Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔
ان الحجر الرحمة خدا کے فضل کے مقابلہ میں تجاری کوشش فرموده ۴ - جنوری شود © تشتد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :- ہم پر اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی فضل اور احسان ہے کہ وہ بغیر ہماری کسی کوشش اور محنت کے اپنے انعامات اور فضلوں سے ہمیشہ حصہ دا فردیتا رہتا ہے ہم اگراپنی محنتوں اور کوششوں کو دیکھیں.یا اس کی بجائے بہتر الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہم اپنی غفلتوں بستیوں اور کاہلیوں کو دیکھیں تو ان کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کے جو فضل اور انعام نظر آرہے ہیں وہ حیرت ہی میں ڈال دیتے ہیں.ہماری کوشش کیا ہے اور ہماری قربانیاں کیا حقیقت رکھتی ہیں.خدا تعالیٰ کے فضلوں کے مقابلہ میں ایک حقیر چیز ہیں.بلکہ میرے نزدیک تو ان کو حقیر چیز کہنا بھی بڑا دعوای ہے.ان کیلئے مناسب الفاظ یہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضلوں اور انعاموں کے مقابلہ میں کوئی چیز بھی نہیں ہیں.ان کو حقیر چیز کہنا بھی درحقیقت ان کی بڑائی بیان کرنا ہے.یقینا یقینا وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے مقابلہ میں کچھ چیز بھی نہیں ہیں.پھر جب خدا تعالے بغیر ہماری محنتوں اور کوششوں کے ہم پر اسقدر فضل اور احسان اور انعام کر رہا ہے.تو کیا یہ ہمیں اس طرف متوجہ نہیں کرتے کہ وہ وقت آگیا ہے جبکہ ہمیں بھی کوشش اور محنت سے کام لینا چاہتے.پھر کیا یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور عنائتیں
ہمیں اس طرف متوجہ نہیں کرتیں.کہ در حقیقت خدا تعالے نے ہمارے لیے بہت بڑی بڑی نعمتیں مقدر کر رکھی ہیں.اور جو کچھ ہمیں حاصل ہو رہا ہے.وہ ایک طعمہ کی طرح ہے، جو کھونٹی کے آگے مچھلی پکڑنے کے لیے لگایا جاتا ہے.یا یہ ایک ایسا ہی انعام ہے.جیسا کہ ماں باپ بچہ کو پڑھنے کے لیے بھیجتے وقت پیسہ یا مٹھائی دے دیا کرتے ہیں جس طرح وہ پیسہ یا مٹھائی بچہ کے لیے در حقیقت نشان ہوتا ہے اس بات کا کہ اگر کم تعلیم حاصل کرو گے تو بہت زیادہ انعام اور آرام حاصل کرو گے اور یہ چیزیں ان العاموں کا حصہ نہیں ہوتیں جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد حاصل ہوتی ہیں.بلکہ وہ ان کے حاصل کرنے کے لیے تحریص دلانے اور برانگیختہ کرنے کا ایک ذریعہ ہوتی ہیں.اسی طرح اس وقت ہم پر جو خدا تعالیٰ کے فضل ہو رہے ہیں وہ آنے والے فضلوں کا حصہ نہیں بلکہ انکے حصول کے لیے برانگیختہ کرنے کا ایک ذریعہ ہیں.اب تم خود سوچ لو کہ جہاں یہ ذریعہ ایسا عالی شان ہے.وہاں اصل انعام کس رتبہ اور پایہ کے ہونگے جو کچھ نسبت ان چند پیسوں یا مٹھائی کی ڈلیوں کو ان سکھوں اور انعاموں سے ہوتی ہے جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد حاصل ہوتے ہیں.وہی موجودہ فضلوں کو آئندہ ہونے والے فضلوں پر قیاس کر لو.بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ جس طرح وہ قلم یا پنسل یا انب یا مٹھاتی جو ایک اُستاد یا باپ لڑکے کو اس لیے دیتا ہے کہ تعلیم حاصل کرے.تعلیم حاصل کرنے کے بعد کے فوائد سے کچھ بھی نسبت نہیں رکھتیں.اسی طرح ہم پر جو خدا کے فضل اور انعام ہو رہے ہیں وہ بھی آئندہ ملنے والے انعام کے مقابلہ میں مولی ہیں ہیں اُن ملنے والے انعاموں کو حاصل کرنے کے لیے ہماری جماعت کو چاہیے کہ موجودہ انعامات کی قدر کرے.دنیا میں اسلام کے پھیلانے اور ہدایت کے پہنچانے کے لیے ہماری کیا کوششیں ہیں مگران کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کو دیکھو کہ پہلے اور ہرگھڑی ہمارا قدم آگے ہی آگے پڑ رہا ہے.ہمارے راستہ میں مصیبتیں اور مشکلات تو ایسی ہیں کہ بجائے آگے بڑھنے کے پیچھے ہٹنا چاہیتے اور بوجھ اتنے ہیں کہ بجائے کھڑا ہونے کے بیٹھ جانا چاہیتے مگر جب ایک سال گزرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ہم کہاں تھے اور اب کہاں پہنچ گئے ہیں.گو ہم سو رہے تھے اپنی کوششوں میں بہت سست بلکہ غافل تھے.مگر کسی طاقت ور بہتی نے ہمیں پہلے کی نسبت بہت آگے بڑھا دیا ہے.ہماری مخالفت کا تو یہ حال ہے کہ جس طرح دریا کی ایک رو چلتی ہے.اور اوپر کی طرف نہیں جانے دیتی.اسی طرح بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ زور کے ساتھ ہمارے مقابلہ میں چل رہی ہے.کوئی انسان ایک دریا کی رو کے مقابلہ میں نہیں چل سکتا، مگر
ہمارے مقابلہ میں تو ساری دنیا کے دریاؤں کے دہانے کھول دیتے گئے ہیں.پھر ہماری کوششوں کا یہ حال ہے کہ گویا ہم سورہے ہیں.مگر جب ایک وقت گذر جاتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے قدم پیچھے نہیں ہٹے.بلکہ اور زیادہ آگے بڑھ گئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے قدم ہماری کوششوں سے نہیں بڑھ رہے.بلکہ کوئی اور ہی طاقت ہے جو انھیں بڑھا رہی ہے پیس ہماری جماعت کے لوگوں کا فرض ہے کہ جہاں تک ہو سکے خُدا کا شکر ادا کریں کیونکہ للہ تعالیٰ فرماتا ہے لَئِن شَكَرْتُمْ لَا زَيْدَ نَكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدُ را براهیم ) کہ اگر تم شکر کرو گے تو اور زیادہ دونگا.اور اگر گھر کرو گے تو میرے پاس سخت عذاب بھی ہے...اللہ تعالیٰ کے فضل جس قدر ہم پر ہو رہے ہیں.ان کا ایک نمونہ تو کسی جلسہ ہے جو بھی ہوا ہے.اس دفعہ بعض واقف کاروں نے کہا تھا کہ پہلے کی نسبت نصف لوگ آئیں گے اور اس کی وجوہات یہ بیان کی تھیں کہ (1) مختلف قسم کی بیماریاں اور عوارض کی کثرت ہے (۲) قحط ساں ہے (۳) پہلے جلسوں میں تو کرایہ میں تخفیف ہو جایا کرتی تھی مگر اب کے اور بڑھ گیا ہے رہم بعض جگہ کی دینیں بند کر دی گئی ہیں.یہ تو انسانی اندازے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت میں جو اخلاص اور جوش پیدا کر دیا ہے اس کی وجہ سے اب کے پہلے کی نسبت کئی سو آدمی زیادہ آیا ہے پھر جماعت کے اخلاص قربانی اور جوش میں بھی پہلے کی نسبت بہت زیادتی ہوتی ہے.کیا یہ ہماری کسی کوشش اور سعی کا نتیجہ ہے.نہیں ! بلکہ خدا کے فضل اور احسان کا نتیجہ ہے، مگر اللہ تعالی کہتا ہے.اگر انعام حاصل ہونے پر میرا شکر کرو گے تومیں اسے اور بڑھا دونگا اور اگر نہیں کروگے تو پھر یہی نہیں کہ وہ انعام ہی چھین لونگا.بلکہ عذاب میں مبتلا کر دونگا.میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں کئی لوگ ایسے ہیں جو صرف جلسہ کے قریب دو مہینے جاگتے ہیں اور باقی سارا سال سوتے رہتے ہیں.ایسے لوگ یہاں بھی ہیں اور باہر بھی انھیں اس عرصہ میں خیال تک نہیں آتا کہ ہمارا بھی کوئی فرض ہے.وہ ایک ابا عرصہ سوتے رہتے ہیں.اور اس دیو کی طرح سوتے ہیں جس کے متعلق ہم بچپن میں سنا کرتے تھے کہ چھ ماہ سوتا تھا اور چھ ماہ جاگتا.مگر یہ تودش ماہ سوتے ہیں اور دو ماہ جاگتے ہیں.وہ دیکھ لیں کہ ان کے دو ماہ جاگنے پر جب خدا تعالیٰ اسقدر انعام اور فضل کرتا ہے تو اگر وہ سارا سال جاگیں تو کسقدر کریگا مگر کئی لوگ ہیں کہ جب جلسہ سے واپس جاتے ہیں تو سمجھ لیتے ہیں کہ بس ہمارا فرض ادا ہو گیا.اب اگلے جلسہ پر ہی کچھ کر ینگے فی الحال آرام کرلیں.
میں ایسے لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے لیے اس دنیا میں آرام سے بیٹھنے کے دن گئے.مومن کو یوں تو ہر وقت اور بہر حالت میں ہی آرام رہتا ہے.کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کو آرام حاصل نہ تھا یہ جو آرام ان کو تھا.اس کا تو اندازہ ہی کرنا مشکل ہے لیکن کیا اُنھوں نے تلواروں کے نیچے اپنی گردنیں نہیں ڈال دی تھیں.کیا وہ دین کے لیے گھر سے بے گھر.وطن سے بے وطن رشتہ داروں سے جدا نہیں ہوتے تھے.کیا ان کی جان اور مال خدا کی راہ میں صرف نہیں ہوا تھا.یہ سب کچھ ہوا تھا، لیکن باوجود اس کے انھیں آرام اور اطمینان حاصل تھا، مگر آج کل آرام کے معنی نکھیا اور بیکار رہنے کے سمجھے جاتے ہیں.جو آرام نہیں.بلکہ سستی اور عیش پرستی کہلاتی ہے.اور یہ مومن کے لیے حرام ہے.اس لیے میں اپنی جماعت کے لوگوں کو متوجہ کرتا ہوں کہ وہ یہ نہ بجھیں کہ کام کے دن گزر گئے ہیں.اور اب تکتا بیٹھنے کے دن آتے ہیں.کیونکہ ان دنوں نے تو انھیں خوب اچھی طرح آگاہ کر دیا ہے کہ تمہارے لیے پہلے سے بھی زیادہ مصروفیت کے دن آگئے ہیں اور اس طرف تھی متوجہ کر دیا ہے کہ جب تمہیں کوئی کوشش نہ کرنے کی صورت میں استقدر انعام مل رہے ہیں.تو جب ہم کوشش کریں گے اس وقت کسی قدر ملیں گے.پس جہاں میں اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اس سال ہمارا قدم پہلے سے بہت آگے ہے وہاں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ جاکر سو نہ رہیں.بلکہ جاگیں اور کام میں لگ جائیں.اس کے بعد میں ان دوستوں کو جنہوں نے دین کی خدمت کے لیے اپنی زندگیاں وقت کی نہیں اس خطبہ میں آگاہ کرتا ہوں کہ وہ کل صبح کی نماز کے بعد مسجد میں جمع ہوں.تاکہ ان کے جو فرائض میں نے سونچے ہیں.ان سے آگاہ کیا جائے اور آئندہ کے لیے کام کرنے کا طریق تجویز کیا جائے.بیرونی احباب کو بعد میں اطلاع دیدی جائیگی.بعض بچوں نے بھی اس سلسلہ میں شامل ہونے کی درخواستیں دی ہیں، لیکن ان کے متعلق اسی وقت غور ہو سکتا ہے.جبکہ وہ بڑے ہو جائیں اور اس وقت بھی ان میں یہی جوش پایا جائے اس لیے جن کی عمر 14 سال سے کم ہے وہ نہ آئیں اور جن کی اس سے زیادہ ہے اور اُنھوں نے درخواستیں دی ہیں.وہ آجائیں.تاکہ ان کے کام کے متعلق غور اور مشورہ کیا ) الفضل ۲۶ جنوری ۱۹۱۸مه جاوے
2 مومن بنو فرموده ۱۱ر جنوری شامه حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی :- قالَتِ الأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا لَمَّا يَدُخُلِ الإيمَانَ فِي قُلُوبِكُمْ وَإِنْ تُطِيعُوا اللهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلتُكُمْ مِن اَعْمَالِكُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ تُم لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِمَوَالِهِمْ وَ انْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَبِكَ هُمُ الصَّدِقُونَ ، قُلْ أَتُعَلَّمُونَ اللهَ بدِينِكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ يَمُنُونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تمنوا عَلَى إِسْلَامَكُمْ بَلِ اللهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَ لَكُمْ لِلْإِيمَانِ إِن كُنتُمْ صَدِقِينَ ٥ إِنَّ اللهَ يَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاللهُ بَصِيرُ بِمَا تَعْمَلُونَ (الحجرات ۱۰ تا ۱۹ ) اور فرمایا : اس زمانہ میں جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم سے بہت سی آسانیاں اور سہولتیں میسر ہوتی ہیں اور بہت سے آرام اور آسائش کے سامان نکل آتے ہیں.وہ مشکلات اور تکلیفیں جو قدیم زمانہ میں ہوتی تھیں اب نہیں ہیں.وہاں نہایت افسوس کے قابل یہ امر بھی ہے کہ بجائے اس کے کہ لوگ ان آسانیوں کو دیکھ کر اپنے ایمانوں کو بہت زیادہ مضبوط کرتے ان کے ایمانوں میں بہت زیادہ کمزوریاں پیدا ہو رہی ہیں اور آج کل ایمان کو ایک حقیر اور ذلیل چیز سمجھ لیا گیا ہے.حالانکہ ابیان تو ایک ایسا بیش بہا لعل ایسا قیمتی موتی اور الیسالاثانی جوہر ہے کہ اس کی صحیح قیمت ڈالنا تو الگ رہا قیمت ڈالنے کا خیال بھی پیدا نہیں ہو سکتا.ذرا کسی شخص کو کہ تو دیکھو کہ تو کتنے
روپوں پر اپنے بیٹے کو بھی کرائیگا.اس کا کیا نتیجہ ہوگا یہی کہ اگر مخاطب متحمل مزاج اور اپنے جوش کے دبانے پر قادر نہیں.تو اس فقرہ کے پورا ہونے سے قبل ہی اس کا ہاتھ کہنے والے کی گردن میں ہو گا اور جس طرح پانی سے بھری ہوئی مشک کا بند کھل جاتا ہے اور زور سے پانی نکلنا شروع ہو جاتا ہے.اس طرح اس منہ کا بند کھل جائیگا اور ہزاروں قسم کی گالیاں دینی شروع کر دے گا اور اگر کوئی سمجھدار اور دانا ہو گا تو اس فقرہ کو نہایت ناپسندیدگی اور ناراضنگی کی نظر سے دیکھے گا.یا اگر ہے اختیار ہو کر کہنے والے پر حملہ آور نہیں ہو گا.تو اسے یہ ضرور کہے گا کہ کیسی نادانی اور جہالت کی بات کرتے ہو یا اگر اتنابھی نہ کرے گا.تودل میں ضرور غصہ سے بھر جائیگا.یا کہنے والے کو پاگل اور مجنون سمجھے گا.پس اس وقت جھگڑا اس بات پر نہیں ہو گا کہ اس کے بیٹے کی قیمت لاکھ روپے ہے یا کروڑ روپیہ بلکہ یہ بات سن کر اس کے ذہن میں ہی نہیں آسکے گا کہ میرے بیٹے کی کچھ قیمت ڈالی جاسکتی ہے.اور وہ ناراضگی اور غصہ سے بھر جائیگا کہ کیوں ایسا کہا گیا ہے تو کئی چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کی قیمت ڈالنے میں اختلاف نہیں ہوتا.بلکہ ان کی قیمت ڈالنا ہی ایسا خطرناک ہوتا ہے کہ اسے برداشت نہیں کیا جا سکتا.پھر ایمان جو ہزاروں لاکھوں روپوں سے زیادہ قیمتی ہزاروں جانوں سارے عزیزوں اور رشتہ داروں سے زیادہ عزیز چیز ہے.اس کی قیمت ڈالنے کا کس طرح خیال آسکتا ہے.جب ایک بچہ کی قیمت نہیں پڑ سکتی تو ایمان کی کہاں پڑ سکتی ہے جو اس سے کروڑوں کروڑ نہیں اربوں ارب گنا زیادہ قیمتی اور عزیز شے ہے.ایک ایماندار انسان تھے سامنے اگر ساری دنیا بھی ذبح کر دی جائے.جو اسے اپنے ماں باپ بہنوں بھائیوں اور بیٹوں کی طرح پیاری اور عزیز ہو تو وہ ایک منٹ کے لیے بھی اس کے لیے تیار نہیں ہوگا کہ اپنا ایمان دیگر اسے بچائے کیونکہ یہ ایک ایسی قیمتی چیز ہے کہ جس کی کوئی قیمت پڑی نہیں سکتی.مگر باوجود اس کے ایسی قیمتی اور لاثانی چیز ہونے کے دُنیا میں ایسے لوگ پاتے ہی جاتے ہیں جو اس بے بہا گوہر کی قیمت مقرر کرتے اور اس لاثانی موتی کو بچنا چاہتے ہیں.ایسے لوگوں کی نسبت سوائے اس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ وہ جانتے ہی نہیں کہ ایمان کیا چیز ہے اور کتنی قیمتی شے ہے.دیکھو اگر کسی کو کوئی کسے کہ میں تیرے بیٹے کو ذبح کرنا چاہتا ہوں.بتا اس کی کیا قیمت لے گا اور وہ دس روپے مانگے.تو سننے والے فوراً کہدیں گے کہ اگر یہ شخص پاگل نہیں تو یہ اس کا بیٹا ہی نہیں جس کی اس نے یہ قیمت مقرر کی ہے.بلکہ کسی اور کا ہے.اور یہ دھوکہ سے اپنا بیٹا کہہ رہا ہے.اسی طرح جو شخص اپنے ایمان کی کوئی قیمت مقرر کرتا ہے.اس کے متعلق یقیناً یہی
کہا جائیگا.کہ اس میں ایمان ہے ہی نہیں.اور وہ دھوکہ دینا چاہتا ہے کہ میرے پاس ایمان ہے اور اس طرح جو کچھ اسے ملے اسے مفت سمجھ کرلے لینا چاہتا ہے.کیونکہ اس کے اندر ایمان تو ہے ہی نہیں اور اس کے خریدنے والا بھی سمجھتا ہے کہ اگر اس کی چیز ناقص ہے.تومیں جو کچھ دینے لگا ہوں.وہ اس سے بھی زیادہ ناقص ہے.یہ اپنی آخرت کو برباد کر رہا ہے.میرا اگر دنیا کا کچھ نقصان ہو گیا تو کیا ہوا.اس خیال سے دونوں میں سودا ہو جاتا ہے اور ان کی مثال اس واقعہ میں ایسی ہوتی ہے جو یوں مشہور ہے کہ ایک قافلہ کہیں جارہا تھا.اس میں سے ایک شخص بازار گیا.اور جاکر بزاز سے ایک کپڑے کا تھان مانگا.بزاز نے ایک ایسا تھان جو اندر سے پھٹا ہوا تھا اور اوپر ثابت نہیں تھیں.تھوڑی سی قیمت پر اس کے سامنے پیش کیا.تاکہ جلدی سے خریدے اور اسے کھول کر نہ دیکھے.چنانچہ اس نے فوراً خرید لیا اور قیمت دیگر چلا گیا.بزاز نے جلدی سے روپے لے کر رکھ لیے.جب وہ چلا گیا تو بزاز کو اس کے نفس نے ملامت کی اور وہ خریدنے والے کے پیچھے چلا.تاکہ تھان واپس لے آتے اور اس کے روپے اسے واپس کر دے.جب جا کر اسے ملا.تو کہا یہ تھان میں نے تم کو دھوکہ سے دیدیا تھا.دراصل یہ اندر سے پھٹا ہوا ہے.یہ مجھے ه و 02 واپس کر دو.اور اپنی قیمت لے لو.اس نے کہا اس بات کا کوئی فکر نہ کرو میں نے جو تمہیں دام دیتے تھے.بھی کھوٹے ہی تھے.یہی حال ایمان بیچنے اور خریدنے والوں کا ہوتا ہے بیچنے والا ایک چیز دینے کا اقرار کرتا ہے حالانکہ اسکے پاس ہوتی ہی نہیں یا ناقص ہوتی ہے مگر باوجود اس قسم کے سودے کر کے یہ لوگ تے ہیں کریم اجا ندارہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قَالَتِ الأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِن قُولُوا اسلمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلَ الإِيمَانُ فِي قُلُوبِکھر.کہ بدوی لوگوں میں سے ایک جماعت ایسی ہے.جو کہتی ہے ہم ایمان لے آئے.ان کو گرد و تم مست یہ کہو کہ ہم ایمان لے آتے ہیں تم تو کبھی ایمان لاتے ہی نہیں.تمہاری ایسی قسمت کہاں.ہاں یہ کہو کہ ہم مسلمان کہلانے لگ گتے ہیں کیونکہ ایمان تو تمہارے اندر داخل نہیں ہوا.اور جب ایمان داخل ہی نہیں ہوا تو پھر تمہارا کوئی حقی نہیں ہے کہ اپنے آپ کو ایماندار کہو.ایمان کے آثار تو م میں پیدا ہی نہیں ہوئے.دیکھو ہر چھوٹے سے چھوٹے کام کا کچھ نہ کچھ نتیجہ نکلتا ہے.ایک عالم ہوتا ہے.گو علیم اس کے دماغ میں ہوتا ہے مگر پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ عالم ہے.اسی طرح گو ایمان قلب سے تعلق رکھنے والی چیز ہے جسے اللہ ہی جانتا ہے، لیکن انسان بھی اس کے اثرات اور اظلال سے پتہ لگا لیتا ہے کہ ہے یا نہیں.اور ایمان تو خود نخود ظاہر ہو جاتا ہے اس کے متعلق کسی کے بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی تو فرمایا
ایمان تو تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا.پھر تم کیوں اپنے آپ کو مومن کہتے ہو.ہاں یہ کہو کہ ہم نے اسلام قبول کر لیا.مسلمان کہلانے لگ گئے ہیں.باقی تمہاری حالتیں بتا رہی ہیں کہ تم میں ایمان داخل ہی نہیں ہوا.کیونکہ تم میں الہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا مادہ نہیں پیدا ہوا.اور ان کے احکام سے جو محبت اور الفت ہونی چاہیئے.وہ تم میں نہیں پائی جاتی.اس کا تم میں نشان بھی نہیں ملتا تمہیں تو دنیا ہی مطلوب ہے.وہی تمہارا خدا اور وہی تمہارا رسول ہے.اور کم سمجھتے ہو کہ اگر ہم اس رنگ میں ایمان لے آئیں جس رنگ میں دوسرے لاتے ہیں تو گھاٹے اور نقصان میں رہیں گے.فرمایا : یہی ثبوت ہے اس بات کا کہ تمہارے اندر ایمان داخل ہی نہیں ہوا.ورنہ کیا کوئی ایمانداری خیال کر سکتا ہے کہ خُدا اور اس کے رسول کی اطاعت کا یہ نتیجہ ہو سکتا ہے کہ وہ ذلیل ہو اور نقصان میں رہے.ہرگز نہیں.کیونکہ خدا اور اس کے رسول پر ایمان لانے سے خدا اعمال کو ضائع نہیں کرتا اور اور نہ ہی نا کام رکھتا ہے.بلکہ خدا تو آگے بڑھاتا اور بہت بڑھ چڑھ کر کامیابی عطا کرتا ہے.ایک مومن نہیں چاہتا کہ دُنیا کی نظروں کے سامنے آتے مگر خداتعالی اسے ایسی بلند اور اونچی جگہ پر کھڑا کر دیتا ہے کہ جہاں ساری دنیا کی نظریں اس پر پڑتی ہیں.وہ نیچے بیٹھتا ہے مگر خُدا اُسے بلند مقام پر بٹھا دیتا ہے.وہ اپنے منہ کو ڈھانپتا ہے مگر خدا تعالیٰ اس کی نقاب کو پھاڑ پھاڑ کر دنیا پر ظاہر کرتا ہے.یہ ہوتا ہے خدا اور اس کے رسول پر ایمان لانے کا نتیجہ، لیکن وہ جو خدا اور اس کے رسول کا محض نام لیکر خود نفع اُٹھانا چاہتا ہے.دُنیا میں عزت اور شہرت کو چاہتا ہے خدا اس کی پروا نہیں کرتا اور اسے ذلت اور ناکامی کے گڑھے میں گرا دیتا ہے پس وَإِن تُطِيعُوا الله ورسوله لا يلتَكُمْ مِنْ أَعْمَا لِكُمُ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمُ اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہارے اعمال سے تمہیں کچھ کم نہیں دے گا.یا یہ نہیں کہ وہ تمہیں ذلیل اور رسوا ہونے دیگا.بلکہ خود تمہارا کفیل ہو گا.اور تمہاری کامیابی کے خود سامان مہیا کر دیگا.کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ غفور الرحیم ہے.یہ کیا مجیب دلیل ہے اس بات کے متعلق کہ اللہ تمہارے اعمال میں کمی نہیں کریگا.بلکہ پورا بدلہ دے گا.فرمایا وہ غفور ہے وہ تو گناہگار اور غلطی کرنے والوں کو بھی جبکہ وہ تو بہ کرتے ہیں بخش دیتا ہے اور ان پر اپنا فضل کرتا ہے.پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ تم اس کے لیے عمل کرو.اور وہ تمہیں اس کے بدلہ میں نقصان میں رہنے دے کیا وہ جو پشیمان کو معاف کرتا اور اسے انعام سے مالا مال کرتا
ہے.وہ اپنے اطاعت شعار اور فرمانبردار بندوں پر فضل نہیں کریگا.ضرور کریگا.اس لیے تمہارا خیال غلط ہے کہ اگر تم اس کے اور اس کے رسول کے احکام پر چلو گے تو گھاٹے میں رہو گے پھر وہ رحیم ہے کسی کو اس کے عمل سے کم دنیا تو الگ رہا.وہ تو اتنے اعلیٰ اور زیادہ بدلے دینے والا ہے جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتے.اس طرح ان کے غلط خیال کی تردید کی ہے کہ میں معلوم ہی نہیں کہ کس خدا سے تمہارا پالا پڑا ہے وہ وہ خدا ہے جو تمہارے اعمال کو کم ہی نہیں کرے گا بلکہ تمہارے اعمال میں جو کمیاں رہ جائیں گی.ان کو بھی پورا کر دے گا اور تمہارے اعمال کے مطابق تمہیں بدلا دینا تو الگ رہا وہ تو اتنا بڑھ چڑھ کردیگا کہ جو تمہارے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا.پھر کیا تم اس خدا کی نسبت یہ خیال کرتے ہو کہ تمہارے اعمال میں کمی کر دیگا اور تمہیں ذلیل اور رسوا ہونے دیگا.مگر دیکھو با وجود اس کے کہ قرآن کریم میں ایسی تشریح کے ساتھ ایمان کی حالت بتائی گئی ہے.آج ایمان کی کیا حالت ہے.ذرا ذرا اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگ ایمان بیچنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں.میں نے کئی بار بتایا ہے کہ ایک شخص اتنی سی بات پر مرتد ہو گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود نماز پڑھنے کے بعد مسجد میں بیٹھا کرتے تھے اور لوگ کوشش کرتے تھے کہ جسقدر جلدی ہوسکے ہم آپ کے پاس پہنچیں.تاکہ قریب جگہ حاصل کر سکیں.ایک دن جو آپ نماز کے بعد بیٹھے اور اس شخص کے پاس سے کوئی جلدی سے گذرا جس کی کہنی اُسے لگ گئی.تو اسی پر وہ ناراض ہو گیا اور مرتد ہو کر چلا گیا.پھر آج کل میں دیکھتا ہوں کہ بعض ایسے لوگ ہیں جو جب تک ملازم ہوتے ہیں بڑا اخلاص ظاہر کرتے ہیں، لیکن جب انھیں ملازمت سے ہٹا دیا جائے تو ادھر وہ علیحدہ ہوتے ہیں اور ادھر انھیں نئے نئے علوم اور دلائل حاصل ہونے شروع ہو جاتے ہیں پہلے تو جب تک وہ پندرہ یا میں روپیہ کے کے ملازم تھے.حضرت عیسی کی وفات اور حضرت مسیح موعود کے نبی ہونے کے دلائل قرآن اور احادیت سے انھیں معلوم تھے ، لیکن جب تنخواہ ملنی بند ہوئی تو اس کے خلاف فوراً ہی انھیں حیات مسیح یا مسیح موعود کے نبی نہ ہونے کے دلائل قرآن سے معلوم ہو گئے.پھر کئی لوگوں کو اسی پر انتبلا.آجاتا ہے کہ کسی انجمن کے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ ہونے سے ہٹا دیا گیا.اگر تو انھیں پردھان بنا دیا جائے تب تو سلسلہ احمدیہ سچا.اور وہ بڑے مخلص.اور اگر یہ نہیں تو پھر قرآن وحدیث سے ثابت ہوگیا کہ حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ ہی باطل ہے.یہ اور اسی قسم کے اور آثار و اخلال بناتے ہیں کہ ایسے لوگوں کے دلوں میں ایمان ہی نہیں ہوتا اور ان کانٹوں سے پتہ لگتا ہے کہ انھوں نے اپنے دل
میں کیکر ہوتے ہوتے ہیں.انگور نہیں کیونکہ انگور کی ہیں میں کانٹے نہیں ہوتے.کیا یہ ایمان کے نتائج ہو سکتے ہیں، کیا ایمان کے دلائل میں سے یہ بھی کوئی دلیل ہے کہ جب تک پندرہ ہیں روپے ملتے رہیں یا کوئی عمدہ حاصل ہو.یا کوئی خاص کام شپرد ہے.اس وقت تک تو ایمان ہے اور جب یہ نہیں تو ایمان بھی نہیں.اگر یہ کوئی دلیل ہے تب تو ہم ایسے لوگوں کو حق پر سمجھ لینگے.اور اگر یہ ہیں تو کو ترک کیا.بہنوں ، بھائی کا ایمان ہی نہیں.دیکھو صحابہ نے وطن چھوڑسے عزیزوں اور رشتہ داروں پھر یہ ثابت ہو گیا کہ ان بیوی بچوں سے الگ ہوتے اور دین کی راہ میں اپنا مال اور جانیں قربان کر دیں.ان کے مقابلہ میں اس وقت کے منافق بدتر تھے کیونکہ انھوں نے ایسانہ کیا.مگر اس زمانہ کے کئی مومن کہلانے والوں سے اچھے تھے.کیونکہ ان کا ایمان اس سے وابستہ نہیں ہوتا تھا کہ ہمیں کچھ ملتا ہے یا نہیں.بلکہ انھیں یہ خیال ہوتا تھا کہ ہمارا نہ کچھ جاتا رہے مگر آج یہ خیال نہیں ہوتا.بلکہ یہ ہوتا ہے کہ ہمیں کچھ ملتا ہے یا نہیں، اگر ملے تو ایمان قائم.اور اگر نہ ملے تو کچھ بھی نہیں.اگر یہی معیار منافقت کا قرار دیا جائے تو رسول کریم کے وقت تو کوئی منافق رہتا ہی نہیں.عبداللہ ابن ابی ابن سلول کو اس لیے اختلاف نہ تھا کہ مجھے کچھ کیوں نہیں دیا جاتا.وہ ایک امیر آدمی تھا.بلکہ اس لیے تھا کہ جو کچھ میرا ہے وہ مجھ سے نہ لیا جائے.پھر اس وقت کے منافق کچھ نہ کچھ تو دیتے تھے.البتہ انتہائی نصرت نہ کرنے کی وجہ سے منافق رہے مگر آج ان سے بھی کم خرچ کرنے والے کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم بہت بڑھ گئے ہیں.اور نہیں پورا پورا ایمان حاصل ہو گیا ہے.یہ آیت ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے.حالانکہ کوئی ایمان نہیں لائے.ہاں مسلمانوں میں داخل ہو گئے ہیں.اور کئی باتیں ہیں جن کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ ہمارا ایمان جاتا رہا.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کوئی انسان مومن تب بنتا ہے جبکہ اسے بشاشت ایمان حاصل ہو.اور یہ مومن بننے کی چھوٹی سے چھوٹی تعریف ہے جس طرح مدر سے میں نام لکھانے سے پہلی جماعت کا لڑکا بھی طالب علم کہلا سکتا ہے.اسی طرح مومن کہلانے کے لیے یہ بات ہے کیونکہ رسول کریم فرماتے ہیں کہ مومن نام رکھانے کا استحق انسان اُس وقت بنتا ہے.جبکہ اس میں بشاشت ایمان پائی جائے.صحابہ نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہی کہ اگر آگ میں ڈالا جائے تو ایمان نہ چھوڑنے ہی یہ ایک ادنی درجہ ہے مومن کا.اور اس کے آگے اور ترقی حاصل ہوتی ہے اور اسی کا نام بشاشت نه بخاری کتاب المرضى باب عيادة المريض ہے بخاری کتاب الایمان باب حلاوة الایمان
ایمان ہے.اسلام کوئی انجمن یا سوسائٹی نہیں اور احمدیت بھی چونکہ اسلام ہی ہے اس لیے یہ بھی کسی انجمن اور سوسائٹی کا نام نہیں ہے اور عہدوں کا سوال سوسائٹیوں اور انجمنوں میں ہوا کرتا ہے.نہ کہ مذہب میں.مذہب کا ہر کام خدا کے لیے ہوتا ہے.پس جو خدا کے لیے کام کرتا ہے.اُسے اس بات کی کیا پرواہ ہے کہ فلاں انجمن یا سو سائٹی اسے کوئی عزت اور عمدہ دیتی ہے یا نہیں.کیا وہ خُدا سے ملنے کی کچھ امید نہیں رکھتا کہ کسی انجین یا سو سائٹی سے عمدہ اور عزت چاہتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِن تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلتُكُمْ مِنْ أَعْمَالِكُمْ شينا.اگر تم اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہارے اعمال میں کوئی کسی نہیں کرے گا کہ تمہیں بندوں سے مانگنے کی ضرورت ہو اور دین کا کام کر کے ان پر احسان خلاؤ کہ ہماری قدر نہیں کی جاتی.ہماری عزت نہیں کی جاتی.ہمیں عہدے نہیں دیتے جاتے.کوئی کہے کہ یہ معنی کہاں سے لیے گئے.اس کے متعلق خدا تعالیٰ ساتھ ہی فرماتا ہے کہ يَمُتُونَ عَلَيْكَ اَنْ اَسْلَمُوا قُلْ لَا تَمُنُّوا عَلَى إِسْلَامَكُمْ.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وہ لوگ جو اسلام لاکر تم پر احسان جتلاتے ہیں.ان کو کہدو کہ مجھ پر اپنے اسلام لانے کا احسان نہ جتلاؤ ہیں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی اسلام لانے کا احسان نہیں جتلا سکتا جو بانی اسلام ہیں.تو دوسروں پر کیا جتلا سکتا ہے اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کو فرماتے ہیں کہ تمہارا مجھے پر کوئی احسان نہیں ہے.تو پھر حضرت مسیح موعود اور ان کے خلیفہ یا کسی انجمن پر کسی کا کیا احسان ہو سکتا ہے.اب خدا تعالے رہ جاتا ہے کہ اس پر احسان جتلایا جائے اگر اس پر احسان کیا ہے تو جو کچھ کہنا ہے اسے کہو اور اس سے مانگو.نہ کہ انسانوں سے.جن پر احسان ہی نہیں کیا تو خدا سے مطالبہ ہو سکتا تھا کہ ہم نے اسلام میں آکر آپ پر احسان کیا ہے پھر کیا وجہ ہے.ہمیں عزت نہیں دی گئی اور ہماری قدر نہیں کی جاتی مگر اس کا جواب بھی خدا نے دے دیا ہے کہ تم جو اسلام لانے کا احسان جتلاتے ہو.اس کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں.ایک تو یہ کہ در حقیقت تم اسلام لائے ہی نہیں.اگر اسلام نہیں لائے تو پھر تم کوئی مطالبہ ہی نہیں کر سکتے اور محض جھوٹ بولتے ہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اگر یہ بات ہے تو تم بجائے کچھ حاصل کرنے کے مجرم ہو اور سنزا کے قابل ہو اور اگر واقعہ میں ایمان لائے ہو تو بتلاؤ کہ یہ ہمارا تم پر احسان ہے یا تمہارا ہم پھر یہ
تو ہم نے تم پر احسان کیا کہ تمہیں اسلام لانے کی توفیق بخشی.اس لیے ہمارا حق ہے کہ ہم تم سے کچھ مانگیں نہ کہ یہ تمہارا احسان ہے کہ ایمان لاتے ہو.اور ہم سے مطالبہ کرتے ہو یہ تو ایسی ہی بات ہے جس طرح مشہور ہے کہ ایک شخص سخت دھوپ میں بیٹھا ہوا تھا.کسی نے اسے کہا بھائی سایہ میں بیٹھے جا، وہ کہنے لگا اگر میں سایہ میں بیٹھوں تو کیا دوگے تو فرمایا کہ اگر تم مومن ہو تو اس طرح تمہارا مطالبہ باطل ہو جاتا ہے.اور اگر پہنے ہوتو پھر مارا تم پر احسان ہے کہ ہم نے تمہیں اسلام کے قبول کرنے کی توفیق دی نہ کہ الٹا تمہارا احسان ہے.اس وقت میں آپ لوگوں کو جو بیاں بیٹھے ہو اور جو باہر میں بنا نا چاہتا ہوں کہ یہ بڑے دکھ اور رونے کا مقام ہے کہ اتنی آسانیوں اور سہولتوں کے باوجود ایمان کی کچھ قدر نہیں کی جاتی ہے حالانکہ اگر کوئی سب سے زیادہ قدر کے قابل چیز ہے.تو وہ ایمان ہی ہے لیکن اس کی کچھ قدر نہیں کی جاتی بلکہ اسے ایک حقیر چیز سمجھا جاتا ہے، اسے ایک سود اسمجھا جاتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ ہم جو ایمان لاتے ہیں اس کا ہمیں کوئی بدلہ اور معاوضہ ملنا چاہتے بعض طبیعتوں میں کچھ خصوصیات ہوتی ہیں.میری اپنی طبیعت ایسی ہے کہ میں اور بہت سی باتوں کو برداشت کر لیتا ہوں.اور بہت سے معاملات میں چشم پوشی سے کام لیتا ہوں.مگر کسی کو ایمان کا سودا کرتے ہوتے دیکھ کر بالکل مجبور ہو جاتا ہوں اور مجھے سرسے لیکر پاؤں تک آگ سی لگ جاتی ہے میں سخت سے سخت مجرم کو معاف کرنے کے لیے تیار رہتا ہوں اور معاف کرتا ہوں.مگر ایسا مجرم اگر معافی بھی مانگتا ہے تو دل نہیں چاہتا کہ اسکی بات بھی سنوں.ایسے کئی لوگ ٹھوکریں کھا کھا کر آتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہو گئی معاف کر دیا جائے.مگر میرا دل معاف کرنے کی طرف آتا ہی نہیں.پس میں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں اور درد دل سے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے ایمانوں کی حفاظت کرو.کئی لوگوں میں اپنے ایمانوں کا سودا کرنے کی مرض پاتی جاتی ہے اور انہیں ٹھوکریں لگ جاتی ہیں انہیں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیئے.اگر ایمان کے مقابلہ میں ہر چیز پر لات مارنے کے لیے تیار ہو تو یہ ایمان ہے.اور اگر ایسا نہیں تو کوئی ایمان نہیں.اور جو مومن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے وہ جھوٹا ہے اور اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینا چاہتا ہے لیکن وہ یاد رکھے کہ اللہ کبھی دھوکہ نہیں کھا سکتا.پس جن کے دلوں میں کوئی کمزوری ہو وہ خوب سوچیں سمجھیں اور دیکھیں کہ ان کے اندر ایمان ہے یا نہیں؟ اس سے زیادہ دکھ اور مصیبت اور کوئی نہ ہوگی کہ جس کو انہوں نے ایمان
سمجھا ہوا ہے وہ در حقیقت ایمان نہ ہو دیکھو اگر ایک شخص کپڑے میں لپٹی ہوئی گول ٹکڑی کو روٹی سمجھ کر اُٹھا لے اور جب جنگل میں جاکر اسے بھوک لگے اور کھانے بیٹھے تو اسے معلوم ہو کہ یہ روٹی نہیں بلکہ لکڑی ہے.اس وقت اس کی کیا حالت ہوگی وہ تو پھر بھی گرتا پڑتا گھر کی طرف لوٹ سکتا ہے مگر مرنے کے بعد کوئی انسان واپس نہیں آسکتا.پس اگر تم نے ایک چیز کو ایمان سمجھا ہوا ہے حالانکہ وہ ایمان نہیں ہے تو خوب یاد رکھو کہ خدا کے سامنے جا کر تم واپس نہیں لوٹ سکو گے اس لیے ابھی سے اپنے ایمانوں کی فکر کرو.خدا تعالیٰ تمہیں اسکی توفیق دے.آمین : د الفضل ۲۹ جنوری شاه
3 د استخارہ کیا ھے فرموده ۱۸ جنوری شافت ، تشهد و تعوذ کے بعد حضور نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر فرمایا کہ: مجھے یہ بات معلوم کر کے بہت تعجب ہوا کہ کئی لوگ ایسے ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ استخارہ کیا ہوتا ہے.حالانکہ استخارہ اسلام کے اعلیٰ رکنوں میں سے ایک رکن ہے اور اتنا بڑا رکن ہے کہ ہر ایک مسلمان کے لیے فرض کیا گیا ہے اور بغیر اس کے اس کی عبادت مکمل ہی نہیں ہوسکتی.کہ ایک دن رات میں پانچ وقت اور ہر ایک رکعت میں ایک بار استخارہ نہ کرے.تو یہ ایک ایسا ضروری اور لازمی رکین ہے کہ اسلام نے اس کے لیے ایک دن رات میں پانچ اوقات مقرر کئے ہیں.اور ہر وقت میں جتنی رکعت پڑھی جاتی ہیں اتنی ہی بار استخارہ کیا جاتا ہے.پھر سندن اور نوافل میں بھی استخارہ ہوتا ہے.پس جب یہ ایسا ضروری اور اہم ہے تو اس سے ناواقفیت نہایت تعجب اور افسوس کا مقام ہے.استخارہ کے کیا معنی ہیں ہے یہ کہ خدا تعالیٰ سے خیر طلب کرنا اور اللہ تعالیٰ سے یہ چاہنا کہ وہ کام جو میں کرنے لگا ہوں اس کے کرنے کا سیدھا اور محفوظ رستہ دکھایا جائے سورۃ فاتحہ جس کا ہر رکعت میں پڑھنا ضروری ہے.اس میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اَلحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِه مَالِكِ يَوْمِ الدِينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ ب عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِينَ پہلے اللہ تعالے کی تعریف کی جاتی ہے.پھر تعریف کے بعد اپنی عبودیت کا اظہار ہوتا ہے اور اس کے بعد انسان اللہ تعالیٰ سے کہتا ہے کہ اسے میرے خدا جس طرح تو اپنے خاص بندوں کی راہ نمائی کیا کرتا ہے.اسی طرح میری راہ نمائی فرما.اور اس راہ پر چلنے سے مجھے بچا جس پر وہ لوگ چلے جو کہ ایک وقت تک تو تیرے حکم کے ماتحت رہے، لیکن پھر انھوں نے اس راہ کو
چھوڑ دیا.یہ ہے سورہ فاتحہ جس کا ہر رکعت میں پڑھنا ضروری ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.اس کے پڑھنے کے بغیر نماز ہی نہیں ہو سکتی یہ یہی استخارہ ہے.صرف نام کا فرق ہے.اس کو سورۃ فاتحہ کہا جاتا ہے اور دوسرے وقت اسی کا نام استخارہ رکھا جاتا ہے.استخارہ کے معنی خیر مانگنا ہے اور اس خیر مانگنے کا طریق سورۃ فاتحہ میں بتایا گیا ہے.اس لیے استخارہ کرنا اور سورہ فاتحہ پڑھنا ایک ہی ہے فرق اگر ہے تو یہ ہے کہ سورہ فاتحہ پڑھتے وقت ہر ایک بات ہر ایک معاملہ اور ہر ایک کام کے متعلق خیر طلب کی جاتی ہے، مگر استخارہ کرتے وقت کیسی خاص معاملہ کے متعلق خیر طلب کی جاتی ہے.تو اسلام نے سب عبادتوں کی جڑ استخارہ ہی کو مقرر کیا ہے.خدا کی تعریف بیان کرکے اپنی عبودیت کا اظہار کرنا کیا ہوتا ہے.یہی کہ انسان خدا تعالیٰ کا مطیع اور فرمانبردار ہو جائے اور وہی کام کرے جو خدا اسے بتاتے اور جو خدا کی منشاء کے ماتحت ہو.سورہ فاتحہ میں ہی بتایا گیا ہے کہ خدا سے پوچھو کہ فلاں کام ہم کس طرح کریں.اگرچہ کرنے والے کاموں کے متعلق شریعت نے احکام بتا دیتے ہیں، لیکن وہ عام طور پر ہیں اور عام باتیں خاص لوگوں کے لیے نہیں ہوتیں.بلکہ ان کو خاص طور پر بتائی جاتی ہیں.انہیں کے دریافت کرنے کے لیے سورہ فاتحہ میں درخواست کی جاتی ہے اوبر انسان خدا تعالی کے حضور کھڑا ہو کر کہتا ہے کہ میں اپنے متعلق خود کوئی راستہ اختیار نہیں کرتا، جو آپ بتائیں گے اسی پر چلونگا.یہی استخارہ ہوتا ہے.جو ہر رکعت میں کیا جاتا ہے.بعض لوگوں نے یہ خیال کر لیا ہے کہ جب کسی ام کے متعلق استخارہ کیا جائے تو ضرور ہے کہ اسکے بارے میں خدا کی طرف سے انھیں آواز کے ذریعہ بتایا جائے کہ کرو یا نہ کرو، لیکن کیا سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد انھیں کوئی آواز آیا کرتی ہے.ہرگز نہیں.بلکہ اس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ جو کام وہ کرتے ہیں اس میں برکت ڈالی جاتی ہے اور جو نقصان پہنچانے والے ہوتے ہیں.ان سے روکا جاتا ہے.یہی بات استخارہ میں ہوتی ہے خدا تعالیٰ سے دعا کی جاتی ہے کہ اگر فلاں کام میرے لیے مفید اور فائدہ بخش ہے تو اس کے کرنے کی توفیق دے اور اگر نہیں تو اس سے مجھے باز رکھ لے میں نہیں جانتا کہ اس کے متعلق تیری کیا مرضی ہے ممکن ہے میں اسے تیری رضا کے ماتحت سمجھوں اور ہو اس کے خلاف اس لیے میں تیری رضا کے آگے اپنے آپ کو ڈال دیتا ہوں جس طرح تیری مرضی ہے اس کے مطابق مجھے چلا.یہ استخارہ ہوتا ہے.اس پر خدا تعالے دیتا کبھی بتا بھی دیتا ہے، لیکن ضروری نہیں کہ بنائے.کیونکہ خدا تعالے انسانوں کے ماتحت نہیں.بلکہ له بخاری کتاب الاذان باب وجوب القراءة للامام و الماموم في الصلوات كلها
آقا ہے اور آقا کے لیے ضروری نہیں ہوتا کہ نوکر کو ہرایک کام کے متعلق کہے تب وہ کرے ورنہ نہ کرے اکثر اوقات آقا کی خوشی ہی حکم ہوتا ہے تو استخارہ کے لیے کسی خواب یا الہام کے آنے کی ضرورت نہیں ہوئی، لیکن کئی لوگ اس کو ضروری سمجھتے ہیں.اور خواہش رکھتے ہیں کہ انھیں خواہیں آئیں.حالانکہ ایسی خواہیں جو خواہش پر آئیں کسی مصرف کی نہیں ہوتیں.دیکھو اگر ایک شخص اپنے دوست کی علاقات کے لیے جائیںگا تو اس کا دوست مقدور بھر اسے اچھی خوراک کھلا ئیگا اور اس کی خاطر تواضع کریگا لیکن اگر وہ طاقات کی نیت سے نہ جائے کہ آپس میں پیارا اور محبت کے تعلقات مضبوط ہوں، بلکہ اس خیال سے جاتے کہ وہاں مجھے اچھا کھانا ملے گا.تو وہ ایک بیہودہ اور لغو انسان ہوگا کیونکہ اگر وہ ملنے کی نیت سے جاتا تب بھی اسے اچھا کھانا مل جاتا.اور اب جب کہ صرف کھانے کی خاطر آیا ہے تب بھی مل گیا ہے، لیکن یہ کھانا اس کے لیے کسی فخر کا باعث نہیں.بلکہ ذلت کا موجب ہے اسی طرح وہ شخص جو اس لیے استخارہ کرتا ہے کہ مجھے خوا ہیں آئیں.وہ ایک سہود حرکت کرتا ہے اور ایسی خواہیں اس کے لیے کچھ بھی مفید نہیں ہونگی.پھر اگر استخارہ کرنے پر خوابوں کا آنا ضروری ہے.تو چاہیئے کہ انسان کو ہر رات خوابیں ہی آتی رہیں.ہر بات کے متعلق ایسے اسی طرح آگاہ کیا جایا کرے کیونکہ ہر روز نمازوں میں کئی کئی بار وہ استخارہ کرتا ہے لیکن استخارہ کے لیے خوابوں کا آنا ضروری نہیں ہوتا.بلکہ یہ تو دعا ہے.اس کے کرنے کے بعد جو خدا دل میں ڈالے اس پر عمل کرنا چاہیئے.اگر خدا تعالیٰ اس کام کے متعلق انشراح کر دے تو کر لیا جائے.اور اگر قبض پیدا ہو.تو نہ کیا جائے " ) الفضل ۵ فروری شالته ) (
16 4 کامیابی کیلئے انتظام اور اتحاد کی ضرورت فرموده ۲۵ جنوری شاه ) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے پڑھنے کے بعد فرمایا :- انسانی کوششیں اور مختیں ایک حد تک بہت سے عظیم الشان نتائج پیدا کرنے کا باعث ہوتی ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے انسان کے لیے اس کی کوششوں کو ترقیات کا اعلیٰ ذریعہ بنایا ہے مگر نیترقی اور کامیابی اس وقت بہت بڑھ جاتی ہے.جبکہ کسی انتظام کے ماتحت ہو.ایک کام اگر بدانتظامی سے ہو تو اس کے اور نتائج نکلتے ہیں، لیکن وہی کام اگر انتظام کے ماتحت ہو تو بہت عالیشان نتائج پیدا ہوتے ہیں پس جہاں انسانوں کے مد نظر یہ بات ہوتی ہے کہ کسی کام کے لیے محنت اور کوشش کریں و بالی یہ بھی ہونا چاہیئے کہ وہ کام ایک انتظام کے ماتحت ہو مسلمانوں کو جس قدر نقصان پہنچے اور ان پر جتنی تباہیاں آتی ہیں.ان کے اگر اکثر حصہ کو دیکھا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ ان کی وجہ دنیاوی سامانوں میں انتظام کی کمی ہی ہے، لیکن یہ کسنفد را افسوس کا مقام ہے کہ وہ کام جس کا خدا تعالے نے شریعت کے ماتحت ایسا انتظام کیا تھا کہ جس کی نظیر اور کسی شریعت میں نہیں ملتی.اس کی تباہی اور بربادی بد انتظامی کی وجہ سے ہوتی ہے.شریعت موسوی میں یا ہندوؤں، عیسائیوں اور نشستوں وغیرہ میں شریعت کے ماتحت خاص الہام سے کوئی انتظام اور سلسلہ قائم نہیں کیا گیا.اللہ تعالے نے ان میں بھی انتظام کئے تھے مگر ایسا انتظام کہ جو خاص حکم اور وعدہ کے ماتحت ہوا ہو وہ نہیں.مگر باوجود اس کے ان میں ایک انتظام رہا.اور اس سے اُنھوں نے بڑے بڑے فوائد حاصل کئے.اپنی کمزوریوں اور تباہیوں کے وقت بھی اس سے فائدہ اُٹھاتے رہے مگر مسلمان جن کو قرآن میں حکم دیاگیا تھا کہ ایک انتظام کے ماتحت رہیں اور خدا تعالیٰ نے سورہ فاتحہ اور سورہ نور میں وعدہ فرمایا تھا کہ اسی انتظام کے ماتحت تمہیں ترقی اور کامیابی حاصل ہو گی.وہی سب سے زیادہ انتظام کے توڑنے والے ہوتے ہیں جس کا جو کچھ نتیجہ ان کے حق میں نکلا وہ دنیا جانتی ہے.دشمنوں کے
A پراگندہ کرکے تباہ و برباد مغلوب و منصور کردیا مگر پھر بھی انہیں ہوش نہ آئی اور اپنی بربادی سے آگاہ نہ ہوتے یورپ میں ایک دفعہ مذہبی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور سارا یورپ اس بات کے لیے تیار ہوگیا تھا کہ سلام کو صفحہ دنیا سے مٹادے.اس کے لیے یورپ کے بڑے پوپ نے ایک اعلان عام کیا کہ لڑنے کی طاقت رکھنے والوں کا فرض ہے کہ مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور جو لڑ نہیں سکتے ان کا فرض ہے کہ لڑنے والوں کی ہر طرح سے مدد کریں.اس پر بڑے بڑے نوابوں اور امیروں نے اپنی جائدادیں فروخت کر کے مدددی خود لڑنے لگے.اور یہاں تک کہ چونکہ انیل میں آتا ہے کہ بیچتے خدا کی بادشاہت میں داخل ہوتے ہیں ہے کیونکہ وہ بے گناہ ہوتے ہیں اس لیے انھوں نے کئی ہزار نابالغ بچے لڑائی میں بھیجدیتے کہ قربان ہو جائیں.اس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ وہ اپنے ارادہ کو کتنی بڑی بڑی قربانیاں کر کے پورا کرنا چاہتے تھے اور اس پر کیسے قائم اور تحکم تھے.انھیں کامیابی تو کیا ہونی تھی مگران کا یہ فعل دلالت کرتا ہے کہ اُنھوں نے ہر ایک وہ تدبیر جو کامیابی کے لیے ان کے خیال میں آسکتی تھی اس پر عمل کیا.اور تمام فرقے جو آپس میں سخت عداوت اور دشمنی رکھتے تھے اور لڑتے جھگڑتے رہتے تھے ایک ہو کر مسلمانوں کو مٹانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے، لیکن اُس وقت مسلمانوں میں جن کو حکم تھا کہ ایک انتظام کے ماتحت رہیں.وہ ایک ایسی قوم کے مقابلہ میں جس نے اپنا انتظام اپنے طور پر بنایا ہوا تھا اور جو کہ مدینہ اور بیت المقدس کو تباہ و برباد کرنے کے لیے حملہ آور ہو رہی تھی مسلمانوں میں ایک سے زیادہ شاہیں ایسی ملتی ہیں کہ مسلمان بادشاہوں نے عیسائیوں کو خطوط لکھے کہ ہم تمہاری مدد کرنے کے لیے تیار ہیں.اگر چاہو تو ہم اپنا لشکر لے کر آجائیں.پھر انھوں نے خفیہ سامان اور مال بھیجے مسلمانوں کے خلاف جہاں تک ہو سکتا تھا ریشہ دوانیاں کیں نے اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کے اس حملہ کو تو روک دیا.ہو اُنھوں نے ایسے مذہبی جوش کی وجہ سے کیا تھا.جس سے ان میں عدل و انصاف مٹ چکا تھا.رحم اور خُدا ترسی سے خالی ہو چکے تھے.جب کوئی علاقہ فتح کرتے تو اس میں رہنے والی عورتوں اور بچوں تک کو جلا دیتے.اور ہر ایک قسم کے مظالم کرتے تھے.مگر باوجود اس کے کئی مسلمان اس بات کے لیے تیار تھے کہ ان کی مدد کریں.اور مسلمان مقابلہ کرنے والوں کو تباہ و برباد کرنے میں حصہ لیں.اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص نصرت اور تائید سے عیسائی حملہ آوروں کو اپنے ارادہ میں ناکام رکھا.مگر مسلمانوں کی طاقت جو دن بدن بڑھتی جارہی تھی.نہ صرف رُک گئی بلکہ پاش پاش ہو گئی.متی سے تاریخ اسلام مرتبہ شاہ معین الدین ندوی جلد چهارم حالات میلیبی جنگیں
عیسائیوں کو تو اس لیے نا کامی ہوئی کہ انھوں نے اسلام کو مٹانے کا ارادہ کیا تھا.مگر مسلمان چونکہ اپنی است اعمال سے اس قابل نہ رہے تھے کہ آگے ترقی کرتے اس لیے خدا تعالے نے ان کو چھوڑ دیا کہ جاو تباہ و برباد ہو.یا تو وہ آگے ہی آگے بڑھ رہے تھے.یا گھٹتے گھٹتے تباہ ہو گئے.اور اب کیسا اٹھا زمانہ آیا کہ ایک تو وہ وقت تھا کہ مسلمان دنیا جہان کے لوگوں کو سبق دیتے پھرتے تھے.انھیں علوم سکھاتے تھے.تہذیب پھیلاتے تھے، لیکن اب یہ حال ہے کہ ہر بات میں دوسروں کے محتاج ہیں.دوسروں کو علم سکھانا تو الگ رہا.خود ہی سب کچھ بھلا چکے ہیں ہر طرح کی ذلت اور نکبت ان پر چھائی ہوتی ہے.عام لوگوں کو تو جانے دو.ان کی جو حکومتیں ہیں.ان کی حالت دیکھو.ایران کی حکومت جس کا ایک زمانہ میں دنیا میں ڈنکا بج چکا ہے اُس نے ایک دفعہ پندرہ لاکھ روپیہ ایک دوسری حکومت سے قرض مانگا.تو اُسے کہا گیا کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ رو پید ادا کر دیا جائیگا.حالانکہ ہندوستان کے شہروں میں کئی ایسے سوداگر ہیں کہ اگر وہ کروڑ روپیہ بھی قرض لینا چاہیں تو آسانی سے لے سکتے ہیں، لیکن ایک حکومت کو پندرہ لاکھ روپیہ بھی قرض نہیں مل سکتا.یہ انجام ہے بد انتظامی کار ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ نے اتحاد اور اتفاق قائم کیا ہے اور پھر اس ترقی کی اُمید دلاتی ہے.جو اسلام کے ذریعہ مسلمانوں کو حاصل ہو سکتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ خُدا نے چاہا ہے کہ ہماری جماعت کے ذریعہ اسلام دنیامیں پھیلاتے، لیکن بجائے اس کے کہ حملہ آوروں کو تلوار سے روکا اور اپنے آگے مجھ کا یا جائے.اب منشاہ الہی یہ ہے کہ دلائل اور براہین کے ساتھ مقابلہ کیا جائے اور اسی طرح اسلام ترقی کرے، مگر با وجود اس کے کہ اس زمانہ میں مقابلہ کا رنگ بدل گیا ہے اور تلوار کی بجائے براہین سے شوکتِ اسلام ظاہر ہوگی.وہ بات اسی طرح قائم ہے کہ تمام کامیابیاں اسی وقت حاصل ہو سکیں گی جبکہ ہم ایک انتظام کے ماتحت ہر ایک قربانی کرنے کے لیے تیار رہیں گے.اس میں شک نہیں کہ ہر ایک قربانی خدا کے فضل سے کرنے کی توفیق ملتی ہے.مگر خدا کا فضل جذب کرنے کے لیے بھی کچھ سامان ہوتے ہیں.اس لیے ان کا مہیا کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے اور وہ اتحاد و اتفاق اور ایک انتظام کے ماتحت کام کرنا ہے.اس میں شک نہیں کہ یہ بات بڑی حد تک ہماری جماعت میں پائی جاتی ہے مگر ہم اسکو کانی نہیں کہہ سکتے.ابھی اس کی بہت ضرورت ہے.آپ لوگوں کو یہ بات خوب یاد رکھنی چاہیئے کہ جی جماعت میں اتفاق اور اتحاد نہیں ہوتا.اس کی تمام کوششیں خدا کے دین کی ترقی کے لیے صرف
نہیں ہوتیں.وہ خُدا کے انعام کی مستحق نہیں ہو سکتی.بیشک ترقی کرنے کے اور بھی ذرائع ہیں، مگر وہ دنیا دی ہیں، لیکن خدا کی راہ میں ترقی وہی لوگ کر سکتے ہیں.جو ایسے اعمال کریں جو خدا کے فضل کو جذب کرنے والے ہوتے ہیں.ہمارے پاس دنیا وی سامان تو ہیں نہیں.اس لیے جب تک ہم خُدا کا خاص فضل جذب کرنے والے اعمال نہ کریں.اس وقت تک ترقی کس طرح کر سکتے ہیں.پس اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہر جگہ کے لوگ آپس میں خاص طور پر اتحاد و اتفاق کر کے دکھلائیں بعض اوقات بہت چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی ہو جاتی ہے.نا اتفاقی اور تفرقہ کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے.نمازیں الگ پڑھنی شروع کر دی جاتی ہیں.معاملات میں قطع تعلق کر لیا جاتا ہے حالانکہ تفرقہ اور نا اتفاقی کی اگر وجہ کو دیکھا جائے تو بہت معمولی اور ردی ہوتی ہے.پھر کہتے ہیں کہ افراد کی لڑائیاں اور نا اتفاقیاں ہیں.حالانکہ افراد سے جماعت بنتی ہے اور جب افراد میں لڑائی ہوئی تو جماعت میں ہی ہوتی.تو میں دیکھتا ہوں کہ ہر ایک مقام پر وہ اتفاق اور اتحاد بھی پیدا نہیں ہوا جو خدا کے خاص فضل حاصل کرنے کا موجب ہوتا ہے.اگر چہ ان لوگوں سے بہت زیادہ اتفاق اور اتحاد ہوتا ہے جن سے لوگ نکل کر ہماری جماعت میں داخل ہوتے ہیں.مگر اتنا کافی نہیں ہو سکتا.اس سے بہت زیادہ کی ضرورت ہے اور ہمارے لیے یہ خوشی کی بات نہیں ہے.کہ دوسروں سے زیادہ ہم میں اتفاق ہے ، بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا جتنے اتفاق کی ہم کو ضرورت ہے.وہ ہے یا نہیں.اگر اتنا نہیں تو پھر اس فائدہ کے حاصل ہونے کا موجب نہیں ہو سکتا جسکی ہمیں ضرورت ہے پس ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہیئے کہ اس اتحاد کے پیدا کرنے کیلئے خاص قربانی کرنا سیکھیں اور نا اتفاقی کے خیالات کو ترک کرنا اختیار کریں تا کہ خدا کے فضل حاصل ہوں.اگر کسی وجہ سے جماعت کے اتحاد اور اتفاق میں فرق آنے کا خوف ہوتو چاہتے کہ اپنے ذاتی اغراض اور فوائد کو قربان کردی جاے کیونکہ جماعت کی تباہی لوگوں کی اپنی تباہی اور ہلاکت کا موجب ہوتی ہے.کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص مکان کے اندر کھڑا ہو کر اپنے سر پر ہاتھ رکھ لے اور چھت کو اسلئے گرانا شروع کر دے کہ میں تو بیچ جاؤنگا اور دوسرے ہلاک ہو جائنگے اگر کوئی ایسا کرے توہ نادان اور بیوقوف ہوگا کیونکہ اگر چھت گری تودہ خود بھی ہلاک ہو جائیگا یہی حال جمات میں فتنہ اور فساد پیدا کرنیکا ہوتا ہے کہ نسل پیدا کر نیوال خود بھی ہلاک اور تباہ ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ ہماری جماعتے لوگوں کو یہ سمجھنے کی توفیق ہے کہ جماعت کی تباہی کی اپنی تباہی ہوگی اور وہ اس بات کیلئے تیار ہوجائیں کہ پنے ذاتی فوائد کو جماعت کے اغراض کے مقابلہ میں قربان کرنے میں ذرا پس و پیش نہ کریں.خواہ کتنے بڑے کیوں نہ ہوں.کیونکہ عدل وانصاف اور ان کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ جماعت کے فوائد کے مقابلہ میں ذاتی فوائد کو قربان کردیں.الفضل مر فروری شالة )
5 صحیح طریق سے کوشش کرنے پر کامیابی حاصل ہوتی ہے ) فرموده یکم فروری ششاه ) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی :- " وَلَا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمُ وَالسَّعَةِ انْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَكِينَ وَالمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَكُمُ وَاللهُ غَفُورٌ رَحِيمُه ( النور : ٢٣) اور فرمایا :.میں آج بوجہ بیماری اور علالت کے کچھ زیادہ نہیں بیان کرسکوں گا مگر مختصر الفاظ میں ایک نہایت اہم اور ضروری امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں.دنیا میں اکثر ناکامیاں اور بہت سی نامرادیاں اس وجہ سے نہیں ہوتیں کہ لوگ اپنے مقصد اور مدعا کے حاصل کرنے کی کوشش اور سعی نہیں کرتے.بلکہ اس لیے ہوتی ہیں کہ اکثر لوگ ان طریقوں اور سامانوں سے اقف نہیں ہوتے جن کے ذریعہ اس کام میں کہ جس کے پیچھے وہ لگتے ہیں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.پس چونکہ وہ ان قواعد سے واقف نہیں ہوتے جن کے نتیجہ میں کامیابی ہوتی ہے اور ان سامانوں سے آگاہ نہیں ہوتے جن کے دیا کرنے کے بعد مراد کا منہ دیکھنا نصیب ہوتا ہے.اس لیے انکی کوشش اور سعی بے سود رہتی ہے اور کیونکہ جب تک انسان ان ذرائع کو استعمال نہ کرے جو کامیابی کے لیے مقرر ہیں.اس وقت تک وہ خوا کہتی ہی کوشش کرے.مراد حاصل نہیں کر سکتا.مثلاً ایک شخص پیاسا ہے اور اسے پانی کی ضرورت ہے.اب یہ نہیں ہوگا کہ ایک خاص حد تک کوشش کرنے سے اسے پانی مل جائے گا.گو پانی اس کے پاس ہی موجود ہو اور اس تک اس کا ہاتھ بھی پہنچ سکتا ہو، لیکن اگر وہ اس طریق سے پانی کے حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے گا.جس سے وہ حاصل ہو سکتا ہے تو خواہ اس کوشش سے ہزار درجہ بھی زیادہ محنت اور مشقت اپنے اوپر ڈال سے پانی حاصل
میں کر سکے گا.مثلاً ایک شخص کے پاس ہی پانی کا بھرا ہوا گھڑا موجود ہو.اس کے لیے پانی حاصل کرنے کا صحیح طریق تو یہ ہے کہ گھڑے کے پاس جا کر اسے الٹاتے.اور خواہ برتن میں خواہ پھلو میں پانی سے بیکن اگر وہ اس گھڑے کے پاس نہیں جاتا اور اس سے ایک گز دور بیٹھ کر ہاتھ جوڑتا اور بڑی عاجزی اور فروشنی سے کہتا ہے.اسے پانی میرے منہ میں آجا.اور اس کے لیے روتا چلاتا اور بڑی آہ وزاری کرتا ہے اور وہ بھی ایک دن نہیں ، دو دن نہیں بلکہ متواتر تی وی.اس طرح ایسے اس شخص کی نسبت جس نے گھڑا الٹا کر پانی سے لیا ہو.تکلیف تو بہت اُٹھانی پڑے گی لیکن کیا اس کو پانی حاصل ہو جاتے گا.ہر گز نہیں.کیونکہ اس نے پانی حاصل کرنے کے لیے وہ طریق اختیار کیا ہے.جو غلط ہے اور اس کے زیادہ تکلیف اور مشقت اٹھانے اور زیادہ وقت خرچ کرنے سے پانی نہیں مل جائے گا.پانی اس کو لے گا جس نے گھڑے کو الٹ کر اس سے پانی نکالا ہوگا اس کی پیاس بجھ جائیگی، مگر اس کی اور زیادہ ہوگی کیونکہ ہر ایک وہ کام جس سے انسان کے جسم سے رطوبت خارج ہوتی ہے.پیاس بڑھانیوالا ہوتا ہے اور چونکہ دونے سے بھی رطوبت خارج ہوتی ہے اسلیئے پیاس بڑھتی ہے.تو کامیابی ایک حد تک مصیبت اور شکل اٹھانے کا نام نہیں بلک ان ذرائع کے استعمال کرنیکا نتیجہ ہوتی ہے جوخدا نے کسی کام کیلئے منفرد کتے ہوتے ہیں انکو چھوڑ کر خواہ کتنی محنت اور مشقت اپنے اوپر رکھ لے کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا.یہی وجہ ہے کہ مختلف مذاہب یہ اقرار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک ہی مذہب ایسا ہو سکتا ہے جس پر چل کر اصل مقصد اور مدعا حاصل ہو سکتا ہے.اسی لیے ہر ایک مذہب والے کہتے ہیں کہ ہمارا ہی مذہب سچا ہے اور باقی سب جھوٹے ہیں.گو بعض مذہب والوں نے اس کو وسیع کیا ہے.اور وہ کہتے ہیں کہ اور مذاہب کے ذریعہ بھی خدا تک انسان پہنچ سکتا ہے، لیکن جب ان سے گفتگو کی جائے تو وہ بھی یہی ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ دراصل ایک ہی مذہب ایسا ہوسکتا ، جس پر چل کر انسان کو کامیابی نصیب ہو سکتی ہے وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہر ایک مذہب والا جو اپنے مذہب کے احکام کے مطابق کام کر رہا ہے.کیا وجہ ہے کہ اسے نجات نہ ملے.ان کے اس خیال کا اگر ازالہ ہوسکتا ہے.تو اسی بات سے کہ کسی کام میں کامیابی محض محنت اور مشقت برداشت کرنے سے نہیں ہوتی.بلکہ اس کے لیے صحیح اور درست طریقی کو اختیار کرنا بھی ضروری ہوتا ہے.دیکھو ایک شخص مدرسہ میں جاتا ہے اور علم حاصل کر لیتا ہے اور ایک دوسرا شخص جنگل میں جاکر لکڑیاں کاٹتا ہے تو کیا وہ اس وجہ سے کہ مدرسہ جانے والے سے زیادہ محنت اور تکلیف برداشت کرتا ہے علم حاصل کرلے گا.نہیں بلکہ علم وہی حاصل کرے گا جو اس طریق پر عمل کریگا.جو علم کے حاصل کرنے
کیلئے مقرر ہے.تو اس طرح ہر ایک مذہب واے کو یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ تمام مذاہب میں سے ایک ہی مذہب پہنچا ہو سکتا ہے.سارے کے سارے نہیں کیونکہ کبھی ایسا نہیں ہوسکتا کہ مختلف طریق پر محنت شقت کرنے والوں کو ایک ہی نتیجہ حال ہو.اگر لیا ہوتا توقانون قدرت میں بھی اسکی کوئی مثال پائی جاتی.کہ ایک شخص جو لکڑیاں کا ختا رہتا ہے.وہ صرف علم کی خواہش رکھنے کی وجہ سے عالم بن جاتا ہے لیکن کبھی ایسانہیں ہوا.اور نہ ہو سکتا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ خدا کا قانون یہ نہیں ہے کہ محنت و مشقت ایک ہی نتیجہ پیدا کرے اور اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ کسی مقصد اور مدعا میں اُسی وقت کامیابی ہو سکتی ہے.جبکہ صحیح اور درست طریق پر عمل کیا جائے پس ہر ایک کام جس میں کامیابی حاصل کرنی ہو.اس کے لیے یہی ضروری نہیں کہ اس کے لیے محنت کریں.راتوں کو جاگیں جسموں کو تھکا دیں.ارادوں کو قربان کر دیں.مالوں کو خرچ کردیں.بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ان صحیح ذرائع کو استعمال کریں جو خدا نے اس کے لیے مقر رکتے ہیں.اگر ایسا نہیں کرتے تو پھر کبھی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی جب سے دنیا کا سلسلہ شروع ہوا ہے اس وقت سے مذہب ہدے اور بدلتے چلے آرہے ہیں.اور اسلام سب سے آخری مذہب ہے.مگر جس طرح کسی وقت یہ نہیں بدلا کہ خدا ایک ہے.اسی طرح شروع سے یہ بات چلی آتی ہے اور کبھی نہیں بدلی ک کسی کام میں انہیں ذرائع سے کامیابی ہوسکتی ہے جو اس کے لیے خدا نے مقرر کئے ہوں.ان کے نا کبھی نہیں.خواہ کتنی ہی محنت و مشقت کیوں نہ برداشت کر لی جائے صیحیح ذرائع سے تھوڑی سی محنت کر کے کامیاب ہو سکتا.مگر غلط طریق سے اس سے ہزار گنا محنت کر کے بھی کچھ نہیں حاصل کر سکتا.مثلاً علم حاصل کرنے کے جو طریقی ہیں.ان پر عمل کرے تو علم حاصل کرلے گا، لیکن اس کی بجائے اگر وہ اپنے تمام عزیزوں اور رشتہ داروں کو قتل کر دے چھت سے الٹا لٹکا رہے.بھوکا پیاسا بیٹھا رہے.اور پھر کے اللہ نصف نہیں کیونکہ فلاں توصرف مدر سے جاتا اور کتابیں پڑھتارہتا ہے، اسے علم دید یا ہے اور میں جس نے اتنی قربانیاں کیں.اتنی تکلیفیں اُٹھائیں.مجھے تو ایک لفظ بھی حاصل نہیں ہوا کیا اس کی یہ بات درست ہوگی.ہرگز نہیں، کیونکہ خدا تعالیٰ ظالم نہیں، لیکن چونکہ اس نے ان ذرائع پر عمل نہیں کیا جو خدا نے اس کام کے لیے مقرر کئے ہیں.اس لیے کامیاب نہیں ہو سکا.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو صحیح طریق پر تو عمل نہیں کرتے.ہاں بڑی محنت اور مشقت کو کامیابی کا ذریعہ سمجھ لیتے ہیں اور اس طرح با وجود بہت زیادہ محنت اور مشقت برداشت کرنے کے ناکام اور نامراد رہتے ہیں.
اس وقت میرا اس لمبی تمہید کے بیان کرنے سے ایک خاص منشاء ہے.اور وہ یہ کہ ہم لوگ دعوئی کرتے ہیں کہ ہمارے پاس وہ اسلام ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم لاتے.اور ہم خواہش رکھتے ہیں کہ اس ایمان کو حاصل کریں.جو حقیقی ایمان ہے.یہ ہم میں سے ہر ایک کی خواہش ہے اور ہر ایک اس کے لیے مقدور بھر محنت اور کوشش بھی کرتا ہے.مگر میں نے بتایا ہے کہ کوئی کام صرف محنت اور کوشش سے نہیں ہوا کرتا.بلکہ اس کا نتیجہ حسب منشاء اسی وقت نکل سکتا ہے.جبکہ اس کے لیے صحیح ذرائع سے محنت کی جائے.اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو محنت و مشقت خواہ کتنی برداشت کر لی جائے.کچھ فائدہ اور نفع نہیں ہو سکتا.پس آپ لوگوں کا جہاں یہ خیال ہے کہ اسلام اور ایمان کے لیے خواہ کوئی قربانی کرنی پڑے اس سے دریغ نہیں ہے.اور خدا کے لیے ہر ایک محجوب اور مرغوب چیز کو چھوڑنے کے لیے تیار ہو.وہاں اس چھوڑنے کا عمل ان ذرائع سے ہونا چاہیتے جو خدا نے مقر رکھتے ہیں.بہت لوگوں کو دیکھا گیا ہے.وہ چاہتے ہیں کہ خدا سے انہیں ایسا مضبوط تعلق ہو جاتے کہ جسے کوئی چیز نہ کاٹ سکے.اور انکے جسم کے ذرے ذرے میں خدا کی محبت اور الفت بھری ہوئی ہو، لیکن باوجود اس خواہش کے کہ بہت ہیں جو بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں مگر وہ مر عامال نہیں کر سکتے.ایسے لوگوں کو سمجھ لینا چاہیئے کہ ان کی کوشش اور سعی اس طریق پر نہیں ہو رہی کہ کامیابی حاصل ہو سکے.کیونکہ اللہ تعالے ظالم نہیں.یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ ایک انسان کو اس سے تعلق را کرنے کی سچی خواہش بھی ہو اور وہ صحیح ذرائع سے اس کے لیے کوشش بھی کرتا ہو مگر کامیاب نہ ہو.بعض باتوں میں ایسا ہوتا ہے.جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس کام کے لیے خدا نے سب کو پیدا نہیں کیا ہوتا.مثلاً ایک شخص پہلوان ہے.اس کا جسم خوب مضبوط اور طاقتور ہے.اور ایک اور ہے جس کے جسم کی بناوٹ کمزور ہے.اب یہ خواہ کتنی ورزشیں کرے.خوراکیں کھاتے جسم کے فربہ ہونے کے قواعد کی پابندی کرے.اس سے کچھ تو اس کا جسم مضبوط ہو جائے گا.مگر یہ نہیں ہوگا کہ پہلوان ہو جاتے کیونکہ سب انسان پہلوان بننے کے لیے نہیں پیدا کئے گئے.ہاں سب انسان ایماندار بننے کے لیے پیدا کئے گئے ہیں.پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کو ایماندار بننے کی خواہش بھی ہو.اور وہ اس کے لیے کوشش بھی کرتا ہو اور وہ کوشش صحیح طور پر بھی ہو دیگر وہ کامیاب نہ ہو سکے.اگر ایسا ہو تو پھر خدا ظالم ٹھہرتا ہے.کیونکہ اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ انسانوں میں عرفان حاصل کرنے کا مادہ ہی نہیں ہے، لیکن ایمان کے متعلق یہ بات نہیں کہی جاسکتی.تمام انسان خواہ وہ کہیں کے رہنے والے ہوں.کوئی زبان بولنے والے ہوں کیسی مذہب کے پابند ہوں.ان میں ایمان
اور ایقان حاصل کرنے کی قوت رکھی گئی ہے.کیونکہ اسی لیے خُدا نے انسان کو پیدا کیا ہے.پس اگر خواہش اور کوشش کے باوجود نتیجہ نہیں نکلتا، تو یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے کہ اس کے لیے وہ ذرائع استعمال نہیں کئے گئے جو صحیح ہیں اور جن کا یہ حال ہو ان کو یہ سمجھنا چاہتے کہ ان کی کوششیں ضائع اور ان محنتیں اکارت گئیں کیونکہ انہوں نے ان طریق پر عمل نہیں گیا.جو خدا نے مقرر کئے ہیں.ایمان اور ایقان کے حاصل کرنے کے طریق دو قسم کے ہوتے ہیں.مثلاً علم پڑھنے میں ظاہری سامان تو یہ ہیں کہ انسان مدرسہ جاتا رہے.کتا ہیں اس کے پاس ہوں.یہ تو اس کے اختیار میں ہے لیکن یہ اختیار میں نہیں کہ ہر ایک وہ بات جو اُسے بتائی جاتے.وہ اس کی سمجھ میں بھی آجائے.یہ مدرسہ جانے کا نتیجہ تو ہے، لیکن اس کے اختیار کی بات نہیں ہے.اسی طرح حصول ایمان کے لیے دو قسم کی باتیں ہیں.ایک وہ جن پر انسان کو اختیار ہے اور جن کے لیے وہ اپنے نفس کو مجبور کر سکتا ہے اور دوسری وہ جن پر اسے کوئی اختیار نہیں اور نہ ہی نفس کو ان کے لیے مجبور کر سکتا ہے.ہاں وہ پہلی قسم کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں.تو گویا یوں کہنا چاہیئے کہ حصول ایمان کے لیے وہ ذرائع ہیں جن میں سے ایک کے لیے تو انسان بلا واسطہ مجبور ہے.اور دوسرے کے لیے بالواسطہ پس ایمان کے لیے عرفان کی ضرورت ہے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص بلا واسطہ نفس پر زور دیکر پیدا کرلے ، بلکہ یہ ان ظاہری اسباب پر عمل کرنے کا نتیجہ ہو گا جو انسان کے اختیار میں مہیں یعنی وہ کام جن کے کرنے کا اُسے حکم دیا گیا ہے.ان کوعمل میں لاتے.اور جن سے روکا گیا ہے.ان سے باز رہے.اگر وہ ایسا کرے گا تو اس صورت میں لازمی نتیجہ عرفان پیدا ہوگا اور اگر ایسا نہیں کریگا.تو اس کے بغیر امان نصیب نہیں ہو سکے گا.تو عرفان پیدا کرنے کا انسان کو حکم ہے مگر اس کے لیے وہ اپنے نفس کو مجبور نہیں کر سکتا.ہاں جن اسباب سے وہ پیدا ہوتا ہے.ان کے لیے مجبور کر سکتا ہے.کئی لوگ ان اسباب کو کام میں لائے بغیر عرفان حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ناکام رہتے ہیں.بعض صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں خدا سے محبت ہے.اس لیے عرفان حاصل ہو جانا چلیئے حالانکہ محض محبت کا اقرار کرنے سے عرفان حاصل نہیں ہوسکتا.بلکہ محبت کے ظہور کی بھی ضرورت ہے.تو بعض لوگ اس لیے کامیاب نہیں ہوتے کہ غلط طریق اختیار کرتے ہیں اور صحیح کو چھوڑ دیتے ہیں اور بعض اس لیے کہ تمام طریقوں پر عمل نہیں کرتے.بعض پر کرتے ہیں.اس لیے ان کا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا.ان کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے.جیسے ایک شخص مکان تعمیر کرنے کے لیے دو دیواروں کو تو
پچاس پچاس فٹ بلند کر دے اور باقی دو کو بالکل چھوڑ دے.اس کا مکان کبھی مکمل نہیں ہو سکے گا ہاں وہ شخص جو چاروں دیواروں کو دن دس فٹ بلند کر لیتا ہے.اس کا مکمل ہو جائے گا.تو بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ذرائع استعمال کئے جاتے ہیں.اور صحیح ذرائع ہوتے ہیں مگر چونکہ سارے نہیں ہوتے.اس لیے میں طرح بعض دیواروں کے بلند کر لینے سے مکان مکمل نہیں ہو سکتا.اسی طرح ایمان بھی مکمل نہیں و سکتا.اس لیے نہایت ضروری ہے کہ سارے ذرائع پر عمل کیا جائے.یہ نہیں کہ دن رات نمازیں ہی پڑھتا رہے.مگر روزے چھوڑ دے.یا سارا سال روزے رکھا کرے، مگر نمازیں ترک کر دے بے شک یہ ذرائع ہیں اور درست ذرائع ہیں.مگر ایک کو چھوڑ کر دوسرے پر زیادہ زور دینے سے کامیابی نہیں ہوسکتی پس ایان کوجو دیواریں مکمل کرتی ہیں.اگران میں سے کسی ایک کو بھی پورا نہیں کیا جاتا تو کامیابی نہیں ہو سکتی.میں نے جو آیت اس وقت پڑھی تھی.اس سے ایمان کو قائم کر نیوالی ایک دیوار بتانا چاہتا تھا مگر وقت نہیں رہا.اس لیے پھر جب اللہ تعالے توفیق دیگا بیان کروں گا ؟ الفضل ۱۶ فروری شالله )
6 کامل ایمان کس طرح حاصل ہوتا ہے؟ فرموده ۸ فروری شاه حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی :.ولا يَا تِلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمُ والسَّعَةِ أَن يُوتُوا أُولِي الْقُربى والمَكِينَ وَالمُهَا جِرِينَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَلْيَعْفُوا وَلَيَصْفَحُواء الاتُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللهُ لكُمُ وَ اللهُ غَفُورٌ رَّحِيمُه والنور : ٢٣) اور فرمایا : میں نے پچھلے جمعہ اس امر کے متعلق بیان کیا تھا کہ جب تک کسی کام کے لیے صحیح ذرائع کو استعمال نہ کیا جائے اور ان سامانوں سے کام نہ لیا جائے جو خدا تعالیٰ نے اس کام کے لیے حیا فرمائے ہوں.اُس وقت تک کوئی شخص اس کام میں کامیاب نہیں ہو سکتا.کیونکہ کسی کا محض کوشش کرنا اور شوق رکھتا دلیل نہیں ہے کہ جس مقصد کے لیے وہ ایسا کرتا ہے.اس میں کامیاب بھی ہو جائے گا کیونکہ اگر طریق عمل صحیح نہیں تو پھر کامیابی بھی نہیں میں طرح ایک لکڑی کاٹنے والا اور لوہار باوجود ایک طالبعلم سے زیادہ محنت کرنے کے علم حاصل نہیں کر سکتا.اگرچہ تکلیف زیادہ اُٹھاتا ہے.کیونکہ یہ طریق علم حاصل کرنے کا نہیں.اسی طرح کوئی شخص ایک الیا طریق اختیار کر کے جس میں گو محنت اور مشقت زیادہ برداشت کرنی پڑے، لیکن وہ اس کام کے لیے مقرر نہ کسی کام میں بھی کامیاب نہیں ہوسکتا.دیکھو لکڑ ہارے اور طالبعلم میں سے کہ ایک با وجود زیادہ کوشش اور محنت کرنے کے علم حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے اور دوسرا کم محنت کے ساتھ کامیاب ہو جاتا ہے یا مثلاً اگر کوئی کروڑ پتی اپنی ساری دولت لوگوں کو لٹا دے کہ اسے علم سائنس آجاتے، تو نہیں آئیگا، مگر ایک دوسرا شخص جو سکول کی بہت تھوڑی فیس دے اور باقاعدہ سائنس کی تعلیم حاصل کرے.وہ سائنسدان ہو جائے گا.کیونکہ یہ ان ذرائع سے کام لے گا، جو خدا نے سائنس کے حصول کے لیے بناتے ہیں.میں اسی طرح تقوے اور عرفان کے حصول کے جو ذرائع ہیں.جب تک ان سے کام نہ لیا جائے اور تفصیلی طور پران
طریقوں پر نظر نہ کی جائے جو خُدا یا اس کے رسول نے بناتے ہیں.تو کوئی کامیاب نہیں ہو سکتا.اگر کوئی شخص ایمان کے بعض حصوں کو مکمل نہیں کرتا تو وہ محفوظ نہیں ہو سکتا.مثلاً کوئی شخص مکان تعمیر کرے اور صرف دو دیواریں اونچی کھڑی کر دے اور کہے کہ میرا مکان مکمل ہو گیا.تو اسکا دعوی غلط ہوگا کیونکہ جب تک چار دیواریں نہ ہوں اور ان پر چھت نہ ہو مکان نہیں کہلا سکتا.اسی طرح جب تک ایمان کے تفصیلی اجزاء کو نہ معلوم کیا جائے اور ان پر عمل نہ ہو.ایمان کومکمل اور کامل نہیں کہا جا سکتا.پس ضرورت ہے کہ ہر ایک شخص اجزاء ایمان پر نظر رکھے.ایک شخص سارادن نماز پڑھے بیگر با وجود صاحب نصاب ہونے کے زکواۃ نہ دے.یازکواۃ دے مگر صحت اور راستہ کے پر امن ہونے کے باوجود حج نہ کرے اس کو کامل ایمان نہیں نصیب ہو گا.بعض لوگ صرف خُدا سے محبت رکھتے ہیں اور بعض کسی خاص جزو کے متعلق اپنے اندر غلو بھی پاتے ہیں.مثلاً صدقہ میں ہی اس قدر بڑھتے ہیں کہ ان کی دادوستد کی کوئی انتہا نہیں رہتی.وہ خیال کرتے ہیں کہ انکا سینہ خدا کی محبت کے جوش سے پر ہے مگر حقیقت حال یہ ہے کہ وہ ایمان کے ثمرات سے بے نصیب ہوتے ہیں اور عرفان الہی سے نامرادر اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ہی حصہ پرانکا سارا زور ہوتا ہے اور باقی حصوں سے بے تعلق ہوتے ہیں اور تفصیلی حصوں پر نظر نہیں کرتے.اس سے یہ ہوتا ہے کہ وہ انتباہ میں پڑ جاتے ہیں.حالانکہ یہ ان کی اپنی غلطی ہوتی ہے.پس ہر ایک شخص کو چاہتے کہ وہ ایمان کی تفصیل پر نظر ڈالے جب تک تفاصیل پر نظر نہ ہو کامیابی نہیں ہوسکتی صحیح ذرائع پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے لوگ کسی بات پر توجہ نہیں کر سکتے.بعض لوگوں کے دلوں میں عشق الہی کی ایک آگ سی لگی ہوتی ہے لیکن دیکھنے والا دیکھتا ہے کہ شخص ابھی عرفانی مقام سے بہت نیچے ہے.اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ صیح ذرائع کو استعمال نہیں کرتے.یا بعض صحیح ذرائع کو استعمال کرتے ہیں اور بعض کو نہیں.کیونکہ بعض کے متعلق خیال کر لیا جاتا ہے کہ معمولی ہیں.اور جب ایک ذریعہ کو معمولی خیال کردیا گیا.تو پھر اس پر سے توجہ اُٹھ جاتی ہے اور اس پر عمل نہیں رہتا، لیکن اس کے چھوڑنے کی وجہ سے اسی قدر ایمان کم ہو جاتا ہے جتنا اس کے ذریعہ حاصل ہو سکتا ہے اور اسی طرح جتنے ذرائع کو چھوڑا جاتے اتنا ہی زیادہ ایمان میں نقص اور کی پیدا ہوتی جاتی ہے اور بالآخر وہ کسی کام کا نہیں رہتا.ایک مثال مشہور ہے کہتے ہیں ایک شخص کو
خیال تھا ک میں بڑا بہادر ہوں.اس نے سوچا کہ بہادری کی کوئی علامت بھی تو ہونی چاہیتے.اس کے لیے اس نے شیر کی تصویر بازو پر گدوانی چاہی.پچھلے زمانہ میں گردانے کا بہت رواج تھا.وہ گودنے والے کے پاس گیا.اور جاکر کہا کہ میرے بازو پر شیر کی تصویر بنادے جب وہ بنانے لگا اور سوئی سے بازو پر ایک دو کچھ کے دیئے.تو پوچھنے لگا کیا بناتے ہو.اُس نے کہا شیر کی دوم بنا تا ہوں.اس نے کہا اگر شیر کی دم نہ ہو تو شیر رہتا ہے یا نہیں.جواب ملا کیوں نہیں.کہنے لگا پھر چھوڑ ڈوم کو کچھ اور بنا.اس نے جو سوئی چھوٹی اور اسے تکلیف ہوئی تو پوچھا کیا بناتے ہو.تو جواب ملا شیر کا بایاں کان بنا تا ہوں.کہنے لگا اگر بایاں کان نہ ہو تو شیر نہیں ہو سکتا.اس نے کہا کیوں نہیں.کہنے لگا اس کو بھی چھوڑ اور آگے بنا.غرض جب وہ سوئی لگاتے اور تکلیف ہو تو پوچھے.کیا بنانے لگے ہو.وہ کسی عضو کا نام لے دے اور وہ کہہ دے کہ اس کے بغیر بھی شیر رہ سکتا ہے یا نہیں.جواب ملے کہ ہاں.وہ کسے اس کو چھوڑ دے اور دوسرا عضو بنا.اسی طرح جب سارے اعضاء کے متعلق ہو چکا تو گودنے والے نے کہا چاہتے اپنے گھر کی راہ لیجئے.کیونکہ ایک ایک کر کے سارے اعضاء جاتے رہے تو پھر شیر کیا رہا.و شخص گودنے والے سے یہ نہیں پوچھتا تھا کہ اگر کوئی بھی عضونہ رہے تو کیا شیر رہ سکتا ہے.بلکہ وہ پوچھتا تھا کہ فلان عضو ندر ہے تو شیر رہتا ہے یا نہیں.اس کا جواب تو یہی تھا.کہ ہاں اگر یہ نہ ہو تو شیر رہ جاتا ہے لیکن شہر نام تمام اعضاء کے مجموعہ کا ہے جب وہ نہیں تو شیر نہیں.اور جب یہ کہا جائے کہ فلاں عضو بھی نہ سہی.فلاں بھی نہ سمی، تو ہی کیوں نہ کہا جائے کہ کچھ بھی نہ سی.اور اس طرح شیر تو کیا چو ہا بھی نہیں رہتی نتیجہ کیا ہوا.ہیں کہ کچھ بھی نہیں.ایسے ہی کئی انسان ہوتے ہیں.وہ تفصیل میں رہ جاتے ہیں.جب وہ ایک ایک جزو کا انکار کرتے چلے جاتے ہیں.تو باقی کچھ بھی نہیں رہتا کیونکہ ایمان تو ان کے مجموعہ کا نام ہے.بعض لوگ ڈاڑھی نہیں رکھتے.اگران کو کہا جائے کہ کیوں منڈا تے ہو تو کہیں گے کیا ایمان ڈاڑھی کے میں آگیا.ڈاڑھی رکھی تو کیا نہ رکھی تو کیا.پھر آگے قدم اُٹھنا ہے بعض کہہ دیتے ہیں بنتیں کیا ضروری ہیں.فرائض ہی اصل ہیں سینتیں نہ پڑھیں تو نہ سی.پھر بعض آگے فرائض کا بھی صفایا کرتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہیں.دل کی یاد ہی کافی ہے.بعض اس سے بھی آگے قدم بڑھاتے ہیں.کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جھوٹ نہ بولو میں انسان کو چاہیتے کہ جھوٹ نہ بولے.روزہ کی کیا ضرورت ہے جھو کے مرنے کی کچھ حاجت نہیں.پھر کتا ہے کہ تقویٰ اللہ اصل میں ایک الگ چیز ہے.اس کے لیے صدقہ و زکواۃ کی کیا ضرورت ہے.غربابہ کی پرورش صدقہ و زکوۃ پر تھوڑا ہی منحصر ہے.رزق تو سب کو خدا نے پہنچانا ہے.وہی ان کو پہنچائے گا.
غرض اسی طرح وہ ہر ایک چیز کا انکار کر دیتے ہیں.اور خالی رہ جاتے ہیں.پھر ایمان بھی ندارد ہوجاتا ہے کیونکہ ایمان تو ان سب اجزاء کے مجموعہ کا نام ہے اور ہر ایک چیز کی یہی حالت ہے کہ اس کے تمام اجزاء کا مجموعہ وہ چیز ہو گا.نہ اس کا کوئی جزو نادانی ہے کہ کوئی کہہ دے کہ کیا عرب میں حج کے لیے جانے کا نام ایمان ہے یا زکواۃ کے چند روپے دینے کا نام ایمان ہے کیونکہ اس طرح اس کا سارا ایمان ایک جزو کے ترک کرنے سے یہ جاتا ہے.مثلاً کوئی شخص آدمی کے متعلق تحقیقات کرے کہ اس میں مٹی ہے.لوہا ہے وغیرہ وغیرہ اور کے کہ لوجی آدمی.آدمی کہتے تھے.کیا مٹی آدمی ہے ؟ کیا لوہا آدمی ہے ؟ یہ تو سیح ہے کہ مٹی اور لوہا وغیرہ تو آدمی نہیں.مگر ان سب کے مجموعہ کا نام آدمی ہے.اجزاء ایمان جو ہیں وہ بطور غلاف کے ہیں.اگر اجزا بہ کو چھوڑ دیا جائے تو باقی کچھ بھی نہیں رہتا.ہر ایک انسان کو چاہتے کہ تمام اجزاء کو دیکھے اور پھر اپنے نفس پر غور کرے.اگر تمام اجزاء اس میں موجود ہوں تو ایمان ہے.ورنہ نہیں مثلاً کسی برتن میں چھید کر دیا جائے اور پھر پانی اس میں ڈالا جاتے تو پانی اس میں نہیں رہے گا.اسی طرح ایمان کے اجزاء میں سے اگر کسی جزو کو چھوڑ دیا جائے تو اس کی کمی ہو جائے گی اور اس وجہ سے اس میں سے ایمان کا مغز بہ جائے گا.پس نہایت ضروری ہے کہ کوئی جزو ایمان چھوٹ نہ جاتے.اس وقت میں نے جو آیت پڑھی تھی وہ تو رہ ہی گئی.اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اگلے جمعہ دیکھا جائے گا." 1914 ) الفضل ۱۹؍ فروری شانه )
7 کامیابی کیلئے صیح ذرائع کی ضرورت ہے ) فرموده ۱۵ فروری شایسته ) حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرماتی :- وَلَا يَأْتِلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبى وَالمَسيكين والمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَلْيَعْفُوا وَلَيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمُه (النور: ٢٣) " بعد ازاں فرمایا :- میں نے پہلے دو جمعوں میں اس امر کے متعلق کہ مومن کو اپنے ایمان کی درستگی کیلئے نہ صرف اپنے اعمال پر اجمالی طور پر نظر ڈالنی چاہیے بلہ تفصیلی طور پر دیکھنا چاہیے کیونکہ اکثر فعل محض اجمالی نظر پر اکتفا کرنا تفصیل میں جاکر غلطیاں پیدا کر دیتا ہے.بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اجمال میں تو ایک بات درست نظر آتی ہے مگر تفصیل میں جا کر اس میں غلطیاں ہوتی ہیں.اور جب تک تمام ذرائع صحیح اور پورے نہ ہوں اس وقت تک نتائج غلط یا ناقص نکلا کرتے ہیں.اور جب تفصیل سے دیکھا جائے تو نقائص نظر آجاتے ہیں.مثلاً کوئی بیمار ہو جو اپنی عام کمزوری کو دیکھ کر بغیر کسی طبیب کو دکھاتے جو کامل معائنہ بھی کرے اور مریض کے ہر عضو کو دیکھ کر نقص کا پتہ لگائے اور پھر علاج کرے.ایک مقوی دوائی شروع کر دے.مگر با وجود اس دوائی کے اس کی طاقت بحال نہ ہو تو اس دوائی کا کچھ قصور نہیں ہو گا.مثلاً فرض کرد کمزوری تو ہے قلب میں اور وہ دوائی یا علاج ہے جگر کا.یا مرض ہے کان سے متعلق اور دوائی ڈالی گتی آنکھ میں تو مر کیونکر دور ہوسکتا ہے یا اس طرح کسی اور عضو میں تکلیف ہو لیکن علاج ان کی بجاتے کسی اور کا کیا جائے تو صحت نہیں ہوگی.صحت اس وقت ہوگی جبکہ اصل نقص کو معلوم کر کے علاج کیا جائے گا.یا کسی خاص عضو میں مرض
ہوگا اور انسان اس کا پتہ لگالے گا اور پھر علاج کرے گا.اسی طرح ایک ایسا انسان جو اپنے ایمان میں نقص دیکھتا ہے وہ خیرات میں ترقی کرتا ہے اور دس روپیہ کی بجاتے ہیں روپیہ خیرات کرتا ہے لیکن فرض کرو کہ اس کے ایمان میں جو کمی ہے وہ صدر قرنہ دینے کی وجہ سے نہیں بلکہ فرائض میں کوتاہی کے سبب سے ہے تو اس کی کوشش رائیگاں جائے گی یا کسی اور حمل کے ترک کرنے کی وجہ سے ہو مگر وہ فرائض کے ماسوا نوافل اور تہجد کا بھی بہت اہتمام کرتا ہے.ان اعمال کا نتیجہ کسی اور رنگ میں تو اسے ملے گا مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ اصلی نقص جس کے باعث اسے ایمانی لذت میں کمی ہے وہ دورہ ہو.وہ اسی طرح رہے گی.میرے پاس بہت سی شکایات اس قسم کی باہر سے آتی ہیں اور یہاں بھی سنتی ہیں.میں نے ان سب کوشن کو پسند کیا کہ اس امر کے متعلق بتاؤں کہ ایمان کس طرح کامل ہوتا ہے اور ایمانی سرور اور لذت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے.پس یاد رکھنا چاہیئے کہ رُوحانی امراض میں بھی اسی طرح شفا حاصل ہوتی ہے جس طرح جسمانی امراض سے.میرے دونوں خطبوں سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ لوگ کس طرح غلطی کھاتے اور نقصان اُٹھاتے ہیں.دیکھا جاتا ہے کہ اگر ایک شخص اپنے میں خشیت الہی اور تقوی اللہ نہیں پاتا اور اس کو وہ اطمینان حاصل نہیں ہوتا جو ایمان کا نتیجہ ہے تو وہ مثلاً نمازیں زیادہ پڑھنی شروع کرتا ہے، صدقات میں بھی زیادتی کرتا ہے، لیکن ضرورت یہ ہے کہ دیکھا جاتے کہ اصل نقص کیا ہے ؟ نماز روزہ صدقہ خیرات - ان میں ہر ایک ایمان کا جزو ہے.ان میں سے کسی ایک پر بلا سوچے زور دینا اصل نقص کو دور نہیں کر سکتا مثلا آنکھ میں سرمہ ڈالے اور درد ہو کان میں تو کچھ نتیجہ نہ ہو گا.یا انگلی میں درد ہو اور زنگ لوشن یا نیلا تھوتھاڈا لے آنکھ میں تو اس کا کچھ بھی فائدہ نہ ہو گا.ضرورت تو مرض کے مطابق علاج کرنے کی ہے.ایک عمارت جو اعلیٰ درجہ کی ہو.اس میں روشن دان نہ ہو منفذ تو ہو مگر شیشے نہ لگائے گئے ہوں جن سے بارش کی بوچھاڑ اور ہوا کے جھونکے رُک سکیں اور صاحب مکان خیال کرے کہ اس مکان کے گر ڈر نہایت عمدہ ہیں.چھت بھی بہت پختہ ہے پھر ان باد و باراں کے حملوں سے کیوں تکلیف ہوتی ہے تو یہ اس کی غلطی ہے.کیونکہ اس کمی کی اصلاح گرڈروں وغیرہ کا مضبوط ہونا نہیں کر سکتا ، جو سوراخوں میں شیشے نہ ہونے کی وجہ سے ہے.اسی طرح ممکن ہے کہ کوئی شخص نماز میں نہایت چیست ہو.روزوں میں با قاعدہ ہوا اور صدقہ و خیرات میں نہایت پابند احکام شرع ہو.تاہم اس کے ایمان میں کچھ کمی ہو جس کو وہ شخص محسوس کرتا ہو.
اگر دو تفصیلی طور پر اپنے اعمال پر نظر ڈالے گا تو وہ معلوم کرلے گا کہ میرے فلاں حصہ ایمان میں کی ہے اور وہ اس کی اصلاح کرے گا.بعض دفعہ دیکھا گیا ہے کہ صیحی تشخیص کے بعد تھوڑی دوائی بھی مرض کو دور کردیتی ہے لیکن عدم تشخیص کی صورت میں ایک بڑی قیمتی دوائی بھی کچھ فائدہ نہیں دیتی.اسی طرح گو وہ اعمال جن پر ایمان کی کمی محسوس کرتے ہوئے لوگ زور دیتے ہیں.کتنے ہی مفید اور اعلیٰ درجہ کے کیوں نہ ہوں مگر ان نتائج میں وہ چیز حاصل نہیں ہوگی جس کی کمی انہیں محسوس ہوتی ہے.ہاں کبھی تو صحیح نتیجہ نکل سکتا ہے، لیکن ہمیشہ نتائج صحیح مرتب نہیں ہو سکتے.پس اگر ایمان کی تکمیل کی ضرورت ہے تو انسان کو چاہیئے کہ اپنے اعمال کی تفصیل پر نظر کرے.ہر ایک عمل کو لیکر اللہ تعالیٰ کے احکام کو دیکھے پہلے اپنے ایک عمل کو لے پھر اس کے متعلق قرآن میں دیکھے کہ کیا میر امل قرآن کے حکم کے مطابق ہے یا خلاف ہے پھر دوسرے کسی عمل کو دیکھے.پھر تیسرے کو دیکھے مثلا نخل ہے.ایک شخص زکوۃ تو مقررہ دیتا ہے.نماز روزہ کا بھی پابند ہے مگر اس کا دل مطمئن نہیں ہوگا کیونکہ نبخل جو ہے وہ اس میں پایا جاتا ہے جس کی قرآن پاک مذمت کرتا ہے کیونکہ نخل جو ہے وہ انسان کو منافقت کی طرف لے جاتا ہے یا کوئی اور شخص ہو وہ اور توتمام احکام شرعیہ پر عامل ہو مگر ظلم کرتا ہو تو وہ بھی ایمانی لذت سے محروم رہے گا اور ایمان کا کمال نہیں پیدا کر سکے گا.اس کو بھی چاہتے کہ وہ اپنے ایمان کا محاسبہ کرے اور دیکھے کہ میرے ایمان میں کوئی کمی ہے.غرض تفصیلات کے دیکھنے سے انسان میں بصیرت پیدا ہو جاتی ہے جب کوئی انسان اعمال یا عقائد پر تفصیلی نظر کرتا ہے تو اس کو وہ سوراخ نظر آجاتا ہے جس کے باعث اس کا ایمان ناقص ہوتا ہے.اس وقت وہ اس کی اصلاح کرلیتا ہے.اس لیے اس تمہید کے بعد میں چاہتا ہوں کہ تفصیلی طور پر ایمان کے متعلق بتلاوں تفصیل دو قسم کی ہے (۱) اعمال میں (۲) عقائد میں.ان میں سے کسی ایک میں بھی نقص ہو تو عرفان میں نقص ہوگا.ایمان صرف عقائد صحیحہ کا ہی نام نہیں.بلکہ اس میں اعمال صالحہ بھی داخل ہیں.دل میں عقیدہ ہو اور اس عقیدہ کا اظہار ہو اور اس کے مطابق عمل ہو.یہ ایمان ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے تینوں چیزوں کے مجموعہ کا نام ایمان رکھا ہے.پس ایمان تب ہی مکمل ہو گا جب یہ تینوں حصے قائم ہوں.ایسی حالت میں انسان پر خُدا کے عرفان کا دروازہ کھولا جاتا ہے اور وہ اس میں خدا کے جلال کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس پر ایک مدت وارد کی جاتی ہے.ممکن ہے بعض لوگوں کو اس طریق سے مستثنی کیا جائے اور خود خدا ان کو اپنی طرف کھینچ ہے مگر
عام قاعدہ یہی ہے کہ ایمان کا حصول قواعد کے ماتحت ہوتا ہے پس ضروری ہے کہ پہلے دل میں عقائد پر یقین ہو اور اس کا اظہار ہو اور اس پر عمل ہو.ایک ایمان تو صرف مان لینے کا نام ہے مگر میری ایمان سے مراد وہ ایمان ہے جو ثمرات والا ایمان ہے.زبانی ایمان نہیں.اس درخت ایمان سے مراد ہے جس کیساتھ ضروری ہے کہ عقائد صحیحہ ہوں اظہار ہو اور اعمال ہوں.اب معلوم ہونا چاہیئے کہ تفاصیل میں بعض اصول ہیں.فروعات کے نقائص اعلیٰ مدارج میں روک ہوتے ہیں، لیکن اصول میں کمی آنا ایمان کو زائل کر دیتا ہے کیونکہ اصول سے تو ایمان پیدا ہوتا ہے.فروعات میں سے اگر کسی شخص میں کچھ نقص ہے تو پھر مقابلہ اس طرح ہوگا کہ جتنی کسی فرع میں کمی ہوگی وہ اتنا ہی نیچے درجہ میں ہو گا اور جس نے جس قدر فروعات کو پورا کیا ہوگا وہ درجات عرفان میں بلند ہوگا.یہ مقابلہ ایسا ہی ہوگا جیسا کہ آم کے دو اعلیٰ درجہ کے درختوں میں ہو کہ ایک میں پھل زیادہ آئیں اور دوسرے میں کم یعنی مقدار کا مقابلہ ہوگا.ایک مکان نہایت اعلی درجہ کا تعمیر کیا جائے جو نہایت خوبصورت ہو اس میں بظا ہر کوئی نقص بھی نہ معلوم ہوتا ہو.مگر جب اس کو کوئی انجینیرز دیکھے اور دقت نظر کے بعد بتاتے کہ کچھ نقص ہے تو وه نقص فروعی ہوگا.ایسا نقص عمارت کی شان میں مضبوطی اور آرام میں کوئی نقص پیدا نہیں کرے گا پس اصول کی موجودگی میں ایمان ہے اور فروعات کی موجودگی میں مدارج عالیہ حاصل ہوتے ہیں.اب اظہار عقیدہ کے متعلق کچھ بیان کی ضرورت نہیں سوائے مختصر کے کہ کس طرح اظہار کرے مگر ضرورت اعمال کے متعلق بیان کرنے کی ہے.چونکہ اعمال ایسے ہیں جو صاف نظر آتے ہیں اس لیے میں اعمال کے حصہ کو بیان کرونگا.انشاء اللہ ارادہ ہے کہ ایک دو عمل سے کر جب تک مناسب ہو ان کی تفصیل بیان کر دیا کروں بنین بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ انکا اثردل سے دل پر پڑتا ہے صوفیاء کا طریقی تھا کہ دل سے دل کو پڑھاتے تھے وہ تمام سبق اسی طرح پڑھتے تھے.وہ بات زبان سے حاصل نہیں ہو سکتی تھی جو ایک قلب سے دوسرے قلب کو بجلی کی رو کی طرح حاصل ہوتی ہے.الفاظ کا اثر کانوں کے ذریعہ ہوتا ہے مگر الفاظ بعض کیفیات کے متحمل نہیں ہو سکتے.اصل سبق تو وہی تھے جو قلوب کے ذریعہ توجہ سے ہوتے تھے مگر آجکل کے جھوٹے صوفیوں نے جن کا نام توجہ کہا ہے یہ نہیں.وہ بچی خواہش اور کامل تزکیہ سے حاصل ہوتی ہے جس کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ظل اور بروز کہا ہے.ایک شخص خواہ کیسا ہی فصیح البیان ہو الفاظ کے ذریعہ ایک تصویر کو نہیں دکھا سکتا لیکن اگر فوٹو سامنے رکھ دیا جائے تو فوراً تصویر کی تمام چیزیں نظر آجائیں گی.یہ بی نهایت
۳۵ ار آمد اور اہم ہے لیکن اس کی طرف توجہ نہیں کی گئی پی بعض تفصیلات الفاظ کے ذریعہ ادا نہیں ہوسکتیں.بلکہ پروز کے طور پر آتی ہیں.مثلاً کوئی شخص کہتا چلا جاتے کہ ناک ایسی ہے کان ایسے میں آنکھ ایسی ہے مگر کوئی چیز ہو سو سمجھ میں نہیں آسکتی.ہاں فوٹو کے ذریعہ سب کچھ سمجھ میں آجاتا ہے.قرآن میں ایسے الفاظ کو لیا گیا ہے جو دیکھنے کے ساتھ ہی ظاہرا الفاظ سے کہیں زیادہ دل پیر اثر کرتے ہیں.اور عجیب حقائق و معارف دل پر ان بعض الفاظ سے کھلتے ہیں یہ بات میں نے حضرت صاحب کے کلام میں بھی دیکھی ہے.آپ کی کتاب کو پڑھتے ہوئے عجب عالم ہوتا ہے.آپ کے کلام سے الفاظ کے علاوہ اور معجب کیفیت دل پر طاری ہوتی ہے جو تمام الفاظ کے ذریعہ ظاہر نہیں ہو سکتی.اسی طرح قرآن مجید کو پڑھتے تو قلب میں ایک خاص حالت پیدا ہو جائے گی.میں نے حضرت صاحب کی کتاب براہین احمدیہ پڑھی.میں ہر ایک کتاب کو تھوڑے وقت میں بہت پڑھ سکتا ہوں ، لیکن برا مین احمدیہ کو میں بہت دیر میں بہت ہی تھوڑا پڑھ سکتا تھا.وجہ یہ کہ ایک ایک سطر پر دل کی حالت اور اسے اور ہوتی جاتی تھی اور نہیں معلوم ہوتا تھا کہ ہجوم مضامین کے باعث میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہوں میں ان الفاظ میں معنی مخفی ہوتے ہیں جو دل پر کھلتے ہیں ان کے پڑھنے کے بھی اُصول ہیں.غرض تفاصیل میں ایسے حصہ ہیں جن کو الفاظ میں ادا نہیں کیا جاسکتا.وہ قلبی طور پر حاصل ہوتے ہیں.بعض دفعہ خاموشی میں ہی وہ حاصل ہوتے ہیں.تاہم میں نمونہ کے طور پر اعمال و عقائد کے متعلق کچھ بیان کروں گا، لیکن وقت آج بھی نہیں رہا انشاء اللہ اگلے جمعہ میں بیان کروں گا " الفضل ۲۶ فروری شلة )
8 اعمال کی تقسیہ د فرموده ۲۲ فروری ۱۹۱ تشد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :- " میں نے پچھلے جمعہ کے خطے میں ایمان کی تکمیل کے لیے اس بات کو بیان کیا تھا کہ تفصیل ایمان جبتک انسان کو مد نظرنہ ہو.اور اس کے مطابق وہ اپنے عقائد ۲.اپنے اقوال ۳.اپنے اعمال کو درست نہ کرے اس وقت تک ایمان کامل نہیں ہوتا اور میں نے بتایا تھا کہ میر منشا ہے کہ ایک حد تک اختصار کے ساتھ نمونہ اور مثال کے طور پر اس مضمون کے متعلق بعض تفاصیل مختلف خطبوں میں سناؤں.تاکہ اس سے دوسری باتوں کے متعلق بھی آپ لوگ نتیجہ نکال لیں اور ان لوگوں کو ایمان کے مکمل کرنے کا طریقہ معلوم ہو جو واقف نہیں اور وہ اپنے ایبان کو مکمل کرنے کی کوشش کریں.کامیابی اور ناکامی کا سوال علیحدہ ہے.مگر جب تک کسی کام کے کرنے کا طریق اور طرز ہی معلوم نہ ہو.انسان اس کے متعلق کوشش بھی نہیں کر سکتا.کامیابی اور نا کامی اس بات پر مخصر ہوتی ہے کر گشتنی کوشش کی گئی، لیکن کامیابی کی اُمید اسی وقت ہوسکتی ہے جبکہ صحیح ذرائع اور درست طریق سے کوشش کی جاتے ہیں صحیح ذرائع پر مطلع کرنے کے لیے میر منشاء ہے کہ ان تین حصوں کی تفصیل بیان کروں جن کا ابھی ذکر ہوچکا ہے اور ان میں سب سے پہلے اعمال کو لیتا ہوں.لیکن اعمال کی تفصیل بیان کرنے سے پہلے یہ نہایت ضروری ہے کہ دیکھیں کہ اعمال کتنی اقسام کے ہوتے ہیں کیونکہ انسان کی عادت ہے اور اللہ تعالے نے اس کے دماغ کو ایسا ہی بنا یا ہے کہ وہ متفرق اور پراگندہ اشیاء کو ایسی خوبی اور عمدگی سے آسانی کے ساتھ نہیں سمجھ سکتا تھا جیسا کہ منقسم اور مرتب شدہ کو جب انیا.ایک انتظام اور ترتیب کے ماتحت سامنے لائی جائیں تو اس وقت انسان نہایت آسانی کے ساتھ ان کو سمجھتا اور اپنے ذہن میں محفوظ رکھ سکتا ہے.اور جب محفوظ کر لیتا ہے تو ان سے فائدہ اُٹھانا بھی اس کے لیے بہ نسبت پراگندہ اور منتشر اشیاء کے نہایت آسان ہو جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ سے مختلف علوم کے جو ماہر ہیں وہ ان علوم کو مختلف ابواب میں تقسیم کر کے پیش کیا کرتے ہیں.مثلاً ڈاکٹری ایک
علم ہے.اب یہ نہیں ہو گا کہ ایک ڈاکٹر جو اس علم کے متعلق کوئی کتاب لکھنے لگے.وہ پہلے ہاتھ کے متعلق لکھے کہ اس میں اتنی ہڈیاں اور اتنی نہیں ہوتی ہیں.اور اس سے اگلا فقرہ یہ ہو کہ ملیریا میں کونین کھلانی مفید ہوتی ہے.پھر یہ کہ آنکھیں دکھتی ہوں تو یہ دوائی ڈالنی چاہیئے.پھر یہ کہ معدہ میں درد ہو تو یہ علاج کرنا چاہیئے.پھر یہ کہ سر میں اتنی ہڈیاں ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ کوئی ایسا نہیں کرے گا کیونکہ اگر ایسا کیا جائے تو پڑھنے والوں کے ذہن میں یہ باتیں محفوظ نہیں رہ سکتیں.اس لیے ان کا پہلا کام یہی ہوتا ہے کہ پڑھنے والوں کی آسانی اور سہولت کے لیے اور فائدہ اُٹھانے کی خاطر علم کو مختلف ابواب میں تقسیم کر دیں.اس کے لیے ایک تو وہ علم تشریح قرار دیں گے، ایک مفردات کے خواص کا باب رکھیں گے.ایک مرکبات کا حصہ ہو گا.پھر ایک تشخیص مرض کا باب ہو گا.دوائی تجویز کرنے اور مریض کے ساتھ سلوک کرنے کا علیحدہ.پھر ان تمام علوم کے حصے کر دیں گے.مثلاً تشریح می کہیں انکلی کہیں ناک کہیں کان اور کہیں پیٹ کا ذکر نہیں کریں گے بلکہ اس کے لیے بھی ایک ترتیب قرار دیں گے اور اس کے ماتحت بیان کریں گے.ہمارے دیسی اطباء نے یہی ترتیب رکھی ہے کہ پہلے سر اور پھر اس کے متعلقہ اجزاء کو لیتے ہیں.پھر نیچے کے اجزاء کو اسی ترتیب سے لیتے ہیں جو خدا نے رکھی ہیں اور پاؤں تک پہنچتے ہیں یا علمی طور پر ڈاکٹروں کو جو ترتیب پسند آئے وہ رکھ لیتے ہیں.اسی طرح ادویہ کے متعلق کرتے ہیں.شاہ پرانے زمانہ میں مفردات کو علاجوں کے لیے تقسیم کر لیتے تھے کہ کان کے علاج کے لیے فلاں اور سرکے لیے فلاں.ناک کے لیے فلاں.یہ تو میں نے ایک علم کی مثال ، دی ہے اس کے علاوہ دیکھیو مدارس میں مختلف زبانیں پڑھائی جاتی ہیں ان میں بھی یہی بات مد نظر رکھی جاتی ہے، میشلاً صرف و نحو ہے اس کے متعلق یہ نہیں ہوگا کہ اس کے قواعد کو یونی بکھیر دیا جائیگا کہیں دوب (PPD کا ذکر اور اس کو بیچ میں ہی چھوڑ کر کوئی اور بیان آجائے اور پھر ADVERB کا یا یہ کہ فاعل مفعول حال استثنا- جار وغیرہ کو آپس میں گڈ مڈ کر دیا جائے.بلکہ ان سب کو علیحدہ علیحدہ بابوں میں اور الگ الگ کر کے بیان کیا جائے گا.اور کسی کتاب کی خوبی کے لیے یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ آیا اس کے لکھنے والے نے مضمون کو طبعی ترتیب کے مطابق تقسیم بھی کیا ہے یا نہیں.یہی بات تمام کاموں میں ہوتی ہے.حتی کہ زمینداروں کو دیکھو.تو وہ بھی اپنے کاموں کو کئی حصوں میں تقسیم کرتے ہیں.مثلاً ہل جوتے میں تو یہ نہیں کرتے کہ کچھ ہل ایک جگہ چلائیں اور باقی کھیت چھوڑ کر کچھ دوسری اور پھر تیری.چوتھی جگہ.بلکہ وہ حصے تقسیم کرتے ہیں اور ان میں باری باری ہل چلاتے ہیں.اسی طرح ہونے میں بھی ایک ہیں ترتیب ان کے مد نظر ہوتی ہے اور اس کے چھوڑنے سے بہت سے نقائص پیدا ہو جاتے ہیں.اسی
طرح مکانات ہیں اگر ایک مکان ہزار مرہ کا ہومگر کسی ترتیب سے کمرے بنے ہوں تو ایک نظر دیکھیک انسان اس کا نقشہ بتا دے گا، لیکن اگر سو گرہ بھی ایسی بے ترتیبی سے بنا ہو کہ کسی کا کسی طرف رُخ ہو اور کسی کا کسی طرف تو خواہ ایک ایک کمرہ دیکھ لیا جائے تو بھی ذہن میں پورا نقشہ نہیں حم سکے گا مثلا ہمارا اور ڈنگ ہاؤس ہے.اس کو ایک نظر دیکھ کر انسان بتا سکتا ہے کہ کس صورت کا ہے، لیکن اگر اتنے ہی کمرے پراگندہ اور بے ترتیب طریق سے بنے ہوں تو نہیں بتا سکے گا.تو تر تیب بڑی ضروری ہے اور کسی چیز کے ذہن میں قائم رکھنے اور سمجھنے کے لیے نہایت ضروری ہے کہ اسے مختلف ابواب میں تقسیم کیا جائے.اور پھر فصلوں میں کیونکہ اس طرح انسان آسانی سے سمجھ سکتا ہے اسی لیے اعمال کی تفصیلی بیان کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اعمال کی ترتیب مقرر کر لی جائے.اور جب ترتیب مقرر ہو جائیگی تو بہت سی باتیں جو یوں ذہن سے نکل جاتی ہیں محفوظ ہو جائیں گی.اور آسانی سے سمجھ میں آجائیں گی.میرے نزدیک ایک موٹی تقسیم اعمال کے ابواب کی اس طرح ہو سکتی ہے کہ ایک تو تم پہلی بڑی تقسیم یوں کریں کہ کچھ اوامر ہی اور کچھ نواہی یعنی بعض جگہ تو حکم ہے کہ انسان فلاں کام کرنے کیلئے آگے بڑھے اور بعض جگہ یہ ہے کہ فلاں کام اگر سامنے آجائے تو اس سے پیچھے ہٹ جاتے پس کسی کام کے کرنے سے پیچھے ہٹنے کا نام نہی اور اس کے کرنے کے لیے آگے بڑھنے کا نام امر ہے.شریعت کے یہ دو بڑے بڑے ستون ہیں.جن میں سے ایک اوامر یعنی کچھ کام کرنے کے متعلق ہے اور دوسرا نواہی یعنی کچھ کاموں سے رکھنے کے متعلق.یہ تو دوبڑے بڑے حصے ہوئے اور جس طرح علماء نے علم نحو کے ایک حصہ کا نام صرف اور دوسرے کا نام نحو رکھ دیا ہے اسی طرح اللہ تعالی کی طرف سے ایمان کی تکمیل کیلئے جو انسانوں کو اعمال کے متعلق ہدایتیں ملی ہیں ان کو دو حصوں میں منقسم کر دیاگیا ہے.جن میں سے ایک حصہ کا نام او امر اور دوسرے کا نوا ہی ہے.پھر ان کی آگے تقسیم کی گئی ہے.لیکن اوامر کے بڑے بڑے حصے دو ہیں.ایک وہ جو بندہ کے خدا کی مخلوق کے تعلقات کے متعلق ہیں یعنی وہ احکام شریعت جن میں بتایا گیا ہے کہ بندہ کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے کیا اور کس طرح معاملہ کرنا چاہیئے.اس مخلوق میں اس کا اپنا وجود بھی شامل ہے.اور دوسرے تمام انسان بھی خواہ وہ کسی مذہب و ملت کے ہوں.پھر ہرقسم کے انور ملائکہ انبیا، غرضیکہ تمام چھوٹی بڑی مخلوق شامل ہے.اور دوسرا حصہ وہ ہے میں میں بتایا گیا ہے کہ بندہ کو خدا سے کیا معاملہ کرنا چاہتے.یہ تو اوامر کے حصے ہوتے.اسی طرح نوا ہی بھی دو حصوں میں منقسم ہے.ایک یہ کہ ایک انسان کو دوسری مخلوق سے کیا کیا
معاملات اور سلوک نہیں کرنے چاہئیں.اور دوسرے یہ کہ ایک انسان کو خدا کے متعلق کیا کیا بات نہیں کرنی چاہیئے.پھر ان کی آگے تقسیمیں ہیں.احکام کی بھی اور نواہی کی بھی.مثلاً یہ کہ بندہ کو مخلوق سے کیا سلوک کرنے چاہتیں.اس کی تقسیم یوں ہے کہ ایک تو وہ سلوک ہیں جن میں انسان کو کوئی تکلیف کسی قسم کی نہیں اُٹھانی پڑتی اور اس کے کرنے میں اس کا کوئی حرج اور نقصان نہیں ہوتا لیکن دوسرے کو فائدہ پہنچ جاتا ہے.دوسرے وہ ہیں کہ جن میں اس کا تو پہلی طرح ہی نہ کچھ خرج ہوتا ہے نہ نقصان، لیکن کسی اور مخلوق کا اس سلوک کے نہ کرنے سے نقصان ہو جاتا ہے تیرے وہ ہیں کہ جن میں اس کا بھی فائدہ ہوتا ہے اور کسی اور مخلوق کا بھی.اور چوتھے وہ ہیں کہ جین میں اس کا نقصان ہوتا ہے اور دوسرے کا فائدہ.پہلا تو یہ کہ اس کے کرنے سے انسان کا اپنا کچھ نقصان نہیں ہوتا.مگر دوسرے کو فائدہ پہنچ جاتا ہے.دوسرا یہ کہ اس کا تو کوئی نقصان نہیں ہوتا لیکن نہ کرنے سے دوسرے کو نقصان پہنچ جاتا ہے.تیسرا یہ کہ اس میں اس کا اپنا بھی فائدہ ہوتا ہے اور دوسرے کا بھی.چوتھے یہ کہ اس کا اپنا نقصان ہوتا ہے مگر دوسرے کو فائدہ پہنچ جاتا ہے.اور یہ حصہ پہلے تینوں سے زیادہ قابل قدر اور لائق تعریف ہے کیونکہ پہلے درجہ میں اس کا کچھ نقصان نہیں تھا، مگر دوسرے کو فائدہ تھا.اور دوسرے درجہ میں اس کا کچھ نقصان نہیں تھا، مگر دوسرے کا تھا اور میرے درجہ میں اس کا اپنا بھی فائدہ تھا اور دوسرے کا بھی، لیکن چوتھا درجہ وہ تھا کہ جس میں اس کا نقصان تھا اور دوسرے کا فائدہ.یہ چار قسم کے اعمال ہوتے ہیں اور انہیں میں سارے اعمال تقسیم ہو جاتے ہیں.اس طرح نواہی کی تقسیم ہے.ایک تو اس کام سے روکا جاتا ہے کہ جس کو اگر انسان کرے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، لیکن کسی اور کو اس سے نقصان پہنچ جاتا ہے.دوسرے وہ کام کہ نہیں کو اگر کرے تو اس کی ذات کو اس سے نقصان پہنچ جاتا ہے گو کسی اور کو پہنچے یا نہ پہنچے.تیسرے وہ کام کہ جس کے کرنے سے اس کی ذات کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور دوسرے کو بھی اور چوتھے وہ کام کہ جن کے کرنے سے اس کا کوئی فائدہ ہوتا ہے لیکن اس سے دوسرے کا نقصان ہو جاتا ہے.پس جس طرح اوامر کی قسمیں ہیں نواہی کی بھی کئی قسمیں ہیں.پھر ایک اور بھی تقسیم ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک وہ اعمال جو انسان کے جسم سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک وہ جو عقائد اور خیال ہے.ایک وہ جو رشتہ داروں اور عزیزوں سے تعلق رکھتے ہیں.اور ایک وہ جو دشمنوں اور مخالفوں سے تعلق رکھتے ہیں ان میں بھی اوامر و نواہی یں جیبیں اس رنگ میں اعمال کو تقسیم کر کے دیکھیں تو آسانی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ کون سے اعمال قابل اصلاح ہیں یا کن پر توجہ
نہیں ہے یا کن میں نقص پایا جاتا ہے، لیکن اگر پراگندہ طور سے ان پر نظر کریں تو پھر مشکل پیش آجاتی ہے اور اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ یہاں یہ لوگ جو بیٹھے ہیں ان کو اگر کوئی گننے لگے تو اس کے لیے بہت مشکل ہوگا اور بعض کو وہ کئی کئی بار گن جائے گا یا بعض رہ جائیں گے لیکن جب میں آدمی صفیں باندھ کر کے کھڑے ہوتے ہیں اس وقت ایک بچہ بھی آسانی کے ساتھ گن سکتا ہے تو بعض لوگ اعمال کو ترتیب کے ساتھ نہیں دیکھتے اس لیے کئی اعمال ان کی نظر سے رہ جاتے ہیں.وہ اپنی طرف سے پوری توجہ اور غور سے کام لیتے ہیں مگر ان اعمال کا پتہ نہیں لگا سکتے جن میں نقص ہوتا ہے یا جو زیر عمل ہی نہیں آتے.لیکن اگر وہ ابواب میں تقسیم کر لیں تو پھر آسانی سے پتہ لگا سکیں کے کرکون سے کام کرنے کے ہیں جنہیں ہم نہیں کرتے یا پوری طرح نہیں کرتے اور کون سے کام نہیں کرنے کے ہیں جنہیں ہم کرتے ہیں.پسی چونکہ تکمیل ایمان کے لیے اعمال کی تقسیم ضروری ہے.اس لیے ہر ایک انسان کے لیے نہایت ضروری ہے کہ اعمال کی تقسیم کر کے انہیں دیکھے اس سے اسے کئی اعمال ایسے معلوم ہو جائیں گے کہ یوں کبھی اس کے خیال میں بھی نہ آنے کہ کرنے چاہئیں.اسی طرح کئی ایسے معلوم ہو جائیں گے جن کا ترک کرناضروری ہے اور یہ پہلا سبق ہے اس کے بغیر تکمیل ایمان مشکل اور بہت مشکل ہے.اس لیے نہایت ضروری ہے که انسان اعمال کی تقسیم کرے.انہیں بابوں میں تقسیم کر کے پھر ان کی فصلیں بنائے.لکھے پڑھے انسان تو تو سمجھتے ہیں کہ باب اور فصلیں کیا ہوتی ہیں، لیکن ان پڑھ زمیندار نہ سمجھتے ہوں گے، اس لیے وہ یوں سمجھے ہیں کہ جس طرح وہ اپنی آسانی کے لیے زمین کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرتے اور پھران میں پیارے بناتے ہیں.اسی طرح یہ ہے.کیاروں کا وہ بآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان میں بو بار ہوا چارہ کتنے دنوں کے لیے کافی ہوگا، لیکن اگر چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم نہ کیا جاوے تو جس طرح ٹھیک اور آسانی کے ساتھ اندازہ نہیں لگ سکتا.اسی طرح تکمیل ایمان کے لیے ضروری ہے کہ اعمال کی تبویب اور تقسیم کریں حصے بنائیں اور پھر ان کی جو شاخیں ہیں ان پر غور کریں کہ ان میں کون سے کام کہتے ہیں اور کون سے نہیں اور کون سے نہیں کرنے چاہئیں.اس سے نہایت آسانی کے ساتھ پتہ لگ جائے گا اور میں حصہ میں کمی ہوگی اس کا علم ہو جائے گا دیکھو ایک گاؤں کے آدمی گننے کے لیے اگر کوئی یونی بغیر کسی تقسیم اور ترتیب کے گنا شروع کر دے تو کئی آدمی اس کی گنتی سے رہ جائیں گے اور اس طرح م مشکل بھی پیش آئے گی لیکن اگر پہلے وہ یہ دیکھے کہ کتنے گھر ہیں اور پھر یہ کہ ہر ایک گھر میں کتنے آدمی ہیں تو اس طرح آسانی کے ساتھ سب کو گن لے گا.یہی حال اعمال کا ہے.ان کے محاسبہ کے لیے ضروری ہے کہ ابواب میں تقسیم کیا جائے.اس کے بعد ہر ایک باب میں دیکھا جاتے کہ کتنی باتیں ہیں.پیس
محاسبہ کرنے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ پیشتر اس کے کہ خدا تمہارا محاسبه گر سے تم خود اپنے نفسوں کا محاسبہ کر دیا کیا پتہ ہے کہ ایک ایسی چیز جو تمہارے پاس نہیں چاہیئے تھی وہ آگئی ہو اور جو چاہتے تھی اسے تم بھول گئے ہو.اس لیے ضروری ہے کہ پہلے خود اس کا محاسبہ کرو اور اس کے لیے میں نے بتایا ہے کہ جب تک اعمال کے کئی حصے نہ مقرر کئے جائیں اور پھر ان کے جو اجزاءہ ہیں ان کو نہ لیا جائے اس وقت تک محاسبہ ہو ہی نہیں سکتا.پیس انسان کو چاہیئے کہ ان سب کو سامنے لاتے اور دیکھے کہ کن باتوں کے کرنے کا اسے حکم دیا گیا ہے مگر وہ نہیں کرتا.یا کن سے اُسے روکا گیا ہے مگر وہ نہیں لگتا ، اس کے بعد اسے معلوم ہو جائے گا کہ وہ کون سی شگافیں اور دراڑیں ہیں کہ جن کی وجہ سے مکان کا پورا پورا فائدہ اسے نہیں پہنچتا تھا کیونکہ بعض ضروری اور اہم مسائل رہ گئے تھے.بعض کام کرنے کے تھے جو نہیں کرتا تھا.اور بعض نہیں کرنے کے تھے جو کرتا تھا تو تکمیل ایمان کے لیے محاسبہ ضروری ہے اور محاسبہ اس وقت تک ہو نہیں سکتا.جبتک کہ اعمال کو تقسیم نہ کیا جائے ، اس لیے تقسیم اعمال ضروری ہے.میرا منشاء ہے کہ اس تقسیم میں سے پہلے میں اوامر کولوں اور اوامر میں سے بھی ان کو پہلے بیان کروں جو ہندوں کے مخلوق کے معاملات کے متعلق ہیں.کیونکہ یہ در حقیقت ان معاملات کی تکمیل کیلئے ضروری ہیں جو بندہ کو خدا کے لیے کرنے پڑتے ہیں.پھر اللہ تعالے چاہیے تو اس حصہ کے متعلق کچھ مثالیں بیان کروں گا جو بندوں کے خدا کے معاملات کے متعلق ہیں.پھر نواہی میں سے پہلے ان کو لے لیا جائے گا جو بندوں کے مخلوق کے ساتھ ہیں.پھر وہ جو بندوں کے خدا کے ساتھ ہیں.یا ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پہلے ان اوامر کو لیا جائے جو بندوں کے بندوں کے ساتھ ہیں.پھر ان نوا ہی کو لے لیا جائے جو بندوں کے بندوں کے ساتھ ہیں.اس کے بعد بندوں کے خدا کے متعلق جو اوامر ہیں ان کو لیا جائے اور پھر خدا کے متعلق جو نوا ہی ہیں ان کو لے لیا جائے لیکن پہلے اوامر کو لیتا ہوں پھر نواہی کولوں گا.اوامر کے متعلق جو نہایت اہم اور ضروری احتیاط ہے اور نواہی کے متعلق بھی یہی ہے بلکہ تمام اعمال کے متعلق یہی ہے کہ انسان کسی چیز کو چھوٹا نہ سمجھے کیونکہ در حقیقت کوئی چیز چھوٹی ہے نہیں کوئی نہیں جانتا کہ کسی چیز کے کیا نتائج نکلیں گے.بہت دفعہ ایک چیز کو نہایت معمولی اور چھوٹی سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کے نتیجے بہت بڑے خطرناک نکل آتے ہیں.اسی طرح کئی بار ایک چیز کو بڑا اور غیر معمولی قرار دیا جاتا ترمذی کتاب القیامة
ہے، لیکن نتائج کے لحاظ سے بہت چھوٹی ثابت ہو جاتی ہے.بات اصل میں یہ ہے کہ چھوٹی یا بڑی چیز کا لحاظ اس کے نتائج پر ہوتا ہے ایک ایسی چیز جو بظاہر چھوٹی نظر آتی ہے، لیکن اس کے نتائج بہت بڑے نکلتے ہیں وہ چھوٹی نہیں بلکہ بڑی ہے.اسی طرح ایک ایسی چیز جو بظاہر بڑی نظر آتی ہے لیکن اس کے نتائج بہت معمولی نکلتے ہیں وہ بڑی نہیں بلکہ چھوٹی ہے.مگر نادان انسان ان کے ظاہر کو دیکھ کر بڑی چھوٹی قرار دے لیتا ہے جو بالکل غلط اور نا درست ہے کیونکہ نتائج کو دیکھے بغیر ایسانہیں کرنا چاہیئے.اسی طرح کئی لوگ اعمال کے ظاہر کو دیکھ کران کو چھوٹا بڑا فرار دے لیتے ہیں.حالانکہ اعمال کے چھوٹے بڑے ہونے کے اور ہی معنے ہیں جو عام طور پر لوگ نہیں سمجھتے.دیکھو کرنے یا نہ کرنے کے لحاظ سے چھوٹی بات بڑے اور بڑی چھوٹے نتائج پیدا کیا کرتی ہے.اس لیے اعمال کے لیے ضروری ہے کہ کسی کو چھوٹا نہ سمجھے.ایک ہی بات ہوتی ہے جو ایک کے لیے چھوٹی مگر دوسرے کے لیے بڑی ہوتی ہے.یات یہ ہے کہ دنیا میں بعض لوگ لا ابالی طبیعت کے ہوتے ہیں اور بعض بُزدل اور سُست ان دونوں قسم کی طبیعتوں کے لحاظ سے چھوٹی بات بڑی اور بڑی چھوٹی ہو جاتی ہے وہ لوگ جولا ابالی طبیعت رکھتے ہیں ان کے لیے وہ چیزیں جنہیں دنیا چھوٹی سمجھتی ہے بڑی ہوتی ہیں اور جن کو دنیا چھوٹی سمجھتی ہے بڑی ہوتی ہیں اور جن کو دنیا میں بڑا سمجھا جاتا ہے وہ ان کے لیے چھوٹی.اس کے برعکس وہ لوگ جو گست اور کسلمند ہوتے ہیں ان کے لیے وہ اشیاء جنکو بڑا کہا جاتا ہے بڑی ہوتی ہیں اور جن کو چھوٹا کہا جاتا ہے وہ چھوٹی.تو در حقیقت بڑی اور چھوٹی چیزیں انسان کے اعمال کے لحاظ سے ہوتی ہیں.یعنی جس کو انسان کر سکے وہ چھوٹی اور جس کو نہ کر سکے یا مشکل سے کر سکے وہ بڑی ہوتی ہے مثلاً ایک چیز ایک انچ زمین پر پڑی ہو اور دوسری دس انچ زمین پر اب ایک انچ جگہ گھیرنے والی چیز ہلکی ہوگی اور دس انچ جگہ گھیرنے والی بھاری، لیکن اُٹھانے کے لحاظ سے ایک انچ والی بڑی ہو جائے گی اور دس انچ والی چھوٹی کیونکہ دس انچ والی کی نسبت ایک انچ والی زیادہ مشکل اور محنت سے اُٹھائی جائے گی.تو بڑی چھوٹی چیز انسان کی اپنی طاقت اور ہمت کے لحاظ سے ہوتی ہے.اسی وجہ سے وہ لوگ جو لا ابالی طبیعت کے ہوتے ہیں گو دلیر اور بہا دور ہوتے ہیں مگر بعض باتوں کو چھوٹا سمجھ کر ان کو عمل میں نہیں لاتے اس لیے وہی ان کے لیے بڑی ہو جاتی ہیں اور جو کاہل اور سست ہوتے ہیں اور بزدل ہوتے ہیں.ان کے لیے بظاہر چھوٹی باتیں چھوٹی اور بظا ہر بڑی بڑی ہوتی ہیں.اس سے معلوم ہو گیا کہ وہی باتیں جو ایک کے لیے چھوٹی ہوتی ہیں.دوسرے کے لیے بڑی ہو جاتی ہیں.اور و جو دوسرے کے لیے بڑی ہوتی ہیں.وہ ایک کے لیے چھوٹی ہوتی ہیں.جیسا کہ رسول کریم صل اللہ علیہ لم
ایک مقام سے گزر رہے تھے تو فرمایا.یہ جو دو قبریں ہیں ان میں دفن ہونے والوں کو جن باتوں پر عذاب دیا جا رہا ہے وہ چھوٹی ہیں مگر پھر بھی بڑی ہیں.فرمایا ایک تو وہ ہے جو پیشاب کرتا تھا اور اس کی چھینٹوں سے پر ہی نہ کرتا تھا اور دوسرا وہ ہے جو چغل خوری کرتا تھا یہ تو فرمایا کہ دوچھوٹی باتوں کی وجہ سے عذاب دیتے جارہے ہیں مگر ہیں وہ بڑی.اب اس کے متعلق کوئی کہ سکتا ہے کہ یہ عجیب بات ہے.ایک چیز چھوٹی بھی ہو اور پھر بڑی بھی.اگر وہ چھوٹی ہے تو بڑی کس طرح ہوئی اور اگر بڑی ہے تو چھوٹی کس طرح دیگر یہ اس طرح کہ بعض وہ لوگ جو تہمت اور استقلال اور بہادری رکھتے ہیں.وہ بڑے بڑے کا موں کو تو کرتے ہیں، لیکن وہ باتیں جو ان کی نظر میں معمولی اور چھوٹی ہوتی ہیں ان کو لا ابالی طبیعت کی وجہ سے ترک کر دیتے ہیں اور ان کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے اور بعض وہ لوگ جو بزدل کمزور اور سمت اور کم حوصلہ ہوتے ہیں وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی تو بڑی احتیاط کرتے ہیں مگر بڑی بڑی کو بالکل چھوڑ جاتے ہیں.اس کی مثال عام طور پر دنیا میں مل جاتی ہے.کتی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنا مال و جان دین کے لیے دینے کو تیار ہونگے.نمازیں باقاعدہ اور بلا ناغہ پڑھیں گے روزے رکھیں گے زکوۃ دیں گے مگر ساتھ ڈاڑھیاں منڈوائیں گے یا شریعیت میں جتنی بھی رکھنے کا حکم ہو اتنی نہ رکھیں گے.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈاڑھی منڈوانے سے منع کہ وہ فرمایا ہے.یہ ان کا لا ابالی پن ہوتا ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے بڑے بڑے احکام مانتے ہیں تو ڈاڑھی کا کیا ہے.کیا ایمان ڈاڑھی کے بالوں پر آرہا ہے کہ اگر نہ ہونگے تو ایمان بھی نہ ہوگا.یہ تو ہوئی لا ابالی طبیعت کے لوگوں کی مثال.دوسری قسم کے لوگوں کی مثال یہ ہے بعض ایسے ہوں گے جو دوسروں کے مال کھا جائیں گئے ھوگا اور فریب کر گزریں گے نظلم وستم سے باز نہ آئیں گے لیکن اگر کسی کا پاجامہ ٹخنے سے نیچے دیکھ لیں گے تو آگ بگولہ ہو جائیں گے.اگر سجدہ میں ہاتھ کھلے نہ ہوں گے تو فتویٰ لگا دیں گے کہ نماز ہی باطل ہوگئی ہے.اس قسم کی باتیں ادنیٰ طبیعت اور کمزور طبائع کے لوگ کیا کرتے ہیں.وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑا بنا کر دکھاتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہو کہ ہم بھی کچھ کر رہے ہیں.مثلاً ڈاڑھی کے متعلق کہیں گے تریہی سارا اسلام ہے پاجامہ ٹخنہ چھوڑ پنڈلی سے بھی اوپر چڑھالیں گے اور کسی کو انگریزی وضع کا کوٹ پہنے ہوئے دیکھیں گے تو جھٹ فتوی لگا دیں گے کہ یہ سنت کے خلاف ہے.رسولِ کریم کے وقت ایسا کوٹ نہیں پہنا له بخاری کتاب الوضو باب من الكبائر أن لا يستتر من بوله : ته بخاری کتاب اللباس اب تعلیم الاطفار
جاتا تھا ، لیکن یوں دین کے لیے ایک پیسہ خرچ کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوں گے اور ذرا ذراسی باتوں پر اسلام کو پس پشت پھینک دیں گے.تو ایسے لوگ چھوٹی باتوں کو بڑا اور اہم قرار دیا کرتے ہیں تا کہ اس طرح اپنی بزدلی اور کم ہمتی کو چھپائیں.گو اس بات کا ان کے دل میں احساس نہ بھی ہو.مگر بات یہی ہے کہ انکے اندر کمزوری اور نیز دلی اور شستی کا جو مادہ ہوتا ہے.وہ انہیں اس طرف لے جاتا ہے اور و معمولی معمولی باتوں کو بڑا سمجھنے لگ جاتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ اسلام کے لیے ہر ایک تکلیف اور مشکل اُٹھانے کے لیے تیار ہوں گے جان و مال خرچ کر دیں گے اور ہر ایک قربانی کرنے پر آمادہ ہوں گے.لیکن بعض باتوں کو چھوٹا اور معمول سمجھ کر ان کی طرف توجہ نہیں کریں گے.کئی ایسے ہی انسان ڈاڑھیاں منڈا ئیں گے یا اور اسی قسم کی کوئی بات کریں گے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت جہاں شریعیت کے دوسرے احکام پہنچے ہیں وہاں آپ ہی نے ڈاڑھی رکھنے کا بھی حکم فرمایا ہے لیک تو احکام کی تفصیل پر نظر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس بات کو مد نظر رکھا جائے اور چھوٹائی بڑائی کا انحصار اس پر نہ رکھا جائے کہ فلاں مولوی یا صوفی نے فلاں فعل کو بڑا قرار دیدیا ہے اس لیے وہ بڑا ہے یا فلاں کو چھوٹا قرار دیا ہے اس لیے وہ چھوٹا ہے بلکہ اپنی طبیعت کو دیکھے کہ کس کام کے کرنے کی طرف میری طبیعت مائل ہوتی ہے اور کسی کی طرف نہیں لیکن اگر ایسا فعل ہے جس کو چھوٹا قرار دیا گیا ہے لیکن وہ نہیں کرتا تو اس کے لیے وہ بڑا ہے اور اگر ایک ایسا فعل ہے جسے بڑا قرار دیا گیا ہے مگر وہ اس کو عمل میں لاتا ہے تو وہ اس کے لیے چھوٹا ہے یہیں انسان کو چاہیئے کہ اعمال کی اس تقسیم میں کسی کو صغیرہ اور کسی کو کبیرہ اس لیے نہ قرار دے کہ فلاں مولوی اور فلاں صوفی نے ایسا کیا ہے بلکہ اپنی طبیعت پر غور کرے اور دیکھے کہ کس کس فعل کو میں آسانی سے کر سکتا ہوں اور کس کو مشکل سے میں کو وہ اسانی سے کر سکے وہ اس کے لیے چھوٹا ہے خواہ نماز ہی کیوں نہ ہو اور جس کو مشکل سے کر سکے وہ اس کے لیے بڑا ہے خواہ ڈاڑھی رکھنا ہی ہو.یہی بات نواہی کے متعلق ہے مثلاً ایک شخص اسے دیکھ دیتا ہے تنگ کرتا ہے نقصان پہنچاتا ہے.مگر باوجود اس کے اس کی طبیعت خدا کے خوف سے استے قتل کرنے سے بچتی ہے، لیکن ایک اور شخص ہے اسکے ساتھ منس کر بولنا بھی اس کیلئے مشکل ہے اور اکی طبیعت گوارہ نہیں کرتی تو وہ یہ نہ سمجھے کہ قتل گناہ کبیرہ تھا اس سے تو میں بچ گیا ہوں اور سنہیں کر نہ بولنا غیرہ گناہ ہے یہ اگر کر لیا تو کیا ہوا اس کے لیے یہی کبیرہ ہے اور قتل کرنا صغیرہ.اسی طرح ہر ایک بات کے متعلق لے سنن ابي داؤد كتاب الترجل باب في اخذ الشارب
انسان دیکھ سکتا ہے اور اپنے لیے کبائر اور صغائر کا پتہ لگا سکتا ہے اور جب کوئی اعمال کی اس تقسیم کو مد نظر رکھے گا تو اس کے لیے محاسبہ میں بہت آسانی اور سہولت ہو جائے گی باقی آئندہ انشا اسمه تعالی (الفضل در مارچ ۱۹۱۸)
9 ار بسته دعاؤں پر خاص زور دو فرموده یکم مارچ حضور نے نشتند و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائی :- وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِى فَإِنِّي قَرِيب.أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوالي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ، (البقرة : ١٠٠) ه اور فرمایا :- میں نے پچھلے چار جمعوں میں اس امر کے متعلق کہ ایمان کے کامل کرنے کے لیے کن امور پرعمل کرناضروری ہے.بیان کیا تھا.اور ارادہ ظاہر کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو بعض تفاصیل بیان کروں لیکن ایک خاص ضرورت سے اور اس وجہ سے بھی کہ وہ مضمون تفصیل چاہتا ہے.اور آج میرے حلق میں درد ہے ایک اور امر کی طرف جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.اس موسم میں اکثر ہندوستان میں طاعون پھیلا کرتی ہے اور اب بھی جیسا کہ مختلف جگہوں کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے.طاعون پھیل رہی ہے.پنجاب کی اموات بھی ترقی کر رہی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب میں بھی زیادہ پھیلے گی.کیونکہ ہماری جماعت کے افراد ایک جگہ نہیں.بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں پر ایک ایک دو دو کر کے رہتے ہیں.لہذا طاعون جہاں بھی ہو.وہاں ہمارے آدمی بھی ضرور ہیں.ایپس ضرورت ہے کہ اس مرض سے بچنے کے لیے تمام جماعت دُعاؤں میں لگ جائے.قرآن شریف اور سنت اللہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب کے آنے سے پہلے جو دعائیں کی جاتیں وہ قبول ہوا کرتی ہیں.اگر وہاں کے لوگ جہاں طاعون نہیں وہاں کے لوگوں کے لیے دعائیں کریں جہاں طاعون ہے تو اب جبکہ سخت حملہ نہیں ہوا.میں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ دور ہو جائے گی.اور جہاں پڑگئی ہے وہاں کے لوگوں کو تو بالخصوص معاوں میں لگ جانا چاہیتے.موت تو ہر ایک انسان کو آتی ہے لیکن چونکہ طاعون حضرت صاحب کی پیشگوئی کے ماتحت آتی
ہے.اس لیے اگر کوئی احمدی اس میں مبتلا ہوتا ہے تو لوگوں کو ابتلا آتا ہے کیونکہ یہ مرض غیروں کیلئے بطور عذاب کے ہے.اگر چہ اس میں ہمارے بعض آدمیوں کا مبتلا ہونا کوئی بات نہیں ہے.دکھی صحابہ رضوان اللہ علیم کے وقت میں تلوار کفار کے لیے بطور عذاب کے تھی مگر اس تلوار کی جنگ میں صحابہ بھی مارے جاتے تھے مگر ان کے لیے عذاب نہ تھی کیونکہ اس وقت تلوار سے مرنا دشمنوں کے لیے تباہی تھا.صحابہ کے لیے تباہی نہیں تھی کیونکہ صحابہ مرنے سے کم نہیں ہوتے تھے.بلکہ بڑھتے تھے اور دشمن مرتے تھے اور کم ہوتے چلے جاتے تھے.پس جس مرنے سے کوئی قوم بڑھ جاتے.وہ اس کیلئے عذاب نہیں ہو سکتا.پھر بھی جو نا واقف لوگ ہوتے ہیں.وہ ابتلا.میں پڑ جاتے ہیں.کہ جب یہ مرض بطور عذاب کے ہے تو احمدی کیوں مبتلا ہوتے ہیں.ان لوگوں کو ابتلاء سے بچانے کے لیے دعاؤں کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالے جماعت کو محفوظ رکھے.مختلف ذریعوں سے معلوم ہوا ہے کہ طاعون کا حملہ سخت ہے.قادیان کے چاروں طرف طاعون ہے یہیں دوستوں کو چاہیئے کہ اپنے لیے بھی اور دوسرے بھائیوں کے لیے بھی دعائیں کریں پس ا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب ایک شخص دوسرے کے حق میں دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول کرتا ہے اور دعا کرنے والے کے کام بھی درست کرتا ہے یہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے جب ایک شخص مخلوق ہو کر دوسرے کے لیے اس قدر کوشش کرتا ہے تو میں تو خالق ہوں.میں کیوں نہ اس پر فضل کروں پس ایک دوسرے کے لیے دعائیں کرنے سے دُعائیں بہت قبول ہوتی ہیں.طاعون خدا کا ایک عذاب ہے.جو حضرت مسیح موعود کی تائید کے لیے بھیجی گئی ہے.اگر ہماری جماعت کی رفتار ترقی کو دیکھا جائے تو ثابت ہوگا کہ ساٹھ ستر فیصدی آدمی طاعون کی وجہ سے سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں.مجھ کو یاد ہے کہ طاعون کے دنوں میں پان پان سوء ہزار ہزار آدمی کی بیعت کے خطوط حضرت صاحب کے پاس روزانہ آتے تھے.تو چونکہ یہ احمدیت کی صداقت کا ایک نشان ہے اور جب تک جماعت کی حفاظت نشان کے طور پر نہ ہو.یہ نشان کامل تجلی کے ساتھ ظاہر نہیں ہو سکتا اس لیے دُعا کرنی چاہیئے کہ اللہ تعالی امتیازی طور پر ہماری جماعت کو اس مرض سے بچاتے.دوسرے ہمیں اس سے ایک اور فائدہ بھی اٹھانا چاہیئے.خدا کا وعدہ ہے کہ وَ إِذَا سَالكَ صحيح مسلم بحواله مشكوة كتاب المصابيح كتاب الدعوات الفصل الاول.
عبادي عَنِّى فَإِني قريب انو کہ جب میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو کہہ دو کہ میں قریب ہوں.کیونکہ میں دعا مانگنے والوں کی دعا قبول کرتا ہوں.اس کے خزانہ میں دعا کرنے سے کی نہیں آجاتی.بلکہ انسان ہی دُعائیں کرتے کرتے تھک جاتا ہے.پس جماعت کے لوگوں کو دعاؤں کے ساتھ ہی اس نشان پر زور دینا چاہئے.تاکہ احمدیت خوب پھیلے.جانتے ہو کہ اگر گرم لوہے پر چوٹ مارو، تو اس کو جس شکل پر چاہو ڈھال لو لیکن ٹھنڈے لوہے پر کچھ اثر نہیں ہوا کرتا.ان دنوں چونکہ دل پیچھلے ہوتے ہیں.اس لیے احمدیت کے سانچے میں ڈھل جائیں گے.طاعون بھی خدا کی طرف سے ایک بھٹی بنائی گئی ہے جس میں دل پگھلاتے جاتے ہیں پس تم صداقت کے قالبوں میں ان کو ڈھال لو.یہ دن تبلیغ کے دن ہیں.دونوں باتوں کی طرف توجہ کرنی چاہیئے اور اس سے فائدہ اُٹھانا چاہیتے " الفضل و ر مارچ شالته )
۴۹ 10 ہر ایک چیز میں تغیر ہے اچھے تغیر کیلئے دعائیں کرو د فرموده ۸ مارچ ۱۹۱۷ حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت میں آج بھی مجبوری کی وجہ سے وہ مضمون جو میں نے شروع کیا ہوا تھا نہیں بیان کر سکتا.چونکہ ابھی تک میرا حلق اس قابل نہیں ہوا کہ سب تک اپنی آواز پہنچا سکوں اس لیے آج میں پھر اسی مضمون کو جس کے متعلق پچھلے جمعہ توجہ دلائی تھی کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.سورة فاتحہ میں علاوہ ان تمام معارف اور حقائق کے جو بیان کئے گئے ہیں.ایک معرفت کا نکتہ یہ بھی ہے.کہ تمام مخلوق کی حالت یکساں نہیں رہتی مخلوق کی تغیر پذیری کہاں سے ثابت ہے ؟ سویاں ہے کہ یہ بات الحمد للہ رب العالمین سے ثابت ہوتی ہے.ربت کے معنے ہیں کہ جو پہلے پیدا کر کے اور پھر اس کو ادنیٰ حالت سے اعلیٰ کی طرف ترقی دیتا ہوا لے جاتے.پھر اس کی ضروریات کے مطابق آہستہ آہستہ اس کو کمال تک پہنچائے.یعنی رب کے ہیں.اور اس سورۃ میں بلدیا گیا ہے کہ تمام جہانوں کارت اللہ ہے خواہ وہ آسمان میں ہو یا زمین پر نباتات ہو یا جمادات سب کا رب اللہ ہی ہے.ایویلیوشن تھیوری اپنی اصلی صورت میں ہی ہے.اس کے استعمال میں غلطی لگی ہے کہ آیا بندر سے انسان نے ترقی کی ہے.یا گیا.یورپ نے اس تھیوری کو اب ایجاد کیا ہے، لیکن قرآن نے آج سے ساڑھے تیرہ سو برس پیشتر اس حقیقت کو ظاہر کر دیا تھا.یورپ کی حیرت انگیز ایجادات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر ایک چیز ادنی 'حالت سے اعلیٰ مدارج پر پہنچتی ہے.کیونکہ اگر کوئی ایسی چیز ہو جواد نی حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف نہ جاتی ہو.تو خدارت العالمین نہیں رہتا.اس نکتہ کو نہیں قرآن نے بتا دیا کہ ہر ایک چیز خواہ کہیں ہو.اس میں تغیر کرنے والا خدا ہے.سورۃ فاتحہ تمہید ہے اس تفسیر کی جو خداوند عالم نے انسان کے سامنے دھری ہے.پہلے فرمایا کہ ہر ایک چیز میں تغیر ہے.پھر فرمایا الرَّحْمنِ الرَّحیم خدا تعالیٰ کے انعام کے دو طریق
ہیں.ایک تو یہ ہے کہ وہ بغیر کسی محنت کے انعام کرتا ہے.دوسرے کسی محنت کے بعد انعامات عنایت فرماتا ہے.الرحمن الرحیم میں ربوبیت دو قسم کی بتلائی ہے.ایک ربوبیت تو بغیر محنت اور دوسری بعد پھر فرمایا.مالک یوم الدین.یعنی جو اس سب کی روایت ہے.وہ لغو ہیں.بلکہ اس نے جزاء وسزا رکھی ہے.ربوبیت کے بعد نتائج بھتے ہیں.پھر فرمایا.آتِيَاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ وہی ربوبیت جو الرحمن الرحیم میں بیان کی تھی وہی اس جگہ دوسری طرح بیان کی گئی ہے.اس جگہ رحیمیت کو پہلے رکھا گیا ہے اور رحمانیت کو بعد میں.رحیمیت یہ ہے کہ انسان کچھ کرتے ہیں اور بعد میں خدا کی طرف سے انعامات کا صدور ہوتا ہے.اس کے متعلق ایک سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ جب خدا کی طرف سے یونی بغیر کسی محنت کے رحمایت کے ماتحت انعام ہو رہا ہے تو پھر اس سوال سے کیا مطلب ہے کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں.یعنی صفت رحیمیت کے ماتحت سوال کرتے ہیں جبکہ رحمانیت کے ماتحت خود بخود انعامات حاصل ہورہے ہیں.پس رحیمیت پہلے کیوں رکھی گئی ہے ؟ یہ ایک خاص نکتہ ہے جس کو وہ شخص سمجھ سکتا ہے جس نے قرآن کریم پر اس رنگ میں غور کیا ہے کہ قرآن شریعت میں کوئی لفظ بیہودہ نہیں.اس میں اللہ تعالے نے ایک لطیف بات بیان کی ہے.اس خیال کے مطابق تو اياك نستعين و اياك نعبد چاہیئے تھا کوئی کہہ سکتا ہے کہ قافیہ ملانے کے لیے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِین کہ دیا ہے، لیکن اگر کوئی انسان خور کرے گا تو اس کو معلوم ہو جائے گا کہ قرآن قافیہ نہں ملاتا بلکہ یہ اور ہی باتیں مد نظر رکھتا ہے.ہاں اس میں یہ خوبی بھی ہے.کہ قافیہ بھی مل جاتا ہے ہیں اب غور کرنا چاہیئے کہ اس میں کیا وجہ اور حکمت ہے سو یاد رکھنا چاہیئے کہ رحمانیت دو قسم کی ہوتی ہے.ایک جو رحیمیت کے بغیر ہوتی ہے اور دوسری وہ جور جیمیت کے ساتھہ ہوتی ہے.وہ عام ہے اس میں کافر مسلم کی تمیز نہیں مثلاً انسان کو آنکھیں دی گئی ہیں.مگر بعض اوقات کوئی مسلمان نابینا ہوگا اور کافر و جاکھا غرض ساری مخلوق کے ساتھ عام ہے.یہ رحمانیت جب تک ہر انسان کے ساتھ نہ ہو وہ کچھ بھی کام نہیں کر سکتا.منہ میں زبان ہوگی تو بولے گا.کان ہوں گئے تو سُنے گا.ہاتھ ہوں گے تو کام کرے گا.پیر ہوں گے تو چلے گا پھرے گا.اگر ہاتھ نہ ہوں آگ لگ جاتے تو آگ کیونکہ بجھاتے گا.یہ وہ رحمانیت ہے جس کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا.پس علی ہوئی چیز کا مانگتا تحصیل حاصل ہے.اس عام رحمانیت کے مانگنے کی ضرورت
نہیں کیونکہ یہ اس وقت دیدی جاتی ہے جس وقت ہم ابھی دنیا میں آتے نہیں ہوتے.دوسرا قدم رحیمیت ہے اور پھر تیسرا رحمانیت جو خاص مومن سے تعلق رکھتی ہے.تین درجہ ہیں.اول رتمن - دوم رحیم بپھر میرا درجہ رحمن پہلے رحمانیت ہوتی ہے اور پھر رحیمیت.اس کے بعد خاص رحمانیت اور یہ رحمانیت جو آخری درجہ کی ہوتی ہے اور مومنوں سے ہی خاص ہوتی ہے اس کو بھی اللہ تعالے کسی اعمال اور نیکی کے بدلہ میں نہیں لانا چاہتا.مثلاً نبوت ہو ہے.وہ ایک موہت ہے اور یہ رحمانیت ہے لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ کسی کا فر مشترک اور بد کار کو نبی بنا دے، بلکہ اس رحمانیت کا نزول نیک اور پاک بندوں پر ہی ہوتا ہے.نبوت تو بڑا درجہ ہے.الہام کا درجہ بھی موہبیت سے ہی ملتا ہے.قرآن شریف میں آتا ہے.الرحمن علم القرآن خلق الانسان علمه البيان (الرحمن: ٣) پس یہ رحمانیت خاص ہوتی ہے.ورنہ پہلی قسم کی رحمانیت میں بعض کا فرا نبیاء کی نسبت زیادہ ہوئے تازہ اور جسیم ہوتے ہیں.ان کی صحت بھی بوجہ بے فکری کے زیادہ بھی ہوتی ہے اور نہی کمزور اور بمیار ہوتے ہیں.چونکہ پہلی رحمانیت کو بیان کر دیا گیا تھا.اس لیے فرمایا اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِین - اب رحیمیت کے ماتحت کام ہوگا اور پھر بعد میں رحمانیت شروع ہو گی.پھر جو مالک یوم الدین کی صفت آتی ہے.اس میں تغیر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو پیدا کیا جائے گا.اب تغیر دو ہی قسم کا ہو سکتا ہے.نیک اور مفید یا دوسرا وہ جو سزا کے باعث ہو.تو سورۃ فاتحہ میںایک عظیم تغیر کا ہونا بیان کیاگیا ہے.تغیر تو ہوگا کیونکہ تمام انسان تغیر پذیر ہیں اچھا بھی تغیر ہو گا اور بُرا بھی.اور یہ دونوں تغیر ربوبیت کے ماتحت آسکتے ہیں.خراب کو وہ کاٹ دیتا ہے اور عمدہ کو برقرار رکھتا ہے.اگر کوئی کمالی باغ کے درختوں میں سے بعض کو کاٹ دے اور بعض کی شاخوں کو الگ کر دے.تو کوئی نہیں کہے گا کہ یہ مالی باغ کو برباد کر رہا ہے.پیس ریو بیت دو قسم کی ہوتی کہ بعض دفعہ گرا کر ہی تغیر پیدا کیا جاتا ہے.اگر کوئی طبیب کسی مریض کو دست آور دوائی دیتا ہے تو وہ نادان ہے.جو یہ کہے کہ طبیب نے تو الٹا اس مریض کو کمزور کر دیا اور اس کی انگلی طاقت کو بھی کھو دیا.یہ کمزوری نہیں پیدا کی گئی.بلکہ آئندہ طاقت پیدا کرنے کے لیے ایک ذریعہ اختیار کیا ہے.پس تغیر دو قسم کے ہوتے ہیں.اچھے بھی اور بڑے بھی.اس لیے آپ لوگوں کو دعا کرنا چاہیتے اور چٹنی رہنا چاہیئے کہ آپ میں جو تغیر ہو وہ اچھا ہو.
میں نے پچھلے جمعہ بتایا تھا کہ آجکل عذاب کسی طرح بڑھ رہے ہیں قحطوں.زلزلوں.بیماریوں وغیرہ کے رنگ میں آرہے ہیں.اور آجکل متواتر ڈاک کھولنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ طاعون کثرت - پھیل رہی ہے.یہ ایک تغیر کرنے کا ذریعہ ہے جو خدا نے اختیار کیا ہے.اس لیے اس تغیر کے وقت میں کوشش کرنی چاہیتے کہ ہمارے لیے اچھا تغیر ہو اور باغبان اپنے باغ کی حفاظت کے لیے ہمیں نہ کاٹ دے.پس خدا کے حضور دعائیں کرو.اور خوب کرو.میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے بھائیوں کیلئے دعائیں کرد کہ خدا تعالیٰ ان کو بھی ہرقسم کی آفات سے بچائے اور جماعت کی ترقی ہو.آمین.الفضل ٦ ا ر مارچ
11 اتفاق و اتحاد کے قیام کے لیے نصیحت فرموده ۲۲ مارچ حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائی :- وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عليْكُمْ اِذْكُتُتُهُ أَعْدَاءَ فَالَفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمُ فَاصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُضْرَةٍ مِنْ النَّارِ فَانْقَذَكُمْ مِنْهَا حَذَالِكَ يبين الله لَكُمُ التِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (آل عمران : ۱۰۳) دنیا میں نہایت اہم اور ضروری باتوں میں سے اتحاد و اتفاق و اجتماع کا خیال ہے لیکن باوجود اس کے کہ جس طرح فساد و افتراق کے نقصانات ظاہر میں اور کسی چیز کے شاید نہیں اور با وجہ اس کے که اتفاق و اتحاد کے فوائد بتین اور ظاہر ہیں شاید ہی کسی اور چیز کے ہوں گے.مگر پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ان کھلی کھلی باتوں اور بین علامات کے ہوتے ہوئے اتفاق کو حاصل کرنے اور فساد کو ترک کرنے کی لوگ کوشش نہیں کرتے.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ قوموں نے اتفاق کے ذریعہ ہی ترقی حاصل کی ہے اور وہ جماعتیں جو گو مالدار ہوں.اور کثرت افراد کے لحاظ سے بھی بہت زیادہ ہوں.وہ تفرقہ اور نفاق کی وجہ سے ان چھوٹی چھوٹی جماعتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں.جن میں جتھا اور اجتماع اور اتفاق و اتحاد پایا جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ جن جماعتوں نے ایک جان ہو کر پورے اتفاق و اتحاد سے اپنے سے بڑی بڑی طاقتوں اور جماعتوں کا مقابلہ کیا ہے وہ ضرور کامیاب ہوتی ہیں.اور کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکا.اس سے اتفاق کے فوائد اور فساد کے نقصانات ظاہر ہیں.لیکن لوگ با وجود اس کے اتفاق حاصل کرنے کی بہت کم کوشش کرتے ہیں اور بہت چھوٹے چھوٹے شخصی فوائد کے مقابلہ میں قومی خواند
کی کچھ پرواہ نہیں کرتے جو بہت ہی حیرت کی بات ہے وہ بات جو پوشیدہ ہو اور اس کے نتائج ظاہر نہ ہوں.اگر اس میں اختلاف کیا جائے یا اس کے حاصل کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو انسان کو مجبور کہا جا سکتا ہے، لیکن جو اس قدر ظاہر ہو اور مشاہدہ میں آتی ہو.اس میں ایسی سستی اور اس سے اتنی لا پرواہی بہت ہی تعجب انگیز ہے.ثلاً اللہ تعالیٰ کا انکار ایک مذہبی معاملہ ہے اور اس کا اقرار دلائل چاہتا ہے کہ اگر اللہ ہے تو اس کے ہونے کے کیا دلائل ہیں.مگر بعض ایسی باتیں ہوتی ہیں جو قلوب سے متعلق اور قوانین نیچر کی مبر بہن ہوتی ہیں اور انہیں میں سے ایک اتفاق ہے.اس کے متعلق خواہ دہریوں سے پوچھو یا ہندوں سے خواہ برہموؤں سے پوچھو یا پارسیوں سے سیکھوں سے پوچھو یا بدھوں سے غرض دنیا کی کسی قوم سے پوچھو یہی جواب ملے گا کہ اتفاق و اتحاد ہی مفید اور فائدہ بخش چیز ہے رہیں تمام لوگ اسکی ضرورت کو تسلیم کریں گئے.ہاں بعض افراد ہوں گے جو بحیثیت جماعت نہیں بلکہ انفرادی طور پر اتفاق و اتحاد پر فساد و فتنه کو ترجیح دیں گے لیکن یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنے ذاتی فوائد کو جماعت کے فوائد پر مقدم سمجھتے ہیں.ان کو چھوڑ کر باقی تمام دنیا کا عمومیت کے ساتھ اتفاق و اتحاد کی ضرورت اور فضیلت پر متفق ہونا ظاہر کرتا ہے کہ اس کے فوائد بھی ظاہر ہیں.اور فساد و فتنہ کے نقصانات بھی ظاہر ہیں اور اگر جس قدر خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت اور براہین صاف اور واضح ہیں ان کے مقابلہ میں ان کو کچھ نسبت نہیں ، تاہم دنیا کی نظروں میں خدا کی ہستی کے بھی ایسے دلائل نہیں.جیسے اتفاق و اتحاد کے فوائد اور نا اتفاقی و شقاق کے نقصانات ظاہر ہیں کیونکہ یہ ایسی باتیں ہیں جن کو تمام دنیا کے لوگ مانتے ہیں.حالانکہ بہت لوگ ایسے میں جو خدا کی ہستی کے منکر ہیں.تو ان کو انسان اس طرح مانتے ہیں میں طرح دیگر قوانین نیچر شلاً بھوک اور پیاس کو.کوئی مذہب یہ نہیں کہے گا کہ جب بھوک لگے تو کپڑا پہن لینے سے پیٹ بھر جاتا ہے.یا پیاس گے تو دوڑنے سے دُور ہو جاتی ہے.یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کے لیے آسمانی قانون کی ضرورت ہو.قانون نیچر اس کے لیے کافی ہے.اسی طرح اتفاق بھی ہے اور ہم تجربہ سے دیکھتے ہیں.کہ یہ بھی کسی قانون شریعت کے ماتحت نہیں.بلکہ قانون قدرت کے ماتحت ہے.اور اس دنیا میں قانونِ قدرت کی خلاف ورزی کی سزائیں معین ہوتی ہیں ، لیکن قانون شریعت کی نہیں.اگر کوئی قانون شریعیت کے کسی مجرم کا ارتکاب کریگا.تو ملا اس کی اولاد مر جائے گی یا جائیداد
ضائع ہو جائے گی.یا کوئی اور ذلت اسے پہنچ جائے گی.یا اس کے دل کا امن جاتا رہے گا.اسی قسم کی بہت سی سزائیں ہیں جو قانون شریعت کے خلاف کرنے والوں کو ملتی ہیں.ان میں سے کوئی نہ کوئی سبزا انہیں ضرور ملے گی.مگر یہ نہیں ہو گا کہ ان کے لیے کوئی خاص سنزا اسی طرح معین ہو جس طرح قوانین نیچر کے خلاف کرنے والوں کے لیے سزائیں مقرر ہیں.مثلاً یہ نہیں ہو گا کہ کوئی شخص آگ میں ہاتھ ڈالے تو اس کی ماں مر جائے.بلکہ آگ میں ہاتھ ڈالنے والے کا لازماً ہاتھ ہی ملے گا.کیونکہ ایسا کرنے والے کے لیے قانونِ قدرت نے یہی سزا مقرر کی ہے.پھر شریعت کے قانون کے ماتحت جو سزائیں ہوتی ہیں وہ کئی قسم کی ہوتی ہیں.اور ہر درجہ کی مزا الگ ہوتی ہے.ایک بخیل کی سزا اس کا بچہ مرنا نہیں کیونکہ اس کو اولاد کی محبت ہی نہیں.اس کا تو اگر ماں ضائع ہو تب اس کو دکھ ہو گا.اس لیے اس کے لیے سزا مال کا ضائع ہوتا ہے.کیونکہ قانون شریعت میں سزا کی غرض اس شخص کو دکھ پہنچانا ہوتا ہے مگر قانون نیچر کے تحت دکھ پہنچا نا غرض نہیں ہوتا بلکہ ایک نتیجہ نکالنا مد نظر ہوتا ہے.خواہ اس میں اس کو تکلیف ہو یا نہ ہو.اگر ایک ایسا مومن جو مال کی ضرورت نہیں سمجھتا.بلکہ خواہش رکھتا ہے کہ میرے ہاں اولاد ہو.جو دین کی خدمت کرے.تو قانون شریعت کے ماتحت اس کو مال دینا اور اولاد سے محروم رکھنا درست نہ ہوگا.بلکہ اس کو اولاد ہی دی جائے گی.کیونکہ اس کو خوش کرنا مد نظر ہوگا، لیکن قانون قدرت میں ایسا نہیں ہو گا.اس میں کسی فعل کا جو نتیجہ مقرر ہوگا.وہی نکلے گا.تو اتفاق قوانین قدرت میں سے ہے.کیونکہ اگر اتفاق مٹ جاتے تو رعب جاتا رہتا ہے حکومت ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے عزت برباد ہو جاتی ہے.پھر جب اس کے ساتھ شریعت کا تعلق بھی ہوگا.تو اس کے مٹنے سے نتائج اور بھی خطرناک نکلیں گے پس اتفاق و اتحاد کے اثرات ظاہر ہیں اور تمام دنیا ان کو جانتی ہے، لیکن پھر بھی بہت لوگ اس کی قدر نہیں کرتے.چنانچہ دُنیا میں ایسی تو میں کثرت سے ہیں جن میں اتفاق نہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اس قانون کی ضرورت کو مانتے تو ہیں مگر شخصی خوانتد جب درمیان آجاتے ہیں تو اس کی قطعا پرواہ نہیں کرتے.لیکن میں نے بتایا ہے اور میرے بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ اتفاق واتحاد کا پیدا ہونا نہایت مشکل امر ہے.اور یہ محض خدا کا فضل ہوتا ہے اور جب کسی جماعت میں یہ پیدا ہو جائے تو اس کی حفاظت کی بہت سخت ضرورت ہوتی ہے چونکہ اتفاق بغیر خدا کے فضل کے پیدا نہیں ہو سکتا.اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کو ایک نعمت قرار دیا ہے
04 اور افتراق و شقاق کا نام آگ کے کنارے کھڑا ہونا رکھا ہے جس طرح آگ میں پڑا ہوا انسان ہلاکت سے نہیں بچ سکتا.اسی طرح نا اتفاقی کے جو نتائج ہیں ان سے بھی نہیں بچ سکتا نہیں نا اتفاقی کا عذاب ایسا ہی عذاب ہے.جیسا کہ آگ میں پڑ جانے کا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.دیکھو ہم نے اتفاق و اتحاد اپنے فضل سے پیدا کیا ہے.تم خواہ کتناہی مال خرچ کرتے تب بھی اتفاق نہیں پیدا کر سکتے تھے.لاکھوں دلوں کا جمع کرنا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوتا ہے.یہ درست ہے کہ انسانی کوششوں کا بھی اس میں دخل ہوتا ہے، لیکن اتفاق پیدا کرنا انسان کے نبی کا نہیں ہوتا.خدا اسے اپنے فضل سے ہی کر دیتا ہے.کیونکہ اسباب اس قدر نہیں ہوتے جس قدر وہ نتائج عطا فرماتا ہے نہیں کوشش کے نتیجہ میں اتفاق پیدا نہیں ہوتا.بلکہ فضل کے طور پر اللہ تعالی پیدا کر دیتا ہے جب اس مشکل سے بات حاصل ہوتی ہے.تو اس کی بے قدری کتنی بڑی غلطی ہے.جب یہ انسانی کوششوں سے ملتی ہی نہیں بلکہ محض خدا کے فضل سے ہی ہے تو چاہیئے کہ اس کے ملنے پر لوگ اس کی قدر کریں.مگر نہیں.اس کی ایسی ہی مثال ہے.جیسا کہ غالب نے کہا ہے.اور بازار سے لے آئیں گے گر ٹوٹ گیا جام جم سے مرا جام سفال اچھا ہے کہتا ہے کہ میرا معنی کا پیالہ ٹوٹ گیا تو اور بازار سے لے آؤں گا کیونکہ اس کا منامشکل نہیں.اس لے نہیں.لیے یہ جام جم سے بہتر ہے.کیونکہ اگر وہ ٹوٹ جائے تو اس کا ملنا ناممکن ہے.بات یہ ہے کہ جو چیز سستی یا آسانی سے مل جائے.اس کی قدر نہیں کی جاتی.افسوس کہ اتفاق کو ایسا ہی سمجھ کر قدر نہیں کی جاتی.حالانکہ جب یہ توڑ دیا جائے پھر اس کا جبرنا ناممکن ہو جاتا ہے.ہاں جب اللہ تعالے چاہتا ہے تو ایک بہت بے عرصہ کے بعد اس کے لیے خاص سامان مہیا کرتا ہے.تب جاکر اتفاق پیدا ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کی قدیم سے یہ سنت ہے کہ جب اس نے کسی جماعت کو نا اتفاقی سے بچا نا ہوتا تو اس میں فساد کرنے والے حصہ کو نکال دیتا ہے.جیسا کہ ہماری جماعت میں جب ایک ایسا عصر پیدا ہو گیا.جو اتفاق و اتحاد کو توڑنے والا تھا.تو اللہ تعالیٰ نے اس کو جماعت سے نکال دیا.اس سے غرض یہ تھی کہ ہم میں پھر نا اتفاقی نہ پیدا ہو مگر با وجود خدا کے اس فضل کے بعض لوگ اس کی قدر نہیں کرتے اور ایسے طریق پر چلتے ہیں جس سے فساد ہو.اس زمانہ میں سوائے احمدیوں کے اور کوئی جماعت نہیں ہیں میں مذہب کی خاطر اتفاق ہو
اور لوگ جن میں اتفاق ہے.وہ دنیا کے لیے ہے مگر دین کے لیے صرف احمدیوں میں ہی ہے اور احمدی ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے دین کی خاطر شقاق و نفاق کو اپنے سینوں سے نکال دیا ہے پس جب ان میں خدا کے فضل سے اتفاق و اتحاد پیدا ہو گیا ہے تو نہایت ضروری ہے کہ اس کی حفاظت کریں.دنیا میں اس وقت اسلام کی جو حالت ہے وہ کسی عقلمند سے پوشیدہ نہیں.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسّلام کے ذریعہ اسلام کی ترقی اور کامیابی کے وعدے نہ ہوتے.تو یہ ڈیڑھ سو سال سے زیادہ کا مہمان نظر نہیں آتا.اگر چہ ایسے نادان اور جاہل لوگ بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ سلطان روم جس وقت گھوڑے پر سوار ہوتا ہے تو تمام یورپ کے بادشاہ نوکروں کی طرح اس کے ساتھ ساتھ پیدل چلتے ہیں مگر ان کو کیا معلوم ہے کہ سلطان روم یورپ کے بادشاہوں کے لیے اس پا میدان کی طرح ہے جس سے کمرہ میں داخل ہوتے وقت پاؤں پونچھے جاتے ہیں.پھر بعض کہا کرتے ہیں کہ شاہ کابل کے پاس اتنی فوج ہے کہ جس کا مقابلہ دنیا میں کوئی نہیں کر سکتا.اور انگریز ڈر کر اس کو روپیہ دیتے ہیں، حالانکہ نہیں جانتے کہ کابل ایک چھوٹا سا علاقہ ہے جس کو انگریزوں نے ہی قائم رکھا ہوا ہے.اگر ایسے لوگ اسلام کی موجودہ حالت کو قابل اطمینان بتائیں تو بیشک بتا ئیں.مگر جن کو پتہ ہے وہ نہیں کہ سکتے وہ تو دیکھتے ہیں کہ اسلام آج کا نہیں توکل کا مہمان ہے ایسی حالت میں جو اسلام کی ترقی کے سامان میں اگر ہم ان کو ضائع کر دیں تو کتنے بڑے افسوس کی بات ہوگی.مگر میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے ہاں الجھنیں قائم کرتے ہیں اصلاح کے لیے اور کام کرنے کیئے.لیکن ان میں فساد اور جھگڑے کھڑے کر دیتے ہیں.کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیا بات ہے مسلمانوں کو قرآن میں حکم ہے.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَر تُو کہ اللہ کی جیل کو مضبوط پکڑ لو اور پراگندہ نہ بنو.اللہ تعالیٰ نے حفاظت اسلام کے لیے جو حبل اللہ تجویز کہتے ہیں.ان میں سے انبیاء اور ان کے خلف بھی ہیں کہ ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنی چاہیتے لیکن کئی لوگ عصیان اور سرکشی کرتے ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ اطاعت کا نام تو لیتے ہیں، لیکن اطاعت نہیں کرتے.معمولی معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے کھڑے کر دیتے ہیں.کیا جب جہاز ڈوب رہا ہو تو جہاز کے آدمی آپس میں لڑیں گئے.ہرگز نہیں.اس وقت تو خواہ کوئی کسی دوسرے کا روپوؤں سے بھرا ہوا بٹوا بھی اٹھا لے تو بھی وہ نہیں لڑے گا.کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ اگر یہ بٹوا لیتا ہے تو لے لے.ابھی چند منٹ میں تو زندگی ختم ہونیوالی ہے.پھر لڑائی کیسی.مگر یہاں ایک جہاز نہیں لاکھوں جہاز ڈوب رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دین کا جہاز ڈوب
رہا ہے اور لوگ پروا نہیں کرتے.لڑائیوں اور جھگڑوں میں لگے ہوتے ہیں.شاید یہ خیال کرتے ہوں کہ ہم اپنی جان بچائیں گے مگر یہی حالت قائم رہی.اور اتفاق و اتحاد نہ رہا تو پھر کوئی ترقی نہیں جو وہ کر سکیں.اور کوئی طاقت نہیں جو ان میں اتفاق پیدا کر سکے مگر جب اللہ چاہیے.پس چاہتے کہ تمام لوگ اپنے کاموں کو سوچ سمجھ کر کیا کریں.اور کوئی بات ایسی نہ کیا کریں میں سے اتفاق واتحاد کو نقصان پہنچتا ہو.معمولی معمولی باتوں پر جھگر نا نہایت خطرناک ہوتا ہے مگر جب دیکھو ایسی ہی باتوں پر جھگڑے ہوتے ہیں.حالانکہ یہ وقت ایسی بیہودہ باتوں پر لڑائی کر کے ضائع کرنے کا نہیں ہے.کیونکہ اس وقت اسلام کی موت و حیات کا مسئلہ درپیش ہے.اس قسم کی بے ادبیوں اور سرکشیوں سے جواد فی اونی باتوں میں ظاہر کی جاتی ہیں پارٹیاں بن جاتی ہیں اور وہ نعمت جس کو اتفاق و اتحاد کہا جاتا ہے اور جو محض خدا کے فضل سے ہی ملتی ہے بے وجہ ضائع ہو جاتی ہے اور مجموعی قوت جو جماعت میں ہوتی ہے.ان پارٹی بازیوں اور تفرقہ پردازیوں سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں پڑتا.اور ذرا ذراسی باتوں پر بحث و تکرار اور بے ادبی و سرکشی اور نفس کی اطاعت نہیں کرنی چاہیتے اور وہ وقت جو اس قسم کے جھگڑوں میں ضائع کیا جاتا ہے.اگر قرآن کریم کی کسی آیت پر غور کرنے میں صرف کیا جاتے تو ممکن ہے کہ کوئی الفضل ۲ را پریل شد نکتہ ہاتھ آجاتے"
12 مصائب میں قدم آگے ہی بڑھے ا فرموده ۲۱ار جون حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائی :- ولارا المُؤمِنُونَ الْاِحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَ عِدِنَا اللهُ وَ رَسُولُهُ وَصَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمُ الإِيمَانَا وَ تَلِيماه (سورۃ احزاب : ۲۳) اللہ تعالیٰ کی کسی حکمت کے ماتحت تین مہینہ کے بعد مجھ کو آپ لوگوں کو کچھ سنانے کا موقعہ ملاہے خطبه جمعه در حقیقت مسلمانوں کو ان کے فرائض سے آگاہ کرنے کا ایک ذریعہ ہے.جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسم نے فقر فرمایا ہے اور رسول کریم نے کیا خود خدا نے ہی مقرر فرمایا ہے.در حقیقت انسان کی عادت کو ہم دیکھتے ہیں کہ اگر وہ اپنے فرائض سے بار بار آگاہ نہ کیا جائے تو غافل ہو جاتا ہے سوائے اس شخص کے جس کا دل ایسا منصفی اور مجلی ہو جاتے.اور اس کو رویت کا مقام حاصل ہو جائے.ایسے شخص کے علاوہ باقی تمام انسان بار بار کی آگاہی اور تنبیہ کے محتاج ہیں حتی کہ اللہ کے رسول محمد صلی الہ علیہ وسلم کے صحابہ بھی اس کے محتاج تھے.ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور عرض کیا کہ میں تو منافق معلوم ہوتا ہوں.آپؐ نے فرمایا کس طرح.اس نے کہا کہ جب حضور کے سامنے آتا ہوں تو دوزخ اور جنت دونوں میرے سامنے آجاتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنت ہے.اگر میں خدا کی اطاعت کروں گا تو اس میں مجھ کو جگہ دی جائے گی اور اگر اس کی نافرمانی کروں گا تو یہ دوزخ ہے اس میں مجھے ڈال دیا جائے گا.لیکن جب حضور کے پاس سے چلا جاتا ہوں تو یہ حالت نہیں رہتی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا له این ناحیه کتاب اقامة الصلوة باب ما جاء فى الاسماع للخطبة والانصات
کہ اگر تمہاری ہر وقت ایک سی حالت رہے تو پھر تم ہلاک نہ ہو جاؤ ؟ اب دیکھئے وہ کیا چیز تھی جو اس صحابی کے سامنے دوزخ اور جنت کو لا کھڑا کرتی تھی.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت مبارک تھی جس کو دیکھ کر اقرار کرنا پڑتا تھا کہ کوئی ضرور خدا ہے میں نے اس شخص کو اپنا رسول بناکر ہماری اصلاح و ہدایت کے لیے بھیجا ہے.اور جو ہمیشہ اپنے رسولوں کو بھیجا کرتا ہے جو اگر لوگوں کو ہلاکت سے بچاتے ہیں جس طرح واعظ خطبہ سے دوسروں کو سی امر کی طرف توجہ دلاتا ہے اور الفاظ کو اپنے خیالات اور منشاء کے لدا کرنے کا ذریعہ بناتا ہے.اسی طرح خدا کے نبی اپنی شکل کے ذریعہ سے وعظ کرتے ہیں.ان کی شکل وصورت مجتم وعظ ہوتی ہے.وہ شخص جس کو یہ درجہ حاصل نہیں ہے.بیشک اس کے لیے ضروری ہے کہ کھڑا ہو کہ وعظ کرے اور الفاظ کے ذریعہ دوسروں کو متاثر کرے مگر وہ نہیں کا سیم اس کے الفاظ ہوں اور جس کے الفاظ اس کے اعمال ہوں اس کے لیے ضروری نہیں کہ منبر پر چڑھ کر ہی وعظ کرے.بلکہ جب اس پر کسی کی نظر پڑتی ہے تو اسے وہ بھیم و غظ نظر آتا ہے جس کا اثر اس پر پڑتا ہے تو وہ رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کا وجود مبارک ہی تو تھا جو دوزخ و جنت دونوں کو سامنے لاکھڑا کرتا تھا.مگر لوگوں کے فہم کا لحاظ رکھتے ہوتے یہ لوگ بھی خطیہ سے کام لیتے ہیں اور ان کو سمجھا دیتے ہیں.پھر زبانی واعظ کا سلسلہ اس لیے جاری کیا گیا کہ ہر واعظ کی وہ حالت نہیں ہوا کرتی جو خدا کے خاص بندوں کی ہوا کرتی ہے.رسول کریم علاوہ اس تعلیم کے جس کے بغیر نجات نہیں آپ کا وجود مبارک بھی مستم و عفظ تھا.مگر اور واعظ جوکھڑا ہوتا ہے تو اس کا وجود اس بات کیلیئے کانی نہیں ہوتا.اس لیے وہ زبانی بھی کہتا ہے اور اسی کا نام خطبہ ہے.نہیں خطبات کے ذریعہ مسلمانوں کو اسلام کے احکام کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور یہ وہ حکمت ہے جو اسلام نے خطبات میں رکھی ہے.خطبات تمام اہم ہیں.عیدین کے خطبے.حج کا خطبہ مگر جمعہ کا خطبہ بھی اپنی اہمیت کے لحاظ سے کچھ کم نہیں.سو یہ اللہ تعالیٰ کی کوئی حکمت تھی جس کے ماتحت تین مہینہ تک مجھ کو خطبہ پڑھنے کا موقع نہیں ملا یہ ڈیڑھ مہینہ کے قریب تو سفر میں گزر گیا اور اس سے پہلے اسی قدر عرصہ تک بیماری کی وجہ سے موقع نہیں مل سکا.اس عرصہ میں بیماری کے علاوہ صحت کے قیام کے لیے ڈاکٹر ضروری سمجھتے تھے اور سمجھتے ہیں کہ فکر اور جوش پیدا کرنے والے کسی کام میں حصہ نہ لوں.چنانچہ اس عرصہ میں میں نے جماعت کے کاموں میں اس طرح حصہ نہیں لیا جس طرح پہلے لیتا تھا.گویا یہ عرصہ میں نے کسی اور ہی دُنیا میں گزارا ہے نے صحیح مسلم کتاب التوبه باب فضل دوام الذكر و الفكر في امور الآخرة والمراقبة وجواز ترك ذلك في بعض الاوقات -
مگر تاہم جماعت کے اعمال اور حالات میری نظر سے پوشیدہ نہیں رہے.میں آپ لوگوں کے سامنے اس بات پر افسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو ہر وقت نگرانی چاہتے ہیں.اور ان کی حالت ایسے بچوں کی سی ہے کہ جن سے ماں باپ نے ذرا غفلت کی اور اپنی نگرانی کو ہٹایا تو لڑنے جھگڑنے میں لگ گئے.یہ نہیں کی حالت میں باہر کی جماعتوں کی بھی یہی حالت ہے.ذرا توجہ ہٹی تو ان کے قادیان کے ساتھ تعلقات میں سستی پیدا ہوگئی.گویا وہ ایک انتظام کے ماتحت تو جھاڑو کی سینکوں کی طرح بندھے ہوتے ہیں مگر توجہ ہٹنے کے ساتھ ہی تنکوں کی طرح بکھر جاتے ہیں.ان ایام میں بیرو نجات سے ایسے خط آتے ہیں کہ نہیں اب خوب سمجھ آگئی ہے کہ خلافت کی ضرورت ہے بیکن بی کافی نہیں ہے کہ ان کو خلافت کی ضرورت معلوم ہوگئی ہے بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ خلافت سے فوائد حاصل کریں.میں یہاں کے دوستوں اور بیرونی احباب و بلانا چاہتا ہوں کہ خدائی سلسلوں کا کسی خاص شخص سے تعلق نہیں ہوا کرتا.بڑے سے بڑا وجود جو دنیا میں آیا اور آسکتا تھا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مبارک تھا.مگر باوجود استقدر بلند شان کے آپ کی وفات سے بھی اسلام مسٹ نہیں گیا.خدا کی طاقت کمزور نہیں ہوگئی.وہی خدا جو پہلے تھا.اب بھی ہے.وہی اس کی قدرت نمائیاں ہیں.خدا کی قدیم سے دوستیں ہیں کہ انبیاء اور ان کے ماننے والے ابتدا دنیاوی لحاظ سے بڑی حیثیت اور مال والے لوگ نہیں ہوتے.ان کی فوجیں اور ملک نہیں ہوتے.کیونکہ اگر وہ لوگ بڑے بڑے ملکوں اور فوجوں والے ہوں تو لوگوں کو یہ خیال ہو کہ شاید یہ ان فوجوں کے ذریعہ ترقی پا گئے.چونکہ غیور خدا اس امر کو پسند نہیں کرتا کہ اس کے کام کسی انسان کی طرف منسوب کئے جائیں.اس لیے اس کے انبیایہ اور ان کے متبعین ابتدا میں دنیاوی شان و شکوہ کے مالک نہیں ہوتے بلکہ لوگوں کی نظر میں حقیر بکتے ہیں.خدا تعالی کی دوسری یہ سنت ہے کہ اپنی کامل قدرت نبی کی وفات کے بعد دکھاتا ہے اور تھوڑی سی کی زندگی میں بھی ظاہر کرتا ہے تاکہ جھوٹ اور بیچ میں امتیاز ہو سکے اور حق کو ڈھونڈنے والوں کے لیے ایک ذریعہ مہیا ہو جائے.نبیوں کے بعد پورے طور پر وہ اپنی قدرت نمائی اس لیے کرتا ہے کہ اگر انبیامہ کی زندگی ہی میں خدا کی قدرت کا پوری طرح ظہور ہو تو بعض لوگوں کو خیال ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ چست اور چالاک تھے اس لیے اپنی تدابیر میں کامیاب ہو گئے.ورنہ ان کی کامیابی سے حق و باطل کا کوئی تعلق نہیں.اس لیے خدا تعالیٰ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اگر وہ اس قدر ہوشیار ہوئے اور خدا
여부 کا ہاتھ ان کے ساتھ نہ ہوتا تو چاہیئے تھاکہ اپنی زندگی میں پورے کامیاب ہوتے لیکن ان کے بعد ان کی جماعت کا کامیاب ہونا ظاہر کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہی کے فضل اور تائید سے ان کو کامیابی ہوتی ہے.کسی کی ہوشیاری اور چالاکی کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا.پس وہ تمام وعدے جو کسی نبی سے کئے جاتے ہیں.وہ سارے کے سارے اسکے ہاتھ پر اور اس کی زندگی میں پورے نہیں کئے جاتے بلکہ وہ تمام ترقیات جو موعود ہوتی ہیں.انبیاء کی وفات کے بعد ظہور میں آتی ہیں.رسول کا وجود بہت بڑی برکتوں اور انعاموں کا موجب ہوتا ہے، اور اس کی وفات کے بعد بہت سی کہیاں پیدا ہو جاتی ہیں مثلاً خدا تعالیٰ کی وحی جو کہ نبی کے وقت میں بارش کی طرح ہوتی ہے.بند ہو جاتی ہے، مگر خدا کے قہری نشان جن کا خدا نے اپنے نبی سے وعدہ کیا ہوتا ہے بہت وسیع پیمانہ پر بعد میں ہی ظہور پذیر ہوتے ہیں.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اگرصرف قمری نشانات نے ملک عرب میں ظہور کیا.تو حضور کی وفات کے بعد نشانات قریباً تمام دنیا میں وسیع ہو گئے اور خدا نے ان ممالک کو جن میں بہت مضبوط لاکھوں کی تعداد میں فوجیں تھیں.تہ و بالا کر ڈالا.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خُدائی سلسلوں کی ترقی کا تعلق آدمیوں سے نہیں پیس کسی شخص کا بیمار ہونا یا مرنا یا تنزل وترقی کسی خدائی سلسلہ کو درہم برہم نہیں کر سکتا.اس کے متعلق جو کچھ ہوتا ہے وہ خدا کی طرف یسے ہوتا ہے اور چونکہ خدا میں کوئی تغیر نہیں آسکتا.اس لیے خدا کے قائم کردہ سلسلہ میں بھی کوئی نقص نہیں آسکتا.اس وقت جو ضروری بات میں آپ لوگوں کو کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا نبیوں کے وقت میں خدا اپنی قدرت نمائی کیا کرتا ہے.جیسا کہ حضرت مرزا صاحب کے وقت اس نے کی.کہ دشمنوں تک نے اقرار کیا کہ یہ ہر میدان میں بڑھ رہے ہیں، لیکن یہ ترقی موعود ترقیوں کیلئے پیش خیمید کے طور پر ہوتی ہے.نبی کے وقت کی ترقی وہ ترقی نہیں ہوتی جو اس کے اتباع کے لیے مقدر کی ہوتی ہے بکہ وہ ایک پیج کی طرح ہوتی ہے.اگر دیکھا جائے تو ایک نیج کو حجم اور سائز کے لحاظ سے بڑ کے درخت سے کیا نسبت ہے ؟ لیکن کیا اس سے انکار ہو سکتا ہے کہ وہ درخت اس چھوٹے بیج سے ہی پیدا ہوتا ہے.لیکن ہر ایک ترقی کے ساتھ مخالفت کا ہونالازمی ہے کیونکہ میں طرح کسی کا حسن معلوم نہیں ہو سکتا جب تک کوئی بد صورت چیز موجود نہ ہو.اسی طرح جب تک مخالفت نہ ہو فتح عظیم نہیں ہوتی ہمیشہ فتح وہی عظیم کھلاتی ہے جس میں مقابلہ بھی بہت ہی عظیم طاقت سے ہو.اور بہادری اسی کی ظاہر ہوتی ہے.
جس کا دشمن بھی قوی اور مضبوط ہو بہادری اس کا نام نہیں کہ کوئی مقابلہ ہی نہ کرے اور اس کو مار لیا جائے.کوئی کسی جرنیل کی یوں کبھی تعریف نہیں کریگا کہ وہ ایسا بہادر ہے کہ اس نے فلاں ایسا ملک فتح کیا جس میں کوئی فوج نہ تھی کیونکہ اس سے اس کی بہادری ظاہر نہیں ہوتی یا کوئی یہ کسے کہ میں نے فلاں قلعہ فتح کیا جو کہ بالکل خالی پڑا تھا.تو یہ بھی اس کی فتح مندی نہیں کہلاتے گی پیس کسی فوج کی بہادری اس وقت ظاہر ہوتی ہے جس وقت اس کا مقابلہ بھی نہایت سختی سے کیا جائے.ایسے ہی ترقی بھی نہیں ہوسکتی جب تک کہ مخالفت بڑے زور کے ساتھ نہ ہو.انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت مبعوث ہوتے تو عرب کے لوگ آپ کے مقابلہ میں آتے اور وہ یہودی و نصرانی جو اس علاقہ میں رہتے تھے مقابلہ میں کھڑے ہو گئے.آپ ایک آدمی تھے اور آپ کا مارنا کچھ مشکل نہ تھا لیکن وہ دشمن دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے جب وہ اکیلا شخص (صلی اللہ علیہ وسلم) ملک عرب کے بہادروں کو پچھاڑ کے سب کو اپنے ماتحت لے آیا.پس آپ کی کامیابی اگر اس لحاظ سے دیکھی جائے کہ آپ اکیلے تھے.تو واقعی بہت بڑی تھی.مگر اس کامیابی کے مقابلہ میں جو حضور کی وفات کے بعد حضور کے اتباع کو ملی بہت کم تھی اور یہی قدیم سے سنت اللہ ہے.اگر آپ نے اپنی زندگی میں ملک عرب کو زیر فرمایا تو آپ کی وفات کے بعد آپ کے اتباع نے ان ممالک پر قبضہ کیا جو کہ ساری معلومہ دنیا میں قابل ذکر تھے.ایرانی سلطنت وہ سلطنت تھی جس کا اثر چین تک تھا اور ہندوستان پر بھی اس کا اثر تھا.کابل و بلوچستان وغیرہ اس کے ماتحت تھے.تو ایرانی سلطنت کو زیر کر کے گویا مسلمانوں نے سارے ایشیا پر قبضہ کر لیا تھا.اور ادھر دوسری طرف رومی سلطنت وہ تھی جس کے ماتحت تمام ایشیائے کوچک بگیر یا مصر- آسٹریا کے علاقہ اٹلی طلائیس مراکش - الجزائر جرمن کے بعض علاقے.پولینڈ وغیرہ تک قبضہ تھا تو گویا یورپ سارے پر صرف ایک رومی سلطنت کو فتح کر کے مسلمانوں نے قبضہ کر لیا تھا.پس اسی طرح تم یہ مت سمجھو کہ اگر تم نے محمد حسین بٹالوی یا مولوی ثناء اللہ کو شکست دے لی تو اپنا کام ختم کر لیا.حضرت مسیح موعود صرف پنجاب کے لیے نہیں تھے اور نہ وہ صرف مسلمانوں کے لیے ہی تھے.بلکہ آپ کی بعثت تمام دنیا اور تمام مذاہب کے لوگوں کے لیے تھی.اس لیے جبتک پادریوں کو ہندوؤں کو سکھوں کے عالموں کو دلائل کی رو سے شکست نہ ہو جائے.اس وقت تک گویا ہم نے مذہب پنجاب کو بھی شکست نہیں دی اور پھر حضرت مسیح موعود صرف پنجاب کے لیے ہی نہ آئے تھے بلکہ ہندوستان کے لیے بھی آتے تھے.اس لیے تمام ہندوستان میں جس قدر مذاہب ہیں جب تک ان کو شکست نہ ہوئے اس وقت تک ہم اپنے تئیں فتحیاب اور کامیاب نہیں کہ سکتے، لیکن ابھی تک
ہندوستان میں بھی بہت سے علاقہ ہیں جن سے مقابلہ نہیں ہوا.اور ان کو دلائل و براہین حقہ سے شکست نہیں دی گئی.پھر حضرت صاحب ہندوستان کے لیے ہی نہ تھے.بلکہ آپ افغانستان - ایران - شام عرب اور یورپ کے تمام ممالک امریکہ افریقہ اور ایشیا کے دیگر ممالک کے لیے بھی آتے تھے.اس لیے ان تمام ملکوں کے لوگ جب تک ہم سے مذہبی مقابلہ میں شکست نہ کھائیں ان کی کوئی شکست نہیں اور ہماری کوئی فتح نہیں.اس میں شک نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام نے شیطان کے مرکز کو اپنی حیات طیبہ میں ہی توڑ دیا تھا اور شیطان کو میدان سے بھگا دیا تھا.مگر اب وہ قلعوں میں پناہ گزیں ہو گیا ہے.ہماری گورنمنٹ کے بڑے بڑے جرنیلوں نے اپنی اپنی تقریروں میں ظاہر کیا تھا کہ جنگ اصل میں اس وقت ہوگی جس وقت ہم جرمن کے ملک میں گھسیں گے اور وہ مختلف قلعوں میں بیٹھے بیٹھے لڑائی کریں گے موجودہ جنگ جبکہ دشمن کھلے میدان میں مقابلہ کے لیے اپنی فوجیں لیے کھڑا ہے.اس کی نسبت اسان ہے.پس حضرت مسیح موعود نے مرکزی طور پر اور اصولاً تمام مذاہب کو شکست دیدی ہے.لیکن خطرناک جنگ تو اس وقت ہوگی جس وقت ہر جگہ اور ہر مقام پر مقابلے ہوں گے.ساری دنیا کو دلائل کے زور سے فتح کرنا ہے اور جب تک دنیا کو اسلام کے ماتحت نہ سے آویں ہمارا کام ختم نہیں ہوتا اور جب تک مخالفین اقرار نہ کرلیں اس وقت تک ہمارے لیے رکنے کا مقام نہیں.پس جس قدر ہمارا کام زیادہ ہو گا.مخالفت بھی زیادہ ہوگی اور وہ وقت آگیا ہے کہ ہماری ہر طرف سے سخت مخالفت ہو.اور ہمیں ہر طرح تکلیف اور دُکھ دیا جائے.اس وقت ہمارا کیا کام ہوگا.اس آیت میں جو میں نے پڑھی ہے.اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ ولما را المومنون الاحزاب قالوا هذا ما وعدنا الله ورسوله وصدق الله و رسوله وما زادهم الا ايماناً وتسلیما کہ جب مومنین نے اپنے مخالفین کو گروہ در گروہ دیکھا تو وہ اس نظارے اور مخالفت کے جوش اور دشمنوں کی تعداد سے گھرا نہیں تے بلکہ کہا کہ یہ تو وہی ہے جس کی اللہ اور اس رسول نے ہمیں قبل از وقت اطلاع دیدی تھی.اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے کہا تھا وہ سب سچ اور حق ہے.اور اس نظارے سے بجائے ایمان میں کسی قسم کی کمزوری پیدا ہونے کے وہ ایمان اور تسلیم می اور زیادہ بڑھ گئے مومن کی کیا شان ہے ؟ یہی کہ جوں جوں اس پر خدا کی راہ میں شدائد و مصائب کا زور ہو وہ اپنے قدم کو آگے ہی آگے بڑھائے.اور ثابت قدمی سے ثابت کر دے کہ ایمان یہ چیز ہے.بزدل آدمی کا قاعدہ
ہوتا ہے ک گھر میں بیٹھ کر بہت باتیں بنایا کرتا ہے اور کہتا ہے.اگر فلاں میرا دشمن آتے تومیں یوں اسکا مقابلہ کروں یوں اسے ماروں ، لیکن جب وہ آدمی سامنے آجاتا ہے تو اس کا رنگ فق ہو جاتا ہے مگر بہادر کی حالت بزدل سے بالکل مختلف ہوتی ہے.وہ گھر بائیں نہیں بناتا.بلکہ میدان میں زور دکھاتا ہے اور جس قدر مشکلات میں پڑتا ہے.اسی قدر اس کی شجاعت اور دلیری زیادہ صفائی کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے بس مومن کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ مشکلات سے گھبرا کر نہ رکھتا ہے نہ ہٹتا ہے بلکہ اور زیادہ تیزی سے آگے ہی آگے بڑھتا جاتا ہے اور جنہوں نے اس نکتہ کو سمجھا ہے وہی لوگ دنیا میں شاد کام اور کامیاب ہوتے ہیں.اہل یورپ نے سیاست کو خوب سمجھا ہے.اس کا نتیجہ ہے کہ شدائد میں وہ سست ہونے کی بجائے زیادہ ہمت اور جرات سے کام کرتے ہیں.فرانس میں کچھ لوگ پیدا ہو گئے تھے جو صلح کرنا چاہتے تھے.اور باقی ملک تلوار سے یمن سے فیصلہ کرنا چاہتا تھا.دونوں قسم کے لوگ خیر خواہ ملک تھے مگر جب جرمن نے بڑھ بڑھ کر حملے کرنے شروع کئے تو وہ لوگ جو صلح چاہتے تھے انہوں نے بھی ملک کی حفاظت کے لیے تلوار سے فیصلہ کرنے کو ہی زبانی بانوں سے صلح کرنے پر ترجیح دی.اگرچہ صلح پسندوں کو بزدل کہا جاتا تھا.مگر جب جرمن نے زور سے حملہ شروع کیا تو وہی لوگ جن کو بزدل خیال کیا جاتا تھا.میدان میں دشمن سے مقابلہ میں مصروف ہو گئے.اور اس طرح انہوں نے ثبوت دیدیا کہ ہم جو صلح کے طالب تھے.تو بزدلی کی وجہ سے نہ تھے بلکہ ملک کی خیر خواہی ہمارے خیال میں صلح کی صورت میں تھی.مسلمانوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس وقت دشمنوں نے ان پر زیادہ سختی کی اور نہایت خطرناک صورت پیدا ہوگئی اور دشمن گروہوں کے گروہ بڑھے چلے آئے تو اس وقت وہ گھبراتے نہیں بلکہ مقابلہ کو ہی انہوں نے اپنے بچاؤ کی صورت خیال کیا.اور انہوں نے کہا کہ یہ تو وہی ہے جس کا ہمیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے پہلے ہی علم دیا گیا تھا.پس اگر آج ہم پر ہمارے مخالفین طرح طرح کے حملے کر رہے ہیں.تو ہم اس سے کیسے گھرا سکتے ہیں.ہم تو خوش ہیں کہ سبحان اللہ آج سے تیرہ برس بیشتر حضرت مسیح موعود نے الوصیت میں نہیں بتلا دیا تھا کہ ابتلا پر ابتلا آئیں گے جتنی کہ بعض بد قسمت ارتداد کی راہ اختیار کرلیں گے.پس ہمارے لیے تو خوشی کا مقام ہے کہ حضرت تسیح موعود کی ایک اور پیشگوئی پوری ہوئی.اللہ اور اس کے رسول کے وعدے سچ اور حق ہیں.بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو زبانی کہا کرتے ہیں ہم کسی کی کیا پرواہ کرتے ہیں مگر جب مقابلہ
..پڑے تو وہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں، لیکن یہاں خدا تعالی مومنوں کے متعلق فرماتا ہے کہ جب مقابلہ پڑتا ہے اسی وقت ان کی زبان سے یہ نکلتا ہے کہ یہ موقع ہمارے لیے گھبرانے اور تشویش کرنے کا نہیں کیونکہ یہ حملے اور سختیاں تو خدا اور رسول کے فرمودہ کے بموجب ہیں.پھر گھبرانے اور پریشان ہونے کی کیا وجہ ہے.مصائب او را بتلامہ ہی جھوٹے اور پیچھے میں فرق کیا کرتے ہیں اور تکالیف میں ہی یہ حقیقت ظاہر ہوا کرتی ہے کہ حقیقی ایمان کس کا ہے اور کون ایمان سے خالی ہے.یوں تو ابوبکر نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں اور نورالدین مسیح موعود علیہ السلام کے حضور میں کبھی خود آگے بڑھ کر نہیں بیٹھتے تھے بلکہ سر جھکاتے پیچھے بیٹھے رہتے تھے.برخلاف اس کے عبداللہ ابن ابی ابن سلول رسول اللہ کے حضور اور وہ لوگ جو الگ ہو گئے ہیں مسیح موعود کے حضور آگے آگے ہو کر بیٹھتے تھے لیکن جنگ اور ابتلاء کے وقت میں کسی نے دیکھا کہ حضرت ابو کرینہ کہاں اور عبداللہ بن ابی کہاں تھا ؟ عبداللہ بن ابی تو حضور کو روکتا ہے اور کہتا ہے ، جنگ سے فائدہ ہی کیا مگر ابوبکر رضی الہ عہ نبی کریم کے آگے آگے ہیں.پس جو بہا در آدمی ہوتے ہیں وہ وقت پر اپنے جوہر دکھلاتے ہیں اور جو بزدل ہوتے ہیں.وہ اپنی چال تھال سے تو بہادری ظاہر کرنا چاہتے ہیں مگر اپنے اس اظہار میں جھوٹے ہوتے ہیں.وہ خطرہ سے پہلے ایمان ایمان کا شور مچاتے ہیں.مگر جب خطرہ آتا ہے تو ایمان کو چھوڑ چھاڑ بیٹھتے ہیں.ہاں وہ لوگ جو در حقیقت ایماندار ہوتے ہیں.خطرہ سے پہلے خاموش رہتے ہیں اور جب خطرہ آجاتا ہے تو پھر جان تک لڑا دیتے ہیں پس بزدل اور ایمان میں کچے خطرے اور مصائب سے پہلے دعاوی بہت کرتے ہیں.مگر وقت پر بودے نکلتے ہیں.اور ایمان دار پہلے اپنی کمزوریوں کا اقرار کرتے ہیں اور کوئی بڑائی کی بات نہیں کہتے.بلکہ خطرے کے وقت ان سے کوئی کمزوری ظاہر نہیں ہوتی.تو جس قدر ابتلاؤں اور سختیوں میں شدت ہوتی جائے گی.جو بچے ایماندار ہیں.ان کے ایمان میں میں زیادتی ہو گی.اور ان کی قربانیاں بڑھتی جائیں گی.اور ان کو اور دین کی خدمت کا جوش ہو گا.اور اخلاص بڑھتا چلا جائے گا اور جو کمزور ہوں گے وہ الگ ہو جائیں گے.حضرت نظام الدین دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق آیا ہے کہ آپ ایک دفعہ رستہ میں چلے جارہے تھے اور مریدین ساتھ تھے.راستہ میں ایک چھوٹا بچہ ملا.آپ نے اس کا منہ چوم لیا.تمام مرید جو ساتھ تھے انہوں نے بھی اس بچہ کا منہ چوما، لیکن آپ کے بعد جو آپ کے خلیفہ ہوتے.وہ خاموش کھڑے رہے باقی مردوں نے ان پر نفاق کا فتویٰ لگایا.مگر وہ خاموش رہے.اسی طرح پھر حضرت نظام الدین راستہ میں پہلے جا رہے تھے.کہ ایک بھٹیارہ آگ جلا رہا تھا.آپ نے بڑھ کر اس آگ کو چوم لیا.جو آپ کے
46 خلیفہ ہوئے انہوں نے بھی ایسا ہی کیا مگر اور جومرید تھے وہ خاموش کھڑے دیکھتے رہے.ان کے ہونے والے خلیفہ نے کہا کہ اب کیوں نہ تم نے آگ کا بوسہ لے لیا.اگر پیر کی اتباع ہی کرنا تھی.تو آگ پر جھکنا تھا.غرض مصائب اور مشکلات میں ہی انسان کی آزمائش ہوتی ہے مسیح موعود کے وقت میں ہماری ترقی ہوئی مگر وہ اس ترقی کے مقابلہ میں جس کا حضرت مسیح موعود کی زبان سے نہیں وعدہ دیا گیا ہے.بہت کم ہے اور حضرت مسیح موعود نے اپنی کتاب الوصیت میں تحریر فرمایا ہے کہ جب تک میں نہ جاؤں قدرت ثانی نہیں آسکتی.اس کے آنے کے لیے میرا جانا ضروری ہے.اور قدرت ثانی کے ذریعہ ترقیاں خدا کی طرف سے ظہور میں آئیں گی پس کوئی مصیبت اور تکلیف اور سختی مومن کے قدم کو آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی خلافت کے پہلے سال میں بجٹ بناتے ہوئے خواجہ صاحب وغیرہ کی طرف سے کہا گیا کہ اس سال قحط ہے.اس لیے بجٹ تھوڑا بنایا جائے جس پر حضرت خلیفہ المسیح نے فرمایا نہیں چونکہ اس دفعہ قحط ہے اس لیے بجٹ زیادہ بنایا جائے.آپ نے فرمایا کہ مومن مصائب اور تکالیف سے گھبرا کر دینی کاموں میں شکست نہیں ہوا کرتا.پس یہ سچائی جیسے اس وقت سچائی تھی آج بھی سچائی ہے.تو میں آپ لوگوں کو جو بیاں ہیں اور ان کو جو بیرو نجات میں ہیں.آگاہ کرتا ہوں کہ ہمارے مخالف بہت زور کے ساتھ اور اپنے تمام سامانوں کے ساتھ اُٹھتے ہیں کہ ہم کو کچل ڈالیں، لیکن یہ آزمائش کا وقت ہے.اس لیے ہمیں پہلے سے زیادہ استقامت اور قربانی دکھانی چاہیئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس امتحان میں پورا فرما دے.اور اس کے فضل اور رحمتیں ہمارے شامل حال ہوں.ہم اس کے فضلوں اور انعاموں کے وارث ہو جائیں.آمیر ضے : الفضل و ر جولائی شافته )
13 عبودیت ہی تمام کامیابیوں کی کلید ہے فرموده ۲۸ جون شاشه بهنام داموزی ) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ پڑھ کر فرمایا.نسورۃ فاتحہ میں جہاں اور عظیم الشان بلکہ غیر محدو د نصارح اور مواعظ بیان کئے گئے ہیں.وہاں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اور پھر ان کے ذریعہ ساری دنیا کواس بات کی طرف توجہ کیا ہے کہ کوئی چیز مفید یا بابرکت یا کوئی خوشی اور راحت کوئی ترقی یا کمال کوئی درجہ یا رتبہ ایسی حاصل نہیں ہو سکتا جو خدا تعالیٰ کے قوانین کے خلاف چل کر حاصل ہو.بلکہ تمام کامیابیوں کا ذریعہ عبودیت ہے.جب کبھی وہ خدائی کا دعوی کریگا.خواہ منہ سے کرے جیسا کہ بعض بیوقوف کرتے ہیں.یا اپنے اعمال سے ایسا ظاہر کرے وہ یقیناً ناکام و نامراد رہے گا نبی کا دعویٰ کرنے والے کے لیے تو فرمایا.دلو تقول علينا بعض الأقاويل لاخذنا منه باليمين ثم لقطعنا منه الوتين فما منكم من احد عنه حاجزين - رالحاقہ ۳۵ تا ۴۰ ) ہم اس کی رگ جان پکڑ کر کاسٹ دیتے.مگر خدائی دعوی کرنے والے کے لیے ایسا نہیں کہا.اس لیے کہ وہ تو فوراً پتہ لگ جاتا ہے.ہاتھ کنگن کو آرسی کیا " مشہور ہے کہ ایک شخص نے خُدائی کا دعویٰ کیا.ایک زمیندار چاہتا تھا کہ اس کو اس دعوی سے ہٹاوں.مولوی اس سے مباحثہ کرتے تو وہ بھی حجتیں کرتا.اور دلائل دیتا.آخر زمیندار ایک دن اسے اکیلا پاکر گیا اور پوچھا کہ تم نے خدائی کا دعویٰ کیا ہے ؟ اس نے کہا ہاں.زمیندار نے گردن پکڑ کر نیچے گرا لیا.اور کہا میں تو تم کو عرصہ سے تلاش کرتا تھا.تم ہی نے میرے باپ کو مارا ہے اور یہ کہ کر ایک متکا زور سے اس کے مارا اور پھر کہا کہ تم نے ہی میری ماں کو مارا ہے.اور پھر ایک متنا مارا.پھر اپنے ایک ایک رشتہ دار کا نام لیتا جاتا.اور سکتے مارتا جاتا.آخر اس نے ہاتھ جوڑے اور کہا کہ میں اس دعواے سے بازہ آیا.سے
"" نبی کو اگر کوئی مارے تو حقیقت مشتبہ ہوسکتی ہے کیونکہ وہ تو انسان ہیں اور ماریں کھاتے ہیں.لوگ انہیں ہر قسم کے دکھ دیتے ہیں اور ان دکھوں اور تکلیفوں کے ذریعہ ہی ان کی سچائی روشن ہو جاتی ہے ور یہ ان کی ترقی کا ذریعہ ہوجاتی ہے کیونکہ خداتعال اپنی تائید ونصرت سے دکھا دیتا ہے کہ وہ اس کی طرف سے ہیں.مگر خدائی کا دعوی بے وقوفوں کے سوا کون کر سکتا ہے.پھر یہ دعویٰ کرنے والے دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ جو منہ سے ایسا دعوی کرتے ہیں.دوسرے وہ جو عملاً کرتے ہیں حکومت و اقتدار کے لحاظ سے مال و دولت کے لحاظ سے علم وفن کے لحاظ سے کسی کو کوئی رتبہ ملتا ہے تو وہ اپنی ہستی سے باہر ہو جاتے ہیں.وہ اس قسم کے دعوے عمل سے کرتے ہیں.اور یہی دعوے آخر ان کی ذلت و نامرادی کا موجب ہو جاتے ہیں گو اسے اس وقت کوئی نہ سمجھے مگر حقیقی ترقی عبودیت میں ہے جس قدر انسان عبد بنتا ہے اسی قدر اس کی ترقی اور معرفت کے دروازے کھلتے جاتے ہیں کیونکہ اپنے علم اپنی ذات اپنی عقل اور تدبیر پر کوئی ناز نہیں ہوتا.اس لیے اس کی کوشش ہمت اور تدبیریں سستی نہیں ہوتی اور خدا تعالیٰ اسے برکت دیتا ہے، لیکن جہاں کسی قوم نے خدائی کا دعوی کیا جو عملاً ہوتا ہے ، تو یہ دعوی اس کے تنزل کا پہلا قدم ہوتا ہے.پھر وہ نیچے کرنے لگتی ہے.گو اس کا یہ تنزل کسی کو نظر نہ آتا ہو، لیکن آخر ایک بار ہی ایسی گرتی ہے کہ پھر اس کی بربادی اور تنزل بالکل ظاہر ہو جاتا ہے.برخلاف اس کے ترقی کرنے والی قوموں میں انکسار اور عبودیت ہوتی ہے.اسی طرح ان کی ترقی کی رفتار بھی بہت دھیمی ہوتی ہے مگر آخر اس کی رفتار میں بھی نمایاں ترقی نظر آتی ہے.یہ بالکل درست ہے کہ عملاً خدائی کا دعویٰ کرنے والی قوموں کا تنزل ابتدار نظر نہیں آتا.مگر اس کے جراثیم پیدا ہوجاتے ہیں اور وہ نظر نہیں آتے جس طرح پر ایک مکان ٹپکتا ہو تو وہ نظر آتا ہے اور انسان اس کی مرمت کر کے بند کر دیتا ہے ، لیکن جب کسی مکان کی بنیاد میں اندر ہی اندر پائی پڑتا ہو اس کا پتہ نہیں لگتا.اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ یکدم بیٹھ جاتا ہے.اور یہ زیادہ خطر ناک ہوتا ہے ہیں ان لوگوں کی حالت جو عملاً خدائی کا دعوے کرتے ہیں اس مکان کی سی ہے جس کی بنیا دوں میں پانی پڑ رہا ہے.اسی واسطے قرآن مجید میں جہاں سخت سزا کا ذکر ہے.فرمایا ذاتی الله بنيانهم من القَوَاعِدِ (سورة النحل : ۲۷) پس انسان کبھی عبودیت سے باہر نہ جائے.یہی نہ سمجھے کہ اس کے لیے کسی پابندی اور اطاعت کی ضرورت نہیں اور نہ کوئی اتباع ہے.نہ فرمانبرداری ہے.یہ ہلاکت کی راہ ہے.اس سے بچو.
شیطانی خیال ہے اس سے دُور بھاگو حقیقی کامیابی کی راہ عبودیت ہی میں ہے.اس کے سوا اور کوئی راہ نہیں.فرمایا.اتباكَ نَعْبُدُ.پہلے الحمدللہ رب العالمین کہ کر بتا دیا کہ ہر چیز اسی کی مخلوق ہے اور اسی کے ماتحت ہے.اور تمام فضلوں اور برکات کا دہی سر چشمہ ہے.پھر بتایا کہ جودیت کرو گے تو سب کچھ دیں گئے.انعامات دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک جسمانی اور ایک روحانی.جسمانی انعامات کے لیے بھی اطاعت اور فرمانبرداری کی ضرورت ہے.جو قواعد اور قوانین ان انعامات کے لیے مقرر کہتے ہیں جو شخص ان کی پابندی کریگا.وہ انعامات سے حصہ لے گا.یورپ کے لوگوں سے بڑھ کر کون نیچر کی اطاعت کرے گا.اور دیکھ لو وہ انعام بھی پاتے ہیں.روحانی قواعد کی پابندی وہ نہیں کرتے اور اس کے انعامات بھی نہیں پاتے.پس ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کے پورے فرمانبردار ہو جاؤ.کہ سارے انعامات اسی کی اطاعت میں ہیں اور یہی مقام عبودیت تمام ترقیوں کی کلید ہے.انسان بعض وقت ذرا سے رتبہ.مال اور حکومت سے ابلیس کی طرح دعوای کر بیٹھتا ہے.مگر کامیابی اور ترقی عبودیت ہی میں ہے.یہ ایسا نکتہ ہے کہ ہر شخص کو یاد رکھن چاہتے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے.آمین " الفضل ۱۶ جولائی شافته
14 ایک آیت قرآنی کی لطیف تفسیر اطاعت کے قابل اکثر نہیں ہوتے بلکہ کم ہوتے ہیں د فرموده در جولائی شاوله بمقام ڈلہوزی ) (الانعام : ١١ ) : حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی :- وان تطع اكثر من في الارض يضلوك عن سبيل الله ان يتبعون الا الفن وان هم الا يخرصون.قرآن شریف ایک دنیا ہے جیس طرح ہماری زمینی دنیا ہے.مادی دنیا ہے اور جس طرح اس زمین کے علاوہ اور عالم ہیں جن کو ستیارے کہتے ہیں.یا یہ زمین اور اس کے متعلقات چاند سورج - ستار ہے.ستیارے.ہر ایک بجائے خود ایک دنیا ہے.اسی طرح ایک روحانی دنیا ہے اور پھر اس میں قرآن مجید بھی ایک دنیا ہے.قرآن مجید علمی یا عرفانی دُنیا ہے جس طرح اس زمین کے اندر بڑی بڑی کانیں ہیں اور انسان جس جس قدر اپنے مادی علوم میں ترقی کرتا جاتا ہے اور جوف الارض کے عجائبات سے واقف ہوتا جاتا ہے اسی قدر مخفی خزانے گھلتے جاتے ہیں.ان کانوں میں سے کسی کو بھی انسان بھی ختم نہیں کر سکا.سینکڑوں سال ہوئے جب سے علم الاقتصاد کے ماہر کو نکے کے متعلق آواز بلند کر رہے ہیں کہ وہ ختم ہونے والا ہے.مگر وہ نکلتا ہی چلا آتا ہے.جب سے تاریخ کا پتہ لگتا ہے.سونا چلا آتا ہے مگر ختم ہونے میں نہیں آتا.یہی حال اور دھاتوں کا ہے.اس قدر انسان ان کو استعمال کرتا ہے کہ معمولی عقل کا آدمی اس خرج کو دیکھ کر شاید بول اٹھے کہ بہت جلد یہ چیز ختم ہو جائے گی.مگر وہ ختم نہیں ہوتی.کروڑوں اربوں بلکہ لا انتها شن ایک ایک دھات خرچ ہوتی ہے اور ختم نہیں ہوتی.
