Khutbat-eMahmud V5

Khutbat-eMahmud V5

خطبات محمود (جلد 5)

خطبات جمعہ ۱۹۱۶ء تا ۱۹۱۷ء
Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔


Book Content

Page 1

خطبات محمود (خطبات جمعہ ) فرموده سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد المصلح الموعودة جلد ۵ زیر اہتمام فضل عمر فاؤنڈیشن

Page 2

نام کتاب خطبات محمود جلد 5 بیان فرموده حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب پہلی اشاعت : خلیفة المسیح الثانی فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ اشاعت ھذا انڈیا بار اول : : تعداد شائع کردہ زیر اہتمام فروری 2019ء 1000 فضل عمر فاؤنڈیشن انڈیا نظارت نشر واشاعت قادیان،143516 ضلع گورداسپور ( پنجاب ) انڈیا مطبع فضل عمر پر لیس قادیان KHUTBAT-E-MAHMOOD Vol-5 (Urdu) Delivered by: Hadhrat Mirza Bashiruddin Mahmood Ahmad Khalifatul Masih 2nd First Published in Rabwah by Fazl-e-umar Foundation First Edition In India : In 2019 Copies: 1000 Published by: Fazl-e-umar Foundation India Supervised by: Nazarat Nashro Ishaat Qadian - 143516 Distt.Gurdaspur (Punjab) INDIA Printed at : Fazl-e-Umar Press Qadian ISBN : 978-817912-269-3

Page 3

عرض ناشر خطبات محمود کی جلدیں قبل ازیں فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ سے شائع ہوئی ہیں.نظارت نشر واشاعت قادیان ابتدائی 15 جلدوں کی کمپوزنگ کرا کے پہلی بار ان کو حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہی ہے.اللہ تعالی تمام قارئین کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کے بیان فرمودہ حقائق و معارف کو سمجھنے اور ان انوار و فیوض سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ان جلدوں کی تیاری کے سلسلہ میں تعاون کرنے والے جملہ کارکنان کو اجر عظیم عطا فرمائے.آمین ڈائریکٹر فضل عمر فاؤنڈیشن انڈیا

Page 4

وو پیش لفظ می محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ فضل عمر فاؤنڈیشن احباب جماعت کی خدمت میں خطبات محمود جلد پنجم پیش کرنے کی توفیق پارہا ہے.زیر نظر جلد ۱۹۱۶ اور ۱۹۱۷ء کے خطبات جمعہ پر مشتمل ہے.حضرت مصلح موعود کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں.اور پیشگوئی کے الہامی الفاظ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا.“ پر شاہد ناطق ہیں.حضرت مصلح موعود کا دور خلافت جو کم و بیش ۵۲ سال پر محیط ہے ایک تاریخ ساز دور تھا.اس نہایت کامیاب طویل دور میں حضور کے خطبات نے جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا.یہ جماعت کا ایک نہایت ہی قیمتی سرمایہ ہے.جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کر کے کتابی صورت میں محفوظ کرنے کا بیڑہ اُٹھا رکھا ہے.خطبات کی چار جلدیں پہلے چھپ چکی ہیں.اس کے بعد بوجوہ حسب پروگرام طباعت کا تسلسل قائم نہ رہ سکا جس کے لئے ادارہ معذرت خواہ ہے.آئندہ پوری کوشش کی جائے گی کہ یہ سلسلہ جاری رہے اور یہ روحانی مائدہ جماعت کے دوستوں کے ہاتھوں میں برابر پہنچتا ہے.اس جلد کی کتابت بہت عرصہ پہلے مکمل ہو چکی تھی.کتابت کے معیار کو بھی آئندہ انشاء اللہ بہتر بنانے کی کوشش کی جائے گی.یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہئیے کہ ابتداء میں خطبات لکھنے کے لئے باقاعدہ زودنویس یا کوئی اور جماعتی انتظام نہیں تھا.بعض احباب اپنے شوق اور عقیدت سے خطبات لکھ کر چھپواتے رہے.اس وجہ سے ممکن ہے بعض مقامات پر بات اس طرح واضح نہ ہوئی ہو جس طرح واضح ہونی چاہیے یا جس طرح حضور نے واضح فرمائی ہو.جو خطبات با وجود تلاش کے اخبارات و رسائل میں نہیں مل سکے.ان کے لئے ہم دوستوں کو دعوتِ عام دیتے ہیں.اگر ان کی نظر میں کوئی خطبہ آئے تو ہمیں آگاہ فرما ئیں تا اگلی جلد یا آئندہ ایڈیشن میں اسکو

Page 5

بھی شامل کر لیا جائے.اس دفعہ بھی ۱۹۱۵ء کے جو خطبات جلد چہارم میں شامل ہونے سے رہ گئے تھے وہ اس جلد میں ضمیمہ کے طور پر شامل اشاعت کئے جارہے ہیں.اس جلد کی تیاری اور کتابت وغیرہ کا بیشتر کام مکرم بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) اقبال احمد صاحب شمیم کی نگرانی میں ہوا جنہوں نے بطور سیکریٹری فضل عمر فاؤنڈیشن بڑے ہی خلوص سے خدمات دینیہ سرانجام دیں.مرحوم نے ریٹائر منٹ کے بعد بہت تھوڑے عرصہ کیلئے اپنی خدمات پیش کی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت لمبا عرصہ بڑی بے لوث خدمات بجالانے کی توفیق عطا فرمائی.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اُن سے رحمت و مغفرت کا سلوک فرمائے اور بلند درجات سے نوازے.آمین.مکرم برادرم ملک یوسف سلیم صاحب شاهد ایم.اے انچارج شعبہ زودنویسی اور برادرم مکرم حبیب الرحمن صاحب زیر وی اسسٹنٹ لائبریرین خلافت لائبریری بھی خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے MISSING خطبات کی تلاش میں بڑی محنت سے کام لے کر ادارہ کی گراں قدر معاونت فرمائی.اس جلد کی ترتیب و حواشی کا ابتدائی کام مکرم مولا نا نور الحق صاحب انور ( مرحوم) نے سرانجام دیا.اور بعد میں حوالہ جات پر نظر ثانی کا کام برادرم مکرم ظہیر احمد خاں مربی سلسلہ نے بہت محنت سے انجام دیا.مکرم عبد الباسط صاحب شاهد اور مکرم سلطان احمد صاحب شاھد (مربیان سلسلہ) نے بھی اس جلد کی تیاری میں بہت مفید مشوروں سے نوازا اور ان کی ماہرانہ رائے اور تجربہ سے بھی خاکسار نے بہت فائدہ اُٹھایا.خاکساران سب دوستوں اور بزرگوں کا دلی شکریہ ادا کرتا ہے.خدا تعالیٰ ان کے علم اور فضل میں برکت ڈالے اور بے انتہا فضلوں اور رحمتوں سے نوازتار ہے.آمین.والسلام خاکسار ناصر احمد شمس سیکریٹری فضل عمر فاؤنڈیشن.ربوہ

Page 6

صفحہ نمبر Λ ۱۸ ۲۳ ۲۶ ۴۰ E ۴۹ ۵۲ ۶۰ ۶۷ ZA ۸۳ ۹۲ خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده ا ۲ ۶ 2 ۹ 1.11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶ لا > ۱۸ فہرست مضامین خطبات محمود ( جلد پنجم ) خطبات جمعہ ۱۷ - ۱۹۱۲ء ے جنوری ۱۹۱۶ ء اسراف سے بچو موضوع خطبه ۱۴ جنوری ۱۹۱۶ء صفات الہیہ کو نہ سمجھنے سے تمام خرابیاں پیدا ہوتی ہیں.۲۸ جنوری ۱۹۱۶ء دعوت الی اللہ رضائے الہی کا موجب ہے.۴ فروری ۱۹۱۶ ء تمام احمدی ہوشیار ہو جائیں.۱۸ فروری ۱۹۱۶ء فتنے اور آزمائشیں روحانی ترقی کے لئے ضروری ہیں.۲۵ فروری ۱۹۱۶ ء ہر ایک بات میں حضرت مسیح موعود کو حکم مانو.۳ مارچ ۱۹۱۶ ء ہماری جماعت صفات الہیہ کی مظہر بنے.۱۰ / مارچ ۱۹۱۶ ء دو دو چار چار بیویاں کرو.۱۷ مارچ ۱۹۱۶ ء ترقی اسلام کے لئے کثرت سے دعا ئیں کرو.۲۴ مارچ ۱۹۱۶ء فروعی مسائل میں جھگڑے نہ کرو.۷ ا پریل ۱۹۱۶ ء سود ہر صورت میں منع ہے.۱۴ را پریل ۱۹۱۶ء دنیا کی تمام اشیاء انسان کی خدمت کیلئے پیدا کی گئی ہیں ۲۸ را پریل ۱۹۱۶ ء خُدا کی اطاعت کرنیوالے ہی اس کے انعامات کے وارث ہونگے.۵ رمئی ۱۹۱۶ ء باقاعدہ باجماعت نماز ادا کریں ۱۲ رمئی ۱۹۱۶ ء بدظنی ہلاکت کا باعث ہے.۲۶ رمئی ۱۹۱۶ ء جماعت کی برکات ۲ جون ۱۹۱۶ ء اصلاح کے لئے محاسب نفس ضروری ہے ۹ / جون ۱۹۱۶ ء کلام کو بگاڑ کر پیش کر نیوالے لوگ کون ہوتے ہیں؟ ۹۹ ۱۰۵ 11.112 ۱۲۸

Page 7

صفحہ نمبر ۱۳۸ ۱۴۸ ۱۶۸ ۱۷۳ ۱۸۶ ٢٠٣ ۲۱۲ ۲۲۴ ۲۳۹ ۲۵۱ ۲۵۴ ۲۶۲ ۲۸۱ ۲۹۵ ۳۱۵ ۳۲۶ ۳۳۳ ۳۴۵ ۳۵۳ خطبہ نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۳۰ ۳۱ Σ ۳۲ ۳۳ ۳۴ ۳۵ ۳۶ ۳۷ ۳۸...9 ۳۹ ۴۰ ۴۱ ۱۶ جون ۱۹۱۶ء دُعا پر بہت زور دو ۲۳ جون ۱۹۱۶ء مبلغین سلسلہ کی دعاؤں سے مدد کرو ے جولائی ۱۹۱۶ ء دعاؤں کے قبول ہونے کے وقت سے فائدہ اٹھاؤ ۱۴ جولائی ۱۹۱۶ ء گورنمنٹ کی ہر قسم کی مدد کرو ۲۱ جولائی ۱۹۱۶ ء قبولیت دعا کے طریق ۲۸ جولائی ۱۹۱۶ ء قبولیت دعا کے طریق ( نمبر ۲) ۴ را گست ۱۹۱۶ء گورنمنٹ برطانیہ خدا کے فضلوں سے ایک ہے ۱۱ / اگست ۱۹۱۶ ء دعاؤں کی طرف توجہ کرو ۲۵ را گست ۱۹۱۶ ء مشکلات کے وقت بہت زیادہ ہمت دکھانی چاہئیے یکم ستمبر ۱۹۱۶ ء جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے وہ دوسروں کو دو ۸ ستمبر ۱۹۱۶ ء ہر گل کے ساتھ خار ہوتا ہے ۲۲ ستمبر ۱۹۱۶ ء وسواس الخناس سے بچنے کے طریق ۲۹ ستمبر ۱۹۱۶ ء أولى الأمر مِنكُمُ کی اطاعت فرض ہے ۶ اکتوبر ۱۹۱۶ ء ہم سچی گواہی کو نہیں چھپا سکتے ۱۳ را کتوبر ۱۹۱۶ ء قرآن کریم میں حضرت مسیح موعود کے زمانہ کے متعلق پیشگوئی ۲۰ ا کتوبر ۱۹۱۶ء دیگر مذاہب پر اسلام کی فضیلت ۲۷ اکتوبر ۱۹۱۶ ء دُعا کے ساتھ سامان سے کام لینا بھی ضروری ہے نومبر ۱۹۱۶ء ۱۳۳۵ ہجری کی آمد ۱۷ نومبر ۱۹۱۶ ء خُدا کی نعمت کا اظہار کرو یکم دسمبر ۱۹۱۶ ء حضرت مسیح موعود کے الہامات کا درجہ ۱۵ دسمبر ۱۹۱۶ ء ہم اور ہمارے مخالفین میں کھلا فیصلہ ۲۲ دسمبر ۱۹۱۶ء شعائر اللہ کی تعظیم واء ۵ جنوری ۱۹۱۷ء خدا کے فضلوں کو دیکھ کرزیادہ شکر گذار بنو ).

Page 8

خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده ۴۲ ۴۳ ام بم ۴۵ ۴۶ ۴۷ ۴۸ ۴۹ ۵۱ ۵۲ ۵۳ ۵۴ ♡♡ لاة ۵۷ ۵۸ ۵۹ ۶۰ ۶۱ ۶۲ ۶۳ ۶۴ ۱۲ / جنوری ۱۹۱۷ ء ایک مبارک تجویز موضوع خطبه صفحہ نمبر ۱۹ ر جنوری ۱۹۱۷ ء عدل پر کار بندر ہو.۲۶ جنوری ۱۹۱۷ ء خُدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرو.۲ فروری ۱۹۱۷ ء جماعت احمدیہ کو ایک خاص ہدایت ۹ ر فروری ۱۹۱۷ ء مولوی محمد احسن صاحب کی خلاف بیانی ۱۶ / فروری ۱۹۱۷ ء انسانی ترقی کی وسعت ۲۳ فروری ۱۹۱۷ ء جماعت قادیان کے متعلق ۲ مارچ ۱۹۱۷ ء گورنمنٹ برطانیہ اور جماعت احمدیہ ۹ ؍ مارچ ۱۹۱۷ ء اپنے فرائض ادا کرو ۱۶ مارچ ۱۹۱۷ ء خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑائی کا معیار تقویٰ ہے ۲۳ مارچ ۱۹۱۷ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک عظیم الشان پیشگوئی پوری ہوئی.۳۰ مارچ ۱۹۱۷ ء خدا کی راہ میں کام کرنے والوں کو نصیحت ۶ ر ا پریل ۱۹۱۷ ء احمدیہ کا نفرنس کے متعلق ۲۷ ا پریل ۱۹۱۷ء تمام خوبیاں صرف خُدا تعالیٰ میں ہیں ۴ رمئی ۱۹۱۷ ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ۱۱ رمئی ۱۹۱۷ ء ایسا کوئی رسول نہیں آیا جس سے استہزاء نہ کیا گیا ہو ۱۸ مئی ۱۹۱۷ ء دعا سے بڑھ کر کوئی کامیابی کا ذریعہ نہیں ۲۵ رمئی ۱۹۱۷ ء اسلام کی ترقی کے سامان پیدا ہور ہے ہیں یکم جون ۱۹۱۷ ء اتفاق و اتحاد کی ضرورت جون ۱۹۱۷ء لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا کے معنے ۱۵ جون ۱۹۱۷ ء حضرت مسیح موعود کی کتب پڑھو ۲۲ جون ۱۹۱۷ء اختیاری امتحانوں میں پورے اُتر و.۲۹ جون ۱۹۱۷ء خلفاء کی بچے دل سے اطاعت کرو.ج ۳۶۳ ۳۶۸ ۳۷۵ ۳۸۰ ۳۸۶ ۳۹۵ ۴۰۰ ۴۰۲ ۴۱۰ ۴۱۶ ۴۲۳ ۴۳۳ ۴۳۹ ۴۴۸ ۴۵۴ ۴۶۰ ۴۶۷ ۴۷۰ ۴۷۵ ۴۷۹ ۴۸۶ ۴۹۲ ۴۹۸

Page 9

خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده ۶۶ ۶۷ ۶۸ ۶۹ 4.اے ۷۲ ۷۳ ۷۴ موضوع خطبه ۶ جولائی ۱۹۱۷ء کلمہ الحمد للہ ہم سے کیا چاہتا ہے.۱۳ جولائی ۱۹۱۷ ء رمضان سے سبق سیکھو.۲۰ جولائی ۱۹۱۷ ء اکثر چھوٹی باتیں بڑے نتائج پیدا کرتی ہیں.۲۷ جولائی ۱۹۱۷ ء نیکی میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرو ۳ را گست ۱۹۱۷ ء اسلام کی وجہ سے کوئی شرمندہ نہیں ہو سکتا.۱۰ را گست ۱۹۱۷ ء اللہ کی راہ میں خرچ کرو ۲۴ اگست ۱۹۱۷ ء فتنہ سے بچو کیونکہ یہی ہلاکت کی راہ ہے.۷ ستمبر ۱۹۱۷ ء عزم راسخ اور نیت نیک ہو تو اعلیٰ خدمات کا موقع مل جاتا ہے.۱۴ ستمبر ۱۹۱۷ ء ایک آیت کی لطیف تفسیر ۲۱ ستمبر ۱۹۱۷ ء توکل علی اللہ صفحہ نمبر ۵۰۳ ۵۰۸ ۵۱۳ ۵۱۹ ۵۲۹ ۵۳۳ ۵۴۱ ۵۵۱ ۵۵۷ ۵۵۸ ۵۶۳ ۵۸۳ ۵۸۵ ۵۹۱ ۵۹۷ ۶۱۴ ۶۱۸ ۲۸ ستمبر ۱۹۱۷ ء مومن کا بہشت ۵ اکتوبر ۱۹۱۷ ء خُدا کے انعام کی قدر کرو ۱۹ اکتوبر ۱۹۱۷ ء ہر ایک انعام کے ساتھ آزمائش ہے.۲۶ اکتوبر ۱۹۱۷ ء اہل قلم اصحاب توجہ کریں.۲ نومبر ۱۹۱۷ ء کامیابی کے لئے دعائیں کرو ۹ نومبر ۱۹۱۷ ء حصول علم ہر احمدی کا فرض ہے ۱۶ نومبر ۱۹۱۷ء حق کے قبول کرنے میں کسی کی پرواہ نہیں ہونی چاہیئے.۳۰ نومبر ۱۹۱۷ ء اسلام کا درد کس کے دل میں ہے؟ ۷ دسمبر ۱۹۱۷ ء اشاعت اسلام کے لئے زندگی وقف کرنے کی تحریک ۱۴؍ دسمبر ۱۹۱۷ ء زندگی وقف کرنے والوں کے متعلق خدا تعالیٰ کا شکریہ اور جلسہ کے لئے احباب قادیان کو نصیحت.۲۸ دسمبر ۱۹۱۷ ء خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگو., ۷۵ ۷۶ ZA ۷۹ ۸۰ ۸۲ ۸۳ ۸۴ ۸۵

Page 10

خطبات جمعہ 191'

Page 11

خطبات محمود جلد (5) 1 اسراف سے بچو فرمودہ ۷.جنوری ۱۹۱۶ء) تشهد وتعوذ وسورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کے بعد فرمایا: تبرك الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيْهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُّبِيرًا وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةٌ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يَذَّكَرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًان وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَهِلُونَ قَالُوا سَلَمًا وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا دَ إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذلِكَ قَوَاما ! یہ چند آیات جو میں نے اس وقت پڑھی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے عباد الرحمن کی تعریف بیان فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ وہ یوں کیا کرتے ہیں.یوں تو بہت سے لوگ ہیں جو بڑے شوق سے اپنے لڑکے کا نام عبدالرحمن رکھتے ہیں اور بہت ہیں کہ جب ان سے پوچھا جائے کہ کون ہو تو بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ”ہم اللہ کے بندے ہیں اور لوگوں کے دعوی کرنے کو چھوڑ دو واقعہ میں بھی سب لوگ خدا ہی کے بندے ہیں اور جتنی بھی چیزیں دنیا کی ہیں خواہ وہ انسان ہیں یا حیوان - چرند یا پرند.سب خدا ہی کے بندے ہیں کیونکہ وہ کونسی چیز ہے جو خدا کے سوا کسی اور نے پیدا کی ہے.اللہ تعالیٰ نے ہی سب کو پیدا کیا ہے.پس اس لحاظ سے سب خدا ہی کے بندے ہیں پھر اس لحاظ سے کہ خدا ہی سب کو قائم رکھنے والا ہے اور اسی کے اختیار میں ہر ایک جاندار اور بے جان کا قائم رکھنا ہے.اسی کے بندے ہیں.پھرا له الفرقان ۶۲ تا ۶۸

Page 12

خطبات محمود جلد (5) لحاظ سے بھی کہ ہر ایک چیز خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین کی فرمانبرداری کرتی ہے گو خدا کو بھی بعض لوگ نہیں مانتے مگر جو اس کے قوانین ہیں ان سے ذرہ بھر نکلنا بھی کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کی بھی طاقت میں نہیں ہے.مثلاً آنکھوں سے دیکھنا اور کانوں سے سنا خدا تعالیٰ نے مقرر کیا ہے اب یہ کوئی نہیں کر سکتا کہ آنکھوں سے سننے کا کام لے اور کانوں سے دیکھنے کا.تو خدا کے قانون سے کوئی نہیں نکل سکتا.اس لئے بھی سب عباد الرحمن ہیں.لیکن باوجود اس کے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بار بار فرمایا ہے کہ عبادالرحمن بن جاؤ.چنانچہ پاک روحوں کے لئے فرماتا ہے فَاذ خُلِيَ فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِی.(الفجر :۳۰) میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا.حالانکہ اس سے پہلے بھی وہ خدا تعالیٰ کے بندے تھے.کیونکہ خدا ہی نے ان کو پیدا کیا تھا خدا ہی ان کا رازق تھا.خدا ہی ان کا مالک تھا.خدا ہی ان کو قائم رکھتا تھا.پھر فَادْخُلِي فِي عِبَادِی جو فر ما یا تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کا بندہ ہونا دورنگ میں ہوتا ہے.غرض ایک لحاظ سے تو تمام انسان خدا کے بندے ہیں لیکن ایک لحاظ سے بعض بندے ہوتے ہیں اور بعض نہیں ہوتے.اس لحاظ سے تو خدا کے بندے وہ کہلاتے ہیں جو اس کے تمام احکام کی فرمانبرداری اور اطاعت کرتے ہیں.اور جو نہیں کرتے وہ اس لحاظ سے خدا کے بندے نہیں ہوتے بلکہ شیطان کے بندے ہوتے ہیں اپنے نفس کے بندے ہوتے ہیں اور انسانوں کے بندے ہوتے ہیں.ان آیات میں خدا تعالیٰ نے عباد الرحمن کی تعریف فرمائی ہے اور یہاں وہی لوگ مراد ہیں جن کا ذكر فَادْخُلِي فِي عِبَادی میں ہے.اور یہاں عبد سے مراد عابد ہے.غرض ان آیات میں عبادالرحمن کی کچھ باتیں خدا تعالیٰ نے بتائی ہیں کہ جن میں وہ پائی جائیں وہ عبادالرحمن ہوتے ہیں.اس وقت میری غرض ان میں سے ایک بات کو بیان کرنا ہے جو سب سے آخری آیت میں بیان فرمائی ہے خدا تعالیٰ نے عباد الرحمن کی ایک تعریف یہ فرمائی ہے کہ وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا - جب وہ انفاق یعنی خرچ کرتے ہیں تو یہ دو باتیں ان کے مد نظر ہوتی ہیں.اوّل یہ کہ لم يُسْرِ فُواخرچ کرنے میں اسراف نہیں کرتے.دوئم لَمْ يَقْتُرُ والخل نہیں کرتے.مال کو جمع نہیں کرتے.قتر کے معنی مال کے جوڑنے اور جمع کرنے کے ہیں.قاتر

Page 13

خطبات محمود جلد (5) وہ جو مال کو جمع کرتے رہتے ہیں.جمع کرنے سے ہی بخل کے معنے لئے گئے.کیونکہ انسان مال جمع تبھی کر سکتا ہے جب خرچ نہ کرے اور اسی کو بخیل کہتے ہیں پس قائد کے اصل معنے یہ ہیں کہ جو مال جمع کرے اور ان لوگوں پر خرچ نہ کرے.جن پر خرچ کرنا اس کے ذمہ ہے.اس آیت میں خرچ نہ کرنے والے کی نسبت خدا تعالیٰ نے کیا عجیب لفظ رکھا ہے یہ نہیں فرمایا کہ وہ جو اپنے رشتہ داروں اور محتاجوں وغیرہ پر خرچ نہیں کرتا.وہ بُرا ہے کیونکہ جس کے پاس مال نہ ہو.وہ بھی تو خرچ نہیں کرتا.پھر کیا وہ خدا کے بندوں سے نکل جائے گا.مثلاً ایک شخص خود بھوکا ہے اس سے کوئی محتاج آکر مانگتا ہے کہ مجھے کھانے کو دو لیکن وہ کچھ نہیں دیتا.تو کیا ایسا آدمی بھی خدا کے حضور بخیل ٹھہرایا جا سکتا ہے.نہیں.ہاں ایک ایسا شخص جس کے پاس دینے کے لئے ہے مگر نہیں دیتا.وہ بے شک اللہ تعالی کے نزدیک ملزم ہے تو یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ عبد الرحمن نہیں ہوتا جو خرچ نہیں کرتا.بلکہ قتر کا لفظ رکھا جس کے معنے ہیں مال جمع کرنے کے.اور قاتر اس کو کہتے ہیں جو مال جمع کرے اور رشتہ داروں مسکینوں اور محتاجوں پر خرچ نہ کرے.پس اس ایک ہی لفظ میں یہ بھی بتا دیا.کہ جس کے پاس مال نہ ہو.اس پر کوئی اعتراض نہیں.اعتراض صرف اس پر ہے جس کے پاس مال ہے اور وہ بجائے حاجت مندوں پر خرچ کرنے کے اسے جوڑتا ہے.اسی طرح اس لفظ کے ذریعہ سے یہ بھی بتا دیا کہ خالی مال جوڑنا منع نہیں بلکہ اگر کسی شخص کے پاس اس قدر مال ہو کہ وہ ان لوگوں پر خرچ کرنے کے بعد جن کا خرچ اس کے ذمہ ہے اور غرباء کی مدد کرنے کے بعد بھی مالدار ہے تو اس کا مال جمع کرنا گناہ نہیں.خیر اس جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کوئی عبد الرحمن بننا چاہے تو اس کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ وہ اپنا مال خرچ کرتے وقت دو باتوں کا لحاظ کرے.اوّل یہ کہ وہ اپنے مال میں اسراف نہ کرے.اس کا کھانا صرف تکلف اور مزے کے لئے نہیں ہوتا.بلکہ قوت طاقت اور بدن کو قائم رکھنے کے لئے ہوتا ہے اس کا پہنا آرائش کے لئے نہیں ہوتا بلکہ بدن کو ڈھانکنے اور خدا تعالیٰ نے جو اسے حیثیت دی ہوتی ہے اس کے محفوظ رکھنے کے لئے ہوتا ہے.چنانچہ صحابہ کا طرز عمل بتاتا ہے کہ وہ اسی طرح کرتے تھے.چنانچہ حضرت عمر ایک دفعہ شام کو تشریف لے گئے تو وہاں بعض صحابہ نے ریشمی کپڑے پہنے ہوئے تھے.( ریشمی کپڑوں سے مراد

Page 14

خطبات محمود جلد (5) وہ کپڑے ہیں جن میں کسی قدر ریشم تھا.ورنہ خالص ریشم کے کپڑے سوائے کسی بیماری کے مردوں کو منع ہیں) آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ ان لوگوں پر خاک پھینکو اور ان سے کہا کہ تم اب ایسے آسائش پسند ہو گئے ہو کہ ریشمی کپڑے پہنتے ہو.اس پر ان میں سے ایک نے اپنا گر تا اٹھا کر دکھایا تو معلوم ہوا کہ اس نے نیچے موٹی اون کا سخت کرتا پہنا ہوا تھا.اس نے حضرت عمرؓ کو بتایا.کہ ہم نے ریشمی کپڑے اس لئے نہیں پہنے کہ ہم ان کو پسند کرتے ہیں بلکہ اس لئے کہ اس ملک کے لوگوں کی طرز ہی ایسی ہے اور یہ بچپن سے ایسے امراء کو دیکھنے کے عادی ہیں جو نہایت شان وشوکت سے رہتے تھے.پس ہم نے بھی ان کی رعایت سے اپنے لباسوں کو ملکی سیاست کے طور پر بدلا ہے.ورنہ ہم پر ان کا کوئی اثر نہیں.ا پس صحابہ کا عمل بتاتا ہے کہ اسراف سے کیا مراد ہے اس سے یہی مراد ہے کہ مال ایسی اشیاء پر نہ خرچ کرے جن کی ضرورت نہیں اور جن کا مدعا صرف آرائش وزیبائش ہو.غرض خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ عباد الرحمن وہ ہوتے ہیں جو اپنے مالوں میں اسراف نہ کرتے ہوں وہ اپنے مالوں کو ریا اور دکھاوے کے لئے خرچ نہ کرتے ہوں بلکہ فائدہ اور نفع کے لئے صرف کرتے ہوں.پھر اپنے مالوں کو ایسی جگہ دینے سے نہ روکیں جہاں دینا ضروری ہو اور ان کا قوام ہو یعنی درمیانی ہو.نہ اپنے مالوں کو اس طرح لٹائیں.جو اللہ تعالیٰ کی منشاء کے ماتحت نہ ہو.اور نہ اس طرح روکیں کہ جائز حقوق کو بھی ادا نہ کریں.یہ دو شرطیں عبادالرحمن کے لئے مال خرچ کرنے کے متعلق ہیں لیکن بہت لوگ ہیں جو یا تو اسراف کی طرف چلے جاتے ہیں یا بخل کی طرف.اسراف کی مرض اس زمانہ میں بہت بڑھی ہوئی ہے.بخل کی مرض بھی ہے.مگر یہ مسلمانوں میں کم ہے اور آج کل تو مسلمان کی تعریف اور علامت ہی یہی مقرر کی گئی ہے.کہ جو کچھ اس کے پاس آتا ہو کھاپی جائے اور جس قدر مال اس کے پاس ہو سب خرچ کر دے.بخل ہنود کی طرف منسوب کیا جاتا ہے مگرمسلمان وہی سمجھا جاتا ہے جو دین و دنیا کے لئے کچھ نہ بچائے اور سب کچھ کھا جائے.لیکن کیا الٹ بات ہے.ادھر قرآن کریم تو کہتا ہے کہ مسلم وہ ہے جو اسراف نہ کرے مگر آج کل مسلمان وہ سمجھا جاتا ہے جو سب کچھ بیچ کر کھا جائے جتنا کوئی زیادہ اسراف کرے اتناہی ولی اللہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن وہ ہوتا ہے جو کبھی اسراف نہیں کرتا ا طبری بحوالہ الفاروق حصہ اوّل ص ۷۶ مصنفہ مولانا شبلی نعمانی.

Page 15

خطبات محمود جلد (5) مگر اس زمانہ میں بہت لوگ ایسے ہیں کہ جتنی ان کی آمدنی نہیں ہوتی اس سے زیادہ خرچ کر دیتے ہیں اور بہت ایسے ہیں کہ جب ان کو کہا جائے کہ تم اپنی بیوی بچوں کو کیوں خرچ نہیں دیتے تو کہہ دیتے ہیں کہ تنخواہ تھوڑی ہے ہم شریف آدمی ہیں اپنے اخراجات چلائیں یا ان کو دیں.میں کہتا ہوں کہ اگر اسی کا نام شرافت ہے تو پندرہ کروڑ تنخواہ والا بھی بیوی بچوں کے لئے کچھ نہیں بچا سکتا.کیونکہ یورپ نے عیش و عشرت کے سامان اس کثرت سے پیدا کر دیئے ہیں کہ جس قدر بھی روپیہ ہو بہت جلدی صرف ہو جاتا ہے لیکن وہ لوگ جو بیوی بچوں کے لئے خرچ کر نیوالے ہوتے ہیں وہ تو دس دس اور پندرہ پندرہ روپے کے ملازم ہو کر بھی کرتے ہیں اور جو نہیں کرنا چاہتے وہ سینکڑوں روپیہ کی آمدنی کے ہوتے ہوئے بھی نہیں کرتے.اور دوسرے ہی فضول اخراجات میں روپیہ کو ضائع کر دیتے ہیں.حضرت خلیفتہ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ سنایا کرتے تھے کہ ب شخص کو اپنے باپ کی بہت سی دولت مل گئی اس نے اپنے دوستوں اور آشناؤں کو بلا کر پوچھا کہ مجھے دولت کو خرچ کرنے کا طریق بتاؤ.کسی نے کچھ بتا یا کسی نے کچھ لیکن اسے کوئی پسند نہ آیا.ایک دن وہ بازار سے گزر رہا تھا کہ بزاز کے کپڑے پھاڑنے کی اسے آواز آئی.جس کو اس نے بہت پسند کیا اور اپنے نوکروں کو حکم دیا کہ میرے سامنے کپڑے کے تھان لا کر پھاڑا کرو.اس طرح اس نے کپڑے پھڑوانے شروع کئے اور چر چر کی آواز سننے لگا.اور ہزارہا روپیہ اس پر خرچ کر دیا.تو خرچ کرنے کے لئے تو وہ بھی کہتا تھا کہ کپڑے کے پھٹنے کی بڑی مزیدار آواز ہے.جو کانوں کو بہت بھلی معلوم ہوتی ہے.لیکن کیا یہ بھی کوئی خرچ کرنا تھا پس کسی مال کو نا جائز اور فضول طور پر خرچ کرنا کوئی بھی مشکل کام نہیں ہے اگر کسی کے پاس کروڑوں کروڑ روپیہ بھی ہو تو وہ بھی سب کچھ خرچ کر کے کنگال اور نادار بن سکتا ہے اور ایسا اکثر دنیا میں ہوتا ہے.ہاں رو پہیہ کا جائز طور پر اور ٹھکانے پر خرچ کرنا مشکل ہے اور بہت مشکل ہے.حضرت خلیفہ اسیح اوّل رضی اللہ عنہ کا یہ قول ہے کہ روپیہ کمانا آسان ہے مگر خرچ کرنا بہت مشکل ہے.واقعہ میں یہ بہت ہی سچا قول ہے.دنیا میں بہت لوگ ہیں جو بہت بہت روپیہ کماتے ہیں لیکن انہیں خرچ کرنا نہیں آتا اس لئے کنگال ہی رہتے ہیں.اور بہت ایسے ہیں جو کم کماتے ہیں.مگر چونکہ انہیں خرچ کرنا آتا ہے اس لئے آسودہ رہتے ہیں.

Page 16

خطبات محمود جلد (5) ۶ ہے غرض مسلمانوں میں یہ ایک بہت بڑی مرض ہے اور یہ مرض یہاں بھی بعض لوگوں میں یہاں ایک شخص نے لڑکوں کے افسر کو کہا تھا کہ میرا لڑکا جو خرچ کرنے کے لئے مانگے اسے دے دینا.اور دوکانداروں کو بھی کہہ گیا کہ کوئی چیز مانگے تو دے دینا اس لڑکے نے بیس روپیہ کی ایک مہینہ میں فرنی وغیرہ ہی کھالی.اس قسم کے بہت سے واقعات ہوتے رہتے ہیں کہ لڑکے بہت زیادہ فضول چی کرتے ہیں.شاید دوکاندار ایسے لڑکوں کے ساتھ یہ برادرانہ محبت سمجھ کر کرتے ہوں.مگر میں تو کہتا ہوں یہ برادرانِ یوسف کا سلوک ہے.وہ بھی اپنے بھائی کو بیچ کر کھا گئے تھے اور اس قسم کے لوگ بھی بیچ کر کھا جانا چاہتے ہیں اور کوئی محبت اور برادرانہ ہمدردی نہیں کرتے.برادرانہ سلوک تو یہ ہے کہ کھانے والوں کو مفت دیں اور ان سے کچھ نہ لیں لیکن اس طرح کرنا کہ پہلے دیتے جانا اور پھر قیمت لینے کے لئے اس کے پیچھے پڑنا کوئی ہمدردی نہیں ہے گو بعض لوگ جو غریب ہیں انہیں اُدھار لینا پڑتا ہے اور انہیں دینا چاہئیے لیکن ایسی صورت میں جبکہ ان کے گھر آٹا نہ ہو اور وہ فاقہ کشی کر رہے ہوں یا کپڑا نہ ہو اور سخت حاجتمند ہوں.یا اور کوئی ایسی ہی ضروری بات ہو.ایسا د یا ہو اقرض اگر کوئی ادا نہ کر سکے تو دوسرے ادا کرنے کی طرف توجہ کر سکتے ہیں.لیکن اگر کوئی کسی کو مٹھائی کھلاوے اور پھر ایسے قرض کے لئے چارہ جو ہو تو کسی کو کیا ضرورت ہے کہ اس کا قرض ادا کرے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسراف نہ کرو.اس لئے اسراف کرنا اور اسراف کرنے والے کی مدد کرنا دونوں گناہ ہیں مثلاً جیسا شراب پینے والا گناہگار ہے ایسا ہی پلانے والا بھی گناہگار ہے.جو دوکاندار قرض پر مٹھائی دے کر دوسرے کو مسرف بناتا ہے وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے خود مٹھائی کھلائی ہے.اس شخص نے مانگی.میں نے دے دی.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی کہے کہ میں نے خنزیر خود نہیں کھایا بلکہ اور کوکھلایا ہے تو کیا کھلانے والا بد تر نہیں ہو گا.ضرور ہوگا.میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگوں میں ابھی تک اسراف کی مرض چلی آتی ہے لیکن یہ لطف کی بات ہے اسراف کرنے والوں کا پتہ دیر سے معلوم ہوتا ہے.مگر بخل کرنے والے پر بہت جلدی آوازے کسے جاتے ہیں.اسراف کرنے والے کے ساتھی پہلے پہلے اسے کوئی ہدایت نہیں کرتے لیکن جب وہ تباہ ہو چکتا ہے تو وہ بھی کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ اس نے احتیاط نہیں کی.ان سے کوئی پوچھے

Page 17

خطبات محمود جلد (5) کہ اب جو تم یہ کہتے ہو پہلے اس کے ساتھ کیوں شامل ہوتے تھے.ایسی باتوں پر بولنے کی مجھے تو عادت نہیں.حضرت خلیفہ اسیح اول رضی اللہ عنہ تو عام طور پر کہہ دیا کرتے تھے.لیکن میں انتظار کرتا ہوں.اور کرنے والے کو کسی رنگ میں سمجھا دیتا ہوں پھر انتظار کرتا ہوں شاید بعض لوگ یہ جانتے ہوں کہ مجھے ان کے حالات کا پتہ نہیں لیکن خدا کے فضل سے مجھے ان کی نسبت اتنا پتہ ہوتا ہے اگر انہیں اس کا پتہ ہو جائے تو حیران ہو جا ئیں.بہت لوگ ہیں جن کی عادتیں جتنی مجھے معلوم ہیں.اتنی انہیں خود بھی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسے معاملات میں خاموش رہا کرتے تھے یہی بات مجھے پسند آئی ہے.اس لئے میں اسی کی پیروی کرتا ہوں.پس تم لوگوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ خود اسراف سے بچو اور دوسروں کو بچاؤ حضرت خلیفتہ امی ہمیشہ فرماتے تھے کہ ایسی چیزیں جن کا انسان محتاج نہیں مثلاً مٹھائی وغیرہ کسی کو قرض نہیں دینی چاہیئے.لیکن اب تک بعض لوگوں کو نصیحت نہیں حاصل ہوئی اب میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی ایسا آدمی ہے جو مصیبت میں ہے تو اُسے قرض بے شک دو.یہ اچھا کام ہے مثلاً کوئی آٹے والا ہے یہ کسی غریب اور مفلس کو آٹا قرض دیتا ہے تو وہ قابل تعریف ہے کیونکہ وہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے.اسی طرح اگر کوئی کپڑے والا کسی ایسے آدمی کو کپڑا قرض دیتا ہے جو کمانے والا ہے تو وہ قابل شکریہ ہے اس کا قرضہ اگر وہ ادا نہ کر سکے تو دوسروں کا فرض ہے کہ اس کی جگہ ادا کر دیں اسی طرح اگر کوئی اور ضروری چیز قرض دیتا ہے تو اچھا کرتا ہے.لیکن ایسی اشیاء جیسے مٹھائی اور دودھ ہے قرض دینا دوسرے کو اسراف کی عادت ڈالنا ہے.ایسا مت کرو کیونکہ اس کا نتیجہ بھی اچھا نہیں نکلتا اور وہ جو اسراف کرا تا اور دوسرے پر بوجھ لا دتا ہے وہ بھی اچھا نہیں کرتا.خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو اسراف اور بخل دونوں سے بچائے اور ان کے درمیانی راستہ پر چلنے کی توفیق دے.امِيْن يَارَبَّ الْعَلَمِينَ (الفضل ۲ فروری ۱۹۱۶ء)

Page 18

Λ 2 خطبات محمود جلد (5) صفات الہیہ کو نہ سمجھنے سے تمام خرابیاں پیدا ہوتی ہیں فرموده - ۱۴/جنوری ۱۹۱۶ء) تشهد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کے بعد فرمایا:.الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبتُ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ وَالْمُحْصَنَتُ مِنَ الْمُؤْمِنَتِ وَالْمُحْصَنَتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ إِذَا أَتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسْفِحِيْنَ وَلَا مُتَّخِذِى أَخْدَانٍ ، وَمَنْ يَكْفُرْ بِالْإِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَسِرِينَ (المائده :) اس آیت کریمہ میں جو میں نے ابھی پڑھی ہے اسلام کے سوا باقی جس قدر مذاہب ہیں ان کے دوحصے کئے گئے ہیں.اور ان میں سے ایک کا نام اہل کتاب“ رکھا ہے اور دوسرے کا جیسا کہ دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے مشرک نام یعنی جو کسی آسمانی کتاب کو مانتے ہیں انہیں اہلِ کتاب کہا گیا ہے اور جو کسی کتاب کو نہیں مانتے انہیں مشرکین قرار دیا گیا ہے.اور ان دونوں کے ساتھ معاملہ اور برتاؤ کرنے میں فرق رکھا ہے.بعض لوگوں کو اس فرق سے یہ دھو کہ لگا ہے کہ چونکہ قرآن شریف میں بار بار اہلِ کتاب کے نام سے ایک گروہ کو پکارا گیا ہے اس لئے انہیں قرآن شریف نے کافر قرار نہیں دیا.حالانکہ قرآن شریف کی ان آخری سورتوں سے ہی جن کو لوگ نماز میں پڑھنے کے لئے یاد کرتے ہیں اہل کتاب کا کا فر ہونا ثابت ہوتا ہے سورہ بینہ شروع ہی اس طرح سے ہوتی ہے کہ لَم يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ مُنْفَكِّينَ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ البَيِّنَةُ - تو اہلِ کتاب کو بھی کفر کرنے والے قرار دیا گیا ہے.تھوڑے ہی دن ہوئے کہ میرے سامنے ایک غیر احمدی کا سوال پیش کیا گیا کہ قرآن شریف تو اہل کتاب کو بھی کا فرنہیں کہتا مگر تم لوگ ہم کو کافر کہتے ہو حالانکہ ہم تمہارے بہت قریب ہیں ایک مسیحی جو اہلِ کتاب ہے

Page 19

خطبات محمود جلد (5) ۹ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا کہتا ہے قرآن شریف کو جھوٹا مانتا ہے اور اس کے ساتھ مسلمانوں کا نہ صرف فروع میں ہی فرق ہے بلکہ اصول تک میں بھی اختلاف ہے لیکن وہ کا فرنہیں تو کیا وجہ ہے کہ غیر احمدی جو نماز پڑھتے ہیں روزے رکھتے ہیں زکوۃ دیتے ہیں حج کرتے ہیں اور اسلام کے اصولوں کے منکر نہیں ہیں.ان کو تم کا فرقرار دیتے ہو.میرے نزدیک اس کا سوال کم سمجھی کا نتیجہ ہے قرآن مجید صاف طور پر اہل کتاب اور مشرکین دونوں کو کا فرقرار دیتا ہے جیسا کہ میں نے ابھی ایک آیت سے بتایا ہے ہاں ان میں امتیاز کرنے کے لئے انکے دو نام رکھ دیئے ہیں.یعنی ایک اہل کتاب اور دوسرے مشرک.پس کا فر ہونے کے لحاظ سے ان دونوں میں کوئی تخصیص نہیں جیسے کافر اہل کتاب ہیں ویسے ہی مشرک بھی ہیں.البتہ کا فر ہونے کی حالت میں ہی ان کی دو قسمیں کر دی گئی ہیں.ہم بھی اسی لحاظ سے غیر احمدیوں کو مشرک کا فرنہیں کہتے بلکہ اہلِ کتاب کافر کہتے ہیں اور جو تخصیص قرآن شریف نے مشرکوں کے مقابلہ میں اہلِ کتاب سے رکھی ہے وہی ہم غیر احمدیوں سے رکھتے ہیں اور ہم تو خواہ کسی کتاب کے الہامی ماننے والے ہوں انہیں بھی اہلِ کتاب ہی کہتے ہیں.غرض کا فرتو اہل کتاب اور مشرک دونوں ہوتے ہیں لیکن امتیاز کے لئے ان کی الگ الگ شاخیں قرار دے دی گئی ہیں ایک اہل کتاب کافر اور دوسرے مشرک کا فر.اور ان دونوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں فرق رکھا گیا ہے.جو یہ ہے کہ اہل کتاب کی نسبت خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے أُحِلَّ لَكُمُ الطيبتُ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ حِلٌّ لَّكُمْ - وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ.ان کا تیار کیا ہو اطعام تمہارے واسطے کھانا جائز ہے اور تمہارا پکا ہوا کھانا ان کے لئے اس سے زیادہ یہ کہ اہل کتاب کا ذبیحہ کھانا بھی جائز ہے.اسی طرح اگر کوئی اہل کتاب اپنی لڑکی کسی مسلمان کو بیاہ دینے کے لئے تیار ہو تو اس سے نکاح کر لینا جائز ہے لیکن ایک مشرک جس کی یہ تعریف ہے کہ وہ کسی الہامی کتاب کے ماننے کا دعویدار نہ ہو اس کے متعلق یہ باتیں جائز نہیں ہیں یعنی نہ تو ان کے کھانے کوئی مسلمان کھا سکتا ہے اور نہ اُن کی لڑکی سے شادی کر سکتا ہے پس یہ فرق ہے اہلِ کتاب اور مشرکین میں.اب یہ سوال ہو سکتا ہے کہ یہ فرق کیوں رکھا گیا ہے کیونکہ اب ایک اور نیا گروہ اہل کتاب کا نکلا ہے یعنی غیر احمدی.اس لئے ان کی طرف سے یہ سوال ہوتا ہے

Page 20

خطبات محمود جلد (5) 1.چنانچہ پہلا سوال کرنے والے نے ہی ایک یہ بھی کیا ہے کہ اہل کتاب اور غیر اہل کتاب کے ساتھ سلوک کرنے میں فرق کیوں رکھا گیا ہے.برہمو جو کسی کتاب کو نہیں مانتے وہ تو اہل کتاب نہیں ہیں.حالانکہ وہ شرک نہیں کرتے اور عیسائی جو اہل کتاب ہیں وہ اتنا بڑا شرک کرتے ہیں کہ جس کی نسبت خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ قریب ہے کہ ان کے اس شرک کی وجہ سے آسمان پھٹ پڑے.لیکن باوجود اس کے وہ تو اہل کتاب ہیں اور برہمو کے مقابلہ میں ان کے ساتھ معاملات میں بڑا فرق رکھا گیا ہے.میرے نزدیک اس فرق میں بہت بڑی حکمتیں ہیں جن کے سمجھنے کے لئے پہلے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ سوائے اس مذہب کے جو اپنے وقت کے لوگوں کے لئے خدا کی طرف ہدایت کے لئے مقرر ہوتا ہے باقی سب مذاہب جن کی اصل ہی کوئی نہ ہو یا ابتداء میں تو درست ہوں لیکن بعد میں خراب ہو گئے ہوں شرک سے کبھی خالی نہیں ہوتے.کیونکہ کوئی مذہب اسی وقت بگڑتا ہے.جب اس کے پیروان صفات الہیہ کے سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں اور جب صفات الہیہ کے سمجھنے میں نقص پید اہو گا تو ساتھ ہی شرک پیدا ہوگا.پس کوئی جھوٹا مذہب شرک کی آمیزش سے خالی نہیں ہوسکتا.اور جو مذہب شرک کی آمیزش سے بکلی پاک ہے وہ ضرور سچا ہے.ہاں یہ الگ بات ہے کہ بعض جھوٹے مذاہب میں شرک ظاہر طور پر ہو اور بعض میں مخفی طور پر.اب جبکہ یہ بات ثابت ہو گئی کہ شرک تمام جھوٹے مذاہب میں ہوتا ہے.اور قرآن کریم سے بھی ثابت ہے کہ مسیحی اور یہودی جن کو نام لے کر اہل کتاب کہا ہے وہ مشرک ہیں جیسا کہ فرمایا که: وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرُ بْنُ اللهِ وَقَالَتِ النَّرَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللهِ (التوبه :٣٠) یہودی کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاری کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے.پھر اسی ذکر کے ساتھ دوسری آیت میں فرمایا کہ سُبْحَانَه عَمَّا يُشْرِكُونَ.پس قرآن کریم کے نزدیک سوائے اسلام کے سب مذاہب میں شرک ہے.اور جس طرح غیر اہل کتاب مشرک ہیں اسی طرح دوسرے لوگ بھی مشرک ہیں.اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اسلام کے سوا سب ہی مشرک ہیں تو پھر ناموں میں کیوں فرق کیا.سواس کا جواب یہ ہے کہ ناموں میں فرق شناخت کے لئے کیا جاتا ہے کہ ایک جماعت دوسری سے الگ ہو جائے اور پہچانی جائے.تمام نام اسی لئے رکھے جاتے ہیں تا ایک چیز

Page 21

دو خطبات محمود جلد (5) وسری چیز سے علیحدہ معلوم ہو جائے اور لوگ اُسے شناخت کر سکیں چونکہ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ ان مذاہب میں جو کسی کتاب کو آسمانی مانتے ہیں اور ان میں جو کسی الہامی کتاب کو نہیں مانتے فرق کیا جائے اور کسی آسمانی کتاب کے ماننے والوں سے بعض نرمیاں کی جائیں اس لئے ان کا ایک الگ نام رکھا تا کہ فوراً اس نام سے ہر ایک شخص سمجھ لے کہ یہ گروہ فلاں فلاں رعایات کا مستحق ہے.اور نام میں اس خصوصیت کو بیان کر دیا جو اس میں پائی جاتی ہے یعنی اہل کتاب ہونا پس جس طرح انسان حیوانوں میں سے ہی ہے لیکن دوسرے حیوانوں سے فرق کرنے کے لئے اسے انسان کہدیتے ہیں یعنی دو انس رکھنے والا ایک خدا سے اور ایک بندوں سے.اور یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو اور جانوروں میں نہیں پائی جاتی.اسی طرح اہل کتاب گو مشرک مذاہب میں سے ہی ہیں لیکن ان کو اہل کتاب اس خصوصیت کے اظہار کے لئے کہا گیا جو ان کے سوا دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتی اور جس طرح حیوانوں میں سے بعض حیوانوں کو انسان کہنے سے وہ جانداروں کی فہرست سے خارج نہیں ہو جاتے اسی طرح مشرکوں میں سے بعض مشرکوں کو اہل کتاب کہنے سے وہ مشرکوں کی فہرست سے خارج نہیں ہو جاتے.ہاں صرف ان کی ایک خصوصیت کا اظہار ہوتا ہے.اب رہا یہ سوال کہ کیوں اہل کتاب کے ساتھ دوسرے مذاہب کی نسبت نرم معاملہ کا حکم دیا گیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کبھی کسی کی ذراسی نیکی کو ضائع نہیں کرتا اور جس کسی میں جس قدر بھی نیکی ہوگی اس کا اسے ضرور بدلہ دیتا ہے اسلام میں ایک سچے مومن کے لئے خدا تعالیٰ نے کچھ نشان مقرر کئے ہوئے ہیں اور وہ یہ کہ وہ خدا پر ایمان لائے.فرشتوں.کتابوں اور نبیوں پر ایمان رکھتا ہو.پھر خیر وشر.جزا وسزا بهشت و دوزخ پر ایمان لاتا ہو لیکن اور کوئی جو ان باتوں میں سے جس قدر زیادہ کو مانتا ہے اسی قدر وہ اسلام کے قریب ہوتا ہے اس لئے ایک ایسا شخص جو کسی کتاب کو مانتا ہے بہ نسبت اس کے جو کسی کتاب کو نہیں مانتا اسلام کے قریب ہے کیونکہ ایک انسان جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی کسی کتاب کو بھی نہیں مانتا.وہ الہام کا قائل نہیں ہوتا.اور جب الہام کا قائل نہیں ہوتا تو انبیاء کا بھی قائل نہیں ہوتا.کیونکہ نبی وہی ہوتا ہے جس کو الہام ہوتا ہو.لیکن جب الہام ہی نہ ہوا تو کوئی نبی کہاں ہوا.اس لئے ایک مشرک صرف خدا تعالیٰ کا قائل ہوتا ہے لیکن اہل کتاب خدا اور نبیوں کا قائل ہوتا ہے.

Page 22

خطبات محمود جلد (5) ۱۲ یعنی مشرک سے ایک درجہ آگے ہوتا ہے.پھر ایسے لوگ جو الہام کے قائل نہیں ہوتے وہ فرشتوں کو بھی نہیں مانتے کیونکہ الہام فرشتہ کے ہی ذریعہ ہوتا ہے.پس جو قوم نبیوں کو بھی مانتی ہے اور فرشتوں کو بھی مانتی ہے.ضرور ہے اس کے مقابلہ میں ایک ایسی قوم جو نہ نبیوں کو مانتی ہے اور نہ فرشتوں کو کم درجہ رکھتی ہو اور پہلی میں دوسری کی نسبت ایمان کی زیادتی ہو.چونکہ خدا تعالیٰ کسی کے ایمان کو ضائع نہیں کرتا.بلکہ جس قدر کسی کا زیادہ ایمان ہوتا ہے اسی قدر سے زیادہ فائدہ پہنچا تا ہے.اس لئے اہل کتاب کو جن میں مشرکین سے زیادہ ایمان ہے اسی دنیا میں مسلمانوں کے زیادہ قریب رکھ دیا.کیونکہ غیر اہل کتاب یعنی مشرکین میں سے بہت سے ایسے لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کے قائل نہیں ہوں گے اور اگر خدا تعالیٰ کے قائل ہونگے تو الہام کے نہیں ہوں گے اور جب الہام کے قائل نہیں ہوں گے تو انبیاء اور ملائکہ کے بھی نہیں ہوں گے.لیکن جو اہل کتاب ہیں خواہ کسی کتاب کے ماننے والے ہیں.وہ خدا.نبیوں اور اکثر حصہ فرشتوں کے بھی ضرور قائل ہوں گے.بعض ایسے بھی ہیں جو فرشتوں کو نہیں مانتے لیکن بہت کم.تو اہل کتاب میں چونکہ مشرکین کی نسبت ایمان کے تین جزو زیادہ ہیں یعنی وہ (۱) نبیوں (۲) کتاب پر اور (۳) ملائکہ پر ایمان لاتے ہیں اس وجہ سے ان کے ساتھ سلوک میں زیادتی رکھی گئی ہے.ان کی لڑکیوں کا نکاح میں لینا اس لئے جائز رکھا گیا ہے تا کہ اس طرح ان کے ساتھ مودت اور پیار بڑھے کیونکہ جس کی لڑکی کسی کے ہاں آئے گی ضرور ہے کہ اس کے تعلقات بھی اس سے بڑھیں اس سلوک کے ذریعہ اہل کتاب کے ساتھ خدا تعالیٰ نے تمدنی اور معاشرتی تعلقات کو مضبوط کیا ہے اسی طرح کھانا کھانا ہے.جب کوئی کسی کے ہاں کھانا کھائے گا تو ضرور ہے کہ ان کی آپس میں محبت اور الفت بڑھے اور ان کے دنیاوی تعلقات مضبوط ہوں.پس ایک وجہ تو اہل کتاب کے ساتھ خصوصیت سے سلوک کرنے کی یہ ہے اور دوسری یہ ہے کہ وہ انسان جو خدا تعالیٰ کا تو قائل ہے لیکن کسی بات کو نہیں مانتا.اس کے اعمال کی کوئی حد بندی نہیں کی جاسکتی کیونکہ وہ کہتا ہے کہ سب کام اپنی عقل کے مطابق کرنے چاہئیں اگر اس کی عقل میں چوری کرنا نا جائز ہے تو نا جائز ہے لیکن اگر اس کی عقل اس کے جائز ہونے کا فتویٰ دیتی ہے تو اس کے لئے جائز ہے.کیونکہ وہ آپ ہی خدا ہوتا ہے اور آپ ہی اچھی بری چیز کا

Page 23

خطبات محمود جلد (5) فیصلہ کرتا ہے.مثلاً اگر بیٹھے بیٹھے اس کے خیال میں یہ بات آجائے کہ فلاں آدمی کو قتل کر دینا ایک بہت عمدہ بات ہے تو اب اس کے لئے اس کے قتل کے جواز کا فتویٰ مل گیا.کیونکہ کوئی شریعت اس کے لئے نہیں ہے جو اسے اس بات سے رو کے اور اس کی حد بندی کرے لیکن اگر کوئی کسی کتاب کا ماننے والا ہو تو اس کے یہ کہنے پر کہ میں فلاں کتاب کو مانتا ہوں فوراً پتہ لگ جائے گا کہ اس کے خیالات کیا اور کس حد کے اندر ہونگے اور اگر کوئی کسی کتاب کو بھی نہ مانتا ہو تو اس کے خیالات کا بالکل کوئی پتہ نہیں لگے گا اسلام چونکہ ایسی باتوں کو سخت ناپسند کرتا ہے جن میں کوئی حد بندی نہ ہو اور نہیں چاہتا کہ مسلمان ایسے لوگوں سے تعلق رکھیں جن کے حالات اور خیالات کا انہیں پتہ نہ ہو اس لئے اس قسم کے لوگوں کے ساتھ اسلام نے تعلق رکھنے کی اجازت نہیں دی.ہاں جن لوگوں نے اپنے آپ کو کسی کتاب کے ماتحت کر دیا ہے اور اس کتاب کے ذریعہ ان کے خیالات کی حد بندی ہوگئی ہے ان سے اجازت دے دی ہے کیونکہ ایک یہودی ایک عیسائی اور ہندو کے خیالات اور حالات کا دائرہ معلوم ہوتا ہے اور آسانی سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی ہر ایک بات اس دائرہ کے اندراندر ہوگی لیکن ایک ایسا شخص جو کسی کتاب کا قائل ہی نہیں.اس کے خیالات کے دائرہ کا کوئی علم نہیں ہوسکتا.کیونکہ اسکے لئے کوئی دائرہ مقرر نہیں ہوتا بلکہ وہ ہر وقت خود نیا دائرہ تجویز کرتا ہے.اور ایسا شخص معاملات میں بہت خطرناک ہوتا ہے.اس میں شک نہیں کہ بعض لوگ کہہ دیں گے کہ ایک مسلمان کہلانے والا بھی اپنے دائرے کو اس قدر وسیع کرتا ہے کہ سب کچھ ہی اس کے اندر آ جاتا ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ ایسا شاذ و نادر ہوتا ہے ورنہ اکثر ایک مذہب کے ماننے والے کا حال اس کے اپنے اقرار سے معلوم ہو جاتا ہے اور ایسے شخص کی بدیاں بھی محدود ہی ہوتی ہیں تو اسلام نے اس بات کو مدنظر رکھ کر اہل کتاب کے ساتھ تو اس قسم کے تعلقات رکھنے کی اجازت دے دی ہے.لیکن غیر اہل کتاب کے ساتھ نہیں دی اگر کوئی مسلمان ایک عیسائی یا یہودی یا ہندو عورت سے شادی کرتا ہے تو وہ اس کی نسبت جانتا ہے کہ یہ کچھ اس کے خیالات ہوں گے اور اسطرح کرے گی.مثلاً یہ کہ ان مذاہب میں جھوٹ بولنا نا جائز ہے اس لئے اگر وہ اپنے مذہب کی پابند ہوگی تو اس سے پر ہیز کرے گی لیکن اگر کوئی دہر یہ یا بر ہموعورت ہو اور وہ جھوٹ بولے تو اس کا مذہب اُسے اس سے نہیں روکیگا کیونکہ در حقیقت اسکا مذہب اس کی اپنی عقل ہے اور وہ

Page 24

خطبات محمود جلد (5) ۱۴ پہلے بنائے ہوئے قواعد کو اپنے ذہنی خیالات سے ہر وقت تو ڑسکتی ہے اور نئے اصول تجویز کرسکتی ہے.پس چونکہ ہر ایک اہل کتاب کے خیالات اور حالات کا دائرہ معلوم ہو جاتا ہے اس لئے ان کے ساتھ تعلق رکھنے کی اسلام نے اجازت دے دی ہے.لیکن غیر اہل کتاب کا چونکہ معلوم نہیں ہوتا اس لئے ان کے ساتھ تعلق رکھنے کی اجازت نہیں دی.کیونکہ ان سے تعلقات رکھنے سے خطرناک نقصانات کا احتمال ہے.اور اسلام ایسی بات کے کرنے سے روکتا ہے.جس میں نقصان زیادہ اور نفع کم ہو.چونکہ اس میں نقصان زیادہ ہے اس لئے اس سے روک دیا.اور یہ اسلام کی مسلمانوں پر ایک بہت بڑی رحمت ہے تو یہ دو وجوہات ہیں جن کے لئے اہل کتاب کا حق غیر اہل کتاب کی نسبت زیادہ رکھا گیا ہے.اور ان کے ساتھ سلوک کرنے میں یہ فرق قرار دے دیا ہے.اسی کے متعلق ایک اور سوال اس شخص نے کیا ہے.اور وہ یہ کہ جب قرآن شریف نے اہل کتاب اور غیر اہل کتاب میں اس لئے فرق رکھا ہے کہ ان کی ایمانیات میں فرق ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہندوؤں.یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ سلوک کرنے میں بھی فرق نہیں رکھا گیا.کیونکہ ایمانیات کے لحاظ سے تو ان میں بھی ایک دوسرے سے فرق ہے.عیسائی یہودیوں کی نسبت اور یہودی ہندوؤں کی نسبت اسلام سے قریب ہیں اور پھر غیر احمدی ان سب کی نسبت احمدیوں کے قریب ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ان کے ساتھ بھی اسی لحاظ سے سلوک میں فرق نہیں رکھا گیا.معلوم ہوتا ہے کہ اس نے یہ سوال اس لئے کیا ہے کہ اس نے دنیا کے معاملات اور خدا تعالیٰ کے افعال پر غور نہیں کیا.اصل بات یہ ہے سہولت اور کام کے چلانے کے لئے کچھ دائرے اور حدود مقرر کی جاتی ہیں.اور گوان دائروں کے اندر آنے والے افراد میں کچھ نہ کچھ فرق ہوتا ہے لیکن وہ سب اسی ایک ہی دائرہ میں سمجھے جاتے ہیں.مثلاً آدمیوں اور گدھوں میں امتیاز کے لئے ایک حد مقرر ہے مگر آدمیوں میں بھی بعض گدھے ہوتے ہیں.چنانچہ بعض بیوقوفوں کو لوگ گدھے کہتے ہیں لیکن اگر کہیں بہت سے آدمی بیٹھے ہوں اور ان میں ہی کچھ ایسے لوگ بھی ہوں جن کو گدھے کہا جاتا ہے تو ان سب کو گننے والا ان انسان گدھوں کو بھی انہیں میں شمار کرے گا نہ کہ انہیں گدھے قرار دے کران سے خارج سمجھے گا.اسی طرح ہر ایک چیز میں ہوتا ہے.جس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی دو چیز میں

Page 25

خطبات محمود جلد (5) ۱۵ ایک ایسی نہیں ہو سکتیں.اور کوئی دو چیزیں بالکل ایک ہی رنگ کی ایک ہی شکل کی.ایک ہی قدو قامت کی نہیں ہو سکتیں.ایک ہی اخلاق اور ایک ہی طبیعت کے دو آدمی نہیں ہو سکتے.پھر ایک ہی شکل ایک ہی آواز کے دو آدمی نہیں مل سکتے ضرور کچھ نہ کچھ ان میں فرق ہوگا.پس اگر فرق کے لحاظ سے ہر ایک انسان اور ہر ایک چیز کا نام الگ الگ قرار دیا جا تا تو نہ معلوم کس قدر ان کے نام ہو جاتے جس سے انتظام دنیا میں بہت سی ابتری پھیل جاتی.پھر کوئی دو کافر اور دو مومن اعمال کے لحاظ سے ایک دوسرے کے بالکل برابر نہیں ہو سکتے.اس لئے ہر ایک کے لئے الگ الگ نام ہونا چاہیئے تھا.پھر عیسائیوں یہودیوں اور ہندوؤں میں تو ایک دوسرے سے بڑا ہی فرق ہے.اس لئے ان میں سے ہر ایک کا بھی علیحدہ نام ہوتا.پھر اسلام کے فروعات کے لحاظ سے ہر ایک مسلمان میں فرق ہوگا اس لئے ہر ایک کے ساتھ سلوک اور تعلق کے لئے الگ الگ قاعدہ قرآن شریف میں بتایا جاتا.لیکن اس کے لئے موجودہ قرآن شریف کیا اگر اس سے کروڑ گنا بھی زیادہ ہوتا تو بھی اس میں یہ سب باتیں نہ آسکتیں.کہ فلاں کے ساتھ فلاں سلوک کیا جاوے اور فلاں کے ساتھ فلاں.تو یہ کہنا کم نہی کا نتیجہ ہے.دنیا میں ہی دیکھ لو.ہر ایک قسم کے لئے ایک حد بندی ہوتی ہے.اور باوجود اس کے افراد کے اختلاف کے سب کو اسی میں سمجھا جاتا ہے.مثلاً سکول کے لڑکے ایک ہی امتحان دیتے ہیں.لیکن ان کے لئے الگ الگ ڈویژن مقرر ہوتے ہیں.اور پھر ان ڈویژنوں میں پاس ہونے والے لڑکوں میں بھی فرق ہوتا ہے.مثلاً فرض کر لو کہ تھرڈ ڈویژن میں پاس ہونے والوں کے لئے یہ حد ہے کہ جو ایک سو سے دوسو تک نمبر حاصل کرلے وہ اس ڈویژن میں پاس ہوگا اب جولڑ کے ۱۰۱ یا ۱۰۲ یا ۱۰۳ یا ۱۰۴ اور اسی طرح دوسو تک نمبر لیں گے.وہ سب تھرڈ ڈویژن میں ہی پاس ہونے والے سمجھے جائیں گے.نہ کہ ہر ایک کے فرق کے لحاظ سے اس کا الگ ڈویژن مقرر ہوگا ( چونکہ سوال کرنے والا ایک طالب علم ہے اس لئے میں نے یہی مثال دی ہے ) اسی طرح الہی قانون ہے.خدا تعالیٰ نے تمام انسانوں کا نام انسان رکھا ہے.حالانکہ ان میں ایک دوسرے سے ضرور کچھ نہ کچھ فرق ہوتا ہے.ہاں کچھ فرق بڑے ہوتے ہیں اور کچھ چھوٹے.خدا تعالیٰ نے بڑے فرقوں کے لحاظ سے الگ الگ نام رکھ دیا ہے پس اس لحاظ سے سب اہل کتاب کا ایک ہی نام ہے.باقی رہی ہر ایک کی حالت.

