ایک خاص نصیحت کرتا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ شعائر مقرر کئے ہوئے ہیں.ان کی عزت اور احترام ایک نہایت ضروری بات ہے.چونکہ ہمیشہ شرارت اور بدی بہت چھوٹی باتوں سے پیدا ہوتی اور آہستہ آہستہ ترقی کرتی ہے.اس لئے جب تک

Page 193

اس کے پیدا ہونے کے دروازے بند نہ کئے جائیں.بند نہیں ہو سکتی.قرآن کریم میں آپ لوگ نه پڑھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر ناراض ہوتا ہے کہ رسول کریم کو راعنا کہو.اے حالانکہ اس کے بھی وہی معنی ہیں.جو انظرنا کے ہیں.پھر کیوں فرماتا ہے کہ راعنا نہ کہو.انظرنا کہو اور یہاں تک فرماتا ہے.کہ اگر تم راعنا کہو گے تو تمہارے ایمان ضائع ہو جائیں گے.اس کی وجہ یہ ہے کہ راعنا کے لفظ میں دو باتیں پائی جاتی ہیں.ایک یہ کہ منافق اور شریر لوگ اس میں کبھی پیدا کر کے راعینا یا چکر ڈال کر رعونت کی طرف لے جا سکتے تھے.یا چونکہ رسول کریم نے ابتدائی زمانہ میں بکریاں چرائی تھیں.اس کی طرف ہتک کے طور پر اشارہ کرتے تھے.یہ وجہ بھی تھی.مگر اصل بات یہ ہے که راعنا باب مفاصلہ سے ہے.اور اس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ تم میرے لئے یہ کام کرو تو میں تمہارے لئے یہ کام کردوں گا.گویا دونوں طرف کی شرط پائی جاتی ہے.جیسے کہتے ہیں فاتلا اس کے معنی ہیں.کہ دو آدمی ایک دوسرے سے لڑے.اگر صرف ایک ہی لڑے.تو اس کے لئے یہ نہیں کہیں گے.اگر چہ راعنا کے عام استعمال میں یہی معنی لئے جاتے تھے.کہ آپ ہماری رعائت کریں.مگر لغت میں اس کا یہ مفہوم بھی ہے کہ تم ہماری رعایت کرو.تو ہم بھی تمہاری رعائت کریں گے.گویا اس کا یہ مطلب ہوا کہ آپ ہمارا خیال رکھیں.ہم بھی آپ کا خیال رکھیں گے.اور اس میں گستاخی اور بے ادبی پائی جاتی ہے.یہودیوں کا منشا یہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایسے الفاظ استعمال کریں.تا ان سے سنکر مسلمان بھی ان الفاظ کو استعمال کرنے لگ جائیں.اور اس طرح رسول کریم کا ادب اور احترام آہستہ آہستہ دور ہو جائے.اس بدی کا سد باب کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے روک دیا کہ کوئی یہ لفظ رسول کریم کے متعلق استعمال نہ کرے.تو چھوٹی چھوٹی باتوں کا شریعت میں لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے.مسلمانوں میں جو تباہی اور خرابی پیدا ہوئی.اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے ادب اور احترام کے الفاظ گندے معنوں میں استعمال کرنے شروع کر دئے.ان کی حکومتیں مٹ گئیں.سلطنتیں برباد ہو گئیں.کیوں؟ اس لئے کہ ان کے نزدیک "بادشاہ" کے معنی ”بیوقوف" کے ہو گئے.جہاں "بادشاہ" " بے وقوف کو کہا جائے.وہاں بادشاہ کا ادب کہاں رہتا ہے.اور جب بادشاہ کا ادب گیا.تو حکومت بھی تباہ ہو گئی اسی طرح علماء اور بزرگوں کا ادب مسلمانوں کے دلوں سے اس طرح اٹھا.کہ حضرت" کا لفظ جو ان کے متعلق استعمال ہوتا ہے.یہی لفظ شریروں اور بد معاشوں کے متعلق استعمال کرنے لگے.اس طرح علماء کا ادب مٹ گیا.اور ان کی بے ادبی شروع ہو گئی.اسی طرح دیکھو اللہ کے لفظ کی بے

Page 194

IAA ادبی سے مسلمانوں پر کس قدر تباہی اور بربادی آئی.جب کسی کے پاس کچھ نہ رہے تو کہتے ہیں "اب تو اللہ ہی اللہ " یعنی ان کے نزدیک اللہ کے معنی یہ ہیں کہ کچھ نہیں".یہ کہنے سے ان کا مطلب یہ نہیں ہوتا.کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والا اللہ ان کے مد نظر ہوتا ہے یا حضرت ابو بکڑ والا اللہ ان کے ذہن میں ہوتا ہے جن سے رسول کریم نے ایک موقعہ پر جب کہ وہ اپنا سارا مال خدا کی راہ میں دینے کے لئے لے آئے.پوچھا کہ گھر کیا چھوڑ آئے ہو.تو انہوں نے کہا تھا " اللہ " علی اور رنگ تھا.اور اس کی اور ہی شان تھی.مگر مسلمان جب یہ کہتے ہیں.کہ اب اللہ ہی اللہ ہے.تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ نفی ہے.اب کچھ نہیں رہا.اس طرح اللہ کے لفظ کے استعمال کا یہ نتیجہ ہوا ہے.کہ لوگوں کے دلوں سے خدا تعالی پر ایمان اٹھ گیا.اور ان میں دہریت آگئی.اس بات کو اچھی طرح یاد رکھو.کہ ادب اور احترام کے الفاظ کبھی گندی اور بری جگہ استعمال نہیں کرنے چاہیں ورنہ قابل ادب چیزوں کا ادب اٹھ جائے گا.اور اس کا نتیجہ سوائے تباہی اور بربادی کے اور کچھ نہیں ہو گا.مثلاً "شہید" کا لفظ ہے دیکھو آج کل مسلمانوں کی عقلیں کس طرح ماری گئی ہیں.وہ جو دین کے لئے مارے گئے وہ جنہوں نے دین کی خدمت کرتے ہوئے اپنی جانیں دیں وہ جنہوں نے اپنے خون سے اسلام کی بنیاد کو مضبوط کیا ان کے لئے خدا تعالیٰ نے "شہید" کا لفظ استعمال کیا ہے.اور جن کے متعلق آیا ہے.کہ اوروں کو تو برزخ سے گزار کر بہشت میں داخل کیا جائے گا.مگر وہ جلدی داخل بہشت کر دئے جائیں گے.یہ تو شہید کی شان ہے.مگر مسلمانوں نے کان پور کی مسجد کے غسل خانہ کو شہید قرار دیا.گویا اس گارے اور مٹی کو جو پاخانہ میں بھی ڈالی جاسکتی ہے حضرت عثمان کے برابر بنا دیا.اسی طرح ایک شعر ہے جس میں جھجری کو شہید کیا گیا ہے (حضور نے شعر پڑھا تھا.لیکن قلم بند نہ ہو سکا) اس کا نتیجہ یہ ہوا.کہ مسلمانوں کے دلوں سے اس لفظ کا ادب مٹ گیا.اگر ان میں اس کا ادب رہتا.وہ سمجھتے یہ بہت بڑا درجہ ہے اور اس کے بہت اعلیٰ نتائج نکلتے.خدا تعالیٰ کی خاص خوشنودی حاصل ہوتی ہے تو جب کبھی شہادت پانے کا موقع آتا کبھی پیچھے نہ ہٹتے.مگر چونکہ ان میں ادب نہ رہا.اس لئے اس درجہ کی ان کی نظر میں کچھ حقیقت نہ رہی.اور غسل خانے اور جھجریوں کو شہید کہنے لگ گئے.جب شہید کی حیثیت ان کی نگاہ میں یہ رہ گئی.تو شہادت حاصل کرنے کی خواہش ان کے دل میں خاک پیدا ہو سکتی ہے.پس یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئیے.کہ وہ الفاظ جن کا شریعت نے ادب اور احترام لازم قرار دیا ہے.ان کا ادب کرنا نہایت ضروری ہے.اور یہ بات مومن کے ایمان میں داخل ہے.مجھے اس خطبہ کے پڑھنے کی تحریک اس طرح ہوئی.کہ میں نے ٹہلتے ٹہلتے گھر میں دو اشتہار

Page 195

۱۸۹ لگے ہوئے دیکھے.جن میں دو نہایت نا معقول فقرے درج تھے.ایک میں تو لکھا تھا "حمائل اعجاز صنعت گویا اس کتاب میں ایسا اعجاز رکھا گیا کہ اس کا کاتب ایسا ہی ہے.جیسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم آپ نے بھی اعجاز دکھایا اور اس کاتب نے بھی.دوسرے اشتہار میں لکھا تھا.اعجازی پریس " گویا اللہ تعالیٰ ہی ایسا پریس بنا سکتا ہے.اور اس پریس بنانے والے کو ہی اس نے یہ قدرت بخشی ہے.اور کوئی انسان نہیں جو ایسا پریس بنا سکے.اب میں پوچھتا ہوں.جب تم معمولی کتابت کو اور معمولی پریس کو اعجاز کا نام دو گے تو حضرت مرزا صاحب اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعجازوں اور معجزوں کی تمہاری نگاہ میں کیا قدر رہے گی.جس کی نظر سے اس قسم کے فقرے گزریں گے وہ سمجھے گا ذرا کوئی کار آمد چیز ہو یا جس میں کوئی ذرا عجوبہ ہو وہ اعجاز ہوتا ہے اور اس طرح اس کے دل سے اصل اعجاز کی وقعت دور ہو جائے گی.میرے نزدیک یہ مخفی کفر ہے.کیونکہ اس طرح شریعت کے احترام کو تباہ کیا جاتا ہے.پریس ہے کیا چیز.اور اس میں اعجاز کونسا ہے.ایسے پریسوں کے سینکڑوں نسخے تو میں نے پڑھے ہیں.حالانکہ میں اس فن کا آدمی نہیں ہوں.اور نہ مجھے اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت تھی.تاہم تین چار نسخے تو مجھے یاد بھی ہیں.اسی طرح حمائل میں کونسی ایسی صنعت ہے.جسے اعجاز کا درجہ دیا جائے.یہ کہاں کی صنعت ہے کہ اگر الف پہلی سطر میں آگیا.تو پچھلی سطر میں بھی الف ہی آیا.اور اس کے لئے ایک سطر لمبی لکھ دی اور دوسری چھوٹی.یہ تو ایسی صنعت ہے.جیسے کسی نے کہا ہے.رفتم بازار خریدم گنا قل اعوذ برب الناس ملك الناس الى الناس من شر الوسواس الخناس الذي يوسوس في صدور الناس من الجنة والناس (الناس : ۲ تا ۷) اس طرح تو اگر کوئی دید اور انجیل کو بھی لکھنا چاہے.تو لکھ سکتا ہے.۲۶ حروف ہوتے ہیں.اور بعض زبانوں میں تو اس سے بھی تھوڑے.اور زیادہ سے زیادہ ۳۷۳۵ ہوتے ہیں.ان کو ایسی ترتیب دینا کہ جو پہلی سطر کے پہلے آئے.وہی آخری سطر کے پہلے آئے.اس میں اعجاز کیا ہے.یہ تو لفظ اعجاز کے ساتھ تمسخر ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ معجزہ اور اعجاز کی قدر اتنی ہی رہ جائے گی جب بچے کے سامنے مسیح موعود کے کسی معجزہ کا ذکر آئے گا.تو فوراً اس کا خیال پریس اور حمائل کی طرف چلا جائے گا کہ یہ معجزہ بھی ایسا ہی ہوگا.حالانکہ اعجاز تو وہ معجزہ ہوتا ہے.کہ جو خدا تعالیٰ کی قدرت سے ہی ظاہر ہوتا ہے.ورنہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسیح موعود حضرت عیسی ، حضرت موسیٰ کا ذاتی فعل بھی اعجاز نہیں کہلا سکتا.

Page 196

19° جائیکہ کسی اور انسان کے فعل کو اعجاز کہا جائے.اعجاز تو وہ فعل ہے.جو حضرت موسیٰ حضرت عیسی، حضرت مرزا صاحب اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خدا تعالٰی نے کرایا.اب بتاؤ اگر حضرت موسیٰ حضرت عیسیٰ، حضرت رسول کریم اور حضرت مرزا صاحب اکٹھے ہو جاتے.تو کیا یہ کام نہ کر سکتے اس کو اعجاز کہنے کے تو یہ معنی ہوئے کہ گویا خدا خود اتر آیا اور اس نے یہ کام کئے.یہ بہت بے ہودہ اور لغو حرکت ہے شریعت کے الفاظ کا ادب نہایت ضروری ہے.جو الفاظ شریعت میں داخل ہیں.یا مسلمانوں کے استعمال سے شریعت میں داخل ہو گئے ہیں.جیسے اعجاز کا لفظ ہے.ان کی تو قیر اور ادب کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے.یہی اعجاز کا لفظ ہے.جس سے ہم انبیاء کرام کی تو قیر بچوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں.لیکن جب وہ پریس کے متعلق بھی اعجاز کا لفظ استعمال ہوتا دیکھیں گے تو وہ رسولوں کے معجزہ کے متعلق یہی سمجھیں گے کہ وہ پریس بنایا کرتے ہونگے یا کتابت کرتے ہوں گے.مومن کے لئے ہر بات میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے.تم لوگ ان باتوں کے متعلق خاص احتیاط کرو اور ان لوگوں میں سے نہ بنو.جنہوں نے شریعت کے قابل ادب الفاظ کی بے ادبی کر کے تباہی و بربادی حاصل کی ہے.لفظ "آیت " معجزہ" "کرامت» «نبی» "رسول" اور اسی " طرح کے اور الفاظ تمہارے نزدیک بڑے معزز اور مکرم ہوں.تمہارے نزدیک حضرت شہر یا اور ایسے ہی الفاظ روحانیت اور بزرگی پر دلالت کرنے والے ہوں.تاکہ تمہارے بچوں میں بھی ان کا ادب اور احترام پایا جائے جن کے لئے یہ الفاظ مقرر ہیں.ان الفاظ کی کبھی بے حرمتی اور بے ادبی نہ کرو.کبھی برے معنوں میں استعمال نہ کرو.کبھی بطور نفسی اور تمسخر میں بھی منہ سے نہ نکالو.اس طرح اول ان الفاظ کا ادب اٹھ جائے گا اور پھر ان لوگوں کا ادب اٹھ جائے گا جن کے متعلق یہ استعمال کئے جا سکتے ہیں.کیونکہ جو بچہ اپنے بھائی یا باپ کو دیکھے گا کہ حضرت کا لفظ وہ شریر کے معنی میں استعمال کرتے ہیں.تو جب کسی بزرگ کے پاس جا کر دیکھے گا کہ اسے کوئی "حضرت" کہتا ہے.تو یہی سمجھے گا کہ شریر ہے.میں نے یہ عام طور پر بات اس لئے کی ہے.کہ عام طور پر لوگ ہنسی اور تمسخر میں ایسے الفاظ استعمال کرتے رہتے ہیں.اور بعض تو یہاں تک کرتے ہیں کہ آیت اور حدیث بطور تمسخر پڑھ دیتے ہیں.چونکہ ایسی باتوں کے نتائج سخت خطرناک ہوتے ہیں.اس لئے تمہیں ان سے بچنا چاہیے.دوسری نصیحت یہ ہے.کہ جو احباب جائیں گے.ان کو میں نصیحت کرتا ہوں.کہ چونکہ سفر میں دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں.وہ واپسی کے وقت جہاں اپنے لئے اپنے گھر والوں کے لئے دعائیں کریں.وہاں خدا کے جلال کے ظاہر ہونے اور کفر کے مٹنے کے لئے دعا کریں.البقرة : ۱۰۵ الفضل ۱۳ جنوری ۱۹۹۲ء) ا بخاری کتاب بدء الخلق باب يعكفون على اصنام.زندى النواب المناقب باب مناقب الى بکر ترندی

Page 197

Page 198

Page 199

۱۹۳ 36 جماعت احمدیہ کا پروگرام (فرموده ۶ / جنوری ۱۹۲۲ء) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.اسلامی طریق کے مطابق محرم سے نیا سال شروع ہوا کرتا ہے.لیکن ملک کا دستور اور اس کی رسوم بھی بہت کچھ انسان کے اعمال پر اثر ڈالتی ہیں.ہمارے ملک کے دستور کے مطابق اور دستور العمل کے مطابق جنوری سے نیا سال شروع ہوتا ہے.ہمارے کاموں میں بھی اس نئے سال کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے.اس لئے ہمارے عام رواج اور دستور کے مطابق یہی کہنا پڑتا ہے کہ یہ ایک نیا سال ہے جو ہمارے لئے چڑھا ہے اور اس نے سال میں یہ پہلا جمعہ ہے جو ہمارے لئے آیا ہے.ابھی زیادہ دن نہیں گذرے کہ ہماری جماعت کے احباب مختلف جہات سے اکٹھے ہو کر قادیان جلسہ کے لئے آئے تھے.اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے بولنے والوں کو سنانے کی جو توفیق دی.انہوں نے سنایا.اور سننے والوں کو سننے کی جو توفیق دی.انہوں نے سنا.قادیان کے رہنے والوں کو خدمت کا جو موقع خدا تعالیٰ نے دیا.اس سے جنہوں نے فائدہ اٹھایا.اٹھایا.اس کے بعد وہ سال ختم ہو گیا.اور نیا شروع ہوا.یہ ایک دورہ ہے جو اسی طرح گذرتا چلا آرہا ہے.اور اسی طرح گذر تا چلا جائے گا.سال کے بعد جب لوگ کہتے ہیں نیا سال شروع ہو گیا.اس موقع پر ہر شخص کے دل میں نئی امنگ اور نئے ارادے پیدا ہوتے ہیں.مگر کیا چیز نئی شروع ہوتی ہے؟ کیا انسان کی زندگی نئی شروع ہوتی ہے زندگی کا تو بہت پہلے سے سلسلہ چلا آتا ہے.پھر کیا علم میں کوئی جدت پیدا ہو جاتی ہے.کیا نیا سال اپنے ساتھ نئے علوم لایا کرتا ہے.نہیں یہ تو نہیں ہوتا.علوم تو حاصل کرنے سے ہی آیا کرتے ہیں.اگر کوئی پچھلے سال علم حاصل کرتا.تو اسے علم حاصل ہو جاتا.اور اگر نئے سال علم حاصل نہ کرے گا.تو نہیں آئے گا.نیا سال اسے علم نہیں سکھا سکتا.پھر کیا نیا سال کوئی نیا طریق عمل لاتا ہے.جب سے انسان کو طاقتیں اور قوتیں ملی ہیں طریق عمل تو وہی ہے جو پہلے مقرر ہو چکا.تو عمل کے لحاظ سے بھی نیا سال کوئی نئی چیز نہیں لاتا.جو اعمال انسان آنے والے سال میں کرنا چاہتا ہے وہ.

Page 200

۱۹۴ پہلے سال بھی جو گذر گیا ہے کر سکتا تھا.اور اگر نئے سال بھی نہ کرنا چاہے تو نیا سال اسے مجبور کراکر نہیں کرائے گا پھر وہ کیا نئی چیز ہے جو نیا سال لایا ہے؟ اور وہ کیا چیز ہے جو نئے سال کے شروع ہونے پر انسان کے دل میں امنگیں پیدا کر دیتی ہے؟ یا واقعہ میں کوئی چیز ہے بھی یا نہیں؟ دو میرے نزدیک ہر نیا سال جو آتا ہے.بعض نئی باتیں اپنے ساتھ لاتا ہے.گو وہ پرانی بھی ہوتی ہیں.لیکن ایک لحاظ سے نئی بھی ہوتی ہیں.پرانی تو اس لحاظ سے کہ اگر انسان چاہتا.تو ان کو پچھلے سال بھی مہیا کر سکتا تھا.اور نئی اس لحاظ سے کہ انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ اگر اپنے نصب العین کو قریب ترین نہ قرار دے لے تو بھول جاتا ہے.اور اس سے دور جا پڑتا ہے.جب تک انسان اپنی منزل مقصود کے سفر کو ٹکڑے نہ کرتا جائے اس کے قابو میں نہیں رہتا مثلاً دیکھو شریعت نے بھی اوقات مقرر کر دئے ہیں.جمعہ مقرر کر دئے ہیں.چھٹے دن کے بعد ساتواں دن جمعہ کا آجاتا ہے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.فلاں عبادت کرو گے تو ایک نماز سے لیکر سری نماز کے وقفے تک کے گناہ معاف ہو جائیں گے.اور فلاں عبادت کرو گے تو جمعہ سے لیکر جمعہ تک کے گناہ بخشے جائیں گے.فلاں عبادت کرو گے تو مہینہ کے گناہ بخشے جائیں گے.فلاں عبادت کرو گے تو سال کے گناہ بخشے جائیں گے.فلاں عبادت کرو گے تو سو سال کی عبادت کا ثواب حاصل ہو جائے گا.یہ تقسیم جو ایک وقت سے دوسرے وقت تک ایک ہفتہ سے ایک مہینہ ایک سال اور پھر کئی سالوں کی کیوں کی گئی ہے.اسی لئے کہ انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ ایک محدود زمانہ کو تو وہ مستحضر رکھ سکتا ہے لیکن غیر محدود زمانہ کو نہیں رکھ سکتا.یہی وجہ ہے کہ مدرسہ والوں نے تعلیم کی تقسیم اوقات میں رکھ دی ہے.جو شخص پڑھنے کے لئے نکلتا ہے اسے پڑھتے رہنا چاہیے.جب تک کہ تعلیم نہ حاصل ہو جائے.خواہ اسے دو تین چار پانچ دس پچاس سال لگ جائیں.مگر ایسا نہیں ہوتا.بلکہ ایک سال کے بعد جماعتیں بدلتی اور ہر جماعت کے لئے وقت کی حد مقرر ہے.اور تعلیم پانے کے عرصہ کی تقسیم سالوں میں کر دی گئی ہے.کیوں؟ اسی لئے کہ جب تک انسان کے سامنے زمانہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے نہ لایا جائے وہ اپنے مقصد اور مدعا کو مستحضر نہیں رکھ سکتا اور وہ بات اسے بھول جاتی ہے جسے حاصل کرنا چاہتا ہے.یہی وجہ ہے.کہ مدرسہ والوں نے تعلیم کی مدت کو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا ہے.جس وقت ایک لڑکا سکول میں ہوتا ہے.تو اس کے سامنے بی.اے اور ایم.اے کی ڈگری نہیں ہوتی.بلکہ یہی ہوتا ہے.کہ پہلی جماعت کا امتحان پاس کرنا ہے.اس طرح اس کی ہمت بلند اور حوصلہ بالا رہتا ہے.کیونکہ جب ایک حصہ کو وہ پورا کر لیتا ہے.تو اسے اپنی کامیابی کا احساس ہوتا ہے.اور پھر وہ آگے بڑھتا ہے.اور اس طرح ٹکڑے ٹکڑے کر کے قدم آگے بڑھاتا ہے.اس کی مثال اس بچہ کی سی ہوتی ہے جس کا ذکر ہم

Page 201

۱۹۵ بچپن میں ایک کہانی میں سنتے تھے.آپ لوگوں نے بھی سنی ہوگی.کئی طرح بیان کی جاتی ہے.میں نے جو سنی تھی وہ یہ ہے کہ ایک بچہ باہر نکلا.اس کے سامنے ایک جن پھول بن گیا.جب وہ اسے پکڑنے لگا تو پھول پیچھے ہٹ گیا.جب وہ اور آگے بڑھا تو پھول اور پیچھے ہٹ گیا.یہ دراصل آئندہ کی ترقیاں ہی ہوتی ہیں.جو جن کے پھول بننے کی طرح پھول بن کر آتی ہیں.اور سال کے وقفہ پر کھڑی ہو کر پکارتی ہیں.کہ یہاں آؤ اور ہمیں پکڑ لو.جب انسان وہاں پہنچتا ہے.تو وہ ایک سال اور نیچے ہٹ کر جا کھڑی ہوتی ہیں.کہ یہاں تک آؤ تو ہمیں حاصل کر لو.اسی طرح ہوتے ہوتے منزل پر پہنچا دیتی ہیں.اگر انسان ان کے پیچھے چلنے کی کوشش کرتا رہے.اور اگر کوشش نہ کرے تو ناکام و نامراد ہو جاتا ہے.پس ہر سال نیا پروگرام اور نیا کام انسان کے سامنے لاتا ہے.اور اس طرح تقسیم کر کے اس کے سامنے پیش کرتا ہے.جس سے انسان خوش ہو کر آگے کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتا ہے.ورنہ اگر ساری زندگی انسان کے سامنے ہوتی.تو اس کے پروگرام میں نہ تو ایسی باقاعدگی رہتی اور نہ اس میں نیا جوش اور امنگ پیدا ہوتی.بلکہ جو سال گذر جاتا اس کے متعلق سمجھتا میری زندگی سے کم ہو گیا ہے.آگے میں کیا کروں گا.اس طرح بے حوصلہ ہو کر ہمت ہار دیتا مگر جب اس کی زندگی سالوں میں تقسیم کر دی گئی ہے.تو نئے سال کے آنے پر وہ کہتا ہے اتنا کام مجھے اس سال کرتا ہے.اور اس طرح پہلے کی نسبت کچھ نہ کچھ آگے ہی بڑھتا جاتا ہے.ہمارے لئے بھی ایک نیا سال چڑھا ہے.اس وقت دو باتیں دیکھنی چاہئیں.اول تو یہ کہ پچھلا سال کیسا گزرا ہے.اور دوسرے یہ کہ آئندہ ہمیں کیا کرتا ہے.سورہ فاتحہ میں ان دونوں باتوں کا ذکر کیا گیا ہے.اس سورۃ کا ایک حصہ گویا نئے سال کی ذمہ داریوں کا اظہار کرنے والا ہے.اور دوسرا حصہ گزشتہ سال کی تمام کارروائیوں پو ریویو اور تنقید ہے.وہ کس طرح؟ پہلا حصہ اس سورہ کا گذشتہ سال کی کارروائیوں پر نظر ڈالنے کے متعلق ہے.اور پچھلا حصہ اگلے سال کے متعلق اور وہ اس طرح کہ انسان دیکھتا ہے کہ پچھلا سال جو گذرا اس میں بھی خدا تعالیٰ سے بندوں کا معاملہ رہا ہے.اس سال میں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی خد تعالی کی طرف سے اس پر فرض تھی.اور خدا بھی وہ جس کی بڑی بڑی نعمتیں اور فضل اس پر ہیں.آیا ان ذمہ داریوں کو اس نے صحیح اور پورے طور پر ادا کیا ہے.یہ ایک سوال ہے.جس کو انسان جب اپنے اندر اٹھائے گا تو اسے یقینا یہ جواب دینا پڑے گا.کہ میں نے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بڑی بڑی کو تاہیاں کی ہیں.پھر اس بات پر نظر ڈالنی پڑے گی کہ میں نے بڑی کو تاہیاں کی ہیں مگر خدا نے مجھ سے کیا معاملہ کیا.کیا میں کو تاہیوں اور غفلتوں کی وجہ سے اس بات کا مستحق نہیں تھا کہ خدا تعالیٰ مجھے پکڑتا اور سخت سے سخت سزا دیتا؟

Page 202

194 حمر الحمد للہ اللہ ہی کی سب تعریف ہے کہ اس نے مجھے سزا سے محفوظ رکھا.اور اس سال کے عرصہ میں سے صحیح و سلامت گزر آیا.اس نے میری غفلتوں.کمزوریوں، خطاؤں سج راہیوں کو دیکھا.مگر باوجود اس کے کہ سزا کا مستحق تھا.اس نے مجھے پکڑا نہیں.حالانکہ وہ رب العالمین ہے.اگر وہ مجھے پکڑتا تو اس کا حق تھا.کیونکہ دنیا کی ہر ایک چھوٹی سی چھوٹی چیز کا وہ رب ہے.اور میرا بھی رب ہے.کیا اس لحاظ سے کہ اس نے مجھے پیدا کیا اور بڑھایا اور کیا اس لحاظ سے کہ اس کی پیدا کردہ چیزوں کو میں نے استعمال کیا اور فائدہ اٹھایا.مگر باوجود اس کے کہ وہ مستحق تھا کہ میں اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرتا مگر میں نے نہیں کی.اور باوجود اس کے کہ اس کا مجھ پر حق تھا.جسے میں نے ادا نہ کیا.لیکن پھر بھی اس نے مجھ سے چشم پوشی کی.اگر اس کا مجھ پر حق نہ ہوتا.اس نے مجھے پیدا نہ کیا ہوتا.اس کی پیدا کردہ چیزوں سے میں نے فائدہ نہ اٹھایا ہوتا.تو میں کہتا اس کا کیا حق تھا کہ مجھے پکڑتا.مگر اس کے مجھ پر اس قدر احسان ہیں.کہ جنہیں میں شمار بھی نہیں کر سکتا.اس نے مجھے ہی پیدا نہ کیا بلکہ سورج کو بھی بنایا جس سے میں روشنی حاصل کرتا ہوں.اس نے مجھے ہی پیدا نہیں کیا.وہ غذا جو میں کھا کر زندگی پاتا ہوں اس کو بھی اس نے پیدا کیا ہے.پھر اس نے مجھے ہی پیدا نہیں کیا.اس نے چاند اور ستاروں کو بھی پیدا کیا ہے جن کی روشنی سے غذا ئیں پکتی ہیں.پھر وہ پانی جو میں نے پیا.وہ مکان جس میں میں رہا.یہ سب اسی کے ہیں.غرض مجھے ہی اس کی ربوبیت سے تعلق نہیں.جن چیزوں سے میرا تعلق ہے.اور جن کے ذریعہ میری زندگی قائم ہے.ان کو بھی اسی نے پیدا کیا ہے.کیونکہ وہ رب العالمین ہے.اس لئے اسے حق اور اختیار تھا کہ مجھے گرفتار کر لیتا اور سزا دیتا.مگر الحمدللہ کیا ہی تعریف والا خدا ہے کہ اس نے مجھے معاف کر دیا.پھر وہ رحمن ہے.جب مجھے خبر بھی نہ تھی اس وقت اس نے میرے لئے سامان مہیا کرنے شروع کئے.میں اب پیدا ہوا.مگر وہ سورج جس کی روشنی میں میں نے آنکھیں کھولیں جس کی روشنی میں میں نے اپنے عزیزوں اور پیاروں کو دیکھا مجھ سے کروڑوں سال پہلے پیدا کیا.میں پیدا ہوا.اور میری پیدائش کے ساتھ میرے پھیپھڑے پیدا ہوئے.جن کے ذریعہ میں نے ہوا میں سانس لیا.اور زندگی پائی.مگر یہ ہوا.جو میرے پھیپھڑوں میں گئی.اور جس نے مجھ میں نفخ روح کیا.اسے خدا تعالٰی نے مجھ سے کروڑوں سال پہلے پیدا کیا.میرا اور میرے اعمال کا کوئی دخل اس کے پیدا ہونے میں نہ تھا.اسی طرح وہ غذائیں جو میں نے کھائیں.مجھ سے پہلے پیدا کیں.اسی طرح زمین، جس پر چلتا ہوں.مجھ سے پہلے پیدا کی گئی.غرض جتنی اشیاء جن سے میری زندگی قائم ہے یا جن سے میرا تعلق ہے وہ ہمیشہ سے چلی آتی ہیں.اور میرے اعمال کے بغیر خدا تعالٰی نے میرے لئے پیدا کیں.اس قدر عظیم الشان احسانوں کے ہوتے ہوئے اس کا حق تھا کہ میری ادنیٰ سے ادنی خطا پر مجھے پکڑتا.مگر اس نے میری بڑی سے

Page 203

146 بڑی خطا سے چشم پوشی کی.پس الحمد للہ رب العالمین سب تعریفیں اس کے لئے ہیں.کہ اس نے رحمان ہوتے ہوئے میری خطاؤں پر نگاہ نہ ڈالی.حالانکہ احسان کے بعد جو نافرمانی کی جائے وہ زیادہ سخت سزا کا انسان کو مستحق بنا دیتی ہے.پھر وہ الرحیم بھی ہے.ادھر تو اس نے یہ احسان کئے اور • میری نافرمانیوں اور خطاؤں پر نظر نہ کی.ادھر میری ذرا سے ذرا محنت اور کوشش کو بھی ضائع نہ ہونے دیا.میں نے چھوٹے سے چھوٹا کام کیا اور اس نے مجھے اس کا بڑے سے بڑا بدلا دیا.یہ نہ کیا کہ وہ بڑے کو اس لئے روک لیتا کہ میں نے اس کی نافرمانیاں کیں.جس طرح کسی نے کسی کا پندرہ روپے قرضہ دینا ہو مگر دس اس کی طرف نکلتے ہوں.تو دس کاٹ کر باقی کے پانچ دے دیتا ہے.اس نے اپنا لینا تو معاف کر دیا.اور میرا حق جو اس نے میرا حق اس طرح مقدر کیا ہے کہ یہ ذرا بھی کام کرے گا تو میں بدلا دوں گا وہ مجھے دے دیا.میری خطاؤں کی وجہ سے اس نے اس کو نہ روکا.اگر میں نے ہاتھ چلایا.تو اس نے نئی قوت عطا کی.اگر میں نے آنکھ کھولی تو اس نے نیا نور عطا کیا.اگر میں چلا تو اس نے میرے پاؤں کو اور زیادہ مضبوط کر دیا.اگر میں نے روزہ رکھا.تو اس نے تقویٰ میں ترقی دی.غرض ہر عمل جو دنیاوی فعل یا دینی کام میں نے کیا.اس کا مجھے بدلہ دیتا گیا.یہ نہ کہا کہ میں نے جو اسے قرض دینا تھا.اس میں وہ کاٹ لیتا پس الحمد للہ.بڑا ہی حمد والا خدا ہے.کہ میں نے سب کچھ کیا.بڑی بڑی خطائیں کیں.مگر ان کی طرف اس نے توجہ نہ کی.پھر وہ مالک یوم الدین تھا.کوئی کہے.یہ ٹھیک ہے.کہ وہ بہت بڑا محسن تھا.اس کے انسان پر بڑے حق تھے.مگر چونکہ وہ سزا نہ دے سکتا تھا.اس لئے اس نے نہیں دی.مگر ایسا نہیں وہ مالک اور آقا تھا.جس وقت چاہتا پکڑ لیتا.کیونکہ اس کا حق بھی تھا.اور اسے پکڑنے کی طاقت بھی تھی.بعض اوقات حق تو ہوتا ہے.مگر چونکہ طاقت نہیں ہوتی.اس لئے انسان کچھ نہیں کر سکتا.خدا تعالیٰ کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا.کیونکہ وہ جزا و سزا کے دن کا مالک تھا.وہ جب چاہتا.پکڑ سکتا تھا.مگر اس نے کچھ نہ کیا.اور سال گذر گیا.جس میں اس نے اپنی ربوبیت رحمانیت رحیمیت میرے لئے جاری رکھی.اور مالکیت کا پہلو بھی ساتھ ہی رہا.پس الحمد للہ کہ میں اسی رستہ پر ایک سال چلا اور خدا کے فضل سے صحیح و سلامت رہا.جب بندہ اس پچھلی حالت کو دیکھتا ہے تو آئندہ کے لئے اپنا نیا پروگرام بناتا ہے کہ پیچھے تو جو ہو گیا ہو گیا.اب اس طرح نہ کروں گا.بلکہ خدا تعالیٰ کے احکام کی اطاعت اور فرمانبرداری کروں گا.جب وہ ارادہ کرتا ہے.تو کہتا ہے.ایاک نعبد حضور گذشتہ سال کے لئے تو میں شکر گذار ہوں.کہ اپنی خطاؤں اور کوتاہیوں کے خمیازہ سے بچ گیا.اب ایسا نہیں ہو گا.تیرا بڑا تابعدار غلام بنا رہوں گا.وایاک نستعین اور تجھ سے مدد مانگتا ہوں کہ میرا یہ پروگرام پورا ہو اهدنا

Page 204

الصراط المستقیم مجھے وہ رستہ دکھا کہ جس پر چل کر مجھے وہ ملامتیں پیدا نہ ہوں جو گذشتہ سال کے طرز عمل سے پیدا ہوئی ہیں.اگلے سال میرے یہ خیال نہ ہوں.بلکہ یہ کہوں کہ صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين- میں نے خدا تعالٰی سے رستہ مانگا تھا.اس نے مجھے دکھایا جو بالکل سیدھا رستہ تھا.جس پر وہ لوگ چلتے رہے.جن پر اس نے انعام کئے.اور وہ خال اور مغضوب لوگوں کا رستہ نہ تھا.یہ وہ پروگرام ہے جو ہماری جماعت کے مد نظر رہنا چاہیے.اس کے متعلق یہ تو سال کے ختم ہونے پر ہی معلوم ہو سکے گا کہ کتنا پورا کیا گیا یا پچھلا تجربہ بتا سکتا ہے کہ پچھلے سال کتنا پورا کیا تھا.اور آئندہ کتنا پورا ہو گا.بہر حال پروگرام مقرر کرنے سے یہ احساس ضرور پیدا ہو جاتا ہے کہ انسان عمل کو تقسیم کر کے معلوم کر سکتا ہے کہ پیچھے کیا ہوا.اور آگے کیا کرتا ہے.اور سالوں کو تقسیم کر کے وہ آگے کے لئے مستعد اور تیار ہو جاتا ہے.اگر ساری عمر یہ نظر ہوتی تو وہ کہنا اتنا عرصہ خراب ہو گیا ہے.اب کیا کروں گا.مگر اس حصہ کو جو گذر جاتا ہے.وہ الگ کر دیتا ہے.اور نئے سرے سے کام کرنے لگتا ہے.اس طرح اس کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے.ہم نے بھی یہ پروگرام بنایا ہے.ہمیں چاہیے کہ ہم دیکھیں پچھلے سال جو خطائیں اور کوتاہیاں ہوئی ہیں.وہ اس سال نہ ہوں.گذشتہ سال کے متعلق خدا تعالی کا شکر کریں.کہ اس نے ہمیں اپنی خطاؤں کے خمیازہ سے محفوظ رکھا.اور آگے کیلئے اس سے درخواست کریں کہ سیدھا رستہ دکھائے.یہ بہترین سے بہترین پروگرام ہے.اور اس سے بہتر کوئی پروگرام نہیں ہو سکتا.بندہ کا فرض ہے کہ اس کو اپنا نصب العین قرار دے.جب وہ اسے اپنا نصب العین قرار دے گا تو کچھ نہ کچھ ضرور کرے گا.اس پروگرام کو اگر ہماری جماعت یاد رکھے جس کو سورہ فاتحہ میں بیان کیا گیا ہے تو اگلا سال جو اس پر آئے گا وہ اس کے لئے سورہ فاتحہ کو اور رنگ میں پورا کرے گا.یہ سورۃ تو وہی رہے گی مگر یہ کروڑں معنی رکھتی ہے.اور میں نے نہیں دیکھا کہ آج تک اس کے معنی ختم ہوئے ہوں.تو اگلے سال اس کے معنی اور رنگ میں ہونگے.بہر حال یہ پروگرام ہے.جسے ہماری جماعت کے ہر شخص کو مد نظر رکھنا چاہئیے.پہلے حصہ کو پچھے سال پر چسپاں کر کے غور کرنا چاہیے.اور اگلا حصہ پچھلے سال پر چسپاں کرنا چاہیے.اگر یہ نصب العین رہے.تو کمزور سے کمزور انسان بھی اسے کچھ نہ کچھ پورا کر لے گا.مختصراً اس دفعہ اتنا ہی بیان کرتا ہوں.تفصیل اللہ تعالی چاہے تو آئندہ بیان ہوتی رہے گی.خدا تعالی ہماری جماعت کو توفیق دے کہ آئندہ کے لئے جو اس کا پروگرام ہے.اسے پورا کر سکے.الفضل ۱۹ جنوری ۱۹۲۲ء)

Page 205

۱۹۹ 37 پابندی نماز کے متعلق فرمان (فرمود ۱۳ / جنوری ۱۹۲۲ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.آج میرا منشا یہ تھا کہ ایک ضروری مسئلہ کے لئے پہلے قادیان کی جماعت کو نصیحت کروں.پھر دوسری جماعتوں میں اس کے متعلق اعلان کروں.لیکن آج اتفاقی طور پر کام پیش آگیا.جس سے جمعہ میں دیر ہو گئی.اب اگر خطبہ لمبا ہو تو نماز کا وقت گزر جائے گا.اس لئے میں اپنے ارادہ کو پورا نہیں کر سکتا.اور اپنے مدعا کو وضاحت سے بیان نہیں کر سکتا.لیکن پھر بھی مختصراً اس بات کو یہاں بیان کر دینا ضروری ہے کہ لوگ تفصیل سننے سے پہلے تیار ہو جائیں.میں نے اپنی جلسہ کی تقریر میں کہا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ تم سے مؤلفۃ القلوب کا سا معالمہ نہیں کیا جائے گا.ہمارے سلسلہ کو قائم ہوئے ایک عرصہ گذر گیا ہے.۳۲ سال حضرت اقدس کے دعوئی مسیحیت پر گذر گئے ہیں.اور ۴۲ سال مجددیت پر گذر گئے ہیں.براہین احمدیہ ۱۸۸۰ء میں تیار ہوئی اور مختلف حصص ۸۴ تک میں شائع ہوئے.اس طرح گویا اصل میں ۴۲ سال بن جاتے ہیں.مسیحت کے دعوئی کے اٹھارہ سال بعد تک حضرت صاحب ہم میں رہے.پھر خلافت اول کا زمانہ بھی گذر گیا اور اب خلافت ثانیہ کا عہد گذر رہا ہے.لیکن اب تک احکام دین کے جاری کرنے میں مؤلفۃ القلوب کا سا سلوک جماعت سے ہوتا رہا ہے کہ کسی کو ابتلاء نہ آجائے یعنی نرمی ہی کی جاتی تھی.اس طرح جماعت پر ایک بدنما دھبہ لگ جاتا ہے.میں نے کہا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ شریعت کے ظاہری احکام کی جب ہتک ہو رہی ہو تو ان سے پابندی کرائی جائے کہ ہر ایک کام تدریج چاہتا ہے.اس لئے تدریجی طور پر اس کی بھی نگرانی کی جائے.جب میں نے یہ کہا تو بعض احباب نے لکھا کہ ہم سے اگر شریعت کے احکام میں غلطی ہو تو ہم کو اس کی سزا دی جائے اس کو برداشت کرنے کو خوشی سے تیار ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ یہ خواہش ہر ایک مومن کے دل میں ہوگی.اس لئے ہم یہ اعلان کرتے

Page 206

ہیں.کہ جن احکام شرعی پر سزا دی جائے گی.وہ ایسے ہوں گے جو نصوص سے ثابت ہوں.ایسے نہیں جن کا اجتہاد سے تعلق ہو.میں نے مناسب سمجھا ہے کہ پہلے ایک مسئلہ لیا جائے.اور وہ مسئلہ نماز ہے.اس کی سختی سے پابندی کرائی جائے.جو پابندی نہ کر سکے ایک مدت معینہ کے بعد اس کو علیحدہ کر دیا جائے.یہ بات حضرت صاحب کے مد نظر پہلے ہی تھی.ابھی چند روز ہوئے میں نے الفضل میں حضرت مسیح موعود کا ایک حوالہ پڑھا ہے.جس میں آپ نے لکھا ہے کہ میں عنقریب ایک کتاب ایسی لکھوں گا اور ایسے تمام لوگوں کو جماعت سے الگ کر دوں گا.جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پاسکتے.جذبات کا تعلق اخلاق سے ہے.جو شخص جذبات پر قابو نہیں رکھ جب حضرت صاحب کا ایسے شخص کو بھی جماعت سے الگ کر دینے کا منشا تھا.تو جو لوگ فرائض کے تارک ہوں.ان کے لئے آپ زیادہ سختی سے کام لیتے.میں دیکھتا ہوں کہ ایک جماعت ایسے لوگوں کی ہو گئی ہے جو نظر آتی ہے اور نماز میں ست ہے.بعض لوگ ایسے ہیں جو بالکل نماز پڑھتے ہی نہیں.بعض سست ہیں.بعض جماعت کے تارک ہیں.اب میں اعلان کرتا ہوں کہ وہ سب لوگ باقاعدہ ہو جاویں اور ستی کو چھوڑی دیں اور نماز باجماعت ادا کیا کریں.جو تعمیل نہ کر سکیں تین مہینہ تک ہم ان کا انتظار کریں گے اور اس کے بعد دو باتیں ہوں گی اول یہ کہ وہ قرآن و حدیث سے ثابت کر دیں کہ نماز با قاعدہ ادا کرنا ان کے لئے نہیں ہے.اگر وہ یہ ثابت نہ کر سکیں تو پھر ہم یہ کریں گے کہ ہم اعلان کر دیں گے کہ فلاں فلاں لوگ چونکہ ہم پر یہ ثابت نہیں کر سکے کہ نماز با جماعت ان کے لئے نہیں نہ وہ اس کی پابندی کرتے ہیں.اس لئے یہ لوگ جماعت سے خارج ہیں.پہلا قدم وہ اٹھا ئیں دوسرا ہمارا قدم ہوگا.میں ابھی باہر کی بات نہیں کہتا یہاں چند لوگوں کی جماعت ایسے لوگوں کی ہے جو بالغ بھی ہیں اور نماز میں سستی کرتے ہیں.یہاں ایک دو تھے.جب ان سے باز پرس نہ ہوئی اور وہ علی الاعلان اپنے فعل پر قائم رہے تو اور بھی لوگ ان کے ساتھ شامل ہو گئے.اگر اسی طرح ہوتا رہا تو یہی تعداد آٹھ دس سے ہیں تیں اور چالیس پچاس اور ساٹھ ستر ہوں گے پھر سو دو سو اور پھر چار سو آٹھ سو ہوتے جائیں گے.اگر ان لوگوں کو یونہی چھوڑ دیا جائے.تو ان کے اثر سے اور لوگ بھی خراب ہوں گے اور ہمارے مہمانوں پر اثر پڑے گا اور ہماری آئندہ نسلوں پر ان کا اثر پڑے گا.چور اگر چوری کرتا ہے.تو چھپ کر مگر تارک نماز علی الاعلان شریعت کی ہتک کرتا ہے.اور اس سے جماعت کا شیرازہ درہم برہم ہو سکتا ہے.ایک سو چور کسی جماعت کے لئے اتنا مضر نہیں جتنا ایک تارک نماز.چور چوری چھپ کر کرتا ہے.مگر تارک نماز کھلم کھلا یہ کام کرتا ہے.اس لئے میرا منشاء ہے پہلے یہ طریق اختیار کیا جائے کہ قادیان کے علاقہ تقسیم کر دئے جائیں.

Page 207

ان کی مساجد میں وہاں کے لوگ جمع ہوں اگر کسی جگہ مسجد نہ ہو تو نئی مسجد بنائی جائے یا کوئی مکان تجویز کیا جائے.اگر اتفاقی طور پر کسی شخص کو دیر ہو جائے یا وہ مسجد کو آرہا ہو کہ نماز ہو چکے تو اس پر باز پرس نہ ہوگی.اس کے متعلق اب قواعد بھی بنائے جائیں گے.اور جیسا کہ صحابہ کے وقت میں محتسب ہوتے تھے.یہاں بھی مقرر ہوں گے.ان کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ لوگوں کے متعلق خبر رکھیں.تاکہ یہ غفلت دور ہو کر کم از کم وہ مقام حاصل ہو جو ادنی درجہ ایمان کا ہے.اللہ تعالیٰ جماعت کو اس کی توفیق دے.کہ وہ اپنے فرائض کو سمجھے.اور لوگوں کے لئے نمونہ بنے.کہ دنیا کو مسلمان اور احمدی ہونے کی تحریک ہو.الفضل ۶ فروری ۱۹۲۲ء)

Page 208

38 پابندی نماز اور رعایت اخلاق (۲۰ / جنوری ۱۹۲۲ء) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.میں نے پچھلے جمعہ میں نماز کے متعلق ایک بات بیان کی تھی.چونکہ اس ہفتہ میں زیادہ تر کام اس کتاب کے متعلق رہا جو شہزادہ کا تحفہ ہے.اس لئے اس تجویز کے متعلق تفصیلی فیصلہ نہیں کر سکا.مگر چونکہ میں چاہتا ہوں کہ وہ کام جلدی ہو اس کے لئے جمعہ کا دن ہی موزوں ہے.کیونکہ احباب جمع ہیں اس لئے میں اس کے بارے میں اعلان کرتا ہوں.مختلف علاقوں یا محلوں میں جہاں احمدی اکٹھے رہتے ہیں یا متفرق اور وہ مساجد تک نہ پہنچ سکتے ہوں اس لئے کہ مساجد ان کے مکانوں سے بہت دور ہوں اور اگر وہ پانچوں وقت نماز کے لئے مسجد میں آئیں تو ان کا سارا دن آنے جانے ہی میں صرف ہو جاتا ہو یا ان تک اذان کی آواز نہ پہنچ سکتی ہو.ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ خود ہی سوچ کر بتائیں کہ ان کے لئے ایسی قریب کی جگہ مقرر کردی جائے جہاں وہ پانچوں وقت جمع ہوا کریں.جگہ کا انتخاب میں انہی پر چھوڑتا ہوں.بہرحال ہو گا نماز با جماعت کا رنگ.ان کو ان مجوزہ علاقوں میں ضرور پانچوں وقت نماز کے لئے آنا پڑے گا اور وہاں جماعت سے نماز پڑھنی پڑھے گی.سوائے اس کے کہ عارضی طور پر کوئی بیمار ہو یا مستقل طور پر چل پھر نہ سکتا ہو یا کوئی سفر پر ہو.ایسے اشخاص کے علاوہ ہر ایک شخص کے لئے ضروری ہوگا کہ مسجد میں آکر نماز جماعت سے پڑھے.اور ہر ایک محلہ والے کا یا اس جگہ کے امام صلوۃ کا فرض ہوگا کہ ان کے متعلق تحقیقات کر کے اطلاع دے.بڑی مسجد یا چھوٹی مسجد یا مسجد نور ان تینوں مسجدوں میں نگرانی نہیں ہو سکتی کہ کس محلہ کے لوگ آئے ہیں کس کے نہیں آئے.کیونکہ آنے والے بکثرت ہوتے ہیں.پس ایک تو یہ اعلان ہے کہ جس علاقے کے لوگ کسی مسجد میں نہ آسکتے ہوں وہ ہمیں اطلاع دیں کہ ان کے لئے ایک مناسب موقع پر مسجد کی جگہ تجویز کرائی جائے مگر وہ جگہ کسی شخص کا گھر

Page 209

٢٠٣ نہیں ہو گا.تاکہ گھروں سے علیحدہ ہو کر سب کے لئے مساوی ہو.کوئی شخص یہ تجویز نہیں پیش کر سکتا کہ میں اپنا گھر پیش کرتا ہوں.اگر کوئی مسجد نہ ہو تو اس کا قائم مقام کوئی ایسی جگہ ہوگی جو سب کے لئے مساوی ہو.دوسری بات جس کا میں نماز کی پابندی کے لئے اعلان کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ میرے لئے بازاروں میں پھرنے کا کم موقع ہے.صرف ایک دفعہ باہر ورزش کے لئے نکلتا ہوں.بازاروں میں کیا ہوتا ہے؟ میں اسے نہیں دیکھتا.اس لئے جو لوگ بازار میں پھرتے ہیں یا جن کو بازار میں سے ہو کر مسجد میں آنا پڑتا ہے.وہ دیکھیں اور اطلاع دیں کہ نماز کے وقت کسی احمدی کی دوکان تو کھلی نہیں رہتی.جو شخص گھر سے ہی نماز کیلئے نہیں آتا اس کی نسبت وہ جو بازار میں جماعت کے وقت اپنی دکان پر بیٹھا رہتا ہے زیادہ قابل مواخذہ ہے وہ گویا اپنے فعل سے اعلان کرتا ہے کہ کون ہے تمہارا خدا جو مجھے نماز کے لئے بلاتا ہے.ایسے موزی کا سب سے پہلے علاج ہونا چاہیے.کیونکہ وہ گویا منارے پر چڑھ کر للکارتا ہے.سب سے پہلے اس سے باز پرس کی ضرورت ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بازاری آدمی کے لفظ کو بطور گالی کے بھی استعمال فرمایا ہے.اس کی یہی وجہ ہے کہ بازار میں رہنے والا انسان جو بدی بھی کرتا ہے وہ علی الاعلان کرتا ہے.جو لوگ نماز کے وقت میں دکان کھلی رکھیں ان کو پکڑا جائے.اگر نماز کے وقت میں کوئی دکان کھلی ہو تو اس کی اطلاع دی جائے.مذہب میں تو سیاست ہے نہیں.اس لئے ہم ان کو مذہبی اثر کے ماتحت مجبور کریں گے کہ وہ نماز پڑھیں اگر وہ نماز نہ پڑھیں تو ان کو اعلان کرنا ہو گا کہ وہ احمدی نہیں.جب تک وہ اپنے آپ کو احمدی کہیں گے ہم ان کو نماز با جماعت کے لئے مجبور کریں گے.ایسے لوگوں کے لئے دو ہی صورتیں ہیں اول تو یہ کہ وہ نماز با جماعت میں شامل ہوں یا وہ ہم سے جدا ہو جائیں.ان پر ہمارا کوئی تصرف اور قبضہ نہیں ہوگا.پھر خواہ وہ کچھ کریں ان کے فعل سے ہمیں کوئی واسطہ نہیں ہوگا.تیسری بات جو پابندی نماز کے لئے میں بتانا چاہتا ہوں.وہ یہ ہے کہ اگر کسی سے جماعت کی نماز رہ جائے تو وہ اس کو مسجد میں ہی پڑھے.یہ فعل آئندہ سستی سے روک دے گا.جب نماز باجماعت سے کسی غفلت سے رہ جائے گا اور پھر اس نماز کو مسجد میں پڑھے گا تو اس کا نفس آئندہ غفلت سے بچے گا.میرے نزدیک اس طرح نماز با جماعت کے ذریعہ ہمدردی بھی بڑھتی ہے.جب کوئی شخص مسجد میں نہیں آئے گا تو سوال ہو گا کہ فلاں بھائی کیوں نہیں آیا.تو پتہ لگے گا کہ وہ بیمار ہے اس کی عیادت ہو سکے گی اور علاج کیا جا سکے گا.یا وہ سفر پر ہو اور اس کے گھر والوں کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو ان کی امداد کی جا سکے گی.فی الحال میں نے مجملا " ہی بیان کر دیا ہے.تفصیل کسی اور موقع پر بیان کروں گا.اس وقت

Page 210

۲۰۴ اس قدر بات توجہ طلب ہے کہ جو لوگ مسجد میں نہ آسکیں وہ جگہ بتائیں جہاں وہ جمع ہو سکیں.ان کو وہاں آنا ہو گا.اور اس کے متعلق ہم تحقیقات کیا کریں گے کہ کوئی غافل تو نہیں ہو گیا.اس کے بعد میں ایک اور نصیحت کرتا ہوں.میں نے احباب کو جلسہ پر بھی توجہ دلائی تھی اور اب بھی توجہ دلاتا ہوں.وہ یہ ہے کہ مؤلفۃ القلوب کا زمانہ گزر گیا.اب کب تک یہ بات جاری رہے گی کہ کسی کو تنبیہہ اس کے ابتلاء کے خوف سے نہ کی جائے.اگر اب یہ ڈھیل جاری رہی تو اس کے باعث تمام جماعت کے اخلاق بگڑ جائیں گے.کل ہی دو واقعات ہوئے ہیں.جو جماعت پر بڑے بدنما دھبے کا رنگ رکھتے ہیں.ابھی جلسہ پر ایک واقعہ ہو چکا ہے.جو جماعت پر دھبہ ہے.جماعت کے آپس کے قیام کے لئے محبت اور پیار کی ضرورت ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام انسان کے معنی فرمایا کرتے تھے.جس میں دو محبتیں ہوں.خدا کی محبت بھی اور خدا کی مخلوق کی محبت بھی.کیونکہ عربی زبان الہامی زبان ہے.جو کہے کہ وہ خدا سے محبت کر سکتا ہے.بغیر انسان سے محبت کے وہ جھوٹا ہے.جو شخص بد اخلاقی سے پیش آتا ہے گالیاں دیتا ہے.اتمام لگاتا ہے یا لوگوں کو کسی اشارے یا کنائے سے دکھ دیتا ہے وہ خدا کو خوش نہیں کر سکتا.خدا کو خوش کرنے کا پہلا قدم بندوں کو آرام دینا اور ان کو دکھ نہ دینا ہے بعض کہتے ہیں کہ ان کو ولایت مل جائے.مگر اس کی پروا نہیں کہ بندوں کا مال کھائیں ان کو ماریں یا تکلیف دیں کسی سے ہمدردی نہ کریں ان کی خواہش پوری ہو.ایسے لوگ کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے.اللہ تعالٰی نے دو مطالبے رکھے ہیں کہ جو شخص خدا کو پانا چاہتا ہے اور اس سے تعلق مضبوط کرنا چاہتا ہے وہ پہلے مخلوق سے ہمدردی کرے.اور اس کو تکلیف نہ پہنچائے.پھر خداتعالی کے حقوق کی حفاظت کرے.خدا سے تعلق پیدا نہیں کیا جاسکتا.اگر اس کی مخلوق سے حسن سلوک نہ کیا جائے.جو شخص بد اخلاق ہے.وہ خدا کو خوش نہیں کر سکتا.بد اخلاقی کو دور کرنے کا طریق یہ ہے کہ جو لوگ بد اخلاقی کریں ان کے اس فعل کو محسوس کیا جائے اور نفرت کا اظہار ہو.بعض لوگ خدا کے خوف سے بدی نہیں چھوڑ سکتے.مگر بندوں کے خوف سے چھوڑ دیتے ہیں ان کو خیال ہوتا ہے کہ اگر ہم نے یہ بدی جاری رکھی تو لوگ ہمیں نفرت کی نگاہ سے دیکھیں گے.اس لئے وہ لوگوں سے محبت و پیار اور حسن سلوک سے کام لیتے ہیں پس بدی اور بداخلاقی چھوڑنے کا ایک طریق یہ ہے کہ ایسے شخص کے فعل سے نفرت کریں.انجیل کا حکم ہے کہ دشمن سے پیار کر.مگر اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ بدی کو روکو.ایڈا کو روکو.بد اخلاقی اور بدگوئی کو ناپسند کرو.کوئی گالی دے تو اس کو پکڑو.اگر یہ نہیں ہو گا تو بدی پھیل جائے گی.کل میں مضمون لکھ رہا تھا اور میری باری درمیانے گھر میں تھی.اس گھر کا ایک دروازہ بازار

Page 211

۲۰۵ کی طرف کھلتا ہے میں نے شور سنا اور کھولا.تو میں نے اپنے کانوں سے سنا کہ ایک شخص زور زور سے کہہ رہا تھا اس حرام زادے کو میرے سامنے لاؤ جو کہتا ہے کہ کتے کا جوٹھا کھانا جائز نہیں.حضرت عمر کے زمانہ میں کہا گیا تھا کہ کسی کو حرام زادہ کہنے والے کو حد لگائی جائے گی.وہ شخص بازار میں کہہ رہا تھا کسی کو احساس نہ تھا.لوگ سنتے تھے اور روکتے نہ تھے گویا یہ معمولی بات ہے.جو ہونی چاہیے یہ بے حسی خطرناک علامت ہے حضرت مسیح موعود ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک سودائی عورت تھی.جب وہ بازاروں میں چلتی تو بچے اس کو تنگ کرتے.اور وہ گالیاں دیتی.آخر بچوں کے والدین نے ان کو گھروں میں روک لیا.صبح کو جو وہ عورت نکلی اور اس کو بچے نہ ملے تو ہر ایک شخص کے گھر میں جا کر کہنے لگی کہ کیا تمہارے بچے پر بجلی گری تھی یا چھت گر گئی تھی کس طرح مر گیا.آخر والدین نے فیصلہ کیا کہ یہ تو گالیاں چھوڑتی نہیں ہم اپنے بچوں کو کیوں روکیں.تو بعض لوگوں کو گالیاں سننے کی عادت ہوتی ہے تم اگر حرام زادے کے لفظ کو برا نہیں سمجھو گے اور یہ عام طور پر استعمال ہوتا رہے گا تو فحش بڑھ جائے گا اور جماعت کا اخلاقی معیار گر جائے گا.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اشاعت فحش سے منع فرمایا ہے.اس میں کسی پر اتمام لگانا یا گالیاں دینا وغیرہ سب شامل ہے.اگر مجالس میں اس قسم کے لفظ استعمال ہوتے بچے سنیں گے تو ان کی زبان پر بھی ایسے ہی الفاظ جاری ہو جائیں گے.جس بات پر دوسرے کو حرام زادہ کہا جا رہا تھا وہ یہ تھی کہ اضطرار کی حالت میں کتے کا جوٹھا کھانا جائز ہے.اب اضطرار کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ ایک انسان بھوک سے مر رہا ہے.ایسی حالت میں تو سور جائز ہے تو کون عقل مند کتے کے جوٹھے سے منع کرے گا لیکن اگر نفسانی اضطرار مراد ہے مثلاً عمدہ کھانا تیار تھا.کتے نے جو ٹھا کر دیا اور جی للچا رہا ہے کہ اس کو کیسے چھوڑیں تو اس کو کوئی مومن بھی کھانا پسند نہیں کرے گا.اس صورت میں گویا سب کے سب مومن نعوذ باللہ حرام زادے ٹھرے.اس کے مقابلہ میں دوسرا بھی شور مچا رہا تھا نہیں معلوم وہ کون تھا.ممکن ہے وہ بھی گالیاں دے رہا ہو.بہرحال یہ مومنانہ شان نہیں کہ فتووں پر لڑائی اور جھگڑا ہو.حضرت عبداللہ بن مسعود اور عبد اللہ بن عباس وغیرہ صحابہ میں اختلاف تھا.مگر کبھی بازاروں میں کھڑے ہو کر گالی گلوچ نہیں کرتے تھے.مگر میں کہتا ہوں کہ کب اس شخص نے قرآن کریم کو پڑھا.کب وہ مفتی بنایا گیا.افتاء امیر کر سکتا ہے یا مامور خلیفہ کر سکتا ہے یا جس کو وہ مقرر کرے.صحابہ میں فتویٰ دینے والے مقرر تھے.بعض لوگ حدیث تک بیان کرنے میں احتیاط کرتے تھے.حالانکہ حدیث اور افتاء میں فرق ہے.قرآن کریم کی ایک آیت کا ترجمہ بتانا اور ہے.مگر مختلف آیات کو ملا کر استنباط کرنا اور بات ہے ایک حدیث میں ہے الماء بالماء کہ جب عورت سے جماع میں انزال ہو تو غسل واجب ہوتا

Page 212

ہے.مگر دوسری حدیث میں آتا ہے.کہ جب مرد و عورت جمع ہوں.خواہ انزال نہ ہو.تو بھی غسل واجب ہو جاتا ہے راوی دونوں حدیثیں بیان کر دے گا مگر مفتی دونوں کو سامنے رکھ کر فتوی دے گا.اسی طرح میں نے سنا ہے کہ ایک شخص نے کہا کہ تم مجھے کافر مرتد کچھ قرار دو مگر میں یہ کام کروں گا.سننے والے کے دل پر اس کے دو ہی اثر ہونگے یا تو وہ سمجھے گا کہ ان کے ہاں کفر و ارتداد اتنا سستا ہے کہ معمولی باتوں پر ایسے لفظ بول دیتے ہیں دوسرے یہ کہ یہ شخص اپنی بات یا خواہش پوری کرنے کے لئے کفر و ارتداد سے بھی خوف زدہ نہیں ہوتا ایسے لوگ گویا اپنا کام کرنے کے خواہش مند ہیں کفر و ایمان سے تعلق نہیں رکھتے.یہ بداخلاقی کی باتیں ہیں ان سے روکنا ضروری امر ہے.تاکہ اس کا اثر عام نہ ہونے پائے.اس پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حضرت صاحب کے وقت میں بھی ایسے واقعات ہو جاتے تھے.یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی ایسے واقعات ہو جاتے تھے.اور وہ لوگ بھی صحابہ یعنی ساتھ رہنے والے کہلاتے تھے اور ہم ان کی تقسیم ایمان کے لحاظ سے کرتے ہیں یا بعض لوگ اسلام میں جمہوریت ثابت کرنے کے لئے کہا کرتے ہیں کہ حضرت عمر پر ایک شخص نے اعتراض کیا تھا کہ تم نے ایک چادر سے کرتا کیسے بنایا.یہ تو دو چادر کا ہے.حالانکہ تمہارے حصہ میں ایک آئی تھی مگر ان کو معلوم نہیں کہ معترض ایک عام بدوی آدمی تھا.کیا یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ حضرت عمر پر اعتراض کرنے والے عثمان، علی، طلحہ و زبیر وغیرہ لوگ تھے یا کہدیا جاتا ہے کہ آنحضرت پر اعتراض کیا گیا تھا کہ تقسیم ٹھیک نہیں.یہ ناواقف لوگوں کی باتیں ہیں جو حجت نہیں ہو سکتیں.یہ کوئی نیکی کی بات نہیں کہ تم کہو کہ چونکہ حضرت صاحب کے وقت میں یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ہوتی تھیں.پس یہ بداخلاقی کی باتیں ہیں ان کو چھوڑو.اور اخلاق پر قابو پاؤ.مومن کی زبان چھری کی طرح نہیں ہوتی.تمہارے اندر نرمی ہونی چاہئیے اور جماعت میں اس بد اخلاقی کو پیدا ہونے سے روکا جائے.ایک شخص نے ایک شخص کو مارا.اس کی معمولی کھیل ہو گئی.یہ خطرناک باتیں ہیں جن سے ایمان سلب ہو جاتا ہے.تم معالمہ میں چھوٹوں پر ظلم نہ کرو.نہ غریبوں کو دکھ دو.انسانوں سے معاملہ میں مومن کافر کا سوال نہیں اگر کوئی شخص دہریہ کو ضرر پہنچاتا ہے تو وہ خدا کے نزدیک مسلمان کو ضرر پہنچانے سے زیادہ برا کام کرتا ہے.میرے نزدیک جو شخص ہندو یا غیر احمدی یا عیسائی یا دہریہ کو دکھ دیتا ہے وہ مسلمان کو دکھ دینے کی نسبت دگنا گناہ کرتا ہے.یہ ایسی ہی بات ہے.جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ماں باپ کو گالیاں دینا بڑا گناہ ہے سوال ہوا کہ ایسا کون ہے.جو ماں باپ کو گالی دے فرمایا کہ جو دوسرے کی ماں کو گالی دیتا ہے اور وہ بدلے میں اس کی ماں کو گالی دیتا ہے تو یہ گویا خود اپنی ماں کو گالی دیتا ہے.کیونکہ اگر دہریہ کو دکھ دے گا تو وہ خدا کو گالیاں دے گا کہ یہ اس کا مومن ہے.ہندو یا

Page 213

F.Z عیسائی کو دکھ دے گا تو وہ آنحضرت کو گالیاں دیں گے کہ یہ محمدؐ کے پیرو ہیں.اور اگر غیر احمدی کو دکھ دے گا تو وہ کہے گا کہ یہ مرزا صاحب کی تعلیم پر عمل کرتے ہیں.اگر احمدی کو یا مسلمان کو دکھ دے گا تو وہ اسی کو برا کہے گا مگر غیر احمدی یا عیسائی یا دہریہ اسی کو برا نہیں کہے گا بلکہ مسیح موعود کو آنحضرت کو اور خدا کو بھی گالیاں دے گا.اس لئے ایسی باتوں سے بازاروں میں اور دوسری جگہ احتیاط رکھو.اگر بازاروں اور گلیوں میں گالیوں اور بد اخلاقیوں سے بچو گے تو جماعت میں یہ باتیں نہ پیدا ہونگی.فرمایا آج میں تحفہ شہزادہ ویلز کتاب لکھ چکا ہوں باہر کے احباب کو شکایت ہوتی ہے کہ ان کو پتہ نہیں لگا.اس لئے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ انشاء اللہ کل صبح کی نماز کے بعد سنائیں گے.(الفضل ۱۲, فروری ۱۹۲۲ء)

Page 214

۲۰۸ 39 ہمیں دنیا کی تربیت کے لئے تیار ہونا چاہئیے (فرموده ۲۷ جنوری ۱۹۲۲ء) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے.کہ زمین میں عظیم الشان تغیر پیدا ہونے والا ہے.یعنی انبیاء نے یوں آئندہ زمانہ کے متعلق خبریں دی ہیں.اور مسیح موعود جو آدم ثانی ہے اپنی ذات سے ادھر اشارہ کر رہا ہے کہ اس زمانہ میں عظیم الشان تغیرات ہوں گے.مگر ان پیشگوئیوں کے علاوہ زمینی تغیرات بتاتے ہیں کہ یہ تغیر ہونے والا ہے.کیونکہ جب تک ایک بات پیشگوئی کی حد تک رہے تو وہ بات تعبیر طلب ہوتی ہے.اور خیال ہوتا ہے ممکن ہے یوں ہو یا یوں.مگر جب واقعات ظہور پذیر ہوتے ہیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس پیشگوئی کا یہ نتیجہ ہے.تو اس وقت دنیا میں عظیم تغیرات ہو رہے ہیں.جن میں سے کچھ تو انسانی ہاتھوں سے اور کچھ آسمانی تدابیر ہے.خدا تعالی کی طرف سے کچھ ایسی حرکت دی گئی ہے کہ دنیا اپنے رستہ سے سے ہٹ گئی ہے.یہی نہیں کہ مصائب ہیں.ایک قسم کی بیماریاں ہیں.لڑائیاں ہیں.بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ نئی نئی قسم کی بیماریاں ہیں جو پیدا ہو رہی ہیں.جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنی تمام علمی ترقی کے باوجود خدا کی گرفت سے باہر نہیں.انسان نے سمجھا تھا کہ ہم خدا کی گرفت سے نکل گئے.ڈاکٹر ہنسا کرتے تھے کہ ہم نے سب بیماریوں کا علاج نکال لیا ہے.مگر اب جو بیماریاں آتی ہیں وہ ان کے قابو میں نہیں ہیں.اور ان کا علاج ان کو معلوم نہیں.یہی انفلوئنزا پہلے بھی ہو چکا ہے.اور اس کی کئی روئیں چل چکی ہیں.لیکن اس کی اب جو شکلیں نکلی ہیں.وہ بالکل نئی ہیں مثلاً اب جو مرض یورپ میں پھیلا ہے.اس سے دماغ میں خلل آتا ہے اور انسان سوتے ہی سوتے مرجاتا ہے.تمام مرض کی کیفیات بے ہوشی میں ہوتی ہیں.اس کی نسبت ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس کا علاج معلوم نہیں.معلوم ہوا کہ جس طرح انسان ایجاد کرتا ہے.قانون قدرت بھی ایجاد کرتا ہے.اگر ایک

Page 215

طرف ہی ایجاد ہو تو کام ختم ہو جاتا ہے.مگر جب مقابلہ میں بھی ایجاد کا کام جاری ہو تو کام ختم نہیں ہو سکتا.مثلاً ایک شخص گالی دے اگر وہ خاموش ہو رہے تو بات ختم ہو گئی.مگر جب دوسری طرف سے اس کا جواب دیا جائے.تو معاملہ بڑھ جاتا ہے.پس اسی طرح جب تک انسانی تدابیر کے آگے نئی تدابیر کام کرتی نظر نہ آتی تھیں.اس وقت خیال ہو سکتا تھا کہ شاید انسان غالب آجائے.مگر جب معلوم ہوا کہ انسانی ایجادات کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی ایجادات کا سلسلہ جاری ہے تو یہ وہم بھی نہیں ہو سکتا کہ انسان قدرت پر غالب آجائے گا.جہاں انسان کی ایجادات جاری ہیں اس کے مقابلہ میں قدرت کی طرف سے ہلاکت آفریں امراض پیدا ہوتے رہتے ہیں.پہلے زمانہ کی یہ حالت تھی کہ جب کوئی دوائی ایجاد ہوتی تھی.تو دوسرے ملک میں سالہا سال میں پہنچتی تھی.کیونکہ علم کے پھیلانے کے سامان نہ تھے اس لئے بہت سے علوم مرجاتے تھے یا آہستہ آہستہ پھیلتے تھے.ایک بات دریافت ہو کر صدیوں میں دوسرے علاقہ میں پہنچتی تھی اور اتنے میں پہلا علاقہ علم میں اور ترقی کر جاتا تھا.اور پہلا علم غلط قرار پاتا تھا.مگر اب علم کے پھیلانے کے سامان بھی عجیب عجیب نکل آئے ہیں.ریل ہے.ڈاک ہے.دخانی جہاز ہیں.تار ہے.پھر بے تار کا آلہ خبر رسانی ہے اور ان ذرائع سے کوئی کسی علم کی بات ہو.سارے جہان میں پھیل سکتی ہے.مگر اس کے ساتھ ہی بیماریاں اور تباہیاں بھی اس سرعت سے اپنا کام کرنے لگی ہیں پہلے بیماریاں بھی کسی ایک علاقہ میں پیدا ہو کر مر جاتی تھیں.یا قریب قریب کے علاقہ میں پھیل جاتی تھیں.مگراب یہ حال ہے کہ ڈاک کے ذریعہ جہاں اخبار یا کتابیں دوسرے علاقہ میں جاتی ہیں.بیماری کے جرمز بھی پہنچ جاتے ہیں.اور آنا " فانا " بیماری پھیل جاتی ہے.مثلاً ہیضہ ڈیڑھ صد سال سے یورپ میں پھیلا ہے.پہلے نہ تھا.اسی طرح آتشک وغیرہ بیماریاں ٹھنڈے ملکوں یعنی یورپ میں تھیں جب آپس میں ملاپ بڑھا تو اب یہاں بھی پھیل گئیں اس قاعدہ سے معلوم ہوا کہ دنیاوی علوم کی ترقی کے ساتھ ہلاکت بھی پھیلتی ہے.یہ تو قانون میں تغیر ہے.انسانی خیالات میں بھی تغیر آیا ہے.آج سے پہلے جو تغیر شدہ باتیں تھیں ان کو اب بیوقوفی کی باتیں سمجھا جاتا ہے.مثلاً اب کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی زبر دستی کسی ملک کو فتح کرے تو مفتوحہ علاقہ اس کا حق نہیں.پہلے یہ خیال تھا کہ اگر مفتوحہ علاقہ فاتح کا حق نہیں تو اور کس کا ہے.لیکن اب کہا جاتا ہے کہ ہر ایک ملک والوں کا حق ہے کہ وہ اس میں حکومت کریں.یا تو قبضہ کرنا جائز سمجھا جاتا تھا یا اب اس کو ناجائز کہا جاتا ہے اور اس کو جہالت کی بات کہا جاتا ہے.اسی طرح اور بہت سی باتیں جن کے متعلق خیالات میں تغیر آگیا ہے.خیالات کے تغیر سے حکومتوں کا طرز بدل گیا ہے.لوگوں کی عام حالت میں فرق آگیا ہے.پہلے کون کہہ سکتا تھا کہ ماں باپ پر اولاد کا کوئی حق نہیں.مگر اب کم از کم ایک علاقہ میں ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں.

Page 216

۲۱۰ جو کہتے ہیں کہ اولاد کو ہم کیوں پرورش کریں.وہ حکومت کے کام آتے ہیں.حکومت ان کی پرورش کرے لیکن ابھی جہاں یہ خیال نہیں پھیلا وہاں اگر ایسے کہا جائے.تو اسے جاہلانہ بات سمجھیں گے.انسانی خیالات کے تغیرات نے دنیا کا نقشہ بدل دیا ہے.تمام تغیرات اس بات کی علامت ہیں کہ کوئی بہت بڑا تغیر ہونے والا ہے.اور کوئی عظیم الشان بارش ہوئی ہے جس کی وجہ سے تمام طاقتیں ابھر آتی ہیں.قاعدہ ہے کہ جب بارش ہوتی ہے تو ہر قسم کی بوٹیاں پیدا ہو جاتی ہیں.قسم قسم کے درخت نکل آتے ہیں اور ہم سمجھ لیتے ہیں کہ یہ بارش کا اثر ہے.اسی طرح زمانہ کے تغیرات جو ہو رہے ہیں یہ اس کی علامت ہیں کہ کوئی بڑی بارش خدا کی طرف سے ہوئی ہے.ایسے وقت میں ہوشیار آدمی کا کام ہے.وہ سوچتا ہے کہ میں اس بارش سے فائدہ اٹھا سکتا ہوں یا نہیں یہ میرے لئے مفید ہے یا نہیں؟ اگر وہ مفید سمجھتا ہے تو پانی کو کھیت میں جمع کر لیتا ہے اگر مضر تو منڈیر توڑ کر نکال دیتا ہے.ہم کیوں کر اس آسمانی بارش کے وقت اس تغیرات کے زمانہ میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں.چونکہ ہم نے خدا کے مامور کو مانا ہے اس لئے یہ تو ہم جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہمارے لئے ہے.کیونکہ یہ سب کچھ خدا نے مسیح اور اس کے سلسلہ کی ترقی کے لئے کیا ہے.یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا پہلے اپنے مامور کو بھیجے اور اس کے ذریعہ ایک سلسلہ قائم کرے اور پھر اس کو خود ہی تباہ کر دے اور مٹا دے خواہ دنیا سوشلزم کی طرف چلی جائے کہ بچے سرکار پالا کرے.خواہ تمام دنیا میں ایک حکومت ہو جائے خواہ حکومتوں کو تو ڑ کر ہر ایک شخص کو بالکل آزاد کر دیا جائے.یہ سب درمیانی تغیرات ہیں اور مسیح موعود کی جماعت کے لئے مفید ہیں.یہ ممکن نہیں کہ یہ تغیرات مسیح موعود کی جماعت کی ہلاکت کے واسطے ہوں.یہ نہیں ہو سکتا کہ مسیح موعود خدا کی طرف سے ہو اور اس کا سلسلہ مٹا دیا جائے.کیونکہ جب کوئی شخص کسی کو اپنے باغ سے پھل لانے کے لئے بھیجے تو کبھی اس کے پھاڑ ڈالنے کے لئے کتے نہیں بھیجا کرتا.اگر یہ بات ہے تو یہ تمام تغیرات سلسلہ احمدیہ کے لئے مضر نہیں خواہ بظاہر مضر ہی نظر آئیں.انجام اچھا ہے.اس کی ایسی مثال ہے کہ ماں باپ بچے کو آگ میں نہیں ڈالتے مگر کبھی کبھی سبق دینے کے لئے اس کی انگلی آگ کو لگا دیتے ہیں کہ اس سے آئندہ بچا رہے.اسی طرح جو تغیرات اسلام اور سلسلہ کے لئے مضر نظر آتے ہیں.یہ اس لئے ہیں کہ دنیا کو تمام طرفوں سے تھکا کر خدا تعالی اسلام کی طرف لائے اور دنیا دیکھ لے کہ اس نے جو رستے اپنی نجات کے بتائے تھے وہ دراصل ہلاکت کی طرف جاتے تھے.اگر ان تغیرات کے بغیر اسلام کو مانتے تو ممکن ہے ان کے دل میں شک رہتا.کہ شاید نجات اور بھلائی کی راہ اور ہو مگر اب تجربہ سے معلوم کریں گے کہ نجات کی راہ اس کے سوا اور نہیں.پس دنیا آئے گی اور یقیناً سب طرف سے تھک کر

Page 217

۲۱۱ ادھر آئے گی.مگر اب سوال یہ ہے کہ کروڑوں لوگ جو ادھر متوجہ ہو رہے ہیں اور وہ ادھر آئیں گے.کیونکہ عذابوں کے سلسلہ سے اپنی تمام ترقیات کے باوجود ہلاکت کو اپنے سامنے دیکھیں گے.اور ادھر آئیں گے.کیا ہمارے پاس ان کروڑوں کے لئے سامان تیار ہے؟ ہم نے ان کے ٹھرنے کی جگہ تیار کی ہے ؟ ہم نے ان کی تعلیم کا بندوبست کر لیا ہے؟ ہماری تمام کوششوں کا نتیجہ چند آدمی ہیں جو تعلیم دے سکیں.....اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ لوگوں نے یہ بوجھ چند لوگوں کے لئے سمجھ رکھا ہے.صحابہ میں سے ہر ایک شخص معلم تھا.اسی طرح ضرورت ہے ہر ایک احمدی معلم ہو.دیکھو صحابہ گھاس کاٹتے تھے.لکڑیاں چیرتے تھے.باوجود اس کے وہ دین کے عالم تھے.اسی طرح کو خاص خاص فنون میں چند عالم ہوں.مگر دینی احکام اور اصول اور دلائل ہر ایک احمدی جانتا ہو.جب کوئی سیکھنے والا آئے تو جو احمدی سامنے ہو کہہ دیا جائے کہ اس سے سیکھ لو.ان تغیرات کی طرف توجہ کرو.یہ مت خیال کرو.کہ ابھی دنیا ادھر نہیں آئے گی.اگر عقلوں پر فیصلہ ہو تو دنیا ہزاروں سالوں میں بھی ادھر نہ آئے گی.مگر جب خدا تغیرات کر رہا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ کس سرعت سے یہ کام ہو رہا ہے.اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ شاید کل ہی ہو جائے.اس لئے آپ کو چاہیے کہ ہر ایک احمدی دین کی واقفیت رکھتا ہو.کم از کم دین کی صداقت کے دلائل اور فرائض سے آگاہ ہو.صرف (۱) اخلاص اور (۲) توجہ (۳) اور تھوڑی سی کوشش کی ضرورت ہے.دیکھو ہمارے حافظ روشن علی صاحب نے تمام علوم سن سن کر پڑھے ہیں کیونکہ ان کی آنکھیں کمزور ہیں.اسی طرح حافظ ابراہیم صاحب ان کو حضرت صاحب کی کتابیں یاد ہیں انہوں نے الف بے نہیں پڑھی.مگر انہوں نے سن سن کر دین پڑھا.اور یاد کیا ہے.اس لئے پڑھنے ہی کی ضرورت نہیں.صرف توجہ کوشش اور اخلاص سے یہ باتیں حاصل ہو سکتی ہیں.لیکن افسوس ہے کہ بہت سے اتنی واقفیت بھی نہیں رکھتے.دیکھو تغیرات کا کوئی وقت مقرر نہیں.میں کل ایک خوش خبری سنا چکا ہوں.وہی افغانستان جہاں سید عبد اللطیف صاحب شہید ہوئے تھے.وہاں اب امیر نے کہا ہے کہ کسی احمدی کو مذہب کی خاطر قید نہیں کرنا چاہیے.بلخ میں تین احمدی قید تھے گورنر سے پوچھا گیا.اس نے کہا کہ یہ احمدی ہیں.حکم کیا کہ فوراً چھوڑ دو کسی احمدی کو مذہبی معاملہ میں قید نہیں کیا جا سکتا.دیکھو ہم نہیں جانتے کہ وہاں کے لئے ہمیں کیا طریق عمل اختیار کرنا پڑتا.شاید کابل کے لئے کسی وقت جہاد ہی کرنا پڑ جاتا.مگر اب دیکھو کتنا تغیر آگیا.وہاں

Page 218

۲۱۲ کے بادشاہ نے کہہ دیا کہ قیدی احمدیوں کو چھوڑ دو.پس نہیں معلوم ہمیں کب خدا کی طرف سے دنیا کا چارج سپرد کر دیا جاتا ہے.ہمیں اپنی طرف سے تیار رہنا چاہیے کہ دنیا کو سنبھال سکیں.تم نے دنیا کو ادھر نہیں لانا بلکہ لانے والا خدا ہے.اس لئے تمہیں آنے والوں کے معلم بننے کے لئے ابھی والفضل ۲۷ فروری ۶۱۹۳۲ سے کوشش کرنی چاہئیے.

Page 219

۲۱۳ 40 یہ مساوات کا زمانہ ہے (فرموده ۰ار فروری ۱۹۲۲ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.کو پیچھے جو مجھے چوٹ لگی تھی اس کی وجہ سے میں ایک حالت میں کھڑا نہیں ہو سکتا.کیونکہ کھڑے ہونے سے سر پر اثر ہوتا ہے.اور اس کی وجہ سے حلق میں تکلیف ہوتی ہے.مگر باوجود اس تکلیف کے ایک اہم مضمون ہے.جس کی طرف جماعت کے احباب کو توجہ دلاتا ہوں.جب کبھی لوگوں کو اس امر ظاہر سے غافل دیکھتا ہوں.تو حیران ہوتا ہوں.وہ امر اسلام کی فضیلت کا کھلا نشان ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کا باعث ہے بہت سے لوگ اصولی طور پر اس کو بیان کرتے ہیں.مگر چسپاں کرنے میں غلطیاں کرتے ہیں.وہ کیا فضیلت ہے؟ قرآن کریم میں اس کو بیان کیا گیا ہے.فرمایا الحمد لله رب العالمین سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں.جو کہ رب العالمین ہے تمام جہانوں کی ربوبیت وہی کرتا ہے وہ ہندوستانیوں ایرانیوں، افغانیوں جاپانیوں انگریزوں ، افریقنوں، امریکیوں سب کا رب ہے.کالے رنگ والوں کا بھی ، چھوٹوں کا بھی بڑوں کا بھی.غرض کوئی قوم نہیں جس کا وہ رب نہیں.اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ جانوروں کا رب نہیں جانوروں کا بھی رب ہے.مگر چونکہ جانوروں کے رب ہونے پر بحث نہیں.سب مانتے ہیں.کہ وہ جانوروں کا رب ہے.یہ بحث نادانی سے انسانوں ہی میں پیدا ہوئی ہے.یہودی کہے گا کہ ہند کے بکرے کا بھی خدا ایسا ہی رب ہے.جیسا کہ شام کے بکرے کا.مگر ہندوستانی کے لئے وہ یہ نہیں مانے گا.ایک گھوڑے ایک گائے کے متعلق تو خدا کی ربوبیت کا قائل ہے مگر انسان کے متعلق نہیں.کیونکہ وہ کہتا ہے کہ نجات کا دروازہ تو صرف میرے ہی لئے کھلا ہے.کہاں تو وہ سور کے متعلق بھی کہتا ہے کہ اللہ اس کا رب ہے اور کہاں آدمی کے رب ہونے سے بھی منکر ہے.تو جانور کے متعلق اختلاف نہیں.اگر اختلاف ہے تو وہ بہت مخفی ہے.پس اللہ تعالی تمام انسانوں کا رب ہے.پھر بھی اس کی ربوبیت تمام جہان کے لئے رسول کریم

Page 220

۲۱۴ سے پہلے ظاہر نہیں ہوئی تھی.موسیٰ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ہندوستان کے لئے ظاہر نہیں ہوئی.بلکہ ہند کے لئے رام اور کرشن ذریعہ تھے.عرب اور شام و ایران کے لئے بھی موسیٰ کے ذریعہ سے ظاہر نہیں ہوئی.جس طرح خدا کا ایک سورج تمام دنیا کو روشنی پہنچاتا ہے حضرت موسیٰ کے وقت میں یہ بات نہ تھی بلکہ اس وقت چراغ کی حیثیت تھی.کیونکہ اس وقت اتحاد کی رسی نے دنیا کو اکٹھا نہیں کیا تھا.حتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات ظاہر ہوئی.اور آپ کے وجود سے باقی تمام دروازے بند کئے گئے.اور صرف محمدی دروازہ کھلا رکھا گیا.گویا سورج نکل آیا.تمام دئے بجھا دئے گئے.وہی لیمپ جو رات کے وقت جلتا ہے جب سورج نکلتا ہے تو اس نے دوسری چیزوں کو تو کیا روشنی دینی تھی خود اس کا وجود بھی نظر نہیں آتا.تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد تمام دئے ماند ہو گئے.کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام جہان کے لئے رب العالمین کے مظہر تھے.یہ بات نئی نہیں لطیفہ کے طور پر نہیں.حضرت مسیح موعود نے اس پر بہت زور دیا ہے گو وضاحت سے لوگوں کو معلوم نہ ہو.مگر عموما " جاٹ سے جاٹ بھی اس کو جانتا ہے.اور معرفت کے ساتھ یہ بات احمدیوں کے سوا کسی کو معلوم نہیں.احمدی ہی جانتے ہیں.کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے لئے ہیں.لیکن یوں تو جانتے ہیں.مگر بعض معالمہ کرنے میں بھول جاتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ یہ ہندوستانی ہے.یہ بنگالی ہے.یہ ہماری ہے.یہ دکھتی ہے.یہ عربی ہے.یہ شامی ہے.گویا قومیت کی یہ حس باقی ہے.اگر خدا واقعہ میں رب العالمین ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے آئے تھے.تو پھر قوموں کی تقسیم بے سود ہے ہم بنگالی وغیرہ کہیں گے.مگر یہ لفظ سوائے شناخت کے کچھ اثر نہیں کرے گا.اس لفظ کی وجہ سے حقوق میں فرق نہیں آئے گا اگر ایشیائی ، یورپی، امریکی کا سوال ابھی تک باقی ہے تو نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت عبث ہے.اور موسیٰ، عیسی، زرتشت کی حکومت باقی ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی یہ امت نہیں یا امت تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے مگر باتیں موسیٰ اور عیسیٰ کے عہد کی کرتے ہیں.منسوب عرب کے نبی کی طرف ہوتے ہیں جس نے دنیا کو ایک کیا اور باتیں وہ کرتے ہیں جو زرتشت کے وقت کی ہیں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تو تفریق قومی کو مٹا دیا گیا ہے.اور قومی تفریق کرنے والے اس پر قائم ہی.اسلام کا منشاء یہ ہے کہ سب انسان ایک رشتہ میں منسلک ہو جائیں.دل میں یہ خیال نہ آئے بنگالی اور ہیں افغانی اور افریقی اور ہیں اور امریکی اور ہندی اور ہیں.پنجابی اور جب تک اس بات کو نہیں سمجھتے اس وقت تک گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کو عبث ٹھراتے ہیں.آپ کی بعثت کا تو یہ منشاء ہے کہ ان تقسیموں کو مٹا دیا جائے.اور انسان کو سب

Page 221

۲۱۵ سے بڑا سمجھا جائے.تمام سیاسی جھگڑے اور اختلاف اس اختلاف قومی کے باعث ہوتے ہیں.ہماری جماعت کو چاہیے کہ اس امر کو سمجھے.اس تفریق کے جھگڑے کو مٹائے.جب تک یہ نہ ہو.ہمارا تبلیغ کرنا بے سود ہے.اپنے دلوں سے اقوام کی تفریق کا جھگڑا نکال دو.اور پنجابی افغانی ایرانی کے سوال کو چھوڑ دو.اور یہ سمجھ لو کہ جو انسان ہے وہ ہمارا بھائی ہے.میرا منشاء یہ ہے کہ باپ بیٹے یا بھائی اور رشتہ داروں کے جو حقوق ہیں وہ تو رہیں گے.اور زبان کی وجہ سے جو اختلاف یا انس ہے وہ بھی رہے گا.ریل میں مختلف زبانیں بولنے والے بیٹھے ہوں.ہم بالطبع اس شخص سے باتیں کریں گے.جو ہماری سمجھتا ہے.یہ تو اور بات ہے.لیکن جہاں حقوق کا سوال آجائے وہاں قومیت کا کوئی سوال نہ ہو بلکہ انسانیت کا سوال ہو.....یہ روح پیدا کرو.غیروں کی طرح زبان تک محدود نہ رکھو.بلکہ عمل سے ثابت کرو.اور یہ سمجھو کہ مختلف اقوام محض شناخت کے لئے ہیں.اور حقوق کے لحاظ سے کوئی کسی سے کم نہیں.الفضل ۲ فروری ۱۹۲۲ء)

Page 222

۲۱۶ 41 خدا پر ایمان اور مخلوق کی گواہی فرموده ۷ار فروری ۱۹۲۲ء) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.دنیا میں مختلف مذاہب کی اشاعت اور ان کا آپس میں امتیاز دو باتوں پر منحصر ہے.ایک اندرونی حالت اور ایک بیرونی حالت.اندرونی حالت وہ حالت ہے جو خدا سے ان کا تعلق ہے.اور بیرونی حالت وہ ہے جو کوئی قوم یا مذہب والے اخلاق دنیا میں ظاہر کرتے ہیں.کس کا خدا سے کیا تعلق ہے اس کو دوسرا نہیں جان سکتا.دوسرے انسان جو کسی کی حالت کو دیکھتے ہیں وہ اس کے اخلاق.اس کے دوسروں سے سلوک اور معاملہ سے دیکھتے ہیں.یہ بات ان کی عقل سے بالا ہے کہ کسی کا خدا سے کیا تعلق ہے.جب تک کہ خدا ہی اپنے تعلق کا اظہار نہ کرے.اور خدا کی طرف سے تعلق کا اظہار بہت اعلیٰ درجہ پر ہوتا ہے.پس بندے کا جو خدا سے تعلق ہے.وہ ظاہر نہیں.کیونکہ یہ ایک قلبی حالت ہے.ایک شخص جو خدا سے محبت کرتا ہے مگر خاموش ہے.اور ایک دوسرا جو رسا " خدا کی محبت کا اظہار کرتا ہے اور اس کی تعریف کرتا ہے.لوگوں کی نظر میں زیادہ مقبول نظر آئے گا.اس لئے وہ مقام بہت بلند ہے جب خدا کی محبت جلوہ گر ہوتی ہے اور بتا دیتی ہے کہ خدا اس سے محبت کرتا ہے.اس وقت یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ جس کا دوست ہوتا ہے.خدا اس کا دوست ہوتا ہے اور جو اس کا دشمن ہوتا ہے.خدا اس کا دشمن ہو جاتا ہے اس کے دشمن کو ہلاک اور دوست کو اپنے فضل سے نوازتا ہے.اس کی مشکلات کو دور کرتا ہے.اور اس کی تائید کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے.غرض کئی رنگ میں خدا تعالیٰ اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے.مگر جب تک خدا اظہار نہ کرے.بندوں کے لئے سمجھنا مشکل ہے زیادہ محبت کرنے والا خاموش ہو تو اس کی خاموشی سے دھو کہ کھا کر کم محبت کرنے والے اور زیادہ بولنے والے مگر محبت سے خالی کو خدا کا محبوب سمجھ لیتے ہیں.لیکن جو حالت ظاہر ہوتی ہے.وہ مذہب اور اہل مذہب کی اخلاقی حالت ہوتی ہے.خدا کی محبت کا ثبوت دیر میں ملتا ہے.مگر اخلاق کی تبدیلی کا علم ایک دن میں ہو جاتا ہے.وہ ایک دن میں

Page 223

انسان کو دنیا میں ظاہر کر دیتی ہے.اندرونی حالت کے اظہار و شہادت کے لئے لمبا عرصہ اور بڑی مدت درکار ہے.ایک عام آدمی مدت تک اپنے عقائد کی نگرانی کرے گا.اور الہی ارشادات کی تعمیل کرے گا.تب اس کا اظہار ہوگا.گو ایک اعلیٰ درجہ والا جلد اس شہادت کو حاصل کر سکے گا.مگر بہت جلد جو تبدیلی ہوتی ہے.وہ اخلاق کی تبدیلی ہے.اس کی بھی دو صورتیں ہیں.ایک ہم مذہب کے لئے دوسری ساری دنیا کے لئے مثلاً اسلام سچا ہے.اس کے ذریعہ خدا سے تعلق ہوتا ہے.ایک شخص اگر اسلام قبول کرتا ہے.اور احمدی جماعت میں داخل ہوتا ہے تو وہ نماز پڑھتا ہے.روزے رکھتا ہے.پہلے اگر نماز کے وقت سیر کو جاتا تھا.تو اب مسجد میں آتا ہے.یہ فوری تبدیلی ہے.پہلے نماز کا خیال نہ تھا.اب نماز کا پوچھتا ہے کہ ہو تو نہیں چکی.وضو کرتا ہے.یہ شہادت ہے مگر ماننے والوں یا ہم مذہبوں کے لئے یہ تغیر فورا ہوتا ہے.مگر اندرونی تغیر کب ہو گا.اس کو خدا جانتا ہے.ظاہر میں اس کے جو ایک نمایاں تغیر نظر آتا ہے.یہ مسلمان کے لئے ہے.ہندو اس کو رسم کی پابندی کے گا.دوسرا جو غیر مذہب والوں کے لئے ہے.اور اس کی بناء پر ایک حد تک اس کے قلب پر بھی گواہی دی جا سکتی ہے یہ ہے کہ اخلاق میں تغیر ہو.اگر پہلے جھوٹ بولتا تھا.اب جھوٹ سے پر ہیز کرے.اگر پہلے غریبوں کا حق مارتا تھا تو اب ان کے حقوق ادا کرے.اگر پہلے بد معالمہ تھا تو معاملہ درست کرے.اگر پہلے بھاؤ میں کمی کرتا تھا تو اب اس کو چھوڑ دے.اس تغیر سے ایک ہندو بھی معلوم کر لے گا کہ ہاں اس میں کوئی تغیر ہے.ان میں کسی بڑی محنت کی ضرورت نہیں.ان میں جو باریکیاں ہیں.وہ مشق کے بعد آتی ہیں.مگر جو بڑی بڑی باتیں ہیں.ان میں یکدم اصلاح ہو جاتی ہے.یعنی وہ کبھی دانستہ جھوٹ نہیں بولے گا.دانستہ بد معاملگی یا حق تلفی نہ کرے گا.اگر ان سے کوئی بات ہوگی.تو دانستہ نہیں بلکہ نادانستہ اور اس کا علم اس کو مشق اور کوشش کے بعد آئے گا.ممکن ہے اس سے بددیانتی ہو.ظلم ہو.خیانت ہو.مگر وہ دانستہ نہیں ہونگے.لیکن جو لوگ کسی صداقت کو قبول کرتے ہیں.مگر ان میں تغیر نہیں ہوتا.بلاوجہ ظلم کرتے ہیں.(ظلم ہوتا ہی بلاوجہ ہے) ان کے اندر تغیر نہیں ہوتا.یہاں باریک بد دیانتی یا ظلم کا سوال نہیں.کیونکہ یہ مشق سے دیر کے بعد سمجھ میں آتی ہے.مگر موٹی باتوں کے لئے لمبے زمانہ کی ضرورت نہیں.دیکھو حرمت شراب کا حکم پندرہ سال کے بعد نازل ہوا.مگر جھوٹ ترک کرنے کا حکم پندرہ سال کے بعد نازل نہیں ہوا.اسی طرح دوسرے مسائل.ورثہ نکاح وغیرہ صاحب شریعت نبی کی بعثت کے کئی کئی سال بعد نازل ہوئے.مگر یہ کوئی مثال نہیں ملتی کہ جھوٹ کے ترک کرنے کے احکام بھی کئی سال کے بعد نازل ہوئے ہوں.اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ جب کوئی مذہب اختیار کرتا ہے.اسی دن ان کمزوریوں کو چھوڑ دیتا ہے.اگر یہ بات نہ ہوتی تو ممکن ہے جھوٹ وغیرہ

Page 224

نقص ہے.اخلاقی جرائم بھی دیر میں جاکر حرام اور ممنوع قرار دئے جاتے.اسلام میں شراب کئی سال کے بعد حرام ہوئی.بعض ممالک میں تمدنی حالت بہت پیچھے تھی.اس لئے شراب حرام نہیں ہوئی.مثلاً ٹھنڈے ملک تھے.جسم کو گرم کپڑے سے نہیں ڈھانک سکتے تھے.اس لئے سردی کے احساس کو کم کرنے کے لئے شراب پیتے تھے.ممکن ہے اور احکام بھی دیر میں دئے گئے ہوں یا نہ دئے گئے ہوں.مگر اس کی ایک بھی مثال نہیں ملتی.کہ جھوٹ وغیرہ دیر سے منع کئے گئے ہوں.خواہ کوئی نبی کبھی آئے ہوں.مذہب کا اخلاقی حصہ فوراً درست کرتے ہیں.جھوٹ وغیرہ کو فورا منع کرتے ہیں.کیونکہ اس کے لئے بہت مشق اور بہت کوشش کی ضرورت نہیں.بعض لوگ اس میں سستی کرتے ہیں.اور خوش ہیں کہ وہ نئے نئے جماعت میں داخل ہوئے ہیں.لیکن جس طرح ممکن نہیں کہ آنکھ جس کی بینائی سلامت ہو کھولی جائے اور روشنی نظر نہ آئے.یہ تو ہو سکتا ہے کہ روشنی یا تاریکی زیادہ نظر آئے.مگر سلامت بینائی والی آنکھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ روشنی کو بالکل نہ دیکھ سکے.یہی حالت اخلاق کی ہے.جب تک اخلاقی طاقت موجود ہے.تبدیلی کا فوراً اثر ہوتا ہے.تو یہ ظاہری تغیر ضروری اور لازمی ہوتا ہے.جب تک یہ تغیر ظاہر نہ ہو.دنیا پر ایمان کا کوئی ثبوت ظاہر نہیں ہو تا.ذاتی کمزوری اگر چہ دور ہونے میں دیر ہو.مگر وہ باتیں جو دوسروں سے تعلق رکھتی ہیں.ان میں فوراً نمایاں تغیر ہونا ضروری ہوتا ہے.اس بارے میں ہماری جماعت میں ابھی میں بار بار اس طرف توجہ دلاتا ہوں.دیکھو ایک طرف ہماری جماعت کا دعوی ہے کہ یہ برگزیدہ جماعت ہے مگر حقوق کا اختلاف بھی ہوتا ہے جن سے دکھ پہنچتا ہے.غیر سے معاملہ میں سستی بری بات ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دیانت کا معیار بھی ہم پر نہیں ظاہر ہوا.بعض لوگ آتے ہیں اور وہ اپنی دانست میں جس کو دیانت قرار دیتے ہیں.میرے نزدیک وہ بددیانتی ہوتی ہے.جس کو وہ رحم کہتے ہیں در حقیقت وہ ظلم ہوتا ہے.تغیر وہ ہوتا ہے کہ دشمن بھی محسوس کرے.نہ یہ کہ دوست کو بھی محسوس نہ ہو.حالانکہ دوست تو کمزوری کو بھی پسند کرتا ہے.یہ تو دشمن ہی ہوتا ہے.جو نیکی کو بدی دیکھتا ہے.اس لئے تمہاری نیکی ایسی ہونی چاہئے کہ تمہارا دشمن انکار کرتے کرتے تھک جائے.نہ یہ کہ تمہاری نیکی کو تمہارا دوست بھی محسوس نہ کرے.تمہارا اخلاقی تغیر نمایاں ہونا چاہئیے.تمہاری ہمدردی عام.تمہارا رحم عام ہو.حسن سلوک خوش معاملگی نمایاں ہو.اموال میں دیانت و امانت ہو.اس میں شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کی اخلاقی حالت اچھی ہے مگر جب تک بہت اچھی نہ ہو.فخر کی بات نہیں.اندھے کے مقابلے میں وہ اچھا ہے جو سفیدی دیکھ سکتا ہے مگر دونوں سالم آنکھوں والے کے مقابلہ میں اس کے لئے جائے فخر نہیں.اسی طرح یہ خوشی کی بات نہیں کہ ہم نسبتاً دوسروں سے اچھے ہیں.بعض معیار دیانت اور بددیانتی کو

Page 225

۲۱۹ نہیں سمجھے.وہ جس کو دیانت کہتے ہیں وہ بد دیانتی ہوتی ہے.جب وہ مفہوم ہی نہیں سمجھتے.تو ان میں یہ صفات کب پیدا ہونگے.تو اخلاق کی درستی ہی ایک ایسی چیز ہے.جس سے دنیا تمہاری حالت کو سمجھ سکتی ہے.اگر یہ نہ ہو.تو ایمان کی کوئی نشانی نہیں.تم لاکھ دلیلیں دو.اگر معالمہ اچھا نہیں تو کوئی اثر نہ ہو گا.مخالف خیال کرے گا اگر ہمارا پنڈت یا پادری ہوتا تو وہ بھی ایسا ہی بولتا.لیکن اگر تمہاری اخلاقی حالت درست ہوگی تو ان کی آنکھ کھل جائے گی.وہ دیکھیں گے کہ یہ بات ان پنڈتوں پادریوں میں نہیں.ہم جو باتیں بیان کریں گے ان پر اثر نہ ہوگا.ہم جو قرآن کریم کی خوبیاں بیان کریں گے دوسرے ان کو لیکر اپنی کتابوں کی طرف منسوب کر دیں گے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو خوبیاں قرآن کریم کی بیان فرمائی ہیں.دوسرے اگر چرا کر اپنی کتابوں کی طرف منسوب کریں گے تو کے لوگ اس کی تحقیقات نہیں کر سکتے.کیونکہ ان کے پاس قول تو ہوگا قول پر فعل شاہد نہ ہو گا.میں اپنے احباب کو خاص توجہ دلاتا ہوں کہ اخلاق کو درست کرد.میرا منشاء ہے.کہ جس طرح پچھلے دنوں یہاں کے کام کے متعلق سلسلہ مضامین بیان ہوا تھا.کسی وقت اخلاق کے متعلق بھی بیان کروں.جس سے سہل طریق پر اخلاقی باتیں سمجھ میں آجائیں.پہلا قدم اخلاق کی مضبوطی ہے.خدا کے راہ میں گو سینکڑوں قدم ہیں.مگر اس راستہ میں یہ عجیب بات ہے.کہ جب پہلا قدم صحیح طور پر اٹھایا جائے.تو تمام راستہ آسان ہو جاتا ہے.اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایسی گاڑی میں سوار ہو گئے کہ تمام راستہ آسانی سے طے ہو گیا.اس میں نیت کی شرط ہے.نیت ٹھیک ہو تو جس طرح قصوں میں آتا ہے کہ جادو کی چابی سے سب دروازے خود بخود کھل جاتے تھے.اسی طرح تمام رو کیں دور ہو کر منزل طے ہو جاتی ہے.دیانت سے کام لیں اور نیت صاف کریں.جب یہ حالت پیدا ہو جائے گی.پھر نا ممکن باتیں ممکن ہو جائیں گی اور انسان حیران ہو گا کہ کیسے یہ تغیر آگیا.لوگ ڈرتے ہیں کہ کیسے ہو گا.مگر جب کرتے ہیں.تو کچھ وقت معلوم نہیں ہوتی.اس کی مثال روئی کے ڈھیر کی طرح ہے ناواقف سمجھے گا کہ اس ڈھیر کو کون اٹھائے گا.مگر جب اٹھاتا ہے تو آسانی سے اٹھا لیتا ہے.لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی کا حق نہ ماریں.تو گزارہ کیسے ہو.دعا نہ کریں.تو دشمن پر کامیابی کیسے.مگر جب حق کی رعایت کریں گے.دعا و بد دیانتی کو چھوڑیں گے تو معلوم ہوگا کہ دل کی اصل راحت تو اسی میں تھی اور سچ میں ہی ان کو مزہ آئے گا.اور دل کو تسکین حاصل ہوگی.اگر لوگ توجہ کریں.تو چھوڑنا مشکل نہیں.مگر باپ دادوں سے یہ سنتے آئے ہیں.اس لئے ان خیالات سے ڈر لگتا ہے.مگر کیا احمدی جماعت سے یہ امید نہیں رکھی جائے گی کہ خدا کے دین کی اشاعت کے لئے یہ نیت کرلے کہ جھوٹ نہ بولیں گے.جھوٹ کسی کو مجبور نہیں کرتا کہ بولا جائے تجربہ کر لو

Page 226

ایک بھی نقصان نہ ہوگا.یہ تغیر راحت و آرام کا موجب ہے.زندگی امن سے کئے گی اور محسوس ہو گا کہ ہم خدا سے قریب ہو گئے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس کے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے.آمین.(الفضل ۶ مارچ ۱۹۲۲ء)

Page 227

۲۲۱ 42 تو کل کرنے والا کبھی ضائع نہیں ہوتا فرموده ۲۴ فروری ۱۹۲۲ء) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان اپنے بندوں پر ہوتا ہے.جس کی وجہ سے باوجود کمزور ہونے کے اس کے احسان کے ماتحت اس کی دین کی اشاعت میں حصہ لے سکتے ہیں.ورنہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو طاقت ور سمجھتے ہیں.وہ باوجود طاقت و قوت کے اور حکومت و مال کے خدمت دین سے محروم رہ جاتے ہیں.میرے نزدیک ہماری جماعت کے لئے ان ضروری مسائل میں سے جنہیں یاد رکھنا چاہیے.ایک یہ بھی ہے کہ وہ خدا کی قوت پر بھروسہ کریں.اپنی طاقت پر نہ جائیں میں نے اپنے مبلغوں کو بار ہا بتایا اور میں نے خود با رہا تجربہ کیا ہے.کہ جب خدا پر توکل کیا اور اپنے وجود کی نفی کی خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسے ایسے فیضان جاری ہوئے ان کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے با رہا جب سامان نے جواب دے دیا.موقع پر خدا تعالیٰ نے وہ کچھ دکھایا.اور ایسے نازک موقع پر ایسی باتیں بتائیں جو دوسروں کے لئے ہی نہیں اپنے لئے بھی حیرت میں ڈالنے والی تھی.متوکل کی مثال ایسے بچے کی ہے جو ماں کی گود میں ہو.اس بچے کی نہیں جو چلتا پھرتا ہو.چلنے پھرنے والے بچے کے لئے ماں کی محبت جوش مارے گی وہ اس کو کھانے پینے کے لئے دے گی مگر جو اس کی گود میں ہو اس کا اس کو بہت خیال ہو گا.یا یہ کہو کہ اس چھوٹے قد کے انسان کی مثال ہے جو کسی بڑے تنو مند اور قد آور انسان کے کندھے پر سوار ہو جو تو کل کرتا ہے وہ خدا پر بھروسہ کرتا ہے.اور خدا تعالیٰ اس کے کام کو آپ درست کرتا ہے.اسی جلسہ کے موقع پر دیکھو کہ خدا تعالیٰ نے کیا کیا تین مہینہ سے مجھے کھانسی تھی.دواؤں سے علاج نہ ہوتا تھا.حتی کہ جلسہ کو ملتوی کرنے کا بھی خیال آیا.چونکہ میں خیال کرتا تھا کہ بولا نہیں جائے گا.اس لئے دوسرے دن کا مضمون پہلے دن رکھا.لیکن آپ میں سے بہت کو معلوم ہے کہ اس دفعہ تقریر پہلی تقریروں سے زیادہ لمبے عرصہ تک ہوتی رہی.اور عجیب بات یہ ہے کہ کھانسی کا