اسی طرح قرآن کریم کی ایک دنیا ہے اور وہ اس مری دنیاسے کہیں بڑھ کر کیونکہ مادیات بالآخر حمد ہوتی ہیں بمقابلہ عرفانی اور علمی دنیا کے لیکن جب مادر دنیا با وجود اپنی حدود و قیود کے ہمارے علم میں حدود و قیود نہیں رکھتی جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ لاکھوں سال سے انسان دھاتوں کا استعمال کرتا چلا آتا ہے اور وہ ختم ہونے میں نہیں آتی ہیں تو پھر قرآن مجید کے عجائبات اور معارف کے متعلق ہم بھی نہیں کہ سکتے ہیں کہ فلاں جگہ پر ختم ہو گئے.یہ بالکل سچی بات ہے کہ قرآن مجید کے خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے.شخص جو مطهر قلب نے کر اخلاص کے ساتھ خداتعالی میں جوہو کر مجاہدہ کرتا ہے.وہ قرآن مجید کے حقائق و معارف سے اپنی استعداد کے مطابق حصہ پالیتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنیوالے لوگ ہوتے ہیں جو ہر صدی کے سر پر آتے ہیں.وہ وقتی ضرورتوں کے لحاظ سے قرآن مجید کے خزانوں سے حصہ لیتے ہیں اور جس جس قدر ضرورتیں وسیع ہوں اور آنے والے کی استعداد قوی ہو.اسی قدر وہ ان خزانوں سے زیاد حصہ لیتا ہے.مگر لوگوں کی عجیب حالت ہے کہ وہ ہر مواقع پر سمجھ لیتے ہیں کہ قرآن مجید کے عجائبات اور معارف کا خزانہ ختم ہوگیا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ختم نہیں ہوتے.ایک اور آتا ہے جو ان علوم کا وارث ہوتا ہے اور وہ جدید معارف و حقائق کا خزانہ پیش کر دیتا ہے اور یہ سلسلہ برابر جاری رہتا ہے جو شخص یہی جھتا ہے کہ قرآن مجید کے حقائق و معارف ختم ہو گئے.اس نے نہ قرآن مجید کی حقیقت کو سمجھا اور نہ اس نے اس دنیا کا کچھ مزہ چکھا.وہ بالکل نا آشنا اور بیگانہ ہے.غرض قرآنی دنیا کے اندر جو کائیں اور ذخائر ہیں وہ کبھی ختم نہیں ہوتے.مگر بڑے افسوس اور تعجب کی بات ہے کہ بہت لوگ ہیں جو تدبر سے قاصر ہیں اور باوجود ایسے خزانوں اور دفاتر کی موجودگی کے وہ تدبیر نہیں کرتے.بلکہ دیکھا ہے کہ بعض آیات سینکڑوں زبانوں پر ہیں جو اپنے کثیر الاستعمال کی وجہ سے مثال یا ضرب المثل کا رنگ رکھتی ہیں.جیسے بعض شعر ہوتے ہیں کہ عام طور پر زبان زرد ہو جاتے ہیں.اسی طرح بعض آیات ہیں جو مثال کے طور پر زبان زدہ ہیں یہ صرف مسلمان بلکہ عیسائی اور دوسرے لوگ بھی مضمون کو وسعت دیگر استعمال کرلیتے ہیں.ایسی بہت سی آیات ہیں جو مثال کے طور پر رائج ہیں اور با وجود اس کے کہ وہ عام طور پر پڑھی جاتی ہیں.مگر پھر بھی تھوڑے ہیں جو حقیقت کے ماہر ہوں.بلکہ ایک لاکھ میں سے شاید ایک بھی ہو تو بہت ہے.اس قسم کی آیات میں سے ایک یہ آیت بھی ہے جو میں نے ابھی پڑھی ہے.اس زمانہ میں اس کا استعمال عام طور پرمسلمانوں میں کم ہے، مگر اسلامی لٹریچر کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمانہ میں اس کا استعمال ہوتا آیا ہے.دشمنوں کے مقابلہ میں بہبود اور عیسائیوں میں بھی یہ خیال پھیلا ہے.اب ہماری
جماعت میں بھی اس آیت کا استعمال ہوتا ہے، لیکن لگوں نے توجہ نہیں کی.ایک فریق دوسرے پر حملہ کرتا ہے مگر مضمون سے ناواقف ہے.ایک مفہوم ایک غیر معین خیال ایک غیر تمتاز اثر ان کے دلوں پر ہوتا ہے مگر وہ اس کی تعیین تبیین نہیں کر سکتے.اس کا ایک مفہوم دلوں میں پیدا ہوتا ہے جگر حد بندی کے بغیر استعمال شروع کر دیتے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بعض کو خیال ہو گیا ہے کہ اس آیت کے مفہوم کے موافق اکثر حصہ گمراہ ہوتا ہے.لیکن یہ خیال بالکل باطل ہے.اگر یہی مفہوم ہو تو پھر اكثر من فی الارض کے یعنی ہوں گے کہ دنیا میں جس مذہب کے زیادہ پابند ہیں.وہ جھوٹا ہے.پھر حدیوں پر پیکس طرح عائد ہوگی.کیونکہ یہاں یہ نہیں فرمایا - اكثر من يتبعون الاسلام یہ نہیں فرمایا کہ مسلمانوں احمدیوں بیسیوں یا شیعوں میں سے جن کی تعداد زیادہ ہو وہ گمراہ ہے.یا دو فریق باہم جھگڑیں.اور ان میں سے جن کی تعداد زیادہ ہو وہ گراہ ہو.پس یہ معصوم پیدا کرنا کسی صورت میں درست نہیں ہوسکتا.اکثر من في الارض کے معنوں کے لحاظ سے زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ جو دنیا میں سب سے زیادہ ہوں وہ گمراہ ہیں.اور وہ عیسائی یا بدھ ہیں.مگر سیاق و سباق میں نہ عیسائیوں کا ذکر ہے نہ بڑھوں کا ریپس اگر فی الحقیقت اس آیت کا یہ مفہوم ہوتا تو الفاظ زیادہ سے زیادہ اس بات کے متحمل ہو سکتے تھے کہ زمین میں جو سب سے زیادہ آباد ہیں وہ گراہ ہیں کیونکہ لفظی ترجمہ یہ ہے کہ اگر تو اطاعت کرے گا زمین پر بسنے والوں میں سے اسکی جو اکثر ہیں.وہ اللہ کی راہ سے گمراہ کر دیں گے.تو ان الفاظ کے یہ معنے ہوئے کہ سب سے زیادہ جو مذہب ہے وہ گمراہ ہے حالانکہ یہ غلط ہے.کیونکہ اگر یہی مطلب ہوتا تو پھر اسلام کے متعلق یہ پیشگوئیاں ہیں کہ وہ سب پر غالب اور سب سے زیادہ ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کوبھی یہی بتایا گیا کہ باقی مذاہب اس قدر کم ہو جائیں گے کہ گویاوہ رہے ہی نہیں.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تو بعثت ہی اس غرض کے لیے ہوتی ہے.تو اس کہ حالت میں نعوذ باللہ اس کے پڑھنی ہونگے کہ اسلام ہی جھوٹا ہے (نعوذ باللہ من ذالک) یہاں کسی مذہب کی تعداد کا ذکر نہیں.اور نہ کثرت وقلت کی بحث ہے.بلکہ قرآن مجید کو یہ تعلیم دینا مقصود ہے کہ اطاعت کے قابل اکثر نہیں ہوتے ، بلکہ کم ہوتے ہیں.مسلمانوں کی ایک تعداد قرار دینی پڑے گی.خواہ احمدی ہوں.خواہ ان سے پہلے کے مگر ہرمسلمان اس قابل نہیں کہ وہ مطاع ہو.اور اس کی اطاعت کی جاوے.کروڑوں مسلمان ایسے نہیں گئے جو اس لیے
اسلام کو مانتے ہیں کہ ان کے ماں باپ مسلمان تھے اور اس سے زیادہ ان کو کوئی خیر نہیں.توکیا کوئی شخص یہ تسلیم کرنے کو تیار ہو جائے گا کہ ہر ایسے شخص کی اطاعت کی جاوے.اگر ایسا ہو تو اسکا نتیجہ بھر گاری کے اور کیا ہوگا.اس سے یہ پایا جاتا ہے کہ اطاعت تو اس کی ہوتی ہے جس میں عرفان اور تقویٰ ہو اور وہ اس قابل ہو کہ صراط مستقیم پر دوسروں کو لے جاسکے.غرض اس آیت میں قابل اطاعت لوگوں کا ذکر ہے.ماننے والوں کی تعداد کی قلت و کثرت کی بحث نہیں.پس اس آیت سے قلت و کثرت کو معیار صداقت قرار دینا غل نیا غلطی ہے.بعض لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ بدوں غور و فکر کے یونی کسی نے بکواس کی اس کے ماننے کے لیے تیار ہوگئے دیگر قرآن مجید اس سے منع کرتا ہے.اور اس آیت میں تو خصوصیت کے ساتھ وہ اس اصل کو بیان کرتا ہے کہ اطاعت کے قابل تھوڑے ہوتے ہیں.بلکہ اقل کی اطاعت ہوتی ہے.خواہ سب کے سب پہنچے ہی ہوں، لیکن وہ سب اس قابل نہیں ہوتے کہ مطاع ہوسکیں مثلاً احمدی ہیں.کیا وہ سب کے سب گراہ ہیں ؟ ہرگز نہیں.لیکن کیا ہر احمدی سے فتویٰ پوچھا جائے گا.اور اسے یہ درجہ دیا جائے گا کہ وہ شریعت کے احکام بتاتے اور نماز روزہ کے مسائل اس سے بطور فتوئے پوچھے جاتیں ؟ کبھی نہیں.اگر الیا ہو گا تو ٹھوکر لگنے کا احتمال ہو گا.وہ ایک مسلمان ہے کیونکہ میں حمدی اور مسلمان کا ایک ہی مفہوم سمجھتا ہوں.وہ ناجی ہے.قرآن مجید اور رسولوں پر یقین لاتا ہے.جزا دینا اور قیامت کو مانتا ہے اللہ اور اس کے ملا کہ پرایمان لاتا ہے مسئلہ قدر کو مانتا ہے پھلی اور آنیوالی وجی پر ایمان لاتا ہے.مگر بایں ہر شخص میں یہ طاقت نہیں کہ وہ مطاع ہو سکے پس خوب یاد رکھو کہ یہاں ہدایت یافتہ یا گراہ کا ذکر نہیں بلکہ قابل اطاعت کا ذکر ہے.چنانچہ فرمایا وان تطع اكثر من فی الارض اگر تم اکثر فی الارض کی اطاعت کرو گے توده خدا تعالیٰ کی راہ سے تمہیں دور لے جائیں گے.ہر شخص جس کو عرفان یا علم نہیں وہ کیا بنائے گا.جو شخص ایک عالم باللہ کی موجودگی میں جب ایسے شخص سے فتوی پوچھے گا جو اہل نہیں تو قابل الزام ہوگا.اور اس کا نتیجہ گمراہی کے سوا کیا ہو گا.یہ بھی یاد رکھو کہ جس موقع پر یہ آیت ہے.وہاں مشرکوں کا ذکر ہے لیکن اگر مسلمانوں کا ذکر ہو تودہ گراو نہیں مگر اطاعت کے بھی قابل نہیں.ہاں وہ ساتھی ہیں جیسے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام مطاع تھے باقی احمدی جس قدر تھے وہ باہم بھائی تھے.حضرت صاحب کے مطارع اور ہمارے مطیع ہونے سے ہمارے
گراہ ہونے کا نتیجہ ہیں نکلتا.یا پھر باقیوں میں سے فتویٰ وغیرہ کے لحاظ سے اور مطارح تھے.مثلاً حضرت مولوی عبدالکریم رضی اللہ عنہ حضرت مولوی نور الدین رضی اللہ عنہ دیگر باوجود اسکے یہ کوئی نہیں کر سکتا کہ باقی سب گراہ تھے کیونکہ وہ علم وعرفان ان میں نہ تھا.کیوں ؟ اکثر لوگ علم پڑھے ہوئے نہیں ہوتے.اور پڑھے ہوتے بھی ہوں تو اس کے ساتھ تقویٰ اور عرفان ضروری چیز ہے.اس لیے ایسے لوگ جو پڑھے ہوئے نہ ہوں یا علم وعرفان نہ ہو وہ فطن کی پیروی کرتے ہیں.قیاس کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ وہ علم میں کی بنا پر نہیں نہیںکرسکتے.اور اس طرح پر حقیقی تشریح نہیں ہوتی بہت لوگوں سے پوچھ کر دیکھ لو کہیں گے کہ میرے خیال میں یوں ہے.یہ نہیں کریں گے کہ قرآن مجید کی بینات کی بنام پر کھتے ہوں.علم اور عرفان کی کی کی وجہ سے یہ بات ہوتی ہے.غرض جو علم و عرفان والا ہوا سکی اتباع کروایس آیت میں مسلمانوں کو اسی بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ گمان کرنے والے اٹکل پچو باتیں بنانے والے بنو واقفیت علم کی ان سے حاصل کرو جو علم و عرفان سے ماہر ہوں.اگر کوئی شخص کسی جاہل سے پوچھ کر عمل کرے تو اس کا یہ کہہ دینا کہ میں نے فلاں سے پوچھ لیا تھا محبت نہیں ہو گا پس یا درکھو کہ قابل اطاعت قلیل ہی ہوتے ہیں خواہ بہ لحاظ مسائل اصولی کے خواہ بہ لحاظ مسائل تفصیلی کے.دیکھیو اگر ایک جاہل زمیندار سے خدا تعالیٰ کے موجود ہونے اور اس کی ذات یا عرش کے متعلق سوال کردر وہ یونی کچھ خیالات ظاہر کر دے.اور تم یقین کر لو تو یقینا اس کا نتیجہ گرا ہی ہوگئی پی یہاں یہی تعلیم ہے کہ قابل اطاعت قلیل بلکہ افل ہوتے ہیں.اگر یہ اصول قرار دیا جائے گا کہ اکثر حصہ گراہ ہوتا ہے تو اس سے اسلام پر سخت حملہ ہوگا.اس لیے اس حقیقت پر غور کر وہ جو اس میں بیان کی گئی ہے.اس میں شک نہیں کہ لاکھوں کی زبان پر یہ آیت جاری ہے مگرا سکے مضمون پر غورنہیں کیا گیا.اس لیے ہمیشہ اس اکھول کو مضبوط پکڑے رکھو کہ جو شخص قرآن مجید حدیث کا علم اور عرفان نہیں رکھتا اور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے کلام پر اس نے تفقہ نہیں کیا اس کا حق نہیں کہ وہ فتویٰ دے یہ ایک معنی اس آیت کے ہیں جن کو لوگوں نے نہیں سمجھا اللہ تعالیٰ ہم کو توفیق دے.آمین : الفضل جولاتی شوت
44 15 جد امراء توجہ کریں فرموده ۲۳ را گست ۱۹۱۷ه حضور نے تشد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد مندرجہ ذیل آیت پڑھ کر فرمایا: "وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَانَّ اللَّهَ عِنْدَهُ اجر عظيم - (انفال رکوع ۳) ہر ایک کام کیلئے نہایت ضروری ہوتا ہے کہ انسان اس کے متعلق جسقد رامور ہیں ان سیکو مدنظر رکھے مثلا کسی کام کے کرنے سے پہلے ضرورت ہے کہ سوچا جائے کہ اس کی غرض کیا ہے ؟ اور اس کے کرنے سے کیا فائدہ ہوگا.کیا ضرورت ہے اور کون سے ذرائع ہیں جن سے وہ کام کامیابی کے ساتھ ہوسکتا ہے اور کیا ہو گئیں ہیں جو اس کے رستہ میں حائل ہیں.اگران باتوں پر غورنہ کیا جائے توپھر کامیابی نہیں ہوسکتی مثلاً کوئی شخص کسی کام کو شروع کرتا ہے لیکن وہ نہیں جانتا کہ اس میں فوائد کیا ہیں.تو وہ ہر گنہ باوجود اس کام کے کرنے کے اس میں اسقدر محنت نہیں کریگا جسقدر محنت کرنے کی ضرورت ہوگی اور نہ وہ اسقدر محنت کرنے کے لیے تیار ہو سکتا ہے اس کی کوشش اُدھوری رہے گی.اس کا جوش سرد ہوگا ، لیکن اگر اس نے غور کیا ہوگا اور اسے معلوم ہوگا کہ یہ کام کنا مفید ہے اور اس پر یہ ثابت ہوگیا ہوگا کہ اس کے کرنے سے مجھے کتنے فوائد حاصل ہونگے تو پھر اس کی توجہ ہمہ تن اس کی طرف لگ جائیگی.ثلاً جنگ ہے.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کی قوموں نے بھی کی اور آپ کے وقت بھی ہوئی کئی فاتح اُٹھے ان میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو قریب ساری دنیا پر پہنچ گئے.ان میں سے ایک تو تیمور ہے اور ایک حد تک نپولین ہیں کی فتوحات یورپ اور افریقہ میں تھیں.ان سے پہلے سکندر اور سکندر سے پہلے ایرانیوں نے بھی کئی فتوحات حاصل کیں.مگر آج جو حالت ہے وہ پہلے نہیں تھی جیسی کوشش سے آج جنگ ہو رہی ہے.ویسی کبھی پہلے نہیں ہوتی.پہلی جنگیں بادشاہوں کی جنگیں تھیں.اور تھوڑی ایسی جنگیں تھیں جنکو رعایا نے اپنی جنگ خیال کیا.سوائے ان جنگوں کے جو آنحضرت صلی اللہ علی وسلم
سے ہوئیں.پہلی جنگیں ایسی تھیں کہ سپاہی کچھ تنخواہ لیتے تھے.ان کو فریق مخالف کے خلاف کوئی جوش نہ ہوتا تھا.انہیں یہ مد نظر نہ ہوتا تھا کہ تیمور فتح حاصل کرتا ہے یا اس کا مدمقابل ، وہ لڑتے تھے لیکن اصل جوش ندار د تھا.ہاں وہ جوش پیدا ہو جاتا تھا.جو لڑائی کے وقت ہوتا ہے.جو دوست لڑائی سے آتے ہیں.ان میں سے بعض کے ق سے میں نے پوچھا ہے کہ لڑتے وقت کیسا جوش ہوتا ہے.جوش پیدا ہونے کے تو سب مقر ہیں، مگر ایک نے کہا کہ لڑتے وقت خود بخود اس نظارہ سے ایک جوش پیدا ہو جاتا ہے.اگر اس وقت ہتھیار نہ ہوں تو ہا تھوں سے ہی دشمن کو نوچ لینے کو جی چاہتا ہے.یہ جوش تو ہے ، مگر یہ جنگ کے باعث ہے نہ کہ جنگ اس جوش کے باعث ہوتی ہے تو وہ جوش اصلی جوش نہیں تھے.کیونکہ وہ جنگیں ملک کی جنگیں نہیں ہوتی تھیں.بلکہ را جاؤں اور بادشاہوں کی جنگیں ہوتی تھیں.اس لیے اس جنگ کا اثر بھی ہوتا تھا کہ لڑنے والے ایک میدان میں لڑتے تھے.اگر اس میں قدم آگکھڑ گئے تو شکست ہو گئی اور اس ملک کے باشندے وفود کی صورت میں فاتح کی خدمت میں حاضر ہو گئے کہ ہم آپ کے تابع ہیں.کیونکہ لڑنے والوں کو معلوم نہیں ہوتا تھا.کہ ہم کیوں لڑے تھے اور کیوں لڑائی کو جاری رکھیں، لیکن آج تعلیم کی ترقی کی وجہ سے ہر شخص کو حکومت میں کچھ نہ کچھ دخل ہے اس لیے وہ جنگ راجہ یا بادشاہ کی جنگ نہیں خیال کرتا.بلکہ یہی خیال کرتا ہے کہ میری جنگ ہے اور اس میں اگر شکست ہوئی تو میری آزادی چھین جائیگی.ایشیائی افواج کو اگر الگ کر کے دیکھا جائیگا.تو معلوم ہوتا ہے کہ یورپین اقوام اسی غرض سے لڑرہی ہیں کہ اس جنگ میں ہماری بادشاد بہت ہماری حکومت اور ہماری آزادی خطرہ میں ہے.بڑے بڑے امراء جن کی ہزاروں لاکھوں کی آمدنی ہے و معمولی سپاہیوں کی طرح میدان میں لڑرہے ہیں.گھر پر آرام و آسائش اور بیسیوں خدمتگذاروں کو چھوڑ کر ایک سپاہی کی حیثیت سے میدان میں دوسروں کی خدمت کر رہے ہیں.کیوں ؟ اس لیے کہ جانتے ہیں کہ اگر ہم نے سستی سے کام لیا تو ہماری قومی آزادی مٹ جائیگی.جرمن و آسٹریا میں بعض علاقے ہیں جو اس جنگ کو اپنی جنگ نہیں سمجھتے.بلکہ بادشاہوں کی جنگ جانتے ہیں.اس لیے ان میں لڑائی کے لیے کوئی خاص جوش نہیں.ہے اور جب وہ خطرہ دیکھتے ہیں تو بھاگ جاتے ہیں.لیکن جو تو میں اس جنگ کو اپنی جنگ سمجھتی ہیں.وہ بڑی بہادری اور دلیری سے مشکلات کو جھیلتی ہیں جس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کسی کام کی غرض وغایت کو سمجھ کر کرنے اور ونی کرنے میں کس قدر فرق ہوتا ہے.غرض جب تک کسی کام کے فوائد معلوم نہ ہوں.جوش پیدا نہیں ہو سکتا.اور پھر جب تک اس کے کرنے کے ذرائع معلوم نہ ہوں.کامیابی نہیں ہو سکتی.مثلاً کوئی طالب علم ہو اور وہ چاہتا ہو کہ میں فاضل ہو جاؤں اور
اعلی سندات حاصل کروں مگر اسکو معلوم نہ ہو کہ فاضل ہونے کے لیے کس قدر محنت کی ضرورت ہے اور وہ ایک آدھ گھنٹہ پڑھ کر ہی اس کو کافی سمجھ لے تو کیا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیگا.ہرگز نہیں کیونکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ فاضل بننے کے ذرائع معلوم کر کے ان پر کاربند ہو اور اس مقصد کے راستہ میں حائل ہونے والے مواضعات کا پتہ لگا کر انہیں دور کرے.اگر وہ ایسا کریگا تولا زما کامیاب ہو جائیگا یہی بات ہر ایک مقصد اور دُعا کے لیے ضروری ہے.ہماری جماعت میں داخل ہونے والوں کے لیے بھی اس کی طرف توجہ کرنے کی بہت ضرور ہے انہیں چاہتے کہ وہ سوچیں کہ اس جماعت میں داخل ہونے کی ہماری غرض کیا ہے اور کیا فوائد ہیں جو ہمیں حاصل ہونگے اور کیا مشکلات ہیں جو ہمارے راستہ میں حائل ہونگی.پھر یہ جن اغراض کو لیکر ہم اس جماعت میں آتے ہیں اور جو ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں.ان کو پورا کرنے کے لیے کسقدر سعی اور کوشش کی ضرورت ہے.کیونکہ اگر یہ معلوم نہیں اور اس کے مطابق عمل نہیں تو ان کی کوشش اُدھوری ہو گی.ان کے جوش سرد ہونگے.ان کی محنت ناتمام ہو گی.اور ان کے ولولے ٹھنڈے ہونگے انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ ان کے صرف احمدی کہلانے کی وجہ سے انہیں کامیابی حاصل نہ ہو جائیگی.کیونکہ کامیابی نام سے نہیں ہوتی.بلکہ کام سے ہوتی ہے اور کام پورے جوش اور محنت سے اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اس کے فوائد اس کے کرنے کے طریق اور اس کے موانعات کا پورا پورا علم اور آگاہی نہ ہو.صرف نام رکھ لینے سے اگر کامیابی ہو سکتی تو پھر خدا تعالیٰ کو ایک نب کو بھیج کر اس کے بعد کسی دوسرے کے بھیجنے کی ضرورت نہ ہوتی.فقط ایک آدم علیہ اسلام کی طرف منسوب ہونے والے آدمی کہلاتے رہتے اور آج تک آدمی کہلا رہے ہیں، لیکن چونکہ محض آدمی کہلانا کافی نہیں تھا اس لیے خدا تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے بعد دوسرے نبیوں کو بھیجا.کیونکہ آدمی اسما تو کہلاتے تھے لیکن وہ آدم کی حقیقت ان میں نہیں پائی جاتی تھی.جو حضرت آدم میں خدا نے رکھی تھی اور جس کے لیے انہیں مبعوث کیا تھا.اسی طرح نوح علیہ السلام کی اُمت نے حضرت نوح کے کاموں کو جب چھوڑ دیا.تو با وجود حضرت نوح کی اُمت کہلانے کے خدا نے ایک اور نبی بھیجا.جس نے ان کو اصل حقیقت کی طرف متوجہ کیا.پھر اگر محض نام کے لحاظ سے کسی جماعت میں داخل ہو جانا نجات کے لیے کافی ہوتا.تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے سے نجات ہوتی کیونکہ آدم کی تمام اولاد میں سے آج تک کوئی انسان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی شان کا پیدا نہیں ہوا، اور نہ آئندہ پیدا ہو گا.خدا تعالیٰ نے آپ کو تمام بنی آدم پر ہر لحاظ سے فضیلت اور بڑائی بخشی ہے.پس اگر کسی اہمی تعلق کی وجہ سے
69 نجات ہوسکتی ہے.تو یقینا اس نبیوں کے بادشاہ اور اولیا کے شہنشاہ کی طرف منسوب ہونے سے ہو جاتی لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اسما منسوب ہونے سے اس وقت تک نجات نہیں ہو سکتی جب تک کہ ان مقاصد اور اغراض کو نہ پورا کیا جائے جو آپ کی اُمت میں داخل ہونے سے عائد ہوتے ہیں.تو پھر آپ کے خادم حضرت مسیح موعود کی جماعت میں اسما داخل ہونے سے کب نجات ہو سکتی ہے.پس جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کے لیے عمل کی ضرورت تھی.قربانیوں کی ضرورت تھی محنت اور تکالیف برداشت کرنے کی ضرورت تھی.اس مقصد کے حاصل کرنے کے مال و جان.اولاد عزت و آبرو- غرض ہر ایک پیاری سے پیاری چیز لگا دینے کی ضرورت تھی.اسی طرح اس جماعت میں بھی اس مقصد کے حاصل کرنے کے لیے جو ہمارا مقصد ہے تمام چیزوں کو قربان کر ڈالنے کی ضرورت ہے.محض اس میں داخل ہو جانا کوئی حقیقت نہیں رکھتا.ہماری جماعت میں داخل ہونے والے افراد کا فرض اولین ہے کہ وہ سوچیں کہ کیوں اس جماعت میں داخل ہوتے ہیں اور جب انہیں اس میں داخل ہونے کا مقصد معلوم ہو جاتے تو پھر دیکھیں کہ اس مقصد کے حصول کے لیے کن کن کوششوں کی ضرورت ہے ، اس کے رستہ میں کیا کیا روکیں ہیں.ان روکوں کو کس طرح دُور کیا جا سکتا ہے.یہ ظاہر بات ہے کہ ہماری جماعت کی غرض اتحاد بالله یعنی خدا کے ساتھ تعلق پیدا کرنا ہے اور جب کوئی شخص کسی دینی سلسلہ میں داخل ہوتا ہے تو اس کا فرض ہو جاتا ہے کہ اس صداقت کو جو اسے حاصل ہوتی ہے.دوسرے لوگوں تک پہنچائے اور اسے پھیلاتے پس ہماری جماعت کی غرض تو یہ ہے کہ خدا تعالے سے اتحاد ہو.اور یہ ایک ایسی غرض ہے کہ اسی میں شفقت علی خلق اللہ اور اسی میں طہارت نفس آجاتی ہے اور اسی میں اللہ کے رسولوں پر ایمان لانا بھی آجاتا ہے.ایک دفعہ رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک وفد آیا اور عرض کی حضور کوئی ایسی جامع بات بتائی جاتے جس کی وجہ سے ہم جنت میں داخل ہو جاتیں.آپ نے ان کے لیے پہلی بات یہ فرمائی کہ الایمان باللہ وحدہ اللہ کو ایک سمجھتے ہوتے اس پر ایمان لاق - اس پر آپ نے فرمایا : اتدرون ما الایمان باللہ وحدہ کیا جانتے ہو ایک اللہ پر ایمان لانا کیا ہے ؟ انہوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی جانتے ہیں.آپ نے فرمایاہ شهادة ان لا اله الا الله وان محمداً رسول الله واقام الصلوة وإيتاء الزكوة وصيام رمضان - کہ یہ شہادت دینا کہ اللہ ایک ہے اور محمد اس کا رسول ہے اور نمانہ پڑھنا.زکواۃ دینا اور روزے رکھنا یے.لے بخاری کتاب الایمان باب اداء المخمس من الائميان
ہم میں اور غیر مانعین میں جو جھگڑا ہے.وہ بھی آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کے اس قول سے فصیل ہو جاتا ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود کی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی نبوت سے علیحدہ کوئی نبوت نہیں ہے.پس جس طرح خدا کی وحدانیت پر اسی وقت ایمان لایا جا سکتا ہے، جبکہ خدا کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مانا جاتے.اسی طرح محمد رسول اللہ کی رسالت کو اسی وقت مانا جا سکتا ہے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کی نبوت پر ایمان ہو.والا نہیں.تو اسلام کا خلاصہ اللہ تعالے سے تعلق ہے.باقی نفس کی اصلاح اور شفقت علی خلق اللہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے ساتھ اتحاد ہونے میں آجاتی ہیں.اس کے لیے جو بھی مشکلات اور روکاوٹیں ہوں نہیں دیکھنا چاہیئے.ان کے رفع کرنے کی کوشش کرنا چاہیے.اگر کسی میں طہارتِ نفس اور شفقت علی اللہ نہیں تو اس کا اتحاد باللہ کا دعویٰ غلط ہے.خدا کے ساتھ محبت کا تعلق ایک تو خود اپنے نفس سے ہے جو طہارت نفس کہلاتا ہے اور دوسرا اپنے سے غیر کے ساتھ جو شفقت علی خلق اللہ ہے اگر ان دونوں میں سے کوئی نہیں تو اتحاد باللہ بھی حاصل نہیں ہو سکتا.عبادات.امانتداری حکومت کے فرائض کی ادائیگی تعرض دنیا کے سب کام اس میں آجائینگے.اور یہ اعراض ہو ہیں.ان سب کے حصول کے لیے بڑی محنت اور کوشش کی ضرورت ہے.اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جتنی سعی کی ضرورت ہے.اتنی ہی احتیاط کی بھی ضرور ہے کیونکہ جسقدر کوئی کام اہم ہوتا ہے.اسی قدر اس کے لیے احتیاط کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے.مثلاً اگر ایک پیسہ کہیں ضائع ہو، تو اس کی چنداں پرواہ نہیں کرتا، لیکن جہاں اس کے بیٹے کی جان خطرہ میں ہو گی.وہاں نہایت کوشش و احتیاط کو کام میں لائیگا.چونکہ یہ کام بھی کوئی معمولی نہیں ہے.اس لیے اس کے لیے معمولی احتیاط کی ضرورت نہیں.بلکہ غیر معمولی احتیاط کی ضرورت ہے.کیونکہ جتنا عظیم الشان کام ہوتا ہے.اتنی ہی بڑی بڑی روکیں اسکے رستہ میں حائل ہوتی ہیں جو مقصد آپ کے مدنظر ہے وہ چونکہ بہت ہی عظیم الشان ہے اس لیے اس مقصد کے حصول میں بڑی بڑی مشکلات بھی ہیں.اور آپ جانتے ہیں کہ جتنا بلند مینار ہوگا.اتنی ہی زیادہ محنت اس پر چڑھنے کے لیے بردا کرنی پڑیگی.نہیں اس مقصد عظیم میں جو روکیں اور مشکلات ہیں.ان کا دور کرنا آپ کے فرائض میں داخل ہے جس مقصد کے لیے آپ کھڑے ہوتے ہیں اس سے بڑا اور بہتر کوئی مقصد نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے.یعنی خدائے واحد کو پاکیتا اور اس سے اتحاد حاصل کر لینا.اس کے لیے جو مشکلات حائل ہوں ان کو دُور کرنے کے لیے بہت توجہ اور محنت کی ضرورت ہے.خدا پر ایمان لانے کا دعوی تو
2.0 A عیسائی بھی کرتے ہیں، بلکہ اپنی کتابوں میں لکھے ہیں کہ موحد تو یہ ہی ہیں اور مسلمان مشرک ہیں لیکن کیا در حقیقت وہ خدا کو ایک مانتے ہیں؟ ہرگز نہیں.تو ہمارا مقصد اس قسم کا ماننا نہیں بلکہ حقیقی طور پر خدا کو پالیا ہے.پس ہمارا فرض ہے کہ ان تمام روگوں کو دور کرنے کی کوشش کریں جو اس مقصد کے حصول میں حائل.ہوں جگر میں دیکھتا ہوں ک کسی شخص کو کچھ مال مل جاتا ہے.تو وہ دین کی طرف سے بے پرواہ ہو جاتا ہے.اگر اولاد ہو جاتی ہے تو دین کی طرف سے سستی ہونے لگتی ہے، بعض لوگوں کو رسم ورواج اور اور عادات.عزت و آبرو وغیرہ کا خیال اس مقصد کے حصول میں روک بن جاتا ہے.حالانکہ معمولی مقصد تو معمولی کوشش اور سبھی سے حاصل ہو جایا کرتا ہے مگر بڑا مقصد تھوڑی کوشش سے حاصل نہیں ہوتا.اگر دس سیڑھیوں کی اونچائی ہو تو دس قدم میں چڑھ جائیگا، لیکن قطب صاحب کے مینار پر دس قدم میں نہیں چڑھا جائے گا.اس کے لیے جتنا وہ بلند ہے اتنی ہی زیادہ کوشش کی ضرورت ہے خدا اور اس کے دین کے لیے ہرقسم کی قربانی نہ کرنا اس کی توحید پر ایمان لانا نہیں ہوتا.اللہ تعالے فرماتا ہے.وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمُ فِتْنَةٌ وَأَنَّ اللَّهَ عِندَهُ أَجْرُ عظیم - خوب اچھی طرح جان لو کہ تمہارے مال و اولا د کھوٹے کھرے کے پرکھنے کا ذریعہ ہیں.بعض لوگوں نے اس کے یعنی کہتے ہیں کہ اولاد اور مال مصیبت ہیں.لیکن یہ غلط ہیں.فتنہ کے معنے کھوٹے اور کھرے میں امتیاز کرنے کا ذریعہ کے ہیں.اور وہ اس طرح کہ جب کسی کے پاس مال ہو گا بھی معلوم ہو سکے گا کہ یہ خدا کی راہ میں مالی قربانی کرتا ہے یا نہیں.اسی طرح جب کسی کے ہاں اولا د ہو گی جب ہی معلوم ہوگا کہ اولاد کو خدا کی راہ میں قربان کرتا ہے یا نہیں، لیکن جس کے پاس مال ہے نہ اولاد اس کے متعلق کیسے معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ ان چیزوں کو خُدا کی راہ میں دے سکتا ہے.اور اس کا کھوٹا کھرا کیوں کہ پرکھا جاسکتا ہے.ہیں جب ایک مالدار خدا کی راہ میں مال قربان کر گیا تو یہ اس کے لیے ذریعہ تمیز ہو جائیگا اس کے کھرے اور کھوٹے ہونے کا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.مال اور اولاد دینے کا نتیجہ کیا ہو گا.یہ کہ ان الله عِنْدَ اجر عظيم - مال و اولاد خدا کے امتحا نا تمہیں بطور نمونہ کے ہوگا دیتے ہیں.اس سے قیاس کرلو کہ جب تم خدا کی راہ میں قربانیاں کروگے تو خدا جونمونہ میں ایسی ایسی نعمتیں دے سکتا ہے اور دیتا ہے.وہ اجر میں کیا کچھ نہیں دیگا.تو فرمایا.اللہ کے پاس اجر عظیم ہے اب غور کرو کہ وہ خدا جو بغیر کسی عمل کے محض اپنے فضل سے استقدر مال و دولت دیتا ہے جب کوئی اس کے احکام مانے گا.کتنا بڑا اجر دیگا.تو مال و اولا د خدا نے نمونہ کے طور پر دیتے ہیں.اور اس لیے دیتے ہیں کہ ہم نیکی میں قدم بڑھائیں.اور یہ ہمارے لیے نیکی میں بڑھنے کے لیے ترغیب و تحریص
کا موجب ہوں.مگر عجیب بات ہے کہ لوگ اس نمونہ کی چیز پر ہی استقدر غافل ہو جاتے ہیں کہ اصل انعام کو بھلا بیٹھتے ہیں.حالانکہ ان کو سوچنا چاہتے کہ میں خدا کی رحمانیت یہ کچھ کرسکتی ہے.اس کی رحیمیت کیا کچھ نہ کرے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحاب میں جو امراہ تھے وہ دین میں شکست نہیں تھے.ایک دفعہ غریب اصحاب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضور ہمارے امیر بھائی تو صدقات و خیرات کے ذریعہ بہت سی نیکیاں بجالاتے ہیں.جن سے بوجہ غریبی ہم محروم ہیں.اس کے لیے ہمیں کوئی ایسا کام بتا دیجئے کہ جس کے ذریعہ اس کمی کی تلافی ہو سکے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ۳۳ دقعہ سبحان الله ۱۳۳ دفعہ الحمد لشد ۳۲ دفعہ اللہ کر ہر نماز کے بعد پڑھا کرو جب غربا.نے اس پڑھل کر نا شروع کر دیا تو امراء نے بھی یہ تسبیحیں پڑھنی شروع کر دیں.اس پر غربا ہ آنحضرت کے پاس پھر حاضر ہوتے اور کہا کہ حضور امراء نے بھی یہ عمل شروع کر دیا ہے.فرمایا.آپ میں کیا کروں.جنگو اللہ نے فضیلت دی ہے میں ان سے کیسے چھین سکتا ہوں ہے یہ حالت سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اور کسی نبی کی اُمت میں نظر نہیں آتی.حضرت مولی کا مقابلہ کرنے والے ان کی قوم کے سردار ہی تھے اور حضر میشیح تو دولتمندوں سے استقدر ستائے گئے معلوم ہوتے ہیں کہ کہتے ہیں.دولت مند خدا کی بادشات میں داخل نہیں ہو سکتا یہ ایک دفعہ ایک مالدار آپ کے پاس آیا اور عرض کیا مجھکو بھی تعلیم دیجیتے آپ نے فرمایا جاپہلے اپنا سب مال تقسیم کر دے اور پھر میرے پاس آبیٹے غرض مال تو لوگوں کو نمونہ کے طور پر بغرض آزمائش کے دیا جاتا ہے جس سے نیکی کی طرف ترغیب و تحریص ولا ناید نظر ہوتا ہے مگر لوگ اسی کو اصل چیز سمجھ کر اس پر ایسے لٹو ہو جاتے ہیں کہ دین کے معاملہ میں بہت سستی سے کام لیتے ہیں.رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کے صحابہ میں جو اطاعت و فرمانبرداری تھی اسکی نظیر معنی شکل ہے.انکے امراء بھی غرباء کی طرح دین کے لیے جان شاہ اور خادم تھے.حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت بڑے مالدار تھے.ان کے پاس کئی کروڑ درہم موجود تھا.آنحضرت کے ایک دوسرے صحابی حضرت ابو ذر غفاری تھے جن کا عقیدہ تھا کہ انسان کے پاس روز کے خرچ سے زیادہ نہیں ہونا چاہتے اگر ہو تو اس کو اسی روز خروج کر ڈالنا چاہیئے.انہوں نے حضرت عبد الرحمن بن عوف پر اعتراض کیا کہ تم نے اتنا مال کیوں جمع کر رکھا ہے.انہوں نے له بخاری کتاب الصلوة باب الذكر بعد الصلوة : لے، سے لوقا
AW جواب دیا کہ بیشک میرے پاس بہت مال ہے، لیکن میری ذات پر مہینہ میں تین چار درہم سے زیادہ خرچ نہیں ہوتے لیے ہماری جماعت غربا کی جماعت ہے.اس میں نہ بڑے بڑے زمیندار ہیں.نہ بڑے بڑے تاجر بلکہ جولوگ بڑے سمجھے جاتے ہیں.وہ چونکہ غرباء میں شامل ہیں.اس لیے ان غرباء کی نسبت سے بڑے معلوم ہوتے ہیں.ورنہ در حقیقت دوسروں کے مقابلہ میں ہماری جماعت کے امراہ بھی غریاہ ہی ہیں.حالی کا شعر ہے.کر دیا مر کے بیگانوں نے یگانہ ہمکو ورنہ یہاں کوئی نہ تھا ہم میں یگانہ ہرگز کہ وہ شعراء جو بڑے تھے، وہ تو مرگتے اس لیے ہم جو بڑے نہ تھے.بڑوں کے نہ ہونے کے باعث بڑے شمار ہونے لگے.تو ہماری جماعت کے امراء واقعی امراہ نہیں بلکہ وہ غربامہ کی جماعت میں ہونے کے بات خریار کی نسبت سے امیر ہیں اگر اور لوگوں کی نسبت دیکھا جاتے تو وہ امرا میں شامل نہیں ہو سکتے.ایک کنسٹیبل جب زمینداروں میں جائیگا تو دارو خرجی یا معدار صاحب کہلا ئیگا، لیکن جب وہ تھانیدار کے سامنے ہو گا تو اس و ہی پوزیشن ہوگی جو اس کے سامنے ان زمینداروں کی تھی ہیں در حقیقت ہمارے سلسلہ کے امراء کی امارت نسبتی ہے ورنہ بڑے بڑے تاجروں کے مقابلہ میں اگر کوئی تاجر بھی ہے تو اس کی بڑی شان نہیں.ایسے ہی اگر کوئی زمیندار ہے تو وہ بھی معمولی ہے.یا کوئی چار پانسو روپیہ ماہوار کا نوکر ہے.یا کسی کا پیشہ وکالت ہے یا اور کوئی کام کرتا ہے مگر اتنے پر بھی میں دیکھتا ہوں کہ عام طور پر ایسے لوگ دین کے معاملات میں سستی سے کام لیتے ہیں اور انہوں نے اس غرض کو جو اس سلسلہ میں شامل ہونے کی تھی.پس پشت ڈال رکھا ہے، نمازوں میں سستی کرتے ہیں.یا اور کوئی دین کا کام سپرد کیا جاتا ہے تو اس کی نسبت لا پرواہی برتی جاتی ہے کیسی انجمن کے نمبر ہوتے ہیں تو اس میں شامل نہیں ہوتے.اسلام کی اشاعت اور تبلیغ کو اپنا فرض نہیں سمجھتے کیا ایسے لوگوں کو خبر نہیں کہ حضرت مسیح موعود نے ان کے لیے ایک بددعا کی ہے.جو دین کی طرف سے لاپروا ہیں.چنانچہ فرمایا ہے.اسے خدا ہرگز مکن شاد آل دل تاریک را آنکه او را فکر دین احمد مختار نیست کہ اسے خدا اس تاریک دل کو کبھی خوش نصیب نہ کر جبکو آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کے دین کی فکر نہیں ہے.یہ بددعا ہے.جو حضرت مسیح موعود کے منہ سے دین سے غفلت برتنے والوں کے حق میں نکلی ہے.اسلئے به اضا به جلدم وسيرة الصحابه جلد اول ما
ان لوگوں کے لیے نہایت خوف کا مقام ہے.جو اسلام کی اشاعت کے لیے کوشش نہیں کرتے.یہ ایک عجیب بات ہے کہ ہندوستان کے جس قدر امراء ہمارے سلسلہ میں شامل ہیں.وہ سب دین کے لیے خاص جوش اور قربانی کرتے ہیں، لیکن پنجاب کے امراء میں کستی پائی جاتی ہے.گو پنجاب کے غریب ہے دین میں بہت بڑھے ہوتے ہیں.مگر امراء بہت پیچھے ہیں، لیکن ہندوستان کے امرامہ کی حالت پنجاب کے امراء سے دین کے معاملہ میں بالکل مختلف ہے وہ جس طرح مال کے لحاظ سے درجہ کے لحاظ سے پنجاب کے لوگوں سے بڑھے ہوتے ہیں.اسی طرح دین کے لیے جوش و اخلاص.تواضع و انکسار میں بہت بڑے ہوتے ہیں.اہل پنجاب کے ایسے لوگوں کو بہت جلد اس نقص کو دور کرنا چاہیئے.ورنہ اگر وہ دین کے معاملات میں چشتی اور جوش و اخلاص اور ایثار و قربانی سے کام نہیں لینگے تو یاد رکھیں کہ وہ خدا جو دے سکتا ہے.وہ لے بھی سکتا ہے.خدا نے یہ مال وغیرہ ان کو اس لیے دیا تھا کہ ان کی آزمائش کی جائے اور کھوٹے کو کھرے سے اور جھوٹے کو نیچے سے الگ کر کے رکھ دیا جائے.اور یہ نمونہ کے طور پر اس نے انہیں عطا کیا تھا.پس اگر وہ اسی پر غافل ہو گئے.تو واقعی یہ مال ان کے لیے آفت ہو جائیگا جس کی انکو خبر نہیں.ہم میں جو معززہ ہیں.جو عالم ہیں جو مالدار ہیں یا جو ذی وجاہت و ذی مرتبہ ہیں.ان سب کا فرض ہے کہ وہ ہستی اور کاہلی کو چھوڑ دیں.بڑائی و نخوت سے بالکل پاک ہو جائیں اور نیکی میں ترقی کریں.دین کے لیے قربانی کریں اور دین کے کاموں کو ہتک نہ خیال کریں.بلکہ بڑھ چڑھ کر حصہ ہیں جب وہ ایسا کریں گے تو خدا کے فضل ان کے ساتھ ہونگے.ورنہ خدا کی گرفت سخت ہے اور حضرت صاحب کی بددعا ہے کہ خدایا جو لوگ دین سے بے فکر ہیں انکو خوشی نصیب نہ ہو جس طرح غربامہ دین کی خدمت میں مصروف ہیں.اور اعمال شرعی کو بجالانے میں سُست نہیں اسی طرح انہیں بھی دین کی خدمت کرنا چاہتے بلکہ ان سے بڑھکر کیونکہ ان پر خدا کے زیادہ فضل ہیں لیکن اگر وہ نہیں کریں گے تو یاد رکھیں کہ وہ خدا ونعمت دے سکتا ہے.وہ واپس بھی لے سکتا ہے.خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو دین کی خدمت کرنے کی توفیق بخشے اور مستیوں کو دور کر کے اپنے راستہ میں وقت اور مال خرچ کرنے کا موقعہ نصیب کرے تا آئندہ اس کے فضل آپ لوگوں سے رُک نہ جائیں بلکہ ور زیادہ الفضل ، ستمبر اوله ) بڑھتے رہیں." (
16 الاستقامة فوق الكرامة ) فرموده ۳۰ راگست شاشة ) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائیں اور فرمایا :- " إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ استَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ الأَتَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَالشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُم تُوعَدُونَ نَحْنُ أَولِيؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا ، مَا تَشْتَهِي اَنْفُسُكُمْ وَالكُمُفِيهَا مَا تَدَّعُونَ نُزُلاً مِنْ غَفُورٍ رَحِيمٍ رقم مسجده التا) کوئی عبادت مکمل نہیں ہوسکتی جب تک اس کے ساتھ استقامت نہ ہو.قرب الہی کے ہزاروںف رائع ہیں، لیکن جب تک ان میں سے کسی ایک پر استقامت نہ اختیار کی جاتے اس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی اور کوئی عبادت نفع نہیں دے سکتی، بغیر اس پر استقامت اختیار کرنے کے.دنیا کے ہر کام پر اس میں بھی جب تک استقامت نہ ہو کامیابی نہیں ہو سکتی.مثلاً ایک شخص کچھ بیمار ہوتا ہے اور کونین کھاتا ہے تھوڑی دیر بعد ست گلو پھانکتا ہے.کچھ دیر بعد کچھ اور کھالیتا ہے.تو اس کو فائدہ نہیں ہوتا.یہ علاج تو اپنی جگہ صحیح ہونگے مگر ان میں سے ہر ایک کے ساتھ استقامت شرط ہے اور جس علاج کے ساتھ استقامت نہیں ہوتی.وہ اعلیٰ سے اعلیٰ ہونے کے باوجود بھی بے فائدہ ثابت ہوتا ہے اور کوئی دوائی اس وقت تک اثر نہیں دکھا سکتی جب تک استقامت کے ساتھ اسے ستعمال نہ کیا جائے.اور وہ طبیعت کے مطابق ہو کر اپنا اثر نہ دکھاتے ، لیکن اگر جلد جلد رد و بدل کیا جائیگا تو دوائی خواہ کیسی ہی اعلیٰ درجہ کی کیوں نہ ہو اپنا کوئی اثر نہیں دکھا سکے گی.ایک طبیب بھی نسخہ بدلتا ہے اور بدلتا رہتا ہے، لیکن جب کوئی نسخہ مریض کی طبیعت کے مطابق ہو جاتا ہے.تو پھر نہیں بدلتا اور سی کو استقامت کے ساتھ استعمال کرتا رہتا ہے، لیکن اگر اس مفید نسخہ کو بدل دے تو نتیجہ کچھ نہیں
ہو سکتا.اسی طرح زبانیں ہیں.انگریزی ہے.عربی ہے.فارسی ہے.جرمن، روسی فریج - اردو.غرض بہت سی زبانیں ہیں اور ان کے سیکھنے کے لیے بہت سے کورس ہیں جن میں سے کسی ایک کے ذریعہ زبان سکھی جاسکتی ہے، لیکن اُسی وقت تک جبکہ استقلال کے ساتھ اس کو عمل میں لایا جاتے.کیونکہ جب تک با قاعدگی اور استقلال کے ساتھ اس کو نہیں پڑھا جائیگا.کچھ فائدہ نہیں ہوگا.مثلاً اگر کوئی عربی زبان سیکھنے کے لیے اس کے کورس میں سے آج تو حمائلہ کا کچھ حصہ پڑھ لے اور کل متبنی کے ایک دو صفحہ دیکھ لے اور پرسوں مقامات حریری نے کو پڑھنے لگے اور اسی طرح ہر روز کتاب بدلتا رہے تو وہ کبھی عربی زبان نہیں سیکھ سکے گا.کیونکہ پڑھنے والے نے اگر چہ کتابیں تو بہت سی شروع کیں مگر استقامت سے کسی ایک کو بھی ختم نہ کیا.تو زبان عربی حاصل کرنے کے بہت سے ذرائع ہیں.مگر ان سب میں استقلال و استقامت کی بہت سی ضرورت ہے اور یہی حال ہر ایک مقصد اور مدعا کے حاصل کرنے کا ہے.جب تک اس کے لیے کوشش کرتے ہوئے استقامت نہ دکھلائی جاوے اُس وقت تک وہ حاصل نہیں ہو سکتا.یہ آیت جو میں نے پڑھی ہے.اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبَّنَا الله ثمَّ اسْتَقَامُوا انو کہ جولوگ ایمان کو درست کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا پیدا کرنے والا ہے.پھر اس کی عبادت کرتے ہیں اور اس پر استقامت دکھاتے ہیں یعنی اپنے اعمال و عبادات میں ہمیشگی اختیار کرتے ہیں.ان پر خدا کے فرشتے نازل ہوتے ہیں جو انھیں یہ کہتے ہیں کسی بات سے میت ڈرو اور اس جنت کی خوشخبری سنو جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے.استقامت جب اللہ تعالیٰ کے متعلق آئے تو اس کے معنی ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مداد است اختیار کرنا.اس لیے اس کے یعنی ہوتے کہ وہ لڑکھڑاتے نہیں بلکہ جو کام شروع کرتے ہیں اس پر مداومت اختیار کرتے ہیں درمیان میں نہیں چھوڑ دیتے.استقامت کے معنی یہ بھی ہیں کہ جو کام شروع کیا جائے اُس کو اُس وقت تک نہ چھوڑا یعنی یہ ہیںکہ کام کیا جاتے جب تک کہ انجام کو نہ پہنچ جاتے.استقامت کے معنی ہر ایک کام پر مداومت اختیار کرنے کے نہیں ہیں.کیونکہ جب ایک کام ہو جاتے تو پھر اس کے پیچھے لگے رہنا کوئی دانائی کی بات نہیں.ه دیوان حماسه عربی منظوم ادب کی مشہور کتاب مرتبہ ابو تمام حبیب الطائی کے دیوان قیبتی سے مقامات بدیع الزمان کی طرز پر مشہور ادبی کتاب مصنفہ محمد الحریری
AL اس لیے اس کے یعنی ہیں کہ جب تک وہ کام ختم نہ ہو اس وقت تک اس کو نہیں چھوڑتے.بہت سے اعمال ایسے ہیں کہ ان کا ہمیشہ کرنا ضروری نہیں ہوتا.بلکہ ایک حد تک پہنچ کر ختم ہو جاتے ہیں مثلاً کڑاتی ہے جب تک وہ ختم نہ ہو اس وقت تک اس میں استقامت کے ساتھ لڑنے کی ضرورت ہے.یہ ضروری نہیں کہ تمام عمر لڑائی جاری رکھی جائے تو استقامت کا یہ مطلب و مقصد ہے کہ جب تک کام کو انجام انگ پہنچانے کی ضرورت ہو اُس وقت تک کام کیا جائے.پس اللہ تعالیٰ کے احکام میں استقامت یہی ہے کہ اس کی اطاعت میں لگ جاتے اور اس وقت تک لگا ر ہے اور اس کو اس وقت تک برابر جاری رکھے جب تک کہ وہ کام خاتمہ پر نہ پہنچ جاتے.جو لوگ ایسا کرتے ہیں.ان پر اللہ تعالے کے ملائکہ کا نزول ہوتا ہے.وہ اولیاء اللہ میں شامل ہو جاتے ہیں.بزرگوں کا یہ مشہور قول ہے کہ الاستقامة فوق الكرامة كرامت سے بڑی چیز استقامت ہے.واقعہ میں استقامت معمولی چیز نہیں.بلکہ کرامت سے فوقیت رکھتی ہے کرامت ایک اصطلاح بتائی گئی تھی.انبیا کے خوارق و نشانات کو معجزات کہتے تھے اور اولیا.کے نشانات کو کرامات، ان کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک انسان استقامت سے خدا کی عبادت میں مصروف رہیگا تب ہی وہ اس مقام پر پہنچ سکے گا کہ کرامت دکھاتے ورنہ نہیں.تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے.ربنا اللہ کہنے والے جب خدا کی عبادت میں ثابت قدم رہتے ہیں اور اُن کے قدم لڑکھڑاتے نہیں تو پھر ان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے.وہ کہتے ہیں کہ ہمیں تمہاری مدد و نصرت کے لیے خدا نے بھیجا ہے اگر ساری دنیا تمہاری دشمن ہوگئی تو بھی کچھ پر وامت کرو.کیونکہ وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی.پس دنیا میں استقامت سے انسان وہ کچھ کر لیتا ہے جس کا سمجھ میں آنا ناممکن ہے.دیکھو یہی دریا جو ہمیشہ چلتے رہتے ہیں ہزاروں اور لاکھوں من مٹی روزانہ سمندر میں ڈالتے ہیں.دریائے ٹیمز جو لنڈن کے نیچے بہتا ہے اگر ہمارے یہاں ہو تو ایک نالہ سمجھا جائے اس کے متعلق محققین نے فیصلہ کیا ہے کہ دنیا کے تمام دریاؤں سے تھوڑی مٹی کاٹتا ہے پھر بھی روزانہ چار ہزار من مٹی سمندر میں لیجاتا ہے.اسی طرح لوگوں نے ایک قصہ شور کر رکھا ہے اصل میں ایک مستقل مزاج اور دوسرے شست الوجود انسان کی حالت کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہتے ہیں.ایک کچھوے اور خرگوش میں شرط لگی کہ کون پہلے ایک خاص ٹیلے پر پہنچتا ہے.خرگوش ابتداء میں تیزی سے دوڑ کر کچھوے سے آگے نکل گیا اور یہ خیال
AA کر کے کہ کچھوا آہستہ آہستہ چلتا ہے اس لیے یہاں آنے تک میں آرام کرلوں یہ جھ کر وہ سوگیا.اور کچھوا اپنی اسی آہستہ چال سے چلتا چلتا ٹیلے پر پہنچ گیا.یہاں جا کر خرگوش کو اس نے آواز دی کہ لوبھتی ہیں تو پہنچ گیا ہوں.غرض استقامت سے کام کرنے والا ضرور جیت جاتا ہے.دیکھو مسلمان بڑے جوش سے اُٹھے.ان کے پاس صداقت کی تلوار تھی.اور بر این نیزہ کا مضبوط نیزہ ، لیکن چونکہ انھوں نے استقامت کو چھوڑ دیا اور اس جوش و خروش کو قائم نہ رکھا جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ پیدا ہوا تھا.اس لیے جلد ہی بیٹھ گئے.اس کے مقابلہ میں چونکہ عیسائیت کی گند چھڑی جو آہستہ آہستہ چلتی رہی اور اس کے چلانے والوں نے استقلال دکھلایا.اس لیے آج وہ بہت کام کر چکی ہے مسلمانوں کے پاس صداقت کے بہتھیار تو نہایت اعلیٰ درجہ کے تھے مگران میں استقامت کی کی تھی اور عیسائیوں کے ہتھیار گند اور ناکارہ تھے مگر ان میں استقامت تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انکی سند تھری کے ذریعہ لاکھوں مسلمانوں کے گلے کٹ چکے ہیں اور وہ زخمی ہو کر تڑپ رہے ہیں.تو چونکہ عیسائی آہستہ آہستہ اپنی کند چھری کو استقلال کے ساتھ چلا رہے ہیں اس لیے وہ ان سے جن کے پاس تیغ آبدار توتھی مگر وہ اسے چھوڑ کے بیٹھ گئے.بازی لے گئے.یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ استقلال کے ذریعہ ایک شکست چیست سے ایک کمزور مضبوط سے جیت جاتا ہے.پھر استقلال تو وہ چیز ہے کہ اس سے کام لے کر لوگ حیوانوں کو وہ کچھ سکھالیتے ہیں جو ان کی فطرت کے مطابق نہیں ہوتا.مثلاً طوطے کو باتیں کرنا سکھا لیتے ہیں.اس طرح اور کئی جانوروں کو عجیب عجیب کام سکھلاتے جاتے ہیں.پس استقلال کی برکت سے جب جانوروں کی یہ حالت ہو جاتی ہے.تو کیا وجہ ہے کہ اگر انسانوں کو الہ الا الله بالاستقلال سنایا جاتا تو وہ اس کے قاتل نہ ہو جاتے ہیں یقین کرتا ہوں کہ اگر مسلمان استقامت سے کام لیتے تو یقیناً آج دنیا میں کوئی غیر مسلم نہ ہوتا اور ساری دنیا ربنا اللہ کہنے والی ہوتی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان جب اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں استقامت دکھاتا ہے.تو وہ ملم ہو جاتا ہے پھر اس کے لیے خدا کے فضل سے دنیا و آخرت میں کوئی خوف نہیں رہتا.اللہ کے ملائکہ اس کے دوست اور ولی ہو جاتے ہیں جو انسان ایسا ہو جاتے.اس کی تمام خواہشات پوری کی جاتی ہیں اور وہ اس طرح کہ خدا تعالیٰ ایسے انسانوں کے متعلق فرماتا ہے.نزلا من غفور رحیم.ان کو تو کچھ دیا جائیگا وہ غفور رحیم خدا کی طرف سے بطور مہمانی کے ہو گا.پس اس آیت میں خدا تعالیٰ نے استقامت کے فوائد بتلائے ہیں.اور اسے اختیار کرنا ہر ایک مسلمان کا فرض قرار دیا ہے.
اب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بتاتا ہوں کہ آپ نے استقامت کی نسبت کس قدر زور دیا ہے.حدیث میں آتا ہے.وعان احب الدین اليه ما داوم عليه صاحبه که آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ عمل سب سے زیادہ پسند اور پیارا تھا جس پر مداومت اختیار کی جاتی یہ ایک دفعہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ایک عورت آئی اور اپنی عبادت گزاریوں کا ذکر کرنے لگی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے.تو آپ نے پوچھا کیا ذکر ہے.حضرت عائشہ نے عرض کیا کہ یہ عورت عبارت گزار ہے بہت عبادت کرتی ہے.آپ نے فرمایا خدا کو تو وہ عمل پسند ہے جس پر مداومت اختیار کی جائے اسی طرح عبد اللہ ابن عمرو ابن العاص کی روایت ہے کہ انھیں آنحضرت نے فرمایا کہ یا عبد الله لا تکن مثل فلان كان يقوم من الليل فترك قيام الليل " اسے عبد اللہ فلاں کی طرح نہ ہو جو پہلے قیامیں کیا کرتا تھا اور پھر اس نے چھوڑ دیا.معلوم ہوتا ہے.یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبہت ہی نا پسند تھی کہ جو عمل اختیار کیا جائے.اس پر مداومت نہ اختیار کی جائے.اسی لیے آپ نے عبداللہ کے سامنے اس شخص کا نام لیکر کہا کہ اس کی طرح نہ کرنا.ورنہ آپ کی عادت نہ تھی کہکسی کا نام لیکر اس کا عیب بیان کریں.آگے حضرت عبداللہ نے اس بات کا لحاظ رکھا کہ روایت میں اس کا نام نہیں ظاہر کیا.اس سے ظاہر ہے کہ اگر کوئی ہر روز دو رکعت نفل پڑھے تو وہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے جو ایک ہی دن میں سو یا پچاس یا چالیس رکعت پڑھ کر پھر چھوڑ دے.اسی طرح وہ شخص جو ہر مہینہ میں ایک روزہ رکھتا ہے بہتر ہے اس کی نسبت جو ایک دفعہ تو سال بھر تک روزے رکھتا ہے اور پھر نام نہیں لیتا.یا اسی طرح ایک ایسا شخص جو ایک دن محنت کرتا کرتا چوبیس گھنٹ ختم کر دیتا ہے، لیکن پھر اس کام کی طرف توجہ نہیں کرتا.اس کی نسبت وہ اچھا ہے جو روزانہ تھوڑا تھوڑا کرتا رہتا ہے.پس ہر کام میں استقامت کی ضرورت ہے اور استقامت کے سوا کوئی عمل نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو مخاطب کر کے فرمایا : إِن الدِّينَ ليسر ولن يشاد الدين احد.الا غَلَبَهُ فَسَدَرُوا وَقَارِبُوا و البشر واو استعینو کہ دین آسان ہے، لیکن اگر کوئی اس میں سختی کریگا تو دین اس پر غالب آجائیگا.اس لیے میانہ روی اختیار کرو اور نزدیک رہو اور ثواب کی امید رکھو اور استقامت مانگو.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعمال میں غلو کی ضرورت نہیں.بلکہ ضرورت اس بات کی ہے له بخاری کتاب الرقاق باب القصد والمدارہ علی العمل : کے ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوۃ باب ما جاء في قيام الليل بخاری کتاب الایمان باب الدین میسر
که جومل بھی کیا جائے ہمیشہ کیا جائے کیونکہ نجات زیادہ عملوں سے نہیں ہوگی.بلکہ خدا کے فضل سے ہوگی.یہاں سوال ہو سکتا ہے کہ اگر ملوں سے نجات نہیں ہوگی تو پھر اعمال کی ضرورت ہی کیا ہے.اس کے متعلق یاد رکھنا چاہتے کہ نجات تو خُدا کے فضل سے ہی ہوگی.ہمارے وہ عمل جو ہم نے ہمیشہ اخلاص سے کئے ہونگے.وہ خُدا کے فضل کے جاذب ہونگے کیونکہ انسان کے اتنے عمل نہیں ہوتے جتنے خدا کے فضل ہوتے ہیں.رسول کریم نے جو فرمایا کہ میری نجات بھی اعمال سے نہیں بلکہ خدا کے فضل سے ہی ہوگی لیے یہ درست ہے کیونکہ رسول کریم کے عملوں کے مقابلہ میں خدا کے فضلوں کو دیکھا جاتے جو آپ پر ہوئے.تو آپ پر خدا کے فضل بہت ہی زیادہ ہیں.میرے نزدیک کسی نبی نے وہ کام نہیں کئے جو آنحضرت نے کئے اور اگر تمام انبیاء کے اعمال کو مجموعی حیثیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کے مقابلہ میں رکھا جائے تو بھی آپ کے اعمال کا مقابلہ نہیں کر سکتے ، لیکن باوجود اس کے اگر خدا کے ان احسانات کو دیکھا جائے جو خدا نے آپ پر کئے.تو اس میں بھی کوئی شک نہیں وہ بھی بہت بڑے ہیں ایسی حقیقت یہ ہے کہ محمد رسول اللہ بھی اپنے اعمال سے نجات نہیں پائیں گے.بلکہ خدا کے فضل سے ہی پائیں گے.ایک شاعر کا یہ شعر مجھے بہت ہی پسند ہے.کہتا ہے.جان دی.دی ہوئی اُسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا کہ ہم نے اگر خدا کے لیے جان بھی دیدی تو کیا ہوا سچ پوچھو کچھ بھی نہیں دیا.کیونکہ جان بھی اس کی دی ہوئی تھی.ایک شخص کروڑوں روپیہ کسی کو دیا ہے اگر لینے والا سارے کا سارا دینے والے کو دیدے تب بھی گویا اس نے کچھ نہیں دیا.تو انسان جو کچھ بھی خدا کی راہ میں قربان کرے اور جس قدر بھی اعمال بجا لاتے.وہ سب کچھ خدا کے دیتے ہوتے انعامات کے ذریعہ کریگا.اس لیے اس کا حق کہاں ادا ہو سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ عملوں سے نجات نہیں ہوگی.بلکہ خدا کے فضل سے ہوگی.آریوں کو اس بات سے دھو کہ لگا ہے اور ان کا ایک بڑا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ محدد و اعمال کے نتیجہ میں غیر محدود نجات نہیں مل سکتی.اس کا جواب حضرت مسیح موعود نے نہایت ہی عمدہ دیا ہے.فرمایا.انسان اپنے اعمال کو خود محدود نہیں کرتا.اس کا تو ہی ارادہ ہوتا ہے کہ ہمیشہ خدا کی اطاعت عبادت میں ہی لگا ر ہوں، لیکن چونکہ خداوند اسے موت دیدیا ہے.اس لیے وہ اور اعمال نہیں کر سکتا اور اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے.بلکہ وہ غیر محدود نجات کا مستحق ہے کیونکہ اس کے اعمال اگر چہ محدود ہیں.مگر چونکہ اس کا ارادہ اعمال تو غیر محدود تھا.اس لیے اللہ تعالیٰ جزا بھی غیر محدود دیتا ہے.جو بخاری کتاب الرقاق باب القصد والمداومة على العمل
اس کا فضل ہے مگر اس فضل کا مستحق انسان استقامت سے ہی بن سکتا ہے.غرض ہر فعل اور ہر کام میں استقامت کی بہت ہی ضرورت ہے.خدا تعالے نے یہی فرمایا ہے کہ انسان اپنے اعمال میں استقامت دکھائے گا، تو خدا تعالے سے انعامات غیر محدود حاصل کریگا.اور رسول کریم نے بھی اس کے متعلق سخت تاکید کی ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں اس کی کمی ہے.حالانکہ استقامت بہت بڑی چیز ہے.اس کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکتا.میں نے کتی کام بعض ایسے لوگوں کے سپرد کئے جنہوں نے اس کے لیے نام لکھوا دیتے اور بڑے جوش سے تھے مگر پھر خاموش ہو کر بیٹھ گئے.حضرت صاحب کی کتابوں کا انڈکس بنانے کے لیے جب اعلان کیا گیا تو کئی لوگوں نے نام لکھوائے.اور ابتداء میں بڑا جوش رہا کئی لوگ مجھے روزانہ پوچھا کرتے تھے.کہ کس طرح تیار کریں لیکن نہیں معلوم اب وہ کیا کر رہے ہیں.تین مہینہ کی مدت مقرر کی گئی تھی.مگر اب چھ مہینے اس کے بعد بھی گزر گئے ہیں.چھوٹے ہوتے ایک قصہ سنا کرتے تھے کہ ایک دیو تھا جو چھ مہینہ ہوتا تھا اور چھ مہینہ جاگتا تھا، لیکن ہماری جماعت کے بعض لوگ سال میں صرف تین دون جلسہ میں جاگتے ہیں اور جلسہ ختم ہونے کے معا بعد سو جاتے ہیں.جلسہ میں تقریریں سن کر خوش ہو جانا.یا اس وقت جوش دکھا دینا کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.بلکہ تقریروں میں جو کچھ بتایا جاتا ہے اس پر عمل کرنا ضروری ہے.تقریریں تو آپ لوگوں کو کام کی طرف متوجہ کرنے کے لیے کی جاتی ہیں.سو کام کرو اور استقامت سے کرو.میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے تمام کاموں میں استقامت و استقلال اختیار کرو کسی کام کے لیے چند روزہ جوش سے وہ کام نہیں ہو جاتا.بلکہ اس کے انجام پذیر ہونے کے لیے مسلسل کوشش کی ضرورت ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ مجھے کو اور آپ لوگوں کو بھی کام کرنے کی توفیق دے اور استقامت عطا فرماتے آئین (الفضل) امیه شافات ندي
17 ۹۲ مومن وہ ہے جو علی وجہ البصیر ایمان رکھتا ہو فرموده مارتین رشاشاته حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سورۃ یوسف کی مندرجہ ذیل آیت تلاوت كي - قُلْ هَذِهِ سَبِيلِ ادْعُوا إِلَى اللهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيُّ، وَسُبْحْنَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (سورة يوسف : ١٠٩) اور اُس کے بعد فرمایا :- بہت سے لوگ دُنیا میں ایک بات کے ماننے کے دعویدار ہوتے ہیں.لیکن باوجود اس کے ان کے پاس اس کے حق ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا.انسان کو دوسری مخلوق پر فضیلت حاصل ہے.کہ ے خدا تعالیٰ نے امتیاز کی طاقت دی ہے یعنی بُری اور اچھی چیز میں سے جو اچھی چیز ہو اس کو بری سے الگ کر کے اس پر عمل کرے جگر جانوروں میں یہ بات نہیں رکھی گئی.وہ جس حالت میں ابتداء میں تھے اسی میں چلے آتے ہیں.تاہم انسان میں یہ طاقت ہونے کے باوجود کم لوگ اس کو استعمال کرتے ہیں.اور بہت ہیں جو کسی امر کو سچا مانتے ہیں لیکن اگر ان سے دریافت کریں تو وہ بیان نہیں کر سکیں گے.کہ وہ کیوں اس عقیدہ کے قاتل ہیں.اگر تمام دنیا کی مردم شماری کی جائے تو ایک کروڑ میں سے 99 لاکھ ایسے ہونگے جو آبائی مذہب پر قائم ہوں گے.بلکہ اس سے بھی زائد اور بہت سے ایسے ہونگے جو اپنے مزعوم دین کے لیے جان بھی دیدیں گے مگر اس کے پیچھے ہونے کی دلیل ان کے پاس کوئی نہیں ہوگی کیونکہ وہ توکسی مذہب کے قائل ہیں.تو اس لیے نہیں کہ اُنھوں نے تحقیق کر کے اسے قبول کیا ہے بلکہ اس لیے کہ انکے ماں باپ اس مذہب کے قاتل تھے.پچھلے دنوں جو بہار میں فساد ہوا.اگر ان ہندوؤں سے جاکر پوچھا جاتے کہ مسلمانوں کے خلاف ان کا جوش و خروش کیوں تھا.اور کیوں ان کو دکھ دیا گیا.تومیں یقین کرتا ہوں کہ وہ اس کی سوائے اس کے کوئی وجہ نہیں بتا سکیں گے.کہ وہ لوگ ہندو نہ تھے لیکن اگر ان سے پوچھا جائے کہ ہندو مذہب کیا ہے اور تم کیوں ہندو کہلاتے ہو تو وہ یہی کہیں گے کہ یہ بات تو ہمارے پنڈتوں ندية
۹۳ سے جاکر دریافت کرو.اور اگر پنڈتوں سے دریافت کیا جائے توان میں سے بھی بہت سے ایسے نکلیں گے کہ جو کہیں گے بھی تو یہی کہ ہمارا مذہب قدیمی اور پرانا مذ ہب ہے.اس لیے سچا ہے.تو وہ ایسے دلائل دیں گے جو در حقیقت دلائل نہیں ہونگے بلکہ دلائل نما دعاوی ہونگے.یہی حال دیگر مذاہب کا ہے.ایک دفعہ مجھے ایک پادری سے ملاقات کا اتفاق ہوا وہ ۳۵ سال سے عیسائیت کی تبلیغ کر رہا تھا اور بہت سے لوگ اس کے ذریعہ عیسائی ہو چکے تھے وہ ایک جگہ اشتہا تقسیم کر رہا تھائے میں نے ایک دوست کو اس کے پاس بھیجا کہ اس سے دریافت کرو کہ وہ کس وقت ملاقات کر سکتا ہے اس پر اس نے اپنے مکان کا پتہ دیا اور وقت بھی مقرر کر دیا.مقررہ وقت پرئیں اس کے پاس گیا اور تثلیث پر گفتگو شروع ہوئی.میں نے اس سے دریافت کیا کہ آپ لوگ جس تثلیث کے قاتل ہیں.اس کے متعلق مجھے یہ بتلاتے کہ کس رنگ میں قائل ہیں.آیا خدا کے تین صفات ہیں یا تین حیثیتیں ہیں.یاتین الگ الگ وجود ہیں.اس نے کہا.کہ جولوگ خدا کی تین صفات یا تین حیثیتوں کے قاتل ہیں.وہ درحقیقت.مذہب کے قاتل نہیں.بلکہ مذہب کو بگاڑتے ہیں.مذہبی گروہ تین وجودوں کا قائل ہے.میں نے کہا جب تین وجود ہیں تو وہ تینوں مکمل ہیں یا تینوں مل کر ایک وجود ہوتے ہیں.اس نے جواب دیا، نہیں تینوں مکمل ہیں.میں نے پوچھا کہ جب وہ تینوں مکمل ہیں تو کیا تینوں ملکر کام کرتے ہیں.یا الگ الگ ، اگر ایک کام کرتا ہے تو باقی دو بیکار بیٹھے رہتے ہیں.اس نے کہا اب خدا نے اپنے ، بیٹے کے سپر اس کا خانہ کو کردیا ہے.میں نے کہا کہ اگر باپ نے بیٹے کے سپرد کر دیا ہے تو گویا اب وہ خود بیکار ہو گیا ہے اس پر اس نے کہا نہیں تینوں مل کر کام کرتے ہیں اور تینوں مکمل بھی ہیں اس کی میز پر ایک قلم پڑا تھا.میں نے اُسے اُٹھا لیا اور پوچھا کہ اگر تین شخص مل کر اس قلم کو اُٹھائیں تو آپ انھیں کیا کہیں گے.اس نے کہا کہ میں انھیں بیوقوف کہونگا.میں نے کہا اچھا جب تینوں خدا مکمل ہیں اور تینوں میں سے ہر ایک اس دُنیا کے نظام کو قائم رکھنے کی طاقت رکھتا ہے تو کیا وجہ کہ تینوں ملکر اس کام کو کر رہے ہیں.جسے اکیلا اکیلا کر سکتا ہے.اس سے تو مانا پڑیگا کہ تینوں لغو کام کرتے ہیں اور اگر ان میں سے ایک کرتا ہے تو پھر دو کو بیکار اور بے سود ماننا پڑیگا.اس نے آخر میں کہا کہ بات اصل میں یہ ہے کہ تثلیث کا مسئلہ الیسا مسئلہ ہے کہ جب نک انجیل پرایمان نہ ہو سمجھ میں نہیں آسکتا.میں نے کہا کہ انجیل کا ماننا تو اس پر موقوف ہے کہ انجیل کا مسئلہ
۹۴ سمجھ میں آجا دے اور تثلیث کا مسئلہ سمجھنا اس پر موقوف ہے کہ انجیل کو پہلے مان لیا جاتے ہیں نتیجہ ہے ہوا کہ نہ مسئلہ تثلیث سمجھ میں آسکتا ہے نہ انجیل پرایمان لایا جاسکتا ہے.اس نے کہا کہ تثلیث کے مسئلہ پر عیسائی مذہب کی بنیاد نہیں.بلکہ کفارہ پر ہے.آپ کسی دوسرے وقت مجھ سے اس پرگفتگو کرلیں میں نے اس پر خوب غور کیا ہوا ہے اور بائیں کی تائید میں بہترین دلائل مہیا کئے ہوتے ہیں.میں دوسرے دن اس کے پاس گیا اور کفارہ کے متعلق دریافت کیا کہ مسیح جو انسانوں کے گناہوں کا کفارہ ہوا.تو وہ کسی حیثیت سے ہوا ہے.آیا خدا ہونے کی حیثیت سے یا انسان ہونے کی حیثیت سے.اس نے کہا انسان ہونے کی حیثیت میں کفارہ ہوا ہے.کیونکہ جب تک انسان کی جنس نہ ہوتا.وہ ان کے لیے کیسے کفارہ ہو سکتا تھا.اس پر اس نے ایک لمبی تقریر کی.اور کہا کہ چونکہ آدم نے گناہ کیا.اس لیے اس کے بیٹے بھی گناہگار ہیں.اور گناہ سے کسی صورت میں بیچ نہیں سکتے.اس لیے خدا نے اپنے بیٹے کو جو گناہوں سے پاک ہے بھیجا.تا ان کی خاطر سولی چڑھے اور ان کے گناہ معاف ہوں ہیں وہ انسانوں کے لیے کفارہ ہو گیا.میں نے اس کو کہا کہ اگر گرم اور ٹھنڈے پانی کو ملا دیا جائے تو پانی گرم زیادہ ہو گا یا ٹھنڈا.اس نے کہا کہ گرم کی گرمی اور مرد کی سردی دُور ہوکر درمیانی حالت پیدا ہو جائے گی.اس کے بعد میں نے پوچھا کہ شیطان کی غرض آدم کو بہکا نا تھایا توا کو.اس نے کہا آدم کو.میں نے کہا اس نے اس غرض کے لیے کیا ذریعہ اختیار کیا.اس نے کہا شیطان نے اول حوا کو بہکایا اور اس کے ذریعہ آدم کو گناہ گار بنایا.میں نے پوچھا براہ راست کیوں نہ اس نے آدم کو گناہ کی طرف متوجہ کیا.اس نے کہا کہ چونکہ آدم حوا کی نسبت قوی تھا.اس لیے وہ اس کے پھندے میں نہیں آسکتا تھا اور تو کمزور تھی اس لیے اس نے اس کو پہلے بہکایا.اور پھر اسکے ذریعہ آدم کو بہکایا.میں نے کہا اب آپ فرماتے کہ آیا وہ انسان جو آدم اور حوا کے میں سے پیدا ہوں ، و شیطان کے مقابلہ میں قومی ہونگے.یا وہ جن میں صرف خوا کا اثر ہو.ظاہر ہے کہ آدم اور حوا کے میں کے بچے محض حوا کے بچے سے قوی ہونگے ہیں آپ کیسے کہتے ہیں کہ خوا کا بچہ آدم اور حوا کے بچوں کی رنگاری کا ذریعہ ہو سکتا ہے.اس پر اس نے کہا کیا مٹی میں سے سونا نہیں پیدا ہو جاتا.میں نے کہا درست ہے.اسی لیے تو کہتے ہیں کہ آدم کی اولاد ساری گنہگار نہیں ہوسکتی.اس نے کہا نہیں نہیں سونے میں سے سونا پیدا ہوتا ہے.میں نے کہا پھر تو جسے شیطان نے آدم کو ورغلانے کا ذریعہ بنایا صرف اس کی اولاد پاک نہیں ہوسکتی.اس کے متعلق اور بھی بہت گفتگو ہوئی.آخر میں کھڑا ہو گیا اور کبھی اپنی عینک کو صاف کرتا کبھی اسے لگا لیتا کبھی اتار دیا اور بڑا حواس باختہ سا 094
۹۵ ہو کر کہنے لگا کہ بات اصل میں یہ ہے کہ میں کفارہ کا اس لیے قاتل ہوں کہ عیسائیوں کے گھر میں پیدا ہوا ہوں دونر میں اس کو سمجھ نہیں سکتا.اور نہ اس کی صداقت کے دلائل رکھتا ہوں.دیکھو تثلیث پر بحث کرتے وقت تو اس نے کہا تھا کہ کفارہ پر گفت گو کیجئے.ہمیں اس کے متعلق نہایت زیر دست دلائل رکھتا ہوں، لیکن جب اس پر گفتگو ہوئی تو کہدیا کہ میں اس لیے اس کا قائل ہوں کہ عیسائیوں کے گھر میں پیدا ہوا ہوں.اسی طرح ایک اور عیسائی سے گفتگو ہوئی.وہ عیسائیوں کے کالج کا پرنسپل تھا.وہ جب لا جواب ہوگیا.تو کہنے لگا اصل بات یہ ہے کہ سوال تو بیوقوف بھی کر سکتا ہے.جواب دینے والا عقلمند ہونا چاہیے میں نے کہا ئیں تو آپ کو عقلمند سمجھ کے ہی آیا تھا.اچھا اگر آپ جواب نہیں دے سکتے تو نہ سہی.تو بہت لوگ ہیں جو کسی صداقت کا اپنے پاس کوئی ثبوت نہیں رکھتے.آجکل جو لوگ عیسائی ہو جاتے ہیں اس کی یہ وجہ نہیں کہ عیسائی مذہب کی صداقت کے قائل ہوتے ہیں.یا عیسائیت کی صداقت کے انکے پاس زیر دست دلائل ہوتے ہیں.بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر عیسائی ہوگئے.تو نوکریوں میں آسانیاں ہونگی.تعلیم میں سہولتیں پیدا ہو جائیں گی.یاکسی قسم کے اور فوائد حاصل ہونگے بہت ہی قلیل لوگ ہوتے ہیں جو دلائل کی طرف توجہ کرتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ باطل مذہب دنیا میں قائم ہیں.اندھیر میں کوئی شخص اپنی کروہ اور گھناؤنی چیز کو بھی خوبصورت کہ سکتا ہے، لیکن روشنی میں جو چیز خوبصورت ثابت ہو وہی خوبصورت ہوتی ہے.قرآن شریف نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ جو بات مانو دلیل سے مانو.اور مومن وہی ہے جو دلائل اپنے پاس رکھتا ہے.یہ سچی بات ہے کہ ہر شخص ہر بات کے دلائل اور براہین کا ماہر نہیں ہوسکتا لیکن ان مسائل کا یا دل تل سمجھنا ہر ایک کے لیے ضروری ہے.جن کا تعلق عقائد سے ہے مثلاً ہستی باری تعالیٰ وجود ملائکہ قضا و قدر ثبوت قیامت.نبیوں کی صداقت ان سب مسائل کے دلائل معلوم ہونے چاہئیں.اگر سب دلائل معلوم نہ ہوں تو نہ ہوں.اور یہ کوئی ضروری بھی نہیں.کہ سارہ سے ہی دلائل معلوم ہوں.اگر تفصیلات معلوم نہیں تو اجمالی طور پر ہی سہی لیکن ایک حد تک معلوم ہونا ضروری ہے.یوں تو بہت سے ایسے دلائل ہیں جو آج ہمیں معلوم میں ، لیکن تیرہویں صدی والوں کو معلوم نہ تھے اور بہت ہیں جو تیرھویں صدی والوں کو معلوم تھے اور بارہویں صدی والوں کو معلوم نہ تھے.یا مثلاً بہت سی پیشگو تیاں تھیں جو آج پوری ہوگئیں صحابہ کے وقت ان کا پتہ بھی نہ تھا.توان پیشگوئیوں کے معلوم ہونے سے یہ نہیں تھا کہ صحابہ کے ایمانوں میں خدا نخواستہ کوئی کمزوری تھی.نہیں.بلکہ ان کے ایمان بہت مضبوط تھے.بات یہ ہے کہ سارے دلائل جو کسی بات کی صداقت کے ہوتے ہیں وہ معلوم ہونے
ضروری نہیں ہوتے.بلکہ اطمینان قلب اور دلی تسلی کے لیے جہانتک ہو سکے.اتنے دلائل معلوم کرنا نہایت ضروری ہیں..دلائل دو قسم کے ہیں.ایک تو مشاہدہ کے ہوتے ہیں.اور دوسرے عقلی یا نقلی مثلاً ایک شخص کو خُدا کا اتنا قرب حاصل ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے جلال کے ساتھ اس پر جلوہ فرما کر اپنی وحی و کلام - مشرف فرماتا ہے.ایسے لوگوں کے لیے خدا تعالیٰ کا وجو د مشاہدہ کے رنگ میں آجاتا ہے لیکن جن کو مشاہدہ کا مقام میسر نہ ہو انکو دلائل عقلی و نقلی جس قدر ہو سکیں معلوم ہونے چاہئیں.ہماری جماعت کے لوگوں کا فرض ہے کہ اسلام کے متعلق جس قدر ضروری مسائل میں اور جین پر اس کی بنیاد ہے.انکو معلوم کریں نیز وہ مسائل جن کا تعلق سلسلہ سے ہے یعنی وفات مسیح.صداقت مسیح موعود ہے ختم نبوت ہے بعثت انبیاء وغیرہ ان سب کے دلائل ہر ایک احمدی کو ایک حد تک آنے چاہئیں.قرآن کریم میں اللہ تعالے نبی کریم کو فرماتا ہے.قُل هذه سبیلی ادعوا إلى الله على بصيرة انا ومن اتبعنی کہدے کہ یہ میری راہ ہے.میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں میں اور میرے متبع علی وجہ البصیرہ اس پر قائم ہیں.اس آیت میں صاف طور پر مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین وہی لوگ ہو سکتے ہیں.جو بصیرت کے ساتھ اسلام پر قائم ہوں، یعنی وہ دلائل جن سے بصیرت حاصل ہوتی ہے.خواہ عقلی ہوں خواہ مشاہدہ کے طور پر ہر حال انھیں معلوم ہونے چاہتیں، کیونکہ قرآن شریف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین انھیں کو قرار دیتا ہے.جن کو بصیرت حاصل ہو جس کے دوسرے رنگ میں یہ معنے ہوتے.کہ جس کو بصیرت حاصل نہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منبع نہیں.یہ بھی یاد رہے کہ بصیرت کے لیے ضروری نہیں کہ تمام تفصیلات بھی معلوم ہوں، بلکہ بصیرت اس کو کہتے ہیں کہ ایک حد تک علم ہو.اگر پورے طور پر علم ہو تو وہ تو بہت ہی اچھی چیز ہے.ورنہ اتنا معلوم ہونا ضروری ہے کہ احمدیت سچی ہے تو اس کے موٹے موٹے دلائل کیا ہیں.اور جن مسائل کا اس سے تعلق ہے.ان کی سچائی کے کیا دلائل ہیں.اگر بصیرت حاصل ہو جائے، تو ایمان کی لذت حاصل ہو جاتی ہے اور وہ لوگ جو جھٹ پٹ ذرا بھی بدظنی پر ٹھوکر کھا لیتے ہیں.ہلاکت سے بچ جائیں.عالم و ہی نہیں ہوتا جیس کو سارے علوم معلوم ہوں بلکہ عالم وہ ہوتا ہے جس کو علوم کسی حد تک معلوم ہوں.میں نے وہ مسائل بتا دیتے ہیں کہ جن کے دلائل کا معلوم ہونا ضروری ہے.اگر کوئی شخص ان کے دلائل نہیں جانتا.تو اس کی حالت خطرہ سے خالی
94 نہیں ہے مثلاً اگر کوئی شخص کسی مسئلہ کو اس لیے مانتا ہے کہ میں اس کا قائل ہوں تو وہ سخت غلطی کرنا ہے.کیونکہ وہ جس پر اپنے عقیدہ کی بنیاد رکھتا ہے.اس کی زندگی کا کیا اعتبار ہے.پس عقیدہ کی بنیاد کسی انسان پر نہیں ہونی چاہیئے.بلکہ صحیح اور پیچھے دلائل پر ہونی چاہیتے بھیڑ چال اچھی چیز نہیں کہ فلاں چونکہ اس مسئلہ کا قائل ہے تو ہم بھی اسے مانتے ہیں.بھیڑوں کے منت مور ہے کہ اگر راستہ میں ایک رسی باندھ کر اس پر سے دو تین بھیڑوں کو گدا - دیں اور پھر اسے ہٹائیں.تو باقی بھیڑیں یونی اس مقام سے کود کر گزریں گی.تو الیسا ایمان کوئی ایمان نہیں ہوتا.جو کسی کی وجہ سے ہو.اور جس کے متعلق اپنے پاس دلائل نہ ہوں.شخص ابتلاؤں سے نہیں بچ سکتا.میں دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے اور بصیرت دے تاکہ ہمارے متعلق بھی وہی کہا جاتے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ اسلام پر علی وجہ البصیرة قائم الفضل ۲۴ ستمبر شاملة ) ۱۹ تھے.
٩٨ 18 دین کے لیے زندگی وقف کر نیکی تحریک د فرموده ۲۰ ر ستمبر ۱۹۱۷ تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورۃ آل عمران کی درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: وَلْتَحْنُ مِنْكُمُ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ المُنكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.( آل عمران : (۱۰۵) قریباً ایک سال اس معاملہ پر گذرا ہے کہ میں نے ایک خطبہ جمعہ میں اس بات کی تحریک کی تھی کہ ہماری جماعت میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں جو دین کے لیے زندگیاں وقف کریں اور مناسب تعلیم حاصل کر سکے ایسے ذرائع حاصل کریں کہ جن سے کچھ اپنی معیشت کا سامان قوت لایموت کے لیے کر سکیں.اور باقی وقت میں خدا کے دین کی اشاعت کریں.ان کو جس ملک میں بھیجا جائے.جائیں اور اس میں انھیں کوئی عذر نہ ہو.جب اور جس حالت میں بھی انھیں حکم دیا جائے.وہ فرمانبرداری کے ساتھ چلے جاتیں خواہ ان حالت دیا.وہ کے دنیاوی کامیوں میں اس سے کیسی ہی ابتری پیدا ہو.میری اس تحریک پر چالیس پچاس درخواستیں میرے پاس آئیں.ایسی پران لوگوں کو جو درخواستیں دینے والوں میں سے قادیان میں تھے جمع کیا گیا.اور وہ ذمہ داریاں ایک ایک کر کے انکو سمجھائی گئیں جو جمع ان پر عائد ہوتی تھیں.ان ذمہ داریوں کو شنکر بہت سے لوگوں نے اپنے نام کو واپس لینا مناسب سمجھا اور نبی غرض بھی تھی کیونکہ مکن تھا وہ زندگی وقف کرنے کے معنی پہلے کچھ اور مجھتے.اور بعد میں انھیں شکل پیش آتی.اس لیے پہلے ہی ان کو ذمہ داریاں سمجھائی گئیں.اور بتایا گیا کہ زندگی وقف کرنا کیا ہے؟ اپنی خواہشات پر ایک موت وارد کرنا ہو گی.اب مشورہ کر لو پھرکسی سے کوئی مشورہ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی.بعد میں اگر ماں باپ.عزیز و اقارب منع بھی کریں تب بھی حکم کی اطاعت کرنا پڑیگی.اس کے نتیجہ میں نام پیش کرنے والوں میں سے اکثر نے استخارہ وغیرہ کرنے کے بعد اپنے ناموں کو واپس لے لیا اور
49 جو تنہائی کے قریب باقی رہ گئے جنہوں نے اپنے آپ کو دین کے لیے باوجود ان دقتوں کے سامنے ہونے کے وقف کرنا چاہا.ان کو میں نے چار حصوں میں تقسیم کر دیا.ایک تو وہ تھے جن کو ہم نے نہیں سکتے تھے.کیونکہ ہ کسی نہ کسی وجہ سے اس قابل نہیں تھے یا ان کو یہ کام دیا نہیں جاسکتا تھا.باقی کے تین حصوں میں سے ایک کے تویہ پر کیا کہ وہ مرکزہ ہی میں رہیں.اور انکو دینی علوم پڑھانے کی خدمت سپرد کی.کہ وہ ان لوگوں کو پڑھائیں.جنہوں نے خدمت دین کے لیے وقف ہونے کی درخواست کی ہے اور ایک حصہ جو ابھی اس قابل نہیں تھا کہ باہر بھیجا جا سکتا.اسکو کام پر نہیں لگایا گیا.جب موقع ہوگا.دیکھا جائیگا.اور تیر حصہ وہ تھا جس کو آگے کچھ تعلیم لانا ضروری تھی.اور یہ کہ اپنی تعلیم کوجاری رکھیں اور معلومات کو وسیع کر سکیں.ان کو بعد میں ہم کام پر لگا سکیں گے.اس حصہ میں چودہ پندرہ شخص تھے ان میں سے بھی آہستہ آہستہ کم ہو گئے.اس وقت قریب ۱۰ آدمی باقی ہیں جن میں سے پانچ ایسے ہیں جن کو کالجوں میں تعلیم دلائی جارہی ہے.وہ وہاں سے فارغ ہو کر کام پر لگائے جائیں گئے.چنانچہ جو کالج میں ہیں ان میں سے تین ڈاکٹری میں پڑھ رہے ہیں.ایک بنگال میں دو لاہور میں اور تین کو اس جگہ تعلیم دین دلاتی جارہی ہے.جو لوگ کالج میں ہیں ان کے متعلق اس وقت معلوم ہو گا جب وہ فارغ ہونگے کہ وہ اس وقت اپنے عہد پر قائم رہے ہیں یا نہیں اور ان کے خیالات میں کسی قسم کا تغیر تونہیں ہوا.یہ وگ جن کوہم تعلیم و رہے ہیں.ان میں سے چند ایسے ہیں جن پر ہمیں کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے باقی سب اپنے خرچ سے تعلیم اصیل کر رہے ہیں.جو لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں خدا جانے بعد میں وہ ہیں کہ دیں کہ ہماری مدت تین سال ختم ہوگئی ہے بر حال ان کا حال بعد میں معلوم ہوگا کہ وہ کالج کی تعلیم کے بعد نوکری کرتے ہیں یا بعض مشکلات کا خیال کرگئے اپنے اس خیال کو چھوڑتے ہیں.ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے اس نیک ارادے اور نیک نیتی کے باعث ان کو اپس خدمت دین کے ارادے میں کامیاب کر گیا.میں نے تین سال کے لیے زندگی وقف کرنے کا عہد لیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ممکن ہے ان میں سے بعض زیادہ تکلیف محسوس کر کے اس کو چھوڑنا چاہیں.اور اس طرح وہ خدا کے گنہ گار ٹھریں.اور منافق نہیں.اس لیے میں نے تین سال کے لیے عہد لیا تھا کہ اگر کسی میں کچھ کمزوری بھی ہوگی.اور وہ ان تکالیف کو برداشت نہیں کر سکتا ہوگا.تین سال گذار دے پھر چاہے چھوڑ دے.ورنہ دین کے لیے تین سال کیا ساری عمر کے لیے زندگی وقف کرنے کی ضرورت ہے.یہ
يد محض اس لیے تھا.تاکہ جوکمزور ہوں وہ بعد میں وعدہ خلاف نہ کہلائیں.اسلام کی حالت اس وقت پکارتی ہے کہ اس کے لیے ساری ہی زندگی وقف کی جائے.اور بہت سے لوگ ہوں جو زندگی وقف کر دیں.اس لیے ایک سال کے بعد میں دوبارہ تحریک کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کے لوگ دین اسلام کی خدمت کے لیے زندگی وقف کریں.اس کام کے لیے ہم نوک نہیں رکھ سکتے اور نہ نوکروں سے کام ہو سکتا ہے.وہ لوگ اپنے آپ کو کامل طور پر وقف کریں.اور اپنا بوجھ خود برسات کریں اور اپنی معیشت آپ پیدا کر کے باقی وقت خدمت دین میں لگا دیں.ایسی ہی جماعتیں ہوتی ہیں.جو دین کی خدمت کرتی رہی ہیں ہمیشہ سے جن لوگوں نے دین کو پھیلایا ہے وہ ایسے ہی ہوتے رہے ہیں.ملازم اس قابل نہیں ہوتے.ایک حد تک تو ملازم رکھے جاتے ہیں.خود رسول کریم نے بعض علاقوں اور شہروں میں ملازم رکھے تھے.اور وہ بڑے بڑے صحابی تھے.خلفاء کے بعد میں بھی ایسا ہی ہوا، لیکن وہ لوگ جو لاکھوں کی تعداد میں اسلام کی تائید کے لیے گھروں سے نکلتے تھے وہ ملازم نہیں تھے جس وقت مخالفین اسلام کی سینہ زوریاں اور ظالم از حملہ حد سے گذر گئے.تو ہر ایک صوبہ میں آدمی بھیجے جاتے تھے.اور عام لوگوں کو بلایا جاتا تھا اور وہ بغیر معاوضہ لیے جاتے تھے.ایسی جماعتیں جب تک نہ ہوں کامیابی نہیں ہو سکتی.خدا وند تعالیٰ فرماتا ہے ولتكن منكم امة يدعون الى الخير ويامرون بالمعروف وينهون عن المنكر و أولئك هم المفلحون - کامیاب ہوں گے وہ لوگ جو دین کے لیے زندگی وقف کرتے ہیں اس آیت میں ہے ولتكن منكم أمة سب لوگ زندگی وقف نہیں کر سکتے.ایک جماعت ہونی چاہیئے.پس آج میں پھر تمام جماعت کو تحریک کرتا ہوں جو بیاں کے دوست ہیں وہ بھی اور بیرون جات کے بھی غور کریں.اور خدا کی توفیق سے بعد استخارہ جن کا شرح صدر ہو.اپنے آپ کو پیش کریں.ان میں ہے جولوگ اس قابل ہوں گے کہ ان کو اس وقت لگا دیا جاتے وہ لگا دیئے جائیں گے اور جن میں کمی ہو گی ان کو حسب منیش.تعلیم دلوائی جائیگی.اور وہ لوگ جن کو اس وقت کسی کی کی وجہ سے نہیں لیا گیا تھا.انہیں سے بھی پیش کر سکتے ہیں ممکن ہے اب ان کی کمی پوری ہو گئی ہو.یہ ایک ایسا وقت ہے کہ اس وقت تھوڑی خدمت بعد میں بڑی بڑی خدمتوں سے بہت افضل ہوگا.اسلام میٹ رہا ہے پس جولوگ اس وقت خدمت کریں گے ان کی خدمت زیادہ قابل قدر ہوگی.دیکھو اس وقت بعض مسلمان ہیں جو اسلام کے نام پوکروڑوں روپیہ اپنی عمر میں خرچ کرتے ہیں.
بیتی وغیرہ میں ایسے مسلمان سیٹھ ہیں جو اسلام کے لیے خرچ کرتے ہیں.نواب صدیق حسن خان نے دینی کتابیں تالیف کیں سینکڑوں روپے خرچ کر کے مفت شائع کیں.پھر خوارج کتابیں تصنیف کرتے ہیں اور مفت شائع کرتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ دینی کتاب پہنچنا جائز نہیں.باوجود ان مالی قربانیوں کے ان کی قربانیاں حضرت ایو نگران حضرت عمریض ، حضرت عثمان ، حضرت علی نہ کی قربانیوں کو نہیں پہنچتیں.ان میں سے تو کسی نے لاکھ روپیہ بھی خرچ نہیں کیا.زیادہ سے زیادہ دس ہزار خرچ کیا ہوگا اور حضرت علی کی مالی قربانی تو کیا ہوتی وہ بہت ہی غریب تھے حتی کہ ان کے والد اس قدر غریب تھے کہ حضرت علیؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں لے آتے تھے کے باوجود ان کی اس قدر تھوڑی قربانیوں کے جوان سیٹھوں کے مقابلہ میں بہت کم ہیں.پھر بھی جوان کا درجہ ہے وہ ان کو میتر نہیں.اور نہ ہوسکتا ہے.کیوں ! اس کی وجہ یہی ہے کہ صحابہ نے جو کچھ خرچ کیا.وہ ایسے وقت پر کیا جبکہ اسلام کو بہت ہی سخت ضرورت تھی.اور نہایت اخلاص کے ساتھ کیا.اور یہ لوگ جو خرچ کرتے ہیں ضرورت کے مطابق نہیں خرچ کرتے اور نہ ان کی وہ نیت ہوتی ہے.پیس کسی چیز کی قیمت وقت کے مناسب ہونے سے زیادہ ہوا کرتی ہے.یہ لوگ مدرسہ بنواتے ہیں.یہ بیشک قابل قدر چیز ہے.مگر اسلام کی سچی خدمت نہیں.اور نہ ضرورت کے مطابق ہے.آج ہماری جماعت میں جو ایک پیسہ کی قدر ہے وہ بعد میں لاکھوں روپے کی بھی نہیں ہوگی.کیونکہ اس وقت اسلام کو بہت ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ اخلاص کو دیکھتا ہے.نام و نمود کو نہیں دیکھتا ہیں وہ جانتا ؟ که جو شخص ضرورت کے مطابق خرچ کرتا ہے.اس کا خواہ پیسہ ہی کیوں نہ ہو.ان لاکھوں اور کروڑوں رونیوں پر بھاری ہے جو ضرورت کے مطابق خرچ نہیں کئے جاتے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان تجارت سے ترقی کر سکتے ہیں.کچھ صنعت و حرفت میں کچھ تعلیم میں مصروف ہیں، لیکن یہ سب لوگ حقیقت سے بے خبر ہیں.اسلام کی خدمت اور سچی خدمت وہ ہے جس طریق پر ہم کام کرتے ہیں کیونکہ خدا نے میں اس طریق پر قائم کیا ہے.مسلمان کمزور ہیں اور دنیا کہتی ہے کہ وہ آج گئے کہ کل لیکن ہم تو دنیاوی لحاظ سے ان سے بھی بہت کمزور ہیں.وہ جہاں چاہتے ہیں ہمارے آدمیوں کو مار لیتے ہیں اور تکلیفیں پہنچا لیتے ہیں مسلمان مُردہ ہیں اور دہ مردے ہیں.مارتے ہیں.تو اس سے ہماری کمزوری کا اندازہ ہوسکتا ہے پس جوایسے وقت میں قربانی کریگا اور قدم آگے بڑھائیگا خدا کے ضور اسکی اس قربانی اوردین کی راہ میں قدم اٹھانے کی بہ زیادہ قدر ہوگی اگر اس وقت تو جسم میں دین کیئے له سیرت ابن ہشام مصری جلد اول ص ۲۳
پنی تمام عمربھی وقف کرتا ہے کام کے لحاظ سے وہ بہت تھوڑی ہے.پس جس طرح صحابہ نے اس تنگی اور ضرورت کے وقت جو کچھ بھی ان کے پاس تھا خرچ کیا.اور ساری ہی عمر کو دین کی خدمت میں صرف کر ڈالا.اس لیے آج فخر کے ساتھ اور عزت کے ساتھ ان کے نام لیے جاتے ہیں.اس طرح ہم میں سے جو شخص دین کے لیے اپنی زندگی وقف کریگا اس کی قربانی قدر کی نگاہ سے دیکھی جائیگی.اور ہمیشہ کے لیے یاد گار ہوگی.پس اسلام کی خدمت کا یہ وقت ہے جو اس وقت اس کی اشاعت کے لیے زندگی وقف کرتا ہے خدا کے حضور میں شرف قبول پائیگا.کیونکہ وہ آواز جو تیرہ سو برس پہلے بلند ہوئی تھی کہ ولتكن منكم أمة يدعون الى الخير و يا مرون بالمعروف وينهون عن المنكر وہ آج بھی بلند ہورہی ہے.جو اس پر لبیک کہے گا.خدا تعالیٰ اس کا ولی ہو گا.اس لیے جماعت کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ غور کریں ضروریات وقت کو سمجھیں اور استخارہ کریں اور اپنی زندگیوں کو پیش کریں جو الیسا کریں گے وہ خُدا سے ابدی انعاموں کے وارث ہونگے.ا الفضل یکم اکتوبر شانه )
19 حقیقی تعریف و ھے جوخدا کی طرف سے ہو (فرموده ۲۷ ستمبر ۱۹۱۷مه) حضور نے ہشتد و تعود اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : عزت اور تعریف ان چیزوں میں سے ہیں جن کے لیے انسان باقی چیزوں کے قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے.لوگ ہزاروں روپیہ صدقہ و خیرات میں خرچ کرتے ہیں جس سے ان کی نیت بنی نوع کی حاجت روائی اور مذہبی احکام کی بجا آوری نہیں ہوتی.اور نہ رضاء الہی کے حصول کے لیے ایسا کرتے ہیں.بلکہ ان کی غرض تمام صدقہ و خیرات سے صرف ایک ہی ہوتی ہے اور وہ یہ کہ لوگ ان کی تعریف کریں کہ فلاں بڑا مخیر ہے جو غریبوں میں ہزاروں روپیہ خرچ کر دیتا ہے.پھر لوگ عزت و تعریف حامل کرنے کے لیے اپنی عمر خرچ کر دیتے ہیں.زندگی قربان کر دیتے ہیں.لڑائیوں میں جان لڑا دیتے ہیں.علمی مسائل کی تحقیق میں زندگیاں ختم کر دیتے ہیں.اولادوں کو قربان کر دیتے ہیں.وطنوں اور عزیزوں کو قربان کر دیتے ہیں.اس لیے کہ دنیا میں نام حاصل کریں.یہاں پر عزت و تعریف مترادف الفاظ میں کیونکہ جو بخیل ہو اس کی کوئی تعریف نہیں کرتا اور وہ معزز بھی نہیں ہوتا.پس تعریف کے لیے لوگوں کی نظروں میں حسین و خوبصورت دکھائی دینے کے لیے انسان جان بھی قربان کر دیتا ہے.گو وہ جانتا ہے کہ مرنے کے بعد لوگوں کی تعریف میرے کسی کام نہیں آئیں گی.تاہم وہ چاہتا ہے کہ مرکے ہی اسے حاصل کرلوں اور جب لوگ مجھکو یاد کریں تعریف اور عزت کے ساتھ ہی یاد کریں.پھر اموال کو قربان کر دیتا ہے حالانکہ جانتا ہے کہ مال خرچ ہو جاتے کے بعد میں ایک مفلس اور غریب شخص ہو جاؤنگا.مگر اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگ یہ تو کہیں گے کہ اس نے اپنا مال غرباء کی مدد کے لیے خرچ کر ڈالا.پھر یہ خواہش ادنی اور متوسط درجہ کے لوگوں کو ہی نہیں ہوتی بلکہ بڑے بڑے بادشاہوں کو بھی ہوتی ہے.بادشاہوں نے بھی کوششیں کی ہیں کہ لوگ ان کی تعریف کریں.پہلے زمانہ میں ایسا بھی کرتے تھے
۱۰۴ کہ بادشاہ گذرتے ہوئے یونی کسی کو روپے دے دیتے یا کوئی ایسا طریق ایجاد کرتے ہیں سے عام لوگوں میں ان کے عدل و انصاف کی خاص شہرت ہو.اور ان کی تعریف کی جائے.غرض ایسے ایسے طریقے اختیار کئے جاتے تھے کہ عوام الناس میں جو ان کے حالات سے واقف نہیں ہوتے تھے.ان کی تعریفیں ہوتیں.چاہے دوسرے وقت میں وہی بادشاہ لوگوں کے مال بھی فلم سے چھین لیتے.غرض تعریف ایسی چیز ہے کہ اس کی بادشاہوں کو بھی احتیاج ہے.اسی لیے مشہور ہے کہ بادشاہوں کے دربار میں خوشامدی بھرے ہوتے ہیں.تعریف ایسی چیز ہے کہ بادشاہ غلاموں کے غلام ہو جاتے ہیں.اور یہ خواہش جنون کے طور پر لوگوں میں پھیلی ہوتی ہے.مثل مشہور ہے.خدا جانے کہاں تک سیچ ہے، لیکن تمثیلی طور پر اس خواہش کا نقشہ کھینچا ہے.جو انسانوں میں ہوتی ہے کہ ان کی تعریف کی جائے.اور بعض دفعہ یہ خواہش جنون کی حد تک پہنچ جاتی ہے کہتے ہیں.ایک عورت تھی اس نے ایک نہایت اعلیٰ درجہ کی انگوٹھی بہت قیمت صرف کر کے بنوائی.خواہش یہ تھی کہ لوگوں میں اس کا چرچا ہوگا.کئی نوں تک وہ پہنے رہی.مگر کسی نے ادھر توجہ نہ کی.اس نے اس انگلی کے ساتھ اشارے بھی کئے جگر اتفاق کی بات ہے.تب بھی ادھر کسی کی توجہ نہ گئی.جب کسی نے بھی توجہ نہ کی تو اس عورت نے دل میں سوچا کہ کوئی ایسا طریق اختیار کرنا چاہیئے جس سے لوگ اس انگوٹھی کو دیکھنے کے لیے مجبور ہو جائیں.سوچ کر اس نے رات کے وقت اپنے گھر میں آگ لگا دی.لوگوں کے آنے میں ہوئی دیر گھر سارے کا سارا جل گیا.عورتیں آتیں اور پوچھا مین کچھ بچا بھی.اس نے جواب دیا بہن صرف یہ انگوٹھی بیچی ہے.عورتوں کی طبیعت ایسی ہوتی ہے کہ زیورات کو بہت پسند کرتی ہیں.کسی عورت نے کہا بہن یہ انگوٹھی تو بہت خوبصورت ہے.کب بنوائی.انگوٹھی والی نے سر پیٹ کر کہا کہ اگر تو پہلے پڑھتی تو میرا گھر کیوں جلتا.غالباً یہ قصہ جھوٹا ہے.مگر مطلب اس کا یہ ہے کہ تعریف حاصل کرنے کی خواہش لوگوں میں بعض دفعہ یہاں تک ترقی کر جاتی ہے کہ وہ گھر بار پھونک دیتے ہیں.یہیں تعریف حاصل کرنے کے لیے لوگ کسی چیز کے قربان کرنے سے بھی پر ہیز نہیں کرتے.تعریفیں کئی قسم کی ہوتی ہیں.بعض سیتی بعض جھوٹی گورنمنٹ بعض لوگوں کو خطاب دیتی ہے "خان بہادر " ان خطاب یافتوں میں سے گئی تو ایسے ہوتے ہیں کہ واقعی خان بہادر ہی ہوتے ہیں لیکن کئی ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ن وہ فی الواقع فان ہوتے ہیں نہ بہادر بلکہ نہایت درجہ کے بزدل ہوتے ہیں لیکن اگر
۱۰۵ ان کے نام کے ساتھ خان بہادر نہ کھا جائے یا نہ بولا جائے تو وہ کہیں گے کہ تمہیں اتنی بھی تمیز نہیں کہ کسی کا پورا نام لو تو اب یہ خان بہادر ان کے نام کا جزہ ہو جاتا ہے.حالانکہ خان بہادری کی جو حقیقت ہے وہ ان میں تحقیق نہیں ہوتی.بعض لوگ اپنے بچوں کا نام ہی خان بہادر رکھ لیتے ہیں.چنانچہ حضرت مولوی صاحب (خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ہماری ایک رشتہ دار عورت نے اپنے بچہ کا نام خان بهادر" رکھا.میں نے اس سے کہا کہ یہ نام تو نے کس لیے رکھا ہے.اس نے کہا کہ ہمارے ناں رشتہ دار کو سرکار سے " خان بہادر" کا خطاب ملا ہے.میں نے خیال کیا کہ ممکن ہے بڑے ہو کر اس کو یہ خطاب ملے یا نہ ملے.اس لیے میں نے اس کا نام ہی خان بہادر رکھ دیا.کیونکہ اگر لوگ اس خطاب یافتہ کو خان بہادر کہیں گے تو یہ بھی خان بہادر ہی کہلائے گا پیس جو لوگ گورنمنٹ سے خطا با نبہادری کا حاصل کرتے ہیں.ان میں سے بہت میں خان بہادری کی کوئی بات نہیں ہوتی.اسی طرح بعض لوگوں کا نام ہوتا ہے شیر خان" حالانکہ وہ بکری سے بھی کمزور دل ہوتے ہیں.یا کسی کا نام ہوتا ہے محمد تقی مگر اس جیسا شقی ملنا مشکل ہوتا ہے کہیں بہت سے نام اور تعریفیں ہوتی ہیں جو حقیقت سے علیحدہ ہوتی ہیں.پس بہت سے لوگ تعریف حاصل کرنے کے لیے بہت کوشش کرتے ہیں مگر بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ تعریف تو ان کو حاصل ہو جاتی ہے، لیکن وہ جھوٹی تعریف ہوتی ہے جس سے وہ دل میں شرمندہ ہوتے ہیں.مثلاً جو شخص در حقیقت بزدل ہو اس کو اگر بہادر کہا جائیگا.تو اس کے جسم پر ضروری آ ہی جاتی ہوگی.عربی زبان میں جو ام الا لسنہ ہے اور خداتعالے نے ابتدائے آفرنیش میں انسانوں کو بذریعہ اپنے المام کے تعلیم کی تھی تا کہ وہ اپنا مدعا ایک دوسرے سے کہ سیکیں اس میں سچی تعریف اور جھوٹی تعریف میں فرق کیا گیا ہے.یعنی تعریف کے لیے دو لفظ ہیں.ایک مدرح دوسرا حمد ماری تو وہ ہے کہ اس میں سچی اور جھوٹی دونوں قسم کی تعریفیں آسکتی ہیں.اگر کوئی کمزور ہو، بزدل ہو جاہل ہو تو ان کی مدح میں شہ زور بہادر - عالم کہہ سکتے ہیں.مگر سچی تعریف کے لیے مدح کا لفظ کبھی نہیں لائیں گے.وہاں حمد ہوگا جو کزور کو شہ زور.بزدل کو بہادر اور جاہل کو عالم کہتا ہے.وہ اس کی مدح کرتا ہے.نہ کہ حمد تو یہ لوگ ممدوح ہونگے محمود نہیں ہونگے.عربی زبان میں شاعر جو تعریف کر دیگا اس کو مدرج کہیں گے حمد نہیں کہیں گے.کیونکہ اکثر شاعر تعریف میں مبالغہ بھی کیا کرتے ہیں، لیکن جہاں واقعات نفس الامر ہی سے کسی کی تعریف کی جائیگی.تو وہ اس کی حمد ہوگی.پس یہ فرق ہے جو عربی زبان میں سچی اور جھوٹی تعریف
میں رکھا گیا ہے.سورہ فاتحہ میں الہ تعالیٰ نے تعریف کی طرف توجہ دلاتی ہے.تعریف کبھی تو افعال کا نتیجہ ہوتی ہے یعنی اچھے کام اس لیے کئے جاتے ہیں کہ لوگ تعریف کریں اور کبھی اچھے کام تو کئے جاتے ہیں مگر ان میں یہ خواہش نہیں ہوتی.کہ لوگ تعریف کریں گے.مگر چونکہ وہ کام اچھے ہی ہوتے ہیں بغیران کی خواہش کے بھی لوگ ان کی تعریف کرتے ہیں.مثلاً کوئی شخص ڈوبتے کو بچاتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ لوگ اس کے اس فعل کی تعریف کریں.تو خواہش تو اس کی پوری ہو جائیگی.گو یہ تعریف کچھ اچھی تعریف نہیں ہوگی.مگر ایک دوسرا ہے جو کسی کو ڈوبتا دیکھتا ہے اور وہ اس کو بچانے کے لیے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے مگر اس کی کوئی خواہش نہیں ہوتی کہ لوگ اس کی تعریف کریں.یا کوئی شخص غریبانہ میں رو پی ایس لیے تقسیم کرتا ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں اور دوسر وہ ہے جو بغیر تعریف کی خواہش کے غرباء میں ویہ تقسیم کرتا ہے.تو اُن میں ایک کا فعل محمود ہوگا.دوسرے کا مذموم - پس انسان تعریف کے لیے کوشش کرتا ہے کبھی تو وہ تعریف مذموم ہوتی ہے کبھی محمود.پھر کبھی وہ تعریف مدح ہوتی ہے کبھی حمد حقیقی خوشی انسان کو اگر حاصل ہو سکتی ہے توحید میں ہو سکتی ہے ور نہ مذرح میں تو شرمندہ بھی ہونا پڑتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے الحمد لله رب العالمین تعریف کے حصول کے لیے تم دنیا میں بہت بہت کوششیں کرتے ہو مگر جس رنگ میں بھی تمہاری کوششیں ہوں ان کا نتیجہ ممکن ہے.حمد نہ ہو اور جو تعریف حاصل ہو وہ مذموم ہو سچی تعریف کے حصول کا ذریعہ ہم تمہیں بتاتے ہیں.فرمایا الحمد لله رب العالمین.(1) سب سچی تعریفیں خدا کے لیے ہیں.(۲) سچی تعریفیں خدا سے آتی ہیں.جو تعریف خدا کی طرف سے نہ ہو وہ حمد نہیں ہو سکتی سب حمدیں اللہ کے قبضہ میں ہیں.پس ایک ہی ذریعہ ہے جس سے تم بھی تعریف اور حمد حاصل کر سکتے ہو.وہ یہ کریں کے پاس کچی تعریفیں ہیں جس کے قبضہ میں تمام حمدیں ہیں.اس سے مانگو جس کے پاس ہوگا وہی کچھ دیگا.جس کے پاس کچھ بھی نہیں ہوگا وہ کیا دیگا پس تمام خوبیاں تمام سیتی تعریفیں تو خدا کے پاس ہیں کیوں نہ انسان اس سے مانگے تاکہ اس کو دیا جائے.جو لوگ خدا کو چھوڑ کر اوروں سے مانگتے ہیں.ان کو کچھ نہیں مل سکتا.کیونکہ سچی تعریفیں تو خدا کے سوا کسی کے پاس نہیں ہیں.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ کسی شخص کو جوتے کی ضرورت ہو تو قصائی کے پاس چلا جائے اور گوشت کی ضرورت ہو تو بزاز کے پاس یا زمیندار کے پاس چلا جائے.ان سے اس کو کچھ نہیں لے گا.وہ اس کو پاگل شمار کریں گئے اور یہی میں اُڑاتے رہیں گے.
1.6 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- الحمد لله رب العالمین دنیا میں لوگ تعریف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.مگر جو ذرائع اس کے حصول کے لیے اختیار کرتے ہیں.وہ جھوٹے اور باطل ہوتے ہیں بیچی تعریف خدا سے آتی ہے جو لوگ خدا کو چھوڑ کر دنیاوی ذریعہ اختیار کرتے ہیں.وہ نجی تعریف اور حمد سے محروم رہتے ہی حقیقتی تعریف خدا کے خزانہ میں ہے اور کوئی جگہ نہیں جہاں سچی تعریف ہو.ایک بھی خود نہیں جو انسان سے ملے تمام حمدیں اور سچی تعریفیں خدا کے قبضہ میں ہیں.پس جب تک خدا سے نہ مانگی جائیں اس وقت تک کہیں سے نہیں مل سکتیں.اللہ وہ ہے جو رب العالمین ہے.تمام مخلوقات پر رحم کرنے واللہ ہے الرحمن الرحیم ہے وہ ایسا ہے جو بن مانگے بھی تعریفیں دے دیا کرتا ہے کیونکہ بخیل نہیں ہے رحمن ہے.پھر وہ رحیم ہے محنت کرنے پر اچھے سے اچھے نتائج عنایت فرماتا ہے.ایک حمد عارضی ہوتی ہے.کہ ایک شخص نے کام کیا دوسرامشکور ہوگیا.اس کی زندگی ختم ہوگئی یا وہ جس سے اس نے کچھ سلوک کیا تھا م گیا.اس کی تعریف ختم ہوگئی یاد شخص جس نے ایک کام کیا دنیا اس کی تعریف کرتی ہے.پھر کچھ ایسے تغیرات پیدا ہوتے کہ اس کی حالت میں تغیر پیدا ہوگیا اس لیے وہ پہلی تعریف مٹ گئی.حقیقی سے غیر حقیقی ہوگئی.خدا کی حمد وہ ہے جو اس دنیا میں ہی ختم نہیں ہو جاتی.بلکہ یہ وہ حمد ہے جو اگلی دنیامیں بھی ساتھ جائیگی.باقی لوگوں کی حمدانی حمد ہوتی ہے جو ختم ہو جاتی ہے مگر خدا کی طرف سے آنے والی حمد کبھی ختم نہیں ہوتی.کیونکہ وہ مالک یوم الدین ہے.شخص خدا کے لیے قربان ہو جاتے اسکی زندگی اسی کے لیے ہو جائے، اس کا چلنا پھرنا کھانا پینا.اُٹھنا بیٹھنا.مرنا جینا سب خدا کے لیے ہو جاتے، خدا کی رضا حاصل کرنا ہی اس کا مقصد و مدعا ہو.ایسے شخص کو جو حمد ملے گی وہ بھی ختم نہیں ہوگی.ایک شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہوا کہ اس نے اپنی ہر ایک حالت کو خدا کے لیے ہی کر دیا.آج کروڑوں کروڑ انسان اس کی حمد کرتے ہیں اور خدا نے وعدہ فرمایا ہے کہ اس کی سچی تعریف کرنے والی ایک نہ ایک جماعت دنیا میں ضرور رہیگی.پھر آپ سے وعدہ فرمایا ہے کہ انا اعطينك الكوثر (الکوثر) علاوہ اس دنیا میں کوثر عنایت فرمانی کے اگلے جہاں میں بھی جہاں جام پلاتے جائیں گے آپ ہی ساتھی ہونگے پیس آپکی حمہ کبھی ختم نہیں ہوگی پس انسان کو چاہتے کہ خدا کیلئے ہو جاتے تاکہ اسکوچی تعریف اور حمدنصیب ہو تمہیں میرے کی تلاش ہے شیشے پریت خوش ہو جاؤ.اگر واقعی اور سچی تعریف چاہتے ہو تو خدا کہتے ہی ہو جاؤ.پھر تمہیں بھی تعریف اور حمد حاصل ہوگی اور جب وہ تعریف حاصل کر لو گے تو وہ ایسی تعریف ہوگی جو کبھی قبط نہیں ہو گی.الفضل و اکتوبر شاه )
1.A 20 20 وسواس الخناس سے بچنے کا طریقہ دا راکتوپیرسه فرموده ۴ راکتو بر شانه ) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ سورۃ پڑھی :- قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ : إِلَهِ النَّاسِ، مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الخَنَّاسِ الذي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ.مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ.اور فرمایا :- رسورة الناس ) انسان کے لیے جہنی ترقی اور کامیابی کی راہیں کھلی ہیں وہاں بہت سے سامان اس کی ہلاکت کے بھی ہیں اس میں کچھ بھی شک نہیں کہ انسان ترقی کرتے کرتے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پر پہنچ جاتا ہے.اللہ تعالی اس کا محب اور دوست ہو جاتا ہے.وہ خدا کے حضور ایسے مقام پر کھڑا کیا جاتا ہے کہ اس پر وار کرنے والا اس پر وار کرنے کی بجائے خدا پر وار کرنے والا قرار دیا جاتا ہے.خدا تعالیٰ اس کے اندر ہوتا ہے.باہر ہوتا ہے.آگے ہوتا ہے پیچھے ہوتا ہے.اوپر ہوتا ہے.غرض ہر طرف سے وہ خدا کی پناہ میں ہوتا ہے.اس لیے جب دار کرنے والا اس پر وار کرتا ہے تو اس کا وار اس پر پڑنے کی بجائے خدا کی کسی نہ کسی صفت پر پڑتا ہے پس وہ ایسے مقام پر ہوتا ہے کہ خدا کی صفات کا منظر ہو جاتا ہے اور بعض لوگ دھو کہ میں پڑ کر اُسے خدا سمجھنے لگ جاتے ہیں.مگر باوجود اس کے اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ جب انسان گرتا ہے تو انسانوں سے ہی نہیں.بلکہ کسی وقت کتوں.ستوروں.گدھوں.ریچھوں اور بندروں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے اور کسی وقت نجاست کے کپڑوں سے بھی پلید تمر ہو جاتا ہے.ترقی کرتا ہے تو اس مقام پر پہنچتا ہے جس پر فرشتے بھی نہیں پہنچ سکتے اور اگر گرتا ہے تو ایسا کرتا ہے کہ ذلیل سے ذلیل مخلوق سے بھی بدتر ہو جاتا ہے.ایک بزرگ کا واقعہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ایک صوفی تھے وہ پہاڑ پر رہتے تھے.
خدا تعالیٰ نے ان کے متعلق ایسا انتظام کیا تھا کہ ان کو دونوں وقت کھانا وہیں پہنچ جایا کرتا تھا کچھ عرصہ کے بعدان کو به ابتلا پیش آیا کہ تین دن تواتر کھانا نہ ملا.جب بھوک سے حالت خراب ہونے لگی تو وہ اپنی جگہ سے اُٹھے اور قریب کے گاؤں میں گئے.اور ایک مکان پر پہنچکر کھانے کو مانگا.گھر والوں نے ان کو تین روٹیاں دیں.وہ روٹیاں لے کر واپس ہوتے تو گھر والوں کے دروازے پر ایک کتا بیٹھا تھا وہ ان کے ساتھ ہو لیا.انھوں نے اس کو آدھی روٹی ڈالدی.مگر وہ کھا کر پھر ساتھ چلنے لگا.آدمی بھنوں نے اور ڈالدی.وہ اس آدمی کو بھی کھا کر پیچھے چلا آتا رہا.انھوں نے ایک اور روٹی ڈالدی اور کہا کہ واقعی بیچارا ایک روٹی سے کیا سیر ہوگا، لیکن جب دو روٹیاں بھی کھا چکا تو پھر بھی ان کے پیچھے سے نہ ہٹا.انھوں نے غصہ میں آکر میری روٹی بھی ڈالدی.اور کہا کہ تو بڑا بے حیا ہے جو پیچھا ہی نہیں چھوڑتا انسان کی عادت ہے کہ جب وہ غصہ میں آتا ہے تو دیواروں اور درختوں کو بھی مخاطب کر لیا کرتا ہے.تو اُنھوں نے غصہ کی حالت میں کتے کو بے حیا کہا.اس پر کشفی طور پر اس کتے نے ان سے گفتگو کی اور کہا کہ بے حیائیں ہوں کہ تو خدا تجھکو ہمیشہ رزق پہنچاتا تھا.مگر صرف تین دن نہ پہنچا تو اٹھ کر لوگوں کے دروازوں پر مانگنے چلا آیا.مگر میں ہوں کہ ہمیشہ اپنے آقا کے دروازے پر پڑا رہتا ہوں خواہ ہفتوں فاقہ میں گذر جائیں.گھنے کی اس گفت گو سے جو کشفی طور پر ہوئی تھی ان کو اپنی کمزوری کا احساس ہو گیا.اس سے توبہ کی اور اپنے اس مقام پر جابیٹھے اور خدا تعالیٰ نے پھر ان کو اسی طرح کھانا پہچانا شروع کر دیا.تو واقعی کہتے ہیں وفاداری کی صفت ایسی ہے کہ وہ اپنے آقا کی خاطر جان بھی دیدیتا ہے.اور ذرا پرواہ نہیں کرتا، مگر انسان ایسے ہوتے ہیں.جو دوست وغیرہ کو مصیبت کے وقت چھوڑ دیتے ہیں.تو بعض انسان ایسے ہوتے ہیں جن میں گنتے جتنی بھی وفا نہیں ہوتی.اسی طرح گدھے کو احمق کہا جاتا ہے اور حماقت کے لیے گدھا مشہور ہے ، لیکن بعض انسان اپنی حماقت میں گدھے سے بھی بڑھ جاتے ہیں.گدھے میں اتنی تمیز ہوتی ہے کہ وہ کبھی شیر پر حملہ نہیں کرتا.بلکہ اس کی حتی ایسی تیز ہوتی ہے کہ وہ شیر کی دُور سے ہی بو سونگھ کر بھاگنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن انسان جب حماقت پر آتا ہے تو یہ صرف خدا کے پہلوانوں پر حملہ کرتا ہے.بلکہ خدا کو بھی مقابلہ کا چیلنج دیدیا ہے گدھا احمق ہے مگر اتنا نہیں کہ خطرہ کی جگہ میں ٹھہرا رہے اور شیر کی بو پاتے ہی اس کو چھوڑ نہ دے لیکن انسان ایسا احمق ہوتا ہے کہ خدا کے سپہ سالاروں کے مقابلہ میں چلا جاتا ہے.پھر انسان گرتے گرتے بند ر سے بھی زیادہ نقال اور خنزیر سے بھی زیادہ بے حیا ہو جاتا ہے
11.اگر کسی جانور میں ایک ایک نقص ہے تو انسان میں تمام کے تمام نقائص جمع ہو جاتے ہیں بے حیا یہ ہوتا ہے.بے وفا یہ ہوتا ہے.اندھا تقلید کرنے والا یہ ہوتا ہے احمق یہ ہوتا ہے.کبھی بھیٹر کی طرح متقلد ہو جاتا ہے.لوگوں کو نمازیں پڑھتا دیکھتا ہے تو خود بھی نماز پڑھنے لگتا ہے لیکن کچھ نہیں سمجھتا کہ نماز کیوں پڑھتا ہوں اور پھر بھی نماز پڑھتا ہے کہ لوگ تعریف تحریں.رسول کریم ملی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہونگے جو نمازیں تو بی بی پڑھیں گے مگر ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا.یہ ایسے ہی لوگوں کے متعلق آپ نے فرمایا.پھر انسان نقلیں اتارتا ہے تو ایسی بھونڈی کہ دیکھ کر ہنسی آجاتی ہے.مثلا" یورپ کے لوگوں کی نقل میں ٹوپی.کوٹ پتلون پہنتا ہے.چونکہ ان لوگوں کو یہ لباس پہنتے صدیاں گزرگئیں اس لیے ان کو بُرا نہیں معلوم ہوتا.مگر یہ لوگ جو ان کے نقال ہوتے ہیں اور ویسا ہی بننا چاہتے ہیں.یہ گو ویسا ہی لباس پین بھی لیں.یورپین وضع کی ٹوپی سر پر رکھیں.مگر گوری رنگت کہاں سے لائیں گے.پھر اور چین جس طرح چلتے پھرتے ہیں.اس کے لیے ان کی تو چال ہی اس قسم کی ہوتی ہے.نہ توانھیں تکلف کرنا پڑتا ہے.اور نہ وہ بڑے معلوم ہوتے ہیں دیگر ان لوگوں کو ایسی چال چلنے کے لیے تصنع کرنا پڑتا ہے.چنانچہ پچھلے سال شملہ میں دیکھنے کا اتفاق ہوا بعض لوگ جسم کو اکڑاتے اور سر کو اُٹھائے چلتے ہوئے نہایت بھونڈے معلوم ہوتے تھے.ان لوگوں نے نقل کی نقل تو کی مگر بھونڈی اور فضول نقل کی جو ان کے لیے بجائے فائدہ مند ہونے کے اور ذلیل گن ہے.کیونکہ انسان معزز کوٹ پیتکون وہیٹ سے نہیں بن جاتا.اور نہ ہی یورپ کے لوگ اپنے لباس کی وجہ سے معزز ہیں.بلکہ کسی اور وجہ سے ہیں.ان لوگوں کو اگر ان کی نقل کرتی تھی تو ان صفات کی کرتے جن سے وہ دنیا میں معترہ ہیں.مثلاً دنیا ہی کو وہ سب کچھ سمجھتے ہیں اور اس کے لیے کوئی بڑی سے بڑی قربانی کرنے سے دریغ نہیں کرتے، لیکن اگر ان لوگوں کو کسی دور سفر پر جانے کے لیے کہا جائے.تو اول تو موجودہ زمانہ میں جہاز کے سفر کے خطرے کو رستے ہیں روک بنائیں گے اور اگر جہاز کا سفرنہ ہو کسی ایسی جگہ کا سفر ہو جہاں ریل نہ جاتی ہو تو ریل کے نہ ہونے کا عذر کیا جائیگا.پھر اگر یورپ کے لوگوں کو مذہبی طور پر بھی دیکھا جائے.تو ان کی قربانیاں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.افریقہ کے وحشیوں نے سینکڑوں مشنری عورتوں کو بھون کر کھا لیا.مگر ایک کے بعد دوسری فوراً چلی جاتی.اور عیسائیت کی اشاعت میں لگ جاتی اور اگر ایک کی ہلاکت کی خبر پہنچتی ہے.تو کئی درخواستیں آتی ہیں کہ ہم کو وہاں بھیجا جائے.چین میں اس وقت تک سات ہزار عیسائی مشنری قتل کیا گیا ہے، لیکن ایک مارا جاتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا چلا جاتا ہے.نکی نقل کرنے والے محض لباس اور چال میں نقل اُتار نے
سے چاہتے ہیں کہ ان کی طرح عزت حاصل ہو جاتے مگر اس سے یہ مکن نہیں.عزت ان کی عمدہ صفات حاصل کرنے سے ہو سکتی ہے.بنگال اور مدراس کے لوگ تعلیم میں بہت ترقی کر گئے ہیں مگر اپنا لباس وہی رکھتے ہیں.بنگالی سرنگے اور دھوتی باندھے ہوئے ہوتے ہیں مفتی صاحب جب مدراس گئے تو انھوں نے بتایا کہ چیف کورٹ کے حج بھی دنگے پیر بازاروں میں پھرتے تھے ، اور اس سے ان کی عزت میں کچھ بھی فرق نہیں آتا.کیونکہ انھوں نے اہل یورپ کی سیکھنے کی باتیں سیکھی ہیں حضرت مسیح موعود کوئی کوٹ پتلون نہیں پہنتے تھے مگر خدا نے آپ کو کتنی عزت دی.تو معلوم ہوا کہ لباس میں تقلید کرنے سے عزت حاصل نہیں ہوتی.پھر بعض لوگ بھیڑ کی طرح تقلید کرتے ہیں.اگر پوچھا جاتے کہ یہ کام کیوں کرتے ہو تو کہیں گے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طرح کرتے دیکھا.اگر کوئی عقل کی بات بتاؤ اور کہو کہ ایسا کرو تو کہیں گے ہم نہیں مان سکتے.کیونکہ یہ ہمارے باپ دادا کے طریقہ کے خلاف ہے.یہ نہیں دیکھیں گے کہ کونسی بات مفید اور عقل کے مطابق ہے.اللہ تعالیٰ نے سورۃ الناس میں اس طرف توجہ دلاتی ہے کہ کیونکر انسان انسانیت سے گرتا ہے اور ساتھ ہی گرنے سے محفوظ رہنے کا طریق بتایا ہے.فرمایا : - قل اعوذ برب الناس الف یعنی تین ذریعے ہیں جن کے ذریعہ انسان او پر چڑھنا ہے اور تین ہی وہ ذریعے ہیں جن سے نیچے گرتا ہے.ان تین ذرائع میں سے ایک ربوبیت ہے.دوسرا ملکیت ہے اور میرا الوہیت بہت دفعہ ربوبیت کے ذریعہ ابتلا.آتا ہے اور بہت دفعہ ملکیت کے ذریعہ اور بہت دفعہ الوہیت کے ذریعہ اور پھر ان میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں.ایک نسبت فاعلی کے لحاظ سے اور دوسری نسبت مفعول کے لحاظ سے یعنی کبھی انسان دوسروں کا رب بنتا ہے اور بھی دوسروں کو اپنا رب بنا ت ہے پھر بھی خود ملک بنتا ہے اور کبھی دوسروں کو اپنا ملک بناتا ہے.اسی طرح کبھی خود اللہ بنتا ہے اور کبھی دوسروں کو اپنا اللہ بنالیتا ہے گویا تین سے چھ ذریعے بن جاتے ہیں.کبھی یہ رب ہوتا ہے.یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ لفظ رب عام ہے.خدا کے لیے مثلاً رب الناس آیا ہے.اس کے معنی ہیں پیدا کرنے والا.اور پھر دتی حالت سے اعلیٰ کی طرف لیجانے والا.اور بعض دفعہ دیکھ کہیں گے.اور اس کے معنی ہونگے تمہارا سردار تو لغت والوں نے دونوں طرح لکھا ہے کہ لفظ رب بغیر اضافت یا باضافت خدا کے لیے آتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا کے سوا اوروں کے لیے بھی بول لیتے ہیں.ہر حال ایک ربوبیت انسان کی ہوتی ہے.مثلاً انس کے غریب رشتہ دار ہیں اور وہ ان کی پرورش کرتا ہے.اس پر اتیلا.اس طرح آتا ہے کہ اس کے پاس
١١٢ اتنا رزق نہیں ہوتا کہ یہ انکی پرورش کر سکے.اس لیے یہ بعض نا واجب طریق اختیار کرتا ہے.چوری کرتا ہے رشوت لیتا ہے.اسی طرح کسی کو اپنا رب سمجھتا ہے.اس کو خوش کرنے کے لیے جھوٹ بولتا ہے.یا اور اسی قسم کی باتیں کرتا ہے.تو خدا کی ربوبیت کو بھول جاتا ہے اور بندوں کو اپنا رب بنا لیتا ہے.دوسرا ذریعہ ملکیت ہے یعنی بعض بادشاہ ہوتے ہیں.تو ان کے بادشاہ ہونے کی حیثیت میں ان پرعیت کے کچھ حقوق عائد ہوتے ہیں.وہ ان میں خیانت کرتے ہیں.یاخود رعیت ہوتے ہیں اور دو سرمک ہوتا ہے.تو رعیت ہونے کی حالت میں بغاوت یا دیگر قسم کے سیاسی جرم کرتے ہیں.تیسری شق الوہیت ہے کہ کبھی تو انسان خود الہ بن جاتا ہے.اور بھی دوسروں کو الہ بنالیتا ہے.حضرت خلیفہ اول جب اپنے ایک اُستاد سے رخصت ہونے لگے تو انھوں نے آپ کو کہا کہ میں نہیں ایک نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ کہ تم بھی خدا نے کی خواہش نہ کرنا.حضرت مولوی صاحب نے حیران ہو کر پوچھا کہ کیا خدا بھی کوئی بنتا ہے.انھوں نے کہا کہ زبان سے خدا ہونے کا تو بہت کم لوگ دعویٰ کیا کرتے ہیں.مگر عملاً بہت لوگ خدائی کا دعوی کرتے ہیں اور وہ اس طرح کہ وہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ ہم کہیں وہی ہو کر رہے.حالانکہ یہ بات تو خدا کے شایان شان ہے.جو لوگ قولاً دعوی کرتے ہیں.ان کا علاج تو عام لوگ بھی کر لیا کرتے ہیں.جیسا کہ مشہور ہے کہ ایک شخص نے خدائی کا دعوی کیا.علماء نے اسے بہتیرا سمجھایا مگروہ باز نہ آیا.ایک ان پڑھ تھا.وہ بہت کوشش کرتا تھا کہ مجھے مواقع ملے تو میں اس کو سمجھاؤں ، مگر خدائی کے مدعی کے چیلے ہر وقت اس کے اردگرد جمے رہتے تھے اتفاقاً ایک دن جبکہ وہ اکیلا تھا تو اسے موقع ملا وہ اس کے پاس گیا اور جا کر دریافت کیا کہ کیوں جی آپ خدائیں اس نے کہا ہاں.اس ان پڑھ نے اسے گردن سے پکڑ لیا اور کہا کہ اچھا ہوا آج تو مجھے مل گیا ہے.ئیں تو مدتوں سے تیری تلاش میں تھا.آج تیری خبر لونگا.یہ کہ کر اسے مارتا جاتا تھا اور کہنا جاتا تھا کہ تو نے ہی میرے فلاں رشتہ دار کو مارا ہے.اب تو میرے قابو آیا ہے.میں تجھکو ہر گز نہیں چھوڑونگا جب بہت مار پڑی تو اس نے کہا مجھے چھوڑ دے.میں خدا نہیں ہوں.پس ٹھوکر لگنے کے تین ذریعے ہیں.ربوبیت - ملکیت الوہیت اس لیے اللہ تعالیٰ اس کا علاج بتاتا ہے.قُلْ اَعُوذُ بِرَتِ النَّاسِ، مَلِكِ النَّاسِ الهِ النَّاسِ ، کہ اس بات کا یقین رکھو کہ رب الناس کے سوا کوئی رب نہیں.ملک الناس اصل بادشاہ تو وہ ہے جو خدا ہے.الہ الناس اور معبود بھی وہی ہے.اس لیے کہو کہ میں اس خدا کی پناہ میں آتا ہوں جو رب ہے.ملک ہے اور اللہ ہے اس دُعا میں ایک لطیف نکنند ہے.اسلام کی تمام دعاؤں میں ایسے الفاظ اور ایسا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے
جس سے خدا کی غیرت کو جوش آئے.کہا جا سکتا ہے کہ بجاتے خدا کی تین صفات کے ذکر کرنے کے کیوں نہ صرف الدالناس کہ دیا کہ لفظ الہ میں تینوں مراتب اور صفات بھی آجاتے مگر اگر صرف لفظ اللہ کو کھا جاتا تو وہ بات پیدا نہ ہوتی جو اس تفصیل سے پیدا ہوتی ہے.خدارب ہے تو رب الناس کہہ کر گویا خدا کی غیرت کو جوش دلایا ہے کہ لوگوں کا رب تو یہ ہے پھر اور کوئی کس طرح رب ہو سکتا ہے.اسی طرح باقی دونوں صفات میں بھی خدا کی غیرت کو جوش میں لایا گیا ہے.اور یہ ایسی بات ہے کہ ہر شخص اس کو مشاہدہ کر سکتا ہے اور خدا تعالے نے خود شرک کے متعلق کس قدر غیرت کا اظہار فرمایا ہے.اس لیے جہاں ٹھوکر لگنے کا خطرہ تھا.اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ایسی دھا تلقین کی.کہ جس سے خدا کی غیرت کو جوش آئے.اور وہ اپنے بندوں کو تمام خطرات سے محفوظ رکھے تو انسان کو ٹھوکروں سے بچنے کے لیے کس چیز سے پناہ مانگنا چاہیئے.فرمایا ، مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ خناس کے وسوسوں سے.وسوسہ ڈالنے والے ہمیشہ ایسے طریق اختیار کرتے ہیں.جو بہت پوشیدہ ہوتے ہیں اور نہایت چالاکی سے کوئی بد عقیدگی.اور بد علی سکھا دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص اس دعا کو پڑھے گا.اور خدا کی ربوبیت ملکیت- الوہیت کو ذہن میں رکھے گا.وہ ضرور ایسے وساوس سے بچ جائیگا.دوسوسہ انداز چپکے سے ایک شوشہ چھوڑ دیتے ہیں.اور کمزور آدمی کو ایسی جگہ سے پڑتے ہیں کہ جہاں ان کا دار اثر کر سکے.لدھیانہ میں ایک شخص میر عباس علی تھے.وہ حضرت صاحب سے بہت خلوص رکھتے تھے.حتی کہ ان کی موجودہ حالت کے متعلق حضرت صاحب کو الہام بھی ہوا تھا.لدھیانہ میں جب حضرت مسیح موعود اور محمد حسین کا مباحثہ ہوا تو میر عباس علی حضرت صاحب کا کوئی پیغام لے کر گئے.انکے مولوی محمد حسین وغیرہ مولویوں نے بڑے احترام اور عزت سے ہاتھ چورے اور کہا آپ آلِ رسول ہیں آپ کی تو ہم بھی بیعت کر لیں، لیکن یہ مغل کہاں سے آگیا.اگر کوئی مامور تاتو سادات میں سے آنا چاہیئے تھا.پھر کچھ تصوف و صوفیاء کا ذکر شروع کر دیا.میر صاحب کو صوفیاء سے بہت اعتقاد تھا.مولویوں نے کچھ ادھر ادھر کے قصے بیان کر کے کہا کہ صوفیاء تو اس قسم کے عجوبے دکھایا کرتے تھے.اگر مرزا صاحب میں بھی کچھ ہے تو کوئی عجوبہ دکھلائیں.ہم آج ہی ان کو مان لیں گے مثلاً وہ کوئی سانپ پکڑ کر دکھائیں.یا اور کوئی اسی قسم کی بات کریں.میر عباس علی کے دل میں یہ بات بیٹھے گئی.اور جب حضرت صاحب کے پاس آئے تو کہا کہ حضور اگر کوئی کرامت دکھائیں تو سب مولوی مان لینگے.حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ جب کرامت کا لفظ اُن کی زبان سے نکلا تو اسی وقت مجھے یقین ہوگیا
۱۱۴ کہ بس میر صاحب کو مولویوں نے پھندے میں پھنسا لیا.اس پر حضرت صاحب نے ان کو بہت سمجھایا مگر ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا، تو وسوسہ انداز لوگ ایک سوراخ تلاش کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ انسان کے دل میں وسوسہ ڈال دیتے ہیں جس سے اسے ٹھوکر لگ جاتی ہے.قادیان میں بھی ایسے لوگ ہیں جن کا یہ کام ہے کہ لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالیں بعیت بھی کی ہوتی ہے.اپنے آپ کو مخلص بھی قرار دیتے ہیں.مگر وسوسہ اندازی سے باز نہیں آتے.ایسے لوگوں سے محفوظ رہنے کا ایک ہی ذریعہ ہے.اور وہ یہ کہ انسان سچے دل سے اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھے.جوڑھیگا يقيناً اللہ تعالیٰ اسے وسوسہ سے محفوظ رکھے گا.کیونکہ اللہ تعالی کی کے اخلاص کو ضائع نہیں کرتا.اور شیطان غالب نہیں آسکتا.شیطان کو اقتدار نہیں دیا گیا.پس جب تم سچے دل سے اس سورۃ کو پڑھو گے اور اس کے مفہوم و مطلب کو ذہن میں رکھو گے تو شیطان بھاگ جائیگا، لیکن جو لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کریں گے.وہ وساوس میں پڑ جائیں گے اور ان پر شیطان کا قبضہ ممکن ہے.پس ہم سب رب النَّاسِ.مَلِكِ النَّاسِ.اللهِ النَّاسِ کی پناہ میں آتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر قسم کے وساوس سے بچاتے " الفضل در نومبر شاشة )
110 21 خدا کے نبی پر ایمان لاؤ کہ غذا ہے کچھ ا فرموده ۱ از اکتوبر ۱۹ته تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- " بہت سے لوگ دنیا میں اس قسم کے پائے جاتے ہیں کہ ان کی حالت سوئے ہوئے آدمی کی سی ہوتی ہے.جس طرح سوئے ہوئے انسان کو اس بات کا کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ میرے سرہانے کوئی دشمن مجھے مارنے کے لیے کھڑا ہے یا میرے پاس کوئی عزیز میری ہمدردی کے لیے بیٹھا ہے.وہ اگر اتفاقاً اچھا خواب دیکھتا ہے مثلاً میں کہ میں تاجر ہوں بہت سارو پیہ آرہا ہے.خریداروں کی بھیڑ لگی ہوتی ہے اور جس قدر میں چاہتا ہوں نفع حاصل کرتا ہوں تو اس خواب کی حالت میں وہ خوشی سے بھرا ہوا ہوتا ہے.اس کے ذرے ذرے میں خوشی رچی ہوئی ہوتی ہے.گو عین اسی وقت اس کا دشمن تلوار لیے قتل کرنے کے لیے سرہانے کیوں نہ کھڑا ہو.یا وہ خواب میں کھتا ہے کہ میں بادشاہ ہوں.دنیا کے بادشاہ میرے نام سے تھراتے ہیں میرے پاس بیشمارہ فوجیں ہیں جو اسلحہ سے مسلح ہیں اور کسی کی مجال نہیں کہ مجھے کچھ نقصان پہنچا سکے لیکن ہو سکتا ہے کہ حقیقت میں اس وقت اس کے عزیز رشتہ دار مصیبت میں گرفتار ہوں اس کا گھر کٹ رہا ہو اور اس کے پیارے جان توڑ رہے ہوں.تو خواب میں ایک رسیاں ایسی خواہیں مراد ہیں جو سچی اور خدا کی طرف سے نہ ہوں.بلکہ نفسانی خیالات ہوں ، انسان بڑے بڑے خیالی پلاؤ پکا رہا ہوتا ہے.خوشی اور مسرت سے پھولا نہیں سماتا، بڑے بڑے سبز باغ دیکھ رہا ہوتا ہے.حالانکہ وہ سخت خطرہ کے منہ میں سخت مشکلات کے بھنور میں اور سخت مصائب کے دائرہ میں گھرا ہوتا ہے.اس کے بالمقابل دوسری طرف ایک شخص کی خواب میں تو یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ مجھتا ہے.میں ایک بڑے سمندر میں غوطہ کھا رہا ہوں.جہاز ڈوب رہا ہے کوئی ایسی چیز نزدیک نہیں میں سے سارا پکڑ کر زندہ رہ سکوں.چاروں طرف مایوسی ہی مایوسی گھیرے ہوتے ہے اور سمندر کی تہ کی طرف جا رہا ہوں اسی حالت میں اس کو خیال پیدا ہوتا ہے کہ مجھکو مچھلی نگل جائیگی اس خیال سے وہ کانپ اٹھتا اور گھبرا کر چیخ مارتا ہے.ممکن ہے جب وہ ایسی ڈراؤنی خواب دیکھ کر گھبرایا ہوا چیخ مار کر اٹھے.تو کسی نہایت شفیق اور
114 پیار کرنے والے کو اپنے پاس پاتے جو اس پر ہزار جان سے قربان ہونے کے لیے تیار ہو، لیکن جس طرح پہلا شخص اصل حقیقت سے نا واقف ہو کر محض نفسانی خیالات اور وہمی نظاروں پر پھولا نہیں سماتا.اسی طرح یہ اصلیت سے انجان رو کر ڈراؤنے نظاروں سے گھبرا اٹھتا.اور کس کو اپنا یار و مددگار ہیں سمجھتا.یہی حال دنیاوی معاملات میں بھی ہوتا ہے بہت لوگ اپنی ترقیات اور خواہشات اور کامیابیوں کے خیالات سے اچھلتے ہیں.کامیابیوں کے سبز باغ ان کے پیش نظر ہوتے ہیں.اور وہ اس حالت میں چھوٹے نہیں سماتے.حالانکہ ہلاکت ان کے پاس کھڑی ہوتی ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے کامیاب ہو رہے ہیں اور ابھی سارا مقصد حاصل کر لیں گے مگر خدا کے فرشتے کہتے ہیں کہ تم شکست کے گڑھے میں گر رہے ہو.اور ان کے بالمقابل بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی دنیا میں تمام توقعات قطع ہو چکی ہوتی ہیں.وہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارا کوئی ہمدرد اور غمگسار نہیں ہم تباہ و برباد ہو گئے ہیں اور ہمارے بچنے کا کوئی طریق نہیں، لیکن ایک امید کا رستہ ان کے لیے کھول دیا جاتا ہے اور وہ خوشی کی جھلک دیکھتے ہیں.جو خدا کی طرف سے ہوتی ہے.کیونکہ جب انسان سب سے قطع ہو کر خدا کی طرف دیکھتا ہے.تو خدا کہتا ہے کہ میں تیری مدد و نصرت کو موجود ہوں میں تجھے تباہ نہیں ہونے دونگا.تو ایک شخص خواب میں ڈوب رہا ہوتا ہے.اور نہیں جانتا کہ میرے بچاؤ کی کوئی صورت ہے حالانکہ ممکن ہے کہ اس کا کوئی شفیق اسے گود میں لیے بیٹھا ہو.اور جس طرح ایک شخص خواب میں عمدہ نظارہ دیکھ کر بڑا خوش ہو رہا ہوتا ہے.حالانکہ ہو سکتا ہے اس وقت اس کا دشمن اسے ہلاک کرنے کے لیے سرہانے کھڑا ہو.اسی طرح وہ شخص جو خدا سے دُور ہوتا ہے سمجھتا ہے کہ میں کامیاب ہو جاؤنگا.اور ہرقسم کے فوائد حاصل کر لونگا، لیکن تباہ و برباد ہو جاتا ہے اور وہ جو تباہی و بربادی کے وقت خدا کے حضور جھک جاتا ہے بچا لیا جاتا ہے.کیونکہ خدا اپنے بندے کی مدد کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے کیو ایک بچہ جب ڈراؤنی خواب دیکھ کر چیختا اور ملبلا اٹھتا ہے تو اسی وقت اس کی ماں بھا گئی ہوئی آتی ہے اور کہتی ہے میرے بجھے بجھے کیا ہوا اور پیار سے گود میں اٹھالیتی ہے.وہ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ میرے دشمن مجھے قتل کرنے کے لیے لئے جاتے ہیں.حالانکہ اس وقت اس کی ماں اس پر جھکی ہوئی شفقت اور پیار سے پوچھ رہی ہوتی ہے کہ تجھے کیا ہوا.تو کیوں روتا ہے.اسی طرح انسان جب ہلاکتیں اور تباہیاں دیکھ کر گھرا اُٹھتا ہے اور اپنے سامنے موت ہی موت دیکھتا ہے.تو اُس وقت خُدا اُس پر جھکا ہوا ہوتا ہے اور اس مال سے بھی زیادہ شفقت اور پیار کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے.ڈراؤنی خواب دیکھ کر رونے اور پھیلانے والا بچہ جب اُٹھتا ہے تو جلدی سے جلدی اپنی ماں کی گودمیں جانے کی کوشش کرتا ہے اور جب
114 ماں اسے گود میں اٹھالیتی ہے تو بھی نادان بچہ روتا ہے مگر اس وقت اس کا رونا خوف اور خطہ کا رونا نہیں ہوتا.بلک خوشی کا رونا ہوتا ہے، لیکن انسان دانا ہوکر تجربہ کار ہوکر اور ایک عمر گزار چکنے کے بعد جب مصائب اور مشکلات میں گرفتار ہوتا.تباہی اور بربادی کے نظارے دیکھتا، ہلاکت اور موت کے منظر مشاہدہ کرتا ہے تو چیختا چلاتا ہے.مگر خدا کی طرف نہیں جھکتا.اس کی پناہ نہیں ڈھونڈھتا اور اس کی آغوش میں آنے کی سعی نہیں کرتا.نادان بچہ ڈرتا ہے اور روتا ہے.اور انسان بھی مصائب میں گرفتار ہوکر روتا ہے، لیکن بچہ جب ماں کی آغوش میں چلا جاتا ہے تو وہ رنج و خطر کا رونا چھوڑ کر خوشی کا رونا روتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک دنیا بھر کی تکالیف کا علاج اگر کوئی ہے تو ماں کی آغوش ہی ہے اور جیسے وہ بجھتا ہے کہ میں اس آغوش میں پہنچ گیا توپھر ساری دنیا کی بلائی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں.مگر انسان روتا ہے حالانکہ خدا اسکے پاس ہوتا ہے اسی حالت میں بھی وہ روتا ہے اور اسکا یہ رونا بچہ کی طرح خوشی کا رونا نہیں ہوتا بلکہ خطرات کا رونا ہوتا ہے اور باوجود اس کے کہ خدا کی آغوش اس کے لیے کھلی ہوتی ہے، تاہم خدا کی آغوش میں وہ خطرات اور مصائب سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں خیال کرتا حالانکہ ماں کی خدا کے مقابلہ میں کیا حیثیت ہے کہ جس کی گود کو اک نادان بچہ ترنم کے خطرت سے بچنے کی جگہ بجھتا ہے اور میں پہچنے کی کوشش کرتا ہے.جنگ بدر کا واقعہ ہے رسول کریم صلی الہ علیہ تم نے دیکھا کہ ایک عوت گھبرائی ہوئی پھر ہی تھی آپ نے صحابہ کو مخاطب کرکے فرمایا تم جانتے ہو یہ عورت کیوں گھبرائی ہوئی پھرتی ہے.اس کا لڑکا ہے.جو اس سے جدا ہو گیا ہے.یہ اس کو تلاش کرنے جار ہی ہے.اس کو خیال ہے کہ آج جنگ کا دن ہے.تلواریں چل رہی ہیں کہیں میرا بچہ ہلاک نہ ہو جاتے یا غلام بنا کر یا نہ جاتے اور پھر خدا جانے کس کس ملک میں مارا مارا پھرے.ہر ایک بچہ کو جو اسے دکھائی دیتا ہے.سینہ سے لگاتی ہے کہ شاید یہی میرا بچہ ہو.فرمایا تم نے دیکھا کہ اس ماں کو اپنے بچہ کے کھوتے جانے کا کس قدر کرب ہے، لیکن اللہ تعالے کو اپنے بندے کے گم ہونے سے اس سے کہیں زیادہ کرب ہوتا ہے لیے سچی بات یہی ہے کہ ماں کیا اور باپ کیا.اللہ کی محبت اور اللہ کی آغوش واقعی ایسی آرام کی جگہ ہے جس کی کسی کے ساتھ مثال ہی نہیں دی جا سکتی.بچہ ماں کی آغوش کو تمام جہان کے دکھوں سے آرام پانے اور بہترسم کے خطرات سے محفوظ رہنے کی جگہ خیال کرتا ہے، لیکن وہ غلطی کرتا ہے کیونکہ ماں کی حقیقت ہی کیا ہے.ایک چپڑاسی بھی اسے دھمکا سکتا ہے.یا بیوہ عورت دیکھ کر ظالم محلہ کے له بخاری کتاب الادب باب رحمته الولد و تقبيله ومعالقته
لوگ ہی اس کو گھر سے نکال دیتے.یا طرح طرح کے دکھ دیتے ہیں اور وہ روتی ہوئی بچہ کو لے کر بے خانماں ماری ماری پھرتی ہے اور کچھ نہیں کرسکتی مگر خدا وہ خدا ہے کہ جو انسان اس کی آغوش میں چلا جاتا ہے اس کا ساری دنیا مل کر بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتی.کوئی طاقت اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی.اور کوئی قوت اس پر غلبہ نہیں پاسکتی.اس لیے حقیقی اور پورے امن و آرام کی آغوش ایک اور صرف ایک ہی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی آغوش ہے.پس آغوش مادر کو خدا کی آغوش سے کیا نسبت، لیکن افسوس اور حیرت کا مقام ہے کہ ایک نادان بچہ تو مصیبت اور خطرہ کے وقت اپنی ماں کی آغوش کو ڈھونڈھتا ہے لیکن سمجھدار اور تجربہ کار انسان دُکھوں اور مصیبتوں میں بھی خدا کی آغوش میں آنے کی طرف متوجہ نہیں ہوتا.حالانکہ جیسا آرام و آسائش اس میں مل سکتا ہے اور کہیں نہیں مل سکتا کیونکہ جیا خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان اور رسم کر نیوالا ہے.ایسا کوئی نہیں ہے.- چنانچہ سورۃ فاتحہ کو دیکھو اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - مَالِكِ يوم الدين ، اے انسانوں ذرا سوچو تو سی کہ تمہارا کس سے تعلق ہے.اس اللہ سے تعلق ہے جو ساری سچی تعریفوں کا مالک ہے.پھر وہ ظالم اور جابر نہیں بلکہ رحمن اور رحیم ہے.وہ اپنی چھوٹی سے چھوٹی مخلوق کو بھی رزق پہنچاتا ہے.اگر جنگل میں رہنے والے بھیڑیوں کے لیے رزق میتا کرتا ہے تو ہوا میں رہنے والی مخلوق بھی اس کی دی ہوئی روزی کھاتی ہے.اگر زمین میں پوشیدہ رہنے والے جانوروں کو ان کی خوراک پہنچاتا ہے.تو پانی میں رہنے والے جانوروں کو بھی وہی رزق دیتا ہے غرض ہر ایک مخلوق کے لیے اس نے سامان زیست پیدا کیا ہوا ہے.اور اسے پہنچاتا ہے، کیا ایسا مربان خدا انسان کے لیے آرام و آسائش کا سامان نہیں کریگا.غور کرو.مثلاً ایک شخص کے ہاں کوئی مہمان جاتے اور میزبان اس کے نوکروں کے لیے ضروری چیزیں.اس کی بگولوں کے لیے پیتے.اس کے گھوڑے کے لیے گھاس.اس کے اونٹ کے لیے کانٹے دار جھاڑیاں.اور اس کے کتوں اور بلیتوں کے لیے گوشت غرض جتنے نوکر اور جین قدر جاندار اس کے ساتھ ہوں ان سب کے لیے آرام و آسائش کی چیزیں میت کرے اور سب کو کھانے پینے کی چیزیں دے تو کیا ایسے میزبان کی نسبت یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے مہمان کے ٹھرنے کے لیے مکان کا.اس کے کھانے کے لیے خوراک کا، اس کے آرام کے لیے بہتر کا اور اس کی دیگر ضروریات کے پورا کرنے کا انتظام نہیں کرے گا.ہرگز نہیں کیونکہ جب وہ اپنے مہمان کی خاطر اس کے ساتھ کی ہر ایک چیز کو آرام پہنچا رہا ہے تو خود اس کو کیوں نہ پہنچائے گا.پس ایسے میزبان کی نسبت بجز پاگل کے کوئی شخص خیال نہیں کرتا کہ وہ اپنے مہمان کو بھوکا رکھے گا.یا اس کے آرام کے
119.لیے کوئی انتظام نہ کریگا.اس بات کو مد نظر رکھ کر دیکھنا چاہیئے کہ کیا وہ خدا جس نے تمام مخلوق کے لیے سامان پیدا کئے ہوتے ہیں جس نے مچھروں کے لیے اسانیوں کے لیے بچھوؤں کے لیے اگتوں کے لیے شیروں کے لیے رزق پیدا کیا ہوا ہے.ان کے آرام کے سامان مہیا کئے ہوتے ہیں کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ وہ ان سب سے اشرف اور اعلیٰ مخلوق انسان کے لیے رزق میا نہیں کریگا.یا اس کے آرام کے سامان پیدا نہیں کریگا.اس نے سب کچھ کیا ہوا ہے لیکن جس طرح ایک نادان اور کم عقل انسان اپنے نہایت مہربان اور خاطر تواضع کرنے والے میزبان سے لڑ کر چلا جاتا ہے.اور اس کی میزبانی کو رد کر کے اس آرام اور آسائش سے محروم ہو جاتا ہے جو وہ اسے پہنچانا چاہتا ہے.اس طرح نہجھ اور ناشکر انسانے خدا تعالیٰ سے جنگ کر کے اس سے منہ موڑ لیتا ہے اور خدا تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے آرام کے اسباب سے ، فائدہ اُٹھانے سے بے نصیب رہ جاتا ہے پس اگر نا دان انسان با وجود اس خاطر کے اپنے میزبان سے لڑکر چلا جائے تو یہ اس کی بیوقوفی ہوگی.دیکھو حیوان اپنے مالک سے کبھی نہیں لڑتا.جو کچھ وہ اسے کھانے کو دیتا ہے کھالیتا ہے اور اگر بھو کا بھی رہے.تو بھی اس کے دروازے کو نہیں چھوڑتا.مگر انسان خدا سے لڑتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے خدا کی کیا پرواہ ہے.مگر یہ بات اکثر انسان زبان سے نہیں کہتے.بلکہ عمل سے کہتے ہیں.پس جب انسان خدا سے لڑتے ہیں.اُس کے حکموں کو توڑتے ہیں اور اس کی نعمتوں کی بے قدری کرتے ہیں تو ان پر طرح طرح کے عذاب آتے ہیں.بیماریاں پڑتی ہیں.زلزلے اور سیلاب آتے ہیں.لڑائیاں ہوتی ہیں.قحط پڑتے ہیں.اور نا شکر گذار لوگ تباہ و برباد کر دیتے جاتے ہیں.ان کے عزیز و خویش ہلاک کئے جاتے ہیں.یہ کیوں ؟ اس لیے کہ جب خدا کسی نعمت اور کسی انعام اور کسی بخشش کرنے میں ذرا بھی کمی نہیں کرتا.تو پھر جو ایسے مہربان اور رحم کرنے والے خدا سے منہ موڑتے.اور نہ صرف منہ ہی موڑتے ہیں.بلکہ لڑائی مول لیتے ہیں.انھیں اس نا شکر گذاری کا مزا چکھائے.چونکہ خدا تعالیٰ بڑا رحم کرتا ہے اور انسان کو کسی نعمت کے دینے میں بخل نہیں کرتا.مگر یہ اس سے لڑائی مول لیتا ہے اور اس سے علیحدگی اختیار کرتا ہے.پھر وہ اس کی سزا بھگتا ہے.اس زمانہ میں بھی یہ نظارہ ہمارے سامنے موجود ہے کہ چونکہ بہت سے لوگوں نے خدا سے لڑائی شروع کر دی تھی اور خدا سے علیحدہ ہو گئے تھے.اس لیے خدا نے ایک نبی کو مبعوث کرنا ضروری سمجھا جو انھیں بتاتے کہ تمہاری تمام تکلیفوں اور مصیبتوں کا علاج خدا اور صرف خدا ہی کے پاس ہے.
کیسے تعجب کی بات ہے کہ ایک بچہ جو اپنی ماں سے روٹھ کر اس کی گود سے نکلتا ہے ، وہ تو ماں کے صرف اتنا کہ دینے سے کہ ہوا آیا دوڑ کر ماں کی چھاتی سے لپٹ جاتا ہے.حالانکہ وہ تو جھوٹ موٹ کا ہوا ہوتا ہے.مگر اس بچہ پر اس قدر اثر کرتا ہے کہ اپنی تمام ناراضگی کو بھول جاتا ہے.اور اپنی ماں کی گود کو ہی اپنے لیے جائے حفاظت سمجھتا ہے، لیکن انسانوں کے سامنے سچ سچ کے بہت سے عذابوں کی صورت میں آتے ہیں.اور خدا کا نبی بار بار اور بڑے زور سے ان کے آنے سے پہلے اطلاع دیتا ہے.تاکہ انسان اپنے خالق اور مالک کو راضی کرلیں اور اس کے آگے جھک جائیں.مگر یہ نہیں ڈرتے.اور اتنا تکبیر دکھاتے ہیں کہ خدا کی طرف سے منہ پھیر لیتے ہیں.قحط کی مصیبتیں اُٹھائیں گے مگر مہربان خدا کی آغوش میں نہیں جائیں گے وباؤں اور بہاروں سے اپنے ساتھیوں کوتباہ وبرباد ہوتا کہیں گے مگر خدا کی طرف نہیں جھکیں گے.زلزلوں سے سیلابوں سے خانماں برباد ہو جائیں گے دیگر خدا کی پناہ میں نہیں آئیں گے، لیکن خدا تعالی با وجود ان کی ایسی سرکشی کے پھر بھی تمام کے تمام انسانوں کو ہلاک نہیں کرتا.نہ اُن کی زیست کے تمام سامانوں کو بالکل تباہ و برباد کر دیتا ہے.بلکہ بہت سوں کو عبرت حاصل کرنے کے لیے زندہ رکھتا ہے.اور کچھ نہ کچھ سامان ان کی زیست کے پیدا کرتا رہتا ہے لیکن کیسا رونے کا مقام ہے کہ ایک بچہ جو نادان ہے.وہ تو اپنی دانائی کرتا ہے کہ جب کوئی خوف و خطرہ دیکھتا ہے تو اپنی ماں کی آغوش میں جاتا ہے، لیکن انسان دانا ہوکر مصائب اور آرام کے وقت دکھ اور تکالیف کے وقت خدا کی آغوش میں جانے سے انکار کر دیتا ہے اور جو خدا کی طرف بلاتا ہے اس پر منیسی او تمسخر کرتا اسے احمق اور مجنون بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے خدا کی ضرورت نہیں.نادان کہنے کو تو کہدیتا ہے کہ خدا کی ضرورت نہیں حالانکہ جس زبان سے وہ یہ بات کہتا ہے.وہ بھی خدا ہی کی دی ہوتی ہے اور دوسری تمام چیزیں جن کی وجہ سے یہ خدا کو بھولا ہوا ہے وہ بھی سب خدا ہی کی دی ہوتی ہیں.یہ ایسی ہی بات ہے کہ جیسے ایک کمزور اور ناتواں انسان کسی کے کندھے وارا ہی رھی ھے کہ ھے تمہارے سارے کی ضرورت ہیں حالانکہ اسے سہارے کے اخیرہ کھڑ نہ ہوسکے.یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ اپنے سے بھاگنے والے سرکشوں اور اپنے دشمنوں کو بھی رزق پہنچاتا اور سہارا دیتا ہے اور یہ اس کی رحیمیت کا نشان ہے.دیکھو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن خدا کے دشمن تھے.اول چونکہ مد صلی الہ علیہ سلم کا دن تھا.اس لیے خدا کا بھی دشمن تھا مگر خدا اس کو رزق دیتا تھا.کیوں اس لیے کہ آخر تھا تو اسی کا بندہ.پس وہ لوگوں کو عذابوں میں ڈالتا.مصائب میں جکڑتا ہے.اور تحطوں میں گرفتار کرتا ہے.مگر ساتھ ہی ربوبیت بھی کرتا ہے.تاکہ تمام کے تمام ہلاک
ہو جائیں.پس میں وہ بات ہے جس کے باعث وہ سب کو ہلاک نہیں کرتا.کہ آخر ہیں تو میرے ہی بندے اور میری ہی مخلوق.اس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کا رحم سزا کے وقت بھی انسان کو نہیں چھوڑتا.بلکہ خدا کی طرف سے جو سزا آتی ہے وہ بھی اس کا رحم ہی ہوتا ہے.تالوگ عبرت پکڑیں اور بڑے مذاب سے بیچ سکیں.پس جس زمانہ میں انسان خدا سے جُدا ہو جاتے ہیں اور اس سے منہ موڑ لیتے ہیں خدا ان پر یہ رسم فرماتا ہے کہ ان کی بھلائی کی خاطر نبی مبعوث فرماتا ہے جو ان کو خدا کی طرف بلاتا ہے.بنگر دنیا کے لوگ دنیا کی طرف ایسے مجھکے ہوتے ہیں کہ اس کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے.اور اگر کرتے ہیں تو اس کی مخالفت اور دشمنی کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں.حالانکہ اس کی دشمنی اس کی دشمنی نہیں ہوتی بلکہ خدا کی ہوتی ہے.کیونکہ خدا اس کے ذریعہ ظاہر ہوتا ہے.حضرت مرزا صاحب کے دشمن آپ کی مخالفت نہیں کرتے.حضرت مسیح کے دشمن حضرت مسیح کے شمن نہیں تھے اور حضرت موسیٰ کے مخالف حضرت موسیٰ کے مخالف نہیں تھے.بلکہ وہ اس چیز کے دشمن تھے جو دہ دنیا کے سامنے پیش کرتے تھے.اور وہ کیا تھا.وہ خدا اور اس کا کلام تھا پس انبیاء کے دشمن ان کی ذات کے دشمن نہیں ہوتے.بلکہ خدا کے دشمن ہوتے ہیں.انبیا.تو گنامی میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں.یہ نسبت دنیا میں ظاہر ہونے کے لیکن خدا ان کو گوشتہ گنامی سے کھینچ کر دنیا کے سامنے لاتا ہے.پس چونکہ ان کو اپنی بڑائی منظور نہیں ہوتی بلکہ وہ خدا کی بڑائی کے خواہاں ہوتے ہیں.اس لیے ان کی مخالفت ان کی مخالفت نہیں تھی.بلکہ خدا کی مخالفت تھی.اور ان کے مخالف خدا کے مخالف تھے مگر باوجود اس قدر مخالفتوں اور عنادوں کے جو وہ خدا کے نبیوں کے بالواسطہ خدا کے ساتھ کرتے رہے.خدا پھر بھی ان پر رحم فرماتا رہا ہے.اپ غور کرنا چاہیئے کہ وہ خدا جو اپنی مخلوق کے ساتھ ایسا مہربان اور رحم کرنے والا ہے اسے ا ہو کیا گیا کہ دنیا کوطرح طرح کے عذابوں میںمبتلا کرکے تباہ کر رہا ہے کوئی عقلمند جب اپنی بیوی اپنے بچوں اور اپنے بھائیوں پر ظلم نہیں کرتا.ان کے گلوں پر چھری نہیں پھیرتا اور اپنے دوست کو قتل نہیں نا.تو پھر کیا وجہ ہے کہ وہ خدا جو اپنے بندوں پر ایبار حم اور محبت کرنے والا ہے کہ اس کے رحیم کے مقابلہ میںکسی کا رحم بھی پیش نہیں کیا جاسکتا وہ کیوں دنیا پر طرح طرح کے عذاب بھیج رہا ہے کہیں قحط سے دنیا ہلاک ہورہی ہے.کہیں قتل و غارت کا زور شور ہے کہیں طاعون سے ہلاکت پھیل رہی ہے.اور کہیں ایسی ایسی بیماریاں پیدا کی جارہی ہیں.جو اس سے قبل کبھی ظاہر نہیں ہو ہیں.پس جبکہ خدا تعالی طرح طرح کی آفات بھیج رہا ہے.غلہ اس نے کھینچ لیا ہے.وبائیں اس نے
پھیلا دی ہیں جنگیں اس نے شروع کرادی ہیں تو آخر اس کی کچھ وجہ تو ہونا چاہیئے.اس کی دو ہی وہیں ہوسکتی ہیں یا تو یہ ہ وہ رحم کرنے والا دل بدل گیا اور اس کی جگہ نعوذ باشد کوئی سفاک اور ظالم خدا آگیا، لیکن یہ بات بالکل غلط ہے.کیونکہ دل میں ہرگز کوئی تغیر نہیں آسکتا.اس لیے آج بھی وہی خدا ہے.جو آج سے قبل تھا.دوسری وجہ یہ ہے کہ اب انسان وہ انسان نہیں رہے جو آج سے قبل ہوتے تھے اور جن پر خدا رحم یا کرتا تھا بلکہ اس زمانہ کے انسانوں نے اپنی حالت کو بدل لیا ہے جو اچھے تھے وہ مر گئے اور ظالم و و سفاک اور دین سے لا پرواہ اور تقویٰ سے بے خبر اور گندے لوگ رہ گئے ہیں.یہی وجہ جو کہ درست نہیں ہوسکتی.اس لیے یہی درست ہے اور در حقیقت بات بھی یہی ہے کہ موجودہ انسانوں نے ایک بڑی تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لی ہے اور چونکہ وہ خدا تعالے سے اتنے لا پرواہ اتنے دور اور اتنے سرکش ہو گئے میں جتنے اس زمانہ سے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے.اس لیے ان پر ہر قسم کی مصیبتوں اور تکلیفوں کے ایسے دروازے کھول دیئے گئے اور عذاب کے ایسے گئے چھوڑ دیئے گئے جیسے ان سے پہلے لوگوں پر کبھی نہیں چھوڑے گئے.پس یہ خیال بالکل غلط ہے کہ (نعوذ باللہ خدا بدل گیا ہے.بلکہ بات یہ ہے کہ اس زمانہ کے انسانوں کی حالت نہایت خراب ہو گئی ہے.وہ نسل جو اچھی تھی گزر گئی اس کے بعد جو پیدا ہوئے وہ اچھے نہیں.خدا تو ازلی ابدی ہے.اس لیے اس میں کوئی نقص نہیں پیدا ہو سکتا ، لیکن انسان چونکہ فانی ہستی ہے اس لیے نیکیوں اور اچھے لوگوں کے مرنے کے بعد بڑے اور بدکار پیدا ہو سکتے ہیں اور ایسے ہی ہو رہے ہیں.اب چونکہ انسانوں نے خدا کو چھوڑ دیا ہے اس لیے اُنھیں آفتوں میں ڈالا گیا تا خدا کی ہی آغوش میں آئیں اور خدا کی آغوش کے سوا دنیا میں کہیں امن نہیں ہیں اب امن حاصل کرنے اور مصائب و آرام سے بچنے کا ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ خدا کے دروازے پر گر پڑیں.کیونکہ جو خدا کے دروازے پر گر پڑے وہ کمبھی ہلاک نہیں کئے گئے.تاریخ اس کی شاہد ہے.دیکھو اہلِ عرب نے خدا کو چھوڑ دیا تھا وہ اس سے منہ موڑ چکے تھے.اس پر خدا نے ایک نبی کے ذریعہ ان کو اپنی طرف بلایا.اور ایسے وقت میں بلایا جبکہ ان کی حالت بہت بڑی تھی اور چونکہ انھوں نے خدا کی طرف آنے کی بجائے اس سے اور زیادہ سرکشی کی اس لیے خدا تعالیٰ نے انھیں سیدھا کرنے کے لیے عذابوں میں گرفتار کیا، لیکن جب وہ خدا کی طرف آگئے تو ان تمام ذلتوں کو عزتوں سے تمام ہلاکتوں کو خوشحالیوں سے بدل دیا.اسی طرح
حضرت موسی کی قوم کے ساتھ کیاگیا.جب وہ خُدا سے دور اور اسے چھوڑ چکے تھے تو ہرقسم کی ذلت اور رسائی میں گرفتار کئے گئے.ان کے لڑکے قتل کئے جاتے تھے.ان کی عورتیں بے عصمت وبے آبرو کی جاتی تھیں اور فرعون طرح طرح کی ذلتیں ان پر وارد کرتا تھا، لیکن جب وہ حضرت موسیٰ کے ذریعہ خدا کے آگے جھک گئے تو پھر ایک طرف انھیں ذلیل و رسوا کرنے تکلیفیں اور دکھ پہنچانے والے فرعون اور اس کی قوم کا جو کچھ انجام ہوا اسے دیکھو اور دوسری طرف ان کی حالت دیکھو کہ نہایت ذلیل اور رسوائی کی زندگی سے نکال کر حکمران بنا دیئے گئے.اسی طرح حضرت مسیح کی قوم کو دیکھیو ایک وقت تو اس پر وہ آیا کہ بڑے بڑے دکھوں اور مصیبتوں میں گرفتار کی گئی حتی کہ اس کے خاص معبد میں سور کو ذبح کیا گیا.مگر خدا نے آخر انھیں کو حکومت دے دی.پس خدا جب عذاب نازل کرتا ہے تو اس لیے نہیں کرتا کہ اپنی مخلوق کو تباہ و برباد کر د سے بلکہ عذاب کے لیے اس کی مہربانی ہی تقاضا کرتی ہے کہ میری مخلوق جو بکرا گئی ہے اس کی اصلاح ہو جاتے.تو یہ اس کے رحم کا ہی تقاضا ہوتا ہے کہ لوگ عذاب میں گرفتار کئے جاتے ہیں.دیکھو کوئی ایسا ڈاکٹر مریض پر رحم کرنے والا نہیں کہلا سکتا جو اس کے خراب اور سارے جسم میں فساد پھیلانے والے عضو کو نہیں کاٹتا کیونکہ ڈاکٹر کا مریض کے لیے یہی رحم ہے کہ اس کا جو عضو کاٹنے کے قابل ہے.اسے کاٹے سے تا کہ باقی جسم کی اصلاح اور حفاظت اس کے کاٹنے سے ہو جائے.پس جب ایک ڈاکٹر مریض کے جسم میں فساد ہوتا دیکھے گا.تو نشتر چلا ئیگا.اور کوئی پروا نہیں کریگا.کیونکہ ہی اس کے رحم کا تقاضا ہے.مثلاً کسی شخص کے مثانہ میں تھری ہو تو ڈاکٹر کارم یہ نہیں ہو گا کہ اس کو چھوڑ دے بلکہ اس کا رحم اسے مجبور کر بیگا کہ نشتر چلاتے اور جسم کو چیر کر اس تکلیف دینے والی چیز کو نکال ڈالے.تو جیسے ایک ڈاکٹر کار جسم اور ہمدردی مریض کا مرض دُور کرنے کے لیے نشتر چلانے کا تقاضا کرتی ہے.ایسے ہی خدا تعالیٰ کی رحمت بھی انسان کے فساد کو دور کرنے کے لیے عذاب کا بھیجنا ضروری بجھتی ہے اور جیس طرح جب تک مرض دور نہیں ہوتا.اس وقت تک ڈاکٹر کا نشتر کام کرتا رہتا ہے، لیکن جب مرض رفع ہو جاتا ہے تو مریض کو عمدہ غذائیں دی جاتی ہیں.ہر طرح اسے خوش رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے.اسی طرح خداوند کریم بھی اسی وقت یک عذاب دیتا ہے جب تک کہ لوگوں کی اصلاح نہیں ہوتی.اور جب انسانوں کی اصلاح ہو جاتی ہے تو پھر انھیں ہر قسم کے انعامات سے نوازتا ہے.مگراب دیکھنا یہ چاہیئے کہ دنیا میںیہ جو سم قسم کی ہلاکتیں اور تباہیاں آر ہی ہیں.ان کے لانے کا
موجب کیا ہوا ہے.یہ تو صاف ظاہر ہے کہ یہ بلا سبب اور بلا وجہ تو آ نہیں رہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ ٹھٹھی نہیں کرتا.اور نہ یہ اندھا راج ہے کہ " کے سیر بھاجی سکے سیر کھا جا " کا حساب ہو کہتے ہیں کوئی بیوقوف را جا تھا اس نے اپنے مدود ریاست میں حکم جاری کر رکھا تھا کہ ہر ایک چیز کے سیر ہے.ایک چیلے نے اپنے گرد سے کہا کہ باواجی اس ریاست میں چلو وہاں بڑا مزا ہے.ہر ایک چیز کے سیر بکتی ہے ہم خوب سیر ہو کر مٹھائی وغیرہ کھایا کریں گے.گرو نے کہا وہاں نہیں جانا چاہتے کیونکہ اگر گئے تو ہم پر ضرور کوئی نہ کوئی مصیبت آئیگی، لیکن چیلا اصرار کرکے لے گیا اور کچھ دن تک خوب مٹھائیاں کھائیں اور خوب موٹے تازے ہو گئے.آخر اتفاق ایسا ہوا کہ ایک شخص نے کسی کو قتل کر دیا.قاتل کو گرفتار کر کے پانی کا حکم دیا گیا.جب اسے پھانسی دی جانے لگی تو جلا د نے کہا.چونکہ اس کی گردن پتیلی ہے.اس لیے پھانسی کی رسی اس کے گلے میں پوری نہیں آتی.را جانے کہا اس کی بجائے کسی موٹی گردن والے کو تلاشش کر کے پھانسی دیدو آخر کسی کو تو پھانسی دینا ہی چاہیئے.اس پر گر و صاحب جن کی گردن موٹی تھی.پکڑ کر پھانسی دیدیئے گئے.یہ ایک ظلم وجود کی کہاوت مشہور ہے.اور ممکن ہے کسی نادان اور جہالت کے پتلے نے ایسا کیا بھی ہو لیکن خدا کی نسبت اس قسم کا خیال بھی دل میں نہیں لایا جاسکتا وہ اپنے بندوں پر بڑا ہی رحیم وکریم ہے.اور کسی پر ایک ذرہ بھر ظلم روا نہیں رکھتا.وہ ہر ایک چھوٹی سے چھوٹی بات کا پورا پورا علم رکھتا.اور سب کچھ جانتا ہے.اس لیے اس کی طرف سے کسی پر ظلم نہیں ہوسکتا.جب یہ بات ہے تو پھر آجکل جو دنیا میں قتل و غارت تباہی و بربادی ہلاکت اور خونریزی ہو رہی ہے.نئی نئی بیماریاں اور وبائیں پھیل رہی ہیں قحط اور زلزلے آرہے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ یہ تو میں بتا آیا ہوں اور بنانے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ ہر ایک وہ انسان جسے ذرا بھی عقل سے حصہ ملا ہے جانتا ہے کہ خدا نہیں بدلا اور نہ وہ بدلتا ہے.وہ جیسے پہلے تھا.ویسے ہی اب بھی ہے.اس لیے یہی ماننا پڑ گیا کہ مخلوق کی حالت ہی نہایت خراب ہو گئی ہے.اسی لیے یہ مذاب آرہے ہیں.پس یہ و نرالی ہلاکت ہے اور غیر معمولی غذا جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں پائی جاتی.بلا وجہ نہیں.اور نہ ہی اچانک بلا اطلاع آگیا ہے خدا تعالیٰ کی قدیم سے سنت ہے کہ مذاب بھیجنے سے پہلے لوگوں کو متنبہ کر دیا کرتا ہے.چنانچہ اس زمانہ میں بھی اس نے ایک رسول اپنے اس قانون کے ماتحت بھیجا کہ ماحنا معذبين حتى نبعث رسولا یہ ہم کبھی مذاب نہیں دیتے جب تک کہ پہلے رسول نہ بھیج ہیں.اب وہ لوگ له سورة بنی اسرائیل : 14
۱۲۵ جنہوں نے موجودہ عذاب سے پہلے آنے والے رسول کو نہیں پہنچانا.اور قبول نہیں کیا.انھیں تلاش کرنا چاہتے کہ عذاب تو موجود ہے جو اپنی نوعیت میں معمولی نہیں.بلکہ غیر معمولی ہے.پھر وہ رسول کہاں ہے جو خدا تعالیٰ کے مذکورہ بالا قانون کے مطابق عذاب سے پہلے آنا چاہیئے تھا.اور اگر کہیں کہ خدا نے کوئی رسول نہیں بھیجا.تو کیا وہ خدا کو جھوٹا تسلیم نہیں کریں گے.پھر کیا وہ قرآن کو چھوڑ دیں گے کیونکہ خدا تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ عذاب سے قبل میں رسول بھیجتا ہوں اور جب تک آنے والی ہلاکت سے متنبہ کرنے کے لیے رسول نہ آتے میں عذاب نہیں دیتا.مگر یہاں عذاب تو مختلف شکلوں میں موجودہ ہے اور تباہی ہر طرف اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہے، لیکن کہا جاتا ہے کہ رسول کا پتہ نہیں.کم از کم قرآن کے ماننے والوں پر تو یہ محبت ہے.کیونکہ قرآن کریم نے ہی یہ قانون مقر فرمایا ہے کہ اس وقت تک عذاب نہیں آتا جب تک کہ رسول نہ آتے پس اب جبکہ عذاب آگیا ہے.اور عذاب بھی ایسا ہے جو عالمگیر ہے.تو معلوم ہوا کہ خدا کا رسول آچکا ہے اور رسول بھی کوئی معمولی رسول نہیں.بلکہ وہ بھی تمام دنیا کے لیے رسول ہے.اور اس کا تعلق صرف ایک خطہ زمین سے نہیں.بلکہ تمام روئے زمین کے باشندوں کے ساتھ ہے.کیونکہ اس وقت تباہی ساری دنیا پر پھیلی ہوتی ہے.اس لیے وہ رسول بھی ساری دنیا کے لیے ہے.اور یہ ہم نہیں کہتے.بلکہ خدا کہتا ہے نہیں غور کرو کہ ی کیسا اور یہ ہم نہ خوفناک وقت ہے.ایک عذاب ابھی پیچھا نہیں چھوڑتا کہ دوسرا اس سے بھی سخت آموجود ہوتا ہے طاعون ابھی گئی نہیں کہ اس کے علاوہ ایک اور نہایت خطرناک مرض نمودار ہو گیا ہے جس نے طاعون کا کام سنبھال لیا ہے چونکہ طاعون کو لوگوں نے اب معمولی بیماری سمجھ لیا تھا اس لیے خدا نے ایک اور مرض بھیجا جو طاعون سے الگ ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جب دوزخیوں کی جلدیں جل جائیں گی تو ان کی جلدوں کو ہم بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب کو چکھ سکیں.وہاں تو جلدیں بدلی جائینگی، لیکن یہاں عذاب بدلے جارہے ہیں.تاکہ لوگ ایک عذاب کے عادی ہو کر اسے معمولی نہ سمجھ لیں اور اس سے بے پروا نہ ہو جائیں.پس فی الحال طاعون چلا گیا.چنانچہ اخباروں وانہ میں شائع ہو رہا ہے کہ آجکل طاعون سے چونکہ کوئی کہیں نہیں ہوتا یا شاذ و نادر ہوتا ہے اس لیے یہاں سے چلا گیا اور اس کی بجائے خدا نے ایک نئے مرض کو بھیجدیا.اور اس بات سے خدا تعالیٰ نے اپنے اس رسول کے ذریعہ جسے اس نے ان عذابوں سے پہلے بھیجا، آگاہ کر دیا تھا کہ میں نے نئے امراض بھیجونگا چنانچہ اب وہ بھیج رہا ہے اور اس نئے مرض سے قریباً ۸۰۰ روزانہ موتیں صرف بہتی ہیں ہوتی ہیں اور علاقہ کی حالت تو اور بھی خراب ہے.پھر پنجاب کے ہر قریہ ہر قصبہ اور ہر شہر میں اس
نے طوفان مچارکھا ہے اس کی خبر حضرت مسیح موعود نے خدا تعالیٰ سے پا کر بہت عرصہ قبل دی تھی.چنانچہ آپ کو الہام ہوا تھا الامراض تشاع والنفوس تضاع لیے کہ امراض پھیلاتے جائیں گے اور جانیں ضائع کی جائیں گی.یہ الہام آپ نے آج سے پچیس سال قبل شائع فرمایا تھا.پس آج وہ پورا ہو رہا ہے.جبکہ نئی نئی قسم کی وبائیں دنیا میں پھیل رہی اور انسانوں کو ہلاک کر رہی ہیں.مجھے وہ درجہ تو حاصل نہیں ہے جو حضرت مسیح موعود کو حاصل تھا.آپ خدا کے نبی اور رسول تھے لیکن آپ کی نیابت سے جو درجہ حاصل ہے اس کی وجہ سے خدا تعالے نے اب سے قریباً چار سال پہلے اس بیماری کے متعلق بذریعہ رویا.اطلاع دی تھی.وہ رویا.میں نے اسی مسجد میں درس کے وقت لوگوں کو سُنا دی تھی.اور شائع کا بھی ہو چکی ہے.یہ رویا.سو از دسمبر سلالہ کے اخبار الفضل میں شائع ہو چکی ہے.جو بہ لفظہ درج ذیل ہے :- جیسی اس مسجد (مسجد اقصی میں بیچوں بیچ ایک نالی جاتی ہے.اسی طرح کی ایک نہر ہے اور وہ بہت دُور تک چلی جاتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بڑا پانی ہے مگر بندوں کی وجہ سے اس کے اندر ہی بند ہے.اس کے اردگرد ایک نہایت خوبصورت باغ ہے.میں اس میں ٹمل رہا ہوں.اور ایک اور آدمی بھی میرے ساتھ ہے.ٹھلتے مسلتے نہر کی پرلی طرف میں تھے چودھری فتح محمد صاحب کو دیکھا اتنے میں ایک شخص آیا اور میرے ساتھ میرے گھر کی مستورات بھی ہیں اس نے مجھے کہا کہ گھر کی مستورات کو پردہ کی تکلیف ہوتی ہے انھیں کہدیں صرف باغ میں نہیں.میں جب اس جگہ سے ہٹ کر دوسری طرف گیا ہوں تو مجھے بڑے زور سے پانی کے بہنے کی سرسر آواز آئی.اس وقت میں جس طرح پرانے منقبر سے بنے ہوتے ہیں.ویسے مکان میں کھڑا ہوں وہ مقبرہ اس طرح ہے جس طرح بادشاہوں کی قبروں پر بنے ہوتے ہیں.میں اس کی چھت پر چڑھ گیا ہوں.اور اس کی کئی چھتیں اونچی نیچی ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ بنی ہوتی ہیں.مجھے پانی کی سرسر کی جو آواز آئی تو میں نے اسی نہر کی طرف دیکھا.یا تو وہ ایسا خوبصورت نظارہ تھا کہ پرستان نظر آتا تھا یا ہر جگہ پانی پھر نا جاتا تھا.عمارتیں گرتی جاتی تھیں درخت دیے جاتے تھے گاؤں اور شہر تباہ ہوئے جاتے تھے پانی میں لوگ ڈوب رہے تھے.کسی کے گلے گلے کسی (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر ) تذكرهم
میں نے دیکھا کہ طوفان بڑے زور کا آیا ہے اور بہت بلند ہوتا جا رہا ہے.لوگ مر رہے ہیں میکان گر رہے ہیں.درخت ٹوٹ رہے ہیں.اس وقت چو دھری فتح محمد صاحب کو میں نے دیکھا.آخر بانی بڑھتے بڑھتے اس مکان کی چھت پر چڑھنا شروع ہو گیا جس پر تم کھڑے تھے.اس وقت میں بہت گھبرا گیا اور ادھر اُدھر دیکھنے لگا، لیکن ہر طرف پانی ہی پانی نظر آتا تھا.جب پانی چھت پر بھی آنے لگا.تومیں نے زور زور سے یہ کہنا شروع کیا.اللهم اهتديت بهديك وامنتُ بمسيحك ا وقت مجھے حضرت مسیح موعود بھی آتے ہوئے معلوم ہوئے اور اپنے لوگوں کو تاکید کی کہ یہی فقرہ پڑھیں.جس کے معنے یہ ہیں کہ اے خدا میں تیری ہدایت کے ذریعہ ہدایت پاتا ہوں.اور تیرے مسیح پر ایمان لاتا ہوں.یہ میں نے پڑھنی شروع کی.تو وہ طوفان اُتر گیا.اس رویا.میں جو طوفان دکھایا گیا ہے.اس سے جنگ یورپ تو مراد ہو نہیں سکتی.کیونکہ اس وقت جنگ ہو رہی تھی اور چودھری صاحب ولایت میں تھے.پھر پانی سے مراد وریا ہوتی ہے.اب جب کہ چودھری صاحب بھی یہاں آگئے ہیں.تو یہ وبا شروع ہوتی ہے جو دکھلائی گئی تھی.پس اس سے نجات پانے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کو جو اس زمانہ کے رسول ہیں.مانا جائے کیونکہ اس نبی کے ر بقیہ حاشیہ صفحہ سابقہ کے منہ تک کسی کے سر کے اوپر پانی چڑھا جاتا تھا اور ڈوبنے والوں کا بڑا دردناک نظارہ تھا یکلخت وہ پانی اس مکان کے بھی قریب آگیا جس پر میں کھڑا تھا.اور اس کی دیواروں سے ٹکرا نا شروع ہو گیا آگے پیچھے کی آبادی کو تباہ و برباد ہوتا دیکھ کر بے اختیار میرے منہ سے نکل گیا نوح کا طوفان، پھر پانی آں مکان کی چھت پر چڑھنا شروع ہوا اس کے ارد گرد جو دیوار تھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پانی اسے توڑ کر اندر آنا چاہتا ہے اور لہریں دیوار کے اوپر سے نظر آتی تھیں اس وقت میں نے گھبرا کر ادھر ادھر رکھا مجھے کہیں آبادی نظر نہیں آتی تھی اور پانی ہی پانی نظر آتا تھا جب پانی چھت پر بھی آنے لگا تو ہیں.نے گھبراہٹ میں پکار پکار کر اس طرح کہنا شروع کیا- اللهم اهتديت بهديك و امنت بمسيحك اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دوڑے چلے آتے ہیں اور گو یا لوگوں سے فرماتے ہیں کہ یہی فقرہ پڑھو تب تم اس عذاب سے بچ جاؤ گے مجھے حضرت مسیح موعود نظر نہیں آئے ، لیکن یہ میرا خیال تھا کہ آپ لوگوں کو یہ فرما رہے ہیں.اتنے میں میں نے دیکھا کہ پانی کم ہونا شروع ہوا اور چھت گیلی گیلی نظر آنے لگی.اس گھبراہٹ میں میری آنکھ کھل گئی."
انکار کے باعث ہی یہ عذاب آیا ہے اور یاد رکھنا چاہیئے یہ عذاب ایسے ہیں جیسے ماں غصہ سے بچہ کو تھپڑ مارتی ہے جبکہ وہ غلطی کرتا ہے، لیکن جب وہ غلطی کو چھوڑ دیتا ہے تو اس کو پیار کرتی ہے.پس خدا کے نبی پر جو خدا کی طرف بلاتا ہے.ایمان لاؤ تا کہ نجات پاؤ.اگر الیا کرو گے تو وہی خُدا جواب طرح طرح کے عذاب نازل کر رہا ہے.اپنی رحمت کے دروازے کھول دیا.اور اپنے انعامات سے مالا مال کر دیگا.احادیث سے ثابت ہے کہ قیامت جب آئے گی تو شریروں پر آئے گی.پس جب تک نیک بند سے ہوں گے خدا ہلاک نہیں کریگا.آجکل یہ مرض اس شدت سے پھیلا ہوا ہے کہ جس کی انتہا نہیں.کثرت سے گھروں کے گھر بیمار پڑے ہیں.مگر افسوس ہے کہ بہت کم لوگ ہوتے ہیں.جو دوسرے کی مصیبت کو دیکھ کر نصیحت پکڑتے ہیں.وقت تنگ ہو گیا ہے ورنہ اس کے متعلق بہت کچھ بیان کرتا.انشا اللہ کسی اگلے جمعہ کے خطبہ میں بیان کروں گا.دالفضل ۲ نومبر ۹ )
۱۲۹ 22 انداری اعلان فرموده ۲۹ نومبر شاشاته تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سورۃ الحشر کی مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی :- يا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا تَّقُوا اللهَ وَلتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (الحشر: 19) اور فر مایا :-.کچھ زیادہ عرصہ اس بات کو نہیں گذرا کہ میں نے اس مقام پر کھڑے ہو کر آپ لوگوں کو اس بات کی طرف متوجہ کیا تھا کہ خدا کا غضب بھڑک رہا ہے.اس کی قمری تلوار چل رہی ہے.اس کا عذاب دنیا پر نازل ہو رہا ہے اور وہ اپنی قمری تجلیات سے ظاہر ہورہا ہے.میں نے آپ لوگوں کو نصیحت کی تھی کہ پیشتر اس کے کہ توبہ کا دروازہ بند ہو.تو بہ کرو.عذاب میں گرفتار ہونے سے پیشتر خدا سے صلح کر لو کیونکہ صلح کا وقت وہی ہوتا ہے.جب تک کہ انسان الام میں گرفتار نہ ہوا ہو.اس کے بعد کے ایام نے دنیا کو اس بات کا یقین دلا دیا کہ خدا تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ تمام کی تمام دنیا کو ایک حکم سے فنا کر دے.خدا کے غضب کی ہر ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیل گئی.گھروں کے گھر ویران ہو گئے.خاندانوں کے خاندان تباہ ہو گئے.وہ گھر جن کے بسنے والے اس فکر میں تھے کہ ہماری آئندہ رہائش کو موجودہ مکان کافی نہیں اور جو اس تدبیر میں تھے کہ اپنی بڑھنے والی نسل کے لیے نئے مکان تعمیر کریں.ان میں سے بہتوں کے گھروں کو تالے لگ گئے نئے تو کیا بننے تھے پہلے ہی ویران ہو گئے اور کوئی لینے والا نہیں رہا.یہ بات کسی ایک جگہ پر نہیں دو جگہ پر نہیں کیونکہ شاذو نادر تو ایسے واقعات ہوتے ہی رہتے ہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک ہر ہر اور ہر محلہ میں اس کی تنظیریں موجود ہیں پس خدا نے تمہیں دکھا دیا کہ بی کیسا قادر مطلق خُدا ہوں.دنیا حیران تھی کہ خدا کس طرح مار سکتا ہے.خدا نے نمونہ دکھا دیا.لوگ کہتے تھے کہ قیات کیسے برپا ہوسکتی ہے.خدا نے مشاہدہ کرا دیا کہ قیامت اس طرح بر پا ہوگی جس طرح اب قیامت کا نمونہ
ย دکھایا گیا.جس طرح اس وقت آپ لوگوں میں کھڑے ہوکر میں نے آپ کو توجہ دلائی تھی کہ ہوشیار ہوجاؤ کیونکہ عذاب کے دن قریب ہیں اور دنیا کو عذاب کے بواعث سے آگاہ کرو اسی طرح آج خود ایسے حالات میں سے گزرنے کے بعد کہ جو بعض دفعہ خطرناک صورت اختیار کئے ہوتے تھے، پھر ایک دفعہ اسی طرح میں طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں نذیر عریانی ہوں.میں بھی خدا کے حضور میں بری الذمہ ہونے کے لیے نذیر عریان کی حیثیت میں آپ لوگوں کو اس بات کی اطلاع دیتا ہوں کہ خُدا سے صلح کرد تقوی اختیار کرو.پرہیز گاری اختیار کرو خشیت اللہ پیدا کرو.اپنے دلوں کو صاف کردو.کیونکہ خدا تعالیٰ دنیا میں ایک زبر دست تبدیلی پیدا کرنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے بندے اسی کے ہو رہیں.اور شیطان کی حکومت کو توڑ دیا جائے تاکہ محض خدا کی ہی حکومت ہو اور اسی کی عبادت کی جائے.جس طرح بادشاہوں کی مرضی کے خلاف کرنے والے مٹا دیتے جاتے ہیں.اسی طرح بلکہ اس سے کروڑوں کروڑ گنا بڑھ کر خدا کی مشیت اور مرضی کے خلاف کرنے والے مٹائے جاتے ہیں ہیں تم لوگ کوشش کرو کہ تم اس کی مرضی کے پورا کرنے والے ہو تاکہ تم اور تمہاری نسل کو باقی رکھا جائے ، ورنہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کیا ہو گا.میں اپنے نفس کو اپنے رشتہ داروں کو اپنے پیاروں کو اور ان کو جو میری بیعت میں شامل ہیں اور انھیں بھی جو تا حال بیعت میں تو شامل نہیں.مگر مجھ سے اخلاص رکھتے ہیں.اور ان کو جن کے کانوں میں میری یہ بات پہنچے تقریر کے ذریعہ یا تحریر کے ذریعہ کہتا ہوں کہ وہ سب اصلاح کریں.خدا سے صلح کر لیں ورنہ ایسے ایام در پیش ہیں جو نہایت ہی خطرناک ہیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ قیامت کا نمونہ ہونگے.انسانوں کی عقلیں ماری جائیں گی اور وہ پاگل ہو جائیں گے.اس وقت انھیں کے لیے رستگاری ہے جن کے لیے فرمایا گیا ہے.اللَّا الَّذِينَ آمَنُوا وعَمِلُوا اللِت وَتَوَاصَوا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوا بالصبر والعصر ہیں تقویٰ اختیار کرو اور کل کی فکر کردی.توبہ کرو.توبہ کرو کیونکہ خدا گناہوں کے بخشنے والا مہربان ہے.آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کسی کے گناہ سمندر کی جھاگ کے برابر بھی ہوں اور وہ خدا کے حضور میں جھک جائے توبھی اسکے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گئے یہ پس اپنے گناہوں کی معافی کے لیے خدا کے حضور عرض کرو.اس کی جناب میں پشیمان ہو اور اس سے معافی چاہو تا کہ تم پر خدا کا فضل ہوا (الفضلے دسمبر شاملة ) بخاری کتاب الرقاق باب الانتهاء من المعاصي ته مشكاة المصابيح كتاب الاستغفار والتوبة الفصل الثاني
23 " کامل ایمان حاصل کرو فرموده ۶ دسمبر شاشته) حضور انور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- جو بات انسان سمجھتا اور یقین رکھتا ہے اس کے متعلق اس کا یقین اگر انتہا تک پہنچ جائے تو ضرور اس کے اثرات بھی ظاہر ہوتے ہیں.اس میں شک نہیں کہ ہر آم کا درخت پھل دار نہیں ہوتا.اور بر ایک سنگترہ کے پیڑ کو پھل نہیں آتا.ہر انگور کی بیل کو خوشت انگور نہیں لگتا.اور ہر بیری کے درخت پر بیر نہیں آتے، لیکن اگر تمام پہلو درست ہوں درخت کی ظاہری اور باطنی حالت میں کوئی نقص نہ ہو تو ضرور پھل آتے ہیں.پس ثمرات کا پیدا نہ ہونا اس امر کی دلیل نہیں ہوتی کہ وہ درخت جس نام سے موسوم کیا جاتا ہے.پھل کے نہ آنے کے باعث اس کے نام سے انکار ہو جائیگا.پھل نہ ہوں، لیکن نام اس کا وہی رہے گا.جو فی الواقع ہے.یعنی اس کا درخت.سنگترہ کا پیٹر.انگور کی بیل وغیرہ وغیرہ ہاں پھل کا نہ ہونا اس بات کی ضرور دلیل ہو گا کہ اس کو کمال حاصل نہیں ہے.پس پھیل کے نہ ہونے سے کمال کی نفی ہو گی.اس کے اسم کی نفی نہیں ہو سکتی.یہی حال ایمان کا ہے.بہت لوگ مومن ہوتے ہیں.مگر ان کا ایمان ثمردار نہیں ہوتالیکن تمرات کے نہ ہونے سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ مومن نہیں.مومن تو ہیں، لیکن کامل مومن نہیں جس غرض کے لیے ایمان دنیا میں نازل کیا گیا ہے وہ غرض ان کے ایمان سے پوری نہیں ہوتی.مثلاً ایک شخص ایک حد تک مومن ہو مگر ایمان کے ثمرات نہ رکھتا ہو تو اسکا ایمان کامل ایمان نہیں ہو گا.چنانچہ بہت لوگ ہیں جو اپنے عقائد اور ایمان اور یقین رکھتے ہیں.مثلاً بہت عیسائی ہیں جو بیچتے دل سے عیسائیت پر ایمان رکھتے ہیں.مگر ان اعمال کو جو کچھ بھی عیسائیت میں ہیں بجا نہیں لاتے.یا بہت ہندو ہیں جو نیچے دل.اپنے دھرم پر یقین رکھنے کے باوجود ہندوانہ رسوم و اعمال کو بجا نہیں لاتے.یا مثلاً بہت سے مسلمان
ہیں جو پیچھے دل سے اسلام پر ایمان رکھتے ہیں مگر با وجود اس یقین کے وہ شریعت پر عمل نہیں کرتے.اگر ان کو ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیا جائے تب بھی مسلمان کہلانے سے انکار کرنا پسند نہیں کریں گے، لیکن عملی طور پر اسلام پر نہیں چلیں گے یہی حالت دوسرے مذاہب کے لوگوں کی ہے، مگر با وجود اس جاں نثاری کے ان کے اعمال اس مذہب کے مطابق نہیں ہوتے.پیس جولوگ کسی کے کامل ایمان کا اندازہ کرنا چاہتے ہیں.وہ اس کے ثمرات دیکھیں کہ آیا اسی عبادات شریعت کے مطابق ہیں.یا نہیں.وہ اس کے احکام کا خیال رکھتا ہے یا نہیں.اور کیا ایسی حالت ہے یا نہیں کہ بھول کر بھی خدا کی نافرمانی کا خیال دل میں پیدا نہیں ہوتا.جس کی فطرت صحیحہ ہوگی وہ چاہیگا کہ اس کا ایمان کامل ہو.کیونکہ کوئی شخص اچھی چیز کو چھوڑ کر بڑی کو ہرگز نہیں اختیار کرے گا اور عمدہ اور طیب رزق کو چھوڑ کر سڑے اور گلے رزق کو نہیں کھائیگا.میں اسی فطرت صحیحہ والا شخص یہی چاہے گا کہ اس کا ایمان کامل ہو.یہ نہیں چاہے گا کہ اس کا ایمان نامکمل اور ادھورا ہو ، لیکن کامل ایمان وہ ہوتا ہے جس کے ساتھ ثمرات ہوتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایمان حقیقی ایمان تھا.سب مسلمان الحمد للہ کہتے ہیں اور الحمد للہ کے معنی یہ ہیں کہ سب سچی تعریفیں اس خدا کے لیے ہیں، جو ہر قسم کے نقصوں سے پاک اور تمام خوبیوں کا جامع ہے پس جس کے لیے سب تعریفیں ہونگی وہی سب سے زیادہ حسین ہوگا اور جو سب سے زیادہ حسین ہوگا وہی زیادہ محبوب اور مطلوب ہو گا.اس لیے جو الحمد للہ کہتا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ خدا کے سوا کوئی حسین نہیں، لیکن اگر وہ اور چیزوں کی بھی پرستش کرتا ہے تو وہ حقیقت میں الحمد للہ کے ثمرات سے بے خبر ہے.یوں تو الحمد للہ اپنے رنگ میں ہر ایک مذہب کا آدمی کہے گا مگر عمل اس کے مخالف ہوگا، لیکن جن کو واقعی اس پر یقین ہو گا.اُن کا عمل ان کے ایمان پر گواہی دیگا.ان لوگوں کے مقابلہ میں جو الحمد للہ تو کہتے ہیں.مگر ان کے اعمال اس پر گوا ہی نہیں دیتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ ولم کو دیکھو آپ نے بھی الحمد للہ کہا.کہ خدا کے لیے سب خوبیاں ہیں.پھر آپ نے اس قول کو ندگی کے ہر ایک شعبے میں نا یا فرانس کا ایک مشہور مصنف لکھتا ہے کہ ہم کچھ بھی رنعوذ باللہ محمد صلی الہ علیہ وسلم کے متعلق کہیں.ہم کہیں کہ وہ پاگل تھا.مجنوں تھا.اس نے دنیا میں ظلم کئے اس نے سوسائٹی میں تفرقہ ڈالا مگر ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ اس کو خُدا کے نام کا سخت جنون تھا.ہم اور کچھ بھی کہدیں مگر یہ نہیں کر سکتے کہ اس کو خدا سے تعلق نہیں تھا.وہ جو کچھ بھی کرتا.اور وہ جس حالت میں بھی نظر آتا خدا کا نام ضرور اس کی زبان پر ہوتا اگر وہ کھانا کھاتا تو خدا کا نام لیتا.اگر کپڑا پہنتا تو خدا کا نام لیتا.اگر پاخانہ جاتا
تو خدا کا نام لیتا.پاخانہ سے فراغت پا تا تو خدا کا نام لیتا.شادی کرتا تو خدا کا نام لیتا غم میں مبتلا ہوتا تو خدا کا نام اس کی زبان پر ہوتا کوئی پیدا ہوتا تو خدا کا نام لیتا کوئی مرتا تو خدا کا نام لیتا.اگر اٹھتا تو خدا کا نام لیتا.اگر بیٹھتا تو خدا کا نام لیتا ہو نے لگتا تو خدا کا نام لیتا.جاگتا تو خدا کا نام لیتا.صبح ہوتی تو خدا کا نام بیتا شام ہوتی تو خدا کا نام لیتا.بہرحال محمد کو کچھ بھی کہو مگر اللہ کے لفظ کا اس کو ضرور جنون تھا.یہ نمونہ ہے آپ کے اعمال کا کہ دشمن سے دشمن بھی مجبور ہے اس بات کا اقرار کرنے پر کہ آپ کے لب پر ہر وقت اور ہر حال میں اور آپ کی ہر ایک حرکت و سکون میں خدا ہی نظر آتا تھا.یہ ایمان ہے جو اسلام مسلمانوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے پس مومن کو چاہتے کہ کامل ایمان پیدا کرے.بہت ہیں جو ایمان کی لاف مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم خدا کو ہی تمام خوبیوں والا یقین کرتے ہیں.مگر ان کے اعمال اس کے خلاف ہوتے ہیں.میں نصیحت کرتا ہوں کہ تمام دنیا میں قرتی بھی ایسی چیز نہیں.جو خدا کے برابر حسین.اور خدا کے برابر خیروخوبی والی ہو.ہر ایک چیز میں تغیر اور زواا ہے.حتی کہ طبقات الارض والے کہتے ہیں.کہ ایک وقت آئے گا جب کہ سورج اور چاند بھی ٹوٹ جائیں گے ایک نی زمین اور نیا سمان نیا سورج اور نیا چاند پیدا کیا جائیگا.پس ان تمام اشیاء میں تغیر ہے.مگر خدا کے لیے فنانہیں پس کوئی چیز نہیں جو خدا کے سوا کام آنے والی ہو.اس لیے اس ہے تعلق پیدا کرو.اور اسی سے محبت کرو.اسی سے پیار کرو دنیا کے رشتے کسی کام نہیں آئینگے محض خدا کی محبت اور اسی کا تعلق کام آنے والی چیز ہے کیونکہ آخر میں اسی سے واسطہ ہے اور وہی اس قابل ہے کہ اس سے محبت کی جائے.ہر حالت اور ہر ایک شعبہ زندگی وموت میں سوائے خدا کے اور کوئی چیز کام آنے والی نہیں.خُدا کی ذات ہی ایسی ذات ہے کہ اس سے محبت کی جاتے ہیں اپنے اندر کامل ایمان پیدا کرو الفضل ار دسمبر سالته )
24 مومن کی پکار د فرموده ۲۰ دسمبر حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- انسانی ترقی کا منتها اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے.اس کے سوا انسانی ترقی کا اور کوئی منتہا نہیں.اگر واقع میں انسان انسان ہو تو اس کے لیے اس کے سوا اور کوئی منتہا نہیں میں طرح بچہ ماں کے ڈر سے کہیں نہیں ٹھہرتا.اور اگر کوئی غیر عورت اس کو گود میں لینا چاہے تو وہ اس کی گودیں جانا پسند نہیں کرتا جس طرح انسان کے علاوہ حیوانوں کے بچے بھی اپنی ماں کا پیچھا کرتے ہیں.اسی طرح جو انسان ہو اور حقیقی انسانیت اس میں پائی جاتی ہو.یا حیوان ہی کہلانے کے قابل ہو.تو وہ اس وقت تک صبر نہیں کر سکتا.جب تک کہ مہربان خدا کی گود میں نہ چلا جائے کیونکہ خدا ماں سے بھی زیادہ مہربان ہے.اس لیے وہ شخص جو اس کو پا بھی ہے.وہ بھی اپنی تلاش اور جستجو کو ترک نہیں کرتا بلکہ اپنی راد کو پہنچ کر بھی اس لاش کو جاری ہی رکھتا ہے.کیونکہ دنیا کی تمام چیزیں محدود ہیں.اس لیے جب ان کو پانیا جاتا ہے.تو ان کی تلاش اور جستجو ختم ہو جاتی ہے لیکن چونکہ خدا کامل ہے اور غیر محدود اس لیے خدا کا حصول کبھی کامل نہیں ہوتا.بچہ کی ماں محدود ہے.اس لیے وہ اس وقت تک روتا ہے جب تک کہ ماں سے نہ ملے، لیکن جب ماں مل گئی تو پھر وہ اس کی تلاش ختم کر دیتا ہے مگر چونکہ خدا کی عرفت محدود نہیں کہ انسان کمد سے کہ میں آخری حد کو پہنچ گیا ہوں.اس لیے خواہ انسان کتنا ہی عرفان میں بڑھ گیا ہو، تب بھی جس طرح بچہ ماں کے بغیر صبر نہیں کر سکتا.اسی طرح انسان بھی ہا تھ بلند کر کے ہی کہیگا.اھدنا الصراط المستقیم ماں سے بچھڑے ہوتے بچے کی یہی پکار ہوتی ہے کہ میری ماں کہاں ہے خواہ اس کو ہزار چیزیں دیجائیں تو بھی وہ یہی کہا کرتا ہے.کہ میں اماں کے پاس جاؤ ہوگا.ایسی حالت میں اس بچہ کے سامنے ہزار باتیں کرو اس کو مختلف نظارے دکھاؤ.دروازے کھٹکھٹاؤ.سارے دکھاؤ.اس سے ذرا سی دیر کے لیے تو خاموش
۱۳۵ ہوجائیگا.مگر فوراً اپنی اصلی بات یاد کر کے وہی مطالبہ کریگا کہ میں نے اپنی ماں کے پاس جانا ہے.اسی طرح ہر مومن کی پکار ہی ہوتی ہے.ہاں وہ مومن جو خدا کو سارے جہان سے زیادہ محبت کرنے والا اور شفیق خیال کرتا ہے.اس کی مردم یہی آواز ہوتی ہے کہ مجھے اپنے خدا کو پانا ہے.ہاں اس بچہ کی پکار اور اس مومن کی پکار میں ایک فرق ہوتا ہے اور وہ یہ کہ بچہ توفیروں سے کہتا ہے کہ مجھے ماں تک پہنچاؤ لیکن مومن کہتا ہے لا ملجا ولا منجا منك الا اليك - میں نے تو تیرے پاس آتا ہے.مجھے تو تیرے سوا کوئی ٹھکانا میسر نہیں آتا.وہ دوسرے کا ممنون احسان نہیں ہونا چاہتا.بلکہ اس کو پکارنے کے لیے اور اس کو پانے کے لیے اس کو پکارتا ہے.پس جو شخص دیکھے کہ اس کے دل سے اھدنا الصراط المستقیم کی صدا اید انہیں ہوتی.اس کا دل تاریخی میں ہے اور اس کی ایمانی حالت کمزور ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں مضبوط ایمان عطا فرماتے.الفضل ۲۴ دسمبر الله )
25 مختصر وعظ کو بھی توجہ سے سننا چاہیئے ) فرموده ۲۷ دسمبر شاشاته ) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- چونکہ با ہر سے کچھ دوست آتے ہوتے ہیں اس لیے میرا ارادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے توکل چند منٹ ان کے لیے کچھ بیان کروں.اگر چہ خطبہ اسی غرض سے ہوتا ہے کہ اس میں ایسے امور بیان کئے جاتے ہیں.جو سماعت کے لیے مفید ہوتے ہیں، لیکن آج کسی قدر میرے حلق میں تکلیف ہے.اس لیے آج کی بجائے کل پر اُٹھا رکھتا ہوں.اس وقت مختصر طور پر سورۃ فاتحہ کی آیت اهدنا الصراط المستقیم کی طرف متوجہ کرتا ہوں.میں نے بار بار بیان کیا ہے کہ اس زمانہ کے مصائب میں سے ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ لوگ مختصر بات کی طرف متوجہ نہیں ہوتے.کہا تو جاتا ہے کہ قتل و دل اچھا کلام وہی ہوتا ہے جو مختصر اور بادلائل ہو، لیکن باوجود اس کے اگر دو ایک فقروں میں کوئی بات کسی جائے تو لوگ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے.جس طرح لوگوں کو اور عادتیں ہوتی ہیں.اسی طرح بعض لوگوں کو لیکچر سننے کی عادت ہوتی ہے.پھر جس طرح مثلاً افیونی کی عادت بڑھتی چلی جاتی ہے.تو افیون کی مقدار میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے.اسی طرح جن لوگوں کو تقریر سننے کی عادت ہوتی ہے، وہ بھی جوں جوں پرانے خرانٹ ہوتے جاتے ہیں ان کی یہ عادت بھی ترقی کرتی جاتی ہے.ان لیکچر سنے والوں میں سے اکثر یہ کہیں گے کہ لیکچرار نے اتنی دیر تک تقریر کی جگہ اس مجلس میں بہت کم ہوں گے جو یہ سوچیں گے کہ کیا کہا.یہ توکہیں گے کہ چار گھنٹہ تقریر کی مگر اس سے غرض نہیں رکھیں گے کہ اس چار گھنٹہ کی تقریر میں بیان کیا گیا.تو بہت لوگوں کے نزدیک کسی مقرر کا کمال یہ ہوتا ہے کہ جس کا خلاصہ وہ ان الفاظ میں بیان کیا کرتے ہیں.کہ فلاں شخص بڑا صاحب کمال ہے کہ اس نے اتنی دیر تک تقریر کی، لیکن وہ اس کی
۱۳۷ تقریر کی طرف توجہ نہیں کرینگے.خواہ وہ اتنے عرصہمیں بکواس ہی کرتا رہا ہو.یا اس نے اس عرص میں قرآن کریم کے معارف کے دریا بہا دیتے ہوں.حضرت مسیح موجود ایک خطیب کا ذکر سناتے تھے کہ وہ لیکچر کے لیے کھڑا ہوا.اس کا مضمون رقت وہ والا تھا.ایک شخص آیا اور کھڑا ہو گیا.اس کے ہاتھ میں تنگڑی زمینداروں کا وہ سر شاخہ آلہ جس سے وہ بھوسہ وغیرہ درست کیا کرتے ہیں، تھی جتنے حاضرین تھے ان پر تو اس تقریر کا کچھ اثر نہ ہوا، لیکن زمیندار تھوڑی ہی دیر بعد رونے لگ گیا.واعظ کی جو شامت آئی.اور اس کے دل میں ریا پیدا ہوئی تو اس نے خیال کیا کہ یہ میرے وعظ سے متاثر ہوا ہے.اس نے لوگوں کو مخاطب کرکے کہا کہ دکھی انسانوں کے قلوب بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ ہیں جو گھنٹوں سے میرا واعظ سن رہے ہیں لیکن ان پر مطلق اثر نہیں ہوا.مگر یہ ایک اللہ کا بندہ ہے کہ اس پر فوراً اثر ہو گیا ہے.اور یہ روپڑا ہے.پھر اس نے لوگوں کو بتاتے کے لیے اس سے پوچھا میاں کس بات نے تم پر اثر کیا کہ تم رو پڑے.اس نے کہا کل اسی طرح میری بھینس کا بچہ اڑا اڑا کے مرگیا تھا.جب میں نے آپ کی آواز سنی تو وہ یاد آگیا.اورمیں رو پڑا یہ سنکر خطیب بہت شرمندہ ہوا.پھر بہت لوگ ہوتے ہیں جو خطبوں وغیرہ میں اس نیت سے بیٹھتے اور سنتے ہیں کہ دیکھیں خطیب نے اردو کی کیا کیا غلطی کی.یا پنجابی میں بیان ہے.تو پنجابی ٹھیٹھ ہے یا نہیں.یا دیکھتے ہیں فلاں شخص کے کھڑے ہونے یا ہاتھ مارنے یا سر ہلانے کا کیا انداز ہے اور بولتے ہوئے کیا کیا حرکات کرتا ہے اور جو وہ مضمون بیان کرتا ہے.اس کی طرف ہرگز ہرگزنہ ان کا دھیان نہیں ہوتا.یہ کیوں ہے ؟ محض اس لیے کہ وہ عادت کے طور پر وعظ یا لیکچر سنتے ہیں ان کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ مضمون کیا ہے.بلکہ وہ اپنی عادت سے اسی طرح مجبور ہوتے ہیں جس طرح افیونی کو افیون کی اور جس طرح کہ افیونی کو اس سے مطلب نہیں ہوتا کہ میں افیون کیوں کھاتا ہوں.اسی طرح ان کو بھی پیتر نہیں ہوتا کہ ہم تقریر کیوں سنتے ہیں.پس جس طرح انیسونی کی عادت افیون کھانا ہوتی ہے.اسی طرح ان کی عادت تقریر سنا ہوتی ہے اور جس طرح وہ ایک مصیبت ہوتی ہے.اسی طرح یہ عادت بھی ایک مصیبت ہوتی ہے.کیونکہ جس طرح افیونی کے حواس مختل ہو جاتے ہیں.اسی طرح ان لوگوں کے حواس بھی مختل ہو جاتے ہیں.در اصل کلام مختصر نہایت اعلیٰ درجہ کے بھی ہوتے ہیں چنانچہ رسول کریم نے فرمایا عَلِمَتَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ خَفِيفَتَانِ عَلى اللِسَانِ - تَقِيْلَتَانِه فِى المِيزَانِ.
سُبحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ العَظِیم دو کلمے ہیں جو اللہ کو پیارے ہیں اور بولنے لگو تو آسان ہیں، لیکن اگر تو لنے لگو تو بڑے بوجھل ہیں.وہ کیا ہیں.سبحان اللہ و بحمدہ اور سبحان اللہ العظیم ہیں.اب اگر ایک شخص تشہد کے بعد اما بعد کہ کر اور یہ حدیث پڑھ کر بیٹھ جائے تو اس نے وقت ضائع نہیں کیا.کیونکہ دانا کے نزدیک وہ بات پسندیدہ ہے.جو زبان پر ملکی اور میران میں وزن دار ہوں.کیونکہ فرض تو مطلب اور مغز سے ہے نہ کہ لبی اور زیادہ گفتگو سے مثلاً اگر پندرہ روپیہ کی بجاتے ایک اشرفی اُٹھانی پڑے تو انسان اس کو پسند کریگا.کیونکہ بوجھ سے بچ جائیگا.اور کوئی داتا یہ نہیں کے گا کہ میں پندرہ رو پیر کو چھوڑ کر ایک کونہیں لیتا.ہاں ایک بچے کے آگے ایک اشرفی اور دیں روپے رکھ دو تو بچہ اشرفی کی بجائے روہیوں کی طرف جھپٹے گا، لیکن عقلمند جانتا ہے کہ اشرفی اگر چہ اُٹھانے میں کم وزنی ہے.مگر حقیقت میں اور قیمت میں دس روپیہ سے کہیں زیادہ ہے.اس طریق کو پہلے زمانہ کے لوگ خوب سمجھتے تھے کہ مختصر طور پر عمدہ بات کہدی جائے.رسول کریم کے خطے اس کی مثال ہیں.مگر اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لمبا خطبہ نہیں کہ سکتے تھے.آپ نے باوجود عمر کے لحاظ سے پیری میں ہونے کے ایک دفعہ صبح سے شروع کر کے شام تک خطبہ پڑھا.نماز کے وقت نماز پڑھ لیتے اور پھر تقریر شروع فرما دیتے ہیے پس یہ نہیں کہ آپ لمبی تقریر نہیں کر سکتے تھے.ضرور کر سکتے تھے اور ضرورت کے وقت کرتے تھے، لیکن مختصر سے مخفر وعظ بھی فرماتے تھے جس میں نہایت قیمتی اور وزنی باتیں بیان فرماتے تھے.در اصل اگر بی تقریر میں مغز نہیں تو وہ کچھ نہیں.اور اگر مختصر تقریر میں مغز ہے تو وہ نہایت ہے آپ لوگ اگر مختصر وعظ سیکھنا چاہیں تو قرآن کریم کو پڑھیں.اس کے ایک ایک لفظ میں اگر تم غور کرو گے تو لے لیے لیکچر شروع ہو جائیں گے.پھر سارے قرآن کریم کا خلاصہ سورہ فاتحہ ہے جو کہ نماز می معمولی طور پر تیس سے پچاس مرتبہ تک روزانہ پڑھی جاتی ہے مگر کم ہیں جو جان سکتے ہیں کہ اُنھوں نے اتنی دفعہ قرآن کریم کو ختم کیا ہے.عام طور پر شہور ہے کہ حضرت علی جب گھوڑے پر سوار ہونے لگتے تو ایک رکاب سے دوسری میں قدم رکھنے کے وقفہ میں قرآن کریم ختم کر دیتے تھے.بعض نے اس کو بالکل جھٹلایا.اور بعض نے اس کو معجزہ بتایا ہے مگر نہ یہ بالکل غلط ہے اور نہ معجزہ ہے.بات دراصل یہ ہے کہ حضرت نے بخاری و مسلم بحواله مشكوة كتاب الاسماء في التسبيح والتحميد سے صحیح مسلم کتاب الفتن باب اخبار النبي فيما يكون الى قيام الساعة
۱۳۹ علی قرآن کی یہ آیت پڑھا کرتے تھے.سُبحَانَ الَّذِی سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَ إنا إلَى رَبَّنَا لَمُنْقَلِبُونَ (الزخرف (۱۳) اور جس نے قرآن کا کوئی حصہ پڑھا اور اس پر عمل کیا و پر اس سے بہتر ہے جس نے سارا پڑھا.اور کچھ بھی عمل نہ کیا پس جب حضرت علی قرآن کی اس آیت کو پڑھتے تھے.تو گویا وہ قرآن کو ختم کر لیتے تھے.اس وقت میں نے جو سورہ فاتحہ پڑھی ہے وہ ایک مختصر وعظ ہے جو مختصر بھی ہے اور آسانی سے پڑھا بھی جاتا ہے.دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں وہ مطالب ہوں جو قرآن کریم کے مسائل کے مقابل میں پیش ہوسکیں پس جب سورۃ فاتحہ پڑھو تو اهدنا الصراط المستقیم کو نظر کو یہ آیت عملیات کی طرف توجہ دلاتی ہے.اسکی پہلی آیات اعتقادات کی طرف متوجہ کرتی ہیں وسر حصر جو اهدنا الصراط المستقیم سے شروع ہوتا ہے عملیات کی طرف توجہ دلاتا ہے یہ سات آیتیں ہیں.ان سات پر عمل کرے تو ممکن نہیں کہ گراہ ہو.اللہ تعالیٰ مجھ کو اور آپ کو سمجھنے اورعمل کرنے کی توفیق دے آمین : الفضل ۴ جنوری شاته )
26 خدا کی نعمتوں کی قدر کرو فرموده ۱۰ جنوری شاه ) حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے اس قدر حمد کے موقعے رکھے ہیں کہ اس کی انتہانہیں انسان پراللہ تعالی کے اس قدر احسان ہیں کہ در حقیقت ہماری طاقت میں نہیں کر ہم اس کے احسانات کوگن یکیں اور نہ یہ تجاری قات میں ہے کہ ان احسانات کے شکریہ کے لیے کوئی لفظ وضع کر سکیں اور نہ ہماری لغت میں اس کے لیے کوئی لفظ ہے.بیشک ہماری لغتوں میں بے شمار الفاظ ملتے ہیں.جو اللہ تعالی کے شکریہ کے موقع پر استعمال ہوتے ہیں، لیکن ہمارے بے شمار کا بھی ایک شمار ہوتا ہے اور ہمارے بے انتہا کی بھی ایک انتہا.ہوتی ہے.ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ رنجیت سنگھ نے اپنے دربارمیں کہا کہ اسلام پر ہار مذہب کی برتری کی یہ دلیل ہے کہ بانی اسلام نے صرف ایک چاند اور ایک سورج بتایا ہے ، مگر ہمارے گروہوں نے بتایا ہے کہ بے شمار چاند اور بے انت سورج ہیں.دربار میں ایک مسلمان وزیر بھی تھا.اس نے کہا اگر اجازت ہو توئیں اس کا جواب دوں.رنجیت سنگھ نے کہا کہ ہاں اس کی اجازت ہے وزیر نے کہا کہ ایک دربار کو صاف کرنے والے بھنگی کو بلواتے، بھنگی بلوایا گیا.وہ پیر نے اس سے سوال کیا کہ مہاراج کی کتنی فوج ہے.بھنگی نے جواب میں کہا.جی کوئی انت ہے.بھنگی کو واپس کر کے وزیر نے کہا کہ اب ایک فوج کے سپاہی کو بلوایے.سپاہی حاضر ہوا.وزیر نے وہی سوال کیا.سپاہی نے جواب دیا کہ مہاراج کی فوج میں کروڑوں سپاہی ہیں.سپاہی کو بھی واپس کر دیا گیا.پھر جنرل صاحب سے یہی سوال دوہرایا.جنرل نے کہا حضور سوالاکھ فوج ہے.وزیر نے رنجیت سنگھ سے سوال کیا ، حضور اب فرمائیں کہ ان تینوں میں سے کون علم والا ہے.اس گفتگو سے رنجیت سنگھ خاموش ہو گیا.اس سے ظاہر ہے کہ ہر شخص کے نزدیک بے انت اور بے انتہا کی تعریف اس کے علم کے مطابق ہوتی
ہے.ایک غریب جس کے پاس دس پندرہ روپیہ ہوں وہ دو تین سو رو پیر والے کو بڑا دولتمند خیال کریگا اور سب کے پاس دو تین سو روپیہ ہو وہ ہزار دو ہزار والے کو بے انتہا دولتمند خیال کریگا.اور ہزار دو ہزار والا لا کھ دو لاکھ والے اور لاکھ دو لاکھ والا کروڑ دو کروڑ والے کو متمول سمجھے گا.پس ہر ایک شخص دوسرے کے متعلق بے انت اور بے انتہا کے الفاظ استعمال کریگا.مگر ہر ایک کی جدا جدا بے انت اور بے انتہا ہو گی جو اس کے علم کے مطابق ہوگی.پس ہم یہ تو کہتے ہیں کہ خدا کی مد کی کچھ انتہا ہیں مگر ہمارا یہ کہنا اس دربار کے صاف کرنے والے کے بے انتہا کہنے کے برابر ہے.کیونکہ ہم جس چیز کو اپنے قیاس میں بے انتہا ٹھہراتے ہیں.اس کی ایک انتہا ہوتی ہے پس اس لیے ہمارے پاس الفاظ نہیں جن سے ہم خدا کے احسانوں کا شکریہ کرسکیں اور ان احسانوں کو شمار کر سکیں.مگر کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ان احسانوں کا شکریہ کرنا تو بجائے خود رہا اُلٹی ان کی ناشکری کرتے ہیں.اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ کو حمد سے شروع کیا ہے اور ضلالت اور گرا ہی پر ختم کیا ہے.سورۃ فاتحہ کی ابتدا اسم اللہ سے سمجھو.یا الحمد اللہ سے بہر حال دونوں جگہ برکت اور حمد سے شروع ہوتی ہے اور ختم ہوتی ہے غیر المغضوب عليهم ولا الضالين پر اس میں یہ بتایا کہ بہت لوگ احسانوں کی حمد نہ کر کے مغضوب اور ضال ہو جاتے ہیں.جب ان کو نعمت دی جاتی ہے تو اس وقت اس کی قدر نہیں کرتے.بلکہ اس کی قدر کرنے کا خیال اس وقت پیدا ہوتا ہے.جب وہ نعمت چلی جاتی ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ماتحت خلافت کا سلسلہ جاری ہوا.جب تک مسلمانوں نے اس کی قدر کی.وہ ہر طرح کی برکات سے مالا مال کئے گئے.اگر چہ اس وقت عرب کو غیر سطنتیں نہایت ہی ذلیل خیال کرتی تھیں.چنانچہ جب مسلمانوں نے ایران پرحملہ کیا تو شاہ ایران ہے ہا کہ نی سپاہی ایک ایک اشرفی اور ہرافس کو پانچ پانچ اشرفی دیدی جائیگی اگر تم اپنے گھروں کو واپس پہلے جاؤ اس سے ظاہر ہے کہ ایرانیوں کی نظر میں عربوں کی کیسی ذلیل حالت تھی.یہ ایسی اوٹی بات ہے کہ سرحدی لوگ جب فتنہ کرنے پر آتے ہیں.تو گورنمنٹ انگریزی کو اگر صلح سے ان کو دبانا منظور ہوتا ہے تو وہ بھی اس سے زیادہ ہی تجویز کرتی ہے لیکن اگر صلح کی بجائے جنگ کے ذریعہ ان کی گوشمالی مد نظر ہوتی ہے.تو جنگ کرتی ہے اور اس پر بہت خرج کرنا پڑتا ہے مگر ایرانیوں کی نظر میں عربوں کی اتنی بھی وقعت نہ تھی جتنی کہ سرحدی فتنہ انگیزوں کی انگریزوں کی نظر میں ہوتی ہے مگر یہ خدا تعالیٰ کا فضل تھا کہ وہ جنہیں ذلیل خیال کرتے تھے.انھوں نے بادشاہوں کے تختوں کو الٹ دیا.ل الفاروق (مصنفہ مولانا شبلی نعمانی ، حصہ اول منه
۱۴۵ یہ حالت مسلمانوں کی کب تک رہی اُس وقت تک جب تک انھوں نے خدا کے اس انعام کی قدر کی جو خلافت کے رنگ میں ان پر کیا گیا تھا مگر جب وہ مال دولت کے گھمنڈ میں آگئے اور اس نعمت کو حقیر خیال کرنے لگے تو حضرت عثمان کو قتل کیا حضرت عثمان نے تو ان فتنہ انگیزوں کے مقابلہ میں ہاتھ اٹھایا مگر انا ضرور فرمایا کہ دیکھ تم مجھ کوقتل کرتے ہو لیکن یاد رکھو کہ میرے قتل کے بعد مسلمانوں میں ایسا نفاق پیدا ہوگا کہ قیامت تک مسلمان جمع نہیں ہو سکیں گے لیے حضرت عثمان شہید ہو گئے مگر مسلمانوں یں وہ نا اتفاقی پھیلی کر جس کا سلسلہ نا منقطع ہو گیا.حتی کہ حضرت مسیح موعود مبعوث ہوتے اور پھر ایک حجامت قائم ہوئی مسلمانوں میں ہر روز نتے تھے فرقے پیدا ہونے لگے جس سے مسلمانوں کی طاقت ٹکڑے کڑے ہو گئی.اور آج وہ اپنی آنکھوں میں آپ ہی ذلیل ہو گئے ہیں.اور ان کی یہ حالت ہے کہ اگر کسی مسلمان کو نوکر کی ضرورت پڑے تو بجائے مسلمان نوکر رکھنے کے ہندو کو پسند کرتا ہے.غیر کی نظر میں انسان ذلیل ہو تو خیر مگر اپنوں کی نظر میں ذلیل ہونا حد درجہ کی ذلت ہے.لوگوں کو مد رسول اله صلی الہ علیہ ولم کا سارسل ملا اور قرآن میسی کتاب می دیگر انھوں نے قدری کی.رسول کریم پریس کو فوقیت دی اور کہا کہ وہ فوت ہو گئے اور قبرمیں ہیں مگر مسیح زندہ خدا کے پانس بیٹھے ہیں پھر کہا مسیح صرف یہکہ خود مردہ نہیں بلکہ مردوں کو زندہ کرنے والا ہے.نبی کریم کے فیضان کو انھوں نے بند کر دیا اور آپ کی بادشاہت کو تسلیم نہ کیا، لیکن مسیح کے لیے جائز رکھا کہ وہ آئیگا اور امت محمدیہ کی اصلاح کرے گا.پس مسلمانوں نے حضرت نبی کریم کی بادشاہت کو پسند نہ کیا اور سیح کی حکومت کو پسند کیا.اس لیے ان پر عیسائی بادشاہ مسلط کئے گئے.اور مسلمانوں کی سلطنتیں ایک ایک کر کے مٹادی گئیں.یہ مزا ہے ان کو جو انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک روا رکھی پس یہ بڑے خوف کا مقام ہے.منہ سے بات تو نکل جاتی ہے.مگر جب اس کے نتائج نکلتے ہیں تو پتہ لگتا ہے تم لوگ خدا کی نعمتوں اور احسانوں کی قدر اور ان کا شکر کرو.اور یاد رکھو ک جنہوں نے خدا کی نعمتوں کا شکریہ وہ شکر نہ کیا وہ ہلاک کئے گئے.آج تم کو جو نعمت دی گئی ہے.یا آئندہ ملے اس کا شکر کرنا تمہارا فرض ہے کیونکہ وہ خدا آج بھی موجود ہے.خدا کے انعام کو چھوٹا اور ذلیل نہ سمجھو.کیونکہ خدا کی نعمتوں کو ڈیل سمجھنے سے انسان چوڑھوں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور تمہیں بھی اس بات کے سمجھنے کی توفیق دے " الفضل ۱۸ جنوری شاه : له تاریخ الخلفا للسیوطی حالات حضرت عثمان بنو
ست 27 خُدا تعالیٰ سے عاکز نیکی تو فیق مانگو فرموده ۱۷ جنوری ساله تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :- انسان کے لیے ایک گھلا اور صاف رستہ اللہ تعالیٰ نے تجویز فرمایا ہے.اور وہ رستہ ایسا ہے کہ جس پر چل کر انسان بلا روک ٹوک بلا خدشہ بلاکسی قسم کی تکلیف اور دکھ کے بلا نا امیدی کیے اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جس تک پہنچنا انسان کی پیدائش کا مقصد ہے، لیکن اگر اسے کوئی وقت پیش آتی ہے.اگر کسی مشکل سے سامنا ہوتا ہے تو وہ اس تھے نفس سے پیدا ہوتی ہے.اسے ناکامی اس لیے نہیں ہوتی کہ خدا نے اسے رستہ غلط بتایا ہے.بلکہ اس لیے کہ وہ خود غلط رستہ پر چلتا ہے.وہ نا مراد اس لیے نہیں رہتا کہ اس کے لیے عمدہ تدبیر نہیں.تدبیر تو ہے مگر وہ غلط تدبیر اختیار کرتا ہے.اسی طرح وہ دکھ میں اس لیے نہیں پڑتا کہ اس کا کوئی علاج نہیں.علاج ہے لیکن وہ غلط علاج " شروع کر دیتا ہے.اگر مجتمع طریق اختیار کیا جائے تو بھی نا امیدی نہیں ہوسکتی.پس کامیاب ہونے کے لیے صحیح راستہ کی تلاش کی جائے.اور وہ صحیح راستہ سوائے اس کے کہ خدا کے حضور ہی انسان گر جاتے نہیں مل سکتا.کہتے ہیں دعا مفید چیز ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ واقعی دُعا نہایت ہی عمدہ اور مفید چیز ہے مگر بعض دفعہ دعا کی توفیق ہی نہیں ملتی.انسان بار ہا سمجھتا ہے کہ اس کا کوئی سہارا نہیں ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ان مشکلات سے گزر جاتے مگر اس کو کوئی رستہ نظر نہیں آتا.وہ جانتا ہے کہ تھا ایک کارگر چیز ہے مگر سستی اسے ادھر متوجہ نہیں ہونے دیتی ہیں دُعا کے لیے بھی دعا کی ضرورت ہے جب انسان خدا کے حضور گر پڑے.تو اس کو دھا کی توفیق مل جاتی ہے.کوئی کسے کہ جب دُعا کیلئے بھی دُعا کی ضرورت ہے تو جب وہ دُعا کے لیے دعا کر سکتا ہے.تو اس مقصد کے لیے کیوں دُعا نہیں
کر سکتا.جو حاصل کرنا چاہتا ہے.اسکے لیے یاد رکھنا چاہیئے کہ ہر کام کے لیے ذرائع ہوتے ہیں.دُعا کے لیے جوش کی ضرورت ہوتی ہے.اور جوش پیدا کرنے کے لیے زبان ہلانے کی ضرورت ہوتی ہے جب انسان اپنی زبان کو حرکت میں لاتا ہے تو اس کے دل میں ایک جوش پیدا ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے سینہ کو کھول دیتا ہے اور یہی بات ہے جس کو اياك نعبد و اياك نستعين ميں ادا کیا گیا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں.لیں جب انسان اپنی عبودیت کا اظہار کرتا ہے تو خدا کی مدد و نصرت اس کے شامل حال ہو جاتی ہے اور اسے درد اور اضطراب کے ساتھ دُعا کرنے کی توفیق مل جاتی ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے اور دعا کرنے کی سچی توفیق بخشے.تاکہ ہم اس کے انعامات کے وارث ہوسکیں.اور ہر قسم کی مشکلات اور تکالیف سے بچ جائیں ؟ الفضل ۲۵ جنوری شاشته )
28 جماع کے شیمی کی خبر لو فرموده ۱۳۱ جنوری شاشه ) تشتد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے سورۃ بقرہ کی مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی: ليس البران تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَالكِن البَرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَ المَلَكَةِ وَالكِتَبِ وَالنَّبِينَ وَاتى المَالَ عَلى حُبّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَنى وَالْمَسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وفي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلوةَ وَالى الركوة وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عاهَدُوا وَالصَّبِرِينَ فِي البَاسَاءِ وَالضَّرَاءِ وَحِينَ الْبَاسَ، أُولئِكَ الَّذِينَ صدقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ.(البقرة :١٩٨) مختلف اور پھر فرمایا :- نیکی اور تقویٰ کے متعلق لوگوں میںعام طور پر اختلاف ہے مختلف جماعتیں مختلف تو میں.مدارج کے لوگ اور مختلف زمانوں کے لوگوں کے نزدیک نیکی کی تعریف مختلف رہی ہے.رباز نیکی کی تعریف کچھ اور کرتے ہیں اور امرا کچھ اور پھر مالک کے لحاظ سے بھی نیکی کی تعریف میں اختلاف ہے.ہندوستانی نیکی کی اور تعریف کرتے ہیں اور عرب والے نیکی کی کچھ اور ہی تعریف بتاتے ہیں.مصری اور چینی کچھ اور ایرانی نیکی کسی اور چیز کو قرار دیتے ہیں.ہندوستان میں حاجی بڑے نیک شمار ہوتے ہیں.یہاں پر ایک شخص صوم صلوہ اوردیگر احکام شرعی کا خواہ کتناہی پابند کیوں نہ ہو.لوگ اس کے مقابلہ میں عام طور پر ایک حاجی کو ہی ترجیح دیں گے خواہ اس نے سفریج میں اپنے تمام اوقات فضول اور لغو طور پر ہی ضائع کئے ہوں اور حج کرنے کے بعد بھی اپنے اعمال میں کوئی تغیرنہ کیا ہو.اور صوم وصلواۃ کا بھی چنداں پابند نہ ہو.تاہم اس کی اس نیکی کا اظہار لفظ "حاجی" اس کے نام کے ساتھ لگا کر کریں گے.…
۱۴۹ حالانکہ ہندوستان کے حاجیوں میں عام طور پر ایسے بھی ہوتے ہیں.چین کی غرض حج سے محض شہرت طلبی ہوتی ہے.ورنہ ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی کوئی خشیت اور خوف نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام فرماتے تھے.کہ ایک ریل کے پٹیشن پر ایک نابینا بڑھیا بیٹھی تھی.ایک شخص نے اس کی چادر اتار لی.اس بڑھیا نے کہا بھائی حاجی مجھے غریب کی چادر کیوں لیتا ہے.میرے پاس تو کوئی اور کپڑا نہیں ہے میں سردی میں مرجاؤں گی.وہ چادر تو اس شخص نے رکھدی مگر پوچھا کہ تو نے کسی طرح جانا کہیں اجی ہوں.بڑھیا نے جواب دیا کہ ایسے کام حاجی ہی کیا کرتے ہیں.وہ وہ عورت اس سے واقف تھی اور نہ اس کی آنکھیں سلامت تھیں مگر اس نے جو کچھ کہا.اس کی فطرت کی آواز تھی.لیکن باوجود اس قسم کی حالت کے پھر بھی عام طور پر حاجیوں کو بڑا نیک اور ج کو بڑی نیکی ہندوستان میں خیال کیا جاتا ہے، لیکن عرب میں جاؤ تو وہ لوگ نیکی حج کو قرار نہیں دینگے وہاں کسی اور ہی چیز کا نام نیکی ہو گا.ان میں نیکی قومیت کے لحاظ سے سخاوت کو سمجھا جائیگا وہ لوگ اگر کسی کی تعریف نیکی میں کریں گے.تو کہیں گے کہ یہ شخص بڑا نیک ہے.کیونکہ بڑا سخی ہے.اسی طرح اب یورپ میں اسلام پھیلے.تو وہاں کے لوگ روزے کو بڑی نیکی سمجھیں گئے.کیونکہ وہ لوگ کثرت سے کھانے پینے والے ہیں.پس جب ان کو کھانے پینے سے باز رہنا پڑیگا.تو وہ حج زکوة - نماز و غیره دیگر احکام شرعی کی بجا آوری کو نیکی قرار دینے کی بجائے روزہ رکھنے کو سب سے بڑی نیکی قرار دیں گے.پر ہندوستان میں یہ بھی بڑی نیکی خیال کی جاتی ہے کہ کوئی شخص نماز کا پابند ہو اس شخص کو کہیں گے کہ یہ بڑا ہی نیک ہے.کیوں؟ اسلئے کہ نماز کا پابند ہے.صحابہ کے وقت میں اگر کسی شخص کی تعریف نماز کی پابندی کے باعث کی جاتی تو وہ لڑ پڑتے.کیونکہ یہ ایسی ہی بات ہے.جیسا کہا جائے کہ فلاں شخص بڑا بہادر ہے.کیونکہ وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہوگیا ہے.یا یہ کہ وہ شخص بڑا ہی تیز نظر ہے.کہ اس کی ماں اس کے پاس بیٹھی تھی.اس نے اس کو پہچان لیا.یا یہ کہ اس شخص کا معدہ بڑا ہی مضبوط ہے کہ اس نے ایک چنا ہضم کر لیا.پس جیسا کہ بہادری تیز نظری اور مضبوطی معدہ کے یہ معیار نہایت مضحکہ انگیز ہیں.ایسے ہی صحابہ کے نزدیک کسی شخص کی نیکی کا معیار محض پابندی نماز مضحکہ انگیز تھا.کیونکہ وہ لوگ نیکی کے اس مقام پر کھڑے تھے.جہاں پابندی نماز کو ایک بڑی نیکی قرار دینا ایک مضحکہ انگیز بات ہے.وہ لوگ دین کے لیے بڑی قربانیوں اور سخت آزمائشوں کو نیکی سمجھتے تھے جس میں یہ باتیں زیادہ پاتے تھے.اسی کو نیک کتنے تھے.