Page 26

خطبات محمود جلد (5) " سواس کے مطابق اس سے سلوک ہوتا ہے.اگر کوئی ایسا اہل کتاب ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نکالتا ہے یا قرآن شریف کی بے ادبی کرتا ہے تو کبھی کوئی سچا مسلمان یہ پسند نہیں کرے گا کہ اس کی لڑکی اپنے نکاح میں لے لے.یا اس کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھائے.اس قسم کا سلوک ہر ایک کی حالت کے مطابق ہوگا.لیکن اسلام نے ایک اصول کے رنگ میں ان میں اور غیر اہل کتاب میں فرق رکھ دیا ہے ایک غیر احمدی اور ایک مسیحی میں بلحاظ اس کے کہ وہ بھی نبیوں کو مانتا ہے اور ایک عیسائی بھی نبیوں کو مانتا ہے کوئی فرق نہیں ہے.ہاں انبیاء کے افراد کا خیال کریں تو فرق معلوم ہوتا ہے.یعنی ایک عیسائی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو اور مسیح موعود دونوں کو نہیں مانتا.اور ایک غیر احمدی صرف حضرت مسیح موعود کو نہیں مانتا.اس لئے کچھ فرق تو ہے.لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک کسی گروہ کا نام رکھنا بڑے فرق کی وجہ سے ہوتا ہے.اور اگر چھوٹے چھوٹے فرقوں پر بھی نام رکھے جائیں تو دنیا کا کوئی کام بھی نہ چلے.اور اہل دنیا کے لئے یہ ایک بہت ضرر دہ بات ہو اور خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی ضرر دینے والی بات نہیں آتی.پھر مسلمانوں میں ہی کئی فرقے ہیں لیکن سب مسلمان ہی کہلاتے ہیں.یہ کوئی نہیں کہتا کہ ان کے نام الگ الگ کیوں نہیں رکھے گئے.ہم کہتے ہیں کہ اگر اس طرح نام رکھے جاتے تو کام ہی نہ چلتا.اصل بات یہ ہے کہ بڑے بڑے اختلاف کی وجہ سے نام رکھے جاتے ہیں.اور اگر اس معترض کو بُرا لگتا ہے کہ کوئی اسے حق سے دور کیوں قرار دیتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ ہم کب چاہتے ہیں کوئی حق سے دور ہو ہم بھی تو یہی چاہتے ہیں کہ سب لوگ حق کو قبول کر لیں.اور ہم میں مل جائیں.پس جسے یہ بات بری لگتی ہے اسے چاہیے کہ وہ حق کو قبول کر لے.پھر اُسے کبھی ہم حق سے دور نہ کہیں گے.ہمیں کسی کو کافر کہنے کا شوق نہیں.ہاں اگر کوئی اپنے اعمال سے کافر بنتا ہے تو بنے.لیکن اگر ہم غیر احمدیوں کے نزدیک جھوٹے ہیں اور کسی کو کافر کہتے ہیں تو اسے برا کیوں لگتا ہے.دیکھو عیسائی ہمیں کافر کہتے ہیں لیکن ہم ان کے اس کہنے سے نہیں چڑتے.کیونکہ ہم انہیں سچا نہیں سمجھتے.پس اگر غیر احمدی ہمارے کا فر کہنے سے چڑتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہم کو سچا سمجھتے ہیں.ہم ان کو کہتے ہیں کہ جب وہی اسلام ہے جو ہمارے پاس ہے.تو تم اسے قبول کر لو.پھر ہم تمہیں کا فرنہیں کہیں گے بلکہ اپنا بھائی

Page 27

خطبات محمود جلد (5) سمجھیں گے.۱۷ خدا تعالیٰ تمام لوگوں کو توفیق دے کہ وہ سچی راہ کو قبول کریں.اور قسم قسم کے تواہمات میں پڑ کر صداقت اور راستی کو نہ چھوڑیں.(الفضل ۵ رفروری ۱۹۱۶ء)

Page 28

۱۸ 3 خطبات محمود جلد (5) دعوت الی اللہ رضائے الہی کا موجب ہے (فرموده ۲۸ /جنوری ۱۹۱۶ء) نوٹ :- انچارج شعبہ زودنویسی کی طرف سے اس خطبہ کی اشاعت پر یہ نوٹ شائع ہوا کہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک غیر مطبوعہ خطبہ جو حضور نے آج سے انچاس برس قبل ۱۹۱۶ ء میں ارشادفرمایا تھا پرانے کاغذات میں سے ملا ہے.جو حضرت حافظ عبید اللہ صاحب شہید مبلغ ماریشس نے قلمبند فرمایا تھا.یہ خطبہ صیغہ زود نویسی ربوہ اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے.حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی.وَلْتَكُنْ مِنْكُمُ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ! اور پھر فرما یا کھوئی ہوئی چیز انسان کو جب ملے وہ بہت خوش ہوتا ہے.اگر کوئی شخص کسی کی کوئی چیز ڈھونڈ کر لائے تو اسے ایسی خوشی ہوتی ہے کہ وہ ڈھونڈ کر لانے والے کو انعام دیتا ہے.پس کھوئی ہوئی چیز پر طبعا خوشی پیدا ہوتی ہے.حضرت مسیح ناصری نے گناہ کے بخشنے کے متعلق یہ مثال بیان فرمائی ہے.! کہ ایک شخص تھا اس کے کچھ بیٹے تھے اس کا بہت مال تھا.اس نے وہ مال سب بیٹوں میں تقسیم کر دیا اور کہا کہ جاؤ کھاؤ پیو اور اس روپیہ سے تجارت کرو.باقی بیٹے تو مال کما کر لائے مگر ایک نے وہ سب مال کھا پی لیا اور بجائے کما کر لانے کے جو اصل تھا وہ بھی ضائع کر دیا.اور آوارہ ہو گیا.آخر ایک جگہ جا کر اس نے ملازمت کر لی.ایک دن اسے خیال آیا کہ میں جو یہاں مصیبت میں پڑا ہوا ہوں اور میری یہ حالت ہوگئی ہے میں اپنے باپ ہی کے پاس کیوں نہ چلا جاؤں.کیونکہ جیسا میں یہاں کھاتا ہوں ایسا تو میرے باپ کے غلاموں اور ان جانوروں کو بھی مل جاتا ہے جو اس کے پاس رہتے ہیں.جب وہ واپس آیا تو اپنے باپ کے نوکروں کے پاس آکر بیٹھ گیا.ایک نوکر نے جا کر اس کے باپ کو خبر کی کہ تمہارا بیٹا جو چلا گیا تھا فلاں جگہ شرمندہ ہوکر ه سوره آل عمران آیت ۱۰۵.

Page 29

خطبات محمود جلد (5) ۱۹ بیٹھا ہے.باپ نے اسے بلایا.جب وہ آیا تو اس کے باپ نے کہا کہ بکر الاؤ میں قربانی کروں.اس دوسرے بھائیوں نے کہا کہ ہم تو مال کما کر لائے تھے ہمارے لئے تو تو نے قربانی نہیں کی اور جو مال کما کر نہیں بلکہ ضائع کر کے گھر آیا ہے اس کے لئے تو قربانی کرتا ہے.وہ کہنے لگا تم تو زندہ تھے مگر یہ میرے لئے اب زندہ ہوا ہے اس لئے اس خوشی میں بکرا کی قربانی کرتا ہوں کیونکہ جو زندہ ہے وہ تو زندہ ہی ہے اس کا تو غم نہیں مگر جو مر کر زندہ ہوا اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے.ایسے ہی اگر انسان مال محنت سے کما کر لائے اور وہ گم ہو کر پھر مل جائے تو اسے بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے.انسان کے جس قدر جذبات ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات کے ظل ہیں.البتہ اللہ تعالیٰ میں وہ صفات زیادہ شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہیں اور انسان میں کم جب انسان بھی اپنی کھوئی ہوئی چیز پر انعام دیتا ہے تو اگر خدا تعالیٰ کی کھوئی ہوئی چیز کوئی اس کے پاس ڈھونڈ کر لا دے تو وہ تو اسے یقینا بڑا انعام دے گا.مُفْلِحُونَ کہہ کر یہ بتایا کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کے مذہب کی طرف لانے والے ہوں گے وہ بڑے بڑے انعام پائیں گے دوسرے گمشدہ وہ لوگ ہیں جو دین سے جاہل سچے دین کو چھوڑنے والے اور انبیاء کی مخالفت کرنے والے قرآن کریم کو چھوڑنے والے ہیں.پس جو خدا کی گمشدہ مخلوق کو خدائے تعالیٰ کے پاس لاتا ہے خدا تعالیٰ ضروراً سے بڑے بڑے انعام دیتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تشریح ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی سفر پر چلتے وقت بیان فرمائی آپ نے فرمایا کہ اگر ایک رُوح بھی تیرے ذریعہ سے ہدایت پا جائے گی تو دنیا و مافیہا کی سب نعمتوں سے بہتر ہوگا.لے دنیا کی نعمتیں تو محدود اور ایک خاص وقت تک ہی ہیں.لیکن جب خدا تم سے راضی ہو جائے گا تو یقینا غیر محدود نعمتیں غیر محدود زمانہ تک تمہیں ملیں گی جو خدا کی تعلیم سے بھاگنے والوں کو واپس خدا کی طرف لائیں گے خدا تعالیٰ یقینا ان کو کامیاب اور مظفر و منصور کرے گا وہ کبھی ناکام و نامراد نہیں ہوں گے.اس کے فضل کو حاصل کرنے کے لئے یہ ایک عمدہ ذریعہ ہے.ایک باپ کا اگر چھوٹا بچہ بھی جس کے اعضاء بھی اچھے اور مضبوط نہ ہوں گم ہو جائے اور پھر اسے مل جائے تو اسے کس قدر خوشی اور راحت ہوتی ہے.اسی طرح کسی بندہ کے راہ راست پر آجانے سے خدا تعالیٰ کو بھی بہت خوشی ہوتی ہے.پس قومی ترقی کے لئے اصلاح وارشاد بڑا ذریعہ ہے بلکہ یہ ترقی حاصل کرنے کا بڑا عجیب ذریعہ ہے ایک تو یہ مصائب کو ٹال دیتا ہے اور دوسرے ے بخاری کتاب الجہاد باب دعا النبی الاسلام النبوۃ.

Page 30

خطبات محمود جلد (5) ۲۰ یہ سود در سود ہو کر واپس ملتا ہے.ایسے لوگوں کو فائدے ہی فائدے ہیں ان کا مال بڑھتا ہی ہے کم نہیں ہوتا.کیونکہ جوترقی اور فائدہ خدا کی طرف سے آتا ہے وہ ستر گنا کے قریب ہوتا ہے اس سے پہلی بات تو یہ ہوگی کہ جماعت بڑھے گی.پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس کو اور بڑھاتا ہوں اے اللہ تعالیٰ کے رستہ کی طرف لانا اللہ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے جن قوموں نے اس کام کو اپنے ہاتھوں میں لیا وہ کبھی ذلیل و رسوا نہیں ہوئیں بلکہ وہ کامیاب اور مظفر و منصور ہی ہوئی ہیں.جب خدا تعالیٰ ترقی کا وعدہ کرتا ہے تو پھر اور کون اسے روک سکتا ہے.اس وقت ہماری جماعت نے خدا تعالیٰ کے پیغام کو ساری دنیا میں پہنچانے کا ذمہ لیا ہے.لیکن ہماری جماعت میں بھی بعض ایسے لوگ ہیں جو یہ کہہ دیتے ہیں کہ لوگ ہماری بات کو نہیں سنتے اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ اس راہ میں کوشش کرتے ہیں وہ ضرور کامیاب ہوتے ہیں بلکہ اس آیت میں یہ بھی فرمایا یدعون الى الخير ويأمرون بالمعروف یعنی ان کی کوششیں کامیاب ہوتی ہیں اور ان کو ان کی کوششوں کا بدلہ دیا جاتا ہے خواہ کوئی مسلمان ہو یا نہ ہو مانے یا نہ مانے.اس آیت میں یہ الفاظ نہیں کہ اگر کوئی مسلمان ہی ہو.تو تب تمہیں بدلہ دیا جائے گا بلکہ یہ فرمایا کہ جو کوشش کرے گا اسے بدلہ دیا جائے گا.خواہ کوئی اس کی بات کو مانے یا نہ مانے.ہماری جماعت میں کم لوگ ہیں جن کے ذریعہ سلسلہ میں لوگ آئے ہیں.اکثر حصہ وہ ہے جو اس کام میں پوری طرح اپنا فرض ادا نہیں کرتا.وہ سمجھتے ہیں کہ دوسروں کا کام ہے.بعض ایسے ہیں جن کے ذریعہ ایک بھی جماعت میں نہیں آیا.بلکہ ۸۰ فیصدی ایسے لوگ ہوں گے جن کے ذریعہ کوئی بھی فرد سلسلہ میں نہیں آیا.لیکن جو کوشش کرتے ہیں ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وه ضرور کامیاب ہوں گے.میں جب خلیفہ ہوا مجھے یہ افسوس ہوا کہ میں نے تو ارادہ کیا ہوا تھا کہ دنیا میں پھر کر لوگوں کو ہدایت کی دعوت دوں گا.اب خلافت کی وجہ سے یہ کام تو ہو نہیں سکتا.انہی ایام میں خدا تعالیٰ نے ایک عیسائی نوجوان کو بھیج دیا کئی دن تک بحث ہوتی رہی آخر خدا تعالیٰ نے اسے مسلمان بنادیا.اسی طرح خدا تعالیٰ نے مجھے سمجھایا کہ یہ ضروری نہیں کہ باہر ہی جا کر لوگوں کو سمجھایا جائے جہاں ہم کسی آدمی سے کام لینا چاہتے ہیں وہیں لے سکتے ہیں.گو خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت ترقی کر رہی ہے.مگر ترقی کی ل سورة البقرة آیت ۲۶۲ وہ

Page 31

خطبات محمود جلد (5) ۲۱ رفتار بہت ہی سست ہے.ابھی وہ برکات نہیں نازل ہوئیں کہ جن کی وجہ سے فوج در فوج لوگ اسلام میں داخل ہوں.مجھے یہ تحریک اس لئے ہوئی کہ ایک انگریز نے ایک رسالہ لکھا ہے اور کہتا ہے کہ یہ جماعت تو اسلامی سمندر میں ایک کیڑا کے برابر ہے.واقعہ میں اس کی یہ بات صحیح ہے.اس میں شک نہیں کہ ہم ایک قطرہ کی طرح ہیں مگر بعض وقت ایک قطرہ اپنا اثر تمام پانی پر ڈال دیتا ہے.مثلاً سنکھیا ہی ہے کتنی تھوڑی سی چیز ہے مگر اس کا تھوڑا سا کھا لینا بھی انسان کو ہلاک کر دیتا ہے اور کثرت سے اس قسم کی زہریلی دوائیں ہیں کہ تنکے کے اوپر جس قدر حصہ آتا ہے.وہی کھاتے ہیں.اگر اس سے زیادہ کھایا جائے تو بڑا خطرناک ہوتا ہے.پھر ایک دیا سلائی کتنی چھوٹی سی چیز ہے مگر تمام جنگل کو جلا دیتی ہے.اور شہروں کو خاک سیاہ کر سکتی ہے.پھر ہمارے لئے تو خدا تعالیٰ کی پیشگوئیاں اور بڑے بڑے وعدے بھی ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مسیح دمشق کے مشرق کی طرف نازل ہوگا! تعبیر نامہ میں مشرق کی طرف جانا یا مشرق سے آنا ترقی کی علامت ہوتی ہے.اس سے یہ مطلب تھا کہ اسلام کی ترقی ہوگی.یعنی روحانیت ان لوگوں سے نکل گئی ہوگی.وہ آکر ان میں روحانیت پیدا کر دیں گے.اور پھر تلوار سے نہیں بلکہ دلائل سے فتح یاب ہوں گے.دراصل اس پیشگوئی کا مطلب یہی تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری الفاظ کے بھی پورا کرنے کی کوشش کی.پس صداقت کے مدعیوں کو ہمت و استقلال سے کام لینا چاہئیے جب یہ وعدے ہیں کہ لوگ مان لیں گے تو پھر ہمیں چاہیے کہ اس پیشگوئی کے ظاہری اور باطنی لفظوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں جو یہاں ہیں اگر وہی اصلاح و ارشاد کا کام پوری طرح سر انجام دیں اور ہماری جماعت کا ہر فرداس کوشش میں رہے کہ میں ایک آدمی کو سچا مسلمان بنالوں گا تو اس طرح جماعت بہت جلد دُگنی ہو سکتی ہے کہتے ہیں کہ جس شخص نے شطر نج کی کھیل نکالی تھی وہ بادشاہ کے پاس اسے تحفہ لے گیا.بادشاہ نے کہا کہ اسے لاکھ روپے دے دو اس نے کہا حضور میں لاکھ نہیں لیتا آپ شطر نج کے خانوں میں اس طرح روپیہ رکھیں کہ پہلے خانہ میں ایک روپیہ دوسرے میں دو تیسرے میں چار حتی کہ یہ تمام خانے پر ہو جائیں بادشاہ نے کہا اس پاگل کو سمجھاؤ کہ اس طرح تمہیں نقصان ہوگا.خیر اس نے اس کی تجویز 1 سنن ابن ماجہ کتاب الفتن

Page 32

خطبات محمود جلد (5) ۲۲ مان لی اور خزانچی سے کہا کہ تم ہر خانہ میں پہلے سے ڈ گنا ر کھتے جاؤ.وہ رکھتا گیار کھتے رکھتے اس روپیہ کی تعداد لاکھ سے بڑھ گئی خزانچی نے بادشاہ کو کہا کہ حضور خزانہ تو خالی ہو گیا ہے اور ابھی خانے پر ہونے باقی رہتے ہیں.پس یہ بالکل صحیح بات ہے کہ اگر ایک احمدی اپنے ساتھ ایک آدمی لائے پھر جو آنے والا ہے وہ کسی اور کو لائے تو اس طرح ہزار سے دو ہزار.دو ہزار سے چار ہزار اسی طرح کروڑوں تک تعداد پہنچ سکتی ہے.صرف اخلاص اور محبت کی ضرورت ہے جب تک اخلاص نہ ہو کچھ بھی نہیں ہوسکتا.جس میں اخلاص ہوگا وہ خود بخو دکوشش کرے گا.جب خدا تعالیٰ نے جو یہ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ لوگ کبھی ناکام و نامراد نہیں وں گے تو تم کیونکر نا کام ہو سکتے ہو.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے مردوں عورتوں اور بچوں اور.بوڑھوں میں یہ جوش اور اخلاص پیدا کرے.آمین.(الفضل ۱۶ جون ۱۹۶۵ء)

Page 33

۲۳ 4 خطبات محمود جلد (5) تمام احمدی ہوشیار ہو جائیں (فرموده ۴ فروری ۱۹۱۶ء) حضور نے تشہد وتعو ذاور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- آج ایک خاص بات کے متعلق میں اپنی جماعت کے لوگوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.بات تو وہ بہت ضروری ہے اور چاہتی ہے کہ اس کے متعلق مفصل بیان کیا جائے لیکن پرسوں سے مجھے تپ ہے اور ایک پھوڑا بھی ران پر نکلا ہوا ہے.جس کی وجہ سے میں زیادہ کھڑا نہیں ہوسکتا.اس لئے مختصر بیان کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر یہ خاص فضل اور احسان ہوتا ہے کہ وہ ان کی ہدایت کے لئے.سامان مہیا کر دیتا ہے.یہ سامان تو بہت سے ہیں مگر ان کے مفصل ذکر کرنے کی اس وقت گنجائش نہیں.ان سامانوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ آنیوالی مصیبتوں اور بلاؤں سے قبل از وقت ایسے بندوں کو جن پر وہ خوش ہوتا ہے اطلاع دے دیتا ہے.تا کہ وہ اس اطلاع سے فائدہ اٹھا کر اپنی اصلاح کر لیں صدقہ و خیرات کریں.دعائیں مانگیں.جس سے بلائل جاتی ہے.خدا تعالیٰ کی بہ ہمیشہ سے سنت ہے کہ وہ اپنے ایسے بندوں پر جن کے دلوں میں اس کی محبت اور عظمت ہوتی ہے.مگر کوئی کمزوری ایسی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ تکالیف اور مصائب میں مبتلا ہونے والے ہوتے ہیں ان پر یہ رحم اور فضل کرتا ہے کہ انہیں قبل از وقت اطلاع دے دیتا ہے تا کہ وہ اپنی اصلاح کر کے گناہوں کا خمیازہ اٹھانے سے بچ جائیں.اس وقت کئی دنوں سے متواتر بعض لوگوں کو قادیان میں بھی اور باہر بھی ایسی متوحش خوابیں آ رہی ہیں جن کا تعلق خاص قوم اور جماعت سے ہے.اور جن سے پتہ لگتا ہے کہ کوئی ایسی مشکلات آنے والی ہیں.جو جماعت سے تعلق رکھتی ہیں.میں نے بھی بعض خوا ہیں انہیں دنوں میں اسی قسم کی دیکھی ہیں.یہ خواہیں

Page 34

خطبات محمود جلد (5) ۲۴ کیوں آرہی ہیں ہم کوئی نبی نہیں کہ ہماری نبوت کے ثبوت کے لئے خدا بتا رہا ہے بلکہ ان کی یہی غرض ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ ہوشیار ہو جائیں اور اس آنے والے وقت سے پہلے اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرلیں اور ایسے تضرع سے دعائیں مانگیں.صدقہ و خیرات کریں کہ خدا تعالیٰ ان مشکلات کو ٹلا دے.یہ ایسی ہی بات ہے جیسا کہ گورنمنٹیں بھی جب کسی بات کو نا پسند کرتی ہیں.اور وہ ایسے لوگوں کی طرف سے سرزد ہوتی ہیں جن پر وہ خوش ہوتی ہیں.تو انہیں پہلے یہ اطلاع دے دیتی ہیں کہ یہ بات تم نے اچھی نہیں کی.آئندہ احتیاط کرنا.تو خدا تعالیٰ بھی جس قوم پر خوش ہوتا ہے اس کو قبل از وقت یہ اطلاع دے دیتا ہے کہ ایک مصیبت آنے والی ہے اس سے بچنے کا سامان کر لو.یعنی صدقہ و خیرات دو.دعائیں کرو.اور اپنے حالات میں تبدیلی پیدا کرو تا کہ وہ ٹل جائے.پس آپ لوگوں کو چاہیے کہ اس سے فائدہ اٹھا ئیں.بعض لوگوں کے متعلق تو مجھے خاص طور پر بھی دکھایا گیا ہے.میں نے دو آدمیوں کے متعلق جو ہماری ہی جماعت کے ہیں دیکھا ہے کہ وہ دہریہ ہو گئے ہیں.لیکن اکثر خوا ہیں عام طور پر ہیں.بعضوں نے زلزلہ دیکھا ہے.بعضوں نے بارش کو دیکھا ہے بعضوں نے آگ اور اولوں کو دیکھا ہے.بعضوں نے چوروں اور ڈاکوؤں کو دیکھا ہے.بعضوں نے طاعون کے رنگ میں دیکھا ہے.ایک نے آسمان سے آگ کا برسنا دیکھا ہے.غرض مختلف لوگوں نے مختلف رنگ کی خواہیں دیکھی ہیں اور خدا تعالیٰ نے کئی طریق پر مطلع کیا ہے پس آپ لوگ اس وقت کے آنے سے پہلے اپنے آپ کو اس قابل بنا لیں کہ خدا تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے.اس وقت یہ معلوم نہیں کہ وہ مصیبت کیا ہے قحط ہے یا زلزلہ ہے یا طاعون ہے یا کوئی اور قسم کا امن و امان کا خطرہ ہے مگر جو کچھ ہے خدا تعالیٰ نے اپنا فضل اور رحم کر کے اس کے ظاہر ہونے سے پہلے رویاء میں ہماری جماعت کے بعض لوگوں کو بتا دیا ہے اس لئے سب جماعت کو ہوشیار ہو جانا چاہیئے.دیکھو اگر کسی سوئے ہوئے آدمی کے گھر چور پڑتے ہیں تو سب کچھ لے جاتے ہیں لیکن جنہیں پہلے اطلاع ہوتی ہے اور وہ جاگتے ہوتے ہیں وہ اپنا مال بچالیتے ہیں.چوروں کے آنے سے پہلے کسی اور جگہ رکھ دیتے ہیں یا اور کوئی حفاظت کے لئے سامان کر لیتے ہیں.پس خدا تعالیٰ جو کسی آنیوالی مصیبت کے متعلق رویاء میں بتاتا ہے وہ ایسی ہی ہوتی ہے جو اس قوم سے ملنے والی ہوتی ہے اور اگر ٹلنے والی

Page 35

خطبات محمود جلد (5) ۲۵ نہ ہو تو بتا تا ہی نہیں.کیونکہ ایسی صورت میں اس کا رویاء میں بتانا لغو اور فضول ٹھہرتا ہے.ہماری جماعت کے لوگوں کو بتانے سے خدا تعالیٰ کا منشاء اور ارادہ یہی ہے کہ اگر یہ لوگ تو بہ کریں.صدقہ اور خیرات دیں اور دعائیں کریں تو ان سے یہ مصیبت ٹل جائے.پس اتنے لوگوں کو رؤیاء میں بتایا جانا جن کی تعداد میں پچیس کے قریب ہے اور بعضوں کو بار بار بتایا جانا ثابت کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا منشاء ہے کہ اگر یہ لوگ اصلاح کر لیں تو ان سے مل جائے.ہم تو چاہتے ہیں کہ ساری دنیا سے ہی یہ مصیبت ٹل جائے مگر کم از کم وہ لوگ جو اپنے ہیں ان کے متعلق ہمیں خاص طور پر فکر ہے.اس لئے ہماری جماعت کے وہ لوگ جو یہاں کے رہنے والے ہیں اور وہ جو باہر کے رہنے والے ہیں خاص طور پر ان دنوں میں دعاؤں میں لگ جائیں.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ بشارت دے اور خود بتادے کہ اب وہ مصیبت کے ایا م مل گئے ہیں.جن لوگوں کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ صدقہ دیں.اور سب لوگ دُعاؤں میں مشغول رہیں اور اپنی اصلاح کی طرف خاص توجہ رکھیں.اللہ تعالیٰ یہاں کے اور باہر کے ان تمام لوگوں کو جو ہماری جماعت میں داخل ہیں اور جنہوں نے حضرت مسیح موعود کو مانا ہے.ہر ایک قسم کی بلاؤں اور مصیبتوں سے بچائے اور اپنی حفاظت میں رکھے.الفضل ۸ فروری ۱۹۱۷ء)

Page 36

۲۶ 5 خطبات محمود جلد (5) فتنے اور آزمائشیں روحانی ترقی کے لئے ضروری ہیں (فرموده ۱۸ / فروری ۱۹۱۶ء) تشہد وتعوذ وسورہ فاتحہ اور مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کے بعد فرمایا :- الم أحَسِبَ النَّاسُ أَنْ تُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَذِبِينَ (العنكبوت ۲ تا ۴) اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے پھر مجھے آپ لوگوں کے سامنے بولنے کی توفیق دی.مجھے اس وقت بھی تپ ہے اور راستہ میں چکر بھی آ گیا تھا پہلے تو میرا ارادہ کچھ بولنے کا نہ تھا.کل میں نے ڈاکٹر صاحب سے اتنی اجازت لی تھی کہ جمعہ کی نماز میں شامل ہو جاؤں.لیکن جب چلنے لگا تو خدا تعالیٰ نے اتنی ہمت دے دی کہ خطبہ بھی میں ہی پڑھا دوں.انسان اور حیوان میں بہت بڑا فرق ہے.اور وہ بڑا فرق دنیا وی لحاظ سے تمدن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.اور دینی لحاظ سے اس فرق کو مذہب کہتے ہیں تو دو طرح کا فرق ہے.دنیاوی لحاظ سے تو یہ ہے کہ انسان میں تمدن ہے اور حیوان میں نہیں ہے.اور دینی لحاظ سے یہ کہ انسان کے ساتھ ایک دین لگا ہوا ہے اور حیوان کے ساتھ نہیں ہے.گو حیوان کے ساتھ بھی ایک طرح کی اطاعت اور فرمانبرداری تو ہے اور ایک رنگ میں وہ عبادت بھی کرتا ہے لیکن اس کے افعال میں قدرت نہیں.اسے بھلائی برائی کے انتخاب کا اختیار نہیں دیا.بلکہ جس طریق پر اسے چلا دیا گیا ہے اس پر وہ چلتا رہے گا.لیکن انسان کے کاموں میں قدرت اور اندازہ کا دخل ہوتا ہے.اور اس کے لئے بڑا اور بھلا دونوں رستے کھلے ہوتے ہیں.تا کہ ان میں سے جسے چاہے اختیار کر لے.اور یہ بات انسان کے اختیار میں ہوتی ہے کیونکہ بھلے اور برے راستے کا اختیار کرنا اس کے انتخاب پر چھوڑ جاتا ہے اور قبل از وقت اسے بتا دیا جاتا ہے کہ بھلا راستہ کون ہے اور برا کون سکھ کس میں ہے اور دُکھ کس میں.آرام کس میں ہے اور تکلیف کس میں.فائدہ کس میں ہے

Page 37

خطبات محمود جلد (5) ۲۷ اور نقصان کس میں.تو انسان اور حیوان میں دو فرق ہیں.دنیاوی لحاظ سے جو فرق ہے اسے تمدن کہا جاتا ہے یعنی انسان اپنی نسل اور قوم کے فوائد کے لئے دوسرے انسانوں سے مل کر کام کرتا ہے.چونکہ ایک انسان کے کام سے دوسرے کو نفع پہنچتا ہے اس لئے تمام انسان مل کر یا انسانوں کا ایک بہت بڑا حصہ مل کر ایک دوسرے کے فائدہ اور نفع کی کوشش کرتا ہے لیکن حیوانوں میں یہ بات نہیں ہے یہ صرف انسانوں میں ہی ہے.دوسرے انسان کو اچھے اور بُرے نیک اور بد نفع اور نقصان میں تمیز کرنے اور اپنے اختیار سے ان دونوں راہوں میں سے ایک پر چلنے والا بنایا گیا ہے لیکن یہ بات حیوانوں میں نہیں ہے.پس جو انسان انسان ہو کر ان دونوں قسم کے فرقوں کو نہیں جانتا.وہ جانور سے ممتاز نہیں ہوسکتا اور وہ انسان ہی نہیں ہے بلحاظ جسمانی تعلقات کے اگر انسان میں تمدن نہیں ہے اور بلحاظ روحانی تعلقات کے اگر انسان مذہب اور دین کا پابند نہیں ہے تو اس میں اور سور بندر ریچھ وغیرہ جانوروں میں کوئی فرق نہیں ہے.تمدن کے متعلق اس وقت ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت ہے.یہ ان لوگوں کا کام ہے جو دنیا کے علوم اور فوائد میں منہمک ہیں.ہمیں سوائے اس کے کہ اس وقت جبکہ تمدن مذہب اور دین میں داخل ہو جائے اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے.اس لئے میں اس وقت مذہب کے متعلق ہی کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں.روحانی لحاظ سے انسان اور حیوانوں میں مذہب کا فرق ہے.انسان کسی نہ کسی مذہب کا قائل ہوتا ہے اور حیوان نہیں ہوتے.ان کے لئے کوئی تازہ شریعت نہیں آتی.بلکہ ان کی فطرت میں ہی ابتداء سے جو کچھ ودیعت کر دیا گیا ہے وہی ہے مگر انسان کو وحی اور الہام کے ذریعہ سے شریعت سے آگاہ کیا جاتا ہے.اور حیوانوں میں سے ہر ایک کو ایسی وحی کی جاتی ہے جو اس کی فطرت کے متعلق ہوتی ہے.مگر انسانوں میں سے ایک حصہ کو وحی سے ممتاز کیا جاتا ہے.یوں تو فطر نا ہر ایک انسان کو بھی وحی کی جاتی ہے مگر وہ وحی جو مذہب کے متعلق ہوتی ہے وہ ہر ایک کو نہیں ہوتی بلکہ انہی انسانوں کو ہوتی ہے جو حقیقت میں عابد اور عبد بنتے ہیں اور پھر جو اس وحی پر عمل کرتے اور جو مدعا اس میں پایا جاتا ہے اس کے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.وہ دوسرے انسانوں کے لئے

Page 38

خطبات محمود جلد (5) ۲۸ نمونہ ہوتے ہیں.اور ان میں سے ممتاز کئے جاتے ہیں.خدا تعالیٰ نے ایسے ہی لوگوں کا نام بندہ اور انسان رکھا ہے.در حقیقت وہی انسان ہوتا ہے جو اپنے اندر دو انس رکھے.ایک خدا سے اور ایک اس کے بندوں سے اور وہی عبد ہے جو عبودیت میں اپنے جسم اور روح کو لگا دیتا ہے کہنے کو تو جانور بھی کہہ سکتا ہے کہ میں انسان ہوں.لوگ طوطے کو سکھاتے ہیں کہ کہو ” میاں مٹھو لیکن اگر کوئی اسے یہ سکھا دے کہ ”میں انسان ہوں تو وہ یہی کہنے لگ جائے.لیکن اس کے کہنے سے وہ انسان نہیں بن جائے گا.کیونکہ انسان کے اندر جو خواص اور باتیں ہونی چاہئیں وہ اس کے اندر نہیں ہیں.کیا یہ طوطے کی شکل وصورت کا قصور ہے کہ وہ باوجود اس کے کہ کہتا ہے کہ میں انسان ہوں انسان نہیں ہوسکتا.اور کیا اگر موجودہ انسان طوطے کی شکل کے ہوتے تو انسان نہ ہوتے.پھر کیا اگر حیوان انسان کی شکل کا ہو تو وہ انسان ہوسکتا ہے.مثلاً بہت سے بندر اور مچھلیاں ایسی ہیں کہ انسان کی شکل سے بہت بڑی مشابہت رکھتی ہیں مگر انسان نہیں ہیں.ان کا منہ سرکان.انگلیاں وغیرہ انسانوں کی طرح کی ہوتی ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ ان کو انسان نہیں کہا جاتا.اور مچھلیوں اور آدم کی اولاد میں وہ کیا فرق ہے جو ان کو علیحدہ رکھتا ہے یہی کہ وہ مذہب کی اس رنگ میں پابند نہیں ہیں.جس رنگ میں انسان پابند ہیں.ان کو وہ سمجھ اور عقل نہیں ہے جو انسانوں کو متمدن اور عقل مند بناتا ہے.پس اگر انسانی شکل کسی حیوان کی ہو جائے تو وہ انسان نہیں ہو سکتا.اور اگر انسان کی موجودہ شکل بدل کر کسی اور طرح کی بنادی جائے تو وہ حیوان نہیں ہو جاتا.کئی آدمی ایسے ہوتے ہیں جو بہت بدشکل ہوتے ہیں اور بندر کی طرح ان کی صورت ہوتی ہے مگر وہ بند ر نہیں ہوتے.پس وہ چیز جو انسانوں اور حیوانوں میں مابہ الامتیاز ہے اگر اسی کے حاصل کرنے یا حاصل کردہ کے قائم رکھنے میں انسان کوشاں نہ ہو تو کیا وہ انسان ہو سکتا ہے.ایسا انسان صرف لفظی انسان ہے حقیقی نہیں.اور حیوانوں سے بدتر ہے کیونکہ حیوان جس قانون کے ماتحت رکھے ہوتے ہیں وہ اس میں نافرمانی نہ کر سکتے ہیں اور نہ کرتے ہیں مگر انسان کو جس قانون کا پابند قرار دیا جاتا ہے وہ اس کی مخالفت میں کھڑا ہو جاتا ہے اور مخالفت کرتا ہے.ایسی حالت میں وہ انسانیت

Page 39

خطبات محمود جلد (5) ۲۹ سے بالکل دور جا پڑتا ہے.یہی وجہ ہے کہ جب کوئی انسان انسانیت کو چھوڑتا ہے تو ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ حیوانوں سے بدتر ہو جاتا ہے.ایک کتے اور ایک چڑیا کی خدا تعالیٰ کے حضور قدر ہوتی ہے مگر اس کی نہیں ہوتی.ایک کتے کی خدا تعالیٰ کے نزدیک قدر ہوتی ہے مگر انسان کی نہیں ہوتی ایسے موقع پر خدا تعالیٰ کے سامنے انسان ایک بدترین مخلوق ہوتا ہے.مجھے خوب یاد ہے.حضرت مسیح موعود کہانی کے رنگ میں سنایا کرتے تھے اور اس قسم کی باتیں لکھنے والوں نے لکھی ہیں.معلوم نہیں سچی ہیں یا جھوٹی.بعض باتیں نصیحت کے طور پر لکھی جاتی ہیں اور بعض کی کچھ اصلیت بھی ہوتی ہے اور بعض کی نہیں.اسی طرح کسی نے لکھا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے وقت جو طوفان آیا تو ایک چڑیا کا بچہ پہاڑ کی چوٹی پر پیاسا تھا.ماں باپ اس سے جدا ہو چکے تھے اور وہ بہت سخت پیاسا ہو رہا تھا.طوفان جو بڑھتا گیا تو آخر اس پہاڑ کی چوٹی تک بھی پہنچا اس وقت اس چڑیا کے بچہ نے پانی پی لیا.یہ واقعہ سچا ہے یا جھوٹا اس سے ہمیں بحث نہیں لیکن اس میں جو حکمت ہے وہ بہت سچی ہے اور وہ یہی ہے کہ جب انسان خدا کے مقرر کردہ قوانین کو توڑ کر اس کے مقابلے کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے تو اس وقت خدا تعالیٰ کے نزدیک حیوانوں کی قدر ہوتی ہے.مگر اس کی نہیں ہوتی.کیوں اس لئے کہ حیوان خدا تعالیٰ کے نافرمان نہیں ہوتے اور یہ ہوتا ہے.پھر حیوانوں کی خاطر خدا تعالیٰ انسانوں کے تباہ کرنے کی کوئی پرواہ نہیں کرتا اور انہیں ہلاک کر دیتا ہے.اس وقت انسان کی جان بے قیمت اور بے حقیقت ہو جاتی ہے.غرض انسان اسی وقت تک انسان ہے جب تک کہ اس میں انسانیت قائم ہے.اور روحانی لحاظ سے انسانیت یہی ہے جس سے اس میں اور حیوانوں میں فرق ہے کہ اس کی روح ترقی کر کے اسے خدا تعالیٰ کا مقرب بنادے.اگر کوئی انسان اس قرب کو حاصل نہ کرے یا اس کے حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے اور اس راہ میں صبر اور استقلال کو کام میں نہ لائے تو وہ انسان نہیں ہے.انسان کو حیوان سے جو یہ امتیاز حاصل ہے تو یہ اس پر ایک ایسا انعام ہے جو اس دنیا کی کسی مخلوق کو حاصل نہیں ہے.بلکہ جب کوئی انسان اس انعام کو حاصل کر لیتا ہے اور خدا تعالیٰ کے قرب میں پوری پوری ترقی کرنی شروع کر دیتا ہے.تو

Page 40

خطبات محمود جلد (5) ۳۰ اس کے لئے ایسے درجے کھل جاتے ہیں جو فرشتوں کو بھی حاصل نہیں یہی وجہ ہے کہ شب معراج میں جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے وہاں جبرائیل نہیں جا سکے جبرائیل ہرکارہ تھے اور بھیجنے والا خدا اور جس کو خط بھیجا گیا تھا وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم تھے.گو جبرائیل کا درجہ دوسرے انسانوں کے مقابلہ میں کتنا ہی بڑا ہو.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں ہرکارے کی حیثیت تھی کیونکہ ان کے ذریعہ خدا تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام کیا کرتا تھا.یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی عزت تھی.حدیث میں آیا ہے کہ ایک ایک وحی کے ساتھ ہزاروں فرشتے اُترا کرتے تھے.یہ اسی لئے کہ خدا تعالیٰ اتنے فرشتوں کو ایک کلام کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیج کر بتاتا تھا کہ یہ ہمارا ایسا پیارا ہے کہ اس کے مقابلہ میں جو ہمارے بڑے پیارے ہیں وہ بھی ادنیٰ ہو گئے ہیں.یہی وجہ ہے کہ جس شان کا کلام ہوتا.اسی قدر زیادہ فرشتے ساتھ آتے.ورنہ فرشتے اس لئے نہیں آتے تھے کہ کلام کے پہنچانے میں کوئی ڈر تھا.اس لئے حفاظت کے لئے ساتھ فرشتے بھیجے جاتے تھے.کلام تو یوں بھی محفوظ ہی تھا اور کسی کی کیا طاقت تھی کہ اس میں کچھ دخل دیتا.تو انسان بہت قرب اور مدارج حاصل کر سکتا ہے اور اس قدر حاصل کر سکتا ہے کہ ملائک کے لئے بھی وہ مدارج نہیں ہیں.پس جب انسان کے لئے اتنے مدارج ہیں تو ضرور ہے کہ اس کے لئے خطرات بھی اتنے ہی بڑے ہوں کیونکہ بڑے انعام کے ساتھ بڑے ہی خطرات ہوتے ہیں یہ آیات جو میں نے پڑھی ہیں ان میں اسی طرف خدا تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ.فرمایا خدا کے لئے مومن ہونا اور اس کی فوج میں داخل ہونا اور اس کا مقرب اور پیارا ہونا کوئی ایسی چھوٹی سی چیز نہیں ہے کہ منہ سے کہا اور ہو گیا.صرف امنا کے کہنے سے کوئی مومن نہیں ہو جاتا.دیکھود نیاوی گورنمنٹیں جب سپاہیوں کو بھرتی کرتی ہیں تو ان کے ہر ایک عضو کا معائنہ کراتی ہیں.آنکھ.کان.ناک.ہاتھ پاؤں قد.چال چلن وغیرہ تک دیکھتی ہیں اور بڑی شرائط کے بعد فوج میں داخل کرتی ہیں.تو کیا خدا تعالیٰ کی فوج میں داخل ہونے کے لئے کسی امتحان کی ضرورت نہیں اور کیا یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ صرف امنا کہہ دینے سے کوئی مومن ہو سکتا ہے ہرگز نہیں بلکہ جس طرح خدا تعالیٰ ہر ایک بات کو جاننے والا ہے اور اس کے

Page 41

خطبات محمود جلد (5) ٣١ قرب کے ذرائع بہت وسیع ہیں حتی کہ ختم ہی نہیں ہوتے.اسی طرح اس کا امتحان بھی بہت بڑا ہے.اس لئے جو انسان اس بات کے لئے کھڑا ہو کہ میں خدا کا قرب حاصل کروں اور صحیح معنوں میں انسان بنوں وہ یہ مت سمجھے کہ صرف منہ سے امنا کہنے سے وہ اپنے مقصد کو حاصل کر سکے گا بلکہ اس کے لئے بڑی آزمائش ا میں سے گزرنا ہوگا اور جب وہ اس میں پکا ثابت ہوگا تو اس قابل سمجھا جائے گا.کہ خدا کا قرب حاصل کرے دور نہ اس کا زبانی دعوی کسی کام کا نہیں ہوگا.ان آیتوں کے پہلے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے.الم.یہ فرما کر خدا تعالیٰ نے انسان کو ڈانٹا ہے.کہ دیکھو دھو کہ انسان کو دیا جا سکتا ہے اور انسان بسا اوقات دھو کہ کھا بھی جاتا ہے کیونکہ وہ ہر ایک چیز کے متعلق علم نہیں رکھتا.لیکن خدا چونکہ ہر ایک چیز کا علم رکھتا ہے اس لئے وہ کسی دھوکہ دینے والے کا دھوکہ نہیں کھا سکتا.اس کے سامنے کسی کے دھوکہ سے یہ کہہ دینے سے کہ میں ایمان لے آیا وہ مومن نہیں ہو سکتا.کیونکہ الم یعنی انا اللهُ أَعْلَمُ الله بہت بڑا جاننے والا ہے.دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی سے محبت جتلاتے ہیں.دوستی ظاہر کرتے ہیں اور ذرا ذراسی بات پر کہہ دیتے ہیں کہ میں آپ کے قربان جاؤں اور سننے والا بھی سمجھتا ہے کہ واقعہ میں اس کو مجھ سے بڑا پیار اور محبت ہے اور یہ میرے لئے جان قربان کرنے کے لئے تیار ہے لیکن جب کوئی موقعہ پیش آتا ہے تو محبت پیار اور دوستی کی ساری حقیقت کھل جاتی ہے.مگر خدا تعالیٰ جو دلوں کا واقف ہے اور انسان کی ہر ایک پوشیدہ سے پوشیدہ بات کو جانتا ہے وہ کہاں فریب کھا سکتا ہے.وہ خوب جانتا ہے اور اپنے جاننے کا ثبوت اس طرح دیتا ہے کہ انسان کو فتنہ میں ڈالتا ہے.بہت انسان ایسے ہوتے ہیں.جو خود بھی نہیں جان سکتے کہ ہماری محبت خدا تعالیٰ سے جھوٹی ہے یا سچی.ان پر بھی خدا تعالیٰ فتنہ میں ڈال کر کھول دیتا ہے کہ تم اپنے نفس کے متعلق نہ سمجھتے تھے مگر ہم خوب جانتے تھے اور اب تم کو بھی معلوم کرا دیا ہے.کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنے نفس کے دھوکہ میں آ کر اپنے آپ کو بہادر سمجھتا ہے مگر تھوڑے سے خطرہ اور ڈر سے اسے اپنی بزدلی کا علم ہوجاتا ہے.بارہا ایسا ہوتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ فلاں سے مجھے بڑی محبت ہے.مگر

Page 42

خطبات محمود جلد (5) ذراسی بات سے اس سے ایسا دور ہو جاتا ہے کہ گو یا کبھی تعلق ہی نہ تھا.اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو بڑا عالم سمجھتا ہے مگر ذراسی بات پر اس کے علم کی قلعی کھل جاتی ہے.تو انسان اپنے نفس کو غلط سمجھتا ہے مگر خدا تعالیٰ اس کو خوب جانتا ہے اور اس کے انا اللہ اعلم کا ثبوت یہ ہے کہ وہ انسان کے نفس کو فتنہ میں ڈال کر بتا دیتا ہے کہ میں زیادہ جاننے والا ہوں.وَلَقَد فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فرمایا.کہ ہم نے پہلے لوگوں کو بڑی بڑی آزمائشوں میں ڈالا تھا.اور ان کی بڑی بڑی آزمائشیں کی تھیں.پس ضرور ہے ان سے پچھلوں کی بھی اس طرح آزمائشیں کی جائیں.فَلَيَعْلَمَنَّ اللهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الکذبین.پس ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو فتنہ میں ڈال کر سچے اور جھوٹے صادق اور کا ذب کو الگ الگ کر دے.غرض انسان کے لئے جس طرح خدا تعالیٰ کے قرب کے دروازے کھلے ہیں اور اس کے لئے انسانیت کے قائم رکھنے کے لئے ذرائع موجود ہیں اور اس پر یہ احسان کیا ہے کہ اسے انسان بنا کر باقی تمام مخلوق پر فضیلت بخشی ہے.اسی طرح اس کے لئے قرب الہی حاصل کرنے کے لئے بڑی بڑی کوششوں کی بھی ضرورت ہے اور بڑے بڑے کٹھن امتحانوں سے گذرنا پڑتا ہے تب جا کر اسے حقیقی انسانیت کا مقام حاصل ہوتا ہے.ورنہ اس سے پہلے وہ شکل تو انسان کی ہوتی ہے مگر در حقیقت وہ حیوان ہوتا ہے.اس زمانہ میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ تمدن کو قائم رکھنے کے لئے کس قدر جد و جہد اور کوشش کی جا رہی ہے.اور کیسی کیسی قربانیاں کی جاتی ہیں اور وہ لوگ جو دنیاوی رنگ میں انسانیت کے فرق کو نمایاں کر رہے ہیں کس قدر اس میں کوشاں ہیں.آج ہی مجھے اخبار میں ایک خبر پڑھ کر سخت حیرت ہوئی ہے کہ یورپ کی عورتوں کا اتنا حوصلہ ہے کہ ہمارے مردوں کا بھی اتنا نہیں ہے.ابھی انگلستان میں بھرتی ہو رہی ہے.اس کے متعلق واقعہ ہے کہ ایک بُڑھیا کے پاس بھرتی کرنے والا گیا اور اسے کہا کہ تمہارا کوئی لڑکا بھرتی ہوا ہے یا نہیں.اس نے کہا میرے نولڑ کے ہیں جن میں سے اس وقت تک آٹھ بھرتی ہو چکے ہیں ان میں سے چار لڑائی میں مارے گئے ہیں.دو زخمی پڑے ہیں اور دولڑائی پر ہیں.اب ایک باقی ہے اگر اس کی بھی بادشاہ کو ضرورت ہے تو حاضر ہے بھرتی کرلومیری

Page 43

خطبات محمود جلد (5) ٣٣ طرف سے کوئی عذر نہیں ہے.دیکھو کیا ہمت اور کیا حوصلہ ہے تو یہ قومیں تمدن قائم رکھنے کے لئے نسل.مال.دوست اور مد دسب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.یہ اس مقابلہ کا حال ہے جو انسانوں کا حیوانوں کے مقابلہ میں جسمانی طور پر کہلاتا ہے.لیکن بتلاؤ کہ حیوانوں کے مقابلہ میں جو روحانی فرق ہے اس کو قائم رکھنے کے لئے کس قدر کوشش اور محنت کی ضرورت ہے.روحانی مقابلہ یعنی مذہب کے سامنے اس جسمانی مقابلہ یعنی حمدن کی حیثیت ہی کیا ہے اور یہ چیز ہی کیا ہے اس کا اثر تو زیادہ سے زیادہ انسان کی بڑی سے بڑی سوسو اسوسال تک کی زندگی سے ہے.مگر مذہب کا اثر نہ صرف اس زندگی کے ساتھ ہے بلکہ اس زندگی کے ساتھ بھی ہے جو ابدالآباد تک کی ہے.پھر تمدن کے لئے جو کوشاں ہے وہ اگر اس جد و جہد میں مرجائے تو اس کے لئے کوئی انعام اور فائدہ نہیں مگر جو خدا تعالیٰ کے قرب کے حاصل کرنے اور صداقت اور راستی کے پھیلانے کے لئے اپنی جان قربان کر دے اس کا انعام کبھی ضائع نہیں ہوتا.ملک اور قوم کی حفاظت کرتے ہوئے جو مارا جاتا ہے.اس کی ذات خاص کو اس سے کچھ فائدہ نہیں پہنچتا.اگر اس کا تمام ملک تباہ ہو جائے تو اسے کوئی نقصان نہیں اور اگر بچ جائے تو اسے کوئی نفع نہیں.مگر مذہب کے لئے جو کوئی اپنی جان اور مال قربان کرتا ہے.اگر وہ مرجاتا ہے یا مارا جاتا ہے.تو اسکا انعام بجائے بند اور ضائع ہونے کے اور بڑھ جاتا ہے کیونکہ تمدن کے لئے جانیں قربان کرنے والوں کو انعام دینے والے انسان ہیں جن کی طاقت اور قدرت موت سے ورے ورے انعام دے سکتی ہے.مگر وہ جو مذہب کے لئے قربان ہوتے ہیں ان کا انعام دینے والا خدا ہے جس کا دست تصرف اس دنیا میں بھی ہے اور موت کے بعد آگے بھی.اس لئے وہ موت کے بعد بھی انعام واکرام دیتا ہے.ہماری جماعت کے لئے اس زمانہ میں وہ مشکلات نہیں ہیں جو پہلے زمانہ میں اور قوموں کے لئے تھیں.گو میں سمجھتا ہوں کہ مشکلات کسی نہ کسی رنگ میں ہیں لیکن پہلے جیسی مشکلات ابھی نہیں ہیں.لیکن تعجب نہیں کہ وہی مشکلات ہماری قوم کو بھی آ جائیں.جو پہلی قوموں کو پیش آتی رہی ہیں.کیونکہ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی.جب تک کہ اسے اتنی ہی قربانیاں نہ کرنی پڑیں.

Page 44

خطبات محمود جلد (5) ۳۴ جتنی پہلی قوموں کو کرنی پڑی تھیں.پس ہماری ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ابتلاء آئیں اور ایسے ایسے ابتلاء آئیں جن میں جان.مال.اولا د وطن وغیرہ چھوڑ نے پڑیں.اس میں شک نہیں کہ ہمارے لئے خدا کے فضل سے بڑی آسانیاں ہیں.کیونکہ ہندوستان میں ایک ایسی گورنمنٹ قائم ہے جس کی وجہ سے ہر طرح کا امن و امان ہے.مگر مسیح موعود صرف ہندوستان کے لئے نہیں آئے تھے بلکہ تمام دنیا کے لئے آئے تھے اور ہماری جماعت صرف ہندوستان میں ہی نہیں ہے بلکہ افغانستان اور دیگر ممالک میں بھی ہے.افغانستان میں ہماری جماعت کے لئے وہ آسانیاں نہیں ہیں جو ہمیں یہاں میسر ہیں.بلکہ ان کے لئے بہت مشکلات ہیں.یہی وجہ ہے کہ وہاں ہمارے دو آدمی شہید ہو گئے ہیں مگر تم کوئی قوم ایسی نہ دیکھو گے کہ وہ ایک غالب قوم بنی ہو اور اس کے صرف دو ہی آدمی شہید ہوئے ہوں.قوم اس طرح بنا کرتی ہے کہ ایک کے بعد دوسرا دوسرے کے بعد تیسرا تیسرے کے بعد چوتھا اور اسی طرح سینکڑوں اور ہزاروں قربان ہوتے ہیں اور جب ایک حصہ قوم پر مشکل اور مصیبت آتی ہے تو دوسرا حصہ اس کا ہاتھ بٹاتا ہے.ایک حصہ اپنی جانیں قربان کرتا ہے تو دوسرا حصہ مال قربان کرتا ہے.صحابہ کرام کو دیکھو.مہاجرین نے اپنے ملک چھوڑے.جائداد میں چھوڑیں.وطن سے بے وطن ہوئے تو انصار نے اپنی جائدادیں اور مال انہیں بانٹ دیئے.غرض اگر قوم کے ایک حصہ کو ایک رنگ میں قربانی کرنی پڑتی ہے تو دوسرے کو دوسرے رنگ میں.اور ایک حصہ پر ایک رنگ میں ابتلاء آتا ہے تو دوسرے حصہ پر دوسرے رنگ میں.میرا منشاء یہ ہے کہ ہماری جماعت کو ہر وقت ہر ایک قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئیے.یہ اور بات ہے کہ خدا تعالیٰ ہماری جماعت پر کسی اور رنگ میں ابتلاء لے آئے.یا اپنے فضل سے ایسے ابتلاء لائے جو سخت نہ ہوں.مگر انسان کا کام یہی ہے کہ وہ ہر وقت اس بات کے لئے تیار رہے کہ اگر مجھے کسی وقت وطن.مال.اولا د اور جان قربان کرنا پڑے تو کر دوں گا.دیکھو جو سپاہی بخاری باب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ومسلم کتاب الجہاد باب رد المہا جرین الی الانصار.