Page 228

۴۳۲ مرض بھی ہٹ گیا.ڈاکٹر کہتے تھے کہ مت بولو مگر بولنا ہی کھانسی کا علاج ہو گیا یہ خدا کا فعل اور تصرف تھا.پھر جتنی کمزور حالت تھی.اس کے لحاظ سے ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ جلسہ کے بعد کام بالکل چھوڑ دیا جائے.لیکن یہ خدا ہی کی مدد ہوتی ہے.کہ میں نے معا شہزادہ ویلز کی کتاب لکھی جو ۸۰ صفحہ کی کتاب ہے.اس کے ترجمہ پر دو تین دن متواتر لگائے انتظام جماعت کے لئے جو تجاویز ہوئیں ان میں حصہ لیا.اب ایک اور کتاب لکھی ہے.جو امیر افغانستان کے لئے ہے.ان ایام میں کام کی وہ کثرت رہی کہ بعض راتوں کو ایک ایک دو بجے تک کام کرنا پڑا.اور بعض دفعہ کھانا بھی نہیں کھایا.لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے کام کرنے کی توفیق دی.اس لئے میں جماعت کو کہتا ہوں کہ خدا پر بھروسہ کرو.اور اپنے پر بھروسہ مت کرو.خوب یاد رکھو کہ سامان دنیوی بھی خدا ہی کے ہیں.لیکن بعض دفعہ وہ اپنی قدرت نمایاں کیا کرتا ہے.اور ظاہری قانون قدرت کے علاوہ اس کا ایک اور قانون ہے.جو وہ اپنے پیاروں کے لئے ظاہر کرتا ہے.پھر تم اپنے پر مت نظر ڈالو.بلکہ خدا کو دیکھو کہ وہ کیسے مورد نصرت کرتا ہے.دنیوی کاموں میں بھی اس پر سامان کے ساتھ تو کل کرو.مگر دینی مقامات میں خصوصا تو کل کی بہت ضرورت ہوتی ہے.بے شک دنیا میں سامان ہوتے ہیں.مگر جو چیز دین کی راہ میں روک ہے اس کو چھوڑ دو خدا تمہیں ضائع نہیں کرے گا.خدا کی طاقت کا بندوں کی طاقت سے موازنہ نہیں کرنا چاہئیے.بڑے بڑے طاقتور دم کے دم میں فنا ہو جاتے ہیں.بادشاہوں کی زندگیاں لمحوں میں ختم ہو جاتی ہیں.سکندر کا مشہور واقعہ ہے کہ چھوٹی سی عمر میں یونان سے اٹھ کر دنیا پر چھا گیا.مگر فتوحات سے خوشی بھی حاصل نہ کر سکا.واپسی پر جنگل ہی میں مرگیا.یہ تو بادشاہوں کا حشر ہے.مگر خدا والوں کا یہ انجام ہوتا ہے.مشہور ہے.کہ ایک بزرگ کے خلاف بادشاہ ہو گیا.ان کو ان کے مریدوں نے کہا کہ دلی چھوڑ دیجئے کہ بادشاہ ۲، آپ کے مارنے کے درپے ہے.سفر سے جب واپس آئے گا تو آپ کو مار ڈالے گا.بزرگ نے جواب دیا کہ ہنوز دلی دور است.اسی طرح ہوتے ہوتے جب وہ بادشاہ دلی میں داخل ہونے لگا.تو انکو کہا گیا کہ اب تو بیچ جائیے.بادشاہ شہر میں داخل ہو گیا ہے.انہوں نے وہی فقرہ کہا.اتنے میں خبر پہنچی کہ دیوار گری بادشاہ نیچے دب کر مر گیا.۳.پس اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والوں کی مدد ایسے راہ سے ہوتی ہے کہ جس کا علم بھی نہیں ہوتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک جنگل میں تھے.صحابہ آپ کے ارد گرد رہا کرتے تھے.آپ سے جدا نہ ہوتے تھے.مگر اس دفعہ آپ جنگل میں دور رہ گئے ایک درخت کے نیچے سو گئے.تلوار درخت سے لٹکا دی.اتنے میں ایک کافر پہنچا.آپ ہی کی تلوار بے نیام کرکے آپ کو اٹھایا.اور کہا کہ اب آپ کو کون بچائے گا.آپ نے فرمایا کہ اللہ بچائے گا.اسی جملہ نے اس پر ایسا اثر کیا اور

Page 229

ایک بجلی کی روسی دوڑ گئی.جس سے تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی.آپ نے اٹھا کر کہا کہ اب تجھے کون بچائے گا.اس نے کہا کہ مجھے کوئی بچانے والا نہیں.اگر وہ مومن ہو تا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سبق لیتا.مگر اس نے کہا آپ ہی رحم کریں.آپ نے اس کو چھوڑ دیا.۴.پس خدا کی قدرت وسیع ہے.اس پر بھروسہ کرنے والا ضائع نہیں ہوتا.محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وطن سے نکلے.بے وطن ہوئے.مکہ والے آپ کو نکال کر اپنی کامیابی پر بہت خوش ہوئے.لیکن مدینہ والوں کے دل آپ کی طرف خدا نے مائل کر دیئے اور آٹھ سال میں آپ کے دشمن آپ کے رحم کے محتاج ہوئے..پس تو کل کرنے والے کامیاب ہوتے ہیں.دنیا جس بات میں متوکل کی ہلاکت سمجھتی ہے وہی بات اس کی کامیابی کا ذریعہ ہو جاتی ہے.اگر کوئی شخص اس پر ہاتھ ڈالتا ہے تو وہ ہاتھ شل ہو جاتا ہے زبان کائی جاتی ہے.وہ دل ٹکڑے کر دیا جاتا ہے جو اس کے خلاف بغض رکھے.اس کے لئے خداتعالی معجز نمائی کرتا ہے.اور تم نے دیکھا ہے کہ مسیح موعود کے لئے اس نے کیسی کیسی معجز نمائیاں کی ہیں.اگر اب بھی کوئی تو کل نہ کرے.تو اس سے بڑھ کو کون ذلیل ہو گا.ہم نے زندہ خدا کو دیکھا ہے.جسے مخالفوں نے نہیں دیکھا.ہمارا زندہ خدا سے تعلق ہے.ان کا خدا سے خوف اگر ہے.تو وہ ان مچھلیوں کی طرح ہے جن کا ذکر قصوں میں آتا ہے کہ انہوں نے اس لکڑی کو خدا سمجھ لیا تھا جو سمندر میں گری تھی اور اس کے شور سے وہ خاموش ہو گئی تھیں.اور جب لکڑی ساکن ہوئی تو وہ اس پر اچھلنے لگی تھیں.ہمارا خدا زندہ خدا ہے.ہم نے اس کی طاقتوں کو دیکھا ہے.کیا اس کے باوجود انکار ہو سکتا ہے اگر ہو تو اس کے معنی ہیں کہ آنکھیں مردہ ہیں یا دل مردہ ہیں.یاد رکھو کہ ایمان کے مطابق اعمال کا ہونا ضروری ہے.خدا مومن کو ضائع نہیں کرتا.اگر دنیا میں تکلیف ہو.تو اس کو جنت ملنے والی ہے.جو ابدی ہے.یہاں کی تکلیف چند سال کی ہے جو جلدی ختم ہو جائے گی مگر جو اس کے بدلے میں ملے گا وہ نہ ختم ہونے والا ہو گا.جو شخص اس دنیا کو قربان کر دے گا اس کو وہ نعمتیں ملیں گی.اس وقت کے بادشاہوں کی حیثیت غلاموں کی سی ہوگی.کیونکہ وہ شاہوں کا شاہ رب العالمین تمہارا دوست ہو گا.کوئی دنیاوی بادشاہ جس کا دوست ہو جائے اس کو نقصان نہیں ہوتا.خدا جس کا دوست ہو.اس کو کون نقصان پہنچا سکتا ہے.کہتے ہیں کہ ایک شخص نے قاضی کے پاس امانت رکھی.واپس آکر مانگی.قاضی صاحب مکر گئے.جیسا کہ پہلے زمانہ میں قاعدہ تھا کہ بادشاہ ایک دن فریادیں سنتے تھے.اس کے مطابق وہ شخص بادشاہ کے پاس گیا.بادشاہ نے کہا کہ کل میری سواری نکلے گی.تم قاضی کے قریب کھڑے ہونا.میں تم سے ایسے دوست کی طرح باتیں کروں گا جو مدت کے بعد ملا ہو.تم مت گھبرانا چنانچہ دوسرے دن

Page 230

۲۲۴۴ بادشاہ نے ایسا ہی کیا کہ آپ کب آئے.اب تک آپ نے ملاقات کیوں نہیں کی وغیرہ.قاضی نے علیحدگی میں اس کو بلا کر کہا کہ آپ اپنے روپیہ کی نشانی بتائیں میں بوڑھا ہوں نسیان غالب ہے اس نے بتایا تو قاضی نے کہا کہ پہلے تم نے کیوں نہیں بتایا تھا.اور اس کو روپیہ دے دیا.غرض خدا تعالیٰ اس انسان کو جو اس کا ہو جاتا ہے وہ کچھ دیتا ہے جو بادشاہوں کو میسر نہیں.مومن کو جو ادنی چیز ملے گی.وہ یہ ہے کہ اس کو زمین و آسمان سے زیادہ وسیع بہشت ملے گی اس کے مقابلہ میں لوگوں سے جو قربانی طلب کی جاتی ہے.وہ کچھ بھی نہیں.یہ عام سیاسی شورد شرکیوں ہے.محض اس لئے کہ چند ہزار عہدے جو انگریزوں کو ملتے ہیں.ہندوستانیوں کو مل جائیں.اور دس بیس قانون جو ہزاروں میں سے ہیں.بدل دیئے جائیں اس کے لئے لوگ جیل میں جاتے ہیں.کیسے افسوس کی بات ہے کہ یہ لوگ تو قربانیاں کریں.اور ہم قربانی نہ کریں.جن کا مطمح نظر خدا ہے.یہ باتیں ایمان سے حاصل ہوتی ہیں.جس کا ایمان مضبوط ہو.دل میں تقویٰ ہو.وہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو ترجیح دے ہی نہیں سکتا.دنیا اور اس کی بادشاہتیں حقیر ہیں.خدا کے بندے کو جو بادشاہت ملے گی.اس سے ان کو کوئی نسبت ہی نہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسری نے پکڑنے کے لئے یمن کے گورنر کو حکم دیا.اس کے قاصد مدینہ شریف آئے.کوئی فوج بھی نہ لی.محض اس خیال سے کہ کسری کے حکم کو کون ٹال سکتا ہے.آپ سے کہا گیا.آپ نے فرمایا کہ کل جواب دیں گے.دوسرے دن فرمایا کہ جاؤ تمہارے خدا کو ہمارے خدا نے مار دیا ہے.یہ لوگ میمن میں گئے اور ماجرا بیان کیا.گورنرنے کہا چند دن صبر کرو.اتنے میں ایران سے جہاز آیا.جس میں ایک شاہی خط آیا کہ ہم نے اپنے باپ کو بوجہ ظالم ہونے کے قتل کر دیا ہے.اور ہمارے باپ نے جو عرب کے ایک شخص کی گرفتاری کے لئے حکم بھیجا تھا.وہ منسوخ سمجھا جائے وہ لوگ یہ دیکھ کر اسلام لے آئے.تو خدا کے مقابلہ میں کسی کی دنیاوی طاقت کچھ کام نہیں دیتی ہمیں تبلیغ اسلام میں لگ جانا چاہیے جو لوگ کسی جماعت کے امیریا سیکرٹری ہیں.وہ ادھر توجہ کریں.ہماری مثال ڈاکٹر کی نہیں گڈرے کی ہے.جس کی ایک بھی بھیڑ گلے میں واپس نہ آئے تو وہ اس کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑتا ہے.یہ نہیں کہ جو ہمارے پاس آگیا.اس کی ہم نے خبر لے لی.بلکہ جو نہیں آتا اس کا سبب معلوم کریں.اس میں جو کمزوری ہو اس کو دور کریں.اور اس وقت تک ہم چین نہ لیں جب تک کہ ایک بھی شخص دین سے باہر ہو.یہ کافی نہیں کہ چند ہزار یا چند سو کو ہم نے بچالیا.کیونکہ کوئی شخص خوش نہیں ہو سکتا کہ اس کا آدھا جسم تندرست ہو.لاہور کی آبادی ایک لاکھ کی ہے.جب تک ان میں سے ایک بھی احمدیت سے باہر ہے.ہمیں آرام نہیں لینا چاہئیے.کسی ماں کے اگر مار ہو

Page 231

۳۲۵ ہوں.تو وہ ایک کے گم ہونے کی صورت میں گیارہ پر صبر نہیں کر سکتی.پھر ہمیں کیسے صبر آسکتا ہے.کہ لاکھ کی آبادی میں سے ہزاروں ہزار باہر ہوں.یہ مت دیکھو کہ ہم اتنے ہو گئے بلکہ یہ دیکھو کہ ہم میں ملنے سے کتنے باہر ہیں.اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ وقت کم ہے.اس طرف توجہ کرو.قدم ست مت اٹھاؤ.تمہاری نگاہ وہاں نہیں پڑتی جہاں میں دیکھ رہا ہوں.تم ان باتوں کو کل دیکھو گے.جن کو میں آج دیکھ رہا ہوں.تم میں سے ہر ایک سمجھے.کہ اس وقت دنیا میں خدا کا مظہر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز مسیح موعود آچکا ہے.جو آدم ثانی بھی ہے.میرا فرض ہے کہ ہدایت جاری کروں.وقت گذر رہا ہے.جو محسوس نہیں ہوتا.اس لئے وقت کی قدر کرو اور سستی کو چھوڑ رو.اس کے بعد میں احباب کو اطلاع دیتا ہوں کہ کل مغرب کے بعد یہاں اور بیرو نجات کے جو احباب آئے ہوئے ہیں جمع ہو جائیں اس وقت بھی کچھ نصائح کی ہیں اس وقت بھی نصائح اور مواعظ بیان کروں گا.کیونکہ ہمارا یہاں آنا اس سے مجھے کو بھی اور آنے والوں کو بھی فائدہ ہو جائے.اور وہ غرض پوری ہو جائے جس کے لئے ہم کھڑے کئے گئے ہیں.الفضل در مارچ ۱۹۲۲ء) اه حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ۲ شاه قطب الدین سیرالعارفین متر ، ص ۱۰۰ بخاری کتاب المغازی غزوہ ذات الرقاع

Page 232

43 پنجاب میں دعوت الی اللہ (فرموده ۳ مارچ ۱۹۲۲ء) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.بوجہ اس کے کہ لاہور میں مجھے کثرت سے بولنا پڑا اور رات کے ایک ایک دو دو بجے تک برابر باتیں ہوتی رہیں.گلے میں تکلیف زیادہ ہو گئی ہے.میں زیادہ بیان نہیں کر سکتا اور ممکن ہے کہ آواز بھی دور تک نہ جائے مگر چند مختصر نصائح اپنی جماعت کے لوگوں کو کرتا ہوں.میں نے غور کیا ہے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہماری جماعت تبلیغ کے رنگ میں بہت پیچھے ہے.چندے کے معالمہ میں ہم ترقی کرتے کرتے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ کہا جا سکتا ہے.کہ وہ ہماری ہمت پر دلالت کرتا ہے مگر تبلیغ کے متعلق یہ بات نہیں.اس بارے میں ہمیں جو مقام حاصل ہے اس کو ابتدائی بھی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ بہت ہی کم ہیں جو توجہ کرتے ہیں.پھر بہت ہی کم ہیں جو اصول تبلیغ سے واقف ہیں.اور بہت کم ہیں.جو واقفیت بہم پہنچانے کے شائق ہیں.اور بہت ہی کم ہیں جو ان اصول کو استعمال کرتے ہیں.گویا وہ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں.ہم نے اپنے ذمہ جو کام لیا ہے.اس کے مقابلہ میں ہماری کوشش حقیر ہے.اور اگر یہی حالت جاری رہی تو لاکھوں سال ہماری ترقی کے لئے چاہئیں.مگر اتنے عرصہ کے لئے جوش قائم نہیں رکھا جا سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے مسلمانوں میں جو جوش تھا وہ اپنی نظیر آپ ہی تھا.مگر اب دیکھ لو کہ ۱۳ سو سال کے بعد اس جوش کا نام و نشان بھی باقی نہیں.کیا اس زمانہ کے مسلمانوں کو دیکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے.کہ ۱۳ سو سال پہلے کے مسلمانوں میں کوئی جوش اور ولولہ تھا.احادیث و تاریخ میں ان کے متعلق ہم جو کچھ پڑھتے ہیں اگر موجودہ مسلمانوں کی حالت پر قیاس کیا جائے تو مبالغہ معلوم ہوگا.یہی فرق ہوتا ہے نبی کے قریب اور بعد کے زمانہ کے لوگوں میں.سورج کے غروب ہونے کے بعد جس قدر دیر گذرتی جائے.اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا ہے پس جس رفتار سے ہم ترقی کر رہے ہیں اس کے لئے لاکھوں سال چاہئیں.مگر یہ دنیا میں سب سے پہلا تجربہ ہو گا.کہ ہمارا جوش

Page 233

۲۲۷ اس وقت تک قائم رہ سکے دنیا میں سب سے بڑا جو نبی آیا اس کا پیدا کیا ہوا جوش بھی ایک ہزار سال سے آگے نہ بڑھا.اس لئے اگر ہم کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے یہی زمانہ ہے.مگر افسوس ہے کہ ہمارے علماء تک ادھر پورے متوجہ نہیں.میں نے پچھلے سال قادیان کا علاقہ تقسیم کیا تھا.مگر اس میں کوئی کام نہیں ہوا.حالانکہ یہ وقت ہے کہ اگر ہم لوگوں کو جذب کرنا چاہیں تو بہت جلد جذب کرلیں گے.ورنہ پھر کروڑوں روپیہ سے بھی ہم یہ بات حاصل نہیں کر سکیں گے.میں نے اس سال پھر تجویز کی ہے.کہ کام کو دیکھا جائے.اس کے ماتحت تبلیغ کے لئے تین حلقہ بنائے گئے ہیں.لاہور، گوجرانوالہ لائل پور کا ایک حلقہ شاہ پور گجرات جہلم ایک حلقہ اس وقت ہمارے پاس دو مبلغ فارغ ہیں.مولوی غلام رسول صاحب راجیکی اور مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری پہلا حلقہ مولوی راجیکی صاحب کے اور دوسرے مولوی ابراہیم صاحب بقا پوری کے اور ضلع گورداسپور حافظ روشن علی صاحب کے سپرد کیا جائے.حافظ صاحب کو گو فارغ نہیں کیا جا سکتا.مگر ان کے ساتھ مبلغین کلاس کے طالب علم ہیں.اس لئے میری عقل کہتی ہے.کہ جس قدر ان کے پاس وقت ہے ایک سال میں ہی اس ضلع میں کام کر سکتے ہیں.ان علاقوں کی تقسیم سے یہ غرض ہے کہ آہستہ آہستہ تمام ملک کو اس طرح تبلیغ کے لئے تقسیم کر دیا جائے.جس طرح گورنمنٹ ضلع اور کمشنریاں بناتی ہے.اور ان میں کمشنر اور ڈپٹی کمشنر مقرر کرتی ہے.جو اپنے علاقہ کے ذمہ دار ہوتے ہیں.اسی طرح یہ مبلغ اپنے اپنے ضلع کے ذمہ دار ہوں گے.اور ان کا فرض ہو گا.کہ وہ اس مدت میں ان ضلعوں کا نقشہ بدل دیں.مگر یاد رکھو جو مبلغ رپورٹیں لکھنے اور واہ واہ کے لئے کام کرتا ہے.وہ ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتا.وہی مبلغ کامیاب ہو گا جو اپنے اختیارات کو خدا کی طرف سے آئے ہوئے اختیار سمجھ کر کام کرے گا.اور اپنے دل و دماغ پر فیضان الہی دیکھے گا.جو شخص دوسروں کے ہاتھوں کی طرف دیکھتا ہے وہ اللہ کا بندہ نہیں لوگوں کا بندہ ہوتا ہے.اس خوف سے کوئی کام نہ کیا جائے کہ اگر نہ کیا تو خلیفہ صاحب ناراض ہوں گے.بلکہ اگر کوئی کام چھوڑا جائے یا کیا جائے تو وہ خدا کے خوف اور خدا کی رضا کے لئے ہو.یہ درمیانی واسطے خلفاء وغیرہ تو حسن انتظام کے لئے ہوتے ہیں پس میں تینوں حلقوں کے افسروں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے کام کے لئے چونکہ خدا کے حضور جواب دہ ہونگے اس لئے ایسے رنگ میں کام کریں کہ خدا خوش ہو جائے.اب ضرورت ہے کہ تبلیغ کے لئے ایک جنون کی سی حالت پیدا کی جائے.ایسی حالت جس کی وجہ سے نبیوں کے مخالف ان کو مجنوں کہہ دیا کرتے تھے.بعض لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ جب وہ باہر جائیں تو کئی ایک ہوں اور ایک گروہ کی شکل میں جائیں مگر یہ کمزوری ہے.مبلغ کی حیثیت سفیر کی حیثیت نہیں ہوتی.سفیر کے لئے بہت سے آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے.مبلغ اکیلا ہی کافی ہوتا ہے.ایک وقت میں حضرت

Page 234

۳۲۸ ابو عبیدہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مدد طلب کی.حضرت عمر نے ایک آدمی بھیج دیا اور لکھ دیا کہ یہ ایک ہزار کے برابر ہے.اس وقت لوگوں نے اس کو ہنسی نہیں سمجھا تھا.بلکہ اللہ اکبر کے نعرے لگائے تھے یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ وہ مبلغ کامیاب نہیں ہو سکتے.جو احمدیوں کے علاقے میں جاتے ہیں.بلکہ ان کو چاہیے کہ ان علاقوں میں جائیں.جہاں احمدی نہیں.مبلغ کی کامیابی یہ نہیں کہ وہ احمدیوں کے پاس گیا.اور تبلیغ کر کے آگیا.بلکہ یہ ہے کہ وہ سو میں سے نوے غیر احمدیوں کے گاؤں میں جائے.اور دس احمدیوں کے دیہات میں پھرے.اور اس بات کی کوشش کرنی چاہئیے کہ نئے نئے مبلغ پیدا ہوں.اور وہ ایک انتظام کے ماتحت ہوں.یہ نہیں کہ جو جس کے جی میں آئے وہ کرے.بڑا نقص یہ ہے کہ ہمارے لوگ دوسروں سے کام لیتا نہیں جانتے.اور بجائے دوسروں کو سکھانے کے وہ کام خود کرنے لگ جاتے ہیں.نبی کیوں دوسروں پر افضل ہوتا ہے.اس لئے کہ وہ نئے مبلغ تیار کرتا ہے.جس طرح حضرت صاحب نے نئے انسان پیدا کئے.اسی طرح اگر ہم لوگ پیدا کرتے تو چند سال میں ہماری جماعت کروڑوں تک پہنچ جاتی.بلکہ وہ وقت جلد آجاتا کہ دنیا میں احمدی ہی احمدی ہوتے.پس مبلغوں کو چاہیے کہ دوسروں کو سکھائیں اور ان علاقوں کے آدمیوں سے کام لیں.یہ ظاہر ہے کہ ایک شخص ضلع کا دورہ نہیں کر سکتا اس کے لئے چند باتوں کی ضرورت ہے.اول تو یہ کہ وہاں کے لوگوں سے مناسب کام لیا جائے.اور ان میں سے اپنے کام اور اعتماد کے قابل آدمی انتخاب کئے جائیں.اور ہر گاؤں میں دورہ اور لیکچر ہو (۲) اپنے اندر ایک جنون کی سی حالت پیدا ہو جائے (۳) ان علاقوں میں جائیں جہاں پہلے احمدی نہیں (۴) خدا پر توکل کریں اور دعا کریں.اگر اس طرح کام کیا جائے تو ایک ہی سال میں دنیا کا نقشہ بدل سکتا ہے.میں نے خطبہ میں اس لئے اعلان کیا ہے.کہ جن کے سپرد یہ کام کیا ہے.وہ اپنے کام کی اہمیت کو سمجھ لیں.ایک اور نصیحت یہ ہے کہ چونکہ جماعت کی مالی حالت کمزور ہے.اس لئے بعض اخراجات کو اپنے اوپر ڈالنا چاہیے.اور قلیل سے قلیل جو ممکن ہو.وہ بیت المال سے لینا چاہیے.اس کے بعد میں جماعت کی خوشی کے لئے بتاتا ہوں کہ تحفہ کی قبولیت کا جواب آگیا ہے.جس میں شہزادہ صاحب نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس کو پڑھیں گے.ہم دعا کرتے ہیں کہ کہ الہی ہم سے جو کچھ ہو سکتا تھا وہ ہم نے کر دیا.اللہ تعالیٰ جہاں شہزادے صاحب کو پڑھنے کی توفیق دے.ان کے دل کو بھی کھول دے.اور ان کو اپنی قوم کے لئے اسلام کا سفیر اور پیش خیمہ بنائے.آمین ثم آمین الفضل ۱۶ مارچ ۱۸۲۲ء)

Page 235

44.ہر مومن خلیفہ اللہ ہے (فرمود ۱۷ مارچ ۱۹۲۲ء) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.میں نے بارہا اپنے احباب کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے.اور اب پھر دلاتا ہوں.کہ ہم نے ایک خاص اور اہم کام اپنے ذمہ لیا ہے.اور یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ہمیں یہ کام کرنا ہے.اور نہ صرف یہ کہ ہم نے کرنا ہے بلکہ یہ کہ ہماری ترقی ہماری بہبودی اور ہماری کامیابی کے لئے اس کا پورا ہونا از بس ضروری ہے.پھر یہی نہیں.بلکہ اس سے زیادہ یہ کہ اگر ہم اس کام کو نہ کریں گے تو ہماری ناکامی اور نامرادی کا ٹھکانا نہیں.وہ کام کیا ہے؟ یہی کہ اسلام کو یعنی خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کو اور خداتعالی سے تعلق کے رشتہ کو ہم اپنی ذاتوں میں ہی مضبوط نہ کریں گے بلکہ دوسروں میں بھی اسے قائم کریں گے.اور ان کے دلوں میں اس رشتہ کو مضبوط کر دیں گے.یہ کام کوئی معمولی کام نہیں پھر یہ کوئی ایک دن میں یا دو دن میں یا تین دن میں ہونے والا کام نہیں اور کسی معمولی کوشش کے نتیجہ میں اس میں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.بلکہ یہ بہت بڑا کام ہے.جو ایک نسل کے کرنے کا بھی نہیں دو نسلوں کے کرنے کا بھی نہیں.بلکہ یہ ایسا کام ہے.کہ ہر نسل جو آئے گی.اسی کا یہ کام ہو گا.کیونکہ یہ کام جو ہم نے اختیار کیا اور اپنے ذمہ لیا ہے.اور ذمہ کیا لیا ہے.جس دن ہم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے اسی دن سے ہمارے ذمہ ڈالا گیا ہے کہ بنی نوع انسان کی پیدائش کی غرض ہی یہ ہے کہ یہ کام کرے اور اگر یہ کام نہ ہو تا تو خدا بندہ کو پیدا ہی نہ کرتا.پس انسان کی پیدائش کی غرض ہی یہ ہے کہ خود خدا تعالی سے تعلق پیدا کرے اور دوسروں کو تعلق پیدا کروائے.اسی کا نام دین ہے یہی اسلام ہے.اسی کو مذہب کہا جاتا ہے.اس سے باہر نہ کوئی مذہب ہے.نہ سلسلہ ہے.نہ دین ہے پس ہماری اور نہ صرف ہماری بلکہ ہمارے باپ دادوں کی بھی پیدائش سے پہلے یہ کام ہمارے ذمہ رکھا گیا ہے.اور یہ ایسا کام ہے.کہ اس کو بدلنے کے ہم مجاز نہیں ہیں.دنیا میں ایسا ہوتا ہے کہ جس کام کو جی نہ چاہے اسے چھوڑ کر دوسرا اختیار کر لیا جاتا ہے.مثلاً اگر کوئی زراعت کرنا نہیں چاہتا تو زمین بیچ کر تجارت شروع کر دیتا ہے.اگر کوئی تجارت کرنا نہیں چاہتا تو مال فروخت کر کے

Page 236

روپیہ زمین داری میں لگا دیتا ہے.پھر یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص ان دونوں کو پسند نہ کرے.وہ کوئی ہنر اور پیشہ سیکھ کر اس سے زندگی بسر کرتا ہے.پھر ہو سکتا ہے کہ کوئی آزاد پیشہ اختیار نہ کرے نوکری کرلے.پھران کے علاوہ ان کاموں کی اور قسمیں ہیں ایک زمیندار کی مرضی ہے کہ چاہے گیہوں ہوئے.چاہے روئی.ایک تاجر کی مرضی ہے کہ خواہ کپڑے کی تجارت کرے خواہ غلہ کی پرچون کی تجارت کرے، مشینوں کی کسی چیز کی کرے اس کی مرضی ہے.اسی طرح ایک ملازم کا اختیار ہے کہ اگر اس کا دل چاہے تو ریلوے میں نوکری کرے.اور اگر اس کو پسند نہیں کرتا تو ڈاک خانہ میں کر لے.اگر اس کو بھی پسند نہیں کرتا تو کچری میں کرلے.یہی حال پیشوں کا ہے.چاہے کوئی نجاری کرے یا معماری.چاہے کوئی ڈاکٹری کرے یا وکالت اختیار کرے.کوئی پیشہ اختیار کرے.یہ اس کے اختیار کی بات ہے.مگر یہ کام جو ہمارے سپرد ہوا ہے.یہ ان کاموں میں سے نہیں ہے جن کو بدلا جا سکتا ہے.اس کا بدلنا ہمارے اختیار میں نہیں ہے.جس طرح کسی کے اختیار میں یہ تو ہے.کہ جو پیشہ چاہے اختیار کرے.اور جو کام پسند کرے وہ کرے لیکن کسی کے اختیار میں نہیں ہے کہ قانون قدرت نے جو ذرائع ان پیشوں اور کاموں میں کامیابی کے حصول کے مقرر کئے ہیں ان کو چھوڑ کر اور طرف نکل جائے.یہ بات تو اس کے اختیار میں ہے کہ ایک دفتر کی کلر کی نہیں کرنا چاہتا.تو دوسرے کی کرلے.مگر وہ یہ نہیں کر سکتا کہ آنکھوں سے لکھے اور ہاتھوں سے دیکھے.اسی طرح اس بات میں ہمارا اختیار نہیں ہے کہ اس زندگی کا اصل مقصد کوئی اور قرار دے لیں.انسان کی زندگی کی مثال اس مسافر کی طرح ہے.جس کو ایک جگہ بتا دی جائے.اور کہہ دیا جائے کہ تم فلاں جگہ پہنچو.اور اسے راستہ میں ٹھہرنے اور گزرنے کی منزلیں بھی بتا دی جائیں.اب اسے یہ تو آزادی ہے.کہ سڑک کے خواہ دائیں پہلو پر چلے یا بائیں پر.اور یہ بھی وہ کر سکتا ہے کہ کسی جگہ ٹھر کر آرام کرے.لیکن یہ نہیں کہ جہاں اسے پہنچنا ہے.اسے چھوڑ کر کسی اور طرف چل پڑے.اسی طرح انسان کی مثال ہے.انسان کو بتا دیا گیا ہے.کہ اسے خدا تعالی کو ملنا اور اس تک پہنچنا ہے.اس کے لئے اسے راستہ اور راستہ کی منزلیں بتا دی گئی ہیں.کہ اس طریق سے جانا ہے اور یہ شریعت ہے.باقی اسے آزادی دے دی گئی ہے کہ عمدہ کپڑے پہنو یا اونی.اعلیٰ کھانا کھاؤ یا معمولی جو میسر ہو اسے جس رنگ میں چاہو استعمال کرو.مگر اصل مقصد کو نہیں بھولنا.اور اس کی مقررہ منزلیں نظر انداز نہیں کرتیں.یعنی احکام شریعت کو نہیں چھوڑنا.ان میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا پس انسانی زندگی کا یہ ایسا مقصد ہے جس میں آدم سے لیکر اب تک کوئی تبدیلی نہیں کر سکا.دنیا نے بڑی ترقی کی ہے.اور بڑی بڑی اہم باتوں میں کامیابی حاصل کی ہے.مگر اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکا.پھر یہ ایسا مقصد نہیں ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حاصل کر لیا تو اور کسی کو اس

Page 237

۲۳۱ کے حاصل کرنے کی ضرورت نہیں یا اس کے لئے اس کا حاصل کرنا ضروری نہیں.اسلام میں کفارہ نہیں یہ نہیں کہ ایک کامیاب ہو گیا تو دوسروں کو اس کی کامیابی سپرد کر دی جائے گی.جہاں اسلام یہ اجازت نہیں دیتا کہ ایک جرم کرے تو دوسرے کو پکڑ لیا جائے.اسی طرح یہ بھی جائز نہیں رکھتا کہ ایک اعمال کرے تو دوسرے کو اس میں سے حصہ مل جائے.حضرت مسیح کہتے ہیں میرے پیچھے وہی آسکتا ہے.جو اپنی صلیب آپ اٹھائے.یعنی خود عمل کرے.اسلام بھی یہی کہتا ہے جو حضرت مسیح نے تمثیلی رنگ میں کہا کہ وہی انسان اپنے مقصد کو پہنچ سکتا ہے جو اپنی صلیب آپ اٹھائے.دوسرے کے اٹھانے سے نہیں پہنچ سکتا.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ترقی یا آپ کے صحابہ کی ترقی کی وجہ سے دوسرے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا کام پورا ہو گیا.بلکہ ہر ایک کو اس کے لئے خود کوشش کرنی چاہئیے.اور جب تک ہر ایک کوشاں نہ ہوگا اس میں کامیابی نہیں ہوگی.مگر میں دیکھتا ہوں کہ لوگ ناموں سے دھو کہ کھاتے ہیں.وہ جب یہ سنتے یا پڑھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں کام کیا تو کہتے ہیں.وہ تو خدا کے رسول تھے جو کام انہوں نے نے کیا وہ ہمارے کرنے کا نہیں ہے.گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا تعالٰی نے رسول کریم پر تو اس کام کے کرنے کا بوجھ رکھا تھا اور نعوذ باللہ ان پر ناراضگی تھی کہ ان کے لئے شرط لگا دی کہ یہ کام کرو گے تو جنت ملے گی.مگر یہ خدا کے ایسے پیارے ہیں.کہ ان کے لئے خدا نے کوئی کام نہیں رکھا.بجائے اس کے کہ اگر یہ کہتے کہ ہمارے لئے خدا تعالٰی نے یہ کام رکھتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان سے آزاد تھے.تو اگر چہ یہ بھی غلط ہو تا مگر ایک بات تو تھی.چنانچہ صحابہ میں سے جو ابھی اعلیٰ مقام پر نہ پہنچے تھے انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ آپ کیوں اس قدر عبادت کرتے ہیں.آپ تو خدا کے پیارے اور محبوب ہیں.یہ ایسی بات ہے جو بظاہر کہی جا سکتی ہے مگر یہ بھی غلط تھی.کہ آپ کو عبادت کرنے کی کیا ضرورت ہے.مگر یہ غلطی ایسی تھی کہ جس کے متعلق ٹھوکر لگ سکتی تھی.اس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اگر میں ایسے مقام پہنچ گیا ہوں کہ مجھے اعمال کی ضرورت نہیں ہے تو میرا کام ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی اور زیادہ عبادت کروں کہ خدا تعالیٰ کا مجھ پر یہ احسان ہوا ہے.اور اگر مجھے اعمال کی ضرورت ہے.تو بھی میرا کام ہے کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کروں تاکہ مجھ پر اور فضل نازل ہوں.۲.اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتا دیا کہ دونوں حالتوں میں انسان باہر نہیں رہ سکتا.جب تک اسے خاص مقام حاصل نہیں ہوتا.اس وقت تک تو اس لئے لگا رہے کہ وہ مقام حاصل ہو.اور جب حاصل ہو جائے تو اس لئے لگا رہے.کہ خدا تعالیٰ کا یہ مجھ پر فضل ہوا ہے.پس خدا تعالی کا فضل ہونے پر کام اور زیادہ کرنا چاہئیے.نہ کہ چھوڑ دینا چاہیئے.رسول کریم

Page 238

۲۳۳ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں حالتوں کے متعلق یہی رکھا ہے.مگر بہت لوگ ہیں.جو رسول کے لفظ سے دھوکا کھا جاتے ہیں.کہ آپ تو رسول تھے.آپ کا فرض تھا کہ اس طرح کرتے بعض لوگ کہتے ہیں.یہ پیروں اور صوفیوں کا کام ہے.ہمارا کام نہیں.اور ہماری جماعت کے لوگ سمجھتے ہیں یہ خلیفہ کا کام ہے.حالانکہ نظیفہ کا کام کے یہ معنی ہیں کہ خلیفہ کام کو ایک انتظام میں لائے نہ یہ کہ سب اسی کا کام ہے.اور باقی سب لوگ آزاد ہیں.دیکھو ایک گھر میں خاوند بیوی بچے ہوتے ہیں لیکن خاوند کے خاوند کہلانے کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ باقی گھر کے سب آدمی کام چھوڑ بیٹھیں اور سارے کام خاوند کو کرنے پڑیں.بلکہ بیوی بچے بھی گھر کے کاموں کے ذمہ وار ہوتے ہیں.تمام گھروں میں یہ تسلیم شدہ امر ہے.اور کوئی یہ نہیں مانے گا کہ میں خاوند ہوں اس لئے سب کام کرنا میرا ہی فرض ہے.بلکہ عام طور پر تو یہ ہوتا ہے کہ لوگ زیادہ تر کام بیوی بچوں سے کراتے ہیں.اور اپنے آپ کو حاکم سمجھتے ہیں.مگر دین کے معاملہ میں کہتے ہی کہ سب خلیفہ کا کام ہے.ہمیں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے.گویا بالکل الٹ نقشہ ہے.کیا خاوند کے ہاتھ میں گھر کی حکومت آنے سے گھر کے دوسرے لوگوں کا کام بند ہو جاتا ہے.اس کے تو یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ سب کے کام تقسیم کر دے.اور اگر کوئی غلطی کرتا ہے تو اسے تنبیہ کرے.اسی طرح خلیفہ کے تعین سے اللہ کا یہ منشاء نہیں کہ سب کو آزاد کر کے سب کام اس کے ذمہ لگا دئے جائیں.بلکہ یہ ہے کہ وہ کام تقسیم کرے اور اس کی نگرانی کرے.لوگ پوچھتے ہیں کہ قرآن کریم میں یہ کیوں آیا ہے کہ اللہ تم کو خلیفہ مقرر کرے گا.اس سے بعض نادانی سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ ایک خلیفہ کی ضرورت نہیں.انجمن ہونی چاہئیے اور بعض کہتے ہیں اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم خلیفہ مقرر کریں گے.اور باری باری مقرر کریں گے.مگر یہ دونوں معنی غلط ہیں.صحیح معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی خلیفہ مقرر ہوتا ہے.پھر اور مقرر ہوتا ہے.پھر اور اس لئے جمع کا لفظ آیا ہے پھر اس لحاظ سے جمع کا صیغہ آیا ہے کہ جو بندہ دنیا میں موجود ہے.اور خدا کا بندہ کہلاتا ہے وہ خدا کا خلیفہ ہوتا ہے.اس کا فرض ہے کہ خدا تعالیٰ کے احکام دنیا میں جاری کرے.اور دوسروں تک پہنچائے.اس لحاظ سے ہر مومن خلیفہ ہے.اور جسے خدا مقرر کرتا ہے.وہ الگ خلیفہ ہے.پس خدا تعالیٰ کے احکام جاری اور قائم کرنے کے لئے ہر ایک ومن خلیفہ ہے.اور جب تک ہماری جماعت کا ہر ایک فرد یہ نہ سمجھے کہ وہ خلیفہ ہے.اس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی.جب تک لوگوں میں یہ مادہ پایا جاتا ہے کہ بعض پر کام چھوڑ کر آپ غافل بیٹھ رہتے ہیں.اس وقت تک ان کے تباہ و برباد ہونے میں کوئی شک نہیں.لیکن جب یہ احساس پیدا ہو جائے گا کہ ہر ایک سمجھ لے یہ میرا ہی کام ہے.تو اس وقت ایسی قوت اور طاقت پیدا ہو

Page 239

جائے گی کہ جسے کوئی توڑ نہیں سکے گا.اس وقت اس دیو کی مثال ہوگی جس کا قصہ بچپن میں پڑھا کرتے تھے.کہ ایک ایسا دیو ہے کہ اگر اس کا سرکاٹ دیا جائے تو دس اور نکل آتے ہیں.یہ تو قصہ ہی ہے.مگر اس جماعت کا حال یہی ہو گا کہ اگر ایک کو کاٹا جائے گا تو دس نکل آئیں گے.مگر جو یہ کہتے ہیں کہ فلاں یہ کام کریں.ان میں سے جب وہ لوگ نہیں رہتے جن کے ذمہ کام سمجھ کر اپنے آپ کو آزاد سمجھا جاتا ہے تو جماعت ٹوٹ جاتی ہے.کوئی جماعت کامیاب اسی وقت ہوتی ہے جبکہ اس کا ہر فرد سمجھتا ہو کہ سلسلہ کا چلانا اور کام کو جاری رکھنا میرے ذمہ ہے ہاں انتظام اور نگرانی کرنا ایک کے سپرد ہے.خلافت کا قیام جماعت کے اجتماع کے لئے ہے.نہ اس لئے کہ ایک کے ذمہ سارا کام ہو جاتا ہے.اور باقی آزاد ہو جاتے ہیں.یہ بات ہے جو میں چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت کے لوگ سمجھیں.ایک ادنیٰ سے ادنی اور جاہل سے جاہل انسان میں بھی یہ جوش اور خیال ہونا چاہیے کہ میں خلیفہ ہوں اور خدا کے دین کی اشاعت کا کام میرے ذمہ لگایا گیا ہے اگر ہماری جماعت میں یہ احساس پیدا ہو جائے.تو میں سمجھتا ہوں کہ اب تو زیادہ جماعت ہے اگر اس کا چوتھا نہیں ہزارواں حصہ بھی جماعت ہوتی تو دنیا کو فتح کرنے کا کوئی فکر نہ ہوتا لیکن اب یہ جو حالت ہے کہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں اشاعت دین خلیفہ کا کام ہے.یا ناظر یا اور لوگ اس کے ذمہ دار ہیں.اس صورت میں اگر 10 کروڑ بھی اور لوگ شامل ہو جائیں.تو کچھ نہیں کر سکتے.حضرت مسیح موعود فرمایا کرتے تھے کہ اگر چالیس آدمی مل جائیں تو دنیا فتح ہو سکتی ہے.مگر اس کے ساتھ ہی آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ جماعت کی تعداد ۴ لاکھ تک پہنچ چکی ہے.پھر چالیس آدمی کیسے چاہتے تھے ؟ ایسے ہی کہ جن میں سے ہر ایک یہی کہے کہ اشاعت اسلام کا کام میرے سپرد ہے.اور میں ہی اسے پورا کرنے کا ذمہ دار ہوں اب بھی اگر ایسے چالیس آدمی مل جائیں تو دنیا کا فتح کرنا مشکل نہیں چند دن میں دنیا کا نقشہ بدلا جا سکتا ہے.لیکن اگر ایسے غافل لوگ جن کی عادتیں اس رنگ کی ہیں.جس طرح چند پیسے چوکیدار کو دیکر اپنے آپ کو امن میں سمجھ لیتے ہیں یا جن کی مثال اس کبوتر کی سی ہے جو بلی سے بچنے کے لئے آنکھیں بند کر کے بیٹھ رہتا ہے.یہ خواہ کتنے بھی ہوں کچھ نہیں کر سکتے.جب تک ہر شخص کے دل میں یہ امنگ اور یہ جوش نہ ہو کہ میں خدا کے دین کو دنیا میں پھیلاؤں گا اس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی.ایسے جوش والے اگر چالیس آدمی بھی پیدا ہو جائیں تو چند ہی دن میں عظیم الشان تغیر کر سکتے ہیں.مگر میں افسوس کرتا ہوں کہ بار بار توجہ دلانے کے باوجود ابھی تک یہ احساس پیدا نہیں ہوا اور لوگ یہی سمجھے بیٹھے ہیں کہ کام کے ذمہ دار خلیفہ یا دو چار شخص ہیں.حالانکہ خلیفہ کا کام تو یہ ہے کہ نگرانی کرے اور دوسرے کے سپرد کام کرے.جو سب کے سب اپنے آپ کو کام کے ذمہ وار

Page 240

۳۳۴ سمجھیں لیکن ہماری جماعت کے لوگوں کی موجودہ حالات ایسی ہے جیسے ایک فوج کے افسر مقرر ہوں کرنل جرنیل.اس پر سپاہی لڑائی چھوڑ کر بیٹھ رہیں کہ جرنیل جو مقرر ہو گیا ہے وہی لڑے گا.کیا کوئی ایسی فوج کامیاب ہو سکتی ہے؟ جب تک ہر سپاہی یہ نہ سمجھے کہ ملک کو بچانے کی ذمہ واری اس پر بھی ویسی ہی ہے جیسے جرنیل پر ہے اس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی.جرنیل کا کام تو یہ ہوتا ہے اور اس لئے مقرر کیا جاتا ہے کہ سپاہی کو بتائے کہ اسے کہاں کھڑا ہونا چاہئیے.اور کس طرح کام کرنا چاہئیے.نہ یہ کہ سپاہی پر کام کی ذمہ داری نہیں رہتی.اسی طرح مذہبی جماعت میں جب تک یہ احساس نہ ہو کہ اس کا ہر فرد اپنے آپ کو اشاعت اسلام کا ذمہ دار سمجھے.اس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی اور اس وقت تک اس کے تمام دعوے باطل اور تمام کامیابی موہوم ہے.ہم میں سے ہر شخص سمجھ لے کہ اشاعت اسلام اسی کا کام ہے کسی اور کا نہیں ہے.جب ایسے لوگ پیدا ہو جائیں گے تو کوئی چیز ان کے سامنے روک نہ بن سکے گی نہ ان کے سامنے مال نہ ان کے سامنے تکالیف نہ حکومتیں نہ فوجیں غرض کہ کوئی چیز نہ ٹھر سکے گی.وہ ڈائنامیٹ کی طرح ہونگے.جو پہاڑوں کو اڑا کر پھینک دیتا ہے.گو وہ تھوڑے ہونگے لیکن بارود بھی تھوڑا سا ہی پہاڑ اڑا دیتا ہے.یہ روح ہماری جماعت کو پیدا کرنی چاہیے.اس کے بغیر کامیابی نہیں ہو سکتی.خدا تعالی ہماری جماعت کو توفیق دے کہ وہ اپنے فرض کو سمجھے.اور ان میں ایسی روح پیدا ہو کہ ہر ایک فرد سمجھ لے کہ دین کی اشاعت کا ذمہ وار میں ہی ہوں.اور اس کو پورا کرنے میں لگ جائے.امتی الفضل ۲۳ مارچ ۱۹۲۲ء) ا بخاری کتاب التهجد باب قيام النبي صلى الله عليه وسلم حتى ترم قدماه

Page 241

۲۳۵ 45 اپنے کام کے مقابلہ میں خدا کے انعام پر نظر کرو (فرموده ۲۴ ر مارچ ۶۱۹۲۲ ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.انسانی زندگی کا دور نہایت ہی محدود ہے.اور اتنا محدود ہے کہ کائنات زمانہ کی وسعت پر نظر ڈالتے ہوئے انسانی زندگی کو سمندر کے حساب کی طرح بھی قرار نہیں دے سکتے.ایک وسیع سمندر میں جو حباب پیدا ہوتا ہے.اور سمندر کے ساتھ اس کی جو نسبت ہوتی ہے.اتنی نسبت بھی انسانی زندگی کو کائنات کی وسعت کے ساتھ نہیں ہے.پھر ایسے محدود دور کے لئے جو انعامات اللہ تعالٰی نے مقرر کئے ہیں.ان کو دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ کیسی رحیم و کریم وہ ذات ہے جس نے ہمیں پیدا کیا اور جو ہم پر انعامات کرتی ہے.ہمارے زمانہ میں لوگوں کی عمریں پچاس ساٹھ ستر اور زیادہ سے زیادہ سویا سوا سو سال ہوتی ہیں.لیکن اگر ڈیڑھ سو سال بھی عمرمان لی جائے.جو شاذ و نادر ہی ہوتی ہے.اور ایک صدی میں ایک یا دو انسان اس عمر کو پہنچتے ہیں تو بھی اس میں سے پچاس سال سونے میں گذر جاتے ہیں.پھر اگر اس میں سے نابالغی کا زمانہ نکال دو تو اور بھی کم رہ جاتی ہے.پھر کھانے پینے پیشاب پاخانہ کرنے میں جو وقت صرف ہوتا ہے.وہ نکال دیا جائے تو اور کمی ہو جاتی ہے.پھر انسان لغو باتوں میں جو وقت ضائع کرتے ہیں وہ نکال دیا جائے تو اور بھی کم ہو جاتی ہے.اور اگر اوسط عمر ۷۰-۸۰ سال فرض کر لی جائے تب بھی اس عمر کے انسان کے کام کا زمانہ دس پندرہ یا ۲۰ سال سے زیادہ نہیں بنتا.یہ ایسا زمانہ ہے جس میں انسان کچھ کام کرتا ہے اس کام کے بدلے میں خدا تعالی کی طرف سے کیا انعام مقرر کیا گیا ہے.اس کو نہایت مختصر الفاظ میں قرآن کریم نے اس طرح بیان کیا ہے کہ ” جنات عدن" باغ ہونگے جس کے رہنے والے بھی ہمیشہ رہیں گے.اور باغ بھی ہمیشہ اور ان کے پھل بھی ہمیشہ رہیں گے.پھر فرمایا.عطاء غیر مجذوذ (صور۱۰۹) ایسا انعام ہوگا جو کبھی نہیں کاٹا جائے گا.کوئی وقت ایسا نہیں آئے گا.جب یہ کہہ دیا جائے کہ اب انعام کافی مل گیا.

Page 242

بلکہ ہمیشہ ہمیش ملتا رہے گا.گویا اس جہان میں انسان خدا کا ظل ہو جائے گا.کیونکہ جس طرح اللہ تعالیٰ پر فنا نہیں اسی طرح ایک رنگ میں اس انسان پر فنا نہیں ہوگی.گو اصلی ذات خدا تعالیٰ ہی کی ہے جسے بقا حاصل ہے.مگر انسان کو بھی ایک شکل بقا کی حاصل ہو جائے گی اور انسان خدا میں ہو کر رہے گا.مگر خیال تو کرد که ایسا انعام کس کام کے نتیجہ میں ملتا ہے.اسی کام کے نتیجہ میں جو دس پندرہ ہیں سال کے قلیل عرصہ میں کیا جائے گا.پھر کیا یہ سارے سال خدا کے لئے خرچ کئے جاتے ہیں.شاذ و نادر لوگوں کے سوا باقی سب لوگوں کے بہت سے اوقات لغو باتوں میں خرچ ہوتے ہیں.عبادتوں یا خدا کے دین کی خدمت کا وقت دو یا تین گھنٹے دن میں بنتا ہے.اس طرح کام کرنے کا جزو اور بھی قلیل رہ جاتا ہے اور جتنا عرصہ کام کرنا تھا وہ بھی سارے کا سارا انسان دین میں نہیں لگاتا.مگر دیکھو اس آٹھ دس سال کے کام کے بدلے میں ایسی عظیم الشان برکات حاصل ہونگی کہ جن کا کبھی خاتمہ ہی نہ ہو گا.حتی کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کے وہم میں بھی اس جنت کا نقشہ نہیں آسکتا.زمانہ کی وسعت کے لحاظ سے تو اس کے متعلق یہ ہے کہ جنت غیر محدود نہ کٹنے اور نہ ختم ہونے والا انعام ہے.اور انعام کی وسعت کے لحاظ سے یہ ہے کہ اس میں اتنی وسعت اور اتنی انواع ہیں کہ انسان کو ان کا پتہ ہی نہیں لگ سکتا.کیونکہ انسان کی نظر دنیا کی نعمتوں تک ہی پہنچتی ہے.اور دنیا کی نعمتوں کو جنت کی نعمتوں سے کچھ نسبت نہیں.اتنے بڑے اور ایسے عظیم الشان انعام اتنے قلیل زمانہ کی خدمات کے بدلے ملتے ہیں.ذرا غور کرو کیا قربانی ہے جو ان انعامات کے لئے انسان کرتا ہے.دنیا کے کاموں پر ہی نظر کرو.ایک انسان پندرہ سولہ سال پڑھتا دن رات محنت کرتا ہے.اور اتنے سال کی محنت کے بعد اس کی عمر پچیس تمہیں سال تک پہنچ جاتی ہے.اس کی ساری عمر اگر ساٹھ سال قرار دی جائے تو گویا وہ تمہیں سال کی عمر میں فائدہ اٹھانے کے لئے بچتیں تیس سال محنت کرتا ہے.اور پھر اتنا عرصہ پڑھنے کے بعد بھی مال و دولت خود بخود اس کے گھر میں نہیں آجائے گا.اور وہ محنت جو اس نے پڑھنے میں کی.وہ کافی نہ ہوگی.بلکہ پھر بھی اسے محنت کرنی پڑے گی.پس ایک انسان اپنی عمر کے پندرہ سولہ سال آئندہ عمر تمیں چالیس سال کے لئے خرچ کرتا ہے.پھر وہ انعام جس کی وسعت کا کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا.اور جس کے زمانہ کی کوئی حد بندی نہیں کر سکتا.اس کے لئے جس قدر بھی قربانی کی جائے کم ہے.لیکن عام طور پر چونکہ لوگوں کو اس انعام پر یقین نہیں ہوتا.اس لئے اس کے واسطے وقت صرف نہیں کرتے اور اگر کرتے بھی ہیں.تو اس شوق سے نہیں جس شوق سے دنیاوی امور کے.لئے عمر ضائع کرتے ہیں.ضائع میں اس لئے کہتا ہوں کہ عمر ختم ہو جانے والی چیز ہے.اور جن

Page 243

دنیاوی باتوں کے لئے خرچ کی جاتی ہے وہ بھی عارضی اور چند روزہ ہیں تو جس انعام کے لئے بہترین حصہ عمر خرچ کرتے ہیں وہ چونکہ نظر آتا ہے.اس لئے اس میں تو بڑے شوق سے لگے رہتے ہیں.لیکن دوسرے جہان میں ملنے والا انعام نہ انہیں نظر آتا ہے.اور نہ اس پر انہیں یقین ہوتا ہے اس لئے اس کے لئے کچھ نہیں کرتے.کسی طالب علم کو اگر یہ کہا جائے.کہ دیکھو تمہاری پچاس سال عمر ہوگی.اس سے کچھ تمہارے بچپن کا زمانہ گذر گیا.اور پندرہ سولہ سال تک تم پڑھتے رہو گے.اس طرح بچتیں تھیں سال عمر تک تم پڑھائی میں مشغول رہو گے.اس کے بعد کہیں جا کر فائدہ اٹھاؤ گے.اس لئے بہتر ہے کہ پڑھنا چھوڑ دو.تو وہ کبھی یہ مشورہ قبول نہیں کرے گا.اور یہ کہنے والے کو نادان سمجھے گا.لیکن تعجب آتا ہے کہ اس انعام کے لئے جس کا کبھی خاتمہ نہیں اور جس کی وسعت کا اندازہ نہیں.اس کے لئے لوگ تیاری نہیں کرتے.یہ جتنی خرابی پیدا ہوتی ہے عدم یقین کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے.انسان حقیقی طور پر سمجھتا ہی نہیں کہ مرنے کے بعد بھی وہ اٹھایا جائے گا.اور جو لوگ یہ مانتے ہیں وہ بھی رسمی عقیدہ کے طور پر مانتے ہیں.یقینی طور پر نہیں مانتے.اور یقین اور عقیدہ میں بڑا فرق ہے.عقیدہ کے متعلق تو عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ اس کے متعلق غور کرنا بھی ناجائز سمجھتے ہیں ورنہ جب لوگ معمولی معمولی باتوں کے لئے قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں تو کیوں خدا تعالٰی کے لئے قربانی کرنے کو تیار نہیں ہوتے.اس کی وجہ یہی ہے کہ دنیاوی باتوں کا انہیں حقیقی یقین ہوتا ہے.مگر خدا تعالیٰ کی باتوں کو صرف عقید تا مانتے ہیں.ان پر یقین نہیں رکھتے.ماں باپ سے انہوں نے سنا ہوتا ہے.کہ خدا تعالیٰ ہے.اس لئے وہ بھی کہتے ہیں.خدا ہے.ماں باپ سے سنا ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد اٹھنا ہے.اس لئے وہ بھی کہتے ہیں.اٹھنا ہے.ماں باپ سے سنا ہوتا ہے.بدیوں کے نتیجہ میں سزا ملے گی.اس لئے بھی مانتے ہیں.اور گو زبان سے ان باتوں کا اقرار کرتے ہیں.مگر ان کی عقل اندر سے انکار کر رہی ہوتی ہے اور چونکہ وہ عقیدہ کے طور پر مانتے ہیں.اس لئے عقیدت کی وجہ سے غور نہیں کرتے اور ڈرتے ہیں کہ اگر کیا تو ممکن ہے غلط نکل آئے.ایسا کچا اور بودہ عقیدہ ان کا ہوتا ہے.چنانچہ ہمارے آدمی جب کئی غیر احمدیوں کے پاس جاتے اور انہیں تبلیغ کرنے لگتے ہیں تو وہ کہتے ہیں ہم تمہاری باتیں نہیں سننا چاہتے تاکہ ہمارا ایمان خراب نہ ہو جائے.حالانکہ اگر ان میں فی الواقع ایمان ہو تا تو اس کے خراب ہونے کے کیا معنی.کبھی ایمان بھی خراب ہوا کرتا ہے.بات اصل میں یہ ہے.کہ وہ جن باتوں کو مانتے ہیں صرف زبان سے مانتے ہیں.ان کے دلائل ان کے پاس نہیں ہوتے.اور انہیں ڈر ہوتا ہے کہ اگر ان کے خلاف دلائل سنے تو چھوڑنی پڑیں گی.اس لئے وہ سنتے ہی نہیں.اور کہتے ہیں کہ سننے سے ہمارا ایمان خراب ہو جاتا ہے.حالانکہ ایمان تو وہ چیز ہے.کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

Page 244

۲۳۸ فرماتے ہیں.کہ جب کسی میں ایمان پیدا ہو جائے تو ایمان کی ادنی بشاشت یہ ہے کہ وہ آگ میں پڑنا تو پسند کرلے گا لیکن ایمان نہیں چھوڑے گا.یہ ادنی درجہ ہے ایمان کا.ان لوگوں میں ایمان ہی کہاں ہوتا ہے جو کہتے ہیں خراب ہو جاتا ہے.وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ میں کسی کی بات اس لئے نہیں سنتا کہ میرا ایمان خراب ہو جاتا ہے.وہ گویا خود اقرار کرتا ہے کہ اس میں ایمان نہیں ہے.ماں باپ سے سن کر اور ساتھیوں کے میل وملاپ کی وجہ سے جو کچھ مانتا ہے.مانتا ہے.ورنہ اسے یقین حاصل نہیں ہوتا.عام طور پر لوگوں کا یہی حال ہے کہ سنی سنائی باتوں کو مانتے ہیں.اسی لئے ان کے لئے قربانی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.اردو میں مثل ہے سو گز واروں ایک گز نہ پھاڑوں.یہی مثال ان کی ہوتی ہے.منہ سے جتنا چاہو ان سے اقرار کرالو.وہ کہنے کو تو کہدیں گے کہ ہم خدا اور رسول اور اسلام پر قربان ہونے کو تیار ہیں.مگر جب وقت آئے گا تو قربان ہونا تو الگ رہا.معمولی سی قربانی کرنے کے لئے بھی آمادہ نہ ہونگے.یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ ان میں ایمان نہیں ہوتا.کیونکہ ایمان کی علامت تو یہ ہے کہ خواہ کس قدر بھی مشکلات میں انسان کو ڈال دیا جائے وہ پروا نہیں کرتا.اور جب تک مشکلات کی بھٹی میں نہ ڈالا جائے.اس وقت تک ایمان کا پتہ نہیں لگتا.اس لئے ہمیشہ نبیوں کے ماننے والوں کو ابتلا آتے رہے ہیں.یہ دو قسم کے ابتلاء ہوتے ہیں.ایک وہ جو بندہ خود اپنے اوپر اپنی مرضی سے نازل کرتا ہے.اور دوسرے وہ جو خدا تعالیٰ نازل کرتا ہے.بندہ کی اپنی مرضی پر جو ابتلا چھوڑے جاتے ہیں.وہ مثلاً نماز روزہ ہیں.ان میں سہولت کے سامان انسان کر سکتا ہے.مگر ایک وہ ابتلا ہوتے ہیں جو خدا کے ہاتھ میں ہوتے ہیں.بندہ اگر چاہے کہ ان میں سہولت کرلے تو نہیں کر سکتا.یہ اس لئے آتے ہیں کہ خدا بندہ پر اس کے ایمان کی حالت ظاہر کر دے.اس لئے نہیں آتے کہ خدا کو انسان کا پتہ نہیں ہوتا.اور یہ مت خیال کرو کہ کیا بندہ اپنا حال بھی نہیں جانتا.سب سے بڑی مصیبت یہی ہے کہ لوگ اپنے دل کا حال نہیں جانتے.اگر یہ بات نہ رہے تو ساری خرابی دور ہو جائے.اپنے دلوں کے متعلق لوگوں کے غلط خیال ہوتے ہیں.اس کی موٹی مثال یہ ہے کہ عام طور پر بہادر اور دلیر انسان بہت کم ہوتے ہیں.اور زیادہ ایسے ہوتے ہیں جو خطرات سے ڈرتے ہیں.لیکن اگر سو آدمی کو بٹھا کر لڑائی کی خبریں سناؤ تو ان میں سے ہر ایک یہی کے گا کہ اگر اس موقع پر ہم ہوتے تو یوں کرتے.لڑنے والوں نے یہ کمزوری دکھائی.اور یہ خرابی کی اور یہ یونہی نہیں کہتے.بلکہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر ہم ہوتے تو اس طرح کرتے.یہ جھوٹ نہیں بول رہے ہوتے.مگر جب موقع پر لا کر کھڑا کر دیا جائے تب انہیں پتہ لگتا ہے کہ ان کی حقیقت کیا ہے.اسی طرح انسان کو ہزاروں چیزوں سے محبت ہوتی ہے.اور ہزاروں سے نفرت.مگر در حقیقت

Page 245

۲۳۹ اسے نہ ان سے محبت ہوتی ہے جن سے وہ محبت سمجھتا ہے اور نہ ان سے نفرت ہوتی ہے جن سے وہ نفرت کا اظہار کرتا ہے.ایک وقت جس چیز سے اسے محبت ہوتی ہے.دوسرے وقت اسی سے نفرت کرتا ہے.اور جس سے نفرت ہوتی ہے اس سے محبت جتانے لگتا ہے.آج ایک شخص اس کی صلح ہوتی ہے.اور اسے اپنا دوست سمجھتا اور خیال کرتا ہے کہ میں کبھی اسے چھوڑ نہیں سکتا لیکن شام کو اسے چھوڑ دیتا ہے.اور اس سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا.اسی طرح صبح کو ایک شخص سے اس کی دشمنی ہوتی ہے اور اس کی شکل سے بھی بیزار ہوتا ہے.لیکن شام کو اس کا ایسا دوست بن جاتا ہے کہ کہتا ہے اگر کوئی اسے ٹیڑھی نظر سے بھی دیکھے گا تو میں اسے جان سے ماردوں گا.ایسے تغیرات ہوتے رہتے ہیں.جن سے ظاہر ہے کہ عام طور پر انسان اپنے دل کی حالت نہیں جانتا.اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کے قلب کی حالت بتانے کے لئے یہ کیا ہے کہ اسے ابتلاؤں میں ڈالتا ہے.تاکہ خطرناک حالتوں سے گذر کر اسے اپنی حقیقت کا علم ہو جائے.ہمارے زمانہ میں اس لئے کہ ہماری حالتیں بوجہ مدتوں مغلوب رہنے کے اچھی طرح مضبوط نہیں.اور ہم میں وہ دلیری اور جرات نہیں جس کی ضرورت بڑے بڑے ابتلاؤں کو برداشت کرنے کے لئے ہے.اس لئے خدا تعالٰی نے ہم پر رحم کرکے ہمیں ایسے ابتلاؤں میں نہیں ڈالا جیسے پہلے انبیاء کی جماعتوں کے لئے آتے رہے ہیں.خدا تعالٰی برداشت کر لینے کی ہمت دیکھ کر ابتلا ڈالتا ہے.یہ نہیں کہ جو ابتلاء برداشت کرنے کی طاقت نہ ہو وہ ڈال دے.ہاں انسان ایسے ابتلاؤں میں ضرور ڈالا جاتا ہے.جن کے متعلق وہ خیال کرتا ہے کہ برداشت نہیں کر سکوں گا لیکن یہ خیال غلط ہوتا ہے اور اس طرح خدا پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اللہ نے اس پر ظلم کیا ہے کہ جس بوجھ کے اٹھانے کی اس میں طاقت نہ تھی.اسے اس پر ڈال دیا.حالانکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کبھی ایسا نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے لا يكلف الله نفسا إلا وسعها (البقرة : ۲۸۷) خدا کسی پر ایسا بوجھ نہیں ڈالتا جس کے اٹھانے کی اسے طاقت نہ ہو.بوجھ وہی ڈالا جاتا ہے جس کے اٹھانے کی طاقت ہوتی ہے.مگر اس وقت تک جب تک کہ اس قوم کو تباہ کرنے کا منشاء نہیں ہوتا.جو ابتلاء کسی جماعت کی ترقی کے لئے آتے ہیں وہ طاقت برداشت سے باہر نہیں ہوتے.ہاں جو ہلاکت کے لئے ہوتے ہیں وہ ضرور باہر ہوتے ہیں.پس مومن کے ابتلاء طاقت سے باہر نہیں ہوتے.ہاں وہ خیال کر لیتا ہے کہ باہر ہیں.مگر یہ اس کی غلطی ہوتی ہے.جب مومن ایک ابتلا کو برداشت کر لیتا ہے تو اسے پتہ لگ جاتا ہے کہ اس کا ایمان کتنا مضبوط ہے.پھر اور رنگ میں اس پر ابتلا آتا ہے.یا اسی رنگ میں آتا ہے جس رنگ میں پہلے آیا ہوتا ہے.مگر زیادہ سخت اگر اس کو برداشت کر لیتا ہے اور اس سے دل میں کسی قسم کا شکوہ و شکایت پیدا ہونے کی بجائے شکر و امتنان پیدا ہوتا ہے کہ خدا نے

Page 246

۲۴۰.اپنے فضل سے مجھے اتنی طاقت دی کہ میں نے اسے برداشت کر لیا.تو اس کا ایمان اور پختہ ہو جاتا ہے.اور وہ اس سے بڑا ابتلا برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.جیسے جوں جوں انسان کو دلیری ہوتی جاتی ہے آگے بڑھتا جاتا ہے.اسی طرح اس کی حالت ہوتی ہے.وہ جوں جوں دلیر ہوتا جاتا ہے.آگے بڑھتا جاتا ہے اس طرح ایک تو اسے اپنے ایمان کی پختگی کا پتہ لگتا جاتا ہے دوسرے اسے آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے.اور وہ ترقی کرتا جاتا ہے.تو ابتلاء کے دو فائدے ہوتے ہیں.ایک یہ کہ انسان کو اپنی حالت کا پتہ لگتا ہے کہ خدا کی راہ میں کس قدر تکلیف اٹھا سکتا ہے.اور تکلیف کے وقت کس قدر مضبوط رہ سکتا ہے.دوسرے یہ کہ آگے قدم بڑھانے کی جرات پیدا ہوتی ہے.ابتلاؤں کا آنا ایسی ضروری بات ہے کہ نبیوں کی کوئی جماعت ایسی نہیں ہوئی کہ جس پر ابتلا نہ آئے ہوں.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ام حسبتم ان تدخلوا الجنة ولما ياتكم مثل الذين خلوا من قبلهم (البقرة : ۲۱۵) کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ نعمت اور وہ انعام جس کی وسعت کا اندازہ نہیں لگا سکتے انہیں یونسی مل جائے گا.اور ان پر وہ حالت نہ گزرے گی جو پہلوں پر گزرتی رہی.وہ حالت ضرور گزرے گی.اس لئے یہ مت خیال کرو کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے.جب تک ان حالتوں میں سے نہ گزرو گے جن میں سے پہلے گزرے.انہیں کیا ہوا تھا.اور ان کی حالت کیسی ہوئی.ان کی حالت ایسی ہو گئی کہ مستهم الباساء والضراء وزلزلوا حتى يقول الرسول والذين امنوا معه متى نصر اللہ ان کو بڑی بڑی تکلیف جسمانی بھی اور مالی بھی.انہیں اپنی جائیدادیں چھوڑنی پڑیں.رشتہ داروں کو ترک کرنا پڑا.فاقے کرنے پڑے.ماریں انہوں نے کھائیں.قتل وہ ہوئے غرضیکہ کئی کئی رنگ میں ہلائے گئے.جس طرح زلزلہ آتا ہے تو عمارت کبھی دائیں کرنے لگتی ہے.کبھی بائیں.اسی طرح دیکھنے والے ان کے متعلق کہتے تھے کہ یہ اب گرے.حتی کہ ان کی تکالیف بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ گئیں کہ دشمن نے خیال کیا کہ اب یہ گر ہی گئے.اس وقت اللہ کے رسول اور مومنوں نے دعا کرنی شروع کی کہ متی نصر اللہ اے خدا ابتلا اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ مدد آجائے مٹی نصر اللہ کے لفظی معنی یہی ہیں کہ کب مدد آئے گی اور لوگ کہتے ہیں کہ ان کو خدا کی مدد کے متعلق شک پیدا ہو گیا تھا کہ شاید آئے.نہ آئے اس لئے انہوں نے کہا کب مدد آئے گی.مگر یہ صحیح نہیں ہے.سوال التجا کا رنگ بھی رکھتا ہے.انسان کسی سے پوچھتا ہے کہ یہ بات آپ کب کریں گے.اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ نہیں کریں گے بلکہ یہ کہ کر دیں.اسی طرح مجسٹریٹ سے جب پوچھا جاتا ہے کہ میری باری کب آئے گی تو اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ

Page 247

۲۴۱ کبھی نہیں آئے گی.بلکہ یہ کہ آجائے.تو مشی نصر اللہ انہوں نے دعائیں کرنی شروع کر دیں کہ الہی ابتلاء بڑھ گئے ہیں اب مدد آجائے.اس کے جواب میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے الا ان نصر الله قريب خدا کی مدد قریب ہی ہوتی ہے.ہر ابتلاء کے ساتھ مدد آتی ہے.جب ابتلاء تمہاری ترقیات کے لئے آئیں.تو پھر تمہیں تباہ ہونے کا ڈر نہیں ہونا چاہئیے.اگر تمہارے نفسوں میں خرابی ہے اور جانتے ہو کہ خدا تمہیں ہلاک کرنا چاہتا ہے تو مدد نہیں آئے گی.لیکن اگر تمہارے نفسوں میں خرابی نہیں.تمہارا ایمان مضبوط ہے.تم تقویٰ کی راہ پر قدم مار رہے ہو.وساوس پر تمہیں قابو حاصل ہے تو ابتلاء تمہارے لئے خوف و خطرہ کا باعث نہیں ہو سکتے.مومن کو کبھی ڈر نہیں ہوتا.اس پر جب ابتلا آتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ اس ابتلاء کے ساتھ ہی خدا کی مدد بھی آرہی ہے.مثنوی رومی والے نے اسی مضمون کو اس طرح بیان کیا ہے.ہر بلا کیں قوم را حق داده است زیر آن گنج کرم بنهاده است پس ہر ابتلا جو آتا ہے اس کے ساتھ ساتھ خزانہ انعامات کا مخفی ہوتا ہے.اس لئے اصل خطرہ کی بات ابتلا نہیں ہوتا.کیونکہ ابتلا کے تو یہ معنی ہوتے ہیں کہ اور ترقی خدا دے گا.ڈر اور خوف کی بات اپنے نفس کی حالت ہوتی ہے.اس کو ٹولنا اور دیکھنا چاہیے کہ آیا اس میں تو کوئی ایسی بات پیدا نہیں ہو گئی جو تباہی کا باعث بن جائے اگر اس میں وساوس نہیں پیدا ہوئے.اگر ایمان مضبوط ہے اور دل شکر اور امتنان کے جذبات سے پر ہے تو خوش ہونا چاہیے کیونکہ ایسی حالت میں ابتلا ڈر کا باعث نہیں بلکہ خوش خبری ہے.لیکن اگر ابتلا آنے پر وساوس پیدا ہو جاتے ہیں.ایمان میں کمزوری معلوم ہوتی ہے.تو سمجھ لو کہ یہ ابتلاء تمہاری ترقی کا باعث نہیں بلکہ ہلاکت کا باعث ہو گا.پس ابتلاء کے وقت ابتلاء کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ اپنے نفس کو دیکھنا چاہئیے اگر تمہارا نفس مطمئن ہے.اگر اس میں کوئی نقص اور کمزوری نہیں پیدا ہوئی تو خوش ہو کہ تمہاری ترقی کا وقت آگیا.اور تمہارا قدم آگے بڑھنے لگا ہے.لیکن اگر نفس میں خرابی ہے.ایمان میں کمزوری ہے.اور دل میں وساوس ہیں تو سمجھ لو کہ تباہی آگئی ہے.ہماری جماعت کے لئے ابتلاء آنے ضروری ہیں اور آئے ہیں.لیکن پہلی جماعتوں کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں.صحابہ کرام کو ایک دم کسی قدر ابتلاء آئے.ان کا تو عشر عشیر بھی نہیں.صحابہ پر یک دم سب ابتلاء آئے.مگر ہمارے لئے ایسا نہیں ہوا.بلکہ سہار سمار کر ہم پر آرہے ہیں.ایک ابتلاء کے برداشت کرنے کی جب طاقت پیدا ہو جاتی ہے.تب دوسرا آتا ہے ہمارے ابتلاؤں کی

Page 248

۲۴۳ مثال ایسی ہی ہے.جیسے نماز اور روزہ کے ابتلاء ہیں.کہ اگر سردی ہو.تو گرم پانی کر لیا جائے اگر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے میں تکلیف ہے تو بیٹھ کر پڑھ لی جائے.اور اگر روزہ نہیں رکھا جاتا تو دوسرے وقت میں رکھ لیا جائے.مگر صحابہ کے ابتلاء کی مثال یہ نہ تھی.بلکہ یہ تھی کہ جیسے یک دم مکان اوپر آگرے یا جیسے سارا سال محنت کرنے کے بعد جب کھیتی تیار ہو تو آگ لگ جائے.ہماری جماعت پر جو ابتلا آرہے ہیں.اگر پہلوں کے ابتلاؤں کو دیکھا جائے.تو اول تو میں اپنے لئے انہیں ابتلا کہتا ہی جائز نہیں سمجھتا.کیونکہ پہلوں کے مقابلہ میں انہیں ابتلا کہتے ہوئے شرم آتی ہے.مگر پھر بھی یہ ترقی کا زینہ ہیں.اگر ہماری جماعت کے لوگ ان کو برداشت کرلیں گے تو ترقی کے اعلیٰ زینہ اور ایمان کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جائیں گے.اور اصل اور حقیقی ایمان وہی ہوتا ہے جو ابتلاؤں میں سے گذرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے.پس تم اپنے ایمانوں پر غور کرو.جس قسم کے تمہارے ایمان ہیں کیا ان کے بدلے میں تم پچاس سال کی زندگی پانے کے بھی مستحق ہو.اگر نہیں تو پھر ابدی زندگی کس طرح پا سکو گے.اس کے لئے ضروری ہے کہ تم پر ابتلاء آئیں.اور تمہارا ایمان پختہ ہو.کیونکہ اس کے بعد ابدی زندگی حاصل ہوتی ہے.خدا تعالی ہم پر اپنا فضل کرے.اور محض اپنے کرم سے اپنا قرب عطا کرے.اور ہمیں ایسا ایمان نصیب کرے.جس کے بعد ابدی زندگی حاصل ہو.ا بخاری کتاب الایمان باب حلاوة الایمان الفضل ۱۶ اپریل ۶۱۹۲۲ )

Page 249

علام کنیم ۳ 46 کلام الہی کی ضرورت و اہمیت (فرموده ۱۴ر اپریل ۱۹۲۲ء) حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.آج میں نے اس خیال سے کہ حلق کی بیماری کی وجہ سے عرصہ ہو گیا ہے کہ قرآن کریم کا درس دینے کا موقع نہیں ملا.بطور تیرک آج کے خطبہ میں بجائے عام مضمون کے قرآن کریم کے ایک رکوع کا درس دینے کا ارادہ کیا ہے.کیونکہ درس چھوڑے ہوئے لمبا عرصہ گزرتا جاتا ہے.چونکہ جس طرح انسانوں میں زندگی ہوتی ہے.اسی طرح کاموں میں بھی زندگی ہوتی ہے.اور خیال نہ رکھنے سے وہ مٹتی چلی جاتی ہے.میں نے خیال کیا کہ اس طرح اس سلسلہ میں واسطہ اور جوڑ پیدا مداکر دوں.اور اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے.تو ممکن ہے.یہ سلسلہ با قاعدہ ہو جائے.اس وجہ سے آج ایک رکوع کا درس بیان کرتا ہوں.تمام تباہیوں کی جڑ اور ان کا منبع ایک ہی بات ہے.اور جتنے مذہبی اختلاف پیدا ہوئے ہیں.اسی بات سے پیدا ہوئے ہیں کہ وما قدروا الله حق قدره انسان اللہ تعالیٰ کا اندازہ لگانے کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے.بھلا اللہ تعالٰی کا اندازہ بندہ کیا لگا سکتا ہے.وہ جب ان چیزوں کا اندازہ نہیں لگا سکتا جو اس جیسی ہیں.تو پھر اس ہستی کا کیا اندازہ لگا سکتا ہے جو نہ صرف اس جیسی نہیں بلکہ اسے پیدا کرنے والی ہے مگر بہت لوگ نادانی اور غلطی سے خدا تعالیٰ کو اپنے اندازوں سے ناپنے لگتے ہیں.اور اپنی عقل سے اس کا اندازہ کرنا چاہتے ہیں.حالانکہ عقل انسانی اتنی محدود ہے کہ بہت محدود چیزوں سے تعلق رکھتی ہے.اور وہ چیزیں جو نظر آنے والی ہیں.ان کا بھی پورے طور پر اندازہ نہیں لگا سکتی.اپنے اسی وجود کو دیکھو.کیا اس کا اندازہ انسانی عقل نے لگا لیا ہے؟ کئی بیماریاں ایسی ہیں جنہیں پہلے لا علاج سمجھا جاتا تھا مگر اب ان کا علاج نکل آیا ہے.کئی نئی قوتیں انسان کی ظاہر ہوتی جا رہی ہیں.آج سے سو سال پہلے انسان میں جو قوتیں تھیں اب ان سے زیادہ ہیں.اور آج سے سو سال نہیں گذریں گے کہ اس سے بھی زیادہ ہونگی.خوردبین نے انسانی جسم میں ایسی ایسی باریک رگیں دکھائی ہیں کہ جن کا پہلے کسی کو خیال بھی نہ تھا.جو اس ہی لے لو.حواس خمسہ مشہور ہیں مگر

Page 250

۲۴۴ موجودہ علم نے چار اور جو اس دریافت کئے ہیں اور اب ؟ جو اس سمجھے جاتے ہیں حالانکہ حس ایسی چیز ہے کہ ہر ایک کو معلوم ہو سکتی ہے.مگر اس کا بھی پورا پتہ نہ لگا.مثلاً یہ معلوم نہ تھا کہ گرمی سردی محسوس کرنے کی بھی حس ہوتی ہے.اور لوگ یہ نہ جانتے تھے کہ بعض اعصاب ایسے ہوتے ہیں.جو گرمی کا پتہ لگاتے ہیں اور بعض سردی کا.یا کہ ایسے اعصاب ہیں جو بتاتے ہیں کہ فلاں عضو کہاں ہے.جس طرح اعصاب کے ذریعہ سفید، سرخ، نرم، سخت اونچی نیچی آواز معلوم ہوتی ہے.اسی طرح یہ بھی معلوم ہوتا ہے.کہ ہاتھ کہاں رکھا ہے اور پاؤں کہاں.مگر پہلے معلوم نہیں تھا کہ یہ بھی کوئی حس ہوتی ہے.اور اگر یہ ماری جائے تو پھر انسان کو معلوم نہیں ہو سکتا کہ اس کا ہاتھ کہاں ہے اور پاؤں کہاں جس طرح جب ناک کی جس ماری جائے تو خوشبو اور بدبو کا پتہ نہیں لگتا.اسی طرح یہ حس ہے.جو ماری جائے.تو انسان بتا نہیں سکتا کہ اس کا ہاتھ کہاں اور پاؤں کہاں ہے.نہیں جب انسان نے اپنے نفس کے متعلق ہی تحقیقات نہیں کی بلکہ اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ میں کیا ہوں تو خدا تعالیٰ کے متعلق وہ کیا اندازہ لگا سکتا ہے.ہمارے ہاں بچے ایک کھیل کھیلا کرتے ہیں.معلوم نہیں اور جگہ کھیلتے ہیں یا نہیں.مگر وہ بچوں کی کھیل ایسی ہے کہ یہی سوال ہے جس پر فلاسفر بھی حیران ہیں اور اس کا کوئی حل ان کے پاس نہیں ہے ایک لڑکے کو کہتے ہیں ہم میں سے کسی کو پکڑو.اور جب وہ پکڑتا ہے.اور کسی عضو پر ہاتھ رکھتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے.مثلاً اگر ہاتھ کو پکڑا تو کہ دیا یہ تو ہاتھ ہے میں نہیں.اگر کمر کو پکڑا.تو کہدیا یہ تو کمر ہے میں نہیں اگر گلے کو پکڑا تو کہدیا یہ تو گلا ہے میں نہیں جس طرح بچوں کی کھیل میں یہ پتہ نہیں لگتا کہ ”میں " کیا ہے.اسی طرح فلاسفر اپنی تحقیقات میں حیران ہیں کہ میں کیا چیز ہے آج تک اسی کو دریافت نہیں کر سکے.پس جو "میں" کو دریافت نہیں کر سکتا.وہ اگر کہے کہ اپنی عقل سے خدا کو دریافت کر لوں گا.تو کیسا نادان ہے.جب اس ہستی کا احاطہ اپنی عقل سے کرے گا.تو ٹھوکر کھائے گا.لیکن عجیب بات ہے.کہ جب کوئی نبی اگر خدا تعالیٰ کی حقیقت بیان کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں ہم نہیں مانیں گے.آپ اپنی عقل سے اندازہ لگا لیں گے.گویا ان کی حالت بچوں کی سی ہوتی ہے.جس طرح ایک چھوٹے بچے کو جب کچھ کھلانے لگیں.تو بعض اوقات وہ کہہ دیتا ہے میں خود کھاؤں گا.اور ہاتھ منہ بھر لیتا ہے.اسی طرح جو لوگ خدا تعالیٰ کا اندازہ اپنی عقل سے لگاتے ہیں.اور انبیاء کی راہ نمائی قبول نہیں کرتے.وہ ہزاروں غلطیاں کرتے ہیں اور سینکڑوں ٹھوکریں کھاتے ہیں.اور یہاں تک گر جاتے ہیں کہ ایسی قومیں ہیں جو کئی کئی خدا مانتی ہیں اور یقین رکھتی ہیں کہ خدا مگر مجھ ، سنور وغیرہ جانوروں کے بھیس میں ظاہر ہوا.پھر اس سے بھی بڑھ کر ایسے لوگ ہیں کہ جن کے خیالات علمی طور پر بھی ظاہر کرنا میں مناسب نہیں سمجھتا.انہوں نے خدا کو نہایت ہی مکروہ اور فحش طور پر

Page 251

۲۴۵ ظاہر کیا ہے.پھر ایک ایسی قوم جو دنیاوی لحاظ سے بہت بڑھی ہوئی ہے عیسائیوں کی قوم ہے.کیسی کیسی اعلیٰ ایجادیں اس نے کی ہیں.کیسے علوم نکالے ہیں اور کس قدر ترقی کی ہے.مگر خدا کو بھی اپنی عقل سے ناپنے پر کس قدر ٹھوکر کھائی ہے کہ ایک ایسے انسان کو جو دوسرے انسانوں کی طرح کھاتا پیتا، بلکہ اس رنگ میں زیادہ کمزور ثابت ہوا کہ جس رتبہ کا وہ تھا اس کا کچھ لحاظ نہ کیا گیا.اور اسے پکڑ کر پھانسی پر لٹکا دیا گیا.مگر باوجود اس کے کہتے ہیں وہ خدا کا بیٹا ہے.پھر آپ تو کہتے ہیں کہ مسیح نے کہا ہے کہ اگر کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسری بھی اس کی طرف کر دو.اور یہ بھی کہا ہے کہ تم اپنے دشمنوں پر رحم کرو.اور گناہ کرنے والوں کو معاف کرو.مگر خدا کے لئے کہتے ہیں وہ کسی پر رحم نہیں کر سکتا.اور کسی کے گناہ معاف نہیں کر سکتا.گویا وہ جو ساری خوبیوں کا منبع اور تمام صفات کا جامع ہے.وہ تو کسی کو معاف نہیں کر سکتا.مگر وہ جو کمزوریوں سے بھرا ہوا اور جس کی پیدائش میں ہی کہتے ہیں کہ آدم کے گناہ کا اثر داخل ہے وہ رحم کر سکتا ہے اور قصور معاف کر سکتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اذ قالوا ما انزل الله على بشر من شيء خدا کا جو صحیح اندازہ تھا وہ چونکہ ان لوگوں نے نہیں لگایا.اس لئے ٹھوکر کھائی ہے.نئے نئے دین بنالئے ہیں.ان کے ٹھو کر کھانے کی مثال یہ ہے کہ انہوں نے کہا خدا نے اپنے کوئی کلام نازل نہیں کیا بندہ پر.مگر انہوں نے یہ نہ سمجھا.کہ وہ خدا جو کامل ہے.اور جس نے انسان کے جسم کے لئے پورے سامان کئے ہیں.چاند سورج زمین آسمان بنائے ہیں ہزاروں قسم کی نعمتیں پیدا کی ہیں کیا اس نے انسان کے روحانی فائدہ کے لئے کچھ بھی پیدا نہیں کیا.جسم جو فانی اور تھوڑا عرصہ رہنے والا ہے.اس کے لئے تو خدا تعالیٰ نے اس قدر سامان کئے.مگر روح جس پر فنا نہیں اس کے لئے کوئی سامان نہ کیا ہو.کیا یہ ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.پس جس وقت انہوں نے کہا کہ خدا بندے پر کلام نازل نہیں کرتا.تو انہوں نے بڑی غلطی کی اور یہ غلطی خدا کا صحیح اندازہ نہ لگانے کی وجہ سے کی.خدا تو ہمیشہ بندوں پر کلام نازل کرتا ہے.قل من انزل الكتاب الذي جاء به موسى فرماتا ہے ان سے پوچھو وہ کتاب کس نے اتاری تھی جس کو موسی لایا تھا.خدا نے اتاری تھی یا کسی بندے نے بنالی تھی.پھر موسیٰ بندہ تھا یا خدا جس پر ایسی کتاب اتری جو نورا وهدى للناس تجعلو نه قراطيس تبلونها وتخفون كثيرا وہ نور اور ہدایت کا باعث ہے مگر تم نے اس کو ورق ورق کیا ہوا ہے.یعنی اسے پراگندہ کر دیا ہے.اس کے احکام کو بھلا بیٹھے ہو.اس میں سے کچھ ظاہر کرتے ہو.اور کچھ چھپاتے ہو.جو اپنے مطلب کی بات ہو.اسے تو ظاہر کرتے ہو اور جو تمہارے خیالات کے خلاف ہو.اسے چھپاتے ہو.

Page 252

۲۴۶ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اللہ فرماتا ہے.لوگوں کا یہ کہنا کہ خدا نے کسی بندہ پر کلام نازل نہیں کیا.اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے خدا کا اندازہ ٹھیک نہیں لگایا.یہ تو درست ہے.مگر سوال یہ ہے کہ کن لوگوں کے خیال کو رد کرنے کے لئے یہ دلیل بیان کی گئی ہے کہ موسیٰ پر بھی کتاب نازل ہوئی تھی اس کے متعلق بتاؤ کہ وہ کس نے نازل کی تھی.اگر وہ لوگ یہودی تھے.تو یہ نہیں کہہ سکتے تھے.کہ خدا بندہ پر کلام نازل نہیں کرتا.جس طرح کوئی مسلمان نہیں کہہ سکتا.کہ خدا نے کوئی کتاب نہیں اتاری.ہاں غیر یہودی یہ کہہ سکتا تھا جو مانتا ہی نہیں کہ خدا کا کلام بندہ پر نازل ہوتا ہے.لیکن ایسے لوگوں کے لئے یہ دلیل کس طرح مفید ہو سکتی ہے.کہ موسیٰ پر کتاب نازل ہوئی تھی.جو خدا کے کلام کا نازل ہونا مانتا نہیں.وہ حضرت موسی پر کتاب نازل ہونے کو کسی طرح مانے گا مثلاً ایک مجمع ہو.جس میں حضرت مرزا صاحب کے متعلق تبلیغ کرتے ہوئے کہا جائے کہ آپ پر خدا تعالیٰ کی وحی نازل ہوئی ہے اور کوئی مسلمان کے کہ وحی نازل نہیں ہو سکتی اور کبھی بندہ پر نازل نہیں ہوتی.تو اسے ہم کہہ سکتے ہیں قرآن جو نازل ہوا تھا.پھر وحی کیوں نازل نہیں ہو سکتی.لیکن اگر کوئی دہریہ کے کہ وحی نازل نہیں ہو سکتی تو اس کے سامنے قرآن نہیں پیش کیا جا سکتا.کیونکہ وہ کہدے گا کہ میں تو قرآن کو بھی خدا کی وحی نہیں مانتا.تو یہاں کن لوگوں نے خدا کا کلام نازل ہونے سے انکار کیا.یہودی تو یہ کہہ نہیں سکتے کہ خدا کسی بندہ پر کلام نازل نہیں کرتا.کیونکہ وہ توریت کو خدا کا کلام مانتے ہیں.اگر یہود نے نہیں کہا کسی اور نے کہا تو وہ تو الہام کو مانتا ہی نہیں.پھر اس کے سامنے یہ دلیل کیا وقعت رکھتی ہے کہ موسیٰ پر کتاب نازل ہوئی تھی.وہ تو کہدے گا کہ موسیٰ کی کتاب موسیٰ نے آپ بنائی تھی.پس یہ دلیل نہیں ہو سکتی.اس کا جواب یاد رکھو کہ جنہوں نے اس آیت کے صرف یہ معنی کئے ہیں کہ خدا نے کبھی کسی بندہ پر کلام نازل نہیں کیا انہوں نے غلطی کھائی ہے.اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ کہتے ہیں اس زمانہ میں خدا نے کسی پر کلام نازل نہیں کیا.گویا وہ کہتے ہیں.کہ اب اس وقت دنیا میں کوئی علم نہیں ہے.جیسے مسلمان کہتے ہیں کہ رسول کریم کے بعد کسی پر وحی نہیں نازل ہو سکتی.اور وحی کا سلسلہ بند ہو گیا ہے.یہ خیال ہمیشہ سے چلا آیا ہے کہ ہر عظیم الشان نبی کے بعد لوگوں نے کہ دینا کہ اس کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.چنانچہ حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم میں ذکر ہے.کہ ان کے بعد لوگوں نے کہ دیا کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا.اسی طرح حضرت عیسی کے بعد کہا گیا.اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی کہا جاتا ہے کہ خدا کا کلام کسی پر نازل نہیں ہو سکتا.اور کوئی نبی نہیں آسکتا.

Page 253

تو اس کے یہ معنی ہیں کہ اس وقت میں کسی پر خدا کا کلام نازل نہیں ہوتا.نہ یہ کہ کبھی بھی نازل نہیں ہوا.پہلے کفار اور مشرکوں کا ذکر آرہا ہے.مشرک تو وحی کے قائل ہی نہیں ہوتے.یہودی اور منکرین وحی دونوں کو مخاطب کیا گیا ہے.اور قرآن کریم کی یہ خوبی ہے کہ ایک ہی فقرہ استعمال کرتا ہے.جس کے معنی بہت وسیع ہوتے ہیں.یہاں دونوں کے جواب میں فرمایا ہے جب یہودی وحی کا انکار کرے.تو اس کے یہ معنی ہونگے کہ اس زمانہ میں کسی پر خدا کا کلام نازل نہیں ہوتا.اور جب مشرک کہے تو یہی معنی ہونگے.کہ کبھی بھی خدا کا کلام کسی انسان پر نازل نہیں ہوا.یہودیوں کے متعلق تو فرماتا ہے کہ تم جو کہتے ہو کہ اس انسان پر خدا کا کلام نازل نہیں ہوا تو یہ بتاؤ موسیٰ پر کتاب کس نے نازل کی تھی.اس کے جواب میں یہودی یہی کہیں گے کہ خدا نے.اور یہ کہنے پر وہ پکڑے جاتے ہیں.کیونکہ اس میں لکھا ہے.کہ موسیٰ کو کہا گیا تیرے بھائیوں میں سے تیرے جیسا نبی برپا کروں گا.اگر توریت خدا کا کلام ہے تو ضروری ہے کہ اس زمانہ میں نبی آئے.اور اگر یہ نبی نہیں تو پھر موسیٰ کی کتاب جھوٹی ہوئی.کہ اس میں نبی کے آنے کی پیشگوئی ہے.اس طرح وہ لاجواب ہو جاتے ہیں.اگر وہ کہیں کہ اب کوئی نبی نہیں آسکتا تو توریت جھوٹی ہوتی ہے.کیونکہ اس میں لکھا ہے کہ تیرے بھائیوں سے تیرے جیسا نبی برپا کیا جائے گا.اور اگر کہیں کہ نبی آسکتا ہے.اور توریت کچی ہے تو ان کا یہ کہنا غلط ہو جائے گا کہ اب کسی پر خدا کا کلام نازل نہیں ہو سکتا.اب رہے وہ لوگ جن کا خیال ہے کہ خدا کبھی بندہ پر اپنا کلام نہیں نازل کرتا.ان کے متعلق فرمایا ایسے لوگوں کو اور رنگ میں جواب دیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ وعلمتم ما لم تعلموا انتم ولا أباء كم اس کتاب میں وہ باتیں بیان کی گئی ہیں جو تم اور تمہارے باپ دادے بھی معلوم نہ کر سکتے تھے.اس میں غیب کی باتیں بیان کی گئیں.کیا تمہارے باپ دادے یا تم ایسی باتیں بیان کر سکتے ہو؟ ہرگز نہیں.بلکہ بات یہ ہے کہ تم اور تمہارے باپ دادے ان باتوں کے متعلق کچھ نہیں جانتے.اس لئے ثابت ہے کہ یہ بندہ کا کلام نہیں بلکہ خدا کا کلام ہے.کیونکہ کوئی بندہ ایسی باتیں نہیں بیان کر سکتا تو فرمایا ان سے کہدے.صاف جواب یہ ہے کہ خدا نے موسیٰ پر کتاب نازل کی تھی.جس میں نور اور ہدایت تھی.اور ایسی باتیں تھیں.جو کوئی بندہ نہیں بنا سکتا.اور اب بھی اس نے اپنا کلام بندہ پر اتارا ہے جس کا مقابلہ کوئی انسان نہیں کر سکتا.قل الله ثم ذرهم في خوضهم يلعبون انہیں یہ کہہ کر کہ خدا اپنا کلام بندہ پر نازل کرتا ہے چھوڑ دے کہ اپنی بے ہودہ بحثوں میں پڑے کھیلتے رہیں.وهذا كتب انزلناہ مبارک تم تو یہ کہتے ہو کہ خدا بندہ پر کلام نازل نہیں کرتا حالانکہ یہ ایسی کتاب ہے جس کو ہم نے اتارا ہے.