پس نیک اور نیکی کی تعریف ہر زمانہ ہر ملک اور ہر قوم میں جدا جدا اور مختلف رہی ہے.میں نے جو یہ آیت پڑھی ہے.اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مشرق و مغرب کی طرف منہ پھیرنا نیکی نہیں.اگر کوئی شخص قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتا ہے.اور اس کی نماز میں وہ مغز اور بیج نہیں ہے تو اس نے قبلہ کی طرف منہ کیا یا دوسری طرف کیا اس کا کچھ حاصل نہیں ہے.کیونکہ نیکی منہ کے کسی طرف کرنے کا نام نہیں ہے.بلکہ نیکی نام ہے اس کیفیت کا جو دل کے اندر پیدا ہوتی ہے اور یہ جو حرکات کی جاتی ہیں.یہ ان کا ظاہری ثبوت ہوتی ہیں.پس اگر ان ظاہری حرکات میں وہ چیز نہیں میں کا تعلق دل سے ہے تو یہ ظاہری حرکات کچھ نہیں محض قبلہ کی طرف منہ کرنا یا نماز پڑھنا یا روزہ رکھنا یا حج کرنا یہ تمام باتیں دلی کیفیت کے نہ ہونے کے باعث پیچ ہو جاتی ہیں.اگر نماز روزہ حج زکواۃ وغیرہ افعال سے خدا کی رضا مد نظر نہ ہو تو یہ چیزیں پہنچ ہیں کیونکہ یہ تو آتے ہیں.مگر بغیر اس قلبی کیفیت کے گند اور ناکارہ ہیں اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ ایک شخص کے پاس تلوار تو ہے.مگر گند اور ہتھیار ہیں مگر زنگ خورده پس جس طرح ہتھیاروں کی قیمت انکی تیزی اور صفائی سے ہے.اسی طرح ان اعمال کی قدر خُدا کی نظر میں اُسی وقت ہوتی ہے جب کہ انکے ذریعہ خدا کی رضا جوئی مقصد ہو.میں نے جو آیت پڑھی ہے اس میں نیکی کی علامتیں بیان کی گئی ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنا نیکی نہیں.بلکہ ان افعال کے ساتھ عزیمت قلب ہونی چاہیئے.در حقیقت منہ پھیرنے میں کچھ بھی نہیں.اگر اس کے ساتھ دعا شامل نہیں جس کی وجہ سے نماز کو صلواۃ کہا جاتا ہے.یہ ارشاد الہی ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم یتیموں اسیروں اور غریبوں کی مدد کریں اور خدا کی مخلوق سے ہمدردی کریں.اس میں ہمیں انہی باتوں کا سبق دیا گیا ہے.کہ جو تکلیف میں ہو اس کی تکلیف دور کریں جو مصیبت میں ہو اس کی مصیبت ہٹانے کی کوشش کریں کیونکہ اگر موم و صلوۃ کے ساتھ خدا کی اطاعت نہیں.اس کی مخلوق سے ہمدردی نہیں.تو پھر کچھ بھی نہیں.میں ان علامتوں میں سے ایک علامت کے متعلق اس وقت اپنی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں اور وہ جماعت کے شیمی کی پرورش و تعلیم و تربیت کا سوال ہے.اس میں شک نہیں کہ یہ نہایت اہم سوال ہے اور کسی جماعت کی ترقی اس کے افراد کی ترقی پر منحصر ہوتی ہے.جب کسی جماعت کے اکثر افراد دنیا میں کامیاب ہوں تجھی وہ جماعت کامیاب شمار کی جاسکتی ہے.چوڑھے اگر مل کر بیٹھ جائیں تو وہ معزز نہیں کہلا سکتے.کسی جماعت کی عزت و عظمت اس کے افراد کی عزت و عظمت پر منحصر ہوتی
ہے کیونکہ افراد کا مجموعہ ی جماعت ہوا کرتی ہے پس ترقی پانے والی جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنے افراد کی ترقی کی فکر کرے جو لوگ اس کا خیال نہیں کرتے.ان کی جماعتیں آہستہ آہستہ ٹوٹ جاتی ہیں.اور زور گھٹ جاتا ہے.اسلام نے اس بات کو مد نظر رکھا ہے کہ جو لوگ صاحب استعداد اور صاحب وسعت ہوں اور ان کے پاس دولت ہو.ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے کزوروں کی مدد کریں.اور جو سختی ہیں انکو امداد دیں.ان کمزوروں میں بھی آگے دو قسمیں ہوتی ہیں.ایک تو بڑے جوان ہوتے ہیں.وہ تو کسی نہ کسی طرح اپنی پرورش کر سکتے ہیں.دوسرے کمزور اور چھوٹے بچے ہوتے ہیں جن میں نہ عقل ہوتی ہے نہ تجربہ اس لیے وہ اپنی پرورش کے لیے کچھ نہیں کر سکتے.پس ہمارے لیے یہ سوال سب سے زیادہ اہم ہے کہ ہمارے یہاں قادیان میں ایک بڑی جماعت یشمی کی موجود رہتی ہے.ان میں سے کچھ تو ایسے میں کران کے والدین اپنے وطنوں اور عزیزوں کوچھوڑ کر بیاں آگئے اور موت نے ان کو اپنے بچوں سے جدا کر دیا.اگر وہ بچے اپنے وطن میں ہوتے.تو ان کے عزیزان کی پرورش کسی کسی طرح کرتے لیکن وہ تو اپنے تمام عزیزوں کو چھوڑ کر میاں آگئے تھے.اور یہاں ہی اُنھوں نے اپنے عزیز بناتے تھے اور یہاں ہی اُن کی رشتہ داریاں ہوتی تھیں.اور کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ بیرونی جماعتوں سے آتے ہیں.اور والدین کے فوت ہو جانے پر کسی نہ کسی طرح یہاں پہنچ جاتے ہیں.اب تیموں کے متعلق ایک تو مقامی جماعت کا فرض ہے.دوسرے تمام جماعت کا بھی فرض ہے.بہ لحاظ مقامی ہونے کے قادیان کی جماعت کا فرض ہے.اور بہ لحاظ تمام جماعت کا مرکز ہونے کے بیرونی جماعتوں کا بھی فرض ہے.اس وقت تک تیموں کے متعلق کوئی احسن تجویز نہیں ہوسکی.ندان پر وه کوئی توجہ کی جاسکی ہے، لیکن اب میں نے حکم دیا ہے کہ تمام قیموں کی فہرست بنائی جائے خواہ قادیان کے ہوں یا باہر سے آئے ہوتے ہوں جب وہ فہرست تیار ہو جائے گی تو ان کے اخراجات کو جماعت پر پھیلایا جائیگا.اور بہت حد تک ان کی پرورش کا فرض قادیان کی مرکزی جماعت پر ہو گا یتیمی کے لیے بعض تجاویز کی گئی ہیں.مگر وہ ابھی مکمل نہیں ہو ئیں.مثلاً یہ کہ بعض لوگوں کے گھروں میں بچوں کو رکھا جاتے، لیکن اس میں یہ نقص ہے کہ بعض لوگ بچوں سے کام زیادہ لیتے ہیں اور ان کی تعلیم و تربیت کا کچھ خیال نہیں رکھتے.اور یہ بھی تجویز کی گئی ہے کہ ایک تیم خانہ بنایا جائے لیکن بظاہر ہے کہ یتیم خانہ کے لیے بڑے اخراجات کی ضرورت ہے اور وہ ہماری جماعت زیادہ برداشت
۱۵۲ نہیں کر سکتی.اس لیے ایسی تجویز کی ضرورت ہے کہ خرچ بھی زیادہ نہ ہو اور بچوں کی نگہداشت بھی کافی ہو سکے جس سے وہ آوارہ نہ ہوں میرے نزدیک وہ بچے جو ابھی چھوٹے ہیں.ان کو بعض لوگوں کے سپرد کیا جا سکتا ہے.کہ وہ مہینہ یا پندرہویں دن ان کی تعلیمی و اخلاقی حالت کی رپورٹ کیا کریں.اور علاوہ ان کی رپورٹ کے اور ذرائع سے بھی ان بچوں کی حالت کا علم حاصل کیا جایا کرتے مگر اس میں ایک اور بات بھی ہے کہ سارے گھرانے ایسے نہیں جو ایک ایک بچہ کو سنبھال سکیں میرے نزدیک ایک لوکل ذریعہ یتیموں کی پرورش کا ہے اور اسکو زیادہ وسیع اور مضبوط کیا جاسکتا ہے.اور دہ آٹا فنڈ ہے.اس طرح پر کہ بیٹی کے لیے گھروں میں آٹا بھجوا دیا جایا کرے.پہلے بعض کو خرچ دیا جاتا ہے لیکن وہ خرچ پورا نہیں ہوتا.پس اس طرح ان میں آٹا جمع ہو کر تقسیم ہو جائے.میں جانتا ہوں کہ بعض کاموں میں بہت دیر ہو جاتی ہے.لیکن اس کام کے لیے دیر نہیں ہونی چاہیئے.کیونکہ تیموں کی ہر طرف سے چیخ و پکار آرہی ہے.میں لوکل انجمن کو آگاہ کرتا ہوں کہ وہ دو دن کے اندر اندر اپنا جلسہ کر کے بتاتے کہ وہ کیا کرسکتی ہے.باقی جس قدر کی ہوگی وہ جماعت کے ان فنڈوں سے پوری کر لی جائے گی.جو ہمارے پاس آتے ہیں.دوستوں کو چاہیے کہ جس قدر بھی ان سے ہو سکتا ہے.یتیموں کی مدد کے لیے کوشش کریں.اور جلد سے جلد بتائیں کہ ان سے یہ بوجھ کسقدر اُٹھ سکت ) الفضل در فرورى شاشة ( ہے"
۱۵۳ 29 حقیقی معرفت حاصل کرو ، د فرموده هر فروری شاشه ) حضور انور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.کلمہ توحید جو ہر ایک خطبہ اور لیکچر اور وعظہ کے ابتداء میں پڑھا جاتا ہے اور جس کی نسبت سب مسلمانوں کا یقین وایمان ہے کہ وہ اسلام کا مرکزی نقطہ ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لاتے ہوئے دین کا خلاصہ ہے اس میں مسلمانوں کو جن امور کی طرف متوجہ کیا گیا ہے ان کی طرف دھیان نہ رکھنے اور ذہن سے اتار دینے کی وجہ سے انسان علم دین سے دُور جا پڑتا اور اسلام سے ناوات ہو جاتا ہے اور اس کے عقائد میں کمزوری اور اعمال میں ابتری پیدا ہو جاتی ہے.کیونکہ یہی کلمہ اور جملہ ان ضروری امور کو شامل رکھتا ہے.جو عقائد اور اعمال کی درستی کے لیے ضروری ہیں.انسان اسی کے نہ سمجھنے سے صراط مستقیم سے ادھر ادھر ہو جاتا اور اسی کو بھولنے سے جادہ اعتدال کو ترک کر دیتا ہے اور اسی سے عدم واقفیت کی وجہ سے ظلمت و گراہی میں جا پڑتا ہے.یہی وہ کلمہ ہے جس کی معرفت سے انبیاء، انبیا - صدیق، صدیق اور شہید، شہید کہلائے اور ولیوں نے ولایت کا مرتبہ پایا اور دوسری طرف اسی کے نہ جاننے سے ایک ہستی نے اپنا نام ابلیس رکھایا ، لیکن باوجود اس کے بہت ہیں جو اس کلمہ کو پڑھتے ہیں مگر ان کے دلوں میں وسو سے پیدا ہوتے ہیں اور وہ ایسے کامل الایمان نہیں ہوتے جس سے وہ ہر مشکل اور ہر دکھ اور ہر ابتداء میں قائم رہیں.بلکہ بہت ہیں جو چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے ڈگمگا جاتے ہیں اور ان کا پائے ثبات اکھڑ جاتا ہے.اس میں شک نہیں کہ ان میں بہت سے ایسے ہوتے ہیں.جو دین کے لیے دنیاوی فوائد کو چھوڑ دیتے ہیں.تاہم بعض اوقات ایک ادنی اسی بات کی خاطر اپنے ایمان کو قائم نہیں رکھ سکتے اور چھوٹی سے چھوٹی بات ان کے ایمان کو ضائع کر دیتی ہے.یہ صرف اسی کلمہ کی عدم معرفت کی وجہ سے ہوتا ہے پڑھنے کو توبہت پڑھتے ہیں لیکن لالہ الاللہ
۱۵۴ کے اصل مطلب سے بہت کم واقف ہوتے ہیں.ان میں ایسے بھی ہوتے ہیں.جو دینی جوش کی وجہ سے پنے مالوں کو مرتبوں کو وطنوں کو اور خویش و اقارب کو چھوڑ دیتے ہیں، لیکن ایک ذلیل سی بات پر ٹھوکر کھا جاتے ہیں.ان کی قربانیاں جوش کے باعث ہوتی ہیں، لیکن چونکہ ان میں کامل معرفت نہیں ہوتی.اس لیے قائم نہیں رہ سکتے.مذہبی جوش سے ہر مذہب کے لوگ قربانیاں کرتے ہیں.جیسے کہ عیسائی بھی بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں حالانکہ عیسائیت سچا مذہب نہیں، مگر با وجود اس کے ان کی عورتوں تک میں استقدر قربانی کا جوش ہوتا ہے کہ بعض علاقوں میں عیسائی ھور میں ٹکڑے ٹکڑے کی گئیں.مگر ان کی جگہ پر فوراً دوسری پہنچ گئیں.مگر عیسائیوں میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی عمر کا بڑا حصہ مشن کی خدمت میں بڑے جوش سے صرف کرتے ہیں، لیکن اخیر عمر میں عیسائیت کی تردید می سوچ سوچ کر اعتراض شائع کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ ان میں نئے نئے چر چ قائم ہوتے رہتے ہیں اور ان نئے چرچوں کے بانی عموماً ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کی عمر کا بڑا حصہ عیسائیت کی خدمت میں گذرا ہوتا ہے.پس ان کی قربانی تو ہوتی ہے، لیکن چونکہ وہ عرفان کے ماتحت نہیں ہوتی اس لیے وہ قربانی قربانی نہیں کہلا سکتی، لیکن جو شخص عرفان کے ماتحت قربانی کرتا ہے اگر زمین و آسمان بھی مل جائیں تو بھی اس کے عقیدہ میں تزلزل پیدا نہیں ہو سکتا.اس کی ایسی ہی مثال ہے.جیسا کہ ایک بچہ ہوتا ہے وہ ایک عورت کو پیچھے سے دیکھتا ہے اور اس کے قدو قامت و لباس وغیرہ سے یقین کر لیتا ہے کہ یہی میری ماں ہے.وہ خوشی سے دوڑتا ہوا اس کو لپٹ جاتا ہے، لیکن جونہی کہ وہ عورت اس کی طرف دیکھتی ہے وہ شرمندہ ہو کر اس سے الگ بھجاتا ہے، وہ پیچھے اخلاص اور سچی محبت سے اس کی طرف دوڑتا ہے لیکن جب اس کو صحیح معرفت ہوئی تو اس سے الگ ہو جاتا ہے.اسی طرح جو شخص عدم معرفت کی حالت میں قربانیاں کرتا ہے اس میں جوش بھی ہوتا ہے.اخلاص بھی ہوتا ہے مگر جب وہ اسکو اپنے خیال کے مطابق نہیں پاتا تو اس سے علیحدہ ہو جاتا ہے اور سخت ابتلا میں پڑ جاتا ہے پھر ایک ایسا بچہ ہوتا ہے جو اپنی ماں کو دیکھتا ہے پہچا نتا ہے اور پھر اس کو پیسٹ جاتا ہے.اس صورت میں ماں خواہ اس کو علیحدہ کر دے.جیسا کہ گرمی کے موسم میں ہوتا ہے کہ ماں پسینہ سے شرابور ہوتی ہے.اور بچہ اس کو لپٹتا ہے اور وہ اس کو علیحدہ کر دیتی ہے.مگر باوجود جھڑ کنے اور غصہ ہونے اور بعض حالتوں میں تھپڑ بھی کھانے کے وہ اپنی ماں کو نہیں چھوڑتا.بلکہ جوں جوں ماں اسے مارتی ہے جھڑکتی ہے.وہ اور زیادہ اس کی گود میں گھستا جاتا ہے.بعینہ وہ شخص جس کو خدا تعالیٰ کی حقیقی معرفت حاصل ہو جاتی ہے.وہ ہرگز مصائب اور دکھوں اور ابتلاؤں سے نہیں گھبراتا اور اس کا قدم ذرا نہیں ڈونگا تا.
۱۵۵ بلکہ وہ اور زیادہ اطاعت اور فرمانبرداری میں بڑھتا جاتا ہے، لیکن جہاں عرفان کی کمی ہوتی ہے.تو بیکی و اکثر رستہ سے جدا کر دیتی اور ٹھو کر کھلاتی ہے.تو لا اله الا اللہ اسلام کا مغز ہے.اور یہ وہ چیز ہے کہ اس سے ہر قسم کے شکوک شبهات دُور ہو جاتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث مروی ہے.جب حضور علیہ الصلوة والسلام فوت ہوئے تو حضرت عثمان نے فرمایا تمنيت ان سئلت رسول الله صلى اللہ علیہ وسلم - میرے دل میں تھا کہ میں رسول کریم سے پوچھوں ماذا ينجينا مما يلقى الشيطان فی انفسنا کہ ہم شیطانی وساوس سے کیسے نجات پا سکتے ہیں.فقال ابوبکر رضی الله عنه سئلت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك.حضرت ابوبكر صديق رض نے کہا کہ میں نے آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا تھا قال فقال ان تقولوا ما امرت به عمى ان يقول له فلم يقلہ ہے تو آپ نے فرمایا کہ تم وہ کہو جس کے کہنے کے لیے میں نے اپنے چچا کو کہا تھا، لیکن اس نے نہ کہا.وہ کیا بات تھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چا کوئی دو ہی کلمہ توحید تھا.آنحضرت نے اپنے چا ابوطالب کو انکی وفات کے وقت کہا تھا کہ چھا اگر آپ ایک دفعہ اللہ الا اللہ کہدیں تو میں آپکی قیامت کے دن شفاعت کر سکوں گا.مگر انھوں نے جواب دیا کہ میں اپنی قوم سے ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے یہ کلمہ پڑھ دیا تو وہ کہے گی کہ ابو طالب مرتے وقت اپنے بھتیجے سے ڈر گیا.اس لیے میں اسی مذہب پر جان دیتا ہوں جس پر میں نے اپنے باپ دادوں کو پایا.تو رسول کریم نے حضرت الی کرین کو بتایا کہ جو انسان شیطانی وساوس سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے وہ وہی کئے جس کے کتنے کے لیے میں نے اپنے چھا کو کہا تھا.یہ کلمہ انسان کو وساوس سے بچاتا ہے.انسان کے دل میں جو وساوس پیدا ہوتے ہیں وہ باتوں سے پیدا ہوتے ہیں.اول تو یہ کہ وہ چند باتیں حاصل کرنا چاہتا تھا ، لیکن وہ حاصل نہیں ہوتیں.یا وہ بعض باتیں چاہتا ہے کہ نہ ہوں مگر ان سے ان کو واسطہ پڑتا ہے.مثلاً وہ چاہتا ہے کہ اس کی جو جو خواہشیں ہیں.وہ تمام کی تمام پوری ہوں.ان میں سے کسی میں بھی کوئی رکاوٹ نہ پیدا ہو اور بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان سے وہ بچنا چاہتا ہے.مثلاً وہ چاہتا ہے کہ دُکھوں مصیبتوں آفتوں سے مامون رہے، لیکن دکھوں.آفتوں مصیبتوں سے اس کو پالا پڑتا ہے.یہی دو باتیں ہیں لے مسند احمد بروایت مشکوة كتاب الايمان في بيان التوحيد
104 جن سے انسان ابتلاؤں اور وسوسوں میں پڑتے ہیں.لیکن انسان کو سوچنا چاہیئے کہ ہو نہیں سکتا کہ اس کی تمام کی تمام خواہشیں پوری ہوں.اور وہ کسی تکلیف میں نہ پڑے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب اپنے ایک اُستاد سے رخصت ہونے لگے تو آپ نے ان سے درخواست کی کہ مجھے کوئی نصیحت کریں.آپ کے اُستاد نے فرمایا کہ آپ خدانہ نہیں.حضرت مولوی صاحب نے سوال کیا کہ انسان کیسے خدا بنتا ہے.انھوں نے فرمایا کہ جب انسان یہ چاہتا ہے کہ جس طرح اس کی خواہش ہے.اسی طرح ہو.اور اس کے خلاف کبھی نہ ہو.تو اس وقت وہ انسانیت سے باہر قدم رکھتا اور خدا بننا چاہتا ہے.کیونکہ انسان کی یہ شان نہیں ہے.کہ وہ جو خواہش کرے پوری ہو جاتے.یہ تو خاصہ خداوندی ہے.کہ وہ جس طرح چاہتا ہے.اسی طرح اس کے ارادہ کے ماتحت سب کچھ انجام پاتا ہے.اور کوئی نہیں جو اس کے ارادہ میں مزاحم ہو سکے لیے تو در حقیقت بہت سے وسوسے اسی لیے ہوتے ہیں.کہ انسان خدا بننا چاہتا ہے.اگر انسان غور کرے تو اس کو معلوم ہو جائے کہ ایسے وساوس جو پاک ہوں اور محض صحیح علم کے ماتحت ہوں شاذ و نادر ہوتے ہیں.بلکہ شاید سو میں سے ایک ہو ورنہ بہت سے اعتراض جن کی بظا ہر کوئی وجہ نہیں ہوتی وہ اغراض مخفیہ سے وابستہ ہوتے ہیں اور جن کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں.ان پر شیطان کا کا قبضہ ہوتا ہے.میں نے کہا ہے کہ سو میں سے ایک کا شک اصلی ہوتا ہے اور اگر اور وقت نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ لاکھ میں سے ایک تک اصلی ہو گا.ورنہ جس کے دل میں شک پیدا ہوتا ہے اس شک وشنبہ کی وجہ ذاتی ہوتی ہے.کیونکہ انسان اپنے تئیں خدا قرار دیتا ہے.اور کہتا ہے کہ جس طرح میں نے چاہا اسی طرح کیوں نہ ہوا.لاکھ میں سے ایک شبہ نہ سمجھنے کی وجہ سے ہوتا ہے.جن لوگوں کے دلوں میں شکوک شبہات پڑتے ہیں اور ان کے دل میں وساوس پیدا ہوتے ہیں.وہ عام طور پر ایسے ہی ہوتے ہیں جن میں برداشت کی طاقت نہیں ہوتی.وہ یہی چاہتے ہیں کہ میں طرح وہ چاہتے ہیں.اسی طرح ہو.عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ والدین ہمیشہ جن بچوں کی خواہش کو پورا کرتے ہیں.اور کبھی ان کی خواہش کے خلاف نہیں ہونے دیتے.ان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ بڑے ہو کر ہمیشہ مصائب اور دکھوں کے وقت گھبرا جاتے ہیں کیونکہ ان میں برداشت کی قوت نہیں پیدا کی جاتی لے حیات نور مصنفہ شیخ عبدالقادر صاحب (سابق سوداگریل) صداه
104 مگر وہ بچے جو ابتداء میں تکالیف اُٹھاتے ہیں ان میں برداشت کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے.اور وہ کسی خت سے سخت تکلیف سے بھی نہیں گھبرایا کرتے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے تئیں خدامت بناؤ.خدا ہی ایک ایسی ہستی ہے کہ وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے.اگر انسان کی کوئی خواہش پوری نہ ہو تو اس کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ انسان ہے.خدا نہیں.جو لوگ بے صبری سے کام لیتے ہیں وہ ہمیشہ ذلیل ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے.اور آپ لوگوں کی کمزوریوں کو دور کرے اور آپ کو سیتی معرفت بیجا تقوی اور سچا اخلاص عنایت کرے تاکہ آپ خدا کے نور سے حصہ پائیں جسکو وہ دنیا میں پھیلا الفضل دار فروری شاشته ) رہا ہے.شن
۱۵۸ 30 کامیابی کے ذرائع فرموده ۱۴ فروری شانه بمقام لاہور ) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے سورۃ العصر کی تلاوت فرمائی :- وَالْعَصْرِه إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرِه إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّهُ وَتَوَا صوا بالصبرِه (العصر) اور فرمایا :- انسان کی کامیابی اور اس کی ترقی کے لیے اللہ تعالیٰ نے کچھ قوانین مقرر کئے ہوئے ہیں ان کو نظر انداز کر کے یا ان کی پروانہ کر کے اگر کوئی انسان چاہے کہ میں کامیاب ہو جاؤں تو وہ کامیاب نہیں ہو سکتا.دراصل ایک دائرہ کے اندر انسان کو آزاد رکھا گیا ہے، لیکن اس کے باہر د کبھی نہیں چل سکتا.اور ہرانسانی طاقت کا یہی حال ہے کہ جو حد اس کی مقرر ہے اس سے باہر خواہ انسان کتنا ہی نکلنا چاہے نہیں نکل سکتا.مثلاً انسانی قوت ہے ، بڑے بڑے مضبوط اور زور آور انسان ہوتے ہیں، لیکن ان کی طاقت کی ایک حد بندی ہوتی ہے.اس سے آگے وہ نہیں بڑھ سکتے.پھر انسانی قد ہیں.ان میں اختلاف ہے.کوئی بڑا ہے.کوئی چھوٹا ، لیکن ان کی بھی حد بندی ہے کہ چھوٹے سے چھوٹا قد اتنا ہوتا ہے اور بڑے سے بڑا اتنا.یہ بھی نہیں ہوگا کہ پچاس ، گرہ کا کوئی انسان مل سکے.قصے کہانی کی کتابوں میں تو اتنے قد کے انسان مل جائیں گے.مگر دنیا میں جو انسان پاتے جاتے ہیں.ان میں نہیں ملیں گے.پھر ہر علم اور فن کی ایک حد بندی ہے.اس سے باہر نکلنا ناممکن ہے.تو خدا تعالیٰ کی طرف سے سے ہر چیز کے کچھ حدود مقرر ہیں.ان کو توڑ کر اگر کوئی چاہیے کہ میں خود فائدہ حاصل کرلوں.یا اپنے مخالف کو نقصان پہنچا سکوں.تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا.کامیاب اُس وقت ہوگا جب اُن قواعد کی پابندی کرے گا جو خدا نے مقرر کئے ہیں.یہیں ہر وہ انسان جو کامیاب ہونا چاہیے اسے
چاہیئے کہ جس غرض اور مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کھڑا ہوا ہو.اس کے لیے دیکھے کہ کون سے ذرائع خدا نے اس میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے مقرر کئے ہیں.اس وقت جو سورۃ میں نے پڑھی ہے اس میں خدا تعالیٰ نے ایک خاص بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور میں وہ بات آپ لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَالْعَصْرِ ان الانسان لفي خسر مہم زمانہ کی قسم کھتے ہیں یعنی ہم زمان کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں.تم دیکھو کہ سارے کے سارے انسان گھاٹے میں ہیں.اور جو چیز انسان سے تعلق رکھتی ہے اس میں زوال ہی زوال ہے.مگر ایک چیز ہے کہ جس کے پاس وہ ہو اس کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا ہے اور کبھی پیچھے نہیں ہوتا.وہ ترقی پر ترقی حاصل کرتا جاتا ہے.تنزل کبھی اس کے پاس نہیں آتا.اور وہ یہ ہے کہ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحُتِ انسان ایمان لاتے اور عمل صالح کرے.بظاہر یہ معمولی بات معلوم ہوگی کہ ایمان لانا.اور عمل صالح کرنا کونسی ایسی بات ہے جو معلوم نہیں اور بہتوں کو خیال پیدا ہوا ہو گا.کہ یہ توایسی بات ہے جس پر ہم پہلے سے عمل کرتے ہیں لیکن میں اس میں سے آپ کو ایک ایسی بات سنانا چاہتا ہوں.جو آپ نے پہلے نہیں سنی.اس میں کوئی تنگ نہیں کہ آپ لوگوں نے پڑھا ہوا ہے کہ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصلعت میں خدا تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ ایمان لاؤ اور عمل صالح کرو مگر میں اس کے علاوہ ایک اور بات بتانا چاہتا ہوں.کیونکہ اس آیت کے صرف وہی معنی نہیں.جو عام لوگ سمجھتے ہیں.بلکہ ایک اور بھی ہیں.اور اس طرح کہ جب صرف الذين امنوا ہو تو اس کے اور معنی ہیں جب عملوا الصالحت ہو تو اور ، لیکن جب ان دونوں کو ملاکر پڑھا جائے.تو اور معنی ہوتے ہیں اور تمام وہ چیزیں جو خدا نے پیدا کی ہیں.ان میں میں بات پائی جاتی ہے کہ جب خاص وہ مفرد ہوتی ہیں.تو ان کا رنگ اور ہوتا ہے اور جب دو چیزیں ملتی ہیں.تو میرا نتیجہ پیدا ہوتا ہے اسی طرح اس آیت میں ہے.میرے نزدیک اور مہرایک اس شخص کے نزدیک جو عقل سے کام لیگا.یقینی بات ہے کہ ایمان کامل کا نتیجہ اعمال صالح ہوتے ہیں اور یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی بات پر انسان ایمان لاتے اور پھر اس کے مطابق عمل نہ ہوں جس کو معلوم ہو کہ یہ زہر کی پڑیا ہے.وہ کبھی اسے نہیں کھاتا جس کو معلوم ہو کہ اس بل میں سانپ ہے وہ کبھی اس میں انگلی نہیں ڈالتا.اور جس کو معلوم ہو کہ اس جنگل میں شیر ہے وہ ہرگز اس میں نہیں جاتا.تو ایمان میں یہ طاقت ہے کہ انسان کو عمل کرنے پر مجبور کر دیتا ہے اور ممکن نہیں کہ ایمان اور یقین ہو.اور انسان عمل نہ
کرے.لوگ اس وقت تک پیچھے مذہب سے نفرت کرتے ہیں.رسولوں کو چھوڑ دیتے ہیں.خدا تعالیٰ کی بے قدری کرتے ہیں.جب تک انہیں علم اور یقین نہیں ہوتا.اگر انھیں معلوم ہو جاتے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کیسی ارفع و اعلیٰ ہے.اس کا فضل کس قدر وسیع ہے.اس کے ساتھ وابستگی کیسی دائتھی ہے تو ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ سے بیگانہ رہیں.اسی طرح اگر انھیں یہ معلوم ہو جاتے کہ فلاں خُدا کا رسول ہے اور خدا نے اس کو بھیجا ہے، تو ممکن نہیں کہ نہ مانیں.پھر جس پر یہ روشن ہو جاتے کہ یہ خلا کا الہام ہے اور اس پر چلنے سے ہمارا ہی فائدہ ہے.تو ممکن نہیں کہ بے قدری کریں.یہ ہو سکتا ہے کہکسی کو دھوکہ لگے اور مجھے کہ میں ایمان رکھتا ہوں.مگر نہ ہو.جیسے کسی کے متعلق کہنے کو تو کہدیتے ہیں کہ اس سے محبت ہے مگر دراصل نہیں ہوتی اور وقت پر حقیقت گھل جاتی ہے.اسی طرح ایک شخص سمجھتا ہے کہ مجھ میں ایمان ہے مگر ایمان نہیں ہوتا، لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ ایمان ہو اور عمل صالح نہ ہوں.کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو واقعہ میں ایمان لاتا ہے.وہ عمل صالح کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے.لیکن اس سورۃ میں خدا تعالیٰ ایمان لانے کے بعد عمل صالح کرنے کی بھی ہدایت فرماتا ہے.اب سوال یہ ہے کہ اللہ تعالے کا کلام تو زوائد سے پاک ہوتا ہے اس لیے جب یہ فرما دیا گیا کہ امنوا - تو عمل صالح کرنا اس میں آگیا.پھر عملوا الصلحت ساتھ فرمانے کی کیا ضرورت تھی.جب ایمان لانے والا انسان عمل صالح کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور ایمان کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اعمال صالح کئے جائیں تو کیوں امنوا ہی نہ رکھا.اس میں ایک حکمت ہے.در حقیقت جب امنوا کا فقرہ علیحدہ اور عملوا الصالحات کا علیحدہ ہو تو اس کا وہی مفہوم ہوتا ہے جو عام لوگ سمجھتے ہیں مگر جب یہ دونوں فقرے ملتے ہیں تو ایک اور معنی پیدا ہوتے ہیں.اور وہ یہ ہیں کہ گو ایمان اور یقین کامل کے نتیجہ میں اعمالِ صالح پیدا ہوتے ہیں اور ایمان وہی ایمان ہوتا ہے جسے انسان یقینی سمجھتا ہے اور پھر اس کے مطابق عمل کرتا ہے مگر بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ چونکہ انسان کی نیت اور موقع شناسی میں نقص ہوتا ہے.اس لیے وہ کامیابی کے حصول کا حقیقی ذریعہ نہیں ہوتا.گویا اس کا عمل عمل صالح نہیں ہوتا.اس لیے ضائع ہو جاتا ہے.تو ایمان سے یہ تو پتہ لگتا ہے کہ جو لاتا ہے.وہ عمل کرتا ہے.مگر اس سے یہ پتہ نہیں لگتا کہ وہ عمل ان ذرائع پر کاربند ہو کر کیا جاتا ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کا نتیجہ نکلنے کے لیے مقرر کئے جاتے ہیں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت لوگ ایمان لاتے ہیں اور پھر عمل کرتے ہیں.نماز پڑھتے ہیں.روزے رکھتے ہیں.حج کرتے ہیں.مگر دنیا میں ذلیل اور خوار ہی رہتے ہیں جس کی وجہ یہی ہے کہ وہ ان ذرائع کی طرف
141 توجہ نہیں کرتے.جو خدا تعالیٰ نے مقرر کئے ہوئے ہیں.اور جن کے مطابق عمل کرنے سے کامیابی اور فلاح حاصل ہوتی ہے.ان لوگوں کی مثال ایسی ہی ہے کہ ایک شخص جس کا ایمان اور یقین ہے کہ زمین گول ہے اور یہ بھی وہ جانتا ہے کہ بالمقابل امریکہ ہے.مگر وہ امریکہ جانے کے لیے بجائے اس کے کہ لاہور سے گاڑی پر سوار ہو کر کسی بندرگاہ پر پہنچے اور وہاں سے جہاز پر سوار ہو کر امریکہ جاتے زمین میں سُرنگ لگا کر امریکہ جانا چاہے.وہ کہاں پہنچ سکے گا.نا کامی اور نامرادی کے سوا اسے کچھ حاصل نہ ہوگا.کیونکہ اس نے ان ذرائع کو اختیار نہیں کیا جو اس مقصد میں کامیاب ہونے کے لیے خدا تعالیٰ نے بناتے ہوتے ہیں.تو امنوا وعملوا الصلحت میں یہ ارشاد ہے کہ انسان نہ صرت ایمان لائے اور عمل صالح کرے.بلکہ اس کے اعمال ایسے ہوں کہ خدا تعالیٰ نے ان کے لیے جو ذرائع مقرر کہتے ہیں ان کے مطابق ہوں.بعض لوگ صلاحیت اور مصلحت کے لفظ سے دھوکہ کھاتے ہیں.حالانکہ عربی میں یہ الفاظ ہمیشہ اچھے ہی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں.آجکل لوگ کسی معاملہ کے متعلق جب یہ کہتے ہیں کہ سی مصلحت ہے.تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ منافقت کے طور پر بات کہ دی گئی ہے.لیکن عربی میں ایسا نہیں ہے.عربی میں صحیح اور جائز اور اصل ذرائع کے مطابق جو کام ہوگا.اس کے متعلق مصلحت کا لفظ بولا جائیگا.تو امنوا وعملوا الصلحت کے یہ معنی ہیں.کہ ایمان لائیں.اور پھر عمل کریں.لیکن وہ عمل صالح ہوں.یعنی جس بات پر ایمان لایا ہو اس کے حصول کے لیے خدا تعالیٰ کی طرف سے جو صحیح ذرائع مقرر ہیں.ان پر عمل کیا جائے تو فرمایا.اگر ناکامی سے بچنا چاہتے ہو، اگر گھاٹے اور نقصان سے محفوظ رہنا چاہتے ہو.تو ایمان لاؤ اور اعمال کرو.مگر اعمال صالح ہوں.اس طریق کے مطابق ہوں.جو خدا نے ان کے لیے مقرر کئے ہوتے ہیں.مثلاً ایک شخص ایسے وقت میں جب کہ جہاد ہو رہا ہو.کفار مسلمانوں کو قتل کر رہے ہوں.لڑائی شروع ہو لیبی نماز پڑھتا رہے.تو گو یہ عمل اپنی ذات میں صالح ہے، لیکن موقع اور وقت کے لحاظ سے صالح نہیں کہا جاسکتا.کیونکہ اس وقت کامیابی کے لیے جو ذریعہ ہے اس پر عمل نہیں ہوا.اور اس سے یہ نہیں ہو گا کہ دشمن بھاگ جائے.دیکھو ہر لحاظ سے سب سے بڑے انسان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے.لیکن آپ نے بھی ان دشمنوں سے محفوظ رہنے اور اپنے حقوق کی حفاظت کرنے کے لیے ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے اسلام کے خلافت تلوار اٹھائی.یہ نیں کیا کہ نمازیں شروع کر دی ہوں.بلکہ آپ کو بھی اس موقع پر تلوار ہی اُٹھانی پڑی.اس میں شک نہیں کہ فرصت کے وقت آپ نے کامیابی کے لیے دعائیں بھی کیں.
جیسا کہ جنگ بدر میں ایک الگ جگہ دُعا کے لیے بنائی گئی تھی.اور اس جگہ آپ نے اتنی دعائیں کیں که حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ایسا انسان بھی کہ اُٹھا کہ کیا خدا کا وعدہ آپ کو فتحیاب کرنے کا نہیں ہے آپ نے فرمایا.وعدہ تو ہے، لیکن میں اس کے غنا سے ڈرتا ہوں.تو میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے دعا اور نماز ضروری نہیں ہے.ضروری ہے لیکن صرف اسی سے دشمن کو دور نہیں کیا جا سکتا دیکھو اگرصحابہ کرام دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تلوار نہ اُٹھاتے اور صرف نمازیں پڑھتے رہتے.تو کبھی کامیاب نہ ہوتے.کیونکہ اس وقت کامیابی کے لیے عمل صالح میں تھا کہ تلوار کا مقابلہ تلوار سے کریں.اور دشمن کو اس ذریعہ سے خائب و خاسر کر دیں.یا اب یہ زمانہ ہے کہ جس میں اسلام کے خلاف قسم قسم کے شکوک اور شبہات پیدا کئے جار ہے ہیں.طرح طرح کے اعتراضات ہو رہے ہیں.عجیب عجیب دھو کے دیتے جا رہے ہیں مگر اسکے مقابلہ کے لیے کوئی شخص روزے رکھنے شروع کر دے تو گو روزے رکھنا نیک عمل ہے مگر اس کامیابی کے حاصل کرنے کے لیے عمل صالح نہیں.اس صورت میں اس عمل کی صلاحیت باطل ہو جائیگی.یوں اگر کوئی روزے رکھتا ہے.تو عمل صالح کرتا ہے.اس سے اس کے نفس کی اصلاح ہوگی، لیکن مخالفین اسلام کے مقابلہ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے جو ذرائع مقرر ہیں.اس میں چونکہ یہ داخل نہیں.اس لیے اس طرح کامیابی حاصل نہ ہو گی تو صرف ایسا عمل جو اپنی ذات میں صالح ہو کچھ چیز نہیں.خالی نماز خالی روزے.خالی حج اپنی جگہ ضروری اور صالح عمل ہیں، لیکن اس وقت کے لحاظ سے کامیابی کے لیے جو خدا تعالیٰ نے ذرائع مقرر کئے ہوتے ہیں.ان پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت علاوہ اس کے کہ صحابہ کرام اپنے نفس کی اصلاح اور صفائی کے لیے عمل کرتے اور دُعا سے کام لیتے تھے.مخالفین کے مقابلہ میں کامیابی کے لیے تلواریں بھی اٹھاتے تھے.اسی طرح اس زمانہ میں بھی جن ذرائع سے کامیابی حاصل ہوسکتی ہے.ان پر عمل کرنا ضروری ہے نمازیں.روزے اور دُعائیں.اس کامیابی کے حاصل کرنے میں محمد اور معاون ضرور ہونگے.مگر اصل ذرائع پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے.میں اس وقت آپ لوگوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ بہت لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ابھی تک اس خدمت میں حصہ نہیں لیا.جو خدا کے مامور اور خلیفوں کے ہاتھ پر بیعت کر کے ان کے لیے له بخاری کتاب المغازی حالات غزوہ بدر مسلم بحوالہ سیرت خاتم النبیین حصہ دوم مد ۱۳
لازمی اور ضروری ہے.اس میں شک نہیں کہ بہت سے لوگوں نے احمدی ہو کر بڑی بڑی اصلاحیں کی ہیں پہلے وہ چور تھے.مرتشی تھے.جھوٹ بولتے تھے نمازیں نہیں پڑھتے تھے روزے نہیں رکھتے تھے.مج نہیں کرتے تھے.زکوۃ نہیں دیتے تھے اور اب شریعت کے ان حکموں پر عمل کرتے ہیں.مگر اس زمانہ میں جو عظیم الشان کام اسلام کی ترقی کا تھا.وہ نہیں کرتے.ایسے لوگوں کے نفس میں اصلاح اور ذات میں صفائی تو ضرور پیدا ہو گئی ہے.مگر وہ ان فاتحین میں شامل نہیں ہو سکتے جن کے سر پر قیامت کے دن اس بات کا سہرا ہوگا کہ اُنھوں نے دنیا میں شیطان کا مقابلہ کر کے فتح حاصل کی تھی.ایسے لوگ ان لوگوں کی مانند ہونگے جو فاتح فوج کے پیچھے چھوٹے موٹے کام کرنے والے ہوتے ہیں.اور وہ ان میں شامل نہیں ہونگے جن کے متعلق قیامت کے دن اگلی پچھلی نسلوں میں یہ اعلان کیا جائے گا کہ یہ ہیں وہ بہادر جنہوں نے شیطان کا مقابلہ کر کے اسے شکست فاش دی تھی اور اسلام کی صداقت کو دنیا پر ظاہر کیا تھا.یہ وہی لوگ ہونگے جوعمل صالح کرینگے اور ان ذرائع پر عمل پیرا ہونگے جو خدا نے اس زمانہ میں کامیابی کے لیے مقررہ فرماتے ہیں.- پس میں آپ لوگوں کو متوجہ کرتا ہوں کہ آپ غور کریں کہ جو کام ہم کرتے ہیں.وہ ان ذرائع کے مطابق ہے یا نہیں جو خدا نے ہماری کامیابی کے لیے مقرر کئے ہیں.اس کے لیے سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہئیے کہ ہمارا کام کیا ہے نفس کی اصلاح کے لیے ان احکام پر عمل کرنا ضروری ہے کہ جن سے اعلیٰ اخلاق پیدا ہوتے ہیں.لیکن میں اس وقت ان فرائض کا ذکر نہیں کرنا چاہتا ، جن کے بغیر کوئی مومن ہی نہیں ہو سکتا، بلکہ ان کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.جو مومنوں کے لیے ضروری ہیں.ان سے میرا سوال یہ ہے کہ جس فوج میں وہ داخل ہیں.اس کا کام کر رہے ہیں یا نہیں اور یہ تو میں بتا چکا ہوں کہ اس فوج کا کام شیطان کے حملے کا دفعیہ اور اسلام کا جھنڈا گاڑنا ہے.اس زمانہ میں چونکہ اسلام پر حملہ دلائل کے ساتھ ہو رہا ہے.اسلام میں نقص پیدا کئے جا رہے ہیں.اسلام پر اعتراض اور شکوک پیش ہو رہے ہیں.اس لیے اس وقت اس کا دفعیہ قلم اور زبان سے ہی ہو سکتا ہے جس کے لیے بعض باتیں ضروری ہیں.مثلاً جو لوگ فلم استعمال کرتے ہیں.ان کے لکھے ہوئے کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے روپیہ کی ضرورت ہے.اس لیے مال خرچ کرنا چاہتے پھر زبان اس وقت تک چلاتی نہیں جا سکتی.جب تک دشمن کے حالات سے آگا ہی نہ ہو.اس لیے ضروری ہے کہ دشمن کے اعتراضات سے واقفیت حاصل کی جائے اس کے بعد وقت خرچ کر کے قلم اور زبان سے خدمت اسلام ہوسکتی ہے.تو اس کام کے لیے مال قربان کرنے کی ضرورت ہے.وقت قربان
کرنے کی ضرورت ہے اور علم کے حصول کی ضرورت ہے.ابتلاوں میں ثابت قدم رہنا چاہیئے.اس لیے ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ جو لوگ خدا کی طرف لوگوں کو بلاتے اور گرا ہی سے نکال کر ہدایت کی طرف لانے کی کوشش کرتے ہیں ان کے ساتھ ابتلا بھی لگے ہوتے ہوتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ بتانا چاہتا ہے کہ چونکہ یہ میری باتیں لوگوں تک پہنچاتے ہیں.اس لیے ان پر کوئی کامیاب نہیں ہو سکتا تو ان پر خواہ اپنے نفس کے یا رشتہ داروں کے یا اور لوگوں کے ذریعہ ابتلا.آنے ضروری ہیں جن میں سے کچھ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں اور کچھ شیطان کی طرف سے.خدا تعالیٰ کی طرف سے تو اس لیے کہ تا دنیا کو دکھاتے کہ برگو مغلوب اور کمزور تھا، لیکن غالب اور طاقت در ہو گیا ہے اور شیطان کی طرف سے اس لیے کہ ان باتوں میں پڑ کر اپنے اصل مقصد کو چھوڑ دے.اس لیے مومنوں پر ابلا ضرور آتے ہیں، لیکن جو ان میں ثابت قدمی دکھاتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں.اس لیے فرمایا وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَمُوا بالصبر کہ جب ایمان ہوتا اورعمل صالح کرتے ہیں تو ایک دوسرے کو سکھاتے اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں.مومن پر جب ابتلا آتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ بات ہی گیا ہے میں خدا کے رسنہ میں مر بھی ود جاؤں تو کیا ہے.تو ہر ایک مومن کو یہ باتیں ذہن نشین کرنی ضروری ہیں.اور ان پر عمل کرنا فرض ہے.کیونکہ جب تک یہ نہ ہوں کامیابی نہیں حاصل ہو سکتی.پس تم لوگ ان کو یاد رکھو اور اپنے نفس کا مطالعہ کرو کہ اسمیں یہ پائی جاتی ہیں یا نہیں.کوئی شخص جو صرف چندہ دیتا ہے اور علم حاصل کرکے تبلیغ نہیں کرتا.فاتحین میں سے نہیں ہے.یا علم تو حاصل کرتا ہے، لیکن اس کے پھیلانے کے ذریعہ پر عمل نہیں کرتا وہ بھی فاتحین میں سے نہیں ہے.یا جو علم کے پھیلانے کے ذریعہ کو تو مہیا کرتا ہے، لیکن اپنے وقت کی قربانی نہیں کرتا.وہ بھی فاتحین میں شامل نہیں ہے.یا جو ان سب باتوں پر عمل کرتا ہے مگر کسی ابتلا.میں ثابت قدم نہیں رہتا.وہ بھی فاتحین میں شامل نہیں ہے.ہاں جس میں یہ ساری باتیں پائی جاتی ہیں کہ علم حاصل کرے اس کے آگے پہنچانے کا سامان ہم پہنچائے.وقت کی قربانی کرے.اس پر جوا تلامہ آئیں ان میں ثابت قدم رہے.وہ فاتحین میں شامل ہو گا.پس آپ لوگ یاد رکھیں کہ آپ کے ذمہ بہت بڑا کام ہے اور جن کے ذمہ اتنا بڑا کام ہو.ان کو بہت زیادہ فکر کرنی چاہیئے.خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو توفیق دے کہ ان عقاید پر قائم رہیں جو خدا تعالیٰ کے نزدیک صحیح اور درست ہیں.اور ان ذرائع پر عمل کرنے کی توفیق بخشے جو کامیابی کے لیے مقرر ہیں ؟" الفضل ۲۵ فروری شاشته )
۱۶۵ 31 فرموده ۲۱ فروری شاه بمقام لاہور حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : پیونکہ چند دن سے متواتر بولنے اور کئی اصحاب سے گفتگو کرنے کی وجہ سے حلق میں کسی قدار تکلیف ہو گئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ عورتوں تک آواز کا پہنچنا مشکل ہوگا.اس لیے ارادہ ہے کہ مختصر وعظ کے بعد نماز پڑھا دوں.اور اس کے بعد حافظ روشن علی صاحب حفظہ کریں گے.اسلام نے جہاں ہم پر بہت سے احسان کہتے ہیں اور اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور قریب حاصل ہو سکتا ہے.اس کے ذریعہ اللہ کے احسانوں اور فضلوں کو جذب کیا جا سکتا ہے.وہاں تمارے لیے اور شک کچھ ذمہ داریاں اور فرائض بھی مقرر کئے گئے ہیں اس میں کوئی تنگ نہیں کہ اسلام سے پہلے کے جس قدر مذاہب ہیں.ان میں کوئی مذہب اسلام کے برابر خو میاں نہیں رکھتا.اور کسی مذہب کے پیروں پر ایسے احسانات کرنے کے وعدے نہیں ہیں جیسے اسلام کے پیروں پر ، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جس قدر ذمہ داریاں مسلمانوں کی قرار دیتی ہیں دوسروں کی نہیں.یہ ٹھیک ہے کہ پہلے لوگوں کو ذرا ذرا سی باتوں کا ذمہ دار قرار دیاگیا تھا.مثلا فلاں قسم کے برتن ہوں.فلاں قسم کا لباس ہو، لیکن جس طرح اسلام میں ہر ایک بات ایک انتظام اور قاعدہ کے ماتحت اور خدا تعالیٰ کے لیے تیار رہنے کا سبق دیا گیا ہے اور کسی مذہب میں نہیں کوئی مذہب ایسا نہیں ہے جس نے اس طرح انتظام کے ساتھ عبادت کرنے کا حکم دیا ہو جس طرح مسلمانوں میں پانچ وقت نماز ہے.پھر کوئی مذہب نہیں جس میں اسلام کی طرح ہفتہ میں ایک دن ایسا مقررہ ہو جس میں جمع ہونے کیلئے خاص ہدایت ہو.اسی طرح یہی سلسلہ حج تک پہنچتا ہے اور ایک مومن کے لیے اپنی زندگی میں بہت سا وقت عبادت میں خرچ ہوتا ہے، لیکن اس تفصیل اور انتظام کے ساتھ کسی اور مذہب میں عبادت کے احکام نہیں.نہ روزے کے نہ حج کے اور مذکواۃ کے.صرف اسلام ہی ہے جس نے اس قسم کی پابندیاں اپنے پیروؤں پر عائد کی ہیں.اس تفصیل کے ساتھ پہلی کتابوں میں ذکر نہیں ہے.اور وہ باریک اخلاقی باتیں جنہیں اس وقت سمجھنے کے لیے انسان تیار نہ تھے بیان نہیں کیا گیا.بلکہ موٹی موٹی باتیں بتا دی گئیں.مثلاً اگر ایک وقت ایک نبی نے آ کر یہ کہا کہ سختی کا مقابلہ
سختی سے کر دو، تو دوسرے وقت دوسرے ہی ن اس قوم کو یہ کہاکہ ختی کا مقابلہ نرمی سے کرو مگر اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کو دیکھو ان پر کس قدر ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ جہاں سختی کے مقابلہ می سختی کا موقع ہو و بال سختی کرو اور جہاں نرمی کا موقع ہو وہاں نرمی کرو گویا ہر ایک مومن کا فرض ہے کہ وہ خود سوچے اور خود فیصلہ کرے کہ اس موقع پر مجھے کیا کرنا چاہتے.آیا سختی کا جواب سختی سے دینا چاہیئے.یا نرمی سے اور جیسا مناسب موقع ہو جواب دے تو جہاں مسلمانوں پر سپی قوموں کے مقابلہ میں انعام کی ترقی ہوئی ہے وہاں ذمہ داریاں بھی بڑھ گئی ہیں.اس لیے مومن کا فرض ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے.اور کسی قسم کا دھوکہ نہ کھاتے کیونکہ اگر اسے یہ بتایا گیا ہے کہ صراط الذین انعمت علیہم میں سے بنے دوسری طرف اسے یہ بھی کہدیا گیا ہے کہ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین میں سے نہ بنے اور خیر ہم ہوتے ہوئے شہر اہم نہ ہو جائے مگر بہت لوگ ہوتے ہیں جو اس بات کو نہیں سمجھتے اس کے لیے خاص کوخوش کرنا چاہیتے اور اس کے ساتھ دکھاؤں میں مشغول رہنا چاہیئے.کیونکہ خدا تعالیٰ کی مدد کے بغیر کبھی انسان کامیاب نہیں ہوسکتا.خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو اس کی توفیق دے اور ان فصلوں کا وارث بناتے جن کے و عدسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود کے ذریعہ آپ کو دیتے گئے ہیں ؟ ( الفضل یکم مارچ شانه )
146 32 ایام جلسہ میں احباب قادیان کے فرائض د فرموده ۲۸ فروری شاشته ) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت اب کے نہیں دکبر کے ایام میں جو ہمیشہ جلسہ کے لیے مقرر ہوتے ہے ہیں جلسہ کو ملتوی کر کے بعد کی کسی تاریخ پر اُٹھا رکھنا پڑا تھا.اب غور و فکر اور مشورہ کے بعد یہی مناسب سمجھا گیا کہ جلسہ مارچ کے دنوں میں ہو.کیونکہ اپریل کی نسبت زمیندار مارچ میں زیادہ فارغ ہوتے ہی چونکہ اس سالانہ اجتماع میں چاروں طرف سے لوگ آتے ہیں اور خدا کے فضل سے اس کثرت سے آتے ہیں کہ بیان والوں کو انتظام میں مشکل ہوتی ہے.اس لیے میں اپنے سب احباب کو متوجہ کرتا ہوں کہ انتظام کے لیے صرف وہی لوگ کافی نہیں جن کے سپرد دوران سال میں یہ کام ہوتا ہے اور نہ صرف مدرسوں کے طالبعلم کافی ہوتے ہیں.گو جلسہ کے ایام میں زیادہ تر کام کا بار دونوں مدرسوں پر ہی پڑتا ہے یعنی دونوں مدرسوں کے طالبعلم اور مدرس کام کرتے ہیں.مگر ان کے سوا دوسرے لوگوں کے سپر د بھی کام ہوتا ہے.میرے نزدیک سوائے چند دوکانداروں کے جن کا یہ وقت ہوتا ہے کہ وہ کچھ خرید وفروخت کریں وہ معذور ہیں.جہاں تک ہوسکے دوسرے تمام احباب کا فرض ہے کہ وہ منتظموں کا ہاتھ بٹائیں.تاکہ باہر سے آنے والوں کو کسی طرح کی تکلیف نہ ہو.ہر شخص کو کبھی نہ کبھی مان بننا پڑتا ہے اور وہ جان سکتا ہے کہ سفر میں کس قدر تکلیفیں ہوتی ہیں.سفر کا صحت پر بہت اثر پڑتا ہے کیونکہ صحت کے قیام کیلئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے.ان کے میتر آنے میں تکلیف اٹھانی پڑتی ہے.کھانا اپنے ہاتھ میں نہیں ہوتا کہ جو صحت کے مناسب غذا ہو وہ کھائیں.پھر اکیلے دو کیلے میں ایسی غذا کا بھی انتظام ہو سکتا ہے مثلاً کوئی شخص کسی کے ہاں جاتا ہے تو وہ اس کی خاطر کئی قسم کے کھانے مہیا کر دیتا ہے، لیکن ان اجتماعوں میں کئی اقسام کا کھانا نہیں مل سکتا.ایک ہی قسم کا کھانا ہوتا ہے کیسی وقت وال کسی وقت شوریا.
IMA پس ایسے موقعوں پر مناسب چیزیں نہیں مل سکتیں ، نہ پورے طور پر ایسے مکانات مل سکتے ہیں جو کانی آرام دہ ہوں.نہ چار پائیوں کا پورا انتظام ہوتا ہے.زمین پر ہی لیٹنا پڑتا ہے.پھر سفر میں جو بستر ہمراہ ہوتا ہے وہ بھی کافی نہیں ہوتا پس ان وقتوں کی وجہ سے ایک قسم کی کمزوری انسان میں پیدا ہو جاتی ہے اور وہ چڑ چڑا ہوجاتا ہے.یہ درست بات ہے کہ انسان میں جتنی طاقت ہوگی اتنا ہی وہ حلیم الطبع ہو گا، لیکن جیتنا کمزور ہوگا.اتنا ہی چڑ چڑا ہو گا.تو سفر میں کمزور صحت والوں کے لیے بہت تکلیف ہوتی ہے غرضان تمام حالتوں میں مہمانوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے اور میزبانوں کے لیے بھی بڑے اجتماعوں میں مشکل ہوتی ہے.ہمارے سکولوں کے بیچے شوق رکھتے ہیں کہ ان ایام میں مہمانوں کی خدمت کریں.اور وہ خوشی سے کرتے ہیں لیکن چونکہ ان کو تجربہ نہیں ہوتا.اس لیے وہ مہمانوں کی ضرور توں کو بھی بعض اوقات پوری طرح نہیں سمجھ سکتے.اس لیے جو لوگ تجربہ کار ہیں.ضرورت ہے کہ وہ ان بچوں کے نگران مقرر کئے جائیں.پس جو لوگ اس کام کو کر سکتے ہیں.جہاں تک ہو سکے وہ مہمانوں کی آسائش میں ہاتھ بٹائیں، لیکن یہ ابھی سے ہونا ہیئے تاکہ افسر اُن لوگوں کے متعلق کام تجویز کر سکیں.اگر وقت پر کہا جائیگا تو وہ ان کے لیے کام نہیں تجویز کر سکیں گے.کیونکہ کسی کے لیے مناسب کام تجویز کرنا بھی بڑے غور و فکر کا کام ہوتا ہے پس جلدی اپنی خدمات کو پیش کر دینا چاہیئے.تاکہ ان کو وہ کام سپرد کئے جائیں چین کے وہ اہل ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مہمان کی عزت و اکرام ایمان میں داخل ہئے ہیں چاہتے کہ احباب اپنے مہمانوں کے آرام و آسائش کے سامان جہاں تک ان سے ہو سکے مہیا کر کے اپنے ایمانوں میں زیادتی کریں.خدا تعالیٰ آپ کو توفیق دے.آمین + الفضل ه ر مار چ ناولته ) بخاری کتاب الادب باب اکرام الضيف
33 انعام الہی کے دروازے بند نہ کرو ) فرموده ۷ مارچ ۱۹۱۹ حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : ہر ایک مسلمان جو عاقل و بالغ ہو اس پر خدا تعالی کی طرف ے پانچ نمازیں فرض کی گئی ہیں اور خدا کے رسول کی سنت اور اس کی ہدایت کی اتباع میں ان پانچ نمازوں میں کچھ اور نوافل بھی ہیں جو سنتیں کہلاتی ہیں ان نوافل مسنونہ کے سوا مومن شوق سے کچھ اور بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حاصل کرنے کے لیے پڑھتا ہے جو عام طور پر نوافل کہلاتے ہیں اور خاص خاص اوقات کے لحاظ سے تجد اشراق ضحی کہلاتے ہیں ان تمام فرائض میں واجبات میں سنن ہیں.نوافل میں ہر ایک رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھی جاتی ہے جس میں انسان اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہتا ہے اھدنا الصراط المستقیم کہ اے میرے رب مجھ کو سیدھے رستے پر چلا.یہ دعا ہے جو کثرت سے ایک مسلمان مانگتا ہے اور ایک دو نہیں دو دفعہ نہیں تین دفعہ نہیں چار دفعہ نہیں پانچ دفعہ نہیں چھ دفعہ نہیں.سات دفعہ نہیں آٹھ دفعہ نہیں نو دن نہیں بلکہ قریباً پچاس دفعہ روزانہ مانگتا ہے.جو دعا ایک دفعہ مانگی جائے وہ اثر رکھتی ہے، لیکن جو دعا اس کثرت سے مانگی جاتی ہے اس کا اثر بہت ہی ہونا چاہیئے.گئی انسان ایسے ہوتے ہیں کہ جس رستہ پر وہ ایک دفعہ چلیں وہ ان کو فراموش نہیں ہوتا، لیکن ایسے لوگ بھی بہت ہوتے ہیں.جو ایک رستہ پر دو تین دفعہ چلیں تو ان کو وہ نہیں بھولتا.مگر جو لوگ ایک دن میں ایک رستہ پر پچاس دفعہ کے قریب چلیں وہ تو اس رستہ کو کسی طرح بھی نہیں بھول سکتے.کوئی شخص نہیں ہوتا جو اپنے گھر کا رستہ بھول جاتے کیونکہ گھر مں کئی دفعہ اس کو آنا پڑتا ہے.بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو اپنے گھر میں ایک آدھ دفعہ ہی آنا پڑتا ہے.مثلاً صبح گئے شام کو آگئے اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ دنوں گھر سے نہیں نکلتے.اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو دو چار دفعہ آتے جاتے ہیں.اور اگر کوئی زیادہ سے زیادہ گھر میں آنے جانے والوں پر غور کر گیا تو اس کو معلوم
ہوگا کہ پندرہ بیس دفعہ کسی غیر معمولی وجہ سے گھر میں آنا جانا ہوتو ہو ورنہ عام طور پر دوتین دفعہ سے زیادہ نہیں لوگ آتے جاتے اور دس پندرہ بار سے کسی صورت میں بھی زیادہ نہیںاور بعض لوگ کئی کئی دن ناغہ کرتے ہیں.باوجود اس کے پھر بھی کوئی اپنے گھر کا رستہ کبھی نہیں بھولتا.جس رستہ پر روزانہ پچاس دفعہ گزرنا پڑے اُس کو اگر انسان بھولے تو اس کا یہی مطلب سمجھا جائیگا کہ وہ سوتے میں گزرا کرتا تھا.بعض لوگوں کو مرض ہوتا ہے کہ وہ سوتے سوتے اپنی چارپائی پر سے اُٹھ کر گھر سے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور بعض اوقات نہایت خطرناک مقام پر پہنچ جاتے ہیں.جہاں سے اگر گھر والوں کو پتہ لگ جائے تو پکڑ لاتے ہیں، لیکن جب صبح کو بیدار ہونے پر انھیں بتایا جائے کہ تم اس طرح اُٹھ کر چلے گئے تھے اور وہاں پہنچ گئے تھے تو وہ تعجب ہو کر یہ پوچھتے ہیں کہ اچھا یہ بات ہے.اسی طرح بعض بچے سوتے سوتے چیخ مار کر اُٹھ بیٹھتے ہیں.پھر ان کو لٹا دیتے ہیں اور وہ بیٹتے ہی خراٹے مارتے سو جاتے ہیں ہیں.جو انسان سونے کی حالت میں کسی رستہ پر سے گزرے وہ اس کو یاد نہیں رہتا، لیکن جو شخص جاگنے کی سکتا حالت میں کسی رستہ پر چلے وہ اس کو کسی طرح بھی نہیں بھولنا.خواہ ایک دفعہ گزرے یا پچاس دفعہ.پس اس طرح ایک مسلمان سورہ فاتحہ کی دعا اهدنا الصراط المستقيم روزانہ پچاس دفعه کرتا ہے.قانونِ قدرت کے ماتحت ایک جاگتا ہوا انسان کسی طرح اس کو نہیں بھول سکتا.کیونکہ اگر ایک انسان کوئی کام روزانہ چار پانچ دفعہ کرے تو وہ اس کے خیال میں ہر وقت رہے گا، لیکن جو کام پچاس دفعہ کیا جائے.وہ کبھی بھول نہیں سکتا.اگر اس کو جاگنے کی حالت میں کیا جائے.مثلاً ایک شخص دو دفعہ دن میں کھاتا ہے تو یہ کھانا اس کے ذہن سے کسی طرح فراموش نہیں ہو یا مثلاً ایک شخص گورنمنٹ میں درخواست کرتا ہے کہ مجھ کو ملازمت دی جائے.اور جب اس کی درخواست منظور کی جائے تو کبھی نہیں کہے گا کہ میں نے درخواست نہیں کی تھی.آج کل مربعے فروخت ہوتے ہیں.اگر کوئی زمیندار درخواست کرے اور اس کی درخواست منظور ہو جائے تو کبھی وہ زمیندار نہیں کیا کہ میں نے درخواست نہیں کی تھی.پس اگر لوگ اپنی ایک دفعہ کی درخواست کو نہیں بھولتے تو جب پچاس دفعہ خدا کے حضور درخواست کرتے ہیں اور پھر اس کی قبولیت کے آثار ظاہر ہوتے ہیں توکیوں انکار کمر دیتے ہیں.وہ دعا کرتے ہیں اور پہچاس دفعہ دعا کرتے ہیں کہ خدایا ہمیں ہدایت دے اور خدا تعالیٰ ہزاروں دفعہ ان کے لیے ہدایت کے سامان مہیا کرتا ہے.وہ مانگ کر مسجد سے نکل رہے ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے ہدایت دینے کے عمل ان کے لیے جاری ہو جاتے ہیں ، لیکن وہ ان کو قبول کرنے کی بجائے انکار کر دیتے ہیں کہ ہم نے تو ہدایت طلب ہی نہ کی تھی.گویا کہ نعوذ باللہ انھوں نے خدا تعالیٰ کو بھی ایک بچہ سمجھ لیا ہے
جیسا کہ عام طور پر لوگ بچوں سے کیا کرتے ہیں کہ بچہ کو ہاتھ بڑھا کر لینا چاہتے ہیں لیکن جب وہ ہاتھ پھیلا کر آنا چاہتا ہے تو اپنے ہاتھ پرے ہٹا لیتے ہیں.یا اس کی ماں کو دینا چاہتے ہیں.جب وہ لینے کے لیے بڑھتی ہے تو اس کو نہیں دیتے اور خوش ہوتے ہیں.اسی طرح لوگوں نے خداتعالی کو سمجھ لیا ہے کہ بار بار اس سے مانگتے ہیں جب وہ دیتا ہے تو انکار کر دیتے ہیں.کہ ہم نے تو نہیں مانگا.سوال ہوسکتا ہے کہ ہم کیسے یقین کرسکتے ہیںکہ جو کچھ میں دیا جاتا ہے.وہ ہماری دعا کے نتیجہ میںہوتا ہے اس کے معلوم کرنیکا آسان اور نہایت سہل طریق یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی کے دروازے پر جاتا ہے اور دروازے کو کھٹکھٹاتا ہے تو کیا دروازے کے کھلنے کا انتظار کرتا ہے یا نہیں.اسی طرح جب وہ اپنے کسی دوست کو خط بھیجتا ہے یا سرکار میں کوئی درخواست دیتا ہے، تو ہر ڈاک میں اس کے جواب کا انتظار کرتا اور ڈا کیسے سے بار بار پوچھتا ہے یا نہیں.اسی طرح جب وہ پانچ وقت میں متعدد بار خدا تعالیٰ کے حضور در خواست پیش کرتا ہے تو اس کو اپنے ہر ایک کام میں خواہ وہ تجارت سے تعلق ہو یا زراعت سے یا کسی اور فن یا پیشہ سے خیال کرنا چاہیئے کہ کیا اس کام کے تعلق میری درخواست کا جواب آیا ہے.یا نہیں.پس جب تمہارے سامنے کوئی کام ہو تو غور کرو کہ کیا اس میں ہماری درخواست اهدنا الصراط المستقیم کا جواب ہے یا نہیں لیکن تعجب ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ سے درخواست کرتے ہیں اور بار بار درخواست کرتے ہیں مگر اس کو یاد نہیں رکھتے.بلکہ بھلا دیتے ہیں کیونکہ حسب روزانہ ان کی درخواست قبول کی جاتی ہے تو اس سے انکار کر دیتے ہیں کہ ہم نے تو درخواست ہی نہیں کی تھی.جیسا کہ یں نے بتایا کہ ہیلوگ خدا تعالے کے ساتھ بھی بچوں والا معامہ کرتے ہیں مانگتے ہیں جب وہ دیتا ہے تو مکر جاتے ہیں ہیں جو لوگ خدا سے یہ معاملہ کرتے ہیں وہ نہایت خطرناک حالت میں ہیں کیونکہ خدا سے ہنسی کرنا انسان کو ہلاک کر دیتا ہے اور تمام نعمتوں اور برکتوں سے محروم کر دیتا ہے.چاہیئے کہ جب ایک انسان دعا کرتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کو قبول کرے اور ان آسمانی برکات کو رد کرنے کی کوشش نہ کرے.بعض لوگ کہیں گے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے اور یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک انسان خدا تعالیٰ کے فضلوں کو رد کرے مگر یہ واقعہ ہے اور ایسا ہوتا ہے اور روزانہ ہوتا ہے کہ انسان لہو و حب میں پڑ کر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو رد کر دیتے ہیں اور ان کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ ہم خدا کی کسی نعمت کو رد کر رہے ہیں.لعب حد غور کرو پہلی قوموں نے خدا کی نعمتوں کو رد کیا اور وہ ایسی شان و شوکت والی تو میں تھیں جس کی کچھ نہیں مگر انھوں نے خدا کے فضلوں کے دروازوں کو اپنے اوپر بند کر لیا اسی طرح تم بھی بند کر سکتے توب
انھوں نے خدا سے استغناء کیا اور خدا کی نعمتوں کو حقیر جانا تو خدا نے بھی ان سے نظر رحمت کو مٹا لیا.کیونکہ خداوند تعالیٰ غیور ہے.یہ ہو نہیں سکتا کہ لوگ اس کے انعام کی ناقدری کرتے رہیں اور وہ پھر بھی انعم کرنا چاہیے پس وہ کبھی پسند نہیں کرتا کہ اس کی نعمتوں کی ناقدری کرنے والے اور اس کے فضلوں کے دروازوں کو بند کرنے والے پھر بھی اس کے انعامات سے حصہ پائیں پی پہلوں نے تلخ تجربہ کیا ہے اور جنہوں نے خدا کی نعمتوں کو رد کیا وہ بھی رد کر دیئے گئے.میں تمہیں ہوشیار کرتا ہوں کہ خدا کی نعمتوں کی قدر کرو.خدا کے فضلوں کے دروازوں کو اپنے پر بند کر و مت سمجھو کہ تم میں کوئی نہیں جوخدا کی نعمتوں کی ناقدری کرتا ہو تم میں بعض ہیں جو خدا کی نعمتوں اور اس کے فضلوں کی قدر نہیں کرتے.جو ایسا کرتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ اگر وہ باز نہیں آئیں گے تو ان پر ہمیشہ ہمیش کے لیے خدا کے فضلوں کے دروازے بند کر دیتے جائیں گے.افسوس ان پر جو خدا کے فضلوں کے ان دروازوں کو بند کریں جو خدا کھولنا چاہتا ہے.اللہ تعالیٰ تم پر اور مجھ پر رحیم فرماتے اور ہمیں ان لوگوں سے نہ بناتے جو اس کی نعمتوں اور فضلوں کو روکر کے ہمیشہ کے عذاب میں پڑگئے بلکہ اپنے فضلوں کے جذب کرنے کی توفیق بخشے.امیر نے " و الفضل ۲۹ - مارچ - -1414
(4) 34 سنوا در سنگر قول احسن مل کرو ) فرموده ۱۳ مارچ شاه مسجد نور ) والزمر: ١٩٤١٨) حضور نے تشد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت فرمانے کے بعد مندرجہ ذیل آیات پڑھیں اور فرمایا: والذين اجتنبوا الطاغوت ان يعبدوها وانا لبوا إلى الله لهم البشرى فيشر عباد الذين يستمعون القول فيتبعون أحسنه اوليك الذين هداهم الله و اوليك هم اولوا الالباب.پہلے اس کے کہ میں اس آیت کے متعلق جو ابھی میں نے تلاوت کی ہے.آپ کے سامنے کچھ بیان کروں.اتنا کہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ بوجہ ایک بہت ہی اور طویل بیماری کے جس کا سلسلہ کلی طور پر اب تک بھی منقطع نہیں ہوا.میں ان احباب سے جو اس تقریب پر بیرو نجات سے تشریف لاتے ہیں شاید ان کے ارادے کے مطابق ملاقات نہ کر سکوں گو جہاں تک اللہ تعالیٰ نے چاہا میں کوشش کرونگا کہ ان احباب سے ملاقات کروں.چونکہ میری صحت بہت کمزور ہے اور زیادہ انبوہ سے طبیعت یکلخت گھبرا جاتی ہے.اس لیے میں نے انتظام کیا ہے کہ ترتیب سے تھوڑے تھوڑے احباب ایک انتظام کے ماتحت مجھ سے ملاقات کریں پیس احباب کو ان منتظمین سے ناراض نہیں ہونا چاہیئے.جو ایک انتظام کے ماتحت ملاقات کروانے کے لیے مقرر کئے جائیں.پچھلے جلسوں میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ بیعت کرتے وقت اکثر دوست میری پیٹھ پر ہاتھ رکھ دیتے تھے لیکن اب اگر میری پیٹھ کو ہاتھ لگ جائے تومیرے دل میں تکلیف پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے.اس لیے اگر احباب اس بات کو مد نظر رکھیں تو یں اللہ تعالٰی کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ ان سے ملاقات بھی ہو جائے گی.اور مجھ کو تکلیف بھی نہیں ہوگی.اس کے بعد میں ان تمام دوستوں کو جو باہر سے قادیان میں تشریف لاتے ہیں توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے و الذين اجتنبوا الطاغوت ان يعبدوها و انا بوا إلى الله لهم
16M البشری - وہ لوگ جو ایسی خبیث ہستیوں سے جن میں سرکشی کا مادہ ہو اجتناب کریں.یعنی جو ان کی طرف متوجہ نہ ہوں.بنکہ ان کو چھوڑ کر خدا کی طرف توجہ کریں اور اسی کی طرف جھک جائیں.ایسے لوگوں کے لیے بشارت ہے.بشارت کے معنی ایسی عظیم الشان خبر کے ہیں میں سے چہرہ کا رنگ متغیر ہو جائے خواہ وہ اچھی ہو یا بری - اگر بری ہو تو چہرہ کا رنگ اڑ جاتا ہے، جیسا کہ کوئی حادثہ ہو کسی کے مال پر جان پر عزت پر آفت آجاتے.یا لڑائی فتنہ کی خبر ہو اس سے اس کا رنگ اُڑ جاتا ہے.ایسی خبر کو بھی بشارت کہتے ہیں.صرف قرائن سے پتہ لگ سکتا ہے کہ اب یہ لفظ اچھے معنوں میں استعمال ہوا ہے یا بُرے معنوں میں.اور اسی طرح اچھے معنوں میں اگر استعمال ہو تو اس وقت اس کا یہ اثر ہوتا ہے کہ چہرہ پر خون پیدا ہو جاتا ہے.چنانچہ حسین بی شخص کو کوئی خوشی کی خبرمعلوم ہوا کا چہرہ تمتما اٹھتا ہے اور سرخ ہو جاتا ہے توفرمایا کہ جولوگ ایسی خبیث روحوں کی پیروی نہیں کرتے اور اللہ کی طرف جھک جاتے ہیں نعم البشرى ان کے لیے بشارت ہے یعنی ان کے لیے خوشخبری ہے.ان کے لیے یہ ایسی خبر ہے کہ خوشی سے ان کے چرے چمک اُٹھنے اور سُرخ ہو جانے چاہئیں.پھر فرمایا فبشر عباد بشارت دے میرے ان بندوں کو الذين يستمعون القول جو بات کو سنتے ہیں خواہ وہ بات اچھی ہو یا بری اس کو سُن لیتے ہیں لیکن ہر ایک بات کے پیچھے نہیں لگ جاتے بلكه فيتبعون احسنه اتباع کرتے ہیں اچھی بات کی.وہی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی ہے اور وہی ہیں جو عقلمند ہیں اور دانا کھلانے کے مستحق ہیں.اس سے بتا یا کہ اگر خوشخبری سنا چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ اپنے آپ کو ایسا بنا کہ يستمعون القول باتوں کو سو اور جو ان میں سے بہتر ہوں ان کو قبول کرو.انسان کو روزانہ کچھ باتیں بیوی سے سننا پڑتی ہیں کچھ بچوں سے کچھ دوستوں سے کچھ دشمنوں سے.کچھ حاکموں سے کچھ اہل معاملہ سے غرض بے شمار باتیں سننا پڑتی ہیں.مگر یہ نہیں کہ ہر ایک بات جو کان میں پڑتی ہے.اسی.کی پیروی کرتا ہے.نہیں ملکہ مومن انسان ان میں سے جو باتیں خدا کے رستہ سے روکنے والی اور اس کی رضا کے خلاف ہوتی ہیں.ان کو رد کر دیتا ہے اور جو الہی منشاء کے مطابق اور رضامندی کا خوب ہوتی ہیں.ان کو اختیا ر کرلیتا ہے.آپ لوگ یہاں بیرو نجات سے اپنی اپنی جماعتوں کے قائم مقام ہو کر آتے ہیں اور آپ کے آنے کی غرض یہ ہے کہ امور دینیہ کے متعلق ہدایات نہیں.اور اپنی ان ذمہ داریوں کو سوچیں جو آپ پر
160 دن بدن بڑھ رہی ہیں.آپ میں سے بہت سے ایسے ہیں جو سال میں ایک ہی دفعہ آتے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جو دو تین بار آتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو اس سے بھی زیادہ دفعہ آتے ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جو کئی سال کے بعد آتے ہیں.اب آپ لوگ جو دُور دُور سے اپنے وقتوں کو خرچ کر کے اپنے مالوں کو خرچ کر کے اپنے کاموں کو چھوڑ کر آتے ہیں.تو آپ کا فرض ہے کہ اس وقت کو صحیح طور پر خرچ کریں اور یہاں آنے کی جو غرض ہے اس کو پورا کریں.میں اس وقت آپ لوگوں کو قرآن کریم کی طرف توجہ دلاتا ہوں.وہ بتاتا ہے کہ منافقوں کا قاعدہ ہے کر مجلس میں آتے ہیں مگر جو کچھ وہاں ہو اس پر توجہ نہیں کرتے ہیں آپ کا فرض ہے کہ جب آپ آتے ہیں تو توجہ کریں اور غور سے کام میں اور جو کچھ آپ کو منایا جاتا ہے.اس کو سنیں جب آپ آتے ہی یہاں اس لیے ہیں تو کیوں نہ اپنے وقت کو اسی میں صرف کریں.بعض لوگوں کا قاعدہ ہے کہ وہ مجالس میں تو بیٹھتے ہیں مگر ان کی خطیب کی طرف توجہ نہیں ہوتی وہ نہیں توجہ کرتے کہ خطیب کیا بیان کر رہا ہے بعض ایسے ہوتے ہیں کہ خطیب بیان کر رہا ہوتا ہے.اور وہ آرام سے سوتے رہتے ہیں بعض لوگوں کو سونے کا مرض ہوتا ہے.مگر وہ مجبور ہوتے ہیں.ایک دوست نے سُنایا کہ میں ایک جگہ گیا.اور وہاں تقریر قرار پاتی میں تقریر کرنے لگا تو اثناء بیان میں ہی صد رجلہ سمیت سب کے سب سو گئے.جب میں تقریر ختم کر چکا تو کہا لو اب جاگ اُٹھو، میں نے جو کچھ کہنا تھا ئیں کہ چکا ہوں.جب وہ بیدار ہوئے تو معذرت کرنے لگے.خیر تو بعض لوگ مجلس وعظ میں آتے ہیں اور سو جاتے ہیں یا ان کی توجہ خطیب کے محض الفاظ یا اس کی حرکات سکنات پر ہوتی ہے اور جو کچھ وہ بیان کرتا ہے اس سے وہ کورے کے گورے ہی جاتے ہیں.اس لیے ان کو کچھ بھی فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا.کیونکہ اگر ایک لعرض شخص طبیب کے پاس جاتے اور وہ اس کو کوئی دوائی دے، لیکن مریض بجائے دوائی کو پینے کے سر پر انڈیل سے تو اس کو کیا فائدہ ہوگا.کچھ بھی نہیں پس جو لوگ اس طرح اپنے وقت کو ضائع کرتے ہیں.وہ وقت کو بھی کھوتے ہیں.مال کو بھی تباہ کرتے ہیں.اور جو کچھ فائدہ نہیں اُٹھاتے ان کے لیے پیشل صادق آتی ہے کیے نقصان مایہ وگر شماتت ہمسایہ کیونکہ انھوں نے کچھ فائدہ بھی نہ اُٹھایا اور مال و وقت صرف کر کے جیسے آتے تھے ویسے ہی چلے گئے.ہر زمانہ میں ایسے لوگ ہوتے ہیں حضرت شاہ عبدالعزیز کے پاس ایک شخص آیا کہ وعظ میں تو لوگ سو جاتے ہیں اور کنچنی کے ناچ میں لوگ خوب سنتے ہیں.اس کی کیا وجہ ہے چونکہ اس شخص نے اس
144 طرح دین کی باتوں پر ہنسی کی تھی اس لیے حضرت شاہ صاحب نے اسے مناسب موقعہ پر یہ جواب دیا کہ کیا کوئی شخص پاخانہ میں بھی سوتا ہے.ہوتا وہیں ہے جہاں روح کو آرام پہنچتا ہو.یہ جواب موقعہ کے لحاظ سے درست تھا لیکن حق یہی ہے کہ وعظ میں وہی لوگ سوتے ہیں جن پر غفلت طاری ہوتی ہے.اور جن کی توجہ وعظ کی طرف نہیں ہوتی.دور مشہور ہے کہ باوا نانک صاحب ایک ملا کے پیچھے نماز پڑھنے کھڑے ہوتے کہ اتنے میں باو اصاحب نے نبیت توڑ دی اور الگ گوشتہ میں جا کر نماز پڑھ لی جب جماعت ہو چکی تو ملا صاحب جاکر ناراض ہوتے کہ تم نے ہمارے پیچھے نماز نہ پڑھی، باو اصاحب نے کہا کہ آپ نماز میں کبھی کہیں جاتے تھے کبھی کہیں کبھی آپ پشاور میں جاتے تھے کبھی کاب میں کبھی آپ دتی میں جاتے تھے کبھی اور جگہ چونکہ جھ میں اتنی طاقت سفر نہ تھی اس لیے میں نے نیت توڑ کر الگ نماز پڑھ لی.تو ملا صاحب اگر چہ نماز پڑھا تھے مگر ان کے خیالات کہیں کہیں بھٹک رہے تھے.اس لیے ان کی نماز حضور قلب سے نہ تھی.بعض لوگ مجلس وعظ میں بیٹھے ہوتے دُور دُور کی خبریں لاتے ہیں لیکن جو کچھ ان کے سامنے ہور ہا ہوتا ہے اس سے غافل ہوتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ سنتے بھی ہیں مگر سمجھنے اور فائدہ اُٹھانے کے لیے نہیں.بلکہ اس لیے کہ دیکھیں خطیب کہاں کہاں غلطی کرتا ہے.ان کی نظر الفاظ کی غلطی اور نظم پر ہوتی ہے حرکات پر ہوتی ہے مطالب اور معانی اور مسائل ان کو مدنظر نہیں ہوتے.ایک دفعہ ایک شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس لکھنو سے آیا اور حضور ے گفتگو کرتا رہا.آخر میں کہنے لگا کہ آپ کیا مسیح موعود ہونگے.آپ قرآن کا قات تو ادا نہیں کر سکتے.حضرت مولوی عبد اللطیف صاحب (شہید) حضور کے پاؤں دبا رہے تھے.انھوں نے اس شخص کے منہ پر تھیٹر مارنا چاہا مگر حضرت اقدس نے ہا تھ پکڑ لیا.تو بعض لوگ وعظ سنتے ہیں، مگر اس نیت سے کہ دیکھیں واعظ کہاں کہاں غلطی کرتا ہے.محاسن پر ان کی نظر جاتی ہی نہیں.پس مومن کا یہ فرض ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی بات کو بھی تو جہ سے سنے اور جو قابل عمل ہوا اور اعلی درجہ کی ہو.اس پرعمل کرے.آپ لوگ چاہتے تو ہیں کہ پکے مومن ہو جائیں.خدا تعالیٰ کے عاشق بن جائیں.مگر پھلانگ کر اس منزل کو طے کرنا چاہتے ہیں.حالانکہ زمینہ زمینی ترقی حاصل ہوسکتی ہے.یہ نہیں کہ ہم نے ایک بات پکڑ لی ہے.وہ ہماری نجات کیلئے کافی ہے.عاشق کا تو قاعدہ ہے کہ وہ دوست کے رستہ میں جسقدر وقتی مصیبتیں آفتیں آتی ہیں.ان کو نہایت شوق و ذوق سے جھیلتا ہے.جو اللہ کی طرف سے
فرائض عائد ہوتے ہیں.ان پر عمل کرتا ہے، بلکہ چاہتا ہے کہ خدا کے لیے اگر اور بھی کچھ کام ہوں تو ان کو بھی بجا لاؤں.کوئی آدمی صرف اس پر خوش نہیں ہوگا کہ وہ محض قید سے آزاد کر دیا جائے.بلکہ انعام یافتوں میں سے ہونا پسند کریگا.یہ کبھی نہیں ہوگا کہ اگر کسی دانا انسان کو انعام دیا جائے تو وہ کہے کہ مجھے مہربانی کر کے یہ نہ دیجئے بلکہ وہ زیادہ سے زیادہ لینے کی کوشش کریگا.پس ایک وصل الی اللہ کے لیے تو جس قدر اس سے ہو سکے گا کوشش کریگا.اور صرف فرائض کے ادا کرنے پر ہی اکتفا نہیں کریگا بہاری شریعیت لعنت نہیں بلکہ رحمت ہے جو اس پر عمل کریگا وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں سے حصہ پائیں گا.پس جو یہاں آتے ہیں.اگر وہ اجتماع نہیں کرتے ہوجہ ادھر ادھر پھرتے رہتے ہیں تو وہ اپنے اوقات کو ضائع کرتے ہیں.ان کو یا در رکھنا چاہتے کہ یہ میلہ نہیں ہے.یہ جلسہ خدا تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت حضرت مسیح موعود کے ذریعہ اس لیے قائم کیا گیا ہے کہ وہ صدیوں کے زنگ جو انسانی قلوب پر چھائے ہوئے تھے دھوئے جائیں.اور وہ جو صدیوں سے تاریکیوں اور ظلمتوں میں پڑے تھے ان کو روشنی کے بلند مینار پر پہنچا دیا جائے ہیں اس مقام پر لوگوں کو خدا تعالیٰ اس لیے جمع کرنا چاہتا ہے کہ تا ان کو پاک کرے جو شخص ان اغراض کو پورا نہیں کرتا.اس کا ایمان خطرہ میں ہے.آپ لوگوں کے پاس تھوڑا وقت ہے.نہیں چاہیئے کہ اس کو آپ اچھی طرح صرف کریں اور اس سے بہت زیادہ فائدہ اُٹھائیں.اور جو باتیں آپ کو بتائی جاتیں ان پر عمل کریں.چونکہ ہمارا تمام دنیا سے مقابلہ ہےاور ہماری تعداد وطاقت ان کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں.اس لیے نہیں بہت ہی کوشش کی ضرورت ہے.ر وقت چوکس و ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے.اگر اس وقت ہم سستی کریں اور شہستی سے کام نہ ہیں.وران ہتھیاروں سے کام نہیں.یا ان کو استعمال کرنا نہ سیکھیں.جو آسمان سے ہمارے لیے نازل کئے گتے ہیں.تو طاقتور دشمن کا کیا مقابلہ کر سکیں گے پی آپ لوگوں کا فرض ہے کہ آپ ان ہتھیاروں کا استعمال سیکھیں.تاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جلال ظاہر ہو در آپ کے ذریعہ وہ نور دنیا میں پھیلے، جو دراپ مدت سے دُنیا میں گم ہو چکا تھا.اگر آپ لوگ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے وارث ہو جائیں گے.اللہ کی رحمت ہو اس پر جو بات کو سُنے اور سمجھے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے اور اللہ کی برکتیں ہوں ان پر جو دین کے لیے کوشش کریں.الفضل تيم ايرول اولته )
35 مصائب بیچنے کا طریق د فرموده ۲۱ار مارچ - -1919 حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ اور سورۃ فلق کی تلاوت کے بعد فرمایا :- ہر ایک ملک میں خواہ وہ تعلیمیافتہ لوگوں کا ہو یا جہاد کا.اور اس میں کسی مذہب کے لوگ آباد ہوں عیسائی ہوں.یا یہودی مسلمان ہوں یا سکھ، زرتشی ہوں یا اور کسی مذہب کے یہ رواج چلا آتا ہے.یا یوں کہو کہ ان میں یہ خواہش چلی آتی ہے کہ ان لوگوں کو ایسے ذرائع مل جائیں جن سے وہ بغیرکسی ظاہری کوشش کے مصائب سے بچ جائیں.پرانے زمانہ میں جادو کا رواج تھا آج تک اس کا اثر چلا آتا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ آج جبکہ تعلیم اس قدر پھیل گئی ہے اور لوگ عام طور پریسم قسم کے اوہام سے بچ گئے ہیں.پھر بھی جادو کا خیال موجود ہے.اس کی ہر دلعزیزی اور اثر اندازی کا اس سے پتہ لگتا ہے کہ آج جبکہ علوم کے پانیوں نے لوگوں کے سینوں کو دھو دیا ہے پھر بھی اس کا اثر باقی ہے بلکہ سینوں کے اندر گرے طور پر موجود ہے.جب ہم تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو نہیں نظر آتا ہے کہ پہلے بڑے بڑے اہم امور کا دارو مدار اسی باتوں پر ہوتا تھا.بادشاہ کو اپنی فوج پر اتنا وثوق نہ تھی جتنا کہ کاہن کے منتروں پر جرنیلوں کو اپنی تد بیر اور قوت بازو پر اتنا بھروسہ نہ تھا.جتناکہ بازو پر سکے ہوتے تعویذ پر.اسی طرح مریض کو طبیب کے بناتے ہوئے نسخہ پر اتنا یقین نہ تھا.جتنا ایک پڑھے ہوئے دانہ پر ہوتا تھا.عورت کو فرمانبرداری خوش اخلاقی اور خاوند کی خدمتگذاری سے خاوند کو اپنی طرف مائل کر لینے کی اتنی امید نہ ہوتی تھی جتنی بھوج پتر پر لکھے ہوئے چند بے معنی الفاظ یا لکیروں پر.غرض جادو اور ٹونے کو زندگی کے ہر ایک صیغہ میں بہت دخل تھا.بادشاہوں کی حکومت میں اس کو دخل تھا.امور خانہ داری میں اس کا دخل تھا.عورت و مرد کے تعلقات میں اس کا دخل تھا.دوستوں کی دوستی میں اس کا دخل تھا اور آج بھی حقیقت سے ناواقف لوگ سب سے پہلے یہی سوال کرتے ہیں کوکوئی ایسا منتر بتایا جائے جس سے دشمن زیر ہو جائے کوئی ایسا منتر ہو جس سے محبت کا سکہ خاوند کے دل
144 میں جم جاتے، کوئی ایسا تعویذ ہو جس سے سب مشکلات اور مصائب دُور ہو جائیں.وہ کوشش کرنے کو بناوٹ اور سعی کو دھوکہ اور محنت کو وہم خیال کرتے ہیں.ان کے نزدیک اگر کسی بات میں حقیقت ہے تو وہ منتر میں ہے، کیونکہ اس سے ان کے خیال میں بغیر کوشش اور جدوجہد کے دشمن زیر ہو جاتا ہے اور ہر ایک مقصد حاصل ہو جاتا ہے.پس معلوم ہوا کہ منتروں کا اثر لوگوں کے نزدیک بہت بڑا اثر ہے.یورپ کے لوگ جنہوں نے اس قسم کی آزادی حاصل کر لی ہے کہ اپنے خدا کے بھی قاتل نہیں رہے.انھوں نے مسیح کی پیروی سے اپنے آپ کو آزاد کر لیا ہے.گرجے کی حکومت کے جوتے کو پرے پھینک دیا ہے مگر ٹونے اور منتروں سے آزاد نہیں ہو سکے.یورپ نے خدا سے انکار کیا.خداکے رسولوں کو چھوڑ دیا.خدا کے رسولوں کی تب سے روگرداں ہوا.لیکن اگر نہیں آزاد ہوا.تو منتروں کی حکومت سے آزاد نہیں ہوا.چنانچہ اسی جنگ کے دوران میں جو مختلف جرنیلوں کی رپور میں شائع ہوتی ہیں.ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جولوگ مارے گئے ان میں سے اکثر اشخاص کے بازوؤں پر تعویذ بندھے ہوتے تھے.گویا خدا کے منکر رسولوں کے منکر یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ تعویذ کے ذریعہ موت سے بچ جائیں گے.تو ان باتوں کا اب بھی ایسا گہرا اثر ہے کہ علوم کی ترقی بھی اس کو مٹا نہیں سکتی.میں نے ابھی پچھلے دنوں ہائیوں کی ایک کتاب پڑھی ہے.اس میں لکھا ہے کہ امریکہ میں اس مذہب کی اشاعت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں داخل ہونے والوں کو ایک خفیہ نام دیا جاتا ہے اور اس کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ نام بہت پراسرار اور بڑا اثر والا ہوتا ہے اس کتاب کا مصنف لکھتا ہے کہ میرے جی میں بھی آتا ہے کہ اس نام کے لیے بہائی ہو جاؤں ، لیکن میں چونکہ در حقیقت اس مذہب کو سچا نہیں جانتا.اس لیے منافقت سے داخل ہونے کو پسند نہیں کرتا.ہائیوں میں رواج ہے کہ جب کوئی ان میں داخل ہو تو وہ اس کو ایک نام دیتے ہیں.اور وہ عربی زبان کا کوئی لفظ ہوتا ہے.مثلاً جو شخص اچھا لکھنے والا ہوا اس کو سلطان القلم نام دید یا چونکہ وہ لوگ عربی میں جانتے اس لیے خیال کرتے ہیں کہ کوئی خاص اثر رکنے والا یہ نام ہے اس کے ذریعہ ہم تمام آفات سے بچ جائیں گے.اسلام نے ان تو ہمات کو مٹایا ہے اور اس قسم کے خیالات کی تردید کی ہے، لیکن اصل حقیقت کو برقرار اور قائم کر دیا ہے اور اسلام کی یہی خوبی ہے کہ ہر بات میں وسطی طریق اختیار کرتا ہے جھوٹی باتوں کو رد کر دیتا ہے اور پیتی کو برقرار رکھتا ہے.جہاں تک بنانا مفید ہوتا ہے بناتا ہے.اور جتنا مٹانا ہو تا ہے اس کو مٹا دیتا ہے.تو اسلام نے بھی ایک جادو اور تعویذ بتایا ہے، لیکن اس میں
(A+ اور عام لوگوں کے سمجھے ہوئے جادو میں بڑا فرق ہے.لوگ جو تعویذ بتاتے ہیں وہ بے معنی اور بے اثر ہوتے ہیں.مگر اسلام نے آفات سے بچانے کےلیے جوگر بتایا ہے اس میں طاقت ہے کہ اگر انسان اس پر عمل کرے اور اس کی تکرار کرے تو بہت سے فتنوں سے بچ جاتا ہے.لوگوں کے جادو محض لکیریا اور ہند سے اور اشارات ہوتے ہیں مگر میں آج اسلام کا ایک ایسا کلمہ بتاتا ہوں جس پر عمل کرنے سے انسان بلاؤں سے بیچ جاتا ہے.رمایا بسم اله الرحمن الرحیم یں اللہ تعالی کانام لیکر یہ عبارت پڑھتا ہوں.جو تمام خوبیوں کا جامع ہے اور تمام نقصوں سے پاک ہے.الرحمن وہ ایسی ہستی ہے جو بغیر کوشش کہئے انسان کے وہم و خیال میں بھی جو کچھ نہیں ہوتا دیتی ہے.الرحیم بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جب اس کے فضلوں کے ماتحت دیتے ہوتے سامانوں کو انسان استعمال کرے تو اپنے فضلوں کو دوبارہ اس پر نازل فرماتا ہے میں ایسے خدا کا نام لیکر جو ایسی صفتوں اور ایسی صفتوں اور ایسی شان والا ہے.شروع کرتا ہوں آگے فرماتا ہے.قل اعوذ برب الفلق میں پناہ مانگتا ہوں.برب الفلق اس خدا کی جو تمام مخلوقات کا رت ہے.فلق کے معنی میں ہر چیز جو خلتی ہوئی.خدا تعالیٰ کے سوا تمام چیزیں اس میں داخل ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ منت نہیں ہے.بلکہ وہ خالق ہے تو کسی کی پناہ مانگتا ہوں.اس ذات کی جو تمام مخلوق کارت ہے.کوئی چیز خواہ وہ زمینوں میں ہو خواہ وہ آسمانوں میں اس کی ربوبیت سے باہر نہیں پس وہ اپنی جس کی ریو بیت کی تمام چیزیں پہلے بھی محتاج تھیں.اب بھی ہیں.آئندہ بھی رہیں گی.ایسے خُدا کی میں پناہ ڈھونڈتا ہوں.کس بات سے پناہ ڈھونڈتا ہوں ؟ من شر ما خلق ان تمام چیزوں کے شر سے جو اس نے پیدا کی میں کہتے ہیں ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں.مگر بہت سی مخلوق ہوگی جس کے باتوں ہاتھی سے بڑے ہونگے، لیکن یہ کہ دینے سے کچھ بھی باہر نہیں رہتا.کہ جو کچھ خدا نے پیدا کیا ہے اس تمام کی بدی اور شر سے پناہ چاہتا ہوں.پھر فرمایا من شر غاسق اذا ء ایک عام بدی ہوتی ہے اور ایک خاص بعض اوقات شر خاص رنگ میں جوش مارتا ہے.جیسے تیاریاں وہار کے طور پر پھیلتی ہیں.غاسق رات کو کہتے ہیں اور وقب جب اس کی تاریخی پھیل جاتی ہے.اس لیے اس کا یہ مطلب ہوا کہ میں نہ صرف معمولی مرضوں سے بلکہ ان سے جوعام طور پر پھیلنے اور تمام دنیا میں چھا جاتے ہیں ان سے پناہ مانگتا ہوں.
پھر فرمایا ومن شتر النقشت في العقد اور پناہ مانگتا ہوں ان سے جو گر ہوں میں بداثرات پھونکنے والے ہیں.ومن شر حاسد اذا حسد اور پناہ چاہتا ہوں حاسد کے حسد سے.دنیا میں ان چار باتوں سے ہی انسان کو واسطہ پڑتا ہے اور کوئی شران چارسے باہر نہیں رہ جاتا.دو وہ ہیں جو آفات و مصائب کے متعلق ہیں اور دو وہ ہیں جو ترقی و عروج کے متعلق ہیں.ایک وقت انسان پر الیسا ہوتا ہے اور ایک وقت وہ ہوتا ہے جب وہ مصائب سے نکل کر ترقی کے میدان میں چلا جاتا ہے اور خوشی و خرمی کی زندگی بسر کرتا ہے.ایک وقت اس کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ آفات سے بچنا چاہتا ہے اور دوسرے وقت جب وہ مصائب سے نکل جاتا ہے تو اس آرام کے قیام کی خواہش کیا کرتا ہے.پہلا ادنی درجہ ہے اور دوسرا اعلیٰ ایک وقت میں جبکہ جہالت کی زندگی بسر کرتا ہے چاہتا ہے کہ جہالت دور ہو کر اس کو علوم حاصل ہو جائیں اور جب علوم مل جاتے ہیں.تو ان کی حفاظت کی فکر ہوتی ہے.کہ جو کچھ میں نے حاصل کیا ضائع نہ ہو جائے.اسی طرح ایک وقت جبکہ بیمار ہوتا ہے.کوشش کرتا ہے کہ بیماری دور ہو جاتے اور جب بیماری دور ہو جاتی ہے تو قیام صحت اور افزائش طاقت کے لیے مقویات کا استعمال کرتا ہے.اس سورۃ میں ان چاروں درجوں کا ذکر ہے (۱) فرمایا من شر ما خلق.وہ بدیاں جو فرداً فرداً پائی جاتی ہیں (۲) وہ جو عام طور پر پھیل کر چھا جاتی اور اندھیرا کر دیتی ہیں یعنی ایسے فتنے جو اپنی وسعت سے تمام چیزوں کو گھیر لیتے ہیں تو مشکلات اور مصائب کے متعلق ہوا.(۳) من شر النفثت في العقد اب ترقی آتی ہے تمام سامان ترقی جمع ہو جاتے ہیں مگر م وہ یہ فتنہ ان تمام سامانوں کو پراگندہ کردیتا ہے.فرمایا کہ دعا کرو کہ میں اس فتنہ سے بھی پناہ چاہتا ہوں.کیا ہوتا ہے ؟ یہ کہ سامان عمدہ مل گیا.سستا بھی مل گیا.اور ہر قسم کی آسانیاں بھی پیدا ہو گئیں.اور در میانی تمام وقتیں بھی رفع ہوگئیں، لیکن آگے فائدہ اُٹھانے میں رکاوٹیں پیدا ہو جاتی ہیں.اس کے متعلق فرمایا کہ وہ جو گر ہوں میں پھونکنے والی ہیں ان سے پناہ مانگتا ہوں یعنی وہ بد اثرات جن کے باعث سامان ضائع ہو کر نقصان اُٹھانا پڑتا ہے.ان سے محفوظ رہنے کی التجا کرتا ہوں.اس کا مطلب یہ ہے که ابتدائی سامانوں میں جو فتنہ ہو سکتے ہیں اور جن ذرائع سے ہو سکتے ہیں.ان سے بچایا جائے.پھر فائدہ اُٹھانے کے بعد جو خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں.اسے خدا ان سے بھی بچا.وہ حاسدوں کا حسد ہوتا ہے.اس لیے دعا سکھلائی کہ حاسدوں کا حسد اور ان کی بد کوششوں سے پناہ مانگتا ہوں.اب بتاؤ ایسی جامع دعا کے بعد کسی چیز کی ضرورت رہجاتی ہے اور کونسی مصیبت اور مشکل ہے جو
TAY دور نہیں ہوسکتی.یہ دُعا ہے جو اسلام نے ہر ایک مومن کو سکھاتی ہے.اگر اس کا درد کیا جائے.تو انسان بہت سی بلاوں سے محفوظ رہ سکتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہوتے تھے جب تک کہ ان دعاؤں کو پڑھ نہ لیتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کا قاعدہ تھا کہ آپ جس وقت بستر پر تشریف لے جاتے تھے آہ ت سورۃ اخلاص اور سورہ فلق اور سورۃ الناس کو پڑھ کر دونوں ہاتھوں پر پھونکتے اور جسم پر جہاں جہاں تک ہاتھ جاسکتا تھا ہاتھ پھیر لیتے اور ایسا ہی تین دفعہ کرتے.اور اس کے ساتھ اور بھی بعض دُعائیں ملاتے تھے اور آیت الکرسی بھی پڑھتے تھے لیے یہ اس شخص کا دستور العمل تھا جس کے لیے اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا والله يعصمك من الناس رالمائدہ : ۲۰) اور جس کے لیے خدا کی حفاظت ہر طرف سے قائم تھی اس سے خیال کر سکتے ہو کہ اور لوگوں کے لیے ایسا کرناکس قدر ضروری ہے.جو لوگ یہ دُعا نہیں پڑھتے اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ان کو اس کی ضرورت نہیں ہے.ضرورت ہے مگر وہ لوگ اس پیسے واقف نہیں.اگر جانتے تو ضرور پڑھتے ، لیکن میں آپ لوگوں کو اگاہ کرتا ہوں کہ قرآن کریم نے ہمیں مصاب و آفات سے بچنے کا یہ گر بتا دیا ہے اور اس سورۃ میں تمام جسمانی آفتوں کا ذکر ہے اور ان سے محفوظ رہنے کا طریق بتایا گیا ہے.روحانی آفات اور ان سے بچنے کا ذکر اگلی سورۃ میں ہے.پس تمام ابتلاوں سے بچنے کا اگر اس سورۃ میں ہے لیکن یاد رکھنا چاہتے کہ نہ تو انسان کو بائل ہی اسباب کو ترک کر دینا چاہیئے اور نہ بالکل اسباب پر ہی گر پڑنا چاہیے.کیونکہ اسباب سے ہرگز ترقی نہیں ہو سکتی جب تک کہ اللہ تعالے پر توکل نہ ہو.اور اس کا فضل شامل حال نہ ہو.یہ کلمات اسباب ترقی اور حفاظت سے منع نہیں کرتے.اصل بیج خیالات ہوتے ہیں.اگر بیج کھوکھلا ہو تو کبھی عمدہ کھاد اور اچھی زمین اس کو فائدہ نہیں دے سکتی ہیں اسباب مہیا کرو لیکن باوجود اس کے کامیابی اس وقت ہوگی جب اللہ تعالیٰ پر توکل ہوگا اور خدا کے فضل کے جذب کرنے کے لیے دُعاؤں کی بھی ضرورت ہے..میں نے جو آج یہ سورۃ پڑھی ہے.اس کی خاص غرض ہے اور وہ یہ کہ جیسا کہ مختلف اخبارات سے معلوم ہو رہا ہے پچھلے دنوں میں جو مرض پھیلا تھا.وہ آجکل پھر بعض مقامات پر پھوٹ رہا ہے اور یورپ میں تو اس دفعہ قیامت کا نمونہ بنا ہوا ہے لکھا ہے کہ ہسپتال اس قدر مریضوں سے پر ہیں کہ بہت سے مریض ہسپتالوں کے سامنے پڑے پڑے مر جاتے ہیں اور ان کے لیے علاج کرنے کا موقعہ لبخاري كتاب التفسير باب فصل المعوذات
JAP اور ہسپتال میں داخل کرنے کے لیے جگہ نہیں مل سکتی.ڈاکٹر دستیاب نہیں ہوتے اور شفا خانوں میں کردیا جاتا ہے کہ گنجائش نہیں ہے.وہاں ایسا سخت حملہ ہے کہ پہلے تو بعض مریض بیچ بھی جاتے تھے.مگر اب شاید ہی کوئی بچتا ہے.ہندوستان کے بعض حصوں میں بھی یہ مرض شروع ہے.پنجاب میں بھی ہے.مگر تا حال زور اور وبائی صورت نہیں ہے.طاعون بھی ہندوستان میں شروع ہے اور یہ اس کے خاص دن ہیں.پچھلی دفعہ ابھی مرض یہاں آیا نہیں تھا کہ میں نے ایک خطبہ میں ہوشیار کیا تھا.مگر افسوس کہ اس سے فائدہ نہ اٹھایا گیا.دیکھو خدا تعالیٰ سب کا رب ہے کیونکہ رب العلق ہے اس نے ہر ایک چیز پیدا کی ہوتی ہے.اس لیے جب تک اسی سے ہر ایک چیز کے شرسے بچنے کی التجانہ کی جاتے اور وہی انکے شر کو نہ روک دے اور کوئی صورت محفوظ رہنے کی نہیں ہے.جے توں اسدا ہوں میں تاں سب جنگ تیرا ہو ؟ یعنی اگر تو خدا کا ہو جائے تو تمام دنیا تیری ہی خادم ہو جائیگی.پس اگر انسان خدا کے لیے ہو جائے اور خدا اس کا ہو جاتے تو پھر تمام مخلوق اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی.دنیا میں بادشاہ سے جس کا تعلق ہوا اور حکمران میں پر مہربان ہو لوگ اس کی خوشامدیں کرتے اور اسے نقصان پہنچانے سے ڈرتے ہیں.پھر کیا اگر خدا ہمارا ہو جاتے تو کوئی آفت ہمارا کچھ بگاڑ سکتی ہے.ہرگز نہیں.پس اگر اور لوگ بلاؤں اور آفتوں سے ہلاک ہوتے ہیں.تو انھیں ہونا چاہیئے.کیونکہ ان کو بلاؤں سے بچنے کا علم نہیں ہے.لیکن تم پر اگر مصیبت آتی ہے.تم اگر آفتوں میں پڑتے ہو تو یہ بات قابلِ تعجب ہے.کیونکہ تمہیں ان سے بچنے کا طریق بتایا گیا ہے.کچھ مصائب اور قبلہ تو ترقی کے لیے ہوتے ہیں.جن سے گزرنا تمہارے لیے ضروری ہے.مگر الٹی سلسلوں کے لیے وبائیں نہیں ہوتیں.جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علی الصلواۃ والسلام نے فرمایا کہ طاعون احمدیوں میں وبارہ کے طور پر نہیں آئیگی لیے مختلف شکلوں میں فرداً فرد تکلیفیں آتی ہیں.مگر ایسی مصیبت جو تباہ کن ہو خدا کی پیاری جماعت کو نہیں آیا کرتی چونکہ تم خدا کی را میں قدم ما ر ہے ہو اور اس کے دین کی اعانت کر رہے ہو.اس لیے تم یعت خیال کرو کہ تم بے بس اور بے کس ہو.اگر تمہارے ساتھ خدا ہے تو کوئی چیز تمہیں گزند نیں پہنچا سکتی مگر اپنی حالت کو درست کردہ تمہیں سامانوں سے منع نہیں کیا جاتا.بلکہ اس سے روکا جاتا ہے کہ بالکل سامانوں پر ہی نگر ٹڑو.جب مصائب عام ہوں تو ان کے دُور ہونے کے لیے دعائیں بھی عام ہی ہوتی ہیں.ہاں ایسے وقت میں ہو شیار سب کو کر دیا جاتا ہے.اور ہلاکتوں سے وہی بچاتے جاتے ہیں جو ہوشیار ہو جاتے ہیں ہیں اس وقت ہر ایک کو تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے.اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھو کہ کبھی مایوس نہیں ہونا چاہتے
۱۸۴ بہت لوگ مایوسی کے سبب سے ہلاک ہو جاتے ہیں مگر تم وہ ہو جنہوں نے خدا کے فضل کے دامن کو کپڑا ہے.اس لیے تمہارے لیے کوئی مایوسی نہیں ہے.اگر تم پر خدانخواستہ کوئی مشکل آئے تو مت یقین کرد که دو نہیں تباہ کریگی کیونکہ تمہارا اس خُدا سے تعلق ہے جو واقعی تمام ہلاکتوں سے بچا سکتا ہے.مایوسی تو ایسی بری چیز ہے کہ انسان کو کافر بنا دیتی ہے.جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے انه لا يا يأس من روح الله الا القوم العفرون ریوسف مہ) اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہوتے مگر کافر لوگ پس مایوسی ایسی چیز ہے کہ ایمان گھٹتے گھٹتے کفر کی حد تک پہنچ جاتا ہے.اس لیے تم کسی وقت میں اپنے آپ کو مایوس نہ ہونے دو اور خدا پر توکل رکھو.پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا یقین اور اس کے فنا کا خوف ہو اور پھر دعاؤں پر زور دو جب یہ بات انسان میں پیدا ہو جائے تو پھر کوئی ہلاکت اس پراثر نہیں کر سکتی.یہ دعائیں ہیں جن کو استعمال کرو.ان کے ساتھ وہ دُعائیں بھی ہیں.جو حضرت صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بتائی ہیں.اتنا فرما کر حضور بیٹھ گئے.جب دوسرے خطبہ کے لیے کھڑے ہوتے تو فرمایا ) میں نے ایک دفعہ ایک رویا دیکھی.شاید حضرت مسیح موعود اس وقت زندہ تھے ہیں اور کچھ اورآدمی کشتی میں سوار تھے اور ایک بہت بڑے سمندر میں چلے جارہے تھے کہ سخت طوفان آیا.اور کشتی چلتے چلتے بھنور میں پڑگئی.بہت کوشش کی اور چپو چلاتے کہ کسی طرح کشتی اس بھنور سے نکل جائے مگر یوں ہوں ہم کوشش کرتے تھے وہ اسی قدر زیادہ بھنور میں پڑتی جارہی تھی.ہم اسی طرح زور لگاتے رہے اور ہماری جیرانی بڑھتی جارہی تھی کہ ایک آدمی نے کہا بیاں ایک پیر کی قبر ہے.اگر اس سے دُعا کی جائے تو ہم اس ہلاکت سے بیچ سکتے ہیں.میں نے کہا یہ تو نہیں ہو سکتا.میرے ساتھیوں میں سے بعض کہنے لگے اگر اگر پیر سے دعا کی جائے تو کیا حرج ہے.مگر میں میں کہتا رہا کہ یہ تو شرک ہے نہیں ڈوبنا منظور ہے مگری ترک ہرگز نہیں کریں گے چونکہ خطرہ دمیدم بڑھ رہا تھا اس لیے میرے رونگھتے روکتے میرے ساتھیوں میں سے ایک نے کاغذ پر کچھ لکھا اور سمندر میں ڈالنا چاہا.میں نے کا نفذ روک کیا.یاکسی اور طرح ضائع کر دیا او نیتی سے کہا کہ نی ترک ہے.ہم ترک نہیں کریں گئے جب میں نے یہ کہا تو اسی وقت کشتی اچھل پڑی اور اس کردا ہے باہر نکل آئی.مصیبت کے اوقات میں بعض انسان شرک میں پڑ جاتے ہیں.مگر اس کی وجہ وہی نا امیدی ہوتی ہے.بیشک مصائب آئیں مگر تو کل الٹی کا دامن نہ چھوڑنا چاہیئے.پھر اگر تمای کشتی بھنور مں تھی ہوگی تو خدا تعالیٰ اپنے فضل سے اس کو باہر نکال دے گا ر ۵ - الفضل ها را پریل شاه )
36 قرآن کریم پڑھنے کی ہدایت د فرموده ۲۸ ر مارچ (١٩١٩ تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.دنیا میں بہترین چیزوں میں سے اور نہایت ہی کار آمد اشیاء میں سے ایک ہدایت ہے مرا مستقیم کی ہدایت ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا.کونسا کام ہے جو بغیر صحیح ذرائع کے ہوسکتا ہے.کوئی بھی نہیں.خواہ کام چھوٹے سے چھوٹا کیوں نہ ہو.بغیر صحیح ذرائع کے انجام نہیں پاسکتا.مثلاً روٹی کھانا بہ لحاظ اس کے کہ انسان اس کے کھانے کے لیے ہر روز مجبور ہے کس قدر چھوٹا کام ہے مگر خورد کرو جب تک انسان لقمہ منہ میں نہیں ڈالے گا کیسے کھاتے گا.بات تو معمولی سی ہے مگر ہوگی ہی طریقی سے.جو خدا نے اس کے لیے مقرر فرمایا ہے.اسی طرح علم ہے علم کے سیکھنے کے لیے قواعد ہیں اگر ان قواعد کو استعمال نہ کیا جائے.تو کوئی علم حاصل نہیں ہوسکتا.بہت لوگ ہیں جو راتوں کو جاگتے اور پڑھتے ہیں مگر جس طریق سے یا جن کتابوں کے پڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے ان کو نہیں پڑھتے اس لیے علوم میں ترقی نہیں کر سکتے.بعض لڑکے ہر وقت کتاب ہاتھ میں لیے نظر آتے ہیں مگر جنب امتحان ہوتا ہے تو فیل ہو جاتے ہیں.بعض لوگ خیال کرتے ہونگے کہ یہ تو بڑی محنت کرنے والے طالبعلم تھے.پھر کیوں فیل ہوتے مگر اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ کتاب کے ساتھ ناول بھی رکھتے ہیں.جب پڑھنے بیٹھے تو کہا چلو دو ایک صفحہ اس کے بھی پڑھ لیں.اسی طرح دو دو صفحہ میں ان کا سال تمام ہو جاتا ہے اور وہ امتحان میں ناکام ہو جاتے ہیں.تو جب تک مجھے ذرائع نہ ہوں کامیابی نہیں ہو سکتی.جو بڑے بڑے امور ہیں.ان کے لیے اس سے بھی زیادہ صحیح ذرائع کے استعمال کی ضرورت ہوتی ہے ہیں جب تک صراط مستقیم کی ہدایت نہ ہو کچھ بھی نہیں حاصل ہو سکتا.کجا یہ کہ تقویٰ و طہارت نصیب ہو یہ تو بڑی باتیں ہیں ان کیلئے تو اور زیادہ
TAM صراط مستقیم کی ہدایت اور احتیاط کی ضرورت ہے لیکن ان کے لیے خود صراط مستقیم انسان نہیں تجویز کر سکتا.دنیا میں اور علوم کے لیے کچھ کر سکتا ہے.اور وہ بھی اس طرح کہ ایک کے لیے دوسرا ذریعہ بن جاتے اور دوسرا اسے کوئی مفید بات بتادے خود ان علوم میں بھی.انسان اپنے لیے آپ طریق ایجاد نہیں کر سکتا.ملا جوانسان عربی یا انگریزی پڑھنا چاہے وہ خود کہاں انگریزی کا کورس یا عربی کا نصاب تجویز کر سکتا ہے.دوسرے جنہوں نے ان علوم کو پڑھا ہوا ہوتا ہے وہ کچھ بتا دیتے ہیں.تو ان علوم میں ایک انسان دوسرے گے لیسے ذریعہ ہدایت ہو سکتا ہے، لیکن خدا کی رضا انسان ہ خود معلوم کر سکتا ہے اور نہ دوسرا انسان اس کے حاصل کرنے کا بطور خود طریق بتا سکتا ہے.یہ تو خدا کی رضا ہے میں کہتا ہوں انسان انسان کی رضا خود نہیں معلوم کر سکتا جب تک وہ خود نہ بتائے.بہت دفعہ جب بچہ روتا ہے تو ماں چپ کرانے کے لیے اسے پانی دیتی ہے.اس پر چپ نہیں ہوتا تو دودھ دیتی ہے اس کو بھی جھٹک دیتا ہے، تو کوئی اور چیز دیتی ہے.مگر پھر بھی وہ خاموش نہیں ہوتا.روتے روتے سو جاتا ہے.یا ایسا ہوتا ہے کہ بیسیوں غلطیوں کے بعد کچھ پتہ لگتا ہے کہ فلاں وجہ سے روتا ہے.پس جب اپنے ہم جنس کا عندیہ علوم کرنا آسان نہیں تو خدا تعالی کی رضا کا از خودمعلوم کر نیکی نہیں ہاں جب خدا تعالیٰ شادے کہ میرا یہ نشام.اور یہ عندیہ ہے تو پتہ گھتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنی رضا مندی کو بتا دیا ہے اور وہ قرآن کریم میں مسطور ہے اور جیسے ہر چیز کے حصول کے لیے صراط بتا مستقیم کی ضرورت ہے.ویسے ہی خدا کی رضا کے لیے حصول کے لیے بھی ہے قرآن کریم کے ابتداء میں ہی انسان ہدایت طلب کرتا ہے اور کہتا ہے اھدنا الصراط المستقيم وه خدا سے سیدھے رستہ کی ہدایت چاہتا ہے.جھٹ اس کو جواب ملتا ہے الم ذالك الكتاب کہ یہ رستہ ہے.پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے فضل سے اپنی رضامندی حاصل کرنیکا طریق بتا دیا ہے.اب خود اس کے لیے کوئی نصاب تیار کرنے کی ضرورت نہیں.اور نہ ضرورت ہے کہ لوگوں سے معلوم کریں.ہاں ضرورت ہے کہ ان اشارات اور رموز کو جو اس رستہ میں موجود ہیں.دوسرے واقعوں سے سمجھ ہیں.اب رستہ کے متعلق یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ کس رستہ پر چلیں.اب تو اس رستہ کے حالات دریافت کرنے کی ضرورت ہے.قرآن کریم میں وہ ذریعہ موجود ہے جس سے ہم اللہ تعالیٰ کو پاسکتے ہیں اور اس کی رضا کو حاصل کر سکتے ہیں.اور یہ وہ چیز ہے میں سے نہیں تمام قرب الہی کی راہیں معلوم ہوسکتی ہیں پس یہی ایک ذریعہ ہے جس سے خدا تا ہے اور اس کے سوا اور کوئی رستہ نہیں ہے جس پر قدم مار کر ہم نقدا
تک پہنچ سکیں.یہ سچ ہے کہ خدا تک پہنچنے کے کئی رستہ ہیں.کیونکہ خدا لامحدود ہے اور وہ چونکہ لامحدود ہے اس لیے اس کے پانے کے رستہ بھی غیر محدود ہی ہیں.پھر اس کا عرفان بھی غیر محدود ہے.اس لیے اس کے لیے کوشش بھی غیر محدود کی ہی ضرورت ہے.ایک چھوٹی سی چیز کا نظر آسانی سے احاطہ کر لیتی ہے لیکن جو چیز بڑی ہو اس کا احاطہ نظر جھٹ پٹ نہیں کر سکے گی.بلکہ اس کے لیے بڑی کوشش اور سعی کی ضرورت ہوتی ہے ، مثلاً ایک وسیع سمندر ہے اس کے لیے نظر کوبہت زیادہ وسیع کرنا پڑیگا اوربڑی کوشش اور محنت کے بعد اس کا احاطہ ہو سکے گا پس جو چیز غیر محدود ہو اس کے حاصل کرنے کے لیے غیر محدود وقت اور غیر محدود کوشش کی ضرورت ہوتی ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ کی معرفت کی کوئی حد بندی نہیں ہے اس لیے اس کے لیے جسقدر کوشش کی ضرورت ہے.وہ بھی ختم نہیں ہوتی.اور جس قدر ذرائع اس کے حصول کے ہیں وہ سب قرآن کریم میں درج ہیں.اس کے باہر کوئی نہیں ہے.مگر افسوس کہ بہت ہیں.جو دھر توجہ نہیں کرتے.زید دیگر کے اقوال کی طرف توجہ کرتے ہیں مگر قرآن کی طرف توجہ نہیں کرتے.میں آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں.کہ آپ لوگ اپنی کوششوں کوقرآن کریم سمجھنے میں صرف کریں کبھی نہ سمجھو کہ تم نے قرآن کریم کو سمجھ لیا.وہ لوگ جھوٹے ہیں.غلط کہتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے قرآن کو پڑھ لیا اور اس کے معارف پر احاطہ کر لیا.اب انھیں پڑھنے کی ضرورت نہیں.یہ بالکل غلط ہے قرآن کو کوئی ایسانہیں پڑھ سکتا کہ پھر اسے پڑھنے کی ضرورت نہ رہے.کیونکہ جتنا کوئی اس کو پڑھنا ہے.اتنا ہی بڑھتا جاتا ہے.قرآن محدود نہیں ہے کہ اس کو کوئی پڑھ نے ہاں اس کے الفاظ محدود ہیں.یہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس نے الفاظ کو پڑھ لیا.مگر قرآن کو نہیں پڑھ لیا.جو شخص یہ کہتا ہے کہ اس نے سورۃ فاتحہ کو پڑھ لیا، تو اس کے یہ معنی ہوتے کہ اس نے ان سے لیکر ولا الضالین تک کے حروف و الفاظ کو پڑھ لیا.باقی رہا یہ کہ اس کے اندر جو علوم اور حکمتیں اور معارف ہیں وہ بھی اس نے ختم کر لیے.یہ درست نہیں ہو سکتا.کیونکہ ان تمام علوم کو جو اس کے اندر ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ختم نہیں کر سکے.مسیح موعود بھی ختم نہیں کر سکے اگر انھوں نے ختم کر لیا ہوتا تو کیا ضرورت تھی کہ ہر نماز میں یہ پڑھتے کہ اهدنا الصراط المستقیم وہ جوں جوں پڑھتے تھے اسی قدر اس کے معارف و مطالب اور وسیع ہوتے چلے جاتے تھے اگر ان پر اس کے علوم ختم ہو گئے تھے.تو اس دعا کے پڑھنے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ کھائی ہوئی روٹی کو دوبارہ کھایا جاتا.اور نہ پتے ہوتے پانی کو دوبارہ پیا جاتا ہے.ہر بار نئی روٹی کھائی اور نیا پانی پیا جاتا ہے.اسی طرح قرآن جو روحانی غذا ہے.یہ بھی ہر بار نیا ہوتا ہے.اگر کوئی
AA یہ خیال کرتا ہے کہ اس نے ایک دفعہ پڑھ کر مثلاً سورۃ فاتحہ کے تمام مطالب کا احاطہ کر لیا ہے اور اسکے لیے دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں تو وہ غلط کہتا ہے.یاد رکھو کہ ہر ایک کلام کے متعلق یہ بات ہے کہ جوں جوں انسان اس کے متعلق مشق کرتا ہے اس کا دماغ جلا پاتا جاتا ہے نہیں اسی طرح جب انسان قرآن کے علوم پر غور کرتا ہے تو ہر دفعہ نئے علوم اس کو عطا ہوتے ہیں.اس لیے کوئی نہیں کہ سکتا کہ اس نے قرآن کے علوم کو ختم کر لیا.حتی کہ سب سے بڑے قرآن کے جاننے والے محمد صلی الہ علیہ وسم بھی نہیں کہ سکتے کہ آپ نے قرآن کے علوم کو ختم کر دیا.کیا جو لوگ جنت میں داخل ہو گئے ان کے لیے مدارج ختم ہو گئے.نہیں ان کے مدراج بھی ترقی کر رہے ہیں انحضرت کے مدارج میں بھی ترقی ہو رہی ہے.اگر آپ کے مدارج ختم ہو جاتے تو یہ درود کیوں سکھایا جاتا اللهم صل على محمد وعلى ال محمد كما صليت على إبراهيم وعلى ال ابراھیم انک حمید مجید اور پھر اگر آپ کے لیے تمام ترقیات ختم ہو گئی تھیں تو یہ دعا سکھانے کی کیا ضرورت تھی.اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد كما باركت على ابراهيم وعلى ال ابراهيم انك حميد مجید - مومن یہ اسی لیے پڑھتا ہے.تاکہ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کو جس قدر مدارج حاصل ہو چکے ہیں ان میں اور زیادتی ہو.پس آپ کے مدارج بڑھ رہے ہیں.اس لیے آپ پر بھی علوم ختم نہیں ہوئے.جن معنوں میں قرآن کا ختم ہو جانا کہا جاتا ہے اس کا یہی مطلب کہ حروف و الفاظ کو ختم کر لیا.یہ مت کہو اور ہرگز مت سمجھو کہ قرآنی علوم کو ختم کرلیا.جب تم اپنے دل میں یہ خیال کرکے قرآن کریم کو پڑھو گے کہ تم نے ابھی اس کو ختم نہیں کیا اور یہ کہ اس کے علوم لا محدود ہیں.اگر کوشش کریں گے تو سنتے تھے علوم حاصل ہونگے تو اس وقت دیکھو گے کہ ہر بار نئے علوم اور نئے معارف تمہیں حاصل ہونگے.مگر جو انسان یہ خیال کرے کہ جو کچھ اس نے کرنا تھا.وہ کر چکا و کبھی ترقی نہیں کر سکتا، لیکن جو خیال کریگا اور جانے گا کہ ابھی اس نے بہت کم کیا ہے اور بہت زیادہ کرنا ہے وہ بہت کچھ کر لیگا.دنیا میں دیکھو جن لوگوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ہی دنیا اس سے زیادہ نہیں جس قدر ہمیں علم ہے.وہ اس سے زیادہ علم نہ کرسکے.مگر جن کو کسی طریق سے پتہ لگ گیا کہ زمین بھی نہیں جو ہمیں معلوم ہے انھوں نے اور بھی بہت سی زمین کا پتہ لگا لیا.اور کئی جزیروں کا ان کو علم ہو گیا.پس اسی طرح جو سمجھتا ہے، کہ اس نے علوم کو ختم کر لیا ہے وہ ترقی نہیں کر سکتا اور جو ابھی اپنے آپ کو محتاج جانتا ہے اور بھتا ہے
کہ ابھی اس نے علوم کو ختم نہیں کیا.اس کے لیے اور علوم کھولے جاتے ہیں.پس کوئی نہیں جو قرآن کے علوم کو ختم کر سکے اس میں وہ علوم میں جو بیاں بھی کام آتے ہیں اور اگلے جہاں میں بھی کام آئیں گے.یہ ایسی عظیم الشان کتاب ہے کہ اس میں انسان کی ہر حالت کے متعلق ہدایتیں ہیں اگر چہ اس کے الفاظ مختصر ہیں مگر معانی و مطالب اس قدر وسیع ہیں کہ جن کی کوئی حد نہیں جو اس خیال سے اس کا پڑھنا ترک کر دیتا ہے کہ جو کچھ اس نے پڑھنا تھا پڑھ چکا.وہ غلطی پر ہے کیونکہ در حقیقت وہ قرآن کو نہیں پڑھ چکا چونکہ در حقیقت اس میں وہ ہدایتیں نہیں جو انسان کی ہر حالت کے متعلق ہیں.اور انسان کی حالت ہر وقت بدلتی رہتی ہے.اس لیے ہر وقت اس کا پڑھنا ضروری ہے.پس میں اپنی جماعت کے لوگوں کہ قرآن کریم کے پڑھنے میں کوشش کریں.اور ان کو ایسے ایسے معارف میں گئے کہ ان کی رو میں ان کی لذت کو محسوس کریں گی اور ان کو معلوم ہوگا کہ وہ ایسے سمندر میں سے جواہر نکال رہے ہیں جس کے جواہرات کا بھی خاتمہ نہیں ہوسکتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ ولم اور حضرت مسیح موعود نے جوگر بتاتے ہیں اگر انسان ان کو مد نظر رکھے تو وہ ان علوم سے حصہ پاسکتا ہے مگر لوگ الفاظ کی طرف چلے جاتے ہیں اور معانی کی طرف توجہ نہیں کرتے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے روزانہ قرآن کریم کا درس جاری فرمایا تھا.ان کی تڑپ ایک خاص رنگ اور امتیاز رکھتی تھی.آپ فرمایا کرتے تھے کہ صحابہ کا دستور تھا کہ ہفتہ میں ایک دن یا دو دن قرآن کا درس دیتے تھے.مگر میرا جی چاہتاہے کہ ہر وقت قرآن سمجھاتا رہوں اس کا ایک یہ تو فائدہ ہوا کہ بہت سے لوگوں نے اس درس سے فائدہ اُٹھایا.اور ایسا سمجھا کہ وہ دوسروں کو سمجھانے کے قابل ہو گئے مگر جس بات سے آپ ڈرایا کرتے تھے وہ اب پیدا ہوگئی ہے اور وہ یہ کہ جو لوگ عادت کے طور پر وعظ سنتے ہیں.انھیں اگر وعظ سننے کا موقعہ نہ ملے تو اپنی حالت پر قائم نہیں رہتے.بات یہ ہے کہ جن طلباء کو ہر وقت استاد کی نگرانی اور سیارے کی عادت ہو جائے.ان کی حالت ایسی ہو جاتی ہے جیسی نشہ کے عادی کی ہوتی ہے کہ اگر نشہ نہ ملے تو اعضا شکنی شروع ہو جاتی ہے.یہی حالت علوم کے نشہ کی ہوتی ہے.اگر ان کو وہ نشہ مہار ہے.تو ان کی حالت درست رہتی ہے اور اگر کسی وجہ سے وہ خزانہ لے تو پھر اعضاء شکنی شروع ہو جاتی ہے اور کسل اور سنتی پیدا ہو جاتی ہے.جن کو علوم کی غذا کی عادت ہو جاتے انہیں اپنے نفس پر زور دینے کی عادت کم ہو جاتی ہے اور اس کی وجہ پیدا ہو جاتے ہیں.مثلاً میری پچھلے دنوں کی بیماری میں جبکہ میں درس نہ دے
سکا.تو ایسی باتیں یہاں کے لوگوں میں پیدا ہوگئیں جو پیدا نہیں ہونی چاہئیں تے ان لوگوں کی حالت اس لیے ہو گئی کہ وہ روزانہ روحانی غذا کے نہ ملنے کی وجہ سے اپنی حالت پر قائم نہ رہ سکے کیونکہ وہ تو سہارے کے محتاج ہو گئے تھے.اب یہاں ایک غور طلب سوال پیدا ہوگیا ہے جو یہ ہے کہ قادیان کی مرکزی حیثیت تو چاہتی ہے کہ یہاں روزانہ تعلیم کا سلسلہ جاری رہے.کیونکہ مان روزانہ باہر سے آتے رہتے ہیں.ان کی حالت متقاضی ہوتی ہے کہ روزانہ درس تدریس کا سلسلہ جاری رہے مگر اس کا نتیجہ یہ ہے کہ میاں کے لوگ اس کے عادی ہو جاتے ہیں اور عادت کے باعث اگر کچھ دنوں کے لیے یہ سلسلہ رک جاتے تو ان سے بعض میں کمزوری پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے.پس چونکہ قادیان کی مرکزی حیثیت سے باہ والوں کے لیے روزانہ درس کی ضرورت ہے اور یہاں کے لوگوں کے لیے روزانہ درس بطور عادت ہو جاتا ہے اس لیے اب درس کا سوال بہت اہم ہو گیا ہے.میرے نزدیک یہ بات ضروری ہے کہ ہمیشہ درس جاری رہے اور مہمانوں کی ضروریات مقدم ہوں.اور وہ لوگ جن کے لیے روزانہ درس بطور عادت ہوگیا ہے اور جو اگر درس نہ ہو تو ٹھوکریں کھاتے ہیں انہیں میں ایک نصیحت کرتا ہوں کیونکہ درس میں کبھی روکاوٹ بھی پیدا ہونا ہوتی کیونکہ بشریت ہر ایک شخص کے ساتھ لگی ہوتی ہے.بیماریاں بھی آتی ہیں اور بھی مجبوریاں ہوتی ہیں پس میرے نزدیک وہ لوگ جو روزانہ درس سنتے ہیں.ان کو چاہیئے کہ وہ عادت کے طور پیر اسے نہ نہیں بلکہ اپنا روزانہ محاسبہ بھی ساتھ جاری رکھیں.جن لوگوں کو عادت ہو جاتی ہے.وہ واقعی ابتلا.میں پڑتے ہیں، لیکن اگر وہ محاسبہ جاری رکھیں گے تو ٹھوکروں سے بچ جائیں گے.دیکھا جاتا ہے کہ جن لوگوں کو کسی حرکت کی عادت ہو جاتی ہے.وہ ہر وقت ان سے سرزد ہوتی رہتی ہے.مثلاً بعض لوگوں کو ناک ہلانے کی عادت ہوتی ہے.بعض کو خاص طور پر ہاتھ ملانے کی عادت ہوتی ہے.وہ اسی طرح ہو جاتی ہے کہ بغیر جانے کے وہ یہ حرکت شروع کر دیتے ہیں، لیکن اگر کوئی شخص جان کر کسی کام کے لیے ہزار بار بھی کوئی حرکت کرے تو وہ اس کی عادت میں داخل نہیں ہوگی.ایک دوست جو پرانے مخلص ہیں ان کو دیکھیا ہے کہ ان کی انگلیاں ہوتی رہتی ہیں ان سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ غیر احمدی ہونے کی حالت میں زیادہ تسبیح پھرانے کے باعث یہ عادت ہو گئی ہے.اگر تبی نہ بھی ہو تو بھی انگلیاں بہتی رہتی ہیں.تو اس قسم کی عادت کی وجہ غفلت ہوتی ہے اور غفلت کے باعث اعصاب خود بخود حرکات کرتے رہتے ہیں ہیں وہ لوگ جو روزانہ درسوں میں شامل ہوں وہ بطور
١٩١ عادت کے شال نہ ہوں.بلکہ ہر روز یہ نیت بکر آیا کریں کہ میں کچھ سیکھنا ہے.اگر وہ روزانہ اس نیت سے شامل ہونگے اور بغور نیں گے تو انشاء اللہ ان کے لیے بہت مفید ہوگا.اس بیماری کے دوران میں یہ نقص بھی سمجھ آگیا.ورنہ جب حضرت مولوی صاحب فرمایا کرتے تھے.تب یہ بات خیال میں بھی نہیں آتی تھی کہ روزانہ درس کے باعث بعض نقص بھی پیدا ہو سکتے ہیں.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری صحت پہلے سے بہت اچھی ہے اور ارادہ ہے کہ درس جاری کر دوں مگر چونکہ ابھی صحت پورے طور پر اچھی نہیں ہوتی.اس لیے ارادہ ہے کہ ہفتہ میں تین دن درس ہوا کرے اور انشاء اللہ اسی ہفتہ سے شروع کر دونگا.ہفتہ کا دن چونکہ جمعہ کے قریب ہوتا ہے.اس لیے ری مستورات کے لیے، کیونکہ وہ اس کو یاد رکھ سکتی ہیں اور پیر اور بدھ کے دو دن مردوں کے لیے ہونگے.اگر اللہ تعالیٰ توفیق دیگا تو اس کو بڑھایا بھی جاسکے گا.) الفضل ۸ اپریل 2 121919 شن
۱۹۲ 37 انسانی تخلیق کی غرض فرموده ۴ - اپریل - 1919 حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- انسان کی پیدائش کی غرض اور اس کے اس دنیا میں بھیجے جانے کا مقصد قرآن کریم میں الہ تعالی صرف ایک ہی بیان فرماتا ہے اور وہ یہ کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ الذاريات : ٥٠ حبق وانس کی پیدائش کی غرض تو صرف یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کریں.تو انسان کی پیدائش کی یہ غرض بیان کی گئی کہ میرے عابد ہو جائیں اور میری عبادت کرنے لگ.ہیں.اور سورۃ فاتحہ میں گویا اس غرض کے پورا ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے.اور انسان کی زبانی اقرار کرا یا ہے کہ ایاک نعبد میں تیری ہی عبارت کرتا ہوں.اس اقرار میں دو باتوں کا ذکر ہے کہ انسان عبادت کرتا ہے اور خدا ہی کی کرتا ہے اور وہاں بھی دو ہی باتیں بیان کی ہیں کہ انسان کی پیدائش کی غرض یہ ہے کہ عبادت کرے اور خدا ہی کی کرے ہیں وہاں ار غرض بنائی تھی تو بیاں انسان اقرار کرتا ہے کہ میں نے وہ غرض پوری کر دی جس کے لیے مجھے اس دنیا میں بھیجا گیا تھا.یہ دعویٰ عربی زبان میں اتنا بڑا دعوی ہے کہ اردو زبان میں اگر کسی مسلمان یا احمدی اور خاص احمدی کو بھی کہا جائیگا کہ کیا تم نے وہ غرض پوری کر دی تو وہ کیسنگا کہ مجھ میں تو نقص ہیں.میں نے کہاں اس غرض کو پورا کیا ہے.بندوں کے سامنے تو کہے گا کہ میں نے اس غرض کو پورا نہیں کیا.مگر خدا کے سامنے کہتا ہے کہ میں نے وہ غرض پورا کردی ہے.حالانکہ جرات کا مقام تو خدا کے بند ہے میں نہ کہ خدا ہندوں کے سامنے انسان تقیہ کر سکتا ہے.جھوٹ بول سکتا ہے، اپنی حالت کو چھپا سکتا ہے.مخفی رکھ سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ سے ان باتوں میں سے کوئی بھی نہیں کرسکتا، مگر نجیب بات ہے کہ لوگ اُردو میں تو یہ کہتے ہوئے ڈرتے ہیں.مگر عربی میں وہی بات خدا کے سامنے کھتے ہیں اور یہ بات کچھ اردو سے
ہی خاص نہیں، فارسی والے فارسی میں نہیں کہ سکتے کہ انھوں نے اس مرض کو پورا کردیا ہے چین کے لوگ چینی میں نہیں کہہ سکتے.یورپ کے لوگوں میں سے انگریزی بولنے والے انگریزی میں نہیں کہ سکتے.فرانسیسی بولنے والے فرانسیسی میں نہیں کہ سکتے.جرمن بولنے والے جرمن میں نہیں کہ سکتے.خود عرب جن کی یہ زبان ہے.وہ بھی دوسرے لفظوں میں اس مطلب کو بیان نہیں کر سکتے.اور بیان کرتے ہوئے ڈرتے ہیں.لیکن ان لفظوں کو خدا کے سامنے ایک دفعہ نہیں دن اور رات میں کئی دفعہ دہراتے ہیں.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ الفاظ دہرانا کوئی چیز نہیں ہوتا جب تک الفاظ کے اندر معنی نہ ہوں اور ان کی حقیقت کے مطابق عمل نہ ہو پیس جب خدا نے یہ کہا ہے کہ ہم نے انسان کو اس غرض سے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کرے تو انسان اس کا جواب ان لفظوں میں دیتا ہے کہ میں تو تیری ہی عبادت کرتا ہوں جس طرح ایک انجینیئر یا ایک مدرس - ایک کلرک اپنے آقا کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ نے جو کام میرے سپرد کیا تھا میں اسکو پورا کر چکا ہوں.اسی طرح جب ایک شخص خدا تعالی کے حضور جا کر کہتا ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ کہ آپ نے جو میرے سپرد اپنی عبادت کرنے کا کام کیا تھا میں اس کو کر آیا ہوں.مثلاً ظہر کے وقت کہتا ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ کہ صبح سے اس وقت تک جو کچھ میں نے کیا ہے وہ سے کھوئیں تیری ہی عبادت کی ہے اور تیرے خلاف منشا قدم نہیں اُٹھایا.اور پھر عصر کی نماز میں ظاہر کرتا ہے کہ ظہر اور عصر کے درمیانی وقفہ میں میں نے اس غرض کو پورا کیا ہے جس کے لیے تو نے مجھ کو پیدا کیا ہے پھر مغرب کی نماز کے وقت کہتا ہے عصر اور مغرب کے درمیان وہی غرض یوری کی ہے جس کے لیے سے پیدا کیا گیا ہے اور پھر عشاء کے وقت ظاہر کرتا ہے کہ خدا یا مغرب اور عشاء کے درمیان میں نے اس غرض کو پورا کیا ہے جس کے لیے تونے مجھ کو پیدا کیا اور پھر صبح کی نماز میں کہتا ہے کہ خدا یا عشاء کے بعد سے میں نے اس غرض کو پورا کیا ہے جس کے لیے تو نے مجھے دُنیا میں بھیجا تھا.پس اسی طرح ساری عمر کے کاموں کا خدا تعالیٰ کے سامنے اعلان کرتا ہے یہ کتنا بڑا دعویٰ ہے مگر دوسرے لفظوں میں یہی بات ظاہر کر تے ہوئے موت پڑیگی.حالانکہ انسان روزانہ اقرار و اظہار کرتا ہے کہ اب تک تو میں اس غرض کو پورا کر چکا ہوں جس کے لیے مجھے پیدا کیا گیا اور آئندہ کے لیے مدد چاہتا ہوں.پھر دوسرے وقت میں جاتا ہے اور کہتا ہے کہ خُدایا اب تک تو اس غرض کو پورا کر چکا ہوں آئندہ کے لیے تیری مدد کی ضرورت ہے اب بتاؤ جو لوگ کہتے ہیں کہ وہ اس غرض کو پورا کر چکے ہیں جو ان کے
۱۹۴ پیدا کرنے کی ہے.تو کتنا بڑا دعوی کرتے ہیں، لیکن جب ترجمہ کر کے ان سے سوال کیا جاتا ہے تو اس بات تھے کہنے سے اُن کا دل کانپ جاتا ہے.در حقیقت یہ محض انکسار ہی نہیں ہوتا بلکہ واقعہ میں بہت تھوڑے ہوتے ہیں جو اس غرض کو پورا کرتے ہیں.ہاں بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو اس کوشش میں لگے ہوتے ہیں اور وہ اپنی میں سمجھے جاتے ہیں جنہوں نے اس فرض کو پورا کر دیا ہے کیونکہ اسلام نے کوشش کرنے والوں کو بھی ای مد میں رکھا ہے جس میں کام کو پورا کرنے والے ہوتے ہیں.مثلاً جو لوگ حج کو جاتے ہوئے رستہ میں مر جاتیں ان کو حج کا ثواب ملے گا.اور جو نماز کے انتظار میں مرجاتیں ان کی موت نمازہ کی حالت میں شمار کی جائیگی.پس وہ بندہ جو عبادت کی کوشش میں ہے کہ سکتا ہے کہ وہ اپنی پیدائش کی غرض کو پورا کر چکا.کیونکہ لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقره : ۲۸۰) اللہ تعالیٰ نے کسی نفس کی طاقت سے زیادہ بوجھ اس پر نہیں رکھا.پس جو شخص حتی المقدور کوشش کرتا ہے وہ کہہ سکتا ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ کہ میں تیری ہی عبادت کرتا ہوں، لیکن جو گوشش بھی نہیں کرتا مگر کہتا ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں تیری ہی عبادت کرتا ہوں.یعنی اس غرض کو پوری کر چکا ہوں جس کے لیے تو نے مجھکو پیدا کیا تو وہ جھوٹ بولتا ہے وہ خدا کے سامنے افتراء کرتا ہے اس لیے بجائے اس کے کہ اس کو اجر ملے وہ مذاب میں گرفتار کیا جائیگا.پس إِيَّاكَ نَعْبُدُ کہتے ہوئے بڑا خوف دل میں رکھنا چاہیئے کیونکہ اگر اس نے واقعہ میں عباد نہیں کی.یا اس کی راہوں پر چلنے کی کوشش بھی نہیں کی.اور پھر وہ یہ کہتا ہے کہ میں اس وقت تک کی عبادت کر چکا ہوں.تو وہ جھوٹ سے کام لیتا ہے اور خدا کے سامنے افتراء کرتا ہے.اب رہا یہ سوال کہ عبادت کیا چیز ہے یہ ایک بہت بڑا مضمون ہے اس کے بیان کرنے کا وقت نہیں ہے اس لیے اب میں ختم کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی توفیق دے کہ ہم اس غرض کو پورا کریں جس کے لیے اس نے ہمیں پیدا کیا ہے : الفضل ۱۲ را پریل شاله )
هندية ۱۹۵ 38 موجودہ حالات میں دُعا سے کام لو د فرموده ادراپریل شاشاته ، حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- بہت سے مذاہب جن کا پتہ دنیا میں ملتا ہے دُعا کے قائل ہیں بہت سے مذاہب سے میری مراد یہ نہیں ہے کہ موجودہ مذاہب میں سے بہت.بلکہ میری مراد ان کے مقابلہ میں ہے جو مٹ گئے ہیں.ان کی اگر چہ نہیں پوری تفصیلیں معلوم نہیں مگر ہم موجودہ پر قیاس کرکے کہ سکتے ہیں.اگر ہم ان ممالک کی حالت پر غور کریں جنہوں نے کبھی تہذیب و تمدن کو دیکھا ہے تو ان میں مبقدر بھی مذاہب ہوتے ہیں.ان تمام میں دعا پر خاص زور دیا گیا ہے.اس میں شبہ نہیں کہ بعض نے زیادہ زور دیا ہے اور بعض نے کم اور بعض دعا کی اصلیت اور حقیقت سے منکر ہو گئے ہیں اور ان میں محض دعا کا نام رہ گیا ہے.یعنی بعض میں دھاتو کی جاتی ہے مگر اس کے اثرات اور برکات کے قائل نہیں مثلاً بر ہو اور آریہ دعا کرتے ہیں.پراتھنائیں کرتے ہیں مگر ان کا یقین ہے کہ دُعا نہ کچھ بگاڑ سکتی ہے اور نہ کچھ بناسکتی ہے.تو ان میں دعا کا وجود ہے.مگر رسم اور نام کے طور پر نہ کہ اصلیت اور حقیقت کے لحاظ سے.ہر حال یہ ثبوت ہے.اس بات کا کہ دُعا کا وجود تمام مذاہب میں پایا جاتا ہے اور کوئی مذہب اس سے خالی نہیں.یہ الگ بات ہے کہ وہ دُعا کے برکات سے محروم ہیں اور اس کی وجہ انبیاہ کے سلسلہ سے منقطع ہونے کی ہے، لیکن کسی نہ کسی رنگ میں دُعا ان میں پائی جاتی ہے.پرانی تاریخ کو دیکھو تو معلوم ہوگا کہ پہلے لوگ بھی دُعا کے قاتل تھے اور آجکل کے لوگ گو اثرات کے قائل نہ ہوں.مگر عملاً دعا کرتے ضرور ہیں.اسلام کو دیگر مذاہب پر جس طرح اور باتوں میں خصوصیتیں حاصل ہیں.اسی طرح دعا کے بارے میں بھی پسندم
144 ایک فوقیت ہے اور وہ یہ کہ اسلام نے نہ صرف دُعا کے ایسے گر بتاتے ہیں جن پر عمل کر کے انسان کامیاب ہو سکتا ہے اور نہ صرف یہ کہ اس میں دُعا پر خاص زور دیا گیا ہے اور نہ صرف یہ کہ اسلام نے ہر موقعہ کی دُعا کے لیے بہترین سے بہترین الفاظ انتخاب کر کے رکھ دیتے ہیں.اور نہ صرف یہ کہ دن کے تمام حصوں کے متعلق دکھاتیں تلقین کی گئی ہیں.اور نہ صرف یہ کہ اسلام اپنی دعا کے نتیجہ میں زندہ نشان کھانا ہے بلکہ ان تمام باتوں کے علاوہ اسلام میں دُعا کے بارے میں ایک اور خصوصیت ہے اور وہ یہ کہ اسلام کی بنیاد ہی دُعا پر ہے.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نتیجہ اس دعا کا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی کہ اسے خدا ایک ایسے نبی کو پیدا کرنا جو ان ان خوبیوں والا ہو.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی دعا کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ تعالیٰ نے پیدا کیا.پس اسلام اور دیگر مذاہب میں دُعا کے بارے میں ایک فرق ہے.اگر چہ اور بھی اسلام اور دیگر مذاہب میں فرق ہیں.مگر وہ ایسے ہیں کہ خاص خاص اوقات میں وہ باتیں اور نشانات دیگر مذاہب بھی رکھتے تھے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس کی بنیاد دُعا پر ہے اس لیے یہ کہنا درست ہے کہ اسلام دُعا ہے.اور دعا اسلام ہے.دونوں ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہیں.دعا اور اسلام جدا نہیں ہو سکتے.اسلام کیا ہے.اپنے آقا اپنے مولا اپنے خدا کی فرمانبرداری کرنا اور مسلمان وہ ہے جس کی نظر ہر وقت اپنے آقا کے احکام کی طرف ہو.جو خدائی ارشاد ہو اس کو قبول کرے اور جب بندہ پکار سے تو ادھر سے اس کو جواب ملے.مگر افسوس ہے کہ بہت لوگ اس کی حقیقت سے واقف نہیں.عام طور پر رواج کے مطابق دعائیں کرتے ہیں، لیکن نہیں یقین کرتے کہ ان کا کچھ اثر بھی ہوتا ہے.وہ نہیں جانتے کہ کس غرض سے دُعا کرتے ہیں.اور نہیں معلوم کرتے کہ کیوں ہاتھ اُٹھاتے ہیں.نماز میں دُعائیں پڑھتے ہیں.مگر غور نہیں کرتے کہ ان دعاؤں کا کیا مطلب اور مقصد ہے.غرض جو چیز اسلام کی جان ہے اور جو چیز اسلام کی بنیاد ہے اور جو اسلام کے ساتھ ایسی پیوست ہے کہ جدا نہیں ہو سکتی.اس سے مسلمان جدا ہو گئے.اور اس سے ہی جدا نہیں ہوئے بلکہ اسلام سے جُدا ہو گئے.کیونکہ جو اس سے جدا ہوتا ہے.وہ اسلام سے جدا ہوتا ہے.پیس لوگوں نے دُعا کو چھوڑ کر ل سورة البقرة : ١٣
194 اسلام کو چھوڑ دیا.اس کے متعلق یہ نہیں بتایا جاسکتاکہ مسلمانوں نے پہلے اسلام کو چھوڑا یا دعا کو چھوڑا.جیس طرح یہ نہیں بتایا جاسکتا کہ مرغی پہلے ہوئی یا انڈا.اس طرح یہ بھی نہیں بتایا جاسکتا کہ دعا چھوڑنے کا یہ نتیجہ ہے کہ اسلام کو چھوڑ دیا.یا اسلام کو چھوڑنے کا نتیجہ ہے کہ دُعا کو چھوڑ دیا.لیکن جو شخص اسلام کو مضبوط کپڑے ہوتے ہے وہ دعا کونہیں چھوڑ سکتا.اور جو دعا کونہیں چھوڑتا وہ اسلام کو نہیں چھوڑتا.کیونکہ دُعا وہ چیز ہے جس سے انسان زندہ خدا کو پا سکتا ہے اور دعا ہی وہ چیز ہے جو زندہ خدا کو سامنے کھڑا کر دیتی ہے.ورنہ اگر دھا کو چھوڑ دیا جائے تو انسان کو زندہ خدا نہیں مل سکتا.بلکہ اس کا خدا مردہ ہو جاتا ہے.مگر یہ موت ظاہری موت نہیں ہوتی بلکہ ایک اور قسم کی موت ہوتی ہے.یوں ظاہری موت سے تو خدا کے انبیا فوت ہوتے ہیں.ان کا جسم زمین میں چلا جاتا ہے.مگر ان کی موت ہلاکت کی موت نہیں ہوتی بلکہ وہ مرنے کے بعد بھی ہمیشہ کے لیے زندہ ہوتے ہیں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- والعصر ان الانسان لفي خسره الا الذین امنوا وعملوا الصلحت (سورة العصر کہ انسان گھاٹے اور ہلاکت میں ہے.مگر مومن انسان ہلاکت میں نہیں ہے.پس جب معمولی مومن نہیں مرتا.تو خدا کے انبیاء بدرجہ اولیٰ انہیں مرتے کیونکہ اگر وہ مرجائے تو ان سے کوئی محبت نہیں رکھتا.کیونکہ مردے سے کسی کو محبت نہیں ہوتی.لیکن جس طرح خدا زندہ ہے اسی طرح خدا کے ساتھ تعلق رکھنے والے بھی زندہ رہتے ہیں.ان کے مرنے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ وہ اس جہان سے علیحدہ اور الگ ہو جاتے ہیں.نہ کہ وہ مر جاتے ہیں.مرتے وہی ہیں جن کے نام و نشان مٹ جاتے ہیں مثلاً ابوجبل مرگیا.کیونکہ اس سے کوئی محبت رکھنے والا نہیں ہے.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں.حضرت عیسی زندہ ہیں اور حضرت موسیٰ زندہ ہیں کیونکہ ان سے محبت کرنے والے موجود ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے.لہذا ان سے محبت ہو سکتی ہے.تو خدا سے دعا کرنا تعلق زندگی پیدا کرنا ہے ورنہ دُعا کے بغیر خدا کا بھی ثبوت نہیں.اور اس شخص کے لیے جو دعا کو بے اثر اور بے نتیجہ کہتا ہے خدا مر جاتا ہے.وہ مذاہب جو دُعا کرتے ہیں مگر دُعا کی برکات کے قاتل نہیں ہیں وہ مردہ ہیں.اور خشک ہو گئے ہیں.ان کے پیرو اگر اس وقت دعا سے کام نہیں لیتے یا دعا پر اعتقاد نہیں رکھتے تو وہ معذور ہیں، لیکن کوئی مسلمان معذور نہیں سمجھا جا سکتا.کیونکہ اسلام وہ مذہب ہے جو زندہ نشان دیتا ہے اور دکھاتا ہے کہ دُعا کے اندر بڑی بڑی برکات ہیں کہ زندہ خدا کو وہ دکھا
١٩٨ دیتا ہے.نیس مومن کو کبھی دعا سے غافل نہیں ہونا چاہیئے.آجکل اس قدر جلد جلد حالات بدل رہے ہیں کہ کوئی شخص نہیں کہ سکتا کہ کیا ہونے والا ہے.وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود کی اس پیشگوئی کے متعلق جس میں دُنیا میں زبر دست زلزلہ کے آنے کی اطلاع دی گئی تھی.کہا کرتے تھے کہ زلزلہ اگر یورپ میں آیا ہے تو آئے.ہندوستان میں کہاں ہے.آج وہ دیکھ لیں کہ ہندوستان کی کیا حالت ہے پھر وہ لوگ جو کہتے تھے کہ جب تک اس ملک میں زلزلہ نہ آئے.اس وقت تک اس پیشگوئی کو نہیں مان سکتے.آج ان کے گھروں کے سامنے خون بہہ رہے ہیں اور آج ان کے گھروں کے سامنے زلزلہ آگیا.میں نے شاہ میں ایک اشتہار بنگالی میں دیا تھا جس میں بتایا تھا کہ مسیح موعود آگیا.اس کو قبول کرو.بنگال سے بعض خط میرے پاس آئے کہ تم کہتے ہوکہ مسیح موعود آگیا.حالانکہ سیح موعود اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک مسلمانوں کی حکومتیں مٹ نہ جائیں.اس کے تھوڑے ہی دن بعد جنگ شروع ہو گئی.اور ترک جرمنوں کے ساتھ مل گئے.اس وقت میں نے کہا اگر پہلے خیال بھی ہو سکتا تھا کہ شاید جرمن جیت جائیں گے تو اب جبکہ ترک ان کے ساتھ مل گئے ہیں.ان کی شکست یقینی ہے.کیونکہ خدا نے جس قوم کی شکست کو مقدر کر دیا ہو وہ جس کے ساتھ بھی شامل ہو گی اُسکو بھی لے ڈوبے گی چنانچہ مں نے اپنی دنوں میں ایک خطبہ میں اعلان کیا کہ اب وہ بھی اترک بھی باقی نہیں رہیں گے.چنانچہ اب ان کی جو حالت ہو رہی ہے.وہ سب کو معلوم ہے.تو دشمن نے کہا تھا کہ جنگ اگر زلزلہ ہے.تو ہمارے ملک میں نہیں آیا.خدا نے اس ملک میں بھیج دیا.دشمن کہتے تھے کہ جب تک ترک تباہ نہ ہوں میسج موعود نہیں آسکتا.خدا نے ایسا ہی کر دیا.اور جس جس رنگ میں اعتراض کیا گیا.خدا نے اسی طرح اس کا دندان شکن جواب دیا، لیکن ہمارے لیے یہ عبرت کا موقعہ اور خدا کے حضور گریہ و زاری کرنے کا مقام ہے تاکہ یہ تغیرات ہمارے لیے خدا کے فضل کے ماتحت برکات کا موجب ہوں اور کسی ابتلاء کے سبب نہ ٹھہریں.پس یہ وقت غفلت کا نہیں ہے بلکہ یہ وقت خدا تعالیٰ کے حضور گر کر عاجزی اور انکساری سے دُعائیں کرنے کا ہے.کیونکہ خدا کے ابلام کا برداشت کرنا کوئی آسان بات نہیں ہے.بعض لوگ خیال کیا کرتے ہیں کہ مشکل سے مشکل ابتداء کو برداشت کر لیں گے.لیکن وقت پر وہ چھوٹے سے چھوٹے ابتلا کو بھی برداشت نہیں کر سکتے.پس خدا کے ابتلاؤں عذابوں سے بے خوف نہیں ہونا چاہیتے بلکہ جہاں تک ہو سکے ان سے بچنے کی کوشش کرنا چاہیتے اور دُعا کرنی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ اس نازک وقت میں نہیں صحیح طریق پر
199 سے جو اس کے علم میں بہتر ہو چلنے کی توفیق دے اور اگر کوئی آفت آن پڑے تو اس کو بہادری برداشت کرنے کی توفیق بخشے.ہمارے جو بھائی دور دور مختلف علاقوں میں ہیں ان کو بھی اللہ تعالیٰ ہر طرح کی باتوں اور ابتلاؤں اور آفتوں سے بچائے اور اپنی رحمت اور برکت کو ہم پر نازل کرے.) الفضل ۳ رمتی واته ) امین
39 امن قائم رکھنا ہمارا مذہبی فرض ہے فرموده ۲۵ اپریل شاشته) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- چند دن سے چونکہ میرے حلق میں تکلیف ہے.اس کی وجہ سے میں زیادہ نہیں بول سکتا اس لیے میں مختصراً آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں جس کا یا د رکھنا آپ کے لیے مفید اور نہایت ضروری ہے.یہ یاد رکھو کہ خدا کی جو نعمتیں آتی ہیں.اور اس کے جو احسان و انعام ہوتے ہیں.ان نعمتوں اور احسانوں اور انعاموں کے رد کرنے والے دنیا میں بڑا دکھ پاتے ہیں.اور ہم دیکھتے ہیں کہ عموماً کچھ دنت بعد لوگ نعمت کو بھول جاتے ہیں اور ان کو نعمت کی قدر نہیں رہتی کیونکہ عموماً طبائع ایسی ہیں جو کہ تغیر کو پسند کرتی ہیں.ایک شخص کو خاص قسم کا کھانا ہے اور متواتر ملتا ہے چند عرصہ کے بعد وہ شور مچا دے گا.جن لوگوں کو عمدہ غذائیں ملتی ہیں.وہ ادنی غذاؤں کی طرف توجہ کرتے ہیں.جہاں غریب اس خیال میں ہوتا ہے کہ امیر خدا جانے کیا نعمتیں کھاتے ہیں.وہاں امیر کسی غریب کے گھر کے پاس سے گذریں گے تو کہیں گے کہ ہمارے ہاں سب کچھ پکتا ہے، لیکن جیسی اس غریب کے ہاں کی ہنڈیا سے خوشبو آرہی ہے.ویسی تمہیں کبھی اپنے کھانوں سے نہیں آتی.حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ امراء کو ان نعمتوں کی قدر نہیں ہوتی.اس لیے وہ ان کے لیے بے لذت ہو جاتی ہیں.ایک رئیس جو غدر میں تباہ ہوگیا.اس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ روز سیاہی کو حکم دیتا تھا کہ سی غریب کی ہنڈیا اُٹھا او.اور جو اس کا اپا کھانا ہوتا تھا وہ اس کے ہاں بھجوا دیا تھا.اس کی بہ وجہ نہیں تھی کہ وہ بڑا نفس کش اور متقی آدمی تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ خدا نے اس کوجو نعمتیں دے رکھی تھیں وہ ان کی قدر نہیں کرتا تھا.غرض بہت انسان تو ایسے ہوتے ہیں کہ وہ بہت جلد ایک حالت سے گھبرا جاتے ہیں، قرآن کریم میں ایک قوم کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے کہ وہ خدا کی ناشکری میں یہانتک بڑھ گئی
۲۰۱ تھی کہ وہ آبادی سے گھبرانے لگ گئی تھی اور اس امر کی شاکی تھی کہ خدا نے ان کے ملک کو کیوں اسقدر آباد بنا دیا ہے کہ جنگل کوئی نظر ہی نہیں آتا.پھر خُدا نے اس قوم پر عذاب بھیجا.اور اس قوم کو تباہ کردیا تو جب انسان کی عقل ماری جاتی ہے اچھی بات برخی معلوم ہوتی ہے اور پھر مجیب عجیب دلائل کو جھنے لگتے ہیں.بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ فلاں شخص نے جو ہم پر احسان کیا ہے وہ احسان کہاں ہے اس میں اس کا ذاتی فائدہ بھی تھا.مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر کسی شخص کا کسی بات میں ذاتی فائدہ بھی ہو تو وہ نیکی کیوں نہیں رہتی.احسان کے صرف اتنے معنی ہیں کہ ایک شخص کسی دوسرے کے ساتھ کوئی ایسا کام کرے جس میں اس دوسرے شخص کا فائدہ ہو اور اس کی نیت ہو کہ اس سے اُسے آرام ملے اور یہ بات احسان کے منافی نہیں ہے کہ اس نیکی یا بھلائی کرنے والے کو بھی اس کے ذریعہ کوئی فائدہ پہنچتا ہو.اگر کسی کی اپنی عرض کے باعث احسان احسان نہیں رہتا تو ماننا پڑیگا کہ خدا کا بھی نعوذ باللہ کوئی احسان نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ اس نے انسان کو جو پیدا کیا ہے اس کی خاص غرض اور منشاء ہے.جیسا کہ فرمایا ماخلقت الجن والانس الا لِيَعْبُدُونِ (الذريت :٥)کہ ہم نے انسان کو اس غرض سے پیدا کیا ہے کہ وہ ہماری عبادت کرے تو اب دیکھ لو کہ خدا کے مخلوق پیدا کرنے میں بھی ایک غرض اور غایت ہے.تو کیا اس طرح کوئی شخص کہ سکتا ہے کہ خدا کا ہم پر احسان نہیں ہے کیونکہ اس نے ایک غرض سے پیدا کیا ہے.یہ ایک موٹی بات ہے اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اللہ کی صفت خالقیت تقاضا کرتی ہے کہ وہ پیدا کرے تو کوئی نادان کہدے کہ اگر وہ پیدا نہ کرتا تو کیسے ثابت ہوتا کہ وہ خالق ہے.یا اگر وہ رحم نہ کرتا تو رحم کیسے کہلاتا، یا گروہ ربوبیت ن کرتا تورب کیسے کہلاسکتا تھا.پس یہ جو کچھ وہ کرتا ہے یہ اس کی صفات کا تقاضا ہے.اگر وہ یہ کام کرتا تو اس کی صفات کا کس طرح اظہارہ ہو سکا تو یہ کام یعنی رحیمیت رحمانیت اور ربوبیت وغیرہ ہم پر کوئی احسان نہیں یا مثلاً اگر دکھ اور آفت اور مصیبت میں ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے دُکھ اور آفت کو دور کرتا ہے کیونکہ وہ روف ہے تو کہدیا جاوے کہ اس کے یہ افعال ہم پر احسان کے طور پر نہیں بلکہ اپنی صفات کے پورا کرنے کے لیے ہیں.اور پھر سہی طریق انسانوں میں چلے گا اور ماں باپ کے متعلق کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ ماں باپ کا ہم پر کیا احسان ہے اُنھوں نے اپنے خاص اغراض کو پورا کیا اور اسکا نتیجہ اس کی ولادت کی صورت میں ظاہر ہوگیا اور ماں نے جو اس کو گودیوں میں کھلایا ، دودھ پلایا ، پرورش کیا تو یہ اس نے اپنی مامتا کے تقاضا سے ے سورة سبا : ٢٠
کیا اس پر کوئی احسان نہیں کیا یا ملاً شاگرد کے کہ استاد نے مجھ پر احسان نہیں کیا.وہ تنخواہ لیا تھا مجھکو پڑھا تا تھا.ہیں یہ اصول نہایت غلط ہے کہ چونکہ نیکی کرنے والے کو بھی کچھ فائدہ پہنچتا ہے تو اس طرح گویا وہ نیکی اور احسان زائل ہو جاتا ہے کیونکہ احسان کی یہ تعریف درست ہی نہیں کہ ایسا کام جس سے دوسرے کو ہی فائدہ پہنچے اور کام کرنے والے کی اس میں نہ کوئی غرض ہوا اور نہ اس سے کوئی فائدہ حاصل ہو.ہاں کوئی شخص کسی سے کوئی ایسا سلوک کرے جس سے اس کو نقصان پہنچ سکتا ہو ، لیکن خدا تعالیٰ اس کام کو اس کے حق میں بجائے بدی اور نقصان کے مفید اور بابرکت کردے تو یہ جدا بات ہے اگر یہ نہیں تو ہر ایک کام جس سے کسی کو فائدہ پہنچے اور فائدہ پہنچانے والے کو بھی کچھ فائدہ پہنچ جائے تو یہ سب احسان میں داخل ہے.اگر یہ نہ ہو تو تمام احسانات، خدا کے حسان والدین کے احسان اور استادوں کے احسان سب مٹ جاتے ہیں.یہ احسان کی تعریف جو لوگ کرتے ہیں.غلط تعریف ہے.کسی غرض وغایت کا ہونا احسان کے منافی نہیں ہے.اور یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بعض باتیں جو بندوں کے ذریعہ ہمیں حاصل ہوتی ہیں.اگر انھیں بندوں کا احسان نہ بھی مانا جائے اور یہی تسلیم کر لیا جائے کہ ان بندوں کا بھی فائدہ ہے تو بھی ان کے متعلق تسلیم کرنا پڑ گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احسان ہیں گو بندوں کے ذریعہ ہیں.اس لیے ہمیں ان کی قدر کرنی پڑتی ہے.اس کی مثال یہ ہے کہ اس زمانہ میں بہت سے علوم نکلے ہیں جو دنیا کے لیے بہت مفید ہیں اور ان کو استعمال کرنے سے دنیا کو بہت فوائد حاصل ہو رہے ہیں.مثلاً قسم قسم کی ایجادیں ہیں.یہ درست ہے کہ ان ایجادوں سے تاجروں کو بھی فائدہ ہے اور ان کو کسی خاص شخص کو فائدہ پہنچانا مد نظرنہیں لیکن اس میں کلام نہیں کہ اس ایجاد سے ہمکو ایک فائدہ پہنچ رہا ہے.تو اس کارخانہ کے ذریعہ یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر ایک احسان ہے.اگر ہم اس کارخانہ کو توڑ دیں اور جلا دیں تو بیشک کارخانہ دارد کو نقصان پہنچے مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہم نے اس کی احسان فراموشی کی اگر اس میں بھی شک نہیں کہ ہمارے اس فعل میں خدا تعالیٰ کی احسان فراموشی ہو گی جس نے اس کارخانہ کے ذریعہ ہمارے لیے آسائش کے ذرائع پیدا کر دیتے تھے.پس بعض دفعہ خواہ اس انسان کا ہم پر احسان نہ ہو لیکن اس کے ذریعہ سے خدا کا ہم پر احسان ہوتا ہے.اگر ہم اس کو نقصان پہنچائیں.تو وہ خدا تعالیٰ کے احسان کا کفران ہے اور اس کی احسان فراموشی ہے.غرض بعض لوگوں کا قاعدہ ہے کہ ایک ہی حالت سے گھبرا جاتے ہیں.کوئی کپڑا ہو
وہ پھٹے نہیں تو کہیں گے کمبخت پھٹنے میں ہی نہیں آتا.یا جوتا چھ مہینے کی بجائے سال بھر تک چلے تو کہیں گے کمبخت ٹوٹنے میں ہی نہیں آتا.اسی مزاج کے لوگوں کا اس وقت گورنمنٹ کے متعلق خیال ہے.کہ یہ ٹوٹتی کیوں نہیں.گویا گورنمنٹ کا کوئی قصور ہے تو یہ کہ یہ ٹوٹتی کیوں نہیں.حضرت مسیح موعود ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ ایک گاؤں کا نام تھا تم بادشاہ وہاں سے گزرا اور وہاں ٹھرا اور پوچھا کہ اس گاؤں کا کیا نام رہے بتایا گیا کہ اس کا نام ہے تم بادشاہ چلا گیا اور حکم بیا يا قاضي كُمْ إِنَّا عَزَلْنَاكَ فقم اسے قم کے قاضی ہم نے تجھ کو معزول کیا پس اُٹھ کھڑا ہو.قاضی کو جب یہ حکم ملا تو رو پڑا اور کہا کہ مجھے تو اس قافیہ نے تباہ کیا.محض قافیہ کے خیال سے بادشاہ نے یہ حکم بھیجا ہے.اور اس قافیہ نے میرا گھر تباہ کر دیا.بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے، لیکن آج سے دس پندرہ برس پہلے اگر سیکنڈ کلاس میں دس دیسی ہوتے تھے اور ایک انگریز تو وہ دسوں اس قدر ڈرتے تھے جس کی حد نہیں اور بعض انگریز بھی حکومت کے زعم میں برا رویہ اختیار کرلیتے تھے.اگر سیکنڈ کلاس میں کوئی انگریز ہوتا اور وہاں جگہ خالی ہوتی اور دیسی داخل ہونے لگتا تو وہ اسباب بیچ کے نیچے سے اُٹھا کر سیٹ کے اوپر رکھ دیتا.گو میرا تجربہ زیادہ نہیں.مگر میں نے خود یہ حالت دیکھی ہے مگر اس کے بعد چند سالوں سے اس حالت میں ایک تغیر بھی دیکھا ہے کہ ریل میں انگریز مسافر خود اسباب کو پرے ہٹا کر دیسیوں کے لیے جگہ خالی کر دیتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپس کے سلوک میں پہلے سے بہت ترقی ہو رہی ہے.پس اب گورنمنٹ پہلے سے خراب نہیں ہوگئی.بلکہ اصل بات یہ ہے کہ لوگوں کی نظر میں اس گورنمنٹ کی عمر لمبی ہو گئی ہے.یہ تو خیر ایک غیر ملک کی گورنمنٹ ہے.ہم تو دیکھتے ہیں کہ بعض سنگدل ماں باپ کو گالیاں دینے لگتے ہیں کہ کیوں نہیں مرتے.اگر مریں تو جا نداد کو اپنے تصرف میں لائیں.گورنمنٹ نے ان کو امن و امان اور دیگر ہزار ہا قسم کے فوائد پہنچاتے ہیں مگر لوگ ان محسنوں کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ ہم پر ان کا کیا احسان ہے.کیونکہ یہ جو کچھ کرتے ہیں.اس میں ان کا اپنا فائدہ تھا.اول تو میں نے یہ بتایا ہے کہ یہ اصول ہی غلط ہے کہ اس طرح احسان احسان نہیں رہتا.اگر نیکی کرنے والوں کو بھی کچھ فائدہ پہنچ جاتے.مگر ہم تسلیم کرلیتے ہیں کہ گورنمنٹ کا ہم پر کوئی احسان نہیں ، لیکن خدا کا تو ہم پر احسان ہے کہ ان کے ذریعہ نہیں بہت سے فوائد میتر ہو گئے.جلا ہوں کا ہم پر احسان نہ سہی، لیکن خدا کا احسان ہے کہ ہمارے لیے اس کثرت وبہات سے کپڑا مدیا ہو گیا ہے.ابھی کچھ ہی زمانہ گذرا ہے کہ ہمارے ملک میں لوگ لنگوٹی باندھے پھرا کرتے تھے.
س کی یہی وجہ تھی کہ کپڑا مت نہیں ہوتا تھا جلا ہوں کی بیشک یہ غرض نہیں ہوتی کہ زید و بر روف تدہ پہنچے مگر اس میں کلام نہیں کہ ہم ان کے کام سے فائدہ اُٹھاتے ہیں.اور یہ خدا کا ہم پر احسان ہے تو اگر تم ایک کپڑے کے کارخانہ دار کو قتل کرتے.یا اس کا کارخانہ جلاتے ہیں تو بے شک اس کی احسان فراموشی نہیں کرتے ، مگر کیا خدا کی بھی احسان فراموشی نہیں کرتے جس نے اس کے ذریعہ سے ہم پر احسان کیا تھا.اس طرح ہم تسلیم کرلیتے ہیں کہ گورنمنٹ کا ہم پر احسان نہیں.مگر کیا خدا کا بھی اس ذریعہ سے ہم پر احسان نہیں ہے ؟ اور کیا خدا کی احسان فراموشی کوئی چھوٹی اور ادنی چیز ہے ؟ ان شورش کے ایام میں ہماری جماعت ہی ایک ایسی جماعت ہے جس نے خلوص کیسا تھ فرمانبرداری دکھائی.درحقیقت یہ بھی ایک ثبوت ہے ہمارے حق پر ہونے کا کیونکہ خدا نے حضرت مسیح موعود علی الصلاة و السلام کے ذریعہ ہم پر احسان کیا تھا اور ہم نے اس احسان کی خدا کے فضل سے قدر کی اور آپ کو مانا تھا.لیکن ہمارے مخالفوں نے خدا تعالیٰ کے اس احسان کو رد کر دیا تھا.چونکہ ہم نے اس احسان کو مانا تھا اس لیے ہیں خدا کے دوسرے احسانوں کے قدر کرنے کی بھی توفیق دی گئی اور جو مخالف تھے وہ عادی تھے کہ خدا کے احسانوں کو رد کر دیں چنانچہ انھوں نے اس احسان کو بھی جو امن کی صورت میں ان پر کیا گیا تھار کر دیا.ہم نے جو کچھ کیا وہ ہماراحق تھا اور جو کچھ انھوں نے کیا ان سے میں ظاہر ہونا چاہیے تھا.- غرض اس وقت ہماری ہی جماعت ہے جو بحیثیت جماعت اس احسان فراموشی سے بچی رہی جو ہندوستان کی مختلف اقوام سے اس وقت ظاہر ہوتی ہے.مگر میں اس وقت آپ لوگوں کو نصیحت کرنے کے لیے کھڑا ہوا ہوں کہ آپ لوگوں کا یہی فرض نہیں کہ خود ان فسادوں سے بچیں.بلکہ آپ لوگوں کا فرض ہے کہ دوسرے لوگوں کو بھی ان حرکات سے باز رکھیں کیونکہ اگر ہمسائے کے گھر کو آگ لگی ہوئی ہو تو کوئی دانا خاموش ہو کر نہیں بیٹھا رہے گا.وہ اس آگ کو بجھانے کی طرف توجہ کریگا.پس آپ لوگوں کا فرض ہے کہ ہمسایوں کی آگ کو بجھائیں.قرآن کریم میں آتا ہے لَا تَرْحَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَتَكُمُ النَّارِ (ھود : ۱۱۴) کہ ظالموں کے پاس رہنے کا نتیجہ ہوگا کہ آگ تم کو بھی پکڑے گی.دیکھ لو لاہور میں جو فوجی قانون جاری ہو رہے ہیں.ان میں کوئی بات ایسی نہیں جو وفادار اور غیر وفادار میں امتیاز کرنے والی ہو.یعنی اگر کوئی وفادار شخص بھی رات کے مقررہ وقت کے بعد بغیر اجازت سرکار گھر سے نکلے گا تو اس سے بھی وہی سلوک ہوگا جو ایک غیر وفادار سے ہوتا ہے.ان لوگوں کو جو کچھ پہنچا اس میں سے ہماری جماعت کو بھی پہنچا.اگر ہم ان کو باز رکھ سکتے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ
۲۰۵ لوگ خود بھی محفوظ رہتے اور ہماری جماعت پر بھی کوئی تکلیف نہ آتی ہیں تمہیں چاہیئے کہ دوسروں کو بھی اسن کے قائم رکھنے کی ترغیب دلاؤ.دکھوں سے بہت ڈرو اور مت خیال نکرد کہ لوگ تمہیں تکلیف دیں گے.تکلیفوں سے ڈرنے والے بزدل ہوتے ہیں.تکلیف کو برداشت کرو کیونکہ مومن دلیر اور جری ہوتا ہے اور دہ خدا کی حفاظت میں ہوتا ہے.اس لیے دنیا اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی.طاعون کے دنوں میں ٹیکا ایجاد ہوا، لیکن حضرت صاحب نے اپنی جماعت کو اس سے بھی روک دیا.کیونکہ آپ کو خدا نے بتایا کہ میں ان کی حفاظت کرونگا.جوتیرے گھر میں ہونگے.اور الہام ہوا کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے پس لوگوں کی دھمکیاں اور تکلیفیں کچھ نہیں کر سکتی ہیں.ہم سب کچھ خدا کے لیے کرتے ہیں.اس لیے ہم ڈر نہیں سکتے جو قوم ڈرتی ہے.وہ ترقی نہیں کر سکتی.موت ایک پردہ ہے جو ہم میں اور خدا کے درمیان حائل ہے.وہ پردہ اُٹھتا ہے تو ہم اپنے خدا کو مل جاتے ہیں بس مومن کسی کی مہنسی کی پروانہیں کر سکتے کیونکہ خدا ہمارا دوست ہے.وہ لوگ نادان ہیں.جو ہم پر ہنستے ہیں.وہ نہیں جانتے اور وہ نہیں دیکھتے جب ان کو معلوم ہوگا کہ ہمارے پاس حق ہے.تب ان کی آنکھیں کھلیں گی اور وہ اپنے کئے پر پچھتائیں گے.ہماری مثال تو ڈاکٹر کی ہے اور ان کی مریض کی.کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جب ڈاکٹر نشتر لگاتا ہے تو مریض اس کو گالیاں دیتا ہے.حالانکہ ڈاکٹر کا فعل اس کے فائدہ کے لیے ہوتا ہے.مریض کی گالیوں سے ڈاکٹر ناراض نہیں ہوتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ نا واقف ہے.تم کو خدا نے ڈاکٹر بنایا ہے تمہارے ذریعہ خدا ان روحانی مریضوں کو صحت دیگا.پھر یہ تمہارے شکر گیا ہو نگے پس تم جرات کرو اور لوگوں کو سمجھاؤ.یہ مت خیال کرو کہ گورنمنٹ تمہاری قدر نہیں کرتی.ہم جو کچھ کرتے ہیں گورنمنٹ سے قدر کرانے کیلئے نہیں کرتے.بلکہ خدا کے لیے کرتے ہیں.اور خدا کے حکم سے کرتے ہیں کہ زمین میں فساد نہ کرو اور ان کو قائم رکھو.اگر کوئی ایسی گورنمنٹ ہو جو یہ کہے کہ تم فساد کرو، توہم یا تو اس کے ملک کو چھوڑ دیں گے یا اس کو اس کے اس خیال سے ہٹائیں گے.پس اگر گورنمنٹ کے حکام تمہارے کام کی قدر نہ کریں تو پر دامت کرد.ہمارا یہ عمل اس فرض سے نہیں ہے کہ کوئی ہماری قدر کرے.ہمیں گورنمنٹ کیا دے سکتی ہے ہمیں دینے والا ہمارا خدا ہے اس لیے ہم جو کچھ کرتے ہیں وہ کسی لالچ سے نہیں کرتے ہیں تو خدا نے وہاں کھڑا کیا ہے جہاں کسی مدرح اور زم کا اثر پہنچ ہی نہیں سکتا.اسلئے ہم اسکے محتاج نہیں کہ وہ ہماری قدر کرے کیونکہ ہمارا کام بندا کی رضا کا حاصل کرنا ہے.ہمارے نزدیک لاریج گناہ ہے.کیا کسی خطاب کیلئے ہم فساد سے بچتے ہیں کیا چند مربوں کیلئے ہم وفا دار ہیں.ہرگزنہیں کیونکہ بہاری نظرمیں خطاب اور مربے کوئی چیز نہیں ہیں.ہم خدا کیلئے کرتے ہی میں تم بتاؤ کہ خطاب اور مربے بڑے ہیں یا خدا بڑا ہے.ہم وفادار ہیں.ہم امن قائم رکھنا چاہتے ہیں.اس لیے کہ ہمارا دین ہمیں یہی سکھاتا ہے.ہمارا ه تذکره م۳۹۵
خُدا ہمیں فساد سے روکتا ہے.ہمارا مسیح موعود ہیں وفاداری کی تعلیم دیتا ہے پس تم دین کے لیے خُدا کے لیے اور مسیح موعود کے لیے ان کو قائم رکھو کسی کے قدر کرنے کے خیال کو دل میں بھی نہ لاؤ.کیونکہ ہمارے دین کی ترقی اس سے ہوگی.اگر دنیا کی نظرمیں تم اس وجہ سے ذلیل ٹھہرو تومست پروا کرو کیونکہ خدا تمہاری عزت کریگا.ر اتنا بیان فرما کر حضور بیٹھ گئے.اور جب دوسرے خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے تو فرمایا ) پچھلے دنوں جب ہم نے لوگوںکو جمع کیا کہ میں اپنے اپنے علق میں امن قائم رکھنا چاہیئے اور تم کے فساد میں شامل نہیں ہونا چاہیئے.تو اس وقت بعض نادان مخالفوں نے کہا کہ یہ گورنمنٹ سے عزت حاصل کرنے کے لیے ایسا کرتے ہیں حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ اگر گورنمنٹ ہمیں خطاب دے تو وہ خطاب ہماری عزت کو کیا بڑھا سکتا ہے.جبکہ خدا نے خطاب یا فتوں کو اپنے فضل سے ہمارا غلام بنا دیا ہے.جو بیعت کرتا ہے وہ غلامی کا اقرار کرتا ہے کئی خان بہادر آتے ہیں اور بیعت کرتے ہیں.پس جو کچھ ان لوگوں کے خیال میں ہم گورنمنٹ سے لینا چاہتے ہیں.وہ تو خدا کے فضل سے ہمارے مریدوں کو ماتل ہے حضرت مسیح موعود جب وفاداری کی تعلیم دیتے تھے تو مخالف کتے کہ گورنمنٹ کی خوشامد کرتے ہیں مگر وہ نہیں جانتے کہ خدا کے نبی خوشامدی نہیں ہوتے جب مسلمان کہتے تھے کہ سلطان روم محافظ حرمین ہے.تو حضرت مسیح موعود نے لکھی تھا کہ یہ غلط ہے.بلکہ حرمین اس کے محافظ ہیں کہ مسلمانوں نے اس پر منبی کی.مگر دیکھ لوجب حرمین ان کی حکومت سے علیحدہ ہوئے ، ترک اسی وقت مٹ گئے.پس اسی طرح یا درکھو کہ مسیح موعود اس گورنمنٹ کے محافظ تھے.آپ نے لکھا ہے کہ خدا اس گورنمنٹ کا محافظ ہے.کیونکہ مجھکو اس نے اس حکومت کے ماتحت مبعوث فرمایا ہے.پس ہم دنیا کے لیے نہیں بلکہ خدا کے لیے فرمانبردار ہیں.اس لیے لوگ اگر ہم پر ہنستے ہیں تو اس کی پروا نہیں.خدا ہمیں دیکھتا ہے اور وہ ہم سے خوش ہے.اس لیے اس کی خوشی کے مقابلہ میں دنیا کی خوشی کی کوئی پروا نہیں " الفضل امتى ٩١٩لة ) ن الحکم امتی شلة
4.6 40 ہمارا ہتھیار دُعا ہے د فرموده ۹ رمتی ۱۹۱۹مه حضور انور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.ہماری جماعت کی حالت اور اس کی تعداد اور اس کی طاقت جتنی بھی ہے.دوسرے لوگ تو اس کو حقار سے دیکھتے ہی ہیں مگر ہم بھی اپنی حقیقت سے ناواقف نہیں.اس میں شبہ نہیں کہ عموما لوگ اپنے آپ کو بڑا سمجھا کرتے ہیں.ذرا کسی کو مال ملتا ہے تو وہ اپنے آپ کو فرعون سے بڑا سمجھتا ہے.ذرا کسی کو طاقت میتر ہوتی ہے.تو وہ رستم سے زیادہ جری اپنے آپ کو سمجھتا ہے.مگر ہماری کمزوری اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ ہم اپنی کمزوری کو محسوس کرتے ہیں.حالانکہ لوگ اپنی کمزوری کو محسوس نہیں کیا کرتے.ہم مال کے لحاظ سے دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے.اور نہ قوت سے مقابلہ کر سکتے ہیں نہ طاقت سے اور نہ جتھے کے لحاظ سے مقابلہ کر سکتے ہیں.نہ سیاسی رسوخ سے مقابلہ کر سکتے ہیں.نہ حکومت سے نہ سلطنت ہے.غرض ان باتوں میں سے کسی بھی لحاظ سے نہیں کسی قسم کی فوقیت دنیا پر حاصل نہیں.اس کے مقابلہ میں ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کوئی بھی مذہبی سلسلہ نہیں جو ہمارا دشمن نہیں.ہو سکتا ہے کہ کوئی کمزور ہو مگر اس کا دشمن بھی نہ ہو.تو با وجود اس کے کمزور ہونے کے اس کے لیے خطرات نہیں ہیں.چونکہ اس کے مقابلہ میں کوئی نہیں.اس لیے اس کو خطرہ نہیں.مگر ہمارا معاملہ اس کے الٹ ہے ایک طرف تو کمزور ہم سے زیادہ کوئی نہیں دوسری طرف ہم سے زیادہ کسی کے دشمن نہیں.یا یوں کہو کہ جیں قدر مذہبی سلسلے ہیں.وہ سب کے سب ہمیں مٹانے کے درپے ہیں.کیونکہ جو ہم تعلیم دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں.سب کے سب اس سے ڈرتے ہیں اور یقین کرتے ہیں کہ اس تعلیم کے سامنے سب تعلیمیں ماند ہو جائیں گی.جیسا کہ بکری شیر سے ڈرا کرتی ہے.اسی طرح اس تعلیم سے جو ہمیں دیتی ہے تمام سلسلے ڈرتے ہیں.اس لیے سارے کے سارے ہمارے مقابلہ کے لیے کھڑے ہیں.مذہبی طور پر نہ عیسائی ہم سے ہمدردی رکھتے ہیں اور نہ سکھ نہ ہندو نہ آریہ نچینی نہ بدھوں کو ہم سے ہمدردی ہے.نہ کسی اور کو یعنی مذہبی
طور پر ہم سے ہر ایک نے جنگ چھیٹری ہوئی ہے.کونسی قوم ہے جس کو ہم سے مذہبی طور پر ہمدردی ہے.اس میں شبہ نہیں کہ ہم سیاست میں کسی سے لڑتے نہیں.گورنمنٹ کی وفاداری کے متعلق جو سیاست میں ہمیں حصہ لینا پڑتا ہے.وہ ہمارے مذہب سے تعلق رکھتا ہے.اس لیے تم دیگر تقسیم کی تحریکوں سے علیحدہ ہیں اور نہ ہمارے پاس وقت ہے نہ مال نہ آدمی ہیں کہ جن کو مذہب کے علاوہ سیاست میں لگائیں.گورنمنٹ کی خدمت چونکہ ہمارا ایک مذہبی فرض ہے.اس لیے ہم اس میں دخل دیتے ہیں اور اس خدمت کو ادا کرتے ہیں جس طرح بھی ادا ہو ہیں گورنمنٹ کے متعلق تعلیم ہی ایسی دی گئی ہے کہ جو گور نمنٹ سمجھدار ہو.تمہیں اس سے کس قسم کا خطرہ نہیں.حکومت سے ان لوگوں کو خطرہ ہے جو بغاوت کے خیال رکھتے ہوں، لیکن جن کے دل میں بغاوت و فساد کے خیالات ہی نہ ہوں ان کو کسی امن پسند اور سمجھدار گورنمنٹ کے ماتحت کسی قسم کے خطرات نہیں.پھر بھی ہم بہت ہی ناتوان اور کمزور ہیں اور ساری مذہبی دنیا ہماری مخالف ہے.اس لیے ہمارے لیے ضروری ہے.کہ ہم سوچ کرچ کر قدم اُٹھائیں اور اپنے دشمنوں اور مخالفوں کے مقابلہ کی جو تد بیر کریں وہ عمدہ اور بہتر ہو.ہمارے مخالف ہمیں جسمانی طور پر دکھ دیتے ہیں.اور ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے.کٹک میں ہماری ایک میت ہو گئی.احمدی جب دفن کر کے واپس لوٹے، مخالفوں نے لاش کو قبر سے نکال کر گشتوں کے آگے پھینک دیا.احمدی ان لوگوں کی ان حرکتوں کو دیکھتے تھے.مگر کچھ نہیں کر سکتے تھے اگر پولیس موقع پر نہ پہنچ جاتی تو قریب تھا کہ گنتے لاش کو چیر ڈالتے.یقیناً جان لو کہ وہ خدا جس نے نہیں پیدا کیا ہے اور اس کام کے لیے کھڑا کیا ہے.اس سے یہ برگز اُمید نہیں کہ ایسا مستم بالشان کام سپرد کر کے بے ہتھیار چھوڑ دے گا.ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے جو جانور پیدا کئے ہیں.خواہ ان کی عمر چند گھنٹے ہی کیوں نہ ہو.ان کی خوراک بھی پیدا کی ہے.زمین کے اندر رہنے والوں کی خوراک کا سامان اس نے پیدا کیا ہے.پانی میں رہنے والوں کی خوراک کا سامان اس نے پیدا کیا ہے.نباتات کے لیے اس نے خوراک پیدا کی ہے.حیوانات کیلئے اس نے خوراک پیدا کی ہے جنکی ضروریات خوراک ایک جگہ نہ تھیں ان کو پاؤں دیئے.تاکہ وہ چل پھر کر اپنی خوراک کو جمع کریں وہ جانور جن کی خوراک گوشت ہے ان کو پنجے بھی دیتے اور جن کی خوراک گوشت نہیں.ان کو پاؤں دیتے ہیں اور درخت جن کی خوراک مختلف جگہوں سے مہیا نہیں ہوتی.ان کے لیے پاؤں کی ضرورت نہیں تھی.انکو جڑیں دی ہیں.تاکہ وہ زمین سے ہی اپنی خوراک حاصل کر لیں پس ہمیں خدا نے پیدا کیا اور خاص مقصد کے لیے کھڑا کیا ہے.یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ ہمیں کوئی ہتھیار نہ دیتا.ہتھیار اس نے دیا ہے، لیکن ہم میں
بہت ہیں جو اس کو استعمال نہیں کرتے.اور وہ ہتھیار جو نہیں دیا گیا ہے دُعا کا ہے.اس میں شک نہیں کہ ہم مقابلہ نہیں کر سکتے.اور ہم میں طاقت نہیں کہ ہم اپنے دشمن کے حملوں سے بیچ سکیں لیکن تمہیں ایک ایسی ہستی نے کھڑا کیا ہے جس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا جیس طرح یہ یقینی ہے کہ ہم کسی کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس سے کہیں زیادہ یہ بات یقینی ہے کہ جس نے ہمیں کھڑا کیا ہے اس کا بھی کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.اس لیے جہاں ہم جیسا کوئی بے کس اور بے بس نہیں ہے.وہاں روحانی طور پر ہم سے زیادہ طاقتور کوئی نہیں ہے.اگر ایک طرف ہم ساری دنیا کا نشانہ ہیں.تو دوسری طرف ساری دنیا ہمارا شکار ہے.اگر تمام دنیا میں روند ڈالنا چاہتی ہے تو دوسری طرف امید ہے کہ تمام دنیا پر ہم ہی ہم ہونگے.جنگ و جدل سے نہیں بلکہ روحانی طور پر کیونکہ میں وہ طاقتیں اور قوتیں دی گئی ہیں جس کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا لیکن افسوس اس کا ہے کہ بہت کم ہیں.جو ان قوتوں اور طاقتوں اور ہتھیاروں کو استعمال کرتے ہیں بہت ہیں جو سستی اور بے ہمتی کرتے ہیں.ہمیں یقین ہے کہ جس نے نہیں کھڑا کیا ہے.اس میں طاقت ہے.میں نے ایک دفعہ ایک رویامہ دیکھی کہ ایک بہت بڑا اثر رہا ہے.اور وہ تمام دنیا میں پھرتا ہے اور جو اس کے سامنے آتا ہے وہ اُس کو کھا جاتا ہے.لوگوں میں بہت خطرہ پھیلا ہوا ہے.اتنے میں میں نے دیکھا کہ میں ایک جماعت کے آگے ہوں اور میرے ہاتھ میں ایک عصا ہے.میں نے دیکھا که دو آدمی اس اثر دعا کے آگے آگے بھاگے جاتے ہیں.مگر وہ اثر رہا اس قدر تیز دوڑتا ہے ، کہ ان آدمیوں اور اس کے درمیان کا فاصلہ دم بدم کم ہوتا جا رہا ہے.یہ دیکھ کر میں اس کو مارنے کے لیے دوڑا ہوں.اور خدا نے مجھ کو توفیق دی ہے.کہ میں نے قریب پہنچکر سوٹا اُٹھانا چاہا.اسی قرات میرے ذہن میں یہ حدیث آئی کہ لَا يَدَ انِ ِلاَحَدٍ بِقِتالِھا.یہ یا جوج ماجوج کے متعلق ہے کرکسی میں طاقت نہ ہو گی کہ وہ ان کا سامنے سے مقابلہ کر سکتے ہیں جب ان کے مقابلہ کی طاقت ہی نہیں.تو پھر میں کیسے مقابلہ کر سکتا ہوں.یہ خیال میرے ذہن میں آیا ہی تھا کہ وہ اژدھا میری طرف پلٹا اور چاہا کہ مجھے پر حملہ کرے.میں نے دیکھا کہ ایک چارپائی پڑی ہے جس کی لکڑیاں سلامت ہیں مگر وہ بنی ہوئی نہیں جونی کہ اس نے مجھے حملہ کیا میں کو دکر اس چار پائی کی پائیوں پر چڑھ کر کھڑا ہوگیا اور لیا ہو کہ میں اندھا کی پیٹھ پر پہنچ گیا.اور میں نے آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھائے.اب میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ حدیث میں تو یہی بات آتی ہے کہ کوئی ہاتھوں سے اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.میں بھی اس کا مقابلہ ہاتھوں سے مسلم بحواله مشكورة كتاب الفتن باب العلامات بين يدى الساعة
نہیں کرتا میں تو دکھا کرتا ہوں پیں حدیث میں تو آپنےسامنے مقابلہ کے لیے کیا گیا ہے.میں نے دُعا کرنی شروع کی وہ تڑپنے لگا اور مُردہ ہو کر گر پڑا.اس میں کوئی شبہ نہیں ہم ہر طرف سے خطرات میں گھرے ہوئے ہیں.اور خطرناک دشمن ہمارے ہر طرف ہیں اور اس کے مقابلے کے ظاہری سامان ہمارے پاس کچھ بھی نہیں.پھر جو شکلات زمانہ در پیش ہیں.اور ہم جن جن مشکلات میں سے گزر رہے ہیں.ان کی حد نہیں.جدھر دیکھتے ہیں گڑھا نظر آتا ہے.مندہی ضروریات ہمیں کھینچتی ہیں کہ ہماری تمام تر توجہ اشاعت کی طرف ہونی چاہیئے.اور اشاعت میں لگ جائیں اقتضاء دین یہ ہے کہ ہم ساری توجہ ادھر لگا دیں، لیکن سیاسی حالت آجکل ملک کی چاہتی ہے کہ ہم اپنی توجہ کو ادھر پھیر دیں اور کوشش کریں کہ ملک ان مشکلات میں سے نکل جائے.اور وہ ایسی مشکلات ہیں جن کے باعث ہماری اشاعت میں بھی روک پیدا ہوتی ہے.ہم منافق نہیں ہیں کہ ادھر تو گورنمنٹ کو کچھ کہیں ادھر ملک کے لوگوں کے پاس گورنمنٹ کے خلاف باتیں کریں.یا ہمیں یہ خواہش نہیں کہ ہمیں اس طرح گورنمنٹ میں بھی نیک نامی حاصل ہو اور لوگوں میں بھی.گورنمنٹ سامان رکھتی ہے.فوجیں رکھتی ہے.اس لیے یہ اپنے مخالفوں کو اپنی طاقت کے بل پر دبا سکتی ہے اور وہ لوگ جو ہمارے مخالف میں بڑے جتھے رکھتے ہیں.اگر ان میں سے بعض کو پکڑ لیا جائے تو دوسرے ان کی جگہ کھڑے ہو سکتے ہیں ہماری حالت نازک ہے ، نہ ہم جتھا رکھتے ہیں.نہ ہمارے پاس فوجیں ہیں نہ ہم گورنمنٹ کے خلاف چلنے والوں اور بغاوت کر نیوالوں سے مل سکتے ہیں.نہ ہم منافقت سے ان کو خوش کر سکتے ہیں.کیونکہ ہمارا مذہب ہمیں ایسے لوگوں سے علیحدہ رہنے کا حکم دیتا ہے اور ہمارا ہادی اور رہنما جس نے اس وقت نہیں خدا کی طرف بلایا.اس نے نہیں حکم دیا ہے کہ ہم بغاوت نہ کریں اور گورنمنٹ کی وفاداری اور خیر خواہی کریں کیونکہ خدا نے اس کو اس سلطنت کے ماتحت اس لیے پیدا کیا تھا کہ یہ سلطنت تمام موجودہ سلطنتوں سے بہتر اور اچھی سلطنت ہے ہیں ادھر تو ہماری مذہبی تعلیم ہمیں حکم دیتی ہے کہ ہم کسی قسم کی شورش سے تعلق نہ رکھیں اور گورنمنٹ کے وفادار رہ ہیں.ادھر ہم سے یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم منافقانہ طور پر لوگوں کو بھی خوش کر سکیں اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم گورنمنٹ کی وفاداری کرتے ہیں کیونکہ ہمارا مذہبی فرض ہے، لیکن نہیں لوگ تکلیفیں دیتے ہیں اور ساتھ ہی یہ ہوتا ہے کہ ہمارے دشمن جو ہم سے زیادہ ہیں ہمیں نقصان پہنچانے کے لیے گونٹ کو غلط رپورٹیں دیتے ہیں.پہلے وفاداری سے لوگوں سے دُکھ پایا.اب انباء وطن کی جھوٹی شکایتوں
کے باعث گورنمنٹ کے بعض حکام سے دیکھ پایا.اس کا یہ نتیجہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہم اپنے مذہبی فرض کو ترک کر دیں ہیں ہم اپنے اصلی فرض کو ترک ہیں کر سکتے لیکن ہم امید رکتے ہیں کہ ہم ہرحال میں اپنے مرکز پر قائم ہیں گے مگر یہ ظاہر ہے کہ ہر شخص میں ایسے حالات میں مرکز پر قائم رہنے کی ہمت نہیں ہوتی.پس اپنی حالت میں ہمارا مذہب تعلیم کرتا ہے کہ جہاں تمہاری ایسی حالت ہو تو خدا کے حضور جھک جاؤ.آج ایک خبر شائع ہوئی ہے کہ افغانستان کی اندرونی حالت اچھی نظر نہیں آتی.ممکن ہے کہ وہ سرحد پر مشکلات پیدا کرے.ایسی صورت میں مشکلات اور بھی بڑھنے کا اندیشہ ہے.بہر حال اس وقت دعاؤں کی سخت ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں شریروں کے شر سے بچائے اور دوسری طرف جو ہم مسیح موعود کی تعلیم پر عمل کر کے ہر قسم کی شورشوں سے علیحدہ ہیں.اس میں بھی اللہ تعالٰی کی مدد ہمارے شامل حال ہوئے الفضل ، ارمئی 11
۲۱۲ 41 مسیح موعود کی صداق کے نشانات کا ظہور ا فرموده ۱۶ مئی ۱۹۱۹ حضور نے تشہیر و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- " خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ کبھی اپنے فضلوں کو واپس نہیں لیتا.جب تک کہ خود لوگ اس کا مقابلہ کر کے اس کے غضب کا اپنے آپ کو مستحق نہ ٹھہرا لیں.پہلے لوگ اپنے نفوس میں تبدیلی پیدا کرتے ہیں.پھر خدا تعالیٰ ان کی نعمتوں کو زائل کر دیتا ہے.جیسا کہ فرمایا :- اِنَّ اللهَ لا يُغَيرُ مَا بِقَومٍ حَتَّى يُخَيَّرُوا مَا يَا نُفُسِهِمُ (الرعد : ١٣ ) اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنی نعمت کو نہیں بدلتا جب تک کہ لوگ اپنے نفوس کے اندر سے جو اخلاص کی روح اطاعت کا مادہ جوش و وابستگی کا ولولہ ہوتا ہے.اس کو نہیں بدلتے.ہاں جب نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑ کر اپنی حالت کو بدل دیتے ہیں.اور خدا کا مقابلہ کرنا شروع کر دیتے ہیں، تواللہ تعالی بھی ان کی حالت کو بدل دیتا ہے.اللہ تعالیٰ ہے وفا نہیں.بلکہ وفا کا خالق ہے.اس سے سمجھ لو جو وفا کا خالق ہو گا.اس میں کتنی وفا ہوگی.پس وہ قطع تعلق نہیں کرتا جب تک خود لوگ اس سے محبت نہیں چھوڑ دیتے.وہ فضل کرتا ہے.جب تک کہ لوگ اس کے فضل کو رد نہ کریں.وہ دینے سے سیر نہیں ہوتا ، ہاں لوگ لینے سے سیر ہو جاتے ہیں.حالانکہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے سیری ناممکن ہے.کیونکہ اللہ کی طرف سے جو کچھ آتا ہے اس کا انسان ہر وقت محتاج ہے.پس جب انسان خدا کے فضل سے ملال ظاہر کرتا ہے اور خُدا کے احسان سے منہ پھیر لیتا ہے اور خدا کے انعام سے جُدائی میں ارام دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی علیحدگی اختیار کر لیتا ہے.اسی کی طرف سورۃ فاتح میں اشارہ کیا گیا ہے.فرمایا :- اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالین کہ خدا یا انعام کر مگر یہ نہ ہو کہ ہم تیرے انعام سے
طول اور سیر ہو جائیں.تیرا فضل ہو.مگر ایسے رنگ میں کہ دماغ میں کبر و غرور نہ بھر جاتے.احسان ہوں مگر ہم ان سے سیر نہ ہوں.مگر ہمیں یہ عادت نہ ہو کہ ہم ان العاموں کو حقیر بھکر اور طرف توجہ کریں.انسانوں میں فرداً فرداً بھی لوگ ہوتے ہیں جو ایک وقت خدا کے فضل کے مستحق ہو کر دوسرے وقت میں اس کے غضب کو بھڑکاتے ہیں.مگر اقوام کا حال اس بارے میں بالکل نمایاں ہے.جو قوم آج گری ہوتی ہے.وہ کل معزز ہے اور کل جو معزز تھی وہ آج ذلیل ہے.بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ انسانوں میں بہت ملیں گے کہ جنہوں نے خدا سے تعلق پیدا کیا اور آخر تک اس کو نیا ہا.ان کا قدم صدق کی مضبوط چٹان پر قائم رہا بلکہ ہم کہ سکتےہیں کہ اکثر لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ ان پر کوئی گھڑی نہیں آتی کہ وہ ترقی کی کسی منزل پر ٹھہر گئے ہوں.بکہ وہ دمیدم تورتی میں ہوتے ہیں لیکن قوموں میں سے کوئی قوم ایسی نہیں ملے گی جو ہمیشہ تحق کو نبھا کی ہو.بلکہ قومیں جو ایک وقت میں بڑے عروج پر تھیں.دوسر وقت میں میٹ جاتی رہی ہیں.یہ ہیں ہوا کہ اقوام ک حالت بحیثیت قوم خدا کی محبت تحقیق کے لحاظ سے اچھی تھی اور وہ مٹ گئی.بلکہ قومیں ایسی ہی ہوتی ہیں کہ ایک وقت میں ان کی حالت اچھی تھی مگر دوسرے وقت میں وہ بالکل گر گئیں.یہی وجہ ہے کہ سورۃ فاتحہ میں تمام جمع کے صیغے رکھے ہیں.امدنی نہیں فرمایا اهد تا فرمایا ہے.کیونکہ اقوام ہی ہیں جو گر جاتی ہیں اور افراد ہوتے ہیں جو انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں داخل ہو کر مَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ یا ضالین میں شامل ہوتے ہیں.نیوں کی مثال کو جانے دو کہ وہ خاص لوگ ہوتے ہیں.ان کے علاوہ بھی ایسے افراد بکثرت مل سکتے ہیں جنہوں نے صداقت کو دم آخر تک نہیں چھوڑا.اور محبت و وفا پر قائم رہے.ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ) نے رسول کریم صلی الہ علیہ وسم کے ہاتھ پر بیعت کی اور اقرار کیا.تو اس کے بعد پھر وہ ایک لحمر کے لیے بھی پیچھے نہیں ہٹا.بلکہ اس کا قدم ہر لحظہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا.اسی طرح عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام لانے کے بعد اپنے اخلاص میں کمی نہیں کی.عثمان و علی.طلحہ وزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم) نے کمزوری نہیں دکھاتی.بلکہ ہر روز جو ان پر آتا رہا ہے اس میں وہ پہلے سے زیادہ اخلاص اور جوش پاتے تھے.ان کے علاوہ اور ہزاروں انسان ملیں گے جو خدا کی راہ میں قائم رہے مگر غور کرو کر دی عرب جو ایک وقت میں منعم ہوتے تھے وہی آج پہلی وحشیانہ حالت کی طرف لوٹ گئے ہیں، وہ ایسے جاہل ہو گئے ہیں کہ جس کی انتہا نہیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے کہ مکہ میں ایک عرب نے زندہ بکری کی کھیری کاٹ کر پکا لی.جب اس کو کہا گیا کہ یہ تو حرام ہے.کہنے لگا کہ واہ ! زندہ جانور کا گوشت کہاں حرام ہے ؟ پھر اسی مکہ میں جہاں سے اسلام کا چشمہ پھوٹا.ایسے لوگ بھی ہیں جو
۲۱۴ کلمہ تک نہیں جانتے.اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ وہ مدینہ جو ایک اقت صداقت کا منبع تھا.اب وہاں سے ہر سال جھوٹ شائع ہوتا ہے.وہاں سے ایک اشتہار شائع ہوا کرتا ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ ایک مجاور کو جس کا نام درج ہوتا ہے.رسول کریم ملے.اور کہا کہ اس سال حبس قدر لوگ مرے ہیں.ان میں اتنے دوزخی ہیں اور اتنے جنتی.عام لوگ تو اس کو سمجھتے بھی نہیں، وہ ایک تعویذ سمجھ کرلے آتے ہیں اور جو پڑھے لکھے ہوتے ہیں ان میں بھی بیشتر ایسے ہی ہوتے ہیں جو اس کی حقیقت کو نہیں معلوم کر سکتے جیسوں سال گزر گئے ایک ہی مضمون ہوتا ہے جو شائع کیا جاتا ہے.تو وہ مدینہ جو صداقت کا منبع تھا آج کذب کا منبع ہے اور کذب بھی ایسا کہ اس میں خدا پر جھوٹ بولا جاتا ہے.اور اس کی پرواہ نہیں کی جاتی.تو زمانہ کے تغیرات سے اقوام اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ میں داخل ہو کر مغضوب عليهم اور ضالین میں شامل ہو جاتی ہیں.رسول کریم جن کو خدا کی طرف سے سب سے زیادہ علم دیا گیا تھا.آپ نے فرمایا کہ ایک وقت میں میری اُمت کی وہ حالت ہوگی جو بہبود کی ہوئی.فرمایا ان کی ہر ایک حرکت وسکون ان کا ہر قول و فعل میہود کی مانند ہوگا اور فرمایا کہ اس وقت میری امت کے علماء بدترین خلایق ہو گئے اور ایسے لوگ دین کی اشاعت کا دم بھر نینگے جو دین کی حقیقت سے بے بہرہ ہو نگے لیے یہ زمانہ پہلوں کے لیے سمجھنا مشکل تھا.چنانچہ صحابہ نے حیرت سے پوچھا تھا.کہ کیا رسول اللہ ایسا ہوگا ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں ایسا ہی ہوگا.لیکن آج کا سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں رہا.کیونکہ اب وہی زمانہ آگیا ہے.جہاں پہلے مسلمان ہونا صداقت کا نشان سمجھا جاتا تھا.آج مسلمان کے معنے جھوٹے اور غدار سمجھے جاتے ہیں.مسلمان پہلے وفادار کے معنوں میں بولا جاتا تھا ، لیکن آج فریبی اور بے وفا کے معنوں میں سمجھا جاتا ہے اور خودمسلمانوں میں ایسے لوگ ہیں جو ہندوؤں کو اس لیے نوکر رکھتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں مسلمان دیانتدار نہیں ہوتے.آج ایک مسلمان کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ سیدھا سادہ مسلمان تھا ہمیشہ مفوض رہا.گویا جس سے کچھ لیا پھر اسے دینے کا نام نہ لیا.پس یہ انعَمتَ عَلَيْهِمُ میں داخل ہو کر مَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ میں شامل ہو گئے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد یہ خیال نہیں ہو سکتا تھا کہ مسلمان کسی نبی اور مامور کی مخالفت کی جرات کریں گے.مگر مسلمانوں نے بتا دیا کہ ان کے متعلق یہ خیال درست نہیں تھا کیونکہ عدا له مشكوة المصابيح كتاب الانذار والتحذير باب تغير الناس : نت مشكوة كتاب العلم الفصل الثالث في فضيلته بخاری و مسلم بحوالہ مشکوة كتاب الفتن فيما تكون فيها الى قيام الساعة
۲۱۵ کی طرف سے ایک نبی آیا کہ ان کو انعمت علیہم میں داخل کرے مگر انہوں نے اس کا مال کیا اور ایسا مقالہ کیا کہ منی شرار یں کہ تفرق طور پر سب نبیوں کے مقابلہ میںکی گئیں وہ سب کی سب آپ کے مقابلہ یں اور پ کو دکھ دینے کے لیے کی گئیں.جو شرار میں حضرت موسی کے مخالفوں نے موسی کے مقابلہ میں کہیں " ت مسیح موعود کے مقابلہ میں کی گئیں.جو کچھ عیسی کے مقابلہ میں کیا گیا وہ آپ کے مقابلہ میں کیا گیا.جو ابراہیم کے مقابل میں کیا گیا وہ یہاں بھی کیا گیا.اگر سیلو نے انبیاء کوقتل کرنا چاہا تو میں بھی قتل کرنیکی کوششیں کی گئیں.اگر پہلے انبیاء کو ذلیل کرنا چاہا گیا.تو آپ کو بھی ذلیل کرنے کی کوشش کی گئی.غرض وہ تمام حرکتیں آپ کے مقابلہ میں کی گئیں جو پہلے نبیوں کے مقابلہ میں کی گئی تھیں.جن سے ثابت ہوا کہ حضرت مسیح موعود بروز میں آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کے.اور آنحضرت وارث ہیں تمام انبیاء کی صفات کے لیکن جہاں یہ ثابت ہوا کہ حضرت مسیح موعود آنحضر صلی الہ علیہ وسم کے بروز میں ہاں یہ بھی پتہ لگ گیا.کہ آپ کے مخالف بروز میں پہلے تمام انبیاء کے مخالفین کے اور چونکہ انہوں نے تمام وہ شرارتیں کیں جو پلے انبیاء کے مقابلہ میں کی گئیں.اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر ایک رنگ کے عذابوں کا نمونہ دکھایا.نوح کے وقت کا عذاب اس نے دکھایا.ابراہیم کے مخالفوں کو جو عذاب دیئے گئے تھے.وہ یہاں آتے.اسمعیل و اسحاق دیوسف کے مخالفوں کے عذاب کے نمونے یہاں دکھائے گئے.غرض جسقدر قومیں گزریں ہیں ان کو جو عذاب دیتے گئے تھے.وہ سب مذاب اس زمانہ میں بھیجے گئے تا لوگوں کی آنکھیں کھلیں.زلزلوں اور آندھیوں نے ملکوں گوتہ و بالا کر ڈالا.آسمان سے پتھر برسے.زمین کے پر نچھے اُڑ گئے.دُور کی بات تو الگ رہی.یہاں سے پہ پچاس میل کے فاصلے پر کانگڑہ ہے.وہاں یہ نظارے دیکھنے میں آئے.پھر طوفان آتے اور ایسے آئے کہ ہزاروں لاکھوں غرق ہو گئے.قحط پڑے اور ایسے پڑے کہ ہٹنے میں ہی نہیں آتے.بیماریاں پڑی اور ایسی پڑیں کہ ان کے نام تک کسی نے پہلے نہیں کئے تھے.طاعون پھوٹی ہیضہ پھیلا.بخار آیا.مگر لوگوں نے کہا کہ طاعون آیا ہی کرتی ہے مہینہ پھیلا ہی کرتا ہے.بخار ہوا ہی کرتے ہیں.انفلوائنزا پہلے بھی پھیل چکا مگر ہم کہتے ہیں کہ ڈاکٹر بلا رہے ہیں کہ اس قسم کا انفلوائنزا جو الیسا زہریلا ہو کبھی نہیں آیا جیسا کہ گزشتہ ایام میں گزرا ہے.اب ایک نیا بخار پھیلا ہے.جس کا نام قحط کا بخار رکھ گیا ہے.اس کی یہ کیفیت ہے کہ ایک ہفتہ چڑھتا ہے پھر اتر جاتا ہے.ہفتہ بعد پھر چڑھتا ہے.اسی طرح کئی کئی دورے کرتا ہے.اس سے لوگ مر بھی جاتے ہیں اور بیچ بھی رہتے ہیں.لوگ کہتے ہیں طاعون - انفلوائنزا اور بخار ہیضے وغیرہ پہلے بھی پھیلتے تھے.کیا ہوا اگر اب پھیل گئے ؟ مگر ہم کہتے ہیں.کہ ہم تسلیم کرتے ہیں.پہلے بھی یہ امراض
پڑے مگر نہ تو موجودہ شکل میں پہلے پڑے ہیں یہ تمام کے تمام.ایک وقت اور ایک زمانہ میں آئے کوئی بتلا سکتا ہے کہ وہ کونسا زمانہ تھا جس میں یہ تمام آفتیں اور تمام ہلاکتیں جمع ہوئی تھیں ؟ ہرگز نہیں.اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا.کہ چونکہ پہلے بھی بیماریاں آیا کرتی تھیں.اس لیے اب بھی آتی ہیں.بلکہ یہ خدا کا خاص عذاب ہے، جو لوگوں کی نافرمانیوں کی وجہ سے آیا ہے اسے اتفاقیہ اور عام طور پر آنے والی بلاؤں کی طرح نہیں کیا جا سکتا.کیونکہ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے.کہ فلاں سڑک پر ایک آدمی آئے گا.تو دوسرا کہ سکتا ہے کہ آدمی آیا ہی کرتے ہیں.کیا ہوا اگر آئیگا.مگر جب وہ یہ کہدے کہ ایک ایسا آدمی آئیگا.جس کا قد اتنا ہو گا.رنگ و شکل ایسی ہوگی ٹوپی ایسی کوٹ و قمیص ایسار پاجامہ ایسا ہو گا.چھڑی ایسی ہوگی.اس کے بوسٹ ایسے ہونگے.تو اس کے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ ایسے آدمی آیا ہی کرتے ہیں.پس اگر اس زمانہ میں صرف ایک نشانی ہو تو کہو کہ ایسا ہوتا آیا ہے لیکن سب باتوں کا ایک زمانہ میں جمع ہونا ایسا ہے کہ جس کی پہلے نظیر نہیں ملتی.پس اودھر یہ مجموعہ عذابوں کا ہے اور ادھر ان کے متعلق پیش گوئیاں موجود ہیں.پس یہ خدا کا غضب بھڑک رہا ہے.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ میرے ایک مضمون پر جومیں نے حضرت مسیح موعود کی صداقت پر لکھ کر عام طور پر شائع کر دیا تھا.مجھے لکھا گیا تھا کہ جب تک قسطنطنیہ کی حکومت تباہ نہ ہوئے اور مسلمانوں کی کوئی سلطنت باقی نہ رہے اس وقت تک مہدی نہیں آسکتا.اس تحریر کو آئے ابھی چند ہی دن ہوتے تھے کہ ترکی لڑائی میں شامل ہوگیا.میں نے اسی وقت کہ دیا تھا کہ مسلمانوں نے اپنی کر تو توں.اپنی بداعمالیوں اپنی شرارتوں اور اپنی خباثتوں سے خدا تعالے کا غضب بھڑکا دیا ہے.اور اب منشاہ الہی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک مسلمانوں کی جو نام کی حکومت تھی وہ بھی نہ رہے.اور یہ اس لیے کہ انہوں نے خدائے تعالیٰ کی نافرمانیاں کرنے والوں کے تباہ ہونے کے کئی ایک نمونے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھے.کئی سلطنتوں کو خوار اور ذلیل ہوتے دیکھا.ان کے لیے بڑا موقع تھا کہ ان سے عبرت حاصل کرتے.خدائے تعالیٰ سے تعلق قائم کرتے.قرآن شریف کی طرف لوٹتے بلکہ یہ اپنی بدکاریوں سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹے بلکہ آگے بڑھتے گئے.سو خدائے تعالیٰ کا فیصلہ صادر ہو گیا.اور اب معلوم ہوتا ہے کہ یہ نام کی حکومت بھی دُنیا سے اُٹھ جائیگی.ر خطبه جمعه مطبوعه الفضل ۱۳/ نومبر سته ) اب دیکھ لو قسطنطنیہ بھی مفتوح ہو گیا.پھر حضرت مسیح موعود کے مخالف آپ کو اکثر کہا کرتے تھے.کابل میں چلو تو پھر دیکھو.تمہارے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے.اب ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں کہ عنقریب انشاء اللہ ہم کابل میں جائیں گے.اور ان کو دکھا دینگے کہ جس کو وہ قتل کرانا چاہتے تھے.اس کے خدام
V1 خدا کے فضل سے صحیح سلامت رہیں گے اور جس کے متعلق خیال کرتے تھے کہ اگر وہ کا بل جائے تو اس کا دعوی جھوٹا ثابت ہو جائے گا.اس کے متعلق ہم امید رکھتے ہیں کہ مجھدار لوگ اس کی صداقت کا اعتراف کریں گے.پھر وہ نادان جن کی سرشت میں بغاوت تھی.کہتے تھے کہ امیر حبیب اللہ ہندوستان کو فتح کریگا.چنانچہ تھوڑا ہی عرصہ ہوا.خفیہ خفیہ ایک فارسی نظم شائع کر رکھی تھی.اس میں لکھا تھا.کہ امیر حبیب اللہ ہندوستان پر چڑھائی کرکے انگریزوں کو نکال دیا.اسی وقت ہم نے گورنمنٹ کو اس نظم کی طرف توجہ دلائی تھی جو ضبط کرلی گئی ہے.اب وہ لوگ جو اس نظم کو بطور پیشگوئی شائع کرتے تھے.بتائیں کہ امیر حبیب اللہ کہاں.وہ جو ہے.اس نے ہندوستان کو کیا فتح کرنا تھا وہ تو اپنے ہی کسی آدمی کے ہاتھ سے مارا گیا.یہ پیشگوئی تو جھوٹی ثابت ہوئی.کیونکہ اس کا منبع خدا کا علم غیب نہ تھا.انہوں نے جو پیش گوئی شائع کی تھی.اس کا انجام دیکھ لیا ، لیکن اس کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود کی بھی ایک پیشگوئی ہے جو اس وقت تک نہایت ہی صفائی سے سچی ثابت ہو رہی ہے.اور اب پھر ہو گی.آپ نے جہاد کے خلاف فتویٰ شائع کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا لے...یہ ایک پیشگوئی ہے جس نے اس وقت کئی بار اپنی صداقت ظاہر کی ہے اور پھر ظاہر کرے گی.امیر حبیب اللہ خاں بیچارے کی طرف شریر اور مفسد لوگوں نے وہ بات منسوب کی جو اس کے وہم وخیال میں بھی نہ تھی.اس کے خواہ کتنے ہی جرم ہوں جن کے باعث وہ خدا کی نظر سے گر گیا.اور مغضوب ٹھہرا.مگر اس میں شک نہیں کہ اس نے ان عہدوں کو جو گورنمنٹ انگریزی کے ساتھ تھے.وفاداری سے نبھایا.پس اس کی طرف اس کے علم کے بغیر ایسی باتی منسوب کی گئیں جن کا نتیجہ لوگوں کی بیوقوفی سے اس کے حق میں تباہ کن نکلا.کیونکہ جب خدا کے مقابلہ میںکسی کو کھڑا کیا جائے تو خدا اسکی کچھ پرواہ نہیں کرتا.لوگ کہا کرتے ہیں (حضرت مرزا صاحب کی پیشگوئیاں اٹکل پچو ہوتی ہیں.مگر وہ دیکھیں کہ اٹکل پچوپیشگو تیاں ان کی اپنی ہیں.وہ کہتے تھے کہ امیر حبیب اللہ انگریزوں کو قتل کریگا.اور ہندوستان سے نکال دیا.مگر انگریز تو زنده موجود ہیں.امیر حبیب اللہ کہاں گیا.وہ کہا کرتے تھے.یہ ہندوستان ہے.کابل میں چلو ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص ۳ ادة
پھر دیکھنا تم سے کیا ہوتا ہے.اب انشاء الله احمدی وہاں جائیں گے.اور ہزاروں آدمی وہاں ہونگے.کیونکہ حضرت مسیح موعود نے کشف میں دیکھا تھا.کہ آپ کے باغ کی ایک بلند شاخ کاٹی گئی اور وہ صاجزادہ عبد الطیف شہید مرحوم تھے.وہ شاخ دوبارہ زمین میں گاڑی گئی لیے اب اس سے ہزاروں شاخیں پیدا ہونگی.پس خدائے تعالیٰ اپنی قدرت کے نظارے دکھا رہا ہے.اور نشان پر نشان ظاہر ہورہے ہیں لیکن لوگ اندھے ہوتے جاتے ہیں خدا ایک کے بعد دوسرانشان ظاہر کرتا ہے وہ انکار پر جے ہوتے ہیں.امرتسر کے ایک مولوی نے کہا تھا کہ ہندوستان میں کہاں زلزلہ آیا.مگر زلزلہ اس کے گھر کے پاس بھی آگیا اب خدا عبد اللطیف کے بدلہ میں مسیح موعود کی جماعت میں ہزاروں عبد اللطیف پیدا کریگا.نادان کہتے ہیں کہ انگریز کافر ہیں.اس لیے ان کو فتح کیسی.حالانکہ کافر کے لیے جو بدلہ ہے حقینی میں ہے مگر ظالم کو میں بدلہ لتا ہے پس انگریز ظالم نہیں ہیں.ان کے ذریعہ دنیا میں امن قائم ہے اور دنیا کو عام فائدہ پہنچ رہا ہے اور خدا کتا ہے.وَأَمَّا مَا يُنْفَعُ النَّاسَ قیمت فی الارض (الرعد (۱۹) کہ میں سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے اُسے زمین میں قائم رکھا جاتا ہے ہیں چونکہ انگریز امن قائم رکھتے ہیں اس لیے یہ قائم رہیں گے یہی وجہ ہے کہ خطر ناک سے خطرناک دشمن ان کے مقابلہ کے لیے کھڑے ہوتے ہیں.مگر شکست کھاتے ہیں.تو چونکہ یہ زمین میں امن قائم رکھنے کے خواہاں ہیں.اس لیے خدا ان کی حکومت کو قائم رکھتا ہے.اور جب تک ان میں یہ صفت رینگی.اس وقت تک قائم رکھے گا.غرض آج چونکہ خدا ہماری جماعت کی قمری نشانوں سے مدد فرمارہا ہے.اس لیے ہماری جمات کا فرض ہے کہ ان نشانوں سے فائدہ اُٹھاتے.حضرت مسیح موعود نے بار ہا فرمایا ہے.کہ خدا جس بات کے ہونے کی خبر دیتا ہے.اس کے لیے اگر انسان کوشش کریں تو وہ خدا کے منشار کے خلاف نہیں ہوتی.اس وقت جو کابل نے گورنمنٹ انگریزی سے نادانی سے جنگ شروع کر دی ہے.احمدیوں کا فرض ہے.یہ گورنمنٹ کی خدمت کریں کیونکہ گورنمنٹ کی اطاعت ہمارا فرض ہے.لیکن افغانستان کی جنگ احمدیوں کے لیے ایک نئی حیثیت رکھتی ہے.کیونکہ کابل وہ زمین ہے جہاں ہمارے نہایت ہی قیمتی وجود مارے گئے اور ظلم سے مارے گئے اور بے سبب اور بلا وجہ مارے گئے پیس کابل وہ له تذكره صم
جگہ ہے جہاں احمدیت کی تبلیغ منع ہے اور اس پر صداقت کے دروازے بند ہیں.اس لیے صداقت کے قیام کے لیے گورنمنٹ کی فوج میں شامل ہو کر ان ظالمانہ روکوں کو دور کرنے کے لیے گورنمنٹ کی مدد کرنا احمدیوں کا منہ ہی فرض ہے پس کوشش کرو تا تمہارے ذریعہ وہ شاخیں پیدا ہوں جسکی حضرت مسیح موعود نے اطلاع دی ہے.وہ وقت اب آتا ہے کہ اس ملک میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شید کے قائم کئے ہوئے پودے کو مضبوط کیا جائے.اور اس کی آبیاری کی جائے.ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ وہ ملک ظلمت سے نکل کر نور میں آئے اور اللہ تعالیٰ ہیں وہ دن دکھائے کہ حضرت مسیح موعود کے نشانات پورے ہوں اور ہم صداقت کو پھیلا ہوا دیکھیں.آمین : ا الفضل ۲۷ متى ناقلة )
42 اتفاق و اتحا د انعام الہی ہے اس کی قدر کرو ) فرموده ۲۳ مئی ۹۱۹ ه ) حضور انور نے نشتر و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد آیت کریمہ وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاةَ فَالْفٍ بَيْنَ قُلُوبِهِم فاصْبَحْتُهُ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَانْقَذَكُمْ مِنْهَاء حَذَالِكَ يُبين الله لكم انتم لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ - دال عمران (۱۳) لَكُمُ : تلاوت کی اور فرمایا :- انسانوں کا اتفاق و اتحاد ایک ایسی ضروری چیز ہے کہ دنیا کی تمام قومی اور مذاہب اس کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں مگر باوجود ضرورت کے تسلیم کرنے کے ہر قوم اور ہر جماعت اور ہر فرقہ میں فرقہ و شقاق پایا جاتا ہے.ضرورت تو اس کی اتنی ہے کہ دنیا کی کوئی قوم اور کوئی فرقہ اس کی ضرورت سے انکار نہیں کر سکتا.مگر عملاً دیکھتے ہیں.تو کوئی فرقہ ایسا نظر نہیں آتا جس میں وہ اتفاق کامل نظر آتے جس پر انسان کی ترقی کا مدار ہے.یہ سچ ہے کہ بعض میں کم ہے.اور بعض میں زیادہ مگر اپنی صلی شکل میں کمر سے کم اس وقت تو کہیں نظر نہیں آتا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اتفاق و اتحاد کی بنا ایسے نازک اصول پر ہے کہ جنگی نگہداشت بہت مشکل ہے.کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی ضرورت کے سب قاتل ہیں.اور مانتے ہیں کہ اس کے بغیر کامیابی نہیں ہو سکتی.اور خواہش رکھتے ہیں کہ آپس میں اتفاق ہو.اور ہر قوم کے سمجھدار اس کے حاصل کرنے میں لگے ہوتے ہیں مگر پھر بھی نا اتفاقی پائی جاتی ہے.پس ان تمام باتوں کے باوجود اتفاق کا نہ ہوتا ثابت کرتا ہے کہ اس کی بنیاد بہت نازک اصول پر ہے.اور انسان پر مشکل ہے کہ ان کی پوری نگہداشت کر سکے.اب جبکہ واقعات اور دلائل سے ثابت ہوگیا کہ اتفاق واتحاد کے اصول کی بنیاد نازک ہے.