Page 45

خطبات محمود جلد (5) ۳۵ جنگ میں جاتے ہیں وہ سارے کے سارے مارے نہیں جاتے.مگر پھر بھی کوئی سپاہی ایسا نہیں ہوتا جو یہ نہ سمجھے کہ جنگ پر میرے لئے موت ضروری ہے اور میں مرنے کے لئے جارہا ہوں نہ کہ زندہ واپس آنے کے لئے.اور جب تک ہر ایک سپاہی کو یہ خیال نہ ہو اس وقت تک وہ کوئی عزت کوئی انعام اور کوئی رتبہ حاصل نہیں کر سکتا لڑائی پر وہی لوگ جاتے ہیں جو موت کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم سر پر کفن باندھ کر جا رہے ہیں.پھر بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو لڑائی پر جاتے ہیں.مگر زندہ واپس آ جاتے ہیں.لکھا ہے کہ خالد بن ولید جب فوت ہونے لگے تو آپ کے ایک دوست آپ کو دیکھنے کے لئے آئے اس نے دیکھا کہ آپ رور ہے ہیں پوچھا کیوں روتے ہیں کہا مجھے شہادت کی بڑی خواہش تھی لیکن افسوس کہ حاصل نہ ہوئی اور بہت سے لوگوں میں کوئی ایک لڑائی میں شریک ہوا تو شہید ہو گیا.کوئی دوسری میں شریک ہوا تو شہید ہو گیا.اور کوئی تیسری میں شہید ہو گیا.مگر میں اس قدرلڑائیوں میں شریک ہوا کہ میرے سر سے لے کر پاؤں تک زخم لگے مگر آج میں بستر پر پڑا جان دے رہا ہوں.مجھے میدانِ جنگ میں موت نصیب نہ ہوئی.یہ ان کا اخلاص تھا کہ اس طرح کی موت کو وہ پسند کرتے تھے ورنہ میرے نزدیک وہ کئی شہادتیں پاچکے تھے.تولڑائی پر جانے والا بھی زندہ واپس آسکتا ہے.مگر جانتے ہو خالد.خالد کیوں بنا.اس کی شہادت ان کی وفات کے وقت کی گفتگو دے رہی ہے کہ وہ ہر جنگ میں اس نیت اور اس ارادہ سے شامل ہوئے کہ مرنے کے لئے جارہا ہوں.نہ کہ زندہ واپس آنے کے لئے.ان کی عزت.رتبہ.درجہ اور قبولیت اسی واسطے تھی کہ ہر ایک لڑائی کے وقت انہوں نے یہی سمجھا کہ میری جان در اصل میری نہیں ہے اور میں جان دینے چلا ہوں نہ کہ اسے واپس لانے کے لئے اور یہ میرے پاس بطور امانت تھی جسے سپر د کر نے جارہا ہوں.یہ بات اور تھی کہ انہوں نے خدا کو اپنی جان ہر بار ہی دی اور خدا نے انہیں واپس دے دی.لیکن اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ انہوں نے اپنی طرف سے جان دینے میں کوئی کمی نہ کی اور ہر بار ہی ہتھیلی پر رکھ کر دینے کے لئے نکلے.اسدالغابہ و تاریخ الخمیس جلد ۲ ص ۱۷۵

Page 46

خطبات محمود جلد (5) ۳۶ تم لوگ یہ بات خوب یا درکھو کہ بڑے انعاموں کے لئے قربانیاں بھی بڑی ہی کرنی پڑتی ہیں اور یہ قربانیاں صرف مال سے ہی نہیں ہوتیں بلکہ اور بھی بہت طرح سے ہوتی ہیں.اب تو ایسا ہوتا ہے کہ جو شخص چندہ دیتا ہے وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں نے اپنی طرف سے کافی قربانی کر دی ہے لیکن بڑے بڑے انعام اس طرح نہیں ملا کرتے.وہ قو میں جنہوں نے بڑے انعامات حاصل کئے ہیں انہوں نے اپنا سب کچھ کیا مال کیا جان کیا اولا د کیا وطن کیا جائدادیں قربان کیا ہے اس وقت اگر ایسی ضرورت نہیں کہ اس طرح کی قربانیاں کی جائیں تو ہر ایک یہ نیت تو کر لے کہ اگر کبھی ضرورت پڑی تو میری عزت میرا وطن میرا مال میری اولاد میر اعلم اور میری جان غرضیکہ کسی چیز کو خدا کی راہ میں قربان کرنے سے میں دریغ نہ کرونگا اور جو کچھ بھی ہوگا سب کچھ خدا کے لئے قربان کرنا پڑے گا تو کر دوں گا.اور جب مومن ایسی نیت کرلے تو خدا تعالیٰ اس کو توفیق بھی دے گا.اس وقت ہم میں سے بعض ایسے ہیں کہ جن کو کوئی چھوٹا سا ابتلاء آتا ہے تو گھبرا جاتے ہیں بعض لکھتے ہیں کہ میری تجارت بند ہو گئی اس سے سخت ابتلاء ہے بعض لکھتے ہیں کہ احمدی ہونے کی وجہ سے لڑکی نہیں ملتی.جس سے بہت بڑا ابتلاء ہے وغیرہ وغیرہ.میں کہتا ہوں.بھلا یہ باتیں چیز ہی کیا ہیں.ان کے مقابلہ میں جو پہلوں کو پیش آئیں اور ان کے مقابلہ میں یہ حیثیت ہی کیا رکھتی ہیں.پس تم یہ مت سمجھو کہ تمہارے لئے اسی قسم کے ابتلاء ہیں بلکہ میں تو دیکھتا ہوں حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ ابتلاء پر ابتلاء آئیں گے بہت ہیں جو مرتد ہو جائیں گے اور بہت ہیں جو مرتد ہونے کے قریب ہو جائیں گے.آپ کے الفاظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے لئے ابتلاؤں کا ابھی خاتمہ نہیں ہوا بلکہ اور بڑے ابتلاء ہیں جن میں جماعت کو ہر قسم کی قربانیاں کرنی پڑیں گی.پھر جا کر انعام حاصل ہوں گے لیکن موجودہ صورت میں تم ادھر اس عورت کے حوصلہ پر غور کرو.جس کا پہلے میں نے ذکر کیا.اور ادھر اپنی طرف دیکھو کہ اگر کسی کو تبلیغ کے لئے کہیں باہر بھیجنے کا منشاء ہو تو اس کی ماں بیوی اور رشتہ دار شور مچادیتے ہیں کہ اتنی دور نہ بھیجا جائے.ہمارے لئے یہ مشکل ہے یہ تکلیف ہے.چنانچہ ایک شخص کو ہم نے کہیں بھیجنے کا ارادہ کیا تو اس کے رشتہ داروں نے کہنا شروع کر دیا کہ اسے باہر نہ بھیجو.اس کے علاوہ جو آپ کی مرضی ہے کرو.دیکھو اُدھر تو ایک عورت اپنے

Page 47

خطبات محمود جلد (5) ۳۷ ملک کے لئے آٹھ بیٹے دے چکی ہے اور نویں کے لئے کہتی ہے کہ اس کو بھی لے لو لیکن ادھر دین کے لئے اتنی کمزوری دکھائی جاتی ہے.یادرکھو اور اس بات کو خوب یاد رکھو کہ بڑی کامیابیوں اور بڑی فتوحات کے لئے بڑی ہی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے.اور ہمارے تو اتنے دشمن ہیں کہ ان کے مقابلہ میں ہم ایک قطرہ بھی نہیں ہیں پھر بتاؤ کہ ہمیں کتنی بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے اور ہمیں کتنی ہمت اور کیسی کوشش سے کام لینا چاہیئے.پس جب تک ہر ایک احمدی یہ نہ سمجھ لے کہ میرے ہی ذمہ سب کام ہیں اس وقت تک کامیابی نہیں ہوسکتی.ہماری جماعت کو بہت بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے اور اس کے لئے جماعت کو تیار رہنا چاہئیے.اب وہ زمانہ آ گیا ہے.جبکہ ہمارے تعلقات دور دراز ملکوں کے لوگوں سے بڑھنے شروع ہو گئے ہیں.ہم تو خدا کے فضل سے ہر طرح کے امن میں ہیں.مگر ممکن ہے کہ ہمارے اور ملکوں کے بھائی امن میں نہ رہیں اور ممکن ہے کہ ان کے ابتلاء میں ہمیں بھی حصہ لینا پڑے.(مثلاً وہ وہاں سے ہجرت کر کے یہاں آئیں تو ہم ان کو اپنے اموال میں شریک کریں یا وہاں ان کی آزادی مذہب کے لئے بذریعہ اپنی محسن گورنمنٹ کے چارہ جوئی کریں.ایڈیٹر ) اس کے لئے جماعت کو تیار رہنا چاہئیے.اور ہر ایک کو اپنے دل میں یہ نیت کر لینی چاہئیے.کہ خدا کے حضور میری جو قربانی بھی مقدر ہے اس کے لئے میں تیار ہوں.پھر ساتھ ہی ایسے ابتلاؤں میں ثابت قدم رہنے کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا بھی مانگنی چاہئیے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ انسان پر بعض ابتلاء ایسے رنگ میں آتے ہیں کہ اگر انسان ان کے لئے یہ دعا کرے کہ یہ مجھ سے ٹل جائیں تو خدا تعالیٰ ایسے انسان کو اپنے سے بہت دور پھینک دیتا ہے کیونکہ وہ کہتا ہے کہ تم اس سے گھبراتے ہو اور ثابت قدم نہیں رہ کر دکھاتے.اس لئے مجھ سے دور ہو جاؤ.تو یاد رکھو کہ ایسے ابتلاؤں کے لئے یہ دعا نہیں کرنی چاہئیے کہ ہم سے ٹل جائیں بلکہ مومن کو چاہیے کہ ایسی دعاؤں میں لگا ر ہے کہ اے خدا ! اگر کوئی ایسے ابتلاء مجھ پر آنے والے ہوں جو میری طاقت اور ہمت سے بڑھ کر ہوں تو مجھے تو فیق دیجیئے کہ میں ان میں ثابت قدم رہوں اور ان میں پورا اتروں.جب تک کسی انسان میں ایسا ایمان نہیں ہوتا اس وقت تک وہ انسان ہی نہیں ہے اور بندر.سور اور کتے سے بھی بدتر ہے.

Page 48

خطبات محمود جلد (5) ۳۸ ا یہ تو ایک بات تھی جو میں نے بیان کر دی ہے اس کے علاوہ ایک اور بات ہے اور وہ یہ کہ قاضی عبد اللہ صاحب کا ولایت سے خط آیا ہے کہ میرا پہلا لیکچر ہوا.جو بہت مقبول ہو ا ہے.مجھے تو اس بات پر تعجب ہی تھا کہ قاضی صاحب ولایت جا کر کریں گے کیا.کیونکہ انہوں نے یہاں کبھی کوئی لیکچر نہ دیا تھا اور نہ کبھی کسی مضمون پر بولے تھے.انہیں بہت حجاب تھا.چوہدری فتح محمد صاحب کی امداد کے لئے پہلے تو اور کئی تجویزیں دل میں آئیں مگر پھر یکلخت میرے دل میں یہ پڑا.کہ قاضی صاحب کو بھیج دوں.میرے ان کو بھیجنے کے سوائے اس کے اور کوئی وجہ نہ تھی کہ انہوں نے یہاں تعلیم پائی تھی.حضرت مسیح موعود کی صحبت میں رہے تھے.میں نے خیال کیا کہ خدا تعالیٰ ایسے انسان میں خود برکت ڈال دے گا.چنانچہ آج ہی ان کا خط آیا ہے کہ ایک کامیاب لیکچر ہوا ہے اور لیکچر کے بعد ایک گھنٹہ تک سوال و جواب ہوتے رہے ہیں جن کا بہت عمدہ اثر ہوا.اور لیکچر بہت پسند کیا گیا.چوہدری فتح محمد صاحب وہاں سے چل پڑے ہیں آپ لوگ ان کے لئے دعا کریں کہ خدا تعالیٰ انہیں بخیریت یہاں پہنچائے.آج ولایت سے دو اور آدمیوں نے بیعت کے فارم پُر کر کے بھیجے ہیں اور اب وہاں بارہ احمدی ہو گئے ہیں.غیر احمدی اس بات سے چڑا کرتے ہیں کہ تم لوگ مرزا صاحب کو حضرت مسیح سے افضل کیوں کہتے ہو.لیکن ہم کہتے ہیں کہ حضرت مسیح نے تین سال کے عرصہ میں صرف تیرہ حواری تیار کئے تھے جن میں سے ایک مرتد ہو گیا تھا.مگر اب دیکھو کہ حضرت مسیح موعود کے ایک شاگرد نے اس سے نصف عرصہ میں یعنی ڈیڑھ سال میں بارہ احمدی بنالئے ہیں کیا اب بھی کسی کو مسیح موعود کا مسیح.افضل ہونا معلوم نہیں ہوتا ؟ اخیر میں میں پھر اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ گو ہم نے تبلیغ کے لئے باہر مبلغ بھیجے ہوئے ہیں لیکن یہ انتظام ایک بہت چھوٹے پیمانہ پر ہے اصل تبلیغ وہی ہے جو ہر ایک احمدی کرتا ہے اور جو سمندر کی لہروں کی طرح ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلتی جاتی ہے.پس ہر ایک شخص خواہ باتوں سے خواہ کتابوں اور اشتہاروں سے جس طرح بھی ہو سکے تبلیغ کرے.اور جب قوم کا ہر ایک فرد مبلغ ہو اس وقت کامیابیاں ہوتی ہیں اس لئے اس بات کی بہت بڑی ضرورت ہے کہ ہر ایک شخص سمجھے کہ تبلیغ کا سارا بوجھ ނ

Page 49

خطبات محمود جلد (5) ۳۹ اسی کے سر پر ہے اور اس کے سوا اور کوئی نہیں ہے جس نے یہ کام کرنا ہے.پھر وہ ہر ایک قربانی کے لئے تیار رہے.جب قوم کی ایسی حالت ہو جائے گی تو خدا تعالیٰ سے انعام پر انعام ملنے شروع ہو جائیں گے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے انعام بہت عجیب چیز ہوتے ہیں ان کے ملنے سے پہلے انسان ان کو سمجھ ہی نہیں سکتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.لا عين رأت ولا اذن سمعت ولا خطر على قلب بشر ا کہ خدا تعالیٰ کے انعام ایسے ہیں کہ جو نہ کسی نے دیکھے اور نہ سُنے اور نہ کسی کے دل میں ان کے متعلق خیال آیا اسی طرح خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِي لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (السجده : ۱۸) کہ انسان کو اس چیز کا پتہ ہی نہیں جسے خدا نے اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک تیار کیا ہے اس کو اس کا علم ہی نہیں لیکن افسوس.کہ خدا تعالیٰ کے انعاموں کے حاصل کرنے کی بہت کم لوگ کوشش کرتے ہیں.خدا تعالیٰ اپنے فضل اور رحم کے ماتحت آپ سب لوگوں کو کامل ایمان کے درجہ پر پہنچائے تاتم خدا کے مقابلہ میں کسی چیز کی پروانہ کرو.بخاری کتاب التفسیر ومسلم کتاب الجنۃ وصفة نعیمہا.الفضل ۲۲ فروری ۱۹۱۶ء)

Page 50

۴۰ 6 خطبات محمود جلد (5) ہر ایک بات میں حضرت مسیح موعود کو حکم مانو فرموده ۲۵ فروری ۱۹۱۶ء) تشہد وتعو ذوسورہ فاتحہ اور مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کے بعد فرمایا.فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا تِهَا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيما (النساء : ٦٦) ہر ایک دانا انسان جب کوئی کام کرنے لگتا ہے تو پہلے اس کام کے کئی ایک پہلوؤں پر غور کر لیتا ہے.یعنی اس کے نتیجہ اور انجام کو دیکھتا ہے.پھر اس کی خوبی اور عمدگی کو دیکھتا ہے پھر ان ذرائع پر غور کرتا ہے جن کی وجہ سے وہ اس کام کے پورا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے لیکن جو لوگ ان باتوں کو سوچے سمجھے بغیر کوئی کام کرنا شروع کر دیتے ہیں وہ اکثر درمیان میں ہی ٹھوکر کھا کے رہ جاتے ہیں.کیونکہ جب تک کوئی مقصد مقرر نہ ہو.مقصود کے حاصل کرنے کے ذرائع مقرر اور معین نہ ہوں اس کے فوائد اور نتائج دل میں مستحضر نہ ہوں تب تک انسان کبھی بھی اطمینان اور تسلی سے کوئی کام نہیں کر سکتا اور اگر کرے گا تو اس کا حال ایک اندھے کی طرح ہوگا جو دھر اُدھر ٹھوکریں کھاتا ہے اور دھکا لگنے سے کبھی ادھر لڑھک جاتا ہے اور کبھی اُدھر.پس ہر ایک وہ شخص جو یہ چاہتا ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو اور اپنے مدعا کو حاصل کر لے اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی کوشش اور محنت کے شروع کرنے سے پہلے یہ دیکھ لے.کہ اس مدعا کے حاصل کرنے سے مجھے کیا فائدہ ہوگا اور میرے لئے کیا نتیجہ مرتب ہوگا پھر ساتھ ہی اس کے حصول کے ذرائع کو معلوم کرے کہ وہ کیا ہیں اور ان کو جمع کرے.اگر کوئی ان باتوں پر غور کر کے پھر اپنی محنت اور کوشش کا آغاز کرے اور اس پر استقلال دکھائے تو وہ ضرور کامیاب ہو جاتا ہے.

Page 51

خطبات محمود جلد (5) ۴۱ ہزاروں نہیں.لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں انسان ایسے ہیں.کہ عبادتیں کرتے ہیں محنتیں مصیبتیں برداشت کرتے ہیں دکھ اور تکلیفیں جھیلتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ ہم کیوں عبادتیں کرتے ہیں ان سے کیا مقصد اور مدعا ہے ان کا کیا نتیجہ نکلنا چاہیے.یہ لوگ تو اتنا بھی نہیں جانتے کہ ہمیں عبادت کس طرح کرنی چاہئیے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے لوگ شروع سے غلطی میں پڑتے ہیں.اور اس غلطی پر مرجاتے ہیں لیکن انہیں پتہ ہی نہیں لگتا.کہ ہم غلطی کر رہے ہیں.کیوں اس لئے کہ انہیں اپنی عبادت اور ریاضت کے نتیجہ کا علم اور پتہ ہی نہیں ہوتا اور وہ نہیں جانتے کہ ہمیں کیا ملنا چاہئے.اور ہم کس چیز کے لئے کوشش کر رہے ہیں اس لئے اگر ان کو عبادت اور بندگی سے کوئی نتیجہ نہیں حاصل ہوتا تو وہ گھبراتے نہیں اور نہ ہی اپنے دل میں فکر اور تر درمحسوس کرتے ہیں.اگر انہیں خدا کا قرب حاصل نہیں ہوتا.اس کی مدد اور نصرت نہیں ملتی.اس کی طرف سے تسلی تشفی نہیں ہوتی اور ان کے دل میں کرب اور تکلیف نہیں پیدا ہوتی.کیوں؟ اس لئے کہ انہوں نے کبھی اس بات پر غور ہی نہیں کیا کہ بچی عبادت کا کیا نتیجہ ہوتا ہے اور اس سے کس طرح تسلی اور تشفی حاصل ہوتی ہے.اور کس طرح اس کی مدد اور نصرت ملتی ہے چونکہ اس بات کو انہوں نے سمجھا ہی نہیں ہوتا اس لئے ساری عمر عبادت کرتے کرتے مرجاتے ہیں.لیکن انہیں یہ سمجھ نہیں آتا.کہ ہم غلط عبادت کر رہے ہیں دیکھو ایک شخص ہندوؤں میں پیدا ہوتا ہے ساری عمر عبادت میں گزار دیتا ہے بیسیوں بری خواہشوں کو دباتا ہے اور بیبیوں بُرے ارادوں سے باز رہتا ہے.قسم قسم کے جذبات کو قابو میں رکھ کر تیسیا کرتا ہے اور اسی حالت میں مرجاتا ہے.لیکن اسے کبھی یہ خیال پیدا نہیں ہوتا کہ جو کوشش اور محنت میں کر رہا ہوں یہ ٹھیک اور درست نہیں ہے اس لئے مجھے کوئی اور طریق اختیار کرنا چاہیئے.اور اسے کیونکر یہ خیال پید اہوسکتا ہے جبکہ وہ جانتا ہی نہیں.کہ مجھے اس عبادت کے نتیجہ میں کیا حاصل ہونا ہے اور وہ کیا مقصد اور مدعا ہے جس کے حصول کے لئے میں یہ کوشش کر رہا ہوں.اگر دنیا میں لوگ اپنے مدعا اور مقصد کو سمجھ کر عبادت کریں تو ایک انقلاب آ جائے اور کروڑوں انسان مذاہب کی تحقیقتات پر لگ جائیں.موجودہ صورت میں جو ضد.ہٹ اور اختلاف اور اصرار ہے اس لئے ہے کہ لوگوں نے مذہب کی

Page 52

خطبات محمود جلد (5) ۴۲ غرض عبادت کے ذرائع اور اس کے فوائد پر غور نہیں کیا.جس طرح ماں باپ کو کرتے دیکھا اسی طرح کرنے لگ گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں اپنے اپنے مذہب کی تحقیق اور تنقید کی طرف توجہ نہ رہی.لیکن جب کسی کے پیش نظر عبادت کا مقصد اور اس کے ذرائع کا حاصل کرنا ہوگا تو وہ ضرور مذاہب کی تحقیق کی کوشش اور سعی کریگا.مثلاً ایک شخص نیت کرتا ہے کہ میں بٹالہ جاؤں گا.اب فرض کرو کہ وہ یہاں سے مشرق کی طرف چل پڑا اور سری گوبند پور پہنچ گیا.وہاں جا کر جب وہ پوچھے گا کہ اس شہر کا کیا نام ہے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ یہ توسری گو بند پور ہے اور مجھے بٹالہ جانا ہے.مجھے اس طرف نہیں آنا چاہیئے تھا.پھر وہ اور طرف چلے گا اور اگر اسے دس گیارہ میل چل کر کوئی شہر دکھائی نہ دے گا تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ میں غلط راستہ پر چل رہا ہوں.کیونکہ قادیان سے بٹالہ اتنی ہی دور ہے.لیکن اب تک نہیں آیا.اس لئے پتہ لگا کہ میں کسی اور راستہ پر پڑ گیا ہوں اب پھر وہ اور طرف چلے گا اور خواہ اسے کتنے ہی چکر کاٹنے پڑیں تاہم وہ بٹالہ پہنچ جائے گا کیونکہ اس کا ارادہ یہ ہے کہ بٹالہ پہنچے.لیکن جس کی کوئی نیت اور ارادہ ہی نہ ہو کہ مجھے کہاں پہنچنا ہے اس کی مثال اسی طرح کی ہے کہ ایک انسان گھر سے نکل کر اندھا دھند جدھر منہ کیا.ادھر ہی چل پڑا.یہ اگر پچاس سو میل بھی چلتا جائے تو بھی اسے کبھی یہ خیال پیدا نہیں ہوگا کہ میں غلط راستہ پر چل رہا ہوں.اگر وہ جنگلوں اور وحشی جانوروں کی طرف جا رہا ہے تو اسے خیال نہیں اور اگر شہروں اور باغوں کی طرف جا رہا ہے تو اسے توجہ نہیں کیوں اس لئے کہ اس نے یہ سمجھا ہی نہیں کہ میں کہاں جا رہا ہوں.اور کیوں جا رہا ہوں اور مجھے کس طرف جانا چاہئے لیکن جب انسان اس بات پر غور کرے کہ میرا کیا مدعا کیا مقصد اور کیا غرض ہے اور اس کے حاصل کرنے کے لئے کیا ذرائع اور کیا سامان ہیں تو وہ اگر غلطی بھی کرے.تو جلدی متنبہ ہو جاتا ہے اور اصلاح کی طرف لوٹ آتا ہے.میں نے جو یہ آیت پڑھی ہے اس میں خدا تعالیٰ نے اپنے قرب کے حاصل ہونے اور اپنے پاس کسی بندہ کے درجہ حاصل کرنے کا ذریعہ بتایا ہے.فرمایا.لوگ اس بات کی بہت خواہش کرتے ہیں کہ خدا کا قرب حاصل ہو جائے ایمان نصیب ہو جائے ( ایمان ان عقائد کا نام ہے جن کے تسلیم کرنے سے انسان خدا تعالیٰ کی حفاظت

Page 53

خطبات محمود جلد (5) b ۴۳ میں آ جاتا اور ہر قسم کے دکھ اور تکالیف سے بچ جاتا ہے ) ایسے لوگوں کو بتاؤ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّهَا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْليما، پس تیرے رب کی قسم یہ ایمان کو اس وقت تک نہیں پاسکیں گے حتٰی يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْم یہاں تک کہ جتنے اختلافات ان کے اندر پیدا ہوتے ہیں.ان کو تیری طرف نہ لوٹائیں.اور اپنی آرزوؤں کے ماتحت نہ رکھیں بلکہ ہر ایک اختلاف کو تیری طرف لائیں.ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّهَا قَضَيْتَ پھر جو تیرا فیصلہ ہو اس کے قبول کرنے میں ان کے دل تنگی محسوس نہ کریں.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو فیصلہ کو قبول تو کر لیتے ہیں مگر ان کے دل اس پر راضی نہیں ہوتے.مثلاً ایک عدالت فیصلہ کرتی ہے کہ فلاں باغ یا فلاں مکان یا اتنا روپیہ فلاں کو دیا جائے.اب دینے والے کو یہ برا تو لگتا ہے اور نہیں چاہتا کہ دیوے اور لینے والا سمجھتا ہے کہ مجھے کم دلایا گیا ہے.جتنا میرا حق تھا اتنا نہیں ملا.لیکن وہ فیصلہ دونوں کو ماننا پڑتا ہے اور گورنمنٹ ان کے اس طرح عمل کرنے سے خوش ہو جاتی ہے.اور یہ نہیں کہتی کہ تم اس فیصلہ کے نفاذ سے دل میں کیوں بُرا مناتے ہو.اس لئے اگر کوئی دل میں ناراض اور نا خوش ہو تو گورنمنٹ اس پر کسی قسم کا اعتراض نہیں کرتی.لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے جو حکم بنا کر بھیجا ہے اس کی وہ عزت اور وہ شان ہے کہ اگر اس کے فیصلہ کو تم مان تو لو مگر دل میں بُرا سمجھو گے.تو ہم تمہیں اپنا قرب نہیں دیں گے.اور تم ایمان حاصل نہیں کر سکو گے اس کے فیصلہ کو تو تمھیں اس طرح ماننا چاہئیے کہ تمہارے دل بھی غمگین نہ ہوں اور ذرا بھی تنگی محسوس نہ کریں.تم یہ یقین کر لو کہ اس نے جو بھی فیصلہ کیا ہے وہی حق اور درست ہے اور اسی طرح ہونا چاہیئے تھا.اور یہ بات نہ صرف تمہارے مونہوں سے نکلے بلکہ تمہارے دل میں بھی یہی بات ہو.کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو منہ سے تو کہتے ہیں کہ یہ بات درست ہے مگر ان کے دل نہیں مانتے اس لئے اس پر عمل نہیں کرتے.اسی بات کے دور کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے یہاں دو باتیں بیان فرمائی ہیں ایک یہ کہ اس کے کسی فیصلہ سے تمہارے دلوں میں تنگی محسوس نہ ہو اور دوسرے یہ کہ تم اس کی فرمانبرداری بھی کر کے دکھلاؤ.

Page 54

خطبات محمود جلد (5) یہ وہ ذریعہ ہے جو خدا کے قرب کو حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت فرما یا.اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ جو بھی خدا کا نبی ہے اسی سے تعلق رکھتا ہے اور جو نبی آتا ہے اس کا فیصلہ اسی کے مطابق ان لوگوں کو ماننا ضروری ہے جو اس کو قبول کرتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے کئی جگہ لکھا ہے کہ جو میری بیعت کرتا ہے اور مجھے سچا سمجھتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ میرے فیصلوں اور حکموں کو بھی مانے.ورنہ وہ میری بیعت میں داخل نہیں ہے (مفہوم) پس یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی خاص نہیں ہے بلکہ ہر ایک رسول سے متعلق ہے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ الله (النساء : ۶۵) کہ کوئی رسول نہیں بھیجا جاتا مگر اس لئے کہ اس زمانہ کے لوگ اس کی اطاعت کریں.اور اگر کوئی اس کی اطاعت نہیں کرتے تو وہ مومن نہیں ہیں.پس خدا تعالیٰ نے فرما دیا.کہ نبی کی طرف سے جو فیصلہ ہو اس کو خوشی سے قبول کرنا چاہیئے اور اگر کوئی اسے خوشی سے قبول نہیں کرتا تو وہ مومن نہیں ہے.بظاہر یہ تو بڑی مشکل بات معلوم ہوتی ہوگی کہ کس طرح ایک انسان کے ہر ایک فیصلہ کو اس طرح قبول کیا جائے کہ اس کے متعلق دل میں بھی ذرا تنگی محسوس نہ ہو اور کسی قسم کی ناخوشی نہ ہو.مگر میرے نزدیک یہ ایک بہت بڑی رحمت ہے.دنیا میں لوگ بڑے بڑے لوگوں کے فیصلے مانتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہمارا فیصلہ کوئی بڑا عقل مند اور دانا کرے.خدا تعالیٰ نے یہ فرما کر بتا دیا.کہ اے لوگو! ہم تمہارے لئے اس مصیبت اور تکلیف کو باقی نہیں چھوڑتے کہ تم اپنے فیصلوں کے لئے انسانوں کو ڈھونڈتے پھرو.اور پھر بھی حسب دلخواہ تمہیں نہ ملیں.ہم خود ایک انسان کو مقرر کر دیتے ہیں جو تمہارے فیصلے کر دے گا.پس خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی ایسے انسان کا مقرر ہونا کوئی تکلیف دینا نہیں بلکہ رحمت برسانا ہے اور غلامی کرنا نہیں بلکہ حریت پیدا کرنا ہے پابندی کرا نا نہیں بلکہ آزادی دلانا ہے.کیونکہ ایک نبی کے ماننے والے کو یہ ضرورت نہیں رہتی کہ وہ کسی بات کے متعلق فیصلہ کرانے کے لئے کسی منصف کی تلاش میں نکلے بلکہ وہ ہر ایک بات کا فیصلہ خواہ وہ اعمال سے متعلق ہو.یا

Page 55

خطبات محمود جلد (5) ۴۵ افعال سے خواہ انتظامی امور سے تعلق رکھتی ہو خواہ جسمانی سے خواہ ایمان سے تعلق رکھتی ہو خواہ اعتقاد سے وہ رسول کر دیتا ہے.اب اسے کسی اور کے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں رہتی لیکن بہت لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اس بات کو سمجھا نہیں ہوتا اس لئے ٹھو کر کھاتے ہیں.بہت لوگ ہیں جو لکھتے ہیں کہ ہمیں سمجھ آگئی ہے کہ حضرت مرزا صاحب بچے تھے لیکن لاہوری ان کے متعلق کچھ اور کہتے ہیں اور تم کچھ اور.ہم کس کی بات کو مانیں اور کس کی بات کو نہ مانیں.میں ایسے لوگوں کو کہتا ہوں کہ تم قرآن شریف کو قبول کرو.سلسلہ احمدیہ کے انتظام کے لئے پہلے حضرت مولوی صاحب تھے اور اب میں ہوں.نہ کبھی مولوی صاحب نے کہا ہے اور نہ میں کہتا ہوں.کہ عقائد احمدیت اس لئے قبول کرو کہ میں کہتا ہوں عقائد تو وہی ہیں جو حضرت مرزا صاحب مقرر فرما گئے ہیں اس لئے میں کہتا ہوں کہ اگر ہماری کوئی بات سچی ہے تو اسے قبول کر لو.ورنہ غلط قرار دے کر چھوڑ دو.پس تمام باتوں کے فیصلہ کا ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ جو بات حضرت مسیح موعود نے فرمائی ہے اسے قبول کرو.اور جو اس کے خلاف ہے اسے چھوڑ دو.بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص اتنی مدت حضرت صاحب کی صحبت میں رہا ہے اس نے فلاں بات کہی ہے.اکمل نے یہ لکھا ہے’ قاسم نے یہ کہا ہے.فلاں ایڈیٹر نے یہ کہا ہے فلاں ایم اے یہ کہتا ہے ہم کس کی مانیں میں کہتا ہوں کہ ہر ایک اختلاف کی بنا ہمیشہ سے اسی بات پر رکھی گئی ہے.کہ ان لوگوں کی باتوں اور راؤں کو سامنے رکھا جاتا ہے جو کسی بات کے متعلق فیصلہ دینے کا اختیار نہیں رکھتے اور ان کی بات کے پیچھے چلا جاتا ہے جو ٹھو کر کا باعث ہوتے ہیں.اس ٹھوکر سے بچنے کا طریق یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو مامور کیا گیا ہے.اس کی بات کو قبول کیا جائے.اور اس کے علاوہ خواہ کوئی بڑا ہو یا چھوٹا اس کی بات اگر اس مامور من اللہ کی بات کے مطابق ہے تو اسے قبول کر لو.اور اگر اس کے خلاف ہے تو پھینک دو.حضرت مسیح موعود کے فیصلہ کو ماننے سے اصل میں قرآن اور حدیث کے فیصلہ کو مانا جاتا ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود قرآن اور حدیث کو رڈ کرنے کے لئے نہیں آئے تھے.بلکہ ان کے اصل اور درست معنی بیان کرنے کے لئے آئے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قرآن کی تفسیر کی ہے وہ حدیث ہے اور ایک

Page 56

خطبات محمود جلد (5) ۴۶ تفسیر قرآن کریم کے الفاظ سے سمجھ میں آتی ہے.اور یہ تفسیر وہی سب سے زیادہ سمجھ سکتا ہے جس کو خدا تعالیٰ خود سمجھائے اور پھر اس سے بڑھ کر اور کون سمجھ سکتا ہے جس پر قرآن کریم نازل ہوا ہے.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و فعل آپ کی سنت و عمل قرآن کریم کی تفسیر ہے.لیکن آپ کے بعد جب زمانہ گذرتا گیا تو لوگوں نے اپنے اپنے عقل اور فہم کے مطابق قرآن کی تفسیر کرنی شروع کر دی اس لئے اختلاف پڑنے شروع ہو گئے اور ہزار ہا اختلاف پڑ گئے.اب ہر ایک مؤمن کے لئے مشکل ہو گیا کہ وہ کس بات کو غلط قرار دے اور کس کو مانے.اکثر لوگ چونکہ خیالات کے پابند ہوتے ہیں اس لئے ضروری ہوا کہ انہیں غلط خیالات سے ہٹا کر حقیقت اور اصلیت کی طرف لانے والا کوئی پیدا ہو.وہ حضرت مسیح موعود پیدا ہوئے.اس آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے.يُحكِّمُوكَ.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسیح موعود حکم ہوگا یعنی اس لئے مبعوث کیا جائے گا کہ جو اختلاف پڑ گئے ہوں گے اس کے ذریعہ دور ہو کر سب لوگ ایک دین پر جمع ہو سکیں گے اور قرآن کی اپنی عقل کے مطابق جو لوگوں نے تفسیریں کر کے اختلاف ڈال دیئے ہیں وہ صحیح اور درست تفسیر کر کے ان کو دور کر دے گا.پس ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس لئے نہیں مانتے اور دوسروں کو منواتے کہ آپ قرآن کو منسوخ کر کے کوئی اور شریعت لائے تھے بلکہ اس لئے کہ آپ قرآن کریم کی سچی اور درست تفسیر کرنے والے تھے.اسی طرح قرآن شریف کو ہم اس لئے نہیں مانتے اور دوسروں سے منواتے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے.بلکہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے.پس ہر ایک بات اور اختلاف کا فیصلہ خدا تعالیٰ کا کلام ہی کر سکتا ہے.اور وہی کرتا ہے.مگر خدا تعالیٰ کا کلام اس سے بڑھ کر اور کون سمجھ سکتا ہے جس پر کہ وہ نازل ہوا.اور پھر اس سے بڑھ کر زیادہ اور کون سمجھ سکتا ہے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے باپ کا نام اس کے باپ کا نام اور میری ماں کا نام اس کی ماں کا نام ہوگا اور میری ہی قبر میں دفن کیا جائے گا.اس سے زیادہ اور کسی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا قرب ہو سکتا ہے.اور اس سے زیادہ کسی کا کیا حق ہے کہ قرآن کو سمجھ سکے.پس حضرت مسیح موعود سب سے بڑھ کر قرآن کو سمجھنے والے تھے اور خدا نے انہیں سمجھایا تھا اس لئے جو فیصلہ انہوں نے کر دیا وہی فیصلہ درست اور صحیح ہے.

Page 57

خطبات محمود جلد (5) ۴۷ ہماری جماعت پر تو خدا کا بڑا ہی فضل اور کرم ہے.زید اور بکر کوٹھوکر لگ سکتی ہے.مگر ہماری جماعت کو نہیں لگ سکتی کیونکہ اُن کے لئے کوئی حکم نہیں ہے مگر ہمارے لئے حضرت مسیح موعود حکم ہیں اور حضرت مسیح موعود خدا تعالیٰ کے کلام کے مطابق فیصلہ کرنے والے ہیں کیونکہ خدا ہی نے انہیں حکم قرار دیا ہے اور پھر سب کا مطاع ٹھہرایا ہے.آپ کے سوا اور کون ہے جس کی نسبت حکم اور عدل کہا گیا ہو.اور جس کی نسبت خدا نے کہا ہو کہ اس کے فیصلے صحیح اور درست ہیں.پھر آپ کے سوا اور کون ہے جس نے دعویٰ کیا ہو کہ میں اس گروہ میں سے ہوں جس کو خدا تعالیٰ مرنے تک کسی اجتہادی غلطی پر نہیں رہنے دیتا.اور پھر آپ کے سوا اور کون ہے جس کی نصرت اور تائید خدا تعالیٰ نے کی.اور جس کی صداقت کو ظاہر کر دیا.کوئی نہیں.پس جب ایسا انسان ایک ہی ہے اور وہ ایک حضرت مسیح موعود ہے تو ہم اس کے ہوتے ہوئے اور کسی کی بات کو کیوں مانیں.اس بات کو یادرکھو اور خوب یادرکھو کہ تم ہر ایک بات میں حضرت مسیح موعود کا فیصلہ مانو.جو اس لئے آیا تھا کہ اختلافات کو مٹا دے اور تمام اختلافی باتوں کا فیصلہ کر دے.اور یہ وہ عظیم الشان انسان ہے جس کی نسبت خدا تعالیٰ نے قرآن میں خبر دی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے پہلے تمام نبیوں نے خبردی ہے.پس یہی وہ انسان ہے جس کا ہر ایک فیصلہ بلا چون و چرا کے مان لینا چاہئیے.کیونکہ اگر وہ سچا ہے اور واقعی سچا ہے تو اس کا ہر ایک فیصلہ اور ہر ایک بات سچی ہے اور جب ہر ایک بات سچی ہے تو اس کے ماننے میں کیا انکار ہوسکتا ہے.پس اگر ہمارے اس سلسلہ میں داخل ہونے کی اور اس بوجھ کو اپنے سر پر لینے کی یہ غرض ہے کہ ہمیں ایمان حاصل ہو جائے تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے.کہ اس کا ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ خدا کے رسول کی اطاعت کا جو اپنی گردنوں پر رکھو.اور اگر یہ نہیں بلکہ تم زید و بکر کی باتوں کو ماننے والے ہو اور ان کے پیچھے چلنے والے ہو تو تمھیں سوائے ضلالت اور ہلاکت کے اور کچھ ہاتھ نہ آئے گا.جسے اپنے ایمان کی ضرورت ہے اور جو خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اپنے تصور میں اس بات کو لائے کہ کیا جبکہ وہ خدا تعالیٰ کے حکم کو رد کرتا ہے تو کامیاب ہو سکے گا.ہرگز نہیں.خدا تعالیٰ نے تمام عقائد کی بنیاد حضرت

Page 58

خطبات محمود جلد (5) ۴۸ مسیح موعود علیہ السلام کے فیصلہ پر رکھی ہے.اگر تم آپ کے فیصلہ کو مانو گے تو کوئی وجہ نہیں کہ تمہیں ٹھوکر لگے.زید کھڑا ر ہے یا گرے.بکر کھڑا رہے یا گرے مگر تم کھڑے رہو گے کیونکہ مسیح موعود کھڑا ہے اور کھڑی چیز کو پکڑنے والا نہیں گرتا بلکہ جو گر نے والی چیز کو پکڑتا ہے وہ گرتا ہے.جس شخص کو خدا نے سہارا دے کر کھڑا کیا ہے وہ نہیں گر سکتا.کیونکہ خدا نہیں گرتا.پس تمھیں اسی کے سہارے کھڑا ہونا چاہیئے جو ہمیشہ کے لئے قائم رہنے والا ہے اور اسی کی ہر ایک بات ماننی چاہئیے.حضرت مسیح موعود وہی کہتا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی کہا جو خدا تعالیٰ نے انہیں کہا اور خدا تعالیٰ غلطی نہیں کرتا.کیونکہ وہ علیم اور خبیر ہے ہر ایک بات کا علم رکھتا ہے.اور ہر ایک بات کو جانتا ہے اس لئے مسیح موعود ہی کی بات ایسی ہے جو بلا چون و چرا ماننے کے قابل ہے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کی سمجھ دے کہ وہ عقائد میں حضرت مسیح موعود کے اقوال و افعال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور قرآن کریم پر ہو نہ کہ کسی اور انسان کے اقوال پر.کیونکہ اس طرح ٹھوکر لگتی ہے.اس میں کچھ شک نہیں کہ بعض لوگوں کی سمجھ اور عقل دوسروں سے اعلیٰ ہوتی ہے مگر وہ ایسے انسان نہیں کہے جاسکتے.جو غلطی نہ کرتے ہوں.یا نہ کر سکتے ہوں اور بالکل پاک ہوں.امام مالک.امام حنبل امام شافعی کا اسلام میں بہت بڑا درجہ ہے اور واقعہ میں وہ اسی قابل ہیں لیکن بعض باتیں ایک نے کہی ہیں جن میں نقص ہے لیکن دوسرے نے ان کو تو درست لکھا ہے مگر کسی اور بات میں غلطی کر گیا ہے.اسی طرح بعض کی کوئی بات غلط ہے اور بعض کی کوئی تو تمام اقوال اور افعال صرف خدا کے ماموروں کے ہی درست ہوتے ہیں ان کے سوا اور کسی کے نہیں ہوتے.اس لئے ایمانیات کی بنیاد مامورمن اللہ کے اقوال پر ہی ہونی چاہئیے.خدا تعالیٰ ہمارے اعتقادات کو اپنی مرضی کے مطابق درست رکھے تا ہم ٹھو کر نہ کھائیں اور ہمارے قدم ایسی مضبوط چٹان پر قائم ہوں کہ جہاں سے کبھی نہ ہل سکیں.الفضل ۲۹ فروری ۱۹۱۷ء)

Page 59

۴۹ 7 خطبات محمود جلد (5) ہماری جماعت صفات الہیہ کی مظہر بنے فرموده - ۳/ مارچ ۱۹۱۶ء) تشهد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ جن خوبیوں اور جن صفات حسنہ کا مالک ہے.کوئی بھی نظیر ان کی کسی اور جگہ نہیں ملتی.لیکن وہ خدا ہے.اور باقی مخلوق.اس لئے مخلوق میں جو صفات اور خوبیاں ہوں گی وہ سب اس خدا ہی کی ہوں گی.اور اس کی صفات کا ظل ہوں گی.پس خدا تعالیٰ میں جو صفات اور خوبیاں اور حسن ہے انسان میں اس کا خلق ہے.انسان ان صفات پر اور ان خوبیوں پر اور اس حسن پر جو اس میں ہیں خدا تعالیٰ کی صفات کا اندازہ نہیں لگا سکتا.کیونکہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے اس کا اندازہ لگا سکتا ہے اس لئے اس جگہ انسان جو بھی اندازہ لگائے گا.وہ غلط ہو گا.کیونکہ یہ اس ظل پر جو اس نے دیکھا ہے اس خدا کی صفات کا جس کی صفات کا یہ ظل ہیں خیال کرے گا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ کو الحمد سے شروع کیا.محمد سے شروع نہ کیا تا کہ بتا دے کہ جس قدر بھی خوبیاں اور صفات ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ میں جمع ہیں اسی لئے تو وہ ہر طرح کی کامل حمد کے لائق ہے.لیکن دنیا میں ایسے لوگ بہت ہیں جو اللہ تعالیٰ کے متعلق طرح طرح کے عیوب جمع کرتے ہیں اس کو زبان سے نہیں تو اعمال سے یا دیگر عقائد سے بے قدرت تسلیم کیا جاتا ہے.اس کو جھوٹا کہا جاتا ہے اس کو مجبور ظالم اور بے رحم گردانا جاتا ہے.غرض طرح طرح کے الزام خدا پر لگائے جاتے ہیں.یہ الزام اس کے نہ ماننے والوں کی طرف سے نہیں بلکہ ماننے والوں اور اس کی ہستی کا اقرار کرنے والوں کی طرف سے ہیں.وہ ان الزامات کو سمجھتے ہیں کہ یہ اس کے صفات ہیں اس لئے وہ ان کو بھی اسی کی طرف منسوب کرتے ہیں.ایک مسلمان جو الحمد للہ کہنے والا ہے اس کا یہ فرض ہے کہ وہ ان تمام بدیوں اور الزامات کو جو اللہ تعالیٰ پر لگائے جاتے ہیں اور اس کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں دُور کرے.

Page 60

خطبات محمود جلد (5) نبی اور مامور اسی غرض کے لئے دنیا میں آتے ہیں تا وہ ان الزامات اور بدیوں کو جو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کی گئی ہیں دور کریں سچے سلسلہ کی یہی نشانی ہے کہ اس کے ماننے والے ان الزامات کو دور کریں.جس طرح حضرت نوع کی آمد حضرت ابراہیم کی آمد حضرت موسیٰ حضرت عیسے اور ہمارے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے نبیوں کی آمد جو مختلف ملکوں میں مختلف اوقات میں مبعوث ہوئے اسی لئے ہوئی کہ وہ ان الزامات کو جو لوگوں نے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر چھوڑے تھے دور کریں.اسی طرح ہمارے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اسی غرض کے لئے بھیجے گئے.جس طرح پہلے نبیوں کی جماعتیں خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے اسی غرض کے لئے قائم کی گئیں اسی طرح ہماری جماعت بھی اسی غرض کے لئے قائم کی گئی ہے.پس جس طرح ان لوگوں نے جو پہلے نبیوں کی جماعت سے تھے اپنا فرض ادا کیا.اسی طرح ہمارا بھی فرض ہے کہ ہماری کوششیں مختلف طریقوں سے اور محنتیں چھوٹی ہوں یا بڑی اسی غرض کے لئے ہونی چاہئیں.ہمارے لئے فرما یا کہ تم خدا سے مدد مانگو اس سے دعا کرو کیونکہ تم خود کوئی چیز نہیں کہ اس کام کو بجالاؤ.ہاں خدا سے دعا کرو تم ایک تلوار کی طرح سے ہو.جب خدا اس تلوار کے قبضے کو اپنے ہاتھ میں لے کر اس تلوار کو چلائے گا تو وہ تلوار جس پر پڑے گی اس کو کاٹتی چلی جائے گی.ہمارا جلسہ اسی غرض کیلئے دہلی میں قرار پایا ہے.دعا کرو کہ خدا تعالیٰ اس جلسے کو کامیاب کرے.حضرت مسیح موعود فرمایا کرتے تھے کہ دہلی میں ولیوں.بزرگوں.شہیدوں اور صالح لوگوں کی بہت ہی قبریں ہیں.حتی کہ جس قدر پاک لوگ اس خاک میں مدفون ہیں زندوں سے زیادہ ہوں گے.ان کی روحیں حق کے ظہور کے لئے تڑپ رہی ہیں وہاں یہ سلسلہ ضرور پھیلے گا.حضرت مسیح موعود جب دہلی تشریف لے گئے تھے.تو وہاں کی جماعت نے عرض کیا کہ یہاں کے لوگ بالکل پرواہ نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ارے میاں ! اگر مسیح نے ہندوستان ہی میں آنا تھا تو پھر دہلی میں آتا نہ کہ پنجاب کے کسی گاؤں میں.جہاں بات کرنے کا بھی سلیقہ نہیں گویا وہ لوگ الحمد للہ کی بجائے الحمد لدھلی کہا کرتے یعنی تمام خوبیاں وہ دہلی میں جمع کرتے ہیں

Page 61

خطبات محمود جلد (5) ۵۱ وہ خیال کرتے ہیں کہ عالم ہو سکتے ہیں تو دہلی میں سے.ولی.شہید.صالح اور نیکو کار ہو سکتے ہیں تو دہلی سے.انہوں نے دہلی کو تمام صفات کا جامع بنالیا ہے اور اس قدر متکبر ہوئے ہیں کہ وہ خیال کرتے ہیں کہ دہلی میں رہ کر ہمیں کسی بات کے سنے کی حاجت ہی نہیں.تو وہاں کے لوگ بہت بے پرواہ ہیں.دعا کرنی چاہئیے.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دلوں میں تحریک کرے کہ وہ اپنے دلوں کو طرح طرح کی آلودگیوں اور نخوت اور تکبر سے صاف کر کے ہمارے جلسہ میں آویں اور پھر دُعا کرنی چاہئیے کہ ہمارے واعظوں کے دلوں میں کسی قسم کا تکبر نہ ہو کسی قسم کا عجب نہ ہو.پھر دعا کرنی چاہئیے کہ ہمارے واعظوں کی تبلیغ میں اثر ہو اور پھر دُعا کرنی چاہئیے کہ اس اثر سے وہ لوگ فائدہ بھی اٹھائیں اور پھر دعا کرنی چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو توفیق دے کہ وہ اس اثر کو دوسروں تک پہنچائیں.جلسہ آج جمعہ کے بعد شروع ہوگا.چار دن تک رہے گا.ان چاروں دنوں میں دُعا کرنی چاہیئے.(الفضل ۷ / مارچ ۱۹۱۶ء)

Page 62

۵۲ 8 خطبات محمود جلد (5) دو دو چار چار بیویاں کرو! فرموده - ۱۰ / مارچ ۱۹۱۶ء) (النساء:۳) تشہد وتعو ذاور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد مندرجہ ذیل آیت پڑھ کر فرمایا :.وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاءِ مَثْلَى وَثُلكَ وَرُبعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ ادنى الَّا تَعُولُوا - فرمایا.اسلام کے معنے کامل فرمانبرداری کے ہیں.اور اگر کوئی شخص مسلم کہلاتا ہے اور اپنی خواہشوں اور اپنے اغراض اور خیالات کو اسلام کے احکام پر مقدم کرتا ہے تو وہ نام کا مسلم ہے لیکن خدا کے حضور مسلم نہیں کہلا سکتا.جب مسلم کے معنے فرمانبردار.متبع - مطبع اور ہر ایک بات کے ماننے والے کے ہیں تو پھر ایسا شخص جو اسلام کے احکام کو نہیں پکڑتا اور اس کے فرمانوں کے آگے سر تسلیم خم نہیں کرتا.وہ مسلم نہیں ہو سکتا.ایسے شخص کا کیا حق ہے کہ وہ مسلم کہلائے.مسلم وہی ہے جو خدا کے آگے اپنی گردن ڈال دے.اور اس کے تمام کام خدا کے احکام کے ماتحت ہو جائیں اور وہ ان باتوں کو پسند کرے جنہیں خدا تعالیٰ نے پسند کیا ہے یہی مسلم کی تعریف ہے اس تعریف کے ماتحت یہ شخص مسلم ہے.لوگ اپنی پسند کے ماتحت آنے والے احکام کے لئے بڑی خوشی سے فرمانبرداری کا اظہار کرتے ہیں.اگر کسی بیٹے سے قرضہ لیا ہوا ہو تو وہ سود سے بچنے کی بڑی کوشش کریں گے اور کہیں گے یہ تو ہمارے مذہب کے خلاف ہے ہمارے مذہب نے تو اسے جائز نہیں رکھا.لیکن اگر لڑ کیوں کو حصہ دینا ہو تو کہہ دیں گے ہم شریعت کے پابند نہیں.ہم رواج کے پابند ہیں.غرض یہ کہ انہوں نے شریعت کو ایسے بنا چھوڑا ہے کہ مطلب کی بات کو لے لیا.اور جو خلاف منشا ہوئی اسے چھوڑ دیا

Page 63

خطبات محمود جلد (5) ۵۳ اسی طرح ایک سے زیادہ شادی کرنے کے متعلق باتیں بنائی ہیں.اس وقت ہندوستان میں یورپ کی ہوا چل رہی ہے اور یوں بھی اسلام سے دور ہوتے ہوتے اس سے بہت بعد ہو گیا ہے اس لئے لوگ دوسری شادی کرنے کے بہت مخالف ہیں.ایک شخص احمدی نے مجھے لکھا ہے کہ میرے اولاد نہیں ہے اس لئے میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں.میرے اس خیال کی وجہ سے میری بیوی کے والدین نے اسے روک لیا ہے.اور بھیجتے نہیں ہیں کہتے ہیں ہم تب اپنی لڑکی کو بھیجیں گے جب تم یہ لکھ کر دو کہ تم دوسری شادی نہیں کرو گے.قرآن شریف فرماتا ہے فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلكَ وربع.تم شادی کرو جو تمہارے پسند ہو.ہاں اگر عدل نہ ہو سکے تو ایک کرو.ورنہ دو دو تین تین چار چار کرنے کی اجازت ہے تو کیونکر ایک شخص احمدی رہ سکتا ہے جبکہ وہ خدا کے اس حکم کے خلاف کرتا ہے.اللہ تعالیٰ تو حکم دیتا ہے کہ اگر تم عدل نہ کر سکو تو اس صورت میں ایک کرو.موانع کی موجودگی میں ایک کی اجازت دی ہے.لیکن موانع نہ ہونے کی صورت میں تمھیں دو دو تین تین چار چار کی اجازت ہے.میری دوسری شادی پر لاہور کے ایک شخص نے جوسید کہلاتا ہے اعتراض کیا.اس کو نہیں معلوم کہ جس کی اولاد ہونے کا وہ فخر کرتا ہے اور جس کی بیٹی کی نسل ہونے سے وہ سیڈ بنا ہے اس کے والد کی تونو بیبیاں تھیں.اگر دو شادیاں کرانے کے لحاظ سے ایک شخص شہوت پرست عیاش کہلا سکتا ہے تو نوشادیاں کرانے والے کی نسبت اس کا کیا خیال ہوگا لیکھرام کی طرح اس نے سمجھا تھا کہ اس نے بڑا بھاری اعتراض کیا ہے لیکن جس طرح لیکھرام کے اعتراض نے اس معز ز کرم کی شان کا کچھ نہیں بگاڑا.اس شخص کے اعتراض نے میرا بھی کچھ نہیں بگاڑا اس نے اپنے آپ کولیکھرام کے مشابہ کیا اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت دی.اس نے نادانی سے کہا کہ یہ شخص عیاشی چاہتا ہے لیکن ہم اسے کہتے ہیں کہ اس کے اس اعتراض کرنے میں حضرت ابوبکر.حضرت عمر.حضرت عثمان.حضرت امام حسین بخاری کتاب النکاح باب كثرة النساء

Page 64

خطبات محمود جلد (5) ۵۴ حضرت عبد اللہ بن جعفر قریبا پانچ سو صحابہ ہمارے ساتھ شامل ہیں.وہ سب اسی اعتراض کے نیچے آئیں گے لیکھرام اور اس کے بھائیوں نے بڑے بڑے اعتراض کئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص جو اس قدر لوگوں کی ہدایت کے لئے آوے اور پھر وہ اس طرح کرے ( جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا یہ کیونکر اچھا کام ہو سکتا ہے لیکن باوجود اس اعتراض کو دیکھتے ہوئے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہو چکا تھا اس نے مجھ پر یہی اعتراض کیا.افسوس اس نے میرے پر یہ اعتراض کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی نہ چھوڑا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.جو عورت اپنے خاوند کی دوسری شادی پر چڑتی ہے اور برا مناتی ہے.نا پسند کرتی ہے.غصے میں آتی ہے تو خاوند کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کی اس چڑ کو دور کرنے اور توڑنے کے لئے دوسری شادی کرے اگر کوئی شخص اس کے خلاف ورزی کرتا ہے اور اس پر اعتراض کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے برخلاف کرتا ہے.لیکن باوجود اس کے بہت سارے احمدی اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں خواہ وہ محمد حسین کے مجھ پر اعتراض کرنے کو بُراہی مناتے ہوں اور جوش میں آتے ہوں لیکن جب خودان پر بات آتی ہے تو وہ بھی اسی اعتراض کے مرتکب ہو جاتے ہیں.اسلام کے تو یہی معنے ہیں کہ اپنے اوپر بھی ان احکام کو چلائے جوا حکام اسلام نے دیئے ہیں.بہت سارے نبیوں نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں.حضرت ابراہیم.حضرت یعقوب.حضرت موسیٰ ".حضرت داؤد.حضرت سلیمان.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں.بڑے بڑے نبیوں میں کثرت سے ایسے نبی گزر چکے ہیں اگر فہرست لی جائے تو ایک سے زیادہ شادیاں کرنے والے نبی زیادہ ہوں گے خود حضرت مسیح کی نسبت بھی چار شادیاں بیان کی جاتی ہیں.کیا وجہ ہے کہ اس قدرا ولوالعزم انبیاء ایک سے زیادہ شادیاں رکھتے تھے کیا یہ ان کا فعل عیاشی پر مبنی تھا.اگر کہو کہ نہیں ضرورت کے ماتحت انہوں نے شادیاں کی تھیں.ایک یا دو یا چار نبی ہوتے تو کہہ سکتے تھے کہ مصلحت کے ماتحت انہوں نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں.یہاں اگر کل چالیس یا پچاس نبی ہیں تو ان اسد الغابہ فی معرفۃ الاصحاب، الاصابہ فی تمیز الصحابہ وسیر الصحابہ.

Page 65

خطبات محمود جلد (5) میں سے پچھیں یا تیں ایسے نظر آئیں گے کہ انہوں نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں اس میں کیا حکمت ہے کہ خدا تعالیٰ نے جن پاک بزرگوں کو اپنی خلعتِ نبوت سے سرفراز فرمایا ان میں سے اکثر کو ایک سے زیادہ شادی کے لئے ہی ضرورت پیش آئی.ادھر قرآن شریف بھی دو دو چار چار کا حکم دیتا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کوئی خاص حکمت پوشیدہ ہے.باوجود اس کے کہ نسل موجود ہے اور پھر شادیاں کی جاتی ہیں.اگر کوئی شخص کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اولاد کے لئے شادیاں کرتے تھے تو ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم پیدا ہوئے ہیں اور زندہ ہیں.پھر ایسے وقت میں آپ نے اور نکاح کیا پھر اور اعتراض ہے اور کو تو چار چار کی اجازت نبی کریم کونو کی اجازت کیوں دی گئی.بہت لوگوں کا خیال ہے کہ نو تک عام اجازت ہے لیکن مسیح موعود نے چار کا ہی فتویٰ دیا ہے.میں نے بار ہا آپ سے چار کے متعلق ہی سنا ہے آپ چار ہی فرما یا کرتے تھے.حضرت مولوی صاحب (نورالدین ) کا ایک وقت میں نو کے جواز کا خیال تھا.چنانچہ انہوں نے ایک دفعہ ایک روایت بھجوا دی.کہ فلاں بزرگ کی چار سے زیادہ بیویاں تھیں.میر محمد الحق صاحب وہ روایت لئے ہوئے میرے پاس آئے اور کہنے لگے آج اس مسئلہ پر خوب بحث ہوگی.مولوی صاحب نے یہ ایک حدیث حضرت صاحب کو دکھانے کے لئے بھجوائی ہے.پس وہ اسے حضرت صاحب کو دکھانے کے لئے لے گئے اور تھوڑی دیر کے بعد جب واپس آئے تو سر نیچے ڈالا ہوا تھا.میں نے پوچھا کیا ہوا.کہنے لگے کہ حضرت صاحب کے سامنے جب وہ عبارت پیش کی تو آپ نے فرمایا یہاں کہاں لکھا ہے کہ نو یبیاں ایک وقت میں تھیں.حضرت مسیح موعود چار کی نسبت ہی فرمایا کرتے تھے.تو ہم بھی یہی کہیں گے کہ ادھر چار کی اجازت ادھر نو کی اس میں کیا حکمت ہے.اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اولاد کی خواہش تھی.تو آپ کو چار بیبیاں کرنی چاہئے تھیں.لیکن آپ نے نوکیں.حالانکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ آپ خواہ میں بیبیاں بھی کر لیں تو بھی آپ کے نرینہ اولاد نہ ہوگی تو پھر کس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور لوگوں سے زیادہ نو کی اجازت دی.معلوم ہوا کہ کوئی اور حکمت ہے.چونکہ اسلام ہدایت لے کر آیا تھا.اس لئے تبلیغ فرض اسلام تھا.