Page 254

یہ اس کی پہلی صفت ہے.اور دوسری صفت یہ ہے کہ ساری خوبیاں اس کے اندر موجود ہیں.اگر ا کا کلام نہیں تو کوئی بندہ کی بنائی ہوئی ایسی کتاب پیش کرو جو اس کی طرح بے عیب ہو.جس خر میں ساری خوبیاں موجود ہوں.جس میں روجانی ضروریات کی ساری باتیں پائی جائیں.یہ تو ان منکروں کے لئے دلیل بیان فرمائی جو کہتے ہیں کہ کبھی کلام نازل نہیں ہوتا.اور جو کلام کا نازل ہونا تو مانتے ہیں مگر کہتے ہیں اب کسی پر کلام نازل نہیں ہوتا ان کے متعلق فرمایا مصدق الذي بين يديه پہلی کتابوں سے اس کی تصدیق ہوتی ہے.اس لئے اگر اسے چھوڑو گے.تو تسلیم شدہ پہلی کتابوں کو بھی چھوڑنا پڑے گا.پہلے جتنے کلام الہی نازل ہو چکے اور جتنے نبی آچکے.وہ اس نبی کے آنے کی پیشگوئی کرتے رہے ہیں.اس لئے اگر اس کا انکار کرو گے.تو اپنے مذہب کا بھی تمہیں انکار کرنے پڑے گا.کیونکہ اس میں آنے والے کا ذکر موجود ہے.اور اس کلام کی تصدیق پائی جاتی ہے.ولتنذر ام القرى ومن حولها یہ کتاب اس لئے بھیجی گئی ہے تاکہ تو ڈرائے ام القریٰ کو یعنی اس بستی کے ارد گرد رہنے والوں کو جسے ہم ساری دنیا کی ماں بنانے والے ہیں.چونکہ زمین گول ہے اس لئے ایک مرکز کے ارد گرد میں ساری دنیا شامل ہے کہ ساری دنیا کے لئے یہ کتاب بھیجی گئی ہے.والذين يؤمنون بالآخرة يومنون به وهم على صلاتهم يحافظون فرماتا ہے اچھا ہم ایک اور دلیل پیش کرتے ہیں اور وہ یہ کہ آئندہ کوئی کلام نازل نہ ہو گا جو اس کے خلاف ہو اور جو اس رسول کی تصدیق نہ کرنے والا ہو.یعنی کوئی نبی کوئی مامور ایسا نہیں ہو سکتا.جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق نہ کرے.یہاں یومنون بالآخرۃ سے مراد یوم آخرت نہیں.بلکہ آخر میں آنے والی وحی مراد ہے.جیسے پہلے وحی کا ذکر ہے.اسی طرح یہاں بھی وحی کا ہی ذکر ہے کہ آئندہ جو وحی کا ماننے والا ہو گا.وہ قرآن کو ماننے والا ہوگا.قرآن کو مانے بغیر کسی پر وحی آہی نہیں سکتی.آئندہ وہی الہام اور وحی پائے گا جو اس رسول کا متبع ہو گا.اور ایسے ہی لوگ اس انعام سے مشرف ہونگے.اور وہ اپنی نماز کی حفاظت کرنے والے ہوں گے اور اگر اس کے معنی قیامت لیں تو یہ مطلب ہو گا کہ جو قیامت پر ایمان لائے گا.وہ اس کلام پر بھی ایمان لائے گا.کیونکہ اسے فکر ہوگی.کہ اپنے اعمال اچھے رکھے.اور اعمال کی اصلاح کے لئے قرآن پر ایمان لے آئے گا ومن اظلم ممن افترى على الله كذبا او قال أوحى الى ولم يوح اليه شي ومن قال سأنزل مثل ما انزل اللہ اور کون زیادہ ظالم ہے اس سے جو اللہ پر افترا کرے جھوٹا یا کہے کہ اس پر وحی کی گئی حالانکہ کوئی وحی نہ کی گئی ہو.اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو کے خدا کی طرح کا کلام نازل کروں گا.پر

Page 255

۲۴۹ فرمایا دونوں قسم کے لوگ ظالم ہیں.وہ بھی ظالم ہے جو کہتا ہے خدا نے اس پر الہام نازل کیا.حالا نکہ خدا نے نازل نہیں اور وہ بھی جو خدا کا کلام سنے اور کہے یہ معمولی بات ہے ہم بھی ایسی باتیں بنا سکتے ہیں ولو تری انا الظالمون في غمرات الموت والملائكة باسطوا ايديهم اخرجوا انفسکم اور کاش کہ تو دیکھے اس وقت کہ جب ظالم موت کی تکلیف میں ہوں گے ملا نکہ ہاتھ پھیلائے ہوئے ہونگے کہ نکالو جائیں.فرمایا اس رسول کے دشمن ذلت کی موت مریں گے اور اسے عزت حاصل ہوگی.یہ اس کی سچائی کی دلیل اور علامت ہے اليوم.تجزون عذاب الهون بما كنتم تقولون على الله غير الحق وكنتم عن آياته تستكبرون فرماتا ہے آج تم کو ذلت کا عذاب دیا جائے گا.کیونکہ تم اللہ کے متعلق جھوٹی باتیں کہتے تھے.اور اس کی آیات کا از راہ استکبار انکار کرتے تھے.یہ عجیب لطیفہ ہے فطرت انسانی کا کہ کلام الہی کا انکار کرنے والے کہا کرتے ہیں.بندہ سے کہاں خدا کلام کر سکتا ہے.یہ وہ فروشنی کی وجہ سے نہیں کہتے بلکہ ان کے دل میں تکبر ہوتا ہے اور وہ اپنے آپ کو اس بات سے مستغنی سمجھتے ہیں کہ خدا کی طرف سے ان کے لئے کوئی نبی آئے جو خدا کا کلام لائے.خدا تعالی ان کی ظاہر باطن دونوں حالتوں کی وجہ سے انہیں پکڑتا ہے کہ جب تم خود اپنے آپ کو ذلیل قرار دیکر کہتے ہو کہ خدا کہاں بندہ سے کلام کر سکتا ہے.اور جب ہم عزت دینا چاہتے ہیں تو " تم اس کا انکار کرتے ہو آج ہم خود تمہیں ذلیل کرتے ہیں اور دوزخ میں ڈالتے ہیں.لیکن چونکہ تمہارے دل میں یہ ہوتا تھا کہ ہم بہت بڑے ہیں ہمیں خدا کی کیا ضرورت ہے کہ وہ ہم سے کلام کرے.اس لئے تمہارے دل کو بھی ذلیل کرتے اور ذلت کا عذاب دیتے ہیں پس آج تم رسوائی چکھو گے دل میں بھی اور جسم میں بھی.کیونکہ تم نے ظاہر طور پر اپنے آپ کو ذلیل قرار دیا اور دل میں تمہارے تکبر تھا.آج اس کے مطابق تم سے سلوک کیا جائے گا.ولقد جئتمونا فرادى كما خلقناكم اول مرة وتركتم ماخولناكم وراء ظهوركم وما نرى معكم شفعاء كم الذين زعمتم انهم فيكم شرکاء تم اسی طرح ہمارے پاس اکیلے اکیلے آئے.جس طرح تم کو اکیلا پیدا کیا گیا تھا.بھلا تمہاری کوئی ہستی تھی جس پر تم خدا کے مقابلہ میں تکبر کرتے تھے.خدا تعالیٰ نے یہ عجیب بات بیان فرمائی ہے نبیوں کے مقابلہ میں ان کے مخالفین کے پاس بڑی بات یہی ہوتی ہے کہ وہ ان کو حقیر سمجھتے ہیں.وہ کہتے ہیں نہ ان کے پاس مال ہے نہ جبھہ.اکیلے اور غریب ہیں.ان کی پیروی کس طرح کریں.اللہ تعالٰی فرماتا ہے اب تم اپنی حالت دیکھو کیا وہ جبھہ

Page 256

جس کے تمہیں غرور تھا ساتھ لیکر آئے.کیا وہ مال جس پر تمہیں گھمنڈ تھا.تمہارے پاس ہے.تمہارا جتھہ اور مال کہاں ہے.دنیا میں جب تم پیدا ہوئے تھے.تو اکیلے خالی ہاتھ پیدا ہوئے تھے.پھر خدا نے تمہیں سب کچھ دیا تھا جس پر تم نے تکبر کر کے خدا کے نبی کا انکار کر دیا.آج دیکھو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تو عزت کی اس اصل جگہ میں اپنی امت کو لیکر آئے گا.مگر تم اکیلے اکیلے ہی آئے ہو.جو چیزیں بڑائی کی تمہارے پاس تھیں.انہیں تم پیچھے ہی چھوڑ آئے.ہم نے تمہیں مال و دولت عزیز رشتہ دار اس لئے دئے تھے کہ ان کے ساتھ مل کر تم خدا کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرو.مگر تم نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا.بلکہ الٹے اور زیادہ بدیوں میں مبتلا ہو گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حقیقی بڑائی حاصل کرنے کا موقع تمہارے ہاتھ سے جاتا رہا.اور آج تم ذلیل و رسوا ہو گئے.لقد تقطع بينكم وضل عنكم ما كنتم تزعمون تحقیق تمہارے تمام تعلقات کٹ گئے.اور تمہارے سارے دعوے باطل ہو گئے.اگر تم اس رسول کو مان لیتے تو ہمارے پاس عزت کے ساتھ آتے.لیکن تم نے اس کو نہ مانا اور عقل سے خدا کا اندازہ لگانے لگے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تم جہنم میں جا پڑے.جس طرح ایک چھوٹا بچہ کہے کہ میں پہاڑ پر خود چلوں گا.مجھے کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں.تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ غار میں گر کر ہلاک ہو جائے گا.اسی طرح تم نے کہا اگر تم خدا کے نبی کی انگلی پکڑ لیتے.اور اس کی اطاعت کرتے تو آج تمہاری یہ حالت کیوں ہوتی.الفضل ۲۴ / اپریل ۱۹۲۲ء) ا المومن : ۳۵

Page 257

۲۵۱ 47 مشاورت کے فوائد و آداب (فرموده ۲۱ اپریل ۱۹۲۲ء) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.اس ہفتہ کے دوران میں ہماری جماعت کی مجلس شوری کا انعقاد ہوا تھا.شوریٰ تو ہمیشہ ہوتا ہی رہتا ہے.جس قدر کام ہوتے ہیں ان میں ایسے لوگوں کو جو مشورہ دینے کے اہل ہوتے ہیں.بلوا کر ان سے مشورہ لیا ہی جاتا ہے مگر موجودہ زمانہ کی سہولتوں سے فائدہ اٹھا کر اور آمدو رفت کے ذرائع میں جو ترقی ہوئی ہے اس سے کام لیتے ہوئے میں نے اپنی جماعت کے ان لوگوں کے قائم مقام بھی بلوائے.جو قادیان سے باہر رہتے ہیں.در حقیقت انسانی ترقی کے لئے آپس میں ملنا جلنا اور آپس کے مشورے سے فیصلہ کرنا ایسی لازمی اور ضروری بات ہے کہ اس کے بغیر کامیابی نہیں ہو سکتی.یہ تمام دنیا جو بنی ہے.مختلف افراد کی محنتوں کے نتیجہ میں بنی ہے.مگر ہم کبھی غور نہیں کرتے کہ ہر ایک بات میں دوسروں کے کام کا کہاں تک دخل ہے اگر ہم غور کریں تو سہولت کے ساتھ معلوم ہو جائے کہ در حقیقت تمام دنیا کا کاروبار مختلف افراد کے کام کرنے کا نتیجہ ہے ایک بزرگ کا مقولہ مشہور ہے.مرزا مظہر جان جاناں ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں جو دہلی کے رہنے والے تھے.ان کے خلیفہ جو ان کے بعد ہوئے ایک دن ان کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ کوئی شخص لڈو لایا انہوں نے ان لڈوؤں سے دو اٹھا کر اپنے اس شاگرد کو جو انہیں بہت محبوب اور پیارا تھا دئے.کچھ دیر کے بعد دریافت کیا میاں غلام علی میں نے تمہیں دو لڈو دئے تھے کہاں ہیں اس نے کہا حضور کھالئے.انہوں نے کہا.ہیں دونوں کھا لئے اس نے کہا حضور وہ چیز ہی کیا تھے.چھوٹے چھوٹے تو تھے کہنے لگے کیا سچ سچ تم نے دونوں کھا لئے اس نے کہا ہاں دونوں کھا لئے.اس پر انہوں نے تعجب کیا.ادھر تو وہ اس کے کھانے پر تعجب کریں اور ادھر مرید کو تعجب ہو رہا کہ پیر صاحب کہتے کیا ہیں.ایسے لڈو تو انسان کئی کھا جاتا ہے.غرضیکہ دونوں حیرت میں تھے.آخر مرید کو خیال گزرا دریافت تو کروں.کس طرح لڈو کھائے جاتے ہیں.اس نے

Page 258

۳۵۳ پوچھا آپ فرمائیے کس طرح کھانے چاہئیے تھے.انہوں نے کہا.پھر جب کبھی آئیں.اس وقت یاد دلانا.کچھ دنوں کے بعد کوئی شخص پھر لڈو لایا.شاگرد نے عرض کی آپ نے فرمایا تھا جب لڈو آئیں یاد دلانا کھانے کا طریق بتایا جائے گا اس پر انہوں نے اپنا رومال بچھایا.اور اس پر ایک لڈو رکھ کے مرید سے مخاطب ہو کر کہنے لگے.دیکھو یہ لڈو کن کن چیزوں سے بنا ہے.اس میں میٹھا ہے.گھی ہے.میدہ ہے.اس کے لئے آگ جلائی گئی.اور اس سے پکایا گیا.اس آگ کے جلانے میں کئی چیزیں استعمال ہوئیں.چولھا ہے.لکڑیاں ہیں.آگ جلانے والے آدمی ہیں.برتن، برتن مانجنے والے آدمی ہیں.تب یہ بنا.یہ کہہ کر لڈو سے ذرا سا ٹکڑا جو چند رتی کا ہو گا.توڑا اور کہا کجا مرزا مظہر جان جاناں اور کہاں یہ کام جو اللہ تعالٰی اس کے لئے کرا رہا ہے.کجا میں اور کجا خدا کی یہ رحمت کہ اتنے لوگوں کو اس نے میری خدمت میں لگا دیا.یہ کہا اور پھر سبحان اللہ سبحان اللہ کرنا شروع کر دیا.پھر کہا دیکھو کھانڈ جو اس میں استعمال کی گئی کس طرح مہیا ہوئی اس کے بازار میں لانے میں کتنے لوگ لگے.کتنوں نے خریدا.اور کتنوں نے بیچا.پھر اس کی تیاری کے لئے کیا کیا محنتیں کی گئیں.کتنے لوگ راتوں کو جاگے.اور جاگ کر تیار کی.کہاں سے لکڑیاں لائے اور آگ جلائی، اور کڑا ہوں میں پکایا.میل صاف کی پھر جن گنوں سے بنی ان کی تیاری میں کتنے لوگ لگے.کھیتوں میں ہونے اور گھاس جدا کرنے میں کتنے مصروف رہے.اس طرح کھانڈ بنی اور اتنے آدمی خدا نے اس لئے لگائے کہ مرزا مظہر جان جاناں لڈو کھائے یہ کہہ کر اس بات کا لطف اٹھانے لگے.اور سبحان اللہ سبحان اللہ پھر کہنے لگ گئے.پھر کہا اسی پر بس نہیں.دیکھو وہ لوہا جس سے ہل بنایا گیا کہاں سے لایا گیا اور کس طرح صاف کیا گیا.اسی طرح ایک ایک بات کو بیان کر کے خدا کی تعریف کرنے لگے اور سب کام کرنے والوں کا ذکر کرنے لگے.اور اگر دیکھا جائے تو کوئی پیشہ ایسا نہیں رہ جاتا.جس کا دوسروں کے ساتھ تعلق اور رابطہ نہ ہو.جو لوگ کام کرنے والے ہوتے ہیں.وہ بیمار بھی ہوتے ہیں.اور ڈاکٹر طبیب ان کی خدمت کرتے ہیں اسی طرح بیان کر رہے تھے کہ اتنے میں اذان ہو گئی.اور لڈو وہیں رکھ کر نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کچھ کھاتے ہی نہیں تھے.اگر وہ اسی طرح کھانا کھاتے تھے تو جیتے کس طرح تھے.دراصل یہ سبق جو انہوں نے اپنے شاگرد کو دیا کہ ہر چیز کھاتے وقت دل میں اس طرح کرنا چاہیے گویا ایک مومن کے دل میں یہ باتیں ہونی چاہئیں جو وہ منہ سے کہہ رہے تھے اور چونکہ وہ زبان سے شاگرد کو سبق دیتے رہے اس لئے کھا نہ سکے.ورنہ اگر وہ زبان سے نہ بولتے تو ان خیالات کو بھی دل میں دہرا لیتے.اور لڈو بھی کھا لیتے.اس طرح انہوں نے بتایا کہ چھوٹے سے چھوٹے کام پر ہزاروں لاکھوں انسان لگے ہوئے ہیں

Page 259

۳۵۳ اور اتنے مختلف مذاق کے لوگ ملکر لگتے ہیں.اس لئے کام ہوتے ہیں.جس طرح یہ کام اگر لوگ نہ کریں تو نہیں ہوتے.اسی طرح صحیح رائے بھی اس وقت تک معلوم نہیں ہو سکتی جب تک مختلف مذاق کے لوگ مشورہ نہ دیں.کیونکہ ایک بات ایسی ہوتی ہے جو ظاہر میں بری نہیں ہوتی لیکن اندر سے بری ہوتی ہے.اور اس کا پتہ طبائع کے اختلاف سے لگ سکتا ہے بعض کو وہ بری لگے گی اور بعض کو بری نہیں لگے گی.مثلاً قتل، ڈاکہ، چوری، زنا تو تمام طبائع برائیاں سمجھتی ہیں مگر کئی ایسی بدیاں ہیں کہ بعض ان کو بدی نہیں سمجھتے اور بعض سمجھتے ہیں.اسی طرح بعض نیکیاں ایسی ہوتی ہیں.جو بعض کو معلوم ہوتی ہیں اور بعض کو نہیں معلوم.لیکن جب مختلف طبائع ملکر غور کرتی ہیں.تو پھر ایک درمیانی رستہ نکالنے کے لئے آسانی پیدا ہو جاتی ہے.اور پتہ لگ جاتا ہے کہ اس پر چلایا جائے تو قریباً قریباً سب چل سکتے ہیں.تو مشورہ کا فائدہ ہوتا ہے.اسی لئے نبی جو آتے ہیں وہ مشورہ لیتے رہے.لیکن تعجب آتا ہے.کہ جتنا انسان عقل میں کمزور ہوتا ہے اتنا ہی اپنے آپ کو مشورہ سے آزاد سمجھتا ہے.گویا اس بارے میں لوگوں کا الٹ رویہ ہے.دنیا میں قاعدہ ہے کہ جتنا کوئی زیادہ بیمار ہو اتنا ہی ڈاکٹر کی طرف زیادہ متوجہ ہوتا ہے.اور جتنا اچھا ہوتا جاتا ہے اتنا ہی ڈاکٹر سے آزاد ہوتا جاتا ہے.لیکن مشورہ کے متعلق یہ ہے کہ جتنے عقل میں کامل ہوتے ہیں.مشورہ پر زور دیتے ہیں.اور جتنے عقل میں کمزور ہوتے ہیں مشورہ میں آزاد ہوتے ہیں.حتمی کی طبائع بڑھتی بڑھتی یہاں تک ترقی کر جاتی ہیں.جیسا کہ پچھلے خطبہ میں میں نے بتایا تھا.خدا تعالیٰ سے بھی اپنے آپ کو بے نیاز سمجھ لیتی ہیں.خدا تعالیٰ کے متعلق مشورہ کا لفظ تو نہیں بولا جا سکتا.کیونکہ خدا تعالی کی طرف سے ہدایت آتی ہے.مگر یہ بھی مشورہ ہی دیتی ہے کیونکہ راہ نمائی کرتی ہے.تو یہاں تک لوگ کو تاہ عقلی میں ترقی کر جاتے ہیں اور کہدیتے ہیں کہ ہمیں خدا کی بھی ضرورت نہیں ہے.مگر یہ انکی نادانی ہوتی ہے.مومن کا کام یہ ہے کہ مشورہ لے اور دوسروں کی رائے کا احترام کرے.دنیا میں جس قدر جھگڑے اور لڑائیاں ہوتی ہیں اسی لئے ہوتی ہیں کہ لوگ اپنی اپنی رائے پر زور دیتے ہیں.اگر ان کی صحیح رائے ہو تو بھی وہ جہالت پر ہوتے ہیں.کیونکہ وہ ایسے رستہ پر چل رہے ہوتے ہیں کہ ایک دفعہ اگر ان کی رائے صحیح ہو تو دس دفعہ وہ ٹھو کر بھی کھائیں گے.کیونکہ انہیں یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ انہیں کسی کے مشورہ کی ضرورت نہیں.لیکن مومن کا یہ کام نہیں.جتنے فساد اور لڑائیاں پیدا ہوتی ہیں.ان کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ لوگ اپنے اوپر اشکال کر لیتے ہیں کہ ہماری رائے صحیح ہے.اور جب ان کی رائے اور ارادہ کے خلاف کوئی بات کی جائے.تو اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.اس طرح ان کی خود سری ظاہر ہوتی ہے.مشورہ کے اور فوائد کے علاوہ ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ یہ اطاعت کی عادت ڈالتا ہے کیونکہ اگر ایک شخص مشورہ کر کے اپنے ماتحتوں کی

Page 260

۲۵۳ رائے قبول کرتا ہے تو وہ اپنے افسروں کی بات بھی ضرور قبول کرتا ہے.اس سے اطاعت کی عادت پڑتی ہے اور خوشی سے انسان بڑوں کی بات مان سکتا ہے کیونکہ وہ عادی ہو جاتا ہے.لیکن جو مشورہ نہیں کرتا اس کے اندر اطاعت کا مادہ نہیں پیدا ہوتا.ایسے لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ ان کے مقابلہ میں جن کے وہ ماتحت ہوں خود سری سے کام لیتے ہیں.اور کام اچھی طرح نہیں کرتے مگر یورپ کے لوگ جو مشورہ کرتے ہیں دیکھا گیا ہے کہ اطاعت اور فرمانبرداری کا پورا حق ادا کرتے ہیں.ایک جرنیل کو حکم ملتا ہے کہ فلاں جگہ حملہ کرنا ہے.اگر اس کی رائے اس کے خلاف ہو تو وہ کہتا ہے.حملہ نہیں کرنا چاہئیے اس میں یہ نقصان ہو گا.لیکن اگر اعلیٰ افسر کہتے ہیں.نہیں ضرور کرتا ہے تو پھر وہ حملہ کرتا ہے.اور اپنی طرف سے ذرا کو تاہی نہیں کرتا جتنے ذرائع وہ استعمال کر سکتا ہے کرتا ہے تاکہ حملہ کامیاب ہو.اس کی ہمیشہ مثالیں ملتی رہتی ہیں.کہ گورنمنٹ مشورہ لیتی ہے.فلاں کام کس طرح کرنا چاہیئے.بعض لوگ مصر ہوتے ہیں کہ اس طرح کیا جائے.لیکن گورنمنٹ جو فیصلہ کرتی ہے وہ بعض کی رائے کے خلاف ہوتا ہے.اس پر یہ نہیں ہو تا کہ جن کی رائے کے خلاف ہو وہ اس فیصلہ کے نفاذ میں رکاوٹ ڈالیں.بلکہ وہ بھی ایسی ہی تن دہی سے اس پر عمل کرتے ہیں.کہ گویا ان کی اپنی تجویز ہے.اور چاہے اس میں کامیابی نہ ہو مگر وہ اپنی طرف سے پورا زور لگا دیتے ہیں.لیکن میں دیکھتا ہوں ہمارے لوگوں میں یہ بد عادت ہے کہ بعض لوگ جب اپنی رائے کے خلاف فیصلہ سنتے ہیں تو پھر یہی نہیں کہ اصل فیصلہ کے مطابق کام نہیں کرتے بلکہ وہ کہتے ہیں ہم نے جو کہا تھا کہ اس طرح کرنے میں خرابی ہوگی اور یہ کہہ کر وہ پورا زور لگاتے ہیں کہ خرابی ہو.گویا کام کرنا ان کے مد نظر نہیں ہوتا بلکہ اپنے رائے کو سچا ثابت کرنا مد نظر ہوتا ہے اور یہ اتنا بڑا نقص ہے کہ جس کے نہایت خطرناک نتائج نکلتے ہیں.بیسیوں سلطنتیں اسی لئے تباہ ہو گئیں کہ کسی مشورہ میں جن لوگوں کی رائے خلاف تھی انہوں نے خلاف کوشش کی.اور میں افسوس کرتا ہوں کہ ہماری جماعت میں بھی ایک حد تک یہ بات پائی جاتی ہے.جب مشورہ کیا جاتا ہے اور کسی کی 99 باتیں مانی جاتی ہیں.مگر ایک نہیں مانی جاتی.تو وہ اس کو یاد رکھتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ افسروں کو زک دیگر بتاؤں کہ جو میں کہتا تھا وہی درست تھا.اس قسم کی مثالیں میرے سامنے لائی گئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کارکن اپنی رائے کو دین پر مقدم سمجھتے ہیں.ان کا یہ فشاء نہیں ہو تا کہ خدا کا کام عمدگی سے ہو.بلکہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری عزت اور آبرو ہو.اور جو ہم کہتے تھے وہ صحیح ثابت ہو.جب تک اس عادت کو بیخ دین سے نہ اکھاڑ دیا جائے حقیقی ترقی محال ہے.کوئی انسان ایسا نہیں جو اپنے رائے سے سب کام کر سکے.دیکھو انبیاء کی یہ شان ہوتی ہے کہ بعض باتوں میں ان کی رائے نہ

Page 261

۲۵۵ ماننے سے انسان خدا کو ناراض کر لیتا ہے.لیکن بعض باتیں انہیں بھی دوسروں کی ماننی پڑتی ہیں.مثلاً جب وہ بیمار ہوتے ہیں تو حکیم یا ڈاکٹر جس طرح کہتا ہے اس طرح کرتے ہیں.اگر اس کے خلاف کریں تو تکلیف اٹھائیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حدیثوں میں ذکر آتا ہے کہ آپ کہیں تشریف لے جا رہے تھے کہ زمیندارہ کام ہوتا دیکھ کر فرمایا اس طرح کرو.اسی طرح کر دیا گیا لیکن پھل نہ لگا.جب یہ بات رسول کریم کے حضور عرض کی گئی.تو آپ نے فرمایا.میں نے تو اپنا خیال بیان کیا تھا کہ شاید اس طرح اچھا ہو.ا.مگر ان لوگوں نے سمجھا خدا کے رسول نے جس طرح کہا ہے اس طرح کرنا چاہئیے مگر اس میں کامیابی نہ ہوئی.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگوں میں مشورہ لیتے.اور اسی طرح کرتے جس طرح فیصلہ ہوتا.پس جب اللہ کے نبی بھی محتاج ہیں.اس بات کے کہ وہ دوسروں سے مشورہ لیں.اور وہ بھی دوسروں کی رائے قبول کر لیتے ہیں.تو کسی اور کا کیا حق ہے کہ اپنی ہی رائے منوائے اور جب تک اس کی رائے کے مطابق فیصلہ نہ ہو اس وقت تک منظور نہ کرے.اپنی رائے پر اسی وقت تک زور دینا چاہئیے جب تک کہ کوئی صریح خطرہ اور نقصان نظر آتا ہو.لیکن اگر عام طور پر وہ رائے قبول نہ کی جائے تو یہی خیال کر لینا چاہئیے کہ میری رائے غلط ہے.جب تک لوگوں میں یہ بات پیدا نہ ہو جائے اس وقت تک اس جگہ بنیاد نہیں رکھی جا سکتی جہاں عظیم الشان عمارت بن سکے.کیونکہ یہ ترقی کا پہلا قدم ہے.دوسروں سے اپنی رائے منوانا اتنی قابلیت کا کام نہیں ہے جتنی قابلیت کا اپنی رائے کو قربان کرنا ہے.اور جب تک یہ مادہ پیدا نہ ہو کہ جب کوئی ایسا مشورہ ہو جس پر جماعت کا اکثر حصہ متفق ہو.یا وہ لوگ جن کے سپرد فیصلہ کرنا ہو وہ متفق ہوں.اس کو کامیاب بنانے کے لئے وہ لوگ بھی جن کی رائے اس کے خلاف ہو اسی طرح کوشش کریں جس طرح دوسرے کریں.اس وقت تک ہم نہیں کہہ سکتے کہ جماعت خطرات سے محفوظ ہو گئی ہے اس لئے میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ہمیشہ اپنی رائے پر مصر نہ ہوں.میں نے خود با رہا تجربہ کیا ہے کہ سمجھا گیا ایک بات درست ہے لیکن اس کے متعلق مشورہ لیا تو معلوم ہوا یا تو وہ رائے غلط تھی اور اگر غلط نہیں تھی تو اس کے متعلق کئی نئی باتیں نکل آئیں.جنہیں میں نے ہمیشہ خوشی سے قبول کیا.اور ان کا قبول کرنا مفید ثابت ہوا.پھر ایسا بھی ہوا ہے کہ میں نے لوگوں کے اصرار کو دیکھ کر ایک بات کو قبول کر لیا جو غلط تھی.اور اس کا نتیجہ برا نکلا.مگر اس سے بھی نیک ہی اثر ہوا.کیونکہ جب لوگوں نے دیکھا کہ وہ جس کو خدا نے حق دیا ہے کہ دوسروں سے اپنی بات منوائے وہ دوسروں کی بات مانتا ہے تو ان کے لئے بہت زیادہ ضروری ہے کہ مانیں.غرض مشورہ لینے اور اس پر خوشی سے عمل کرنے میں برکت ہے.اور اس کے برعکس اپنی رائے پر اصرار کرنے اور جو فیصلہ ہو جائے اس کے خلاف کرنے اور

Page 262

۲۵۶ اس موقع کی تلاش میں رہنے میں کہ کب وقت آئے جب میری رائے درست ہو.تباہی ہے.ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہیے کہ مشورہ کے وقت صحیح رائے دیں.اور جب خلیفہ یا اس کے مقرر کردہ اشخاص فیصلہ کر دیں.جو خواہ ان کی رائے کے خلاف ہی ہو.تو ایسی سعی کریں.کہ ان کی طرف سے کام میں کوئی کسر نہ رہے تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے.کہ چونکہ یہ فیصلہ ان کی رائے کے خلاف کیا گیا تھا.اس لئے انہوں نے خراب کر دیا.اس وقت مجھے نام لینے کی ضرورت نہیں.مگر کئی ہیں جو یا تو کام کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا اس تن دہی سے کام نہیں کرتے جس سے انہیں کرنا چاہئیے.ایسا نہیں ہونا چاہیے.اس کے بعد میں کارکنوں کو مشورہ دیتا ہوں.کہ مجلس کرکے قادیان کے لوگوں کی جو ذمہ داریاں مجلس شوریٰ نے قرار دی ہیں ان کو پورا کریں.مثلاً یہ کہ ہر جماعت نے جتنا چندہ سارے سال میں دیا تھا.اتنا اس دو ماہ کے عرصہ میں دیں.اس تجویز کے ماتحت ضلع گورداسپور کے ذمہ بارہ ہزار روپیہ آیا ہے.علاوہ ماہوار چندہ کے.اس کے لئے قادیان میں بھی جلسہ ہو.اس میں سے دسواں حصہ میں نے اپنے ذمہ لیا تھا.اور ایک ہزار کا وعدہ ایک اور دوست نے کر لیا ہے.اب ۹۸۰۰ روپیہ باقی رہ گیا ہے.جو ضلع گورداسپور کے احمدیوں نے جمع کرنا ہے قادیان کے لوگوں کو نمونہ بننا چاہئیے.تاکہ بیرونی جماعتوں پر زور پڑے.اور اس بوجھ کو جو سلسلہ پر پڑا ہوا ہے دور کر سکیں.اس کا اثر یہاں تک پہنچا ہے کہ محکمہ ہائے نظارت اور انجمن تو الگ رہے.دوکانوں پر مال نہیں ملتا.پس قادیان والوں کو نمونہ بنا چاہیئے.اس میں شک نہیں کہ قادیان میں اکثر وہی لوگ ہیں.جو اس بوجھ کا شکار ہو رہے ہیں.اور اب ان سے کچھ لینا ان پر اور بوجھ لا دتا ہے.مگر یہی بوجھ ان کی آسانی کا باعث ہو گا جب یہ لوگ باوجود اس حالت کے اس بوجھ کو اٹھائیں گے تو اور جماعتیں بھی اٹھائیں گی.جس سے ان کا بوجھ دور ہو جائے گا.اس لئے قادیان والوں کو اور باہر والوں کو بھی چاہئیے کہ جو تجاویز دی گئی ہیں.انہیں قبول کریں.اسی طرح خطبہ کے ذریعہ (کیونکہ خطبہ چھپ جائے گا) بیرونی جماعتوں کے لئے اعلان کرتا ہوں.کہ مالی ضروریات کے متعلق مجلس شوری میں جو فیصلہ ہوا ہے اسے پورا زور لگا کر پورا کریں.ہم نے یہ بوجھ اپنی خوشی سے آپ اٹھایا ہے.اور امید ہے کہ اللہ تعالٰی اس کے بدلے بہت بڑے بڑے انعام دے گا لیکن ایک حد تک اسے اٹھا کر رکھ دیتا دین و دنیا دونوں میں ذلت کا باعث ہے.اس لئے جماعتوں کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئیے کہ اب ان کا اس بوجھ کے نیچے سے گردن نکالنا ممکن نہیں.اس راستے میں مرنا ذلت نہیں.کیونکہ اصل انعام مرنے پر ہی ملے گا مگر بوجھ سے سر نکالنا ہلاکت ہے.جو شخص خدا کے دین میں داخل نہیں ہوتا وہ بھی سزا کا مستحق ہے.مگر مرتد کے لئے بہت زیادہ سزا کی گئی ہے.ہم حضرت مسیح

Page 263

۲۵۷ موعود کو مان کر اب پیچھے نہیں ہٹ سکتے.خواہ کچھ بھی ہو جائے اور خواہ کتنی بڑی قربانی کرنی پڑے.بے شک یہ بہت بڑا بوجھ معلوم ہوتا ہے.لیکن جب ہم اسے اٹھائیں گے.تو معلوم ہو گا کہ ہلکا ہی ہے.یونہی ڈرتے تھے.خدا تعالیٰ یہاں کی اور باہر کی جماعتوں کو توفیق دے ان ذمہ داریوں کو اٹھانے کی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ان پر عائد ہوتی ہیں.اور ہماری مدد کرے تاکہ ہم پورے طور پر ان کو ادا کر سکیں.(الفضل یکم مئی ۱۹۲۲ء) ا مسلم کتاب الفضائل باب وجوب امتثال ما قاله شرفا دون ما ذكره صلى الله عليه وسلم عن معاليش الدنيا على سبيل الرأي

Page 264

۲۵۸ 48 رمضان المبارک فرموده ۲۸ / اپریل ۱۹۲۲ء) حضور نے تشہد تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سورۂ بقرہ کا تیئسواں رکوع پڑھ کر فرمایا.اللہ تعالی کے فضل اور احسان ہیں لوگوں پر کہ اس نے باوجود اپنی عظمت باوجود اپنی شان اور باوجود علو مرتبت کے انسان جیسی حقیر، کمزور ناتواں اور بے حقیقت مخلوق کے لئے جو اس کی پیدائش اور مخلوق کی وسعت کے مقابلہ میں کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی.اس کے لئے اپنے فضل اور احسان سے ایسے سامان مہیا کر دئے ہیں کہ جن کے ذریعہ تمام مخلوق سے بلند ہو کر اپنے خالق کا قرب حاصل کر لیتی ہے.بلکہ اس کے پاس پہنچ جاتی ہے.اگر خدا تعالیٰ کا خاص فضل انسان کی دستگیری نہ کرتا.اگر خدا تعالی کا رحم مدد نہ کرتا اگر اس کی بندہ پروری آڑے نہ آتی تو انسان کی کیا مجال تھی کہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر سکتا.چھوٹی چھوٹی دنیاوی ترقیات کے حصول کے لئے انسان کو بڑی بڑی مشکلات پیش آتی ہیں.دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو بادشاہوں اور گورنروں کا قرب حاصل کر سکتے ہیں.پھر کتنے ہیں جو اپنے ضلع کے حاکموں کا قرب حاصل کر سکتے ہیں.نہایت قلیل تعداد بادشاہوں کے قرب کا فخر رکھتی ہے.پھر نہایت محدود تعداد ہوتی ہے جو گورنروں اور وزیروں کے درباروں میں پہنچ سکتی ہے.پھر وہ بھی محدود تعداد ہی ہوتی ہے جو گورنروں کے نابوں کے ہاں عزت حاصل کر سکتے ہیں.مگر ان بادشاہوں ان گورنروں اور ان کے تابوں کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کی جو شان ہے اس کا کون اندازہ کر سکتا ہے.بڑے بڑے بادشاہ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کیا حقیقت رکھتے ہیں کہ ان کے نائبوں کے متعلق کچھ کہا جائے.اللہ تعالیٰ کے ایک حکم سے بادشاہ بنتے ہیں اور ایک حکم سے فتا ہوتے ہیں.اسے نہ بادشاہ بنانے میں کسی قسم کی محنت اور سعی کرنی پڑتی ہے نہ ان کے ہٹانے میں کسی کوشش کی ضرورت ہوتی ہے.وہ بادشاہتیں بھی دیتا ہے تو اس طرح دیتا ہے کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے.اور مٹاتا ہے تو اس طرح مٹاتا ہے کہ دیکھنے والے حیران رہ جاتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معمولی تاجر یا معمولی زمیندار تھے.اور سارے زمیندار نہ تھے بلکہ مدینہ کے لوگ تھے.مگر خلافت پر متمکن ہونے والے تجارت پیشہ تھے.جن میں

Page 265

۲۵۹ بڑے سے بڑے تاجر ۸-۱۰ ہزار کے مالک تھے جس سے زیادہ آجکل معمولی گاؤں کے سا ہو کاروں کے پاس ہوتا ہے مگر انہوں نے خدا کے لئے اپنے مالوں اور اپنی جائدادوں اپنے عزیزوں اپنے وطنوں اپنے آراموں کو چھوڑا.اور دنیا نے دیکھا کہ وہ پہلے معزز تھے لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مان کر ذلیل ہو گئے وہ پہلے دولت مند تھے.لیکن آپ کو مان کر غریب ہو گئے.وہ پہلے جائدادیں رکھتے تھے آپ کو مان کر بے وطن ہو گئے.گویا وہ دنیا کی نظروں اور عقلوں میں بجائے ترقی کرنے کے گر گئے لیکن چونکہ انہوں نے اپنے نفسوں میں فیصلہ کر لیا تھا کہ ہماری عزتیں ہمارے رہتے ہمارے مال ہماری جائیداد ہمارے عزیز اور ہمارے رشتے سب رسول کریم سے وابستہ ہیں اس لئے آپ کی معیت حاصل کرنے کے لئے انہیں جو کچھ بھی چھوڑنا پڑا چھوڑ دیا اور اس کی ذرا پرواہ نہ کی.کچھ تو وہ تھے جن کے پاس کچھ تھا اور انہوں نے چھوڑ دیا اور کچھ ایسے تھے جن کے پاس تو کچھ نہ تھا.مگر وہ اپنے دلوں میں یہ خواہش لیکر آئے تھے کہ اگر ہمارے پاس بھی کچھ ہو تا تو آج ہم بھی قربان کرتے.ان کے اعمال ثابت نہیں کرتے کہ انہوں نے قربانی کی.کیونکہ ان کے پاس کچھ تھا نہیں.لیکن ان کے دل جوش قربانی سے بھرے ہوئے تھے تو یہ دو قسم کے لوگ تھے جو دنیا کی نظروں میں بہت حقیر اور ذلیل تھے.مگر خدا نے فیصلہ کیا کہ اب ان کو ترقی دوں گا.اور دنیا کا بادشاہ بناؤں گا.چنانچہ وہی ابو بکر جو معمولی تاجر تھے.انہیں بادشاہ بنا دیا اور بادشاہ بھی ایسی قوم کا بنایا جو کسی کو بادشاہ ماننے کے لئے کبھی تیار نہ ہوئی تھی عرب کے لوگ کسی کو بادشاہ نہ مانتے تھے.ان لوگوں کے دو حصے تھے ایک شہری اور دوسرے بددی.شہری علاقوں میں تو بادشاہ تھے جیسے غسان وغیرہ علاقوں کے بادشاہ لیکن اصل عرب میں بادشاہ نہ ہوتے تھے.اور نہ وہ لوگ کسی کی اطاعت کرنا جانتے تھے.اور نہ کسی کی اطاعت کرنا جائز سمجھتے تھے.یہی وجہ تھی کہ بڑے بڑے فاتحوں نے عرب کی طرف کبھی منہ نہ کیا.حتی کہ سکندر جو ہندوستان تک فتح کرتا چلا آیا.اس نے بھی عرب کی طرف رخ نہ کیا.کیونکہ اسے بتایا گیا کہ وہ لوگ مر جائیں گے لیکن اطاعت نہیں کریں گے.ایک واقعہ مشہور ہے ایک بادشاہ تھا عرب کے اس حصہ کا جو شہری تھا.اس نے عرب کے لوگوں پر مال وغیرہ کے ذریعہ تصرف حاصل کر لیا تھا.ایک دفعہ اس نے اپنے دربار میں ذکر کیا.شکار کھیل کر آیا تھا.دوستوں سے کہنے لگا کیا کوئی ایسا سردار عرب میں ہے جو میری اطاعت نہ کرے اور میری اطاعت کرنا اپنے لئے ہتک سمجھے.کسی نے کہا ہاں ایسے لوگ ہیں بادشاہ نے کہا کسی کا نام لو.نے کہا اس کا نام عمرو بن کلثوم ہے.بادشاہ نے کہا اسے بلاؤ.پیغام بھیجا گیا اور وہ چلا آیا اسے یہ بھی لکھا کہ میری والدہ آپ کی والدہ سے ملنا چاہتی ہے ان کو بھی ساتھ لے آئیں وہ اپنی والدہ کو بھی ساتھ لے آیا.جب وہ پہنچا تو بادشاہ نے کہا اس کا امتحان لینا چاہیے میری کوئی بات مانتا اس الشخص

Page 266

۲۶۰ ہے یا نہیں.اس کے لئے بات کونسی رکھی یہ نہیں کہ فلاں ملک پر حملہ کردیا میری نوکری کر لو بلکہ یہ کہ جب کھانا کھانے بیٹھیں تو بادشاہ کی ماں سردار کی ماں سے کہے کہ فلاں برتن پکڑا دو.گویا یہ تو اس بادشاہ کے خیال میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ اسے اپنی نوکری کرنے کے لئے کے یا کوئی اور بات منوائے بلکہ یہی بات قرار دی کہ جب اس کی ماں کھانا بانٹ رہی ہو تو سردار کی ماں سے کیے.فلاں برتن پکڑا دو.اور یہ معمولی بات ہے.اور ایسی معمولی بات کہ افسر کو بھی ماتحت کہہ دیتا ہے لیکن بادشاہ کی ماں نے اس طرح کہا تو اس کے منہ سے اس لفظ کا نکلنا تھا کہ سردار کی ماں نے زور سے کہا انے لوگوں تمہارے سردار کی ماں کی ہتک ہو گئی اس وقت اس کا لڑکا پاس ہی بادشاہ کے پاس بیٹھا کھانا کھا رہا تھا.اس نے اتنا بھی نہ پوچھا.کہ کیا ہوا.اور بادشاہ ہی کی تلوار لیکر اس کا سر اڑا دیا.اس کے بعد باہر نکلا اور اپنے قبیلہ کے لوگوں کو کہا کہ ان کو لوٹ لوسا تو ان لوگوں میں اتنی آزادی تھی کہ کسی کی اطاعت کرنا اپنی ہتک سمجھتے تھے.لیکن ان آزاد قبائل کا کیا حال ہوا.انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی نہیں مانا کہ خیر خدا کے نبی ہیں.اس لئے آپ کی اطاعت کر لیں.بلکہ آپ کے بعد ابو بکر کو جو گو خاندانی لحاظ سے معزز تھے لیکن ان خاندانوں میں سے نہ تھے جو بادشاہ ہونے کے قابل سمجھے جاتے تھے.بادشاہ مان لیا.حضرت ابو بکر کے والد بہت آخر میں جاکر مسلمان ہوئے.یعنی فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے.پھر بھی کوئی خاص اثر اسلام کا ان پر نہ تھا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کی اطلاع انہیں ملی تو گویا اصل ایمان حاصل ہونے کا ان کے لئے وہی موقع تھا.ان کو اطلاع ملی.کہ ابوبکر خلیفہ ہو گیا ہے.انہوں نے پوچھا کون ابوبکر کہا گیا تمہارا بیٹا.کہنے لگے عرب اس کی اطاعت نہیں کر سکتے وہ کس طرح خلیفہ ہو سکتا ہے.کہا گیا نہیں وہی ہو گیا ہے پوچھا کیا عربوں نے اسے مان لیا ہے.کہا گیا ہاں مان لیا ہے.کہنے لگے.اگر عربوں نے اسے مان لیا ہے تو اشهد ان لا اله الا الله وأشهد ان محمد عبده ورسولہ خدا ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کے بچے رسول ہیں.۲.کہ ابو قحافہ (یہ ان کا نام تھا) کے بیٹے کو عربوں نے خلیفہ مان لیا.اگر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قوت قدسی ایسی زبردست ہے کہ عرب کے لوگ جو کسی کی اطاعت نہیں کر سکتے وہ اپنے سے ادنی خاندان کے انسان کی اطاعت کرلیں تو وہ ضرور سچا نبی ہے.تو خدا تعالی نے بادشاہت دی کن کو.اور کن پر.ان کو جنہیں بادشاہ بن سکنے کا وہم و گمان بھی نہ تھا.اور ان پر جو سینکڑوں سال سے آزاد چلے آتے تھے.اور جن پر حکومت کرنے کے لئے دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں اور فاتحوں کو حوصلہ نہ ہوا.ان پر حکومت دی.اور بلا کسی فوج بغیر کسی سامان کے اس غریب آدمی ابو بکر کو دی جو گٹھڑی اٹھا کر چل پڑے تھے.کہ کپڑا بیچ کر گزارہ کریں.اور جب انہیں کہا گیا کہ اگر

Page 267

آپ اس طرح کریں گے تو خلافت کا کام کون کرے گا.تب رکے.تو مال کے لحاظ سے ان کی یہ حالت تھی.اور خاندانی لحاظ سے یہ کہ گو معزز خاندان کے تھے.لیکن ان کا خاندان اتنا معزز نہ تھا.کہ دوسرے خاندانوں پر حکومت کر سکتا.پھر نہ ان کے پاس کوئی طاقت اور قوت تھی.اگر کچھ تھا تو یہی تھا کہ خدا تعالیٰ نے فیصلہ کیا تھا کہ اب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادموں کو بادشاہت دی جائے اور خدا نے یہ فیصلہ کر لیا تو اس میں کوئی دیر نہ لگی.اور نہ کوئی چیز روک بن سکی.پھر جب خدا تعالی گراتا ہے کہ تو اس طرح گراتا ہے کوئی روک نہیں سکتا.ایک زمانہ تھا کہ اگر ایک مسلمان لڑکا عیسائیوں کی حکومت میں چلا جاتا تو گورنر تک اس کو ہاتھ لگاتا ڈرتا تھا.اور کہتا تھا.اسے لڑکا نہ سمجھو سارے مسلمانوں کی طاقت اس کے پیچھے موجود ہے.پھر مسلمان وہ تھے.کہ چین کا ایک بادشاہ ۳ دربار میں بیٹھا تھا.کہ ایک شخص اس کے پاس پہنچا.اور کہا میں آپ کے لئے ایک پیغام لایا ہوں.اور وہ یہ کہ میں ایک رستہ سے گذر رہا تھا کہ ایک گاؤں سے ایک عورت کی آواز آئی.جس نے تیرا نام لیا.اور کہا عیسائیوں سے ملک کو کیوں نہیں بچاتا یہ سن کو وہ تخت سے اتر آیا اور لبیک کہتا ہوا چلا اور فرانس کی حد تک عیسائیوں کو مارتا چلا گیا ہم تو کسی کی طاقت نہ تھی کہ کسی مسلمان عورت یا بچہ کو دکھ دے.مگر آج کہاں گئی وہ طاقت کہاں گیا وہ رعب کہاں گئی وہ حکومت کہاں گیا وہ مال مسلمانوں کی آج یہ حالت ہے کہ مسلمان بادشاہوں کے پاس بھی اتنا مال نہیں جتنا اس وقت کے غریب مسلمانوں کے پاس ہو تا تھا.صحابہ خدا کی راہ میں بہت مال خرچ کرتے تھے.تاہم جب ایک صحابی فوت ہوئے تو اڑھائی کروڑو روپیہ چھوڑ گئے.اور یہ کوئی بڑے مالدار نہ سمجھے جاتے تھے.تو وہ ایسا زمانہ تھا کہ کسی کی طاقت نہیں تھی کہ مسلمانوں پر حملہ کرتا مسلمانوں کا ایسا رعب تھا کہ حکومتیں لرزتی اور بادشاہتیں کانپتی تھیں.اس وقت ایک مسلمان فقیر زیادہ محفوظ تھا آج کل کے مسلمان بادشاہ سے.مگر وہ حکومتیں اور شوکتیں کہاں گئیں.نہ وہ عزتیں رہیں نہ وہ مراتب رہے.بلکہ مسلمان سب سے زیادہ حقیر اور ذلیل سمجھے جاتے ہیں.ہندو جن کی کوئی سلطنت نہیں.اور جو ہندوستان سے باہر نہیں.ان سے تو صلح کی خواہش کی جاتی ہے.مگر مسلمان جو ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں.ان کا نام لینے کا بھی کوئی خواہاں ہیں.یہ خدا کی گرفت ہے کہ اس نے مسلمانوں کو ایسا ذلیل کر دیا.یہ قادر خدا جو اس طرح بادشاہتوں کو بناتا اور توڑتا ہے.یہ خدا افراد پر جو بادشاہتوں کے مقابلہ میں کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتے.اس قدر رحم کرتا ہے کہ خود جھک کر انسان کی طرف آتا ہے.اور کہتا ہے.اپنا ہاتھ مجھے پکڑا تا میں تجھے عرش پر لے جاؤں.لیکن کس قدر رنج اور افسوس کی بات ہے کہ انسان جو اپنے جیسے بندوں کے آگے ہاتھ جوڑتا ہے.خدا جو آپ اترتا ہے.اور اپنے بندے

Page 268

بھیجتا ہے.ان سے منہ موڑ لیتا ہے.اور اپنے ہاتھوں خدا کے فضل اور رحم کے رستے بند کر لیتا ہے.لیکن خدا پھر بھی اس پر رحم کرتا ہے.انسان اسے چھوڑتا ہے.مگر وہ نہیں چھوڑتا انسان بند کرتا ہے.مگر وہ نہیں بند کرتا انسان منہ پھیرتا ہے مگر خدا نہیں منہ پھیرتا.وہ ہر وقت اس کی طرف ہاتھ بڑھاتا اور کہتا ہے کہ اگر تو کل نہیں آیا تو آج آجا.مگر انسان پھر رد کر دیتا ہے.رسولوں اور خلفاء کا ہاتھ خدا ہی کا ہاتھ ہے.جسے انسان کاٹنا چاہتا ہے.کتوں کی طرح بھونکتا ہے.مگر وہ پھر یہی کہتا ہے اچھا اب آجاؤ.اور انسان پھر رد کر دیتا ہے.کوئی خوش قسمت ہوتا ہے جو مان کر مرتا ہے.اور اس جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں دنیا کے آرام اور دنیا کی بادشاہتیں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتیں.اور اگر نہیں مانتا تو اس کی وہی حالت ہوتی ہے جو بادشاہ کے باغی کی ہوتی ہے.یہ مضمون بہت وسیع تھا.لیکن چونکہ تمہید میں ہی بہت وقت لگ گیا.اس لئے اگلے جمعہ پر رکھتا ہوں.ان رستوں میں سے جن پر چل کر انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے.ایک رمضان ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے یا ایها الذین امنوا كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم لعلكم تتقون (البقره ۱۸۴) اے مومنو! جس طرح تم سے پہلوں پر روزے فرض کئے گئے ہیں.اسی طرح تم پر بھی تمہارے فائدہ کے لئے فرض کئے گئے ہیں.مگر کتنے ہیں جو اپنے فائدہ اور نفع کے لئے روزے رکھتے ہیں.بہت ہیں جو اس لئے روزے رکھتے ہیں کہ لوگ کہیں گے فلاں روزے نہیں رکھتا.بہت ہیں جو اس لئے روزے رکھتے ہیں کہ انہیں عادت ہو گئی ہے.اگر نہ رکھیں تو بے اطمینانی ہوتی ہے.چونکہ مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئے اس لئے جس طرح انیمی افیم نہ کھائے تو اسے گھبراہٹ ہوتی ہے.اسی طرح ان کی حالت ہوتی ہے.پھر بہت سے ہیں جو رکھتے ہی نہیں اور بہت سے ہیں جو ان شرائط کے ساتھ نہیں رکھتے جو خدا نے مقرر فرمائی ہیں.روزہ رکھ کر گالی گلوچ کرتے.دنگہ فساد کرتے دوسروں کا مال کھا جاتے.ایسے لوگ روزہ نہیں رکھتے بلکہ بھوکے مرتے ہیں.پھر بہت سے ہیں جو ایسی حالت میں روزے رکھیں گے جس میں خدا کہتا ہے نہ رکھو.جیسے بیماری اور سفر میں.غرض کئی رکھتے ہی نہیں.کئی شرائط بجا نہیں لاتے.کئی جہاں خدا کہتا ہے نہ رکھو.وہاں رکھتے ہیں اور تھوڑے ہیں جو ان شرائط کے مطابق رکھتے ہیں.جو خدا نے مقرر کی ہیں.ہمارے دوستوں کو چاہیے کہ جو باتیں خدا نے بتائی ہیں.ان کے مطابق روزے رکھیں.باقی تفصیل خدا نے چاہا تو پھر بیان کر دی جائے گی.الفضل ر مئی ۱۹۲۲ء)

Page 269

اس انا غانی جلد 9 ص ۱۸۱ ام سه تاریخ الخلفاء کا پوری ص ۵۳ حالات سیدنا ابوبکر فصل في مبايعته ہشام بن عبد الرحمان ہسٹری آف سارسین ( تاریخ اسلام از سید نا امیر علی ص ۴۸۰

Page 270

نهم ۲۶ 49 احکام الہی افضال الہی ہیں (فرموده ۵ مئی ۱۹۲۲ء) حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ اور آیہ شریفہ يا ايها الذين امنوا كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم (البقرة ۱۸۴) کی تلاوت کے بعد فرمایا.میں نے نزلہ کی تکلیف کے باعث ایک ہی آیت پڑھی ہے.اور مختصر طور پر اس کے متعلق بیان کرنا چاہتا ہوں.میں نے پچھلے جمعہ بیان کیا تھا کہ یہ اللہ تعالٰی کے فضلوں میں سے ایک بہت بڑا فضل ہے کہ وہ کمزور انسان کی مدد کے لئے بولتا اور اس کی ترقی کے لئے آپ دروازہ کھولتا ہے یہ انسان کا حق نہیں تھا کہ اس کے لئے ایسا کیا جاتا.پرندوں کو یہ طاقتیں نہیں دی گئیں.انکو یہ دماغی قوتیں نہیں ملیں مگر خدا ظالم نہیں.پھر حیوانات سے بھی کم قوت رکھنے والی چیزیں ہیں ان میں کوئی حرکت نہیں.جانور بھاگ سکتے ہیں.مگر درخت بھاگ نہیں سکتے.گائے ایک آواز نکالتی ہے.مگر ایک گیہوں یا مکی کا پودا آم یا توت کا درخت اپنی جگہ سے نہ ہل سکتا ہے نہ آواز نکال سکتا ہے.گرمی سردی کے احساس کے اظہار کے لئے درخت کوئی آواز نہیں نکال سکتے.ان کو یہ طاقتیں نہیں دی گئیں مگر خدا اس کے باعث ظالم نہیں تو اگر وہ انسان میں بھی اعلیٰ مقام پر پہنچنے کی طاقت نہ رکھتا تو ظالم نہ کہلاتا کیونکہ انسان اس کی مخلوق ہے.پس اس کا انسان کو یہ طاقتیں دینا اس کا فضل ہے.اور ان طاقتوں کے استعمال کے ذرائع بتانا اس کے فضلوں میں سے ہے.وہ مبارک ساعت ہوتی ہے جب اللہ تعالی سے اس کو ہدایت نامہ ملتا ہے.خدا تعالیٰ کے نبیوں میں سے کوئی نبی ایسا نہیں کہ اس کے ماننے والوں کو اس کے ماننے پر انتہائی خوشی نہ ہوتی ہو.لیکن اگر شریعت لعنت ہوتی.تو نبی سب سے زیادہ حقیر سمجھے جاتے.کیونکہ دنیا میں سب سے ذلیل ظالم ہوتا ہے اور ظالم سے کوئی محبت کرنا نہیں چاہتا.کیا وجہ ہے کہ ماننے والے لوگ انبیاء کو جو شریعت لانے والے ہوتے ہیں.اپنا انتہائی محبوب سمجھتے ہیں.وہ لوگ جو ان

Page 271

۲۶۵ کے ساتھ مل بیٹھنا پسند نہیں کرتے.اور ایک چھت کے نیچے جمع ہونا نہیں چاہتے.جب انبیاء کو شناخت کر لیتے ہیں تو ان پر اپنی جان تک دے دیتے ہیں دنیا میں ان کو ایک ہی چیز محبوب اور پیاری ہوتی ہے کہ وہ ان کے راستہ میں اپنی جان مال عزت سب دے دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں میں اکثر مخالف اور چند ماننے والے تھے.مگر تمام عرب کے لوگ جنہوں نے آپ کو مانا وہ آپ کو اپنی ہر ایک چیز سے زیادہ محبوب رکھتے تھے اگر شریعت لعنت ہوتی تو اس کے لانے والے دنیا میں سب سے زیادہ ذلیل اور حقیر ہوتے مگر بر عکس معالمہ یہ ہوتا ہے کہ شریعت لانے والوں پر جان تک قربان کرنے سے پر ہیز نہیں کیا جاتا.حضرت عمرو بن العاص نے بیس سال تک شدید مخالفت کی.وہ معمولی قسم کے مخالف نہ تھے.بلکہ ایسے شدید مخالف تھے کہ خود کہتے جب میں مخالف تھا تو بوجہ انتہائی نفرت کے میں رسول کریم کی شکل نہ دیکھ سکتا تھا.اور آپ کے ساتھ ایک مکان میں اکٹھا ہونا پسند نہ کرتا تھا.لیکن پھر جب آپ کی شناخت نصیب ہوئی تو کہتے ہیں کہ آپ میری نگاہ میں اس قدر محبوب ہو گئے کہ میں بوجہ محبت کے رعب کے آپ کو نہ دیکھ سکتا تھا.اور اب اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ کیا تھا تو میں نہیں بتا سکتا کہ ایک زمانہ میں نفرت کے باعث نہ دیکھ سکے.اور دوسرے زمانہ میں رعب محبت کے باعث نہ دیکھ سکے سارے غزوہ حنین میں مکہ کے بہت سے لوگ اسلامی مجاہدوں میں شامل ہو گئے تھے اور ان میں داخل ہونے والوں کی تعداد ۲ ہزار تھی یہ لوگ صحابہ سے آگے آگے چلے اس خیال سے کہ مسلمانوں کو محسوس کرائیں کہ ہم خدمت اسلام میں پیچھے نہیں.کفار نے مقابلہ کے لئے یہ تدبیر کی کہ ایک تنگ راستہ پر دائیں بائیں چند تیر انداز کھڑے کر دئے انہوں نے جب تیراندازی شروع کی تو وہ ۲ ہزار کے ۲ ہزار بھاگ پڑے.صحابہ حیران ہو گئے اور ان کے گھوڑے ڈر گئے اور وہ بھاگڑ پڑی کہ سوائے رسول کریم اور چند صحابہ کے سب لوگ پراگندہ اور منتشر ہو گئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا گیا کہ آپ بھی پیچھے ہٹ جائیں جس وقت دس بارہ ہزار کا لشکر بھاگ رہا ہو اس وقت کیا حالت ہوگی ایک صحابی کہتے ہیں کہ ہمیں معلوم نہ تھا کہ ہم کدھر جا رہے تھے ہمیں معلوم تھا کہ نبی کریم پیچھے ہیں ہمارے جانور اس تیزی اور زور سے بھاگ رہے تھے کہ ہم اپنے اونٹوں کی مہاریں اس زور سے کھینچتے تھے کہ ہمارے ہاتھوں سے خون بہتا تھا اور اونٹ کی گردن کھینچ کر اس کی دم کے ساتھ لگ جاتی تھی.مگر جب ہم پھر مہار کو ڈھیلا کرتے تو پیچھے مڑنے کی بجائے اونٹ سیدھے بھاگتے تھے.ایسی حالت تھی اور اچانک جو بات پیدا ہو جائے اس میں یہی حالت ہوا کرتی ہے کیونکہ آدمی اس کے لئے تیار نہیں ہو گا.اگر اس مجلس میں جس میں خطبہ جمعہ ہو رہا ہے کوئی شخص اٹھ کر شور

Page 272

مچا دے کہ سانپ آگیا یا یونسی اٹھ کر پیٹنا شروع کر دے تو کئی لوگ بھاگ جائیں.کیونکہ بے دھیان بیٹھے ہیں صحابہ بھی اس وقت بے دھیان تھے اس وقت رسول کریم نے حضرت عباس سے کہ ان کی آواز بہت بلند تھی کہا کہ بلند آواز سے کہو اے انصار خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے بارہ ہزار کا لشکر بھاگ رہا ہے جانوروں کی خوف سے یہ حالت کہ روکنے سے رکتے نہیں اس وقت یہ آواز ایسی معلوم ہوئی کہ گویا اسرائیل صور بجا رہے ہیں.اس وقت یہ کیفیت ہوئی کہ ہم جانوروں کو موڑتے تھے اگر.مڑتے تھے تو خیر ورنہ تلوار سے ان کی گردن کاٹ کر الگ کر دیتے اور کود کر پیدل دوڑ پڑتے...یہ محبت اور اخلاص کیا اس شخص سے ہو سکتا ہے جس کے متعلق انسان کا یہ خیال ہو کہ وہ ظالم ہے اور جس کے متعلق سمجھتا ہو کہ میں جس طرح چاہتا تھا کھاتا پیتا تھا اس نے تحکم سے کہا جس طرح میں کہوں اس طرح کھانا پینا ہو گا (پھر بھی جو چاہتا تھا کھاتا پیتا تھا اس نے کہا نہیں میں جو کہوں گا وہ کھانا اور پینا ہو گا.) میں اپنے مال کو جہاں چاہتا تھا خرچ کرتا تھا مگر اس نے کہا جہاں میں کہوں گا وہاں خرچ کرنا ہو گا کیونکہ میں خدا کا قائم مقام ہوں اس طرح میری حرمت چھن گئی کہا گیا کہ جو ہم کہیں گے وہی تم کو کرنا ہو گا میرا قانون وہ تھا جو میں بناتا تھا اس نے کہا نہیں میں تمہیں جو قانون دوں گا وہ دو قسم کا ہوگا.ایک تو وہ جو خود خدا نے تمہارے لئے مجھے دیا ہے اس پر عمل کرنا ہو گا اور دوسرا وہ جو خدا کے قانون سے نکال کر میں تمہیں دوں گا اس پر عمل کرنا ہو گا.تجھے اپنے رشتہ داروں سے الگ ہونا ہوگا اور اپنے وطن کو چھوڑنا ہوگا.تیرا وطن وہ ہو گا جو میں تیرے لئے تجویز کروں گا.غیر ممالک میں خدمت دین کے لئے جانا ہو گا.اگر مسلمان نبی کریم کے متعلق اس قسم کے خیالات کرتے اور ظلم کو آپ کی طرف منسوب کرتے تو آپ کے بلانے پر اس طرح آپ کے گرد جمع نہ ہوتے.اگر وہ نمازیں پڑھنے.زکوۃ دینے.وطن چھوڑنے کو ہلاکت سمجھتے.جہاد فی سبیل اللہ کو تباہی جانتے اور ان احکام کو لعنت سمجھتے تو کبھی وہ ایسے جاں نثار نہ ہوتے بلکہ ان کا جاں شار ہونا بتلاتا ہے کہ انہوں نے تجربہ کر لیا تھا کہ یہ احکام زحمت کے لئے نہیں.بلکہ سکھ کے لئے ہیں.اگر مشاہدہ کر کے اور اپنی عقلوں سے نہ سمجھ لیتے کہ ان نقصانات کے مقابلہ میں وہ فوائد زیادہ ہیں.اور ان فوائد کے مقابلہ میں ہماری تمام قربانیاں حقیر ہیں.تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کو لعنت خیال کرتے.خدا کے احکام پر ہمارے پیٹروؤں نے ہم سے پہلے عمل کر کے گواہی دی ہے کہ یہ احکام انسان کے دکھ کے لئے نہیں بلکہ عین راحت کے لئے ہیں.اور خدا کے ان فضلوں میں سے ہیں.جو انسان کی ترقی کے لئے ہیں.لیکن ہمیں اپنے اندرونے پر غور کرنا چاہئیے.کہ آیا ہم ان احکام کو خوشی سے بجا لاتے ہیں اور ہم ان احکام کی بجا آوری میں راحت خیال کرتے ہیں اور ہماری راحت ایسی ہی ہے

Page 273

جیسی ان کی تھی.ہم میں شاذ و نادر ایسے ہیں جنہوں نے ورثہ میں یہ بات نہیں پائی کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی پیروی کریں گے.جب ہم نے ہوش بھی نہیں سنبھالا تھا اس وقت سے ہمارے کانوں میں یہ پڑ رہا ہے کہ ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی پیروی کرتا ہے.لیکن کیا ہم میں سے بہت سوں کی حالت یہی ہے.ہم پہلے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ ہر تکلیف اور ہر ایک ذلت وہ اس راہ میں خوشی سے برداشت کرتے تھے.اگر آج کسی شخص کو اطلاع ملے کہ اس کو سرکار دس مربع زمین دے گی تو وہ اس خوشی اور پھرتی سے نہیں اٹھے گا.جس خوشی اور پھرتی سے وہ لوگ اس خبر پر اٹھتے تھے.کہ ہمیں خدا کی راہ میں جان دینے کے لئے بلایا جاتا ہے.کیا ہماری بھی یہی حالت ہے؟ احد کی جنگ میں ایک صحابی یہ اطمینان کر کے کہ فتح ہو چکی ہے آرام سے سمھجوریں کھا رہے تھے.ان کو خبر ملی کی فتح شکست سے بدل گئی.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے.ان صحابی نے یہ سن کر کھجوریں پھینک دیں اور کہا کہ دیکھو میرے اور جنت کے درمیان یہی کھجوریں ہیں.یہ کہہ کر میدان میں پہنچے اور شہید ہو گئے.۳.ان کے ان اعمال سے پتہ لگتا تھا کہ انہوں نے دیکھ لیا تھا.اور عقلوں سے سمجھ لیا تھا کہ ان احکام میں بہت فائدہ ہے.اگر ہم نماز پڑھتے ہیں تو اس کے بدلہ میں خدا ہمیں دوست کر کے پکارتا ہے.خالق زمین و آسمان ہمیں دوست اور محبوب کہتا ہے اس کے مقابلہ میں جو قربانیاں ہیں وہ بالکل اونی ہیں ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے آگ ہو اور جب اس میں کود پڑیں تو اندر باغ ہو.پس دنیا کی جو تکلیفات ان احکام پر عمل کرنے سے ہوتی ہیں وہ ترقیات کا موجب ہوتی ہیں.اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے.یا ایها الذین امنوا كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم لعلكم تتقون میں نے پہلے تمہیں اس آیت کے یہ معنی بتائے تھے کہ اے لوگو ہم تم پر روزے فرض کرتے ہیں.اور اس میں تم پر کوئی ظلم نہیں کیونکہ تم سے پہلوں پر بھی فرض کئے گئے تھے.مگر آج میں تمہیں یہ معنی بتاتا ہوں.کہ اے مومنو تم پر آج ہم روزے فرض کر کے ایک فضل کرتے ہیں.جو کہ پہلوں پر فرض کر کے ان پر فضل کیا گیا تھا.اور ہم اس فضل سے تم کو محروم رکھنا نہیں چاہتے جو یہ ہے کہ تم متقی ہو جاؤ چونکہ روزے تقویٰ کا ذریعہ ہیں.اس لئے فضل ہیں.روزے کس رنگ میں تقویٰ کا موجب ہیں.یہ ایک لمبا مضمون ہے.اب وقت نہیں اگلی دفعہ انشاء اللہ بیان کروں گا.اب اتنی توجہ دلاتا ہوں کہ احکام الہی فضل ہیں.اگر یہ نہ ہو تو احکام لانے والوں سے محبت نہ کی جاتی.ان لوگوں سے محبت کیا جانا بتاتا ہے کہ محبت کرنے والے اس میں فائدہ سمجھتے ہیں نادان ہے جو پہلوں کے تجربہ سے فائدہ نہ اٹھائے ان باتوں کو

Page 274

معمولی نہ سمجھو.بلکہ خوشی سے بجا لاؤ.پھر تم دیکھو گے کہ تمہاری قربانی تمہارے لئے موجب ہلاکت نہیں بلکہ ایک نعمت ہے.اور اس پر خوشی سے عمل کرو....ا مهاجرین حصہ دوم مولفه شاه معین الدین ندوی ص ۱۵۲ سیرت ابن ہشام انقسم الثانی حالات غزوۂ حسین بخاری کتاب المغازی باب غزوه احد (الفضل ۵ار مئی ۱۹۲۲ء)

Page 275

۲۷۹ 50 50 فلسفه صوم و صلوة (فرموده ۱۲ ر مئی ۱۹۲۲ء) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ اور آیت شریفہ یا ايها الذين امنوا كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم لعلكم تتقون (البقرة ۱۸۳) کی تلاوت کے بعد فرمایا.میں نے پچھلے خطبہ میں یہ بات بیان کی تھی کہ احکام الیہ انسان کے نفع کے لئے ہیں.یعنی ان کی غرض انسان سے کچھ لینا نہیں ہوتا.بلکہ کچھ دینا ہوتا ہے.چنانچہ اس آیت میں بھی جو میں نے پڑھی ہے روزوں کے فرض کرنے کی وجہ بتائی گئی کہ لعلكم تتقون تاکہ متقی ہو جاؤ.روزہ سے تم لوگوں کا متقی بنا دیتا غرض ہے.روزے کس طرح متقی بنا دیتے ہیں؟ اور تقویٰ کیا چیز ہے؟ ان دو سوالوں کے حل ہونے سے یہ آیت حل ہو جاتی ہے.کیونکہ جب کسی چیز کی تعریف معلوم ہو جائے تو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کس طرح حاصل ہو سکتی ہے اگر یہ معلوم نہ ہو کہ روٹی کیا چیز ہے تو کسی کے یہ کہنے سے کہ آگ جلاؤ.روٹی پکائیں.آگ جلانے اور روٹی پکانے کا تعلق معلوم نہ ہو گا.فرض کرو کہ جوتی یا کپڑے کا نام روٹی ہوتا تو یہ کہنے پر کہ آگ لاؤ.روٹی پکائیں.واقف یہ کہنے والے پر نہیں گے پس اگر کسی چیز کی تعریف معلوم نہ ہو.تو اس سے تعلق رکھنے والی باتوں کو نہیں سمجھ سکتے.اور یہ نہیں معلوم کر سکتے کہ فلاں چیز فلاں چیز کے ذریعہ سے کس طرح حاصل ہو سکتی ہے.مثلاً اگر کوئی کہے کہ قینچی لاؤ.روٹی پکائیں تو نا واقف سمجھیں گے کہ قینچی کا روٹی پکانے سے تعلق ہو گا لیکن اگر کسی کو معلوم ہو کہ روٹی پکانے کے لئے پہلے آٹا گوندھتے ہیں پھر آگ جلاتے ہیں.تو وہ کہے گا کہ قیچی کا روٹی پکانے سے تعلق نہیں.روٹی تو آٹا گوندھ کر آگ پر پکائی جاتی ہے.پس ہمیں پہلے مقصد معلوم ہونا چاہیے پھر تطابق معلوم ہو جائے گا.اس لئے ہمیں معلوم ہونا چاہئیے کہ کس طرح روزوں سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے.اس آیت کا مفہوم بیان کرنے سے پہلے

Page 276

ضرورت ہے کہ یہ بیان کیا جائے کہ اتقاء کیا ہے.اتفا.وقی سے نکلا ہے.وقی کے معنی ہیں.کسی چیز کو محفوظ کر دینا.بچا دینا.اس کے اور ضرر رساں چیزوں کے درمیان روک ہو جائے.یا کسی کی اصلاح کر دینا.اسے خرابی اور نقص سے بچا دینا.یہ وقی کے معنی ہیں.کوئی چیز جو اپنی ذات میں بگڑنے کے اسباب رکھتی ہو.ان سے اس کو بچا دیتا.یا ایسی چیزوں سے بچا دینا جو اسے خراب کرنے والی ہوں.اتقاء کے معنی ہیں اپنے اندر یہ بات پیدا کرنا یعنی وقی کے جو معنی ہیں وہ اپنے اندر بات پیدا کرنا نقصان سے محفوظ ہو جانا.دوسری چیزوں کے ضرروں اور نقصانوں سے محفوظ ہو جانا.یا یہ معنی بھی ہونگے کہ اپنے اندر یہ حال پیدا کر لینا کہ جس سے ہماری اندرونی اصلاح ہو جائے.پھر اتقوا اللہ کے کیا معنی ہیں؟ یہ کہ ہمارے اور خدا کے تعلقات کے درمیان جو کسی وجہ سے نقص آسکتا ہے اس سے بچ جانا.اس کے یہ معنی نہیں کہ اللہ کوئی ضرر رساں ہے اس سے بچ جانا.بلکہ خدا سے تعلق میں جن باتوں سے ایسا نقص پیدا ہو سکتا ہے جس پر گرفت ہو اس سے بچنے کو تقویٰ کہتے ہیں.مطلب یہ ہوا کہ اس خرابی کو دور کرنا جس سے انسان خدا کی گرفت میں آجائے یا اندرونی اصلاح کرنا.تو عام فہم لفظوں میں یہ مفہوم ہوا کہ تقویٰ اللہ کے معنی ہیں ایسی باتوں سے بیچ جاتا جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوتی ہیں.یا ان باتوں کو دور کرنا جو انسان کے اندر پیدا ہو کر خدا تعالیٰ کی ناراضگی کو بھڑکاتی ہیں.پس لعلکم تتقون کے یہ معنی ہوئے کہ خدا تعالیٰ نے روزے اس لئے مقرر فرمائے ہیں کہ تم ان اشیاء کے حملوں سے بچ جاؤ جو خدا سے ناراضگی بڑھاتی ہیں یا اپنے نفسوں کی ایسی اصلاح کرو کہ خدا کی ناراضگی کے اسباب دور ہو جائیں یا یہ کہ ایسے سامان جو خواہ بیرونی ہوں یا اندرونی.جن سے خدا ناراض ہوتا ہے ان سے بچ جاؤ.یہ تقویٰ اللہ ہے.دوسرا سوال یہ ہے کہ روزے کس طرح تقویٰ اللہ کا باعث ہو سکتے ہیں اور کس طرح ان اسباب سے بچا سکتے ہیں جو خدا سے دور کرنے والے ہوں اس کا جوڑ معلوم ہونا چاہئیے کیونکہ جب جوڑ معلوم ہو تبھی کام اچھی طرح ہوتا ہے.تعلق بتانے سے پہلے میں ان اعمال کی تقسیم بیان کرتا ہوں جن سے نیکی اختیار کی جاتی ہے یا جن پر دنیا میں کام ہو رہا ہے.کسی کام میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے بعض کام کئے جاتے ہیں اور بعض نہیں کئے جاتے.مثلاً ہم اپنے ماں باپ کو خوش کرتے ہیں تاکہ ہمارے اور ان کے تعلقات مضبوط ہوں.مگر وہ تب خوش ہونگے جب ہم ان کے لئے بعض کام کریں اور بعض نہ کریں.پھر ہمارا اپنا نفس ہے اس کی تندرستی کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ بعض چیزیں ہم کھائیں اور ایک خاص مقدار میں کھائیں اور بعض نہ کھائیں.جو کھانے والی ہیں.اگر مقررہ مقدار سے کم کھائیں

Page 277

گے.تو ہماری تندرستی قائم نہیں رہے گی اور جو نہیں کھانے والی وہ اگر کھائیں گے تو بھی صحت نہیں رہے گی.اسی طرح دوستوں، حاکموں، آقاؤں کے ساتھ کرتے ہیں کہ بعض باتیں ان کی خاطر کی جاتی ہیں.اور بعض ان کے لئے چھوڑ دی جاتی ہیں.فنون سیکھنے کے لئے بھی یہی کرنا پڑتا ہے.انسان کوئی فن نہیں سیکھ سکتا جب تک بعض کام کرے اور بعض نہ کرے مثلاً روٹی پکانا ہے پہلے ضروری ہے کہ اس میں مناسب حد تک پانی ڈالے.زیادہ نہ ڈالے.ورنہ آٹا پتلا ہو جائے گا پھر خاص حد تک اس کو چوڑا اور گول کرے اگر زیادہ بڑھائی جائے گی تو روٹی نہ پکے گی پھر آگ جلائے اور مناسب حد تک جلائے اور زیادہ نہ جلائے تب روٹی پکے گی.اس طرح مثلاً زمیندار ہے اس کو بھی اپنے کام کے انجام دینے کے لئے بعض باتیں کرنی پڑتی ہیں.اور بعض سے رکنا پڑتا ہے مثلاً زمیندار ہل چلانے پر مجبور ہے اور مجبور ہے کہ بیچ ڈالے لیکن اس پر بھی مجبور ہے کہ ایک ہی جگہ اور قریب قریب ملا کر پیچ نہ ڈالے یا گھنے درخت کے نیچے بیچ نہ ڈالے.اگر ملا کر ڈالے گا تو پیج خراب ہو جائے گا.تو جتنے کام ہیں تبھی مکمل ہو سکتے ہیں کہ ان کی تکمیل کے لئے بعض کام کئے جائیں اور بعض نہ کئے جائیں اسی طرح خدا سے تعلق تب مضبوط ہو سکتا کہ بعض کام کریں اور بعض نہ کریں.کرنے کے کام حرکت چاہتے ہیں اور نہ کرنے کے سکون ان دونوں باتوں اور حالتوں کو پیدا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں احکام دیئے ہیں.جن میں سے ایک صلوٰۃ (نماز) ہے اور دوسرا صوم صلوۃ کے فعل میں حرکت پائی جاتی ہے.اور صوم کے معنی میں رکتا پایا جاتا ہے نماز قائم مقام ہے ان باتوں کی جو کرنے کی ہیں.اور روزہ قائم مقام ہے ان باتوں کا جو نہ کرنے کی ہیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس یہی دو احکام ہیں.شریعت کے احکام تو بہت ہیں مگر یہ دونوں احکام دونوں قسم کے احکام کے لئے مرکزی نقطہ اور قائم مقام ہیں.یعنی کرنے کے احکام صلوۃ کے ماتحت آ جاتے ہیں اور نہ کرنے کے احکام صوم کے ماتحت اور ان دونوں سے تقویٰ اللہ پیدا ہوتا ہے.جب تک یہ دونوں طرح کے احکام نہ بجالائے جائیں تقویٰ اللہ نہیں پیدا ہو سکتا.نماز پڑھنے کا یہ مطلب ہے کہ میں خدا کے حکم سے یہ کام کرتا ہوں اور روزے رکھنے کا یہ مدعا ہے کہ میں خدا کے حکم کے ماتحت یہ کام چھوڑتا ہوں.نماز کا چونکہ یہاں ذکر نہیں اس لئے میں اس کی تفصیل چھوڑتا ہوں اور روزے کو لیتا ہوں.روزے میں حکم ہوتا ہے کہ یہ کرو وہ نہ کرو.مثلاً حکم ہوتا ہے کہ روٹی نہ کھاؤ.پانی نہ پیو.بیوی خاوند کے تعلقات کے پاس نہ جاؤ.اور نماز میں حکم ہوتا ہے.وضو کرو اور اس طرح کرو.کھڑے ہو جاؤ اور یوں کھڑے ہو اور فلاں سمت کو کھڑے ہو.جھکو اور یوں جھکو وغیرہ.گویا نماز میں کرنے اور روزہ میں نہ کرنے کا حکم ملتا ہے.جس طرح نماز میں اللہ نے یہ بتایا کہ جو کرو ہمارے حکم سے کرو.اسی طرح روزہ میں حکم دیا کہ جو کچھ نہ کرو ہماری ممانعت سے نہ کرو.اس طرح کوئی انسانی فعل نہیں جو خدا کے تصرف سے باہر

Page 278

۲۷۳ رہتا ہو.انسان جو کام کرے خدا کے امر کے ماتحت اور جو نہ کرے وہ خدا ہی کی نہی کے ماتحت.اس طرح انسان کے تمام اعمال کو خدا کے تصرف کے نیچے لایا گیا ہے.پس انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر یہ عادت اور یہ قدرت پیدا کرے کہ وہ جو کام کرتا ہے خدا کے لئے کرتا ہے اور جس سے باز رہتا ہے خدا کے حکم سے باز رہتا ہے.نماز اور روزہ اس بات کی مشق کے لئے ہیں.اور ہر کام کے لئے مشق کی ضرورت ہوتی ہے.جیسا کہ سپاہیوں کو مشق کروائی جاتی ہے کہ ان سے خندقیں کھدواتے ہیں.چاند ماری کراتے ہیں حالانکہ ان کے سامنے اس وقت دشمن نہیں ہوتا.ان تمام کاموں سے یہ غرض ہوتی ہے کہ مشق ہو.کیونکہ بغیر مشق کے دنیا میں کوئی کام نہیں ہو سکتا.مثلاً لوگ روزانہ معماروں اور نجاروں کو کام کرتے دیکھتے ہیں.اور بہت سے خیال کرتے ہیں کہ یہ کام سہل ہے.اور ہر شخص بڑی آسانی سے اینٹیں لگا سکتا ہے.اسی طرح بڑھئی کے کام کے متعلق سمجھتے ہیں کہ ہم بھی لکڑی کاٹ سکتے ہیں.حالانکہ یہ نہیں ہو سکتا جب تک مشق نہ ہو.نہ لکڑی کائی جا سکتی ہے.اور نہ اینٹیں لگائی جا سکتی ہیں.حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں جبکہ میری عمر چھوٹی تھی.ہمارا ایک مکان بن رہا تھا.مستری لگے ہوئے تھے.یہ لوگ اپنے اوزاروں کی حفاظت کرتے ہیں.مگر اس وقت باہر گئے ہوئے تھے.میں لکڑی کاٹنا معمولی بات سمجھ کر تیشہ سے لکڑی کاٹنے لگا.لیکن میرے ہاتھ پر اس سے آدھ انچ زخم لگ گیا.جس کا اب تک نشان ہے.چونکہ مشق نہ تھی ہمیشہ بجائے اصلی جگہ پر پڑنے کے ادھر ادھر پڑتا تھا.لطیفہ مشہور ہے کہتے ہیں کہ کوئی امیر زادہ تیر اندازی سیکھنے لگا.جس نشان پر وہ تیر پھینکتا تھا تیر بجائے اس پر پڑنے کے ادھر ادھر جاتا تھا.ایک فقیر جو دیر سے اس نظارہ کو دیکھ رہا تھا.اپنی جگہ سے اٹھا اور نشانہ پر آبیٹھا.امیر زادہ کے مصاحبین نے ڈانٹا کہ کیا تمہاری موت آئی ہے.اور تمہیں زندگی دو بھر معلوم ہوتی ہے کہ ہدف پر آبیٹھا ہے.فقیر نے کہا زندگی کی خواہش ہی تو یہاں لائی ہے.کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ تیرا ادھر ادھر تو پڑتے ہیں اگر نہیں پڑتے تو نشانہ کی جگہ پر نہیں پڑتے.تو نا واقف خواہ کسی کام کی نیت بھی کرے تو بھی مشق کے بغیر خلوص نیت کبھی کچھ کام نہیں دے سکتا.مثلاً اگر کسی شخص کے بیٹے پر اس کا دشمن تلوار اٹھائے اور اس شخص کے پاس بندوق ہو.مگر اس کو چلانے کی مشق نہ ہو.ایسی حالت میں بیٹے سے محبت کی وجہ سے اور اس کو بچانے کی نیت سے دشمن پر بندوق چلائے تو بجائے دشمن کے ممکن ہے بیٹے ہی کو مارڈالے.اور اس طرح اس کا بیٹا بجائے دشمن کے ہاتھ سے مرنے کے باپ ہی کے ہاتھ سے مارا جائے.برخلاف ازیں مشاق لوگ بطور تماشہ اپنے بچے کے سر پر سیب رکھ کر گولی سے اڑا دیتے ہیں اور بچے کو کوئی ضرر نہیں پہنچتا.یہ محض تماشہ کے لئے اپنے پیارے بچہ کو خطرے میں ڈالتے ہیں اور بچالیتے ہیں مگر

Page 279

نا واقف باوجود خطرے سے نکالنے کی نیت اور ارادے کے اس کی جان لے لیتا ہے.اسی طرح سپاہی چند روپیہ لیکر مشق کی بنا پر دشمن کا مقابلہ کرتا ہے.اور ایسے ایسے لوگوں کو گرا دیتا ہے جو اس سے مضبوط اور طاقت ور ہوتے ہیں لیکن جس کو مشق نہ ہو وہ اپنی جان کی حفاظت بھی نہیں کر سکتا.اسی طرح تیراک کی مثال ہے وہ محض تفریح یا گرمی میں چند منٹ ٹھنڈک حاصل کرنے کے لئے تیرتا ہے مگر ایک دوسرا شخص جو تیرنا نہیں جانتا وہ اگر دریا میں پڑ جائے تو اپنی جان کی بھی حفاظت نہیں کر سکتا.سمندر کے کناروں پر بعض اقوام کے بچے پیسہ دو پلیسہ کے لئے غوطہ لگاتے ہیں.لوگوں کو کہتے ہیں کہ پانی میں پیسے ڈالو ہم نکالیں گے اور قبل اس کے کہ پیسہ زمین پر جائے نکال لاتے ہیں.مگر ایک دوسرا شخص جو تیرنا نہیں جانتا.اپنے ڈوبتے ہوئے بیٹے کو نہیں بچا سکتا.اور اگر ڈوب چکا ہو تو اپنے مردہ بچہ کی لاش بھی نہیں نکال سکتا.کہ خشکی پر دفن کر سکے.اس سے ثابت ہوا کہ جن کو کسی کام کی مشق ہو.ان کے نزدیک مشکل سے مشکل کام آسان ہوتا ہے.اور جن کو مشق نہ ہو وہ خطرہ کے وقت اپنی یا اپنے بچہ کی عزیز جان باوجود کوشش کے بھی نہیں بچا سکتے.پس شریعت نے جو احکام دئے ہیں ان میں بعض کرنے کے متعلق ہیں اور بعض نہ کرنے کے متعلق ہیں اور ان کا مرکز نماز اور روزہ ہیں.تاکہ انسان ان کے ذریعہ اس بات کی مشق کرے کہ جب کوئی خدا کا حکم آئے گا تو میں وہ بجالاؤں گا.اور جس کام سے رکنے کے متعلق حکم آئے گا اس سے رک جاؤں گا.جب یہ مشق ہوگی تو وقت پر کامیاب ہوگا اور اگر مشق نہیں ہوگی تو موقع آنے پر رہ جائے گا.دیکھو جب سپاہی سے خندق کھدوائی جاتی ہے.اس وقت اگر کوئی کہے کہ یہ کیا فضول حرکت ہے کونسا اس کے سامنے دشمن آگیا ہے.تو یہ اس کی نادانی اور نادا قفی ہوگی.کیونکہ سپاہی سے خندق کھدوانا اور چاند ماری کرانا اور محنت کے کام لینا اس کے قدم کو جنگ میں مضبوط کر دیتا ہے.اور جب موقع آتا ہے تو انہی خندقیں کھودنے اور چاند ماری کرنے کی وجہ سے دشمن سے خوب مقابلہ کرتا ہے لیکن جو آرام کرتے ہیں اور ان کو مشق نہیں ہوتی وہ لڑائی میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے..مشہور ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کہاں تک درست ہے.کہ ایک بے وقوف بادشاہ کو خیال آیا کہ فوجوں پر بہت پیسہ خرچ ہوتا ہے کیوں نہ فوجوں کو توڑ دیا جائے اور وقت ضرورت قصائیوں سے کام لیا جائے.یہ بھی تو خون بہاتے رہتے ہیں.چنانچہ فوجیں توڑ دی گئیں.اس کا سب غنیم کو علم ہوا تو وہ چڑھ آیا.اور بادشاہ نے ملک کے قصائی جمع کرکے انہیں مقابلہ کے لئے بھیجا.لیکن وہ واپس بھاگ آئے.جب بادشاہ نے بھاگ آنے کی وجہ پوچھی تو کہا بادشاہ سلامت وہ

Page 280

۲۷۴ تو نہ رگ دیکھتے ہیں نہ بٹھا اندھا دھند مارتے چلے جاتے ہیں.ہم وہاں کیا کر سکتے ہیں.چونکہ سپاہی مرنا اور مارنا دونوں باتیں جانتا ہے.وہ اگر دیکھتا ہے کہ میں دشمن کو نہیں مار سکتا تو ملک کی حفاظت کے لئے خود مر جاتا ہے.اور بھاگنے کی نسبت مرجانا بہتر سمجھتا ہے.مگر قصائی آرام سے چھری تیز کر کے ذبح کرنا ہی جانتا ہے.اس لئے وہ دوسرے کے مقابلہ میں کب کھڑا ہو سکتا ہے.پس ہمیں بھی شریعت نے مشق کرائی ہے.جس میں یہ شرط ہے.کہ انسان نماز پڑھتے یا روزہ رکھتے ہوئے نیت کرے کہ خدا کے حکم کے ماتحت ایسا کرتا ہوں.اور جب یہ مشق پختہ ہو جائے تو پھر خداتعالی کے لئے خواہ کچھ کرنا پڑے آسانی سے کر سکے گا.یہ مت کہو کہ نماز پڑھنے والا خدا کے لئے وطن کیسے چھوڑ دے گا.چونکہ اسے خدا کے لئے کام کرنے کی عادت ہوگی.جب خدا کے لئے اسے وطن چھوڑنا پڑے گا تو چھوڑ دے گا.دیکھو فوج میں چاند ماری کراتے ہیں تو سامنے آدمی نہیں ہوتے بلکہ ایک تختہ ہوتا ہے.مگر اسی پر کی ہوئی مشق دشمن کے مقابلہ میں کام آتی ہے.نماز سے یا چاند ماری سے غرض اس قسم کا کام کرنے کی عادت یا مشق کرانا ہوتی ہے.دیکھو جب بچہ مٹی کھاتا ہے یا کوئی ایسا کام جو اخلاق کے خلاف ہے کرتا ہے.یا زمین پر بیٹھتا ہے اور تم روکتے ہو.تو اس سے تمہاری یہ غرض نہیں ہوتی کہ بڑا ہو کر زمین پر نہ بیٹھے یا مٹی نہ کھائے کیونکہ یہ کام تو وہ بڑا ہو کر خود بخود چھوڑ دے گا.ہاں اس طرح تم اس سے نافرمانی کی عادت نکالتے اور فرمانبرداری کی مشق کراتے ہو اسی طرح نماز سے غرض نماز کی مشق نہیں بلکہ خدا کے لئے کام کرنے کی مشق ہے کہ جو کام کرے خدا کے لئے کرے.اور روزہ سے یہ غرض ہے کہ جو کام چھوڑے.وہ خدا کے لئے چھوڑے اور اس کو آئندہ جو کام بھی کرنا پڑے یا چھوڑنا پڑے.خدا ہی کی رضاء کے لئے کرے یا چھوڑے.روزہ کی مشق میں خدا کے لئے کاموں سے رکنے کی مشق کرانا مد نظر ہے اور نماز میں خدا کے لئے کام کرنے کی مشق کرانا مد نظر ہے.روزے کے ذاتی فوائد بھی ہیں وہ انشاء اللہ اگلی دفعہ بیان کریں گے.فی الحال یہ سمجھو کہ جیسا فوجوں میں مشق کرائی جاتی ہے.اور ان کو حکم ہوتا ہے "مارچ" تو وہ چل پڑتے ہیں.اور جہاں روکنا ہوتا ہے وہاں کہدیا جاتا ہے ”ہالٹ" تو گھر جاتے ہیں.اس مارچ اور ہالٹ سے اس بات کی مشق کرانا مد نظر ہوتا ہے کہ جب کام کرنے کا حکم دیا جائے کرو.اور جب کام سے رکنے کا حکم دیا جائے رک جاؤ.اسی طرح نماز سے کام کرنے کی مشق کرانا اور روزے سے روکنے کی مشق مد نظر ہے.گویا کہ یہ بھی مارچ اور ہالٹ کی طرح دو حکم ہیں.یہ دونوں احکام علیحدہ علیحدہ ہیں.اور ان دونوں کے فوائد ہیں ان سے مشق کرائی جاتی ہے.اور شرط یہ ہے کہ انسان جانتا ہو.کہ میں خدا کے حکم کے ماتحت کام کر رہا ہوں.لیکن اگر نماز اس نیت سے نہ پڑھی جائے گی.کہ میں خدا کے

Page 281

۲۷۵ حکم کے ماتحت پڑھتا ہوں.اور روزہ اس نیت سے نہیں رکھا جائے گا کہ میں خدا کے حکم سے رکھتا ہوں تو یہ مشق نہ ہوگی.پس نماز اور روزے کا ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ کے لئے کام کرنے اور خدا تعالیٰ کے لئے کاموں سے رکنے کی مشق ہوتی ہے.اور جب کوئی ایسا موقع آتا ہے جہاں خدا کا یہ حکم ہوتا ہے کہ یہ کام کرو وہاں آسانی اور خوشی سے وہ کام کر سکتا ہے.اور جہاں خدا کا یہ حکم ہوتا ہے کہ اس کام سے رک جاؤ وہاں آسانی سے رک سکتا ہے.علاوہ ازیں روزے کے ذاتی فوائدہ بھی ہیں.جو انشاء اللہ اگر توفیق ملی تو اگلی دفعہ بیان کروں گا.الفضل ۱۸ مئی ۱۹۲۲)

Page 282

51 روزے سے تقویٰ کس طرح حاصل ہوتا ہے (فرموده ۱۹ مئی ۱۹۲۲ء) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ اور آیہ شریفہ يا ايها الذين امنوا كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم لعلكم تتقون (البقرہ ۱۸۴) کی تلاوت کے بعد فرمایا.میں نے پچھلے جمعہ یہ مضمون بیان کیا تھا کہ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ روزے کا اس لئے حکم دیا گیا ہے کہ تم متقی بنو.اور اس کو سمجھنے کے لئے ضروری تھا کہ معلوم ہو تقوی کس کو کہتے ہیں.اور تقویٰ کا روزے سے جوڑ کیا ہے.اگر تقویٰ کو نہ سمجھیں تو بھی نقصان اور اگر روزے اور تقویٰ کا جوڑ نہ معلوم ہو تو بھی روزے کی طرف رغبت نہیں پیدا ہو سکتی.میں نے مختصر طور پر تقویٰ کے معنی بتائے تھے اور موٹے طور پر تعلق بھی بتایا تھا کہ اس ذریعہ سے خدا کے لئے مشقت اور تکلیف اٹھانے کی عادت ہو جائے گی.اور جب ضرورت ہوگی تو روزوں کا عادی خدا کے لئے تکلیف اٹھالے گا.کیونکہ روزے کے ذریعہ انسان مشقت کا عادی ہو جاتا ہے.اور جس وقت خدا کی طرف سے آواز آئے فوراً لبیک کہتا ہے.یہ ایک عام وجہ تھی.اب میں چند خاص باتیں بیان کرتا ہوں جن سے روزے اور تقویٰ کا تعلق معلوم ہوتا ہے.ہر ایک ملک میں گنتی کی جاتی ہے.ہمارے یہاں بھی گنتی ہوتی ہے.اور وہ درجن کا حساب ہے.میں مختصراً ایک درجن وہ تعلق جو روزے اور تقویٰ میں ہے بیان کرتا ہوں اور چونکہ رمضان کا آخری عشرہ ہے اس لئے میں اس مضمون کو آج ہی ختم کرتا ہوں.روزہ سے تقویٰ کا عام تعلق تو میں نے یہ بتایا تھا کہ اس سے فرمانبرداری کی عادت پیدا کرنا مراد ہے.اور اس کے ذریعہ خدا کے لئے کام کرنے کی عادت ہوتی ہے جو وقت ضرورت انسان کے کام آتی ہے.اور خدا تعالٰی کی اطاعت اور فرمانبرداری کا ہی نام تقویٰ ہے.دوسرا تعلق وہ بیان کرتا ہوں.جو حضرت خلیفہ اول بیان کیا کرتے تھے.اور انہیں بہت پسند تھا.اور وہ یہ کہ انسان قدر تا بدی سے نفرت کرتا ہے.اگر جائز طور پر کوئی چیز ملے تو انسان ناجائز طور پر اس کو لینے کی کوشش نہیں کرتا.مثلاً اگر کسی کو عمدہ لباس ملے تو وہ دوسرے کے لباس پر ہاتھ

Page 283

۲۷۷ نہیں ڈالتا.اگر روپیہ پاس ہو تو دوسرے کے مال پر اس کی نظر نہیں پڑتی.جو لوگ عادی ہو جاتے ہیں ان کی حالت اور ہوتی ہے.مگر ابتداء ان کی بھی احتیاج ہی سے ہوتی بچہ چوری تب کرتا ہے جب اس کے پاس پیسے نہ ہوں اور اگر اس کو کھانے کی چیز ملے تو خود بخود نہیں اٹھائے گا جب احتیاج ہوگی اسی وقت اٹھائے گا.اور جب وہ متواتر اٹھائے گا تو اس کو عادت ہو جائے گی.پس جتنے ایسے کام ہی جو عیب سمجھے جاتے ہیں.وہ ضرورت کے وقت کئے جاتے ہیں.اب ضرورتیں دو طرح پوری ہوتی ہیں.اول تو اس طرح کہ ضرورت کی چیز مہیا ہو جائے دوم اس طرح کہ اس چیز کا خیال چھوڑ دیا جائے اور انسان کو اس چیز کی ضرورت نہ رہے.مثلاً ایک شخص کوٹ کا عادی ہو.یا اس کو جوتی کی ضرورت ہو.اس کی ضرورت دو طرح پوری ہو سکتی ہے.یا تو اس کو کوٹ یا جو تا مل جائے.یا وہ ان چیزوں کا خیال ہی چھوڑ دے اور ان کے بغیر گزارہ کرے.حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ جو انسان روزہ میں اپنی چیزیں خدا کے لئے چھوڑتا ہے جن کا استعمال کرنا اس کے لئے کوئی قانونی یا اخلاقی جرم نہیں تو اس سے اسے عادت ہوتی ہے کہ غیروں کی چیزوں کو ناجائز طریق سے استعمال نہ کرے.اور ان کی طرف نہ دیکھے اور جب وہ خدا کے لئے جائز چیزوں کو چھوڑتا ہے تو اس کی نظر نا جائز چیز پر پڑی نہیں سکتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حرام و حلال تو واضح ہیں.مگر ان کے درمیان مشتبہات ہیں جو مشتبہات کو چھوڑتا ہے وہ حرام سے بچ جاتا ہے.لیکن جو انہیں استعمال کرتا ہے.وہ خطرہ میں ہوتا ہے کیونکہ شاہی رکھ کے قریب جانوروں کو اگر کوئی چرائے گا تو ممکن ہے نمانور رکھ کے اندر بھی چلے جائیں.یہ دو باتیں ہو گئیں.اب تیسری بیان کرتا ہوں.جس قدر بدیاں پیدا ہوتی ہیں ان کا منبع چار چیزیں ہیں.باقی آگے متفرع ہیں وہ چار یہ ہیں.اول کھانا.دوم پینا سوم شہوت چوتھے حرکت سے بچنے کی خواہش.سب عیوب ان چاروں باتوں سے تعلق رکھتے ہیں.ان چاروں منیعوں کو بدی سے روکنے کے لئے روزہ رکھا گیا ہے.مثلاً ایک شخص خیانت اس لئے کرتا ہے.کہ محنت سے بچنا چاہتا ہے.یعنی محنت کرکے کھانا نہیں چاہتا.اور دوسرے کا مال کھاتا ہے لیکن روزہ دار کو رات کے زیادہ حصہ میں اٹھ کر عبادت کرنی پڑتی ہے.سحری کے لئے اٹھتا ہے.سارا دن منہ بند رکھتا ہے.سو تا کم ہے.ایک ماہ تک روزے دار انسان کو تکلیف اٹھانا پڑتی ہے.جس سے اس کا عادی ہو جاتا ہے.اور اس سے غفلت کی عادت کو دھکا لگتا ہے پھر کھانے پینے اور شہوات سے بدیاں پیدا ہوتی ہیں.ان کے لئے بھی روزہ رکھا گیا ہے.انسان کھانا پینا ترک کرتا ہے.ضروریات زندگی اور تعیش کی زندگی کو چھوڑتا ہے پس جن ضرورتوں کے باعث انسان گناہ میں پڑتا ہے.انہیں عارضی طور پر روک دیا جاتا ہے.اسی طرح کھانے کی وجہ

Page 284

سے لوگ گناہ میں مبتلا ہوتے ہیں اچھے کھانے پینے کے لئے.اور زیادہ کھانے کے لئے روپیہ نہیں ہوتا.اس لئے ناجائز مال پر قبضہ جماتے ہیں.کئی لوگ ہر وقت کھاتے رہتے ہیں.یا انگریزوں کا ملک سرد ہے اور وہ لوگ کام کرتے ہیں اس لئے پانچ پانچ دفعہ کھاتے ہیں.بعض لوگ کھانے کے یہاں تک عادی ہوتے ہیں کے کھانے کی چیزیں ان کے ڈیسک پر پڑی رہتی ہیں.کام کرتے جاتے ہیں اور کھاتے جاتے ہیں.شہروں کے لوگ زیادہ کھانے کے عادی ہوتے ہیں.پھیری والے پھرتے رہتے ہیں.کوئی مٹھائی بیچتا ہے.کوئی برف کوئی مونگ پھلی وغیرہ جب کوئی پھیری والا آتا ہے فوراً بچوں کے بہانہ سے کچھ خرید لیتے ہیں.خود بھی کھاتے ہیں ان کو بھی کھلاتے ہیں اس طرح ان کو کھانے کی عادت پڑی ہوتی ہے.جس کے لئے روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے.اور وہ ناجائز طریق سے حاصل کرنے میں دریغ نہیں کرتے.لیکن روزے میں کھانے پینے کی عادت چھوڑنا پڑتی ہے.اور جب جائز خواہش کو دباتے ہیں تو غیر طبعی اور ناجائز خواہشیں مٹ جاتی ہیں.چوتھی بات روزے اور تقویٰ میں تعلق کی ہے اور اس پر میں نے پچھلے سال بھی زور دیا تھا کہ بعض باتیں ذاتی ہوتی ہیں.اور بعض باہر سے آتی ہیں.بعض قسم کی نیکیوں کا علم احساسات اور علم کے ذریعہ ہوتا ہے.اور جب تک علم نہ ہو انسان ان نیکیوں سے محروم رہ جاتا ہے.امرا کا طبقہ عام لوگوں کی حالت سے ناواقف ہوتا ہے.لطیفہ مشہور ہے کہ ایک بادشاہ نے اپنے نائی کو ۱۵۰۰ اشرفی دی اس نے پہلے چونکہ اتنی بڑی رقم دیکھی نہ تھی اس لئے ان کو لئے لئے پھرا کرتا تھا.اس کی آمد و رفت چونکہ دوسرے امراء کے ہاں بھی تھی امراء نے اس سے تمسخر شروع کیا جب وہ کسی امیر کے ہاں جاتا تو وہ پوچھتے میاں شہر کی کیا حالت ہے.وہ کہتا بڑی اچھی حالت ہے سارا شہر امن و خوشی میں ہے کوئی ہی ایسا بد قسمت ہوگا جس کے پاس ۱۵۰۰ اشرفی نہ ہو.زیادہ کی تو کوئی حد نہیں.ایک دن ایک امیر نے اس کی وہ تھیلی نہی کے طور پر پوشیدہ رکھ دی.اس نے تلاش کی مگر نہ ملی جب وہ تزئین کرنے کے لئے پھر اس امیر کے ہاں گیا تو اس نے پوچھا بتاؤ شہر کا کیا حال ہے اس نے کہا شہر بھوکا مر رہا ہے.امیر نے کہا یہ لو اپنی تھیلی شہر بھوکا نہ مرے.بات یہ ہے کہ جسے کوئی تکلیف نہ پہنچی ہو اسے اس کا احساس نہیں ہوتا.امرا چونکہ ان حالات میں سے نہیں گذرتے جن سے غربا کو گذرنا پڑتا ہے اس لئے انہیں ان کی تکالیف کا احساس نہیں ہوتا.مثلا امیروں کو بھوک کی شکایت نہیں ہوتی.ان کو اگر شکایت ہوتی ہے تو بد ہضمی کی ہوتی ہے.اور ان کو معدہ کی طاقت کی دوائیں استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.وہ اگر نوکر سے ایک منٹ کھانا لانے میں دیر ہو تو خفا ہوتے ہیں.اور اگر کہا جائے کہ وہ روٹی کھا رہا ہے تو کہتے ہیں کہ کیا وہ مرنے لگا تھا.پھر کھا لیتا.وہ سارا سارا دن کام کراتے ہیں.اور روٹی کے لئے کہتے ہیں پھر کھا لینا.کیونکہ ان کو بھوک کا احساس نہیں

Page 285

۲۷۹ ہوتا.ان کو غریبوں کے احساسات کا پتہ نہیں ہوتا.غریبوں کو رات رات جگاتے ہیں.مگر ان کو اس تکلیف کا احساس نہیں ہوتا.ان کو کوئی خبر نہیں ہوتی کہ ایسے لوگ بھی ہیں.جن کو کھانا نہیں ملتا مگر جب امرا کو رمضان میں کہا جاتا ہے کہ رات کو جاگیں اور ان کو سحری کے لئے جاگنا پڑتا ہے اور ان کے آرام میں خلل آتا ہے تب ان کو دوسرے کے جاگنے کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے.وہ کھانا کھاتے ہیں.مگر ان کے کھانے کو دو وقت میں مقید کر دیا جاتا ہے.کہ صبح سحری کے وقت اور بعد افطار وہ اس وقت کو اس خیال سے کاٹتے ہیں کہ کھانے کے لئے تیار چیزیں ملیں گے.اور وہ صبح کو پراٹھے کھاتے ہیں.لیکن غریب جس کو کوئی توقع نہیں ہوتی کہ آج اس کو ملے گا بھی یا نہیں اس کو تکلیف کا احساس ہوتا ہے.کیونکہ امیر سمجھتا ہے کہ ہم گھڑیاں گنتے ہیں کہ کب موذن اذان کے اور ہم کھانا کھائیں.لیکن غریب کی حالت یہ ہے کہ اس کو پتہ ہی نہیں ہو تا کہ ابھی کتنی راتیں اور کتنے دن اسی طرح گزارنے ہیں پھر اگر کوئی بیمار ہو تو روزہ نہیں رکھتا.مگر غریب کو اپنی بیماری یا بچوں کی بیماری میں جہاں فاقہ کشی کی تکلیف ہوتی ہے وہاں دوائی کے لئے بھی پاس کچھ نہیں ہوتا.اگر غریب بیمار ہو اور ڈاکٹر اپنے فرض کے مطابق اس کو کہے کہ دودھ پیو.تو وہ شرمندہ ہو کر گردن جھکا لے گا کہ مجھے تو روٹی بھی نہیں ملتی دودھ کہاں سے لاؤں.ڈاکٹر اس کو چاول بتائے گا مگر اس کے گھر تو آٹا بھی نہیں ہو گا.پھر امیر کا روزہ اسی کا روزہ ہے مگر غریب کی بھوک میں اس کے بال بچے بھی شامل ہوتے ہیں.امیر خود نہیں کھاتا.لیکن اس کے بال بچے کھاتے پیتے ہیں.اس لئے امیر کی تکلیف اس کے اپنے جسم تک محدود ہے مگر غریب کی تکلیف اس کے جسم سے گزر کر اس کی روح تک اثر کرتی ہے.کیونکہ وہ اپنے ساتھ اپنے ننھے بچوں کو بھی بھوکا دیکھ کر ایک اور تکلیف اٹھاتا ہے پھر امیر کے لئے بھوک کے مٹانے کا ہر لمحہ قریب آرہا ہوتا ہے.لیکن غریب کے لئے کھانا ملنے کا وقت قریب آنے کی امید نہیں ہوتی.لیکن جب امیر خدا کے لئے روزے رکھتا ہے تو اسے غریبوں کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے اور سخاوت کرتا ہے اور یہ سخاوت اس کو تقوی کی طرف لے جاتی ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ آپ روزوں میں بہت زیادہ سخاوت کرتے اور غرباء و مساکین کی خبر گیری فرماتے تھے.۲.اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ رمضان کے علاوہ سخاوت نہ کرتے تھے.آپ ہمیشہ سخاوت کرتے تھے مگر رمضان کے دنوں میں آپ کو اور زیادہ احساس غرباء کے حال کا ہو جاتا تھا.تو روزہ سے ہر شخص میں اس کی حالت کے مطابق غرباء سے ہمدردی کا احساس بڑھ جاتا ہے.کیونکہ انسان سمجھتا ہے کہ جب میں ایک مہینہ میں اس قدر تکلیف اٹھاتا ہوں اور مجھ کو اس قدر تکلیف ہوتی ہے تو جن لوگوں پر بارہ مہینہ یہی کیفیت گذرتی ہے ان پر کیا حالت گذرتی ہوگی.اور ان کی تکلیف کا کیا اندازہ ہو گا.پس رمضان میں بخیل

Page 286

۳۸۰ کا بخل کم ہو جاتا اور جو بخیل نہ ہو اسے سخاوت کی عادت پڑتی ہے اور سخی خدا کی مخلوق سے اور زیادہ ہمدردی کرتا ہے اور اس طرح سخاوت اور ہمدردی جو جزو ایمان ہے اس سے کام لینے کا انسان خوگر ہوتا ہے.ھ انسان کے جسم میں دو چیزیں ہیں جسم اور روح.روح ایک تو روحانی ترقی سے خوش ہوتی ہے.دوسرے جسم کی طرح کھانے پینے سے موٹی نہیں ہوتی.بلکہ ان چیزوں سے الگ ہونے سے خوش ہوتی ہے.اور اپنے اصل کی طرف ترقی کرتی ہے.برخلاف اس کے جسم کی راحت کھانے پینے میں ہے.گویا ان دونوں میں اختلاف ہے اور ایسا اختلاف جیسے ایک مشرقی اور ایک مغربی ہو.روح کا ظہور جسم کے ذریعہ ہوتا ہے یا جسم روح کے لئے بطور سواری اور گھوڑے کے ہے.تھوڑا منہ زور ہے.اس لئے اپنی بات منواتا ہے اور جدھر چاہتا ہے لے جاتا ہے.کیونکہ اس میں قوت عملیہ ہے.اور وہ کھانے پینے کی چیزوں سے خوش ہوتا ہے.لیکن رمضان کے مہینہ میں کھانا پینا کم ہوتا ہے.اور دنیاوی تعلقات میں کمی آتی ہے اس لئے روح کو جسم سے آزادی ملتی ہے اور یہ اپنی کمی کو دور کرتی اور تقویٰ کی طرف جاتی ہے.اس کی موٹی مثال کہ روح جب جسم سے آزادی پاتی ہے تو وہ بلندی کی طرف جاکر روحانیت پاتی ہے یہ ہے کہ پاگل بعض اوقات ایسی بات کہہ دیتے ہیں کہ جو کبھی پوری ہو جاتی ہے اسی وجہ سے بعض نادان ان کو ولی سمجھ لیتے ہیں.لیکن اصل بات یہ ہے کہ پاگل کی روح کا اس کے جسم سے تعلق کمزور ہو گیا ہوتا ہے کیونکہ دماغ میں نقص آنے سے جسم سے دماغ کا تعلق کمزور ہو جاتا ہے.اور دماغ کی حکومت جسم پر نہیں رہتی.اس سے اس کی روح آزاد ہو جاتی ہے اور باریک باتوں کو معلوم کر لیتی ہے.حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ لاہور میں ایک مجذوب تھا جو لوگوں کو گالیاں دیا کرتا تھا اور بعض دفعہ ایسی باتیں بھی کہتا.جو پوری ہو جاتیں.آپ سے ایک شخص نے باصرار کہا کہ آپ اس سے ملنے چلیں.آپ نے خیال کیا کہ وہ پاگل ہے.گالی دے دے تو عجب نہیں اور اس کی اس حرکت سے یہ شخص میرے متعلق فیصلہ کر کے ٹھوکر کھائے.چلنے سے انکار کیا.لیکن جب اس نے اصرار کیا اور آپ نے دیکھا کہ جانا ہی بہتر ہے تو آپ گئے مگر یا تو وہ لوگوں کو گالیاں دے رہا تھا لیکن جب آپ گئے تو وہ مؤدب ہو کر بیٹھ گیا.اور ایک خربوزہ جو اس کے پاس تھا.حضرت صاحب کے پیش کر کے کہا کہ یہ آپ کی نذر ہے یہ الٹی تصرف تھا.ورنہ ممکن تھا کہ وہ گالیاں دے دیتا.تو پاگل کی بھی بوجہ جسمانی تفکرات سے آزاد ہونے کے روح کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ کبھی کوئی اعلیٰ درجہ کی بات کہہ سکتا ہے پس جسم کی صحت اور عقل کی سلامتی میں خدا سے تعلق کے لئے کھانا پینا کم کیا جائے.تو روحانیت پیدا ہوتی ہے.اور جسم بیلون (Balloon) کا کام دیتا ہے.جس کے ذریعہ

Page 287

۲۸۱ روح اوپر کو اپنے ہم جنس فرشتوں کی طرف اڑتی ہے.پس زیادہ کھانے سے جسمانی حالت میں ترقی آتی ہے.اس لئے جب رمضان میں جسم کھانا پینا کم کرتا ہے تو روح ملائکہ کی طرف جاتی ہے گو پہلے روح ان کو بھولی ہوئی ہو.لیکن جب ان کو دیکھتی ہے تو اس طرف جانے کی کوشش کرتی ہے.جیسے کوئی شخص اپنے رشتہ داروں کو بھولا ہوا ہو لیکن جب ان کو ملتا ہے یا خواب میں دیکھ لیتا ہے تو پھر ان کی محبت غالب آجاتی ہے اسی طرح جب رمضان میں روح کو اوپر جانے کا موقع ملتا ہے تو یہ باقی سال میں بھی اوپر جانے کے لئے جدوجہد کرتی رہتی ہے.اور اس طرح روزے صفات الہیہ کے پیدا کرنے میں محمد ہوتے ہیں.انسان کو روزوں میں جو تکالیف برداشت کرنی پڑتی ہیں.ان سے اپنی کمزوری کا علم ہو جاتا ہے ایک تو غریبوں کی حالت معلوم ہوتی ہے.دوسرے اپنی کمزوری کا بھی پتہ لگتا ہے.گرمی کی شدت میں جب پانی نہیں ملتا.اور موت کی سی حالت ہونے لگتی ہے تو اس کو فنا کا خیال آتا ہے.اور یہ خیال گیارہ مہینہ تک اس کے پیش نظر رہتا ہے.پس روزوں کے مقرر کرنے میں یہ بھی فائدہ ہے کہ انسان روزے کی تکلیف سے موت کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے کیونکہ جب انسان کو اپنی کمزوری کا احساس ہوتا ہے تو وہ خدا کی طرف توجہ کرتا ہے.مشہور ہے کند ہم جنس یا ہم جنس پرواز جسم چونکہ مادی ہے اس لئے مادیت کی طرف جھک جاتا ہے لیکن جب انسان مادی چیزوں سے بچتا ہے تو ملا مکہ کو اس کی طرف توجہ ہوتی ہے پہلے تو یہ تھا کہ ملائکہ کی طرف روح روزوں میں متوجہ ہوتی ہے.اب یہ ہوتا ہے کہ ملا کہ اس سے تعلق پیدا کرنا چاہتے ہیں اور اس کو نیک تحریکیں کرتے ہیں اس کی مثال میں واقعات موجود ہیں.مثلاً یہی کہ احادیث میں آتا ہے.رمضان شریف میں جبریل نبی کریم کے ساتھ قرآن کریم کا دورہ کرنے کے لئے آیا کرتے تھے دیکھو جبرئیل تو آپ کے پاس بغیر رمضان کے بھی آیا کرتے تھے لیکن رمضان میں ان کا آنا اور حیثیت کا تھا پہلے دنوں میں بطور فرض کے آتے تھے مگر رمضان میں دوست کی حیثیت سے آتے تھے.پس رمضان میں انسان کو ملائکہ سے ایک نسبت پیدا ہو جاتی ہے..رمضان کے دنوں میں انسان سحری کے لئے اٹھتا ہے اور اس طرح عبادت کا موقع ملتا ہے اور اس وقت تہجد پڑھتا ہے اور تجد نفس کی اصلاح کے لئے ضروری ہے اگر چہ رمضان میں اٹھتا تو کھانا کھانے کے لئے ہے لیکن اس کو شرم آجاتی ہے کہ جب اٹھا ہوں اور وقت بھی ہے تو کیوں تہجد نہ پڑھوں.اور جب پڑھتا ہے تو اسے روحانیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ تجد نفسانیت کے توڑنے اور اس کی اصلاح کے لئے ضروری ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ان ناشئة الليل هي اشد وطا - المنزل : ۷ رات کا اٹھنا بہت سخت ہے اور نفس کے کچلنے اور اصلاح کرنے کے لئے

Page 288

۲۸۲ بڑا ہتھیار ہے پس جب انسان کھانا کھانے کے لئے اٹھتا ہے تو تجد بھی پڑھتا ہے جو اشد وطا" ہے اور نفس کی اصلاح کے لئے ہتھیار ہے.اور یہ ایک مہینہ کی مشق سارے سال میں کام آتی ہے.جیسا کہ پہاڑ پر ایک دو مہینہ رہنا باقی سال کے لئے مفید ہوتا ہے.یا کمزوری صحت کو دور کر دیتا ہے اور اس ایک مہینہ میں جسم کو بہت فائدہ پہنچ جاتا ہے.اسی طرح رمضان میں ایک مہینہ تہجد پڑھنا مفید ہو جاتا ہے.۹.پھر رمضان کے دنوں میں دعائیں خاص طور پر قبول ہوتی ہیں.ایک تو تہجد کے ذریعہ عبادت زیادہ کرنے کا موقع ملتا ہے.اور تسبیح اور تجد زیادہ کی جاتی ہے علاوہ اس کے زیادہ دعاؤں کا موقع ہا ہے.اور رمضان کو قبولیت دعا سے خاص تعلق بھی ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ رمضان کے ذکر کے ساتھ فرماتا ہے واذا سالک عبادی عنی فانی قریب اجيب دعوة الداع اذا دعان (البقرہ ۱۸۷) میرے بندے جب میرے بارے میں سوال کریں تو ان سے کہو کہ میں قریب ہوں.اور پکارنے والے کی دعا سنتا ہوں.چونکہ ان دنوں تمام عالم اسلامی دعاؤں میں مصروف ہوتا ہے.اس لئے دعائیں زیادہ سنی جاتی ہیں.کیونکہ قاعدہ ہے کہ جس کام کو زیادہ لوگ مل کر کریں وہ عمدگی اور اچھی طرح ہو جاتا ہے.پس ایک تو روزوں میں عبادت زیادہ کی جاتی ہے.دوسرے دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں.اور اس سے روحانیت کے سلسلہ میں ترقی ہوتی ہے..دسواں تعلق روزوں اور تقویٰ میں یہ ہے کہ گناہ کی عادت چھوٹ جاتی ہے.جو انسان چوری کرتا ہے.اور اس کو اس کی عادت ہے یا جھوٹ بولنے کی عادت ہے جب وہ رمضان کے مہینہ میں خدا کا حکم سمجھ کو روزے رکھتا ہے تو اس کو برے کام کرنے سے شرم آتی ہے.کیونکہ خیال کرتا ہے کہ اگر ان سے نہ بچا تو روزہ رکھ کر خواہ مخواہ بھوکا مرنا ہو گا.کچھ فائدہ نہ ہوگا.اس طرح وہ جھوٹ اور چوری سے بچتا ہے اور اس ایک مہینہ کی مشق سے بدی سے بچنے میں مدد مل جاتی ہے.پھر جب روزہ دار خدا تعالٰی کے لئے اپنے رزق کو چھوڑتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کا متکفل ہو جاتا ہے.اور یہ اس کا فرض ہے.خدا تعالیٰ کے لئے فرض کا لفظ تو نہیں بولا جا سکتا.مگر فرض اس لئے کہتے ہیں کہ خود اس نے اپنے ذمہ لیا ہے.کہ وہ اس کو رزق دیتا ہے.اور اس سے بہتر دیتا ہے جو کہ انسان اس کی خاطر چھوڑتا ہے.کیونکہ جیسا کہ آتا ہے.وانا حبيتم بتحية فحيوا باحسن منها اوردوها (النساء ۸۷) انسان جب خدا کے لئے جسمانی رزق ترک کرتا ہے.تو خدا تعالیٰ اس کے بدلے میں اس کے لئے روحانی رزق مہیا فرماتا ہے.یہی وجہ ہے کہ روحانیت میں ترقی کرنے اور خدا سے شرف مکالمہ پانے کے لئے روزے ضروری ہوئے ہیں.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نزول وحی سے پہلے روزے رکھے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 289