۲۲۱ تو ہمیں ان کے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیئے.کیونکہ جتنی نازک اور باریک بات ہوتی ہے.اسی قدر اس کے نے کے لیے دماغ زیادہ خرچ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.پس یاد رکھنا چاہتے کہ اتفاق و اتحاد کا نہ ہونا مایوسی نہیں پیدا کر سکتا.کہ یہ حاصل ہی نہیں ہو سکتا.اس لیے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی پیدائش میں اتفاق و اتحاد رکھا گیا ہے اور انسان مدنی الطبع پیدا کیا گیا ہے.میں کا مطلب یہ ہے کہ ایک انسان دوسرے کا محتاج ہوتا ہے.جانوروں میں یہ بات نہیں ہوتی.ان میں ایک نر اور ایک مادہ ہو تو انھیں تیرے کی ضرورت باقی نہیں رہتی، لیکن انسان کی ضروریات اس قسم کی ہیں.کہ یہ پوری نہیں کرسکتا جب تک ! کی مدد اس کے شامل حال نہ ہو.اسی وجہ سے انسان اکٹھے شہروں اور قصبوں میں رہتے ہیں بڑکیں نکالتے اور راستے بناتے ہیں کہ آسانی سے چل سکیں مگر جانوروں میں یہ بات نہیں پائی جاتی کہ وہ بھی سڑکیں تعمیر کریں.مدینہ شہر کو اسی لیے کہتے ہیں کہ وہاں لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے.اور تمدن اسی میں سے نکلا ہے جس کے معنی ہوتے ہیں.کہ وہ اصول جن کے ماتحت لوگ آپس میں سلوک کرتے ہیں.تو انسان کا مدنی الطبع بنانا ہی بتلاتا ہے کہ اس کے لیے اتفاق کی بہت ضرورت ہے اور اس وقت لوگوں میں اتفاق کا نہ ہونا یہ ثابت نہیں کرتا کہ یہ ہوہی نہیں سکتا.کیونکہ یہ بھی ایسی چیزوں میں سے ہے جن کا ہونا انسان کے لیے لازمی ہے.اور جب اس کا ہونا لازمی ہے.تو ضروری ہے.کہ خدا نے اس کے لیے سامان بھی پیدا کئے ہوں.مثلاً چونکہ خدا نے آنکھ بناتی ہے اور آنکھ میں دیکھنے کی قوت رکھی ہے.اس لیے سورج کو پیدا کیا ہے.اور وہ مناظر پیدا کئے ہیں جن کو آنکھ دیکھیتی ہے، لیکن اگر انسان کو آنکھیں نہ دی جاتیں تو کچھ بھی نہ ہوتا.اسی طرح کان ہیں.ان کے لیے آواز پیدا کی ہے.ہوا پیدا کی ہے جس سے ایک کی آواز دوسرے کو پہنچتی ہے.پھر خیالات پیدا کہتے ہیں اور کچھ اشارات بناتے ہیں جن سے وہ آپس میں افہام تقسیم کر سکیں.پھر دماغ پیدا کیا ہے جس کے ذریعہ سے وہ ان اشارات کو سمجھ سکیں اگر دماغ نہ ہوتا تو یہ تمام اشار ہے.اور زبان اور بیان لغو ٹھہرتے ہیں اسی طرح اتفاق ہے کہ اس کی ضرورت کو سب تسلیم کرتے ہیں اور ہر ایک میں اس کی احتیاج پائی جاتی ہے اس لیے اس کا ہونا ناممکن نہیں.اس کے ہونے کے سامان ہیں.مگر بہت نازک پس اگر یہ نہ ہوتو مایوسی کی کوئی بات نہیں.مگر اس کے حاصل کرنے کے اسباب اور اصول کی تلاش کرنا چاہتے.کیونکہ اگر ان کو تلاش نہیں کیا جائیگا.تو پھر یہ حاصل نہیں ہوسکتا.پھر اگر غلط اصول پر چلا جائیگا.توبھی کامیابی نہیں ہوگی.مگر غلط اصول پر مل کر کامیابی کے نہ ہونے سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اتفاق ہو ہی نہیں سکتا.کیونکہ ہر ایک چیز کے حصول کے لیے جو طریق میں جب تک ان پر عمل نہ کیا جائے اس وقت تک کسی
ہرمیں بھی کامیابی نہیں ہوسکتی.اور غلط طریقی پر چل کر کوئی مقصد حاصل نہ ہونے سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ حاصل ہی نہیں ہوا کرتا.یا اب حاصل ہی نہیں ہو سکتا.مثلاً کوئی شخص ایسا نہیں جس کے پاؤں میں آنکھیں ہوں یا کھوپڑی پر کان ہوں مگر اس سے یہ کوئی نہیں کہ سکتا کہ چونکہ پاؤں میں آنکھیں.اور کھوپڑی پر کان نہیں.اس لیے ان کی ضرورت ہی نہیں.اور ان سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا.کیونکہ جہاں جہاں یہ موزوں تھے وہیں لگا دیتے گئے.اور ان سے کام لینے کے سامان پیدا کر دیتے گتے ہیں.اس لیے یہ کہنا بالکل لغو ہے کہ آنکھیں پاؤں میں اور کان کھوپڑی پر لگائے جاتے.دیکھنا یہ ہے کہ جس چیز کی ضرورت تھی.اس کو پورا کیا گیا ہے یا نہیں یسو ہم دیکھتے ہیں کہ جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ تو ضرور پیدا کی ہیں.پس اسی طرح چونکہ اتفاق و اتحاد انسانوں کے لیے ضروری بنایا گیا ہے.اس لیے ناممکن ہے کہ اس کے حاصل کرنے کے ذرائع نہ رکھتے ہوں.ضرور رکھتے ہیں.مگر ان کے تلاش کرنے کی ضرورت ہے.اب سوال یہ ہے کہ جب اتفاق کی ضرورت بھی ہے اور اس کے حاصل کرنے کے لیے کوشش بھی ہوتی ہے.تو یہ حاصل کیوں نہیں ہوتا.اس کا جواب میں ہے کہ ان سامانوں سے کام نہیں لیا جاتا.جو اس کے لیے پیدا کئے گئے ہیں.اگر ان سامانوں سے کام لیا جائے تو ممکن نہیں کہ اتفاق و اتحاد نہ ہو اس کے متعلق سوال ہو سکتا ہے کہ وہ کیا سامان ہیں ہو یا د رکھنا چاہیئے کہ مختلف مذاہب کے لیے مختلف ذرائع ہیں مگر اسلام میں اتفاق کا ذریعہ دین واحد پر جمع ہونا ہے.اور لوگوں کے لیے اور ذرائع ہونگے.مگر مسلمانوں کے لیے بجز اسلام کے اور کوئی نہیں جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَاعْتَوسُوا الحبل اللهِ جَمِیعًا.کہ اللہ کے رسے کو مضبوط پکڑ لو اور اختلاف نہ کرو.دوسری قومیں ظاہری سامانوں سے اتفاق کر سکتی ہیں.مگر اسلام میں اتفاق کا ذریعہ صرف ایک ہی ہے کہ حبل اللہ کو پکڑا جائے اور صل اللہ کیا ہے ؟ وہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء ہیں.قرآن کریم میں ہے.اسلام کیا ہے ؟ وہ جو انبیا.احکام دیتے ہیں پس انبیاء بھی حبل اللہ ہیں.رسول کریم حبل اللہ ہیں اور مسیح موعود حبل اللہ ہیں.قرآن کریم حبل اللہ ہے انکو پکڑے بغیر اتفاق نہیں ہو سکتا.پس اگر اتفاق ہو سکتا ہے.تو اسی طرح کہ اسلام کو مضبوط پکڑا جائے.اور اسلام محض نماز روزے کا نام نہیں.بلکہ اسلام نام ہے اخلاق کے ان اصول کا جن پر چل کر اتفاق و آشتی پیدا ہوا د نا اتفاقی دُور ہو.اسلام کوئی ٹونا ٹوٹکا نہیں کہ میں ادھر سلام کا نام لیا اور دھراتفاق واتحاد پیدا ہوگیا.جیساکہ عوام جہلاء میں مشہور ہے کہ پیپل کے درخت کے گرد سات چکر کھتے دھاگے کے ساتھ لگاتے جائیں تو فلاں
۲۲۳ بات ہو جائیگی.بلکہ اسلام ایسے قاعدے اور اصول بتاتا ہے کہ جن پر عمل کرنے سے اتفاق حاصل ہو سکتا ہے اور اس کے پکڑنے کے یعنی ہیں کہ ان اخلاق و اطوار کو اپنے اندر پیدا کیا جائے.جو اسلام نے تعلیم دیتے ہیں اور جو اس طرح اسلام کو کپڑے گا وہ کبھی ناتفاقی کی بات نہیں کر سکتا.اس کے لیے صحابہ کی مثال موجود ہے.ان میں جھگڑے ہوتے تھے.مگر نا اتفاقی کرنے والے نہیں بلکہ آپس کے اتفاق و اتحاد کو اور مضبوط کرنے والے ہوتے تھے.مثلاً جس کا مال ہوتا.وہ تو کہتا ہے کہ میا مال تھوڑی قیمت کا ہے، لیکن خریدار کہتا ہے.نہیں زیادہ قیمت کا ہے.اس طرح لینے والا کہتا ہے.کہ میں کم کرونگا.مگر دینے والا کہتا ہے نہیں میں زیادہ دونگا.یہ ان کے جھگڑے کی مثال ہے.مگر اب لوگوں کی یہ حالت ہے کہ اگر دس روپیہ کی چیز ہو تو ہمیں روپیہ کی بتائیں گے.اور خریدار پانچ ہی کی بتائیگا.اور دونوں جھوٹ بولیں گے.پس اگر اسلام پر عمل ہو تو اتفاق و اتحاد کی بنیادیں مضبوط ہوسکتی ہیں.اس لیے فرمایا کہ پلے تم لوگوں میںکتنا تفرقہ تھا، لیکن پھر اسلام کے ذریعہ تم میں اتفاق و اتحاد پیدا کرا دیا.تم لڑتے جھگڑتے تھے تمہیں لڑائی سے بچایا.تم ذلیل و حقیر تھے.تمہیں عزت دی.پس اگرایسی با برکت چیز کی قدر نہ کرو گے تو کتنے افسوس کی بات ہوگی.غور کرو کہ ایک چیز عنقا کی طرح لاپتہ ہو مگر خدا کے فضل سے کسی کے ہاتھ آجائے اور وہ لاپروائی سے اس کو ضائع کر دے تو اس سے بڑھ کر مجرم کون ہوسکتا ہے.یہ پرانے زمانہ کی باتیں نہیں کہ فلاں قوم میں اتفاق پیدا ہوگیا تھا.اب بھی ہو سکتا ہے.اور میں اپنی جماعت کو متوجہ کرتا ہوں.ایک وقت تھا کہ ہم میں کوئی اتفاق و اتحاد نہ تھا.کوئی کہیں کا تھا کوئی کہیں گا.کسی کا کوئی مشرب تھا.اور کسی کا کوئی.مگر خدا نے اپنے نبی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ذریعہ ہم میں اتحاد و اتفاق پیدا کیا، لیکن بعض لوگ ایسے ہیں جو اس کی پروا نہیں کرتے.اتفاق جو ایسی قیمتی چیز ہے اور جو خدا نے مسیح موعود کے ذریعہ دی ہے.نادان کوشش کرتے ہیں کہ اس کو کھو دیں حالانکہ وہ نہیں جانتے.کہ یہ وہ چیز ہے کہ جو دنیا کو کوشش سے بھی نہیں ملتی.مگر انھیں خدا نے بغیر محنت و کوشش کے محض کہ بھی مگرانہ اپنے فضل سے مفت عطا کر دی ہے.میں خاص طور باہر اپنی جماعت کو متوجہ کرتا ہوں کہ وہ اس کام کو جس پر انھیں لگا یا گیا ہے کوشش سے انجام دے بعض لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑا شروع کر دیتے ہیں.اور ایک دوسرے کے احساسات کا خیال نہیں رکھتے.چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑھا چڑھا کر لکھتے ہیں.افسر ما تحت کو ذلیل خیال کرتے ہیں.اور ان کے جذبات کا خیال نہیں رکھتے اور ماتحت افسروں کو تنگ کرتے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ لوگ جس ترقی کی طرف بلائے جارہے ہیں.وہ حاصل نہیں کر سکیں گے.وہ یاد رکھیں کہ عزت و
کا میابی اپنی باتوں میں نہیں.بلکہ اسلام پر عمل کرنے سے ہے پس چھوٹی چھوٹی قربانیاں کرو کیونکہ اگر نہیں کرو گے تو بہت بڑی بڑی قربانیاں دینی پڑیں گی تم نے قوموں کے حالات کو دیکھا ہے اور پھر تم نے مسلمانوں کی حالت کو بھی خوب دیکھا ہے.تم انھیں میں سے ہو.دیکھو جب ان میں بادشاہت تھی تو ایک دوسرے کے متعلق یہ خیال کر کے کہ وہ اہل نہیں.اور میں بادشاہت کا اہل ہوں.اس کے گرانے کی کوشش کرتا تھا.اور ایک قاضی یا ایک وزیر یا ایک کمانڈر انچیف دوسرے کے خلاف کوشش کرتے تھے.جتھے بناتے تھے ان کو صرف رسوخ کی خواہش ہوتی تھی.ورنہ یوں وہ بڑے مالدار ہوتے تھے پس وہ اتنی چھوٹی سی قربانی نہیں کر سکتے تھے مگر آج دیکھ لو ان کی کوئی حکومت نہ رہی.کیونکہ انھوں نے اپنی اغراض کو مقدم کیا.اور صرف رسوخ کے لیے جماعت میں تفرقہ ڈالا.اب ہندوؤں کی حکومتیں ہیں دیکھ لو.بدھوں کی خود مختار سلطنت چین میں ہے.جاپان میں ہے.مگر مسلمانوں کی ایک بھی خود مختار سلطنت نہیں.ترکی تھی.وہ جاچکی ہے.افغانستان میں باقی تھی وہ اب جائے گی.ایران کی ایسی ذلیل حالت ہے کہ وہ معمولی سوداگروں سے بھی گیا گذرا ہے.اس کو ۱۵ لاکھ روپیہ قرض کی ضرورت تھی جس کے لیے ضامن طلب کیا جاتا تھا.آج بمبئی میں ایسے ایسے تاجر ہیں.کہ اگر وہ چاہیں تو ان کی ذات پر بھروسہ کر کے لوگ ۵۰ - ۵۰ لاکھ روپیہ دینے کے کر لیے تیار ہیں.ابھی ہماری سرکار برطانیہ کو جنگ کے دوران میں ضرورت پڑی مرسہ کے ایک سید نے ایک کروڑ دس لاکھ روپیہ قرضہ دیدیا.مگر اس کے مقابلہ میں ایران کی سلطنت ہے کہ ۱۵ لاکھ روپیہ قرض مانگتی ہے.تو اس سے ضامن مانگا جاتا ہے سوداگروں کی اس سے بڑی ساکھ ہے.مگر اس مسلمانوں کی سلطنت کی نہیں.یہ نتیجہ ہے اس بات کا کہ اُنھوں نے وقت پر چھوٹی قربانیاں نہ کیں تو اب ان کا یہ حشر ہوا.پس اخلاق سیکھو چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑ نا چھوڑ دو.اتفاق و اتحاد کیسے پیدا ہوسکتا ہے کہ تم ایک شخص پر تلوار چلاو.اور پھر توقع رکھ کہ وہ تمارا بھائی بنا ہیگا.ایک شخص تمہارے پاس آتے.اور تم اس کو ذلیل خیال گروہ تو وہ کب تم سے محبت کر سکتا ہے.یہ انسان کی فطرت ہے کہ انسان ذلیل کر نیوالے اور تکلیف پہنچانے والے سے محبت نہیں کر سکتا.جب تک تم دوسرے کے آگے محبت سے نہیں مجھکو گے.اور اخلاق فاضلہ سے پیش نہیں آؤ گے.اور دوسرے کی تکلیف کو اپنی تکلیف نہیں خیال کرد گئے.اتفاق پیدا نہیں ہو سکتا.ایک شخص محبت سے بات کرنے اور خندہ پیشانی سے ملنے یا کسی دوسرے بھائی کو فائدہ پہنچتا ہو اس سے گریز کرے.تو اس سے کیسے محبت ہو سکتی ہے اس
۲۲۵ میں تو مفت کرم داشتن ہے.اگران باتوں کی پروا نہیں کرو گے تو وہ اتفاق و اتحاد جوخدا کے فضل سے پیدا ہو گیا ہے ضائع ہو جائیگا.اب تمہاری چھوٹی سی قربانی بڑے بڑے فوائد پیدا کرسکتی ہے.تم اب اسلام کا مرکزی پتھر ہو.اگر تم بھی ہوگے تو آئندہ نسلیں بہت ہی بیچ ہونگی.اور ساری عمارت نئی ٹیڑھی ہو جائیگی.اس لیے چھوٹی بھی کو بھی چھوٹا نہ مجھو.تم اپنے اخلاق کو درست بناؤ، تم اپنے بھاتیوں سے محنت سے پیش آؤ اور کسی بھائی کی خاطر اگر تکلیف برداشت کرنا پڑے تو کرو ، اگر تم ایسے ہو گے تو آئندہ تمہاری مثال اختیار کی جائیگی ورنہ آئندہ تم لوگوں کے لیے انتبلا.کا باعث ہوگے اگر تمہاری حالت خراب ہو گئی.تو لوگ تمہارا ہی نمونہ پکڑیں گئے.کیونکہ تم میلوں اور پچھلوں کے درمیان حائل ہو گئے ہو.اگر تمہاری حالت اچھی ہوئی اور تمہارے نمونے عمدہ ہوئے تو تم مبارک ہو.اور اگر تمہاری حالت اچھی نہ ہوئی تو تمہاری گندی مثالوں سے لوگ خراب ہونگے.میں اپنے اخلاق درست کرو اور اسلام کے لیے ایک بے نقص بنیادی پتھر رکھو تاکہ تمہارے ذریعہ جو اسلام کی عمارت تیار ہو اس میں داخل ہو کر لوگ نجات حاصل کریں اور ہلاکتوں سے بچیں.تمہارے اخلاق ایک دوسرے کے لیے ابتلاء کا باعث نہ ہوں.بلکہ بھلائی کا موجب ہوں.اور تمہارے اعمال سے لوگ اتبلا.میں نہ پڑیں.بلکہ تمہارے اعمال سے لوگ مثال پکڑیں.آمین و الفضل ۳۱ متی شه )
43 برقت ترقی کیلئے کو شاں بہنا چاہیئے (فرموده ۳۰ مئی ۱۹۱۹مه) تشہیر و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا کہ : " میں بعض ضروری باتیں اس خطبہ جمعہ میں آپ لوگوں کے سامنے بیان کرنا چاہتا تھا مگر چند روز سے بیمار ہونے کے اگلے جمعہ پر ملتوی کرتا ہوں اور آج میں آپ لوگوں کو اس بات پر متوجہ کرتا ہوں کہ اس زمانہ میں ہماری جماعت کی ذمہ داریاں اور اس کے کام ایسی احتیاط اور ایسی فکر چاہتے ہیں کہ ان کو معمولی طور پر ایک سول کوشش کیسا تھ سرانجام دیا جاسکتا میں نے بارہا آپ لوگوں کو بتایا ہے اور اس کی کوشش کی ہے کہ آپ کو اس امر میں اپنا ہم خیال بناؤں کہ اس وقت جس کام کیلئے ہماری جماعت کھڑی ہوتی ہے وہ بہت بڑا اور اہم کام ہے.اس لیے اس کام کے سرانجام دینے کے لیے عظیم الشان تیاری کی ضرورت ہے میں نہیں جانتا کہ میں کہاں تک اس امر میں کامیاب ہوا ہوں اور کسی حد تک جماعت اس بات میں میری ہم خیال ہوتی ہے، لیکن جہاں تک میں سمجھا ہوں.وہ یہ ہے کہ و جماعت کا ایک حصہ سمجھ چکا.اور جان چکا ہے کہ ہمیں اس وقت کن کن کاموں کی ضرورت ہے.پھر بھی ایک حصہ ہے جو نہیں سمجھا اور جو سمجھا ہے اس سے عمل کرانے کی ضرورت ہے.اگر ہماری جماعت کے تمام لوگ اس ذمہ داری کو سمجھیں جو حضرت مسیح موعود پر ایمان لانے کی وجہ سے ان پر مائکہ ہوتی ہے.تو آج ہی ایک عظیم الشان انقلاب پیدا ہو سکتا ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ دنیا کو فتح کرنے کے لیے جو ہمیں کام کرنے چاہتیں انھیں ابھی ہم نے چھیڑا تک نہیں اور وہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں.قناعت عمدہ چیز ہے، لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ قومی ترقی میں بھی قناعت کی جائے کیونکہ ہر چیز اپنی جگہ اور محل پر اچھی ہوتی ہے.مثلاً علم اچھی صفت ہے، لیکن اگر کوئی شخص کسی کی تعریف کرے کہ فلاں شخص بڑا ہی نرم دل ہے کہ اس کے بزرگوں کو گالیاں دی جاتی ہیں، مگر چپکا بیٹھا ئے رہا ہے.تو یہ تعریف نہیں ہوگی.بلکہ ایسا آدمی بے غیرت ہوگا.اور اس کی وسعت حوصلہ اور وسعت
ی یہی کہا گیا کہ یہ کیا جائیگا کہ اس کادل نہایت تنگ ہے کہ بڑی بات اس میں ماہی نہیں کی کیونکہ مذہب کی غیرت بوجہ تنگ دل ہونے کے اس میں آہی نہیں سکتی.پس یہ نہیں کہ اس میں علم ہے.اور وہ وسیع القلب ہے.بلکہ وہ بے غیرت ہے.اور بے حیائی کو قبول کرتا ہے.پس اسی طرح قناعت کا معاملہ ہے.ایک حد تک موجب عزت ہوتی ہے مگر ایک ایسا شخص جو نہ ہی ترقی کے لیے قانع ہے اور خیال کرتا ہے کہ اس کی مذہبی ترقی یا اس کے مذہب کی ترقی کافی ہو چکی ہے.وہ بے ہمت اور نکتا ہے.اور جو قومیں اپنی ترقی پر قانع ہو جاتی ہیں وہ تباہ ہو جاتی ہیں جماعت اور قوم کے لیے ضروری ہے کہ اپنی ترقی کے لیے حریص ہو جو قوم بجائے ترقی کرنے کے ایک مقام پر ٹھہر جاتی ہے وہ گرنے لگ جاتی ہے اور ترقی وہی کرتی ہے.کہ ہر ایک درجہ جوائس کے سامنے آتے.وہ اس کو اپنا حتی خیال کرے اور کوشش کرے کہ اس کو حاصل کرتے جب تک یہ نہ ہو اس جماعت یا مذہب کے لوگ کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتے لیکن جب تک انسان کو خیال ہو کہ ابھی اسے اور بھی کچھ حاصل کرنا ہے اس وقت تک ترقی کے راستے اس کے لیے کھلے ہوتے ہیں.ترقی کی کوئی انتہا نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے رب زدني بعلمها الله :10) کام کرنے والی قومیں ترقی کے میدان میں بڑھتی چلی جایا کرتی ہیں.وہ کسی مقام پر نہیں ٹھہر تہیں دیگر جن قوموں نے تباہ ہونا اور گرنا ہوتا ہے.وہ ایک مقام پر جاکر ٹھہر جاتی ہیں.اور خوش ہوتی ہیں دیگر جن قوموں نے کچھ کرنا ہوتا ہے.وہ کسی مقام پر نہیں ٹھہر تیں اور کوئی ایسا نقطہ نہیں ہوتا جسکو وہ آخری نقطہ قرار دیں پس ہم کسی کامیابی پر خوش نہیں ہو سکتے جب تک ہم اس سے آگے نہ بڑھ جائیں.اور جب تک ہر ایک خوشی آئندہ ترقی کے لیے تحریص بلکہ تحریض کا باعث نہ ہو.یہ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ ص کو ض سے بدل دیا جائے تو اس کے معنی اور مضبوط کے ہوتے ہیں.پس ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہمارا ہر مقام آئندہ کے لیے محرک ہو.اور زیادہ سے زیادہ جوش کا باعث ہو.اگر یہ ہو جائے، کوئی انسانی طاقت ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی.اور جو طاقت بھی ہمارے لیے روک بنے گی وہ مٹا دی جاتے گی.کیونکہ خدا کا یہ نشاء ہے کہ اسلام پھر قائم ہو.خدا کے اس منشاء کے خلاف جو حکومت ہو گی.وہ مٹا دی جائے گی.اور جو طاقت ہوگی وہ برباد کر دی جائے گی.اور باوجود اس کے کہ ہمارے پاس کوئی ظاہری سامان نہیں.تاہم یونی ہوگا کیونکہ یہ الہ تعالیٰ کا منشاء ہے.دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رستہ میں جو سلطنتیں آئیں اور انھوں نے احمدیت
کی اشاعت میں کسی نہ کسی طرح کی روک پیدا کی وہ کس طرح تباہ کر دی گئیں.ایک زمانہ تھا کہ ترکی سلطنت سے تمام کا تمام یورپ لرزتا تھا.اور اس کے مقابلہ کو آسان نہیں سمجھتا تھا.کیونکہ یورپ کو خیال تھا کہ ہم نے اگر ترکوں سے جنگ چھیڑی تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ساری دنیا کے مسلمان ہمارے خلاف جنگ کے لیے کھڑے ہو جائیں گے اور دنیا میں ایک آگ سہی لگ جائے گی.ہماری حکومت سرکار برطانیہ بھی اپنی مسلمان رعایا کے خیال سے ترکوں سے جنگ نہیں کرتی تھی.مگر جب مسیح موعود کو کہا گیا کہ مکہ جاؤ اور دیکھو وہاں تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے.تو وہی مسلمان جن کے متعلق یہ خیال تھا کہ اگر ترکوں سے جنگ ہوئی تو ان میں بغاوت پھیل جائے گی.ان میں بجائے اس کے کہ ترکوں سے جنگ ہونے پر کسی قسم کی شورش پیدا ہوتی.انھوں نے اپنے ہاتھ سے ترکوں پر گولیاں چلائیں.اور اب وہ طاقت توڑ دی گئی ہے.جو اگر کچھ باقی رہ گئی تو ایسی ہوگی.جو حکومت کہلانے کی مستی نہیں ہوگی.پھر کابل کی حکومت بھی مسیح موعود کے رستہ میں روک تھی اور وہاں پر نہ صرف یہ کہ احمدیت کی تبلیغ منع تھی بلکہ احمدیت کا اظہار بھی ممنوع تھا.اور مسیح موعود کو وہاں جانے کا ڈراوا دیا جاتا تھا.خدا نے اس کے تباہ کرنے کے بھی سامان پیدا کر دیتے.پس تم بہت یہ خیال کرو کہ تمہارے پاس سامان نہیں اور تم کزور ہو.کیونکہ جب انسان خدا کی راہ میں کوشش کرتا ہے.تو اس کے لیے سامان پیدا کر دیئے جاتے ہیں.دیکھو ابتداء میں حضرت مسیح کے ساتھیوں کی کیسی کمزور حالت تھی حتی کہ ایک بدقسمت نے تھیں کو پے لے کر میسج کو بیچ بھی دیا.اور جو بہت مقرب تھا اس نے اس خوف سے کہ لوگ اس کو مسیح کا متبع ہونے کے باعث برا بھلا نہ کہیں.یا کسی اور آفت میں نہ ڈال دیں مجمع عام میں مسیح پر لعنت کی.باوجود اس کے جس حد تک ان میں اخلاص اور جوش تھا.خدا نے اس کو ضائع نہیں کیا.میسج کے خادموں کو حکومت دی.سلطنت دی اور وہی لوگ جو مسیح کے نام کے دشمن تھے.خود اس کے نام کی منادی کرنے لگے.پس ایسے ہی ذرائع سے یہاں کام ہوگا.ہاں وہ ذریعہ تلوار نہ ہوگی.بلکہ ان ہوگا اور وہ وقت دور نہیں.جب بادشاہ حضرت مسیح موعود کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.یہ تو ہو نہیں سکتا کہ برکت ڈھونڈھنے والے بادشاہ عیسائی ہوں گے ، یا بدھ ہونگے ، بلکہ وہ بادشاہ حضرت مسیح موعود کو ماننے والے اور احمدی ہی ہونگے اور وہ تبلیغ کے ذریعہ احمدیت میں داخل لے سیودا اسکریوطی دمتی باب ۲۷)
۲۲۹ ہونگے، نہ کہ تلوار سے.تو خدا کی طرف سے جو وعدے ہیں ان کے ظہور کے ابتدائی نشانات اگرچہ نہایت باریک ہیں جو ظاہر میں عام لوگوں کو نظر نہیں آیا کرتے.مگر حقیقت بین نگاہیں ان کو دیکھ لیتی ہیں اور اب بھی دیکھ رہی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے فرض کو سمجھیں اور اس کو پورا کرنے کی کوشش کریں.تاکہ اُس کا فضل نازل ہو.اور مسیح موعود سے جو وعدے کئے گئے ہیں.ہم اللہ تعالے کے فضل سے اپنی آنکھوں سے پورا ہوتا دیکھ لیں ؟ ) الفضل.ارجون له )
44.دُعاؤں کے دن فرموده بر جوان شاشاته تشتد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آیت وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِي فَإِنِّي قَرْب أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوالِى وَليَومِنُوا لى تَعَلَّهُ يَرْشُدُونه تلاوت فرما کر فرمایا :- رسورة البقرة : ١٨٧ ) دُعا ایک ایسا حربہ اسلام نے مسلمانوں کو دیا ہے کہ اس کے آگے کوئی قوم و مذہب نہیں ٹھہر سکتا.وجہ یہ ہے کہ ہر ایک بات کا توڑ ہو سکتا ہے، مگر دُعا کا توڑ نہیں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک بزرگ کے ہمسایہ میں ایک مالدار شخص رہتا تھا جس کو بادشاہ کے دربار میں بڑا رسوخ حاصل تھا.اس کے ہاں شب و روز گانا بجانا اور شراب نوشی ہوتی رہتی تھی.جس سے ہمسایوں کو نہ دن آرام تھا نہ رات جب ہمسایوں کی یہ تکلیف اُن بزرگ نے دیکھی.تو وہ اس امیر کے پاس گئے اور کہا کہ ہر مذہب و ملت کا شخص اپنے ہمسایوں کے آرام کا خیال رکھتا ہے.تم تومسلمان ہو تمہیں بہت زیادہ ان کے آرام کا خیال چاہیئے.اس کے جواب میں اس شخص نے کہا میں کیا کروں اگر ان کو تکلیف ہوتی ہے تو ہوا کرے میں مختار ہوں، جس طرح چاہوں کروں.کیونکہ یہ میرا گھر ہے.انھوں نے اُسے بہت سمجھایا ، مگر جب وہ نہ ہی سمجھا تو کها کہ اگر تم اسی طرح تکلیف دیتے رہو گے تو وہ لوگ تمہارا مقابلہ کریں گے.اس نے کہا وہ میرا کیا مقابلہ کریں گے.میں بادشاہ کا مقرب ہوں.شاہی فوج کا ایک دستہ اپنے مکان کی حفاظت کے لیے بلوا لونگا.پھر دیکھونگا کہ یہ لوگ میرا کیا بگاڑ لیتے ہیں.وہ بزرگ اس کے جواب پر مسکراتے.اور کہا کہ ان کا مقابلہ ان ظاہری سامانوں سے نہیں ہو گا.بلکہ ان کا مقابلہ سہام اللیل سے ہو گا.یعنی وہ تیر جو رات کو چلائے جاتے ہیں.دیدہ عربی زبان کا محاورہ ہے.کہ دعا کو عربی میں سہام الہیل سے تعبیر کرتے ہیں.کیونکہ اندھیرے میں کی ہوئی دکھا ئیں اس صفائی سے نشانے پر بیٹھتی ہیں کہ دن میں چلنے والے تیر بھی انکا
مقابلہ نہیں کر سکتے ان بزرگ کے اس کہنے کا اس شخص پر ایسا اثر ہو کہ وہ کانپ گیا.اور اس نے نہایت لجاجت سے کہا کہ نہ صرف یہ کہ میں رات کو ہی ان افعال سے باز رہونگا.بلکہ میں آپ کے ہاتھ پران تمام گنا ہوں سے تو یہ کرتا ہوں.اور اب ساری عمران سے باز رہونگا.تو یہ سهام ایل ایسا حربہ ہیں کہ کوئی ان کا مقابہ نہیں کر سکتا.حضرت موسی کے مقابلہ میں فرعون کی حالت دیکھیئے.حضرت موسیٰ اس سے بات کرتے ہیں ، مگر وہ کہتا ہے.تم ہمارے غلام.اور تم ہماری روٹیوں کے پروردہ ہو تم ہمارے سامنے کیا بولتے ہو موٹی اس کو بجھاتے ہیں کہ خدا کا خوف کرو اور اس پر ایمان لاؤ لیکن وہ کہتا ہے کون خدا ہے.میرے سوا کوئی پیدا ہی نہیں.حضرت مونٹی کہتے ہیں.اچھا اور نہیں تو میری قوم کو ہی میرے ساتھ بھیجد و.وہ کہتا ہے.ہم تمہیں قید میں ڈالیں گے.اور تمہارے مردوں سے اینٹیں پچھوائیں گے اور ان سے ایندھن جمع کرائیں گے.چنانچہ جو کہتا ہے.وہ کرتا ہے لیکن جب ان کے ظلم سے حضرت موسی کے دل میں درد پیدا ہوا تو نہ فرعون رہا نہ اس کا خدائی کا دعویٰ رہا.نہ وہ سلطنت رہی نہ وہ جلال و جبروت رہا.اور حضرت موسٹی کے سہام الہیل نے وہ کام کیا کہ وہ ان کے مقابلہ میں عاجز ہو کر پکار اٹھا.آمنتُ أنه GALANGUAGE GALANGANA امنت به نوا إِسْرَائِيلَ وَانَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ (يونس: 91) میں ایمان لاتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں میگروہی جس پر بنو اسرائیل ایمان لائے اور میں مسلمین میں سے ہوں، لیکن یہ ایمان اس وقت لایا جبکہ اس کے ایمان لانے کا وقت گذر چکا تھا.اور اس کی توبہ قبول نہ ہو سکتی تھی.اسی طرح رسول کریم کے زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں.دشمن آپ کو بید دُکھ دیتا ہے.ایذائیں پہنچاتا ، مگر آپ کی دُعا کے مقابلہ میں کوئی آکرکھڑا نہیں ہوتا.ایک دفعہ آپ کو مکہ میں بہت دکھ دیا گیا.مگر بیچ میں سے ہی ایک نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) بد دعا دیں گئے.پھر آپ کے پاس آیا اور آکر کہا کہ بددعا نہ کرنا کیونکہ آخر یہ تیرے رشتہ دار ہی ہیں.تو وہ سب کچھ کرتے تھے لیکن آپ کی دُعا کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے.پس یہ وہ ہتھیار ہے جو گو سب کو ملا مگر اسلام کو نمایاں طور پر ملا ہے.میں نے دعا کے متعلق ایک گذشتہ رمضان میں خطے کے تھے.جن میں میں نے خدا کے فضل سے وہ اصول و قواعد تائے تھے کہ ان پر عمل کرنے سے دُعا قبول ہو سکتی ہے.علاوہ ان اصول کے انہی کے ماتحت اور نہت له بخاری کتاب الاستسقاء باب اذا استشفع المشركون بالمسلمين عند القحط
سی شاخیں ہیں جن پر ٹل کرنے سے دعا قبولیت کے زیادہ قریب ہوسکتی ہے.میں دیکھتا ہوں کہ جماعت نے ان سے بہت فائدہ اُٹھایا ہے.جماعت نے تو فائدہ اُٹھانا ہی تھا.دوسروں نے بھی فائدہ اُٹھایا ہے.چنانچہ ایک ہندو کے جو ولایت میں مقیم ہے اور اب دل سے مسلمان ہو چکا ہے خطوط آتے رہتے ہیں.وہ ایک سیاسی وجہ سے قید ہوگیا تھا.حال ہی میں اس نے لکھا ہے کہ میں اپنی رھائی کے لیے با قاعدہ ان اصول کو پڑھ کر دعا مانگتا رہا ہوں اور باوجود اس کے کہ دوسروں کی نسبت میرے حالات زیادہ مایوس کن تھے مگر میں آزاد ہو گیا ہوں.اور دوسرے ابھی تک آزاد نہیں ہوتے پھر وہ لکھتا ہے کہ میں نے اپنے ایک انگریز دوست کو بھی وہ رسالہ پڑھنے کو دیا ہے اور اُس کو کہا ہے.کہ تم اس کے مطابق دُعا کرو.اللہ تعالیٰ تمہیں اولاد دیدے گا.پس دعا ایک بڑا حربہ ہے.اس کے ذریعہ ناممکن باتیں مکن ہو جاتی ہیں.ایک دفعہ ایک دوست نے خط لکھا.اور التجا سے لکھا کہ آپ میرے رشتہ کے متعلق دعا کریں.میں نے بہت کوشش کی ہے مگر کامیابی نہیں ہوئی.بعض جگہ فیصلہ ہو ہو کر جواب مل گیا.ان کا تعلق حضرت صاحب سے بھی تھا اور مجھ سے بھی.بعض خاص اوقات ہوتے ہیں.میں نے دُعا کی اور مجھے علم ہو گیا کہ یہ دعا قبول ہوگئی ہے.اور میں نے ان کو لکھ دیا.وہ بڑی عمر کے تھے.اور صحت بھی اچھی نہیں رہتی تھی.اُنھوں نے مجھے لکھا کہ خدا نے دعا کی قبولیت کا عجیب رنگ میں نمونہ دکھایا کہ ایک ایسی جگہ رشتہ ہو گیا ہے.جہاں گمان بھی نہیں تھا.اور ایسے گھر میں ہوا جو ان سے زیادہ آسودہ حال تھا.اور اس طرح ہوا کہ لڑکی والے نے خود بلا کر کہا کہ میں اپنی لڑکی آپ کے نکاح میں دیتا ہوں.تو جہاں کوئی سامان نظر نہیں آتے.وہاں دُعا کام دیتی ہے.مگر اس بات کو وہی سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے اس کی چاشنی چکھی ہے.دراصل دعا ڈائنامیٹ سے زیادہ موثر اور ہم سے زیادہ کام کرنے والی ہے.ڈائنامیٹ چند پتھروں کو اکھاڑ کر پھینک سکتا ہے، لیکن دُعا ساری دنیا کو ادھر سے اُدھر کر سکتی ہے.دیکھو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہی تھی جس نے سلطنتوں اور طاقتوں کو تہ و بالا کر ڈالا.ہر ایک طاقت جو آپ کے مقابلہ کے لیے کھڑی ہوئی گرا دی گئی.اسی طرح دُعا ترقی کے بڑے سے بڑے منار پر پہنچا سکتی ہے اور وہ کام کرتی ہے.جو خیال میں بھی نہیں آسکتے.میں نے دُعا کی طرف اپنی جماعت کو بہت دفعہ توجہ دلائی ہے اور اب پھر دلاتا ہوں کیونکہ یہ رمضان کا مہینہ ہے.اور یہ وہ مہینہ ہے جس کے ذکر کے دوران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُجیب
دعوة الداعِ إِذَا دَعَانِ کہ اس مہینہ میں دُعا ئیں بالخصوص قبول کی جاتی ہیں.اور دعائیں خدا تعالیٰ سے مدد کے حصول کا ذریعہ ہیں پس چونکہ دعا وہ چیز ہے جو مشکلات سے بچاتی ہے.اور رمضان کی دُعائیں خصوصاً مقبول ہوتی ہیں.اس لیے میں خاص طور پر اپنی جماعت کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں رمضان میں دُعاؤں کے زیادہ قبول ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے اندر بعض خدائی صفات پیدا کر لیتا ہے.خدا کے لیے کھانا چھوڑ دیتا ہے.پینا چھوڑ دیتا ہے.اور خدا ہی کے لیے راتوں کو جاگتا ہے.چونکہ دوسرے ایام کی نسبت رمضان کی راتوں میں زیادہ جاگتا ہے.اس لیے نماز کا بھی اس میں زیادہ موقع ملتا ہے اور یہ اس مہینہ میں خصوصیت ہے.اس لیے وہ الٹی فضل جو جماعت سے تعلق رکھتے ہیں رمضان میں نازل ہوتے ہیں.رمضان کی مثال دربار عام سے دی جاسکتی ہے.پہلے بادشاہوں میں قاعدہ ہوتا تھا کہ ان کے عالموں اور گورنروں کے ستائے ہوئے لوگ جب بادشاہ کے حضور فریاد کرنا چاہتے تھے تو کاغذ کے کپڑے بین کر جاتے تھے.اس وقت بادشاہ خواہ کسی حالت میں ہوتا ان سے ملتا تھا اور کوئی وہاں اس کو نہیں روک سکتا تھا.پھر ایک دربار عام ہوتا تھا.جس میں ہر ایک شخص جا سکتا تھا.تو رمضان کی مثال ، دربار عام کی ہے.اگر چہ خدا کا دربار تو ہمیشہ ہی عام ہوتا ہے خواہ کوئی ہو اس کو ہر وقت دربار میں مل سکتا ہے.مگر رمضان کے دن خصوصیت رکھتے ہیں.اس لیے ان ایام میں آپ لوگ اپنے لیے.اپنے دوستوں.عزیزوں رشتہ داروں کے لیے اسلام و سلسلہ اور دین کی ترقی کے لیے اور فتنوں سے بچنے کے لیے خاص دعائیں کریں.کیونکہ تمہارے لیے سوائے خدا کے اور کوئی محافظ نہیں.احمدی ہونے سے والدین تک دشمن ہو جاتے ہیں بعض اسی قسم کے واقعات ہوتے ہیں.کہ لوگوں کو احمدی ہونے کی وجہ سے جائیدادوں سے بھی محروم ہونا پڑا ہے اور نہ صرف والدین کی جائیداد سے بلکہ ایسی جائیدادوں سے بھی جو اپنے روپیہ سے اُنھوں نے خریدی تھیں.اور طرح طرح کی ہمارے لیے مشکلات ہیں کہیں جھوٹے مقدمے بناتے جاتے ہیں.کہیں دکھ دیتے جاتے ہیں.کہیں قتل کرنے سے دریغ نہیں کیا جاتا.چونکہ ہماری سب مشکلات دُعا کے ذریعہ ہی دُور ہوسکتی ہیں.اس لیے ہمیں رمضان کے مہینہ میں خاص طور پر دعائیں کرنا چاہیں.آج تم سے زیادہ کوئی اس بات کا ستحتی نہیں کہ اس کی دعا قبول کی جائے.اور اس کی دُعا سنی جائے.کیونکہ دُعائیں سنی جانے کی دو وجہیں ہوتی ہیں.اول احتیاج جو دوسرے کے دل
میں رقم پیدا کردیتی ہیں.مثلاً اگر ایک شخص جنگل میں کھانا کھا رہا ہوں، کہ ایک طرف تو اس کا کوئی عزیز اسے کے کہ ذرا ذائقہ چکھنے کے لیے تجھکو کھانا دو.اور دوسری طرف ایک ایسا شخص جس کی بھوک سے حالت غیر ہو رہی ہو کھانا مانگے.تو اگر اس شخص میں کچھ بھی شرافت ہوگی تو وہ بجائے اپنے عزیز کو کھانا دینے کے اس مختاج کو دیدے گا.کیونکہ اس کی حالت امداد کی محتاج ہے.تو احتیاج بھی ایک حق رکھتی ہے اس وقت تم ہر طرح خدا کی مدد کے محتاج ہو اور تم مظلوم ہو کیونکہ تمہیں ساری دنیا مٹانا چاہتی ہے پھر تم سے زیادہ کون مستحق ہو سکتا ہے کہ تمہارے مقابلہ میں اس کی سنی جائے.علاوہ ازیں تم اس لیے بھی مستحق ہو کہ تم نے خدا کی پکار کو ٹنا.خدا کے نبی خدا کی پکار ہوتے ہیں.تم نے خدا کے نبی کو قبول کئے خدا کو قبول کیا ہے.اس لیے بھی تمہیں متقی ہو کہ تمہاری سنی جاتے ہیں تم دونوں وجہوں سے استحقاق رکھتے ہو.بوجہ محتاج ہونے کے بھی اور بوجہ اس کے بھی کہ تم نے خدا کے نبی کی پکار کو سنا.اس لیے تم سب سے زیادہ مستحق ہو.تم اگر دعائیں کرو گے تو تمہاری دُعائیں قبول کی جائیں گی.پس تم دعا میں خاص طور پر لگ جاؤ.اپنے لیے دعائیں کرو اور ان کے لیے دعائیں کرو جو تمہارے بھائی دنیا کے مختلف حصوں میں تبلیغ میں مشغول ہیں.اللہ تعالیٰ ان پر فضل کرے.یہ خطر ناک ایام ہیں.فتنہ اور دُکھ کے دن ہیں.ہم آدمیوں میں نہیں بلکہ بندروں اور ریچھوں میں رہتے ہیں.آج جس دنیا مں ہم ہیں وہ آدمیوں کی دنیا نہیں.کیونکہ اگر ہم سچ بولتے ہیں.تو وہ کہتے ہیں.تم ریا کرتے ہو.اگر ہم اخلاص سے کوئی کام کرتے ہیں.وہ اس کو خود غرضی پر محمول کرتے ہیں.اس لیے ہم دنیا میں ہیں.مگر دنیا سے علیحدہ ہیں.لوگوں کے اخلاق فاضلہ گر کر ان میں حیوانیت پیدا ہو گئی ہے.جس طرح کہ قرآن کریم میں اللہ تعالے فرماتا ہے.حالانعام بل هم اصل یہ ہم جو اخلاق فاضلہ کے کام کرتے ہیں.وہ ان سے چڑتے ہیں.ایک شخص احمدی ہو جائے.اور جھوٹی شہادت سے پر ہیز کرے اور انکار کردیے.تو بجائے اس کے کہ اس بات کو سچا تسلیم کریں کہتے ہیں.لوجی اب یہ پر ہیز گار بن گئے.کیا ہم جانتے نہیں فریق مخالف سے رو پیر لے لیا ہے.اس لیے گواہی نہیں دیتے.اگر کوئی نوکر احمدی ہو کر رشوت لینی چھوڑ دے تو افسروں تک اس کے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے.انھیں یقین نہیں آتا کہ ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں.جو محض خدا کے خوف سے رشوت چھوڑ سکتے ہیں.له سورة الفرقان : دم
۲۳۵ وہ ہماری جماعت کہ یک آدمی تھے وہ اب فوت ہو گئے ہیں.انھوں نے کوشش کی کہ و اسٹیشن ماسٹر کی حیثیت میں بٹالہ سٹیشن پر بدل دیئے جائیں.اُنھوں نے اپنے محکمہ کے افسر کے پاس درخواست کی اور گورنمنٹ کے متعلق جو احمدی جماعت کے خیالات ہیں.وہ بتاتے اور کچھ رسالے وغیرہ بھی دیتے.اس افسر نے انھیں کہا کہ ہم تم پر بہت خوش ہیں اور تمہاری جماعت کو بہت اچھا سمجھتے ہیں.اس لیے تم سے رعائت کرتے ہیں کہ تم ہمیں تین سو روپیہ ماہوار دیدیا کرو.ہم تمہیں بٹالہ کا سٹیشن ماسٹر بنا دیں گے.اُنھوں نے کہا کہ میری تنخواہ تو ساٹھ روپیہ ہے.میں تین سو روپیہ ماہوار کیسے دے سکتا ہوں.اُس نے کہا نہیں تمہیں بہت آمدنی ہوتی ہے.انھوں نے کہا ئیں توایسی آمدنی لیتا نہیں.کیونکہ یہی حکم ہے.اس نے جواب دیا کہ افسوس ہم پھر مجبور ہیں.آپ کی بدلی نہیں ہو سکتی.اسی طرح ایک خانساماں تھا.وہ ہمیشہ گھی کی بجائے چربی ڈالا کرتا تھا.خدا نے اسکو ہدایت دی اور وہ احمدی ہو گیا.اس کے بعد اس نے چربی کی بجائے گی کہ اسی کی قیمت وصول کی جاتی تھی ڈالنا شروع کیا جس پر تمام لوگوں میں شور مچ گیا کہ ہت برا کھانا ہوتا ہے.اس نے بہت یقین دلایا کہ یہ گھی خالص ہے.مگر انھوں نے باور نہ کیا ، اور افسران بالا کے پاس اس کی شکایت کی.افسر آتے اور اس سے باز پرس ہوتی اُس نے کہا پہلے تو میں واقعی چربی کھلاتا تھا لیکن اب جب سے میں احمدی ہوا ہوں، چربی کا استعمال ترک کر دیا.اور گھی استعمال کرتا ہوں.افسر کو کہا کہ میری بات کا یقین آپ کو اس طرح آسکتا ہے.کہ میں آپ کے سامنے دونوں سالن پکاتا ہوں.چربی کا بھی اور گھی کا بھی.چنانچہ پکاتے چربی کے کھانے کو کھانے والوں نے پسند کیا اور گھی کے کھانے کو نا پسند، اس پر افسر نے کہدیا کہ اب اگر تم چربی استعمال کرو تو اس میں تمہارا قصور نہیں.تم یہی استعمال کیا کرو.غرض عجیب معاملہ ہے.لوگ ہمارے جذبات کو سمجھ ہی نہیں سکتے.وہ خیال ہی نہیں کر سکتے کہ آج بھی معاملات صفائی کے ساتھ ہو سکتے ہیں.ہمیں حضرت مسیح موعود نے اس دنیا سے نکال که تیره سو برس پیچھے کے زمانہ میں پہنچا دیا ہے.جو ہمیں موجودہ زمانہ کی نسبت زیادہ پیارا ہے کیونکہ اس میں زیادہ آرام اور زیاد قسمتی ہے.اس زمانہ کے لوگوں کی تو یہ حالت ہے کہ سرکاری کونسل میں ایک مسلمان ممبر تھا.جو اب مستعفی ہو گیا ہے.ایک دفعہ کونسل میں یہ سوال پیش ہوا کہ مسلمان عورتہ کا ہندو مرد سے اور ہندو عورت کا مسلمان سے نکاح ہو جانا چاہیئے کسی نے کہا یہ تو قرآن کریم کے خلاف ہے.اس نے کہا قرآن ایک تیرہ سو برس پہلے کی کتاب ہے وہ اس زمانہ کی ضروریات کو پورا
۲۳۶ نہیں کرتی.یہ وہ شخص ہے جو مسلمانوں کا لیڈر کہلاتا ہے.اور پچھلے دنوں رولٹ ایکٹ کے خلاف اظہار ناراضگی کے طور پر وہ مستعفی ہو گیا ہے.جو شخص خدا کے قانون کو پسند نہیں کرتا.وہ بندوں کے قانون کو کہاں پسند کر سکتا ہے.پس ہم اس جہان میں رہتے ہوئے بھی ایک اور جہان میں رہتے ہیں.کیونکہ یہ لوگ ہمارے خیالا ہمارے جذبات کو سمجھ ہی نہیں سکتے.ہماری باتیں ان کے لیے گونگے کے اشاروں سے زیادہ نہیں.یہ مشکلات ہیں جو نہیں درپیش ہیں.ان کے علاوہ اور بہت ہیں جن کا اظہار نہیں کیا جا سکتا ہیں نہیں چاہتے کہ پیچھے دل سے دعاؤں میں مصروف ہو جائیں.تا خدا کے فضلوں کو جذب کر سکیں " ) الفضل ۲۱ جون ۱۹۱۹ ) 121919)
۲۳۷ 45 قربانیوں کی ضرورت دفرموده ۱۳ جون ۱۹۱۹ یه حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.ہر ایک سم کی ترقی جو دنیا میں کی کوحاصل ہوتی ہے.وہ بہت سی قربانیوں کانتیجہ ہوتی ہے.حقیقت بڑائی کے معنی اس کے سوا کوئی نہیں کہ اس میں یا اس کی خاطر بہت سی چیزوں کی قربانی کی گئی.اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور اس کی شان ہی ایک ایسی شان ہے.جو اور کسی چیز کی طرف نسبت کئے بغیر بڑائی اور شان ہے باقی سب کی بڑائیاں اور شانیں سب نسبتی اور فیلی ہوتی ہیں.خداتعالی کبیر تھا.بلکہ اکب تھا اور ہمیشہ سے تھا اور ہے اور رہے گا.علیم تھا اور ہے اور رہیگا.وہ حتی ہے.تھا اور آئندہ رہے گا.اس کی بڑائی.اس کی عظمت اور اس کا علم والا ہونا یکسی نسبت سے قائم نہیں، کسی چیز کے طفیل سے ہے لیکن اس کے سوار یعنی خالق کو علیحدہ کر کے جتنی مخلوق ہے وہ سب کی سب ایسی ہے کہ اس کی تمام ترقیاں نسبتی اور طفیلی ہیں.اور کوئی بڑائی کسی کی ذات میں بڑائی نہیں.بلکہ نسبت پا کر بڑائی ہے.اور کوئی عالم نہیں جب یک دوسرا جاہل تر نظر نہ ہو اور کوئی بڑائی ، بڑائی نہیں جب تک کہ دوسرے کی کمزوری زیر نظر نہ ہو کوئی حکومت نہیں جب تک اس کے اطاعت گزار نہ ہوں.لیکن خدا کی حکومت ایسی ہے کہ بغیر کسی اطاعت کے حکومت ہے.اسی طرح اس کی جس قدر صفات ہیں.وہ اپنے طور پر ہیں، لیکن باقی سب کی نسبتی طور پر ہیں.ایک بڑے بادشاہ کے کیا معنی ہوتے ہیں ؟ یہی کہ اس کے لیے بہت سوں نے اپنی حکومت کو ترک کر دیا ہوتا ہے اور جتنا بڑا بادشاہ ہے.اتنی ہی زیادہ اس کے لیے لوگوں کو قربانیاں اختیار کرنی پڑیں.یا لوگوں نے اپنے علاقے چھوڑ کر اس کے قبضہ کو ان پر تسلیم کرلیا.تویہ بڑائی نسبتی بڑاتی ہے.تمدنی دنیا میں بھی حکومت اسی طرح ہے کہ خواہ جبر سے خواہ خوشی سے جتنے زیادہ مطیع ہوتے ہیں، اتنی ہی بڑی ان کی حکومت مانی جاتی ہے.بہت سے لوگوں نے اپنے اختیار ایک کو دیدیئے.اس لیے وہ بڑا بادشاہ
ہوگیا.اگر ایسا نہ ہو تو کوئی حکومت حکومت نہیں کہلا سکتی.اسی طرح دوسرے معاملات ہیں علم کیا ہے یہ بھی قربانیوں سے حاصل ہوتا ہے کسی چیز کے جاننے کے لیے مال کی اوقات کی.جذبات کی.دوست و اشنا کی محبت کی.آرام کی.جب قربانیاں کی جاتی ہیں.تب علم حاصل ہوتا ہے.اور یہ تقسیم کی قربانی اپنے اندر اور بہت سی قربانیاں رکھتی ہے.یوں لوگ صرف مال کی قربانی کمدینے سے اس کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکتے.جب تک اس کی تشریح نہ کی جاتے مال نام ہے.ان اشرفیوں اور ان روپیوں کا جو اشرفیوں میں ہیں.اور ان اٹھتیوں.چوٹیوں دونوں پیسوں اور ان کے اجزاء کا جو ان میں شامل ہیں پس ان تمام کے قربان کرنے کا نام مالی قربانی ہوتا ہے.چونکہ لوگ اس تشریح کو ذہن میں نہیں رکھتے.اس لیے اس کی عظمت کو بھی نہیں سمجھ سکتے.ایک زمیندار اپنے بچے کے پرائمری تک پڑھانے کے لیے چار سو یا پانچسور و پیہ خرچ کرتا ہے اور آہستہ آہستہ خرچ کرتا ہے.اس لیے وہ خرچ اس کی نظر میں کچھ نہیں ہوتا، لیکن اگر کوئی شخص کسی زمیندار کو یہ کہے کہ ہم تمہارے لڑکے کو پرائمری پاس کرا دینگے.تم نہیں چار پانسور و پیہ دیدو.تو وہ ہی کے گا کہ اتنے روپیہ کی میں زمین کیوں نہ خرید لوں.تو گو وہ خرچ تو سینکڑے ہی کرتا ہے مگر چونکہ وہ پیسہ پیسہ کر کے خرچ کرتا ہے اس لیے اس کی حقیقت نہیں سمجھ سکتا.پھر بہت بڑی قربانی آرام کی قربانی ہوتی ہے.اس کی تفصیل جب تک معلوم نہ ہو، اس وقت تک اس کی اہمیت نہیں معلوم ہوسکتی.مثلاً آجکل روزے ہیں.طالب علم کا صبح آرام کرنے کو دل چاہتا ہے، مگر خیال یہ ہے کہ مدرسہ میں جانا ہے.اس لیے وہ مدرسہ کے لیے اپنے آرام کو قربان کرتا ہے.اسی طرح اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو جب پڑھنے کے لیے چھوڑتا ہے تب اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے وقت کی کتنی قربانی کی ہے.پھر جو وقت کی قربانی ہوتی ہے.اس کو کون جان سکتا ہے کہ وہ کتنی بڑی ہوتی ہے.اس کی تفصیلات کو ذہن میں لاؤ.وقت کا خرچ ہونا اور چیز ہے اور خرچ کرنا اور.ان دونوں میں بڑا فرق ہے.ایک ایسا شخص جو بیکار پڑا رہتا ہے.اس کا وقت خرچ ہو رہا ہوتا ہے.وہ خود خرچ نہیں کر رہا ہوتا ، لیکن ایک ایسا شخص جو کسی خاص کام میں وقت لگاتا ہے.اس کا وقت خرچ نہیں توتا کہ وہ خرچ کرتا ہے توبہت لوگ ایسے ہیں جنکا قت خرچ ہوتا ہے اوربہت کر یں جوقت کو خرچ کرتے ہیں، ہر ایک شخص کے پاس مال ہوتا ہے اور ہر ایک سے خرچ ہوتا ہے، لیکن خرچ کرنا بہت کم لوگ جانتے ہیں.اور یہ ایک خاص علم ہے جس کا نام علم الاقتصاد ہے.جس طرح لوگ انگریزی زبان اور دیگر علوم میں ایم اے کی ڈگری حاصل کرتے ہیں.اسی طرح اس علم میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل ہوتی ہے.یہ بہت
۲۳۹ وسیع علم ہے مگر بعض لوگ باوجود اس کے پڑھنے کے پھر بھی مال خرچ کرنا نہیں جانتے.غرض وقت کی قربانی جب تک آدمی نہ کرے، اس وقت تک اس کو معلوم نہیں ہو سکتا.اور اس کی سمجھ میں یہ قربانی نہیں آ سکتی ہاں جو شخص اپنی آرزو ؤں کو قربان کرتا ہے.ایک خاص مقصد کے حصول کے لیے اسکو معلوم ہوتا ہے کہ وقت کا قربان کرنا کتنا بڑا کام ہے.ایک شخص بغیر ارادے کے سارا دن ایک جگہ بیٹھ سکتا ہے مگر جب کہا جائے کہ یہاں بیٹھ کر اتنی دیر کسی کا انتظار کرو تو اگر اس سے دس منٹ بھی دیر ہو جاتے تو وہ لڑنے کو تیار ہو جاتے گا کہ اتنی دیر لگا دی.یوں تو سارا دن اسی طرح گذرتا ہے جس طرح ریت مٹھیوں سے گزر جاتی ہے، لیکن کسی خاص مقصد کے لیے دوسرے اشغال کو چھوڑ نا مشکل ترین کام ہے.جتنی بڑی چیز ہو اتنا ہی زیادہ وقت اس کے لیے قربان کرنا پڑتا ہے.اور چیزوں کی بڑائی پھٹاتی قربانیوں کی بڑائی چھٹاتی ہی کا نام ہے.پھر کسی بڑے مقصد کے حاصل کرنے کے لیے صرف بڑی قربانیوں کی ہی ضرورت ہوتی ہے.بلکہ صیح طریق سے قربانیاں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.یہ نہیں کہ علم حاصل کرنے کے لیے دس میں یا سو بکرے ذبح کر دیتے جائیں اور علم حاصل ہو جاتے.بلکہ اس کے لیے قربانیاں ہوں اور اس کے مناسب قربانیاں ہوں تو مقصد حاصل ہوتا ہے..دیکھو انسان کی زندگی کے قیام کے لیے کس قدر قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے ، غلہ قربان ہوتا ہے پانی خرچ ہوتا ہے.ہوا قربان ہوتی ہے.روپیہ قربان ہوتا ہے.تب جا کر ایک وجود ہلاکت سے بچتا ہے.پھر بچوں کی تربیت کے لیے جس قدر زیادہ قربانی کی جائے.اسی قدر وہ بڑے بنتے ہیں.بڑے بننے کے یہ معنی نہیں کہ وہ جسمانی طور پر بڑے ہوتے ہیں.بلکہ یہ کہ اچھی تربیت سے وہ شریف ہوتے ہیں.اور ملک اور قوم کے لیے مفید اور مذہبی طور پر نیک اور صالح ہوتے ہیں، لیکن اگر کوئی شخص اپنے بچوں کی تربیت کے لیے اپنے وقت اور آرام کی قربانی نہیں کرتا.اور اس بات کا کچھ خیال نہیں کرتا کہ اس کے بچے کہیں آوارہ ہو کر پھرتے رہیں.تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے بچے قوم کے لیے کوئی مفید وجود ثابت نہیں ہو سکتے.اور نہ خود کوئی بڑائی حاصل کر سکتے ہیں.اور پھر وہ لوگ جو اپنے لیے آپ قربانیاں کرتے ہیں.وہ بھی بہت بڑے درجے پاتے ہیں.مثلاً ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کے لیے آپ کے ابتدائی زمانہ میں کسی نے اپنے وقت.اپنے آرام.اپنے مال کی قربانی نہیں کی آپ ابھی شکم مادر میں ہی تھے.کہ باپ فوت ہو گئے.پھر ابھی ننھے بچے ہی تھے کہ ماں فوت ہوگئیں.اور ذرا ہوش سنبھالا تھا کہ دادا کا انتقال ہو گیا.مگر آپ نے اپنے لیے اور اپنے نفس کی اصلاح اور دنیا کی بھلائی کے لیے وہ وہ قربانیاں کیں کہ جن کے نتائج آج ساری دنیا دیکھ رہی ہے.
۴۴۷۰ پس چونکہ بڑائی کے معنی ہوتے ہیں بڑی قربانی کے اور چھوٹائی کے معنی ہوتے ہیں چھوٹی قربانی کے.اس لیے اسلام نے قربانی پر بہت زیادہ زور دیا ہے.اور مسلمانوں کی کوئی عید نہیں جس کے ساتھ قربانی نہ ہو.اسلام میں عام طور پر دو عیدیں مشہور ہیں.ایک بڑی کہلاتی ہے.ایک چھوٹی.بڑی تو وہ ہے جس میں جانور ذبح کئے جاتے ہیں.اور چھوٹی وہ جو رمضان کے بعد آتی ہے.جس کو بڑی عید کہا جاتا ہے.اس میں تو ظاہری قربانی ہوتی ہی ہے.اور دوسری عید جو رمضان کے بعد آتی ہے.اس تک بھی انسان بہت سی قربانیاں کرنے کے بعد پہنچتا ہے پس در حقیقت کوئی خوشی نہیں.اور کوئی عید نہیں.جب تک اس کے پہلے قربانی نہکی گئی ہو.دیکھو رمضان کے بعد جو عید آتی ہے اس سے پہلے یعنی رمضان میں کتنی قربانیاں انسان کو کرنی پڑتی ہیں.نفس کی قربانی ،کھانے پینے کی قربانی.شہوات کی قربانی.اپنے جذبات اور ارادوں کی قربانی.جب مومن اتنی قربانیاں کر چکتا ہے.تب عید اس کو خوش کرنے کے لیے آتی ہے.تو ان عیدوں میں ہمارے لیے بڑے بڑے سبق ہوتے ہیں.اور ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہر ایک عید اور خوشی کے ساتھ قربانی لازمی ہوتی ہے.عید الا ضحی کیا ہے.یادگار ہے.اس قربانی کی جو مدت ہوئی.حضرت ابراہیم نے کی تھی.اور اس سے ہمیں سبق دیا جاتا ہے کہ یہ ایک اصل ہے جس کے ذریعہ جماعتیں ترقی پاتی ہیں.بغیر اس طرح قربانی کئے کوئی جماعت ترقی نہیں پاسکتی.جب جماعت کے سارے لوگ اپنے آپ کو قربان کرنے پر آمادہ اور تمام چیزوں کو قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں.تب مدعا حاصل ہوتا ہے، اور نہ کسی ایک دو کے قربان ہونے سے جماعتوں کو ترقی حاصل نہیں ہوا کرتی.ہاں قربانی صرف گلا کٹوانے کا ہی نام نہیں بلکہ قربانی کے اور طریق بھی ہیں یعنی اپنے تمام ارادوں آرزوؤں کو ایک مقصد کے حصول کے لیے چھوڑ دینا بھی قربانی ہوتی ہے.اور یہ ایسی قربانی ہے کہ تلوار کے ذریعہ گردن کٹانے کی قربانی اس کے مقابلہ میں آسان ہے.کیونکہ اس سے بہت جلد فیصلہ ہو جاتا ہے ، لیکن یہ قربانی ایسی ہوتی ہے کہ ایک ہی وقت میں اس کا خاتمہ نہیں ہو جاتا.پھر تلوار سے جو قربانی ہوتی ہے.وہ بعض اوقات ناحق کے لیے بھی ہو جاتی ہے.عیسائی عورتیں عیسائیت کے لیے سر کٹوالیتی ہیں مگر وہ قربانی جس میں نفسانیت کو چھوڑنا پڑے وہ شہوات سے علیحدہ ہونا پڑے.آزروؤں اور تمناؤں اور جذبات اور ارادوں کو قربان کرنا پڑے.باطل کے لیے نہیں ہو سکتی.دیکھو تلوار سے تو بہت تھوڑے صحابہ شہید ہوتے ہیں.مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دیگر صحابہ شہید نہیں ہوتے.حضرت حمزہ ہی شہید نہیں ہوتے.حضرت ابو بکر و عمر و عثمان علی بھی شہید ہوئے ہیں.ہاں ان میں فرق تھا تو یہ تھا کہ حضرت حمزہ ظاہری تلوار سے شہید ہوئے.مگر حضرت
۲۴۱ ابو نمبر ایک ایسی تلوار کے شہید تھے جس کا ظاہر میں وجود نہ تھا، مگر ہر وقت چلتی رہتی تھی.یہ سب جلیل انفر انسان خطرناک وقتوں میں جنگ کے میدانوں میں گئے.اور دوسروں سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے مگر خدا کی مصلحت تھی کہ ان کو اس وقت بچائے رکھا.کیونکہ خدا جانتا تھا کہ وہ وقت آتا ہے جبکہ یہ اسلام.کی عظیم الشان خدمتیں بجالائیں گے.اور مسلمانوں کے شیرازہ کو کبھرنے سے بچائیں گے.حضرت علی رض سے کسی شخص نے دریافت کیا کہ صحابیہ میں سے سب سے بہادر کون تھا.شیعہ حضرت علی کے متعلق کہا کرتے ہیں.کہ شیر خدا تھے.بیشک وہ شیر خدا تھے.مگر شیعوں کی اس سے غرض دوسرے صحابہ کی مذمت کرنا ہوتا ہے.ہاں.تو حضرت علی نے کہا کہ اس وقت بہادری کا معیار یہ تھا کہ جوسب سے زیادہ رسولِ کریم کے قریب ہوتا تھا.وہی سب سے بڑا بہادر سمجھا جاتا تھا.یہ بات فوجی نقطہ خیال سے بالکل درست ہے کیونکہ فوج کا افسر جہاں ہوتا ہے.وہی جگہ دشمنوں کی نظر میں سب سے اہم ہوتی.اور اسی پر دشمن کا سارا زور ہوتا.کیونکہ اس زمانہ میں یہ طریق تھا کہ اگر افسر مارا جاتا.تو ساری فوج بھاگ کھڑی ہوتی.تو ایسے معرکے میں جو افسر کے زیادہ قریب ہوتا.وہی سب سے زیادہ بہادر سمجھا جاتا اور اسی کی بہادری سب سے بڑھی ہوئی ہونی چاہیئے.یہ فرما کر حضرت علی نے کہا.اور لڑائی کے وقت سب سے زیادہ آنحضرت کے قریب ابوبکر ہوتے تھے.اور یہ بالکل ٹھیک ہے.جنگ اُحد میں ایک آن کی آن کے لیے.جب دشمن آنحضرت اور صحابہ کے درمیان حائل ہو گئے.تو اس قت صرف ابو دجانہ پاس رہ گئے.ورنہ ہر خطرناک وقت میں حضرت ابو بکر یہ ہی رسول کریم کے قریب ہوتے تھے.مگر باوجود اس کے وہ تلوار کے ذریعہ شہید نہ ہوتے مگر کیا ان کی شہادت میں کچھ شک ہو سکتا ہے.ہرگز نہیں.تو صحابہ میں سے تھوڑے شہید ہوئے.اور زیادہ بغیر تلوار کے قربان شدہ تھے.ایسا ہی ہماری جماعت کے لوگوں کو ہونا چاہیئے.نہیں سید عبداللطیف مرحوم اور عبدالرحمن خان کی مثال دیکہ اور ان کی شہادت پر یہ کہ کر خوش نہیں ہونا چاہیئے.کہ وہ شہید ہو گئے.بلکہ خود شہادت کا درجہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہیئے اور جب تک ہم خود بھی شہید نہ ہو جائیں.دوسروں کی شہادت پر خوش نہیں ہونا چاہیئے.اُنھوں نے اگر شہادت پائی.تو اپنا فرض ادا کیا نہ کہ تمہارا فرض انکے شہید ہونے سے ادا ہو گیا.تم میں سے ہر ایک کو اپنا فرض آپ ادا کرنا چاہیئے.کیونکہ جب تک جماعت کا نے تاریخ الخلفاء للسيوطي حالات سیدنا ابو بکر صدیق رند
۲۴۲ ہر ایک فرد شہید بننے کی کوشش نہیں کرے گا.اُس وقت تک اصل مدعا حاصل نہیں ہو سکے گا.جو مقصد تمہارے پیش نظر ہے.وہ بہت بڑا ہے.لاکھوں اور کروڑوں قربانیوں کی ضرورت ہے.ایک انسان کی بقا کے لیے ہزاروں قربانیاں کرنی پڑتی ہیں.انسان کے وجود کے ذرے ذرے کے لیے قربانی ہوتی ہے.پس جب ایک انسان کے لیے اتنی قربانیوں کی ضرورت ہے.تو سمجھ لو کہ جماعت کی ترقی کے لیے کسقدر قربانیوں کی ضرورت ہو گی.تم نے ساری دنیا کومسلمان کرنا ہے اور ساری دنیامیں توحید کو پھیلانا ہے.اگر ایک شخص قربانی کرے تو کیا یہ بات حاصل ہوسکتی ہے.اس زمانہ میں تلوار کی قربانی کی ضرورت نہیں.مگر جہاں تلوار کی قربانی کی ضرورت ہو ، اس سے بھی انکار نہیں ہونا چاہیئے.جیسا کہ کابل میں ہوا.ہاں جن ممالک میں ہم پر تلوار نہیں چلائی جاتی وہاں ہمیں بھی تلوار کی شہادت کی ضرورت نہیں وہاں اور قسم کی شہادت ہے.تلوار کی قربانی تو ایک لحظہ میں ہو جاتی ہے، مگر جس قربانی کی ہمیں ضرورت ہے وہ ہر لحظہ میں کئی بار ہوتی ہے.حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ امام حسین کی شہادت تو ایک شمارت ہے.مگر میں نے تو بہت سی شہادتیں دکھی ہیں.اسی طرح حضرت صاحب فرماتے ہیں.صدحسین است در گریبانم کہ مجھ پر ہر وقت وہی کچھ گزرتا ہے.جو امام حسین پر ایک وقت گذرا.تلوار سے ایک دفعہ فیصلہ ہو جاتا ہے.اور ایک جوشیلا فوری جوش میں گردن کٹوا سکتا ہے، مگر جو آہستہ آہستہ قربانیاں طلب کی جاتی ہیں.ان کو ہر ایک شخص برداشت نہیں کر سکتا.مثلاً کسی کو اگر کہا جائے کہ اس دن بھوکے کھڑے رہو.تو اس کے لیے مشکل ہے.اور اس میں صبر اور ہمت کی اس سے بہت زیادہ ضرورت ہے جتنی تلوار کے نیچے سر رکھدینے میں ہے تو اس وقت تلوار کی قربانی کی ضرورت نہیں، بلکہ ایسی قربانی کی ضرورت ہے جس میں انسان کی ہر چیز قربان ہو.ایک ایک لمحہ کا فکر ایسا ہوتا ہے کہ جان کو گھلا ڈالنا ہے.جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ الشعراء : اسم یعنی کیا تو محض اس غم اور فکر یں کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے ، اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالے گا.عربی زبان میں گردن کی پچھلی رگوں تک کاٹنے کو بمع کہتے ہیں.گویا کہ چھری کا اس طرح چلنا کہ گردن کی پچھلی رگیں آہستہ آہستہ کٹ جائیں.یہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا جب تک خاص ایمان نہ ہو.پس اس وقت ضرورت ہے کہ اسلام کے لیے اور سلسلہ احمدیہ کے لیے ہر ایک قربانی جس کی ضرورت ہو ئی جاتے اور جب تک تم میں سے ہر ایک قربانی نہیں کرے گا.اُن ترقیبوں کے منہ نہیں
دیکھ سکو گے جو مقدر ہیں.زید و بکر کی قربانی تمہارے لیے کافی نہیں ہو سکتی.تمہارے لیے تمہاری اپنی ہی قربانی کام آنے والی ہے.اگر تم دوسروں کی قربانیوں پر خوش ہو گئے تو تمہاری مثال ایسی ہی ہوگی.جیسی کسی پنڈت کے متعلق مشہور ہے کہتے ہیں.ایک پنڈت جو صبح کے نہانے کو فرض قرار دیتا تھا صبح کے وقت دریا پر گیا.سردی کا موسم تھا اتنی تو جرات نہ ہوئی کہ دریا میں داخل ہو کر نہاتے.ایک کنکر اُٹھا کر اور اس کو مخاطب کر کے کہنے لگا.تو را شنان سوموراشنان یعنی تیرا نها نا میرا نا نا ہی ہے یہ کہہ کر کنکر دریا میں ڈال دیا.راستہ میں ایک دوسرا پنڈت ملا.اس نے کہا بھی کیسے نہاتے ، اس نے ترکیب بتلاتی.اس پنڈت نے اسے مخاطب کرکے کہدیا کہ تو را شنان سوموراشنان اور واپس پس سید عبد اللطیف اور عبدالرحمن خان کی قربانی کو اپنے لیے کافی نہ سمجھو کیسی کی نماز سے اپنی نماز ادانہیں ہو سکتی جو کچھ ان سے ظاہر ہوا.وہ ان کا کام تھا.تم اپنا فرض آپ ادا کرنیکی کوشش کرو.اللہ تعالے ہم سب کو توفیق عطا فرما دے کہ ہم ان قربانیوں کو ادا کریں.جن کی اس وقت اسلام کے لیے ضرورت ہے.اور نہیں وہ دن نصیب کرے کہ ہم پوری ترقیاں دیکھیں اور اسلام اپنی اصلی شان میں آجائے؟ الفضل ۲۴ جون شاشة
46 قبولیت دعا کے خاص ایام بھی انعام الہی ہیں فرموده ۲۰ جوان ۱۹۱۹ حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ.رمضان کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص برکات اور خاص رحمتیں لیکر آتا ہے.یوں تو اللہ تعالیٰ کے انعام اور احسان کے دروازے ہر وقت ہی گھلے رہتے ہیں.اور جب کوئی انسان چاہیے اس وقت عید اور رمضان اور جمعہ آجاتے ہیں.صرف دیر مانگنے میں ہوتی ہے ورنہ اس کی طرف سے دینے میں دیر نہیں لگتی کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے بندے کو کبھی نہیں چھوڑتا.ہاں بندہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ دیتا ہے اور اس کے دروازے کو چھوڑ گر دوسرے کے دروازہ پر چلا جاتا ہے.خدا تعالیٰ محتاج نہیں، لیکن وہ اپنے بندے کی ایسی جستجو کرتا ہے گویا کہ اس بندے پر ہی اس کی خدائی کا انحصار ہے اور بندہ محتاج ہے اور ایسا محتاج ہے کہ اس کا ایک لحظہ بھی ایسا نہیں کہ اگر خدا تعالیٰ اسکو چھوڑ دے تو آرام سے گزرے اور ہلاک نہ ہو جائے.مگر بندہ خدا سے استغنا کرتا ہے کہ گویا اس کا محتاج ہی نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں ایک عورت کو دیکھا کہ وہ دوڑی ہوئی پھر رہی تھی اور جو بچہ اس کو نظر آتا اُسے اُٹھا کر گلے سے لگالیتی اور پیار کر کے چھوڑ دیتی تھی.جاتے جاتے اس کو ایک بچہ مل گیا وہ اس کو لے کر بیٹھ گئی.رسول کریم نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا ، اس عورت کا بچہ گم ہوگیا تھا.اس کو اپنا بچہ ملنے سے اتنی خوشی نہیں ہوئی.جتنی اللہ تعالے کو اپنے گم شدہ بندہ کے ملنے سے خوشی ہوتی ہے لیے سو اس رحیم و کریم ہستی سے دُعا قبول کرانا مشکل نہیں.ہر گھڑی رمضان کی ہی گھڑی ہوسکتی ہے.اور ہراہ کو قبولیت کے لیے ذریعہ بنایا جا سکتا ہے.اس کی طرف سے دیر نہیں اگر دیر ہے تو بندے کی طرف سے ہے، لیکن یہ بھی اس کے احسان ہی میں سے ہے کہ اس نے ایک خاص وقت رکھ دیا تاکہ وہ لوگ جو نے بخاری کتاب الادب باب رحمته الواد.
۲۴۵ خود نہیں جاگ سکتے.ان کو خود جگا دے.ان کی فقتیں چونکہ ان کے لیے موجب ہلاکت ہو سکتی ہیں.اس لیے ان کے ہشیار کرنے کے لیے رمضان کا ایسا وقت مقرر کر دیا کہ جس میں وعدہ کیا کہ میں دعائیں زیادہ مسنوں گائینتا تو وہ روز ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ہر گھڑی عید اور ہر گھڑی قبولیت کے لیے رمضان ہو سکتی ہے.مگر غافل لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ایک خاص مہینہ مقرر کر دیا گیا کہ وہ اس میں فائدہ اُٹھائیں.بہتوں کی عادت ہوتی ہے کہ اگر یوں کہا جائے کہ کوئی یہ کام کر دے توان میں سے کوئی بھی نہیں کرے گا.اور اگر یہ کہا جاوے کہ کسی وقت کر دے تب بھی ان میں سے کوئی نہیں کریگا.کیونکہ ان کو یہ خیال ہوگا کہ اگلے وقت میں جو آتا ہے.کر دینگے، لیکن اگر وقت مقررکر دیا جاوے تو کر لیتے ہیں.اس لیے خُدا نے اپنے فضل و احسان فہیم کے ماتحت تمام لوگوں کے لیے موقع رکھ دیا کہ رمضان میں آسانی سے دعا کریں اگر وہ یوں کہتا کہ جس نے قرب حاصل کرنا ہے کر لو تو بہت نہ کرتے.مگر اس نے کہا کہ میرا قرب حاصل کرو اور جو چاہے کرے اور پھر فضل کیا اور موقع دیا کہ ہر ایک اس سے فائدہ اُٹھا سکے.ورنہ وہ ہر مہینہ میں دعائیں قبول کرتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے.ادعونی امتجب لكم (غافر : (4) افمن يجيب المضطر اذا دعاه والنمل (۶۳) اور واذا سألك عبادي عني فاتي قريب دعوة الداع اذادمان را لبقره : ۱۸۷) اس لیے کسی ساعت کی شرط نہیں لگائی.اگر کوئی شرط لگائی ہے تو صرف یہ کہ میرا بندہ ہو، یعنی خدا کی عبودیت کا اقرار کرے.ہمارا یہ اقرار اس کی رحمت اور رافت کو جوش میں لائے گا.اور جو کھٹکھٹائے گا.اس کے لیے کھولا جائے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر میرا بندہ میری طرف ایک قدم اٹھاتا تومیں دو قدم اُٹھاتا ہوں.اگر میرا بندہ میری طرف چل کر آتا ہے.تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں یا سو خدا کی رحمت کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں.اس میں رمضان کی اور رات دن کے کسی حصہ کی خصوصیت نہیں کیا بندہ ہر وقت محتاج نہیں کیا بندہ کی محتاجی کسی خاص وقت پر منحصر ہے.کیا شعبان اور شوال میں بندہ متاج نہیں.پھر کیا ہفتہ اور جمعہ کے روز بندہ محتاج نہیں.پھر کیا جمعہ کی صبح اور عصر تک محتاج نہیں.وہ تو اسی طرح محتاج ہے جس طرح ان دنوں میں محتاج ہے.پھر کیوں اس نے خاص اوقات میں خاص افضال و انعام کو محدود کر دیا.میں نے بتایا ہے کہ یہ بھی بطور رحمت کے ہے اس لیے کہ انسان کو ہوشیار کرے.پھر اللہ ان گھڑیوں میں زائد انعام دیتا ہے تاکہ انعام کے خواہاں لوگوں کو انعام کے لینے بخاری کتاب الرقاق باب من احب لقاء الله
کے لیے اکساتے.پس جب بندہ گداز ہو جاتا ہے.اس کا دن اُس کے لیے قبولیت کی گھڑیوں والی رات ہو جاتا ہے اور پھر اس کی ہر ایک رات لیلتہ القدر ہو جاتی ہے اس کا ہر ایک دن جمعہ کا دن ہوتا ہے اور ساعت خطبہ کی وہ درمیانی ساعت ہو جاتی ہے جس میں اللہ تعالی زیادہ دعائیں قبول کرتا ہے.تو یہ جو کچھ کیا گیا ہے.یہ انسان کو ہوشیار کرنے کے لیے ہے کیونکہ انسان کا قاعدہ ہے کہ خاص وقت میں فرض کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے.پس دعا کا خاص وقت میں زیادہ قبول کر نارحم اور شفقت سے کیا گیا ہے.ورنہ اس کے رحم کے دروازے ہر وقت کھلے رہتے ہیں.مگر بہت ہوتے ہیں جو اس فضل کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں.باقی دنوں میں تو اس لیے فائدہ نہیں اُٹھاتے کہ وہ رمضان نہیں اور رمضان میں اس لیے کہ توفیق نہیں ملتی.اسی طرح اور دنوں میں تو اس لیے دُعا نہیں کرتے کہ جمعہ نہیں.اور جمعہ کو اس لیے کھو دیتے ہیں کہ ان کو دُعا سے مس نہیں.پھر دن کو اس لیے کھوتے ہیں.کہ راتیں قبولیت دعا کے لیے زیادہ موزوں ہیں.اور رات سے اس لیے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے کہ نیند کو نہیں چھوڑ سکتے.غرض ایک وقت کو دوسرے پڑا تے ہیں اور دوسرے میں اس لیے کچھ حاصل نہیں کر سکتے کہ محنت سے جی چراتے ہیں.اس لیے ان پر کوئی وقت دعا کا نہیں آتا.ان کی مثال بعینہ اس بچہ کی سی ہوتی ہے جو ماں باپ سے ناراض ہو کر ایک اندھیرے مکان میں جاکر بیٹھ جائے، اور وہاں اس کو کانٹے چٹھنے اور بھڑیں کاٹنے لگیں.ایسا انسان خدا سے ناراضگی اختیار کرتا ہے اور اس سے بھاگتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے ملک سے نکل جائے، مگر کہاں انسان اس کے ملک سے نکل سکتا ہے جس نے نادانی سے خدا کو چھوڑا اس کے لیے دنیا و آخرت میں کوئی مقام آرام کا نہیں.ایسا شخص اپنا آپ قاتل ہے اور اپنے آپ کا خود خون کرتا ہے.کیونکہ انسان کے لیے ایک ہی آرام کی جگہ ہے اور وہ خدا کی گود ہے.اور یاد رکھو کہ خدا کی گو حضرت محمد صلی الہ علیہ وسلم کے لیے.صرف موسی علی علیم اسلام کے لیے ہی نہیں بلکہ خدا ہر گنگا کے کے لیے اپنی گود پھیلائے کھڑا ہے کہ آئے اور اس کی گود میں جگہ پائے محمد صلی الہ علیہ والہ وکم فرماتے ہیں کہ خدا کو ایک بندہ کے تاب ہونے پر اتنی خوشی ہوتی ہے کہ ایک ماں کو اپناگم شدہ بچہ پانے پربھی آن خوشی نہیں ہو سکتی.پس اس کی رحمت سے فائدہ اُٹھاو جو تمہاری ترقی کے لیے.تمہارے فائدہ کے لیے وہ نازل کر رہا ہے.اور پھر ان خاص اوقات سے فائدہ اُٹھاؤ جو تمہارے ہی فائدہ کے لیے اس نے رکھ دیتے ہیں اگر ان اوقات کو بھی سستی سے ضائع کر دو گے تو نہایت ہی افسوس کی بات ہوگی.
۲۴۷ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں جاگتے تھے.اور رشتہ داروں کو بھی جگاتے تھے.بھلائی کے کاموں میں اور بھی مستعدی سے کام لیتے تھے.اور اپنی کرس لیتے تھے.گویا کہ وہ پلے ڈھیلی تھی غور کرو یہ کی الفاظ میں کس نے کمر کس لی ؟ اس نے جس کی تمام راتیں جاگنے اور دن عبادت میں گذرتا تھا.اور ہر ایک گھڑی خدا کی یادمیں بسر ہوئی ہوتی تھی.خدا تعالیٰ کے ساتھ جن کے تعلیق اور وابستگی کی یہ کیفیت تھی.ان کے متعلق عائشہ یہ کہتی ہیں کہ رمضان کے آخری عشرہ میں کمر کس لیتے تھے.اس بات کو عائشہ صدیقہ ہی سمجھ سکتی تھیں.اور کسی کے لیے اس کی حقیقت سمجھنا آسان نہیں کیونکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ کمر کھولتے ہی نہ تھے.اور آپ فرماتے کہ جب میں سوتا ہوں.تو در حقیقت اس وقت بھی جاگ ہی رہا ہوتا ہوں چنانچہ فرمایا.میری آنکھیں سوتی ہیں.مگر دل جاگتا ہے تہے ہیں جب آپ بستر پر جاتے ہیں اس وقت بھی آپ کی کمر نہیں کھلتی.تو اور کس وقت کھولتے تھے.در حقیقت یہ قول ایک بہت بڑے معنی رکھتا ہے جو قیاس میں بھی نہیں آسکتے.اور ان کو وہی سمجھ سکتا ہے جس نے آپ کی محبت اُٹھائی ہو.بعد میں آنے والے اس کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے.غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں راتوں کو جاگتے اور رشتہ داروں کو جگاتے اور خود گر کس لیتے تھے یعنی جن کی کر ہر وقت کسی رہتی تھی وہ بھی کس لیتے تھے، اس سے سمجھ لو کہ جن کی کمر ہمیشہ ڈھیلی رہتی ہے.ان کے لیے رمضان میں کسقدر توجہ کی ضرورت ہے.پس میں اپنے تمام دوستوں کو گتا ہوں کہ اپنی اپنی کمریں کس ہیں.اور خدا کی طرف جھک جائیں میں نے بتایا ہے کہ خدا دینے کو تیار ہے صرف ہماری غلطیاں ہیں اس کے فضلوں سے محروم رکھتی ہیں اس کے فضل کے آنے کے لیے کوئی خاص وقت نہیں، اور اس کے فضلوں کی کوئی حد بندی نہیں.وہ تو ہروقت دیتا ہے اور دینے کو تیار ہے.یہ جو خاص گھڑیاں اس نے مقرر فرمائی ہیں.یہ اسلیئے ہیں کوشست سے منست انسان بھی اس کے فضل سے محروم نہ رہے اور یہ وقت مقرر کر کے اس نے ہم پر احسان کیا ہے پس ان دنوں کو خالی نہ جانے دو.وہ فضل حاصل کرو جو تمہاری نسلوں کی نسلوں نسلوں کی نسلوں.نسلوں کی نسلوں کے لیے بہتری اور فلاح کا موجب ہوا اور وہ وعدے جو سیح موعود سے کئے گئے ہیں ہم انکے جاذب ہوں.ہماری کمزوریاں دور ہوں اور ہیں خدا تعالیٰ اپنے فصلوں کا وارث بناتے غلطیوں کو معاف کرے اور اپنے فضل کی راہوں پر چلائے اللہ تعالی اپنے اور اپنے رسول کریم کے کلام کو مجھے اور اپیل کرنے کی دو مسیح موعود کی اتباع کی توفیقی عمر کے ہر لحظہ میں ہم آگے ہی آگے قدم بڑھائیں اور ہم پر کوئی وقت غفلت اور مستی کا نہ آئے.آمین یارب العالمین و الفضل ۲۸ جون ۱۹۹) کے له بخاری مسلم بحواله شكرة كتاب الصوم في ليلة القدر : نه بخاری کتاب المناقب باب كان النبي تنام حیفه ولا ينام قلبها شه
47 خدا تعالی کی رحمت مایوسی کفر ہے د فرموده ۲۷ رجون ۱۹۱۹ به حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد آیت شریفہ لِبَنِي اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلَا تَا يُسُوا مِنْ رَوحِ اللَّهِ إِنَّهُ لَا يَانِيسُ مِنْ زَوْحِ اللَّهِ إِلَّا القوم الكفرُونَ (یوسف: ۸۸) تلاوت کر کے فرمایا :- اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان اپنے بندے پر جس قدر ہوتے ہیں.ان کا شمار کرناکسی انسان کی طاقت کے اندر نہیں.اِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللهِ لَا تُحْصُوهَا خدا کی نعمتوں کا کوئی شمار نہیں کرسکتا کیونکردہ ان گنت ہوتی ہیں.اور ان کا ذہن میں لانا بھی مشکل ہوتا ہے.صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کیا گیا، انعام اس کے اپنے بندے پر ہیں.ملائکہ کو بھی ان بہت سے انعامات کا علم نہیں ہوتا جو اللہ اپنے بندے پر کرتا ہے.حتی کہ بندہ جو بیشمار انعامات کا مور د ہوتا ہے.وہ خود بھی نہیں جانتا.ہزاروں امور بندے کے سامنے آتے ہیں.ان پر وہ حیرت کا اظہار کرتا ہے جب کوئی انسان مصیبت میں پڑتا ہے.اور اللہ تعالیٰ اس کو اس سے نجات دیتا ہے.تو وہ خُدا کے اس احسان کا شکر یہ ادا کرتا ہے لیکن لاکھوں دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کی ہلاکت اور بربادی کے سامان اس کی نظر سے پوشیدہ پیدا ہوتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ پر دہ خفاہ میں ہی ان کو دور کر دیتا ہے اور اس کو پتہ بھی نہیں لگتا.بیسیوں دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جہاں انسان بیٹھنے لگتا ہے.اس کے نیچے سانپ یا بچھو ہوتا ہے اور وہ اس کو دیکھ کر پرے موٹ جاتا اور اس کے ضرر سے بھی جاتا ہے جس پر وہ اگر اس کے دل میں خدا کا خوف اور عظمت ہوتی ہے تو وہ شکر گذار ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے ایس ضرر سے بچالیا.مگر جب کبھی وہ رات کو زمین پر سو رہا ہوتا ہے.تو بار ہا اس کے پاس سے سانپ اور قسم قسم کے موذی جانور گذر جاتے ہیں اوراللہ تعالیٰ ان کو اس پر مسلط نہیں ہونے دیتا.اور ان کے حملے سے بچا لیتا ہے.بہت دفعہ انسان بیمار ہوتا ہے اور اس کی حالت نہایت خطرناک ہو جاتی ہے.مگر اللہ تعالیٰ اس کو شفا دید یتا ہے اور وہ ظاہر کرتا ہے کہ خُدا نے
۲۴۹ دوبارہ مجھے زندگی دی اور موت سے بچایا ہے، لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اندر ہی اندر بیماریوں کے سامان پیدا ہوتے ہیں.اوراللہ تعالٰی ن کو دور کر دیتا ہے مگر انسان کواس کا پتہ بھی نہیں لگتا.پھر بعض دفعہ انسان کسی مصیبت میں پڑ جاتا ہے.لوگوں کی جھوٹی تہمتیں اس کی ہلاکت کا باعث ہونے لگتی ہیں، لیکن خدا اس کی بریت کرتا ہے.اگر یہ شکر گزار بندہ ہوتا ہے ، تو لوگوں کے سامنے خُدا کے اس احسان کا ذکر کرتا ہے کہ فلاں نے میرے متعلق یہ کیا اور میرے خدا نے مجھے اس آفت سے بچالیا.اکثر دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اس کے قتل کرنے کے منصوبے کئے گئے جن سے خدا نے اُسے بچالیا.اور اس کے شمنوں کو نقصان پہنچانے کی توفیق ہی نہ دی، لیکن اس کو اس کا کچھ بھی علم نہ ہوا.پھر بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص اس کو مارنے کے لیے ڈنڈا اٹھاتا ہے، لیکن یہ اس کی زد سے بچ جاتا ہے.اگر یہ خدا کے احسان کی قدر کرنے والا ہوتا ہے.تو کہتا ہے کہ اگر وہ ڈنڈا میرے سر پر لگ جاتا تو میں مرجاتا ، لیکن خدا نے اپنے فضل سے مجھے بچا لیا مگر اس کے دشمن اس کے مارنے کے لیے جو خفیہ کوشش کرتے ہیں.مثلا یہ کہ زہر دیدیں اور وہ زہر تیار بھی کر لیتے ہیں.تو اس سے اُسے خُدا بچا لیتا ہے اور اس کا اسے پتہ بھی نہیں ہوتا.تو انسان جو شکر گذار ہوتا ہے وہ ان احسانوں کا شکر یہ ادا کرسکتا ہے.جو اُسے نظر آتے ہیں.یا جن کا اُسے علم ہوتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کے وہ بڑے بڑے احسان جن کی اُسے خبر بھی نہیں ہوتی.ان کا کہاں شکر ادا کر سکتا ہے.اور کس طرح ان کو شمار میں لاسکتا ہے ایسی سیکسی انسان کی طاقت میں نہیں ہے خدا تعالیٰ کے انعامات کا شکر ادا کرنا تو الگ رہا ان کوگن ہی سکے.که حضرت مسیح موعود علی الصلوة والسلام پر مخالفین نے بڑے بڑے مقدمات کئے جن میں سے ایک مارٹن کلارک کا مقدمہ تھا.گو وہ براہ راست قتل کا مقدمہ نہ تھا، لیکن ایسی تحریکات کے متعلق تھا جن کا نتیجہ قتل ہو سکتا ہے اس میں خدا تعالیٰ کے وعدے کے مطابق حق ظاہر ہوا اور حضرت مسیح موعود بری ہو گئے آپ نے خدا تعالیٰ کے اس نشان اور انعام کے شکریہ میں ایک کتاب (کتاب البریہ لکھی.لیکن کیا آپ کے خلاف آپ کے دشمنوں نے یہی کوشش کی تھی.نہیں بلکہ جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا.آپ کو آپ کے دشمنوں نے سینکڑوں دفعہ قتل کرنے کی کوششیں زہر کے ذریعہ خنجر کے ذریعہ اور مختلف ذرائع سے کیں.غرض بیسیوں دفعہ آپ کے قتل کے منصوبے کئے گئے.جن میں کسی کو کامیابی نہ ہوتی.خدا تعالیٰ ان منصوبوں کو خاک میں ملا دیتا رہا.پھر یہ تو وہ واقعات ہیں جو اگر پہلے نہیں تو اب دنیا کے سامنے آئے، لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں
۲۵۰ جو تاحال پوشیدہ ہیں.اور وہ بہت ہی زیادہ ہیں کیونکہ جس طرح انسان کے وہ مقاصد تھوڑے ہوتے ہیں.جن میں وہ کامیاب ہوتا ہے.اسی طرح انسان کے بہت تھوڑے منصوبے ہوتے ہیں.جو دنیا کے سامنے آتے ہیں، لیکن خدا ہی ہے جو اپنے بندوں کوان خفیہ منصوبوں سے بچاتا ہے.اور بندے ان سے قطعاً واقف نہیں ہوتے.غرض خدا کے احسان جہانتک دیکھا جائے اسی کے علم میں ہوتے ہیں.کہ کسقدر وہ اپنے بندے پر کرتا ہے.ورنہ بندہ ان کو خیال میں بھی نہیں لا سکتا.ایسے احسان اور فضل کرنے والے خدا کے متعلق اگر کوئی بڑھنی کرتا یا اس کی رحمت سے کسی وقت مایوس ہوتا ہے تو وہ اتنا بڑا جرم اور گناہ کرتا ہے کہ جو کبھی معاف نہیں ہوسکتا.دیکھو اگر کوئی کسی پر جو ایک احسان کرے.اسکے احسان کی قدر نہ کی جائے تو وہ آئندہ ایسے نا قدر سے انسان پر کوئی احسان نہیں کرتا لیکن حسین کے اتنے احسان ہوں کہ اس کو گنا ہی نہ جاسکے.اس کے احسانوں کی اگر نا قدری ناشکری کی جائے تو ایسے شخص سے بڑھ کر کون مجرم ہوسکتا ہے.مگر بہت لوگ ہیں جو خدا سے بہت جلد مایوس ہو جاتے ہیں.اور اس کی رحمت اور فضلوں کا خیال نہیں کرتے.بلکہ بعض تو اس قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ خدا کی رحمت سے مایوس ہونے کو دین سمجھتے ہیں.اور ظاہر کرتے ہیں کہ وہ خدا کے خوف کی وجہ سے دنیا میں دل نہیں لگاتے.مگر یاد رکھو محض خدا کے چون خوف کی اسلام تعلیم نہیں دیتا.بلکہ یہ کہتا ہے کہ خدا کا خوف اور رجا دونوں ایک وقت میں ہونی چاہئیں اور اس کا نام ایمان رکھتا ہے.ورنہ ایک وقت میں صرف خوف ہی خوف کفر ہے.اور خالی امید بھی کفر تک پہنچا دیتی ہے.ہاں جب دونوں ایک وقت میں انسان کے اندر جمع ہوں.تب اس کا ایمان کال ہوتا ہے.ورنہ اگر کوئی شخص ہر وقت حالت خوف میں رہتا ہے اور خدا کے فضلوں کی ایک نہیں رکھتا.تو وہ گھر کرتا ہے اور خدا سے اس کے فضل کی اس رنگ میں امید رکھنا کہ اپنی غلطیوں اور گنا ہوں کے متعلق اس کی گرفت اور سزا سے بے خوف ہو جانا اور یہ خیال کر لینا کہ خدا اس سے کوئی گرفت نہیں کریگا اور اس کے عذاب سے نڈر ہو جانا یہ گو کفر نہیں لیکن گھر تک پہنچا دیتا ہے.مومن ان دونوں حالتوں کو اپنے اندر پیدا کرتا ہے.وہ بھی یہ و ہم بھی نہیں کرتا کہ خدا کی رحمت اسے چھوڑ دیگی.اور نہ وہ کبھی اس طرح بے خوف ہوتا ہے.کہ میں خواہ کچھ بھی کرتا چلا جاؤں وہ مجھ کو معاف کر دیگا پس ایمان اس وقت کامل ہوتا ہے.جب کہ بندہ کے دل میں خدا کا خوف اور اس کی امید دونوں ہوتے ہیں.خدا نے ہرگز یہ تعلیم نہیں دی کہ تم ہر وقت مجھ سے خوف زدہ ہی رہو.بلکہ یہ فرمایا ہے کہ خوف بھی رکھو.
۲۵۱ خواہ کتنی ہی بڑی مصیبت ہو.اس میں میری رحمت سے بھی مایوس نہ ہوں کیونکہ جو خدا کی رحمت سے مایوس ہوتے ہیں.وہ ہمیشہ ناکام رہتے ہیں.وہ یہ کہ جس طرح ایک شخص پر اگر کوئی ادنی سا احسان کرہے اور وہ اس کی قدر نہ کرے.تو پھر اس پر اس شخص کی طرف سے احسان نہیں کیا جاتا، لیکن جب کوئی شخص خدا کے اتنے بڑے بڑے احسانات کے ہوتے ہوتے یہ کہے کہ اس نے مجھ پر کوئی احسان کیا ہی نہیں یا اب نہیں کرے گا.تو خدا ایسے شخص سے اپنے انعامات کو روک لیتا ہے.ہاں عام احسان تو اس کے ہوتے ہی رہتے ہیں.یہاں انعام رو کے جانے سے وہ انعام مراد ہیں.جو خاص ہوتے ہیں.کیونکہ عام احسان اس کی رحمت عامہ کا نتیجہ ہوتے ہیں مگر جو خاص انعام ہوتے ہیں.ان کو اللہ تعالیٰ روک دیتا ہے.یہ آیت جو میں نے پڑھی ہے.اس میں حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں کو کہا کہ اسے میرے بیٹوا خدا کی رحمت سے نا اُمید اور مایوس نہ ہو کیونکہ خدا کی رحمت سے مایوس کافر ہوتے ہیں.اس سے معلوم ہوا کہ مایوس کافر ہوا کرتا ہے.اور مومن کا کسی حالت میں بھی مایوس ہونا ممکن نہیں.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک شخص مومن ہو اور خدا کی رحمت سے مایوس ہو جائے.در حقیقت مایوسی ایسی خطرناک مرض ہے کہ مایوس ہونے والے دین ودنیا دونوں میں ناکام رہتے ہیں، لیکن جو مایوس نہ ہوں.ضرور کامیاب ہو جاتے ہیں.جس سال میں نے امتحان (انٹر نہیں دیا تھا.اسی سال ایک ہندو نے بی.اے کا امتحان دیا تھا.اور اس کا بیٹا بھی اسی سال بی.اے کے امتحان میں شامل ہوا.اور اس شخص نے متواتر چھ سال تک امتحان دیا، مگر نا کام ہوا.آخر ساتویں سال کامیاب ہو گیا ، ان سات سالوں میں ایک دفعہ بھی وہ مایوس نہیں ہوا.یہ تو دنیاوی طور پر مایوس نہ ہونے کی ایک مثال ہے.اسی طرح ایک بزرگ کا قصہ لکھا ہے کہ انہوں نے ہمیں برس تک دُعا کی اور نتیجہ کچھ نہ ہوا.ان کا ایک مرید آیا اور ان کے پاس ٹھہرا.رات کو جب حسب معمول انہوں نے دعا کی.تو جواب ملاکہ تیری دعا منظور نہیں ہو سکتی.مرید نے بھی اس آواز کو سن لیا.اور بہت حیران ہوا لیکن ادب سے خاموش ہا.دوسرے دن پھرانہوں نے ملکی اورجواب ملا کہ توخواہ کچھ کرے تیری دامنظورنہیں ہوسکی برید دوسرے ان سنکر اوربھی حیران ہوا لیکن پھر بھی ادب کے باعث خاموش رہا.میرے دن پھر اُن بزرگ نے دعا کی.اور وہی جواب طلا- اب تو وہ مرید خاموش نہ رہ سکا جی میں تو کہا.ہم تو ان کو بزرگ مانتے تھے لیکن اب معلوم ہوا کہ خدا کی درگاہ میں ان کی کچھ قدر نہیں ہے.اور اس نے ان سے کہا کہ میں تین دن سے سُن رہا ہوں.آپ کو کسی جواب ملتا ہے کہ تمہاری دعا قبول نہیں ہو سکتی.پھر آپ کیوں دُعا مانگتے ہیں.پہلے دن آپ
کوبی الہام ہوا.دوسرے دن بھی ہوا.اور پھر میرے دن بھی ہوا.آپ دُعا کرنے سے باز کیوں نہیں آتے.انہوں نے جواب دیا کہ اسے بیوقوف تو تین دن میں ہی گھرا گیا.میں تو بیس سال سے متواتر یہی جواب سُن رہا ہوں.میں نہیں گھر ایا.کیونکہ مانگنا مرا کام ہے اور دینا خدا کا.وہ اپنی مرضی کا مالک ہے اور میں اپنے کام کا ذمہ دار میں محتاج ہوں کہ اس سے مانگوں اور وہ مختار ہے کہ قبول کرے یا نہ کرے ہیں وہ اپنا کام کرتا ہے میں اپنا.تو اس میں دخل دینے والا کون ہے.لکھا ہے کہ اس کے بعد جب اس بزرگ نے دھائی تو امام ہوا کہ چونکہ تومیری رحمت سے مایوس نہیں ہوا.اس لیے تو نے نہیں برس میں متنی دعائیں کی ہیں وہ سب کی سب قبول کر لی گئی ہیں.یہ تو مثال ہے زید و حجر کی، لیکن ہر شخص کے لیے اس کی اپنی ذات میں ہزاروں اور لاکھوں شامیں ہیں.مگر افسوس کہ لوگوں کو یاد نہیں رہتیں.اگر وہ غور کرینگے تو رکھیں گے کہ خدا نے کئی بار عین نا امیدی کی حالت میں انہیں امید کی جھلک دکھائی.ناکامیوں میں کامیابی کی راہ بتائی جب تمام دنیا دی سامان منقطع ہو گئے تھے.اس وقت اپنی تجلتی دکھائی.اور یہ شاہیں کافی سے زیادہ شخص کو میں گی.مگر باوجو داستقدر مثالوں کے لوگ خدا کی رحمت سے مایوس ہی ہو جاتے ہیں.کوئی بلا آتی تو خیال کر لیتے ہیں کہ یہ توان کا کام ہی تمام کر دیگی.اور وہ خدا کی رحمت سے غافل ہو جاتے اور باوجود خدا کے بے شمار احسانات کو اپنے وجود پر مشاہدہ کرنے کے خدا کی رحمت کو بھول جاتے ہیں.ایسے لوگوں پر اگر خدا کی قمری تحلی ان کی آزمائش کے لیے آتی ہے.تو بھی وہ اپنی رستگاری سے مایوس ہو جاتے ہیں.اور جب صرف امید ہی اُمید کرتے ہیں.تو بھی خدا کے احسانات کو بھلا دیتے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ انعامات سے محروم کر دیتے جاتے ہیں.پس یاد رکھو کہ کامیاب وہی ہوتا ہے جو دونوں حدوں کے درمیان درمیان رہتا ہے.مجھے اس وقت خوف کے متعلق کچھ بیان نہیں کرنا ، بلکہ میں مایوسی کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں سو یاد رکھو کہ مایوس نہ ہونے کا اگر اللہ تعالیٰ نے ایسا تعلیم کیا ہے کہ اس کی وجہ سے انسان ہر میدان میں کامیاب ہو سکتا ہے.ہماری جماعت کے ایک مخلص ہیں.جو ایم.اے ہیں اور عربی میں بھی بہت قابل ہیں.وہ کئی سال سے ایک بیماری میں مبتلا تھے اور کسی کام کے کرنے کے قابل نہ رہے تھے.آخر وہ گھبرا گئے اور انہوں نے مجھے لکھا کہ اب میں اس حالت تک پہنچ گیا ہوں کہ اس کو برداشت نہیں کر سکتا.میں اپنی ملازمت کو چھوڑ کر اپنے گھر بیٹھ جاؤنگا.میں نے ان کو اس وقت خط لکھا.جس میں تحریر کیا کہ میں آپ کو ایک نسخہ لکھتا ہوں.اگر آپ اس پر عمل کرینگے تو انشاء اللہ ضرور فائدہ
۲۵۳ اُٹھائیں گے.اور وہ یہ کہ سوتے وقت کثرت سے اس آیت کو پڑھیں اور دل میں جگہ دیں کہ لا تائیسوا من روحِ اللَّهِ إِنَّهُ لَا يَاسُ مِنْ رُوحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الفُرُونَ.پھر دیکھیں کیا نتیجہ ہوتا ہے اس پر جب انہوں نے عمل کیا تو آرام ہو گیا.اور اب عمدگی سے اپنا کام کرتے ہیں اور اگر بالکل نہیں تو بہت حد تک ان کی تکلیف رفع ہو گئی تو یہ آیت ان کے لیے شفا کا موجب ہوگئی.اس سے میرا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کی آیتیں ٹونے کی طرح ہیں.بلکہ یہ اس لیے ہیں کہ ان پر عمل کیا جائے.اور ان کے مضامین کو اپنے دل میں جگہ دی جائے.بات یہ ہے کہ قدرت نے امید میں اس قسم کے سامان رکھتے ہیں کا گر انسان مایوس نہ ہو تو کامیانی کے ذرائع پیدا ہو جاتے ہیں.اور قدرت نے انسان کے وجود میں ایسی طاقتیں رکھی ہیں جو تمام روگوں کو دور کر دیتی ہیں اگر چہ ہم نہیں جانتے کہ وہ کیا ہیں.دیکھو.مایوس نہ ہونے سے دو نتیجہ حاصل ہوتے ہیں.ایک دینی اور دوسرا دنیاوی.دنیا میں قاعدہ ہے کہ انسان جس پر سہارا لگاتا ہے.وہ اس کی مدد کرتا ہے.پس اگر خدا جو سب سے بڑھ کر محسن ہے.اگر اس پر انسان کو بھروسہ ہو تو پر کیسے ضائع ہوسکتا ہے.حضرت مسیح موعود علی الصلوة والسلم فرمایا کرتے تھے کہ د قسم کے گداگر ہوتے ہیں.جو کسی دروازے پر جاتے ہیں اور صدا دیتے ہیں.اگر کسی نے کچھ دیدیا تو لے لیا.ورنہ اگلے دروازے پر چلے گئے، لیکن خر گدا وہ ہوتے ہیں.کہ جب تک ان کو کچھ دیا نہ جاتے ملتے ہی نہیں گھر والے گالیاں دیتے ہیں.اور برا بھلا کتنے ہیں مگر وہ اس کی کچھ پرواہ نہیں کرتے.اور اس قت تک دروازہ سے مٹتے نہیں ، جب تک کہ کچھ لے نہ میں خواہ راکھ کی چٹکی ہی کیوں نہ ہو.اگر چہ بندہ سے اس طریق سے مانگنا شرک ہے، لیکن خدا کے آگے بندے کو اسی قسم کا فقیر بنا چاہیئے.اور یہ یقین رکھنا چاہیئے کہ اللہ تعالی ضرور میری دستگیری کرے گا اور مجھے خالی نہیں رہنے دیگا.اور حتی یہی ہے کہ اتنی بڑی درگاہ ہے کوئی انسان خالی رہ ہی نہیں سکتا.پس اگر ایک اس قسم کی بھی مصیبت ہو کہ جو اس شخص کی ذات میں کچھ نقائص کی وجہ سے ہو.تو اللہ تعالیٰ ان نقائص کو بھی دور کر سکتا ہے میں جب انسان کو یہ یقین ہو جائے تو وہ ناکام نہیں ہوتا.ہاں اس کو اسبات پر پورا پورا ایمان ہونا چاہتے کہ جس خدا نے مجھے دینا ہے اور جس سے میں مانگتا ہوں وہ دے سکتا ہے.اور میری کمزوریوں کو دُور فرما سکتا ہے.وہ گرتے کو سنبھال سکتا ہے اور وہ بے سامان کے لیے سامان مہیا کر سکتا ہے.یجب الیسا ایمان حاصل ہو تو خدا تعالیٰ ضرور کامیاب کر دیتا ہے.روس کا ایک قصہ ہے کونٹ ٹالسٹاتے ایک بہت بڑا امیر تھا.اور آج کل روس میں بغاوتوں کا جو سلسلہ چلا ہوا ہے.اس کا بانی مبانی اسی کو سمجھا جاتا ہے.وہ ہمارے سلسلہ سے بھی واقف تھا مفتی قصاب
نے اس کو کتا میں بھیجیں.اور حضرت سیح موعود علی الصلوۃ والسلام کے مختصر حالات لکھے تو اس نے جواب میں لکھا کہ آپ کی تعلیم مجھے پسند ہے، لیکن مسیح کے بے باپ پیدا ہونے پر آپ کو زور دینے کی ضرورت نہیں.اگر خداوند کی ماں نے گناہ کیا تو اس سے خداوند یسوع مسیح پر کوئی حرف نہیں آسکتا ہیں اس کا باپ تھا.اس کے اجداد کا ایک واقعہ لکھا ہے.جس سے ان کو کونٹ کا خطاب ملا.اس کے مورث اعلیٰ کا نام ٹالسٹاتے تھا اور وہ روس کے شہنشاہ کے ہاں دربان تھا.ایک دفعہ شہنشاہ نے اسے کہا کہ میں تھیں حکم دیتا ہوں میرے کمرے میں کسی کو نہ آنے دو.اور نہ کسی کے اندر آنے کی اجازت مانگو.وہ پہرہ دے رہا تھا کہ شاہی خاندان کا ایک شہزادہ آیا.اور اس نے اندر جانا چاہا.ٹالسٹائے نے اس کو روک دیا.شہزادے نے کہا کر تم جانتے ہو میں کون ہوں.اس نے کہا ہاں میں جانتا ہوں.آپ شاہی خاندان میں سے ہیں.اس نے کہا پھر مجھے کیوں روکتے ہو.اس زمانہ میں روس کے قواعد کے ماتحت شہزادوں کے لیے اجازت کی ضرورت نہ ہوتی تھی.جب چاہیں شہنشاہ کے ہاں آجا سکتے تھے.ٹالٹا نے نے کہا کہ میں آپ کو شہنشاہ کے حکم کے ماتحت روکتا ہوں.اس نے منکر برا منایا کہ یہ عام آدمیوں میں سے ہو کر مجھے جو شاہی خاندان سے ہوں کیوں روکتا ہے.روس میں شہزادے عوام سے بہت امتیاز رکھتے تھے.جب ٹالٹائے نے اس کو روکا.تو اس نے کوڑا مار کر کہا کہ ہٹ جاؤ، وہ بہٹ گیا ، لیکن جب شہزادہ اندر جانے لگا.تو اس نے آگے بڑھ کر کہا کہ میں آپ کو اندر نہیں جانے دوں گا.شہزادے نے کہا کہ میں نے تمہیں کہا تھا کہ ہٹ جاؤ.اس نے کہا کہ میں ہٹ گیا تھا ، لیکن چونکہ آپ اندر جانے لگے ہیں.اور اندر جانے سے بادشاہ نے روکا ہوا ہے.اس لیے میں آپ کو اندر نہیں جانے دیتا.شہزادے کو اس پر اور زیادہ طیش آیا.اور اس نے ٹالٹانے کو خوب مارا.وہ سر جھکائے کھڑا مار کھاتا رہا میں پر شہزادے نے خیال کیا کہ اب یہ درست ہو گیا ہوگا ، لیکن جب اس نے پھر اندرجانا چاہا تو الٹاتے نے پھر روک دیا اس پر شہزادے کو بہت ہی غصہ آیا.پھر وہ مارنے لگا، بادشاہ نے ابتداء میں ہی شور سن لیا تھا.اور جو کچھ ہور تھا اسے کسی پوشیدہ مقام سے دیکھ رہا تھا.اس موقع پر اس نے آواز دی.کون ہے ؟ اور یہ کیا ہو رہا ہے ؟ شہزادے نے غصہ میں کہا کہ میں اندر آنا چاہتا ہوں، لیکن یہ غلام مجھے روکتا ہے.اور اندر نہیں آنے دیتا ، اس لیے میں اسے مارتا ہوں.بادشاہ نے کہا ! ٹالٹاتے ادھر آؤ.جب وہ گیا تو کہا تم جانتے ہو یہ کون ہے ؟ اس نے کہا حضور میں جانتا ہوں.یہ شاہی خاندان کا ممبر ہے.بادشاہ نے کہا کہ تم جانتے ہو کہ شاہی خاندان کے ممبروں کو اندر آنے کی اجازت ہے.جواب دیا کہ ہاں، پوچھا.پھر کیوں تم نے اُسے اندر آنے سے روکا.اس نے کہا، اس لیے کہ وہ بادشاہ جس نے ان کو اندر آنے
۲۵۵ کی اجازت دی ہوتی ہے اُس نے مجھے اب کم دیا تھا کسی کو اندر آنے دوں.بادشاہ نے شہزادے کو کہا کرتیں اس نے کہا تھا کہ میں بادشاہ کے حکم سے روکتا ہوں.اس نے کہا.ہاں ! بادشاہ نے کہا.پھر تم کیوں نہ رکے اس نے کہا مجھے ہر وقت اندر آنے کی اجازت ہے.بادشاہ نے کہا بیشک تمہیں عام حالتوں میں اندر آنے کی اجازت ہے، لیکن اب جب میں نے خاص طور پر روکا تھا تو پھر تم کیوں نہ کر کے.اس کے بعد بادشاہ نے ٹالٹاتے کو کہا ، ٹالسٹاتے اس نے تمہیں اس لیے مارا ہے کہ تم نے بادشاہ کے حکم کی تعمیل کی.اچھا اب تم اسی کوڑے سے اسے مارو شہزادے نے کہا کہ میں فوج میں فلاں عمدہ رکھتا ہوں ، قاعدہ کے مطابق اس عہدے والے کو ایک سپاہی نہیں مار سکتا.ہم مرتبہ ہی سزا دے سکتا ہے.بادشاہ نے کہا کہ ٹالٹاتے میں تمہیں وہی عہدہ دیتا ہوں.جو اس کو حاصل ہے.پھر شہزادے نے کہا کہ یہاں کے شہزادوں کو کوئی اسس وقت تک سزا نہیں دے سکتا جب تک کہ خود نواب نہ ہو.زار نے کہا ئیں زار روس ٹالٹاتے دربان کو آج کونٹ بناتا ہوں.سوٹا لٹاتے اب مارو.پھر اس نے اُسے اُسی کوڑے سے مارا.اس طرح وہ دربان سے نواب بن گیا.اور اس کے رستہ میں شہزادہ کو مزا دینے کے لیے جور کہیں حال تھیں وہ ہٹادی گئیں.کیونکہ اس نے اپنے بادشاہ کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کی.اسی طرح خدا کیلئے جو فرمانبرداری اختیار کرتا ہے اس کے رستہ میں اگر روکیں بھی ہوں تو خدا وہ تمام روکیں دُور کر دیتا ہے اور اگر کسی مدعا کے حصول کے لیے دولت کی ضرورت ہو تو وہ دولت دے دیتا ہے.اگر زمین کی ضرورت ہو تو زمین دے دیتا ہے.اگر مال عزت اور رتبہ کی ضرورت ہو تو یہ عطا کر دیتا ہے.اور اگر دینی ضروریات میں ولی بنانے کی ضرورت ہو.تو ولی بنا دیتا ہے.اگر صدیق بنانے کی ضرورت ہو تو صدیق بنا دیتا ہے.اگر شہیدوں میں سے بنانے کی ضرورت ہو تو شہید بنا دیتا ہے.اور سب سے آخر اگر نبی بنانے کی ضرورت ہو تو نبی بھی بنا دیتا ہے.کیونکہ نبی خدا ہی بنایا کرتا ہے.تو جس قدر بھی نقائص انسان میں ہوں.خدا اپنے فضل اور رحمت سے ان سب کو دور کر دیتا ہے لیس ہر وقت اور ہر گھڑی خدا پر بھروسہ ہونا چاہتے.اور اس کی رحمت سے کبھی مایوس اور بندھن نہیں ہونا چاہیے.کیونکہ خداوہ تمام سامان پیدا کردیا ہے.جو انسان کی ترقی اور کامیابی کے لیے ضروری ہوتے ہیں.اور وہ خدا جو انعام دیتا ہے.وہی ان کے حصول کے سامان بھی عنایت کرتا ہے.یہ تو روحانی طور پر تھا جسمانی طور پر ھی یہی بات ہے.اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے سامان رکھے ہیں جنکو ہم نہیں جانتے، لیکن یہ جانتے ہیں کہ اگر مایوسی ہو.تو انسان کامیاب نہیں ہوتا.اور اگر مایوس نہ ہو تو ایسے سامان پیدا ہو جاتے ہیں یا انسان کے جسم میں ہی اس قسم کے تغیرات رونما ہو جاتے ہیں کہ وہ کامیاب ہو جاتا ہے.اس
۲۵۶ وقت اگر اسے جسمانی طاقت کی ضرورت ہو تو وہ دیدیا ہے.اگر حافظہ کمزور ہو تو اسے قوی کر دیا جاتا ہے.اسی طرح اور حبس بات میں کمی یا نقص ہو.اس کو پوری طاقت اور قوت دیدیا ہے، لیکن یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کی رحمت پر امید رکھنے سے ہوتا ہے.کیونکہ اسی کے نتیجہ میں اس قسم کے سامان پیدا ہوتے ہیں.اور اسی کا دوسرا نام مسمریزم اور توجہ رکھا گیا ہے جن مریضوں کا یہ خیال ہو کہ ہم تندرست نہیں ہو سکتے اور وہ اپنی صحت سے مایوس ہو جاتے ہیں.ان کو صحت نصیب نہیں ہوتی.اسی طرح جو خدا تعالیٰ سے نا امید ہو جاتے ہیں.وہ اپنے کسی مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے.ہاں جب انسان خدا پر بھروسہ کرتا ہے.تو خدا تعالیٰ زمین و آسمان کو اس کی تائید کے لیے کھڑا کر دیتا ہے.دنیا میں جتنی و باتیں پڑتی ہیں.ان کی ایک وجہ مایوسی ہوتی ہے.چنانچہ انہی دنوں ایک عام بخار تھا جس کو قحط کا بخار کہا جاتا ہے.اس میں جولوگ زیادہ مرے ہیں.یہ نہیں کہ ان کو روٹی نہیں ملتی تھی.بلکہ بنا.یہ تھی کہ آیندہ کے متعلق ان کو قحط کو دیکھ کر جو مایوسی اور نا میری ہوگئی تھی.اس نے ان کے جسم کو مرض کے قبول کرنے کے قابل بنا دیا تھا.ورنہ ان میں سے اکثر ایسے لوگ بھی تھے.جو آسودہ حال یا کم از کم دونوں وقت پیٹ بھر کے کھانا کھانے کی مقدرت رکھتے تھے.اسی طرح اور سینکڑوں بیماریاں ہیں جن کا باعث مایوسی ہوتی ہے.لوگ خیال کرتے ہیں کہ اب ہم کیا کرینگے.اب کیا ہوگا.بھوک سے مر جائیں گے.حالانکہ جس وقت وہ خیال کر رہے ہوتے ہیں.اس وقت ان کے پاس کھانے کو موجود ہوتا ہے.پچھلے دنوں جب انفلوائنز پھیلا.تو اس میں زیادہ مسلمان مرے.اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سلمان چونکہ زیادہ غریب ہیں.اسواسطے انہیں اپنی آئیندہ حالت کے متعلق زیادہ مایوسی لاحتی ہوئی.اور ان کے جسموں نے اس مرض کو زیادہ فقمول کیا اور وہ ہندوؤں کے مقابلہ میں زیادہ مرے.پھر اس سے یورپین لوگ زیادہ مرے جس کی وجہ یہ تھی کہ یورپ میں چار سال جنگ رہی.اس سے ہر ایک سلطنت کو یہی خیال تھا کہ ہماری حکومت گئی.اس لیے وہاں کے لوگوں کو جنگ کے صدمات نے بیماری قبول کرنے کے لیے تیار کر دیا تھا.پس تحط اس کا باعث نہیں ہوا.بلکہ وہ مایوسی اس کا باعث ہوئی.جو قحط کے خیال سے پیدا ہو گئی.کیونکہ قحط نے ان سب لوگوں کی جو اس سے مرے.یہاں تک حالت نازک نہیں کر دی تھی کہ وہ ٹھوکوں مرگئے ہوں.اگر اس طرح مرے ہیں.تو بہت تھوڑے.مگر ایک مومن کی یہ شان نہیں ہے کہ اس قسم کی مایوسیوں کا شکار ہو.وہ ہروقت اور ہر حالت میں خدا سے امید رکھتا ہے پس مومن کبھی مایوس نہیں ہوتا.کیونکہ مایوس کا فر ہوتا ہے.اور نہ مومن کو محض امید ہی اُمید ہوتی ہے.بلکہ مومن میں یہ دونوں باتیں جمع ہوتی ہیں.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے اور حضرت مسیح موعود بھی فرماتے تھے بلکہ سب کے سرار
۲۵۷ ا ل ولا ولم نے بھی یہ فرمایا ہے کہ خدا کے غضب سے ڈرو، اگر اس کی رحمت سے مایوس نہ ہو کیونکہ محض خوف گھر ہے.ایک ایسا شخص جسے ہر وقت ہی خیال ہو کہ خدا مجھے ہرگز نہیں چھوڑے گا.ضرور مزا دیا اور کسی امر کے متعلق مایوسی کو اپنے دل میں جگہ دیتا ہے وہ اس کی رحمت کو بھول جاتا ہے.مگر تم یا درکھو کہ کوئی برسے سے بڑا ساتھ نہیں مایوس نہ کرنے پائے تم ہمیشہ یہ یقین رکھو کہ خدا ہے اور اس کی رحمت ہر مصیبت سے تمہیں نجات دے سکتی ہے پیس کوئی آفت نہ ہو جو تمہیں مایوس کرینگے.کوئی تکلیف نہ ہو جو تمہیں نا امید کر سکے.کوئی دکھ نہ ہو جو تمہیں نا امید کر سکے.تمہارا اس خدا کے ساتھ تعلق ہے جو ہر ایک بڑی سے بڑی مصیبت اور روک کو دور کرسکتا ہے.اگر تم یہبات یاد رکھو.تو مہارے راستہ میں اگر مصائب کے پہاڑ بھی آجائیں تو وہ دُور کر دیتے جائیں گے.تمہیں ہر مقصد اور مدعا میں کامیابی نصیب ہوگی.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت پر رحم کرے اور اسی نقطہ ایمان پر کھڑا کرے جب الیسا ایمان حاصل ہو جائیگا.تو خدا اپنی اصلی معرفت اور اپنی اصلی شان کے ساتھ میں نظر آجائے گا.اتنا فرما کر حضور بیٹھ گئے.جب دوسرے خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے.تو فرمایا ) میں نے مایوسی کے متعلق بتایا ہے کہ یہ ہلاکت کا باعث ہوتی ہے اور یہ ثابت شدہ بات ہے کہ نہیں مریض کو یقین ہو جائے، کہ میں نہیں بچوں گا.وہ نہیں بچ سکتا.ڈاکٹر اپنی کتابوں میں اس کو موت کی علامتوں میں سے ایک علامت بتاتے ہیں چونکہ انہوں نے علم النفس یعنی وہ علم جس سے قلبی کیفیات معلوم ہوتی ہیں.نہیں پڑھا ہوتا کہ جذبات کا کیا اثر ہوتا ہے.اس لیے انہوں نے اس کو علامت قرار دیدیا.ورنہ یہ علامت نہیں یہ خیال ہی جو کہ مایوسی ہے.ان کی موت کا باعث ہوتا ہے؟ الفضل در جولائی انه )
48 کے انہی کی مخالفت جب ہوا کہیے ) فرموده ۴ جولائی 2 حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.اللہ تعالیٰ کی یہ سنت قدیم سے چلی آتی ہے کہ وہ زمانہ کی ضرورت کے مطابق اپنے مامور دنیا میں بھیجتا رہتا ہے جب بھی زمانہ اس بات کا محتاج ہوتا ہے.زمانہ سے میری مراد اس زمانہ کے لوگ ہیں ) تو وہ اپنے بندوں میں سے ایک بندے کو اس زمانہ کے لیے چنا اور حکم دیتا ہے کہ دنیا کی اصلاح کے لیے کھڑا ہو جا.چونکہ وہ خدا کے حکم سے کھڑا ہوتا ہے.اس کے دیئے ہوئے نام کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور اس کے بتائے ہوتے مقام پر کھڑا ہوتا ہے.اس لیے اس کی بات کو خدا اپنی بات اور اس کے کام کو خدا اپنا کام قرار دیتا ہے.اور جو اس کے مقابلہ میں آتے ہیں.وہ تباہ و برباد در رسوا اور ذلیل ہوتے ہیں کبھی نہیں ہوا کہ خدا کا نام لیکر ایک پراستباز کھڑا ہوا ہو اور پھر دنیا نے اس کو نا کام دیکھا ہو وہ ہمیشہ کامیاب ہی ہوتے ہیں.اور ان کے دشمن ہمیشہ ہی نا کامی و نامرادی کا منہ دیکھتے ہیں.نادان ان کی ظاہری غربت کو دیکھکر کہتے ہیں کہ یہ ہمارا کیا کر سکتے ہیں.ان کی نظر ان کے چہرہ پر ہوتی ہے.مگر اس کے چہرہ کو نہیں دیکھتے جو ان میں مخفی ہوتا ہے.لوگ ان کے ہاتھ کو دیکھتے ہیں مگر اس کے ہاتھ کو نہیں دیکھتے.جس کی مارہ کی برداشت دنیا میں کوئی نہیں کر سکتا.وجہ یہ کہ چونکہ نبیوں کے مخالف ظاہر پرست ہوتے ہیں.اس لیے ان کی نظر ظاہر پر ہی پڑتی ہے.حالانکہ ان کی ہلاکت و بربادی کے سامان باطن میں کئے گئے ہوتے ہیں.ان کی مثال اس شہر کے باشندوں کی طرح ہوتی ہے.جو ایک ایسے آتش فشاں پہاڑ پر رہتے ہوں جس کے ارد گرد سبزہ زار ہو.زمین ہری بھری ہو.گلیاں اور ان کی گزر گاہیں شاداب ہوں.جنگلوں میں میں شادابی نظر آتی ہو.پانی کے چشمہ بہہ رہے ہوں.حالانکہ ان کی گلیوں.ان کے مکانوں.اور ان کے جنگلوں اور چشموں کے نیچے ان کی تباہیوں کے سامان ہو رہے ہوتے ہیں.اور جب وہ سامان
۲۵۹ ظاہر ہوتے ہیں.تب ان کو پتہ لگتا ہے کہ ہم کس حالت میں تھے.اور اب ہم کس حال میں ہیں.بہت جگہیوں پر اس قسم کے واقعات ہوتے ہیں کہ آتش فشاں پہاڑوں پر اس لیے لوگ آباد ہو گئے کہ ی تو انہیں ان کی آتش فشانی کا پتہ نہ تھا.یا یہ کہانسے اس قدر کم مادہ نکلتا تھا کہ لوگوں نے خیال کرلیا کہ اب ہم امن میں ہیں، لیکن جب مادہ میں جوش آیا تو یکلخت تباہ و برباد ہو گئے.اور خوبصورت شہر کی بجائے ویران کھنڈرات بن گئے.یہی حال نبیوں کے مخالفوں کا ہوتا ہے.ان کے متعلق بھی ایک ظاہر میں نہیں کہ سکتا کہ وہ کبھی ہلاک ہوں گے.اور اگر ہونگے تو کیسے مگر ان کے گھروں کی بنیادوں اور چھتوں کے نیچے ایسے سامان ہلاکت جمع ہو رہے ہوتے ہیں کہ جب وقت آتا ہے.تو ایک منٹ کی دیر نہیں لگتی کہ وہ ہلاک ہو جاتے ہیں اور کوئی نہیں بتا سکتا کہ وہ کیا ہوتے.جاوا میں ابھی ایک آتش فشانی کا واقعہ ہوا ہے کہ وہاں ایک بہت بڑا شہر تھا جس کی آبادی ہزاروں کی تھی.اور ایسا شاداب تھا.کہ اس کی شادابی اور سر سبزی سے فائدہ اُٹھانے کے لیے لوگ اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ کر وہاں آکر رہتے.اور اپنے گھر بناتے.اور موسم گذارتے تھے مگر چند ہی دن ہوتے وہاں ایک ایسا خطرناک زلزلہ آیا کہ تمام کاتمام شهرتباہ ہوگیا.ساٹھ ہزار کے قریب لوگ مرگئے کیا سکی شادابی اور سرسبزی کو دیکھ کر کوئی خیال کر سکتا تھا کہ اس کے نیچے آگ جمع ہے لیکن اس کے نیچے آگ تھی جو نظر نہیں آتی تھی.اس کے رُخ بدل لینے سے لوگوں نے خیال کر لیا تھا کہ اب کوئی خطرہ نہیں مگر ان کا یہ خیال ان کو ہلاکت سے نہ بچا سکا.یہی حال نبیوں کے دشمنوں کا ہوتا ہے.وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں مگر ان کی بربادی کے سامان ان کے گھروں کے نیچے موجود ہوتے ہیں.اس زمانہ میں جب اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک نبی بھیجا.تو بے وقوفوں نے اپنی بیوقوفی سے خیال کیا.کہ اس کے پاس نہ فوج ہے.نہ اس کے پاس مال ہے.نہ طاقت ہے.نہ جتھا ہے.یہ ہمارا کیا بگاڑ سکتا ہے.انہوں نے اس کے ہاتھ کو دیکھا.اس پر جھوٹے مقدمے کھڑے کتے کہ اس کو قید کرا دیں.انہوں نے اس پر پتھر پھینکے اور خیال کیا کہ اس طرح ہم اسے مار دینگے.انہوں نے زہر دینی چاہی کہ اس طرح ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جائیگا.انہوں نے قتل کرنے کی کوششیں کیں کہ اس طرح یہ سکوت اختیار کرلے گا مگران نادانوں نے یہ نہ جانا کہ شخص جس کو ہم مارنا چاہتے ہیں.یہ تو بول ہی نہیں رہا.بولتا وہ ہے جس کو کسی زہر سے مارا نہیں جا سکتا جس کو کسی اور طریق سے مٹایا نہیں جاسکتا.جس کو کوئی حکومت قید نہیں کر سکتی.بلکہ وہ جس کو چاہتا ہے.قید میں ڈالتا ہے جس کو چاہتا ہے مارتا ہے اور جس کو چاہتا ہے.زندہ
کرتا ہے پیس بولنے والا وہ نہیں جبکو" مرزا کہتے ہیں.بلکہ بولنے والا وہ ہے جسکو خُدا کہتے ہیں نادان انسان بڑے افسر کے چپڑاسی کو دیکھتے ہیں.اور اسے حقیر سمجھکر اس کے لائے ہوئے احکام کی پروا نہیں کرتے.در حقیقت وہ احکام معزز ہوا کرتے ہیں جو وہ لیکر آتا ہے.اس لیے اس کو حقیر نہیں کہا جاسکتا کیونکہ بادشاہ کے احکام میں چھوٹے بڑے کا فرق نہیں ہوتا.اس لیے چپڑاسی کی طرف نہیں دیکھنا چاہتے.بلکہ اس کی طرف دیکھنا چاہتے جس کے حکم سے وہ آتا ہے.اور جس کاحکم کرتا ہے تو خداتعالی کا برگزیدہ آیا اورخدا کے احکام لایا.مگر دنیا نے اس کی مخالفت کی.اور ایسی مخالفت کی کہ اس کی جان تک لینے سے دریغ نہ کیا.اس کانتیجہ کیا ہوا ؟ دنیا دیکھ رہی ہے کہ اس کے انکار کے بعد دبائیں آئیں.ابتلاء آتے لوگ دُکھوں میں گرفتار ہوئے جنگوں میں ڈالے گئے.زلزلوں سے زیروز بر کئے گئے طوفانوں سے برباد کئے گئے.قحط سے ہلاکت میں ڈالے گئے کہیں قحط بارش کی قلت سے آتے تو کہیں کثرت بارش سے آتے.اور اگر ایک جگہ کے لوگ ایک ایک قطرہ کو ترسنے لگے.تو دوسری جگہ اس کثرت سے بارش ہوئی کہ لوگوں کے کھیت کھڑے کے کھڑے سڑ گئے.پہلے قحط کبھی بارش کے نہ ہونے سے پڑتا.اور کبھی زیادہ بارش ہونے کی وجہ سے فصلوں کے گل سڑ جانے سے پڑتا لیکن اس زمانہ میں ہی دونوں باتیں ایک وقت میں جمع ہو گئی ہیں.اور ان کے علاوہ ہر رنگ میں بلائیں آگہ ہی ہیں.اور اس کثرت سے آ رہی ہیں کہ کوئی چین سے زندگی بسر نیں کر رہا.لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ ان کی زندگی ان پر تلخ بوری ہے.اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی زندگی موت سے بدتر ہے.مگر تعجب ہے کہ باوجود ایسی حالت کے پھر بھی وہ اس کے اس علاج کی طرف متوجہ نہیں ہوتے جو خدا نے ان ہلاکتوں سے بچانے کے لیے مقرر کیا ہے.یہ مانتے ہیں کہ دنیا میں خدا کا عذاب نازل ہے جیس میں ہم گھرے ہوتے ہیں مگر اس پر غور نہیں کرتے کہ یہ کیوں آیا ہے.پچھلے ہفتے سیلون سے جو خطہ آیا ہے اس میں وہاں کے قحط کے حالات لکھے ہیں.جو نہایت ہی درد ناک طور پر نہایت تفصیل سے لکھے ہیں.میں نے جب اس کا ابتدائی حصہ پڑھا تو خیال کیا کہ روپیہ کی مدد چاہتے ہونگے لیکن جس وقت میں اخیر پر پہنچا.تو ایک ایسا فقرہ پڑھا جس سے معلوم ہو گیا کہ وہاں کے لوگوں کی حالت بہت ہی دردناک ہو گئی ہے وہ فقرہ یہ ہے کہ ہماری حالت نہایت ہی دردناک ہے.اور خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں چند بوریاں آٹے کی بھجوائی جاتیں.ہم پر یوسف کے سے سال گزر رہے.ہم مدد چاہتے ہیں، لیکن روپیہ کی صورت میں نہیں بلکہ غلہ کی صورت میں کیونکہ یہاں روپیہ دیگر بھی غلہ نہیں ملتا.یہ فقرہ تھا کہ جس نے اس خطر ناک حال کو مجھ پر ظاہر کر دیا اور معلوم ہوا کہ وہ کن حالات
میں سے گزار رہے ہیں.ایسے وقت میں ہماری جماعت کے لیے نہایت ضروری کہ پہلے سے زیادہ انابت الی اللہ اختیار کرے اپنی اور تمام جماعت کی حفاظت کے لیے خواہ کہیں ہو.دعائیں کی جائیں.اس میں شک نہیں کہ عذاب اور بلائیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انکار کے باعث آرہی ہیں.مگر اس کا ایک حصہ ہم کو بھی پہنچتا ہے کیونکہ ہم بھی اسی ملک میں رہتے ہیں.جہاں حضرت مسیح موعود کا انکار کرنے والے رہتے ہیں.دیکھو کفارِ عرب پر قحط کا عراب آیا.مگر صحابہ نے بھی اس میں تکلیف اُٹھائی.پھر اس کی وجہ یہ ہے کہ تاہم اور جوش سے کلمتہ الحق کی تبلیغ کریں.کیونکہ اس میں پوری کوشش اور سعی سے کام نہ لینے کی وجہ سے خدا تعالیٰ ہماری جماعت کے لوگوں کو ان تکالیف کا مزا چکھاتا ہے جو دنیا پر آگہ ہی ہیں تاکہ لوگوں کی قابل رسم حالت سے آگاہ ہو کہ ہم جلد سے جلد اس نوکر اور خدا کے اس کلام کو جو حضرت مسیح موعود کے ذریعہ نازل ہوا.دنیا میں پہنچائیں.چونکہ ان بلاؤں سے ہمیں بھی ایک حد تک حصہ لینا پڑتا ہے.اس لیے ہماری جماعت کے لیے ضروری ہے کہ اپنے لیے اور اپنے دوسرے بھائیوں کے لیے خدا تعالیٰ کے حضور نہایت تفرع سے دعائیں کرے کہ خدا تعالیٰ سب کو اس قسم کی سختی اور تکلیف سے بچائے جو ایمان کو ضائع کرنے ) الفضل ۲۶ جولائی شاملة ) والی ہو.آمین : بر
49 نماز باجماعت کی تاکید ) فرموده ۱۱ جولائی شاه تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سورۃ بقرہ کی ابتدائی آیات تلاوت فرمائیں : المرة ذلِكَ الكِتُبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ : الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمُ يُنْفِقُونَ رسورة البقرة : ۲ تا ۴ ) اور فرمایا :.ایک زمانہ دنیا کے او پرالیا تاریخی او حکمت کا آیا کہ اس کی نسبت اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے ظَهَرَ الفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالبَحْرِ (الروم (۴۲) کر خشکی اور سمندر میں فساد پھیل گیا تھا.ایک خدا : کی پرستش کرنے والا کوئی انسان نہیں مل سکتا تھا، شرک - بت پرستی اور قسم قسم کے تو ہمات پھیلے ہوتے تھے.جب تاریخی اس قدر حد سے بڑھ گئی.اور جب دین بالکل ذلیل اور بے قدر ہوگیا، اور خدا کی کوئی عظمت لوگوں کے دلوں میں باقی نہ رہی.تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور کرم سے مکہ میں ایک دیا روشن کیا جس کی شعاعیں بڑھتے بڑھتے اتنی بلند اور بالا ہوگئیں کہ آخر ان کے ذریعہ تمام دنیا روشن ہوگئی.یہ اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل اور ایسا احسان تھا کہ اگر دنیا اس کی قدر کرتی ، ت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعث کے بعد شاید گفر کا نشان تک باقی نہ رہ جاتا.اور اگر اس سے فائدہ اُٹھاتی تو پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد کسی اور مامور اور نبی کی ضرورت نہ رہتی کیونکہ نبی اور مامور کے آنے کی دو ہی وجہیں ہوتی ہیں.ایک یہ کہ اہل دنیا کو شریعیت پہنچانا.اور دوسری یہ کہ شریعت پر عمل کرانا.اب جبکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ کامل شریعت مل چکی تھی.اگر دنیا اس کی قدر کرتی تو قیامت تک کوئی تفرقہ نہ ہوتا نہیں افسوس لوگوں نے خدا تعالیٰ کی اس رحمت اور فضل کی قدر نہ کی.اور مختلف فرقوں میں تقسیم ہو گئے.اسلام جو رحمت کے طور پر آیا تھا.اس کو انہوں نے بھلا دیا.اور نہ صرف بھلا ہی دیا.بلکہ اس سے نفرت
کرنے لگ گئے.ایسے وقت میں جبکہ دنیا پر وہی تاریخی کا زمانہ آگیا.جو رسول کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے وقت تھا اور جس کے متعلق پہلے انبیا.خاص طور پر خبرد نے پہلے انبیا.خاص طور پر خبر دیتے رہے تھے.تو خدا تعالیٰ نے حقیقی اسلام کو قائم کرنے کے لیے رسول تحریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بروز بھیجا.دنیا نے اس کی قدر کی یا نہ کی.اس کا حال اسی پر اللہ تعالیٰ نے بذریعہ الہام اس طرح کھولا کہ :- " دُنیا میں ایک نذیر آیا.پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا ، لیکن خُدا اسے قبول کریگا اور بڑے زویر اور جملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا ہے اس الہام کے ماتحت کس کس طرح دنیا نے اس فرستادہ خدا کو رد کیا.اس کی تفصیل کی اس وقت ضرورت نہیں کیونکہ میں اس مضمون کو بیان کرنے کے لیے کھڑا نہیں ہوا.پھر اس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ نے کیسے کیسے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ثابت کیا.اور کس کس طرح اس کے دشمنوں کو ہلاک اور تباہ کیا.اس کے بیان کرنے کی بھی ضرورت نہیں.کیونکہ اس کے لیے بھی میں کھڑا نہیں ہوا، لیکن شاید ہی کوئی نا واقف سے ناواقف اور مرکز سلسلہ سے تعلق نہ رکھنے والا احمدی ایسا ہوگا جسے اس انکار اور مقابلہ کی خبر نہ ہو.جو دنیا نے حضرت مسیح موعود کا کیا.اور پھر کوئی ناواقف سے ناواقف ہی ہوگا جس کو ان حملوں کی خبر نہ ہو.جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود کی صداقت ظاہر کر رہا ہے مگر سب سے پہلا سوال جو ان حالات اور واقعات کو دیکھ کر پیدا ہوتا ہے.وہ یہ ہے کہ جنھوں نے حضرت مرزا صاحب کو قبول نہیں کیا.اور منہ سے رد کر دیا.انہوں نے جو کیا گیا.مگران کا کیا حال ہے جنھوں نے منہ سے قبول کیا.مگر عملی طور پر رد کر دیا.دیکھو ایک تو وہ لوگ ہیں جنھوں نے کہا کہ ہم مرزا صاحب کو اس لیے قبول نہیں کرتے ، کہ ہم سیدھے راستہ پر ہیں.اور وہ گمراہ ہیں.یہ لوگ زیر مواخذہ ہیں.کیونکہ انہوں نے خدا کے فرستادہ کو رد کیا.مگر ان کے درد کرنے میں خدا تعالی کی کچھ نہ کچھ عظمت پائی جاتی ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اس لیے رو کرتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں لیکن وہ شخص جو حضرت مرزا صاحب کو قبول کر لیتا ہے.وہ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ پہلے سب ادیان باطل ہیں یا جو ان کے معنے گئے جاتے اور جس رنگ میں ان کو پیش کیا جاتا ہے.وہ خدا کی منشاء کے مطابق نہیں ہے.جیسا کہ اسلام ہے.ایک احمدی اسلام کو رد نہیں کرتا، لیکن اس کے جو معنے مسلمان کرتے ہیں.اور جس رنگ میں اُسے پیش کرتے ہیں.اس کو قابل قبول نہیں سمجھتا، کیونکہ وہ ایسا اسلام نہیں.جو رسول کریم صلی الہ علیہ و آلہ سلم لاتے تذکره صا
تو وہ لوگ جو اس بات کو سمجھ لیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود خدا تعالی کی طرف سے آتے ہیں.وہ گو یا افراد کرتے ہیں کہ جو پہلے مذاہب تھے.وہ بگڑ چکے ہیں.یا ان کا مطلب اور مفہوم بگاڑ کر پیش کیا جاتا ہے اور اب ضرورت تھی کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی انسان کھڑا ہوتا کہ حقیقی دین پر لوگوں کو چلاتے.یہ اقرار کر کے اگر کوئی شخص عملی طور پر حضرت مسیح موعود کو رد کرتا ہے.تو سوچ لو کہ خدا کے حضور اس کا کیا حال ہوگا.پہلا شخص اگر رتذ کرتا ہے تو وہ خدا کا بہانہ اور آڑے کر رد کرتا ہے کیونکہ وہ کہتا ہے کہ میں مرزا صاحب کو اس لیے نہیں مانتا کہ قرآن ان کی تردید کرتا ہے.اس لیے نہیں قبول کرتا کہ رسول کریم رو فرماتے ہیں.ایسا شخص خطاوار ہے.کیونکہ وہ دراصل خدا اور رسول کی بات کو رد کرتا ہے مگر بظاہر خدا اور رسول کی آڑ لے کر ایسا کرتا ہے.مگر دوسرا شخص جو تسلیم کرتا ہے کہ خدا اور رسول کی منشاء کے مطابق حضرت مرزا صاحب آتے ہیں.وہ اگر در ذکرتا ہے تو زیادہ قصور وار ہے.کیونکہ اس نے باوجود ماننے اور تسلیم کرنے کے رد کیا.اسی طرح اگر پہلا شخص عملاً کوئی اس قسم کی کوشش کرتا ہے جس سے سلسلہ احمدیہ کو نقصان پہنچے تو وہ بھی مواخذہ کے قابل ہے.کیونکہ جس طرح زہر کو خواہ کوئی جان کر کھاتے یا بے جانے کھائے.ہلاک ہوتا ہے اسی طرح صداقت اور حق کا مقابلہ خواہ جان کر کرے یا انجان ہو کر کرے.زیر مواخذہ ہوتا ہے لیکن جس طرح جو جان بوجھ کرنہ ہر کھائے.وہ مرنے کے علاوہ خود کشی کے جرم کا بھی مجرم ہوتا ہے.اور اسے دوہری سزا ملتی ہے.ایک قانونِ قدرت کے ذریعہ اور دوسری قانون شریعت کے ماتحت.اور جو بے جانے بوجھے کھاتے.مرتا تو وہ بھی ہے ، لیکن اس سے خود کشی کے جرم کا مواخذہ نہیں ہو گا.اسی طرح جو شخص صداقت کا انکار بے جانے کرتا ہے.سزا کا مستوجب تو وہ بھی ہے لیکن جو جان بوجھ کر کرتا ہے.وہ دوہری سزا کا ستحتی ہے.اس لیے احمدی جماعت کے لیے دوسروں کی نسبت زیادہ احتیاط اور ہوشیاری کی ضرورت ہے.وہ لوگ بھی سزا پائیں گے جنھوں نے اس صداقت کو قبول نہ کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لائے اور اس کا مقابلہ کیا، لیکن احمدی کہلا کر اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ دوہری سزا کا مستوجب ہوگا.میرے پاس مختلف جگہوں سے اس قسم کے خطوط آتے ہیں جن میں لکھا ہے کہ چونکہ ہمارا فلاں سے جھگڑا ہے اس لیے ہم فلاں جگہ نماز پڑھنے کے لیے نہیں جائیں گے اور بعض کے متعلق دوسروں نے لکھا ہے کہ وہ باجماعت نماز پڑھنے کے لیے اس لیے نہیں آتے کہ فلاں سے ان کا جھگڑا ہے وہ لوگ قادیان میں موجود نہیں ہیں، لیکن نصیحت کسی خاص کے لیے نہیں ہوا کرتی.بلکہ ہر ایک کے لیے ہوتی ہے.کیونکہ کون جانتا ہے کہ کسی کے دل میں وہی بات پیدا نہ ہو جائیگی جس کے لیے
140 نصیحت کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں کوئی حکم ایسا نہیں ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور واحد شخص کو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہو.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مخاطب کرنا سارے جہاں کو مخاطب کرتا ہے تو قرآن کریم میں تمام احکام عام رنگ میں بیان کئے گتے ہیں.اس لیے میں بھی یہ نصیحت تخطبہ میں بیان کرتا ہوں.پھر اس لیے بھی کہ یہاں کے بعض لوگ بھی باجماعت نماز پڑھنے میں کمزور ہیں.اور وہ جمعہ اور عیدوں کے سوا کبھی مسجد میں نہیں آتے.یا کبھی کبھی آشکل دکھاتے ہیں پھر چونکہ خطبہ جمعہ لکھا جاتا ہے.اور اخبار میں چھپ کر باہر کے لوگوں کو بھی پہنچ جاتا ہے.اس لیے اسی موقع پر بیان کرتا ہوں :- اللہ تعالیٰ نے جہاں جہاں قر آن کریم میں نماز کے لیے حکم بیان فرمایا ہے.وہاں کثرت کیساتھ قیام صلوۃ اور حفاظت صلوۃ فرمایا ہے صرف نماز پڑھنے کا لفظ بہت کم جگہ آیا ہے.اور وہ بھی حکم کے طورہ پر نہیں.جہاں احکام کا ذکر ہے.وہاں اقامت کا لفظ ساتھ رکھا گیا ہے اور اقامت صلوۃ کے منے یہ ہیں کہ نماز کو اس کی تمام شرائط کے ساتھ پڑھا جائے.اقامت کا لفظ عام ہے اور جب کسی امر کی تکمیل ہو جائے ، تو اس کے متعلق اقامت کا لفظ بولتے ہیں.مثلاً تجارت ہے جب کسی ملک کی تجارت پورے زور پر نہ ہو.تو اس کی نسبت کہتے ہیں کہ فلاں ملک کی تجارت بیٹھ گئی اور اگر پورے زور پر ہو تو کہتے ہیں کہ فلاں ملک کی تجارت کھڑی ہے.اس طرح دوسرے سب امور جب تکمیل کو پہنچ جائیں، تو انکے متعلق اقامت کا لفظ بولتے ہیں اور جب ان میں کمزوری پیدا ہو تو بیٹھ گئے کہتے ہیں اس لیے نماز کی اقامت کے یہ معنے ہوئے کہ اس کو تمام شرائط کے ساتھ ادا کیا جائے اور یہی وہ بات ہے.جس کا قرآن کریم میں حکم دیا گیا ہے.اور یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس سے انسان مومن بنتا ہے.اور یہی وہ ذریعہ ہے جس سے اللہ کا فضل نازل ہوتا ہے.دیکھو یہی آیت جو میں نے پڑھی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ذلك الكتب لا ريبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ - یہ ایسی کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے.یعنی اس میں ایسی تعلیم ہے.جو ہر ایک شک اور شہر کو مٹانے والی ہے.اس کے اختیار کرنے سے کسی قسم کا شک وشبہ نہیں رہتا.یہ متقیوں کے لیے ہدایت ہے.انہیں ایک میدیا رستہ دکھاتی.ایک نئے جہان میں لے جاتی.اور اُن پر روحانیت کا دروازہ کھول دیتی ہے اس سے.آگے بتایا کہ متقی کون ہوتا ہے ؟ فرمایا : الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقُتُهُمْ يُنْفِقُونَ
وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا اُنْزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمُ يُوقِنُونَ.یہ شرطیں جب کسی میں پائی جاتیں.تو وہ متقی ہوتا ہے.اور جب یہ شرطیں پائی جاتی ہیں.تب قرآن روحانیت کی طرف راہ نمائی کرتا ہے.وہ شرطیں یہ ہیں :.(۱) ایمان بالغیب (۲) اقامت نماز (۳) جو کچھ خدا نے دیا ہو امیں سے خرچ کرنا (۳) رسول کریم پر اور آپ سے پہلے نبیوں پر جو کچھ اترا.اور جو آئیندہ نازل ہو گا.اس پر ایمان لانا.ان شرطوں کو جو انسان پورا کر لیتا ہے اس پر روھانیت کا دروازہ کھل جاتا ہے، لیکن جو ان کو اس طرح پورا نہیں کرتے ہیں جس طرح ان کے پورا کرنے کا حق ہے انہیں قرآن ہدایت نہیں کرتا.یہی وجہ ہے کہ بہت لوگ قرآن پڑھتے ہیں.مگر کہتے ہیں یہیں کچھ فائدہ نہیں ہوتا.بات دراصل یہی ہے کہ قرآن اسی وقت ہدایت کرتا ہے.جبکہ یہ شرائط پوری ہوں.ان شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ ناز کو قائم کرنا اور جماعت کے ساتھ ادا کرنا بعض لوگ بے علمی اور نا واقفیت کی وجہ سے کہتے ہیں کہ جمعہ کی نماز باجماعت پڑھنا فرض ہے.حالانکہ بات ہے کہ جمعہ کی نماز ایسی ہی فرض ہے.جیسا کہ ساری نمازیں.قرآن کریم میں جمعہ کی نماز کا اگر ایک جگہ ذکر آیا ہے تو روزانہ نمازوں کا ذکر متعدد جگہ آیا ہے.پس جمعہ کی نماز دوسری نمازوں سے زیادہ فرض نہیں ہے، لیکن لوگ لاعلمی کی وجہ سے سمجھتے نہیں.اور صرف جمعہ کی نماز با جماعت ادا کرنا فرض جانتے ہیں.حالانکہ قرآن کریم میں جہاں جہاں اقیموا الصلوة کا ذکر آیا ہے.وہاں نماز با جماعت کا ہی حکم ہے.حتی کہ ایک صحابی کے متعلق لکھا ہے کہ وہ کہتے نماز ہوتی ہی نہیں جب تک کہ با جماعت نہ ہو مگر ہمیں صحابہ کے قول پر ہی اکتفاء کرنے کی ضرورت نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال بھی ایسے ہی ملتے ہیں.چنانچہ فرماتے ہیں.جو لوگ عشاء اور صبح کی نماز با جماعت پڑھنے کے لیے مسجد میں نہیں آتے.میرا دل چاہتا ہے کہ میں اپنی جگہ کسی اور کو نماز پڑھانے کے لیے کھڑا کر دوں.اور اپنے ساتھ اور آدمیوں کو لیکر ان کے سر پر ایندھن رکھ کر اُن لوگوں کے گھروں میں جاؤں.اور آدمیوں سمیت ان کے گھروں کو جلا کر راکھ کر دوں تے دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جیسا رحیم انسان جو کسی کی ادنیٰ سے ادنی تکلیف کو بھی نہیں دیکھ سکتا تھا اور جس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے.رحمة للعلمین ہے.وہ جب یہ کہتا ہے کہ جو لوگ مسجد می نماز پڑھنے کے لیے نہیں آتے ان کو مع اُن کے گھروں کے جلا دوں.تو اس سے یہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ له بخاری ومسلم بحواله مشكورة كتاب الصلوة في الجماعة وفضلها : له الانبياء : ١٠٨
446 با جماعت نماز پڑھنا کوئی معمولی بات ہے بلکہ فرضوں میں سے بہت بڑا فرض ہے جس کے ادا نہ کرنے کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسقدر شدت سے نفرت کا اظہار کیا ہے رہیں جو لوگ اس کو پورا نہیں کرتے.انہیں سوچنا چاہیئے کہ وہ رسول کریم صلی الہ علیہ والہ وسلم کی قدر ناراضگی کا بار اپنے اوپر اُٹھاتے ہیں.انہیں خوب اچھی طرح سن لینا چاہیئے کہ کسی کی لڑائی اور کسی سے جھگڑا اس فرض کی ادائیگی میں ہرگز روک نہیں ہوسکتا.اگر وہ زید و بکر کے لیے نماز پڑھتے ہیں تو ان سے لڑائی ہونے کی وجہ سے چھوڑ سکتے ہیں، لیکن اگر خُدا کے لیے پڑھتے ہیں.تو پھر کون ہے جو کہ سکتا ہے کہ چونکہ خدا سے میری لڑائی ہے.اس لیے میں نماز نہیں پڑھتا.اگر اس سے کسی کی لڑائی ہے تو وہ نہ پڑھے.اور اگر نہیں تو زیدو بکر کی لڑائی کی وجہ سے خدا کی نماز کو کیوں ترک کرتا ہے.میرے نزدیک وہ شخص جو نمانہ یا جماعت پڑھنے میں سستی کرتا ہے.کسی قسم کی روحانی ترقی حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ یہ نہایت ضروری رکنِ اسلام ہے.اور ایسا ضروری ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو اس کو ادا نہیں کرتا.میرا جی چاہتا ہے کہ میں اس کو مع اس کے گھر کے جلا دوں.بعض لوگوں نے صرف عشاء اور صبح کی نماز با جماعت نہ ادا کرنے والوں کے متعلق اسے سمجھا ہے.لیکن اصل میں اس میں ساری نمازیں آ جاتی ہیں.کیونکہ یہی دونوں نمازیں پڑھنا مشکل ہوتی ہیں.جب ان کے متعلق فرما دیا.تو باقی نمازیں خود بخود اس کے نیچے آگئیں.تو نماز باجماعت پڑھنا ہر ایک مسلمان پر بہت بڑا فرض اور ایک اہم ذمہ داری ہے.جو اس سے جی چراتا ہے خواہ زید و کبر کی لڑائی سے یاکسی اور وجہ سے.وہ قطعاً اس قابل نہیں ہے کہ مومن احمدی کہلا سکے.کیونکہ وہ خدا کا مجرم ہے.اور میرے نزدیک اس سے بڑھکر دنیا میں کوئی بیوقوف اور کم عقل نہیں ہو سکتا.جو انسان سے لڑکر خدا سے لڑائی شروع کر دے.قاعدہ تو یہ ہے کہ جب کسی سے لڑائی ہو.تو دوسروں کی ہمدردی حاصل کی جاتی ہے.دیکھو گورنمنٹ برطانیہ کی جب جرمنی سے لڑائی شروع ہوئی تو با وجود اس کے کہ بہت بڑی حکومت ہے چھوٹی چھوٹی سلطنتوں کو بھی اپنے ساتھ لانے کی کوشش کرتی رہی ہے.تو چونکہ لڑائی کے وقت انسان زیادہ دوستوں اور مدد گاروں کا حاجتمند ہوتا ہے اس لیے اگر کسی کی کسی سے لڑائی ہو تو اس کو ضرورت ہے.کہ اپنے زیادہ دوست بنائے.اور خدا سے بڑھکر اور کون دوست ہو سکتا ہے.پس اس وقت جبکہ لڑائی نہ تھی.امن تھا.اگر خدا کو دوست بنانے کی کوشش کی جاتی تھی.تو اب جبکہ ڈر ہے کہ دوسرے سے نقصان اُٹھاتے.بہت زیادہ ضرورت ہے کہ خدا کو اپنا دوست اور مددگار بناتے.اور یہ وقت ہے کہ وہ اس سے صلح کرے.نہ کہ لڑائی ، لیکن جو کسی سے لڑائی ہونے کی وجہ سے نماز کو ترک کر دیتا ہے اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ کسی کے گھر جب ڈاکہ پڑے توہ لوگوں کو
YYA مدد کے لیے بلانے کی بجائے انہیں پتھر مارنا شروع کر دے اس کا نتیجہ کیا ہوگا یہی کہ ڈاکو باہر سے اس پر حملہ آور ہوں گے اور ہمسائے اندر سے اس کو نقصان پہنچائیں گے پس جو شخص کسی سے لڑائی کی وجہ سے نماز با جماعت پڑھنا چھوڑتا ہے.وہ یقینی طور پر اپنی تباہی کا موجب بنتا ہے.ایک نادان کا لطیفہ مشہور ہے.مگر میرے نزدیک نماز چھوڑنے والا اس سے بھی زیادہ نادان اور بیوقوف ہے.کہتے ہیں کیسی سے کوئی شخص برتن مانگ کرے گیا تھا کچھ دن تک جو اس نے اپس نہ دیا تو ایک دن وہ خود لینے گیا.اور جا کر دیکھا کہ وہ اس کے برتن میں سالن ڈال کر کھا رہا ہے.یہ دیکھ کر کہنے لگا کہ تو نے میرے برتن میں سالن ڈال کر کھایا ہے.میں تیرے برتن میں پاخانہ ڈالکر کھاؤنگا.تو یہ سزا دینے کا عجیب طریق ہے کہ چونکہ فلاں سے میری لڑائی ہے.اس لیے میں نے نماز باجماعت پڑھنا چھوڑ دی ہے.جو شخص اس طرح کرتا ہے.اس نے اپنے دشمن کو اپنے اوپر خود غالب کرلیا کیونکہ اس کے دشمن نے ایک تو اسے اپنے پاس سے دور کر دیا اور دوسرے خدا سے بھی دور کر دیا پس اس طرح اُس نے اپنے دشمن کو نیچا نہیں دکھایا بلکہ اس کا درجہ اونچا کر دیا ہے.اس کو نقصان نہیں پہنچایا ، بلکہ خود نقصان اُٹھایا ہے.یہ سمت جہالت اور نادانی ہے.اس طرح اُس نے اپنے دشمن کو نیچا نہیں دکھایا بلکہ خود نقصان اُٹھایا ہے.یہ سخت جہالت اور نادانی ہے.کیونکہ کسی سے دشمنی کی وجہ سے نماز چھوڑنے کا ہرگز حکم ہیں.نماز باجماعت ادا کرنے کا خدا کا حکم ہے محمد صلی الہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ہے.اور اس شریعت کا حکم ہے جس کے بعد کوئی نئی شریعت نہیں آئے گی.اور اس شریعت کا حکم ہے جس کا ایک شعشہ بھی بدل نہیں سکتا.ہیں یہ مت سمجھو کہ احمدی کہلانے سے خدا کے حکموں کو توڑنے کی اجازت ہو گئی ہے.بلکہ پہلے کی نسبت بہت زیادہ فرض ہو گیا.کہ ہر ایک حکم پر پورے طور پر عمل کرو.اس لیے عقل اور دانائی سے کام لو.اور خدا کے حکموں کو مت توڑو کیونکہ اب تم نے حضرت مسیح موعود علی الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پردین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کیا ہے، اور شریعیت کو اچھی طرح سمجھا ہے.اب اگر اس کے خلاف کرو گے.تو دوسروں کی نسبت خدا کے غضب کے زیادہ مستوجب بنو گے.خدا تعالیٰ تمہیں توفیق دے کہ شریعت کے تمام احکام کی تم قدر کرو.اور ان پرعمل پیرا ہو.آمین.الفضل ۲۹ جولائی شواه)
۲۶۹ 50 دینی کاموں میں دوام کی ضرورت ~1919 د فرموده ۱۸ جولائی شانه حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.انسان اپنے آرام اور اپنی راحت کے لیے بہت کچھ کوشش کرتا ہے.اور بڑی بڑی شکلوں اور سختیوں سے گذرتا ہے.ایسے شخص کو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ نادان ہے.کیونکہ آرام حاصل کرنے کے لیے تکلیف اُٹھاتا اور مشکلات برداشت کرتا ہے.تکلیف اور آرام تو ایک دوسرے کی خند ہیں.آرام تکلیف نہیں بن سکتا.اور تکلیف آرام نہیں ہوسکتی، لیکن پھر بھی کوئی نہیں کہ سکتا کہ فلاں آدمی کیسا نادان ہے.کہتا ہے آرام حاصل کرنے کے لیے تکلیف اُٹھا رہا ہوں.مثلاً علم حاصل کرنے والا رانوں کو جاگتا.اور اپنا آرام قربان کرکے علم پڑھتا ہے.اس سے اگر پوچھو کہ توکیوں تکلیف اٹھاتا ہے تو وہ کے گا.آرام حاصل کرنے کے لیے.اس موقع پر ان لوگوں کو جانے دو، جو علم علم کے لیے حاصل کرتے میں کیونکہ ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں.آجکل اکثر و ہی ہوتے ہیں، جو آرام اور دولت حاصل کرنے کے لیے علم پڑھتے ہیں.تو ایک ایسا شخص جو عزت - دولت - وسعت اور آرام کے لیے پڑھنے کی تکلیف برداشت کرتا ہے.اسے کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ تم سکھ حاصل کرنے کے لیے دُکھ میں کیوں پڑتے ہو.وہ آئندہ ملنے والے سکھ کے لیے فوری دُکھ میں پڑتا ہے کیوں ؟ اس لیے کہ یہ دکھ عارضی ہے.اور وہ سکھ اس کی ساری زندگی تک چلا جائیں گا.جس طرح دنیا وی سکھ حاصل کرنے کے لیے انسان کو تکالیف میں پڑنا پڑتا ہے.اس طرح دین کے معاملہ میں بھی بہت سی تکالیف سے گذرنا پڑتا ہے اور میرے خیال میں تو ایک رنگ میں جہنم سے گذرنا پڑتا ہے.دینداروں کے لیے تو پہلے ہی قرآن نے یہ فتویٰ دیدیا ہوا ہے کہ دنیا میں ان کے ایمانوں کی آزمائش کی جائے گی.اور ان کے اقوال کو جانچا جا ئیگا.اور انکے دعووں کو اس طرح پر کھا جائیگا جس طرح لوہے کو آگ میں ڈال کر پر کھا جاتا ہے.اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ادھر کوئی ایمان لائے اور ادھر اسے آرام و آسائی حاصل ہو جاتے ادھر اسلام قبول کرے.
اور ادھر اسے دنیا کی آسائش حاصل ہو جاتے.اس میں شک نہیں کہ اگر کوئی سچے دل سے ایمان لاتے.تو اسے قلبی راحت اور سکھ مل جاتا ہے، مگر دنیا وی نہیں ملتا.چنانچہ قرآن کریم کہتا ہے : أَحَسِبَ النَّاسُ أن يترَكُوا إِن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لا يفتنون (العنکبوت (۳) کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ صرف اتنا کہ دینے سے انھیں چھوڑ دیا جائیگا کہ ہم ایمان لاتے.حالانکہ ان کی آزمائش نہیں کی جائیگی.ان میں سے کھرے اور کھوٹے کو علیحدہ نہیں کیا جائیگا.مضبوط اور گڑوں کو جدا نہیں کیا جائے گا.یہ نہیں ہو سکتا اس طرح نہ کبھی پہلے ہوا ہے اور نہ اب ہوگا.یہ تو قران کریم کا فتوئی ہے.پھر ہم عملاً دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں نے سچا دین قبول کیا.انکے لیے فوراً ہی آرام اور سکھ کا رات نہیں کھولاگیا.بلکہ پلے پل توہی ہوا کہ جوکچھ ان کے پاس تھا.وہ بھی انہیں دینا پڑا.اگر کچے گھروں والے تھے.تو دین قبول کرنے کے بعد بجائے اس کے کہ ان کے محل بن جاتے.وہ گھر بھی انہیں چھوڑنے پڑے.اگر قوموں میں معزز تھے.تو دین قبول کرنے کے بعد بجاتے اس کے کہ بادشاہ اور حکمران بن جاتے انہیں پہلی عزتیں بھی چھوڑنی پڑیں اور ذلیل سمجھے گئے.اگر مالدار تھے.تو دین قبول کرنے کے بعد بجائے اس کے کہ ان کا مال ہوگیا.چوگنا ہیں گنا اور ہزار گنا ہو جاتا.اس کو بھی ترک کرنا پڑا.اگر لوگوں سے تعلقات تھے.تو دین قبول کرنے کے بعد بجاتے اس کے کہ ان کے تعلقات وسیع ہو جاتے.وہ بھی کٹ گئے.غرض جو راحت آرام عزت - دولت طاقت اور رسوخ انہیں حاصل تھا.وہ بھی جاتا رہا اور بجائے فوراً سنکھ ملنے کے بظاہر انہیں دکھ ملا.یہی حال رسول کریم صلی الہ علیہ و آلہ وسلم کے وقت ہوا.یہی حال حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت ہوا.حضرت موسیٰ کے وقت تو بیاں تک حالت پہنچ گئی کہ ان لوگوں نے گرا کر کہدیا.موسیٰ تمہارے آنے سے ہمیں نقصان ہی پہنچا ہے.تو تو کہا تھا کہ تمہیں کنعان کی زمین ملے گی تم بادشاہ بنائے جاؤ سے گئے.ابراہیم کو جو وعدے دیئے گئے تھے.وہ تم سے پورے کئے جائیں گے.تم ابراہیم اور یعقوب کے وارث بنو گے لیکن ہم تو تیری وجہ سے اپنے باپ دادا کی درداشت سے بھی جاتے رہے.پہلے سے زیادہ مشقت برداشت کر رہے ہیں.تو چونکہ حضرت موسیٰ کو قبول کرنے پر فوراً ان کے دُکھ بڑھ گئے.اس لیے وہ اس مسئلہ کو جانتے تھے کہ محبوب کی خاطر تکلیف اُٹھانے سے ہی انعام ملتا ہے.انہوں نے تو پیش آنے والی مشکلات کو صبر اور استقلال سے برداشت کیا.لیکن جو اس نکتہ سے ناواقف تھے.انہوں نے خیال کیا کہ موسیٰ کا آنا ہمارے لیے تکلیف اور مصیبت کا باعث ہوا.ایسا ہی حضرت ابراہیم اور حضرت عیسی کے وقت ہوا.اور چونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ہماری سنت ہے.اس لیے ہم خیال نہیں کر سکتے کہ کسی نبی کے وقت بھی اس کے خلاف ہوا ہو ، بلکہ
اسی طرح ہوتا رہا ہے کہ ابتداء میں نبیوں اور ماموروں کے ماننے والے دُکھوں اور تکلیفوں میں ڈالے گئے اور اس کے بعد انہیں کامیابی حاصل ہوئی.یہ توان ابتلاؤں کی بات ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے مگر ان کے علاوہ اور بھی ابتلا ہیں.جو بندہ خدا کے حکم کے ماتحت خود اپنے اوپر وارد کرتا ہے شیلی نماز - روزه - زکوۃ - حج - صدقہ - اخلاق فاضلہ اور دیگر تمدن و معاشرت کے متعلق احکام کی پابندی.یہ بھی ایک قسم کے ابتداء ہی ہوتے ہیں.کیونکہ انسان فطرتا آرام کی خواہش کرتا ہے، لیکن ان باتوں کے لیے اُسے کچھ نہ کچھ محنت اور تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے.احسبَ النَّاسُ والی آیت میں جن ابتلاؤں کا ذکر ہے.وہ تو کچھ مدت کے لیے ہوتے ہیں.چنانچہ بعد اتعالیٰ نے اسی آیت میں بتا دیا ہے کہ اسی وقت تک ہوتے ہیں.جب تک انسان کا تجربہ اور آزمائش نہ ہوئے.جب ہو جاتے تو پھر ان سے آزاد کر دیا جاتا ہے.مال و دولت حکومتیں اور بادشاہتیں.رشتہ دار اور تعلق دار سب مل جاتے ہیں.اور پہلے سے بہت زیادہ مل جاتے ہیں.مگر یہ ابتلا.جو انسان خود اپنے نفس پر وارد کرتا ہے.یہ ہمیشہ اس کے ساتھ جاتے ہیں.اور اس وقت تک کہ روح جسم سے نکل نہیں جاتی ساتھ ہی رہتے ہیں، لیکن ان کی وجہ سے کوئی نہیں کہ سکتا کہ علم کے حاصل کرنے کیلئے رات کو پڑھنے والا دکھ اور تکلیف میں پڑا ہوا ہے کیونکہ پڑھنے کی تکلیف اُٹھانے کا زمانہ اس زمانہ کے مقابلہ میں تھوڑا ہوتا ہے جس میں علم سے آرام حاصل کیا جاتا ہے.اسی طرح وہ زندگی جس میں آرام پانے کی خاطر انسان بنے او پر استلام وارد کرتا ہے.چونکہ دنیا کی زندگی کے مقابلہ میں بہت بڑی ہوتی ہے اس لیے اس کے لیے کوئی محنت برداشت کرنا اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالنا نہیں ہوتا.پھر جس طرح علم حاصل کرنے والے کو کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ وہ بیوقوف ہے.آرام کرنے کی بجائے راتوں کو جاگتا اور محنت کرتا ہے.اسی طرح یہ نہیں کہا جاسکتا کہ خدا کے فضل اور رحمت کو ڈھونڈھنے والا نادان ہے کہ کسی قسم کے ابتلا.اپنے اوپر ڈال لیتا ہے.کیونکہ جو نسبت علم حاصل کرنے کے زمانہ کو آرام اور فائدہ حاصل کرنے کے زمانہ سے ہے.اس سے بہت زیادہ اس زمانہ کو جو انسان اس دنیا میں گزارتا ہے.اس زندگی سے ہے جو آئندہ ملنے والی ہے.کیا بلحاظ عزت اور رتبہ اور فائدہ کے اور کیا بلحاظ عرصہ اور مدت کے وہ زندگی اس قدر بڑھی ہوتی ہے کہ دنیا کی زندگی اس کا کچھ مقابلہ ہی نہیں کر سکتی.پس نادان ہے وہ شخص جو یہ کہے کہ آئندہ کی زندگی حاصل کرنے کے لیے کون ان ابتلاؤں میں پڑے اور مصیبت اُٹھاتے کسی نے کیا ہے - دردسر کے واسطے صندل لگانا ہے مفید اُس کا گھسنا اور لگانا درد سر یہ بھی تو ہے a
۲۷۲ لیکن یہ نادانی کی بات ہے.بیشک گھسنا دردسر ہے مگر جس دردسر کے لیے صندل کا لگانا مفید ہے اس کے لیے اگر گھنے اور لگانے کا درد برداشت نہ کیا گیا تو وہ بہت بڑھ جائیگا.اور پھر بہت تکلیف کا موجب ہو گا.اسی طرح بے شک علم پڑھنا تکلیف کا باعث ہوتا ہے، لیکن نہ پڑھنا ساری زندگی کی تکلیف کا موجب بنتا ہے.تو اس میں شک نہیں کہ نماز روزہ - زکواۃ - حج اور دوسرے دین کے احکام پر عمل کر کے پورا مسلمان بنا مشکل ہے.کیونکہ بہت دفعہ عزت مال اور رشتہ دار راستہ میں روگ بن جاتے ہیں.بہت دفعہ خیالی غیرت روک بن جاتی ہے.اور بہت دفعہ نفسانی خیالات اور خواہشات روک بن جاتی ہیں.مگر باوجود اس کے پورا مسلمان بننے سے ثمرات ملتے ہیں.وہ چونکہ بہت بڑے ہیں.اس لیے کوئی عقلمند یہ نہیں کہ سکتا کہ دینی احکام کو بجالانے کی تکلیف برداشت نہیں ہوسکتی لیکن چونکہ دنیا میں دس پندرہ سال محنت کر کے علم حاصل کرنے کے بعد فائدہ حاصل کیا جاتا ہے.اور مذہب کے متعلق جیسا کہ میں نے بتایا ہے جب تک جان میں جان ہو.اس وقت بتایا.تک محنت اٹھانا پڑتی ہے.اس لیے بہت لوگ اس محنت کو برداشت کرنے سے گھبرا جاتے ہیں.ابھی جو بہت بڑی جنگ ختم ہوئی ہے.اس میں جو طاقتیں لڑرہی تھیں.انہوں نے اپنے نوجوانوں کو اس لڑائی کی بھٹی میں پھینک دیا.اپنے بوڑھے تجربہ کار لوگوں کو اس میں ڈال دیا.اپنے ملک کی پیدا واروں.صنعت و حرفت تجارت اور زراعت غرض جو کچھ کسی کے پاس تھا.اسی کو اس آگ میں ڈالدیا گیا.اور کسی چیز کی قربانی کرنے سے دریغ نہ کیا گیا.مگر ان لڑنے والی طاقتوں میں سے ہر ایک کا یہی قول ہوتا تھا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں لڑائی ختم ہو جائیگی اور زیادہ سے زیادہ سات سال کا اندازہ لگایا جاتا تھا تو چونکہ ان کے سامنے تھوڑا عرصہ تھا جس میں انہیں محنت کرنا تھی اس لیے سخت سے سخت محنت بھی انہوں نے برداشت کی.تاکہ اس تھوڑے عرصہ کی محنت کا فائدہ بہت دیر تک اُٹھا سکیں.ان ممالک کے بڑے بڑے آدمی جب نوجوانوں کو خدمت کے لیے بلاتے تو کہتے کہ یہ چند روزہ بات ہے.پھر آرام حاصل ہو جائے گا.اس سے ان کے جوش بڑھتے اور وہ پورے زور سے کام کرتے ہیں لیکن جن لوگوں کو اسلام کی خدمت کے لیے بلایا جاتا ہے ان کو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ چند دن کے بعد تمہارا کام ختم ہو جائے گا.اگر یہ کہا جائے تو یہ ایکٹ ھو کہ اور فریب ہے.کیونکہ دین کے کام موت کی گھڑی تک چلتے ہیں.پس جو شخص تمہیں یہ کہے کہ دین کی خدمت چند سال تک کرنی پڑے گی اور پھر اس سے آزادی حاصل ہو جائیگی.وہ جھوٹ کہتا ہے یہ بوجھ ہے یا جو کچھ.یہ موت تک کھیلتے ہے.اگر نماز کچھ سال پڑھنے کے بعد معاف ہو سکتی ہے.اگر روزے
کچھ مدت کے بعد معاف ہو سکتے ہیں.اگر زکواۃ کچھ عرصہ کے بعد معاف ہوسکتی ہے.اگر حج معاف ہو سکتا ہے تو دین کے دوسرے احکام بھی معاف ہو سکتے ہیں لیکن اگر یہ احکام جو انسان ہی کے فائدہ کے لیے ہیں.موت تک ساتھ چلتے ہیں تو پھر کوئی بھی دینی حکم ایسا نہیں.جو جُدا ہوتا ہو.بے شک بعض احکام ایسے ہیں جن کی حد بندی کر دی گئی ہے.مثلاً حج ہے جس پر فرض ہو.اگر ایک دفعہ کرے تو پھر اس پر فرض نہیں رہتا.مگر یہ معین کر دیا گیا ہے کہ حج ایک ہی دفعہ کرنا فرض ہے اور جو معین نہیں یعنی نفل کے طور پر جج ہوتا ہے.وہ ساری عمر کیا جاتا ہے تو وہ احکام جن کی کوئی حد بندی نہیں کی گئی.بلکہ غیر معین ہیں وہ کسی طرح بھی جیتے جی ہٹ نہیں سکتے.اس لیے میں اپنی جماعت کے لوگوں کو ایک خاص نصیحت کرتا ہوں کہ جب وہ دین کی خدمت کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو یا درکھیں کہ ایک دن کے لیے نہیں.دو دن کے لیے نہیں بلکہ ساری عمر کے لیے کھڑے ہوتے ہیں ، مگر افسوس بہت لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم چند دن کے لیے کھڑے ہوتے ہیں.اس کے لیے اپنی تاریخ کو دیکھو.مثلاً اخباروں کے فائل ہیں.ان سے معلوم ہو سکتا ہے کہ شاہ اور شاہ میں دو تین آدمی بڑے زور کے ساتھ لکھنے والے ہوں گے ، لیکن اس کے بعد ان کا کوئی پتہ نہیں چلے گا.اور پھر اور نکل آئیں گئے.مگر وہ بھی ایک آدھ سال کے بعد غائب ہو جائینگے.غائب ہونے والے مر نہیں جانتے.زندہ ہوتے ہیں.مگر عملی زندگی سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور ان کے جوش جاتے ہیں.اسی طرح اور کاموں میں نظر آتا ہے.چندوں میں بھی یہی حال ہے.آج سے جوشخص زیادہ چندہ دیتے تھے.ان میں کمی آگئی.مگر اور پیدا ہو گئے.جو زور سے دینے لگ گئے یہ علامت ہے اس بات کی کہ انہوں نے سمجھا نہیں کہ دین کی خدمت تمام زندگی میں کرنا ہوتی ہے.بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کچھ مدت جو ہم نے کام کیا ہے.تو اب ہمارے آرام کا وقت آگیا ہے.در اصل نوں نے اپنے کام کرنے کے وقت کا اندازہ غلط لگایا ہے.اور اس غلطی کی وجہ سے انہیں ٹھوکر لگتی ہے دیکھو جس طرح ایک طالب علم جس کے لیے چھ گھنٹہ روزانہ سکول میں پڑھنا ضروری ہے وہ اگر دو گھنٹہ کے بعد سکول سے چلا آئے.تو مرا پائے گا.اسی طرح دین کی خدمت کے لیے بھی ایک وقت مقرر ہے.جو شخص اس سے پہلے ہاتھ پر ہاتھ رکھکر بیٹھ جاتا ہے وہ غلطی کرتا اور سخت نقصان اُٹھاتا ہے.اس کی مثال ایسی ہی ہے.جیسے ایک شخص دریا میں کود کر پار جانے کے لیے تیرتا جاتا ہے، مگر جب کنارے کے قریب پہنچ جاتا ہے.تو بجائے اس کے کہ آگے بڑھے وہیں آرام کرنے کے لیے ٹھہر جاتا ہے.بہت ممکن ہے کہ وہیں مگر مجھ ہو اور اسے کھا لے یا پانی بہا
۲۷۴ کرلے جاتے.اس کے لیے یہی ضروری ہے کہ کنارے پر جا کر آرام کرے.اسی طرح وہ شخص جو دین کی خدمت کرتا ہے وہ اگر وقت سے پہلے بیٹھ جاتا ہے.تو یقینا اپنے آپ کو تباہ کر لیتا ہے ہیں جو لوگ دینی کام کرنے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ اس کام کے لیے دیا میں کوئی عرصہ مقرر نہیں کہ کچھ مدت خدمت کرنے پر وہ چھوڑ سکیں.دنیا میں کسی وقت بھی دینی کام کو چھوڑنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی آدھا کام کر کے چھوڑ دے.اور بعینہ اس عورت کی مثال ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے کہ خود سوت کا تئی اور پھر خود ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی.خُدا تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ خدا کے لیے جو خدمت کریں وہ اس کے کرنے میں دوام اور قیام کی طاقت دے اور اس سے ہٹ جانے اور اس کو چھوڑ دینے سے بچائے.آمین : الفضل ۲ اگست شاه
۲۷۵ 51 فرمانیبزاری اختیار کرو فرموده ۲۵ جولائی شاشه تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ :.بعض صوفیا کا قول ہے کہ جو شخص اپنے نفس کو پہچان لیتا ہے وہ اسی ذریعہ سے خدا تعالیٰ کو پہچان لیتا ہے اور تصوف میں اس قول کو اتنا دخل ہے کہ تصوف کے ارکان میں سے ایک رکن ہے.بعضوں نے غلطی سے اس کلمہ حکمت کے معنے یہ کہتے ہیں کہ ہم خدا ہیں.ہمہ اوستی کا مذہب اپنی معنوں اور اسی خیال سے نکلا ہے.مگر یہ نادانی ہے.اس سے یہ مذہب نہیں نکلتا ہے.بلکہ اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ بندے اور جگرا میں کیا فرق ہے جس نے اپنے نفس کو دیکھا.اور اپنی امتیا جوں اور کمزوریوں کو پہنچانا اس نے تکبر کو چھوڑ دیا.اور اپنے خدا کی طرف مجھک گیا اور جو لوگ اپنے نفس سے ناواقف ہیں.ان کی یہ نا واقفیت ہی ان کو تکبر و خود پسندی کی طرف لے جاتی ہے.جب انسان غور کریگا.تو اس کو معلوم ہو گا کہ اس کے نفس کو کتنی احتیا میں لگی ہوتی ہیں.اورکتنی اونی ادنی چیزوں کا محتاج ہے.یورپ نے تکبر کیا.مگر نتیجہ یہ ہوا کہ دھوبی سٹرا تیک کرتے ہیں ، نائی سٹرا تیک کرتے ہیں.اور بڑے بڑے امرا تک ان کے آگے ہاتھ جوڑتے ہیں کہ جو کہو وہ ہم مانتے ہیں.کوٹلہ ڈالنے والے اور کو مکہ کھودنے والے مسٹرائیک کرتے ہیں اور حکومت والے ان کی خوشامد کرتے ہیں کہ آپ جو کہتے ہیں ہم وہی مانتے ہیں.اس ذریعہ سے خدا نے یورپ کو بتایا ہے کہ انسان ہزاروں چیزوں کا محتاج ہے.اور ان کا محتاج ہے جن کو وہ ادنی کہتا ہے.یہ نیا عقیدہ نہیں.یہ نیا فلسفہ نہیں.جیسا کہ آج کل کے نادان تعلیم یافتہ یا جاہل تعلیم یافتہ خیال کرتے ہیں، بلکہ یہ ایک عذاب ہے جو خدا نے بھیجا ہے که ان لوگوں کا جو متکبر ہیں تکبیر ٹوٹ جاتے.جو لوگ موجودہ سڑا نیکیوں کو ایک فلسفہ کہتے ہیں.یا اقتصادیات کا ایک جز و قرار دیتے ہیں سخت غلطی کرتے ہیں.چند عرصہ میں نہ یہ فساد ہونگے نہ یہ ٹرائیں ہونگی.بعض عذاب کے طور پر ہیں.وه
جس طرح پہلے عذاب نہیں رہے اسی طرح یہ غذا بھی دنیا کو لاکر چلا جائیگا.اس میں تو خدا نے یہ بتایا ہے کہ انسان کسقدر محتاج ہے، لیکن بعض لوگ اپنی نادانی اور جہالت سے اس کا نام فلسفہ رکھتے ہیں.اور اس کے نتیجہ میں خود پسندی اختیار کرتے ہیں اور اس کا نام نبا علم رکھ کر تکبر کرتے ہیں.اور اپنے آپ کو بڑا بتاتے ہیں اور دوسرے کی فرمانبرداری کو ہتک خیال کرتے ہیں.یہ ان کی نادانی اور جہالت ہے.ایسانہیں یاد رکھو کہ اتباع اچھی بات کی کی جاتی ہے.عذابوں کی اتباع نہیں کی جاتی.لوگوں میں عادت ہے کر بعض لوگ اگر ایک خاص قسم کا کوٹ یا قمیض یا پاجامہ پہنیں تو ور لوگ بھی اسی طرح کے کپڑے پہنے اور بھی اس لگیں گے ، لیکن تم نے یہ نہیں دیکھا ہوگا کہ کہیں مہینہ پڑا ہو.اور لوگ اس خیال سے مرنے لگیں کہ ہیضہ میں مرنا بھی ایک فیشن ہے.پاجامہ پہننے لگتے ہیں کہ ایک فیشن ہے، لیکن جن دنوں طاعون پھوٹا ہو ایسا نہیں کرتے کہ طاعون کے کیڑے لے کر کھا جاتیں اور مر جائیں.ایم.اسے اور بی.اسے ہوتے ہیں لیکن انظر انزا میں مرنا شروع نہیں کرتے کہ ہماری اولاد اس کا فخر کرے گی کہ ہمارے بڑے انفلوائنزا میں مرے تھے ان کو کیوں نہیں فیشن کی طرح اختیار کرتے.اس لیے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ انفلوائنزا ایک عذاب ہے.جس طرح به امراض ایک جسمانی عذاب ہیں.اسی طرح تکیر ایک روحانی عذاب ہے.لوگ جسمانی عذاب کی نقل نہیں کرتے ، روحانی کی کرتے ہیں.جو لوگ تکبر کرتے ہیں.ان کی ایسی ہی مثال ہے.جیسا کہ چیتا اپنی زبان کو کسی گھردری چیز پر گئے اور اس میں سے خون نکلے اور وہ اس کو چائے اور خیال کرے کہ کیا مزا آتا ہے.اگر چہ اب وہ مزا لیتا ہے ، لیکن در حقیقت وہ اپنی زبان کھا رہا ہے.کچھ مدت تو مزا آتے گا اور نتیجہ اس کی موت ہو گی.میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اچھی باتوں کو اخذ کریں.جو باتیں دین کے اور اخلاق فاضلہ کے خلاف ہوں.ان کو چھوڑ دو.خود پسندی کو چھوڑ دو.اطاعت اسلام کے ماتحت عزت کی چیز ہے.اس پر قدم مارو.اور تکبر ایک ایسی بلا ہے جو تمہیں خطر ناک گڑھوں میں گرا دیگی.جس میں اطاعت نہیں وہ سلم نہیں.جوسلم نہیں وہ مومن نہیں جو مومن نہیں وہ کافر ہے.خواہ وہ امری الفضل در اگست ۱۹۱۹ته ) ہی کہلاتا ہوتا
۲۷۷ 52 H طالب علموں کو نصیحت مدرسہ سے چھٹی ھے مین کے کاموں سے چھٹی نہیں د فرموده یکم اگست شاه i حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.بوجہ اس کے کہ میرے حلق میں کئی دن سے کچھ تکلیف ہے.آج میرا ارادہ خود خطبہ پڑھنے کا نہ تھا ، مگر اس خیال سے کہ اب چھٹیاں ہونے والی ہیں.اور طالب علم اپنے گھروں کو جائیں گے.اور نکہ آجکل میں بیماری کی وجہ سے درس بھی نہیں دیتا ، پہلے درس میں ہی بچوں کو نصیحت کر دیا کرتا تھا.اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ خطبہ میں ہی کچھ نصیحت کر دوں.معلوم نہیں پچھلے جمعہ یا پچھلے سے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں میں نے یہ بیان کیا تھا کہ کام آرام کے لیے کیا جاتا ہے.جب کام کیا جاتا ہے.تو حق ہوتا ہے کہ آرام کیا جاوے.اس کے ساتھ کام اور آرام کا مقابلہ کرنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ آیا تھوڑے کام کے بعد آرام زیادہ ملتا ہے یا زیادہ کام کے بعد آرام کم - اگر تھوڑے کام کے بعد آرام زیادہ ملتا ہے.تویہ کام مفید ہو گا.اور اگر زیادہ کام کے بعد آرام کم ملے تو وہ کام غیر مفید کیونکہ کام وہی مفید ہوتا ہے جس میں کم محنت کے بعد آرام زیادہ ملے.طالب علم جو بیاں پڑھنے آتے ہیں، یا جو اپنی اپنی جگہ پڑھتے ہیں.ان کو بہت کچھ محنت کرنی پڑتی ہے.اور اگر غور کیا جاوے تو واقعہ میں جو محنت طالب علم کرتے ہیں.وہ میرے نزدیک بڑے آدمیوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے.اور یہ ان کی عمر ہی ہوتی ہے جو ان کو اس سخت محنت کے قابل بناتی ہے.ورنہ اتنا سرکھپانا ان لوگوں سے جو محنت کر چکے ہیں.مشکل ہے.میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح ایک طالب علم تمام دن "د" "ب" رہتا ہے.جوان آدمی اس قدر محنت نہیں کر سکتا.اور اگر میں
اس طرح کروں.تومیں اس کے بعد ایک مہینہ تک بات بھی نہ کر سکوں.تو ایک طالب علم سارا دن اور رات کا بہت ساحصہ جتنا بولتا ہے.بڑا آدمی اتنا نہیں بولتا.اور پھر جب امتحان کے دن قریب ہوتے ہیں تو اس محنت میں اور بھی زیادتی ہو جاتی ہے.یہ محنت جو طالب علم کرتا ہے اس سے جسمانی طاقت پیدا نہیں ہوتی.بلکہ جسمانی طاقت میں کمی آجاتی ہے.مختیں دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک دماغی اور ایک جسمانی.دماغی منتیں وہ ہوتی ہیں جن سے جسم میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے، لیکن جسمانی محنتیں وہ ہوتی ہیں جن سے جسم میں کمزوری پیدا نہیں ہوتی طالب علم کی محنت ایک ایسی محنت ہوتی ہے جس سے اس کے اعضاء میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے لیکن زمیندار جو محنت کرتا ہے.ہل چلاتا ہے.اس کے باعث وہ کمزور نہیں ہوتا.بلکہ اس کی طاقت میں ترقی ہوتی ہے اگر طالب علم کی محنت جسم پر خلاف اثر ڈالتی ہے.مثلاً حافظہ کے لیے منہ سے بولنا ضروری ہے.آنکھوں سے دیکھتا.کانوں سے سنتا ہے جن لوگوں نے قوت حافظہ پر غور کیا ہے.اور اس کی تحقیقات کی ہے.ان کا بیان ہے کہ اس طرح چونکہ تین قوتیں کام کرتی ہیں.اس لیے جو کچھ یاد کرنا ہوتا ہے.وہ بہت جلد یاد ہو جاتا ہے.بچے اس قاعدہ کو خوب استعمال کرتے ہیں.یہ ایک سخت محنت ہوتی ہے.مگر ایسی محنت نہیں جس سے طاقت پیدا ہوتی ہو.بلکہ اس سے کمزوری پیدا ہوتی ہے.اور کمزوری کو دور کرنے کے لیے کچھ عرصہ کے لیے بچوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے.اس وقفہ کو ہماری زبان میں چھٹیاں کہتے ہیں.ان چھٹیوں سے غرض یہ ہوتی ہے کہ اس عرصہ میں آرام کر کے بچے پھر محنت کرنے کے لیے تیار ہو جائیں.جو طالب علم ان چھٹیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں.وہ آئندہ محنت کے برداشت کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں، لیکن ایسا بھی نہیں ہونا چاہیتے کران ایام میں پڑھائی کو بالکل چھوڑ ہی دیا جائے کیونکہ بالکل چھوڑ دینا جو کچھ پڑھا ہو اس کو بھلا دینے کا با باعث ہوتا ہے.اس لیے ضروری ہے کہ صبح یا شام ایک آدھ گھنٹہ پڑھنے میں لگایا جائے اور باقی وقت آرام کیا جاوے تا کہ دماغ مضبوط ہو جاتے.اور وہ کمی جو سال بھر کی محنت سے پیدا ہوگئی ہو.دور ہو جاتے.اور پھر زیادہ سے زیادہ محنت کر سکے.پس چھٹیاں ایک اہم چیز ہیں.اور دنیا کی کسی قوم نے خواہ وہ متمدن ہو یا غیر تمدن - ابتدائی حال میں ہو یا انتہائی میں چھٹیوں کی ضرورت سے انکار نہیں کیا.پس یہ ایک ضروری امر ہے جس کے بغیر گزارہ نہیں رہی تعلیم ہے.جو بچے مدرسوں میں استادوں سے اور دوسرے ہمدرد نصیحت کر نیوالوں سے سنتے ہونگے
مگر یہ ایک یاد رکھنے والی بات ہے کہ چھٹیاں جو کئی قسم کی ہوتی ہیں.ایک ہی وقت نہیں ہوتیں.بلکہ اور بھی چھٹیاں ہوتی ہیں.مثلاً ایک ایسا انسان جو تمام دن کام کاج میں مصروف رہتا ہے.اسے رات کو سونے کے لیے چھٹی ملتی ہے تاکہ چلنے پھرنے اور کام کرنے سے اپنے اعضاء کو فارغ کر دے.پھر تم تمام دن منہ کو کھانے پینے سے بند رکھتے ہو.اور جیسا کہ مختلف قوموں میں رواج ہے.ایک یا دو یا تین یا چار وقت تھوڑی دیر کے لیے منہ کو چھٹی دیتے ہیں کہ کھاتے پیتے.پھر ایک وقت تم مجلسوں میں خاص آداب اور قواعد کے ماتحت بیٹھتے ہو، لیکن وہاں سے رخصت حاصل کر کے اپنے گھر میں جس طرح چاہتے ہو.آرام کرتے ہو.یہ سب چھٹیاں ہیں، لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے.ساری چھٹیاں ایک ہی وقت نہیں شروع ہو سکتیں.مثلاً یہ نہیں ہو گا کہ جب مدرسہ سے چھٹی ہو.تو تم فوراً کیٹ جاؤ.اور مدرسہ سے جسقدر فارغ ہو.اس میں سوتے ہی رہ ہو.بلکہ جب سونے کا وقت ہوگا.جبھی سو گئے.یا مثلاً تم کہو کہ مدرسہ نے جو چھٹی ہوئی تو آؤ اس چھٹی کے سارے وقت میں کھانا ہی کھاتے رہیں.یہ غلطی ہوگی کیونکہ یہ رخصت سونے اور کھانے کے لیے نہ تھی ان کے لیے ایک اور وقت ہوگا یا مثلاً تم خیال کرو کہ مدرسہ سے چھٹی ہوئی.تو آداب مجلس سے بھی چھٹی ہو گئی.اگر ایسا خیال کرو گے تو غلطی کرو گے.کیونکہ ہر ایک چھٹی کے لیے ایک علیحدہ وقت ہے.اور تمام چھٹیاں ایک وقت میں شروع نہیں ہوئیں.یہ چھٹی جو مدرسہ سے ہوتی ہے.اس کی محض یہ غرض ہوتی ہے.کہ وہ جو تم مدرسہ میں جاتے تھے اور استاد آکر تمہیں پڑھاتے تھے اور اس کے علاوہ ایک اور بڑے وقت میں بھی تمہیں پڑھنا پڑتا تھا.اور اس طرح تیرہ چودہ گھنٹے تک تم پڑھا کرتے تھے.اس سے تمہیں فارغ کیا جائے.اور اب اُستاد تمہیں پڑھنے کے لیے مجبور نہیں کرینگے.اگر گھنٹی بجے تو بے شک مدرسہ میں نہ جاؤ اور کہو کر چھٹیاں ہیں، لیکن اس چھٹی کے یہ معنے نہیں کہ دنیا کے تمام کاموں سے تمہیں چھٹی ہو گئی.پھر دُنیا میں دُنیا کے کاموں سے تو کسی نہکسی وقت چھٹی مل سکتی ہے.مگر دین کے کاموں سے دنیا میں چھٹی مل ہی نہیں سکتی.یہی دیکھ لور سکول میں باقاعدہ حاضر ہو کر پڑھنے اور محنت کرنے سے تمہیں چھٹی مل گئی.مگر تمہارے ہیڈ ماسٹر نے تمہیں نماز اور دوسرے دین کے احکام بجا لانے سے چھٹی نہیں دی.اور اگر کوئی ایسا ہیڈ ماسٹر ہو.جو کسی دینی کام میں چھٹی دے.تو وہ تمہارا ہمدرد نہیں بلکہ دشمن ہے.تمہیں نہ کوئی نماز اور دیگر دین کے احکام کی پابندی سے چھٹی دے سکتا ہے.اور نہ کسی کے اختیار کی یہ بات ہے.ہیڈ ماسٹر یا انجمین جس کو بھی ایک خاص اتھارٹی حاصل ہے وہ رخصت دیتی ہے.مگر صرف اسی کام میں جو ان کا ہے.ان فرائض کے سوا وہ دینی احکام کے
متعلق کچھ بھی نہیں کہ سکتے.کیونکہ ہر ایک کام الگ الگ طریق پر چلتا ہے.مثلاً قانون قدرت ہے کہ انسان کو نیند آئے، لیکن جب نیند سے چھٹی ملتی ہے.تو پھر کوئی ہیڈ ماسٹر سلا نہیں سکتا.وہ قانون جو خُدا نے بنایا ہے.اس کے خلاف تمام ہیڈ ماسٹر نہیں سلا سکتے.کوئی انجمن سلا سکتی.ہاں قانون قدرت ہی ہی سکلا سکتا ہے.اسی طرح اور چھٹیاں ہیں.ہر ایک مدرسہ کے لیے جدا جدا ہیڈ ماسٹر ہیں.پس تمہیں چٹھی مدرسہ احمدیہ یاتعلیم الاسلام ہائی سکول میں جو پڑھائی ہوتی ہے.اس سے ملتی ہے لیکن اسلام جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مدرسہ ہے.اس کے احکام سے چھٹی نہیں ملتی.اس مدرسہ کے بانی محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ ولم ہیں اور اس میں نئے سرے سے اصلاح کرنے والے اور ان سقموں کو دور کرنے والے جو مدرسین کے ذریعہ پیدا ہو گئے.اور اس کے طالب علموں میں جو نقائص آگئے تھے حضرت مسیح موعود ہیں.مگر یہ کالج جو ہے یہ کسی انجمن کے سپرد نہیں.اس کے پہلے پر نسپل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن آپ کو بھی اس کے قواعد بنانے میں کوئی اختیار نہیں.کیونکہ یہ وہ یونیورسٹی ہے.جس کے تمام اصول و قواعد و احکام خدا کی طرف سے آتے ہیں.پس اس کالج کے پرنسل کو بھی یہ اتھارٹی حاصل نہیں کہ وہ اس کے اصول و قواعد میں تغیر کر سکے.کیونکہ اس کے اصول و قواعد تمام خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.فروعی باتوں میں ان خلاقی اصول کے ماتحت خدا کے رسول کچھ کر سکتے ہیں.مگر اصول میں نہیں.پس ان احکام میں نہ آنحضرت صلی الہ علیہ وآلہ وسلم جوکہ پہلے پرنسپل تھے کچھ تغیر کر سکتے تھے مسیح موعود کو یہ کرسکتے اختیار تھا کہ وہ ان احکام کو بدل سکیں.اور بالآخر اسلامی شریعت کے انتظام کے ماتحت خلیفہ کی بھی ایک بڑی پوزیشن ہوتی ہے.اس کو بھی اس کا اختیار نہیں کہ وہ کچھ کمی بیشی کرسکے اور ایک انچ ان احکام سے ادھر ادھر ہو جائے.بلکہ جس طرح تم پابند ہو شریعیت کے ہر ایک چھوٹے سے چھوٹے حکم کے اسی طرح خلیفہ بھی پابند ہے.اس کو جو درجہ حاصل ہے.وہ محض یہ ہے کہ ان احکام پر لوگوں کو چلائے.اسے یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ بدل دے.یہ ورثہ اس کو اعلیٰ حکام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود سے ملا ہے یہیں اس مدرسہ کے قانون اور رنگ رکھتے ہیں.تمہیں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ چھٹیاں مدرسہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول سے ہیں.اسلام کے مدرسہ سے چھٹی نہیں ہوئی.اور نہ کوئی دے سکتا ہے ان چھٹیوں میں اجازت ہے کہ تم اپنے سبھوں کو چھوڑ دو مگر یہ نہیں کہ نمازوں کو بھی چھوڑ دو.یہ اجازت ہے کہ اپنے اوقات کو کھیل کود میں صرف کرد.مگر یہ اجازت نہیں کہ بداخلاقی اور آوارگی اختیار کرو.اور پھر یہ بھی اجازت ہے کہ اگر کوئی گھنٹی بجے.تو تم مدرسہ میں نہ جاؤں، لیکن یہ نہیں کہ مسجدوں میں گھنٹی رازان مراد ہے، مرتب ہو تو نہ جاؤ.
FAI یہ کام جاری رہیں گے.ان میں بھی ایک رخصت ہوتی ہے.مثلاً ظہر کے بعد عصر تک کے وقفہ مں چھٹی ہے.عصر سے مغرب تک.مغرب سے عشاء تک اور عشاء سے صبح تک.اور اس کا یہ دور ایک دو مینہ یا سال دو سال کے بعد پر نہیں ہو جاتا، بلک جب تک تم بھی شہر کا دور اور کر کے خدا کے حضور جاؤ گے.تب وہ رخصت تمہیں مل جائیگی.اور پھر وہ رخصت ایسی ہوگی جو بھی منقطع نہ ہوگی.اس محنت کے بعد تمہیں آرام ملے گا.یہ چھٹیاں جو ہوتی ہیں.ان میں کوئی شخص ذمہ داری نہیں لے سکتا کہ م بیمار نہ ہو گے یا تھا کوئی تعزیز قریب بیمار نہ ہوگا، لیکن اس یونیورسٹی کا مالک یعنی خدا ذمہ لیتا ہے کہ وہ جو چھٹیاں دیگا.ان میں تم آرام ہی آرام پاؤ گے.اور تمہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے گی.پس اس بات کو یاد رکھو که مدرسه حدید اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کی چھٹیاں اور اس اسلام کے مدرسہ کی چھٹیاں دونوں مختلف ہیں.اور مختلف اوقات میں آتی ہیں.تمہیں جو چھٹی ہوگی.وہ ان مدارس سے ہوگی ، لیکن اس سے نہیں ہے کہ اخلاقی تعلیم کو فراموش کرد.شریعت کے احکام کو بھلا دو.والدین کی فرمانبرداری چھوڑ دور زبان اور ہا تھ اور جسم کو بدی سے نہ روکو.گتا ہے کہ بعض لڑکے چھٹیوں میں نمازیں چھوڑ دیتے ہیں اور آوارہ ہو جاتے ہیں.انکو سوچنا نے کہ چھٹیاں تو ہوتی ہیں مگر کسی مدرسہ میں.اسلام کے مدرسہ سے ایسی انہیں چھٹی نہیں ملی.انکی چھٹی کا وقت تو موت کے وقت آتا ہے.یہ چھٹیاں تو ایسی ہیں کہ انکے بعد زیادہ پڑھنا پڑ گیا اوران چھٹیوں میں بھی دو ایک گھنٹہ محنت کرنی پڑیگی مگران چھٹیوں کے بعد تمہارے لیے کوئی محنت ومشقت نہیں ہوئی.آرام ہی آرام ہوگا پچران چھٹیوں میں ذمہ داری نہیں لی جاتی کہ تم ضرور آرام ہی کرو گے.مگر خدا کے ہاں سے ذمہ داری لی جاتی ہے کہ تم ضرور آرام ہی پاؤ گے.پس میں طالب علموں اور مدرسوں کو نصیحت کرتا ہوں کیونکہ بعض مدرس بھی گھروں میں جاکر شکست ہو جاتے ہیں.باہر جا کر تم با دو کہ قادیان میں رہ کر تعلیم دین نے تم میں کیا تغیر پیدا کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دے.آمین : ( الفضل ۱۲ اگست شته )
53 ایک دوسرے کے حسن بنو د فرموده در اگست 11 حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ پڑھ کر فرمایا :- بہت سے جھگڑوں اور اختلافوں کی وجہ میں دیکھتا ہوں.شریعت کے احکام کی نا واقعی اور جہالت ہوتی ہے، بلکہ مسلمانوں کے تو تمام جھگڑے بلا استثناء اسی کے باعث ہوتے ہیں.اگران امور کو مد نظر رکھا جائے جن کی نگہداشت اور جن کو مد نظر رکھنا شریعت نے ضروری قرار دیا ہے.تو سلمانوں میں کوئی اختلاف ند رہے.تمام جھگڑے اور تنازعات جو مسلمانوں میں پیدا ہوتے ہیں.ان کے دُور کرنے کے متعلق کلی طور پر ایک ہی علاج نہیں بتایا جا سکتا.کیونکہ ہزاروں احکام ہیں جن کو لوگ توڑتے ہیں لیکن ایک بات ہے اگر اس کو مد نظر رکھا جائے تو بہت سے فساد مٹ سکتے ہیں.چونکہ میں قدر تنازعے ہوتے ہیں وہ سب کسی نہ کسی حکم کی خلاف ورزی کے باعث ہوتے ہیں.اس لیے وہ ایک خاص حکم کی خلاف ورزی کو ان سب کی وجہ قرار نہیں دیا جاسکتا.مگر ایک اصل ہے کہ اگر اس کو مد نظر رکھا جائے تو تمام اختلافات ایک دم میں طے ہو جائیں.۹۱ وہ اصل کیا ہے.وہ یہ حکم ہے کہ ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ اپنے آپ کو محسن بنانے کی بخش کرے.چنانچہ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدُلِ وَالْإِحْسَانِ وِ ابْنَانِي فِى القُرني (النحل : کہ اللہ تعالی تمہیں عدل اور پھر احسن کا حکم دیتا ہے.پس احسان کرنا ایک حکم ہے جو ہر ایک مسلم کو دیا گیا ہے.اگر ہر ایک مسلمان یہ سمجھ لے کہ مجھے محسن بننا ہے تو تمام جھگڑے بہت آسانی کے ساتھ طے ہو سکتے ہیں.کیونکہ سب کے سب جھگڑے اور فساد اسی حکم کے نہ سمجھنے کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں.اکثر لوگ چونکہ اس حکم کو اپنے لیے بھلا دیتے اور نظر انداز کر دیتے ہیں اور خیال کرلیتے ہیں کہ یہ دوسروں کے متعلق ہے.خود ان کے متعلق نہیں.اس لیے جھگڑے ہوتے ہیں.اگر تمام کے تمام لوگ اس کو
" یاد رکھیں میں نیں سمجھ سکا کہ پر کوئی جھگڑا ہوا پس شریعت نے تام جھگڑوں کے مٹانے کا گر بتادیا.اوروہ یہ کر تم محسن بننے کی کوشش کرتے رہو.اور احسان فراموش نہ بنو احسان فراموش نہ بننے سے میری یہ مراد نہیں کہ کسی کے احسان کو بھلا نہ دو.بلکہ یہ ہے کہ احسان کرنا نہ بھول جاؤ کیونکہ عموما تنازعے اسی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں مثلاً ایک شخص کہتا ہے.میں نے فلاں سے زیادہ چیز مانگی تھی مگر اس نے میرا کچھ لحاظ نہ کیا.حالانکہ میں اس کا بھائی تھا.کیا ہوتا اگر وہ مجھ پر احسان کرنے کیلئے تھوڑی سی قربانی کر دیتا.حالانکہ یہ کہنے والے کو سوچنا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ نے احسان کرنے کا جو حکم دیا ہے.اس کا بجالانا صرف دوسرے کے لیے ہی نہیں.بلکہ خود اس کے لیے بھی ہے.وہ خود کیوں اس پر عمل نہیں کرتا.اور کیوں بجائے زیادہ چیز مانگنے کے دینے والے پر احسان کرتا ہوا کہ نہیں لے لیتا.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اس حکم پر عمل کرنا دوسرے کے لیے فرض سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو اس سے آزاد قرار دیتا ہے.اس سے تنازع پیدا ہو جاتا ہے.پس ہمیشہ جب آپس میں اختلاف ہوتا ہے تو اس کی وجہ تلاش کرنے سے یہی معلوم ہوتی ہے کہ ایکدوسرے کے متعلق کہتا ہے کہ اس نے یوں کیوں نہ کر دیا.ایک بیمار ہوتا ہے اور ڈاکٹر کے پاس آدھی رات کے وقت جاتا ہے.اگر ڈاکٹر اس وقت اسے نہ ملے تو وہ شکایت کرتا ہے کہ کیوں رات کے وقت ڈاکٹر نے اسے دوائی نہ دی.اور اگر دوائی دے.تو کہتا ہے.مفت دوا نہیں دے دی.مگر ہم کہتے ہیں کہ احسان کا حکم تو اس کو بھی تھا.اُس نے کیوں رات کو ڈاکٹر کو تکلیف دینے کی بجائے تھوڑی دیر صبر سے کام نہ لیا اور تکلیف کو برداشت کرکے صبح کا انتظار نہ گیا.پھر کیوں اس نے چار آنے کی بجائے آٹھ آنے نہیں دیدیئے.اگر ڈاکٹر کسی مجبوری کی وجہ سے رات کو مل نہ سکا.تو وہ تو مطعون ہو جاتے.اور یہ جس نے اپنے متعلق خدا کے حکم کو بے قدری سے دیکھا کیوں الزام کے نیچے نہ آئے.پھر ایک شخص تاجر کے پاس جاتا ہے اور اس سے کسی مال میں رعایت مانگتا ہے.اگر وہ نہ دے.تو کہتا ہے.دیکھو جی وہ میرا ہم مذہب تھا.اس نے مجھ سے بھی کچھ رعایت نہ کی.پھر قرض لیا ہو تو اس کے مطالبہ پر کہتا ہے.میں اس سے فلاں چیز ادھار لایا تھا.اس کے دام ایک مہینہ تک تو اس نے نہیں مانگے ، لیکن دوسرے مہینہ پیچھے ہی پڑ گیا.ہم کیا کھا جاتے ، آخر دے ہی دیتے.یہ کیوں کہتا ہے.اس لیے کہ وہ چاہتا ہے کہ دوکاندار اس پر احسان کرتا.مگر وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اس کو خود بھی تو احسان کا حکم تھا.اس نے کیوں نہیں دو مہینہ پہلے ہی تاجر کو روپے دے دیتے تھے کہ وہ اپنے کام میں صرف کر لیا.اور جب اس کو ضرورت ہوتی اس سے مال خرید لیتا.اگر تم ایسا نہیں کرتے تو اگر دوکاندار سودا دے کر ایک ذرا بھی دام لینے میں خاموشی اختیار کرتا ہے.تو وہ تم پر احسان کرتا ہے.اور تمہارا محسن ہے.کیونکہ اگر وہ اسی وقت قیمت
دو وہ مانگتا.جبکہ اس نے مال تمہارے حوالہ کیا.تو اس کا حق تھا.پس اگر ایک شخص قرض دے کر ایک دن دن یا ہفتہ خاموش رہتا ہے.اور پھر مطالبہ کرتا ہے تو اس نے کوئی بدسلو کی نہیں کی.بلکہ جس قدر کر سکتا تھا.اس نے احسان کیا ہے.اور احسان کرنا اسی کا کام نہیں.بلکہ تمہارا بھی ہے کہ میں طرح اس سے مال لے کر روپیہ بعد میں دینا چاہتے ہو.اسی طرح اسے بھی پیشگی روپیہ دید یا کرو پس اگر کوئی دوکاندار مال دے کر ایک مہینہ تک کچھ نہیں طلب کرتا تو اس نے احسان کا معاملہ کیا ہے مگر خریدنے والے نے اس کے ساتھ بھائیوں والا معامر نہیں کیا کہ جب اس سے مطالبہ کیا گیا.تو جھگڑ نے لگ گیا.اگر یہ بھی بھائیوں والا معاملہ کرتا تو کوئی جھگڑا اور فساد نہ ہوتا اور یہ کوئی وجہ نہیں کہ ایک شخص اپنا حق طلب کرے تو دوسرا اس سے لڑنے بیٹھ جاتے.دیکھو اگر ایک فقیر کچھ مانگے.اور کچھ دینے پر وہ زیادہ لینے کے لیے اصرار کرے تو دینے والا کہتا ہے بھئی تمہارا کچھ حق تو نہ تھا.جتنا مجھے دینا تھا.دیدیا.ایسے موقع پر تو یہ بات یاد آجاتی ہے کہ کسی حق کی بنا پر ہی رعایت کا مطالبہ ہوسکتا ہے، لیکن تاجر کے مطالبہ پر اور حق بجانب مطالبہ پر کہا جاتا ہے کہ اس نے مجھے اور زیادہ رعایت کیوں نہ دی.اور احسان نہ کیا.اس وقت یاد نہیں رہتا کہ میرا تاجر پر کیا حق ہے کہ رعایت اور احسان چاہتا ہوں.تو یہ مجیب پڑاتی ہوتی ہے.قرآن نے اس قسم کی لڑائیوں سے بچنے کا یہ اصل بتا دیا ہے کہ تم محسن بنور پس ایک شخص جو دوسرے سے اس لیے لڑنے بیٹھتا ہے کہ اس نے مجھے پر کیوں احسان نہیں کیا.وہ خود اس پر احسان نہیں کرتا.وہ اس لیے ناراض ہوتا ہے کہ دوکاندار نے اس کو زیادہ چیز کیوں نہیں دی.ہم کہتے ہیں کہ اس نے دوکاندار سے کم کیوں نہ لے لی.کہا جاتا ہے.دیکھو جی فلاں دوکاندار کیسا کورا آدمی ہے کہ ایک روپیہ کی دال یا چاول لیے تھے.ایک دانہ زیادہ نہ ڈالا ہم کتنے ہیں لینے والے نے کچھ کم کیوں نہ لے لی.اگر سیر کا بھاؤ تھا تو پونا سیر کیوں نہ لے لیا.اسی طرح کپڑا خریدنے جاتے ہیں اور خواہش کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ دو انگشت زیادہ پھاڑنا.مگر نہیں کہتے کہ گزر سے کچھ کم کر دیا.غرض جتنے جھگڑوں کو میں نے دیکھا ہے چھ سال سے ذمہ واری کے طور پر اور اس سے پہلے ایک ساتھی اور بھائی کے طور پر ان میں نانوے فی صدی جھگڑوں کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ فلاں نے ہم پر احسان کیوں نہ کیا اور ایک دوسرے سے احسان کا خواہاں ہوتا ہے خود محسن بنا نہیں چاہتا.پھر سب سے بڑی طوطا چشمی تو یہ ہے کہ شریعت کے حکم کا دوسرے سے مطالبہ کیا جائے اور
۲۸۵ دوسرے سے چاہا جائے کہ وہ اس پر احسان کرے مگر خود اس پر احسان نہ کیا جائے.دراصل اپنے لیے احسان کا مطالبہ کرنا یہ احسان نہیں بلکہ ڈاکہ ہے کیونکہ اپنے نفس کے لیے خود مطالبہ کرنا احسان نہیں ہوتا.ہاں تیرا شخص کہ سکتا ہے کہ احسان کرو، یہ نہیں کہ خود ایک انسان کسے کہ مجھ پر احسان کرد.تو لینے والے کا حق نہیں کہ وہ احسان کا مطالبہ کرے، بلکہ مومن کے لیے تو یہ حکم ہے کہ وہ دوسرے پر احسان کرے.دوسرے سے اپنے لیے احسان کا مطالبہ کرنا تو سوال ہے، اور مومن کے لیے سوال کرنا ممنوع ہے.صحابہ کرام کی شان اسی قسم کے واقعات سے معلوم ہوتی ہے کہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا.اور اس نے آپ سے سوال کیا.آپ نے پورا کر دیا پھر آیا اور سوال کیا پھر آپ نے پورا کر دیا.اسی طرح کئی دفعہ ہوا.آخر آپ نے فرمایا، کیا میں تمہیں وہ چیز دوں.جو تمہیں دین و دنیا میں غنی کر دے.اور وہ یہ ہے کہ آئندہ کے لیے سوال کرنا چھوڑو دو.اس نے عرض کیا کہ حضور نہیں اب کبھی سوال نہیں کروں گا.ایک جنگ کے موقع پر یہی صحابی گھوڑے پر سوار تھے کہ ان کے ہاتھ سے کوڑا گر گیا.ایک دوسرے شخص نے چاہا کہ اُٹھا کر کپڑا دے.مگر انہوں نے اس کو قسم دی کہ نہ پکڑا نا کیونکہ میں رسول اللہصلی الہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر اقرار کر چکا ہوں کہ کبھی سوال نہ کروں گا.چنانچہ وہ خود گھوڑے سے اُترے اور کوڑا اٹھا کر پھر سوار ہو گئے لیے اگر چہ یہ سوال نہ تھا.مگر چونکہ اس میں بھی ایک صورت سوال پیدا ہو جاتی تھی.اس لیے اس سے بھی اجتناب کیا.پس جو شخص معامل میں زیادہ چاہتا ہے وہ سوال کرتا ہے عورتوں کو دکھا جاتا کہ کوئی عورت سودا لاتے تو خرید نے والیاں ضرور زیادہ مانگتی ہیں.اور کچھ نہ کچھ لے ہی لیتی ہیں خواہ ایک گندل ہو یا ایک گاجر ہی ہو.اگر ایسا نہ کریں.تو گویا ان کا شوق پورا نہیں ہوتا.اسی طرح اور معاملات میں ہوتا ہے.کپڑا لینے والا ایک گرہ زیادہ کا طالب ہو کر ممنون احسان بنا چاہتا ہے لیکن کم لے کر محسن بننا نہیں چاہتا.پس کل اختلاف کی بنا ہے اور وہ شریعت کی ہتک ہے.ایسا کرتا ہے جو خود کہتا ہے کہ مجھ پر احسان کرو.حالانکہ یہ اس کاحق نہیں قاضی کا ہے کہ وہ کسے تم فلاں پھر احسان کرو.اسی طرح جھگڑوں کو طوالت ہوتی ہے.اگر ہر ایک فریق یہ کوشش کرے کہ وہ خود حسن بنے تو کوئی جھگڑا نہ ہو.اور پھر ایک تیسرا شخص دونوں کو احسان کا مشورہ دے.جو خود طالب احسان ہوتا ہے وہ بڑا کرتا ہے.اگر اس طرح ہو کہ لوگ خود نہ کہیں بلکہ دوسرا کیسے تو اول تو اختلاف که بخاری ومسلم بروایت مشکواة کتاب الزكوة باب من لا تحل له المسألة ومن تحل له
۲۸۶ ہی نہ ہوں اور اگر ہوں تو منٹوں میں فیصلہ ہو جاتے.پس میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَ إِيْنَا ذِى القرني - اللہ تعالئے احسان کرنے کا حکم دیتا ہے.تم محن بنو.اور جب تم محسن بنو گے تو تمہارے جھگڑے دُور ہو جائینگے اور اگر ہونگے تو پھر میں جوں اور قاضیوں اور امیروں کے پاس جانے کی ضرورت ہی نہ رہے گی.خود ہی فیصلے ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اپنے فرائض کے سمجھنے کی توفیق دے.اور آپ میں الیسا اتفاق واتحاد پیدا کرے جس کی نظیر دنیا کی اور قوموں میں تو کیا اللہ تعالیٰ کی پہلی مقبول قوموں میں پائی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے.آمین -1919 ) الفضل ۲۳ اگست ۱۹۱۹ته )
ند 54 حاصل شدہ انعامات کو قائم رکھو د فرموده ۲۲ اگست ۱۹۱۹ حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- عزتوں اور کامیابیوں کا حاصل کرنا ایک مشکل امر ہے.لوگ بڑی دقتوں اور تکلیفوں کے بعد کسی قسم کی کامیابی اور عزت حاصل کرتے ہیں، لیکن عزت اور کامیابی کا قائم رکھنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے.کامیاب اور عزت یاب ہونا تو مشکل ہے ہی، لیکن کامیاب اور عزت یافتہ رہنا اس سے بھی بڑھکر مشکل ہے.تمام دنیا کے بڑے بڑے لوگ جو کسی زمانہ میں گذرے ہیں.یا اس وقت موجود ہیں.تمام دنیا کی قومیں جو گزری ہیں یا اس وقت موجود ہیں.ان کی تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دس فیصدی بھی ایسے انسان نہیں ہوئے.جنھوں نے عزت کو حاصل کیا ہو.اور پھر اس کو ہمیشہ قائم رکھا ہو.بڑی بڑی جانکاہ ہوں کے بعد کوئی درجہ حاصل کیا، لیکن جب کسی درجہ اور مقام پر پہنچے تو تنزل شروع ہو گیا.یہی قوموں کا حال ہوا ہے.اور یہی افراد کا.سوائے ان لوگوں کے جو خدا کی پناہ میں ہوتے ہیں.دیکھو خدا کے ہزار ہا ہی گزرے ہیں.لوگ کہتے ہیں کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء گزرے ہیں ،اگرچہ یہ کوئی مستند بات نہیں، تاہم ان میں سے سینکڑوں ہیں.جن کی تاریخ محفوظ ہے.ان کو جو کامیابی ہوئی وہ بھی ناکامی سے نہ بدلی.اسی طرح اور بزرگ اور اولیاء الہ جو کھڑے ہوتے ہیں.ان میں سے بھی کسی کی مثال نہیں ملتی جس کی عزت اور رتبہ میں کسی قسم کی کمی آئی ہو.لیکن اس کی مثال موجود ہے کہ امتداد زمانہ کی وجہ سے انبیاء کی قائم کردہ جماعتوں میں بھی تنزل شروع ہو گیا ہے.اوروں کو جانے دو مسلمانوں کو ہی دیکھ لو ان کی جماعت بندی رسول کریم صلی اللہ علہ وسلم نے کی تھی، لیکن ترقی کی طرف چلتے چلتے آخر یہ جماعت تنزل کی طرف چل پڑی، حتی کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا.جبکہ اس امت کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہونگے لیے مشكورة كتاب العلم في فضيلة الفصل الثالث
۲۸۸ اور اس وقت ایسی حالت کو پہنچ جائیں گے کہ یہود کے مشابہ ہو جائیں گے یے اور ان کے قدم بقدم چلیں گے.یوڈ" اگر چہ انبیا ء کی اولاد ہیں.اور ایک وقت میں یہ لفظ معزز تھا.مگر اپنے اعمال کی وجہ سے یہ لوگ ایسے گر گئے کہ آج کوئی مسلمان یہودی کہلانا پسند نہیں کرتا، لیکن رسول کریم نے فرمایا کہ ایک وقت میں مسلمانوں کی حالت بھی بالکل ان ہی کے مشابہ ہو جائیگی اور کوئی بدی اور بدکاری نہ ہو گی جو سیود نے کی ہو اور مسلمان اس سے بچ جائیں.آج دیکھ لو.کیا مسلمانوں کی یہ حالت نہیں ہے وہ مسلمان جو روحانیت کا مجسم نشان سمجھے جاتے تھے.روحانیت سے بالکل خالی ہیں.پہلے لوگ سوچ سمجھ کر ہر عمل کرتے تھے لیکن ان کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک دیکھتے جاؤ.بندروں کی طرح نقل کرتے نظر آئینگے نماز پڑھتے.روزے رکھتے ہیں مگر ان کی حقیقت سے غافل ہیں.حج کرتے ہیں ، لیکن ان کا حج میلے سے کم نہیں ہوتا.” میں نے حج کے دنوں میں ہندوستانی حاجیوں کو خود دیکھا ہے کہ وہ ان اوراد کی بجاتے جن کا پڑھنا ضروری ہے عشقیہ اشعار پڑھتے چلے جا رہے تھے.پھر عرفات میں کہ جہاں دُعا مانگنے کا نام ہی حج ہے.وہاں میں نے دیکھا کہ لوگ پھل اور مٹھائیاں کھانے میں مشغول تھے.زیادہ سے زیادہ یہ کرتے تھے کہ جب خطیب کھڑا ہوتا تو کپڑا ہلا دیتے.پھر طواف کرتے وقت خود مجھ سے ایک واقعہ ہوا.طواف کرتے ہوئے حجر اسود کو بوسہ دینا آسان نہیں ہوتا.کیونکہ بہت ہجوم ہوتا ہے.میں بڑی دقت سے حجر اسود تک پہنچا.اتنے میں پیچھے سے آواز آئی "حریم حریم " جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عورتیں آتی ہیں.راستہ کر دو.یہ عام قاعدہ ہے کہ عورتیں چونکہ کمزور ہوتی ہیں.اس لیے ان کے لیے جگہ خالی کرنا ہر شخص کا اخلاقی فرض ہوتا ہے.میں پیچھے ہٹ گیا.اس پر ہٹے کٹے چھ چھ فٹ کے نوجوان حجر اسود کو بوسہ دے کر ہنستے ہنستے گزر گئے.ان کے ہنسنے کا یہ مطلب تھا کہ دیکھا ہم نے کیسی چالا کی اور آسانی سے حجر اسود کے بوسہ دینے کے لیے جگہ نکلوالی.یہ ایک مبارک کام انہوں نے جھوٹ کے ذریعہ کیا، پھر قاعدہ ہے کہ حجر اسود کے دونوں طرف سپاہی کھڑے رہتے ہیں.کیونکہ جب لوگ حجر اسود کو بوسہ دیتے ہیں.تو چور روپیہ وغیرہ کاٹ لیتے ہیں.جب یہ حال ایک نہایت متبرک جگہ اور متبرک کام کرتے ہوئے ہے تو دوسری باتوں کا اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے.غرض دنیا میں جو کسی قوم نے شرارت کی ہے وہ ان میں پائی جاتی ہے.له مشكوة كتاب الانذار والتحذير باب تغير الناس
۲۸۹ اب بھی مسیح موعود نے جو جماعت قائم کی ہے.اس کو خدا نے نمونہ بنایا.اور اپنے زندہ نشانوں کے ذریعہ اس پر اپنے جلال کا اظہار کیا ہے.اور لوگوں نے مسیح موعود کو دیکھ کر خدا کو دیکھا ہے.کیونکہ مسیح موعود مظهر آیات تھے.اور پھر وہی دیکھا ہے جو موسیٰ کے وقت موسیٰ کی قوم نے دیکھا.اور میسج کے وقت مسیح کے صحابہ نے.غرض آدم سے لیکر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے نبی آئے.اور ان کے ذریعہ جو کچھ ظاہر ہوا.وہ سب کچھ دکھایا گیا.اور اس ذریعہ سے خدا پر کامل ایمان پیدا کیا اور یہ خدا کا خاص فضل ہے.جو مسیح موعود کے ذریعہ آیا.کیونکہ مسیح موعود کی بعثت بھی خدا کے فضل کے ہی ماتحت ہوتی.لیکن آپ لوگوں نے مسیح موعود کو قبول کیا.اس میں آپ کو بہت تکلیفیں بھی برداشت کرنی پڑیں.کیونکہ فضلوں کے جاذب عمل ہوتے ہیں بعض تم میں سے قتل کئے گئے اور بہتوں کو جائیدادوں سے علیحدہ کیا گیا.اور اکثروں پر کتنی قسم کے مظالم کئے گئے.غرض آپ لوگوں نے ان سب دکھوں کو برداشت کیا.اور اس فضل کو قبول کیا.جوسیح موعود کی صورت میں نازل ہوا.اتنی دقتوں کے بعد یہ چیز آپ کو حاصل ہوئی ، لیکن اس کا قائم رکھنا بھی مشکل ہے.کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے.عزت اور مرتبہ کا حاصل کرنا مشکل ہونے کے باوجود ر آسان ہے.یہ نسبت اس کے کہ حاصل کردہ رتبہ کو قائم رکھا جائے.دیکھو حضرت مسیح کی اُمت گمراہ ہوئی.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تیار کردہ جماعت میں خرابی پیدا ہوئی.اور حضرت مسیح موعود کے ذریعہ جو جماعت تیار ہوتی ہے.اس پر بھی یہ دن آتا ہے.اس وقت ان کی اصلاح کے لیے خواه مسیح موعود کے خادموں سے ہی کوئی مصلح پیدا ہو.اور قبل اس کے کہ وہ گھڑی کھڑی ہو جیسے قیامت کہتے ہیں.ضرورت کے وقت ضرور ایسا ہی ہو گا.جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے خود فرمایا ہے کہ آپ کے ہی غلاموں سے مصلح پیدا ہو گا.پس کوئی جماعت نہیں.جس نے حاصل کردہ کامیابی اور عزت کو قائم رکھا ہو.یہ بیچ ہے کہ نبی کریم کے ذریعہ جو جماعت تیار ہوئی اس نے اپنی عزت کو قائم رکھا.اور خود ضائع نہیں کیا.پھر وہ لوگ جو صحابہ کی محبت اُٹھانے والے تھے.انہوں نے بھی بہت حد تک اس کامیابی اور عزت کو قائم رکھا.اور پھر وہ لوگ جنھوں نے ان کی صحبت اُٹھائی.وہ بھی بہت حد تک اچھے رہے ، لیکن ان کے بعد ناخلف پیدا ہوئے.اور انہوں نے اس کامیابی اور عزت اور فضل کو کھونا شروع کر دیا.کیونکہ وہ نبی سے فاصلہ پر جا پڑے تھے.یہ قدرتی تھا.جو ان کیلئے پیش آیا، لیکن اگر کوئی جماعت خود حاصل کرے.اور خود ہی کھو دے تو اس پر بہت ہی افسوس
۲۹۰ اس لیے میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ خدا نے جو سیح موعود کے ذریعہ آپ لوگوں کو رتبہ اور درجہ دیا ہے.ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کی کمزوریوں اور خرابیوں کی وجہ سے چھین لیا جاوے.اور جس طرح کہ پہلی قوموں کو ان کی شرارتوں کے باعث متروک بنایا گیا.اسی طرح آپ کو بھی متروک بنا دیا جائے پس اپنی اصلاح کی طرف خاص طور پر توجہ کرو.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو توفیق دے کہ وہ کرشبہ جو آپ کو حاصل ہوا ہے.وہ آپ کی آئیندہ نسلوں میں باقی رہنے اور آپ اس کو اپنی نسلوں کے لیے اور وہ آئندہ اور وہ اس سے آگے آنے والوں کے لیے چھوڑ جائیں.آمیرے : د الفضل ۳۰ اگست ۱۹۱۹
55 حسد کے مرض سے بچو 1919 د فرموده ۲۹ اگست ۱۹۱۹ه حضور نے تشہد و تعوذ ، سورۃ فاتحہ اور سورۃ الفلق کی تلاوت کے بعد فرمایا :- سورہ فلق میں ان تمام اشیاء سے اللہ تعالیٰ نے پناہ مانگنے کی دعا سکھاتی ہے.جو انسان کے لیے ضرر رساں ہوتی ہیں.فلق کے معنے ہوتے ہیں.مخلوق کے.اور یوں تو قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِنْ شر ما خلق میں تمام ہی مخلوق کی بدیوں سے بچنے کی دعا سکھائی گئی ہے.مگر باوجود اس کے جس جس رنگ میں کوئی دُکھ پہنچ سکتا ہے.اس سے بھی بچنے کی اللہ تعالیٰ نے دعا سکھاتی ہے.پھر سب دُکھ دینے والی چیزوں سے دو کو علیحدہ کر لیا ہے اور وہ دوچیزیں شَرِ النَّفْتُتِ اور شرِّ حَاسِدٍ إذَا حَسَدَ ہیں.بیشک شَرِ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ کو بھی علیحدہ کیا ہے.اور اس میں بھی بہت وسیع مضمون ہے اور وہ ہر قسم کی تکلیف پرمشتمل ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اسلام سے یہ دونوں باتیں خاص تعلق اور وابستگی رکھتی ہیں.اسی لیے ان دونوں کو علیحدہ کر کے دُعا میں شامل کیا ہے.آج میں ان دونوں امروں میں سے ایک کے متعلق اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں جسد گو ایک عربی کا لفظ ہے.مگر ہماری زبان میں بھی کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے اور ہندوستان کا بچہ بچہ جو ارد و یا پنجابی زبان رکھتا ہے جسد کو خوب جانتا ہے.اور ایسا شخص جس پر حسد کرنے کا شبہ بھی ہو.اس کی مذمت کی جاتی ہے.مگر باوجود اس کے کہ یہ لفظ ہماری زبان میں مستعمل ہے.اور لوگ اس کو خوب سمجھتے ہیں.اور باوجود اس بیماری کی شدت کو جاننے کے اور با وجود اس کے کہ اس سے نفرت کرتے ہیں.پھر بھی عمداً اس میں لوگ مبتلا ہوتے ہیں.اور باوجود حسد کو اس لحاظ سے جاننے کے کہ حسدگی موٹی تعریف ان کو معلوم ہوتی ہے.اور باوجود اس علم کے کہ حسد بُری چیز ہے.اور نفرت کے طور پر جس کو گالی دینی ہو اسے حاسد کہتے ہیں.پھر بھی اپنے آپ کو اس سے نہیں بچاتے.اس کی وجہ یہ ہے کہ حسد کی جو حقیقی تعریف ہے.اس سے لوگ ناواقف ہیں.