Page 66

خطبات محمود جلد (5) کیونکہ تبلیغ کے ذریعہ سے ہدایت پہنچ سکتی ہے.رسول اللہ کے زیادہ شادیاں کرنے میں یہی حکمت تھی.اگر چہ سیاسی اغراض بھی تھیں.لیکن سب سے بڑھ کر یہی غرض تھی کہ انہوں نے زیادہ شادیاں کر کے عورتوں کے متعلق علم کو محفوظ کر دیا.آپ کی بیبیاں اسلام کی دوسری عورتوں کے لئے مبلغہ ہوئیں انہوں نے عورتوں کو اسلام اور ان کے متعلق احکام پہنچائے چار عورتوں کی گواہی دو مردوں کی گواہی کے برابر ہوتی ہے لیکن بعض ایسے فیصلے بھی ہوتے ہیں کہ ان میں چار گواہ مردوں کی ضرورت ہوتی ہے.پس ایسے فیصلے میں آٹھ عورتوں کی گواہی کی ضرورت ہوئی.اس لئے نبی کریم نے نوکر کے اسے طاق کردیا اور گواہی کامل ہو گئی.غرض نصف حصہ دین کا جو عورتوں کے متعلق تھا اس طرح پورا ہوا.دوسری حکمت اس میں نسل کی ترقی کی بھی ہے کہ نسل کے بڑھنے سے خدا کے نام لیوا پیدا ہوں گے اور اسلام کے مبلغ بنیں گے اور اسلام دوسرے مذاہب کو اپنے اندر جذب کرلے گا.تاریخ پڑھ کر دیکھ لو کہ ترقی کرنے والی قوم کی پہلے نسل کی ترقی ہوئی ہے.یورپ کے لوگ جزیروں میں جا کر آباد ہوئے ہیں ان کی نسل کی ترقی ہوتی گئی اور اصلی باشندوں کی نسل کی کمی ہوتی گئی.غرض جس قوم کی ترقی ہونے لگی ہے اس کی نسل بڑھی ہے اور دوسری قوم کی نسل کم ہوئی ہے.فارس میں مسلمان آئے.کا کیشیا.ارض روم.افغانستان.بلوچستان.بخارا.جاوا.سماٹرا.سیلون.جب یہ قوم اپنی ترقی کے زمانہ میں پہنچی ان کی نسل بڑھی.ان تمام علاقوں میں عرب نسلیں پائی جاتی ہیں.اگر چہ یہی عرب رسول اللہ سے پہلے بھی موجود تھے.کیوں ان کی ترقی اس وقت نہ ہوئی اور کیوں ان کی نسلیں اس وقت نہ پھیلیں.اس کی یہی وجہ ہے کہ کسی قوم کی ترقی کے ساتھ اس کی نسل کی بھی ترقی ہوئی ہے.اس لئے اسلام نے نسل کی ترقی کے لئے چار تک بیبیاں کرنے کا حکم دیا ہے.جب نسل کی ترقی ہوگی تو اس کے ساتھ دوسری ترقی بھی ہوگی.تو اس طرف اشارہ کر دیا کہ نسل بڑھاؤ تا کہ بڑے بڑے اعلیٰ قسم کے شخص پید ا ہوں اور وہ اسلام کو قائم کریں.نسل بڑھنے سے تبلیغ کرنے والے بھی بڑھ جاویں گے.جن جن ممالک میں مسلمانوں نے اس بات پر کہ ایک سے زیادہ شادیاں کریں عمل نہیں کیا.وہاں پھر اسلام بھی

Page 67

خطبات محمود جلد (5) ۵۷ میں پھیلا.عرب اس بات کو خوب جانتے تھے اور انہوں نے اس بات پر خوب عمل کیا.اسی لئے جہاں جہاں عرب حکومت قائم ہوئی.وہاں دوسری نسلیں مٹ گئیں.ہندوستان میں مغل پٹھان لوگوں کی سلطنت ہوئی انہوں نے اس بات پر عمل نہ کیا.اگر چہ انہوں نے دوسری قوموں پر ظلم بھی کیا.جبر بھی کیا لیکن پھر بھی یہاں دوسری قو میں کم نہیں ہوئیں لیکن عرب لوگوں کی سلطنت کے ماتحت باوجود اعلیٰ درجے کے امن اور لا اکراه في اللين (البقره: ۲۵۷) پر عامل ہونے کے جہاں گئے اسلام وہاں بڑی ترقی کر گیا.اور دوسری قومیں وہاں نابود ہو گئیں.ہندوستان میں اسلامی سلطنت سات سو سال تک رہی لیکن اسلام یہاں اس قدر نہ پھیلا جتنا کہ پھیلنا چاہیے تھا.اگر مسلمان یہاں بھی کثرت سے شادیاں کرتے تو سارا ہندوستان مسلمان ہو جاتا.بادشاہوں نے یہاں شادیاں کثرت سے کیں لیکن عیاشی کے لئے.جہاں عورت کے حقوق دوسری شادی کرنے پر نہ دیئے جائیں وہ شادی عیاشی کے لئے ہوتی ہے ایک شادی کی جاتی ہے اور دوسری سے تعلق توڑ لیا جاتا ہے.راجوں اور نوابوں کا یہی حال ہے.مگر اسلام نے جو شرائط لگائی ہیں ان سے عیاشی نہیں ہو سکتی.اسلام تو کہتا ہے کہ خواہ دوسری عورت سے تمہیں کتنی ہی محبت ہو لیکن تمھیں ذرا ذرا بات میں دونوں سے ایک جیسا سلوک چاہیئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ سب بیبیوں سے پیاری تھیں یہ بات پوشیدہ نہ تھی سب جانتے تھے.اس لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ میں تمہارا وظیفہ بڑھانا چاہتا ہوں کیونکہ رسول اللہ تم سے سب سے زیادہ محبت کرتے تھے.حضرت عائشہ نے جواب دیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سب کو برابر حصہ دیتے تھے تم مجھ کو زیادہ حصہ دینے والے کون ہو.صحا بہ بھی اس بات کو جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ سے زیادہ پیار رکھتے ہیں اور سب عورتوں سے ایک جیسا سلوک کرتے ہیں.اس لئے جب حضرت عائشہ کی باری ہوتی تھی تو ہدیہ آپ کے پیش کیا کرتے تھے.لے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سخت بیماری میں بھی اپنی مرضی سے.ه بخاری کتاب المناقب باب فضل عائشة رضى الله عنها

Page 68

خطبات محمود جلد (5) ۵۸ حضرت عائشہ کے گھر نہ رہے تھے.بلکہ سب بیبیوں سے پوچھ لیا تھا کہ مجھے آنے جانے میں تکلیف ہوتی ہے.اگر تم کہو تو میں عائشہ ہی کے ہاں رہوں.ابیہ باتیں ثابت کرتی ہیں کہ کس قلب کا وہ انسان تھا با وجود اس کے کہ آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بوجہ تقویٰ.فراست سمجھ.دانائی کے محبت کرتے تھے لیکن پھر بھی دوسری عورتوں کا لحاظ تھا اور پھر کسی کو ترجیح نہیں دیتے تھے.نادان انسان کہتا ہے کہ یہ عیاشی ہے لیکن یہ قربانی ہوتی ہے بہت لوگ ہیں کہ ان کے اولا دبھی نہیں ہوتی لیکن وہ دوسری شادی نہیں کرتے.اس خوف سے کہ یہ بڑا مشکل امر ہے.طرح طرح کے انتظام اور تکالیف بڑھ جاتی ہیں قسم قسم کی نا پسند باتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں.عیاشی میں انسان یک سوئی کی طرف جھک پڑتا ہے.لیکن اسلام کی شادیاں ایک طرف جھکنے نہیں دیتیں بلکہ وہ قربانی چاہتی ہیں.لیکھر ام اس حکمت کو نہ سمجھا اور نہ ہی محمد حسین نے اس حکمت کو پایا.اس نے مخالف قوم میں پیدا ہو کر آنحضرت پر اعتراض کیا.محمد حسین نے میرے پر اعتراض کر کے گو یا بالواسطہ نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے فعل پر اعتراض کیا.غرض لوگوں نے اس حکمت کو سمجھا نہیں.اسلام نے ایسی پابند یاں اور قیود لگائی ہیں کہ اگر کوئی شخص ان پابندیوں اور قیود کے ماتحت شادی کرتا ہے وہ اسلام کی ترقی کے لئے شادی کرتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے جلال کے اظہار کے لئے یہ قیود اپنے اوپر وارد کرتا ہے.خدا تعالیٰ جب دشمن کا دل دکھانا چاہتا ہے تو اسی طرح کرتا ہے وہ ایک شادی سے اتنا غصہ میں آیا ابھی تو اس میں دو کی اور گنجائش ہے جو ایک کی برداشت نہ کر سکا.وہ دو اور کے لئے تو اور بھی زیادہ رنج اٹھائے گا اور گھبرائے گا.جس شخص کی شادی سے یہ غرض ہو کہ اسلام کی آبادی بڑھے.اسلام ترقی کرے اسلام کے نام لیوا اور اسلام کے پھیلانے والے بڑھیں.اس کے لئے اس سے بڑھ کر اور خوشی کی چیز کیا ہوسکتی ہے.ایک نسل کی ترقی سے دوسری پیچھے آنے والی نسلوں کی بھی ترقی ہوتی ہے.کے ہمارے مخالفوں کا تو یہ حال ہے کہ وہ دوسری شادی پر اعتراض کرتے ہیں.بخاری کتاب المناقب باب فضل عائشہ.

Page 69

خطبات محمود جلد (5) ۵۹ مگر ہمارے احمدی بھی اس مرض میں مبتلا ہیں جیسے میں نے پہلے واقعہ سنایا اس صورت میں جبکہ ہم خود ان شادیوں کو نا پسند کریں اور ان پر اعتراض کریں تو عیسائی اور دوسرے لوگ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنے میں سچے ہیں پس ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ ان احکام کی فرمانبرداری کرے.جو قرآن شریف نے بیان فرمائے ہیں.اس صورت میں جبکہ وہ ان احکام کی فرمانبرداری کرے گا.مسلمان کہلا سکتا ہے.ایک اور بات یاد آ گئی.میری شادی پر تو اس شخص نے اعتراض کیا ہے لیکن طلاق کی نسبت تو سخت ممانعت ہوئی ہے.طلاق دینے کے لئے تو بہت ساری شرطیں لگائی ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طلاق کی نسبت فرماتے ہیں کہ یہ ابغض الحلال ہے.لے خدا اس حلال کو نا پسند کرتا ہے اسی وقت اجازت دیتا ہے کہ جب گزارے کی کوئی صورت ہی نہ رہے.ان کے امیر قوم مولوی محمد علی نے اپنی پہلی بیوی کو طلاق دی.وہ بیوی قادیان آئی تھی اور اس کا بیان تھا کہ مولوی صاحب پڑھا کرتے تھے یا وکالت کی تیاری کر رہے تھے تو انہوں نے اسے طلاق دی اور کہا.میں اس وقت خرچ برداشت نہیں کر سکتا.بعد میں پھر شادی کرلوں گا.پھر وہ کہتی تھی.کہ مولوی صاحب اب مجھ سے شادی کر لیں.اور اس عہد کو پورا کریں.میں اپنے بعض حقوق بھی چھوڑنے کے لئے تیار ہوں.وہاں تو ابغض الحلال بھی اعلیٰ درجے کی چیز بن جاتی ہے اور یہاں وہ چیز بھی جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ اور دوسرے انبیاء نے عمل کر کے بتایا بری سمجھی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو بچاوے.کرنانہ کرنا اور چیز ہے.لیکن اگر کوئی عورت یا اس کا رشتہ دار اس بات کو بُرا منا تا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اپنے سچے راستوں پر چلنے کی توفیق دے.آمین.ا سنن ابی داؤد کتاب الطلاق باب في كراهية الطلاق الفضل ۱۴ / مارچ ۱۹۱۶ء)

Page 70

۶۰ 9 خطبات محمود جلد (5) ترقی اسلام کیلئے کثرت سے دُعائیں کرو (فرموده ۱۷ مارچ ۱۹۱۶ء) تشہد وتعو ذاور سورہ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیت پڑھ کر فرمایا :- وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقره: ۱۸۷) جن جماعتوں کا کام تبلیغ ہوتا ہے اور جو اپنے ذمہ خدا تعالیٰ کا پیغام دنیا کو پہنچا نا لیتی ہیں.ان کے کام سے زیادہ مشکل کام دنیا میں اور کوئی نہیں ہوتا.کسی بات کے متعلق ہر ایک انسان اپنے علم.طاقت اور محنت سے کچھ نہ کچھ کام کر سکتا ہے.لیکن کسی کے دل سے خیالات کا نکالنا اور ان کی جگہ نئے خیالات کا داخل کرنا کسی انسانی طاقت و ہمت کا کام نہیں ہے.ایک شخص جو تلوار لے کر اٹھتا ہے وہ اس کے زور سے اپنے آگے آنے والے لوگوں کو ہٹا سکتا ہے.کیونکہ ان تک اس کا ہاتھ پہنچ سکتا ہے.اسی طرح ایک ڈاکٹر ایک مریض کا علاج کرتا ہے کیونکہ اس کے لئے اس کے پاس سامان مہیا ہیں.بیماری کی علامتیں اس کو بتاتی ہیں کہ یہ مریض فلاں عارضہ میں مبتلا ہے لیکن روحانی بیماریوں کی علامات کچھ ایسی بار یک اور پوشیدہ ہوتی ہیں کہ اگر ایک انسان کی تشخیص کے لئے ہی ساری عمر خرچ کی جائے تب ممکن ہے کہ پتہ لگے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا دل اور اس کے خیالات پوشیدہ ہوتے ہیں.اور چونکہ خیالات پوشیدہ ہوتے ہیں اس لئے جب تک ان کو معلوم نہ کیا جائے.علاج نہیں ہوسکتا.اور چونکہ پوشیدہ خیالات کا معلوم کرنا انسان کا کام نہیں ہے اس لئے اصلاح کرنا بھی اس کے اختیار میں نہیں ہے.بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان بہت سوچ سمجھ کر کسی کے سامنے ایک بات اس لئے پیش کرتا ہے کہ اس کو ہدایت

Page 71

خطبات محمود جلد (5) ۶۱ ہو جائے.مگر بجائے اس کے کہ اس کو ہدایت ہو وہ زیادہ گمراہ ہو جاتا ہے اور بجائے قریب ہونے کے دور ہو جاتا ہے.بجائے سمجھنے کے اس کی پہلی عقل بھی ماری جاتی ہے بجائے ہدایت پانے کے ضلالت میں مبتلا ہو جاتا ہے.تو تبلیغ کا کام سب سے زیادہ مشکل کام ہے اور یہ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے اور وہی اس کو کر سکتا ہے اس لئے وہ جماعت جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کام کو لے کر کھڑی ہوئی ہو.اس کے لئے بہت ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور گر جائے.اور اس سے مدد چاہے کیونکہ دل کے خیالات جاننے والا اور ہدایت کا راستہ دکھانے والا صرف وہی ہے وہی مبلغ کی زبان میں اثر ڈالتا ہے وہی مبلغ کو ایسی باتیں سمجھا دیتا ہے.جن سے سنے والوں کو ہدایت نصیب ہوتی ہے.اور وہی علاج بتا تا ہے جس سے روحانی مریض شفا پاسکتے ہیں.میں نے حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں بیسیوں آدمیوں سے سنا ہے.ہوں گے تو ہزاروں.مگر میں نے بیسیوں سے سنا ہے کہ ہم جو اعتراض اور شکوک اپنے دل میں لے کر آئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کوئی اتفاقا تقریر فرمائی تو اس میں ہمارے سب اعتراضوں کے جواب آگئے اور ہمیں ہدایت نصیب ہو گئی.اس سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو عالم الغیب ہے.اس سے جب کسی انسان کا تعلق ہوتا ہے تو وہ خود اس کو ایسی باتیں بتا دیتا اور اس کی زبان پر جاری کر دیتا ہے جس سے لوگوں کے شکوک رفع ہو جاتے ہیں.اور وہ ہدایت پالیتے ہیں.پس چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اس لئے مبلغ جماعت کے لئے بہت ضروری ہے کہ وہ ہر وقت دعاؤں میں لگی رہے.ہماری جماعت کا کام اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچانا اور اس کے جلال اور عظمت کو ظاہر کرنا ہے اس لئے ہماری جماعت کو دعاؤں پر بہت زور دینا چاہیئے.بڑے بڑے لیکچرار کچھ کام نہیں کر سکتے.کیا عیسائیوں.آریوں.برہموؤں اور دہریوں میں بڑے بڑے لیکچرار نہیں ہیں.ضرور ہیں اور وہ ایسی چکنی چپڑی باتیں کرتے ہیں کہ ایک صادق انسان بھی حیران ہو جاتا ہے کہ ان کا کیا جواب ہے.لیکن کیا ان کے ذریعہ کسی کو ہدایت نصیب ہو سکتی ہے.ہرگز نہیں.ہدایت دینا خدا تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے.جب تک وہ کسی کو ہدایت نہ دے کوئی اور سبیل نہیں ہوسکتی.اس لئے مبلغ کا یہ کام ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگے اور یہ نہ صرف مبلغ کا کام ہے.بلکہ ہماری جماعت کے ہر ایک فرد کا کام ہے.ہماری تمام جماعت تو

Page 72

خطبات محمود جلد (5) ۶۲ تمام دنیا کے مقابلہ میں آٹے میں نمک اور دریا کے مقابلہ میں قطرہ بھی نہیں.لیکن اس قلیل جماعت کا تمام دنیا سے مقابلہ ہے.اس صورت میں خیال تو کرو.کہ تمہیں کس قدر پستی کی ضرورت ہے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ بہت لوگ غافل ہیں.اور اپنی دعاؤں میں اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ دنیا کی ہدایت کے لئے دعا مانگنا بھی ہمارا فرض ہے.اور یہ بات بھی بھول جاتے ہیں کہ جو لوگ تبلیغ کے لئے کوشش کر رہے ہیں ان کو کس قدر مشکلات کا سامنا ہے اور کس قدر مدد کی ضرورت ہے.چندہ تو بہت لوگ دیتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ تبلیغ میں کتنے کوشش کرتے ہیں.روپیہ سے تبلیغ نہیں ہوا کرتی.بلکہ خدا کے فضل سے ہوتی ہے.اور اس فضل کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہر ایک احمدی خواہ مرد ہو یا عورت بچہ ہو یا بوڑھا چھوٹا ہو یا بڑا.سب مل کر خدا تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں لگے رہیں.اگر تمام مل کر ایک دعا کریں تو کیونکر ممکن ہے.کہ خدا تعالیٰ ان کی دعا کورڈ کر دے.خدا تعالیٰ تو بہت رحیم ہے لیکن افسوس کہ بہت لوگ اس کی شان کو نہیں سمجھتے.دیکھو بچہ جب کسی تکلیف میں ماں باپ کو پکارتا ہے.تو ان کے دل میں رحم پیدا ہو جاتا ہے.لیکن خدا تو انسان کے لئے ماں باپ سے بھی زیادہ پیار کرنے والا ہے اس کے حضور جب پکارا جائے تو وہ کیوں نہ رحم کرے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے انسان سے پیار کو ایک مثال سے بتایا ہے.ایک جنگ میں کچھ عورتیں قید ہو کر آئی تھیں.ان میں سے ایک کا بچہ اس سے جدا ہو گیا.وہ اس تلاش میں گھبرائی ہوئی ادھر ادھر پھرتی تھی اور جب کسی بچہ کو دیکھتی تو اپنے بچہ کی یاد میں اسے اٹھا کر چھاتی سے لگا لیتی.جب اس کو اپنا بچہ مل گیا تو اسے چھاتی سے لگا کر آرام سے بیٹھ گئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح عورت کو اپنے بچہ سے محبت ہے اور جب تک وہ اسے مل نہیں گیا آرام سے نہیں بیٹھ سکی اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر خدا تعالیٰ کو انسان سے محبت ہے.اے جب کوئی انسان اس سے جدا ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ کو اس سے زیادہ درد ہوتا ہے جتنا کہ ماں کو اپنے بچہ کے کھوئے جانے سے ہوتا ہے اور جب کوئی انسان اس کی طرف جھکے ا بخاری کتاب الادب باب رحمتہ الولد.

Page 73

خطبات محمود جلد (5) ۶۳ تو اسے ماں باپ سے زیادہ خوشی ہوتی ہے اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا انسان سے جب ایسا تعلق ہے تو اس کا رحم اور شفقت بھی اسی نسبت سے ہوگی پس جب ایک ماں بچہ کی پکار پر بیتاب ہو جاتی ہے تو خدا تعالیٰ کے حضور جب لاکھوں انسان دن رات پکارنے پر لگے رہیں گے تو کیونکر ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ ان کی دعا کورڈ کر دے.ایک دن نہیں تو دوسرے دن دوسرے دن نہیں تو تیسرے دن نہیں تو چوتھے دن کبھی تو قبول کرے گا.پھر ایک کی نہیں تو دوسرے کی دوسرے کی نہیں تو تیسرے کی.تیسرے کی نہیں تو چوتھے کی کسی نہ کسی کی تو سُنے گا اور قبول کرے گا.پس خیال کرو کہ جہاں لاکھوں انسان دعائیں کرنے والے ہوں اور متواتر دن رات کرتے ہوں.وہاں ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ ان کی دعا قبول کرے.پس ہماری جماعت کے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ بہت توجہ سے دعاؤں میں لگ جائیں اور جس طرح انسان کو اپنا نام یا د رہتا ہے یا اپنے ماں باپ یا درہتے ہیں اسی طرح وہ اس بات کے لئے بھی دعائیں کرنے کو یا درکھیں اور کسی وقت غافل نہ ہوں ورنہ اتنے بڑے مقابلہ میں ہم کہاں کامیاب ہو سکتے ہیں.ایک انسان کا سمجھانا ہی نہایت مشکل کام ہے چہ جائیکہ تمام دنیا کو سمجھایا جاسکے.ایک دفعہ یہاں ایک شخص آیا.عرب تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے گفتگو کرتا رہا.آپ نے بہت سمجھایا.مگر کچھ نہ سمجھا.آخر آپ نے فرمایا یہ ضدی ہے اسے ہدایت نہیں ہوگی.جب آپ نے اس کو چھوڑ دیا تو الہام ہوا کہ اس کے لئے دعا کرو.ہدایت پا جائے گا.لے آپ نے دعا کی اور دوسرے دن وہی باتیں سنکر جو پہلے سن چکا تھا اور جن سے اسے کچھ اثر نہ ہوا تھا اس کا شرح صدر ہو گیا اور اس نے بیعت کر لی.پھر وہ یہاں سے چلا گیا اور خوب تبلیغ کرتا رہا.اس کے خط بھی آتے تھے تو دیکھو اس نے ہدایت پائی.مگر اس طرح کہ جب خدا کی مدد آئی.پس جو کام دعا کرتی ہے وہ اور کوئی کوشش نہیں کر سکتی.کیونکہ خدا تعالیٰ جس قدر انسان کے قریب ہے اتنا وہ خود بھی اپنے قریب نہیں ہے.چونکہ انسان کی ہدایت کے لئے وہی ہستی ہو سکتی ہے جو اس کے بہت ہی قریب ہو اس لئے خدا ہی اسے ہدایت دے سکتا ہے دیکھو ایک شخص ایک سیکنڈ میں کنوئیں میں گرنے والا ہو.اگر کوئی ذرا اخبار الحکم جلد ۷ نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ء

Page 74

خطبات محمود جلد (5) ۶۴ ڈور سے اس کے بچانے کے لئے دوڑے گا تو وہ گر جائے گا.اور اگر کوئی پاس ہی کھڑا ہوتو وہ اسے بچا لے گا.یہی حال خدا تعالیٰ کا ہے خدا تعالیٰ تو کرنے والے سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے اس لئے اسی سے عرض کرنی چاہیے کہ آپ ہی ان گرنے والوں کو بچاہیے.وہ لوگ جو ضلالت میں گر کر ہلاک ہور ہے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے حضور عرض کریں کیونکہ وہی ان کو بچا سکتا ہے خدا تعالیٰ چونکہ اپنے بندوں کو انعام اور مدارج دینا چاہتا ہے اس لئے ان کے ذریعہ کام کراتا ہے.ورنہ اصل میں وہ کرتا آپ ہی ہے.انسان کا اپنی محنت اور کوشش پر بھروسہ کرنا بہت بڑی غلطی ہے.کیا ایک شخص تلوار لے کر کروڑ دو کروڑ کے لشکر میں چلا جائے تو کوئی خیال کر سکتا ہے کہ وہ ان پر فتح پالے گا.ہرگز نہیں.حالانکہ تلوار کا مارنا آسان ہے بہ نسبت عقائد کے بدل دینے کے.پس جب انسان تلوار سے اتنے دشمنوں کو قتل نہیں کر سکتا.تو اتنے لوگوں کے عقائد اور خیالات کو بدل دینا کہاں اس کی طاقت میں ہے.ہمارے جو مبلغ دیگر ممالک میں گئے ہوئے ہیں ان کی مشکلات کا اندازہ بھی اس سے ہو سکتا ہے کہ ان کے سامنے اتنے بڑے ملک میں اتنے مذاہب کا مقابلہ ہے اور وہ بھی ایسی صورت میں جبکہ اسلام بہت سی قربانیاں چاہتا ہے.ایک چھوٹے سے مذہب کے پھیلانے میں بہت آسانی ہے کیونکہ اس کے لئے کوئی قربانی نہیں کرنی پڑتی.پھر اس کے پیروؤں کو لوگوں کے کھینچنے کے لئے کئی قسم کے سامان میتر ہیں.مگر ہمارے پاس تو وہ سامان بھی نہیں اور نہ اسلام میں وہ آسانیاں ہیں جو ایک اور مذہب میں ہوسکتی ہیں ہمارے پاس تو صرف صداقت ہی ہے.لیکن جو شخص گمراہی میں پڑا ہو اہو اس کو اس وقت تک یہ بھی نظر نہیں آتی.جب تک اللہ تعالیٰ ہی اس کو نہ دکھائے.اس لئے ہمیں اگر کوئی چیز کا میاب کر سکتی ہے تو وہ دعا ہے.اور جب دعا قبول ہو جائے تو پھر لاکھوں انسان فوراً ہدایت پالیتے ہیں.صحابہ کرام بھی تبلیغ کرتے تھے مگر ان کی اصل تبلیغ دعا ہی تھی.میں یہ دیکھ کر حیران ہو جاتا ہوں کہ چند سال میں کس طرح کروڑوں انسان مسلمان ہو گئے لیکن سوائے اس کے نہیں کہ دعاؤں کے ذریعہ ہوئے.ورنہ اس وقت تو بہت دقتیں تھیں.جب کوئی مسلمان ہوتا تو اُسے جان دینے کے لئے نکلنا پڑتا.زکوۃ کے علاوہ اور ٹیکس بھی ادا کرنے پڑتے.اپنی عادتیں چھوڑنی پڑتیں.خیالات بدلنے پڑتے.رشتہ داروں اور عزیزوں سے

Page 75

خطبات محمود جلد (5) منہ موڑنا پڑتا.مگر باوجود اس کے ایک قلیل عرصہ میں کروڑوں انسان اسلام لے آئے.اس کے متعلق سوائے اس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ صحابہ کرام نے دُعائیں کیں اور خدا تعالیٰ نے ان کی دستگیری فرمائی.ہماری جماعت کی ترقی کا باعث بھی دعائیں ہی ہو سکتی ہیں.جب تک دعاؤں پر ایسا زور نہ دیا جائے گا کہ اپنی مجموعی اور انفرادی دعاؤں میں رات اور دن کی دعاؤں میں اسلام کے پھیلنے کے لئے دعائیں کی جائیں اس وقت تک ترقی مشکل ہے اور جو ترقی کی اب رفتار ہے اگر یہی رہی تو کئی لاکھ سال کی ضرورت ہے.مگر اتنی تو کسی قوم کی عمر بھی نہیں ہوتی.دیکھو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کردہ سلسلہ کے لئے تیرہ سو سال کے بعد جب ایک ایسے مصلح کی ضرورت پڑی جس نے ایک نئی قوم کی بنیاد ڈالی تو اور کونسا سلسلہ ہو سکتا ہے جو اتنے لمبے عرصہ تک چلا جائے.پس اس بات کی ضرورت ہے.کہ اشاعت احمدیت کے لئے وہی طریق اختیار کیا جائے جو پہلے لوگوں نے اختیار کیا تھا.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام انبیاء نے دعائیں کیں باوجود اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان میں جو اثر تھاوہ اور کسی کی زبان میں نہ ہوا اور نہ ہوسکتا ہے مگر آپ بھی دعاؤں میں ایسے مشغول ہوتے کہ خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء:۳) شاید تو ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے اپنے آپ کو ہلاک کرے گا.پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعاؤں میں ایسے مشغول ہوتے تو ہمارے لئے کتنی ضرورت ہے ہماری جماعت کے کم لوگوں نے اس بات کو اپنے لئے فرض سمجھا ہے.اور جنہوں نے سمجھا ہے انہوں نے کم سمجھا ہے.اس لئے میں سب لوگوں کو جگا تا ہوں اور ہوشیار کرتا ہوں کہ اپنی سب دعاؤں سے مقدم اس دعا کو رکھو.جب بھی کوئی دُعا کرو چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے.سوتے جاگتے یہ دعا ضرور کرو.تب کامیابی ہو سکتی ہے.ورنہ جو مشکلات ہیں ان پر غالب آنا آسان کام نہیں.ایک طرف لاہوری ہمارے راستے میں روک ہیں.ہمارے مبلغ جہاں جاتے ہیں وہاں ہی ان کے آدمی پہنچ کر ہمارے خلاف لوگوں کو بھڑکاتے ہیں.دوسرے تمام دنیا سے ہمارا مقابلہ ہے.اس لئے کئی قسم کی تکلیفیں در پیش ہیں.کہیں جائدادیں چھینی جاتی ہیں.کہیں نکاح فسخ کرائے جاتے ہیں کہیں لڑکوں کو سکولوں سے روکا جاتا ہے.اسی طرح کی اور بہت سی تکلیفیں ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کچھ عرصہ سو گئے تھے اور اب

Page 76

خطبات محمود جلد (5) ۶۶ پھر جاگے ہیں.اس لئے سمجھ لو کہ ہمارے لئے کس قدر جاگنے کی ضرورت ہے پس تمام جماعت کو چاہیے کہ دعاؤں میں لگ جائے.جب خدا تعالیٰ کی طرف سے نصرت اور تائید آتی ہے تو کوئی چیز مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتی.کیا کبھی کسی نے دیکھا ہے کہ سیلاب آیا ہو اور اسے گھاس پھونس نے روک لیا ہو.ہر گز نہیں.خدا تعالیٰ کا فضل تو سیلاب سے بھی زیادہ زور کے ساتھ آتا ہے اس کے مقابلہ کی کسی کو کیا طاقت ہو سکتی ہے.پس اس نسخہ کو استعمال کرو.دعا خدا کے فضل کو کھینچتی ہے اور خدا کے فضل کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.خدا تعالیٰ ان لوگوں کو جو دعاؤں میں مست ہیں توفیق دے تا کہ ہم سب مل کر دعائیں کریں.اور خدا تعالیٰ ہماری مشکلات کو دور کر کے ہماری کوششوں کو موثر بنائے.آمین.(الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۱۶ء)

Page 77

۶۷ 10 خطبات محمود جلد (5) فروعی مسائل میں جھگڑے نہ کرو (فرموده ۲۴ / مارچ ۱۹۱۶ء) تشهد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کے بعد فرمایا:- يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ وَاَطِيْعُوا اللهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا اِنَّ اللهَ مَعَ الصُّبِرِينَ (الانفال: ۴۶-۴۷) اللہ تعالیٰ کا ہم پر بہت بڑا فضل ہوا ہے کہ مسلمان بالکل پراگندہ ہو گئے تھے.ان میں سے ہر ایک شخص دوسرے کے مخالف چل رہا تھا.کسی کا کسی سے کوئی اتحاد کوئی محبت کوئی پیار اور کوئی تعلق نہیں تھا.بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ مسلمان کہلاتے تو تھے مسلمان مگر اسلام کوئی نہ تھا.ہر شخص کا مذہب علیحدہ تھا.لوگ چھلکے کے پیچھے پڑے ہوئے تھے اور مغز کی کسی کو فکر نہ تھی.درخت کے اوپر فدا ہورہے تھے مگر درخت ایسا تھا جو پھل نہیں دیتا تھا.وہ سواری کے پیچھے پڑے ہوئے تھے مگر یہ کسی کو فکر نہ تھی کہ منزلِ مقصود پہنچنا بھی ہے یا نہیں.ہر ایک مذہبی پہلو سے حالت بدترین ہو رہی تھی.اور یہ کوئی دور کی بات نہیں.وہ لوگ جنھوں نے یہ نہیں دیکھا اب جا کر غیر احمدیوں کو دیکھ لے کہ ان کا کیا مذہب ہے کیا طریق ہے کیا رنگ ہے کیا ڈھنگ ہے نہ تو ان میں اسلام ہے اور نہ کوئی مسلم ہے.ہر شخص کی رائے اس کا مذہب اور ہر شخص کا خیال اس کا دین ہے.ایسی دردناک حالت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے جیسا کہ اس کی قدیم سے سنت ہے ایک ایسے انسان کو مبعوث فرمایا.جس کے کلام کو اپنا کلام اور جس کے فیصلہ کو اپنا فیصلہ قرار دیا.اس انسان کے ذریعہ وہ مذہب جس کی

Page 78

خطبات محمود جلد (5) ۶۸ اس طرح حالت ہو گئی تھی.جس طرح ریت میں دریا خشک ہو جاتا ہے.اسی طرح نمودار ہو گیا.جس طرح ریت کے اوپر بہنے والا دریا لہریں مارتا ہے.لوگوں نے سمجھ لیا تھا کہ یہ دریا خشک ہو گیا ہے مگر خدا تعالیٰ نے اپنے ایک بندے ہی کے ذریعہ بتا دیا کہ خشک نہیں ہوا.لوگوں نے اس پر مٹی ڈال کر اسے چھپا دیا تھا.ورنہ وہ تو اسی زور وشور سے جاری ہے.جس طرح پہلے تھا.سو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وہ مذہب جو شکوک وشبہات سے پر ہو گیا تھا.پھر یقین اور اطمینان دلانے والا ہو گیا.اور وہ جماعت جو پراگندہ ہو چکی تھی بلکہ جماعت کہلانے کی مستحق ہی نہ رہی تھی اس کو خدا تعالیٰ نے ایک جماعت بنادیا یہ خدا تعالیٰ کا ایک فضل تھا.جس کی قدر وہی کر سکتا ہے جس کی آنکھیں ہوں اور جس نے دیکھا ہو کہ تو میں کس طرح ہلاک اور تباہ ہو ا کرتی ہیں.پھر اس شخص کو اس کی قدر ہو سکتی ہے جو تاریخ سے واقف ہو.اور یہ بھی جانتا ہو کہ اسلام کس حالت میں ہو گیا تھا.جسے حضرت مسیح موعود نے آکر کھڑا کیا ہے.گویا اسلام کو کھڑا کرنا قبر میں ڈالے ہوئے مُردے سے بھی بڑھ کر تھا.نادان سمجھتے ہیں کہ خدا مردہ جسم کو زندہ نہیں کر سکتا.انسان جب ایک دفعہ مرجاتا ہے اور اس کی زندگی ختم ہو جاتی ہے تو پھر کبھی زندہ نہیں ہو سکتا.لیکن اگر وہ اپنی آنکھیں کھولیں اور اس بات پر غور وفکر کریں تو انہیں معلوم ہو جائے کہ کسی مردہ کے زندہ کرنے سے کسی قوم کا زندہ کرنا نہایت مشکل ہے.مردہ انسان آسانی سے زندہ ہو سکتا ہے بہ نسبت اس کے کہ ایک قوم مرجائے اور اس کو زندہ کیا جائے اس دلیل کو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے.کہ دیکھو ہم ایک مردہ قوم کو زندہ کریں گے اور یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ ایک دن ہم مردہ انسان کو بھی زندہ کریں گے.تو یہ خدا کا بڑا ہی فضل ہے کہ مسلمان جو ایک مردہ قوم تھی اس میں سے ایک زندہ قوم کھڑی ہو گئی اس لئے خدا تعالیٰ کا جتنا بھی شکر کیا جائے تھوڑا ہے.لیکن کئی ایسے آدمی ہیں کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو گھبرا جاتے ہیں.اور کہہ اٹھتے ہیں کہ کس طرح یہ مصیبت دور ہوگی.ایسے لوگوں کو میں کہتا ہوں کہ جاؤ ان لوگوں کو دیکھو جو مسلمان کہلاتے ہیں.اور اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں.ان کا دل تو الگ رہا ان کی زبانیں بھی اس بات کے لئے گواہی

Page 79

خطبات محمود جلد (5) ۶۹ دے رہی ہیں کہ اسلام مر چکا ہے اس میں بالکل جان نہیں ہے اور وہ اس قدر مایوس ہو گئے ہیں کہ کہتے ہیں اب کوئی اسلام کو زندہ نہیں کر سکتا.چونکہ وہ اپنے دلوں کو مردہ دیکھتے ہیں.علماء صوفیاء اور گدی نشینوں کو مردہ پاتے ہیں.اپنے امراء اور رشتہ داروں کو دیکھتے ہیں کہ دین کی طرف سے مُردہ ہو گئے اس لئے وہ نا امید ہو چکے ہیں اور یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ نہ ان کے گھروں میں نہ ان کے بازاروں میں نہ ان کی مسجدوں میں نہ ان کے حجروں میں کہیں بھی زندہ خدا کا نام نہیں ہے وہ خدا کا نام لیتے ہیں مگر صرف زبان سے.وہ خدا کا کلام پڑھتے مگر صرف زبان سے.ان کا جسم چلتا پھرتا نظر آتا ہے مگر اصل میں گوشت کی قبر ہے جس میں ان کی مردہ روح پڑی ہے.ایسے نظارہ کو دیکھ کر اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ اسلام کے لئے کوئی زندگی نہیں ہے تو ٹھیک کہتے ہیں کیونکہ ان کی حالت ہی یہاں تک پہنچ چکی ہے.لیکن باوجود اس کے خدا تعالیٰ نے اپنا ایک برگزیدہ انسان بھیج کر ایک ایسی جماعت تیار کر دی ہے جس کے دل زندہ اور روح زندہ ہے جس کی ہمت بلند اور حوصلہ پختہ ہے.ہر ایک وہ شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لاتا اور دل سے یقین رکھتا ہے گو اس کے پاس مال نہیں.دولت نہیں حتی کہ سونے لئے اپنی جگہ بھی نہیں.وہ جب سوتا ہے تو یہی سمجھتا ہے کہ صبح ہمارے لئے کوئی عظیم الشان فتح کی خوشخبری لائے گی اور سارا دن محنت مشقت کرتا ہے اور شام کے وقت اتنا نہیں کما سکتا کہ اس کے بال بچے پیٹ بھر کے کھا ئیں مگر شام کے لئے اس کا دل خوشی سے اُچھلتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ دن نہیں ڈوبے گا جب تک کہ میں خوشی کی کوئی بات نہیں سُن لوں گا.وہ سب سے زیادہ مصیبت زدہ اور مشکلات میں گھبرایا ہوا ہو کر خوشخبری اور کامیابی کا امیدوار ہوتا ہے.یہ کیا بات ہے یہی کہ زندہ قوم ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جو زندگی کا بگل پھونکا گیا تھا یہ اس کے ذریعہ کھڑی ہوئی ہے.یہی وجہ ہے کہ اس طرف اس قدر امید ہے اور اس طرف ایسی مایوسی.اب اگر کوئی اس زندہ قوم کو مارنا چاہے تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کتنے برے فعل کے ارتکاب کا ارادہ رکھتا ہے.ایک مومن کے قتل کرنے کی سزا خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ (النساء : ۹۴) کہ اس کی سزا جہنم ہے لیکن جو ایک قوم کو مارتا ہے اس کو سمجھ لینا چاہئیے کہ اس کے لئے کتنا بڑا عذاب

Page 80

خطبات محمود جلد (5) ہوگا.مگر بہت ہیں جو کسی انسان کے قتل کرنے کی دلیری نہیں کریں گے اور ۹۹ فیصدی ایسے ہوں گے کہ جب ان کو قتل کرنے کی ترغیب دی گئی ہو تو ان کے دل دھڑ کنے لگ جائیں اور کپکپی شروع ہو جائے.مگر اس کے مقابلہ میں کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایسے بہت کم انسان ملیں گے جو زندہ قوموں کے مارنے سے ڈریں حالانکہ اس فعل کی سزا انہیں بہت ہی بڑھ کر ملے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ سوئے ہوئے فتنے کو جگانے والے پر خدا کی لعنت ہو.ایک زمانہ میں فتنہ بھی سو جاتا ہے.جس طرح نور اور ظلمت اکٹھے نہیں ہو سکتے جہاں ظلمت ہوگی وہاں نور نہیں ہوگا.اور جہاں نور ہوگا وہاں ظلمت نہیں ہوگی.اسی طرح جس وقت خدا تعالیٰ کا نور کسی قوم کو زندہ کرتا ہے تو اس وقت ظلمت یعنی فتنہ سو جاتا ہے اور فتنہ اس وقت جاگتا ہے کہ جب اس کا مقابلہ کرنے کے لئے نور موجود نہیں ہوتا.اور جب نور موجود ہو خواہ کتنا ہی تھوڑا ہو اس وقت ظلمت مقابلہ پر نہیں ٹھہر سکتی تو سوئے ہوئے فتنہ کو جگانے سے یہی مراد ہے کہ جب کوئی نبی آتا ہے اور ایک ایسی جماعت تیار کر جائے جو راستی اور حق قائم کرنے والی ہوتی ہے تو فتنہ سو جاتا ہے.ایسے وقت میں بعض لوگ اس جماعت کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی سوئے ہوئے فتنہ کو جگانا ہے.اسی کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس زمانہ میں فتنہ سویا ہوا ہے اب اگر کوئی اسے جگائے تو اس پر خدا کی لعنت ہو.آپ نے اس کے لئے یہ بددعا کی ہے.حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نہ کسی کو گالی دیتے تھے اور نہ کسی پر لعنت بھیجتے تھے.لے پس جب آپ نے ایسے شخص پر لعنت کی ہے تو معلوم ہوا کہ وہ بہت ہی خطر ناک گناہ گار ہے.تو فتنہ کے جگانے والا اور زندہ قوموں کے مارنے والا بہت ہی خطر ناک انسان ہے.مسلمانوں کی اس وقت کی حالت دیکھو کیسی تاریک ہے.مساجد میں اول تو کوئی داخل ہی نہیں ہوتا اور اگر ہوں تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایسے فساد اور جھگڑے ہوتے ہیں کہ خدا کی پناہ.التحیات میں اگر کوئی انگلی اٹھاتا تو اس کی انگلی توڑ دی جاتی.اگر کوئی آمین بالجبر کہتا ہے تو اس کی شامت آجاتی.مارنے لگ جاتے ہیں ل بخاری بحواله مشکوۃ باب فی اخلاق النبي صلى الله علیه و آله و سلم بخاری کتاب الادب باب لم يكن النبي صلّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا ولا مُتَفَحِشًا -

Page 81

خطبات محمود جلد (5) اے اور کہتے کہ کتا بھونکتا ہے.حالانکہ انہوں نے نہ دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی آمین بالجہر فرمایا کرتے تھے.اے پھر بعض جگہ اگر کسی نے آمین دل میں ہی کہی تو کہدیا کہ مردے قبروں میں پڑے ہیں.حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے اور صحابہ کرام سے بھی ثابت ہے.غرض بہت چھوٹی چھوٹی باتوں پر اختلاف اور جھگڑے شروع ہو جاتے تھے.خدا تعالیٰ نے ان باتوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ دُور کیا.ہماری مساجد میں حضرت مسیح موعود کے وقت اور اب بھی ایک ہی صف میں ایسے آدمی ہوتے ہیں جن میں سے کوئی آمین بالجبر کہتا ہے اور کوئی دل میں کوئی رفع یدین کرتا ہے اور کوئی نہیں.اسی طرح گو کم رہ گئے ہیں تاہم ابھی تک ایسے بھی لوگ ہیں جو ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے ہیں لیکن کوئی کسی پر اعتراض نہیں کرتا.کیوں؟ اس لئے کہ یہ ایسی باتیں نہیں ہیں جن پر جھگڑا کیا جائے.اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ سوئے ہوئے فتنہ کو جگاتا ہے.میں نے یہ جو آیتیں پڑھی ہیں ان میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو اسی طرف متوجہ کیا ہے کہ وہ باتیں جو اصول دین سے تعلق نہ رکھنے کے باوجود جماعت میں اختلاف کا باعث ہوں ان پر جھگڑنا نہیں چاہئیے.فرمایا.يَا يُهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُواط إنَّ اللهَ مَعَ الصبرین.اے مومنو! ایک وقت تم پر ایسا آتا ہے جبکہ تم دشمن کے مقابلہ پر کھڑے ہوتے ہو.اس وقت تمھیں چاہئے کہ تمہاری ساری توجہ دشمن کے مقابلہ میں جم کر کھڑے رہنے کی طرف ہو اور خدا کے حضور بہت دعاؤں میں لگے رہو ( ذکر کے معنے تسبیح و تمجید بھی ہیں اور یاد کرنے سے مراد پکارنا بھی ہوتا ہے جیسے کہ اردو میں بھی محاورہ ہے ) اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم کامیاب.مظفر و منصور ہو جاؤ گے اور یہ بھی یادرکھنا کہ ایسے وقت میں خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا.اور آپس میں کسی قسم کا جھگڑ انہیں کرنا.یہاں خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ ہی یہ حکم دیا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جھگڑا مذہبی معاملات ل ترمذی ابواب الصلاة باب ما جاء فِي الثَّامِين

Page 82

خطبات محمود جلد (5) ۷۲ کے متعلق ہی ہے.فرمایا اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم کمزور ضعیف ہو جاؤ گے.تمہاری طاقت تمہارا رعب مٹ جائے گا.ریح کے معنی ہر پاکیزہ اور محمدہ چیز (۲) قوت (۳) غلبہ.(۴) خوشی کے ہیں.اس لئے یہ معنی ہوئے کہ اگر تم آپس میں جھگڑا کرو گے تو تمہاری خوشی.غلبہ.قوت مٹ جائے گی اور تمھارے اندر کوئی اچھی بات نہ رہے گی.ہر ایک کام کے لئے ایک وقت ہوتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم دشمن کے مقابلہ پر کھڑے ہو تو اس وقت اگر کوئی مذہبی اختلاف پیدا ہو جائے تو اس پر جھگڑنا نہیں بلکہ اس وقت تمہارے یہی مد نظر ہونا چاہیے کہ جس طرح بھی ہو سکے دشمن کو کچل دیا جائے.کیونکہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کے فیصلہ کا وہ وقت ہوتا ہے جبکہ دشمن مقابلہ سے بھاگ جائے اور امن واطمینان حاصل ہو جائے.ہاں ایسی باتیں جن کی وجہ سے دین میں حرج واقعہ ہوتا ہو تو ان کا فیصلہ ایسے موقعہ پر بھی کر لینا ضروری ہے.مثلاً کوئی شخص نماز نہ پڑھے اور جب اسے کہا جائے کہ نماز پڑھو تو کہدے کہ دیکھو یہ دشمن سے مقابلہ کا وقت ہے اس وقت یہ بات کر کے اختلاف نہ ڈالو.تو ایسے شخص کا مقابلہ کرنا چاہئیے کیونکہ وہ مسلمان نہیں بلکہ دشمن اسلام ہے.قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ امر و نہی کے متعلق مسلمانوں کو سخت تاکید کی گئی ہے.اور خدا تعالیٰ نے یہودیوں کی تباہی کی ایک یہ وجہ بھی بتائی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر نہیں کرتے.پس جبکہ ایک طرف خدا تعالیٰ یہ حکم دیتا ہے اور دوسری طرف یہ بھی فرماتا ہے وَلَا تَنَازَعُوا اور یہ بھی دین کے متعلق ہے.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم امت محمد یہ کی تباہی کا وہی وقت بتاتے ہیں جبکہ علماء امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا وعظ چھوڑ دیں گے.تو بظاہر اس میں اختلاف معلوم ہوتا ہے.مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ باتیں جو قوم میں اختلاف کا باعث ہو کر اس کی تباہی کا موجب ہوتی ہیں اور فروعی مسائل سے تعلق رکھتی ہیں انہیں اس وقت تک چھوڑ دینے کا حکم ہے جب تک کہ دشمن پر کامیابی نہ حاصل ہو جائے.پہلے بڑا کام دشمن کا مقابلہ ہے اس کے بعد چھوٹی چھوٹی باتوں کو دیکھا جائے گا.ان دونوں قسم کے احکام کے ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑے بڑے دینی مسائل جو اصول دین سے عقائد سے عبادات وسیاستِ اسلامیہ سے تعلق رکھتے ہیں یا ان کا اثر ایسے مسائل پر پڑتا ہے جن سے اسلام میں رخنہ پڑ سکتا ہے ان سے روکنے کا حکم ہے کیونکہ ایسے لوگ مسلمان

Page 83

خطبات محمود جلد (5) ۷۳ نہیں.بلکہ دشمن اسلام ہیں.مگر جو ایسے مسائل ہوں جن کا نہ روحانیت پر اثر پڑتا ہو اور نہ جن سے دین میں حرج واقعہ ہوتا ہو.ایسے مسائل کو چھیڑنے والا سوئے ہوئے فتنہ کو جگاتا ہے.ہماری جماعت میں اس قسم کا کوئی فتنہ نہ تھا.مگر اب پھر جھگڑے شروع ہو گئے ہیں باہر سے خط آتے ہیں.رفع یدین کرنا چاہیے یا نہیں.آمین اونچی آواز سے کہنی چاہئیے یا دل میں.اگر کوئی آمین اونچی آواز سے نہ کہے تو کہتے ہیں مردہ کھڑے ہیں.حالانکہ وہ نہیں دیکھتے کہ اگر وہ مُردہ ہیں تو نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی مُردہ ہی ہوئے.کیونکہ کان لگا کر سننے والے بھی آپ کی آمین کی آواز کو نہیں سن سکے.پھر وہ نہیں جانتے کہ ان کے الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم.آپ کے صحابہ کرام اور حضرت مسیح موعود کے صحابہ تک پہنچتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھنے والے بہت ایسے تھے جو آمین اونچی آواز سے نہیں کہتے تھے.لیکن آپ نے کبھی ان کو کہنے کے لئے نہیں کہا اور بہت ایسے تھے جو اونچی آواز سے کہتے تھے مگر آپ نے کبھی ان کو نہیں روکا.ہماری جماعت کے لئے تو ایسے مسائل پر جھگڑے کی کوئی وجہ ہی نہیں.کیونکہ وہ انسان جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم عدل فرمایا.اور جس کو خدا تعالیٰ نے یہ الہام کیا.قُل اِن كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله - اے مسیح موعود لوگوں کو کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت کرنی چاہتے ہو تو اس کا یہی طریق ہے کہ میری اتباع کرو.ایسے انسان کا کوئی حکم نہ مانے گا تو اور کس کا مانے گا.آپ نے ان سب باتوں کے متعلق فیصلہ کر دیا ہے کہ قرآن کریم میں جو صریح احکام ہیں ان کو مانو اور حدیث کے صریح احکام کو مانو.اگر حدیث میں کوئی ایسا حکم ہے جو کسی اصول دین کے خلاف ہو تو وہ درست نہیں ہو سکتا.اس کو قرآن شریف پر عرض کرو.اگر قرآن کریم اس کی تصدیق کرے تو قبول کر لو اور اگر رڈ کرے تو رڈ کر دو.پھر فروعات کے متعلق آپ کا فیصلہ ہے کہ اگر کسی بات کے متعلق ایک ہی عمل موجود ہے تو اسی طرح ٹھیک ہے اور اگر مختلف ہیں تو معلوم ہوا کہ مختلف اوقات اور مختلف حالات کے ماتحت مختلف طریق ہی رائج رہے ہیں تذکره ص ۴۶، ص ۶۱ ، ص ۷۸.

Page 84

خطبات محمود جلد (5) ۷۴ اور چونکہ اس ملک میں امام ابو حنیفہ کے پیرو زیادہ ہیں اس لئے ایسے امور میں اپنی رائے پر ان کے فیصلہ کو ترجیح دے لو.تا کہ فروعی باتوں کی وجہ سے جھگڑا نہ ہو ورنہ امام ابوحنیفہ کوئی نبی یا رسول یا حکم یا مامور نہ تھے کہ ضرور انہی کی بات مانی جائے جیسے میری رائے ویسی ان کی رائے ہے.پس جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت دونوں طریق سے آمین کہی جاتی رہی ہے اور یہ بات ثابت ہے تو معلوم ہوا کہ دونوں طریق سے جائز ہے.آپ نے اس کے متعلق فرمایا ہے بعض انسانوں کو جوش ہوتا ہے اس لئے وہ اونچی آواز سے آمین کہتے ہیں.اور بعض کی طبیعت میں انکسار ہوتا ہے ان کو دل میں ہی کہنے سے مزا آتا ہے.چونکہ طبائع مختلف ہوتی ہیں.اس لئے شریعت نے دونوں طریق سے جائز رکھا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا.ایسے ہی مسائل کے متعلق جھگڑا کرنا خدا تعالیٰ کے غضب کا موجب ہوتا ہے اور انہیں کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَا تَنَازَعُوا جھگڑا نہ کرو.وہ لوگ جو ایسے مسائل میں جھگڑا کرتے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احتیاط کو دیکھیں.کعبہ کے اردگرد کچھ زمین ہے جو کعبہ کی چھت میں شامل نہیں مگر حج کے موقعہ پر طواف کے وقت اس کے گرد بھی گھوما جاتا ہے.حضرت عائشہ نے آپ سے عرض کی میں کعبہ میں نماز پڑھنا چاہتی ہوں تو آپ نے فرمایا کہ اسی جگہ پڑھ لو.یہ بھی خانہ کعبہ کی چار دیواری کے اندر ہے.آپ کی احتیاط دیکھو.آپ نے فرمایا.اے عائشہ ! اگر تیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوئی ہوتی تو میں کعبہ کے احاطہ کو توڑ کر اس کو اسی میں شامل کر دیتا اور دو دروازے بنا دیتا ایک سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے سے نکل جاتے.اے تو باوجود اس کے کہ وہ جگہ کعبہ میں شامل تھی.اور جب قریش نے کعبہ کا احاطہ بنانے کے لئے چندہ جمع کیا تو چندہ کے تھوڑا ہونے کی وجہ سے ساری جگہ کو احاطہ میں شامل نہ کیا جا سکا اور جو جگہ بیچ رہی اس پر نشان لگا دیئے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کو شامل نہ کیا.پھر علماء کی احتیاط دیکھو بعد میں اس پر عمارت بنا دی گئی لیکن جب بنو امیہ کی حکومت ہوئی تو اس عمارت کو گرا کر پہلی طرح ہی کر دیا بخاری کتاب التمنی

Page 85

خطبات محمود جلد (5) ۷۵ گیا.اور کہا کہ جس کام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا اسے کوئی اور کیوں کرے اس کے بعد جب عباسی حکومت کا دور آیا تو ایک بادشاہ نے امام سے پوچھا کہ کیا اس زمین کو بھی شامل کر لیا جائے تو اس نے کہا کہ اصل کعبہ تو اتناہی ہے جتنی جگہ پر نشان لگے ہوئے ہیں مگر اس کو بچوں کا کھیل نہ بناؤ اسی طرح رہنے دو جس طرح بنا ہوا ہے.اگر تم نے اس کو شامل کر لیا تو کوئی اور آئے گا جو اس کو گرا دے گا.یہ احتیاط تھی.جو کعبہ کے متعلق کی گئی.آمین کا مسئلہ اس کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتا ہے.تو اس قسم کے اختلاف کرنے والے سوئے ہوئے فتنہ کو جگانے والے ہوتے ہیں.آمین اونچی آواز سے کہنا یا نچی سے.رفع یدین کرنا یا نہ کرنا.انگلی اٹھانا یا نہ اٹھانا.ان سب باتوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فیصلے کر دیئے ہیں جو شخص آپ کو مسیح موعود مانتا ہے وہ آپ کے فیصلوں کو قبول کرے گا.اور جو فیصلوں کو قبول نہیں کرتا وہ جھوٹ بولتا ہے کہ میں آپ کو مانتا ہوں.ہماری جماعت کو بہت محتاط ہونا چاہیئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محدثین کی بہت قدر کی ہے.آپ نے بخاری کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ الباری قرار دیا ہے.اے جو شخص امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ہتک کرتا ہے.وہ تو بہ کرے کیونکہ یہ بہت برا کام ہے.امام بخاری نے جو کچھ لکھا ہے وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا اور اس کے رسول کی طرف سے لکھا ہے ان کا اپنا اجتہاد اس میں شامل نہیں ہے اس لئے جو شخص ان کی احادیث کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے.وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کی ہتک کرتا ہے کیونکہ وہ حدیثیں آپ کی زبان سے نکلی ہوئی ہیں اور خشک حدیثیں نہیں ہیں جو شخص ان احادیث کو مانتا ہے وہ امام بخاری کو نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتا ہے پس ہر ایک کو چاہیے کہ احتیاط سے کام لے.جب کسی قوم میں امن و امان آجاتا ہے تو ایسی ایسی باتیں بھی پیدا ہو جاتی ہیں کیا جب احمدیوں کی چھوٹی چھوٹی جماعتیں مختلف جگہوں میں رہتی تھیں اپنی مسجدیں نہ تھیں مخالفین تنگ کرتے در تکلیفیں پہنچاتے تھے اس وقت بھی ایسی باتیں یاد آتی تھیں ہرگز نہیں.لیکن اب ایسی ایسی باتوں پر لے براہین احمدیہ حصہ پنجم ص ۳۷۸ اور

Page 86

خطبات محمود جلد (5) 24 بحث و مباحثے شروع ہو گئے ہیں گویا انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ ہمارے دشمن نہیں رہے اور ہم آرام میں ہو گئے ہیں لیکن یہ غلط ہے ہمارے تو وہ تمام لوگ دشمن ہیں جو دنیا کے کسی گوشہ میں بستے ہیں اور حق وصداقت کے مخالف ہیں اور ہر ایک احمدی کے وہ سب دشمن ہیں جو شیطان کے پیچھے چلتے ہیں.پس جب تک شیطان دنیا سے نہیں مٹ جاتا اس وقت تک احمدیوں کو بھی ہتھیار نہیں اتارنے چاہئیں.پس تم لوگ اللہ اور رسول کے فیصلہ پر چلو.اور وہ باتیں جو اصول دین سے تعلق نہیں رکھتیں اور مختلف صحابہ نے ان پر مختلف طریق سے عمل کیا ہے ان میں سے جس طریق پر کوئی عمل کرتا ہے اچھا کرتا ہے کوئی گناہ کی بات نہیں سب انسانوں کی طبیعت ایک جیسی نہیں ہوتی کسی کے لئے کوئی بات پسندیدہ ہے اور کسی کے کوئی.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان سب طریقوں کو جو پہلے مختلف مذاہب میں مروج تھے ایک جگہ جمع کر دیا ہے.تاکہ کسی کی طبیعت گھبرائے نہیں پس جب خدا تعالیٰ نے طبائع کا اتنالحاظ رکھا ہے تو بندوں کا کیا مقدور ہے کہ ایسے مسائل میں اختلاف کریں.خدا کے فضل سے یہاں کے لوگ ایسی باتوں سے بچے ہوئے ہیں لیکن بیرونجات سے ایسے جھگڑوں کے متعلق خطوط آتے رہتے ہیں.میرے نزدیک اس کے متعلق یہ تجویز ہونی چاہئیے کہ جو شخص ایسا ہو اس کی طرف توجہ ہی نہ کی جائے کیونکہ ایسی باتوں کا اعمال سے کوئی تعلق نہیں.اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو اس بات کی سمجھ دے کہ کس قدر خطرناک دشمن کے ساتھ ان کا مقابلہ ہے تا کہ وہ ایسے جھگڑوں سے باز آ جائیں.جو شخص ایسی حالت میں جھگڑا کرتا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ اس کو اپنے دشمن کی خبر ہی نہیں.کیا ممکن ہے کہ شیر سامنے کھڑا ہو اور کسی کو نیند آ جائے لیکن جس کے سر پر شیر کھڑا ہے اور وہ سوتا ہے تو معلوم ہو ا کہ اس کو شیر کا علم ہی نہیں.اسی طرح جو شخص فتنہ برپا کرتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے دیکھا ہی نہیں کہ کتنے بڑے دشمن سے اس کا مقابلہ ہے جس شخص نے پچاس ساٹھ میں جانا ہو وہ کبھی بے فکر ہو کر راستہ میں سونہیں سکتا.اسی طرح وہ شخص جو سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو کر ایسا کرتا ہے گویا اس نے اپنے فرض کو سمجھا ہی نہیں.ہر ایک احمدی کو یا درکھنا چاہئیے کہ جس وقت تک کوئی ایک شخص بھی دنیا پر ایسا موجود ہو گا جو حق کو نہیں مانے گا اس وقت تک اس کا مقابلہ ختم نہیں ہوگا.ادھر خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب تک دشمن سے مقابلہ ہو.اس

Page 87

خطبات محمود جلد (5) 22 وقت تک ایسے مسائل میں نہ جھگڑو.اور یہ بھی قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار قیامت تک رہیں گے اس سے پتہ لگا کہ ایسے مسائل میں کبھی جھگڑا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ نے ایک ایسی شرط لگادی ہے جیسے کوئی کہے کہ جب تک تم زندہ رہو یہ بات کبھی نہ کرنا.یہ خدا تعالیٰ نے اس لئے فرمایا ہے کہ مسلمانوں کو ایسی باتوں کی طرف توجہ ہی نہ ہو.تا وہ اپنے اصل کام میں لگے رہیں.اللہ تعالیٰ اس قسم کے فتنوں کو دور کرے اور سب لوگوں کو سمجھ دے تا کہ وہ اس طرف سے ہٹ کر اصل کام کی طرف متوجہ ہوں.کوئی نادان ہی ہو گا جو ایسے وقت میں ایسے جھگڑوں کی طرف توجہ کرے.کیا جس کا بیٹا مر رہا ہو.اسے ناخن اتروانے یا بال کٹانے میں لگا ہو کسی نے دیکھا ہے ہرگز نہیں.بلکہ یہی دیکھا کہ ہر ایک ایسی کوشش میں ہوتا ہے کہ جس طرح بھی ہو سکے اس کا بیٹا بچ جائے.اگر اسلام اس وقت مر رہا ہے اور بعض ایسے لوگ ہیں جن کی توجہ اس طرف ہے کہ ناخن بڑے ہو گئے ہیں انہیں کٹانا چاہیئے.بال پراگندہ ہو گئے ہیں انہیں کنگھی کرنی چاہئیے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اسلام سے پیار اور محبت نہیں ہے اور نہ ہی اس کی قدر جانتے ہیں اسی لئے اس کو مرتا ہوا دیکھ کر بھی انہیں گھبراہٹ پیدا نہیں ہوئی.اللہ تعالیٰ اپنا رحم کرے اور آپ لوگوں کو اپنے فرائض سمجھنے کی توفیق دے.الفضل ۲۸ مارچ ۱۹۱۶ء)