سام الرسام نے بھی چھ ماہ تک رکھے.پس اس طرح روزے سے روحانیت اور تقویٰ میں ترقی ہوتی ہے.بارھویں وجہ یا بارھواں تعلق روزے اور تقویٰ میں یہ ہے کہ انسان کا روزوں میں سحری کھانا بھی ثواب میں داخل ہوتا ہے.کیونکہ سحری کا وقت اصل میں کھانے کا نہیں.نفس نہیں چاہتا کہ اس وقت اٹھے اور کھانا کھائے.وجہ یہ کہ کھانا کھانے کے وہ وقت نہیں ہوتا.لیکن انسان خدا کے حکم کے مطابق اٹھتا ہے اور کھانا کھاتا ہے.اس لئے اس کو اس کا ثواب ملتا ہے.پھر اس کا دل چاہتا ہے کہ دن میں کھائے.مگر اس کو کہا جاتا ہے کہ اس وقت مت کھاؤ.اور شام کے وقت کھانے کا حکم دیا جاتا ہے.اس کا بھی اس کو ثواب ملتا ہے.کیونکہ اگر شام کا کھانا وہ اپنی مرضی سے کھاتا تو وہ اس وقت سے پہلے بھوک لگنے پر کسی وقت کھالیتا.مگر اس نے خدا کے حکم کے مطابق اس کھانے کے وقت کو پیچھے کر دیا اس لئے اس کو ثواب ملتا ہے.پس روزوں میں دونوں وقت کے کھانوں میں ثواب ملتا ہے.کیونکہ جس وقت یہ کھانا نہیں چاہتا اس کو کھانے کا حکم دیا جاتا ہے اور جس وقت سے پہلے کھانے کی خواہش اس کے دل میں ہوتی ہے.کہا جاتا ہے ابھی نہیں.اس کے بعد کھانا.پھر جماع چونکہ دن کے وقت روزے کی حالت میں اس پر حرام ہوتا ہے اور رات کو اس کو اجازت ملتی ہے.وہ بھی عبادت ہو جاتا ہے گویا ان دنوں میں انسان کا ہر فعل عبادت ہو جاتا ہے.قرآن شریف میں آتا ہے کلوا من الطيبات واعملوا صالحاً (المؤمنون ۵۲) طیبات کھاؤ تاکہ صالح اعمال بجا لاؤ سور کا کھانا کیوں حرام ہے اس لئے کہ سور کے کھانے سے سور کے سے اعمال کی عادت ہوتی ہے.اور پاک چیزیں کھانے سے پاک جسم تیار ہوتا ہے رمضان میں چونکہ جسم عبادت سے تیار ہو گا اس لئے جو اعمال صادر ہونگے وہ بھی مطہر اور پاک ہونگے پہلے تو جسم سے روح بنتی تھی مگر اب روح سے جسم تیار ہوتا ہے جو یقیہ گیارہ مہینہ کام آتا ہے در حقیقت ایسا انسان اس حد میں آجاتا ہے جس کا کھانا پینا خدا کے حکم سے ہوتا ہے اس کی شہوت بھی جو جسم کا حصہ ہے عبادت بن جاتی ہے اس کا کھانا پینا بھی عبادت ہو جاتا ہے.اس وقت اس کا جسم عبادت سے تیار ہوتا ہے اور اس جسم سے عبادت ہی صادر ہوگی.جیسا کہ کہا کیا ہے گندم از گندم بروید جوز جو یہ خاص طریق روزے سے تقویٰ حاصل کرنے کا ہے.اگر اس مضمون کو پھیلایا جائے تو بہت پھیل سکتا ہے لیکن میں نے مختصر طور پر روزے کی فضیلت کے متعلق یہ باتیں بیان کر دی ہیں.روزوں کی فضیلت کے بارہ میں ایک اور بھی بات ہے کہ اس ماہ کے آخری عشرہ میں ایک شب ہوتی ہے.جس کو لیلتہ القدر کہتے ہیں.وہ اس عشرہ کے و تر دنوں میں خصوصاً ہوتی ہے.یہ رات بڑی برکت والی ہے.ان ایام میں اس شب کی تلاش کریں

Page 290

ޏ اور اس میں برکت حاصل کریں.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم اپنے لئے دعائیں کرو.اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو.تم لوگوں نے عہد کیا ہے کہ تم خدا کے نام کو پھیلاؤ گے.مگر اس کے رستہ میں بعض روکیں ہیں اور افسوس ہے کہ ان میں سے بعض خود تمہاری پیدا کردہ ہیں.مثلاً آپس کا لڑائی جھگڑا بھی بہت بڑی روک ہے.آپس کے لڑائی جھگڑے کو لیلتہ القدر سے ایک تعلق ہے اور وہ یہ کہ اس کی وجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لیلتہ القدر کا وقت بھول گیا.چنانچہ آتا ہے ایک دفعہ رسول کریم باہر تشریف لائے.اور آپ نے دیکھا کہ دو شخص آپس میں جھگڑ رہے تھے.آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ نے مجھے لیلتہ القدر کے وقت کے متعلق علم دیا تھا.مگر تمہارا جھگڑا دیکھ کر میں بھول گیا.۵.پس لیلتہ القدر کے علم سے جو فائدہ امت محمدیہ کو ہونا تھا اس سے تمام امت دو شخصوں کے جھگڑے کے باعث محروم ہو گئی یہ وہ رات ہے کہ اس میں جو نیک دعا کی جائے قبول ہوتی ہے.لیکن خدا سے کچھ لینے کے لئے قربانی کی ضرورت ہے اور وہ قوم کہاں قربانی کر سکتی ہے جو ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہو.تم میں سے بعض لڑتے ہیں اور اس لڑائی سے جماعتی اور ملی فوائد کو ذاتی فوائد یا جھگڑے پر قربان کر دیتے ہیں مگر ایسے لوگوں کو معلوم نہیں کہ ذاتی عزت بھی جماعت ہی کی عزت ہوتی ہے اور اگر جماعت کی عزت نہ رہے تو اس کے افراد بھی ذلیل ہو جائیں.ایک شخص نے کہا کہ اب سکول کی حالت بہت خراب ہے.لڑکے کم ہو رہے ہیں لیکن پتہ لگایا گیا.تو معلوم ہوا جس جماعت کے متعلق یہ کہا گیا تھا اس میں پہلے کی نسبت زیادہ لڑکے تھے اور نتیجہ بھی اچھا تھا.پھر بات کیا تھی جو اس شخص نے یہ کہا.یہ کہ اس کی قاضی عبداللہ صاحب سے ناراضگی تھی اس وجہ سے اس نے ایک قومی کام کو بدنام کرنے سے دریغ نہ کیا.ہم تو دیکھتے ہیں حیوان بھی اپنے عیب کو چھپاتے ہیں.بلی اپنے پاخانہ کو چھپاتی ہے.پھر وہ لوگ جو اپنے کسی بھائی کا عیب نہیں چھپاتے وہ بلیوں سے بد تر ہوئے یا نہیں.اگر کسی میں عیب ہو تو اس کو چھپاؤ.اور دور کرو.نہ یہ کہ اس کو شہرت دو.اگر تم ایسا کرو گے تو اس حال میں کس طرح خدا کے انعام حاصل کر سکتے ہو.اگر جماعت بدنام ہوگی تو لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کریں گے وہ کہیں گے ہمیں کیا ضرورت ہے کہ بدنام جماعت میں داخل ہونے کے لئے گھر بار چھوڑیں عزیزوں رشتہ داروں سے علیحدہ ہوں لوگوں سے تکلیفیں اٹھائیں گالیاں سنیں.تم یہ نہ سمجھو کہ کسی شخص کو بدنام کرنا ای شخص کی بدنامی ہوتی ہے بلکہ اس کا اثر ساری جماعت پر پڑتا ہے.قاضی عبداللہ ہوں یا ماسٹر محمد الدین، مولوی شیر علی ہوں یا مولوی سید سرور شاہ حافظ روشن علی یا میاں بشیر احمد یا میر محمد اسحاق اگر یہ لوگ بدنام ہونگے.تو یاد رکھو.ساری جماعت بدنام ہوگی.پس تمہاری ترقی میں سب سے

Page 291

۲۸۵ بڑی روک تمہارے آپس کے جھگڑے ہیں.ان کو دور کرو.اگر کسی بھائی میں عیب دیکھتے ہو تو اس کی پردہ پوشی کرد جو شخص اپنے بھائی کے عیب چھپاتا ہے.خدا تعالیٰ اس کے عیب چھپاتا ہے.کیونکہ و شخص زید کا عیب چھپاتا ہے وہ زید کا عیب نہیں چھپاتا بلکہ اسلام کا چھپاتا ہے.وجہ یہ ہے کہ زید کی حرف گیری کا اثر اسلام پر پڑتا ہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو اور اس بدی کو مٹاؤ.ذاتی عداوت اور بغض کی وجہ سے ملت کو نقصان نہ پہنچاؤ.جو شخص ایسا کرتا ہے اس کی خدا کے ہاں کوئی عزت نہیں کیونکہ وہ نفسانیت پر مذہب کو قربان کرتا ہے.اور اعلیٰ کو ادنیٰ کے لئے قربانی کرتا ہے.لیکن کیا جو شخص بکرے کے لئے انسان کو ذبح کرے اسے انسان سمجھا جاتا ہے.جو لوگ ذاتی لڑائیوں سے ملت کو نقصان پہنچاتے ہیں.میں سچ سچ کہتا ہوں وہ جب مریں گے اور ضرور مریں گے تو اس وقت پچھتائیں گے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا.ان باتوں کو چھوٹا مت سمجھو.اور ابدالاباد کی زندگی کے لئے یہاں کی ستر اسی سالہ عمر کی تکلیف کو کچھ مت خیال کرو.کیونکہ وہاں جو تکلیف ہوگی وہ بہت زیادہ ہوگی.کیونکہ وہاں کی زندگی روحانی زندگی ہوگی اور روحانی زندگی میں احساس بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں.اس لئے تکلیف زیادہ محسوس ہوتی ہے.اور میں تو کہتا ہوں اس دنیا میں اگر کوئی ساری عمر بھی صلیب پر لٹکا رہے تو یہ تکلیف کم ہوگی بہ نسبت اس تکلیف کے جو وہاں چند لمحوں میں محسوس ہوگی.پس اس رمضان سے فائدہ اٹھاؤ اور ذاتی فوائد کے لئے ملت کو بدنام مت کرو.اگر تم ان دنوں میں کوشش کرو گے تو تمہیں ایسے گناہوں سے بچنے کی طاقت حاصل ہو جائے گی.الفضل ۲۵ مئی ۱۹۲۲ء) ا بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبرأ لديه بخاری کتاب الصوم باب اجود ما كان النبي يكون في رمضان بخاری کتاب الصوم باب اجود ما كان النبي يكون في رمضان بخارى كيف كان بدء الوحى الى رسول الله صلى الله عليه وسلم ۵ بخاری کتاب الصوم باب رفع ليلة القدر لتلامي الناس

Page 292

52 قرب الہی کی راہیں (فرموده ۳۶ / مئی ۱۹۳۲ء) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی.اور فرمایا وانا سألك عبادي عني فاني قريب أجيب دعوة الداع اذا دعان فليستجيبوا لي وليؤمنوا بي لعلهم يرشدون (البقرة (۱۸) رمضان کا یہ آخری جمعہ ہے اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا.تو جن لوگوں کو توفیق ملی وہ ایک یا دو روزے اور رکھیں گے.اس کے بعد پھر رمضان کس پر آئے گا اور کس پر نہیں آئے گا اس کا علم سوائے اللہ تعالی کے کسی کو نہیں.اور کس کو آئندہ رمضان میں روزے رکھنے کا موقع ملے گا یہ بھی اسی کو معلوم ہے.اس لئے اس رمضان سے جتنا بھی فائدہ حاصل ہو سکے اٹھانا چاہیے.رمضان انسان کے لئے روحانی برکات اور ترقیات کا موجب ہے.اگر ان طریقوں کو استعمال کیا جائے جو رمضان میں رکھے گئے ہیں تو انسان بہت نفع اٹھا سکتا ہے.آج میں ایک آیت پڑھ کر جو رمضان شریف کے متعلق ہے.کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں یہ آیت جو میں نے پڑھی ہے اس کے پہلے اور بعد روز بے کا ذکر ہے.اس سے معلوم ہوا کہ یہ آیت روزوں کے متعلق ہے.یہ آیت یہاں بے جوڑ اور بے موقع نہیں.قرآن کریم میں کوئی لفظ بھی بے موقع نہیں رکھا گیا.جس لفظ کو خدا تعالیٰ نے جہاں رکھا ہے اس کے تعلق کی وجہ سے رکھا ہے اور اس کی مناسبت کے باعث رکھا ہے.آیات قرآنی یونسی پراگندہ طور پر پھینک نہیں دی گئیں.پس اس آیت کا رمضان سے خاص تعلق ہے.میں نے اس کی طرف اشارہ بھی کیا تھا.آج ایک اور بات بیان کرنا چاہتا ہوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ ہر ایک نیکی کا کچھ بدلہ ہے لیکن روزے کا بدلہ میں خود ہوں...یعنی ہر ایک نیکی کا بدلہ اللہ تعالٰی دیتا ہے لیکن روزے کے بدلہ میں خود اللہ تعالٰی کمتا ہے.یہ جو کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.اپنے پاس سے نہیں فرمایا.بلکہ اس

Page 293

٢٨ آیت سے استدلال کر کے فرمایا ہے.آپ کو الگ بھی علم ہو گا مگروہ اسی آیت کے ماتحت تھا.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ روزے دار جو بھوک پیاس کی تکالیف اٹھاتے ہیں تو اس لئے اٹھاتے ہیں کہ خدا کو پائیں.خدا کا پتہ معلوم کریں.میں نے پہلے کئی بار بتایا کہ یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ رمضان میں دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں.اس لئے یہ آیت قبولیت دعا کے ذرائع میں سے ہے.لیکن آج میں یہ بھی بتاتا ہوں کہ یہ آیت قرب الہی کا ذریعہ ہے.چنانچہ فرمایا ہے واذا سالک عبادی عنی فانی قریب اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) انا سالک عبادی جب تجھ سے سوال کریں میرے بندے میرے متعلق فانی قریب تو میں قریب ہوں.اس آیت میں روحانی ترقی کا پہلا باب بیان کیا گیا ہے.انسان پہلا قدم جو خدا کی طرف اٹھاتا ہے اس میں تین تبدیلیاں ہوتی ہیں جب تک یہ تین تغیر نہ ہوں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں ہو سکتا.ہاں اگر یہ تغیر پیدا ہو جائیں تو قرب الہی حاصل ہو جاتا ہے.وہ تین تغیر یہ ہیں.اول خدا تعالی کے متعلق سوال پیدا ہو کہ خدا کو ملوں.جب یہ خواہش ہو تو کامیابی کے رستہ کھلتے ہیں.لیکن ہزار ہا انسان پیدا ہوتے ہیں اور مرجاتے ہیں.ان کے دل میں کوئی خواہش پیدا نہیں ہوتی.بلکہ جن کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو ان پر ہنستے ہیں کہ کس خیال میں پڑے ہیں.یہ شقاوت کی علامت ہے ایسے شخص کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں.پس پہلے کسی چیز کی خواہش پیدا ہونی چاہئیے.یہاں جو ولایت سے نو مسلمہ آئی ہوئی ہیں.میں نے ان سے پوچھا کہ تم نے جو عیسائی مذہب چھوڑ کر اسلام اختیار کیا اس کی کیا وجہ ہے.کیوں نہ تم نے یہ خیال کیا کہ عیسائی مذہب جب جھوٹا ثابت ہوا تو سب مذاہب ہی جھوٹے ہیں.انہوں نے جواب دیا کہ میری عقل مجھے بتاتی تھی کہ کوئی نہ کوئی مذہب ضرور ہونا چاہیے کیونکہ سچائی ہے ضرور.خواہ وہ عیسائیت میں نہ ہو.اس لئے مجھے اسے ڈھونڈنا چاہئیے.اور وہ مجھے اسلام میں نظر آئی.تو پہلا سوال یہی ہوتا ہے جو کسی چیز کی طرف انسان کو متوجہ کرتا ہے کہ مجھے کسی چیز کی تلاش کرنی چاہیے.جب یہ خواہش پیدا ہو جاتی ہے تو اس سے علم کو ترقی ہوتی ہے.پھر خداتعالی فرماتا ہے دوسرا تغیر یہ ہونا چاہئیے مالک تجھ سے (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) پوچھیں.یعنی ہدایت پانے والے اور خدا کو تلاش کرنے کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جانا اور آپ سے پتہ دریافت کرنا ضروری ہے.یہ دو تغیر ہوئے اول یہ کہ سوال کی خواہش پیدا ہو کہ مجھے کچھ پوچھنا اور تلاش کرنا ہے.دوسرے اس سے پوچھے جو واقف ہے جس طرح بیمار کے تندرستی پانے کے لئے ضرورت ہے کہ وہ جان لے کہ وہ بیمار ہے.اور دوسرے یہ کہ اس ڈاکٹر

Page 294

۳۸۸ کے پاس جائے جو اعلیٰ درجہ کا تجربہ کار ہو.تیسری بات جو قرب الہی کے لئے ضروری ہے.وہ یہ ہے کہ ان کا سوال عنی ہو.یعنی ان کی غرض محض خدا تعالیٰ کو پانا ہو.کئی اغراض کے ماتحت لوگ مذاہب میں داخل ہوتے ہیں.بعض لوگ محض ایک جماعت میں منسلک ہونے کے لئے.بعض اخلاق فاضلہ کے لئے بعض معاشرة یا تمدن کے خیال سے.مگر یہاں فرمایا کہ ان کا سوال محض خدا تعالیٰ کی ذات کے بارے میں ہو کہ خدا کس طرح مل سکتا ہے.اس مذہب دوسرے اغراض کے لئے نہیں.بلکہ محض خدا کے لئے اختیار کیا جائے.ہاں اگر دوسرے فوائد حاصل ہو جائیں تو ہو جائیں.مذہب سے غرض دوسرے فوائد نہیں ہونے چاہئیں بلکہ محض خدا ہونا چا ہئیے.یہ پہلا مقام ہے جو قرب الہی میں حاصل کرنا ضروری ہے.یاد رکھو عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جب انا کے بعد (ف) آتی ہے.تو اس کے معنی ہوتے ہیں کہ پہلے کام کے نتیجہ سے یہ ہوگا پس فانی قریب کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اس اللہ قریب ہے.بلکہ یہ بھی ہیں کہ جب یہ تین باتیں جمع ہو جائیں یعنی سوال کریں کہ ہمیں خدا کی جستجو کی ضرورت ہے.پھر تجھ سے سوال کریں.اور میری ذات کے لئے کریں.فلاسفروں سائنس دانوں سے یا عیسی یا موسیٰ سے نہیں.بلکہ تیرے پاس آئیں قرآن کے پاس آئیں.احادیث میں ڈھونڈیں یا تیرے خلفاء کے پاس آئیں.تیسری بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے متعلق دریافت کریں کہ خدا کیونکر مل سکتا ہے.فرمایا جب یہ تغیرات ہو جائیں تو اس کا نتیجہ ہوتا ہے.میں اس کے قریب ہو جاتا ہوں.کسی کو یہ غرض نہ ہو کہ مال مل جائے.یہ خواہش نہ ہو کہ جماعت مل جائے گی.بلکہ خدا کی تلاش ہو تو ان تینوں باتوں کے نتیجہ میں میں قریب ہو جاتا ہوں.یہ پہلا مقام ہے.پھر فرمایا اجیب دعوة الداع اذا دعان اس کے بعد لازمی نتیجہ کیا ہے اور نتیجہ کیا نکلتا ہے.آپ لوگوں میں سے بہت سے لوگ جنگلوں میں نہیں گئے ہونگے مگر میں گیا ہوں.جب کوئی ساتھی دور چلا جاتا ہے تو پھر انسان اس کی تلاش کرتا ہے.کوئی شخص ملے تو اس سے پوچھتا ہے کہ کیا ایسی شکل ایسی نوپی ایسے قد کا آدمی تو تم نے نہیں دیکھا ہے.جب وہ کہتا ہے کہ ہاں دیکھا ہے.اور قریب ہی جاتا ہے تو انسان بے اختیار ہو کر آواز دیتا ہے او نور محمد " مثلاً اس کا نام نور محمد ہے تو فوراً اس کو پکارتا ہے.کہ وہ اور آگے نہ چلا جائے.اور وہ آگے سے جواب دیتا ہے.ادھر آجاؤ.میں یہاں ہوں.اسی طرح جب خدا سے ملنے کی خواہش انسان میں پیدا ہوتی ہے تو وہ | طبیعی

Page 295

رسول کریم سے پوچھتا ہے یعنی جب انسان کے دل میں خدا کے پانے کی خواہش ہوتی اور وہ پوچھ بھی لیتا ہے کہ کیا وہ مل سکتا ہے.تو وہ بے اختیار کہتا ہے.خدایا میں تیرا قرب چاہتا ہوں تجھ سے ملنا چاہتا ہوں.پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ ادھر آجاؤ.اس کے متعلق فرمایا میں پکارنے والوں کی آواز کا جواب دیتا ہے.یہ دوسرا قرب ہوا.پہلا تو یہ تھا کہ انسان اس کی تلاش میں جارہا تھا.دوسرا یہ ہے کہ خدا کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ اے ڈھونڈنے والے ادھر آؤ میں یہاں ہوں.پھر کیا ہوتا ہے.فرمایا اس پر نہ ٹھہر جاؤ بلکہ فلیستجيبوا لي وليؤمنوا بي لعلهم برشلون.جیسا کہ پیچدار راستوں میں قاعدہ ہوتا ہے.کہ تم جس کو تلاش کرتے ہو.اور وہ تمہاری آواز سن لیتا ہے.تو وہ تمہیں بتاتا ہے.اس راستہ سے آنا اس طرف کو آنا فلاں درخت کے نیچے سے آنا.اسی طرح اللہ تعالٰی بھی اپنے ملنے کی ترکیبیں بتلاتا ہے.جن پر چل کر انسان کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے.مثلاً اللہ تعالیٰ نیک اعمال کے رستے بتاتا ہے.نیک سلوک کے مواقع بہم پہنچاتا ہے کوئی فقیر اس کے پاس بھیج دیتا ہے کہ اس سے نیک سلوک کرے اور ثواب حاصل کرے.تبلیغ کا کوئی موقع بہم پہنچا دیتا ہے.اس کے متعلق یہ ضروری نہیں کہ الہام ہی خدا کی طرف سے ہو.بلکہ نیکی کرنے کے مواقع انسان کے سامنے آنے لگتے ہیں.اس وقت انسان کو چاہیے کہ ان تحریکات کو قبول کرے.خواہ وہ اندرونی ہوں یا بیرونی.پھر فرمایا وليؤمنوا مجھ پر توکل اور بھروسہ بھی رکھیں اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مجھ تک پہنچ جائیں گے.اس طرح رویت کا مقام حاصل ہو گا یا وصال کا مقام مل جائے گا.پہلی حالت تو سماعی تھی.سنا تھا کہ خدا مل سکتا ہے.دوسری یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ ہاں میں قریب ہوں.تیسرا یہ کہ خدا تعالیٰ اپنے قرب پانے کے رستے کھولتا ہے.نئے نے مواقع پیدا کرتا ہے اگر انسان ان کو استعمال کرے اور خدا پر توکل رکھے تو ایک دن خدا تعالٰی تک پہنچ جاتا ہے سو اس آیت میں قرب الہی کے یہ تین مدارج بتائے گئے ہیں.ہماری جماعت کے لوگوں کو خدا کے فضل سے پہلا موقع تو مل گیا کہ اول ہم خدا کی تلاش میں ہیں دوسرے ہم نے مولویوں سے نہیں پوچھا.بلکہ ایک نبی سے پوچھا ہے.تیسرے سوال بھی خدا تعالی ہی کے متعلق کیا ہے کہ ہمیں خدا کے قرب کی راہ بتائے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں اس رمضان میں موقع بھی دعاؤں کا خوب مل گیا.اور قریباً ہر ایک شخص نے یہی دعا کی ہوگی کہ خدایا میں تیرا قرب چاہتا ہوں.اب اگلا مرحلہ یہ ہے کہ خدا کی طرف سے نیکی اور ثواب حاصل کرنے کے لئے جو مواقع نکالے جائیں گے ان پر ہمیں عمل کرنا چاہئیے.کیونکہ ان سے ہمیں قرب الہی حاصل ہو گا.بی

Page 296

۲۹۰ ہمیں مشکلات بھی در پیش ہونگی.مگر ان کا نتیجہ کامیابی ہو گا.کیونکہ جیسا کہ کہا گیا ہے.ہر بلا کیں قوم را حق داده است زیر آن گنج کرم بنهاده است پس اب اگر سلسلہ کے لئے مشکلات برداشت کرنی پڑیں.تو ہمیں پہلو تہی نہیں کرنی چاہئے.بلکہ ہمیں اپنی قربانیوں سے اس آواز پر لبیک کہنا چاہیے.کیونکہ تم نے آواز میں دیں.دعائیں کی ہیں کہ خدایا ہم تجھ سے ملنا چاہتے ہیں اور ان دعاؤں کی قبولیت کے لئے الہام کی ضرورت نہیں.بلکہ نیکیوں کے راستے بتلانا بھی ہے.سو ان دعاؤں کے بدلے میں تمہیں نیک کام کرنے کے مواقع ملیں گے.اس لئے تم ہوشیار ہو جاؤ اور چوکس ہو جاؤ.تا ایسا نہ ہو کہ وہ مواقع آئیں اور تم انہیں غفلت میں گذار دو.ایسا نہ ہو کہ تمہاری مثال اس شخص کی مانند ہو جو اپنے ساتھی کو پکارتا ہے لیکن جب وہ آتا ہے تو یہ وہاں سے ہٹ جاتا ہے یا اس کی مانند ہو جو اپنے دوست کے دروازے پر دستک دیتا ہے مگر جب اس کا دوست آتا ہے تو یہ وہاں سے ہٹ کر دوسرے مکان کے دروازے پر چلا جاتا ہے یا سو جاتا ہے.تم نے خدا کی تلاش شروع کی ہے.اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق سوال کیا ہے.اور خدا کی نسبت کیا ہے.تم نے روزے رکھے اور راتیں جاگ کر گزاری ہیں.اس لئے کہ تمہارے لئے خدا کے قرب کی راہ کھل جائے تم نے آوازیں دی ہیں.اب تمہارا فرض ہے کہ نیکی کے جو مواقع تمہارے لئے بہم پہنچیں ان سے فائدہ اٹھاؤ خدا کے بندوں سے حسن سلوک کرو.تبلیغ کے لئے اگر مال کی ضرورت ہو تو دو.دین کے لئے اگر وقت کی ضرورت پیش آئے تو دو.اگر جان کی ضرورت پڑے تو دو.اور اگر دین کی خاطر عزت بھی قربان کرنی پڑے تو کرو.اور ہر ایک نیک تحریک کو قبول کرو.جب یہ حالت ہوگی تو کیا ہو گا؟ خدا کا قرب حاصل ہو گا.یہ انتہائی قرب نہیں.قرب کے بھی مدارج ہیں.خدا تعالیٰ کی ذات بے انتہا ہے.اس لئے اس کے قرب کی راہیں بھی کھلتی رہتی ہیں.یہ قرب الہی جو اس آیت میں بتایا گیا ہے.پہلا مقام قرب ہے.اس کے بعد شک اور تردد کی حالت جاتی رہتی ہے.بلکہ اس کے بعد تسلی اور اطمینان کی زندگی ہوتی ہے.جب اس پر چلو گے.تو اور زیادہ سے زیادہ اس کے قرب کی راہیں کھلیں گی.یہ اطمینان کا رستہ ہمیں رمضان میں بتایا گیا ہے.اس پر چل کر فائدہ اٹھاؤ.تا اطمینان کی زندگی پاؤ.الفضل در جون ۱۹۲۲ء) ان مسلم کتاب الصوم باب فضل الصيام

Page 297

53 دو باتیں دعوت الی اللہ کی اہمیت مشق تقریر (فرموده ۲ جون ۱۹۲۲ء) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.میں آج کے خطبہ میں مختصراً متفرق ایک دو باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں.میں نے کچھ عرصہ ہوا اسی ممبر پر کھڑے ہو کر آج ہی کے دن آپ لوگوں کو اس امر کی نصیحت کی تھی کہ جماعت کی ترقی اور اپنے مقصد میں کامیابی کے لئے ضرورت ہے کہ تبلیغ میں لگے رہو.اور میں نے اس کام کے لئے تین حلقے بنا کر ان کے تین انچارج مقرر کئے تھے.میرے اس بیان پر تین مہینہ کے قریب عرصہ گزر گیا ہے اس میں کیا کارروائی ہوئی.اس کا کیا نتیجہ نکلا.اس کا مجھے تسلی بخش علم نہیں.تاہم اپنے علم کی بنا پر اور ممکن ہے کہ میں غلطی پر ہوں کیونکہ میں عالم الغیب نہیں جو بات میرے سامنے لائی جاتی ہے اسی کا مجھ کو علم ہوتا ہے.میرے یہ رائے ہے کہ اس انتظام کے ماتحت کوئی خاص کام نہیں ہوا.دوسرے حلقوں میں کام شروع ہے اور اس میں کامیابی بھی ہوئی ہے.اس انتظام کے ماتحت قادیان کے گردو نواح میں کچھ بھی نہیں ہوا.ہمارا خیال تھا کہ اس سال میں اس ضلع کے ہر ایک کے کان میں حضرت اقدس کا نام اور آپ کے دعوے کے دلائل پہنچ جائیں اور قلیل عرصہ میں بہت سے لوگ احمدی ہو جائیں گے.جس طرح پہلے لوگ متفرق طور پر احمدی ہوا کرتے تھے.اب بھی ہو رہے ہیں.لیکن اس تحریک کے ماتحت اس عرصہ میں شاید کوئی ایک شخص بھی احمدی نہیں ہوا.اگر یہی حالت رہی تو یہ سال بھی گذر جائے گا اور پھر سال پر سال گذرتے جائیں گے اور ہمارا کام پورا نہ ہوگا.کیونکہ جب تک کام شروع نہ کیا جائے.اس کی انتہا نہیں ہو سکتی.اور انتہا چھوڑ اس کی ابتدا بھی نہیں ہوتی اگر چلو تو چل پڑو گے.اور اگر بیٹھے رہو تو بیٹھے ہی رہو گے.پس اگر اس حال میں سو سال بھی گذر جائے گا تو کام کے لحاظ سے وہ پہلا ہی دن ہو گا.اور ہمارا کام سو سال پیچھے جا پڑے گا.

Page 298

۲۹۳ اس لئے اول تو میں مبلغین کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں اور باقی تمام جماعت کو بھی اس طرف پوری توجہ کرنی چاہیے کیونکہ کام کرنے سے ہوتا ہے اور جب کام شروع نہ ہو گا.کچھ بھی نہ ہو سکے گا.دلائل جاننے سے کچھ نہیں ہوتا.جب تک عملاً حرکت نہ ہو.اس لئے ایک تو جماعت کو ادھر توجہ دلاتا ہوں.اور نہیں تو اس ضلع کو تو اپنا ہم خیال بنالیں.احمدیوں کے پاس کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں وہی وہ ہوں اور دوسروں کا کچھ اثر نہ ہو.جہاں جماعت اکٹھی ہوتی ہے.وہاں اثر ہوتا ہے.اور منتشر صورت میں کوئی اثر نہیں ہوتا.جلسہ کے ایام میں چند ہزار احمدی جمع ہوتے ہیں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک جماعت ہے.امرتسر میں میرے لیکچر کے وقت چند سو آدمی جمع ہو گئے تھے.تو لوگ کہتے تھے بڑا احمدی ہیں.گو ہم لاکھوں میں ہیں مگر چونکہ مختلف مقامات میں ہیں اس لئے غیروں پر اس کا اثر نہیں پڑتا.اور احمدیوں کے پاس ایک چھوٹے سے چھوٹا ٹکڑا بھی نہیں جہاں احمدی ہی احمدی ہوں کم از کم ایک علاقہ کو مرکز بنا لو اور جب تک ایک ایسا مرکز نہ ہو جس میں کوئی غیر نہ ہو.اس وقت تک تم مطلب کے مطابق امور جاری نہیں کر سکتے.اور نہ اخلاق کی تعلیم ہو سکتی ہے.نہ پورے طور پر تربیت کی جا سکتی ہے اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ مکہ اور حجاز سے مشرکوں کو نکال دو.ایسا علاقہ اس وقت تک ہمیں نصیب نہیں جو خواہ چھوٹے سے چھوٹا ہو مگر اس میں غیر نہ ہوں.جب تک یہ نہ ہو اس وقت تک ہمارا کام بہت مشکل ہے.اگر یہ نہ ہوا تو کام اور مشکل ہو جائے گا.اگر سو سال میں یہ کام ہونا ہوتا اور ہم پہلے سے شروع کر دیتے تو آج تمہیں چالیس سال سو میں سے نکل چکے ہوتے.مگر ابھی تک وہ سارا کام اسی طرح ہے اور سو سال میں کوئی کمی نہیں آئی.تم حرکت کرو.تو پھر کام ہو جائے گا.کام کرنے کا طریق یہ ہے کہ کیا جائے.قادیان اور اس کے دیہات میں ہزار آدمی کے قریب ایسے ہیں جو تبلیغ کر سکتے ہیں.وہ اگر پندرہ پندرہ روز بھی دیں تو چالیس اکتالیس آدمی ہر روز کام کر سکتے ہیں.جہاں اتنے آدمی ہر روز کام کریں وہاں کتنا تغیر ہو سکتا ہے اگر مرکزی کام کو چھوڑ دیا جائے اور میں صرف اس کام کو لیکر بیٹھ جاؤں تو انشاء اللہ ایک تغیر عظیم پیدا ہو سکتا ہے.کیونکہ کام کرنے سے ہو سکتا ہے.حضرت مسیح موعود سے ایک شخص نے سوال کیا تھا کہ نماز میں دل نہیں لگتا اور لذت نہیں آتی.آپ نے فرمایا تھا کہ دل لگاؤ..پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کام کرنے کا طریق یہ ہے کہ کام کرو.علم حاصل کرنے کا طریق یہ ہے علم حاصل کرو.مال کمانے کا طریق یہ ہے مال کماؤ.خدا سے ملنے کا طریق یہ ہے اس سے ملنے کی کوشش کرو.جماعت بڑھانے کا طریق یہ ہے کہ جماعت کو بڑھاؤ.جس کام کو شروع کرد گے وہ شروع ہو جائے گا.

Page 299

۲۹۳ حضرت مسیح موعود سے پہلے مسلمانوں کا عام خیال تھا کہ اسلام پھیل نہیں سکتا.مگر جب حضرت صاحب اکیلے تھے اس وقت بھی امریکہ میں مسٹر ویب مسلمان ہوا تھا.تم بھی اپنے مقتدا کی طرح کھڑے ہو جاؤ.اور یہیں سے ساری دنیا میں تبلیغ کر سکتے ہو حضرت مسیح موعود انگریزی نہیں جانتے تھے.مگر دیکھو بغیر انگریزی جاننے کے انگریزی بولنے والے علاقوں میں تبلیغ کرتے تھے.کیا تم اپنے ضلع میں بھی تبلیغ نہیں کر سکتے.پس اپنی غفلت کو چھوڑو اور ستی کو ترک کرد.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس جماعت کو قائم کرے.مگر یہ بھی چاہتا ہے کہ تم کوشش کرو.جب تک عمل نہیں ہوگا نتیجہ پیدا نہ ہوگا.خدا تعالیٰ چاہے تو بغیر ماں باپ کے بچہ پیدا کر سکتا ہے.مگر اس نے یہی چاہا کہ انسان کام کرے.اور پھر وہ بچہ پیدا کرے.خدا تعالی تمام دنیا کو مسلمان اور حمدی بنا سکتا ہے مگر وہ اسی طرح چاہتا ہے کہ تمہارے ذریعہ اس کام کو انجام دے اور اسی لئے اس نے حضرت مسیح موعود کو بھیجا.اس لئے تم خدا کے ارادے کے مطابق ہو جاؤ کیونکہ جب تک تم اپنے آپ کو خدا کے ارادے کے ماتحت نہیں کرو گے اس وقت تک خدا کے انعام کے وارث نہیں ہو سکتے.چونکہ میرے سر اور گلے میں شدید درد ہے.اور زیادہ بول نہیں سکتا.اس لئے میں دوسری بات مختصراً بیان کرتا ہوں.جو یہ ہے کہ میں نے غور کیا ہے کہ ہمارے لوگ کئی کام بوجہ مشق نہ ہونے کے نہیں کر سکتے بعض دفعہ طالب علم مبلغین جو گو میرے پاس کم آتے ہیں اور یہ بات ضمناً میں نے کہدی ہے.لیکن جب کبھی آکر تبلیغ کے حالات سناتے ہیں.تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بیان کرنے میں کچے اور بودے ہیں.جس سے ان میں اعصابی طاقت کم ثابت ہوتی ہے.بیان کرتے وقت ان میں کپکپاہٹ ہوتی ہے.اور وہ اپنے مفہوم کو صحیح طور پر ادا نہیں کر سکتے.اور اپنی بات کی ترتیب قائم نہیں رکھتے.اور الفاظ کو اس طرح استعمال نہیں کر سکتے جس سے ان کی تقریر مؤثر ہو.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تربیت نہیں کی گئی.باتیں سکھائی گئیں ہیں.عمران سے استعمال نہیں کرائی گئیں.اسی طرح انگریزی خوانوں کی حالت ہے جب کوئی انگریز آجائے تو گریجوایٹ بھی ترجمانی کا حق ادا نہیں کر سکتے.ایسے وقت میں ہمارے انگریزی خوانوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ترجمہ کا پیالہ ان سے مل جائے.جیسا کہ حضرت مسیح نے کوشش کی تھی کہ موت کا پیالہ ٹل جائے.اسی طرح ہمارے انگریزی خوان کوشش کرتے ہیں کہ ترجمانی کا پیالہ ان سے مل جائے.بعض دفعہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں کچھ کہہ رہا ہوں اور وہ کچھ کہتے ہیں.مشکل یہ ہوتی ہے کہ میں کسی قدر انگریزی جانتا ہوں اور سمجھتا ہوں اس لئے ان کی غلطی سمجھ لیتا ہوں.جس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے اگر میں انگریزی نہ جانتا تو مجھے احساس نہ ہوتا.اس نقص کی وجہ یہ ہے کہ ان کو علم حاصل ہے مگر استعمال نہیں کرتے اگر بولتے رہتے اور تقریریں کرتے تو ان کو یہ دقت پیش نہ آتی.اس وقت تو

Page 300

۲۹۴ ان کی یہ حالت ہوتی ہے واذا الموردة مسئلت (التکویر) گویا کہ وہ علم کو زندہ ہی دفن کر دیتے ہیں اور لوگ علمی ترقی کے لئے کوشش کرتے ہیں.یہ کوشش نہیں کرتے.یہاں علمی ترقی کے لئے مختلف سوسائٹیاں ہونی چاہئیں.جن میں سب مل کر بیٹھیں اور علمی ترقی کی کوشش کریں.ان میں انگریزی، عربی، اردو میں تقریریں ہوں.ملنے جلنے سے علمی ترقی ہو اور کوئی مفید کام ہو.مگر اس کے نہ ہونے سے ایک مردنی سی چھائی رہتی ہے.اور ابھی تک بچوں کی سی حالت ہے کہ نگرانی کے ماتحت کام کریں.اور ان کو کھڑا کیا جائے تو کھڑے ہوں.ان کے ہر ایک کام میں راہنمائی کی ضرورت ہے پس اس حالت کی اصلاح کے لئے میرا خیال ہے کہ ایک سوسائٹی ہو جس میں کچھ عرصہ تک میں بھی بیٹھا کروں تو امید ہے کہ انشاء اللہ چل سکے گی.اس کے باقاعدہ اجلاس ہوں اور اس میں سب لوگ حصہ لیں جس طرح کہ مجلس ارشاد ہوتی ہے.یا تشمیذ الاذہان کی مجلس تھی کہ اس میں لیکچروں کی مشق ہوتی تھی.چونکہ یہاں لوگ دین کے اور کاموں میں لگے رہتے ہیں.اور زیادہ وقت اس کے لئے نکالنا مشکل ہے اس لئے پندرہ روزہ اس کے اجلاس ہوا کریں اور جمعہ ہی کے دن اس کا اجلاس ہو جایا کرے ابھی تجربہ کے طور پر بہت سی مجالس کی بجائے صرف ایک ہی مجلس ہو اور اس میں انگریزی اور اردو وغیرہ زبانوں میں تقریریں ہوا کریں.اور بڑے چھوٹے سب حصہ لیں.اور بجائے زیادہ پابندیاں عائد کرنے کے یونہی ہوا کرے جس کو انگریزی میں Informal کہتے ہیں اس میں ہر زبان میں لیکچر ہو جایا کریں.اور ہر قسم کے مضامین ہوا کریں.پھر یہ بہتر صورت اختیار کرلے گی.پہلے سے میں نے اس لئے کہدیا ہے کہ لوگ تیار ہو جائیں.اگلے جمعہ کو نماز کے بعد اس کا انشاء اللہ پہلا اجلاس ہو گا.جن لوگوں کی تقریریں مقرر ہوں گی وہ تیار ہو جائیں اور یکدم کہنے سے گھبرا نہ جائیں.میں امید کرتا ہوں کہ یہ طریق انشاء اللہ مفید ہو گا.اور اس سے ایک سوسائٹی مستحکم ہو جائے گی جس سے لوگ تقریر کے فن کے واقف پیدا ہو جائیں گے.تیسری بات یہ ہے کہ آج نئی کتاب جو میں نے لکھی ہے اس کا مسودہ سنانا شروع کروں گا.اندازہ ہے کہ ایک اجلاس میں نہیں سنایا جا سکے گا.بلکہ سات آٹھ گھنٹے لگیں گے.کیونکہ میرے گلے میں تکلیف ہے اس لئے دو دن میں سنا دیا جائے گا کچھ آج کچھ کل.جن احباب سے مشورہ لیا جائے گا ان کو اطلاع دے دی جائے گی.وہ ضرور آجائیں.باقی لوگ بھی سن سکتے ہیں.میں مسودہ اس لئے سنا دیا کرتا ہوں کہ بہت سے لوگوں کو موقع نہیں ملتا وہ اس طرح سن لیتے ہیں.اور سنا ہوا کچھ نہ کچھ بعد میں یاد رہ جاتا ہے.خطبہ کو ختم کرنے سے پہلے پھر اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آپ لوگ اپنے فرائض کو سمجھیں اور غفلت اور سستی میں وقت نہ گزاریں.اور فرائض کی اہمیت کو سمجھیں.اور اپنی زندگی کے

Page 301

۲۹۵ آثار ظاہر کیں.لاکھوں انسان محض اس لئے عیسائی ہو گئے ہیں کہ عیسائیوں میں زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں.ان کے کوئی دلائل اس قسم کے نہیں جنہوں نے عقل پر پردہ ڈال دیا ہو.صرف ان کی کام کرنے کے دھن ہے.جو لوگوں پر اثر کر رہی ہے.اگر یہ دھن حق کے ساتھ مل جائے تو کتنا مفید نتیجہ نکلے.پس اپنے آثار زندگی ظاہر کرو.اور انتظام کے ماتحت کام کرنے کی عادت پیدا کرو.اس کے نتیجہ میں ضرور ایک انقلاب عظیم برپا ہو گا.اللہ تعالی توفیق دے کہ آپ لوگ عمل کریں اور اس کے دین کی اشاعت میں حصہ لیں اور ہماری کوششوں کے اچھے سے اچھے پھل نکالیں.الفضل ۱۲ جون ۱۹۲۲ء)

Page 302

۴۹۶ 54 حفاظت ایمان (فرموده ۹ / جون ۱۹۲۲ء) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.جب ایک شخص کوئی کام کرتا ہے تو اس کی حفاظت اور بقا کے لئے بھی کچھ نہ کچھ تدبیر کرتا ہے.ایک درخت لگانے والا اس کے گرد باڑ بناتا ہے.اور سمجھتا ہے کہ اس باڑ کی وجہ سے جانور اس میں منہ نہیں ڈالیں گے.اور اس کے نرم پتے نہیں کھائیں گے.کبھی اس کے گرد اینوں کی دیوار بناتا ہے.جبکہ سمجھتا ہے کہ درخت قیمتی ہے.اور اس کے متعلق خطرہ برداشت نہیں کیا جا سکتا.کبھی زیادہ محنت اور صرف برداشت کرتا ہے.اور اس درخت کی حفاظت کے لئے آدمی مقرر کرتا ہے.جو شب و روز اس کی دیکھ بھال میں مصروف رہتے ہیں.اور دیکھتے ہیں کہ کوئی جانور اس کو نقصان نہ پہنچائے.کوئی اس کے پھل نہ چرائے کوئی کیڑا کوڑا یا کوئی پرندا اس کی جڑوں یا شاخوں یا پھل کو خراب نہ کرے.کیڑوں مکوڑوں کا علاج کرتا اور پرندوں کو نقصان کرنے سے روکتا ہے.آندھی سے بچانے کے لئے درخت کے نیچے ایسی رو کیس نگاتا ہے جن کے باعث درخت ٹوٹتا نہیں.غرض جتنا درخت قیمتی ہوتا ہے اتنی ہی وہ اس کی حفاظت کرتا ہے اسی طرح کھیت کی حفاظت کی جاتی ہے.بارش بعض اوقات مفید ہوتی ہے.بعض اوقات مضر اگر مفید ہو تو پانی کو روکنے کے لئے کھیت کے ارد گر منڈیر بناتا ہے تاکہ پانی کھیت کے اندر جمع رہے.اور اس سے کھیت کی نشو و نما ہو.اور کبھی بارش کا پانی مضر ہوتا ہے اس وقت وہ اس کو کھیت کے اندر نہیں رہنے دیتا.بلکہ اس کو نکالنے کے لئے منڈیر توڑ دیتا ہے.پھر باڑیں لگاتا ہے.کہ جانور داخل ہو کر کھیت کو برباد نہ کریں.اور لوگ راستہ نہ بنائیں.اور جب کھیتی پک جاتی ہے تو کوے وغیرہ جانوروں سے حفاظت کے لئے کھیتوں کے درمیان جھونپڑی بنا کر بیٹھتا ہے.یا پہاڑوں پر مکی کے کھیت کی ریچھ سے حفاظت کے لئے رات دن زمیندار مصروف رہتے ہیں اسی طرح ایک شخص دکان کرتا ہے.اس میں مال لا کر ڈالتا ہے وہ اس مال کی حفاظت کرتا ہے.اور محض دکان میں مال بھر دینے سے خوش نہیں.

Page 303

۲۹۷ ہو جاتا.یا مکان بناتا ہے تو اس کی حفاظت کی فکر رکھتا ہے.غرض ایک درخت لگانے والا اپنے درخت کی زمیندار اپنے کھیت کی دکاندار اپنی دکان کی مکان تعمیر کرنے والا اپنے مکان اور اس کے فرنیچر کی حفاظت کرتا ہے.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر میں اس کی حفاظت نہیں کروں گا تو میرا لاکھوں روپیہ تباہ ہو جائے گا.اور دکاندار خیال کرے گا کہ اگر میں اپنی دکان کی حفاظت نہیں کروں گا تو میرے ہزاروں روپیہ برباد ہو جائیں گے.کیونکہ نقصان پہنچانے والے اپنا کام کرتے رہتے ہیں.اور ہر چیز کو کئی طریق سے نقصان پہنچاتے ہیں.مثلاً بعض لوگوں کو بگاڑنے کی عادت ہوتی ہے.اور اس میں انکا کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہوتا.مثلاً ہمارا یہ منارہ ہے.اس کے اندر اور باہر لکیریں کھینچ دی گئی ہیں حالانکہ لکیریں کھینچنے والوں کا اس میں کوئی فائدہ نہیں تھا.مگر منارے کی خوبصورتی میں اس سے فرق آگیا ہے.اور میں تمہیں ہزار روپیہ جو اس پر خرچ ہو ا ہے اس میں سے ایک معقول رقم اس کے خوبصورت بنانے میں بھی صرف کی گئی ہے.نمر ایسے لوگ جب دیکھتے ہیں کہ کوئی محافظ نہیں ہے تو یونہی لکیریں کھینچنے حتی کی پلستر بھی کھرچنے لگ جاتے ہیں بعض لوگ عداوت سے دوسرے کو نقصان پہنچاتے ہیں.خواہ اس میں ان کا کوئی فائدہ نہ ہو مثلاً کھیت پک جاتا ہے.زمیندار تمام فصل کو ایک جگہ جمع کرتا ہے.اور بہت خوش ہوتا ہے.مگر ایک بدطینت شخص آتا ہے اور اس کے کھلیان میں آگ لگا دیتا ہے.اگر جل جائے تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا.اور اگر بچ جائے تو بھی زیادہ حصہ کسی کام کا نہیں ہوتا.تو بہت سے لوگ عداوت یا عادت کے طور پر دوسرے کی چیز کو خراب کرتے ہیں.اور اس میں ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا.بہت سی چیزوں کو بعض چیزوں سے نفرت ہوتی ہے چیز والوں سے نفرت یا عداوت نہیں ہوتی.مثلاً ایک خاص قسم کے کپڑے جو کپاس کو لگتے ہیں ان کو ہرگز کپاس والوں سے عداوت نہیں ہوتی.مگر کپاس کے پودے سے نفرت ہوتی ہے.جہاں کپاس پیدا ہوگی.وہ اس کو خراب کرنے کے درپے ہو نگے پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو نہ تو کسی ایک چیز سے نہ اس کے مالک سے عداوت ہوتی ہے نہ نفرت مگر اتفاقی طور پر اس کو ان سے نقصان پہنچ جاتا ہے.مثلاً ایک شخص اپنے دشمن کو اپنے پیچھے دوڑتے دیکھ کر اپنی جان کی حفاظت کے لئے دوڑتا ہے اور ایک کھیت میں سے گذرتا ہے.گونہ اس کی نیت ہے نہ ارادہ کہ اس کھیت کو نقصان پہنچے.مگر نقصان پہنچانے کے خیال سے نہیں بلکہ اپنے فائدہ کے لئے ایک کام کرتا ہے مگر دوسرے کو اتنا ہی نقصان پہنچ جاتا ہے جتنا اس کو فائدہ.مثلاً چور چوری کرتا ہے.اس کی نیت یہ نہیں ہوتی کہ گھر والے کو نقصان پہنچائے.اس کو صرف اپنی ذات کو فائدہ پہنچانا مقصود ہے.لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں اس کو فائدہ پہنچنے کے ساتھ گھر والوں کو نقصان ضرور پہنچ جاتا ہے.تو بعض عداوت سے دوسرے کو نقصان

Page 304

۲۹۸ پر پہنچاتے ہیں نہ کہ اپنے فائدہ کے لئے جیسے کھلیان جلانے والے.بعض نادانی سے نقصان پہنچاتے ہیں جیسے کھیت میں دوڑنے والے.بعض بالکل جہالت سے نقصان پہنچاتے ہیں جیسے وہ لوگ جو کسی درخت کے پتے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور ان کو مسل دیتے ہیں.ان کا اس میں نہ فائدہ ہے اور نہ درخت سے عداوت مگر وہ جانتے ہیں کہ اس کے اس فعل کا نتیجہ کیا ہوگا.بعض طبعی نفرت کے باعث نقصان کرتے ہیں جیسے کیڑے مکوڑے جو بعض چیزوں کو خراب کر دیتے ہیں.اس لئے عقل مندوں کا قاعدہ ہے کہ اپنی ہر ایک چیز کی حفاظت کرتے ہیں اور کبھی غفلت نہیں کرتے اور ہر ایک شخص سوائے مجنون کے اپنی چیز کی نگہداشت کرتا اور نقصان سے بچاتا ہے.ایک زمین دار کھیت میں بیج بونے سے لیکر غلہ گھر لے جانے تک حفاظت کرتا ہے.لیکن حیرت ہے کہ ایمان کا بیج ایسا ہے جس کو بو کر اکثر لوگ مطمئن ہو جاتے ہیں اور اس کی حفاظت کی پرواہ نہیں کرتے.لوگ درخت لگاتے ہیں.اس کی حفاظت کرتے ہیں کھیت لگاتے ہیں اس کی حفاظت کا سامان کرتے ہیں.مکان بناتے ہیں اس کی نگرانی کرتے ہیں.مگر ایمان کی کھیتی ہی ایسی ہے جس کی حفاظت نہیں کرتے.حالانکہ اگر کھیتی تباہ ہو جائے کسی کے تمام کھلیان جل کر راکھ ہو جائیں تو وہ کسی سے قرض لیکر گزارہ کر سکتا ہے.اور ایمان ایسی چیز ہے کہ کسی سے قرض نہیں ملتا نہ کسی کا ایمان کسی دوسرے کے لئے کفایت کر سکتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قبیلے کے لوگوں کو جمع کیا.اور ان کو کہا کہ تم بتوں کی پرستش چھوڑ کر ایک خدا کی عبادت کرو.اور خدا کے رسول کو مانو.جو شخص خدا کی مخالفت کرتا ہے میں اس کے لئے کفایت نہیں کر سکتا.نہ اپنے بچوں کے لئے کفایت کر سکتا ہوں.حضرت نوح بھی تھے.مگر ان کا ایمان ان کے بیٹے کے لئے کافی نہ تھا.اور وہ اس کو بچا نہ سکے.حالانکہ ان کے لئے اور لوگ بچائے گئے مگر بیٹے کو نہ بچایا گیا.اسی طرح حضرت لوط نبی تھے مگر آپ کا ایمان آپ کی بیوی کے کام نہ آیا.تو کھیتی کی لوگ حفاظت کرتے ہیں.مکان کی حفاظت کرتے ہیں.درخت کی حفاظت کرتے ہیں.تجارت کی حفاظت کی جاتی ہے.مگر ایمان کا پودا ایسا ہے کہ اس کو بو کر چھوڑ دیا جاتا ہے اور اس کی حفاظت کی فکر نہیں کی جاتی.بہت لوگ ہیں جو ایمان حاصل کرنے کی تو کوشش کرتے ہیں مگر جب ایمان حاصل ہو جائے تو اس کی حفاظت کی کوشش نہیں کرتے.بلکہ اپنے آپ کو ایمان حاصل کرنے کے بعد محفوظ خیال کر لیتے ہیں.حالانکہ نازک وقت یہی ہوتا ہے جب ایمان حاصل ہو جائے.کیونکہ کئی دشمن پیدا ہو جاتے ہیں جو ایمان کے درپے ہوتے ہیں.کہیں شیطان ایمان پر حملہ کرتا ہے.کہیں کوئی اپنے فائدہ کے لئے اس کے ایمان کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے.کہیں کچھ

Page 305

۲۹۹ لوگ اپنی نادانی اور جہالت سے اس کے ایمان کے درپے ہوتے ہیں مگر بہت لوگ ہیں جو ان حملوں سے غافل ہیں.اور نہیں سوچتے کہ متاع ایمان جب گم ہو جائے تو پھر اس کا ملنا مشکل ہوتا ہے.دیکھو خدا تعالیٰ نے جہاں ایمان کے حصول کی دعا سکھائی وہاں اس کی حفاظت کی بھی دعا سکھائی ہے چنانچہ جہاں اهدنا الصراط المستقیم آیا ہے وہیں یہ بھی ہے غیر المغضوب عليهم ولا الضالين بہت لوگ ایمان حاصل کرتے ہیں.مگر اس کی حفاظت نہیں کرتے اور کافر مرتے ہیں.ان کو جہاد فی سبیل اللہ اور صدقہ اور انفاق فی سبیل اللہ کا موقع ملتا ہے.مگر جب مرتے ہیں تو خدا کے دشمن ہو کے مرتے ہیں.اور ایمان کو کھو کر دوزخ کے ادنی طبقہ کی طرف لے جائے جاتے ہیں.کیونکہ چور کو چوری کی سزا دی جاتی ہے.لیکن اگر چوری کرنے والا پولیس میں ہو تو اس کی سزا بہت زیادہ ہوتی ہے.اسی طرح باغیوں کے لئے سزا ہے لیکن اگر کوئی سرکاری عہدے دار بغاوت کا جرم کرے تو اس کے لئے دوسروں کی نسبت زیادہ سزا ہے.اسی طرح اگر مومن کہلانے والا مومنوں کے کام نہیں کرتا تو وہ ڈرے کیونکہ وہ زیادہ خدا کی گرفت کے نیچے ہے.باوجود پانچوں وقت متعدد بار ایمان کے حصول و حفاظت کی دعا کرنے کے.افسوس ہے کہ بہت سے لوگ ہیں جو ایمان کی قدر نہیں کرتے.اور اس کی حفاظت کی طرف توجہ نہیں کرتے.سالہا سال کی محنت کے بعد حقیقت ایمان سمجھتے ہیں.اور جب ایمان حاصل ہو جاتا ہے تو اس کی حفاظت نہیں کرتے.حالانکہ بیج کی حفاظت زیادہ ضروری اس وقت ہوتی ہے جب وہ کونپل نکالتا ہے.جب تک کونپل نہیں نکلی تھی اس کے لئے کوئی خطرہ نہیں تھا.کیونکہ اس کا وجود بھی کوئی نہیں تھا.اسی طرح جب انسان بہت سی تحقیقات کے بعد فیصلہ کرتا ہے تو گویا اس کا ایمان ایک کونپل نکالتا ہے.اس وقت طرح طرح کے دشمن اس کو پامال کرنا چاہتے ہیں کہیں نفس اس کا دشمن ہوتا ہے کہیں شیطان اپنی ازلی دشمنی سے ایمان کے درخت کو تباہ کرنا چاہتا ہے بعض عداوت سے اس کو مٹاتے ہیں بعض نفرت سے بعض جہالت سے اور بعض اپنے فائدہ کے لئے اور بعض محض ناوا قضی سے.یہ وقت ہوتا ہے کہ ایمان کی حفاظت کی جائے.مگر عام طور پر لوگ اس وقت کو نہیں سمجھتے.در حقیقت ایمان کی حفاظت کا وقت یہی ہوتا ہے کہ انسان دلائل سے نکل کر عرفان کی.آتا ہے.جو شخص دلیل سے مانتا ہے وہ دلیل سے چھوڑ بھی دیتا ہے.سینکڑوں باتیں ایسی ہیں جو پہلے دلائل سے مانی جاتی تھیں.مگر اب دلائل سے ہی رد کی جاتی ہیں.افلاک کے وجود کا مسئلہ ایسا تھا کہ بڑے بڑے اہل مذاہب اس مسئلہ کی وجہ سے کانپتے تھے.اور بڑے بڑے مفسر اور علم کلام والے اس سے پیدا ہونے والے اعتراضات کے جوابات میں لگے رہتے تھے.لیکن آج سکول کا ایک بچہ بھی اس خیال کی لغویت پر بنے گا.اور اس کو بے وقوف کی بات کہے گا.اسی طرح آج

Page 306

بہت سی باتیں جن کو عقل کی باتیں کہا جاتا ہے.ممکن ہے کہ ایک وقت ان کو بے وقوفی کی باتیں اور غلط باتیں کہا جائے.اور عقل سے ہی ان کو رد کیا جائے.اس سے میرا یہ مطلب نہیں کہ دینی باتوں کو عقل سے نہ مانو اور بے عقلی کی باتوں کو مانو.بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ تم اپنے ایمان کی بنیاد محض دلائل عقلی پر مت رکھو.کیونکہ ہو سکتا ہے کہ تم ایک بات کو دلیل سے مانو اور دوسرے دن تم ایک ایسی دلیل سنو جو تمہیں اس کے خلاف معلوم ہو تو تم اس کو چھوڑ دو.میرا مطلب یہ ہے کہ ایمان کی بنیاد ودلائل سے گذر کر مشاہدہ پر ہونی چاہئیے.اگر ایک شخص نے اپنی ذات کے متعلق دیکھا ہو اور دوسرے بیسیوں آدمیوں کے لئے دیکھا ہو کہ ان کو ایک خاص قسم کے بخار میں کونین فائدہ دیتی ہے اور اس کے استعمال کرنے سے بخار اتر جاتا ہے.مگر بعض بخاروں میں فائدہ نہیں دیتی.اس سے وہ کونین کے فائدہ سے انکار نہیں کر دے گا.کیونکہ اس نے خود تجربہ کر کے اس کے فائدہ کے مشاہدہ کر لیا ہے.اسی طرح اگر ایک شخص کا ایمان عرفان کے درجہ پر ہو تو اس کے لئے کوئی دلیل ایمان سے ہٹانے والی نہیں ہو سکتی.پس جس شخص کو اللہ تعالیٰ کی رویت حاصل ہو.اور وہ کوئی مادی چیز نہیں.کہ اس کو دیکھا جائے بلکہ اس کے فعل کا دل پر اثر ہو اور دل اس کو محسوس کرے.وہ خدا کا ہو جائے.اور خدا اس کا ہو جائے اور اس کا نفس اس کے ماتحت ہو جائے تو اس کا ایمان تمام خطروں سے نکل جاتا ہے.اور کسی عزیز رشتہ دار کی جدائی اس کے لئے ایمان کو متزلزل کرنے والی نہیں ہوتی پس جب ایمان حاصل ہو جائے غیر المغضوب عليهم ولا الضالین کا مقام بھی حاصل ہونا چاہیے.یعنی مشاہدہ کا مقام ہو.کہ وہاں سے کوئی دلیل کوئی تکلیف اس کو نہ ہٹا سکے.آگ دلیل سے مانی ہوئی ہو.تو اس کا انکار ہو سکتا ہے.لیکن اگر آگ میں ہاتھ ڈالا ہو.اور وہ جل گیا ہو.اس پر کھانا پک گیا ہو.بجھائی ہو تو بجھ کر کوئلے ہو گئے ہوں.اس قدر مشاہدات کے جمع ہو جانے سے آگ کا کیسے انکار ہو سکتا ہے.اس کے مقابلہ میں کتنے ہی دلائل ہوں.مگر ایسا مشاہدہ کرنے والا آگ کے وجود کا اور اس کی تاثیر کا منکر نہیں ہو سکتا.اسی طرح جب ایمان مشاہدہ کے درجہ تک پہنچ جائے.تو پھر اس کو مال و دولت.علم اور عزت رشتہ داری اور دوسرے ہر ایک قسم کے تعلقات دین سے نہیں پھرا سکتے وہ ایسا محفوظ ہو جاتا ہے جیسا کہ بچہ ماں کی گود میں ہوتا ہے.اس لئے ضروری ہے کہ اهدنا الصراط المستقیم پر ہی کفایت نہ ہو.بلکہ غیر المغضوب عليهم ولا الضالین پر بھی عمل ہو.یعنی ایمان کی حفاظت کی جائے.کوئی عظمند پسند نہیں کرے گا کہ بڑی جدوجہد اور سخت تکلیف کے ساتھ موتی نکالے.اور نکال کر کتے کے آگے ڈال دے.اگر کوئی ایسا کرے.تو وہ بیوقوف ہوگا.تم نے ہر ایک قسم کے اعتراض سنے.اور ان سب کو

Page 307

طے کر کے حق قبول کیا اور ایمان پایا.اب ایمان کو دشمنوں کے آگے مت پڑا رہنے دو.تا ایسا ہو.کہ تباہ ہو جائے.اور تمہاری مثال اس عورت کی سی نہ ہو.جس کے متعلق آیا ہے.التی نقضت غزلها (النحل (۹۳) جو سوت کات کر ضائع کر دیتی تھی.پس جب تم نے ایمان حاصل کیا ہے.تو اس کی حفاظت کی فکر بھی کرو.اور ہر ایک مخالف اثر سے بچاؤ.مشاہدہ کا مقام حاصل کرو جس کے بعد کوئی خطرہ نہیں رہتا.(الفضل ۱۵ جون ۱۹۲۳ء)

Page 308

55 ایمان سرچشمہ راحت ہے (فرموده ۱۶ جون ۱۹۲۲ء) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.دنیا میں انسان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ وہ آرام پائے، خوش رہے.وہ یہی کوشش کرتا ہے کہ اس کو کامیابی حاصل ہو.خواہ دنیاوی کام ہوں یا دینی ان سب سے اصلی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس کو راحت ملے.طالب علم محنت کرتے ہیں جس سے ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ہم کو ذہنی اور مالی طور پر راحت حاصل ہو جائے کیونکہ ایک خوشی انسان کو علم سے ہوتی ہے.جب انسان کو نئی بات معلوم ہوتی ہے تو خوش ہوتا ہے.یہ مادہ اللہ تعالٰی نے اس لئے رکھا ہے کہ علم کی طرف توجہ کریں.اگر یہ مادہ نہ ہوتا تو توجہ نہ ہوتی.دیکھو یہ خواہش انسان میں کہاں تک ہوتی ہے کہ جہاں دو آدمی باتیں کر رہے ہوں وہاں تیسرا کان لگا کر سننا شروع کر دیتا ہے تو انسان حکومت چاہتا ہے راحت کے لئے عزت چاہتا ہے راحت کے لئے ان سب کاموں میں ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ راحت ملے.یہ مقصد سب سے بڑا ہے.مگر اس میں بھی درجات ہوتے ہیں.جس سے زیادہ خوشی مل سکتی ہے انسان اس کو زیادہ چاہتا ہے.روپیہ سے خوش ہوتا ہے کیونکہ اس سے وہ چیز ملتی ہے جس سے اس کو راحت ملتی ہے لیکن پونڈ سے زیادہ محبت ہوگی.کیونکہ اس سے روپیہ کی نسبت راحت رساں چیز زیادہ مل جاتی ہے.یا روپیہ سے زیادہ محبت ہوگی بہ نسبت امر کے کیونکہ روپیہ سے آمر کی نسبت انسان کو راحت پہنچانے والی چیز زیادہ ملے گی لیکن اگر روپیہ اور پونڈ کی قیمت ایک ہوتی تو پونڈ کی روپیہ کی نسبت زیادہ قدر نہ ہوتی.پونڈ سے روپیہ کی نسبت اسی لئے زیادہ خوشی ہوتی ہے کہ اس کی قیمت زیادہ ہے.یہ بات ہر ایک انسان میں ہے کہ وہ کم اور زیادہ کو سمجھتا ہے.ایک بچہ کے سامنے دو چیزیں ایک طرف رکھ دو.اور ایک دوسری طرف تو وہ دو چیزوں ہی کی طرف لپکے گا.اس بات کو جاہل سے

Page 309

جاہل بھی محسوس کرتا ہے.اس لئے آدمی کو غور کرنا چاہئیے کہ جب تمام کاموں سے یہی مقصد ہے.کہ اس کو راحت اور آرام حاصل ہو تو دیکھنا چاہیے کہ وہ کونسی چیز ہے جو سب سے زیادہ انسان کو راحت پہنچا سکے.جب وہ غور کرے گا تو اس کو معلوم ہو گا کہ سب سے زیادہ جس چیز سے خوشی ہو سکتی ہے وہ ایمان ہے.ایمان یمن سے نکلا ہے جس کے معنی برکت کے ہیں.تو گویا ایمان ایک بابرکت چیز ہے.اگر یہ حاصل ہو جائے تو راحت ہی راحت ہے.قرآن کریم نے سادگی سے اس نکتہ کو بیان کیا ہے.اور ایمان کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے.فرمایا بسم اللہ الرحمن الرحیم میں ہر ایک کام خدا تعالی کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے شروع کرتا ہوں.اور میں اس خدا پر ایمان لے آیا.اس کا لازمی نتیجہ کیا ہوگا.وہ کہے گا.الحمد للہ رب العالمین جب وہ خدا پر ایمان لاتا ہے تو اس کو اس سے سچی خوشی ہوتی ہے.انسان الحمد للہ اسی وقت کہتا ہے جب اس کو راحت کا سامان ملتا ہے.جن لوگوں کو دین سے مس نہیں ہے وہ بھی خوشی کے وقت میں کہتے ہیں شکر ہے.شکر ہے.پس بسم اللہ کے بعد یعنی ایمان حاصل ہونے کے بعد مومن کی زبان پر الحمد للہ رب العالمین کا کلمہ جاری ہوتا ہے.اور مومن کا آخری کلام بھی یہی ہوتا ہے.وآخر دعواهم ان الحمد لله رب العالمین یعنی ایمان کی ابتدا بھی خوشی سے ہوتی ہے اور انتہا بھی خوشی سے.قرآن کریم کا طریق ہے کہ وہ دعوئی کے ساتھ دلیل دیتا ہے.اب سوال ہو سکتا ہے کہ مومن کیوں خوش ہوتا ہے.کیا وجہ ہے کہ وہ الحمدللہ رب العالمین کہتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں خوشیاں چار درجوں سے آتی ہیں.اگر ان میں نقص آجائے تو انسان خوشی سے محروم ہو جاتا ہے.پہلا درجہ یہ ہے کہ طبعی تقاضوں کے ماتحت بعض راحتیں آتی ہیں.بعض ایسی باریک ضروریات ہوتی ہیں جو اگر پوری نہ ہوں تو انسان کو راحت نہیں پہنچتی.اور وہ ناخوش ہوتا ہے.بعض چیزوں کے کھانے پینے کی خواہش ہوتی ہے ان کو کھاتا ہے تو آرام پاتا ہے.بعض کو سونگھتا ہے تو اس کو خوشی ملتی ہے.بعض وقت بیماری کے کیڑے اندر ہوتے ہیں.ان سے دیکھ پاتا ہے اور پھر صحت کے کپڑے اندر آجاتے ہیں جن سے راحت پہنچ جاتی ہے اس تغیر کے بار یک اسباب ہوتے ہیں.جو ظاہر میں معلوم نہیں ہوتے.ان سے راحت پہونچتی ہے یا دکھ.جس طرح راحت کے سامان مخفی ہیں اسی طرح اللہ تعالٰی کی ذات مخفی ہے مومن کہتا ہے الحمد للہ رب العالمین میں خدا پر ایمان لایا سب تعریف تمام جہانوں کے رب کی ہے.وہ خدا جس پر میں ایمان لایا.اس کا ہر ایک باریک سے باریک چیز پر قبضہ ہے.جب خدا سے دوستی ہو گئی.تو ان مخفی

Page 310

۳۰۴ مضرات سے بچاؤ ہو گیا.کیونکہ قاعدہ ہے کہ گھر والے کے دوست کا ادب ملازم وغیرہ خدام بھی کرتے ہیں جب ایک شخص خدا کا ہو جائے تو دنیا کی چیزیں اس کی تائید کرتی ہیں.بعض دفعہ انسان ایک چیز کی خواہش کرتا ہے مگر اس کو پتہ نہیں ہوتا کہ اس میں فائدہ ہے.کیونکہ ممکن ہے جس چیز کو وہ مفید سمجھتا ہو وہ اس کے لئے مفید نہ ہو.خدا رب العالمین ہے اس نے اس کے لئے بہتر سمجھا کہ یہ چیز نہ دی جائے.دیکھو بچہ آگ میں پڑنے لگے تو ماں باپ روکتے ہیں خواہ بچہ روئے مگر وہ اس کو آگ سے بچاتے ہیں اگر کوئی اعتراض کرے کہ یہ کیسے ماں باپ ہیں کہ بچہ روتا ہے اس کو آگ میں پڑنے نہیں دیتے تو وہ بے وقوف ہو گا.اگر مومن کوئی دعا کرتا ہے جو اس کی خواہش کے مطابق قبول نہیں ہوتی تب بھی وہ ناخوش نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ جانتا ہے اس میں میرے لئے کوئی مضرت ہوگی.ایک قصہ ہے کہ ایک سپیرا خاص قسم کا سانپ پکڑ کر لایا اس نے اس کو حفاظت سے بند کر دیا اور خیال کیا کہ اس کے ذریعہ آسانی سے روٹی کما سکوں گا کوئی اس کا رشتہ دار اس کو چرا کر لے گیا.اس نے جب دیکھا تو سانپ غائب تھا.اس نے ادھر ادھر ڈھونڈا نہ ملا.اس کو بہت صدمہ ہوا اور وہ بہت رویا اور بہت دعا کی اتنے میں اس کو اطلاع ملی کہ اس کا ایک رشتہ دار مرگیا ہے یہ وہاں گیا تو پتہ لگا کہ ایک سانپ نے اس کو ڈس لیا جس کا تریاق معلوم نہیں ہو سکا.جب اس نے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ وہی سانپ تھا جو اس نے پکڑا تھا.اور وہ چرا کر لے گیا تھا.دیکھ لو اگر اس کی دعا قبول ہوتی تو پھر اس شخص کی بجائے اس کی لاش پڑی ہوتی اگر کسی مومن کی دعا قبول نہیں ہوتی تو وہ سمجھتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ ہی ہے جو میرے فائدہ کے لئے روکیں ڈالتا ہیں.اس کو اس سے تسلی ہو جاتی ہے اور وہ الحمد للہ رب العالمین کہتا ہے.دوسرا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ چیزیں جن میں اس کی خوشی ہوتی ہے اس کے سامان بہم پہنچ جائیں اس لئے فرمایا الحمد لله رب العالمین الرحمن وہ خدا جو رحمان ہے غیب سے خود بخود اس کے لئے سامان بہم پہنچائے گا جس سے وہ خوشی سے زندگی گزارتا ہے.تیسری بات یہ ہوتی ہے کہ انسان کو جو سامان میں ان کو استعمال کرنے سے نیک نتائج نکلیں اگر دکان میں مال ڈالا اور نفع نہ ملا تو کیا فائدہ پس مومن کو تیسرا درجہ الرحیم کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے کہ اس کے کاموں کا بدلہ خدا تعالی کی طرف سے ملتا ہے اور اس کی محبت ضائع نہیں جاتی.چوتھی بات یہ ہوتی ہے کہ کام کمال کو پہنچ جائے.طالب علم روز سبق پڑھتا ہے اور استاد کو سنا کر شاباش لیتا ہے ایک سالانہ امتحان ہوتا ہے ایک انٹرنس کا امتحان پاس کرتا ہے اور ایک یونیورسٹی کا اعلیٰ امتحان پاس کرتا ہے.گویا کمال حاصل کرتا ہے.اور یہ مالک یوم الدین کا نتیجہ ہے.پس

Page 311

۳۰۵ مومن کا کام کامل ہو جاتا ہے اور نتیجہ نکلتا ہے تو اس کی خوشی مکمل ہوتی ہے اور اس وقت الحمد للہ کہتا ہے دیکھو ایمان کیسی اعلیٰ درجہ کی چیز ہے اس سے ہر آفت اور ہلاکت سے انسان بچ جاتا ہے.اس لئے چاہیے کہ عقلمند ایمان پیدا کرنے کی فکر کرے جب یہ حالت ہو جائے تو کوئی راحت کی چیز اس کے قبضہ سے باہر نہیں رہتی.کہتے ہیں عمر عیار کی زنبیل تھی کہ جو چاہتا تھا کہ اس سے نکال لیتا تھا.یہ تو قصہ ہے مگر ایمان ایک ایسی چیز ضرور ہے کہ اس میں سے ہر ایک ضروری راحت کی چیز نکل آتی ہے پس ایمان حاصل کرو.اور اس کو مضبوط کرو.یہ کلید ہے راحت کی اگر یہ مل جائے تو کوئی دکھ نہیں رہتا.ا افضل ۲۲ جون ۱۹۲۲ء)

Page 312

56 تجارت پیشہ احمدیوں کیلئے نصائح (فرموده ۲۳ جون ۱۹۲۲ء) حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.آج میں اپنی جماعت کے ایک خاص حصے کے متعلق بعض باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں گے مگر اس میں ساری جماعت کے لئے بھی فائدہ ہے.اس لئے کہ وہ حصہ ایسا نہیں کہ وہ کسی خاص قوم سے تعلق رکھے.بلکہ ہر ایک کے لئے ممکن ہے کہ اس میں شامل ہو جائے.اور ممکن ہے کہ اس طرح پر نصائح سب لوگوں کے لئے مفید ہوں.وہ حصہ تاجروں کا حصہ ہے.آپ لوگ جانتے ہیں کہ میں طبعا اس بات کا خواہش مند ہوں اور ہر ایک وہ شخص جو احمدیت سے تعلق رکھتا ہے اس بات کا خواہش مند ہونا چاہیے کہ یہ جماعت ترقی کرے.دین میں بھی اور دنیا میں بھی.اور اس کی ترقی کے لئے جس قدر بھی جائز اخلاق کے اندر ذرائع ہوں وہ استعمال کئے جائیں.کوئی مذہب اس خواہش سے نہیں روکتا.یہ خواہش مجھ میں بھی ہے اور ہر ایک احمدی کے دل میں ہوگی.لیکن ہر ایک کام کے لئے کچھ ذرائع ہوتے ہیں.میں نے اس طرف بارہا توجہ دلائی ہے کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کام کے لئے خدا نے جو راستہ اور ذرائع رکھے ہیں انہی پر چلنے اور ان کو استعمال کرنے سے کامیابی ہو سکتی ہے.اور ان کو ترک کرنے سے ناکامی ہوتی ہے.ذرائع سے کام نہ لینے کی غلطی مختلف مذاہب کے لوگوں کو مذہب کے بارے میں لگی ہے.وہ محض خالی کوشش کو کامیابی کا ذریعہ خیال کرتے ہیں.ایسے لوگ سمجھتے ہیں.اگر ایک شخص سارا دن خدا کے لئے کام کرتا اور رات بھر اس کے لئے جاگتا ہے تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ ماننے کی وجہ سے کیوں جنم میں جائے.وہ کہتے ہیں اصل چیز تو محبت الہی ہے.اگر ایک شخص کو جہالت سے اصل نماز کا پتہ نہیں لگتا اور وہ اپنے رنگ میں عبادت کرتا ہے.اگر وہ رمضان کے روزوں کی بجائے یونہی فاقہ کشی کرتا ہے.یا حج بیت اللہ کرنے کی بجائے یونسی خدا کے لئے گھر بار چھوڑ کر جنگل میں چلا جاتا ہے.یا مقررہ طریق پر زکوۃ دینے کی بجائے اپنے مال کا چالیسواں حصہ نہیں بلکہ

Page 313

بہت زیادہ دیتا ہے.تو وہ کیوں خدا کو نہیں پا سکتا.ہم کہتے ہیں.ہر ایک چیز کے ملنے کے لئے مقررہ ذرائع ہوتے ہیں.اور جب تک ان کو نہ استعمال کیا جائے وہ چیز نہیں مل سکتی مثلاً پانچ روپیہ اگر منی آرڈر کرنے ہوں تو ان پر چار آنہ محصول مقرر ہے.اگر کوئی شخص فارم پر کر کے سوا پانچ روپیہ ڈاک خانہ میں دے گا.تو اس کا منی آرڈر منزل پر پہنچ جائے گا.لیکن اگر کوئی شخص فارم پر کرنے اور ڈاک خانہ میں دینے کے بجائے تھانے میں جائے.اور پانچ روپیہ کے ساتھ ہر محصول کی جگہ دو روپیہ وہاں دے آئے تو اس کے روپیہ نہیں پہنچ سکیں گے.تھانہ والے اس کا روپیہ واپس کر دیں گے.اور اگر کوئی خراب نیت کے لوگ ہوئے تو سات کے سات خود کھا جائیں گے.اسی طرح زمین بونے کے لئے اس میں ہل چلایا جاتا اور ایک حد تک گہرا چلایا جاتا ہے.مگر ایک شخص زمین میں ہل چلانے کے بجائے لمبے لمبے اور گہرے کنویں کھود کر ان میں بیج ڈال دے تو کیا اس کا کھیت تیار ہو جائے گا گو اس نے محنت کی اور ہل چلانے والے سے بہت زیادہ کی مگر چونکہ اس طریق کو چھوڑ دیا جو کھیت ہونے کے لئے مقرر تھا اس لئے اس کا بیج زمین میں ضائع ہو جائے گا.چہ جائیکہ اس کا کھیت تیار ہو.اسی طرح ایک شخص سخت گرمی میں آتا ہے.اور کنویں سے ڈول نکال کر پانی پی لیتا ہے.مگر دوسرا پیاسا آتا ہے.جو دو من کی بوری اٹھا کر ایک میل تک چلا جاتا ہے اور پھر شکایت کرتا ہے کہ میں نے پہلے سے زیادہ کام کیا اور محنت اٹھائی مگر میں پیاسا ہی رہا.تو اس کا یہ کہنا غلط ہو گا.کیونکہ پیاس کے لئے پانی کنویں سے نکال کر پینا ایک ذریعہ ہے.لیکن یہ کوئی ذریعہ نہیں کہ پیاسا بوریاں اٹھا کر بھاگتا پھرے.پس جو طریق کسی کام کے کرنے کا ہے.اسی طریق پر کیا جائے گا تو ہو گا ورنہ نہیں ہو گا.اسی طرح مذاہب کا حال ہے.بعض مذاہب میں اسلام کی نسبت بہت مشقتیں اور محنتیں ہیں مگر ان کا نتیجہ کچھ نہیں.مثلاً ہندو مذہب ہے.اس میں لوگ الٹے لٹکتے ہیں اور الٹے لٹکے ہوئے ہی آٹا گوندھتے اور اسی حالت میں روٹی پکاتے ہیں.اور اس کو عبادت سمجھتے ہیں.مگر کیا وہ اس سے خدا کی رضا اور جنت کے اعلیٰ مقام پالیں گے؟ نہیں.کیونکہ غلط طریق سے جو کام کیا جاتا ہے اس میں کامیابی نہیں ہوتی.پس اگر کوئی غلط طریق پر خدا تعالیٰ کے حضور جانا چاہیے گا تو رد کیا جائے گا.ہماری جماعت میں خواہش ترقی ہے خواہ دینی ترقی ہو یا دنیاوی.مگر اس کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ صحیح طریق پر عمل ہو.بعض حالات کی وجہ سے یہاں سودے سلف پر بعض روکیں عائد کی گئی ہیں.کیونکہ ان حالات نے ہمیں مجبور کیا ہے کہ ہم ایسا کریں.اگر وہ حالات دور ہو جائیں تو یہ روئیں نہیں رہ سکتیں.گویا یہ روکیں عارضی ہیں.ان کی وجہ سے اگر کوئی فائدہ آتا ہے تو وہ حقیقی فائدہ نہیں.اصل میں فائدہ وہ ہے جو اپنی لیاقت اور قابلیت سے حاصل کیا جائے.مگر لوگ

Page 314

اصل کو نہیں سمجھتے.وہ اپنی اس بات کو خلاف دیانت نہیں سمجھتے.کہ بازار میں ایک چیز جو ستی بکتی ہو.اس سے ایک شخص اس دلیل کی بنا پر مہنگا نیچے کہ یہ میری چیز ہے میں جس قیمت پر چاہوں بچوں.اور اس طرح زیادہ قیمت لینا اپنا حق سمجھتے ہیں.مگر ان کا یہ کہنا اس وقت تک غلط ہے جب تک کہ خریداروں پر روکیں لگائی گئی ہیں اور اگر کوئی ایسا کہتا ہے تو یہ اس کی بددیانتی ہے.اگر زید کو مجبور کیا گیا ہے کہ وہ بکر سے سودا نہ لے.بلکہ خالد سے لے.اور خالد بکر کی نسبت مال کی قیمت بڑھاتا ہے اور زید اس سے لینے پر مجبور ہے تو اس کی مجبوری سے اس کو ناجائز فائدہ اٹھانے کا کوئی حق نہیں ہے اور وہ نہیں کہہ سکتا کہ میری چیز ہے جس طرح چاہوں بچوں.اس کا ایسا کہنا غلط ہے.اس کو منڈی کے نرخ کا خیال رکھنا چاہئیے.دیکھو اگر کسی شخص کے پاس کچھ روٹیاں ہوں اور ایک سائل اس سے مانگنے آئے تو یہ اس کا حق نہیں کہ وہ اس کو کہے کہ میں نہیں دیتا تو جب فقیر جو ایک پیسہ بھی نہیں دیتا اس کو روٹی نہ دینا غلطی اور ظلم ہے.تو جو شخص قیمتاً " ایک چیز لیتا ہے اور دوکاندار اس کو منڈی کے نرخ پر نہیں دیتا وہ بھی ظالم ہے.اگر کوئی شخص منڈی کے نرخ سے گراں نرخ رکھتا ہے تو یہ بد دیانتی کرتا ہے.اور لوگوں کی مجبوری اور ناواقفی سے فائدہ اٹھاتا ہے ہاں اگر کوئی دکاندار ایسا اعلان کردے.اور بورڈ پر لکھ کر لگا دے کہ میں دو پیسہ میں امرتسر سے چیز خریدتا ہوں اور یہاں ایک آنے میں بازار میں بکتی ہے مگر میں دو آنے میں بیچتا ہوں.اور پھر گاہک اس کی دکان پر جائیں اور اس سے خریدیں تو اس کا حق ہو سکتا ہے لیکن لوگ عام طور پر چونکہ بھاؤ سے واقف نہیں ہوتے.اس لئے ان کی ناواقفیت کی وجہ سے ان سے زیادہ قیمت لی جاتی ہے.اور یہ بد دیانتی ہے.اور یہ بددیانتی اپنی غلطی اور نادا قفی کی وجہ سے کی جاتی ہے.اور اپنی غلطی کا اثر دوسروں پر ڈالا جاتا ہے کہ ہم نے مہنگی خریدی ہے.اس لئے مہنگی بیچتے ہیں.حالانکہ اس کا خمیازہ ان کو خود بھگتنا چاہیئے.جو لوگ یہ طریق جاری رکھتے ہیں نہ ان کی تجارت کامیاب ہوتی ہے نہ ان کو تجارت کا علم آتا ہے.یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں کوئی دوکان اچھی حالت میں نہیں ہے.لوگ محنت نہیں کرتے.اور تجارت کا علم حاصل نہیں کرتے.اور ناجائز وسائل سے اپنی دوکان چلانا چاہتے ہیں ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ یہ روک جو سودے سلف کے متعلق ہے قائم رہے اور جو چیز ایک لاتا ہے وہ دوسرا نہ لادے.مگر خود محنت نہیں کرتے.یہ ناجائز یا وقتی حفاظت کے طریق ہیں.اگر صحیح ذرائع پر عمل کریں تو ان ذرائع کو اختیار کرنے کی ان کو ضرورت نہ رہے.اور ان کی یہ خواہش نہ ہو کہ یہ روک قائم رہے.کیونکہ یہ بھی عارضی ہے.اگر آج حالات بدل جائیں.تو وہ روک قائم نہیں رہ

Page 315

سکتی.ہوشیار آدمی ہوشیاری سے کام کرتا اور کامیاب ہوتا ہے.لیکن اگر ہوشیاری کے ساتھ دیانت بھی شامل ہو جائے تو پھر یہ بہت اعلیٰ درجہ کی بات ہوتی ہے.اگر ہوشیاری نہ ہو بلکہ ستی ہو تو پھر کامیابی مشکل ہے اور پھر فائدہ اٹھانے کی خواہش ایک مخفی بددیانتی ہے.ہمارے دوستوں کو چاہیے کہ وہ ہر ایک بات میں بڑھ کر رہیں.مومن غیرت مند ہوتا ہے.اور وہ کسی بات میں کسی سے پیچھے رہنا پسند نہیں کرتا.حضرت شاہ اسماعیل شہید دہلوی) کا ایک واقعہ ہے ان کو معلوم ہوا کہ ایک سکھ ہے جو تیرنے میں بہت مشاق ہے اور کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.یہ سن کر آپ تیرنے کی مشق کرنے لگے.اور اس میں ایسا کمال حاصل کیا کہ کوئی ان کا مقابلہ نہ کر سکتا تھا.یہ انہوں نے اس لئے کیا کہ کوئی غیر مسلم مسلمانوں سے کسی کام میں کیوں بڑھ جائے تو مومن چھوٹی چھوٹی باتوں میں غیرت رکھتا ہے.اور ہر ایک بات میں خواہ وہ دین کی ہو یا دنیا کی دوسروں سے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے.ہمیں شبہ نہیں کہ دنیا الگ ہے اور دین الگ.مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ دنیادی باتوں کا اثر دین پر پڑتا ہے جو شخص دنیا میں مست ہو وہ دین میں بھی ست ہوتا ہے جو دنیاوی کام کرنے میں ست ہے وہ تہجد کے لئے کب اٹھے گا.اور وہ آہستہ آہستہ سنتوں کا بھی تارک ہو جائے گا اور فرائض کو بھی جواب دے دے گا.کیونکہ سستی ایک ہی چیز ہے.اور وہ دونوں جگہ کرے گا.دنیا میں بھی اور دین میں بھی.ولایت میں نفع کی حد بندی کی گئی ہے مثلاً اس حد تک نفع جائز ہے اور اس کے آگے ناجائز.اور وہاں نفع مقرر کرنے کا ایک ہی طریق ہے کہ چیز عام مقابلہ میں آجائے اس وقت جو قیمت ٹھہر جائے وہ اصل قیمت ہو.اور اس میں یہ بات بھی مد نظر رکھی جاتی ہے کہ بیچنے والے آپس میں سمجھوتہ نہ کرلیں.یعنی یہ نہ ہو کہ دس پندرہ دوکاندار آپس میں فیصلہ کرلیں کہ اس قیمت پر فروخت کریں گے اگر یہ ہو تو یہ ناجائز ہے.اور سمجھوتہ کر کے جو نفع حاصل کیا جائے.وہ بھی ایک قسم کی جھنگی ہے.لیکن اگر کوئی شخص زائد نفع اپنی لیاقت سے حاصل کرتا ہے تو وہ جائز ہے.مثلاً لوگ عموماً امرتسر سے چیزیں لاتے ہیں.اور ایک نرخ پر یہاں بیچتے ہیں.دوسرا شخص اگر دلی سے اس سے ستی لاکر اس نرخ پر یہاں بیچتا ہے اور دوسروں کی نسبت زیادہ نفع کماتا ہے تو اس پر الزام نہیں یا کراچی میں ایک چیز بہت سستی ملتی ہے اور ایک شخص وہاں سے لاتا ہے جو یہاں بہت سستی پڑتی ہے پھر اگر وہ بازار کے عام نرخ پر بیچ کر تمام بازار والوں سے زیادہ نفع لیتا ہے تو اس پر الزام نہیں.میں نے دیکھا ہے کہ عام طور پر دکانداروں کے متعلق جو شکایات ہوتی ہیں ان میں بعض غلط

Page 316

۳۱۰.بھی ہوتی ہیں مگر بعض درست بھی.بعض دوکانداروں کا یہ کہنا کہ ہمارا حق ہے کہ ہمارے بھائی ہم سے چیزیں خریدیں.یہ سچ ہے کہ ان کا حق ہے کہ ان کے بھائی ان سے چیزیں خریدیں.مگر بھائیوں کا بھی تو حق ہے کہ تم ان سے ناجائز فائدہ نہ اٹھاؤ.اس سے؟ سے ناجائز فائدہ نہ اٹھاؤ.اس سے بری بات کیا ہو سکتی ہے کہ انسان اپنا حق یاد رکھے مگر دوسرے کا حق بھول جائے.حالانکہ مومن کی یہ شان ہے کہ وہ اپنا حق بھلا دیتا ہے.اور دوسروں کا حق جو اس پر ہو یا د رکھتا ہے.صحابہ کرام دوسرے کے حق کو خوب یاد رکھتے تھے.روایات میں آتا ہے کہ ایک گھوڑا ایک صحابی بیچنے لگے.اور اس کی قیمت انہوں نے مثلاً دو ہزار مقرر کی.دوسری طرف جو صحابی خریدار تھے وہ چار ہزار بتاتے تھے.اور ان میں اسی بات پر جھگڑا تھا.کہ مالک کم قیمت بتاتا اور خریدار زیادہ دیتا.تو مومن کا طریق یہ ہے کہ وہ دوسرے کے حقوق کا بہت خیال رکھتا ہے.جب دوسرے کے حقوق کا خیال لازمی ہے.اور بددیانتی منع ہے تو مومن کے لئے کس قدر لازمی ہے کہ وہ ہوشیاری اور چستی سے کام لے.دوکانداروں کا یہ کہنا غلط ہے کہ ہماری چیز ہے ہم اس کی جو قیمت چاہتے ہیں مقرر کرتے ہیں.نہ یہ اصولا درست ہے نہ اخلاقا درست ہے عام طور پر دوکاندار یہ غلطی کرتے ہیں کہ اپنی ناواقفیت سے جتنے کو چیز ملتی ہے لے آتے اور سستی اور عمدہ تلاش نہیں کرتے.اور پھر اس کا اثر خریدار پر ڈالتے ہیں.اگر انہیں اپنی سستی کا خمیازہ بھگتنا پڑے اور عام بھاؤ پر بیچ کر نقصان ہو.تو آئندہ کے لئے ہوشیار ہو جائیں.مگر ابھی تک لوگ اس گر کو نہیں سمجھے.یہی وجہ ہے کہ وہ نہ خود اچھی طرح دوکان چلا سکتے ہیں اور نہ ان کے خریدار ان سے خوش ہوتے ہیں.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوکان بند ہو جاتی ہے.میں تو یہ خیال نہیں کر سکتا کہ کوئی احمدی کہلانے والا جان بوجھ کر دھوکہ دیتا ہے.کیونکہ میں مان ہی نہیں سکتا کہ کوئی احمدی ہو اور پھر جان بوجھ کر دھوکہ دے.میرا دل ہی اس قسم کا نہیں بنایا گیا کہ میں کسی کے متعلق ایسا خیال کروں ہاں میں یہ کہتا ہوں کہ غفلت یا ناواقفی سے ان لوگوں سے غلطیاں ہوتی ہیں.لیکن غفلت سے بھی جو جرم ہو وہ جرم ہی ہوتا ہے.اور اس کی سزا بھگتنی پڑتی ہے.دیکھو اگر کوئی شخص کسی کو گولی مارتا ہے.اور بعد میں کہتا ہے کہ میں نے جانور سمجھا تھا.اگر یہ درست ثابت ہو جائے تو گو اسے پھانسی کی سزا نہ ملے.مگر سزا ضرور ملے گی.اسی طرح اور باتوں میں ہوتا ہے.پس تم غفلت کو دور کرو تا دنیا کا مقابلہ کر کے کامیابی حاصل کر سکو.حضور جب دوسرے خطبے کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا.کہ کوئی شخص خطبہ کے دوران بولا تھا اسے جو کچھ کہنا ہے اب کہہ لے.عرض کیا گیا کہ کسی نے بلند آواز سے دعا کی تھی.فرمایا جب امام بلائے.تو بولنا جائز ہے.ورنہ خطبہ کے دوران میں بولنا سخت غلطی اور گناہ عظیم ہے...اگر دعا

Page 317

٣١١ کرنی ہو تو آہستگی سے کرنی چاہئیے.کہ دوسرے کو یہ دھوکہ نہ لگے.کہ کوئی بول رہا ہے بعض جگہوں سے اطلاع آئی ہے.کہ لوگ خطبہ کے دوران بول پڑتے ہیں.یہ غلطی ہے اور گناہ ہے.اس کا خاص خیال رکھنا چاہیے.پھر الحمد لله نحمده و نستعینہ پڑھتے ہوئے فرمایا یہ کامیابی کا گر بتایا گیا ہے.اللہ کی تعریف ہو جس نے ہمیں صحیح رستہ دکھایا.پھر خدا سے گناہوں کی معافی مانگے.اور دعا مانگے کہ غفلت سے بچایا جائے.پھر وہ طریق اختیار کرے.جو خدا تعالیٰ نے کسی کام کے لئے مقرر فرمائے ہیں.اور نتوکل علیہ اور یہ یقین رکھے کہ اللہ تعالٰی ضرور کامیاب کرے گا.کیونکہ جو اس پر توکل کرتا ہے وہ ناکام نہیں رہتا ہے.اگر خدا نہیں ہے.تو پھر سب فریب ہے.اور اگر ہے تو اس پر بھروسہ کرنے والے اور اس کے احکام پر عمل کرنے والے ذلیل نہیں ہو سکتے.الفضل ۲۹ جون ۱۹۲۲ء) ا بخاری کتاب الجمعة باب الصات يوم الجمعة

Page 318

57 قیام امن مومن کا فرض ہے (فرموده ۳۰ / جون ۱۹۲۲ء) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.دنیا میں اللہ تعالیٰ نے امن اور عدل کے قائم رکھنے کے لئے کچھ قواعد مقرر فرمائے ہیں وہ قوانین اس قسم کے ہیں کہ ان کو نظر انداز کرنے اور ان سے لا پرواہی کرنے سے نہ تو کوئی خود امن سے رہ سکتا ہے نہ دوسرے رہ سکتے ہیں.تم یہ بات ہر گز نہیں کہہ سکتے کہ بلا امن کے بھی کوئی آرام میسر ہو سکتا ہے.دنیا میں جتنی بے چینیاں ہیں.وہ سب بے امنی کا نتیجہ ہیں.بلکہ بے اطمینانی نام ہی بے امنی کا ہے.غور کرو جس شخص کی آنکھ.ناک کان زبان انتڑی.معدہ پھیپڑا.جگر.دل.تلی وغیرہ سب امن میں ہوں کیا وہ بے آرام ہوا کرتا ہے.انسان کب بے آرام ہوتا ہے تبھی جب اس کے جسم میں امن نہیں رہتا.اس کے جسم کے کسی حصہ میں جنگ شروع ہوتی ہے.وہ تمام بے چینیاں جو جسم سے متعلق ہیں.تب ہی ہوتی ہیں جب جسم کے کسی حصہ میں بے امنی ہو.یہی حالت جذبات اور خیالات میں بے چینی کی ہے.دل کی بے چینی کو اگر دیکھو تو وہ بھی ہے سبب نہیں ہوتی کوئی چیز ہوتی ہے جو اس پر حملہ کرتی ہے.اور دل کی پیاری چیز کو دکھ پہنچاتی ہے.تب دل میں بے چینی پیدا ہو جاتی ہے.رشتہ داروں یا جذبات میں دین کے معاملات میں، تمدنی یا سیاسی حالات میں بے امنی ہی کا نتیجہ بے اطمینانی ہوتی ہے.کیا وہ ملک بھی غیر مطمئن ہوتے ہیں جن کو کسی دشمن کا خوف نہیں ہوتا اور ان پر کوئی حملہ نہیں کرتا.غرض یہ بے چینی اور بے آرامی فقدان امن ہی کا نام ہے.جب امن اٹھ جائے یا اٹھ جانے کا اندیشہ ہو تب بے آرامی ہوتی ہے.پس کوئی نہیں کہہ سکتا کہ امن کی ضرورت نہیں.یا ہمیں چین اور اطمینان کی ضرورت نہیں.ہر ایک شخص کے مد نظر آرام اور اطمینان ہوتا ہے.اگر ایک بے وقوف اور جاہل سے بھی پوچھا جائے کہ تم آرام و اطمینان چاہتے ہو یا بے آرامی اور بے اطمینانی تو وہ یہی کہے گا کہ مجھے آرام اور اطمینان کی ضرورت ہے انسانی زندگی کی ساری کی ساری کوششیں صرف ہی اطمینان اور آرام کے لئے ہوتی ہیں.انسان کھانا کیوں کھاتا ہے.کپڑا کیوں پہنتا ہے.مکان کیوں بناتا ہے.علم کیوں پڑھتا

Page 319

اور محنت اور مشقت کیوں برداشت کرتا ہے.اس لئے کہ اس کو آرام ملے دنیا کے سب کے سب کام آرام اور خوشی کے حصول کے لئے ہوتے ہیں.اور یہ ظاہر ہے کہ خوشی بغیر امن کے نہیں میسر آسکتی.کیونکہ ہر قسم کی بے چینی امن ہی کے اٹھ جانے کا نام ہے.اس لئے انسانی کوششوں کو وہ شخص لغو قرار دیتا ہے جو کہتا ہے کہ امن کی ضرورت نہیں.جب تک جسم امن میں نہ ہو.روح امن میں نہ ہو.متعلقین امن میں نہ ہوں.انسان امن میں نہیں ہوتا.کسی حصہ میں بے امنی ہو تو انسان بے امنی کی حالت میں ہوتا ہے.پس امن کا قائم رکھنا ضروری ہے.اس کے قیام سے انسان کی زندگی خوش اور مطمئن زندگی ہوتی ہے.کئی دفعہ لوگ دھوکا کھاتے ہیں جبکہ وہ اس قسم کے واقعات کو دیکھتے ہیں کہ ایک جنگ کر کے بھی امن قائم کیا گیا.وہ کہہ دیتے ہیں کہ امن تو جنگ کے ذریعہ قائم ہوتا ہے.اصل میں وہ اس بات کو سمجھتے نہیں ہیں.اصل یہ ہے کہ خدا کا قانون جاری ہے کہ چھوٹی چیز کو بڑی کے لئے قربان کیا جاتا ہے دیکھو انسان بیمار ہوتا ہے.اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ صدقے سے بیماریاں اور عذاب دور ہو جاتے ہیں.چنانچہ لوگ جانور ذبح کرتے ہیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ خوں ریزی کا نتیجہ امن ہے بلکہ امن نام ہے بڑی بے چینی کے دور کرنے کا اور وہ چھوٹی بے چینی یا خوں ریزی کے ذریعہ دور ہوتی ہے ایک ملک جو دوسرے کے مقابلہ میں اس لئے اٹھتا ہے کہ اس پر قبضہ کرے اور اس کو اپنے پیروں تلے روند ڈالے.اور وہاں کے لوگوں کو اپنا غلام بنائے.اب ظاہر ہے کہ غلامی ایک بڑی مصیبت ہے کیونکہ اس میں روح اور جسم دونوں پامال ہوتے ہیں.جو قوم بغیر کسی عذر ظاہری کے اپنے ملک کی توسیع کے لئے بڑھے وہ کبھی مفتوح قوم کے فوائد کو مد نظر نہیں رکھے گی.بلکہ ہر ایک حالت میں اس کو اپنے ہی فوائد مد نظر ہوں گے.ایسے حالات میں اگر چھوٹا ملک لڑے تو وہ حق بجانب ہو گا.اور اس جنگ میں اس کو خوں ریزی کرنی پڑے گی جس سے اس پر سے ایک بلا دور ہو جائے گی.اس پر کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ امن نتیجہ ہے فساد کا اور خوں ریزی کا بلکہ یہ خونریزی اور فساد ایک اور بڑی خونریزی اور فساد سے بچانے کے لئے کی گئی.یا مثلاً ایک شخص کی آنکھ دکھتی ہے.ڈاکٹر اس میں کاسٹک یا کوئی اور تیزاب وغیرہ لگاتا ہے جس سے وہ گندا مواد خارج ہو جاتا ہے.یا جسم کے کسی حصہ میں پیپ پڑ جاتی ہے.اس پر پلٹس باندھی جاتی ہیں.یا وہاں نشتر لگائی جاتی ہے.اس کاسٹک یا نشتر یا پلٹس کا نتیجہ صحت نہیں.بلکہ ان کے ذریعہ جسم میں ایک خراش پیدا کی گئی ہے.جس نے جسم کو مرض کے شدید حملوں سے محفوظ کر دیا ہے.مگر لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے.شائد وہ امن کو ضروری چیز نہیں سمجھتے.جنگ وہیں کی جاتی ہے جہاں جنگ نہ کرنے کی صورت میں ایک.21 >

Page 320

دی جنگ سر پر پہنچ جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مکہ والوں نے منصوبہ کیا کہ آپ سے ایک مذہبی جنگ کریں.اور چاہا کہ ایک خدا کے بندوں کو اس کی عبادت اور بندگی سے ہٹا کر بتوں اور مردوں کے آگے ڈال دیں.اب وہ شخص جو بعث بعد الموت پر ایمان لاتا ہے.اور جو یقین رکھتا ہے.کہ روح مرتی نہیں.بلکہ ہمیشہ زندہ رہے گی اور یہ زندگی اس آنے والی زندگی کے مقابلہ میں بہت مختصر ہے.وہ کب گوارا کر سکتا ہے کہ یہاں خدا پرستی چھوڑ کر بت پرستی اختیار کرے.اس کی نظر میں اس دنیا کی کچھ بھی وقعت نہیں ہوگی.وہ خدا کے تعلق کے مقابلہ میں ہر ایک تعلق کو موت خیال کرے گا.پس چونکہ وہ جسم کے ساتھ روح کو بھی پامال کرنا چاہتے تھے.اس لئے ان کی تلوار کے مقابلہ میں تلوار اٹھائی گئی.کہ ان کے روحانی حملے کو دفع کریں.اور یہ جنگ اس لئے کی گئی کہ اس چھوٹی جنگ کے ذریعہ بڑی جنگ اور بڑی آفت سے مقابلہ نہ کرنا پڑے.آنکھ میں کاسٹک لگانا صحت نہیں بلکہ اس کے ذریعہ جو مادہ خارج ہوتا ہے اس سے صحت ہوتی ہے.پلٹس یا نشتر سے صحت نہیں ہوتی بلکہ اندرونی فساد کے مقابلہ میں ایک چھوٹی خراش پیدا کی جاتی ہے جس کے ذریعہ فاسد مادہ خارج ہو کر صحت ہو جاتی ہے.پس یاد رکھو کہ بعض دفعہ چھوٹی جنگیں بڑی جنگ سے بچنے کے لئے کی جاتی ہیں.اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئیے کہ فساد بھی امن کا ذریعہ ہے.یا امن ہی ضروری چیز نہیں.اصل بات یہ ہے کہ دنیا میں امن ہی ایک بڑی چیز ہے.اور اسی کی تلاش ساری دنیا کو ہونی چاہیے.ہر مسلمان کا فرض ہے کہ امن قائم رکھے.مسلمان کے دو نام ہیں.تیسرا نام ہمیں قرآن کریم سے نہیں معلوم ہوتا.ایک مومن دوسرا مسلم.ان دونوں لفظوں کے یہی معنی ہیں کہ لوگوں کو امن دینے والا.مسلم سلامتی سے نکلا ہے اور مومن امن سے.اسلام کی غرض یہ ہے کہ امن دنیا میں قائم کیا جائے.اس غرض کو پورا کرنے کے لئے بہت دفعہ نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے مگر ایمان اور اسلام کی علامت یہ ہے کہ اگر موقع ہو تو نقصان اٹھا کر بھی امن قائم رکھا جائے.یہ مت خیال کرو کہ امن قائم کرنے والے کو دنیا کچل دے گی.جب تک خدا کے احکام کی پیروی کرتے ہو تو تم تباہ نہیں ہو سکتے اگر الہی احکام کی پابندی کرتے ہوئے تم ہلاک ہو جاؤ تو اس سے یہ ثابت ہو گا کہ کوئی خدا نہیں کیونکہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا ایک حکم دے اور انسان اس کی پابندی کرے اور پھر اس کو ہلاک اور برباد ہو جانے دے.اگر کوئی شخص اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے میں کچلا جاتا ہے تو اس میں شک نہیں کہ اسلام جھوٹا ہے.اس بات کو فطرت مان ہی نہیں سکتی کہ ایک خدا ہے.اور وہ اپنے تخت حکومت پر ہے.اور وہ دیکھ رہا ہے کہ ایک شخص اس کے دین کی اشاعت میں سرگرم ہے اور اپنی ہر ایک چیز اس کی راہ میں قربان کر رہا ہے.دراں حالیکہ وہ ہر طرح

Page 321

۳۱۵ چست ہے.اور ہوشیار ہے اور اس میں کوئی سستی نہیں وہ محض خدا کے لئے کرتا ہے.مگر وہ اس کو تباہ ہو جانے دے.یہ ممکن ہی نہیں کہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے والا تباہ ہو جائے.اگر شریر لوگ کسی امن پسند انسان سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہیں اور شرارت سے باز نہ آئیں تو پھر ان سے جنگ جائز ہے.مگر اس جنگ کی حیثیت وہی ہے جو نشتر اور پولٹس کی ہوتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبہ کی اس وقت بعض مسلمانوں نے کہا کہ یہ دب کر صلح کی گئی.جیسا کہ ہمارے متعلق کہا جاتا ہے.بعض صحابہ کا خیال تھا کہ اسلام کے حقوق کی پوری حفاظت نہیں کی.لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ کیا تھا وہ خدا تعالی کی تعلیم کے مطابق کیا.اس لئے آپ کو اس سے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچ سکتا تھا.اس معاہدے کی دو شرطیں ایسی تھیں جن کو کمزور خیال کیا جاتا تھا ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی شخص مرتد ہو جائے اور آنحضرت سے جدا ہو کر مکہ والوں کے پاس چلا جائے گا تو وہ واپس نہ لیا جائے.اور اگر کوئی شخص مسلمان ہو کر آنحضرت کے پاس چلا آئے تو آپ اس کو مکے والوں کے پاس واپس کردیں گے.بظاہر یہ کمزوری کی شرط تھی.مکہ والوں میں سے بعض شخص مسلمان ہو کر مکہ سے بھاگ آئے.اور ان کے تعاقب میں مکہ کے لوگ آئے.جب وہ مسلمان آنحضرت کی خدمت میں پہنچے تو کافروں نے کہا کہ آپ کا معاہدہ ہے کہ آپ مکہ سے آنے والوں کو واپس کر دیں گے.اپنے معاہدہ کو پورا کیجئے آپ نے فرمایا نبی معاہدہ شکن نہیں ہوتے آپ اس کو لے جائیں.وہ لے گئے مگر اس نے ایک کو موقع پا کر راستہ میں قتل کر ڈالا اور دوسرا بھاگ گیا.پھر آنحضرت کی خدمت میں آیا.اور عرض کیا کہ آپ نے اپنا معاہدہ پورا کر دیا.اب میں خود بیچ کر آیا ہوں.آپ نے فرمایا تم چلے جاؤ.ہم معاہدہ کے خلاف نہیں کر سکتے.وہ وہاں سے بھاگ کر شام کے اس راستہ پر بیٹھ گیا.جہاں سے مکہ والوں کے قافلے گذرتے تھے.اور مکہ سے اور نو مسلم بھی آ آکر اس سے ملتے گئے.اور چونکہ ان سے ان کی جنگ تھی اس لئے انہوں نے مکہ والوں کے قافلے لوٹنے شروع کئے.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مکہ والوں نے خود عرض کیا کہ آپ ان کو بلا لیجئے اور ہم اس شرط سے باز آئے.وسری شرط یہ تھی کہ جو قوم جس سے ملنا چاہے وہ اس سے مل جائے.ان کو خیال تھا کہ لوگ آنحضرت سے خوف کی وجہ سے ملتے ہیں.جب ہم نے یہ شرط منوالی تو سب لوگ آپ سے جدا ہو کر ہم سے مل جائیں گے.مگر جب یہ شرط ہوئی تو کچھ قبیلے آپ سے مل گئے اور کچھ مکہ والوں سے مل گئے.اور یہ بھی شرط تھی کہ ایک دوسرے کے حلیف پر بھی حملہ نہیں کیا جائے گا.مگر مکہ والوں نے آنحضرت کی ایک حلیف قوم پر شب خون مارا.اور ان کے بہت سے آدمیوں کو قتل اور زخمی کیا.یہ کوئی پوشیدہ رہنے والی بات نہ تھی.آپ کو معلوم ہوا تو آپ نے مکہ پر چڑھائی کر دی.وہ رو

Page 322

۳۱۶ جگہ جہاں آپ کو عمرے کے لئے بھی داخل نہیں ہونے دیتے تھے.اس میں آپ بحیثیت ایک فاتح کے داخل ہوئے.مکہ والے اس پر اعتراض نہیں کر سکتے تھے آنحضرت نے مکہ والوں سے غداری نہیں کی بلکہ مکہ والوں نے معاہدہ شکنی میں غداری سے کام لیا.اور وہی صلح جس کو وہ اپنے لئے فتح سمجھتے تھے.ان کے لئے وبال ہو گئی...پس جو خدا کے احکام پر عمل کرتے ہیں خدا تعالیٰ ان کی فلاح و بہبود کے خود سامان کر دیتا ہے.یہ خیال نہ کرو کہ جو قربانی کرتا ہے اور اپنے حقوق خدا کے لئے چھوڑتا ہے وہ تباہ ہو جائے گا.جو خدا عضو کی تعلیم دیتا ہے وہ ظالم کے ظلم کے نقصان سے بھی بچا سکتا ہے.الفضل ۶ جولائی ۱۹۲۲ء) ا بخاری کتاب الشروط و سیرت ابن ہشام حالات غزوه حدیبیه

Page 323

۳۱۷ 58 مذہب کی غرض سمجھنے کی کوشش کریں (فرموده ۷ جولائی ۱۹۲۲ء) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.دنیا میں مختلف مذاہب نظر آتے ہیں.بڑے بڑے مذاہب چار پانچ سمجھو.لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہزاروں مذاہب دنیا میں پائے جاتے ہیں.مثلاً ہم میں سے جو لوگ ناواقف ہیں وہ ہندو مذہب کو ایک مذہب قرار دیتے ہیں.حالانکہ وہ ایک نہیں ہے.ہندو مذہب کے معنی یہ تھے کہ ہندوستان میں پیدا ہونے والے مذاہب میں سے کوئی ایک مذہب.اور ہندوستان میں سینکڑوں مذاہب پائے جاتے ہیں.وہ سب ایک مذہب کی شاخیں نہیں.بلکہ مستقل مذاہب ہیں.جن کے عقائد عبادات اور کتب بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہیں.بے شک ایسے بھی ہیں جو ویدوں کو خدا کا کلام مانتے ہیں.اور ہم بھی مانتے ہیں کہ دید خدا کا کلام تھے.لیکن ایسے بھی ہیں جو دید کے مقابلہ میں اور کتاب کو مانتے ہیں.کئی ہیں جو ویدوں کو نہیں مانتے.بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ان کے لئے ہدایت نامے اور ہیں جن کو وہ مانتے اور ان کی اتباع کرتے ہیں.چین میں بھی مذاہب ہیں.جاپان میں ہیں.اور افریقہ میں سینکڑوں مذاہب ہیں.جن میں خدا کے نام الگ.عبادت کے طریق الگ الگ ہیں.خواہ وہ کتنے ہی ادنی خیال کے ہوں.مگر ان کا وجود ضرور ہے.یورپ اور امریکہ میں بھی مذاہب کی کثرت ہے.عیسائیت مختلف مذاہب کا مجموعہ ہے مثلاً دو مختلف باتیں ایک مذہب میں جمع نہیں ہو سکتیں.ایک گروہ کہتا ہے کہ مسیح انسان ہے.اور دوسرا کہتا ہے کہ نہیں وہ خدا ہے.لیکن یہ دونوں عیسائی کہلاتے ہیں.ایک وہ ہیں جو تورات کی شریعت کے پابند ہیں.اور ایک وہ ہیں جو شریعت کو لعنت قرار دیتے ہیں.یہ دو مختلف مذاہب ہیں.مگر نام ان کا عیسائی ہے.تو دنیا میں ہزاروں مذاہب ہیں یورپ والوں نے ایک کتاب انسائیکلو پیڈیا آف ریلیجنز لکھی ہے جس میں انہوں نے ہزاروں مذہب گنوائے ہیں.ان مذاہب میں اتنا اختلاف ہے کہ ایک مذہب کے لوگ دوسرے مذہب کے لوگوں کی ترقی کو پسند نہیں کرتے.مسلمان ہندوؤں کو ترقی کرتا نہیں دیکھ سکتے.اور ہندو مسلمانوں کی ترقی نہیں

Page 324

۳۱۸ چاہتے.عیسائی یہود کے دشمن ہیں.یہود عیسائیوں کے بدخواہ اور یہ حالت ہے کہ اگر بس چلے تو ایک دوسرے کو کھا جائیں.اور اگر موقع ہو تو زبردستی لوگوں کو اپنے مذہب میں داخل کرلیں.یا ان کو قتل کر ڈالیں.چھوٹے چھوٹے اختلاف پر لوگ پھونک ڈالتے ہیں.یورپ اور امریکہ میں اس اختلاف نے یہاں تک ترقی کی ہے کہ امریکہ والے رنگ کی وجہ سے قتل کر ڈالتے ہیں.پچھلے سال اخبارات میں شائع ہوا تھا.کہ ایک حبشی لڑکا اس سڑک پر سے گذرا جو سفید امریکیوں کے لئے مخصوص تھی.اس پر بہت سے مہذب کہلانے والے امریکن پھر لیکر جمع ہو گئے.اور اس پر پتھراؤ کیا.مجھے کو یاد نہیں رہا کہ انہوں نے اس کو قتل کر ڈالا.یا قریب المرگ کر دیا.یورپ میں ابھی زیادہ عرصہ نہیں گذرا کہ لوگ اس لئے زندہ جلا ڈالے جاتے تھے کہ فلاں فرقے سے تعلق رکھتے ہیں.یہ اختلاف کیوں ہے.آپس میں اس قدر مخالفت کیوں ہے.اگر کوئی فرق نہیں تو لڑائی کیوں ہوتی ہے.لوگوں کو غور کرنا چاہئیے کہ وہ کیوں چاہتے ہیں کہ لوگ ان میں میں.ان کی یہ خواہش کیوں ہے.کہ لوگ اپنے تمام رشتہ داروں قریبوں کو چھوڑ دیں.مسلمان غور کریں کہ وہ جو کہتے ہیں کہ ان کے پاس ایک قیمتی چیز ہے.اگر لوگ اس کو قبول نہیں کریں گے تو ہلاک ہوں گے.وہ کیا ہے اگر مسلمان کہتے ہیں کہ خدا ایک ہے تو یہودی بھی کہتے ہیں کہ خدا ایک ہے.سکھ بھی مانتے ہیں کہ خدا ایک ہے اور عیسائیوں میں بھی اس قسم کے فرقے ہیں جو خدا کو ایک مانتے ہیں.اور آریہ سماجی بھی خدا کو ایک تسلیم کرتے ہیں.اگر خدا کا خالی ایک مانا ہی بڑی چیز ہے اور اسلام کے لئے لوگوں کو سب کچھ چھوڑ دینا چاہئیے تو مسلمان اس عقیدے میں اکیلے نہیں.بلکہ میں نے بتایا ہے کہ اور بھی فرقے ہیں جنکا یہ اعتقاد ہے اور اگر مسلمان کہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں تو رسول کریم ایک آدمی تھے.یہ تو بالکل بے وقوفی کی بات ہوگی کہ کوئی شخص کہے کہ ہم اسلام کو تو سمجھے نہیں صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خاطر مانتے ہیں.حالانکہ قرآن کریم میں آپ کی زبان سے کہلوایا گیا ہے کہ انما انا بشر مثلكم ( الكست : ) میں تمہارے جیسا آدمی ہوں محض بعثت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی ایمان لانا ایسی چیز نہیں تھی کہ اس کے لئے سب کچھ چھوڑ دیا جائے.اگر کہا جائے کہ اسلام میں عبادتیں ہیں تو دوسرے مذاہب میں بھی عبادتیں ہیں.بلکہ زیادہ ہیں.اور سخت ہیں.لوگ سردی میں پانی میں رہتے ہیں.اور گرمی میں آگ کے الاؤ پر بیٹھتے ہیں اور مسلمانوں سے زیادہ دکھ اٹھاتے ہیں اور پھر اگر خالی روزہ رکھنا ہی ایسا ہے کہ دوسرے بھی مانیں.تو دوسرے بھی ہیں جو فاقہ کرتے ہیں.اگر یہ تمام چیزیں اپنی ظاہری شکل کے لحاظ سے اس قابل ہیں کہ ان کی وجہ سے کوئی شخص اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کرے.تو یہ چیزیں اس طرح ان کے پاس بھی ہیں.عقائد ان کے بھی ہیں اعمال ان کے بھی ہیں.پھر وجہ فساد کیا ہے.