۲۹۲ حسد کے منے لوگ یہ سجھتے ہیں کہ ایک ایسا شخص جس کے پاس مال ہو.اس کی نسبت دوسر کی خواہش ہو.کہ اس سے مال چھن جاتے اور اسے مل جائے بیشک یہ حسد ہے، لیکن یہی حسد نہیں ہے.بلکہ جس طرح شیطان نے اور بدلیوں کو مختلف رنگ دیتے ہوتے ہیں.اسی طرح حسد کو بھی کئی رنگوں میں پیش کرتا ہے.شیطان کی عادت ہے.اس جگہ شیطان سے میری مراد ابلیس نہیں.بلکہ شیطانی ارادوں والے آدمی اور وسواس ڈالنے والے لوگ ہیں کہ وہ بدی کو نیکی کے رنگ میں دکھایا کرتا ہے.اس ذریعہ سے وہ بہت بڑے بڑے فساد ڈالتا ہے بہت لوگ ہیں کہ اگر کوئی ان کو بدی کے ذریعہ بدی پر لگاتے.تو نہیں لگیں گے لیکن اگر یکی کی صورت میں بدی پیش کی جائے تو وہ اس پر کاربند ہو جائیں گے.مثلاً ایک شخص کو کہا جائے کہ تم فلاں شخص کو قتل کر دو.تو وہ اس خیال سے نفرت کریگا.اور اس خیال سے گھبراتے گا لیکن نیکی کی صورت میں جب یہ بات پیش کی جاتے کہ بڑا ثواب ہوگا.یا اور کوئی مفید نتیجہ بھلے گا.تو لوگ قتل سے نہیں گھبراتے.آجکل جو ٹھگوں کا بدنام گروہ ہے.اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ابتداء میں یہ ایک مذہبی گروہ تھا جو اس لیے لوگوں کو قتل کر دیا کرتا تھا کہ لوگ دنیا کے رنج و آلام سے چھوٹ جاتیں.اور یہ لوگ سمجھتے تھے کہ اس طرح ہم کسی پر ظلم نہیں کرتے.احسان کرتے ہیں.تو یہ بغیر کسی لالچ اور خواہش اور بغض و حقد کے قتل کے مرتکب ہوتے تھے.ان کا قاعدہ تھا کہ مسافر راستہ میں چلا جاتا ہو.اس کے گلے میں پھانسی ڈالکر مار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ مصیبت میں تھا.ہم نے اس کو بچا لیا سوہ اس کو ایک ثواب کا کام خیال کرتے تھے.اب یہ گروہ ایک لیٹروں کا گروہ ہو گیا ہے.ورنہ یہ ایک مذہبی جماعت تھی جس کے سامنے لوگوں کو قتل کرنا برائی کے رنگ میں پیش نہ ہوا.بلکہ اس صورت میں پیش ہوا کہ لوگ دنیا میں رہ کر دکھ اُٹھاتے تھے.اس لیے ان کو دکھوں سے نجات دینے کے لیے ان کو قتل کر دنیا چاہیئے.اور یہ ان پر احسان ہوگا ظلم نہ ہوگا.یہ دھو کہ تھا.جوشیطان نے ان کو نیکی کے رنگ میں دیا.پس شیطان کبھی بدی کی تعلیم کو نیک پیرائے میں پیش کرتا ہے اور بدی کو نیکی کا باس پہنا کر لوگوں کی ہمدردی حاصل کرتا ہے.مثلاً کہیں صدقہ کا سوال ہوتا ہے.اب اس کے مقابلہ میںاگر لوگوں کو نبل کی تعلیم دی جائے تو وہ اس پر کان نہیں دھر سکتے، مگر یور بین رنگ دیگر اسی خیال کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ اگر اس طرح صدقہ و خیرات کی جائے تو ملک کا ایک بڑا حصہ نکہتا ہو جاتا ہے.کیونکہ جب ان کو خیرات منے لگتی ہے.تو وہ محنت چھوڑ دیتے ہیں.اس لیے جو لوگ خیرات کرتے ہیں.وہ نیک کام کرنے کی بجاتے ملک سے دشمنی کرتے ہیں.اب اگر کھلے لفظوں میں بخل کی تعلیم دی جاتی.تو ایک آد شخص بھی شکل
۲۹۳ سے اس خیال کو تسلیم کرتا مگر اس رنگ میں سینکڑوں اس نخل کی تعلیم کو تسلیم کر کے اس پر عمل شروع کر دیتے ہیں.یا اسی طرح اگر کوئی شخص کہے کہ عبادت میں کیا رکھا ہے اور ہماری تبیح و تحمید سے خدا کا کیا بتا ہے.تو بہت کم لوگ اس کے قابو میں آئیں گے، لیکن اگر یوں کہا جائے کہ اصل تو عباد غریب لوگوں کو فائدہ پہنچانا ہے جتنے عرصہ میں کوئی تسبیح پڑھتا ہے.اتنے عرصہ میں ایک غریب کو داد دینے میں بہت فائدہ پہنچا سکتا ہے تو نتیجہ یہ ہو گا.کہ لوگ اس خیال کو تسلیم کرلیں گئے.اسی لیے تمام بدیاں نیکی کی شکل میں پیش کی جاتی ہیں.اور نادان ان پر عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں.اور اس طرح لوگ تمام عبادتیں نبیح و تحمید حتی کہ نمازہ تک کو ترک کر دیتے ہیں.ہمارے ملک کا بڑا دنیا دی مصلح جس نے مسلمانوں کی مادی حالت بالکل بدل ڈالی.اور میں کی ذاتی محنت اور کوشش اور ہمت اور قربانی سے کئی نکھے کام کے اور سست چیست ہو گئے.اور اس وقت جبکہ انگریزی زبان پڑھنے کو جہالت اور نادانی سے لوگ کفر سمجھتے تھے جس نے اس غلط خیال کو لوگوں کے دلوں سے نکالا.وہ سید احمد خان ہے.دنیاوی لحاظ سے اس میں شک نہیں کہ اس نے بڑا کام کیا.وہ قومی محبت دل میں رکھتا تھا.ہاں مذہب کی محبت اس کے دل میں نہ تھی جس کو وہ قوم سمجھتا تھا.اس کے لیے اس نے نماز ترک کردی.اور کہہ دیا تھا کہ وہ وقت جو میں نماز میں لگاروں گا.کیوں نہ قوم کی خدمت اور بھلائی میں صرف کروں جس سے قوم کا کام بنے.پس شیطان نے اس کو بھی دھوکہ دیا.اور اس کے دل میں ڈال دیا کہ تیری یہ کارروائیاں ہی نمازہ کی قائم مقام ہیں.شیطان بڑی ترکیب سے کام کرتا ہے حسد کے بہت سے مدارج ہیں جن میں سے ایک مساوات کا خیال ہے.اس میں شک نہیں کہ اس خیال کی جو اصل ہے.اس کا پیدا کرنے والا اسلام ہے کیونکہ اسلام کی تعلیم ہے کہ تمام بنی نوع آپس میں بھائی بھائی ہیں.انسان ہونے کے لحاظ سے کسی کو کسی پر فضیلت نہیں.اور اس میں شبہ نہیں کہ جب تک یہ خیال نہ ہو.ترقی نہیں ہوسکتی میگر جن کو خدا نے بڑائی دی ہو.ان کی تذلیل کے لیے کہ دینا کہ اسلام نے مساوات رکھی ہے.ان کو تم پر کوئی فضیلت نہیں.ایک غلط خیال ہے.اور بہت لوگوں کو اس خیال نے تباہ کیا حضرت سیح موعود کے وقت میں بعض وہ لوگ جنھوں نے اس زمانہ کے صوفیوں کی حالت کو دیکھا تھا کہ وہاں غریب و امیر کو ایک ہی قسم کا کھانا کھلایا جاتا ہے.انہوں نے جب یہاں یہ بات ملاحظہ کی کہ ذی وسعت لوگوں کو ان کی حالت کے مناسب اور نظریا.کو ان کے درجہ کے مطابق کھانا دیا جاتا ہے تو کہنے لگے کہ خدا کے
۲۹۴ لہ میں ایسا نہیں ہونا چاہیتے، بلکہ یہاں توسب کو ایک ہی درجہ میں ہونا چاہیئے.یہ بات حضرت اقدس کے سامنے بھی پیش کی گئی.آپ نے فرمایا.ہم تو خدا کے فعل کے متبع ہیں.دیکھو خدا نے کسی کو امیر بنایا ہے اور کسی کو غریب کسی کے گھر میں قسم قسم کے کھانے ہوتے ہیں.اور کسی کے ہاں مشکل سے دال روٹی.اب جبکہ خدا نے تقسیم کی ہے.تو ہم کیسے اس تقسیم کے خلاف سب سے ایک ہی قسم کا معاملہ کریں جس کو گھرمیں عمدہ کھانا ملتا ہے.اس کو عمدہ نہ دینا اس پر ظلم کرنا ہے کیونکہ وہ معمولی کھانے کا عادی نہیں ہوتا.تو یہ مساوات کا غلط مطلب ہے.جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے.خدا نے اسلام میں جو مساوات رکھی ہے.اس کا مطلب یہ ہے که خواه بادشاہ نماز پڑھے یا غریب سب کو ایک سا اجر ملے گا.خُدا کے ہاں یہ نہیں کہ اگر ایک امیر زمانہ یا روزه کامل بجالائے.تو اس کو اس سے زیادہ اجر ملے گا.جو ایک غریب و فقیر کو ان اعمال کا اجر ملیگا.باتی رہی.دولت و ثروت یہ نتیجہ ہے.اس کی یا اس کے آبامہ کی محنت کا.اس میں مساوات کیسے ہوسکتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کے پاس غربا ہ آئے اور کہا حضور ہمارے بھائی امیر نیکیوں میں ہم ہے بڑھے ہوتے ہیں نمازہ ہم پڑھتے ہیں.وہ بھی پڑھتے ہیں.روزہ ہم رکھتے ہیں وہ بھی رکھتے ہیں ہم جہاد کے لیے جاتے ہیں.وہ بھی جاتے ہیں.وہ صدقہ و خیرات کرتے ہیں.ہم اس سے محروم ہیں.آپ نے فرمایا.کہ میں تمہیں ایک ایسی بات بتاتا ہوں کہ اگر تم وہ کرو گے، توامراء سے تم نیکیوں میں بڑھ جاؤ گے اور وہ بات یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد ۳۳ دفعہ تحمید ۲۳ دفعہ تقدیس اور ۳۴ دفعہ تکبیر کہا کرو.اللہ تعالیٰ تمہیں ان سے بڑھا دیگا ، چند دن کے بعد غربا.پھر آئے کہ حضور، امیر تو یہ کام بھی کرنے لگ گئے.ہم کیا کریں آپ نے فرمایا کہ خدا جس کو فضیلت دیتا ہے.میں کسی طرح اس کو روک سکتا ہوں.وہ دولتمند سلمان ایسے سلمان نہ تھے کہ فرائض کو بھی ترک کر دیں.وہ تو نوافل میں اسقدر جد وجہد کرتے تھے.کہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے.پھر ان کی دولت مندی برائے نام نہ تھی، بلکہ کافی دولت رکھتے تھے.ایک صحابی جن کے متعلق صحابہ کا خیال تھا کہ غریب ہیں.جب فوت ہوئے تو ان کے پاس ڈھائی کروڑ روپیہ کی جائیداد ثابت ہوئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں صحابہ کو تجارت کا بھی خاص ملکہ تھا، چنانچہ حضرت عبدالرحمن بن عوف اس فن میں کامل تھے.انہوں نے ایک دفعہ دس ہزار اونٹ خریدے اور اصل قیمت پر ہی فروخت کر دیئے.ایک دوست نے کہا کہ اس میں آپ کو کیا نفع ہوا.انہوں نے جواب دیا کہ مجھے اسی وقت کھڑے کھڑے ڈھائی ہزار روپیہ کا نفع ان اونٹوں کی خرید و فروخت میں حاصل ہوا ہے له بخاری کتاب الصلوة باب الذكر بعد الصلواة
۲۹۵ اور وہ اس طرح کہ میں نے جب اونٹ خریدے تھے تو نکیل سمیت خریدے تھے اور فروخت بغیر نکیل کے کہتے ہیں اس سودے میں دس ہزا ز بیل مجھے نفع میں ملی.اور اگرہ میں اس وقت فروخت نہ کرتا، تو خدا جانے کب کا مک پیدا ہوتا.اور اتنے عرصہ میں کتنا کھا جاتے لیکن اس وقت بغیر کسی خرچ کے ڈھائی ہزار کا نفع ہوا، چونکہ انکو تجارت کا فن خوب آتا تھا.اور اپنے کام میں بہت چست تھے اس لیے وہ مال میں بڑھ گئے.اب کسی طرح ان کو کسی ایسے شخص کے برابر سمجھا جا سکتا تھا.جونہ ان کی طرح ہوشیار تھا اور نہ اس فن سے پتی کیساتھ کام لے سکتا تھا.یہ مساوات نہیں، کہ دولتمندی کے لحاظ سے سب کو مساوی سمجھا جائے، یہ تو ایک دھوکہ ہے اور غلطی ہے.مساوات وہ ہے جو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت امراء نے دیکھائی.اب لوگ جس چیز کو مساوات خیال کرتے ہیں یہ حسد ہوتا ہے.متعدد احادیث میں آتا ہے کہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اور کوئی بات کہنی چاہی.آپ نے فرما دیا.تمہارا امیر پیش ہو.پس ان لوگوں کی مزعوم مساوات کہاں رہی.اگر سب کی ایک ہی حیثیت تھی، تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر کے پیش ہونے کا کیوں حکم فرمایا.پھر فرمایا نماز کے لیے وہ آگے کھڑا ہو جو تم میں زیادہ متقی اور اعلم ہو.اور اس طرح ایک کو خاص حیثیت دیدی.پس اس کا نام مساوات نہیں ہے کہ مختلف مدارج اور مختلف حیثیتوں کے آدمیوں کے ساتھ ایک ہی جیسا سلوک کیا جائے جولوگ مختلف علمی اور عملی مدارج رکھتے ہیں.یا ان کو بعض خاص رسوخ حاصل ہیں.ان کو کیسے ایک ہی طرح کا سمجھا جا سکتا ہے.قرآن شریف میں آتا ہے کہ اگر تم کوئی بات سنو ، تو اس کو ان لوگوں کے پاس لے جاؤ جن کو استنباط کرنا آتا ہو.اب دیکھو استنباط والے الگ ہیں.مشورہ والے الگ.اب جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہر ایک کام میں سب کو شریک ہونا چاہیئے.وہ دراصل مساوات کا مطلب نہیں جانتا.اور حسد کرتا ہے اور اپنے نفس کو دھوکہ دیتا ہے کہ حسد کو مساوات کے لباس میں چھپاتا ہے.ایک امیر کو عمدہ کھانا کھلایا گیا.دوسرا جلتا ہے کہ اسے بھی کیوں نہ ایسا کھانا ملا.یہ مساوات نہیں بلکہ حسد ہے جس کو نیکی کا لباس پہنایا جاتا ہے جب اس کو مساوات کہا جاتا ہے.امام شعرانی کہتے ہیں کہ میں نے اپنی ایک بیوی سے مزاحاً کہا کہ میں جب مرنے کے بعد بہشت میں جانے لگوں گا، تواپنی دوسری بیوی تیری سوکن کو ہمراہ لے جاؤں گا.بیوی نے کہا.کہ خدا کی قسم میں اس بہشت میں ہرگزہ داخل نہ ہوں گی.اس بیوی نے جو یہ کہا.یہ اس کے حسد کا نتیجہ تھا یہی حسد ہے جو بڑھتے بڑھتے انسانوں کو ہلاک کر ڈالتا ہے.آج جو لوگ ہم سے جدا ہوتے ہیں.وہ احمدی کہلاتے ہیں حضرت مسیح موعود کی کچھ نہ کچھ محبت دل میں رکھتے ہیں اور حضرت اقدس کی کتب کو چھاپتے ہیں.اور کچھ نہ کچھ تبلیغ
۲۹۶ بھی کر دیتے ہیں.باوجود ان باتوں کے ان کو ہم سے حسد ہے.اس لیے جہاں ہمارے آدمی جاتے ہیں کہ لوگوں کو احمدی بنائیں.وہ کوشش کرتے ہیں.کہ لوگ احمدی نہ ہوں اور ان کو ورغلاتے ہیں.اور ان کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں ہیں اسی خیال نے ان کو خراب کیا کہ وہ مساوات کے طالب تھے.حالانکہ یہ مساوا نہ تھی.بلکہ حسد تھا.خوارج بھی یہی کہتے تھے کہ خلیفہ کون ہوتا ہے.اس کو کیا حق ہے کہ وہ ہم سے بڑا کہلاتے.الحُكُمُ لِلهِ وَالأَمْرُشُورَى بَيْنَنَا.یہ بات تو سچ تھی، مگر انہوں نے اس سے غلط نتیجہ نکالا.پس حسد ایک بُرا مرض ہے.اس سے بچو.اور یاد رکھو کہ اسلام مساوات کا مخالف نہیں.بلکہ متونید ہے لیکن عام لوگ جس کو مساوات کہتے ہیں.وہ حسد ہے اور اسلامی مساوات ایک پاک چیز ہے جس کا مقابلہ دنیا کی اور کوئی تعلیم نہیں کرسکتی " الفضل ٣ ستمبر ١٩١٩ ۱۹۱
۲۹۷ 56 دُعائیں قبول ہونے کا خاص دن د فرموده در ستمبر ۱۹۱مه) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- غیر انشا.تو آج بہت کچھ منانے کا تھا مگر جمعہ پڑھنے کے لیے آنے سے تھوڑی دیر پہلے درود کی شکایت ہو گئی ہے.اس لیے مختصر طور پر ہی اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آج کا دن دعاوں کی قبولیت کے لیے خاص خصوصیت رکھتا ہے یہ ایک افسوس کی بات ہے کہ اس زمانہ میں جہاں ظاہری علوم کی ترقی ہوتی ہے ہاں لوگوں کی قیمتی سے روحانی علوم میں کی واقع ہوتی ہےاور جوں جوں لوگ ظاہری علوم سے زیادہ واقف ہوتے جاتے ہیں خواہ وہ علوم کی یورپی زبان میں نہ ہوں بلکہ اس زبان میں ہوں میں میں خدا کا آخری کام شرعیت کے رنگ میں نازل ہوا ہے.تاہم لو اپنی قیمتی اور زمان کی رو اورشیطان کے آخری حملہ کے اثر سے ان روحانی باتوں کو جو ان کی محدود عقل میں نہیں آسکتیں چھوڑتے جاتے ہیں.اور اب تو یہاں تک حالت ہو گئی ہے کہ جو ذرا کوئی ایک دو کتابیں پڑھ لیتا ہے.وہ سمجھ لیتا ہے کہ مجھ میں خدا تعالی کی بنائی ہوئی اور رسول اللہ فرمائی ہوئی باتوں پر تنقید کرنے کا مادہ پیدا ہوگیا ہے.اور اگر خوش قسمتی یا بدقسمتی سے کچھ زیادہ علم پڑھ لیتا ہے.تو پھر یہ تنقید کرنے تک ہی اپنی قابلیت کو محدود نہیں رکھتا.بلکہ خدا تعالیٰ کو املا کرانے کا بھی اپنے آپ کو مستحق سمجھتا ہے.اور کہتا ہے کہ خدا کو اس طرح نہیں.بلکہ اس طرح کہنا چاہتے تھا اس کا نتیجہ یہ ہے کہ شریعت کے بہت سے احکام جو اپنی کم عقلی اور روحانیت کی کمزوری کی وجہ سے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتے ، ان کا اگر اپنے آپ کو مذہب کا پابند ظاہر کرنے کے لیے انکار نہیں کرتے توان پر عمل بھی نہیں کرتے اور ان کے صحیح اور درست ہونے کا اعتقاد بھی نہیں رکھتے.حالانکہ وہ صداقتیں ہیں.لیکن جب تک روحانی علوم میں ملکہ حاصل نہ ہو، اس وقت تک وہ مجھ میں نہیں آسکتیں، گو یہ صداقتیں ایمانیات سے تعلق نہیں رکھتیں یعنی ایسی ہیں کہ جن پر ایمان لانے کے بغیر نجات نہ ہوسکے، مگر اس میں شک نہیں کہ وہ صداقتیں ضرور ہیں.ہاں وہ امور جن پر نجات کا دارو مدار ہے ، وہ ایسی صورت میں پیش کئے گئے ہیں کہ جن کو
۲۹۸ هر انسان ادنیٰ سے ادنی اعقل رکھنے والا بھی سمجھ سکتا ہے.مگر بعض ایسے امور ہیں جو ایمانیات سے وابستہ نہیں بلکہ ایسے ہیں جو محض یقین کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں یا اعمال کے ساتھ.ان میں بہت سی ایسی باتیں پائی جاتی ہیں جو ظاہری علم کے ذریعہ انسان کی سمجھ میں نہیں آسکتیں.بلکہ ان کے سمجھنے کے لیے روحانی علم کی ضرورت ہوتی ہے.مجھے اس حدبندی کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ کوئی یہ نہ کہے کہ اگر ہمارے مذہب میں بھی بعض ایسی باتیں پائی جاتی ہیں جو ظاہری علم اور عقل کے ذریعہ مجھ میں ہیں آئیں.تو پھر ہم عیسائیوں پر کیا اعتراض کر سکتے ہیں کہ تمہاری مذہبی باتیں عقل میں نہیں آتیں پیس اصل بات یہ ہے کہ جن امور پر نجات کا دارو مدار ہے ان کے متعلق ضروری ہے کہ سمجھ میں آئیں.کیونکہ اگر وہ کسی کے سمجھ میں ہی نہ آئیں، تو ان پر عمل کس طرح کیا جا سکے گا لیکن بعض ایسی باتیں جن سے روحانی مدارج میں ترقی حاصل ہوتی ہے.ان کی سمجھ اسی وقت آتی ہے جبکہ کسی قدر روحانی استعداد حاصل ہو جاتی ہے جن باتوں پر نجات کا دارو مدار ہے.ان کو توالیا ہی سمجھنا چاہیئے.جیسا کہ بچوں کے پڑھنے کا ابتدائی قاعدہ ہوتا ہے.اس پر بچہ کو الف ب پڑھاتے اور سمجھاتے ہوئے کوئی دلیل دینے کی ضرورت نہیں ہوتی.بلکہ بغیر اس کے وہ سمجھ سکتا ہے ایسی طرح اسلام میں وہ امور جن پر نجات کا دارو مدار ہے.ان کو تو ہرشخص سمجھ سکتا ہے.ہاں جس طرح بعض ضدی بچے الف کو ب اور ب کو الف کہہ دیا کرتے ہیں.اسی طرح اگر کوئی ضدی اور بہٹ دہرم انسان سے کہ خدا ایک نہیں ہے اور دلائل سے بھی نہ مانے.یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کو ظا ہری دلائل سے بھی تسلیم نہ کرے تو اسے کچھ نہیں کہا جاسکتا.مگر خدا تعالے کی وحدانیت اور رسول کریم کی صداقت کے ایسے صاف اور واضح دلائل ہیں.کہ جنہیں معمولی سے معمولی عقل کا انسان بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے اس کے مقابلہ میں روحانیت سے تعلق رکھنے والی ایسی باتیں ہیں کہ جنہیں وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو روحانیت میں کچھ نہ کچھ دخل رکھتے اور جنہیں کسی حد تک روحانی مدارج حاصل ہوتے ہیں ورنہ ظاہری دلائل سے وہ نہیں سمجھائی جاسکتیں.مثلاً قرآن کریم کی آیتوں کے جو خاص اثرات ہیں.ان کو نہ تو سمجھایا جا سکتا ہے اور نہ کوئی روحانیت سے بے بہرہ انسان انہیں سمجھ سکتا ہے.کوئی نا واقف انسان کے کہ ان کا کیا اثر ہوسکتا ہے لیکن جنہوں نے تجربہ کیا ہے اور فائدہ اُٹھایا ہے.ان کی شہادتیں موجود ہیں.اور وہ بڑے زور کیسا تھ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ بعض خاص آیتوں سے بڑی بڑی مشکلات حل ہو جاتی اور بڑے بڑے فوائد پہنچتے ہیں تو آیات کے خاص اثرات کا انکار نہیں کیا جاسکتا، مگر ساتھ ہی اس کے یہ بھی ہے کہ کوئی نہیں بنا سکتا کہ ان کے اثرات کیوں ہیں.اس سے میرا مطلب یہ ہے کہ شخص کو نہیں بتایا جاسکتا کیونکہ پیالی
۲۹۹ باتیں ہیں جن کے سمجنے میں ذوق اور تجربہ کو دخل ہے.اسکی وجہ سی کی سمجھ میں آسکتی ہے جو ذوق اور تجربہ رکھتا ہو.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ ہم سی کویہ بتانا چاہیں کہ مٹھاس کیا ہوتی ہے.اگر کسی نے کبھی میٹھا چکھا ہی نہیں، توہم اسے زبانی طور پر ہرگز نہیں سمجھا سکتے کہ مٹھاس کیا ہوتی ہے.ہاں جس نے چکھا ہو، اسکو مٹھاس کیکمی یا زیادتی بتائی جاسکتی ہے.اس طرح ایک ایسا شخص جس کی آنکھیں ہیں.اور جس نے سورج کی روشنی دکھی ہے اس کو بتا سکتے ہیں کہ فلاں روشنی مدہم تھی یا تیز فلاں سیاہی مائل تھی یا سبزی، فلاں سفیدی مائل تھی یا زردی ، غرض اُسے کئی کیفیتیں روشنی کی بتائی اور بھائی جاسکتی ہیں، لیکن جو جنم کا اندھا ہو.اس کو کچھ نہیں سمجھا سکتے.تو ایسے امور جو فروع کہلاتے ہیں.بلحاظ اس کے کہ ایمانیات سے تعلق نہیں رکھتے.ایسے ہی لوگوں کی سمجھ میں آسکتے ہیں جنہوں نے ایک حد تک ان کا تجربہ کیا ہو اور کسی قدر مزا چکھا ہو.انہی امور میں سے ایک دُعاؤں کے قبول ہونے کے خاص اوقات میں ، شخص یہ نہیں سمجھ سکتاکہ کیا وجہ ہے کہ جمعہ کے دن دُعا قبول ہونے کی ایک خاص گھڑی ہوتی ہے.البتہ بعض ایسی باتوں کو لوگ سمجھتے ہیں.جن کی کوئی وجہ انہوں نے قرار دے لی ہوتی ہے.مثلاً یہ سمجھتے ہیں کہ رات کو خداتعالی دعا خاص طور پر سنتا ہے کیوں اس لیے کہ رات کو انسان جاگتا اور تکلیف اٹھاتا ہے لیکن دراصل دُعا کے قبول ہونے کی یہ وجہ نہیں ہے.کیا اگر کوئی شخص دس پندرہ میں دوڑ کر دعا مانگے تو اس کی دعا اس لیے قبول ہو جائیگی کہ اس نے تکلیف اُٹھائی ہے یا اگر کوئی ساری رات جاگتا رہے اور دن کو دُعا مانگے، تو اس کی دُعا قبول ہو جائے گی.نہیں.کیونکہ صرف رات کا جاگنا اور تکلیف اُٹھانا دعا کے قبول ہونے کا باعث نہیں.گو ایک حد تک یہ بھی درست ہے کہ رات کو جاگنے اور تکلیف اُٹھانے سے دُعا قبول ہوتی ہے اگر دعا کے قبول ہونے کی اصل وجہ ہیں نہیں ہے، ورنہ اگر یہ وجہ ہوتی تو چاہتے تھا، کہ جتنی کوئی زیادہ تکلیف اُٹھاتا.اتنی ہی جلدی اس کی دکا قبول ہوتی پھر جمعہ کی دعا ہے.عرفات کی دُعا ہے کعبہ پر سیلی نظر پڑنے کے وقت کی دعا ہے ان اوقات کی دعائیں کیوں خاص طور پر قبولیت کا شرف حاصل کرتی ہیں.ان کی کوئی وجہ نہیں سمجھائی جاسکتی.کیونکہ دراصل یہ ذوق سے تعلق رکھنے والی باتیں ہیں اور جو ذوق نہ رکھتا ہو.اس کی سمجھ میں نہیں آسکتیں.اس میں شک نہیں کہ ان واقعات کا دُعا کے ساتھ خاص تعلق رکھنے کا ظاہری طور پر انکار کوئی ناقات سے ناواقف ہی مسلمان کرے تو کرے، لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ بہت کثرت سے لوگ ان کا عملاً انکار کرتے ہیں.جبکہ ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے، اور ان کی طرف توجہ نہیں کرتے، تو باوجود اس کے کہ زبان سے مانتے ہیں کہ ایسے اوقات اور گھڑیاں مقرر ہیں جن میں دُعا ئیں خاص طور پر منظور ہوتی ہیں لیکن عملی طور پر کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتے.وجہ یہ کہ چونکہ اس کو چھ سے ناواقف اور اس مذاق سے بے بہرہ
ہوتے ہیں.اس لیے انہیں اس پر یقین نہیں ہوتا.حالانکہ اگر کوئی شخص ذرا اس طرف دھل جاتے تو معلوم کرسکتا ہے کہ واقعہ میں ان اوقات میں دُعائیں کرنے سے بہت بڑا فائدہ ہوتا ہے.دُعاؤں کی قبولیت کے ساتھ تعلق رکھنے والے اوقات میں سے ایک آج کا دن بھی ہے.جو اس لحاظ پر دکھائیں قبول ہوتی ہیں.اور میں نے سفر حج میں اس دن کو دعاؤں کی قبولیت میں بہت بڑا دخل رکھتا دیکھا ہے.اور اس دن ایسی کیفیات دیکھنے میں آئی ہیں کہ سی اور وقت میں بہت ہی کم دیکھی گئی ہیں.پس میں اپنے تجربہ کی بنا پر تمام دوستوں کونصیحت کرتا ہوں کہ آج کا دن چونکہ خاص خصوصیت رکھتا ہے.اس لیے اس سے فائدہ اٹھائیں.یوں تو دھاتیں کرنے کا ہر روز ہی حکم ہے مگر اس دن سے خاص طور پر فائدہ اٹھانا چاہیئے.اپنے عزیزوں.دوستوں رشتہ داروں کے لیے دعائیں کی جائیں.اس کے ساتھ ہی اسلام کی ترقی دین کی اشاعت کے لیے اور ان بھائیوں کے لیے جو دین کی ترقی کے لیے خواہ اپنے گھروں میں خواہ باہر جا کر کوشش کر رہے ہیں.دُعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ انہیں کامیاب کرے ؟ الفضل ار ستمبر ۱۹۱۹ ه ) 9
57 خدا کی مخلوق سے محبت خدا کی محبت کا ثبو تھے (-1919 دفرموده ۲۶ستمبر ۱۹۱۹ حضور نے تشہد اور تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد آیت شریفہ وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا ولا تفرقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءَ فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَاصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وكُنتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ جم فَانْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللهُ لَكُمُ التِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ( آل عمران : کی تلاوت کی اور فرمایا کہ : اسلام سب مذاہب میں سے ایک ہی مذہب تسلیم کرنا چاہتے ہو ہر ایک چیز کے مدار تسلیم کرتا ہے مومن لوگ مدارج کا خیال نہیں رکھتے، خود مسلمانوں میں سے بھی بعض نے قرآن کے اوپر پورا تدبر نہ کرنے اور ائمہ کے اقوال پر غورنہ کرنے سے کفر و ایمان کے درجات کی تقسیم سے انکار کیا ہے، حالانکہ نہ یہ قرآن سے ثابت ہے نہ ائمہ کا یہ مذہب تھا.قطعا کسی امام کا یہ مذہب نہ تھاکہ کفرو ایسان کے مدارج نہیں.قرآن شریف ہی وہ کتاب ہے جو ہر چیز کے مدارج بیان کرتی ہے.انسان کے مدارج.تقویٰ کے مدارج تعلق باللہ کے مدارج - ایمان کے مدارج - گھیر کے مدارج - نیکی اور بدی کے مختلف مدارج غرض ہر چیز کے مختلف مدارج ہیں.ایک اسلام کی ہی تعلیم ہے جو ہر چیز کو اس کے مراتب اور اسکی حقیقت کیساتھ بیان کرتی ہے اور مذہب اس حقیقت کونہیں مجھے اور با سلام اور دیگر مذاہب می نمایاں فرق ہے.میں جس مضمون کی طرف آپ کی توجہ پھیر نی چاہتا ہوں.وہ تبھی مدارج رکھتا ہے.اور وہ کسانی تعلقات کے مدارج میں جسطرح خدا کے انسان کیسا تھ تعلق کے مدارج میں اس طرح انسانوں کے آپس کے تعلقا نیچے بھی مدارج ہیں جس طرح خدا سے بہتر سے بہتر تعلق ہونا چاہیئے.ایسا ہی انسانوں میں بھی آپس میں ہونا چاہتے.اسلام اس بات کا کم نہیں دیتا کہ انسان آپس میں ہم نہ ہوں بلکہ اس سے زیادہ کا حکم دیا ہے.سلام نہیں تا کہ جب
تم خدا کے دین ہیں تو کامیاب ہوگئے بلکہ اسلام میں اس وقت نیکی کی راہ پر قدم زدن قرار دیا جب تم خدا کے دوست ہو گئے.اسی طرح اسلام یہ نہیں کہے گا کہ تم لوگوں کے دشمن نہ ہو کیونکہ یہ تو ایک ادنی درجہ کی بات ہے.اصل یہ ہے کہ تم لوگوں کے دوست ہو بہت لوگ خوش ہیں کہ وہ کسی کے دشمن نہیں.حالانکہ شریف کے دل میں کینہ نہیں ہوتا.یہ تو ایسا ہی فخر ہے.کہ ایک انسان کسے میں انسان ہوں، حالا نکہ فخر کی بات یہ ہے کہ انسانوں میں سے اعلیٰ درجہ کا انسان ہو.اگر کوئی شخص گدھوں اور کتوں میں کھڑا ہو کر فخر کرے کہ میں انسان ہوں.تو یہ اس کا فخر بجا ہوگا ، لیکن ہوگا اس کے پاگل پن کی دیل کیونکہ گدھے اور کتے نہیں جانتے کہ فرق مراتب کیا ہے.ہاں انسانوں میں انسان کا دعویٰ فخر البتہ ایک بات ہوگی.سوائے اخلاقی لحاظ کے کہ بعض حالتوں میں انسان گدھے کے مشابہ ہوتا ہے بعض میں کتے کے ، لیکن جسمانی لحاظ سے یہ حالت نہیں ہوتی.اور ایک انسان جسمانی حالت میں تنزل کر کے انسان سے گدھا پاکستا نہیں بن سکتا.پس عدادت ایک ایسا درجہ ہے کہ اس سے انسان اتر ہی نہیں سکتا.پس جو شخص اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ اس کو کسی سے عداوت نہیں.اس کی یہ خوشی اور فخر ایسا ہی ہے.جو کوئی انسان تھے کہ میں گدھا نہیں.حالانکہ فخر تو اس پر ہونا چاہیئے کہ انسانوں میں سے اعلیٰ انسان ہے اور پھر نخر بھی وہ فخر جو کمتر والا نہ ہو.پس اگر انسان کو قابل فخر کوئی بات بناتی ہے.تو وہ یمنی اور عداوت کا نہ ہونا نہیں.بلکہ وہ دوستی اور محبت و اخلاص اور پیالہ ہیں.یہ خوبی جائزہ فخر ثابت کرتی ہے کہ ایک انسان دوسرے انسانوں سے محبت و اخلاص کے تعلقات رکھتا ہے.تعلقات کے تین مدارج ہیں ان میں ادنی اور ذلت و رسوائی کا درجہ شمنی کا ہے.وہ یمنی جو خدا کے لیے نہ ہو.اور جو دشمنی خدا کے لیے ہو.وہ دراصل دشمنی نہیں.محبت ہے.کیونکہ خدا کسی کا دشمن نہیں.اگر خدا کے لیے کسی سے بغض ہے تو وہ بعض و دشمنی نہیں.بلکہ اصلاح ہے اور شخص مصلح ہے.ہاں جب اپنے لیے یا اپنے عزیزوں.بیوی بچوں.دوستوں کے لیے ہے ؟ تو واقعی بغض ہے.جو بد ترین ذلت کا درجہ ہے.خدا کے لیے جو بغیض ہے نعت کے لحاظ سے ہم اسے بعض اور یمنی ہی کہیں گے.ورنہ درحقیقت وہ اصلاح ہے.اس درجہ سے اوپر کا درجہ یہ ہے کہ انسان کو نہ کسی سے دشمنی ہو.اور نہکسی سے دوستی جیسا کہ ریل میں دو آدمی بیٹھتے ہیں.ایک ایک کھڑکی میں دوسرا دوسری میں کہ نہ ان میں تعلقات دوستی ہوتے
یں نہ شمنی اس پر بھی فخرنہیں کیا جا سکتا.اوراس کو بھی علی درجہ قرارنہیں دیا جا سکتا.اور نہ اس مقام پر کھڑا نے والا کہہ سکتا ہے کہ میں اعلیٰ درجہ پر ہوں کہ مجھے کسی سے شمنی ہے نہ دوستی کیونکہ وشخص اپنے تئیں نیک اور تقی قرار نہیں دے سکتا جو کہے کہ میں خدا کا دشمن نہیں.یہ کوئی نیکی نہیں.کیونکہ اس نے خدا سے جو نیکی کا سر چشمہ ہے کچھ تعلق نہیں رکھا.اسی طرح جو شخص اللہ کے بندوں سے محبت نہیں رکھتا.وہ در حقیقت خُدا سے بھی تعلق نہیں رکھتا.اسلام میں دو باتیں ہیں.بندوں اور خدا سے تعلق رکھنا، دشمن رکھنا ادنی ترین درجہ ہے، اور دشمنی و دوستی دونوں نہ رکھنا اس سے اوپر کا درجہ ہے اور اس سے اوپر اور آخری درجہ ہے.خدا کے بندوں سے اخلاص اور محبت رکھنا، اور پھر اخلاص اور محبت کے بھی مدارج ہیں.قرآن شریف میں جو آتا ہے.اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَابْيَانِي ذِي القرني (النحل (۹) در حقیقت یہ تینوں درجے بھی محبت کے ہیں.عدل بھی درجہ محبت ہے اور احسان بھی اور ایتا.ذی القرنی بھی.ان تینوں کو حاصل کرنا چاہیئے.اگر اسلام کہتا ہے کہ آپس میں تباغض نہ کرو.تو یہ نہیں کر ان باتوں سے باز رہنا اعلیٰ درجہ کی بات ہے.بلکہ چونکہ یہ باتیں محبت کے دُور کرنے والی ہیں.اس لیے فرمایا ، ان سے دور نہ ہو.یہ نہیں کر سی ال مقصود ہیں.بلکہ اصل مقصود محبت و اخلاص ہے.بہت لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے.جو لوگ بے تعلقی رہتے ہیں.وہ ثابت کرتے ہیں کہ ان کے دل میں خدا کی مخلوق کی محبت نہیں اور جو شخص خدا کی مخلوق سے محبت نہیں رکھتا وہ دعوی نہیں کر سکتا کہ اس کو خدا سے محبت ہے، جو شخص اعتصام بحبل اللہ کرتا ہے.ہو نہیں سکتا کہ وہ خدا کی مخلوق سے بے تعلقی ہو.اور اس کی محبت نہ ہو.اور اس کے لیے دل میں ہمدردی نہ ہو.اگر کوئی شخص محبت الہی کا دعوای کرتا ہو اور خدا کی مخلوق کی محبت و ہمدردی سے خالی ہے.وہ ثابت کرتا ہے.کہ اس کو اسلام اور تقویٰ سے چنداں تعلق نہیں.خدا کی مخلوق.ہمدردی اور محبت اور خدا کی محبت دونوں ایک چیز ہیں.الگ الگ نہیں.ہدایت ملتی تب ہے جب خدا کی مخلوق کی انسان کے دل میں محبت ہو.جب یہ نہ ہو.تو ہدایت بھی نصیب نہیں ہوتی.اس کی ایک نظر بھی نہیں مل سکتی ، نہ نبی کی ندولی کی ان کو خدا سے محبت تھی، اور اس کی مخلوق سے دشمنی.اور وہ لوگوں سے بے تعلق تھے ایہ ممکن ہی نہیں کہ ایک چیز سے واقعی پیار ہو، اگر اس کے متعلقین سے پیار نہ ہو.خدا سے جو محبت کرتا ہے، ممکن نہیں کہ خدا کی مخلوق سے نہ کرے اگر وہ خدا کی مخلوق سے بے تعلق ہے تو اس کے دل میں خدا کی بھی محبت نہیں.ނ
قصہ مشہور ہے.خدا جانے کہاں تک درست ہے، کہتے ہیں کہ قیس لیلی کی گلی میں چکر لگا رہا تھا.میلی کا کتا گزرنے لگا میں اس کو لپٹ گیا.اور اس کو پیار کیا.لوگوں نے کہا کہ یہ تو پاگل ہے تھیں نے جواب دیا.میں پاگل نہیں، پاگل تم ہو کیونکہ میں جو گتے کو پیار کرتا ہوں.تو اس لیے نہیں کہ یہ کتا ہے بلکہ اس لیے کرتا ہوں کہ یہ نیلی کا کہتا ہے.اسی طرح جس دل میں اللہ کی محبت ہے.اس کو اللہ کی مخلوق سے محبت ہے.اور جو شخص بندوں سے محبت و ہمدردی نہیں رکھتا.اسی قدر وہ خدا کی محبت سے خالی ہے، مگر وہ محبت خدا کے لیے ہو جس طرح بغض جو خدا کے لیے ہو بغض نہیں ہے.اسی طرح جو محبت خدا کے لیے نہ ہو.محبت نہیں.بعض ہے مثلاً ایک شخص بیوی بچوں - عزیزوں اور قریبیوں سے محبت رکھتا ہے.یہ خدا کی مخلوق ہیں، لیکن ان کے لیے رشوت لیتا ہے چوری کرتا ہے.ڈاکہ ڈالتا ہے.اس کو بیشک خدا کی مخلوق سے محبت ہے، لیکن یہ محبت خدا کے لیے نہیں.اس لیے یہ محبت نہیں.کیونکہ در حقیقت یہ شخص اسی طرح اپنے نفس اور ان لوگوں سے دشمنی کرتا ہے.پس خدا کی مخلوق سے محبت ہو.اور خدا کے لیے ہو.تب ایمان ہوتا ہے.جبتک یہ نہ ہو سمجھنا چاہیتے کہ خدا کی محبت اور ایمان میں بھی کمی ہے.ہماری جماعت میں اللہ تعالیٰ نے محبت کے تمام ذرائع کو جمع کر دیا ہے.ایک مرکز ہے.اور قاعدہ ہے کہ ایک مرکز سے تعلق رکھنے والوں کو آپس میں محبت ہوتی ہے.جیسا کہ ایک مدرسہ میں پڑھنے والوں میں محبت ہوتی ہے.مثلاً ایک لڑکے پر کوئی افتاد پڑے.تو دوسرے لڑکے اس کی مدد کو کھڑے ہو جاتے ہیں یا مثلاً ایک گاؤں میں محبت ہوتی ہے.یا ملکوں اور ایک حکومت کے ماتحت رہنے والوں میں ہوتی ہے.یہ تو عارضی تعلقات ہیں مگر جو خدا نے تعلق ہم میں پیدا کیا ہے.وہ ایک دائمی تعلق ہے.پس اگر تعلق کے باوجود بھی جو ایمانی ہے.ہم میں بے تعلقی ہو.تو اس سے بڑھکر اور کیا برائی ہوسکتی ہے بے تعلقی پر فخر نہیں کیا جاسکتا.خدا سے دشمنی نہ ہونا قابل فخر نہیں، بلکہ فخر اور تعریف کے قابل خدا سے دوستی اور محبت کا ہونا ہے جس شخص کے دل میں عداوت ہو.وہ مسلمان نہیں.اور ہدایت سے دُور ہے.انسان کے لیے اچھا درجہ یہ ہے کہ اس کے دل میں بھائیوں کی محبت اور اخلاص ہے.کیونکہ اسلام اور محبت لازم و ملزوم ہیں ہیں جب تک محبت نہ ہو انسان مسلم نہیں ہو سکتا.عداوت اسفل ترین درجہ ہے.اور بے تعلقی کہ نہ محبت ہو نہ عداوت.اس سے اونچا مگر قابلِ فخر نہیں.محبت و اخلاص اصل درجہ ہے.پس بغض و عداوت اور بے تعلقی اور اسلام مجمع نہیں ہو سکتے.
۳۰۵ جو دونوں کو جمع کرتا ہے سخت غلطی کرتا ہے.خدا کی مخلوق سے کینہ اور خدا کی محبت ایک سینہ میں جمع نہیں ہو سکتے.عداوت گند ہے اور گند، اور خدا کی محبت جو ایک پاک ترین چیز ہے جمع نہیں ہو سکتے.بے تعلقی اونچا درجہ ہے مگر یہ بھی ایمان کے خلاف ہے..قرآن کریم میں اعتصام بحبل اللہ کا کلمہ ہے کہ تم بھائی بھائی ہو.بھائی بھائی بنے رہو ایمان کا نتیجہ بھائی ہوتا ہے.عداوت نہیں.اس لیے جو شخص دوسرے سے ہمدردی نہیں رکھتا.اسکو اسلام میں داخل ہونے کے لیے ابھی بہت سا راستہ طے کرنا ہے.اور جب تک وہ اس راستہ کو طے نہ کرے اس درجہ ایمان اور تعلق باللہ کو حاصل نہیں کر سکتا.میں نے بتایا ہے کہ جب تک جماعت میں محبت نہ ہو دیندار نہیں ہو سکتی.اب تک اس پر توجہ نہیں کی گئی.کیونکہ لوگوں نے خیال کرلیا کہ آپس کی محبت ایک دنیا دارانہ فعل ہے.اس کو دین سے تعلق نہیں.نمازیں پڑھیں.روزے رکھیں.حج کریں اور اشاعت اسلام کریں، لیکن یہ ایک غلطی اور غلط فہمی ہے.قرآن کریم نے آپس کی محبت و ہمدردی کو حصہ دین قرار دیا ہے.پس جو شخص خدا کی محبت کا دعوی کرتا ہے، لیکن اس کی مخلوق سے لا پرواہ ہے یعنی اس سے ہمدردی نہیں کرتا.اس کا خدا کی محبت کا دعویٰ جھوٹا دعوی ہے.ہمارے لوگوں میں جو اس محبت و اخلاص و ہمدردی کی کمی ہے میرے خیال میں وہ اس غلط فہمی کی وجہ سے ہے کہ وہ اس کو دنیا وی فعل سمجھتے ہیں، لیکن ان کو معلوم ہونا چاہیئے کہ یہ دنیاوی فعل نہیں ہے بلکہ دین ہے.مجھے ابھی شکایت کا رقعہ پہنچا ہے کہ ایک شخص کے گھر چور گئے.اتنا شور پڑا کہ باغ تک اس کی آوازہ گئی ، ہندو تک جمع ہو گئے.غیر احمدی بھی پہنچ گئے ، لیکن احمدی صرف چار شخص گئے.میری طبیعت اس رات خراب تھی.میری بیوی نے صبح کو بتایا کہ ایسا واقعہ ہوا تھا.میں نے اس کو ڈانٹا کہ تم نے مجھے کیوں نہ جگایا.یہ ایک بہت گری ہوئی بات ہے.اور ایک جھوٹا خیال ہے کہ دوسرے کی تکلیف کو دوسرے کی ہی تکلیف سمجھا جائے.اور یہ خدا کی محبت کے منافی ہے مسلمانوں کو اسی بات نے تباہ کیا.ایک مسلمان سلطنت کو جب تباہ کرنا چاہا تو دوسروں کو کہ دیا کہ ہمارے آپ کے تعلقات دوستانہ ہیں.مگر فلاں سلطنت خراب ہے.ذرا اس کی خبرے ہیں.دوسرے مسلمان خاموش بیٹھے رہے کہ ہمارے تو یہ لوگ دوست ہی ہیں.مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یے یکے بعد دیگرے تمام سلطنتیں تباہ ہو گئیں.عیسائیوں میں یہ بات نہیں.ایک سلطنت کے کوئی خلاف ہو جھٹ اس کے خلاف تمام سلطنتیں اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں.پھر نہ صرف حکومت.بلکہ اگر کسی عیسائی کے
کے ساتھ بھی جھگڑا ہو جو کسی دوسری سلطنت میں رہتا ہو تو سلطنتیں اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں.یہ مذہبی جمیت ہوتی ہے.وہ لوگ اس کو محض انسانی ہمدردی قرار دیتے ہیں، مگر جب افریقہ کے وحشیوں پر ظلم ہوں تو انسانیت کا خیال پیدا نہیں ہوتا اور کہدیا جاتا ہے کہ یہ تمدن کا فرق ہے.اور وہ لوگ ایسا کہنے پر مجبور تھے، لیکن درحقیقت وہ عیسائیت کا رشتہ ہوتا ہے مسلمانوں نے ایک دوسرے کی مدد نہ کر کے اپنی تمام سلطنتوں کو کھو دیا.ان لوگوں کے لیے جو نتیجہ نکلا.وہ طبعی تھا.کیونکہ ان کے اکیس میں سخت فساد و اختلاف تھے.اور بیرونی دشمن تاک میں تھے.اور کوئی سنبھالنے والا نہ تھا.اور ان کے دل گھر میں مبتلا تھے.لیکن تم وہ ہو جوکہتے ہو کہ ہم مسلمان ہیں.واقعہ میں اگر تم اسی مقام پر کھڑے ہو جس پر کھڑے ہونے کے مدعی ہو.تو اسلام تمہیں میں ہے.پس اگر تم میں بھی وہ بے حمیتی اور ہمدردی کا فقدان اور عدم محبت ہو تو پھر کتنے افسوس کی بات ہے.اگر تم انہیں کا رویہ اختیار کرو گے تو غور کر لو کہ جب زیادہ کو تباہ کر دیا گیا تو تم جو چند لاکھ ہو.تمہا را تباہ کرنا کونسا مشکل کام ہے اور تمہاری حیثیت ہی کیا ہے.کھتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے اپنی بیٹی کا ایک جگہ یہ کرنا چاہا، مین بعدمیں رشتہ کرنا ناپسند ہوا.اس لیے تدبیر کرنے لگا کہ کسی طرح بہ رشتہ نہ ہو.وزراء سے مشورہ کیا کہ کیا تدبیر اختیار کرنی چاہیئے.وزران نے کہا کہ لڑکے کے باپ بادشاہ سے یہ شرط کرنی چاہیئے کہ برات میں تمام جوان ہی جوان ہوں لڑکے والوں نے اس شرط کو قبول کر لیا.جب برات روانہ ہونے لگی.تو لڑکے کے باپ کے وزیر نے کہا کہ مجھے کسی نہ کسی طرح ضرور بھیجدو - کہ میں کام آؤں گا.آخر اس وزیر کو چھپا کر لے گئے.لڑکی والوں کی طرف سے وہاں پہنچتے ہی یہ نئی شرط پیش ہوئی کہ ہر ایک شخص ایک ایک برا کھاتے.تو ہم لڑکی دینگے.لوگ حیران ہوتے.کہ اب کیا کریں.آخر اس بوڑھے کی طرف متوجہ ہوتے بوڑھے نے کہا کہ تم کہو.ہم باتیں شرط اس شرط کو پورا کرتے ہیں کہ تم ایک ایک بکرا ذبح کر کے لاتے جاؤ.اس طرح انھوں نے سب بکرے کھا لیے اور لڑکی بیاہ لے گئے.تو ہماری مثال بھی ایسی ہی ہے کہ اگر ہماری تمام جماعت ایک جگہ ہوتی تب بھی البتہ ایک بات تھی، لیکن اب تو حالت اس کے خلاف ہے کیونکہ مختلف جگہوں میں پھیلے ہوتے ہیں پس اس پراگندگی پر پھر کیا حیثیت ہے.ہیں ہیں پھر یہی حیثیت ہے جیسی ایک بکرے کی ایک برات کے سامنے.ہماری جماعت مختلف جگہوں میں پھیلی ہوئی ہے.اس کی تباہی اس صورت میں کچھ بھی شکل نہیں.اگر اسکے افراد میں آپس میں محبت و ارتباط نہ ہو.یہ تو خدا تعالیٰ کی نصرت ہے کہ با وجود مختلف
مقامات پر پھیلے ہونے کے جماعت ترقی کر رہی ہے.اگر آپس میں محبت و اخلاص اور ہمدردی نہ ہو، تو پھر جماعت کیسے محفوظ رہ سکتی ہے.اگر ہمسائے میں چوری ہو اور دوسرا آرام سے سوتا رہے کہ میرے گھر میں تو نہیں ہوتی ، تو اس کی بھی خیر نہیں یا اگر کسی کے گھر میں آگ لگے.اور دوسرا اس خیال کی بناء پر مطمئن ہو جاتے کہ میرے گھر میں تو آگ نہیں لگی ہوئی.تو اس کا یہ اطمینان جھوٹا اطمینان ہوگا کیونکہ آگ ہمسائے کے مکان کو جلا کر اس کے مکان تک پہنچے گی.پس افراد کی مصیبت جماعت کی مصیبت ہوتی ہے.کیونکہ افراد سے ہی جماعت بنتی ہے.اگر افراد کی عزت ہوگی اور افراد اچھی حالت میں ہوں گے.تو جماعت بھی اچھی حالت میں ہوگی.آج دنیا میں عیسائی بادشاہ ہیں.ایک چوہڑا جو عیسائی ہو جاتا ہے وہ بھی فخریہ کہتا ہے کہ میں عیسائی ہوں.جن جگہوں میں ہندو زیادہ ہیں.وہاں ہندو معزز و محترم ہیں اور مسلمان جہاں زیادہ ہیں.وہاں مسلمانوں کی اچھی حالت ہے.غلبہ افراد کے ذریعہ ہی ہوا کرتا ہے.اگر افراد میں کھیتی نہ ہو.تو پھر جماعت میں بھی نہیں ہو سکتی.اور اگر افراد کی مصیبت کو اپنی افراد کی مصیبت خیال کیا جائے تو پھر اس طرح دشمن کو غلبہ پانے کے لیے بہترین موقع مل جاتا ہے.کہتے ہیں کسی شخص کے باغ میں تین شخص ایک مولوی ایک سید اور ایک اور عام آدمی مل کر چوری کرنے گئے.وہاں انہوں نے خوب باغ میں تباہی ڈالی.اتنے میں باغ کا مالک آیا.اس نے مقابلہ ظاہرا مناسب نہ جان کر ان سے کہا کہ حضور خدا کا شکر ہے کہ آپ لوگ یہاں تشریف لاتے.بھلا کہاں ہماری قسمت کہ آپ سے بزرگ یہاں آتے.یہ باغ تو کیا ہے.اگر اور بھی کوئی چیز میرے پاس ہوتی تو میں وہ بھی آپ پر نثار کر دیتا.وہ بہت خوش ہوتے تھوڑی دیر کے بعد اس نے مولوی کو مخاطب کیا، اور کہا جناب مولوی صاحب ! آپ تو رسول کریم کی گدی پر بیٹھے ہیں.اور حضرت سید صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذریت میں سے ہیں.اگر آپ دونوں نے باغ کی اشیاء کو استعمال کیا.تو یہ آپ کا حق تھا، لیکن یہ جو تیسرا شخص ہے.اس کو کیا حق حاصل تھا، کہ میرے باغ میں تباہی ڈالتا.مولوی صاحب نے فرمایا، کہ واقعی اس شخص نے غلطی کی ہے اور واجب مزا ہے.باغ والے نے کہا کہ آپ میری مدد کریں.چنانچہ اس کو پکڑ لیا اور دونوں مولوی اور سید نے اس کو مدد دی اور اس شخص کو خوب مارا.اور درخت سے باندھ دیا اسی طرح تھوڑی دیر کے بعد سید کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ سلم کی اولاد میں سے ہیں.اس لیے اگر آپ نے باغ میں سے کچھ کھایا تو آپ کا حق تھا، لیکن یہ مولوی کہلا کر اور دین کے علوم پڑھ کر دوسروں کی چیزوں کو خراب کرنے والا کون تھا.سید صاحب پھول گئے.باغ والے
نے کہا کہ آپ میری مدد کریں.چنانچہ مولوی صاحب کو پکڑا اور خوب مارا اور درخت سے باندھ دیا.آخر سید صاحب کو اس نے پکڑا کہ تم کیسے سید اور آل رسول ہو کہ لوگوں کی چیزیں لوٹ رہے ہو.اس کو پکڑا اور مارنے لگا، وہ بہت منت سماجت کرنے لگا، مگر اس نے نہ چھوڑا اور کہا کہ یہ بات مجھے پہلے سوچنی چاہتے تھی.جب تیرے پہلے ساتھی پر مصیبت آئی تھی.پس اگر ایک کی مصیبت کو اسی شخص کی مصیبت خیال کیا جائے تو جماعت بہت جلد ہلاک کی جاسکتی ہے لیکن چاہتے یہ کہ اگر ایک پر آفت آئے تو سب بے چین ہو کر اس کی مدد کے لیے دوڑیں پھر ضمن قابو سے نہیں بچ سکتا.اور اسی طریق سے محبت و اخلاص اور ایمان و تقویٰ اور تعلق باللہ بڑھ سکتا ہے.اگر یہ نہ ہو تو دشمن ایک ایک کرکے سب کو کھا جائیں گے.بے تعلقی ادنیٰ درجہ ہے.اس سے ترقی کرو اور محبت و اخلاص بڑھاؤ.جب اخلاص میں ترقی ہوگی.تو ایمان میں بھی ترقی ہوگی.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے.آمین.الفضل ١٤ اكتوبر الة )
58 ضروریات اسلام کا علم حاصل کرو -1919.د فرموده ۳ اکتوبر ۷ ) حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- اس وقت دنیا کے لوگ جس طرح دنیا کے کاموں میں منہمک ہو رہے ہیں.اس کی مثال کسی گزشتہ زمانہ میں نہیں ملتی ہر ایک زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ دنیا داری کی طرف متوجہ نظر آتے ہیں اور دنیا کی محبت ہر ایک چیز سے زیادہ ان پر غالب ہوتی ہے.ہر زمانہ کے لوگ شکایت کرتے آتے ہیں کہ اس زمانہ میں لوگوں کی زیادہ توجہ دنیا کی طرف ہے.اور دین سے بے خبر ہو گئے ہیں مگر اس زمانہ کا حال دوسرے زمانوں سے بہت مختلف ہے.اگر ان زمانوں میں چند شالیں پائی جاتی ہیں کہ لوگ دین کو چھوڑ کر دنیا کی طرف ہو گئے اور پھر اگر کثرت بھی ہو کہ لوگ دین کی نسبت دنیا کی طرف زیادہ متوجہ ہوں تو بھی اس زمانہ کے مقابلہ میں اس وقت کی بہت اچھی حالت تھی.کیونکہ اس وقت سو فیصد ایسے شخص ہیں.جو دین کو چھوڑ کر دنیا کی طرف متوجہ ہیں.اس کے یہ معنے نہیں کہ دنیا میں کوئی بھی دیندار ہیں.لیکن اس سو فیصد کہنے کے یہ معنے ہیں کہ ہزار میں سے ایک مل جاتے تو مل جائے ، ورنہ اس کا ملتا بھی مشکل ہے.دنیا کی جس قدر آبادی ہے اگر ایک ہزار میں سے ایک آدمی بھی ایسا مل جاتے جو دین کی طرف متوجہ ہو تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ کئی ہزار انسان اس قسم کے میں جو دنیا کو ترک کر کے دین کی طرف ہو گئے ہیں.اس سوال کو علیحدہ کر کے کہ ہماری جماعت کی کتنی تعداد ہے.اور کتنی نہیں.اگر دیکھا جائے، تو ایسے لوگ بہت کم ملیں گے جو دین کی طرف متوجہ ہیں.یہ سچ ہے کہ بہت لوگ ایسے ہیں جن کو دین سے محبت ہے.دین سے اخلاص ہے.دین کے لیے قربانیوں کا جوش ہے.مگر وہ اس ذمہ داری کو نہیں سمجھتے.جو دین کی طرف سے ان پر عائد ہے.یہ ظاہر ہے کہ صرف محبت و اخلاص سے کام نہیں چلا کرتا.جب تک محبت کے ساتھ ضروریات کا علم نہ ہو.شلاً ایک شخص کا ایک پیارا بیا دوسرے کمرے
میں ہو کہ چور آئیں.اور اس خیال سے کہ کہیں یہ بچہ شور نہ مچادے اور ہم چوری نہ کرسکیں.اس کو قتل کر ڈالیں تو وہ شخص با وجود اپنے بچے سے محبت رکھنے کے اس کی مدد نہیں کر سکے گا کیونکہ اس کو اس بات کا علم ہی نہ ہوگا کہ اس کے بچے کے گلے پر چھری چل رہی ہے.اور قتل کیا جا رہا ہے.اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ سب احمدیوں کو دین سے محبت ہے.اخلاص ہے.اور اس کے لیے قربانیاں کرتے ہیں اور کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن ایسے کم ہیں جن کو علم ہو کہ دین کے لیے کس قدر قربانی کی ضرورت ہے.اور کیا کیا قربانیاں اس وقت درکار ہیں.جہاں احمدیہ سلسلہ سے باہر بہت سے ایسے لوگ ملتے ہیں کہ ان کو دین سے محبت کی بجائے نفرت ہے وہاں سلسلہ احمدیہ میں اکثر ایسے آدمی ہیں.جو دین سے محبت رکھتے ہیں.مگر وقت کی نزاکت سے بے خبر ہیں جس طرح کہ بیٹے کے قتل ہونے پر بے خبر باپ آرام سے بیٹھا رہتا ہے.اسی طرح یہ لوگ دین کے معاملہ میں غفلت میں ہیں.حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ اسلام سے زیادہ آج کوئی مظلوم نہیں.اسلام کی اسی مظلومیت کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے." اسے خدا ہرگز مکن شاد آن دل تاریک را آنکه او را فکر دین احمد مختار نیست نی تو کبھی بطور خود بدعائیں کرتا.نہ ہی کس کا بدخواہ ہوتا ہے مگر آپ کی زبان سے اس شعر کا نکلا ثابت کرتا ہے کہ اس وقت دین کی کیا حالت ہے.اگر آپ دین کی ایسی ہی قابل رحم حالت نہ دیکھتے اور دینہ معلوم کرتے کہ جب تک انتہائی سرگرمی کے ساتھ دین کے معاملہ میں لوگوں کو چونکایا نہیں جاتے گا.اس وقت تک کچھ نہیں ہو سکے گا.تو آپ یہ بھی نہ فرماتے ہیں اس وقت آپ نے یہ شعر ضرورت کو مد نظر رکھ کر کہا جو ایسے وقت بھی بیدار نہ ہو.بہتر ہے کہ وہ مٹا دیا جائے.پس یہ مجبوری تھی جس کی وجہ سے یہ کہا گیا.ورنہ انبیا بد دعامیں سبقت نہیں کیا کرتے.لیکن افسوس جماعت کے لوگوں نے اس ذمہ داری کو نہ دیکھا.اگر دنیا آنکھیں کھول کر دیکھتی تو معلوم ہوتا کہ کسقدر چھریاں ہیں جو اسلام کی گردن پر دھری ہوتی ہیں.اگر خدا کی حفاظت نہ ہو تو اس کے مٹ جانے میں کوئی کسر نہیں رہ گئی.کہا کرتے ہیں.یک انار وصد بیمار.مگر اسلام کی اس سے بھی گئی گزری حالت ہے.ہر طرف سے لوگوں نے اس کو تختہ مشق بنا رکھا ہے اور اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ ایک شکار ہو اور کروڑوں شکاری اس کے پیچھے ہوں.اگر خدا کی مد کا ہاتھ اسلام کے ساتھ نہ ہو تو استصدر دشمنوں سے کیسے نجات ہو سکتی ہے.
٣١١ لوگ روتے ہیں کہ مسلمانوں کی حکومت چلی گئی.میں کہتا ہوں کہ رونے کا تو یہ مقام ہے کہ روحانیت ملی گئی.اسلام تو اس وقت بھی اسلام ہی تھا.جبکہ مسلمانوں کو حکومت نہیں ملی تھی.محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم جب بھی خدا کے نبی تھے.جب آپ کو بادشاہت نہ ملی تھی.آپ تیرہ سال لگہ میں رہے.کیا آپ اس وقت رسول نہ تھے.اور آپ کی وہ شان نہ تھی.اور کیا اس وقت اسلام، اسلام نہ تھا.بادشاہت تو ایک ضمنی چیز ہے.اگر لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلہ میں تلوار نہ اٹھاتے.تو مسلمانوں کو بھی تلوار اٹھانے کی ضرورت نہ پڑتی.جب کفار نے تلوار اُٹھائی.تو ان کے شر کو روکنے کے لیے تلوار ٹھانا لازمی تھا.اور اس رنگ میں اسلام کو ظاہری غلبہ بھی حاصل ہو گیا.اور رسول کریم کو حکمرانی حاصل ہوئی.یہ سچ ہے کہ اگر بادشاہت نہ آتی.تو رسول کریم صلی الہ علیہ والہ وسلم کے کئی کمالات کا اظہار نہ ہوتا.اور لوگ آپ کی کئی صفات سے بے خبر اور نا واقف رہتے.مثلاً آپ کے رحم چشم پوشی سیاست اور اعلی درجہ کا جرنیل ہونے سے لیکن حکومت نے آکر آپ میں یہ صفات پیدا نہیں کیں.بلکہ یہ آپ میں پہلے ہی موجود تھیں.ہاں اگر آپ کو حکومت نہ ملتی تو دنیا کو یہ معلوم ہوتا کہ آپ میں یہ کمالات ہیں پس یاد رکھنا چاہیئے کہ اسلام حکومت نہیں.روحانیت ہے، اگر روحانیت مٹ جائے اور تمام کی تمام حکومتیں مسلمان کہلانے والوں کی ہو جائیں.تب بھی اسلام کا اس میں کچھ فائدہ نہیں.ہاں اسلام کی طرف منسوب ہونے والی سلطنتوں سے اسلام کی ظاہری عظمت کسی قدر ہو سکتی ہے.مگر آج تو یہ حالت ہے کہ مسلمانوں کو اسلام سے نفرت ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان احکام کی پابندی کی ضرورت نہیں.جو اسلام نے دیتے ہیں جب مسلمان کہلانے والوں کا یہ حال ہو.تو پھر اگر غیر اسلام سے نفرت کریں، تو ان کو کیا الزام دیا جا سکتا ہے.ہمیں چاہیتے کہ دین کی حالت سے آگاہ ہو کر اس حالت کو بدل دیں.اللہ تعالے توفیق دے کہ ہم ان عہدوں کو پورا کریں.جو اس کے نبیوں اور ان کے قائم مقاموں سے کئے ہیں.تا خدا تعالیٰ دنیا میں پھر اسلام کی عظمت کو قائم کر دے.آمین.) الفضل دار اکتوبر؟ -1919 )
۳۱۳ 59 مفوضہ دینی کام کو مرتے دم تک کرو ۱۹۱۹ (فرموده ۱۰ راکتوبر (199) حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلادت کے بعد فرمایا کہ 1- میں آج آپ لوگوں کو ایک نہایت اہم معامہ کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.قادیان کے لوگوں کے لیے تو یہ بات نہایت ضروری ہے ہی، لیکن باہر کے لوگوں کے لیے بھی اس کی ضرورت میں شبہ نہیں.آسمانی سلسلوں کی ترقی کے ساتھ ان کے کاموں میں ترقی ہوتی ہے.اور پھر اسی طرح کام کرنے والوں کی ضرورت پیش آتی ہے دنیا وی سلسلوں اور حکومتوں میں حکومت نیچے سے اوپر کو جاتی ہے.اس لیے اصل حاکم اور مختار رعایا ہوتی ہے.اور رعایا کے افراد کا حق ہوتا ہے کہ جس کام میں چاہیں.حصہ ہیں.اور جس میں چاہیں نہیں.نہ انہیں کوئی مجبور کر سکتا ہے.نہ ان کے کام میں حصہ نہ لینے پر کوئی اعتراض ہو سکتا ہے.مگر باوجود اس کے بعض وقت ایسے ہوتے ہیں کہ افراد کی آزادی خطرے میں ہوتی ہے.اس وقت کے لیے ہمیشہ سے یہ قانون چلا آیا ہے کہ اس وقت افراد کی آزادی کی پروا نہیں کی جاتی، بلکہ اس وقت جبری حکومت کی جاتی ہے.جیسے پچھلی جنگ میں جبکہ آزادی خطرے میں تھی.اس وقت اگر مقابلہ کرنے والی سلطنتیں انتظام نہ کرتیں.تو جر من فتح یاب ہو جاتا.اس لیے وہ آزادی جو سینکڑوں برس سے افراد کو حاصل تھی.مٹا دی گئی.حکومت کو تمام افراد پر کلی اختیار دیا گیا جتنے لوگ کام کے اہل تھے.ان کی زندگیاں غلاموں کی طرح کر دی گئیں.جو فوج کے قابل تھا.اسے جبراً فوج میں داخل کیا گیا.جو مزدوری پیشہ تھا.اُسے جبراً مزدوری کے کاموں پر لگایا گیا.جو حفاظت کے کاموں کے قابل تھے ان کو مختلف دفاتر میں کلرکوں کی طرح لگا دیا گیا، جو صنعت و حرفت میں کام دے سکتے تھے نہیں جبراً وہاں لگایا گیا.جو زراعت پیشہ تھے.ان کو جبراً زراعت کے کاموں پر لگایا گیا.اس میں نہ بڑے کا سوال تھانہ چھوٹے کا شہزادے تھے تو ان کی.اور اگر عوام تھے تو ان کی آزادی قربان کر دی گئی تھی اور قانون کے ماتحت سب کی آزادی چھین کر گورنمنٹ کو دی گئی تھی.تو ایسے مواقع پر ایسا ہی کرنا پڑتا ہے.
مگر دینی حکومت اس کے خلاف ہے.یہ حکومت نیچے سے اور پر کونہیں بلکہ اوپر سے نیچے کو جاتی ہے.دینی حکومت میں درخواست نہیں کی جاتی حکم دیا جاتا ہے خدا کی طرف سے حکم آتا ہے کہ یہ کام کرو.وہاں حکم دیا جاتا ہے، کہ اس طرح کرنا ہوگا.خدا کا فرمان ہے کہ ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے.اس لیے ایسا کرو.تمہارا فرض ہے کہ مانو ہم نے تمہیں ہی نہیں تمہارے باپ دادوں کو پیدا کیا.پس تم ہمارے اس حکم کو مانو.اور ہمارے حکم پر ایمان لاؤ ہم تمہیں رزق دیتے ہیں.تمہاری حفاظت کرتے ہیں.اور تمہاری دیگر ضروریات کو مہیا کرتے ہیں پھر تمہاری آئندہ نسلوں کو پیدا کرینگے.ان کی حفاظت کرینگے.تمہاری پیدائش ہمارے قبضہ میں ہے.تمہاری زندگی ہمارے قبضہ میں ہے اور تمہارا مرنا بھی ہمارے قبضہ میں ہے اور پھر مرنے کے بعد بھی تم ہمارے قبضہ سے باہر نہ ہو گے.اور تمہارا میں سے تعلق رہے گا پس کیا بلحاظ حسن کے اور کیا بلحاظ احسان کے.ہم جس طرح تمہیں حکم دیں.اسی طرح تمہیں کرنا ہوگا.اور ہم جیس طرح چاہیں تم سے سلوک کریں سوال کے طور پر نہیں.اور عرض کی شکل میں نہیں.بلکہ مالکانہ اور خانقانہ رنگ میں اعلان ہوتا ہے کہ اس کی فرمانبرداری اور اطاعت اختیار کرو.یہ وہ بادشاہ نہیں جس کو تم منتخب کرتے ہو.بلکہ وہ جب سے بادشاہ ہے کہ تم نہ تھے.وہ جب سے بادشاہ ہے، جب تمہارے باپ دادا نہ تھے.وہ جب سے بادشاہ ہے.جبکہ تمہارے باپ دادا ہی نہیں ابو البشر آدم بھی پیدا نہ ہوا تھا.وہ بادشاہ ہے جب سے زمین نہ تھی وہ بادشاہ ہے جبکہ وہ باریک درس بھی نہ تھے.جن سے زمین پیدا ہوتی ہے.پھر اس کی حکومت ہمارا منتخب ہونے کی وجہ سے نہیں.اور وہ ہمارا نائب ہو کر ہم پر حکومت نہیں کرتا.ہم نے جو کچھ حاصل کیا.اسی سے حاصل کیا.اس لیے اسکے حکم مقتدرانہ ہوتے ہیں کہ ہم یہ حکم ناندل کرتے ہیں.اس کی اطاعت کرو.پس یہ رنگ اور ہے اور وہ اور دنیاوی حکومتوں میں خواہ کام جبر آلیے جائیں.خواہ مرضی سے، لیکن عرفاً اور عقلاً وہ حکومت ہوتی رعایا کی ہے.حکومت کو جس قدر اختیارات ملتے ہیں.وہ سب کے سب نیچے سے ہی ملتے ہیں.خواہ ان کی حقیقی اور دلی مرضی سے خواہ ظاہری سے.مگر ہر حال وہ حکومت لوگوں کی رضا کے ماتحت نہیں ہوتی.اگر سب کے سب لوگ انکار کر دیں.تو کوئی بادشاہ ان سے اپنی حکومت نہیں منوا سکتا، کونسی حکومت ہے، جو ایسے لوگوں پر حکومت کر سکے، لیکن خدا کی حکومت کی یہ حالت نہیں.اگر سب کے سب لوگ اس کی خدائی ماننے سے انکار کر دیں.تو وہ اپنی خدائی کو نہیں چھوڑے گا.بلکہ وہ کہے گا.تم انکار کرتے ہو.میں تم سے منواتا ہوں.دنیا نے انکار کیا.اس نے کہا کہ منوا کے چھوڑوں گا.وہ اپنی حکومت کی شان کو بڑھانے کے لیے لوگوں میں سے ہی ایک شخص
کو بھیج دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس شخص کے ذریعہ اپنی حکومت منواؤں گا.وہ لوگ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ہم سے ادنی ہے ذلیل ہے.نہ اس کے پاس دولت ہے نہ جتھا ہے نہ حکومت ہے خُدا کہتا ہے کہ ہاں میں اسی کے ذریعہ منواؤں گا.اور بالآخر دنیا کو اس کی اطاعت قبول کرنی پڑتی ہے اس لیے کہ وہ قدیم و قدیر اور خالق و مالک شہنشاہ کی طرف سے بادشاہ ہوتا ہے.اور اس کا قائم مقام ہوتا ہے.اس لیے اس کے احکام کے آگے بھی نہیں نہیں سنی جاتی.جسمانی اور روحانی حکومتوں میں یہ فرق ہوتا ہے.روحانی احکام کے نیچے نہیں نہیں سنا جاتا ، لیکن دنیاوی معاملات میں نہیں کہا جاسکتا ہے.دنیاوی معاملات میں ایک حدتک افراد کی آزادی میں حکومت دخل نہیں دے سکتی.مگر روحانی حصہ میں کسی شخص کو اختیار نہیں کہ انکار کرے کیونکہ روحانی حکومت اوپر سے آتی ہے.دنیا کے بادشاہ حقیقی بادشاہ نہیں، لیکن خدا حقیقی بادشاہ ہے.یہی وجہ ہے کہ دنیا میں دیکھتے ہیںکہ کوئی حکومت جب کسی شخص کو کس کام پر مقرر کرتی ہے.وہ کہ دیتا ہے کہیں نہیں مانتا.قانون بنا کر لاؤ.یکم محض شخصی ہے اور شخصی سوال ہے.اس لیے نہیں مانتے.پھر کام کرتے کرتے استعفیٰ پیش کر دیتے ہیں یا کہدیتے ہیں.جاؤ ہم نہیں کر سکتے.استعفیٰ کے معنے طلب عفو کے ہیں کہ مجھے معاف فرما یتے، لیکن دنیاوی حکومتوں میں استعفیٰ کے معنے وہ نہیں ہوتے جو عربی میں ہیں.بلکہ پنجابی معنے ہوتے ہیں کہ جا میاں معاف کر یہ عربی میں تذیل کا مفہوم اس کے معنوں میں پایا جاتا ہے.لیکن پنجابی یا اردو میں اسکے یہ معنے نہیں.بلکہ اس کے معنے ہوتے ہیں کہ ہم ایسا نہیں کر سکتے.جاؤ سر نہ کھاؤ معاف کرو بس اب زیادہ پریشان نہ کرو.ہم کام چھوڑ کر چلے جائیں گے." اس کے مقابلہ میں شرعی حکومت میں استعفیٰ کا قانون نہیں.حکومت کے ماتحت وہ کام کرتے ہیں.جوان کو پسند ہوتے ہیں، لیکن شریعت میں یہ نہیں ہوتا کہ وہ کام کریں جو لوگوں کو پسند ہو، بلکہ وہ کرنا پڑتا ہے جس کا شریعت حکم دے اور اس شخص کا حق نہیں ہوتا کہ وہ جواب دے.رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم نے اسامہ کو کمانڈر انچیف مقرر کیا.یہ نہیں کہ وہ اہلبیت زیادہ رکھتے تھے، بلکہ وہ ایک حکم تھا.جس کی اطاعت اسامہ پر فرض تھی.اسامہ نے بھی انکار نہیں کیا ، اور اسامہ کے ماتحت عمر اور عمرو بن العاص جیسے شخصوں کو کر دیا.جن کے نام سے ایشیاء کے لوگ تھرا اٹھتے تھے اسامہ ان سے بڑا نہ تھا.نہ اپنی سپا ہیا نہ قابلیت میں ان لوگوں سے بڑا تھا کہ وہ اس لحاظ سے اس عہدے کا مستحق تھا.اس کو تو اپنے نفس میں فکر ہوگی کہ یہ اتنے بڑے بڑے لوگ کیوں میری بات ماننے لگے.وہ تو اُسے ایک ابتلام اور آزمائیش خیال کرتا ہوگا یہ مگر وہ اس کو رد نہ کر سکتا تھا.سنہ اس
۳۱۵ نے کیا کیونکہ اس حکم کی بجا آوری اس کی جان کے ساتھ وابستہ تھی.نا واقف لوگ سمجھتے ہیں.اور منافقوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وقت میں سمجھا کہ اسامہ رسول کریم کے لے پالک کا بیٹا ہے.اس کو نا جائز طور پر افسری دے دی لیکن نادان نہیں جانتے کہ اساللہ تو اس کو اپنی شہادت خیال کرتا تھا.مثلاً آج ہم تبلیغ کے لیے کوئی وفد بجھیں اور زید یا بکر کو جو ایک چھوٹے درجہ کا آدمی ہو.اور کوئی علمی قابلیت اپنے اندر نہ رکھتا ہو.اس کے ماتحت مولوی سید سرور شاہ صاحب حافظ روشن علی صاحب.قاضی سیدامیرحسین صاحب کو کر دیں.تو کیا ایسا شخص جس کو ان پر افسر کیا جائے.اس افسری پر خوش ہو سکتا ہے اور فخر کر سکتا ہے ؟ یقینا وہ تو اسے آزمائیش خیال کریگا.اور جانے گا کہ مجھ پر امتحان کا وقت آ رہا ہے.پس ایسی حالت میں اسامہ نے اپنے تئیں اس کام کے جو اسے سپرد کیا تھا.نا قابل ظاہر کر کے علیحدگی نہیں چاہی.اور یہ نہیں کہا کہ میں استعفی پیش کرتا ہوں.اور اگر وہ ایسا کرتا تو اس کے معنے یہ ہوتے کہ میں دین سے علیحدہ ہوتا ہوں.اسی طرح ہم دوسرے کاموں کو دیکھتے ہیں کہ ملا حضرت عمر ابو عبیدہ کو کمانڈر مقرر کرتے ہیں.اور ان کے ماتحت خالد کو کرتے ہیں.جو ایسا شخص تھا، لڑائی میں پیدا ہوا.لڑائی میں پلا اور جوان ہوا.اور جس کے سر کی چوٹی سے پاؤں کے تلووں تک کوئی جگہ ایسی نہ تھی.جس پر تلوار اور نیزے کے زخم نہ ہوں.ابو عبیدہ وہ شخص ہیں جو واعظ اور امین تو ہیں مگر سپاہیاں اوصاف کے نہیں.ان کے ماتحت خالد کو کیا جاتا ہے.ابو عبیدہ یہ نہیں کہتے کہ میں اس خدمت کا اہل نہیں مجھے معاف کیا جائے.وہ یہ نہیں کہتے کہ میں اس خدمت کے لائق نہیں.وہ یہ نہیں کتنے کہ مجھے اس بوجھ سے سبکدوش کیا جائے.وہ اس خدمت کو بجالاتے رہتے ہیں.اس وقت تک کہ ان کی جان نکل جاتی ہے.ساری اسلامی تاریخ میں اس خلافت کے عرصہ میں جو رسول کریم نے مقرر کیا ہے کسی کا استعفیٰ نظر نہیں آیا کہ کسی شخص نے یہ کہا ہو کہ میں اس کام کو پسند نہیں کرتا.یہ کام مجھ سے نہیں ہو سکتا.میں استعفی پیش کرتا ہوں.اس عرصہ میں صرف ایک نظیر استعفیٰ کی ملتی ہے.جو وہ بھی اس طرح نہیں کہ اس کام سے نفرت کے باعث استعفی پیش کیا گیا ہو.وہ واقعہ حضرت عثمان کے وقت کا ہے کہ ایک قاضی جو بہت بڑی عمر کے ہو گئے تھے اور چلنے پھرنے اور گھر سے نکلنے تک سے معذور ہوگئے تھے انہوں نے حضرت عثمان سے عرض کیا تھا کہ اگر اجازت ہو.تو میں اپنے کام سے استعفی پیش کرتا ہوں اور وہ واقعہ میں کام کے ناقابل تھے.چونکہ وہ دور رہتے تھے.اس لیے ان کی حالت کا حضرت عثمان
کو علم نہ تھا.نیس ہی ایک مثال ہے.جو استعفیٰ کی ملتی ہے.ورنہ اسلام کے سارے زمانے میں ایک بھی نظیر نہیں کہ کسی شخص کو کسی کام پر مقرر کیا گیا ہو اور اس نے اس کام سے نفرت یا خلاف طبیعت ہونے کے باعث علیحدگی چاہی ہو.اور کہا ہو کہ یہ کام میری طبیعت کے مخالف ہے ، اور مجھے اس کام سے لگاؤ نہیں.یہ کام میری لیاقت سے بالا ہے.مجھے اس سے دلچسپی نہیں.کیونکہ یہ نفس کے دھو کے ہیں.کیا اسامہ کبر تھاکہ اس کے ماتحت عمر اور عمرو بن العاص اور خالد بن ولید ایسے اشخاص کو کر دیا یا عرب کے سب کے سب لوگ اس قسم کے تھے کہ وہ انکسار مجسم تھے.یا عرب کے لوگوں کو ہرا ایک کام سے جس پر انہیں متعین کیا جاتا تھا.فطرتی لگاؤ تھا یا ان سے غلطی نہ ہوتی تھی.ان میں سے کوئی بات بھی نہ تھی.نہ تو عرب کا ہر ایک باشندہ علم و ہنر کا ماہر کامل ہوتا تھا.نہ یہ کہ انتخاب میں غلطی نہ ہوتی تھی اور تو اور بعض اوقات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے انتخاب میں غلطی ہو جاتی تھی.پہلے آپ ایک شخص کو مقرر کرتے مگر پھر اس کو بدل دیتے.اور اس کی جگہ ایک اور شخص کو کھڑا دیتے.فتح مکہ کے موقع پر ایک شخص کو افسر مقر فرمایا لیکن تھوڑی دیر میںاس کو بدل کر دوسرا مقرر کر دیا.یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انتخاب میں غلطی ہو جاتی تھی.حضرت ابو بکر نے خالد کو افسر بنایا، لیکن حضرت ہم نے ان کو بدل کر ابو عبيد بن الجراح کو مقرر فرما دیا.ظاہر ہے کہ دونوں میں سے ایک شخص احق تھا، لیکن اس ادل بدل میں کسی نے یہ نہیں کہا کہ مجھے اس کام سے معاف فرمایا جاتے.کیونکہ جب انہوں نے بعیت کی تھی.تو بیعت کرنے والے کو اختیار نہیں ہوتا ، کہ وہ یہ سوال اُٹھاتے کہ میں یہ نہیں کر سکتا.یا وہ نہیں کر سکتا.کیونکہ بیعت کرنے والے نے اپنی آزادی توزیع دی.اگر وہ یہ ہے کہ میں یونہیں کر سکتا تو اس نے خدا کے ہاتھ پر یا اس کے نائب کے ہاتھ پر کیا بیعت کی کیونکہ وہ تودہ کام کرتا ہے جو اس کا نفس چاہتا ہے جب نفس کے خلاف ہوتا ہے تو کہدیتا ہے کہ میرا استعفیٰ ہے.شنوی والے کہتے ہیں کہ چوہا اونٹ کی مہار پکڑ کر ادھر لے جاتا ہے.جدھر اونٹ جارہا ہو.لیکن اگر اونٹ ادھر نہ جانا چاہتا ہو آدمی بھی اُدھر مشکل سے لے جاسکتا ہے.اسی طرح اگر ادھرنہ.له سعد بن عباده و نه سیرت ابن ہشام جلد ۲ حالات فتح نکته
.۳۱۷ ایک انسان خدا کے نائب کے ہاتھ پر بیعت کر کے اُدھر نہ چلے، جدھر چلانا اس کو مقصد ہے اور اپنے نفس کی خواہش کی پیروی کرے.تو اس کی باگ خُدا کے ہاتھ میں نہیں.بلکہ اس کے نفس کے ہاتھ میں ہے.خدا کے ہاتھ میں اس کی باگ تھی ہو گی جب خدا کے منشاء کو پورا کریگا.اور جدھر کو اس کو کھینچا جائے کھنچتا چلا جائے.جب تک یہ نہیں.دعوی بیعت باطل ہے.افسوس ! حریت کے غلط معنے سمجھنے کی وجہ سے جماعت کے بعض لوگوں میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے جب ان کو کوئی کام سپرد کیا جاتا ہے تو بعض تو کہتے ہیں.ہم اس کام کے قابل نہیں.بعض کہتے ہیں.ہمیں اس کام سے مناسبت نہیں.بعض رکھتے ہیں یہ کام ہماری طبیعت کے مخالفت سے جالانکہ ان کا یہ قول وفعل ان کی بیعت کے مخالف.ان کے ایمان کے مخالف ، ان کے اس یقین کے مخالف ہے جسکے وہ مدعی ہیں بیعت کے بعد تو مشکل سے مشکل کام پر ان کو لگایا جائیگا.اور ان کا فرض ہوگا کہ وہ اس کام کو بجا لائیں.اگر یہ نہ ہو، اور شخص مشکل سے جی چراتے تو پھر مشکل کاموں کو کون کرے اور پھر وہ حصہ خالی رہ جاتے.جنگ میں کوئی پہلی لائن میں نہ جاتے.دنیاوی معاملات میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ انسر جہاں کھڑا کرتا ہے وہاں کھڑے ہونا پڑتا ہے.اور افسر کی اطاعت ضروری ہوتی ہے.اسلامی طریق میں استعفیٰ کا کوئی طریق نہیں.دنیاوی جنگوں کے موقع پر بھی اگر کوئی شخص استعفی پیش کرے.تو اس کو مزادی جاتی ہے.حریت کا دعویٰ کرنے والی قومیں جو ذرا ذرا سی بات پر پڑا تیک کر دیتی ہیں.جنگ کے موقع پر کوئی استعفیٰ نہیں دیتیں.وہ فلسفی حکومتیں جن میں ہر ایک شخص مرضی کا مالک کہا جاتا ہے.ان میں جنگ کے موقع پر کوئی کیا ہی استعفیٰ نہیں دیتا.اس وقت میں حریت کے دلداد سے بھی اس خیال کو چھوڑ دیتے ہیں.اور کوئی استعفیٰ وغیرہ نہیں رہتا.تو دینی حکومت جس میں پہلے ہی یہ قانون نہ تھا اس میں کیسے اب ہو سکتا ہے.جو ایسا کرتا ہے.وہ غلطی کرتا ہے گناہ کرتا.مومن کا فرض ہے کہ اسے جس کام پر مقرر کیا جاتا ہے.اس کو بجالاتے.اس سے یہ نہیں سنا جاسکتا ہے کہ اس کو اس کام سے لگاؤ نہیں.اور وہ اس کام کا اہل نہیں.اگر فی الواقعہ وہ اہل بھی نہ ہوگا.اور محض خدا کے لیے اس کام کو کریگا.تو خدا تعالیٰ اس نیک نیتی کے باعث اس کو اس نیک کام کے سرانجام دینے کی توفیق دے گا.اور خدا آپ اس کو تہمت دیگا.اور اس کی طرف سے نصرت اس کا ہاتھ بٹانے کے لیے آتے گی.دیکھو ابو عبیدہ اس کام سے انکار نہیں کرتا جس پر اسے متعین کیا جاتا ہے.اور ابو عبیدہ
۳۱۸ شخص ہے جسے امین تو کہ سکتے ہیں لیکن امت کا سپاہی اور جبری نہیں کہ سکتے.جیسے کہ خالد بن ولید کو کہ سکتے ہیں مگر ابو عبیدہ سے جو کام ہوا.وہ خالد سے نہیں ہوا.اس لیے نہیں کر وہ اہل تھے یا اپنے آپ کو اس کام کا اہل جانتے تھے بلکہ اس لیے کہ انہوں نے اس کام کو خدا کے لیے اپنے ذمہ لیا تھا.اور خدا کے مقرر کردہ انتظام کے ماتحت کیا تھا.اس لیے خدا نے ان کی مدد کی.اور ان کے ذریعہ نہایت عظیم الشان فتوحات حاصل ہوتیں.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو خدا کے لیے کھتا ہے.خدا اس کی مدد فرماتا ہے.تو ایک موقع پر دنیاوی حکومتوں میں ڈپٹی.نائب تحصیلدار تحصیلدار- کلرک کو اجازت ہے کہ وہ استعفی دیدیں مگر دین کے انتظام میں غذر کا موقع نہیں ہے.جو الیا کرتا ہے.اس کے دل پر رنگ بیٹھ جاتا ہے.پھر جب وہ دوسری دفعہ انکار کرتا ہے.تو دوسرا سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے.پھر جب تیسری دفعہ انکار کرتا ہے تو تیرا نقطہ لگ جاتا ہے حتی کہ ایک وقت آتا ہے کہ اس شخص کا یہ بار بار کا انکار اس کو ایمان سے محروم کر دیتا ہے پس جتنا وہ انکار کرتا ہے اتنا ہی اس کا ایمان مرتا چلا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو سمجھنے کی توفیق دے اور وہ اطاعت پیدا کرے.جو وہ اپنے بندوں میں چاہتا ہے کہ پیدا ہو.آمین : الفضل ۱۵ نومبر ۹۱انه )
60 وساوس موجب ہلاکت ہوتے ہیں د ار فرموده ۷ ار اکتو بر شته ) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- سورۃ فاتحہ نہیں اس بات کی طرف متوجہ کرتی ہے، کہ انسان کو بھی اپنے دشمنوں سے بے خوف اور مامون اور نڈر نہیں رہنا چاہتے.کیونکہ جو شخص عداوت پر آمادہ ہو گیا.اور اس نے اخوت اور محبت کو ترک کر دیا.اس کی نسبت یہ خیال کرنا کہ وہ دکھ دینے اور ایذا پہنچانے سے ہاتھ روک رکھے گا، جہالت ہے.دُنیا کے معاملہ میں اس امر کی سچائی کس طرح اور کہاں تک ثابت ہوتی ہے.اس پر مجھے اس اس وقت کچھ بیان کرنے کی ضرورت نہیں مگر دین کے معاملہ میں اس کی سچائی بہت روشن اور مبرہن ہے اور اسی کے متعلق میں کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں بیان فرمایا ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الصَّالِينَ - انسان کامیابی کے راستہ پر چلا جاتا ہے.ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ میں کامیاب ہو گیا کہ یک دم اس کے راستہ میں ایسی روکیں پیدا ہو جاتی ہیں کہ وہ بجائے اس مقصد کے پانے کے، اور بجائے اپنی منزل کے قریب ہونے کے اس راستہ کے الٹ چل پڑتا ہے.اور مدعا کے پانے سے محروم ہو جاتا ہے.یہ کیوں ہوتا ہے ؟ اس کا کیا ذریعہ ہے ؟ اس کو قرآن کریم نے سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں بیان کیا ہے اور وه سورة والناس ہے.فرمایا کہ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ إِلهِ النَّاسِ مِن شَرِ الْوَسُوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ - تمام قرآن کریم سورة فاتحہ کی تشریح ہے.جیسا کہ تمام سمجھنے والوں نے بیان کیا اور جس کو حضرت مسیح موعود نے بھی تسلیم کیا.تو سوز رانی غَير اLED AT ANNE GUNGUNAN لالین کی تشریح ہے.اس میں یہ بیان فرمایا ہے کہ کس طرح وَلَا الصَّالِينَ کی انسان اصل مقصد سے پھر جاتا ہے.کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اس کی ترقی کو نہیں دیکھ سکتے اور کی
٣٢٠ کچھ خبیث ارواح ہوتی ہیں، جو یہ نہیں دیکھ سکتی کہ کوئی خدا کا بندہ خدا کے دروازے پر پہنچ جائے اور اس سے تعلق قلبی پیدا کرے.وہ انسان کو اس مقصد سے ہٹا کر خدا کے مقابلہ میں لیجا کھڑا کرتی ہیں اس حالت سے کوئی انسان بھی کسی مقام پر پہنچ کر محفوظ نہیں.جب تک کہ خدا کی خاص حفاظت کے نیچے نہ آجائے اور خدا کا محبوب نہ ہو جائے.وہ ارواح خبیثہ خواہ انسان ہوں، خواہ ابلیس ہوں.ہاں ایک وقت ایسا آتا ہے کہ انسان محفوظ ہو جاتا ہے.ورنہ اس کے نیچے کے تمام درجوں میں انسان خطرے میں ہوتا ہے.تو سورۃ فاتحہ میںاللہ تعالی متنبہ کرتا ہے کہ شمن سے آگاہ رہنا چاہتے.یہ نہ ہوکہ کسی وقت اس کے خطرے سے فاضل ہو جاؤ.اگر غافل ہو جاؤ گے.تو ہی نہیں کہ منزل پر پہنچے میں دیر ہوگی.بکرہ دشمن اکٹ رستہ پر لگا دیگا.اور خدا کے مقابلہ میں اور بجائے خدا کی تلاش کے اس کے غضب کے نیچے کھڑا کر دیگا.تہ تنبیہ اور یہ ہوشیار کرنا کچھ ذہنی نہیں محض تنبیہ کے لیے نہیں.کیونکہ بعض دفعہ کی تعلیم کو مکمل کرنے کے لیے اس کے ایسے حصے بھی بیان کر دیتے جاتے ہیں.گو ان حصوں کا راستہ مں آنا مشکل ہوتا ہے.پس یہ بات محض تنبیہ کے لیے نہیں.بلکہ یہ وہ بات ہے.جو روزانہ مشکلات میں کام آنے والی ہے.ہماری جماعت میں سے ان لوگوں کو دیکھ لو جو الگ ہو گئے ہیں.وہ اپنے نزدیک بلکہ جماعت کے ایک طبقہ کے نزدیک سلسلہ کے ستون بنے ہوئے تھے.اور وہ لوگ وہ ہیں جو اخلاص رکھتے تھے.لیکن کوئی مخفی عجب ایسا ان کے دل میں پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے بیجائے ان کو بلند کرنے کے گرا دیا اور اس عجب نے بجاتے ان کو اصلی مقصد کی طرف لے جانے کے ان کی یہ حالت کر دی کہ و معضل ہو گئے.نہ صرف خود ہی محروم ہوتے بلکہ دوسروں کے لیے بھی محرومی کا موجب ہو گئے.خود ہی اس راہ کو نہیں چھوڑا.بلکہ دوسر کو چھوڑانے کے درپے ہو گئے.حالانکہ زیادہ سال نہیں گزرے کہ وہ سلسلہ کے لیے کوشش کرتے تھے.اور اس کی ترقی چاہتے تھے.اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کب ان کے دل میں عجب آگیا.اور کب اس کے رستہ کو چھوڑ دیا، لیکن خدا جو نیتوں اور قلبی کیفیتوں کے مطابق نتایج پیدا کر دیتا ہے.دیکھو وہ لوگ کہاں سے کہاں پہنچ گئے.اور مخالفت میں اس قدر ترقی کر گئے کہ اگر غور کیا جائے تو انہوں نے اپنی طرف سے سلسلہ کی بیخ کنی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی.بڑا وجود اگر سلسلہ شرعی ہو تو اس کے بانی کا ہوتا ہے اور اگر سلسلہ شرعی نہ ہو تو اس شخص کا وجود ہوتا ہے.جو شریعت کو قائم کرے.کیونکہ خدا تو نظر نہیں
۳۲۱ آتا.یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے نائب ہوتے ہیں.اور یہی انسان کے لیے اسوہ قرار دیئے جاتے ہیں.اور یہ ظاہر بات ہے کہ انسان کے لیے انسان ہی اسوہ ہو سکتا ہے.اگر خدا ہو تو بندے کہ سکتے ہیں کہ وہ خدا اور ہم بندے.خدامیں اور ہم میں کیا نسبت ؟ پس انسانوں کی ترقی کے لیے انسان ہی اسوہ ہوتے ہیں اور وہ دو ہی بڑے وجود ہوتے ہیں.اول دین کو لانے والے اور دوسرے دین کو قائم کرنے والے.قرآن کریم کے بعد شریعت نہیں.اب جو نبی آیا.وہ اسی قرآن کریم کی شریعت کے قیام کے لیے آیا.اور وہ مسیح موعود ہے.اس کا وجود ہی ایک ایسا وجود ہے جس کے ذریعہ اتحاد ہوسکتا تھا.اور لوگ روحانی ترقیات کر سکتے تھے.یا تو وہ وقت تھا کہ ہر گفتگو میں وہ مسیح موعود کا نام لیا کرتے تھے.یا آپ کو ایسا گرایا کہ کہدیا کہ کیا مسیح موعود ہی ہر چیز پر حاوی ہوگیا.مسیح موعود نے جو قرآن کریم کے معانی بیان فرماتے.ان کے علاوہ معنے نہیں ہو سکتے، یہاں تک تو درست ہے کہ اُستاد ایک نقر کی تشریح بیان فرمائے.اور اس کے علاوہ ایک اور صورت سے بھی اس فقرے کی تشریح ہو.اس کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ ممکن ہے.استاد نے بیان نہ کی ہو.کیونکہ بہت سی باتیں ہیں جو انسان جانتا ہے.لیکن سب بیان نہیں کر دیتا.یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انسان تمام علوم و نکات پر حاوی نہیں ہو سکتا مکن ہے کہ استاد کے ذہن میں یہ بات نہ آئی ہو، لیکن یہ کہنا کہ استاد نے جو بات بیان کی ہے وہ غلط ہے اس کے مقابلہ میں جو بات ہم کہتے ہیں.وہ صحیح ہے.یہ استاد کی ہتک ہے اور اس کی تکذیب ہے.بے شک قرآن کریم کے فہم کا دروازہ کھلا ہے.ہم اس بات کو اپنے علم اور قلم اور تجربہ کی بنارہ تسلیم کرتے یں کہ تم قرآن کا دروازہ کھلا ہے.ہم جن لوگوں کا ادب کرتے ہیں.بہت سی باتیں انہوں نے بیان نہیں کی تھیں.مگر ہماری سمجھ میں آگئیں.پس اس خیال کے یہاں تک تو ہم موید ہیں کہ فہم قرآن بند نہیں ہوا.اور قرآن کریم کے مضامین ختم نہیں ہوتے.یکن یہ کہا کہ علم قرآن ختم نہیں ہوا.اور اس فقرے کے یہ معنے لینے کہ مسیح موعود کے فلاں معنوں اور فلاں مسئلہ کے خلاف ہمیں سمجھ آتی ہے.یہ زیادتی علم نہیں.بلکہ مسیح موعود کی تکذیب ہے ہم کہتے یں کہ جو کچھ سیح موعود و فہم قرآن دیا گیا.اس کی تائید میں زیادہ سے زیادہ مل سکتا ہے اور وہ اسکے مخالف نہیں.مثلاً میسج موعود نے سو مسکے بیان فرمائے.اب ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کو ان سو کے علاوہ ایک اور مسلہ سمجھ میں آجائے اور یہ ایک سو ایک ہو جائیں.اور اگر اسی طرح دس بہیں تھیں پچاس تک بھی مسائل کسی کی سمجھ میں آجائیں تب بھی مسیح موعود کے سو کے مقابلہ میں جزو ہیں.کیونکہ خدا سے جس قدر تعلق میں زیادتی ہوگی.اسی قدر خدا تعالیٰ علم میں ترقی دیگا اور شاگردی کے لحاظ سے وہ مسیح موعود کے
۳۲۲ نیچے ہی ہو گا، لیکن اگر مسیح موعود کے مقابلہ میں ایک بات کا بھی دعوی کرے جس سے مسیح موعود کی کسی بات کا رد ہوتا ہو.تو یہ غلط ہے.اور ان کی یہ بات کہ سیح موعود پر ختم قرآن ختم نہیں ہوا.ان کے اخبار میں بھی شائع ہو چکی ہے جس کے معنے انہوں نے یہ لیے ہیں، کہ مسیح موعود کے بیان کردہ مسائل کے مقابلہ میں ہیں مسائل متے ہیں.اور مسیح موعود کے بیان کئے ہوئے غلط ہیں.یا د رکھنا چاہتے کہ مسیح موعود کے مسائل میں زیادتی ہو سکتی ہے.مثلاً جیسا کہ میں نے بیان کیا.حضرت میسج موعود نے سو مسائل بیان کئے.آپ کا ایک غلام ایک اور بیان کر دے جس سے ان کی تعداد ایک سو سے ایک سو ایک ہو جاتے، لیکن رد کر دینے میں وہ بات نہیں.یہ مسیح موعود کی تکذیب ہے.اسی نکتہ کونہ سمجھنے کی وجہ سے انھوں نے کہ دیاکہ میں موجود پر تم قرآن ختم نہیں اور اس کے یہ معنے لیے کہ مسیح موعود کے بیان کردہ بعض دینی مسائل قبیح نہیں ، مسائل دہی میں یہ لوگ غلطی پر قائم نہیں رہا کرتے.مثلاً پیشگوئیوں میں بعض مخفی باتیں ہوتی ہیں ، لیکن آخر اللہ تعالیٰ ان پر انبیا کو آگاہ فرما دیتا ہے.اس بات کو حضرت مسیح موعود نے بھی تحریر فرمایا کہ مامور پلے اپنی عقائد پر ہوتے ہیں.جو عام طور پر لوگوں کے ہوتے ہیں لیکن ان میں سے جو غلط ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ وفات سے پہلے ان کی غلطی پر ان کو آگاہ کر دیتا ہے پس انبیام.وفات تک غلطی پر قائم نہیں رکھے جاتے.عجیب بات ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم مسیح موعود کی باتوں کو رد کرتے ہیں.اور ہم حضرت صاحب کی تحریر کو منسوخ کرتے ہیں.میرے نزدیک وہ شخص احمدی نہیں جو مسیح موعود کی کسی بات کو منسوخ ظھر اسے وہ احمدی ہونے کے دعوی میں جھوٹا ہے.کوئی شخص حق نہیں رکھتا کہ مسیح موعود کی کسی بات کو منسوخ کرے.اگر میں کر سکتا ہوں.تو دوسرے بھی کر سکتے ہیں.پس میں نے کہیں نہیں لکھا.نہ کہیں یہ بات بیان کی ہے کہ میں حضرت اقدس کی فلاں تحریر کو منسوخ کرتا ہوں.ہاں میں نے یہ لکھا ہے کہ حضرت اقدس نے اپنی فلاں بات کو منسوخ کر دیا.اور یہ دونوں باتیں مختلف ہیں.اور مسیح موعود کو حق ہے کہ وہ اپنی کسی بات کو منسوخ کر دیں کیونکہ خدا بھی اپنی باتوں کو منسوخ کر دیتا ہے.کیا اس نے تورات کو منسوخ نہیں کیا.خدا کے تورات کو منسوخ کرنے سے کوئی شخص یہ استدلال کرے نہیں بھی جو چاہوں.منسوخ کر سکتا ہوں.غلط ہے.کیونکہ یہ کہنا کہ خُدا نے تو رات کو قرآن کریم سے منسوخ کر دیا اور ہے.اور یہ کہنا میں منسوخ کر سکتا ہوں.دوسری بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خاص طور پر لکھا ہے کہ میں ناصری بے پدر پیدا ہوتے اور خود ان کو اقرار ہے کہ اس بات پر آپ وفات تک قائم رہے، لیکن کہا جاتا ہے کرکیا قرآن کا علم میں موجود پر ختم ہو گیا.اور اس کے یہ معنے لیتے ہیں کہ
مسیح موعود نے جو کچھ لکھا.وہ درست نہیں.وہ خود جو کچھ کھتے ہیں.درست ہے.پھر ان کے نزدیک یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں.اگر ہم کہتے ہیں کہ حضرت اقدس نے فلاں بات کو منسوخ کر دیا.تو اس پر اعتراض کیا جاتا ہے.اور خود ایک بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ سیح موعود کا آخری وقت تک ہی عقیدہ رہا لیکن چونکہ فہیم قرآن مسیح موعود پر ختم نہیں ہو گیا.اس لیے ہم جوکہتے ہیں.وہ صحیح ہے، اور مسیح موعود کا بیان غلط یہ ایک ایسی ہے ہے جس کو کوئی عقل مند انسان جو حد بلوغت کو پہنچ چکا ہو، اس کو نہیں سمجھ سکتا.اور نہ اس کو ایک قرار دے سکتا ہے، سوائے اس کے جواز لی طور پر خدا کے عذاب کے نیچے ہو کہ وہی اس کو ایک قرار دیا.مجھ پر اعتراض کیا گیا کہ میں نے جو یہ لکھ دیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود نے حقیقۃ الوحی کی فلاں عبارت سے اپنی فلاں فلاں عبارتوں کو منسوخ کر دیا.تواس پر شور مچ گیا کہ یہ ایک خطرناک راہ ہے جو اختیار کی گئی ہے، لیکن وہ عقیدہ جس پر آپ وفات تک قائم رہے یعنی مسیح کی ولادت ہے پدر.اس کی تکذیب کے لیے کہدیا گیا کہ کیا فهم قرآن مسیح موعود پرختم ہوگیا ؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ مقابلہ جو کیا جاتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان مٹ چکا ہے وہ.وہ اتحاد کی دستی جو ایک ہی ایمان و اسلام کا ذریعہ تھی.اس کو انہوں نے کاٹ دیا.ان کی یہ حالت بغض اور کینہ سے پیدا ہوتی ہے.اسی طرح ہم دوسرے مسائل میں بھی دیکھتے ہیں.مثلاً کہتے تھے کہ خلیفہ کا خلیفہ نہیں ہو سکتا.حضرت مسیح موعود چونکہ خلیفہ ہیں.اس لیے ان کا خلیفہ نہیں ہو سکتا ہم اس سوال کو علیحدہ کر کے کہ جب حضرت خلیفہ ایج اول من نے مولوی محمد علی صاحب سے تین دفعہ اپنی وصیت پڑھوائی اور اس وقت انہوں نے اس کے متعلق کچھ بھی نہ کہا.اور یہ منافقت کا فعل تھا.اور پھر اس وصیت کے پہلے یا بعد میں نہایت ضروری اعلان کا مضمون لکھا.ہم اس تمام قصہ کو چھوڑ کر کہتے ہیں کہ مولوی صاحب کی وفات اور اس مضمون کے شائع ہونے کے بعد جس میں خلیفہ کے خلیفہ سے انکار تھا.ایک جلسہ کیا جس میں چار خلیفہ بنائے.اور اس وقت ان کو یہ بات یاد نہ رہی کہ خلیفہ کا خلیفہ نہیں ہو سکتا.یا تو ایک خلیفہ کے تسلیم کرنے میں بھی ایمان جاتا تھا یا اب یہ ایمانداری دکھائی کہ ایک چھوڑ چار خلیفے بنا لیے.ہیں رکھتے تھے کہ ہم مسلمانو کو کا فرکھتے ہیں، لیکن مولوی حمد علی صاحب نے امیرالمومنین کا لقب امتیا کیا جس کے معنے یہ ہیں کہ غیر مبایعین کے چند صدا فراد کے سوا سب کے سب مسلمان کا فر ہیں کیونکہ جن کے وہ امیر ہیں.وہ تو چند سینکڑے ہیں اور باقی تمام مسلمان خواہ وہ کوئی ہوں.ان کو واجب الاطاعت امیر تسلیم نہیں کرتے جس کا صاف نتیجہ یہ ہے کہ وہ ان چند سو کے سوا باقی سب کو مسلمان نہیں سمجھتے.اصل میں بات
تو یہی ہے، لیکن اظہار کی طاقت نہیں.اعتراض تو ہم پر کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو کا فرکتے ہیں، لیکن عملاً وہ بھی کا فر کتے ہیں.اگر عربی کا میر نہیں.تواردو کے امیر ہی ہوتے بمعنی دولتمند، مین یہ بھی نہیں ہیں وہ چند آدمیوں کے ساتھ ہو جانے کے ساتھ امیرالمومنین کیونکر ہو گئے.ہم امیرالمومنین ہیں.اور نہیں جماعت کے اکثر حصن امیرالمومنین تسلیم کیا ہوا ہے.چند لوگ ہیں جو بانی ہو کر جماعت سے علیحدہ ہو گئے ہیں لیکن جو شخص چند کولے کر دعوی امیرالمومنین ہونے کا کرتا ہے.اس کا دعویٰ غلط اور اس نما یہ کتا بھی غلط کہ سب مسلمان کہلانے والے کا فرنہیں جو لوگ ہماری بیعت میں داخل نہیں.ہم انہیں کا فرنہیں کہتے جب تک کہ وہ حضرت اقدس کی کھلی کی تحریروں کا انکارنہیں کرتے ہم انہیں بانی کہیں گئے ہیں قریباً تمام جماعت احمدی نے ہمارے ہاتھ پر بیعت کر کے ہمارے امیر المومنین ہونے پر اجماع کر لیا ہے.وہ لوگ جو ہماری جماعت سے الگ ہیں.وہ باغی ہیں.اور ان کا جماعت سے کوئی تعلق نہیں جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.مَن فَارَقَ الجَمَاعَةَ فَمِيْتَتُهُ جَامِلِيَّةٌ جدھر گشیر جماعت کا حصہ ہے.دراصل وہی جماعت ہے.ادھر انہوں نے حضرت اقدس کی نبوت سے انکار کیا اور کہا کیا کوئی شخص نبی نہیں ہوسکتا.یا اسقدر فراخی کی کہ کہ دیا کہ نبی کہتے ہیں خبردینے والے کو پیس شخص جوکسی قسم کی خبر دیتا ہے.نبی ہے.ہر ایک بات جو سلسلہ کے لیے بطور ستون کے تھی اس کو مٹا دینا چاہا.خدا کے مامور کی ہتک کی گنفر میں ضد کی.اس کا نتیجہ معلوم کہ سب مسلمانوں کو عملاً کافر کہدیا ، حافظ صاحب مولانا حافظ روشن علی صاحب مراد ہیں.راقم نے شملہ میں ایک لطیف جواب مولوی محمد علی صاحب کو دیا.اس پر چونکہ زبانی اور تحریری اعتراض ہوا.اس لیے میں اسی کے متعلق بیان کرتا ہوں.بات یہ ہے کہ ان کی طرف سے جب مباحثہ کے لیے عبدالحق اور مرہم میسی جیسے جہلا پیش ہونے لگے.تو میں نے کہا تم سے مباحثہ نہیں ہو سکتا.ان کے علمام جہلامہ ہیں.اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.کہ مسلمان تباہ اس وقت ہوں گے جب ان کے پیشوا جہلا ہوں گے لیے تو ان کے علمامہ مدثر شاہ.مرہم عیسی عبدالحق ہیں.جو قرآن کریم کے ایک رکوع کا صیح ترجمہ بھی نہیں کر سکتے.چونکہ مولوی محمد علی صاحب ہماری ہر ایک بات میں نقل ضروری سمجھتے ہیں.اور ہم اس سے خوش ہیں.کیونکہ نقل آدمی اسی بات کی کرتا ہے.جس کو وہ پسند کرتا ہے.نه مجمع بحار الانوار جلد ۳ ص ۷۳ له بخاری و مسلم بحواله مشكوة كتاب الفتن فيما تكون فيها الى قيام الساعة
۳۲۵ اس لیے ہم نے جو بات کہی تھی.اس کی نقل بھی مولوی صاحب نے کرنی چاہی.جب حافظ صاحب نے ان سے ملاقات کرنی چاہی.تو کہہ دیا کہ میں ان کے سوائے کسی اور سے گفت گو نہیں کر سکتا.حالانکہ ان کے لوگوں نے جب بھی مجھ سے گفتگو کرنی چاہی ہے.تومیں نے ان کو موقع دیا ہے.یہاں الیسا ہوتا رہا ہے.شملہ میں عبد الحق مجھ سے گفتگو کیا کرتا تھا، لیکن ان کے ساتھ مباحثہ سے میں نے انکار کیا ہے کیونکہ یہ شخص کی شان نہیں ہوتی کہ اس کو مد مقابل بنایا جائے.سائل ہو کر جب بھی ان کے کسی آدمی نے گفتگو چاہی ہے.تو میں نے اس کو موقع دیا ہے، لیکن کہتے ہیں کہ نقل را عقل باید نقل تو کی میگر عقل کہاں سے لاتے.مولوی محمد علی صاحب کے پاس حافظ صاحب نے جانا چاہا.اور خط لکھا، تو لکھ دیا کہ مباحثہ تو انہیں سے ہی کروں گا.مگر ان کے نزدیک وہ امیر المومنین نہیں ہو سکتے تھے.تب تک حافظ صاحب سے بحث سے انکار نہ کرتے.حافظ صاحب نے نہایت لطیف اور مختصر جواب دیا کہ اپنے آپ کو امیرالمومنین لکھ دیا.میری طرف سے جو وفد گیا تھا.اس کے حافظ صاحب واجب الاطاعت امیر تھے.اور وہ وفد مومنین کا تھا.اور ان پر حافظ صاحب کا حکم ماننا ایسا ہی فرض تھا.جیسا کہ میرا.اس لیے مولوی محمد علی صاحب کو جواب دینے کے لیے یہ لکھنا درست تھا.کیونکہ جب کئی کروڑ مسلمانوں کے مقابلہ میں چند سو آدمی کے امیر مان لینے سے مولوی محمد علی صاحب امیرالمومنین ہو جاتے ہیں.تو انہی کے قاعدے سے کئی لاکھ کی جماعت میں سے چند لوگوں کے امیر ہونے سے کیوں حافظ صاحب امیرالمومنین نہیں ہو سکتے.پھر مولوی صاحب تو صرف ایک المین کے پریذیڈنٹ ہیں، لیکن حافظ صاحب میرے نائب ہونے کی حیثیت میں اس وفد کے افراد کے لیے واجب الاطاعت تھے ہیں مولوی صاحب اگر کروڑوں مسلمانوں کے مقابلہ میں چند سو گی انجمن کے پریذیڈنٹ ہونے سے امیر المومنین کہلاتے ہیں.تو حافظ صاحب واقعی ان افراد کے امیر ہونے سے رالمومنین کیوں نہ ہوں.یہ ایک الزامی جواب تھا کہ جب ہر کوئی چند لوگوں کے تعلق سے امیر بن جاتا ہے.تو ہم بھی اس حیثیت سے امیر ہیں.اور تم اپنی امارت کے خیال سے ہم سے بحث سے گریز نہیں کر سکتے.غرض کہ بغض اور حسد ہی ہے جس نے ان کو حق کے قبول کرنے سے روک دیا.یہ نتیجہ ہے غیر المَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِينَ کا.دیکھو چھوٹی چھوٹی باتوں سے بگڑ کر انہوں نے مخالفت کی تلوار اُٹھائی.اور اپنے آقا پر اُٹھائی.اور تبر چلایا.اور اس درخت کی جڑ پر چلایا میں پر بیٹھتے تھے اور اس چشمہ کو گندہ کرنا چاہا جس سے پانی پیتے تھے.یہیں مومن کو ہر وقت شیطان کی چالاکیوں
سے بچنا چاہیے.اور ہروقت خدا کے حضور عجز سے دُعا میں مصروف رہنا چاہیئے کہ ایسانہ ہو کہ کسی وقت تکبر اور انانیت آجائے اور اس کو ہلاک کر دے.خدا کی طرف جانے والے کی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسے تیز دریا میں چلنے والا.اگر بہت سے چلتا رہے گا تو سلامت چلا جائے گا.اگر ایک دم کے لیے فاضل ہوا تو پھر پیر اکھڑ جائیں گے اور اس کو پانی کہیں سے کہیں لے جاتے گا.خدا کے فضل آپ کے شامل حال ہوں کہ آپ کے قدم آگے ہی آگے پڑیں اوراللہ تعال آپ کو مریم کے حملوں اور وسوسوں سے محفوظ رکھے آمین : الفضل در نومبر شاه )
61 حضرت مسیح موعود کے اولین خدام کی قدر کرو ) فرموده ۲۳ اکتور ولت ) حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ.کسی شخص نے نہایت دانائی بھری بات کہی ہے کہ جو شخص ابتدا کرتا ہے.اسی کو فضیلت حاصل ہوتی ہے.کیوں یا اسلئے کہ جو شخص ابتدا کرتا ہے اس کے رستہ میں جیں قدر مشکلات ہوتی ہیں.اس کا علم دوسرے کو نہیں ہو سکتا.نئے کام میں بیسیوں روکا دیں ہوتی ہیں جن کا کسی کو علم نہیں ہوتا.اور جب کوئی شخص اس کام پر ہاتھ ڈالتا ہے.تب اس کو علم ہوتا ہے کہ اس رستہ میں کیا گیا وقتیں اور روکاوٹیں ہیں.بعض دفعہ شکلات دیکھتا ہے.ان کو محنت سے دُور کر کے اُن پر قابو پا کر کامیاب ہوتا ہے.اور بعض دفعہ کوشش کرتا ہے اور نا کام رہتا ہے.بعد میں آنے والے لوگ اس تجربہ سے فائدہ اُٹھا لیتے اور معلوم کر لیتے ہیں کہ اس کے کام میں فلاں فلاں غلط طریقے اختیار کئے گئے تھے.جونا کامی کا باعث ہوتے ہیں.ان کو ترک کرنا چاہیئے.اور فلاں طریق سے کامیابی ہوتی ہے.اُسے اختیار کرنا چاہیے.اس طرح ابتداء کرنے والا شخص جہاں اپنے نقصان سے دوسروں کے نفع کا موجب ہو جاتا ہے.وہاں وہ دوسروں کے لیے بطور استاد کے بھی ہوتا ہے.اور دوسرے اس کے شاگرد ہوتے ہیں.پس ہر ایک کام میں ابتداء کرنے والوں کو دوسروں پر فضیلت حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ وہ لوگ تمام تکلیفیں اُٹھا کر راستہ کو صاف کر دیتے ہیں.اس مسئلہ کی خدا تعالے نے بھی جو تمام علموں کو پیدا کرنے والا ہے.تصدیق کی ہے.اور اس کی تصدیق کے بعد کسی شبہ کی گنجائش نہیں رہتی.ہم قرآن کریم میں دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں نے ابتداء میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مانا.ان کی نسبت قرآن کریم میں بہت سے تعریفی کلمات وارد ہیں اور اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے پہلے جو لوگ ہو چکے ہیں.ان کے متعلق بھی حکم ہے.فبهداهم اقتده (الانعام ۹۱ ) اسی طرح ان لة التوبة : 14
لوگوں کے ذکر میں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ عیہ علم کو مانا فرماتا ہے وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِاحْسانِ التوبہ ) کہ ان صحابہ کرام کی جو پیروی نیکی کے ساتھ کرینگے.اس پر بھی اللہ تعالیٰ کے احسان ہونگے اور ان کو بھی رضائے الہی حاصل ہوگی.یہ کافی تھا کہ کہ دیا جاتا کہ ان احکام کی پیروی کریں.جن کی صحابہ نے کی.لیکن خدا کہتا ہے.ان لوگوں کی پیروی کرنے والے پر یہ انعام ہو نگے.ان لوگوں کی مشکلات کا خیال کر کے ان کو ایک خاص درجہ دے دیا کہ جوان کی اتباع کریگا.اس پر احسان ہوگا.حالانکہ اتباع ان کی نہیں.بلکہ قرآن کریم کی ہے اور ان کو بھی جو درجہ حاصل ہوا ہے.وہ اپنی احکام کی اتباع سے مال ہوا ہے، جو قرآن کریم میں بیان کئے گئے مگر باوجود اس کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جوان لوگوں کی اتباع کریں گے.اللہ تعالے ان پر اپنے خاص افضال نازل کریگا.سورۃ فاتحہ میں بھی اسی مضمون کو ادا کیا گیا ہے فرمایا اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - اس میں یہ نہیں بتایا کہ ہمیں اس صراط پر چلا جو نبیوں کی ہے بلکہ فرمایا کہ اس راہ پر چلا.جو منظم علیم کی ہے پس اس کی وجہ ان لوگوں کی وہ مشکلات میں جو وہ اُٹھا کر دوسرو کے لیے راستہ صاف کر دیتے ہیں.اس سے ان کی فضیلت کا پتہ لگتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص انسانوں کا شکر گزار نہیں ہوتا.وہ خدا کا بھی شکرگزار نہیں ہو سکتا ہے وجہ یہ ہے.انسانوں کی شکر گزاری تھوڑی ہوتی ہے.جب ایک شخص تھوڑا کام نہ کر سکے.تو وہ زیادہ کب کر سکتا ہے.پس اسی قانون کے ماتحت وہ لوگ جو ابتدار میں انبیا.کو مانتے ہیں دنیا کے محسن ہوتے ہیں.اس لیے ان کی اتباع ان محسنوں کا شکریہ ہوتا ہے.وہ لوگ خطرناک مخالفتوں اور دشمنیوں کو سر پر اٹھاتے ہیں.اور محض خدا کے لیے حق کو قبول کرتے ہیں، لیکن اگر وہ ان مشکلات تکالیف کو نہ اُٹھاتے جو ابتدائی زمانہ میں پیش آتی ہیں.تو ان کمزوروں کو حق کے قبول کرنے کی کیسے توفیق ملتی.جولوگوں کے خوف اور ڈر کی وجہ سے صداقت کو قبول کرنے کی جرات نہیں کرتے ، لیکن جب کچھ لوگ حق کو قبول کر کے تکالیف اور مصائب کو برداشت کرتے ہیں.طرح طرح سے ستاتے جاتے ہیں قسم قسم کے دکھ دیتے جاتے ہیں.مگر مخالف ان کو حق کے ترک کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے.بلکہ نا کام اور نامرد ہو جاتے ہیں.تو کمزور دل لوگوں کو بھی یقین ہو جاتا ہے کہ جیسا مخالف ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکے اسی طرح ہمارا بھی کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکے گا.اس طرح وہ بھی حق کو قبول کر لیتے ہیں.ے مجمع بحارالانوار جلد ۲ باب اسین
۳۲۹ دیکھو ایمان لانے میں حضرت ابو کبیر اور ان کے بعد والے برابر ہیں، لیکن پھر بھی ایک بہت بڑا فرق تھا.اور وہ یہ کہ حضرت ابو بکر نہ اس وقت ایمان لاتے جس وقت ہر طرف مشکلات ہی مشکلات تھیں ، لیکن ان کے ایمان لانے کے بعد جب لوگوں نے دیکھا کہ وہ باوجود تمام مشکلات کے بازاروں میں زندہ و سلامت پھرتے ہیں.تو کئی اور لوگ جو دل میں مانتے تھے.مگر اظہار کی جرات نہ رکھتے تھے.انہیں حضرت ابو بکر نہ کو دیکھ کر قبول حق کی توفیق ہوئی.وہ وقت نہایت مشکلات کا تھا.اور نہایت خطرناک.حضرت ابو بکر ان تمام مشکلات سے واقف تھے.اور جانتے تھے کہ میں کچلا جاؤں گا.مگر ان مشکلات کے علم کے باوجود ان کا ایمان لانا تمام لوگوں پران کی فضیلت کو ثابت کرتا ہے.اور اس طرح وہ لوگوں کے لیے حتی کے قبول کرنے کا ایک ذریعہ ہو کر ان کے لیے بطور ایک استاد کے ہو گئے ہیں جس طرح رسول کریم حقیقی اسوہ میں اسی طرح آپ کی اعلیٰ اتباع سے ابو بکر بھی لوگوں کے لیے بطور ایک اسوہ کے ہو گئے.تو ان لوگوں کا جو ابتدا میں ایمان لاتے ہیں.ایک احسان دوسروں پر ہوتا ہے.جوان کی قدر نہیں کرتا.وہ خدا کے احسان کی قدر نہیں کرتا.بلکہ خدا کے احسان کی ناقدری کرتا ہے.اس لیے ان لوگوں کے متعلق بہت احتیاط سے کام لینا چاہیتے اور ان کے درجہ اوران کی عزت کو مجھنا چاہتے.دیکھو رسول کریم ال لا لا لا الہ کا حکم فرماتے کہ پہلی صف میں امام کے پیچھے کوئی بڑا آدمی کھڑا ہو تاکہ ضرورت کے وقت امام کی قائم مقامی کر سکے یا پھر بعض لوگوں کو اپنی محلس میں جگہ دلواتے.اور بعض دفعہ اگر کوئی شخص جو دنیا وی لحاظ سے صاحب وجاہت ہوتا.آپ کی مجلس میں آتا تو آپ فرماتے کہ اٹھو اور اس کا استقبال کرو یہ پس یہ شریعت کا حکم ہے.جو جس رتبہ کا ہو.اس کا اس کے مرتبہ کے مطابق احترام کیا جائے مگر بہت ہیں.جو اس بات کی پروا نہیں کرتے جس کا بہت برا نتیجہ ہوتا ہے.مثلاً شیعہ اور خوارج ہیں.جو صحابہ کو برا کہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ باوجود مسلمانوں میں آپس میں سخت تفرقہ ہونے کے تمام فرقوں میں اولیا- گذرے ہیں جنفی مالکیوں کو برا کہتے ہیں اور مالکی حنفیوں کو ، لیکن ان میں اولیا.اللہ ہوتے ہیں.لیکن یہ شیعہ گیارہ سو سال سے علیحدہ ہوتے ہیں.انہوں نے خدا کے برگزیدوں کو بر ما گالیاں دینا شروع کی ہیں.ان میں اس ہزار سال کے عرصہ میں ایک بھی ولی اللہ پیدا نہیں ہوا.اور اسی وجہ سے انہیں اپنے ایک امام کو مخفی کہنا پڑا کہ اسکے ہوتے ہوئے کسی سے مسلم بروایت مشکواة كتاب الصلواة باب تسوية الصف نے سیرت ابن ہشام جلد ٢ حالات غزوہ خندق تے
ظاہر امام کی ضرورت نہیں ہیں یہ لوگ صحابہ کی بدگوئی کرکے ہمیشہ کے لیے حق سے محروم ہو گئے.اوران سے ایمان سلب کر لیا گیا.چونکہ ہماری جماعت میں سے بعض لوگ مرتد ہوگئے ہیں اور ان کو وہی کہا جاتا ہے جس کے دوستی ہیں.اس لیے بعض لوگوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ سب کے لیے اس قسم کے الفاظ کہے جاسکتے ہیں دیکھو نبی کریم جب مدینہ میں تشریف لے گئے تو اول ایمان لانے والوں میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا.مگر با وجود اول ایمان لانے کے منافق تھا.پھر مکہ سے ہجرت کرنے والوں میں سے بعض لوگ مرتد ہو گئے.اب اگر کوئی شخص یہ خیال کر لیتا کہ ممکن ہے ابوبکر بھی مرتد ہو جائے.اور چونکہ عبداللہ ابن ابی منافق ہے.اس لیے عبادہ ابن صامت اور ابو ایوب انصاری بھی کیوں منافق نہ ہوں توی تخت نادانی اور غلطی تھی کیونکہ اگر اس دروازہ کو وسیع کیا جائے تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا.قرآن شریف میں حکم ہے کو صلح کی محبت اختیار کرو اسکن دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن شریف میں ہی ایک ولی کا اس طرح ذکر ہے کہ اَخْلَدَ إِلى الأَرْضِ زمین کی طرف جھک گیا.(الاعراف (۱۸۷) اب کوئی شخص جس کو کہا جائے کہ صلح کی صحبت اختیار کرو.کہدے کہ جی ولیوں میں تو بلعم جیسے بھی کھوتے ہیں.ہم کس طرح صحبت اختیار کریں تو ایسے آدمیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب کوئی بلعم بن جاتے اور مرتد ہو جائے.اس وقت تم اس سے علیحدگی اختیار کرلو.نہ یہ محض اس خیال پر کہ لوگ مرند بھی ہو جاتے ہیں.سب سے بدظن ہو جاؤ.اگر کوئی شخص مرتد ہو جاتا ہے.یا حضرت اقدس علیہ السلام کے درجہ کو گھٹاتا ہے تو تم اس کو نفرت کی نظر سے دیکھو، لیکن یہ غلطی ہے کہ بعض لوگ خفیف باتوں پر فتوی دینے لگ جاتے ہیں کہ فلاں بڑا شریر ہے.فلاں ایسا ہے ویسا ہے.حضرت مسیح موعود کو ابتداء میں قبول کرنے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت اقدس کو اس وقت قبول کیا.جس وقت کہ لوگ آپ کو کافر اور دقبال کہتے تھے.یا اس طرح کہنے والوں کے ساتھ شامل تھے.ان کے متعلق احتیاط سے کام لینا چاہیئے.پس جن لوگوں نے ایسے وقت میں حضرت اقدس کو قبول کیا.اور حضور کی صحبت میں رہے.وہ بعد میں آنے والوں کے لیے استاذ اور نمونے کے طور پر ہیں.اگر لوگ ان کی اتباع کرینگے.تو یہ خدا کا حکم ہے اور اگر ان کی حقارت کرینگے.تو تقویٰ کے درجات میں ترقی نہیں کر سکیں گے.خدا تعالیٰ کے قرب کے لیے نہایت ضروری ہے کہ حفظ مراتب کا خیال رکھا جائے حضرت اقدس اکثر فرمایا کرتے تھے کہ عمر گر حفظ مراتب نه کنی زندیقی لے بلعم باعور
پس یہ نہایت اہم سوال ہے بعض لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پران لوگوں کو جنہوں نے سلسلہ کی خدمات میں عمریں مرت کر دی ہیں.بڑے الفاظ کہ دیتے ہیں.اور اپنی تائید میں یہ کہتے ہیں.مولوی محمد علی بھی مخلص کہلاتا تھا مگر مرتد ہو گیا.خواجہ بھی مخلص بنتا تھا.مگر مرتد ہو گیا.اس لیے فلاں بھی ایسا ہی ہے.ایسے لوگوں کو یادرکھنا چاہیئے.یہ سخت غلطی اور نادانی ہے.خواہ مخواہ کسی کے متعلق اس قسم کی رائے نہیں قائم کر لینی چاہیئے.ایک دفعہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی لڑائی ہوتی.اس معاملہ میں زیادتی حضرت عمر کی تھی.حضرت ابو بکر چونکہ خیر خواہی میں بڑھے ہوتے تھے.جھٹ حضرت عمر سے معافی کی درخواست کی حضرت عمر چونکہ اس وقت طیش میں تھے.اس لیے باوجود زیادتی پر ہونے کے کہہ دیا کہ جاؤ میں نہیں صلح کرتا.اور حضرت ابو بکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے.اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ عمر مجھ سے خفا ہیں آپ میری غلطی ان سے معاف کرا دیں.ادھر حضرت عمر کو بھی خیال ہوا.اور مجھے کہ زیادتی تو میری ہے یہ بھی رسول کریم کے پاس گئے.اور جاکر کہا یا رسول اللہ ابو بکر سے مجھے معافی دلوا دیں.اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ ولم کا چہرہ غصہ سے سُرخ تھا.صحابہ کہتے ہیں.اس سے قبل کبھی آپ استقدر غصہ میں نہیں آتے تھے.آپ نے اس حالت میں فرمایا کہ تم لوگ کیوں نہیں مجھے اور اس شخص کو چھوڑ دیتے جس نے میرا اس وقت ساتھ دیا جبکہ تمام دنیا میرے کچلنے کے درپے تھی لیے پس اس طرح نبی کریم نے ابو بکر صدیق کی فضیلت کو تسلیم کیا.کیونکہ جب دنیا آپ کو کا فرکتی.ابو جبر آپ کی نبوت پر ایمان لایا.اور جب لوگ آپ کو حکمت ٹھراتے تھے.ابو بکر نے آپ کو شناخت کر لیا کہ آپ ایک روشن سورج ہیں.بعد میں آنے والوں کا حق تھا کہ وہ ابو بکرہ کا ادب کرتے، لیکن ابو بکر نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں پہلے ایمان لایا ہوں.میرا ادب کرو پس جس طرح بعد والوں کا فرض ہے.کہ اولین کا ادب کریں.اسی طرح اولین کا بھی فرض ہے کہ وہ خُدا کے اس فضل کا شکریہ ادا کریں.اور اس پر کسی قسم کا تکبر اور معجب نہ کریں کیونکہ اگر خدا افضل نہ کرتا.تو شاید یہ لوگ مَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ میں شامل ہو جاتے.میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان لوگوں کا ادب و احترام کرے جن کو مسیح موعود کی ان سے پہلے خدمت کرنے کا موقع ملا ہے.اور اسی طرح ان لوگوں کو جو پہلے خدام مسیح موعود ہیں بعد میں آنے والوں کے ساتھ تواضع اور خلقی سے پیش آنا چاہیئے.اور ہر ایک شخص کو اس درجہ پر سمجھنا م بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي " باب مناقب المهاجرين
چاہئے جو خدا نے اس کے لیے مقرر کیا ہے.اگر یہ نہ کرو گے.تو اندیشہ ہے کہ شیطان تمہیں گمراہ کر دے.پس یہ دونوں کو نصیحت ہے.پہلوں کو بھی اور بعد میں آنے والوں کے لیے بھی.پہلوں کے لیے تو یہ ہے کہ وہ تواضع اور انکسار کا طریق اختیار کریں.اور بعد والوں کو یہ کہ وہ ان کے حق کو سمجھیں.اور گستاخی اور بڑھنی کو چھوڑ دیں.کیونکہ یہ ایمان کی جڑ کو کھوکھلا کر کے پھینک دیتی ہیں.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے دونوں گروہوں کو اس بات کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق الفضل ۲۷ نومبر الله) این
62 دین کو دنیا پر مقدم کرو (فرموده ۳۱ اکتوبر ۱۹ته ) حضور نے تشد و تعوز اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- ہر زمانہ کے لیے کچھ ابتلا ہوتے ہیں جن کی برداشت کئے بغیر اور جن کے نازل ہوتے بغیر اور پھر جن میں سے اپنے ایمان کو سلامت نکالنے کے بغیر کامیابی نہیں ہو سکتی کسی زمانہ میں کوئی ابتلا ہوتا ہے.اور کسی میں کوئی.متفرق طور پر متفرق ابتلا آتے ہیں کبھی ایسے کہ مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اپنے ملک میں فتنہ پڑا کبھی ایسے جیسا کہ مسیح ناصری کے زمانہ میں ہوا کہ ایک قوم میں رہتے ہوئے اس سے جدائی اختیار کرنی پڑی کبھی حضرت موسیٰ کے زمانہ کی طرح کہ حکومت کے مظالم کو برداشت کرنا پڑتا ہے.اور کبھی رعایا کے اعتراضات حکومت پر کرنے کا فتنہ ہوتا ہے.جیسا کہ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کے وقت میں ہوا، لیکن ایک ابتلاء اس قسم کا ہے کہ وہ ہر نبی کے وقت میں آیا ہے.اور اب بھی جب کبھی دنیا میں کوئی تغیر ہو گا.ابتلا پیش آئیگا.وہ ابتداء دین اور دنیا کا مقابلہ ہے یعنی دنیا کے مقابلہ میں دین کو مقدم کرنا.یہ ابتلاء ہر نبی کے زمانہ میں آیا ہے.حضرت موسیٰ کے وقت میں یہ ابتلا آیا.حضرت داؤد و حضرت سلیمان کے وقت میں یہ استلام آیا.حضرت عیسی کے وقت میں یہ ابتلا - آیا اور بالآخر ہمارے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں بھی یہی ابتلا پیش آیا پس یہ ابتداء ہرنی کے وقت میں آتا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کرو.ایک طرف دنیا کی خوبصورتی اور محبوبیت ہوتی ہے اور وہ نقد یہ نقد محجوب نظر آتی ہے مگر اس کے مقابلہ میر، دین ہوتا ہے اور دی کی خاطر اس کو ترک کرنا پڑتا ہے.یہ بڑی آزمائیش ہوتی ہے مگر جب تک ایک انسان اس میں سے نہ گزرے.وہ خدا کے پیاروں میں داخل نہیں ہو سکتا.اسلام اس بات کی تعلیم نہیں دیتا کہ دنیا کوکلی طور پر چھوڑ دیا جائے.یہ تو ایک بدعت ہے.حضرت مسیح کی طرف اس تعلیم کو منسوب کیا جاتا ہے کہ تم جب دولت کو چھوڑو گے تو خدا کو پاؤ گے.*
پھر رہبانیت ہے کہ شادی نہ کرنا غسل نہ کرنا.مال نہ رکھنا، لکن اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ یہ ایک بدعت ہے جس کی پوری نگہداشت ان لوگوں سے نہ ہو سکی لیے اب اسلام میں بھی یہ خیالات آگئے.اور بعض لوگوں نے سمجھ لیا ہے کہ کوئی کام نہیں کرنا چاہیے نہ تجارت میں ہاتھ ڈالنا چاہیئے.نہ زراعت میں.اور بعض نے یہاں تک ترقی کی.کہ اپنے آلہ تناسل کو بھی کاٹ دیا.یہ خیال بعض صحابہ کے دل میں بھی پیدا ہو گیا تھا.چنانچہ ایک صحابی ابوذر غفاری تھے.ان کو ترک دنیا میں یہاں تک غلو تھا کہ دوسرے صحابہ سے لڑتے پھرا کرتے تھے.پس یہ اسی زمانہ میں پیدا ہو گیا تھا.اس لیے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر عیسائیت نے ترک دنیا کی تعلیم دی.تو مسلمانوں میں اس کا وجود نہیں.اس میں شک نہیں کہ اسلام کی حفاظت کا خدا کی طرف سے وعدہ ہے چنانچہ قرآن کریم کو خداوند کریم نے محفوظ رکھا ہے لیکن بعد میں اس قسم کی حدیثیں بنائی گئیں.جن میں ترک دنیا پر زور دیا گیا ہے.پس وہ مدیں دیتی تعلیم دیتی ہیں جو مسیح کی طرف منسوب کردہ تعلیم کے مطابق میں لیکن یتعلیم خدا کی طرف سے نہیں ہو سکتی.باوجود اس کے ہم کہتے ہیں.ایک حد تک تمام مذاہب میں ترک دنیا کی تعلیم ہے اور وہ یہ ہے کہ جب دین و دنیا کا مقابلہ - آن پڑے.تو ایک مومن کا فرض ہے اس وقت دنیا کو چھوڑ کر دین کو اختیار کرے.اسلام یہ نہیں سکھاتا کہ بالکل دنیا کو ترک کر دو.بلکہ وہ تعلیم دیتا ہے کہ دنیا کماؤ محنت کرو لیکن جب دین ودنیا کا مقابلہ آن پڑے.اس وقت دین کو مقدم کرو.اور دنیا کی پروا نہ کرو بلکہ یہاں تک کہتا ہے کہ ہر طبقہ کے لوگ علیحدہ علیحدہ ہوں.مثلاً کچھ ایسے ہوں.ہجو زراعت پیشہ ہوں.بعض لوگ تجارت کریں اور بعض سیاست میں پڑ جائیں.اور جو علما اور صوفیامہ ہوں.وہ بالکل دنیا سے علیحدہ ہو کر دین کی خدمت کریں پس یہ بات تمام مذاہب میں ہے.اور یہاں تک ہونا چاہیئے.مگر جن مذاہب نے عام طور پر یہ تعلیم دی ہے کہ سب کے سب دُنیا سے قطع تعلق کرلیں.انہوں نے غلطی کی ہے.اسلام کی عام تعلیم یہ ہے کہ دین و دنیا کے مقابلہ میں دین کو دنیا پر مقدم کرو، اور اس وقت تمہاری دنیا کی محبت سرد ہو جانی چاہیئے.اس زمانہ کے مصلح.نامور اور امام نے اس بات کو شرائط بیعت میں داخل کیا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کرو.پہلے دنیا میں اسقدر ترقی نہیں ہوئی تھی.نہ پہلے قوموں میں اس قدر میل ملاپ تھا.نہ تمدن میں اس قدر دوست تھی ز تجارتی تعلقات ایسے قائم تھے اس قدر اجات نہیں اتنا پرانا سا درد پیدا ہوا تھا.آج دنیا کے دل بہلانے کیلئے ہزاروں سامان نکل آتے ہیں گرا اسوقت کے دل بہلاؤ کے سامان کشتی اور گھوڑے دوڑانے تک محدود تھے اپ کسی قسم کے باجے اور کئی قسم کی کھیلیں پیدا ہوگئی ہیں.اور ہزاروں تھیڑ قائم ہیں.اور شب و روز لوگ الحديد ۲۸
۳۳۵ ان میں محو رہتے ہیں.یہ تو وہ کھیل ہیں جو اجتماع سے تعلق رکھتے ہیں لیکن گھروں میں بھی اس قسم کے سامان موجود ہیں.مثلا فونوگراف - گراموفون.یہ تمام دل بہلانے کے ذریعے اور عیاشی کے سامان ہیں.لباسوں میں ترقی ہوتی ہے.مکانوں میں وسعت ہے.کھانوں میں زیادتی ہے.ایک وقت وہ تھا کہ لوگوں نے انگور کا نام سنا ہوا تھا.مگر اب گاؤں گاؤں کے لوگ انگور کھاتے ہیں.اس وقت ایسے علاقے تھے جہاں گیہوں نہ پیدا ہوتا تھا، لیکن آج یہ حالت ہے کہ دنیا کے پرلے سرے کی چیز ایک گاؤں میں میسر آسکتی ہے.پنجاب کا ایک صوبیدار گزرا ہے.راجپوت اس پر بہت فخر کرتے ہیں.اور وہ اکبر کی طرف سے پنجاب کا گورنر تھا.جب کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ میں تھا.اس کی ماں کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ انگور کھاتے.وہ ایک گاؤن کے رہنے والی تھی.اور اس کا خاوند ایک زمیندار تھا جیران ہوا.انگور کہاں سے لائے.اس وقت یہ خیال تھا کہ اگر حاملہ کو وہ چیز نہ دی جائے جس کی اسے خواہش ہو تو حل گر جاتا ہے.اس کا خاوند تلاش میں تھا کہ انگور مل جائیں، اتنے میں اُسے معلوم ہوا کہ کابل سے ایک قافلہ دتی بادشاہ کے لیے میوے لیے جارہا ہے.وہ شخص اس کے پاس گیا اور کیا کہ میری بیوی حاملہ ہے اور اس کی خواہش ہے کہ اسے انگور دیتے جائیں.میر قافلہ نے کہا کہ میں بلا قیمت انگور اس شرط پر دیتا ہوں کہ تم لکھ دو کہ اگر تمہارا یہ بچہ حاکم ہوا تو ہمارا محصول معاف کر دیگا اس نے کاغذ لکھ دیا.ساتھیوں نے کہا کہ یہ کیا بات ہے اس نے جواب دیا کہ یہ عورت جنگل میں ہے اس کے دل میں جو خواہش پیدا ہوئی ہے.یہ اس کی نہیں.بلکہ اس بچہ کی ہے.جو اس کے شکم میں ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بچہ بڑا آدمی ہو گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.جب وہ حاکم ہوا تو اس نے محصول معاف کر دیا.تو کوئی تو وہ زمانہ تھا کہ اس طرح خوش نصیبی کے فال نکالتے تھے.آج ایک ایک پیسہ کے انگور بکتے ہیں.اور لوگ کھاتے ہیں.غرض دنیا کی ہر چیز ترقی پر ہے اور دنیا اپنی تمام خوبصورتیوں کے ساتھ آگئی ہے.پہلے ایک ادنی مکان اور معمولی غذا اور موٹے لباس پر گزارہ ہوتا تھا.اس وقت آسان تھا کہ لوگ دنیا کی بجائے دین کو اختیار کریں.مگر آج لوگوں کی یہ حالت نہیں.اب لوگوں کو محنت برداشت کرنانا ممکن ہے.اس لیے حضرت مسیح موعود نے اس بات کو شرائط بیعت میں داخل کر دیا کیونکہ اب محال تھا کہ لوگ دنیا کو دین کے مقابلہ میں مفید خیال کریں، لیکن کوئی شخص کامل نہیں ہو سکتا.جب تک کہ دین کے حقیقی منشاء کے ماتحت دنیا کو دین کے مقابلہ میں نہ چھوڑے.جب تک جماعت کے افراد میں یہ خیال اور جذبہ پیدا نہ ہوگا.اس وقت تک حقیقی ترقی حاصل نہ
ہوگی.پس چاہیئے کہ کسی کے لیے دین کے موقع پر دنیا روک نہ ہو.آج تو لوگوں کی یہ حالت ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر نماز چھوڑ دیتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جنگ کے موقع پر بھی یہ بات نہ تھی.وہاں تو جنگ میں جاتے وقت اگر کوئی عذر کرتے کہ ہمارا گھر بے پناہ ہے تو مسموع نہ تھا یہ لیکن یہاں ایک شخص عشاء کی نماز میں نہیں آتا.پوچھا جائے تو جواب ملتا ہے کہ بیوی اکیلی ہے اور ڈرتی ہے.نماز میں کیوں نہ آئے.دوکان کے بند ہونے سے گاہک واپس چلے جاتے ہیں.اسی طرح دوسری باتوں میں سستی ہے.اور بہت تھوڑے ہیں.جو دین کے کام کی اہمیت کو خیال میں لاتے ہیں.چاہتے یہ کہ ہر جگہ دین مقدم ہو جب تک یہ حالت نہ ہو.حالت خطرناک ہے.اس لیے میں جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں.کہ اگر وہ خدا تک پہنچنا چاہتے ہیں.اور احمدیت کا پھیل چکھنا چاہتے ہیں.تو دین کو دنیا پر مقدم کریں.اور دنیا کو دین کے ماتحت کر دیں.اور اگر یہ نہیں کرینگے توان کے احمدیت اور اسلام کے دعوے فضول ہونگے.پس جب تک اسلام اور احمدیت کا حقیقی ادب نہ کیا گیا.اس وقت تک یہ سمجھنا کہ ہم احمدی ہیں یہ تمام فضول خواہشیں ہونگی کیونکہ جب تک عمل نہیں کیا جائیگا.کوئی کامیابی نہیں ہوگی.الفضل نور نومبر ته ) له الاحزاب : ۱۴
63 ایمان کی حفاظت کرو دفرموده ۱۴/ نومبر ۱۹۱۹ تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد آیت شریف رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنتَ الوَهّاب (ال عمران : ٩ ) پڑھی اور فرمایا :- انسان کے لیے اس دنیا میں بہت مشکلات کا سامنا ہوتا ہے.اور اسی وجہ سے انسانی زندگی کا مطالعہ کرنیوالوں نے ضرب المثل کے طور پر تیجہ نکالا ہے کہ انسانی زندگی کوئی پھولوں کا بستر نہیں بلکہ یہ ایک محنت اور کوشش کا زمانہ ہے.جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انہیں ایسی زندگی ملے جو غموں سے خالی ہو.وہ نادان ہیں.کیونکہ غموں اور فکروں سے خالی وہی زندگی ہو سکتی ہے جو جہالت اور نادانی کی زندگی ہو.ورنہ دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہے.یا تو دنیاوی معاملات کی الجھن لگی ہوگی.یا دینی کاموں کا خیال ہو گا.بالفاظ دیگر یا تو ایک انسان خدا سے غافل اور ہر طرف اس کے دنیا ہی دنیا ہو گی.ایسا شخص دنیا کی ترقی میں لگا ہو گا.اس صورت میں بھی زندگی امن سے نہیں گزر سکتی کیونکہ عزت و رتبہ بغیر محنت اور جدوجہد کے حاصل نہیں ہوتا.اور پھر جس کو دنیا میں کوئی رتبہ اور عزت حاصل ہوگئی ہو.اس کے لیے بھی ضرورت ہے کہ اس کے قیام کے لیے محنت و فکر سے کام ہے.دوسری صورت یہ ہے کہ ایک شخص دنیا کو یہی سمجھتا ہو.اور وہ خدا ہی کے لیے ہو گیا ہو تب بھی اس کو وہ آرام میں نہیں آئے گا جس کو جاہل لوگ آرام خیال کرتے ہیں.اُسے اپنے نفس سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے.اپنی خواہشات کو دیا نا پڑتا ہے.دشمنوں کی شرارتوں اور تکلیفوں کو اُٹھانا پڑتا.اور پھر اس کو ہی فکر دامنگیر رہتی ہے کہ دیکھتے موت کس وقت آتے.اور مجھے کس حال میں پائے.جب وہ ایک مقام پر پہنچتا ہے.تو اس کو یہی فکر رہتی ہے کہ یہ مقام قائم رہے.اور اس سے اگلا حاصل ہو لیس جس طرح ایک دنیا دار کے لیے فکر ہوتی ہے.اسی طرح ایک اہل اللہ کے لیے بھی فکر ہوتی ہے.دونوں صورتوں میں وہ زندگی میں کو لوگ آرام کی زندگی خیال کرتے ہیں.نہیں ملتی وہ زندگی آرام کی زندگی نہیں
بلکہ جہالت اور بے ہوشی کی زندگی ہوتی ہے.اس کی مثال ایسی ہے.جیسے ایک شخص کو کلورا فارم سنگھا دی جائے کیا اس کے متعلق کہیں گے کہ وہ اطمینان کی حالت میں ہے.یا ایک شخص افیون کھاتا ہو اور اس کی بینک میں ہو.یا ایک شراب نوش کو شراب نے مدہوش کر رکھا ہو.اس کو اطمینان کی زندگی کہا جائیگا نہیں.بلکہ ان کی زندگی کو جہالت اور نا واقفیت اور بے خبری کی زندگی کہیں گے.پس آرام کی زندگی وہ زندگی ہے جو اصلی مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد میں گزرتی ہے.اور وہ آرام کی زندگی ہے جس میں انسان مدعا کے قریب ہوتا جاتا ہے.جو لوگ دین کے لیے کوشش کرتے ہیں اور اپنے مقصد کے قریب ہوتے جاتے ہیں وہ بھی آرام میں ہیں.اور جو دنیا کے لیے کوشش کرتے ہیں اور اپنے مقصد کے قریب ہوتے ہیں.وہ بھی آرام کی زندگی میں ہیں.مگر جو لوگ دین و دنیا دونوں کے متعلق کوشش سے دست بردار ہوتے اور محنت سے جی چراتے ہیں وہ آرام میں نہیں ہوتے ان کی مثال تو اس کبوتر کی ہے.جو بلی کو آتا دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے کہ یہ بھی تکالیف اور مفتوں سے بیچ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں.دنیا میں تکالیف تو ہوتی ہی ہیں کہیں رشتہ داروں کی تکالیف ہیں کہیں ذاتی تکالیف ہیں بیماریاں ہیں.کہیں اپنی پوزیشن کے قائم کرنے کا خیال ہوتا ہے.ان سب کے لیے محنت و تفکرات کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن نادان چاہتے ہیں کہ ان سے بیچ جاتیں.حالانکہ ہر ایک خوشی محنت کے بعد ہی حاصل ہو سکتی ہے.دنیاوی معاملات میں بھی اور دینی معاملات میں بھی موت تک یہی سلسلہ رہتا ہے.نبیوں کو بھی دنیا میں اس قسم کا آرام نہیں ہوتا.جیسا کہ جہلا چاہتے ہیں.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میرا خیال تھا کہ جان کنی کی تکلیف (نعوذ باللہ) صرف اپنی لوگوں کو ہوتی ہے جو خدا سے بے تعلقی ہوتے ہیں.اور یہ تکلیف ایک عذاب کے طور پر ہوتی ہے، لیکن میں نے اپنے اس خیال کو اس دن چھوڑا.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی.کیونکہ میں نے وہ وقت آنحضرت صلی اللہ علیہوم سے زیادہ سخت کسی پر نہیں دیکھا لے پھر ہم دیکھتے ہیں.حضور اس دن تڑپتے ہیں.اور بار بار کہتے ہیں لعنت ہو یہود و نصاریٰ پر کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مساجد بنا لیا یہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کو بخاری و مسلم بروایت مشکوة كتاب الفتن باب وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم طبقات ابن سعد جزوه مه
وفات کے وقت بھی ایک تکلیف تھی، لیکن اپنی ذات کے متعلق نہ تھی.کہ آپ فوت ہوتے ہیں.بلکہ اس کے لیے تو آپ فرماتے ہیں بالرفیق الاعلی.میںتو اپنے رفیق اعلی کے پاس جانا چاہتا ہوں.ہاں فکر ہے تو اس بات کی.اور نظم ہے تو اس امر کا کہ کہیں آپ کی امت سیو کی مانندنہ ہوجائے.اور جیسا کہ سہیود نے اپنے انبیاء کی امریکا قبور کو مساجد بنالیا.کہیں آپ کی قبر کو بھی مسجد اور عبادت گاہ نہ بنائیں.اور آپ کی پرستش شروع نہ کر دیں.آپ کو اس امر کی تکلیف تھی کہ کہیں آپ کے بعد آپ کی امت شرک میں مبتلا نہ ہو جائے.پس جب آپ تکالیف سے نہ بیچ سکے تو اور کون ہے.جو بیچ سکے.دنیا کی تکلیفیں اور کاوشیں متیں انسان کی زنیت کے رستہ میں ہی نہیں، بلکہ خدا کے رستہ میں بھی یہی سلسلہ ہے.جب تک انسان محفوظ نہ ہو جائے.لیکن یاد رکھنا چاہیئے کہ ان لوگوں کی نسبت جنہوں نے کچھ حاصل نہیں کیا ہوتا.حاصل کر لینے والوں کے لیے خطرہ زیادہ ہوتا ہے.کیونکہ جنہوں نے آرام نہیں پایا ہوتا، لیکن نہیں آرام میسر ہو چکا ہو ان کے لیے بے آرامی کا برداشت کرنا سخت مشکل ہوتا ہے.دیکھو عام طور پر جنگل میں ایسا آدمی نہیں لگتا جو جو کنا ہو.مگر بر خلاف ازیں جب انسان گھر کے قریب اگر خیال کر لیتا ہے کہ میں محفوظ ہوں.تو اس وقت چور اس کو لوٹ بنتے ہیں.پس اسی طرح جب انسان کو ہدایت ملتی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے.کہ اس کی حفاظت کرے جو لوگ ہدایت پا کر غافل ہو جاتے ہیں.وہ ہدایت کو کھو دیتے ہیں.کیونکہ دنیا سونے اور آرام کی جگہ نہیں یہاں جس کو کچھ ملتا ہے.اور جس پر کوئی انعام ہوتا ہے.اس کو ورغلانے والے بھی ہو جاتے ہیں.اسی لیے دعا سکھلاتی - رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْنَنَا کہ الہی ہدایت کے بعد ہمارے دلوں میں زیج پیدا نہ کر دیا.پھر اسی لیے تعلیم دی کہ پانچ وقت نماز میں دعا کیا کرو.غیر المغضوب عليهم ولا الضالين یہ دعا ئیں اسی لیے ہیں کہ جب انسان کو ہدایت مل جاتی ہے.تو وہ خیال کر لیتا ہے کہ اب میں امن میں آگیا ہوں.حالانکہ وہ اس وقت زیادہ خطرہ میں پڑ جاتا ہے.کیونکہ اسی شخص کے گرنے کا احتمال ہوتا ہے.جو کسی چیز پر سوار ہو کسی شاعر نے اس بات کو اس طرح نظم کیا ہے.گرتا ہے شہ سوار ہی میدان جنگ میں وہ طفل کیا کریگا.جو گھٹنوں کے بل چلے یعنی پچر نے کیا کرنا ہے.جو کہ پہلے ہی گھٹنوں کے بل چلتا ہے.گرتا تو وہی ہے جو بندی پر ہو.ایک ایسا شخص جو ہر روز محنت کر کے اپنا اور اپنے بال بچوں کا روزانہ خرج مہیا کرتا ہے.اگر اس کے گھر توپر پڑے تو اس کا نقصان نہ ہوگا.اور اگر ہو گا.تو زیادہ سے زیادہ یہ کہ ایک وقت کی خوراک جاتی رہے گی.
اس غریب کے لیے وقت کا فاقہ برداشت کرنا کچھ بھی مشکل نہیں مگر دوسرا شخص جو ناز و نعمت میں پلا ہو.نرم اور گرم بستروں پر سونے کا عادی ہو.اگر اس کے گھر چور آپڑیں.تو اس کا بہت نقصان ہو گا.اور اس کی زندگی تلخ ہو جائیگی.کیونکہ آرام کے بعد تکلیف سخت معلوم ہو ا کرتی ہے.پس جنہوں نے کسی قدر ترقی کی ہے.وہ زیادہ خطرے میں ہیں.ان لوگوں کی نسبت جنھوں نے کوئی ترقی حاصل ہی نہیں کی.کیونکہ کرنے کا خطرہ ترقی یافتوں کے لیے ہے.دوسروں کیلئے نہیں.دوسری وجہ ترقی یافتہ لوگوں کے خطرے میں ہونے کی یہ ہوتی ہے.کہ ان کو نعمت کے گم ہونے کا پتہ نہیں لگتا.جو لوگ ترقی کرتے ہیں.ساتھ ہی ایک قسم کی غفلت ان کو پکڑلیتی ہے جس کے زیر اثر وہ چیز کے گم ہونے سے بے خبر رہتے ہیں.اور آہستہ آہستہ ان سے وہ نعمت گم ہوتی رہتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کہیں سے کہیں چلے جاتے ہیں.اور اس بیماری کو محسوس بھی نہیں کرتے حتی کہ مرض ان کا خاتمہ کر دیا ہے.چھوٹی چھوٹی باتیں ان کے ایمان کو ضائع کرتی رہتی ہیں اور وہ غافل رہتے ہیں جتی کہ ان کا سارا ایمان ضائع ہو جاتا ہے.ایک بھو کا اگر جنگل میں جا رہا ہو، تو وہ کوشش کریگا، نہر کی آبادی میں جاتے اور کھانا مہیا کرے لیکن وہ شخص جو ہر قسم کے کھانے گھر سے پکوا کر ساتھ لے چلا ہو.مگر راستہ میں وہ گم ہوگئے ہں جس کا اسے علم نہ ہو.تو وہ آبادیوں میں سے گزارے گا.مگر اپنے کھانے کے لیے کچھ فکر نہ کریگا.کیونکہ با وجود کھانا پاس نہ رکھنے کے اسی خیال میں ہو گا.کہ اس کے پاس کھانا ہے.پس حاصل کرنے والا ہی کھوتا ہے جس نے حاصل ہی کچھ نہ کیا ہو.وہ کیا کھوئیگا.پس میں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی حالت کا محاسبہ کرتے.اور اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے دُعائیں کرتے رہا کریں.کیونکہ وہ دوسروں کی نسبت زیادہ خطرہ میں ہیں.ان پر یہ خدا کا فضل ہے.کہ انہوں نے مسیح موعود کو قبول کیا.اور اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر اعمالِ صالحہ کے دروازے کھول دے بیکن اگر یہ غفلت کریں تو ان کے لیے بہت خوف کا مقام بھی ہے.کیونکہ آئندہ کے لیے کوشش اور موجودہ حالت میں ہو شیاری کی ضرورت ہے.پس آپ لوگوں کیلئے یہ ایسا موقع ہے کہ پھونک پھونک کر قدم رکھیں.اور دیکھتے رہیں کہ کہیں ایمان جاتا تو نہیں رہا.حضرت موسی کے قصہ میں اس کی مثال موجود ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود اس قصہ کو بار با بان فرمایاکتے تھے.کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ جب مصر سے نکلے تو راستہ میں عمالیق سے مقابلہ آن پڑا.ان کے بادشاہ کو خطرہ ہوا کہ ہم شکست کھا جائیں گے.ان کے ہاں ایک بزرگ تھا.بادشاہ نے اس سے دعا کی درخواست کی.اس نے دعا کی.تو خدا کی طرف سے الہام ہوا کہ موسیٰ خدا کا نبی ہے.اس کے خلاف رکھا نہیں کرنی چاہیئے.اس نے بادشاہ
۳۱ کو کم یا کہ موسی کے خلاف دُعا نہیں ہوسکتی جب بادشاہ کو معلوم ہوا کہ میری کوئی بات کارگر نہیں ہوتی تو اس نے وہی چال چلی.جو آدم کو جنت سے نکلوانے کے لیے شیطان نے چلی تھی.کہ حوا کے ذریعہ پھیلایا تھا.اسی طرح اس نے بہت سے زیورات وغیرہ تیار کرائے.اور موسیٰ کے برخلاف دعا کرانے کے لیے اس بزرگ کی بیوی کو دیئے.اس نے تحریک کی بنگر اس بزرگ نے جواب دیا کہ موسی خدا کا مقرب ہے اس لیے اس کے خلاف بد دعا نہیں ہوسکتی.میں نے کی تھی.مگر وہاں سے جواب مل گیا، لیکن وہ مصر ہوئی.اور کہا کہ کیا ضرور ہے کہ اب بھی وہی حالات ہوں.تم بددعا تو کرو.آخر وہ رضامند ہوگیا.اس کو ایک جگہ لے گئے اس نے کہا کہ یہاں سینہ نہیں گھلتا.اور اسی طرح دو تین جگہ گیا.آخر چونکہ اسکا ایمان جانا تھا.اس نے بددعا کی.کہتے ہیں کہ جونہی اس نے بددعا کی میوسی کی قوم میں تباہی پڑ گئی.کیونکہ اس کے پہلے ایمان کا کچھ تو اثر ہوا تھا.اور ادھر اس کا ایمان کبوتر کی شکل میں اٹھ گیا.بیشک یہ ایک قصہ ہے مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کبوتر ہاتھ سے نکل جاتا ہے.اسی طرح ایمان اس کے دل سے نکل گیا.پس چونکہ ایمان محنت سے آتا ہے اور جاتا ایک فقرہ میں ہے.اس لیے ضرورت ہے کہ انسان ہر وقت ہوشیار رہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنگ میں تشریف لے گئے.جب لوٹے تو غنیمت میں سے حضور نے مہاجرین کوکسی قدر مال زیادہ دیا.اور اس پر انصار کے ایک گروہ میں سے کسی نے کہ دیا کہ خون تو انکی باری تلواروں سے ٹپک رہا ہے لیکن ماں نے گئے مہاجرین اس مجمع میں انصار میں سے ایک وہ شخص بھی پیچھے تھے جنہوں نے حضور کی محبت اُٹھائی تھی.وہ حضور کے پاس گئے اور خبردی کہ ایک مجمع میں انیسی گفتگو ہوئی ہے.بعض لوگوں کا قاعدہ ہوتا ہے کہ جب ان کے عزیز سے کوئی غلطی ہو تو وہ اس پر پردہ ڈال کرتے ہیں مگرانہوں نے ایسانہ کیا.حضو صل اللہ علیہ سل نے انصار کو بلایا اور کہا میں نے اس قسم کی خبر سنی ہے.کیا یہ درست ہے.انہوں نے کہا کہ بے شک درست ہے.مگر یہ کہنے والے بڑے لوگ نہیں بچے ہیں حضور نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اسے انصار تم کہ سکتے تھے کہ یہ گھرسے نکالا ہوا اکیلا آیا.ہم نے اس کا ساتھ دیا اور اس وقت ساتھ دیا.جب اس کے وطن والے اس کے دشمن تھے.پھر ہم نے اس کے دشمنوں کو زیر کیا.اب جب یہ فتح یاب ہوا تو اس نے اپنے بھائیوں کو مال د یدیا اور نہیں کچھ نہ دیا.پھر فرمایا مگر اس کے مقابلہ میں تم یہ ھی کہ سکتے ہو کہ ایک جنگ جس سے مہاجرین تو مال و اسباب اور اونٹ وغیرہ لیکر گھروں کو گئے.اور مدینہ والے اللہ کے رسول کو ساتھ لے گئے مگر اب جو الفاظ تمہارے منہ سے نکلے ہیں.ان کا نتیجہ کم سن لو.کہ دنیا میں تمہارے لیے کوئی عزت نہیں حوض کوثر پر ہی آکر مجھ سے مطالبہ کرنا.چنانچہ ان ے بخاری کتاب مناقب الانصار
۳۴۲ لفظوں کا نتیجہ دیکھ لوکہ تیرہ سو برس میں انصار کی کوئی بھی حکومت نہیں ہوئی.الانکہ انصا وہ لوگ ہیں جن پر حضت نبی کریم علی التعلیم و او را با تاتا اور نین میں بعض نوجوانوں نے بڑا بول بولا.اور ان میں مجب آگیا.خدا تعالیٰ نے اس موقع پران کو تنبیہ کرنی چاہی.اور میدان میں ان کا قدم اکھٹر گیا.حالانکہ مسلمانوں کی تعداد اس وقت بارہ ہزار سے زیادہ تھی.اور دشمن کی تعداد دو تین ہزار سے زیادہ نہ تھی.اس وقت ایسی حالت ہوئی کہ صحابہ کہتے ہیں کہ نہیں معلوم نہ تھا کہ ہمارے گھوڑے کدھر جا رہے ہیں.میدان میں میں اس وقت صرف رسول کریم اور سات آٹھ اور تشخص باقی رہ گئے تھے.اس وقت حضرت عباس آگے بڑھے.اور آنحضرت کے گھوڑے کی باگ کو پکڑ لیا اور کہا کہ حضور اب پلٹ چلیں.اب مقابلہ کا وقت نہیں.حضور نے فرمایا کہ خدا کے نبی میدان میں آکر پیچھے نہیں ہٹا کرتے.چونکہ حضرت عباس کی آواز بلند تھی.اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کو کہا کہ انصار کو آواز دو کہ اسے انصار تمہیں خدا کا رسول جلاتا ہے اس وقت جبکہ سب فوج تتر بتر ہوگئی تھی.آپ مہاجرین کو آوازہ نہیں دیتے.بلکہ آپ انصار کو پکارتے ہیں.حضرت عباس نے آواز دی.صحابہ کہتے ہیں کہ ہمیں ایسا معلوم ہوا کہ گویا صورا سرافیل پھونکا جارہا ہے اور یہ عباس کی آواز نہیں بلکہ خدا کی آواز ہے.تمام لوگ پلٹ پڑے.اور گھوڑوں اور اونٹوں کو پیچھے پھیرنا شروع کر دیا، لیکن حالت اس وقت یہ تھی کہ اونٹ مہار کے کھینچنے سے دوہرے ہو ہو جاتے، لیکن واپس نہ پیٹنے آواز دم بدم بند ہوتی گئی.اس پر جو اونٹ اور گھوڑے پھرتے نہ تھے.ان کے سواروں نے تلواریں کھینچ کر ان کی گردنیں اڑا دیں.اور پیدل ہو کر حضور کی طرف آگئے لیے پس اس واقعہ پرابھی چند دن نہ گزرے تھے کہ وہ واقعہ پیش آیا جس کا ذکر ہوا.اور ان چند لفظوں نے کیا ہے پیدا کیا ہے چونکہ انصار مومن تھے.اس لیے دنیاوی نتیجہسے محروم رہے اور خدا نے ان کا ایمان بچالیا اگر دیکھو انہوں نے کن دقتوں سے یہ رتبہ حاصل کیا تھا.اور کھونے میں ذرا بھی دیر نہ گی.پس بہت ہوشیار اور چوکس رہنا چاہیے.کیونکہ برسوں میں حاصل کی ہوئی چیز منٹوں میں ضائع ہو جاتی ہے یادرکھو.خدا کے مقابلہ میں علم کام ہیں آتے.دنیادی اور دینی رتبہ بھی کچھ کام نہیں آتے.خاندان کا نہیں آتے.غرض خدا کے مقابلہ میں کوئی بڑائی کام نہیں آتی.اگر کوئی ان باتوں پر گھمنڈ کرتا ہے تو غلطی کرتا ہے.چاہتے کہ اللہ کے حضور میں انکسار ہو.اور ایمان کی حفاظت کے لیے کوشش اور دکھا ہو.اسد تعالی آپ لوگوں کی آنکھیں کھولے اور آپ کو سمجھ دے کیونکہ وہ ایمان جو برسوں میں حاصل ہوتا ہے سیکنڈوں میں ضائع ہو سکتا ہے.اگر اس کی حفاظت نہ کی جائے.الفضل یکم دسمبر 11 سیرت ابن ہشام جلد ۲ حالات غزوة حنين
64 آپس میں محبت کرو دفرموده ۱۲۸ نومبر ۱۹۱۹ حضور نے تشد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." میں بوجہ ملتی کی تکلیف کے زیادہ نہیں بول سکتا مگر چند الفاظ میں آپ کو اور باہر کی جماعتوں کو ایک اہم فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں.میرے نزدیک اس فرض کی ادائیگی میں ہماری جماعت میں بہت سستی ہے حالانکہ وہ فرض نہایت ہی ضروری ہے.اور اس کے بغیر انسان انسان نہیں ہو سکتا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ انسان اصل میں انسان سے نکلا ہے جس کے معنے ہیں دو انس یا دو محبتیں.ایک خدا کی محبت اور ایک خدا کے بندوں کی محبت.پس انسان - انسانیت کے لیے سب سے پہلا جو قدم اٹھا سکتا ہے.وہ یہی ہے کہ ایک طرف اس کو خدا کی محبت ہو دوسری طرف خدا کے بندوں کی.اگر انسان محبت سے خالی ہو تو اس کو انسان نہیں کہ سکتے.بلکہ اس کو تو جانور بھی نہیں کہا جا سکتا.وہ تو جانوروں سے بھی بدتر ہو گا.کیونکہ بہت سے لوگ انسان کہلاتے ہوئے بندر ہوتے ہیں.انسان کہلاتے ہوئے ستور اور پتے دیکھے ہوتے ہیں.ہو سکتا ہے کہ یہ سورہ ہو یا شیر ہو یا چیتا یا بھیڑیا یا انسان کھلا کر لوجہ اپنی مکاریوں کے لومڑ ہو.اسی طرح ایک انسان انسان نظر آتا ہوا اپنی اخلاقی حالت کے لحاظ سے ان جانوروں سے بھی گیا گزیر ہو کہ دیکھنے میں تو انسان ہو.اور عادات کے لحاظ سے ریچھ سے بھی بدتر ہو یا سٹور سے بھی بدتر ہو ہو سکتا ہے کہ درندگی میں بھیڑیئے سے بھی بدتر ہو.مشہور ہے کہ شیر گرے ہوئے پر حملہ نہیں کرتا.مگر آدمی کہلانے والوں میں اس قسم کے ہوتے ہیں کہ گرے ہوئے پر بھی حملہ کرتے ہیں.حدیث شریف میں آتا ہے کہ قیامت کے دن بعض مجرم اونٹ کی شکل میں آئیں گے پشیمانی طور پر تو تعجب ہو سکتا ہے، لیکن روحانی طور پر یہ کوئی مشکل بات نہیں.ممکن ہے کہ ایک شخص کی روایت جس قسم کی یہاں ہو.اس کو متمثل کر کے اگلے جہاں میں اونٹ کی شکل میں دکھایا جائے.اس سے ثابت مکاشفتہ القلوب مصنفہ امام محمد بن الغزالی ترجمه اگر دو م۳۶۵
م هم هم ہوا کہ ہر انسان کے دو نقشے ہوتے ہیں.ایک اس کا ظاہری نقشہ - ایک باطنی ظاہری نقشہ میں تو تمام انسانے مشابہت رکھتے ہیں لیکن باطنی میں ایک کی شکل دوسرے سے نہیں ملتی.اور جس طرح افراد کی حالتوں میں فرق ہے.اسی طرح اقوام کی حالت ہوتی ہے.پس انسان وہ ہے کہ جس میں دو محبتیں ہوں.ایک بندوں سے ہو.اور ایک خدا سے اور خدائی محبت وہ ہے جو نظر نہیں آسکتی کیونکہ یہ ایک قلبی مقالہ ہے.اور بندوں سے جو محبت ہو وہ ظاہر ہوسکتی ہے.خدا سے محبت کا ثبوت بھی تب مل سکتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں خدا کی طرف سے بھی محبت کا معاملہ ہو، کیونکہ مشہور ہے، دل را بدل رہیت ، لیکن خدا کے لیے تو یہ بات نہیں کی جاسکتی.کیونکہ وہاں تو علم کامل ہے پس جب ایک بندہ خدا سے سچی محبت رکھتا ہو.تو ہو نہیں سکتا، کہ خدا تعالیٰ اس سے محبت کا معاملہ نہ کرے تو ایک انسان کا خدا سے دعویٰ محبت اسی وقت صحیح ہو سکتا ہے.جب خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی محبت کا معاملہ ہو.یہ ایک بڑا رتبہ ہے.مگر انسانوں کی محبت تو تھوڑی سی بات ہے.میں دیکھتا ہوں.ہماری جماعت میں آپس میں وہ پیار اور محبت کم ہے.جو اسلام کہتا ہے کہ تمام لوگوں سے ہو.اسلام وہ پیار جو چاہتا ہے کہ ایک عیسائی سے ہو.ایک یہودی سے ہو.ایک آریہ سے ہو.ایک زرتشتی سے ہو.ایک سکھ سے ہو.وہ پیار جو بھائیوں بھائیوں میں ہونا چاہتے.وہ تو یہ ہے کہ نَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ (الصف : ) کہ جس طرح چونے کیچ دیوار میں یہ نہیں معلوم کیا جا سکتا، کرفلاں کا امنٹ کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں ختم ہوئی.اسی طرح بھائیوں بھائیوں کو آپس میں جڑے ہوئے ہوتا چاہتے کہ غیریت نظر نہ آئے.پس یہ تو ایک بھاری چیز ہے.ہماری جماعت میں تو اس محبت میں بھی نمی ہے جتنی کہ اسلام کے رو سے غیر مذاہب کے لوگوں سے ہونی چاہیئے یعنی جتنا کہ ایک احمدی کو ایک ہندو یا عیسائی سے پیار ہونا چاہیئے.اتنا پیار احمدیوں کا آپس میں نہیں.اور وہ پیار جواپسی میں ہونا چاہیئے، وہ تو بڑی بات ہے.اور یہ پیار اور محبت انسانیت اور اسلام کا پہلا زینہ ہے.افسوس کہ اس میں بھی بڑی کمی ہے.اور جب ابھی پہلا زینہ ہی طے نہ کیا ہو.تو دوسرے زینے کیسے طے ہو سکتے ہیں.اس لیے میں اپنی جماعت کو خاص طور پر توجہ دلاتا ہوں کہ اخلاق فاضلہ ایک بڑی چیز ہیں! اور دنیا کی جمعیت کا ان پر انحصار ہے.اپنے حقوق پر ہی زور دنیا کامیابی کا موجب نہیں بلکہ قربانی کرنا کامیابی کا ذریعہ ہوتا ہے کیونکہ اگر حقوق پر ہی زور دیا جائے تو دنیا سے ان رخصت ہو جائے.دیکھو اگر ایک بھائی مر جاتے اور پنے تین بچے چھوڑ جاتے تو دوسرے بھائی کہ سکتے ہیںکہ ان چوں کہ ہر کوئی نہیں کیونکہ ایک باپ اپنے تو زندگی میں ہم سے یا رہا ہے پھراگر محلی کوئی شخص فوت ہو تو اہل محل اسکے مقیم بچوں اور بیوہ بیوی کے متعلق کہہ سکتے ہیں کہ
۳۴۵ ان کا ہم پر کوئی حق نہیں.اسی طرح شہر کے لوگ اور پھر ایک قوم کے لوگ اپنی قوم کے ایک فرد کے بچوں کے متعلق کہ سکتے ہیں کہ ان کا باپ اپنی زندگی میں اپنے حقوق ہم سے لیتا رہا.ہم ان بچوں کی نگہداشت نہیں کر سکتے.اسی طرح ایک حکومت کہ سکتی ہے.یا اگر کوئی شخص پاگل ہو جائے.تو اس کی اولاد کی پرورش سے اس کے رشتہ دار.اس کے قریبی اور اہل محلہ اور اہل شہر اور حکومت دست بردار ہو جائیں.اس سے معلوم ہوا کہ صرف حقوق ہی دُنیا کی ترقی کا موجب نہیں بلکہ حقوق کے سوا بھی کوئی چیز ہے.اور وہ قربانی ہے اور محبت ہے.اگر ایک انسان ہمیشہ حق پر ہی بحث کرتا ہے.تو اگر وہ بیمار ہو جائے یا مر جاتے.اور اس کے رشتہ دار اس کی مدد سے انکار کر دیں.تو ان کو کیا کہا جاسکتا ہے.پس یہ طریق شریعت نے وسیع کیا ہے کہ تم محقوق پر ہی بحث نہ کیا کرو، بلکہ حقوق کے سوار محبت و اخلاص کو بڑھاؤ.اور قربانیاں کرو.ہمارے لیے جس وجود کو اسوہ حسنہ قرار دیا گیا ہے.اس پر کیا گیا سختیاں ہوئیں، لیکن جب وقت آیا.آپ نے ان کو معاف کر دیا.اور ان تمام تکالیف کو جلا دیا.جو مکہ والوں کی طرف سے آپ کو پہنچی تھیں.ایک وقت میں ان کی شرارت کی وجہ سے ان کو سزا بھی دی.یہ غلط ہے.کہ جو بعض لوگ شریر کو اس وقت چھوڑ دیتے ہیں.جبکہ وہ شرارت کر رہا ہوتا ہے.اگر چہ اس حالت میں بعض اوقات وہ معانی کی بھی درخواست کرتا ہے.لیکن وہ خفیہ خفیہ جڑیں کھود رہا ہو پس وہ معافی اس کی معافی نہیں.نہ اس وقت اس کو چھوڑنا چاہیئے.ہاں جس وقت معلوم ہو جاتے کہ اب یہ شرارت نہیں کرینگے.اور اس وقت ان کو سزا دینے میں ان کی اصلاح نہیں ہوسکتی.تو پھر معاف ہی کرنا چاہیئے.اور ایسی حالت میں ہر شریف بلکہ ہر ایک مسلمان کا یہی فرض ہے که معافی دیدے.اور ان کے قصور سے چشم پوشی کرے، لیکن اگر ایک شخص آتا ہے اور کتا ہے کہ مجھے معاف کرو.مگر اس کے افعال اس قسم کے ہیں.جن سے وہ اسلام کو تباہ کرنا چاہتا ہے.تو قطعا وہ معانی کا مستحق نہیں.پس یاد رکھو عضور رحم - اخوت اسلامی اور محبت یہ وہ چیزیں نہیں جو اساس اسلام ہیں.جو ان کی طرف توجہ نہیں کرتا.وہ اسلام سے منہ پھیرتا ہے.پس چاہتے کہ آپس میں محبت و پیار ہو.اسلام تو کتا ہے کہ تم غیروں سے بھی محبت کرو مگر چونکہ آپس میں ہی محبت کی کمی ہے.اس لیے پہلے گھر سے شروع کردہ تم میں ہیں جو چشم پوشی کرتے ہیں.مگر بے موقع اور جہاں نہیں چاہیئے.مثلاً اگر کوئی شخص اس قسم کی باتیں کرتا ہے جن سے جماعت ٹوٹتی ہے.توئن لیتے ہیں اور چشم پوشی کرتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص ان کی ذات کے خلاف کسے تو نہیں سن سکتے تو اس کا نام چشم پوشی نہیں.یہ تو بد دیانتی ہے.قرآن کریم ایک موقع پر کہتا ہے کہ مزا دو اگر اس سزا کے وقت میں کسی کے دل میں ترمی یا رخم پیدا ہو تو وہ مومن نہیں پس اگر کوئی شخص جماعت کو اپنی شرارت سے نقصان پہنچانے کے درپے ہے.تو اس کو سزا دو.اور اپنے
ذاتی معاملات اور دیگر امور میں رحم سے کام لو کیونکہ خدا رحم کرنیوالوں سے محبت کرتا ہے بعض حالات میں تو یہاں تک فرمایا ہے کہ جو شخص رحم نہیں کرتا.وہ سلمان نہیں.یہاں الٹ بات ہے کہ لوگ ایسی باتوں پر چشم پوشی سے کام لیتے ہیں جن سے جماعت کا شیرازہ بکھرتا ہو، لیکن وہ باتیں جن کا اثر ان تک محدود ہو اس پر غصہ کرتے ہیں.یہ ایمان کے نقص کی بات ہے.رحم وہ ہے جو جڑ ہے اسلام کی اور اس کا تعلق تمام اقوام سے ہے کہ اگر اس میں نقص ہے تو ایمان میں نقص ہے.میں اپنی جماعت کو خاص طور پر نصیحت کرتا ہوں کہ محبت و اخلاص کو آپس میں بڑھا تو کہ شخص دوسرے کے معاملات کو اپنے معاملات ہی محسوس کرے.آج کل کے بھائیوں کی حالت کو دیکھتے ہوئے میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ آپس میں ایسی محبت کرو جیسی کہ بھائی کو بھائی سے ہوتی ہے.کیونکہ آجکل بھائیوں میں محبت نہیں، ہاں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جو بھائی بھائیوں میں آپس میں محبت ہوتی تھی.وہ پیدا کرو، پرانا محاورہ ہے کہ خون سفید ہو گئے مگر اس کی حقیقت آجکل کھلی.جبکہ بھائی بھائی آپس میں بالکل بے تعلق ہو گئے.اور کوئی رشتہ ایسانہ رہا جس میں محبت کو زیادہ تعلق ہو یں تم ایسے رشتہ دار بنو.جیسے رسول کریم کے زمانہ میں صحابہ تھے.اس زمانہ میں تم نے مسیح موعود گو دیکھا ہے تم لوگ آپ سے وابستہ ہو سپس جو رنگ محبت آپ میں دیکھا ہے وہ پیدا کرو.اس سے زیادہ اور واضح مشال کیا ہو سکتی ہے.پس یہ اساس ایمان ہے جب تک اخوت نہیں.ایمان بھی نہیں.فَاصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ اخوانا (ال عمران : (۱) کے یہی معنی ہیں.اختوت مومن کی علامات میں سے ہے.ایمان اور اخوت ساتھ ساتھ چلتے ہیں.میں نصیحت کرتا ہوں.اس کو یاد رکھو کہ آپس میں اخوت کے تعلقات کو بڑھاؤ اور جب تک اس پر عمل نہ کرو گے.آگے قدم نہیں اُٹھا سکو گے یا ( الفضل ، دسمبر ) من
65 اگرام فیف (فرموده ۱۵ دسمبر ۱۹۹مه) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد آیات هَل أَنكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ المُحرِمِينَ ، إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلَمَّا قَالَ سَلَمُ قَوْمُ مُنْكَرُونَ ، فَرَاغَ إِلَى اهْلِهِ فَجَاءَ بِعجل سَمِينٍ ، فَقَرَبَةٌ إِلَيْهِمُ قَالَ الَا تَا حُلُونَ فَا وَجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً قَالُوا لَا تَخَفْ وَبَشِّرُوهُ بِغُلَامٍ عَلِيمٍ هِ فَأَقْبَلَتِ امَرَاتُهُ فِي صَرَةٍ فَصَلَّتْ وَجْهَهَا وَقَالَتْ عَجُورٌ عَقِيمٌ قَالُوا حَذَلِكِ قَالَ رَبُّكِ إِنَّهُ مَوَ الحكيم العليمُ.قَالَ فَمَا خَطْبُكُمُ ايُّهَا الْمُرْسَلُونَ ، قَالُوا إِنَّا أَرسِلُنَا إلى قَوْمٍ مُجْرِمِينَ (سورة الذُریت : ۵ ۲ تا ۳۳) تلاوت کیں اور فرمایا کہ : زمین پر جب سے کہ انسان کو خدا نے پیدا کیا ہے.اسی وقت سے تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرت انسانی میں اکرام ضیف کو رکھا گیا ہے اور بغیر کسی کسب کے اور بغیر اس کے گرکسی فلسفہ کے نتیجہ میں ہ خواہش پیدا ہو.قدیم زمانہ سے اور فلسفہ کی ایجاد سے پہلے علوم کی دریافت سے پہلے انسانوں میں اکرام نصیف اور مہمان نوازی اور کا دستور ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فطری تقاضہ ہے جس طرح ماں باپ سے نیک سلوک کرنا.ماں باپ کا اپنے بچے سے محبت کرنا.اور میں طرح میاں بیوی کے تعلقات فطرت میں پیدا ہوتے ہیں اور کسی فلسفہ کا نتیجہ نہیں ہوتے.اور ہمیشہ ہے انسان ایسا کرتا چلا آیا ہے اور کر رہا ہے اور کرتا چلا جائیگا، کوئی فلسفہ کوئی علم اس پر اثر نہیں کر سکتا، بلکہ اگر دیکھا جائے تو تمدن کا اس پر الٹا اثر پڑا ہے.نئی تہذیب نے محبت کو کم کیا ہے.زیادہ نہیں کیا.پس اگر فلسفہ کا اس پر کوئی اثر پڑا ہے تو وہ یہ ہے کہ یہ باتیں پہلے سے کم نہیں اس لیے ہم نہیں کہ سکتے کہ یہ باتیں تمدن کا نتیجہ ہیں.یاکسی فلسفہ کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہیں.اگر یہ بات علوم سے پیدا ہوتی تو قوانین کے مرتب ہونے سے بعد میں پیدا ہوتی، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قوانین تمدن نے ان کو کم کیا ہے.وہ قومیں جن پر یورپ کا اثر ہے ان میں ماں باپ کی محبت کم ہو گئی ہے.پس تاریخ سے معلوم ہوتا ہے
کہ یہ بات پرانی چلی آتی ہے اور فطرتی بات ہے کہ انسان مہمان نوازی کرتا ہے اور مہمان کا اکرام کرتا ہے.میں نے ابھی جو چند آیات پڑھی ہیں.ان میں حضرت ابراہیم کے زمانہ کا حال بیان کیا گیا ہے اور وہ زمانہ ہزاروں سال کا زمانہ ہے جو موجودہ تہذیب کے قواعد کے ترتیب دیتے جانے سے بہت پہلے کا ہے.پرانا تمدن یونانی تمدن ہے جس نے دنیا پر بڑا اثر کیا.لیکن حضرت ابراہیم کا زمانہ اس سے بہت پہلے کا زمانہ ہے پھر ہندو فلسفہ ہے گرا سکے تعلق جو تازه ترین تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے وہ یہ کہ میں ہزار سال سے ہے اور حضرت ابراہیم کا زمانہ اس سے پہلے کا زمانہ ہے حضرت ابراہیم حضرت مولتی سے چھ سو سال قبل ہوتے ہیں کیونکہ حضرت ابراہیم ان تاریخی زمانوں سے پہلے ہوتے ہیں.ان کے تعلی الہ تعالی فرماتا ہے کہ ابراہیم کے ہاں کچھ مہمان آتے دو مہمان کیسے تھے ایسے تھے جوحضرت ابراہیم کے قریبی رشتہ دار ہوتے.نہ آپس میں قدیم واقفیت تھی کیونکہ لوگ اپنے رشتہ داروں کی خاطر تواضع اور مہمانداری کرتے ہیں، لیکن رشتہ داروں کی مہمانداری حقیقی مہمان نوازی نہیں ہوتی.اس کا باعث آپس کے تعلقات ہوتے ہیں.اگر یہ شخص ان کے ہاں جاتے تو وہ بھی اسی کی طرح خاطر کرینگے.اس لیے یہ تو عوض معاوضہ کی صورت ہو گئی.ایک بھائی اپنے دوسرے بھائی کی دعوت کرے یا ایک شخص اپنے ماں باپ کی خاطر داری کرے تو ہم اس کے متعلق یہی کہیں گے.کہ وہ اس کا بھائی ہے.اور وہ اس کے ماں باپ اور بھائی بھائیوں کی خاطر داری کیا ہی کرتے ہیں.اور سعید اولاد ماں باپ کی خدمت گزاری کیا ہی کرتی ہے.اسی طرح رشتہ داروں کی بھی لوگ مہمانداری کیا ہی کرتے ہیں.اس کی عام طور پر یہ وجہ ہوتی ہے کہ ایک دوسرے پر احسان کا موقع ملے، لیکن ایسے مواقع پر مہمان نوازی کی حقیقت نہیں گھلتی.مگر ابراہیم علیہ اسلام کے پاس جو لوگ آتے.آپ ان کو جانتے پہچانتے نہ تھے ، بلکہ آپ ان سے بالکل ناواقف تھے مگر باوجود نا واقفیت کے کہ ابراہیم کو نکاعلم نہ تھا.ابراہیم نے انکو اپنا مان گیا اور ایسا مہمان بنایا کہ ابراہیم کے فصیف کریم معززو محترم مہمان ہو گئے.حضرت ابراہیم وہ ہیں جنکو خدا نے معز کیا تھا جن کی بزرگی کی دنیا قاتل ہے، لیکن چونکہ وہ مہمان تھے اور ابراہیم نے انکا کام احترام کیا.اسلیئے وہ ضیف مکرم کہا ہے.اب حضرت ابراہیم کا طرتی بیان کرتا ہے.اور اس ادب کو بتاتا ہے.جو آپ نے اپنے مہمانوں کا کیا جب مہمانوں کو بٹھا چکے تو فراغ الى اهله - اپنے احترام کرنے کو پوشیدہ رکھا.اور نہایت پوشیدگی اور خاموشی کے ساتھ اپنے اہل کی طرف چلے گئے.لوگوں کا قاعدہ ہوتا ہے.کہ جب کوئی مہمان آئے.تو وہ اس کا احترام بھی کرتے ہیں.مگر ساتھ ہی ایسی باتیں بھی کر جاتے ہیں.جن سے یہ مقصود ہوتا ہے کہ مہمان ہمارے اس رویہ کی قدر کرے.مثلاً مہمان آیا.تو کہیں گے آپ کے لیے دودھ لاؤں.
۳۴۹ چائے تیار کروں.انڈا ابلو آؤں.آپ کو فلاں چیز کی ضرورت ہوگی.پلاؤ تیار کراؤں.مرغ کے کباب بناؤں آپ تشریف رکھیئے.میں آپ کے کھانے کی فکر کرتا ہوں.وغیرہ وغیرہ.لانی تو ایک ہی چیز ہوتی ہے مگر اس فہرست کے گنے سے یہ مقصود ہوتا ہے کہکم از کم دو دو تین تین دفعہ مسمان بھی کہے کہ آپ کا احسان آپ کی مہربانی.لوگ اکرام تو کرتے ہیں.مگر اکرام ضیف کی حقیقت کو نہیں سمجھتے مگر حضرت ابراہیم نے یہ نہیں کیا بلکہ ان کو بٹھایا اور خاموشی اور خفیہ طریق سے اپنے اہل کی طرف گئے.داغ کے معنے ہوتے ہیں.خفیہ جانا.اور یہ لفظ شکاریوں کے لیے استعمال ہوتا ہے بعض لوگوں نے ان اصل معنوں کو چھوڑ کر اور مینے کہتے ہیں مگر میرے نزدیک اصل معنوں سے شان بڑھتی ہے پس جس طرح شکاری شکار پر جاتا ہے کہ کہیں شکار کو خیر نہ ہو جاتے.اسی طرح ابراہیم بھی چپکے سے کھسک گئے اور فوراً ایک موٹا تازہ عمل بچھڑا) ذبح کر کے اور کھانے کے لیے تیار کر کے لے آئے مگر وہ تو عذاب کے لیے آئے تھے.تو ایسی حالت میں کھانا واناکس کو سوجھتا ہے انہوں نے نہ کھایا.اس میں اختلاف ہے کہ آیا وہ فرشتے تھے یا آدمی، اگر وہ فرشتے تھے تو انہوں نے کھانا ہی نہ تھا ہر حال وہ کوئی ہوں.حضرت ابراہیم نے کھا نالا کر رکھا.مگر انہوں نے نہیں کھایا.ان کے کھانا نہ کھانے پر حضرت ابراہیم نے بڑا نہیں منایا.جیسا کہ ایسے موقع پر بعض لوگ کہدیا کرتے ہیں.کہ ہم نے تو ان کے لیے یہ کچھ تیاری کی.پرانہوں نے قدرنہ کی.مگر ابراہیم کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہوں نے مہمانوں کے اس فعل سے بُرا نہیں منایا کہ انہوں نے کھانا کیوں نہ کھایا بلکہ فرماتا ہے.فادجس مِنْهُمْ خِيفَةً.اس آیت کے متعلق کہتے ہیں.کہ ابراہیم اپنے دل میں ڈر گئے.کہ کہیں یہ ڈاکو نہ ہوں سے مگر میں کہتا ہوں کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کو خوف اس بات کا ہوا کہ کہیں مجھے.مهمان نوازی میں تو کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوئی.ابراہیم کے متعلق یہ کہا کہ وہ مہمانوں کو ڈا کوسمجھ کر ڈر گئے علی ہے.کیونکہ ابراہیم تو وہ ہیں جو اکیلے بادشاہ کے جھگڑے سلجھانے کے لیے چلے جاتے ہیں ہے.وہ ڈاکو ؤں سے کیا ڈرتے.ان کو جو خوف ہوا.وہ یہی تھا کہ کہیں مہمان نوازی میں تو کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوئی.مہمان پر ناراض نہیں ہوتے نفس کو الزام دیا کہ تجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو گی.مگر مہمانوں نے جو کھانا نہیں کھایا تھا.اس راز کو خود انہوں نے ہی کھول دیا کہ ہم کس کام پر آتے ہیں.تو اکرام ضیف ایک فطری تقاضہ ہے اور شرعی حکم بھی ہے.اس لیے اب یہ محض فطری بات نہ رہی پیدائش
بلکہ شریعت کی تصدیقی نے اس کو حکم رتی بنا دیا.اس لیے کیا بلحاظ انسان بننے کے اور یا بلحاظ مومن ہونے کے اکرام ضعیف ضروری چیز ہے.ابھی تھوڑے دنوں میں اللہ تعالیٰ نے چاہا.تو حضرت مسیح موعود کی جاری کی ہوئی سنت کے ما تحت قادیان میں مہمان آئیں گے.اور ان میں جماعت کے بھی لوگ ہوں گے اور غیر بھی ہم اللہ کے فضل سے ہر سال مہمانوں کی تعداد کو روز افزوں دیکھتے ہیں.اس لیے اس دفعہ بھی انشاء اللہ پہلے سے زیادہ تعداد میں مہمان ہونگے.ان کی مہمان نوازی یہاں کے تمام لوگوں کے ذمہ ہوگی کیونکہ وہ چند آدمی جو منظر کے منتظم ہیں.اس کام کو نہیں کر سکتے.اس لیے میں قادیان کے احباب کو نصیحت کرتا ہوں کہ کام بڑا ہے.اور ابھی سے ہیں کا انتظام ہونا چاہیئے.اگر ابھی سے آپ لوگوں نے اپنے آپ کو کام کے لیے پیش نہ کیا.تو بعد میںمنتظموں کو موقع نگانا مشکل ہوگا.اس لیے میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ احباب اپنے آپ کو پیش کریں.تاجر تو معذور ہیں.کیونکہ وہی ان کے کام کے دن ہوتے ہیں.اور اور لوگ بھی جو اس قسم کے کاموں پر متعین ہوتے ہیں.جن سے وہ علیحدہ نہیں ہو سکتے.باقی دوست اپنے کام چھوڑ کر بھی اپنے آپ کو مہمانوں کی خدمت کے لیے پیش کریں.یہ لوگ جو آئیں گے.وہ صرف مہمان ہی نہیں.شعائر اللہ میں داخل ہیں.اور شعائر اللہ کی حرمت و عزت مومن کا فرض ہے.ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا اور اس وقت کو دیکھنے والے بہت لوگ موجود ہیں.جب قادیان کے چاروں طرف جنگل ہی جنگل تھے.حضرت اقدس کے وقت میں جلسیاں نہ پر اتنے آدمی بھی نہیں آتے تھے جتنے کہ اس وقت مسجد میں بیٹھے ہیں.حضرت صاحب نے اس وقت سے بہت عرصہ پہلے خدا سے خبر پا کر اطلاع دی - پاتون من كل فج عميق وياتيك من كل فج عمیق یہ تیرے پاس دُور دُور سے لوگ آئیں گے اور دُور دُور سے پہنچیں گے حتی کہ جن راستوں پر سے آئیں گے ان پرگڑھے پڑ جائیں گئے ہو خدا نے یہ نظارہ نہیں اپنی آنکھوں سے دکھایا.اگر پل نہیں دیکھا تو اب بھی یہ نظارہ نظر آتا ہے.اس لیے قادیان میں ہر ایک آنیوالا اس پیشگوئی کو پورا کر نیوالا ہوتا ہے.اسی لیے وہ ایک نشان ہوتا ہے اور شعائر اللہ میں داخل ہوتا ہے اسلئے کیا بلحاظ مہمان ہونے کے اور کیا بلحاظ نشانی پہلی ہونے کے یہاں کی جماعت کو ان کی مہمان نوازی کی فکر کرنی چاہیئے.له تذكره مره
یہ مہمان نوازی نہیں کہ مہمان سے ایسے طریق سے سلوک ہو کر جس سے ظاہر ہو.کہ ہم اس پر احسان کرتے ہیں.مہمان کو اعزاز دینا چاہتے کیونکہ خدا نے عمان کو عزت کا درجہ دیا ہے.اس لیے مہمان کے خوش کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.ابراہیم ابوالانبیاء ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد ہیں.اگر وہ مہمان فرشتہ بھی تھے.تاہم ابراہیم خدا کے نبی تھے.اور اگر وہ انسان تھے تو بھی حضرت ابراہیم سے نیچے تھے.مگر وہ مہمان ہو کر ابراہیم کے لیے مکرم ہو گئے.اس لیے کوئی مہمان ہو فطرت کے اقتضا.شریعت کے منشاء کے ماتحت مہمان کی عزت ہی کرنا چاہیئے.مہمان کی سخت بات کی برداشت کرنی چاہئیے بعض لوگ کہدیا کرتے ہیں کہ مثلاً اب کھانا نہیں ملتا.دیر سے کیوں آتے یا کھانے آتے ہو یا سنے بیسیوں قسم کی باتیں لوگ مہمان کا رتبہ نہ سمجھنے کی وجہ سے کہ گزرتے ہیں.ذی وجاہت لوگوں کی عزت و توقیر ہی مہمان نوازی نہیں کیونکہ یہ لوگ تو جہاں بھی جائیں گے ان کی عزت ہوگی.غرباء کی عزت کرنا حقیقی مہمان نوازی ہے.اگر کوئی غریب ماشکی ہے یا موچی ہے یا اور اسی قسم کا پیشہ ور شخص ہے.تو چاہیئے کہ اس کی عزت کی جائے.اور اگر اس کی عزت کی جائیگی.تو وہ خدا کے حکم کے ماتحت ہوگی.اگر امیر کی عزت کی جائیگی.تو اس کو اکرام ضیف نہیں کہ سکتے کیونکہ امراء کی عزت تو دنیا دار بھی کیا کرتے ہیں.اور یہ یاد رکھنا چاہتے کہ اکرام ضیف صرف کھانے پینے میں ہی نہیں ہوتا.بلکہ ہر قسم کے معاملات میں ہوتا ہے.امراء چونکہ اپنے گھروں میں اچھا کھانا کھاتے ہیں.اس لیے ان کے کھانوں میں اگر کسی عمدہ چیز کا اضافہ کیا جائے تو ہونا چاہتے.یہ بات حضرت اقدس کے سامنے پیش ہوئی تھی.آپ نے فرمایا.کہ خدا نے بتایا ہے کھانے پینے میں ہی اکرام ضیف نہیں.عام برناؤ اور ظاہری سلوک میں بھی یہ بات ہے.ایک غریب دال پر خوش ہو جاتا ہے.اگر اس کو خندہ پیشانی کے ساتھ دی جائے.لیکن کسی کو کھانا عمدہ دیا جائے.مگر برتاؤ اچھا نہ ہو تو وہ اچھا کھانا اس کے دل کو خوش نہیں کر سکتا.پس احترام کرنے میں امیر غریب کی تمیز نہیں ہونی چاہیئے.سب کی عزت کی جائے.امیروں کی عزت کرنا عزت کرنا نہیں.کیونکہ وہ تو ہر جگہ اپنی عزت کرالیتے ہیں پس میں نصیحت کرتا ہوں.کہ آپ لوگوں میں سے جو دوست اپنے تئیں خدمت کے لیے پیش کر سکیں.وہ خود تکلیف اُٹھا کر کام کریں تا کہ خدا کے فضل کے وارث ہوں.اور اس فرض کو بھی ادا کریں جو خدا اور فطرت کی طرف سے آپ پر عائد ہوتا ہے.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمام بھائیوں اور دوستوں کو اس خدمت کے ادا کرنے کی توفیق دے.آمین.
Pay جب دوسرے خطبہ کے لیے حضور کھڑے ہوتے تو فرمایا کہ جلسہ سالانہ کے متعلق بعض امور کے نیہ کے لیے لوکل انجین کا اجلاس جمعہ کے بعد ہو گا.انجین والوں کو اب تک شکایت چلی جاتی ہے کہ لوگ اس میں زیادہ حصہ نہیں لیتے.انہوں نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں خطبہ جمعہ میں سفارش کر دوں کہ آپ لوگ بعد جمعہ بیٹھیں اور جو تحریکات ہونگی.ان کو نہیں ، اور ان کے متعلق مشورہ وغیرہ دیں.یا درکھنا چاہیئے کہ جیسا کہ مرکزی جماعت فیوض زیادہ حاصل کرتی ہے.اسی طرح مرکزی جماعت پر قیود بھی زیادہ ہوتے ہیں.وہ قیود سے آزاد نہیں ہو سکتی.وہ مجھ سے سفارش چاہتے ہیں.مگر میں اس کو سفارش نہیں کر سکتا.یہ آپ لوگوں کا فرض ہے.پس میں آپ کو آپ کا فرض یاد دلاتا ہوں.اور کہتا ہوں کہ ہمارا جلسہ شعائر اللہ میں داخل ہے.اور اس کے لیے جتنے کام ہوں.ان میں بڑھ بڑھ کر حصہ لینا دین کی خدمت ہے.الفضل ۱۸ دسمبر ته )
۳۵۳ 66 رب العالمین کے بندے بنو د فرموده ۱۲ ار دسمبر ۱۹۱۹مه حضور نے تشہیر و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ:- اسلام کا خدا یعنی وہ خدا جس کی طرف اسلام بکاتا ہے.یا یوں کہو کہ خدا تعالیٰ کی اس ذات کی تعریف جو ہمیشہ سے چلی آتی ہے اور ہمیشہ رہے گی.اور وہ ذات جو پہلوں کی خالق اور مالک تھی اور موجودہ کی خالق اور مالک و محافظ ونگران ہے.اس کی جو تعریف اسلام نے کی ہے.اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدا کسی ایک کا خدا نہیں.بلکہ جس قدر مخلوقات ہے.وہ ان سب کا خدا ہے وه خدا قبیلوں ہی کا خدا نہیں.وہ ملکوں ہی کا خدا نہیں.وہ شہروں ہی کا خدا نہیں.وہ نسلوں ہی کا خدا نہیں.وہ کسی خاص تمدن و تہذیب سے تعلق رکھنے والا خدا نہیں.بلکہ ہر چیز جو موجود ہے.وہ اس کا خدا ہے.وہ ہندوؤں کا خدا ہے.وہ یہودیوں کا خدا ہے.وہ عیسائیوں کا خدا ہے وہ زرتشتیوں کا خدا ہے.وہ نہیں طرح مسلمانوں کا خدا ہے.ان کا محافظ و نگہبان ہے.اسی طرح وہ عیسائیوں کا محافظ و نگہبان ہے.حتی کہ دہریوں کا بھی محافظ و نگہبان ہے.ان کی پرورش کرتا ہے.کیونکہ وہ سب اس کی مخلوق ہیں.یہودی بھی اس کی مخلوق ہیں.ہندو بھی اس کی مخلوق ہیں.عیسائی بھی مخلوق ہیں.اگر وہ انکار کریں تو علیحدہ بات ہے.مگر بہر حال وہ اسی کے ہیں.بندے تعلق کو بھلاتے ہیں جیگر وہ نہیں بھلاتا.وہ اس تعلق کو نظر اندازہ نہیں کرتا.اس کا تعلق اپنی مخلوق سے حقیقی تعلق ہے.ماں باپ بیٹے سے ناراض ہوتے ہیں.ان کا تعلق پیدائش کا ذریعہ ہے، لیکن وہ اس جنگی میں بھی اس تعلق کو نہیں بھلاتے خواہ کتنی ہی نارانگی ہو تب وہ تعلق فراموش نہیں ہوتا.وہ تعلق کبھی ایسا باریک ہوتا ہے.کہ نظر بھی نہیں آتا، مگر وہ ہوتا ضرور ہے اور وہ کبھی منقطع نہیں ہوتا.مگر خدا کا تعلق مال باپ سے بھی زیادہ ہوتا ہے.وہ ناراض بھی ہوتا ہے.وہ سزا بھی دیتا ہے.مگر بے تعلقی نہیں کرتا.عذاب نازل کرتا ہے.مگر باوجود اس کے بندے اور خدا میں ایک مخفی تعلق رہتا ہے.ماں باپ
۳۵۴ لڑتے ہیں ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں.اگر بچہ ہوشیار ہوتا ہے، تو اس کی ظاہری پرورش کو چھوڑ دیتے ہیں.اور اس کا رزق بند کر دیتے ہیں.مگر خدا ناراض ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں رزق بھی تنگ کر دیتا ہے.لیکن خُدا کا سورج اس کو روشنی دیتا.مینہ اس پر برستا ہے.باوجود بے تعلق اور ناراضگی کے محبت کرتا ہے.باوجود عذاب دینے کے رحم کرتا ہے.وہ بے تعلق ہوتے ہیں.مگر خدا کے تعلق کا ایک بار یک رشته قائم رہتا ہے.اگر چہ اس کی صورت بدل جاتی ہے.خدا دوزخ میں بھی ڈالتا ہے ، لیکن اس کے متعلق بھی آتا ہے کہ ایک وقت آئے گا.کہ ہوا جہنم کے دروازے کھٹ کھٹاتے گی.اور وہاں کوئی نہ ہوگا.تو ده رشتہ ایسا ہوتا ہے.کہ اس کو آگ بھی نہیں جلاتی سیم کو جلا دیتی ہے.کایا پلٹ دیتی ہے.مگر وہ آگ خدا اور بندے کے تعلق کو نہیں کاٹ سکتی.وہ آگ میں سے بھی سلامت نکلتا ہے.پس خدا کا بندے سے شدید تعلق ہوتا ہے.دنیا وی رشتوں میں بھی محبت ہوتی ہے.بھائی بھائی سے محبت کرتا ہے.پھر شہری شہریوں کی محبت ہوتی ہے.ایک ملک کے لوگوں کی آپس میں محبت ہوتی ہے.اگر وقت پڑے تو ہندوستانی مل جاتے ہیں.چینی مل جاتے ہیں.عرب عرب مل جاتے ہیں.پٹھان پٹھان مل جاتے ہیں.ایرانی ایرانی مل جاتے ہیں.خواہ ان میں پہلے کتنا ہی فساد ہو مگر جب غیر آتا ہے تو غیریت دُور ہو جاتی ہے.اسی طرح ایک ماں باپ کی اولاد میں بھی محبت ہوتی ہے.اور وہ ایک وقت پڑنے پر اپنا رنگ دکھاتی ہے، لیکن ایک تعلق ان تعلقات سے بھی بڑا تعلق ہوتا ہے.اور وہ خدا اور بندے کا تعلق ہوتا ہے.جو دوزخ میں بھی منقطع نہیں ہوتا.ایک ماں باپ کی اولاد میں تعلی محبت ہوتا ہے مگر اس کا ظہور اسی وقت ہوتا ہے.جب علم ہو بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ پہلے خود مارتے ہیں اور علم ہونے پر کہ یہ بھائی تھا یا اور عزیز تھا.روتے ہیں.میں نے کسی معتبر تاریخ میں تونہیں پڑھا کہ ایک وقت میں روسی مسلمانوں کو کوئی علم نہ تھا کہ ان کے سوا اور بھی مسلمان ہیں.ایک دفعہ روس اور روم میں جنگ ہوئی.روسی مسلمان روسی فوجوں میں بڑے جوش سے بھرتی ہوئے.اور روم والوں سے لڑنے کے لیے آئے.جب رومی قیدی ان کے قبضہ میں گئے اور نماز کا وقت آیا اور انہوں نے اذانیں کہیں.تب ان کو معلوم ہوا کہ یہ سلمان ہیں.وہ آپس میں گلے ملے.اور اپنی غلطی پر پشیمان ہوئے.اور خوب روتے.یہ ان سے غلطی کیوں ہوئی.اس لیے کہ وہ اور.اس تعلق کو بھول گئے تھے جو اسلام کے نام میں شامل ہونے کی وجہ سے ان میں پیدا ہوگیا تھا.یہ اصل تو حضرت مسیح موعود نے آکر قائم کیا ہے کہ مسلمان جس حکومت کے ماتحت رہیں.ان کا فرض
۳۵۵ ہے کہ وہ اپنی حکومت کی طرف سے دوسرے مسلمانوں سے جو اس حکومت کے خلاف ہوں لڑیں.پس وہ لوگ اسکو ایک غلطی خیال کرتے تھے.کہ دو سلطنتوں کے رہنے والے مسلمان اپنی اپنی حکومتوں کی طرف سے ایک دوسرے سے لڑیں پیس لوگ نادانستہ طور پر اپنے عزیزوں کو دکھ پہنچا دیتے ہیں لیکن واقفیت کی حالت میں شاخ کے سوا انسان اس کو جس پر اپنے" کا لفظ بولا جائے.تکلیف نہیں پہنچاتا.یہ کیوں ؟ اسی لیے کہ یہ ایک فطری بات ہوتی ہے.اور اس تعلق کی وجہ سے لوگ آپس میں نہیں لڑتے لیکن ایک خدا کے بندے ہو کر آپس میں لڑتے ہیں.اور اس کو بھول جاتے ہیں.پہلے زمانہ میں یہ بات اکثر ہوتی تھی.کہ لوگ بیرونی ممالک میں جاتے.اور اپنے اصلی نام و نمود کو چھپاتے اور وہاں شادیاں کرتے جن سے اولاد بھی پیدا ہوتی پس وہ لوگ اپنے وطن میں آجاتے اور ان کی وہ اولاد جو دن میں ہوتی.بسا اوقات ایسا ہوتا کہ انکی اور ان کے غیر ملکی بھائیوں کی لڑائی ہو جاتی ایسی صورت میں اگر دونوں اپنے باپ کا نام بھی ہیں، تو دونوں بے خبر رہیں گے، لیکن خدا تعالیٰ تو جانتا ہے کہ اس کے تمام بندے اسی کے بندے ہیں جس طرح مخلوق کا بعض تعلقات کی وجہ سے لڑنا ٹھیک نہیں ہوتا.اسی طرح اس خاص تعلق کا جو ایک خالق کی مخلوق ہونے کی صورت میں سب بندوں میں ہے ہونا چاہیئے.خصوصیات عمومیات پر غالب آجاتی ہیں.ایک شہری شہری کی مدد کرے گا.مگر محلہ والے کے مقابلہ میں نہیں.اسی طرح ایک محلہ والے کی مدد کی جائیگی.مگر بیٹے یا بھائی کے مقابلہ میں نہیں.اسی طرح خالقیت کا تعلق عام ہے اور ایک اور تعلق ہے.جو اس سے بھی بڑھ کر ہے.وہ الوہیت کا تعلق ہے اور رحیمیت کا تعلق ہے.بلحاظ ایک اللہ کی پرستش کرنے کے.اور بلحاظ صفتِ رحیمیت کے کہ جس کی ماتحت ایک خاص شریعت ملتی.اور اس پر عمل کیا جائے.ایک خالق کے بندے ایک اللہ کے ماہد اور اور ایک رسیم کی شریعت کے متبع اگر یہ آپس میں ہمدردی نہ کریں.تو بڑے ہی افسوس کی بات ہے.سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ - الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ - مَالِكِ يوم الدين - إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِینَ.اس میں وہ اتحاد بیان کیا ہے.جو انسانوں میں ہونا چاہیئے.پہلے رب العالمین سے شروع ہوا کہ سب کا خالق اور پرورش کنندہ ایک رب ہے.پھر اتحاد اس سے ترقی کرتا ہے کہ سب ایک ایسی ہستی کے بندے ہیں.جو بغیر محنت کے انعام کرتی ہے.پھر اس سے بڑھتے ہیں.تو رحیمیت کے ماتحت آتے ہیں.اور ایک شریعت کے پابند ہو جاتے ہیں.پھر مالک یوم الدین پر آتے ہیں.کہ خدا یا ہمارا انجام بھی تیر
۳۵۶ ہاتھ میں ہے یعنی انجام کے لحاظ سے بھی ہم میں اتحاد ہے اس کے نتیجہ میں فرمایا کہ تم ایک ہو جاؤ.ایسے کہ لوگ تو کہتے ہیں.جیسے ایک جان اور دو قالب، لیکن تمہارے ہزاروں لاکھوں کروڑوں جسم ہوں، مگر جان ایک ہو.وہ اس طرح کہ آگے آتا ہے.ایاک نعبد.اے خدا ہم سب تیرے ہی عابد ہیں.یہاں پر انسان تمام دنیا کا قائم مقام ہو جاتا ہے اور اپنی عبادت کو تمام دنیا کی عبادت قرار دیتا ہے.اس کے بچے سوئے پڑے ہیں.بیوی آرام میں ہے بھائی بھی فاضل ہیں مگر وہ کہتا ہے کہ خدایا میری عبادت ان سب کی ہے مگر یہ بڑی بات نہیں.اس وقت تک جب تک امتحان نہ ہو جائے کہ واقعی کہنے والا اپنی عبادت کو دوسروں کی عبادت قرار دے رہا ہے.چنانچہ اس کے لیے مومن آگے کہتا ہے.وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِينَ اے خدا میری عبادت سب کی عبادت ہے.اور جو کچھ تو میری مدد فرمائے.وہ ان سب کو مدد دے بعض لوگ یہ تو کہتے ہیں کہ ہمارا مال تمہارا مال لیکن جب فائدہ پہنچانے کا سوال ہو تو اپنے اس قول میں جھوٹے ثابت ہوتے ہیں، لیکن مومن کہتا ہے کہ اسے خدا.استعانت بھی میں ہی نہیں چاہتا.میرے دوسرے بھائیوں کو بھی دے، لیکن اور وں کو جانے دور تم احمدی آپس میں کیا ایک دوسرے کی مدد کرتے ہو.ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ ایک شخص کے ہاں چور آتے تھے.اس نے مجھے لکھا تھا کہ میں نے شور مچایا غیر احمدی اور ہند و جمع ہو گئے.مگر سوائے دو احمدیوں ے اور کوئی نہ پہنچا.جن میں سے ایک بھائی عبدالرحمن صاحب تھے.ایک کوئی اور میں نے اس پر توجہ دلائی تھی.لیکن آج جب میں جمعہ کے لیے گھر سے نکلا تو مجھے ایک اور رقعہ ملا جس میں لکھا ہے کہ ایک کے ہاں چور آئے.اس نے شور مچایا.اس وقت بھی دو احمدی مدد کو گئے.باقی محلہ میں سے کوئی شخص مدد کو نہ آیا.چوروں کے پاس ہتھیار بھی تھے.ممکن تھا کہ وہ قتل بھی کر دیتے.باقی گھروں سے اگر آوازہ آئی تو یہ کہ کیا ہے.میاں کیا ہے.اتنا نہیں سمجھے کہ سردی میں رات کے وقت جو شور مچانے لگا ہے.وہ کوئی پاگل تو نہیں.ضرور کوئی بات ہوگی.اگر کوئی سویا رہتا ہے تو خیر وہ مجبور بھی ہے.اگر چہ اس کی یہ عجیب نیند ہے، لیکن پھر بھی وہ ایک حدتک مجبور ہے، مگر جو جاگتا ہے اور کہتا ہے کہ کیا ہے وہ جان کے خوف سے ڈرتا ہے.اس کے لیے تو یہ قابل شرم بات ہے.مومن کو اتنی جان عزیز نہیں ہونی چاہیئے.کیونکہ موت تو ایک پردہ ہے.جو خدا اور اس کے درمیان حائل ہے.مومن بزدل کیوں ہو.مومن اپنی جان کی حفاظت کرتا ہے.اس لیے کہ دین کی خدمت کرے مگر ایسے موقع پر تو نکلنا چاہیئے.اگر ایسے وقت میں جب ضرورت ہو نکلنے کی بیٹھا رہے.تو وہ خدا سے محبت کی بجائے جان سے محبت رکھتا ہے.پس اگر خدا کی محبت کے دعویٰ میں سنچا ہے اور پیچھے دل سے اس کو قبول کرتا ہے تو اس کو اس قدر بزدل نہیں ہونا چاہیئے.