Page 88

ZA 11 خطبات محمود جلد (5) خود ہر صورت میں منع ہے (فرموده ۷ را پریل ۱۹۱۶ء) تشهد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کے بعد فرمایا :- حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ذُلِكُمْ فِسْقُط الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا فَمَنِ اضْطَرَّ فِي مَخَمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِاثْمٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (المائده - ۴) کھانے پینے کی چیزوں میں سے بعض اشیاء سے اسلام نے منع فرمایا ہے اور ان کے کھانے کی اپنے پیروؤں کو اجازت نہیں دی.وہ سب چیزیں اسی قسم کی ہیں جو انسان کے جسم و انسان کی عقل اخلاق دین اور روح کے لئے مضر ہو سکتی ہیں.اور جب کوئی انسان ان میں سے کسی چیز کو کھاتا ہے تو آہستہ آہستہ اس کا اثر اس کے جسم پر ہونا شروع ہو جاتا ہے اور انسان کی کمزوری اور نقص کی وجہ سے ایک مدت کے بعد اس کی روح پر بھی اثر ہونے لگتا ہے اسی وجہ سے اسلام نے اپنے پیروؤں کو ایسی چیزیں کھانے سے روک دیا ہے.ہاں بعض صورتوں میں ان کے کھانے کی اجازت بھی دی ہے اور وہ یہ جب کوئی انسان مجبور اور مضطر ہو جائے لیکن اس وقت بھی اتنے ہی کھانے کی

Page 89

خطبات محمود جلد (5) ۷۹ اجازت دی ہے.جتنا اس کے لئے اشد ضروری ہے.چنانچہ دوسری جگہ قرآن کریم میں فرمایا فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغِ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (۲-۱۲۸) اور یہاں فرمایا.فَمَنِ اضْطَرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِاثْمٍ.دونوں جگہ مطلب ایک ہی ہے.فرمایا جو مضطر ہو.وہ کھالے مگر یادر ہے کہ باغی اور عادی نہ ہو.باغی قوانین حکومت کو توڑنے والے کو کہتے ہیں.وہ انسان جو خدا تعالیٰ کے کسی قانون کو توڑتا ہے وہ بھی باغی ہوتا ہے.کھانے کے متعلق اس طرح باغی ہو جاتا ہے.مثلاً ایک شخص جان بوجھ کر بھوکا رہے اور جب مضطر ہو جائے تو ان چیزوں میں سے کوئی کھا لے.عادی اس شخص کو کہیں گے کہ جو کسی ایسے ملک میں چلا گیا جہاں اسے سور کے سوا کچھ نہیں مل سکتا.اور بھوک کی وجہ سے مضطر ہے اس وقت اس کے لئے اس کا کھانا جائز ہے.لیکن اگر وہ یہ کہے کہ اب مجھے موقع مل گیا ہے شاید پھر کبھی ایسا موقع ملے یا نہ ملے اس لئے خوب سیر ہو کر اور پیٹ بھر کر کھا لوں تو وہ عادی ہوگا.پس خدا تعالیٰ نے ان اشیاء کو کھانے کی اجازت دینے کے ساتھ یہ دو شرطیں لگا دی ہیں.بعض لوگوں کو اس اجازت کے حکم کو دیکھ کر دھو کہ لگا ہے اور انہوں نے اس کو وسیع کر لیا ہے.وہ کہتے ہیں کہ جب مضطر کے لئے مردہ خون.سور کا گوشت اور مَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللہ کھانے کی اجازت ہوگئی ہے تو اس سے سمجھ لینا چاہئیے کہ دوسرے احکام کے متعلق بھی مضطر کو اجازت ہے.چند ہی دن ہوئے کہ ایک شخص نے مجھ سے سود کے متعلق فتویٰ پوچھا تھا میں نے اسے لکھا یا کہ سود کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہو سکتا.اب اس کا خط آیا ہے کہ بعض علماء کہتے ہیں کہ اصل حالت میں تو یہ فتویٰ ٹھیک ہے کہ سود جائز نہیں.لیکن مضطر کے لئے یہ فتویٰ درست نہیں ہے اور ساتھ یہ مثال دی ہے کہ ایک شخص کو شادی کرنے کے لئے روپیہ کی سخت ضرورت ہے روپے کہیں سے اسے مل نہیں سکتے.اگر وہ سودی روپیہ لے کر شادی پر لگائے تو اس کے لئے جائز ہے.میں نے پہلے بھی اسی قسم کے واقعات سنے تھے.چنانچہ جو لوگ اہل قرآن کہلاتے ہیں.انہوں نے اسی قسم کے فتوے دیئے ہیں.لیکن اس قسم کے تمام فتوے قرآن کریم کے احکام کو نہ سمجھنے کی وجہ سے

Page 90

خطبات محمود جلد (5) ۸۰ دیئے گئے ہیں.انہوں نے سمجھا ہی نہیں کہ قرآن کریم کسی چیز سے کیوں روکتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ گناہ دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ گناہ جو براہ راست انسان کی روح پر اثر ڈالتے ہیں.ان کا جسم پر کوئی اثر نہیں ہوتا.مثلاً جھوٹ اگر کوئی ساری عمر بولتا رہے تو اس سے اس کے جسم کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.بلکہ یہ گناہ براہ راست اس کی روح پر اپنا بد اثر ڈالے گا.دوسرے وہ گناہ ہوتے ہیں جو جسم میں سے ہو کر روح کو خراب کرتے ہیں.یعنی ان کا پہلے جسم پر اثر پڑتا ہے اور پھر اس کے ذریعہ روح پر.چنانچہ جن اشیاء کے کھانے کی ممانعت کی گئی ہے وہ ایسی ہی ہیں جو دوسری قسم کے گناہوں میں شمار کی جاتی ہیں.مثلاً اگر کوئی مردہ کھالے یا خون پی لے.تو اس کا پہلے جسم پر اثر پڑے گا.اور پھر روح پر.یا اگر کوئی کسی ایسے جانور کا گوشت کھالے جو بتوں وغیرہ کے لئے ذبح کیا جائے تو اس طرح چونکہ اس ذبح کرنے والے کی تائید کرتا ہے اس لئے منع کر دیا تا کہ ایسے لوگ ہی نہ ہوں جن کو اللہ کے سوا اوروں کے لئے جانور ذبح کرنے کی جرات ہو.پس یہ تمام احکام ایسے ہیں کہ جن کا گناہ انسان کی روح تک دوسروں کے واسطے سے پہنچتا ہے یعنی یا تو اس کے جسم کے ذریعہ سے یا اور لوگوں کی وجہ سے.اب ظاہر ہے کہ ان چیزوں کے منع کرنے سے یا تو انسان کے جسم کی حفاظت مد نظر ہے اور یا دوسروں کی اصلاح اس لئے اگر کوئی ایسا وقت آبنے جبکہ جسم تباہ ہوتا ہو اور سوائے ان چیزوں میں سے کسی کے کھانے کے وہ بچ نہ سکتا ہو تو ان کے کھانے کی اجازت دے دی گئی ہے اور ساتھ ہی یہ دو شرطیں بھی لگا دی ہیں کہ اس اجازت سے فائدہ اٹھانے والا انسان باغی اور عادی نہ ہو.پس اگر کوئی شخص ان اشیاء میں سے کوئی ایک کھائے گا.تو ایسی حالت میں کھائے گا جبکہ وہ نہایت اضطرار میں ہوگا اور پھر ایک قلیل مقدار میں قلیل عرصہ کے لئے کھائے گا اسلئے وہ نقصان جس کی وجہ سے ان کا کھانا بند کیا گیا تھا.وہ اسے نہیں پہنچے گا لیکن وہ چیزیں جو براہ راست روح پر اثر ڈالنے والی ہوتی ہیں.ان کو ہر صورت میں خدا تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے.اور کسی حالت میں بھی ان کو جائز قرار نہیں دیا.اگر ایسانہ ہوتا تو پھر کوئی گناہ گناہ ہی نہ رہتا.مثلاً چور چوری کرتا ہے کیوں؟ اس لئے کہ اس کے اپنے گھر مال نہیں ہوتا.گو ایسے بھی چور ہوتے ہیں جو مالدار ہوتے ہیں اور عاد یا چوری کرتے ہیں مگر اکثر ایسے ہی لوگ چوری کرتے

Page 91

خطبات محمود جلد (5) Al ہیں جو مفلس اور کنگال ہوتے ہیں اور اضطراب کی حالت میں ہوتے ہیں.اسی طرح اگر کوئی کسی کو قتل کرتا ہے تو اسی لئے کہ مقتول کی وجہ سے اسے کسی نہ کسی قسم کا اضطرار ہوتا ہے.غرضیکہ ہر ایک گناہ کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ وہ اضطرار کے وقت کیا گیا ہے.یہی سود کا حال ہے.تجارت کرنے کے لئے تو اب دوسو برس سے سود لیا یا دیا جاتا ہے اس سے پہلے تو یہ بھی اضطرار ہی کی حالت میں لیا جاتا تھا کسی شخص کو جب کہیں سے قرضہ نہ ملتا اور ضرورت سے مجبور ہو جاتا.تو سود پر روپیہ لے لیتا.ورنہ کسی کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ اپنے پاس روپیہ ہوتے ہوئے یا بغیر سخت مجبوری کے کچھ روپیہ لے کر اس سے زیادہ دیتا.تو سود بھی جائز ہو گیا اور قرآن کریم نے جو یہ حکم دیا تھا کہ نہ لیا کرو.وہ نعوذ باللہ لغو ہو گیا.کیونکہ جب سود دیتا ہی وہ ہے جو مضطر ہو.اور مضطر کے لئے جائز ہے کہ ایسا کرے تو پھر اس سے منع کرنے کے کیا معنی.لیکن یا درکھو کہ قرآن کریم نے انہی چیزوں کی اضطرار کے وقت اجازت دی ہے جو کھانے پینے کے متعلق ہیں.چنانچہ اس آیت میں صاف طور پر فرمایا ہے کہ فَمَنِ اضْطَرَّ فِي مَخْمَصَةِ یعنی ایسا اضطرار جو بھوک کی وجہ سے ہو اس کے لئے اجازت ہے نہ کہ ہر ایک اضطرار کے وقت ہر ایک نہی روا ہو سکتی ہے.وہ چیزیں جو کھانے کے متعلق ہیں ان کی تو اسلام نے اضطرار کے وقت اجازت دے دی ہے مگر یہ کہیں نہیں کہا کہ اگر اضطرار ہو تو چوری بھی کر لو یا کوئی اور کسی قسم کا فعل کر لو.فقہاء نے یہ تو اجازت دی ہے کہ اگر علاج کے لئے شراب کی ضرورت پڑے تو مریض کو استعمال کرا دو.مگر یہ کہیں اجازت نہیں دی کہ اگر کسی کی زندگی سے تمھیں اپنی جان کے متعلق اضطرار ہو تو اسے قتل کر دو.پس یہ بات بالکل غلط ہے کہ اضطرار کے وقت کوئی ایسی چیز جائز ہوسکتی ہے جس کا اثر براہ راست روح پر پڑتا ہے یا جو کھانے پینے کے متعلق نہیں ہے.البتہ ایسے وقت میں ان چیزوں کے کھانے کی اجازت دی گئی ہے جو روح سے براہ راست تعلق نہیں رکھتیں یا ایسے گناہ جن کا تعلق انسان کا اپنے سے نہیں ہوتا.بلکہ اس کے ذریعہ دوسروں کا تعاون پایا جاتا ہے اور یہ بھی کھانے پینے ہی کے متعلق ہیں اور یہ اجازت اس لئے ہے

Page 92

خطبات محمود جلد (5) ۸۲ تا کہ جسم قائم رہے ایسے وقت میں اس بات کا خیال نہیں رکھا جائے گا کہ روح کو کسی قدر نقصان پہنچے گا.بلکہ یہ مد نظر ہو گا کہ جسم سلامت رہ سکے پس یہ صرف کھانے پینے کے متعلق مضطر کے لئے اجازت ہے ورنہ اگر ہر ایک بات میں مضطر کو اجازت ہوتی تو کوئی بھی گناہ گناہ نہ کہلا سکتا.تم اس بات کو خوب یا درکھو.حضرت مسیح موعود سے بھی بار ہا سود کے متعلق پوچھا گیا.آپ نے ہر دفعہ منع فرمایا.وہی لوگ جواب ہم سے علیحدہ ہو گئے ہیں انہیں میں سے ایک نے دفتر سیکریٹری میں بیٹھے ہوئے حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد ایک دفعہ کہا.”واہ اومر زیا.لوکاں نے بھی بڑا زور لگایا کہ سود جائز ہو جائے پر تو نے نہ ہی ہون دیتا.یعنی لوگوں نے ( یہ لوگوں کا لفظ محض پردہ کے لئے تھا ورنہ وہ زور مارنے والے بھی وہیں موجود تھے ) بڑا زور مارا کہ کسی طرح سود جائز ہو جائے لیکن آپ نے ہرگز اجازت نہ دی.سود لینا اور دینا دونوں کو برا بر گناہ فرمایا.شریعت کوئی ٹھٹھا نہیں ہے کہ ہر ایک انسان استنباط کرنے لگ جائے.وہ لوگ جنہوں نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ اضطرار کے وقت سود جائز ہے.جب انہیں معلوم ہوگا کہ اضطرار کے ساتھ مخمصہ کا لفظ ہے تو انہیں اپنی غلطی معلوم ہو جائے گی.لوگوں نے یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ ایک بات کے جواز کے لئے جو سبب ہو وہی اگر دوسری جگہ پایا جائے تو اس کے جائز ہونے کا قیاس ہو سکتا ہے.مگر ایسا ہوسکتا ہے کہ دوسری جگہ سبب ہی اور ہو اور سمجھا اور جائے اوّل تو قرآن کریم کے احکام میں قیاس کا دخل نہیں ہے اور اگر دخل بھی ہو تو قرآن کریم کے الفاظ پر خوب غور و فکر کرنا چاہیئے.یہ اجازت کھانے پینے کے متعلق ہے نہ کہ ہر ایک بات کے لئے.ایک جگہ قرآن کریم میں کفر کے متعلق بھی فرمایا ہے.مگر یہ پسندیدہ امر نہیں فرمایا.اگر کوئی بہت تو بہ اور استغفار کرے گا تو اس کا گناہ معاف ہوگا اور یہ اسلئے فرمایا کہ ایسی حالت میں وہ اسلام سے نکل جاتا ہے ہاں اسکی تو بہ قبول ہو سکتی ہے اور یہ دروازہ ہر وقت کھلا ہے گو یا اجازت وہاں بھی نہیں دی گئی.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اور دوسروں کو بھی سمجھ دے تا وہ قرآن کریم کے الفاظ پر غور کریں اور اس کے احکام کی حکمت اور منشا کو سمجھیں اپنے ارادہ اور خواہش کے مطابق اس کے الفاظ کو بگاڑ کر اور مطلب نہ نکالیں.(الفضل ا ا ر ا پریل ۱۹۱۶ء)

Page 93

۸۳ 12 خطبات محمود جلد (5) دنیا کی تمام اشیاء انسان کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہیں (فرموده ۱۴ را پریل ۱۹۱۶ء) تشهد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کے بعد فرمایا:.وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ۖ ذَلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا فَوَيْلٌ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ اَم نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ.اللہ تعالیٰ کی وہ مخلوق جو ہماری نظروں کے سامنے ہے اور جس تک ہمارا علم پہنچ سکتا ہے اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تمام مخلوق میں سے ایک ہی ہستی ایسی ہے کہ جو اپنے اندر ارادہ کی قوت رکھتی ہے اور جس کے اندر اس کے استعمال کی طاقت پیدا کی گئی ہے اور وہ انسان ہے بڑے بڑے کرے جو زمین کے علاوہ آسمان پر ہیں یعنی سورج.چاند اور ستارے.پھر زمین اور اس کے اندر کی تمام اشیاء اور خاص کر حیوانات.ان تمام پر غور کر کے دیکھا جائے تو سوائے انسان کے سب کی سب ایک خاص قانون کے ماتحت چلتی ہیں اور اس سے ذرا بھی ادھر اُدھر نہیں ہوسکتیں.جس رنگ کا جس طرز اور جس طاقت کے ساتھ خدا نے ان کو پیدا کیا تھا اسکے علاوہ نہ تو انہوں نے کسی بات میں ترقی کی ہے اور نہ ہی تنزل.بے جان چیزیں تو علیحدہ رہیں حیوانات بھی ارادہ اور قوت نہیں رکھتے اور ان میں بھی ترقی کا مادہ نہیں ہے.جس دن سے دنیا کی ابتداء ہوئی ہے.شیر غاروں میں ہی رہتے ہیں بندر درختوں کے اوپر مچھلیاں پانی کے اندر زندگی گزار رہی ہیں اسی طرح پرندے ہوا میں اُڑتے.درختوں پر گھونسلے بناتے چلے آرہے ہیں.اس میں کبھی تغیر نہیں ہوا.نہ آدم علیہ السلام کے وقت نہ ان کے بعد اور نہ اب.بلکہ ایک ہی حالت میں چلے آرہے ہیں.بیا ایک عمدہ گونسلا بناتا ہے مگر ایسا ہی حضرت آدم کے زمانہ میں بنایا کرتا تھا.اسی طرح فاختہ جس قسم کا آج گھونسلا بناتی ہے آج سے ہزار دو ہزار (ص: ۲۸-۲۹)

Page 94

خطبات محمود جلد (5) ۸۴ تین ہزار چار ہزار سال پہلے بھی ایسا ہی بناتی تھی.مگر انسان کی حالت کبھی ایک حالت پر نہیں رہی.بلکہ ہر صدی میں بدلتی رہی ہے.کوئی زمانہ ایسا تھا کہ انسان بالکل ننگا رہتا تھا.پھر وہ زمانہ آیا کہ درختوں چھالوں اور پٹوں سے اپنا جسم ڈھانکنے لگا.پھر جانوروں کی کھالوں کو پہنے لگا.پھر کوئی زمانہ ایسا تھا کہ درختوں کی باریک شاخوں سے پتوں میں موریاں نکالکر گھاس کے ریشے ان میں ڈال کر اپنے لئے کپڑے سینے لگا.پھر لو ہا.روئی دریافت ہوئی اور کپڑے بنے اور سیئے جانے لگے.اس سے ترقی کرتے کرتے آج انسان اس حالت کو پہنچا ہے کہ اتنی قسم کے کپڑے تیار ہو گئے کہ کوئی گن بھی نہیں سکتا اسی طرح ایک وقت تھا جبکہ انسان کچی غذا ئیں کھاتا تھا.پھر سورج کی گرمی سے بھون کر کھانے لگا.پھر آگ دریافت ہوئی تو اس میں ڈال کر پکانے لگا اس سے ترقی کرتے کرتے آج اس حالت کو پہنچا کہ ہزاروں قسم کے نفیس سے نفیس کھانے تیار کرنے لگا.یہی حال پینے کی چیزوں کا ہے اور یہی سوسائٹی کے تعلقات کا.غرضیکہ ہر ایک وہ کام جس کا انسان سے تعلق ہے وہ جس حالت میں آج سے سو سال پہلے تھا آج اس سے بڑھ کر حالت میں ہے.اور آج سے ایک سوسال بعد اور بڑھ کر ہوگا.یہ تو نسلِ انسانی کا تغیر و تبدل ہے اسی طرح ہر انسان میں بھی تغیر ہوتا ہے.ایک وہ وقت ہوتا ہے جبکہ انسان بات کرنے کی بھی طاقت نہیں رکھتا.لیکن ایک وقت آتا ہے کہ خوب بول سکتا ہے.پھر ایک وقت آتا ہے جبکہ وہ کچھ پڑھ نہیں سکتا.لیکن ایک وقت آتا ہے کہ وہ بڑا عالم اور فاضل ہو جاتا ہے تو جس طرح نسل انسانی مجموعی حالت میں ترقی کرتی ہے اسی طرح ہر ایک انسان بھی ترقی کرتا ہے اور ایک ادنیٰ حالت سے لے کر عظیم الشان درجہ تک پہنچ جاتا ہے.پیدا ہونے کے وقت تمام بچوں کی ایک ہی حالت ہوتی ہے ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے:.کہ اے انسان تو جس وقت پیدا ہوا تھا تو رورہا تھا اور لوگ تجھ پر ہنس رہے تھے (کسی پر ہنسنا اسی کی تحقیر کرنے کے معنوں میں بھی آتا ہے ) اب تو ان سے بدلہ لے اور وہ اس طرح کہ ایسے اچھے اعمال کر اور لوگوں کو اتنا فائدہ پہنچا کہ جب تو مرے تو لوگ روئیں اور تو ہنسے اور خوش ہو کہ میں خدا کے پاس جارہا ہوں.لے تو سب بچے روتے ہوئے ننگ دھڑنگ آموجود ہوتے ہیں.آنحضرت کے معانی الادب ۲ بحوالہ دروس الادب ص ۹۰

Page 95

خطبات محمود جلد (5) ۸۵ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح آئے تھے اور آپ کا بدترین دشمن بھی اسی طرح آیا تھا مگر آپ نے تو ایسی ترقی کی کہ معراج کے وقت جبرائیل بھی پیچھے کھڑا رہا اور آپ سے کہا کہ آپ آگے چلے جائیں مجھ میں آگے جانے کی طاقت نہیں ہے.تو فرداً فرداً بھی انسانوں کی یہی حالت ہوتی ہے.انسانوں میں بڑی بڑی ترقیات کے مادے رکھے گئے ہیں اس لئے کوئی انسان ہر وقت ایک حالت پر قائم نہیں رہتا.اور نہ رہ سکتا ہے اور نہ کوئی قوم رہتی ہے اور نہ رہ سکتی ہے.وہ حالت جس کا نام کسی قوم کا ایک حالت میں ٹھہر نارکھا جاتا ہے وہ اصل میں ٹھہر نا نہیں ہوتا بلکہ گرنا ہوتا ہے یعنی اس وقت اس قوم کا گرنا شروع ہو جاتا ہے.کیونکہ انسان ہر وقت ترقی یا تنزل کرتا رہتا ہے کبھی نیچے کو آتا ہے تو کبھی اوپر کو جاتا ہے.یعنی ہر وقت حرکت میں رہتا ہے جب انسان خدا تعالیٰ کی عطا کردہ طاقتوں سے کام لینا چھوڑ دیتا ہے تو نیچے گرنا شروع ہو جاتا ہے.جس طرح ایک شخص رستہ کو پکڑ کر اوپر چڑھ رہا ہو وہ جب اپنی طاقت کو کم کرے گا تو نیچے کو آنا شروع ہو جائے گا یہی حال انسانی ترقی کا ہوتا ہے..غرض انسان اور دوسری تمام مخلوق میں یہ فرق ہے کہ انسان اپنے اندر ترقی کی اس قدر طاقتیں رکھتا ہے کہ جن کا انداز بھی نہیں ہو سکتا.جو شخص کہتا ہے کہ میں نے انسانی ترقی کا پورا پورا اندازہ کر لیا ہے وہ جھوٹا ہے اور خدا نے اس کے جھوٹ کو اس طرح ثابت کر دیا ہے کہ ایک وقت میں جن باتوں کو انسان اپنی انتہائی ترقی سمجھتے ہیں دوسرا وقت اس سے بڑھ کر ترقی دیکھا دیتا ہے تمام دنیا میں ایک ہی ایسا انسان ہؤا ہے جس کی نسبت کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس نے تمام انسانی ترقی کے مدارج حاصل کر لئے ہیں اور وہ ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں مگر یہ بھی جھوٹ ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو آج سے تیرہ سو سال پہلے تھے وہ آج نہیں ہیں بلکہ بہت بڑھ گئے اور ہر وقت بڑھتے رہتے ہیں.کیونکہ کروڑوں انسان دن رات آپ کے لئے مل کر صلی اللہ علیہ وسلم کہنے والے ہیں.پھر جس قدر نیکی دنیا کو آپ سے پہنچ رہی ہے وہ کیا آپ کو ایک درجہ پر رہنے دیتی ہے ہرگز نہیں.بلکہ آپ اوپر ہی اوپر جارہے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی لئے رَبّ زِدْنِي علما ( طه : ۱۱۵) کہنے کا حکم ہوا تھا.آپ کی وفات کے وقت جو آپ کا درجہ تھا وہ اس سے دس منٹ پہلے سے زیادہ تھا.اور ہمیشہ زیادہ ہی زیادہ ہوتا جا رہا ہے.یہ تو انسان کی حالت ہوئی.اس کے مقابلہ میں باقی جس

Page 96

خطبات محمود جلد (5) ۸۶ قدر اشیاء ہیں.ان میں ترقی کا مادہ ہے ہی نہیں وہ ایک حد کے اندر محدو درہتی ہیں اور پھر وہ ارادے اور قدرت سے کوئی کام نہیں کرتیں.بلکہ مشین کے طور پر چلتی ہیں.شیر کو دیکھ لوجس رنگ میں خدا تعالیٰ نے پیدا کیا تھا اسی رنگ میں اب بھی ہے.اسی طرح گدھے کو جس رنگ میں پیدا کیا تھا کہ گھاس کھائے وہ اب بھی گھاس ہی کھاتا ہے اور ویسا ہی ہے جیسے حضرت آدم کے وقت تھا اسی طرح گھوڑا ہے.اس تمام نظارہ کو دیکھ کر ہمیں ایک بات معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ کہ انسان کے سوا اور کوئی چیز طاقت اور ارادہ نہیں رکھتی بلکہ ان میں انفعالی طاقت ہوتی ہے یعنی ایک دوسری چیز اپنا اثر ڈال کر ان میں تغیر پیدا کر دیتی ہے اور وہ انسان ہے.اس سے پتہ لگا کہ تمام اشیاء جو زمین و آسمان میں یا ان کے درمیان ہیں وہ تمام کی تمام اسی ہستی کی خدمت کے لئے بنائی گئی ہیں اور ان کی خلقت اس لئے ہوئی ہے کہ انسان ان سے نفع حاصل کرے خواہ سورج ہے یا چاند ہے یا ستارے ہیں یا جو کچھ بھی ہے وہ انسان کے نفع کے لئے پیدا کیا گیا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار فرمایا ہے.کہ ان اشیاء کو تمہارے نفع کے لئے پیدا کیا گیا ہے.یہ ایک نادانی کی بحث ہے کہ زمین کے سوا کوئی اور بھی کرے ہیں یا نہیں جہاں انسان رہتے ہیں کیونکہ اس بات کی اسے کیا ضرورت ہے وہ اس کرہ سے تعلق رکھتا ہے جس میں وہ رہتا ہے اس لئے وہی اس کے لئے بنایا گیا ہے.اور کتوں کا دریافت کرنا تو الگ رہا.انسان کے اندرایسی طاقتیں موجود ہیں جو تمام کی تمام یکدم اس پر خود بھی نہیں کھلتیں بلکہ آہستہ آہستہ کھلتی رہتی ہیں اور اس کی ایسی مثال ہے کہ بہت سی اشیاء انسان کی جیب میں ہوں.اور اسے ان کا علم نہ ہو.ہاتھ ڈالتا جائے اور نکالتا رہے.انسان کی ہستی ایک ایسی زنبیل ہے کہ جو کبھی خالی نہیں ہوتی.ہمیشہ کچھ نہ کچھ اس سے نکلتا ہی چلا آتا ہے.پس جب یہ ثابت ہو گیا کہ دنیا کی سب اشیاء انسان کے لئے اور صرف اسی ہستی کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے اس کی مستقر کر دی گئی ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اتنابڑا کارخانہ اور اس کی تمام اشیاء زمینی اور آسمانی کا

Page 97

خطبات محمود جلد (5) ۸۷ پیدا کرنا اور پھر انسان میں اس قدر روحانی ترقیات کا مادہ رکھنا کہ ختم ہی نہیں ہوسکتا کیا یہ سب کچھ اسی لئے ہے کہ انسان دنیا میں کھائے پیئے اور گزر جائے کھانے پینے کے لحاظ سے تو اور جانور اس سے بہتر ہیں ایک گھوڑا اتنا کھا سکتا ہے جتنا انسان سر پر اٹھا سکتا ہے.اس کے علاوہ اور چیز ہیں.طاقت.قد جسم کے لحاظ سے بھی انسان سے بہت بڑی ہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ خدا نے انسان کے لئے ان کو مسترد کر دیا ہے.اس میں ایک بھید ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا نے انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ اس کا خاص خدا سے تعلق ہو.باقی جس قدر اشیاء انسان کے لئے پیدا کی ہیں وہ اس لئے نہیں کیں کہ انسان ان پر حکومت کرے اور بس.بلکہ اس لئے کہ جس قدر سامان وسیع ہو اسی قدر وسیع نتائج نکلتے ہیں.دیکھو ترکیب جس قدر زیادہ مقدار میں ہوتی ہے اسی قدر زیادہ نتیجہ پیدا کرتی ہے.دوضرب دو چار ہوتے ہیں لیکن اگر ان اعداد کو دو کی بجائے چار کر دیا جائے تو چار ضرب چار سولہ ہو جائیں گے.تو جس قدر اعداد بڑھاتے جائیں اسی قدر نتائج بڑے نکلتے جائیں گے.چونکہ انسان کے اعمال ہی اس کی روحانی لڑی کے بڑھانے والے ہوتے ہیں اس لئے جس قدر یہ زیادہ ہوں گے اسی قدر اس کی روحانیت زیادہ ہوگی.جب انسان کے متعلق بہت سی اشیاء ہوں گی تو جس قدر زیادہ اشیاء سے معاملہ کرے گا اسی قدر زیادہ اس کے اعمال ہوں گے تو دنیا کی تمام اشیاء اس کی ترقی کے لئے پیدا کی گئی ہیں.پس اگر انسان ذرا بھی غور کرے تو اسے پتہ لگ جاتا ہے کہ جب یہ سب اشیاء میرے لئے پیدا کی گئی ہیں تو ضرور ہے کہ میری پیدائش کی غرض وہ نہیں ہے جو ان کی ہے.بلکہ کوئی اور اعلیٰ غرض ہے.اسی بات کو خدا تعالیٰ نے ان آیات میں فرمایا ہے کہ وہ لوگ جو کافر ہو گئے اور کہتے ہیں کہ خدا ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو اسے ہمارے اعمال سے کیا تعلق ہے.کہ ہمیں مرنے کے بعد زندہ کرے اور ہم سے کسی بات کے متعلق پرسش ہو.وہ گمان کرتے ہیں کہ یہ جو کچھ خدا نے پیدا کیا ہے یہ سب لغو ہے.اس کے پیدا کرنے سے اس کی کوئی غرض اور منشاء نہیں ہے.مگر یہ بات نہیں ہے.ایسا کہنے والے لوگ ہمیشہ نقصان ہی پائیں گے.کیوں؟ اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے جو کچھ ان کے لئے پیدا کیا تھا.اس کو انہوں نے

Page 98

خطبات محمود جلد (5) ۸۸ لغواور فضول سمجھا.لیکن مومن انسان کبھی ایسا گمان نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے اندر کی طاقتیں اسے پکار پکار کر کہتی ہیں کہ ہر وقت تجھے آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اور یہ جو کچھ دنیا میں ہے یہ تیری ہی ترقی کے لئے اسباب پیدا کئے گئے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.دیکھو ہم نے انسان کی ترقی کے لئے زمین و آسمان میں کس قدر اسباب پیدا کئے ہیں اور کس طرح ہر ایک چیز کو انسان کے لئے مستقر کر دیا ہے.پھر انسان کے اندر کس قدر بڑھنے اور ترقی کرنے کی طاقتیں رکھی ہیں.کیا اس کا نتیجہ یہی ہوسکتا ہے کہ جو لوگ ایماندار ہوتے اور اچھے عمل کرتے ہیں ان کو اور وہ لوگ جو فساد کرتے ہیں ایک ہی جیسا کر دیا جائے.اگر ایسا ہی ہوتا تو گویا حیوانوں کی طرح ہی انسانوں کی پیدائش بھی ٹھہرتی.کیونکہ تمام حیوانوں کا ایک ہی درجہ ہوتا ہے اگر تمام انسانوں کا بھی ایک ہی درجہ ہوتا اور ان سے ایک ہی قسم کا سلوک کیا جاتا تو گویا انسان کے لئے اس قدر سامان پیدا کرنے اور خود انسان کو پیدا کرنا ایک لغوامر ہوتا.مگر خدا تو کوئی لغو بات نہیں کرتا.جب یہ بات ہے تو کیا وہ متقیوں کو فاجروں کے برابر کر سکتا ہے ہرگز نہیں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک مؤمن اور دوسرے کا فر.یا متقی اور فاجر.یعنی مومنوں کے مقابلہ میں ایک تو کافر ہوتے ہیں.اور ایک وہ جو لفظ تو مومنوں کی جماعت میں داخل ہوتے ہیں مگر عملاً باغی ہوتے ہیں ان کو فاجر کہا جاتا ہے.ان دو قسم کے لوگوں کی نسبت بتا دیا کہ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اعمال کا کوئی نتیجہ نہیں ہوگا.جو سلوک متقیوں سے کیا جائے گا وہی ہم سے ہو گا تو غلطی کرتے ہیں کیا ہم ایمان لا نیوالے اور نیک اعمال کرنے والوں کو مفسدین فی الارض جیسا کر دیں گے.ہرگز نہیں مفسدین فی الارض صرف وہی لوگ نہیں ہوتے جو دنیا میں لڑائی جھگڑا کرتے ہیں بلکہ کفار بھی مفسد فی الارض ہی ہوتے ہیں.کیونکہ ان کے عقا ئد درست نہیں ہوتے اور جب عقائد درست نہیں ہوتے تو ان سے جو نتائج نکلتے ہیں وہ بھی درست نہیں ہوتے بلکہ بُرے اور خطرناک ہوتے ہیں خواہ ایسے لوگ کتنا ہی اچھا کام کریں.تو بھی عقائد کے نقص کی وجہ سے اس میں نقص ہی رہے گا اس لئے وہ مومنوں کے برابر نہیں ہو سکتے.دوسرے وہ لوگ جو زبان سے تو ایمان لانے کا اقرار کرتے ہیں لیکن عملاً اس کا ثبوت نہیں دیتے وہ متقیوں یعنی ایمان لا کر عملی

Page 99

خطبات محمود جلد (5) ۸۹ طور پر اس کا ثبوت دینے والوں کے برابر نہیں ہو سکتے.اس کی گواہی زمین و آسمان اور سب اشیاء دے رہی ہیں کہ کبھی ایسا نہیں ہو سکتا اور اگر ایسا ہو جائے تو خدا پر الزام آتا ہے.کہ کیا اس نے اتنا بڑا کارخانہ اور تمام ساز و سامان گھوڑے اور گدھے کی طرح کھا پی کر گزر جانے والے انسان کی خاطر پیدا کیا ہے اس قسم کا کام تو معمولی عقل کا انسان بھی نہیں کرتا چہ جائیکہ خدا ایسا کرے.کہ انسان کے لئے یہ سب کچھ تو پیدا کر دے مگر اس کی غرض کچھ نہ ہو.کیا کھانے پینے کے لحاظ سے گھوڑے اور گدھے وغیرہ حیوانات انسان کے برابر نہیں ہیں ضرور ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ان کے لئے تمام دنیا کی اشیاء مستر نہیں کی گئیں.اور صرف انسان کے لئے کی ہیں.اس سے پتہ لگتا ہے کہ انسان کی پیدائش کی کوئی اور بہت بڑی غرض ہے.غرض دنیا کی ہر ایک چیز انسان کو ہوشیار کر رہی ہے خواہ سورج یا چاند ہو یا ستارے ہوں خواہ زمین کے اوپر کے نظارے ہوں خواہ اس کے نفس کے اندر کی طاقتیں ہوں.تمام جانور حتی کہ ایک چڑیا اور طوطا ایک کتا ایک بلی ایک مینا اس کے لئے نصیحت اور سبق ہے.یہ ہر چیز ا سے کہ رہی ہے کہ ہم کھانے پینے کے لحاظ سے تمہارے برابر ہیں لیکن تجھے جو ہم پر حکومت دی گئی ہے اور ہمیں تیرے لئے مستقر کیا گیا ہے تو اس میں کوئی بات ضرور ہے اور وہ یہی کہتا تجھے بتا یا جائے کہ ایک دن تیرے تمام اعمال کا محاسبہ ہوگا اور تو خدا تعالیٰ کے حضور اپنے افعال کی جوابدہی کے لئے کھڑا کیا جائے گا لیکن اس واعظ کے لئے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں.انسان اپنے گھر میں بستر پر آنکھیں بند کر کے اپنے نفس پر غور کرے تو وہی اس کے لئے واعظ ہوگا اور اسے پتہ لگ جائے گا کہ دنیا میں میرا کیا درجہ ہے.اور دوسری مخلوق کا کیا.مجھ سے خدا کا کیا سلوک ہوگا اور دوسری مخلوق سے کیا.اس آیت میں خدا تعالیٰ نے اسی طرف انسان کو متوجہ کیا ہے.اس لئے اس سے وہ نصیحت حاصل کر سکتا ہے.اس کے علاوہ ایک بات کا بھی اس سے پتہ لگتا ہے.اور وہ یہ کہ بہت لوگ سوال کرتے ہیں کہ ہمیں یہ کیونکر معلوم ہو کہ ہم متقی ہیں یا فاجر اور خدا ہم سے خوش ہے یا نا خوش.اس آیت سے یہ سوال بھی حل ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ

Page 100

خطبات محمود جلد (5) فرماتا ہے آم نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجّار - (ص: ۲۹) کیا متقی اور فاجر برابر ہوتے ہیں.یعنی نہیں ہوتے.اس کے متعلق ہر ایک انسان اپنے نفس سے مطالبہ کر سکتا ہے کہ بتاؤ تم سے خدا کا کیا معاملہ ہے.دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے جو کسی نہ کسی رنگ میں اپنے مخالف اور موافق لوگ نہ رکھتا ہو وہ اپنا اور اپنے مخالفوں کا اور اپنا اور اپنے ساتھیوں کا مقابلہ کر کے دیکھے.کہ اگر ہر مصیبت اور ہر تکلیف اور ہر رنج کے وقت خدا مدد کرتا ہے اور کسی حالت میں خواہ رنج کی حالت ہو یا راحت کی وہ مجھے نہیں چھوڑتا اور ہمیشہ دشمنوں پر فتح دیتا ہے اور برخلاف اس کے دشمنوں کو ذلیل نا کام اور نا مرا درکھتا ہے تو وہ سمجھ لے.متقی اور فاجر برابر نہیں ہو سکتے.مجھے سے چونکہ متقیوں والا سلوک ہو رہا ہے اور میرے مخالفین سے فاجروں والا اس لئے میں متقیوں میں شامل ہوں.لیکن اگر اس سے فاجروں والا سلوک ہوتا ہو تو سمجھ لے کہ مجھ میں ضرور نقص ہے اس لئے مجھ سے ایسا سلوک ہو رہا ہے ورنہ نہ ہوتا اس سے ہوشیار ہو کر اپنی اصلاح کرنی شروع کر دے.اگر کسی کی خدا تعالیٰ غم کی گھڑیوں میں مدد کرتا اور خوشی کی گھڑیوں میں ساتھ دیتا ہے.اس کی کوششوں کو بار آور بنا تا اور اسے دشمنوں پر غلبہ دیتا ہے تو سمجھ لے کہ میں خدا کی رضا اور اس کے صحیح راستہ پر چل رہا ہوں.اور اگر ایسا نہیں تو وہ سمجھ لے کہ مجھ میں نقص ہے جس کی اصلاح کرنی چاہئیے.تو اس آیت کی وجہ سے ہر ایک انسان کے لئے اپنے نفس کا موازنہ کرنا آسان ہو گیا.وہ دیکھ سکتا ہے کہ میں مؤمنانہ راستہ پر چل رہا ہوں یا کافرانہ پر.متقیا نہ قدم اٹھا رہا ہوں یا فاجرانہ.اس میں شک نہیں کہ مومنوں اور متقیوں پر بھی مصائب آتے ہیں لیکن ایک مومن کو خدا تعالیٰ دشمن کے مقابلہ میں کبھی اس طرح نہیں گرا تا کہ اسے کسی گناہ کا مرتکب ہونا پڑے.یہ مومن اور کا فرمتقی اور فاجر کے مصائب میں فرق ہے.مومن اور متقی کو کسی بڑی سے بڑی مصیبت کے وقت بھی کسی قسم کے فریب.دعا اور حیلہ سازی کی ضرورت نہیں پڑتی.ان باتوں پر خدا اسے کامیابی دیتا ہے.مگر ایک کافر اور فاجر پر جب ایک مصیبت آتی ہے تو وہ گناہ کی طرف لوٹتا ہے اور گناہ کا ارتکاب کرتا ہے.پس جب کوئی شخص مصیبت کے وقت ایسا کرتا ہے وہ دیکھے کہ اس کے اندر گناہ کا مادہ تھا.تب ہی وہ گناہ کی طرف لوٹا ہے.

Page 101

خطبات محمود جلد (5) ۹۱ مومن اور متقی کو کبھی ایسے واقعات پیش نہیں آئیں گے.جو اسے بدی کے لئے مضطر کر دیں اور جسے کوئی ایسا موقع آتا ہے وہ سمجھ لے کہ اس میں نقص ہے.پس یہ آیت اپنے نفس کا مطالعہ کرنے کا آسان طریق بتاتی ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئیے.اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ لوگوں کو اور ہماری تمام جماعت کو اس بات کی توفیق دے کہ خدا تعالیٰ نے جو سامان اور طاقتیں ہمیں بخشی ہیں ان کو ہم صحیح طور پر استعمال کر کے اس کا فضل حاصل کرنے کے قابل بنیں.اور ایسا نہ ہو کہ ان کے غلط استعمال سے ہمارا قدم کسی اور راہ پر جا پڑے.الفضل ۱۸ / ا پریل ۱۹۱۶ء)

Page 102

۹۲ 13 خطبات محمود جلد (5) خُدا کی اطاعت کر نیوالے ہی اس کے انعامات کے وارث ہوں گے (فرموده ۱/۲۸ پریل ۱۹۱۶ء) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کے بعد فرمایا:- فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ يَمَقْعَدِهِمْ خِلْفَ رَسُولِ اللَّهِ وَكَرِهُوا أَنْ تُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللهِ وَقَالُوا لَا تَنْفِرُوا فِي الْحَرِ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا لَوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا وَلْيَبْكُوا كَثِيرًا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (التوبہ:۸۲:۸۱) انسان کو خدا تعالیٰ نے سب سے بڑے انعامات کا وارث بنایا ہے اور اس کی ترقیات کے لئے بڑے بڑے وسیع راستے کھولے ہیں.حتی کہ انسان ان راستوں کو محدود نہیں کر سکتا.جو طریق یا راستے مدارج کے حصول کے لئے مقرر کئے گئے ہیں چہ جائیکہ ان مدارج کو محدود کر سکے.دنیا کے مختلف پیشے اور علوم بھی اگر انسان گننے لگ جائے تو وہ بھی ایسی کثرت اپنے اندر رکھتے ہیں کہ ان کا گننا بھی مشکل ہو جاتا ہے.ہر سورج انسان کے لئے نئے علوم اور ترقیات لاتا ہے پس جب اس قدر انعامات انسان کے لئے مقرر ہیں تو ضرور تھا کہ اس کے لئے ابتلاء اور مشقتیں بھی مقرر کی جاتیں.انعامات کا وارث وہی ہوا کرتا ہے جو اپنے آپ کو ان انعامات کا مستحق ثابت کرے.انعام محنت کے بدلے میں اور کسی استحقاق یا کسی خاص حالت کی وجہ سے ملتے ہیں ورنہ ایک جیسے انسانوں کو انعامات نہیں ملا کرتے پانچ سات آدمیوں میں انعام لینے والا وہی ہوگا جو اپنے اندر کوئی خاص امتیاز رکھتا ہو گا.جہاں ایسے وسیع انعامات مقرر ہوئے ہیں وہاں ابتلاء بھی مقرر ہیں جس طرح انسان ان انعامات کو جو اس کے لئے مقرر ہیں گن نہیں سکتا اسی طرح انسان ان ابتلاؤں کو بھی جو اُسے پیش آنے والے ہیں گن نہیں سکتا جن میں پڑ کر انسان ان انعامات کا جو اس کے لئے مقرر ہیں وارث ہوتا ہے خدا تعالیٰ کے جس قدر انعامات غیر محدود ہیں اسی قدر خدا کے ابتلاء بھی غیر محدود ہیں اگر صداقت

Page 103

خطبات محمود جلد (5) ۹۳ کے رڈ کرنے والے اور خدا تعالیٰ کی درگاہ سے دور ہو جانے والے لوگوں کو پوچھو کہ کیوں تم نے یوں کیا.تو ہر شخص اپنے لئے جدا جدا باعث بتائے گا.جو وجہ ایک کی ہوگی وہ دوسرے کی نہیں ہوگی.ایک کے لئے روک اور ہوگی دوسرے کے لئے اور تیسرے کے لئے اور.چوتھے کے لئے اور.پانچویں کے لئے اور.ان میں سے ہر ایک شخص جو اس صداقت کو نہیں مانتا.وہ اپنے لئے مختلف وجہیں رکھتا ہے.غرضیکہ ہر ایک کے لئے جدا جدا ابتلاء ہیں.یہ آزمائشیں دو درجوں میں منقسم ہیں ایک آزمائشیں انعام کی ہوتی ہیں.دوسری عذاب کی ہوتی ہیں.یا تو ایسی آزمائشیں ہوتی ہیں کہ وہ انعامات کا رنگ رکھتی ہیں یا کوئی بڑا ہو جاتا ہے دولت مل جاتی ہے اس کے لئے اس کی دولت ابتلا ہو جاتی ہے.وہ خیال کرتا ہے.کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں ایک مفلس نادار آدمی کو جس کی کچھ بھی لوگوں میں حیثیت نہیں مان لوں اور اس کا فرمانبردار بن جاؤں.عہدہ دار خیال کرتا ہے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے ماتحت کی بیعت کر لیں.اسی طرح کسی کے لئے اس کا آرام اور آسائش سامان ابتلاء ہو جاتا ہے.ہم نے ایسے آرام سے زندگی بسر کی ہے ایسی آسائشوں اور نعمتوں میں پرورش پائی ہے.اب اگر دین پر چلیں گے اور کسی کے ماتحت ہوں گے تو یہ آرام اور آسائش نہیں رہے گی.اسی طرح آرام اور آسائش بعض لوگوں کے لئے ابتلاء کا موجب بن جاتی ہے.ایک طالب علم ایک سال وظیفہ لیتا ہے تو دوسرے سال کے لئے بھی اس کے دل میں شوق پیدا ہو جاتا ہے.کہ اس سال بھی وہ وظیفہ لے تو بجائے اس کے کہ یہ لوگ اس مال اس دولت اس بزرگی اور برتری اور عیش و تنعم کے سامان سے فائدہ اٹھا ئیں اور یہ خیال کریں کہ وہ خدا جس نے بغیر کسی قسم کی محنت کے بغیر کسی قسم کی مشقت کے اس قدر انعامات ہم پر کئے ہیں اگر ہم اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کریں گے تو کس قدر انعامات حاصل ہوں گے.ان لوگوں نے اسی قدر پر قناعت کر لی ہے.دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں کہ ان کے لئے یہ آزمائشیں مصائب کے رنگ میں ہوتی ہیں.وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمیں آگے کو نسا سکھ ملا ہے.ہم آگے کس آرام میں ہیں کہ اس کو مان کر وہ پالیں گے.کوئی خدا کی طرف سے آیا ہو تو ہمیں اس کے ماننے سے کیا.ہم آگے ہی دکھوں اور مصیبتوں میں ہیں اس کو مان کر اور دکھوں اور مصیبتوں میں پڑ جائیں گے.پس اگر ایک طرف انعامات کے ذریعے

Page 104

خطبات محمود جلد (5) ۹۴ سے آزمائشیں ہوتی ہیں.تو دوسری طرف مصائب اور مشکلات کے ذریعے سے بھی لوگ آزمائے جاتے ہیں.پھر آگے ان دونوں قسموں کی ہزار قسمیں ہیں لیکن اگر انسان ذرا غور کرے کہ کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ اس کے لئے محنت نہ کی جائے تو پھر انسان کے لئے اللہ کی راہ میں محنتیں اور مشقتیں کوئی چیز نہیں.وہ فوائد جن کے لئے انسان کو امید ہوتی ہے کہ ہمیں مل جائیں گے.ان کے لئے انسان کس قدر محنت کرتا ہے اور رات دن لگا رہتا ہے.اس لئے کہ اس محنت میں ایک فائدہ دیکھتا ہے اور اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ اسے جلد ملنے والا ہے.بہت سے لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ انہیں یہ فائدہ حاصل ہے مگر دراصل وہ انہیں حاصل نہیں پس اگر انہیں یہ یقین ہو جائے کہ جو کچھ اللہ کا رسول لایا ہے اگر ہم اس کو مان لیں گے تو اللہ تعالیٰ کے انعامات کے مستحق ہو جائیں گے تو پھر ان مصائب کو اس رسول سے روکنے کی وجہ نہ بتاتے بلکہ فوراً اس کو مان لیتے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ سمجھتے نہیں کہ جس بات کو یہ لوگ رڈ کرتے ہیں اس کے ماننے میں بڑے بڑے انعامات ہیں اور اس کے نہ ماننے میں بڑی بڑی تکلیفیں مشقتیں اور عذاب.وہ قوم جو مصائب کو دیکھ کر کسی فائدے کو چھوڑ دے بجائے آگے قدم مارنے کے پیچھے رہتی ہے.ایک انسان کو اگر ایک راستے پر گزرنے سے کپڑوں اور مال کے لوٹے جانے کا خطرہ ہو اور دوسرے راستے پر گزرنے سے جان جانے کا خطرہ ہو تو وہ خیال کر کے کہ جان بچی لاکھوں پائے اس راستہ کو ترک کر دے گا.جس میں اس کی جان جانے کا خطرہ ہے اور اس رستہ کو اختیار کرے گا کہ جس میں اس کے مال کا اندیشہ ہے.پس اسی طرح جسے یہ یقین ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر کے اور اس کی بھیجی ہوئی صداقتوں کا انکار کر کے جو عذاب ملنے والا ہے وہ ان مشقتوں اور تکلیفوں سے بہت بڑھ کر ہے جو ایک صداقت اور اس کے لانے والے کو مان کر پڑنے والی ہیں تو پھر انسان ان صداقتوں کا انکار نہیں کر سکتا.اور ان مصیبتوں اور مشقتوں سے نہیں گھبراتا.جو لوگ صداقتوں کے منکر ہوں وہ مجبور ہیں لیکن جو جماعت صداقت قبول کر چکی ہے اور اس پر ایک اور ایک دو کی طرح یہ روشن ہو گیا ہے ایسی جماعت کے پیچھے

Page 105

خطبات محمود جلد (5) ۹۵ ہٹنے پر از حد افسوس ہے.ہماری جماعت کے لئے بھی یہ ایک امتحان کا موقع ہے اس کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک حکم ملا.اور وہ ایسے برگزیدہ انسان کے ذریعہ آیا.جس کی نوع سے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک کے پیغمبروں نے خبر دی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے اولیاء اور خدا کے برگزیدہ انسان اس کے متعلق بیان کرتے چلے آئے تھے.بلکہ اس کو دیکھنے کے مشتاق تھے اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے وعدے کئے تھے.پھر اس کے ساتھ وعدہ تھا.کہ جو میرے احکام کی فرمانبرداری کریں گے وہ میرے انعامات کے وارث ہوں گے کیا ہماری جماعت نے اس بات پر غور کیا کہ کیا وہ وہ مست مشقتیں جوان انعامات کے لئے ضروری ہیں برداشت کر چکی ہے.افسوس آتا ہے.جب کہتے ہیں کہ گاؤں والے دُکھ دیتے ہیں کیا ایسا انسان خدا تعالیٰ کے انعام کا وارث ہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان انسان کو کیا دکھ دے سکتا ہے.فرعون بڑا مشہور اور چالاک بادشاہ تھا.اس نے حضرت موسیٰ کے مقابلے کے لئے کچھ آدمی منتخب کئے ان کی یہ حالت تھی کہ فرعون ان کو اپنا مصاحب اور درباری بنانے کا وعدہ کرتا ہے اور ان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ہمیں کچھ مل جائے ان کے علم کی کمزوری ان کی جہالت کی وجہ سے بادشاہ کے درباریوں میں شامل ہو جانا کوئی چیز نہیں دو چار روپے مل جائیں.ایسی جہالت میں پڑے ہوئے لوگوں کے سینے خدا کے پیغام کے لئے کھل جاتے ہیں.وہی فرعون جس سے پیسے مانگتے تھے وہ اب ڈراتا ہے دھمکاتا ہے کہ میں تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ دوں گا.وہ کہتے ہیں کہ پھر ہوا کیا اسکا نتیجہ موت ہی ہوگا نہ کہ کچھ اور.ہم خدا کے پاس ہی جائیں گے کیا خوب وہ جواب دیتے ہیں کہ تم اگر ہمیں مار دو گے تو ہمیں تو جنت مل جائے گی.جس موت سے تم ہمیں ڈراتے ہو وہ تو ہمارے لئے جنت کا دروازہ کھولتی ہے.انسان کا عذاب کچھ عذاب نہیں ہوتا.جس انسان سے انسان ڈرتا ہے.ڈرنے والے کو کیا معلوم کہ اس کی کس وقت جان نکل جائے گی.ایک خدا کے بزرگ تھے بادشاہ دہلی نے کہا کہ ہم سفر سے واپس آکر تمہیں مروا ڈالیں گے.وہ سفر سے جب واپس آنے کے قریب ہوا.تو بزرگ کے شاگردوں نے انہیں کہنا شروع کیا کہ اب تو بادشاہ آتے ہیں کوئی انتظام کرنا چاہئیے انہوں نے کہا.ہنوز دہلی دور است.پھر جب بادشاہ وہاں سے چل پڑا.پھر مریدوں

Page 106

خطبات محمود جلد (5) ۹۶ نے کہا کہ حضور اب تو بادشاہ وہاں سے روانہ ہو چکا ہے کوئی انتظام ہونا چاہئیے انہوں نے کہا.ہنوز دتی دور است.پھر انہوں نے جب بادشاہ دو چار منزل آ گیا عرض کیا کہ حضور اب تو دو چار منزل پر آپہنچا.کہنے لگے.ہنوز دلی دور است.جب ایک منزل پر پہنچا تو لوگوں نے کہا حضور ! اب تو ایک منزل پر پہنچ چکا.حضور کوئی انتظام فرما ئیں.مطلب یہ کہ امراء وغیرہ سے کہہ کر معافی مانگ لیں.انہوں نے پھر اپنے پہلے جواب کو ہی دہرایا.ہنوز دتی دوراست.خدا تعالیٰ نے بادشاہ کو ایسے عذاب میں گرفتار کیا کہ دتی میں داخل ہونے سے پہلے بیمار ہوا اور ان کے دریافت حال سے پہلے پہلے مر گیا.اے جو انسان خدا کے حضور میں اپنا معاملہ ڈال دیتا ہے اس کو انسان بیچارہ کیا دُکھ دے سکتا ہے.اور اگر منشاء الہی یہی ہو کہ اسے کچھ مشقتیں اور تکلیفیں اٹھانی پڑیں تو ان سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں.دونوں بڑی بڑی رحمتوں اور انعامات کا سرچشمہ ہیں ایک انسان جان بچانے کے لئے بھاگتا ہے اور اس بھاگنے میں اسے بڑی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے.پسینہ آ جاتا ہے.ٹھوکریں کھاتا ہے.بھوک پیاس برداشت کرتا ہے.ایک مکان میں آگ لگ جائے تو اس وقت یہ کھڑکی سے کود پڑتا ہے جان کو خطرے میں ڈال دیتا ہے.آگ سے بچنے کے لئے کو دنا اسے دو بھر معلوم نہیں ہوتا.جہاں انعام ہو اس کے لئے مشقت برداشت کرنا کوئی مشکل نہیں.پس جو خدا تعالیٰ کے انعامات کا وارث بننا چاہتا ہے تو اسے کسی کے دکھ دینے کا کیا فکر ہے چھوٹے سے چھوٹا عذاب مومن کے لئے موت ہے.اگر دشمن اسے جانی یا مالی تکلیف دیتے ہیں تو موت تک دیتے ہیں لیکن موت کے بعد پھر تو کوئی عذاب نہیں.صحابہ موت کو معمولی بات سمجھتے تھے.اور یہی ان کی ترقی کا راز تھا.ایک دفعہ ایک شخص کافروں میں سے نکلا اور اس نے بہت سارے مسلمانوں کو شہید کیا.حضرت ضرار بن از در جو مسلمانوں میں بہت بہادر تھے اور جن کا تاریخ میں بہت ذکر آتا ہے اس کے مقابلے کے لئے نکلے اور تھوڑی دیر کے بعد یہ اس کے سامنے سے بھاگے.مسلمانوں میں بھاگنا ہوتا ہی نہیں تھا.سب مسلمان حیران کھڑے تھے کہ ے تذکرہ اولیائے کرام 1 دبستان ص ۹۷

Page 107

خطبات محمود جلد (5) ۹۷ انہیں یہ کیا ہو گیا چنانچہ وہ اپنے خیمے میں گئے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد واپس آئے تو باقی فوج کے آدمیوں نے کہا آپ نے یہ کیسی بزدلی دکھائی.اور اسلام کے برخلاف کام کیا کہ آپ ایک کافر کے سامنے سے بھاگے.آپ نے کہا کہ میں اس لئے نہیں بھاگا تھا کہ مجھے جان کا خوف تھا.بلکہ جب میں اس کافر کے مقابلہ کو نکلا تو میرے جسم پر زرہ تھی مجھے خیال ہوا کہ یہ زرہ موت کے خوف سے ہے اگر موت اس زرہ کے پہنے کے باوجود بھی آجائے.تو اچھی بات نہیں.کیا خدا کو میں جا کر یہ کہوں گا کہ الہی ! میں تیری ملاقات کا شائق نہ تھا جو میں نے ایک کافر کے مقابلہ میں زرہ پہن لی تھی اس لئے میں بھا گا کہ میں جلد جا کر زرہ اتار دوں.اور پھر اس کا فر کا مقابلہ کروں تا اگر مارا جاؤں تو خدا کے حضور کہہ سکوں میں آپ کی ملاقات کا شائق تھا.لے اسی طرح حضرت خالد موت کے وقت رونے لگے.کسی نے کہا کہ آپ کیوں روتے ہیں فرمایا میں موت سے نہیں روتا بلکہ اس لئے روتا ہوں کہ میں ہمیشہ جنگ میں اس تمنا سے شامل ہوتا رہا.کہ اگر یہاں مارا جاؤں تو شہادت کا رتبہ پاؤں لیکن افسوس کہ آج میں بستر پر جان دے رہا ہوں.کے الغرض مومن کے لئے موت سب سے چھوٹی تکلیف ہے.جس کو لوگ سب سے بڑا سمجھتے ہیں.موت تو اس پر دے کے چاک کرنے کا نام ہے جو بندے اور خدا کے درمیان ہوتا ہے.پس جب بڑی مشقت سب سے چھوٹی نکلی تو اور عذاب اور مشقتیں کیا چیز ہیں جس سے وہ مایوس ہو جائیں.ذلیل کرنے والے عذاب مومن پر نہیں آتے.اور جو دکھ اسے پہنچائے جاتے ہیں وہ اس کے لئے کوئی تکلیف کا باعث نہیں ہوتے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا وہ ان کے لئے گلزار ہوگئی اور جلا نہ سکی.خیر وہ تو خدا کے نبی تھے.اور سلسلہ کے آخری پیغمبر تھے.جو کبھی قتل نہیں ہوتا.لیکن اگر کوئی اور خدا کا پیارا ہوتا اور وہ اس آگ میں جل بھی جانتا تو اس کے لئے وہ جل جانا بھی گلزار تھا.کافر کو جو عذاب آتے ہیں وہ مایوس کرنے والے ہوتے ہیں لیکن مومن کو کوئی ایسا عذاب نہیں آتا جو مایوس کر دینے والا ہو.ہماری جماعت کے لئے یہ بڑی قابل غور بات ہے کہ کن مصائب سے ڈر کر وہ له اصابہ جلد ۳ ص ۲۶۹ حالات ضرار بن از در.۲.تاریخ الخمیس جلد ۲ ص ۲۷۵

Page 108

خطبات محمود جلد (5) ۹۸ اللہ تعالیٰ کے احکام میں کوتاہی کرتے ہیں.کیا کوئی قوم ایسی گذری ہے جس نے بغیر مشقتیں اور تکلیفیں اٹھانے کے کوئی انعام حاصل کیا ہو اگر ہوتی تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی جماعت ہوتی.آپ سے بڑھ کر کوئی انسان نہیں گزرا.آپ سے بڑھ کر کوئی خدا کا پیارا نہیں گزرا.اگر مصیبتوں سے بچکر کوئی جماعت خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتی.تو آپ کی جماعت ہی ہوتی.لیکن برخلاف اس کے یہ جماعت سب سے زیادہ تکلیفیں اٹھانے والی ہوئی ہے.تو پھر کسی احمدی کے لئے یہ خیال کس طرح صحیح ہو سکتا ہے کہ وہ بغیر کسی قسم کی محنت مشقت برداشت کئے خدا تعالیٰ تک پہنچ سکے.مصائب اور مشقتوں کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی.جب تک انسان جان کو دکھوں میں نہ ڈالے اور تکلیفیں برداشت نہ کرے اس وقت تک اسے انعام نہیں مل سکتا.اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور رضا کوئی معمولی چیز نہیں جو اس کے لئے انسان کو کوئی مصیبت اور تکلیف برداشت نہ کرنی پڑے اور وہ یونہی حاصل ہو جائے حالانکہ وہ اس وقت تک حاصل ہو ہی نہیں سکتی جب تک انسان طرح طرح کے دُکھ اور مصائب برداشت نہ کرے.اللہ تعالیٰ ہمارے بھائیوں کو اور ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ اس کی رضاء میں کسی قسم کی قربانی کرنے سے گھبرائیں نہیں اور اس کی رضاء کے لئے ہر طرح کی محنت اور مشقت اختیار کر کے ہم اس کو پانے کے قابل ہوں.(آمین یارب العلمین) (الفضل ۶ رمئی ۱۹۱۶ء)

Page 109

۹۹ 14 خطبات محمود جلد (5) با قاعدہ با جماعت نماز ادا کریں (فرموده ۵ رمئی ۱۹۱۶ء) تشہد وتعوذ کے بعد سورۃ فاتحہ اور مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.القمر O ذَلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِيْنَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقُهُم يُنفِقُونَ (البقرة : ۲ - ۴) اور فرمایا : قرآن کریم کی دوسری سورۃ کے پہلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی کچھ نشانیاں بتائی ہیں.ان علامتوں میں سے جو مومنوں کی اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں.ایک علامت پر میں کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.وَيُقيمُونَ الصَّلوة یعنی وہ اقامت الصلوۃ کرتے ہیں یصلون نہیں فرمایا.یقیمُونَ الصلوۃ فرمایا ہے.قرآن کریم کا کوئی لفظ لغو نہیں.کوئی لفظ قافیہ بندی کے لئے نہیں آتا جب خود صلوٰۃ کے لفظ سے ہی یہ مضمون ادا ہو سکتا ہے تو قرآن شریف جو اختصار کا سب سے زیادہ خیال رکھتا ہے اس نے يُقِيمُونَ الصَّلوة کیوں رکھا.یہ ایک سوال ہوتا ہے ایک ایسا شخص جس نے قرآن کریم پر غور نہ کیا ہو وہ بہت آسانی سے جواب دے گا کہ آخر خدا نے کوئی لفظ تو رکھنا ہی تھا یہی رکھ دیا لیکن وہ شخص جس نے قرآن کریم پر غور کیا اور تدبر اور امعان سے اس کو دیکھا ہو وہ یہ نہیں کہہ سکتا اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ اس لفظ کے رکھنے میں کوئی حکمت ہے ورنہ دو کیوں رکھے ایک کیوں نہ رکھ دیا.وہ حکمت یہ ہے کہ اس رکوع میں اصول اعمال اور اصول عقائد کا بیان ہو رہا ہے اور ان میں اسلام کی تعلیم کا نقشہ کھینچ دیا گیا ہے.محض یہ نہیں بتایا کہ نماز پڑھنی فرض ہے بلکہ اسلام کا خلاصہ بتایا کہ اسی چیز کا نام اسلام ہے.جب فردا فردا کوئی بات بیان کی جاتی ہے تو صرف اس کے متعلق بیان کر دیا جاتا ہے لیکن جب اصولاً سب کا خلاصہ بیان کیا جاتا ہے تو ایسے لفظ رکھے جاتے ہیں جو تمام معنوں پر حاوی ہوں جس طرح زکوۃ کے لئے بیان ہوا.اس کے ہر ایک حصے اور شعبے

Page 110

خطبات محمود جلد (5) 1++ کو بیان کر دیا.اسی طرح نماز کے لئے بھی بیان ہوا ہے.اقامہ کے معنے ہوتے ہیں کہ کسی چیز کو اس کی تمام شرائط سے پورا کر دینا.اقامت کے معنے کھڑا کرنا ہے.اور کھڑا ہونا چستی کی علامت ہے جس طرح بیٹھ جانا ستی کی.جس وقت عربی میں اقام الامر کہیں گے.تو اس کے یہ معنے ہوں گے اس نے اس کام کی تمام شرائط پوری کر دی ہیں تو چونکہ یہاں خلاصہ بیان کرنا شروع کیا.اس لئے فرمایا کہ نماز کے لئے جس قدر احتیاط ہو سکتی ہے اس سے کام لیتے ہیں.وضو کرتے ہیں تو پورا کرتے ہیں نماز پڑھتے ہیں تو خشوع و خضوع سے پڑھتے ہیں.رکوع اور سجود بڑے سکون سے کرتے ہیں.ٹھہر ٹھہر کر اس کو ادا کرتے ہیں جو باتیں خواہ قرآن نے انہیں بیان کیا ہو یا احادیث سے ثابت ہوں ان تمام شرائط سے وہ نماز کو ادا کرتے ہیں تب وہ جا کر متقی بنتے ہیں.اگر یونہی پڑھ لی جاتی ہے تو وہ مصلی ہے اس لئے يُقِيمُونَ الصَّلوة کے ماتحت ہم اس کو یہ نہیں مان سکتے کہ وہ متقی کی اس تعریف کے ماتحت آ کر جو بیان کی گئی ہے متقی ہو گیا.پس ہر ایک مسلم کو چاہیے کہ وہ اپنی نماز کے متعلق دیکھے کہ وہ اقامت الصلوۃ کرتا ہے یا صرف نماز پڑھتا ہے کیونکہ قرآن شریف متقی کی تعریف میں بتاتا ہے کہ وہ اقامت الصلوۃ کرتے ہیں پس جوا قامت الصلوۃ کرتے ہیں وہی متقی ہیں.اس زمانے میں بہت سے لوگ ہیں جو اقامت الصلواۃ کا مقصد نہیں دیکھتے حالانکہ نماز کا مطلب تو یہ تھا کہ خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ ہو.وہ غور کریں کہ کون کونسی ایسی باتیں ہیں جو ہماری نماز کو خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ بناتی ہیں.اقامت الصلوۃ یہی تو ہوتی ہے.بہت ہیں جو ہماری جماعت میں سستی کرتے ہیں اور بہت ہیں جو مسجد میں نہیں آتے اور بہت ہیں جو وقتوں کے پابند نہیں اور باتوں کا تو ہماری جماعت خدا کے فضل سے بہت خیال رکھتی ہے.لیکن ابھی ایک سب سے بڑا نقص ان میں ہے کہ مساجد میں نماز نہیں پڑھتے حالانکہ یہ بھی شرائط اقامت الصلوۃ میں داخل ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس قدر ضروری قرار دیا ہے کہ فرماتے ہیں میرا دل چاہتا ہے کہ جب صبح یا عشاء کے لئے جماعت کھڑی ہو تو میں کچھ آدمیوں کے سروں پر لکڑیوں کے گٹھے لے کر ان لوگوں کے گھر چلا جاؤں جو جماعت میں حاضر نہیں ہوتے.