Page 325

۳۱۹ لڑائی تو ترانے کے لئے ہوا کرتی ہے.مذہب کے لئے جو لڑائی ہو رہی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذاہب کے پاس کوئی قیمتی چیز اور خزانہ ہے.مذاہب کی لڑائی کسی نبی کے محض مانے یا نہ ماننے کے لئے نہیں ہے.بلکہ اصل مذاہب کی لڑائی یہ ہے کہ خدا ہمارا ہے.خدا ایک خزانہ ہے.جو ختم نہیں ہوتا.انسان جس قدر اس کا قرب اور اس کی رضا چاہنے کی کوشش کرے.اس کو کرنا چاہئیے.بندے پر اس کے احسانات ختم نہیں ہوتے.ہر ایک مذہب کہتا ہے کہ خدا ہمارا ہے.اس پر لڑائی ہے سوائے اس کے اور کوئی چیز لڑائی والی نہیں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہمیں فخر ہے تو اس لئے کہ آپ نے ہمیں اس خزانہ کا پتہ دیا.اور وہ ذریعہ بتایا کہ وہ خزانہ تمہیں اس طرح مل سکتا ہے.اگر ہم نے وہ خزانہ حاصل نہیں کیا تو پھر یہ جھگڑا فضول ہے.کیا کوئی دانا اس موتی پر بھی لڑے گا.جو سمندر کی تہ میں ہو.وہ موتی ہمارا ہے نہ کسی اور کا وہ تو دونوں کے قبضہ سے باہر ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ موتی ہمیں دیا.اگر ہم اس موتی کو حاصل نہ کرین اور دنیا سے لڑیں تو ہماری حالت کچھ اچھی نہیں.خزانہ کا دروازہ بند تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اس کا رستہ بنایا.اور پھر دروازہ کھول دیا.لیکن اگر ہم اس خزانہ کو نہیں لیتے تو ہمارے خالی دعوئی سے کچھ نہیں ہوتا.تمام دنیا کے مذاہب کہتے ہیں کہ خدا ان کے ذریعہ ملتا ہے.ہندو کہتے ہیں کہ خدا ان کے ذریعہ ملتا ہے.اور عیسائی کہتے ہیں کہ خدا عیسائیت کے ذریعہ ملتا ہے.اور سکھ کہتے ہیں کہ خدا سکھ مذہب کے ذریعہ ملتا ہے.ہم کہتے ہیں کہ خدا اسلام کے ذریعہ ملتا ہے.اگر باوجود اس کے پھر بھی ہماری حالت میں کوئی تغیر نہیں.اور ہمیں خدا نہیں ملا تو کیا.خوشی کی بات ہے.اصل خوشی تو اس میں ہے کہ خدا مل جائے.اس لئے مومن کا یہ کام ہے کہ وہ اس کوشش میں لگا رہے کہ اس کو خدا مل جائے.مومن میں اور دوسروں میں بھی فرق ہوتا ہے.کہ مومن پر خدا ظاہر ہو جاتا ہے اور دوسرے دعوئی ہی کرتے رہتے ہیں.اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود کے ذریعہ خدا ظاہر ہوا.آپ نے پتہ دیا.اور اس خزانہ کا دروازہ کھول دیا.لیکن یہ کوئی خوشی کی بات نہیں کہ خدا کا ہمیں پتہ لگ گیا.بلکہ اصل خوشی اس میں ہے ہے کہ خدا مل جائے.اگر دروازے بند ہوں اور کسی شخص کو خزانہ نہ ملے تب بھی وہ محروم ہے.اور اگر کھلے ہوں اور وہ نہ لے تب بھی محروم.اگر کوئی شخص پیاسا ہو اور اس کو پانی نہ ملے تو وہ تشنہ ہے.اور اگر پانی موجود ہو اور نہ پیئے تب بھی پیاسا ہی ہے.اور اس کی پیاس میں کچھ بھی کمی نہیں آتی.دونوں کی تکلیف ایک ہے.پس اسی طرح جس شخص کو خدا نہیں ملتا اس کے لئے خوش ہونے کا مقام نہیں.لیکن جس کے لئے دروازے کھلے ہیں اور جس کو پتہ ہے کہ خدا یوں مل سکتا ہے اور وہ نہیں ملتا تو اس کی بھی وہی حالت ہے.

Page 326

سورہ فاتحہ میں اسی طرف توجہ دلائی ہے کہ خدا مل جائے.دین کے قبول کرنے سے مقصد خدا ہے.اس کے لئے کوشش ہونی چاہئیے.اسلام نے وہ طریق بتا دیا ہے کہ اس ذریعہ خدا مل سکتا ہے.اسلامی نماز کی بڑائی اس کی تکلیف کے باعث نہیں بلکہ اس کی خوبی کے باعث ہے.روزے کو شرف بھوک سے نہیں بلکہ اس کی خوبی سے ہے.صدقہ کی یہ غرض نہیں کہ انسان سے مال دلوانا مقصود ہے.بلکہ خدا نے اپنے ملنے کا اسے ذریعہ قرار دیا ہے.اگر اسلامی عقائد کو بزرگی اور عظمت حاصل ہے تو اس لئے کہ ان سے خدا مل جاتا ہے.اگر اصل غرض کو مد نظر نہ رکھیں جو ان امور سے مقصود ہے تو تمام کوششیں ضائع ہوں گی.نعبد چنانچہ اللہ تعالٰی نے پہلے تو بتایا کہ خزانہ یہ ہے الحمد لله رب العالمين الرحمن الرحیم مالک یوم الدین پھر اس قیمتی خزانہ اور پھل دار باغ کے حصول کا ذریعہ بتایا.وہ یہ کہ نوکر ہو جاؤ.تو اس خانہ اور اس باغ کے اندر جا سکو گے.اور اس کے لئے کہا کہ ایاک اگر خزانہ لینا چاہتے ہو تو پہلے غلاموں میں بھرتی ہو جاؤ.کیونکہ غلاموں کے لئے آقا کے خزانوں اور باغوں میں جانا منع نہیں ہے.اور غلام اور نوکر کو بھی آقا کی چیز کے استعمال کا ایک حد تک حق حاصل ہوتا ہے.یہ بھی ایک شرکت ہوتی ہے.مگر پھر اس سے اگلا مقام بتایا کہ ایاک نستعین غلام ہونے کے بعد مانگتا ہے.مگر مانگنا بھی آسان نہیں.کیونکہ جو خدمت کرتا اور آقا کو خوش کرتا ہے.اس کو مانگنے کا بھی حق حاصل ہوتا ہے.ایک لطیفہ ہے ایک شخص کو اس کی ماں نے کہا کہ جاکر ملازمت کر اور جب تیرا آقا تجھ سے خوش ہوا کرے تو اس سے انعام مانگا کر.بیٹے نے پوچھا کہ میں کیوں کر سمجھوں کہ آقا خوش ہے.ماں نے کہا کہ جب وہ ہے تو سمجھ لینا کہ وہ خوش ہے.چنانچہ وہ گیا اور ایک جگہ اس کو ملازمت مل گئی.ایک دن رات کے وقت بارش ہو رہی تھی آقا نے کہا جاؤ دیکھو کیا اس وقت بارش ہو رہی ہے.یا بند ہو گئی ہے.ملازم نے کہا کہ ہو رہی ہے.آقا نے کہا تجھے کیونکر معلوم ہوا اس نے جواب دیا کہ ہلی باہر سے آئی ہے.اور میں نے اس کے جسم پر ہاتھ پھیرا ہے.اس سے معلوم ہوا.آقا نے کہا اچھا چراغ بجھاؤ.نوکر نے کہا.کہ حضور منہ پر کپڑے لے لیں.اندھیرا ہو جائے گا.آقا نے کہا.کہ کواڑ بند کردو.ملازم نے کہا حضور دو کام میں نے کئے ہیں.ایک جناب خود کر لیں.آقا ہنس پڑا.اور اس نے فور آ کھڑے ہو کر کہا حضور انعام دیجئے.اس طرح کی خدمت کرنے سے انعام نہیں ملتا.بلکہ بچے دل سے اور صحیح معنوں میں خدمت کرنے سے انعام کا مستحق ہوتا ہے.اور عمدہ خدمت کرنے کے بعد غلام اور ملازم آرزو مند ہوتا ہے کہ اس کو انعام ملے.آگے مانگنے کی دو چیزیں ہوتی ہیں.ایک مال و دولت اور ایک آقا کی رضا مندی.عبودیت کے

Page 327

بھی درجے ہیں.پہلا درجہ تو یہی ہوتا ہے کہ وہ آقا سے مانگتا ہے کہ مجھ کو یہ چیز دیجئے.اور وہ چیز دیجئے.اور پھر ترقی کرتا ہے تو اس کی نظر ان چیزوں پر نہیں پڑتی بلکہ خود آقا پر پڑتی ہے اور وہ آقا کا ہاتھ پکڑنا چاہتا ہے.وہ اور سب انعامات سے الگ ہو کر عرض کرتا ہے کہ میں تو آپ ہی کو مانگتا ہوں آپ مل جائیں.پھر قرب بھی کئی قسم کا ہوتا ہے پیر دبانے والے ملازم کو بھی قرب حاصل ہے مگر جو وزیر کو قرب حاصل ہے.وہ بہت اعلیٰ درجہ کا ہوتا ہے.پہلے اگر اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ مجھے آپ کا دیدار ہو.تو پھر وہ غیر المغضوب عليهم ولا الضالين کے مقام پر کھڑا ہو جاتا ہے.اور اس وقت وہ یہ خواہش کرتا ہے کہ اگر آپ نے منہ دکھایا ہے.تو چھپائیے مت مل جائیے اور ہمیشہ کے لئے مل جائیے.تو اللہ تعالٰی نے اپنے حصول کا یہ ذریعہ بتایا ہے.یہ چیز ہے جس کے لئے مسلمان کوشش کرتا ہے.اور اس وقت اس کی یہ حالت ہوتی ہے کہ دست در کار و دل بایار جو لوگ دنیا کا کام دنیا کے لئے کرتے ہیں وہ پھسل جاتے ہیں دیندار دنیا دار اور دنیا دار دنیادار میں فرق ہے.کہ پہلا دنیا کا کام کرتا ہوا بھی خدا سے غافل نہیں ہوتا.لیکن دنیا دار دنیا دار کے کام تمام کے تمام دنیا کے لئے ہوتے ہیں.اور وہ خدا کو بھولا ہوا ہوتا ہے.دیندار کسی کی امانت واپس کرتا ہے.تو کچھ اپنے پاس سے زائد دیتا ہے کہ کہیں اس کا حق میرے ذمہ نہ رہ گیا لیکن دنیا دار کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس کا حق دبائے.دیندار دوسرے کے حق کو تو کیا دیانے کا خیال کرتا.اپنا حق بھی چھوڑنے کو تیار ہو جاتا ہے.لیکن دنیا دار اپنا حق کہاں چھوڑتا ہے وہ تو دوسرے کے حق پر قبضہ کرنا چاہتا ہے.بعض لوگ یہ بات زبان سے تو نہیں کہتے.کہ وہ دوسرے کا حق دیا لیں.مگر ان کے نفس میں یہ خواہش ضرور ہوتی ہے لیکن مومن کا نفس ہر قسم کی خواہشوں سے پاک ہوتا ہے.جس شخص کی یہ حالت ہو کہ اس کو تسلی نہ ہو.اس کو خدا کا قرب ہو.حاصل نہیں.میں اپنے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس بات کی کو ششش کریں کہ ان کو خدا مل جائے محض رستہ کا ملنا کافی نہیں.اور اس کے لئے جھگڑا فضول ہے.ہاں اگر خدا مل جاتا ہے.تو پھر دوسروں سے جھگڑو اور ان کو وہ چیز دو جو ان کے پاس نہیں.راستہ ہمیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بتا دیا.اور پھر جب وہ گم ہوا تو دوبارہ مسیح موعود نے دکھا دیا.اب اس کی ضرورت ہے کہ اس رستہ پر چل کر خدا کو حاصل کیا جائے ورنہ اس کے بغیر کوئی خوبی نہیں.(الفضل ۱۳ جولائی ۱۹۲۲ء)

Page 328

۲۲۲ 59 قرآن کریم کے تمدنی احکام (فرموده ۱۴ جولائی ۱۹۲۲) حضور انور نے تشہد و تعوذ.سورۃ فاتحہ اور سورۃ الحجرات کی ابتدائی پانچ آیات کی تلاوت کے بعد فرمایا.آج میں ایک تونی معاملہ کے متعلق توجہ دلاتا ہوں.چونکہ میرے گلے میں تکلیف ہے.اس لئے زیادہ نہیں بول سکتا.اور مختصراً یہ بات بتانا چاہتا ہوں کہ جب کوئی قوم ترقی کرنا چاہتی ہے اور خدا تعالی اس کو بڑھانا چاہتا ہے تو اس قوم کا تمدن بھی ترقی کرتا ہے غور کرو چوڑ ہوں چماروں کے مقابلہ میں پڑھے لکھے لوگوں کی عقل تو زیادہ تیز ہوتی ہے مگر دوسری اقوام بھی جو پڑھی لکھی کبھی جاتی ہیں ان سے تعلق رکھنے والے ان پڑھوں کی عقلیں بھی مقابلہ ان سے تیز ہوتی ہیں.چوڑھے وغیرہ لوگ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی نہیں سمجھ سکتے.یہ فرق کیوں ہے.اس لئے کہ ایک تو تعلیم کا اثر ہے اور ایک تمدن کا.جس رنگ میں یہ قومیں باتیں کریں گی وہ بہت ادنی درجہ ہوگا.ان کی باتیں اونی ہونگی.اور گالیاں دیں گے.بات میں خشونت ہوگی.عورتوں سے سختی کریں گے.جب بات کریں گے تو ادب اور لحاظ نہیں ہو گا.مگر جو قومیں شریف ہیں ان کی حالت ان سے مختلف ہوگی.علاوہ علم کے دولت اور حکومت سے بھی بات کرنے کا طریق بدل جاتا ہے.تو معلوم ہوا کہ میل ملاپ کے طریق بڑوں سے بات کرنے کے آداب ، بیوی خاوند کے تعلقات ان سب باتوں میں علم کے ساتھ ساتھ ترقی ہوتی ہے.اور صفائی آتی ہے.جو قو میں گرتی ہیں.وہ ان معاملات میں بھی گر جاتی ہیں.ہمارے ملک کے لوگ اخلاق کے لحاظ سے یوں تو یورپ والوں سے اچھے ہیں.مگر تعلیم و تربیت نے ایک تغیر کر دیا.جو ہمارے ملک والوں میں نہیں ان میں ہے.مثلاً ولایت والوں کی یہ حالت ہے کہ اگر سٹیشن پر لوگ ٹکٹ لینے کے لئے جمع ہوں تو وہ اس ترتیب سے کھڑے ہونگے جس سے آئیں گے.دوسرا پہلے سے آگے نہیں بڑھے گا.اور تیسرا دوسرے سے آگے نہیں بلکہ اس

Page 329

۳۲۳ کے پیچھے کھڑا ہو گا.اور اس طرح ایک لمبی قطار بن جائے گی.اور سب یکے بعد دیگرے ٹکٹ لیں گے.کوئی شخص لائن توڑ کر آگے نہیں بڑھے گا.مگر ہمارے یہاں اس کے برخلاف کہنیاں چلا کرتی ہیں.یہ تمدن کی اصلاح تعلیم اور حکومت کے ذریعہ ہوئی ہے.پس جو قومیں ترقی کرتی ہیں ان کا تمدن بھی ترقی کرتا ہے.بعض باتیں لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتی ہیں بعض میں ادنی کی اصلاح سے اعلیٰ کی اصلاح ہوتی ہے.اور بعض میں اعلیٰ کی اصلاح سے ادنی کی اصلاح ہوتی ہے اس کے متعلق اگر ظاہری صفائی ہو تو اخلاق بھی اچھے ہو جاتے ہیں اگر کھانے پینے کی چیزیں عمدہ ہوں اور مناسب طریق پر ان کو کھایا جائے تو اس سے جسم کے ذرات تیار ہوں گے.وہ اعلیٰ اخلاق کا موجب ہونگے.پس اگر جسم کی نشوو نما مناسب طور پر ہو تو اس کا نتیجہ اخلاق کی درستی ہوتا ہے.اور اخلاق کی درستی کے لئے تمدن کی اصلاح بھی ضروری ہے.اس سورۃ میں بعض وہ اخلاق بیان کئے گئے ہیں جو بظاہر معمولی ہیں.مگر قرآن کریم میں خصوصیت سے ان کا ذکر کیا گیا ہے.ان کے مقابلہ میں اور احکام ہیں جو بڑے ہیں.مگر ان کا ذکر نہیں مثلاً سنتوں کا ذکر قرآن کریم میں نہیں پھر ان احکام کو ضمنا " بیان نہیں کیا بلکہ ابتدائے سورۃ ہی میں ان کو بیان کیا ہے.اس کی وجہ یہ کہ احکام تمن اخلاق سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا اثر قوم پر پڑتا ہے.بظاہر یہ موٹی موٹی باتیں ہیں لیکن نتائج کے لحاظ سے کس قدر اہم ہیں.اور ان کی کس قدر تاکید فرمائی ہے.اصل حکم میں تو یہ بات نہیں مگر نتیجہ میں نکل آتی ہے.کہ رسول کی رائے ظاہر کرنے سے قبل کسی معاملہ کے متعلق پہلے ہی سے اظہار رائے نہ کیا کرو.کہ ہماری اس معاملہ میں یہ رائے ہے.جب تک رسول کی رائے نہ معلوم ہو جائے اور نہ رسول کے بولتے ہوئے بولنا چاہیے جب رسول بول چکے تب بولنا چاہیے.اس کو قرآن کریم میں نازل فرمایا.اور سورۃ کو شروع ہی اس طرف کیا.يا ايها الذين امنوا لا تقدموا بين يدي الله ورسوله واتقوا الله ان الله سميع علیم اے لوگو جو ایمان لائے ہو.جس وقت اللہ تعالٰی کے احکام بیان کئے جا رہے ہوں.یا رسول گفتگو کر رہے ہوں.ان سے مت آگے بڑھا کرو.ان کے مقابلہ میں مت بات کیا کرو.عربی کے محاورہ میں قدم" کسی کے سامنے بولنے کو بھی کہتے ہیں.تو اس کے معنی ہوئے کہ اللہ اور رسول کے سامنے نہ بولا کرو.واتقوا اللہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.بات بظاہر معمولی ہے مگر اس کا اثر تقویٰ پر پڑتا ہے.پھر فرمایا ان الله سميع علیم کہ تمہیں خیال ہو گا کہ اگر ہم نہ بولے تو ہماری بات سنی نہ جائے گی.فرمایا دین کا معاملہ تو خدا سے ہے.وہ تو سنے گا.اگر رسول یا

Page 330

مهم سلام اس کا خلیفہ نہیں سنے گا تو اس کا کچھ حرج نہیں.کیونکہ جس کے ساتھ معالمہ ہے.وہ دل کی حالت کو جانتا اور ہر ایک کی آواز کو سن لیتا ہے اگر دین ہے تو یہی طریق اختیار کرنا چاہیئے.اور اگر دین نہیں اور دنیا ہے تو پھر کچھ کہنا ہی نہیں.رسول سے اگر تعلق ہے تو اس لئے کہ خدا کا حکم ہے اور خدا ہی کے لئے تعلق ہے.مومن اگر اطاعت کرتا ہے اللہ کے لئے کرتا ہے.ورنہ بندے کا بندے سے کیا تعلق.دوسری بات یہ فرمائی يا ايها الذين امنوا لا ترفعوا أصواتكم فوق صوت النبي ولا تجهروا له بالقول كجهر بعضكم لبعض ان تحبط اعمالكم وانتم لا تشعرون اگر رسول بیٹھا ہے.اور کوئی بات بیان کرے تو اس کے سامنے ادب سے بات کی جائے اور اونچی آواز میں بات نہ کی جائے.عموماً یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص بات کرے اور اس پر اعتراض ہو کہ اپنی بات کو واضح کیجئے تو جواب میں وہ شخص اپنی بات کو واضح کرنے اور کلام پر زور دینے کے لئے زور سے بولتا ہے.اور یہ صورت ایک مباحثہ کی ہو جاتی ہے.اس کے متعلق سکھلایا کہ اگر رسول تمہاری بات واضح کرنے کے لئے سوال کرے تو بلند آواز سے نہ بولو.آپ کی آواز سے تمہاری آواز نیچی رہے.زور اس لئے دیا جاتا ہے کہ بات مانی جائے.یہ طریق درست نہیں رسول اور اس کا نائب مشورہ کو مانتے بھی ہیں.مجھے تو اس سات سال کے عرصہ میں یاد نہیں کہ احباب نے مشورہ دیا ہو اور میں نے اس مشورہ کو رد کر دیا ہو گو ہمیں حق ہے کہ ہم رد کر دیں.تم اپنی تحکم کی صورت اختیار نہ کرو.جس سے ظاہر ہو کہ تم حاکم اور وہ محکوم ہیں.بلکہ اپنی آواز ان کی آواز سے تو بہر حال اونچی نہیں ہونی چاہیئے اگر رسول یا اس کا نائب بات کرنے میں بلند آواز استعمال کریں تب بھی تمہیں آواز نیچی ہی رکھنی چاہئیے.حضرت صاحب کو دیکھا ہے کہ بعض اوقات بات کرتے ہوئے اس قدر بلند آواز سے بولتے تھے کہ مدرسہ (احمدیہ) کے صحن میں آپ کی آواز سنائی دیا کرتی تھی.پس اس حالت میں بھی تمہاری آواز نیچی ہی رہے.اگر ایسا نہیں کرو گے تو ان تحبط اعمالكم وانتم لا تشعرون ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں.اور تم کو پتہ بھی نہ لگے.کتنی چھوٹی بات ہے مگر نتیجہ کتنا خطرناک ہے.بات یہ ہے کہ جب انسان کسی کے مقابلہ میں بلند آواز سے بولتا ہے تو اس کا ادب دل سے نکل جاتا ہے.اور جب ادب نہ ہو تو محبت بھی کم ہو جاتی ہے اور محبت کے کم ہونے کے ساتھ ایمان بھی کم ہو جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایمان نہ تھے.مگر ایمان کو آپ سے وابستہ کر دیا گیا تھا.آپ سے اگر تعلق کم ہو گا تو اسی قدر ایمان میں کمی آئے گی.اور جس قدر آپ سے محبت

Page 331

۳۲۵ بڑھے گی اسی قدر ایمان میں مضبوطی اور ترقی ہوگی.یہی خدا کے پیاروں اور ان کے غیروں میں فرق ہے.خدا کے پیاروں سے محبت میں جس قدر کمی ہوگی.اتنا ہی ایمان کم ہو گا.اور جس قدر ان سے تعلق محبت بڑھے گا.اسی قدر ایمان بڑھے گا خدا کے پیاروں سے تعلق توڑنے والے خواہ کتنی ہی نمازیں پڑھیں.روزے رکھیں.اور زکوۃ دیں مگر نتیجہ ان کے ایمان کا یہی ہوگا.فرمایا که ان الذين يغضون اصواتهم عند رسول الله اولئك الذين امتحن الله قلوبهم للتقوى وہ لوگ جو رسول کے سامنے اپنی آواز کو دباتے اور نیچی کرتے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لئے خالص کر لیا ہے ان کے لئے مغفرت ہے اور اجر عظیم ہے.پھر ایک اور ادب سکھلایا ہے ان الذین بنا دونک من وراء الحجرات اكثرهم لا يعقلون بعض لوگ آتے ہیں آواز دیتے ہیں یا دروازے پر زور سے دستک دیتے ہیں.ان میں سے اکثر بے عقل ہیں.کیوں وہ یہ نہیں سمجھتے کہ جو شخص اندر بیٹھا بھی خدمت دین میں مصروف ہے اور باہر بھی دین کی بہتری ہی کی فکر میں ہے.وہ جب باہر نکلے گا تو اس وقت مل لیں گے.اس کے کام میں خلل انداز ہونا درست نہیں اگر یہ صبر کرتے تو ان کے لئے بہتر ہوتا.یہ چند آداب ہیں جن کا ہمارے دوستوں کو بھی خیال رکھنا چاہئیے.یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ بعض احکام خاص ہوتے ہیں.مگر ان سے مراد عام ہوتی ہے.بعض میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب ہیں مگر ان میں آپ کے نائب بھی شامل ہوتے ہیں.اور بعض عام لوگوں کے لئے بھی ہوتے ہیں.اگر ان کو خاص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کیا جائے تو اس سے ہماری شریعت نا مکمل ہو جاتی ہے اس لئے لا ترفعوا اصواتكم فوق صوت النبي جہاں رسول اور اس کے جانشین کے لئے ہے وہاں مجلس کے صدر کے لئے بھی ہے.حضرت صاحب کی مجلس میں ایک شخص بلند آواز سے بولتا تھا.آپ نے اس کو اسی آیت کے ذریعہ سمجھایا تھا.مجلس میں جو صدر مجلس ہو اس کے سامنے بھی زیادہ اونچی آواز نہیں کرنی چاہئیے.وہ ستوں کو ان آداب کا خیال رکھنا چاہیے.اور رسول اور اس کے قائم مقام سے پہلے نہیں بولنا چاہیے.اور ان سے اونچی آواز نہیں ہونی چاہئیے..میں خصوصیت سے آخری حکم کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں اور اس حکم پر توجہ دلانے کی خاص وجہ یہ ہے کہ چونکہ ارادہ ہے کہ اس دفعہ پندرہ پاروں کے جو درس ہیں ان کے نوٹ مکمل ہو کر سپ جائیں چونکہ ان میں لغت کے حوالے بھی ہونگے.اور محض یاد سے یہ کام ہو نہیں سکتا.اس لئے ان کو لکھنے کی ضرورت ہے.مگر حالت یہ ہے کہ دس منٹ بھی بیٹھ کر لکھنا نہیں ملتا.کہ دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے اور بعض دفعہ تو اتنے زور سے کھٹکھٹایا جاتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ دروازہ ٹوٹ

Page 332

جائے گا.اور ان کی دستک وارنٹ کے پیادہ کی طرح سخت ہوتی ہے.حالانکہ تصنیف کے کام میں جتنی توجہ اور یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے وہ ظاہر ہے.بڑی محنت کے بعد ایک بات ذہن میں قائم کی جاتی ہے جو یک دم دماغ سے ان دستکوں کی وجہ سے نکل جاتی ہے اور دروازہ کھول کر دیکھا جاتا ہے تو ایک رقعہ ملتا ہے کہ میرے لئے دعا کرو.یہ کوئی اہم بات نہیں تھی.کیونکہ یہ رقعہ ظہر یا عصر کے وقت بھی دیا جا سکتا تھا.بعض دفعہ کام کی وجہ سے دروازہ نہیں کھولا جاتا.تو آدھ آدھ گھنٹے تک دستک دیتے رہتے ہیں.اس وقت اس دستک کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہے.کیونکہ اگر وہ شخص سمجھتا ہے کہ میں اندر نہیں ہوں.تو پھر اتنی دیر تک دستک دینے کے کیا معنی؟ اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ میں ہوں اور کسی وجہ سے نہیں بولتا تو پھر اتنی دیر تک دستک دینے سے کیا فائدہ؟ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی بچہ ہوتا ہے جو تماشے کے طور پر کھٹکھٹا رہا ہوتا ہے.حالانکہ قاعدہ یہ ہے کہ دستک کے ساتھ آواز دے اور السلام علیکم کہے اور بتائے کہ میں فلاں ہوں.اور اس آواز سے وہ شناخت ہو جاتا ہے اور پتہ لگ جاتا ہے کہ فلاں شخص ہے جس کو ہم نے بلایا تھا یا جس سے ملنا ضروری ہے.تین دفعہ ایسا کرے اگر جواب نہ ملے تو واپس چلا جائے.اور یہ ہر ایک مسلمان کے لئے حکم ہے.رسول اور اس کے خلفاء کے لئے جو ایسا نہ کرے وہ لا یعقل ہوتا ہے.اس غلطی میں افسروں کا بھی دخل ہے دفتروں کے چپراسی جب آتے ہیں تو وہ اسی طرح دستک دیتے ہیں.ان کو چاہیے کہ وہ چپراسیوں کو سمجھائیں کہ وہ جب آئیں تو دستک دیگر السلام علیکم کہیں.اور ان کو بھیجیں بھی اس وقت جس وقت کوئی نہایت ضروری کام ہو.اب جو چپراسی آتے ہیں دستک دئے جاتے ہیں اگر ان سے پوچھا جائے کہ کون ہے.تو خاموش رہتے ہیں.چاہیے کہ اگر ضروری کاغذ ہو تو اس وقت بھیجا جائے اور لانے والا بتائے کہ فلاں کام ہے.چونکہ تصنیف کا کام اتنا اہم ہوتا ہے کہ اس میں پوری توجہ کی ضرورت ہے اور سانس بھی دبانا پڑتا ہے.عام طور پر ایک منٹ میں ایک شخص اٹھارہ سانس لیتا ہے مگر میرے قریباً نصف رہ گئے ہیں یعنی دس یا گیارہ سانس.اس وقت یہ حالت ہوتی ہے کہ سانس لینا بھی برا معلوم ہوتا ہے اس لئے یہ کام پورے انہماک اور توجہ کو چاہتا ہے لیکن یہاں دس منٹ بھی توجہ سے بیٹھنے نہیں دیا جاتا.اور دیکھا گیا ہے کہ نوے فیصدی جو لوگ دستک دیتے ہیں وہ فضول ہوتی ہے.اور دعا کے رقعہ دینے والے بھی معمولی رقعے دیتے ہیں.اگر کوئی خاص تکلیف ہو اور اس وقت ملنا ضروری ہو تو کوئی حرج نہیں.بلکہ مخلوق کی ہمدردی کے لئے ایسا کرنا ثواب کا باعث ہے اسی طرح اگر اہم کام ہو تو افسر آئیں.اگر ان کا آنا ضروری ہو.ان پر کوئی اعتراض نہیں.کیونکہ اسی سورہ میں ان کے لئے اجازت ہے.کہ اکثر لا یعقل ہوتے ہیں.یعنی جن کو ضرورت کے لئے ایسا کرنا پڑتا ہے ان پر کوئی

Page 333

۳۲۷ اعتراض نہیں ہو سکتا.ورنہ ایسے رقعے یونسی ہوتے ہیں.یا بعض لوگ آتے ہیں اور الگ ملتے ہیں اور اس وقت کوئی مسئلہ پوچھتے ہیں.اس وقت افسوس آتا ہے کہ انہوں نے الگ ہو کر کیوں پوچھا اگر مجلس میں پوچھتے تو دوسروں کو بھی فائدہ پہنچتا.علیحدگی میں ایسی بات کے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو مجلس میں بیان نہ کی جا سکتی ہو.اگر مجلس میں پوچھیں تو ان کو بولنے کی عادت ہو جائے اور دوسروں کو فائدہ پہنچ جائے.یہ ہدا ئتیں ہیں.ان کا مد نظر رکھنا ضروری ہے تمدن ترقی کے لئے ضروری ہے اور تمدن کا اعلیٰ درجہ کا ہونا بھی لازمی ہے.چاہیے کہ ہمارا تمدن اعلیٰ ہو.اللہ تعالٰی ہماری جماعت کو ہر قسم کی خوبیاں حاصل کرنے اور قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل ۲ جولائی ۱۹۲۲ء)

Page 334

۳۲۸ 60 ثبات و ذکر الہی ذریعہ فلاح ہیں (فرموده ۲۱ ۱ جولائی ۱۹۲۲ء) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ اور آیات یا ایها الذين امنوا اذا لقيتم فئة فاثبتوا واذكروا الله كثيرا لعلكم تفلحون واطيعوا الله و رسوله ولا تنازعوا فتفشلوا وتذهب ريحكم واصبروا ان الله مع الصابرين (الانفال ۴۷۴۶) کی تلاوت کے بعد فرمایا.قرآن کریم جو احکام اپنے پیروؤں کو دیتا ہے ان کے ساتھ وجوہ بھی بیان کرتا ہے کہ یہ کام کیوں کیا جائے یا کیوں نہ کیا جائے.میں نے جو یہ دو آیتیں پڑھی ہیں.ان کے اندر بھی اللہ تعالیٰ نے ایک حکم بیان کیا ہے.جس کی پابندی کے بغیر نہ کوئی قوم زندہ رہ سکتی ہے نہ زندہ کہلا سکتی ہے.اور نہ دینی لحاظ سے نہ دنیاوی لحاظ سے ترقی ہی کر سکتی ہے.اللہ تعالی مختار ہے اور بادشاہ ہے وہ اگر کوئی حکم دے اور اس حکم کی غرض نہ بتائے.تو بندے کا حق نہیں کہ وہ وجہ پوچھے کیونکہ آقا کے مقابلہ میں ماتحت کا حق نہیں ہو تا کہ وہ آقا کے احکام کی وجہ دریافت کرے.فوجوں میں یہ عام قاعدہ ہوتا ہے کہ افسر جو حکم دے ماتحت اس کے متعلق سوال نہیں کر سکتا.جو بڑے افسر ہوتے ہیں وہ ماتحت کی رائے لے سکتے ہیں لیکن اگر نہ لیں تو ماتحت ان سے پوچھ نہیں سکتا.انگریزوں کا مشہور واقعہ ہے جس پر نظمیں بھی لکھی گئی ہیں روس سے ترکوں کی جنگ ہوئی.انگریزی فوج روس کے مقابلہ میں ترکوں کی طرف سے لڑی تھی ایک موقع پر خبر ملی کہ روس کی ایک فوج آرہی ہے جس کے متعلق بڑے انگریزی افسر نے اندازہ کیا کہ روس کی جس بڑی فوج نے آتا ہے وہ نہیں ہے.بلکہ تھوڑی سی فوج ہے اس کے لئے ایک ماتحت افسر کو مقرر کیا.اور تھوڑے سے سپاہی ان کے مقابلہ کے لئے اس کے ماتحت کئے.یہ افسر دانا اور واقف تھا.اس نے کہا کہ یہی روس کی آنے والی فوج ہے یہ چند سو سپاہی ان کا مقابلہ کیسے کریں گے بڑے افسر نے کہا نہیں وہ تھوڑے سے ہیں اور تم جاؤ.ماتحت افسر اپنے چند سو سپاہیوں کو لے کر چلا گیا اور روسی تو پخانہ نے ان کو اڑا دیا اور صرف چند آدمی اس میں سے بچ سکے.

Page 335

27 پس دنیاوی افسر جس کا ماتحت اس کا غلام نہیں ہوتا دونوں انسان ہیں اور ممکن ہے ماتحت کی عقل اور تجربہ افسر سے زیادہ ہو.اور بعض دفعہ کو افسر عالم اور تجربہ کار زیادہ ہو.ماتحت کو بھی عمدہ اور درست بات سمجھ میں آجاتی ہے لیکن انتظام کے قیام کے لئے یہی بات رکھی گئی ہے کہ افسر حکم دے تو ماتحت اس کی اطاعت کرے.افسر اور بزرگ دانا اور عالم بھی ہوتے ہیں.مگر بعض اوقات ایک بات بچہ کے ذہن میں آجاتی ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ اور وعظ فرماتے تھے مگر لوگ نہیں سنتے تھے.آخر آپ نے ان کی دعوت کر کے تبلیغ کرنے کی تجویز کی.چنانچہ دعوت میں وہ لوگ آئے لیکن جب کھانے کے بعد آپ وعظ فرمانے لگے تو وہ فورا" چلے گئے.آپ حیران ہوئے کہ اب کیا تجویز کی جائے.حضرت علی نے جو اس وقت چھوٹے تھے اور جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عباس سے مشورہ کر کے قحط کے زمانہ میں بوجہ ابو طالب کا کتبہ زیادہ ہونے کے اپنے گھر لے آئے تھے کہا کہ ایک بات میرے ذہن میں آئی ہے کہ لوگوں کو جمع کرکے پہلے وعظ کیا جائے اور پھر ان کو کھانا کھلایا جائے.تب سن لیں گے.اسی طرح کیا گیا تو بعض اوقات ایک بچہ کو بھی افسر اور بزرگ سے زیادہ اچھی بات سوجھ جاتی ہے.لیکن انتظام چاہتا ہے کہ افسر حکم دے تو مان لو.مگر خدا تعالی کا کس قدر احسان ہے کہ گو اس سے افسری ماتحتی کا تعلق نہیں مگر حکم دیتا ہے اور ساتھ وجہ بھی بتا دیتا ہے کہ تمہیں جو حکم دیا جاتا ہے اس پر کاربند ہونے میں یہ فائدہ ہے اور جس سے روکا جاتا ہے اس سے رکنے میں یہ نفع.فرمایا يا أيها الذين امنوا اذا لقيتم فئة فاثبتوا واذكر وا الله كثيرا" لعلكم تفلحون اے مومنو جب تم ایک ایسی جماعت سے ملو.جس کے افراد ایک دوسرے کی مدد کرنے والے ہوں تو ثبات اختیار کرو.”فقہ ایسی جماعت جس کے افراد ایک مقصد پر مجتمع ہوں وہ وحشیوں کی جماعت نہ ہو بلکہ اس نے یہ فیصلہ کیا ہو کہ ضرورت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کریں گے.اگر زید پر کوئی حملہ کرے تو بکر اس کی مدد کرے گا.انہوں نے جتھا بنایا ہوا ہو.اس وقت ان کے افراد کی یہ مثال سمجھو جیسے اگر ایک سپاہی پر حملہ کیا جائے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ 999 سپاہیوں پر حملہ کر دیا.کیونکہ وہ اکیلا نہ تھا.بلکہ اس کے ساتھ 999 سپاہی اور تھے.پس فٹنہ کے معنے انبوہ کے نہیں بلکہ ایک ایسی جماعت کے ہیں جس کے افراد ایک دوسرے کے معین اور مدد گار ہوں.ایسے موقع پر سستی نہیں چاہئے.بلکہ حکم ہے فاثبتوا اپنی جگہ پر گڑ جاؤ.ثبات اختیار کرو اور عزم کر لو کہ اس جگہ سے نہیں ہیں گے مگر یہ پہلی چیز ہی کافی نہیں.کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جن سے مقابلہ ہو وہ طاقت ور ہوں اور پھر دشمن کی حالت یہ ہے کہ اگر ان کے ایک شخص کا مقابلہ کرے تو وہ سب

Page 336

۳۳۰ کے سب اس کی مدد کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے بھڑوں یا شہد کی مکھیوں کو چھیڑ دیا جائے.اسی طرح جب دشمن قوی اور کثیر ہوں تو جہاں پہلے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کے مقابلہ میں ثبات اختیار کیا جائے تو دوسری یہ بات ضروری ہے نا ذكروا الله كثيرا یہاں کیا لطیف بات بتائی ہے.انسان کا قاعدہ ہوتا ہے کہ جب اکیلا ہو اور دشمن زیادہ ہوں تو اپنے ساتھیوں کو کسی ذریعہ سے کہلا کر بھیجتا ہے کہ تمہارا ساتھی مارا جا رہا ہے اس کی مدد کرو.کسی گاؤں میں کوئی اکیلا شخص جائے اور وہاں اس کو لوگ مارنے لگیں تو کسی راہرو کو کہتا ہے کہ فلاں جگہ پیغام دے دینا کہ تمہارا ساتھی مارا جا رہا ہے اس کی مدد کو پہنچو.تو ایسی حالت میں انسان اپنی قوم کو بلاتا ہے لیکن مومنوں کا مدد گار کوئی نہیں.بجز خدا کے اس لئے وہ اسی کو بلاتا ہے اس لئے یہ تعلیم دی کہ پہلی بات تم خود کرو.وہ یہ کہ ثبات اختیار کرو اور پھر خدا تعالیٰ کے حضور دعا کے پیغام بھیجو.اس وقت نتیجہ کیا ہو گا.لعلكم تفلحون تب بے شک تم فتح مند اور مفلح ہو سکتے ہو.لیکن اگر تم ثبات اختیار نہ کرو اور مقابلہ میں کھڑے نہ رہو تو تمہارا مددگار تمہاری مدد کس طرح کر سکتا ہے.اسی لئے فرمایا کہ پہلے تم ثبات اختیار کرو اور دشمن کے مقابلہ سے ہٹو نہیں.اور پھر ہمارے حضور دعا کے ہر کارے بھیج دو.جب تمہاری مدد پر خدا آگیا تو پھر تمہاری فتح میں کسے شک ہو سکتا ہے اور جس کی مدد کے لئے خدا آجائے اس کا کون مقابلہ کر سکتا ہے.دنیا بے شک مقابلہ کرے گی اور نسلاً بعد نسل لڑتی جائیگی مگر کب تک لڑے گی.آخر شکست پائینگی.پھر فرمایا واطيعوا الله ورسوله ولا تنازعوا فتفشلوا وتذهب ريحكم واصبروا ان الله مع الصابرين فرماتا ہے.دنیا ایسے موقع جنگ پر کیا کرتی ہے وہ یہ کہ قاعدہ ہے کہ ایک افسر بناتے ہیں اور اسکے کام کی پیروی کرتے ہیں.کیونکہ کوئی فوج بغیر افسر کے جنگ میں کام نہیں کر سکتی.تمہاری بھی ایک جنگ ہے.جو روحانی جنگ ہے یا ظاہر میں دین کی حفاظت کے لئے جنگ ہے.اس وقت تمہارے لئے حکم ہے.اطیعوا اللہ و رسولہ اللہ کی اطاعت کرو.اپنا کمانڈر اللہ اور اس کے رسول کو سمجھو.ان کی بتائی ہوئی ترکیبوں پر عمل کرو اور اپنی ہر ایک حالت پر ان کو حاکم بناؤ.دوسرے ولا تنازعوا آپس میں مت لڑو کہ یہ میری رائے ہے اور ان کی یہ رائے ہے.یاد رکھو خدا علیم ہے اور رسول اسی سے سیکھ کر کہتا ہے.اس لئے ان کے احکام کے آگے چوں و چرا کرنا غلطی ہے.اور پھر آپس میں نہ لڑو جبکہ دشمن کا مقابلہ در پیش ہے اور تم دشمن سے مقابلہ نہیں کر سکو گے.لیکن مومن کے لئے ایسا موقع کوئی نہیں جب اس کے دشمن نہ رہیں کیونکہ تبلیغ کے راستہ میں جو روکیں ہوں.ان کو دور کرنا.وہ نہ ہوں تو شیطان سے جنگ نفس کی اصلاح

Page 337

وغیرہ جنگیں ہیں اور قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے منکر قیامت تک رہیں گے.اور مسیح کے منکر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی منکر ہیں.اس سے کیا ثابت ہوا.یہی کہ دشمن کے مقابلہ کے لئے کبھی سستی نہ کی جائے.بلکہ اس کے مقابلہ میں ہمیشہ ڈٹے رہنے رہنا چاہئیے.ہم دیکھتے ہیں کہ مکانوں جائدادوں کی حفاظت کے لئے لوگ جنگ کرتے ہیں.لیکن دین کی حفاظت ان چیزوں سے کہیں زیادہ ضروری ہے.مگر اس کی حفاظت نہیں کی جا سکتی جب تک آپس کے تنازعات کو نہ چھوڑ دیا جائے.کیونکہ دو طرف کے توپ خانہ سے سلامتی مشکل ہوتی ہے کہ ایک طرف گھر میں سے حملہ آور ہوں اور مقابلہ میں دشمن ہو.پس اگر دشمن کے مقابلہ میں کامیابی کی توقع ہے تو آپس کے تنازعات کو چھوڑ دو.ورنہ فرماتا ہے.فتفشلوا فشل" کے تین معنی ہیں.(۱) ست ہو جانا (۲) کمزور ہو جانا (۳) بزدل ہو جانا.اس لئے اس کے معنی ہوئے کہ اگر تم آپس میں تنازع کرو گے تو تم میں کسل اور سستی آجائے گی.اور دوسرے تم میں بزدلی پیدا ہو جائے گی.اور تیسرے تم میں ضعف ہو جائے گا.قاعدہ ہے کہ جب آپس میں تنازع ہو تو دین کے کام میں لوگ ست ہو جاتے ہیں.اور پھر دشمن کا مقابلہ نہیں ہو سکتا ہے دوسرے مقابلہ جوش سے ہوتا ہے جب جوش آپس کے جھگڑوں میں نکل گیا.تو غیروں کے مقابلہ کے لئے جوش کہاں سے آئے گا.اور آپس کی لڑائی سے ضعف اس طرح آجاتا ہے کہ جب پانچ مخصوں میں جنگ ہوگی تو دو ایک طرف ہونگے اور تین ایک طرف.پھر دشمن کے مقابلہ میں ضعف پیدا ہونا ضروری تھا.اور بزدلی خون کے جلد جوش میں آجانے سے بھی ہوتی ہے.جس شخص کو فوراً غصہ آجائے اور جھگڑے کی اس کو عادت ہو جائے جیسا کہ بعض لوگوں کو سر کھجلانے یا انگلیوں سے پٹاخے نکالنے کی عادت ہوتی ہے.تو اس میں بزدلی پیدا ہو جاتی ہے.جو لوگ زبانی لڑائی کے زیادہ عادی ہوتے ہیں ان میں شجاعت نہیں رہتی.مثل مشہور ہے کہ شیر لیٹا ہوا تھا اس پر چوہے کھیل رہے تھے.شیر نے کہا کہ لڑوں کس سے کیا چوہوں سے.اسی طرح جو شخص معمولی باتوں پر لڑتے ہیں وہ بڑے دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتے.پس فرمایا آپس میں تنازع نہ کرو.تم میں کسل آجائے گی.دین کے کام سے غافل ہو جاؤ گے.اور ضعف پیدا ہو جائے گا.پھر فرمایا تذهب ريحكم ریح کے بھی تین معنی ہیں (۱) قوت (۲) نصرت (۳) رحمت.پس تذهب ريحکم کے معنی ہوئے.تمہاری قوت چلی جائے گی.اب جو دشمن تمہاری طاقت کو محسوس کرتا ہے یہ بات نہ رہے گی.(۲) تمہاری محبت کم ہو جائے گی تو تم پر جو رحمت ہوتی ہے.وہ کم ہو جائے گی.یا تم جو کسی پر رحمت کرتے ہو وہ نہیں رہے گی.تیسرے

Page 338

نصرت نہیں ہوگی.کیونکہ مدد اس کی ہوتی ہے جو اپنی مدد بھی کرے جو شخص اپنی مدد نہیں کرتا اس کی کوئی کیا مدد کرے.جو شخص بزدلی دکھاتا ہے اس کا مددگار اس کے لئے کیا کر سکتا ہے.فرمایا آپس کے تنازع کے یہ تین نتیجہ ہونگے.پھر فرمایا.واصبروا.اور صبر کرو اگر کسی شخص نے کوئی ایسی بات کہی ہے جس سے تمہیں رنج پہنچا ہے.یا تمہارا کوئی حق دبا لیا ہے تو تم صبر کرو اور جھگڑا نہ کرو.یہ کہنا کہ ایسے موقع پر مبر کیسے کر سکتے ہیں.غلطی ہے.کیونکہ یہی تو موقع ہوتا ہے کہ صبر کیا جائے.ورنہ کیا صبر کا یہ موقع ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنے مکان کے قبائلے لا کر تمہارے سپرد کر دے یا تمہاری کوئی تعریف کرے اور تم کہو کہ ہم نے صبر کیا.صبر کا موقع تو یہی ہے کہ دوسرے سے دکھ پہنچنے پر صبر کرے ورنہ تعریف سنکر یا فائدہ پہنچنے پر صبر کا کون سا موقع ہے.اس کی مثال تو وہی ہوگی جو حضرت مسیح موعود لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ کسی شخص نے کسی کی دعوت کی.کھانے کے بعد قاعدہ کے مطابق میزبان نے کہا کہ گھر میں بیمار ہیں اس لئے میں آپ کی کچھ خدمت نہیں کر سکا.مہمان کوئی بڑا ہی بد فطرت انسان تھا کہنے لگا مجھ پر احسان جتاتے ہو.میں نے تو خود تم پر بڑا احسان کیا ہے میزبان نے کہا کہ آپ کا احسان ہو گا اگر آپ بتائیں تاکہ مجھے زیادہ شکر گذاری کا موقع ملے.کہنے لگا تم جب اندر کھانا لینے گئے تھے اگر میں تمہارے گھر کو پھونک دیتا.میزبان نے کہا کہ واقعی یہ آپ کا احسان ہے.پس اگر کہو کہ آپس کی لڑائی میں صبر کیسے کریں.تو یہ غلطی ہے.کیونکہ اسی وقت صبر کی ضرورت ہوتی ہے.اگر تمہیں تکلیف پہنچی ہے.تو صبر کرو.اس کا نتیجہ کیا ہوگا.یہ کہ ان اللہ مع الصابرین میر کرنے والا ہلاک نہیں ہوتا کیونکہ اللہ جس کے ساتھ ہو اس کو کیسے ہلاکت آئے.اللہ تعالیٰ غیر فانی ہے.وہ جس کے ساتھ ہو وہ بھی فنا نہیں ہو سکتا.اگر تم گالی کے مقابلہ میں صبر کرتے ہو.تو صبر ہے.اگر کوئی نقصان پہنچاتا ہے.اور تم اس کے مقابلہ میں زبانی نہیں بولتے.تو یہ صبر ہے.اگر عدالت سے چارہ جوئی کرتے ہو تو یہ صبر کے خلاف نہیں.پس یاد رکھو کہ صابر کے لئے ہلاکت نہیں.یہ احکام ہیں جن پر عمل کرنا تمہارے لئے بہتری کا موجب ہو گا.تمہارا ساری دنیا سے مقابلہ ہے.تمہارے لئے ثبات کی ضرورت ہے.دعاؤں کی ضرورت ہے.آپس میں تنازعات سے بچنے کی ضرورت ہے.اگر رنج پہنچے تو صبر کی عادت کرو کہ تم کو اللہ تعالیٰ کی نصرت ملے.جو آپس میں جھگڑا نہ کریں ان کی خدا مدد کرتا ہے.اللہ تعالٰی آپ لوگوں کو عمل کرنے کی توفیق دے.الفضل ۲۷ جولائی ۱۹۲۲ء) ام طبری بحوالہ سیرت خاتم النبین حصہ اول ص ۱۶۸

Page 339

: 61 مومن اور کافر میں فرق (فرموده ۲۸ جولائی ۱۹۲۲ء) حضور نے تشہیر و تعوذ اور سورۃ فاتحہ اور اومن كان ميتا" فاحيينه وجعلنا له نورا " یمشی به فى الناس كمن مثله في الظلمت ليس بخارج منها كذالك زين للكفرين ما كانوا يعملون (الانعام ۱۲۳) کی تلاوت کے بعد فرمایا.دنیا میں ہر چیز اپنے ساتھ کچھ علامتیں رکھتی ہے.اور اگر وہ علامتیں نہ ہوں.تو تمام کارخانہ عالم درہم برہم ہو جائے.مثلاً موٹی علامت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے شکلوں میں اختلاف رکھا ہے.اگر سب انسانوں کی ایک سی شکل ہوتی.تو کس طرح بچے پہچانتے کہ ان کی مائیں کونسی ہیں.اور مائیں کس طرح اپنے بچوں کو پہچانتیں.خاوند اپنی بیوی کو نہ پہچان سکتا.اور بیوی اپنے خاوند کو نہ پہچان سکتی.اس طرح تمام دنیا کے کاروبار میں گڑ بڑ پڑ جاتی.چونکہ ہر بچہ کی شکل ایک سی ہوتی.اس لئے جب بچہ ماں سے جدا ہو جاتا تو پھر کوئی پتہ نہ لگتا کہ کدھر گیا ہے.اور جب بچہ جدا ہو جاتا تو اسے کوئی پتہ نہ لگتا کہ کون اس کی ماں ہے.اسی طرح جب عورتوں کی شکل ایک سی ہوتی تو بچہ کو کیونکر پتہ لگتا کہ فلاں میری ماں اور ماں کو کیونکر پتہ لگتا کہ فلاں میرا بچہ ہے.اسی طرح جب مردوں کی شکل ایک سی ہوتی اور جب عورتوں کی ایک سی تو مرد کس طرح پہچانتے کہ یہ ان کی بیویاں ہیں.اور بیویاں کس طرح پہچانیں کہ یہ ان کے خاوند ہیں.اسی طرح یہ کس طرح معلوم ہو سکتا.کہ فلاں میرا بھائی ہے اور فلاں دشمن.ایک نے کسی کو مارا جب تک مارتا رہا اس وقت تک تو معلوم ہوا کہ یہ دشمن ہے.لیکن وہ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا پھر پتہ نہ رہتا کہ کون تھا.لیکن شکلوں کا مختلف ہونا ایسی علامت ہے کہ اس سے انسان پہچان سکتا ہے کہ یہ دشمن ہے اور یہ دوست پھر شکلوں کے علاوہ رنگوں کا فرق خدا نے رکھا ہے.رنگ بھی شناخت میں مددگار ہوتے ہیں.لوگ تو کالے گورہے، زرد، سرغ وغیرہ انسانوں کے رنگوں کے نام رکھتے ہیں.لیکن اگر دیکھا جائے.تو ہر آدمی کا رنگ دوسرے سے جدا ہوتا ہے.نہ سارے کالے ایک سے کالے ہوتے ہیں اور نہ سارے

Page 340

۳۳ گورے ایک سے گورے.نہ سارے زرد ایک سے زرد ہوتے ہیں نہ سارے سرخ ایک سے سرخ ہوتے ہیں.ان میں باریک فرق بھی ہوتے ہیں.اور کھلے فرق بھی.لیکن بہرحال ایک رنگ کے دو انسان نہیں ہوتے کچھ نہ کچھ فرق ان کے رنگوں میں ضرور ہوتا ہے.تو رنگ بھی علامتیں ہیں جن سے پہچانا جاتا ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں.رنگوں سے اور طریق سے بھی پہچانا جاتا ہے.اگر آدمی کا رنگ نہ پہچانا جا سکے تو اور بھی رنگ خدا نے بنائے ہیں.جو پہچانے میں مدد دیتے ہیں.یوں تو چھ سات ہی رنگ ہیں.مثلاً کالا، نسواری، زرد، سبز، سفید، سرخ وغیرہ جو مرد استعمال کرتے ہیں.عورتوں کے استعمال میں زیادہ رنگ آتے ہیں.لیکن مردوں کے یہ چند رنگ ہیں.مگر کروڑوں آدمی ہیں جن میں ان رنگوں کی وجہ سے امتیاز کیا جا سکتا ہے.ان رنگوں میں سے کوئی ہلکا استعمال کرتا ہے.کوئی زیادہ.کسی کی پگڑی اور رنگ کی ہوتی ہے کسی کی قمیص اور رنگ کی.کسی کا پاجامہ اور رنگ کا ہوتا ہے.کسی کا کوٹ اور رنگ کا اور جتنے آدمی یہاں بیٹھے ہیں.اگر انہی کو دیکھا جائے تو جو رنگ انہوں نے استعمال کئے ہیں.وہ پانچ سات ہی ہونگے.مگر پھر بھی ان میں فرق ہو گا.اور اس سے ہر ایک الگ الگ پہچانا جا سکتا ہے پھر پہچاننے کی اور علامتیں ہیں مثلاً بیٹھنے، چلنے ، کھڑے ہونے کی طرز ہی ہوتی ہے کوئی شخص دور جا رہا ہو تو اس کی چال دیکھ کر معلوم کر لیا جاتا ہے کہ فلاں ہے.پھر آوازوں میں فرق ہے غرض اتنے فرق ہیں.جن کے ذریعہ انسانوں کو پہچانا جاتا ہے.اور ان کے علاوہ ایسے معمولی معمولی فرق بھی ہیں کہ اگر پوچھو فلاں فلاں میں کیا فرق ہے.تو اکثر آدمی نہیں بتلا سکیں گے.لیکن ان کی آنکھیں، کان اور چھونے کی قوت جب عمل میں لائی جائے گی تو بتا دیں گے کہ ان میں فرق ہے یہ فلاں ہے اور یہ فلاں.یہ تو میں نے بڑی چیزوں کے متعلق بتایا ہے.چھوٹی چیزوں کے متعلق بھی دیکھ لو.ان میں بھی فرق ہوتا ہے.زمین دار دانوں کو دیکھ کر بتا سکتا ہے کہ ان میں فرق ہے یہ اچھے ہیں اور یہ خراب.سبزی فروش سبزی کو دیکھ کر بتا سکتے ہیں کہ یہ اچھی ہے اور یہ بری.میوے والے میووں کو دیکھ کر بتا سکتے ہیں کہ یہ اچھے ہیں اور یہ برے.تو نہ صرف اپنے متعلق بلکہ دوسری چیزوں کے متعلق بھی انسان فرق جانتا اور ان کو پہچان سکتا ہے.ورنہ اگر آم اور خربوزے کی شکل مختلف نہ ہوتی تو جب ہم کو دل چاہتا انسان ساری دنیا کے میووں کو کھاتا تب آم کو معلوم کر سکتا.مگر ہم کہتے ہیں مزا بھی تو ایک علامت ہے.اگر یہ بھی سب میووں کا ایک سا ہوتا تو پھر کس طرح کوئی آم کو پہچان سکتا کہ یہ آم ہے.اور کس طرح خربوزے کو معلوم کر سکتا کہ یہ خربوزہ ہے.پھر ڈاکٹر کو پتہ نہ لگ سکتا کہ سنکھیا کیا ہے.اور کونین کیا.ایک کو تپ کی دوا کے طور پر کونین دینی ہے.لیکن چونکہ سنکھیا اور

Page 341

۳۳۵ کونین کی شکل ایک سی ہوتی ہے اس لئے سنکھیا دے دیتا.اور کتے کو مارنے کی ضرورت ہوتی تو کو نین دے دیتا.رو لیکن یہ علامتیں ہی ہیں جن سے ایک دوسری چیز میں امتیاز کیا جاتا ہے.اور ایسا امتیاز کہ کوئی چیزیں ایک سی نہیں ہو سکتیں.باپ بیٹے میں بڑا تعلق ہوتا ہے.مگر وہ بھی الگ الگ پہچانے جاتے ہیں.ماں بیٹی میں بھی فرق ہوتا ہے.بڑی بڑی شکلیں ملتی ہیں.مگر جن کی شکلیں حد سے زیادہ ملتی ہیں ان میں بھی فرق ہوتا ہے.پس بات یہ ہے کہ کوئی چیز علامت کے بغیر نہیں.جب یہ بات ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو سب سے قیمتی چیز ہے یعنی ایمان.کیا وہی بے علامت ہے؟ خربوزہ کو دل چاہتا ہے تو انسان جاتا ہے اور پہچان لیتا ہے.گندم خریدنا چاہتا ہے تو جاتا ہے اور پہچان لیتا ہے.یہ نہیں کہ چنے اور گندم کی شکل ایک جیسی ہو.گندم اور چنے میں امتیاز نہ کر سکتا ہو.اسی طرح ماش خریدنا چاہتا ہے تو جاتا ہے اور پہچان لیتا ہے.یہ نہیں کہ ماش اور چنے کی شکل ایک جیسی ہو.اب جبکہ خدا نے گہیوں ، جو اپنے آم خربوزہ کے پہچانے کے لئے علامتیں رکھی ہیں.آدمیوں کے لئے علامتیں رکھی ہیں.تو کیا اگر نہیں رکھیں تو ایمان کے لئے ہی نہیں رکھیں جو سب سے زیادہ ضروری اور قیمتی چیز تھی.کبھی عقل اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتی کہ خدا نے ہر چیز کی علامت رکھی ہو مگر ایمان کے لئے کوئی علامت نہ رکھی ہو.در حقیقت انسان کا ذہن اس بات کو سوچ ہی نہیں سکتا.اور اس کا دماغ اس بات کو برداشت ہی نہیں کر سکتا.کہ ایسا ہو سکے.کجا یہ کہ ایسا ہو.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اومن كان ميتا فأحييناه وجعلنا له نورا يمشي به في الناس كمن مثله في الظلمت ليس بخارج منها كنالك زين للكفرين ما كانوا يعملون (الانعام (۱۲۳) فرمایا کوئی عقل کی بات کرو.کوئی انسان اس بات کو تسلیم کر سکتا ہے کہ ایک شخص جس میں ایمان ہو اور ایک جس میں کفر.ان کی ایک جیسی شکلیں ہوں اور ان میں کوئی فرق نہ ہو.موٹی موٹی چیزوں میں تو فرق ہو.اور ان کو پہچاننے کی علامتیں ہوں.لیکن جو اعلیٰ سے اعلیٰ ہے.اس کی شناخت کا ذریعہ نہ ہو.اگر اس کی شناخت نہ ہو سکے گی تو کوئی اسے حاصل کس طرح کرے گا.اب گیہوں کی ضرورت ہے تو چونکہ اسے پہچانتے ہیں اس لئے لے آتے ہیں.لیکن اگر گیہوں کو نہ پہچانتے تو پھر کس طرح لیتے.دنیا کی ساری چیزیں خریدتے تب کہیں گیہوں ملتی.اسی طرح اگر ایمان کی شناخت کی کوئی علامت نہیں رکھی گئی تو اس کے لئے انسان سارے مذہب قبول کرتا تب اسے ایمان کا پتہ ملتا.کبھی وہ عیسائی ہوتا.اس میں ایمان نہ ملتا تو جینی بنتا.پھر بدھ بنتا.اسی طرح ہزاروں لاکھوں جو مذہب ہیں انہیں اختیار کرتا.انہیں چکھتا.جیسے بہت سے شربت پڑے ہوں مگر ان کی خوشبو اڑ گئی ہو تو ہر ایک کو چکھ کر کوئی ایک شربت معلوم کیا جا سکتا ہے.اسی طرح وہ

Page 342

بھی روز نہ ہب بدلتا اور اس طرح ایمان کو تلاش کرتا اور اسے کچھ نہ ملتا.اور ممکن ہو تا کہ اس کا پتہ تو مل جاتا.لیکن جب اس پر عمل کرنے کا زمانہ آتا تو مرجاتا.تو اس طرح انسان کی حالت خطرہ میں ہوتی.اور یہ اللہ تعالیٰ کی شان سے بعید ہے اس لئے فرمایا.یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک جو مردہ ہو اور خدا اسے زندہ کرے (ایمان کی علامت یہ ہے کہ انسان زندہ ہو جاتا ہے) اور ایک اندھیرے میں دکھ اور تکلیف میں ہو.یہ دونوں برابر ہوں.ظلمات کے معنی موت کے بھی ہیں.کہ قبر میں جب انسان جاتا ہے تو تاریکی میں ہوتا ہے.اس آیت سے مراد یہ ہے کہ ایک جو مردہ تھا اسے زندہ کر دیا.اور ایک ایسے اندھیرے میں جا پڑا جہاں سے نکل نہیں سکتا یعنی وہ مر گیا.اور قبر میں دفن ہے.ایک کی تو یہ حالت ہے اور دوسرے کی یہ ہے کہ اس کے ہاتھ میں شمع ہے.جس سے وہ آپ ہی روشنی میں نہیں ہے بلکہ دوسروں کو بھی روشنی دکھاتا ہے.کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں.کوئی بھی دنیا میں ایسا انسان نہیں ہوتا جو یہ کہے کہ ایک ایسا شخص ہو جس کے ہاتھ میں مشکل ہو.جس سے اندھیری رات میں لوگوں کو رستہ دکھائے.اور ایک ایسا ہو جو مٹی میں دفن ہو.کیا یہ دونوں برابر ہیں.ایک بچہ بھی جو ابھی بولنے لگا ہو وہ بھی ان میں فرق کر سکے گا.اگر اسے کہو کہ یہ آدمی تمہیں گھر چھوڑ آئے یا یہ قبر والا.تو وہ یہی کہے گا که یه آدمی چھوڑ آئے.پس جس طرح ان میں فرق ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اسی طرح مومن اور کافر میں فرق ہے.مردہ اور زندہ میں کیا فرق ہوتا ہے.یہ کہ زندہ ترقی کرتا ہے.اور مردہ تنزل کرتا ہے.دوسرا فرق یہ ہے کہ مردہ کو اگر کوئی نقصان پہنچائے تو اسے دور نہیں کر سکتا.لیکن زندہ اپنے نقصان کے علاوہ دوسروں کے نقصانوں کو بھی دور کر سکتا ہے.مومن اور کافر میں بھی یہی فرق ہوتا ہے.کافر کی حالت نہیں بدلتی اگر بدلے تو برائی کی طرف ہی جاتی ہے.جیسے مردہ کی حالت بدلے گی تو بدبو ہی پیدا ہوگی.مگر زندہ ترقی کرتا ہے اور مردہ گرتا ہے.فرمایا یہی حالت مومن اور کافر کی ہوتی ہے.مومن ترقی کرتا ہے اور کافر گرتا ہے.پھر یہ فرق ہے کہ کافر اپنے آپ کو بھی نقصان سے نہیں بچا سکتا.مگر مومن دوسروں کو بھی بچاتا پھرتا ہے.کافر کے گرنے کی یہ حالت ہوتی ہے کہ کل اگر اس کے اخلاق برے تھے.تو آج اور بد تر ہوں گے کل اگر اس نے اسلام قبول نہیں کیا تو آج بھی اسلام قبول کرنے سے دور ہو گا.مگر مومن کا تعلق خدا تعالیٰ سے روز بروز بڑھتا جاتا ہے کوئی لمحہ نہیں گذرتا کہ پہلے کی نسبت اور خدا تعالیٰ کے نزدیک نہ ہوتا ہو.یہ مومن اور کافر میں فرق ہے.خدا تعالی ایک اور فرق مومن اور کافر میں یہ بیان کرتا ہے کہ وجعلنا له نورا خدا تعالی کی طرف سے اس کو فور ملتا ہے.علاوہ اس کے کہ وہ خود

Page 343

۳۳۷ لوگوں کی مدد کرتا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسے سامان پیدا ہو جاتے ہیں کہ وہ لوگوں کو ظلمت سے نکال کر نور کی طرف لا سکتا ہے.اس کو ایسا دماغ مل جاتا ہے کہ باریک سے باریک اور منفی سے مخفی باتیں اس پر کھلتی جاتی ہیں.کوئی معمہ نہیں ہوتا.جسے وہ حل نہ کر لے.اور کوئی مشکل نہیں ہوتی جو اسے ہراساں کردے.کیونکہ خدا کی طرف سے اسے نور ملتا ہے.پھر نور کو لیکر الگ تھلگ نہیں بیٹھ رہتا بلکہ ہمشی یہ فی الناس اس کو لیکر لوگوں میں چلتا پھرتا ہے تو یہ تین باتیں مومن میں پیدا ہو جاتی ہیں.اول یہ کہ وہ ترقی کرتا ہے.دوم یہ کہ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے.سوم یہ کہ خدا کی طرف سے اسے ایسے سامان دیئے جاتے ہیں کہ جو اس کی مدد کرتے ہیں.جب کوئی کام کرنے لگتا ہے تو فوراً خدا کی طرف سے مدد پہنچتی ہے.اگر یہ باتیں کسی میں پائی جاتی ہیں.تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے اس میں ایمان ہے.اور اگر نہیں پائی جاتیں تو ایمان نہیں.درمیانی کوئی رستہ ہی نہیں.یا تو انسان مومن ہو گا یا کافر.زندہ ہو گا یا مردہ.ہاں جس طرح زندگی میں فرق ہوتا ہے کسی کی اعلیٰ ہوتی ہے کسی کی ادنی.اسی طرح کوئی اعلیٰ درجہ کا مومن ہوتا ہے کوئی ادنی درجہ کا.کوئی بڑا کافر ہوتا ہے کوئی چھوٹا.جس طرح مردوں میں بھی فرق ہوتا ہے کوئی تازہ مرا ہوتا ہے کوئی دیر کا.اب میں دوستوں سے سوال کرتا ہوں کہ یہ جو علامتیں ہیں اور جن کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے.کہ ان کا فقدان کفر ہے.یہ ان میں پائی جاتی ہیں یا نہیں.یعنی اول یہ ہے کہ ان میں نمو اور ترقی کی طاقت ہے؟ اور ان کا قدم آگے بڑھتا ہے؟ دوسرے وہ مردہ کی طرح تو نہیں پڑے رہتے.بلکہ دنیا میں کام کرنے والے ہیں.یہ علامت معلوم کرنے کے لئے اس بات پر غور کرو کہ تم واقع میں ایسے ہو.کچھ کچھ کام کرتے ہو یا ایسے ہو کہ مرجاؤ.تو کسی کو تمہارا خیال بھی نہ ہو.ایک شاعر نے دنیا میں مفید زندگی بسر کرنے کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے ہے.انت الذي ولدتک ایک باکماً والناس حولك يضحكون سروراً فاحرص على عمل تكون اذا بكوا في وقت موتک ضاحکا مسروراً کہ جب تو پیدا ہوا تھا.ماں نے تجھے جنا تھا.تو تو رو رہا تھا بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو چونکہ تنگ جگہ سے نکلتا ہے اس کے سر اور جسم پر دباؤ پڑتا ہے اس لئے روتا ہے.شاعر کہتا ہے تو وہ تھا کہ جب پیدا ہوا تھا تو رو رہا تھا.اور لوگ اس موقع پر ہنس رہے تھے کہ لڑکا پیدا ہو گیا.ایسی حالت میں تیری پیدائش ہوئی تھی.اب تو ایسے عمل کر کہ جب تو مر رہا ہو تو خوش ہو کہ خدا سے ملنے چلا ہوں اور لوگ رو رہے ہوں کہ اس سے جو فوائد پہنچ رہے تھے ان سے محروم ہو گئے.یہ تیرا بدلہ ہے.جب تو پیدا ہوا تھا تو روتا تھا اور لوگ ہنستے تھے.اب ان سے بدلہ لے اور وہ اس طرح کہ ایسے اچھے عمل

Page 344

۳۳۸ کر کہ جب مرنے لگے تو دنیا تم پر روئے کہ اب کیا ہو گا مگر تو ہنس رہا ہو کہ خدا کے پاس جا رہا ہوں.حیات کی علامت یہی ہے کہ کام کرنے والی چیز اپنی جگہ سے ہل جائے تو نقص پیدا ہو جاتا ہے.مثلاً یہ ستون ہے (مسجد اقصیٰ کے برآمدے کا ایک ستون) جو کام دے رہا ہے.اس کے ساتھ اگر ایک اور لکڑی کھڑی کر دی جائے تو وہ بھی کھڑی تو نظر آئے گی.لیکن اگر اسے ہٹا دیا جائے.تو کوئی نقص نہیں واقع ہو گا اور اگر اس ستون کو ہٹایا جائے تو نقص پیدا ہو جائے گا.تو کام کرنے والے کی یہ علامت ہوتی ہے کہ اگر اسے ہٹا دیا جائے تو نقص پیدا ہو جائے.جب تک نیا آدمی اس کام کو سنبھال نہ لے.یہ قوت فعلیہ ہوتی ہے.تیسری بات یہ ہے کہ خدا کی طرف سے مدد آجائے.چونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے فاحببناه ہم نے اس کو زندہ کیا.اس لئے اسے مدد بھی وہ خود ہی دیتا ہے.خواہ ساری دنیا مخالف ہو وہ اپنا رستہ پالیتا ہے کیونکہ اس کے پاس خدا کی دی ہوئی روشنی ہوتی ہے یا ساری دنیا ڈوب رہی ہو وہ اس شمع کی روشنی سے محفوظ ہوتا ہے.اور دوسروں کو محفوظ کرتا ہے.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم.یہ روشنی ہر مومن میں حسب مراتب ہوتی ہے.دیکھو آم کے لئے جس طرح گٹھلی.رس اور چھلکا ہونا ضروری ہے اسی طرح ایمان کے لئے ان تینوں باتوں کی ضرورت ہے.آگے جس طرح بڑے آم کا بڑا چھلکا.زیادہ رس اور بڑی گٹھلی ہوتی ہے.اسی طرح جس میں زیادہ ایمان ہوگا یہ باتیں بھی زیادہ پائی جائیں گی.لیکن ایمان کے لئے ہونی ضروری ہیں کہ خدا سے تعلق بڑھ رہا ہو.کچھ نہ کچھ کام کا سہارا اس پر ہو.خدا کی تائید خواہ تھوڑی ہی ہو.مگر ہو ضرور.زیادہ روشنی اچھی ہوتی ہے.لیکن تھوڑی بھی کام دے دیتی ہے.پس یہ تینوں علامتیں خواہ تھوڑی ہوں مگر ہونی چاہیں.میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ دیکھیں کیا یہ ان میں پائی جاتی ہیں یا نہیں.اگر کسی میں نہیں تو سمجھے کہ وہ کفر کے زیادہ قریب ہے یہ نسبت ایمان کے.اور اگر پائی جاتی ہیں تو ان میں اور ترقی کرے.خدا تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ایمان کی یہ علامتیں پیدا کریں.اپنا نور اور روشنی دے جس سے ہم فائدہ اٹھائیں.(الفضل ۳ اگست ۱۹۲۲ء).مجانی الادب بحوالہ دروس الادب ص ۹۰

Page 345

62 یوم الحج.اللہ کی طرف رجوع کرنے کا دن فرموده ۴ اگست ۱۹۴۲ء) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.آج کل تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے روز خطبہ ہو جاتا ہے.اس لئے کسی لمبے خطبہ کی ضرورت نہیں.اور خصوصاً اس لئے بھی کہ آج کا دن اس قسم کا دن ہے کہ خطبوں پر زیادہ زور دینے کی بجائے دل سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہونے کا دن ہے.آج وہ دن ہے کہ ایک ایسے شہر کی طرف اور اس شہر کے ایک ایسے مقام کی طرف جہاں نہ درخت ہے.نہ گھاس ہے نہ سزا ہے اور نہ پانی میسر ہے.بلکہ ایک خشک پہاڑی جس کے پتھر جل کر سیاہ ہو گئے ہیں.جس کے اوپر چڑھنا بوجہ پتھروں کی سختی اور کنکروں کی زیادتی کے مشکل ہے.جو میدان ہے وہ بھی ریت اور کنکر سے پر ہے.اس میدان میں اس وقت جبکہ ہم یہاں بیٹھے ہیں.وہاں آس پاس کے نہیں بلکہ دور دور کے علاقوں کے لوگ اور ایسے لوگ جو اپنے سر سے ٹوپی اتار کر چلنا بھی پسند نہیں کرتے.اور جو اپنے شاندار لباس کے بغیر باہر نہیں نکلنا چاہتے.جن میں ایسے بھی ہیں جو موٹر کے بغیر چلنا کسر شان سمجھتے ہیں.اور جو نرم اور آرام وہ بستروں پر سونے کے عادی ہیں وہ اونٹوں پر چڑھ کر پھر رہے ہیں جس سے ان کے پیٹ کی انتڑیاں اور معدہ تک ہل جاتا ہے اور پھر اس بے آب و گیاہ میدان میں دوڑتے ہیں.وہاں کوئی میلہ نہیں تماشہ نہیں.بلکہ وہ وہاں اس لئے جاتے ہیں کہ خدا نے اس مقام کو عارفوں کے لئے ایک نشان قرار دیا ہے.وہ مقام عرفات کا مقام ہے.وہاں خدا ملتا ہے.وہ ایک ایسا مقام ہے جہاں درخت نہیں اور ایک بھی درخت نہیں.مکان نہیں ایک بھی مکان نہیں.کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں ملتی.ہاں وہاں اللہ ہی اللہ ہے وہ مقام برکات اور دعاؤں کا مقام ہے.وہاں دعائیں کثرت سے قبول ہوتی ہیں.اور آج کا دن دعاؤں کی قبولیت کا دن ہے اور وہ لوگ بھی جو شریعت کے پابند نہیں انہوں نے گو اس دن کو رسم قرار دے کیا ہے.اور عبادت اور ذکر اور دعا کو بھلا دیا ہے.اور وہ یونہی وہیں پھرتے ہیں.مگر جو لوگ شریعت کے واقف ہیں وہ اس دن کو دعاؤں اور ذکر میں صرف

Page 346

م کرتے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ نے اس دن کی برکت سے دوسروں کو بھی محروم نہیں رکھا.پس آج کا دن دعاؤں اور ذکر کا دن ہے.اور اس کو قبولیت دعا سے بڑا تعلق ہے.پس چاہیے کہ آج خصوصاً ہمارے دوست دل میں اور زبان سے بھی دعائیں اور ذکر الہی کریں.یہی آج کا خطبہ ہے.الفضل ۱۴ اگست ۱۹۲۲ء)

Page 347

المرسو 63 روحانیت کا موسم (فرموده ۱۱ اگست ۱۹۲۲ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.دنیا میں ہر ایک چیز کے موسم ہوتے ہیں.اس موسم کے باپ پر اگر اس چیز کو تلاش کریں یا اس کو پیدا کرنے کی کوشش کریں تو نہیں ہوگی.اس بات میں کئی حکمتیں رکھی گئی ہیں.موسم میں بھی عبرت ہے.ایک تو یہ ہے کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے کیونکہ اگر انسان پیدا کر سکتا تو ہر چیز کو ہر موسم میں کیوں نہ پیدا کر لیتا.دیکھ لو مل اور ماش وغیرہ کے موسم میں گیہوں نہیں ہوتی.اور گیہوں کے موسم میں تل ماش وغیرہ نہیں ہوتے.پس موسموں میں ان چیزوں کا پیدا ہونا اس امر کی طرف دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ان چیزوں کو پیدا کرتا ہے اور اس نے مقدر کر دیا ہے.کہ فلاں چیز فلاں وقت پیدا ہو.اور وہ اسی وقت پیدا ہوتی ہے.اور انسی ذرائع سے پیدا ہوتی ہے.جن ذرائع سے اس کا پیدا ہونا مقدر ہوتا ہے.دوسری عبرت ان موسموں سے یہ پیدا ہوتی ہے کہ اگر انسان کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے تو موسم سے فائدہ اٹھائے.بعض چیزیں اس قسم کی ہوتی ہیں کہ وہ دوسرے موسم میں مطلق ہوتی ہی نہیں.اور بعض ہوتی ہیں.مگر بہت تھوڑی اس افراط سے نہیں جس سے وہ اپنے موسم میں پیدا ہوتی ہیں.مثلاً آم ہے.اس کی کئی قسمیں ہیں ایسے بھی ہوتے ہیں جو ابھی دو مہینہ کو پکیں گے.اور ایسے بھی جو چار مہینہ کو پکیں گے.لیکن جب اس کا موسم گذر جاتا ہے تو اس کا ملنا مشکل ہوتا ہے.یہ سچ ہے کہ یہ سال کے ہر حصہ میں مل سکتا ہے.اور ملتا ہے.مگر بہت تھوڑا اور بہت قیمت پر لیکن جب اس کا موسم ہوتا ہے تو اس افراط سے ملتا ہے کہ اچھے سے اچھا آم نہایت سستے داموں مل جاتا ہے.اور ادنیٰ قسم کے آم تو ایک پیسہ کے کنی کنی مل جاتے ہیں.تو بے موسم کی چیز ملتی ہے مگر مشکل سے اور موسم میں ملتی ہے نہایت آسانی سے.ہمارے لئے بھی خدا نے ایک موسم پیدا کیا ہے.کیونکہ دین کے لئے بھی موسم ہوتا ہے.اور

Page 348

ا مهم سالم موسم نبیوں اور ان کے قرب کے زمانے میں ہوتا ہے.اس موسم میں اللہ تعالیٰ کثرت سے روحانی ثمرات پیدا کرتا ہے.موسم کی یہ حالت ہوتی ہے کہ دانہ ڈالا اور وہ پیدا ہو جاتا ہے اور اس میں محنت زیادہ برداشت نہیں کرنی پڑتی.مگر غیر موسم میں بہت مشکل ہوتی ہے.اسی طرح نبیوں کے زمانے میں وہ روحانی علوم بھی کثرت اور آسانی سے مل سکتے ہیں.اور دوسرے زمانوں میں گومل تو سکتے ہیں مگر بڑی محنت اور سخت مشکل.یہ روحانی موسم اللہ نے ہماری جماعت کو بھی دیا ہے.ہم نے اللہ تعالیٰ کے ایک مامور اور مرسل کا زمانہ پایا ہے.گو وہ اس وقت ہم میں موجود نہیں.مگر اس کا زمانہ بہت قریب ہے.یاد رکھو کہ زمانے بھی دو طرح کے ہوتے ہیں.ایک اصل موسم ہوتا ہے.اور ایک موسم کے ساتھ کا زمانہ ہوتا ہے.وہ زمانہ جو موسم کے ساتھ ہوتا ہے گو اس میں اس کثرت سے وہ چیز میسرنہ ہوتی ہو.لیکن دوسرے زمانوں سے زیادہ مل سکتی ہے.اسی طرح گو حضرت مسیح موعود کا زمانہ گزر گیا لیکن ابھی آپ کے قرب کا زمانہ ہے.انبیاء کے یا کم از کم حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود کے زمانہ اور موسم تین سو سال کے زمانے ہیں.مگر یہ ظاہر ہے کہ ہر سال اس زمانہ سے دور لے جاتا ہے.اور ہر ایک ساعت ہم کو دور کر رہی ہے جو جو زمانہ گزر رہا ہے.وہ ہمیں اصل زمانہ سے دور کرتا جاتا ہے.اس حالت میں ہمارا کیا فرض ہے.یہی کہ ہم اس زمانہ اور - موسم سے فائدہ اٹھائیں.اگر اس سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے تو پھر وہ چیز جو آسانی سے مل سکتی ہے.بہت مشکل اور بڑی کوشش کے بعد حاصل ہو سکے گی.اور جو لوگ اس وقت کو کھو دیں گے ان کو پچھتانا ہو گا.اور اس کا الزام ان پر ہوگا نہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے نبیوں پر پس یہ زمانہ غنیمت ہے.کیونکہ نبی کے قریب کا زمانہ ہے اس لئے اس سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے.آج جو چیز آسانی سے ہر ایک شخص کو نبیوں کے ذریعہ حاصل ہو سکتی ہے.وہ دوسرے وقت میں مل سکتی ہے مگر انفرادی طور پر سخت کوشش کے بعد.اس کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کے گھر میں حقہ پانی ڈال آئے اور ایک خود بھرے.پس اسی طرح نبیوں کی مثال سقہ کی ہے جو روحانیت ڈال دیتے ہیں.پس اس وقت سے فائدہ اٹھاؤ اور اس کو رائیگاں نہ جانے دو.الفضل ۲۱ / اگست ۱۹۲۲ء)

Page 349

سلام سلام سلام 64 ضروری نصائح (فرموده ۱۸ ر اگست ۱۹۲۲ء) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.میں نے بارہا اور متواتر اپنی جماعت کے لوگوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جب تک انسان ان ذرائع کو استعمال نہ کرے جن کو اللہ نے ترقی کے لئے مقرر فرما دیا ہے اس وقت تک اس کا کامیابی کی امید کرنا عبث ہے.میں نے اس مہینے میں اس وقت تک تین پاروں کا درس دیا ہے.جن لوگوں نے ان مضمونوں کو سنا ہو گا.وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ان سب میں یہی بتایا گیا ہے کہ صحیح راستہ چھوڑنے والے کے لئے کوئی ترقی اور کامیابی کی امید نہیں.اور یہ تین پارے شاہد ہیں کہ ترقیات کے لئے انسان کو بہت قربانی کرنی پڑتی ہے اور جو قربانی سے ڈرتا ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا.وہ ایک مردہ اور ایک بوجھ ہے اور اس کا وجود کچھ بھی مفید نہیں.جب تک انسان اس نیت کو لیکر کام کو نہ نکلے کہ خواہ کچھ بھی ہو.میں اس مقصد کو پورا کر کے چھوڑوں گا.وہ کبھی اپنے مقصد کو پا نہیں سکتا.حضرت مسیح موعود نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ بعض لوگ چھوٹی قربانی سے ڈرتے ہیں اور ان کو چھوٹی چھوٹی باتوں سے ابتلاء آجاتا ہے ان کو کیا معلوم ہے کہ آئندہ جو راستہ آنے والا ہے وہ کیسا خطرناک اور دشوار گذار ہے.جو کمزور دل ہیں اور ان کے پاؤں نازک ہیں.اور اس کی برداشت نہیں کر سکتے وہ مجھ سے جدا ہو جائیں.یہ بات جو حضرت صاحب نے تمہیں سال پہلے لکھی تھی.آج بھی ویسی ہی درست ہے.ہماری جماعت کے لئے قربانیوں کے زمانہ کو پھیلا دیا گیا ہے.نہیں کہہ سکتے کہ وہ ایام گذر گئے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہماری حالت کی کمزوری اور ہماری ماتحتی کو دیکھ کر قربانی کو پیچھے ڈال دیا ہے ورنہ کوئی قوم نہیں.جس کو اتنی قربانی سے جس قدر ہم نے کی ہے کوئی کامیابی حاصل ہو.حضرت مسیح کے حواری جن پر تم میں سے بہت سے ہنس پڑتے ہونگے.جبکہ انہوں نے مسیح سے ایک وقت میں علیحدگی کا اعلان کیا اور جب مسیح پکڑے گئے.اور ایک عورت نے کہا کہ یہ بھی

Page 350

مسیح کے ساتھ کے ہیں تو انہوں نے مسیح پر لعنت کی.مگر آخر انہوں نے آہستہ آہستہ ترقی کی اور حکومتوں کے ڈرانے کے باوجود انہوں نے خوف نہیں کھایا.وہی جنہوں نے کہا تھا کہ ہم مسیح کو نہیں جانتے.انہوں نے کہا کہ مسیح کے صلیب پر چڑھنے میں ہم نے خدا کو دیکھا.انہوں نے خوشی سے اپنی صلیب کی لکڑیاں اٹھائیں اور پھانسی پر چڑھ گئے.اور مسیح کا انکار نہ کیا.اور اپنے عقیدہ کو نہ چھوڑا.پس جب تک قربانی نہ ہو ترقی نہیں ہوتی.ابھی کل یا پرسوں کے درس میں آچکا ہے کہ بدر کے موقعہ پر کفار میں سے ایک شخص نکلا اور اس نے صحابہ کو دیکھ کر کفار میں جاکر کہا کہ ان سے نہ لڑو.میں ان کے چہروں میں دیکھتا ہوں کہ یہ مرنے یا مارنے کی نیت سے آئے ہیں.واپس ہونے کی نیت سے نہیں آئے.۲؎ یہی چیز تھی جو ان کو کامیابی کی طرف لے گئی.اسی جنگ کے متعلق حضرت عبدالرحمن بن عوف کا واقعہ آتا ہے کہ ان کے ارد گرد دو انصاری لڑکے تھے.انہوں نے جب دیکھا.تو وہ کہتے ہیں کہ میرا دل بیٹھ گیا.کیونکہ میرے دائیں بائیں تو کوئی ہے نہیں.ہم تو چاہتے تھے کہ ان فلموں کا بدلہ لیں جو کفار نے آنحضرت اور مسلمانوں پر کئے ہیں.میں ابھی اس خیال میں تھا کہ ایک لڑکے نے آہستہ سے میرے بازو کو ہلا کر کہا چا.ابو جہل کونسا ہے بنا ہے کہ اس نے رسول اللہ پر بڑے ظلم کئے ہیں.میں اس کو قتل کرنا چاہتا ہوں.ابھی میں اس کو جواب نہ دے سکا تھا کہ دوسرے نے اسی طرح پوچھا تاکہ دوسرے کو پتہ نہ لگے.میں نے اشارہ کیا اور وہ باز کی طرح جس طرح وہ چڑیا پر جا پڑتا ہے.ابو جہل پر جا پڑے.اور اس کو زخمی کر کے گرا دیا.ابو جہل کے بیٹے عکرمہ جو ابھی تک مسلمان نہ ہوئے تھے انہوں نے دیکھا اور ایک کا ہاتھ کاٹ دیا.مگر وہ اپنا کام کر چکے تھے.حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میرے دل میں یہ خیال نہ تھا جو ان بچوں کے دل میں آیا کہ لشکر کے سردار پر حملہ کروں.۳؎ پس جب تک کوئی قوم مرنے کو نہ نکلے وہ زندہ نہیں ہو سکتی.کیونکہ کوئی زندگی موت کے بغیر نہیں.جب تک دانہ مٹی میں نہ ملے شگوفہ نہیں نکالتا.بچہ پیدا نہیں ہو تا جب تک رحم کی تاریکیوں میں سے نہ ہو گزرے.پس قوم ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہ ایک موت اختیار نہ کرے.تم میں سے چھوٹے اور بڑے.پڑھے ہوئے یا بے پڑھے.امیر ہوں یا غریب وہ خواہ کسی طبقہ کے ہوں.اگر وہ اپنے دل میں سچائی کو محسوس کرتے ہیں.اور انہوں نے خدا کا جلوہ دیکھا ہے تو جب تک اس کو دنیا میں پھیلا نہیں لیتے.جب تک یہ فیصلہ نہیں کرتے کہ ہم خدا کے لئے مر گئے.اور ہر ایک چیز کو قربان نہیں کرتے اور اس چیز کو قربان نہیں کرتے جو بڑی سے بڑی ان کے نزدیک ہے.اور ہر ایک چیز کو اس راہ میں حقیر نہیں سمجھ لیتے تو کامیابی کی امید نہیں رکھ سکتے.اور نہ خدا

Page 351

۳۴۵ کے فضل کے وارث ہو سکتے ہیں.تم مت سمجھو کہ بغیر ان راستوں پر چلے جو کامیابی کے لئے مقدر ہیں تم کامیاب ہو جاؤ گے.محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جو نبیوں کے سردار ہیں.اور ہمارے اس زمانہ کے معلم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اور خواہ کچھ بھی مرتبہ ہو تا ہم آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہی ہیں.ان کی جماعت کو اللہ تعالیٰ مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ احسب الناس ان يتركوا ان يقولوا أمنا وهم لا يفتنون (العنكبوت (۳) کیا لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اس بات کے کہنے پر کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دئے جائیں گے.اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی.انہوں نے تکلیف پر تکلیف اٹھائی.اور دکھ پر دکھ برداشت کیا اور خدا کی راہ میں قتل ہوئے.اور جب تک ان تکالیف کو برداشت نہیں کیا کامیاب نہیں ہوئے.تم مت سمجھو کہ ان قربانیوں پر جو کرتے ہو.تم کو ترقی حاصل ہوگی.یاد رکھو کہ اگر قربانی نہیں تو کوئی ترقی نہیں.ہماری یہ قربانیاں بڑی قربانیاں نہیں.یہ تو خدا تعالیٰ نے ہماری کمزور حالت کو دیکھ کر ہم سے بڑی قربانیوں کو پیچھے ڈال دیا ہے.جن میں سے ہمیں کامیابی سے پہلے گذرنا پڑے گا.ان قربانیوں کے لئے نفسوں کو تیار کرو.پھولوں کی سیج پر بیٹھ کر کوئی شخص خدا کو نہیں پاسکتا.کانٹوں میں سے گزر کر نہیں بلکہ تلواروں کے سائے میں سے گزرنا ہو گا نازک بدنی چھوڑ دو.آج کل ایسے لوگ بھی ہیں جو تھوڑی سی مالی قربانی پر گھبرا جاتے ہیں.مگر اپنے دلوں کو تیار کرو کہ مال قربان کرنے پڑیں گے.رشتہ داروں کو چھوڑنا پڑے گا.اپنے نفسوں میں مضبوطی پیدا کرو کہ اگر خدا تمہارا امتحان لے تو تم اس امتحان میں کامیاب نکلو.میرا یہ مطلب نہیں کہ تم ابتلا کی خواہش کرو کیونکہ اس سے منع کیا گیا ہے.بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ تم یہ نیت کر لو کہ اگر کوئی ابتلاء آئے تو وہ تمہارے ایمان کے اندر مضبوطی پائے.اور وہ مصیبت تمہارے ایمان کی عمارت کو ڈھانے والی نہ ہو.پھر کامیابی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وحدت ہو.یاد رکھو کہ ترقی کے لئے خیالات و عقائد کے ساتھ عملی وحدت ہو.تم میں بعض ایسے بھی ہیں جو روپیہ کے معاملہ میں.زمین کے معاملہ میں جھگڑتے ہیں حالانکہ اتحاد کے قیام کے لئے حقوق کا قربان کرنا ضروری ہوتا ہے.جب حضرت معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو اپنا ولی عہد مقرر کیا.تو اس مجلس میں حضرت عبداللہ بن عمر بھی بیٹھے تھے.حضرت معاویہ کا یہ فعل درست نہ تھا.کیونکہ اسلام میں حکومت میں وراثت نہیں.یہ نہیں ہو سکتا کہ باپ اپنے بیٹے کو مقرر کرے.بلکہ یہ اختیار اور حق مسلمانوں کا ہے کہ وہ جس کو چاہیں انتخاب کریں.کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی اولاد کو ورثہ کے طور پر بادشاہت دے جائے.معاویہ نے کہا کہ کوئی ہے جو میرے بیٹے سے زیادہ مستحق ہو.حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ میں نے اپنا کپڑا جو بیٹھنے کے لئے اپنی ٹانگوں کے گرد ڈالا تھا کھولا اور بات کرنے کے لئے آمادہ ہو

Page 352

۳۶ ہے مستحق کر گردن اٹھائی آپ فرماتے ہیں کہ اس وقت میرے دل میں آیا کہ میں کہوں کہ ہاں وہ شخص ہے کہ جس کا باپ اسلام کی طرف سے لڑا.اور وہ خود بھی اسلام کی طرف سے لڑا.جبکہ تم اور تمہارا باپ کافروں کی طرف سے لڑ رہے تھے مگر میں اس خیال سے خاموش رہا کہ مسلمانوں میں تفرقہ نہ پڑ جائے.ہے.یہ وہ شخص ہیں جن کو لوگوں نے خلافت کے لئے اس وقت پیش کیا.جبکہ معاویہؓ اور حضرت علی کی جنگ تھی.اور تجویز کی گئی تھی کہ حضرت علی کو برطرف کر کے ان کو خلیفہ بنایا جائے.میں سمجھتا ہوں کہ ایسا شخص اگر بولتا تو کئی اسلامی ممالک اس کے ساتھ ہو جاتے مگر اس نے بادشاہت پر نظر نہ کی اور وحدت اور اتفاق کو مقدم سمجھا.پھر یہ بات ہے کہ جب تک تم میں منافق ہیں.وہ وحدت کے راستہ میں روک ہیں.وحدت کے لئے ضروری ہے کہ منافقوں کو نکالا جائے.منافق کا سلسلہ سے کاٹنا اپنے اہم فرائض میں سے سمجھو.ترقیات کے لئے ضروری ہے کہ منافق کا بھانڈا پھوڑا جائے.اور ان کا کھوج لگایا جائے.قرآن کریم نے بتایا ہے کہ صحابہ کے وقت میں منافقوں کی ذرہ ذرہ سی باتیں رسول کریم کو پہنچتی تھیں.اور اسی لئے منافق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے تھے."موانن" (التوبة ) اس کا کا تو سارا جسم بھی کان ہی کان بن گیا ہے.جب تک معلوم نہ ہو کہ کون کون منافق ہے.اتحاد کی نگرانی نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ لوگ فتنہ ڈالتے رہتے ہیں.میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے نفسوں کو آمادہ کرو کہ خدا کی طرف سے جو آزمائش آئے اس میں پورے اترو اور اس پر راضی ہو جاؤ.ابھی پچھلے دنوں چندوں کے لئے کہا گیا تھا.جن لوگوں کے دلوں میں کچھ تکلیف محسوس ہوئی ہے وہ سمجھیں کہ وہ پیچھے ہیں.ابھی وقت آتا ہے کہ اس سے زیادہ مانگا جائے گا.اور جو لوگ نماز با جماعت میں ست ہیں.وہ بھی سمجھیں کہ وہ بہت پیچھے ہیں.اور نماز باجماعت میں سستی میں ایک نفاق کا شعبہ ہے.دوسری نصیحت یہ ہے کہ خواہ کوئی قربانی ہو.جب تک وحدت نہ ہو وہ قربانی کچھ نہیں کر سکتی.اور وحدت کے قیام کے لئے منافقوں کی خبرداری رکھو.اور ان کے متعلق اطلاع دو.یہ نصیحتیں ہیں ان کو یاد رکھو اور ان پر عمل کرو.خدا تعالی تمہیں کامیاب کرے.جب دوسرے خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا کہ ایک اور بات ہے.آج ایک خط آیا ہے جو ایک علاقے کے بھائیوں کے متعلق وحشت ناک خبر ہے ابھی یہ افواہ ہے.اور خط لکھنے والا وہاں کا رہنے والا نہیں اس لئے میں اس کو مخفی رکھتا ہوں جب تک کہ اس کے متعلق صحیح معلوم ہو.چاہئیے کہ آپ لوگ دعا کریں کہ اگر یہ صحیح ہو اور کوئی فتنہ ہو تو اللہ تعالی اس فتنہ کو دور کرے.ان فتنہ انگیزوں کو ہدایت دے یا اپنی گرفت میں لے.تاکہ ہمارا راستہ بند نہ ہو.اگر یہ خبر غلط ہے تو

Page 353

۳۴۷ ہمیں خوش خبری پہنچائے اور اس سے ہمارے دلوں کو راحت دے.اس متی ۰۲ ابن سعد و ابن ہشام بحوالہ سیرت خاتم النبین حصہ دوم ص ۱۳۵ بخاری کتاب المغازی باب مقتل ابی جهل ☑ بخاری کتاب المغازی باب غزوة الخندق الفضل ۲۸ اگست ۱۹۲۲ء)

Page 354

65 حقیقی موحد بننے کی نصیحت (فرموده ۲۵ / اگست ۱۹۲۲ء) حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.دنیا میں مختلف لوگوں کی مختلف خواہشات ہوتی ہیں.کوئی مال کے حاصل کرنے کے پیچھے لگ جاتا ہے.پھر مال کے حاصل کرنے کے مختلف ذرائع ہوتے ہیں.کوئی کوئی ذریعہ استعمال کرتا ہے کوئی کوئی.کچھ ایسے ہوتے ہیں جو دنیا میں زمین کو پسند کرتے ہیں.ان کو دن رات اس کی دھن لگتی رہتی ہے.کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کو عہدوں کو خیال ہوتا ہے.اور وہ دن رات افسروں کی خوشامدوں میں لگے رہتے ہیں.کچھ لوگ اس خیال کے ہوتے ہیں کہ لوگ ان کو اچھا کہیں.کئی لوگ علم کا شوق رکھتے ہیں اور نئی بات کے دریافت کرنے کی فکر میں ہوتے ہیں.کوئی ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو پڑھنے کا شوق ہوتا ہے ان کا یہی شغل ہوتا ہے کہ جو کتاب اٹھائی پڑھنے لگے.غرض مختلف مقاصد اور میدان ہوتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ سب مقاصد کو ترک کر کے اللہ تعالیٰ ہی بندوں کا مقصد بن جائے.خدا تعالیٰ چاہتا ہے اور سب کام چھوڑ دیں.اور اسی کو اپنا مقصد بنالیں.اس کے دو ذریعہ ہیں اول یہ کہ وہ چیزیں بندوں کو چھوڑ دیں دوسرے یہ کہ بندہ ہی ان کو چھوڑ دے اور واقعہ میں یہی دو طریق ہیں کہ ان کے ذریعہ خدا تعالٰی ملتا ہے.اگر ایک انسان میں نیکی ہوتی ہے.تو وہ دنیا کو خود چھوڑ دیتا ہے.اور اگر اس میں گند ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے دنیا چھڑا دیتا ہے.یہی وجہ ہے کہ جو نبی آتے ہیں وہ بشارتیں بھی لاتے ہیں اور انذار بھی.بشارت ان کے لئے جو دنیا کو خود چھوڑ دیتے ہیں اور ڈراتے ان کو ہیں جو دنیا کو خود نہیں چھوڑ سکتے.مصائب آتے ہیں اور ان سے مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان خدا کی طرف متوجہ ہو.لیکن جو لوگ دنیا کو چھوڑتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ اس لئے مصیبت نہیں ڈالتا کہ ان کو ہلاک کرے.بلکہ اس لئے ان پر ابتلا لاتا ہے کہ دنیا کو دکھائے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں ہو کر دنیا سے الگ ہیں.اور یہ اللہ تعالیٰ کے انعام :

Page 355

۳۴۹ کے مستحق ہیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ لوگ دنیا کے تارک اور راہب ہو جاتے ہیں بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ اسلام بتاتا ہے کہ دنیا میں ہو کر دنیا سے الگ رہو.اسلام یہ تعلیم نہیں دیتا کہ کوئی شخص اپنی تجارت کو تباہ کر دے.اپنی زمینداری کو برباد کر دے.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لا رهبانية في الاسلام اے کہ انسان اپنے کاروبار کو چھوڑ کر ایک گوشہ میں چلا جائے.اسلامی طریق یہ ہے کہ دنیا میں رہ کر دنیا سے الگ رہو.صحابہ میں اس کی نظیریں ملتی ہیں.حضرت عبدالرحمن بن عوف جو بہت بڑے صحابی تھے اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے.جن کو اس دنیا میں ہی جنت کی بشارت مل گئی تھی.وہ تجارت کیا کرتے تھے.جب فوت ہوئے تو کئی کروڑ روپیہ ان کے گھر سے نکلا.ان کی آمد کا یہ حال تھا کہ ایک ہزار روزانہ صدقہ کرتے تھے.مگر ان کا ذاتی ایک مہینہ کا بھی ایک ہزار خرچ نہ تھا.۲؎ اسلام یہ نہیں کہتا کہ دنیا نہ کماؤ.بلکہ اس سے روکتا ہے کہ اس کو معبود بناؤ.ایک لطیفہ ہے تاریخوں والے لکھتے ہیں اور میں اس کو لطیفہ ہی کہوں گا کہ حضرت امام حسن نے حضرت علی سے پوچھا کہ کیا آپ کو مجھ سے محبت ہے.آپ نے فرمایا ہاں.پھر کہا کہ خدا سے محبت ہے آپ نے فرمایا ہاں.حضرت حسن نے کہا تو آپ مشرک ہوئے.آپ نے فرمایا کہ نہیں جہاں تمہاری محبت خدا کی محبت کے مقابلہ میں آئے گی تو تمہارا قتل بھی مجھ پر اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کچھ مشکل نہیں ہو گا.۳.گو اس کو واقعہ بتایا ہے مگر حضرت امام حسن حضرت علی کا علم میں مقابلہ نہیں کر سکتے تھے.مگر خواہ کچھ ہو اس واقعہ میں صداقت ہے.کہ نیکی یہ ہے کہ دنیا میں ہو کر دین ہو.صحابہ کے متعلق کہیں نہیں ملتا کہ انہوں نے کام چھوڑ دیا ہو.حضرت ابو بکر حضرت عثمان تجارت کیا کرتے تھے.مکہ میں زمینداری نہ تھی.جب ہجرت کر کے آئے تو تجارت ہی کیا کرتے تھے.حضرت علی مختلف کام کر لیا کرتے تھے.زمینداری بھی اور کبھی گھاس کاٹ لاتے اور بیچ دیا کرتے تھے.۴.یہ نہیں کہ دنیا کو چھوڑ دیں باوجود اس کے جب خدا کی آواز آئی.تو انہوں نے اپنے کام کی پروا نہیں کی اور خدا کی آواز پر دوڑ پڑے.خدا کی آواز پر قربانی تو کرنی ہی تھی.خدا کے رسول کی آواز پر بھی اسی طرح قربانی کرتے تھے.ایک دفعہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ فرما رہے تھے.اور کسی شخص کو آپ نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ.مسجد کے باہر حضرت عبداللہ بن مسعود آرہے تھے وہ وہیں بیٹھ گئے.اور بیٹھے بیٹھے مسجد میں آئے.۵.وہ لوگ اللہ کی آواز پر کان دھرتے تھے.اور رسول کی آواز پر بھی توجہ کرتے تھے.آج کل کے لوگ خواہ عبداللہ بن مسعود کو پاگل کہیں.لیکن ان کو اس بات کی پروا

Page 356

۳۵۰ نہ تھی.کہ لوگ ان کو کیا سمجھتے ہیں.ان کو اس میں مزا آتا تھا کہ جو آنحضرت فرمائیں وہ اس کو مان لیں.جب تک کوئی شخص اللہ کی آواز پر دیوانہ نہ ہو جائے اس کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوتا.اسلام کہتا ہے مال کماؤ خوب کماؤ.تجارت کرو ، خوب کرو.لیکن یہ نہ ہو کہ ان کاموں میں پڑ کر خدا کو بھلا دو.بے شک مال بڑھائیں مگر خدا کی آواز پر کان دھریں.زمین بڑھائیں اور بہت بڑھائیں لیکن جب خدا کی طرف سے آواز آئے تو پھر اس کی پروا نہ کریں.اس وقت یہ خیال دل میں نہ آئے کہ اگر روپیہ بچ گیا تو مربع خریدیں گے.اگر اس وقت روپیہ کو اور زمین کو خدا پر مقدم کیا گیا تو وہ خدا کا شریک ہوگا.اگر خدا کی آواز پر تجارت یا زراعت کو مقدم کیا گیا تو وہ بت ہو گا.اگر کوئی شخص جان خرچ کرنے سے ڈرے تو اس کی جان بہت ہوگی.یاد رکھو کہ ہر ایک چیز جس کو انسان خدا کے لئے قربان نہیں کر سکتا.اس کو وہ خدا کا شریک بناتا ہے.جو شخص ہر ایک پیاری سے پیاری چیز کو خدا کے نام اور اس کے رسول اور خدا کے دین کی اشاعت میں لگانے کے لئے تیار نہیں ہوتا.وہ موحد نہیں ہو سکتا.وہ مشرک ہے اور اس شرک کو اپنے اپنے دل سے نکالنا چاہیے.کیونکہ قربانی کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی.لیکن میں کہتا ہوں کہ ترقی کو جانے دو کہ یہ بھی ایک دنیاوی چیز ہے.بلکہ میں کہتا ہوں خدا نہیں مل سکتا جب تک قربانی نہ کی جائے.آج جان کی قربانی کا موقع نہیں لیکن پچھلے دنوں ایک ایک مہینہ کی آمد کا دین کے لئے مطالبہ کیا گیا تھا.مگر اس میں زمیندار فیل ہو گئے.دوسرے لوگوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کر کے یعنی ملازموں اور تجارت پیشہ لوگوں نے اپنی ایک ایک ماہ کی آمد دی.مگر زمینداروں نے بالعموم اس میں کم حصہ لیا.اور عذر یہ کیا کہ اس دفعہ غلہ ستا ہو گیا.مگر وہ یاد رکھیں کہ جو نرخ غلہ کا پچھلے دنوں میں بوجہ قحط سالی کے رہا ہے وہ اب نہیں ہو سکتا.کیونکہ یہ قاعدہ نہیں کہ ہمیشہ قحط رہے.یہ ایک عارضی بات تھی.لیکن افسوس ہے کہ لوگ اس کی وجہ سے ثواب سے محروم رہے.یہاں کے زمینداروں کے متعلق مجھ کو معلوم نہیں باہر کے زمینداروں کا حال مجھ معلوم ہے.اس لئے میں ان کو متوجہ کرتا ہوں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ اور لوگوں نے اپنا فرض مکمل طور پر ادا کر دیا ان میں بھی ہیں جنہوں نے توجہ نہیں کی.علاوہ ازیں کئی لوگ ہیں جو نماز با قاعدہ نہیں پڑھتے اور کئی کے اخلاق حسنہ میں کمی ہے کتنے ہیں جو تبلیغ میں ست ہیں اللہ تعالیٰ جماعت کو سمجھنے کی توفیق دے.اور ہر ایک شرک کی بات سے بچائے.کیونکہ ہر ایک چیز جو خدا کی راہ میں مقدم کی جاتی ہے خواہ وہ کتنی ہی حقیر ہو.خدا کی شریک بنائی جاتی ہے.اللہ تعالٰی اس کو سمجھنے اور شرک سے بچنے اور نیکی اور تقویٰ کی راہوں پر چلنے کی توفیق دے.الفضل ۴ ستمبر ۱۹۲۲ء)

Page 357

۳۵۱ ا مسند احمد بن حنبل جزوه ص ۲۳۶ ۲ اصابه جلد ۴ و سیرا لصحابه جلد اول ص ۱۳۰ مسند احمد بن حنبل جزء ۳ ص۸۶ بخاری کتاب المساقاة باب بيع الخطب والمكلاء ه ابوداؤد کتاب الصلاة باب الامام يكلم في خطبته

Page 358

۳۵۲ 66 موجودہ افسوس ناک حالت (فرموده یکم ستمبر ۱۹۲۲ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ ہر ایک چیز ایک تغیر اور ایک عرصہ کے بعد خراب ہو جاتی ہے.پھلوں میں سے سیب، آم، انار، انگور بهترین ثمرات ہیں.بادشاہ سے لیکر غریب تک سب ان کو کھاتے اور خوش ہوتے ہیں لیکن جب ایک تغیر کے بعد ان میں کیڑے پڑ جاتے ہیں تو غریب آدمی بھی ان کو کھانا پسند نہیں کرتا.اس تغیر سے پہلے وہ خوبصورت ہوتے ہیں ان میں خوشبو ہوتی ہے ان میں مٹھاس ہوتی ہے.لیکن پھر بد صورت ہو جاتے ہیں.ان میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے کڑویے ہو جاتے ہیں.پہلے ان کو دیکھنے سے آنکھوں کو سرور ہوتا تھا.خوشبو سے دماغ کو فرحت ہوتی تھی.زبان کو مزہ آتا تھا.ہاتھ خوشی سے پکڑتے تھے مگر تغیر کے بعد انہیں نہ آنکھ دیکھنا چاہتی ہے نہ ناک سونگھنا اور نہ زبان چکھنا اور نہ ہاتھ چھونا چاہتے ہیں اگر وہ ہاتھ کو لگ جائیں تو نجاست کی طرح سمجھے جاتے ہیں اور ہاتھ کو دھو لیا جاتا ہے.اس تغیر کی وجہ کیا ہوتی ہے.یہی کہ وہ پھل اپنے اصل سے کٹ چکا ہوتا ہے.جڑ نے اس کو رزق پہنچانا بند کر دیا ہوتا ہے.اور اگر وہ درخت کے ساتھ ہی تو بھی خدا کے ایک قانون کے ماتحت ایک مدت کے بعد وہ خراب ہو جاتا ہے.اور سڑ جاتا ہے.یہی حال قوموں کا ہوتا ہے.ایک وقت میں ان پر فخر کیا جاتا ہے.مگر جب وہ بگڑ جاتی ہیں تو اپنے پرائے ان کو نفرت سے دیکھتے ہیں.ایک زمانہ میں مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ ان کے کاموں کی دشمن بھی تعریف کرتے تھے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نجد کا ایک وفد آیا تھا کہ ایک صحابی ہمارے ساتھ بھیج دیجئے جو ہمارے فیصلے کیا کرے یہ لوگ عیسائی تھے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی حکومت نہ تھی.پھر وہ کیوں آئے؟ اس لئے کہ مسلمانوں میں ایسی خوبیاں تھیں.جو سب کو بھاتی تھیں.جو ان سے معاملہ کرتا تھا.خوش ہو تا تھا.وہ سب کی بھلائی کرتے تھے اور سب سے ہو.