پس یہ بڑے افسوس کی بات ہے.میری عادت نہیں کہ پہلے سوچ کر اور تیاری کر کے بولوں.اللہ تعالیٰ جماعت کو توفیق دے اور ان میں آپس میں تعلق پیدا کرے.اور یہ جھیں کہ ایک خدا کے عابد ہیں.اور ایک ہادی سے ہدایت پانے والے پر آپس میں تعلق اخوت پیدا کرنا ضروری فرض ہے.خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو ان باتوں کے سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق دے.آمین ثم آمین.الفضل ۲۲ دسمبر ته )
67 قليم شری کے احکام بے چون وچرا مانو دفرموده ۱۹ر دسمبر ؟ ١٩١٩ حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد آیت شریفہ يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرسول وأولي الأمْرِ مِنْكُمُ : فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ والرَّسُولِ إِن كُنتُم تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرُ ذلِكَ خَيْرُو احْسَنُ تأويلاً.(النساء : ۶۰) تلاوت فرمائی اور فرمایا :- اسلام ایک ایسے زمانہ میں دنیا میں آیا ہے.جبکہ حریت خواہ فکر کی ہو.خواہ عمل کی.بالکل مٹی ہوئی تھی متمدن دنیا میں حریت فکر و حریت عمل بالکل مفقود تھی.دو بڑی حکومتیں تھیں.ایران جو ایشیا کے بڑے حصہ پر تصرف رکھتی تھی.اور دوسری یونانی حکومت جسے رومی سلطنت کہتے ہیں.اس کا ایشیا کے بعض حصص پر اور افریقہ کے متمدن حصہ پر اور تمام یورپ پر اثر تھا ان دونوں حکومتوں کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں دونوں باتیں نہ تھیں.نہ تو وہاں لوگوں کے دماغوں کو آزادی حاصل تھی کہ وہ سی امر کے متعلق کچھ سوچ کر اور کوئی رائے قائم کر سکیں.اور نہ یہ آزادی تھی کہ کسی قسم کی حرکت کر سکیں.حکومت کا خبر اتنا بڑھا ہوا تھا کہ رعایا اور حکام کے تعلقات ایسے تھے کہ رعایا جانور ہے.اور حکام ان کے مالک ور چین قسم کا رعایا سے سلوک کریں.وہ بیجا اور درست ہے.چنانچہ حکام جو چاہتے تھے.اور میں طرح چاہتے تھے.رعایا سے کرتے تھے.اس کے مقابلہ میں غیر متمدن علاقوں کی حالت حریت کے لحاظ سے حد سے بڑھی ہوئی تھی.اس کی مثال عرب میں ملتی ہے.عرب میں اس وقت کوئی تہذیب نہ تھی کوئی تمدن نہ تھا.کوئی قانون اور قاعدہ نہ تھا.وہاں آزادی اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ جو چاہتے کرتے تھے.کوئی پرسان اور کوئی مانع نہ تھا.انہوں نے آزادی کے معنے یہ سمجھ رکھے تھے کہ کسی امر میں کسی کی پرواہ نہ کی جائے.اس میں شبہ نہیں کہ ان میں بعض قوانین تھے لیکن وہ اس قدر وسیع تھے کہ جس کی حد نہیں.مثلاً ان میں یہ قانون تھا کہ کوئی
۳۵۹ شخص بیشک بتوں کی پرستش نہ کرے، کوئی بتوں پر ایمان نہ لاتے اوران کی جگہ خدا پر ایمان رکھے مگر وہ اس بات کا انکار نہ کرے.کوہ ہوں میں کسی قسم کی طاقت نہیں.اگر ایک شخص بہتوں کو نہ مانتے ہوتے مگران کی طاقتوں کا انکار نہ کرتے ہوئے عیسائی ہوتا یا یہودی ہوتا.یا موقد ہوتا.تو مختلف عقید سے رکھ کر عرب کی سرزمین میں رہ سکتا تھا.اگر بندش تھی تو یہ کہ بتوں کے خلاف کسی قسم کی رائے کا اظہار نہ نہ لوگوں کو ان متعلق اکسائے اگر یہ نہ کرے تو ایک شخص عیسائیت کو قبول کر کے عرب میں رہ سکتا تھا.نہ صرف عرب میں بلکہ تہ میں رہ سکتا تھا.یہ تو ہوئی حریت فکہ حریت عمل یہاں تک بڑھی ہوئی تھی.کہ اس کے متعلق ایک مشہور واقعہ ہے کہ عربجے ایک حصہ کے ایک عرب بادشاہ نے اپنے درباریوں سے سوال کیا کہ کوئی ایسا ہے جو میری اور اس کی ماں میری ماں کی اطاعت نہ کرے.انہوں نے جواب دیا کہ فلاں قبیلہ کا سردار ہے.جو بڑا بادشاہ بھی نہیں وہ آپ کی اور اس کی ماں آپ کی ماں کی اطاعت نہیں کریں گے.بادشاہ نے اس کو کہلا بھیجا کہ بادشاہ کو آپ کے، اور بادشاہ کی ماں کو آپ کی ماں کو دیکھنے کا شوق ہے.اس سردار کا نام عمرو ابن الکلثوم تھا.وہ اپنی ماں سمیت گیا.اس کی ماں بادشاہ کی ماں کے خیمہ میں ٹھہری.اور وہ بادشاہ کے خیمہ ہیں.جب کھانے کا وقت آیا.تو بادشاہ کی ماں نے حکمت عملی سے چاہا کہ اس عورت سے کام ہے.اس لیے اس نے اس عورت کو کہا، کہ وہ برتن پکڑا نا.میں کھانا لگا کر باہر تمہارے اور اپنے بیٹے کے لیے کھانا وہ بھیج دوں.بظاہر یہ کوئی بڑی بات تھی.نہ اس میں ہتک کا سوال تھا.کیونکہ وہ خود تقسیم کرنے بیٹھی تھی اور جن کو باہر کھانا بھیجنا تھا اُن میں اس کا بیٹا بھی تھا، لیکن اس نے اس کو اپنی ہتک کا موجب قرار دیا.اور کھڑی ہو کر زور سے اپنے قبیلہ کو پکارنے لگی.کہ اسے فلاں قبیلہ والو ! تمہارے سردار کی ماں کی ہتک کی گئی.اس آواز کا بلند ہونا تھا.کہ اس کا بیٹا جو بادشاہ کے خیمہ میں تھا.فوراً کھڑا ہو گیا.اور کھڑے ہوتے ہی خیمہ کے ادھر ادھر دیکھنے لگا.ایک طرف بادشاہ کی تلوار لٹک رہی تھی.اس نے فوراً اس کو کھینچ لیا.اور بادشاہ کا سراڑا دیا ، کہ تحقیق بعد میں کروں گا.پہلے ماں کی پتنگ کا بدلہ تو لے لوں.خیمہ سے باہر نکلا.اور قبیلہ کے جو چند آدمی ساتھ تھے ان کو کہا کہ فوراً جو کچھ لوٹ سکتے ہو کوٹ لویه تو اتنی وہاں حریت تھی کہ بتوں کو برا کہنے کے سوائے کوئی مذہب رکھو.اور ایسی حالت میں وہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے تھے.اگر ان کو کسی بات سے دشمنی تھی تو اس سے کہ وہ بتوں کے خلاف ل الاغانى جلده صدا
وعظ نہیں سن سکتے تھے مگر باوجود اس کے جب اسلام آیا.تو اس کو دونوں کا مقابلہ کرنا تھا.اقول تو یہ کہ کسی کی بات کو نہ ماننا اس حالت کو دور کرنا تھا.دوسرے جن متمدن ممالک میں غلامی اور رعایا ایک ہی مفہوم سمجھا جاتا تھا.اس کو دور کر کے حریت عمل و فکر کو قائم کرنا تھا.چنانچہ اسلام نے ایک وسطی طریق اختیار کیا.اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ متمدن دنیا کو بیاں تک حقوق دیتے گئے کہ وہاں کے باشندے اپنے ہم مذہبوں کا ساتھ چھوڑ کر مسلمانوں کے ساتھ مل گئے.افراد کو ان کے حقوق اتنے دیتے گئے.کہ وہ زبردست ہو گئے.لکھا ہے کہ ایک علاقہ پر مسلمان متصرف ہو گئے مگر وہاں کے لوگوں کو مخالفوں کی طرف سے کچھ اذیت پہنچی جس کا مسلمان تدارک نہ کر سکے.اس سے متاثر ہو کر سلمان گورنر نے وہاں کا مالیہ اور جزیہ وغیرہ واپس کر دیا.کہ یہ تو ہم اس لیے لیتے ہیں کہ تمہاری حفاظت کریں.جب ہم تمہاری حفاظت نہ کر سکے.تو ہم ان رقوم کے بھی حقدار نہیں ہے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائیوں نے عیسائیوں کا مقابلہ کیا کیونکہ انہوں نے حریت کو پایا.اور سمجھ لیا کہ ہم غلام نہیں.اور نہ ہمیں غلام سمجھا جاتا ہے ساتھ ہی وہ عربیت جو حد سے بڑھی ہوئی تھی اس کو کم کیا.ایک طرف تو حریت فکر قائم کی.اور ایک سلم کے لیے فرض رکھا کہ وہ اپنے فکر کو چلائے ، جہاں تک کہ اخلاق اور مذہب اجازت دیں.مذہب کے پر کے لیے خوب آزادی سے کام لے ، لیکن جب پر کھ کر معلوم کرے کہ فلاں مذہب حق ہے تو پھر اس کی پایبندی اختیار کرے.فرمایا: اَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ - شخص حق رکھتا ہے کہ وہ ظاہر نجرے.جو اس کے خیالات ہیں، لیکن جب اس کو معلوم ہو جاتے کہ یہ حکم خدا اور خدا کے رسول اور ان کے قائم مقاموں کی طرف سے ہے تو پھر کامل اطاعت کرے.اگر کوئی جھگڑے کی بات ہو تو اللہ اور اس کے رسول سے فیصلہ کرائے.یہ درمیانی طریق تھا.وہ لوگ جو آزاد مطلق تھے.ان کو مقید کیا اور ان کو آزادی دی.جو بالکل مقید تھے.جب تک اسلام کے اس پیش کئے ہوئے طریق پر قدم نہ مارا جائے ، ترقی نہیں مل سکتی.کیونکہ جب لوگ غلام ہونگے اور حریت فکر اور حریت عمل سے بالکل محروم ہونگے، اور ریم وعادات کے بندے ہونگے.اور جو کچھ انہوں نے باپ دادا سے سن رکھا ہو گا.اسی پر عمل کرنے کو موجب نجات وفلاح سمجھتے رہیں گے.وہ کچھ بھی نہیں حاصل کر سکیں گے، بلکہ مٹ جائیں گے.اور اسی وقت سے مسلمان کرنے شروع ہوگئے.اور ان کی امیدیں نامرادی سے مبدل ہوگئیں ، جب وہ اسی خیال کے پابند ہو گئے.لے کتاب الخراج علامام ابویوسف بحوالہ پریچنگ آف اسلام مصنفہ ٹامس آرنلڈ
اور اس کے مقابلہ میں یورپ کے فلسفہ سے متاثر ہوکر ہر شرعی کم کو غلط ٹھرانے والے یا ان پر جرح رنیوالے بھی غلطی کرتے ہیں.غیر تو غیرمسمانوں میں اس قسم کے لوگ ہیں جو کردیتے ہیں کہ نماز ایک فضول چیز ہے.یہ تو ان لوگوں کے لیے تھی.جن پر تہذیب کی روشنی نہ پڑی تھی.اور جبکہ ابھی تہذیب نندن کمال کو نہ پہنچے تھے.یہ عرب کے وحشیوں کو پابند کرنے کے لیے ایک متو ہمانہ طریقی تھا جس سے وہ خیال کرتے تھے کہ ہم ان حرکات کے ذریعہ خدا کے سامنے ہو جاتے، لیکن اب ہم سمجھ گئے ہیں.اس لیے ان ظاہری حرکات کی ضرورت نہیں.اسی طرح مسلمانوں میں ہیں جو کہدیتے ہیں کہ وضو کی کوئی ضرورت نہیں یہ ان لوگوں کے لیے تھا.جو نہانے دھونے کے پابند نہ تھے.اب شرفاء اور یورپ کے تعلیم یافتہ پاک صاف رہتے ہیں.اس لیے وضورہ کی بھی انہی کے لیے ضرورت تھی.ہمارے لیے نہیں.اسی طرح روزے کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ روزہ کیا ہے.محض فاقہ کشی جس کی کوئی ضرورت نہیں.ہم خدا کی عظمت کے لیے یہ تو کرلیا کرینگے کہ ڈرون میں نہ کیا کریں.صرف چار دن میں دو تین دفعہ پی لیا کرینگے جیسں کے ساتھ چند بسکٹ بھی کھائیں گے.سارا دن فاقہ کرنے کا کیا فائدہ.غرض جس قدر احکام شریعت تھے.ان سب کے متعلق کہ دیا کہ ہم خوب سمجھ گئے ہیں.یہ تمام باتیں محض ڈرانے اور مرعوب کر کے خدا کی طرف متوجہ کرنے کے لیے تھیں.حالانکہ نماز قید نہ تھی.اور روزہ مجھو کا مارنے کے لیے نہ تھا.اگر یہ بات ہوتی.تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ فرماتے کہ جو شخص روزہ رکھتا ہے.مگر اپنی زبان اپنی آنکھ اپنے ہاتھ اپنے پاؤں کو قابو نہیں رکھتا.تو یہ محض فاقہ کشی ہوگی ہے پھر قرآن کریم روزے کے متعلق یہ نہ فرماتا کہ اگر تم روزہ رکھو گے تو تم کو تقویٰ نصیب ہو جائے گاہے نماز و ہم کے لیے نہ تھی.نہ دیشیوں کو ظاہری شکل ے متوہم اور متاثر کرنے کے لیے تھی.بلکہ نماز میں جبیں لیے نہ قدر حرکات ہیں.وہ سب اپنے اندر حکمتیں پوشیدہ رکھتی ہیں اور ہر حرکت کے روحانی فوائد مرتب ہوتے ہیں اور یہ تمام باتیں روحانی ترقی کیلئے محمد یں.اسلام نے کوئی حکم ڈرانے کیلئے نہیں دیا.بلکہ سلام نے جسقدر احکام دیتے ہیں وہ سب کے سب روحانی ترقی کے لیے ضروری اور لابدی ہیں.نماز کی ہر ایک حرکت روحانیت کو بڑھاتی ہے روزہ بھوکا مارنے کے لیے نہیں.روحانیت کو ترقی دینے کے لیے ہے.زکواۃ و صدقات محض حکومت کے انتظام میں مدد دینے کے لیے نہیں بلکہ روحانیت کے لیے ہے.اسی طرح وضو میں بھی یہی بات ہے.یہیں وضو ان لوگوں کے لیے نہیں.جن کو مشی کہا جاتا ہو یا جو گندے رہتے ہوں.بلکہ ان ه بخاری بروایت مشکواة کتاب الصوم باب تنزیہ الصوم : له البقره ۱۸۴۱
کے لیے ہے اور سب کے لیے جو نہاتے دھوتے صاف ستھرے رہتے ہوں صحابہ میں سے بہت سے ہیں جو روزانہ غسل کرتے تھے.حضرت عثمان کے متعلق آتا ہے کہ وہ روزانہ غسل کرتے تھے وہ گندے نہ تھے، مگر روزانہ وضو کرتے تھے.اسلام نے ناپاکی کومٹایا اور پاکیزگی کو قائم کیا پس وضو صرف پاگرگی کے لیے نہیں بلکہ روحانیت کے حصول کا ذریعہ ہے.جس وقت تک تو یورپ سے آواز آرہی تھی کہ وضو وغیرہ کام محض جاہلوں کو پاک کرنے کیلئے ہوتے تھے ان سے متاثر لوگ تبھی یہی آواز اُٹھاتے تھے.اور وضو وغیرہ کاموں کو لغو ٹھہراتے تھے مگر اب یورپ نے اس کے خلاف آواز اٹھانی شروع کی ہے.اعصاب کے متعلق جو تازہ تحقیقات ہوئی ہے وہ بتلاتی ہے کہ ہاتھ پاؤں اور منہ کو گیلا کرنے سے دماغی حالت میں تغیر پیدا ہو جاتا ہے.دماغ میں جو طاقت ہے.اس میں گرمی پیدا ہو کر آنکھوں اور ہاتھوں وغیرہ کے ذریعہ بہتی جاتی ہے لیکن جب ان اعضاء کو ٹھنڈا کر دیا جاتا ہے.تو ایک سکون پیدا ہو کر توجہ اور یکسوئی پیدا ہو جاتی ہے.لیکن ہم اس کے محتاج ہیں کیونکہ جو شخص ایک کام کے فوائد کو تجربہ کر کے دیکھ لے.اس کے لیے کوئی تحقیق زیادہ اثر انداز نہیں ہوسکتی.مثلاً ہم ہر روز روٹی کھاتے ہیں.اور ابتداء سے لوگ کھاتے چلے آتے ہیں.اب یورپ ہزار تحقیقاتیں کرے اور بتاتے کہ خوراک کے اقسام اور ان کے مصنم ہونے کے اوقات اور ان کے اثرات مگر ان سے روٹی کے مفید ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا کیونکہ روٹی کے فوائد تجربہ میں آگئے ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ کے مہذبوں کے دانت چالیس برس میں گر جاتے یا گرنے شروع ہو جاتے ہیں، مگر وہ لوگ جو ان کے تجارب اور تحقیقاتوں سے آگاہ نہیں.ان کے دانت مدتوں تک سلامت رہتے ہیں.پس باوجود اس کے کہ لوگ خوراک کی تعریف سے نا واقف تھے مگر مختلف خوراکیں استعمال کرتے تھے اور ان سے فائدہ اٹھاتے تھے کیونکہ تجربہ ان کا مفید ہونا ثابت کرتا تھا.پس جو باتیں تجربہ سے ثابت ہوں.ان کے متعلق انسان علم اور تحقیقات سے وسعت خیال پیدا کر سکتا ہے، لیکن تجربہ پران کا اور کوئی اثر نہیں پڑ سکتا.اسی طرح مغربی تحقیقاتیں ہمارے خیالات میں وسعت کا موجب ہوسکتی ہیں.علم نفس سے انسان چیزوں کو پہچان سکتا ہے.مگر یہ چیزیں اس علم کی وجہ سے بڑھ نہیں سکتیں مثلانفس والوں نے ہر ایک چیز کی تعریف بتادی.اس سے زیادہ کچھ نہیں.پہلے لوگ تعریف نہ جانتے تھے انہوں نے اس کے اقسام بتا دیتے.اور ظاہر کر دیا کہ دماغ کی اس قدر کیفیات ہوتی ہیں.مثلاً ایک تو ہم ہوتا ہے.ایک تصویر- ایک شعور ہوتا ہے.ایک احساسات ہوتے ہیں.ایک جذبات وغیرہ وغیرہ جیب
ی کی امان میں کہا تھا.سات بھی ہوں یا ہی نہیں تھی اور لگن سے کام لیتے تھے میرا کو نام معلوم نہ تھے.اس طرح ہم زبانوں کو دیکھتے ہیں.ملا عربی گرامر جب پیدا ہوئی.اس کے قبل کی زبان کو اگر دیا جائے تو وہ زیادہ اعلیٰ درجہ کی ہے بہ نسبت بعد کی زبان کے اس سے معلوم ہوا کہ زبان کو صرف و نحو نے مددنہیں دی.البتہ فی شخص کے لیے جو اس زبان کو سیکھنا چاہیے.سیکھنے میں مقید ہوسکتی ہے جگر اپل زبان کے لیے اس کی کوئی ضرورت نہیں.اسی طرح نماز پڑھنے والے کے لیے ان باتوں کا معلوم ہونا وضو کے یہ فوائد ہیں.اور فلاں بات کے یہ.سوائے اس کے علم کو بڑھانے کے اور کوئی نتیجہ نہیں پیدا کر سکتی.رض یہ ایک غلطی تھی کہ اول تولوگ رقم کی آزادی سے محروم تھے.دوسرے انتہا درجے کے آزاد تھے.اسلام نے وسطی طریق بتایا.اور اصول بتا دیتے کہ کہاں تک آزادی ہے اور کہاں تک قید آج کل لوگ آزادی کے غلط معنے سمجھنے کی وجہ سے کہ دیا کرتے ہیں.کہ ہم تو فلاں شخص کے منہ پر فلاں بات کہہ دیں.اس قسم کی باتیں فساد کا موجب ہوتی ہیں کیونکہ ایسی حالت میں فطرت مقابلہ کے لیے کھڑی ہو جاتی ہے.اس لیے ضرورت تھی کہ کوئی حد ہو خصوصاً ایک معلم کے لیے بہت احتیاط کی ضرورت ہے.کیونکہ اس کے لیے علم مہیا کیا گیا ہے.مثلاً ایک شخص جو جنگل میں ہو اور تمدن نے اس پر کوئی اثر نہ ڈالا ہو.اول تو اس میں جھوٹ کی عادت نہ ہوگی.تاہم اگر وہ جھوٹ بولے گا.تو ہم کہیں گے کہ وہ غلطی کرتا ہے.کیونکہ اس کو بتلانے والا نہ تھا، لیکن جس کو بتا یا گیا ہو.وہ اگر جھوٹ کا مرتکب ہو تو وہ قابل ملامت ہوگا.پس ایک مسلمان کو تمام وہ باتیں جو اسے بچا لانی چاہئیں.خدا نے تا دی ہیں اور پھر اس کے رسول نے ان کی شرح کر دی ہے.پھر ائمہ نے ان کی مزید شرح کر دی ہے اب ایک مسلم کے لیے ترقی کا رستہ کھلا ہے.اس کو قدم اُٹھانا چاہیتے اور ان ہدایات پر عمل کرنا چاہیئے.جو اسلام نے اس کو دی ہیں.اگر یہ ان ہدایات اور اس قدر روشنی کے باوجود گرتا ہے.تو یہ زیادہ الزام کے نیچے ہے کیونکہ جو شخص اندھیرے میں چلتا ہوا ٹھوکر کھا کر گرتا ہے.وہ مجبور ہے لیکن وہ شخص جس کیلئے ہدایت کا سورج چڑھایا گیا اس کیلتے گرنے کا مقام نہ تھا اسکو چاہیئے تھا کہ وہ غور کرتا اور ان ہدائیتوں پر عمل کرتا.واللہ اور اللہ کے رسول اور اسکے ناتہوں نے اسکے سامنے رکھیں مسلمانوں کی یہ مثال ہے جیسے ایک شخص امینی شہر میں جاتے مگر اس کے ساتھ ایک گائیڈ درمیر) ہو.اس کو اس شہر کے جن جن مقامات کی سیر کرنی ہو گی.وہ بہت آسانی سے دکھلا دے گا، لیکن اگر یہ اس گائیڈ
کے ہوتے ہوئے پھر اُلٹے رستوں اور گلیوں میں ٹھوکریں کھاتے تو گائیڈ کا کیا قصور.اس کی قیمتی ہوگی.پس جس کے لیے ہدایت نہیں آئی.اگر وہ ٹھوکریں کھاتے تو وہ مجبور ہے.مگر مسلم کے لیے تو ہدایت آگئی.اس کے سامنے راستہ روشن ہے.اگر یہ گرے یا بھولے تو اس کا عذار معقول نہ ہو گا.اللہ تعالیٰ سب کو توفیق عنایت کرے کہ اس کے تجربہ کئے ہوئے احکام پر مل کریں.اور پھر ترقیات نصیب کرے جو سچے مومنوں کے لیے اس نے قرار دی ہیں.آمین : الفضل درجنوری ۱۹۲۰)
68 جلسہ پر آنے کی غرض پوری ہونی چاہیئے د فرموده ۲ جنوری ته ) حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.زمانہ کے تغیرات اس انسان کے لیے جو دل رکھتا ہے.اور اس کے لیے جیسے فکر کی عادت ہے.ایک عجیب سبق آموز چیز ہیں.ان کے اندر عبرتیں ہیں.ان کے اندر وعظ ہیں.ان کے اندر نصیحتیں ہیں.جہاں ترقیات کے ذرائع ہوتے ہیں.وہاں تنزلات سے بچنے کے لیے تدابیر بھی ہیں.اور ہر ساعت جو انسان پر گزرتی ہے.ہر دن جو انسان پر طلوع ہوتا ہے.ایک استاد ہوتا ہے.ایک رہنما ہوتا ہے وہ گزر جاتا ہے، لیکن جس طرح میدان میں مرنے والا گزرتا ہے اور پیچھے والوں کے لیے فائدہ کا موجب ہو جاتا ہے اسی طرح وقت کی گھڑی مرجاتی ہے مگر دوسرے کیلئے مفید اور با برکت چیز ہو جاتی ہے.وقت گزرنا مجھے بعینہ ایسا معلوم ہوتا ہے.جیسا کہ مونگے کا جزیرہ بنتا ہے.ایک کیڑے پر دوسر کیٹ امرتا چلا جاتا ہے اور بے شمار اس طرح ایک دوسرے پر مرتے رہتے ہیں اور ایک بڑے زمانہ کے بعد وہ ایک جزیرہ بنکر سطح مندر پر نمودار ہو جاتا ہے جس پر لاکھوں آدمی بہتے ہیں.یہ اتنا بڑا جزیرہ کہاں سے بن گیا ؟ ان چھوٹے چھوٹے حقیر کیڑوں کے جسموں سے جو انفرادی شکل میں بہت ہی اد تی چیز تھے.وہ ایک دوسرے پر مرتے اور ہزاروں سالوں کے بعد سمندر سے ایک ایسا جزیرہ بنکر نکلے.کہ اس پر آدمی لیستے اور آباد ہوتے ہیں.وقت کی گھڑیاں بھی مونگے کی طرح ایک دوسرے پر مرتی چلی جاتی ہیں.ان سے بھی آدمی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں.مگر وہی یہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں.اور جو شخص فائدہ نہ اٹھائے.اس کے لیے گزرنے والی گھڑیاں اس فوج کی طرح ہوتی ہیں جو شکست کھاتی ہے.کہ اس کا ہر ایک مرنے والا صف کو خالی کرتا چلا جاتا ہے.اور شکست اس کے قریب ہوتی جاتی ہے.اسی طرح گھڑیاں گزرتی ہیں.اور اس کے ساتھ ہی خطرہ اور شکست قریب ہوتی چلی جاتی ہے.مگر جن سے فائدہ اُٹھایا جائے
YA وہ فتح مند فوج کی مانند ہو جاتی ہیں.پس وقت ایک بڑی عبرت کی چیز ہے.ہم پر بھی ایک وقت پچھلے دنوں گزرا ہے کہ ہزار ہا میں سے ہمارے احباب بیاں اکٹھے ہوئے اور ہزار ہا کی تعداد میں مرد عورتیں.بوڑھے جوان اور بچے آئے غرض ہر طبقہ اور ہر جگہ سے آئے.اور یہاں جمع ہو کر اکثر نے گنا.اور بہت سے چلے گئے اور کچھ باتی ہیں.اب طبعاً ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اجتماع کس غرض سے ہوا.مومن کی ہر ایک چیز قیمتی ہوتی ہے.اس کا مال قیمتی.اس کا وقت قیمتی پس ہم کیوں جمع ہوتے، کس لیے یہاں آتے.کیا نتیجہ ہوا؟ کس لیے یہاں آتے ؟ اس کو ہر ایک شخص اپنے طور پر خود ہی حل کر سکتا ہے کیونکہ کسی کو دوسرے کے دل کا حال معلوم نہیں ہو سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسلم کو فرمایا.هَل شَقَقْتَ قلبہ کیا تو نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھا ہے کہیں جہاں اکثر لوگ محض خدا کی خوشنودی اور رضا کے لیے آتے ہیں.وہاں ان دنوں چور بھی آجاتے ہیں پس میں اس کا جواب نہیں دے سکتا.ہر ایک شخص اپنی حالت کو دیکھ کر خود ہی بتلا سکتا ہے کہ وہ کیوں آیا، دوسرا نہیں بتلا سکتا.ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کس لیے آنا چاہتے تھا ؟ اگر ہم یہ بتلائیں بھی کہ کس غرض سے یہاں آئے.تو ممکن ہے.کہ آنے والے کی غرض اس سے اعلیٰ ہو یا ادنی ہو.پس ہم یہی کہ سکتے ہیں کہ کیس لیے آنا چاہیئے تھا.اور وہ یہی ہے کہ خدا کی رضا جوئی کے لیے آنا چاہیئے تھا.اس کام کو چلانے کے لیے آنا چاہتے تھا.جو خدا نے جماعت احمدیہ کے سپرد کیا ہے.اب رہا یہ کہ کیا سکھایا گیا.اس کا جواب یہ ہے کہ جو جو خدا نے چاہا وہ یہاں کہا گیا.بعض نے ضروری باتیں بیان کیں.اور دوسروں نے سنیں.نتیجہ کیا ہوا ؟ سب سے اہم سوال اصل میں نتیجہ کا سوال ہی ہے کیونکہ جو کچھ گزر گیا.وہ تو گزری گیا کا اب آئندہ کے متعلق سوال ہے.اس موقع پر جو کچھ بتایا اور سنا یا گیا.اس میں سے بعض علم کو بڑھانے والی باتیں تھیں بعض روحانیت کو ترقی دینے والی.اور بعض آپس کے معاملات کے متعلق اور بعض تبلیغ سے تعلق رکھنے والی.یہ چارقسم کی باتیں تھیں جوشنی اور سائی گئیں.پس اب قابلِ غور سوال ہمارے سامنے یہ ہے کہ اس آمد سے آنے والوں نے نتیجہ کیا نکالا اور و فائدہ کیا اُٹھایا.اور آیندہ علم کی ترقی کے لیے کیا طریق عمل سوچا ہے کیونکہ اگر علم کو یاد رکھنے کی کوشش نہ کی جائے.تو علم کام نہیں دے سکتا ہپس میں آپ لوگوں کو توجہ دلاؤں گا.کہ جو کچھ آپ نے سُنا ہے اس کو یاد رکھنے کی کوشش کرنی چاہیئے.علم کی مثال تصویر کی سی ہے.کہ جوں جوں مصور اس پر رنگ اه مسلم کتاب الایمان باب من مات لا يشرك بالله دخل الجنة
پھیرتا جاتا ہے.وہ شوخ ہوتی جاتی ہے.اور ایک دفعہ کا رنگ نسل کے رنگ کی مانند ہوتا ہے جو جلد رسٹ جاتا ہے.دوسرا سیاہی کے قریب.اسی طرح ترقی کرتے کرتے نقش کی مانند ہو جاتا ہے جو اندر داخل ہو جاتا ہے اور پھر ترقی ہو تو ایسا ہوتا ہے.جیسے کھود کر نقش بنائے جائیں.اسی طرح جو باتیں روحانیت سے تعلق رکھتی ہیں.اگر ایک آدھ دفعہ من یا پڑھ لی جائیں.تو وہ بھی پینسل کی لکیر کی طرح ہوتی ہیں ، لیکن جوں جوں ان پر غور کرتے چلے جاؤ.اور ان کو استعمال میں لاؤ وہ ذہن میں بیٹھتی چلی جاتی ہیں.تو جب تک علم پر عمل نہ کیا جائے.علم مفید نہیں ہو سکتا.پس جو باتیں آپ کو روحانیت کے متعلق بتائی گئی ہیں.ان پر عمل کرو.علم کی باتوں کو دہراؤ تبلیغ کے متعلق جو کچھ کہا گیا ہے.اس کی پابندی کرو.معاملات کو درست بناؤ.اگر ان چاروں باتوں کو ل میں نہلایا گیا.تو یہ نتیجہ نکلے گا کہ ابوالوں نے اپنے مالوں کو ضائع کیا.اپنے وقتوں کو ضائع کیا، اپنے جسموں کو تکلیف میں ڈالا جس کا کچھ بھی فائدہ نہ ہوا پس میں ان تمام دوستوں کو جو بیاں موجود ہیں.خواہ وہ قادیان کے ہوں یا بیرونجات گے.اور ان تمام کو جو بیر و نجات میں ہیں.توجہ دلاتا ہوں کہ ان کو کوشش کرنی چاہیئے کہ ان باتوں سے فائدہ اُٹھائیں.اور خصوصاً ان دو امور کو فراموش نہ کریں اقول اندرونی اصلاح.اور دوسرے بیرونی اصلاح - اگر یہ دونوں باتیں نہ ہوں.تو امن نہیں.بلکہ ہلاکت ہے پس جماعت کو چاہیئے کہ جلسہ سے کار آمد فوائد حاصل کرے تاکہ ان کے لیے جلسہ میں آنا با برکت ثابت ہو.اور آئندہ ترقی کے لیے ) الفضل (19 جنوری ۱۹۲ ) ممد و معاون "
69 لندن میں بیت الذكر اللہ کے فقیروں کا بادشاہوں پر فتح پانے کا عزم د فرموده ۹ جنوری ۱۹۲۰ حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- اللہ کے فضل اور کرم سے اور اس کی دی ہوئی توفیق سے ہمارا ارادہ ہے اور جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے کہ خاص لنڈن میں یا لنڈن کے پاس ایک مسجد تیار کریں.اس کے متعلق آج سے تین دن پہلے مغرب کے بعد میں نے قادیان میں تحریک کی.پھر پرسوں دن میں تمام دوستوں کو باقاعدہ جمع کر کے تحریک کی.چونکہ جمعہ کے روز اطراف و انواح سے احمدی دوست جمعہ میں شمولیت کے لیے آتے ہیں.اس لیے میں ان کی اطلاع کے لیے اور نیزان کی بھی اطلاع کے لیے جنہوں نے پہلے نہ سنا ہو یا کنا ہو تو پوری وضعیت نہ ہوئی ہو یا پوری واقفیت تو ہوئی ہو.مگر توجہ نہ کی ہو یا توجہ تو کی ہو مگر مناسب توجہ نہ کی ہو جس قدر کہ اس کام کے لیے ضروری ہے.ان سب کے لیے آج میں خطبہ جمعہ میں بھی اسی امر کے متعلق توجہ دلاتا ہوں.یہ باتیں میں پہلے بتا چکا ہوں کہ ولایت میں احمدیہ مسجد کا بنا ضروری ہے اور کیوں ضروری ہے ؟ آپ کو معلوم ہے کہ وہاں ہم ہزاروں روپیہ خرچ کر رہے ہیں.اس وقت تک کہ وہاں مشن قائم ہوتے چھ سال ہو چکے ہیں.انداز آپ پچاس ہزار روپیہ ہمارا خرچ ہو چکا ہے اور ہر سال سات آٹھ ہزار روپیہ خرچ ہوتا ہے.اتنے بڑے خرچ کے بعد جب مفاد کا وقت ہو.تو خاص کوشش کی ضرورت ہوتی ہے.اگر اس وقت اس کام سے ہاتھ اٹھا لیا جائے یا اس خرچ ہو چکنے کے بعد جس ضرورت کو پورا کرنے کی وہاں حاجت ہو.اس کو پورا نہ کیا جائے.تو اس کی مثال ایسی ہی ہو گی کہ کوئی شخص ایک مکان بنانے کی تجویز کرے.پہلے بنیا دیں کھو دے اور ان کو عمدہ طور پر بھر دے.اور فرش بھی
ند لگا ہے اور اونچی دیواریں بھی کھڑی کر دے مگر ان دیواروں پر چھت نہ ڈالے تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ وہ دیواریں گر جائینگی.پس جہاں خرچ ہو چکتا ہے اس سے نتائج حاصل کرنے کے وقت خاص قسم کی کوشش اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے.اور ایسی حالت میں جو بھی خرچ ہو وہ کرنا پڑتا ہے اگر الیا نہ کیا جائے تو پہلا خروج بھی ضائع ہو جاتا ہے.اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک زمیندار ایک گھیت تیار کرتا ہے.اس میں ہل چلاتا اور سہاگہ پھیرتا ہے.پھر اس میں بیج ڈالتا ہے.اور مہینوں اس پر محنت.کرتا اور پانی دیتا ہے ، لیکن ایک وقت آتا ہے کہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے مگر بارش بند ہو جاتی ہے ایسی حالت میں زمیندار خرچ کی مطلقی پروا نہیں کریگا.بلکہ دگنا گنا خرچ کر کے بھی پانی اپنے کھیت کو دلوائے گا.کیونکہ وہ جانتا ہے.کہ اگر اس وقت پانی کھیت کو نہ دیا گیا.تودہ تمام محنت اور تمام رقم ضائع ہو جائیگی جو اس وقت تک کھیت کی تیاری میں صرف کی گئی ہے.اگر کوئی ایسا نہ کرے.تو اس کے لیے قرآن کریم میں ایک مثال بیان کی گئی ہے.مثلاً ایک بڑھیا گرمی کے موسم میں سوت کا تنتی ہے.اس لیے کہ سردی میں اس سے کپڑے بنائے گی مگر جب کایت کر تیار کر لیتی ہے اور وقت سردی کا آتا ہے.تو بجائے اس سوت کو عمدہ مصرف میں لانے کے قیچی لے کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے.پس اسی طرح ہم نے ولایت میں تبلیغ کے لیے روپیہ خرچ کیا ہے.اب اس کا نیک نتیجہ کے نکھنے کیلئے ان اسباب کا مہیا کرنا ضروری ہو گیا ہے جس سے وہ کام مستحکم اور اس کام کے عمدہ نتائج برآمد ہوں اور اس کے لیے اس ضرورت کو محسوس کیا گیا ہے کہ لندن میں ایک مسجد تیار کی جائے.علاوہ اس بات کے اور بھی ضروریات ہیں.اول یہ کہ وہ کفر کا مرکز ہے.اس کے مقابلہ میں جب تک ہماری وہاں مسجد نہ ہو.کام کامیابی کے ساتھ نہیں ہو سکتا اور یہ درست بات ہے ، کہ جہاں مساجد تعمیر کی جاتی ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کی خاص برکتیں نازل ہوتی ہیں.نیز جیسا کہ میں نے بتایا وہاں اب تک جماعت کا جس قدر روپیہ خرچ ہوا ہے.اب ایسے سامانوں کا میا نہ کرنا اپنے اس تمام روپیہ کو ضائع کرنا ہے.اور اس کے یہ معنے ہونگے کہ ہم نے ایک لغو اور بے معنی کام کیا.جو مومن کی شان سے بعید ہے.اور مومن کا مال نہایت قیمتی ہوتا ہے.اس لیے اس کی حفاظت بہت ضرورتی تی ہے.پس وہاں مسجد کا ہونا آیندہ نیک نتائج کے نکلنے کے لیے ضروری ہے.تاکہ مستقل طور پر وہاں جماعت کی بنیاد قائم ہو جائے.میں نے اس تحریک کو اولاً یہاں کے دوستوں کے آگے پیش کیا.چنانچہ اب تک گیارہ ہزار روپیہ چندہ ہو چکا ہے.گویا ساری دنیا کے احمدیوں کے لیے جبقدر چندہ رکھا گیا ہے.اس کا تیسرا حصہ قادریان
نے دیدیا ہے.اور یہ خوشی کی بات ہے.اور اس بات کا ثبوت ہے، کہ مرکز کی جماعت اخلاص میں پیچھے نہیں آگئے ہے.اور یہ ایک اصول ہے کہ جو جماعتیں قائم رہنے والی ہوتی ہیں.ان کے مرکزوں میں اخلاص ہوتا ہے.اور اخلاص مرکز سے ہی نکلا کرتا ہے.اور جب جماعتیں بگڑا کرتی ہیں.تو مرکزوں میں ہی مرانی پیدا ہو جایا کرتی ہے پس مرکز ہی اخلاص اور برکات کا موجب ہوتے ہیں.اور مرکزہ ہی ہلاکت اور تباہی کا باعث ہو جایا کرتے ہیں.یہ اللہ کا خاص فضل ہے، کہ اس نے ہمارے مرکز میں اخلاص کا زنگ پیدا کیا ہے.توسی رو جو بیاں ہے.اگر ساری جماعت میں پیدا ہو جائے تو میں ہار کیا میں لاکھ کا جمع ہو جانا کچھ بھی مشکل نہیں ، لیکن خدا جن کے لیے چاہتا ہے.اپنی خاص تقدیر کو جاری کرتا ہے اس لیے میں نہیں جانتا.کہ یہ خدا کی عام تقدیر ہے جو تمام جماعت کے لیے ہے یا خاص جو شخص قادیان کے لیے ہے.اب دوبارہ اس امر کی طرف توجہ دلانے کی وجہ یہ ہے کہ جو اس تحریک کو نہیں سُن سکے ہی ہیں اور اپنے اپنے دیات میں اخلاص سے یہی تحریک کریں.اور جہاں تک ہو سکے اس کو عملی جامہ پہنانے میں جلدی کریں.در حقیقت جس انداز سے یہ کام شروع ہوا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحریک کامیاب ہو گی ، لیکن میں ان تمام دوستوں کو جنھوں نے قادیان سے حصہ لیا، اور جو باہر سے اس میں حصہ لیں گے.اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہر ایک کام اپنے ظاہری اسباب سے ہی کامیاب نہیں ہوا کرتا، بلکہ اس کے لیے کچھ باطنی اسباب بھی ہوتے ہیں، جہاں قادیان والوں نے اخلاص سے چندہ جمع کیا ہے.ان کو چاہیئے کہ صالح نیت بھی حاصل کریں یہ مت سمجھیں کہ انہوں نے روپیہ دیدیا اور نہیں کیونکہ محض روپیہ جمع کرنا کوئی بات نہیں.دنیا دار بھی جمع کرلیا کرتے ہیں.اور کثرت جمع کر لیتے ہیں.لوگ شادیوں میں بے دریغ روپیہ خرچ کرتے حتی کہ مکان اور جائیدادیں تک بیچ ڈالتے ہیں.اور روپیہ دینے اور جمع کرنے کی مثالیں بدترین لوگوں میں بھی پائی جاتی ہیں.اور ایسے لوگوں میں بھی جو خدا سے بالکل دور ہوتے ہیں ایسی محض روپیہ جمع کر لینا اور جی کھول کر چندہ دنیا خوشی کی بات نہیں.اصل قابل غور به سوال ہے کہ رو پیر دی کس نیت سے ہے بعض دفعہ کام نیک ہوتا ہے.اور جوش و خروش سے کیا جاتا ہے.مگر نیت نیک اس کے شامل نہیں ہوتی.ایک جنگ کے موقع پر مسلمانوں کی حالت نازک ہو گئی اور کفار کا پہلوطاقتور تھا.اس وقت مسلمانوں کی طرف سے ایک شخص میدان میں نکلا.وہ ہر نازک موقع پر گیا.اور اس کو ہر جگہ کامیابی حاصل ہوئی مسلمانوں کی نظریں اسی کی طرف لگ رہی تھیں وہ جدھر جاتا کنار پسپا ہو جاتے مسلمانوں کی طرف سے تحسین و آفرین
کے کلمے اسکے حق میں نکل رہے تھے.ادھر تو اس کی یہ حالت تھی کہ اس طرح کفار سے جان لڑا رہا تھا اور کام وہ کر رھا تھا جو جہاد ہے جسکی فضیلت میں قرآن کی بہت سی آیتیں ہیں.مگر ایسی حالت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ اکہ ہم نے اس کے متعلق فرمایا کہ اگر کسی نے جہنمی کو دیکھنا ہو تو اس شخص کو دیکھ لو.اس کی اس خدمت کو دیکھ کر اور ان واقعات کو سامنے رکھ کر جو اس سے ظہور میں آرہے تھے بعض لوگوں کو تردد ہوا.که دو شخص جو اس خدمت کی وجہ سے انعامات کا مستحتی ہے.اس کو دوزخی قرار دیا جا رہا ہے.ایک صحابی نے جو بعض کمزور لوگوں کی حالت کو دیکھا کہ وہ کہیں مرتد نہ ہو جائیں.توانہوں نے عہد کیا کہ خدا کی قسم میں ابی شخص کے ساتھ یہ ہوں گا جب تک یہ مر نہ جائے.وہ اس کے پیچھے لگ گئے.ایک موقع پر اس شخص کو ایک زخم لگ گیا.جب درد بڑھی.تو اس نے نیزہ اپنے سامنے رکھا اور اس پر سینہ رکھ کر زور کیا تو نیزہ اس کے سینہ کو چھید کر باہر نکل گیا.اور اس طرح وہ خود کشی کر کے مر گیا.وہ صحابی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس دوڑتے ہوتے آئے.اور کہا کہ یا رسول اللہ میں گواہی دیتا ہوں کہ خُدا ایک ہے.اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اس کے رسول ہیں.آپ نے پوچھا کیا بات ہے ؟ اس نے عرض کیا وہ شخص جو اس طرح اسلام کی خدمت کر رہا تھا.حضور نے جب اس کے متعلق فرمایا تھا، کہ یہ دوزخی ہے تو بعض طبعیتوں میں اس سے خلجان پیدا ہوا.میں اس کا انجام دیکھنے کے لیے اس کے پیچھے پیچھے ہو گیا.اس کو ایک زخم لگا ہمیں اس کے پاس پہنچا اور اس کو کہا کہ تم نے آج بڑی اسلام کی خدمت کی.تو اس نے کہا کہ کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں نے اسلام کے لیے اتنا خوش دکھایا ہے.نہیں بلکہ میری ان لوگوں سے خاندانی عداوت تھی.اس لیے میں ان لوگوں سے بدلہ لینا چاہتا تھا.جب درد کی شدت ہوئی.تو اس نے خود کشی کر لی جب حضور نے اس صحابی سے یہ سنا، تو آپ نے فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا ایک ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اس کا رسول ہوں لیے دیکھو وہ اسلام کی ایک خدمت بجالا رہا تھا اور خدمت بھی کیسی کہ جو بہت ہی بڑی خدمت ہے.مگر دل میں یہ نیت نہ تھی.کہ میں اسلام کے لیے یہ خدمت کرتا ہوں.اور اس لیے کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ خوش ہو اور اس کی رضا حاصل ہو.تو چونکہ اس کی نیت یہ تھی.اس کو جنم میں ڈالا گیا.اور اس کا تمام وہ کام ضائع ہوگیا جو نبی کی معیت میں اسلام کی خدمت کر رہا تھا.وہ معیت ضائع ہوئی.صحابہ کا ساتھی ہونا ضائع ہوا.اور وہ خدمت جو ایسی عمدہ تھی.ضائع ہوگئی اور ایک نیت ہی غالب آئی.بخاری کتاب القدر باب العمل بالخواتم
۳۷۴ تو یاد رکھو کوئی عملی کام اعلیٰ انہیں جب تک اسکے ساتھ نیت بھی اعلی نہ ہو.آپ لوگوں کو چاہیئے کہ آپ نیت نیک کریں.اگر آپ اس نیت نیک کیساتھ ایک دوسرے سے بڑھیں گے.اور خدا کی رضا حاصل کرنے کے لیسے ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرینگے تو مین خدا کے منشاء کے ماتحت ہوگا اور یہی مطلب ہے آیت فَليَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ (المطففين : ۲۴) کا اور اسی طرح دوسری آیت میں فر مایا : فاستبقوا الخيرات (البقره: ۱۴۹ یعنی نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرو.لیکن اگر کوئی شخص لوگوں میں بڑا بننے کے لیے زیادہ چندہ دیتا ہے.تو یہ ہلاکت اور تباہی ہے.اگر کوئی شخص نماز کے چار نوافل کی بجائے آٹھ پڑھتا ہے.اور اس سے اس کی غرض یہ ہے کہ لوگ اس کو بڑا نازی خیال کریں.تو اس نے اپنی جان پر ظلم کیا اور سخت گناہ کا ارتکاب کیا.اور خدا کے عذاب کو اپنے سر پر لیا لیکن اگر کوئی شخص چار نوافل کی بجائے آٹھ نوافل خدا کی رضا کے لیے پڑھتا ہے تو یہ ایک بہت بڑے ثواب کا کام ہے.پیس لندن میں مسجد محمدیہ کی تعمیر کا کام اعلیٰ اور بہت ہی اعلیٰ درجہ کا کام ہے.اور انشاء اللہ اس کے نتائج بھی اعلیٰ درجہ کے ہونگے مگر ہر ایک فرد جو مسجد کے لیے کچھ دے.اس کو اپنی نیت کو نیک رکھنا چاہیئے.وہ اپنے اندر اخلاص پیدا کرے.اور اس کی غرض محض خدا کی رضا ہو محض تبلیغ اسلام ہو.محض اعلاء کلمتہ اللہ نیت ہو کہ خدا کا نام بلند مناروں سے لیا جائے.اس سے زیادہ کچھ نہیں.اگر نیت نیک نہیں تو کچھ بھی نہیں.پس جہاں میں اس کام میں حصہ لینے کی زور سے تحریک کرتا ہوں.اسی طرح ہیں اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ نیت نیک کریں.اتنے بڑے کام کے لیے نیت کی نیکی کا سوال اہم سوال ہے.اگر بڑے کاموں کو نیت نیک لے کر نہ کیا جائے تو ان کا اجر نیک نہیں مل سکتا.پس اس کام میں خدا کی رضا کے سوا اور کوئی غرض مد نظر نہیں ہونی چاہیئے.سننے اس میں شبہ نہیں کہ مجھے یقین ہے کہ یہ کام خدا کی رضا کے ماتحت ہو رہا ہے.مجھے آج تک تین اہم معاملات میں خدا تعالیٰ کی رویت ہوتی ہے.پہلے پہل اس وقت کہ ابھی میرا بچپن کا زمانہ تھا.اس وقت میری توجہ کو دین کے سیکھنے اور دین کی خدمت کی طرف پھیل گیا.اس وقت مجھے خدا نظر آیا.اور مجھے تمام نظارہ حشر و نشر کا دکھایا گیا.یہ میری زندگی میں بہت بڑا انقلاب تھا.دوسرا وہ وقت تھا کہ جماعت کے لوگ ایسے نقطہ کی طرف جا رہے تھے کہ قریب تھا کہ وہ کفر می پہلے جائیں.اور اس بات کی طرف لے جانے والے وہ لوگ تھے جو سلسلہ کے دنیاوی کاموں پر قابو پائے ہوئے تھے.مثلاً صدر انجمن وغیرہ انہی کے ماتحت تھیں.اور یہ لوگوں میں بڑے بڑے نظر آتے تھے
۳۷۵ اس وقت کوشش کی جارہی تھی کہ حضرت صاحب کے دعوی کو گھٹایا جائے.اگر چہ ہم نے حضرت صاحب سے آپ کے دعوی کے متعلق خوب کنا ہوا تھا.مگر اندیشہ ہوا کہ ممکن ہے.ہم غلطی پر ہوں.اس وقت میں نے خدا تعالیٰ کو دیکھا.اور مجھے حضرت صاحب کی نبوت پر یقین دلایا گیا.تیسری دفعہ آج مجھے خدا تعالی کی رویت ہوتی ہے جس سے مجھے یقین ہے کہ یہ کام مقبول ہے ، جہاں تک مجھے یاد ہے وہ یہی ہے کہ میں مسجد لندن کا معاملہ خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر رہا تھا.میں اللہ تعالیٰ کے حضور دو زانو بیٹھا تھا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا جماعت کو چاہیئے کہ جدہ سے کام لیں" ہنرل سے کام نہ لیں "جد" کا لفظ مجھے اچھی طرح یاد ہے.اور اس کے مقابلہ میں دوسرا لفظ ہنرل اسی حالت میں معا میرے دل میں آیا تھا.اس کے معنے یہ ہیں کہ جماعت کو چاہتے کہ اس کام میں سنجیدگی اور نیک نیتی سے کام لے ہنسی اور محض واہ واہ کے لیے کوشش نہ کرے ہیں چاہتے کہ ہر ایک شخص نیک نیتی سے کام لے اور نمود و نمائیش کے خیال کو بالکل دل سے نکال دے بینی تیس ہزار جو ہم لندن میں مسجد پر لگانا چاہتے ہیں اگر نیت نیک نہ ہو.تو کوئی مثمر ثمرات نیک فعل نہیں کرینگے.اور اس سے بہتر ہو کہ وہ روپیہ جو ہم وہاں مسجد کی تعمیر میں لگائیں اس سے چین و جاپان وغیرہ ممالک میں تبلیغ پر لگا دیں پس جب تک نیت نیک نہ ہو اتنے بڑے کام پر جرات نہیں کی جاسکتی.اگر نیت میں فتور نہ ہو تو ہی مسجد قطب بن سکتی ہے.اور لاکھوں فوائد ہیں.اور اگر نیت نیک نہ ہو.تو یہ ایک طوق ثابت ہوگی.پس تمام احباب کو چاہیے کہ اپنی اپنی میتوں کو صافت کریں اور دعائیں کریں کہ خدا تعالی اس کام کو ضائع نہ کرے ، بلکہ اس کے نیک ثمرات پیدا ہوں اور دعا کریں کہ خدایا یہ ستجد تیری عبادت کے لیے مقبول مقام ہو.اور دنیا کا مرجع ہو اور لوگوں میں اشاعت اسلام اس کے ذریعہ ہو.اور یہ ہماری کوشش ضائع نہ ہو.اور محض اینٹ کا راہی ثابت نہ ہو.اسے خدا ہماری نیتوں کو درست کر.اور ہمیں ہمت دے کہ ہم تیرے ہی لیے اس کام کو انجام دیں.اور اسلام کے لیے اس کے اعلیٰ درجہ کے ثمرات ہوں اور ہم دیکھ لیں کہ اسلام دنیا میں پھیل رہا ہے.آمین ثم آمین : الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۲۰
70 دعوت الی اللہ کیلئے ایک نیا میدان ) فرموده ۲۳ جنوری ۱۳ تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :- اللہ تعالیٰ نے جس غرض سے اس جماعت کو کھڑا کیا ہے.وہ غرض اتنی بڑی اور اہم ہے کہ اس کے پورا کرنے کے لیے غیر معمولی سامانوں اور غیر معمولی محنت اور غیر معمولی کوشش کی ضرورت ہے حکومتیں جس کام کو حاصل نہیں کر سکتیں، اور سیاستیں جس کام کے کرنے سے عاجز ہیں.علماء و فضل نہیں مقصد کے پانے سے عاجز ہیں.امراء اور دولت مند جبس غایت تک پہنچنے سے قاصر ہیں.اس مقصد تک ایک غریب بے سامان ، بے حکومت اور کزور جماعت کا پہنچنا معمولی بات نہیں.اس وقت ہر ایک زبان اقرار کر رہی ہے.گو وہ اقرار کیسے ہی پردے میں ہو کہ دنیا کو ایک تبدیلی کی ضرورت ہے.گو یہ اقرار مختلف حالات کے ماتحت بڑا پوشیدہ ہوتا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ دنیا کو ایک تغیر کی ضرورت ہے.ہر مذہب کے پیرو ہرملک کا باشندہ ہر ایک حاکم برای فردی یا اقرار کیا ہے کہ ایک تغیر کی ضرورت ہے.دنیا جس رنگ میں ہے.وہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا.یا تو یہ انتظام ٹوٹ جائیگا.اور بنی نوع انسان قدیم وحشت کی طرف لوٹ جائیں گے.یہ تمام کوششیں اور یہ تمام ترقیاں ایک پراگندہ خیال کی طرح اڑ جائیں گی.یا نیا انتظام کرنا پڑے گا حکومتوں میں جوش ہے.رعایا کے دلوں میں اُمنگیں ہیں.امراء وغرباء میں کشیدگی ہے.آقا و خادم کے تعلقات میں بھرمیں پیدا ہو رہی ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ انتظام زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا.یا تو یسارا
سلسلہ درہم و برہم ہو جائے گا.یا یہ آقا و خادم کے تعلقات نہ رہیں گے.حکومت و رعایا کے موجودہ تعلق میں فرق ہوگا.سیاست بدل جائیگی، موجودہ قانون بدل جائیں گے کیونکہ دنیا کا جوش ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ طریق سے ارہ نہیں ہو سکتا.ایک ایک لمح نہیں رہتا کہ بڑی بڑی حکومتیں انقلاب کا شکار ہورہی ہیں.فوجوں میں جوش ہے.مشینوں والے جوش میں ہیں کہ نہیں کافی اجرت نہیں دی جاتی - کارخانہ دار کہتے ہیں کہ ہم لٹ گئے.غرض موجودہ وقت میں ہر ایک شاکی ہے اور ہر ایک گردہ اور طبقہ ایک تغیر چاہتا ہے اگر وہ تغیر نہ ہو تو موجودہ انتظام نہیں چل سکتا.دانا محسوس کرتے ہیں.اور وہ دانا جین کی عمریں قوانین بنانے اور تدبیریں سوچنے میں ختم ہو گئی ہیں.وہ سب کے سب یک زبان ہیں کہ ہمارے قوانین اور ہماری تدابیر بے اثر ہیں.اب یہ سوال کہ وہ کیا تغیر ہوگا ؟ اگر اس کا جواب کوئی دے سکتا ہے، تو وہ ہم ہیں.لوگ جو علاج کرتے ہیں.وہ الٹا اثر کرتا ہے.اور اس کی سی کیفیت ہے.جو کسی نے اس طرح بیان کی ہے مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی جتنے علاج سوچے گئے.اور جو علاج حکام اور فلاسفروں کی طرف سے سوچے گئے.وہ ایک ایک کر کے آزمائے گئے ، ان سے تباہی ہوئی.بادشاہتوں کو ظلم آفریں ٹھرایا گیا تو پارلینٹیں بنائی گیتی گران کے طریق عمل سے بھی لوگ خوش نظر نہیں آتے.بادشاہ شکایت کرتے ہیں کہ رھا یا اچھا معاملہ نہیں کرتی.اور رعایا کہتی ہے کہ ہمارے ساتھ نیک سلوک نہیں ہوتا.آقا اور ماتحت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں.غرض جتنے علاج بڑھنے گئے.اسی قدر مرض بڑھتا گیا.کوئی دن نہیں گذرتا کہ نیتی سے نئی سرآنکھیں نہ ہوتی ہوں.اور کوئی دن نہیں جاتا کہ کارخانے بند نہ ہوتے ہوں.کارخانہ دار کہتے ہیں کہ ہم اپنے سرمایہ کو خطرہ میں نہیں ڈالنا چاہتے.اور مزدور کہتے ہیں کہ ہم فاقہ مرینگے مگر خدمت نہ کرینگے، یہ کیا تغیر ہے.اور اس سے کیا ہونے والا ہے.سو یاد رہے کہ اس کا علاج انسانی عقل سے نہ ہو گا.اب اگر امن ہوگا اور دنیا مطمئن ہوگی تو اس انتظام سے ہوگی.جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو گا.اور اس انسان کے ذریعہ ہوگی جو خدا کی طرف سے آیا ہے.دنیا کا ایک بڑا معیار یہ تھا کہ جنگ نہ ہو.چالیس پچاس برس سے یہ آواز بلند ہو رہی تھی کہ امن نہیں ہو سکتا.جب تک آپس میں صلح نہ ہو مگر اس صلح کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ایسی جنگ ہوتی کہ دُنیا اس کی نظیر نہیں پیش کر سکتی بغرض اتنا فساد بڑھا جس کی نظیر نہیں ، لیکن اب اگر چہ جرمن کی جنگ ختم ہو گئی ہے.جگر یاد رکھو کہ اگر ایک بڑے محل کو آگ لگ جائے تو وہ زیادہ خطرناک نہیں ہوتی.جتنا کہ جھونپٹری جھونپڑی
۳۷۸ میں آگ لگ جانا خطرناک ہوتا ہے کیونکہ ای محمل کوگی ہوئی بھائی جاسکتی ہے مگر جھونپڑی جھونپڑی کی اگ کا بھانامشکل ہوتا ہے کس گھرگھر آگ لگنے کا نظارہ تو اب ہی شروع ہوا ہے جو ہر چشم دور بین کو خیرہ کرتا ہے کیونکہ یہ وہ زمانہ ہے کہ نہ فاتح خوش ہے نہ مفتوح نہ غالب خوش ہے نہ مغلوب.غرض وہ لوگ جن کی امیدیں صلح کے ساتھ وابستہ تھیں دیکھ رہے ہیں.کہ صلح بھی ایک خیال ہی ثابت ہو رہا ہے اور نظر آرہا ہے کہ ان کی تمام اُمیدیں پاس سے بدلتی جارہی ہیں.یہ تمام تغیرات ثبوت ہیں اس امر کا کہ جو علاج کیا جارہا ہے وہ درست نہیں اور نہ وہ علاج ہیں اس مرض کا جو دنیا کو لگا ہوا ہے.کیونکہ اگر وہ مرض جسمانی ہوتا.تو جس قدر علاج مادیات سے تعلق رکھنے والوں نے کئے.وہ کارگر ہوتے بگران علاجوں کا الٹا اثر ہونا ثابت کرتا ہے کہ مرض جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہے.کیونکہ وہ کھانے جن کو پہلے کھا کر لوگ خوش ہوتے.اور الحمد شد کتے تھے.آج ان سے بہتر کھاتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ ہم بھوکے مر گئے معلوم ہوا کہ حالت اور بگڑگئی.علاج سے رو بہ اصلاح نہیں ہوتی کیس جب تک اندر کا علاج نہیں ہوگا.یہ تمام کوششیں بے سود ثابت ہونگی.وہ اندرونی حالت بدل سکتی ہے.اسی علاج سے جو خدا کی طرف.نازل کیا گیا ہے.اور وہ احمدیت ہے.یہ اور بات ہے کہ کوئی احمدی کہلانے والا بھی اس وقت غیر من حالت میں ہو.اس کی مثال ایسی ہی ہوگی کہ جس نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہوں.اور روشنی کونہ دیکھتا ہو یہ باغ میں بیٹھا ہو مگر خوشبو نہ سونگھے.اور پھل نہ کھاتے.اگر کوئی احمدی اپنی شقاوت کی وجہ سے معلمین نہ ہو تو اس کے معنی یہی ہیں کہ اس نے وہ علاج کیا ہی نہیں.غرض یہی ایک علاج ہے جس سے دنیا میں ان قائم کیا جاسکتا ہے.حاکم و محکوم کے تعلقات میں خوشگواری پیدا کی جاسکتی ہے.اگر احمدیوں میں سے بعض کو حالت اطمینان نصیب نہ ہو.اور وہ اس جنت میں نہ ہوں جو مومن کے لیے یہیں سے شروع ہو جاتا ہے تو ان کی مثال یہی ہوگی کہ بخار شدید چڑھا ہے.جگر کو مین جیب میں رکھ چھوڑی ہے اور اس کو استعمال نہیں کرتے یا پیاس سے بے حال میں اور ٹھنڈے پانی کی صراحی پاس ہے جس کو سینہ سے لیٹائے بیٹھے ہیں.مگر پتے نہیں.اس کی مثال ایسی ہے.جو بھوک سے مر رہا ہے.اور عمدہ لذیذ کھانا سرہانے رکھا جس کو کھاتا نہیں.پس جس طرح بیمار کی جیب میں کو مین ہونا پیا سے کے پاس ٹھنڈا پانی ہونا اور بھوکے کے پاس عمدہ کھانا ہونا اس کو اس وقت تک مفید نہیں ہو سکتا.جب تک وہ اسے استعمال نہ کرے.اسی طرح اگر کوئی احمدی احمدی کہلاتا ہے اور حضرت صاحب کی کتب بھی پاس رکھتا ہے، لیکن احمدیت کے مغز سے آگاہ نہیں.تو یہ اس کی شقاوت ہے کہ چیز کے موجود ہوتے ہوتے اس سے فائدہ نہیں اٹھاتا.پس احمدیت ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے دلوں کو تقی دی جاسکتی ہے.حاکم و محکوم کے تعلقات
۳۷۹ کو خوشگوار بنایا جاسکتا ہے.خدا تعالیٰ نے احمدیت کے ذریعہ اطمینان بخشنے والی چیز مہیا کردی ہے.اب دنیا کا فرض ہے کہ اس سے فائدہ اٹھاتے.ہزاروں نہیں لاکھوں میں جنہوں نے اپنے دل و دماغ میں اس تعلیم کو لے لیا.اور وہ اطمینان کی حالت میں ہیں پس اگر بعض لوگ ایسے ہوں بھی جن کی حالت اطمینان کی نہ ہو.تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ میلاج ہی درست نہیں.لاکھوں ہم دیکھتے ہیں جنہوں نے اس علاج سے فائدہ اٹھایا ہے.اور اس کا بدبینی نتیجہ یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے اس سے فائدہ اُٹھایا ہے.کوشش کر کے اس علاج کو دوسروں تک پہنچائیں اور ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس آگ کے وقت میں اس پانی کو دنیا کے گوشوں میں پہنچائے، کیونکہ جب ایک محلہ میں آگ لگ جائے تو محلہ والوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس آگ کو فرو کرنے کی کوشش کریں.جو اس فرض کو ادانہیں کرتے.اور اس آگ کو نہیں بجھاتے تو وہ اپنے فرض کے ادا کرنے میں کوتا ہی کرتے ہیں.خدا کے فضل سے اب کام دن بدن وسعت پکڑ رہا ہے، لیکن جس قدر ہمارا کام ہے.اس قدر ہمارے پاس آدمی نہیں جن سے کام لیکر تمام دنیامیں بلیغ کو پنچائیں.اگر چہ آدمی تو ہیں.مگراس قابلیت کے نہیں جن کو جہاں بھیجنے کی ضرورت ہو بھیجے جاسکیں.اور دراصل یہ ہماری کوتا ہی ہے.کہ ہم نے تیس برس کے عرصہ میں ایسے آدمی کافی تعداد میں پیدا نہیں کئے جن سے ہم تبلیغ کا پورا پورا کام لے سکیں.اسی ہفتہ میں بغداد سے ایک تار آتی ہے جس میں لکھا ہے کہ ہمیں ایک مبلغ کی فوراً ضرورت ہے.یہ ایک نیامیدان ہے.جب سے ترکوں کو شکست ہوئی ہے اور انگریزی گورنمنٹ اس علاقہ پر قابض ہوتی ہے مختلف مشنوں کے پادریوں نے اس علاقہ میں اپنا ڈیرا جمالیا ہے.مگر وہ لوگ پادری کی حیثیت میں نہیں گئے بلکہ ڈاکٹر بن کرگئے ہیں اور زخمیوں کا علاج کرتے ہیں اور اس عرصہ میں قریباً دو ہزار پادری امریکہ سے وہاں پہنچ چکا ہے جن سے واقف کار لوگوں کو اتنا خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ چالیس پچاس برس میں سارے کا سارا یہ علاقہ عیسائی ہو جائیگا..بغداد اتنا مشہور شہر ہے کہ وہ لوگ بھی جو تاریخ سے ناواقف ہیں اور دبیات کی زندگی بسر کرتے ہیں اس کو جانتے ہیں.کیونکہ بغداد ایک وقت میں دنیا کا نقطہ مرکزی بنا ہوا تھا.اور دنیا اس کے گرد چکر کھا رہی تھی اور وہ گویا علوم ظاہری کے لیے بطور کعبہ تھا جس طرح روحانیت کے لیے لکہ کعبہ تھا.چھے سو سال تک وہاں خلافت اسلامیہ قائم رہی اور دنیا کے ایک بڑے حصہ پر وہاں کی حکومت تھی.بہت کم لوگ ہونگے جنہوں نے بہارون الرشید کا نام نہ گنا ہوگا.حتی کہ قصہ کہانیوں میں جنوں کے ساتھ اس کا ذکر آجاتا ہے.گویا کہ اس کی شہرت نے عالمگیر رنگ اختیار کر لیا ہے.علاوہ اس کے ہندوستان ہے.اس کا ایک خاص
تعلق روحانی بھی ہے اوروہ یہ ہے کہ سید عبدالقادر جیلانی بغدادی ہی بڑھے اور وہیں فوت ہوئے.اور ہندوستان میں ان کے ماننے والے بکثرت ہیں.اور یہاں سے بہت سے لوگ ان کے مقبرہ کی زیارت کو اب بھی جاتے ہیں.غرض بغداد مسلمانوں میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے کسی زمانہ میں وہ اتنا بڑا شہر تھا کہ کئی لاکھ حمام اس میں تھے اور جہاں لاکھوں حرام ہوں گے.تو ماموں میں بنانے والے بھی اسی نسبت سے ہونے چاہئیں.اور ہاں بہت بڑے بڑے کتب خانے تھے اور تمام دنیا کے علماء فضلا کا مرجع تھا.بنو امیہ جو حضرت معاویہ کے خاندان کے لوگ تھے.ان کی حکومت ایک سو سال تک رہی.ان کی بربادی پر بنو عباس جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ ولم کے چا حضرت عباس کی اولاد سے تھے.ان کی حکومت قائم ہوئی.اور انہوں نے بغداد کو اپنا دارالخلافہ بنایا اور کئی سو سال تک سپین کے سوا باقی تمام اسلامی دنیا افغانستان ایران عراق عرب شام مصر افریقہ - ایشیاء کوچک، سائیبریا اور روس کے بعض علاقوں پر ان کی حکومت رہی.غرض وہ ایک لمبے عرصہ تک اسلامی دنیا کا مرکز رہا ہے گومذہبی نہ سی سیاسی ہی سہی.اس طرح وہ اسلامی شہروں میں سے ایک خاص شہر ہے اور اس پر عیسائیت نے اس جوش سے تبلیغ شروع کر دی ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے.چالیس پچاس برس میں خیال کیا جاتا ہے.وہ علاقہ تمام کا تمام عیسائی ہو جائے گا.جنگ کے دنوں میں اگر ہمارے پاس بھی ڈاکٹر ہوتے.تو ہم ان کو بھیجتے.وہ وہاں مفت علاج کرتے.اور دوائی بھی اپنے پاس سے دیتے جو ہم ان کو مہیا کرتے.واعظوں کو روکا جاسکتا ہے، لیکن طبیبوں کو کون روک سکتا ہے.کیونکہ وہ سب خرج اپنے پاس سے کرتے اور سر کار بھی ان کو روک نہ سکتی تھی.کیونکران کا کوئی بوجھ سرکار پر نہ تھا لیکن اب وہ وقت تو گیا.اب صلح ہوگئی ہے.اور کسی حد تک آزادی بھی ہو گئی ہے.مجھے تار میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہاں کے احمدیوں نے ڈیڑھ ہزار روپیہ چندہ جمع کر لیا ہے.یقینی بات ہے کہ جہاں احمدیت گئی.وہاں عیسائیت نہیں ٹھر سکتی جس طرح کہ لاحول سے شیطان بھاگتا ہے.اسی طرح احمدیت سے عیسائیت بھاگتی ہے.جب عیسائیوں کو معلوم ہو جاتے کہ یہ احمدی ہے.تو وہ کہ دیا کرتے ہیں کہ ہمیں بحث کی اجازت ہی نہیں.مصر میں جہاں ہمارا کوئی مبلغ نہیں گیا.جب وہاں ہمارے شیخ عبدالرحمن صاحب تعلیم کے لیے گئے تھے تو وہاں عیسائیوں نے خوب شور مچایا ہوا تھا.ان کو ایک شخص ملا جو قریب قریب عیسائی ہو چکا تھا.انہوں نے اس کو بتایا، کہ دیکھو قرآن شریف ہے تو مسیح کی وفات ثابت ہے.انجیل بھی یہی کہتی ہے.چنانچہ حضرت میں کشمیر میں مدفون ہے.کیا وہ بھی خدا ہوسکتا ہے.جب شیخ صاحب نے اس شخص کو یہ بتا کر پادری کے پاس بھیجا.تو
HAI پادری نے کہا کہ تم قادیانی ہو.اس نے کہا.میں تو نہیں جانتا کہ قادیان کیا ہے.لیکن یہ میرے سواللہ ہیں ان کا جواب دو.اس نے کہا، کہ تم سے بات کرنے کی نہیں اجازت نہیں.تو چھوٹے چھوٹے احمدی جن کی تعلیم ابھی ناقص ہوتی ہے.ان سے بھی عیسائی بات کرنے سے ڈرتے ہیں.ایک دفعہ ایک احمدی جو چھٹی ساتویں جماعت تک پڑھا ہوا تھا.رنگون میں بغرض تلاش معاش گیا.ایک دن سیر کرتا ہوا ایک جگہ پہنچا.وہاں سینکڑوں کا مجمع تھا.اور ایک پادری صاحب بررسی زور سے تقریر کر رہے تھے.جب وہ تقریر کر چکے.تو اس نے اجازت چاہی.چونکہ یہ لباس اور طرز سے سادہ معلوم ہوتا تھا.پادری صاحب نے خیال کیا کہ جب یہ سوال کر کے شرمندہ ہو گا تو میرا لوگوں پر خوب اثر پڑے گا.اس لیے انہوں نے سوال کی اجازت دیدی ، مگر جب اس احمدی نے اعتراض کئے.تو پادری صاحب گھبرا گئے.جواب تو انہوں نے دیتے، مگر جب وہ احمدی جواب الجواب دینے لگا تو وہ کہنے لگے.آج تو وقت نہیں رہا.کل سی.آخر ان سوالوں سے گھبرا کر انہوں نے وہ سلسلہ ہی بند کر دیا.یہ تو چھوٹے احمدیوں کے مقابلہ کا حال ہے.جو زیادہ واقف ہوتے ہیں.ان سے تو واقعی پادریوں کی روح کا نپتی ہے.ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول نے مفتی محمد صادق صاحب کو راولپنڈی کے علاقہ میں جہاں ایک مشہور دنگل ہوتا تھا.اور عیسائیوں نے بھی جیسے لگاتے ہوئے تھے بھیجا.جونہی کہ مفتی صاحب پہنچے.انہوں نے اپنے خیمے وغیرہ اٹھا لیے اور وہاں سے چلے گئے.غرض احمدیت کے مقابلہ میں عیسائیت بالکل نہیں ٹھر سکتی.عیسائیت اور احمدیت کی ایسی ہی مثال ہے.جیسی آگ اور پانی کی.آگ خواہ کتنی ہی تیز ہو.پانی کے سامنے نہیں ٹھر سکتی ہیں عیسائیت آگ ہے اور احمدیت پائی.عیسائیت ظلمت ہے اور احمدیت روشنی.اب سورج چڑھ گیا.جہاں اس کی روشنی پہنچے گی.عیسائیت کی ظلمت وہاں نہیں ٹھہر سکتی خواہ کتنی ہی دیواریں بند کی جائیں.یہ واقعہ ہے کہ جہاں احمدیت پہنچی.وہاں سے عیسائیت بھاگنا شروع ہو جاتی ہے.دوسرے مسلمان جو غیر احمدی ہیں.ان کا بھی فرض ہے کہ ادھر متوجہ ہوں مگران کے پاس وہ ہتھیار نہیں جو ہمارے پاس ہیں.اس لیے وہ عیسائیت کا مقابلہ نہیں کر سکتے.اس لیے عراق محمد کی جو حالت ہے اس کی درستی کے لیے اور وہاں کے غیر احمدی مسلمانوں کو عیسائیت کی آگ سے بچانے کے لیے نہیں وہاں آدمی بھیجنے چاہئیں مجھے اس تار سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے غالباً گورنمنٹ سے اجازت لے لی ہے.پس یہ ایک نیا میدان نکلا ہے.اگر چہ وہاں کے چند سو احمدیوں نے ہمت کر کے ڈیڑھ ہزار روپیہ جمع کر لیا ہے.مگر یہ ایک عارضی بات ہے.کیونکہ وہ لوگ ملازمت پر گئے ہوتے ہیں.اور اپنی
PAY کرتیں ختم ہونے پر واپس آجائیں گے اس لیے وہاں کا یہ خرچ بھی یہاں کے احمدیوں کو ہی برداشت کرنا پڑیگا پس وہ علاقہ مدد کا تحقیق ہے.کیونکہ وہ علوم کا مرکز رہا ہے اور دنیا نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے وہاں دنیا کے روحانی استاذ بھی جمع رہے ہیں.وہ اسلام کی خلافت کا بھی مرکز تھا.ان کا ہم پر بھی احسان ہے کیونکہ منگولی قوم کے لوگ بغداد کو فتح کرنے کے بعد مسلمان ہوتے گویا فاتح ہو کر مفتوح ہو گئے.اس لیے ہم پر ایک احسان ہوا کیونکہ وہ حضرت صاحب کے آباد تھے.اور حضرت صاحب کے ذریعہ ہم تمام پر احسان ہوا.اس لیے وہاں کے قدیم باشندوں کو عیسائیت کے تاریک گڑھے سے نکالنے کے لیے احمدیوں کو جدوجہد کرنی چاہیئے.لوگ تو پیٹتے ہیں کہ ہماری سیاست گئی.حالانکہ پیٹنے کی چیز یہ ہے کہ مذہب ہاتھوں سے جا رہا ہے.نادان حکومتوں کو رو رہے ہیں.حالانکہ رونے کا مقام یہ ہے کہ اسلام سے لوگ بے بہرہ ہو رہے ہیں.اگر تمام کی تمام حکومتیں مسلمانوں کی ہوں.مگر ان میں اسلام نہ ہو.توان حکومتوں سے کیا فائدہ ؟ ہم کہتے ہیں دنیا میں ایک بھی مسلمانوں کی حکومت نہ ہو.مگر لوگ سب کے سب اسلام کے خادم بن جائیں.اگر چہ یہ ناممکن ہے کہ سب لوگ تو اسلام کو قبول کر لیں اور پھر بھی مسلمانوں کی حکومت نہ ہو پس ہم میں اور ان غیر احمدیوں میں یہی فرق ہے کہ وہ مرض کا غلط علاج کرتے ہیں اور ہم صحیح علاج کرتے ہیں.ہم منبع کو روکنے کی فکر میں ہیں.اور وہ مرض کے اصل علاج سے غافل - اگر مسلمان اسلام پر قائم ہوتے تو وہ ان حکومتوں کو مسلمان بنانے کی فکر کرتے جب یہ لوگ مسلمان ہو جاتے تو بجائے اس کے کہ ان کی تلوار مسلمانوں کے خلاف نکلتی.ان کی تائید میں ہو جاتی.تیرہ سو برس سے موقع تھا کہ یہ لوگ یورپ میں تبلیغ اسلام کرتے اور یورپ کو مسلمان بناتے.مگر ادھر انہوں نے توجہ نہیں کی.برخلاف اس کے عیسائیوں کی ترقی سولہویں صدی میں شروع ہوتی.اس عرصہ میں انہوں نے لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کو عیسائی بنالیا اور یہ اس غلطی کا خمیازہ ہے.جو یہ بھگت رہے ہیں.حالانکہ عیسائیت وہ مذہب ہے جس میں ذرہ بھی جان نہیں.ان کے پاس وہ مذہب تھا جس کو لیکر یہ دنیا کو اس سرے سے اُس سرے تک تبلیغ کے ذریعہ مسلمان بنا سکتے تھے.مگر یہ ان کی غلطی تھی کہ انہوں نے تبلیغ اسلام سے کوتا ہی کی.اور اب اس غلطی کا علاج بجز احمدیت کے اور کوئی نہیں.پس اسلام کی ترقی تم سے وابستہ ہے.اس لیے تمہارا فرض ہے کہ ہوشیاری سے کام لو.یہ بوجھ تم پر اس لیے ڈالاگیا ہے کہ تم اس کو برداشت کرو.اور اس کو منزل مقصود پر پہنچاؤ.اگر تم مستی کر گئے تو یاد رکھو.تم بھی پیس ڈالے جاؤ گے.اسلام کی ترقی کا بوجھ تمہارے سروں پر رکھا گیا ہے اس لیے اس
YAP کو منزل پر پہنچانے کے لیے ہمت کرو.اگر ایسا نہیں کرو گے اور غفلت سے کام لو گے.تو اس بوجھ کے نیچے دب جاؤ گے.اب وقت ہے کہ اسلام کی خدمت اپنے علم سے کرو.اپنے مال سے کرو.جو لوگ جسمانی خدمت کر سکتے ہیں.وہ جسمانی خدمت کریں.جو وقت سے کر سکتے ہیں.وقت سے جو تدبیر سے کر سکتے ہیں.تدبیر سے کریں.غرض اسلام کی ترقی تم سے وابستہ ہے.اب وہ وقت ہے کہ ایک لحر بھی ضائع نہیں ہونا چاہیئے.ہمیں اپنی ذمہ داریاں سمجھنی اور اپنے فرائض بجالانے چاہئیں.خدا تعالیٰ مجھے اور آپ کو اپنے اپنے فرائض کے سمجھنے کی توفیق دے.اور اسلام ہماری زندگیوں میں دنیا میں پھیل جائے.اور ہم اس کام کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتا دیکھ لیں جس کے لیے مسیح موعود کو بھیجا گیا." الفضل ۲۹ جنوری ۱۹۲۰مه)
(71) اپنے فوائد کوجما ع کے فوائد پر قربان کرو فرموده ۳۰ جنوری نه شاه حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ: انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایسے قوانین کے ماتحت پیدا کیا ہے اور اس کی زندگی کو ایسے آئین کے ماتحت رکھا ہے کہ وہ ہر وقت کسی نہ کسی احتیاج میں مبتلا ہوتا ہے.اور اس کے مدنی الطبع ہونے کی وجہ سے یہ ایک دوسرے سے ملکر کام کرنے کا محتاج ہے اور اس میں لیاقت ہے کہ دوسروں سے ملکر اپنی آسائش و آرام کے کام کرے.اس طاقت کے ماتحت اس کو بہت سی ضروریات پیش آتی رہتی ہیں اور انسان طبعاً اپنے اور اپنے رشتہ داروں کے آرام کو دوسروں سے مقدم کرتا ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ اپنی تکلیف کو سمجھتا ہے.اور خیال کرتا ہے کہ اس کا حق دوسروں کی نسبت زیادہ ہے.انسان اپنی مشکلات کو سمجھ سکتا ہے.دوسروں کی مشکلات کو نہیں سمجھتا.اس لیے یہ اپنے حق کو دوسروں کے حقوق پر خالق سمجھتا ہے.بیمار اپنی تکلیف کو زیادہ سمجھتا ہے اس لیے وہ شکایت کرتا ہے کہ ڈاکٹر نے دوسرے کو پہلے دیکھنا مجھے بعد میں ، ایک سائل کا یہ خیال ہے کہ میں زیادہ حقدار ہوں.تجارت میں بھی یہی ہوتا ہے کہ ایک شخص سودا خرید نے جاتا ہے.وہ شکایت کرتا ہے کہ مجھے بعد میں سودا دیا گیا.اور بعض کو مجھ سے پہلے دیا گیا.اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر انسان اپنی ضرورت کو زیادہ محسوس کرتا ہے.دوسرے کی ضرورت کا اس کو احساس نہیں ہوتا.اپنی چھوٹی ضرورت کو دوسرے کی بڑی ضرورت پر ترجیح دیتا ہے.تمدن وحکومت کے فوائد کو علیحدہ کر کے اگر دیکھا جائے تو مذہب نے اس غلطی سے دنیا کو خوب آگاہ کیا ہے.تمدن و سیاست نے بھی اس بات کی تعلیم دی ہے.مگر یہ کہ اپنے اپنے حلقہ ہیں.دوسروں کے لیے نہیں.مگر مذہب نے اس تعلیم پر خاص زور دیا ہے.اخلاق کی بنیاد ہی اس مسئلہ پھر ہے کہ اپنے خیالات - جذبات، احساسات اور احتیاجات کو دوسروں پر مقدم نہ کیا جائے لوگوں کی
۳۸۵ یہ حالت ہوتی ہے کہ اگر ان کی گالی کے جواب میں کوئی شخص ان کو گالی دے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے گالی دیدی تو خیر دیدی مگر اس نے کیوں دی.مگر مذہب نے اس طرف متوجہ کیا کہ دوسروں کے احساسات کو اپنے احساسات و جذبات کی نسبت اہم وقیمتی یقین کرو.پھر اس سے بھی ترقی کرو.اور افراد کے فوائد کو جماعت کے فوائد پر قربان کر دو اور جماعت کی ضروریات کے مقابلہ میں اپنی ضروریات کو رائی کے برابر قدر و اہمیت نہ دو.اور جماعت کے فوائد کے مقابلہ میں زید و بکر اپنے فوائد کو قربان کر دیں.یہ قاعدہ ہے کہ انسان اپنی ضروریات کے مقابلہ میں دوسرے کی ضروریات کا اندازہ کرتے وقت دھوکہ کھا جاتا ہے.اس لیے چاہیئے کہ اپنے فوائد کو دوسرے میں ترجیح نہ دے.مگر جہاں جماعت کے فوائد کا سوال آجائے.وہاں اپنے فوائد کو مقدم کرنا جرم ہے.قریب ہے کہ اس سے اتحاد ٹوٹ جائے.اور کام ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے اور جماعتیں معدوم ہو جائیں.جماعت کیا ہوتی ہے ہیں کہ چند افراد اقرار کرتے ہیں کہ وہ سب اپنے اپنے فوائد کو جماعت کے فوائد پر قربان کر دینگے.اگر ایسانہ ہو تو کوئی جماعت جماعت نہیں کہلا سکتی.مسلمانوں کو اسی بات کے نہ ہونے نے کھویا.ایک وقت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا کہ مسمانوں کی مردم شماری کی جائے جب مردم شماری کی گئی.تو معلوم ہوا کہ سات سو ہیں.صحابہ نے اس وقت عرض کیا، کہ یا رسول اللہ اب ہمیں کون برباد کر سکتا ہے.اب تو ہم خدا کے فضل سے سات سو ہو گئے ہیں.اس وقت سات سو مسلمانوں نے خیال کیا کہ اب ہمارا تمدن اور اتحاد و اتیار ایسا ہوگیا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں گزند نہیں پہنچا سکتی.مگر آپ کہ یورپ کے اندازے کے مطابق مسلمانوں کی تعداد میں کروڑ ہے.اور خود ملکان اپنی تعداد چالیس کروڑ بتا رہے ہیں.مگر حال یہ ہے کہ اس وقت سات سو تھے.ان کو دنیا کی کوئی طاقت واقعی نہ مٹا سکی.لیکن اب کہ چالیس کروڑ ہیں.جواُٹھتا ہے.ان کو مٹا دیتا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ وہ سات سو ، چالیس کروڑ سے بھی زیادہ تھے.اور چالیس کروڑ ان میں سے ایک کے بھی برابر نہیں.اس کی کیا وجہ تھی.یہی کہ ان سات سو میں سے ہر ایک اپنے آپ کو سات سو کے لیے قربان کرنے کو تیار تھا اور قربان کر دیتا تھا.مگر اب ہر ایک کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ چالیس کروڑ کو اپنی اُمنگ پر قربان کر ڈالے اب ان چالیس کروڑ کی مثال ایسی ہی ہے.جو ایک مٹی کا کھلونا ہو جو چاہے ذرا سی ٹھوکر سے اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے کیونکہ ان میں کوئی بھی نہیں جو اپنے فوائد کو جماعت کے فوائد پر قربان کر دے.لے مسلم کتاب الایمان باب جواز الاستمرار للخائف
WAY اگر ہماری جماعت کے لوگ اس گر کو اچھی طرح سمجھ لیں اور یہ قطعی فیصلہ کر لیں، کہ اپنے فوائد کو جماعت کے فوائد پر قربان کر دینگے.وہ فیصلہ کر لیں کہ اگر ان کا مال جاتا ہے تو جاتے مگر جماعت کو کوئی فائدہ ہو.اگر ان کی جان جاتی ہے تو جاتے.مگر جماعت کو فائدہ ہو.اگر ان کی جائیداد جاتی ہے تو جائے مگر جماعت کو فائدہ ہو.اگر یہ بات ہو جائے اور جماعت کا ہر ایک فرد اپنے فوائد پر جماعت کے فوائد کو مقدم کرے.تو جس طرح سات سو صحابہ نے کہا کہ ہم تباہ نہیں ہوسکتے.اسی طرح ہم تو خدا کے فضل سے لاکھوں ہیں.ہمیں خدا کے فضل سے کوئی طاقت تباہ نہیں کر سکتی.اور اگر یہ بات ہو جاتے توئیں سمجھتا ہوں کہ ہمارا ترقی کا قدم بہت تیزی سے اٹھے اور ہم بہت جلد دنیا میں پھیل جاتیں مگر افسوس ہے کہ ابھی ہماری جماعت میں اس بات کی کمی ہے.میری چونکہ آج طبیعت اچھی نہیں جب صحت ہوگی میں انشاء اللہ اس پر تفصیل سے بیان کروں گا اور بتاؤں گا کہ کس طرح ذاتی خواند و اغراض و احساسات کو جماعت کے فوائد میں آسانی سے قربان کردنیا چاہیئے.الفضل ۹ فروری ته ) اند
۳۸۷ 72 دُعاؤں کے دن ) فرموده ۶ فروری ۱۹۲مه) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- میں نے پچھلے جمعہ بیان کیا تھا کہ ایک ضروری امر کے متعلق آیندہ کچھ بیان کروں گا، لیکن اس دفعہ پھر کچھ دیر ہوگئی کیونکہ ایک اہم کام کے مشورہ کے لیے دیر تک بیٹھنا پڑا.اس لیے آج بھی میں خطبہ زیادہ دیر تک نہیں بیان کر سکتا.تاہم میں اس دفعہ اپنی جماعت کے لوگوں کو خاص طور پر ایک بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس کی طرف خدا کے مامورین اور انبیا.اور ان کے خلفاء اور اولیاء توجہ دلاتے چلے آتے ہیں.اور وہ بات دُعا ہے.اس زمانہ میں جیسا کہ میں نے پچھلے خطبوں میں بتایا تھا.خطرناک تغیرات ہورہے ہیں مسیح موعود کے متعلق جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے قَالَ الإِنْسَانَ مَالَهَا (الزلزال:۴) کہ اس وقت انسان کے گا کہ ہوگیا گیا.وہی آج حال ہے.پہلے بھی دنیا پر ھیبتیں پڑتی تھیں.اور جب مصیبت آتی.لوگ سمجھتے تھے کہ مصیبت آتی ہے.قحط آتے تو لوگ کہتے تھے کہ ایک مصیبت ہے.وہا پڑتی.تو وہ اس کو بھی مصیبت سمجھتے تھے.مگر.اس زمانہ میں اس طرح ابتلاوں کے دروازے کھلے ہیں کہ انسان کہ نہیں سکتا کہ کیا مصیبت ہے جس طرح انعامات بے شمار ہیں.اسی طرح آجکل مصائب بھی بے شمار ہیں.اور یہ بتانا مشکل ہے کہ دنیا کن کن عذابوں میں گھری ہوتی ہے.جو لوگ دنیا کے اخبار پڑھتے ہیں اور حالات سے واقف ہیں وہ بھی نہیں بتا سکتے کہ کیا تغیرات ہونے والے ہیں.اگر کوئی بتانے کی کوشش کرے بھی.تو اس کی بات معقول نہیں ہوگی.بلکہ اونگی بونگی بات ہوگی.پس یہ وہی نقشہ ہے.جو سیح موعود کے زمانہ کا قرآن کریم میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت انسان کہے گا.اب کیا ہو گیا.ان ابتلاؤں میں جن میں دنیا مبتلا ہے.بہت سے ایسے ہیں جن سے ہمارا کوئی تعلق نہیں.
٣٨٨ وہ گر تا ہم چونکہ ہم اس دنیا میں رہتے ہیں.اس لیے نہیں بھی کئی باتوں میں ان کا شریک ہونا پڑتا ہے مثلاً وبائیں ہیں تقحطہ ہیں.ان ابتلاؤں میں ایک حد تک ہمیں بھی حصہ لینا پڑتا ہے.قحط ہے.اس میں احمدی جماعت بھی مبتلا ہے.یہ نہیں ہوتا کہ الٹی جماعتوں کو ایسے ابتلاؤں سے بالکل محفوظ رکھا جائے کیونکہ یہ خدا کی مصلحتوں کے خلاف ہوتا ہے.مگر ایسے ابتلاؤں میں ایک خاص فرق ہوتا ہے جو الٹی جماعت کے لوگوں اور غیروں میں ہوتا ہے کہ غیروں میں اضطراب ہوتا ہے مگر ان ابتلاؤں میں الٹی سلسلہ کے لوگوں کو ایک اطمینان اور تقویت ملتی ہے.لیکن یہ نہیں ہوتا کہ ان لوگوں کے لیے آسمان سے غلہ اُترنے لگے.مثلاً عرب میں قحط پڑا.صحابہ کو بھی اس قحط میں سخت تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں.مگر ان کے دل قوی تھے.وہ ان ابتلاؤں کو خدا کے لیے برداشت کرتے تھے.کیونکہ دیکھتے تھے کہ یہ ابتلاء خدا تعالیٰ کی طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے لیے نشان کے طور پر نازل ہوتے ہیں بس سچی جماعتیں اپنے رنگ میں ان باتوں سے بھی فائدہ اُٹھا لیتی ہیں.مگر چونکہ یہ موقع تاریخی کا ہوتا ہے اور جو دیکھ کر نہیں چلتا.وہ ٹھوکر کھاتا ہے.اس لیے ایسے خطرات کے زمانہ میں ضروری ہے کہ دُعا سے کام لیا جائے.ایسے وقت میں ایک مومن مومن بھی وہ جو قرآن پر ایمان لاتا ہے.اور قرآن بھی وہ جو الحمد سے شروع ہوتا ہے.اسکی مثال تو اس تنبیہ کی سی ہے جس کی جہاں اس کے پاس بیٹھی ہو.اس کو کیوں اضطراب ہونے لگا.مصیبت تو اس کے لیے کمر شکن ہوتی ہے جس کو یقین ہو کہ کوئی اس کی مصیبت دور نہیں کر سکتا اور اس کا مددگار نہیں ہے.مگر ایک مصیبت راحت ہو جاتی ہے.اور وہ بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے جس کے متعلق یہ جانتے ہوں کہ ہمیں سہارا دینے والا اور ہماری اس آفت میں کام آنے والا ہے.پس الحمد للہ کہنے والے کے لیے کوئی مصیبت نہیں.خواہ وہ مالی ہو یا جانی.یا حکومت کی ہو یا رعایا کی اندر کی ہو یا باہر کی.کیونکہ وہ یقین کرتا ہے کہ اس مصیبت اس ابتلاء اس دکھ کے دور کر نیوالا ایک خدا ہے جس کی ذرہ ذرہ پر حکومت ہے مصیبت بھیجنا.ابتلاء نازل کرنا.العام بخشنا.یہ سب اس کے قبضہ میں ہیں.پس الحمد للہ کہنے والے کے لیے کوئی مصیبت نہیں.کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ اس کے لیے دروازہ کھلا ہے جس میں سے وہ نکل سکتا ہے.مگر کافروں کے لیے دروازہ بند ہوتا ہے.یہ نہیں کہ ان کے لیے یہ دروازے نہیں ہیں.مگر وہ ان کو اپنے پر خود بند کر لیتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ دنیا میں سب سامان خدا نے رکھے ہیں.مگر جو ان کی تحقیق اور تلاش کرتے ہیں وہی پاتے ہیں.دوسرے ان سے محروم رہتے ہیں.مثلا کو مین جو انگریزی علاجوں میں
سب سے کامیاب علاج ثابت ہوا ہے.اور حسیں سے لاکھوں جانیں بچتی ہیں اور اب تک بچی ہیں پہنچے سے دنیا میں موجود تھی.مگر دنیا اس سے غافل اور بے خبر تھی.اسی طرح خدا کے فضل کے دروازے کھلتے ہیں.مگر لوگ اس طرف پیٹھ کر لیتے ہیں.خدا نے اس زمانہ میں مسیح موعود کے رنگ میں اپنا فضل عظیم ظاہر فرمایا ہے.اور اس شکل میں اپنے انعام کا دروازہ کھولا ہے.مگر اس دروازے کی طرف احمدیوں نے قدم بڑھایا.اور دوسروں نے اس کی بہنگ کی مگر میں دیکھتا ہوں کہ احمدیوں میں بھی ایسے ہیں جنہوں نے اس انعام کو قبول تو کیا.مگر اس کی پوری پوری قدرنہ کی اور پورا فائدہ نہ اٹھایا.اورت ہی کم ہیں جو دعاؤں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں.دُعا ایک ہتھیار ہے.جو ہر ایک مصیبت کو راستہ ہے ہٹا دیتا ہے بعض لوگ رسما کہ دیتے ہیں کہ میرے لیے دعا کرو.مگر وہ دعا کی حقیقی قوت سے فاضل ہیں.بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہمیں مانگنے کی ضرورت نہیں.لیکن یہ غلط ہے کیونکہ کوئی انسان ایسا نہیں جو اللہ کا محتاج نہیں یعنی تو صرف اللہ ہی کی ذات ہے.پس یاد رکھو کہ انسان محتاج ہے.وہ غلطی کرتا ہے جو یہ خیال کرتا ہے کہ مجھے کوئی ضرورت نہیں اس کی عقل کمزور ہے.اور اتنی کمزور ہے کہ اسے اپنی احتیاج کا بھی علم نہیں.پس کوئی انسان نہیں جس کو خدا کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں، لیکن پھر بھی میں کہتا ہوں کہ اگر اپنے لیے نہیں، تو جامات کی ترقی کے لیے اور ان بھائیوں کے لیے جو دین کی خدمتوں کے لیے وطنوں سے باہر ہیں دعائیں کرو.خدا تعالیٰ تمہارے کام بھی درست کریگا.اللہ تعالٰی ہم سب کو اس گر سے فائدہ اُٹھانے کی توفیق دے اور ہماری توجہ کو اپنی طرف پھیر ہے.وہی ہما را سہارا ہو.ہمارے دل اس سے راضی ہوں اور اس کی رضا ہمارے ساتھ ہو.آمین : الفضل ۱۲ فروری له ) د
73 ہم بڑھیں گے کیونکہ ہم میں بڑھنے کی قابلیت تے کی فرموده ۱۳, فروری ۱۹۲۰مه) تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا کہ.ہر ایک چیز اور ہر ایک کام کے لیے ایک وقت ہوتا ہے اور وہ اپنے وقت سے ادھر ادھر نہیں ہو سکتا.انسان کے کمال تک پہنچنے کے لیے بھی ایک وقت ہوتا ہے.انسان کے جسمانی کمال کو اگر دیکھیں.تو بچه رحم مادر میں 9 یا گیارہ مہینہ میں کامل ہوتا ہے.اگر کوئی چاہے کہ یہ کمال جو بچہ اتنی مدت میں حاصل کرتا ہے.بچہ کو تین چار مہینہ میں حاصل ہو جائے.تو یہ اس کی نادانی ہوگی.اس میں شک نہیں کہ بہت سے کاموں میں کوشش کو دخل ہوتا ہے.مگر کوشش کے لیے بھی خاص دائرے ہوتے ہیں.ان دائروں کے اندر ہی ترقی و تنزل ہو سکتے ہیں.ان کے باہر نہیں.پھر پیدائش کے بعد کمیل عقل کا زمانہ آتا ہے.اس کے لیے بھی ایک وقت مقرر ہے جسمانی بناوٹ کے کمال کی طرح بلوغت کے حاصل ہونے کے لیے بھی ا سے ۲۱ سال تک کا زمانہ مختلف ممالک میں ہوتا ہے.اس میں یہ تو ہوتا ہے کران مالک میں جو زمانہ عقلی بلوغت کا ہو.اس میں کسی حد تک کمی یا زیادتی ہو جاتے.مگر یہ نہیں کہ وہ نقشہ بالکل ہی بدل جائے.مثلاً جن ممالک میں ۲ سے ۱۵ سال تک بلوغت ہے.وہاں 11 یا 14 سال تو ہو سکتا ہے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ چھ سال میں یا بیس باتیں سال میں جا کہ ہو.یا تیں ملک میں ۲۱ سال ہے وہاں 9 یا نہیں یا بائیں تو ہو سکتا ہے.مگر یہ نہیں کہ دس گیارہ برس میں ہی بلوغت حاصل ہو جاتے.تو تکمیل کے لیے جو عرصہ ہے.اسی میں ایک چیز کمل ہوگی اور کوشش کے یہ معنے ہیں.کہ اس عرصہ میں جو اس کی تکمیل کے لیے مقرر ہے.اور جو دائرہ اس کے لیے بنایا گیا ہے اس میں کچھ کمی واقع ہو جائے.اور یہی قانون قدرت ہے.ایک دائرہ اُردو کے لحاظ سے اختیار و جبر با قدرت اللی کا بھی ہے کہ اس کے اندر ایک حد تک انسان مجبور بھی ہوتا ہے.مگر جن باتوں میں مجبور ہوتا ہے شریعت میں ان امور کے لیے کوئی سزا نہیں.
پس جس طرح تکمیل خلق کا زمانہ ہے.اسی طرح تکمیل عقل کا بھی ایک زمانہ ہے جو چالیس سال تک چلتا ہے.اس میں مکن ہے کہ ایک انسان چالیس سال کی عمر سے پہلے ہی تکمیل عقل حاصل کرے.کیونکہ تکمیل عقل کا زمانہ میں چھبیس تمہیں سے چلتا ہوا چالیس پر جاکر ختم ہو جاتا ہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی ۱۳ یا ۱۴ برس کا بچہ تکمیل عفضل کرے.ہر ایک تغیر کے لیے ایک نقطہ اور دائرہ ہوتا ہے اور اس نقطہ سے چلکر اس دائرہ کے اندر اندر تکمیل ہو جاتی ہے.پس جس طرح جسم کی تکمیل عقل کی تکمیل اور دین کی تکمیل کے لیے ایک زمانہ ہوتا ہے.اسی طرح قوموں کی تکمیل کے لیے بھی ایک زمانہ ہوتا ہے.نادان اعتراض کرتا ہے کہ فلاں قوم یا فلاں جماعت کا تو یہ حال ہے کہ بہت تھوڑی سی اور کمزور ہے.وہ دنیا میں کیا ترقی کرے گی.اور کس طرح دنیا پر غالب آجائیگی ، لیکن اس کی مثال وہی ہے کہ ایک زبر دست پہلوان کی حالت نطفہ کی طرف اشارہ کرکے کوئی کہے.بھلا یہ ایک قطرہ کیا کر سکے گا.یا یہ کہے کہ کیا اس قطرہ سے ایسا انسان پیدا ہوسکتا ہے جو خدا سے باتیں کر سکے پس جس طرح نطفہ کو دیکھ کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس سے پہلوان نہیں پیدا ہوگا.یا اس سے خدا کا مقرب انسان نہیں پیدا ہوگا.اسی طرح قوموں کی ابتدائی اور کمزوری کی حالت پر بھی یہ فتویٰ نہیں لگایا جاسکتا کہ وہ دنیا میں کیا تغیر پیدا کر دیگی بلکہ قوموں کی ابتداء میں یہ دیکھنا چاہیئے کہ فلاں قوم میں نشود نما کی قابلیت ہے یا نہیں ؟ مثلاً یہ کہ نطفہ جو بڑھتے بڑھتے ایک ہو تا چلتا انسان بن جاتا ہے.اور لاکھوں انسانوں پر حکومت کرنے لگتا ہے.وہ نطفہ سے پیدا ہوتا ہے.مگر چونکہ نطفے ضائع بھی ہو جاتے ہیں اور ہر نطفہ سے بچہ پیدا نہیں ہوتا.اس لیے اگر کوئی کہدے کہ نطفہ سے بچہ پیدا نہیں ہوتا.اس لیے اگر کوئی کہدے کہ نطفہ فضول چیز ہے.تو یہ اس کا استدلال باطل ہو گا.کیونکہ بے شک نطفے ضائع ہوتے ہیں.مگر سب نطفے تو ضائع نہیں ہوتے.اسی طرح جو اقوام دنیا میں اٹھتی ہیں ان میں سے بہت سی مٹتی ہیں.مگر بہت سی بڑھتی بھی تو ہیں.پس دیکھنا یہ چاہیئے کہ آیا اس قوم میں بڑھنے اور ترقی کرنے کی قابلیت ہے یا نہیں ؟ پس جس طرح نطفہ پر اعتراض نہیں ہو سکتا ہی طرح قوم کی ابتدائی حالت پر بھی اعتراض نہیں ہو سکتا.بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ احمدی جن کی یہ کمزور حالت اور قلیل تعداد ہے یہ دنیا کو تو فتح کیا کرینگے.انہیں اپنا وجودہی قائم رکھنا مشکل ہے.مگر ہم اس اعتراض کے جواب میں یہی کہیں گے کہ یہ اعتراض درست نہیں کیونکہ ابتداء میں تمام بڑھنے والی اقوام کمزور ہوا کرتی ہیں.اسی طرح ہم بھی ہیں.ہاں ہم سے یہ ثبوت طلب کرو کہ آیا ہم میں ترقی کرنے اور نشو و نما پانے کی قابلیت بھی ہے کہ نہیں.کیونکہ ہر ایک قوم جو دنیا کی
اقوام پر غالب آتی ہے.وہ ابتداء میں کمزور ہی ہوتی ہے اور جنہوں نے ان پڑھنے والی اقوام کی ابتدائی حالت کی بنا پر فیصلہ کر لیا ہے کہ یہ نہیں بڑھیں گی.انہوں نے غلطی کی.کیونکہ کسی چیز کو ابتداء میں حقیر نہیں سمجھنا چاہئے.بلکہ یہ دیکھنا چاہیئے کہ اس میں ترقی و نشو ونما کی قابلیت موجود ہے یا نہیں.کوئی مذہب جو ابتدا میں کمزور ہو.اس کے متعلق یہ فیصلہ کرنا غلط ہے کہ یہ ترقی نہیں کریگا.کیونکہ اس وقت کمزور ہے بلکہ یہ دیکھنا چاہیئے کہ اس میں ترقی کی قابلیت رکھی گئی ہے یا نہیں.ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ میچ ہے کہ قابلیت ہے.مگر قابلیت ضائع بھی تو ہو جاتی ہے.جیسے کہ ہر نطفہ بچہ نہیں بن سکتا.پھر بعض نطفوں میں بچہ بننے کی قابلیت تو ہوتی ہے.مگر رحم مادر میں نہیں ٹھرتے یا ٹھرتے ہیں.مگر گر جاتے ہیں یا تکمیل خلق سے پہلے پیدا ہو کر مر جاتے ہیں یا پیدا ہوتے ہیں مگر مجنون و کمزور.اس کا جواب یہ ہے کہ اگر الیا ہو.تو اعتراض ہو گا.مگر قبل از وقت اعتراض نہیں ہو سکتا.اسی طرح اقوام کے متعلق بھی ہوتا ہے کہ ان پر اعتراض محض ان کی کمزوری کی وجہ سے نہیں ہو سکتا.بلکہ دیکھنا یہ چاہیئے کہ یہ قوم کسی طریق پر اکٹھی ہے.اور کن سامانوں سے اٹھی ہے.آیا وہ سامان بڑھنے والی قوموں کے مانند یں یا نہیں تمام بڑھنے والی قوموں کی یہی مثال ہوتی ہے.جو بچے کی ہوتی ہے.بچے کی تکمیل کے لیے چالیس سال ہیں.اسی طرح قوم کی تکمیل کے لیے ایک وقت مقرر ہوتا ہے.اگر اس عرصہ میں قوم کی ترقی نہ ہو تو مجھو کہ پیشگوئی جھوٹی ہوئی پس ہم میں بڑھنے کی قابلیت ودیعت کی گئی ہے.اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اس لیے دشمن کا اعتراض باطل ہے کہ ہم اب تک بڑھ کیوں نہیں گئے.اور سب دنیا پر غالب کیوں نہیں آگئے.اگر ہماری حالت کو دیکھا جائے.تو ہمیں وہ تمام قابلیتیں ہیں جن کا ہونا بڑھنے والی قوموں کے لیے ضروری ہے.اگر اس قانون کے ماتحت دیکھا جائے.تو آج تک جن قوموں نے دنیا میں ترقی کی.آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی قوم کو چھوڑ کر بات کسی نبی کی قوم کو اتنے عرصہ میں وہ ترقی نہیں ملی.جو ہمیں کوئی ہے.آنحضرت کے پاس اشاعت کا ذریعہ اور تھا.پس حضرت نبی کریم کی ترقی کو چھوڑ کر کسی نبی کی قوم نے اس سرعت سے ترقی نہیں کی جس سے ہم کر رہے ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جو قوم بنی تاریخ سے ظاہر ہے کہ ان میں مومنین بہت تھوڑے تھے.تمام قوم محض حکم فرعون سے بچنے کے لیے آپ کے ساتھ ہو گئی تھی.قرآن کریم د تورات سے بھی ظاہر ہے.پس حضرت موسیٰ سے ملنے والوں میں نبوت موسیٰ کے ماننے والے بہت تھوڑے تھے.اس لیے حضرت موسی کی کامیابی نبی کریم کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں.اور پھر حضرت مسیح موعود کے رنگ میں حضرت نبی کریم کی غلامی کے طفیل جو ترتی ہوئی.وہ
بھی حضرت موسیٰ کی ترقی سے بہت زیادہ ہے.قرآن کریم میں حضرت موسیٰ کے ساتھیوں کی تعداد کے متعلق آتا ہے " وهُمُ الون" (البقرہ : ۱۳۴) وہ ہزاروں تھے، لیکن ہم تو خُدا کے فضل سے لاکھوں ہیں.لیکن جماعت کا بھی فرض ہے کہ خدا کے اس فضل کی قدر کرے.اور اپنے فرض کو محسوس کر کے اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کرے جب تک تبدیلی پیدا نہ ہوگی محض دعوئی سے کچھ نہیں ہو سکتا.اس وقت ہم اس بیج کی طرح ہیں.جو دنیا میں خدا کی طرف سے آیا ہے.اس لیے ہمیں کام کرنا چاہیئے.پس ہم سب کے لیے ضروری ہے کہ چھوٹے بڑے تبدیلی کریں اور اپنے تئیں ان فضلوں اور انعاموں کے مستحق بنائیں جن کے دروازے کھل رہے ہیں.حضرت مسیح موعود کا نام چند سالوں میں دُنیا میں پھیل گیا.اور دنیا کا کوئی گوشہ نہیں.جہاں آپ کا نام نہ پہنچا ہو.اس بستی (قادیان کو دیکھو.اور اس کی شہرت کو دیکھو.جو حضرت مسیح موعود کے ذریعہ اس کو حاصل ہوئی.ایک طرف امیر قومیں ہیں ،لیکن ان تمام امیر قوموں پر خدا تعالیٰ نے غرباء کا رعب ڈالدیا ہے.کجا قادیان کے رہنے والے اور سیالکوٹ اور ہوشیار پور وغیرہ کے زمیندار اور کجا ان کا لندن میں مسجد بنانا.یہ معمولی بات نہیں.اور نہ اس کو معمولی بات کہیں گے ،اگر چہ ایک جگہ مسجد بنانا کوئی بڑی بات نہیں، لیکن بڑی اور غیر معمولی بات یہ ہے کہ ان غربامہ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ لندن میں مسجد بنائی جائے.کولمبس نے امریکہ کو دریافت کیا تو لوگوں نے کہا کہ میمولی بات ہے ہم بھی کر سکتے ہیں سمندر میں بیٹھ کر چلے گئے.ایک مقام مل گیا.اس میں کمال ہی کیا ہے.کولمبس کو جب یہ بات معلوم ہوئی.تو اس نے ان معترضین کی دعوت کی.اور ایک انڈا منگوا کر میز پران کے سامنے رکھ دیا.اور کہا کہ اس کو سیدھا کھڑا کر دو.وہ اس کو نہ کھڑا کر سکتے.تو اس نے کہا.لاؤ میں اس کو کھڑا کرتا ہوں.اس نے سوئی سے انڈے میں سوراخ کر کے اس سے جو مادہ نکلا اس کے ساتھ کھڑا کر دیا.اور کہا کہ جس طرح اب تم کو انڈا کھڑا کر نے کا موقع ملا.مگر تم کھڑا نہ کر سکے.اسی طرح اگر تم کو امریکہ کی تلاش کرنے کا موقع ملتا ھی.تو م نہ کرسکتے اور میں امریکہ میں گیا اور تم نہ گئے.پین در حقیقت لندن میں مسجد بنانے کی ابتدا کرنے کی جس نے جرات کی.وہ ہماری جماعت ہی ہے اب اگر اور لوگ اس طرف لگ جائیں تو کوئی بات نہیں.کیونکہ ابتدائہ سرا ہمارے ہی سر ہے.کیونکہ فضیلت اسی کو ہوتی ہے جس کے دل میں ایک خیال پہلے آئے.اور وہ اس پر عمل شروع کر دے.سینکڑوں سال سے لوگوں کے پاس اسلام تھا.مگر وہ تو اس کو چھپاتے تھے.اور اس کو ظاہر کرتے ہوئے ڈرتے تھے کہ اگر ہم نے ظاہر کیا تو لوگ کیا کہیں گے لیکن مرزا صاحب ہی پہلے شخص تھے جنہوں نے کہا کہ اسلام وہ اتوار
۳۹۴ ہے جس کے ذریعہ ہم باطل کو کاٹ کر رکھ دینگے.چنانچہ انہوں نے ایسا کر کے دکھا دیا پی اب اسلام کو دنیا کے سامنے نکالنا کچھ مشکل نہیں.مشکل اس وقت تھا جس وقت لوگ ڈرتے تھے ہیں جس نے ابتداء کی فتح ہی کی طرف منسوب ہوگی.اسلام کو چھپانے والوں کی طرف منسوب نہیں ہو سکتی کہ اس نے دنیا میں اسلام کو پیش کیا اور منوا لیا.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے اشاعت اسلام کے سامان پیدا ہورہے ہیں.امریکہ میں انشاء اللہ اس وقت ہمارا مبل پہنچ چکا ہو گا.اسی طرح افریقہ سیون میں ترقی ہو رہی ہے.جرمنی میں بھی اشاعت ہو رہی ہے.ایک جرمن قونصل تھا.جو ایام جنگ میں نظر بند ہو گیا تھا.وہ پہلے سے مسلمان ہو چکا ہے.وہ اپنے ملک میں کوشش کر رہا ہے.روس کے لوگوں میں بھی اسلام ترقی پر ہے.وہاں بھی بیج پڑ گیا ہے.وہ لوگ ہم سے مبلغ مانگتے ہیں اور آج ولایت سے ایک اور بشارت آتی ہے کہ ایک اور ہندو بیرسٹر مسلمان ہوا ہے.وہ ہم پیشگوئی تھی کہ سورج مغرب سے طلوع کرے گا یہ اس کے کمال کے ساتھ پورے ہونے کے دن آرہے ہیں.ہندو بھائی ہماری یہاں تو سنتے نہیں، لیکن وہاں پہنچ کر وہ اسلام کی طرف توجہ کرتے ہیں.پہلے جو لوگ ہندوؤں میں سے مسلمان ہوئے وہ عام طور پر بچپن میں ہوتے.مثلاً شیخ عبدالرحمن صاحب مصری (لاہوری چھوٹی عمر میں مسلمان ہوئے.ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی اسے جالندھری یہ بھی بچے تھے.لیکن اب حالت بدل چکی ہے.پہلے مسٹر اگر چند بیرسٹر مسلمان ہوتے.اب خدا کے فضل سے ایک اور سند بیرسٹر مسلمان ہوتے ہیں.اور ہندوؤں میں کلتی اوتار کی پیشگوئی تھی اور یہ نام حضرت اقدس کو دیا گیا تھا.وہ اب پوری ہو رہی ہے پس ہمارے ہندو بھائی کہاں تو ہم سے باتیں سنتے نہیں.مغرب میں ہی ہماری باتیں سُن رہے ہیں.اور انشاء اللہ امید ہے کہ اور بھی لوگ عنقریب مسلمان ہونگے.ہمارے لیے ایک روحانی تبدیلی کی ضرورت ہے.میں دیکھتا ہوں کہ ذرا ذرا سی بات پر ناراض ہو جاتے ہیں.آپس میں کینہ رکھتے ہیں.اور پھر مدتوں آپس میں نہیں بولتے.اور جب ایک مجلس میں بیٹھتے بھی ہیں.تو ایک دوسرے کی طرف پیٹھ کر لیتے ہیں.اور ان کے دلوں سے محبت نکل جاتی ہے لیکن تمہیں چاہتے.اپنے دلوں سے کینوں اور حسدوں کو نکال دو.اگر تم چاہتے ہو کہ خدا تمہارے قلوب میں آجائے تو وسعت اختیار کرو کیونکہ خدا غیر محدود ہے.وہ محدود اور تنگ دلوں میں نہیں سما سکتا.اور بلند ہمتی اور اور علو حوصلہ دین کے لیے پیدا کرو.آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو.اور محبت کرو.بہت لوگ ہیں جو مسلم بروایت مشکواة کتاب الفتن باب العلامات بين يدى الساعة
۳۹۵ دشمنوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں مگر اپنے بھائیوں سے اچھا سلوک نہیں کرتے، لیکن جو شخص محض غیروں سے اچھا سلوک کرتا ہے.وہ کامل اور مکمل نہیں.اور کامل اور مکمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے بھائیوں سے بھی اچھا سلوک ہو.پس اپنی اصلاح کرو.اور خدا کے فضلوں کو دیکھیں کہ کس طرح تمہارے لیے انکے دروازے کھولے گئے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.لَئِن شَعَرُ تُم لَا زِيدَ تَكُم را براهیم : که اگرتم شکر ) کرو گے.تو میں تمہیں اور بڑھاؤں گا.یہ تمہارے لیے شکر کرنے کا موقع ہے.جب حضور دوسرے خطبہ کے لیے کھڑے ہوتے تو فرمایا کہ میرا انشاء النہ ارادہ ہے کہ عصر کی نماز کے بعد بیاں سے لاہور جانے کے لیے روانہ ہو جاؤں میرے بعد انتظامی معاملات میں مولوی شیر علی صاحب امیر ہونگے.آپ لوگ ان کی اطاعت کریں جن باتوں میں خلیفہ سے پوچھنے کی ضرورت ہوتی ہے.ان کی اجازت کے بغیرنہ کریں اور امیر صلوۃ قاضی سید امیرحسین صاحب ہونگے.جو میری جگہ چھوٹی مسجدمیں نماز پڑھایا کرینگے.یہ رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کی سنت تھی کہ آپ جب باہر تشریف لے جاتے تو اپنی جگہ بعض دفعہ دو شخصیوں کو علیحدہ علیحدہ مقرر فرماتے اور بعض دفعہ ایک ہی شخص کے سپرد دونوں کام کر دیتے ہیں امیر منتظم مولوی خیر علی صاحب ہونگے.اور امیر صلوۃ قاضی صاحب.اب میں لاہور جاؤں گا.اور پھر جب خدا تعالے چاہے گا دوستوں سے ملاقات ہو گی.پس میری یہ نصیحت ہے کہ آپس میں محبت سے رہو.سامنے بھی اور پیچھے بھی.اور اپنے تئیں خدا تعالیٰ کے فضلوں کے مستحق بناؤ.دیکھو کہ باوجود اس کے کہ ہمارے عمل نہیں مگر پھر بھی وہ ہمارے اوپر اپنے فضلوں کی بارش کر رہا ہے.ہم محتاج تھے.اس کو ہماری ضرورت نہیں.وہ ہمارا حاجت مند نہیں ہم اس کے حاجتمند ہیں اور اس کی ہر وقت مدد کے محتاج ہیں.اور اس کی مدد کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں.مگر وہ ہم سے کیسے سلوک کرتا ہے اور کس کس طرح ہم پر اپنے احسانوں کی بارش کرتا ہے.اللہ تعالیٰ ہم میں اپنا تقویٰ پیدا کرے اور ہمارے عیبوں کو ڈھاپنے.آمین : الفضل ۴ مارچ ۹۲
۳۹۶ 74 اشاعت دین ہر ایک مومن کا فرض ہے و لاہور ) ا فرموده ۲۰ فروری نالته بمقام احمدیه موشل لاہور ) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.نماز جمعہ کی غرض روحانی فوائد اور روحانی منافع کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے ایک یہ بھی مقرر فرمائی ہے.کہ اس کے بندے ایک خاص حلقہ کے اندر جمع ہو کر دین کی ضروریات اور تقویٰ و طہارت حاصل کرنے کی ہدایات سنیں.دوسری نمازیں صرف عبادت کا رنگ رکھتی ہی لیکن جمعہ کی نماز عادت کے علاوہ ذکر کا رنگ بھی ھی کھتی ہے پھر باقی نازوں میں گر ذکر الہی کا دخل ہے تو فا کے رنگ میں ہے لیکن جمعہ کی نماز میں ذکرالی بالامر ہے.اور اس میں خدا تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید وعظ کے رنگ رکھی گئی ہے.پس دوسری نمازیں اگر انسان کے اپنے نفس سے تعلق رکھتی ہیں تو جمعہ کی نماز اس رشتہ اور تعلق کو مضبوط کرتی ہے.جو بنی نوع انسان کا آپس میں خدا تعالیٰ نے منفرد کیا ہے اور نماز جمعہ کو دوسری نمازوں پر یہ فضیلت ہے کہ نماز جمعہ مومنوں کے لیے تقویٰ و طہارت کے زیادہ کرنے کے علاوہ آپس کی محبت اور پیار کے ازدیاد کا موجب ہوتی ہے.مگر بہت لوگ جو نمانہ پڑھتے ہیں.وہ بھی اور جو پڑھاتے ہیں وہ بھی اس حکمت سے غافل ہوتے ہیں.دیکھئیے جمعہ کی نماز میں خدا تعالیٰ نے اپنی خاص عباد سے دور کعتیں قائم کر دی ہیں یعنی خدا تعالیٰ کی عبادت کا حق جو دوسرے دنوں میں چار رکعت ادا کرنا فرض ہے.اس کو خدا تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلانے کے لیے کم کر دیا ہے کہ بہت سی نیکیاں اذکار کے ذریعہ حاصل ہوسکتی ہیں.شریعت کے بہت سے احکام ایسے ہوتے ہیں جن سے عام طور پر لوگ غافل ہوتے ہیں.اور غفلت کی وجہ سے ان کے پورا کرنے میں کو تا ہی کرتے ہیں.ان کو سمجھانے اور یہ بتانے کے لیے کہ انسان ان کو پھیلانے کی کوشش کرتا رہے.خدا تعالیٰ نے جمعہ کے دن اپنی عبادت کو نصف کر دیا ہے.اس دو رکعت کے کم کرنے سے کتنا وقت بچتا ہے اور کتنا وقت خطبہ پڑھنے کے لیے مل جاتا ہے وہ بہت قلیل ہے ، لیکن یہاں اس کا سوال نہیں.بلکہ اس
.سے اصل میں یہ سبق دینا مقصود ہے کہ اسے انسان تیری تعلیم اور تربیت اس قدر ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ نے جمعہ کے دن اپنی عبادت میں سے نصف مجھے معاف کر دی ہے کہ جا اور جا کر اس وقت میں بھی حاصل کر.وقت کے لحاظ سے عبادت کو نصف کر دینا کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن اس سے یہ تی دیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک انسانی تعلیم و تربیت کی اس قدر اہمیت ہے کہ اس نے اپنی عبادت میں سے نصف کو اس کے لیے معاف کر دیا ہے.تو جمعہ کے دن یہ بہت بڑا سبق دیا گیا ہے تر تعلیم دین اور اپنے نفس کی اصلاح کے لیے صرف اپنے اندر کی کوشش کافی نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے باہر سے بھی بہت کچھ سننے کی ضرورت ہوتی ہے.کیونکہ بہت دفعہ انسان ایک بات سنتا ہے.مگر اس کا اس پر کچھ اثر نہیں ہوتا لیکن کسی دن وہی بات جو دل پر پڑتی اور کچھ اثر نہ کرتی تھی.اور وہی آواز جو کان میں گونجتی تھی.مگر اندر داخل نہ ہوتی تھی.وہی آواز دل کے اندر داخل ہو کر اسے نرم کر کے پکھلا دیتی ہے.اور اندرونی آلائیشوں مثلاً بغض، حسد - عناد اور کینہ کو دور کردیتی ہے.اور دل کو ایسا جلا کر دیتی ہے.جیسے پیل کا برتن پالش کیا ہوا.بلکہ اس کی صفائی کو آئینہ کی صفائی سے مشابہت دی جاسکتی ہے کہ وہ صرف آپ ہی صاف نہیں ہوتا.بلکہ دوسروں کی غلطی اور خوبی کو بتا دیتا ہے.تو دوسروں سے دین کی باتیں سنتے رہنا اور دوسروں کے علم سے فائدہ اُٹھانا نہایت ضروری چیز ہے.دوسری نمازوں میں انسان کا اپنا نفس مخاطب ہوتا ہے مگر جمعہ کے دن ایک دوسرا آدمی اُسے وعظ سناتا ہے.اور انسان کے اخلاق میں سے ایک خلق یہ بھی ہے کہ وہ اپنے اندر دوسروں سے وعظ سننے کی قابلیت اور اہلیت رکھتا ہو.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے نفس کا وعظ تو سن سکتے ہیں، لیکن دوسروں کا نہیں سن سکتے.دوسرا اگر ذرا سی بات کہے تو اس سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کا کیا حق ہے کہ نہیں نصیحت کرے.لیکن اسلام اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ بر ایک سچی اور اچھی بات تمہارے اندر سے تمہیں معلوم ہو سکے، بلکہ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ایک دفعہ جو بھی بات تم نے سنی ہو پھر اُسے نہ سنفور ممکن ہے ایک دفعہ کسی سے تم نے نئی بات سنتی ہو، لیکن اُسے بھلا دیا ہو.یا یاد تو ہو، لیکن تم نے اپنی سستی اور غفلت کی وجہ سے اس سے فائدہ نہ اٹھایا ہواپس ہر ایک انسان کے لیے اپنے اندر قابلیت پیدا کرنا ضروری ہے کہ وہ نیک بات دوسروں کے منہ سے نئے تاکہ خدا تعالے تھے لیے اپنے نفس کی قربانی کر سکے ہیں ایک ایسا شخص جو اور دنوں میں کسی دوسرے کے منہ سے وعظ و نصیحت نہیں سنتا یا نہیں سننا چاہتا ہے.وہ مجبور ہے کہ جمعہ کے دن دوسرے کے منہ سے نصیحت کی
باتیں گئے اور سیکھے توجمعہ کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ عادت ڈلوائی ہے.اور اپنے ماموروں کے زمانہ کے لیے تیار کیا ہے.اگر یہ سبق نہ دیا جاتا.تو دوسرے لوگوں کی طرح مسلمان بھی خدا تعالیٰ کے کسی خاص مامور کی باتیں نہ سنتے ، مگر با وجود اس کے کہ عام طور پر مسلمان دین سے دُور ہو چکے ہیں.پھر بھی اوروں کی نسبت بہت زیادہ سنتے ہیں.مگر یہاں دوسروں کی نسبت سننے کا سوال نہیں.سوال تو یہ ہے کہ جب مسلمانوں کو جمعہ کے دن یہ سبق دیا گیا تھا.توانہوں نے کیوں اسے بھلا دیا.اور وہ کیوں دوسرے سے نصیحت کی باتیں سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے.سورۃ جمعہ میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو بتا دیا تھا کہ اس میں یہی حکمت ہے کہ تمہیں اس بات کے لیے تیار کیا جائے کہ آیندہ بھی ایک آواز آنے والی ہے.اس کو سنو.اور تم میں یہ عادت ڈالی جاتی ہے کہ دوسرے کے منہ سے آواز سُن سکو.اور اس کا انکار نہ کرو.جب تم جمعہ کے دن ایک امام مقرر کر کے اس کی باتیں سنتے ہو.خواہ وہ تمہارے نفس کے خلاف ہی کے.تو پھر جو شخص ہماری طرف سے اگر تمہیں کچھ مناتے.اس کی باتوں کا انکار کیونکر کر سکتے ہو، لیکن حیرت ہے کہ تم جمعہ کے دن خود ایک ایسے شخص کو جو تم سے بعض دفعہ تقویٰ میں طہارت میں علم میں کم ہوتا ہے سنتے ہو.اور اس کی باتوں کو خوشی سے برداشت کرتے ہو.مگر جومیری طرف سے آتا ہے اس کی باتیں نہیں سنتے.گویا تم نے خدا کو بندوں سے بھی ذلیل سمجھ لیا ہے.کہ بندوں کے مقرر کردہ امام کی باتیں تو سنتے ہو.مگر خدا کے مقرر کردہ انسان کی باتیں نہیں سنتے.تو جمعہ کے اندر یہ سبق دیا گیا ہے کہ اپنے نفس کی اصلاح کے لیے دوسرے کی باتیں سننے کی عادت ڈالنی چاہیئے کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو بہت دفعہ انسان کو اپنے متعلق دھوکہ لگ جاتا ہے.کیونکہ بعض اوقات انسان کو خود اپنے نفس کی کمزوری نظر نہیں آتی ، لیکن دوسرے کو نظر آجاتی ہے اور وہ اس کی اصلاح کی طرف توجہ دلا دیتا ہے.اس بات کو اگر مسلمان مضبوطی کے ساتھ پکڑتے اور اس پر کاربند ہوتے.توان میں بھی تفرقہ نہ پڑتا.مگر بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اگر انہیں کوئی دوسرا نصیحت کرے.تو اس سے لڑنے لگ جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح ہم اپنی عزت اور شان ظاہر کر رہے ہیں.حالانکہ اگر کوئی نجاست کھا رہا ہو اور دوسرا اسے منع کرے.تو وہ کہے تجھے کیا میں ضرور کھاؤں گا.تو کیا اس سے پہنجھا جائیگا کر وہ بڑا بہادر اور بڑی عزت والا انسان ہے.یا یہ کہ وہ حد درجہ کا جاہل اور نادان ہے.اسی طرح دو شخص جو نیکی کے متعلق نصیحت کرتا ہے.اس سے لڑنا اور اُسے سخت و سست کہنا کوئی عزت کی بات نہیں.بلکہ جہالت اور نادانی کا فعل ہے.کیونکہ جب تک اُسے برائی کا علم نہ تھا.اس وقت تک اسکا اس میں مبتلا رہنا اور
۳۹۹ بات تھی، لیکن علم ہونے اور منع کرنے کے بعد بھی اس پر قائم رہنا اور منع کرنے والے سے لڑنا اس کی سخت نادانی اور جہالت کو ثابت کرتا ہے.پس خدا تعالیٰ نے جس طرح آپس میں اتحاد قائم رکھنے اور محبت بڑھانے کے لیے جمعہ میں بڑا سبق رکھا ہے اسی طرح تبلیغ کی طرف بھی خاص طور پر متوجہ کیا ہے.اور اپنے دین کی تبلیغ اور تذکیر کے لیے اپنی عبادت کو چھوڑ دیا ہے.نادان ہم پر اعتراض کیا کرتے ہیں کہ بسوں پر کیوں نمازیں جمع کرلیتے ہیں مگر ہم کہتے ہیں جمع کرنا کیسا.خدا تعالے نے تو اجتماع کے دن دور رکعتیں ہی اُڑا دی ہیں.پھر جلسوں کے ذریعہ ذکر الہی اور دین الٹی کا پھیلا نا کیا ایسی نکمی چیز ہے کہ بارش ہو تو نماز جمع کر لی جائے.کہیں جانا ہو.تو جمع کرلی جائے لیکن اس کے لیے نہ کی جائے.اگر اللہ تعالیٰ کے نام کی اشاعت ایسی ہی معمولی چیز ہے کہ اس کے لیے نمازیں جمع نہیں کرنی چاہئیں.تو پھر یہ کیا ہے کہ ہفتہ میں ایک دفعہ خدا تعالیٰ نے اپنی آدھی عبادت ہی اُڑا دی ہے.اس سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کو پھیلانا اور اس کے دین کی اشاعت کرنا بہت بڑے اہم امور میں سے ہے پس جمعہ میں جہاں ان لوگوں کے لیے سبق ہے.جو خدا تعالیٰ کے دین کی تحقیر کرتے ہیں کہ وہ اس کی اہمیت سمجھیں.وہاں ہمارے لیے بھی یہ سبق رکھا گیا ہے کہ ذکر الہی کوئی معمولی چیز نہیں.بلکہ خدا تعالیٰ نے اس کے لیے اپنا حق بھی چھوڑ دیا ہے.اور اس طرح بتایا ہے کہ جب میں نے تذکیر اور وعظ کے لیے اپنی عبادت آدھی کر دی ہے.تو پھر تم اس کیلئے کیوں قربانی نہیں کرتے ، مگر بہت لوگ ایسے ہیں کہ جب ان سے پوچھا جاتے کہ تم کیا اشاعت دین کرتے ہو تو کہتے ہیں ہمیں اپنے کاموں سے ہی فرصت نہیں ہوتی.تبلیغ کیا کریں.میں کہتا ہوں.کاموں سے فرصت تو ان لوگوں کو بھی نہیں.جنہوں نے مسیح موعود کو رد کیا ہے.پھر تم کو ان پر کیا فضیلت ہوئی.اور تم میں اور ان میں کیا فرق رہا.رہا تبلیغ کے لیے چندہ دینار میں مانتا ہوں کہ جس طرح ہماری جماعت ایک باقاعدگی کے ساتھ چندہ دیتی ہے اور کوئی جماعت نہیں دیتی مگر پھر بھی اور قوموں میں ایسے لوگ ہیں تو سہی ، جو چندہ دیتے ہیں، خواہ ان میں سے سو پچاس میں سے ایک ہی دے، لیکن چونکہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے.اس لیے چندہ دینے والے تعداد کے لحاظ سے ان میں زیادہ ہیں.پس چندہ دینے کے لحاظ سے وہ ہمارے ساتھ تو مساوی ہیں.کیونکہ ان میں بھی ایسے لوگ ہیں جو دیتے ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ وہ اپنے اوقات کی خدا تعالیٰ کے لیے قربانی کرنے کو تیار نہیں ہوتے.بلکہ سمجھتے ہیں کہ اگر خدا کے دین کے لیے روپیہ
.دے دیا.تو پھر ضروری نہیں ہے کہ وقت بھی دیں.اتنا ہی کافی ہے کہ کبھی کسی مولوی کو بلا کر دوعظ کرا دیا.یہی وجہ ہے کہ کئی مولوی جن پر قرض ہو جاتا ہے.وہ بمبئی وغیرہ مقامات پر چلے جاتے ہیں.اور وعظ کر کے روپ پی جمع کر لاتے ہیں.اس سے ظاہر ہے کہ دینے والے تو ان میں بھی ہیں.ہاں اگر کوئی فرق ہے تو یہی کہ وہ چندہ دے کر اس کے ساتھ یہ شرط لگاتے ہیں کہ ہم روپیہ تو دے دینگے لیکن اپنا وقت نہیں دینگے.مگر پیچھے مذہب کے پیرو اس قسم کی شرطیں نہیں لگایا کرتے.مومن کی علامت خدا تعالیٰ نے یہ بتائی ہے.لَن تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (آل عمران : ۹۳) کہ جو چیز سب سے قیمتی سمجھے.اسے خدا کی راہ میں قربان کرے.اگر کوئی روپیہ تو دے سکتا ہے، لیکن وقت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا.تو اس سے وقت کا ہی مطالبہ کیا جاتا ہے.یا اگر امیر آدمی ہے.اس کو غربا ہ سے مل کر بیٹھنا دو بھر معلوم ہوتا ہے تو اس سے خدا تعالیٰ ایسی قربانی چاہتا ہے.غرضکہ جو چیز کسی کو قیمتی معلوم ہو.وہی خدا تعالیٰ اپنے رستہ میں قربان کرنے کے لیے کہتا ہے اور مومن وہی ہوتا ہے جو ایسا کرتا ہے پس اشاعت دین کے لیے خدا تعالیٰ نے جمعہ میں بہت بڑا سبق رکھا ہے.اور بتایا ہے کہ جب خدا نے اپنی عبادت کا آدھا وقت کم کر دیا ہے.تو تم کیوں اپنا وقت اس کام میں خرچ نہیں کرتے.مگر افسوس ہے کہ بہت لوگ اس طرف توجہ نہیں کرتے.آج یہاں باہر سے بھی جماعتیں آتی ہوتی ہیں.وہ بھی میری مخاطب ہیں، لیکن خصوصاً لاہور کی جماعت سے خطاب ہے.وہ بتاتے کہ اس کے کتنے آدمی ہیں.جو تبلیغ دین کے لیے اپنا وقت صرف کرتے ہیں.اور ہر سال کتنے آدمی ان کے ذریعہ سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں.بہت لوگ اس خیال سے کہ ہمیں وسیع الاخلاق سمجھا جائے.ان لوگوں کو جن سے وہ ملتے ہیں.تبلیغ نہیں کرتے.تاکہ ان کے متعلق ان سے ملنے والے کہیں کہ انہیں ہم سے ملتے دو بال ہو گئے ہیں، لیکن کبھی انہوں نے اپنے سلسلہ کا نام تک نہیں لیا.اور کبھی تبلیغ نہیں کی.گویا وہ خدا اور یا وہ اس کے رسول کو اس لیے قربان کرتے ہیں کہ انہیں وسیع الخیال کیا جائے.پھر کئی لوگ ایسے ہیں جو اپنے اوقات کے متعلق خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم نے اشاعت دین میں لگایا.تو ہماری تجارت یا پیشہ کے کاروبار میں نقصان ہوگا.گویا وہ دین کی اشاعت کی طرف اس لیے توجہ نہیں کرتے کہ اس وجہ سے انہیں مالی نقصان برداشت کرنا پڑے گا، لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ صداقت پر قائم رہنے اور خدا تعالیٰ کے انعامات حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے.پھر کسی قدر افسوس کی بات ہے کہ اکثر لوگ اس طرف توجہ نہیں کرتے اور وہ غیر احمدیوں کی طرح سمجھتے.دو
ہیں کہ تبلیغ کرنا مولویوں کا کام ہے.ہمارا نہیں ہے جب انھیں کہا جائے کہ تم تبلیغ دین کیوں نہیں کرتے تو کہتے ہیں.مولوی بھیجو.گویا ان کے نزدیک تبلیغ کے ذمہ وار صرف مولوی ہیں.اور وہ خود اس سے بری الندم ہیں.حالانکہ قرآن کریم میں کہیں.یا ایها الموسويون نہیں آیا کہ اسے مولولو ! تم یوں کرو.بلکہ یا اشیا الَّذِينَ آمَنُوا ہی آیا ہے کہ اسے مسلمانو ا تم اس طرح کرو.قرآن کریم کی کوئی ایک آیت بھی ایسی نہیں ہے جس میں صرف علماء کو مخاطب کر کے کہا گیا ہو کہ اسے علماء تم کیوں کرو، بلکہ بار بار ہی آیا ہے کہ اے مسلمانو! تم کیوں کرو.اس سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم نے سب مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دیا ہے اور قرآن قیامت کے دن یہ مطالبہ نہیں کریگا کہ مجھے مولویوں نے دنیا میں نہیں پہنچایا بلکہ یہی کرے گا کہ مجھے مسلمانوں مومنوں نے نہیں پہنچایا اور رسول کریم بھی یہی فرمائیں گے کہ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان (۳۱) اے میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو پھینک دیا.یہ : نہیں فرمائیں گے کہ مولویوں نے اسے پھینک دیا.پس وہ لوگ جو صرف مولویوں کو تبلیغ کرنے کا دروار قرار دیتے ہیں.اور جب ان سے پوچھا جائے کہ کسقدر تبلیغ کرتے ہو.تو کہتے ہیں.مولوی کچھ نہیں کرتے ان سے میں پوچھتا ہوں.قرآن نے صرف مولویوں کو تبلیغ کرنے کا کہاں ذمہ دار قرار دیا ہے قرآن نے تو ہر ایک مومین کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے.مولوی بیچارے جو تبلیغ کا کام کرتے ہیں.تعریف کے مستحق ہیں نہ کہ طعن و تشنیع کے کہ سارا بار ان پر ڈال کر کھا جاتے.وہ کچھ نہیں کرتے.اس کی مثال الیسی ہی ہے کہتے ہیں.دوست شخص تھے جو راستہ پر پڑے رہتے تھے.ایک دفعہ جب انکے پاس سے ایک آدمی گذرا.تو ایک نے اُسے آواز دیکر بلایا.جب وہ پاس آیا تو اسے کہا کہ یہ بیر اٹھا کر میرے منہ میں ڈال دینا.اس پر اسے غصہ آیا کہ خواہ مخواہ اس نے بلا کر میرا حرج کیا ہے.اور وہ گالیاں دینے لگا.دوسرا جو پاس پڑا تھا اُس نے کہا بھتی یہ بڑا سست آدمی ہے کچھ کرتا ہی نہیں ساری رات گنتا میرا منہ چاہتا رہا ہے اُس نے ہشت تک نہیں کی وہ بول تو پڑا.مگر یہ خود گتے کو ہٹانے کے لیے بھی نہ بولا.اور الٹا اس پڑھن کرنے لگا.آجکل عام لوگ مولویوں کو بہت بڑا بھلا کہتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں کرتے ، حالانکہ و کبھی نہ بھی وحفظ کر دیتے ہیں.اس پر بھی ان کو بُرا کہا جاتا ہے.مگر یہ جو دین کا نام تک نہیں لیتے.یہ اچھے ہو گئے اگر خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہوتا کہ اسے مولویو ! دین کی خدمت اور اشاعت کرنا صرف تمہارا ہی فرض ہے تو اس وقت جس قدر چاہتے ان کو بُرا بھلا کہ لیتے.کہ وہ کچھ نہیں کرتے مگر جب ایسا نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ نے ہر ایک مومن کا فرض رکھا ہے کہ وہ دین کو پھیلاتے تو خواہ مخواہ مولویوں کے سر ہونا
۴۰۲ ای شست کی روش اختیار کرنا ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے پس جب دین کی اشاعت کرنا ہر ایک مومن کا فرض ہے تو میں پوچھتا ہوں.آپ لوگوں میں سے کتنے ہیں جنہوں نے اس فرض کو سمجھا ہے.اور اس کے ادا کرنے کے لیے کام کیا ہے.آپ لوگوں کو کبھی تو سوچنا چاہیے کہ قرآن کریم نے صرف مولویوں کو تبلیغ کا ذمہ وار قرار نہیں دیا.بلکہ سب کو قرار دیا ہے اور جمعہ اس بہت بڑی ذمہ داری طرف خاص طور پر توجہ دلاتا ہے.اس میں اپنی ساری جماعت کو بالعموم اور جماعت لاہور کو بالخصوص کہتا ہوں کہ جہاں وہ وعظ اور نصیحت کو سننے کی عادت پیدا کریں.اور اس سے فائدہ اُٹھائیں.وہاں اس کے پھیلانے کی بھی کوشش کریں.جب خدا تعالیٰ نے اپنی عبادت کا آدھا کر دیا ہے.تو کیا وہ کچھ نہیں چھوڑنا چاہتے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو سمجھ عطا فرماتے کہ اس کے دین کو پھیلانے میں لگ جائے.اور لڑائیوں جھگڑوں میں پڑ کر وقت ضائع نہ کرے.بلکہ متحد ہو کر خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت میں لگ جاتے.تاکہ جلد سے جلد خدا تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بن جاتے ؟.د الفضل در مارچ ۱۹۲۰ متر
75 دنیا کو امن کا پتہ دو د فرموده ۲۷ فروری ۱۹۳) تشد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :- اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس زمانہ کی حالت اور اس وقت کے لوگوں کے خیالات کو دیکھ کر ایک ایسا سامان پیدا کیا گیا.اور ایک ایسا دروازہ کھولا گیا ہے جس میں سے ہو کر انسان حقیقی آرام اور اطمینان حاصل کر سکتا ہے.اس راستہ کے بغیر کوئی رستہ نہیں جس طرف دیکھو امن و اطمینان نہیں ہے.اکثر لوگوں نے غلطی سے خیال کر لیا ہے کہ امن دولت سے حاصل ہوتا ہے.یا بادشاہت اور حکومت سے مگر حقیقت یہ ہے کہ امن دولت سے میسر نہیں ہوتا.اور نہ امن و اطمینان دنیا کی عزتوں اور وجاہتوں اور حشمتوں سے حاصل ہوتا ہے.امن اسی کو حاصل ہے جس کے دل میں اطمینان.اور جس کے دل میں اطمینان نہیں.وہ خواہ بڑے سے بڑا دولت مند یا بادشاہ یا حاکم ہے.اس کو کوئی اطمینان حاصل نہیں ہو سکتا.بڑے بڑے لوگ ہیں.مگر جب ان کے اندرونے کو ٹٹولا ہوسکتا، انکے اندرونے کو ہے جاتا ہے تو ان میں امن نظر نہیں آتا.میں نے اپنے پچھلے خطبوں میں بیان کیا تھا کہ امن حاصل کرنے کا ایک ہی طریق ہے کہ اس رسہ کو مضبوط پکڑ لیا جائے.جو خدا تعالیٰ کی طرف سے پھینکا گیا ہے.اور اس سفر میں مجھ پر ثابت ہو گیا ہے کہ امن حاصل کرنے کے لیے سوائے اس کے اور کوئی طریق نہیں کہ خدا کی رسی کو مضبوط پکڑا جائے.کیونکہ ہر دل اور ہر ایک قلب جس کو میں نے ٹوٹا.خواہ وہ کسی درجہ اور کی حیثیت کے انسان کا تھا.اس میں امن نہ تھا.بلکہ امن کی جستجو میں تھا.سوائے اس ایک قلب کے جو اطمینان سے بھرا ہوا تھا.وہ ایک قلب وہی تھا جس میں مسیح موعود پر ایمان داخل تھا.پس دُنیا کی کوئی تکلیف اس دل کو گھیرا نہیں سکتی جس کو خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان حاصل ہو.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے لیے کامیابی کا دروازہ کھلا ہے.اور وہ دیکھتا ہے کہ مصائب اور تکالیف میں وہ اکیلا نہیں.
بلکہ اس کا مدد گار اس کا خدا موجود ہے.پھر وہ یقین رکھتا ہے کہ میں جب چاہوں اس علاج کو استعمال کر سکتا ہوں.اور وہ دیکھتا ہے کہ اگر مجھے دُکھ میں بھی تو اس لیے ہیں کہ میں آئیندہ ترقی کروں در اصل مصیبت اور تکلیف وہی بلاک کرنے والی ہوتی ہے.جس کا انجام اور نتیجہ اچھا نہ ہو.لیکن جس دکھ اور تکلیف کا نتیجہ اچھا ہو.اس کو لوگ خوشی سے برداشت کرتے ہیں.دیکھو زمیندار جیٹھ ہاڑ کے تپتے ہوئے دنوں میں محنت کرتا ہے.دکھ اُٹھاتا ہے مگر وہ خوش ہوتا ہے کہ نتیجہ اچھا ہو گا.ایک طالب علم راتوں کو جاگتا ہے وہ اس کو مصیبت نہیں خیال کرتا.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں میرے لیے بہت ترقیات میں نہیں دُکھ وہی دُکھ ہوتا ہے جس کا نتیجہ دکھ ہو.اور وہ دیکھ رکھ نہیں ہوتا جس کا نتیجہ آرام ہے.تو مومن کو جو ابتلا.آتے ہیں.وہ اسی لیے آتے ہیں کہ وہ اور ترقی کرے اس لیے وہ ان کو تکلیف نہیں خیال کر سکتا.پس دُنیا میں بے امنی ہے.مگر ان کے لیے نہیں.جن کو اللہ سے محبت ہے.اور جنھوں نے اللہ کے رسولوں کو قبول کیا ہے.ایسی حالت میں ہمارے بھائیوں کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو نجات دلانے کے لیے اور ان کے دلوں میں امن پیدا کرنے کے لیے جد وجہد کریں.جب ظاہری دکھ اور تکلیف سے نجات دلانا ثواب ہے.تو دل کا امن و اطمینان دلانا کتنا ثواب ہو گا.پس میں اپنے بھائیوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ میں نے اس سفر سے جو سب سے بڑا تجربہ حاصل کیا ہے.وہ یہی ہے کہ لوگ امن واطمینان کے بھوکے ہیں.اور ہمارے پاس ان واطمینان ہے.اس لیے ہمارا فرض ہے کہ وہ سامان اطمینان لوگوں تک پہنچا دی قبول کرنانہ کرنا انکے اختیاریں ہے ہم اگر پہنچا دینگے.توہم خدا تعالیٰ کے حضور کہ سکیں گے کہ خدایا ہم نے تیرے ندوں کو تراپیغام پہنچایا اور ہم کے ذمہ دارتھے ہم نے تیرا پیغام پہنچانے میں بخل سے کام نہیں لیا ہم نے گھر کے دروازے کھلے رکھے.مگر لوگوں نے اس طرف پیٹھ پھیر لی.اگر پناہ نہ لی تو انہوں نے اگر توجہ نہ کی توانہوں نے ہم نے بخل نہیں کیا.ہم شکست نہیں ہوتے.ہم تھکے نہیں.بلانا ہمارا فرض تھا.سو ہم نے ادا کیا.پیس ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے اوپر بخل اور کوتاہی کا الزام نہ آنے دیں.اور اگر وہ نہیں مانیں گے.تو اس کا اگر ہم خدا کا پیغام پہنچانے میں ستی کریں، تو اس کی دو ہی وجہیں ہوں گی.یا تو یہ کہ ہم نے خود قدر نہ کی.یا ہم اس کو انعام نہیں سمجھے نہیں اس ذمہ داری سے بچنے کے لیے کوشش وسعی سے سلسلہ حقہ کو لوگوں تک پہنچانا چاہیئے.اب چونکہ میرے حلق میں تکلیف بڑھ گئی ہے.اس لیے میں زیادہ نہیں بول سکتا.غیروں کے
اندر مجھے دو دو ڈھائی ڈھائی گھنٹے تک بولنا پڑا.مگر وہاں یہ بات نہ تھی.مگر یہ بھی ایک خدا کا نشان ہے کیونکہ وہ کام خدا کا تھا.اور اس لیے وہاں اس قسم کی رو کاٹے پیدا نہیں ہوئی.مگراب چونکہ وہ کام ختم ہو گیا ہے.اس لیے اب لفظ بھی مشکل سے زبان سے نکلتا ہے.یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی تائب ہے وہاں علاوہ لیکچروں کے چودہ چودہ اور پندرہ پندرہ گھنٹے تک متواتر مجھ کو بولتے رہنا پڑا.مگر وہاں تکلیف نہیں ہوتی.لیکن واپس آنے پر تکلیف ہونا یہ ایک نشان ہے.اگر چہ میں وہاں علاج کے لیے گیا تھا، لیکن علاج کرانے کا موقع ہی نہ ملا.آخر ایک دن جو فرصت کا تھا.اس میں مجھے تکلیف محسوس ہونے لگی.اس پر میں نے ایک اور کچھ رکھ دیا.چنانچہ چنتے وقت میں نے تقریر کی.اور اچھی طرح کی لیکن جب میں بٹالہ پہنچا تو تکلیف محسوس ہوئی.اور کسی قدر بخار بھی ہو گیا.اس سے میں نے سمجھا کہ وہاں چونکہ دوسروں میں کام کرنا تھا.اس لیے خدا تعالیٰ نے مجھے صحت میں رکھا.اور جب وہ کام ختم ہو گیا.تو پھر پہلی سی تکلیف ہو گئی.اس سے ظاہر ہے کہ چونکہ یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.اس لیے اس سلسلہ کو غیروں تک پہنچانے والا خدا کی نصرت دیکھتا ہے.ورنہ عقل میں نہیں آتا کہ ایک شخص حلق کے علاج کے لیے جاتا ہے.اور وہاں چار دن تک گاڑی آتی ہے لیکن ہر روز ڈاکٹر سے ملاقات کا وقت گزر جاتا ہے اور پھر آئندہ پر اس کو اُٹھا رکھنا پڑتا ہے.گو یہ بات سمجھ میں ہی نہیں آتی کہ ایسی تکلیف میں جیسی کہ مجھے ہے.لیکچر کس طرح دیتے جا سکتے ہیں.چنانچہ ایک ہندو ایڈیٹر سے ہمارے دوست ملنے کے لیے گئے اس نے کہا کہ مجھے بھی وہی تکلیف ہے جو مرزا صاحب کو ہے.اور میں جانتا ہوں کہ اگر میں بولوں تو یہ تکلیف بڑھ جاتی ہے.آپ لوگ کیوں مرزا صاحب سے گزارش نہیں کرتے کہ وہ لیکچر نہ دیں.بلکہ آرام کریں.مگر اس کو کیا معلوم ہے کہ حلق تو بیشک بیٹھتا اور بیماری پر بولنے کا اثر ہوتا ہے.مگر میں جانتا ہوں کہ اگر اس وقت بھی سلسلہ کی تائید اور اسلام کی صداقت کے لیے میں ایسے لوگوں کی مجلس میں جو سننے کے مستحق ہوں.کھڑا ہوں.اور مجھے خدا کی عظمت و جلال کے لیے اب بھی بولنا پڑے.تو میں گھنٹوں بولتا چلا جاؤں گا.اور میری زبان نہیں رکے گی.پس جو کوئی دین کی خدمت کے لیے کھڑا ہوگا.وہ خدا کے نشان دیکھے گا.وہ لوگ غلطی کرتے ہیں.جو کتے ہیں کہ ہما را علم کافی نہیں.انھیں معلوم ہو کہ ہمارے علم کچھ نہیں کرتے.جو کرنا ہے خدا کے علم نے ہی کرنا ہے.مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے علم بھی تھا.دماغ بھی تھے.قرآن بھی تھا مسیح موعود کون نئی چیز نہیں لاتے.مگر فرق صرف یہ ہے کہ پہلے خدا کی نصرت نہ تھی.اب مسیح موعود کے ذریعہ خدا کی
تازہ نصرت ہو رہی ہے.بیس بیست خیال کرو کہ ہم عربی نہیں جانتے.یا ہم سیکچرار نہیں.یا ہم علم مباحثہ کے ماہر نہیں بلکہ اگر تم خدا پر یقین رکھ کر کھڑے ہوگے تویقین رکھو تم ضرور کامیاب ہو گے پس خدا پر یقین کو مضبوط کرو.آپس میں محبت بڑھاؤ پھر اگر تمہارا مخاطب کسی بھی درجہ کا کیوں نہ ہو.وہ تمہارا مقابلہ نہیں کر سکے گا.کیونکہ وہ خدا کی نصرت سے خالی ہے.اور تم خدا کی طرف سے مدد یافتہ ہو.اللہ تعالیٰ تمہیں یہ بات سمجھنے کی توفیق دے اسلام کے نام کو بلند اور توحید کے قیام کے لیے تمہیں سچا جوش بخشے اور تم اسلام کی خدمت کے لیے ایک مجنون کی طرح ہو جاؤ.جسے ایک ہی بات کی دھت ہوتی ہے تاکہ شرک و جہالت دور ہو جائیں اور خدا کے جلال کی روشنی دنیا میں پھیل جائے.اور خدا کی عظمت اس درجہ پر پہنچ جائے جس پر پہنچانے کے لیے ہم پیدا کئے گئے ہیں.حضور جب دوسرے خطبہ کے لیے کھڑے ہوتے تو فرمایا.اب گرمی زیادہ ہوگئی ہے منتظمین کو چاہیئے کہ سائبان لگا دیا کریں.تاکہ لوگوں کو تکلیف نہ ہوا ) الفضل اار مارچ ۹۲لته )
76 تازہ بشارتیں آب یقیں سمجھو کہ آئے کفر کو کھانے کے دن ا فرموده ۵ر مارچ ۱۹۲ته حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- دُنیا میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا کی رحمت روک لی جاتی ہے.پھر وہ لوگ جو غرور سے زمین پر قدم نہ رکھتے تھے.ان کی حالت ایسی کرتی ہے کہ دشمن کو بھی ان پر رحم آتا ہے.اس وقت خدا کی رحمت کا نزول ہوتا ہے.وہ قوم جس کو مایوسی کھا رہی تھی.اس کی مایوسی خوشی سے بدلتی ہے.ان کے چہرے چکنے لگتے ہیں.وہ قوم جس کا سر نہیں اُٹھ سکتا تھا.وہ قوم جس کی پشت خمیدہ ہوگئی تھی.وہ قوم جس کے چہروں کا رنگ زرد تھا.پھر وہ قوم جس کو پرائے تو پرائے اپنے بھی ذلیل سمجھتے تھے.ایک ڈھلے ہوئے شاداب سبزے کی طرح ہو جاتی ہے.اس کی وہ پست ہمتی اور کمزوری جاتی رہتی ہے.ان کی نظر وسیع اور ارادے بلند ہو جاتے ہیں.اس سال جس میں بارش بند تمام علاقہ کی حالت بہت خراب ہوتی ہے اور سُورج پر غبار سا پڑا ہوا نظر آتا ہے.مگر جب بارش ہو جاتے.سورج کا چہرہ بھی صاف چکتا ہوا نظر آنے لگتا ہے.اور ایک ہی رات میں تمام جانداروں میں ایک نئی جان پڑ جاتی ہے.اسی طرح قوموں میں تغیر حالات ہوا کرتا ہے.جب خدا کا فضل مردہ قوموں پر ہوتا ہے تو ایک منٹ میں ان کی مایوسی کی حالت بدل جاتی ہے.جیسا کہ بیمار خواہ کیسا ہی شدید درد میں مبتلا رہا ہو لیکن جب اس کو صحت ہو جاتی ہے تو وہ خود بھی نہیں سوچ سکتا کہ کیسا درد تھا اور کتنا تھا.بلکہ جب صحت ہو جاتی ہے تو وہ حیران ہوتا ہے.کہ میں یونسی اس وقت گھبرا گیا تھا.یہ ایک سبق ہے.ان قوموں کے لیے جن کی حالت گری ہوئی ہوتی ہے.اس زمانہ میں خدا نے دکھا دیا ہے کہ اگر کوئی قوم دنیا میں مردہ ہے تو مسلمانوں کی ہے.اس
کے لیے خدا کے فضلوں کی بارش کی احتیاج ہے اور دشمن جس کے مٹانے کے لیے متحد ہیں.وہ قوم یہی ہے مسلمانوں کی حالت ہر لحاظ سے دنیا میں گرمی ہوتی ہے علم کے لحاظ سے دنیا سے یہ پیچھے رتبہ وشان کے لحاظ سے یہ گرے ہوتے.یہ ان سے بھی بدتر ہیں جن کی حکومتیں سینکڑوں سال سے گئی ہوئی ہیں.اگرچہ انکی برائے نام ابھی تک حکومتیں باقی ہیں مگر ان قوموں کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتے جن کے پاس کوئی حکومت نہیں.اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ دوسری اقوام جو گری ہیں.وہ بہ حیثیت قوم نے گری ہیں.اور مسلمان بہ حیثیت افراد کے گر گئے ہیں.اور جو قومیں بہ حیثیت قوم کے گرتی ہیں.ہو سکتا ہے.کہ ان کا زوال کسی خاص وجہ سے ہو.اگر وہ گر بھی جائیں.تو سنبھل سکتی ہیں.کیونکہ ان کے افراد کی حالت اچھی ہوتی ہے.اور وہ یقین کرتے ہیں کہ اگر ہم آج گر گئے ہیں.تو کل اٹھیں گے.کیونکہ ہم میں قابلیت ہے اور ہم میں جوش ہے.اور ہم علم رکھتے ہیں.جیسا کہ ایک شہسوار گھوڑے پر سے گر پڑتا ہے.اس کا گرنا اتفاقی ہے.کیونکہ وہ گھوڑے پر سوار ہوگا اور اس گرنے کی تلافی کر دیگا.مگر جو اناڑی گھوڑے پر سے گرتا ہے.وہ اتفاقی طور پر نہیں گرتا.بلکہ وہ نادانی سے گرتا ہے.اور اسے ضرور کرنا تھا اور گرنے میں اس کی ہڈی پسلی ضرور ٹوٹی ہوئی.اس لیے آئندہ اس کو گھوڑے پر چڑھنے کی جرات نہیں ہو سکتی یہی حال ان اقوام کا ہوتا ہے جن کے افراد کی حالت خراب ہوتی ہے.وہ جب گرتی ہیں.تو ان کو قطعاً اُمید نہیں ہوتی کہ وہ پھر اُٹھیں گی.کیونکہ ان میں کوئی بات ترقی کرنے کی باقی نہیں ہوتی.جن اقوام کے افراد کی حالت درست ہوتی ہے.وہ اگر بر سر حکومت نہ بھی ہوں.تو ان میں ایشیار کا مادہ ہوتا ہے.وہ جانتے ہیں کہ انہیں قوم کی خاطر جان دینا پڑے.تو وہ جان دینے سے نہیں ہچکچاتے.اور ان کے دل میں اجتماع کی ایک عزت و وقعت ہوتی ہے.دیکھو مسلمانوں کی سلطنتیں برائے نام موجود ہیں.افغانستان کی سلطنت ہے.مراکو کی بھی گری بڑی سلطنت ہے.مصر کی ہے.عربوں کی بھی سلطنت قائم ہوگئی ہے.ترکوں کے قبضہ میں بھی کچھ نہ کچھ رہے گا ہی.مگر جو صدمہ مسلمانوں کو ہے.وہ ہندوؤں کو نہیں.اگر چہ مسلمانوں کے پاس مذکورہ بالا سلطنتیں برائے نام ہیں.اور ہندوؤں میں کوئی سلطنت نہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ ہندو تیار ہیں کہ انہیں اگر قوم کی خاطر مرنا پڑے گا.تو وہ مرینگے.مگر مسلمانوں میں یہ بات نہیں.اس لیے یہ محض شور مچاتے ہیں جیسا کہ عورتوں کا قاعدہ ہوتا ہے کہ جب مرد گھر میں نہ ہوں.اور چور آجاتیں تو وہ چلانے لگتی ہیں کہ اُٹھو میاں برکت اللہ اور نکلنا بھائی رحمت اللہ.ان کا خیال ہوتا ہے کہ
۴۰۹ اس شور سے چور ڈر جائیں گے.یہ ان کی کمزوری کی علامت ہے مگر جہاں مرد گھر میں ہوں.اگر چور آئیں تو وہ خاموش ہو جاتے ہیں.اور دروازے کھول دیتے ہیں کہ پور زد پر آجائیں تو ان کو نہیں پکڑ ہیں گے.پس کام کرنے والے کام کیا کرتے ہیں.اور بزدل محض شور مچایا کرتے ہیں کہ ہم یہ کر دینگے اور ہم وہ کر دینگے.حالانکہ ان میں وہ چیز نہیں جو انکی روح تھی یعنی اسلام اور دین - دین کو تو چھوڑ دیا.اور مسلمانوں کو جمع کرنے والی قومیت نہ تھی بلکہ اسلام ہی تھا جب یہی ان کے پاس نہ رہا.توان کا تمام شور کیڈر بھبکیاں ہوگیا میں مسلمانوں کی حالت مایوسی بہت بڑھی ہوئی ہے.کیونکہ ان کو سہارا نظر نہیں آتا جو دروازہ ان کے لیے کھولا گیا تھا.اس کو یہ بند کرتے ہیں.یہ کہتے ہیں کہ خدا نے جو رستہ کھولا ہے.اس میں سے ہم داخل نہیں ہوں گے.اور خدا کہتا ہے اگر تم اس ریستہ میں سے نہیں آؤ گے.تو میں اور رستہ سے تمہارے لیے مدد نہ آنے دوں گا.وہ ذریعہ جس سے اسلام دنیا میں ترقی کر سکتا ہے اور مسلمان عزت و وقار حاصل کر سکتے ہیں.ایک ہی ہے.وہ خدا نے مقرر کیا.اور ہم نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا، حضرت مسیح موعود کو خدا تعالیٰ نے کھڑا کیا.آپ نے کہا کہ اسلام اب میرے ذریعہ دنیا میں ترقی کریگا.وہ اسلام جس کے مٹ جانے کی پیشگوئیاں کر دی گئی تھیں کہ چند سالوں میں فنا ہوجائیگا.وہ اسلام جس کی تباہی قریب نظر آتی تھی.وہ اسلام جس کو مسلمان چھپا رہے تھے.اسی اسلام کے متعلق حضرت صاحب نے فرمایا کہ یہ مٹایا نہیں جائے گا.بلکہ دنیا میں پھیلے گا.مگر ہاں میرے ذریعہ پھیلے گا.اس کی ترقی کا ذریعہ میں ہوں گا.چنانچہ آپ نے ایک نظم میں فرمایا : اک بڑی مدت سے دیں کو گر تھا کھا تا رہا اب یقیں سمجھو کہ آتے گھر کو کھانے کے دن یہ آواز ایسی آواز تھی.جو جنگل سے بلند کی جائے مگر آواز بلند کرنے والا نظر نہ آتا ہو.اس وقت اس کو لوگوں نے باور نہ کیا.مگر آج دیکھو یہ آوازہ دنیا کے گوشوں میں پھیل گئی.اور چاروں طرف سے لوگ اس کی طرف کھنچے چلے آرہے ہیں.جس وقت حضرت صاحب نے یہ شعر کہا تھا اس وقت مخالفین لکھا کرتے تھے کہ کتنے عیسائی مسلمان ہوئے.آج وہ دیکھیں کہ عیسائیت.کے گھر میں ہماری تبلیغ ہو رہی ہے.وہ لوگ جو اسلام کے مٹانے کے درپے تھے.ان میں سے ہی لوگ نکل نکل کر اسلام پر قربان ہونے کو آمادہ وتیار ہیں.اس وقت ہم سے مطالبہ کیا جاتا تھا تیم چند ہی تو سلم عیسائی دکھاؤ.ہم آج مخالفوں کو درجنوں دکھانے کو تیار ہیں.عیسائیوں میں سے
مسلمان ہوئے اور دمبدم ہو رہے ہیں.پھر ایک جگہ نہیں بلکہ ملکوں ملکوں ہیں.جس وقت حضرت صاحب نے یہ شعر کہا تھا ہے اک بڑی مدت سے دیں کو کفر تھا کھاتا رہا اب یقیں سمجھو کہ آتے کفر کو کھانے کے دن یہ ایسی ہی بات تھی جیسے کوئی کہے کہ بلی شیر کو کھا جائے گی.یا چڑیا باز کو شکار کرے گی.یا بکری بھیڑیے پر حملہ کرے گی، مگر اسلام کا حال ان سے بھی برا تھا.کیونکہ اگر بلی شیر کو کھا نہیں سکتی.تو جان تو بچا سکتی ہے.چڑیا یا پدی باز سے اپنی جان اڑ کر بچا سکتی ہے.اور بکری بھیڑے سے بچ سکتی ہے.مگر اسلام تو کفر کے پنجے میں تھا.اور مسلمان ہر طرف سے گھرے ہوتے تھے.ان کے لیے کوئی رستہ بیچ نکلنے کے لیے نہ تھا.ایسے حال میں نہ صرف یہ کہنا کہ اسلام بچ جائیگا بلکہ یہ کہنا کہ نے اب یقیں سمجھو کہ آتے گھر کو کھانے کے دن اور ایسے حالات میں کہنا جب کوئی سامان نہ تھے.ایک حیران کرنے والی بات تھی.اس وقت ہماری جماعت کوشش کرتی تھی.مگر ہماری جماعتیں صرف ہندوستان میں تھیں.مگر اب کیا سامان پیدا ہوتے ہیں.انگلستان میں ہماری تبلیغ ہو رہی ہے.سیلون میں ہماری جماعت ہے عرب میں موجود - اور مصریں بھی جماعت قائم ہو گئی ہے.اب روس میں بھی لوگ احمدی ہو گئے.اور امریکہ میں بھی عنقریب لوگ مسلمان ہوں گے.نئی خوشخبری یہ ہے کہ ہالینڈ کا ایک شخص مسلمان ہوا ہے، تو اس سے یہ بھو کہ ہالینڈ میں بھی انشاء اللہ بڑے پیمانہ پر تبلیغ ہوگی.اس سے بھی بڑھ کر خوشخبری یہ ہے کہ کئی سو سال سے افریقہ کے بعض خاص علاقوں میں عیسائیت لگی ہوئی تھی اور ہمیں پچیس لاکھ کے قریب لوگ عیسائی ہو گئے تھے.ان میں ہما را لٹریچر پہنچا.اب ان کے تعلیم یافتہ لوگوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ہم جو عیسائی ہوتے تو کیوں ہوتے.پہلے ہمارا خیال تھا کہ عیسائی ہو کہ ہم کو دنیوی فائدہ ہوگا.مگر وہ تو ہوا نہیں.پس اس وقت اگر ہم دنیا کے لیے ہوئے تھے.تو اب ہمیں سچے دل سے سوچنا چاہیئے کہ اگر واقعی عیسائیت سچا دین ہے تو ہمیں اس پر مضبوط ہو جانا چاہتے.اور اگر نہیں تو اس کو ترک کر دینا چاہیئے.اس خیال کے لوگوں نے ایک انجمن بنائی.جس کے اس وقت پانچ ہزار ممبر ہیں.ان کے سیکرٹری سے خط و کتابت تھی مفتی صاحب کو افریقہ بھیجنے کی بھی یہی غرض تھی.مگر امریکہ کی ضروریات زیادہ اہم معلوم ہوئیں.اس لیے ان کو امریکہ کی
طرف بھیج دیا گیا ہے.غرض اس انجمن کے سیکرٹری کو تبلیغ ہو رہی تھی.اس کے متعلق کل اطلاع آئی ہے کہ وہ مسلمان ہوگیا.اور اس شخص نے لکھا ہے کہ عنقریب دوسو اور آدمی مسلمان ہونگے.اسی طرح خدا کے فضل سے کچھ بعید نہیں کہ وہ جو پچیس لاکھ کے پچیس لاکھ جو عیسائی ہو گئے تھے.جلد تر مسلمان ہو جائیں جس وقت حضرت مسیح موعود کی یہ پیشگوئیاں شائع ہورہی تھیں.ان پر سب احمدی ایمان رکھتے تھے کہ یہ ضرور پوری ہوں گی.کیونکہ خدا کی باتیں ہیں.مگر ایسے بہت تھوڑے ہونگے.جن کا یہ خیال ہوگا کہ ہم ان باتوں کو اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے پورا ہوتا دیکھیں گے.بلکہ اکثر خیال کرتے ہوں گے کہ ہماری اولاد یا ہماری اولاد کی اولاد دیکھے گی، لیکن ہم خدا کے فضل سے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ خدا کی باتیں پوری ہو رہی ہیں.خُدا کے مامور نے جو کہا تھا.اک بڑی مدت سے دیں کو کفر تھا کھاتا رہا اب لقد سمجھو کہ آتے گھر کو کھانے کے دن اور ہم نے دیکھ لیا کہ خدا کی باتیں اس طرح پوری ہوتی ہیں.لوگ حیران تھے کہ یہ کس طرح ہوگا کہ پھر اب یقیں سمجھو کہ آتے گھر کو کھانے کے دن پس ہم شہادت دیتے ہیں کہ ہم نے جو گنا اور جو پڑھا تھا.اسی کے مطابق ہو رہا ہے.اور حضرت مرزا صاحب خدا کے مسیح موعود اور مامور ہیں.کیونکہ آپ نے اس وقت جس وقت اسلام کو کفر کا رہا تھا.صاف کہا تھا کہ وہ وقت آگیا ہے کہ اسلام کفر کو کھا جائے.اب حالت بدل گئی ہے اور عالم عیسائیت احمدیت سے کانپ رہا ہے.اور ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ چاہے تو دنیا کا نقشہ ہی بدل جائے گا.یہ خدا کا احسان ہے.میں اپنے احباب کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ایک پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کریں.تمہارے پاس دُور دُور سے لوگ آئیں گے تم اپنے گھروں کو ان کے لیے صاف کردو کیونکہ جب وہ آئیں گے تو تمہارا منہ دیکھیں گے.تمہیں اپنے دلوں کو وسیع کرنا چاہیئے.اگر وہ آئے اور انہوں نے دیکھا کہ تم چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑتے ہو.جھگڑتے ہو.اور تمہاری آپس کی نفرت دیکھ کر وہ یہی کہیں گے کہ دور کے ڈھول سہانے.پس اپنی اصلاح کرو.اپنے اندر محبت پیدا کرو.محبت بڑی چیز ہے وہ تمام روگوں کو اُٹھا دیتی ہے اور دشمن کے دل کو کھینچتی ہے.
اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں محبت پیدا کرے تمہارے دلوں سے حقد کو.نفرت کو دور کرے.دیکھو قرآن شریف میں ایمان کی علامت یہ آتی ہے کہ تم ایک ہو جاؤ.اگر تم ایک نہیں، تو تم مومن نہیں یہ دنیا کے اموال اور ثروت میں کسی کام کی نہیں.جب تک آپس میں محبت و خلوص نہیں.پس خدا کے لیے محبت بڑھاؤ.احادیث میں آتا ہے کہ جو خدا کے لیے کسی سے محبت کرتا ہے.وہ قیامت کے دن خدا کے سایہ کے نیچے ہو گا.لیکن جو شخص ہزاروں لاکھوں سے خدا کے لیے محبت کرے.وہ کس قدر خدا کے نفلوں کا وارث ہوگا.یہ بڑی نعمت ہے یہ ہو تو ہر ایک تکلیف راحت ہو جاتی ہے.اگر کوئی خدا کے انعام کی قدر نہیں کرتا.وہ گندگی کی طرح پھینک دیا جاتا ہے پس تم خدا کے انعام کی قدر کرو.اللہ تعالے ہم سب پر اپنے فضل کرے اور اپنے بندوں کی محبت ہمارے دلوں میں ڈالے " آمین : الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۲۰ )
77 اتفاق و اتحاد کے متعلق اسلامی تعلیم کی تمہید د فرموده ۱٫۲ پریل حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ: انسان اور خدا تعالے کا تعلق ایک روحانی تعلق ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ بہت لوگوں کو اس میں غلط فہمی ہوتی ہے.جب وہ یہ کہتے ہیں کہ بندے اور خدا کا تعلق روحانی ہے.تو وہ اس طرح کہتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گویا بندے اور خدا کا تعلق جسمانی نہیں اگر چہ بظاہر یہ ایک معمولی بات ہے میگر عظیم الشان تغیرات پیدا کرتی ہے.تھوڑے تھوڑے فرق سے اعمال و عقائد ، حرکات و سکنات پر بڑا اثر پڑتا ہے.چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑے بڑے نتائج پیدا ہوتے ہیں معمولی معمولی فقرات ہوتے ہیں.ان پر ایک حد تک عمل بھی ہوتا رہا ہے مگر چونکہ وہ علیحدہ صورتوں میں سامنے نہیں ہوتے.اس لیے ان سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا.مگر جب وہ ایک معین صورت میں سامنے آتے ہیں تو پھر ان سے عجیب عجیب علوم کا انکشاف ہوتا اور تغیرات پیدا ہوتے ہیں.ظاہری علوم کے لحاظ سے ایک انھوں نے جس کو مسئلہ ارتقا.کہتے ہیں جس کے معنے یہ ہیں کہ ہر ایک چیز ترقی کی طرف جارہی ہے.اس اصول کے ماتحت بہت سے نئے علوم معلوم ہوتے ہیں.میرے نزدیک جب سے علم ادب محفوظ چلا آتا ہے.اگر دیکھا جائے گا تو یہ اشارات ملیں گے.مگر چونکہ ویپ اشارات تھے.اصول معین کے طور پر نہ تھے.اس لیے ان سے وہ فائدہ نہیں ہوا جو اس وقت سے ہوا.جب سے یہ مسلہ اصول کے طور پر دنیا کے سامنے آیا.چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پچاس ساٹھ سال سے پہلے دنیا کی ترقی کی جو رفتار تھی.اس کے بعد کہیں زیادہ ہوگئی اور علم میں بالکل تغیر آگیا.تاریخ بدل گئی.طبقات الارض کے علم میں عجیب عجیب باتیں پیدا ہوئیں.ستارواں کے متعلق انکشافات ہوتے گویا کہ دنیا نئی ہو گئی.اور دنیا کی ہر ایک چیز نئی ہو گئی.یہ سورج اور ستارے ان کے متعلق پہلے خیال تھا کہ جس طرح یہ پہلے دن بنائے گئے تھے.اسی
۱۴ طرح یہ اب تک موجود ہیں.اب اس مسئلہ ارتقا کے ماتحت یہ بات معلوم ہوئی کہ پہلے یسورج محض ہوا تھا.لاکھوں کروڑوں سال کے بعد ہوا کے ذرات بل مل کر سورج کا وجود تیار ہوا.پھر پہلے یہ خیال تھا کہ صرف یہی ایک سورج ہے، لیکن اب دور بینوں کے ذریعہ معلوم ہوا ہے کہ اور بہت سے ستارے ہیں.جو اس وقت بن رہے ہیں.اور ان کا مادہ سیال ہے.جو گاڑھا ہو رہا ہے اور اس کی شکل ایسی ہے جیسے گھنیا روئی دھنکتا ہے کہ کہیں سے موٹی ہوتی ہے اور کہیں تیلی.غرض اس سے علوم پیدا ہوئے اور ہو رہے ہیں ، مگر اس وقت یہ بحث نہیں کہ ان علوم میں صحت کہاں تک ہے اور غلطی کہاں تک.مگر ہر حال علوم میں تغیرات ہو رہے ہیں.یہی حال تاریخ کا ہے کہ پہلے جن باتوں کو صحیح مانا جاتا تھا.ان میں سے بعض کی تغلیط ہو گئی.اور جن کو غلط کہا جاتا ہے ان میں سے بعض کی صحت ظاہر ہو گئی.در حقیقت تمام باتوں کا یہی حال ہے.ہم اسلام کو دیکھتے ہیں کہ اس کے تمام عملی حصہ کی بنیاد بھی ایک فقرے پر ہے اور وہ یہ کہ وسطی طریق کو اختیار کیا جائے.دونوں انتہائی طریقوں سے محفوظ ہو.جتنے احکام شریعت ہیں ان میں وسطی طریق اختیار کیا گیا ہے.یہ جائز نہیں کہ انسان خود کوئی طریق ایجاد کرے بلکہ شریعت نے اس کے سامنے جو اعمال پیش کئے ہیں.وہ سب وسطی ہیں اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے کہ احکام شریعت میں سے وسطی نکالے.غلطی ہوگی.کیونکہ شریعت کے احکام سب کے سب پہلے ہی وسطی طریق پر قائم کئے گئے ہیں.جو شخص ان احکام میں بھی وسط کی تلاش کرتا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ بعض کمالات کے درجے چھوڑتا ہے.اگر کوئی شخص یہ کہے کہ فرائض تو پڑھ لیے سنتوں کی کیا ضرورت ہے.یا نوافل کی کچھ حاجت نہیں.محض فرائض کافی ہیں.تو اس کا نام وسطی طریق نہیں.بلکہ یہ نیچے کا طریقی ہے.شریعت نے جس وقت نماز پڑھا بتایا ہے اور متنی کومتیں بتائی ہیں.وہ وسط ہی ہے.اسلام نے بتایا ہے کہ سال میں زیادہ سے زیادہ تجھے مہینہ کے ایک انسان روزے رکھ سکتا ہے یہ طریق وسطی ہے.اگر کوئی ان سے زیادہ رکھے یا مہینہ بھر کے جو فرض ہیں ان میں کمی کرے تو وسطی طریق کو چھوڑتا ہے.اگر کوئی پانچ نمازوں کی بجائے تین پڑھے.تو وہ بھی وسطی طریق سے نکل جاتا ہے پھر صدقہ و خیرات ہے.انسان صدقہ و خیرات کر سکتا ہے.وہاں تک جہاں تک ان لوگوں کے حقوق نہ تلف ہوتے ہوں.جو کہ اس کے ذمہ ہیں.ایسی صورت میں اگر حق تلفی کر گیا.یا اپنے رشتہ داروں کو ابتلاء میں ڈالیگا، تو طلق وسطی کو چھوڑ دیگا.اور اس کے خرچ کا نام اسراف ہوگا.غرض چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں.جو اصول کے طور پر ہوتی ہیں.اور جن پر بنیاد ہوتی ہے.بالعموم
۴۱۵ دیکھو گے کہ اگرکسی کو کو وسطی طریق اختیار کرنا چاہیئے.تو فورا کے گا.خیر الامور اوسطهَا، لیکن جب تفصیل پوچھی جائے تو بغلیں جھانکنے لگیں گے.لوگوں کو دیکھو گے کہ حکمت کے حملے ان کی زبانوں پر جاری ہونگے.کوئی سی بات ہو.وہ فوراً ایک قبلہ بولیں گے.مگر جب ان سے تشریح پوچھی جاتی ہے تو وہ کچھ نہیں بتا سکتے.اسلامی شریعت کے بھی وسطی طریق کیے ارشاد کے متعلق اگر پوچھا جائے کہ حکام کے متعلق کیا حقوق ہیں رشتہ داروں کے متعلق کیا.حاکم در عایا کے متعلق کیا.بیوی بچوں سے متعلق کیا.اُستادوں اور شاگردوں کے متعلق کیا، تو کچھ نہیں بتا سکیں گے.اگر لوگ حکمت کے حملے زبان سے نکالتے وقت ان پر غور کریں.اور ان کی تفصیل کریں.اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے سب پہلوؤں پر لے جائیں.تو ان کے لیے بہت مفید ہو سکتا ہے.ان کے علوم میں ترقی ہو.اور عملی زندگی پر اس کا بہت اثر پڑے.بعض لوگ جو حکمت کے فقرے بولتے ہیں.وہ ان کی حقیقت چٹکلوں سے زیادہ نہیں سمجھتے.ان سے محض ایک زبان کی لذت لیتے ہیں.فائدہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب لوگ اسکی تفصیل پر غور کریں.جن لوگوں کی زبان پر فقرات حکمت اور ضرب النشیں ہوتی ہیں.مگر ان کا عمل اس کے خلاف ہوتا ہے ان کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے.جیسا کہ ایک شخص سخت بیمار ہو.اس کے پاس دوائی ہو.اور یا ایک سخت بھوکا ہو.اور اس کے پاس کھانا ہو.مگر وہ اس کو استعمال نہ کرے.صرف اس کی تعریف شروع کردے کہ یہ کھانا بہت عمدہ ہے اور بہت لذیذ اور بہت مقوی ہے.کھانے اور دوا کا عمدہ ہونا اس کے لیے کیا خاک مفید ہو سکتا ہے جب وہ اس کو استعمال نہیں کرتا.اسی طرح وہ لوگ جو ضرب المشلیں بولتے ہیں.جو خواہ آسمانی اور خدانی کتابوں کے فقرات ہوں.خواہ عقلمند اور دانالوگوں کے پر حکمت کلمات - مگر ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے.یہ تمہید ہے.ایک مضمون کے لیے جو خدا نے چاہا تو آئیندہ اس کے متعلق تقریریں اور تفصیلی باتیں ہوں گی جن پر مل کرنا بہت مفید ہو گا جب تک کہ سی بات کی تفصیل معلوم نہ ہو نہ کامل علم ہوتا ہے.نہ اس پر عمل ہی ہوتا ہے اور نہ اس سے فوائد ہی خاطر خواہ مترتب ہو سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ ہم اس کے احکام کو سمجھیں اور اس کی حکمتوں سے واقف ہو کر ہمارے اعمال اسکے منشاء کے مطابق ہو جائیں جن سے بہترین نتایج رونما ہو کر ہمیں خدا کے اور قریب کردیں.) الفضل ۱۲ را پریل ١٩٢٠
78 جماعت احمدیہ اپنے جوش کو حقیقی ثابت کرے د فرموده ۱۰۹ پریل نشئه بمقام سیالکوٹ: حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد سورۃ یوسف کی چند ابتدائی آیات تلاوت کر کے فرمایا :- دنیا میں دو قسم کے زمانے انسان پر آتے ہیں.اور دو ہی قسم کی حالتوں سے انسان گزرتا ہے.ایک تو و زمانہ اور وہ حالت ہوتی ہے کہ جس میں زمانہ مجبور کر کے اس سے بعض اعمال کراتا ہے، یعنی زمانہ اسے بعض اعمال کرنے پر مجبور کر دیتا ہے.یہ ایسی حالت ہوتی ہے کہ اگر وہ فعل اچھا ہو، تو اسکے کرنے والا قابل تحسین سمجھا جاتا ہے.اور اگر برا ہو تو اس کے کرنے والا اتنی بڑائی کا مجرم نہیں ہوتا جتنی حقیقت میں وہ ہوتی ہے کیونکہ گو وہ فعل بُرا ہوتا ہے مگر یہی سمجھا جاتا ہے کہ مجبوری سے یا عادت کی وجہ سے کیا گیا ہے اس لیے اس حد تک ایسے فعل کی بڑائی نہیں پہنچتی جہاں تک کہ جان بوجھ کر کوئی برا فعل کرنے کی پہنچتی ہے.تو انسان پر ایک حالت اور ایک زمانہ ایسا آتا ہے.جبکہ وہ مجبوریوں کے ماتحت کوئی فعل کرتا ہے لیکن ایک زمانہ ایسا بھی آتا ہے.جبکہ اس کی مجبوریاں جاتی رہتی ہیں.اس وقت اگر وہ اپنے ذوق وشوق محبت و اخلاص سے نیکی کرتا ہے.تو وہ اس کی اصلی نیکی سمجھی جاتی ہے.اس وقت اگر تقوی اللہ اختیار کرتا ہے.تو وہ تقویٰ ہوتا ہے.اس وقت اگر عبادت کرتا ہے.تو وہ اصل عبادت ہوتی ہے.کیونکہ اس وقت وہ اپنے اختیار اور خلوص سے یہ اچھے کام کرتا ہے، لیکن جو زمانہ سے مجبور ہو کر اچھے کام کئے جاتے ہیں.دہ گو اچھے ہوتے ہیں.مگر وہ انسان کے روحانی درجہ کی ترقی میں محمد اور معاون نہیں ہوتے اور اس وقت تک نہیں ہوتے.جب تک انسان اس حد تک نہ پہنچ جاتے کہ اسے کوئی مجبوری ہو یا نہ ہو.اپنے ذوق وشوق سے نیکی کرے.مثلاً ایک شخص اپنے رشتہ داروں کی مجلس میں بیٹھا ہے.اس کا دل بخل اور کنجوسی سے بھرا ہے.اس کے ذرہ ذرہ میں مال و دولت کی محبت سماتی ہے.کسی کو ایک پیسہ دیتے ہوئے
جان نکلتی ہے.مگر برادری میٹھی ہوتی ہے.جو اسے کہتی ہے.چندہ دور کوئی ادھر سے طعن دیتا ہے کوئی ادھر سے ایسی حالت میں وہ ان کے طعنوں سے متاثر ہو کر خدا تعالیٰ کی راہ میں بنی نوع انسان کی خدمت کے لیے کچھ روپیہ دید یتا ہے.تو خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ کسی نیکی کا مستحق نہیں ہے کیونکہ اس نے اگر کچھ دیا ہے تو لوگوں کے طعنوں سے مجبور ہو کر اور زمانہ کے حالات سے تنگ آکر نہ کہ اپنی مرضی اور خواہش سے خدا کی رضا حاصل کرنے کے لیے.اسی طرح اگر کوئی صدقہ دیتا ہے تو وہ بھی اصلی صدقہ نہیں.یا ایک ایسا شخص ہے جو ایسے گھرانے میں پیدا ہوا جس کے مرد و عورت جوان اور بوڑھے نمازی ہیں.اور وہ دن رات انھیں نماز پڑھتے دیکھتا ہے.اور ان کے مونہوں سے سنتا ہے کہ نماز نہ پڑھنے والا انسان سخت گنگا ر ہوتا ہے.دن رات اس کے کانوں میں یہ آوازہ آتی ہے کہ جو نماز نہیں پڑھتا وہ سخت نفرت کے قابل ہے.ان حالات میں اگر وہ نماز پڑھتا ہے تو خدا تعالے اسے کوئی فائدہ نہیں دیگا.کیونکہ وہ اس لیے نہیں پڑھتا کہ نمازہ کی محبت اس کے دل میں ہے اور خدا تعالیٰ کے خوف اور ڈر سے پڑھتا ہے.بلکہ اس لیے پڑھتا ہے کہ اس کے ماں باپ بہن بھائی عزیز رشتہ دار نماز کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نماز نہ پڑھوں گا.تو ان کی نظر سے گر جاؤں گا پس وہ جو اس طرح عبادت گزارتا ہے.اور ممکن ہے کہ شہد بھی پڑھے سے اس کی حالت اس شخص سے گری ہوئی ہوگی.جو صرف دن رات میں ایک ہی نمازہ اخلاص پڑھے.یہ گنہگار ہوگا، لیکن اس کی ایک نمازہ اخلاص کی نماز ہو گی.اور اس کی پانچوں نمازیں مجبوری سے ہوں گی اس لیے اس کی ایک نماز بھی نہ ہوگی.تو عمل وہی قابل قبول ہوتا ہے، جو خود نخود کیا جاتے اور جو کام مجبوری سے کیا جائے.وہ ہرگنہ قابل قبول نہیں ہوتا.یہ تو مجبوری کی ایسی مثالیں ہیں جنہیں ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے مگر بعض ایسی مخفی مجبوریاں بھی ہوتی ہیں.جن کو واقف اور عارف لوگ ہی جانتے ہیں.دوسرے نہیں جانتے.دوسرے سمجھانے سے ہی سمجھ سکتے ہیں.عام لوگ انہیں مجبوریاں نہیں سمجھتے.مگر جب غور سے دیکھتے ہیں.تو معلوم ہو جاتا ہے کہ مجبوریاں ہیں.اس وقت میں جس امر کے متعلق بیان کرنا چاہتا ہوں.وہ یہ ہے کہ ہر نیا کام لوگوں میں جو جوش و خروش پیدا کر دیتا ہے.وہ مجبوری کے ماتحت ہوتا ہے.کوئی نیا فرقہ ہو اس کے پیرو دوسروں سے زیادہ عبادت کرنے والے ہونگے وجہ کیا.وہی مجبوری.وہ لوگ چونکہ اپنے عزیزوں رشتہ داروں اور متعلقین کو چھوڑ کر اس فرقہ میں داخل ہوتے ہیں.اس لیے انہیں یہ مجبوری ہوتی ہے.
کہ وہ پوچھیں گے تمہیں تم کو چھوڑ ک کیا لا.اور تم میں کوئی نئی بات پیدا ہوگئی.اس وجہ سے ان میں نیا جوش اور نئی روح پیدا ہوتی ہے کہ کچھ کر کے دکھائیں.بظاہر انہیں کوئی مجبور نہیں کرتا.مگر اصل میں ان کے لیے ایک مجبوری موجود ہوتی ہے.اور وہ وہی طعنہ کا ڈر کہ لوگ کہیں گے ہمیں چھوڑ کر تم نے کیا کیا.پس کسی نے فرقے کے لوگ اگر چندہ زیادہ دیتے ہیں.اگر اپنے اخلاق اچھے بناتے ہیں.اگر سختی کے مقابلہ میں نرمی دکھلاتے ہیں تو یہ سب کچھ ان کا مجبوری کے ماتحت ہوتا ہے.مثلاً ہمارے ملک میں آمرید ہیں.ان کے جوش میں پرانے زمانہ کے ہندوؤں کے جوش سے کتنا فرق ہے.سنا تینوں اور آریوں کی قربانی کو اگر دیکھا جائے تو باوجود اس کے کہ سناتنی بہت زیادہ اور آریہ بہت تھوڑے ہیں.چند لاکھ سے زیادہ نہیں، لیکن ان میں بہت بڑا فرق پایا جاتا ہے.آریوں کے کالج پنجاب میں ہیں اور بیسیوں سکول جاری ہیں.وہ لاکھوں روپیہ سالانہ خرچ کرتے ہیں.ان کے اخباروں کی جتنی اشاعت ہے اور اخباروں کی اتنی نہیں ہے.ان میں اس قدر جوش کیوں ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ اسی قاعدہ کے ماتحت کہ جب کوئی نئی جماعت قائم ہوتی ہے.تو وہ کہتی ہے.اگر کچھ نہ کیا تو لوگ کہیں گے.اس نے علیحدہ ہو کر کیا گیا.تو ی عمل یہ جوش یہ ولولہ حقیقی نہیں ، بناوٹی اور مجبوری کے ماتحت ہوتا ہے.جو عام طور پر نئی جماعتوں میں پایا جاتا ہے.پھر بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جوش و خروش سے کام لینے والا بھی نہیں جانتا کہ اس کا جوش مجبوری کے ماتحت ہے مگر واقعہ یہی ہوتا ہے کہ اس کا جوش بناوٹی اور مجبوری کے ماتحت ہوتا ہے.اس کا کیا ثبوت ہے یہی کہ جب وہ مجبوری جاتی رہتی ہے.تو اس کا جوش بھی کافور ہو جاتا ہے جب تک اس کی جماعت تھوڑی اور کمزور ہوتی ہے.جب تک مخالفین کا اس کو خوف اور ڈر ہوتا ہے.اس وقت تک وہ اپنے اخلاق اپنے عادات اپنے اعمال بہت اعلیٰ درجہ کے دیکھاتا ہے اس میں نیکی اور تقوی پایا جاتا ہے، لیکن جب وہ اپنی جماعت اور فرقہ کو کچھ سمجھنے لگ جاتا ہے تو یہ سب باتیں چھوڑتا جاتا ہے.یہ ثبوت ہوتا ہے.اس بات کا کہ وہ لوگ جو جوش و خروش دیکھا رہے ہوتے ہیں.اور اچھے کام کر رہے ہوتے ہیں.وہ چاہتے دل سے یہی خیال کرتے ہوں کہ ہم نیک نیتی سے خدا تعالے کے لیے اس کی محبت کی خاطر کرتے ہیں، لیکن اصل میں وہ خدا تعالے کی محبت کی وجہ سے نہیں کرتے کیونکہ جب دشمن ان کے سامنے سے ہٹ جاتا ہے.اور خطر ہ ور ہو جاتا ہے.تو ان کا آپس کا اتحاد - اخلاص نیکی اور جوش کم ہو جاتا ہے.اگر وہ خدا کے لیے کرتے ہوتے تو خدا تو اس وقت بھی موجود ہوتا ہے.اس وقت وہ کیوں ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں.معلوم ہوا
۴۱۹ کہ وہ خدا کے لیے نہیں کرتے.بلکہ لوگوں کے ڈر سے کرتے ہیں جب لوگ مخالف نہ رہے تو وہ بھی اپنی پہلی حالت پر قائم نہ رہے.نہیں اس بات کا پتہ لگانے کے لیے کہ کسی جماعت کا جوش خدا تعالیٰ کے لیے ہے یا مجبوری سے ہے یہی دیکھا جاتا ہے.کہ جب وہ دشمن کے حملوں سے بچ جاتے.تو اس وقت اس کی حالت کیا ہوتی ہے اگر اس وقت بھی وہ اخلاص و نیکی.تقویٰ و طہارت - جوش و خروش - اتحاد و اتفاق محبت و الفت میں ترقی کرے.تو جان لو کہ وہ جو کچھ کرتی رہی ہے.خدا کے لیے کرتی رہی ہے، لیکن اگر اس وقت جبکہ دشمن ہٹ جاتے.مخالفت کرنے والے خاموش ہو جائیں.اس کے ایمان میں کمزوری - نیکی اور خلوص میں کمی واقع ہو جائے.تو معلوم ہوا کہ وہ ڈر کے مارے مجبوری سے کرتی رہی ہے.اگر خدا کے لیے کرتی.تو خدا اب بھی موجود ہے.اب بھی اسی طرح ترقی کرتی جس طرح وہ پہلے کرتی تھی.پیس امین کی حالت میں ہو کر اس کا اپنی حالت کو بدل لینا صاف ظاہر کرتا ہے کہ پہلے وہ جماعت جو کچھ کرتی تھی.مجبوری کی وجہ سے کرتی تھی جب وہ مجبوری دور ہو گئی.تو اس نے اس طرح کرنا بھی چھوڑ دیا.بعض نادان فلسفیوں نے یہ فیصلہ کیا ہے.کہ کسی جماعت کے بچے ہونے کا یہ ثبوت ہے کہ اس میں بڑا جوش ہو.اور اسے اپنے مقصد کے پورا کرنے کی دھن لگی ہوئی ہو.مگر یہ غلط ہے کیونکہ ہر نئی جماعت میں جوش ہوتا ہے.دراصل ان کو دھوکہ اسی وجہ سے لگا ہے کہ انہوں نے یہ نہیں دیکھا.جوش کا باعث کیا ہے اگر مجبوری کی حالت میں کسی جماعت نے جوش دکھایا تو اس کو سچا نہیں کہا جا سکتا.اور اگر مجبوری کے دُور ہو جانے پر بھی اس میں جوش پایا گیا.تب وہ سچی ہو سکتی ہے.یہی فرق ہے جو انبیاء اور دوسروں کی جماعتوں میں پایا جاتا ہے.رسول پر جولوگ ایمان لاتے ہیں.ان میں سے اکثر کیونکہ بعض منافق بھی ہوتے ہیں، ایمان اور نیکی میں بڑھتے ہی جاتے ہیں اور حقیقی ایمان بڑھتا ہی ہے.کم نہیں ہوتا.تمام نبیوں کے بچے پیروؤں کی یہی حالت ہوتی ہے.اس زمانہ میں ہماری جماعت ایک ایسی جماعت ہے جونی کی قائم کی ہوتی ہے.اس کی سچائی اور حق پر قائم ہونے کی یہ دیل سمجھی جاتی ہے.کہ اس میں جوش بڑھا ہوا ہے.مگر اس پر بھی وہی اعتراض پڑتا ہے کہ یہ کس طرح معلوم ہو کہ اس کا جوش اصلی اور حقیقی جوش ہے.کیوں نہ کہیں کہ چونکہ ہر طرف سے اس پر حملے ہوتے ہیں.اس لیے اس جماعت کے لوگوں کا آپس میں اتحاد پایا جاتا ہے.انہیں اپنی جانوں کا خطرہ لگا ہے.اس لیے وہ مجبور ہیں کہ متحد ہو کر رہیں.اسی طرح ان کے اعلیٰ اخلاق
دکھانے اور نیکی کرنے کی بھی یہی وجہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں.اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو مٹ جائیں گے.اس کا جواب عام طور پر کوئی نہیں دیا جا سکتا.کیونکہ ہر ایک نئی جماعت جو کھڑی ہوتی ہے.وہ نیکی اور جوش میں ترقی کرتی نظر آتی ہے.عیسائیوں.یہودیوں.سکھوں وغیرہ سب کا یہی حال ہوا.کیونکہ انہیں ڈر تھا اگر ہم نے آپس میں اتحاد نہ کیا تو تباہ ہو جائیں گے.اگر ہم نے اچھے کام نہ کئے تو لوگ طعنے دینگے کہ ہم سے کیوں علیحدہ ہوتے تھے تو لوگوں کے طعنوں سے بچنے اور اپنی ہستی کو قائم رکھنے کے لیے ہر نئی جماعت کا یہی حال ہوتا ہے.تو پھر ہمیں کیا امتیاز حاصل ہے.وہ امتیاز ایک ہی ہے کہ ہم خطرہ سے محفوظ ہو کر بھی ویسے ہی نظر آئیں.جیسے خطرہ کیوقت تھے.اگر خطرہ اور خوف کے وقت ہم میں اتحاد اور اتفاق پایا جاتا ہے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے.خوف و خطر کے وقت تو حیوان بھی لڑنا چھوڑ دیتے ہیں اور سب اکٹھے ہو جاتے ہیں.پھر جن کو معلوم ہو کہ ساری دنیا ہماری مخالف ہے اور ہمارے گھروں میں ماں باپ بہن بھائی مخالف ہیں.ان کا اچھا ہو جانا کونسی بڑی بات ہے.کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے مجبوری سے اکٹھے ہوتے میں یا اگر وہ صدقہ دیتے اور مال زیادہ خرچ کرتے ہیں تویہ بھی مجبوری ہے کیونکہ سمجھتے ہیں اگر ہم نے مال نہ خرچ کیا تو ہماری جماعت نہ بڑھے گی اور ہم کمزور رہیں گے.پس ہم میں اور دوسروں میں کیا فرق ہے جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ ہمارا تقویٰ اور نیکی اخلاق اور اتحاد - جوش اور فروش خوف اور امن میں ایک ہی جیسا رہتا ہے.اور ہم جو کچھ کرتے ہیں.وہ لوگوں کے ڈرسے نہیں کرتے بلکہ خدا تعالیٰ کے لیے کرتے ہیں.اگر یہ ثابت کر دیا جائے تب دشمن ہم پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا.اس وقت میں اپنی جماعت کے اس علاقہ میں کھڑا ہوں.جہاں خدا کے فضل سے اور علاقوں کی نسبت احمدیت کی زیادہ ترقی ہوتی ہے.اس علاقہ میں ایسی بستیاں موجود ہیں.جہاں احمدیوں کی تعداد دوسروں کی نسبت زیادہ ہے.اور غیر احمدی قریباً مفقود ہیں.اس لیے یہی علاقہ ہے جو سب سے پہلے اس بات کا ثبوت پیش کر سکتا ہے کہ ہماری نیکی ہمارا تقویٰ.ہمارا اتحاد ہمارا اتفاق - ہماری قربانی.ہماری کوششیں لوگوں سے ڈر کر مجبوری کی وجہ سے ہیں یا خدا تعالیٰ کے لیے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہیں.اس جگہ جماعتیں موجود ہیں.جن کے گاؤں میں غیر احمدی یا تو بالکل نہیں یا ایسی کمزور حالت میں ہیں کہ ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے.اس لیے وہ لوگ امن میں ہیں گو پورے امن میں نہیں کیونکہ اگر ان کے گاؤں میں ان کے مخالف نہیں رہے یا کمزور ہو گئے ہیں تو ارد گرد کے گاؤں میں تو ہیں.تاہم اوروں کی نسبت وہ زیادہ ان میں ہیں ان کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ سچی نیکی اور سچا اخلاص دکھا سکتے ہیں.مگر سوال یہ ہے کہ جہاں ایسا موقع
۴۲۱ آیا ، وہاں کے لوگوں نے کیا نمونہ دکھایا.شخص غور کرے اور دیکھے کہ اس وقت بھی وہ دین کے متعلق ویسا ہی جوش اور اخلاص دکھا رہا ہے جیسا کہ اس وقت دکھلاتا تھا.جب دشمن اس کے سامنے کھڑا تھا اور ہر وقت اسے خوف لگا رہتا تھا.پھر اس وقت بھی اسے اپنے احمدی بھائیوں سے ایسی ہی محبت ہے جیسی کہ پہلے خوف اور ڈر کے وقت تھی جس کو یہ معلوم ہو کہاس میں وہ محبت نہیں ہے جو اس وقت تھی جب دشمن زیادہ تھے وہ سمجھ لے کہ اس کا ایمان بناوٹی ہے.اور وہ دھوکہ میں ہے.اسی طرح اگر کوئی محسوس نہیں کرتا کہ وہ دین کے لیے ایسا ہی جوش رکھتا ہے.جیسا کہ پہلے رکھتا تھا تو وہ سمجھ لے کہ اس کا دعوی ایمان سچا نہیں ہے.یہی حال اور سب باتوں کا ہے.دراصل بہت سے کام انسان دشمن کے خوف سے کرتا ہے اور ترقی کے لیے بہت بڑا ذریعہ رکاوٹیں ہوتی ہیں.لوگ عام طور پر سوال کرتے ہیں کہ خدا نے شیطان کیوں پیدا کیا اور کہتے ہیں ایک خیالی چیز کا نام شیطان رکھ دیا گیا ہے یا یہ کہ انسان کا نفس ہی شیطان ہے.کوئی علیحدہ چیز نہیں ہے، لیکن میں اس سے متفق نہیں ہوں.میں سمجھتا ہوں.شیطان ایک ایسی چیز پیدا کی گئی ہے جو انسان کے نفس کے علاوہ ہے گو وہ مجسم نہیں.وہ انسان کو اس وقت بدی کی طرف کھینچتا ہے.جبکہ وہ نیکی کی طرف جھکتا ہے.پس ہمیں کہتا ہوں خُدا نے شیطان کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ انسانوں کو انسان فتح اور زیر کر لیتا ہے.اور جب وہ فتح پالیتا ہے تو اپنے مقابلہ رکاوٹوں کو دور کر کے مست ہو جاتا ہے.مگر شیطان ایسی چیز ہے کہ اس کو آسانی سے زیر نہیں کیا جاسکتا.اس کو خدا سامنے لاکھڑا کرتا ہے تاکہ انسان سست نہ ہو اور آگے ہی آگے بڑھتا رہے.انسان شکست اسی وقت ہوتا ہے جب سمجھتا ہے کہ اب مجھے کوئی خطرہ نہیں ہے، لیکن شیطان کی وجہ سے وہ ہر وقت اپنے آپ کو خطرہ میں پاتا ہے اور ہر وقت چوکنا اور ہوشیار رہتا ہے پس شیطان کا وجود انسان کو چوکس اور ہوشیار کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے.اگر کوئی شخص ایک گاؤں کی سب آبادی کو احمدی بنالے تو وہ بیجھ کر مست نہیں ہو جائیگا کہ اب میں امن میں آگیا ہوں.کوئی میرا مخالف اور دشمن نہیں رہا.بلکہ وہ کسے گا.ابھی شیطان میرے پیچھے کتنے کی طرح لگا ہوا ہے.اس سے مجھے غافل نہیں ہونا چاہیئے تا وہ مجھے اپنی طرف ہی کھینچ کر نہ لے جاتے اس طرح وہ ہر وقت چوکس رہیگا.تو خدا تعالیٰ نے انسان کی روحانیت کو قائم رکھنے بلکہ اس کو بڑھانے کے لیے شیطان کو پیدا کیا ہے لوگ کہتے ہیں خدا نے شیطان لوگوں کو گراہ کرنے کے لیے پیدا کیا ہے لیکن میں کہتا ہوں.روحانی ترقی کی طرف چلانے اور روحانیت کو محفوظ رکھنے کے لیے پیدا کیا ہے.اور بتایا ہے کہ یہ مت
۴۲۲ سمجھو کہ گاؤں کے سارے کے سارے لوگ احمدی ہوگئے ہیں.اس لیے کوئی خطرہ نہیں رہا.بلکہ شیطان ہر وقت تمہارے پیچھے لگا ہوا ہے اس سے چوکس رہو.ہماری جماعت کو خاص طور پر یہ بات مد نظر رکھنی چاہیئے اور ہر ایک احمدی سوچتا ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے.مجبوری سے تو نہیں کرتا.اگر مجبوری سے کرتا ہے تو اس کا اخلاص اس کی نیکی اس کا تقویٰ سب بناوٹی ہے اور جب تک یہ ثابت ہو کہ تقوی او نیکی جوش اور قربانی خدا کے لیے ہے اس وقت یک وہ کسی انعام کا مستحق نہیں ہو سکتا.اور نہ اپنے نفس سے معلمین ہو سکتا ہے پس میں اپنی ساری جماعت کو عموماً اور علاقہ سیالکوٹ کی جماعت کو خصوصاً جسے اپنی زیادتی کی وجہ سے اپنے اخلاص اور جوش کو اصلی سے اور کو ثابت کرنے کا موقع مل گیا ہے تاکید کرتا ہوں کہ وہ اس بات کا خاص خیال رکھے.مجھے معلوم ہوا کہ بعض جگہ جہاں جماعت کی زیادتی ہے بعض نقص پیدا ہو گئے ہیں.ذرا ذراسی بات پر آپس میں جھگڑا شروع کر دیتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اتفاق اور اتحاد حقیقی ایمان کے نتیجہ میں نہ تھا.جب تک دشمن ان کے سامنے تھا اکٹھے تھے.جب وہ ہٹ گیا تو پھر جس طرح خیر احمدی ہونے کی حالت میں لڑتے تھے.اسی طرح لڑنے لگ گئے.میں پوچھتا ہوں کیا فائدہ ہے اس ایمان کا جس نے کوئی تبدیلی نہیں کی.اور میں نے کچھ دیا نہیں اگر وہی حالت رہی جو احمدی کہلانے سے پہلے تھی توایمان لانا نہ لاتا مساوی ہے.اگر وہ ایمان ایسا ہے کہ اس کے ذریعہ دل سے وحشت نہ گئی.درندگی دور نہ ہوئی.تو اس کی قیمت ایک پیسہ بھی نہیں ایسا ایمان منافقت ہے.اور اس سے وہ بے ایمانی اچھی ہے جس میں محبت اور پیارا الفت اور نرمی پیدا ہو.پس جب تک تم تغیر کر کے نہ دکھا وا اور خواہ سارا ملک احمدی ہو جائے.تمہارا قدم نیکی سے پیچھے نہ ہٹے بلکہ آگے ہی آگے بڑھتا جائے اس وقت تک تمہارا ایمان حقیقی نہیں ہو سکتا اگر تم اسوقت اخلاص دکھاتے ہو جبکہ تمہاسے ثمین زیادہ ہوں تو اسوقت جبکہ دشمن کم ہو جائیں اور زیادہ اخلاص دکھانا چاہیئے.ایک دفعہ رسول کریم صلی الہ علیہ السلام کے پاس صحابہ گئے اور جاکر کہا.آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں کہ کھڑے کھڑے آپ کے پاؤں سوج جاتے ہیں.آپ کو خدا نے اتنا بڑا درجہ دیا ہے.کیا آپ کو بھی اس قدر عبادت کرنے کی ضرورت ہے.آپ نے فرمایا.کیا تم یہ کہتے ہو کہ مں خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں.دیکھو تم تو اس لیے عبادت کرتے ہو کہ عذاب سے بچائے جاؤ.اور مجھے چونکہ خدا نے بچا لیا ہے اس لیے میں اس کے شکریہ میں تم سے بڑھ کر عبادت کرتا ہوں.تو حقیقی ایمان اور نیچے بخاری کتاب التجد باب قیام انبي صلى اله علیه وسلم حتی ترم قدماه
تسييح اخلاص کا پتہ اسی وقت لگتا ہے جبکہ انسان امن وامان میں ہوتا ہے پہلے جب دشمن سامنے کھڑا ہو اس وقت اگر کوئی ایمان اور اخلاص دکھاتا ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ اپنی غرض سے کرتا ہے کہ دشمنوں کے شرسے بچایا جاوے، لیکن جب بچالیا جاوے اور اس وقت بھی اخلاص دکھاتے تب حقیقی مخلص ہو سکتا ہے ورنہ اس سے زیادہ بے حیائی اور کیا ہوگی کہ جب تک فائدہ کی امید ہو اس وقت تک تعلق رکھا جائے اور جب فائدہ اُٹھا لیا جائے تو پھر تعلی چھوڑ دے پس اگر تم لوگ دشمنوں کی طرف سے امن میں آگئے ہو تو خدا کا شکر کرو کہ دوسرے بھائیوں سے پہلے تمہیں امن حاصل ہو گیا ہے وہ اب بھی دُکھ دیتے جارہے ہیں.خرید و فروخت سے روکے جار ہے ہیں.اور طرح طرح سے سناتے جارہے ہیں.مگر تم کو خدا نے ان سے پہلے امن دیدیا ہے.کیا اس کی یہی قدر ہے ؟ کہ خدا کے حکموں کو تم پیچھے ڈال دور نہیں بلکہ یہ کہ تم اپنے اعمال سے ثابت کر دو کہ تمہارا خدا تعالے سے حقیقی تعلق ہے اور کم عمر کیسر میں ایک ہی جیسے رہتے ہو.پس تم خدا کے اس فضل کی قدر کرو اور آپس میں لڑائی جھگڑے کرنے کی بجائے پہلے سے بھی زیادہ اتفاق و اتحاد سے رہو.اپنے حوصلے وسیع کردو، کیونکہ مومن کا حوصلہ بہت وسیع ہوتا ہے.بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہماری لڑائی تو دین کے لیے ہے.مگر دین کے لیے تو لڑائی ہوتی ہی نہیں.اگر کوئی خود بخود نہیں چھوڑ کر چلا جائے اور بُرا بھلا کے تو وہ لڑتا ہے ہم نہیں لڑتے کیونکہ اسلام کسی سے لڑنے کی اجازت نہیں دیتا.یہ کہا کہ فلاں آدمی کو ہم نے اس لیے چھوڑ دیا ہے کہ اس نے یہ بداخلاقی دکھلاتی ہے.ہم کہتے ہیں کہ اگر وہ اخلاق دکھاتا تو پھر اس کو ساتھ رکھنے میں بات ہی کو نسی تھی اور اس پر احسان کرنے کا موقع ہی کیا تھا.احسان کرنے کا موقع تو یہی ہوتا ہے کہ انسان خلاف منشاء خود کوئی بات دیکھے اور پھر بھی سلوک کرے اگر کوئی کسی کے پاس آئے اور وہ اسے قالین بچھا دے تو کیا وہ ایسا کر گیا کہ قالین پر بیٹھ کر میزبان کو پتھر مار دے.ہرگز نہیں کیونکہ اخلاق کے مقابلہ میں اخلاق دکھا نا کوئی بڑی بات نہیں.اصل میں بداخلاقی کے مقابلہ میں اخلاق دکھانا سختی کے مقابلہ میں نرمی کرنا اور جاتے ہوئے کو پکڑ کر اپنے پاس بٹھلانا یہ اخلاق ہے.بعض نادان کہا کرتے ہیں مرزا صاحب نے آکر کیا کیا ان کی جماعت میں بھی ایسے آدمی ہیں.جو لڑتے جھگڑتے ہیں.میں کہتا ہوں مرزا صاحب ریکروٹنگ آفیسر نہ تھے.کہ جن لوگوں کا قد کان ناک وغیرہ اعضاء اور صحت اچھی تھی ان کو چن چن کر اپنی جماعت میں بھرتی کرتے تھے بلکہ وہ ایک روحانی طبیب تھے.جو بیماروں کو پیر پکڑ کر اپنے پاس رکھتے تھے پس اگر ان کے ہسپتال میں بیمار ہیں تو یہ کوئی
۴۲۴۴ اختیاض کی بات نہیں ہے ہاں پیر دیکھو کہ انہوں نے کسی کو اچھا بھی کیا ہے یا نہیں.اگر کیا ہے تو پھر یہی ان کا کام ہے دراصل نبی کا کام ڈاکٹر کے کام کی مانند ہوتا ہے اگر اس کے پاس زیادہ بیمار جمع ہوں تو میہ اس کی بڑائی کا ثبوت ہوتا ہے نہ کہ اس کے نقص کا.پس اس کی قابلیت کو پرکھنے کے لیے یہ نہیں دیکھنا چاہیئے کہ اس کے پاس بیمار زیادہ ہیں بلکہ یہ دکھنا چاہتے کہ اس کے علاج سے کوئی اچھا بھی ہوا ہے یا نہیں، اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس کی وجہ سے ایک اپنی جماعت پیدا ہو گئی ہے، جو اچھی ہے تو اس کی قابلیت اور صداقت ثابت ہوگئی.چونکہ اعلیٰ اخلاق دکھانا اور ان لوگوں کے مقابلہ میں کھانا وبداخلاقی میں حد سے بڑھے ہوتے ہیں.نبی کا کام ہوتا ہے اس لیے اس کے نقش قدم پر چلنے والوں کا بھی فرض ہوتا ہے کہ اگر کسی میں غلطی دیکھیں.تو اس کی اصلاح کی کوشش کریں نہ کہ اس سے قطع تعلقی کرلیں.اگر وہ لوگوں کی غلطیوں کی اصلاح نہیں کرتے، تو پھر انھوں نے بیڑا کس کام کا اُٹھایا ہے.کیا اسبات کا کہ لوگ خود بخود نیک ہو کر اور اعلیٰ اخلاق سیکھ کر ان کے پاس آجائیں.اور انھیں اپنے ساتھ ملالیں.یہ تو کوئی بڑی بات نہیں ہے کتے ہیں کوئی پور بیا تھا.ان میں رسم ہے کہ جب کوئی مرجاتا ہے تو بین کرتے ہیں.جب وہ مر گیا.تو اس کی بیوی نے بین کرنے شروع کئے کہ ہائے فلاں سے اس نے اتنا روپیہ لینا تھا.اب کون لے گا.ایک پور بیا بولا" ہم ری ہم پھر اس نے کہا کہ فلاں جائیداد کا کون انتظام کرے گا.اس نے کہا.تہم ری ہم " لیکن جب اس نے یہ کہا کہ فلاں کا اتنا روپیہ دینا تھا وہ کون دیگا تو اس نے کہا میں ہی بولوں یا کوئی اور بھی بولے گا تو لینے کے وقت تو سب تیار ہو جاتے ہیں.اگر مفت کے ہمدرد اور خیر خواہ مل جائیں تو ان سے کون انکار کر سکتا ہے، لیکن ایسے لوگ انبیاء کے قائم مقام کہلانے کے مستحق نہیں ہیں.انبیاء کی قائم مقامی کے ستحق وہی ہوتے ہیں جو دوسروں کے نقصوں کا علاج کرتے.ان کے اخلاق درست کرتے.ان میں تبدیلی پیدا کرتے ہیں.پیں یہ خیال کرنا کہ اگر کسی سے کوئی ایسی بات سرزد ہو جائے جو اچھی نہ ہو.تو اس سے تعلق قطع کر لینا تمہارے لیے جائز نہیں ہے.تمہارا یہ کام نہیں کہ جس میں کوئی نقص دیکھو.اس کو چھوڑ کر بیٹھ جاؤ.بلکہ یہ ہے کہ اس کا علاج کرو اور اس کے نقائص کو دور کرو.ایک دوسرے کی بیماریوں اور نقصوں کو دیکھنے کے لیے ہمارے مخالفین کی نظر کافی ہے وہ ایک دوسرے کے آئینہ میں اپنی شکل دیکھ کہ فتوی لگا رہے ہیں.تم بھی اگر اسی طرح کرنے لگ جاؤ - توتم میں اور ان میں فرق ہی کیارہ جائیگا.وہ بھی ایک دوسرے کے عیب نکالتے اور برائیاں بیان کرتے ہیں.تم میں سے بھی اگر ایک بھائی دوسرے بھائی کا عیب نکالتا ہے.تو وہ بھی دوسرں جیساہی
۴۲۵ ہے.ہاں اگر اپنے بھائی کے علاج میں لگ جاتا ہے اور اس کے نقائص دُور کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ فرق ہے کیونکہ دوسرا صرف بیماری دیکھتا ہے.اور اسکا علاج نہیں کرتا مگر تم اپنے بھائی کی بیماری دیھکر اس کا علاج بھی کرتے ہو مگر میں دیکھتا ہوں بہت سے لوگوں میں عیب لگانے کی تو عادت ہے، لیکن عیب دُور کرنے کی نہیں.اس کا نتیجہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں نکلتا کہ آپس کے تعلقات منقطع ہو جاتے ہیں اور ایک کو دوسرے سے کوئی محبت نہیں رہتی.انسانی فطرت کو اکسائے اور اپنی طرف مائل کرنے والی چیز محبت اور پیار ہے جب کوئی انسان اپنے اندر محبت کا چشمہ بہاتا ہے تو اس کے آس پاس جو لوگ ہوتے ہیں.ان کی فطر میں خواہ سینکڑوں من مٹی کے اندر دبی ہوں.اُبھر آتی ہے.میں نے ایک رویا دیکھا.جو کئی دفعہ سنایا ہے.میں نے کیا ایک سیٹچو ہے جس کے اوپر ایک بچہ ہے.جو آسمان کی طرف ہاتھ پھیلاتے ہوتے ہے.ایسا معلوم ہوا ہے کہ کسی کو بلا رہا ہے.اتنے میں آسمان سے کوئی چیز اتری ہے جو نہایت ہی حسین عورت ہے.اور اس کے کپڑوں کے رنگ ایسے عجیب و غریب ہیں جو میں نے کبھی نہیں دیکھے.اس نے جو ترے پر سے اتر کر اپنے پر پھیلا دیتے اور نہایت محبت سے بچہ کی طرف جھکی.وہ بچہ بھی اس کی طرف اس طرح پکا جس طرح ماں سے محبت کرانے کیلئے لیکا کرتا ہے.اور اس نے بچہ کو ماں کی طرح ہی پیار کرنا شروع کر دیا.اس وقت میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہو گئے.Love creates Love کہ محبت محبت پیدا کرتی ہے، اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ وہ بیٹی ہے اور وہ عورت مریم تو محبت مردہ کو زندہ دشمن کو دوست مخالف کو موافق بنا دیتی ہے.ذراغور تو کر وہ کیا چیز ہوتی ہے جس سے نبیوں کے مخالف ان کے پاس کھینچ کر چلے آتے ہیں وہی جس کے متعلق خدا تعالیٰ رسول کریم کو فرماتا ہے.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ (الشعراء ۴۰) کیا تو اپنی جان کو ان لوگوں کے لیے ہلاک کر لیا تو انبیا، لوگوں کے گناہوں اور کمزوریوں کو دیکھ کر ان سے نفرت نہیں کرتے ہیں کیونکہ تندرست اور مضبوط کو دیکھ کراس پریم نہیں کیا جاتا بلکہ بیمار اور زور پریم کیا جاتا ہے پس اگر تم اپنے گز در اید غیب دار بھائی سے ہمدردی نہیں کرتے.اس کو مدد نہیں دیتے.تو کسی اچھے اور تندرست سے ہمدردی کرنا کچھ حقیقت نہیں رکھتا.اصل ہمدردی اور امداد تو وہی ہے.جو کمزور کو دی جائے.ایک الیسا شخص جس کو کوئی احتیاج نہیں.اس کو اگر کہا جائے کہ ہمارے لائق کوئی خدمت ہو.تو تلا ہے.یہ کوئی بڑی بات نہیں.ہاں بڑی بات یہ ہے.جو محتاج ہو.اس کی امداد کی جائے.توکمزور بھائی کیساتھ
تعلق رکھنا اور اس کو اپنے ساتھ رکھنا اصل بات ہے.زور اور طاقت والے تو خود بخود ساتھ ہو جاتے ہیں پس تم اپنے نفسوں میں تبدیلی پیدا کرو تاکہ فلاح پاؤ.احمدیت کے صرف نام میں کوئی ایسی تاثیر ہیں کہ پھر کسی اصلاح کی ضرورت نہیں رہ جاتی جب محمدیت نے لوگوں کو نہیں بچایا.تو احمدیت کہاں بچا سکتی ہے.جب آقا کا نام لینے والے تباہی سے نہیں بچ سکے.تو غلام کا نام لینے والے کیونکر بیچ سکتے ہیں.اصل چیز ایمان ہے.اور ایمان ہی کام آنے والا ہے جس میں خلوص محبت اور تقویٰ ہو.اگر خدا تعالیٰ سے محبت ہو تو اس کے بندوں سے محبت کئے بغیر انسان رہ ہی نہیں سکتا کیونکہ جس سے محبت ہوتی ہے.اس کی ہر ایک چیز پیاری لگتی ہے.میں نے دیکھا ہے.جن کو حضرت صاحب سے محبت ہے.وہ ان جگہوں میں خاص طور پر جاتے ہیں جہاں حضرت صاحب کبھی بیٹھے.امرت سر میں ایک حجام تھے.انھوں نے حضرت صاحب کے بال اور ناخن رکھے ہوتے تھے.ایک دفعہ میں امرت سر گیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے پاس حضرت کے بال اور ناخن ہیں.ہمیں کنکر چپ رہا.اس پر انہوں نے غصہ سے لال لال آنکھیں نکال کر کہا.میں نے حضرت صاحب کے تبرکات کا ذکر کیا ہے.مگر اس نے یہ نہیں کہا کہ مجھے دکھاؤ.یہ وہ محبت تھی جو محبوب سے تعلق رکھنے والی چیزوں سے ہوتی ہے توجو خدا تعالیٰ سے محبت رکھتا ہے.وہ خدا کی مخلوق سے بھی محبت رکھتا ہے اور جس کے دل میں خدا کی محبت ہو.اس میں کسی کی دشمنی جاگزیں نہیں ہو سکتی.میں فخر کے طور پر نہیں.بلکہ آپ لوگوں کو تحریں دلانے کے لیے کہتا ہوں کہ ہمارے سلسلہ کا سب سے بڑا دشمن شناء اللہ ہے.مجھے اس سے بھی محبت ہی ہے.میں تو سمجھتا ہوں.میں کسی سے شمنی کے لیے پیدا ہی نہیں کیا گیا.بلکہ ہر ایک کے ساتھ محبت کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہوں.پس آپ لوگوں کو چاہیتے کہ ایک دوسرے سے محبت اور پیار کا ہی سلوک کرو.اگر تم کس کو اپنی طرف کھینچنا چاہتے ہو تو محبت سے ہی کھینچ سکوگے.ورنہ تم کیا اور تمہاری حقیقت کیا ؟ رسول کریم صلی الہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق خدا تعالی فرماتا ہے.اگر یہ لوگوں سے اچھا سلوک نہ کرے اور ان سے سختی کے ساتھ پیش آئے تو لوگ اس سے بھاگ جاتیں لیے پس انبیاء کے پاس بھی لوگ اسی لیے جمع ہوتے ہیں کہ وہ محبت سے انہیں کھینچتے ہیں.اور جتنا کسی میں پیار اور محبت کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے اتنا ہی وہ لوگوں کو زیادہ اپنی طرف کھینچتا ہے پس جس میں تم کوئی غلطی کمزوری اور نقص دیکھو.اس کو چھوڑ نہ له سورة ال عمران :۱۶
دور اس سے سختی کے ساتھ پیش نہ آؤ.بلکہ اس کی کمزوری اور نقص کو دور کرنے کی کوشش کرو کیا جب بچہ بیمار ہوتا ہے.تو ماں باپ اُسے باہر پھینک دیتے ہیں یا اس کی بیماری کا علاج کرتے ہیں.اگر علاج کرتے ہیں تو تم کو بھی چاہیئے کہ اگر تمہارا کوئی بھائی بیمار ہو.یا اس میں کوئی نقص اور کمزوری ہو.توبہ نہ کرو کہ اس کو اپنے میں سے باہر پھینک دو.بلکہ اس کی بیماری کو دور کرنے میں لگ جاؤ.اگر اس میں تم کامیاب ہو جاؤ تو یہ قابل ستائش اور لائق اجرت ہوگی، لیکن اگر کسی کمزور بھائی کو اپنے سے جدا کر دو تو یہ تمہاری اپنی کمزوری اور نقص کو ظاہر کریگی آپس میں محبت اور پیار بڑھانے کی کوشش کرو.اور یہ سمجھو کہ تمہاری جماعت کسی نئے طریق پر قائم ہوئی ہے.اور احمدیت لوگوں کے اعتراضات اور شکوک کو دور کرنے کے لیے دلائل نہیں رکھتی.احمدیت کمزور نہیں بلکہ خدا کے فضل سے بہت مضبوط ہے.اور دلائل کے ساتھ سب اعتراضات اور شکوک کو دور کر سکتی ہے.پس اگر کسی کے دل میں کوئی اعتراض ا ہوتا ہے.تو اسے دلائل سے سمجھاؤ اوراس کی تسلی کراؤ.اگر تم اس طرح کرو گے.تو وہی بھائی جو آج تمہیں اپنا مخالف نظر آتا ہے.کل تمہارا مددگار ہوگا.خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو اس کی توفیق دے کہ دشمن کی زیادتی کے وقت تمہارا خدا تعالیٰ سے جو تقعتی ہو.دشمن کی کمی کے وقت بھی ویسا ہی ہو.بلکہ اس سے بڑھ کر ہو اور تم لوگوں کی اصلاح کرنے اور ان کی کمزوریوں کو دُور کرنے میں اس مصلح کے نقش قدم پر چلو.جو اس زمانہ کی اصلاح کے لیے آیا.اور جیس کے پیرو ہونے کا تم دعوی کرتے ہوئے الفضل ۷ امتی ته)
۴۲۸ 79 بات تین نکالنے سے قبل اس پر کافی غور کرنا چاہئے فرموده ۱۶ اپریل نشاته حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : - " میں نے پیچھلے جمعہ سے پہلے جمعہ ایک خاص امر کی طرف جماعت کو توجہ دلانے کے لیے بعض تمہیدی باتیں بیان کی تھیں.جو کچھ اس دن بیان کیا تھا.اس سے آیندہ مضمون کا نتیجہ نکالنا مشکل امر تھا میگر خطبہ نویس کی بے توجہی کی وجہ سے یا کسی اور باعث سے پیشتر اس کے کہ میں بیان کروں کہ وہ کونسا مضمون تھا.اس خطبہ کا عنوان تعلق باللہ لکھ دیا گیا.گودین کی ہر ایک بات ہر حال تعلق باللہ میں داخل ہو جاتی ہے، لیکن اس تمہید کا بلاواسطہ طور پر تعلق باللہ سے تعلق نہ تھا.اس سے مجھے خیال ہوا کہ ممکن ہے کہ اسی رنگ میں اور لوگوں نے بھی غلط نتیجہ نکالا ہو.اس لیے میں اس کی اصلاح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں.جب تک بات پر غور نہ کیا جائے.اس کا سمجھنا شکل ہوتا ہے.اور اس سے ٹھوکر لگتی ہے.اور اسی ٹھو کر کے باعث علمی کمزوریاں رہ جاتی ہیں.عام طور پراس کو علم سمجھا جاتا ہے کہ کمل اور پوری بات کئے بغیر نتیجہ نکال لیا جائے.چونکہ وہ خیال کرلیتے ہیں کہ ہر ایک بات ابتداء سے انتہا تک نئی نہیں ہوتی.اس لیے وہ ساری بات کئے بغیر ہی نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں.اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگ علوم سے محروم رہ جاتے ہیں.میں نے اس تمہید میں اسی بات پر زور دیا تھا.کہ جب بات سنو تو غور سے سنو.اور پوری سنو.پھر نتیجہ نکالو شل مشہور ہے.کسی جگہ چند آدمی تھے.ایک شخص نے بغیر کسی کا نام لیے کہا.وہ تو جس وقت پہرے کے لیے کھڑا ہوتا ہے.بہت خوبصورت معلوم ہوتا ہے.دوسرے نے کہا یہ تو معلوم نہیں.ہاں گم شدہ چیز کو خوب تلاش کر لاتا ہے.تیسرے نے کہا.یہ تومیں جانتا نہیں.ہاں یہجاتا ہوں وہ گا تا اچھا ہے چوتھے نے بھی اسی قسم کی کوئی بات گئی.آخر ما پروں ایک دوسرے سے لڑنے
۴۲۹ گئے.اور ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ تم میرے خلاف کیوں کہتے ہو.ایک شخص پاس سے گزرا.اور لڑائی کا سبب پوچھا.تو ایک نے کہا کہ میں فلاں کتے کا ذکر کر رہا تھا.دوسرے نے کہا کہ میں فلاں گویے کا ذکر رہا تھا.غرض ہر ایک نے کسی دوسری ہی چیز کا نام لیا.تو ان چاروں نے ایک دوسرے کے منہ سے اپنے اپنے خیال کے مطابق نتیجہ اخذ کر کے فیصلہ کر لیا کہ فلاں کے متعلق کہا گیا ہے.اور ساری خرابی اسی بات سے پیدا ہوئی کہ مکمل بات سنے بغیر یونی فیصلہ کر لیا تھا.تو ایک آدھ بات سن کر کہ دیا جاتا ہے کہ ساری بات یہ ہوگی.دنیا کی کوئی کتاب پڑھو.اس میں تمام باتیں ایسی نہ ہونگی.جوتمہیں پیشتر سے معلوم نہ ہوں، بہت سی پہلے معلوم ہونگی.قرآن کریم ہی کو دیکھ لواس میں بہت سی باتیں ایسی ہونگی جو پہلے سے معلوم ہونگی، لیکن جو لوگ ان معلومہ باتوں کی وجہ سے فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہم نے سمجھ لیا.وہ علوم سے محروم رہتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہوتی ہے.کہ علوم کے حاصل کرنے اور بڑھانے میں توجہ کا بہت بڑا دخل ہے.جب ایک شخص کسی بات کے متعلق کہتا ہے کہ میں اسے جانتا ہوں.تو اس کی توجہ اس سے ہٹ جاتی ہے اور وہ ایک علم کی حقیقت اور خوبی سے ناواقف رہتا ہے، لیکن جو غور کرتا اور توجہ قائم رکھتا ہے اور اسلوب بیان کو جانچتا اور بات کی نہ میں داخل ہوتا ہے.اس کا علم دوسرے شخص کی نسبت بہت بڑھ جاتا ہے.اس کے لیے ایک اور مثال یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی خاص شخص کی تلاش میں نکلے تو دُور سے کسی اور ہی شخص کو وہ خیال کر کے پکارے گا.اور پاس جا کر غلطی سے آگاہ ہوگا، لیکن اگر اس سے ملنے کی ضرورت نہ ہو.تو خواہ وہ پاس سے گزر جائے تو بھی اس کی طرف توجہ نہیں ہوگی.پس جولوگ باتوں پر غور کرتے ہیں.وہ ان میں جدت پاتے اور ترقی کرتے ہیں.مگر جو ہر ایک بات کو جانی ہوئی سمجھتے ہیں.وہ غور نہیں کر سکتے.اس لیے علوم سے محروم رہ جاتے ہیں.یہی نقص ہے.جو تمام علوم کے حصول میں حائل ہو جاتا ہے.جو لوگ اس نقص کو دور کر دیتے ہیں.وہ علوم حاصل کر لیتے ہیں.اسی نقص کے نہ ہونے کے باعث محمد صلی اللہ علیہ وسلم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر ابوبکر رضی اللہ عنہ ہو گئے.اور اسی کے ہونے سے ابوجبل ابوحمل ہوگیا.ایک ہی باتیں ہوتی ہیں کہ ایک شخص غور کر کے علوم کے نئے نئے راستے نکال لیتا اور بڑے بلند مقام پر پہنچ جاتا ہے.مگر دوسرا اس گڑ کو چھوڑ کر گر جاتا اور علوم سے محروم رہ جاتا ہے.دیکھو اب کیر اس گرہ پر عمل کر کے ایک بات سنکر ابوگیر ہو جاتا ہے، لیکن ابو جبل اس گر کو چھوڑ کر اسی بات کو سنکر ابوجبل ہو جاتا ہے.می قرآن کریم ہے جس کے متعلق مسیح موعود فرماتے ہیں کہ تمام روحانی علوم کا مجموعہ ہے مگر برخلاف اس کے آج کل کے مولوی کہتےہیں کہ جو باتیں پہلے کہ گئے ان سے زیادہ اس میں کچھ نہیں.اگر کوئی معرفت کی اور
۴۳۰ علم کی بات بیان کی جائے تو کہتے ہیں اگر یہ ٹھیک ہے تو سے علماء کی سمجھ میں کیوں نہآئی.یہ خیال کرکے انہوں نے قرآن کریم پر غور کرنا چھوڑ دیا.اور اس کے علوم اور معارف سے محروم ہو گئے.اب کیا فرق ہوا یہی کہ مسیح موعود اور اس کے طریق پر چلنے والے قرآن پر غور کرتے اور اس سے علوم نکالتے اور فائدہ اُٹھاتے ہیں.اور مولوی لوگ خیال کرتے ہیں کہ اس کے محض لفظوں کا تکرا ر ہی ثواب کی بات ہے.پھر دیکھو یہی زمین جس پر ہم رہتے اور چلتے پھرتے ہیں.ہمارے نزدیک اسی مصرف کی چیز تھی.لیکن یورپ کے لوگوں نے اس سے وہ کچھ نکال کہ دنیا کو حیران کردیا.یہی پانی جسے ہم پہتے ہیں.یورپ نے اس کی گیسیں بنا کر بڑے بڑے کام اس سے نکالے بغرض جب تک کسی بات پر غور نہ ہو.سرسری سنے سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا.اسی پچھلے جلسہ میں پہلے دن میں نے یہ بات بیان کی تھی.کہ دنیامیں بہت سے گناہ ہیں اور اس بیان میں میں نے انسان کے بندہ خدا نے پر فصل گفت گو کی تھی اور اس کے ضمن میں نیکی اور بدی کا بھی ذکر تھا.میں نے بتایا تھا کہ بدیاں بہت ہیں ، لیکن وہ گناہ جس کے باعث شعائر اسلام پر حرف آتا ہو.وہ بنت خطرناک گناہ ہوتے ہیں.وہ چھوٹی بدی جس کے باعث اسلام بدنام ہو.بہت بڑی ہے.نیبت اس بدی کے جو محض ارتکاب کر نیوالے کی ذات کیلئے ہلاکت کا موجب ہو، ایک شخص اندھیری رات میں کہیں چوری کیلئے جاتا اور سیندھ لگاتا ہے.یہ گناہ ہے اور اسکی ذات کیلئے بڑا گناہ ہے مگر وہ شخص جو مسلمان کہلا کر علی الاعلان سود لیتا ہے.وہ اس کی نسبت بہت بڑا گناہ کرتا ہے.کیونکہ یہ لوگوں کو موقع دیتا ہے کہ وہ شور مچائیں کہ اسلام قابل عمل مذہب نہیں.اس وقت جزوں اور گناہوں کے شرعی مدارج کو چھوڑ کر محض اس وجہ سے کتے ہیں کہ فلاں گناہ زیادہ بڑا ہے کہ اسلام کے لیے اعتراض کا موجب بنتا ہے.ی تھی میری تقریر میں اس کے سیاق وسباق پر غور نہ کیا گیا.اور الفضل میں لکھ دیا گیا کہ احباب کو چاہتے کہ جو ہدایات ان کو جلسہ میں دی گئی ہیں.ان پر کار بند ہوں.بالخصوص دو شادیاں کرنے پر ضرور عمل کریں.یہ کیوں لکھ دیا گیا.اس لیے کہ میرے متعلق وہ سمجھتے تھے کہ یہ دو شادیوں کے لیے کہا کرتا ہے.بیشک میں کیا کرتا ہوں، لیکن میں نے اس وقت یہ بات بیان نہیں کی تھی بلکہ میں نے تو اس وقت مثال کے طور پر کہا تھا کہ جو لوگ دو شادیاں کرتے ہیں مگر انصاف نہیں کرتے وہ سمجھ لیں کہ وہ ایک سخت گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں.جس سے لوگوں کو اسلام سے نفرت پیدا ہوتی ہے اس لیے یہ ان کا گناہ اس گناہ کی نسبت جو پوشیدہ طور پر کیا جائے اور ان کی ہلاکت کا موجب ہو.بڑا
ہے کیونکہ اس سے ان کی ذات کی بجائے اسلام اعتراضات کا نشانہ بنتا ہے، لیکن جو شخص دو شادیاں اس لیے کرتا ہے کہ مسلمان بڑھیں اور انسانی نسل کی ترقی ہو.اور لوں کے ساتھ مساوی سلوک کرتا ہے.وہ اسلام پر اعتراض کا موجب نہیں بنتا، بلکہ اسلام پر سے اعتراض کو دور کرتا ہے.یہ بات تھی جو میں نے بیان کی.لیکن جونی ک میری تقریریں دو بیویوں کا ذکر آیا اور خیال کریگا کہ یہ دو بیویوں کے کرنے کے متعلق ہی کہ رہے ہیں.باقی جس قدر بات میں نے بیان کی.اس پر توجہ نہ کی گئی.اور ایک ادھورا فقرہ منکر فیصلہ کرلیا گیا کہ مطلب ہی ہوگا.حالانکہ جب تک کسی بات پر پورا غور نہ کیا جائے.اس کے تمام پہلو سمجھ میں نہیں آسکتے.اور نہ ناقص غور کے ذریعہ علوم ترقی کر سکتے ہیں.آج کل یہ کمال خیال کیا جاتا ہے کہ جب کوئی بات کر رہا ہو تو فوراً درمیان میں بول پڑیں جس سے ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے.کہ ہم خو سمجھتے ہیں.اور گویا ان لوگوں کی علمیت ظاہر ہوتی ہے.مباحثوں اور مناظروں میں علامہ ایسا کرتے ہیں.اس سے غرض مخالف پر رعب ڈالنا ہوتی ہے، لیکن ہر جگہ یہ بات درست نہیں ہوئی ایک دفعہ حضرت میں موعود اپنا ایک الہام سن کر کہنے لگے کہ خدا اور بندے کے کلام میں کیا فرق ہوتا ہے.اور اس کے لیے آپ نے ایک حریری کا فقرہ پڑھا.ایک صاحب فوراً درمیان میں بول پڑے.اور انھوں نے پہلی بات پر تو غور نہ کیا.اور اس فقرے کو الہام سمجھ کر کہنے لگے واقعی کیسی عمدہ عبارت ہے اور کیا فصات وبلاغت ہے، لیکن جب حضرت صاحب نے فرمایا :- آپ نہیں تو سی اور پھر آپ نے اس میں نقص بتلاتے اور الہام کی اس پر فضیلت ثابت کی.غرض یہ طریق ہو گیا ہے کہ پورا کلام سنے بغیر لوگ نتیجہ نکالتے ہیں.اسی طریق سے اسی سلسلہ مضمون کی تمہید کے عنوان میں غلطی کی گئی.حالانکہ میری مراد یہ بتانا تھی کہ لوگ بعض فقرے کہتے ہیں.مگر انہیں سمجھتے نہیں.کہتے ہیں.اتحاد کرو لیکن نہیں سمجھتے کہ کیوں کرو کیوں نہ کرو.اتحاد کرنے کے کیا فوائد ہیں.اور نہ اتحاد کرنے کے کیا نقصانات ، یا یہ کہ غیبت نہ کرو کیوں نہ کرو.اس کے کیا نقصانات ہیں : او راس سے بچنے کے کیا ذرائع ہیں.یا یہ کہ جھوٹ نہ بولو.کیوں نہ بولو.اس کے کیا نقصانات ہیں.وغیرہ وغیرہ.مومن کے لیے تعلیم نہیں.کہ وہ کسی بات کی سطح پر رہے.بلکہ اس کو حکم ہے کہ وہ ہر بات کی نہ میں داخل ہو جاتے.مگر افسوس ! بجاتے اس کے کہ اکثر لوگ بات کی تہہ میں جائیں.وقت سے پہلے ہی نتیجہ نکلنا شروع کر دیتے ہیں.آج میں بجائے اس کے کہ اصل وہ مضمون شروع کروں، اس نصیحت کو دہراتا ہوں کہ ہر ایک بات پر پورا پورا غور کرنا اور توجہ سے سننا چاہیئے اور بغیر ساری بات سے نتیجہ نہیں نکالنا چاہیئے.نیز یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مومن وہی نہیں ہوتا جو جمیع صفات کا مکمل طور پر جامع ہو.بلکہ مومن وہ بھی
وه ہوتا ہے.جس میں تمام صفات کسی نہ کسی حد تک پائی جاتی ہوں.مثلاً جنھیں لوگ خوبصورت کتے یا سمجھتے ہیں وہ بے نظیر نہیں ہوتے اور ان کے تمام اعضا.بے مثل نہیں ہوتے.بلکہ ان کے اعضامہ میں ایک مدرک تناسب ہوتا ہے لیکن میں شخص کے اعضاء میں تناسب نہ ہو.اس کا کوئی عضو خواہ کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو- و حسین نہیں کہلا سکتا.اگر اس کے مقابلہ میں دوسرے اعضاء خوبصورت نہ ہوں.مثلاً ایک شخص کی آنکھیں بہت خوبصورت ہوں.مگر ناک یا کان نہ ہوں.یا ہوں تو خوبصورت نہ ہوں.وہ کبھی حسین نہیں کہلاتے گا.بلکہ اس کی شکل بھیانک ہو گی، یا اسی طرح ایک شخص کی ناک بہت خوبصورت ہو مگر آنکھیں اچھی نہ ہوں.تو اس کو بھی خوبصورت نہیں کہہ سکتے.غرض حسن نام ہے.اجمالی طور پر تمام اعضاء میں تناسب اور موزونیت کا.اسی طرح مومن وہ ہے جس میں حمدہ صفات پائے جاتے ہوں.خواه بمرتبہ کمال نہ ہوں اور چاہے کمزوریاں بھی ہوں.اور ہوتی ہیں.میں نے دیکھا ہے.لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے.اور تمام اعلیٰ صفات پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے.مثلاً بنی نوع کی ہمدردی جس قدر عیسائیوں میں ہے.دوسرے لوگ کم دکھاتے ہیں.پچھلے دنوں یہاں قادیان میں ایک انگریز آیا تھا.اس کی ہندوستان میں آنے کی غرض محض یہ تھی کہ وہ کوڑھ کے مریضوں کا علاج کرے.اور ثواب حاصل کرے.وہ تلاش کرتا پھرتا تھا، لیکن اگر یہاں کے لوگوں کو موقع ملے تو ان کو گھن آتے ، یہ روح مسلمانوں میں کم ہے.حال ناکہ جس طرح خوبصورتی.آنکھ.ناک کان میں تناسب کا نام ہے اسی طرح مومن وہی ہے جس کے سب عمل ٹھیک ہوں.ابھی معلوم ہوا ہے کہ وہ وبا جو پچھلی دفع ملک میں پھیلی تھی.اب پھر بڑھ رہی ہے.اس کا رخ پنجاب کی طرف ہے.شاستہ میں بھی اس کی آمد آمد تھی ، لیکن خدا تعالیٰ نے اس وقت اس کو اپنے فضل در رحم سے دُور کر دیا تھا.اب بھی اللہ تعالے دُور فرما تھے.مگر یہ خدا کے عذاب ہیں.جب تک لوگ اسلام سے نفرت اور سچائی کی مخالفت کرتے رہیں گے.اللہ تعالیٰ بھی اپنے حمید کرتا رہے گا.اور جب تک لوگ مخالفت میں بڑھ رہے ہیں.ہمیں اپنے مومنانہ جوش سے تمام بنی نوع کی ہمدردی.میں مصروف رہنا چاہیئے.یاد رکھو اسلام ہر انسان کو جان کی حفاظت کا حکم دیتا ہے.اور ہرگز نہیں چاہتا کہ کوئی شخص اپنی جان ضائع کرے مگر بعض جگہ خدا کاہی حکم ہوتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو خطرے میں ڈال دیں بعض لوشی خطرے سے بچنے کیلئے کہدیا کرتے ہیں کہ قرآن میں آتا ہے.لا تُلْقُوا بِايْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلَكَة كوسياق کے سورة البقره ۱۹۶۱ ١٩٩١
وسباق سے اس کے اور معنے نکلتے ہیں.مگر یہ بھی سچ ہے کہ جان بوجھ کر اپنے آپ کو ہلاکت میں نہیں ڈالنا چاہیئے لیکن قرآن یہ بھی تو کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص موت کے خوف سے کتنی ہی کو ٹریوں میں چھیے.تو موت وہاں بھی نہیں چھوڑتی.در اصل اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جہاں خطرے میں پڑنا مفید ہو.وہاں خطروں میں پڑنے سے بچنا نہیں چاہیئے.اس موقع پر میں قادیان والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تیمار داری اور سیاروں کی خدمت کرنا سیکھیں.یہاں تو یہ باتیں معمولی سمجھی جاتی ہیں، لیکن یورپ میں اس کے سکھانے کے کالج ہوتے ہیں لیکن یہاں ایسی باتوں کو معمولی سمجھا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا.مجھ سے ایک شخص نے مشورہ لیا.کہ میں درزی کا کام سیکھنا چاہتا ہوں.میں نے کہا.بہت اچھا کام ہے.وہ باہر کام سیکھنے گیا، لیکن چند ہی دن کے بعد آگیا.اور جب میں نے پوچھا.اتنی جلدی کیوں واپس آگئے ہو.تو کہنے لگا کہ میں کام کرنے کے گر سیکھ آیا ہوں، لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ جس طرح ایسے پہلے کام کرنا نہیں آتا تھا.اسی طرح پھر بھی نہ آیا.اسی طرح میں نے کئی دفعہ بتایا ہے.ایک شخص طب پڑھنے کے لیے ایک طبیب کے پاس گیا.ایک دن طبیب ایک مریض کو دیکھنے گیا اور ساتھ اس کو بھی لے گیا میری کو سور معضمی کی شکایت تھی.طبیب نے کہا.آپ نے شاید چنے کھائے ہیں.اس نے کہا ہاں.شاگرد نے دیکھا.تو وہاں اس کو چنے کے دانے نظر آئے.اس نے خیال کیا.طبیب نے یہ دانے دیکھ کر ہی بیمار کرنے کا باعث سمجھا ہے.اور بیماری کا پتہ لگانے کا گر یہی ہے جو چیز آس پاس ہو رہی بیماری کا باعث سمجھ لی جایا کرے.یہ خیال کرکے وہ واپس اپنے وطن پہنچا.اور مشہور کر دیا کہ میں طب پڑھ آیا ہوں.ایک دفعہ ایک امیر بیمار ہوا.اس کے ہاں اس کو بلوایا گیا.جب گیا.نبض دیکھنے کے بعد ادھر اُدھر دیکھنا شروع کیا.اتفاقاً مریض کی چار پانی کے نیچے گھوڑے کی زین پڑی تھی.کہنے لگا.آپ نے بھی تو غضب کیا کہ زمین کھائی ہے.بھلا کوئی ذہین بھی کھاتا ہے.امیر نے کہا.یہ تو کوئی پاگل ہے اور اس کو پٹوا کے باہر نکلوا دیا.تو تیمار داری کا بھی ایک فن ہے جو محنت سے آتا ہے.اور ہر ایک کام کا یہی حال ہے کہ جب اس کے کرنے کے طریق نہ آتے ہوں عمدگی سے نہیں ہوسکتا.کل ہی کی بات ہے.مغرب کے وقت مسجد کے اوپر دریاں بچھانے کے لیے کوئی تیس آدمی لگے.اور اتنا شور ہوا کہ سے الامان، لیکن اگر فوجی یا فراش ہوتے.تو چار ہی آدمی لگتے.اور نہایت اطمینان اور خاموشی دریاں بچھ جاتیں.تو ہر ایک کام سیکھنے سے آتا ہے.اور اس پر محنت بھی ہوتی ہے.اسی طرح تیار داری بھی سیکھنے سے آتی ہے پس اول تو اللہ تعالٰی اس آنے والے خطرے سے محفوظ رکھے، لیکن اگر آئے تو اس من
۴۳۴ خدمت کے لیے تیار ہونا چاہیتے اور عمدگی سے یہ خدمت کرنی چاہیئے.پہلی دفعہ جب انفلوئنزا پڑا.تو ہمیں معلوم ہوا کہ ایک خیر احمدی عورت جس کے رشتہ دار بیمار تھے.غیر احمدیوں کے محلہ میں پانی پانی کرتی مرگئی.اور کسی نے اس کو پانی کا گھونٹ نہ دیا.یاد رکھو جو شخص ایسے وقت میں بالخصوص اپنے بھائیوں کی اور عموماً سب کی خدمت اخلاق و ہمدردی سے نہیں کرتا اس کو اللہ تعالے کے دروازے تک رسائی نہیں ہوتی ؟ ) الفضل ۲۴ متى ناته ) بس
۴۳۵ 80 اتفاق واتحاد کے متعلق اسلامی تعلیم دفرموده ۳۰ را حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- آج میں وہ سلسلہ مضمون شروع کرتا ہوں.جس کی تمہید میں پہلے بیان کر چکا ہوں.اس تمہیدی میں نے بتایا تھا کہ جو لوگ صرف الفاظ بولتے ہیں مگر ان پر غور نہیں کرتے.وہ ان نہایت عظیم الشان فوائد سے محروم رہ جاتے ہیں.جو ان میں مخفی ہوتے ہیں.یہ میری تمہید تھی کہ الفاظ کے اندر جو بات ہوتی ہے.وہ صرف حروف تک ہی محدود نہیں ہوتی.بلکہ ایک اور چیز بھی ہوتی ہے.جو الفاظ کے پردے میں ہوتی ہے.اور اس کا اسی وقت علم ہوتا ہے جب اس پر غور کیا جائے جب وہ پوشیدہ معنے معلوم ہوتے ہیں.اور پوشیدہ اثر محسوس ہوتا ہے.اس وقت انسان کو حقیقی فوائد حاصل ہوتے ہیں.مگر جس وقت تک ان کی تشریح نہ کی جائے.عام طور پر لوگ معلوم نہیں کر سکتے.میں نے اس مسئلہ کی تشریح کے لیے تمثیل کے طور پر دنیاوی اور دینی امور کے متعلق بعض باتیں بیان کی تھیں.میں نے بتایا تھا کہ یورپ کی ترقی کا راز صرف مسئلہ ارتقاء پر ہے جس کا منشار یہ ہے کہ دنیا کی ہر ایک چیز ترقی کی طرف جارہی ہے خواہ وہ بظا ہر گھر ہی رہی ہو، لیکن در حقیقت اس کا قدم ترقی کی طرف ہی اُٹھ رہا ہوتا ہے.انسان دن بدن آگے ہی آگے بڑھ رہا ہے.اور ہر قسم کے تغیرات بہتری کی طرف لے جا رہے ہیں.اس مسئلہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ میں نئے سے نئے علوم نکل آئے.اسی طرح مذہبی دنیا کا بھی ایک مختصر سا اصل ہے اوروہ یہ کہ وسطی طریق کو اختیار کرنا چاہیئے.یہ بات مختلف تمدنوں اور اخلاق کے لوگوں میں پائی جائیگی مگر ان لوگوں نے اس سے کچھ فائدہ نہیں اُٹھایا، لیکن اسلم نے اس نکتہ کو لیا ہے.اور اس کو پھیلا کر اس کی تفصیل پر تمام باتوں کی بنیاد رکھی ہے.اور کیوں نہ ہوتا.جبکہ اسلام اس خدا کا مذہب ہے.جو تمام فطرتوں کا پیدا کرنے والا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام میں بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے.اس کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈال دیتا ہے.