Page 111

خطبات محمود جلد (5) 1+1 اور انہیں گھر کے گرد چن کر گھر کو آگ لگا دوں.آپ کیسے رحیم.کریم.نرم مزاج اور شفقت رکھنے والے انسان تھے لیکن جماعت کے چھوڑنے پر اور پھر صبح اور عشاء کی جماعت چھوڑنے پر کہ ایک میں سونے کے وقت ہونے کی وجہ سے نیند غلبہ کئے ہوئے ہوتی ہے اور دوسری میں بھی نیند کا غلبہ ہوتا ہے اور انسان اس حالت میں مجبور ہوتا ہے کہ اس سے دیری ہو جاتی ہے یا جماعت جاتی رہتی ہے یہ سزا تجویز فرمائی ہے لوگ تو کہتے ہیں کہ یہ ان نمازوں ( صبح وعشاء) کے لئے تاکید ہے لیکن میرے خیال میں تو آپ نے گویا فرمایا ہے کہ ان نمازوں کے جماعت سے نہ پڑھنے کے لئے اس قدر عذاب دینا ضروری معلوم ہوتا ہے.حالانکہ انسان ان میں مجبور ہوتا ہے تو ان نمازوں کے متعلق کس قدر ضروری اور سخت یہ حکم ہوا.جن میں یہ مجبوری نہیں ہوتی اور یہ تنگیاں نہیں پائی جاتیں.اس لئے ان میں حاضر نہ ہونے والا انسان کس قدر سزا کا مستوجب ہے.یہ نہیں فرما یا گھر کو آگ لگا دوں بلکہ فرمایا.آدمیوں سمیت جلا دوں.یہ کلام ایسے انسان کے منہ سے نکلنا جو کرم میں.رحم میں.شفقت اور محبت میں سب سے بڑھا ہوا تھا.یہ ارشاد بتاتا ہے کہ جماعت سے نماز سخت ضروری ہے اور کسی بات کے متعلق آپ نے یہ حکم نہیں فرمایا.صرف نماز کے واسطے ہی یہ حکم دیا.لیکن باوجود اس کے بہت لوگ ہیں جو گھروں میں ہی نماز پڑھ لیتے ہیں.میں نے پیچھے کبھی بیان کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر کسی گاؤں میں ایک ہی احمدی ہو اور غیر احمدی اسے مسجد میں نماز نہ پڑھنے دیتے ہوں.اردگرد نزدیک کوئی اور احمدی نہ ہو تو وہ احمدی اپنے بیوی بچوں کو جمع کر کے نماز اپنے گھر میں باجماعت پڑھ لیا کرے.تا کہ عادت قائم رہے کیونکہ جب عادت نہ ہو.تو انسان موقع ملنے کے باوجود بھی پھر اس سے رہ جاتا ہے.بعض لوگوں نے اس کا نتیجہ غلط نکال لیا.اور سمجھا کہ جماعت میں جانے کی ضرورت ہی نہیں.گھر کے بال بچوں اور بیوی کو کھڑا کیا اور گھر میں ہی نماز پڑھ لی.ابھی کل خط آیا ہے جس میں ایک شخص نے لکھا تھا کہ میں نے جب لوگوں کو مسجد میں نماز کے لئے تاکید کی تو لوگوں نے کہا کہ تمہیں وہ تقریر یا دنہیں رہی جس میں حضرت نے ل بخاری کتاب الاذان باب وجوب صلوۃ الجماعة -

Page 112

خطبات محمود جلد (5) ١٠٢ حکم دیا ہے کہ گھر میں ایک کمرہ بنالو.اور اپنے بیوی بچوں سے مل کر با جماعت نماز پڑھ لیا کرو.حالانکہ اس تقریر میں میرا یہ مطلب نہ تھا.میں نے تو کہا تھا کہ جہاں صرف ایک ہی احمدی ہو.ارد گر د غیر احمدی ہی غیر احمدی ہوں اور اسے مسجد میں نماز نہ پڑھنے دیتے ہوں.تو جماعت کی پابندی کے لئے وہ اپنے بیوی بچوں کو ساتھ کھڑا کر کے جماعت کر لیا کرے.میرا ہرگز یہ منشاء نہیں کہ جہاں مسجد میں ہوں.پھرا اپنی مسجد میں ہوں یا جس جگہ میں ایک بھی اور احمدی ہو تو وہاں بھی گھر میں ہی نماز پڑھ لو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں آنے کو ایسا ضروری قرار دیتے ہیں.فرماتے ہیں کہ جو شخص مسجد میں نماز پڑھتا ہے اسے تم مومن سمجھو گویا مسجد کا آنا اس کے ایمان کی علامت قرار دی ہے.پس ہماری جماعت کو چاہئیے کہ کوئی مسجد مقرر کر کے وہاں جمع ہوں اور جہاں کوئی مسجد نہ ہو وہاں کمرہ کرایہ پرلے لیویں اور اس طرح باجماعت نماز ادا کریں.ہاں اگر بعض لوگوں کو اپنے دفاتر کے وقتوں اور رخصت نہ ملنے کی وجہ سے یا کوئی ایسی ہی اور مجبوری ہو تو اوقات دفاتر کے علاوہ باقی نمازوں کو جماعت سے آکر پڑھا کریں، اور بڑے بڑے شہروں مثلاً لا ہور ہے یا امرتسر یا دہلی ہے.وہاں چونکہ لوگ ایک دوسرے سے بہت دور دور ہیں تو وہاں یہ ہوسکتا ہے کہ محلے مقرر کر لیں.اگر مسجد ہو تو بہت اچھا وگر نہ ایک کمرہ کرایہ پر لے کر وہاں اپنے اپنے محلہ میں پڑھ لیا کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ایک ایک میل فاصلے پر کے گاؤں میں مسجد میں بنی ہوئی تھیں وہاں ان میں لوگ پڑھ لیا کرتے تھے.یہاں قادیان میں تو بہت قریب قریب ہیں.میری خواہش ہے کہ اگر درمیان کے مکانات مل جائیں تو بڑی اور چھوٹی مسجد کو ملا کر ایک کر دیا جائے.ہاں باہر کی مسجد مناسب موقع پر ہے.پس قریب کی مسجدوں میں جہاں پہنچ سکے پہنچے اور اگر انسان کو دفتر کی نوکری کی وجہ سے مجبوری ہے اور وہ نہیں آسکتا تو یہ الگ بات ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ بغیر مجبوری کے کوتا ہی نہ کرے.میرے نزدیک اس شخص کی نماز جائز نہیں جس کے مکان تک اذان کی آواز جاتی ہے اور وہ جماعت کے لئے مسجد میں حاضر نہیں ہوتا.حضرت انس بن مالک کی نسبت آتا ہے کہ وہ بہت بوڑھے ہو گئے تھے پھر بھی وہ جماعت کے لئے پہلے ایک مسجد میں جاتے پھر دوسری میں اسی طرح

Page 113

خطبات محمود جلد (5) ہر ایک مسجد میں جاتے اگر جماعتیں ہو چکی ہوتیں اور وقت نماز بھی تنگ ہونے کو ہوتا.پھرا کیلے پڑھ لیتے تو صحابہ کے عمل کو دیکھو اور ادھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کو دیکھو.آپ نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ مسجد میں جا کر جماعت سے نماز پڑھا کریں.یہ بھی غلط طریق ہے کہ گھر میں تکبیر کی آواز آ جاتی ہے اس لئے وہیں اپنے مکان پر یا دکان کے چبوترے پر نماز پڑھ لی.اگر ایسے ہی ہے تو سب ہی اپنے اپنے گھر میں کھڑے ہو جایا کریں.امام آئے اور اکیلا مسجد میں نماز پڑھانی شروع کر دے.یہ بہت برا طریق ہے.یہ لوگوں کو غلطی لگی ہے ایک دفعہ صحابہ نے چاہا کہ اپنے مکانات کو جو دور ہیں فروخت کر دیں اور مسجد کے گرد جگہ لے کر مکان بنا لیں.تو آپ نے فرمایا.تم کوئی قدم نہیں اٹھاتے مگر اس کے لئے ثواب ملتا ہے.لے اس خیال پر ایک صحابی کا یہ طرز عمل تھا کہ وہ جہاں جاتے شہر کے پرلی طرف مسجد سے دور مکان لیتے تاکہ مسجد تک آنے کا ثواب ملے اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب نہیں سمجھا مگر اس سے یہ پتہ لگتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر اتنا زور دیتے تھے کہ بعض صحابہ نے دور دور مکان لینے شروع کر دیئے.اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوں میں آنے کا بھی فرق بتایا ہے.پہلی صف کو دوسری پر ترجیح دی ہے اسی طرح فرمایا ہے کہ جو شخص جماعت کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جاتا ہے وہ اپنے پہلے قدم کے اٹھانے سے گناہ مٹاتا ہے اور اس کا دوسرا قدم درجہ بڑھا تا ہے.اسی طرح پھر تیسرا گناہ مٹاتا ہے اور چوتھا درجہ بڑھاتا ہے.اور اسی طرح پھر ایک گناہ مٹاتا اور دوسرا درجہ بڑھاتا ہے.حتی کہ وہ مسجد میں پہنچ جاتا ہے.آپ نے مسجد میں آکر باجماعت نماز ادا کرنے کی بڑی بڑی فضیلتیں بیان کی ہیں.سے مسجد کی نماز معمولی چیز نہیں یہ ایک بہت بڑی نیکی ہے جو قو میں مسجدوں کو آباد نہیں کرتیں وہ بڑے بڑے مدارج حاصل نہیں کرتیں.مسجد امیر غریب کا امتیاز مٹاتی ہے.دونوں پہلو بہ پہلو کھڑے ہوتے ہیں پھر کبھی غریب آگے ہوتا ہے اور امیر پیچھے تو امیر کا سرغریب کے پاؤں سے لگتا ہے.اس طرح امراء کا تکبر ٹوٹتا ہے اور پھر مساجد میں مسلمانوں مسلم كتاب المساجد ومواضع الصلاة باب فضل كثرة الخطا إلى المساجد.مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلوۃ باب فضل صلاة الجماعة وانتظار الصلوة.

Page 114

خطبات محمود جلد (5) ۱۰۴ کو ایک دوسرے کی حالت دیکھ کر پتہ لگتا ہے کہ وہ کس حالت میں ہیں.پھر جب کمزور جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو اوروں کے ساتھ مل کر اس کی دعا بھی قبول ہو جاتی ہے تو اس مسئلے میں بڑے بڑے فوائد ہیں.اسلام کوئی ایسا حکم نہیں دیتا جو ہماری تکلیف کا باعث ہو.اگر وہ کوئی حکم دیتا ہے تو وہ ہمارے فائدہ کا ہی دیتا ہے.ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کے فرمانبردار ہوں یہ حق کا اقرار ہے صداقت کا بیان ہے اور اپنے آپ کو خالق و مالک کے قریب کرنا ہے.مساجد کا نام بھی بیت اللہ رکھا ہے.رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے فرما یا جو وضو کرتا ہے اور خدا کے گھروں میں سے کسی گھر میں نماز پڑھتا ہے اس کے لئے جنت واجب ہو جاتی ہے.عجیب عجیب طرح سے آپ نے جماعت اور مسجد کی جماعت کی فضیلت بیان کی ہے اس لئے یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے يُقِيمُونَ الصَّلوةَ فرمایا ہے.پس ہماری جماعت کے لوگ محلے تقسیم کر سکتے ہیں.جُدا جُدا جگہیں مقرر کر سکتے ہیں اور وہ با قاعدہ باجماعت نماز ادا کریں.سوا اس کے کہ کوئی خاص مجبوری ہو.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی کام مالا يطاق سپر دنہیں کیا جاتا.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو توفیق دے کہ وہ فضیلت جماعت اور مساجد کو سمجھیں اور اس پر عمل پیرا ہوں (اللهم ربّنا آمین) الفضل ۱۳ مئی ۱۹۱۶ء)

Page 115

۱۰۵ 15 خطبات محمود جلد (5) بدظنی ہلاکت کا باعث ہے (فرموده ۱۲ رمئی ۱۹۱۶ء) تشهد وتعوذ اور سورہ فاتحہ پڑھ کر حضور نے فرمایا:- بہت سے لوگ دنیا میں اس قسم کے پائے جاتے ہیں کہ ان کی طبیعت شکر گزاری اور احسان کی شناخت کی طرف مائل نہیں ہوتی.جس قدر بھی ان پر اللہ تعالیٰ کی مہربانیاں ہوں یا بندوں کی طرف سے احسان ہوں ان کی تسلی نہیں ہوتی وہ کبھی بھی اپنی حالت پر مطمئن نہیں رہتے.علاوہ اس کے اس قسم کی طبیعت کا انسان ناشکری اور احسان فراموشی کا مرتکب ہوتا ہے.ایسے انسان کو کبھی اپنے نفس کے اندر سکھ معلوم نہیں ہوتا.جلن ہی لگی رہتی ہے.اور ہر وقت اس کے لئے تکلیف اور دکھ کے دروازے ہی کھلے رہتے ہیں کیسے ہی اعلیٰ درجہ پر پہنچ جائے وہ دکھ میں ہی ہوتا ہے اور یہ عذاب اس کی اپنی جان پر ہی ہوتا ہے اگر واقعہ میں بھی کوئی اسے دیکھ دینے والا نہیں ہے اگر اس کے حقوق کی حق تلفی کرنے والی کوئی جماعت نہیں ہے تو بھی وہ آرام میں نہیں ہے اور خواہ مخواہ دکھ میں ہے.اس قسم کی طبائع کبھی خوش نہیں ہوسکتیں.بہت مالدار جن کے پاس کروڑوں روپے ہیں.ایسے نکلیں گے کہ وہ بادشاہوں کی تنخواہیں دے سکتے لیکن ان میں سے بہت ایسے ہوں گے کہ اگر ان سے پوچھو کہ تم مطمئن ہو تو وہ کہیں گے کہ ابھی ہمارا فلاں کام رُکا پڑا ہے.فلانہ ٹھیکہ پورا ہو جائے تو مطمئن ہو جائیں وہ تمام مال اور دولت جو بنکوں میں جمع ہے اس کے کسی مصرف کا نہیں بلکہ وہ دکھ میں ہے لیکن یہ دُکھ اس کا خود پیدا کردہ ہے.اللہ تعالیٰ کا احسان ہو ا.مال کے لحاظ سے اوروں پر فضیلت ہے لیکن اس کا دل ابھی اور کی خواہش میں ہے.غرض بہت سے لوگ جنت میں ہو کر اپنے آپ کو دوزخ میں ڈالتے ہیں.آرام میں ہو کر مصیبت میں پڑے ہوئے ہیں سکھوں میں ہو کر دکھوں میں ہیں.میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ ہر انسان جس جگہ پر ہے اس سے آگے ترقی نہ کرے.اسلام تو کہتا ہے ہر وقت آگے بڑھو.میرا مطلب یہ ہے کہ جو ترقی بھی وہ کرتے ہیں اس میں انہیں سکھ نہیں

Page 116

خطبات محمود جلد (5) ١٠٦ ہوتا.کڑھنا ہوتا ہے.اور یہ کہ ہم ترقی کریں آگے بڑھیں یہ تو مبارک ہے لیکن یہ کہ اپنے آپ کو دیکھی سمجھنا اسے میں برا قرار دیتا ہوں ایک انسان جو اپنی موجودہ حالت پر خوش ہے وہ خیال کرتا ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے.یا دنیا والوں میں سے کسی کے احسان سے خوش ہے اور اس خوشی میں اور کوشش کرتا ہے.اور آگے بڑھنے کے لئے تیاری کرتا ہے تو وہ بہت اچھی بات ہے لیکن جوا اپنی حالت کو دکھ ہی سمجھتا ہے وہ کبھی آرام میں نہیں ہوتا.اور احسان فراموشی کے لحاظ سے خواہ خدا کا ہو یا انسانوں کا یہ شخص عذاب کا مستحق ہے ایک لوگوں کا مال چھین لینے والے انسان سے تعلق رکھنے والا انسان کبھی خوش نہیں ہو سکتا.لیکن ایک مومن مسلمان کا معاملہ تو ایسے خدا کے ساتھ ہے جو رَبُّ العالمین ہے انسان تو انسان چھوٹے سے چھوٹے کیڑوں کے ساتھ اس کا معاملہ ہے کہ حمد ہی حمد اس کی طرف منسوب ہوتی ہے.انسان جب ایک گھوڑے یا گدھے کے ساتھ خدا کے معاملے پر غور کرتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی.ذلیل سے ذلیل.حقیر سے حقیر چیز خدا کی شفقت اور احسان کے نیچے ہے.اکثر انسانوں کی حرص کو دیکھ کر مجھے خیال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جو غلہ پیدا ہوتا ہے اگر سب کا سب غلہ ہی پیدا ہوتا تو انسان تمام کو اپنے گھر میں ڈال لیتا اور بیل کو چرنے کے لئے جنگل میں ہانک دیتا اور اس کو ذرا بھی نہ دیتا لیکن اسے تو رب العالمین نے پیدا کیا تھا.انسان کے لئے دانہ اور جانوروں کے لئے توڑی نکال دی.اب اگر انسان اسے محروم کرنا چاہے بھی تو محروم نہیں کر سکتا.بہر حال اسے دینا ہی پڑے گا.ہر چیز میں یہی حال ہے.چیونٹی کو کیسا علم عطا کیا ہے.کیسا تمدن دیا ہے بے نظیر تمدن ہے.انسان میں بھی وہ نہیں پایا جاتا.یہ اس میں فطرتی ہے اور انسان کے اپنے اختیار میں چھوڑ دیا گیا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ اس تمدن کے لئے چیونٹی قابل ستائش نہیں لیکن خدا تعالیٰ کی ربوبیت کا پتہ چلتا ہے اگر ایک چیونٹی کو ایک دانہ ملتا ہے تو وہ خود نہیں کھائے گی قوم کے خزانے میں داخل کر دے گی.وہاں سے پھر جب کھائے گی تو سب اکٹھی کھائیں گی.پھر خواہ کوئی زیادہ کھائے یا کم.اور لانے کے لئے یہ نہیں کہیں گی کہ فلاں زیادہ لائی ہے اور فلاں کم.کیونکہ ہر ایک نے دیانت سے کام کیا اس لئے ہر ایک کا حق ہے.جتنا کھا سکے کھائے یہی تمدن ہے.جس نے انہیں بچا یا ہوا ہے کیونکہ

Page 117

خطبات محمود جلد (5) 1.2 وہ بہت کمزور جانور ہے.بہت سے کیڑے تمدن سے قائم ہیں ان میں انسانوں کی طرح ایک مدنیت ہے اور وہ ان میں فطرتا پیدا کی گئی ہے.شہد کی مکھیوں اور بھڑوں میں اور بہت سے جانور اسی قسم کے ہیں کہ ان میں اور اور ذرائع مقرر ہیں.مگر ہر ایک کی پرورش کے لئے سلسلہ اور انتظام پیدا کیا ہے.غرض حقیر حقیر چیزوں کو دیکھ کر الحمد للہ رب العالمین منہ سے نکلتا ہے.حقیر سے حقیر چیز کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے احسان کے نیچے لیا ہوا ہے ایسے خدا پر ایمان لانے والا کب خیال کر سکتا ہے کہ میرے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے کیونکہ وہ ہر حالت میں یقین رکھتا ہے کہ میرے ساتھ بہت اچھا معاملہ ہورہا ہے.باقی رہیں یہ خواہشیں کہ میں اور ترقی کروں یہ جہنم نہیں ہوتیں یہ خوشی کا موجب ہی ہوتی ہیں.اور راحت ہی ہوتی ہیں.جہنم سے انسان کی کوئی راحت نہیں رہتی.ایک بادشاہ کے رات اور دن جب وہ اپنی حالت پر مطمئن نہیں ہوتا.انگاروں پر کٹتے ہیں.لیکن ایک فقیر جس کے بدن پر کپڑا نہیں ہے وہ جب اپنی حالت پر مطمئن ہوتا ہے تو وہ بادشاہ ہرگز اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.جنت اور دوزخ انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے اور اپنے ہاتھ سے انسان ان دونوں کے دروازے کھولتا ہے.خود دوزخ کا دروازہ اپنے اوپر کھولتا اور پھر چیخ و پکار کرتا ہے.تم خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور حکمتوں پر غور کرو اور غور کرو کہ تمہیں تمام جہان کی مخلوق سے اعلیٰ بنا یا ہے تو پھر تم کبھی نہیں گڑھ سکتے اور تمہاری زندگی خوشی کی زندگی ہو سکتی ہے یہ دوزخ تمہاری اپنی پیدا کردہ دوزخ ہے اور جنت بھی تمہاری اپنی پیدا کردہ.حدیث میں آتا ہے.ہر انسان جو پیدا ہوتا ہے اس کے لئے جنت میں بھی اور دوزخ میں بھی محل بنا ہوا ہوتا ہے.اس حدیث کا یہی مطلب ہے.دونوں محل موجود ہیں تیار کر کے بتا دیئے ہیں.اگر وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ طاقتوں سے کام نہ لے کر اللہ تعالیٰ پر بدظنی کر کے دنیا میں زندگی بسر کرتا ہے تو وہ ہلاکت اور کفر کی زندگی ہے اور اگر وہ خدا تعالیٰ کے احسانات کو دیکھتا اور ان کی قدر کرتا ہے تو اس کے لئے وہی جنت ہے.نفس کے اندر جو خوشی پیدا ہوتی ہے.بیرونی خوشی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.اگر اس کو آگ میں بھی ڈال دیا جائے تو وہ آگ بھی اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی.بعض دفعہ بیماریاں بھی خوشی کا موجب ہو جاتی ہیں.ایک عورت کو ایک بیماری تھی.ایک دن حضرت خلیفہ اول

Page 118

خطبات محمود جلد (5) ۱۰۸ کے پاس آئی.بہت جنسی پوچھا کیوں ہنستی ہو.کہنے لگی میرا بیٹا مر گیا ہے.کچھ دنوں کے بعد پھر آئی اور پھر اسی طرح ہنسنا شروع کیا.پھر پوچھا تو کہا کہ میرا دوسرا بیٹا بھی مر گیا.گوا سے ایک بیماری تھی.مگر اس کے لئے راحت ہو گئی.جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا تھا.اب اگر وہ رنج محسوس کرتی تو اسے اور تکلیف ہوتی تو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں.اسی لئے تو فرمایا فلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة : ٣٩) ان کو خیال ہوتا ہے کہ ہم نے ایسی ہستی کے ہاتھ میں اپنے آپ کو سپرد کیا ہوا ہے جو ظالم نہیں دیکھو اگر مسافر جا رہے ہوں.اور انہیں ایک راستہ جاننے والا راستہ بتانے کے لئے مل جائے تو وہ مطمئن ہو جاتے ہیں.ایک اچھے لائق استاد کے سپرد لڑکے کر کے لوگ مطمئن ہو جاتے ہیں.یہ تو انسانوں کا حال ہے تو رب العالمین.رحمن رحیم.مالک یوم الدین کے سپر د جو اپنا معاملہ کر دے اس کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے اس کو خواہ کس قدر بھی تکالیف آدیں.تو وہ پرواہ نہیں کرتا.کیونکہ وہ خیال کرتا ہے میرا رہنما مجھے ہر حالت میں جنت کی طرف لے جا رہا ہے.بہت لوگ ہیں کہ انہوں نے اپنے نفس پر غور نہیں کیا.ان طاقتوں پر غور کرتے جو خدا نے ان میں پیدا کی ہیں.وہ ان احسانات پر غور کرتے جو اللہ تعالیٰ نے ان پر کئے تھے.تو اس عذاب میں نہ پڑتے.بہت لوگ ہیں جو لکھتے ہیں ہم ہلاک ہو گئے تباہ ہو گئے.کیوں ہوئے.جب خدا نے تمہارے اپنے نفس کے اندر جنت رکھی تھی کہ تم بغیر آنکھیں کھولنے اور ہاتھ پاؤں ہلانے کے اس جنت کو کھول سکتے تھے.تکالیف جو آتی ہیں وہ انسان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتیں.وہ خیال کر سکتا ہے کہ یہ مجھے جگانے کے لئے آتی ہیں.مثلاً ایک پہاڑ پر چلتے ہوئے ایک شخص سو جاتا ہے اور اس کو اس کا رہبر جگا دیتا ہے تو بے شک اس جگانے سے اسے تکلیف ہوئی.لیکن یہ اسے متنبہ کیا گیا کہ ہوشیار ہو جاؤ.خدا تعالیٰ کی طرف سے جو تکلیف آتی ہے وہ بھی ہوشیار کرنے کے لئے آتی ہے.اور اس سے بتایا جاتا ہے کہ تم اپنے اوپر جنت کے دروازے بند کرنے لگے تھے.ہوشیار ہو جاؤ غرض جو لوگ شکایت کرتے ہیں ان کی اپنی غلطی ہے.جنت تو ہمارے نفس کے اندر ہے وہ بڑھتی ہے تو اتنی بڑھتی ہے کہ قبر میں بھی ساتھ جاتی ہے.محشر میں بھی ساتھ ہوگی اور پھر استقبال کو بھی آئے گی.مگر وہ خدا تعالیٰ پر یقین کرنے

Page 119

خطبات محمود جلد (5) 1+9 سے حاصل ہوتی ہے.بہت انسان بدظنی کر کے اپنے آپ کو ہلاک کرتے ہیں.خُدا تعالیٰ پاک ہے انسان کو اس نے اعلیٰ درجہ کی مخلوق پیدا کیا ہے.حقیر سے حقیر چیز کی اتنی ربوبیت ہے تو انسان کی کیوں نہ ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں اور دوسرے بھائیوں کو توفیق دے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کو سمجھیں اور اس دنیا سے اصل جنت کو حاصل کریں.(اللَّهُمَّ رَبَّنَا آمِين) (الفضل ۱۶ رمئی ۱۹۱۶ء)

Page 120

خطبات محمود جلد (5) 11.16 جماعت کی برکات (فرموده ۲۶ رمئی ۱۹۱۶ء) مجھے افسوس ہے کہ پچھلا خطبہ جمعہ قلمبند نہ کیا جاسکا جو نہایت اہم نصائح پر مبنی تھا.اور جس میں حضور نے جماعت کو بتلایا تھا کہ جب تک اس کے تمام افراد کام میں نہ لگ جائیں گے اور تمام ان ذرائع سے کام نہ لیں گے جو کسی مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہوتے ہیں اس وقت تک کامیابی نہیں ہوسکتی.پھر اسی سلسلہ میں جماعت قادیان کو بالخصوص نصیحت فرمائی کہ وہ ایثار اور کام میں انہماک کا نیک نمونہ دکھا ئیں.یہاں اور قرب و جوار کے لوگوں سے تعلقات محبت قائم کریں انہیں اپنے کاموں اور تجویزوں میں شریک کر کے رشتہ اتحاد مضبوط کریں.بہر حال یہ خطبہ بھی اسی پچھلے خطبہ کے سلسلے میں ہے“.(ایڈیٹر ) تشهد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ پڑھ کر فرمایا:- بہت لوگوں نے مختلف مواقع پر ہجوم دیکھے ہوں گے.ہر علاقہ میں قریبا میلے ہوتے ہیں جہاں لوگ جمع ہوتے ہیں.مسلمانوں کے لئے تو ہر جمعہ کو ہجوم ہوتا ہے.پھر ہر سال میں عیدین کے موقعہ پر تمام اردگرد کے لوگ بھی اکٹھے ہوتے ہیں.غرض ہر علاقہ اور ہر ملک کے لوگوں میں مختلف طرز پر کہیں مذہبی رنگ میں اور کہیں دنیاوی رنگ میں اجتماع مخلوق ہوتا ہے.ایسے موقع پر جب کبھی جگہ تنگ ہوتی ہے تو یہ بات پیدا ہو جاتی ہے کہ لوگ اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ لگ جاتے ہیں کہ گویا ایک دیوار بنی ہوئی ہے.پھر جب وہ ہجوم کسی طرف چلتا ہے تو تمام لوگ آپس میں ایسے چپکے ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے سے الگ نہیں ہو سکتے.اور تمام چھوٹے بڑے کمزور طاقتور سب آگے ہی آگے بڑھے جاتے ہیں چونکہ ہر ایک انسان اس ہجوم میں پھنسا ہوا ہوتا ہے اس لئے وہ چلنے سے رُک

Page 121

خطبات محمود جلد (5) 111 نہیں سکتا.اسی طرح دنیا میں خدا تعالیٰ نے مختلف طبائع اور مختلف مذاق کے انسانوں کا ایک بہت بڑا ہجوم پیدا کیا ہے جس طرح ان ہجوم کے موقع پر انسان ایک دوسرے کے ساتھ چپک جاتے ہیں اور الگ نہیں ہو سکتے اسی طرح دنیا کے ہجوم میں بھی جب کوئی انسان خواہ کمزور اور نا تواں ہی کیوں نہ ہو چلنے والی جماعت کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کر لیتا ہے تو اس کا قدم بھی آگے ہی آگے پڑتا ہے.اس طرح پھنسا ہوا انسان کبھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا.بلکہ اپنی طاقت کے ساتھ نہ سہی دوسروں کے سہارے ہی آگے نکل جاتا ہے.تو ایک علیحدہ رہنے والے انسان میں اور جو جماعت سے وابستہ ہوتا ہے اس میں یہ فرق ہے کہ علیحدہ رہنے والا انسان جس بات کے لئے کوشش کرتا ہے اس کی کوشش اکثر دفعہ ناکام رہتی ہے.اور بہت دفعہ وہ تھک کر بیٹھ جاتا ہے.مگر وہ شخص جو جماعت سے وابستہ ہوتا ہے اگر وہ تھک جائے اور بیٹھنا بھی چاہے تو بھی نہیں بیٹھ سکتا.کیونکہ وہ جماعت کی رو میں اس طرح بہہ رہا ہوتا ہے کہ وہ اسے آگے ہی آگے لئے جاتی ہے اور بیٹھنے نہیں دیتی.یہی حال دین میں بھی ہوتا ہے اور یہی دنیا میں.وہ قومیں جو محنت اور مشقت کی عادی ہوتی ہیں ان میں بڑے سست اور کاہل لوگ بھی ہوتے ہیں مگر وہ اس بات کے لئے مجبور ہو جاتے ہیں کہ محنت کرنے والوں کے ساتھ خود بھی محنت کریں.دیکھو یورپ میں تجارت اور مال کی کثرت کی وجہ سے نیز اس لئے کہ اکثر اشیاء دیگر ممالک سے جاتی ہیں.ہر ایک چیز گراں ہوتی ہے وہاں چونکہ محنت عام لوگوں میں پھیلی ہوئی ہے اس لئے سُست طبائع کو بھی کرنی پڑتی ہے کیوں؟ اس لئے کہ محنتی لوگوں کی کثرت سے وہاں مال بہت زیادہ ہو گیا ہے اور جب مال زیادہ ہو گیا ہے تو ضرور ہے کہ اشیاء کی گرانی ہو.اس گرانی کی وجہ سے ایک شست کو بھی اپنی روٹی کمانے کے لئے ہمارے ہندوستان کے محنتیوں سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے.وہاں بارہ پندرہ گھنٹے مزدوری کرتے ہیں تو کہیں جا کر پیٹ بھرنے کے لئے روٹی کے پیسے کماتے ہیں اور یہاں چار پانچ گھنٹہ کام کرنے سے روٹی میسر آسکتی ہے وہاں گومزدوری یہاں کی نسبت زیادہ ملتی ہے مگر اشیاء کی گرانی کی وجہ سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے اس لئے سست بھی محنت کرنے کے لئے مجبور ہو جاتے ہیں.گویا عام لوگوں کی محنت کرنے کی رو میں وہ آگئے ہیں اور پیچھے نہیں ہٹ سکتے.وہ لوگ جو دریاؤں کے

Page 122

خطبات محمود جلد (5) ۱۱۲ پاس رہتے ہیں یا جن کے پاس نہریں اور نالے گزرتے ہیں.انہوں نے دیکھا ہوگا کہ کبھی پانی میں بھنور پڑتا ہے اس بھنور میں جو چیز پڑ جائے پھر وہ نکل نہیں سکتی.اسی طرح عوام کی رو میں جو انسان آجاتا ہے وہ بھی نکل نہیں سکتا اور ایک کمزور اور ناتواں انسان کے آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے آپ کو طاقتور اور مضبوط چیزوں سے باندھ لے جب وہ آگے چیزیں جائینگی تو وہ بھی آگے ہی آگے جائے گا.دنیا میں چونکہ جماعت سے بڑھ کر اور کوئی طاقت نہیں ہے اس لئے ترقی کرنے کا سب سے بہتر طریق یہی ہے کہ انسان جماعت سے اپنے آپ کو وابستہ کر لے.اس سے سست بھی آگے بڑھنا شروع کر دیتے ہیں.گو یا جماعت کے لوگ اس کے لئے سہارا ہو جاتے ہیں.جماعت کے انتظام سے داناؤں نے ایسے ایسے فائدے اٹھائے ہیں کہ دیکھ کر حیرت آجاتی ہے.نپولین ایک بادشاہ گزرا ہے اس کی نسبت مؤرخوں نے ایک عجیب واقعہ لکھا ہے وہ فرانس کا بادشاہ تھا.اس نے روس پر حملہ کیا.روسیوں نے یہ طریق اختیار کیا کہ اپنے گاؤں اور شہروں کو جلاتے جاتے اور آگے آگے نکلتے جاتے.چونکہ روس کا ملک بہت وسیع ہے اور اس کا شمالی حصہ ایسا خطر ناک ہے کہ اگر کوئی واقف کا رنہ ہو تو برف کی وجہ سے انسان ہلاک ہو جاتے ہیں اس لئے وہاں تک پہنچ کر نپولین کی بہت سی فوج تباہ ہوگئی.اس وقت روسیوں نے نپولین کی فوج پر حملے کرنے شروع کر دیئے.اور اسے بہت تنگ کیا.حتی کہ وہ واپس ہونے پر مجبور ہوگئی اور اسے بہت جلدی واپس آنا پڑا.راستہ میں ایک جگہ ایسی تنگ ہوئی کہ بیٹھنے تک کے لئے جگہ نہ میسر ہوسکی کیونکہ تمام اردگرد دلدل تھی.اگر زمین پر بیٹھیں تو کپڑے اور ہتھیار کیچڑ سے بھر جاتے تھے اور اگر نہ بیٹھیں تو اتنے تھک گئے تھے کہ چلنے کی طاقت نہ تھی اس وقت نپولین نے یہ تجویز کی کہ وہاں ایک کرسی تھی اس پر ایک شخص کو بٹھا دیا.دوسرے کو اس کے گھٹنوں پر.تیسرے کو دوسرے کے گھٹنوں پر حتی کہ اس طرح ایک وسیع حلقہ میں لوگوں کو بٹھا دیا.آخری آدمی کے گھنٹوں پر اس پہلے شخص کو بٹھا کر کرسی اس کے نیچے سے نکال لی اور اس پر خود بیٹھ گیا.اس طرح تمام فوج نے آرام بھی کر لیا اور سامان بھی خراب نہ ہوا.تو جماعت کے ساتھ وابستہ ہونے میں بہت سی خوبیاں ہوتی ہیں اور بعض تو ایسے فوائد پہنچتے ہیں.جن کا

Page 123

خطبات محمود جلد (5) ۱۱۳ پتہ بھی نہیں لگتا کہ یہ بھی کوئی بوجھ تھا جو ہلکا ہو گیا ہے.لیکن اگر اس کام کو فرڈ ا فرڈ ا کرنے لگو تو بہت مشکل پیش آجاتی ہے.دنیا میں انسان کے لئے جتنی ضروریات زندگی ہیں ان کو اگر ایک انسان فردا فردا مہتا کرنے لگے تو کس قدر مشکل کا سامنا ہو مگر تمام دنیا کے اجتماع نے ان کا مہیا ہونا بہت آسان کر دیا ہے ہم نے بچپن میں سکول میں ایک قصہ پڑھا تھا کہ کس طرح مل کر کام کرنے میں بظاہر پتہ بھی نہیں لگتا اور کام بھی ہو جاتا ہے.وہ قصہ والا لکھتا ہے کہ ایک شخص نے اپنے بھتیجے کو کہا کہ کل تمھیں ہم ایک ایسالڈو دیں گے جو ایک لاکھ آدمیوں نے بنایا ہوگا اس بات کو سنکر وہ بہت خوش ہوا.دوسرے دن اس امید پر کھانا بھی نہ کھایا کہ اتنے آدمیوں کا بنایا ہو ا جو لڈو ہو گا وہ بہت بڑا اور نہایت عمدہ ہو گا.اس لئے اسی کو کھاؤں گا.دوسرے دن جب اس کے سامنے لڈور کھا گیا تو وہ وہی تھا جو بازار میں بکتا ہے اس نے کہا کہ آپ تو کہتے تھے کہ ایسا لڈو دیں گے جو لاکھ آدمی نے بنایا ہوگا اور یہ ایسا ہے کہ ایک انسان بھی ایسے ایسے کئی لڈو دن میں بنا سکتا ہے.اس نے بتانا شروع کیا کہ دیکھو اس میں کون کون سی چیزیں پڑی ہیں.پھر ان کے مہیا کرنے میں کتنے آدمیوں کی محنت صرف ہوئی ہے.اس طرح اس نے بہت سے انسان گنا دیئے.واقعہ میں بات بھی ٹھیک ہے اگر فرڈ افرڈاہر ایک انسان لڈو بنانے کی کوشش کرے.تو اُسے پتہ لگ جائے.کہ کس قدر اس کے لئے محنت کی ضرورت ہوتی ہے یوں تو ایک بہت معمولی چیز سمجھی جاتی ہے.اور پیسے کے دو دو خرید لئے جاتے ہیں.لیکن اس کا سارا کام کوئی خود کرے تو اسے پتہ لگے کہ یہ ایسا مشکل ہے کہ حکومتوں کا فتح کرنا بھی ایسا نہیں.اسی طرح روٹی کو دیکھ لو اب تو بازار سے آٹا خرید لیا جاتا ہے اور پکا کر کھالی جاتی ہے.لیکن اگر ایک انسان اس کے تمام اسباب کو خود تیار کرے اور پھر غلہ جمع کرے تو ممکن ہے کہ اس کی تمام عمر ختم ہو جائے اور وہ روٹی نہ تیار کر سکے.اب جس قدر آسانیاں ہیں یہ اسی اجتماعی قوت کا نتیجہ ہیں جو دنیا میں کام کر رہی ہے.پس جب کوئی شخص جماعت میں شامل ہو جاتا ہے تو ایک تو یہ کہ اگر وہ ست ہو تو بھی محنت اور مشقت کرنے لگ جاتا ہے دوسرے جو کام اس کے لئے ناممکن ہوتا ہے وہ بھی ممکن ہو جاتا ہے اور ایسے کام جس کو انسان اگر ساری عمر بھی لگا رہے تو نہیں کر سکتا تقسیم عمل میں آکر اس آسانی

Page 124

خطبات محمود جلد (5) ۱۱۴ سے کر لیتا ہے کہ اسے کسی قسم کا دکھ محسوس ہی نہیں ہوتا.مگر بہت انسان ایسے ہیں جو سوچتے نہیں اور اس بات کی فکر نہیں کرتے.حضرت مظہر جان جاناں کی نسبت لکھا ہے کہ کوئی شخص ان کے پاس تحفہ کے طور پر کچھ لڈولا یا.انہوں نے ان میں سے دو اٹھا کر اپنے ایک مرید کو دیئے اس نے کھالئے.جب وہ شخص چلا گیا تو وہ اس سے پوچھنے لگے کہ وہ لڈو کہاں ہیں اس نے کہا کہ میں نے تو کھا لئے.فرمایا کیا دونوں کھا لیے.اس نے کہا ہاں دونوں کھالیے.آپ بار بار یہی سوال کرتے اور وہ یہی جواب دیتا.آخر اس نے کہا کیا لڈو کھانے کی کوئی اور ترکیب تھی.جو آپ مجھ سے بار بار یہی پوچھتے ہیں.آپ نے فرمایا.ہاں.اس نے کہا کہ مجھے بتائی جاوے.فرمایا.کسی دن بتائیں گے.ایک دن پھر جو کوئی شخص لڈولا یا.تو آپ نے ان میں سے ایک اٹھا کر کہا کہ آؤ تمہیں بتاؤں کس طرح لڈو کھانا چاہیئے لڈو لے کر انہوں نے اپنے آگے رکھ لیا اور اس سے ایک ذرا سا لیکر خدا کی حمد اور تقدیس بیان کرنا شروع کر دی.کہ خدا نے مظہر جان جاناں کے لئے اس کو اتنے آدمیوں کے ذریعہ بنایا ہے.سب انسانوں کو گنتے اور خدا کا شکر بجالا کر بہت چھوٹا سا ٹکڑا منہ میں ڈالتے.اسی طرح کرتے کرتے ظہر سے عصر کی نماز کے لئے اذان ہوگئی.آپ اٹھ کر نماز پڑھنے چلے گئے اورلڈ وو ہیں پڑا رہا.اس سے انہوں نے یہ بتایا ہے کہ انسان ہر وقت کھاتا پیتا ہے مگر اس کا دل کبھی شکر گزار ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور نہیں گرتا.گو انسان کے لئے ہر روٹی کا لقمہ اور ہر پانی کا گھونٹ اللہ تعالیٰ کی آیت ہے جس کا اسے شکر گزار ہونا چاہیئے لیکن وہ گلاس پر گلاس پیتا اور روٹی پر روٹی کھاتا ہے مگر خیال بھی نہیں کرتا کہ خدا نے اس پر کس قدر فضل اور رحم کیا ہوا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سب انتظام کھانے پینے کا اسے خود نہیں کرنا پڑتا.اگر وہ خود کرتا تو پانی کا ایک گھونٹ اور روٹی کا ایک لقمہ بھی اس سے تیار نہ ہوسکتا.غرض جماعت کے کاموں اور تقسیم عمل میں بڑی بڑی برکات ہوتی ہیں.پچھلے خطبہ جمعہ میں میں نے بتایا تھا.کہ کامیابی کے لئے ان راہوں کو اختیار کرنا ضروری ہے جو خدا تعالیٰ نے انسانوں کی کامیابی اور ترقی کے لئے مقررفرمائی ہیں اور ان کے اختیار کئے بغیر کوئی قوم کامیاب نہیں ہوسکتی.کوئی انسان ہاتھ پر روٹی رکھے رہنے کی وجہ سے کبھی سیر نہیں ہوسکتا.اور پانی کا گلاس پکڑے رکھنے سے اس کی پیاس نہیں بجھ سکتی.

Page 125

خطبات محمود جلد (5) ۱۱۵ تا وقتیکہ اس کے منہ میں نہ پڑے.جب چھوٹی چھوٹی باتوں کا یہ حال ہے تو جو بڑی باتیں ہیں یعنی دین کی اشاعت اور صداقت کا پھیلانا.اس کے لئے تقسیم عمل کی کیوں ضرورت نہیں ہے ایک قوم کا بڑھا کر اوپر لے جانا اور مردنی چھائی ہوئی قوم میں زندگی کی روح پھونکنا کوئی چھوٹا سا کام نہیں ہے اس کے لئے ایک جماعت کی کوشش سعی اور محنت درکار ہے.دیکھو خدا تعالیٰ کی طرف سے جس قدر نبی دنیا میں آتے ہیں وہ آکر ایک جماعت تیار کرتے ہیں اور ایسی جماعت کا تیار کرنا نبی کی صداقت کی دلیل ہے اور یہ جماعت آہستہ آہستہ بنتی ہے.ایسا نہیں ہوتا کہ جب کوئی نبی آیا ہو تو سب نے امنا صدقنا کہہ دیا ہو.آہستہ آہستہ جماعت بنتی ہے.اگر نبی کی جماعت نہ ہو تو تبلیغ کا کام نہیں پھیل سکتا.دیکھو ساری دنیا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو نہیں پہنچے.آپ کے صحابہ ہی نے اشاعت اسلام کی ہے اگر وہ لوگ اس وقت یہ کہتے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی کام ہے.ہم کیوں کریں تو کبھی اسلام اس طرح نہ پھیلتا.اور نہ وہ اس طرح کامیاب ہوتے.انہوں نے جس قدر ترقی کی اسی وجہ سے کی کہ ہر ایک نے اسلام کی اشاعت کو اپنا فرض سمجھا اور جس رنگ میں کسی سے ہوسکا اسی رنگ میں اس کی اشاعت کے لئے اُٹھ کھڑا ہوا.ہماری جماعت کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس بات کو سمجھیں اگر کوئی فردا فرڈ ا کام کرتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں کام میر انہیں فلاں کا ہے.تو وہ یا در کھے کبھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکے گا.اس بات کو خوب یا درکھو کہ تمہارے لئے وہی دن کامیابی کا ہوگا اور اسی دن تمہارا دشمن اپنی جگہ چھوڑ کر پیچھے ہٹے گا جبکہ تم میں سے ہر ایک انسان یہ سمجھ لے گا کہ سلسلہ کی ترقی کے لئے کوشش کرنا میرا ہی فرض ہے.آپ لوگوں میں سے ہر کسی کو نہ صرف یہ سمجھنا چاہئیے کہ یہ کام میرا بھی ہے بلکہ یہ سمجھنا چاہیئے کہ یہ کام میرا ہی ہے.ہر شخص اپنے مذاق کے مطابق اس کام کو اپنے ذمہ لے لے.میں ا نے دیکھا ہے کہ بعض جگہ جب ستی سے کام ہوتا ہے اور اس کے متعلق کسی سے دریافت کیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے وہاں کا فلاں سیکریٹری ہے اس لئے ایسا ہوتا ہے گو یا اس کے نز د یک سلسلہ کا کام کرنا صرف سیکریٹری کا ہی فرض ہے وہ صرف نام رکھا لینے سے ہی احمدی ہو گیا ہے اسے کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے.اس قسم کے نقائص کی وجہ سے کئی جگہ کی جماعتیں بجائے آگے بڑھنے کے پیچھے ہٹ رہی ہیں.خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو جماعت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے متعلق

Page 126

خطبات محمود جلد (5) ١١٦ کس قدر سمجھایا ہے.سورہ فاتحہ میں ترقی کے متعلق دعائیں سکھلائی ہیں لیکن تین جگہ متکلم کی ضمیر آئی ہے اور تینوں جگہ جمع ہے.ایک جگہ بھی واحد نہیں گویا اس سے یہ بتایا ہے کہ اکیلا انسان کچھ نہیں کر سکتا.جماعت کے ساتھ ہو کر کام کرنا چاہئیے.پس کسی جماعت کی ترقی فردا فردا کام کرنے سے نہیں ہؤا کرتی اور جب تک اس کا ہر ایک فرد اپنا فرض نہ سمجھے کامیابی نہیں ہو سکتی پس کسی کو یہ نہیں سمجھنا چاہیئے.کہ فلاں کام سیکریٹری کا ہے بلکہ اسے اپنا سمجھنا چاہئیے اگر سیکریٹری کام نہیں کر سکتا.تو وہ کرے نہ کہ اس کی کمزوری کو دیکھتا رہے مثلاً اگر ایک شخص فوج میں دشمن کے مقابلہ پر کھڑا ہو اور وہ کمزور ہوتو دوسرے کا فرض ہے کہ اس کی جگہ کھڑا ہو جائے.کیونکہ وہ اگر اس کی جگہ کھڑا نہیں ہوگا تو اس کا اپنی جگہ کھڑا ہونا بھی لغو ہوگا.پس ترقی کے لئے طاقتوروں کا فرض ہے کہ کمزوروں کو اپنے ساتھ کھینچ لیں.اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے.تو معلوم ہوا کہ ان کی جماعت ہی نہیں.اگر ان میں سے بعض افراد گر گئے تو معلوم ہوگاوہ بظاہر جماعت کہلاتے تھے مگر دراصل پراگندہ تھے لیکن اگر وہ کمزوروں کو بھی اپنے ساتھ رکھیں گے تو ثابت ہوگا کہ ان کی جماعت ہے.غرض ابھی ہمارے لئے بہت کام باقی ہے اس وقت تک کوئی جماعت جماعت نہیں کہلا سکتی.جب تک کہ ہر ایک شخص تبلیغ کو اپنا فرض نہ سمجھے اور اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ مل نہ جائے.کہ اگر کوئی درمیان میں سے سرکنا چاہے تو بھی نہ سرک سکے.اللہ تعالیٰ یہاں کے لوگوں کو بھی اور باہر کے لوگوں کو بھی اس بات کے سمجھنے کی توفیق دے کہ جو کام ہمارے سپرد ہے اس کو سمجھیں اور اس کے پورا کرنے کی کوشش کریں.اور سورۂ فاتحہ میں جو انعام آئے ہیں.ان کے وارث بنائے.( آمین ثم آمین ) الفضل ۳۰ رمئی ۱۹۱۶ء)

Page 127

۱۱۷ 17 خطبات محمود جلد (5) اصلاح کے لئے محاسبہ نفس ضروری ہے فرموده ۲ جون ۱۹۱۲ء) تشہد وتعوذ کے بعد سورہ فاتحہ اور مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.وَفِي الْأَرْضِ أَيتُ لِلْمُوقِنِينَ وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (الدريت: ۲۱-۲۲) اور فرمایا.بعض تمدنی غلطیاں جو بظاہر چھوٹی چھوٹی معلوم ہوتی ہیں بہت بڑے خطرناک نتائج کا باعث ہو جاتی ہیں اور بہت سے امور ایسے ہیں جنہیں ابتداء انسان چھوٹا سمجھتا ہے لیکن نتائج کے لحاظ سے بہت بڑے ہوتے ہیں.موجودہ جنگ ہی کو دیکھو اس کا وہ محرک جو بظاہر دنیا کو بتایا جاتا ہے.( واللہ اعلم اصلیت کیا ہے ) ایسا خفیف سا ہے کہ دیکھ کر حیرت آتی ہے کہ ایسا معمولی امر بھی ایسی خطرناک جنگ کا باعث ہو سکتا ہے.ایک ملک کے شہزادہ کو اپنے ملک اور اپنی رعایا کے لوگوں نے قتل کر دیا.اس ایک قتل پر آگ بڑھنی شروع ہوئی چونکہ وہ ولی عہد تھا اس لئے اس کے قاتلوں کا بڑا سخت جرم تھا.لیکن اس کے لئے زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا تھا کہ ان کو سخت سے سخت سزائیں دی جاتیں قتل کئے جاتے.جائدادیں ضبط کی جاتیں.قید کئے جاتے خواہ وہ ہزاروں ہی ہوتے تب بھی اس واقعہ کی یہی شکل ہو سکتی تھی لیکن اس کی تحقیقات کرتے ہوئے اس سلطنت کو خیال پیدا ہوا کہ پاس کی جو چھوٹی ریاست ہے.اس کی تحریک سے یہ قتل ہوا ہے.اس لئے اس کو دبانا چاہا.ایک اور سلطنت کے اس ریاست سے تعلقات تھے.اس نے کہا.کیا تم نے اس کو کمزور سمجھ کر دبانا چاہا ہے ہم اس کے مددگار موجود ہیں.جب ادھر سے ایسا ہوا تو ایک اور سلطنت اس کے مقابلہ کے لئے اُٹھ کھڑی ہوئی.اسی طرح ہوتے ہوتے کچھ سلطنتیں ایک طرف ہو گئیں اور کچھ دوسری طرف.اور اس طرح تمام دنیا لے آسٹریا (مرتب)

Page 128

خطبات محمود جلد (5) ۱۱۸ میں آگ لگ گئی.دیکھو ایک آدمی کا قتل تھا.گو وہ آدمی بہت بڑا تھا ایک سلطنت کا ولیعہد تھا.لیکن پھر بھی ایسا نہیں تھا کہ تمام دنیا میں اس کے لئے آگ لگا دی جاتی.اور کل دنیا پر کشت وخون کے دریا بہا دیئے جاتے.ایسے انسان جن کا قتل کل دنیا کا قتل ہو سکتا تھا.وہ دو ہی گزرے ہیں ایک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو سارے جہان کے لئے مبعوث کئے گئے تھے اور ایک حضرت مسیح موعود جو ان کی غلامی میں ساری دنیا کی طرف بھیجے گئے تھے ان دو کے سوا اور کوئی انسان نہ نبیوں سے نہ ولیوں سے نہ مجددوں سے ایسا نہیں گزرا.حضرت موسی.حضرت داؤد - حضرت سلیمان.اگر قتل کئے جاتے.تو یہ بنی اسرائیل کا قتل تھا.حضرت مسیح ناصری کا قتل بھی بنی اسرائیل کا ہی قتل تھا صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایک ایسے وجود ہوئے تھے کہ آپ کا قتل سارے جہان کا قتل تھا.پھر آپ کا جو قائم مقام آیا.اس کا قتل سارے جہان کا قتل ہو سکتا تھا.باقی سب نبیوں میں سے کوئی ایسا نہیں ہوا تو کوئی بادشاہ یا بادشاہ بننے والا کہاں ایسا ہو سکتا ہے مگر واقعات تھے جنہوں نے مجبور کر دیا اور وہی صورت رونما ہوئی ہے جو آج کل ہم دیکھ رہے ہیں شہزادہ کو قتل کرنے والوں نے سمجھ لیا ہوگا کہ خواہ ہمیں کتنا ہی نقصان اٹھانا پڑے تا ہم اس کا نفع اس نقصان سے زیادہ ہوگا.ان کے ذہن میں یہ خیال کبھی بھی نہیں آیا ہو گا کہ یہ صورت ہو جائے گی.لیکن دیکھ لو کہاں سے کہاں تک نوبت پہنچ گئی.وہ سلطنتیں جو آجکل میدانِ جنگ میں نکلی ہوئی ہیں وہ بھی یہ خیال نہ کرتی تھیں کہ واقعات یہ صورت اختیار کر لیں گے.چنانچہ جنگ شروع ہونے سے قبل روس کے وزیر نے انگلینڈ کے وزیر اعظم کو لکھا کہ آسٹریا کے سرویہ پر دباؤ ڈالنے کی وجہ سے ہم مجبور ہیں کہ اسے مدد دیں لیکن یہ مدد سیاسی رنگ میں ہوگی اور اسی سے کام چل جائے گا کیونکہ واقعات کی صورت ایسی نہیں ہے کہ لڑائی تک نوبت پہنچے.لیکن خدا کی مصلحت نے نہ چاہا کہ ایسا ہو.اس لئے لڑائی شروع ہوگئی.یہ تو میں نے اس قسم کے واقعہ کی مثال دی ہے جو ابتداء میں کوئی بڑا نہیں معلوم دیتا تھا.مگر تمدنی امور ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کو انسان پہلے سے ہی جانتا ہے کہ نقصان دہ اور مضرت رساں ہیں مگر پھر بھی ان سے باز نہیں آتا.یہ باتیں فردا فردا کچھ ایسی بڑی نہیں

Page 129

خطبات محمود جلد (5).١١٩ دکھائی دیتیں.مگر مجموعی طور پر قوم کو تباہ کرنے والی ہوتی ہیں.بعض قوموں میں جھوٹ کی عادت ہوتی ہے جو پھیلتے پھیلتے ان کی زندگی کے ہر ایک شعبہ پر اثر ڈالنا شروع کر دیتی ہے.بعض میں غیبت.چغلی.عیب جوئی وغیرہ کی عادت ہوتی ہے.جو بڑھتے بڑھتے بہت خطرناک نتائج پیدا کرتی ہے لیکن ان باتوں کو معمولی سمجھا جاتا ہے جو ایک بہت بڑی نادانی ہے.دانا انسان کا کام ہے کہ کسی برائی کو چھوٹا نہ سمجھے کیونکہ اگر کسی ایک کو بھی چھوٹا قراردے گا تو سب کو چھوٹا ہی کہتا جائے گا.لیکن یہ ایسی خرابیاں ہیں جو ملکوں کی بربادی اور قوموں کی تباہی کا موجب ہوا کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس قسم کی باتوں کی طرف متوجہ کرنے کے لئے ایک گر بتایا ہے یہ جو غلط فہمیاں ہوتیں اور ایک دوسرے پر حملے کئے جاتے ہیں یہ بھی بڑا تباہ کن فعل ہوتا ہے.اور قوموں کو ہلاک کر دیتا ہے ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کرنا.عیب جوئی میں لگے رہنا بظاہر انسان کو چھوٹی چھوٹی باتیں معلوم ہوتی ہیں مگر یہ ایسی باتیں ہیں کہ قوم کو تباہ کر دیتی ہیں.ایک دفعہ صحابہ ایسے پاک گروہ میں سے بھی دو آدمیوں کی لڑائی سب کی تباہی کا موجب ہونے لگی تھی.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہو گئی.آپ نے خاتمہ کر دیا.دو شخص تھے ایک انصار میں سے اور ایک مہاجرین میں سے.دونوں پانی بھرنے کے لئے گئے وہاں باتوں باتوں میں تیز کلامی ہوگئی ایک نے دوسرے کو لات ماری دوسرے نے اسے چپت رسید کر دی.نتیجہ یہ ہوا کہ جنگ تک نوبت پہنچ گئی.مہاجر نے مہاجرین کو مدد کے لئے آواز دی.اور انصار نے انصار کو.دونوں طرف سے تلواریں لے کر آگئے اور قریب تھا کہ مسلمان کافروں کے گلے کاٹنے کی بجائے جو ان کے سامنے پڑے تھے آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹ کر ڈھیر کر دیتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہو گیا آپ باہر نکل آئے اور فرمایا کیا تم پھر جاہل ہو گئے ہو.آپ کے آنے سے وہ شرمندہ ہو گئے اور بات دب گئی.! تو دیکھنے میں ایک بات چھوٹی سی معلوم ہوتی ہے مگر اس کے نتائج بڑے خطر ناک پیدا ہوتے ہیں لیکن بہت لوگ اس کا خیال نہیں رکھتے اس لئے ایسی باتیں کر لیتے ہیں مگر آخر کار یہانتک ا بخاری کتاب التفسیر سورۃ المنافقین.