Page 359

۳۵۳ حسن معاملہ کرتے تھے.اسلامی فتوحات کے زمانہ میں جبکہ اسلامی لشکر روم کے علاقہ میں گھسے جا رہے تھے ایک موقع ایسا آیا کہ مسلمانوں کی فوج تھوڑی تھی.اور مقابلہ کے لئے رومیوں کا لشکر بہت زیادہ آگیا اور مسلمانوں کو اپنے مقبوضہ اور مفتوحہ علاقے سے ہٹنا پڑا.اس وقت مسلمانوں نے کیا کیا؟ آج جبکہ تہذیب و تمدن کے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں.جب فوجیں کسی علاقہ سے ہٹائی جاتی ہیں تو اس کو تباہ کر دیتے ہیں.اسی جنگ میں یورپ میں تہذیب کے دعوے کے باوجود یہ حالت تھی کہ اتحادی جب بڑھتے تھے تو علاقہ کو تباہ کرتے تھے.اور جب ہٹتے تو تباہ کرتے تھے.اور لوٹ لیتے تھے.اس لئے کہ جرمن والے اس سے فائدہ نہ اٹھائیں.اور یہی حال جرمن والوں کا تھا ایک شخص میرے پاس ایک کتاب تحفہ لایا.اور اس نے مجھے کو بتایا کہ اس طرح لوٹ میں میرے ہاتھ آئی ہے.اور کہا کہ اور لوگ بھی لوٹتے تھے.میں نے بھی یہ کتاب لے لی.میں نے اس کو کہا کہ میں یہ کتاب نہیں لیتا انہی کو دو جو اس کو جائز سمجھتے ہیں.تو جو لوگ صداقت سے دور ہوتے ہیں وہ اس بات کے باوجود کہ لوٹنا منع ہے.مفتوحہ علاقہ کو لوٹنے سے نہیں ڈرتے.انہی کے قاعدے کے مطابق مسلمان جب وہاں سے لوٹ رہے تھے.تو اس علاقہ کو لوٹ اور آگ لگا سکتے تھے.لیکن حضرت عمر کے جرنیل اور اسلامی لشکر کے سپہ سالار ابو عبیدہ نے وہ ٹیکس جو لوگوں سے وصول کیا جا چکا تھا یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ یہ ہم نے تمہاری حفاظت کے وعدے پر لیا تھا.مگر اب چونکہ ہم تمہاری حفاظت نہیں کر سکتے.اس لئے ہم واپس کرتے ہیں.تم یہ لے جاؤ.اور اس کا معاملہ بھی واپس کر دیا.کہ یہ ہمارے لئے جائز نہیں.ان اخلاق کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب مسلمان اس علاقہ سے نکل رہے تھے تو وہ لوگ جو عیسائی تھے.روتے تھے.کہ مسلمان ہمیں چھوڑ چلے.ان کو مسلمانوں کے جانے کا غم تھا.اور عیسائی بادشاہ کی حکومت آنے اور اپنی ہم مذہب سلطنت کے قائم ہونے کی خوشی نہ تھی.بلکہ رنج تھا...مگر آج جو مسلمانوں کی حالت ہے اس پر سب نفرین کرتے ہیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک امیر کو فرمایا کہ آپ مسلمان نوکر کیوں نہیں رکھتے.اس نے جواب دیا کہ مسلمان خائن ہوتے ہیں.اس لئے ہندو ملازم رکھتا ہوں کہ ان میں یہ بات نہیں.یہ غیروں کی مسلمانوں کے متعلق رائے نہیں.بلکہ مسلمانوں کی مسلمانوں کے متعلق رائے ہے.اسی طرح ہندوستان میں تم دیکھ لو کہ ہندو سکھ مل جائیں گے حکومت کے عمال ان کی رعایت کریں گے کیونکہ مسلمانوں کو جب عہدے ملتے ہیں تو وہ اپنی تیزی اور تندی اور بد اخلاقی سے مسلمانوں کو بھیانک صورت میں دوسروں کو دکھاتے ہیں.

Page 360

۳۵۴ سورۃ فاتحہ میں اسی کی طرف توجہ دلائی گئی.فرمایا اهدنا الصراط المستقيم صراط الذین انعمت عليهم کہ کوئی قوم نہیں جو منعم علیہ ہو اور پھر مغضوب نہ ہوئی ہو.اس لئے جہاں صراط المستقیم کی دعا کرتے رہو.وہاں غیر المغضوب عليهم ولا الضالين بھی کہو.یہ قومی زوال سے محفوظ رہنے کی دعا ہے.کیونکہ افراد میں بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ولایت اور قرب الہی کے مقام سے تنزل کریں.لیکن قومیں ہمیشہ اعلیٰ مقام سے تنزل کرتی رہتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ اهدنا فرمایا ہے اهلنی نہیں فرمایا جس کو میں" کہتے ہیں وہ کم گمراہ ہوتا ہے.ہاں جماعتیں گمراہ ہو جایا کرتی ہیں.لوگ نیک ہوتے ہیں مگر ان کے بعد آنے والے ناخلف ہو جاتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ "میں" کی جگہ "ہم" سکھایا.چونکہ "میں" گمراہ نہیں ہو تا الا ماشاء اللہ.اور "ہم" گمراہ ہو جاتے ہیں.اس لئے "ہم" کی حفاظت کے لئے یہ دعا سکھائی گئی کہ "ہم" ترقی کر کے پھر گر نہ جائیں.پس یاد رکھو کہ صحابہ کرام جو دعا کرتے تھے.اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ میں ابوبکر ابو جہل نہ ہو جاؤں یا میں عثمان ابو جہل نہ ہو جاؤں یا میں علی ابو جہل نہ ہو جاؤں بلکہ یہ کہ قوم کہیں خراب نہ وہ جائے.اور وہ مغضوب اور ضال نہ ہو جائے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مغضوب اور ضال کے متعلق پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ وہ کون لوگ ہیں.تو آپ نے فرمایا کہ وہ یہود اور نصاریٰ ہیں.جن کی تم اتباع کرو گے.اور فرمایا لتتبعن سنن الذين من قبلکم.اور آپ نے اس قدر زور دیا کہ فرمایا تم ہر ایک وہ برا کام کرو گے.جو وہ کرتے تھے.یہ پیشگوئی آئندہ آنے والے مسلمانوں کے لئے تھی چنانچہ اب دیکھ لو وہ کونسے عیب تھے.جو یہود میں پائے جاتے تھے اور جن کی وجہ سے مسلمانوں کو ڈرایا گیا تھا.وہ مسلمانوں میں نہیں پائے جاتے.جس طرح وہ کتاب اللہ میں تغیر و تبدل کرتے تھے اسی طرح مسلمانوں نے تفسیروں میں کیا.جس طرح وہ سبت میں اعتدی کرتے تھے.اس طرح یہ سبت میں زیادتی کرتے ہیں.سبت کے معنی راحت کے بھی ہیں.جب مسلمانوں کو راحت ملتی ہے تو خدا کو بھول جاتے ہیں.بڑے بڑے ہندو راجے بھی اپنے مندروں میں جاتے ہیں اور معبودوں کی پرستش کرتے ہیں لیکن مسلمانوں میں سے جس کو روٹی کھانے کو مل جاتی ہے وہ شداد کا ہمسر ہو جاتا ہے.بلکہ اس سے بھی بڑھ کر.کیا کوئی مسلمان نواب ہے.جو میں مسجد میں آکر پانچوں وقت باجماعت نماز پڑھتا ہو.یہ لوگ مسجد میں آنا اپنی ہتک سمجھتے ہیں.جس کو دیکھو فرعون کا بھائی بنا ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ.ان کے مقابلہ میں ہندو راجے کئی کئی گھنٹے تپسیا میں لگے رہتے ہیں.اور ایسے موقع پر جس میں دنیا دار لوگوں کی غفلت ہو جاتی ہے وہ عبادت کو نہیں چھوڑتے ہمارے موجودہ بادشاہ جب دلی میں آئے تو اس وقت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی جو میرے ماموں ہیں.کیمپ میں ڈیوٹی لگی

Page 361

۳۵۵ تھی.ایک صبح کو ان کے پاس آدمی آیا.اور ان کو کہا کہ مہاراجہ صاحب در بھنگہ عبادت کر رہے تھے.جس میں اس قدر محویت ہوئی کہ پیچھے آگ کی انگیٹھی تھی.جس سے پیٹھ لگ کر جل گئی.اس سے پتہ لگتا ہے کہ ان کو کس قدر محویت تھی کہ ان کی پیٹھ جل گئی اور ڈاکٹر کو بلانا پڑا.لیکن دوسری طرف مسلمان نوابوں نے شاید ساری رات دربار میں شمولیت کی تیاری میں ہی صرف کر دی ہوگی.غرض مسلمانوں کی حالت بالکل یہود کے مشابہ ہو گئی ہے.میں نے الفضل میں ایک نوٹ پڑھا ہے جس میں حسن نظامی کے ایک مضمون کے اقتباس درج ہیں حسن نظامی وہی شخص ہے جس نے مجھ کو ایک دفعہ مباہلہ کا چیلنج دیا تھا.مگر پھر ایسا ذلیل ہوا کہ غیر احمدی اخبارات نے اس کو شرمندہ کیا.اب اس نے ایک جھوٹا قصہ بنایا ہے کہ قادیان کے سب احمدی لنڈن چلے گئے ہیں.اور مرزا صاحب کی قبر کے پاس ایک گنوشالہ بنایا گیا ہے اور قادیان میں جس جگہ مرزا قادیانی رہتے تھے وہاں آج کل ایک سرائے بن گئی ہے.اور رات کو وہاں ایک روح ظاہر ہوتی ہے.جس سے لوگ ڈر کر بھاگ جاتے ہیں.وغیرہ وغیرہ.آخر یہ لوگ رسول کی طرف منسوب ہوتے ہیں.مگر ایسی گندی باتیں دوسروں کے بزرگوں کی طرف منسوب کرنے سے نہیں شرماتے.اور یہ ایسی باتیں کرتے ہیں کہ کوئی شخص شرفاء کے لئے اس قسم کی باتیں کرنا پسند نہیں کرتا.حتی کہ چوہڑے چمار بھی اس قسم کی باتیں نہیں کرتے.کیونکہ یہ لوگ بھی دوسروں کے بزرگوں کا ادب کرتے ہیں اور کہتے ہیں نہ جی وہ بڑے مہاتما تھے.مگر افسوس یہ لوگ چوہڑوں سے بھی گر گئے اور ان سے بھی ان کی حالت بد تر ہو گئی.یہ مضمون پڑھ کر مجھ کو افسوس بھی ہوا اور خوشی بھی.افسوس تو اس بات کا کہ مسلمانوں میں تم کے لوگ پیدا ہو گئے ہیں.اور خوشی اس بات کی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہو گئی ہے کہ یہ لوگ یہود کے قدم بقدم چلیں گے.یہود نے بھی مسیح اول کے متعلق کہا تھا کہ اس کی لاش بہت بری طرح کچلی ہوئی آسمان اور زمین کے درمیان لٹکی ہوئی ہے.اسی طرح حسن نظامی نے یہودیوں کے فقیہوں اور فریسیوں کی نسل سے ہونے کا ثبوت دیا ہے.کیونکہ جن لوگوں جیسے کوئی کام کرتا ہے وہ انہی میں سے ہو جاتا ہے.حضرت مسیح نے یہودیوں کے فقیہوں اور فریسیوں کو کہا کہ تم ابراہیم کی اولاد نہیں ہو بلکہ شیطان کی اولاد ہو.کیونکہ تم ابراہیم کے سے کام نہیں کرتے بلکہ شیطانی کام کرتے ہو.اسی طرح خواہ کوئی سید ہو یا مغل یا پٹھان اس کے کام دیکھے جائیں گے کہ وہ کس قسم کے کرتا ہے.پھر جن لوگوں کی مانند کام کرے گا انہیں میں سے سمجھا جائے گا.ہمارے مخالف حضرت مسیح کے زمانہ کے فقیہوں اور فریسیوں کی مانند ہیں.ان میں سے کوئی یہودا اسکر یوطی کی مانند ہے.جس نے اپنا آقا کے خلاف گواہی دی اور ان کو صلیب پر

Page 362

۳۵۶ چڑھوا دیا.ان لوگوں کو جھوٹ بولنے اور الزام لگانے میں ذرا بھی شرم و حیا نہیں آتی.اس شخص کو خیال کرنا چاہئیے کہ اگر ایسا ہی قصہ کوئی شخص نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لکھے کہ آپ کی قبر پر گوشالہ بنایا گیا ہے.تو ایسے خبیث انسان کو مسلمان کیا کہیں گے.یہ لوگ اس شخص کو جو کچھ کہیں گے.وہی خود اس کو اپنے متعلق سمجھنا چاہیئے.کا لیکن ان کے اس قسم کے اقوال اور ان حرکات سے جہاں ہمیں افسوس ہوتا ہے وہاں خوشی بھی ہوتی ہے کہ رسول کریم کی پیشگوئی پوری ہوئی اور اس پیشگوئی نے تیرہ سو برس بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر گواہی دے دی کہ وہ جھوٹے اور مفتری نہ تھے.کیونکہ آپ نے جب یہ فرمایا کہ تم مغضوب اور ضال ہو جاؤ گے.تو اس وقت آپ کے سامنے وہ لوگ تھے جو آپ پر جان دینے والے تھے.یعنی ابو بکر ، عثمان ، عمر ، علی ، طلو ، زبیر زید ابو ہریرہ سعد بن عبادہ ، جیسے لوگ تھے جو دشمن کے مقابلہ سے ہٹتے نہ تھے.اور اسلام پر اپنا سب کچھ قربان کرنے والے تھے اس وقت اس پیشگوئی کے بیان کرنے کا یہی مطلب تھا کہ آئندہ رسول کریم کی طرف منسوب ہونے والے ایسے لوگ ہونگے.چنانچہ اب ایسے لوگ ظاہر ہو گئے اور انہوں نے یہود کی مثال کو زندہ کر دیا.اور حسن نظامی نے ثابت کر دیا کہ وہ یہود کے قدم بقدم چل رہا ہے.ایک وقت میں ابو جہل نے جو کیا ہے.کوئی تعجب نہیں اگر آج حسن نظامی وہی حرکتیں کرتا ہے.لیکن اس میں ایک سبق اور ایک عبرت ہے.خوشی اس بات کی ہے کہ جو یہود نے مسیح اول سے کیا وہی ان لوگوں نے مسیح ثانی کے متعلق کیا.مگر رنج اس بات کا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے لوگوں کی یہ حالت ہو گئی.ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ ان لوگوں کی حالت سے سبق حاصل کرے.اور اپنے اخلاق کی نگرانی کرے.کہ یہ نتیجہ کثرت سے گندے اور جھوٹے قصے پڑھنے اور لکھنے کا ہے ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ ناول یا قصے لکھنے سے پر ہیز کرے.کیونکہ جن کو جھوٹ کی عادت ہو جاتی ہے.اس کے دل سے صداقت کی قدر نکل جاتی ہے.اور پھر اس کا قدم خطرناک باتوں کی طرف اٹھ جاتا ہے.گو نادانوں سے فائدہ بھی ہوا ہے مگر یورپ کے لوگوں کا کثرت سے ناول لکھنے اور پڑھنے کا باعث یہ حال ہو گیا ہے کہ ان میں سے صداقت مٹ گئی ہے.چونکہ مسلمان بھی قصوں میں پڑ گئے ہیں اس لئے ان کو جھوٹ بولتے ہوئے ذرا بھی خیال نہیں آتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں یہی حال انکی تفسیروں کا ہے ان میں روائتیں بھری ہوئی ہیں.اور اب یہ لوگ جھوٹ شیر مادر کی طرح استعمال کرتے ہیں.ہماری جماعت کو چاہیے کہ اس شغل سے پر ہیز کرے.اللہ تعالٰی ہماری جماعت کو کہ یہ اس کی آخری جماعت ہے فتنہ سے بچائے.(الفضل 6 ستمبر ۱۹۲۲ء) ا کتاب الخراج بحوالہ پر بینک آف اسلام مصنفه تامس آرنند مخلوة 1 - سابع تاب الانذار وا خذی باب تغير الناس

Page 363

۳۵۷ 67 ہماری ذمہ واری عظیم الشان ہے (فرموده ۸ / ستمبر ۱۹۲۲ء) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.انسان جب کوئی کام شروع کرتا ہے تو پہلے اندازہ کر لیتا ہے کہ کتنا بڑا کام ہے.اس کے مطابق پھر وہ اپنی طاقت خرچ کرتا ہے.اگر کام بڑا ہو تو زیادہ محنت اور کوشش کرتا ہے.اور اگر چھوٹا ہو تو اس کے مناسب زور لگاتا ہے یہ بات ایسی ضروری سمجھی گئی ہے.اور اس کی خلاف ورزی میں اتنے نقصان سمجھے گئے ہیں.کہ خدا نے ایک ایسی قوت پیدا کی ہے.جو بتاتی ہے کہ کسی کام کے لئے کتنی قوت ضروری ہے.جیسے کان ہیں جو سن کے جتاتے ہیں کہ کیسی آواز ہے کس قسم کی آواز ہے اور کس کی آواز ہے.دیکھو عالم کون ہے وہ جو تاریخ جانتا ہے، زبان، جغرافیہ ، حساب ، ڈاکٹری قانون جانتا ہے.مگر یہ علوم کہاں سے آئے.دوسروں نے ذرہ ذرہ ملایا.کسی نے کوئی چیز معلوم کی کسی نے کوئی وہ سب جمع ہو گئیں اور ہم کانوں کے ذریعہ سنکر ان علوم سے واقف ہو جاتے ہیں.پھر ہم کانوں کے ذریعہ ہی بولنا سیکھتے ہیں.جو پیدائشی بہرے ہوں.وہ بول بھی نہیں سکتے.کیونکہ انسان کو سنکر ہی آتا ہے پس اگر کان نہ ہوتے تو زندگی دو بھر ہو جاتی.اور اگر آنکھیں نہ ہوتیں تو علوم رائیگاں جاتے اور انسان ہر وقت خطروں میں پڑا رہتا.وہ کنویں.گڑ ہے.ٹیلے میں تمیز نہ کر سکنے کے باعث ٹھوکریں کھاتا پھرتا.کان کے ذریعہ سنتا ہے.مگر کان جو کچھ سنتے ہیں وہ سب محفوظ نہیں رکھ سکتے.اس لئے قدرت نے آنکھ دی ہے.جو کتاب سے دیکھ کر پڑھ لیتی ہے.اس طرح علوم محفوظ ہو جاتے ہیں.آج جو کتابیں لکھی جاتی ہیں وہ ہزار سال کے بعد بھی پڑھی جائیں گی اور اس وقت کے لوگ بھی ان سے فائدہ اٹھا سکیں گے لیکن اگر صرف زبانی باتیں ہوں تو انسان خود بھی ان سب کو یاد نہیں رکھ سکتا.پس اگر آنکھیں نہ ہو تیں تو بھی علوم ضائع ہو جاتے.اور پھر رنگوں کے تغیرات سے جو انسان علوم حاصل کرتا ہے.وہ بھی نہ کر سکتا.

Page 364

۳۵۸ مثلاً پھلوں کے متعلق دیکھتا ہے کہ وہ سبز ہیں.اور ابھی پکے نہیں اور پھر رنگت میں ایک خاص تغیر آتا ہے.وہ زردی مائل ہو جاتے ہیں.یہ تغیر بتاتا ہے کہ پھل پک گیا.اگر آنکھ نہ ہوتی تو یہ نہ معلوم کر سکتا.اور رنگوں سے جو کام چلتے ہیں وہ بھی بند ہو جاتے علاوہ ازیں وہ عزیزوں رشتہ داروں کو دیکھتا ہے اور ان سے جو مسرت حاصل کرتا ہے.وہ بھی نہ کر سکتا.چاند ستاروں کو دیکھتا ہے.نگاہ بتاتی ہے کہ فلاں ستارہ کہاں ہے اور فلاں ستارہ کہاں.اور اس سے وہ اپنے سفر میں کام لیتا ہے.لیکن نگاہ نہ ہو تو بھٹکتا پھرتا.پھر ستاروں کو ہی دیکھ کر جو جنتریاں بنتی اور کاروبار میں آسانی بہم پہنچاتی ہیں وہ بھی نہ ہوتیں.پھر زبان چکھنے کے لئے ہے وہ نہ ہوتی تو میٹھے اور پھیکے.کڑوے اور کھٹے کا فرق نہ ہوتا.اور ناک سے خوشبو اور بدبو معلوم کرتا ہے.تمام خوشبو دار چیزیں مفید ہوتی ہیں اور بدبودار مضر اس لئے ناک کے ذریعہ نقصان رساں چیزوں سے بچتا اور مفید سے فائدہ اٹھاتا ہے.پھر جسم میں سردی گرمی کا احساس رکھا گیا ہے اگر یہ احساس نہ ہوتا تو برف میں بیٹھا رہتا اور اسے احساس نہ ہوتا.نمونیہ ہو کر ہلاک ہو جاتا.یا گرمی میں پسینہ نکلتا ہے.اس کے لئے پنکھا جھلتا ہے اگر گرمی کا احساس نہ ہوتا تو گرمی میں کام کرتا.اور پسینہ نکل نکل کر اس کا خون اس قدر کم ہو جاتا کہ وہ ہلاک ہو جاتا.پھر نرم اور سخت کا احساس بھی انسان کے لئے مفید ہے.اگر سخت چیز کو محسوس نہ کر سکتا تو زخمی ہو جاتا اور اس کو پتہ بھی نہ لگتا.اس موقع پر بارش برسنے پر سمٹ کر بیٹھنے کا ارشاد فرمایا تاکہ جو لوگ صحن میں ہیں وہ بھی اندر آسکیں) غرض جس طرح سننے ، دیکھنے ، چکھنے، سونگھنے اور چھونے کی قوت ہے اسی طرح ایک قوت انسان میں ایسی بھی ہے جو بتاتی ہے کہ فلاں کام کے لئے کتنی قوت کی ضرورت ہے.پہلے یہ قوت معلوم نہ تھی.مگر اب نئے ذرائع اور آلات سے معلوم ہوئی ہے.پہلے لوگ پانچ حواس قرار دیتے تھے اب معلوم ہوا کہ نو حواس ہیں.ان میں سے ایک حس یہ ہے جس کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ وہ بتاتی ہے کہ فلاں کام کے لئے کتنی قوت کی ضرورت ہے.اس طاقت کے رکھنے میں اللہ تعالیٰ نے انسان پر بڑا احسان فرمایا کیونکہ اس سے انسان اپنی طاقتوں کو تباہ کرنے سے بچ جاتا ہے.اور اس کو معلوم ہو جاتا ہے کہ کہاں مجھ کو کتنی طاقت لگانی چاہئے.اور کہاں کتنی اس طرح اس کی زائد طاقت ضائع نہیں ہوتی.مثلاً ایک قلم انسان اٹھانا چاہتا ہے وہ قوت اس کو بتا دیتی ہے کہ اس کے لئے کتنی طاقت کی ضرورت ہے اگر یہ نہ ہوتی تو انسان پیسہ کے اٹھانے کے لئے بھی اتنی ہی طاقت لگا تا جتنی من بھر بوجھ کے اٹھانے کے لئے خرچ کرتا ہے.اور اس طرح اب جو انسان ساٹھ ستر سال زندہ رہتا ہے اس کی بجائے پندرہ بیس سال میں مرجاتا.

Page 365

۳۵۹ خدا نے اس جس کو پیدا کر کے انسان کی طاقت کو محفوظ کر دیا ورنہ انسان ہلاک ہو جاتا.مگر جہاں یہ خطرہ تھا کہ تھوڑے کام کے لئے زیادہ طاقت خرچ کر کے انسان اپنی قوت کو تباہ نہ کرلے.وہاں یہ بھی خطرہ ہے کہ انسان بڑے کام کے لئے تھوڑی طاقت صرف کر کے اپنے کام ہی کو تباہ کر لیتا ہے.مثلاً اگر نہر کو بند کرنے کی ضرورت ہو.اور کوئی شخص اس میں ایک بورا مٹی کا ڈالے تو نہر کا پانی بجائے رکنے کے اس کو بہالے جائے گا.لیکن اگر ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ ہو جس سے ہم نہر میں یکدم اتنی مٹی ڈال سکیں جس سے تھوڑی دیر کے لئے اس میں روک پیدا ہو سکے.تو پھر اس وقفہ کے دوران میں زیادہ مٹی ڈال سکتے ہیں.یا مثلاً پر نالے بہتے ہیں.اگر ان کو بند کرنے کے لئے تولہ بھر مٹی ڈالی جائے تو اس سے پانی نہیں رکے گا.خواہ سارہ دن تولہ تولہ مٹی ڈالی جائے لیکن اگر یک دفعہ کافی مٹی ڈال دی جائے تو پانی رک جائے گا.میں نے اپنی جماعت کو بارہا توجہ دلائی ہے کہ ہمارا کام عظیم الشان حیثیت رکھتا ہے.اور دنیا کے تمام کاموں سے بڑا ہے.چونکہ ہم دنیا میں حقیر سمجھے جاتے ہیں.اس لئے ہمارا بڑا کام دنیا کی نظر میں معمولی ہے اور دنیا کے معمولی کام اہم.مگر اصل بات یہ ہے کہ کام ہمارا ہی سب سے بڑا ہے.اگر انگریزوں کا ایک وزیر ایک دن کی بھی چھٹی لے یا کسی کام پر باہر جائے تو اس کے متعلق تمام اخبارات میں تاریں چھپ جاتی ہیں.اس قدر بڑی اس کی شخصیت سمجھی جاتی ہے.مگر دیکھنا چاہئیے کہ انگریزوں کے ایک وزیر کا نہیں سب کا کیا کام ہے.یہی کہ برطانیہ میں ہندوستان اور چند اور ممالک میں جو ان کے ماتحت ہیں امن قائم رکھنا ان کا فرض ہے.اگر وہ اپنے اس فرض کو پورے طور پر ادا کریں.اور اس میں کامیاب ہو جائیں تو بھی کیا ہے لوگوں کو تمہیں چالیس یا ساٹھ ستر سال کی زندگی میں امن مل جائے گا وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوں تو ساٹھ ستر سال تک امن ہو گا مگر مرنے کے بعد لوگوں کو جو عذاب ملے گا اس سے ان کو بچانے والا کون ہو تا.یہ وزیر اور بادشاہ تو خود پکڑے ہوئے ہوں گے.اور ان سے پوچھا جائے گا کہ ہم نے تم کو عقل دی.طاقت دی پھر تم نے ہماری بجائے ایک انسان کو کیوں خدا بنایا.اس وقت تو وہ اپنے کئے کے جوابدہ ہونگے.دوسروں کو کیا بچائیں گے.اسی طرح دوسری حکومتیں ہیں مثلا فرانس، امریکہ، جاپان اچھا کام کر رہی ہیں.لیکن ان کا کام انہی کے علاقوں سے متعلق ہے.اور اسی دنیا کی زندگی تک محدود ہے.مگر ہمارا کام بہت وسیع ہے انگلستان کا کام بھی ہمارے ذمہ ہے.ہندوستان کا کام بھی ہمارے ذمہ ہے.امریکہ کا کام بھی ہمارے ذمہ ہے فرانس کا کام بھی ہمارے ذمہ ہے.جرمنی کا کام بھی ہمارے ذمہ ہے.روس کا کام بھی ہمارے ذمہ ہے کابل کا کام بھی ہمارے ذمہ ہے.ایران کا کام بھی ہمارے ذمہ ہے.چین کا کام بھی ہمارے ذمہ ہے.غرض ساری دنیا کا کام ہمارے ذمہ ہے پھر ان کا

Page 366

کام صرف اس دنیا سے تعلق رکھتا ہے.مگر ہمارا کام ہمیشہ کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے وہ اس زندگی کو پرامن بنانے کی کوشش کرتے ہیں.مگر ہم نہ صرف اس زندگی کو پرامن بنانا چاہتے ہیں بلکہ آئندہ زندگی کو پرامن بنانا بھی ہمارا کام ہے.ان کا کام یہیں ختم ہو جاتا ہے لیکن ہمارا کام یہیں پر ختم نہیں ہوتا.بلکہ ابدالاباد تک جاتا ہے.ان کے کام کی حیثیت ایسی ہے جیسے کمانے والے شخص کے مقابلہ میں بچے کے کام کی ہو.بچہ کا کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ اس کی باتوں اور حرکات پر ماں باپ ایک آن کی آن خوش ہو کر ہنس لیں.لیکن بڑے شخص کے کام پر کنبہ کی زندگی کا مدار ہوتا ہے پس ان کے کام یہیں ختم ہو جاتے ہیں مگر ہمارے کام آگے چلتے ہیں.اور ہمیشہ کے لئے چلتے ہیں.اب اگر ان میں سستی ہو جائے تو سمجھ لو کہ ہم کس قدر سرزنش کے قابل ہونگے.اس کام کے لئے جو اتنا اہم ہے ہمیں بہت بڑی طاقت کی ضرورت ہے اور اگر اس کے لئے پوری طاقت نہ صرف کی جائے تو ممکن ہے کی پہلی محنت بھی ضائع ہو جائے.اگر محنت کی رفتار یہ ہوگی جو ایک بہتے ہوئے پرنالے کے سامنے ایک تولہ مٹی کی ہوتی ہے تو خواہ کئی آدمی کام پر لگ جائیں وہ پرنالے کو بند نہ کر سکیں گے اور ان کی محنت اکارت جائے گی.اس لئے ہماری جماعت کا فرض ہے کہ اس کا ہر ایک فرد پوری طاقت اور توجہ سے اس کام میں لگ جائے مگر افسوس ہے کہ ہماری جماعت میں کم لوگ ہیں جنہوں نے اپنے کام کی اہمیت کو سمجھا ہے.اور پھر اور بھی کم ہیں.جنہوں نے سمجھ کر اس کے مناسب طاقت خرچ کی ہے.ہمارا کام تو اس قسم کا ہے کہ ہماری جماعت کے ہر چھوٹے بڑے عالم غیر عالم امیر غریب بچے بوڑھے ، مرد، عورتیں اس میں لگ جائیں.دیکھو جس وقت مکان خطرے میں ہو.تو یہی نہیں کہ بڑے ہی کام میں لگتے ہیں.بلکہ بچے بوڑھے عورتیں سب کے سب کام میں مصروف ہو جاتے ہیں.جب گھر میں آگ لگی ہوئی ہو تو نہ بچہ کے لئے آرام ہوتا نہ عورت اور بوڑھے کے لئے.بلکہ اس وقت گھر کا ہر ایک فرد کام میں تندہی سے مصروف ہو جاتا ہے.اور اس صورت میں کامیابی کی امید ہوتی ہے.اس وقت دنیا میں آگ لگی ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس آگ کو بجھائیں.اگر ہماری جماعت تھوڑی ہے.اور اگر وہ ساری بھی لگ جائے تو کام کے مقابلہ میں اس کی کوشش تھوڑی ہی ہوگی.مگر جس کا یہ کام ہے اس کا وعدہ ہے کہ جب ہم اپنی تمام جماعت لگا دیں گے.تو وہ مدد دے گا.اور خود اس کام کو درست کر دے گا.اس کا وعدہ ہے جب تم اپنی طرف سے پوری سعی کرو گے تو باقی سوراخ جو تم بند نہ کر سکو گے وہ خود بند کر دے گا خود کام میں سستی کرو گے تو اس کی طرف سے مدد نہیں آسکتی.لیکن تم اپنی طاقت خرچ کرو گے تو خدا کی غیرت جوش میں آئے گی کہ جب میرے بندے کمزور ہو کر اس کام میں لگے ہوئے ہیں.تو میں طاقت ور ہو کر کیوں نہ ان کے

Page 367

۳۶۱ کام کو انجام دوں.اور جب اس کی مدد آجاتی ہے تو ناممکن کام بھی ممکن ہو جاتے ہیں اور کمزور طاقتور ہو جاتے ہیں.اللہ تعالی ہماری جماعت کو قوت دے.غافلوں کو ہوشیار کرے اور ہمارے دلوں کو اپنی راہ میں کھول دے کہ ہم اس راہ میں سب کچھ خرچ کرتے ہوئے تنگی اور انقباض نہ محسوس کریں.تاکہ ہم اس کے فضلوں کے وارث ہوں.الفضل ۱۴ ستمبر ۱۹۲۲ء)...

Page 368

۳۶۲ 68 ایک خطبہ کی تشریح (فرموده ۲۲ ستمبر ۱۹۳۲ء) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.میں بسبب اس کے کہ مجھے متعدد لوگوں کے ذریعہ یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پچھلے جمعہ پر جو خطبہ پڑھا گیا.اس سے بعض کو بعض غلط فہمیاں ہوئی ہیں.اس لئے آج کے خطبہ میں اسی کے متعلق بعض باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں.میرے نزدیک بعض لوگوں کو اس خطبہ کے سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی ہے.متعدد قسم کی روائتیں میرے تک پہنچی ہیں.مگر بوجہ اس کے کہ ان کا مضمون اپنی ذات میں ہی یہ بتانے کے لئے کافی تھا کہ غلط فہمی ہو گئی ہے.آگے یہ مناسب نہیں سمجھا کہ خطیب سے پوچھوں کہ خطبہ کا کیا مفہوم تھا.کیونکہ ذرا سا غور کرنے سے بات حل ہو جاتی ہے.بعض نے اس خطبہ کا مفہوم یہ سمجھا ہے کہ خطیب نے لوگوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ باہر جو مبلغ بھیجے جاتے ہیں.ان کے بھیجنے میں بعض نقص ہیں.لوگوں کو چاہیے کہ اس معالمہ کو خلیفہ تک پہنچائیں.مگر میرے نزدیک یہ مفہوم درست نہیں.میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ اس خطبہ سے یہ سمجھنے کی گنجائش نہیں ہوگی.بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ بعض دفعہ ایک بات بیان کی جاتی ہے اور اس سے ذہن اس طرف منتقل ہو جاتا ہے جس طرف منتقل کرانا بات کرنے والے کا منشا نہیں ہوتا.پھر میں یہ اس لئے کہتا ہوں کہ خطیب کا وہ منشا نہیں ہو سکتا جو سمجھا گیا ہے کہ قادیان کے رہنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ مبلغوں کے متعلق جس قسم کی کوئی خبر ہو.وہ پہلے مجھ تک پہنچتی ہے.اور پھر کسی اور کو ہوتی ہے.باہر کے لوگوں میں سے بعض غلطی سے سمجھتے ہیں کہ میری ڈاک پہلے اوروں کے پاس جاتی ہے.اور پھر وہ مجھے خطوط سناتے ہیں.حالانکہ اس کے متعلق میں نے اتنی احتیاط رکھی ہوئی ہے کہ پہلے سارے خطوط میرے پاس آتے ہیں اور پھر دفتر میں جاتے ہیں.اور اس طرح مجھے دو گنا کام کرنا پڑتا ہے.کیونکہ دفتر والے پھر وہی خطوط مجھے سنا کر ان کے جواب پوچھتے ہیں.اگر وہ پہلے ہی پڑھ کر

Page 369

۳۶۳ میرے سامنے خطوط پیش کریں.تو کم از کم دو گھنٹہ روزانہ میرا وقت بچ سکتا ہے.مگر میں نے اس لئے کہ تا کوئی یہ نہ کہے کہ میرا خط خود نہ پڑھا.یہ طریق رکھا ہوا ہے کہ سارے خطوط پہلے خود پڑھتا ہوں اور پھر دفتر میں بھیجتا ہوں.اور اگر کوئی بند خط دفتر میں چلا جائے تو ان کو ہدایت ہے کہ اس کو اسی طرح واپس کریں.چنانچہ دفتر ڈاک والے اس قسم کے خط واپس میرے پاس بھیج دیتے ہیں تو بعض باہر کے لوگوں کو غلطی لگتی ہے.اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے خطوط براہ راست میرے پاس چنانچہ ہر مہینہ دس پندرہ مخطوط اس قسم کے آجاتے ہیں جن میں بڑی لجاجت کے ساتھ دفتر ڈاک والوں کو لکھا ہوتا ہے کہ مہربانی کر کے میرا سارا محط حضرت صاحب کو سنا دیں.مگر حقیقت یہ ہے کہ میں خود سارے خطوط پڑھتا ہوں اور اب تو یہ انتظام کر دیا گیا ہے کہ بکس ڈاک خانہ میں جاتا ہے اس کی ایک چابی میرے پاس ہوتی ہے.اور ایک پوسٹ ماسٹر کے پاس وہ بکس میں سارے خطوط ڈال کر تالا لگا دیتا ہے.اور پھر میں خود اس کو کھولتا ہوں.پس جبکہ تمام قادیان کے لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ سب خبریں پہلے میرے پاس آتی ہیں اور اس سے مولوی سرور شاہ صاحب واقف ہیں.تو ان کے خطبہ سے وہ مفہوم نکالنا جس کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے غلطی ہے.اگر باہر مبلغ کوئی غلطی کریں تو ان کی غلطی کا سب سے پہلے مجھے علم ہوگا اور کسی کو نہیں ہو گا.اس لئے کہ اس علم کے دو ہی ذریعہ ہیں.یا تو یہ کہ مبلغ خود خط لکھ دے کہ میں نے ایسا کیا ہے.یا اور کوئی احمدی جو وہاں ہو.وہ خط لکھ دے.اور یہ صاف بات ہے کہ مبلغ مخط لکھے گا تو مجھے ہی لکھے گا.اور اگر کسی اور نے اس کی شکایت کرنی ہوگی تو وہ بھی میرے پاس ہی کرے گا.کیونکہ مبلغوں کی غلطیوں کا علم حاصل کرنے کا ایک ہی احق ہے.اور وہ میں ہوں.اس لئے پہلے مجھے علم ہو گا.اور پھر اوروں کو میرے ذریعہ علم ہو گا میں سناؤں تو وہ سنیں گے ورنہ نہیں.اور جس قدر میں سناؤں اسی قدر انہیں علم ہو سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں.چنانچہ بعض جب دوسروں کی نسبت ایسی باتیں لکھ دیتے ہیں جن کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ غلطی پر ہیں تو ان کو میں بیان نہیں کرتا.اور نہ وہ اوروں کو معلوم ہوتی ہیں.مثلاً مفتی (محمد صادق) صاحب کے متعلق ہی کسی نے شکائتیں لکھیں.لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے پہلے ہی رویا میں بتا دیا کہ ایسا کیا جائے گا جو ٹھیک نہیں.اس لئے جب خط آئے تو میں نے چاک کر دئے اور دفتر ڈاک میں نہیں بھیجے.اور ان کو بھی معلوم نہیں کہ کیا باتیں تھیں.ان کا اگر کوئی حصہ ظاہر کیا تو میں نے خود کیا اور کسی کو بطور خود کوئی بات معلوم نہیں ہو سکتی تھی.مولوی (سرور شاہ) صاحب کو بھی چونکہ براہ راست کوئی علم نہیں ہو سکتا.میرے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے.اس لئے وہ یہ بات نہیں کہہ سکتے تھے جو سمجھی گئی.پھر بعض کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ مولوی صاحب نے مبلغوں کے آئندہ تعین کے لئے کہا ہے

Page 370

کہ ایسے مبلغ مقرر کریں جو دین سے واقف ہوں.گو خطبہ میں ایسے الفاظ بھی ہوں جن سے یہ سمجھا جا سکتا ہو.مگر میرے نزدیک مولوی صاحب کا یہ بھی مفہوم نہیں ہو سکتا کیونکہ مبلغ لوگ مقرر نہیں کرتے.بلکہ میں کرتا ہوں.اور جن کو تبلیغ کے لئے بھیجا ہے.خلیفہ نے بھیجا ہے مجھ سے پہلے اگر کوئی بھیجے گئے اور وہ ایک ہی تھا چوہدری فتح محمد.وہ حضرت خلیفہ اول کے اشارہ سے بھیجے گئے تھے.اور اب بعض میرے اشاروں سے بھیجے جاتے ہیں.بعض کے متعلق میں نے مشورہ لیا مگر ایسے بھی ہیں.جن کے متعلق میں نے مشورہ نہیں لیا.بہرحال نہ ان کے بھیجنے میں کسی کا تعلق ہے نہ ان کے واپس بلانے میں.زیادہ سے زیادہ اگر کچھ تعلق ہے تو یہ کہ میں ان سے مشورہ لوں.اور وہ مشورہ دے دیں.اس لئے مولوی صاحب یہ بھی نہیں کہہ سکتے.گو میں اس خطبہ میں موجود نہ تھا.لیکن میرے نزدیک ان کا مفہوم وہی تھا.جو بعض مشکلات کی وجہ سے میں نے خود بیان کیا تھا.اور وہ یہ کہ ہماری جماعت کے انگریزی خواں دین سے واقفیت یدا کریں.کیونکہ غیر ممالک میں تبلیغ کے لئے وہی بھیجے جا سکتے ہیں جو انگریزی داں ہوں.علماء کام نہیں کر سکتے.ولایت امریکہ، جرمن وغیرہ علاقوں میں انگریزی دان ہی کام کر سکتے ہیں.مگر وہ دین سے ایسے واقف نہیں ہوتے جیسے ایک عالم.اس لئے خطرہ ہو سکتا ہے کہ وہ ایسی باتیں بھی بیان کردیں.جو لوگوں کے لئے ٹھوکر کا باعث ہوں.آج سے تین سال قبل میں نے اسی جگہ کھڑے ہو کر بتایا تھا کہ انگریزی خوانوں کو چاہیے کہ دینی مسائل سے واقفیت پیدا کریں.تاکہ جب تبلیغ کے لئے جائیں تو کسی کے لئے ٹھو کر کا باعث نہ ہوں.یہ مفہوم تھا جس پر زور دینے کے لئے انہوں نے مختلف پہلو بیان کئے.اور ایسا ہو جاتا ہے کہ کسی بات کے مختلف پہلوؤں پر زور دینے کے لئے جب کوئی روشنی ڈالتا ہے تو اس سے غلطی بھی ہو جاتی ہے.یہ بات بالکل درست ہے کہ ہماری جماعت کے انگریزی خواں دین سے کم واقف ہیں.اسی وجہ سے میں نے اس سال درس قرآن رکھا تھا اور اگست کا مہینہ اسی لئے تجویز کیا تھا.تاکہ انگریزی خواں شامل ہوں.صحت کے لحاظ سے اور مہینے اس سے اچھے تھے.مگر اس میں چونکہ کالجوں والے بھی شامل ہو سکتے تھے.اس لئے اس میں درس دیا..ورنہ اگست کا مہینہ صحت اور محنت کرنے کے لحاظ سے اچھا مہینہ نہیں ہوتا.شدید گرمی ہوتی ہے.پسینہ آتا ہے.راتوں کو کام نہیں کیا جا سکتا.برسات کی وجہ سے تکلیف اور بڑھ جاتی ہے.مگر انگریزی خوانوں اور کالجوں کے طلباء کے لئے یہی رکھا.تاکہ وہ بھی شامل ہو سکیں.درس کے بعد جب میں نے دعوت کی اور بعض دوستوں نے کہا کہ درس کا وقت بدل دینا چاہئیے تو ان کو میں نے یہی جواب دیا کہ آپ لوگ تو اور مہینوں میں بھی آسکتے ہیں لیکن کالجوں والے نہیں سکتے.اس لئے یہ مہینہ مناسب ہے.

Page 371

۳۶۵ جب تک ابھی سے ایسے لوگ تیار کرنے کی فکر نہ کریں جو علم دین اور فقہ کے مسائل سے واقف ہونے کے ساتھ ہی انگریزی دان بھی ہوں.ڈر ہے کہ جب نو مسلموں کا وہ فریق تیار ہوگا.جو دین پر عملی طریق سے چلے گا.تو کیا کریں گے مگر میں نے اس کے لئے ایک تدبیر کی ہے.اور وہ یہ ہے کہ اب جو مبلغ تیار ہو رہے ہیں.ان کو کام کرنے والے مبلغوں کے ساتھ لگا دیں گے.مثلاً مبارک علی صاحب ولایت میں کام کر رہے ہیں.ان سے زیادہ اچھی طرح یہ مبلغ مسائل سمجھا سکتے ہیں.مگر انگریزی زبان نہیں جانتے.اس لئے ان کے ساتھ بطور نائب ایک کو لگا دیا جائے گا جو ساتھ ساتھ زبان سیکھے.اور مسائل سکھا سکے.چنانچہ اس سلسلہ کے ماتحت یہاں کے واقف لوگ جانتے ہیں کہ مولوی جلال الدین صاحب کو ولایت کے لئے مقرر کیا ہوا ہے.ان کو انگریزی نہیں آتی.اس لئے پہلے پہل تو مبلغ دینی مسائل میں ان سے مشورہ لے کر کام کرتے رہیں گے.اور یہ زبان سیکھتے رہیں گے.جو چھ ماہ یا سال میں اتنی آجاتی ہے کہ باتیں کر سکیں.اور پڑھانے کے لئے باتیں کر لینا ہی کافی ہوتا ہے.اور دو سال میں لیکچر دینے کی قابلیت پیدا ہو جاتی ہے.مگر باوجود اس کہ میں یہی کہوں گا کہ اس طرح کام تو چل جائے گا.مگر خرچ دگنا کرنا پڑے گا.یعنی جہاں ایک آدمی کو کام کرنا چاہیے وہاں دو دو کو رکھنا پڑے گا.اس لئے مناسب تو یہی ہے کہ انگریزی خوان نوجوان ایک حصہ دین کا بھی ضرور سیکھیں.اور وقت آگیا ہے کہ اس کام کو شروع کر دیا جائے.چنانچہ تین نوجوان اسی سال بی اے پاس کر کے آئے ہیں.کہ ان کو دین کا علم پڑھایا جائے.ان کے لئے ایسا کورس تیار کیا گیا ہے جس سے دو تین سال میں اتنی قابلیت پید اہو جائے کہ ایک محدود دائرہ میں کام چلا سکیں.کام کے لحاظ سے پھر بھی وہ بہت کم ہیں.پس جو اصل مفہوم اس خطبہ کا تھا.اور جس کے سوا دوسرا کوئی ذہن میں نہیں آسکتا.وہ اس قابل ہے کہ اس کی طرف توجہ کی جائے اور نہ صرف یہ کہ نوجوان اس کی طرف متوجہ ہوں بلکہ وہ بھی جو اپنا اپنا کاروبار کرتے ہیں یا دفتروں میں ملازم ہیں ابھی سے اس طرف توجہ کریں.کیونکہ علم ایک دن میں نہیں سیکھا جا سکتا.پس وہ لوگ جو دین کی تبلیغ کے لئے غیر ممالک میں جا سکتے ہی.خواہ وہ ملازم ہوں یا کوئی کاروبار کرتے ہوں.انہیں کیا پتہ ہے کہ کب ان کو اشاعت دین کے لئے جانا پڑے.اگر ایسا وقت آگیا تو وہ کیا کریں گے ان کو سلسلہ کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو ریز رو مبلغ سمجھنا چاہیے.جیسا کہ فوجوں کے سپاہی ریز رو ہوتے ہیں وہ سال میں ایک دفعہ جاتے اور جاکر پریکٹس کر آتے ہیں لیکن جب جنگ کا موقع آئے تو سب جمع ہو جاتے ہیں کیوں اس لئے کہ وہ اپنی پریکٹس جاری رکھتے ہیں اگر وہ لوگ جو ملازمتیں کرتے ہیں یا کوئی اور کام.اگر پندرہ منٹ بھی روزانہ دین سیکھنے کے لئے نکالیں تو چار پانچ سال میں اتنی واقفیت پیدا کر سکتے ہیں کہ کام چلا سکیں اور مسائل میں باریک اختلاف تو رہتے ہی

Page 372

۳۶۶ امام........ہیں.حتی کہ ایک امام بھی دوسرے امام کی بات نہیں مانتا.کیوں شافعی ، ابو حنیفہ کے خلاف اور ابو حنیفہ حنبل کے خلاف بعض باتیں بیان کرتے ہیں.سچ تو یہ ہے کہ نبی کے سوا خواہ کوئی انسان ہو.خواہ خلیفہ ہو.خواہ امام ہو.خواہ صوفی ہو.خواہ مولوی ہو ان کے متعلق ہر وقت احتمال ہے کہ غلطی کر سکتا ہے.اور ہو نہیں سکتا کہ اس کے سارے اجتہاد درست ہوں......تو اس قسم کے اختلاف ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے.مگر یہ ایسے اختلاف نہیں جن سے دین میں رخنہ پڑے.پس تھوڑی محنت کر کے بھی دین کا علم حاصل کیا جا سکتا ہے اور اگر لوگ اس کے لئے تیار ہوں.تو کورس میں بنا کر دے سکتا ہوں.اس کے لئے عربی کی بھی ضرورت نہیں اردو میں ہی سیکھ سکتے ہیں.اگر ہماری جماعت کے انگریزی خواں لوگ تیار ہوں.تو میں ایسا کورس تیار کر کے دے سکتا ہوں پندرہ منٹ روزانہ دیگر چار پانچ سال میں کام چلانے والے بن سکتے ہیں.مگر یہ ضروری ہے کہ بہت محنت سے کام کریں.یہ نہیں کہ یونہی اتنی قابلیت پیدا کر سکیں گے معمولی سے معمولی کام بھی بغیر محنت کے نہیں آسکتا.دیکھو ترکھان کا کام ایک موٹا کام ہے.بی اے پاس بھی ہو جو معقول تنخواہ لیتا ہو تو اسے نہیں کر سکے گا.بات یہ ہے کہ موٹے کام بھی محنت سے آتے ہیں.اگر لوگ دین کا علم سیکھنے کے لئے محنت کریں گے.تو کچھ بن سکیں گے اور انگریزی خواں کیا ہمارے تو بچہ بچہ کو دین سے واقف ہونا چاہیے کیونکہ وہی قوم محفوظ ہو سکتی ہے جس کا کوئی فرد نا واقف نہ ہو.پس وہ جو باہر تبلیغ کے لئے جائیں وہ تو انگ رہے ہمارے تو ہر ایک فرد کو ایسا ہونا چاہیے.کہ مسائل دینیہ سے واقف ہو.اللہ تعالیٰ کرے کہ ہماری جماعت کے سارے لوگ ایسے ہوں جو خود مسائل دینیہ سے واقف ہوں اور دوسروں کو واقف کر سکیں.اور اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ دین کے ثبات ترقی اور استحکام کا کام ہے.الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۹۲۲ء)

Page 373

الاسم 69 شرعی اعمال اور قوت اخلاق (فرموده ۲۹ ستمبر ۱۹۲۲ء) حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.اسلام نے جو تعلیم انسانی اخلاق کے متعلق دی ہے وہ اپنی ساری تفاصیل سمیت ایسی اعلیٰ پایہ کی ہے اور اس قسم کی احتیاطیں اس کے لئے ضروری نہیں کہ ہر اخلاق اور ہر درجہ کا آدمی اس پر عمل نہیں کر سکتا.کیونکہ اسلام مکمل اور ایسا انسان پیدا کرنا چاہتا ہے جو خدا کے منشا کو پورا کرے.اس لئے ضروری تھا کہ اسلام اخلاق کا اعلیٰ ترین نقشہ پیش کرتا اور وہ ایسا ہو تا کہ انسان جہاں تک ترقی کر سکتا ہے اس کے سب مدارج اس میں ہوتے ورنہ اگر یہ حالت ہوتی کہ انسان ترقی کر کے ایک ایسے مقام پر جانا کہ آگے جانے کے لئے اس کے لئے رستہ نہ رہتا تو نئی شریعت کی ضرورت پڑ جاتی.پس ضروری تھا کہ قرآن کریم ہی میں ساری تعلیم آتی جس سے بڑھ کر انسان ترقی نہیں کر سکتا.اس لئے ہر انسان سے یہ امید رکھنا کہ وہ اعلیٰ اور باریک مسائل کو برتے گا.یہ ایک ایسی امید ہے کہ جس کا پورا ہونا ناممکن ہے.کیونکہ کامل انسان چند ہی ہوتے ہیں ہر ایک انسان ترقی کر کے بی.اے اور ایم.اے ہو سکتا ہے مگر ہر ایک انسان بی.اے اور ایم.اے ہوتا نہیں.ہر ایک انسان عالم دین بن سکتا ہے.مگر ہر ایک عالم دین بنتا نہیں.ہر ایک انسان تاجر بن سکتا ہے.مگر بفتا نہیں.ہر ایک انسان اگر کوشش کرے تو اعلیٰ درجہ کا زمیندار بن سکتا ہے مگر بفتا نہیں.اسی طرح اعلیٰ اخلاق ہر ایک شخص حاصل کر سکتا ہے.مگر کرتا نہیں کچھ لوگ اخلاق میں بہت اعلیٰ درجہ کے ہوتے ہیں اور کچھ بہت ہی ادنیٰ درجہ کے ہوتے ہیں نہ اچھے اخلاق کی حد ہے نہ برے اخلاق کی حد ہے کئی لوگ اچھے اخلاق والے ہوتے ہیں.مگر ان میں ہزاروں کمزوریاں ہوتی ہیں.اس سے یہ ثابت ہوا کہ ہر کام میں ایک اوسط ہوتی ہے.اگر کسی شخص میں اس اوسط تک بھی اخلاق نہ ہوں تو وہ صاحب اخلاق نہیں کہلا سکتا.یہ کبھی نہیں ہو تا کہ ہر انسان سے یہ توقع رکھی جائے کہ وہ کمال ہی کو پہنچ جائے گا.مدرسہ میں

Page 374

۳۶۸ طالب علم پڑھتے ہیں کوئی مدرسہ کا افسر یا کوئی گورنمنٹ یہ توقع نہیں رکھتی کہ سب کے سب طلباء تمام سوالوں کا جواب دیں اگر کوئی توقع رکھے تو یہ غلط ہو گا.ہاں وہ جس چیز کی امید کرتے ہیں.وہ اوسط تعلیم ہے.کہ ہر ایک طالب علم کم از کم اتنے سوالوں کا جواب دے دے.اگر اتنا نہیں کرتا اور پاس ہونے کے لئے جتنے نمبروں کی بالا وسط ضرورت ہے اتنے نمبر حاصل نہیں کرتا تو اس سے یہ ثابت ہو گا کہ اس نے کچھ بھی کوشش نہیں کی جس طرح مدرسہ کے نمبر بتاتے ہیں کہ اس طالب علم کی تعلیم حالت کیسی ہے.اسی طرح روحانی امور میں ہوتا ہے.اور علاوہ روحانی امور کے تمام دنیاوی امور میں بھی یہی حالت ہوتی ہے.مثلاً تجارت ہے اس میں ہزاروں مدارج ہیں.مگر تاجروں میں ہر ایک ان تمام مدارج کو حاصل نہیں کر لیتا.البتہ ایک اوسط ہے.جس کا ہونا سب میں ضروری ہے.اگر کوئی شخص اوسط درجہ کے فن تجارت سے بھی واقفیت نہیں رکھتا تو وہ گھاٹا اٹھائے گا.اسی طرح زمینداری کا فن ہے اس میں بھی بہت سے مدارج ہیں جو شخص اس فن کا اعلیٰ درجہ کا ماہر ہو گا وہ ایک زمین سے بہت سائلہ پیدا کرے گا.جو واقف نہ ہو گا وہ اتنا نہیں پیدا کر سکے گا.مگر اس کام کے لئے ایک اوسط ہے.جو شخص اس حد تک اس کام سے واقف نہیں ہوگا وہ کبھی اپنے کام میں کامیاب نہیں ہو گا.اس فن میں بھی ایک اوسط لیاقت ہے.جس کی امید کی جاتی ہے کہ ہر شخص میں ہو.یہی حال دین کا ہے کہ اس میں بھی ایک اوسط ہے.اگر اس اوسط تک کسی میں دینداری نہ ہو تو سمجھا جائے گا کہ اس شخص میں دین نہیں.تم دیندار کہلاتے ہو.مگر تمہاری عبادت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر نہیں.مسیح موعود کے برابر نہیں اولیاء کے برابر نہیں.پھر انبیاء کی عبادتیں آپس میں ایک دوسرے کے برابر نہیں ہوتیں.باوجود اس کے انبیاء انبیاء ہی ہیں.کیونکہ ایک اوسط جو نبیوں میں ہونی چاہیے وہ ان میں ہوتی ہے.اور وہ نبی کہلاتے ہیں.اور پھر نبیوں میں بھی مدارج ہوتے ہیں.یہی حال حج اور زکوۃ کا ہے.ہزاروں لوگ حج کے لئے جاتے ہیں.کیا سب کا حج برابر ہوتا ہے ایک کے حج کا اتنا درجہ ہوتا ہے کہ دوسرے کے پچاس کے برابر ہوتا ہے اور ایک ایسے ہوتے ہیں کہ وہ حج کرتے ہیں مگر ان کا حج قبول نہیں ہوتا.وہ گویا فیل ہو جاتے ہیں.اس کے لئے بھی ایک اوسط ہے کہ اس میں انسان کا حج قبول ہو جاتا ہے.اور پھر قبول ہونے والوں میں بھی درجے ہوتے ہیں.رمضان کے روزے بہت لوگ رکھتے ہیں.ایک ہی قسم کی سب کو بھوک اور پیاس لگتی ہے.اور وقت بھی سب کا برابر ہی خرچ ہوتا ہے.مگر دلوں کے فرق کے ماتحت ان کے مدارج میں بھی فرق ہوتا ہے.اور جن کے روزے مقبول ہوتے ہیں ان میں زمین آسمان کے فرق ہوتے ہیں.مگر

Page 375

۳۶۹ اس کے باوجود ایک اوسط ہوتی ہے کہ اس حد تک صفائی نیت کے ساتھ جو روزہ رکھے گا اس کا روزہ مقبول ہو گا.یہی اخلاق کی حالت ہے اس میں شبہ نہیں کہ ہر ایک انسان اخلاق کی باریکیوں کو سمجھ نہیں سکتا.بعض حصے مخفی ہوتے ہیں اور وہ خدا کی طرف سے ان لوگوں پر کھولے جاتے ہیں جن کے اخلاق خدا تعالیٰ کے حضور میں پسندیدہ ہوتے ہیں اور وہ اخلاق قرآن اور حدیث ہی میں سے کھولے جاتے ہیں.اور وہ اس وقت کھلتے ہیں.جب وہ ظاہر میں نظر آنے والے اخلاق پر عمل کرتا.اس کی حالت اس وقت اور ہوتی ہے.اور لوگوں کی اور ہوتی ہے مگر اس مقام پر ہر ایک شخص نہیں ا ہے.پہنچ سکتا اور ان اخلاق میں بھی ایک اوسط ہوتی ہے جس طرح ہر ایک یونیورسٹی میں ایک اوسط نمبروں کی ہوتی ہے جو اتنے نمبر حاصل کر لے وہ پاس سمجھا جاتا ہے اور جو اتنے نمبر حاصل نہ کر سکے اس کو پاس نہیں سمجھا جاتا.اسی طرح ایک انسان خدا سے تعلق پیدا نہیں کر سکتا.اگر اس میں اس اوسط تک اخلاق نہ ہوں.اور یہ ممکن ہے کہ وہ بہت اعلیٰ درجہ کے اخلاق نہ رکھتا ہو مگر خدا تعالیٰ سے اس کا تعلق پیدا ہو جائے اس لئے مومن کا فرض ہے کہ اپنے اندر کم از کم اوسط اخلاق پیدا کرے.اور اس پر وہ سہولت سے قابو پا سکتا ہے اور جو باریک اخلاق ہیں وہ بعد میں اس پر نازل کئے جاتے ہیں.مثلاً یہی کہ فلاں شخص سے کیا معاملہ کرنا چاہیئے فلاں سے کیا.مگر یہ اصولی باتیں نہیں ہوتیں.ان کا افراد سے تعلق ہوتا ہے.جو باتیں موٹی ہیں اور اصولا" نہایت ضروری ہیں.اور ان پر انسان قبضہ پا سکتا ہے اور عام اخلاقی نقائص کو ان کے ذریعہ دور کیا جا سکتا ہے ان میں سے ایک بہت اہم اور نہایت ضروری یہ ہے کہ زبان کو سنبھال کر رکھا جائے.یہ بات کبھی بھی میری سمجھ میں نہیں آتی کہ گالیاں لوگ کیوں دیتے ہیں سوائے اس کے کہ یہ ایک کمزوری کی علامت ہے کمزور طبیعت آدمی اپنے جوش پر قابو نہ پاکر اس لغو طریق سے اس کا اظہار کرتا ہے.اور اس کا بیماری سے تعلق ہے.بعض لوگ بلا بیماری کے بھی گالیاں دیتے ہیں.اور یہ حالت اور بھی زیادہ قابل ملامت ہے.کیونکہ ان لوگوں کے لئے گالی دینے کا جائز یا ناجائز کوئی بھی محرک نہیں ہوتا یہ لوگ بہ نسبت اول الذکر کے اخلاق فاضلہ سے زیادہ واقف ہوتے ہیں.یاد رکھو کہ تم لوگوں میں قبولیت حاصل نہیں کر سکتے جب تک اخلاق حسنہ تمہارے اندر پیدا نہ ہوں.تمہارے روزے ایک ہندو کی نظر میں بھوکے مرنا اور تمہارا حج ایک کھیل ہوگا.کیونکہ وہ روزے اور حج کی خوبی کو سمجھ نہیں سکتا.تمہارا حج کے لئے جانا اور اونٹوں پر دھکے کھانا ایک پتھر کے بنے ہوئے مکان کے گرد سات بار چکر لگا کے ایک میدان میں جاکر دعا کرنا ایک کھلونا سمجھا جائے گا.اور یہ ایک عیسائی کے نزدیک تمسخر ہو گا.وہ لوگ تمہاری ان عبادتوں سے

Page 376

نہیں سمجھ سکتے کہ تم خدا کے پیارے ہو ہاں اگر تمہاری کوئی بات ان پر اثر کر سکتی ہے تو یہی کہ تمہارے اخلاق ان سے اعلیٰ ہوں.وہ عبادت کو نہیں جانتے اخلاق کو جانتے ہیں.واقعہ میں مذہب کی کوئی چیز دوسرے پر اثر ڈالنے والی نہیں بجز اخلاق کی خوبی کے.اگر ایک شخص احمدی ہوتے ہی اخلاق کو درست کرتا ہے.خیانت، غضب، معالمہ میں زیادتی کرنے کو چھوڑ دیتا ہے.اور دوسرے کے حقوق محبت اور پیار سے ادا کرتا ہے.تو دیکھنے والوں پر اثر ہو گا کہ احمدیت بھی کوئی چیز ہے.تمہارا احمدی ہو کر نماز با قاعدہ پڑھنا ایک مسلمان پر اثر کرے گا.مگر ہندو پر اس کا اثر نہیں ہو گا غیر احمدیوں میں بھی نمازیں پڑھنے والے ہیں.مگر ایک ہندو اور ایک عیسائی کے نزدیک ان کا کوئی درجہ نہیں ہے ہاں جو شخص کسی سے معالمہ کرتا ہے اور قربانی کرتا ہے.کسی کی گالی کو برداشت کرتا ہے لوگوں کو ستاتا نہیں.کسی کی امانت کو کھاتا نہیں.کس کا قرضہ تکلیف اٹھا کر بھی خوشی سے ادا کرتا ہے.اس سے ایک ہندو اور ایک عیسائی پر اثر ہو گا.اور وہ کہے گا کہ احمدیت نے اس میں ایک ایسی بات پیدا کر دی ہے جو میرے مذہب نے میرے اہل مذہب میں پیدا نہیں کی.اگر یہ بات نہیں تو ہزار ناک رگڑا جائے ہندوؤں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا.دیکھ لو ہندوؤں میں لوگ الٹے لٹکتے ہیں.اور الٹے لٹکے ہوئے ہی اپنے کام کرتے ہیں.میں نے ہندوؤں میں ایسے لوگ دیکھتے ہیں جو الٹے لٹکتے اور سردی میں ٹھنڈے پانی میں بیٹھ جاتے اور گرمی میں اپنے ارد گرد آگ جلا لیتے ہیں.کیا تم ان لوگوں کی اس قسم کی نفس کشی سے خیال کرتے ہو کہ ہندو مذہب سچا ہے.ان کی ان عبادتوں کا تم پر اثر نہیں ہوتا.اگر سارے ہندو بھی اس طرح کریں.تو تم پر اس کا کچھ بھی اثر نہیں ہو سکتا.بلکہ تم ان کو پاگل کہو گے.اسی طرح تمہاری نماز اور تمہارے حج کو وہ تمہارا پاگل پن سمجھتے ہیں.ایک ہی بات ہے جس کا غیر مذہب کے لوگوں پر اثر ہو سکتا ہے.اور وہ یہ ہے کہ اخلاق درست ہوں.اگر اخلاق درست ہوں گے تو یہ نہ صرف تمہارے لئے بہتر ہو گا.بلکہ دوسروں کے لئے بھی مفید ہو گا.وہی اعلیٰ درجہ کا مبلغ ہے.جس کے اخلاق درست ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو معاملات میں قربانی کرتے ہیں اور ان کی حالت پر رشک آتا ہے.مگر کئی ایسے ہیں جو ان معاملات پر توجہ نہیں کرتے.وہ لوگ نام کے احمدی ہیں.احمدیت ان کے دل میں نہیں ہے.وہ منافق لوگ ہیں.اور لڑائیوں میں ان کی زبان درست نہیں رہتی مگر مجھے ان پر اس قدر افسوس نہیں جتنا ان پر ہے جو بد معاملگی دیکھتے ہیں اور اس کو روکنے کی کوشش نہیں کرتے.اور گالیاں سنتے ہیں.اور ان کو روکنے کے لئے ہاتھ نہیں اٹھاتے.

Page 377

٣١ ابھی دو تین دن کی بات ہے میں نے اپنے گھر میں سے دیکھا کہ ایک شخص نے کہا کہ ”اجی وہ تو حرام زادہ ہے اس وقت چار آدمی وہاں کھڑے تھے.مجھے حیرت ہے کہ انہوں نے گالی دینے والے کو روکا نہیں.وہ لوگ جو وہاں کھڑے تھے ان میں سے ایک کا مجھ کو نام بھی یاد ہے اور میں ان کا نام بھی لے دیتا ہوں.وہ سید محمد اسماعیل دفتر کے تھے.تین اور آدمی تھے.اور یہ سمجھ دار آدمی تھے.معمولی نہ تھے.مگر گالی سنکر ان میں سے کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی.گویا کہ کسی کو حرام زادہ کہنا بری بات نہیں تھی.یہی تو وہ بات ہوتی ہے جو عوام کہا کرتے ہیں صرف فرق یہ ہوتا ہے کہ یہ ذرا پیچیدہ بات ہے.اور وہ لوگ تشریح سے یہی بات کہا کرتے ہیں.جب بچے ایسی باتیں سنیں گے کہ داڑھی والے ایسے لفظ بولتے ہیں تو وہ ان الفاظ کے بولنے میں کچھ حرج نہیں سمجھیں گے.مجھے اس شخص پر بھی حیرت آتی ہے کہ خدا کے غضب میں گرفتار اور رات دن بیماری میں مبتلا ہے.جس سے عام طور پر اطباء مایوس ہو چکے ہیں.اور مالی حالت اس کی بہت خراب ہے.روز رقعے آتے رہتے ہیں کہ میری مدد کرو.اور اس کے اخلاق کی یہ حالت ہے کہ بلاوجہ ایک شخص کو حرام زادہ کہتا ہے.کیا وہ چاہتا ہے کہ اس پر اور لعنت پڑے.اور خدا اس کو اور دوزخ میں اتار دے.دوسرے لوگوں نے جو قریب ہی کھڑے تھے اس بات کو محسوس نہ کیا.اس سے یہ بھی مطلب نکل سکتا ہے کہ ان کے دل میں اخلاق کی قدر نہیں.لوگ گالیاں سنتے ہیں اور محسوس نہیں کرتے.اور کوئی شخص نہیں کہ جو ان کو پکڑ کر کہے کہ اپنی خالت درست کرو.اسی طرح جب لڑائی ہوتی ہے تو بڑے لوگ (بڑے سے میرا مطلب یہ ہے کہ بڑی عمر کے لوگ) گندی گالیوں پر اتر آتے ہیں.گالیاں تو سب ہی گندی ہوتی ہیں.مگر ایسی جن کا گند کھلا ہو.اس کے معنی یہ ہیں کہ ایسے لوگ اوسط اخلاق کی حقیقت بھی نہیں سمجھتے.میں ایسے لوگوں کو جو گالیاں دیتے ہیں منافق کہہ کر خوش ہو لیتا.کیونکہ لڑائی میں گالی دینے والے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے منافق کہا ہے.لیکن افسوس ہے کہ کثرت ایسے لوگوں کو ناپسند نہیں کرتی.وہ لوگ ان کے خلاف ہاتھ نہیں اٹھاتے ہاتھ اٹھانے سے یہ مطلب نہیں کہ ان کو مارتے نہیں بلکہ یہ کہ ان کو مناسب طریق پر روکتے نہیں.اگر وہ خود روک نہیں سکتے تو کم از کم مجھ کو لکھتے.تاکہ معلوم ہو کہ لوگ اس قسم کے لوگوں کو برا سمجھتے ہیں.جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں عبداللہ بن ابی ابن سلول کی حرکتوں کو تمام صحابہ نا پسند کرتے تھے.یہی وجہ ہے کہ اس کی حرکتوں کو صحابہ کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا جو خائن ہے بد گو ہے تم اس کے خلاف آواز اٹھاؤ اور اس کے خلاف رپورٹ کرو.پھر کوئی شخص ایسے شخص کی حرکات کو تمہاری طرف منسوب نہیں کر سکتا.منافقوں کی حرکتوں کو آج کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ صحابہ ایسے تھے.کیونکہ تاریخوں میں محفوظ چلاتا ہے کہ صحابہ ایسے لوگوں سے نفرت

Page 378

۳۵۳ کرتے تھے.پھر ان کی طرف ایسے لوگوں کی حرکات کو کیسے منسوب کیا جا سکتا ہے اسی طرح اگر ہماری جماعت کے لوگ ایسے لوگوں سے نفرت کریں.ان کو ڈانٹیں اور ان کے افعال پر لعن طعن کریں.اور ان لوگوں کو بتائیں جو ان کا علاج کر سکتے ہیں تو یہ لوگ تھوڑے دنوں میں سیدھے ہو جائیں یا ہم سے کٹ جائیں.اور ان کے افعال کو کوئی شخص ہماری جماعت کی طرف منسوب نہ کر سکے.کیونکہ ہر ایک کو معلوم ہو جائے کہ یہ جماعت ان لوگوں سے تو خود نفرت کرتی ہے.پس میں پھر توجہ دلاتا ہوں کہ اخلاق کو درست کر دیا د رکھو کہ جو جماعت کسی اپنی طرف منسوب ہونے والے کی بدی کو دور کرنے کی کوشش نہیں کرتی.اس کا الزام ساری جماعت پر آتا ہے.تم اس الزام سے اسی وقت بچ سکتے ہو.جب تم ان کے ان اخلاق کو نا پسند کرو.اللہ تعالیٰ جماعت کو اخلاق حسنہ کے اختیار کرنے کی توفیق دے.اور جو کمزور اخلاق کے ہیں ان کی اصلاح ہو.اور ہماری جماعت ان کی اصلاح میں زور لگاوے.اگر ان کی اصلاح نہ ہوتی ہو.تو وہ لوگ جدا ہو جائیں.الفضل ۱۶ اکتوبر ۱۹۲۲ء)

Page 379

70 قوت اخلاق (فرموده ۶ اکتوبر ۱۹۲۲ء) حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.میں نے پچھلے جمعہ احباب کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ غیر اقوام کے لئے سب سے بڑی چیز جو صداقت کی طرف رہنمائی کا موجب ہوتی ہے وہ اخلاق فاضلہ ہیں.ہماری عبادتیں، ہمارے ذکر اور درود ان کے نزدیک وہم سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے اور دلیل وہ ہوتی ہے جو دوسرے کی بھی مسلمہ ہو.اگر عیسائی سے بحث کرو.اور دلیل کے طور پر قرآن کریم کی آیت پر آیت پڑھتے جاؤ.تو گو وہ عقل سے زیادہ یقینی اور مقدم ہے کیونکہ خدا کا کلام ہے.مگر وہ اس کو تسلیم نہیں کرے گا.اس کو منوانے کے لئے وہی دلیل ہو سکتی ہے جو اس کے نزدیک بھی مسلم ہو.اگر ہندو سے بحث کرتے وقت قرآن و حدیث کے حوالے دو گے تو گو وہ عقل پر مقدم ہیں.اور اس سے زیادہ یقینی ہیں.مگر اس پر ان حوالوں کا اثر نہیں ہو سکتا.اگر اس پر قرآن و حدیث کے حوالہ جات کا اثر ہو سکتا ہے تو اسی صورت میں کہ پہلے تم اس پر ثابت کرو کہ قرآن کریم خدا تعالی کا کلام ہے.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسول ہیں.ورنہ یہ بات ثابت ہونے سے پہلے قرآن و حدیث کے حوالوں کو وہ وہم ہی سمجھے گا.وہ عقل کو مانتا ہے.لیکن قرآن کریم کو نہیں مانتا.جس طرح عقلی دلائل کے مقابلہ میں قرآن و رسول کریم کا کلام اس کے لئے بے حقیقت ہوتا ہے.اسی طرح اعمال میں سے وہ اعمال جو ہمارے شرعی اعمال ہیں ان کے لئے بے اثر اور لغو ہیں.قرآن کریم کی محبت حدیث کی محبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے جذبات اگر کسی مسلمان میں ہیں تو ایک ہندو ایک عیسائی ایک سکھ ایک پارسی کے نزدیک ان کی کچھ بھی قدر نہیں.لیکن ایک جذبات وہ ہیں جو ان کے دل میں بھی ہیں.اور وہ یہ ہیں کہ رحم کریں.ہمدردی کریں.یہ جذبات ایک ہندو کے دل میں بھی ہیں.ایک عیسائی، سکھ، پارسی کے دل میں بھی ہیں.اس کے ساتھ اس کے دل میں یہ جذبہ بھی ہے کہ یہ جذبات اچھی چیز ہیں.نہ صرف یہ کہ یہ جذبہ رحم صرف اہل

Page 380

۳۵۴ مذاہب ہی کے دل میں ہے.بلکہ ایک دہریہ کے دل میں بھی ہے.وہ محسوس کرتا ہے کہ رحم اچھا ہے.ظلم برا ہے.دیانت اچھی ہے خیانت بری ہے.صداقت اچھی ہے جھوٹ برا ہے.جس طرح ان باتوں کا احساس ایک مسلمان کے دل میں ہے.اسی طرح دیگر مذاہب کے لوگوں میں بھی اس کا احساس ہے.اور یہ تار ہے جو سب کے دل میں لگا ہوا ہے.دیکھو امر تسر یا کسی اور مقام سے جہاں پر تار ہے.اگر تار دیا جائے تو بٹالہ میں پہنچ جائے گا.لیکن بٹالہ سے قادیان میں تار نہیں پہنچ سکتا.کیونکہ بٹالہ اور قادیان کے درمیان سلسلہ تار نہیں.اس طرح قرآن و حدیث کا ایک ہندو ایک عیسائی ایک سکھ اور پارسی کے دل کے ساتھ جوڑ نہیں.اس لئے قرآن حدیث کے حوالے ان کے سامنے بیکار ہوں گے.لیکن اخلاق کی ٹیلی فون سب کے دل میں ہے.گو اخلاق کی تار قرآن و حدیث کے مقابلہ میں کمزور ہے.مگر پہنچ ضرور جائے گی.کیونکہ اس کا سلسلہ سب دلوں میں ہے.اور قرآن و حدیث کا سلسلہ سب دلوں میں نہیں.پس وہ باتیں جو غیر مذاہب پر اثر کر سکتی ہیں.وہ اخلاق، قربانی، ایثار، محبت وغیرہ ہیں وہ تم کو دیکھتے ہیں.اگر تم میں یہ باتیں ہیں تو قرآن و حدیث کے حوالے پیش کرنے سے زیادہ ان پر صداقت اسلام کا اثر ہوگا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کونسی چیز تھی جو مخالفین پر اثر کرتی تھی.وہ قرآن کریم سے ابتدا متاثر نہیں ہوئے.بلکہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی زندگی تھی.آپ ان میں رہے تھے.آپ کی دیانت، آپ کی راستبازی اور ہمدردی خلائق اور ایثار تھا جو ان پر اثر کرتا تھا.دعوئی سے پہلے آپ ان کو شرک سے منع نہیں کرتے تھے کیونکہ حکم خداوندی نہ تھا لیکن آپ خود مشرک نہ تھے.آپ کے طور طریقہ کی خوبی ہی تھی جس کا اثر تھا.اور یہ اثر اندر ہی اندر کھاتا جاتا تھا اور وہ اس کے مقابلہ میں آنکھیں نہیں اٹھا سکتے تھے.آپ مکہ کے قریب کی پہاڑی پر چڑھ گئے اور ایک ایک قبیلہ کا نام لیکر بلایا جب سب جمع ہو گئے تو آپ نے ان کے سامنے ایک مشکل سوال رکھا کہ اگر میں یہ کہوں کہ اس کے پیچھے ایک لشکر ہے تو تم مان لوگ گے.یہ ایک ناممکن امر تھا.کیونکہ مکہ کے لوگ اونٹ چراتے تھے اور اس کے لئے پندرہ پندرہ میل تک دور نکل جاتے تھے.یہ کیسے ممکن ہو سکتا تھا کہ ایک لشکر اور بہت بڑا لشکر مکہ کے قریب اگر ایک اوٹ میں ہو رہتا اور مکہ والوں کو پتہ بھی نہ لگتا.مگر ان لوگوں نے آپ کے اس ناممکن سوال کے جواب میں کہا اور آپ کے اخلاق سے متاثر ہو کر کہا کہ اگر تو کہے تو مان لیں گے کیونکہ ہم نے کبھی تجھ کو جھوٹ بولتے نہیں سنا.اور تو ہمیشہ دیانت دار رہا ہے.تو ہمیشہ سچ بولتا رہا ہے.آپ نے فرمایا اچھا میں کہتا ہوں کہ خدا ایک ہے شرک بری چیز ہے.اگر تم شرک نہ چھوڑو گے تو تم پر عذاب آئے گا...اس بات نے ان پر اثر نہ

Page 381

۳۷۵ کیا.بلکہ آپ کی اس زندگی نے اثر کیا جو آپ نے قبل دعوئی ان لوگوں میں گزاری.جب آپ نے دعوی کیا تو چونکہ مکہ عرب کے لوگوں کا مرکز تھا اس لئے وہاں کے چند سر بر آوردہ لوگوں نے جمع ہو کر تجویز کی کہ باہر سے لوگ آئیں گے.اگر ہم ان کو آپ کے متعلق مختلف باتیں بتائیں گے تو ہماری رائے کو غلط سمجھیں گے.چاہئیے کہ مل کر ایک فیصلہ کریں.اور وہی جواب دیا کریں.ان میں سے ایک شخص نے جواب دیا کہ ہم کہہ دیا کریں کہ وہ جھوٹا ہے.اسی وقت دوسروں نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ ہم نے اس کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا.اور ہم اس کو صادق اور امین کے طور پر ہی پیش کیا کرتے تھے.اب اس کو جھوٹا کیسے کہیں گے وہ لوگ تو ہمیں کو ملزم کہیں گے.۲.یہ چیز تھی جو ان کو جھکائے ہوئے تھی.اب اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود کے متعلق یہی حال ہے سکھ لوگ حضرت مسیح موعود کی کتب پڑھے ہوئے نہیں.مگر آپ کے اخلاق اور خوبیوں کا ان پر یہ اثر ہے کہ جو بوڑھے ہیں وہ خود بتاتے ہیں.اور جو جوان ہیں وہ اپنے باپ دادے کی روائتیں سناتے ہیں کہ مرزا صاحب تو بچپن ہی سے ولی اللہ تھے اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ آپ کو الہام ہوتے تھے اور وہ اس کے قائل ہیں.بلکہ وہ آپ کے سلوک کو دیکھتے تھے کہ آپ کے بڑوں کا جو طور طریق تھا اس کے خلاف آپ کا طریق اسلامی طریق تھا.وہ لوگ یہ نہیں کہیں گے کہ آپ نمازیں پڑھتے تھے.وہ دیکھتے تھے کہ آپ لوگوں کی ہمدردی کرتے تھے ، جھوٹ نہ بولتے تھے، دوسروں سے نرمی اور مردت اور سلوک سے پیش آتے تھے.کیا وجہ تھی کہ آپ نے بار بار لکھا کہ کوئی کھڑا ہو اور میرے ابتدائی حالت کے متعلق کوئی بری بات کہے.گو یہاں ہر قسم کے لوگ تھے.مگر کسی نے آپ کے خلاف کوئی بات نہیں کی.یہ آپ کے اخلاق ہی تھے کہ لوگ ان کے سامنے کوئی عیب نہیں لگا سکتے تھے.مولوی محمد حسین صاحب نے اپنے رسالہ اشاعتہ السنہ میں لکھا تھا کہ مرزا صاحب نے اسلام کی روحانی اور اخلاقی وغیرہ وہ خدمت کی ہے جو تیرہ سو برس میں کسی نہیں کی.یہاں ایک قریب کا ہلواں گاؤں ہے.وہاں کا ایک بوڑھا سکھ جب ملنے آتا ہے تو آنسو اس کی آنکھوں سے نکل آتے ہیں.اور کہتا ہے کہ مرزا صاحب ہم سے بہت محبت کیا کرتے تھے.ہمارے نزدیک قبروں کو بوسہ دینا اور سجدہ کرنا شرک ہے اور گناہ ہے.لیکن وہ ایک دفعہ حضرت صاحب کی قبر پر گیا اور وہاں سجدہ کرنے لگا.ایک احمدی وہاں موجود تھا.اس نے روک دیا.وہ میرے پاس آیا.اور دور ہی سے چیخ مار کر رو پڑا اور کہا کہ مجھ پر احمدیوں نے ظلم کیا ہے.میں نے سمجھا کہ کسی احمدی نے کسی معالمہ میں اس پر کچھ زیادتی کی ہوگی.میں نے پوچھا کہ کیا بات ہے.تو اس نے کہا کہ مجھے قبر پر متھانہ ٹیکنے دیا.تمہارے مذہب میں برا ہو.لیکن میں تو اپنے طریق پر اظہار.

Page 382

محبت کرنے لگا تھا.میں نے اس کو نرمی سے سمجھایا کہ ہمارے مذہب میں یہ جائز نہیں.اور یہ اچھی بات نہیں.لیکن وہ رو رہا تھا.یہ ایک سکھ کی حالت ہے.جو حضرت صاحب کے ابتدائی حالات سے واقف ہے.کیونکہ وہ اپنے والد کے ساتھ حضرت مسیح موعود کے والد صاحب کے پاس آیا کرتا تھا.وہ حضرت مسیح موعود کی کتب نہیں پڑھا ہوا وہ معجزات کو نہیں جانتا.لیکن جب وہ آتا تھا.تو دیکھا کہ آپ کے اخلاق کس قسم کے ہیں.ہے تو وہ سکھ ہی لیکن آپ کے اخلاق نے جو اثر اس کے دل پر کیا ہے وہ دور نہیں ہوتا.جس زمانہ میں پادری مارٹن کلارک نے حضرت مسیح موعود کے خلاف جھوٹا مقدمہ بنایا.تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی آپ کے خلاف شہادت دینے کے لئے گئے.اس حالت میں یہ توقع نہیں ہو سکتی تھی کہ ایک مسلمان عیسائیوں کا ساتھ دے گا.مگر واقعہ یہی ہوتا ہے کہ ایک مسلمان مولوی عیسائیوں کے لئے جھوٹے مقدمہ میں گواہی دیتا ہے.اس وقت حضرت صاحب کے وکیل نے جو ایک غیر احمدی تھا مولوی محمد حسین صاحب کی پیدائش کے متعلق ایک ایسا سوال کرنا چاہا جس سے مولوی صاحب پر سخت زد پڑتی تھی لیکن آپ نے وکیل کو اس سوال کے کرنے سے روک دیا.وکیل نے پھر یہ سوال کرنا چاہا کیونکہ وہ مولوی صاحب کی حیثیت کو توڑنے والا تھا.مگر آپ نے روک دیا.کہ اس اندرونی راز سے ان کا کیا تعلق.نہیں معلوم وہ وکیل اب زندہ ہے یا نہیں لیکن آج سے پانچ چھ سال پہلے تک وہ زندہ تھا.اور مشہور آدمیوں میں سے تھا.اور سلسلہ کا سخت دشمن تھا.اور بحث میں بتا دیتا تھا کہ میں سخت مخالف ہوں.مگر کہتا تھا کہ میں نے مرزا صاحب جیسا با اخلاق آدمی نہیں دیکھا.ایسا موقع کہ سخت دشمن ایک سوال میں خاموش ہو سکتا ہے.آپ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور روک دیتے ہیں.یہ چیزیں ہیں جو لوگوں پر اثر کرتی ہیں.اس کے بغیر کچھ نہیں.کیونکہ مخالف پر وہی بات اثر کرتی ہے جو دنوں میں مشترک ہو.مسلمان اگر عیسائی کے سامنے قرآن کریم پیش کرے تو اثر نہیں ہوگا.اور اگر عیسائی بائبل مسلمان کو سنائے تو وہ اس کو تسلیم نہیں کرے گا.ایک آریہ دشمن نے جو مر چکا ہے قرآن کی آیات اهدنا الصراط المستقيم کے معنی ایک طبی اصطلاح ایک انٹری کے متعلق لیکر یہ کئے ہیں کہ اس میں بدفعلی کی دعا کی گئی ہے.برخلاف اس کے ایک مسلمان جب بسم اللہ کی بسم ہی پڑھتا ہے تو اس کی گھگی بندھ جاتی ہے اور اهدنا الصراط المستقیم تک پہنچتے پہنچتے اس کی حالت ہی اور ہو جاتی ہے.جو اعمال خالص شرعی ہیں فطری نہیں ان کی تصدیق اخلاق سے ہوتی ہے.خدا کا کلام اور دیگر ایسے ہی مسائل کے لئے عقل کو خدا نے رکھا ہے.اگر عقل نہ ہوتی تو ان مسائل کی تصدیق نہ ہو

Page 383

21 ۳۷۷ سکتی.اور شریعت کے لئے اخلاق کو رکھا ہے.عقل ہندؤں کو بھی دی گئی ہے.اور وہ بچے مذہب کے دلائل کو عقل سے معلوم کر سکتے ہیں.جب بچے دلائل پیش ہوتے ہیں تو عقل اپیل کرتی ہے کہ ان کو تسلیم کیا جائے.اسی طرح جو عملی زندگی ہے اور جس کا شریعت ہی سے تعلق نہیں.گو شریعت بھی اس کی تعلیم دیتی ہے.اس کی تصدیق کے لئے سب مذاہب کے لوگوں میں اخلاق رکھے گئے ہیں.جب وہ دوسرے کی اخلاقی حالت کو دیکھتے ہیں تو ان پر اثر ہوتا ہے.جس طرح دلائل کے لئے عقل ذریعہ ہے.اسی طرح اعمال کے لئے اخلاق ذریعہ ہے.اس لئے میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کرد.یہ بڑی بات نہیں کہ جھوٹ نہ بولو.بلکہ میں کہتا ہوں کہ خطرناک حالات میں بھی سچ بولو.یہ نہیں کہ دوسروں کے حقوق نہ مارو.بلکہ اگر اپنے حقوق بھی چھوڑنے پڑیں تو چھوڑ دو تا لوگ دیکھیں کہ تم میں اوران میں فرق ہے.کیونکہ یہی ایک بات ہے.جس سے وہ مذہب کی خوبی کو دیکھ سکتے ہیں ان کی مذہب کی آنکھ نہیں.اخلاق کی آنکھ ہے.گو کمزور ہے.مثلا تم کو ایک رنگ نظر آتا ہے اور دوسرے کو وہ مطلق نظر نہیں آتا.وہ اس کا قائل نہیں ہو سکتا.البتہ وہی رنگ اگر دوسرے کو دھندلا سا نظر آتا ہے.جس کو تم صاف صاف دیکھتے ہو تو وہ اس کو سمجھ سکتا ہے.اور تم اس کو منوا سکتے ہو.جب تم نصوص لے کر جاؤ گے تو وہ نہیں مانے گا لیکن جب اخلاق کے ساتھ جاؤ گے تو وہ تمہارا قائل ہو جائے گا.تم اخلاق کے ذریعہ آزمائے جاتے ہو.کہ تم میں یہ دوسروں کی نسبت زیادہ ہیں یا نہیں لوگوں کو تمہاری روحانیت کے آزمانے کا موقع نہیں ملا وہ پہلے تمہارے اخلاق کو دیکھتے ہیں.اس لئے تمہاری روحانیت ان کے لئے اتنی مفید نہیں.جس قدر تمہارے اخلاق ان کو ہدایت کی طرف لانے میں محمد ہو سکتے ہیں اس لئے پہلا قدم جس کے ذریعہ تم تبلیغ کر سکتے ہو یا پہلا قدم جس کے ذریعہ تم اپنی روحانی حالت کی اصلاح کر سکتے ہو اور پھر خیر کو بھی کھینچ سکتے ہو.وہ اخلاق ہیں.اللہ تعالی توفیق دے تاکہ تم اس بارے میں نمایاں تبدیلی کرو.مخالف تمہارے اخلاق کو دیکھے تو محسوس کرے خواہ مانے یا نہ مانے.دشمن کی آنکھ پہلے اخلاق کو دیکھتی ہے.اللہ تعالٰی تبدیلی کی ے.تاکہ یہ اخلاقی حالت کی اصلاح ہمارے لئے اور ان کے لئے مفید ہو.جن کو ہدایت نہیں پہنچی.مگر وہ ہدایت کے منتظر ہیں.، مشکوۃ باب البعث و بدء الوق ۲ سیرت ابن ہشام جلد اول ص ۲۷۰ (الفضل ۱۹ اکتوبر ۱۹۲۲ء)

Page 384

71 دنیا پر دین کو مقدم رکھیں (فرموده ۱۳ اکتوبر ۶۱۹۲۲ تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.انسان کی پیدائش کے ساتھ ایسی ضروریات اس کے ساتھ لگا کر جن کے بغیر اس کی زندگی قائم نہیں رہ سکتی اور جن ضروریات کے پورا ہوئے بغیر اس کو اطمینان حاصل نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ نے اس بات کا فیصلہ فرما دیا ہے کہ اس کا ایک کام یہ بھی ہے کہ دنیا میں رہ کر اس پر غور کرے اور مادی ترقیات میں بھی اپنی طاقتوں کو خرچ کرے مثلاً انسان اگر کھانے پینے کا محتاج نہ ہو.یا اگر اس کی زبان میں مزا نہ رکھا جاتا تو سینکڑوں قسم کے کھانے جو ایجاد ہوئے ہیں انکی کوئی قدر نہ کرتا.یہ نہیں ہوتا کہ آسمان سے لسٹ بن کر آجائے کہ فلاں ملک میں فلاں غلہ پیدا ہوتا ہے اور فلاں ملک میں فلاں.بلکہ انسان محنت اور توجہ اور غور سے دریافت کرے کہ فلاں ملک میں کونسا غلہ ہوتا ہے.اور فلاں غلہ کس جگہ زیادہ پیدا ہوتا ہے.یہ تمام پھل، پھول، غلے، ترکاریاں، مونگ، ماش، موٹھ وغیرہ کس طرح دریافت ہوئے اسی طرح کہ انسان زبان کے مزے کے لئے ان چیزوں کو دیکھتا تھا.جو چیزیں اچھی معلوم ہوتیں ان کو کاشت کرنے کے ذرائع سوچتا اور معلوم کرتا تھا.اور کرتا ہے.پہاڑ پر جاؤ وہاں پر طرح طرح کی بوٹیاں اگی ہوئی ہوں گی کئی دیکھنے والوں کا دل چاہتا ہے کہ ان کو چکھ کر دیکھیں.اور اس طرح کئی اور کھانے کی چیزیں معلوم ہو جاتی ہیں.یا بعض بوٹیوں کے کھانے سے جو جسم پر اثر ہوتا ہے اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ فلان فلاں مرض میں مفید ہو سکتی ہیں.جتنے درخت اور پھل ہیں وہ اسی طرح معلوم ہوئے کہ پہلے ان کو زبان کے مزے کے لئے چکھا گیا.اور پھر ان کو کاشت کرنے کے ذرائع معلوم کئے گئے.انسان کی ابتدائی حالت بالکل بچے کی حالت کے مشابہ ہے.جس طرح بچے کے سامنے جو چیز آتی ہے وہ اس کو منہ میں ڈال لیتا ہے.اسی طرح انسان کی بھی یہی حالت تھی کہ وہ ہر ایک چیز کو منہ میں ڈالتا اور اس کے متعلق تجارب کرتا تھا.ان تجارب کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہزاروں جسم کے پھل اور غلے اور کھانے نکل آئے.-

Page 385

۳۷۹ پھر جب انسان نے غلوں کو کھانا شروع کیا.گیہوں اور چاول کثرت سے کھانے میں آنے لگے تو گیہوں نے الگ اثر کیا اور چاول نے الگ اثر کیا.اور چاول کی زیادتی سے بادی ہونے لگی اور لوگوں کے جگر خراب ہونے لگے یا کسی اور چیز کے کھانے سے پیٹ میں درد ہوا تو علاج کی طرف توجہ ہوئی چونکہ بعض بوٹیوں کے مفید اثرات بھی ان تجارب میں معلوم ہوئے ان کو ان بیماریوں کے دور کرنے کے لئے استعمال کیا جانے لگا اور علم طب پیدا ہو گیا.اگر زبان کا مزا نہ ہوتا تو انسان محض پیٹ بھرنے سے غرض رکھتا.لیکن پیٹ نہیں بتایا کرتا کہ فلاں چیز کھانی چاہئیے یا فلاں سے پر ہیز کرنا چاہیے یا فلاں چیز مزیدار ہے.اور فلاں نہیں.چونکہ زبان میں مزا رکھا گیا ہے اس لئے وہ مختلف مزوں کی چیزیں طلب کرتی ہے جس وجہ سے مختلف غذا ئیں نکلتی ہیں اور مختلف غذاؤں کے بداثرات کو دور کرنے کے لئے مختلف دوائیں بھی نکل آتی ہیں.اسی طرح حساب کا علم بھی مختلف ضروریات کے پورا کرنے کے لئے نکل آیا مثلا کھانے پینے سے یہ مدد اس علم کو ملی کہ مرکب غذاؤں اور دواؤں کی آپس میں کیا نسبت ہو.یا مختلف رنگوں کے پھولوں، پھلوں اور بیل بوٹوں اور مناظر سے آنکھوں کو فرحت ہوئی پھر خوش آوازوں سے کانوں نے لذت حاصل کی.ان حواس خمسہ کے ذریعہ جس کے متعلق اب تحقیقات کے ذریعہ معلوم ہوا پانچ نہیں زیادہ ہیں، علوم نے ترقی کی غرض بعض حواس اور ان کے مطالبات کو پورا کرنے کے لئے اس قدر سامان اسی لئے دئے گئے ہیں کہ انسان ان خزائن کے دریافت کرنے کی طرف بھی توجہ دے جو اللہ تعالٰی نے اس دنیا میں مخفی رکھے ہیں.مگر کیوں توجہ دے؟ یہ ایک حکمت ہے.جس کا اس مضمون سے تعلق نہیں.لیکن منشاء الہی ہے کہ اپنی قوتوں کو ادھر بھی انسان لگائے.کھانے پینے ، ترقی کرنے کی خواہش، شہوات میاں بیوی کے تعلقات کی طاقت سردی گرمی کا احساس، سونے جاگنے کی خواہش یہ سب خواہشیں ایسی ہیں کہ ان سے کوئی انسان بچتا نہیں.انسان میں ان خواہشات کے رکھنے سے خدا کا منشاء یہ ہے کہ انسان اپنا کچھ وقت ان چیزوں پر خرچ کرے.ہاں یہ منشاء نہیں کہ بالکل ادھر ہی لگ جائے.ایک شخص کے ہاں ایک مہمان آتا ہے وہ مہمان کے سامنے مختلف قسم کے کھانے رکھتا ہے.پلاؤ گوشت، روٹی، اچار، مربہ وغیرہ میزبان کی خواہش ہوتی ہے کہ مہمان یہ سب کھانے کھائے.لیکن اگر مہمان ایک ہی چیز مثلاً اچار ہی کھائے اور دوسری چیزوں کو ہاتھ نہ لگائے تو میزبان خوش نہیں ہو سکتا.ہاں جو چیز میزبان مہمان کے لئے خصوصیت سے تیار کرتا ہے اس کے متعلق خواہش ہوتی ہے کہ مہمان اس کو زیادہ رغبت سے کھائے.اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی چاہتا ہے کہ اس نے اپنے بندے کے لئے جو چیز سب سے عمدہ تیار کی ہے بندہ اس کو زیادہ پسند کرے اور اس پر اپنا زیادہ وقت صرف کرے.باقی چیزیں بھی جس قدر ہیں.وہ بھی اس لئے ہیں کہ بندے ان سے حصہ لیں.

Page 386

٣٨٠ حتی کہ اس کے انبیاء بھی ان تمام خواہشوں سے حصہ لیتے ہیں جو ان میں رکھی گئی ہیں.لیکن وہ چیز جو اس نے زیادہ پسند کی ہے کہ بندے بھی اس کو پسند کریں.وہ اس کا دین ہے.جس کے متعلق اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ بندہ بھی اس کو زیادہ پسند کرے.ہمارے ملک میں پلاؤ سب سے اچھا کھانا سمجھا جاتا ہے جس طرح میزبان نہیں چاہتا کہ مہمان پلاؤ کو چھوڑ کر چٹنی کھائے.یا خشک روٹی کھائے.گو وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ وہ یہ بالکل نہ کھائے بلکہ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ تمام کھانوں میں سے خاص کھانے کی طرف زیادہ توجہ کرے.اسی طرح خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس نے اپنے بندے کے لئے جو چیزیں پیدا کی ہیں ان سب کی طرف توجہ کرے مگر خصوصا دین کی طرف زیادہ توجہ کرے لیکن انسان اور خدا کی دعوت میں ایک فرق ہے کیونکہ انسان جس شخص کی دعوت کرتا ہے وہ اس کے متعلق پورا واقف نہیں ہوتا.اس لئے وہ اپنی دانست میں ایک عمدہ چیز پکواتا ہے مثلاً پلاؤ ہی تیار کرواتا ہے.لیکن بہت سے لوگ ہیں جن کو بوجہ معدے کے کمزور ہونے کے چاول ہضم نہیں ہوتے.مگر میزبان نے اس کے لئے پلاؤ یا اور عمدہ کھانا پکایا ہوتا ہے مہمان اس کو نہیں کھا سکتا.اور وہ صرف شوربے اور چپاتی ہی کو کھاتا ہے.کیونکہ اگر وہ پلاؤ وغیرہ کھائے تو اس کو تکلیف ہوگی.اس صورت میں کوئی حرج نہیں اگر انسان اپنے میزبان کی دعوت میں سے عمدہ چیز کو چھوڑ دے.کیونکہ وہ اس کو کھانے سے معذور ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کی دعوت میں یہ بات نہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے جس چیز کو زیادہ پسند کیا ہے وہ واقعی بہت اعلیٰ درجہ کی ہے اور سب چیزوں سے افضل اور بندے کے لئے مفید ہے.مگر بہت لوگ ہیں جو مذہب کی محبت کا دعوی کرتے ہوئے پھر اس سے غافل ہوتے ہیں.اور دنیا کی خاطر دین کو قربان کرتے رہتے ہیں.دنیا کی اشیاء میں بھی فرق ہوتا ہے ایک کو ایک چیز زیادہ پسند ہوتی ہے.اور دوسرے کو دوسری بعض لوگ علوم دنیاوی کو ہر ایک چیز پر مقدم کرتے ہیں بعض کو مال سب سے زیادہ پسند ہوتا ہے بعض کو عزت، مثلاً اگر ایک شخص کو کہا جائے کہ تو ہزار روپیہ لے لے اور بازار میں جوتیاں کھالے تو وہ کبھی پسند نہیں کرے گا.اور اکثر لوگ آرام کو زیادہ پسند کرتے ہیں.طالب علم بے شک آرام قربان کر کے علم حاصل کرتا ہے مگر اصل منشاء یہ ہوتا ہے کہ تھوڑا آرام قربان کرکے زیادہ آرام حاصل کرے.لیکن ان تمام دنیاوی نعمتوں سے زیادہ دین ہے ان اشیاء میں سے انسان اپنی خواہش کے مطابق چن سکتا ہے.مگر دین کو مقدم کرنا اس کا فرض ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے.اور اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ انسان اپنی تمام توجہ دنیا ہی میں خرچ نہ کرے بلکہ دنیا کی طرف بھی توجہ کرے مگر دین کی طرف زیادہ.