شا دیکھو سی اتفاق و اتحاد کا مسلہ ے کوئی قوم نہیں کہتی ہو کہ اتفاق و اتحاد ہیں چاہتے ، دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چلے جاؤ تمہیں اتفاق و اتحاد کے حامی ملیں گے.بدھوں کو دیکھو وہ بھی اتفاق کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں عیسائی بھی اتفاق واتحاد کو اچھی چیز مانتے ہیں غرض دنیا کی ہر یتیم کی آبادی میں اسکی ضرورت کو مانا جاتا ہے.بیاسی جماعتوں میں بھی.تجارت پیشہ گروہوں میں بھی.مذہبی لوگوں میں بھی اسکی ضرورت تسلیم کی جاتی ہے.لیکن باوجود اتنا زور دینے کے پھر بھی دنیا میں ایسی جگہ کہ نظر آتے گی.جہاں اتفاق و اتحاد ہو.اس کی یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے اتفاق و اتحاد کی تشریح نہیں کی.اور نہیں خیال کیا کہ اتفاق و اتحاد ہے کیا چیز؟ اس کے ہونے کے کیا فوائد ہیں اور نہ ہونے کے کیا نقصانات.اور یہ حاصل کیونکر ہوسکتا ہے اور اس کے ذرائع حصول کیا ہیں پس دوسرے لوگوں کے نزدیک چونکہ یہ ایک غلط تعریف ہے.اس لیے اس کے نتائج بھی غلط نکلتے ہیں.جب تک صحیح تعریف اور میمنح ذرائع معلوم نہ ہوں.اس وقت نتائج میح کیسے نکل سکتے ہیں، لیکن اسلام نے اس کی صحیح تعریف اور ذرائع بتاتے ہیں.اس لیے مسلمانوں کو اس میں غلطی نہیں لگنی چاہیئے.دوسرے لوگ بوجہ غلطی میں مبتلا ہونے کے اس چیز سے محروم رہیں.تو اور بات ہے ، لیکن مسلمانوں کو اس سے محروم نہیں رہنا چاہیئے.اسلام نے اتفاق کی بنیاد ایمان پر رکھی ہے.اور ایمان کی علامت اتفاق ہے.غیروں کے لیے اتفاق محض ایک دنیاوی فائدہ کی چیز ہے.مگر مسلم کے لیے اس کے ایمان کی تکمیل کے لیے ضروری چیز ہے.عیسائی مذہب کے لیے اتفاق کی ضرورت ہیں کیونکہ عیسائی اتفاق سے ایمانی فائدہ نہیں اُٹھا ہاں دنیاوی فائدہ ان کے لیے اس سے ہوتا ہے.اگر ایک عیسائی اتفاق نہ کرے.تو وہ یہ تو کہے گا کہ اس سے میری دُنیا تباہ ہو رہی ہے لیکن اس کے مذہب میں اس سے نقص کا کوئی احتمال نہ ہوگا.اسی طرح اگر ہندوؤں میں اتفاق نہ ہو.تو وہ اس کو اپنے ایمان کے لیے کوئی نقصان دہ امر نہیں خیال کرینگے.بلکہ اتفاق کے نہ ہونے کے نتیجہ میں اپنی دنیا کے لیے ہی خرابی بنائیں گے لیکن مسلمانوں کے لیے چونکہ قرآن کریم نے ایمان کی لازمی علامت اسے قرار دیا ہے.اس لیے اگر ان میں اتفاق نہ ہوگاتو اس سے ان کی موتی بھی برباد اور دین و ایمان بھی ضائع ہو جاتے گا.چونکہ اتحاد و اتفاق ایمان کی علامت ہے.جب علامت ہی نہیں.تو کچھ بھی نہیں سورج کے چڑھنے کی علامت یہ ہے کہ روشنی ہو.جب تک روشنی نہیں سورج بھی نہیں ہو گا لیکن با وجود اس کے یہ اتنی اہم ہے ہم دیکھتے ہیں کہ سلمانوں میں یہ چیز نہیں پائی جاتی.اب ہم اس پر غور کریں.اور اس کے مالہ اور ما علیہ و سوچیں اور دکھیں کہ یہ ہے کیا چیز کی تعریف
م کیا ہے ؟ اس کے حصول کے کیا ذرائع ہیں جب تک یہ باتیں معلوم نہ ہوں.اس پر ایمان کیسے حاصل ہو سکتا ہے.اس میں سب سے پہلے اس کی تشریح کو لیتا اور دکھاتا ہوں کہ اتفاق کیا ہے.کیونکہ سب سے پہلے اگر نہیں یہی معلوم نہ ہو کہ اتفاق ہے کیا چیز تو ممکن ہے.اس کی تعریف معلوم نہ ہونے سے پہلے ہم خیال کرنیں کہ ہم میں اتفاقی ہے.در آنالیکہ نہ ہو یا در حقیقت ہو.مگر تعریف نہ معلوم ہونے سے ہم کہیں کہ اتفاق نہیں ہے.جیسا کہ سویا ہوا بچہ جب رونے لگے.اور اس کو غیر عورت بھی تھیک دے، تو وہ خاموش ہو کر پھر سو جاتا ہے.اور خیال کر لیتا ہے کہ میری ماں میرے پاس ہی ہے.پس اسی طرح تشریح معلوم نہ ہونے کے باعث ممکن ہے کہ تم غلطی میں پڑ جائیں یا کسی غیر مکمل بات پر خوش ہو جائیں اس سب سے پہلے اس بات کا معلوم ہونا ضروری ہے کہ اتفاق و اتحاد ہے کیا چیز اس کے لیے ہمیں دیکھنا چاہیئے کہ قرآن کریم نے اس مطلب کے لیے کونسے الفاظ رکھے ہیں.سو ہم دیکھتے ہیں کہ اتفاق و اتحاد کے الفاظ جن معنوں اور مطلب کے لیے ہمارے ہاں استعمال ہوتے ہیں.اس مطلب کے لیے قرآن کریم میں اجتماع اور اعتصام بحبل اللہ کے الفاظ مستعمل ہیں.عام طور پر ہماری زبان میں اتفاق کا لفظ ملکر رہنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے.اور اس کے مقابلہ میں اختلاف افتراق - تفرقہ - شقاق وغیرہ الفاظ ہیں.اور قرآن کریم میں جمع ہونے اور ملنے کے لیے اجتماع اور اعتصام بحبل اللہ میں مگر اتحاد و اتفاق کے جو اصلی معنی ہیں.وہ یہ ہیں کہ ایک ہو جانا ایک چیز کا دوسری کے بالکل مطابق ہو جانا.وفق کہتے ہیں ایک چیز کا دوسری کے ساتھ ایسا مل جانا کہ ایک ہی نظر آئے، اسلیئے آدمیوں کا اتفاق یہ ہو گا ہ مل جائے ایک کی رائے دوسرے سے مل جاتے اور نہ صرف رائے بلکہ میتیں مل جائیں.فوائد مل جائیں.یہ اتفاق ہوتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ دو چیزوں کا ایک بننا ناممکن ہے.اتفاق کا مطلب یوں سمجھو کہ جیسے پانی میں کھانڈ دا دی جائے کہ ان دونوں چیزوں کو ہم ملیحدہ نہیں کر سکتے مگر اس طرح کی بات انسانوں میں پیدا ہونا ناممکن ہے.لیکن اس کے مقابلہ میں قرآن کریم نے جو الفاظ رکھے ہیں.ان کا مطلب یہ ہے کہ بہت سی روحوں کا ایک مرکز پر جمع ہو جانا.جیسا کہ اجتماع اور اعتصام بحبل اللہ کے معنی ہیں.اور اس کے مقابلہ می شقاق مرکز سے دُور ہو جانا.اختلاف اور تفرقہ کے بھی یہی معنے ہیں کہ فاصلہ پڑ جانا.غرض اس مطلب کے لیے بہترین الفاظ وہی ہیں جو قرآن کریم نے استعمال فرماتے ہیں.قرآن نے لفظ اجتماع غیروں کے لیے استعمال کیا ہے کہ جو انبیاء اور ان کی جماعتوں کے مقابلہ میں حق کی مخالفت کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں.اور اعتصام بحبل اللہ نیک کاموں کے لیے جمع ہونے
کے متعلق فرمایا ہے.اجتماع کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے.قُل تَيْنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنس والجن ربنی اسرائیل : ۸۹ ) اس آیت میں دین کے خلاف کوشش کرنے والوں کے لیے اجتماع کا لفظ استعمال ہوا ہے اور دوسری جگہ نیک کاموں کے لیے جمع ہونیوالوں کے متعلق فرمایا.وَاعْتَصِم من الجبل اللهِ جَمِيعاً (آل عمران (۱۰۴) اتفاق و اتحاد اپنے اصلی اور وسیع معنوں میں دُنیا میں نہیں ہو سکتا.اور یہ حالت کسی جماعت میں پائی جانی ناممکن ہے.اگرچہ یہ لفظ عربی زبان میں بھی استعمال ہوتے ہیں میگر مجاز و استعارہ کے طور پر.اور قرآن کریم نے جو لفظ بیان فرماتے ہیں.ان میں جیسی خوبی ہے.وہ دوسرے الفاظ میں نہیں ہے کیونکہ ان میں بتا دیا گیا ہے کہ انسان کسی حدتک جمع ہو سکتے ہیں بلکہان میں یہ بی بتا دیاگیا ہے کہ لوگوں کے جمع ہونے کی کیا غرض اور کیا غایت ہے مثلا اعتصام بحبل اللہ کے الفاظ جونیکی کیلئے مستعمل ہیں اپنے اندر تمام باتیں رکھتے ہیں.اتحاد و اتفاق کیا ہے.لوگوں کا ہم شکل.ہم آواز ہو جانا.ان کے اخلاق - علوم - لباس - عادات - انگیں عمریں.چنا.بیٹھنا.غرض کہ ہر بات ا ایک ہو جانا، لیکن تمام دنیا یا ایک قوم یا ایک ملک کے لوگوں کا ایسا ہونا تو ایک طرف رہا.دو شخص بھی اس قسم کے نہیں مل سکتے، خواہ دو شخصوں میں کتنی ہی یگانگت ہو.پھر بھی ان دونوں میں بہت سی باتوں میں اختلاف ہوگا.ایک قد اور ایک عادت.ایک رسم کے پابند اور ایک لباس ایک زبان ہونا بالکل ناممکن ہے.مذاہب میں بھی یہ بات نہیں ہو سکتی.اجمالی طور پر تو ہو سکتا ہے مگر مفصلاً نہیں ہو سکتا.اور روحانیات میں بھی ایک دوسرے میں اختلاف ہوتا ہے.ہم صحابہ میں دیکھتے ہیں کہ با وجود بدرجہ انتہا متحد ہونے کے ایسا اختلاف ان میں بھی تھا.پھر خدا تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز میں بھی اختلاف موجود ہے ثلا انسان کا انگوٹھا ہے کتنی چھوٹی چیز ہے.مگر کسی انسان کے انگوٹھے کے نشان دوسرے شخص کے نشان سے ہرگز نہیں ملتے اور خواہ کوئی شخص کتنے ہی قریب کرے اپنے انگوٹھے کے نشان کو نہیں بدل سکتا ہیں جب ساری دُنیا میں اختلاف ہے.اور خدا کی ساری مخلوق میں اختلاف ہے اور کوئی ایک چیز دوسری سے ایسی نہیں ملتی کہ ن میں کچھ نہ کچھ فرق نہ رہے.تو پھر جس قسم کا لوگ اتفاق چاہتے ہیں وہ کیسے ہو سکتا ہے.اور ساری دنیا ایک رنگ میں کیسے رنگی جاسکتی ہے.پھر جبکہ اسی اختلاف کی وجہ سے دنیا علوم و فنون میں ترقی کر رہی ہے.اور یہی وہ چیز ہے.جو مختلف قابلیت کے لوگوں کی قابلیتوں کا اظہار کرتی ہے.اس نے محمد علم کومحمدصلی الہ علیہ وسلم بنایا اور اسی نے ابو جل کو الو بیل بنایا پس اختلاف تو ترقیات کا زینہ ہے.اس سے معلوم ہوا کہ جس قسم کا لوگ اتفاق بتاتے ہیں.ایسا نہ ہو سکتا ہے اور نہ کوئی مفید چیز ہے، بلکہ اصل اتفاق کیا ہے.یہ کہ ایک مرکز پر جمع ہو جانا اور کچھ
۴۳۹ اسکول ہیں جن کو مان لینا اس کومتفق ہونا کہتے ہیں پس اس تمام گفتگو سے یہ ثابت ہوا کہ ہر ایک بات میں اور ہر ایک رنگ میں ایک ہو جانا ناممکن ہے.لیکن ایک خاص مرکز پر کسی خاص مقصد کے لیے جمع ہو جانا ممکن ہے.اور اسی جمع ہونے کو اتفاق یا بالفاظ دیگر اعتصام بحبل اللہ کہتے ہیں.اور یہ ایک اتفاق کی صورت ہے.پس آج میں نے یہ بتایا ہے کہ اسلام کے نزدیک کسی مقصد کے لیے لوگوں کا جمع ہو جانا اتفاق ہے.اور وہ مقصد خدا اور خدا کی حبل سے تعلق ہے.آج میں باقی مضمون کو چھوڑتا ہوں انشاء اللہ آئندہ بتاؤنگا اور اس کی تشریح کرونگا کہ اس کے حصول کے ذرائع اور اتفاق کی عملی صورتیں کیا ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ان باتوں کو سمجھ کر ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں.آمین : الفضل ۱۲۷ مئی ۱۹ ه ) +
81 اعتصام بحبل اللہ د فرموده هرمتی به حضور انور نے تشتد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی عادت کے بعد فرمایا کہ.پیشتر اس کے کہ میں اصلی مضمون شروع کروں.قادیان کی کمیٹی کے ممبروں اور دوسرے منتظموں کی توجہ مسجد کی طرف پھرانا چاہتا ہوں.ہماری جماعت کی دینی کوششوں کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے.اور ہم لوگ لندن میں مسجد بنانا چاہتے ہیں.مگر میں کہتا ہوں.کیا یہاں کی مسجد اس بات کی مستحق نہیں کہ اس کی طرف توجہ کی جائے.مدت سے سائبان پھٹے ہوئے ہیں اور کافی بھی نہیں.اور آج کل دھوپ میں کھڑا ہونا بہت مضر ہے.آج کہ ابھی لوگ زیادہ نہیں آئے.پھر بھی سایہ میں ان کے بیٹھنے کی جگہ نہیں.اس کے دو ہی نتیجے ہیں یا تو لوگ دھوپ کے خوف اور بیماری کے ڈر سے مسجد میں آنا چھوڑ دیں.یا آئیں اور دھوپ میں کھڑے ہو کر بیمار ہوں.مگر ہم یہ دونوں باتیں نہیں چاہتے.نہ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ مسجد میں آنا چھوڑ دیں.نہ کہ وہ بیمار ہوں ایپس میں منتظمین کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس کا بہت جلد انتظام ہونا چاہئے.تاکہ لوگ آرام سے سایہ میں بیٹھ سکیں.اس کے بعد میں اسی مضمون کو شروع کرتا ہوں جوئیں نے پچھلے دو تین جمعوں سے شروع کر رکھا ہے میں نے بیان کیا تھا کہ ہماری زبان بلکہ عربی میں بھی جس کو اتفاق کہتے ہیں.اس کے لیے قرآن کریم میں اجتماع اور اعتصام کے الفاظ ہیں.واقعہ میں اعتصام نام درست ہے.کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں میں کہاں تک میل پیدا ہو سکتا ہے.میں نے بتایا تھا کہ اتفاق اور اتحاد کے وسیع معنے دنیا میں مسکن نہیں.اتحاد و اتفاق کے معنے ہوتے ہیں کہ اقوام کا ہر رنگ میں ایک ہو جانا، لیکن یہ بعید از عقل ہے.باوجود اس کے اتفاق و اتحاد میں اتنی دلکشی ہے کہ ہر ایک قوم اس کے حاصل کرنے کی کوششش کرتی ہے.قرآن کریم نے اعتصام اس کا نام رکھا ہے اور اجتماع بھی رکھا ہے.یہ دونوں باتیں عقلاً محال نہیں.اس طرح متفرق مذاق کے لوگوں کا جمع ہونا.یہ آسان ہے، مگر یہ بھی نہیں ہو سکتا.جب تک کوئی
ام بم چیز نہ ہو جس پر جمع ہوسکیں.اور جو جوڑنے اور جمع کرنے والی ہو.کاغذ کو کڑی پر چسپاں کرنے کے لیے ایک تیسری چیز کی ضرورت ہوتی ہے ، لکڑی کے تختے نہیں جڑ سکتے جب تک کسی اور چیز کے ساتھ ان کونہ جوڑا جاتے.لکڑی کی میز کرسی نہیں بن سکتی جب تک ان متفرق لکڑیوں کو جمع کرنے کے لیے تیسری چیز نہ ہو پی اسی طرح انسانوں میں بھی ممکن نہیں کہ جب تک ایک تیسری چیز ان کو جوڑنے والی نہ ہو وہ جمع ہو جائیں.جھاڑو کے تنکے آپس میں پورے طور پر جڑے ہوتے نہیں ہوتے.اگر چہ وہ جمع ہوتے ہیں.آخری کو درمیانی سے بعد ہوتا ہے.لیکن ایک درخت کی شاخیں آپس میں جڑی ہوتی ہیں.کیونکہ ان سب کا ایک تنے سے تعلق ہوتا ہے.اور تنا ان کو خوراک پہنچا تا ہے.اسی طرح جھاڑو کی سیخوں کا آپس میں اور زیادہ تعلقی ہو سکتا ہے.اگر ان کو ایک رشتہ میں پرو دیا جائے.قرآن کریم نے اس حقیقت کو واضع کیا اور یہ نہیں کہا کہ تم جڑ جاؤ.یا ایک ہو جاؤ بلکہ فرمایا وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا (ال عمران (۱۳) تم سب ایک رسے کو پکڑ لو.جب اس رسے سے سب کا تعلق ہوگا.تو تم سب میں تعلق ہو جائے گا.لوگ رسہ کھینچتے ہیں.اور دونوں طرف سے زور لگاتے ہیں.اور ہر ایک زور لگانے والے کے زور کا اثر سب پر پڑتا ہے.تو ایک تیسری چیز سے وابستگی اختیار کر کے آپس میں جڑ سکتے ہیں.یہ گر اسلام نے اتفاق کے متعلق بتایا ہے.اب آؤ ہم دیکھیں کہ کس طرح اعتصام ہوتا ہے.سب سے بڑا اتفاق بھائیوں بھائیوں میں ہوتا ہے کچھ آدمی ہوتے ہیں کہ ان میں اور آدمیوں کی نسبت آپس میں زیادہ محبت اور پیارہ ہوتا ہے.اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ان میں یہ محبت اور پیار کس طرح ہوا جب ہم اس کی وجہ دریافت کرتے ہیں.تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک رشتہ ہے جس نے ان کے آپس کے تعلق کو اوروں کی نسبت زیادہ بڑھا دیا ہے.اور وہ رشتہ ماں باپ کا ایک ہونا ہے.پھر ایک دادا کی اولاد میں زیادہ محبت ہوتی ہے.کیونکہ ان میں بھی ایک رشتہ اور تعلق ہے.پھر اس سے آگے قومیت کا رشتہ ہوتا ہے بھائیوں کی نسبت کم لیکن اور لوگوں کی نسبت زیادہ اور جگہوں میں تو نہیں.ہندوستان میں پیشہ وروں کی بھی ذاتیں ہوتی ہیں.یہاں اگر کوئی ستید یا مغل یا پٹھا یا کوئی اور قوم کا آدمی ستھے یا موچی کا کام کرنے لگے.تو وہ سقہ یا موچی ہی کہلائے گا.اور یہ اس کی ذات سمجھی جائے گی.پھر آج کل سرائیکیں ہو رہی ہیں.اور اس میں مزدور شامل ہو رہے ہیں.اور ان کو جوڑنے والی چیز ان کا پیشہ ور ہوتا ہے.بھائیوں کا آپس میںجو تعلق ہوتا ہے.وہی مفہوم ایک متریک اقوام میں بھی نظر آتا ہے.مغل کہلانے والے ایک موقع پر جمع ہو جائیں گے.سید جمع ہو جائیں گئے.اس لیے کہ وہ
ایک ایک دائرہ میں ہیں تو جتنا قریب کا تعلق ہو گا.آنی ہی محبت زیادہ ہوگی.اور جتنا دور کا اتنی ہی کم.سیدوں کے سیدوں کے ساتھ اور مغلوں کے مغلوں کے ساتھ تجمع ہونے کی کیا وجہ ہے.یہی کہ ان کی ایک نسل ہے.پھر یہ تعلق اقوام سے بڑھ کر ملکوں پر اثر ڈالتا ہے مثلاً ہندوستانی یا انگریز.اگر کوئی ہندوستانی یہ نے کہ کسی انگریز نے کسی ہندوستانی سے بُرا سلوک کیا ہے.تو وہ بغیر اس بات کی تحقیقات کئے کہ زیادتی کس کی ہے.انگریز کے خلاف ہو جاتے گا، یا اگر کوئی انگریز سنے تک کسی ہندوستانی نے انگریز سے بڑا سلوک کیا تو وہ تحقیق کئے بغیر ہندوستانی ہی کو الزام دے گا.کہیں یہ قدرتی امر ہے کہ ہندوستانی ہندستانی کی طرف داری کرے گا.اور انگریز انگریز کی.اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ہندوستانی ہندوستان وابستہ ہے.اور ہر انگریز انگلستان سے.اس سے معلوم ہوا کوئی رشتہ ہونا چاہیئے جس سے لوگ متحد ہوں.اور جوں جوں یہ رشتہ دور ہوتا جائے گا.تعلق بھی کم ہوتا جائے گا.پس بھائیوں میں جو اتفاق دیکھا.قوموں میں جو اتحاد نظر آیا.اس سے معلوم ہوا کہ اتفاق و اتحاد پیدا کرنے والی یہی ایک چیز دنیا میں ہے.پھر جب اس سے بھی وسیع نظر کی جاتی ہے.بنی نوع کا آپس میں تعلق ہوتا ہے.اگر ایک انسان پر کوئی جانور حملہ کرے.تو دوسرا انسان اس کی مدد کریگا.اور پھر انسانوں سے گزر کر جانوروں میں بھی یہ بات ہوتی ہے.کہ اگر کوئی بھیڑ یا کسی انسان پر حملہ کرے تو دوسرا بھیڑیا بھیڑیے پر حملہ نہیں کریگا.بلکہ انسان پر لپکے گا.پس تمام دنیا میں اتفاق کا ذریعہ ایک ہی ہے کہ کوئی چیز ایسی ہو جو سب کو جوڑنے والی ہو.قرآن کریم فرماتا ہے.وَاعْتَصِمُوا بِحَبلِ الله - تم اللہ کے رستے کو پکڑ لو.اس سے تم میں اتفاق و اتحاد پیدا ہو جائے گا.اس سے ہمیں ایک تو یہ معلوم ہوا کہ اتفاق کسی ایک چیز کو پکڑنے سے ہوتا ہے.اور دوسرے یہ کہ وہ تعلق جتنا دور ہوتا جاتا ہے.اتفاق میں کمی آتی جاتی ہے.اور اعلیٰ درجہ کا ذریعہ اتفاق وہی ہو سکتا ہے.جو ہر زمانہ میں موجود ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے ی ہیں کہا کہ محمد صل اللہ علیہ سلم کو پکڑ لو گو آپ کا پکڑنا لازمی ہے بلکہ فرمایا کہ الہ کی رسی کو پکڑ لوں اور اللہ کی رسی قرآن کریم ہے اور اسلامی تعلیم ہے جو ہرزمانہ میں موجود ہے.اور اسی کو انسان پکڑ سکتا ہے اور یہ حبل اللہ ہر زمانے اور ہر ملک کے لیے اللہ کی طرف سے پھینکا گیا ہے جب تک اس کو کپڑے رہو گے نہیں گرو گے.اور اگر ایک گرے گا تو اس کا اثر دوسروں پر پڑے گا.پھر جدھر کو رسہ مجھکے گا ادھر آل عمران ۱۰۴
۴۴۳ سب کو جھکنا پڑے گا.اگر ایک کپڑا دو آدمی اوڑھے ہوتے ہوں اور اس کو آگ لگ جاتے.تو ایک ہی کا نقصان نہ ہوگا، بلکہ دونوں کا ہوگا.گویا اس رسہ کے پڑنے پر ہم اس بات کے لیے مجبور ہو گئے کہ آپس میں ایک دوسرے سے ہمدردی کریں کیونکہ اگر ایک خراب ہوگا.تو دوسرے پر بھی اس کا اثر پڑے گا.اور اگر سے ٹوٹے گا تو سب گریں گے.پس اعتصام ہی ہے جو حقیقی اتحاد قائم کرتا ہے لیس اتفاق کے لیے حبل اللہ کی ضرورت ہے.اور یہ ذریعہ ہمارے ہی ہاتھ میں ہے.یہ نیچرل اور طبعی ذریعہ اتفاق پیدا کرنے کا ہے.اس کے سوا کوئی ذریعہ نہیں.اس کے سامان کیا ہیں اگر اللہ تعالٰی نے توفیق دی تو انشاء اللہ اگلے جمعہ بیان کروں گا الفضل ۳۱ متی ۱۹۲۰ )
82 وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا ر فرموده ۱۴ رمئی ۹۲له ) تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.میں نے پچھلے جمعہ بیان کیا تھا کہ کس طرح دنیا کے حالات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اتفاق کا ذریعہ ایک ہی ہے جب لوگ ایک چیز پر جمع ہوتے ہیں.توان لوگوں کی نسبت جو کسی چیز پر جمع نہیں ہوتے ان میں زیادہ اتفاق و اتحاد ہوتا ہے.اور یہ بھی ثابت ہے کہ جتنا تعلق زیادہ قریب کا ہو.اتناہی زیادہ اپس میں محبت اور تعلق ہوتا ہے.مثلاً ایک باپ کی اولاد میں زیادہ محبت ہوگی.بہ نسبت ایک دادا کی اولاد ہونے کے.اور ایک دادا کی اولاد میں زیادہ محبت ہوگی یہ نسبت ایک پر دادا کی اولاد کے.اور پھر اسی طرح دی تعلق وسیع اور کم موثر ہوتا جائے گا.میں نے بتایا تھا کہ قرآن کریم نے اس نکتہ کو پیش کیا ہے.اور بجائے اتحاد و اتفاق کا حکم دینے کے یہ کہا ہے کہ وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا دال عمران : ۱۴) کہ تم سب ایک چیز سے تعلق پیدا کرو.اور اس حکم میں قیام اتفاق و اتحاد کا طریق بھی بتا دیا.دوسرے مذاہب کی طرح محض اتفاق کا کلم نہیں دیا.بلکہ ساتھ طور و طریق بھی بتا دیا.آج میں یہ بتانا چاہتا ہوں.کہ یہ اصل جو ایک چیز پر جمع ہوں.ان میں زیادہ محبت و تعلق ہوتا ہے یہ کیا ہے.قرآن کریم نے نہیں جیں رسہ کے پکڑنے کا حکم دیا ہے.وہ ایسا رسہ نہیں.جیسے سوت وغیرہ کے رسے ہوتے ہیں.اس میں ہمیں سوت اور سن کے رسہ کی طرف متوجہ نہیں کیا گیا.بلکہ میں ایسے رہتے کے پکڑنے کا حکم دیا گیا ہے.جو اپنے اندر ہزاروں تعلیمیں رکھتا ہے جب ایک خاندان کے لوگوں کو کہیں کہ وہ رستہ پکڑیں.تو مجموعی حالت میں اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس ایک رسہ کو جو مختلف ذرات سے بنا ہوا ہے.پکڑ لو ، لیکن ایک ایسی چیز کے پکڑنے کا حکم جو نہ صرف ایک چیز ہو بلکہ اپنے اندر ایسی بہت سی
۴۴۵ باتیں رکھتی ہو جن میں سے ہر ایک کو پکڑنا چاہئے، تو اس کی مختلف حالت ہے یہ محض نام کا جی ایک اثر ہوتا ہے تلا ہندوستانی ہندوستانی ہونے کی وجہ سے جتھا کرتے ہیں.انگریز انگریز ہونے کی وجہ سے یہ بھی اشتراک کہلاتا ہے.اور یہ ایک فطری امر ہے.جو کی تعلیم کا نتیجہ نہیں بلکہ فطرت کا دہی قاعدہ یہاں کام کرتا ہے جوئیں اوپر.بیان کر آیا ہوں، لیکن جب تعلیم کا سوال ہو.تو صرف یہ کہد نا ہی کافی نہیں ہوتا.بلکہ اس پر عامل اور اس پا بند ہونا بھی ضروری ہوتا ہے.اگر چہ تعلیم کے متعلق بھی یہ بات ہوتی ہے.مثلاً جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم قرآن کو مانتے ہیں.ان میں بھی ایک جتھا ہوتا ہے.مثال کے طور پر دیکھ لو جب لوگ گاڑی میں چڑھتے ہیں.تو مسلمان مسلمانوں سے مانوس ہونگے.اور ہندو ہندوؤں سے.اس معاملہ میں اتحاد نظر آجاتا ہے لیکن جبل اللہ کے پکڑنے میں ایک دوسرا اشارہ یہ ہے کہ اس میں ایسی تعلیمات ہیں جو اتحاد کی طرف راجع ہیں.سوت کے رستے کو پکڑ نا صرف ظاہری اتحاد کی طرف متوجہ کرتا ہے، لیکن قرآن کا پکڑنا باطنی حالت کو بھی درست بنانے کی ضرورت جتاتا ہے.اب میں اس تفصیل کی طرف توجہ کرتا ہوں کہ باطنی اتحاد کے لیے کونسی تعلیمات ہیں جن کے ذریعہ قرآن کریم اتفاق پیدا کرتا ہے.پہلا اتفاق نام کے ذریعہ پیدا ہوتا ہے.دوسرا تعلیم کے ذریعہ اس حصہ مضمون کے بیان کرنے سے پہلے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ ہر ایک مشکل کے حل کے لیے دو طرح غور کیا جاتا ہے.اول اس طرح کہ جس چیز کے باعث نقص پیدا ہو اور وہ کسی امر میں روک ہو.اس کو دور کر دیا جائے تاکہ وہ روک رستہ ہیں حائل ہی نہ ہو.لیکن یہ علاج مکمل علاج نہیں.بلکہ مکمل اس وقت ہوگا کہ اگر یہ بھی علوم کر لیا جائے کہ اگر وہ نقص پیدا ہو جائے.تو اس کو کس طرح دور کیا جائے اس حصہ کے ملنے کے ساتھ علاج مکمل ہوتا ہے صحت انسانی ہی کے متعلق اگر ہم دکھیں تو ہم اس طب کو مکمل نہیں کہیں گے جو صرف بیماری کے آنے سے بچاتے بلکہ طب کامل وہی ہوگی جو یہ بھی بتائے کہ جب بیماری پیدا ہو جائے.تو اس کے دفع کرنے کا یہ طریق ہے.اسی طرح اتحاد کے متعلق بھی اپنی باتوں کی ضرورت ہے.اول تو یہ کہ ایسے طریق ہوں.جن پیر چل کر اتحاد و اتفاق پیدا ہو، لیکن اگ نا اتفاقی پیدا ہو جائے تو اس کو دور کرنے کے لیے فلاں فلاں طریق ہیں.جب یہ دونوں حصے ہوں تو پھر اعلی درجہ کی تعلیم ہوگی.ہم دنیا میں غور کرتے ہیں کہ نام میں جمع ہونے کے لیے کسی خاص کتاب کے ماننے والوں کی تخصیص نہیں بلکہ ہر ایک شخص جو ایک کتاب کو ماننے والا ہے.وہ دوسرے کے ساتھ جواس کتاب کو ماننے کا دعوی کرتا ہے.ایک حد تک متفق ہوگا.اس میں قرآن کریم کی تخصیص نہیں.قرآن کو ماننے والے آپس میں
نام کے لحاظ سے متحد ہونگے.اور انجیل کو مانے والے آپس میں.وید کے پیرو آپس میں گویا اس ذریعہ سے بھی اتحاد ہوسکتا ہے.قرآن کریم نے اعتصام بحبل اللہ کے لیے دونوں اصولوں کو لیا ہے حفظ ماتقدم بھی بتایا ہے.اور یہ بھی بتایا ہے کہ اگرنا اتفاقی ان حفظ ماتقدم کے احکام پر عمل نہ کرنے سے یا تھوڑا عمل کرنے سے پیدا ہو جائے.تو اس کے دفعیہ کا کیا علاج ہے.اب میں سب سے پہلے اس اصل کو لیتا ہوں جس کے اختیار کرنے سے اختلاف پیدا ہی نہیں ہوتا اور پھر بتاؤں گا کہ اگر ہو جائے.تو اسے کس طرح دُور کرنا چاہیئے.پہلی بات جو قرآن کریم بیان کرتا ہے یہ ہے کہ انسان مان سے کہ اختلاف کبھی مٹ نہیں سکتا.یہ ید پیلا گر ہے اختلاف سے بچنے کا.بظاہر لوگ یہ سنکر حیران ہونگے.کہ اتحاد کے قیام کے لیے یہ بات کیسے ضروری ہو سکتی ہے کہ یہ خیال کرلیا جائے کہ اختلاف نہیں مٹ سکتا، لیکن در حقیقت بات یہی ہے اور قرآن کریم نے اس پر بہت زور دیا ہے.اور اس بات کو نہ ماننے ہی کی وجہ سے اختلاف ہوتا ہے.قرآن کریم نے بار بار بیان فرمایا ہے کہ ہر چیز میں اختلاف نظر آتا ہے.حتی کہ مومنوں میں بھی اختلاف ہے اور انبیاء میں بھی اختلاف ہوتا ہے.جیسا کہ فرمایا - تلكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ البقرہ : ۲۵۴) کہ یہ رسول ہیں.ان میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی.اور فضیلت ایک الیسا امر ہے جو بغیر اختلاف کے حاصل ہی نہیں ہوتا.فضیلت ایک چیز کو دوسری پر اسی وقت ہوگی جب ان میں اختلاف ہو گا.پس اس طرح نبیوں میں بھی اختلاف ہوتا ہے.ایک زیادہ کامل ہوتا ہے ایک کم.میں نے ایک دفعہ لکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی بزرگ اس حد کمال کو نہیں پہنچا جس پر پہنچ کر نبوت حاصل ہوتی ہے.اس پر بہت ہنسی اُڑائی گئی کہ گویا مرزا صاحب سے پہلے سب لوگ ناقص الایمان تھے، لیکن نادانوں نے سمجھا.اس میں نقص کا سوال نہیں.بلکہ یہاں یہ بات ہے ، کہ باوجود کامل ہونے کے پھر بھی جواد پر کا درجہ ہے.اس کے لیے ایک اور کمال ہونا چاہیئے مسئلہ فضیلت ہی کو لو حضرت موسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کو فضیلت حاصل ہے.مگر حضرت موسیٰ ناقص نبی نہ تھے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ کچھ نہ کچھ کی ضرور تھی.تبھی نبی کریم جن میں یہ کمی نہ تھی حضرت موسی سے افضل ٹھرے.یہ ایک نسبتی امر ہے.اگر الوہیت کو مد نظر رکھا جائے.تو رسول کریم ناقص تھے اور آپ میں کوئی بات بھی الوہیت کی نہ تھی.اس طرح بجز خدا کی ذات کے نیکی کامل سے کامل میں بھی ہوتی ہے قرآن کریم فرماتا ہے.بعض کو بعض پر فضیلت ہوتی ہے.ایک بڑا ہوتا ہے اور ایک اس سے بھی بڑا ہوتا ہے.
۴۴۷ ایک اچھا ہوتا ہے.ایک بہت اچھا ہوتا ہے اور اسی طرح ایمان کے بھی دیتے ہوتے ہیں.اور مومن کی بھی یہی حالت ہوتی ہے.بعض بہت اعلیٰ ہوتے ہیں.اور بعض اعلیٰ ہوتے ہیں.پھر نہ صرف انبیا - دمومنین میں ہی تفاوت درجہ اور ایک کو دوسرے پر فضیلت ہوتی ہے، بلکہ کفار میں بھی مختلف درجات ہوتے ہیں کوئی بڑا ہوتا ہے.کوئی چھوٹا اور ایک کفارا ایسے ہوتے ہیں.جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کالا نْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ (الفرقان : ۴۵) پھر اور چیزوں کے متعلق فرمایا.مُختلِف الواتُهَا (فاطر (۲۸) پھر اس اختلاف کو ہر چیز کی حالت میں بتلاتا اور دکھلاتا ہے.مثلاً پھلوں ہی کو دیکھو کچے کچے کے اختلاف کو چھوڑ کر دیکھو کہ بعض بیٹھے ہوتے ہیں.بعض ترش پھر زمینیں ہوتی ہیں.ان کی مختلف استعدا دیں ہوتی ہیں بعض کی پیداوار اچھی ہوتی ہے بعض کی اچھی نہیں ہوتی.پھر انسانوں اور زمین اور زمینی چیزوں ہی میں یا ختلاف نہیں بلکہ ملائکہ تک میں ہے بعض درجہ کے لحاظ سے چھوٹے اور بعض بڑے ہوتے ہیں غرض نہوں کے درجہ میںاختلاف مومن و کافری اختلاف منافقوں کی حالت میں اختلاف.جانوروں میں.پرندوں چرندوں درندوں میں اختلاف پھر نباتات جمادات میں اختلاف موجود ہے.کوئی ایک چیز نظر نہیں آتی.جو اس اختلاف سے بری ہو.اور اس اختلاف کو قرآن کریم تسلیم کرتا ہے اور اس کے متعلق فرماتا ہے کہ یہ ہماری طرف سے پیدا کیا گیا ہے.جیسا کہ فرمایا.فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ ربنی اسرائیل : ۲۲) اور الوزن يومين الحق (الاعراف (۹) ہر ایک کے وزن دوسرے کے وزن سے الگ ہونگے.پھر اس کو قائم کرتا ہے اور فرماتا - لَا تَسْتَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ - (المائده : ۱۲ کہ قرآن کے نزول کے زمانہ میں زیادہ سوال نہ کر گیونکہ اگر سب باتیں بیان کر دی جائیں تو پھر میں ایک حد تک اختلاف کا موقع نہ رہے گا.ہم نے ایک حد تک بتا دیا اور باقی کو تمہیں پر چھوڑ دیا.اس طرح گویا کہ اختلاف کے قیام پر زور دیا پس اختلاف ہے اور ضروری ہے، لیکن جو اس اختلاف کو ٹانا چاہتا ہے.وہ غلطی کرتا ہے.کیونکہ یہ تو مٹ نہیں سکتا اور اس کا رہنا ضروری ہے.اس طرح گویا ہے اتفاقی پیدا ہوتی ہے.یہ بہت بڑا گر ہے.اب میں اس کے متعلق بتاتا ہوں کہ جب یہ تسلیم کر لیا جائے کہ اختلاف رہے گا.تبھی اتحاد ہو سکتا ہے.غور کرو.اگر اختلاف نہ ہوتا.سب کا ایک رنگ ہوتا.سب کی ایک خواہش اور سب کے ایک ہی جذبات ہوتے تو سب کا ایک ہی پیشہ ہوتا.دنیا کی قسم کی ترتی نہ کرسکتی.سائنس کی ترقی اختلاف کا نتیجہ ہے.جب آکسیجن اور نائٹروجن جو دونوں مختلف چیزیں ہیں نہ ملتیں تو پانی کہاں سے آتا.کیونکہ یہ دونوں جو مختلف ہیں.میں تو پانی ہے.آگ نہ ہو.یا پانی نہ ہو.سردی یا گرمی نہ ہو تو فصلوں کا تیار ہوناکس طرح ہو اور یہ اختلاف ہی بتاتا ہے کہ لوگوں کی طبائع میں اختلاف رکھا گیا ہے
۴۴۸ مخنہ اور اسی سے لوگ مختلف چیزوں کو حاصل کرتے ہیں.اور مختلف پیشوں میں لگتے ہیں.اگر اختلاف نہ ہوتا.اگر نہ تو لوگ ایک ہی پیشہ کے پیچھے لگے رہتے.اور دنیا ان تمام اشیاء سے محروم رہ جاتی.پھر علوم کیسے پیدا اور مدون ہوتے جبکہ سب کا ایک ہی میلان اور ایک خیال ہوتا اس سے ثابت ہوا کہ اختلاف ضروری ہے.پس جب تک مختلف اشیاء کی مختلف حالتیں نہ ہو تیں - اس وقت تک کسی قسم کی ترقی نہ ہوتی.ترقی کے لیے اختلاف ضروری ہے.اگر اختلاف کو مٹا دیا جائے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ دنیا کی ترقیات کو مٹا دیا جائے اصل میں فساد پڑتا ہی تب ہے، جب اختلاف کو مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے.اور ترقی کے راستہ میں کیں کھڑی ہو جاتی ہیں، لیکن اشیاء متقابل تب ہی کھڑی ہوتی ہیں جب ان کے رستہ میں روک ہوتی ہے جب بو انٹر پھٹتے ہیں.تو ان کی گیس کے نکلنے کے رستے بند ہو جاتے ہیں.پس اس سے ثابت ہوا کہ جو اس قسم کا اتفاق کرتا ہے اور فساد کومٹاتا ہے.وہی فساد کو بڑھاتا ہے.اس نکتہ کے نہ سمجھنے کی وجہ نا اتفاقی ہوتی ہے.دوستوں کا اتفاق کس طرح ہوتا ہے ؟ اسی طرح کہ ان میں اختلاف ہوتا ہے، لیکن اگر کوئی شخص اپنے دوست سے اتفاق کے لیے اس اختلاف کو مٹاتے.اور چاہیے کہ جیسا لباس میں پہنتا ہوں.وہ پہنے جو خوراک میں کھاتا ہوں وہ کھائے جو پڑھتا ہوں وہ پڑھے جو لکھتا ہوں وہ لکھے اور جس طرح پڑھتا اور جس طرح لکھتا ہوں.اس طرح پڑھے اور لکھے.اور جب چلوں چلے.اور جہاں جاؤں جائے.اور جب بیٹھوں اور جس طرح بیٹھوں بیٹھے اور جب لیٹوں لیٹے.اور جب سوؤں سوتے.اور جب جاگوں جاگے تو تم ہی خیال کرو.کیا اس اختلاف کے شانے سے ان میں اتحاد ایک دن بھی رہ سکتا ہے.ایسا شخص جس سے یہ توقع رکھی جائیگی.ایک ہی دن میں گھبرا جائیگا اور کسے گا کہمیں تیرا کوئی بندہ ہوں کہ تیرے اشاروں پر نا چوں بس ان میں اتحاد کب رہ سکتا ہے.اسی وقت جب جائز اختلاف کو اپنے دیا جائے اور جب اختلاف کو ہر رنگ میں مٹانے کی کوشش کی جائیگی.اسی وقت اختلاف ہو گا.پس اس سے ثابت ہوا کہ اختلاف تب ہوتا ہے.جب اختلاف کے وجود کو تسلیم نہیں کیا جاتا.اگر مان لیا جائے کہ اختلاف ہو سکتا ہے.تو پھر آپس میں اختلاف نہیں ہوگا، لیکن یہ حالت ہو کہ ایک کے تبلیغی جلسہ کب ہو اور کہاں ہو.اور دوسرا اس کا مخالف ہو.اور پہلا اپنے خیال پر مصر رہے.اور دوسرا اپنے پر.اب ظاہر ہے کہ اس سے اختلاف بڑھے گا، لیکن اگر ایک شخص اصرار چھوڑ دے.تو پھر.اختلاف نہیں ہو سکتا.یہ ظاہر ہے کہ دونوں کی حالتیں مختلف ہیں.دونوں کی عقلیں مختلف ہیں.مگر جب دونوں اپنی بات پر مصر رہتے ہیں.اور اس صورت میں اختلاف کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں.اس طرح کبھی
۴۴۹ نہیں مٹ سکتا لیکن اگر ایک اپنی جگہ سے اس وقت ہٹ جائے.اور پھر نرمی سے سمجھائے.تو اختلاف مٹ سکتا ہے.گھر میں میاں بیوی کے تعلقات ہوتے ہیں.دونوں کے مزاج میں اختلاف ہے.ایک مکان میاں کو پسند ہے.بیوی کو نہیں.اب بیوی کے کہ ہم تو بیاں نہیں رہتے یا بیوی کو ایک لباس پسند ہے اور میاں کو نہیں.پھر اختلاف ہوگا اگر دونوں یہ چاہیں کہ ایک کے خلاف دوسرا نہ ہو.اور ایک دوسرے کی پسند کو پسند کرے تو اختلاف بڑھے گا.مگر اگر باوجود پسندیدگی کے وہ سمجھ لیں کہ یہ اختلاف ہوتا ہی ہے تو پھر ناراضگی کی کوئی بات نہیں رہے گی.مگر مفید اختلاف ضروری ہوتا ہے.مثلاً انبیاء.آتے ہیں جو انبیاء کی بعثت پر اختلاف ہوتا ہے.نادان لوگ انہیں مطعون کیا کرتے ہیں.مگر نہیں جانتے کہ وہ اختلاف ضروری ہوتا ہے.دیکھنا یہ چاہیئے کہ اختلاف جو ہے وہ حق پر ہے کہ ناحق پر.اگر حق پر.تو ہونا چلیئے اگر ناحق پر تو کوئی پرواہ نہیں کرنا چاہیے.دیکھو مرض اور دوا کا اختلاف حتی ہے.ایک مریض ہے.اس کی مرض کو توڑنے کے لیے دوائی دی جائیگی.اور یہ ایک اختلاف ہے لیکن یہ جائز ہے.اس کا نام تفرقہ ڈالنا ہیں، بلکہ یہ تو فرقہ مانا ہے کیونکہ اس کے بغیر زندگی محال ہے ، لیکن اب اس بات کی ضرورت ہے کہ تفرقہ و اتحاد کی حد بندی کی جائے تاکہ معلوم ہو جاتے کہ کہاں تک تفرقہ رہے تو مضر نہیں.اور اگر اس سے بڑھے تو مضر ہو گا.کیونکہ نیکی کے کام بھی اگر مد کے اندر نہ ہوں تو بڑے ہو جاتے ہیں.نماز اچھا کام ہے، لیکن سورج کے نکلتے وقت منع ہے.عید کے دن شیطان روزہ رکھتا ہے.خرچ کرنا اچھا.لیکن جو لوگ حالت کو مد نظر رکھ کر خرچ نہیں کرتے اور بے دریغ خرچ کرتے چلے جاتے ہیں ان کو قرآن اخوان الشیاطین کہتا ہے بعض حالتوں میں اختلاف کا مٹانا ہی اختلاف ڈالنا ہوتا ہے اور قرآن کریم نے بنا دیا کہ لوگوں کے حالات مختلف ہوتے ہیں.اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو فساد کا موجب ہوتا ہے اور یہ غلطی ہے.بلکہ چاہیئے کہ حالت و مزاج کو مد نظر رکھو.اخلاق و عادت کا خیال رکھو جب یہ ہوگا تو اختلاف مٹ جائے گا.اور جب یہ خیال کیا جائیگا کہ یہ اختلاف رہنا ضروری ہے.اور خدا کی طرف سے پیدا کیا گیا ہے.تو کوئی اختلاف نہ ہوگا.اور اس اختلاف کا مٹانا اسی اتحاد کو توڑتا ہے.آج میں اسی حصہ پر بیان ختم کرتا ہوں.اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی.تو اگلے جمعہ آئندہ حصہ پر بیان کرونگا الفضل ۳ رجون ۱۹۲۰ ) ہا ہے.
۴۵۰ 83 اعتصام بحبل الله اتحاد کیلئے خوف بھی ہونا چاہیئے دفرموده ۲۱ رمتی ۱۹۲۰ته (14: ( تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ اور آیت شریفہ تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا (السجدة 144) کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :- اس کے بعد میں اس مضمون کی طرف توجہ کرتا ہوں.جو پہلے سے چلا آرہا ہے.اور وہ مضمون اتحاد واتفاق ہے.میں نے پچھلے جمعہ بیان کیا تھا کہ اتحاد کے قیام کے لیے دیہ بات یاد رکھنی چاہیتے کہ میں جب بھی اتحاد و اتفاق کے لفظ بولوں.اس سے مراد ہی اعتصام بحبل اللہ ہے لیکن چونکہ اس مطلب کے لیے ماری زبان میں اتفاق و اتحاد کے لفظ مستعمل ہیں.اس لیے وہی بولے جائیں گے ، سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ اختلاف کا دنیا میں رہنا ضروری ہے.جب تک یہ تسلیم کیا جائے اتفاقی واتحاد قائم نہیں ہو سکتا.سب سے بڑی روک اتحاد و اتفاق کے پیدا ہونے میں یہ ہے کہ لوگ اختلاف کا وجود مٹانا چاہتے ہیں، لیکن اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اتفاق و اتحاد کومٹانا چاہتے ہیں نہیں پلاگر جو اتفاق واتحاد کے قیام کے لیے قرآن کریم تعلیم کرتا ہے.یہ ہے کرتسلیم کر لیا جائے کہ اختلاف دنیا سے مٹ نہیں سکتا.بلکہ اس کا وجود ضروری ہے.اگر لوگ اس کو تسلیم کر لیں.تو توے فیصدی اختلاف کی باتیں مٹ سکتی ہیں.اس کے بعد میں ایک اور عظیم الشان گرد بیان کرتا ہوں جسکے نہ سمجھنے کی وجہ سے بھی اختلاف پڑتا ہے اور وہ خوف کا مٹ جانا ہے جس طرح اختلاف کے مٹنے اور مٹانے سے اختلاف ہوتا ہے.اسی طرح خوف کے مٹنے سے بھی اختلاف ہوتا ہے.جب بھی اور جن لوگوں نے خوف کو مٹا دیا.اسی وقت انہی میں اختلاف پیدا ہو گیا.دنیا جن قوانین کے ماتحت چل رہی ہے.وہ بتلاتے ہیں کہ دنیا سے جب بھی خوف مفقود ہوگا.اتحاد و اتفاق بھی مفقود ہو جائے گا.جب تک خوف ہے.اتفاق ہے جہاں خوف نہیں
۴۵۱ وہاں اتحاد نہیں.پس اتفاق کے لیے خوف ضروری ہے.اس آیت کریمہ میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے تتجانی جُنُوبُهُمْ عَنِ المَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُم خَوْفًا وَطَمَعًا اس میں فرمایا کہ مومن کون ہے اور اس کی علامت کیا ہے.تتجافى جُنُوبُهُمْ عَنِ المَضَاجِع - ان کے پہلو بستروں سے اٹھے پڑتے ہیں.يَدُعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمعًا - اپنے رب کو خوف اور طمع سے پکارتے ہیں خوف و طمع دونوں باتیں ملتی ہیں - اور سے وضع دونوں تو ایک شخص مومن ہوتا ہے.ایک کو مٹا دو تو مومن نہیں، لیکن جب یہ دونوں باتیں جمع ہوں.تب انسان مومن ہوتا ہے.اور مومن کے معنے ہوتے ہیں.امن دینے والا.مومن دُنیا کو امن دیتا ہے.اور خود سچی بات مان کر امن میں آتا ہے.اور پھر دوسروں کو امن پہنچا تا ہے.پس اس سے معلوم ہوا کہ ایمان کے لیے خوف ضروری ہے اور اتفاق بغیر ایمان کے پیدا نہیں ہوتا.اور ایک شخص امن میں نہیں ہوتا جب تک اس کو خوف بھی نہ ہو.جب یہ دونوں چیزیں جمع ہوتی ہیں.امن والا ہوتا ہے.میں اس کی تشریح کرتا ہوں.یاد رکھو کہ دنیا میں اتفاق قائم رکھنے والی چیز یہ ہے کہ سامنے خطرناک میمن ہو.آپس میں خواہ کتنی ہی دشمنی اور لڑائی ہو.لیکن جونہی کہ مشترکہ دشمن سامنے آ جاتے.تو لوگ اپنے عناد کو بھول کر متفق ہو جاتے ہیں.غور کرو.ہندو مسلمانوں میں کتنی لڑائی تھی، لیکن ہمارے ملک کے لوگوں کو یہ خیال ہوگیا کہ انگریز ہمارے دونوں کے خیر خواہ نہیں.یا یہکہ انگر یز ہمارے ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں.اور ہمارے ملک کا مال لیے جارہے ہیں.اس خیال کی بنا پر دونوں قومیں جو د توں سے ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھے ہوتے تھیں.ایک ہوگئیں.انھوں نے اپنی دشمنیوں کو چھوڑ دیا اور وہ جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نظر آیا کرتے تھے اب ہر طرف سے آواز آنے لگ گئی کہ ہندو مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں.اس اتفاق کی کیا وجہ ہے ہیں کہ ان کو ایک خوف پیدا ہوا.اور وہ خوف انکے اتفاق کار خواہ وہ کیسا ہی ہو، موجب ہو گیا.اسی طرح مثلاً دو شخص جنگل میں ہوں.اور ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہوں، لیکن اس حال میں کہ دونوں لڑرہے ہوں اگر شیر آجائے.تو دونوں اپنی دشمنی کو چھوڑ کو شیر کے مقابلہ کے لیے یا اپنی حفاظت کے لیے تیار ہو جائیں گے تو خوف و خطر ہی امن پیدا کر دیتا ہے جب خوف آتا ہے.تو لوگ اپنی لڑا تیاں بھول جاتے ہیں اور امن قائم ہو جاتا ہے.ہمارے مفتی (محمد صادق صاحب ایک لطیفہ اپنے لیکچروں میں بیان کیا کرتے ہیں.جو عیسائیت کے متعلق ہے اور وہ یہ ہے کہ عیسائیت کی تعلیم تو ایسی ہے جیسے لوگ سٹیشن پر ہوں اور گاڑی پر سوار ہو نا ہو.ایسی حالت میں اگر کسی کے کچھ چوٹ آجائے تو وہ اس کی پروا نہیں کرتا کیونکہ گھبراہٹ ہوتی ہے.اسی لیے
۴۵۲ عیسائیت کہتی ہے کہ ایک گال پر طمانچہ لگے.تو دوسری آگے کر دو جب لوگ ریل پر ہوں، اگر کسی کو چوٹ آتی ہے تو وہ نفقہ کی بجائے مسکرا دیتا ہے مگر اسلام ایسی گھبراہٹ کا مذہب نہیں.بلکہ اسلام کی مثال تو یہی ہی ہے کہ جب انسان اپنے منزل مقصود پر پہنچ جاتا ہے اور اگر وہاں کوئی شخص اس کو مارے تو اس کا بدلہ بھی لیتا ہے.اور اس وقت اس کی نظر اپنے حقوق پر بھی پڑتی ہے.پس تو خوف ایک ایسی چیز ہے کہ اتفاق کا باعث ہو جاتی ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ جب تک خوف رہے گا مسلمانوں میں جنگ و جدال اسی وقت ہوتے جب ان سے خوف دور ہو گیا جب انہوں نے نادانی سے سمجھ لیا کہ اب ہمارے لیے خوف نہیں.اسی وقت آپس کے جنگ و جدال نے ان کو تباہ کرنا شروع کردیا اور غیروں نے ان کو پامال کر ڈالا.اور جن کو وہ اپنے نیچے دبائے ہوئے تھے جب ان سے بے خوف وہ اور یہ نیچے غوطے کھانے لگی ہے ان سے لیے ہوتے اسی وقت وہ مشک کی طرح نکل کر او پر آگئے.اور یہ نیچے غوطے کھانے لگے.مسلمانوں نے خیال کیا کہ جب ہم نے ان کو فتح کر لیا ہے پھر ہمیں کیا خوف.انھوں نے قریبا تمام دنیا کو فتح کر لیا تھا اور تمام دنیا کو اپنے ماتحت خیال کرتے تھے مگر جب انہوں نے خیال کیا کہ اب کیا خطرے کی بات ہے.اسی وقت ان کے لیے خطرات پیدا ہو گئے تھے.مکن ہے کہ بعض کو خیال آتے کہ یہ بات لا خَوفٌ عَلَيْهِمُ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.کے خلاف ہے اگر خوف کے مٹنے اور خوف کے نہ ہونے میں زمین و آسمان کا فرق ہے.کسی کو خوف نہ ہونا اور چیز ہے اور اس کے لیے خوف کا مٹ جانا اور چیز ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ کہا جائے کہ فلاں شخص بیمار نہیں.یہ ایک اور بات ہے.اور اگر یہ کہا جاتے کہ یہ بیمار ہوگا بھی نہیں تو یہ اور بات ہے.میں اسی طرح یہ کہنا کہ اس کو اس وقت خوف نہیں ہے.یہ اور بات ہے اور یہ کہنا کہ اس کے لیے آئندہ بھی کوئی خوف نہیں.یہ بالکل اور بات ہے.پس مومن کبھی نڈر نہیں ہو سکتا.کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ اگر میں ذرا بھی غافل ہوا.تو میرے دشمن میری گھات میں میں جب اس کو خوف ہو گا.تو اتفاق اتحاد بھی قائم رہے گا.مومن خوف سے پاک ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ اس کو یہ خوف بھی ہوتا ہے کہ اگر میں فاضل ہوا.توشیطان نے مجھ پر قبضہ ؟ مومن ایک لحاظ سے بے خوف ہے دوسرے لحاظ سے اس کو ہر وقت ڈر رہتا ہے.جیسا کہ فرمایا.بیڈ منون رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا- پس جب لوگ خوف محسوس کرینگے تو آپس میں متحد بھی رہیں گے.اگر خون کو محسوس کریں تو پھر لڑاتیاں بھی نہ رہیں.آج سے دس برس پہلے احمدیوں میں جو اتفاق و اتحاد تھا.اس میں آج کی ہے انہوں نے خیال کیا را
۴۵۳ کہ ہم بہت ہیں.اس لیے ہمارے لیے کیا خوف ، مگر وہ یاد رکھیں کہ سلمان ان سے بہت زیادہ تھے جب خوف ان کو نہ رہا.تو ان کا اتحاد مٹ گیا.صحابہ میں بھی لڑائیاں ہوتی تھیں مگر ان کو خوف تھا.اس لیے باوجود سخت لڑائیوں کے ان میں اتحاد رہا.حضرت علی منہ اور معاویہ کی جنگ ہوئی.مسلمانوں کو لڑتے دیکھ کر قیصر نے چاہا کہ ان کا خاتمہ کر دے.ایک پادری نے ایک مثال دیگر اس کو اس خیال سے باز رکھا.اس نے کہا کہ دو گھتے لو اور ان کو بھو کے رکھو.چنانچہ ایسا کیا گیا اور پھر انکے آگے گوشت ڈالا.اور وہ لڑنے لگے، لیکن پھر ایک شیر لایا گیا.تو وہ اپنی لڑائی بھول گئے.اس نے کہا کہ مسلمانوں کی مثان گتوں کی سی ہے.آپس میں لڑتے ہیں، لیکن جب غیر حملہ آور ہو گا تومل جائیں گے یہ مشال گو گندی ہے لیکن بات سچی ہے کہ خوف کے وقت اختلاف مٹ جاتا ہے اور یوں کہا جا سکتا ہے کہ خوف کے وقت سکتے تک متحد ہو جاتے ہیں.قیصر نے پادری کی بات نہ مانی امیر معاویہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے کہلا بھیجا کہ قیصر کو معلوم ہوا کہ وہ ہماری لڑائی پر نہ جاتے اگر اس نے علی پر حملہ کیا تو علی نہ کی طرف سے پہلا جرنیل جو اس کے مقابلہ میں ہوگا وہ معاویہ ہو گا لیے یہ لوگ مسلمان تھے اس لیے ان باتوں کو جانتے تھے نہیں خواہ کوئی کتنا ہی ترقی پاتے وہ خوف سے مبرا نہیں ہوسکتا.کامل محفوظ ذات صرف خدا کی ہے جس کے لیے کوئی اور کبھی خوف نہیں ، لیکن انسان کے لیے خوف ہے پس کبھی نہ ھو کہ تم کامل ان میں ہو تم میں اتحاد رہے گا.کیا معلوم ہے کہ تم اس سمجھ کر لڑنے لگو.اور کل یہ خوف مٹ جائے.باقی آئندہ انشاء اللہ بیان ہوگا.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے.آمین ) الفضل.ارجون نشته ) مجمع بحار الانوار جلد اصل ۲
۴۵۴ 84 سيد السيستم اعتصام بحبل اللہ فرموده ۲۸ متی ۹۲) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- میں نے پچھلے جمعوں میں دو باتیں اتحاد کے متعلق اصول اور گر کے طور پر قرآن کریم سے بیان کی ہیں.جن کو مد نظر رکھنے سے اتحاد کی بنیاد مضبوط ہو سکتی ہے.اور اختلاف مٹ سکتا ہے.آج میں تیسرا گر جو قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے.بیان کرتا ہوں پہلی دونوں باتیں حکمت کی باتیں ہیں جن میں سے پہلی یہ ہے کہ انسان کو کبھی اس طرح مامون نہیں ہونا چاہیئے کہ وہ خیال کرے کہ وہ خطرے سے محفوظ ہے مومن کی علامت ہے کہ وہ خطرے سے محفوظ ہو، لیکن پھر بھی اپنے کو خطرے سے محفوظ نہ سمجھے جب تک یہ نہ ہو مومن نہیں.دوسری بات یہ ہے کہ اختلاف کو دور کرنے کے لیے اختلاف کا جو تسلیم کرنا ضروری ہے یعنی ی تسلیم کر لیا جائے کہ اختلاف رہے گا.آج میں تیسری بات بیان کرتا ہوں جس کے متعلق قرآن کریم سے ہی استدلال ہوتا ہے.اگرچہ وہ چھوٹی سی بات سمجھی جائیگی.مگر بہت سی چھوٹی باتیں اپنے نتائج کے لحاظ سے بڑی ہوتی ہیں.وہ اصل یہ ہے کہ ہر معامہ میں موازنہ کیا جائے.اور جو چیز جتنی ہو اس کو اتنا ہی درجہ دیا جائے.عام طور پر لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ ایک بات کو سمجھتے ہیں.مگر حقیقت میں نہیں سمجھتے.ہندسوں میں چھوٹے بڑے کو خوب سمجھتے ہیں.کوئی نہیں جو دو کو چھوٹا اور ایک کو بڑا کے، لیکن تعداد کو اگر جانے دیں تو عام طور پر لوگ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو لیتے اور بڑی کو ترک کرتے ہیں.قرآن کریم نے شرع کی بنیاد بھی اس امر پر رکھی ہے.کہ وہ چیز اختیار کرو جس میں نفع زیادہ اور نقصان کم ہو.یہ کہنا کہ کوئی چیز مطلق نقصان دہ ہے
۴۵۵ غلط ہے.گندی سے گندی چیز میں بھی کچھ نہ کچھ نفع ہوتا ہے.یہ علیحدہ بات ہے کہ اس کے نفع کو نہ سمجھ سکتے ہوں.پس یہ حقیقت ہے کہ بڑی سے بڑی چیز بھی قلیل سے قلیل نفع رکھتی ہے.مثلاً بدیاں ہیں فیسقی و فجور ہیں.یہ تمام مضر اور نقصان دہ باتیں ہیں.مگر جیسا کہ خدا نے شراب اور جوئے کے متعلق فرمایا.إنهما أكبرُ مِن نَفْعِهِمَا البقرة : ان چیزوں میں بھی نقصان ہے، لیکن ان کے اثرات جب ان کے مرتکبین پر ظاہر ہوتے ہیں تو وہ دوسروں کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہو جاتے ہیں پس نفع و نقصان کا مقابلہ کرنا ضروری ہے.اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے ہاں موازنہ رکھا ہے جس سے ظاہر کرتا ہے کہ کتنی بھلاتی ہے پاکستنی برائی.امن اور اتحاد کے لیے بڑی بات یہ ہے کہ ہر ایک چیز میں برائی اور بھلائی دیکھی جاتے جی میں زیادہ بھلائی ہو اس کو قبول اور دوسری کو ترک کر دیا جائے.بہت لوگ ہوتے ہیں کہ اس بات کا اندازہ نہ کر کے ٹھوکر کھاتے ہیں.مثلاً ایک شخص نے دس روپیہ کسی سے لینے ہیں جو دیتا نہیں.اس طرح معروض کا ایمان خراب ہوتا ہے.مگر جس شخص کا روپیہ واجب ہے.وہ اس سے مطالبہ کرنے میں حد سے متجاوز ہو جاتا ہے.اور دس روپیہ کی خاطر اتحاد و اتفاق کو قربان کر ڈالتا اور فساد کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے.اب ظاہر ہے کہ جب دس دس روپیہ کی خاطر فساد پڑنے لگیں.اور بڑھتے جائیں تو اتحاد کا وجود نہیں رہ سکتا.اور سیاست تباہ ہو کر جماعت خاک میں مل سکتی ہے.پس تفرقہ پڑنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوتی ہے.کہ لوگ اندازہ نہیں کرتے کہ بڑی چیز کونسی ہے اور چھوٹی کونسی.ایسے موقع پر بعض لوگ کہا کرتے ہیں.ہم تو حق لینا چاہتے ہیں.اور بعض جو اس کے طرف دار ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ اس کا حق دلواتے ہیں، لیکن وہ اس بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ کہیں زید کا حق دلوانے میں بکر کا.خالد کا حق تو ضائع نہیں کرتے.اگر ایک شخص کا حق دلوانے میں سو کا حق ضائع ہوا.تو پھر ایک کا حق کوئی چیز نہیں.مگر میں دیکھتا ہوں کہ لوگ اس بات کو عموماً نہیں سمجھتے.یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہتے کہ حق بھی دو طرح کے ہوتے ہیں.ایک حق بمعنی صداقت دوسرے کسی کا مطالبہ یا لین دین.وہ حق جس کے معنے صداقت کے ہوتے ہیں.وہ تو ہر وقت اور ہر حال قابل اتباع ہوتا ہے مگر پہلی قسم کے حق کی بہت دفعہ قربانی ہی کرنی پڑتی ہے.میں دیکھتا ہوں کہ بعض دفعہ سمجھدار لوگ بھی اس بات کی پروا نہیں کرتے اور آپس میں جھگڑتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دو پارٹیاں ہو جاتی ہیں جس سے جماعت کا اتحاد ضائع ہو جاتا ہے.اگر ایک شخص کسی کو گالی دیتا ہے.تو وہ اس کے
۴۵۶ بدلہ میں اسلام کو قربان کرنے سے نہیں بچتا.یا کہتا ہے فلاں چیز میراحتی تھی میری بجائے فلاں کول گئی.فلاں جھگڑے میں فلاں کی مدد کی گئی میری طرفداری نہ کی گئی.مسلمانوں کی سیاست اس طرح مٹی سلطنت عباسیہ اس طرح تباہ ہوئی.بادشاہ کو پتہ بھی نہ ہوتا کہ وزراء کی آپس میں تلواریں چل جاتیں.ایک کہتا فلاں عہدہ میراحتی ہے.دوسرا کہتا میرا.ایک دوسرے پر فتح پاتا اور خوش ہوتا، لیکن وہ نہیں سمجھا تھا کہ میری فتح میری آئیندہ نسلوں کے لیے غلامی ثابت ہوگی اور میری اولاد دشمنوں کی غلام ہو کر رہے گی.چنانچہ ان خانہ جنگیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ سلطنتیں تباہ ہو گئیں لیے اب ان فاتحوں کی اولاد غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے.وہ لوگ وزارت کے لیے لڑتے اور حکومتوں اور عزتوں کے لیے ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوتے تھے جس کا نتیجہ اسلامی حکومتوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوا.تم میں سے بہت ہونگے جو ان وزراء کو بے وقوف کہیں گے.مگر در حقیقت وہ لوگ جو گورنریوں اور ملک کے بڑے بڑے عہدوں کے لیے لڑتے تھے اتنے بے وقوف نہ تھے.جتنے وہ لوگ ہیں جو چار چار پیسوں پر ایسی حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں جن سے اتحاد ٹوٹ جائے.مثلاً کہتے ہیں کہ ۳۹ روپیہ کی بجائے ۳۸ روپیہ کیوں دیئے گئے.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی اس قسم کی باتیں اسلام کی ترقی کو مدتوں پیچھے ڈال دیتی ہیں.وہ یہ ہیں خیال کرتے کہ وہ اسلامی عمارت کی ایک اینٹ ہیں.اگر وہ گرینگے تو تمام عمارت پر اس کا اثر پڑے گا پس ایسے لوگ اسلام کی تباہی کے موجب ہوتے ہیں.اور اسلام کو ضعف جب آئے گا.تو خود وہ بھی تباہی سے نہیں بیچ سکتے ہیں وزراء عباسیہ نے اگر لڑائیاں کیں تو حکومت کے لیے کیں.مگر یہاں تو کوئی حکومت نہیں.پھر لڑائی ہو تو کیوں ؟ اگر ہو تو کیا وہ اچھے تھے پیدا کرے گی.اگر وہ لوگ ایسا نہ کرتے.تو مسلمانوں کو جو دن آج دیکھنا پڑا.نہ دیکھنا پڑتا.پس جماعت کی ترقی اتحاد سے ہوتی اور اتحاد قائم رہتا ہے.اپنی قربانیاں کرنے سے.اگر کوئی قربانی کرے تو جماعت کا اتحاد قائم رہے گا اور جماعت کی برکت سے اس کے بھی بہت سے کام عمدہ شکل میں انجام پائینگے لیکن اگر یہ قربانی نہیں کریگا.تو جماعت پر اس کا اثر پڑے گا.اور پھر اس کا اثر اس کی ذات پر بھی پڑے گا.جماعت کی عزت بڑھے گی.اس کی عزت میں بھی ترقی ہوگی.اور وہ عزت اور نفع جو جماعت کے ذریعہ حاصل ہو بہت پائیدار عزت اور دیر پا نفع ہو گا.جو لوگ اس گر کو سمجھتے ہیں.وہ ذاتی منافع کو نہایت خوشی سے جماعت کے فوائد پر قربان کر دیتے ہیں.مومن جو خدا کے لیے قربانی کرتا ہے.خدا اس کو که تاریخ اسلام ، معین الدین ندوی حصہ سوم حالات خلافت عباسیہ
۴۵۷ اچھے سے اچھا بدلہ دیتا ہے.اگر کوئی شخص دس روپے خدا کے لیے قربان کر دے تو خدا اس کے لیے بہت سے فوائد پیدا کریگا.اگر ایک شخص کسی کے دس روپے دباتا ہے.اور وہ اس پر صبر کرتا ہے.اور کوئی ذلت خدا کے لیے اختیار کرتا ہے تو خدا اس کا نعم البدل دیتا.اور اس کے لیے حقیقی عزت کے سامان پیدا کرتا ہے.ایسے شخص کا کوئی نقصان نہیں.حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک صحابی کو ایک شخص گالیاں دے رہا تھا.آنحضرت کھڑے دیکھ رہے تھے.اس صحابی نے بھی گالیوں کا جواب دینا شروع کیا تو آپ چلے گئے.وہ صحابی حضور کے پاس گئے اور سبب دریافت کیا.تو آپ نے فرمایا کہ جب وہ شخص تمہیں گالیاں دے رہا تھا.اور تم خاموش تھے.اس وقت خدا تعالیٰ کے فرشتے تمہاری طرف سے اس شخص کو جواب دے رہے تھے لیکن جب تم نے جواب دینا شروع کیا.توفرشتے چلے گئے کہ اب یہ شخص خود جواب دینے لگ گیا ہے پس یہ جو جھگڑے ہوتے ہیں.ایان کی کمی اور اس وجہ سے ہوتے ہیں کہ اندازہ نہیں کیا جاتا کر ی کا مظاہ کہاں تک ہونا چاہیئے.اپنے حق کا مطالبہ کرو، جاتک وہ اپنی حد میں رہے، لیکن اگر معاملہ و مطالب جد سے گزر گیا.تو پھروہ ایک ایسی صورت اختیار کر لیتا ہے جس کا اثر جماعت پر پڑتا ہے.یا درکھو.اگر جماعت معزز ہو تو اس کا ہر ایک فرد معززہ ہوتا ہے، لیکن اگر جماعت معز نہ ہو تو اس کا کوئی فرد بھی در حقیقت معز نہیں ہوتا تم انگریزوں کو دیکھو ان میں سے بہت سے ہیں کہ وہ اپنے وطن میں نہایت ذلیل اور کس مپرسی کی حالت میں ہوتے ہیں.مگر وہ یہاں معزز ہیں کیونکہ وہ ایک معزز قوم کے افراد ہیں.ان کی شہادت کی وہ قدر ہے کہ تمہارے مال و دولت علم عقل.ان کے مقابلہ میں کام نہیں آسکتے.بیان کہ دیا جاتا ہے کہ جو کچھ یہ کہتا ہے.بیچ ہے اس لیے کہ یہ ایک معزز قوم کا فرد ہے.دیکھو اگرچہ ہماری جماعت ایک چھوٹی سی جماعت ہے لیکن بہت مواقع پر اس کے افراد کی بوجہ جماعت کے عزت کی جاتی ہے.پس جماعت کا فائدہ ایسا فائدہ ہے جو خود اس شخص کی طرف لوٹ کر آتا ہے.ہیں اس گرا کو سمجھو اور قربانیاں کرو.اور ہر معاملہ میں اندازہ اور موازنہ سے کام لو.اللہ تعالیٰ ہم کو اس بات کے سمجھنے کی توفیق دے اور ان راہوں پر چلائے جن سے ہم میں اتفاق ہے اور ہماری نصرت فرمائے اور ہم میں قربانیوں کا احساس پیدا کرے جس سے سلسلہ کی بڑائی قائم ہو.اور میں ایسی باتوں اور ان طریقوں سے بچائے جن سے سلسلہ کی عزت میں فرق آتے یا ه مسند احمد بروايت مشكورة كتاب الآداب في الرفق والحياء والفضل ١٤ جون ١٩٣٠ة.
85 رمضان کے روزے د فرموده ۱۱ارجون له مطابق ۲۳ رمضان ۱۳۳۵مه) حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد آیت شریفہ بايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا حُتِبَ عَلَيْكُمُ العِيامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقره (۱۳) تلاوت کر کے فرمایا ہر روزوں کی فلاسفی اور ان کی غرض اور ان کے فرض کئے جانے کے اسباب و فوائد کے متعلق بہت دفعہ ہماری جماعت کو بتایا جاتا رہا ہے.اور یہ ایسا مسئلہ ہے کہ علمی طور پر اس مسئلہ کے متعلق بھی کچھ اور زیادہ بتانے کی ضرورت نہیں.کیونکہ علمی طور پر روزے کی اہمیت اور اس کی فلاسفی اور اس کے فوائد پر جماعت میں ہمیشہ سے روشنی ڈالی جاتی رہی ہے.مگر کسی مسئلہ کا علمی طور پر کامل ہونا کسی جماعت کے لیے کافی نہیں ہوتا جب تک عملی طور پر بھی اس میں کمال حاصل نہ کرے.کیونکہ اگر علم کے ساتھ عمل نہ ہو تو علم فائدہ مند نہیں ہو سکتا.بلکہ بسا اوقات ایسا علم حسرت و اندوہ کا موجب ہوتا ہے.ایسا آدمی جس کوکوئی بھاری لاحق ہوجاے اور اس کے متعلق عام یہ خیال ہو کہ اس کا کوئی علاج نہیں.مثلاً کوڑھ کا مرض ہے.اب تک اس بیماری کا یقینی علاج دریافت نہیں ہوا.اور جس شخص کو حقیقی طور پر یہ مرض ہو جائے وہ اچھا نہیں ہوا.اس شخص کو صدمہ ہوتا ہے.مگر پھر بھی وہ میسر کرتا ہے.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ جس مرض میں مبتلا ہے وہ لاعلاج ہے.لیکن برخلاف ازیں ایک دوسرا شخص جو ایک ایسے مرض میں مبتلا ہو جس کا علاج ہے.مگر کسی نہ کسی وجہ سے وہ اس علاج سے محروم رہتا ہے.اس کو اس محرومی کا جو صدمہ اور اندوہ ہوگا وہ پہلے شخص سے کہیں زیادہ ہوگا.مثلاً کسی ماں باپ کا کوئی بچہ مر جاتے ان کو صدمہ ہوتا ہے.کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ اب ہمیں نہیں ملے گا.وہ ہمیشہ کے لیے اس کو اپنے سے جد سمجھتے ہیں.سوائے مومنین کے جو آئندہ ملنے کی توقع رکھتے ہیں، لیکن عام طور پر لوگوں کی فطرت یہی ہوتی ہے کہ وہ بچے کے متعلق کہیں سمجھتے ہیں.کہ یہ اب نہیں
۴۵۹ نہیں ملے گا.یہ ایک سخت صدمہ ہے.مگر اس کا اثر چند روز میں کم ہو جائے گا.مگر ایک دوسرے ماں باپ ہیں کہ ان کا بچہ مرانہیں، بلکہ کھویا گیا ہے.تو ان کا صدمہ پہلوں سے زیادہ ہو گا.کیونکہ ان کا بچہ پرانہیں اس کا ان کو علم ہے.اس لیے وہ اس کے ملنے کے بھی آرزومند ہیں، مگر یہ علم ان کے لیے دُکھ اور صدمہ کا موجب ہوتا ہے.ایسے لوگ جن کی اولا دگم ہوجاتی ہے.اور ان کو اس کا علم نہیں ہوتا کہ مر گیا ہے.وہ آرزو کیا کرتے ہیں.کہ کاش اس سے تو وہ مرجاتا تا اتنا دکھ نہ ہوتا.میں ایک چیز کا علم کبھی دُکھ کا بھی موجب ہوتا ہے.اس کا ایک اور پہلو بھی ہے.اور وہ یہ کہ اگر ایک شخص کو کسی کام کے متعلق علم نہ ہو اور وہ اس میں غلطی کرے تو وہ اس قدر قابل ملامت نہیں ہوتا جس قدر وہ شخص قابل علامت ہے.جس کو اس کے متعلق علم ہو.مگر باوجو د علم کے وہ اسی غلطی کا مرتکب ہو.پس روزوں کے متعلق ہماری جماعت کو بہت حد تک بتا دیا گیا ہے.گویا اس مسلہ میں علمی پہلو کمل ہے، لیکن جب علم کے ساتھ عملی پہلو بھی مل جائے تو بہت مکمل ہو جائے گا.اگر لوگوں کو روزے کی خوبی معلوم نہ ہو اور وہ نہ رکھیں تو ان کے لیے اتنا صدمہ نہیں ہو سکتا ، مگر جن کو معلوم ہو اور وہ باوجود علم کے نہ رکھیں ان کے لیے بہت بڑا صدمہ ہے اور وہ دوسروں کے نزدیک بھی زیادہ قابل ملامت ہیں.روزوں کا حکم بھوکا رکھنے کے لیے نہیں روزے میں جس قدر خوبیاں ہیں.ان کے بیان کی بیاں گنجائش نہیں.مگر مختصر جو قرآن نے دو لفظوں میں بتایا ہے یہ ہے کہ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ.روزوں کا حکم دینے سے خدا کی یہ غرض نہیں کہ تم بھوکے مرد اور خدا تمہاری بھوک کی حالت کا تماشہ دیکھے.اگر یہ غرض ہوتی تو وہ تمہارے لیے کھانے پینے کے اس قدر افراط کے ساتھ سامان کیوں پیدا کرتا.اس نے تمہارے کھانے اور پینے کی ہزارہا چیزیں پیدا کی ہیں.پھر روزہ کا حکم دینے سے کیا مد نظر ہے.فرمایا کہ روزے کا حکم اس لیے ہے تائم ہلاکت سے بچ جاؤ پس خدا تعالٰی نے روزے اس لیے مقرر فرماتے ہیں تاکہ تم محفوظ ہو جاؤ.لیکن باوجود اس کے لوگ سُستی کرتے ہیں.بعض لوگ تو روزوں کے معاملہ میں افراط کی طرف گتے ہیں.اور بعض تفریط کی طرف جو لوگ افراط کی طرف گتے ہیں.انہوں نے تو یہاں تک ترقی کی ہے کہ دودھ پیتے بچوں کوبھی روزے رکھوا دیتے اور ان کو دودھ نہیں پینے دیا حتی کہ وہ اسی حالت میں مرگئے.ایک دفعہ اخبار میں پڑھا تھا کہ گرمی کے دنوں میں ایک لڑکی کو اس کے والدین نے روزہ رکھوا دیا.جب گرمی کی شدت ہوئی تو وہ لڑکی تڑپنے لگی.ماں باپ نے اس کے ہاتھ پاؤں پکڑ لیے کہ کہیں جا کر پانی نہ پی ہے.اور وہ ساتھ ساتھ روتے بھی جاتے.
شن آخریٹر کی زور کر کے گھروں کی طرف گئی اور ان پر گر کر مرگئی.تو جنہوں نے افراط کی انہوں نے تو بیاں تک کی اور جو تفریط کی طرف گئے ہیں وہ اچھے خاصے موٹے ہٹے کٹے ہوتے ہیں.مگر روزہ نہیں رکھتے.جب پوچھا جائے تو کتے ہیں کہ تکلیف ہوتی ہے ان کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ہم کب کہتے ہیں روزے اس لیے آتے ہیں کہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو.روزسے تو آتے ہی اس لیے میں کہ تکلیف دی جائے اور وہ تکلیف بھی جو دی جاتی ہے.اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے دیکھو ایک شخص کو بخار ہو.اس کو کونین دی جاتی ہے اور جب کو تین کھائی جائیگی تو نہ ضرور کروا ہوگا لیکن کونین اس لیے نہیں کھائی جاتی کہ کھانے والے کا منہ کڑوا ہو ، ہاں منہ ضرور کڑوا ہوگا بنگر بخار بھی اتر جائے گا.اسی طرح ڈاکٹر اس لیے نشتر نہیں لاتا کہ مریض کو دکھ دے، بلکہ اس کی یہ غرض ہوتی ہے کہ آرام ہو، لیکن نشتر سے دُکھ پہنچنا ضروری ہے.اسی طرح روزوں کی غرض یہ نہیں کہ تمہیں دکھ دیا جائے لیکن اس میں شک نہیں کہ روزوں سے تکلیف ضرور ہوتی ہے.تو کیا وہ شخص دانا ہے.جو کو مین اس لیے نہ کھائے کہ وہ کڑوی ہوتی ہے.اور اس پھوڑے میں جس نے اس کی زندگی تلخ کر رکھی ہو نشتر نہ لگانے دے کہ اس سے تکلیف ہوتی ہے.کونین سے منہ کڑوا ہوگا.اور نشتر سے درد ہوگا.مگر نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ تکلیف دور ہو جائیگی.اس طرح روزہ بے شک تکلیف دیتا ہے لیکن یہ نشتر ہے ان ہزاروں پھوڑوں کے دُور کرنے کا جو انسان کی روح میں ہوتے ہیں.وہ شخص جاہل ہے جو بخار سے بھنا جاتا ہے مگر کونین اس لیے کھانے سے انکار کرتا ہے کہ منہ کڑوا ہوتا ہے یا وہ جو نشتر اس لیے نہیں لگواتا کہ اس سے تکلیف ہوتی ہے.حالانکہ ایک ایسا پھوڑا اس کو نکلا ہوا ہے.جو اس کے لیے ایک مذاب ہے.کونین کڑوی ہے.نشتر تکلیف دہ ہے مگر کیا اتنا جتنا بخار اور وہ خطرناک پھوڑا پھوڑا تو وہ ہے جواس کو موت کی طرف لے جارہا ہے.اور نشتر وہ ہے جو اس کو زندگی دیتا ہے.پس جو روزہ اس لیے نہیں رکھتا کہ تکلیف ہوتی ہے.وہ گویا علاج سے بچنا چاہتا ہے دیا وہ جو روزہ اس طرح رکھتا ہے کہ اپنی زندگی کوختم کر دے.یہ دونوں تفریط اور افراط کی راہ کو اختیار کرتے ہیں.اور نادانی کرتے ہیں.جو اپنی جان کو ہلاک کرتا ہے.وہ شریعت کا روزہ نہیں رکھتا اور جو بھوک یا پیاس کے ڈر سے روزہ ترک کرتا ہے.وہ بھی شریعیت کے منشاء کو پورا نہیں کرتا.اگر بھوک اور پیاس کی تکلیف سے بری ہوتے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہوتے.اور پھر اگر روٹی کی ضرورت نہ ہوتی تو وہ صحابہ ہوتے.مگر سب کو بُھوک لگتی تھی.سب سے اعلیٰ نبیوں کی جات ہے جس کو بھوک سے بچانا چاہیئے تھا.مگر ہم دیکھتے ہیں.نبیوں میں سے سب سے بڑا نبی محمد رسول اللہ صلی
للہ علیہ وسلم ہے.مگر وہ بھی پیٹ پر دو دو تپھر باندھے نظر آتا ہے پس اس سے معلوم ہوا کہ بھوک کی تکلیف سے کوئی محفوظ نہیں رہ سکتا ہے.اگر بھوک کی تکلیف کے خیال سے روزہ ترک کرنا درست ہو تاتو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے روز سے معاف ہوتے.بعض نادان جو اپنے آپ کو تعلیم یافتہ سمجھتے ہیں ، لیکن در حقیقت جاہل ہوتے ہیں.کہتے ہیں.روزے اس زمانہ کے لیے تھے جبکہ لوگ جاہل تھے اور وحشت ان پر غالب تھی.اور وہ نفسانی جو شوں پر قابو پاتے ہوئے نہ تھے مگر آجکل کے لوگ علمی طور پر بہت ترقی کر گئے ہیں.اور ہم ایسی ترقی پاگتے ہیں کہ ہمیں ڈنڈے اور مشقتوں کے ذریعہ خدا کے جلال کا قائل نہیں کیا جا سکتا مگر ایسے لوگ نہیں جانتے کہ اگر عملی جد وجہد کے بغیر روحانی مراتب حاصل ہو سکتے تو محمدصلی الہ علیہ وہم کے لیے یہ جدو جہد ضروری نہ ہوتی.کیونکہ ان سے زیادہ کون اپنے نفس پر قابو پاتے ہوئے ہو سکتا ہے اور علم میںکون آپ کا مقابلہ کر سکتا ہے مگر باوجود اس کے آپ ریاضت کرتے تھے.پھر جنگو دحشی اور نا تعلیم یافتہ کہا جاتا ہے.ان کی قربانیوں کا یہ لوگ کیا مقابلہ کر سکتے ہیں.جوان کو وحشی کہتے ہیں.یہ لوگ جو بڑے سے بڑا آئیڈیل پیش کر سکتے ہیں.وہ یہ ہے کہ قوم اور ملک کی خاطر اپنی ذات کو قربان کر سکتے ہوں اگر ہم اس کو مدنظر رکھیں اور صحابہ کے جوش اور قربانیوں کو مند ہی نہ مجھیں.تو یا اس کا بھی انکار کر دیا جائیگا کہ ان لوگوں نے اپنی قوم اور ملک کے لیے جو جو قربانیاں کیں.ان کا عشر عشیر بھی یہ لوگ نہیں کر سکتے.پس یہ تفریط کا پہلو ہے اور یہ نادانی کے خیالات ہیں.خدا کے احکام کو حیلے بہانوں سے ملا نے کی کوشش نہ کرو.شریعت اسلام لعنت نہیں ہے بلکہ رحمت ہے.یہ فضل کی بارش ہے.فضلوں کی بارش سے نادان کے سوا کوئی نہیں بھاگتا.کیا وہ زمیندار دانا ہے جو وقت پر ہونے والی بارش سے اپنے کھیت کو بچانے کی کوشش کرے بلکہ وہ تو کوشش کریگا کہ تمام پانی کوجمع کرے.اور اگراس میں دینداری اور تقویٰ نہ ہو.تو وہ یہاں تک منصوبہ کرتا ہے کہ لوگوں کے کھیتوں کا پانی بھی اپنے کھیت ہی میں ڈال سے ہر وہ پانی کی حفاظت کے لیے منڈیریں بناتا اور سوسو جتن کرتا ہے.اسی طرح اسلام خدا کا فضل ہے.جو شخص اس کے احکام کی تعمیل سے بچنا چاہتا ہے.وہ خدا کے ان فصلوں والی شریعت کو لعنت قرار دیتا ہے.ورنہ کیا وجہ ہے کہ اگر وہ شرابت کو لعنت نہیں سمجھتا تو اس سے بچنے کے لیے حیلے بہانے تلاش کرتا ہے.ہماری جماعت کو چاہیئے کہ وہ خوب سمجھ لے کہ شریعت خدا کی رحمت ہے.اس کے احکام کو لانے کے لیے بہانے تلاش کرنا جائز نہیں.وہ شخص جو شریعت کے احکام کو ملانا چاہتا ہے.ہلاکت کو بلاتا ہے ے مجمع بحار الانوار جلد ا زیر لفظ حجر
اور گنہگار ہوتا ہے.گرمی کی شدت کے باعث جو روزہ چھوڑتا ہے اس کو یاد رکھنا چاہیئے.کہ جسم کی آگ کی گرمی اس سے بہت زیادہ تیز ہے جب لوگوں نے نبی کریم کے وقت میں جہاد سے بچنے کے لیے گرمی کا بہانہ تلاش کیا تو خُدا نے فرمایا کہ قُل نَارُ جَهَنَّمَ اَشَدُّ حَرا (التوبه ۱۸۲۱) یہ گرمیاں اتنی گرم نہیں مینی نار جہنم تیز گرم ہے.یہ دنیا کی گرمیاں اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں.پس میں اپنی جماعت کو خاص نصیحت کرتا ہوں اور عورتوں کو خصوصاً اور مردوں میں سے ان کو وحصر صاحب کے ان احکام کو دیکھتے ہیں جو آپ نے افراط کو توڑنے کے لیے دیتے.لوگوں نے روزوں کی مرض کو ضائع کر دیا تھا.جب انھوں نے اس طرح روزے رکھنے شروع کر دیتے کہ جان نکل جاتے مگر روزہ نہ جائے.تو روزہ چونکہ انسان کی ہلاکت کے لیے نہیں.بلکہ اس لیے ہے کہ لوگوں کی نجات کا موجب اور زندگی کا باعث ہو.اس لیے اس افراط کے خلاف حضرت اقدس نے فرمایا ہے جو کچھ فرمایا.اگر حضرت صاحب کا یہ منشاء ہوتا کہ یونی عذر پر روزہ ترک کر دینا چاہیے.تو آپ اس پر مل بھی کرتے.آپ نے ہم ے سال کی عمر بائی.اخیر عمر کے دنوں میں بوجہ بیماریوں کی کثرت کے آپ کے روزوں میں کمی آئی.ورنہ آپ کے روزے نہیں جاتے تھے.اور آپ کی غذا اس قدر کم ہوتی تھی کہ دوسرا آدمی دن بھر اس پر گزارہ نہیں کرسکتا.حالانکہ آپ کی علیم کا بنا ہوتا تو جتنا کم آپ کو اکیلے کرناپڑتا تھا.اور ایک آپ کوساری دنیا کا مقابلہ کرنا رہا تھا.آپ روز سے نہ رکھتے.لیکن باوجود اس شدت کار اور اسکردو صحت کے آپ روزے رکھتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ آپ کے روزے رہ نہ جائیں.یکم معمول نہیں.مگر افسوس ہے کہ افراط سے نکل کر کچھ لوگ تفریط کی طرف چلے گئے ہیں معمولی گذر پر روزہ ترک کر دیتے ہیں.خصوصاً عورتیں معمولی معمولی عذرات پر روزے چھوڑ دیتی ہیں.پھر جوشخص روزہ نہیں رکھتا اور لوگوں کے سامنے کھاتا پیا ہے تو یہ زیادہ گنہگار ہے کیونکہ اس کے اس عمل سے لوگوں کو ترک روزہ کی تحریک ہوتی ہے.اگر کوئی چوری کرتا ہے تو وہ چھپاتا ہے کہ پکڑا نہ جائے، لیکن جو روزہ ترک کرتا ہے اور دوسروں کے سامنے کھاتا پیتا ہے وہ دوسروں کو تحریک کرتا ہے کہ روزہ چھوڑ دیں.ایسا آدمی شعائر اللہ کی ہنگ کرتا ہے پس ایسے گناہ جو دوسروں کو نظر آتے اور دوسروں کے لیے تحریک کا موجب ہوتے ہیں.زیادہ مزا کے مستوجب ہوتے ہیں.جو لوگ شریعیت کے احکام کو اس طرح ٹلاتے ہیں وہ گویا ظا ہر کرتے ہیں کہ الام ساری دنیا اور سب زمانوں کے لیے نہیں اور یہ اسلام پر لیا ملہ ہے جس کا گناہ بہت بڑا گناہ ہے.به زمانہ روحانی ترقیات کا ہے اور روحانی ترقیات میں روزے ضروری ہیں.اس لیے ان کو مت چھوڑو.
دعاوں کے ذریعہ فرب تلاش کرو.ہاں جو بیار ہیں جن کو عرف میں بیمار کہتے ہیں، اور جو سفر میں ہو.ان کے لیے بھی روزے معاف نہیں ،وہ دوسرے ایام میں رکھیں.اگر تندرست سے تندرست شخص بھی طبیب کے پاس جاتے تو وہ کوئی نہ کوئی ملا کر کے مرض بتائے گا.ایسا مرض مرض نہیں بلکہ عرف میں جس کو مرض کتے ہیں وہ مرض ہوتا ہے.اور اسی طرح سفر بھی وہ جو اتفاقی طور پر پیش آئے، لیکن جو شخص تاجر ہے یا جو ملازم ہے.اور اس کا کام ہے کہ وہ دورہ کرے یہ سفر نہیں سفر اتفاقی سفر کو کہتے ہیں جس کو مستقل سفر پیش رہے وہ مسافر نہیں جیسے پھیری والا.زمیندار کہتے ہیںکہ ہمیں کام سخت کرنا پڑتا ہے.ہم نہیں روزہ رکھ سکتے.سو ان کو معلوم ہو کہ ان کا جو کام ہے.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے لیے جسمانی تکلیف کم ہو گئی ہے اس سخت کام کے باعث ان کے بیٹوں کی حس کم ہو گئی ہے.تم نے دیکھا ہوگا کہ ایک دماغی کام کرنے والا اگیر اپریشن کرائے تو اس کے لیے کلو را فارم کی ضرورت ہوتی ہے.اور زمیندار کہ دیتا ہے کہ کلورا فارم کی ضرورت نہیں وجہ یہ کہ دماغی کام کرنے والے کی حس تیز ہے اور اس کی کزور پس دماغی کام کرنے والے جوہیں - واس محنت کو برداشت نہیں کر سکتے.اس لیے دھوپ سے بچ کر کام کرتے ہیں.اور زمینداروں کو جہانی کام کرنا پڑتا ہے.اس لیے اگر وہ روزہ رکھیں.توان کی سختی پسند حالت کے باعث ان کے لیے کوئی تکلیف نہیں ہوسکتی.پڑھنے والا پڑھ پڑھ کر کمزور ہو گیا ہے.اور زمیندار کو مضبوط بنایا گیا ہے.اس لیے اس قدرت کے سامان کے ماتحت زمینداروں کے لیے بھی روزہ کچھ مشکل نہیں.میں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ توجہ کریں کہ نماز تو ایک ایسا حکم ہے جوکسی حالت میں بھی چھوڑا نہیں جا سکتا ہے، لیکن روزہ ایسا ہے کہ بیماری اور سفر میں ملتوی کیا جاسکتا ہے.اس کا رکھنا ایمان کے حصول اور تقویٰ کے لیے ضروری ہے.جو لوگ ملاتے ہیں.وہ اسلام کو دوسروں کی نظروں میں حقیر کرتے ہیں.اور عملی طور پر وہ خود بھی گویا حقارت سے دیکھتے ہیں پس اس سے بچو.یاد رکھو.جو اسلام کے احکام کی حقارت کرتا ہے.وہ اسلام کو چھوڑتا ہے.اور اس نعمت کو رد کرتا ہے.جو خدا کی طرف سے حاصل ہوتی ہے.جب دوسرے خطبہ کے لیے حضور کھڑے ہوئے تو فرمایا ، یہ رمضان کا آخری عشرہ ہے.اس میں بکثرت دعائیں کرنی چاہئیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس میں بالخصوص دعائیں کرتے تھے لیے پس تم ان دنوں میں اپنے لیے دعائیں کرو.اور ان بھائیوں کے لیے کرو جو تبلیغ کے لیے اپنے گھروں سے نکلے ہوئے ے بخاری و مسلم بر دايت مشكورة كتاب الصوم باب ليلة القدر
ہیں.ان لوگوں کے ہم پر حقوق ہیں.وہ ہمارا فرض اور ہمارا کام کر رہے ہیں.اگر ہم ان کے لیے دعائیں نہیں کرینگے.تو ان کے حقوق کا اتلاف کرینگے.پس جو بھائی گئے ہوتے ہیں.ان کے لیے اور جو جانے والے ہیں.ان کے لیے دعائیں کرد کہ اللہ تعالی ان کے ساتھ ہو.ان کی مدد فرمائے.ان کو ہدایت پر قائم رکھے.اور ان کے ذریعہ ہدایت پہلے.جو لوگ باہر جاتے ہیں.ان پرکتی قسم کے ابتلاء آتے ہیں اور ان کے ورغلانے کے کئی سامان ہوتے ہیں.عیسائیوں کو دیکھ لو کہ جب وہ باہر گئے.تو دوسروں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے رعایتیں دینے لگ گئے کہ وہ ہم میں شامل ہو جائیں.یا تو عیلی کہتے تھے کہ میں موٹی کی شرعیت کو قائم کرنے آیا ہوں یا میسی کے ماننے والوں نے شریعت کو لعنت ٹھہرا دیا پس مبلغوں کیلئے بالخصوص دُعائیں کرو.ان کے رستے میں بڑے بڑے ابتلاء ہوتے ہیں.اور ان کے رستے میں خطر ناک گڑھے ہوتے ہیں.وہ اس کام کے لیے نکلے ہیں.جو ہم میں سے ہر ایک کا کام ہے.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے لیے دُعا کریں کہ خدا تعالیٰ کی ہدایت ان کے ساتھ ہو.اور وہ ایمان پر قائم رہیں.اور دین کی کوئی بندرت ان کے دل میں عجب نہ پیدا کر دے.وہ فخر میں نہ آئیں.اور اپنی کامیابیوں پر گھمنڈ نہ کریں.اور نہ تبلیغ میں وہ طریق اختیار کریں جو دین میں فساد کا موجب ہو کہ غیر واجبی نرمی شروع کر دیں پس ہم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ ان کے لیے دعا کرے.ان کی کامیابی کے لیے اسلام کی ترقی کے لیے اور ان کے لیے جو ارادہ رکھتے ہیں.شاید یہ عشرہ ہی ہماری آئندہ ترقیوں کا ذریعہ ہو جائے.الفضل ارجون ۱۹۲۰ته ) دی
۴۶۵ 86 لہو لگا کر شہیٹروں میں ملو ۱۹۲۰ ا فرموده ۸ ارجون ۱۹مه حضور نے تشد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.اللہ تعالیٰ نے میسج موعود کے متعلق جس قدر ترقیات کے وعدے فرماتے ہیں.وہ سب کے سب ایسے ہیں کہ ان میں خدا تعالیٰ نے اپنے اختیار ہی کا دخل رکھا ہے.اور ان میں انسانوں کا بہت ہی کم دخل ہے جتنی پیشگوئیاں پہلے زمانہ کی آخری زمانہ کے متعلق ہیں.ان سب سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت خود اپنی طرف سے کچھ سامان پیدا کرے گا.اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں زیادہ فتنہ ہوگا کیونکہ غیر معمول سامان اسی وقت استعمال میں لائے جاتے ہیں.جب معمولی سامانوں سے کام نہ چلے.حضرت اقدس کے جس قدر معجزات ہیں.ان میں یہی نظارہ نظر آتا ہے.جب غیر معمولی حالات پیدا ہوتے ہیں.تب اللہ تعالیٰ ان کو اپنے قانون خاص سے توڑتا ہے.یہ بھی نہیں ہوتا کہ ایک شخص کے پاس عمدہ پانی ہو.اور پھر اس کے لیے خدا خاص طور پر بادلوں کو لاتے اور اس پر برسائے.بلکہ وہ بادلوں کو تب لاتا ہے جب خاص طور پر اسے پانی کی ضرورت ہوتی ہے.تو خدا کا خاص قانون جب ہی جاری ہوتا ہے.جب عام قانون انسان کے لیے بند ہو جاتا ہے.میں خدا تعالے کی طرف سے اس زمانہ کے متعلق اس بات پر زور دیا جانا کہ آخری زمانہ مں خدا تعالی کی طرف سے نفرت انگی اس سے پتہ لگتا ہے کہ اس زمانہ میں شرارت بھی حد کو پہنچ جائیگی.بنی نوع انسان حیران ہونگے کہ ان مسلمانوں کا کیونکر مقابلہ کریں.اب مقابلہ نہایت مشکل ہے مگر اس وقت خدا تعالیٰ خاص ذرائع پیدا کریگا کیونکران فتنوں کو دور کرنا اسی کی شان سے وابستہ ہے.آج ہم دیکھتے ہیں.کفر و ضلالت نے جو آج ترقی کی ہے.اس سے پہلے کبھی یہ ترقی نہیں ہوئی تھی حتی کہ کسی نبی کے زمانہ میں بھی یہ حالت نہ تھی.یہ سچ ہے کہ اہل شرارت کے مقابلہ میں اہل حق کی تعداد ہمیشہ کم اور حالت کزور رہی ہے مگر ایسی نہیں.جیسی اس وقت ہماری ہے.کہا جا سکتا ہے کہ ہم تھور
ہیں.مگر مسیح کے حواری بھی تو تھوڑے تھے.ہمارے پاس مال تھوڑا ہے.مگر ان کے پاس بھی مال تھوڑا تھا.اور یہی حال علم کا بھی تھا.پھر باوجود اس حالت کے ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم ان سے زیادہ کمزور ہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ خواہ اس وقت اہل حق کی حالت کتنی کمزور ہوتی.تاہم ان کے پاس بھی و ہی سامان ہوتے تھے.جو حکومت وقت کے پاس ہوتے تھے یا عام لوگ ان کو آسانی سے فراہم کرسکتے تھے تعداد کی قلت ہوتی تھی.مگر سامان کی قلت نہ تھی.وہ ہی زمانہ ہے جس میں تعداد ہی کی قلت نہیں.سامانوں کی بھی قلت ہے.نئے علوم نے وہ وہ سامان پیدا کئے ہیں کہ حکومت کی مدد کے بغیر وہ سامان جمع نہیں ہو سکتے.آج کمزوروں کا مقابلہ واقعی زور آوروں سے ہے مسیح نے تو کہدیا تھا کہ تو اپنے کپڑے بیچ کر تلوار خرید لیکن آج اگر مکان بھی بیچ دیں.تو توپ نہیں مل سکتی.دشمن کے پاس تلوار سے بڑھ کر بندوق اور توپ اور مختلف قسم کے سامان ہیں.مگر ہمارے پاس کچھ بھی نہیں.پھر پہلے لوگ اپنے وقت کے سامان تیار کر سکتے تھے.ہم تیار بھی نہیں کر سکتے.اس میں شبہ نہیں کہ ہمارا مقابلہ روحانی مقابلہ ہے.مگر دشمن کو اپنے سامانوں پر گھمنڈ ہے.وہ اپنی سامانوں کی بنا پر دعوی کر رہے ہیں کہ ہم سب دُنیا سے اپنا مذہب منوائیں گے.ان کی طرفت سے جوند ہی آزادیاں دی جارہی ہیں.اس کے یہ معنے نہیں کہ عیسائیت بہت وسیع القلب ہوگئی ہے.بلکہ وہ بجھتے ہیں کہ آخر یہ ہمارا ہی شکار ہیں پس پادریوں کا تمام جوش و خروش ہی لیے ہے.کہ وہ اپنے آپ کو سامانوں سے آراستہ سمجھتے ہیں.اور ان کا جوش و خروش کلیلہ دمنہ کے چوہے کا سا ہے.یہ ایک ہندی قصہ ہے.جو پہلے فارسی میں ترجمہ کیا گیا.اور پر عربی میں ترجمہ ہوا.اس کتاب میں کھا ہے.ایک شخص تھا.اس کی ایک زاہد نے جو جنگل میں رہتا تھا دعوت کی جب وہ کھانے کے لیے آیا تو کھانا رکھا گیا.اور گفتگو ہو رہی تھی کہ زاہد گفتگو اور کھانے کے درمیان منہ اور ہاتھوں سے عجیب عجیب سے کہتیں کرتا تھا.اس شخص کو یہ اچھا نہ معلم ہو اس نے زاہد سے کہا کہ تم کیا کرتے ہو.اس نے کہا کہ میں کتنا ہی اونچا کھانا رکھوں ایک چوہا ہے.وہاں تک پہنچ جاتا ہے اور کھانا خراب کر دیتا ہے.اس شخص نے جب یہ سنا تو کہا کہ اس چوہے کے اچھلنے کی وجہ میںسمجھ گیا کہ اس کے بل میں مال ہو گا جس کے گھنڈ پر وہ اچھلتا ہے.اس کے بل کو کھونا چاہیئے.یہ بل کھودا گیا.تو اس میں سے مال نکلا جب ماں وہاں سے نکال لیا گیا.تو پھر وہ چوہا اتنا اونچا نہیں اچھل سکتا تھا.اس چوہے سے مراد ایسا مالدار آدمی ہے جو محض اپنے مال کی بنا پر گھمنڈ میں آجائے اور اچھلنے گئے ہیں پادری یہ کہتے ہیں کہ ہم تمام مذاہب کو کھا جائیں گے.ہمارے پاس صداقت کے دلائل ہیں.یہ
باطل ہے کیونکہ عیسائیت ایک مردہ مذہب ہے.اور اس میں روحانیت نہیں ، نہ روحانیت سے مقابلہ کر سکتی ہے.اس میں طاقت نہیں کہ دعاؤں کے ذریعہ مقابلہ کر سکے.باقی رہے دلائل ان سے یہ کیا مقابلہ کرسکے گی کیونکہ اس کے دلائل کی معقولیت اسی سے ظاہر ہے کہ تین ایک ہیں اور ایک تین پھر کہا جاتا ہے، خُدا بہت محبت کرنے والا ہے.اس کے لیے خدا کو عادل بنایا ہے اور عادل بن کر کفارہ کا ڈھونگ گھڑا ہے کہ اپنے اکلوتے بیٹے کوسوں دے دیا.حالانکہ اگر دیکھا جائے تو اس طرح وہ عادل بھی نہیں رہتا.کیونکہ سارے جہان کے بدلے ایک شخص کو جو بالکل بے قصور ہو.پھانسی پر چڑھانا کہاں کا عدل ہے.کیا ان دلائل کو فطرت قبول کر سکتی ہے ؟ پس محض ایک ظاہری شان ہے جو ظاہری عیسائیت کے نام میں شریک ہے اور اسی کے بل پر عیسائیوں کا دعوی ہے کہ ہم مذہبی طور پر تمام دنیا کو فتح کر لیں گے.یہ سارا دعویٰ محض حکومت کے بل پر ہے کیونکہ جو سامان آج عیسائی کہلانے والی سلطنتوں کے پاس ہیں.وہکمی حکومت کے پاس نہیں ہوتے.تمام دنیا وی سامان جو جنگوں سے تعلق رکھتے ہیں.آج صرف عیسائیوں کے پاس ہیں یا اگر کسی غیر عیسائی کے پاس ہیں تو وہ سلمان نہیں.عام طور پر یورپ کی طاقتوں کے مقابلہ میں جاپان کا نام یا جایا کرتا ہے.مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ جاپان کی حالت نہایت کمزور ہے.اور اس کے لیے مالی مشکلات ایسی پیش آجاتی ہیں کہ قریب ہوتا ہے کہ اس کا دیوالیہ نکل جاتے ہیں عیسائی طاقتیں مضبوط ہیں اور جو رنگ ان کا ہے.جو سامان ان کے پاس ہیں.دنیا میںکسی کو حاصل نہیں.ان تمام سامانوں اور طاقتوں نے مقابلہ میں خاص سامان ہی کام کر سکتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ اسلام کے لیے اس زمانہ میں خدا نے تمام ترقیات کو اپنی طرف منسوب کیا ہے.خدا کی خاص مدد کے بغیر کچھ نہیں ہو گا جب یہ حال ہے تو ہمارا کام تو کچھ بھی نہ رہا.ہمیں تو صرف خون لگا کر شہیدوں میں داخل ہونے کا موقع دیا گیا ہے.پہلوں کو جو چیز بڑی بڑی قربانیوں کے بعد حال ہوتی تھی وہ ہمیں بہت آسانی سے مل رہی ہے پہلوں کو جانی اور مالی بڑی بڑی قربانیاں کرنی پڑیں، لیکن ہمارے لیے ان کے مقابلہ میں و یا کچھ بھی نہیں.ہمارے اندر اس وقت تک کامل کے دو واقعوں کے سوا کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا.اور آئندہ بھی پہلوں کے مقابلہ میں اگر جانی قربانی کا موقع آیا تو ہمیں غالباً اتنی قربانیاں نہیں کرنی پڑیں گی پس ہمارے لیے کام بہت کم ہے.قرآن کریم میں اس زمانہ کے متعلق آتا ہے.واذا الجنة از لفت (التکویر (۱۳) کہ وہ زمانہ ایسا ہوگا کہ جنت بہت قریب کردی جائیگی، گویا کہ اب یہ حال ہے کہ تمر قریب ہے.ہمیں ہاتھ بڑھا کرے لینے کی ضرورت ہے.یا
ایک چھوٹا سا زینہ ہے.جس پر ہم چڑھ کر مقصد پاسکتے ہیں اگر ہم اس سے فائدہ نہ اٹھائیں تو کتنے افسوس کی بات ہوگی.اور اس کی ایسی ہی مثال ہو گی جیسا کہ مشہور ہے کہ سڑک پر ایک سپاہی چلا جارہا تھا.اتنے میں اس کو آواز آئی.کہ اے میاں سپاہی.ادھر آنا.جب وہ وہاں گیا.تو آواز دینے والے نے کہا.یہ بیر میری چھاتی پر پڑا ہے.اسے اُٹھا کر میرے منہ میں ڈال دینا.اس پر سپاہی بہت خفا ہوا کہ یہ کتنا سست آدمی ہے.کہ خواہ مخواہ میرا وقت خراب کیا.پاس ہی سے آواز آتی کہ ہاں میاں سپاہی واقعی یہ بہت سست ہے.کتا رات بھر میرا منہ چاہتا رہا.میں نے ہر چندا سے کہا کہ مٹا دو مگر اس نے نہ ہٹایا.یہ تو ایک قصہ ہے لیکن ہم اس سے بھی سبق حاصل کر سکتے ہیں.پس اگر ہم بھی اس وقت سست ہو جائیں اور ایسے آسان وقت میں انعامات الہی حاصل نہ کریں.تو پھر ہم سے بڑا کون ہو گا.بہت ہیں جو اس قصہ پر ہنستے ہیں، لیکن اگر وہ بھی مست ہو جائیں تو وہ ان سے بھی بدتر ہ جائینگے جیا کہ قتہ میں ذکر ہے.کیونکہ ہمارے لیے خدا کی طرف سے بہت آسانیاں کردی گئی ہیں اور خدا نے خود تمام کام کرنے کا ارادہ کیا ہے.اور نعمت کو اس قدر قریب کر دیا ہے کہ ہم اگر اب بھی اس کے لینے کے لیے ہاتھ نہ بڑھائیں.تو ہم سے بڑا اور مست کون ہوگا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی سمجھ دے کہ ہم اس کے عطا فرماتے ہوئے سامانوں سے فائدہ اٹھائیں اور مفت میں کہوں گا کر شہیدوں میں میں کم از کم نام شہیدوں کا پائیں.شہیدوں کا نام تو مل جائے گا.کیونکہ کام تو خدا ہی کریگا اور کر رہا ہے" الفضل یکم جولائی (-19)
۴۷۹ 87 اعتصام بحبل الله بدظنی سے بچو فرموده ۲۵ جون ۱۹۳۰ ته تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :- یں نے پچھلے بعض خطبات میں اتفاق و اتحاد کے لیے جن اصول کی نگہداشت کی ضرورت ہے بیان کیا تھا.اب اس مسئلہ کی تفصیل کی طرف اشارہ کر کے اس کو ختم کرتا ہوں.جو کچھ اب تک بیان ہوا وہ اصولی تھا.اب جبرئی اور تفصیلی بیان ہوگا.اتفاق و اتحاد کو ٹانے والی کونسی باتیں ہیں.در حقیقت ان کی تفصیل مشکل ہے.کیونکہ دنیا میں کوئی ایسا جرم نہیں.جو خواہ اخلاقی جرم ہو یا شرعی کہ اس سے اتحاد کو خطرہ نہ ہو.اخلاقی جرم کو شرعی جرم سے علیحدہ کرنے کی یہ وجہ نہیں کہ اخلاق شریعت میں داخل نہیں بلکہ شرعی جرائم سے مراد وہ جرائم ہیں.جو محض شریعت اسلام کے نزدیک جرم ہیں.اور اخلاقی وہ جرائم ہیں.جن میں اسلام کے ساتھ دوسرے مذہب بھی شامل ہیں.اور وہ مسائل بھی اخلاق ہی کہلائیں گے.جو فطرت سے متعلق ہیں.مثلاً اسلام کہتا ہے چوری نہ کرو چوری کرنا اخلاقی جرم تو اس لیے ہو گا کہ تمام مذاہب میں چوری سے منع کیا گیا ہے اور شرعی اس لیے کہ اسلام بھی چوری سے روکتا ہے.اسی طرح اسلامی شریعت حکم دیتی ہے کہ جھوٹ نہ بولو.یہ شرحی جرم ہے کیونکہ اسلام اس سے روکتا ہے.مگر اخلاقی بھی ہے.کیونکہ سب مذاہب جھوٹ کے ترک کرنے کی تعلیم دیتے ہیں اس لیے یہ کہنا درست ہے کہ جھوٹ بولنا اخلاقی جرم ہے.اگر غور کیا جائے تومعلوم ہوگا کہ یہ تمام اخلاقی جرائم اور وہ جرائم جن سے فطرت نفرت کرتی ہے.ان سے نفرت کی بناء شرائع نے ہی ڈالی ہے.پہلے پہل ایک نبی نے پیش کیا کہ یہ باتیں بری ہیں.ان سے بچو اور تمام انسانوں نے قبول کر لیا.اس لیے یہ مسائل فطرت میں داخل ہو گئے.چونکہ یہ سب دنیا کے نزدیک مسلم
ما ہیں.اس لیے یہ فطری مسائل ہیں.پسی اتحاد کے لیے ضروری ہے کہ مام جرائم سے بچنے کی کوشش کی جائے.اور شریعت نے جو حکم دیتے ہیں.ان پر عمل کیا جاوے.کیونکہ بہت دفعہ اختلاف اپنی باتوں سے پڑتے ہیں.مثلا شریعت کا حکم ہے کہ نماز پڑھی جاتے.اب اگر کوئی شخص سوال کرے کہ نماز نہ پڑھنے سے کیسے اتحاد ٹوٹ سکتا ہے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ گو یہ درست ہے کہ نماز پڑھنے والے پر نہ پڑھنے والے کا کوئی اثر نہیں پڑے گا مگر بالطبع اس کو وہ برا معلوم ہو گا.اور وہ خیال کرے گا کہ شخص خدا اور رسول سے محبت کا دعوی کرتا ہے.اور مگر باوجود دعوئی محبت کے اس راہ کو چھوڑتا ہے جو پسندیدہ ہے یعنی نماز نہیں پڑھتا.اس لیے پڑھنے والے کو نہ پڑھنے والے سے نفرت ہو جائیگی.یا ایک شخص روزہ نہیں رکھتا اور رکھنے والے پر نہ رکھنے والے کا کچھ اثر نہیں، لیکن جب وہ دیکھے گا.کہ اس کے محبوب خدا کے احکام کی بے قدری کی جارہی ہے.اور محبوب بھی وہ جس کی محبت کا مدعی بے قدری کرنے والا بھی ہے.تو اس کو اس سے نفرت ہو جائیگی.تو شرعی جرم بھی خواہ براہ راست دوسرے پر اثر نہ ڈالیں.مگر ان کی وجہ سے محبت و تعلق اور اتحاد و اتفاق ٹوٹ جاتے ہیں.دوسرے اخلاقی جرائم ہیں.ان کی بھی دو قسمیں ہیں.اول وہ جو خود اس انسان کی ذات پر اثر کرتے ہیں دوسرے وہ جو غیر پر بھی اثر ڈالتے ہیں جو جرائم مجرم پر ہی اثر ڈالتے ہیں.یہ قدرتی امر ہے کہ ان کا ریکاب کرنے والے شخص سے لوگ نفرت کریں گے کیونکہ جوکسی میں برائی دیکھے گا.اس سے پیچھے ہٹے گا اور وہ جرائم جو دوسروں پر اثر ڈالتے ہیں.ان سے بھی لوگ علیحدہ ہونگے.مثلاً جو شخص قاتل ہے.اس سے نفرت کی جائے گی.جو غیبت کا عادی ہو گا اس سے نفرت ہوگی کیونکہ وہ اپنے اس فعل سے لوگوں میں لڑائی ڈلواتا ہے.غرض جتنے اخلاقی حبیب ہیں وہ سب ایسے ہیں کہ ان سے نفرت ہوتی ہے.اور نفرت اتفاق کو توڑتی ہے.ان تمام اخلاقی جرائم میں جو اتفاق و اتحاد کو توڑنے والے ہیں.بڑا جرم بدظنی ہے.کوئی وجہ نہیں ہوتی.یونی خیال کر لیا جاتا ہے.کہ فلاں شخص کا میرے متعلق یہ خیال ہے.اور اس طرح اس سے عدات کرنی شروع کر دی جاتی ہے.یہ ایک ایسا مرض ہے جس کا یقینی نتیجہ ہے اتفاقی ہوتا ہے.وہ لوگ جنہوں نے جماعت احمدیہ کو چھوڑا.اور جو بھی جماعت احمدیہ کی طرف منسوب تھے.اب ان میں احمدیت برائے نام ہے.ان کی علیحدگی کی وجہ بنی ہی ہے.اگر ان میں بدظنی نہ ہوتی.تو وہ جماعت سے علیحدہ نہ ہوتے.مجھے اچھی طرح یاد ہے.کہ جس دن حضرت خلیفہ اول کی وفات ہوئی.عصر کے بعد مولوی
محمد علی صاحب میرے پاس آئے.میں اس وقت سیر کو جارہاتھا.اورکہا کہ یں کچھ بائی کرنا چاہتا ہوں.میں نے کہا کہ ہاں کیجئے.انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ خلافت کی کیا ضرورت ہے.میں نے خلافت کی ضرورت جومیری سمجھ میں آئی بتائی.انہوں نے کہا کہ اس وقت ایسے خلیفہ کی خلافت کوتسلیم کرنا جس سے اختلاف عقائد ہو شکل ہے.اور اسی ضمن میں نبوت اور کفر کے مسائل پر بھی گفتگو ہوئی اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تک یہ گفتگو ہوتی رہی.پھر میں نے مسجد میں ایک تقریر کی اور جماعت کو سب اختلافات چھوڑ کر دعاؤں کی طرف توجہ دلائی.اور میں نے اختلاف وغیرہ کی طرف اشارہ بھی ہیں کیاتھا.بلکہ یہ کہاکہ کھا کر کہ خدا کالم می ہمارے لیے مفید ہے وہ ہو جائے.میں لیکچر دے رہا تھا کہ مولوی صاحب گھبرائے ہوئے آئے.انہوں کے بھی وہاں تقریر کی اور وہ تقریر ایسی تھی کہ جنہوں نے وہ نظارہ دیکھا اور وہ تقریر سنی ہے.اس کو نہیں بھول سکتے.اس میں مولوی صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ یاد رکھو کہ میں اگر قادیان سے گیا تو اکیلا نہیں جاؤنگا.بلکہ ایک بڑی جماعت میرے ساتھ جائے گی.مگر وہ بہت بڑی جماعت جو مولوی صاحب کے ساتھ گئی.وہ ماٹر فقیر اللہ صاحب اور مولوی صدرالدین صاحب تھے.پھر یہ بھی کہا کہ اگر میں بدنیت ہوں تو خدا مجھے ذلیل کرے.دیکھ لو دن بدن ان کو کونسی عزت حاصل ہو رہی ہے.یہ صبح کا واقعہ ہے.پھر میں نے ان سے کہا کہ آپ اپنے دوستوں سے مشورہ کریں.اور میں بھی اپنے دوستوں سے مشورہ کرتا ہوں.پھر آپس میں گفتگو کرینگے.انہوں نے ظہر کے بعد کہلا بھیجا کہ ہم آتے ہیں.غرض وہ آئے.اور ان کے دوست ان کیساتھ تھے.میں نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیا تھا.وہ با موم میں رائے رکھتے تھے کہ جب ہم میں اور ان میں اختلاف ہے تو کس طرح ان میں سے کسی شخص کی بیعت کر سکتے ہیں.میں نے ان کو سمجھایا کہ اس طرح وہ بھی کہیں گے.تو اس سے تو اختلاف مٹ نہیں سکتا.اور لوگوں کو خواہ مخواہ کہنے کا موقع ملے گا کہ احمدی جماعت میں اتحاد نہیں.اور پھر جب ایک دوسرے کی بات ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہو سکتا، تو پھر اختلاف کیونکر دور ہو.میں نے ان کو سمجھایا کہ اتحاد کا ٹوٹنا زیادہ خطرناک ہے.بہتر یہ ہے کہ ہم اللہ پر اس معاملہ کو چھوڑ دیں.وہ جو چاہے کرے.پھر میں نے اپنے رشتہ داروں سے بھی مشورہ کیا.ان میں سے بعض نے بھی یہی بات کہی.لیکن میں نے ان کو سکھایا کہ جماعت میں اتحاد رہنا ضروری ہے.اس سوال کو اُٹھانے کی ضرورت نہیں کہ کون خلیفہ ہو بلکہ اس کی ضرورت ہے کہ خلیفہ ہو خواہ کوئی ہو.تاکہ جماعت میں اتحاد رہے میں نے تجویز یہ بتائی کہ اس اختلاف کو مٹانے کے لیے اول تجویز یہ ہے کہ ہم کسی ایسے شخص کو خلیفہ بنائیں جس کے اعتقادات اختلافی مسائل میں اب تک ظاہر نہ ہوتے ہوں.دوسری یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص مل جائے.مگر اس کو ماننے کے لیے مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھی تیار نہ ہوں.تو مولوی
صاحب کے ہم خیال لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لی جاتے اور اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ میں نے آخری چارہ کار اس اختلاف سے بچنے کا سوچ لیا تھا.اور اپنے دل میں فیصلہ کر لیا تھا.کہ اگر یہ صورت نہ ہوئی.تو میں اختلاف مٹانے کے لیے مولوی محمد علی صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرلوں گا.غرض جب اکٹھے ہوئے تو پہلے ہی سوال ان کی طرف سے ہوا کہ خلیفہ ہونا چاہتے کہ نہیں.اور پھر انی کی طرف سے جواب دیا گیا کہ خلیفہ کی ضرورت نہیں مگر ہم خلافت کے قائل تھے اور ہمارے نزدیک یہ صورت فیصل شدہ تھی.میں نے کہا کہ چلو مجمع میں پیش کر دیتے ہیں مجمع جس کو چاہئے.خلیفہ منتخب کرے.مولوی محمد علی صاحب نے بے اختیار کہا کہ آپ اس لیے کہتے ہیں کہ آپ جانتے ہیں کہ خلیفہ کس نے ہونا ہے ایس کے صاف منے یہ تھے کہ تم نے منصوبہ کیا ہوا ہے.اور یہ ان کی محض بدنی کا نتیجہ تھا.حالانکہ اللہ تعالی بہتر جانتا ہے کہ میں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ میں اختلاف ہوتا دیکھنے کی بجائے جس شخص کو وہ پیش کریں.اس کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا.اور میں جانتا تھا کہ جب میں بیعت کروں گا.تو میرے دوست بھی بعیت کر لیں گے لیکن میں نے یہ فیصلہ کرلیا تھا.کہ اگر میرے دوست اس بات پر آمادہ نہ ہوں تومیں خود اختلاف سے بچنے کے لیے بیعت کر لوں گا، اگر دوست بھی قربان کرنے پڑیں تو میں قربان کر دونگا لیکن ان کے دل میں یہ باطنی تھی کہ میں خود ہی خلیفہ بنا چاہتا ہوں.اس لیے انھوں نے مخالفت کی.آخر وہی ہوا.جو خدا کو منظور تھا.خیر اگر ان کی بدظنی ہیں تک رہتی تو خیر تھی.یہ بنی دور ہوسکتی تھی.مگر اب بنی ہاں تک بڑھی کہ انہوں نے کہا کہ مجھے مارنا چاہتے ہیں.اور پٹھان میرے مارنے کے لیے مقرر ہوگئے ہیں اس کے لیے انہوں نے پرے مقرر کئے.آخر وہ یہاں سے چلے گئے، لیکن اگر وہ رہتے تو اختلاف نے اس وقت تک اتنی ضد نہیں پکڑی تھی.ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کے دل کو صاف کر دیتا.پاس کا رہنا.بدظنیوں کو دور کر دیتا.مگر اب جبکہ وہ ضد میں بہت ترقی کر گئے ہیں.ایک جگہ رہنا مفید نہیں ہو سکتا، مجھے جب معلوم ہوا کہ ان کو ایسا خطرہ ہے.تو میں نے ان کو خط لکھا کہ میں نے سُنا ہے کہ آپ جانا چاہتے ہیں.میں ذمہ لیتا ہوں کہ آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے گی.آپ یہاں رہیں.انھوں نے مجھ کو خط کے ذریعہ توسی جوان دیا کہ کیا میں قادیان کو چھوڑ سکتا ہوں چھٹی کے دن یا ہر گزارنے جاتا ہوں، لیکن جب میں خود گیا.اور ساتھ نواب محمد علی خان صاحب کو لے گیا.تو انہوں نے بجاتے میرے ساتھ باتیں کرنے کے میاں لگتا ہے جو باہر پھر رہا تھا.باتیں شروع کر دیں کہ گنا میاں بگھا کیا حال ہے ؟ کب آیا یہ ہے وہ ہے.اس سے مجھے معلوم ہوا کہ وہ مجھ سے باتیں کرنے سے پہلو تہی کرتے ہیں.اس لیے میں چلا آیا.یہ تمام منی کا نتیجہ تھا جس میں مبتلا ہو کر انسان کہیں سے کہیں نکل جاتا ہے.مجھے اس کا بڑا تجربہ ہے.میں روز دیکھتا
ہوں.یہ ایک خطرناک مرض ہے.حضرت صاحب نے اس سے بچنے پر بہت زور دیا ہے.حضرت خلیفہ اول کی تو تحت زندگی اسی پر وعظ کرتے گزری میں بھی تمہیں اکثر کہتا رہتا ہوں کہ بدقنی سے بچو.احمدی اور مسلم کیا.اور بدلنی کیا.ان کا آپس میں تعلق ہی کیا ہے.یونی قیاس کر لیا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے جو فلاں بات کی ہے.وہ عداوت سے کی ہے اور یہ محض بدعتی ہے.لوگ تو کہتے ہیں کہ آٹے میں نمک.مگر وہ سراسر نمک ہی ہوتا ہے.آٹا تو ہوتا ہی نہیں.ان کی بدظنی کی اکثر کوئی وجہ نہیں ہوتی.اس سے بچو.یہ سب سے بڑی بیماری ہے.جو اتحاد واتفاق کو توڑ دیتی ہے.دوسری چیز جو اتحاد کو توڑنے والی ہوتی ہے.وہ عفو کی صفت کا موجود نہ ہوتا ہے، جرم تو ہوتا ہے مگر اس کو عفو کرنا بھی ایک کام ہے.جب دیکھتے ہیں کہ کسی سے غلطی ہوتی ہے.تو اس کو معاف نہیں کرتے.اس سے در گزر نہیں کرتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو تین دن تک فقہ کی وجہ سے نہیں بولتا.اس کا ہم سے تعلق نہیں یہ معمولی سی بات ہوتی ہے.اس پر گفتگو چھوڑ دیتے ہیں.اور مدتوں آپس میں نہیں بولتے.اول تو میں نے بتایا ہے کہ بدلتی سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں.دوسرے عفو اور دور گزر کا نہ ہونا وہ خرابیاں پیدا کرتا ہے.اگر بدلنی ہو بھی تو عفو سے کام لینا چاہیئے.ورنہ عفوکس غرض سے رکھا گیا ہے.سیاسی طور پر قطع کلام کرنا ایک مزا ہے.لیکن بے وجہ یا معمولی سی بات پر بولنا چھوڑ نا ایمان میں کمزوری کی علامت ہے.اس کا نتیجہ شقاق وافتراق ہے.میں جانتا ہوں.ہمارے یہاں قادیان میں ایسے بعض لوگ موجود ہیں.جو مہینوں بلکہ سالوں سے آپس میں نہیں بولتے.اور پھر وہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے عمل میں اور ان کے ایمان میں کوئی کمی نہیں.اور اس کا نتیجہ اسلام کے لیے کوئی خرابی پیدا نہیں کرتا.حالانکہ میں نے بتایا ہے کہ بعض گناہ ذاتی ہوتے ہیں کہ ان کا اثر محض اس شخص کی ذات تک ہوتا ہے.خواہ بالواسطہ دوسروں پر بھی اثر ڈالے مگر یہ وہ گناہ ہے، جو براہ راست دوسروں پر بھی اثر ڈالتا ہے.ایسا شخص جو دوسروں سے گفتگو ترک کرتا ہے اسلام میں تفرقہ ڈالتا ہے.اور پھر وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ میں مسلم ہوں اور مخلص ہوں.اسلام کس چیز کا نام ہے خالی اس تعلیم کا نام نہیں جو قرآن کریم میں ہے.بلکہ اسلام اس جماعت کا نام ہے جو اسلامی لوار کو اُٹھاتے ہوئے ہے.خالی کتاب کیا چیز ہے.اگر اس کی تعلیمات کا ظہور نہیں ہوتا.یہ کتاب کیسے پھیلے.اگر اس کے بھنڈا بردار نہ ہوں.جب مسلمانوں نے اس گر کو بھلا دیا.اور بخاری کتاب الادب باب الهجرة
م کا کام آپس میں محبت و دادکم ہوگیا.تو دیکھ لو مسمانوں کی کیا بُری گت ہوئی.جو شخص ترک گفتگو کرتا ہے.اسلام پر حملہ کرتا ہے.دیکھو قرآن خدا کے علم میںموجود تھا.مگر یہ دنیا کے لیے مفید نہیں تھا.یہ ای وقت فائدہ مند ہوا جب خدا نے اسے اپنے ایک بندے کے ذریعہ دنیا میں نازل فرمایا.پھر اس کو اُٹھانے والی ایک جماعت ہوتی.اور اس کی تعلیمات کو دُنیا میں پھیلایا.اس لیے ایسی جماعت میں تفرقہ ڈالنا اسلام میں فتنہ ڈالنا ہے.اس لیے اس راہ سے بچو جس پر چل کر اسلام پر حرف آئے.تر و باتیں خاص طور پر مدنظر رکھنی چاہئیں دا پانی نہ ہو (را) درگزر ہو جب یہ دونوں باتیں منظر ہوں تو پھر کبھی تفرقہ نہیں پیدا ہو سکتا.یاد رکھو تمہیں اپنے رشتہ داروں عزیزوں کی نسبت اسلام سے زیادہ محبت ہونی چاہیئے.تم دیکھو کہ خدا رسول اور قرآن کدھر ہیں بدلنی کو چھوڑ دیا کرو.اور عفو سے کام لیاکرو اس کی وجہ سے تمام اختلاف دُور ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کے سمجھنے کی توفیق ) الفضل در جولائی اة ) دے
۴۷۵ 88 خدا تعالیٰ پرمضبوط ایمان کی ضرور ھے (فرموده ۲ جولائی ۹۲ ته) حضور نے تشہیر و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- و ہم بالعموم نا امیدی اور مایوسی اور حیرت سے پیدا ہوتا ہے.یا ان تمام چیزوں کا اگر مجموعی ایک نام رکھ دیا جائے تو کہ سکتے ہیں کہ عدم یقین سے پیدا ہوتا ہے.الیوی عدم یقین کانتیجہ اور نا امیدی بھی عدم یقین کا نتیجہ ہے اگر یہ باتیں نہ ہوں یعنی مایوسی نہ ہو حیرت نہ ہو نا امیدی نہ ہو ، تو و ہم بہت حد تک دنیا سے مٹ جائے.ہمارے ملک میں اوہام پرستی بہت ہے.مثلاً کہتے ہیں.کہ جنوں کا سایہ ہو گیا.بھوت پریت کا سایہ ہو گیا دیوی دیوتا کا اثر ہوگیا.اس کی وجہ وہی عدم یقین ہوتا ہے، جو حیرت سے پیدا ہوتا ہے.کیونکہ جب وہ کسی مریض کو دیکھتے ہیں کہ باوجود علاج کے اس کو صحت نہیں ہوتی.تو ان کو حیرت ہوتی ہے اور اس حیرت میں دماغ پراگندہ ہو جاتے ہیں.اور وہ ہر طرف ہاتھ مارنے شروع کرتے ہیں.اسی حالت میں کسی کو یہ جنوں اور بھوتوں پریتوں کا بھی خیال آجاتا ہے.اسی طرح و باتیں پڑتی ہیں.تو لوگ سمجھتے ہیں کسی ستارہ کا نتیجہ ہے.یا کسی پاگل کو بکواس کرتا دیکھتے ہیں.تو خیال کرتے ہیں کہ یہ اس کی قوت قدسی کا نتیجہ ہے، یا مثلاً ایک بچہ پیدا ہوتا ہے.اندھا اور لولا لنگڑا ہوتا ہے.اور تھوڑے عرصہ کے بعد مر جاتا ہے.ایک شخص غور کرتا ہے کہ اس بچہ کو کس نے پیدا کیا.اور اس کے پیدا کرنے کا مقصد کیا تھا.مگر یہ اس مقصد کو بغیر پورا کئے چلا گیا.یہ آیا تھا مگر وہ سامان نہ لایا تھا.جو اس کے لیے اس مقصد کو پورا کرنے میں کام آتے.وہ غور کرتا ہے مگر سر چشمہ علم حقیقی تک نہیں پہنچتا.اس لیے وہ حیران ہو جاتا ہے.اور اس کا واہمہ پرواز شروع کرتا ہے.وہ خیال کرتا ہے کہ دنیا میں سزا اس وقت ملتی ہے.جب کوئی جرم کرے چونکہ اس کا اندھا یا لنگڑا یا اور نقص لیے ہوئے پیدا ہونا ایک سزا ہے.اس لیے ماننا پڑا کہ اس نے کبھی پہلے جرم کئے ہونگے.جن کی سزا میں اس کو ناقص پیدا کیا گیا ہے.
چونکہ اس غور کرنے والے کو حقیقی وجہ نہ معلوم ہوئی.اس لیے وہ حیرت کے باعث اس وہم میں مبتلا ہو گیا کہ یہ مزا ہے.جو کسی پہلی پیدائش کے جرم کے بدلے ملی ہے.اسی طرح جب کوئی بیمار ہوتا ہے اور اس کا علاج کیا جاتا ہے، مگر اس کو صحت نہیں ہوتی تو اچھے اچھے مضبوط لوگوں کو دیکھا ہے کہ اوہام کے باعث جھاڑ پھونک کی طرف دوڑتے ہیں.اور کہتے ہیں چلو اسکو بھی آزما دکھوں تو باوجود قتل کے لوگ وہم میں مبتلا ہو کر جھاڑوں.ٹونوں اور ٹوٹکوں کی طرف دوڑتے ہیں.یا مشرکانہ طور پر قبروں پر چڑھاوا چڑھاتے ہیں.اور پیر فقیر کی منت مانتے ہیں.یہ تمام خیالات اسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب مایوسی پیدا ہوتی ہے کسی مریض کے متعلق جب ڈاکٹر جواب دے دیتا ہے.تو کہتے ہیں.چلو اب جھاڑا والوں کا ہی کریں.شاید اسی سے شفا ہو جاتے.اس وقت شاید آکو دتا ہے تو مایوسی سے دہم پیدا ہوتا ہے.عدم یقین سے وہم پیدا ہوتا ہے اور حیرت سے وہم پیدا ہوتا ہے.ایک مشہور فریبی گزرا ہے.اس نے اس طرح اپنی اولیائی جاتی تھی کہ کچھ لوگ ایک جہاز میں بیٹھے جا رہے تھے کہ سخت طوفان آیا.قریب تھا کہ جہاز غرق ہو جائے.اس موقع پر اس نے یہ خیال کر کے کہ اگر جہاز غرق ہو گیا.تو ہم سب ڈوب جائیں گے.نہیں ہونگانہ مجھ سے پوچھنے والا کوئی ہوگا لیکن اگر جہاز نہ ڈوبا تو میری کرامت چل جائے گی.کہا کہ مجھے پتہ لگا ہے کہ جہاز غرق نہ ہو گا.خدا کی قدرت جہاز غرق نہ ہوا اور نادانوں نے خیال کر لیا کہ یہ ولی ہے.اور اس کے پیچھے لگ گئے.یہ ان شخصوں میں نے ایک ہے جس نے اپنی شرارت سے دنیا میں گندے عقاید پھیلاتے ہیں.پھر عورتیں بہت جلد وہم میں مبتلا ہو جاتی ہیں.ذرا بچہ بیمار ہوا اور وہ قبروں پر دوڑی گئیں.یا کسی مسجد کے محراب میں دیا جلا دیا یا کسی دیوی دیوتا کی نذر مان لی یا تیل ماش بانٹ دیا.وہ قوم جس کو تمام دنیا ذلیل سمجھتی ہے اور جن کے مذہب کو جھوٹا مانا جاتا ہے.باوجود اس کے اس مذہب کی ایک نمایاں خصوصیت یہ مانی جاتی ہے.کہ اس میں ایک خدا کو منوایا جاتا ہے.اور جس کی بڑی خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ خدا کو ماننے والی اور خدا پر بھروسہ کرنے والی قوم ہے.حیرت ہے کہ وہ بھی مایوس ہوتی ہے.تو وہموں کی طرف دوڑتی ہے اور ٹونے ٹوٹکے پر عمل کرتی ہے.وہ کتاب ہو خدا کی طرف سے آئی اور مسلمانوں نے اس کو جانا.اس میں خدا کی ذات اور صفات کے متعلق بہت کچھ بیان کیا گیا ہے، لیکن اس کتاب کو چھوڑ کر اور ایسے خدا کو چھوڑ کر جس کی قدرت اور قات کے انھوں نے بیشمار نمونے دیکھے.وہم کے پیچھے پڑے ہوتے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ اگر ان کو خدا پر اتنا بھی ایمان ہوتا جتنا اوہام پر ہے.تو یقیناً تب بھی وہ کامیاب ہو جاتے.وہ شاید کہتے ہوئے
ٹونوں ٹوٹکوں کی طرف تو دوڑتے ہیں مگر کم از کم شاید کہتے ہوئے بھی خدا کی طرف نہیں آتے.آج مسلمانوں کی جو حالت ہے اس حالت میں اگر وہ خدا پر شاید کہتے ہوئے بھروسہ کرتے تو بھی وہ ہلاکتوں سے بچ جاتے وہ اللہ جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے.وہ اللہ جس نے محمد رسول اللہ جیب رسول مبعوث کیا.اور پھر وہ اللہ میں نے اس زمانہ میں اپنا مامور اور نبی بھیجا.تا کہ وہ اسلام کی امداد کرے.اس کے متعلق اگر ان کو اتنا بھی خیال ہوتا کہ شاید ہاں شاید وہ ہماری مدد کرے تو اللہ تعالیٰ ان کو ضائع ہونے سے بچا لیتا.مگر افسوس ان کو اتنا بھی ایمان نہیں جتنا ان کو اپنے وہم پر یقین ہوتا ہے.وہ وہم جس کی کوئی تصدیق نہیں کرتا.اور تمام دانا اس کو حقارت سے دیکھتے ہیں.اور اس کے متعلق جاننے اور یقین رکھنے کے باوجود کہ یہ کوئی چیز نہیں.پھر اس پر شاید کہتے ہوئے بھروسہ کر لیتے ہیں لیکن وہ جس کی طاقتوں کا مشاہدہ کرتے ہیں جس نے تمام نبیوں کے وقت میں اپنی طاقتوں کا اظہار کیا.اور جس کی طاقت محمد رسول اللہ صلی الہ علیہ آلہ وسلم کے وقت ظاہر ہوتی.اور اولیا.اقمت اور مجتہدین کے نشانوں میں جس کی طاقت نے اپنا کام کیا.اور اس زمانہ میں مسیح موعود کے ذریعہ جس خدا کی قوتوں کا ظہور ہوا اور ہو رہا ہے.ایسے قوتوں اور طاقتوں والے خدا پر وہم جتنا بھی بھروسہ نہیں کرتے.کاش مسلمان شاید کہتے ہوتے ہی اس کی طرف پھرتے کہ دیکھیو شاید وہ ہماری مدد کرے ممکن ہے ہماری دستگیری ہو.اگر وہ شاید کہتے ہوئے و ہم جتنا بھی بھروسہ خدا پر کرتے تو وہ اتنا کچھ دیکھتے کہ دنیا حیران رہ جاتی.مگر افسوس وہ اتنی بھی توجہ نہیں کرتے.اسلام گر رہا ہے اسلام سے مراد وہ سوسائٹی ہے جو اپنے آپ کو اسلام کی طرف منسوب کرتی ہے؟ دنیا اس سوسائٹی کو مٹا رہی ہے.ان کو حقارت سے دیکھیتی ہے، لیکن اس کا چارہ کار وہ وہموں سے کرتے ہیں.اور خُدا سے وہم کی طرح بھی چارہ کار نہیں چاہتے.کاش ! ان کی نظریں بطور گمان کے ہی اس طرف پڑتیں.وہ ٹونے ٹوٹکے کی طرح ہی ادھر متوجہ ہوتے مگر کسی کی نظر بالشویکوں کی طرف پڑتی ہے.کوئی افغانستان کی طرف دیکھ رہا ہے اور خیال کرتا ہے کہ ادھر سے مدد علی آرہی ہے کوئی اس وہم میں مبتلا ہے کہ سارے مسلمان اکٹھے ہو کر یورپ کی سلطنتوں کا مقابلہ کر ینگے.غرض کئی کی نظر کسی کی طرف جاتی ہے.کسی کی کسی طرف.اور اگر نظر کسی کی طرف نہیں جاتی تو وہ خدا ہے.یہ ثبوت ہے اس امر کا کہ آج مسلمانوں کو خدا پر اتنا بھی ایمان نہیں.جتنا ٹونے ٹوٹکے پر ہوتا ہے.مگر میں پوچھتا ہوں.ہماری جماعت والے کیا کرتے ہیں.یہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں.ان کے پاس وہ طاقت ہے.مگر یہ فائدہ نہیں اٹھاتے.جتنا فائدہ اُٹھانے کا حتی ہے.یورپ کو جو کچھ لا
دیکھو وہ اس کو کیسے استعمال کرتا ہے.ایک ذرہ تک اس کا ضائع نہیں ہونے دیتا.مگر ہمارے لوگوں کو خُدا پر ایمان ہے.یہ خدا کی اتنی بڑی طاقت اپنے پاس رکھتے ہیں.مگر اس سے کام نہیں لیتے.اس لیے یہاں مسلمانوں پر اس بات کا افسوس ہے کہ وہ خدا پر وہم جتنا ایمان بھی نہیں رکھتے، وہاں احمدیوں پر اس بات کا افسوس ہے کہ ان کو ہتھیار تو یا گیا.مگر وہ اس کو چلانے اور اس سے کام لینے میں پوری کوشش نہیں کرتے.اللہ تعالٰی ہمیں اپنی ہستی اور طاقتوں پر کامل ایمان بخشے.اور ہماری نظروں کو اپنی طرف پھیر ہے.اور وہی ہماری خواہش ہو جاتے ہم اس کے حضور گریں اور وہی ہماری سپر ہو.اور اسی پر ہم بھروسہ الفضل ۱۲ جولائی اته) رکھیں.
89 مایوسی کے بدنتائج تعلق باللہ کے ابتدائی مدارج (فرموده و ر جولائی ۱۲ته ) تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :- ( میں نے پچھلے جمعہ میں بتایا تھا کہ مایوسی سے انسان کو بہت نقصان پہنچتا ہے اور مایوسی ایک خطرناک چیز ہے.اس کے بڑے نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ اس سے شک اور درہم پیدا ہوتا ہے.آج بھی میں مضمون کے متعلق بیان کرنے لگا ہوں.وہ بھی مایوسی سے تعلق رکھتا ہے.وہ کیا ہے.وہ ترک عمل ہے.کام چھوڑنا.ہمت ہارنا مایوسی سے ہی ہوتا ہے.کئی کمزوریاں اور کمیاں ہوتی ہیں.دینی.دنیوی اخلاقی روحانی.مگر ان کا اکثر باعث اور خطرناک نتیجہ پیدا کرنے والی نا امیدی اور مایوسی ہوتی ہے.جب انسان نا امید ہو جاتا ہے.تو وہ سوال کرتا ہے کہ جب اس کے کامیاب ہونے کی صورت ہی نہیں.تو پھر اسے کام جاری رکھنے کی کیا ضرورت ہے.ایسے وقت میں اس کا دل صاف طور پر جواب دیدیا ہے کہ جب میرے لیے امید ہی نہیں تو پھر کام جاری رکھنا لاحاصل ہے.اگر کامیابی کا شائبہ بھی ہوتا ہے تو ایک انسان کام کرنا ترک نہیں کرتا.کوئی نہیں.جو یہ کوشش کرے کہ خدا بن جاؤں یا ملک بن جاؤں.بائیں آسما پر اسی زندگی میں چڑھ جاؤں ، کیونکہ انسان سمجھتا ہے کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا.اس لیے وہ اس کے متعلق کوشش بھی نہیں کرتا.مایوسی اسی کا نام ہے کہ انسان سمجھ لے کہ فلاں کام ہو ہی نہیں سکتا.مایوسی اور کسی کام کو اسکن سمجھے میں کچھ فرق ہے.مایوی اس امر کے متعلق کہتے ہیں جو اک شخص کو اپنی ذات کے متعلق ہو.ایک شخص جانتا ہے اور دیکھتا ہے کہ فتح دنیا میں لوگ حاصل کرتے ہیں.مگر وہ خیال کرتا ہے کہ باوجودیکہ فتح لوگوں کو حاصل ہوا کرتی ہے.میرے لیے فتح ناممکن ہے.یہ خیال اس کا مایوسی ہے، لیکن ایک نامکن سب جہان سے تعلق رکھتا ہے کہ شخص خواہ وہ کوئی ہو.اس کے متعلق بلا استثنا.یہ قاعدہ ہو کہ وہ نہیں
۴۸۰ کر سکتا.گو بعض چیزیں غلطی سے نائکن خیال کی جاتی ہیں اور بعض واقعہ میں ناممکن ہوتی ہیں.اور بہت سے کسی چیز کی تعریف نہ سمجھنے کی وجہ سے کسی چیز کے ملنے یانہ ملنے کا فیصلہ کرتے ہیں.لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز کے مدارج رکھے گئے ہیں.اور ہر آخری حد تک پہنچنے کے لیے پہلے ابتدائی مدارج میں سے گزرنا اور ان کالے کرنا ضروری ہے.اور پہلے تعریف معلوم ہونی ضروری ہے.مثلاً علم کی تعریف جب تک نہ معلوم ہو.تو علم میں ترقی ہونا نا مکن ہے مثلاً اگر کوئی شخص به خیال کرے کہ ایم اے کی کتب ہی علم ہیں.بی اے کا علم نہیں.یا بی اسے کا علم ہے.ایف اے کا علم نہیں.یا ایف اے کا علم ہے.انٹرنس کا علم نہیں.اسی طرح ابتدائی قاعدہ کے متعلق جو سمجھتا ہے کہ وہ علم نہیں تو ایسا آدمی جو اعدہ کو علم ہیں سمجھتا بلکہ ایم اے یا بی اسے یا الیف اسے یا انٹرنس کوہی علم سمجھتا ہے.کبھی علم حاصل نہیں کر سکتا.کیونکہ قاعدہ بھی علم ہے.اور دوسرے مدارج بھی علم ہیں.اور آخری مدارج اسی وقت طے ہو سکتے ہیں.جب پہلے درجے طے ہوں، لیکن جو شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گا وہ مایوس ہو جائے گا.اور علوم کے حاصل کرنے سے رہ جائے گا.ایک شخص جو نشانہ لگانے والے کو دیکھتا ہے اور عین موقع پر مارنا ہی نشانہ سمجھتا ہے.جب وہ ابتدار بندوق اُٹھائے گا.تو صحیح اور اعلی درجہ کا نشانہ نہیں لگا سکے گا.ایس نیسے مایوس ہو کر آئندہ بندوق چلانا چھوڑ دیگا، لیکن اگر وہ جانتا ہو کہ بندوق کا اٹھانا بھی ایک علم ہے اور شست لگانا بھی ایک علم یکن اگر وہ جانتا ہوگا کہ بندوق چلانا بھی ایک علم ہے جو درجہ بدرجہ آتا ہے تو پھر اگر اس کی گولی اس سمت کو جاتی ہے.جدھر چلائی گئی ہے.تو اس کے لیے کوئی مایوسی کی بات نہیں کیونکہ وہ ترقی اور کمال پر پہنچنے کے قریب ہو رہا ہے.پس بہت سے لوگ مقصد حاصل کرنے سے محروم اس لیے رہتے ہیں کہ وہ بڑے درجے کو آگے رکھتے ہیں.اور پھر اس کو ناممکن خیال کر کے مایوس ہو جاتے ہیں.چونکہ چھوٹے درجے ان کی نظر میں نہیں آتے.اس لیے وہ رہ جاتے ہیں.اس وقت جو مضمون مں بیان کرنا چاہتا ہوں.وہ خدا کا یاد کرنا اور عقی باشد ہے.ہر مومن کا دل چاہتا ہے کہ خدا کو لے اور اسکو خدا کی ملاقات حاصل ہوئیں وہ بجھتا ہے کہ اسکو خدا کی علاقات حاصل نہیں ہو سکتی.اس سے مایوس ہوتا ہے بنگر جیساکہ میں نے بتایا ہے علم وسیع ہے کسی خاص درجہ کا نام ہی علم نہیں.بلکہ ابجد سے لیکر ایم اے کی ڈگری اور اس کے آگے تک علم چلا جاتا ہے.اس طرح خدا کا تعلق بھی مراتب و درجات رکھتا ہے.خدا ایک نقطہ کی مانند نہیں.بلکہ وہ ایک وسیع دائرہ کی مانند ہے جس کے کسی حصہ تک رسائی بھی خدا سے تعلق کہلائے گا.اور جوں جوں بڑھتا جائیگا.تعلق بھی بڑھتا جائے گا.اگر یہ ترقی نہ ہوتی تو ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعاؤں کی ضرورت نہ ہوتی تعلق باللہ میں اب بھی رسول کریم صلی اللہ
علیہ وسلم ترقی کر رہے ہیں.پس جس طرح خدا کی انتہا نہیں.اسی طرح کسی شخص کا خدا سے ایسا تعلق نہیں ہو سکتا میں کے آگے گنجائش نہ ہو جس طرح ظاہری تعلیم میں مدارج ہیں.اور جوں جوں ان مدارج کو انسان طے کرتا چلا جائے علم میں بڑا درجہ پاتا جاتا ہے.اسی طرح تعلق باللہ کے متعلق بھی مدارج ہیں جس قدر کوئی مدارج طے کرتا چلا جائے گا.بڑارتبہ پاتا جائے گا، لیکن جو ایک بڑی حد کو سامنے رکھتے ہیں اور نچلی حدوں کو چھوڑتے ہیں.وہ مایوس ہو جاتے ہیں.جس شخص کو تھوڑے سے تھوڑا تعلق بھی اللہ سے ہے.وتعلق باللہ کہلا سکتا اور اسی سے بڑھتے بڑھتے ترقی ہوسکتی ہے.ہوشیار بڑھتی جس وقت لکڑی پھاڑنے لگتا ہے تو وہ لوہے کا پہلا حصہ اس میں گاڑ نا شروع کرتا ہے.اور جوں جوں اس پر ستوڑا پڑتا جاتا ہے.اسی قدر موٹا حصہ لکڑی میں داخل ہوتا جاتا ہے حتی کہ وہ کھڑی کو پھاڑ ڈالتا ہے.اسی طرح جب انسان کے دل میں یہ بات ہو کہ وہ سمجھے اُسے خُدا سے محبت ہے اور وہ چاہتا ہے کہ خدا کے قرب کی کوشش کرے.تو اس کو ایک حد تک تعلق باللہ حاصل ہے جس طرح لکڑی میں لوہا گڑ جاتا ہے.بعینہ اسی طرح جس کے دل میں خدا کے ملنے کی تڑپ گڑ جاتی ہے.وہ محبت ان تمام روگوں کو جو اس کے رستہ میں ہوتی ہیں.دُور کرتی چلی جاتی ہے.لیکن جو لوگ تعلق باللہ اسی کو کہتے ہیں کہ خدا ہر وقت سامنے رہے.اس میں شبہ نہیں کہ بھی تعلق باشد کے بڑے درجوں میں سے ایک درجہ ہے.مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ اگر یہ نہ ہو تو ابتدائی درجات کو چھوڑ دیا جائے.اگر کوئی ایسا کرتا ہے.تو وہ مایوس ہو جاتا ہے.وہ لوگ جنہوں نے حضرت صاحب کو دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ جب حضرت صاحب روٹی کھاتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ آپ کسی اور ہی خیال میں ہیں.چھوٹا سا روٹی کا ٹکڑا توڑ کر اس کو انگلیوں میں ملتے جاتے.اور ریزہ ریزہ کرتے جاتے.ایسا معلوم ہوتا کہ آپ نہیں بلکہ آپ کی انگلیاں کھا رہی ہیں.اور چھوٹا سا ٹکڑا منہ میں ڈالتے.اس وقت آپ کی زبان پر اکثر آہستہ آہستہ جس میں ہونٹ ہلتے ہوئے نظر آتے اور کبھی ذرا بلند آواز میں سبحان اللہ سبحان اللہ ہوتا جس کو آپ کے پاس بیٹھنے والا ہی سنتا تھا.اس سے معلوم ہوا کہ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ وہ خواہ کسی کام میں ہوں خدا کی طرف ان کی نظر ہوتی ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ حضرت مرزا مظہر جان جانان دہلوی کا ذکر سنایا کرتے تھے، انکے ایک مرید مولوی غلام علی صاحب بٹالوی تھے.مرزا مظہر جان جانان کے لیے ایک دن لڈو آئے اور انہوں نے مولوی غلام علی کو دیتے جنھیں انھوں نے کھا لیا.کچھ دیر بعد ان سے دریافت کیا کہ لڈو کھاں ہیں.انہوں نے کہا کھا لیے.آپ حیران ہوتے کہ ہیں کھا لیے.انہوں نے کہا ہاں کھا لیے.کہا دونوں - کہا
ہاں.اس پر آپ جب بہت حیران ہوئے تو انہوں نے کہا کہ کس طرح کھانے چاہتے تھے.فرمایا کسی دن بتائیں گے.اتفاق سے ایک دن پھر لڈو آئے تو ایک لڈو کا چھوٹا سا ٹکڑا توڑ کر خدا تعالے کی تعریف شروع کردی که خدا کیسا مہربان ہے کہ اس نے مظہر جان جانان کے لیے اتنا سامان کیا.اس لڈو میں میٹھا ہے.میدہ ہے.وہ کہاں سے آیا.اور کتنے آدمیوں نے بنایا.خدا نے میرے لیے کتنے آدمیوں کو کام میں لگایا اسی طرح خدا کی نعمتوں کا اتنا ذکر کیا کہ ظہر سے عصر کا وقت ہو گیا.اور اذان سنکر کہا چلو نماز پڑھیں.یہ جو کچھ انہوں نے کیا سکھانے کے لیے کیا کہ خدا کی نعمتوں کو استعمال کرتے ہوئے خدا کے احسانات کو فراموش نہیں کرنا چاہیئے.اور یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا کے کاموں میں نظر آتے ہیں مگر خدا کی یاد سے غافل نہیں ہوتے.مگر یہ درجات اسی وقت حاصل ہوتے ہیں.جب روحانیت کی ابجد پڑھی جائے.غرض تعلق باللہ کا پہلا قدم یہ ہے کہ انسان محسوس کرے کہ مجھے اللہ سے پیار ہے.مجھے اللہ تعالے مل جاتے جب اس کی یہ حالت ہو تو گویا اس نے روحانیت کی ابجد پڑھ لی.دوسرا قدم وہ قاعدہ ہے کہ اگر اس کی پابندی کرے تو اس کے لیے کامیابی کے دستے کھلتے ہیں.اور یہ گویا وہ حالت ہے کہ جب ابجد پڑھنے کے بعد حروف ملا کر الفاظ پڑھنے آتے ہیں.اور وہ یہ کہ تعلق باللہ میں جب اللہ کے مقابلہ میں خواہ کوئی بڑی سے بڑی چیز بھی آجائے.تو خدا کے مقابلہ میں اس کو قربان کر دے.تجارت ہو.زراعت ہو اولاد ہو.حکومت ہو.عزت ہو.جاہ حشمت ہو.علوم ہوں.غرض کہ کوئی چیز ہو.اگر خدا کے نام کے آگے آجائے تو قربان کر دینے کا تہیہ ہو.فرض پہلا درجہ خدا کی محبت کا احساس ہے اور دوسرا دنیا کی ہر ایک بڑی سے بڑی چیز کا اس کے لیے قربان کرنے کے لیے آمادگی اور اس کا ثبوت.اس وقت گویا یہ خدا کی محبت میں دمیدم ترقی پر ہوگا.اگر اللہ چاہے تو کوئی چیز اس کے لیے روک نہیں ہو سکتی.اس سبق کو یاد رکھو اور مایوسی سے بچو.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو مایوسی سے بچاتے اور ترقی اور کامیابی الفضل ۱۵ جولائی ملته ) کی طرف چلائے.
۴۸۳ 90 عبد اللہ بنو ٠١٩٢٥ د فرموده ۱۶ جولائی نشات ، تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا."چونکہ آج وقت میں دیر ہو گئی ہے.اس لیے میں مختصر الفاظ میں خطبہ کا مضمون بیان کرتا ہوں.مگر اس اختصار سے مضمون کو مختصر خیال نہ کرو.گوئیں نے بار بار اس مضمون کی طرف توجہ دلاتی ہے نگر بار بار دہراناکسی چیز کی اہمیت کو کم کرتا ہے نہ ضرورت کم ہوتی ہے.بلکہ ضرورت کم اسی وقت ہوتی ہے جب ضرورت پوری ہو جائے محض علاج کرنے سے دوا کی ضرورت کم نہیں ہوتی.اگر پچاس دفعہ دوائی پلانی پڑے.تو اس کی ضرورت اور اہمیت کم نہیں ہوتی.یہاں تک کہ مرض دور ہو جائے.جب بیماری دور ہوگی.تو دوائی کی ضرورت بھی کم ہوگی.میں جس مضمون کے متعلق توجہ دلاتا ہوں.اس کی ضرورت بھی کم نہیں ہوتی.وہ ایسی اہم بات ہے کہ ایک مسلم کے اولین فرضوں میں سے ہے.وہ ضرورت کیا ہے ؟ وہی ضرورت ہے جس کے پورا کرتے کے لیے انسان پیدا کیا گیا.جیسا کہ فرمایا - وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ الدايت العلم انسان اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ عبد بنے.مگر عیب دینے کے لیے یہی کافی نہیں کہ وہ خود نماز پڑھے.روزہ رکھے.بلکہ ضروری ہے کہ خود بھی عید بنے.اور دوسروں کو بھی عبد بناتے تب عبداللہ بن سکتا ہے غور کرو ایک بادشاہ کے ملک میں باغی چڑھے آرہے ہوں.اور اس کے دارالخلافہ کی طرف دم بدم بڑھ رہے ہوں.اس وقت رعایا کے لوگ وفد بنا کر بادشاہ کے پاس بھیجیں.اور اس کو اطمینان دلائیں کہ ہم حضور کے وفا دار ہیں مگر بیٹھے رہیں تمام اپنے گھر میں کیا بادشاہ ایسی رعایا کو وفادار یقین کر سکتا ہے ہرگز نہیں.بلکہ وہ یہی کہے گا کہ یہ تمام باغی ہیں.اور دشمن سے ساز باز رکھتے ہیں.پس اسی طرح اللہ کے عبد کے یہ معنے نہیں کہ خود ہی عبادت کرے.بلکہ یہ معنے ہیں کہ دوسروں کو بھی حلقہ عبودیت میں لائے.اگر غیروں کی شرارت کو دیکھ کر یہ نہیں چاہتا کہ ان سے شرارت چھڑائے
۴۸۴ اور سازش کرنے والوں کے خلاف انگلی بھی نہ ہلائے تویہ جھوٹا عبد ہو گا پس انسانی پیدائش میں یہ بھی عرض ہے کہ ایک انسان دوسرے گراہ انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلائے.بار بار اس امر پر توجہ دلائی جاتی ہے مگر ہزاروں احمدی ایسے ہونگے جن کے ذریعہ اب تک ایک بھی احمدی نہ ہوا ہو گا.اگر خدا کے دربار کے باغیوں کو وفاداری کی طرف نہیں بلاتے ، اگر فتنہ پردازوں کا فتنہ دور کرنے کی سعی نہیں کرتے.تو نہیں حق نہیں کہ ہم کہیں کہ ہم عبد ہیں.کیونکہ جب تک عملی طور پر وفاداری کا ثبوت نہ دیا جائے.اس وقت تک وفاداری کا دعوی صرف منہ کا دعویٰ ہے.بادشاہ کے ساتھ قریب ہے، یا اپنے نفس سے فریب ہے.یا دنیا کو فریب دیا جاتا ہے.میں آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس موقع کو ضائع نہ کریں جس وقت بارش ہوتی ہے تو بارش کے بعد زمین نرم ہو جاتی ہے.دانا زمیندار اس پر ہل چلاتا ہے لیکن اگر وہ اس وقت کو یونہی گزر جانے دے تو اس کے لیے بجز افسوس کے اور کچھ نہیں.انبیاء و مرسلین کے زمانے روحانی بارشوں کے زمانے ہوتے ہیں جس کے بعد دلوں کی زمینیں نرم کی جاتی ہیں اور قبولیت کے لیے دل تیار کئے جاتے ہیں.دو قسم کی زمینیں ہوتی ہیں.ایک نرم دوسرے سنگلاخ جو زمینیں مٹی کی ہوتی ہیں.وہ بارش سے نرم ہو جاتی ہیں.اور دوسری وہ ہوتی ہیں.جو پھر یلی ہوتی ہیں.پتھر پر خواہ پچاس بارشیں ہوں وہ پتھری رہتا ہے.پس جو زمین نرم اور طین ہوتی ہے.بارش اس کو نرم کرتی ہے.اور جو پھر ہوتے ہیں.ان کیلئے زیرے آتے ہیں.اور ان کو آگ کے ذریعہ کھلایا جاتا ہے اور چور چور کر دیا جاتا ہے.دونوں کے لیے کلا کے مُرسلین آنے میں سامان ہدایت ہوتے ہیں.پہلوں کے لیے خدا کی وحی اور کلام جس سے زرم دا فائدہ اُٹھاتے ہیں اور دوسروں کے لیے عذاب اور زلزلے.اس وقت یہ دونوں باتیں حاصل ہیں ہم میں ایک خدا کا نبی آیا.اس لیے ہمارا زمانہ ایک نبی کا زمانہ ہے.جبکہ دلوں کی زمینیں نرم کی گئی ہیں.اور پھر خدائی مذابوں نے بھی پتھر دلوں کو نرم کر دیا ہے.ایسے وقت میں ہی جو منافع حاصل کیا جائے.وہی حاصل ہو سکتا ہے اور اگر اس وقت کو یونی چھوڑ دیا تو دہی حال ہو گا.جیسا کہ جب زمین سخت ہو جاتی ہے.تو اس پر ہل ٹوٹ جاتا ہے.یہیں نہیں اس زمانہ سے فائدہ اُٹھانا چاہیئے.اور اس وقت بیج ہونا چاہیئے.تاکہ ایک اللہ کے پرستار پیدا ہوں.اگر یہ موقع نکل گیا.تو ہم خدا کو کیا منہ دکھائیں گے.قادیان میں ایسے لوگ ہیں.جو ابھی تک سلسلہ سے الگ ہیں.اور قادیان کے تین تین چار چار میل ارد گرد اس قسم کے دیہات ہیں.جہاں اس وقت تک ایک بھی احمدی نہیں.اور بعض اس قسم کی جگہیں ہیں.جہاں احمدی میں توسی ہے.مگر وہ احمدی برائے نام ہیں.وہ اس طرح دنیا کے پیچھے لگے ہوتے ہیں.ان کی اصلاح بھی ضروری ہے.
۴۸۵ پس اس وقت ہمارے سامنے تین کام ہیں (۱) وہ لوگ جو برائے نام جماعت میں میں مگر در حقیقت جماعت میں نہیں.ان کی اصلاح (۲) وہ لوگ جو اسلام کو قبول کہتے ہوئے ہیں مگر تاحال انہوں نے اپنے زمانہ کے نبی کی شناخت نہیں کی.ان کو اس نبی کے حلقہ اطاعت میں لانا (۳) ان کے علاوہ وہ لوگ جو سرے سے اسلام کو گالیاں دیتے ہیں.ان کو اسلام کی طرف لانا.ان تینوں کی اصلاح کا ہی زمانہ ہے اور ان کی اصلاح کے خدا نے سامان پیدا کئے ہوتے ہیں.بد عملی اور قساوت قلبی کے دُور کرنے کے لیے عذاب بھی خُدا کی طرف سے موجود ہیں.اور خدا کا کلام لوگوں کے اطمینان کے لیے موجود ہے اور خُدا کی طرف سے دلائل کی بارش بھی ہو گئی ہے.اس سے بہتر زمانہ کونسا ہوسکتا ہے.اس وقت کی قدر کرو اور اس سے فائدہ اُٹھاؤ.ایسا نہ ہو کہ وقت گزر جاتے اور تمہیں علم بھی نہ ہو کیونکہ اگر وقت گزر گیا تو تمام کوششیں بے کار ہوں گی.اللہ تعالیٰ اپنے راہ میں سعی کی توفیق عطا کرے اور اس کے نیک ثمرات پیدا ہوں.الفضل ۲۶ جولاتی ته)
نیر پیت 91 WAY حرکت میں برکتہ فرموده ۲۳ جولائی ۱۹۲۰ حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- انسانی حالت بلکہ ہر ایک چیز کی حالت دو باتوں سے کبھی خالی نہیں ہوتی با تواوپر کو جاتی ہوگی.ترقی کر رہی ہوگی یا تنزل کی طرف جارہی ہوگی.ان دونوں حالتوں کے علاوہ کوئی تعمیری حالت نظر نہیں آتی.وہ حالت جو کھڑی اور ٹھہری ہوتی کہلاتی ہے.در حقیقت کوئی حالت نہیں.قدرت نے انسان اور تمام موجودات میں حرکت رکھی ہے.ہر ایک چیز کا ہلنا آگے کی طرف ہو گا یا پیچھے کی طرف کھڑی رہنے والی کوئی چیز نہیں.جو چیز نہیں کھڑی نظر آتی ہے.وہ ہماری نظر کی غلطی ہے.ہم اس کی حرکت کو سمجھ نہیں سکتے.ورنہ وہ ترقی کر رہی ہے ، یا تنزل.ہر آن انسان ترقی کر رہا ہو گا یا تنزل.یا کامیابی کی طرف جا رہا ہو گا.یا ناکامی کی طرف.یا علم حاصل کر رہا ہو گا.یاجہالت کی طرف لوٹ رہا ہوگا.باریک در باریک ذرائع سے اس کے اندر حرکت ہوتی ہے.حتی کہ وہ خود نہیں سمجھتا.یہی وجہ ہے کہ ہماری شریعت نے بچہ کے پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان دینا مقرر فرمایا ہے یہ بچہ اس وقت اس اذان کو نہیں سمجھتا.مگر خالق فطرت جانتا تھا کہ یہ وقت ہے کہ اس میں ایک حرکت ہے جس کو یہ نہیں جانتا.مگر وہ حرکت بُری بھی ہو سکتی ہے.اچھی بھی.اس لیے ایسی حالت میں ایک ایسی حرکت اسکو دی گئی ہے جو اچھائی کی طرف لے جانے والی ہے.اس بات کو جہالت کی بات سمجھا جاتا تھا.جب تک دنیا نے ان علوم کو معلوم نہ کر لیا.بچہ کے کان کی اذان کو تم کہا جاتا تھا کین علوم نے نکل کر بتا دیا کہ یہ بات حکمت کی بات تھی اور یہی بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ سوا سال قبل خدا سے علم پا کر بتا دی تھی.لے ابو داؤد کتاب الادب باب الاذان في اذن الصبي
پس یہ ایک مسلمہ اور ثابت شدہ بات ہے کہ انسان ہر وقت حرکت میں رہتا ہے.وہ حرکت خواہ جمالت وہ کی طرف ہو، خواہ علمی میدان کی طرف اور اس کے اسباب و محرکات بھی ہوتے ہیں گو و منفی ہوں اور جن کو شخص جس میں تغیر ہو رہا ہے.نہ جانتا ہو.اور در حقیقت بعض اوقات وہ تغیرات اور وہ حرکات جو صادر ہوتی ہیں.اس قدر باریک ہوتی ہیں کہ انسان ان کا پتہ ہیں لگا سکتا.ہاں من ہے کہ اس قسم کے آلات نکال لیے جائیں جن سے اس تغیر کا پتہ لگ جایا کرے.اگر غور کیا جائے.تو معلوم ہو گا کہ ہم کھڑے نہیں تھے.بلکہ ہل رہے تھے یا ہم تو کی طرف جارہے تھے.ی تنزل کی طرف.بدی کی طرف ہمارا قدم اُٹھ رہا تھا یا نیکی کی طرف پس جب ایسی حالت ہے.تو ہم ہر وقت خطرے میں ہیں.اس لیے بہر حال کوشش میں مصروف رہنا چاہیئے کہ کسی وقت نادانی سے آئے نہ پل پڑیں اور میں علم بھی نہ ہو.جب دکھیں تو معلوم ہو کہ ہم منزل کی طرف جارہے تھے.اور بغیر علم کے تباہی میں پڑ جائیں.ضرورت ہے کہ ہوشیاری کے ساتھ آگے کی طرف قدم بڑھائیں.پیچھے کی حرکت سے بچنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ ہم آگے کی طرف جائیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ ولم نے فرمایا کہ یو شخص ایک حالت پر رہتا ہے.اس کا ایمان خطرے میں ہے.کیونکہ مکن ہے توآگے کی طرف بڑھ رہا ہو یا پیچھے کی طرف جا رہا ہو.اور اگر پیچھے کو ہٹ رہا ہو.تو ایک وقت آئے اور اس کا ایمان ضائع ہو جائے.ایمان کے بچانے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ ترقی کی طرف جا رہا ہو یس مومن کو گوشش کرنی چاہیئے کہ وہ ایمان اور اعمال میں ہمیشہ بڑھتا رہے.ایک خاص امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَن تَنالُوا البر حتى تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (آل عمران : ۹۳) دنیا میں اعمال چند قسم کے ہوتے ہیں.مالی قربانی جانی قربانی.عزت کی قربانی.دماغی قربانی.وہ بھی جسمانی قربانی کا ایک حصہ ہے.در اصل یہ تین ہی قربانیاں ہیں.ملکی قربانی جسمانی قربانی عزت کی قربانی.باقی تمام قربانیاں اس کے نیچے آجاتی ہیں.ان میں سے جبیں قربانی میں کمی کی جائے.اسی کی کمی کے باعث ذلیل ہونا پڑیگا.ہماری جماعت بھی ایک خدمت عظیم کے لیے کھڑی ہوتی ہے.اس کا دعوی ہے کہ یہ دنیا میں ایک تغیر پیدا کر دیگی.اس وقت ہماری مثال ظاہری نظروں میں ایسی ہے جیسی کہ اس جانور کی جورات کو ٹانگیں اوپر کر کے سوتا ہے.جب اس سے پوچھا گیا، کہ تو اس طرح کیوں سوتا ہے.تو اس نے جواب دیا کہ ساری دنیا تو سو جاتی ہے.میں اس لیے اس طرح سوتا ہوں کہ اگر رات کو آسمان گر پڑے تو میں اس کو اپنی ٹانگوں پر اُٹھالوں.اور لوگ نیچے سے نکل کر بچ جائیں.یہ ایک لطیفہ ہے.ہماری حالت اور اس میں فرق یہ ہے
۴۸۸ کہ یہ ایک لطیفہ ہی ہے.اور ہمارے ساتھ خدا کا وعدہ ہے کہ اگر ہم اس کی راہ میں کوشش کریں تو ہم خدا کے فضل سے آسمان کو اٹھانے کے قابل ہو جائینگے.اس لیے ہمیشہ غور کرنا چاہیئے کہ ہم کدھر جارہے ہیں وہ لوگ بڑی غفلت میں ہیں جو کہتے ہیں کہ ذرا آرام کرلیں.کیونکہ یہاں مومن کے لیے آرام کرنے کی جگہ نہیں در حقیقت روحانی کامیابی کی مثال چکنی جگہ کی ہے کہ اگر ٹھہرا تو نیچے کو گیا.جن لوگوں کو پہاڑ دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے.وہ جانتے ہیں کہ بعض پہاڑی راستوں پر پتے گر گر کر چکنے ہو جاتے ہیں.ان پر اگر آدمی تیزی سے سیدھا آگے چلتا چلا جائے.تو چل سکے گا.اور نہ پھسلنے لگے گا.میں روحانی حالت بھی ایسی ہے کہ جب تک چلتا جائے محفوظ ہے اور اگر یہ خیال کریگا کہ ذرا ستالوں، تو سمجھو کہ گیا.یہ وہ راستہ ہے کہ اس میں کوئی پڑاؤ نہیں.اس کا پڑاؤ وہی ہے جو منزل مقصود ہے..ہماری جماعت کی یہ حالت مالی قربانی میں نظر آتی ہے اور مالی قربانی ہی ایک ایسی چیز ہے.جو نظر آتی ہے.کیونکہ اس کے رجبر رکھے ہوتے ہیں.اور تو کوئی چیز نہیں جس کے رجسٹر ہوں.اسی سال میں نے دیکھا کہ بعض وہ اضلاع جن کا روپیہ سلسلہ کے کاموں میں زیادہ خرچ ہوتا ہے.ان میں اس دفعہ مسجد لندن کے چندے کے بعد کچھ سستی ہو گئی ہے.قادیان والے بھی مستی کرتے ہیں جس جوش سے چندے لکھواتے تھے.ان میں بعض رقمیں ادا نہیں ہوتیں.پس سب سے پہلے آپ کو نصیحت کرتا ہوں.کہ جور روحانی سفر میں ٹھہرتا ہے.وہ جان کھوتا ہے.اس کے بعد باہر کی جماعتوں کو اسی خطبہ کے ذریعہ مخاطب کرتا ہوں.کہ وہ سستی کو چھوڑ دیں.بعض بڑی بڑی جماعتیں سیالکوٹ - لائل پور سرگودها- شاہ پور حیدر آباد دکن گورداسپور - این میں سے بعض جماعتیں تو وہ ہیں.جو نئی آبادی کے باعث زیادہ مالی قربانی کر سکتی ہیں.بعض علاقوں میں محجبات کی کثرت ہے اور بعض میں جماعت کے آدمی آسودہ ہیں.مثلاً حیدر آباد پس میں سب سے پہلے قادیان والوں کو نصیحت کرتا ہوں.اور پھر باہر والوں کو اسی خطبہ کے ذریعہ جو اخبار کے ذریعہ اُن تک پہنچ جائیگا کہ میاں ٹھہرنا اور مستی کرنا بہت خطرے کا مقام ہے.جو ٹھہر گیا وہ پیچھے کی طرف جائیں گا.پہاڑ پر سے گرے تو.تحت الثریٰ میں گرنے کے سوا کٹھور نامشکل ہے پس یہ خطرہ کا مقام ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کے سمجھنے کی توفیق دے.اور ہمارا قدم ٹھہرا ہوا قدم نہ ہو.بلکہ آگے کی طرف بڑھنے والا قدم ہو." الفضل ۲۹ جولائی ۱۹۲۰مه)
92 اعلیٰ اخلاق اپناؤ اور کامل اطاعت کرنا سیکھو (فرموده ۳۰ر جولائی ۱۹۲۰مه) - حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- مذہب بیشک اعلی درجہ کی چیز ہے.مگر مذہب کا مفہوم جو عام لوگ سمجھتے ہیں.وہ اعلیٰ نہیں.وه دین و دنیا میں نہ روحانی اور جسمانی عالم میں کچھ بھی مفید نہیں.وہ مفہوم کیا ہے ، جو عام لوگوں نے سمجھ رکھا ہے.وہ یہ ہے کہ چند رسوم کے ادا کرنے کو مذہب کہتے ہیں.ایسا مذہب نہ تو دنیا ہی کے لیے مفید ہو سکتا ہے.نہ خدا تعالیٰ ایک پہنچا سکتا ہے اگر وہ روم نہ ہوں توکیا کی آجائے اوراگر ہوں توکیا زیادتی ہو اگران کوادا کا جائے تب بھی انسان خدا سے دُور ہی رہتے ہیں اور اگرنہ کی جائیں تب بھی دور پیس ایسے مذہب کے لیے جودین ودنیا میں کچھ بھی مفید نہیں.کوشش کرنا اپنی کوششوں اور سعیوں کو ضائع کرنا ہے، لیکن در حقیقت مذہب اس کا نام نہیں بلکہ ان امور کا نام مذہب ہے.جن سے روحانی اور جسمانی فوائد حاصل ہوتے ہیں.روحانیت اور جسمانیت دونوں کو صفائی ملتی ہے.اور روحانی اور جسمانی امن ملتا ہے، لیکن اگر یہ دونوں طرح کا امن نہیں ملتا تو کچھ نہیں.اور جس مذہب میں یہ نہیں.وہ سچا مذہب نہیں.مگر دلائل کی رو سے جو مذہب سچا ثابت ہو گیا ہے.اس سے یہ دونوں باتیں حاصل نہیں ہوتیں.تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ اس پر اس کے حسب منشار عمل نہیں کیا جاتا.جیسا کہ میں نے بتایا ہے.مذہب ایسے قواعد و اصول کا نام ہے.جن سے روح اور جسم کو امن ہے لیکن بہت ہیں.جو بعض رسوم کا نام مذہب رکھتے ہیں.بعض صرف ان رسوم کے ماننے والوں کا نام حاصل کر لینے کو مذہب قرار دیتے ہیں.یہ تینوں قسم کے لوگ مذہب سے دور ہیں.یاد رکھو.نماز پڑھنے کا ہی نام مذہب نہیں.روزہ رکھنے کا ہی نام مذہب نہیں.حج کرنے کا ہی نام مذہب نہیں بلکہ یہ مذہب کے جزو ہیں اور مذہب کا جو مدعا اور غرض ہے.اس کے حصول میں محمد ہیں.مذہب وہ ہے جوان سب چیزوں پر مادی ہے جو لوگ انہی باتوں پر کفایت کرتے ہیں.وہ در حقیقت اپنی عمروں کو ضائع
۴۹۰ کرتے ہیں.پس اس شخص کے لیے جو مومن بنا چاہتا ہے.ضروری ہے کہ وہ اس اصل غرض کو جو مذہب کی ہے سمجھے اور اس کو پورا کرے اعتقادات کو درست کرے اور اعمال کو بجالائے اور اخلاقی تعلیم پر بھی کاربند ہو.اگر کوئی شخص دوسروں سے اچھے تعلقات نہیں رکھتا.ذاتی خیالا میں پاکیزگی حاصل نہیں کرتا.اپنے اخلاق کو درست نہیں رکھتا.تو اس کی نماز بے سود ہے.اور جو شخص نماز اور دوسرے اعمال کو چھوڑ کر صرف دل کی نماز ہی پڑھتا ہے.وہ بھی بے دین ہے.نہ تو وہ شخص دیندار ہے جو رات دن نمازیں تو پڑھتا ہے، مگر اخلاق اور معاملات میں بہت گرا ہوا ہے اور نہ و شخص دیندار ہے جو اخلاق ہی کو دین سمجھا ہے.اور نماز روزہ جو احکام شرعی ہیں.ان کو چھوڑتا ہے.دیندار وہی ہے جو ادھر اللہ تعالیٰ کے حقوق بجالاتا ہے اور ادھر مخلوق کے حقوق کو پورا کرتا ہے.مگر بہت میں جو دین کو چند رسوم کا مجموعہ مجھے ہوتے ہیں.اور افسوس ہے کہ بعض ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ ہیں کہتی ہیں جو نمازوں میں سستی کرتے ہیں، لیکن نمازوں میں سستی کرنے والوں کی نسبت ایسے زیادہ ہیں جو نمازوں میں تو باقاعدہ ہیں مگر اخلاق میں بہت پیچھے ہیں.اور کی کو دور کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر ایک شخص سے زنا بھی سرزد ہوجائے مگر وہ کوشش کرتا ہو کہ اس گناہ سے بچے.اور اپنی غلطی کا احساس کرے.تو وہ ایماندار اور مومن ہے تو جو شخص بدی کو بدی سمجھتا ہے.وہ با وجود اس کا ارتکاب کرنے کے اتنا گنہگار نہیں.اور ایمان سے اتنا دور نہیں.جتنا وہ شخص جو گناہ کا احساس ہی نہ رکھتا ہو.اور اس سے بچنے کی کوشش بھی نہ کرتا ہو.اسی طرح اگر ایک شخص میں کوئی اخلاقی نقص ہے.مگر وہ اس کو نقض سمجھتا ہے.نماز روزہ میں سست ہے مگر وہ اس کو غلطی مان کر شرمندہ ہوتا ہے.تو اس کی اصلاح ہو سکتی ہے، لیکن اگر کوئی شخص مثلاً بازبانی کا مرتکب ہوتا ہے لیکن وہ اپنے اس فعل سے شرمندہ نہیں ہوتا.تو اس کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا.کیونکہ جس مرض کا احساس ہو.اسی کا علاج ہو سکتا ہے.ایسا ہی مریض علاج کی طرف متوجہ ہو سکتا ہے.سب سے زیادہ خطرناک مرض وہ ہوتا ہے جس کا احساس نہیں ہوتا.اور جو آہستہ آہستہ اپنے پاؤں جاتا ہے.مثلاً دق اور سل یہ دونوں مرض نہایت آہستگی سے آتے ہیں.انسان کو عام طور پتہ بھی نہیں له مسند احمد بروایت مشکواة كتاب الاسماء باب في رحمة الله وغفرانه
۴۹۱ لگتا.اور وہ مسلول یا مدقوق ہو جاتا ہے.اور انسی امراض سے بہت زیادہ موتیں ہوتی ہیں.برخلاف اس کے جو مرض شدت سے حملہ کرتے ہیں.ان میں ایسی ہلاکت نہیں ہوتی.طاعون سے جو لوگ ڈرتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں شدت سے حملہ کرتی ہے جس سے اکٹھے کئی لوگ مرتے ہیں لیکن مرض سل یا دق کا حملہ ایک جگہ پر نہیں.ایک وقت میں نہیں ہوتا.بلکہ یہ تمام ملک پر پھیلتی اور آہستہ آہستہ اپنا کام کرتی ہیں.اس لیے ان سے اس طرح لوگ خائف نہیں ہوتے جس طرح طاعون وغیرہ سے یک لخت آدمیوں کے مرنے سے.ورنہ امراض کے واقفوں نے تحقیق کی ہے کہ جبقدر اموات سل اور حق سے دنیا میں ہوتی ہیں.اور کسی مرض سے نہیں ہوتیں.اسی طرح اخلاق کی خرابی کا مرض بھی سل اور دق کا سا ہے جو آہستہ آہستہ آتا ہے.میں نے اس کے متعلق بار ہا توجہ دلاتی ہے مگر اس کی طرف تاحال کافی توجہ نہیں کی گئی.اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ مرض خفیہ طور پر آہستہ آہستہ آتا ہے.دق وغیرہ اس طرح ہوتی ہے کہ صبح و شام ذرا کسل ہونا شروع ہوا یا سردرد ہو گیا.اس کو معمولی بات سمجھا جاتا ہے.اور اس کا پتہ اسی وقت لگتا ہے جس وقت جسم پر غلبہ پالیتی ہے.یہی حال اخلاقی خرابیوں کا ہوتا ہے.بچوں میں بد اخلاقی اس وقت پیدا ہونی شروع ہوتی ہے جس وقت کہ ماں باپ اس کے سامنے کوئی بداخلاقی کی بات کرتے ہیں.یا جب بچہ کوئی بد اخلاقی کرتا ہے.تو وہ ہنس دیتے ہیں.اور جب بچوں میں جھوٹ وغیرہ کی عادتیں راسخ ہو جاتی ہیں.تو ان کو روکنا شروع کرتے ہیں.بڑا نقص جو ہمارے ایشیائیوں میں ہے.وہ ہمدردی کی کمی ہے کسی کے دکھ کو دیکھتے ہیں اور کہ دیتے ہیں کہ ہمیں کیا.اور یہ عام مرض ہے.بلکہ پنجابی میں تو ایک محاورہ بھی بنا ہوا ہے.کہتے ہیں کہ فلاں کیا میرا چاچا لگتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی ہمدردی کی حد چا تک ہی ہے.اس کے آگے نہیں، لیکن یہ کوتاہی اتنی بڑی کوتاہی ہے کہ انسان کو انسانیت سے گرا دیتی ہے.انسانی دل دل نہیں کہلا سکتا.جب تک کہ اس میں بنی نوع کی ہمدردی نہ ہو.ہمدردی کے بغیر انسان انسان نہیں رہتا.بلکہ حیوان کے درجہ پر آجاتا ہے.اور حیوانوں میں سے بھی گنے کی مثال ان لوگوں کی ہو جاتی ہے.کیونکہ بعض لوگ تو وہ ہوتے ہیں جنکو مطلق ہمدردی نہیں ہوتی.ان کی مثال بیلوں وغیرہ حیوانوں کی ہوتی ہے ان میں بجائے ہمدردی کے یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی زخمی بیل پڑا ہو.تو دوسرا بیل بجاتے ہمدردی کے اس میں سینگ مار جائیگا.اسی طرح ایک بکری کی بھی یہی کیفیت ہو گی.بندر کو بھی کوئی ہمدردی زخمی بندر سے نہیں ہوگی ، لیکن کتے کو ہمدردی ہوتی ہے.مگر اپنے ہم جنس سے نہیں بلکہ کتا اگر کسی
۴۹۲ دوسرے کتے کو زخمی دیکھے گا تواس پر جھپٹے گا.ہاں وہ اس انسان سے ہمدردی کریگا جس نے اسے رکھا ہوگا تو اسی طرح بعض آدمیوں میں ہمدردی ہوتی ہے.مگر اپنی قوم اور اپنی جماعت کے لوگوں سے نہیں.بلکہ غیروں سے، حالانکہ سب سے پہلے ہمدردی کے مستحق اپنی جنس اور اپنے لوگ ہیں.اگر غور سے دیکھا جائے.تو ایسے لوگوں سے کتے بہتر ہیں.کیونکہ وہ اپنے سے افضل کی ہمدردی کرتے ہیں.مگر یہ لوگ اپنوں کو مرتا چھوڑ کر غیروں کی ہمدردی کرینگے.اور اس کی غرض یہ ہو گی.تاکہ لوگ انہیں بڑا ہمدرد ہیں.مسلمان حاکم ہونگے محض وسیع القلب کہلانے کے لیے انصاف اور عدل کو بھی چھوڑ دینگے اور سلمانوں کے خلاف فیصلہ دے دینگے تاکہ لوگ ہیں یہ بڑے وسیع القلب اور غیر متعصب ہیں.ایسے لوگ کتے سے بھی بدتر ہوتے ہیں.یہ تو غیروں کا حال ہے لیکن ہم میں بھی ایسے ہیں بلکہ قادیان میں پائے جاتے ہیں جن میں ہمدردی کی کمی ہے اور ان کو آپا دھائی اور نفسانفسی لگی رہتی ہے.اگر ان کی یہی کیفیت رہے گی تو قیامت کو شفاعت کرنے والے ان کے متعلق کہ دینگے کہ ہمیں تمہاری شفاعت کی کیا پڑی ہے.ہاں جو میاں نفسانی میں مبتلا نہیں.دوسروں کی ہمدردی کرتے ہیں.ان کے لیے وہاں بھی شفاعت کرنے والے شفاعت کرینگے آتا ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ بعض لوگوں سے کتے گا کہ میں بھوکا تھا م نے مجھے کھانانہ دیا ہیں نگا تھا.تم نے مجھے کپڑا نہ دیا میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی نہ پلایا.اور میں بیمار تھا تم نے میری عبادت نہ کی.بندے کہیں گے کہ خداوند تو کب بھو کا تھا کہ ہم نے تجھ کو کھانانہ دیا.توکب نگا تھا کہ ہم نے عباس نہ دیا تو کب پیاسا تھا کہ ہم نے پانی نہ دیا.تو کب بیمار تھا کہ ہم نے تیری عیادت نہ کی.اللہ تعالیٰ فرمائے گا که میرا فلاں بندہ بھوکا تھا.فلاں ننگا تھا.فلاں پیاسا تھا اور فلاں بیمار تھا تم نے اس سے لیے تو بی کی.تو گویا مجھ ہی سے کی بلے پس جو لوگ دنیا میں نفسانفسی میں ہی پڑے رہتے ہیں.قیامت کے روز ان سے بھی نفسی نفسی کا معاملہ ہوگا.میں دیکھتا ہوں کہ انکی تازہ مثال ہم میں موجود ہے.ایک شخص کی لڑکی فوت ہوگئی.وہ اکیلا اس کاجنازہ لیکر گیا.اور راستہ میں دو ایک آدمی اور مل گئے.یہ کیوں ہوا.اس لیے کہ میں بوجہ بیماری کے اس جنازے کے ساتھ نہ جا سکا.میرا قاعدہ ہے کہ سوائے بیماری کے میں حضرت صاحب کے پرانے دوستوں کے جنازوں اور غریبوں کے جنازہ کے ساتھ ضروری سے ضروری کام چھوڑ کر بھی جاتا ہوں.اور ان کے جنازوں کے ساتھ جن کے متعلق میں جانتا ہوں کہ ان کے ساتھ جانے والاکوئی نہیں یا مسافروں کے جنازہ ہے نے صحیح مسلم کتاب البر والصلة باب فضل عيادة المريض
ساتھ مجلد والوں کا فرض تھا کہ اس کے جنازہ کے ساتھ شامل ہوتے.کیو نکہ اگر کوئی امیر بھی ہو تو اس کا جنازہ خود بخود گاڑی میں نہ چلا جائے گا.یا فرشتے اُٹھا کر قبرستان میں نہ لیجائیں گے.بلکہ لوگ ہی ہوتے ہیں.جو جنازہ اُٹھاتے ہیں، لیکن اگر کوئی کسی کی میت کے اُٹھانے میں شامل نہیں ہوگا.تو اگر اس کے ہاں کوئی واقعہ ہو.تو پھر اس کا کیا حق ہے کہ دوسرے اس کے ہاں جائیں.اس صورت میں اس کو شکایت کا کوئی حق نہ ہوگا.اس قسم کی کوتاہیاں چھوڑ دو اور خدا کے لیے اور اس کے قرب کے لیے اس کی مخلوق سے ہمدردی کردو.اخلاق سیکھو.نرم کلامی سیکھو تا کہ خدا کی رضا تم کو حاصل ہو.ر حضور جب دوسرے خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے تو فرمایا کہ ) میں نے دوستوں اور طبیبوں کے مشورہ کے ماتحت کل ایک مہینہ کے لیے باہر پہاڑی مقام پیر جانے کا ارادہ کیا ہے.میں اس امرکا بھی اعلا کر دیتا ہوں کہ میرے پیچھے انتظامی امور میں نادان کی حیات کے امیر مولوی شیر علی صاحب ہونگے اور میری جگہ نماز مولوی سید سرور شاہ صاحب پڑھایا کرینگے.میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ان کی اطاعت کریں.اطاعت دنیاوی ترقی کے لیے بھی ضروری ہے اور دین کے لیے تو ہے ہی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.مَنْ أَطَاعَ أَمِيرِى فَقَدْ أَطَاعَنِى وَمَنْ عَصَى امیری فَقَد عَصانی لے کر جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی.اس نے میری اطاعت کی.اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی.اس نے میری نافرمانی کی یہی حال حضور کے خلفاء اور ان کے مقرر کردہ اُمراء کا ہے.میں نے تجربہ کیا ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ خلفاء کی اطاعت کی تو کوشش کرتے ہیں لیکن خلفاء کے مقر کردہ امیر کی اطاعت کا مادہ ان میں کم ہے.اور عام طور پر لوگ کہ دیتے ہیں کہ ان کو کیا حق ہے کہ ہم سے اطاعت کرائیں یا ہم ان کی اطاعت کریں لیکن اگر یہ کہنا درست ہے تو پھر خلفا کا کیا حق ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے.مجھے اور مجھ سے پہلے مولوی صاحب رحضرت خلیفتہ امسیح اول کا کیا حق تھا کہ تم لوگوں نے ان کی اطاعت کی.یا میری کرتے ہو.یہ سب خدا کے حکم سے ہے.تلوار ہمارے پاس نہیں.روپیہ ہمارے پاس نہیں کہ ہم اطاعت کے لیے تمہیں دیتے ہیں.اور اس کے ذریعہ ہمارے قبضہ میں آگئے ہو پس تم جو اطاعت کرتے ہو.اپنے شوق سے اور خدا کی رضاء کے لیے کرتے ہو پھر خلفاء کو چھوڑ کر انبیاء کے متعلق بھی یہی سوال ہوتا ہے کہ ان کو کیا حق ہے انبیاء کی اطاعت ہی خدا کے لیے ہوتی ہے نہ کسی حق کی بنا پر.له بخاری کتاب الجهاد والسير باب يقاتل من وراءه الامام و تقى به
۴۹۴ اطاعت سے جو گریز کیا جاتا ہے.بالعموم اس کا باعث تکبیر ہوتا ہے.اور تکبر ہی وہ پلی بدی ہے جو دنیامیں ہوئی.دنیا میں پہلے اباد استکبار ہی ہوا ہے.دین کو الگ کر کے اگر دنیاوی لحاظ سے ہی دیکھا جاے تو ایک ایسی قوم کے لیے جو ترقی کرنا چاہتی ہے.اطاعت کے بغیر چارہ نہیں.میں نے جس طرح اسلام کی تاریخ پڑھی ہے.اگر اور لوگ بھی اس طرح پڑھتے توان کو معلوم ہو جاتا کہ مسمانوں کی ذلت و بربادی - نکبت وتباہی کا باعث یہی ہے کہ ان میں اطاعت کا مادہ نہ رہا.جب اطاعت نہ ہو تو انتظام قائم نہیں رہ سکتا.اور جب انتظام قائم نہ رہے تو کوئی قوم حاکم نہیں رہ سکتی.میں آج ایک راجہ کا سفر نامہ پڑھ رہا تھا جس میں لکھا ہے کہ چین میں اس نے دیکھا کہ امریکن اور اٹالین اور جرمن وغیرہ کی افواج جو چین میں پڑی ہیں.وہ روزانہ مصروف رہتی ہیں.اور الیسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کو آج ہی جنگ در پیش ہے.مگر بر خلاف اس کے چین کی افواج کی یہ کیفیت ہے کہ اول تو ان میں ملکی لوگ نظر بھی کم آتے تھے.اور جو تھے بھی ان کی یہ حالت تھی کہ یورپین افواج کی بارکوں کے سامنے کھڑے نظر آتے تھے اور یوردین افواج کی ورزشوں وغیرہ کو لغو سمجھ کر تماشا کے طور پر دیکھتے تھے اس تمام خرابی کی کیا وجہ تھی یہی کہ وہاں انتظام نہ تھا.اور انتظام نہ ہونے کا باعث اطاعت کا نہ ہونا تھا.جب یہ دونوں چیزیں نہ رہیں تو تمدن نہیں رہتا.اور تمدن نہ ہو تو غلامی رہ جاتی ہے.جب ہم میں خلافت کی بحث شروع ہوئی.تو ایک صاحب نے کہا کہ اگر آپ کی اطاعت آیت استخلاف کے ماتحت نہ کی جائے.بلکہ یوں کر لی جائے.تو کیا آپ بیعت لے لیں گئے.میں نے ان کو کہا کہ آیت استخلاف کی غرض تویسی ہے کہ مسلمانوں کا کلمہ متحد ر ہے.اگر یہ منشار دوسری طرح بھی پورا ہو جائے تو کیا حرج ہے پس اطاعت دینی اور دنیاوی دونوں ترقیوں کے لیے نہایت ضروری اور لابیدی ہمارا جین سے مقابلہ ہے وہ بہت منتظم ہیں.ان میں اطاعت بہت ہے میں جب تک ہم میں ان سے بڑھ کر انتظام اور اطاعت نہ ہوگی.تو ہم کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سینگے.ہمارے یہاں اول تو امیری غریبی چھوٹائی بڑائی کا کوئی سوال ہی نہیں.سب بھائی بھائی ہیں.لیکن پھر بھی جو افسر ہوتے ہیں.بعض دفعہ ماتحت ان کو سلام کرنا ہتک سمجھتے ہیں.مگر یورپ والوں کی یہ حالت ہے کہ اگر کوئی فوجی اپنے افسر کو سلام نہ کرے تو شام کو حوالات میں دیدیتے ہیں.اس جنگ کے متعلق ایک ایڈیٹر کا بیان میں نے پڑھا ہے.وہ لکھتا ہے کہ میں نے ساری عمر میں جو تلخ تجربہ حاصل کیا ہے وہ یہ ہے کہ جنگ شروع ہوتی تو میں بھی فوج میں بھرتی ہو گیا.میرے دفتر کا ایک کلرک بھی اسی میں بھرتی ہوا.کلرک کی جسمانی حالت چونکہ
۴۹۵ زیادہ اچھی تھی.وہ فوجی کاموں کا جلد ماہر ہو کر افسر ہو گیا اور میں اس سے نیچے کے درجہ پر اس کا ماتحت رہا.ایک دفعہ جب وہ فوجی وردی میں میرے سامنے آیا تو مجھے بہت ا معلوم ہوا.آخر مجھے اپنا فرض یاد آیا اور فوجی قانون میرے سامنے آگیا.میں نے فوراً اس کو فوجی طریق سے سلام کیا.اور اس نے بھی اسی طرح جس طرح فوجی افسروں کا طریق ہے میرے سلام کا جواب دیا.پس اطاعت کی یہ وہ روح تھی جس نے ان کو اس عظیم جنگ میں کامیاب کرایا.یورپ دنیاوی لحاظ سے ہم سے بہت بڑھا ہوا ہے.پھر اس میں انتظام اور اطاعت وغیرہ بھی بہت ہے.ہم یورپ کو اپنا شاگرد بنانا چاہتے ہیں اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ ہم میں ان سے بڑھ کر اطاعت اور انتظام ہو.یہ مت کہو کہ خدا کا ہم سے وعدہ ہے کہ ہم کامیاب ہوں گے.بیشک خدا کا ہم سے وحدہ ہے لیکن ہمارا بھی تو کچھ فرض ہے.ہم کمزور ہیں اور ہماری یورپ کے مقابلہ میں حقیقت ہی کیا ہے.اگر یورپ ہمارا شاگرد ہو جو ضرور ہوگا.تو یہ خدا ہی کے فضل سے ہوگا.اور وہاں انسانی تدبیروں کا کچھ بھی دخل نہ ہو گا، لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ ہم اپنے فرض سے غافل ہو جائیں جس کے باعث ہم خدا کے فضلوں کے مستحق ہو سکتے ہیں ہیں میں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں.اور اخبار کے ذریعہ باہر والوں کو بھی کہ وہ اطاعت سیکھیں.تاکہ ہماری جماعت جلد سے جلد کامیابی حاصل کرے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت پر رحم کرے " الفضل ۱۲ اگست ۹۲۰لته )
93 خدا سے محبت کا دعویٰ فرموده ۲۴ ستمبر حضور انور نے تشد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- " بہت لوگ اس دنیا میں ایسے ہیں.جو بڑے زور شور سے اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ ان کو اس ہستی پر ایمان ہے.جو اس دنیا کی خالق و مالک اس دنیا کے امور کی نظم - دیم.کریم بہین اور محافظ ہے اور بہت لوگ اس دنیا میں ایسے پائے جاتے ہیں.جو اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ ان کو اس سہتی.پیار اور محبت ہے.مگر بہت کم ایسے ہوتے ہیں.جو اپنے افعال اور اپنے اعمال سے ثابت کر سکتے ہیں کہ واقع میں ان میں خدا تعالیٰ سے محبت ہے.خداتعالی برایان اور محبت و پیار چھپی ہوئی چیزنہیں کوئی ایسا راز ہیں کہ انسان سے پوشیدہ کو سکے.یہ مال وزر کی طرح پوشید کونوں میں تھماڑی نہیں جاسکتی.بنکوں میں جمع نہیں کرائی جاسکتی.بلکہ یہ ایک آگ کی طرح ہوتی ہے اور میں جگہ آگ لگی ہو.وہاں سے دُھواں اٹے بغیر نہیں رہ سکتا.یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ کس گھر کو یا کھلیان کو آگ لگا دو اور پھر اسے لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رکھ سکو.یہ تو الگ رہا چھو لے میں آگ جلا کر بھی مخفی نہیں رکھی جاسکتی اس کو بھی چھوڑ کر دیے کی کو کتنی چھوٹی ہوتی ہے دیگر اس بھی دھواں نکلتا ہی ہے.اور چھت تک پہنچتا ہے.پھر موم کی بھی کتنی پتلی ہوتی ہے لیکن اگر متواتر جلاؤ - توگو ظاہر میں دُھواں نظر نہ آئے گا.مگر تھوڑے ہی دنوں کے بعد دیکھو گے کہ دیواریں کالی ہو جائیں گی.تو جس طرح جہاں آگ لگی ہو.وہاں سے دھواں نہ اُٹھے ناممکن ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ سے عشق ہو.اس خدا سے پیار و محبت ہو جو سب سے زیادہ حسین ہے.اور پھر کوئی اسے پوشیدہ رکھ کے.ظاہر نہ ہونے دے.یہ بھی بالکل ناممکن ہے.دلوں کے جذبات کو دبانا بہت زبر دست قوت ہے.بہت زیادہ طاقت اور بہت زیادہ وسعت حوصلہ چاہتا ہے.اور ہر ایک کا کام نہیں ہے کہ جذبات کو دبا سکے ہم تو دیکھتے ہیں کسی
کو ایک گالی کوئی دے تو وہ طیش میں آجاتا ہے کسی کے ذرا سے اعتراض کرنے پرسم پھکنے لگ جاتا ہے عمولی محبت اور پیار پر انسان آپے سے باہر ہوجاتا ہے پھر کیونکر مکن ہے کہ اس نبی سے محبت ہوجو تمام خوبیوں کی مابع ہے، جو تمام صفات حسنہ رکھتی ہے اور پھر وہی رہے اور سی کو پتہ ن گے.ایک ملک ایک شہر ایک عورت ایک بچہ کی محبت تو ظاہر ہو جاتے اور انسان کے اعمال میں اس کے آثار پائے جائیں.مکان کی محبت تو پوشیدہ نہ رہے.عہدہ کی محبت تو دبائی نہ جاسکے.خطاب کی محبت کا تو پتہ لگ جائے.سیاست اور قوم کی محبت تو اپنے آپ کو ظاہر کر دے.مگر نہ کرے تو خدا کی محبت ظاہر نہ کرے.اور ونی کی دبی ہی رہے.میرے نزدیک یہ دعویٰ کرنا کہ خدا تعالیٰ سے محبت ہے مگر اس کے آثار کا ظاہر نہ ہونا ایک مجنون دعویٰ ہے.اور جو شخص اس طرح دعوی کرتا ہے.وہ یا تو خود مجنون ہے یا دوسروں کو مجنون سمجھتا ہے.یا پھر اس کی عقل پر ایسا پردہ پڑ گیا ہے کہ اتنی بڑی غلطی کرتا ہے اور سمجھتا نہیں.یا وہ ایک بڑا شریر اور دباش آدمی ہے کہ اتنا بڑا جھوٹا دعوی کر کے خیال کرتا ہے کہ تمام لوگ پاگل اور ممنون ہیں.جو اس کے دعوی کو صحیح مجھے لیں گے کیونکہ میں طرح سر پر آئے ہوئے سورج کا انکار نہیں کیا جا سکتا.اس سے بھی واضح طور پر اس کے دعوئی کا جھوٹا ہونا ظاہر ہوتا ہے.اور اس سے زیادہ پاگل اور مجنون کوئی نہیں ہو سکتا.مگر دنیا میں ایسے لوگ ہیں اور ایک نہیں دو نہیں سینکڑوں نہیں ہزاروں نہیں ، لاکھوں نہیں کروڑوں پائے جاتے ہیں جس سے يقيناً یہ تیجہ نکلتا ہے کہ یا تو دنیامیں عقل کا معیار ایسا گر گیا ہے کہ اب جو کچھ بھی بے وقوفی کی بات اس کی طرف منسوب کی جائے وہ جائز اور صحیح ہو جاتی ہے.یا یہ کہ شرارت اور بدی عجیب اور تکبر اس قدر ترقی کر گیا ہے کہ ہر ایک انسان خیال کرتا ہے کہ میرے جیسا عقل مند اور کوئی نہیں ہوسکتا.میں جوچاہونگا دار سے منوالونگا.ان دو نتائج کے سوا اور کوئی نتیجہ نہیں جو نکلے.کیونکہ ہم روزانہ دیکھتے ہیں صبح و شام دیکھتے ہیں.ایک نہیں دو نہیں سینکڑوں اور ہزاروں آدمی جو ہمارے سامنے آتے ہیں مختلف پیشے کرتے ہیں.مختلف طرز عمل رکھتے ہیں.ان کی زندگیوں میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی محبت کا دعوای کرتے ہیں.جو بالکل جھوٹا اور باطل دعویٰ ہوتا ہے.پس تم خوب یاد رکھو اور اچھی طرح سمجھ لو کہ محبت پیار اور عشق کوئی ایسی چیز نہیں.جو چھپ سکے اس کا چھپانا ناممکن ہے.اور قطعاً ناممکن ہے.بعض لوگ کہا کرتے ہیں.ہمیں محبت تو ہے مگر ہم آپ کا اظہار نہیں کرنا چاہتے، لیکن یہ جھوٹ اور فریب ہے.حضرت صاحب کے زمانہ میں بعض ایسے لوگ تھے جو آپ کی مجلس میں نہ آتے تھے.جب ان پر اعتراض ہوا تو کہدیا ہمیں حضرت صاحب سے
۴۹۸ محبت تو ہے.مگر ہم اسے ظاہر نہیں کرتے.آخر ایسے ہی لوگوں کو ٹھوکر لگی.توکبھی مکن ہی نہیں کہ محبت ہو اور پوشیدہ رہے.محبت سب سے غالب ترین جذبہ ہے اور دنیا میں یہ ایک ہی چیز ہے.جو باقی سب طاقتوں کو توڑ کر رکھ دیتی ہے.انبیاء جس چیز کو لے کر آئے.وہ محبت ہی ہے وہ اسی ہتھیار کو لے کر کھڑے ہوئے.اور اسی سے تمام جذبات فاسدہ بغض، حسد کینہ شہوت نکست کھا جاتے ہیں.کیونکہ محبت وہ جذبہ ہے کہ خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے میری تمام صفات پر یہ غالب ہے.رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيءٍ (الاعراف: ۱۹۷، یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیم کے مطابق دوزخ کے متعلق بھی یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس میں بھی غیر محدود عذاب نہیں ہوگا.کچھ عرصہ کے بعد دوزخیوں کو بھی نکال لیا جائیگا.تو محبت بہت زبردست جذبہ ہے.حتی کہ خدا تعالیٰ کی وہ صفات جو مخلوق سے تعلق رکھتی ہیں.ان میں سے محبت کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ سب سے غالب ہے.اور انسانوں میں بھی یہ جذبہ باقی تمام جذبات سے زیادہ دیر دوست ہوتا ہے.بڑے بڑے زبر دست اور سرکش انسان ہوتے ہیں، لیکن محبت کے پھندے میں پھنس کر چور چور ہو جاتے ہیں.اور وہ جو سرکشی اور غرور کی وجہ سے کسی کے آگے مجھکنے کا خیال تک بھی دل میں نہیں لاتے.محبت سے مجبور ہو کر غلامی کو فخر سمجھنے لگ جاتے ہیں حضرت عمرو بن العاص کا واقعہ ہے وہ کہتے کہ رسول کریم ملی الہ علیہ وآلہ سلم کا مجھ جیا کئی دشمن نہ تھا.میں عداوت اور بعض کی وجہ سے آپ کے چہرہ پر نظر نہ ڈال سکتا تھا.اور ہر وقت مجھے اس کی وجہ سے آگ سی لگی رہتی تھی.مگر پھر وہ زمانہ آیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہی محبت وہی اخلاص اور وہی ہمدردی جس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے تعلك باعَ نَفْسَكَ اللَّا تَكُونُوا مُؤْمِنين الشعر آمد (۴) کیا تو اس بات پر اپنے آپ کو بلاک کرلیگا کہ لوگ انسان کیوں نہیں لاتے.یہ محبت اور الفت کا جذبہ جو رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کی جان کو دکھ کی طرح لگا ہوا تھا.غالب آیا.اور پھر اس عمر نے کہا کہ میں رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کے رعب کی وجہ سے آپ کے چہرہ پر نظر نہ ڈال سکا.اور اگر آج کوئی مجھ سے پوچھے کہ رسول کریم کی کیا شکل تھی تو میں نہیں بتا سکتا یہ دیکھو محبت کی وجہ سے کیا تبدیلی ہوئی تو چونکہ محبت سب سے زیادہ زبر دست جذبہ ہے ایس لیے اس کو پوشیدہ رکھنے کا دعوی باطل ہے.پس جو شخص خیال کرتا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ سے محبت ہے، لیکن محبت کے آثار اس نے ظاہر ه مهاجرین حصہ دوم مصنفه شاه معین الدین ندوی صداها
نہیں ہوتے وہ یقین کرلے کہ اس کا نفس اسے دھوکہ دے رہا ہے.اور جو دیکھے کہ دوسرے کو دعوئی تو محبت الہی کا ہے، لیکن اس میں آثار نہیں پائے جاتے.تو یقین کرلے کہ یا تو وہ خود دھوکہ خوردہ ہے یا یا دوسروں کو دھوکہ دینے والا ہے.اس بات کو سوچتے ہوتے میں اپنی جماعت کے لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے نفسوں کو دیکھیں اور پتہ لگائیں کہ خدا تعالے کی محبت کا ان کے سونے جاگنے اُٹھنے بیٹھنے.چلنے پھرنے کھانے پینے.بولنے چاہنے لین دین نماز روزہ حج زکوۃ پر کیا اثر ہے.یا یہ نہایت ہی کرد اور بو دا دعوی ہے کہ اس کا کچھ اثر ہی نہیں.یاکم سے کم انسان اتنا تو سوچے کہ اگر میرے اعمال اور افعال میں خدا تعالیٰ کی محبت کے آثار مجھے نمایاں نظر نہیں آتے.تو وہ ہستی جو بار یک دربار یک باتوں کو جاننے والی ہے.اس پر میرے دعوئی کا کیا اثر ہے.وہ خیال کرے کہ میں جاہل ہوں.میں موٹی عقل کا آدمی ہوں.اس لیے میرے دعوئی کا اثر مجھے محسوس نہیں ہوتا، لیکن وہ ہستی جو باریک سے باریک بات کو جانے نہیں دیتی.اس کا مجھ سے کیا سلوک ہے.آیا خدا تعالیٰ کے صفات میں میرے دعوی کے بعد کوئی تغیر معلوم ہوتا ہے یا نہیں.اگر اس کا دعوی سچا ہوگا.تواس کالازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ الہ تعالی کو اس سے محبت ہو گی پس انسان کو چاہتے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کو دیکھے.کہ خلا اس کے لیے غیرت دکھاتا.اس سے اپنے پیاروں جیسا سلوک کرتا.اس سے پیار کی باتیں کرتا.اس کے کام کو اپنا کام سمجھتا ہے.اگرالیا نہیں تو سمجھے کہ خدا کی محبت کا وہ جو دعویٰ کرتا ہے.جھوٹا اور بالکل باطل ہے.کیونکہ اگر وہ اپنے دعوی کے آثار محسوس نہیں کرتا.تو خدا تعالیٰ کو تو اس کی حقیقت معلوم ہے.خدا اس سے اپنی محبت کا اظہار کرتا.لیکن جبکہ خدا تعالیٰ کی صفات سے بھی اس کا اظہار نہیں ہوتا.تو معلوم ہوا کہ دعویٰ ہی باطل ہے.میں نے ایک دفعہ رویا.میں دیکھا.اسی بات کے متعلق کہ محبت کا کیا اثر ہوتا ہے.میں نے دیکھا ایک نہایت خوبصورت چبوترہ ہے.اس پر ایک بچہ کھڑا ہے.جو محبت سے آسمان کی طرف ہاتھ پھیلاتے دیکھ رہا ہے کہ اتنے میں آسمان پھٹا ہے.اور ایک پروں والا انسان اُترا ہے اور قریب آنے پر جب میں نے دیکھا تو معلوم ہوا کہ عورت ہے اور خیال ہوا کہ حضرت مریم ہیں.انہوں نے بچہ کے اوپر پر پھیلا دیئے اور جھک کر اس طرح پیار کیا ہے جس طرح ماں اپنے بچہ کو کرتی ہے.اس وقت میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے.LOVE CREATes Love
۵۰۰ کہ محبت محبت سے پیدا ہوتی ہے.تو یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان کو خدا تعالیٰ سے محبت ہو خواہ وہ کتنی ہی پوشیدہ کیوں نہ ہو.اور خدا کو اس سے محبت نہ ہو.اور اللہ تعالیٰ کے سلوک سے اس کے آثار ظاہر نہ ہوں.ہم تو دیکھتے ہیں.دنیا میں کوئی انسان محبت جیسی چیز کو ضائع نہیں کرتا.تو کا خدا تعالیٰ جو چھوٹے سے چھوٹے عمل کو بھی ضائع نہیں کرتا.وہ محبت جیسی چیز کی کوئی پروا نہ کریگا.یہ نہیں ہو سکتا.پیں ان لوگوں کو جو خدا تعالیٰ کی محبت کا دعوی کرتے ہیں.اول اپنی ذات کے متعلق غور کرنا چاہتے کہ اس سے محبت کے کیا آثار ظاہر ہوتے ہیں.اور پھر خدا تعالیٰ کی صفات کو دیکھنا چاہیئے کہ وہ ان کے لیے کس طرح جلوہ فگن ہوتی ہیں.اگر خدا تعالیٰ کی بے تو جی ہو.یا اس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہلاکت اور تباہی میں گرفتار ہو.تو سمجھ لینا چاہئے کہ ان کا خدا کی محبت کا دعویٰ غلط ہے.غریب ہے.اور ممکن ہے کہ اسی حالت میں مرکز نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے کے مصداق بن جائیں.پس پیشتر اس کے کہ وہ وقت آتے ہمیں اپنے اس دعوئی پر غور کرنا چاہیئے.پر و الفضل ستمبر
94 نیست السلام ٠١٩٢٠ فرموده یکم اکتوبر نامه) تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :- قریباً دو اڑھائی سال کا عرصہ ہوا کہ یں نے مجمعوں کے خطبوں میں ایک سلسلہ مضامین بیان کر نانوح کیا تھا.ان مضامین کا مقصد یہ تھا کہ ایمان کی عمارت کی تکمیل کیونکر ہوسکتی ہے.اور یہ کہ بغیر میں الیان کے اعلیٰ درجہ کے نتائج کی امید ایک جھوٹی اور عبث بات ہے.مکان کی ایک دیوار نہ ہو اور انسان سمجھے آندھی کی گرد اور بارش کے پانی سے محفوظ رہے تو نادانی ہے.یا مکان کی چھت نہ ہو.اور خیال کرے کہ دھوپ اور شبنم سے بچا رہے.تو بے وقوفی ہے.یا مکان میں پانی کے نکاس کا رستہ نہ ہو اور یہ کہے کہ مکان گرے نہ تو کم عقلی ہے.یا مکان میں ہوا کے آنے جانے کے منفذ نہ رکھے اور سمجھے کہ صحت درست اور اچھی رہے گی.تو جہالت ہے.بارش وغیرہ سے محفوظ رہنے کے لیے بھت اور دیواریں پانی کے نکلنے کے لیے رستہ ہوا کے لیے کھڑکیاں.اور روشنی کے لیے روشندان بھی ہوں.پھر دروازے بھی ہوں.دروازوں کی زنجیریں بھی ہوں، تب جا کر مکان مکمل ہو سکتا ہے اگر کوئی شخص ایک چیز پر تو سارا زور خرچ کر دے اور باقیوں کو چھوڑ دے تو مکان مکمل نہیں کھا سکتا میں دیواریں اٹھاتا چلا جائے آسمان تک اور چھت نہ ڈالے.یا دیواریں بن کر او پر چھت بھی ڈالر ہے، مگر پانی کے نکاس کا انتظام نہ کرے یا نہایت اعلیٰ درجہ کی سفید اور مصفی عمارت بناتے مگر ہوا کے منفذ نہ رکھے تو مکان مکمل اور مفید نہیں ہو گا اور کوئی یہ نہیں کہے گا کہ چونکہ بہت روپے خرچ کئے.اور بڑی محنت کی گئی ہے.اس لیے یہ مکان بہت اعلیٰ درجہ کا ہے.بلہ نہیں کہیں گے کہ مکان کو نا مکمل چھوڑ دیا گیا ہے.تمام قانون قدرت اسی بات پر شاہد ہے کہ بے ہودہ اور فضول محنت و مشقت کا بدلہ نہیں ملا کرتا بر خلاف اس کے تھوڑی مگر صیح محنت کا بدلہ مل جاتا ہے اگر کوئی شخص سالما سال محنت
کر کے پہاڑ کی چٹان میں سوراخ کرے اور اس میں بیج ڈال ہے.تو اس وجہ سے کہ اس نے کئی سال کی محنت کی ہے.وہاں اچھی کھیتی نہیں ہوگی، لیکن اس کی نسبت نرم زمین میں بہت کم محنت کرنے سے اچھی کھیتی ہوجائیگی.کیونکہ خدا تعالیٰ ہ نہیں دیکھے گا کہ تھر پر بہت محنت کی گئی ہے.اور نرم زمین پرتھوڑی، بلکہ یہ دیکھے گا کہ اس کے بنائے ہوئے قواعد کے ماتحت کسی نے محنت کی ہے اور ان کے خلاف کسی نے ہیں نتیجہ ہمیشہ خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قواعد کے مطابق محنت کرنے سے ہی ملتا ہے.ان کو چھوڑ کر خواہ کتنی ہی زیادہ محنت کیوں نہ کی جائے.کچھ حاصل نہیں ہوتا.اس ضمن میں میرا منشا تھا کہ میں تفصیلی طور پر بیان کروں مگر چار پانچ ہی خطبوں کے بعد ایسے واقعات پیش آتے کہ میں تفصیل سے بیان نہ کر سکا.اور تمہید میں ہی انہیں چھوڑنا پڑا.پھر گذشتہ سال سے پہلے جلسہ پر میں نے عرفان الٹی کے اکھوں بیان کئے تھے اور بتایا تھا کہ عرفان اللہی حاصل کرنے کے لیے اصولی طور پر کیا قواعد ہیں.فروعات کے بیان کرنے کا نہ وہ موقع تھا اور نہ میں بیان کر سکا ہے اب اس کی فروع میں سے ایک حصہ کے متعلق میرا ارادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ توفیق دیگا.تو وقتاً فوقتاً بیان کرتا ہوں.مگر مصلحت وقت کے لحاظ سے اس ترتیب کو جوئیں نے رکھی تھی.چھوڑتا ہوں اور ضرورت وقت کے لحاظ سے کڑے ٹکڑے کر کے بیان کرونگا.شرعیت کے احکام کتنے اقسام کے ہیں.ان کے کیا اثرات انسان کی عقل قسیم - قوت- طاقت تعلق باللہ جماعت اور قوم کی ترقی پر پڑتے ہیں.اس کا پہلے بیان ہونا ضروری ہے لیکن چونکہ اصلی ترتیب کو میں چھوڑتا ہوں.اس لیے میں سمجھتا ہوں.اس حصہ کو بھی چھوڑ سکتا ہوں.اور فی الحال میں اس ٹکڑے کو لیتا ہوں جس میں بنی نوح کے آپس کے تعلقات کے احکام دیئے گئے ہیں.اور جن کی نگہداشت کئے بغیرایمان کی میں نمکین ہے.اس حصہ میں سے بعض احکام بیان کروں گا اور آج کے لیے جو حکم منا ہے وہ ایسا ہے کہ اس سے ہر مسلم واقف ہے یا اسے واقف ہونا چاہیئے.لیکن چونکہ کثرت سے اس کے استعمال کے مواقع پیش آتے ہیں.اس لیے لوگ اسے معمولی خیال کرتے ہیں اور یہ عام بات ہے کہ جو چیز کثرت کے ساتھ استعمال میں یا دیکھنے سنتے ہیں آتے.اس کو معمولی سمجھ لیا جاتا ہے.دیکھیو سورج کو چونکہ لوگ ہر روز دیکھتے ہیں.اس لیے اسے دیکھ کر انہیں خُدا کی صنعت کا خیال نہیں آتا.حالانکہ یہ اتنی بڑی چیز ہے کہ اگر اس کا انہیں اندازہ بتایا جائے.تو جیران ہو جائیں.مگر ایک غبارہ اگر پچاس ساٹھ گز کا دیکھ لیں.تو شور مچا دیتے ہیں.تو جو چیز روز نظر آتی ہو.اس کا اثر آہستہ آہستہ دنوں سے مٹ جاتا ہے.اور اسے معمولی سمجھا جاتا ہے اور جو بھی کبھی
۵۰۳ آئے.اس کا زیادہ اثر رہتا ہے.دکھی مسلمان نماز نہیں پڑھتے.روزانہ نماز کے تارک ہونگے مگر عید کی نماز پڑھنے چلے جائیں گے.حالانکہ روزانہ نماز ایمان کی تکمیل کے لیے اس کی نسبت نہایت ضروری ہے.پھر عید کی نماز تو ایسی ہے کہ اگر انسان اکیلا ہو - تورہ جاتی ہے.مگر روزانہ نماز کسی صورت میں بھی چھوڑی نہیں جاسکتی.حتی کہ بیماری میں بھی پڑھنی ضروری ہے، تو یہ نماز بہت زیادہ افضل اور اعلیٰ ہے مگر لاکھوں آدمی اس کو تو چھوڑ دیتے ہیں اور عید کی نماز کونہیں چھوڑتے.وجہ یہ کہ وہ سال میں ایک دو دفعہ آتی ہے.اور یہ ہر روز پڑھنے کا حکم ہے.حالانکہ یہ اس سے افضل اور اعلی ہے.اس دن کی فضیلت کی اور وجوہات ہیں.اور دو چھٹی نمازہ ہے.جو اس دن کو افضل بناتی ہے.اکیلی عید کی نمازی اسکی فضیلت کا باعث نہیں.اسکی ایسی ہی مثال ہے کہ کسی کے پاس پانچ روپے اور کسی کے پاس پانچ روپے اور ایک چھوٹی ہو.دوسرے کا مال پہلے کی نسبت زیادہ ہوگا، لیکن اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ چوٹی روپیہ سے بڑھکر ہے.مگر لوگ نادانی سے چوٹی کو بڑا سمجھتے ہیں.حالانکہ اصل میں روزانہ نماز رو پیر کی طرح ہوتی ہے اسی طرح لوگ نمازوں کے تارک ہوتے ہیں.مگر روزے آنے پر شور پڑ جاتا ہے.حالانکہ گو روزے فرض ہیں.مگر نماز کی نسبت کم ہیں.اور یہ اس درجہ پر نہیں جس درجہ پر نماز ہے وہ بھی دین کے ارکان میں سے ایک رکن ہے.مگر نماز زیادہ ضروری ہے.تو جو چیز دیر کو آتی ہے.اس کو عزت سے دیکھتے ہیں اور جو روزانہ کی ہے.اسے معمولی سمجھا جاتا ہے.اسی طرح جو چیز آسانی سے حاصل ہو جائے.اسے معمولی سمجھا جاتا ہے اور جس پر محنت صرف ہو.اس کو بہت اہمیت دی جاتی ہے.حالانکہ بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں.وہ بعض اوقات کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہیں.اور بعض اوقات بڑی بڑی کچھ نتیجہ نہیں پیدا کرتیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پیشاب اور پاخانہ کے وقت ابن عباس لوٹاں کچھ دیتے تھے.اتنی سی بات کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے وہ دعا کی.جو جنگوں پر جانے والوں کے لیے بھی نہیں فرمائی.چنانچہ ان کے لیے تو فرمایا.اللهم فقهه فی الدین ہے مگر لڑائی پر جانے والوں کے لیے یہ نہیں فرمایا.تو کاموں کے لیے بڑائی اور چھوٹاتی صرف محنت سے نہیں رکھی جاتی بلکہ اور بھی وجوہات ہوتی ہیں.اس وقت میں جو حکم بیان کرنے لگا ہوں.وہ بھی ایسا ہی ہے اور وہ سلام کا حکم ہے اسلام مه بخاری ومسلم بروایت مشکوة کتاب المناقب اہل البیت
۵۰۴ سمجھتے ہیں نے تاکید کی ہے اور قرآن میں بھی آیا ہے.فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوتًا فَسَلَمُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ تَحيَّةٌ من عِندِ اللهِ مُبرَكَةً طَيِّبَةً (النور (۶۲) کہ جب گھروں میں داخل ہو.تو سلام کرو.اس میں خوبی یہ ہے کہ یہ نہیں فرمایا : فسلموا على اخوانكم - بلکہ یہ فرمایا علی انفسکم کہ اس کا فائدہ تمہارے اپنے ہی نفسوں پر ہوگا.یہ ایک ایسا حکم ہے کہ رسول کریم کے ارشاد کے ماتحت ہر سلمان کو دوسرے مسلمان سے ملتے وقت بجالانا چاہیئے.چونکہ اس کا موقع ہر وقت ملتا رہتا ہے.اس لیے عام طور پر لوگ اسے معمولی حالانکہ یہ ایسا ضروری ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.یہ جنت میں جانے کا ذریعہ ہے اور فرمایا ہے.مسلمانوں کے اتفاق و اتحاد کی بنیاد اسی پر قائم ہے چنانچہ فرمایا.اس میں سلام کرو سلام سے محبت پیدا ہوتی ہے اور محبت کے ذریعہ ہی جنت میں داخل ہونا ہے.مگر افسوس اب بہت سے ایسے لوگ مسلمانوں میں موجود ہیں جو سلام کو ترک کر بیٹھے ہیں.اور ایسے لوگ غیر احمدیوں میں ہی نہیں کسی قدر قلیل تعدا د احمدیوں میں بھی ہے.ایسے لوگ بجائے سلام کے ایک دوسرے کو آداب غیرہ الفاظ سے مخاطب کرتے ہیں.اور جو السلام علیکم کہے.اسے کہتے ہیں.پتھر مار دیا.حالانکہ وہ خود اسلام کے ایک حکم اور رسول کریم کے ارشاد کا انکار کر کے اپنے اوپر تھر گراتے ہیں.اور جو مرہم ہے اسے پتھر سمجھتے ہیں.اسلام علیکم کے معنے ہیں کہ زخم بھر جائیں.مگر نادان کہتے ہیں.یہ پتھر مار دیا.اور اس شخص سے زیادہ احمق اور کون ہو سکتا ہے.جو مرہم کا نام پتھر رکھے.تو مسلمانوں کا ایک حصہ تو ایسا ہے جو سلام کہنے کا بالکل تارک ہے.اور دوسرا ایسا ہے جو تارک تو نہیں، لیکن اس کی حقیقت ہے ناواقف ہے.ایسے لوگ مجلس میں آئیں گے.اور چپ کر کے بیٹھ جائیں گے.گھروں میں داخل ہونگے اور خاموش ہو کر بیٹھ رہیں گے اور انہیں خیال بھی نہ آئے گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس موقع کے لیے کوئی حکم ہے.بعض کہ دینگے معمولی بات ہے اگر سلام نہ کیا.تو کیا ہوا بعض کہیں گے.حیا کی وجہ سے نہیں کہا.بعض کہیں گے عادت نہیں.مگر یہ تینوں قسم کے لوگ نادان ہیں.حیا کے معنے ہیں رکنا اور رکھنا ایسی باتوں سے چاہیئے.جو مضر ہوں نہ کہ ان سے جو فائدہ مند ہوں اور پھر وہ جن کا فائدہ دھانی ہو.اسی طرح اسے معمولی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس کا فائدہ مرنے کے بعد قیامت تک ملتا رہیگا.پھر یہ نه مسلم بر روایت مشکوة کتاب الاداب باب السلام.
اس لیے معمولی نہیں کہ قرآن میں اس کے متعلق حکم دیا گیا ہے اور بیسیوں ایسے احکام ہیں.جن کا قرآن میں ذکر نہیں.مگر اس کا ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ فرمایا ہے.فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى انفُسِكُم تَحِيَّةٌ مِنْ عِنْدِ اللهِ مُبَرَكَةً طَيِّبَة تو اللہ تعالی کی طرف سے جو تحفہ ہو.اس کو گون معمولی کہہ سکتا ہے.قرآن کریم میں اور کسی چیز کو اس رنگ میں تحفہ نہیں کہاگیا.جیسے سلام کو کہا گیا ہے.حتی کہ مرنے کے بعد جو تحفہ خدا کی طرف سے انسان کے لیے آتا ہے.وہ بھی یہی ہے کہ فرشتے آکر خدا تعالیٰ کی طرف سے سلام پہنچاتے ہیں.کوئی بڑے سے بڑا آدمی ہو جو کسے مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں کسی کوسلام کہوں ہم کہیں گے.خدا تعالٰی نے بھی جب اپنے اوپر واجب کر دیا کہ سلام کہے تو اور کون ہے جو اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر اس کی ضرورت نہ رکھتا ہو.سب سے پہلی چیز جو بندہ کو خدا تعالیٰ کی طلاقات کے وقت دیجاتی ہے.وہ یہی سلام ہے.جبرئیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے.تو آپ کو سلام کہا.اور رسول کریم ان کو دیکھ کر سلام کہتے ہیں.ان سے بڑا کونسا انسان ہے جیسے سلام کہنے کی ضرورت نہ ہو.مگر بہت لوگ ہیں.خصوصاً انگریزی تعلیم یافتہ جو سلام کو بہت حقیر چیز سمجھتے ہیں.وہ اپنے عمل سے رسول کریم.جبریل حتی کہ خدا تعالیٰ سے بھی اپنے آپ کو بڑا قرار دیتے ہیں کیونکہ جس حکم کو بہت سی حکمتوں کے ماتحت خدا تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے.بلکہ اپنی ذات کے لیے بھی رکھا ہے اور حسین کی تاکید رسول کریم نے کی ہے اور خود جبرئیل کو کہا ہے.اس سے یہ لوگ اپنے آپ کو مستغنی سمجھتے ہیں.اول تو صرف ہاتھ سے اشارہ کر دیتے ہیں یا اتنا بھی نہیں کرتے.یا ایک دوسرے سے یوں میں گئے.مولوی صاحب.اور اس کے جواب میں کہہ دیا جائیگا.بھائی صاحب.یا یہ کہ سناؤ جی کیا حال ہے.اسی قسم کے فقروں کو انہوں نے سلام سمجھ لیا ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کے ساتھ تین انگلیاں ملا دینگے اور یہ مصافحہ ہو جائیگا، لیکن شریعیت کا یہ حکم نہیں.شریعت نے السلام علیکم کنا ضروری قرار دیا ہے اور رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم نے اس کو اتفاق واتحاد کی جڑ ٹھرایا ہے.اور نجات کا ستون بنایا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ دریافت کیا گیا.کہ بہتر سلام کیا ہے.تو آپ نے خاص حکموں میں سے بتایا کہ غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلانا اور کسی کو جانو یا نہ جانو - سلام کہنا یہ دونوں باتیں اتفاق و اتحاد کی جڑ ہیں.آج میں خطبہ کو نہیں بند کرتا ہوں کیونکہ وقت زیادہ ہو چکا ہے مگر تاکید کرتا ہوں کہ یہ ایک شکواۃ کتاب الفتن باب فی اخلاقہ صلی الہ علیہ وسلم سے بخاری وسلم بردایت مشکوة کتاب الاداب باب السلام
خاص حکم ہے جو اسلام نے دیا ہے اور جس کے متعلق رسول کریم نے تاکید فرماتی ہے صحابہ اس کے اس قدر پا بند تھے کہ ایک دن عبد اللہ ایک صحابی کے پاس آئے اور کہا آؤ.بازارہ ملیں.صحابی نے سمجھا کوئی کام ہوگا.چل پڑا ، لیکن وہ بازار میں سے گھوم کر یونی چلے آئے نہ کوئی کام کیا اور نہ کوئی چیز خریدی.دو تین دن کے بعد پھر آئے اور کہا آور بازار چلیں.اس صحابی نے کہا.اس دن آپ نے کچھ خریدا اور نہ کام کیا.آج کوئی کام ہے.انہوں نے کہا میں بازار اس لیے جاتا ہوں کہ بھائی ملتے ہیں.وہ ہم کو سلام کہتے ہیں ہم ان کو سلام کہتے ہیں.تو صحابہ بازاروں میں صرف سلام کہنے کے لیے بھی جاتے تھے تمہیں بھی چاہیئے کہ بازاروں مں محلوں میں مجلسوں میں گھروں میں جہاں کسی سے طو سلام کہو.جاننے والوں کو سلام کہو، نہ جاننے والوں کو سلام کہو.اگر دھا کوئی چیز ہے.اور ہر سلمان ماننا ہے.کہ بہت بڑی چیز ہے اور اسلام کے رکنوں میں سے ایک رکن ہے.اور سلام اس کے سوا کچھ بھی نہیں.تو سب اولیا.اور خدا کے پیاروں کا یہ بھی متفقہ مسلہ ہے.اگر کوئی دکا زیادہ قبول ہونے والی ہوتی ہے تو وہی ہوتی ہے.جو خدا تعالیٰ کی سکھائی ہوئی ہو.اور وہ یہی دعا ہے پھر کیسا نادان ہے وہ انسان جو سجدہ میں ناک رگڑتا اور دعائیں کرتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس دعا کو استعمال نہیں کرتا.جو شخص خدا تعالیٰ کی سکھائی ہوئی دُعا کو نہیں لیتا.خدا تعالیٰ اس کی سجدہ میں کی ہوئی دعا کو کب سُنتا ہے.پہلے خدا کی سکھائی دُعا کو رستوں میں گھروں میں ملنے والوں سے جدا ہونے والوں سے اپنوں سے.بیگانوں سے واقفوں سے ناواقفوں سے کریگا.اور پھر جاکر خدا تعالیٰ سے دعا مانگے گا تو سُنے گا کہ میں نے میں دُعا کا حکم دیا تھا وہ کر آیا ہے.اب میں اس کی دکانوں پھر اس کے محبت اور اتفاق کے لیے بہت اثرات ہیں.اور اگر ضرورت ہوئی.تو ان کو پھر بیان کر الفضل اکتوبر ناته : دوں گا.ے مشکوة کتاب الاداب باب السلام ندي
95 دین کے حکموں کو خود مانو اور دوسرں سے منواؤ فرموده در اکتوبر ۱۹۲۰ ته حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- اسلام کے دو بڑے حصے ہوتے ہیں جن سے لوگ بالعموم نا واقف ہوتے ہیں (1) اعتقاد اعمال- اعتقاد کے حصہ کی جب تک تکمیل نہ ہو.اس وقت تک اسلام مکمل نہیں ہوتا.اور اسی طرح اعمال کے حصہ کی بھی جب تک تکمیل نہ ہو.ایمان تکمیل نہیں پاتا.پھر اعمال کے بھی دوھتے ہیں.اور اعتقاد کے بھی دوھتے ہیں.عقائد کے دو حصوں میں سے بھی ایک حصہ عمل میں چلا جاتا ہے.عقاید کے لیے صرف یہ کافی نہیں کہ انسان خود ایمان رکھے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ دوسروں میں ان عقائد کو پھیلائے گویا عقاید بھی اعمال میں آجاتے ہیں.تو اسلام کی تعلیم ہے کہ جس طرح صحیح عقائد کا ماننا ضروری ہے اسی طرح ان صحیح عقاید کا پھیلانا بھی ضروری ہے.ایک شخص خواہ کتنا ہی صحیح اور پختہ اعتقاد رکھے مگر اس صحیح اعتقاد کو پھیلاتے نہیں.وہ پکا مومن نہیں ہو سکتا.سب سے بڑے پکتے مسلم اور مومن انبیا ہ ہوتے ہیں گر یہ بھی نہیں ہوگا کہ وہ اپنی ذات تک ہی ان اعتقادات کو رکھیں اگر کوئی کہے کہ وہ تو مامور ہوتے تو اسکا پہلا جواب تو یہ ہے کہ چونکہ انبیا.اعلی درجہ پر ہوتے ہیں اس لیے تبلیغ کے کام کو ان کے سپرد کرنا اس کام کی اہمیت کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے جس سے ظاہر ہے کہ یہ اتنا اہم کام ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے لیے انبیاء مبعوث فرماتا ہے.دوسرے ہم دیکھتے ہیں کہ انبیاء کے جو عقیقی متبعین ہوتے ہیں.وہ انبیا ء ہی کے نقش قدم پر چلتے ہیں.حالانکہ وہ مامور نہیں ہوتے.سب سے زیادہ حالات ہمیں صحابہ کے ملتے ہیں اور ان میں سے بعض کے یہاں تک اقوال ملتے ہیں.مثلاً وہ کہتے ہیں.اگر ہماری گردن پر تلوار ہو اور ہمیں آنحضرت کا کوئی ایسا قول معلوم ہو جو اوروں کو معلوم نہیں.تو قبل اسکے کہ تلوار ہماری گردن جدا کرے ہم اس کو لوگوں تک پہنچا دینگے لیے تو وہ بھی اپنے بخاری کتاب العلم باب العلم قبل القول والعمل
اعتقاد کو پھیلانا ضروری سمجھتے ہیں.دوسرا حصہ اعمال کا ہے.آگے اس کے بھی دوستے ہیں.اول خود عمل کرنا (۲) دوسروں سے عمل کرانا.جس طرح خود کئے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا اسی طرح دوسروں سے عمل کراتے بغیر بھی کم نہیں ہوتا جو خودنماز پڑھتا ہے گھر دوسروں کو دیکھتا ہے کہ نماز نہیں پڑھتے خود حج کرتا ہے مگر دیکھتا ہے کہ لوگ ہیں جو استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتے.مالدار ہے خودزکواۃ دیتا ہے گر دیکھتا ہے لوگ مالدار ہو کر زکواۃ نہیں دیتے اور یہ انکو نیک کاموں کے کرنے کی تحریک نہیں کرتا اور انکو ترغیب نہیں دیتا.تو پتا مومن نہیں کہلا سکتا کیونکہ خدا نے مومن کے دو فرض رکھے ہیں.پہلا فرض تو یہ ہے که خود مانو اور دوسرایہ ہے کہ دوسروں سے منوا.اسی طرح یہ کہ نیک اعمل خود کرو اور دوسروں کو تحریک کرو کہ وہ بھی کریں.اگر سپن فرض پورا کرنا ضروری ہے تو دوسرا بھی ضروری ہے کیوں جہاں یہ حکم ہے کہ خدا کو ایک مانو.وہاں یہ بھی حکم ہے کہ دوسروں سے ایک منوا.اس طرح رسولوں کو مانو اور منواؤ اور ملائکہ کومانو اور مواد حشر نشر کو مانو اور مواد - دعوة الى بغیر کرد.اور دوسروں سے گراؤ- بداخلاقی چھوڑو اور دوسروں سے چھوڑا اور شرک خود نہ کرو.اور دوسروں کو اس سے روکو، لیکن اگر خود احکام کی تعمیل کرو گے.اور دوسروں سے تعمیل نہیں کراؤ گے.تو قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ خود تعمیل احکام الہی کرتے ہیں.مگر دوسروں سے نہیں کراتے.وہ عذاب الٹی سے نہیں بچ سکتے.پس یہ کوئی وجہ نہیں کہ کہدیا جائے.ہم خود مانتے ہیں.دوسروں سے کیا منوائیں نہیں جس طرح خود ماننا اور نمی کرنا فرض ہے.اسی طرح دوسروں سے منوانا اور تعمیل کرانے کا بھی حکم ہے.اگر کوئی ایک حکم کو توڑتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ کل دوسرے کو بھی توڑ دے.آج ایک حکم چھوڑا.کل دوسرے کو چھوڑ دے.اور کہدے کہ میں اعتقاد رکھتا ہوں.اعمال کی ضرورت نہیں ہے.یا خدا رسول ملائکہ کو مانتا ہوں.کتب کو نہیں مانتا.یا فرشتوں کو مان لے اور کہے کہ رسولوں کو ماننے کی کیا ضرورت ہے.خدا پر ایمان رکھتا ہوں یا اسی طرح خدا کا بھی انکار کر دے.یا اعمال میں کہدے روزے نہیں رکھے جا سکتے زكوة باوجود فرض ہونے کے نہیں دی جاسکتی.یاکسی کو نماز بوجھل معلوم ہو تو اس کو ترک کر دے.دراسل شریعت نے جس قدر احکام دیتے ہیں ان سب کا انسان مکلف ہے.اس کی ذمہ واری ہے کہ ان کو پورا کیے.قرآن کریم جہاں امر بالمعروف کا حکم دیتا ہے.وہاں یہ ہیں کہا کہ کرد یان کرد، بلا استثنا کے سب کو کہتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو.پھر فرماتا ہے.تُعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقوى المانہ، 8 : ۳) کہ نیکی اور تقویٰ میں تعاون یعنی ایک دوسرے کی مد کرو.یہ ہیں فرمایا کہ تقسیم کرلو.کوئی
کرے کوئی نہ کرے.بکر سب کو حکم ہے کہ اپنے اعتقادات صحیحہ کی اشاعت کردو اور اعمال حسد کا حکم دور لیکن بہت ہیں جو خود تو کرتے ہیں.مگر دوسروں کو شریعت کے احکام کی پابندی کی طرف توجہ نہیں دلاتے.اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ بہت ہیں جو سرے سے خود بھی عمل نہیں کرتے لیکن خدا کے فضل سے ہم میں یہ بات نہیں.ہم میں خود عمل کرنے والے تو بہت ہیں اور بکثرت ہیں، لیکن اگر دیکھا جاتے کہ دوسروں سے کہاں تک عمل کراتے ہیں تو اس میں ہم میں کسی قدر کی نظر آئیگی ہماری انجمنوں میں اس پر تو زور دیا جاتا ہے کہ چندہ با قاعدہ دو مگر اس کی طرف سے عقدت کی جاتی ہے کہ کوئی شخص نمانه با جماعت بھی پڑھتا ہے کہ نہیں.روزوں کا پابند ہے کہ نہیں.لوگ ایک پہلو پر زور دیتے ہیں اور دوسرے کو ترک کر دیتے ہیں.حالانکہ ایک پہلو پر زور دینے سے کبھی عمارت مکمل نہیں ہوسکتی.عمارت اسی وقت مکمل ہو گی جب اس کے ضروری سے تیار ہو جائیں گے یعنی یہ تو ہو سکتا ہے کہ پلستر نہ ہو پھول پتوں اور قلعی کے بغیر تو ایک حد تک مکان مکمل ہو سکتا ہے.مگر اس صورت میں مکان کبھی مکمل نہیں ہو سکتا کہ چھت نہ ہو یا کوئی دیوار نہ ہو.یا پانی اور ہوا اور روشنی کا رستہ نہ ہو اسی طرح ایمان اور اسلام کی تکمیل کے لیے اعتقاد اور عمل کے تمام ضروری سے مکمل ہونے چاہئیں.پس جہاں خود عمل کرو.دوسروں سے عمل کراؤ لیکن اس کے یعنی نہیں کہ تم دوسروں کے عیب تلاش کرو.جب تم دیکھو کہ کوئی شخص شعار اسلام ترک کر رہا ہے.تو اس کو پابند بناؤ یہ مطلب نہیں کر تم چوری چوری لوگوں کے پیچھے لگے پھرو.اور ان کے عیب ڈھونڈو بلکہ یہ ہے کہ وہ غلطیاں جو ظاہر و علی الاعلان ہوتی ہیں ان کی نگہداشت کرو.اگر کوئی پوشیدہ عیب کرتا ہے تو اس کی تلاش ضروری نہیں.مگر جہاں اعلان اور اظہار کے ساتھ کوئی غلطی ہو.اس کی اصلاح ضروری ہے.جو لوگ نماز پڑھتے ہیں.وہ اگر دیکھیں کہ کوئی شخص باجماعت نماز نہیں پڑھتا.تو اس کو سمجھائیں اور اس کو آمادہ کریں کہ باجماعت نما نہ پڑھے اگر کسی شخص نے اس باجماعت نماز نہ پڑھنے والے کو کچھ نہ کہا.تو اگر چہ وہ آج ایک ہی ہے لیکن آئندہ بہت سے باجماعت نمازہ پڑھنا ترک کر دینگے.کیونکہ خربوزہ کودیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے.یا ایک شخص موٹا تازہ ہٹا کٹا ہے اور بازار میں کھاتا پھرتا ہے روزہ بلا عذر نہیں رکھتا.اگر اس کو نہ روکا جاتے تو اور لوگ بھی سست ہو جائیں گے اور روزہ چھوڑ بیٹھیں گے.انسان کی عادت ہے کہ جدھر لوگوں کو چلتے دیکھتا ہے ادھر ہی چلنے لگتا ہے.فطرت شناسوں نے انسان کی اس عادت پر غور کیا اور اس کا ایک اصطلاحی نام رکھ دیا ہے.چنانچہ انگریزی میں اس کو ( Herdinstinct) کہتے ہیں.چونکہ یہ علوم انگریزی میں ہیں.اس لیے انگریزی میں
اس کی اصطلا میں ہیں.اس کا صحیح ترجمہ بھیڑ چال ہے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ ہماری زبان والوں نے بھی اس بات پر غور کیا تھا.مگر جہاں اور علوم کم ہوئے یہ بھی گم ہو گیا.اور اب یہ لفظ کچھ زیادہ اچھے معنوں میں نہ رہا.تو بھیڑ چال کا اثر ہوتا ہے.جب مجالس وغیرہ میں دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص تارک شعائر ہے.تو دوسرے بھی ترک کر دیتے ہیں پس ضروری ہے کہ شعائر اسلام کے جو لوگ تارک ہوں.ان کی نگہداشت کی جائے.اور ان کو پابند بنایا جائے.میرے نزدیک ایک فاسق فاجر سے اتنا نقصان نہیں پہنچ سکتا.جتنا اس شخص سے پہنچتا ہے جو نماز کا تارک ہے.کیونکہ وہ ہزار فاسق جو گناہ کرتا ہے.وہ چھپ کر اور پوشیدہ کرتا ہے.اور یہ ایسا گناہ کرتا ہے.جو ظاہر ہے.اس لیے وہ ہزار ہو کر ایک ہے.اور یہ ایک ہو کر ہزار کے برابر ہے.کیونکہ اس کا فعل پبلک کے سامنے ہے.اور اس ہزار کا پوشیدہ ہے فسق و فجور اپنی ذات میں خواہ کتنا ہی خطرناک گناہ ہو.مگر اس کا اثربنی نوع پرانا ہیں پڑتا.جتنا ایک ایسے شخص کا جو ظاہر میں نماز کا تارک ہو یا روزہ نہ رکھا ہو.تو ایمان کی تکمیل کے لیے اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ انسان خود بھی احکام شریعت پرعمل کرنے اور دوسروں سے بھی کراتے مگر افسوس ہے کہ ادھر بہت کم توجہ کی جاتی ہے.غور کا مقام ہے کہ بڑھاپا ایک دن میں نہیں آیا کرتا.کوئی شخص نہیں جانتا کہ آج میں اتنا بوڑھا ہو گیا اور کل اتنا تھا.بلکہ ایک خاص وقت پر کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص بوڑھا ہوگیا.حالانکہ دیر سے بوڑھا ہو رہا تھا.اسی طرح کوئی شخص ایک دن میں عالم نہیں ہوجاتا.بلکہ آہستہ آہستہ علم میں ترقی کرتا ہے اور جس قدر ایک ایک منٹ میں ترقی ہوتی ہے.اس کو کوئی شخص نہیں جانا نہ بتا سکتا ہے.مگر ایک وقت آتا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص عالم ہے پس ترقیاں اور تنزل ایک ہی وقت میں نہیں آیا کرتے.بلکہ آہستہ آہستہ آتے ہیں اور ان کے مجموعہ کا نام ترقی یا تنزل رکھا جاتا ہے.اسی طرح قوموں کا عروج یا بر بادی ہوتی ہے.ایک دم میں آسمان زمین نہیں بدل جایا کرتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ایک سو میں سے ایک سو ہی مسلمان نماز پڑھنے والے تھے مگر بعض لوگ سمعت تھے اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسے دی شخص نے فرمایا تھا کہ جو لوگ نماز میں شامل نہیں ہوتے.میرا دل چاہتا ہے کہ لکڑیاں لے جاؤں اور ان کے گھر کو آگ لگا دوں کہ وہ اندر ہی مل کر مر جاتیں ہی سننے والوں میں سے بعض نے اس کی قدر کی.اور بعض نے نہ کی.نتیجہ یہ ہوا کہ مست لوگوں کی اور تعداد له بخاری و مسلم بروايت مشكورة كتاب الصلواة في المساجد
۵۱۱ بڑھی.پہلے مثلاً ہزار میں سے ایک سست تھا.تو پھر چار پانچ ہو گئے.پھر بیس تیس سال میں سو میں سے ایک نماز کا تارک ہو گیا چونکہ کثرت نمازیوں کی تھی.اس لیے ایسے لوگوں کو ہمیشہ حقارت سے دیکھا گیا اور کہا گیا کہ یہ کیا کریں گے مگر اس کا وہی اثر پڑا جو اس کے مقابلہ میں غار حرا سے نکلنے والے کی اکیلی آواز نے نمازی بنانے کے لیے ڈالا تھا جس طرح غار حرا سے نکلنے والا در اصل ایک نہ تھا.بلکہ اس کے ساتھ ملائکہ کی نورانی افواج تھیں.اسی طرح اس کے مقابلہ میں جو تھا وہ بھی اکیلا نہ تھا.بلکہ اس کے ساتھ بھی شیطانی اور ابلیسی ذریت تھی.اور ظلماتی فوجیں اس کے ساتھ تھیں.چنانچہ آج اس ظلماتی آواز کا یہ اثر پڑار کہ مسلمان ۹۹۹ ایسے ہیں جو نماز سے بے پروا ہیں.چونکہ اس وقت تعاون علی الجور پر عمل نہ کیا جس شخص نے سُستی کی.اس کی سستی دور کرنے کی کوشش نہ کی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج بے نمازیوں کی کثرت ہوگئی.اسی طرح بد دیانتی پیدا ہوئی.یاد رکھو بد دیانتی پیدا ہونے کا پہلا قدم اپنے حقوق کی نگرانی ہوتی ہے.دیانت اور امانت کے لیے حقوق کی نگرانی کی بجائے قربانی کرنی پڑتی ہے.کیونکہ حقوق کی حدود تعریف وسیع ہے اور چونکہ ہر ایک کا کام نہیں ہے کہ اپنے حقوق کو صحیح طور پر سمجھ سکے.اس لیے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے کرتے ایسی باتوں کا بھی مطالبہ کرنا شروع کر دیتے ہیں جن کا انھیں حق نہیں ہوتا.تو اس طرح بد دیانتی کی طرف چلے جاتے ہیں.پس وہ باتیں جو خلاف اسلام ہیں.اگر ان کا علی الاعلان ارتکاب ہوتا دیکھو تو منع کرو اور تمہارے لیے ضروری ہے کہ ایسے موقع پر تعاون علی البر سے کام لو جین قوموں نے اس کو چھوڑا.وہ تباہ ہو گئیں.میں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اگر کسی کو نماز میں شست دیکھیں تو اس کو چیست بنائیں.اور اگر کسی میں اور کوئی ایسی غلطی جو ظاہر میں نظر آتی ہو.دیکھیں تو اس کو رفع کرنے کی کوشش کریں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگوں کے عیب تلاش کرنے کے پیچھے لگ جائیں پس دوسروں کی اصلاح کا خیال رکھنا ایک نہایت ضروری امر ہے.تم اس کو خوب اچھی طرح یاد رکھو.ورنہ تم سے بھی وہ چیز جو ہمیں لی ہے چین جائیگی.جبکہ سیلوں سے جو تم سے زیادہ قوت ور اور طاقتور ہاتھ رکھتے تھے.اسی وجہ سے چھن گئی.جس طرح ایمان سیلوں سے گم ہوکر ثریا پر چلاگیا تھا.اب بھی جاسکتا ہے.اور روشنی کی بجائے اندھیرا آسکتا ہے.وہ لوگ جو پہلے تھے.انھوں نے ایک ہزار سال تک اسلام کی شان دیکھائی وہ ہزار سال تک اسلام کو سنبھالے بیٹھے رہے، مگر ابھی تم پرتو چاہئیں سال ہی گذرے ہیں تمہیں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کسی نے کہا ہے.