Page 130

خطبات محمود جلد (5) ۱۲۰ ا نوبت پہنچتی ہے کہ وہ جوش اور غضب میں آکر ہمیشہ کے لئے اپنے آپ کو اور اپنی نسل کو تباہ کر لیتے ہیں حالانکہ اگر وہ صبر اور تحمل سے کام لیں تو کام چل جاتا ہے اور زیادتی کرنے والا خود شرمندہ اور نادم ہو جاتا ہے.تمام جوشوں کا باعث محض غلط فہمی ہو ا کرتی ہے.لیکن بہت لوگ ایسے ہیں جنہوں نے یہ معیار قائم کیا ہوا ہے کہ دنیا کی سب کمزوریاں تو ہمارے اندر ہیں.باقی سب انسان مکمل ہونے چاہئیں.اس لئے ایسے لوگ اگر خود کوئی عیب کرتے تو اسے بھول چوک قرار دیتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ انسان سے غلطی ہو ہی جاتی ہے.لیکن وہی اگر دوسرا کرتا ہے تو کہتے ہیں یہ خباثت ہے.شرارت ہے.بے ایمانی ہے.دشمنی ہے.یہ بھول نہیں ہوسکتی.اپنے متعلق تو کہا جائے گا کہ کیا بندر.سور بھولا کرتے ہیں.میں انسان تھا بھول گیا.لیکن دوسرے کے متعلق بھولنا کبھی خیال میں بھی نہیں آتا.حالانکہ اگر وہ اپنے نفس میں غور کرتا تو آسانی سے سمجھ سکتا تھا کہ اگر میں بھول سکتا ہوں تو وہ بھی بھول سکتا ہے.اور اگر بھولنا ناممکن ہے اس لئے دوسرا خبیث اور شریر ہے تو میں بھی خبیث اور شریر ہوں.اصل بات یہی ہے کہ کوئی انسان نہیں جو نسیان کی مرض کے نیچے نہ ہو.حضرت آدم جو خدا تعالیٰ کا نائب اور خلیفہ تھا اس کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے.فنسی (طہ ۱۱۶) بھول گیا.اور بھولا بھی ایسے امر میں کہ جس کے متعلق اسے پہلے حکم دیا گیا تھا کہ یوں نہ کرنا تو آدم جس کو خدا نے تمام انسانوں کا باپ اور اپنا خلیفہ بنا کر دنیا میں بھیجا تھا وہ اگر بھول جاتا ہے تو اس کے بیٹے کیوں نہیں بھول سکتے اور وہ لوگ کیوں نہیں بھول سکتے جو خدا کے خلیفہ نہیں ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نسیان تھا.آپ ایک دفعہ گھر سے باہر نکلے.وہ آدمیوں کو لڑتے ہوئے دیکھا.فرمایا مجھے لیلتہ القدر کا نظارہ دکھایا گیا تھا لیکن تم کولڑتا ہوا دیکھ کر بھول گیا ہوں.لے تو جب سب سے بڑا انسان.انسانوں سے بڑا کیا.ملائکہ سے بڑا انسان بھی بھولتا تھا تو اور کون ہے جو نہ بھولے.دنیا میں کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے جس کو نسیان نہ ہو.بڑے بڑے حافظہ والے بھی بھولتے آئے ہیں.ل بخارى رفع معرفة ليلة القدر لقلاحي الناس -

Page 131

خطبات محمود جلد (5) ۱۲۱ اس وقت مسلمانوں میں اور بہت سی امراض کے علاوہ ایک یہ بھی مرض ہے کہ وہ قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف عمل کرتے ہیں.قرآن تو اس لئے آیا تھا کہ مسلمانوں کو وسط میں چلائے.چنانچہ مسلمانوں کو فرمایا.اُمّةً وَسَطًا ( البقرہ: ۱۴۴ ) کہ ان کے تمام احکام اور اعمال درمیانی راستہ پر ہوتے ہیں.مگر اس وقت مسلمانوں نے سب باتوں کی حدود کو اختیار کر لیا ہے اور وسط کو بالکل چھوڑ ہی دیا ہے احمدیوں میں بھی بہت سے تمدنی نقائص ابھی تک باقی ہیں.اور وہ اسی لئے ہیں کہ ابتداء میں چونکہ ان کی تربیت غیر احمدیوں میں ہوئی ہے.جس کا اثر ابھی تک کچھ نہ کچھ باقی ہے.ان میں ایک نقص یہ ہے کہ جب دو شخصوں کا آپس میں اختلاف ہو تو ایک دوسرے کو کہتا ہے کہ تو جھوٹ بولتا ہے حالانکہ جھوٹ ایک بہت بڑی برائی ہے.جو شخص دوسرے کو جھوٹا کہتا ہے.اصل میں وہ خود جھوٹا ہوتا ہے.کیونکہ وہ جھوٹ کو بے حقیقت سمجھتا ہے اگر بے حقیقت اور معمولی بات نہ سمجھے تو کبھی ایسی جرأت اور دلیری سے دوسرے کو جھوٹا نہ کہے.کیونکہ جو شخص کسی جرم کو برا سمجھتا ہے وہ دوسرے پر اس کو تھوپنے سے بھی ڈرتا ہے.ہمارے خلاف لاہوری مخالفوں نے ایسی ایسی باتیں لکھیں.جو بالکل خلاف واقعہ تھیں.لوگ کہتے کہ یہ جھوٹ لکھ رہے ہیں اور اس قسم کی باتوں کی کثرت کو دیکھ کر یہ کہنا بے جا بھی نہ تھا لیکن میں یہی کہتا رہا کہ ممکن ہے بھول سے لکھتے ہوں.نسیان سے لکھ دیا ہو یا تعصب اور بغض کی وجہ سے ان کے دماغ میں بات ہی اسی شکل میں آئی ہو.تو جو انسان کسی جرم کو بُرا سمجھتا ہے وہ دوسروں پر بڑھ کر الزام نہیں لگاتا.اور جو الزام لگاتا ہے وہ اس جرم کو بے حقیقت سمجھتا ہے.لیکن عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ جب دو آدمی آپس میں لڑیں گے تو ایک دوسرے کو جھوٹا کہہ دیں گے.جب گواہوں سے پوچھا جائے گا تو جس کے خلاف ان کی گواہی ہوگی وہ انہیں جھوٹا قرار دے دیں گے.حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ جھوٹ سے پہلے ایک اور بھی درجہ ہے اور وہ نسیان ہے.ایسے شخص جو جھوٹ بولنے کے عادی ہوتے اور خواہ مخواہ جھوٹ بول دیتے ہیں وہ بہت کم ہوتے ہیں.لیکن اس کے مقابلہ میں نسیان بہت زیادہ ہوتا ہے اور کوئی انسان ایسا نہیں ہے.جس کو یہ مرض نہ ہو.حتی کہ نبیوں کو بھی ہوتا ہے.پس جب تمام انسانوں کو

Page 132

خطبات محمود جلد (5) ۱۲۲ بلا استثنا کسی ایک کے نبیوں سے لیکر ادنی انسانوں تک کا یہ حال ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ یہ بات جو ہر جگہ پائی جاتی ہے جب تک جھوٹ ثابت نہ ہو جائے وہ نہ کہیں.لیکن جب کہیں جھگڑا ہوتا ہے ہر فریق یہ خیال نہیں کرتا کہ شائد فلاں سے غلطی ہو گئی ہو.یا وہ بھول گیا ہو.بلکہ یہی کہتا جاتا ہے کہ اس نے شرارت کی ہے بے ایمانی دکھائی ہے.دشمنی شروع کی ہے.اور جھوٹ بولا ہے پھر دونوں دعائیں کرتے ہیں کہ جھوٹے پر خدا کی لعنت پڑے.ممکن ہے کہ کسی پر بھی لعنت نہ پڑے اور دونوں میں سے کوئی بھی جھوٹ نہ بولتا ہو.جھوٹ تو وہ ہوتا ہے جو ایک بات کو اچھی طرح جانتے ہوئے اس کے خلاف کہا جائے لیکن جس کو ایک بات جس طرح یاد ہے اسی طرح بیان کرتا ہے تو وہ جھوٹا نہیں ہو سکتا ہاں ممکن ہے کہ نسیان کی وجہ سے اسے اسی طرح وہ بات یادر ہی ہو جو اصل کے خلاف ہو.آپس کے جھگڑے اور اختلاف تو ہر جگہ ہی ہوا کرتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیئے کہ دوسرے کو جھٹ جھوٹا شریر اور فسادی قرار دے دیا جائے.جھگڑے تو صحابہ میں بھی ہوا کرتے تھے.حضرت عمرؓ اور حضرت ابوبکر کا جھگڑا تو حدیثوں سے ثابت ہے یہ اگر جھگڑے کے یہ معنے ہیں کہ جھگڑنے والا جھوٹا ہوتا ہے تو ماننا پڑے گا کہ نعوذ باللہ ان دونوں میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے.پھر حضرت عباس اور حضرت علی کا جھگڑا بھی حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے ان میں سے بھی ایک جھوٹا قرار دینا پڑے گا.پھر حضرت عمر اور عمار کا جھگڑا ثابت ہے.عمر اور ابن مسعود کا اختلاف ثابت ہے اس لحاظ سے ان میں سے بھی ایک کو جھوٹا کہنا پڑے گا.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سے قاضی مقرر تھے.وہ بھی مقدمات کے فیصلے کے لئے ہی تھے.اگر مقدمات نہ ہوتے تو قاضیوں کے مقرر کرنے کی کیا ضرورت تھی.اس طرح ماننا پڑے گا کہ صحابہ میں سے نصف نہ سہی تہائی تو ضرور جھوٹ بولنے والے ہوں گے.مگر ہمارا تو یقین اور کامل یقین ہے کہ صحابہ میں سے ایک بھی جھوٹ بولنے والا نہ تھا.صرف نسیان تھا.جس سے کوئی انسان خالی نہیں اور نہ ہوسکتا ہے اسی وجہ سے ایک شخص کو ایک بات ایک طرح یاد ہوتی تو دوسرے کو دوسری طرح.ایسی اختلافی باتوں کا فیصلہ ا بخاری کتاب فضائل النبی باب مناقب المهاجرين

Page 133

خطبات محمود جلد (5) ۱۲۳ شاہدوں کے ذریعہ ہو جاتا ہے کہ کس کی بات ٹھیک ہے اور کس کی بھول اور نسیان کی وجہ سے ٹھیک نہیں.اور بھولنے والوں کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے.دیکھو ایک حافظ قرآن نماز پڑھاتے ہوئے قرآن کریم میں غلطیاں کر جاتا ہے.لیکن اس کے غلطی کرنے سے ایسا تو نہیں ہونا چاہیئے کہ اسے گردن سے پکڑ لیا جائے.اور کہا جائے کہ تم نے شرارت سے غلط آیت بنالی ہے قرآن کریم میں یہ کہیں نہیں ہے کیونکہ اس نے نسیان اور بھول کی وجہ سے ایسا کیا ہے نہ کہ شرارت سے.اور کوئی حافظ دنیا میں ایسا نہیں ہے جو غلطی نہ کرے.حتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن پر قرآن کریم اُترا.وہ بھی بھول کی وجہ سے پڑھنے میں غلطی کر جاتے تھے.ایک دفعہ آپ نے نماز پڑھائی تو قرآن پڑھنے میں غلطی کر دی.جب نماز سے فارغ ہو چکے تو ابی بن کعب کو فر ما یا کہ تم نے مجھے غلط پڑھنے سے روکا کیوں نہیں.انہوں نے عرض کی کہ حضور میں نے سمجھا کہ شائد خدا تعالیٰ نے اسی طرح یہ آیت نازل فرما دی ہے.جس طرح حضور نے پڑھا ہے.آپ نے فرمایا نہیں غلطی سے عا گیا ہے تمھیں مجھے روکنا چاہیئے تھا.لے تو نسیان سے کوئی آدمی بچا ہو انہیں ہے مگر جہاں کسی سے اختلاف ہوتا ہے اس بات کو نظر انداز کر کے جھٹ اس پر جھوٹ کا الزام لگا دیا جاتا ہے.ابھی تھوڑے دنوں کا ذکر ہے.ایک معاملہ میرے آگے پیش ہو ا تھا.میں نے اس کا فیصلہ کیا.وہ دونوں فریق ایک دوسرے کی نسبت یہی کہیں کہ وہ جھوٹ بولتا ہے اور ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ درست ہے پھر گواہوں سے پوچھا گیا تو ان کو بھی جھوٹا کہ دیا.میں پوچھتا ہوں.اگر تم اسی طرح ایک دوسرے کو جھوٹا قرار دینے لگو گے تو بتلاؤ تم میں سچا کون ہوا.تم سب میں اختلاف ہوتے ہیں جھگڑے ہوتے ہیں اگر اسی بات پر کوئی جھوٹا ثابت ہو جاتا ہے تو تم سارے کے سارے جھوٹے ہوئے پھر حضرت مرزا صاحب کر کیا گئے کیا چار لاکھ کی جماعت جو آپ چھوڑ گئے تھے سب جھوٹوں کی جماعت تھی.اس طرح ایک دوسرے پر الزام لگانے والے بلا واسطہ نہیں تو بالواسطہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کرنے والے ہیں.مجھے ایسے لوگوں پر بڑا غصہ اور طیش آتا ہے کہ وہ کیوں ایسا کرتے ہیں.جو شخص یہ کہتا ہے کہ فلاں میں ل بخاری کتاب الصلوۃ باب توجہ القبلۃ.

Page 134

خطبات محمود جلد (5) ۱۲۴ یہ عیب ہے.اور فلاں میں یہ عیب.تو گویا صرف وہی ایک سب جماعت میں نیک رہا اور باقی سب عیب دار ٹھہرے.اس سے میں پوچھتا ہوں کہ کیا حضرت مرزا صاحب اسی ایک کو پیدا کرنے کے لئے مبعوث ہوئے تھے.اور ان کی اس قدر کوشش اور سعی کا نتیجہ صرف وہی ایک شخص نکلا.ہر گز نہیں.وہ اپنی قدر کو دیکھے اور اپنے طرز عمل پر غور کرے کہ کس طرف جارہا ہے.اور اس کا ایسا کہنا گو یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جھوٹا اور نا کام کہنا ہے.اور وہ اپنے عمل سے احمدیت سے خارج ہو جاتا ہے.گو وہ اپنے آپ کو احمدی کہے لیکن چونکہ وہ خدا کے نبی کی پاک جماعت پر حملہ کرتا ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس جماعت میں پھوٹ پڑتی ہے اس لئے وہ احمدی نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے دوسرے پر الزام لگانے سے بچنے کے لئے مسلمانوں کو کیا ہی عجیب گر بتا دیا تھا وَفِي الْأَرْضِ أَيتُ لِلْمُوْقِنِينَ.وَفِي أنفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ کہ تم اپنے نفسوں میں ہی دیکھو.کیا تم نے کبھی کوئی غلطی نہیں کی.تم سے کبھی بھول چوک نہیں ہوئی.جب تم سے خود بھی ایسا ہو جاتا ہے.تو پھر جب کوئی دوسرا اس طرح کرے تو اس پر کیوں الزام لگاتے ہو.واقعہ میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے جو کبھی بھولا نہ بھولا نہ ہو.اور باتیں تو الگ رہیں.صبح سے اس وقت تک تم میں سے ہر ایک شخص کو جو جو واقعات پیش آئے انہیں کو اگر کوئی بیان کرنے لگے.تو ضرور ہے کہ بعض باتیں بھول جائے.اور دوسرے یاد دلا دیں.اگر کوئی ایسے حافظہ والا ہے جو پورے پورے واقعات بتا سکتا ہے تو اُٹھ کر بتائے وہی شخص جو ایک دوسرے کو جھوٹا کہتے تھے اٹھ کر بتا دیں لیکن وہ سُن لیں کہ ضرور غلطی کریں گے مگر وہ کہہ دیں گے کہ انسان ہیں غلطی ہو گئی ہے.میں کہتا ہوں جب تم انسان ہو.تو کیا وہ انسان نہیں ہیں.پھر انہیں کیوں جھوٹا کہتے ہوا ایسا کرنے والے غلطی کرتے ہیں غلطی نہیں بلکہ بیوقوفی کرتے ہیں.میں نے بیوقوفی اس لئے کہا ہے کہ ان کی اس کاروائی سے شیطان جماعت کی تباہی کا ہتھیار چلاتا ہے ایسے لوگ خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے گر پر عمل کریں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم اپنی جانوں کو دیکھو کیا تم اندھے ہو گئے کیا یہی غلطیاں تم نہیں کرتے ہو اور اپنے آپ کو جھوٹا کہلانا پسند نہیں کرتے.مگر دوسرے جب ایسا کریں تو کہتے ہو کہ جھوٹ بولتے اور شرارت کرتے ہیں کیا تم نے ان کا دل چیر کر دیکھ لیا ہوتا ہے.پھر یہ کیونکر ممکن ہے

Page 135

خطبات محمود جلد (5) ۱۲۵ کہ تم تو بھول جایا کرو.اور وہ تمہارے جیسے ہی نہ بھولا کریں.حضرت عمر اور عمار کا تیتیم کے متعلق جھگڑا ہوا تھا.حضرت عمر کہیں کہ میں کبھی اس بات کو نہیں مانو نگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل جنابت کی بجائے عذر کے وقت تیم کو جائز قرار دیا ہو.لے حالانکہ عمار ٹھیک کہتے تھے.دوسرے راویوں سے بھی ان کی بات کی تصدیق ہوتی ہے.مگر حضرت عمر کو یاد نہیں رہا تھا.اور وہ اپنی بات پر اس قدر مُصر تھے کہ لڑنے کو تیار ہو جاتے تھے.عمار ا پنا واقعہ پیش کرتے کہ میں نے ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا.لیکن وہ نہیں مانتے تھے بعض دفعہ کوئی بات حافظہ سے اس طرح اُتر جاتی ہے کہ اس کے متعلق خیال بھی نہیں آ سکتا کہ کبھی ہوئی تھی.یہی بات حضرت عمر کو پیش آئی.اصل بات یہ ہے کہ حافظہ کے لئے آنکھیں.کان.ناک.زبان لمس وغیرہ حواس ہیں ان کے ذریعہ انسان کو ہر ایک بات یاد رہتی ہے مثلاً سختی کا چھونے سے پتہ لگتا ہے لیکن بعض لوگوں کے جسم ایسے سخت ہوتے ہیں کہ انہیں چھونے سے پتہ نہیں لگتا.اسی طرح بعض چیزیں دیکھنے سے یا د رہتی ہیں لیکن بعض کی آنکھیں کمزور ہوتی ہیں یا ایسا ہوتا ہے کہ ان کی عادت غور سے دیکھنے کی نہیں ہوتی.اس لئے انہیں بعض چیزیں یاد نہیں رہتیں.مثلاً میری آنکھیں کمزور ہیں اس لئے زیادہ دور کی چیزیں مجھے دکھائی نہ دیں گی.لیکن ایک اور شخص جس کی نظر مجھ سے تیز ہوگی وہ مجھے سے زیادہ دور کی چیزیں دیکھے گا.اب اگر کوئی ہم دونوں سے پوچھے کہ تمہارے سامنے کیا کیا چیزیں ہیں تو ہمارے بیان کرنے میں ضرور اختلاف ہوگا.پھر جس کی نظر کمزور ہوا سے چیزیں بھی کم یا درہتی ہیں.کیونکہ اس کے دماغ پر دیکھنے کا اثر کم پڑتا ہے.ہاں اگر وہ ایک چیز کو بار بار دیکھے تو جس طرح پھیکی سیاہی پر بار بار قلم پھیرنے سے شوخ سیاہی ہو جاتی ہے اسی طرح اس کے بار بار کے تکرار سے اس کے دماغ پر گہرا اثر پڑتا ہے.اس لئے وہ اسے یا د رہتی ہے.اسی طرح بعض لوگوں کے کان کمزور ہوتے ہیں وہ ایک آدھ دفعہ سُنی ہوئی بات کو یاد نہیں رکھ سکتے.مگر بار بار سننے سے خوب یادر کھتے ہیں وہ لوگ جن کی آنکھیں کمزور ہوتی ہیں اور حافظہ بہت تیز ہوتا ہے ان کے بخاری کتاب التیمم باب التيتم هل ينفخ فيهما.

Page 136

خطبات محمود جلد (5) ۱۲۶ حافظہ کے تیز ہونے کی یہی وجہ ہے کہ چونکہ وہ آنکھوں کی بجائے کانوں کو زیادہ استعمال کرتے ہیں اس لئے شنوائی کا اثر ان کے دماغ پر بہت گہرا پڑتا ہے اسی طرح ایک بہرہ آنکھوں دیکھی چیز کو بہ نسبت سُنی ہوئی کے زیادہ یادرکھتا ہے کیونکہ وہ زیادہ غور سے دیکھنے کا عادی ہوتا ہے.اور کانوں کا کام بھی آنکھوں سے ہی لیتا ہے.اکثر اشیاء کے یادرکھنے کے متعلق انسان دو چیزوں سے کام لیتا ہے.اول آنکھوں سے دیکھتا ہے.دوم کانوں سے سنتا ہے.مثلاً ایک شخص کا نام عمر الدین ہے وہ جب سامنے آئے تو کان اس کا نام سنکر کہتے ہیں کہ یہ عمرالدین ہے.اور آنکھیں اس کی شکل کا نقشہ اتارتی ہیں.اگر یہی شخص ایک پردہ کے پیچھے کھڑا ہوکر اپنا نام بتائے تو ممکن ہے کہ وہ شخص اس کو نہ پہچان سکے جس کے کانوں نے اس کی آواز کو نا اور جس کی آنکھوں نے اس کا نقشہ اتارا.لیکن ایک نابینا انسان جس نے صرف کانوں کے ذریعہ اس کو پہچانا تھا اس کی آواز سنکر فوراً معلوم کر لے گا.کیوں؟ اس لئے کہ جس وقت اس نے نام سنا تھا.تو بہ نسبت ایک بینا شخص کے اس کی قوت سامع نے اس کے دماغ پر بہت گہرا اثر ڈالا تھا.پس ان حواس کے ذریعہ حافظہ بعض باتوں کو بھول جاتا ہے اور بعض کو یا درکھتا ہے.لیکن بھولنے والے کی نسبت یہ کہنا کہ جھوٹ بولتا ہے سوائے اس کے اور کیا نتیجہ پیدا کر سکتا ہے کہ فساد پھیلے.مگر بہت لوگ ایسے ہیں.جو کسی جھگڑے یا اختلاف کے وقت ایک دوسرے کی نسبت کہہ دیتے ہیں.میں ایک دفعہ ایک جماعت کے ہاں گیا اب تو وہ بہت مخلص ہے اس کے قریباً سارے ممبر ایسے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے ہیں.مگر تعمیل احکام میں سب سے زیادہ ست.وہاں جا کر مجھے معلوم ہوا کہ یہاں کے لوگوں میں نا اتفاقی ہے.میں نے ان کو بلا کر پوچھا.ہر ایک نے یہی کہا کہ ہم میں کوئی ناراضگی نہیں ہے.یہ بات آپ تک غلط پہنچائی گئی ہے.میں نے پوچھا فلاں آدمی کیوں مسجد میں نہیں آتا.فلاں کیوں نہیں آتا.اس کا جواب مجھے یہ دیا گیا کہ فلاں کی فلاں سے اور فلاں کی فلاں سے لڑائی ہوئی ہے میں نے کہا کہ جب ایک دوسرے کی آپس میں لڑائی ہے تو پھر اتفاق کیسا ؟ اور جماعت کیسی ؟ اس قسم کی نا اتفاقی کو انہوں نے افراد کی نا اتفاقی قرار دیا ہو ا تھا نہ کہ جماعت کی.میں نے ان میں صفائی کرا دی انہیں یہ بات بہت

Page 137

خطبات محمود جلد (5) ۱۲۷ معمولی معلوم ہوتی تھی.لیکن در حقیقت وہ بہت بڑی اور خطرناک نتائج پید اکرنے والی تھی.تو چھوٹی سے چھوٹی بات میں بھی بہت احتیاط کرنی چاہئیے.اور فوراً کسی پر جھوٹے ہونے کا فتویٰ نہیں لگا دینا چاہئیے.تم لوگ کیوں ایسا طریق اختیار نہیں کرتے جس میں تمہارا بھی فائدہ ہو اور کسی کو نقصان بھی نہ پہنچے اور وہ یہ کہ جس طرح خود بھول جاتے اور نسیان کر بیٹھتے ہو.اسی طرح دوسرے کو سمجھ لیا کرو اور اس طرح بھی کسی کا حق غصب نہیں ہو سکتا.بات وہی رہتی ہے البتہ احتیاط کا پہلو ہو جاتا ہے.پس یہ بات خوب یاد رکھو کہ جو بات کسی کے متعلق کہو اپنے نفس میں اس کے متعلق خوب غور کر لو کہ جو الزام دوسرے پر لگا تا ہوں کیا میں اس سے بری ہوں.افسوس کہ بہت کم لوگ اس بات پر غور کرتے ہیں اگر غور کریں تو بہت سے فساد اور جھگڑے دور ہو جائیں.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اس کی سمجھ دے اور دوسروں کی عیب جوئی سے بچا کر اپنے نفس کے محاسبہ کی توفیق بخشے.(الفضل ۱۸ جون ۱۹۱۶ء)

Page 138

۱۲۸ 18 خطبات محمود جلد (5) کلام کو بگاڑ کر پیش کرنے والے لوگ کون ہوتے ہیں؟ (فرموده ۹ جون ۱۹۱۶ء) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ اور مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کے بعد فرمایا:- افَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (البقرة:4) دنیا میں کسی چیز کے یا کسی انسان کے دو قسم کے مخالف ہوتے ہیں ایک وہ جن کی مخالفت اس چیز کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے.اور بسبب اس کو نا درست اور صداقت سے دور سمجھنے کے اس کا مقابلہ کرتے ہیں.دوسرے وہ جو کسی چیز کی مخالفت اس لئے نہیں کرتے کہ وہ انہیں نادرست معلوم ہوتی ہے بلکہ ان کی کچھ خود غرضیاں ہوتی ہیں جو انہیں اس کی مخالفت کے لئے کھڑا کر دیتی ہیں ایسے لوگ اکثر جھوٹ اور فریب سے کام لیتے ہیں.لیکن وہ لوگ جو کسی بات کی اس لئے مخالفت کرتے ہیں کہ وہ سچی اور درست نہیں ہے وہ مقابلہ کرتے ہوئے کبھی جھوٹ نہیں بولتے.جھوٹ ہمیشہ وہی انسان بولا کرتا ہے کہ جس بات پر وہ قائم ہوتا ہے اس کی صداقت کا اسے یقین نہیں ہوتا.کیونکہ اگر وہ صداقت کی خاطر مقابلہ کے لئے کھڑا ہو تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ وہ خود جھوٹ بولے.ایک انسان جو صداقت کی خاطر بیوی.بچے.عزیز رشتہ دار مال و دولت حتی کہ جان تک دے دینے کے لئے تیار ہوتا ہے اس سے ممکن نہیں کہ کوئی جھوٹ کا کلمہ نکل سکے.پس ایک بات کو سچا سمجھ کر اس پر کھڑے ہونے والے مقابلہ کرتے وقت کبھی جھوٹ سے کام نہیں لیتے لیکن جن لوگوں کا کسی بات کو ماننا اس لئے نہیں ہوتا کہ وہ سچی ہے خواہ ان کا ظن غالب یہی ہو کہ سچی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ واقعہ.

Page 139

خطبات محمود جلد (5) ۱۲۹ میں بھی اسے وہ سچا سمجھتے ہوں مگر اس کی طرفداری کا باعث اس کی سچائی اور راستی نہ ہو بلکہ کوئی اپنی غرض ہو وہ جھوٹ سے کام لینے سے پر ہیز نہیں کرتے میرے اس بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ممکن ہے.ایک شخص راستی کو راستی سمجھتا ہو مگر اس کی تائید اس لئے نہ کرتا ہو کہ اس کو سچا سمجھتا ہے بلکہ اس کی کوئی اور غرض ہو.ایسا انسان بھی جھوٹ سے کام لے لیتا ہے.مثلاً ایک شخص ہے، وہ ایک نبی کو نبی اور خدا کا برگزیدہ بھی مانتا ہے مگر وہ جو اس کی خدمت اور ادب کرتا ہے اس لئے نہیں کرتا کہ وہ نبی ہے بلکہ اس سے اسے اپنا کوئی اور فائدہ مدنظر ہے.ایسا انسان بھی جھوٹ کا مرتکب ہوسکتا ہے.کیونکہ وہ ذاتی نفع کے لئے نبی کی خدمت کر رہا ہوتا ہے نہ کہ اس کے نبی ہونے کی وجہ سے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی ایک نظیر اس بات کے ثبوت کے لئے موجود ہے.جنگ خیبر میں ایک شخص مسلمانوں کے ساتھ ہو کر اس زور اور کوشش سے لڑا کہ صحابہ کہتے ہیں ہمیں اس پر رشک آ گیا.لیکن لڑائی ہونے سے پہلے ابتدائے لڑائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نسبت فرمایا تھا کہ اگر کسی نے دوزخی آدمی دیکھنا ہو تو اسے دیکھ لے.صحابہ کہتے ہیں ہم نے یہ بات سنی ہوئی تھی مگر وہ اس دلیری اور جوانمردی سے لڑا کہ خطرناک سے خطرناک مقام پر پہنچ کر حملہ آور ہوتا.اور ہر دفعہ ایک دو کو گرا ہی آتا.حتی کہ صحابہ ایسے مضبوط ایمان والوں میں سے بعض کے منہ سے یہ فقرہ نکل گیا.کہ رسول اللہ نے ناحق اس کی نسبت کہہ دیا ہے کہ یہ دوزخی ہے.لیکن ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں اس کے پیچھے پیچھے ہولیا.جہاں وہ حملہ کرتا وہیں میں بھی پہنچ جاتا.حتی کہ وہ سخت زخمی ہوا.بعض صحابہ جاتے اور اسے جا کر کہتے تجھے جنت کی خوشخبری ہو مگر وہ آگے سے جواب دیتا.مجھے جنت کی بشارت نہ دو بلکہ دوزخ کی دو.کیونکہ میں اسلام کے لئے نہیں لڑا.مجھے ان لوگوں سے ایک پرانی عداوت تھی اس کی خاطر لڑا ہوں.اس واقعہ سے دونوں باتیں معلوم ہو جاتی ہیں.ایک یہ کہ اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان تھا اور آپ کو خدا کا نبی اور برگزیدہ سمجھتا تھا تبھی تو اس نے کہا کہ مجھے جنت کی بشارت نہ دو.بلکہ دوزخ کی دو.کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ اسلام کے لئے لڑنے والا جنت میں جاتا ہے نہ کہ اپنی اغراض کی خاطر لڑ نیوالا

Page 140

خطبات محمود جلد (5) چونکہ لڑائی میں شامل ہونا اس کی اپنی اغراض کے لئے تھا اس لئے اس نے کہا کہ میں جنت میں جانے کے قابل نہیں ہوں.دوسری بات یہ بھی معلوم ہو گئی کہ اس نے باوجود اسلام کی صداقت کا قائل ہونے کے اسلام کی اس لئے تائید نہیں کی تھی کہ یہ ایک صداقت ہے بلکہ اپنی غرض کے لئے لڑا تھا.چنانچہ وہی صحابی جو اس کے ساتھ ساتھ تھے کہتے ہیں کہ جب اسے زخموں کی وجہ سے سخت درد اور تکلیف ہوئی تو اس نے برچھی پر اپنا سینہ رکھ کر زور سے دبایا.اور اس طرح اپنے آپ کو ہلاک کر لیا.وہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دوڑے ہوئے آئے اور کہا.یا رسول اللہ ! آپ کو مبارک ہو.آپ فلاں آدمی کے معاملہ میں بالکل سچے نکلے.اس نے خود کشی کر لی.لے تو ایسے انسان بھی ہوتے ہیں جو صداقت کو سمجھ کر صداقت کی خاطر تائید نہیں کرتے.بلکہ اپنی اغراض کو مد نظر رکھ کر ایسا کرتے ہیں.میں نے بتایا ہے کہ ایک تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو گو نا حق پر ہوتے ہیں مگر اپنے آپ کو حق پر سمجھ کر حق کی مخالفت کرتے ہیں.اور ایک وہ ہوتے ہیں جو اپنے دشمن کو حق پر سمجھتے ہوئے بعض اغراض کی وجہ سے مخالفت کرتے ہیں اور کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ مخالفت کرنے والا اپنے آپ کو بھی ناحق پر سمجھتا ہے اور اپنے مخالف کو بھی.ایسے سب لوگ جھوٹ سے کام لے لیتے ہیں.دوسرا گروہ وہ ہوتا ہے جو اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے.اور ہوتا بھی حق پر ہی ہے مگر اس کی تائید اس لئے نہیں کرتا کہ وہ حق ہے بلکہ اس لئے کرتا ہے کہ اس کو اپنے اغراض مدنظر ہوتے ہیں ایسے لوگ بھی جھوٹ بول لیتے ہیں کیونکہ انہیں سچ کی قدر نہیں ہوتی.پس گو ایسا آدمی صداقت پر بھی ہو اور اپنے آپ کو صداقت پر سمجھتا بھی ہو.جھوٹ بول لیتا ہے.لیکن جو انسان سچ مچ حق پر ہوتا ہے اور اسے اس لئے قبول کرتا ہے کہ حق ہے نہ کہ کسی اور نفسانی غرض کے لئے وہ جھوٹ نہیں بولتا.پھر وہ انسان بھی جو باطل پر ہوتا ہے اگر اس کی تائید کے لئے اس لئے کھڑا ہوتا ہے کہ اسے باطل نہیں بلکہ حق پر سمجھتا ہے وہ بھی جھوٹ نہیں بولتا.لیکن ان کے مقابلہ بخاری کتاب المغازی باب غزوہ خیبر

Page 141

خطبات محمود جلد (5) ۱۳۱ میں وہ لوگ جن کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے جھوٹ بولنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے.غرض سب انسانوں کے دو گروہ ہیں ایک وہ جو سچ بولتا ہے اور دوسرا وہ جو جھوٹ بولنے میں حرج نہیں سمجھتا.پھر ان میں سے ہر ایک کے دو گروہ ہیں ایک وہ جو حق پر ہو کر اس لئے جھوٹ بولتا ہے کہ اس نے حق کو حق کے لئے قبول نہیں کیا ہوتا بلکہ اپنے اغراض کے لئے قبول کیا ہوتا ہے اور دوسرا وہ جو ناحق پر ہو کر اس لئے جھوٹ بولتا ہے کہ اس نے ناحق کو ناحق سمجھ کر قبول کیا ہوتا ہے پھر سچ بولنے والوں کے دو گروہ ہوتے ہیں ایک وہ جو حق کو حق سمجھ کر قبول کرتا ہے.وہ بھی کبھی جھوٹ نہیں بولتا اور دوسرا وہ جو ناحق کو حق سمجھ کر اس پر جما ہوتا ہے یہ بھی جھوٹ نہیں بولتا.وہ گر وہ جو اپنے آپکو حق پر سمجھتا ہے مگر حق کی تائید اس لئے نہیں کرتا کہ وہ حق ہے اور دوسرا گر وہ جو خود تو ناحق پر ہوتا ہے مگر اپنے فریق مخالف کو حق پر سمجھ کر پھر بعض وجوہات سے اسکی مخالفت کرتا ہے ان دونوں گروہوں کے آدمی کثرت سے جھوٹ بولتے ہیں.یوں تو ہمیشہ ہی ان کا یہی حال ہوتا ہے مگر نبیوں کے مقابلہ میں ان کا جھوٹ اور کذب بڑے زور سے ظاہر ہوتا ہے.کیونکہ اس وقت ان لوگوں کو اپنی تباہی اور ہلاکت کا پورا پورا یقین ہو جاتا ہے.اس لئے وہ اپنے بچاؤ کی ہرممکن کوشش کرنا چاہتے ہیں اور ان کوششوں میں سے ایک کوشش جھوٹ کا استعمال بھی ہوتا ہے.آپ لوگوں کو تو معلوم ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلہ میں لوگوں نے کیسے کیسے جھوٹ بولے.مخالفین نے جھوٹ بولنے سے ذرا پرہیز نہ کیا وہ لوگ جو اپنے آپ کو راستبازی کے پھیلانے والے کہتے تھے انہوں نے جھوٹ بولنے میں اول نمبر حاصل کیا.اور اس طرح ان کی نسبت پتہ لگ گیا کہ گو وہ اسلام کی تائید کے لئے کھڑے ہوئے ہیں.مگر اس لئے نہیں کہ اسلام سچا مذہب ہے بلکہ اس لئے کہ اس میں ان کی خود غرضی اور نفسانیت کا دخل ہے.حضرت مسیح موعود پر ان لوگوں نے قسم قسم کے الزامات لگائے.کہا گیا کہ یہ دہر یہ ہے حالانکہ وہ خوب جانتے تھے کہ جس قدر اس کا خدا پر بھروسہ اور ایمان ہے اور کسی کو نہیں ہے.وہ اپنی جان مال اسباب عزیز رشتہ دار خدا کے لئے قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار تھا.اور دن رات اسے یہی دُھن

Page 142

خطبات محمود جلد (5) ۱۳۲ تھی کہ خدا کا نام دنیا میں پھیلے.اس کو خدا کا منکر کہا گیا.پھر وہ جو خود وحی اور الہام کا مدعی تھا اس کے متعلق کہا گیا کہ اس کا عقیدہ بر ہموؤں کی طرح ہے پھر کہا گیا کہ یہ حضرت مسیح کو گالیاں دیتا ہے حالانکہ یہ کیونکر ممکن تھا کہ وہ جو آپ مسیحیت کا مدعی ہو وہ حضرت مسیح کو گالیاں دے.اور برا بھلا کہے.کیا کوئی شریروں اور گندے لوگوں کی طرف اپنے آپ کو نسبت دیا کرتا ہے.مصر میں قبطی لوگ رہتے ہیں وہ اپنے آپ کو فرعون کی طرف منسوب کرتے ہیں اور اپنے نام یوسف فرعون.ابراہیم فرعون وغیرہ رکھتے ہیں.لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ فرعون بہت اچھا اور نیک آدمی تھا.مگر فرعون کا نام مسلمانوں کے نزدیک گندا ہے اس لئے کوئی مسلمان ایسا نہیں کرے گا تو جو شخص اپنے آپ کو کسی کی طرف منسوب کرتا ہے وہ کس طرح اسے گندا کہ سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تو دعوی ہی یہ تھا کہ میں مثیل مسیح ہوں پھر آپ حضرت مسیح کو برا بھلا کس طرح کہہ سکتے تھے.پھر یہ کہا گیا کہ مرزا صاحب اہل بیت کے دشمن ہیں.حالانکہ آپ نے اپنے کمالات کی ابتداء اس طرح بیان فرمائی ہے کہ ہمارے گھر میں اہل بیت تشریف لائے یعنی وہی جن کو شیعہ پختن کہتے ہیں اور اہلبیت قرار دیتے ہیں اور اس کے بعد علوم باطنی مجھ پر کھلے.پس جو شخص اپنے علوم باطنی کے حاصل ہونے کی بنیاد ہی اس بات پر رکھتا ہے کہ اہل بیت ہمارے گھر میں آئے وہ ان کی ہتک کس طرح کر سکتا ہے.غرضیکہ اس قسم کے اور بہت سے الزام آپ پر لگائے گئے.حضرت مسیح سے بھی ان کے مخالفین نے یہی سلوک کیا تھا.انہوں نے کہا کہ میں بنی اسرائیل کا بادشاہ ہوں.اس سے ان کی مراد روحانی بادشاہ ہونے کی تھی لیکن انہوں نے شور مچادیا کہ یہ خود بادشاہ بنتا ہے اور قیصر کا باغی ہے چنانچہ انہوں نے اپنی اس بات کو مضبوط کرنے کے لئے ایک دفعہ ایک چالا کی کی مگر خدا تعالیٰ کے انبیاء بڑے عقلمند اور دانا ہوتے ہیں حضرت مسیح ان کی چال میں نہ آئے انہوں نے آکر پوچھا کہ ہم ٹیکس کس کو دیں یعنی انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ ہمیں منع کر دیں گے کہ قیصر کو نہ دو.اس طرح ان کو گرفتار کرا دیں گے حضرت مسیح نے جواب دیا کہ ستہ پر کس کی تصویر ہے انہوں نے کہا قیصر کی.فرمایا پس جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو.اور جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو (متی ۲۱ / ۲۲) یعنی

Page 143

خطبات محمود جلد (5) ۱۳۳ قیصر دنیاوی بادشاہ ہے اس لئے اسے سکہ کا ٹیکس دو.اور خدا کے آگے روحانیت کا ٹیکس ادا کرو.پھر حضرت مسیح کو گورنر کے سامنے باغی قرار دے کر پیش کیا گیا.اس وقت جو ہمارا اختلاف ہے اس میں بھی ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں.گو وہ ایک چھوٹی اور قلیل جماعت ہے لیکن ہیں ضرور.ان میں سے شائد ایسے لوگ بھی ہوں جو اپنے آپ کو حق پر سمجھ کر ہماری مخالفت کر رہے ہیں مگر اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وہ حق کی خاطر ایسا نہیں کر رہے.کیونکہ اگر وہ حق کی خاطر کرتے تو جھوٹ سے کبھی کام نہ لیتے.وہ باتیں جو قلب اور دل کے متعلق ہیں.ان میں وہ اس لئے معذور سمجھے جاسکتے ہیں کہ شاید دشمنی اور عداوت کی وجہ سے ایک بات کو اسی رنگ میں دیکھتے ہوں جس میں کہ بیان کرتے ہیں لیکن ان کا صحیح صحیح واقعات اور کھلی کھلی باتوں کو بگاڑ کر پیش کرنا ثبوت ہے اس بات کا کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں.اور حق کی خاطر مقابلہ نہیں کر رہے.انہوں نے ایسے ایسے افتراء کئے ہیں کہ دیکھ کر حیرت آتی ہے.پچھلے سال کہا گیا کہ میں نے گورنمنٹ کولکھا ہے کہ مجھے خلیفہ مسیح تسلیم کروا دو.میں آپ کی بہت مدد کروں گا.جب ہماری طرف سے اس بات کی تردید کی گئی اور گورنمنٹ کی چٹھی بھی ہماری تائید میں آگئی تو ایک اور بات بنائی.کہ گورنمنٹ ڈر گئی ہے کہ اس بات کے ظاہر ہونے سے ان میں فساد پڑ جائے گا.اس لئے اس نے پوشیدہ رکھا ہے.حالانکہ انہی لوگوں نے ۱۹۱۳ء کے سالانہ جلسہ پر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو کہا تھا کہ گورنمنٹ نے اپنے پاس سے تنخواہیں دے کر کچھ آدمی ہمارے درمیان اس لئے چھوڑے ہوئے ہیں کہ وہ ہم میں پھوٹ ڈلوائیں.اور چند بے گناہ آدمیوں کے نام بھی لے دیئے تھے.چنانچہ ۱۹۱۳ ء کے جلسہ کی تقریر میں جو چھپی ہوئی ہے حضرت خلیفہ اول نے اس طرف اشارہ بھی کیا تھا.تو یا تو ان کا یہ خیال تھا کہ گورنمنٹ نے اپنے پاس سے روپیہ دے کر پھوٹ اور فساد ڈلوانے کے لئے لوگوں کو ہمارے درمیان چھوڑا ہوا ہے یا یہ کہ گورنمنٹ کو پھوٹ ڈلوانے کا ایسا سنہری موقع ہاتھ آیا ہے لیکن وہ ایسا کرنا نہیں چاہتی.اور انکار کر دیتی ہے کہ ایسی کوئی درخواست وغیرہ نہیں آئی.اسی طرح اور بہت سے جھوٹ ان کی طرف سے مشہور کئے گئے اور جب جواب دیئے گئے تو کوئی نہ کوئی حجت نکال ہی لی.جیسا کہ میں نے ابھی ایک بات سنائی ہے

Page 144

خطبات محمود جلد (5) ۱۳۴ اور میں دیکھتا ہوں کہ ان کی اس دروغ بیانی کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے.ایک خط آیا ہے جس میں لکھا ہے کہ ایک شخص نے کتاب حقیقۃ النبوت سے میری عبارت کا ایک ٹکڑا نقل کر کے رکھا ہوا ہے جو یہ ہے کہ بعض نادان کہہ دیا کرتے ہیں کہ نبی دوسرے نبی کا متبع نہیں ہو سکتا.اور اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللهِ ( النساء: ۶۵) اور اس آیت سے حضرت مسیح موعود کی نبوت کے خلاف استدلال کرتے ہیں لیکن یہ سب قلت تدبر کا نتیجہ ہے.اس کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود کی عبارت ازالہ اوہام سے یہ کھی ہوئی ہے کہ افسوس کہ مولوی صاحب مرحوم و یہ سمجھ نہ آیا کہ صاحب نبوت تامہ ہرگز امتی نہیں ہو سکتا اور جو شخص کامل طور پر رسول اللہ کہلاتا ہے وہ کامل طور پر دوسرے نبی کا مطیع اور امتی ہو جانا نصوص قرآنیہ حدیث کے رو سے بکلی ممتنع ہے اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا لِيُطَاعَ باذن اللہ یعنی ہر ایک رسول مطاع اور امام بنانے کے لئے بھیجا جاتا ہے اس غرض سے نہیں بھیجا جاتا کہ دوسروں کا مطیع اور تابع ہو.“ یہ دونوں عبارتیں وہ لوگوں کو کہتا ہے کہ دیکھو ہمیں میاں صاحب سے کوئی مخالفت نہیں لیکن وہ تو حضرت مسیح موعود کو گالیاں دیتے ہیں جیسا کہ اس عبارت میں نادان کہا ہے.پھر ہم کس طرح ان کے ساتھ مل سکتے ہیں.لیکن یہ ایک دھوکہ ہے جو لوگوں کو میری طرف سے دیا جاتا ہے.کیونکہ میں نے حقیقۃ النبوت میں ہی اس بات کو حل کر دیا ہوا ہے کہ جب تک کوئی بات منکشف نہ ہو اس وقت تک اس کے خلاف کہنا بُرا نہیں.لیکن جب وہ کھل جائے.پھر اس کے خلاف کہنا نادانی اور جہالت ہوسکتی ہے.اس کے متعلق میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مثال بھی دی تھی چنانچہ حقیقتہ النبوت کی اصل عبارت یہ ہے کہ :- ایک بات جب تک پوشیدہ اور پردہ اخفا میں ہوا سے اصل کے خلاف ماننا ایک اور بات ہوتی ہے لیکن پردہ اٹھ جانے پر پھر بھی غلطی سے نہ ہٹنا ایک اور بات ہوتی ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ پچھلی صدیوں میں قریبا سب دُنیا کے

Page 145

خطبات محمود جلد (5) ۱۳۵ مسلمانوں میں مسیح کے زندہ ہونے پر ایمان رکھا جاتا تھا.اور بڑے بڑے بزرگ اسی عقیدہ پر فوت ہوئے.اور نہیں کہہ سکتے کہ وہ مشرک فوت ہوئے گو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عقیدہ مشرکانہ ہے (چنانچہ حضرت مسیح موعود نے اس کو مشرکانہ عقیدہ قرار دیا ہے) حتٰی کہ حضرت مسیح موعود باوجود مسیح کا خطاب پانے کے دس سال تک یہی خیال کرتے رہے کہ مسیح آسمان پر زندہ ہے.“ اب ہر ایک عقلمند آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابتداء میں حضرت مسیح کی وفات کے متعلق انکشاف نہ ہونے کی وجہ سے براہین احمدیہ میں ان کے زندہ ہونے کے متعلق لکھ دیا تھا لیکن بعد میں جب وفات مسیح کے متعلق انکشاف ہو گیا تو آپ نے اس عقیدہ کا رکھنا شرک قرار دے دیا اسی طرح آپ نے بے شک ایک وقت تک نبی کی وہی تعریف کی جو آج کل کے مسلمان کرتے ہیں لیکن چونکہ اس وقت تک آپ پر اس مسئلہ کا پوری طرح انکشاف نہ ہو ا تھا.اس لئے آپ عام مسلمانوں کے عقیدہ پر ہی قائم رہے مگر جب آپ پر نبوت کی تعریف کھل گئی تو آپ نے لکھ دیا کہ :- ”نبی اس کو کہتے ہیں جو خدا کے الہام سے بکثرت آئندہ کی خبریں دے مگر ہمارے مخالف مسلمان مکالمہ الہیہ کے قائل ہیں لیکن اپنی نادانی سے ایسے مکالمات کو جو بکثرت پیشگوئیوں پر مشتمل ہوں نبوت کے نام سے موسوم نہیں کرتے.“ چشمہ معرفت ص ۱۸۰-۱۸۱) گویا وہی عقیدہ رکھنے والوں کو جو ایک وقت میں خود حضرت مسیح موعود کا تھا نادان قرار دیا ہے اس کی یہی وجہ ہے کہ جب تک حق نہیں کھلا تھا وہ عقیدہ رکھنے والے معذور تھے.لیکن جب حق کھل گیا تو ان کے لئے بدلنا ضروری تھا اسی طرح اس آیت سے ایک وقت میں حضرت صاحب نے یہ استدلال کیا کہ نبی وہ ہوتا ہے جو دوسرے نبی کا متبع نہ ہو.لیکن جب آپ پر اس کی حقیقت کھل گئی تو خود ہی یہ فرما دیا کہ :.نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی.نبی کے معنے صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو.اور شرف مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہو.شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں اور نہ یہ

Page 146

خطبات محمود جلد (5) ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع نہ ہو.“ ( براہین احمدیہ حصہ پنجم ص ۱۳۸) اب جبکہ حضرت مسیح موعود نے یہ لکھ دیا ہے تو ایک ایسا شخص جو آپ کا منبع ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یہی کہتا جائے کہ نہیں نبی کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے نبی کا متبع نہ ہو تو اس کے نادان ہونے میں کیا شک ہے.نادان نہیں بلکہ اس کے عاصی اور گنہ گار ہونے میں بھی کوئی شک نہیں.پس جب حضرت مسیح موعود نے بار بار کی وحی کے ماتحت یہ لکھ دیا ہے کہ نبی کے لئے ضروری نہیں کہ وہ دوسرے نبی کا متبع نہ ہو.اب جو شخص کہتا ہے کہ متبع نہ ہوناضروری ہے وہ ضرور نادان ہے.حضرت مسیح موعود نے ابتداء میں جو کچھ لکھا ہے.اس کا نام ہم احتیاط رکھیں گے.کیونکہ اس وقت آپ پر اس کے متعلق کوئی انکشاف نہ ہو ا تھا.اس لئے آپ نے عوام کے عقیدہ کے مطابق لکھ دیا.لیکن آپ کو ہم یہ لکھنے سے نعوذ باللہ نادان نہیں کہہ سکتے.دیکھ صحابہ میں سے ایسے لوگ تھے جو شراب پیتے تھے.لیکن ان کو اسلام سے خارج نہ کیا گیا.کیوں؟ اسلئے کہ اس وقت شراب کی ممانعت کے متعلق کوئی حکم نہیں نازل ہو ا تھا.اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا.ہاں جب حکم نازل ہو گیا اس کے بعد اگر کوئی شراب کو حلال سمجھ کر پیتا تو ضرور اسلام سے خارج ہو جاتا.تو بعض ایسی باتیں ہوتی ہیں کہ جب تک خدا تعالیٰ ان کے متعلق کوئی حکم نازل نہ کرے اس پر نبی اسی طرح عمل ہونے دیتا ہے جس طرح پہلے ہو رہا ہو.اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اور حضرت مسیح موعود کی زندگی شاہد ہے.وہ شخص کیسا نادان ہے جو یہ کہتا ہے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود کی ہتک کی ہے کیونکہ اس کا گروہ ہم پر سب سے بڑا الزام ہی یہ لگاتا ہے کہ ہم غلو کرتے ہیں.اب اس سے کوئی پوچھے کہ کیا غلو کر نے والا بھی ہتک کر سکتا ہے.ہتک ہمیشہ وہی کرتا ہے جو اصل درجہ سے کم کر کے دکھانے کی کوشش کر رہا ہو.ہتک کا الزام ان پر ہے نہ کہ ہم پر.کیونکہ بخیال ان کے ہم تو حضرت مسیح موعود کے درجہ میں غلو کرنے والے ہیں اور وہ کم کرنے والے.پس میرے فقرہ کے وہ معنی کرنے کہ جن کی میرے ہی مضمون میں تردید کی گئی ہے.نیک نیتی پر مبنی نہیں ہیں.میں نے تو بتا دیا ہے کہ ایک بات جب تک پوشیدہ اور پردہ اخفا میں ہوا سے اصل کے خلاف ماننا ایک اور بات ہوتی

Page 147

خطبات محمود جلد (5) ۱۳۷ ہے.لیکن پردہ اٹھ جانے پر پھر بھی غلطی سے نہ ہٹنا ایک اور بات ہوتی ہے.مثلاً ایک شخص لا ہور جائے اور وہاں جا کر اسے دکھ پہنچے تو اس میں اس کا کوئی قصور نہیں.لیکن اگر لاہور جانے سے پہلے رویاء کے ذریعہ اس بات کا علم ہو جائے کہ وہاں جا کر مجھے دکھ پہنچے گا.اور پھر چلا جائے تو یہ اس کی نادانی اور بیوقوفی ہوگی.پہلی دفعہ جانا اس کی نادانی ہوگی.کیونکہ اسے علم ہی نہ تھا لیکن جب اسے بتادیا گیا تو پھر جانا اس پر الزام لائے گا.یہ تو ان لوگوں کی جہالت ہے جو ہم پر حضرت مسیح موعود کی ہتک کا الزام لگاتے ہیں.اب سوال یہ ہے کہ کیوں وہ ایسا کہتے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے ایسے لوگ تو مجھ پر بھی اسی طرح حملے کرتے ہیں اور انسان کا کلام تو الگ رہا خدا کے کلام کو بھی سنکر اور سمجھ کر اور معنی کر لیتے ہیں.پس جب اللہ تعالیٰ کے کلام کے متعلق ایسا کرنے والے ہیں تو پھر ہمیں کیا تعجب ہے مگر یہ ضرور ہے کہ جو شخص حق کی تائید کے لئے کھڑا ہوتا ہے.وہ جھوٹ بولنے کی جرات نہیں کرتا.کیونکہ جھوٹ ہر حالت میں جھوٹ ہی ہے.خواہ سچ کی تائید کے لئے ہی کیوں نہ بولا جائے.ہم تو حضرت مسیح موعود کو خدا تعالیٰ کا نبی اور برگزیدہ مانتے ہیں کیا ہم مانتے ہوئے آپ کو نادان کہہ سکتے ہیں.ہاں وہ جو آپ کے درجہ کو گھٹا رہے ہیں وہ ایسا کہیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے چنانچہ وہ اب اپنے ہادی اور مرشد کو ” ایک شخص ایک شخص ایسے حقارت آمیز الفاظ سے یاد کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو حق دکھائے جو اس بات کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ ہم کو حق سے پھیر کر باطل کی طرف لے جائیں.اللہ تعالیٰ ان کو نشان پر نشان دکھاتا ہے مگر باوجود اس کے جس طرح ایک کیمیا گر ایک آنچ کی کسر سمجھتا ہے اسی طرح وہ ایک بار اور کوشش کی کمی سمجھتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ اب ان کو توڑ دیں گے.چونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ مسیح موعود کی جماعت کو سب پر غالب رکھے گا اس لئے ان کی کوششوں سے ہمیں کوئی فکر نہیں مگر دل چاہتا ہے کہ وہ جو کبھی ہمارے تھے ان کو بھی خدا حق قبول کرنے کی توفیق دے اور وہ پھر ہمارے ہو جائیں.اور اس طرح ہمارے راستہ سے یہ روک بھی دور ہو جائے اور ہم اپنا فرض پوری توجہ سے ادا کرسکیں.الفضل ۲۷ جون ۱۹۱۲ء)

Page 148

۱۳۸ 19 خطبات محمود جلد (5) دُعا پر بہت زور دو (فرموده ۱۶ جون ۱۹۱۶ء) تشهد وتعوذ اورسورہ فاتحہ پڑھ کر فرمایا:- دنیا میں دو قسم کی چیزیں ہمیں نظر آتی ہیں ایک تو وہ جو کچھ عرصہ کے بعد پرانی ہو جاتی ہیں اور انسان کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر رہتی ہیں.اس لئے آہستہ آہستہ ان کو چھوڑ دینا پڑتا ہے.دوسری وہ چیزیں ہیں جو ہمیشہ نئی کی نئی رہتی ہیں.اور ہر زمانہ میں انسان کے استعمال میں آتی رہتی ہیں ان کے چھوڑ دینے میں انسان کا اپنا نقصان ہوتا ہے.اور جو انہیں چھوڑتا ہے گو یا اپنی کامیابی کو چھوڑتا ہے کیونکہ وہ کبھی پرانی نہیں ہوتیں جیسے کہ وہ انسان کی پیدائش کے وقت تھیں.اور جس طرح کہ حضرت آدم کے وقت سے ان کی ضرورت تھی.ویسے ہی موجودہ اور آئندہ زمانہ میں بھی ان کی ضرورت چلی جاتی ہے.مختلف عقائد اور مختلف خیالات بھی پرانے اور نئے ہوتے ہیں.کئی خیالات تھے جو کسی زمانہ میں بالکل نئے تھے.اور لوگ ان کو نہایت ضروری سمجھتے اور کہتے تھے کہ ترقی انہی کے ذریعہ ہو سکتی ہے مگر آج انہیں کو پرانے خیالات کہا جاتا اور لغو قرار دیا جاتا ہے تو جس طرح ظاہری اشیاء نئی اور پرانی ہوتی ہیں اسی طرح خیالات اور عقائد بھی نئے اور پرانے ہوتے رہتے ہیں.پھر ان میں بھی یہی حال ہے کہ بعض عقائد اور خیالات ایسے ہیں کہ ہمیشہ ایک ایسے ہی رہتے ہیں.اور کبھی پرانے نہیں ہوتے.وہ دائی صداقتیں ہوتی ہیں جن کو انسان کسی صورت میں بھی جھوٹ قرار نہیں دے سکتا.اس قسم کی ہمیشہ نئی رہنے والی چیزوں میں سے ایک بڑی چیز دُعا ہے یہ بھی کبھی پرانی نہیں ہوتی.کوئی زمانہ ایسا نہیں آیا کہ انسانوں نے کہا ہو کہ اب یہ ہمارے