Page 387

کوئی نہیں کہتا کہ دنیا کو بالکل چھوڑ دو.دیکھو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھانا کھاتے تھے.آپ کے اپنی بیویوں کے ساتھ تعلقات تھے.رشتہ داروں سے ملتے اور اظہار محبت کرتے تھے.کچھ وقت ان کاموں میں بھی صرف کرتے تھے.یہ کام دنیاوی ہیں دینی نہیں اور کوئی نبی نہیں جس نے اپنا کچھ وقت دنیا کے معاملات میں نہ لگایا ہو.اور یہ کوئی عیب نہیں بلکہ ایک حد تک ان معاملات میں وقت لگانا ضروری ہے.اور اگر ان امور میں وقت صرف نہ کیا جائے اور ہر وقت نمازیں ہی پڑھی جائیں اور روزے ہی رکھے جائیں تو شریعت نے اس سے منع فرمایا ہے.چنانچہ ایک شخص ہمیشہ روزے رکھا کرتا تھا.اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوزخ کا ایک خاص حصہ ہے جس میں وہ لوگ ڈالے جائیں گے جو ہمیشہ روزے رکھتے ہیں.اے نماز دین ہے لیکن سورج جس وقت چڑھ رہا ہو.یا سورج مین سر پر ہو نماز پڑھنا انسان کو شیطان بنا دیتا ہے.اس سے اسلام کا منشاء یہ ہے کہ انسان کا کوئی وقت نمازوں سے فارغ بھی رہنا چاہیے کیونکہ وہ بھی قدرت کے احکام ہیں جن کا پورا کرنا ضروری ہے.لیکن اس کے باوجود جس وقت دین اور دنیا کا مقابلہ ہو.اس وقت دنیا سے خواہ کتنی ہی محبت ہو مومن کا فرض ہے ثابت کر دے.کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہیں.اور اس وقت دین کے لئے جو بھی قربانی کرنی پڑی وہ کر دے.روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت امام حسن نے حضرت علیؓ سے کہا کہ آپ کو مجھ سے محبت ہے فرمایا ہے.پھر کہا کہ خدا سے بھی محبت ہے فرمایا ہے.عرض کیا یہ تو شرک ہوا حضرت علی نے جواب دیا کہ نہیں جس وقت تمہاری محبت خدا کی محبت کے مقابلہ میں آجائے گی اس وقت میں تمہیں چھوڑ دوں گا.۲.اس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا میں بھی انسان کو وقت لگانا چاہیے لیکن جب دنیا دین کے مقابلہ میں آجائے تو پھر دنیا کو چھوڑ کر دین کا پہلو اختیار کر لینا چاہیے.اس کی مثال یہ ہے کہ اگر ایک شخص کو کوئی دنیاوی تکلیف پہنچتی ہے یا نقصان ہوتا ہے اور اس کو دین پر شبہ ہوتا ہے یا کسی بڑے لڑائی ہوتی ہے.تو اس لڑائی کے باعث حضرت مسیح موعود کے دعویٰ پر شک ہونے لگتا ہے.تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ایسے شخص نے دین کو دین سمجھ کر نہیں مانا تھا اور اس کا دیندار ہونے کا خیال غلط خیال تھا.میں نے یہ تمہید ایک خاص واقعہ کے متعلق بیان کی ہے.جو میں اب بتانا چاہتا ہوں.اور جس کے متعلق مجھے افسوس بھی ہے ممکن ہے بعض لوگ یہ کہیں کہ اس کو ظاہر کیوں کیا گیا.مگر میرا یہ خیال نہیں.جب لوگوں کا حق ہے تو پھر اسے کیوں چھپایا جائے.سٹور کا معاملہ ہے جیسا کہ سب کو معلوم ہے یہاں ایک سٹور قائم کیا گیا تھا.جماعت کے کچھ افراد نے اس میں روپیہ دیا تھا.مگر اس میں ایک حد تک بعض لوگوں کی بے احتیاطی سے یا قانون کے نقص سے نقصان ہوا ہے.جب تک مخص ت

Page 388

۳۸۳ کسی کی بددیانتی ثابت نہ ہو میں بے احتیاطی ہی کہوں گا اس وقت جو نفع ہوا ہے اگر اس کو ملایا جائے تو کوئی نقصان نہیں.لیکن اگر اس نفع کو نفع ہی سمجھا جائے تو گھاٹا ہوا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ لوگوں میں کم ہمتی پیدا ہو گئی ہے.کیونکہ پہلی کوشش ہی میں اگر نقصان ہو تو اس سے کئی لوگوں کے حوصلے گر جاتے ہیں.اور ایک کھلا کھلا نقصان یہ ہے کہ دین کے معالمہ میں بھی کچھ لوگوں کو ٹھو کر لگی ہے.میرے نام ایک خط آیا ہے جس میں لاہور کے کسی شخص کا نام ہے مگر میں خیال کرتا ہوں کہ اس میں کسی قادیان کے شخص کا بھی دخل ہے.لفافہ پر پہلے ایڈیٹر اہل حدیث امرتسر لکھا ہے.اور پھر اس کو کاٹ کر میرا پتہ لکھا گیا ہے.اور پھر ایڈیٹر اہل حدیث کو لکھا ہے کہ اس خط کو فوراً پہنچا دیں.اور اگر اس پر کچھ اعتراض ہو تو میں اس کا ذمہ وار ہوں.اور میں اس کا جواب دوں گا.یہ بات کہ یہ کسی احمد نی کہلانے والے کا ہے اس سے معلوم ہوتی ہے کہ میرا نام خلیفتہ المسیح لکھا ہے اور پھر میری طرف لکھا ہے کہ میں اہل حدیث کو یہ خط بھیجنے لگا تھا.مگر آپ کو پہلے اس لئے بھیجتا ہوں کہ جماعت کی بدنامی نہ ہو.اور پھر اہل حدیث کے نام جو کچھ لکھا ہے وہ یہ ہے کہ یہ قادیانیوں کی دیانت کا حال ہے جو دنیا میں بڑے بڑے دینداری کے دعوے دار ہیں اس کے بعد اس نے پہلے میری سٹور کے متعلق سفارش نقل کی ہے کہ جہاں تک میرا علم ہے سٹور کے کارکن دیانتدار ہیں.اس کو نقل کر کے کہا ہے کہ یہ ایک پھندا تھا جب روپیہ لوگوں نے دیا تو پھر روپیہ کھانا شروع کر دیا.اور کھاتے کھاتے یہاں تک پہنچایا کہ ساٹھ ہزار میں سے صرف ۱۸ ہزار باقی رہ گیا ( یہ بات بالکل غلط ہے نقصان کم ہے اور سرمایہ زیادہ ہے) جو زمین سٹور کی بہاتی ہے وہ ایسی ہے کہ اس میں ہر (سیلاب) آتا ہے.یہ اس لئے کہ حصہ دار ان اس میں ڈوب مریں.پھر اس قسم کے اور لطائف لکھے ہیں اور لکھا ہے کہ کہ کیوں نہ گھانا ہوتا.یہ لوگ اس میں سے روپیہ کھاتے رہے اپنے مال اور دو کا نہیں تیار کرتے رہے.پھر لکھا ہے کہ گھاٹا آنے کی کوئی وجہ نہ تھی.کیونکہ جس نرخ پر اشیاء خریدتے تھے اس سے زیادہ نرخ پر بیچتے تھے..میں جہاں تک سمجھتا ہوں مضمون لکھنے والے کا منشاء یہ تھا کہ وہ اہل حدیث کو یہ مضمون بھیجے بلکہ اس نے یہ خط میرے ہی نام لکھا تھا اور اہل حدیث کا نام لکھ کر کاٹنے کی یہ وجہ ہے کہ اس کے خیال میں جب ہم اہل حدیث کا نام لکھا دیکھیں گے تو کانپ جائیں گے.اور سمجھیں گے کہ اگر یہ خبر شائع ہو گئی تو فوراً ہما را کاروبار درہم و برہم ہو جائے گا.لیکن خواہ اس کی کچھ نیت ہو مگر اب یہ واقعہ ضرور ایڈیٹر اہل حدیث کو اس خطبہ کے ذریعہ سے انشاء اللہ پہنچ جائے گا.اور اس سے اس خط لکھنے والے کو بھی تسلی ہو جائے گی اور اس کا یہ سہارا بھی ٹوٹ جائے گا کہ اگر ایڈیٹر اہل حدیث کو یہ خبر

Page 389

پہنچ جائے تو خبر نہیں کیا ہو جائے گا.میں اس بات کو علی الاعلان سناتا ہوں تاکہ اہل حدیث کو بھی پہنچ جائے اور اس شخص کا دل خوش ہو جائے.اصل جھگڑے کا فیصلہ تو حصہ داران سٹور کریں گے میں ان کی رائے پر اثر نہیں ڈالتا اس معاملہ کو وہ خود طے کریں گے لیکن ان امور پر جو میری ذات سے تعلق رکھتے ہیں یا سلسلہ پر اثر ڈالتے ہیں ان کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں اس خط میں اول میری سفارش نقل کی ہے میں نے اس میں لکھا ہے کہ میرے نزدیک سٹور کا کام جن لوگوں نے شروع کیا ہے وہ دیانتدار ہیں اس عبارت پر جہاں تک میں غور کرتا ہوں مجھے اس میں کوئی اعتراض نظر نہیں آتا.اس میں کیا شک ہے کہ میں عالم الغیب نہیں ہوں جب میں کوئی رائے دیتا ہوں تو وہ ان واقعات کی بنا پر ہوتی ہے جو میرے سامنے ہو رہے ہیں گو میں ان کو اب بھی دیانت دار ہی سمجھتا ہوں جب تک انکی بد دیانتی ثابت نہ ہو جائے.لیکن میں پھر بھی کہتا ہوں کہ میں عالم الغیب نہیں.ضروری نہیں کہ میں کسی کی نسبت کوئی رائے دوں تو وہ ضرور درست ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون انسان ہو سکتا ہے مگر آپ بھی دنیاوی امور میں اپنی رائے کو حتمی نہ قرار دیتے تھے چنانچہ آتا ہے کہ مدینہ کے لوگ کھجوریں لگا رہے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گذرے اور فرمایا کہ یوں کیوں لگاتے ہوں اس طرح کیوں نہیں لگاتے.وہ لوگ اس رائے کو بھی ایک دینی مسئلہ سمجھے اور انہوں نے درخت اسی طرح لگا دیئے اس سال پھل نہ آنے پر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے.اور عرض کیا کہ حضور اس دفعہ تو پھل ہی پیدا نہیں ہوئے.آپ نے فرمایا کہ میں نے تو اپنے خیال کے مطابق ایک بات کہی تھی.یہ کوئی مذہبی بات تھوڑا ہی تھی کہ تم ضرور اس کو مانتے میں زمیندار نہیں ہوں تم اپنے دنیاوی امور کو زیادہ جانتے ہو.۳.پس اگر ان کارکنوں کی بد دیانتی ظاہر ہو جائے جن کی نسبت میں نے سفارش کی تھی.تو بھی کہا جائے گا کہ وہ میری رائے غلط تھی.اور یہ ایسی ہی غلطی ہوگی جیسی کہ رسول کریم سے ہوئی تھی.اسی طرح احادیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس دو شخص جھگڑتے ہوئے آتے ہیں ممکن ہے کہ میں ایک شخص کی باتیں سن کر اس کے دھوکے میں آجاؤں اور اس کے حق میں فیصلہ کر دوں اس شخص کو اس بات پر خوش نہیں ہونا چاہئیے.کہ میں نے اس کے حق میں فیصلہ کیا ہے کیونکہ وہ آگ کا ٹکڑا ہو گا جو میں اس کو دوں گا.۴.پس اگر کسی شخص کو رسول کریم دیانتدار اور سچا سمجھ سکتے ہیں جو در حقیقت دیانتدار اور سچا نہیں ہے تو پھر مجھ پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے کہ میں بھی کسی شخص کو اچھا سمجھ لوں اور وہ اچھا نہ ہو پس میں نے اگر سٹور کے کارکنوں کو دیانت دار لکھ دیا.اور اب وہ تحقیقات کے بعد دیانت دار ثابت لیکن

Page 390

نہ ہوں تو اس میں مجھ پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے مجھ پر الزام تو تب آسکتا ہے جب میں خدائی کا دعوے دار ہوں اگر تحقیق سے ثابت ہو کہ کسی شخص کی بددیانتی سے سٹور کا نقصان ہوا ہے تو سب سے پہلا شخص میں ہونگا جو کہوں گا کہ مجرم کے خلاف مقدمہ چلا کر اس کو سزا دی جائے.لیکن جب تک وہ بددیانت اور خائن ثابت نہ ہوں میں ان کو ایسا نہیں کہہ سکتا ہاں یہ ضرور کہوں گا کہ کچھ غلطی ضرور ہوئی ہے جس کے باعث نقصان ہوا ہے.ورنہ بددیانتی ثابت ہونے تک میں ان کو دیانت دار ہی کہوں گا.دوسری بات اس خط میں یہ لکھی ہے کہ گھاتا ہوا وہ لکھتا ہے کہ اگر اپنا روپیہ ہوتا تو اس طرح نہ کیا جاتا.نادان آدمی غلطی میں پڑ کر ہلاک ہو جاتا ہے.اس کو معلوم نہیں کہ جن کے سرمائے اپنے ہوتے ہیں ان کو بھی نقصان ہو جایا کرتا ہے.میرے پاس اسٹور کی جو رپورٹ پہنچائی گئی ہے.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام رقم میں سے چوتھا حصہ نقصان ہوا ہے.اور تین حصہ سرمایا باقی ہے.اور اس کی بڑی وجہ حساب کی غلطی معلوم ہوتی ہے.حالانکہ جن لوگوں کے اپنے سرمائے ہوتے ہیں ان کو بھی تجارت میں بڑے بڑے نقصان ہو جاتے ہیں.ابھی چند دن ہوئے ہیں اخبارات میں ایک تار چھپی تھی کہ ولایت کے دو شخصوں کو جن کا اپنا کاروبار تھا اور پینتالیس لاکھ کا سرمایہ تھا.اس قدر گھانا پڑ گیا کہ انکا دیوالیہ نکل گیا اور ۴۵ لاکھ میں سے صرف سوا لاکھ بچا اگر سرکاری رپورٹوں اور عدالتوں کے ریکاڑوں کو دیکھا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ لوگوں نے لاکھوں روپے کی ذاتی سرمائے سے کام شروع کیا.اور بالآخر روپیہ میں سے ۲ ر باقی رہ گئے پس تجارت میں جس طرح فائدہ ہوتا ہے نقصان بھی ہوتا ہے.آج انگریز جو تجارت ہی کے ذریعہ سے ہندوستان کے بادشاہ بنے بیٹھے ہیں ان لوگوں نے بھی تجارت میں شروع شروع میں بہت سے گھاٹے اٹھائے مگر ہمت نہ ہاری اور آخری تجارت نے ان کو بادشاہت تک دلادی تاجر اپنی ذات کے لئے روپیہ حاصل کرتا ہے.لیکن انہوں نے قوم کے لئے حکومت لی اگر شروع کی ناکامیوں پر ہمت ہار بیٹھتے تو اب تک اپنے ہی ملک میں رہتے اور ننگے بھوکے زندگی بسر کرتے اور ان کے جسموں پر بجائے کپڑے کے ہرنوں کی کھالیں بمشکل ستر ڈھانکنے کے لئے نظر آئیں اور ان کی حالت ہندوستانیوں سے بھی بدتر ہوتی.کیونکہ ہندوستان میں زراعت کثرت سے ہوتی ہے جس سے لوگ اپنا بھی پیٹ بھرتے ہیں اور باہر بھی غلہ بھیج دیتے ہیں مگر ان کے ملک میں اتنی زمین بھی نہ تھی کہ جس کی پیداوار ان کا پیٹ بھرنے کے لئے کافی ہوتی.اس نقصان کا نام تو اس نے شرارت رکھ دیا لیکن امر تسر وغیرہ شہروں میں بڑے بڑے چمڑے کے تاجر ہیں جن کا ذاتی سرمایہ تھا اور ان کے لاکھ لاکھ روپیہ سے پچاس پچاس ہزار باقی رہ گئے ہیں کیا ان کے متعلق بھی کہا

Page 391

خص ۳۸۵ جائے گا کہ انہوں نے بددیانتی کی تھی کہ ان کو گھاٹا ہوا.وہ شخص جس نے شاء اللہ کو خط لکھنا چاہا وہ اپنے ایمان کی حالت کو سوچے.اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دو مسلمان مل کر تجارت کرتے اور اس میں گھانا ہوتا اور ان میں سے ایک ابو جہل کے پاس بغرض فیصلہ مقدمہ لے جاتا.اور ابو جہل سے جاکر کہتا کہ اے ابو جہل دیکھ یہ ہے محمد کی امت.ایسا کوئی واقعہ حدیث میں آتا تو ایسے شخص کے متعلق بتاؤ تم کیا کہتے ایسی روایت کو دیکھ کر جو کچھ اس شخص کو ایک مسلمان سمجھتا وہی ایک سچا احمدی اس کو سمجھے گا.اصل میں لوگوں کی عادتوں کا بھی کاروبار پر اثر ہوتا ہے ایک ادنی درجہ کا زمیندار بھی جو گہیوں کا فصل کاشت کرتے وقت دن رات محنت کرتا ہے.اور دو چار بیل بھی رکھتا ہے اور ان کو کھلاتا پلاتا ہے اور مہینوں محنت بھی کرتا ہے وہ کم و بیش تمام مصارف ملا کر اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے اور بیلوں وغیرہ کے اخراجات پر دو سو سے اوپر روپیہ خرچ کرتا ہے مگر فصل کے کاٹنے پر اس کو دس ہیں من بھی دانے آجائیں تو وہ خوش رہتا ہے اور وہ اس بات کا مطلق خیال نہیں کرتا دو سو روپیہ میں سے پچاس روپیہ آئے ہیں.لیکن اگر وہی زمیندار دو سو روپیہ تجارت میں لگا دے اور اس کو دس فیصدی گھانا آئے تو اس کو بڑا نقصان سمجھے گا.اسی طرح اگر تاجر زمین پر اتنا ہی روپیہ خرچ کرے.اور اس کو اتنا ہی گھاٹا آئے تو وہ کبھی اس کو برداشت نہیں کر سکے گا.لیکن تجارت میں اس قسم کے گھاٹوں کی پروا نہیں کرے گا.غرض کاروبار پر عادتوں کا بھی بڑا اثر ہوتا که دو - ہے.میں نے بتایا ہے کہ سٹور کی جو رپورٹ مجھے پہنچی ہے اس میں پچیس فیصدی کھاتا ہے.اس کے متعلق تحقیقات ہوگی.اگر کوئی بددیانتی ثابت ہو تو میں کہوں گا جس کا قصور ہے اس کے خلاف بے شک مقدمہ چلاؤ.لیکن اس نقصان سے جماعت کے لوگوں میں کم ہمتی پیدا ہونا برا ہے اور پھر بے دینی پیدا ہونا اس سے بھی برا ہے.کیونکہ یہ صاف بے دینی ہے کہ اپنے جھگڑے کا فیصلہ ثنا اللہ کے پاس پہنچایا جائے.کاروبار میں کھائے ہوا ہی کرتے ہیں مثلاً جیسا کہ میں نے تاجران حرم کے متعلق بتایا ہے ان کو بھی گھاٹے ہوئے لیکن وہ تجارت کے فن سے واقف ہو گئے ہیں وہ اس قسم کے گھائوں سے دل برداشتہ نہیں ہو سکتے.جو لوگ تجارت کے واقف ہیں وہ گھاٹوں کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ ایک دفعہ کے گھاٹے سے سبق لیتے ہیں.اس لئے چاہئے تو یہ تھا کہ اگر گھانا ہوا تو اس سے سبق لیتے اور اگر قانون میں نقص تھا تو اس کو دور کرتے.عقل مند اگر دیکھتا ہے کہ مکان کے کسی حصہ میں نقص ہے تو وہ سارے مکان کو نہیں ڈھا دیتا.بلکہ اس حصہ کی اصلاح کر لیتا ہے.دیکھو انگریز لوگ یہاں سے اون لے جاتے ہیں یہاں ٹیکس دیتے ہیں کرایہ ریل اور جہاز دیتے ہیں اپنے ملک میں

Page 392

PAY ٹیکس دیتے ہیں پھر اپنے کارخانوں میں یہاں کی نسبت زیادہ اجرت دے کر بڑے مصارف کے بعد کپڑے تیار کر کے یہاں لاتے ہیں اور پھر اپنے مصارف کثیرہ کے بعد یہاں کپڑے کو اتنا سستا بیچتے ہیں کہ وہ ہندوستان میں اتنا ستا تیار نہیں ہو سکتا.اس میں یہی راز ہے کہ وہ لوگ تجارت کے کاروبار سے واقف ہو گئے ہیں.بالآخر میں کہتا ہوں کہ دین اور دنیا میں جو مراتب ہیں ان کو ملحوظ رکھنا چاہئیے دنیا کی طرف توجہ کرنی چاہئیے مگر اس قدر نہیں کہ دنیا کی خاطر دین بھی تباہ ہو جائے اور دنیا ہی دنیا انسان کے دل پر مستولی ہو جائے.بغیر تحقیقات کے میں ان لوگوں کو خائن نہیں کہہ سکتا جب تحقیقات ہو تو اگر کسی کا جرم ثابت ہو اس کو سزا دی جائے.ہاں میں نے اگر ان کو دیانت دار کہا اور وہ تحقیقات کے بعد بد دیانت ثابت ہوں تو اس سے زیادہ سے زیادہ یہی ثابت ہو گا کہ میری رائے صحیح نہ تھی اور میں عالم الغیب نہ تھا.اور یہ بات میرے درجہ کے کم کرنے والی نہیں میرے آقا اور میرے سردار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی جو بشریت تھی وہ مجھ میں کیوں نہ ہو مجھ میں تو ان سے لاکھوں گنے زیادہ ہونی چاہئیے اس خط کے مضمون میں اس قسم کے اشارات ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ وہ خط قادیان کا نہیں ہے تو کم از کم قادیان سے یہ خیالات پہنچائے گئے ہیں.یہ ایک کمزوری کی بات ہے دین و دنیا میں فرق کرو.یہ سچ ہے کہ نقصان ہو تو عقل ٹھکانے نہیں رہتی.لیکن ایسا نہ ہو کہ دنیا کی خاطر دین ضائع کردو.اللہ تعالیٰ دین و دنیا کے فرق کو سمجھنے کی توفیق دے.یاد رکھو کہ ہر ایک کام خیانت اور شرارت سے ہی خراب نہیں ہوا کرتا.بہت سے کام محض ناواقفی اور قوانین کے نقص یا بے احتیاطی سے بھی خراب ہو جاتے ہیں.تجارت ہی میں کئی کروڑ پتی ایسے بھی ہوئے ہیں کہ کھانا پڑا اور روٹی کے محتاج ہو گئے حالات بدلنے سے لوگوں کی حالت متغیر ہو جاتی ہے جرمن کے ایک شخص نے اشتہار دیا کہ مجھے ایک عام کام کرنے والی عورت کی ضرورت ہے بہت سے درخواستیں آئیں ان میں ایک شہزادی کی بھی درخواست تھی.اس نے کون سے سٹور میں روپیہ ڈالا تھا.اور اس میں کس نے خیانت کی تھی؟ پس یہ گھاٹا شامت اعمال سے ہے اور اس شخص کو یا ایسے اشخاص کو جن کا ایمان گھاٹے کی وجہ سے متزلزل ہو استغفار کرنا چاہئیے اور خدا کے حضور جھکنا چاہیے اور وہ طریق نہ اختیار کرنا چاہیے کہ جس سے دین کا بھی نقصان ہو.بلکہ اس واقعہ سے سبق لیکر وہ رویہ اختیار کرنا چاہئیے کہ آئندہ نقصان نہ ہو.الفضل ۲۳ نومبر ۱۹۲۳ء)

Page 393

ان مسند احمد بن حنبل جزو ۴ ص ۴۱۴ مسند احمد بن حنبل جزو ۳ ص ۸۲ ۰۳ مسلم كتاب الفضائل باب وجوب استثال ما قاله شرف دون ما ذكره صلعم من معايش الدنيا على سبيل الراى.م بخاری کتاب الاحكام باب موعظة الامام للخصوم

Page 394

72 روحانی ترقی استقامت کے بغیر نہیں ہو سکتی (فرموده ۲۰ اکتوبر ۱۹۲۲ء) حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.اللہ تعالیٰ کے افعال پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک خاص قانون الہی تمام روحانی و جسمانی معاملات میں چلتا ہے اس قانون کو نظر انداز کرنے سے انسان کبھی عمدہ ثمرہ اور پھل نہیں حاصل کر سکتا.جس طرف بھی ہم نظر اٹھا کر دیکھیں اور جس قسم کی اشیاء کو بھی دیکھیں وہ یہی قانون نظر آتا ہے.ہ قانون یہ ہے کہ کوئی ایسی چیز نہیں معلوم ہوتی کہ جس کا ثمرہ اسی سے پیدا ہو.جب کبھی کوئی نتیجہ نظر آتا ہے خواہ وہ روحانی اشیاء میں نظر آتا ہے.یا جسمانی اشیاء میں یا تمدنی معاملات میں وہ ہمیشہ دو چیزوں سے پیدا ہوا ہو گا.دنیا میں ہم جس خاص چیز کو دیکھتے ہیں وہ انسان ہے.اس میں بھی دو سے ہی بچہ پیدا ہوتا ہے.اور درحقیقت وہ بچہ دو سے بھی نہیں پیدا ہو تا بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں اشیاء سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ انسان غذا کھاتا ہے جو کئی چیزوں سے تیار ہوتی ہے.اس غذا کے نتیجہ میں بچہ پیدا ہوتا ہے.پھر عورت کا صرف رحم ہی اس بچے کو پرورش نہیں کرتا.بلکہ اس کے لئے غذا کی بھی ضرورت ہوتی ہے.تو بچہ نہ صرف مرد سے اور نہ صرف عورت سے پیدا ہوتا ہے.بلکہ سینکڑوں چیزوں کے ملنے سے پیدا ہوتا ہے.پھر دونوں میں سے اگر ایک میں نقص ہو تب بھی بچہ پیدا نہیں ہو گا مثلاً عورت میں نقص ہو تو مرد خواہ کیسا ہی قوی ہو بچہ نہیں ہو گا.یا مرد میں نقص ہو تب بھی بچہ نہیں پیدا ہو گا.پھر بعض دفعہ دونوں میں نقص ہوتا ہے.ان باتوں سے معلوم ہوا کہ دنیا میں ایک چیز کام نہیں کر سکتی بلکہ کئی چیزیں مل کر کام کرتی ہیں.انسان کا ایک چھوٹا سا کام دیکھنا ہے.لیکن اس میں آنکھیں کام نہیں کر سکتیں جب تک سورج کی روشنی نہ ہو.اور پھر آنکھ کے خاص اعصاب نہ ہوں یہی حال کانوں کا ہے.غرضیکہ کوئی چیز ایسی نہیں نظر آتی جو اکیلی ہی کافی ہو.مثلاً غلہ ہی دیکھو کبھی ایسا نہیں

Page 395

ہو گا کہ گیہوں خود بخود پیدا ہو جائے.جب تک بیج اور زمین اور پانی نہ ہو.پھر سورج کی شعاع نہ ہو جب تک یہ چاروں چیزیں نہ ہوں تب تک غلہ نہیں پیدا ہو گا.پھر انسان کی محنت الگ ہے.موسم کا بھی لحاظ رکھنا پڑتا ہے.ان میں سے اگر کوئی ایک چیز بھی نہ ہو تو غلہ نہیں پیدا ہو گا.یہی حال علم کا ہے.علم موجود ہو لیکن پڑھنے والے کا دماغ ٹھیک نہ ہو.یا آنکھیں نہ ہوں.استاد پڑھانے والے نہ ہوں.پھر اور چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے فراغت ہو، توجہ ہو ، استقلال ہو.جب تک یہ تمام چیزیں مہیا نہ ہوں تب تک علم نہیں حاصل ہو گا یہی حال روحانیت کا ہے روحانیت کے حصول میں بھی جب تک ساری کی ساری چیزیں نہ ہونگی تب تک نتیجہ نہیں پیدا ہو گا.روحانیت کا بھی بعینہ وہی حال ہے جو دوسری چیزوں کا ہے.بہت لوگ ہیں جو کہتے ہیں ہمیں روحانیت نہیں حاصل ہوتی.حالانکہ وہ روحانیت حاصل کرنے کے لئے وہ کام نہیں کرتے جو اس کے لئے ضروری ہیں.اب مثلاً کوئی کھیت میں بیج نہ ڈالے اور کہے جی غلہ نہیں ہوتا.یا پھر بیج بھی ڈالے لیکن صحیح قاعدہ سے نہ ڈالے اور کہے کہ کھیتی نہیں ہوتی.تو اسے کون عقلمند کے گا.پھر صحیح طور پر پیج بھی ڈالے لیکن پانی نہ ہو تب بھی غلہ نہیں ہوگا.یا پانی تو ہو لیکن تصرف اللہی کے ماتحت مفید نہ ہو تب بھی غلہ پیدا نہیں ہو گا یا مثلاً آم کے درخت کو کوئی اکھاڑ کر کہے کہ پھل دیوے تو یہ نہیں ہو گا.یا وہ کہے کہ زمین آم دے یا پانی آم دے.تو ایسا کبھی نہیں ہو گا.بعینہ یہی حال روحانی ترقیات کا ہے.روحانی ترقی کے ثمرات بھی حاصل نہیں ہو سکتے.جب تک تمام باتوں کا لحاظ نہ ہو.اس کے لئے اس وقت میں جس بات کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ استقامت ہے جو شخص استقامت نہیں اختیار کرتا وہ روحانی ترقی بھی حاصل نہیں کر سکتا مثلاً ایک شخص صرف پانچ نمازیں پڑھتا ہے اور اتنی ہی زکوۃ دیتا ہے جتنی اس پر فرض ہے یا روزے جتنے اس پر فرض ہیں اتنے رکھتا ہے.تو یہ شخص ترقی کر جائے گا.لیکن ایک شخص ہے جو کبھی تو ساری ساری رات نماز پڑھتا ہے اور کبھی پانچ نمازیں بھی با جماعت نہیں پڑھتا.یہ کبھی روحانی ترقی نہیں حاصل کرے گا پس خوب یاد رکھو.جو لوگ باجماعت نماز نہیں پڑھتے وہ الگ بھی کبھی ٹھہر ٹھہر کر نماز نہیں پڑھیں گے.اور جو لوگ اسی طرح نماز پڑھتے ہیں وہ کبھی روحانی ترقی نہیں حاصل کر سکتے.اللہ تعالیٰ بھی قرآن کریم میں ترقیات کے حاصل کرنے کا ذریعہ یہی فرماتا ہے.واستعينوا بالصبر والصلوة (البقره ٣٦) کہ صبرو دعا کے ساتھ اعانت حاصل کرو.ایک طرف تو جس کام کو شروع کیا ہو.اس کو نہ چھوڑے اور پھر تکبر نہ کرے کہ میں کام کرتا ہوں بلکہ اس کے ساتھ دعا کرے.کوشش کے بعد خدا سے دعائیں بھی کرنی چاہئیں.تاکہ ایسا نہ ہو کہ کسی نقص کی وجہ سے غیر معمولی طور پر کوئی ایسا سامان پیدا ہو جو کوشش کو رائیگاں کر دے.پس یہی ایک ذریعہ ہے کامیابی کا.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ

Page 396

۳۹۰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دین میں سب سے زیادہ پسندیدہ کام وہ ہو تا تھا جس پر دوام ہو...یہ نہیں کہ ایک وقت تو خوب لمبی لمبی نمازیں پڑھے.اور پھر بالکل ہی چھوڑ دے.خدا کے بندوں اور دنیاوی بندوں میں یہی امتیاز ہے کہ خدا کے بندے ایک طرف استقلال کے ساتھ کوشش کرتے ہیں.اور اس کے ساتھ دعائیں کرتے ہیں.پھر اسی طرح دینی و دنیاوی علماء میں یہ بھی فرق ہے کہ بڑے بڑے دنیا دار بڑھاپے میں جاکر رک جاتے ہیں.اور ان کی جگہ نئے لوگ آتے ہیں.جو نوجوان ہوتے ہیں اور ان پہلوں کو پیچھے ہٹایا جاتا ہے.لیکن دینی علماء جن کا خدا کے ساتھ تعلق ہوتا ہے وہ ہمیشہ ترقی ہی کرتے ہیں.ان کی ابتدائی اور آخری حالت میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے.وہ جوں جوں جسمانی طور پر کمزور ہوتے جاتے ہیں.ان پر زیادہ روحانی علوم کھلتے جاتے ہیں.کیا یہ امر ثابت نہیں کرتا کہ نیک بندوں کا منبع اور ہے اور دنیاوی انسانوں کا منبع اور ہے.یہ تو بے شک کمزور ہوتے ہیں لیکن ان کا منبع کمزور نہیں ہوتا بلکہ ان کو اس وقت علوم سکھائے جاتے ہیں جبکہ رات کو لوگ آرام کر رہے ہوتے ہیں.پس انسان جس کام کو شروع کرے اس پر مداومت کرے چھوڑے نہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو فرمایا کہ فلاں کی طرح نہ ہو جاتا جو پہلے تہجد پڑھا کرتا تھا اور پھر چھوڑ دی.۲؎ تو در حقیقت یہ بڑی بری بات ہے کہ انسان ایک کام شروع کر کے پھر اسے چھوڑ دے.دیکھو اگر تم کل کی طرح آج بھی کام کرو گے تو کل کا کام بھی تمہارے کام آئے گا.لیکن اگر آج کام نہیں کرو گے تو کل کا کیا ہوا کام بھی ضائع ہو جائے گا تمہاری کل کی خدمتیں کل کے روزے کل کی نمازیں کام نہیں دے سکتے.جب تک آج بھی اسی جوش کے ساتھ کل والے کام نہ کرو گئے.پس اپنے اعمال میں جھٹکے نہ دو.جو شخص اپنے اعمال میں جھٹکے دیتا ہے اس کے لئے بڑے خطرے کا مقام ہے.اپنے خلوص اور نیکی میں ترقی کرو کل سے آج تمہاری ترقی ہو.میں دیکھتا ہوں کہ بہت لوگوں میں اور خصوصاً طالب علموں میں یہ بڑا مرض ہے کہ وہ ایک وقت میں اپنی ہمت سے بڑھ کر کام کرتے ہیں.اور پھر تھوڑی مدت کے بعد بالکل ست ہو جاتے ہیں.اس کی بجائے اگر وہ پہلے ہی اپنی طبیعت پر بوجھ ڈال کر اور جبر کر کے تھوڑا کام کریں.اور اپنے اندر ذخیرہ جمع رکھیں.تو اگلے دن پہلے سے زیادہ ہمت کے ساتھ کام کر سکیں.اس دوام سے میرا یہ مطلب نہیں کہ میں قبض و بسط سے انکار کرتا ہوں.مگر ایک قبض وہ ہے جو خود انسان اپنے اندر پیدا کرتا ہے.یہ قبض اچھی نہیں.اور ایک وہ قبض ہے جو خود بخود ایک حد تک انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے.قبض کی مثال رسہ کشی کی سی ہے.ایک شخص دوسرے شخص سے رسہ کھینچ کر لے جائے تو اس کا قصور نہیں.لیکن اگر یہ تھوڑا سا کھینچ کر ہمت ہار کر بیٹھ

Page 397

٣٩١ جائے تو یہ اسکی سستی ہوگی.تو قبض و بسط کا سلسلہ اور ہے اس میں قبض بھی ترقی کا ذریعہ ہوتی ہے.اور اس کی ایسی مثال ہے.جیسے کوئی کسی کو جبراً پکڑ کے لے جائے.یا مثلا نماز میں وہ ذوق اور شوق نہ ہو جو اسے پہلے حاصل تھا.لیکن باوجود اس کے پھر وہ توجہ سے پڑھتا ہے اور اسے چھوڑتا نہیں تو یہ قبض کہلائے گی لیکن یہ ترقی کا ذریعہ ہوگی اور اگر چھوڑ دے تو پھر وہ قبض نہیں کہلائے گی بلکہ اس کی سستی ہوگی.تو روحانیت کا یہ ایک جزو ہے کہ انسان اعمال میں دوام اختیار کرے.اللہ تعالی ہمارا انجام بخیر کرے.ہم ہمیشہ آگے ہی ترقی کریں اور اس کی رحمت کے نیچے رہیں.اور ایسا نہ ہو کہ ہمارا قدم پیچھے پڑے بلکہ ہم آگے ہی آگے بڑھتے جائیں.الفضل ۳۱ اکتوبر ۱۹۲۲ء)...ا بخاری کتاب الایمان باب احب الدین الی اللہ ادومه ابن ماجه کتاب اقامة الصلوۃ باب ماجاء فی قیام اللیل

Page 398

73 73 par کارکنان جماعت سے خطاب (فرموده ۲۷ / اکتوبر ۱۹۲۲ء) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.میں آج ایک ایسے مضمون کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں جس کے متعلق ایک سال یا کچھ کم و بیش عرصہ ہوا انہی دنوں میں توجہ دلائی تھی.میری غرض دوبارہ اس مضمون کو چھیڑنے سے یہ نہیں کہ کسی سے اس بات کی خلاف ورزی ہوئی ہے.بلکہ اس سے یہ غرض ہے کہ جیسا کہ میں نے پچھلے جمعہ میں بیان کیا تھا.پسندیدہ عمل وہی ہے جس پر دوام اختیار کیا جائے.پس میری غرض اس مضمون کو بیان کرنے سے یہ ہے کہ احباب کو توجہ دلاؤں کہ وہ اس مضمون کو دیر ہو جانے کی وجہ سے بھول نہ جائیں بلکہ یاد رکھیں کیونکہ وہ مضمون ایسا ہے جس کو اپنے معاملات میں مد نظر رکھنا چاہیے.اور اس کی خلاف ورزی دینی حالت اور دنیاوی حالت اور روحانیت کے لئے خطرناک ہے.غالباًا انہی ایام میں پچھلے سال میں نے اس مضمون کے خطبات پڑھے تھے کہ جو لوگ یہاں ہجرت کر کے اس لئے آئے ہیں کہ دین کی خدمت کریں وہ یہاں بطور ملازم کے نہیں ہیں کیونکہ دین میں کبھی ملازم نہیں رکھے گئے.دین کے کام ہمیشہ اصحاب سے ہوئے ہیں.حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ جو واعظ تھے.قرآن کریم میں ان کا نام حواری رکھا گیا ہے.جس کے معنی ہیں اصحاب.حواری دھوبی کو بھی کہتے ہیں.جو کپڑوں کو دھو کر کر ان کی میل دور کرتا ہے.اور حضرت عیسی کے جو حواری تھے وہ دلوں کو دھوتے تھے وہ ملازم نہ تھے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حالات زمانہ کے ماتحت ہمیں مقررہ تنخواہیں دینی پڑتی ہیں.کیونکہ جو معیشت کی پہلے سہولت تھی اور جو معیشت کے سامان پہلے تھے وہ اب نہیں.گذشتہ زمانہ میں معیشت کا انحصار چیزوں پر تھا.مگر اب روپیہ پر ہے.پہلے زمانہ میں نہ روپیہ زیادہ تھا.اور نہ روپیہ پر اس قدر کام چلتے تھے.بلکہ غلہ پر چلتے تھے.اس زمانہ میں روپیہ کا استعمال کم ہو تا تھا.اس وجہ سے لوگوں کی رہائش کا طریق اقتصادی طور پر تھا.کیونکہ جب روپیہ سے کام نہ چلانا ہو تو ضروریات کم

Page 399

۳۹۳ باشید "F ہونگی.اگر روپیہ نہ ہو تو کام کرنے والا اتنا کام کرے گا جتنے کی اس کو ضرورت ہوگی.اب لوگوں میں روپیہ کا چلن زیادہ ہے.اس لئے عیاش جتنا چاہیں خرچ کر سکتے ہیں.پس چونکہ معیشت کا طریق بدلا ہوا ہے.اس لئے ضروری ہوا کہ مقررہ رقمیں دی جائیں.کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جن لوگوں نے دین کی خدمت کے لئے زندگی وقف کی ہوتی ہے.انہیں بھی ضروریات ہوتی ہیں.اور اس قسم کی ضروریات سے جب نبی بھی باہر نہیں ہوتے تو یہ کیسے باہر ہو سکتے ہیں.مگر یہ رقوم جو ان کو دی جاتی ہیں ان کو اللہ تعالی کی طرف سے تحفہ کے طور پر ملتی ہیں.صحابہ کرام کو بھی انعام ملے.ان کو ملک دولت ملی.جنگ میں جو کچھ ہاتھ آتا تھا وہ انہی کا ہوتا تھا.اور بعض دفعہ جنگوں میں جو کچھ ملتا تھا وہ ان کی ضروریات سے سینکڑوں گنے زیادہ ہوتا تھا.ہاں بعض اوقات کچھ بھی نہ ملتا تھا.لیکن ان کے کام ملازمت کے کام نہ تھے.اگر ان کو کچھ بھی نہ ملتا تو وہ شکایت نہ کرتے تھے کہ ہمیں کیوں نہیں ملا.یہی حال جب تک ہمارے کارکنوں کا نہ ہو اس وقت تک ہمارے کام میں برکت نہیں ہو سکتی.نہ ان کے کام میں برکت ہوگی نہ سلسلہ کو ترقی اور اس کے کاموں میں برکت ہوگی.بلکہ الٹا سلسلہ کو نقصان ہو گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری جماعت کی مالی حالت کمزور ہے.لیکن جس قدر لوگ چندہ دیتے ہیں وہ اپنی پوری طاقت سے دیتے ہیں.ہاں کچھ ایسے بھی ہیں جو چندہ میں ست ہیں.لیکن جس قدر دینے والے ہیں وہ چندے میں کمی نہیں کرتے.اس لئے ان پر اور زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا.اگر ہم کام کے معاوضہ میں روپیہ دینا بھی چاہیں تو نہیں دے سکتے.نہ ہمارے پاس اس قدر روپیہ ہے نہ اس قسم کا کام بابرکت ہو سکتا ہے.کیونکہ دین کی خدمت کا اگر روپیہ پر ہی انحصار ہو تو پھر احمدی مبلغوں ہی کی کیا شرط ہے ایسے لوگ ہندوؤں اور عیسائیوں میں سے بھی نکل سکتے ہیں جو روپیہ لیکر وہی دلائل بیان کر سکتے ہیں جو ایک احمدی بیان کرتا ہے.اس وقت عیسائی مشنری جو دنیا میں کام کر رہے ہیں ان کی تعداد ساٹھ ہزار ہے.مگر ان میں بیسیوں ایسے ہیں جو موجودہ عیسائیت کے قائل نہیں ہیں.باوجود اس کے بحث اسی جوش سے کرتے ہیں.جس طرح ایک ماننے والا کیا کرتا ہے.اس کی یہی وجہ ہے کہ ان کو روپیہ ملتا ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے ایک عیسائی کی بحث ہوئی.اس نے تثلیث سے انکار کر دیا آپ نے اس کو کہا کہ تم تو روز عیسائیت کی تائید میں تقریر کرتے ہو.پھر یہ انکار کیا.اس نے جواب دیا کہ وہ میں نہیں بولتا بلکہ میری تنخواہ بولا کرتی ہے.پھر اس نے کہا کہ ہمارے ہاں لوگوں کو عیسائیت سے دلچسپی پیدا کرنے کے لئے تین طریق پر وعظ ہوتے ہیں.ایک عام اخلاقی وعظ دوسرے توحید کے متعلق، تیسرے تثلیث وغیرہ کے متعلق.میں نے یہ التزام کیا ہوا ہے کہ یا تو اخلاقی وعظ کہتا ہوں یا

Page 400

۳۹۴ توحید کے متعلق اور یہ موقعہ ہی نہیں آنے دیتا کہ مجھے تثلیث کے متعلق وعظ کرنا پڑے لیکن ان کو اس کا علم نہیں کہ میں خصوصیت سے اس طرح کرتا ہوں.تو ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں.پس اگر ہمارے ہاں بھی روپیہ کا سوال ہو تو احمدیت کی تبلیغ کرنے والے ہر ایک مذہب سے پیدا ہو سکتے ہیں.ہندو عیسائی سب ہی مذاہب کے لوگ مل سکتے ہیں.لیکن اسطرح جب وہ بولیں گے تو دراصل وہ نہیں بولیں گے بلکہ وہ روپیہ بولے گا جو ان کو ملتا ہو گا.مگر اس میں برکت نہ ہوگی.اس میں شبہ نہیں کہ عیسائی کہلانے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے.لیکن جب سے بادشاہتیں اس میں شامل ہوئیں اور روپیہ اس پر خرچ ہونے لگا اس وقت سے عیسائیت گھٹتی گئی ہے.آج حضرت عیسیٰ کی تعلیم پر چلنے والا ایک بھی عیسائی نظر نہیں آتا.کیا شیر کی کھال میں اگر بھس بھر کر رکھ دیا جائے تو وہ شیر بن جاتا ہے ہر گز نہیں.اسی طرح کو پچاس کروڑ عیسائی دنیا میں آباد ہیں مگر حضرت عیسی کی تعلیم پر چلنے والا چونکہ ایک بھی نہیں اس لئے عیسائیت کا خاتمہ ہو گیا.لیکن اگر بچے عیسائی اس کے خادم ہوتے تو عیسائیت کی یہ حالت نہ ہوتی.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد وہ اسلام کی طرف منتقل ہو جاتی.پس اگر ہم چاہیں اور روپیہ ہو تو بہت سے آدمی مل سکتے ہیں لیکن جس مذہب کی وہ تبلیغ کریں گے وہ احمدیت نہیں ہوگی بلکہ وہ کچھ اور ہی مذہب ہو گا.پس ہمارے کارکن سمجھ لیں کہ وہ ملازم اور نوکر نہیں ہیں.اگر دنیاوی امور میں مخالفین سے نقصان اٹھا کر بھی وہ نوکر ہی رہے.تو پھر اس سے بڑھ کر ان کے لئے کیا نقصان ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ساتھیوں کو اعلیٰ مقام پر لے جانا چاہتے ہیں اور وہ صحابیت کا مقام ہے.پس اس مقام کو چھوڑ کر ملازمت کا مقام اختیار کرنا صریح نقصان ہے.ملازم کے مقام سے بڑھ کر صحابی کے مقام پر آنے کا موقع حضرت مسیح موعود کے ذریعہ آیا ہے.جس سے انسان کو خدا کی عبودیت کا مقام مل جاتا ہے.اس لئے احباب کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے.قرآن کریم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاں پیار سے خطاب کیا گیا ہے.وہاں عبداللہ ۲ ہی کے لفظ سے مخاطب کیا ہے.اس لئے عبد اللہ کا مقام بڑا مقام ہے.اور اگر انسان کی غلامی سے نکل کر عبد اللہ کا مقام حاصل ہو جائے تو اس سے بڑھ کر نعمت اور کیا ہو سکتی ہے.اس لئے ہم نے اپنے کام کرنے والوں کا نام کارکن رکھ دیا ہے.اور یہ سال پہلے سالوں کی نسبت زیادہ اطمینان گذرا ہے.ملازم کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ مجھے یہ بھی ملے اور وہ بھی ملے لیکن صحابی سمجھتے ہیں ہمیں جو کچھ ملتا ہے ہمیں تو اس کا بھی حق نہیں.ان کا دل غنی ہو جاتا ہے.اس لئے وہ کسی تکلیف کو تکلیف نہیں سمجھتے.لیکن وہ لوگ جنہیں مال کی محبت ہوتی ہے انہیں وہ ہلاکت کی طرف لے جاتی

Page 401

۳۹۵ ہے مال سے محبت کرنے والے مال کے ضائع ہونے پر خود کشیاں کر لیتے ہیں.مگر جن کو مال سے محبت نہیں ہوتی ان کا مال اگر ضائع بھی ہو جائے تو وہ اس کے غم میں اپنی جان نہیں کھوتے.اور پھر محنت شروع کر دیتے ہیں.مال کی محبت میں جان دینے والے مال کو خدا سمجھتے ہیں اور صحابی ہونے والے مال کو خدا نہیں بناتے.بات یہ ہے کہ انسان قناعت سے غنی ہوتا ہے.نہ کہ مال سے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض دن فاقہ ہوتا تھا.لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ آپ کے دل میں کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی بے اطمینانی پیدا ہوئی.ہرگز نہیں.اس لئے کہ آپ نے زندہ رہنے کو اپنا مقصد نہیں بنایا ہوا تھا.اور آپ سمجھتے تھے کہ بھوک سے مر جائیں گے تو خدا ہی کے پاس جائیں گے.پس تم لوگ بھی اپنے دلوں میں خلوص پیدا کرو اور دل کی قناعت حاصل کرو.میں نے پچھلے سال کہا تھا کہ جو ملازم ہو کے رہنا چاہتا ہے وہ چلا جائے.یہ بھی ایک قسم کی ناراضگی تھی لیکن اب میں یہ نہیں کہوں گا پچھلے سال مجھے ایسا کہنے کا حق تھا.مگر اس سال حق نہیں.کیونکہ اس سال جماعت نے عمل کر کے دکھا دیا ہے کہ وہ ملازم نہیں صحابی بننا چاہتی ہے.اور اس وقت جو اس بات کو دو ہرا رہا ہوں تو اس کی غرض یہ ہے کہ اس سبق کو بھول نہ جاتا.کہاں.در حقیقت جب انسان اللہ تعالیٰ کے لئے ہو جاتا ہے تو اللہ تعالی اس کے لئے خود سامان کر دیتا ہے حضرت مسیح موعود نے الوصیت میں پیشگوئی فرمائی تھی.کہ مجھے اس بات کا غم نہیں کہ روپیہ سے آئے گا.بلکہ اندیشہ ہے کہ امانت سے خرچ کرنے والے نہ ہوں.پس ضرورت ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ ہمیشہ صحابیت کا رنگ دکھانے والے ہوں.اور ایسے ہوں کہ دین کی خدمت میں ان کو جو کچھ بھی ملے وہ اس کو شکر گذاری سے لیں.میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ وہ مال نہ کھائیں.وہ اپنے دنیاوی کام کریں لیکن ناجائز طور پر دنیا جمع کرنے کی فکر نہ کریں.دنیاوی امور میں دوسروں کے حقوق کا خیال رکھیں.اور ہر ایک معالمہ میں رحم اور حسن سلوک کو مد نظر رکھیں.اور دین کے معاملہ میں کبھی زیادہ اور کم کا سوال نہ کریں.میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے غریب کارکنوں میں بھی اس بات کا احساس پیدا ہو چلا ہے.ایک لطیفہ ہے اور اور لطیفے دینی معاملات میں بھی ہو سکتے ہیں اور اسی طرح لطائف بنا کرتے ہیں.لنگر میں ایک ان پڑھ سا معمولی گذارہ کا آدمی ہے جس کو ۸-۱۴ یا ۱۲ روپیہ ماہوار ملتے ہیں.اس کا میرے پاس رقعہ آیا کہ میں چندہ میں اپنی ایک ماہ کی تنخواہ دینے لگا تھا.مجھے ایک شخص نے نصیحت کی ہے کہ میں نہ دوں.کیونکہ مجھ پر واجب نہیں.کیا ایسا مشورہ دینے والے کا یہ حق ہے یا نہیں.اس آدمی کے متعلق لطیفہ یہ ہے جو ایک خوش کن بات بھی ہے.کہ وہ باہر سے آیا.اور اس نے دیکھا کہ لنگر کے

Page 402

۳۹۶ افسر دفتر کے دروازے بند کر کے اندر کمیٹی کر رہے ہیں.اس نے سمجھا کہ جلسہ قریب ہے چندہ کے لئے پوچھ رہے ہوں گے اس نے جھٹ ایک رقعہ لکھا اور طاقی کے سوراخ میں سے اندر ڈال دیا کہ ایک مہینہ کی تنخواہ میں بھی چندہ میں دیتا ہوں لیکن واقعہ یہ تھا کہ افسر لنگر خانہ اس وقت ایک کارکن کی غلطی کی تحقیقات کر رہے تھے.اس نے خیال کیا کہ مجھے غریب سمجھ کر اندر نہیں بلایا گیا میں کہیں پیچھے نہ رہ جاؤں.لیکن یہ کس قدر دل کو خوش کرنے والی اور یقین اور ایمان کی بات ہے مگر یہ ایک لطیفہ ہے.اور اس میں ایک نکتہ بھی ہے کہ جب انسان خدا کو مقدم کر لیتا ہے تو پھر وہ اس کے راستہ میں خرچ کرنے سے گھبراتا نہیں.خواہ وہ کتنا ہی غریب کیوں نہ ہو.تو صحابہ تجارت بھی کرتے تھے.اور زراعت بھی کرتے تھے.لیکن دین ان کو مقدم تھا.اور دین کے کام میں کبھی سوال نہیں کرتے تھے.اور دنیا ان کو دین کے کام سے روک نہیں سکتی تھی.نہیں تھا کہ ان کو تجارت یا کوئی کام کرنا نہیں آتا تھا.چنانچہ میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ حضرت عبد الرحمان بن عوف نے ایک دفعہ کئی ہزار اونٹ خریدے جب وہ ہزاروں اونٹوں کا ایک وقت میں سودا کر سکتے تھے.تو اس سے پتہ لگتا ہے کہ ان کے پاس لاکھوں ہی روپیہ ہونگے.چنانچہ جب وہ فوت ہوئے تو ان کے گھر میں کئی کروڑ روپیہ تھا.۳؎ وہ اونٹ انہوں نے تجارت کے لئے خریدے تھے اور فوراً ہی بک گئے.اور سودا اسی طرح ہوا کہ جس قیمت پر انہوں نے خریدے تھے اسی پر بیچ دئے.مگر عقال کے بغیر کسی نے کہا.آپ کو کیا نفع رہا ہے انہوں نے کہا اتنے ہزار عقال جتنے ہزار اونٹ ہیں نفع میں آئے کیونکہ میں نے سودا مع عقال (اونٹ باندھنے کی رسی) کیا تھا اور بیچے بغیر عقال کے ہیں اور اسی طرح ان کو کھڑے کھڑے نفع ہو گیا.یہ سودا کئی لاکھ کا تھا.اور آج کل بھی اتنا بڑا سودا بہت بڑا سودا سمجھا جاتا ہے.غرض یہ ان کی تجارت کا حال تھا.باوجود اس کے وہ دین میں تجارت نہ کرتے تھے بلکہ جو کام کرتے تھے خدا کے لئے کرتے تھے.وہ دنیاوی امور میں بھی انصاف اور عدل کو نہ چھوڑتے تھے.دو صحابیوں کا حال میں نے تو کسی کتاب میں پڑھا نہیں حضرت صاحب بیان فرمایا کرتے تھے کہ ان میں اس بات پر جھگڑا ہو رہا تھا کہ ایک اپنا گھوڑا مثلاً تین ہزار درہم پر بیچتے تھے اور جو خریدنا چاہتے تھے کہتے تھے نہیں یہ گھوڑا پانچ ہزار کا ہے.وہ اس قدر قیمت دینے پر مصر تھے.لیکن آج کل تو لوگوں کی یہ حالت ہے کہ اگر دیکھیں خریدار اتنی زیادہ رقم دیتا ہے تو وہ فورا کہدیں کہ لو سودا پختہ ہو گیا.اصل میں بیچنے والا واقف نہ تھا اور خریدار واقف تھا.اس لئے وہ اس کی کم قیمت نہ دینا چاہتا تھا اور بیچنے والا اس کی زیادہ قیمت لینا دھو کہ خیال کرتا تھا.وہ سمجھتا تھا کہ یہ مجھ پر احسان کرنا چاہتا ہے غرض یہ حالت انکی دنیاوی امور میں تھی.پھر وہ دین میں سودا کب جائز رکھ سکتے تھے.پس میں جماعت کے لوگوں کو سال گذرنے پر نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس سبق کو یاد رکھیں.

Page 403

اور دین میں سودا نہ کریں.ورنہ وہ دین کو خراب کرلیں گے.ہماری جماعت کے چھوٹے بڑے سمجھ لیں کہ وہ یہاں نوکری کے لئے نہیں آئے.بلکہ وہ اس لئے آئے ہیں کہ خدا خوش ہو جائے.پس خدا سے دین کے معاملہ میں سودے مت کرو.خدا تو صرف ایک ہی سودا کرتا ہے کہ جان و مال لیتا ہے اور جنت دیتا ہے پس خدا یہی سودا کرتا ہے.اور یہی سودا اس نے ہم سے کیا ہے.جب یہ سودا ہو چکا تو پھر نئے سودے کے کیا معنی؟ یہ درمیانی مشکلات ہیں.انشاء اللہ دور ہو جائیں گی.لیکن ہمارے کارکنوں کے مد نظریہ کبھی نہیں ہونا چاہئیے کہ ان مشکلات کے رفع ہونے پر ہماری تنخواہیں بڑھ جائیں گی.تم کو خدا دوست کے مقام پر کھڑا کرتا ہے اور جس کو دوست کا مقام میسر ہو وہ ملازم کا مقام لینا پسند نہیں کرتا.اس لئے اموال کی ترقی اس غرض سے مد نظر نہ ہو کہ ہماری تنخواہ بڑھ جائے گی.بلکہ اس لئے کہ جب ہمارے پاس زیادہ روپیہ ہو گا تو ہم اپنے تبلیغی مشن اور ممالک میں بھی کھولیں گے.جاپان میں، فرانس میں، جرمنی اور روس میں اور دیگر ممالک میں ، ہاں ہر شخص آسودگی کے لئے اور کام بھی کر سکتا ہے.بشرطیکہ اس کے اصل کام میں حرج نہ ہو.اور افسران کی اجازت ہو.اللہ تعالٰی توفیق دے کہ اسی کہ خوشی ہمارے مد نظر ہو.اور دنیا کی امتعہ ہمارے مد نظر نہ ہوں.ہمیں وہی انعام مد نظر ہوں جو اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم میں بیان کئے گئے ہیں.جب دوسرے خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا.جمعہ کے دن ہمارے پاس خطوط آ جاتے ہیں.جن میں جنازوں کی درخواست ہوتی ہے.میں نے ایک مدت کے غور کے بعد سمجھا ہے کہ کہیں آئندہ اس کے متعلق یہی خیال نہ ہو جائے کہ جمعہ کی نماز کے بعد جنازہ پڑھنا بھی سنت ہے.جنازہ غائب پڑھنا جائز ہے مگر جبکہ رسم کے طور پر نہ ہو.حضرت صاحب کے زمانہ میں باہر فوت ہونے والوں کے جنازہ کے متعلق یہاں لکھنے کی ضرورت تھی.کیونکہ اس وقت باہر جماعتیں اس قدر پھیلی ہوئی نہ تھیں.اور اکے دکے احمدی تھے.اس لئے جب کوئی فوت ہو تا تھا تو اس کے جنازہ کے لئے لکھا جاتا تھا.مگر اب وہ ضرورت ختم ہو گئی ہے.اور عموما" ہر ایک احمدی مرنے والے کو اپنے مرتبہ کے مطابق جنازہ پڑھنے والے احمدی میسر آجاتے ہیں.اس لئے اب ضرورت ہے کہ اس رسم کو مٹایا جاوے بعض لوگ اخبار میں لکھوا دیتے ہیں لیکن اگر یہی طریق رہا تو ایک نیا مذہب بن جائے گا.اب میرا ارادہ ہے کہ دو قسم کے باہر فوت ہونے والوں کے جنازے پڑھے جایا کریں.ایک ایسا شخص جو باہر فوت ہوا ہو اور اس کا اور کوئی احمدی جنازہ پڑھنے والا نہ ہو.دوسرا وہ شخص جو جماعت کا اتنا محسن ہو کہ اس کے احسانات کی وجہ سے جماعت پر فرض ہو کہ اس کا جنازہ پڑھے.

Page 404

.YAA مخص کا جنازہ ہے یہاں لوگوں کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ کس کا جنازہ غائب پڑھا جا رہا ہے اور بعض دفعہ مجھ کو بھی پتہ نہیں ہوتا.اس سے یہ بھی خیال ہے کہ ایسی حالت میں دعا کرنے کے لئے کیسے تحریک پیدا ہوتی ہوگی اور وہ کیا کہہ کر اور کس کے لئے دعا مانگتے ہونگے.میں نے کچھ عرصہ سے یہ التزام کیا تھا کہ ہر جمعہ نماز جنازہ نہیں پڑھاتا تھا.وقفہ ڈال کر پڑھتا تھا لیکن آئندہ جس شخص کے متعلق جنازہ پڑھا جائے گا.اس کے متعلق میرا ارادہ ہے کہ پہلے اعلان کر دیا کروں گا.کہ فلاں تاکہ اس کے لئے دعا کرنے کی سب کے دل میں تحریک پیدا ہو.یوں جنازہ کو رسم نہیں بنانا چاہئیے.یہ نہیں کہ ہر ایک شخص کے لئے لکھا جائے جو شخص دین کا ایسا خادم ہے.کہ اس نے بہت خدمت کی ہے اس کا حق ہے کہ اس کا سب جنازہ پڑھیں.ایسے شخص کا اخبار میں بھی ذکر ہو جایا کرے.تاکہ لوگ اس کا جنازہ پڑھا کریں.ورنہ اس کے رسم بننے کا اندیشہ ہے.آج بھی ایک جنازہ ہے اور وہ سیلون کے ایک طالب علم کی والدہ ہے.جو یہاں پڑھ رہا ہے.فی الواقعہ اس کی ماں کی یہ کتنی بڑی خدمت دین ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو دین سیکھنے کے لئے اپنے سے علیحدہ کرتی ہے.اس کے علاوہ سیلون ایک بڑا جزیرہ ہے.وہاں منتشر طور پر سو ڈیڑھ سو آدمی پھیلے ہوئے ہیں.اور اس وقت ان پر وہی حالات گذر رہے ہیں.جو ہم پر گذر چکے ہیں.نئے لوگ ہیں اس لئے اس علاقہ کے لوگ حق دار ہیں کہ ان میں سے فوت ہونے والے کا جنازہ پڑھا جائے.ممبر سے اترتے ہوئے فرمایا اسی طرح سید حکیم جن کو احمدیت کی وجہ سے کابل میں قید کیا گیا تھا.اور وہ قید ہی میں فوت ہو گئے ان کا بھی ساتھ ہی جنازہ پڑھوں گا.الفضل ۶ نومبر ۱۹۲۳ء) ا الصمت ۱۵ ۲ سورہ بنی اسرائیل اصابه جلد ۴ و سیرا الصحابه جلد اول ص ۱۳۰

Page 405

٣٩٩ 74 غیر از جماعت لوگوں سے میل جول کی تلقین (فرموده ۱۳ نومبر ۱۹۲۲ء) حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.ہماری جماعت جن حالات میں سے گذر رہی ہے اس کی وجہ سے بعض ایسے نتائج پیدا ہو گئے ہیں کہ اگر ان کو دور کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو ہماری آئندہ ترقی میں یقیناً روک پڑ جائے گی.دنیاوی اخلاق حالات کا نتیجہ ہوتے ہیں.اگر ان حالات کے اظہار میں بد نتائج سے بچنے اور اچھے نتائج کے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے تو مفید اور اگر کوشش نہ کی جائے اور ان حالات کے اثرات بد کو جو اعمال اور طبیعت اور جوارح پر پڑتے ہیں دور نہ کیا جائے تو برا نتیجہ ہوتا ہے.وہ کیا اثرات ہیں جن کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہیں.وہ یہ ہیں کہ موجودہ زمانہ میں ہماری جماعت کمزور ہے.ہماری جماعت جو دعاوی کرتی ہے وہ گو قدیم ہیں لیکن اس زمانہ کے لئے نئے ہیں.جب سے آدمی پیدا ہوا ہے.یہی دعوئی اور یہی خیال چلا آیا ہے.ہمارا غیر احمدیوں سے یہ اختلاف نہیں کہ روزہ رکھو یا نماز پڑھو.ہم بھی نماز اور روزہ یونسی ادا کرتے ہیں جس طرح وہ ادا کرتے ہیں.بلکہ بعض عقائد میں اختلاف ہے.جو ان کے خراب ہو گئے ہیں.اگرچہ ہمارے عقائد قدیم ہیں.لیکن لوگوں کے لئے یہ خیالات اور عقائد نئے ہیں.ہم ان لوگوں کے ان اعمال و رسوم و عادات پر اعتراض کرتے ہیں.جو انہوں نے نئی پیدا کرلی ہیں.جو عمل وہ اب کرتے ہیں.اگر یہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام بھی کرتے تو ہم میں اور ان لوگوں میں کوئی اختلاف نہ ہو تا بلکہ ہم اور وہ ایک ہوتے.اسی طرح ہماری عیسائیوں سے لڑائی نہیں کہ ہم کوئی نئی بات کہتے ہیں.بلکہ ہم میں اور ان میں یہ لڑائی ہے کہ انہوں نے وہ راستہ چھوڑ دیا ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا راستہ تھا اسی طرح ہمیں یہود سے یہ اختلاف نہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نئے عقائد لائے تھے.جن کو وہ نہیں مانتے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اگر یہود حضرت موسیٰ کی تعلیم پر قائم ہوتے تو ان کو حضرت

Page 406

۴۰۰ سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم بھی بری نہ لگتی.پس ہمارا اختلاف کسی نئی بات کے باعث نہیں ہے.بلکہ اس کے لئے ہے.جو سب سے پرانی ہے.مگر دنیا اس کو نئی سمجھتی ہے.دنیا میں ایسا ہوتا ہے.ایک چیز جو ایک شخص کو اچھی لگتی ہے.وہ دوسرے کو بری لگتی ہے.بعض علاقوں کے لوگ نہ بند باندھتے ہیں.اور ایک ملک کے لوگ اس قسم کا پائجامہ پہنتے ہیں جس میں سے پنڈلیاں نظر آتی ہیں.کوئی شلوار نما پائجامہ پہنتے ہیں.کوئی شلوار.کوئی اس قسم کا پاجامہ جس کو شرعی کہتے ہیں.گو معلوم نہیں کہ وہ کونسی شریعت ہے جس کے مطابق وہ شرعی پاجامہ کہلاتا ہے.کسی ملک میں لوگ لنگوئی ہی پہنتے ہیں.کچھ لوگ ننگے ہی رہتے ہیں.مگر کسی خاص قسم کے لباس کے بارے میں شریعت نے احکام نہیں دئے ہم ہندوانہ پائجامہ نہیں - جو عام طور پر ریاستوں میں پہنا جاتا ہے.لیکن اگر کوئی پہنے تو ہم اس پر اعتراض بھی نہیں کرتے.انگریز خواہ نو مسلم ہوں وہ پتلون پہنتے ہیں.ہم ان پر بھی اعتراض نہیں کرتے.کیونکہ انسان ہر وضع کا لباس پہن سکتا ہے.بشرطیکہ ایسا نہ ہو جس سے عبادت میں روک پیدا ہو.کیونکہ شریعت نے نہ کسی لباس سے روکا ہے.نہ کسی خاص کا حکم دیا ہے.بلکہ جس ملک میں جو رواج اور پسندیدہ ہے وہ لوگ پہنتے ہیں.اور انسان لباس اپنی جسمانی حالت اور ملک کی حالت کو دیکھ کر خود بنا سکتا ہے.اور خاص قسم کے لباس سے نہ صحت پر اثر پڑتا ہے نہ روحانیت پر.مگر باوجود اس کے جو ں پاجامہ کا عادی ہے وہ تہ بند پر شرمائے گا.نہ بند ایسی چیز نہیں جس کے لئے کسی خاص مشق کی ضرورت ہو.کیونکہ اتنا نہ بند تو ہر ایک شخص باندھ سکتا ہے کہ معمولی طور ستر پوشی کر سکے.گو اس قسم کا نہ بند بھی باندھنے والے ہوتے ہیں کہ ان کے نہ بند دوڑنے اچھلنے کودنے وغیرہ میں نہیں کھلتے اور ایسا نہ بند جو معمولی طور سے ستر پوشی کر سکے ایک یورپین بھی باندھ سکتا ہے.لیکن جب ایک شخص کو جو تہ بند باندھنے کا عادی نہ ہو کہا جائے کہ نہ بند باند ھو تو وہ شرم کرے گا.اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ باندھنا نہیں جانتا کیونکہ میں نے بتایا ہے کہ اس کے باندھنے کے لئے کسی خاص مشق کی ضرورت نہیں.بلکہ اس کی وجہ صرف اس کے لئے تہ بند کا نئی چیز ہوتا ہے.پس نہ بند باندھنے میں اس لئے شرم نہیں کی جاتی کہ یہ عمدہ پوشاک نہیں.یا ادنیٰ درجہ کی پوشاک ہے کیونکہ لنگیاں وغیرہ قیمتی بھی ہوتی ہیں وہ لوگ جو اس کے عادی نہیں اس کے باندھنے سے شرم اس لئے کرتے ہیں کہ پاجامہ پہننے والے کے لئے نہ بند باندھنا نئی چیز ہے.یہ بات کہ نئی چیز سے شرم اور جھجک ہوتی ہے.اور یہ ایک طبعی بات ہے.دو تین ماہ کے بچے کو بھی اگر کوئی نیا مشخص گود میں لینے لگے تو وہ شرم محسوس کرتا ہے.اور اس کے چہرے پر گھبراہٹ سی آجاتی ہے.نئے آدمی کو دیکھ کر اس کی طبیعی شرم ظاہر ہو جاتی ہے.پس ہم جو باتیں لوگوں کے

Page 407

ام سامنے پیش کرتے ہیں گو وہ قدیم ہیں مگر لوگوں کے لئے چونکہ نئی چیز ہیں اس لئے وہ ان سے شرم کرتے ہیں.پھر بعض لوگوں کے فوائد کے بھی خلاف ہیں.مثلاً جو پرانی گدیاں ہیں وہ احمدیت کے بعد کہاں قائم رہ سکتی ہیں.اور وہ علماء جنہوں نے محنت کے بعد جماعتیں بنائی ہیں.اور لوگ ان کی عزت بھی کرتے ہیں.لوگوں کی نظر میں ان کی حیثیت استاد کی ہے.لیکن اگر وہ ہماری جماعت میں داخل ہونگے.تو وہ لوگ جو ان کے تابع ہیں.اگر ان کے ساتھ وہ لوگ بھی احمدی ہو جائیں تو وہ سمجھیں گے کہ ہماری اور مولوی صاحب کی ایک ہی حیثیت ہے.کیونکہ کوئی مولوی صاحب نئے نئے جب سلسلہ میں داخل ہونگے.تو ان کو قرآن کریم کی تفسیر کے اصول سیکھنے ہونگے.سلسلہ کی تعلیم سے واقف ہونا ہو گا.اور وہ مولوی جو پہلے سلسلہ میں داخل ہو گئے ہیں اور جو ان کی نظر میں حقیر تھے.ان کی ان کو شاگردی کرنی ہوگی.وہ امرا جو لوگوں پر حکومت کرنا ہی جانتے ہیں ان کو بھی ان لوگوں کی ماتحتی کرنی اور ان کی بات ماننی پڑے گی جن کے رتبہ کے لوگوں کی بات ماننے کے وہ عادی نہیں ہوتے.پس ان میں سے کچھ تو وہ لوگ ہیں جن کے راستہ میں سلسلہ کے قبول کرنے میں طبعی شرم حائل ہے اور کچھ اپنے رسوخ کو قائم رکھنے کے لئے ایسے لوگوں کی طبیعی شرم کو جوش میں لا کر انہیں سلسلہ میں داخل ہونے سے روکتے ہیں.اور وہ جوش میں آکر رک جاتے ہیں.جیسا کہ بچہ ہوتا ہے کہ اگر اس کی ماں اس کے سامنے آئے تو وہ اس سے نہیں گھبراتا اور اگر اس کی ماں کو ہوا کہا جائے.تب بھی وہ اس سے نہیں ڈرتا لیکن اگر کوئی غیر عورت آئے.جس سے کہ وہ طبعی شرم کے باعث ڈرے گا.اگر یہ بھی کہہ دیا جائے کہ وہ ہوا آیا تو وہ بے اختیار رو پڑے گا.اس طرح علماء صوفیا اور امراء میں سے بھی کئی طبعی شرم کے باعث جھجکتے ہیں اور دوسروں کو روکتے ہیں یہی حال غیر مذاہب کے لوگوں کا ہے کہ وہ بھی نئی چیز سے جھجکتے ہیں.اور چونکہ عوام اپنے اکابر کے ماتحت ہوتے ہیں.اس لئے رک جاتے ہیں پھر بعض جگہ ہم سے مال چھینتے جائدادوں پر قبضہ کرتے گھروں سے نکالتے ، عورتیں چھینتے.اور بس چلتا ہے تو جان سے بھی مار ڈالتے ہیں.اور ہمیں اذیتیں پہنچا کر اپنے نزدیک کار ثواب کرتے ہیں.ان مظالم کا ایک خطرناک نتیجہ نکلا ہے.جو ایک طبعی امر ہے.جس کا اگر انسداد نہ کیا گیا تو ہماری تبلیغ بالکل رک جائے گی.جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہماری جماعت کمزور ہے.اور اس پر ہر طرح کے مظالم کئے جاتے ہیں.اور انسان کی طبیعت میں یہ داخل ہے.کہ جن لوگوں کی طرف سے اس پر طرح طرح کے مظالم توڑے جائیں وہ ان سے علیحدگی اختیار کر لیتا ہے.احمدیت سے قبل ایک شخص کی ایک عزت بنی ہوتی ہے.لوگ اس سے ملتے جلتے ہیں.لیکن جب وہ احمدی ہو جاتا ہے.تو اس سے نفرت اور

Page 408

ه نهم حقارت کرنے لگتے ہیں.جب وہ کسی مجلس میں جاتا ہے.تو شریر لوگ اس کی بے عزتی کرتے اور اس کو دکھ پہنچاتے ہیں.ایسی حالت میں یہ طبیعی نتیجہ ہوتا ہے.کہ ایسا شخص ایسی مجالس اور اس قسم کے لوگوں سے ملنا جلنا ترک کر دیتا ہے.جو اس کو دکھ دیتے اور اس کی تحقیر و تذلیل کرتے ہیں.لیکن جس طرح پہلی طبیعی بات پر ہر جگہ پر عمل کرنا درست نہیں.اسی طرح یہاں بھی درست نہیں.خدا تعالٰی نے نئی چیز سے جو طبیعی جھجک رکھی ہے اس سے یہ مطلب نہیں کہ انسان ہر نئی چیز کو چھوڑ دے.بلکہ یہ ہے کہ ہر چیز کو اختیار نہ کرے اور جو چیز اختیار کرنے کے قابل ہو اس کو اختیار کرے.اسی طرح جو شخص شریروں کی شرارتیں دیکھ کر ان سے مجتنب ہوتا ہے وہ بھی اچھا نہیں کرتا کیونکہ اس سے تبلیغ کے کام میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے.اور ہر قسم کے لوگوں سے ملنا چھوڑ دیا جاتا ہے.ایسا شخص بھی اس طبعی حالت کا غلط استعمال کرتا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں یہ مادہ پیدا ہو گیا ہے.غیروں کی مجالس میں جانے سے جھجکنے لگ گئی ہے.اور ان سے مدنیت جاتی رہی ہے اور یہ کہ دوسروں کو اپنی طرف کھینچ سکیں اس مادہ میں بھی کمی آگئی ہے.یا زیادہ نہیں رہا.اور وہ حالت جو اس سے پہلے سالوں میں تھی وہ اب نہیں رہی.اور اس طرح ملنا جلنا ترک ہونے سے جماعت کے رعب میں بھی فرق آگیا ہے.قاعدہ ہے کہ آنکھوں کا جو اثر ہوتا وہ دور کی باتوں کا نہیں ہوتا.کوئی شخص کتنا ہی شریر اور مخالف ہو.جب اس کے سامنے انسان چلا جائے تو اس کی شرارت میں کمی آجاتی ہے.یا کم از کم اس کی آنکھوں میں حیا آہی جاتی ہے.تمہارے متعلق مخالفین اس قسم کی ہزار خبریں پڑھیں کہ تم ممالک غیر میں کس طرح تبلیغ اسلام کرتے ہو.اس کا ان پر اثر نہیں ہو سکتا.جتنا اس کا اثر ہو سکتا ہے کہ تم ان سے ملو اور اپنی زبان سے ان کو حالات سناؤ.آج کل جو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ شریر ہیں ان سے کیا ملنا ہے.اس سے جماعت پر مظالم میں کمی نہیں آتی.بلکہ اگر غیر لوگوں کو ہمارے لوگ ملیں اور تبلیغ کریں اور حالات سے آگاہ کریں تو محض میل ملاقات سے ہی حالات میں تغیر پیدا ہو سکتا ہے.پس جو شخص ظلم کرتا ہے اس سے ہر حال میں علیحدگی دانائی نہیں بلکہ اس سے ملنا اور اس کو نصیحت کرنا ضروری ہے اور وہ اس کا مستحق ہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ مفساری پیدا کرو.اخلاق فاضلہ یہ نہیں ہیں کہ جو تم سے ملتا ہے تم اس سے نرمی کا سلوک کرو.بلکہ اخلاق فاضلہ کا منشاء یہ ہے کہ تم لوگوں کے پاس جاؤ اور ان سے ملوں اور ان سے ہمدردی اور عمدہ برتاؤ کرو.ہماری جماعت کو چاہیے کہ غیر احمدیوں، سکھوں، عیسائیوں، ہندوؤں وغیرہ سب سے ملیں اور تعلقات پیدا کریں.مگر یہاں ایک نکتہ اور بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے جس کے نہ سمجھنے کی وجہ سے ایک گروہ ہلاک

Page 409

ہو گیا ہے.اور وہ یہ ہے کہ لوگوں سے ملنے اور ہمدردی کرنے اور دنیوی تعلقات رکھنے کے یہ معنی نہیں کہ اپنے مذہبی عقائد بھی ان کی خاطر قربان کریں دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہندوؤں سے تعلقات تھے.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ایک ضرورت کے وقت ایک مشہور ہندو سے جو آپ کا دعویٰ سے پہلے کا واقف تھا.آپ نے قرض روپیہ منگوایا تھا اور اس نے بھیج دیا.اسی طرح یہاں کے بعض ہندوؤں سے آپ کے تعلقات تھے.اور تیس چالیس سال تک آخری عمر میں تعلقات رہے.ان لوگوں نے آپ کے الہامات سنے اور معجزات کو دیکھا.ان کو تو نہ مانا مگر تعلقات دنیوی پھر بھی رہے.کیا ان تعلقات کی وجہ سے آپ نے اسلام کا منشاء چھوڑ دیا.یا آپ نے اوروں کو بھی اسلام پر قائم کیا.آپ کے سب مذاہب کے لوگوں سے تعلقات تھے.مگر ان تعلقات کا مذہبی عقائد پر کچھ اثر نہیں تھا.کیونکہ دوستی کے تعلقات کا یہ منشاء نہیں ہوتا کہ مذہبی عقائد کی قربانی کی جائے.دوستی کے لئے مذہب کی قربانی نہیں ہوا کرتی.پس یہ مت سمجھو کہ اگر غیروں سے دوستی کریں گے تو عقائد مذہبی کی قربانی کرنی پڑے گی.دوستی کے لئے مذہب کی قربانی کرنا اپنے ساتھ دشمنی کرنا ہے.دیکھو اگر کسی شخص کا بچہ اس لئے روئے کہ مجھے سکھیا دو تو ماں باپ کی محبت کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ اس کی اس خوشی کو پورا کریں.کیونکہ اس میں بچے کا فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے.یا کوئی دوست اپنے دوست کو کہے کہ تم کنویں میں کود پڑو تو اس بات کا ماننا غلطی ہوگی کیونکہ کنویں میں کودنے سے دوست کا فائدہ کچھ نہیں.مگر کودنے والے کی جان کا خطرہ ہے.پس اگر تم اپنے عقیدہ کو چھوڑ دو گے تو اس میں دوسرے کا فائدہ کوئی نہیں ہو گا.البتہ تمہارا نقصان ہو گا.یہ بھی مت سمجھو کہ دوستی اسی وقت ہو سکتی ہے جب عقیدہ قربان کیا جائے.کیونکہ دوستی کے لئے عقیدہ قربان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہاں جو کمزور دل کے لوگ ہیں اور دوسرے پر اثر ڈالنے کی بجائے اس کا اثر قبول کرتے ہیں وہ اپنی فکر کریں.اگر تم غیروں سے ملوان سے تعلقات پیدا کرو اور اپنے مذہبی معاملات کو قربان نہ کرو.اور باقی دنیوی معاملات میں قربانی کرو.ان کی ہمدردی کرو.تو وہ لوگ نہ صرف خود تم پر زیادتیاں کرنا چھوڑ دیں گے بلکہ اوروں کے مظالم میں بھی تمہارے مددگار ہونگے.اور تمہارے حقوق کی حفاظت کریں گے.پس دونوں باتوں کو مد نظر رکھو اخلاق کی رعایت رکھو اور اور مدنیت کو مت چھوڑو.دنیاوی معاملات میں ہمدردی اور غمگساری کرو.مصیبتوں میں دوسروں کا ہاتھ بٹاؤ اور نیک مشورے دو.اور ان سے مشورے لو.اور مشکلات میں ان کے کام آؤ.لیکن ان تعلقات کی وجہ سے دین میں خلل نہ آنے دو.

Page 410

۴۰۴ اگر ہمارے احباب یہ باتیں ملحوظ رکھیں تو نہ فطرت مرے گی نہ تبلیغ کے کام میں روک پیدا ہوگی.بعض نے نیکی اس کو سمجھ لیا ہے کہ خاموش رہیں اور دوسروں سے تعلقات نہ رکھیں یہ نیکی نہیں ایسے لوگ ست اور غافل ہیں.اور یہ ان کی کمزوری ہے اور نقص ہے.اس کو دور کرنا چاہئیے.اور اس کا علاج کرنا چاہئیے.جو شخص دوسروں سے مل نہیں سکتا وہ بھی بیمار ہے.اس کو علاج کرنا چاہیے.اور جو عقائد چھوڑتا ہے وہ بھی اپنے کو ہلاک کرتا ہے.چاہئیے کہ لوگوں سے ملو اور ایسے تعلقات پیدا کرو کہ وہ تمہارا اپنے آپ کو محتاج خیال کریں.اللہ تعالی توفیق دے کہ تم لوگوں سے ملوان کی ہمدردی کرد مگر اپنے عقائد کو لوگوں کی خوشی کے لئے قربان نہ کرو.اور اس طرح اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو.اور لوگوں سے ملنا ترک کر کے دین کی تبلیغ میں روک نہ بنو.جب دوسرے خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا.آج بھی ایک جنازہ ہے.گو میں نے اعلان کیا تھا لیکن معلوم ہوا ہے کہ ایک ایسے بھائی جو زمیندار اور مخلص اور جوشیلے احمدی تھے اور جہاں تک میرا ان سے تعلق تھا.میں نے ان کو اچھا ہی سمجھا تھا.ان کا نام چوہدری علی محمد تھا.دنجواں ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے.فوت ہو گئے ہیں.ضلع گورداسپور کی جماعتیں قادیان کی جماعت کو چھوڑ کر عملی حالت میں کمزور ہیں عام طور پر جو لوگ سلسلہ میں داخل ہیں ان میں سے کم میں سلسلہ کے لئے غیرت اور دین میں انہماک اور سلسلہ سے واقفیت پیدا کرنے اور سلسلہ کی کتابیں پڑھنے کا خیال ہے ایسے کم ہیں جن پر سلسلہ کی محبت مستولی ہے اور تبلیغ کا جوش ہے.لیکن مرحوم انہی کم لوگوں میں سے ایک تھا.مخلص اور جوشیلا تبلیغ میں منہمک رہتا تھا.میرے نزدیک ان کے فوت ہونے سے جماعت گورداسپور میں کمی آگئی ہے.اللہ تعالٰی اس کمی کو پورا کرے اور مرحوم میں جو غلطیاں ہوں ان کو اپنا رحم کر کے معاف کرے.جمعہ کے بعد ان کا جنازہ پڑھوں گا.(الفضل ۱۶/ نومبر ۶۹۲۲)

Page 411

۰۵م 75 دعوت و اشاعت کا موزوں طریقے (فرموده ۱۰/ نومبر ۱۹۲۳ء) حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.چونکہ میرے گلے میں تکلیف ہے اس لئے میں اختصار سے دو ضروری ہدایتوں کی طرف قادیان کی جماعت کے لوگوں اور بیرونی جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں.تبلیغ کا کام ہماری جماعت کے فرائض میں سے ہے اور میں نے بارہا بیان کیا ہے اور یہ بھی بارہا بتایا جا چکا ہے کہ کسی کام کی خوبی خواہ کسی حد تک ترقی کیوں نہ کر گئی ہو.اس وقت تک دل نشین نہیں ہو سکتی.جب تک اس کے پیش کرنے کا طریق دلچسپ نہ ہو.پھر کوئی بات صرف دلچسپ طریق سے پیش کرنے پر بھی دل میں نہیں بیٹھ سکتی.جب تک ان طریقوں کو نہ استعمال کیا جائے جن سے کسی کو ہم خیال بنایا جاتا ہے لیکن جماعت میں بہت سے لوگ ہیں جو تبلیغ کرتے ہیں.مگر اس میں ایسی غلطی کر جاتے ہیں اور ایسے اہم امور کو نظر انداز کر دیتے ہیں.جن کی وجہ سے وہ نتیجہ نہیں نکلتا جو نکلنا چاہیے.اور وہ برکات حاصل نہیں ہوتی جو ہونی چاہئیں.آج میں ان دو نقصوں کی طرف جماعت کو توجہ دلاتا ہوں جن کی وجہ سے جماعت کی کوششیں اعلی نتائج پیدا نہیں کر رہیں.اور جماعت کافی ترقی نہیں کر رہی وہ نقص یہ ہیں.مبلغ کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ جس طرح اعلیٰ درجہ کی چیز کو اعلیٰ طریق پر پیش کرے اسی طرح اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ تبلیغ کے عرصہ اور زمانہ کی حد بندی کرے.وہ چیز جو چھ مہینے میں ہو سکتی ہے.اس کے متعلق یہ خیال نہ کرے کہ ایک ہی مہینہ میں ہو جائے.اور جو کام ایک مہینہ میں ہو سکتا ہے اس کو چھ مہینہ پر مت ڈالے.کیونکہ اس طرح طاقتوں کا نقصان ہوتا ہے.تو زمانہ کا اثر کام پر بہت ہوتا ہے.اگر ایک تجربہ کار ڈاکٹر پیٹ کا آپریشن کرے جو دس پندرہ

Page 412

م منٹ میں ہو سکتا ہے لیکن وہ چھ گھنٹہ صرف کرے اور آہستہ آہستہ کام کرے.تو اس کی تجربہ کاری مریض کے لئے مفید نہیں ہو سکتی بلکہ وہ مریض مر جائے گا.پس اگر گھنٹوں کا کام مہینوں پر ڈالا جاوے گا تو وہ کام اچھا نہیں ہو سکتا.بلکہ خراب ہو گا.اسی طرح تبلیغ کے کام کے لئے ایک حد تک مبر ضروری ہے اور ایک حد تک جلدی.میں دیکھتا ہوں جماعت میں دونوں قسم کے آدمی ہیں.اور اپنی اپنی حد پر ٹھرے ہوئے ہیں.ایک وہ ہیں جو تبلیغ کرنے میں طول امل سے کام لیتے ہیں.اور اپنے کام کو تین تین چار چار سال اور اس سے بھی زیادہ پر ڈالتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ یہ کام آہستہ آہستہ ہو جائے گا ان کی آہستگی خواجہ (کمال الدین) صاحب کے لیکچروں کی طرح ہوگی.نہ گاڑی منزل پر پہنچے گی نہ مسافر اتریں گے.ایسے لوگ کعبہ کی بجائے ترکستان کی راہ لیتے ہیں.جیسا کہ خواجہ صاحب احمدیت کی طرف لانے کی بجائے خود غیر احمدیوں کی طرف چلے گئے.کہ آہستہ آہستہ تبلیغ کرنی چاہیئے لیکن ان لوگوں کی آہستگی آگے کی طرف لے جانے کی بجائے پیچھے کی طرف ہٹاتی ہے.اور آخر تیزی سے ہلاکت کے گڑھے میں لے جاتی ہے.یہ نہیں کہ یہ لوگ غیر احمدی یا پیغامی ہو جاتے ہیں یا مخلص نہیں رہتے.بلکہ ایسے لوگوں میں ایک سستی آجاتی ہے.چونکہ دین کی اشاعت کے بارے میں ایک حد تک بیکار رہتے ہیں.اس لئے ان پر ایک قسم کا فالج پڑ جاتا ہے.اور جیسا کہ مفلوج آدمی زندہ تو رہتا ہے.مگر بر کار ہو جاتا ہے.اسی طرح قاعدہ ہے کہ انسان جب تک اپنے اعضاء سے کام نہ لے تو ان میں چستی باقی نہیں رہتی.بلکہ ہوتے ہوتے گنٹھیا ہو جاتا ہے.پس یہی حال ان لوگوں کا مذہبی طور پر ہوتا ہے جو تبلیغ کے کام میں سستی کرتے اور تبلیغ کو لمبے عرصہ پر ڈالتے رہتے ہیں.لیکن ایک اور شخص ہوتا ہے اس کا معاملہ اس قسم کے لوگوں سے الٹ ہوتا ہے.وہ تیزی سے تبلیغ کرتا ہے.راستہ میں ایک شخص ملا وہ اس کو کہتا ہے کہ مرزا صاحب نے یہ دعویٰ کیا ہے.اور ایک آدھ گھنٹہ تبلیغ پر صرف بھی کرتا ہے.اور جب وہ اس عرصہ میں نہیں مانتا تو کہتا ہے کہ اس کے دل پر مہر ہے.یہ نہیں مانے گا.ظاہر ہے کہ اس کو ہر وقت حضرت ابو بکر جیسے لوگ تو مل نہیں سکتے جو سننے کے ساتھ ہی مان لیں.ایسا جلد مایوس ہو جاتا ہے.دیکھو ہیرا ایک کوئلہ ہی ہوتا ہے.جب وہ کان سے نکلتا ہے تو اس کے ماہر جوہری اس پر بڑی محنت کرتے ہیں اور اس کو مشکل سے تیار کرتے ہیں.تب کہیں وہ اپنی قیمت ہے.اسی طرح ایک انسان جس کے دل پر طرح طرح کے زنگ لگے ہوئے ہیں.وہ حکایات جو اس نے باپ دادوں سے سنی ہوتی ہیں.دل میں رچی ہوتی ہیں.یہ نہیں ہو سکتا.کہ پندرہ منٹ کی تبلیغ سے اس قدر زنگ اور خیالات دور ہو جائیں.وہ کس طرح فورا الا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ شخص اتنی جلدی کمارک

Page 413

دوسرے کے متعلق فیصلہ کرتا ہے.وہ یقیناً مایوس ہو جائے گا.سب سے لڑے گا.اور اس کو کسی میں کوئی خوبی نظر نہیں آئے گی ایسا شخص جو چاہتا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو بھی تبلیغ کرے وہ فورا تبلیغ سننے کے ساتھ ہی مان لے لازمی طور پر ایسے شخص کے دل میں مایوسی پیدا ہو جائے گی.اور اس کا اثر اس پر یہ ہو گا کہ خود بھی محروم ہو جائے گا اور یہ حالت تبلیغ کرنے والے اور جس کو کی جاتی ہے.دونوں کے لئے خطرناک ہوتی ہے.چاہیے یہ کہ اگر کوئی اس وقت نہیں سنتا تو اس کے متعلق مایوس نہ ہو.اور یہ نہ سمجھے کہ یہ آئندہ بھی نہیں سنے گا.بلکہ اس کو پھر سناؤ اور سمجھو کہ اس وقت اس کی طبیعت اچھی نہیں یا کسی کام میں مشغول ہے.یا کوئی ایسی بات ہے جس کی وجہ سے یہ میری بات نہیں سنتا.اس لئے مجھ کو چاہیے کہ اس وقت نہیں تو کسی اور وقت سناؤں.پس دوسرے وقت جب وہ سن سکے سناؤ اس کے مقابلہ میں دوسرا شخص جو ہمیشہ سنانے کے وقت کو آئندہ کے زمانہ پر ڈالتا رہتا ہے کہ پھر سناؤں گا اور پھر سناؤں گا ابھی وقت نہیں آیا.وہ بھی کبھی سنا نہیں سکتا.حتی کہ اس دنیا سے گزر جاتا ہے.پس ایک تو اس لئے حق کے پھیلانے سے محروم رہتا ہے کہ وہ کہتا ہے میں نے فلاں کو جب کہ دیا تو وہ فورا کیوں نہیں مانتا اور دوسرا اس لئے کہ اسے کہنے کا وقت ہی نہیں ملے گا.پس کہنے میں سستی نہیں کرنی چاہئیے.اور منوانے میں جلدی نہیں کرنی چاہئیے.کیونکہ وہ آج نہیں مانے گا تو کل مانے گا.کل نہیں تو پرسوں مانے گا.بعض لوگ متواتر تبلیغ کرنے پر ہیں ہیں بچتیں پچیس سال کے بعد مانتے ہیں.تو تبلیغ کے کام میں مایوسی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ مایوسی کا نتیجہ بڑا ہی خطرناک ہوتا ہے.مایوس ہونے والے لوگوں کے ذریعہ ہدایت نہیں پھیلا کرتی.پس کبھی ایک منٹ کے لئے بھی یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ فلاں شخص نہیں مانے گا.دیکھو قرآن کریم میں جن لوگوں کے متعلق آتا ہے ختم الله على قلوبهم آخر ان لوگوں کے دلوں کی مہریں بھی ٹوٹیں کہ نہیں.کیونکہ وہ لوگ مان گئے.جس وجہ سے مہر لگائی گئی تھی.اس وجہ کو انہوں نے دور کر دیا.اس لئے ان کو ہدایت دی گئی.جو قفل لگاتا ہے.وہ کھول بھی سکتا ہے.اور کھولتا ہے.یاد رکھو جس طرح قفل عارضی ہوتے ہیں مریں بھی عارضی ہوا کرتی ہیں.جب حالات بدل جاتے ہیں تو مہریں بھی ٹوٹ جاتی ہیں.پس مبلغ کے لئے مایوس ہونا بہت ہی خطرناک ہے.وہ سمجھ لے کہ اب نہیں تو پھر مان لے گا.اور یہ بھی بہت برا طریق ہے کہ تبلیغ کے کام میں ستی کی جائے اور کہا جائے کہ اس سال تو ہم یہ بتائیں گے کہ کسی مصلح کی ضرورت ہے یا نہیں اور پھر اگلے سال یہ کہ مصلح آنا چاہئیے.اور پھر کئی سال کے چکر کے بعد کہیں گے کہ حضرت مرزا صاحب نے یہ دعوی کیا ہے.اور پھر بتائیں

Page 414

۴۰۸ گے کہ آپ کے دعوی کے دلائل یہ ہیں اس طرح وہ ہیں پچیس سال بلکہ اس سے بھی زیادہ لمبے عرصہ کا پروگرام تیار کر لیتے ہیں.حالانکہ یہ کسی کو نہیں معلوم کہ اس عرصہ تک جس شخص کو تبلیغ کرنی ہے وہ زندہ بھی رہے گا یا نہیں.اور خود ہم بھی آخری مسئلہ بتانے تک زندہ رہیں گے یا نہیں.پس حق فورا پہنچاؤ اور دلیری سے پہنچاؤ.اگر کسی وجہ سے اس وقت نہیں سن سکتا تو کل سناؤ.لیکن سنانے میں ہرگز کو تاہی نہ کرو.یہ مت خیال کرو کہ اگر ہم سنائیں گے تو لوگ گھبرائیں گے.یہ سچ ہے کہ جب ہم سنائیں گے تو لوگ ضرور گھبرائیں گے کیونکہ ان کے دلوں پر زنگ ہیں مگر تم مایوس نہیں ہو گے تو پتھر کے دل بھی نرم کر کے اپنے ساتھ ملالو گے.کیا تم پہاڑوں کے غاروں کو نہیں دیکھتے.یہ غار دریاؤں نے بنائے ہیں.پانی برستا ہے اور وہ باہر نکلنے کے لئے زور لگاتا ہے.اور آہستہ آہستہ اپنا راستہ نکال لیتا ہے.حتی کہ اتنی بڑی بڑی غاریں بن جاتی ہیں جو میلوں میل لمبی ہوتی ہیں.یورپ کے لوگ باوجود مشینوں اور بارود وغیرہ کی کثرت کے اتنے بڑے بڑے غار بناتے ہیں.بڑی بڑی جدوجہد اور کوشش سے کام لیتے ہیں.تب کہیں کامیاب ہو سکتے ہیں.لیکن دریا اپنا پورا زور لگاتے ہیں.اور جتنا کاٹ سکتے ہیں کاٹتے ہیں.اور غاریں بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں.پس دونوں نکتوں کو یاد رکھو کہ بعض لوگ جلدی مان لینے والے ہوتے ہیں.اور بعض بہت دیر میں اگر ایک جلدی مانتا ہے اس لئے سب کے متعلق یہ نہیں سمجھنا چاہئیے کہ وہ بھی جلدی مان لیں گے اور اگر ایک دیر میں مانے والا ہے تو سب کے متعلق یہ نہیں خیال کر لینا چاہیے کہ وہ دیر ہی سے مانیں گے.تبلیغ میں دونوں قسم کے لوگوں کی حالت کو مد نظر رکھو کہ تبلیغ جلدی اور مناسب طریق پر کرو.جس نے جلدی ماننا ہے وہ جلدی مان لے گا.اور جو جلدی نہیں مانتا.اس کے متعلق مایوس مت ہو.لگے رہو.آخر وہ مان لے گا.مایوس ہونے کی یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ تمہیں علم ہو کہ اس نے محروم ہی مرنا ہے.اور اس علم کا ذریعہ خدا کا الہام اور وحی ہو سکتی ہے.لیکن تمہیں جب الہام اور وحی نہیں ہوئی ہے تو پھر مایوس مت ہو.اور تبلیغ میں لگے رہو.ایک دن میں دو دن میں سال میں دو سال میں مان لینا ضروری نہیں.تم یہ خیال رکھو کہ آخر مانے گا.ممکن ہے کہ اس نے بہت لمبے عرصہ کے بعد ماننا ہو.اور تم لمبے عرصہ کی تبلیغ سے گھبرا کر چھوڑ دو.حالانکہ جس دن اس کو تبلیغ کرنا چھوڑو وہی وقت اس کے حق قبول کرنے کا وقت ہو.اس حالت میں تمہارا تبلیغ چھوڑنے کا نتیجہ اس کی محرومی اور تمہاری ناکامی ہوگا.پس دونوں باتوں کو مد نظر رکھو.تبلیغ میں سستی نہ کرو.اور لوگوں سے مایوس مت ہو.پھر اللہ تعالیٰ تمہاری تبلیغ میں برکت ڈالے گا.اور اس سے تمہارا وہ فرض ادا ہو گا.جو تمہارے ذمہ تھا.