۵۱۲ پُھول تو اپنی بہار دلفزا دکھلا گئے حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے پہلوں پر افسوس کیا جاتا ہے کہ انھوں نے ہاتھ ڈھیلے کر دیتے اور اسلام اُن سے چھین گیا اگر میں کہتا ہوں کہ وہ تو ہزار سال تک اسلام کو لیے رہے ہیں ہمیں تو ابھی پچاس سال بھی نہیں ہوتے.پس ہمیں ہوشیار رہنا چاہیتے اور سیلوں کی جن کمزوریوں کا ہمیں علم ہے وہ تو اپنے اندر نہ پیدا ہونے دینی چاہئیں.حالانکہ داتا وہ ہوتا ہے جو ان سوراخوں کو بھی بند کرنے کی کوشش کرتا ہے جن سے اُسے نقصان نہیں پہنچا ہوتا.پس ضروری ہے کہ اپنی فکر کے ساتھ ہمسایہ کی بھی فکر کرو اور شہر کی فکر کرو.ملک کی فکر کرو اور ساری دنیا کی فکر کرو.اگر کوئی نماز میں شکست ہے تو اس کو چست کرور زکوۃ نہیں دیتا تو اس کو دینے کے لیے کہو.حج ذی استطاعت ہو کر نہیں کرتا.تو اس کو حج کرنے کے لیے تحریک تحرو کسی میں اخلاق کی کمزوری ہے.وہ دُور کرد کسی میں غیبت کا مرض ہے.اس کو دور کرو.کوئی دینی احکام کی نافرمانی اور ہنسی کرتا ہے.اس کو روکو.ان سب باتوں کی نگرانی ضروری ہے.میں دیکھتا ہوں کہ وہ ایمان اور اخلاص جو حضرت صاحب پیدا کرنا چاہتے تھے وہ ہمارے نوجوانوں میں نہیں.اکثر نوجوانوں سے اگر کسی کام کے لیے کہا جائے تو کہا جاتا ہے.پیر لاؤ مگر اکثر بوڑھوں میں یہ بات نہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ معمر لوگوں نے اپنے آپ کو نو جوانوں سے علیحدہ کر لیا اور انہیں ان کی غلطیوں سے آگاہ نہ کیا.یہ ان سے غلطی ہوئی.چاہتے یہ کہ وہ لوگ جو قربانی اور ایثار کی روح اپنے اندر رکھتے ہیں.شریعت کے احکام پر پوری پابندی کے ساتھ چلتے ہیں.وہ نوجوانوں سے میں اور ان کو اپنے ساتھ ملنے کی تحریک کریں.تاکہ ان نوجوانوں میں بھی وہ روح پیدا ہو جس کی ہمیں ضرورت ہے.ورنہ اگر وہ اسی طرح علیحدہ رہے تو اندیشہ ہے کہ ان کے بعد ان کی اولاد میں خدا کی محبت نہ رہے گی.یہ بھی ایک بہت افسوسناک بات ہو گی مگر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ اولاد سے زیادہ خدا کی محبت کرنے والے دنیا میں نہ رہیں گئے.ہماری خوشی تو اس میں ہونی چاہیئے کہ خدا سے محبت کرنے والے دنیا میں بڑھیں.اور اس کے دین اور شعائر کے پابند زیادہ ہوں جس طرح خدا غیر فانی ہے.اس کے ساتھ محبت کرنے والے بھی غیر فانی ہونے چاہئیں.پس اپنے آپ پر خدا کی محبت کو ختم نہ کرو کہ تمہارے آنکھیں بند کرتے ہی تمہارے گھر میں خدا کا نام لینے والا کوئی نہ رہے بلکہ یہ ہوکہ جب ہم مریں تو ہماری اولادیں اس بات کو قائم رکھیں.پھر ان کی اولادیں پھران کی اولادیں.پھر
۵۱۳ ان کی اولادیں.جہاں تک کہ یہ سلسلہ چل سکتا ہو.پس یہ ضروری ہے کہ نیکی کے کام خود کئے جائیں اور دوسروں سے کرائے جائیں.بہت بڑا فرض ہے.اور جماعت کو اس طرف متوجہ ہونا ضروری ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے.آمین : الفضل ۱۴ اکتوبر اته (
۵۱۴ 96 آپس میں ضلح رکھو اور صلح کراؤ فرموده ۱۵ر اکتوبر شانه 0 تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :- دینی اور دنیاوی دونوں قسم کے کاموں کو چلانے کے لیے امن کی نہایت ہی ضرورت ہوتی ہے بغیر اس کے دونوں قسم کے کام نہیں میں سکتے.پھر امن ملکی ہی نہیں ہوتا.بلکہ تمدنی امن کے بغیر بھی کسی کام کا سرانجام پانا مشکل ہے یہ ضروری نہیں کہ ملک آپس میں نہ لڑیں.بلکہ کاموں کے امن کے ساتھ چلانے کے لیے ضروری ہے کہ افراد میں بھی لڑائی نہ ہو.خاندانوں میں لڑائی نہ ہو.اہل محلہ آپس میں نہ لڑیں ملکوں کی لڑائی کا اثر ملکوں پر پڑتا ہے اور حکومتوں کی لڑائی کا اثر حکومتوں پر ہاں ملکوں اور حکومتوں کی جنگ کا اثر بعض دفعہ ساری دنیا پر بھی ہوتا ہے اور اس لڑائی کو زیادہ خراب اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کا اثر وسیع ہوتا ہے ریہ لڑائی کے لحاظ سے افراد کی لڑائی بھی اس کے برابر ہے.مثلاً فرانس اور جرمن کی جنگ کا نتیجہ خونریزی ہوتی مال لوٹا گیا عورتیں بیوہ اور بچے قیم ہوئے.کھانے پینے کی چیزیں کم دستیاب ہونے لگیں.علوم کا پینے کی نقصان ہوا، لیکن اگر دو آدمی آپس میں لڑیں تو تیجہ وہی ہو گا کسی کی جان جاتے گی.کسی کی بیوی بیوہ اور بچے تیم ہونگے کیسی کا مال کوٹا جائے گا کسی کی عزت کو نقصان پہنچے گا.دشمنی کے باعث کسی کی اولاد علوم سے محروم رہے گی.غرض جو نتیجہ جرمن اور فرانس یا انگریزوں اور روس کی لڑائی کا ہوتا ہے.وہی نتیجہ دو آدمیوں کے آپس میں لڑنے کا نکے گا.فرق یہ ہے کہ پہلی قسم کی لڑائیوں کا اثر ہزاروں لاکھوں انسانوں پر ہوتا ہے اور دوسری قسم کی لڑائی کا اثر محدود ہوتا ہے.ورنہ اثر ان دونوں پر بھی وہی ہوتا ہے جو ان لاکھوں یا کروڑوں پر.بلکہ اگر غور کیا جاوے.تو معلوم ہوگا کہ بعض اوقات افراد کی جنگ ملکوں کی جنگ کی نسبت زیادہ خطرناک ہوتی ہے.یہ لڑائی جو یورپ میں ہوئی.اس کے باعث ہزاروں آدمی ہیں جنہوں نے فائدہ اُٹھا یا مثلاً جن کے پاس غلہ تھا.انھوں نے نفع اٹھایا.روٹی والوں نے نفع اٹھایا.اسی طرح اور اشیاء میں ہوا، لیکن افراد کی جنگ میں دونوں جانب کا نقصان ہوتا ہے.
۵۱۵ پھر بعض دفعہ زمیندار مقدموں میں بہت سا روپیہ لگاتے ہیں.اور نقصان اُٹھاتے ہیں بعض دفعہ لوگ شوقیہ بھی مقدمہ بازی کرتے ہیں حضرت خلیفہ اول نے سنایا کہ ایک دفعہ ایک زمیندار کو آٹھ سوروپیہ بیچ گیا.اس نے دوستوں سے مشورہ لیا کہ کیا کرنا چاہیئے.انھوں نے مشورہ دیا کہ تم اس سے اور زمین خریدیو اس نے کہا کہ اس دفعہ تو مقدمہ کرنے کو دل چاہتا ہے.بتاؤ گاؤں میں کون ایسا ہے جس پر مقدمہ کریں.تو بعض دفعہ لوگ شوق سے مقدمہ کرتے ہیں.اور بعض دفعہ مجبوریاں ہوتی ہیں.اور اس وقت ایک چیز کے بچانے کے لیے بہت سی چیزوں کا نقصان کرنا پڑتا ہے.تو فساد مکوں ہی کا نہیں.افراد کا بھی بڑا ہوتا ہے لیکن بہت لوگ ہوتے ہیں.جو فسادات پیدا کرتے ہیں.حالانکہ فساد ایسی بری چیز ہوتی ہے کہ اس سے انسان دین ودنیا دونوں میں ترقی نہیں کر سکتا.لوگ فساد کے باعث علوم سے محروم ہو جاتے ہیں.کیونکہ بچے بوجہ مخالفت کے گھر سے نہیں نکل سکتے خیال ہوتا ہے کہ اگر گھر سے نکلیں تو دشمن کہیں ان کی جان نہ لے لے.دین سے بھی محروم ہو جاتے ہیں مثلا نماز پڑھنا چھوڑ دیگے کیوں ؟ اس لیے کہ فلاں امام سے پرخاش ہے.یا امام سے تو نہیں.مگر امام ان کے دشمن کا دوست ہے یا انکا من بھی مسجد میں آتا ہے.اس طرح اپنی فیمنیوں کا اثر دین پر ڈال دیتے ہیں.اور انسانوں سے ناراض ہو کر خدا سے ناراض ہو جاتے ہیں.پھر فساد کا ایک اور نتیجہ ہوا کرتا ہے کہ وہ کام جو ملکر ہوا کرتے ہیں.مثلاً انجمنیں وغیرہ وہ باطل ہو جاتی ہیں.بلکہ یہاں تک ہوتا ہے کہ دشمن کو نقصان پہنچانے کے لیے بعض لوگ اپنا ہی نقصان کر لیا کرتے ہیں مثلاً اپنے بچہ کو قتل کرتے ہیں.اور لاش کو دشمن کے گھروں میں ڈال دیتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ اس شخص نے ہمارے بچہ کو قتل کر دیا.اور اسی طرح بعض لوگ صداقت کو دشمنی کے باعث نہیں قبول کرتے حضرت صاحب کے وقت میں ایک معزز سرکاری افسر نے حضرت صاحب کو کہلا بھیجا کہ اگر آپ فلاں شخص کو جماعت سے نکال دیں.تومیں آپ کی بیعت کر لوں.اس کے جواب میں ہمیشہ حضرت صاحب یہ فرمایا کرتے تھے کہ میں اس کی خاطر جو صداقت کے حلقے میں نہیں آیا کیسے اس شخص کو صداقت کے حلقے سے نکال سکتا ہوں میں کو خدا اس حلقے میں لے آیا ہے اور واقعہ میں جو شخص صداقت سے اب تک الگ ہے.اس کی خاطر کیسے اس شخص کو الگ کیا جاسکتا ہے جس کو خدا اس کی کسی نیکی کے باعث حق کی طرف سے آیا ہے.یہ کچا عذر ہوتا ہے کہ فلاں کو نکال دو تو ہم مانیں گے کیا اگر یہ سلسلہ سچا ہے تو اس شخص کے اس میں ہونے سے یہ جھوٹا ہو جائے گا.اگر یہ سچا ہے.تب تو ہر حال سچا ہے اور اگر سچا نہیں تو ہر حال سچا نہیں.پس چونکہ ملکوں کی لڑائی کی طرح ہی افراد کی لڑائی بھی مضر ہوتی ہے.اس لیے شریعت اسلام نے
۵۱۶ ایمان کی کمیل کے لیے ضروری قرار دیا ہے کہ انسان خود بھی لڑائی سے بچے.اور دوسروں کو بھی لڑائی سے بچائے خود لڑنے والا ایک حد تک معذور کہا جاسکتا ہے.مثلا کسی نے اس کو گالی دی.اس کو غصہ آیا لیکن جو شخص گلی میں سے گزرتا ہوا اس لڑائی کو دیکھتا ہے اور کہتا ہے اور لگا دو چار اس خبیث کو یہ ہے ہی انبیاء وہ زیادہ مجرم ہے حالانکہ یہ موقع تھا کہ وہ خیال کرتا کہ مجھے اس موقع سے ثواب لینا چاہیئے.اور اس لڑائی کو بند کرا دینا چاہیئے، لیکن جو بند کرانے کی بجائے لڑائی کو اور بھڑکاتے ہیں اور فریقین میں سے جس کی طرف ہونے میں اپنا فائدہ دیکھتے ہیں.اُدھر ہو جاتے ہیں.اور دوسرے کو گالیاں دینے یا اس کو اور مارنے کی تحریک کرتے ہیں.یا کہتے ہیں اے اج دی گل اے؟ اے تاں پچھوں بھی تینوں گالیاں دیندا ہے ؟ اور خود تماشہ دیکھتے ہیں.وہ سخت گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں اور ان کا فعل امن کو درہم برہم کر نیوالا ہوتا ہے.بعض لوگ ایک اور طریق اختیار کرتے ہیں.مثلاً دو شخصوں میں لڑاتی ہے.ایک سے بات سنکر دوسرے کے پاس جا لگاتے ہیں اور دو چار اپنی طرف سے اس پر حاشیہ بھی چڑھا دیتے ہیں.غرض کئی طریق سے لوگ ختنہ کراتے ہیں، لیکن اسلام فتنوں کی ہرگز اجازت نہیں دیتا.بلکہ قرآن مومنوں کو بھائی بھائی بتاتا ہے جس طرح بھائیوں کی حالت ہوتی ہے.اسی طرح مسلمانوں کی ہونی چاہیئے.اگر کہیں لڑائی کے سامان ہوں.تو ان کو دور کرا دینا چاہیئے.تمہارے ہاتھوں میں مٹی کے تیل کے برتنوں کی بجائے پانی کے برتن ہونے چاہتیں.جن سے آگ بجھے.آگ سے کھیلنے والے نادان ہوتے ہیں.اس سے بچنے میں لامتی اور کھیلنے میں جان کا خطرہ ہے.شیر کے پنجرے کو اس لیے کھولنا کہ وہ سامنے کھڑے ہوتے دشمن کو کھا ئیگا، نادانی ہے.کیونکہ اس کو تو کھا ہی لیگا.مگر کھولنے والا شیر سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے.یاد رکھو.دو کی لڑائی دو کی نہیں ہوتی بلکہ اپنے تعلقات کے لحاظ سے بہت سے لوگوں کی لڑائی ہوتی ہے.مثلاً دو شخصوں میں لڑاتی ہے.دونوں کے جسقدر رشتہ دار اور رشتہ داروں کے رشتہ دار ہونگے جو سینکڑوں تک پہنچ سکتے ہیں.ان سب میں لڑائی ہو گی اور اس طرح افراد کی لڑائی خاندانوں محلوں شہروں اور ملکوں تک پہنچ جائیگی.تو چھوٹے فساد بڑے تاریخ پیدا کرتے ہیں.(1182 اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے فساد اور فتنوں سے منع کیا ہے اور قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ مومنوں کو چاہیے کہ انہیں بنا بنا کر فساد اور فتنوں کو دور کریں فرمایا.لَا خَيرَ فِي خَشِير من بخواهم إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَو مَعْرُون NG TOLOGN LANنَ النَّاسِ ( النساء (١١٥) رسوائے اس قسم کی انجمنوں گے اور کوئی انجمن ٹھیک نہیں کہ مشورے ہوں.نیکی کے کاموں کے لیے.یا غرباء میں صدقہ بانٹنے کے لیے غرباء کی مدد کے لیے.یا لوگوں کی اصلاح اور ان میں آپس میں
۵۱۷ صلح کرانے کے لیے ایسے شورے کرنا مفید ہے.پس یہ ایک ایسی ضروری بات ہے کہ اس کے لیے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرمایا ہے.اس لیے میں خاص طور جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے ایمان کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ ہم جانتک ہو سکے.لڑائی سے بچیں نہ صرف خود بھیں بلکہ دوسروں کو بچائیں اور لڑائی کا موجب نہ نہیں.رسول کریم صلی الہ علیہ ولم فرماتے ہیں کہ ایک شخص تیر پھینکتا ہے اور وہ تیر رستہ میں ہی گر جاتا ہے، لیکن دوسرا شخص اٹھا کر اس شخص کے سینہ میں چھو دیتا ہے جس کی طرف تیر مارا گیا تھا.ایک شخص گالی دیتا ہے.اور وہ اس تک نہیں پہنچتی.جس کو دی گئی تھی.مگر ایک دوسرا شخص اس کو اس تک پہنچا دیتا ہے اور فساد کا موجب بنتا ہے.پس یاد رکھو کہ اگر تم فساد کے موقع پر کبھی گئے ہو.تو یہ مت سمجھوکہ تم اتفاقا پہنچے ہو.بلکہ قدرت نے تم کو اس لیے پہنچایا ہے کہ تمہارا امتحان لیا جائے.اور یا تم عذاب اور غضب الٹی میں پھنسو یاتم خدا کی رحمت کے انعام پاؤ.اگر تم ضاد کے بھڑ کانے کا موجب بنتے ہو.تو تم عذاب اور غضب الہی کے مستحق بنو گے.اور اگر اس فساد کو رفع کراتے ہو.تو تم اللہ تعالیٰ کے انعام کے مستحق بنتے ہو اور یاد رکھو.خدا کے فضل اور انعام سے کوئی مستغنی نہیں ہوسکتا.حضرت موسی کہتے ہیں کہ خدایا ہر ایک خیر جو تیری طرف سے ہو.میں اس کا محتاج ہوں.پس تم موسیٰ تو نہیں ہو.اس لیے بہت زیادہ محتاج ہو.موسیٰ تو موسیٰ خدا کے فضل کے محتاج آنحضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں.پس ہمیشہ فتنہ کے موقع پر ایسی بات کرو جس سے فتنہ دُور ہو.فتنہ کی آگ مت بھڑ کا وہ فتنہ بھڑکانا ہونا ایک گناہ بے لذت ہے.چور اور ڈاکو اپنی شرارت سے مال پاتے ہیں.مگرفتنہ انگیزی کا کچھ بھی فائدہ نہیں.فتنہ انگیز کے لیے لعنت کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا.ایسے موقع پر جو جذبہ پیدا ہو.اس کو جانتا چاہتے کیونکہ فساد کا اثر دور تک پہنچتا ہے.سول کریم صلی اللہ علی ولم نے سانس سال کی محنت کے بعد عرب میں اسلام پھیلا یا اور عرب کے جنگجوؤں میں صلح کرائی مگر فساد ڈلوانے والے فساد ڈلوانے کی تاک میں رہتے تھے.ایک جنگ کے موقع پر مسلمانوں کا شکر ایک مقام پر اترا.ہر ایک شخص کی کوشش تھی کہ وہ پانی پہلے پتے.اس پر دو شخصوں میں کچھ بات بڑھ گئی عبداللہ بن ابی ابن سلول منافقین کے سردار کو پتہ لگا.دوڑتا ہوا آیا.اور کہا کہ یہ مکہ سے بھٹو کے مرنے آتے تھے.ہم نے جگہ دی.آج ہمیں کو آنکھیں دکھاتے ہیں.اچھا مدینہ چل کر زیادہ عزت والا ذلیل کو نکال دیا.زیادہ عزت والا خود بنا.اور ذلیل نعوذ بالشد آنحضرت صلی الہ علیہ سلم کو بنایا کسی شخص نے آنحضرتیے کو اس فساد کی اطلاع دی.آپ کے پاس عبد اللہ کا بیٹا
ain جو مومن تھا، گیا اور کہاکہ میرے باپ کی بڑی غلطی ہے.اور اس کو شاید آپ قتل کی سزا دیں جو ٹھیک ہے اس لیے میں عرض کرتا ہوں کہ آپ مجھ کو حکم دیں کہ میں اس کو قتل کروں کیونکہ اگر آپ نے کسی اور شخص کو حکم دیا اور اس نے قتل کیا.تو مجھ کوممکن ہے کسی وقت ضعف ایمانی سے ابتلا.آئے اور میں اس کو باپ کا قاتل سمجھ کر اس کے خلاف ہاتھ اُٹھا بیٹھوں یہ تو دیکھو وہ کیسے لوگ تھے اور فتنہ سے بچنے کے لیے کتنی احتیاط سے کام لیتے تھے.یہی وجہ تھی کہ جو کام ان کے سپرد کیا گیا تھا.وہ انھوں نے بہت جلد سرانجام دیا.ہماری جماعت کے ذمہ بھی ایک کام ہے اس لیے اسے بھی ہر قسیم کے فتنہ سے ڈرنا چاہیئے.میں نصیحت کرتا ہوں کہ فتنہ کو مٹانے والے نور فتنہ بھڑ کانے والے نہ بنو.تم پانی کا کام کر در تیل کا کام نہ کرو تاکہ آپس میں محبت و پیار بڑھے اور تم ثواب کے مستحق بنو.یہاں انعام کام پر ملتا ہے.اگر تمہارے کام کا نتیجہ اچھا ہوا تو انعام کے وارث ہو جاؤ گے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کے سمجھنے کی توفیق دے.آمین.الفضل ۲۱ اکتوبر ۲ ( جامع ترمدى البواب التفسير تفسير سورة المنافقون d
97 ایمان و اسلام کی حقیقت ابتلاء کیا ھے د فرموده ۲۲ اکتوبر شانه ) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- " میں اس جمعہ اس مضمون کے متعلق نافہ کرتا ہوں جو میں مسلسل بیان کر رہا ہوں کیونکہ اور نہایت ضروری مضمون پیش آگیا ہے جس کی طرف جماعت کی توجہ پھیر تا ہوں.بیمضمون تو اس قابل ہے کہ اس کو وسعت سے بیان کیا جائے.مگر دیر ہو جانے اور حلق میں تکلیف ہونے کے باعث زیادہ نہ بول سکوں گا.مگر میں امید رکھتا ہوں کہ جس قدر بھی اس وقت بیان ہوگا.آپ لوگ اس کو سمجھنے الوں کو کام کرتا ہوں اور یہ اس وقت بیان ہو لوگ اس اور اس پرعمل کرنے کی کوشش کرینگے.میں دیکھتا ہوں کہ بالعموم لوگ الفاظ پر کفایت کرلیتے ہیں اور معنے جو لفظوں کے نیچے ہوتے ہیں ان میں جانے کی کم کوشش کرتے ہیں.بیسیوں لفظ ہیں جو لوگ سنتے ہیں.بولتے ہیں لکھتے ہیں، مگر ان کی حقیقت کی طرف کم توجہ کرتے ہیں.بلکہ جتنا کسی لفظ کو زیادہ بولتے ہیں.اتنا ہی اس کی حقیقت پر کم توجہ کرتے ہیں اور اس سے کم واقف ہوتے ہیں.انہی الفاظ میں سے ایمان اور اسلام" کے الفاظ بھی ہیں.جن کے معنوں سے کم لوگ واف ہیں.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بچپن سے سنتے سنتے اس قدر یہ الفاظ عام ہو گئے کہ ان کے معنوں کی طرف کبھی توجہ پیدا ہی نہیں ہوتی جس طرح ایک شخص ایسے جنگل سے آتے.جہاں اس نے کبھی اسلام و ایمان کے الفاظ نہ کئے ہوں.وہ جب سُنے گا.تو اس کے لیے یہ لفظ ایسے لیے اثر نہ ہونگے جیسے اس شخص کے لیے ہیں جو بچپن سے ان کو سنتا رہا ہے.جنگل سے آنے والے شخص کی عجیب کیفیت ہوگی اگر ہم اس کو کہیں گے کہ تم ایمان لے آؤ اور مسلمان ہو جاؤ.تو وہ ہم سے پوچھے گا کہ ایمان کیا ہے.
اسلام سے کیا مطلب ہے ہم کیوں ایسا لائیں.اسلام کیوں قبول کریں جب اس کی حقیقت اس پر گل جائیگی تب وہ اس کو قبول کرلے گا.یا رد کر دیگا، لیکن جو بچہ مسلمان کے گھر پیدا ہوا.اور ہمیشہ سنتا رہا کہ ہم مسلمان ہیں.اس کو کبھی ضرورت ہی معلوم نہیں ہوتی کرمسلمان ہونا ہے کیا چیز.لیکن ایمان اپنے اندر ایک بڑی حقیقت رکھتا ہے.اور وہ حقیقت نہیں نگل سکتی جب تک ایک شخص اس کے اندر داخل نہ ہو ، ایمان یہ ہے کہ انسان کے اندر وہ صداقت جو خدا کی طرف سے ہو.بیٹھ جاتے اور وہ اس کے اندر سے کبھی نکل نہ سکے.لیکن صدر سے اور ہٹ سے نہیں، بلکہ یقین کے ساتھ اس میں سے نہ نکل سکے.بہت لوگ ہوتے ہیں.جو ضد کی وجہ سے کوئی بات مانتے ہیں.مثلاً کوئی بچہ چوری کرتا ہے یا جھوٹ بولتا ہے یا گالی دیتا ہے.ماں باپ مارتے ہیں اور کہتے ہیں پھر تو نہیں ایسا کریگا.وہ کہتا ہے کروں گا.پھر مارتے ہیں اور پوچھتے ہیں.اب تو نہیں گالی دیگا.وہ کہتا ہے دوں گا.تو یہ ضد ہے.جو مار سے بڑھتی چلی جاتی ہے.اس کا یہ اصرار یقین کی بناء پر نہیں ہوتا، لیکن ایمان کے معنے یہ ہیں کہ صداقت کو یقین کی بناء پر انسان نہ چھوڑے اور وہ جس بات پر اپنے ایمان کی رو سے قائم ہے.اس کے اپنے پاس دلائل بھی ہوں اور ان دلائل کی وجہ سے ترک نہ کرے.سول کریم صل اللہ علیہ سلم فرماتے ہیںجس شخص کے دل میں بشاشت ایمان داخل ہو جاتے.اس کو اگر آاگ میں بھی ڈالدیا جائے تو وہ مرتد نہیں ہو سکتا ہے غور کرو کہ جب بشاشت ایمان کا یہ حال ہے تو اعلیٰ ایمان کا کیا حال ہوگا.بشاشت ایمان کا یہ مطلب ہے کہ ایمان سے لگا ؤ اور مناسبت پیدا ہو جاتے.جو لوگ ایمان کے اعلیٰ ترین مقام پر ہوتے ہیں.وہ بھی یہ نہیں کہیں گے کہ ہم اس لیے آزمائش اور ابتلا میں ڈالے گئے ہیں تاکہ ہمارے ایمان کا پتہ لگایا جائے.وہ تو اس قدر بلند درجہ پر ہوتے ہیں کہ انکی اس طرح آزمائیش ہو ہی نہیں سکتی.ہاں جو لوگ بشاشت ایمان جو ایمان کا ادنیٰ درجہ ہے رکھتے ہیں.ان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ اگر ان کو زندہ آگ میں ڈالا جائے.تو وہ ایمان سے برگشتہ نہیں ہوسکتے.جب ادنی ایمان کا تجربہ آگ میں ڈالنے سے ہوگا تو اعلیٰ ایمان کا درجہ توبہت بلند ہوتا ہے.مومن پر جو ابتلا ، آتے ہیں ان کی عرض یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو پتہ لگے کہ وہ ایمان میں کیسا مضبوط ہے.خدا کی طرف سے جو ابتلاء آتے ہیں.وہ دو قسم کے ہوتے ہیں.اول یہ کہ خود اس شخص کو بتایا کے بخاری کتاب الایمان باب علاوة الایمان نت
۵۲۱ جاتے کہ وہ کیسے درجہ ایمانی پر پہنچا ہوا ہے.دوسرا یہ کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ دیکھیو ہمارا مومن کیسا مضبوط ایمان والا ہے تو چھوٹے درجہ کے ایمان والوں کو جو اتبلا.آتے ہیں.وہ آگ میں ڈالنا تک ہوتے ہیں اور اس وقت بھی وہ حقیقت سے منہ پھیر نہیں سکتے.اور دوسرے درجہ میں خود اس شخص کو یقین ہوتا ہے اور اسکے ایمان کا ذرہ خطرہ نہیں ہوتا ، لیکن دوسروں کو یقین دلانا ہوتا ہے کہ بشخص ایمان کے اس درجہ میں ہے کہ تمہارا تکلیفیں دینا اس شخص کو ڈنگن گا نہیں سکتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بذکر اور اُحد وغیرہ مقامات پر جو تکلیف پہنچی تھیں.وہ اس لیے نہ تھیں کہ منافقین اور کفار پر انحضرت کے ایمان کی پختگی ظاہر کی جاتی یا خود آنحضرت کو آپ کے ایمان کا پتہ بتایا جاتا.کیونکہ آپ کے ایمان کا پتہ تو غار حرا میں ہی لگ گیا تھا، بلکہ ان کی غرض یہ تھی کو دشمنوں کو آگاہ کر دیا جاتا کہ محمد صلی الہ علیہ وسلم ہمارا ایسا مقبول اور پیارا بندہ ہے کہ تمہارا اس کو تکالیف دینا اور تمارا اس کو شانا کچھ حقیقت نہیں رکھتا.تمہاری ہر قسم کی شرارتوں اور مظالم کے مقابلہ میں یہ بڑھے گا.اور تم اس کے مقابلہ میں ناکام رہو گے.گویا اس طرح تین طرح کے ابتدا ہوتے ہیں (1) کسی شخص کو خود اس کی ایمانی حالت سے آگاہ کرنے کے لیے (۲) دوسروں کو کسی کی ایمانی حالت کی عمدگی بتانے کے لیے (۳) تیری قسم کے ابتلاء جو انبیاء اور ماموروں اور ان کے نائبوں کے لیے ہوتے ہیں.ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ تا لوگوں پر ظاہر ہو جاتے کہ وہ خدا کے مقبولوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے.خدا کے پیارے ہر میدان میں بڑھیں گے.اور تمام مخالفتوں کے باوجود کامیاب ہو تجھے.پس یہ تین قسم کے ابتلا م ہوتے ہیں اور چھوٹا اور بہت ہی کم درجہ ایمان کا جو بشاشت ایمان کہلاتا ہے اس کا ثبوت یہ ہوتا ہے کہ آگ میں پڑ کر بھی ایمان سے علیحدگی نہ کی جاتے ، لیکن اب یہ حالت ہے کہ بعض لوگوں کو اگر محلہ والے ذرا ستائیں.تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ابتلا بہ میں پڑگئے.حالانکہ اس و ابتلا و قرار دینا درست ہی نہیں.لوگوں کو غلطی لگی ہوتی ہے کہ شالا قرآن میں آتا ہے کہ ہم نے دونوں کو آزمایا.وہ کہتے ہیں جب خدا اس قسم کی تکالیف کو ابتلا ہ قرار دیتا ہے، تو ہم کیوں نہ کہیں لیکن یہ اس ہ.ایسی ہی بات ہے کہ کوئی شخص کسے کہ فلاں شخص کا مجھ پر احسان ہے اور میں شخص کے متعلق کہا گیا ہے وہ بھی.ہی کہے کہ میرا فلاں : فلاں پر احسان ہے تو یہ اس کی بے شرمی ہوگی پس خدا تو کہ سکتا ہے کہ ہم نے ابتلا.میں ڈالا.مگر بندہ کا یہ حق نہیں کہ ان تکالیف کو اقتدار کے نام سے موسوم کرے.دوسرا تعریف کرسکتا ہے.اپنی تعریف آپ کرنا کبھی جائزہ نہیں ہو سکتا.یا اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص کسی کے متعلق کہے که زید صاحب تشریف لاتے ہیں اور زید بھی کہے کہ میں تشریف لایا ہوں.تو یہ درست نہیں ہو سکتا.یہ لایا کہ
۵۲۲ جو لوگ ایسا کہتے ہیں.وہ شاہی کلام کے آداب کو نظر انداز کردیتے ہیں اللہ تعالیٰ کہ سکتا ہے مگر ہم نہیں کر سکتے.تم کبھی نبیوں کی زبان سے نہیں سنو گے کہ وہ کہیں گے کہ ہمارا امتحان لیا گیا.عربی زبان میں ابتلاء کے دو معنی ہوتے ہیں.پہنچنا یا ہو جانا.مثلاً ایک عرب کو اگر بخار ہو جائے تو وہ بخار کے لفظ کے ساتھ ابتلاء کا لفظ استعمال کرے گا.یعنی اس کو بخار ہو گیا.وہاں ابتلاء کے معنے آزمائش کے نہیں ہونگے.(۲) فضل اور انعام اور امتحان کے معنے ہوتے ہیں یہ تعریف کا کلمہ ہو گا جو انسان اپنے لیے خود استعمال نہیں کر سکتا.دوسروں کی طرف سے ہو سکتا ہے.تو بہت لوگ ہیں جو چھوٹی چھوٹی باتوں کو ابتلاء کہ دیتے ہیں.مثلاً کوئی کہیں ملازم ہو.اس کے افسر ناراض ہو جائیں.یا کوئی احمدی ہو اور اس کا بیٹا بیمار ہو جائے تو وہ کہ دیا کہ بڑا اعتبار آیا تھا مگرمی قائم رہا.یا محلہ والے مخالفت پر آمادہ ہیں اور نقصان پہنچانا چاہتے ہیں.جائیداد خطرے میں ہے.یہ استلامہ ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ایمان کے ادنیٰ درجہ کے مقابلہ میں بھی ان تکالیف کی کوئی وقعت نہیں ہوتی.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے ایک مولوی کا قصہ سنایا کہ اس نے ایک عورت کا نکاح پر نکاح پڑھا دیا تھا.جب اس کو حضرت مولوی صاحب نے کہا کہ مولوی صاحب آپ نے یہ کیا گیا.تو اس نے جواب دیا کہ مولوی صاحب مجھ پر بہت ظلم ہوا ہے اگر یں نکاح نہ پڑھا تا تو کیا کرتا.مولوی صاحب کو خیال آیا کہ واقعی زمیندار لوگوں نے سختی کی ہوگی مجبوراً نکاح پڑھانا پڑا ہوگا.آپ نے پوچھا ، ہاں مولوی صاحب بتاؤ تو سہی ہوا گیا.اس نے کہا کہ " چڑے جڑا روپیہ میرے ہتھ تے رکھ دیتا.نہ نکاح پڑھدا تاں کی کردا " یعنی چڑے کے برابر رو پیہ میرے ہاتھ پر رکھ دیا.اگر نکاح نہ پڑھتا تو کیا کرتا.تم میں سے بہت سے اس مولوی پر ہنستے ہیں لیکن تم میں بھی ہیں جوایسی باتوں پر ابتلا.پکار اٹھتے ہیں اور ایسے خدا کے بندے ہیں.جو تمہاری ان باتوں پر ہنستے ہیں.بعض لوگ ہیں جو ذرا محکمہ والے جن کے ہاں ملازم ہوں ، ناراض ہوں تو کہتے ہیں.ہم ابتلاء میں پڑ گئے.محلہ داروں نے ذرا تکلیف دی تو ابتلاء ابتلاء پکار اٹھتے ہیں.شہر والوں نے سختی کی.تو ابتلا پکارتے ہیں.بیٹا یا کوئی اور بیمار ہوا.تو اتلامہ کا نام لیتے ہیں.حالانکہ خدا کے فضل کے مقابلہ میں جو وہ دمبدم تم پر کر رہا ہے یہ معمولی تکالیف کہاں ابتلا ہو سکتی ہیں.اور مومن کب ان کو خاطر میں لاسکتا ہے.جب کہ آگ میں پڑنا بھی اس کو اس کی جگہ سے حرکت
۵۲۳ نہیں دے سکتا کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ خدا میرے ساتھ ہے.لوگوں کا مومن کو تکلیف دنیا تو ایسا ہی ہے جیسا کر کوئی پیٹھ کے پیچھے کی کئے مگرہ مارے، لوگوں کا شور بجاتے اس کی حالت کو قابل رقم بنانے کے خود شور کرنے والوں کی حالت کو قابل رحم بناتا ہے کیونکہ جو شخص قطب صاحب کی لاٹھ پر بٹھا ہے یا قلعہ میں بیٹھا ہے.اس پر کسی کا تھوک پھینکنا یا کنکر مارنا کچھ بھی موثر نہیں ہو سکتا.ہاں تھوک پھینکنے اور کنکر مارنے والے کی حالت البتہ قابلِ رحم ہے.پس جو شخص خدا کی گود میں ہو.جیسا کہ مومن ہوتا ہے.اس کے لیے یہ عمولی تکالیف کہاں ابتلاء ہو سکتی ہیں.تم دیکھو کہ کبھی قطب صاحب کی لاٹھے پر بیٹھنے والا اور قلعہ نشین کسی کے تھوک پھینکنے یا گرو ڈالنے کو اپنے لیے ابتلاء نہیں کہے گا.تو جو شخص خدا کی گود میں ہو وہ کب کہ سکتا ہے کہ میں ابتلاء میں ہوں یا تو اس کو اقرار کرنا چاہیئے کہ وہ خدا سے لیے تعلق ہے اور اس کی گود میں نہیں.یا اس قسم کی باتوں کو ابتلا نہیں کہنا چاہیئے.پس جو شخص خدا کو ماننے کا دعوی کرتا ہے.اور کسی بڑے سے بڑے حادثہ پر بھی کہتا ہے کہ میں ابتلاء میں ہوں.تو اس نے در اصل خدا کو نہیں مانا.اس نے اسلام اور احمدیت کو نہیں سمجھا اُس کا دھوئی درست نہیں کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور مرزا صاحب کو سچا مانتا ہے معمولی معمولی تکلیفوں اور دشمنوں کی شرارتوں کی فکر اس کو تب ہو سکتی ہے.جبکہ اس میں ایمان کی کی ہو یا خدا کو مانتا تو ہو مگر یہ خیال ہوکہ و بیمار اور کمزور ہے میری مددنہیں کر سکتا.ورنہ جوخدا پر پورا پورا یقین رکھتا ہے.اس کی قدرت اور طاقت کا قاتل ہے.وہ بھی ایسانہیں کر سکتا.پس یقین کامل ہونا چاہیئے کہ ایمان کیا ہے اور الیسا ایمان ہونا چاہیئے کہ کوئی بڑی سے بڑی مصیبت ابتلا نہ کہلاتے.کیونکہ اگر کوئی کسی تکلیف کو ابتلا سمجھتا ہے تو وہ ایمان کے اعلیٰ درجہ پر نہیں پہنچا.پہلی منازل ہی طے کر رہا ہے.ہاں خدا سے دُعا ہونی چاہیئے کہ وہ ہمیں ڈگمگانے سے بچائے.بندے سے سوال نہیں ہونا چاہیئے کہ وہ بچائے.انسان یہ کسے خدا یا تیری مدد کا محتاج ہوں تیرے استغناء سے ڈرتا ہوں.اس لیے تجھی سے کہتا ہوں کہ میری مددکر.بی نکتہ ہے جو سورۃ فاتحہ میں بیان کیا گیا ہے وہاں مومن دعا کرتا ہے.ایاک نعبد.خدایا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ریاک نستعین کبھی سے مدد مانگتے ہیں.خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے والے کو اپنی طرح کے عاید تو نظر آتے ہیں.مگر وہ جن سے خدا کے سوا مدد مانگے.کوئی نہیں نظر آتا.اس لیے مدد کے لیے مومن کی نظر میں خدا کے غیر کچھ ہے ہی نہیں.صرف خدا ہی خُدا ہے جس سے مانگتا ہے پھر اھدنا الصراط میں کہتا ہے کہ میں میں رستہ پر ہوں اس پر سب چلنے والے ہی نظر
آتے ہیں.کوئی مدد دینے والا نہیں.آپ ہی اس رستہ میں مدد فرماتے چلنے والے سب بندے ہیں.اور جو غیر ہیں وہ مغضوب اور ضالین ہیں.گویا مردے ہیں.ان پر کیسے نظر پڑ سکتی ہے یا ان سے کوئی کیا ڈر سکتا ہے.پس دُنیا تمام رعبوں اور قوتوں اور خوبصورتیوں کے ساتھ مومن سے دور ہو جاتی ہے خُدا ہی خدا اس کے سامنے ہوتا ہے اس لیے وہ بھی ڈرپوک اور بزدل نہیں ہوتا.کوئی بڑی سے بڑی تکلیف اس کو خدا کے فضل سے متزلزل نہیں کر سکتی.مومن اپنے آپ کو خدا کے ہاتھ میں دیدیتا ہے کہ وہ جس طرح چاہے کرے.اللہ تعالی توفیق دے کہ آپ لوگ سمجھیں اور مصائب و تکالیف و آلام آپ کے لیے تزلزل کا باش نہ ہوں بلکہ آپ کا ایمان استقدر بلند درجہ پر ہو کہ دنیا کے تمام کا فر آپ کے سامنے مردہ ہوں.ان کی پہنچائی ہوئی تکالیف کچھ نہ کر سکیں.تمہاری نظر خدا پر ہو.اور اس کے غیر تمہاری نظر میں ایک پیشہ کے برابر حقیر بلکہ اس سے بھی زیادہ حقیر ہوں.الفضل ۲۰ راکتو بر شانه ،
۵۲۵ 98 غیبت کی تعریف اور اس سے بچنے کی تاکید فرموده ۱۲۹ اکتوبرشته حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- "میں نے جیسا کہ چند مجھے گزرے ہیں.بیان کیا تھا.تکمیل ایمان کے لیے جن امور کی ضرورت ہے ان کے متعلق ٹکڑے ٹکڑے کر کے مختلف خطبات میں بیان کر دیگا.اور یہ بھی میں نے ذکر کیا تھا کہ میں زیادہ تران امور کے متعلق بیان کروں گا.جو آپس کے معاملات سے تعلق رکھتے ہیں.معاملات سے میری مراد خرید و فروخت اور لین دین نہیں.بلکہ ایک انسان کے دوسرے انسان کے ساتھ تعلقات ہیں.ان کے متعلق میں نے بتایا تھا کہ وہ دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں.ایک وہ باتیں ہیں جن کے کرنیکا شریعت نے حکم دیا ہے.اور دوسری وہ جن کے نہ کرنے کا حکم دیا ہے.یعنی بعض ایسی باتیں ہیں کہ جن کے نہ کرنے سے ایمان ناقص رہتا ہے.اور بعض ایسی ہیں جن کے کرنے سے ناقص رہتا ہے.ان دونوں قسم کی باتوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے.آج بھی میں اسی سلسلہ میں سے ایک کڑی کو لیکر اس کے متعلق بیان کرتا ہوں.یاد رکھنا چاہیئے کہ دنیا میں اعمال کے دوھتے ہوتے ہیں.ایک وہ اعمال حسنہ ہوتے ہیں کہ جن کے کرنے میں انسان کو لطف اور فائدہ عامل حاصل ہوتا ہے.اور ایک وہ جن کا نقد یہ نقد نفع اور فائدہ معلوم نہیں ہوتا.اور ان کو بظاہر چھٹی سمجھتے ہیں.سوائے ان لوگوں کے جو سمجھدار اور واقف ہوں.اسی طرح وہ اعمال جو نہ کرنے کے ہوتے ہیں.وہ بھی دو طرز کے ہوتے ہیں.ایک وہ جن کو نہ کرنا چاہیتے اور نہ انسان کو ان کے کرنے میں کوئی فائدہ نظر آتا ہے اور ایک وہ جن کو نہ کرنا چاہیئے لیکن ان میں یا تو انسانوں کو فائدہ نظر آتا ہے یا مزہ آتا ہے.جیس طرح کرنے والے اعمال میں سےوہ زیادہ گرا اور ابو جبل نظر آتے ہیں جن کو کرنا چاہتے گران میں لطف نہیں آتا.یا عاجل فائدہ نہیں ہوتا.اسی طرح نہ کریدنے والے اعمال میں سے ان نمامی
۵۲۶ مشکل ہوتا ہے جن کے کرنے میں لطف حاصل ہو.اور فائدہ نظر آتا ہو.بہ نسبت ان کے جن کے کرنے میں کوئی فائدہ اور لطف نہ آتا ہو.آج میں ان میں سے ایک ایسے امر کے متعلق بیان کروں گا.جس میں بظاہرنہ نفع ہوتا ہے اور نہ لطف لیکن عادتاً کہو یا بعض ایسے مخفی احساسات کی وجہ سے جن کو ابھی تک کم از کم میں محسوس نہیں کر سکا.انسان کو لطف معلوم ہوتا ہے.گو بظاہر لطف کی کوئی وجہ نہیں ہوتی.اور بہت کام ایسے ہیں جن میں مکلف کی بظاہر کوئی وجہ نہیں ہوتی مگر لوگوں کو مزا آتا ہے.یا کم از کم ایسے لوگوں کو مزا آتا ہے.جن کی روحانیت درست نہ ہو.مثلا اگر کوئی شخص راستہ چلتے چلتے گر جائے تو بہت اُسے دیکھ کر ہنس پڑینگے.اور ان کی منی ٹرک نہیں سکے گی حتی کہ اگر وہ کی اپنے کام مشغول ہوں جس میں ہنستا جائزہ نہ ہو.مثلا نماز پڑھ رہے ہوں تو اس وقت بھی انہیں منسی آجائے گی.اس کی وجہ کیا ہے.یہ ایک بہت باریک اور مخفی مسئلہ ہے اور جب تک انسانی خیال کا لمبا مطالعہ نہ کیا جائے.اس کی وجہ معلوم کرنا شکل ہے اور پھروہ و جوبھی ایسی باریک ہوگی کہ اس کے متعلق یقینی فیلہ نہیں کیا جاسکتا کہ درست ہو گی.اسی طرح لوگ پاگل اور مجنون پر بنتے ہیں.حالانکہ وہ قابل رحم ہوتا ہے نہ ہ ہنسی کے قابل، لیکن اس کی حرکات کو دیکھ کر اور باتوں کوشنکر اچھے اچھے سنجیدہ لوگ ہنسنے لگ جاتے ہیں.ان کو کیوں نہی آتی ہے ؟ اس کی کوئی معقول وجہ نہیں ہوتی.پاگل کی دیوانگی کی حرکات کو دنا.بھاگنا.ٹنگا ہونا.بکواس کرنا کیا نطف رکھتی ہیں.اور ان سے لوگوں کو کیا مزا آتا ہے.اس کی کوئی وجہ وہ بیان نہیں کر سکتے.یا عام طور پر ہر انسان بیان نہیں کر سکتا.سوائے اس کے جس نے انسانی خیالات کا ایک نیا تبتع کیا ہو.لیکن وہ بھی یقین سے نہیں کہ سکتا کہ یہ وجہ سمیع ہے.ابھی یہ تحقیقاتیں بچپن کی حالت میں ہیں.اور ان کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا.مگر اس میں شک نہیں.لوگوں کو مزا آتا ہے.پاگلوں کی حرکات پر اور گرنے والوں پر.اسی طرح اور کئی باتیں ہیں جن میں لوگوں کو مزا آتا ہے.حالانکہ مزے کی کوئی وجہ نہیں ہوتی.وہ بات جو میں اس وقت بیان کرنے لگا ہوں.وہ بھی ایسی ہی ہے.اس میں بھی لوگ مزا پاتے ہیں.مگر اس کی انہیں کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی.وہ کیا ہے وہ غیبت ہے.اس کے متعلق ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی لطف کی وجہ نہیں ہوتی مگر ایک شخص دوسرے شخص کے عیب بیان کرتا ہے اور دیکھنے والا دیکھتا ہے کہ سننے والے کو بڑا مزا آرہا ہے.اسی طرح بیان کرنے والے کو بھی اور جوں جوں زیادہ تشریح کرتا جاتا ہے.ان کے چہروں سے
۵۲۷ - خوشی کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں بعض دفعہ جسکے عیب بیان کئے جارہے ہوں.وہ انکا دوست ہوتا ہے بعض دفع محسن ہوتا ہے اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اسکے عیوب کے اظہار پر انکو نقصان بھی پہنچتا ہے مگر باوجود اس کے ان کو مزا آتا ہے.کیوں ؟ دنیا میں قلیل ہی ایسے اشخاص ہونگے جو اس کی وجہ بیان کر سکیں.اور جومز اٹھانے والے ہیں.وہ تو قریباً تمام کے تمام ایسے ہونگے کہ کوئی وجہ بیان نہیں کر سکیں گے مگر باوجود اس کے گھنٹہ گھنٹہ ایک شخص غیبت کرتا جائیگا.اور اس کے چہرہ سے ایسے آثار ظاہر ہونگے کہ گویا اسے کوئی عظیم الشان کامیابی حاصل ہو رہی ہے.اور سننے والے بھی اتنے مشغول ہوتے ہیں کہ اگر کوئی ضروری کام کے لیے بھی بلاتے تو ناراض ہوتے ہیں.اور کہتے ہیں.ٹھہرو بھی آتے ہیں کام کر رہے ہیں.اور ان کے بشروں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں کوئی ایسی خوشی کی بات معلوم ہوتی ہے جیسے کسی کے ہاں بیٹا پیدا ہو.یا کوئی جائیداد مل جائے یا حکومت اور عزت حاصل ہو.گو یا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دنیاوی انعام کی بڑی سے چیز ان کو مل گئی ہے.جس پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں کبھی ہاتھ مارینگے کبھی سراہا تینگے کبھی مسکرائیں گے کبھی نہیں گے اور ایسے لطف کا اظہار کرینگے کہ ابھی زیست کا مدار و ہی بات ہے، لیکن اگر پوچھو کہ کیوں مزا آرہا ہے.اس کی کیا وجہ ہے.تو قطعاً نہیں تا سکیں گے.نہ بیان کرنے والا اور نہ سننے والے.گر کہیں چلے جاؤ کسی ملک میں جاؤ کسی علاقہ میں جاؤ کسی قوم میں جاؤ.ہر جگہ اور ہر قوم کے لوگوں میں یہ بات پاؤ گے.سب سے زیادہ حقیقت پر روشنی ڈالنے والا مذہب اسلام ہے.اس کی طرف منسوب ہونے والے لوگوں میں بھی ایسے نظر آئیں گے.جو ایک دوسرے کی غیبت کر رہے ہونگے.ایک بہت قدیم تہذیب کے مالک ہندو ہیں.جن کے اس دعوی کو ہم قبول کریں یا نہ کریں کہ ان کی تہذیب دنیا کے ابتداء سے چلی آتی ہے.مگر اتنا تو اننا پڑیگا کہ ان کی روایات نہایت قدیم ہیں.اور ان کے تمدنی قواعد بہت بے عرصہ سے چلے آتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ وہ ان کے نیچے ایسے دبے ہوتے ہیں کہ گویا ان کی فطرت میں داخل ہو گئے ہیں.اس قوم میں بھی یہ بات پاؤ گے کہ غیبت کرنے والے کو بھی مزا آتا ہو گا اور سننے والے کو بھی.اران لوگوں میں پہلے جاؤ جو کہتے ہیں کہ ہم نے علم اخلاق کے ابواب کو کھول کھول کر پڑھ لیاہے اور جو کتے ہیں کہ ہم اخلاق کے اس اعلیٰ درجہ پرپہنچ چکے ہیں کہ ہمارا حق ہے تمام دنیا پر حکومت کریں اور لوگوں کو تہذیب - تمدن اور اخلاق سکھائیں.ان میں تبھی کہی بات نظر آئیگی.اور عام لوگوں میں ہی نہیں.بلکہ ان کے اعلیٰ طبقہ کے لوگوں.فلاسفروں.سیاست دانوں محققوں میں بھی پائی جاتے گی.
AVA تو سب لوگوں کو اس میں تکلف آتا دیکھیں گے.مگر کیوں ؟ اس پر وہ بھی خاموش رہ جائیں گے.پس تمام دنیا پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی وجہ ہو یا نہ ہو.لوگ عادت یا اسی باریک جو ہات کی بناء پر جن کا بیان کرنا ایک زائد تفصیل ہو جائے گی.اور جن کے بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہیں.مزا اُٹھاتے ہیں.مگر باوجود اس کے لطف کے اور اس کے عام اور وسیع الاثر ہونے کے شریعت اسلام نے اور قریباً باقی تمام مذاہب نے اس سے منع کیا ہے.اگر ذرا غور سے دیکھا جائے.تو معلوم ہو جاتا ہے کہ وقتی مزے کے سوا جو غیبت کرنے کے وقت حاصل ہوتا ہے بعد میں اس کے بڑے بڑے خطرناک نتائج نکلتے ہیں.بڑی بڑی قومیں تباہ برباد ہو جاتی ہیں.لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں.دوستیاں اور رفاقتیں ٹوٹ جاتی ہیں محسنوں اور ہمدردوں سے تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں.رشتہ داریاں خراب ہو جاتی ہیں.گورنمنٹ اور رعایا میں فساد پیدا ہو جاتے ہیں.غرض بہت خطرناک نتائج نکلتے اور لوگ بہت دکھ اُٹھاتے ہیں مگر پھر بھی کرتے ہیں.غیبت کرنے میں انہیں مزا تو خیر آتا ہی ہے.مگر اس کی بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ خیال کرتے ہیں.زبان سے بات کہنے کا کیا ہے.چنانچہ ایسے لوگوں سے جب پوچھیں کہ تم نے فلاں کے متعلق ہیں کہا ہے تو کہتے ہیں.ہم نے تو کچھ نہیں کہا.بات تھی.جو کہدی.تو وہ سمجھتے ہیں.زبان کچھ کرتی ہی نہیں.جو چاہیں کہدیں.اس کا کچھ نتیجہ نہیں ہو گا.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.زبان ان چیزوں میں سے ہے.جو انسان کو دوزخ میں گرانے میں بہت دخل رکھتی ہیں.چنانچہ ایک دفعہ آپ نے اس کو حفاظت میں رکھنے پر زور دیا.ایک صحابی نے کہا زبان کا کیا ہے.فرمایا.زبان کی باتوں کا جہنم کو پیر کرنے میں بہت بڑا حصہ ہے لیے تو عام طور پر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ زبان کی بات کا کیا ہے ہم نے تو بات کی تھی.کیا کچھ نہیں.حالانکہ کہا بھی ایک ایسی بات ہے جو ایمانیات میں داخل ہے چنانچہ ایان میں یہ بات شامل ہے کہ انسان دل سے مانے اور زبان سے کے.تو زبان کو ایمان کا جزو قرار دیا گیا ہے اگر ایک شخص خدا کو مانتا ہے.رسول کریم کو مانتا ہے مگر نہ سے نہ کھے تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے، ایسا تخفض کافر ہے ہیں جب بڑے بڑے خطرہ میں انسان زبان کی وجہ سے پڑسکتا ہے تو چھوٹے میں کیوں نہیں پڑ سکتا.لوگوں کو یہ بہت بڑی غلطی لگی ہے کہ وہ زبان کی حقیقت کو نہیں سمجھتے.حالانکہ اس کی بہت بڑی حقیقت ہے.اه بخاری بروایت مشکواۃ کتاب الادر به باب حفظ اللسان والغيبة والشتم
۵۲۹ اس تمہید کے بعد میں بتاتا ہوں کہ غیبت کیا ہے.اکثر اس کو سمجھتے نہیں اور کرتے ہیں بالعموم لوگ کہتے ہیں کہ پیٹھ پیچھے تبھوٹی بات بیان کرنا غیبت ہوتی ہے.مگر اصل میں غیبت اس کو نہیں تھے رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم نے اس کی یہ تعریف کی ہے کہ ایسی بات جو کسی بھائی کی پیٹھ پیچھے کہے.اور وہ اُسے بُری لگے.اور وہ بچی ہو.ہر ایک بات پیٹھ پیچھے کرنا غیبت نہیں.مثلاً اگر کوئی کسے فلاں آدمی بڑا نیک ہے تو یہ غیبت نہیں ہوگی.اور نہ ہی غیبت یہ ہے کہ کسی کے متعلق پیٹھ پیچھے جھوٹی بات کے.یہ تو افتراء ہے.ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا.کیا آسچی بات کسی بھی غیبت ہے.آپ نے فرمایا یہی تو غیبت ہے.اگر کوئی جھوٹ بولتا ہے تو وہ افتراء کرتا ہے یہ پس نغیبت کے مینی ہیں کر سی کے پیچھے وہ بات بیان کرنا کہ جسے اگر وہ سنے تو اُسے بُری لگے اور تم سمجھتے ہو کہ اس میں پائی جاتی ہے خواہ فی الواقع اس میں ہو یا نہ ہو.یہاں میں نے سمجھنے کی شرط اس لیے لگا دی ہے کہ اگر کوئی غیبت کرتا ہے تو اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ جو کچھ وہ کہتا ہے.وہ فی الواقعہ بیع بھی ہے.ہاں یہ ہوتا ہے کہ بیان کرنے والا اس کے متعلق الیسا سمجھتا ہے.میں سمجھتا ہوں.غیبت کی یہ تعریف معلوم کر کے بہت لوگ اس سے بچ سکتے ہیں کیونکہ اکثر اسی لیے اس کے مرتکب ہوتے ہیں کہ سمجھتے نہیں رغیبت کیا ہے اور اچھے اچھے پڑھے لکھے کہدیا کرتے ہیں کہ سچی بات کو بیان کرنا غیبت نہیں.حالانکہ رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جھوٹی بات غیبت نہیں.بلکہ بہتان اور افتراء ہے.تو ایک بات کو سچا سمجھ کر بیان کرنا غیبت ہے.پھر اکثر لوگ سمجھ کر غیبت کرتے ہیں کہ یہ اپنی ذات میں کوئی بری بات نہیں.حالانکہ غیبت کی برائی اول تو یہی ہے کہ اس کے ذریعہ جس پر کوئی الزام لگایا جاتا ہے.وہ دُور نہیں کر سکتا.مثلاً اگر کوئی ایک بھائی کے متعلق کے کہ نماز نہیں پڑھتا.یا چوری کرتا ہے.مگر اُسے پتہ بھی نہ ہو تو اس سے زیادہ اور کیا ظلم ہوگا.دیکھو خطرناک سے خطرناک مجرموں کو بھی عدالتیں اپنی بریت کا موقع دیتی ہیں.پھر کسقدر ظلم ہے کہ ایک بھائی پر الزام لگا کر اس کو بریت کا موقع نہ دیا جائے.قرآن کریم نے اس کو الیسا بتایا ہے جیسے مردہ بھائی کا گوشت کھانا چنانچہ فرماتا ہے.ایحِبُّ اَحَدُكُمُ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْنا - الحجرات : ۱۳) کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے جس طرح اگر کوئی ے مسلم بروایت مشکواۃ کتاب الادب باب حفظ اللسان
۵۳۰ الشدة مرد شخص کا گوشت کھاتے.تو مردہ مقابلہ نہیں کر سکتا.اسی طرح جس کی غیبت کی جائے وہ بھی تردید نہیں کر سکتا.پھر غیبت کرنا ہی برا نہیں بلکہ غیبت سننا بھی بڑا ہے.کیونکہ جو غیبت سنتے ہیں.وہ غیبت کراتے میں پیس اول تو چونکہ یہ خود عیب ہے.اس لیے میں طرح کسی کو غیبت کرنے میں گناہ ہے.اسی طرح غیبت سننے میں بھی گناہ ہے لیکن جو سنتا ہے وہ چونکہ بیان کرنے والے کو تحریک کرتا اور جرات دلاتا ہے.اس لیے بھی گنہگار ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیبت سننے سے بھی منع فرمایا ہے اور ساتھ ہی یہ فرمایا ہے کہ اگر کوئی کسی بھائی کا عیب بیان کرتا ہے اور سننے والا اس کو یہ ذکرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی قیامت کو اس کے گناہوں کو رد کر لگا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف غیبت سنے کو گناہ بتایا ہے بلکہ اس کے رد کرنے کو نیکی ٹھرایا ہے پس مومن کو چاہیے کہ اگر کوئی اس کے سامنے کسی بھائی کی غیبت کرے تو وہ اس کا رد کرے یعنی جو بات بیان کی جائے.اس کے رد کرنے کی اس کے پاس وجوہات ہوں.تو ان کو پیش کرے اور اگر اسے رد کرنے کے کوئی بات معلوم نہ ہو.اور سمجھ میں نہ آئے تو غیبت کرنے والے کو روکے.اور اگر وہ نہ رکے.تو اس کے پاس اُٹھ کر چلا آئے.یہ تین باتیں مومن کا فرض ہیں.اول یہ کہ اگر کوئی اس کے سامنے کسی بھائی کا عیب بیان کرے تو اُسے کے جو نتیجہ تم نکالتے ہویہ صحیح نہیں.اصل بات یہ ہے.دوم اسے سمجھاتے کہ ایسا نہ کرو اور رسوم یہ کہ اگر وہ نہ مانے تو وہاں سے اُٹھ کر چلا جائے.یہ تو غیبت کے متعلق احکام ہیں.مگر یاد رکھنا چاہتے کہ ہر موقع پر کسی کا عیب بیان کرنا برا نہیں ہوتا.بلکہ بعض جگہ ضروری ہوتا ہے.اس وقت اس کو غیبت نہیں کہا جائیگا.غیبت ایک اصطلاح ہے.اور یہ اسی وقت استعمال کی جائے گی جبکہ خواہ مخواہ کسی کے عیب بیان کئے جائیں، لیکن اگر کوئی شخص کسی کا عیب بیان کرنے پر مجبور ہے یا اور وں کو اس کے بیان کرنے سے فائدہ پہنچتا ہے.تو اس کا بیان کرنا نیکی اور ثواب کا کام ہوگا.مثلاً ایک ایسا شخص ہے.جو جماعت یا قوم کے خلاف کوئی سازش کرتا ہے یا بُری باتیں پھیلاتا ہے تو اس کے متعلق اطلاع دینا اور اس کی شرارتوں سے ذمہ وار لوگوں کو آگاہ کرناضروری ہے.اسی طرح کسی کو پتہ لگے کہ زید بکر کو قتل کرنا چاہتا ہے اگر وہ بکر کو نہیں بتاتا یا گورنمنٹ کو اس کی طلاع نہیں دیتا.تو گناہ کرتا ہے.یہ غیبت نہیں ہوگی اور اسکا بیان کرنا ضروری ہوگا.تو کسی بات کے بیان کرنے اور بتانے میں یہ دیکھنا چاہیئے کہ اس کے بیان کرنے میں نفع ہے یا نقصان.اگر اس سے کوئی اچھا نتیجہ نکلتا ہو.کسی برائی کا سدباب ہوتا ہو کسی کو فائدہ پہنچتا ہو تو اس کانہ بیان کرنا گناہ ہو گا جس طرح غیبت کرنا
۵۳۱ ہے.شده اگر کسی کو معلوم ہو کہ فلاش شخص مفید اور فائدہ رسال چیز کو بگاڑنے کی کوشش کر رہا ہے ، گورنٹ کے خلاف کوئی کارروائی کر رہا ہے یا جماعت کے خلاف کسی شرارت سے کام لے رہا ہے یا کسی خاندان کو تباہ کرنے میں لگا ہوا ہے یاکسی فرد واحد کو نقصان پہنچانے لگا ہے تو اس کا چھپانا گناہ ہو گا.اور اس کا ظاہر کرنا غیبت نہیں کہلاتے گا.بلکہ یہ جائز اور ضروری ہوگا.بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو جماعت کے خلاف سازش کرتے.بدگوئیاں کر کے جماع کیجے انتظام کو بگاڑتے ، خرابیاں بیان کر کے لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرتے ہیں.ان کی باتیں سننے والا اگر خاموش رہے اور یہ سمجھے کہ میں نے ثواب کا کام کیا ہے.تو یہ صحیح نہیں.ایسی باتوں کے متعلق خاموش رہنا ثواب نہیں.بلکہ گناہ ہوگا.کیونکہ جو شخص ایک جماعت کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے اُسے اگر قتل بھی کرنا پڑے تو ضروری ہے.اسی طرح وہ شخص جو جماعت کا قائم مقام ہو.اس کا قتل کرنا جماعت کا قتل کرنا ہوگا اور یاد رکھنا چاہیئے قتل کرنا تلوار سے ہی نہیں ہوتا.بلکہ اس کے درجہ اس کی حیثیت کو کم کرنا یا اس کے خلاف بڑائی اور بد دل پھیلانا بھی قتل کرنا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ ولم نے ایک ایسے شخص کو جس نے ایک دوسرے شخص کی اس کے منہ پر تعریف کی.فرمایا تو نے اس کو قتل کر دیا ہے تو قتل کئی طرح سے کیا جاتا ہے ہیں اگر کوئی ایسی بات کو چھپا تا ہے جو جماعت کے خلاف ہے جماعت کے قائم مقام کے خلاف ہے تو وہ گناہ کرتا ہے.کیونکہ جس طرح کسی کا عیب بلا وجہ بیان کرنا گناہ ہے اسی طرح اگر کوئی جرم کا ارتکاب کر رہا ہو.تو اس کا چھپا نا منع ہے ایسے فعل چار قسم کے ہوتے ہیں.(1) اگر کوئی حکومت یا امام کے خلاف شرارت کر رہا ہو.تو اس کا چھپانا منع ہے (۲) اگر کوئی ایسا فعل کر رہا ہو کہ اس کی ذات کو اس سے نقصان پہنچنے والا ہو مثلا کوئی شخص زہر کھانے لگا ہو.اس کو اگر کوئی شخص ایسا ہے جو روک سکتا ہے تو اُسے نہ بتانا گناہ ہے (۳) یہ کہ ایک ایسا عیب ہے جس کے بیان نہ کرنے سے اس کی ذات کو نقصان پہنچتا ہو.مثلا کسی نے اس کا مال دبا لیا ہو.اور وہ قاضی کے پاس عدالت میں جا کر اس بات کو بیان نہ کرے.تو اُسے مال کس طرح مل سکے گا.تو اسی باتوں کا بیان کرنا بھی جائز ہے.ہاں اگر بیان نہ کرے.تو گناہ نہیں ہے.یا مثلاً کسی نے اس کو مارا.اس کے ه بخاری و مسلم بروایت مشکوة کتاب الادب باب حفظ اللسان والغيبة والشتم
۵۳۲ لیے جائز ہے کہ عدالت میں جاتے اور اس واقعہ کو بیان کرے، لیکن اگر نہ جاتے اور نہ بیان کرے تو یہ اس کیلئے ناجائز نہیں ہوگا.پہلی دو باتیں جوئیں نے بیان کی ہیں.اُن کا نہ بیان کرنا گناہ کرنا ہے اور بیان کرنا ثواب کا کام ہے، لیکن یہ ایسی ہے کہ نہ بیان کرنا گناہ نہیں اور بیان کرنا جائز ہے.اس میں میں نے ایک شرط لگائی ہے.اس کو مد نظر رکھنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ اس عیب کو بیان کرنا چاہیے.جو اس کی ذات کے لیے فائدہ مند ہو یعنی جو عیب بیان کرے.اسی میں اس کا فائدہ ہو.مثلاً کسی نے مارا ہے اور اس بات کو بیان کر کے بدلہ لینے میں اس کا فائدہ ہے لیکن اگر کسی نے کر تھپڑ مارا ہو اور اس کا جھوٹ بیان کرتا پھرے تو یہ نا جائز ہوگا.اس کا مجسٹریٹ کے پاس جاکر کہناکہ فلاں نے مجھے تھپڑ مارا ہے یہ تو جائز ہے، لیکن اگر وہ جاکر یہ ہے کہ فلاں جھوٹ بولتا ہے یا اس کا کوئی اور عیب بیان کرے.تو یہ ناجائز ہے.(۴) یہ کہ ایسا عیب جس سے دوسروں کو نقصان پہنچتا ہو.اس کا بیان کرنا بھی ضروری ہوگا لیکن یہ یا د رکھنا چاہیے کہ جب اس کی اپنی ذات کے متعلق ہو.تو جائز ہوگا اور اسے بھی ہوگا کہ بیان کرے یانہ کرے کیونکہ اپنی ذات کے متعلق عفو اور درگزر کرنے کا وہ حق رکھتا ہے، لیکن دوسروں کے متعلق یہ حق نہیں رکھتا اس نیے دوسروں کو اگر نقصان پہنچتا ہو تو اس کا بیان کرنا اس کے لیے ضروری ہے.ان چار اصول کے ماتحت عیب بیان کرنا جائز ہوگا اسی کے تحت یہ بھی جائز ہوگا کہ شناسی نے مشورہ کرتا ہے.ایک جگہ شادی کرنا چاہتا ہے اور پوچھتا ہے کہ فلاں لڑکی ہی کوئی عیب ہو تو بتاؤ اس کے جواب میں اگر کوئی عیب بیان کرتا ہے تو یہ بھی جائزہ ہوگا.اسی طرح سب باتیں ان چار قسموں میں داخل ہیں.مذہب - سیاست حکومت کے خلاف کوئی بات ہو یا (۲) ایسی بات ہو کہ اس کی ذات کو اس سے نقصان پہنچتا ہو.جیسا کہ زہر کی مثال سے میں نے سمجھایا ہے.ایسا ہی اعتقادات میں خرابی ہو.اگر اس کے متعلق نہ بتایا جائیگا تو اسے نقصان پہنچے گا.غرض بیتنے عیوب بیان کرنے جائز ہیں وہ سب ان چاروں قسموں کے اندر آجائیں گے.لوگوں نے ان کی بہت سی قسمیں مقرر کی ہیں.مگر اصل میں یہ چار ہی ہیں.ان کے اندر سارے آجاتے ہیں.ان سب کی ایک قسم یہ ہے کہ وہ عیب بیان کرنے جائز ہیں.جن سے کسی نہ کسی کو نقصان پہنچتا ہو.یہ بڑی قسم ہے اس کے نیچے چاروں قسمیں آجائیں گی.پھر یاد رکھو وہی عیب بیان کرنا چاہیئے جو حقیقی طور پر ہو اور جس کا تدارک کیا جاسکتا ہو اگر ایسا نہیں تو پھر اس کا بیان کرنا جائز ہے.یا لبعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے بیان کرنے سے فائدہ ہوتا ہے
اور نہ بیان کرنے سے نقصان یا بعض ایسے کہ جن کے بیان کرنے سے فائدہ ہوتا ہے اور نہ بیان کرنے سے نقصان نہیں ہوتا.حاکموں اور ذمہ والد لوگوں کے پاس عیب بیان کرنے پر قرآن نے اور رسول کریم ملی الہ علیہ وسلم نے بہت زور دیا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی رکھا ہے کہ ایسے عیب کہ جن کے بیان کرنے سے کوئی فائدہ نہ ہو یا جن کی وجہ سے کوئی نقصان نہ ہوتا ہو.بلکہ ذاتی عیوب ہوں.ان کو بیان نہیں کرنا چاہیئے.ان کے بیان کرنے سے خاص طور پر روکا گیا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لوگوں کے جیب میرے سامنے اس رنگ میں بیان نہ کرو کہ میرے دل میں اُن سے نفرت پیدا ہو رہی اچھا ہے کہ میں جب گھر سے نکلوں تو سب کی محبت میرے دل میں ہو یہ تو حاکم یا قاضی یا خلیفہ یا امام کے پاس کسی کے ذاتی عیب اس لیے بیان کرنے کہ اس کے دل میں نفرت پیدا ہو- منع ہیں.صرف ایسے عیب بیان کرنے جائز ہونگے کہ جن کی اصلاح کی طرف توجہ دی جا سکے یا ایسے کہ اگر نہ بیان کئے جائیں تو دوسروں کو نقصان پہنچے، لیکن اگر یہ نہ ہو تو امام یا خلیفہ کے پاس ان کا بیان کرنا ناجائز ہوگا.غیبت کے یہ پہلو ہیں.ان کو مدنظر رکھنا ہر ایک مومن کے لیے ضروری ہے اور چونکہ یہ ایک عام عیب ہے.اس لیے جب تک اس کی طرف خاص توجہ نہ رکھی جائیگی.اس سے بچنا مشکل ہوگا.اس خاص کیونکہ جو باتیں انسان سے حاد تا سرزد ہو جاتی ہیں.اُن پر جب تک ایک لمبے عرصہ تک خیال نہ رکھ جائے.انسان بیچ نہیں سکتا.غیبت چونکہ عادت کے طور پر کی جاتی ہے.اس لیے اس کے متعلق بھی سوچنا چاہیئے.اور ایک لمبے عرصہ کے بعد انسان اس سے بیچ سکے گا.پس چونکہ ہر ایک عام مرض ہے.اس لیے اسے خاص طور پر مدنظر رکھو.یوں خواہ عہد کرلو کہ غیبت نہیں کرینگے، لیکن اس طرح نہیں بچ سکو گے اور ممکن ہے یہاں سے اُٹھتے ہی کوئی کرنے نہیں کر لیتے سکوگے اور کن سے کوئی لگ جائے.کیونکہ اسے اس بات کا احساس ہی نہیں ہو گا کہ میں غیبت کر رہا ہوں.بلکہ وہ عادتا کریگا پس اسی وقت یہ عہد بھی کر لو کہ اپنے نفس کا مطالعہ کرتے رہیں گے اور دیکھتے رہیں گے کہ غیبت سے اور آلودہ نہ ہوں.اس طرح اگر کرو گے تو چار پانچ چھے ماہ یا جتنی جتنی کسی کی استعداد ہوگی.اس کے مطابق وہ جلدی بیچ سکے گا اور پھر اس کی یہ حالت ہو جائیگی کہ پہلے میں طرح بغیر احساس کے غیبت کرتا تھا اسی طرح بغیر کوشش اور سعی کے غیبت سے بچتا رہے گا.خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کے سمجھنے کی توفیق دے.آمین الفضل نومبر ۹۲ ) شه ابو داؤد بروایت مشکوہ کتاب الادب باب حفظ اللسان والغيبة والشتم
۵۳۴ 99 تبلیغ احمدیت کی تلقین فرموده ۱۵ نومبر ۱۹۲۰ حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- آج مجھے پھر اس سلسلہ مضامین میں ضرورتاً وقفہ ڈالنا پڑا ہے.جو میں نے پچھلے چند ہفتوں سے شروع کیا ہوا ہے.آج میں ایک ایسے اہم فرض کی نسبت آپ لوگوں کو اور پھر اپنے اخباروں کے واعد بونی مانتو کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جی کی طرف توجہ کئے بغیر اور جس کے لیے کوشش کئے بغیر کس قسم کی کامیابی ور ترقی کی اُمید نہیں رکھی جاسکتی.اس میں کوئی شک نہیں کہ اس امرکے متعلق بارہ میں بھی توجہ دلاچکا ہوں.اور جو مجھ سے پہلے تھے وہ بھی توجہ دلا چکے ہیں.اور ہماری جماعت کے دوسرے عالم اور واقف لوگ بھی دلا چکے ہیں جیگر باوجود اتنی بار توجہ دلانے کے پھر بھی لوگوں کو ابھی تک پورے طور پر اس کی اہمیت اور ضرورت سے واقفیت نہیں ہوتی.اور بہت لوگوں کو دیکھا گیا ہے.جو توجہ ہی نہیں کرتے.وہ امر کیا ہے.وہ اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی اشاعت کا معاملہ ہے.اس کے متعلق بارہا ہم نے کیا ہے، لیکن باوجود بارہا کتنے کے اب بھی کہنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور ہمیشہ ہی یہ فرقہ محسوس ہوتی رہے گی.حتی کہ قیامت تک رہے گی، لیکن ایک لحاظ سے کسی امر کا دوبارہ بیان کرنا تکلیف دہ ہوتا ہے، کیونکہ بعض دفعہ کوئی فعل اس لیے دوبارہ کیا جاتا ہے کہ دوبارہ اس کی ضرورت پیش آتی ہے.مثلاً ہم صبح کو کھانا کھاتے ہیں اور پھر شام کو.اس لیے دوبارہ کھاتے ہیں کہ ہم انسان کی حیثیت سے محتاج ہیں کہ پھر کھائیں کیونکہ خدا نے ہیں ایسا پیدا کیا ہے کہ ہم جو غذا کھاتے ہیں اس کا کچھ حصہ تو جسم میں داخل ہو جاتا ہے اور کچھ حصہ فضلہ بن کر باہر نکل جاتا ہے.اس دوبارہ کھانے کا افسوس نہیں ہوتا.کیونکہ یہ سنت اللہ کے مطابق ہے.اور اس کے سوا
۵۳۵ چارہ نہیں ہے.اسی طرح ہم نماز پڑھتے ہیں.ایک دن ظہر کی نماز پڑھتے ہیں.پھر دوسرا دن آتا ہے.پھر پڑھتے ہیں.تیسرے دن پھر پڑھتے ہیں.عصر مغرب عشاء اور صبح کی نمازیں بھی روزانہ پڑھتے ہیں.ایسا ہی ہم قرآن پڑھتے ہیں.پھر پڑھتے ہیں.اور پھر پڑھتے ہیں اچھی اور عمدہ باتوں کو پڑھتے ہیں.پھر اور پھر اور پھر پڑھتے ہیں.اور کوئی کر نہیں سکتا کہ ان کا پڑھنا چھوڑ دینگے.اگر کوئی دوسرا چھوڑ دینے کے لیے کہے.تو ناراض ہوتے ہیں لیکن ہمیں ان سب باتوں کے دہرانے کا کوئی افسوس نہیں ہوتا.کیونکہ اس کی ہمیں ضرورت محسوس ہوتی ہے، لیکن ایک کھانا ایسا ہوتا ہے جس کے دوبارہ کھانے سے تکلیف ہوتی ہے.ایک نماز ایسی ہوتی ہے کہ اس کے دوبارہ پڑھنے سے رنج ہوتا ہے.تکلیف دہ کھانا ہوتا ہے کہ جب کہ بیماری کی وجہ سے پیٹ نہیں بھرتا اور بار بار کھانا کھانا پڑتا ہے.ایسا انسان اس لیے کھانا ہیں کھاتا کہ پلا کھایا ہوا ہضم ہوگیا.بلکہ اس لیے کہ بیماری کی وجہ سے اس کا پہلا کھانا نہ کھانے کے برابر ہو گیا ہے اور ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی ہیں میں آدمیوں کا کھانا کھا جاتا ہے اور کھاتے کھاتے کھانے کا دوسرا وقت آجاتا ہے.مگر اس کا پیٹ نہیں بھرتا.یہ ایک بیماری کی وجہ سے ہوتا ہے.وہ اسی طرح وہ نمازہ جو ہم دوسرے دن پڑھتے ہیں.اس کا افسوس نہیں ہوتا.کیونکہ پہلے دن کی نماز کا وقت گیا اور اس سے ہم نے فائدہ اُٹھا لیا.اب دوسرے دن کی نماز کا وقت آیا ہے.اس سے فائدہ اُٹھانا ہے.لیکن ایک ایسی نماز جو اس وجہ سے پڑھی جاتے کہ پہلی پڑھی ہوئی نماز ضائع گئی ہے.تو اس کا ر پر توجہ ہوگا کیونکہ ہم سجھتےہیں کہ گر سینما ٹھیک طور پر پڑھی جاتی تو اب جو وقت صرف ہوگا وہ کسی اور کام میں لگ جاتا.مثلاً اسی وقت میں اگر چار رکعت نفل پڑھے جاتے تو روحانیت میں اور زیادہ ترقی ہو جاتی.تبلیغ کے لیے میں ہمیشہ یاد دلاتا رہا ہوں اور کبھی کوئی ایسا زمانہ نہ آئیگا.کہ ہم زندہ ہوں اور ہماری اولادیں زندہ ہوں اور اس کے متعلق یاد نہ دلایا جائے.مگر وہ یاد دلانا ایسا ہی ہوگا.جیسا کہ ہم دوسرے وقت کھانا کھاتے ہیں.لیکن اب یاد دلانا تکلیف دہ ہے.کیونکہ معلوم ہوتا ہے.پہلا یاد دلانا ضائع کیا اور اس سے کوئی فائدہ نہ اُٹھایا گیا.اگر پہلی تقریروں کا اثر ہوتا.اور لوگ اس طرف متوجہ ہو جاتے.تو ایک دفعہ پڑھا ہوا سبق
۵۳۶ دوبارہ یاد کرانے اور دہرانے سے زیادہ اچھی طرح یاد ہو جاتا ہے.اسی طرح دوبارہ یاد دلانے سے ان کے قلب پر گرا نقش ہوتا، لیکن جب معلوم ہو کہ پہلے جو سبق دیا گیا ہے.اس کا یاد کرنا تو لگ رہا.اُسے گناہی نہیں.تو پھر دوسری بار سبق دیتے ہوئے بوجھ معلوم ہوتا ہے.پس گو یہ ایسا مسئلہ ہے کہ ہمیشہ دو ہرایا جائیگا.اور اس کا دہرانا ضروری ہے مگر اب افسوس ہوتا ہے کہ اب جو دوہرایا جاتا ہے.تو اس لیے نہیں کہ پہلا وقت گزر گیا ہے.بلکہ اس لیے کہ پہلا کہنا ضائع گیا.بہت لوگ تو ایسے ہیں جو سنتے ہی نہیں.بہت ہیں جو سنتے ہیں.مگر توجہ نہیں کرتے.اور بہت ہیں جو سنتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے اور بہت ہیں جو عمل کرتے ہیں.مگر ایسے طریق پرعمل کرتے ہیں کہ نتیجہ نہیں نکلتا.اور بہت ایسے ہیں جو سنتے ہیں عمل کرتے ہیں.ان کے عمل کے نتیجے بھی جھتے ہیں.مگر اس کا ان کو مزا نہیں پڑتا.اس لیے چھوڑ دیتے ہیں.عرض کئی قسم کے لوگ ہماری جماعت میںمیں بعض تو ایسے ہیں جو اس سال سے سنتے چلائے میں کہ ان کا مان لینا ہی فرض نہیں.بلکہ دوسروں کو منوانا بھی فرض ہے.دیگر کبھی ان کے دل میں تحریک نہیں ہوئی کہ دوسروں کو منوانے کی کوشش کریں.وہ سنتے ہیں.مگر توجہ نہیں کرتے.میرے چھوٹے بھائی میاں بشیر احمد نے سنایا کہ کالج میں ایک لڑکا پڑھا کرتا تھا.وہ سُنایا کرتا که میرا باپ بڑا نیک ہے کئی سال سے وہ احمدی ہے مگر اس نے مجھے کبھی نہیں کہا کہ تم بھی احمدی ہو جاؤ.تو بعض ایسے ہیں جو سالہا سال سے سنتے چلے آتے ہیں مگر ذرا ان کے کان پر جوں نہیں رینگتی.وہ خیال کرتے ہیں کہ ان باتوں کے مخاطب اور لوگ ہیں.ہم نہیں ہیں اور بعض ایسے ہیں جو اور سمجھ لیتے ہیں کہ دوسروں کو تبلیغ کرنا ضروری ہے، لیکن باوجود اس کے توجہ نہیں کرتے.پھر بعض ایسے ہیں.جو گنتے ہیں سمجھتے ہیں اور توجہ بھی کرتے ہیں مگر اس طرح ہا تھ پاؤں مارتے ہیں کہ جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا.ان کی مثال ایسی ہوتی ہے کہ ایک شخص مکان میں داخل ہونے کے لیے روانہ ہو لیکن مکان کی طرف جانے کی بجائے دوسری طرف چل پڑے جس طرح وہ جتنے قدم اُٹھاتا ہے.مرکان سے دُور ہوتا جاتا ہے.اسی طرح ایسے لوگ جین قدر کوشش کرتے ہیں.اسی قدر اصل مقصد سے دور ہوتے جاتے ہیں.پھر بعض ایسے ہیں کہ کوشش کرتے ہیں صحیح طور پر کوشش کرتے ہیں.اور ان کی کوشش کا نتیجہ بھی نکلتا ہے.مگر جس طرح ہنڈیا کا اُبال جھٹ بیٹھ جاتا ہے.اسی طرح وہ بھی بیٹھے جاتے ہیں.
۵۳۷ ان کی کوشش عارضی اور ان کا جوش وقتی ہوتا ہے.ایک دو تین چار پانچ چھ سال کام کر کے اپنے خیال میں منیشن سے لیتے ہیں.حالانکہ دینی معاملات میں پیشن اس دُنیا میں مل ہی نہیں سکتی.اگلے جہان میں جا کر لے گئی ہیں ان کو پینشن نہیں ملتی.بلکہ ان کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسا کہ کوئی شخص ۱۵- ۲۰ سال طازمت کر کے استعفیٰ دیدے میں طرح اس غریب کی پندرہ میں سال کی ملازمت کا اسے کچھ بدلہ نہیں ملے گا.اسی طرح ان کا حال ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ خطرناک کیونکہ وہ اپنی عمر کی محنت کو رائیگاں کر دیتے ہیں.اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جن فضلوں کے ملنے کی تیاری ہو رہی ہوتی ہے.ان کو لات مار کر رد کر دیا جاتا ہے.ایسی حالت میں جہاں میں دوبارہ اپنی جماعت کو یہ بات کہنا اپنا فرض نبی سمجھتا ہوں وہاں یہ میرے لیے تکلیف دہ بھی ہے پس میں پھر توجہ دلاتا ہوں کہ ہماری جماعت اس بات کو سمجھے اور خوب یاد رکھے مگر یاد رکھنا کیا ہیں تویہی کہونگا کہین ہے اور سمجھ لے کیونکہ یاد تو وہی بات رکھی جاتی ہے جو سن اور سمجھ لی جائے مگر یہ بات تو ایسی ہے جسے ابھی بہتوں نے سنا ہی نہیں.اور اگر سنا ہے تو سمجھا ہی نہیں ہیں میں نہیں نہیں کہتا کہ اس بات کو یاد رکھو.کیونکہ بہت کم ہیں جنہیں یا درکھنے کے لیے کہا جا سکتا ہے.اور بہت ایسے ہیں جنہوں نے سنا ہی نہیں.اس لیے میں کہتا ہوں.وہ نہیں اور جنہوں نے گنا ہے.وہ یاد رکھیں.اور جنہوں نے یاد کر کے بُھلا دیا ہے.وہ یاد کریں.اور یاد رکھیں کہ تبلیغ اور پیچھے سلسلہ کی اشانت مولویوں کے ذریعہ نہیں ہوا کرتی.مولویوں کا اور کام ہوا کرتا ہے.ان کی مثال خزانچی کی سی ہوتی ہے.اوران کا کام یہ ہوتا ہے کہ ہتھیاروں اور دوسرے سامان کو جمع کریں اور اس کی حفاظت کریں.وہ افسر لیڈر اور خزانچی کا کام دے سکتے ہیں.نہ یہ کہ تمام فوج ان سے بھرتی کی جائے.جس طرح کوئی فوج ایسی نہیں ہوتی کہ جس میں تمام افسر ہی افسر ہوں اور وہ دشمن سے لڑ کر فتح پائیں.اسی طرح کوئی سلسلہ ترقی نہیں کر سکتا جس کا سارا کام صرف علماء کے سپرد ہو.اور شریعت نے تبلیغ کا کام صرف علما ہی کے سپرد نہیں کیا.بلکہ یہ کہا ہے کہ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تأمرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَونَ عَنِ المُنكَرِ (ال عمران (11) اس میں سب کو مخاطب کیا گیا ہے اور یہ نہیں کہا کہ صرف علامہ لوگوں کو تبلیغ کرنے کے لیے پیدا کئے گئے ہیں.بلکہ یہ کہا ہے کہ تم سب دنیا کے فائدہ کے لیے پیدا کئے گئے ہو.پس ہر ایک وہ شخص جو اسلام قبول کرتا ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ کہ ہر ایک شخص جو عمارت قبول کرتا ہے اس کا فرض ہے کہ تبلیغ کرے.کیونکہ کوئی سلسلہ ترقی نہیں کرتا جب تک اس کی تبلیغی
کوشش کا انحصارصرت علامہ پر ہو.علماء کا کام ہی اور ہے اور وہ افسروں اور راہ نماؤں کا کام دے سکتے ہیں.جس طرح افسر فوجی سپاہیوں کا سارا کام سرانجام نہیں دے سکتے.اسی طرح علما بھی تبلیغ کا سارا کام نہیں کر سکتے.ان کے لیے ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو ان کی نگہداشت میں کام کریں اور ان سے تربیت حاصل کر کے خود عمل کریں.کیونکہ دوسرے لوگوں کو عوام کے ساتھ ملنے کے موقع نتے رہتے ہیں.اور اس میں جول سے جس قدر ان کو لوگوں کی طبائع کی واقفیت ہوتی ہے.اتنی علماء کو نہیں ہوتی.کیونکہ عوام علماء سے نہیں ملتے اور نہ منا چاہتے ہیں.دیکھو عام لوگ عیسائیوں سے ملتے اور باتیں کرتے ہیں لیکن پادریوں سے نہیں ملتے ہیں.اسی طرح عوام علماء سے نہیں ملتے.دوسرے لوگوں سے ملتے ہیں کیونکہ ان سے نڈر ہوتے ہیں.اور علماء کے متعلق سمجھتے ہیں کہ اگر.ہم ان کے پاس گئے.تو شکار ہو جائیں گے لیکن اگر ہماری جماعت کے عام لوگ اپنے اندر ایسی طاقت پیدا کرلیں کہ ملنے والوں کو پکڑ سکیں.تو جو شخص ان سے ملے گا.وہ شکار ہو جائے گا.پس صرف علما.پر تبلیغ کا دارو مدار رکھنا درست نہیں اور اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ایسے محدود اور تنگ حلقہ میں تبلیغ کو محصور کر دیا جائے کہ جس سے نکل ہی نہ سکے کیونکہ کوئی بڑا ہی شوقین جوش والا.اور تیز طبع رکھنے والا ہو.تو علماء کے پاس آنے کی جرات کرے گا.ورنہ جب عوام کو معلوم ہو کہ یہ علما ہیں تو کہیں گے کہ ہم مولوی ثناء اللہ کولائیں گے تب باتیں سنیں گے.تو علماء کا کام لیڈری اور راہ نمائی ہے اور یہ کام کہ عوام کے اندر گھس کر ان کو تبلیغ کریں.عام لوگوں کا ہے.وہی ان کے اندر جا کر ڈو اتنا میٹ کا کام دے سکتے ہیں.جس طرح عمارت کے نیچے بارود رکھ کر آگ دینے سے وہ اڑ جاتی ہے.اسی طرح عوام لوگوں کے اندر گھس کر کام دے سکتے ہیں.اس لیے ہماری جماعت کے ہر ایک شخص کو اس طرف متوجہ ہونا چاہیئے.اور تبلیغ میں لگ جانا چاہیئے.پھر یہ خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ تبلیغ صرف دلائل سے نہیں ہوتی.تبلیغ اخلاق محبت پیار اور الفت سے ہوتی ہے جس کے دل میں کسی کا درد ہوتا ہے.اس کی طرف وہ خود بخود کھینچا چلا آتا ہے.تم اس طریق کو بدل دور جو بحث مباحثہ کا ہے.اس طرز عمل کو بدل دو کہ وفات مسیح کی دلیل کا جواب جب کوئی نہ دے سکے.تو اس پر قہقہہ لگایا جائے کہ چپ ہو گیا ہے تم اس طریق پرھل ر کرو کہ تمہیں ہارنا منظور ہو مگر تمہاری باتوں میں ہمدردی اور اخلاص پایا جائے.یہ طریق ہے کامیابی حاصل کرنے کا.وہ شخص جو بحث اس لیے کرتا ہے کہ مجلس میں اپنا رنگ جماتے.اس کی باتوں کا اثر
۵۳۹ صرف اتناہی ہوتا ہے کہ لوگ نہیں دیتے ہیں مگر وہ جو اس لیے بحث کرتا ہے کہ لوگ ہدایت پائیں.اس کی باتوں کا اثر گہرا ہوتا ہے.مگر بہت لوگ ایسے ہیں جو بحث بحث کے لیے کرتے ہیں اور یہ بات مد نظر رکھ کر دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں کہ انہیں ایسے دلائل معلوم ہیں جن سے مخالف کو چپ کرا دیں اور لوگوں میں بتائیں کہ وہ کیسا کمزور اور بے علم ہے حالانکہ صداقت کے پہنچانے اور ہدایت کی طرف لانے کا یہ ذریعہ نہیں ہے.بعض اوقات کسی شریر کے مقابلہ میں یہ ذریعہ بھی استعمال کرنا پڑتا ہے.جب کہ وہ عوام پر اس طرح اثر ڈالنا چاہتا ہو کہ میں بڑا عالم ہوں اور میرا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا، لیکن عوام کے لیے بیطرفہ عمل مفید نہیں ہو سکتا.ان کے لیے یہی ہے کہ محبت اخلاص اور ہمدردی سے انہیں سمجھایا جائے.اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی بات بھی اثر کر جاتی ہے.اس کی کیا وجہ ہے کہ ایک آدمی تو بڑا تغیر پیدا کر دیتا ہے اور دوسرا ایسا ہوتا ہے کہ اپنے پاس رہنے والوں کو بھی متاثر نہیں کر سکتا.اس لیے کہ اس کے دل میں وہ جوش وہ تڑپ وہ ہمدردی وہ اخلاص نہیں ہوتا.جو دوسرے کے دل میں ہوتا ہے.تو خالی دلائل سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا.جب تک اپنے اندر محبت.اخلاص سوزا اور گداز نہ ہو.یہ اپنے اندر پیدا کرو.ان کے پیدا ہونے پر خود بخود تمہاری باتوں کا لوگوں پر اثر ہو گا.اور اگر تم منہ سے ن بھی بولو گے.تو بھی تمہارے قلب کا اثر کام کرتا رہے گا صلحاء اور اولیاء کی مجلسوں میں بیٹھنے کا بھی بڑا اثر ہوتا ہے.اس کے لیے ان کے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی.انکے سانس لینے.ان کے دیکھنے اور ان کے چھونے میں بڑا اثر ہوتا ہے.اور ان کے قسم سے نورانی شعاعیں نکلتی ہیں.ان کا اثر ہوتا ہے.پس اپنے اندر وہ سوز اور گداز پیدا کرو کہ لوگ خود بخود تمہاری طرف کھینچے چلے آئیں.اور باریک اس فرض کو سمجھے تا ایسا نہ ہو کہ ہماری کوششوں کا کوئی نتیجہ نہ نکلے.اول یہ سن لو کہ ہر ایک شخص کا فرض ہے کہ اشاعت اسلام کرے.پھر یہ بھی یاد رکھو کہ اس کے لیے جو ذرائع ہیں.جب تک ان سے کام نہ لیا جائے.نتیجہ نہیں نکل سکتا.تمہارے دل میں لوگوں کا پیار محبت اخلاص ہونا چاہیئے اور ان کے لیے اپنے اندر قربانی کے جذبات پیدا کرنے چاہئیں.اس کو دیکھ کر لوگوں میں تمہاری باتیں سننے سمجھنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کا خیال ہو گا، لیکن اگر تم
۵۴۰ کسی پر اس طرح کوئی اثر نہیں ڈال سکتے اور اس کو اپنی باتوں کی طرف متوجہ نہیں کر سکتے.تو پھر دلائل سنانے سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے عملی طور پر انہیں اپنی ہمدردی اور اخلاص کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے اور جب کسی کے اندر ہمدردی اور اخلاص اور درد پیدا ہو جائے تو پھر اس کو بتاتے کی ضرورت نہیں ہوتی.خود بخود اس کا احساس ہونے لگ جاتا ہے.بیٹڑی پکڑو تو آپ ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ اس میں بجلی ہے.اسی طرح جس کے دل میں خدا کی محبت اور اخلاص ہو.وہ اس کی مخلوق سے بھی محبت کرنے لگ جاتا ہے اور اس کو بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی جس کے پاس سے گزرتا ہے وہ خود بخود اس سے متاثر ہو جاتا ہے.دیکھو مقنا طیس کے ساتھ لوہے کو اٹھا کر رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی.مقتا میں خود بخود لوہے کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اسی طرح وہ انسان جو قوت مقناطیسی اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے.اس کو بولنے کی ضرورت نہیں ہوتی.خود بخود اس کا اثر پڑتا ہے.مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ گونگا بن کر بٹھا رہتا ہے.وہ زبان سے بھی کام لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ خدا کی پیدا کی ہوئی ہے.اسی طرح آنکھ سے دیکھتا.ہاتھ سے چھوتا ہے جگر اس کی نیت یہی ہوتی ہے کہ اس سے دوسرے کا قلب صاف ہو گا.وہ نگاہ ڈالتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اس کا اثر ہو گا.وہ بات کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ بے اثر نہ رہے گی.اسی طرح وہ اپنے ہر ایک عضو کو اثر ڈالنے کے لیے استعمال کرتا ہے.اور جب وہ اس قدر ہتھیاروں سے کام لیتا ہے.تو پھر اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.پس جس کی زبان.آنکھ قلب اور جسم میں اثر پیدا ہو جاتا ہے.اس کے اندر آگ نمودار ہو جاتی ہے.اور جہاں آگ ہو گی اثر کئے بغیر نہیں رہے گی.اگر کسی مکان میں آگ جلا دو.تو وہ گرم ہو جائے گا.اسی طرح جب کسی انسان کے اندر خدا کی محبت کی آگ پیدا ہوتی اور قلب میں ہمدردی کی آگ بھڑکتی ہے تو جسم - زبان - آنکھ.ہاتھ میں اس کی تاثیر آجاتی ہے.پس تم اپنے اندر ایسی آگ پیدا کرو اور اس کو پیدا کر کے لوگوں سے اخلاص اور محبت سے بات چیت کرو کیسی مسئلہ کے متعلق دلائل جاننے کا ثبوت دینے کے لیے نہیں.بحث کرنے کے لیے نہیں چپ کرانے کے لیے نہیں.بلکہ اس طرح ان سے ہمدردی کرد جس طرح ڈوبنے والے کو بچانے کے لیے کی جاتی ہے.تم متضا میں بن جاؤ کہ لوگ خود بخود کھنچے آئیں.تم آگ ہو جاؤ کہ لوگوں کے خس و خاشاک جل جائیں اور تمہارے ذریعہ پاک وصاف ہو جائیں، لیکن اگر تم نے علماء پر بھروسہ رکھا.اور خود کچھ نہ
۵۴۱ کیا تو قیامت آجائے گی، مگر تم وہ دن نہ دیکھو گے جو کامیابی کا دن ہے اور اس فرض کو پورا نہ کر سکو گے.جس کے لیے کھڑے کیے گئے ہو.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو توفیق دے کہ وہ تبلیغ دین میں پوری کوشش اور بہت سے لگ جائے اور ایسے طریق اختیار کرے جو کامیابی کے لیے مقرر ہیں.الفضل دار نومبر له ) ۱۵ ۳
۵۴۲ (100) خوبی کو ظاہر کرنا اور برائی کو چھپانا د فرموده ۱۲ نومه حضور نے تشہیر و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ.آج میں اسی مضمون کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں جس کے متعلق پچھلے جمعہ بیان کیا تھا کیونکہ اس امر کی طرف جماعت کی توجہ کم ہے.دنیا میں دو باتیں ہیں ایسی نظر آتی ہیں.اور ہر قوم اور ہر ملک میں نظر آتی ہیں جن کو دیکھ کر فیصلہ کئے بغیر نہیں رہا جاتا کہ یہ باتیں فطرت میں داخل ہیں.فطرت کے تقاضے اور انسانوں کی ذاتی اور قومی اور ملکی عادتوں میں یہ فرق ہے کہ فطرتی تقاضے سب میں پائے جاتے ہیں.مثلاً بعض باتیں ہیں.جو عیسائیوں میں بکثرت پائی جاتی ہیں.اسی طرح بعض ہیں جو مسلمانوں میں اسی کثرت سے پائی جاتی ہیں.بعض ہندوؤں میں پائی جاتی ہیں، لیکن جو فطرتی تقاضے ہیں وہ بلا تفریق مذہب و قومیت سب انسانوں میں پائے جاتے ہیں.پس جو باتیں سب میں پائی جاتی ہیں.ان کا سب میں پایا جانا ثبوت ہے اس مر کا کہ وہ فطرتی باتیں ہیں اور جو سب میں نہیں وہ غیر فطرتی ہیں.مثلا کھانا پینا فطرتی تقاضے ہیں.اب یہ نہیں ہو سکتا کہ مسلمان کھائیں، عیسائی نہ کھائیں.عیسائی کھائیں.ہندو نہ کھائیں.بلکہ ہر ایک مذہب و قوم و ملک کے لوگ کھاتے ہیں.اگر کوئی شخص نہ کھائے تو اسکا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ وہ اور چیز ہو گیا یا نہ کھانے والے کی قومیت بدل گئی بلکہ وہ اور دیگر لوگ اس کو بیمار تھیں گے اور دوشخص اپنے علاج کی فکر کرے گا اور کسی طبیب کے پاس جائیگا.یامثلاً غصہ اور محبت یہ فطرتی جذبے ہیں، جو ہر انسان میں پاتے جاتے ہیں کسی خاص قوم و ملک و مذہب سے یہ تعلق نہیں رکھتے اور اگر کسی شخص میں نہ ہوں تو جانو ترہ اس کی بعض قوتیں مردہ ہیں جن کی وجہ سے ان جذبات سے خالی ہو گیا ہے.غرض فطرتی جذبات اور تقاضے اور ہوتے ہیں اور ذاتی اور قومی اور فطرتی تقاضے سب میں پائے جاتے ہیں.اور غیر فطرتی خاص خاص میں بعض فطرتی باتیں استقدر عام ہیں کہ وہ نہ صرف انسانوں
۵۴۳ میں پائی جاتی ہیں.بلکہ حیوانوں تک میں پائی جاتی ہیں.اور جو اس سے بھی بڑھکر ہیں.وہ نباتات میں بھی پائی جاتی ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو جذبہ یا تقاضہ فطرتی ہو.وہ زیادہ وسیع الاثر ہوتا ہے.اور اسی قدر عام ہوتا ہے.ان جذبات میں دو جذبے ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ ہر انسان میں سواتے کسی خاص مریض کے سب میں پائے جاتے ہیں اور وہ یہ کہ انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ حسن کو ظاہر کرتا اور برائی کو چھپاتا ہے.خواہ کوئی انسان تہذیب میں اعلی ہو یا ابتدائی درجہ میں ہو.خواہ وہ لوگ آسمانی وحی کے پیرو ہوں.خوا فقل پر ہی سب مدار رکھنے والے ہوں.ان میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ اچھائی کو ظاہر کرتے ہیں.اور برائی کو چھپاتے ہیں.ہر ایک مذہب یہی سکھاتا ہے اور ہر مذہب کے پیرووں کی نہی حالت ہے.کوئی مذہب نہیں حتی کہ سچا تو سچا.کوئی جھوٹا مذہب بھی ایسا نہیں.جو بدی کو ظاہر کرتا اور اچھائی کو چھپا تا ہو.جو نہ ہی ایسا کرتا ہے وہ ہلاک ہو جاتا ہے اور قائم نہیں رہ سکتا.اس جذبہ کے ماتحت عیسائی مذہب کے رومن کیتھولک فرقہ نے کن نمیشن کا طریق رکھا ہے، لیکن اس میں بھی یہ بات ہے کہ ہر ایک شخص کے سامنے گناہ کے اقرار نہیں کئے جاتے.نہ وہ لوگ اخباروں میں اپنے جرموں کی تشہیر کرتے ہیں.بلکہ ہفتہ کے بعد پادری کو جا کر بتانا ہوتا ہے کہ ہم نے یہ یہ گناہ کئے مگر یہاں بھی لوگ اپنے تمام گناہ نہیں بتاتے ہیں نے ایک انگریز رومن کیتھلک سے پوچھا.اس نے کہا کہ ہم اپری کو وہی گناہ بتاتے ہیں جن کے متعلق ہمیں یقین ہوتا ہے کہ پادری صاحب معاف کر دینگے لیکن جن کے متعلق یقین ہو کہ وہ گناہ معاف نہیں ہونگے وہ ہم پادری صاحب کو نہیں بتاتے.اس کے صاف یہ معنے ہیں کہ پادری کو وہ گناہ بتاتے جاتے ہیں جن کو پادری گناہ نہیں سمجھتا اور جن کو وہ گنا سمجھتا ہے وہ اس کو نہیں بتائے جاتے.یہاں بھی اسی فطرتی جذبہ نے کام کیا.اس مذہب کا نتیجہ یہ ہے کہ جتنے جرائم کیتھولک ممالک میں ہوتے ہیں.دوسرے میں نہیں کیونکہ شخص مذہب کے ایک اس حکم کو توڑتا ہے کہ کسی کو نقصان نہ پہنچاؤ وہ یہ حکم کہاں مان سکتا ہے کہ پادری کو حرم بتاؤ پس اس مذہب نے فطرت کا خفیف سا مقابلہ کیا.اور اس میں بھی ناکام رہا.پس یہ فطرتی جذباتہ ہیں کہ اچھائی کو ظاہر کیا جاتا ہے اور برائی کو چھپایا جاتا ہے، لیکن ان جذبات اور تقاضوں کی بھی حدود ہوتی ہیں.اور ان حدود کے اندر کام کیا جاتا ہے.فطرتی تقاضا یا جذبہ ہونے کے یہ معنے نہیں کہ حدود کو چھوڑ دیا جائے.مثلا کھانا پینا فطرتی تقامنے ہیں.اب اگر کوئی شخص مدرسے زیادہ کھاتے گا تو بیمار ہو گا.اسی طرح غصہ و محبت فطرتی جذبے ہیں، لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ انسان
۵۴۴ ہر وقت غصہ میں رہے.باہر ایک جگہ اور ہرکسی سے محبت کرتا پھرے پس اسی طرح یہ فطرت ہے کہ خوبی کو ظاہر کیا جائے اور برائی کو چھپایا جائے لیکن ان کی بھی حدود ہوتی ہیں.یہ نہیں ہو سکتا کہ انسان ہر خوبی کو ظاہر کرتا پھرے.یا ہر برائی چھپاتے بعض خوبیاں چھپائی جانی چاہئیں.اور بعض نقصوں کا اظہار ضروری ہوتا ہے.مثلاً جن لوگوں پر کوئی ذمہ واری ملک یا قوم یا جماعت کی طرف سے عائد ہو.اور ان سے اس میں کوتا ہی ہو.تو اس کا ان کو اظہار کرنا ضروری ہوتا ہے.مثلاً کوئی جرنیل ہو.اس کو حکم دیا جائے کہ وہ فلاں مقام پر جائے مگر وہ نہ جاسکے.یہ ایک نقص ہے اور غلطی ہے اب اس کا فرض یہ ہے کہ وہ بتاتے کہ میں اس مقام پر نہیں پہنچ سکا.کیونکہ اس کی غلطی کا اثر اس کی ذات تک ہی نہیں.بلکہ قوم پر پڑتا ہے.- یا جن خوبیوں کا اظہار چاہیئے اور کوئی شخص نہیں کرتا تو اس کے یہ معنے ہیں کہ و شخص ان کو خولی نہیں سمجھتا.یا اس میں اس خوبی کے اظہار کی طاقت نہیں.اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ کسی کے گھر میں خزانہ ہو.اور وہ اس کو نکالے نہیں پس جو شخص کسی واقعی خوبی کو جس کا ظاہر کرنا فطرت میں داخل ہے.ظاہر نہیں کرتا.تو سمجھو کہ اس کے دماغ میں فتور ہے کسی کا خوبی کو ظاہر نہ کرنا دو صورتوں سے خالی نہیں.اول یا تو اس شخص کو خوبی کا علم نہیں.دوم یا وہ شخص بیمار ہے.اس لیے اس خوبی کو ظاہر نہیں کر سکتا.بعض لوگ قتل و غارت کرتے ہیں.ان کا دماغ خراب ہوتا ہے اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو کیسی ہی غیرت کی بات ہو.غصہ ہی نہیں آتا.جن لوگوں کو مطلق غصہ آتا ہی نہیں.ان کو اعلیٰ درجہ کے علیم نہیں کہا جائے گا.کیونکہ حیا اور چیز ہے اور نرمی اور چیز ہے.حیا اور شرافت یہ ہے کہ انسان اپنی خوبیا پر مخ نہ کرے.تو خوبی کا ظاہر کرنا فطرت میں ہے بعض لوگوں نے قصتہ بنایا ہوا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے که انسان کہاں تک خوبی کے اظہار کا حریں ہوتا ہے کہتے ہیں.ایک عورت نے انگوٹھی بنوائی.وہ مہین کر بہت سی تقریبوں میں گئی مگر کسی نے نہ پوچھا.آخر تنگ آکر اس نے اپنے گھر کو آگ لگا دی.عور میں آئیں اور پوچھنا شروع کیا کہ مین کچھ بیچا بھی.اس نے ہر ایک کو یہی جواب دیا اور توسب کچھ میل گیا.صرف یہ انگوٹھی بیچی ہے بعض عورت میں عجوبہ پسند ہوتی ہیں.وہ کسی ایسی بات پر ہر ایک صدمہ کو بھلا دیتی ہیں کیسی نے کہا.بہن یہ کب بنوائی.اس نے چیخ مار کر کہا کہ اگر کوئی پہلے اتنا پوچھتا تو میرا گھر کیوں جلتا.تو بعض لوگ خوبی کے اظہار کے لیے گھر کے جلانے تک میں کسر نہیں چھوڑتے.اسی طرح بعض لوگ شہرت کے لیے گھر کو آگ لگا دیتے ہیں.یہ بھی مریض ہیں بعض لوگوں کے پاس خوبی
۵۴۵ ہوتی ہے علم رکھتے ہیں.پوچھا جائے تو کہتے ہیں کہ اہل ہیں.یہ انکار ہیں بلکہ یہ ہم بھی کہلائے گی اور اس کو عجز اور کسل کہیں گے.اسی طرح جو ہر ایک بات کو ظاہر کرتا ہے.یہ اس کا چھچھورا پن ہے.اگر کوئی قابل تعریف کام کرتا ہے اور ہر ایک کے سامنے ذکر کرتا ہے تو درست نہیں.اور اگر خوبی ہے اور اس کو بلاوجہ چھپاتا ہے تو یہ بینگی ہے.غرض اچھی چیز کا ظاہر کرنا حد بندی کے ساتھ فطرت میں ہے اور ان کی حد بندی شریعت اور قانون قدرت کرتے ہیں.مثلاً کھانا پینا فطرت ہے.شریعیت اور قانون قدرت نے مدبندی کی.اگر زیادہ کھا ئیگا تو بیمار ہوگا.کم کھائیگا تو مر جائیگا.اب ہم اسی فطرتی جذبے کے ماتحت دیکھتے ہیں کہ خدا نے ایسے زمانہ میں جبکہ صداقت میٹ رہی تھی خدا کا وجود پوشیدہ ہو گیا تھا.حقیقت نگاہوں سے غائب تھی سورج گرہن میں تھا.روشنی کی بجائے تاریخی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی.وہ جس کو نجات دہندہ مانا گیا تھا.اس کے متعلق لوگوں نے فیصلہ کیا کہ اگر اس کی طرف قدم اٹھا ئینگے تو تباہ ہو جائینگے، مذہب نے جس ذات کے متعلق بتایا تھا کہ اس پر بھروسہ اور اس سے پیوند ترقیات کا ذریعہ ہے اور جس کی ذات فیوض و برکات و انعامات کا سر چشمہ اور منبع ہے.اس کی ذات کو لوگوں نے تجربہ کے بعد کہدیا کہ وہم ہے.خیال ہے اور خدا کا خیال ترقی سے روکنے والا اور ذلت کے گڑھے میں دھکیل دینے والا ہے.خدا پر ایمان غیر مفید اور ترقی کے رستہ میں روک قرار دیا گیا.تمام مذاہب کو ڈھکوسلہ کہا گیا.ایسے زمانہ قائم میں دور افق سے ایک چھوٹی سی کشتی نظر آئی.سو میں جب بڑی بڑی طاقتوں اور جماعتوں کو مٹارہی تھیں.اس چھوٹی کشتی پر ایک جری سوار ہے اور اس مضبوطی سے چپو چلا رہا ہے کہ وہ ہلاک کر نیوالی موجیں جو بڑے بڑے جہازوں کو تباہ کر رہی ہیں.ان پر وہ کشتی ہنس رہی ہے اور کہتی ہے کہ میرا کچھ نہیں بگڑ سکتا.اس نے ایسی حالت میں دنیا کو بچانے کی کوشش کی.اور بتایا کہ وہ کون سی غلطیاں تھیں جن کے باعث تجربہ کرنے والوں کی کوششوں کے نتائج غلط نکلے.وہ خدا نہ تھا لیکن خدا میں ہو کر نا خدا تھا.اس میں الوہیت نہ تھی لیکن وہ خدا سے لاتا تھا.وہ انسان تھا مگر انسانیت سے بالا تھا.تم اس حکمت کا خیال کرو اور اس مصیبت ناک نظارہ کو سامنے لاڈ اور پھر اس کی کوششوں کو ملاحظہ کرو جب تم ان باتوں کوخیال میں لاؤ گے تو تمہارے جسم پر بال کھڑے ہو جائیں گے.وہ جماعت کو ایسی کشتیاں دے گیا ہے جس سے جماعت نہ صرف خود بیچ سکتی ہے.بلکہ وٹروں کو بھی بچا سکتی ہے اس نے اپنی جماعت کو قوت بازو دی اور دل کو شجاعت اور دماغ کو نور اور فرات
۵۴۶ اور عقل سے بھر دیا.اس نے ہمیں ہتھیار دیتے.پیس ایسے محسن اور ایسے نظم کے احسان کا ذکر اور امت کا تذکرہ کیوں نہ ہو اگر تم اس نعت کو باہر نہیں کرتے.تو یہ دو حال سے خالی نہیں.یا تو تم اس کو نعمت سمجھتے نہیں یا تم بیمار ہو.تم پر خدا کا یہ فضل ہے کہ اس نے تمہیں اپنا مسیح موعود دیا.لیکن اگر اس فضل کے باوجود تم میں کوئی حرکت نہیں پیدا ہوتی تو معلوم ہوگا کہ تمہاری صحت میں فتور ہے.یاتم کہتے ہو کہ ہم سیح موعود کو مجھے ہوئے ہیں مگرتم کو معلوم ہیں کہ مسیح موعود کی ضرورت کیا ہے اور اس لیے تمہیں اس کی قدر نہیں.اگر جوش تبلیغ نہیں.تو تم کو مسیح موعود کے متعلق پھر غور کرنا چاہیئے اور اپنی حالت کی اصلاح کرنی چاہیتے پس اگر تم میں شکر گزاری ہے اور تم مسیح موعود کو نعمت سمجھتے ہو.تو تمہارا سر سجدہ میں گر جانا چاہیئے.اور دین کی تبلیغ میں لگ جانا چاہئے کو اور اگر نہیں سمجھتے.تو پہلے اپنی حالت کو درست کرنا چاہیئے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس نعمت کے سمجھنے کی توفیق دے اور ور سستی کو ترک کر دے الفضل ۱۸ نومبر ۱۹ ) جانا
۵۴۷ (101) اپنے معاملات صاف کرو ) فرموده ۱۹ نومبر ۹۲ ) حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- ”میں نے بتایا تھا کہ ایمان کی تکمیل کے لیے بہت ہی تفصیلات ہیں جن کا لحاظ ضروری ہے.ان کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا اور انسان وہ فوائد حاصل نہیں کر سکتا.جو مذہب کے ذریعہ خدا دنیا کو پہنچانا چاہتا ہے.اس مضمون کے کچھ حصے بیان کئے تھے اور ایک بات میں اس میں سے آج بیان کرتا ہوں.للہ تعالی نے خود ہی نوع کے نفع کی غرض سے شریعت کے قوانین مقر فرماتے ہیں.اگر کوئی چوری نہیں کرتا ہے تو اس میں خدا کا فائدہ نہیں.اگر کرتا ہے تو اس کا نقصان نہیں.کوئی قتل کرتا ہے تو اللہ کا نقصان نہیں.نہیں کرتا تو فائدہ نہیں.وہ اپنی ذات میں کامل ہے.انسان پیدا ہوتا یا نہ ہوتا تو اس کی حکومت پر اس کا کچھ اثر نہیں ہیں جسقدر احکام شرعیہ ہیں ان سب میں انسان کا فائدہ ہے مگر بعض احکام میں انسان کو نفع نظر آتا ہے بعض میں نہیں.جب انسانوں کے علم و تجربہ میں فرق ہوتا ہے تو اس وقت بھی بعض باتوں کے فرق بعض کو نظر آتے ہیں.بعض کو نہیں.مثلاً بچے میں اور ماں باپ میں فرق ہوتا ہے.بچہ کا فرض ہوتا ہے کہ ماں باپ کی بات بی چون ویرا مانے.کیونکہ ماں باپ کے احکام تجربہ کی بنا پر میں اور بچر ان حالتوں سے واقف نہیں.اگر بچہ انکار کرے.تب لوگ اس کو ملامت کرینگے.جب بچہ جوان ہوتا ہے تو ماں باپ بھی اس کو پہلے کی طرح کو احکام نہیں دیتے اور نہ وہ تفصیلات میں اس طرح ماں باپ کے احکام ماننے کے لیے تیار ہوتا ہے تاہم بچہ پر ماں باپ کی اطاعت فرض ہوتی ہے، لیکن ماں باپ کا تجربہ محدود ہے خدا کا محدود نہیں.کیونکہ خدا انسان کو پیدا کرنے والا ہے.پیدا کرنے والے سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہوسکتی بعض اوقات ماں باپ کا تجربہ غلط بھی ہوتا ہے.مثلاً جب چیچک کا ٹیکا نکلا.اس وقت عام طور پر لوگوں میں خیال
۵۴۸ تھا کہ سرکارہ بچوں کو مارنا چاہتی ہے.اس لیے جب ٹیکا لگانے والے آتے تو بچوں کو چھپا دیتے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ محض اس ماں باپ کی بدگمانی کی وجہ سے ہزاروں لاکھوں بچے ہلاک ہو جاتے اور ان کی صورتیں بگڑ جاتیں.تو یہ ماں باپ کے غلط تجربے اور محض بدگمانی کا نتیجہ تھا.جو بچوں کو بھگتنا پڑتا تھا لیکن خدا تعالیٰ کے احکام کی یہ حالت نہیں کیونکہ وہ جانتا ہے.اور اس کا علم ازلی اور حکمت ازلی ہے.بعض لوگ ہوتے ہیں جو پوچھا کرتے ہیں کہ عصر کی چار رکعتیں کیوں ہیں ؟ اور مغرب کی تین کیوں ؟ لیکن ان کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ڈاکٹر جب دوا دیتا ہے تو وہ نسخہ میں بعض مقاول کے تین قطرے لکھتا ہے.بعض کے چار.بعض کے زیادہ بعض کے گم.مریض کا یہ حق نہیں کہ پوچھے کہ دوائیں کم وبیش کیوں ڈاتا ہے.اگر کوئی پوچھنے پرمصر ہو تو ڈاکٹر نسخہ کو پھاڑ دیگا.پس ڈاکٹر جو لکھتا ہے مریض کو قبول کرتا پڑتا ہے.اور بعض دفعہ ڈاکٹر بھی تفصیل نہیں بتا سکتا.اس کے پاس الفاظ نہیں ہوتے یا الفاظ تو ہوتے ہیں.مگر وہ نتیجہ حسب منشار نہیں نکال سکتا، مگر اللہ تعالیٰ جانتا ہے.اگر وہ کسی چیز کی تفصیل بیان نہ کرے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ انسان اس مطلب کو نہیں سمجھ سکتا.اور اس فرق کو معلوم نہیں کر سکتا.اگر ڈاکٹر نہیں جانتا.تو اس پر اعتبار کیا جاتا ہے خدا جانتا ہے اس کے جاننے پر اعتبار نہیں کیا جاتا.ہر چیز کا سبب ہوتا ہے مگر بہت دفعہ بیان نہیں کیا جاسکتا.نماز کی مختلف اوقات کی رکعتوں میں کی بیٹی کا سبب ہے.مگر قدرت نے اس لیے بیان نہیں کیا کہ انسان نہیں سمجھ سکتا، ڈاکٹر لبعض اوقات دواؤں کے فرق نہیں بتا سکتا.مگر وہ یہ کہتا ہے کہ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ دوا اس مقدار میں دینا مفید ہو گا.اسی طرح بعض لوگ نیچا کرتا پہنتے ہیں.بعض اونچا.اگر پوچھا جائے تو عام طور پر نہیں بتا سکیں گے ہاں یہ کہیں گے کہ ہمارے دل کو یہ اچھا معلوم ہوتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے وجوہ ہیں.مگر وہ بیان نہیں کر سکتے.پس اللہ تعالیٰ نے اگر بیان نہیں فرمایا.تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ کی اہلیت نہیں کہ اس فرق کو محسوس کر سکے.مثلا بعض کپڑے ہیں کہ ہم آنکھ سے ان کو نہیں دیکھ سکتے.ہاں اگر خورد میں ہو تو وہ دیکھے جاسکتے ہیں.اگر خوردبین والا دوسرے کو کسے کہ وہ کیڑا جاتا ہے تم کو نظر نہیں آتا ہے تولوگ اس کو پاگل کہیں گے.اللہ تعالیٰ کوئی لغو کام نہیں کرتا.چونکہ بندہ ان فرقوں کو محسوس نہیں کر سکتا اس لیے بعض تفصیلات اللہ تعالٰی بیان نہیں فرماتا.اس لیے مومن کو چاہیے کہ ان باتوں پر قیاس کر کے خدا کے ہر ایک حکم پر چلا چون و چرا عمل کر لیا کرے.
۵۴۹ میں آج ایک حکم بیان کرتا ہوں.اس کے لیے اسقدر تمہید کی ضرورت تو نہ تھی مگر بعض لوگ بعض خاص اعمال میں کچے ہوتے ہیں.مثلاً اموال کا معاملہ ہے.لوگ قدر تا بال کی طرف میں رکھتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مال سے ہم آرام حاصل کرینگے.اور اس سے ہماری حفاظت ہوگی.مال کو چاہنا اس لیے نہیں ہوتا کہ مال سے ان کو محبت ہوتی ہے بلکہ اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ مال سے وہ آرام کی اشیاء متیا کرتے ہیں.بخیل بھی اسی لیے مال جمع کرتا ہے کہ اس کو اپنے آرام کا خیال ہوتا ہے مگر وہ ہر دفعہ بیخیال کرتا ہے کہ شاید اس سے بڑی ضرورت پڑ جاتے اس لیے وہ مال خرچ نہیں کرتا اور نہ مال کی ذات سے اس کو محبت نہیں ہوتی.اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ کوئی شخص روٹی لیکر سفر کو چلے اور جب ٹھوک گئے تو کسے شاید اس سے زیادہ ضرورت ہو.روٹی نہیں کھانی چاہیئے.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی جاتی حال بخیل ہے بھوک سے جان نہ ہوں وہ ائندہ زیادہ ضرورت کے خیال سے کچھ بھی کسی ضرورت پر خرچ نہیں کرتا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی جان نکل جاتی ہے.مال دوسری پس میال کا محاطہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس میں کمزوری دکھاتے ہیں.مثلاً چوریاں ہوتی ہیں.جو لوگ چوریاں کرتے ہیں.اگر وہ خیال کریں کہ اگر ان کے ہاں چوری ہو تو ان کو کتنا صدمہ ہو تو وہ چوری سے باز آئیں جو لوگ چوری کرتے ہیں جب تک ان کے جواب میں چوری نہیں ہوتی.وہ چوری کرتے ہیں.پنجاب کے بعض علاقوں میں جانوروں کی چوریاں ہوتی ہیں جن کی چوری ہوتی ہے.وہ چوروں کے جانور چرا لیتے ہیں.پھر وہ جا کر ان کے جانور دیدیتے ہیں اور اپنے منتوں کے ساتھ لے لیتے ہیں.اس طرح بعض لوگ رات کو کھیتوں میں فصلیں کاٹ لیتے ہیں.اسی طرح لوگ ان کی فصلیں کاٹ لیتے ہیں.پھر ان کو معلوم ہوتا ہے کہ فائدہ کی بجائے نقصان ہوتا ہے.اسی طرح جو لوگ قرض لیتے ہیں اور پھر دینے مں میں وحجت کرتے یا سستی کرتے یا مکر جاتے ہیں.وہ اپنے دشمن ہوتے ہیں نہ صرف اپنے ملک اپنی قوم کے بھی دشمن ہوتے ہیں.جب ان کو ضرورت پڑتی ہے تو گڑ گڑاتے ہیں مگر جب قرض خواہ مطالبہ کرتا ہے تو اس کو آنکھیں دکھاتے ہیں.ایسے لوگوں کی بد معاملگی سے ڈر کر وہ لوگ جن کو بھی ضرورت ہوتی ہے.قرض لینے سے محروم رہتے ہیں کیونکہ جس شخص کے پاس وہ قرض لینے جاتے ہیں.وہ ان کی بات کا اعتبار نہیں کر سکتا.جبکہ پلے وہ دکھ کا ہوتا ہے کہ فلاں شخص نے اس سے قرض لے کر کیا سلوک کیا.ایسے لوگ دو طرح مضر ہوتے ہیں اور دو قسم کے لوگوں کے لیے مضر ہوتے ہیں.ويب
(1) وہ لوگ جو سچی ضرورت رکھتے ہیں ان کو قرض نہیں مل سکتا.(۲) وہ لوگ جن سے قرض لیتے میں آئندہ ان کو نیکی کرنے سے محروم کر دیتے ہیں اور نیز ایسے لوگ دوسرے لوگوں کو بد معاملگی کی تعلیم کرتے ہیں.وب یاد رکھو جس طرح شریعت کہتی ہے کہ دوروں سے نیکی کرو.اسطرح یہ بھی کہتی ہے کر محسن کے احسان کی قدر کرو.اور احسان فراموش نہ بنو.جو شخص تم کو ضرورت کے وقت قرض دیتا ہے وہ تمہارا محسن ہے.تم اس کے ساتھ شریفانہ برتاؤ کرو.اور جن آنکھوں سے لیا ہے انہی سے دور بعض لوگ جب قرض لے جاتے ہیں.تو بہت الحارج سے کام لیتے ہیں مگر جب وہ مانگنے آتا ہے تو اس کو کہتے ہیں.لاٹ صاحب بن گیا.ہر وقت سر پر چڑھا رہتا ہے.حالانکہ لینے والے کاحق تھا کہ وہ سختی کرے.مگر یہاں اللہ معاملہ ہے کہ جب مطالبہ کیا جائے.تو اس کو کہتے ہیں کہ یہ ہم پر حکومت کرنے لگا ہے.رسول کریم سے کی غیرمسلم شخص نے کچھ لینا تھاوہ آیا.اورسختی کرنے لگا بعض صحابہ کو با علوم ہوا.آپ نے فرمایا کہ میں اس کا مقروض ہوں اس کو حتی ہے کہ بختی کرے لیے تو ضرورت کے وقت جاتے ہیں.اور لیتے ہیں لیکن جب ادائیگی کا وقت آتا ہے تو کبھی سامنے نہیں ہوتے اور ہمیشہ آنکھ بچا کر نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں.اگر قرض خواہ لوگوں کے پاس کسے کہ آپ ؟ نے دیں تو کھتے ہیں کہ ہم اب نہیں دینگے کیونکہ اس نے نہیں بدنام کی ہے گویا وہ اس کے باپ کی جائیداد میں سے کچھ اس سے مانگتا تھا.اس کا حق تھا.وہ کیوں نہ طلب کرتا ہو شخص ایسے کینہ کو گالی دیتا ہے وہ حق ہے اگرچہ اخلاق کالی کی اجاز نہیں دیتا.کانے کو کان کن حق ہے مگر خلاق سے بعید ہے چور کو چور کہنا جائز ہے لیکن مجسٹریٹ کے سواکوئی نہیں کہ سکتا.شریعت نے منع کیا ہے کہ گانے کو کانا کہ جاتے.ایسے کہ جو کا کتا ہے وہ اسکو پڑھانا چاہتا ہے مگر اس میں شک نہیں کانے کو کان کہنا درست ہے.اس طرح جو شخص کسی کامال مارتا ہے.حق ہے کہ وہ اس کو چور یا ڈاکو کھے کیونکہ یہ اس عیب کا مرتکب ہوتا ہے بعض لوگوں کا قاعدہ ہوتا ہے کہ قرض لیتے ہیں اور اس سے اپنی جائیداد بناتے ہیں.قرض دینے والا اس خیال سے کہ ان کو ضرورت ہے.ان کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر مقدم کر کے دے دیتا ہے، لیکن جب وہ مطالبہ کرتا ہے تو کہتے ہیں کہ دس دن کو آنا.پھر جب جائے تو پھر دس دن توقف کرنے کو کہتے ہیں.اس طرح کئی دفعہ ہو چکنے کے بعد انکار کر پھٹتے ه بیقی بروایت مشکوة کتاب الفتن باب فی اخلاقہ صلی اللہ علیہ وسلم
اده ہیں.یا بعض عدم گنجائش کا بہانہ کر بیٹھتے ہیں حالانکہ یہ کہنا ن کو جرم سے نہیں بچاتا کیونکہ جب قرض لگے تھے.ضروری تھا کہ اس وقت حیثیت کو سوچتے نہ یہ کہ جب دینے کا وقت آیا.اس وقت گنجائش کا سوال اٹھا یا کیپس جب قرض لینے گئے تھے اس وقت سوچنا تھا کہ ہم ادابھی کرسکیں گے یا نہیں.مجھے قرآن کریم کی اس آیت پر ہمیشہ تعجب ہوا کرتا تھا کہ : ياتِهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنِ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاحْتُبُوهُ البقرہ (۲۸۳) اس میں مدت کی شرط لگاتی ہے.اور اللہ تعالے نے سمجھایا کہ اس میں دو فائدے ہیں.اول دینے والے کے لیے (۲) لینے والے کے لیے.اول لینے والے کے لیے یہ فائدہ ہے کہ مثلاً مینہ کا وعدہ ہے.تو مہینہ کے بعد جا کر طلب کریگا.یہ نہیں ہوگا کہ اس کو روز روز پوچھنا پڑیگا، اورنیز بروز یہ بھی فائدہ ہوگا کہ جب مہینہ کا وعدہ ہو گا تو یہ حق نہیں ہوگا کہ دوسرے دن ہی مطالبہ شروع کر دے.دوسرا فائدہ ہوگا کہ جب لینے والا لینے لگے گا.تو پہلے سوچے گا کہ میں جتنے عرصہ میں ادا کرنے کا وعدہ کرتا ہوں.اتنے عرصہ میں ادا بھی کرسکوں گا کہ نہیں.اگر کوئی شخص اپنی آمدنی پندرہ بیس روپیہ ماہوار رکھتا ہے.اور ایک مہینہ کے وعدہ پر سو روپیہ قرض لیتا ہے.تو سوال ہو گا کہ وہ کہاں سے ادا کرے گا.اس لیے قرض دینے والا اس سے متنبہ ہو سکتا ہے.ہاں اگر ایک زمیندار قرض لیتا ہے اور اس کی فصل اس کے قرض سے زیادہ یا برا بر ہے تو وہ لے سکتا ہے.پس اس آیت میں یہ فوائد بتاتے ہیں.اور اب ہر شخص کو سوچنا چاہیئے کہ وہ جو قرض لیتا ہے وہ اس کو ادا کر سکے گا یا نہیں.اگر ہیں ادا کرسکے گا.اور وہ قرض لیتا ہے تو یہ تنگی ہے بعض وہ لوگ جو کہتے ہیں گنجائش نہیں.ان کو ثابت کرنا چاہیئے کہ جب وہ لینے لگے تھے.اس وقت ان کو امید تھی کہ وہ قرض اتار سکیں گے.مگر ناگہانی انسائیے ان ذرائع کو منقطع کر دیا.اس لیے قرض اتارنا ممکن نہ رہا.ورنہ گنجائش کا سوال بعد از وقت ہے.اگر کوئی شخص قرض لے کر نفع اٹھاتا اور تجارت کرتا ہے.اور قرض خواہ کو قرض نہیں دیتا تو ضروری ہے کہ اس سے روپیہ لیکر اس کو دیا جائے.اگر وہ ہے کہ میری تجارت تباہ ہو گئی.تو اس کا روپیہ تھا ہی نہیں کہ یہ تجارت کر سکتا.اس نے جو نفع اٹھایا اس کو غنیمت سمجھنا چاہیئے.جولوگ اس طرح قرض لیتے ہیں اور آپ نفع اٹھاتے ہیں اور مرض خواہ کو نہیں دیتے وہ نفع نہیں اٹھاتے وہ آگ سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں.پس جو معاملہ کرو، دیانت سے کرو.اور صفائی اس میں رکھو.قرض دینے والے کو چاہیے کہ لکھ لے اور مدت مقرر کرے اس میں دونوں کے لیے فائدہ ہے.
۵۵۲ بعض لوگ کام کچھ نہیں کرتے اور قرض سے لے کر گزارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں.توکل پر گزارہ کرتے ہیں.حالانکہ توکل انبیاء اور اولیا کرتے ہیں.اور اس کے سنے ہیں کہ وہ شخص بادشاہ ہو گیا.کیونکہ جس طرح بادشاہ جب چاہتے ہیں ٹیکس لگا کر رقم وصول کرتے ہیں.اسی طرح وہ لوگ ہو متوکل ہوتے ہیں.ان کی ضرورت خدا پوری کرتا ہے مگر یہ عجیب متوکل ہیں کہ لوگوں سے قرض لیتے ہیں اور دیتے نہیں.ہاں جولوگ اپانچ ہوں یا معذور ہوں.ان کی مدد حکومت پر فرض ہے.اگر حکومت غیر مذہب کی ہو اور اس کا ایسا انتظام نہ ہو تو پھر وہ جس جماعت سے تعلق رکھتے ہوں.اس جماعت کے امام کا اور بیت المال کا فرض ہے کہ ان کی ضروریات پورا کرے.لیکن جس طرح بعض لوگ قرض لینے میں بد مالکی کرتے ہیں.اسی طرح بعض دوکاندار بھی ہونگی کرتے ہیں وہ بیچوں یا عورتوں کو یا ایسے لوگوں کو جن کی آمد کی کوئی سبیل نہیں وہ محتاج یا اپانچ ہیں.اور ان کا بار بیت المال پر ہے.قرض دیتے ہیں اور بچوں کے باپ کو اور عورت کے خاوند اور اپاہجوں کے قرض کے لیے انجمن کومجبور کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ شور ڈالنے سے مل ہی جاتے گا.حالانکہ ان کا فرض ہے کہ یہ قرض اس کو دیں جس پر ان کو ذاتی اعتماد ہو.اور وہ شخص ذاتی آمدنی رکھتا ہو.اگر کوئی شخص ایسا نہیں کرتا تو وہ بھی ٹھگی کرتا ہے.یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے معاملات کی خرابی سے جماعت کو بدنام کرتے ہیں.اس لیے بہتر ہو کہ ایسے لوگ اپنے رویہ کی اصلاح کریں.ورنہ ان کو جماعت سے الگ کر دیا جائے گا.مذہب سے الگ کرنا تو اختلاف عقائد سے ہوتا ہے مگر جس شخص کا رویہ جماعت کے لیے مضر ہو.اس کو جماعت سے الگ کیا جا سکتا ہے.میں ان اصحاب کو بھی نصیحت کرتا ہوں جو شکستی ہے کام لیتے ہیں کہ دوستی کو چھوڑ دیں.یاد رکھو کہ یہ معاملات کی اچھائی یا برائی ہے جس کی بنا پر خشخص تمہارے متعلق رائے قائم کرتے ہیں.اگر معاملات اچھے ہیں تو لوگ تمہاری بات سن سکتے ہیں.اگر نہیں توساری جماعت چند آدمیوں کی خاطر ٹھگ کہلائے گی.اور مثال میں دو چار نام سے دینا ہی کافی خیال کیا جائیگا.پس جو قرض دیتا ہے وہ حسن ہے بچی ضرورت کے وقت کو اور میعاد معین میں دا کرو اگر کسی معقول وجہ سے نہیں اُتار سکتے تو نرمی اور خندہ پیشانی سے اس کو یقین دلاؤ کہ میں ان وجوہ سے اب ادا نہیں کر سکا.پھر آئندہ کر دونگا اور جب روپیہ آئے تو پہلے قرض خواہ کے روپے ادا کر ور حضرت سول
۵۵۳ للہ صل اللہ علیہ سلم نے فرمایا کہ دور میں میں نے عورتوں کو زیادہ دیکھا.بوجہ ان کے ناشکر گزار ہونے کے تو ناشکروں کی سزا جہنم ہے.لوگ معاملات سے حالات کا اندازہ کرتے ہیں.نمازوں سے نہیں.اگر اس طرح تبلیغ کے رستہ کو بند کر دیا تو پھر کوئی عمدہ رستہ نہیں.پس اپنے معاملات کی درستی پر بہت زوردو اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کے سمجھنے کی توفیق دے.آمین : ١٩٢٠ء الفضل ۲۵ نومبر ۱۹۳ )
(102) کامیابی خدا پر توکل رکھنے والوں کیلئے بہئے فرموده ۲۶ نومبر ۱۹۲۰ تشتد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آیت إِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ غَرَ هَؤُلاَءِ دِينُهُم ، وَمَنْ يَتَوَكَّلُ، عَلَى اللهِ فَإِنَّ اللهَ عَزِيزٌ حَكِيمُ - (الانفال (٥٠) د پڑھ کر حضور نے فرمایا : انسان کی عادت ہے کہ جب کبھی و کسی نیکی کے اختیار کرنے سے باز رہتا اور کسی مفید بات کو رد کرتا ہے.تو اس کی ضمیر اس کو ملامت کرتی ہے اور وہ ملامت باقی تمام تکالیف سے بڑھ کر ہوتی ہے.انسان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے، مگر نفس کی علامت کو برداشت نہیں کر سکتا.جب نفس ملامت شروع کرتا ہے تو انسان عذرات تلاش کرتا ہے.وہ خذرات لوگوں کے لیے نہیں ہوتے.نان عذرات سے لوگوں کو خاموش کرنا چاہتا ہے.نہ خوش کرنا چاہتا ہے.بلکہ وہ محض اپنے نفس کو خوش کرنے کے لیے ہوتے ہیں.دوسروں کے لیے بھی ہوتے ہیں.کیونکہ انسان بالطبع چاہتا ہے کہ لوگ اس کی مذمت نہ کریں.بلکہ تعریف کریں مگر بہت بڑی زد جو خود انسان کے اپنے نفس کی ہوتی ہے اس سے بچنے کے لیے عذرات گھڑتا ہے اور جان بچانا چاہتا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسی قسم کے واقعہ کا ذکر فرمایا ہے.فرماتا ہے.اذ يقول المنافقون والذين في قلوبهم مرض غر هؤلاء دينهم - اسلام قبول کرنا معمولی بات نہ تھی.بلکہ ایک پیار میر پر اٹھانا تھا.اس وقت ساری دنیا کے عناد اور تمام مذاہب کی عداوت اسلام کے خلاف بھڑکی ہوئی تھی تاکہ اسلام کو مٹا دیں اور وہ ایسا کرنے پر مجبور تھے کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ اسلام کے باقی رہنے میں ان کی ہلاکت ہے اس وقت یہودیت عیسائیت سے نہ ڈرتی تھی.زرتشتی مذہب یہودیت اور عیسائیت سے نہ ڈرتا تھا.ان کے ڈرنے کے لیے صرف ایک اسلام ہی تھا اور اسی کے خلاف وہ سب کوشش کرتے تھے کبھی یہ نہ دیکھو گے کہ بکری بھیڑ سے ڈرے حتی کہ بیل گائے سے بھی نہیں ڈریگی.آنا ہوگا کہ
۵۵۵ اگر کوئی مارنے والا بیل ہوگا.تو اس سے ذرا پیچھے ہٹ جائے گی.مگر جب شیر آئے گا تو بری اور تمام وہ جانور جو اس کی غذا ہیں.بھاگ جائیں گے یہی حالت اسلام اور دیگر مذاہب کی تھی جب اسلام آیا تو دیگر مذاہب نے محسوس کیا کہ ہم اس کے سامنے زندہ نہیں رہ سکتے.یا اس کو مٹا دینگے یا خود مٹ جائیں گے.صداقت جب صادقوں کے ہاتھ میں ہو تومٹ نہیں سکتی محمدصلی اللہ علیہ ظلم و تعلیم لاتے.وہ اب بھی موجود ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے کیونکہ انسان کے لیے موت ہے.پس جب لوگ اسلام کو قبول کرتے تھے تو تمام لوگ ان کے دشمن ہو جاتے تھے وہ دیکھتے تھے کہ سائل کا تو مقابلہ نہیں ہو سکتا.توحید کے مقابلہ میں شرک کہاں ٹھہر سکتا ہے.اخلاق و تمدن کے مسائل میں اسلام کا کہاں مقابلہ کیا جا سکتا ہے.اس لیے اسلام کو مٹانے کے لیے ان کے پاس ایک ہی چیز تھی کہ مسلمان کہلانے والوں کو مٹا دیں.کیونکہ صداقت اپنی ذات میں اکیلی قائم نہیں رہا کرتی بلکہ صادقوں کے ساتھ ہوتی ہے.یہ قائم رہتی ہے.خالی تلوار کچھ نہیں کرسکتی جب تک کہ اچھے سوار کے ہاتھ میں نہ ہو.اسی طرح صداقت کا مٹانا ہی تھا کہ صادقوں کو مٹا دیا جاتے اس لیے انہوں نے اپنی تمام طاقتوں کو جمع کیا اور اسلام کے مثانے کے درپے ہو گئے.اس وقت اسلام کی مثال اس پودا کی سی تھی.جو ابھی بہت ابتدائی حالت میں ہو اور تنومند جانور اس کو گرانے کے درپے ہوں.ایسے وقت میں اسلام میں شامل ہوناکوئی معمولی بات نہ تھی لوگ اسلام کے نام پاتے دشمن تھے.اس لیے جو شخص بھی مسلمان ہوتا تھا.قبل اس کے کہ وہ اپنی حالت کو اسلام کے سانچے میں ڈھال لیتا.اس کا محض مسلمان کہلانا ہی تمام عداوتوں کو اپنے گرد و پیش جمع کر لیتا تھا.اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جو اسلام کی شب و روز خدمت میں رہتے تھے ان سے لوگ کس قدر عداوت کرتے ہونگے.پس اس وقت اسلام قبول کرنا تلوار کے نیچے اپنی گردن کو دھر دنیا تھا یہی وجہ تھی.وہ نادان جن کو خدا کی قدرتوں اور طاقتوں پر یقین نہ تھا.ایسی حالت میں ان لوگوں کے لیے جو اسلام کی خدمت میں شب و روز مصروف تھے کہتے تھے کہ کیا یہ لوگ پاگل ہوگئے.ساری دنیا کوفت میں اپنا دھن بنائیاہ لوگ جو چوہے کی حرکت سے بھی ڈر جاتے ہیں.ڈرتے تھے کہ یہ لوگ کیوں دیوانے ہو گئے ہیں.ان کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ منافق اور کمزور دل مسلمان کہلانے والے لوگ کہتے ہیں کہ یہ لوگ مذہبی دیوانے ہیں کہ ہر ایک مذہب اور ہر ایک قوم سے انھوں نے جنگ چھیڑ رکھی ہے.اور اس کمزوری پر دھومی یہ ہے کہ سب کو مٹا دینگے.اور اسلام کو قائم کر دینگے ان کے پاس کوئی ظاہری کمان نہیں.علوم میں یہ درماندہ ہیں.ان لوگوں کی عقل ماری گئی ہے کہ اپنے نقصان سے بے خبر ہیں.
004 فرمایا وَمَن يَتَوَعَلْ عَلَى اللهِ فَإِنَّ اللهَ عَزِیز حکیم - ان مقرضوں کی نظر محدود ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے.بعض اسی کو دیکھتے ہیں اور نہیں خیال کرتے کہ ان کے پیچھے کون ہے اور ان کی طاقت کہاں سے آتی ہے جس کے بل پر یہ کھڑے ہیں.جس چیز کا سہارا مضبوط ہوتا ہے.اسے کوئی خطرہ نہیں ہوتا.اور وہ دراصل کمزور نہیں بلکہ بڑی طاقتور ہوتی ہے.دیکھو ہاتھ کا گوشت کتنا نرم ہوتا ہے.ایک بچہ بھی اس کو کاٹنے لگے.تو کاٹ سکتا ہے لیکن جب ایک طاقتور شخص اسی ہاتھ کوکسی کے منہ پر مارتا ہے تو اکثر اوقات دانت نکال دیتا ہے.سر پر مارتا ہے.تو بیہوش کر دیا ہے.کیا یہ آس نرم گوشت کا کام ہوتا ہے نہیں.یہ اس طاقتور شخص کا کام ہوتا ہے جس کا وہ ہا تھ ہوتا ہے تو مسلمان کمزور تھے اور منافق ان کو دیکھ کر طرح طرح کی باتیں بناتے تھے مگر مَن تَتَوَ عَل عَلَى اللهِ فَإِن اللهَ عَزِيزٌ حَكِيم - خدا تعالیٰ فرماتا ہے.تم اپنی کو دیکھتے ہو.جو تمہارے سامنے ہیں.اس کو دیکھو.جو ان کے پیچھے ہے جس پر ان کو سہارا ہے اور وہ خدا ہے جو بڑا زبردست اور حکمت والا ہے.ای طرح شمشیر بذات خود کچھ نیں کرسکتی.ہاں جب شمشیر زن کے ہاتھ میں ہوتی ہے تواس وقت کام کرتی ہے ، نادان ہے جو شمشیر کو دیکھتا ہے.دانا وہی ہے جو شمشیر زن کو دیکھے.مل ہے کہ ایک بادشاہ کے لڑکے نے دیکھا کہ ایک سوار تلوار کے ایک وار میں جانور کے چاروں پاؤں کاٹ دیتا تھا.اس زمانہ میں امتحان کے لیے چاروں پاؤں جانور کے باندھ کر کھڑا کر دیتے تھے اور تمرین ایک وار میں چاروں پاؤں کاٹ دیتا تھا.لڑکے نے اس سوار سے وہ تلوار مانگی.مگر اس نے کہا میاں اس تلوار کو کیا کرو گے.تمہارے ہاں اور بہت سی تلواریں ہیں.لڑکے نے اپنے باپ بادشاہ کو کہا کہ فلاں سوار سے میں نے اس کی تلوار مانگی تھی.مگر وہ نہیں دیتا.بادشاہ نے سوارہ کو بلا کر جھاڑا.اور تلوار ہے دی.لڑکے نے تلوار چلائی مگر اس کے چاروں پیر تو کیا کھال بھی نہ گئی.اس نے بادشاہ سے کہاکہ ہموار نے اس تلوار کی بجائے کوئی اور دیدی ہے.سوار کو بادشاہ نے پھر بلایا.تو اس نے کہا کہ یں نے ہی تلوار دی ہے لائینے میں کاٹ کر دکھلاؤں.چنانچہ سوار نے تلوار یگر جانور کے چاروں پاؤں کاٹ دیتے.تب بادشاہ سمجھ گیا کہ اصل میں یہ تلوار کا کام نہ تھا.بلکہ اس شمشیر زن کا کام تھا.تو مسلمان کمزور تھے، لکن ان کی شوکت کو ظاہر ک یان دانا سلین در ال ای اگر بے جان کی طرح تھے گر چونکہ خدا کے ہاتھ میں تھے.اس لیے ان کی کمزوری کو دیکھنا غلطی تھی.خدا کودیکھنا چاہیئے تھا.اللہتعالٰی فرماتا ہے.مَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَإِنَّ اللَّهَ عَزیز حکیم - جن کا اللہ پر توکل ہوتا ہے وہ ناکام نہیں ہو سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو غالب ہے.
۵۵۷ ہمارا حال بھی بعینہ ہی ہے.ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ نے ایک بڑے مقصد کے لیے کھڑا کیا ہے ہم سے بھی اس کے کچھ خاص وعدے ہیں جس وقت ہم نے حضرت مسیح موعود کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ایس وقت اقرار کیا تھا کہ ہم اسلام کو تمام عالم میں پھیلائیں گے.اور ہماری مثال اس سپاہی کی ہے جیس کو گورنمنٹ نے اپنی فوج میں بھرتی کیا ہو.جب وہ بھرتی ہو چکتا ہے.تو اس وقت اس کا حق نہیں ہوتا کہ کہے ہمیں فلاں خطرناک جنگ میں نہیں جاؤں گا.کیونکہ وہاں جان کا خطرہ ہے.یہ اس کو پہلے سوچنا چاہیئے تھا.جب بھرتی ہو گیا.تو گورنمنٹ جہاں بھیجتی ہے.اسے جانا چاہتے.بھرتی ہونے والا پہلے ہی دن یہ فیصلہ کرلیتا ہے کہ میں فوج میں جو بھرتی ہورہا ہوں تو موت سے مجھ کو ڈر نہیں پیس جب ہم خدا کی فوج میں بھرتی ہو گئے.تو اب آنے والے خطرات سے ہمارے لیے کوئی ڈرنہیں ہوسکتا.اگر ڈر ہوا تو پہلے سوچنا چاہتے تھا.اگر کہا جائے کہ نہیں ہلے علم نہ تھا.تو درست نہیں کیونکہ قبل اسکے کہ مسیح موعود کی بیعت میں ایک بھی شخص آتا.خدا تعالیٰ نے مسیح موعود کے ذریعہ ہی اپنا اعلان کر دیاتھا کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا، لیکن خدا اُسے قبول کریگا.اور بڑے زور اور جموں سے اس کی سچائی ظاہر کر دیگا یہیں یہ پہلے سے اعلان ہو چکا تھا کہ مسیح موعود کا تمام دنیا مقابلہ کریگی.اور جو اس کی بیعت کر گیا.اس کو تمام دنیا کے مقابلہ میں کھڑا ہونا پڑے گا.دنیا مسیح موعود کو رد کردیگی مگر خدا اس کو قبول کریگا اور اپنے زور آور حملوں کے ذریعہ اس کی صداقت ظاہر کر دیگا.خدا کے حملے سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صحابہ کے ذریعہ ہوئے اور میاں بھی خدا کے حملےمسیح موعود کے لیے آپ کی جماعت کے ذریعہ ہونگے.وہ حملے جو صحابہ کے ذریعہ ہوئے ان سے خون کے میدان رنگے گئے اسی طرح ہم کو بھی ایسے ہی میدانوں سے گزرنا ہو گا پس ہم نے مسیح موعود کو لونی نہیں مانا تھا.بلکہ سوچکر اور تمام مشکلات کو سمجھ کر قبول کیا تھا.میں نے بتایا تھا کہ صداقت کے دشمن ہمیشہ اور ہر زمانہ میں ہوتے ہیں اور رسول کریم صلی الہ علیہ کم کے وقت میں بھی تھے.آج جبکہ آپ کا ایک غلام کھڑا ہوا ہے.تاکہ دنیا میں اسلام کو پھیلاتے.توفیر تو غیر خود نبی کریم کو ماننے کا دم بھرنے والے اس کی مخالفت کر رہے ہیں.پس جن رستوں سے صحابہ گزرے ہیں ان سے زیادہ خطرناک راستوں میں سے گزرنا پڑے گا.اور ان سے زیادہ وقتیں ہمارے لیے در پیش ہوگی کیونکہ صحابہ کے وقت دنیا اس طرح منتظم صورت میں نہ تھی جس طرح آب ہے اور اس وقت ایسے علوم اسلام کے مقابلہ میں نہ تھے.جیسے آب ہیں.پس آج بھی ایسے لوگ ہیں جو ہم پر اور میں پاگل کہتے ہیں اور تو اور بعض ہم میں سے بھی منافق طبع اور کمزور دل ہیں.جیسا کہ رسول کریم کے
۵۵۸ وقت میں مسلمان کہلاتے ہوئے منافق تھے.وہ بھی نہیں کہتے ہیں کہ کیوں ساری دنیا کا مقابلہ کرتے ہو.جان جائیگی.عزت پر حرف آئے گا.میٹ جاؤ گے ، لیکن ہم ان کو کہتے ہیں کہ جس وقت ہم نے بیعت کی تھی.ہمیں اُسی وقت کہ دیا گیا تھا کہ تمہیں صداقت کے پھیلانے کے لیے اپنی ہر ایک عزیز سے عزیز چیز کے قربان کرنے کے لیے تیار ہونا ہو گا پس یہ نئی بات نہیں ، بلکہ ہمیں پہلے سے ہی بتادی گئی تھی یہیں ہم خدا کی راہ میں کسی چیز کی پرواہ نہ کرینگے اور انشاء اللہ ہم نا کام نہ ہونگے.بلکہ کامیاب ہونگے.تر خانه پس تم خوب یاد رکھو.مَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهُ فَإِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمُ اللَّہ پر بھروسہ کرنے والے ہی کامیاب ہوا کرتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کا سہارا اتنا مضبوط ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کو توڑ نہیں سکتی.دیکھو اگر ایک اینٹ آسمان کی طرف پھینکو تو وہ بھی زمین پر آئیگی.لیکن ہزاروں من مٹی جو چھت پر ہوتی ہے.زمین سے بلند ٹھہری رہتی ہے.کیونکہ چھت کے نیچے سہارا مضبوط ہوتا ہے جو اس کو زمین پر گرنے سے بچاتا ہے.پس گو ہم کمزور ہیں، لیکن چونکہ مسیح موعود خدا کی طرف سے تھے اور خدا آپ اور آپ کے ساتھ والوں کے ساتھ ہے.اس لیے ہمارا مقابلہ ہمارا نہیں.خدا کا ہے جو شخص ہتھیار پر وار کرتا ہے.وہ ہتھیار کو توڑنا نہیں چاہتا بلکہ شمشیر زن پرحملہ کرتا ہے جگر تلوار والا تلوار کی حفاظت کرتا ہے.اسی طرح خدا ہماری حفاظت کر رہا ہے.اس لیے نہیں خطرہ نہیں.اگر ڈر ہے.تو ان لوگوں کو جو منافق ہیں یا جن کے دل میں مرض ہے یعنی وہ اتنے بیمار ہیں کہ ان کو منافق نہیں کہا جا سکتا.اگر ہمیں ایک منٹ کے لیے بھی یہ وہم ہو کہ نہیں دنیا مٹا دیگی.تو میں اپنی فکر کرنا چاہئے اور تھنا چاہتے کہ تب ہم منافق ہیں کیونکہ ہم ملاک تب ہی ہو سکتے ہیں.جب مسیح موعود جھوٹے ہوں کہ ہمارا ان پر ایمان ناقص ہو.مگر چونکہ وہ جھوٹے نہیں اس لیے ہم بھی اس وقت تک ہلاک نہیں ہو سکتے جب تک ہم میں سچا ایمان اور حقیقی اخلاص پایا جائیگا.پس خوب یاد رکھو.اللہ تعالیٰ کی طاقت کا مقابلہ کوئی طاقت نہیں کر سکتی.کب صداقت دنیا میں آئی کہ اس کا مقابلہ نہیں کیا گیا.اور مقابلہ کرنے والے نا کام نہیں رہے.حضرت موسیٰ جس دنیا کی طرف آئے وہ ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی.مگر ان کو مٹا تو نہ سکی.اسی طرح حضرت عیسی بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے لیے آئے اور بنی اسرائیل آپ کی مخالفت میں لگ گئے مگر عیلی نا کام نہ رہے ابھی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کے لیے آئے اور ساری دنیا آپ کی مخالفت میں لگ گئی مگر مخالفین کو کامیابی نصیب نہ ہوئی.کامیاب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہوئے.اسی طرح اگر حضرت مسیح موعود خدا کی طرف سے ہیں اور یقیناً خدا کی طرف سے ہیں.تو ساری دنیا کی مخالفتوں کا ہمیں
۵۵۹ - کیا خوف ہو سکتا ہے.ہمارے مقابل میں تمام دنیا دی طاقتوں کی حیثیت ایک مچھر جتنی بھی نہیں.بے شک ہمارے پاس تلوار نہیں رہیم فو میں نہیں رکھتے.ہمارے پاس مال نہیں، ہم تھوڑے ہیں اور ہمارے مخالفوں کے پاس سب کچھ ہے، مگر ہم نے کب کہا ہے کہ ہمارے پاس تلوار ہے.اور ہم اس کے ذریعہ کامیاب ہونگے.ہم تو کہتے ہیں.ہمارے پاس صداقت ہے اور صداقت پر کوئی غالب نہیں آسکتا.بلکہ صداقت ہی ہر قسم کی بطالت پر غالب آیا کرتی ہے پس گو ہم کمزور ہیں.ناطاقت ہیں.تھوڑے ہیں مگر چونکہ اپنے پاس صداقت رکھتے ہیں.اور اس بستی کا سہارا نہیں حاصل ہے جو تمام طاقتوں اور قوتوں کی جامع ہے.اس لیے نہیں اپنی ناکامی کا ہرگز خیال نہیں آسکتا.میرے نزدیک تو وہ شخص متکبر ہے.جو ڈرتا ہے کہ دنیا میں پامال کردیگی کیونکہ وہ اپنے کو بھی کچھ خیال کرتا ہے، لیکن جس کا تو کل خدا پر ہے.وہ اپنی ذات کو کچھ نہیں سمجھتا.اس لیے دنیا کی کوئی طاقت اسے خوف زدہ نہیں کر سکتی.کیونکہ اس کی طاقت کسی اور ذریعہ سے آتی ہے.میں نے دتی دربار میں دیکھا کہ ہزار ہا کا ہجوم تھا اور ایک ریلا پڑتا تھا کہ جس سے مضبوط سے مضبوط آدمی گر پڑتے تو اُٹھ نہیں سکتے تھے، لیکن ہمارے آگے آگے ایک مضبوط شخص نے اپنے کندھوں پر ایک بچہ اٹھایا ہوا تھا.اس وقت جبکہ لوگ گر پڑتے تھے.اور ہائے وائے کر رہے ہوتے تھے.وہ بچہ ہنستا جا رہا تھا.اس کی کیا وجہ تھی کہ وہ بچہ ہنستا اور تماشہ دیکھتا گزر رہا تھا.ہیں کہ وہ ایک مضبوط شخص کے کندھوں پر سوارہ تھا.پس مت ڈرو کہ تمام دنیا تمہارے مقابلہ میں ہے.اور ہراساں مت ہو کہ تم کمزور ہو کیونکہ تم اپنی طاقت پر مخالفوں کے مقابلہ پر نہیں کھڑے ہوتے بلکہ خدا تمہاری مدود پر ہے، خدا کی طاقت تمہارے دشمنوں اور مخالفوں کا مقابلہ کریگی.یہ بڑی بڑی طاقتیں آئیں گی اور تمہارے پاؤں پر کریں گی.مجھے ایک فرانسیسی مصنف کے قول کا بڑا مزا آتا ہے.وہ لکھتا ہے.مجھے ایک بات تعجب میں ڈال دیتی ہے کہ ایک کچے مکان میں چند غربا.آدھے تنکے جموں کے ساتھ بیٹھے ہیں اورتجویزیں یہ کر رہے ہیں کہ اب قیصر کی سلطنت فتح کرتا ہے اور اب کسرٹی کی حکومت کو فتح کرینگے اور ہر ایک کے چہرے سے یقین دپکتا ہے اور پھر اسی کے مطابق وہ کر کے بھی دکھا دیتے ہیں.جب ایمان ہو تو کسی کاڈر نہیں ہوتا.اگر ہمیں مسیح موعود پر ہنچا ایمان ہو.تو ہیں کوئی مادی طاقت مرعوب نہیں کر سکتی اور نہ حکومت میں کوئی تغیر خوف زدہ کر سکتا ہے.ہم کسی حکومت کی اطاعت اس کے خوف کی وجہ سے نہیں کرتے.بلکہ خدا کے حکم کی وجہ سے کرتے ہیں.دیکھو حضرت موسیٰ فرعون سے نہیں ڈر سکتے تھے.کیونکہ انہوں نے پہلے ہی
۵۶۰ دیکھ لیا تھا کہ وہ فرق ہورہا ہے.اور غرق ہونے والے سے انہوں نے کیا ڈرنا تھا.ہاں اگر موسیٰ کو خوف تھا.تو خدا کے اس حکم کا کہ قُولَا لَهُ قَولاً لنا وطه : ۴۵) فرعون کے پاس جاؤ.اس سے نرم نرم باتیں کرو.اسی وجہ سے وہ فرعون سے نرمی کے ساتھ گفتگو کرتے تھے نہ کہ اس کے ڈر سے.تو ہم گورنمنٹ کی اطاعت اس کے ڈر سے نہیں کرتے ، بلکہ خدا کے حکم کے ڈر سے کرتے ہیں.پھر ہمیں ہمارے آقا حمدمصطفے صلی الہ علیہ ولم کا ارشاد ہے کہ گر کوئی ظالم بھی تمپر حاکم ہو تو اس کی اطاعت کر رہے پس ہم اگر کسی حکومت کی اطاعت کرتے ہیں.تو اس کے خوف سے نہیں.بلکہ خدا اور خدا کے رسول کے احکام کے مطابق کرتے ہیں حکومتیں اس سے زیادہ کیا کر سکتی ہیں کہ ایک شخص کو مروا دیں مگر مومن موت سے نہیں ڈرتا.کیونکہ موت کے بعد وہ مجھتا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ کی رضا اور جنت نصیب ہونگے.جن میں میں رہوں گا پیس ہمارے لیے سوائے خدا کے کسی کا حقیقی خوف نہیں.کیونکہ ہم اس مقام پر ہیں جس کو خدا کی نفرتیں گھیرے ہوتے ہیں.ڈر ایمان کی کمی کے باعث ہو سکتا ہے، لیکن مومن خدا کے سوا کسی سے خوف زدہ نہیں ہو سکتا.پس یاد رکھو.کہ یہ تمام حکومتیں تمہارے آگے مغلوب ہو جائیں گی مگر تلوار سے نہیں دلائل کے ساتھ اور صداقت کے ساتھ تم غالب ہو گئے.اس لیے خدا سے تائید یافتہ بے خوف ہوتے ہیں.اللہ تعالی توفیق دے کہ ہماری جماعت اس امانت کو جو اس کے سپرد کی گئی ہے.پہنچائے اور اس الفضل اور دسمبر انه ) کے فضل کے ساتھ کامیاب ہو.آمین : له مشكورة كتاب الفتن الفصل الاول
041 (103) بی جلسہ سر کی ہے منتظمین جلسہ اور مہمانوں کا فرض اخلاص کیسا تھ تربیت چاہیئے د فرموده ۳ دسمبر ۱۹۲۰ته: تشد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :- " ترقی کرنے والی قوموں کے ساتھ یہ بات لازمی طور پر لگی ہوتی ہے کہ ان کی ضروریات میشان کی آمدنی کے ذرائع سے بڑھی رہتی ہیں.اور جس قوم کی ضروریات ذرائع سے زیادہ نہ ہوں.اس کے یہ معنے ہیں کہ اس میں سوچنے والے دماغ نہیں.ترقی کرنے والوں میں ہمیشہ ایسے دماغ ہوتے ہیں.جو نتے تھے کام سوچتے رہتے ہیں.اگر نہ ہوں تو وہ قوم ترقی کی طرف قدم نہیں بڑھا سکتی کیونکہ دنیا مں ترقی کی ایک کو چل رہی ہے اور ایک کشتی ہو رہی ہے جواس مقابلہ میں بڑھنے کی کوشش نہیں کرتا.وہ اپنے جوہ کو قائم نہیں رکھ سکتا ہپیں جماعت کی ترقی کے لیے ضروریات کا ہونا ضروری ہے کیونکہ اس کے ساتھ جماعت کے اعمال بھی ترقی کرتے رہتے ہیں.حضرت میں موجود علی السلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر شن اعتراض نہ کرتے.اور ابوجہل، عقبہ شیبہ کا وجود نہ ہوتا.تو قرآن بہت مختصر ہوتا.اس طرح معترض کا وجود بھی مفید ہو جاتا ہے.وہ اعتراض کرتا ہے تو اسلام کی تائید میں نئے نئے دلائل اور نئے نئے علوم نکلتے ہیں.اگر سب لوگ ہی حضرت ابو بکر نہ جیسے ہوتے اور اعتراض نہ کرتے تو نہ معجزات کا ظہور ہوتا.نہ آیات اللہ ظاہر ہوتیں.نہ خدا کی قدرت نظر آتی کیونکہ اس کی ضرورت ہی نہ ہوتی.پس ترقی کے لیے ضروریات کا ہونا ضروری ہے.
۵۶۲ اسی اصول کے مطابق ہماری جماعت کی ضروریات ہر سال ذرائع سے بڑھی رہتی ہیں اگر کوئی کہے کہ یہ انحطاط کی دیں ہے.تو اس کو معلوم ہونا چاہیئے کہ وہ ضروریات انحطاط کا باعث ہوا کرتی ہیں جن میں ذرائع آمد کم ہوں یا گم رہیں.اور ضروریات بڑھتی جاتیں لیکن اگر ضروریات کے ساتھ ساتھ ذرائع میں بھی ترقی ہوتی رہے تو پھر ضروریات کا بڑھنا انحطاط کا موجب نہیں ہوتا.اگر کوئی اکیلا شخص دس روپے ماہوار میں گزارہ کرتا ہے اور بیوی بچے کے ہونے پر بارہ روپے میں بھی گزارہ نہیں کر سکتا.تو اس کو یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ اقتصاد کے خلاف کرتا ہے یا وہ مسرف ہے پس جہاں اخراجات بڑھتے جائیں.وہاں آمدنی بھی بڑھتی جا رہی ہو.تو پھر اخراجات موجب انحطاط نہیں ہوتے.ہمارے اخراجات ہر سال بڑھتے جاتے ہیں، لیکن خدا کے فضل سے جماعت بھی دمیدم ترقی کر رہی ہے.اور اس بڑھوتی کے باعث ہم جو سامان بھی کرتے ہیں.وہکم ثابت ہوتے ہیں.ملا کی سالانہ جلسہ ہے.ہم ہرسال پیشتر کی نسبت زیادہ اندان کرتے ہیں مگر خدا کے فضل سے مہمان پہلے سال کی نسبت بہت زیادہ آجاتے ہیں.اس لیے ہمارے بڑھے ہوئے انداز سے بھی کم ہوتے ہیں اور لوگوں کو کسی نہ کسی باعث سے شکوہ پیدا ہو ہی جاتا ہے.اگر کوئی کہے یہ کیوں ہوا.تو ہم کہیں گے کہ اس میں ہمارا قصور نہیں.بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمارے اندازے سے بڑھکر مہمان آتے.یہاں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے اور وہ یہ کہ جب کسی عمان کو تکلیف ہوتی ہے.اور دہ شکایت کرتا ہے تو اس وقت ہمارے منتظموں کو یہ حق نہیں کہ ان کی شکایت کے متعلق یہ کہیں کہ تم میاں آرام پانے نہیں آئے تھے.بلکہ تمہارے آنے کی غرض دین سیکھنا تھا.اگر کوئی تکلیف پہنچ گئی ہے.تو اس کی پروانہ کرو کیونکہ اگر وہ ایسا کہیں گے.تو یہ ان کا اپنے قصور کو چھپانا ہوگا.بے شک اس کا بیاں آنا دین سیکھنے کے لیے ہوتا ہے اور اس کا بھی فرض ہوتا ہے کہ اس غرض کو مد نظر رکھے.مگر اس تنظیم کا کا بھی کچھ فرض ہوتا ہے.اور وہ یہ کہ مہمان کی حتی الامکان خدمت اور دلجوئی کرے.اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہنچے.تو نرمی سے بتاتے کہ یہ فلعلی کس طرح ہوتی ہے، لیکن اس کی بجائے منتظم کا مہمان کو اس کا فرض یاد دلانے کے یہ معنے ہیں کہ وہ اپنا فرض بھولا ہوا ہے.اور اپنی کوتاہی کو چھپاتا ہے پس منتظم کا یہ کام نہیں ہے.بلکہ یہ ایک تعمیر نے شخص کا کام ہے کہ دونوں کو ان کے فرائض کی طرف متوجہ کرے.ورنہ اگر ایسے دونوں شخص جن کے ذمہ فرائض ہیں.ایک دوسرے کو اس کا فرض یاد دلائیں گے تو اس طرح فساد ہوگا.مثلاً اگر قرض خواہ مقروض کر کے کہ میاں خدا کا حکم ہے کہ وعدہ پورا کرنا چاہیئے.تم
۵۶۳ نے جو وعدہ کیا تھا.اس کو پورا کرو.اورادھر معروض کے کہ خدا کا حکم ہے کہ سختی نہیں کرنی چاہیتے تو شاد ہوگا، لیکن ایک تیسرا شخص دونوں کو ان کے فرائض یاد دلا سکتا ہے اور اس طرح کوئی فساد نہیں ہو سکتا.پس جب مہمان آتے ہیں.توجو شخص کھانا کھلانے پر مقرر ہو.اگر اس سے کوئی غلطی ہو جائے اور مہمان اس کی شکایت کریں.تو اس کا کام ان کو نصیحت کرنا نہیں.نہ ان کو ان کے فرض یاد دلانا اس کا کام ہے.بلکہ اس کا فرض ہے کہ اپنی غلطی کا اعتراف کرے اور ان سے معافی چاہیے.اور اسی طرح اگر مہمان ان کو یہ کہے کہ روٹی کھلانے والے لکھتے ہیں.کسی کام کے نہیں.اپنا فرض ادا نہیں کرتے تو ان کا نصیحت کرنا بھی درست نہیں.اس کے یہ معنے ہیں.کہ یہ شریعت کے حکم کے پردے میں اپنے بعض کو اور غصہ کو ظاہر کرتے ہیں.یہ کام بھی ایک تیسرے شخص کا ہے کہ ان کو نصیحت کرے.میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے جلسہ پر مہمانوں کو شکایت پیدا ہوتی ہے مگر بیسیوں دفعہ اسمیں منتظم کا دخل نہیں ہوتا اور بہت دفعہ تھوڑی سی توجہ سے اس غلطی کی اصلاح کی جاسکتی ہے لیکن ایسے وقت میں منتظم کا نصیحت کرنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے اور اس کا برا اثر پڑتا ہے.کیونکہ اس نصیحت کو نصیحت نہیں خیال کیا جاتا.بلکہ سمجھا جاتا ہے کہ اس طرح اپنا پیچھا چھوڑاتے ہیں.پس میں قادیان کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں.اور ابھی سے کہ جلسہ میں ابھی بیس روز رہتے ہیں.نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھ لیں.پہلے میں ایک آدھ جمعہ پہلے کہا کرتا تھا.اب دو جمود السیان چھوڑ کر کہتا ہوں کہ ابھی اپنے فرض کی طرف متوجہ ہو جائیں میں نے بارہا نصیحت کی ہے، لیکن میں کہر سکتا ہوں کہ ابھی تک ایک بھی نہیں جس نے اپنی ذمہ واری کو سمجھا ہو.خوب یاد رکھو کہ تم خالی اخلاص سے کچھ نہیں کرسکتے.جب تک اخلاص کے ساتھ تمہاری تربیت نہ ہوئی ہو.تم میں بہت ہیں جو مخلص ہیں.اور بہت ہیں جو دین سے محبت رکھتے ہیں.مگر بہت ہی کم ہیں جو تربیت یافتہ ہیں.تربیت جہاں کام دے سکتی ہے.وہاں محض تمہا را اخلاص کام نہیں آسکتا دیکھو اگر تم ایمان میں حضرت ابو کرینہ کے برابر بھی ہو جاؤ تو محض ایمان میں ترقی یافتہ ہونا تمہیں دشمن کے مقابلہ میں لڑائی کے فن سے واقف نہیں کر سکتا.لڑائی کا فن اسی وقت آتی گا.جب تم با قاعدہ تربیت پاؤ گے.اور شق کرو گے.نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کے صحابہ بڑے مخلص تھے مگر تربیت کی ان کے لیے تھی ضرورت تھی.اسلیئے وہ لوگ تیراندازی اور دیگر فنوں کی باقاعدہ مشق کرتے تھے.دیکھو تربیت کا یہ اثر ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی نماز کی صفوں کوسیدھا کرو، ورنہ خدا تمہارے دل ٹیڑھے کر دیگا تے ہیں.مسلم بروايت مشكورة كتاب الصلواة باب تسوية الصفوف
قدر میں سیدھی کرنے کی تاکید ہے.مگر نماز میں عموماً صفیں ٹھیک نہیں ہوئیں، لیکن فوج کے سپاہی جو دس دس روپیہ کے نوکر ہوتے ہیں اور جن کو کوئی اخلاص نہیں ہوتا.کیسے اپنی صفوں کو سیدھا رکھتے ہیں اور جب تیز چلتے ہیں.تب بھی ان کی صفیں ٹھیک رہتی ہیں.تم میں اخلاص ہے مگر چونکہ تربیت نہیں ہے.اس لیے تم صفیں سیدھی نہیں کر سکتے.اور ان کے پاس اخلاص نہیں.صرف تربیت ہے.وہ اس کام کو کر سکتے ہیں.پس تمہیں خواہ کتنا ہی ایمان حاصل ہو مگر جب تک تم الف - ب نہیں پڑھو گے.اور حسب قاعدہ زبان سیکھنے کی کوشش نہیں کرو گے تمہیں زبان عربی یا کوئی اور زبان نہیں آئے گی.یاد رکھو کہ جہاں جسم ساتھ ہوگا.وہاں محض اخلاص کام نہیں دیگا.بلکہ اس کے لیے تربیت حاصل کرنی پڑیگی.اخلاص کا تعلقی محض روح سے ہے لیکن جہاں جسم ساتھ ہو.وہاں اخلاص کے ساتھ تربیت بھی ہونی چاہیئے.شریعت نے نماز فرض کی ہے لیکن چونکہ نماز کا تعلق جسم سے بھی ہے.اس لیے جب جسم بیمار ہو تو شریعت کہتی ہے بیٹھ کر یا لیٹ کر یا اشارے سے نماز پڑھ لو.نماز جو اصل میں روح کا فعل ہے قسم کے بیمار ہونے سے لیٹ کر ہی پڑھی جاتی ہے.حالانکہ حجم کے بیمار ہونے کے ساتھ روح بیمارنہیں ہوتی بلکہ بسا اوقات بیماری میں روح اور زیادہ خدا کی طرف متوجہ ہوتی ہے.تو لیٹ کر پڑھنے کی یہی وجہ ہے کہ چونکہ جسم بیمار ہوتا ہے.اور نماز کے ساتھ جسم کا بھی تعلق ہے.اس لیے جسم کی رعایت رکھنی پڑتی ہے.میں سمجھتا ہوں کو تم میں پچاس فیصدی ہیں جنہوں نے اس نکتہ کونہیں سمجھا کہ ان کاموں میں جن میں جسم کا تعلق ہے محض روح کی صفائی کام نہیں دے سکتی.تم میں سے خواہ ہر ایک حضرت ابو کرنے سے بھی ایمان میں بڑھ جائے مگر جب تک تمہاری تربیت ٹھیک نہیں ہو گی محض ایمان و اخلاص سے دنیا کو فتح نہیں کر سکو گے.غور کرو، بارش ہو رہی ہو.تمہاری ایک دیوار ٹوٹ گئی ہو.اور تم کو اندیشہ ہو کہ اگر پر آئیں گے تو تمہیں لوٹ لے جائیں گے تمہیں اپنے مکان سے اور اپنے مال سے محبت ہے لیکن تم شکستہ دیوار کو نہیں بنا سکتے.ہاں ایک معمار میں کو تمہارے مکان اور مال سے کوئی محبت نہیں چند پیسے لیکر تمہاری دیوار کو تم سے بہت زیادہ اچھا بنا دے گا.اس کی کیا وجہ ہے کہ تم باد جو محبت کے نہ بنا سکے اور وہ با وجود محبت نہ رکھنے کے اچھا بنا سکا.اس کی وجہ یہی ہے کہ اس کام کے متعلق اس کی تربیت ہوتی ہے اور تمہاری نہیں ہوئی.
۵۶۵ پس ہر کام کے لیے جن میں جسم کا تعلق ہو، تربیت اور شق ہونی چاہیئے.نماز کے لیے بھی مشق کی ضرورت ہے.بہت میں جو مسجد کی تڑپ رکھتے ہیں مگر نہیں اُٹھ سکتے.اس لیے کہ ان کوشتی نہیں.اسی لیے رسولِ کریم نے ان میاں بیوی کی تعریف کی ہے.جو ایک دوسرے کو تہجد کے لیے اٹھائیں کیونکہ اس طرح مشق ہوتی ہے.ایک چوکیدار جس کو لوگوں کے اموال سے کوئی محبت نہیں ہوتی.چند روپیہ لے کر سردی کی لیبی راتوں میں جاگتا ہے جگر تم باوجود اپنے اموال سے محبت رکھنے کے رات کو نہیں جاگ سکتے.اس کی کیا وجہ ہے ہیں کہ اس نے مشق کر کے اپنے جم کو الیسا بنایا اور تم نے اپنے جسم کی تربیت نہیں کی.یہ ایک ضروری نکتہ ہے مگر افسوس ہے کہ اس کونہیں سمجھ گیا.اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہر ایک کام میں نقص رہتا ہے.ایک شخص کو کوئی صیغہ سپرد کیا جاتا ہے.وہ اس کے متعلق علم حاصل نہیں کرتا نہیں دیکھتا کہ پہلوں نے اس کام کو گیا.تو کس طرح کیا.کیا کیا نقص ہوتے کس طرح اصلاح ہوئی کیار کا وٹیں پیش آئیں.اور خود اس کو جو دقتیں پیش آئیں.وہ ان کو بھی نہیں لکھتا.ہمارے ہاں جلسہ پر انتظامی امور میں بعض نقص ہوتے ہیں.اس وقت بوجہ اخلاص کے درد بھی محسوس کیا جاتا ہے.مگر ان نقائص کو لکھا نہیں جاتا.اور اس لیے آئیندہ ان کے دُور کرنے کی کوشش نہیں کی جاسکتی.حالانکہ کام کرنے والوں کا قاعدہ یہ ہے کہ جب کسی کام کو کرنا ہوتا ہے.تو اس کے متعلق کوشش اور مشق پہلے سے شروع کرتے ہیں.مثلاً جنگ میں یہ دیکھا گیا ہے کہ جہاں حملہ کرنا ہوتا تھا.تین تین مہینہ پہلے سپاہ سے شق کراتے تھے اور میں علاقہ پر حملہ کرنا ہوتا تھا.اس کے مصنوعی راستے اور اس کی پہاڑیاں بنا کر فوج سے اس پر حملہ کراتے تھے.جب وہ پختہ ہو جاتے تب حملہ کرتے تھے.سکولوں میں جلسے کرتے ہیں.اگر کسی بڑے شخص نے آنا ہوتو کوئی طالبعلم نظم پڑھتا ہے کوئی ایڈیں پڑھتا ہے اور فرض کیا جاتا ہے کہ وہ بڑا شخص آگیا اسلئے کہ جب شخص آئے تو یہ نکتے ثابت ن ہوں اور واوری بیت تانگوں والے جنھوں نے ملک کے اخلاق بگاڑ دیتے ہیں.یہ بھی پہلے مشق کرتے ہیں پھر سٹیج پر آتے ہیں.اب ہمارے جلسہ کا موقع ہے.ہائی سکول کے لڑکے یا اور جوشیشن پر مہمانوں کو رسیو کرینگے.اگر ان کو شق نہیں تو مانوں کے لیے تکلیف کا باعث ہونگے، لیکن اگر ان کومشق کرائی جائے.تو مفید ہو سکتے ہیں.اور اس کا طریق یہ ہے کہ فرض کر لیا جائے کہ دیں آگئی.تمام لڑکوں کے بستر کروں میں باندھ کر رکھے ہوتے ہیں.ان کو فرض کیا جائے کہ گاڑیوں میں مہمانوں کے بستر ہیں اور کپتان وسل کرے اور ماتحت لڑکے فوراً جس طرح گویا ریل آکر ٹھہر گئی کمروں میں داخل ہوں.اور بستروں کو فوراً نکال لائیں اور اگر ملبہ سے پہلے پانچ سات دفعہ یا جتنی ضرورت ہو ان سے مشق کرائی جائے.تو وہ اب بغیر تربیت کے جتنا کام
۵۶۶ " کرتے ہیں.اس سے کہیں زیادہ اور کہیں اچھا کام اس وقت کر سکیں گے.دیکھو کانگرس وغیرہ والے کسی طرح کام کرتے ہیں.ان کی محض تربیت ہوتی ہے.ان میں وہ اخلاص نہیں ہو تا.بلکہ اس کا ہزارواں حصہ بھی نہیں ہو تار جو تم میں ہے کہ میں جب اول بار میں ڈلہوزی گیا.اس وقت مجھ کو یہ خیال آیا تھا کہ ہمارے لوگوں کی تربیت نہیں.اسی وقت سے میں بار بار خطبات میں.درسوں میں تقریروں میں کہ رہا ہوں مگر افسوس ہے کہ اس پر توجہ نہیں کی گئی.پس جسمانی کاموں میں جسمانی تربیت کی ضرورت ہے.دیکھو عیسائی مبلغ جن ممالک میں جاتے ہیں.چونکہ وہ تربیت یافتہ ہوتے ہیں اس لیے شور میچ جاتا ہے.مگر ہمارے مبلغ بعض دفعہ ہر سوں رہتے ہیں.اور لوگوں کو علم تک نہیں ہوتا.اس نکتہ کو سمجھو اور تربیت کی طرف توجہ کرو.اگر چاہتے ہو کہ کامیاب ہو.ورنہ محض ایمان سے وہ کام جو درکار ہے نہیں خُدا نے جو سامان دیتے ہیں ان کو استعمال میں لاؤ.ان کو استعمال میں نہ لانا اور فتح چاہنا خدا کا امتحان لینا ہے.اگر شق نہیں کرو گے تو ہزاروں سال میں بھی مقصد حاصل نہیں کر سکو گے.تربیت ہوا اور پھر کام کرنے والوں پر ایک نگران ہو جس کو سوائے نگرانی کے اور کوئی کام نہ ہو.پھر کام ہو گا.یورپ کھای کاروبار- ایک جرمن فلاسفر کے قول پر چل رہا ہے.اس سے پوچھا گیا کس طرح اچھا انتظام ہوسکتا ہے اس نے کہا کہ کچھ لوگ بالکل فارغ ہوں.جو یہ دیکھ سکیں کہ دوسر سے فارغ نہیں.وہ صرف دماغ کی طرح ہونے چاہئیں.ان کا کام صرف سوچنا ہو.وہ دماغ ہوں اور دوسرے اعضاء و جوارح.یہی عمدگی کے ساتھ کام کرنے کا طریق ہے.فرض کرد - اگر مجھے بیت المال کا کام سپرد ہو اور میں روز روپیہ کا حساب کرنے بیٹھوں تو جماعت کی بہتری کے لیے اور جو بہت سے کام ہیں.اس وقت نیس نگران ہوں جن کا کام محض نگرانی ہو.میں نے ابھی سے نصیحت اس لیے کی ہے تاکہ تم اس فرض کے ادا کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ.جلسہ پر صرف احمدی ہی نہیں غیر احمدی بھی آتے ہیں.اس وقت جو احمدی آتے ہیں.اگر چہ ان کو جو تکلیف ہو.وہ برداشت تو کرتے ہیں.مگر اچھا اثر نہیں لیتے لیکن جو غیر احمدی آتے ہیں.ان کو اگر تکلیف پہنچے تو وہ جتنے قریب ہوتے ہیں.اتنے ہی دور ہو جاتے ہیں.میں نصیحت کرتا ہوں کہ جو فارغ ہوں.وہ حتی الوسع اپنے آپ کو افسروں کے پیش کریں پھر شق کریں.اور تربیت حاصل کریں تا کہ کام کو خوبی کے ساتھ سرانجام دے سکیں.اگر چہ یہ وقتی نصائح ہیں.مگر یہ ہمیشہ کے لیے یاد رکھو کہ جب تک تربیت نہ ہو کوئی کام خوبصورتی سے نہیں
046 ولو تمہارا ہو سکتا.جن کاموں میں جسم کا تعلق ہو.وہ محض اخلاص سے نہیں ہو سکتے.اگر اس نکتہ کو مدنظر رکھ تو تمہا ترقی کا قدم تیزی سے اُٹھ سکتا ہے.للہ تعالی توفیق دے کہ ہم ان تمام ذرائع کو استعمال کرسکیں.جن سے ہماری ترقی میں سرعت پیدا ہو.اور اسلام جلد پھیل جائے.آمیر نے : د الفضل اور دسمبر ته )
(104) سرچشمہ ہدایت کی قدر کرو اور فساد کی راہوں سے بچو فرموده - دسمبر ۹ حضور انور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ اور آیت شریفہ وَلَا تُفْسِدُ وَانِي الْأَرْضِ بَعْدَ اِصلاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمُعَاء إِنَّ رَحْمَةَ اللهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ (الاعراف (٥٠) کی تلاوت کے بعد فرمایا:.انسانی اعمال دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ جن کا اثر صرف کرنے والوں تک محدود ہوتا ہے.اور ایک وہ عمل ہوتے ہیں جن کا اثران دوسروں پر بھی پڑتا ہے.جو اس فعل میں شامل نہ ہوں.ان دو نو سم کے کاموں میں اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی.جو شخص نماز پڑھتا ہے.اس کی نماز کا اثر اس شخص کی ذات تک ہے.مگر جو زکواۃ دیتا ہے.اس زکوۃ دینے والے گا اثر اسی کی ذات تک محدود نہیں.بلکہ دوسروں پر بھی پڑتا ہے کیونکہ جب تک لینے والا نہ ہو کر دی ہی نہیں جاسکتی.پھر بدلنی کا اثر مض بدلنی کرنے والے کی ذات تک محدود ہے یا مثلاً کوئی شخص شرک کرتا ہے اگرچہ شرک بڑا گناہ ہے.مگر اس کا اثر دوسروں پر کچھ نہیں پڑتا.لیکن اگر کوئی چوری کرے تو چوری کا فعل چور کی ذات ین ہی نہیں.بلکہ جن کے ہاں چوری ہوتی ہے.ان پر بھی اثر ڈالتا ہے یا قتل ہے.اس کا اثر بھی دوسرے پر پڑتا ہے.بلنی کبھی بری ہے اور قل یا چوری بھی بڑی ہے ، لیکن فرق ان میں یہ ہے کہ ایک فعل کا اثر صرف کرنے والے کی ذات تک محدود ہے اور دوسرے کا اثر دوسرے پر بھی پڑتا ہے.اس لیے ایسے اعمال جن کا دوسروں کی ذات پر بھی اثر پڑے.اونی ہو کر خطرناک ہوتے ہیں اچھی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص اپنا ایک لاکھ روپیہ ضائع کردے اور ایک دوسرا شخص پچاس شخصوں کا ایک ایک روپی کوردی
۵۶۹ تواگر چہ نقصان تو ایک لاکھ کا بڑا ہے.مگر ان پچاس روپیہ سے جو پچاس شخصوں کے تھے.بلحاظ اثر کے تھوڑا ہے.کیونکہ لاکھ کا اثر ایک ہی شخص کی ذات پر ہے.اور پچاس روپیہ کے نقصان کا اثر پچاس اشخاص کی ذات پر پڑتا ہے.اسی طرح اگر ایک شخص اپنے لاکھ روپیہ کے کپڑے کی دکان جلائے تو اگرچہ لوگوں پر بھی اس کا اثر پڑے گا.مگر زیادہ اثر مالک پر ہی ہو گا، لیکن اگر کوئی پچاس آدمیوں کا ایک ایک روپیہ کا کپڑا جلا دے یا پھاڑ دے.تو اس کا اثر زیادہ وسیع ہوگا.پس ایسے اعمال ہو اپنے اثرات کے لحاظ سے لوگوں کے لیے مضر اور خطرناک ہوں.ان میں انسان کو شامل ہونے سے بچنا چاہیئے.اسی قسم کے اعمال میں سے جو دنیا کے لیے خطرناک ہوتے ہیں.ایک فساد بھی ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا - جب اصلاح ہو چکی ہو یا ہو رہی ہو.تو اس میں دخل دینا اور رکاوٹ ڈالنا بہت نقصان رساں ہوتا ہے ہر ایک فعل کا اثر ہوتا ہے.اگر برا فعل ہے ، تو بڑا اثر ہو گا.اور اگر نیک ہے تو نیک.پھر اگر صرف اس کی ذات سے تعلق رکھتا ہے تو اسی پر.اور اگر دوسروں سے تعلق رکھتا ہے.تو ان پر بھی ہوگا.اس قسم کے کسی فعل کے کرنے سے کسی کو ہدایت کرنا یا سمجھانا کہ وہ اس سے باز آئے.اسی حد تک جائز ہے جیں سے فساد نہ ہو.اگر عملی طور پر سمجھانے اور روکنے کا اثر دوسروں پر پڑتا ہے یعنی ہم تو اپنے خیال میں اصلاح کرتے ہیں.مگر اس سے دوسروں پر برا اثر پڑتا ہے.تو یہ فساد ہے دیکھو منافق اپنے فساد پھیلانے کی کوششوں کا نام اصلاح رکھتے تھے.لیکن اصل میں اس اصلاح کا نتیجہ مسلمانوں کے لیے نقصان رساں تھا.کیونکہ اس سے کلمہ اسلام متفرق ہوتا تھا اور منافق اپنی جان بچانا چاہتے تھے.یہ وہ وقت تھا کہ کفار نے اسلام کے مٹانے کے لیے شمشیر اٹھالی تھی.اس وقت ان کے دفع شر کے لیے ضرورت تھی کہ شمشیر اٹھائی جائے.وہ لوگ اس کو روکتے تھے اور اس کا نام اصلاح رکھتے تھے.حالانکہ اس طرح وہ فتنہ کو اور بڑھاتے تھے کیونکہ جب وہ مسلمانوں کے خلاف کفار کی تکلیفوں اور شرارتوں کو دیکھتے اور مسلمانوں کو روکتے تھے کہ ان کا جواب نہ دو تو گویا وہ اس طرح ظالم کی مدد کرتے تھے.اس کو اللہ تعالیٰ نے فاد قرار دیا.اگرچہ منافق اپنے فعل کو اصلاح ہی کے نام سے نامزد کرتے تھے مگر در حقیقت یہ فساد تھا.پھر ان فتنوں کے کاموں میں میں دیکھتا ہوں کہ سب سے بڑا فتنہ یہ ہے کہ اصلاح کے سرچشمہ پر حملہ کیا جائے.مثلاً ایک شخص مریض کو دُکھ دیتا ہے.دوائی نہیں پہنچاتا.یہ برا کام کرتا ہے مگر جو ہسپتال میں جاتا.اور تمام دوائوں میں زہر طا دیتا ہے.وہ بہت بڑا مجرم ہے.پہلے کے فعل سے ایک
شخص کی جان خطرے میں تھی.مگر دوسرے کے فضل سے بے شمار جانیں بلاک ہوگی.کیونکہ پہلے نے ایک مریض تک دوانہ پہنچنے دی.مگر دوسرے نے بہت سوں کی ہلاکت کا سامان کر دیا.اس زمانہ میں جو فتنہ ہے لوگ اس سے نا واقف نہیں.ہر جگہ سے آواز اُٹھ رہی ہے کہ ہم مفت میں ہیں.ہم آفت میں ہیں.کوئی جماعت اس وقت خوش نظر نہیں آتی.بادشاہ نا خوش ہیں کہ رعایا ہم سے اچھا سلوک نہیں کرتی.اور رعایا ناخوش ہے کہ بادشاہ ہم پر ظلم کرتے ہیں.میاں بیوی سے خوش نہیں بیونی میاں سے ناراض ہے.بیٹے والدین سے خوش نہیں.والدین اولاد سے ناخوش ہیں.اس وقت ایسی خستہ کی رو چلی ہے کہ حقیقی امن کہیں نظر نہیں آتا.ایسی حالت دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل ، رحم اور احسان سے یہ سلسلہ تجویز کیا اور اس کے ذریعہ امن قائم کیا.اور امن کے قیام کے لیے ایک رستہ بنا دیا.اور اس کے لیے اپنا شہزاد صلح بھیجدیا.امن صلح سے پیدا ہوتا ہے.فساد کیا چیز ہے.دو شخص آپس میں لڑتے ہیں دو شخص لڑیں یا دو محلے یا دوشہر یا دو ملک یا دو قو میں لڑیں.تو اس لڑائی کا نتیجہ فساد اور بے امنی ہوگی.اور اگر قومیں یا ملک یا شہر یا محلہ یا افراد لڑائی چھوڑ دینگے تو امن ہو جائیگا.پس لڑائی چھوڑ دینے کا ہی نام امن ہے.الہ تعالیٰ نے حضرت صاحب کا نام صلح کا شہزادہ رکھ کے بتایا کہ اس کے ذریعہ امن قائم ہوگا اور لوگ مسیح موعود کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو جائیں گے.اس وقت یہ بات منسی بھی جاتی ہے اور اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسا کہ دو فوجوں کے درمیان ایک لڑکا جا کر کہدے کہ میرا کہنا مان پور میں صلح کرنا دوں گا.جیسا اس بچے پر دونوں فوجیں نہیں گی.ویسے ہی ہم پر لوگ ہنستے اور ہمیں پاگل بناتے ہیں.مگر آج تک خدا کی طرف سے کونسی امن کی صورت آتی ہے کہ اس کو لوگوں نے ہنسی میں نہیں اُڑایا.لیکن جو لوگ مسیح موعود پر ایمان رکھتے ہیں.اور خدا تعالیٰ پر ایمان اور اس کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک تو یہ بات یقینی ہے کہ امن اگر قائم ہو گا.تو اسی ذریعہ سے.یہ ہو نہیں سکتا کہ خدا کی تدبیر ناکام رہے.اگر ایک دفعہ بھی ایسا ہو کہ بندوں کی تدبیر کے مقابلہ میں خدا کی تدبیر نا کام رہے.توپھر خدا کی ضرورت ہی نہیں رہتی.کیونکہ اس خدا کی کیا ضرورت ہے.جس کا بتایا ہوا علاج بندوں کے تجویز کردہ علاج سے ناقص ہو.پس اگر مسیح موعود خدا کی طرف سے میں تو دنیا کا امن اور امان آپ ہی کے ماننے میں ہے.اور اب دنیا میں امن آپ کے ماننے والوں ہی کے ذریعہ قائم ہو سکتا ہے.امن کا سر چشمہ احمدیت ہے یہ ہسپتال ہے اور دنیا کا علاج اسی سے ہو گا.
تکلیف اسی وقت تک ہوتی ہے جب تک اصل علاج مہیا اور دریافت نہ ہو، لیکن جب علاج در نیست ہو جاتے تو خواہ کوئی کہتا ہی سرگردان پھرے.آخر علاج کی طرف متوجہ ہونا پڑتا ہے.آج یہ حالت ہے کہ جب کوئی بیمار ہو تو معمولی آدمی بھی کہتے ہیں کہ یونانی طبیسوں سے کیا علاج کراتے ہو.شفا خانہ میں جاؤ.حالانکہ شفا خانوں کی قدر و قیمت ایک دن میں معلوم نہیں ہوگئی تھی.بلکہ جب شفاخانے نکلے ہیں.اس قروت عام خیال ہی تھا کہ انگریزی دو اگرم خشک ہوتی ہے.استعمال نہ کی جائے.حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ ایک مریض کو دیکھنے آ گئے.وہاں ایک اور طبیب بھی ہے تھے.آپ نے فرمایا کہ تھرما میٹر بھی لگایا ہے.طبیب نے کہا کہ اگر تھرمامیٹر لگا نا ہے تو میں جاتا ہوں انگریزوں کی دوا گرم خشک ہوتی ہے اور مریض کو پہلے ہی خشکی ہے.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ تھر میں کوئی دوا نہیں.یہ تو ایک آلہ ہے جس کو مریض کے منہ میں یا بغل میں رکھ کر بخار کی کمی بیشی معلوم کرتے ہیں اس پر طبیب نے بے اختیار کہا کہ نہیں جی ان کی ہر ایک چیز گرم خشک ہوتی ہے، لیکن اب یہ کیفیت نہیں رہی.لوگ اس قدر بدظن نہیں بلکہ یونانی طب پر ڈاکٹری علاج کو ترجیح دینے لگے ہیں.حالانکہ یونانی طرب بھی اپنے اندر فوائد رکھتی ہے.اس کے علاج میں زیادہ نا کامی کی وجہ یہ ہے کہ اس کے سامان نہیں اور اس کے کرنے والے خود پورے واقف نہیں ہوتے.اپنے وقت میں یہ طلب بڑی مفید چیز تھی، لیکن جس وقت یہ طلب نکلی ہوگی.اس کو بھی لوگوں نے نہیں مانا ہوگا.آج کل بھی عام طور پر عورتیں نہ یونانی طب کی قاتل ہیں نہ ڈاکٹری کی.وہ کہا کرتی ہیں.علاج وہ ہیں جو مائیں جانتی ہیں ریپس جو بھی علم ہو.وہ ایک دن میں نہیں مان لیا تھا.بلکہ آہستہ آہستہ اسکو تسلیم کیا جاتا ہے.اسی طرح خدا نے جو ان کا ذریعہ احمدیت تجویز فرمایا ہے.لوگ اس کو بھی مانیں گے مگر آہستہ آہستہ.اور اس کو اس وقت مانا جا ئیگا جس وقت انسانی تجویز لگا ا ا ا ا ا ا ا و ا وا اما انگا جس وقت کردہ سب دروازے بند نظر آئیں گے.پس احمدیت امن کا واحد ذریعہ اور سرچشمہ ہے اور یہی وہ دواخانہ ہے جس سے لوگ شفا پائیں گے پھر اس سے زیادہ مجرم کون ہو سکتا ہے اور اس سے زیادہ دشمن کون ہے جو سر چشمہ کو گدلا کرنا چاہتا ہے.وہ لوگ جو انگلستان ، ہندوستان امریکہ یا دیگر ممالک کی حکومتوں کے خلاف ہیں.اور ان کو مٹانا چاہتے ہیں.ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی کسی کی انگلیاں کاٹے.مگر جوشخص احمدیت کا دشمن ہے.اور اس سر چشمہ کے بند کرنے کے درپے ہے.اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کوئی کسی کا سر جُدا کرے یا دل نکال ہے.خدا نے سینکڑوں سال کے بعد یہ آفتاب پڑھایا ہے.جو اس کو اپنے حسد سے چھپاتا ہے.وہ بڑا خطرناک جرم کرتا ہے اور بڑی سزا کا سختی ہے، لیکن جو شخص اس کو مانتا اور اس علاج کی صحت کا
۵۷۲ قاتل اور حضرت صاحب پر ایمان لانے کا مدعی ہو کر ایسا کرے.وہ بہت ہی بڑا خطرناک قدم اُٹھاتا ہے.میں نے بتایا ہے کہ بعض کام جو لوگ کرتے ہیں اور ان کا اثر اپنے نتائج بد کے لحاظ سے بہت وسیع ہوتا ہے.وہ بہت بڑا کام کرتے ہیں کیونکہ ان کے اس فعل کا اثر یہ ہے کہ اس سے تمام نیکی مٹ جاتے.حضرت عثمان کے وقت میں جو فتنہ ہوا.وہ ایک ملکی جھگڑا تھا.مگر اس کا اثر اتنا پھیلا کہ حضرت عثمان شہید ہوئے اور سلمانوں میں تلوار چل گئی.پھر اس کا کتنا خطرناک نتیجہ نکلا.ال تعالیٰ فرماتا ہے.لَا تُفْسِدُو فِي الأَرْضِ بَعْدَ اصلاحها وشخص بھی قابل سزا ہے جو اصلاح ہونے نہیں دیتا.اور اصلاح ہونے میں روگ ڈالتا ہے، لیکن وہ بہت ہی بڑا مجرم ہے جو اصلاح ہونے کے بعد فساد کرتا یا اصلاح کے سامان کو خراب کرتا ہے.دیکھو اگر طبیب کے ہاتھ سے دوا گرا دی جاتی ہے.تو خطرہ نہیں.کیونکہ اور دوائی اور طبیب موجود ہے، لیکن اگر دوا کے ذخیرہ کو خراب کر دیا جائے توگویا اُمید کو ہی مٹا دیا گیا.پس احمدیت سر چشمہ امن و صلح ہے اور دو شخص سے بڑا مجرم ہے جو احمدیت کا دم بھرتا اور اخلاص کا دعویٰ کرتا ہوا اپنے فعل سے اس سرچشمہ کو خراب کرنا چاہتا ہے.منافق کہتے تھے کہ ہم اصلاح کرتے ہیں.کیا وہ اصلاح کا نام لے کر فساد کرنے سے مجرم نہ تھے.خدا تو ان کو مجرم ہی قرار دیتا ہے اور شہریر قرار دیکر کہتا ہے کہ وہ سزا سے نہیں بچ سکتے.نیت نیک اگر ہو تو عمل خراب نہیں ہوتا اگر کوئی کہے کہ میری نیست نیک تھی تو اس کا فعل بھی نیک ہونا چاہیئے.اگر کوئی شخص نماز چھوڑ کر گلیوں میں پھر نا شروع کر دے اور کہے کہ میری نیت یہ ہے کہ لوگوں کو نماز پڑھاؤں اور نماز کی طرف لاؤں.تو یہ فعل اس کا مستحسن نہیں کہلائیگا.اور اس وقت تک وہ مومن نہیں ہوگا.جب تک خود وہ نماز نہیں پڑھتا.اسی طرح اگر کوئی ایسی بات یا فعل کرتا ہے جس کا نتیجہ فساد ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ میری نیت اصلاح کی تھی.تو یہ نیک نیتی نہیں.کیونکہ اصلاح کا نتیجہ امن ہونا چاہیئے تھا نہ کہ فساد- انسان خود پہلے اپنے نفس سے اصلاح شروع کرے ، تب دوسروں کی اصلاح کر سکتا ہے.اور وہی کام مفید ہو سکتا ہے جس کا دین پر اثر نہ پڑے.اگر کوئی شخص ایک جان سکے بچانے کے لیے لاکھوں روپیہ بھی خرچ کر دے.تو اس کا یہ فعل اچھا ہو گا، لیکن اگر کسی کے خوش کرنے کے لیے ایک نماز بھی چھوڑے تو گنہگار ہوگا.مثلاً اگر سوہندو کہیں کہ ہم مسلمان ہو جائیں گے تم ظہر کی نماز نہ پڑھو.تو ان کے کہنے پر نماز نہ پڑھنا گناہ ہو گا.ایک جان کے لیے لاکھوں روپیہ قربان کرنا جائز ہے.مگر ہزار جانوں کو جہنم سے بچانے کے لیے ایک نماز چھوڑ نا گناہ ہے.اسی طرح اگر کوئی شخص
۵۷۳ اس لیے فساد کے افعال کرتا ہے کہ مصلح بن جائے.تو وہ اچھا نہیں کرتا.کانٹے ہوکر کسی شخص کو امید نہ رکھنا چاہتے کہ وہ گیہوں کاٹے گا.نظل لگا کر انگور کی توقع رکھنا جہالت ہے میں فساد کے ذریعہ اصلاح کا خیال نام ہے.کیونکہ فساد سے فساد ہی پیدا ہو گا.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کے آدمی اپنے ہر ایک کام میں یہ سوچا کریں کہ ان کے قول یا فعل کا اثر ان پر ان کے عزیزوں پر ان کے دین پر کیا پڑے گا.وہ لوگ جو اپنے افعال و اقوال میں احتیاط سے کام نہیں لیتے اور کسی نہج سے فساد کا باعث ہوتے ہیں.وہ بڑی سے بڑی سزا کے مستحق ہیں.یہ غلط اصل ہے کہ دوسروں کو ایماندار بنانے کیلئے اپنے ایمان کو ضائع کر دیا جائے.سب سے پہلا حق اصلاح کے لیے اپنے نفس کا ہے.دیکھو ہم ہمیشہ اس امر کی تردید کیا کرتے ہیں کہ اسلام تلوار کے ذریعہ نہیں پھیلا.اور ہم سب یقین رکھتے ہیں کہ اسلام علاج ہے تمام خرابیوں کا.اس اصل کا پابند کہ اصلاح کے لیے فساد کرنا چاہتے کہے گا کہ اسلم کو ضرور تلوار کے روز سے پھیلانا چاہیئے مگر خداتعالی اس عمدہ علاج کو بھی زبردستی نہیں پھیلانا چاتا کیونکہ وہ اصلاح اصلاح ہی نہیں جو فتنہ کی محتاج ہے اور وہ راستی بے حقیقت ہے جو جھوٹ کے سہارے پر قائم ہوتی ہے اگر کوئی شخص کی قائم کرنے کیلئے تلوار چلاتا ہے.تو وہ برا کام کرتا ہے کیونکہ خدا نے مذہب کے لیے بھی جائز نہیں رکھا کہ زور سے پھیلایا جائے.پس جب خدا بھی اپنے مذہب کو جبر سے پھیلا نا جائز نہیں رکھتا.تو پھر تم اپنے کسی خیال کو جس کے متعلق تمہیں یقین نہیں.وہ ضرور ہی درست ہے.کیوں زبر دستی فساد انگیز طرق سے منوانا چاہتے ہو.اگر اصلاح منظر ہے تو ان جائز طریقوں سے کرو جو کسی اصلاح کے لیے مقررہ ہیں.اگر کوئی شخص صحیح ذرائع سے اصلاح کرنے میں بھی ناکام رہے تو سمجھے کہ یہ اس کا خیال صحیح نہ تھا.ورنہ اگر اس کا اصلاح کا خیال درست ہوتا.تو اس کے قبول کرنے کے لیے بھی اللہ تعالیٰ قلوب کو تیار کر دیتا.جولوگ اپنے خیالات کو پھیلانے کے لیے غلط طریقوں سے کام لیتے ہیں اور لوگ ان کے خیالات سے متفق نہیں ہوتے.ان کو فساد کا موجب نہیں ہونا چاہیئے.بلکہ سمجھ لینا چاہیئے کہ ان کے خیالات درست نہیں.یا وہ ذرائع ٹھیک نہیں.جو انہوں نے استعمال کئے.دیکھیو اسلام نے اپنے خیالات تو الگ رہے.اپنے حقوق کے متعلق بھی کس قدر ضبط کی تعلیم دی ہے رسول کریم سے پوچھا گیا کہ اگر ایسے حاکم ہوں.جو اپنے حقوق تولیں اور ہمارے نہ دیں.تو ہم کیا کریں.آپنے فرمایا کہ ان کے حقوق دو.اور اپنے حقوق خدا پر چھوڑ دو وہ خود لیگا وہ ایسے لوگوں کو تباہ کر دیگا.جو اپنے حقوق لیتے اور دوسروں کے غضب کرتے اور اصلاح کی طرف نہیں آتے.
۵۷۴ پس ہمیشہ اپنے معاملات پر غور کرو کہ آیا وہ غلط تو نہیں یا ان کے ذرائع تو غلط نہیں.اگر کوئی خیال اپنی ذات میں موجب فساد ہے تو اس کو چھوڑ دو.اور اگر خیال صحیح ہے مگر ذرائع ٹھیک نہیں تو انکو درست کردو.اگر کسی کا قصور ہے تو اس کو بتاؤ.یہ نہیں کہ قصور زید کا ہو.اور نگر کو جس کا کوئی تعلق نہیں بتایا جائے.اگر کسی محکمہ میں ہو اور اس میں تمہارے نزدیک کوئی خرابی ہے.تو جائز ذریعہ سے اس کو دور کرنے کی کوشش کرد اور ان لوگوں کو توجہ دلاؤ - جو اس کو دور کر سکتے ہیں.اگر وہ توجہ کریں تو فبہا.ورنہ اگر تم کو اس صیغہ کے حکام بالا سے کہنے کا اختیار ہے.تو تحریراً کہو اور اگر کہنے کا حق نہیں.تو خاموش رہو.اور اس معاملہ کو خدا پر چھوڑ دو.اگر وہ لوگ غلطی کی دانستہ اصلاح نہیں کرتے.تو خدا ان کو خود درست کر دیگا.مگر تم اپنے افعال سے فساد کا باعث نہ بنوی کیونکہ جب ایسی حالت ہو کہ تمہاری کوئی نہ کئے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَادْعُوهُ خَوفاً وَ طمعا اس وقت اللہ کے حضور گر پڑو.اور خوف اور طبع سے اس سے دعا کرو.اگر تم محسن ہوتو تمہا کا اور خیال ضائع نہ ہوگا کیونکہ اِن رَحْمَةَ اللهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ اللہ کی رحمت محسنوں کے قریب تر ہے.پس قانون کی پوری پابندی کرو، اور امن کے ساتھ اصلاح کرد.اگر تہیں حتی ہے.پھر تم کامیاب ہو جاؤ گے ورنہ جوشخص اس سلسلہ کو اپنے کسی رویہ سے فقہ میں ڈالنا چاہے گا وہ کامیاب نہ ہوگا.تم جب اصلاح کرنا چاہو.تو پہلے نفس کی اصلاح کرو بعد میں دوسروں کی اصلاح کی طرف توجہ کرو.للہ تعالی تمہیں توفیق دے کہ اپنے ذمہ کے کاموں کو سمجھو اور ان کی اہمیت کو معلوم کرو سب سے بڑا کام اتفاق ہے.اس کو نہ توڑو اور اصلاح محبت سے کرو کیونکہ حقیقی اصلاح محبت سے ہی ہوتی ہے.اگر ہم میں فتنہ ہو تو پھر دنیا کی اصلاح کی اُمید نہیں.دوسرے خطبہ کیلئے جب کھڑے ہوتے توفرمایا معلوم ہوا ہے کہ وگ جمع کیلئے کچھ دیر سے آتے ہیں آج جب میں آیا تو چند آدمی تھے حالانکہ میرے خیال میں آج مجھکو دیر ہوگئی تھی.دو تین جمعوں سے میں ایسا ہی دیکھتا ہوں ، حالانکہ جمعہ ظہر کے وقت ہو چکنا چاہیئے پہلی اذان اس لیے ہوتی ہے کہ لوگ جمع ہو جائیں پھر اس دن خطبہ بھی ہونا ہوتا ہے.اس میں بھی کچھ دیر لگتی ہے.آیندہ پا ۱۲ بجھے دوستوں کو بیاں پہنچ جانا چاہیئے.اور اس ( الفضل ۱۶ دسمبر ته ) میں احتیاط لازم ہے.
(105) اکرام ضیف د فرموده ۱۷ار دسمبر له تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :- میں نے ایک جمعہ چھوڑ کر اس سے پہلے تبعد مں نصیحت کی تھی کہ ہمارے قادیان کے دوست جلسہ کے کام میں منتظمین کی مدد کریں.چونکہ اب جلسہ قریب آگیا ہے.اور اگلا جمعہ تقریباً جلسہ کے دنوں میں ہی ہوگا.کیونکہ عموماً جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے لوگ پہلے سے یہاں پہنچ جایا کرتے ہیں.اس لیے میں جلسہ کے انتظام کے دوسرے پہلو کے متعلق احباب کو نصیحت کرتا ہوں.ہر دفعہ بیاں کوشش کی جاتی ہے کہ ہرطرح مکل انتظام ہو مگر پھر بھی کچھ نقص رہ جاتے ہیں.اور مہمانوں کی خاطر ومدارات ایسی نہیں ہوتی جیسی کہ ہونی چاہیتے.اس میں شبہ نہیں کہ اتنے بڑے اجتماع کا انتظام ایک دو مہمانوں کے انتظام کی طرح نہیں ہو سکتا.اور اس تعداد کے لحاظ سے جو قادیان میں رہنے والے احمدیوں کی ہے.یہ شکل بھی ہے.اتنا بڑا انتظام حکومت کر سکتی ہے کیونکہ اس کا تسلط وسیع علاقہ پر ہوتا ہے اور اسے سینکڑوں آدمی کام کرنے کے لیے مہیا ہو سکتے ہیں.لیکن اس چھوٹے سے گاؤں میں ہمارے پاس اتنے کمرے بھی نہیں.جن میں ہم اچھی طرح مہمانوں کو ٹھہرا سکیں ہمیں مجبورا دس دس ہیں ہیں آدمیوں کو ایک ایک کمرے میں رکھنا پڑتا ہے، لیکن اگر ہم زیادہ جگہ مہیا نہ کر سکیں.تو ہم پر الزام نہیں.کیونکہ جو شخص اپنے مہمان کو دال روٹی مہیا کر سکتا ہے.اگر وہ یہی اپنے مہمان کے سامنے حاضر کر دیتا ہے تو اس پر ہرگز الزام نہیں آئیگا کہ اس نے کیوں مہمان کے لیے پلاؤ میانہیں گیا، بلکہ و شخص خدا کے نزدیک تعریف کے قابل ہوگا کہ وہ جو کچھ کرسکتا تھا.اس نے کیا.حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ بہت سے مہمان آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو صحابہ میں تقسیم کر دیا.ایک صحابی اپنے حصہ کے مہمان کو اپنے گھر لے گئے اور بیوی سے پوچھا.کھانا ہے.اس نے جواب دیا.کھانا تو اب کوئی نہیں.صرف بچوں کے لیے کسی قدر ہے.انہوں نے بیوی سے کہا کہ میں تو آنحضرت صلعم کا ایک
مہمان ہے آیا ہوں.اس لیے بچوں کو سلا دو.اور جب میں معان کو لاؤں.تو کسی طرح چراغ گل کر دیا اور گھر میں روشنی کا سامان بھی نہ رکھا.کیونکہ مان اکیلا کھانا نہیں کھائیگا.اور مجھے بھی اس کے ساتھ کھانا پڑیگا.چنانچہ جب مہمان اندر آیا.تو چراغ کسی طرح گل کر دیا گیا.صحابی نے مہمان سے معذرت کی کہ اب چراغ روشن نہیں کیا جا سکتا.آپ اندھیرے میں ہی کھانا کھا لیں.کھانا سامنے رکھا گیا.صحابی یونی اندھیرے میں منہ سے آواز پیدا کرتے رہے گویا کھانا کھا رہے ہیں میں سے مہمان نے قیاس کیا کہ وہ بھی کھانا کھا رہے ہیں اور خود سیر ہو کر کھایا.خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کویہ واقعہ الہام کے ذریعہ بتایا اور تعریف کی.پس یہ ضروری نہیں.کہ تم اگر اپنے مہمان کو چلاؤ نہیں کھلا سکتے تو ضرور پلاؤ ہی کھلاؤ.بلکہ تمہارا صرف یہ فرض ہے کہ تم اسکو جو کچھ کھا سکتے ہو.وہ کھلاؤ اور تمہارا وہی کچھ مہمان کے پیش کرنا خدا کے نزدیک قابل تعریف فعل ہوگا جس کی تمہیں استطاعت ہے.پس انسان کا فرض اکرام ضیف کے مسئلہ میں یہ ہے کہ وہ اپنے مقدور بھر کوشش کرے.یہ تو وہ باتیں ہیں جو انسان کے اختیار کی نہیں اور جلسہ پر آنے والے مہمانوں کے متعلق بھی بعض ایسی باتیں ہیں جو فی الحال ہماری استطاعت سے بڑھ کر ہیں.مثلاً یہ کہ چاہتے کہ مہمان کے لیے جو جگہ ہو وہ فراغ ہو.اچھی ہو.اور اس کی ضروریات کے مطابق ہو.مگر ہم اپنے مہمانوں کے لیے اتنی جگہ مہیا نہیں کر سکتے.ہمارے گھروں میں ان دنوں میں کوئی جگہ نہیں ہوتی.ایک ایک مکان میں دس دس میں میں آدمی بھرے ہوتے ہیں.یا ہمارے ملک کے لوگ چار پائی پر سونے کے عادی ہوتے ہیں.مگر ہم اتنی چار پائیاں میتیا نہیں کر سکتے.پھر یہ بھی کہ مہمان کے آگے اچھے سے اچھا کھانا رکھا جائے، لیکن ہم اس فرض کو بھی ادا نہیں کرسکتے.ہماری موجودہ مالی حالت اس کی اجازت نہیں دیتی.پس یہ وہ باتیں ہیں جو ہم نہیں کر سکتے.اس لیے اس کی وجہ سے ہم پر کوئی الزام نہیں آتا ، مگر بعض باتیں ایسی ہیں جو ہم کرسکتے ہیں.اگر ہم ان کونہیں کرتے تو سمجھا جائیگا کہ جو کچھ تم کرنہیں سکتے تھے.اگر کر سکتے تو وہ بھی نہ کرتے.ہ کیا باتیں ہیں جو ہم کرسکتےہیں یہ ہیں کہ ہم خوش اخلاقی سے پیش آئیں، اگر س کی کوئی چیز گم ہوگی ہو تو ہم اس کو تلاش کرنے میں مدد دیں.یاکسی نے کسی جماعت سے ملنا ہے تو اس کا پتہ بتانا چاہتے.یاکسی کوکسی منتظم سے ملنا ہے تو اسے ملائیں یاکسی کوحکیم کی اسی دکان کے معلوم کرنے کی ضرورت ہے، تو اس کی تلاش میں مدد دیں.اگر تم ان باتوں کو کرو تو ہ جو نہیں کر سکتے.ان کا بھی ثواب میںگا اورسمجھا جائیگا کہ اگر وہ چیزیں تمارے قبضہ میں ہوتیں تو تم کرتے اوراگر یہ نہ کرو تو پہ لگے گا کہ اگر تمہارے پاس دو چیزیں ہوتیں تو ان کو بھی نہ کرتے.
ALL یہ سوال ہوتا ہے کہ قیامت کے دن ایسے علاقوں کے لوگ یا بچے جن کو اسلام کا پتہ نہیں قیامت کے دن ان سے کیا سلوک ہو گا مسلمان متفقین اسی طرف گئے ہیں کہ یہ دیکھا جائیگا کہ جن باتوں پر وہ ایمان لا سکتے تھے.ان پر لاتے ہیں کہ نہیں.اور ان پر عمل کیا کہ ہیں مثلاً کسی کے پاس حضرت مسیح کی خبر میں پہنچی، رسول کریم کی پہنچی اور اس نے آپ کو مان لیا.تو سمجھا جائیگا کہ اگر مسیح کے وقت کی خبر پہنچتی تو انہیں بھی مان لیا.یا خدا تعالیٰ کے ایک ہونے پر اس کو ایمان تھا کہ نہیں بعض احادیث سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ قیامت کے دن ایسے لوگوں کو موقع دیا جائیگا کہ وہ صداقتوں کو قبول یا رد کریں.پس اس موقع پر خوش تلقی اور ہمدردی ظاہر کرو.اور اس طرح ان امور کے متعلق بھی ثواب حاصل کرد جو اس وقت تمہارے مقدور میں نہیں پیس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے نفس کو ماریں.اور عادت ڈالیں کہ وہ شقت برداشت کر سکے.تھوڑے تھوڑے کاموں سے ہی بڑے کام ہوا کرتے ہیں.پہلے دن جب مدرسہ میں لڑکا جاتا ہے تو قاعدہ پڑھتا ہے.اور وہ بھی دو تین حرف اور اس کے بعد اس کو چھٹی دی جاتی ہے، لیکن آہستہ آہستہ وہ خوب مادی ہو جاتا ہے اور آخر پڑھنے والے انسان کی ایسی حالت ہوتی ہے اور بہت سے لوگوں کو اور میری بھی ہے کہ اگر مطالعہ نہ کیا جائے.تو بیمار ہو جائیں.ان کے لیے صحت اور راحت یہی ہوتی ہے کہ وہ پڑھیں اور اپنا علم بڑھائیں.ایک دوست تھے بہت مخلص اور بڑے عالم جو اب بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں.ان کی حالت غریبانہ تھی.جو علم کے ساتھ کسی قدر خصوصیت رکھتی ہے.بڑے متوکل علی اللہ تھے.بعض دفعہ ہفتہ ہفتہ فاقہ پر گزرتا تھا.لوگ انکے چہرے سے دیکھتے تھے مگر وہ اس حال میں بلند آواز سے بولتے تھے کہ لوگ ان کو بھوکا نہ خیال کریں ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول نے ان سے دریافت کیا.کہ آپ کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے آپ کا خیال تھا کہ روپیہ وغیرہ کے متعلق ہو.تو آپ مدد کر دیں.انہوں نے کہا کہ میری سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ ایک مکان ہو جس میں نادر کتاب میں بھری ہوں اور مجھ کو اس میں بند کر دیا جائے اور لوگ مجھے بھول جائیں ہیں اس میں سے تب نکلوں جب سب کتابیں پڑھ لوں تو انسان کی پھر یہ حالت ہوتی ہے مگر یہ پہلے دن نہیں ہوتی ہاں آہستہ آہستہ ہوتی ہے نفس کی اصلاح کا بھی یہی طریقی ہے کہ آہستہ آہستہ اس کو عادی بنایا جائے.ایک ہی دفعہ نفس نہیں مرتا.بلکہ آہستہ آہستہ مرتا ہے.پہلے کسی خاص بات کے لیے پھر زیادہ کے لیے پھر کسی قدر وقت کے لیے.پھر زیادہ کے لیے مطیع کر وحشی کہ وہ وقت آئے کہ ہمیشہ کے لیے مطلع ہو جائے.جس طرح طالب علم کے لیے پہلے حروف ہوتے ہیں.پھر آہستہ آہستہ علوم.اسی طرح اصلاح نفس کے لیے بھی سبق ہیں.جو بتدریج وہ پڑھتا ہے.
OLA پس اپنے مانوں کو آرام پہنچاؤ.جہاں تک پہنچا سکو.اور اس لیے خدمت مہمان کردو کہ خدا کا حکم ہے اس سے ثواب ہوگا.نیز اس لیے بھی کہ اس سے اپنے نفس کی تربیت ہوتی ہے.یاد رکھو ہر ایک میزبان اپنے مہمان کے لیے نمونہ نہیں ہوتا.مگر تم ان کے لیے نمونہ ہو کیونکہ تم اس بستی میں رہتے ہو، جو ام القریٰ ہے.اگر اس میں رہنے والے تم لوگ دوسروں سے ماں باپ جیسی شفقت ن کر سکوں تو کم از کم بڑے بھائی مبنی تو شفقت ضرور کرنی چاہیئے.جو لوگ یہاں آتے ہیں.وہ نہیں دیکھتے ہیں.اور تمہارا نمونہ پکڑتے ہیں یہیں تم اخلاق دکھاؤ.تاکہ ایسا نہ ہو کہ لوگ ہیں کہ اسلام کا اخلاق سے تعلق ہی ہیں.یاد رکھ کبھی کوئی مسلح درندہ اور وحشی نہیں ہوتا.اگرتم نمونہ عمدہ نہ کھاؤ گے تو لوگوں پر برا اثر پڑ گیا.تمہارا ایسا نمونہ ہونا چاہیئے کہ وہ آئیں اور تمہاری حالت سے سبق سیکھیں.ایک دوست نے قادیان کو شفا خانہ کہا ہے، لیکن اگر یہاں مریض آئیں.اور مریض ہی رہ ہیں حتی کہ مر جائیں.تویہ شفاخانہ نہیں موت خانہ ہوگا.شفاخانہ وہ ہوتا ہے.جس میں نئے مریض آئیں اور پہلے شفا پا کر نکل جائیں تم یہاں چند دن کے لیے نہیں آئے.اس لیے تم اپنے کو تندرست ثابت کرو.پس قادیان کی مثال شفاخانہ کی نہیں.بلکہ مدرسہ کی ہے.یہاں لوگ علوم و معارف اور اخلاق سیکھتے ہیں.اگر باہر والے تم سے زیادہ جانتے ہیں.تو تم نے کچھ نہ سیکھا.پس اپنے کو زیادہ قابل زیادہ مہذب با اخلاق ہمدرد ثابت کرو، کیونکہ اگر یہ نہیں تو خدا پرستی تو الگ رہی.ابھی تم نے انسانیت کو بھی حاصل نہیں کیا.تم وہ چیزیں حاصل کرو اور ثبوت دو کہ تمنے دو چیزیں حاصل کی ہوتی ہیں.تاکہ لوگ دیکھیں کہ تم نے بے فائدہ اپنے گھروں کو نہیں چھوڑا.اور تمھاری تبدیلی دوسترون پر اثر ڈالے.یہ میری مختصر نصیحت ہے.اس کو قبول کرو.اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو " ) الفضل ۲۳ دسمبر له )
069 (106) اے مرے اہل وفائت کبھی کام نہ ہو د فرموده ۳۱ دسمبر له ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا کہ :- میں اس نیت کے ساتھ خطبہ پڑھانے کے لیے کھڑا ہوا ہوں کہ جو دوست نماز جمعہ بیاں پڑھنے کے لیے شہر گئے ہیں وہ کچھ نہیں.ورنہ صبح میری طبعیت خراب ہوگئی اور پسیوں میں درد ہو گیا تھا میں نماز کے بعد میں نمبر پربیٹھ جاؤنگا، احباب میں مصافحہ کرلیں مگر ہجوم نہ کریں.اس کے بعد میں تمام دوستوں کو خواہ وہ باہر سے میاں آئے ہوں یا ہیں کے ہوں.ایک بار پھر سوتو نار کی طرف توجہ دلاتا ہوں.اس میں اللہ تعالی مومنین کو نصیحت کرتا ہے کہ مومن جہاں تمام دنیاوی معاملات میں صابر و شاکر ہوتا ہے، وہاں ایک معاملہ میں قطعاً صبر نہیں کرتا یا یوں کو کہ صبر کے کئی معنے ہیں.اول کی مصیبت میں نہ گھبرانا دل میں جگہ پر ہو اس پر قائم رہنا (۳) جس چیز کو اختیار کرے اس کو نہ چھوڑتا.گر اس جگہ صبر کے معنے یہ ہوئے کہ وہ ٹھر تانہیں آگے بڑھتا ہے.فرمایا تم یہ کہو کہ اھدنا الصراط المستقیم ، خدایا میرے قدم کو آگے ہی آگے بڑھا.احد نا کے معنے ہیں.(۱) مجھے رستہ بارہ رستہ دیکھا (۳) سیدھے رستہ پر چلائے چل.یہاں تینوں معنے درست ہیں، جو گمراہ ہیں.اُن کی دُعا ہے کہ ہمیں سیدھا رستہ بتا.بعض ہوتے ہیں کہ گاہ تو نہیں ہوتے.مگر ڈرتے ہیں.ان کے لیے کہا کہ رستہ دکھا دے.تیسرے وہ لوگ ہیں جو اعلیٰ درجہ کے ہوتے ہیں.ان کی یہ دعا ہوتی ہے کہ تمہیں اس رستہ پر جس پر ہم ہیں چلاتے چل.ہم کہیں ٹھہرنے نہ پائیں.غرض یہ دُعا سب اعلیٰ و ادنی کے لیے ہے اور مومن دعاکرتا ہے کہ میں کسی ایک جگہ نہ ٹھہروں ، بلکہ آگے ہی آگے بڑھوں.یہاں کا میابی سانس لینے میں نہیں اور خوب یاد رکھو کہ اس جہاں میں سانس لینا ہیں بلکہ مومن کے لیے سانس لینے کا وقت اگلا جہان ہے.مومن کے سفر کی یہاں منزل نہیں.یہاں اس کے لیے قیام کی جگہ نہیں ، وہ بڑھتا ہے اور بڑھتا چلا جاتا ہے جتنی کہ وہ یہاں سے چلا جاتا ہے.
بہت میں جو سمجھتے ہیں کہ اب ہمارے آرام کا وقت آگیا.اور جب جلسہ آتا ہے تو سیکرٹری اپنے حسابات اور کام کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور صنف تصنیفوں میں لگتے ہیںاور طلبہ کے بعد سست ہو جاتے ہیں لیکن لہ تعالی مون و تعلیم دیتا ہے کہ تم مست مست ہو اور دعا کرو کہ آگے ہی آگے چلے جاؤ کیونکہ شست ہونے کے یہ معنے ہیں کو و یا خدا آگے نہیں.بھلا کوئی شخص ہے جو محبوب سے دور ہی صبر کر کے بیٹھ جاتا ہو.اور اس کے قریب نہ پہنچنا چاہتا ہو.اس طرح مومن بھی خدا کے حضور سے غائب ہونا نہیں چاہتا.بلکہ اس کی بہی خواہش ہوتی ہے کہ اُسے زیادہ سے زیادہ قرب حاصل ہو پس ہمیشہ یاد رکھو کہ دین کی خدمت میں سست ہونا کوئی خوبی نہیں بلکہ دین کی خدمت کے لیے آگے ہی آگے بڑھنا خوبی ہے جو شخص آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کو اور نیکی کی توفیق دیتا ہے اور جو اللہ پر لگاتے ہوئے الزاموں کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے.اللّہ تعالیٰ اس کو عیبوں سے پاک کرتا ہے اور اپنی نصرت اسکے شال ال کرتا ہے تم کبھی نہ براہ کرم نے کچھ نیں کیا باتم کو کچھ حا نہیں ہوا کیونکہ رومانی تر یا آہستہ آستہ ہواکرتی ہیں پس کبھی مست مست ہو کبھی ہمت و استقلال چھوڑ کرمت بیٹھو اور بھی نہ کہو ک ہم ہار گئے آخری وقت تیک جیت جانے کی امید رکھو.آخر تم جیت جاؤ گے.سول کریم یاللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیںکہ بعض لوگ بد اعمال ہوتے ہیں اور جہنم کے کنارے پر پہنچے ہوتے ہوتے ہیں مگر آخر وقت میں ایسا تغیر انمیں آتا ہے کہ وہ ہنم کے کنارے سے جنت میں پہنچ جاتے ہیں اور میں لوگ جنتیوں والے مل کرتے ہیں اوزات کے کنارے پر پنچ کران میں کچھ اب تغیر آتا ہے کہ وہ جنم میں پہنچ جاتے ہیں نے بہت ہوتے ہیں.نمازیں پڑھتے روزے رکھتے اور کھائیں کرتے ہیں اگر آخر وقت جب قریب آتا ہے کہ انکی دعا قبول ہوتو وہ دعا چھوڑ دیتے ہیں اوربہت میں کہ تبلیغ کرتے رہتے ہیں لیکن جب کسی شخص نے جکورہ تبلیغ کرتے تھے احمدی ہونا ہوتا ہے اس وقت تبلیغ چھوڑ دیتے ہیں پس کسی نیک کام کونہ چھوڑو اور خدا پریقین رکھواور ہمت نہ ہارو، کیونکہ جیس وقت تم کام چھوڑتے ہو.سکن ہے وہی وقت تمہارے کام کیے نتائج نکلنے کا ہو.یہ میری نصیحت ہے اس پر مل کرو گے تو انشاء ال دین ودنیامیں میں ناکام نہیں ہوگی اور عالی میں عمل کی تو وقت ہے.خلہ کے بعد فرمایا ک مولوی عبد القادر صاحب لدھیانوی جو حضرت اقدس کے خلص دوست تھے.آج فوت ہو گئے میں میں جمعہ پڑھنے کے بعد ان کا جنازہ پڑھنے کے لیے جاؤنگا احباب بھی ہیں.پھر فرمایا کہ جن احبابنے بیعت کرنی ہو وہ مصافحہ کے بعد بعیت بھی کرلیں.(الفضل ار جنوری شلة ) له بخاری کتاب القدرباب العمل بالخواتيم