Page 415

الفضل ۱۳۰ نومبر ۱۹۲۲ء) ۴۰۹...اللہ تعالی تمہاری سستی دور کرے.27

Page 416

을 76 ہندوؤں میں سچائی کا پر چار (فرموده کار نومبر ۱۹۲۲ء) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.دنیا میں فنون دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک فن وہ ہوتے ہیں کہ جن کے سیکھنے اور استعمال کرنے کا مقصد نتیجہ اور مدعا صرف دل کی خوشی اور تماشا ہوتا ہے.وہ سب کو خوبصورت نظر آتے ہیں.لوگ ان کو دیکھنے آتے ہیں اور پسند کرتے ہیں.دیکھنے والے ان فنون کے ماہروں پر واہ واہ بھی کرتے ہیں.لیکن ان کا اثر اس محفل تک ہی ہوتا ہے.اور مجلس کے علاوہ بنی نوع انسان پر ان کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا.لوگ ان فنون والوں کی تعریف کرتے ہیں.مگر جب جدا ہوتے ہیں تو بھول جاتے ہیں.مگر ایک وہ فنون ہیں.جن پر لوگ تعریف نہیں کرتے.اور دیکھنے والے ان لوگوں کے گرد جمع نہیں ہوتے ان کو دیکھنے کے لئے لوگ خرچ کہاں کریں گے.اگر کہا جائے کہ کچھ دیں گے تب بھی جمع نہیں ہوتے.باوجود اس کے کہ یہ کام فی حد ذاتہ مفید ہیں.اور لوگوں کے لئے ان کے اچھے نتائج بر آمد ہوتے ہیں.مثلاً تھیٹر ہے.یورپ میں اس فن نے بڑی ترقی کی ہے.یورپ میں اس پیشہ میں کمال رکھنے والے کو نواب" تک کے خطاب ملتے ہیں.ان کی سب سے بڑی تعریف یہ ہوتی ہے کہ یہ شخص بڑا نقال ہے یا بڑا ناچنے والا ہے.مگر سوال یہ ہے کہ اس کا فائدہ کیا ہے.یورپ میں لوگ تھیں تمیں روپیہ دے کر تھیٹروں میں جاتے ہیں.یہاں اتنا تو نہیں.ہاں پانچ پانچ دس دس روپیہ تک یہاں بھی خرچ کر دیتے ہیں.اور تماشا دیکھتے ہیں.مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس تماشا دیکھنے کا ان پر ان کے دوستوں پر ان کے محلہ والوں پر ان کے شہر والوں پر ملک والوں کی زندگی پر کیا اثر ہوتا ہے.اور کیا فائدہ پہنچتا ہے.اس میں شک نہیں کہ لوگ تھیٹروں میں بعض اوقات ہنس بھی پڑتے ہیں اور بعض اوقات رو بھی پڑتے ہیں.مگر تھیٹر کا جتنا بھی اثر ہوتا ہے وہ وہیں ختم ہو جاتا ہے.مگر اس کے مقابلہ میں ایک شخص دریا پر ایک پل بناتا ہے جس کا بنا ہزاروں لاکھوں انسانوں

Page 417

کے لئے مفید ہے.مثلاً ایک شخص کے رشتہ دار دریا کے پار رہتے ہیں ان میں سے کوئی ایک بیمار ہے.دریا پر پل نہ ہو اور دریا زور پر ہو تو وہ اپنے رشتہ دار کی خبر نہیں لے سکتا.یا ایک شخص کی دریا کے پار تجارت ہے مگر دریا میں پانی زیادہ ہو تو وہ دریا کے پار نہیں جا سکے گا.یا کسی شخص نے دریا کے پار اپنی ملازمت پر جاتا ہے دریا میں طغیانی ہے.وہ کس طرح جا سکتا ہے.لیکن جب دریا پر پل بن گئے.تو دریا کے پار جانا ان کے لئے کچھ بھی مشکل نہ رہا.باوجود اس قدر مفید ہونے کے لوگ جب پل بن رہا ہو پیسہ خرچ کر کے اس کو دیکھنے کے لئے نہیں جاتے.اگر کہا جائے.کہ فلاں دریا پر انجینر پل بنا رہے ہیں.چلو دیکھو.تو لوگ کہیں گے کیا ہماری عقل ماری گئی ہے کہ وہاں وقت ضائع کریں.اگر کسی بھلے مانس کو کچھ دیا بھی جائے کہ وہ جا کر دیکھے تو وہ کہے گا میرے پاس فالتو وقت نہیں ہے.پس گو اس کام کا اثر ہے.مگر اس کو دیکھنے کے لئے لوگوں میں جوش پیدا نہیں ہوتا.معمار ایک مکان تعمیر کرتا ہے اور خاموشی سے اینٹ پر اینٹ لگاتا چلا جاتا ہے.اور کام ختم ہو جاتا ہے.اس کا کام دس میں سال اور بعض اوقات صدیوں تک فائدہ پہنچاتا ہے.مگر اس پر لوگوں کا انبوہ اور شوروغل نہیں ہوتا اور نہ بناتے وقت اس کی کوئی واہ واہ ہوتی ہے.ایسے کام کی پہلے سے بالکل الٹ حالت ہے.پہلے کا نتیجہ کچھ نہ تھا.مگر واہ واہ اور تعریف بہت تھی.اس کی کوئی واہ واہ اور تعریف نہیں ہوتی مگر دانا انسان وہ ہے جو تعریف اور واہ واہ پر نہیں جاتا بلکہ یہ دیکھتا ہے کہ جو کام میں کرنے لگا ہوں اس کے نتائج کیسے ہیں.جس کام کا نتیجہ کچھ بھی نہیں خواہ اس پر کتنی ہی تعریف ہو وہ خوش ہونے کے قابل نہیں مگر وہ کام جس پر تعریف کچھ نہ ہو لیکن اس کے نتائج اچھے ہیں وہ قابل توجہ ہے پس وہ کام جس کے نتائج اچھے ہیں اس کے لئے لوگ برا بھلا کہتے ہیں.ہمدردی نہیں کرتے.مگر اس کے اچھے نتائج ہی اس قابل ہوتے ہیں کہ انسان اس کام کو کرے.بعینہ یہی حال دین کے کاموں کا ہے.دنیا کے بعض کاموں میں بھی واہ واہ زیادہ ہوتی ہے.لیکن عقلمند وہی ہے جو نتیجہ کو دیکھے اگر ایک شخص کے کام پر واہ واہ بہت ہوتی ہے مگر اس کا نتیجہ کچھ نہیں.تو وہ کام قابل قدر نہیں.لیکن اگر ایک کام سے اچھے نتائج نکلنے کی امید ہے اور نتائج اچھے نکلتے ہیں لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں تو پروا مت کرے.اور اگر تعریف کرتے ہیں.مگر نتیجہ کچھ نہیں تو وقت کھونا ہے.تو دین کے کاموں میں بھی دونوں پہلو ہیں.ایک میں واہ واہ بہت ہوتی ہے.مگر ایک میں واہ واہ کچھ نہیں.البتہ اس کے نتائج اعلیٰ درجہ کے ہیں.تبلیغ بھی دو طرح کی ہوتی ہے.ایک مبلغ وہ ہوتا ہے جس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں سے تعریف کرائے.وہ اپنی تقریر میں لطیفے اور چکلے بیان کرتا ہے.لوگ اس کی تقریر سن کر ہنتے اور خوش ہوتے ہیں اور اس کی تعریف کرتے ہیں مگر ایسی تقریر سن کر جب لوگ گھر جاتے ہیں تو اس کا

Page 418

کچھ بھی اثر ان پر باقی نہیں رہتا.البتہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے وہ اللہ تعالیٰ کو سمجھنے کے لئے جاتے تھے اور ان کے دل پر ایک رعب ہو تا تھا.مگر جب وہ اس قسم کی تمسخر کی باتیں سنتے ہیں اور اس ذات کے وکیل کی طرف سے سنتے ہیں.تو ان پر اس کا اثر اچھا نہیں ہوتا.ایسے لیکچرار بے شک خوش کر لیتے ہیں اور لوگ ان کی تعریف بھی کرتے ہیں.مگر خدا تعالی کی طرف سے ان کے دل میں سنجیدگی نہیں رہتی.ایسے واعظ درد کا علاج افیون کھلا کر کرتے ہیں.اس میں شک نہیں.افیون سے درد کا احساس کم ہو جاتا ہے.مگر اس سے اصل درد میں کمی نہیں آتی.بلکہ اس سے وہ ہمیشہ کے لئے افیون کا عادی ہو جاتا ہے.ایسا شخص اگر اسلام کی تائید کرتا ہے تو اس میں شک نہیں کہ لفظ اسلام سے اس کی تقریر کے سننے والوں کو نفرت نہیں رہتی مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان لوگوں کو خدا سے بھی محبت نہیں رہتی.لوگ اس واعظ اور اس کے ہم عقیدہ لوگوں کو برا نہیں کہتے.مگران میں کوئی روحانی ترقی بھی پیدا نہیں ہوتی.اس شخص نے فتح حاصل کی.مگر اس کی فتح اس کے نام کی ہے.خدا کے نام کی فتح نہیں.اور روحانیت کے لئے فتح نہیں.اس بارے میں یہ شخص فتح یاب نہیں ہوا بلکہ ہارا ہے.اس کے مقابلہ میں ایک اور شخص ہے جو سنجیدگی سے کام کرتا ہے.وہ بولتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دل میں درد ہے.اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ کوئی پل بناتا ہے.گو اس کی تعریف نہیں کی جاتی.مگر وہ دنیا کے لئے مفید کام کرتا ہے.اسی طرح گو اس شخص کی تعریف نہیں کی جاتی بلکہ لوگ اس کی مخالفت بھی کرتے ہیں.مگر اس کے باوجود اس کی باتوں کا قلب پر اثر ہوتا ہے.اس کے سننے والے اس کو گالیاں بھی دیتے ہیں.مگر خدا تعالیٰ کا ان کے دل میں ایک رعب پیدا ہوتا ہے.اس لئے وہ جو کام کرنا چاہتا ہے اس میں کامیاب ہو جاتا ہے.اس کے بعد میں تبلیغ میں سے بھی ایک خاص حصہ تبلیغ کی طرف توجہ دلاتا ہوں وہ حصہ ہندوؤں میں تبلیغ ہے.ہماری جماعت پر جس طرح تبلیغ کا کام فرض کیا گیا.اور حضرت مسیح موعود نے مقرر فرمایا ہے.اس کو دیکھتے ہوئے یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ ہندوؤں میں جہاں تک تبلیغ کا سوال ہے.نہیں کی گئی.گو جس قدر بھی ہے اس کا غیر احمدیوں پر اثر ہے مگر آریوں سے مقابلہ ایسا ہی ہے.جیسا تھیٹر ہے.کیونکہ آریوں کی غرض حق طلبی نہیں.ان کی غرض محض یہ ہوتی ہے کہ ان کی قوم کے لوگ ان کی طرف اس طرح توجہ کریں.اور ان سے ہمدردی کریں چنانچہ کئی جگہ وہ اشتہار شائع کرتے ہیں اور بغیر ہم سے پوچھنے کے لکھ دیتے ہیں کہ احمدیوں سے بحث ہوگی.کیا کچھ احمدی آریہ ہو گئے ہیں.جن کی وجہ سے ان کو خیال ہے کہ اگر احمدی مقابلہ پر آئیں گے تو اور احمدیوں کو آریہ اپنے ساتھ ملا سکیں گے نہیں ایسا نہیں.بلکہ انہی میں سے کئی لوگ ہم لائے ہیں.پس ان کو

Page 419

سلم اللهم ہمارے ساتھ بحث کر کے فتح نہیں ہوگی.بلکہ اللہ تعالی کے فضل سے ہمیشہ ان کو ذلت و شکست اور رسوائی ہوتی ہے.لیکن پھر بھی وہ ہمارا نام بحث کے لئے لکھ دیتے ہیں اس کی غرض یہ ہوتی ہے.کہ دیگر ہندوؤں پر اثر ڈال سکیں کہ وہ ہندو مذہب کی طرف سے مقابلہ کر رہے ہیں.اور اس طرح سے اپنے آپ کو ہندو مذہب کا ہمدرد ثابت کرتے ہیں.یہ ایسی ہی ہمدردی ہوتی ہے جیسا کہ موچی دروازے کے لوگ اسلامیہ کالج کی کرکٹ کے میچوں میں کیا کرتے ہیں.ان لوگوں کو یہ جوش ہوتا ہے کہ چونکہ یہ اسلامیہ کالج ہے اور وہ ڈی.اے.وی کالج یا کسی اور کالج کے لڑکے ہیں اس لئے ہمیں دین کی خدمت کرنی چاہیئے.اور وہ اپنے ڈنڈے لیکر چل پڑتے ہیں.بعینہ اسی طرح یہ لوگ دیگر ہندوؤں پر یہ اثر ڈالتے ہیں کہ ہندو دھرم کی طرف سے ہم لڑتے ہیں اور یہ قدرتی بات ہے کہ اپنا کام کرنے والے سے ہمدردی ہو جاتی ہے.اسی طرح آریہ لوگ سنا تینوں اور جینیوں کو دکھاتے ہیں کہ ہم تمہارے ہمدرد ہیں.خواہ ان کو شکست ہی ہو مگر وہ لوگ ان سے ایک قسم کی محبت کرتے ہیں.اور شکست کو نہیں سمجھ سکتے.اور اپنی شکست کو سمجھنا بھی مشکل ہے.شکست کو ہمیشہ غیر جانبدار ہی سمجھا کرتا ہے.ایسا ہی اگر مسلمانوں کو شکست ہو تو مسلمان اس کو نہیں سمجھ سکتے اس لئے جب آریوں کو شکست ہوتی ہے اس طرح کی ہمدردی کسی حد تک ہمیں بھی غیر احمدیوں سے حاصل ہو جاتی ہے.مگر اس سے آریہ بہت فائدہ اٹھاتے ہیں ہمیں اتنا فائدہ حاصل نہیں ہوتا اس لئے کہ مسلمانوں میں وہ بجتی کی روح نہیں جو ہندوؤں میں ہے.اس لئے ہم اس بارے میں نقصان اٹھاتے ہیں.اور ہندو سارے اکٹھے ہو جاتے ہیں.مسلمانوں کا تو یہ حال ہے کہ کسی احمدی عالم کی تائید کرنا تو الگ رہا اگر ایک اہل حدیث عالم بھی ہندوؤں وغیرہ سے بحث کرنے جائے تو دوسرا اہل حدیث عالم ہی اس کی دشمنی اور مخالفت کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے اس لئے ہم بھی جب آریوں وغیرہ سے بحث کرتے ہیں تو غیر احمدیوں سے ہمیں ہمدردی حاصل ہوتی ہے لیکن بہت کم.کیونکہ ان سے ان کے مولویوں اور ملانوں کو بھی کم ہمدردی ملتی ہے.پس در حقیقت دنیاوی فوائد میں آریہ جیتے ہیں اور ہم ہارے رہتے ہیں.اصل چیز ہندوؤں میں تبلیغ کے لئے آریہ نہیں بلکہ وہ کروڑوں ہندو ہیں جو مذہبا " آریوں سے کچھ بھی تعلق نہیں رکھتے.وہ بچے طور پر ہندو مذہب کو مانتے ہیں.اور ان کی کوئی پولیٹکل غرض بھی نہیں.وہ خدا سے محبت رکھتے ہیں.اور غریبوں کی مدد کے لئے خرچ کرتے ہیں.وہ بحث مباحثوں میں نہیں پڑتے.اور اس کو غیر ضروری خیال کرتے ہیں.اس لئے کہ ان کے نزدیک انسان جس مذہب میں پیدا ہوتا ہے وہی اس کی نجات کا موجب ہوتا ہے.ہمارا فرض تھا کہ ہم ان کو بتاتے.کیا محض اس لئے ہم ان کی طرف توجہ نہیں کرتے کہ وہ مباحثوں میں نہیں آتے.اور ان سے

Page 420

لم با هم مباحثات کے باعث کوئی شور و شر نہیں پڑتا.اگر شورش ہی تبلیغ میں مڈ نظر ہو تو سمجھو کہ ہماری محنت اکارت گئی.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس کا باعث ان کی زبان اور خیالات سے ناواقفیت ہے.اور آریوں سے بحث وغیرہ میں آسانی ہے کہ ان کی کتابیں اردو میں مل جاتی ہیں.ورنہ ہماری جماعت کے لوگوں کو واہ واہ کی الا ماشاء اللہ پر واہ نہیں.پس غیر آریہ سماجی ہندوؤں کی طرف توجہ نہ کرنے کا باعث واہ وا کا نہ ہونا نہیں بلکہ ان کے علوم سے ناواقفیت ہے مگر ان لوگوں میں ہماری جماعت کے انگریزی خواں خوب تبلیغ کر سکتے ہیں.کیونکہ ان کا لٹریچر جس قدر انگریزی میں ہے اتنا مروجہ بھاشا میں بھی نہیں ہے.انگریزی میں ہندوؤں کے لٹریچر کا اکثر ضروری حصہ آگیا ہے.چنانچہ انگریزی میں وید اور پرانوں کے ترجمے تو میرے پاس بھی موجود ہیں علاوہ ازیں سناتن دھرمیوں بدھوں اور جینیوں کی کتابیں بھی انگریزی میں ہیں.ان کے ذریعہ ہمارے انگریزی خوانوں کو پتہ لگ سکتا ہے.اور یہ بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ کونسی باتیں ہیں جن کا ان پر اثر ہوتا ہے اور کونسی باتیں ہیں جن سے وہ نفرت کرتے ہیں.جن باتوں کو وہ پسند کرتے ہیں اگر وہ صحیح ہیں تو ان کو دکھانا چاہئیے کہ اسلام میں ان سے اعلیٰ طریق پر موجود ہیں.اور جو غلط ہوں ان کے مقابلہ میں صحیح پیش کرنی چاہئیں.پس انگریزی زبان کے ذریعہ ان کے لٹریچر کو پڑھ کر ان میں تبلیغ کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے اور اس طرح ہمیں ہندوؤں کے وسیع دائرے کی طرف توجہ کرنی چاہئیے.آریہ ہیں بھی محدود اور ان کی اغراض بھی بحث مباحثہ سے یہ ہیں کہ ہندوؤں میں ظاہر کریں کہ وہ ہندو مذہب کی طرف سے لڑ رہے ہیں اس سے ماسوا اور کوئی غرض نہیں.دیکھو عیسائی ۴۰ لاکھ ہندوستانیوں کو عیسائی بنا چکے ہیں یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ ابھی ہماری جماعت کی تعداد بھی چالیس لاکھ نہیں ہے.مگر یہ لوگ جو اتنی بڑی تعداد میں عیسائی ہوئے ہیں.ان ہندوؤں میں سے ہیں جو مذہب کو اکھاڑا نہیں بناتے تھے.عیسائی مذہب کی سادگی ان کی سمجھ میں آگئی.اگر اسلام ان کے سامنے پیش ہو تو وہ اس کو قبول کر سکتے ہیں.ان چالیس لاکھ میں ۳۴ یا ۳۵ لاکھ وہ ہندو ہیں جو ادنی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں.اگر ہمارے آدمی بھی ان کے مذہب کی واقفیت پیدا کریں.تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ عیسائیت کے مقابلہ میں ہمیں کامیابی نہ ہو.وہ مشرک لوگ ہیں انہوں نے لاکھوں کروڑوں دیوتاؤں کو مان رکھا ہے.ان کے سامنے جب تین اقنوم پیش کئے گئے تو ان لاکھوں کے مقابلہ میں انہوں ان تین کو ترجیح دی.مگر جب ان کے سامنے توحید پیش کی جائے گی.اور بچے واحد خدا کو پیش کیا جائے گا تو وہ یقیناً اس کو قبول کریں گے.جب تین خدا ان کو مسخر کر سکتے ہیں تو حقیقی خدا یقیناً ان کو مسخر کرے

Page 421

۴۱۵ گا.علاوہ اس کے اسلام ایک سوسائٹی رکھتا ہے اور اس کے اندر ایک جماعت ہے.ہماری جماعت کو چاہیے کہ ان کے لٹریچر کو پڑھے.اور اس وسیع میدان کی طرف توجہ کرے.اگر ان کی طرف توجہ نہ کی گئی تو اس کی یہ مثال ہوگی کہ جیسے کوئی شخص کسی چیز کی کان میں جائے.اور خالی ہاتھ آئے.ہندوستان میں اس وقت ۲۴ کروڑ ہندو بستے ہیں.اگر قلیل سے قلیل اندازہ بھی کریں تو کروڑوں ہماری طرف آجائیں گے.یہ سات کروڑ مسلمان جو ہندوستان میں موجود ہیں.باہر سے نہیں آئے.بلکہ ان کا اکثر حصہ نہیں کے لوگوں میں سے آیا ہے.پس یہ سمجھنا چاہئیے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو یہ چالیس کروڑ کے چالیس کروڑ ہی ہمارا شکار ہونگے.اور ان میں سے ایک بھی باہر نہیں رہے گا.ہمیں اپنی نیت خالص رکھنی چاہیے.اور واہ وا کا دھیان نہیں کرنا چاہئیے.ہمیں یہ نیت کرنی چاہئیے کہ اسلام کا وہ جھنڈا جو نیچا ہو گیا تھا.اس کو گاڑ دیں.لوگوں کے دلوں میں اسلام کی محبت گھر کر جائے.دوسرے خطبہ میں فرمایا.آج جمعہ کی نماز کے بعد بقاء محمد صاحب مدرس کا جنازہ پڑھوں گا.جو ایک مخلص شخص تھے اور رہتاس میں رہتے تھے.وہاں اکیلے تھے.اور ان کا جنازہ وہاں نہیں پڑھا گیا.(الفضل ۱۴ دسمبر ۱۹۲۲ء)

Page 422

77 نشر و اشاعت کی دو راہیں (فرموده ۲۴ / نومبر ۱۹۲۲ء) حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.چونکہ آج مجھے آنے میں دیر ہو گئی ہے.میں مختصراً ایک ایسے امر کے متعلق جس پر ہماری جماعت کی ترقی کا آئندہ انحصار اور دارومدار ہے.اپنے دوستوں کو جو یہاں ہیں اس وقت اور جو باہر ہیں اخبار کے ذریعہ توجہ دلاتا ہوں.ہماری جماعت کے ذمہ ایک کام لگایا گیا ہے وہ اشاعت اسلام ہے.یہ ہمارے ذمہ ہی نہیں بلکہ یہ اسلام کے اعلیٰ مقاصد اور اغراض میں داخل ہے.جیسا کہ فرمایا كنتم خير امة اخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنهون عن المنكر تم سب سے بہترامت ہو اور تمہارے پیدا کرنے کی غرض یہ ہے کہ لوگوں کو فائدہ پہنچاؤ.تو امت اسلامیہ کے قائم کرنے کی غرض یہ ہے کہ نوع انسان کو ایک مرکز پر جمع کیا جائے.لوگ سوسائٹیاں بناتے ہیں.اس لئے کہ دنیا کو ایک جگہ پر جمع کریں.لیکن اس سے ناواقف ہیں جس نے کہا تھا کہ میں دنیا میں آیا ہی اس غرض سے ہوں کہ دنیا کو ایک بنادوں اور اس غرض کے لئے اس نے ایک جماعت بھی بنادی.اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.غرض یہ کام اسلام کے اصول میں داخل اور ہمارے فرائض میں داخل ہے.اس کام کو مختلف رنگوں میں ہمیں چلانا چاہئیے.اس کے لئے اخراجات بھی زیادہ ہوتے.اور مختلف مقامات پر مشن قائم کرنے پڑتے ہیں.ایک طریق تو یہ ہے کہ جیسا کہ ایک بزرگ کو کچھ لوگ ملنے گئے.انہوں نے کہا کہ فلاں مقام پر اسلام کا بہت کم چر چا ہے.تم سب کے سب وہاں چلے جاؤ اور تبلیغ اسلام کرو.وہ لوگ چپ کر کے وہاں چلے گئے.یا تو یہ رنگ ہو پھر خرچ نہیں ہو گا لیکن اگر یہ رنگ نہیں تو چندہ پر ہی کام ہو گا.اور اخراجات بھی ہوں گے.پہلے طریق کی مثال تو یہ ہے کہ ایک شخص کدال اٹھاتا ہے اور سخت زمین پر جا کر چلاتا.اور مٹی کے ڈھیلے اکھاڑتا اور ان کو جوڑ کر دیواریں بناتا اور باپ دادا کے وقت کے کسی درخت کو کاٹ کر شہتیر اور لکڑیاں بناتا اور اوپر پتے ڈالتا اور کچھ مٹی اوپر

Page 423

الم ڈال کر چھت تیار کر لیتا ہے.دروازے کے لئے سامنے چار پائی کھڑی کرتا.یا دو لکڑیاں کھڑی کر کے تختہ ڈال دیتا ہے.جس طرح کہ مرغیوں کو بند کرنے کا دروازہ ہوتا ہے.اس طرح مفت مکان بن جاتا ہے.لیکن اگر ایک شخص پہلے انجینئر مقرر کر کے عمدہ پتھر کا مکان بنوانا چاہیے اور پھر خواہش یہ کرے کہ دیکھو فلاں شخص کا مکان مفت میں بن گیا میرا مکان بھی مفت بن جائے تو یہ نہیں ہو سکتا.اگر خرچ نہیں کرنا تو کدال اٹھاؤ اور ڈھیلے نکالو.اور ان کو جوڑ کر مکان بنا لو.پس اسی طرح یا تو مفت تبلیغ ہو.اور اس کے لئے یہ ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ نکل پڑیں اور کچھ جرمن میں چلے جائیں کچھ روس میں اور پچاس ساٹھ امریکہ میں اسی طرح بڑی بڑی تعداد میں نکل کر مختلف ملکوں میں پھیل جاؤ.اگر پچاس پچاس آدمی بھی جائیں اور روزانہ ایک ایک گھنٹہ فی کس کے حساب سے تبلیغ دین میں صرف کریں تو پچاس گھنٹے ہوں گے اور اگر ایک شخص جائے اور ایک گھنٹہ روز صرف کرے تو کہیں پانچ سو سال میں اس ملک کے لوگوں کو پتہ لگے گا کہ یہاں کوئی ان خیالات کا آدمی بھی ہے.پس یا تو پہلوں کا طریق اختیار کرنا چاہئیے کوئی چندہ نہیں لیا جائے گا بلکہ سارا جان و مال لیا جائے گا.اور اس طرح لوگوں کو اپنے وطن چھوڑ کر غیر ممالک میں جانا اور تبلیغ کرنی ہوگی.لیکن چاہا تو یہ جاتا ہے کہ کام پہلوں کا سا ہو.مگر اس کو اختیار نہیں کیا جاتا اور دوسرا طریق روپیہ خرچ کرنے کا ہے.لیکن اس کے لئے چاہتے ہیں روپیہ نہ لگے کہ جماعت مقروض ہے.اور ادہر امریکہ مشن کی تعمیر ہو رہی ہے.اور جرمن مشن کھولنے کا ارادہ ہے اور اس وقت جرمن میں مشن کھولنے کا ہی سوال در پیش ہے.اس صورت میں تبلیغ بند کر دی جائے اور جس طرح غیر احمدی بیٹھے ہیں ہم بھی اسی طرح خاموش اور دین کی تبلیغ سے بے پرواہ ہو کر بیٹھ جائیں.اور اگر کام کرنا ہے تو اس کے دو طریق ہیں یا تو ساری جماعت کرے اور جتنے آدمیوں کی مانگ ہے اتنے ہی نکل آئیں.یا چندہ دیا جائے اور کچھ لوگوں کو باقاعدہ ان ممالک میں بھیجا جائے.سکتا پہلا طریق ہو تو کم از کم سو سو آدمی تو کسی ایک ملک میں چلا جائے.امریکہ میں ہمارا اس وقت ایک آدمی ہے اور وہ ۲۴ گھنٹے کام کرتا ہے.اگر سو آدمی امریکہ میں جائے تو چہار مبلغوں کا کام ہو ہے.اس طرح کام زیادہ ہو گا لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ مفتی صاحب وہاں اکیلے رہیں.وہ ملازمت بھی کریں.اور اپنا سارا وقت بھی صرف کریں.اور یہ نہیں ہو سکتا کہ مسٹر مبارک علی صاحب ملازمت بھی کریں اور اپنا سارا وقت تبلیغ میں بھی صرف کر سکیں جس طرح ایک قطرہ منہ میں پڑنے سے پیاس نہیں بجھ سکتی یا ایک لقمہ کھا کر سیری نہیں ہوتی اسی طرح اگر ایک آدمی اکیلا جائے تو اس سے کام کہاں اتنا ہو سکتا ہے جتنا ہونا چاہیے.پس یا تو درجنوں جائیں اور اپنا کام کریں

Page 424

ماسم اور دین کے لئے بھی وقت دیں مگر یہ صورت مشکل ہے اس کے لئے جماعت تیار نہیں ہے.ہاں دوسری صورت یہ ہے کہ ہر ایک شخص اپنی آمد کا ایک قلیل حصہ دے اور کچھ آدمیوں کو بالکل دوسرے کاموں سے فارغ کر کے دین کی خدمت میں لگایا جائے.ہمیں ان دو صورتوں میں سے ایک صورت اختیار کرنی ہوگی کیونکہ تبلیغ ہم نہیں چھوڑ سکتے یہ ہر ایک احمدی کا فرض ہے جو شخص اس طرح خرچ کرتا ہوا گھبراتا ہے اس کا گھبرانا کمی ایمان کی علامت ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں چاروں طرف عرب میں مخالفت پھیلی ہوئی تھی ہر طرف جنگ تھی.صحابہ کو بھی وہ جنگیں لڑنی پڑیں.آپ کے زمانہ کے بعد چاروں خلفاء کے زمانہ میں مخالفت شام دایران، افریقہ وغیرہ میں ہونے لگی.اس لئے مسلمانوں کو ان جنگوں میں حصہ لینا پڑا پس جب دشمن لڑتا ہے تو ہم کیسے اس لڑائی میں حصہ لئے بغیر رہ سکتے ہیں.اور ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس لڑائی میں حصہ نہیں لیتے.تم بے شک نہ لڑنا چاہو لیکن جب دشمن لڑنا چاہتا ہے تو وہ ضرور لڑے گا.اس میں تمہارا اختیار نہیں اگر خاموش بیٹھو گے تو سوائے اس کے کیا ہو سکتا ہے کہ قتل ہو جاؤ اور مرجاؤ.اسی طرح آج ساری دنیا میں اسلام پر حملہ ہو رہا ہے.خواہ ہماری جماعت پر کتنا ہی بوجھ ہو ہم خاموش نہیں ہو سکتے.یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک شخص خدا کے لئے نکلے اور تکالیف اس کی کمر توڑ دیں اور خدا اس کو ہلاک ہو جانے دے.بے شک اخراجات کا بوجھ کمزور ایمان والوں کو گراں گزرے گا اور وہ اس کو محسوس کریں گے.مگر در حقیقت یہ بوجھ ایسا نہیں ہوگا جو کمر توڑ دے.جن لوگوں کی ایمان کی حس کم ہوگی ان کو محسوس ہو گا ورنہ نقصان دہ نہیں ہو گا.یاد رکھو ہماری جماعت کے لئے دو صورتیں ہیں ان میں سے ایک اختیار کرنی ہوگی ایک تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ مختلف ملکوں میں چلے جائیں دوسری چندہ کے ذریعہ تبلیغ ہو.پہلی صورت پر عمل ہونا مشکل ہے اس کی وجہ جماعت کے ایمان کی کمی نہیں بلکہ کئی اور وجوہ سے اس زمانہ کے لحاظ سے یہ ناقص ہوگی.پس دوسری صورت ہے جس پر عمل ہو سکتا ہے جو لوگ اخراجات سے گھبراتے ہیں.ان سے پوچھنا چاہئیے کہ تم کتنا چندہ دیتے ہو.اور پھر ان کو بتاؤ کہ جماعت میں ایسے بھی ہیں جو تم سے بہت زیادہ چندہ دیتے ہیں اور وہ اتنا زیادہ چندہ دے کر خوش ہیں.اور چاہتے ہیں کہ ان سے اور مانگا جائے اور وہ اور دیں.پس یہ بوجھ زیادہ اگر کوئی سمجھتا ہے تو اس کے ایمان کا نقص ہے.پہلے لوگوں نے جس قدر قربانیاں کیں ان کو دیکھ کر ہماری قربانیاں ذلیل نظر آتی ہیں.کسی اور کو نظر نہ آئیں لیکن مجھے تو ایسی ہی نظر آتی ہیں.پس ہمیں ہمت سے کام لینا چاہئیے اس وقت دنیا پرستی بڑھ گئی ہے خدا تعالیٰ ہمیں اپنے دین کی خدمت کی توفیق دے.اور پھر اس بوجھ کے اٹھانے کی طاقت دے.ہم خوش ہوں اور اس کے مانند نہ ہوں جس کے متعلق

Page 425

آتا ہے التي نقضت غزلها خدا نخواستہ ایسا نہ ہو کہ کام کریں اور پھر چھوڑ دیں بلکہ ایسا ہو کہ خوشی اور ذوق سے کریں.اسی کام اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر ہمارا خاتمہ ہو.الفضل ۷ دسمبر ۱۹۲۲ء)

Page 426

78 شفقت على خلق الله (فرموده یکم دسمبر ۱۹۲۲ء) حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.انسان کی پیدائش کی غرض اور اس کے دنیا میں بھیجنے سے مقصود اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی بندگی ہے.اس لئے انسانی زندگی کا مقصد بغیر اس کے پورا نہیں ہو سکتا جب تک اللہ تعالیٰ سے تعلق اور محبت نہ ہو.مگر ہر ایک بات کی کوئی علامت ہوتی ہے.مثلاً ایک مہمان ایک شخص کے ہاں آتا ہے.مہمان کا اکرام ہر ایک شریف آدمی کا مقصد ہونا چا ہئیے.جو شخص شرافت کا مادہ رکھتا اور شریعت سے تعلق رکھتا ہے اس کا فرض ہے جب اس کے یہاں مہمان آئے تو اس کا اعزاز و اکرام کرے.گر اعزاز و اکرام دل سے تعلق رکھتا ہے دل ہی ہے جو کسی کا احترام کرتا ہے.اور دل ہی ہے جو عزت کرتا ہے.لیکن دل کی کیفیت ظاہر کرنے کے لئے ظاہری سامان ہوتے ہیں اگر کوئی شخص کسی کے لئے کھڑا ہوتا ہے.یا اس کے لئے غالیچہ بچھا دیتا ہے مگر دل میں چاہتا ہے کہ اس کو سخت نقصان پہنچائے تو اس کے یہ ظاہری نشان اس کے دل کی حالت کے خلاف ہوں گے اور یہ اس شخص کا اعزاز نہ ہوگا کیونکہ اعزاز و احترام دل سے ہوا کرتا ہے.تو یہ سچ ہے کہ دل ہی اعزاز و اکرام کرتا ہے مگر جب تک اس کے ساتھ ظاہری علامات نہ ہوں اعزاز و اکرام کا پتہ نہیں لگ سکتا محبت دل کی چیز ہے.بچے کو جو چیز ماں باپ کھانے پینے کو دیتے ہیں وہ محبت نہیں ہوتی دشمن اور غیر سے بھی انسان ایسا سلوک کر سکتا ہے اور کرتا ہے.لوگ نمود کے لئے بڑے بڑے چندہ دیتے ہیں.غریب خانے کھولتے ہیں.باوجود اس کے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایسا شخص غربا سے محبت کرتا ہے مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ خالی خولی محبت بھی نہیں ہوتی.جب تک اس کے ظاہری آثار نہ ہوں.گو ماں باپ بچہ کو جو کھانا دیتے ہیں اسے محبت نہیں کہہ سکتے لیکن یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ماں باپ کھانے پینے کو نہ دیں اور پھر یہ کہا جائے کہ وہ محبت کرتے ہیں پس ماں باپ محبت کرتے ہیں اور بچہ

Page 427

۴۲۱ کا خیال بھی رکھتے ہیں.گو کھانا دینا محبت نہیں.مگر یہ محبت کے آثار میں سے ضرور ہے.اسی طرح اللہ تعالٰی کے لئے بھی محبت کی علامتیں ہیں.ان میں سے ایک یہ ہے جو میں اس وقت بیان کرتا ہوں قاعدہ ہے کہ جس سے محبت ہو انسان اس کے متعلقات سے محبت کرتا ہے.اور اس کی صفات کی نقل کرتا ہے.اس لئے کوئی شخص روحانیت میں ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ صفات باری تعالیٰ کی نقل نہیں کرتا.کیونکہ ممکن نہیں کہ خدا سے محبت ہو اور اس کے صفات کو اپنے اندر جذب نہ کرے.اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے جو صفت انسان سے خصوصیت سے تعلق رکھتی ہے وہ رب العالمین کی صفت ہے.خدا تعالیٰ رب ہے.ساری دنیا اس کی پیدا کی ہوئی ہے.ہندوستان کے باشندے اس کی مخلوق ہیں.افریقہ کے اس کی مخلوق ہیں.یورپ و امریکہ کے لوگ اس کی مخلوق ہیں.اس لئے خدا کی ساری مخلوق انسان کی نظر میں محبوب ہونی چاہئیے.کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ باپ سے محبت ہو اور اس کے بیٹے سے دشمنی یا باپ سے دشمنی ہو اور بیٹے سے دوستی.کوئی محبت کا تعلق ایسا نہیں مل سکتا جس میں متعلقات کی محبت کو چھوڑ دیا گیا ہو.متعلقات کی محبت اصل کے ساتھ خود بخود آجاتی ہے دیکھو بادشاہ یا پریذیڈنٹ ہوتے ہیں بادشاہ کی ملکہ یا پریذیڈنٹ کی بیوی کو بادشاہ یا پریذیڈنٹ منتخب نہیں کیا جاتا لیکن کسی شخص کے بادشاہ مقرر ہونے یا پریذیڈنٹ تجویز ہونے کے ساتھ ہی اس کی بیوی بھی اس کی عزت میں شریک ہو جاتی ہے.جہاں بادشاہ اور پریذیڈنٹ جاتے ہیں اور ان کے استقبال ہوتے ہیں ان کی بیویوں کے بھی استقبال کئے جاتے ہیں.سارا ملک ان کی بیویوں کی بھی عزت کرتا ہے.کیوں؟ اس لئے کہ وہ بادشاہ یا پریذیڈنٹ کی بیوی ہیں.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص اللہ تعالیٰ سے محبت کرے.مگر اس کے بندوں سے محبت نہ کرے.اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور نبیوں کی محبت تو لازمی کردی ہے.کیوں؟ اس لئے کہ وہ اللہ کے منتخب بندے ہیں.ورنہ موسیٰ بھی ایسے ہی آدمی تھے جیسے اور.ہارون و عیسی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کیوں کی جاتی ہے.اس لئے کہ وہ خدا کے تھے.اس لئے انکی اطاعت خدا کی اطاعت ہے.بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ گو وہ مخلوق تو خدا کی ہی ہوتے ہیں کہ سب اسی کی مخلوق ہے.لیکن باوجود مخلوق ہونے کے ان کا خدا سے تعلق نہیں ہوتا.ان کی اطاعت ضروری نہیں ہوتی.مگر ان سے سلوک کرنا ضروری ہوتا ہے.پس اللہ تعالی تک پہنچنے کا ذریعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں سے سلوک کرو.والدین کی محبت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے کہ ان کے بیٹے کو پیار کرو.اسی طرح اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو.

Page 428

کم اور چاہتے ہو کہ خدا تم سے محبت کرے تو اس کے بندوں سے پیار کرو.دنیا میں کوئی نبی نہیں آیا اور دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں ہے.جس نے اس بات پر زور نہ دیا ہو کہ شفقت علی خلق اللہ کرو.جب یہ ایسا مسئلہ ہے کہ آج تک بدلا نہیں.تو اس پر عمل کرنا کس قدر ضروری ہے.دیکھو شراب ایک زمانہ میں حلال تھی پھر حرام ہوئی.ایک زمانہ میں پردہ نہ تھا پھر ہوا.لیکن یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ ابتدا سے اس میں تغیر نہیں آیا یہ مسئلہ اسی طرح چلا آتا ہے اور اس پر زور دیا جاتا ہے کہ خدا کی مخلوق سے پیار اور سلوک کرو.اس سے معلوم ہوا کہ یہ نہایت اہم حکم ہے اور اس پر عمل کرنا روحانی ترقی کے لئے ضروری ہے.مگر میں دیکھتا ہوں بہت ہیں جو خدا سے ملنا چاہتے ہیں مگر ان میں رحم نہیں خدا کی مخلوق سے ہمدردی نہیں.اس کے بندوں سے نیک سلوک کرنے میں کمی کرتے ہیں.اور ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ گویا ان کو تعلق ہی نہیں.دنیا میں تین قسم کے خیالات ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ جو بدسلوکی بھی کرتا ہے اس سے نیک سلوک کیا جائے دوسرے یہ کہ جو نیک سلوک نہ کرے پھر بھی اس سے اچھا سلوک کرے.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ انسانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ان سے نیکی کرتا ہے اس کے بھی وہ بد خواہ ہوتے ہیں.جو ہاتھ ان پر احسان کرتا ہے اس کو کاٹتے ہیں جو ان کی نیکی چاہتا ہے وہ اس کی ذلت چاہتے ہیں وہ احسان کی قدر نہیں جانتے.ہاں بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کو احسان کی قدر ہوتی ہے.مگر احسان کی شناخت نہیں کر سکتے وہ سمجھ نہیں سکتے کہ ان سے احسان کیا گیا ہے.بعض روپیہ کا نام احسان رکھتے ہیں.لیکن اگر کوئی مدرس ہو.جس سے انہوں نے پڑھا ہے تو وہ اس کے احسان کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں اس نے ہم پر کیا احسان کیا ہے.یا اگر کوئی ان کو نیک نصیحت کرتا ہے یا ان کو علم دیتا ہے یا ان کے لئے دعائیں کرتا ہے تو اس کو ذلیل و حقیر سمجھتے ہیں.اور خیال کرتے ہیں کہ اس کا ان پر کوئی احسان نہیں.وہ اپنے ذہن میں محسن کی قدر کرتے ہیں.مگر ان کو احسان کی شناخت نہیں ہوتی.ان کو ماں باپ کے لئے غیرت ہوتی ہے اور جوش ہوتا ہے.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ان کو جوش نہیں آئے گا.ماں باپ کا یہ احسان تو ان کو یاد رہتا ہے.کہ انہوں نے ان کی پرورش کی مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان کو بھول جاتے ہیں کہ آپ نے ان کو روحانیت کا لباس دیا.ایسے لوگوں کی مثال اس نادان کی سی ہے جس کو ایک شخص تاریکی میں لالٹین دیتا ہے کہ وہ اس کی روشنی میں اپنے گھر پہنچ جائے.وہ اس کا تو احسان مانتا ہے اور اس کا تو شکریہ ادا کرتا ہے.اور اس سے آنکھ نیچی رکھتا ہے.لیکن وہ خدا جو ہر روز اس کے لئے سورج چڑھاتا ہے جس کی روشنی میں وہ اپنے سارے کام کرتا ہے.اس کے متعلق نہیں مانتا کہ خدا

Page 429

پرا نے اس پر احسان کیا ہے.ایک دوست کے تھوڑی دیر لالٹین دینے کو احسان سمجھتا ہے.مگر خدا کے اتنے بڑے سورج کو احسان نہیں سمجھتا.جو اس کے لئے ہر روز چڑھتا ہے.یہ نہیں کہ وہ سورج کو چڑھتے نہیں دیکھتا.دیکھتا ہے مگر اس کی قدر نہیں کرتا اور اس کو نہیں پہچانتا.پس بہت ہیں جو احسان کی قدر کرتے ہیں.مگر بہت سے احسانات کو وہ شناخت نہیں کر سکتے.ایسے لوگوں کے نزدیک احسان صرف روپیہ دینے کا نام ہے.وہ ایسے لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ان سے کوئی مالی سلوک کریں.خدا کے لئے خدا کے بندوں سے محبت کرنے والوں کی بہت کمی ہے.اگر وہ خدا کے لئے اس کی ساری مخلوق سے محبت کریں.وہ ان سے محبت کرتے ہیں جو ان سے محبت کرتا ہے.لیکن اگر وہ خدا کے لئے محبت کریں.تو ان کی محبت عام ہو.بعض لوگ ہیں جو دشمن کو معاف نہیں کر سکتے.حالانکہ اگر وہ سوچیں کہ یہ ہمارے رب کا بندہ ہے تو وہ ضرور اس کو معاف کر دیں.ایسے لوگ اپنی دشمنی کو خدا کے تعلق پر مقدم کر لیتے ہیں.حالانکہ دانائی یہ ہے کہ خدا کے تعلق کو مقدم کیا جائے.کیونکہ اگر کوئی شخص تم سے بدسلوکی کرتا ہے.مگر تمہارے باپ سے اس کا اچھا تعلق ہے اور وہ تمہارے باپ پر احسان کرتا ہے تو تم اپنی ذات کے خیال کو چھوڑ کر باپ کے تعلق کو مقدم کرو گے.اور کہو گے کہ کو اس نے مجھے نقصان پہنچایا ہے.لیکن چونکہ اس نے میرے باپ سے اچھا سلوک کیا ہے.اس لئے میں اس کی عزت کروں گا.پس اس طرح اس بات کو سمجھنا چاہئیے کہ گو ایک شخص تمہارا دشمن ہے تم سے بدسلوکی کرتا ہے.مگر اس کا خدا سے تعلق ہے اس لئے ہماری اور ذاتی دشمنی کی خدا کے تعلق کے مقابلہ میں کچھ حیثیت نہیں.یہی نیک لوگوں کا قاعدہ ہے.وہ دیکھتے ہیں گو فلاں ہمارا دشمن ہی ہے لیکن ہمارے خدا کا بندہ تو ہے یا اس کا اس سے تعلق شخصی ہے.اور اس میں شبہ نہیں کہ خدا ہی کا تعلق قابل لحاظ ہے.اسی کو ملحوظ رکھنا چاہیے.دیکھو بنی نوع انسان سے نیک سلوک کو حدیث میں کس قدر اہمیت دی گئی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن جب کہ سخت تپش ہو گی ہم نہیں جانتے کہ وہ کیسی تہش ہوگی مگر ہم ایمان رکھتے ہیں ضرور تپش ہوگی اور بہت سخت ہوگی.کچھ لوگ اللہ تعالی کے عرش کے سایہ کے نیچے ہوں گے ان میں وہ شخص بھی ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کرتا ہو گا.بہت سے نادان ہیں جو اس حدیث کے غلط معنی کرتے ہیں مثلاً اگر وہ زید سے محبت کرتے ہیں اور بکر سے نہیں کرتے تو وہ زید کی محبت کے متعلق کہتے ہیں کہ ہم خدا کے لئے اس سے محبت کرتے ہیں.حالانکہ اگر خدا کے لئے محبت ہوتی تو زید بکر دونوں سے ہوتی.یہ ممکن ہے کہ ذاتی وجوہات کی بنا پر تم زید سے محبت کرو اور بکریا خالد سے نہ کرو.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو نواسے حسن اور

Page 430

حسین رضی اللہ تعالیٰ عنما تھے ان کے ذاتی دوست بھی ہوں گے ایک شخص کو حضرت امام حسن کا مزاج پسند ہو گا.اور دوسرے کو امام حسین کا اور اپنے مذاق کی مطابقت سے وہ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین دونوں میں سے ایک کے ساتھ محبت کرتے ہونگے.ایسے لوگوں کے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ وہ جو امام حسن یا امام حسین سے محبت کرتے ہیں.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نواسہ ہونے کے باعث کرتے ہیں کہ اگر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نواسہ ہونے کے باعث محبت کرتے تو امام حسن اور امام حسین دونوں میں سے ایک سے محبت نہ کرتے.بلکہ دونوں سے کرتے.کیونکہ دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسہ تھے.اسی طرح جو شخص اللہ تعالی کے لئے محبت کرے گا وہ اس کے سب بندوں سے محبت کرے گا.پس اگر خدا کے لئے محبت کرنی ہے تو تمام بنی نوع انسان سے محبت کرو خدا کے لاکھوں کروڑوں بندے ہیں خدا کے لئے محبت کرنے والوں کا فرض ہے کہ سب سے محبت کریں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے خدا کے بندے بھی دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ جن کو خدا تعالیٰ چن لیتا ہے اور ایک عام بندے ہوتے ہیں.اپنے رسولوں کو اس نے آپ چن لیا.اولیاء و مجددین کو چن لیا.اس لئے جن لوگوں کو اپنے بندوں میں سے خدا تعالیٰ نے چن لیا ہے ان سے محبت کے ساتھ انکی اطاعت کرنا بھی ضروری ہے.اور جو اس کے عام بندے ہیں گو ان کی اطاعت کرنی ضروری نہیں لیکن ان سے محبت اور نیک سلوک اور ہمدردی لازمی ہے.پس جو خدا کے لئے محبت ہوگی وہ سب کے ساتھ ہوگی.اور جن کو اس نے چنا ہے ان کی اطاعت بھی کی جائے گی.اس حال میں کسی ایک شخص کی خصوصیت نہیں رہتی.پس اس حدیث کے یہ معنی ہیں کہ بنی نوع انسان سے محبت کرو.کسی ایک کی خصوصیت نہیں سب سے محبت کرو.خدا کے لئے محبت کرنے کے یہی معنی ہیں رسولوں اور ماموروں کی جو خصوصیت ہوتی ہیں وہ ان کے منتخب ہونے کے باعث سے ہوتی ہے ان کی اطاعت اللہ تعالٰی کے منشاء اور اس کی رضا کے ماتحت ہوتی ہے.اس کے خلاف نہیں ہوتی.پس مدارج کے فرق کو چھوڑ کر تمام بنی نوع انسان سے محبت ضروری اور لازمی ہے.میرا اس یہ مطلب نہیں کہ زید و عمر سے دوستی نہ کی جائے.بلکہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو کہا ہے کہ قیامت کے دن خدا کے عرش کے سایہ کے نیچے وہ شخص ہوگا جو خدا کے لئے محبت کرتا ہے.اس محبت کرنے سے مراد ایک آدھ شخص سے محبت اور سلوک کرنے والا نہیں بلکہ وہی شخص ہے جو خدا کی ساری مخلوق سے محبت کرتا ہے.پس ایک ہی سے محبت نہ رکھو.بلکہ سے محبت رکھو.ورنہ زید و بکر کی محبت خدا کے لئے نہیں ہو سکتی کیونکہ کئی وجوہ ہو سکتے ہیں.جن

Page 431

7 20 28 ہے لهم کے باعث لوگ آپس میں محبت کرتے ہیں مثلاً ہم عقائد ہونا یا اور بھی اتحاد پیدا کرنے والی باتیں ہیں.ان کی وجہ سے دو شخصوں میں اتحاد ہو جاتا ہے.اس سے روکا نہیں گیا ہے.لیکن یہ دھوکہ ہے کہ اس محبت کو حدیث کی مصداق محبت قرار دیا جائے.کیونکہ خدا کی رضا کے لئے وہی محبت ہوگی.جو خدا کی ساری مخلوق سے کی جائے گی.یہ محبت ذاتی ہے.جو ایک تاجر تاجر سے زراعت پیشہ زراعت پیشہ سے کرتا ہے.قیامت کے دن وہ دوستی کام آئے گی جو سب بنی نوع انسان کی دوستی ہوگی.جب تک یہ مرتبہ حاصل نہ ہو اللہ تعالیٰ کا فضل نہیں آسکتا.ممکن ہے کہ تم کسی کو سمجھو کہ وہ عیسائی ہے یا یہودوی یا ہندو ہے.اس لئے اس سے نیک سلوک نہ کرو مگر یہ درست نہ ہو گا.میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ بنی نوع سے محبت کرو.یاد رکھو کہ عداوت میٹھی چیز نہیں.محبت میٹھی چیز ہے.تم دیکھو دونوں میں سے کونسی چیز آرام دہ ہے.آیا محبت آرام دہ ہے یا غصہ.تم غور کرو کہ تم جس وقت غصہ کی حالت میں ہوتے ہو اس وقت آرام کی حالت میں ہوتے ہو یا جس وقت محبت کے جذبات اور خیالات میں.جب تم غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ امن خدا کی طرف سے آتا ہے غضب اس وقت جائز ہے.جب خدا کے غضب کے مقابلہ میں آجائے.ورنہ محبت ہی ضروری ہے.جو لوگ حسن سلوک اور محبت کے جذبات چھوڑ دیتے ہیں ان کے لئے یہاں ہی جہنم ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں سے نفرت کے خیالات کو دور کر دے.ہم بنی نوع انسان سے اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کریں.اور اس کے سایہ میں رہیں.(الفضل »ار دسمبر ۱۹۲۲ء)

Page 432

79 جلسہ سالانہ بعض ضروری ھدایات (فرموده ۸ دسمبر ۱۹۲۲ء) حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.چونکہ جلسہ سالانہ قریب آنے ولا ہے اور اس موقع پر جیسا کہ ہمیشہ خدا تعالیٰ کے فضل سے پچھلے سالوں کی نسبت زیادہ ہی لوگ آتے رہے ہیں.اس دفعہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم امید کرتے ہیں کہ لوگ زیادہ آئیں گے.اس لئے اس عرصہ میں کہ اب جلسہ کے آنے میں دو اڑھائی ہفتہ باقی ہیں دوستوں کو چاہیے کہ ان خدمات کے لئے تیاری شروع کر دیں جو ان کے سپرد کی جائیں.سب سے پہلے ان کارکنوں کو مخاطب کرتا ہوں جو قادیان میں جلسہ کے لئے مقرر ہوئے ہیں.خواہ وہ افسر جلسہ ہوں یا ان کے نائب جن کو مختلف صیغوں پر مقرر کیا گیا ہے.کہ سب سے بڑا کام جو ایسے بڑے اجتماع کے لئے ضروری ہے یہ ہے کہ ہر قسم کے سامان یا تو موجود ہونے چاہئیں یا سہل الحصول ہوں.بعض دفعہ انسان ایک حد مقرر کرتا ہے.اور وقت پر وہ حد غلط ثابت ہوتی ہے.اور اس طرح سامان میں کمی ثابت ہونے سے تکلیف ہوتی ہے پس سامان مہیا کرتے وقت یہ سوچنا چاہیے کہ ہمیشہ کے اندازوں سے زیادہ اندازہ مد نظر ہو.اگر چیز خریدی نہ جائے تو دکانداروں کے پاس اتنے ذخیرے ہونے چاہئیں جو وقت ضرورت میا ہو سکیں.اور دکاندار اس قسم کے معاہدات کے لئے تیار ہو سکتے ہیں کیونکہ ان کو گاہکوں کی ضرورت ہوتی ہے.دوسری بات جو ذخیرے کے علاوہ ہے.یہ ہے کہ کام کے اہل منتخب کئے جائیں ہر ایک قسم کے کام کرنے والوں سے کام لینے اور ان سے واقف لوگوں ہی کو مقرر کیا جانا چاہیے.مثلاً باورچیوں اور نان پزوں سے کام وہی شخص لے سکتا ہے جو ان سے کام لینے کا تجربہ رکھتا ہو.اگر طالب علموں سے کام لینا ہے تو اس کے لئے علیحدہ واقف شخص کی ضرورت ہے.اگر حساب کا کام ہے تو کسی حساب دان کی ضرورت ہے چلنے پھرنے کا کام ہے تو ایسا ہی شخص انتخاب کرنا چاہیے جو چلنے پھرنے میں مشاق ہو.غرض ہر ایک کام کے لئے اس کا اہل منتخب ہونا چاہیے.یہ بھی یاد رکھنا چاہیے لائق ہونا اور چیز ہے اور کسی کام کا اہل ہونا اور چیز.لائق کے معنی ہر کام میں لائق ہونے کے نہیں ہیں.بلکہ لائق کے یہ معنی ہیں کہ جو کام وہ کر رہا ہے اس میں وہ لائق ہے.ایک مدرس لائق ہے.ایک آڈیٹر لائق

Page 433

۴۲۷ ہیں ایک ڈاکٹر اور ایک وکیل لائق ہے.لیکن اس لیاقت کے یہ معنی نہیں کہ لائق وکیل ایک ڈاکٹر کا بھی کام کر سکتا ہے.اور ایک لائق ڈاکٹر ایک لائق ایڈیٹر کا کام بھی کر سکتا ہے.بلکہ ہو سکتا ہے کہ ایک ماہر اپریشن کرنے والا ڈاکٹر ڈاکٹری کی تعلیم بھی نہ دے سکتا ہو.بہت لوگ ہیں جو اس امتیاز کو نہیں سمجھتے کہ جو کسی کام میں لائق ہو وہ سب کاموں میں لائق نہیں ہوتا.پس جس کسی کام پر کسی شخص کو لگایا جائے.چاہیے کہ وہ شخص اس کام میں لائق ہو.ورنہ مہمانوں کو تکلیف ہوگی.اور کام بھی خراب ہو گا مثلاً ایک شخص اگر آریوں کے مقابلے میں اچھی تقریر کر سکتا ہے تو ضروری نہیں کہ وہ اچھا حساب دان بھی ہو.اگر اس کو حساب دیا جائے گا تو ممکن ہے کہ اس سے ہزار ڈیڑھ ہزار کا نقصان ہو جائے.اس صورت میں اس نقصان کا گناہ اس شخص کے ذمہ بھی ہو گا جس نے اس کو اس کام کے لئے منتخب کیا.پس غور کے بعد اور سوچ کر انتخاب ہونا چاہیے.یہ سچ ہے کہ بعض دفعہ سوچ کر انتخاب ہوتا ہے اور پھر بھی غلطی ہو جاتی ہے مگر اس کا یہ نتیجہ نہیں ہونا چاہیے کہ سوچ کر انتخاب کرنا ہی عبث ہے.اگر انتخاب کے بعد بھی غلطی ہو جائے تو اس میں جو صدمہ ہوتا ہے اس کا ثواب بھی مل جاتا ہے.کیونکہ اپنی طرف سے کوشش کی گئی ہے اور اپنی طرف سے دیانتداری سے کام کیا گیا ہے.پھر اگر غلطی ہوتی ہے تو یہ شخص سزا کا مستحق نہیں ہو تا.لیکن اگر انتخاب میں سوچ سے کام نہ لیا جائے.اور پھر خراب نتیجہ نکلے تو ایسا شخص سزا سے نہیں بچ سکتا.پس آدمیوں کے انتخاب میں یہ اصول مد نظر رکھنا چاہیے کہ وہی آدمی انتخاب ہو جو اس کام کا اہل ہو.اگر ایک شخص انسپکٹر مقرر کیا جاتا ہے تو اس میں یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ وہ ایسا شخص ہے کہ لوگ اس کا ادب کرتے ہیں بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا وہ صبح سے شام تک چل پھر بھی سکتا ہے کہ نہیں.تاکہ مہمانوں کی تکلیفات کو دیکھ سکے.اگر روپیہ کے خرچ کے لئے کسی شخص کو مقرر کرتا ہے تو ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ وہ روپیہ کا حساب کتاب بھی رکھ سکتا ہے یا نہیں.کئی لوگ ہیں کہ ان میں حساب رکھنے کا مادہ نہیں ہوتا.لوگ میرے پاس امانتیں رکھ جاتے ہیں.اب تو میں روپیہ محاسب کے دفتر میں بھیج دیتا ہوں پہلے ایک عرصہ تک میں اپنے ہی پاس رکھتا تھا.کئی دفعہ غلطی ہوئی اور مجھ کو چھ سات ہزار روپیہ بھرنا پڑا وجہ یہ کہ مجھ میں یہ ہمت نہیں ہے کہ ایک کاپی ہر وقت جیب میں رکھوں اور جب کوئی روپیہ لے تو اس کو فوراً نکال کر درج کروں.جس طرح میں دے کر بھول سکتا ہوں اسی طرح ایک شخص لے کر بھی بھول سکتا ہے.اب میں امانت کا روپیہ محاسب میں بھجواتا ہوں اور اب مجھ کو ایک پیسہ بھی بھرنا نہیں پڑتا.پس یہ خطرناک غلطی ہے کہ کام کے اہل نہ منتخب کئے جاویں.بعض لوگ چل پھر نہیں سکتے.ان کو بٹالے میں مہمانوں کے استقبال کے لئے بھیجنا غلطی ہے.بعض لوگوں کو بھیجا گیا اور ہر ایک وہ

Page 434

سلم مہمان نے شکایت کی جب ہم اترے تو وہاں کوئی نہ تھا.حالانکہ وہاں ایسے آدمی جانے چاہئیں جو ایک ایک دو گھنٹہ ایک ہی جگہ کھڑے رہ سکتے ہوں اور پھر چل پھر سکتے ہوں اور اس کے ساتھ لمبا انتظار بھی کر سکتے ہوں.جو شخص انتظار میں گھبرا جاتا ہے وہ استقبال نہیں کر سکتا.یہ تو ہو نہیں سکتا کہ لوگ ان کو پہچانتے ہوں اور فوراً اتنے بڑے انبوہ میں ان کے پاس آجائیں اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ مہمانوں کو ڈھونڈیں ورنہ مہمانوں کو تکلیف ہوتی ہے.اس کے لئے وہ آدمی درکار ہیں جو.لالٹین کے پاس کھڑے رہ کر لمبے عرصہ تک انتظار کر سکتے ہوں اور گھبرائیں نہیں.یوں وغیرہ کے انتظام کے لئے وہ شخص بھیجا جائے جو صابر ہو.پچھلے سے پچھلے سال جس شخص کے ذمہ یہ کام تھا وہ دفتر میں تو خوب کام کر سکتا ہے.مگر یہ کام اس سے نہیں ہو سکتا تھا.اس لئے فساد ہو گیا.پس کام کرنے والوں کے انتخاب میں لوگوں سے مشورہ لیا جائے.اور پرانے لوگوں سے جو کام کرتے رہے ہیں مشورہ کیا جائے اور پھر اہلیت کو دیکھ کر لوگوں کو منتخب کیا جائے.اس کے بعد قادیان کی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ باہر سے جو مہمان آتے ہیں.ان کے لئے جگہ کی تنگی ہوتی ہے.مہمان خانہ میں تو آنے والوں کا پچاسواں حصہ بھی نہیں ٹھر سکتا.اس لئے مختلف لوگوں کے مکانوں میں انتظام کیا جاتا رہا ہے.پس اب بھی جن لوگوں کے پاس زائد مکان ہیں وہ حسب معمول یا تو اپنے سارے کے سارے مکان مہمانوں کے لئے خالی کر دیں یا بعض حصہ منتظمین کو سپرد کر دیں.دوسری نصیحت یہاں کے عام لوگوں کے لئے یہ ہے کہ اخراجات جلسہ بڑے ہوتے ہیں باہر کے لوگوں کی طرف سے جلسہ کے لئے ہزاروں روپیہ آتا ہے اس میں ہمارا چندہ بھی زیادہ ہونا چاہیئے ایک تو احمدی ہونے کے لحاظ سے ایک مقامی اور میزبان.گو جو لوگ آئیں گے وہ مہمان تو خدا کے ہوتے ہیں مگر ہمارے بھی مہمان ہیں.کیونکہ ہم قادیان میں رہتے ہیں.پس لحاظ قادیان کے باشندے ہونے کے اور کیا بہ لحاظ یہاں رہنے کے جو لوگ ہجرت کر کے یہاں آئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ اس میں چندہ دوسروں کی نسبت زیادہ دیں اور اس معاملہ میں میں دوستوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ فراخ دلی سے حصہ لیں.تیسری بات یہ ہے کہ کارکن میسر آجائیں.اس کے لئے ہمارے احباب کو اپنی خدمات کو پیش کرنا چاہیے کیا ہمارے احباب چند دنوں کے لئے اپنے کاروبار کو نہیں چھوڑ سکتے اگر نہیں تو یہ کیسے ثابت ہو سکتا ہے کہ وہ خدا کے لئے بہت دیر کے لئے اپنے کام چھوڑ سکتے ہیں.روزے میں کیا ہوتا ہے.یہی کہ کھانے کے وقت کو پیچھے ہٹا دیا جاتا ہے صبح کا کھانا دس بجے کی بجائے چار بجے کھا لیا جاتا ہے.اور شام کا کھانا اپنے وقت پر لیکن اگر ایک شخص اتنا توقف بھی نہ کر سکے.تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ خدا کے لئے ایسا شخص بھوک پیاس کو برداشت کر سکتا ہے.بس اس طرح خداتعالی کے حکم اور

Page 435

اس کے نبی اور مامور کے ارشاد اور بلاوے کے ماتحت لوگ یہاں جمع ہوتے ہیں.کیا ہم ان کی خدمت کے لئے چند روز کے لئے تھوڑا وقت نہیں نکال سکتے ؟ اگر نہیں تو پھر کیسے معلوم ہو سکتا ہے کہ ہم سارا وقت خدا تعالیٰ کے لئے نکال سکتے ہیں یہ تو قربانیوں کا مزا چکھنے کے طور پر ہے.اس لئے جہاں تک ہو سکے اپنا کام چھوڑ کر بھی افسروں کے سامنے خدمات پیش کریں کہ وہ وقت پر ان کو انتخاب کر لیں.ورنہ اگر دیر کے بعد پیش کریں گے تو انتخاب کرنے اور کام سمجھنے میں دقت ہوگی.اس لئے ابھی سے پیش کرنا چاہیے.سوائے دکانداروں کے کہ ان کے لئے یہ ایام خاص اوقات میں سے ہیں.دکاندار بھی اپنی دوکانداری کے ساتھ مہمانوں کی خدمت کر سکتے ہیں مثلاً اس طرح کہ چیزیں فروخت کرنے میں وہ اتنا نفع نہ لگائیں کہ لوگ اس کو لوٹ سمجھیں.یہ ان کی خدمت ہے اور پھر دکان اس وقت لگائیں جس وقت مهمان جلسہ کے وقت سے فارغ ہوں اور اس وقت دکان بند کردیں جب مہمانوں کے جلسہ گاہ میں جاکر تقریریں سننے کا وقت ہو.یہ بھی خدمت ہے.کیونکہ اگر تقریروں کے وقت میں دکان لگائیں گے تو بعض کمزور طبیعتوں کے جلسہ میں جانے میں روک پیدا ہوگی.پھر دکانداروں کی یہ بھی خدمت ہے کہ جب مہمان آئیں تو یہ خوش خلقی سے ان سے بات چیت کریں اگر وہ سختی بھی کریں تو یہ نرمی اختیار کریں.کیونکہ انکی حیثیت گاہک ہی کی نہیں مہمان کی بھی ہے اگر ان سے کوئی چیز مہمان طلب کرتا ہے اور وہ ان کے پاس نہیں تو یہی نہ کردینا چاہیے کہ میرے پاس نہیں بلکہ مہمان کو بتا دینا چاہیے کہ فلاں جگہ سے یہ چیز ملے گی.اور اگر ہو سکے تو وہاں سے لے دینی چاہیے یہ بھی ان کی خدمت ہے.غرض دکانداروں کو چھوڑ کر باقی لوگوں کو اپنے اوقات اپنے کاروبار سے فارغ کر کے افسروں کے سپرد کر دینے چاہئیں.تاکہ وہ مناسب خدمات سپرد کر دیں.پھر بیرون جات سے آنے والوں اور یہاں کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس اجتماع کے موقع پر دعاؤں کو خاص طور پر مد نظر رکھیں.دعا تو اس وقت بھی ہوتی ہے مگر جو پہلے کی جائے وہ زیادہ مقبول ہوتی ہے اس لئے شریعت نے استخارہ پہلے رکھا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب بوجھ پڑ جائے تب تو مصیبت میں لوگ اس کو پکارتے ہی ہیں.لیکن یہ شخص پہلے سے اپنے آپ کو میری مدد کا محتاج سمجھتا ہے.پس اس لئے پہلے ہی دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو پہلے جلسوں سے زیادہ ترقیات اور اتحاد و اتفاق جماعت اور علوم روحانیت کی ترقی کا موجب بنائے.اللہ تعالٰی ہم سب کو دینی خدمت کے پورا کرنے کی توفیق دے اور ایسے رستہ پر چلنے کی توفیق دے کہ ہمارا انجام بخیر اور اس کی رضا پر ہو.الفضل ۱۴ دسمبر ۱۹۲۲ء)

Page 436

80 مہمانوں سے حسن سلوک کی نصیحت فرموه ۵ار و تیر ۷۱۹۲۲ ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.چونکہ کل مجھے سردرد کا دورہ ہو گیا تھا.آج معلوم ہو تا ہے کہ بخار ہو گیا ہے.اس لئے مختصرا دوستوں کو ان باتوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں جن کی طرف جلسہ سالانہ کے موقعہ پر توجہ دلایا کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ چاہے تو مہمان اگلے جمعہ میں آجائیں گے.بلکہ ابھی سے آنے لگے ہیں قادیان کے لوگ جو مہمانوں کی خدمت کا کام کرتے میں ان کو بعض دفعہ اپنی طبیعت اور خواہش کے خلاف باتیں دیکھنی اور سننی پڑتی ہیں کیونکہ جلسہ کے موقع پر جو لوگ آتے ہیں ان میں بعض کمزور طبع ہوتے ہیں اور بعض غیر احمدی ہوتے ہیں اور بعض جوشیلے لوگ ہوتے ہیں.پھر سفر میں صابر بھی جوشیلے ہو جاتے ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ ریل کے سفر میں بعض دفعہ سمجھدار لوگ بھی سختی کہ بیٹھتے ہیں.تو وہاں جہاں نہ چارپائی میسر ہو اور نہ کھانے کا وقت مقرر ہو اور متواتر کئی دن کا سفر ہو.تو کمزور طبائع یعنی وہ لوگ جو صحت کے لحاظ سے کمزور ہوں.یا جن میں اخلاص کی کمی ہو.یا جن کو سلسلہ سے تعلق کم ہو یا نہ ہو.ناراض ہو جاتے ہیں.اور ایسی باتیں کہتے ہیں جو کارکنوں کو ناپسند ہوتی ہیں.مگر دوستوں کو چاہیے کہ وہ ان سخت باتوں کو خیال میں نہ لائیں اور حتی الوسع مہمان کو آرام پہنچانے کی کوشش کریں.یاد رکھو کہ زندگی ایک موقع ہے کہ جس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے.ہم لوگ تاریخ کے قائل نہیں کہ بار بار اس دنیا میں آئیں گے.اور پھر نجات پائیں گے.بلکہ ہمارے لئے ایک ہی موقع ہے.ایسا نہ ہو کہ اس کو نادانی اور بے وقوفی سے کھودیں.اگر اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اگلے جہاں کے لئے سامان نہ کیا تو دوسرا موقع کوئی نہیں.اس لئے اس موقع کو غنیمت سمجھنا چاہئیے.اور اس کو بوجھ نہیں خیال کرنا چاہیے.یہ مصیبت نہیں بلکہ انعام ہے.لوگوں کو شکائت ہوتی ہے کہ فلاں شخص بڑا ہو گیا.اس کو ترقی کا موقع مل گیا اگر ہمیں موقع ملتا

Page 437

إسلام تو ہم بھی بڑے ہو جاتے اگر ایک شخص بڑا جرنیل ہے تو اس لئے کہ اس کو موقع مل گیا ایک دوسرا شخص جو مفتی زمیندار کی طرح اپنی عمر گزار دیتا ہے.اگر اس کو موقع ملتا تو وہ بھی جرنیل ہو جاتا.پس بہت سے لوگوں کو شکایت ہوتی ہے کہ انکو موقع نہیں ملا مگر افسوس ان پر ہو گا جن کو موقع ہے.اور وہ اس کو ضائع کر دیں.ہمارے لئے یہ فخر کی بات ہے کہ ہمیں موقع ملا ہے.دوسروں کو شکایت ہے کہ ان کے لئے موقع نہیں مگر ہمارے لئے موقع مہیا کیا گیا ہے.کہ ہم جانی اور مالی قربانی اور خیالات کی قربانی کریں.جانی قربانی یہی نہیں کہ تلوار سے سر کٹوایا جائے بلکہ آرام کی زندگی چھوڑ کر تبلیغ کے لئے دور دراز سفر پر جانا بھی جانی قربانی ہے.پھر احساسات کی قربانی تم کو کرنی پڑتی ہے خیالات قدیم کو چھوڑنا پڑتا ہے پس کوئی قربانی نہیں جس کا تم کو موقع نہ دیا گیا ہو.جانیں تمہیں قربان کرنی پڑتی ہیں وقت تمہیں قربان کرنا پڑتا ہے.آرام کی قربانی کا موقع تمہارے لئے ہے خیالات کی قربانی کا موقع تمہارے لئے ہے.غرض ہر قسم کی قربانیوں کا دروازہ تمہارے لئے کھولا گیا ہے.جو ان قربانیوں کو بجا لائیں گے وہ خدا کے پیار کے جنت کو پالیں گے اور جو نہیں کریں گے وہ من كان في هذه اعلى فهو فی الاخرة اعلٰی کے مصداق ہونگے.میں یہ نصیحت کرتا ہوا اپنا فرض ادا کرتا ہوں.مانو یا نہ مانو یہ تمہارا اختیار ہے.لیکن میں امید رکھتا ہوں کہ تم ضرور مانو گے کیونکہ تم نے اپنے اس وقت تک کے عمل سے دکھا دیا ہے کہ تم ماننے کے لئے تیار ہو.پس اپنے اعمال کو درست کرو.اور اپنے نفسوں کی اصلاح کرو.اور نقصوں کو دور کرو.اگر یہ کرو گے تو مرنے سے پہلے آخرت کے لئے کچھ کر لو گے.(الفضل ۲۱ ۱ دسمبر ۱۹۲۲ء)

Page 438

م الاسهم ST کار کنار نے جلسہ اور احباب قادیان کو نصیحت (فرموده ۲۲ ر و نمبر ۱۹۲۲ء ) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.میری طبعیت علیل ہے اور موسم بھی ایسا نہیں کہ لوگ آرام سے بیٹھ کر سن سکیں (کیونکہ بارش ہو رہی تھی اور مسقف جگہ کی تنگی تھی اس لئے اختصار سے اپنے دوستوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے.دعاؤں پر زور دیں.بے شک ہماری جماعت کو حضرت صاحب نے دعاؤں کی طرف بہت توجہ دلائی ہے.اور ہماری جماعت کے لوگ قرآن کریم پڑھنے کے زیادہ عادی ہیں.انہوں نے قرآن کریم میں دعا کے متعلق دیکھا ہے اور بحیثیت مسلمان ہماری جماعت کو دعا پر یقین بھی ہے.پھر بھی جس بات پر زور دیا جاتا ہے اور بار بار بیان کی جاتی ہے.اس پر زیادہ عمل کیا جاتا ہے.دیکھو قرآن مجید تھا مگر جب قرآن کریم کے واعظ نہ رہے اور وعظ کے طریق بدل گئے تو باوجود قرآن مجید کے موجود ہونے کے مسلمانوں نے دعاؤں کو چھوڑ دیا.اس لئے میں توجہ دلاتا ہوں کہ یہ دن دعاؤں کے ہیں خدا کے فرستادہ نے یہ اجتماع جو مقرر کیا ہے یہ بھی اپنے اندر حج کا رنگ رکھتا ہے.گو یہ شریعت والا حج نہیں.مگر اس میں فوائد وہی مد نظر رکھے گئے ہیں جو حج میں ہیں.لیکن جس طرح مسلمانوں کی سستی سے حج برکت کا موجب نہ رہا اور اب وہاں سے کتنے ہی ایمان کھو کر آتے ہیں.ایسا نہ ہو کہ ہماری غفلت سے یہ موقع بھی کھویا جائے اس لئے یہ خشیت کے دن ہیں انہیں دعاؤں میں صرف کرنا چاہئیے آنے والوں کے لئے بھی دعائیں کرنی چاہئیں.ادھر میری طبیعت بھی دس بارہ روز سے خراب ہے.یہ حالت دیکھ کر ڈر ہی آتا ہے کہ میں بول بھی سکوں گا یا نہیں اس موقع پر ہماری جماعت کے ہزاروں افراد آتے ہیں اگر وہ خدانخواستہ اپنے امام کی باتوں کو نہ من سکیں تو یہ بھی ایک محرومی ہے.اور اس سے بہت سے روحانی فوائد رک جاتے ہیں.اگر خدانخواستہ موسم کی صفائی نہ ہو.تو جلسہ کا ہونا ہی مشکل ہے.ان سب باتوں کو مد نظر رکھ کر میں تحریک کرتا ہوں کہ خاص طور پر دعائیں کی جائیں تاکہ کہیں

Page 439

معمول امام نهم ہماری کمزوری کے باعث خدا کے فضل نہ ہم سے چھن جائیں.اللہ تعالیٰ ہمارے قصور معاف کر کے اپنے فضل سے اس اجتماع کو برکات کا موجب بنائے.ہمیں کام کی توفیق ملے.اور اس میں اپنی بڑائی کا دخل نہ ہو.بلکہ ہم اسلام کے مدعا کو پورا کرنے والے ہوں.میں نے مکانات کے متعلق تحریک کی تھی.مگر افسر جلسہ کی طرف سے اطلاع ملی ہے.کہ دوستوں نے اس دفعہ پہلے کی نسبت کم مکان دئے ہیں دوستوں کو چاہیے کہ اس کمی کو پورا کریں.جو احباب مکان خالی کر سکتے ہیں فارغ کر کے دیں.اگر مہمانوں کے ٹھہرنے کے لئے جگہ نہ ہو تو پھر مکانات کس کام کے.پس جس سے جتنا ہو سکے اپنے کان کو خالی کر کے کارکنوں کے حوالے کر دے.اس طرح جس قدر مکانوں کی ضرورت ہے.پوری ہو سکے گی.میں نے دیکھا ہے کہ ابھی شائد کارکنوں نے بھی پوری توجہ نہیں کی.ہمارے مکان میں مستورات ٹھرا کرتی ہیں.مکان فارغ ہیں.مگر میں نے کارکنوں کو اس کے متعلق کچھ کرتے نہیں دیکھا.کارکنوں کو چاہیے کہ تندہی سے کام کریں یہ خواہش کہ ہمارا نام و نمود ہو ایسا خیال ہے جو خراب کرتا ہے.اس خیال کے ماتحت بہت لوگ خراب ہو گئے ہیں ہوتے ہیں ہوتے رہیں گے.تم اللہ سے ڈرو اور اس سے خوف کرو اور اس بات کو مد نظر رکھو کہ اس کا کام کر کے اس سے انعام کے طالب ہو............اور لوگوں سے مدح اور تعریف نہ چاہو.اللہ تعالیٰ ہمارے کاموں میں علمیت پیدا کرے.اللہ تعالی تم پر رحم کرے اور مجھے پر بھی رحم کرے.آمین.الفضل یکم جنوری ۱۹۲۳ء )

Page 440

مهم علم الهام 82 جلسہ سے واپس جانے والوں کو نصائح (فرموده ۲۹ ۱ دسمبر ۱۹۲۲ء) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.چونکہ بہت سے احباب نماز جمعہ کے بعد جانے کا ارادہ رکھتے ہیں.میں عصر کی نماز بھی جمعہ کے ساتھ پڑھاؤں گا کہ رستہ میں دقت نہ ہو.میں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ احباب جو جلسہ سے واپس جانے والے ہیں انہوں نے جو مفید باتیں یہاں سنی ہیں ان کو قیمتی خزانہ کی طرح باندھ لیں.گھر جائیں تو اپنے عزیز واقارب دوستوں اور محلہ وانوں اور شہر والوں کو سنائیں.کیونکہ بہترین تحفہ حق کی باتیں ہوتی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.کلمة الحكمة ضالة المومن اخذها حيث وجدها اب حکمت کی بات مومن کی گم شدہ چیز ہے اس کو جہاں پائے لے لے.پس یہاں سے بہترین تحفہ جو آپ لوگ لے جا سکتے ہیں کہیں مفید باتیں ہیں جو تمہارے لئے اور تمہارے قریبوں کے لئے مفید ہیں.ان سے تمہارے اور دوسروں کے علوم میں اضافہ اور روحانیت میں ترقی ہوگی.جب دوسروں کو سناؤ گے تو تمہیں بھی فائدہ پہنچے گا.کیونکہ محض سننے کی نسبت دوسروں کو سنانے سے بات اچھی طرح یاد ہو جاتی ہے.دوسری بات یہ ہے کہ واپس جاتے ہوئے سفر میں بہت دعائیں کریں.خاص طور پر سلسلہ کے لئے دعائیں کرتے جائیں.اس کے بعد مختصر الفاظ میں ایک مضمون کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس کی طرف آج رات ہی مجھے رویا میں توجہ دلائی گئی ہے.آج رات میں نے عجیب خواب دیکھی.چند ماہ ہوئے میں نے اس مضمون پر ایک خطبہ پڑھا تھا.لیکن اب ذہن میں بالکل نہ تھا.اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر رڈیا کا ہونا خدائی تحریک ہے کہ میں آپ لوگوں کو اس طرف متوجہ کروں.جب میں نے یہ خواب دیکھی تو میں نے اس کی اسی خطبہ کے مطابق تعبیر کی ہے.چونکہ اس امر کا جماعت سے تعلق ہے اس لئے میں سنا دیتا ہوں.

Page 441

۴۳۵ میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان سترہ اٹھارہ برس کا ہے.نہایت خوبصورت ایسا جیسا کہ مشہور ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام بے نظیر خوبصورت تھے.وہ نوجوان باہر سے آیا ہے.اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس سے میری ذاتی دوستی ہے.یہ نہیں کہ وہ احمدی ہے بلکہ دوست معلوم ہوتا ہے.اس سے احمدیت کا سوال پیدا نہیں ہوتا.مگر اس کی حالت یہ ہے کہ جو اس سے ملتا ہے خوش ہو جاتا ہے.وہ میرے ساتھ لگ کر بیٹھا ہوا ہے.اس وقت میں نے دیکھا کہ ہمارے خاں صاحب ذوالفقار علی خاں صاحب آئے ہیں ان کو یہ بات عجیب معلوم ہوئی ہے.اور وہ حیران ہیں.میں ان کو اس کے متعلق سناتا ہوں.کہ یہ میرے دوست ہیں اور مجھ سے ملنے کے لئے آئے ہیں.اور مجھے سے چھٹے ہوئے ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ یکدم ان میں بھی ایک تغیر آیا.اور وہ سترہ اٹھارہ برس کی عمر کے نو جوان ہو گئے ہیں.وہ اس سے ملے ہیں اور ان کی یہ حالت ہوئی ہے کہ گویا وہ خوشی سے اچھلنے لگ گئے ہیں میں نے اس کو کہا کہ میرے پاس بیٹھ کر سناؤ کہ تم کہاں کہاں گئے.پھر میں خان صاحب سے سے کہتا ہوں کہ یہ عجیب شخص ہے.جہاں یہ ہو لوگ اس کے گرد اکھٹے ہو جاتے ہیں.میں ان کو یہ حال سناتا ہوں اور خوش ہوں.آخر وہ ہمارے گھر سے نکالا اور دروازے پر کھڑا ہو گیا.جس کی نظر اس پر پڑتی ہے وہ اس کے پاس آجاتا ہے.قادیان کے مرد اور بچے سب لوگ اس پر لٹو ہوئے جاتے ہیں.اور اس سے اس طرح محبت کرتے ہیں جس طرح میں کرتا ہوں اس وقت میں نے کہا اس کا نام ”موانست" ہے اور لوگوں سے ملنا اور ان سے محبت کرنا ہے.اس نظارے کا مجھ پر ایسا اثر تھا کہ میں نے اسی وقت اپنے گھر والوں کو جگایا اور ان کو سنایا تاکہ میں بھول نہ جاؤں.اس وقت میں نے اس کی تعبیر یہ کی کہ لوگوں سے ملنا جلنا اور محبت کرنا مجھے مجسم کر کے دکھایا گیا ہے.لڑکے سے مراد وہ ملنے جلنے کی صفت تھی جو خوبصورت نوجوان کی صورت میں دکھائی گئی.جو لوگوں سے محبت کرتا ہے اور ہنس مکھ چہرے سے ملاتا ہے.اس کے گرد لوگ جمع ہو جاتے ہیں.جو چڑ چڑا ہو اس سے لوگ بھاگتے ہیں.اس کے ساتھ خان صاحب کے نوجوان ہونے کے یہ معنی ہیں کہ یہ صفت جس شخص کے اندر رہتی ہے وہ بوڑھا ہو کر بھی جو ان ہی ہوتا ہے.کامیاب ہونے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ دوسروں سے ملیں جلیں.اس کے بغیر انسان کامیاب نہیں ہو سکتا.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے لو كنت فظا غليظ القلب لا نفضوا من حولك (آل عمران (۱۲۰) اگر تو سخت دل ہو تا تو یہ لوگ تیرے نزدیک نہ آتے.مگر یہ تیرے اخلاق اور حسن سلوک اور محبت کی وجہ ہے کہ منافق بھی جو ایمان میں تیرے ساتھ متفق نہیں تیرے پاس آتے ہیں اور باوجود اس قدر علیحدگی کے وہ لوگ تجھ کو نہیں چھوڑ سکتے.یہ اعلیٰ صفت ہے مگر افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ دوسروں کے فلموں کو دیکھ کر اس صفت کو چھوڑ رہے ہیں.ہماری جماعت میں

Page 442

.يم منفساری کا مادہ کم ہوتا جاتا ہے.ہمارا دائرہ تبلیغ محدود ہوتا جا رہا ہے.پس جو لوگ اپنے اندر ملنساری کا مادہ پیدا کریں گے وہ اس سے فائدہ اٹھائیں گے.یہ نوجوان صفت جس میں ہوتی ہے وہ شخص خوش خلق اور ملنسار ہو جاتا ہے.اس سے ملنے کی لوگوں میں خواہش پیدا ہوتی ہے.خوش طبعی اور ہنتے ہوئے چہرے سے ملنا اور اچھے اخلاق اور محبت آمیز طریق سے ملاقات کرنا ایسی باتیں ہیں جو دو سروں کے دنوں پر اثر کرتی ہیں اور لوگ ان سے ملنے کے خواہش مند رہتے ہیں.یہ رویا مجھے رات اس لئے دکھائی گئی ہے کہ احباب جا رہے ہیں میں ان کو نصیحت کردوں کہ س صفت سے کام لیں.جب تمہاری یہ حالت لوگ دیکھیں گے تو دوڑ دوڑ کر تمہارے پاس آئیں کے تمہاری باتیں سنیں گے اور تمہیں اپنا ہمدرد سمجھ کر اپنی سنائیں گے.یہ چیز دین کے لئے بڑی محمد اور مددکار ہوں.اللہ تعالٰی ہم پر فضل کرے.ہمارے عیب دور کرے.ہم نے خدا کے مامور کے کے مطابق یہاں جمع ہو کر ایمان کی تازگی کے سامان کئے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان میں زیادتی اور ان کی رضا، ہمارے مد نظر ہو.مد (الفضل ۱۸ جنوری ۱۹۲۳ء) ل مشكوة كتاب العلم باب في فضيلته

Page 443

اشاریہ جلد نمبرے ۱۸۹ ،۱۸۸،۱۸۷،۱۸۶۰۱۸۵ ،۱۸۴ ، ۱۸۳ ۲۰۴ ،۲۰۱،۱۹۸،۱۹۷ ،۱۹۶،۱۹۵ ،۱۹۳ ،۱۹۰ ۲۱۴ ، ۲۱۳ ، ۲۱۲ ، ۲۱۱ ، ۲۱۰ ، ۲۰۹ ، ۲۰۸ ۲۲۳۰۲۲۲۰ ۰،۲۱۹،۲۱۸،۲۱۷ ،۲۱۶ ۲۲۸ ،۲۲۷،۲۲۵ ،۲۲۴ ۲۳۸،۲۳۷،۲۳۶ ، ۲۳۵ ،۲۳۴ ،۲۳۳ ۲۳۲ ۲۴۵ ۲۴۴ ،۲۴۳ ، ۲۴۲ ، ۲۴۱ ، ۲۴۰ ، ۲۳۹ ۲۵۳۰۲۵۲ ، ۲۵۰،۲۴۹۰۲۴۸ ،۲۴۷ ۲۴۶ ۲۵۹ ، ۲۵۸ ،۲۵۷ ، ۲۵۶ ، ۲۵۵ و - ۲۳۰ ، ۱۱۳ ، ۱۱۲ ۰۵۴۰۵- آدم آسٹریلی - ۳۱.آسنور اللہ تعالی - ۳-۶-۷، ۱۳،۱۲،۱۱،۱۰۰۸، ۱۷.- ۸۹ ،۸۷،۸۲ ۳۳ ۳۴ ۳۵ ۳۶ ۳۷ ۳۸ ۳۹، الم ، ۴۲ ۶۱ ،۵۹،۵۵،۵۲ ،۴۹ ،۴۸ ،۴۷ ،۴۵ ، ۴۴ hb , ۲۸۹ ،۲۸۸،۲۸۷ ، ۲۸۶ ،۲۸۵ ،۲۸۴ ،۲۸۳ ۳۰۰،۲۹۹ ،۲۹۸ ،۲۹۵ ، ۲۹۴ ، ۲۹۲ ،۲۹۰ ۱۰۴ ۱۰۳ ۱۰۲ ۱۰۱۰۹۹۰۹۸ ،۹۷۰۹۴۹۳ ۱۱۴ ۱۱۳ ۱۱۲ ۱۱۱ ۱۱۰ ۱۰۹ ۱۰۸ ۱۰۷ ۱۰۵ ۱۳۹،۱۳۵،۱۳۲۰۱۳۰۰۱۲۴ ،۱۳ ،۱۲۲۰۱۲۰ ۳۲۰۴۹۱۹۰۳۱۸ ،۳۱۷ ، ۳۱۶ ، ۳۱۵ ،۳۱۴ داده و امرارها و و و امر ام ام و اسد به امید و امیر ادرار ۳۳۸،۳۳۷،۳۳۶۱۳۳۵ ،۳۳۴ ،۳۳۳ ، ۳۳۳ ۳۴۵ ،۳۴۴ ،۳۴۳ ،۳۴۲ ، ۳۴۱ ، ۳۴۰ ، ۳۳۹ الرد الم والدي الدلم والديه والدله و المدن ۱۵۸،۱۵۷ ،۱۵۶،۱۵۵ ، ۱۵۴ ، ۱۵۳ ، ۱۵۲ ۱۷۷ ،۱۶ ،۱۳ ،۱۶۲ ، ۱۶۱ ،۱۶۰ ۱۵۹ ۱۷۹،۱۷۵،۱۷۴،۱۹۷۲ ، ۱۷۰۰ ۱۶۵ ، ۱۹۸

Page 444

۸۶۱۸۵،۸۴،۸۳،۳۰۶۰۶۴ ،۵۸ ،۵۲ ۳۵۷۰۳۵۶۳۵۲۰۳۵۰۰۳۲۹ ،۳۲۸۰۳۴۶ ۳۷۰،۳۶۹،۳۶۶،۳۶۳۱۳۶۱ ، ۳۵۹ ،۳۵۸ ۱۵۲ ،۱۴۸۰۱۴ ۶ ، ۱۲۵ ، ۱۲۰۰۱۱۹ ، ۱۰۵ ۱۰۴ CTAP 6166/1446120614961044107 ،۲۱۷ ،۲۱۴ ،۲۱۳۰۲۱۰ ، ۲۰۶ ،۲۰۴ ، ۱۸۸ ۲۳۴۰۲۳۳۰۲۳۱ ،۲۲۹۰۲۲۸ ،۲۲۴ ، ۲۱۸ ۳۱۵ ،۳۱۴ ،۲۹۳،۲۸۷۰۲۸۵ ،۲۶۵ ،۲۳۸ ۳۴۹۰۳۴۶۰۳۴۵۰۳۳۷،۳۲۰۰۳۱۹ ،۳۱۸ ۳۹۸ ،۳۹۴ ،۳۸۴۰۱ ۱۷۰۳۵۶۱۳۵۰ ۲۰۱ ، ۴۰۳، ۴۰۳، ۴۱۲، ۴۱۴، ۱۶،۴۱۵لم ،۴۳۳ اسمعیل.اصابه - ۳۹۸۱۳۵۱ - ۳۹۰۰۳۸۹،۳۸۸ ،۳۸۶،۳۸۱۰۳۸۰، ۳۷۹ ۴۰۴ ،۴۰۲ ،۳۵۷،۳۹۵،۳۹۴ ،۳۹۳ ، ۳۹۱ ۴۲۱ ،۴۲۰،۴۱۹ ،۴۱۸ ،۴۱۳۰۴۱۲ ،۴۰۹۰۴۰۸ ۴۳۱۷۴۲۹،۴۲۸ ، ۴۳۶۰ ۴۲۵۰ ۴۲۴ ، ۲۲۳۰ ۴۲۲ ،۴۳۶ ،۴۳۳ -۳۵۵ ،۱۵۶۰۸۴،۵۳۰۳۷،۳۴ ابرا ہیں.، ۹۱ ۱۸۴،۸۳،۷۵،۷۳،۵۹ ،۴۱، ۳۸ - ۳۵۴۷۲۴۹۰۲۴۰ ،۱۸۸ ،۱۸۰۰ ۱۶۸ ، ۱۵۲ ۴۰۶ ، ۳۵۶ اصحاب الصفہ ۱۳۰ ابو جہل.۶۹ ، ۷۵ ، ۱۶۶ ، ۱۶۷ ، ۳۴۴، ۳۵۴، ۳۸۵ ابو حنيفة ابو داؤد - ۳۵۱ ابوطالب - ۳۲۹ - ابو عبيده - - ۳۵۳،۲۲۸،۱۷۱ ،۱۶۹ ،۸۳ -14-- ابو قحافہ - ابوهریره - ۸۴، ۱۷۱، ۳۵۶ - ابن عربی - ۱۶۰ - ابن ماجد - املی - ۵۴ - ۰۳۹۱ احمدیت - ۶۴۰۱۶۰۱۴ ۶۷۰ ۷ ۸ ۹ ۱۷۷۰ ، ۱۷۸، ۱۸۰ اسلام - ۹ ۵۰ ۴۹۰ ۴۰۰ ۴۴ ،۳۲ -107.- ۴۲۱ ،۳۱۸،۳۱۷،۶۳۰۴۷ ،۴۶ افریقہ : افغانستان الاغانی - ۶۳ -۲۲۲ ،۲۱۱۰ - ۲۶۳ - -9- الجزائر - الفاروق - ۱۴۹ الفضل.- ۳۵،۲۹،۲۷ ،۲۳،۱۷ ،۱۱ ، ، ، ،، ۷۸،۷۶،۷۳۷۰،۶۵،۶۲ ،۵۵ ، ۵۲ ،۴۹۰ ۴۴ ۱۲۴،۱۱۵،۱۰۸ ، ۱۰۳ ،۹۰۰۹۴۰۸۸۰۶ ۱ ، ۱۹۸ ،۱۹۰۰۱۸۵ ، ۱۸۱ ، ۱۰۵،۱۶۰۰ ۱۴۹ ۱۳۹ ۲۲۸ ۲۲۴ ۲۲۰۰۲۱۵ ،۲۱۲۰۲۰۰ ،۲۰۱۰ ۲۰۰ ،۲۷۵ ،۲۷۸ ،۲۷۲۰۲۵۰،۲۵۰،۲۴۲ ،۲۳۴ ۳۲۱۰۳۱۶۱۳۱۱۰۳۰۵ ،۱ ۱۰۲۹۵ ،۲۹۰ ،۲۸۵

Page 445

۳۵۰،۳۴۳،۳۴۲،۳۴۰۰۳۳۸ ،۳۳۲ ،۳۲۷ ۳۸۶،۳۷۷ ،۳۷۲،۳۶۶ ،۳۶۱ ، ۳۵۶۰۳۵۵۰ ۲۲۵۰۱۹۰۰۱۸۵۰۱۷۵ ، ۱۳۶۰۱۲۴ ، ۱۱۵ ۱۱۴ ۳۴۷ ، ۳۱۶۰۳۱۱،۲۸۵ ،۲۴۸ ،۲۴۲۰۲۳۴ - ۳۹۱۱۳۸۷ ، ۳۵۱ ۴۲۹ ،۴۲۵۰۴۱۵ ،۴۰۹ ،۴۰۴ ،۳۹۸ ،۳۹۱ - ۴۳۶ ،۴۳۳۰۴۳۱ ۰۳۹۵ ، ۵۰۰ -444.14.- الوصیّت.امام حنبل - امام حسن امام حسین.امام شافعی - ۴۲۴ ،۴۲۳ ، ۳۸۱، ۳۲۹ ،۸۷۰ -4446140- امام مالک - ۱۹۰ -.بدره (جنگ) - ۳۲۴ - بدیع الزمان.- ^.براہین احمدیہ - ۱۹۹ - بصره - - بغداد - - بقاء محمد - ۲۱۵ - بلجیم.امت محمدیہ اسلامیہ - ۴۱۶۲۸۴،۳۷۰۳۶ - بلخ.امرتسر - امریکہ - ۳۸۲،۳۷۴ ،۳۰۸ ، ۴۹۲ ۰ - ۴۱۷ ،۳۶۴ ،۳۵۹ ،۳۱۸۰۳۱۷۰۲۹۳ اناطولیہ - ۶۴ - انجبل - ۲۰۴ ،۱۸۹ ، ۳۷ - ۳۱ -711- بمبئی - ۱۲۶ - بیت الله کعبه - ۲۲ ، ، پنجاب - ۴۵ - ۲۲۶ - پورٹ سعید - ۶۸ -.-10- انصار (مدینہ) - ۳۳، ۳۴، ۲۶۶۷۱۷۲،۱۷۱،۳۸ - پنڈت دیانند - ۷۵ انگلستان / انگلینڈر برطانیہ.نپٹھانکوٹ.-۳۵۹ ،۱۸ ۳۲ ،۳۱،۳۰ ت اہل حدیث راخبار - ۳۸۲ - تاریخ الخلفاء للسيوطي - ۱۴۹ ایران - ۵۲۰۵۳، ۲۰۴ ، ۲۲۴، ۳۵۵، ۴۱۸ ۲۱۰ م - تاریخ الخلفاء کانپوری - - ب.ٹیالہ - ۶۰، ۸۲ بخارا - ۲۷ بخاری ۱۰۸۰۱۰۳۹۴ ،۷۶،۴۴،۳۹، ۳۵ ، تحفہ شہزادہ ولیز...تذکره - ۶۹ - ترکستان - ۲۰۷ ترکی.- ۲۲ ، ۲۲۲

Page 446

تشخید الادمان - ۹۶ تورات.-۲۹۶ ۳۱۶ ،۲۳۷ ،۲۴۶ تیونس.جنت بهشت ۲ ۲۶۷۰۲۴۱،۲۳۶۰۲۳۱ ،۲۲۴۰۲۲۳،۱۸۶۰۱۱۲ ، ۱۱۱ ج جنگ احمد -14.- جنید بغدادی -.جاپان - ۳۰ ، ۳۳ ، ۵۲ ، ۱۳۸ ، ۱۸۹، ۳۱۷، ۳۶۹ جارج ہیم.تم جبرائیں.۱۴۴۰ - YAI - جرمنی - ۳۵۳۰۹۸، ۳۶۴، ۳۹۷ ۴۱۷۰ - جلس الانه ۶۸۰۱۰۰، ۲۵ ۱۵۰۰۱۲۸۰۱۲۷۰۱۲۶۰۱۲۵ ،٨٠٠٠ جہلم - جہنم / دوزخ - ۱۰۴۱۹۷، ۱۲۱۰۱۵۲،۱۰۰، ۲۳۹ - ۳۸۱ ، ۳۰۶ ، ۲۹۹ ، ۲۵۰ چ چوہدری علی محمد آف ونجواں - ۴۰۴ - چوہدری فتح محمد (سیال) ۲۶۲۰ ۲۲۲۰۲۲۱،۲۰۴،۱۹۹۰۱۹۳ ، ۱۸۵ ،۱۸۳ ، ۱۵۱ ۴۳۳۰۴۳۰،۴۲۹،۴۲۸،۴۲۶ ،۳۹۵،۲۹۲ - ۴۳۴ چین ۳۶۹ ،۳۱۷ ، ۱۷۸ ح.حافظ روشن علی - ۲۱۱ ، ۲۲۷ ، ۲۳۴ - جماعت احمدیہ ہماری جماعت اسلسلہ احمدیہ - حافظ روشن علی - 1 / ۳۵۰۳۴،۳۳،۳۲۰۲۳۰۱۷۰۱۴۰۱۱ ، ۶۹۰۶۴۰۶۰۰۵۹۰۵۴۰۵۱۰۴۵ ، ۴۴ ،۴۲۰۳۸ ۱۹۹،۱۹۸،۱۹۳،۱۴۸ ،۱۳۵ ، ۱۱۹ ، ۱۱۷۰۷۲،۷۰ ۲۱۷،۲۱۵،۲۱۳، ۲۱۰۰۲۰۰ ،۲۰۷،۲۰۱ ، ۲۰۰ حافظ شیرازی) - ۴۷ ، ۱۵۵ - حافظ محمد ابراهیم حجان - ۲۹۲ ،۶۷.-171- **** حدید ۲۸۹،۲۸۴،۲۵۶۰۲۵۴ ،۲۵۱۰۲۴۲ ،۲۲۱۰۲۳۴ ۳۵۹ ،۳۵۶۰۳۵۰،۳۴۳۰۳۴۲،۳۰۰، ۳۰۶ ۴۰۵ ،۲۰۲ ، ۲۰۱۰ ۳۹۹ ،۳۹۰ ،۳۹۵ ،۳۹۳ ۰۴۳۵۰۴۳۴ حریری - ۷۹ ، ۸۰ - حسام الدین کلکٹر.-160 حسن نظامی - ۳۵۵ ، ۳۵۶ - حفیظ اللہ خاں.۱.حوض کوثر - 1 12- خ خالد بن ولید - ۱۶۹ ، ۱۷۱.:

Page 447

۳۱۵،۳۱۴ ،۳۱۳،۳۰۶ ،۲۹۵ ،۲۹۲ ، ۲۹۰ ۳۳۲،۳۲۹،۳۲۵،۳۲۴ ،۳۲۱،۳۱۹ ،۳۱۶ ۳۵۰۱۳۴۹ ،۳۴۶ ، ۳۴۵ ،۳۴۴ ،۳۴۲۰۳۳۸ ۳۷۳،۳۵۱۰۳۶۸ ،۳۵۶۰۳۵۵ ،۳۵۴ ، ۳۵۲ ۳۹۴ ، ۳۹۰۷۳۸۷،۳۸۵،۳۸۳،۳۸۱،۳۷۴ خان ذو الفقار علی خان - ۳۲۵ - خاں غلام اکبر خاں..- 16-- خدیجه - ۴۱، ۱۸۳ ، ۱۸۴ - خلیفہ اول / مولوی نورالدین - ۱۰۰ ، ۹۶ ،۲۲ ،۱۷،۱۵۰۱۴ - - ۳۹۳ ۳۶۴،۳۵۳ ،۲ ،۲۷۶۰۱۴۴ ، ۱۲۰ ، ۱۰۱ خواجہ کمال الدین - ۱۴۴ ، ۴۰۶ - ا - ۱۸، ۰۲۳۵ خواجہ نظام الدین اولیاء - در بهینگر - ۳۵۵ دروس الادب - ۳۳۸ - دہلی / دتی.۱۵۱۰۲۲۲۰۱۹ - ۳۵۴ ،۲۵۱۰۲۲۲۰ ۱۹ رام (چند ر) - ۲۱۴ رسالہ اشاعت السنة - ٣٠٥ - رسول کریم - ۲ ۲۶۰۲۵ ،۲۰۰۱۹ ، ۱۷،۱۳ ،۱۳،۴ ،۲۰ ۵۸،۵۷،۵۶،۴۱۰۳۸،۳۷ ،۳۶،۳۲،۳۳ ۳۹۵ ، ۳۹۹ ، ۲۰۰ ، ۱۹م، ۴۱۸، ۴۲۲۰۴۲۱ ۴۳۴،۴۲۴ ،۴۲۳ رنجیت سنگھ (مہاراجہ) - ۱۹، ۱۸۲ روس - ۳۲۸ ، ۳۹۷ ، ۴۷۱.روم / رویا - ۶۴ ، ۳۵۳ - رہتاس - ۴۱۵ - ز زار (روس) - ۴۷ ۴۹۰ - زبیر ۸۳، ۲۰۶ ، ۳۵۹ - -.زرتشت - ۲۱۴ - زید - ۱۸۹ - سری نگر - ۷۹،۷۱ سود - ۳۵۶،۸۳ سعید - ۰۸۳ سکندر - ۲۲۲ ، ۲۵۹ - سورة الفاتحه - ۵،۱، ۸، ۴۵،۴۰،۳۶۰۳۰۰۱۸، ۱۸۷۱۲،۸ ،۵،۱۰ ۹۲ ۰۹۱۰۹۰۰۸۷۱۸۴،۸۳۰۸۲ ،۷۸ ، ۱۲۳ ، ۱۲۲ ،۱۲۱ ، ۱۱۲ ، ۱۱۱،۱۰۳۰۹۴۰۹۳ ۱۷۸ ،۱۹۷۰ ۱۶۹ ، ۱۹۳ ،۱۶۲ ،۱۴۶۰۱۳۶ ،۱۳۰ ۱۸۸ ،۱۸۷،۱۸۴ ،۱۸۳ ، ۱۸۰،۱۹۲۰۱۷۱ ،۱۹ ۲۱۴ ،۲۱۳ ،۲۰۷،۲۰۶۰۲۰۳،۱۹۴،۱۹۰۰۱۸۹ ۲۳۱ ،۲۳۰،۲۲۶ ، ۲۲۵ ،۲۲۴ ، ۲۲۳ ،۲۲۲ ۲۵۹ ، ۲۵۸ ۲۵۵ ،۲۵۰۰۲۴۸ ،۲۴۶۰۲۳۷ ۲۷۹ ،۲۷۷ ،۲۶۷ ،۲۶۶ ، ۲۶۵ ،۲۶۱ ، ۲۶۰

Page 448

۹۷ ،۹۶ ۹۵ ، ۸۹ ،۸۷ ،۸۳ ۸۲ ۸۰ ۷۹ ۱۷۷۰۷۱۰۱۹۰۰ ۱۳۷ ، ۱۲۵ ، ۱۱۹۰۱۰۹ ، ۱۰۴ ،۹۸ ۲۰۸ ،۲۰۲ ،۱۹۹،۱۹۸ ،۱۹۵،۱۹۳ ، ۱۸۶ ،۱۸۳ ۲۵۷، ۲۴۸ ،۲۳۵ ،۲۲۹ ، ۲۲۹ ،۲۲۱ ، ۲۱۹ ،۲۱۳ ۲۹۹ ، ۲۹۱ ، ۲۸۶ ، ۲۷۶۰۲۶۹ ، ۲۶۴ ،۲۵۸ ۳۲۸۰.۳۲۲،۳۲۰۰۳۱۷ ، ۳۱۲ ،۳۰۶ ،۳۰۲ بسورة النور - ٣٤ - سورة العنكبوت - ۳۴۵ - سورة الاحزاب - ١١٢ - سورة سبا - ۲۳۵ - سورة الفاطر - ۵۳ - سورة المؤمن - ۲۵۰ - ۳۳۳ ، ۳۳۹، ۳۴۳۰۳۴۱، ۳۵۲،۳۵۳،۳۴۸ سورة الحجرات - ۳۲۲ - ۳۹۹،۳۸۸۰۳۷۸ ،۳۷۳،۳۶۷،۳۶۲،۳۵۷ صورة الذاريات - ۷۲.۴۳۲ ،۴۳۰۰۴۲۶ ،۴۲۰۰ ۴۱۶۰۴۱۰ ، ۴۰۵ ۴۳۴ ۲۵۸،۲۴۰،۲۳۹،۱۹۰۷۸۷۱۸۴ ۰۰۰ سورة البقرة..سورة آل عمران - ۴۳۵ ، ۷۵ - - سورة الطور - ۹۶ سورة الصف - ۱۵۰ ، ۳۹۸ - سورة المزمل - ۲۸۱ - سورة التكوير - ۲۹۴ - سورة الكوثر - - سورة النصر - ٧٣ - سورة النساء - ۸۳۰۱، ۲۵۲۰۱۵۲ - سورۃ المائدہ - ۱۱۴ ، ۱۲۳ - -۳۳۵،۳۳۳ - سورة الانعام - - سورۃ الانفال - ۱۸، ۷۵ ، ۳۲۰ - - ۳۹۲ ،۳۴۶۰۷۵ - سورة برات / تو به ۱۷۵۰ سورة يوسف - ١٢ - سورة الحجر - ۱۲۹ - سورۃ النخل - ۷۵، ۳۰۱ - سورۃ بنی اسرائیل - ۵۰ سورة الكهف - 19 - ۳۹۸ ،۱۵۰ - - ۳۰۸ ، ۱۱۹ سورة الانبياء - ۱۷ سورة المؤمنون - ۲۸۳ - سورة الناس - ۱۸۹ شام -.۰۴۱۸۰۳۱۵۰۲۱۴ ، ۲۱۳ ۰۹ 14.شاہ معین الدین ندوی - شداد - ۶۹ ، ۱۷۶ ، ۳۵۴ - شوکت علی (مولانا).11A شہاب الدین سہروری - ۱۷۰ شیطان - ۳۲ ، ۷۶ ، ۹۲، ۹۳، ۹۷، ۱۰۷ ۳۳۰،۲۹۹ ،۲۹۸ ،۲۵۰ ،۱۳۸ ، ۱۳۷ ۰۳۸۱ ،۳۵۴ 6-449 شیکپیر -

Page 449

۰۴۱۸۰۳۷۵ صحابه ۳۴۰۳۳۰، ۷۳ ۱۲۱،۱۰۱۷۹۲،۹۱۰۸۳،۷۴۰ مکرمه - ۳۴۴ - عمر - ۱۳۵۰۹۱۰۸۳،۷۳،۵۹، ۱۴۷، ۱۹۸، ۱۶۹ ، ۲۱۱،۲۰۶۰۲۰۵،۲۰۱۰۱۵۲،۱۴۷ ، ۱۳۰۰۱۲۲ ۳۰۴،۲۶۶ ۲۶۵ ،۲۶۱۰۲۴۲ ،۲۳۱،۲۳۱ ،۲۳۲ ۳۹۶،۳۹۳،۳۷۱۱۳۵۴ ،۳۴۹۰۳۴۶۰۳۴۴۰۳۱۵ - ۴۱۸ ،۳۹۹ - ۱۷۴ ،۱۷۰۰۱۴۰ - b صدر انجمن احمد یه انجمن - طاعون - ۱۷۹ - طالوت - ۸۵ - طبری - ۳۳۲ - طبقات ابن سعد - ۳۴۷ -۳۵۷ ،۲۰۶ ،۸۳ ع • ۲۵۶۰۲۵۳،۲۲۸ ،۲۰۶ ، ۲۰۵ ، ۱۸۰ ، ۱ غ غزوہ حنین - ۱۳۰ ، ۲۶۵ - غسان - ۲۵۹ - فرانس - ۳۱، ۳۲، ۲۶۱۱۹۸ ، ۳۵۹ ، ۳۹۷ - فرشتے ملائکہ.۰۲۸۱۰۱۴۶ ، ۱۰۵ ، ۱۰۰۰ ۵۳۰۰ فرعون - ۴۱ ۲۲۰ ، ۶۹ ، ۱۷۶، ۳۵۴ - -46- فلسطين - ق قادیان - ۱۱،۱۰ ، ۱۹ ، ۲۸ ، ۱۲۰ ، ۱۲۳ ، ۱۵۰،۱۳۱، ۱۵۱ عائشہ رضی ۰۳۸۹ ، ۱۱۱ عباس - ۳۲۹۰۲۶۶ - عبد الرحمن بن عوف - ۱۳۴۹۰۳۲۲ ۳۹۵ - عبد اللہ بن ابی بن سلول - 1 عبداللہ بن عباس - ۳۰۵ - عبد الله بن عمر - ۳۴۵ - عبد الله بن مسعود - - ۳۴۹ ، ۲۰۵ - عثمان - ۹۱۷۸۳۱۵۹، ۱۴۴، ۸ ۱۸، ۲۰۵ ، ۳۵۳،۳۲۹ ۰۳۵۹ ،۳۵۴ عراق - و.ب - ۲۱۴۰۹۸،۷۷۱۹ ، ۲۲۴ ، ۲۶۵،۲۶۰،۲۵۹ ۲۹۱۰۲۵۹۰۲۰۰۰۱۹۹۰۱۹۳۰۱۸۴ ،۱۸۳ ،۱۵۲ ۳۸۶۰۳۸۲ ،۳۷۴،۳۶۴۱ ۱۳۶۳ ،۳۵۵ ،۲۹۲ ۰۴۳۵۰۴۳۲۰ ۴۳۰۰ ۴۲۸ ، ۴۲۶۰۴۰۷۰۴۰۴۰۴۰۱ ۰۲۸۴ ،۱۷۳۰ قاضی محمد عبد الله - قرآن کریم - ' ۲۰۵،۱۷۷۰۱۵۳ ،۱۱۲ ، ۱۰۲۰۹۶،۸۵،۸۲،۸۰ ۲۴۸ ،۲۴۷ ،۲۴۶۰۲۴۳ ،۲۳۵ ،۲۳۳ ،۲۲۷،۲۱۹ ۳۱۸۰۳۰۶،۳۰۳ ،۲۸۸ ،۲۸۶ ،۲۸۳ ،۲۸۱ ، ۲۶۷ ۳۷۴،۳۷۳،۳۶۹ ،۳۶۷ ، ۳۴۶۰ ۳۲۸ ،۳۲۳،۳۳۲ - ۴۳۵ ،۴۳۲،۳۹۴ ،۳۹۲

Page 450

F L قیصر - ۱۲۱ - ک کا ہلواں (گاؤں) ۳۷۵ - کابل.۲۱۱ ۰۳۹۸۰۳۵۹ ۰۲۱۱۰ کریشن - ۲۱۴ - کتاب الخراج - ۳۵۶ - کسری - ۱۲۱ ، ۲۲۴ - نمبر کوثر ۹۰۰ ۰۸۲،۷۵ -9-- گاندھریں.44 گ ۱۷۹ ، ۱۷۸ ، ۱۱۸ گاندھی.گجرات - ۲۲۷ - گوجرانوالہ ۲۲۷ گورداسپور - ۰۴۰۲ ،۲۵۶ ،۲۲۷ الہ راجپت رائے.149 ل متی - ۴۴، ۱۲۴، ۲۳۴ ، ۳۴۷ - مثنوی رومی - ۲۴۱ - مجلس شوریی - ۲۵۱ - ۲۵۷۰۲۵۱ - مدرسه احمدیه - ۱۲ ، ۱۵۳، ۱۷۴/ ۳۲۴ - مدینه - ۲۲۴ - مراکش - ۹.مرزا مظہر جان جاناں.۲۵۱ ، ۲۵۲ مریم ۹۰ مسٹر ویب.۲۹۳ مسجد اقصی (قادیان) - ۴۳، ۴۴ ، ۳۹۸ - مسجد نور.JAY- مسلم صحیح ) - ۲۹۰،۲۵۷ ، ۳۸۷ - مسند احمد - ۳۹ ، ۳۵۱ ، ۳۸۷ - مسیح موعود - ۲ ، ۲ ، ۹ ، ۱۱،۱۰ ، ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۱۹ ، لاہور - ۲۸، ۳۸۲،۲۸۰،۲۲۷،۲۲۶۰۲۲۴۰۶۴ - لائل پور - ۲۲۷ - لنڈن.لیگوس - ۶۴ - م مارٹن کلارک (ڈاکٹر) - ۶ ماسٹر عبدالرحیم دنیرا مالیر کوٹلہ.- ۴۴ ۴۳ ۴۲ ۴۰۰ ۳۹ ، ۳۶ ، ۳۵ ،۲۵۰۲۴ ۶۵،۶۴ ،۶۱ ، ۶۰۰۵۹ ،۵۸ ،۵۱۰۵۰۰ ۴۸ ۴۷ ۱۰۲ ،۱۰۱۰۹۷،۹۳/۰۸/۸۰۰ 6.649647644 ۱۳۰،۱۲۵ ،۱۲۲ ،۱۲۰ ، ۱۱۷ ، ۱۰۶ ، ۱۰۵ ، ۱۰۳ ۱۸۵،۱۸۴،۱۷۰۷۱۶۷ ۱۶۶ ، ۱۶۳ ، ۱۶۲ ، ۱۵۸ ۲۰۷ ،۲۰۶،۲۰۵ ،۲۰۴۰۲۰۰۰ ۱۹۹۰۱۹۰،۱۸۹ ۲۳۳،۲۲۸،۲۲۵۰۲۲۳۰۲۱۹ ، ۲۱۱ ، ۲۱۰ ،۲۰۸ ۳۲۱،۳۱۹ ،۲۹۳،۲۹۱۰۲۸۰۰۲۷۲،۲۵۶۰۲۴۶ ۳۶۳،۳۵۵۰۳۴۵ ،۳۴۳ ،۳۲۲ ،۳۳۲ ،۳۲۴ ۴۰۳،۳۹۷،۳۹۵،۳۹۴ ،۳۸۱،۳۷۶ ،۳۷۵،۳۷۸ - ۴۳۲،۴۱۲ ،۴۰۷ ،۴۰۷

Page 451

مشكوة المصابيح.۱ ، ۲۷، ۷۰، ۷۶، ۱۲۹۰۱۸ مولوی محمد ابراہیم بقاپوری.- ۴۳۶ ،۳۷۷۰۳۵۶ مبارک علی (مولوی) - ۳۶۵ ، ۴۱۷.محمد علی (مولانا) - ۱۱۸ - -۲۲۸۰۲۶ ،۱۲ ،۹ مصر.معاویه - ۳۴۶ معین الدین چشتی 14..مولوی محمدحسین (بٹالوی) - ۴۲، ۳۷۵، ۳۷۶ - مولوی محمد دین (ہیڈ ماسٹر) - ۱۷۳، ۲۸۴ - مولوی محمد علی دایم.اسے ) - ۱۴۴ - مولوی میر محمد سعید - ۰۶ مهاجرین حصہ دوم.میاں بشیر احمد (ایم.اے ) - ۲۸۴ - مفتی محمد صادق - ۴۱۷۱۳۶۳ - مقامات حریری - ۸۱ - مکاشفۃ القلوب - ۲۸ میاں غلام علی - ۲۵۱ - میر محمد اسحق ن ۱۲۳ ،۱۲۱۰ ۹۸ ،۶۷۰ ۶۶ ، ۳۸ ،۳۴ ،۳۳ نجد.۳۵۲ - A4.۱۹۱ ، ۲۶۰ ، ۲۶۵ ، ۲۹۲ ،۳۱۶،۳۱۵ ، ۳۲۹ نزمته المجالس - ۶.- ۳۷۵ ،۳۷۴ نمرود - ۷۹ ملک صاحب خان - ۱۹۰ ۰.نواب محمد علی خاں..منشی تاج الدین - ۶۴ - منشی فرزند علی -.-16.- موسی ۲۰، ۳۴۱ ، ۴۲ ، ۵۷ ، ۱۹۰۷۱۸۹ ، ۲۱۴، ۲۳۵ وید - ۱۸۹ ، ۴۱۴ - نوح ۴ - ۵۲ ، ۲۹۰ - و - ۳۲۱،۲۹۹ ،۲۸۸۰۲۴۷۰۲۴۶ مولوی ثناء اللہ امرتسری) - ۳۹ - ۱۸۴ ، ۱۳۹ مولوی جلال الدین شمس - ۳۶۵ - مولوی شیر علی - ۰۲۸۴،۱۷۳ ،۲۸ ،۲۳ مولوی صدرالدین - ۱۴۴ - مولوی عبد الماجد پر وفیسر.مولوی غلام رسول راجیکی.مولوی محمد ابراہیم.- ۱۸۴ بارون - ۴۲۱ - ہسٹری آف سارسنیز - ۲۶۹ بندر هندوستان - ۲۷،۱۴۰۹، ۳۱، ۴۳، ۳۷ ، ۱۰۷ ، ۱۱۰ ۳۵۹ ،۳۵۳،۳۱۷۲۲۱۰۲۵۹،۲۱۴ ، ۲۱۳۰۱۸ • ۴۲۱،۴۱۵ ، ۳۸۷ ، ۳۸۴ - 15.یروشلم - ۶۳ می

Page 452

.۴۱۰ ، ۴۰۸ ،۳۵۶۷۳۵۳ یوسف - ۲۰۱۳۰۱۷ ۴۳۵ ،۲۴۶ ،۱۴،۱۳،۱۲- یونان - ۳۲۲ ۰ یعقوب - ۱۲ - ۱۴ ،۱۳ ،۱۲۰ یین - ۲۷ ، ۲۲۳ - ، ۱۴۵ ،۵۱ ،۵۴۱۴۶۰۴۵ ،۴۴۰۳۰ - ۳۲۲،۳۱۸۰۳۱۷،۲۵۲ ،۱۷۹ ، ۱۹۸۰ ۱۲۹ پورپ

Page 453

بربيت قرآن کریم سورت آنیه احادیث نبویہ کتابیات البقره ، بنی اسرائیل ، الانبياء ، المؤمن ، الصف.تاریخ وسیر بخاری (صحیح) از امام ابو عبد الله محمد بن اسمعیل بخاری مسلم (صحیح) از امام ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری نیشاپوری ابو داؤد (سنن) از امام ابو داود سليمان بن الاشعث السجستانی ابن ماجه (سنن) از امام ابو عبد الله محمد بن یزید ابن ماجد القزوینی.از امام ابو عبد الله احمد بن محمد بن حنبل مشكاة المصابيح از محمد بن عبدالله الخطيب مسند احمد اسلام کے چار جرنیل مصنفہ حفیظ اللہ خاں اصابہ فی تمییز الصحابه شہاب الدین ابن ابی الفضل احمد بن علی الکنانی العسقلانی معروف بابن حجر - تاريخ الخلفاء حافظ جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی تاریخ الخلفاء خانپوری.سير الصحابه شاہ معین الدین ندوی - سیرت ابن ہشام ابو محمد عبد الملک بن ہشام سیرت خاتم النبيين طبری صاحبزادہ مرزا بشیر احمد (ایم.اے) البوجعفر محمد بن الجرير طبری

Page 454

طبقات ابن سعد مصنفہ ابو عب الله محمد بن سعد الفاروق علامہ شبلی نعمانی مهاجرین حصہ دوم (سیر الصحابه) شاہ معین الدین ندوی - ہسٹری آف سارس نیز سید امیر علی تصوف سير العارفين مکاشفۃ القلوب نزهته المجالس ادب عربی الاغاني دروس الادب مقامات حریری " " " حامد بن فضل الله الجمالی امام محمد بن الغزالی شيخ عبد الرحمن الصفوى البوالفرج علی بن الحسين الاصبحانی شیخ ظفر اقبال ایم.اے محمد الحريري متی (انجیل) ، تذکرہ (مجموعه الهامات و کشوف حضرت بانی سلسله احمدیه مصنفہ امام ابویوسف - كتاب الخراج

Page 454