Page 149

خطبات محمود جلد (5) ۱۳۹ لئے مفید نہیں رہی کیونکہ پرانی ہو گئی ہے یا اس لئے کہ نئے علوم نئی ایجادیں اور نئے اصول نکل آئے ہیں اب اس کی ضرورت نہیں رہی یہ نہ کبھی پہلے کسی زمانہ میں ہوا ہے نہ اب ہے اور نہ آئندہ ہوگا کہ لوگ دعا سے مستغنی ہو جاویں بلکہ جتنا انسان ترقی کرتا جائے گا اتنا ہی زیادہ دعا کا محتاج ہوگا.بہت لوگوں نے اس بات کو سمجھا نہیں کہ علوم وفنون کی ترقی انسانی اعمال کی ترقی اور زیادہ دعا کا محتاج کر دیتی ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ ایک شخص کے پاس اتنا بوجھ ہو جسے وہ مشکل سے اٹھا سکتا ہو تو ہوسکتا ہے کہ وہ کسی اور کو اٹھوانے کے لئے آواز دے مگر ایک ایسا شخص جس کے پاس ایسا بوجھ ہو کہ وہ اکیلا اٹھا ہی نہ سکے.تو ضرور ہے کہ اور کو بلائے.کیونکہ جس قدر بوجھ زیادہ ہوتا ہے اسی قدر مدد کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اسی طرح جس قدر علوم وفنون بڑھے انسان کے اعمال بڑھ گئے.اور جب اعمال بڑھ گئے تو ان کے لئے مدد کی بھی زیادہ ضرورت ہوئی.کیونکہ علوم کے بڑھنے کے ساتھ محنت اور مشقت بھی بڑھ گئی دیکھ لیجئے جس وقت انسان صرف شکار پر گزارہ کرتے اور لباس نہیں پہنتے تھے اس وقت انہیں صرف یہی کرنا پڑتا تھا کہ شکار کرتے اور پتھروں سے آگ نکال کر بھونتے اور کھا لیتے بس دن رات میں انہیں یہی محنت کرنی پڑتی تھی لیکن جب علوم نے ترقی کی تو مشکلات اور محنت دونوں بڑھ گئیں تو علوم کی ترقی ذمہ داریوں اور بوجھوں کی ترقی ہوتی ہے وہ تو میں جو اس وقت ترقی پر ہیں ان کو دیکھو تو پتہ لگے کہ کس قدر کام میں مشغول رہتی ہیں.لیکن جن قوموں نے ان کے مقابلہ میں ترقی نہیں کی وہ بہ نسبت ان کے کم محنت و مشقت کرتی ہیں کیونکہ وہ اگر بہت زیادہ محنت کریں تو ان کی زندگی مشکل ہو جائے.ان کا آپس کا مقابلہ بہت زور سے ہو رہا ہے اور یہی بات ان کو دن رات محنت کرنے پر مجبور کرتی ہے.پس علوم کی ترقی انسانی ذمہ داریوں اور بوجھوں کو کم نہیں کرتی بلکہ اور زیادہ بڑھا دیتی ہے چونکہ اس زمانہ میں علوم نے بہت زیادہ ترقی کر لی ہے اس لئے جس قدر دعا کی ضرورت پہلے زمانہ میں تھی.آج اس سے بہت بڑھ کر ہے.لیکن تعجب اور حیرت کا مقام ہے کہ انسان جس وقت سب سے زیادہ دعا کا محتاج ہے اس وقت سب سے زیادہ غفلت اور لا پرواہی سے کام لے رہا ہے اور یہ ایسی ہی بات ہے کہ جب کسی کو معمولی سی حرارت ہو تو دوا پئے.لیکن

Page 150

خطبات محمود جلد (5) ۱۴۰ جب تیز تپ ہو جائے تو کہے کہ اب دوا کی ضرورت نہیں حالانکہ وہی وقت دوا پینے کا ہے.تو گو انسان دعا کا ہمیشہ سے محتاج چلا آ رہا ہے مگر اس زمانہ میں بہت ہی زیادہ ہے.لیکن اسی زمانہ میں بہت سے لوگ ایسے کھڑے ہو گئے ہیں جو کہتے ہیں کہ دعا ایک لغو اور پرانا خیال ہے صرف زبان کی حرکت سے کیا نتیجہ نکل سکتا ہے حالانکہ یہی لوگ دیکھتے ہیں کہ زبان ہی کی حرکت انسان کو کنوئیں میں گرا دیتی ہے اور زبان ہی کی حرکت اعلیٰ مدارج پر پہنچا دیتی ہے.پھر دیکھو گدا گر بھی زبان ہی ہلاتے ہیں.کیا انہیں زبان کی اس حرکت سے مادی نفع نہیں مل جاتا.ایک بڑے دنیا دار شخص نے کہا تھا کہ لفظوں سے مادی فائدہ نہیں مل سکتا اس لئے دُعا کرنا ایک لغو امر ہے مگر اس کو یہ خیال نہ آیا کہ ایک محتاج آکر سوال کرتا ہے اس سوال کرنے پر پیسہ دو پیسے آنہ دو آ نے اس کے ہاتھ میں چلے جاتے ہیں.کیا اس کو یہ مادی فائدہ حاصل نہیں ہوا.ضرور ہوا ہے.پس جب ایک انسان پر گدا گر کے الفاظ کا اثر ہوتا ہے اور باوجود اس کے کہ وہ خود محتاج ہوتا ہے اس کی دستگیری کرتا ہے تو خدا جو کسی کا محتاج نہیں اس کے حضور اگر کوئی عرض کرے تو کیا وجہ ہے کہ وہ دستگیری نہیں کرے گا یہ بہت نادانی اور کم عقلی کی بات ہے اور جولوگ اس طرح کہتے ہیں انہوں نے دعا کو ایک ڈھکوسلہ سمجھ رکھا ہے.اگر یہ لوگ تدبر سے کام لیتے تو انہیں دعا کی صداقت کے قبول کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آتی.کیونکہ بعض عقائد تو ایسے ہوتے ہیں جن کا نتیجہ عمل کو چاہتا ہے.مگر دعا ایک ایسی چیز ہے کہ انسان فوراً اس کا اثر دیکھ سکتا ہے اور ہمیشہ اور ہر زمانہ میں اسکا تجربہ کر سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مخالفین کو چیلنج دیا تھا کہ اگر کسی میں جرات ہے تو آئے میرے مقابلہ میں دعا کرے اور پھر دیکھ لے کہ کس کی قبول ہوتی ہے.امیہ ایک نتیجہ تھا اور مشاہدہ تھا جو ہر ایک کھلے طور پر دیکھ سکتا تھا مگر کسی کو اس کی جرات نہ ہو سکی.تو اس مسئلہ میں کسی لمبی چوڑی بحث کی ضرورت نہیں ہے.انسان جب بھی خدا کے حضور جھکے خدا اس کی دعا کو قبول کر لیتا ہے.اور اس طرح وہ دعا کی صداقت کو دیکھ سکتا ہے اور خود تجربہ کر سکتا ہے.ا حقیقة الوحی ص ۱۷۶

Page 151

خطبات محمود جلد (5) ۱۴۱ دعا ایک ایسی طاقتور چیز ہے کہ دنیا میں اور کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور بھی بہت بڑی بڑی طاقتیں ہیں مثلاً پانی کی طاقت بجلی وغیرہ کی طاقت ہے.مگر دعا کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں.ایک بزرگ کی نسبت لکھا ہے کہ وہ جس جگہ رہتے تھے انکے پڑوس میں ایک بڑا امیر رہتا تھا.جو ہر وقت گانے بجانے میں مشغول رہتا.جس سے انہیں سخت تکلیف ہوتی.ایک دن وہ اس کے پاس گئے اور جا کر کہا کہ دیکھو بھی میں تمہارا ہمسایہ ہوں.اس لئے میرا بھی تم پر حق ہے اول تو تمھیں اس لغو کام سے خود ہی رُک جانا چاہیئے تھا.لیکن اگر ایسا نہیں کیا تو اب میری خاطر ہی اسے ترک کر دو.کیونکہ مجھے اس سے سخت تکلیف ہوتی ہے وہ چونکہ بڑا کیس اور صاحب رسوخ تھا اس نے کہا تم کون ہوتے ہو مجھے روکنے والے.ہم کبھی نہیں رکیں گے.انہوں نے کہا اگر آپ اس طرح نہیں رکیں گے تو ہم بھی مجبور ہیں ہم اور طرح سے روکیں گے اس نے کہا کیا تم روکو گے.کیا تم میں اتنی طاقت ہے.میں ابھی سرکاری گارد منگواتا ہوں.انہوں نے کہا ہم گارد کا بھی مقابلہ کریں گے.اس نے کہا تم انکا کیا مقابلہ کر سکتے ہو.انہوں نے کہا.نادان ! ہمارا مقابلہ تو پوں اور بندوقوں سے نہیں ہوگا بلکہ سہام اللیل سے ہوگا.لکھا ہے.یہ الفاظ انہوں نے کچھ ایسے درد ناک لہجہ میں فرمائے کہ اس کی چھینیں نکل گئیں اور بول اٹھا.اس کا مقابلہ نہ میں کرسکتا ہوں نہ میرا بادشاہ کر سکتا ہے.آئندہ کے لئے میں اقرار کرتا ہوں کہ آپ کو گانے بجانے کی آواز نہیں سنائی دے گی.تو دعا میں وہ طاقت ہے کہ کوئی توپ و تفنگ اسکا مقابلہ نہیں کرسکتی.کیوں؟ اس لئے کہ یہ تیر زمین سے نہیں بلکہ آسمان سے آتے ہیں.پھر انسانوں کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ خدا انسانوں سے لے کر خود پھینکتا ہے اور خدا کے پھینکے ہوئے کو کوئی روک نہیں سکتا.کہتے ہیں کہ زمین میں کشش ہے اس لئے جس قدر بلندی سے کوئی چیز گرے اسی قدر زور سے گرتی ہے.خدا تعالیٰ یوں بھی سب بلندیوں سے بلند تر ہے اس لئے اس کے ہاں سے آیا ہوا تیر کوئی روک نہیں سکتا.وہ پہاڑوں کی روکوں اور قلعوں کی دیواروں کو چیرتا اور سب پر دوں کو چاک کرتا ہوا منزل مقصود پر پہنچ جاتا ہے.پس دعا ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جوسب سے بڑا اور یقینی ہے اس سے میرا مطلب یہ نہیں کہ دیگر ذرائع سے کام نہ لیا جائے.کیونکہ جو لوگ دیگر

Page 152

خطبات محمود جلد (5) ۱۴۲ ذرائع سے کام نہیں لیتے ان کی دعا بھی قبول نہیں ہو سکتی.دعا بھی اس وقت قبول ہوتی ہے.جبکہ دیگر ذرائع سے کام لیا جائے.جس طرح دنیا میں سائل کے لئے یہ ضروری شرط ہے کہ وہ خود کوئی محنت اور مشقت نہ کر سکتا ہو یا جس قدر اس کی طاقت ہے اتنی کوشش کرے لیکن کامیابی نہ ہو اس کے لئے سوال کرنا جائز ہوسکتا ہے ورنہ نہیں.حضرت عمرؓ جب کسی ایسے سائل کو دیکھتے جو طاقتور اور محنت کرنے کے قابل ہوتا تو جو کچھ اس نے سوال کر کے حاصل کیا ہوتا وہ بھی چھین لیتے اور کہتے جاؤ جا کر محنت کرو اور کھاؤ کیونکہ سائل وہی ہوسکتا ہے کہ جس قدر اس کی ہمت ہو اتنی کرے.اس کے بعد اگر اسے مدد کی ضرورت ہو تو سوال کر لے.اسی طرح خدا تعالیٰ سے مدد حاصل کرنے کے لئے پکارنے سے پہلے انسان کے لئے ضروری ہے کہ جتنی اس کی اپنی طاقت اور ہمت ہو اس کو کام میں لائے اور پھر دعا کرے کہ اے مولیٰ !میں نے اپنی طرف سے سب طاقت اور ہمت خرچ کر دی ہے لیکن میں کمزور اور عاجز ہوں.آپ میری مدد کیجئے.جب اس طرح کوئی دعا کرے گا تو اس کے قبول ہونے میں کوئی روک نہیں ہو سکے گی.لیکن اگر کوئی خود ہاتھ پاؤں تو ڑ کر بیٹھا رہے اور.بیٹھا ر ہے اور کہے کہ جو میں دعا کروں وہ قبول ہو جائے.یہ ناممکن ہے.ایک بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ اس کے پاس بادشاہ آیا.جس کو انہوں نے چند ایک نصیحتیں کیں.مثلاً یہ کہ شراب نہ پینا ظلم نہ کرنا.وہ کہتا گیا بہت اچھا.جب انہوں نے کہا کہ شکار کم کھیلا کرنا تو کہنے لگا.دعا کرو.خدا مجھے ایسا کرنے کی توفیق دے.انہوں نے کہا.شکار چھوڑنے کی تمہاری نیست نہیں ہے مگر اور باتوں کے متعلق تم نے دعا کے لئے کیوں نہ کہا اور اس کے بعد کہ دیا.معلوم ہوتا ہے اس طرح تم ٹالنا چاہتے ہو.یہی حال آج کل لوگوں کا ہے.جس بات کو محنت سے نہ کرنا چاہتے ہوں یا سستی کی وجہ سے نہ کرتے ہوں اس کے متعلق چاہتے ہیں کہ دعا ہو جائے حالانکہ دعا اس شخص کے لئے ہتھیار ہے.جو اپنی طاقت بھر محنت اور کوشش کرے.اور پھر کامیاب نہ ہو سکے یعنی جس قدر اس سے ہوسکتا ہے وہ محنت کرتا ہے لیکن کامیاب نہیں ہوسکتا.یا کسی مجبوری کی وجہ سے محنت کر ہی نہیں سکتا.اس کے لئے دعا ہے جو کمی یا نقص اس کی محنت میں رہ جاتا ہے وہ دعا کے ذریعہ دور ہو جاتا ہے.ہمارے اس زمانہ میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے.سب سے زیادہ مشکلات پیدا

Page 153

خطبات محمود جلد (5) ۱۴۳ ہو گئی ہیں اس لئے سب زمانوں سے زیادہ دعا کی ضرورت ہے.کیونکہ مقابلہ کے لئے ہر رنگ کے سامان پیدا ہو چکے ہیں.یعنی شرارت کے علوم کے.سائنس کے تاریخ وغیرہ کے اعتراض بڑھ رہے ہیں اور پوشیدہ تعلیمیں نکل رہی ہیں.لیکن ان کا مقابلہ کرنے کی ہر ایک انسان میں طاقت نہیں ہے کیونکہ جب تک کوئی تمام علوم سے واقف نہ ہو اس وقت تک جواب نہیں دے سکتا.اور تمام علوم سے واقف ہونا کوئی آسان بات نہیں.پھر اس زمانہ کی ترقیوں نے لوگوں کو خدا تعالیٰ سے بالکل غافل کر دیا ہے.اس لئے ان کو سمجھانا بہت مشکل کام ہو گیا ہے.اب ان سامانوں کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنا جو ہمارے ہاتھ میں ہیں بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے اور ہونا بھی ایسا ہی چاہئیے تھا.کیونکہ اس آخری زمانہ میں خدا نے جو مصلح بھیجا ہے اس کا ہتھیار ہی خالص دعا ہے.پہلے انبیاء کے وقت اور ہتھیار بھی استعمال کئے جاتے تھے مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں جب تلوار اٹھائی گئی اور آپ کو سخت تنگ کیا گیا تو اس کا جواب انہیں تلوار سے ہی دیا گیا.لیکن اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ کو تمام ہتھیاروں کی بجائے صرف دعا کا ہی ہتھیا ر دیا ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے زمانہ میں جہاد کو قطعی حرام قرار دے دیا ہے.ورنہ جہاد تو کہتے ہی اس مقابلہ کو ہیں جو دشمن کے سخت تنگ کرنے اور تکالیف دینے پر بطور اپنے بچاؤ کے کیا جاوے لیکن یہ وہ زمانہ ہے کہ اس میں اتنی بھی اجازت نہیں ہے.تا کہ دعا اور صرف دعا سے ہی اس جماعت کی ترقی ہو.کیونکہ اس زمانہ میں مقابلہ کے سامان کثرت سے پیدا ہو چکے ہیں.اور دن بدن ہورہے ہیں لیکن دعا ہی ایک ایسی چیز ہے جسے بریکارسمجھ کر چھوڑ دیا گیا ہے.اور اس کے فائدہ رساں ہونے سے انکار کیا گیا ہے.اس لئے خدا نے چاہا ہے کہ دعا کے ذریعہ اس جماعت کو پھیلائے تا کہ ایک تو جو لوگ اس کے اثر سے منکر ہیں.وہ قائل ہو جا ئیں.دوسرے اس جماعت کے لئے آسانی ہو.اس زمانہ میں یورپ کے لوگ جس آرام طلبی اور آسائش میں پڑے ہوئے ہیں.ہم انہیں کہاں سمجھا سکتے ہیں سوائے اس کے کہ ہمارے مبلغ دعائیں کریں اور خدا کا فضل ان کے دلوں کو پاک کر کے حق کی طرف پھیر دے.اس وقت ہمارے پاس دعا ہی ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعہ ہم کامیاب ہو سکتے ہیں.

Page 154

خطبات محمود جلد (5) ۱۴۴ زرتشت نبی کے خلیفہ جاماسپ کی کتاب ہے جس کا نام جاما پسی ہے اس میں لکھا ہے کہ ایک نبی آخری زمانہ میں آئے گا اس وقت شیطان بڑا زور آور حملہ کرے گا.وہ نبی اس شیطان سے جنگ کرے گا اور کامیاب ہو جائے گا.مگر کس چیز سے.تلوار اور بندوق سے نہیں بلکہ دعاؤں سے.اس کے علاوہ یوں بھی حدیثوں میں آیا ہے کہ مسیح کے دم سے کا فرمریں گے ان باتوں سے پتہ لگتا ہے کہ درحقیقت سامان اس وقت کچھ نہیں کر سکتے.پس جب خدا تعالیٰ نے ہماری تمام فتوحات کو دعاؤں سے وابستہ کر دیا ہے تو اس بات کی بہت ہی ضرورت ہے کہ ہم خصوصیت کے ساتھ دعاؤں کی طرف متوجہ ہوں.اس میں شک نہیں کہ ہماری جماعت کے لوگ دوسروں کی نسبت زیادہ دعاؤں پر زور دیتے ہیں حتی کہ لوگ ہنستے ہیں.تاہم ابھی ضرورت ہے کہ خوب زور سے دعائیں کی جائیں.لیکن اس سے پہلے یہ یقین کر لینا چاہئیے کہ دعا ایک ایسی چیز ہے جس کے سامنے کوئی روک حائل نہیں ہو سکتی.اور اس کے ذریعہ خطرناک سے خطرناک دشمن اس طرح کچلے جاتے ہیں کہ دیکھنے والے حیران رہ جاتے ہیں.پس دعاؤں پر بہت زور دو اور جتنا پہلے دیتے ہو اس سے بھی زیادہ دو.کیونکہ دشمن جس قدر قوی ہوتا ہے اس قدر زیادہ اس کے مقابلہ میں تیاری کی جاتی ہے ہمارا دشمن بہت بڑا ہے اور جس قدر روکیں ہمارے راستہ میں ہیں اتنی پہلے نہ تھیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدین کلہ کہ وہ ایسا زمانہ ہوگا جبکہ اسلام کو تمام دینوں پر غالب کیا جائے گا گویا اس وقت باقی تمام دین بھی ظاہر ہو جائیں گے.جن کے ساتھ اسلام کو مقابلہ کرنا ہو گا اب دیکھ لواس کے لئے کس قدر محنت اور کوشش کی ضرورت ہے.اور وہ محنت یہی ہے کہ ہم دعاؤں میں خوب زور سے لگے رہیں.ہماری جماعت نے دعاؤں کا بہت تجربہ کیا ہے.حضرت مسیح موعود کے وقت تو دعاؤں کے ذریعہ ایسی ایسی کامیابیاں ہوتی تھیں کہ دیکھنے والے حیران اور ششدر رہ جاتے تھے.پس دعا ہمارے لئے کوئی بند لفافہ نہیں کہ گھبرائیں کہ اس کے اندر کیا ہوگا.بلکہ کھلی اور واضح تحریر ہے جس کو ہم نے بار بار پڑھا ہے اس کے اثرات کو دیکھا اور اس کے نتائج کا مشاہدہ کیا ہے اس لئے ہمارے لئے اس کی طرف متوجہ ہونا کچھ مشکل نہیں ہے.کیونکہ جس چیز سے ایک دفعہ انسان فائدہ حاصل کر لیتا ہے دوسری

Page 155

خطبات محمود جلد (5) ۱۴۵ دفعہ زیادہ رغبت سے اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے.ہم میں سے خدا کے فضل سے ہر ایک نے دعاؤں کا نتیجہ محسوس کیا ہوا ہے.پھر کونسی چیز ہے جو ہمارے راستہ میں روک ہو سکے سوائے اس کے کہ ہمارےنفس کی سستی اور کاہلی روک ہو.لیکن جس کام کے لئے ہم کھڑے ہیں اس میں سستی کا ایک منٹ بھی سخت مضر اور خطرناک ہے.کیا کوئی سمندر میں یا خطرناک جنگل میں ست ہو کر لیٹ سکتا ہے ہرگز نہیں.اسی طرح ہم بھی ایک ایسے جنگل اور بیابان میں ہیں جس کے چاروں طرف درندے ہی درندے نظر آتے ہیں.پس ہماری جماعت کو چاہئیے کہ نمازوں کے علاوہ دوسرے اوقات میں بھی دعاؤں پر بہت زور دیں.اور یہ سمجھ لیں کہ جب بار بار ایک جگہ دعا پڑتی رہتی ہے تو پھر اس کے قبول ہونے میں کوئی روک نہیں ہو سکتی.مجھے اپنی ساری عمر میں آج تک کوئی ایسا اتفاق نہیں ہوا.کہ میں نے کوئی دعا کی ہو.اور پھر وہ قبول نہ ہوئی ہو.اور جہاں منشاء الہی نہ ہو وہاں دعا کرنے کی توفیق ہی نہیں ملتی.مجھے خوب یاد ہے کہ حضرت صاحب کی آخری بیماری میں مجھ سے دعا کرنے کی توفیق چھینی گئی.مجھے اس سے گھبراہٹ بھی پیدا ہوئی کہ کیا مجھے آپ سے محبت نہیں ہے کہ آپ کی صحت کے لئے دعا کرنے کی طرف توجہ نہیں ہوتی.پھر میں نے اس بات کے لئے دعا کی کہ مجھے آپ کی صحت کے لئے دعا کرنے کی توفیق ملے لیکن بالکل نہ ملی.مجھے دعا کرتے وقت کچھ روک سی معلوم ہوئی.جب میں نے حد سے زیادہ دعا کرنے کی کوشش کر کے دیکھ لیا کہ طبیعت اس طرف متوجہ نہیں ہوتی تو سمجھا کہ اس میں خدا کی مصلحت ہے.تو جب کوئی انسان سنجیدگی اور اخلاص سے دعا کرے تو اگر خدا کا منشاء قبول کرنے کا نہ ہو تو اسے توفیق ہی نہیں دیتا.اور اگر توفیق دے تو ضرور قبول کر لیتا ہے اصل بات یہ ہے کہ جب دعا میں اخلاص اور توکل پیدا ہو جائے تو وہ کبھی نہیں ملتی یہی بات خدا تعالیٰ نے اس میں فرمائی ہے کہ امن یجیب الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكشِفُ السُّوءَ (النمل - ۶۳) شکار کوگھیر کر کسی خاص جگہ تک لے جانے کو اضطر کہتے ہیں.تو مضطر کے یہ معنے بھی ہوئے کہ ایسا شخص جس کے سب سامان کٹ جائیں.بعض لوگوں نے اضطرار کو سمجھا ہی نہیں.وہ کہتے ہیں.رونے گڑ گڑا کر دعا مانگنے کا نام اضطراری دعا ہے.حالانکہ یہ ٹھیک نہیں ہے.مضطر اس انسان کو کہتے ہیں

Page 156

خطبات محمود جلد (5) ۱۴۶ جس کے تمام آسرے اور امیدیں کٹ کر صرف خدا ہی خدا کا سہارا رہ جائے ایسے انسان کی دعا قبول ہوتی ہے اس کے علاوہ خواہ کوئی کتنا روئے گڑ گڑائے.اس کی دعا قبول نہیں ہوسکتی.پس اگر تم لوگ ایسے رنگ میں دعائیں کرو گے تو وہ رد نہیں ہوں گی.روکر تو بتوں پر چڑھاوے چڑھانے والے بھی ان سے دعائیں مانگتے ہیں.اس لئے رونا دعا کے قبول ہونے کے لئے شرط نہیں.بلکہ پورا پورا تو کل اور آسرا سوائے خدا کے اور کسی کا نہیں ہونا چاہئیے.ہر طرف خدا ہی خدا نظر آئے.ایسے وقت جو انسان دعا کرے اس کی کبھی رد نہیں ہوتی.اور اگر رڈ ہونی ہو تو اسے دعا کرنے کی توفیق ہی نہیں ملتی.اور جو خدا کے برگزیدہ انسان ہوتے ہیں ان کو قبول نہ ہونے والی دعا کے متعلق پہلے ہی بذریعہ الہام یا کشف کے بتا دیا جاتا ہے.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا گیا کہ اُجِيْبُ كُلّ دُعَائِكَ إِلَّا فِي شُرَكَائِكَ ے ان کے علاوہ اور لوگوں کے دلوں میں کچھ ایسی کیفیت پیدا کر دی جاتی ہے کہ دعا کرنے کی طرف پوری توجہ نہیں ہوسکتی.اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ منشاء الہی کچھ اور ہے.غرض یہ بڑا کار آمد اور مفید ہتھیار ہے.دیگر سامانوں کے لحاظ سے تو ہمارے پاس کچھ بھی نہیں.نہ حکومت ہے نہ مال ہے نہ دولت ہے نہ فوج ہے.نہ کوئی ایسا سامان ہے ہمارے کام جیسے ہونے چاہئیں اس کے مقابلہ میں بہت چھوٹے چھوٹے پیمانہ پر چل رہے ہیں.پھر بھی قریبا تمام فنڈ مقروض ہی رہتے ہیں تو دنیاوی سامانوں کے ساتھ ہم اپنے دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتے ہمارا مقابلہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ خدا کا فضل اور رحمت آکر ہمارے لئے راستہ صاف کر دے.اور یہ تب ہوسکتا ہے جبکہ ہم مضطر ہو کر دعائیں مانگیں اور خدا کے سوا کوئی سہارا اور امید گاہ خیال نہ کریں.ہمارے لئے صرف ایک خدا ہی ہو اور وہی ہر طرف دکھائی دے.جس طرح کسی شاعر نے کہا ہے.ع چدھر دیکھتا ہوں اُدھر تو ہی تو ہے.جب ایسا ہو جائے تو خدا ضرور ہماری دعائیں قبول کر لے گا.پس دعاؤں میں لگ جاؤ اور اس بات کا یقین رکھو کہ ضرور قبول ہو جائیں گی اور اس بات ل تذکره ص ۲۶

Page 157

خطبات محمود جلد (5) ۱۴۷ کے لئے بھی دعا مانگو کہ خدا تمہیں یہ دعائیں کرنے کی توفیق دے جس وقت خدا کا منشاء اور ارادہ انسان کے شامل حال ہوتا ہے تو دعا کرنے کے عجیب عجیب طریق اسے سوجھ جاتے ہیں بعض دفعہ تو الفاظ اور فقرات سکھائے جاتے ہیں.وہی فتنہ جو ہماری جماعت میں ایک گمنام ٹریکٹ کے ذریعہ برپا کرنے کی کوشش کی گئی تھی.ابھی وہ ٹریکٹ شائع نہیں ہوا تھا کہ مجھے شملہ میں رویا میں دکھایا گیا.کہ ہم کچھ آدمی ہیں جنہیں پہاڑ پر جانا ہے.اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ راستہ میں جنات ہیں جو نظر تو نہیں آتے لیکن ہمارے راستہ میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں میں اپنے ساتھیوں کو کہتا ہوں کہ وہ تم کو راستہ سے ہٹا ئیں گے لیکن تم ہرگز نہ ہٹنا اور یہ کہتے ہوئے آگے بڑھتے جانا کہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.چنانچہ جس وقت ہم چلے ہیں تو انہوں نے روک ڈالنی شروع کر دی ہے.مگر نظر نہیں آتے.جب ہم نے کہا کہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.“ تو وہ بھاگ گئے.اور ہمارے راستہ سے روک ہٹ گئی.اس رویا کے بعد جب میں شملہ سے آیا.تو اس ٹریکٹ کے ذریعہ حملہ ہوا اور حملہ کرنے والے پوشیدہ رہے.اس کے جواب میں جو ٹریکٹ لکھا گیا اس کے ٹائیٹل پر یہی الفاظ لکھوائے گئے.کہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ شائع ہوتا ہے.تو خدا تعالیٰ خود دعا ئیں سکھا دیتا ہے مگر اسی وقت جبکہ انسان مضطر ہو کر اس کے آستانہ پر گر جائے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کی توفیق دے تا یہ ایک ہی ہتھیار جو ہمارے لئے مخصوص کیا گیا ہے اسے استعمال کر سکیں اور ہمارے راستہ میں جو مشکلات ہیں وہ دور ہوں اور ہمارے سپر د جو خدمت کی گئی ہے اس کو پورا کر سکیں.(الفضل ۴ جولائی ۱۹۱۶ء)

Page 158

۱۴۸ 20 خطبات محمود جلد (5) مبلغین سلسلہ کی دُعاؤں سے مدد کرو فرموده ۲۳ / جون ۱۹۱۶ء) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ اور مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کے بعد فرمایا :- وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ (البقرة: ۱۸۷) میں اس وقت جس مضمون کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں وہ ہے تو بہت لمبا بلحاظ اس زمانہ کی ضروریات کے.کیونکہ اس زمانہ میں جب تک کسی بات کو کھول کر مشرح اور مفصل نہ بیان کیا جائے لوگ کم سمجھتے ہیں ورنہ صحابہ کے زمانہ میں بہت لمبی لمبی باتیں نہایت مختصر فقرات اور جملات میں بیان کر دی جاتی تھیں اور سامعین اسی کو کافی خیال کرتے تھے.غرض یہ مضمون تو اس قابل ہے کہ اس کی خوب تشریح کی جائے لیکن چونکہ چار پانچ روز سے مجھے بخار آتا ہے اور ڈاکٹر صاحب نے بولنے کے متعلق فرمایا ہے کہ مضر ہے.اس لئے میں اس کو مختصراً بیان کرتا ہوں.آگے ہر شخص اپنے اپنے فہم اور سمجھ کے مطابق سوچ لے.اس وقت ہمارے کچھ مبلغ بیرونجات میں کام کر رہے ہیں.ایک انگلستان میں ہے ایک ماریشس میں.ایک پورٹ بلیئر میں ہے.ایک بنگال میں.اسی طرح پنجاب کے مختلف علاقوں میں ہیں.مدد.تائید اور نصرت کے تو سب ہی محتاج ہیں.کیونکہ تمام انسانی کا موں کو اللہ تعالیٰ نے کچھ اس قسم کا بنایا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے سہارے اور تعاون سے چلتے ہیں.مگر ان میں سے جو بیرونی ممالک میں مبلغ ہیں.وہ مدد کے زیادہ محتاج ہیں.محتاج ہی نہیں بلکہ زیادہ مستحق ہیں اس بات کے کہ ہماری جماعت کے تمام لوگ ان کی مدد کریں.پھر ان میں سے بھی مدد کے زیادہ مستحق وہ ہیں

Page 159

خطبات محمود جلد (5) ۱۴۹ جن کی تبلیغ ایسے لوگوں میں ہے جو نسلاً بعد نسل اسلام کے دشمن چلے آ رہے ہیں اور جو ایسی روایتوں میں پہلے ہیں جن میں اسلام کو نظر حقارت سے دیکھا گیا ہے کمزور ترین بیان کیا گیا ہے.در حقیقت تبلیغ کا کام کسی خاص شخص کا کام نہیں بلکہ ہر ایک احمدی کا فرض ہے پس نادان ہے اور اپنے فرائض کو نہ سمجھنے والا ہے وہ انسان جو یہ خیال کرے کہ فلاں شخص جو تبلیغ کا کام کرتا ہے اپنا کام کر رہا ہے کیونکہ در حقیقت وہ ایک ایجنٹ ہے جس طرح تاجر کمپنیاں مختلف جگہوں میں اپنے ایجنٹ مقرر کرتی ہیں اور ایسا نہیں ہوتا کہ ہر جگہ مالکان کمپنی جائیں.اسی طرح ہمارے مبلغ ہماری تمام جماعت کے ایجنٹ ہیں کیونکہ سب کی سب جماعت ہر جگہ جا نہیں سکتی.اس لئے یہی ہوگا کہ ساری جماعت کے کچھ قائم مقام ہوں جو مختلف جگہوں میں کام کریں جب صورت حال یہ ہے تو آسانی سے یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ ان قائم مقاموں کی کامیابی تمام جماعت کی کامیابی ہے اور ان کی نا کامی تمام جماعت کی نا کامی اگر کسی ملک کی فوج کسی جگہ لڑ رہی ہو تو ملک کے تمام لوگوں پر اس کی مدد کرنا فرض ہے.اس میں شک نہیں کہ وہ سپاہی جو بندوق اٹھائے مقابلہ کر رہا ہے اپنی قوت بازو دکھلا رہا ہے لیکن وہ اپنے ملک کے سب لوگوں کا قائم مقام ہو کر کھڑا ہے اس لئے اگر وہ گرتا ہے تو اس کا سارا ملک گر جاتا ہے اور اگر اسے کامیابی اور فتح حاصل ہوتی ہے تو اس کا سارا ملک فاتح کہلاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ وہ قومیں جو سمجھدار ہیں اپنے ہر ایک سپاہی کی قربانی کو اپنی قربانی سمجھ کر اس کے لئے ہر ایک قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جاتی ہیں.مگر وہ ملک کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا.جس کے سپاہی دشمن سے لڑنے کے لئے جائیں.اور دوسرے لوگ کہیں کہ وہ اپنا فرض ادا کرنے کے لئے گئے ہیں.ہمیں ضرورت نہیں کہ ان کی مدد کریں.یا کسی طریق سے لڑائی میں حصہ لیں.کیونکہ جب تک ہر فرد کی طاقت ترازوؤں کے پلڑا میں نہ ڈال دی جائے اس وقت تک مقابل کے پلڑا سے بھاری نہیں ہو سکتا.پس مبلغین کا کام ان کا نہیں بلکہ ہم میں سے ہر ایک کا ہے خواہ مرد ہے یا عورت، خواہ وہ بڑا ہے یا چھوٹا.یہی وجہ ہے کہ ان کی کامیابی یا ناکامی کا اثر تمام جماعت پر پڑتا ہے اس لئے ان کی مدد کرنا در حقیقت آپ اپنی مدد کرنا ہے.پس ہماری جماعت کے تمام لوگوں کو چاہئیے

Page 160

خطبات محمود جلد (5) ۱۵۰ کہ ہر رنگ اور ہر ذریعہ سے جو خدا دے مبلغین کی مدد کریں.کیونکہ ان کو مدد دینا ان کے لئے نہیں بلکہ اپنے لئے ہے اور اپنے بھی جسم کے لئے نہیں بلکہ روح کے لئے جو جسم سے بہت زیادہ قیمتی ہے.مبلغین کو مدد دینے کے ذرائع تو بہت سے ہیں.مثلاً مال سے مدد کرنا ایک ذریعہ ہے ان کو مفید اور فائدہ مند نصائح کرنا دوسرا ذریعہ ہے ان کے تبلیغی کام کے متعلق مفید مشورے دینا تیسر ا ذریعہ ہے.ان کا ہاتھ بٹانے کے لئے ایسے مضامین لکھنا جو اپنے اندر روحانیت رکھتے اور اسلام کی صداقت پر دال ہوں چوتھا ذریعہ ہے.پھر کثرت سے ٹریکٹ چھپوا کر ان کے پاس بھیجا کہ وہ تقسیم کرسکیں پانچواں ذریعہ ہے.غرض ان کی مدد کرنے کے بہت سے ذرائع ہیں لیکن ان سب سے زیادہ زور دار اور مفید و با برکت ذریعہ جو ہے وہ دُعا کا ذریعہ ہے اس ذریعہ سے جس قدر مدد کی جاسکتی ہے اور کسی طریق سے نہیں ہوسکتی.لاکھوں لاکھ ٹریکٹ چھپوا کر ان کو بھیجے جائیں.کروڑوں کروڑ روپیہ ان کے لئے صرف کیا جائے بے انتہا مفید سے مفید مشورے اور اعلیٰ سے اعلیٰ نصیحتیں انہیں کی جائیں.ان کے دل کو مطمئن اور بافراغت رکھنے کے لئے ان کے بال بچوں کی خبر گیری میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا جائے مگر ان سب سے بڑھ کر دُعا مدد دے سکتی ہے کیونکہ یہ سب ذرائع ہوتے ہوئے انسان نا کام ہو جاتا ہے مگر دعا کی مددجس کے ساتھ ہو وہ کبھی ناکام نہیں ہوتا.دنیا میں دوسری قومیں مال کے لحاظ سے ہم سے بہت زیادہ دولت مند ہیں مگر باوجود اس کے وہ مذاہب کے میدان میں ہمارے مقابلہ میں کامیاب نہیں ہو سکتیں.اگر عوام کی نگاہ میں ان کی کچھ کامیابی ہے تو یہ کوئی کامیابی نہیں کیونکہ ان کے ذمہ دار اور حقیقت شناس لوگ اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں کہ ہمارا قدم پیچھے پڑ رہا ہے نہ کہ آگے.اسی طرح مشورہ دینے اور مفید باتیں بتانے والے بھی غیر اقوام میں بڑے بڑے عالی دماغ ہیں.مبلغین کے آرام و آسائش کا خیال رکھنے والے بھی وہ ہم سے زیادہ ہیں ٹریکٹ بھی لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں شائع کرتے ہیں.غرض یہ سب اشیاء دیگر اقوام کے پاس ہم سے بہت زیادہ ہیں.اگر کچھ نہیں ہے تو دعا کا ہتھیار نہیں ہے.اور مقابلہ کے وقت ہمیشہ انہی سامانوں اور ذرائع سے کامیابی ہوا کرتی ہے جو دشمن کے پاس کم ہوں یا بالکل نہ ہوں.ان سامانوں کے ذریعہ غلبہ

Page 161

خطبات محمود جلد (5) ۱۵۱ نہیں ہو ا کرتا.جود ثمن کے پاس زیادہ ہوں.مثلاً ایک قوم جس کے پاس کروڑ روپیہ ہے وہ کہے کہ ہم اپنے دشمن پر جس کے پاس تیس کروڑ روپیہ ہے مالی رنگ میں فتح حاصل کر لیں گے تو یہ بالکل غلط بات ہے.کیونکہ پیشتر اس کے کہ اس کے دشمن کا روپیہ ختم ہو اس کا اپنا ختم ہو جائے گا اس لئے اس کے لئے کامیابی حاصل کرنے کے لئے یہ ذریعہ نہیں ہو سکتا.اس موجودہ جنگ میں متحدہ سلطنتوں کے مد تبر اس بات پر غور و فکر کرتے رہتے ہیں کہ جرمن پر جلد فتح پانے کا کونسا ذریعہ ہوسکتا ہے اس کے لئے وہ ہر ایک قسم کے سامانوں کو دیکھتے ہیں اور پھر اس بات کا اندازہ لگاتے ہیں کہ کونسی چیز جرمن کے پاس کم ہے تا اس کے ذریعہ اس پر فتح حاصل کی جائے تو کسی دشمن پر فتح پانے کے لئے وہ ذریعہ نہایت کارآمد مفید اور جلد فیصلہ کرنے والا ہوتا ہے جو دشمن کے پاس نہ ہو یا کم ہو.پس اس وقت ہمارے پاس دعا ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جو ہمارے مخالفین کے پاس نہیں ہے اس لئے اس کے ذریعہ ہم ان پر کامیابی حاصل کر سکتے ہیں.اس وقت جو آیت میں نے پڑھی ہے اس میں نہایت لطیف پیرایہ میں خدا تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ دُعا ان سب ذرائع سے جن سے کامیابی حاصل ہوا کرتی ہے بڑھ کر ہے.اس آیت میں ایک لفظ خدا تعالیٰ نے ایسا رکھا ہے جس نے دعا کی ایسی تشریح کر دی ہے جس سے پتہ لگ جاتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں اور کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَلَى فَإِنِّي قريب.اے رسول ! ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) جب تجھ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو کہہ دے میں قریب ہوں.یہ آیت سورۃ بقرہ میں آئی ہے اور وہ مدنی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کا وہ وقت تھا کہ صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خدا تعالیٰ کے متعلق سوال کر سکتے تھے.حالانکہ سورہ ق میں جو کہ مکی ہے خدا تعالیٰ فرما چکا ہے وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيد.اس آیت میں قریب نہیں بلکہ اقرب کا لفظ موجود ہے.پس جب کہ متی سورۃ میں خدا تعالیٰ نے اپنے آپ کو اقرب فرما دیا ہے تو پھر مدنی میں یہ فرمانے کی کیا ضرورت تھی کہ جب میرے بندے میرے متعلق تجھ سے سوال کریں تو یہ جواب دو کہ میں قریب ہوں کیونکہ جب مکی آیت کے ذریعہ انہیں معلوم ہو چکا تھا کہ خدا تعالیٰ بہت ہی قریب ہے تو پھر یہ سوال

Page 162

خطبات محمود جلد (5) ۱۵۲ ہی کوئی نہیں کر سکتا تھا.اس لئے اس آیت کے بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی اور اگر کوئی سوال کرتا بھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ بتا سکتے تھے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ.لیکن قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور خدا کا کلام بلاضرورت یا بیجا نہیں ہوا کرتا اس لئے معلوم ہوا کہ یہاں خدا تعالیٰ کا سوال بیان کرنا اور پھر اس کا جواب بھی دینا کوئی اور حکمت رکھتا ہے اور یہاں جو قریب کا لفظ آیا ہے اس کا مطلب وہ قرب اور بُعد نہیں جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے.کیونکہ اس کے متعلق تو اللہ تعالیٰ فرما چکا ہے کہ محن أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ.اگر یہاں بھی یہی مراد ہوتی تو پھر یہ کیوں فرما تا کہ جب لوگ تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یہ جواب دیجو گویا پہلے یہ جواب نہیں بتایا گیا تھا اور اب بتا یا ہے تو معلوم ہوا کہ یہاں سوال ہی کوئی اور ہے.اور اس کے جواب میں جو قریب کہا گیا ہے وہ بھی کوئی اور معنی رکھتا ہے.یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان دونوں آیتوں میں خدا تعالیٰ نے ایک عجیب فرق رکھا ہے.اور وہ یہ کہ قرب اور بعد ہمیشہ نسبت کے ساتھ ہوتے ہیں.ایک چیز ہمارے قریب ہے مگر وہی دوسرے کے بعید ہے مثلاً یہ بچہ جو اس وقت منبر کے پاس بیٹھا ہے یہ مجھ سے قریب ہے لیکن جو شخص آخری سرے پر بیٹھا ہے اس کے بعید ہے اور جو اس کے قریب بیٹھا ہے وہ مجھے سے بعید ہے.تو قریب اور بعید نسبت سے ہوتا ہے.جب ایک چیز کو قریب کہتے ہیں تو ایک نسبت سے کہتے ہیں دوسری نسبت سے وہی چیز بعید ترین ہو سکتی ہے تو سورۃ ق میں جو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (ق:۱۷) کہ ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم ہی اس کے متعلق یہاں تک جانتے ہیں کہ اس کے دل میں جو کچھ وسوسہ ہوتا ہے.اس کو بھی جانتے ہیں اور ہم ہی اس کے رگِ جاں سے بھی قریب تر ہیں اس میں الیہ کی نسبت سے اقرب فرمایا ہے لیکن وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِي فَإِنِّي قَرِيبٌ میں قریب کا لفظ کسی نسبت سے نہیں فرمایا بلکہ بلانسبت فرمایا ہے اور کوئی حد بندی نہیں کی.

Page 163

خطبات محمود جلد (5) ۱۵۳ اس میں ایک لطیف بات ہے اور وہ یہ کہ انسان جو اپنی حاجت خدا تعالیٰ کے حضور بیان کرتا ہے وہ مختلف اوقات میں مختلف اشیاء کے متعلق ہوتی ہے کبھی تو وہ انسانوں کے متعلق ہوتی ہے.کبھی حیوان کے متعلق کبھی جانداروں کے متعلق ہوتی ہے کبھی بے جانوں کے متعلق کبھی خدا کے متعلق ہوتی ہے کبھی ملائکہ کے متعلق کبھی اس دنیا کے متعلق ہوتی ہے.کبھی اگلے جہان کے متعلق کبھی اس زمین پر رہنے والی چیزوں کے متعلق ہوتی ہے کبھی آسمان کی چیزوں کے متعلق غرض انسان کی مختلف احتیا جیں ہیں اور ایسی وسیع ہیں کہ جن کی کوئی حد بندی نہیں ہو سکتی.لیکن انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ جب کسی چیز کی اسے طلب ہوتی ہے تو اس کے حاصل کرنے کے متعلق کوئی ایسا ذریعہ تلاش کرتا ہے جو قریب ہو.قریب کی کئی قسمیں ہیں.ایک یہ بھی قریب ہے کہ کوئی ذریعہ جلدی میسر آجائے.مثلاً ایک شخص سفر پر جانا چاہتا ہے اسے یکہ یا گھوڑا تلاش کرنا ہے ہوسکتا ہے کہ کوئی ہیکہ یا گھوڑا اس کے مکان کے قریب ہو.اور کوئی دور.مگر جب قریب اور دور کا یکہ یا گھوڑا آپس میں یکساں ہوں گے.یعنی ایک ہی وقت پر اور ایک ہی ایسے آرام سے پہنچاتے ہوں گے تو وہ یہ نہیں کرے گا کہ اپنے مکان کے قریب والے کو نہ لے اور بعید والے کو لے لے.بلکہ وہ قریب والے کو لیگا اور بعید والے کو چھوڑ دے گا.تو ہر ایک انسان اپنا مدعا حاصل کرنے کے لئے جو ذریعہ قریب دیکھتا ہے.اس کو لیتا ہے اور بعید کو چھوڑ دیتا ہے اس کے علاوہ قریب ایک اور رنگ میں بھی ہوتا ہے یعنی وہ ذریعہ جو اپنے مدعا اور منزل مقصود کے قریب تر پہنچا دے.مثلاً کسی شخص نے ایک جگہ جانا ہے اسے ایک ایسی سواری ملتی ہے جو اسے منزل مقصود سے ایک میل ورے چھوڑ دیتی ہے.دوسری آدھ میل.تیسری ایک چوتھائی میل اور ایک عین جگہ پر پہنچا دیتی ہے تو وہ ان میں سے اسی کو اختیار کرے گا جوسب سے قریب پہنچانے والی ہوگی.دوسریوں کو چھوڑ دے گا.غرض بہت سے قرب ہیں جن کا کسی چیز میں پایا جانا انسان دیکھتا ہے.اور جب وہ سارے قرب کسی میں پالیتا ہے.تو اس کو اپنے مدعا کے حصول کے لئے لے لیتا ہے.اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا ہے.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَلَى فَإِنِّي قَرِيبٌ کہ انسان اپنے مختلف مدعاؤں کے لئے کوشش کرتا ہے.اور ان کے لئے دیکھتا ہے کہ کونسا ذریعہ اختیار کروں جس سے جلد

Page 164

خطبات محمود جلد (5) ۱۵۴ کامیاب ہو جاؤں گا.مثلاً تبلیغ کا کام ہے.اس کے متعلق انسان سوچتا ہے کہ ٹریکٹ تقسیم کروں.یا لیکچر دوں.یا خدا سے دعا کروں کہ وہ لوگوں کے دلوں کو کھول دے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے جب کوئی انسان ذرائع کو سوچتے سوچتے یہاں پہنچے کہ میں دعا کروں تو اس کو کہہ دو کہ اللہ قریب ہے.قریب الیہ نہیں فرما یا اس لئے کہ خدا نہ صرف اس انسان کے قریب ہے بلکہ ہر ایک چیز کے قریب ہے.اور مدعا حاصل کرنے کا سب سے قریب ذریعہ ہے.یوں قریب ہونا ایک اور بات ہے لیکن جس مقصد کو حاصل کرنا ہو اس کے قریب کر دینا اور بات.مثلاً ایک بچہ جو قریب بیٹھا ہوا سے ایک چیز دی جائے کہ فلاں کو دے دو.جتنے عرصہ میں وہ چیز کو پہنچائے گا اس سے بہت جلدی ایک بڑا انسان جس کے ہاتھ اس سے لمبے ہوں گے باوجود اس سے دور بیٹھے ہونے کے پہنچا دے گا.کیونکہ وہ لڑکے کی نسبت ایک ایسا ذریعہ ہے جو اس چیز کو پہنچانے کے قریب ہے تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہارے بھی قریب ہوں اور وہ مقصد جسے تم حاصل کرنا چاہتے ہو اس کے بھی قریب ہوں.مثلا کسی نے ولایت میں تبلیغ کا کام کرنا ہے.خدا تعالیٰ ولایت کے بھی قریب ہے اور یہاں کے بھی جہاں وہ شخص رہتا ہے.اس لئے وہ یہاں سے بات کو سنکر وہاں فوراً پہنچا سکتا ہے.تو اس آیت میں قرب مکان کا ذکر نہیں بلکہ یہ کہ حصول مدعا کے لئے جتنے قربوں کی ضرورت ہے.وہ سب خدا میں موجود ہیں.مثلاً ایک نص ولایت میں محتاج ہے.وہ وہاں سے ہمیں مدد کے لئے لکھتا ہے کہ میری مدد کر و.اگر ہم اس کو روپیہ بھیجیں تو پندرہ بیس دن کے بعد اسے ملے گا لیکن اگر دعا کریں تو ممکن ہے کہ ادھر ہمارے منہ سے اس کے لئے دعا نکلے اور اُدھر خدا تعالیٰ اس کا کوئی انتظام کر دے تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں قریب ہوں اگر کوئی مدعا حاصل کرنا چاہتے ہو تو مجھ سے کہو دیکھو ایک مالدار شخص کو بھی جب مال کی ضرورت ہوگی تو وہ کچھ دیر کے بعد صندوق سے نکالے گا.یا بنک سے ڈرا کرائے گا.ایک بیمارڈاکٹر کے پاس جائے گا ممکن ہے کہ ڈاکٹر موجود ہی نہ ہو.اور اگر ہو تو اسے جواب مل جائے کہ ڈاکٹر صاحب سوئے ہوئے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کے لئے نہ ہاتھ کی ضرورت اور نہ پاؤں کی.دل ہی دل میں حاضر ہو سکتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں قریب ہوں.پھر انسان کے ہی قریب نہیں

Page 165

خطبات محمود جلد (5) ۱۵۵ بلکہ جس مدعا اور مقصد کو حاصل کرنا ہو اس کے بھی قریب ہوں.ادھر انسان یہ کہتا ہے کہ الہی ! مجھے فلاں چیز مل جائے.وہ چیز لاکھوں کروڑوں میل کے فاصلہ پر ہو خدا تعالیٰ اس پر اسی وقت قبضہ کر لیتا ہے کہ یہ ہمارے فلاں بندے کے لئے ہے.کیونکہ جس طرح خدا اس بندے کے قریب ہے اسی طرح اس چیز کے بھی قریب ہے تو کامیابی کے لئے یہ ذریعہ سب سے بڑا اور سب سے زیادہ مفید ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَان (البقرة: ۱۸۷) میں تمہارے قریب ہوں.اور بہت جلد حاصل ہو جانے والا ہوں.دوسرے ذرائع کے لئے تمہیں بہت کچھ کرنا پڑے گا.اور پھر بھی یقینی بات نہیں کہ ان سے تم کامیاب ہوجاؤ لیکن میرے حاصل کرنے کے لئے صرف تو جہ اور اخلاص کی ضرورت ہے.جب کوئی میرا بندہ اس طریق سے دعا کرتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کر لیتا ہوں.قبول کرنے کے دوطریق ہیں.ایک یہ کہ بات مان لی.مثلاً یہ کہ ہم نے دعا کی کہ اے خدا فلاں کی مدد کر.اس کو خدا نے سن لیا نہ یہ کہ اس کی مدد بھی کر دی.لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مجھے پکارتا ہے میں اس کی پکار کو قبول کرتا ہوں یعنی ادھر عرض سنتا ہوں اُدھر اسے پورا کر دیتا ہوں.فَلْيَسْتَجِيْبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ.پس چاہیئے کہ وہ میرے احکام کو مانیں اور میری آواز کوئنیں کیونکہ جب میں ہی ایک ایسا ذریعہ ہوں تو مجھ پر ہی ایمان لائیں تا کہ اپنے مدعا میں کامیاب ہوں.کامیابی حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے یہی سب سے بڑا گر بتایا ہے اس لئے ہماری جماعت کو چاہیے کہ کثرت سے دعاؤں کے ساتھ ان مبلغوں کی امداد کرے.جو ہمارے لئے اس قدر مصائب اٹھا رہے ہیں.لیکن اس لحاظ سے کہ ہمارے فرض کو وہ ادا کر رہے ہیں ہمارے لئے ہی تکالیف برداشت کر رہے ہیں وہ اپنے بیوی بچوں سے.مال و جائداد سے.ملک و وطن سے دور بیٹھے ہیں.مگر تم قریب ہو وہ سب دنیاوی تعلقات کو خدا کے لئے توڑ کر تبلیغ کے لئے گئے ہوئے ہیں.مگر تمہارے سارے تعلقات وابستہ ہیں.نہ ہیں.تمھیں سمجھنا چاہیئے کہ جس طرح انہوں نے تمہارے لئے قربانی کی ہے اسی طرح ان کا بھی حق ہے کہ تم ان کے لئے قربانی کرو.پس تم لوگ جہاں اور طریق سے ان کی مدد کرو.وہاں دعاؤں سے بھی ضرور ان کی تائید کرو اور یقین رکھو کہ یہی ایک ذریعہ ایسا ہے جس سے تم جلد سے جلد

Page 166

خطبات محمود جلد (5) ۱۵۶ کامیاب ہو سکتے ہو.کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہارے بھی قریب ہوں، اور تمہارے مدعا اور مقصد کے بھی قریب ہوں.جیسے تار برقی ہے ایک جگہ ٹک ٹک ہوتی ہے تو سینکڑوں میلوں پر فوراً خبر پہنچ جاتی ہے.خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں تو تار کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی.لیکن اس سے میں نے یہ بتایا ہے کہ یہ تار کا قرب جب اس قدر مفید اور فائدہ رساں ہے تو خدا تعالیٰ جس کا قرب اس سے بہت ہی زیادہ ہے وہ کس قدر مفید ہوگا اس کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں لگا سکتا.وہ ادھر سنتا اور ادھر قبول کر لیتا ہے خواہ کتنے ہی فاصلے پر وہ مدعا ہو.غرض ایسا آسان اور سہل اور کوئی کامیابی کا طریق نہیں ہے.اس لئے ہماری تمام جماعت کو چاہئیے کہ ان لوگوں کے لئے جو اپنے بال بچوں مال اور اموال خویش و اقارب کو چھوڑ کر ایسے کام کی خاطر دور دراز ملکوں میں گئے ہوئے ہیں جس کا کرنا ہمارا بھی فرض ہے اور پھر ایسے لوگوں میں گئے ہیں جن کے اخلاص اور عادات سے واقف نہیں.ان مشکلات کے ہوتے ہوئے وہ کام کر رہے ہیں بہت دعائیں کی جائیں.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت میں اس بات کے احساس کو پیدا کرے تا علاوہ اور رنگ کی مدد کرنے کے دعا سے بھی ان کی مدد کریں.جو محض اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے ملک سے بے ملک اپنے وطن سے بے وطن ہوئے ہیں.خدا تعالیٰ ان کی زبانوں میں برکت دے.دلوں میں ایمان مضبوط کرے اور اعمال میں تقویٰ اور سداد پیدا کرے.ان کی باتیں سننے والے ان سے مسرور ہوں اور انہیں عظمت کی نگاہ سے دیکھیں دشمن کی نظروں میں وہ ذلیل نہ ہوں اور ان کی نظر میں کوئی بڑے سے بڑا دشمن ایسا نہ آئے جس سے وہ مرعوب ہو جائیں آمین.(الفضل ۸ جولائی ۱۹۱۶ء)

Page 167

۱۵۷ 21 خطبات محمود جلد (5) دُعاؤں کے قبول ہونیکے وقت سے فائدہ اٹھاؤ (فرمودہ ۷ جولائی ۱۹۱۶ء) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ اور مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کے بعد فرمایا :- وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة: ۱۸۷) ہر ایک کام کا ایک وقت ہوتا ہے اس وقت جس خوبی اور عمدگی سے وہ کام ہوسکتا ہے دوسرے وقت میں اس خوبی اور عمدگی سے نہیں ہوسکتا.اور یہ بات چھوٹے چھوٹے کاموں سے لے کر بڑے بڑے کاموں میں یکساں طور پر پائی جاتی ہے.ہر ایک کام اپنے خاص وقت کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے.اس وقت میں اگر کیا جائے تو جیسے اعلیٰ درجہ کے نتائج اس سے مترتب ہوتے ہیں دوسرے وقت میں ویسے نہیں ہو سکتے اور بعض کام تو اس قسم کے ہیں کہ اگر ان کے مقررہ وقت پر انہیں نہ کیا جائے تو دوسرے وقت میں ہوتے ہی نہیں.ہر شخص اپنے کاموں میں اس بات کو دیکھ لے کہ جس رنگ میں وہ کام کرتا ہے.یا جو کام وہ کرتا ہے اس میں اگر غور کرے گا تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ یہ اصل ہر ایک کام میں جاری ہے.ایک زمیندار اپنے زمیندارے پر غور کر سکتا ہے.وہ مختلف کھیتیاں.غلے اور ترکاریاں ہوتا ہے.مگر یہ نہیں ہوتا کہ تمام سال میں جس وقت وہ بیج ڈالے.اسی وقت وہ کھیتی تیار ہو جائے گیہوں کے بونے کے لئے ایک وقت مقرر ہے.اگر اس وقت وہ نہیں ہوتا تو کھیتی نہیں ہوسکتی مقررہ وقت پر اگر اد نئے بیچ ڈالے تو بھی اچھے دانے حاصل کر لیتا ہے مگر بے وقت اگر اعلیٰ درجہ کا بیج ڈالے تو بھی کچھ نہیں ہوگا.پھر بعض کھیتیاں تو ایسی ہیں کہ اگر انہیں وقت مقررہ پر بویا جائے تو اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہیں اور اگر دوسرے

Page 168

خطبات محمود جلد (5) ۱۵۸ وقت پر بویا جائے تو ہو تو جاتی ہیں مگر ادنی درجہ کی ہوتی ہیں اور بعض ایسی ہوتی ہیں کہ اگر انہیں بے وقت بویا جائے تو سبزہ تو ہو جاتا ہے مگر پھل کوئی نہیں آتا یعنی نتیجہ کچھ نہیں نکلتا.ہاں اگر اپنے وقت پر انہیں بویا جائے تو ان سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے.یہی بات تمام پیشوں میں چلتی ہے.یعنی ہر کام کے لئے ایک وقت مقرر ہے.لوہار لو ہے کو تپاتا ہے اس کے تپنے کا بھی ایک وقت ہوتا ہے.اس وقت کی ضرب جیسی کارآمد اور مفید ہوتی ہے ایسی آگے پیچھے کی نہیں ہوتی اگر زیادہ گرم ہونے پر ضرب پڑے تو بھی خراب کر دیتی ہے.اور اگر تھوڑے گرم پر پڑے تو بھی.لوہار خوب سمجھتا ہے کہ مجھے کس وقت ضرب لگانی چاہئیے.تمام کاموں کا یہی حال ہے.دیکھو اب جولڑائی ہو رہی ہے اس کے متعلق بھی اخباریں پڑھنے والے خوب جانتے ہیں کہ سلطنتوں کے ذمہ دار اشخاص یہی کہتے ہیں کہ ہم اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جبکہ دشمن کو بالکل کچل دیں.یوں تو ہر روز ہی لڑائی ہوتی ہے مگر اس کے خاص خاص وقت بھی مقرر ہوتے ہیں اس وقت کی ضرب لگی ہوئی دشمن کو ہلاک کر دیتی ہے.یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ درجہ کا جرنیل وہی سمجھا جاتا ہے جو ایسے وقت کو معلوم کر سکے.میں نے ہر ایک کام کے لئے جو وقت مقرر بتایا ہے وہ کوئی جادو اور ٹونے کی طرح نہیں ہوتا کہ اس کے آنے سے کوئی خاص اثر پید ا ہو جاتا ہے اس لئے وہ کام ہو جاتا ہے بلکہ میری اس سے یہ مراد ہے کہ جس وقت کسی کامیابی کے تمام سامان مہیا ہو جاتے ہیں وہی اس کے کرنے کا وقت ہوتا ہے.اگر گیہوں کا دانہ ایک خاص وقت میں بونے سے اُگتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس وقت اس میں کوئی خاص بات پیدا ہو جاتی ہے بلکہ یہ کہ گیہوں کے اُگنے کے لئے جو سامان ضروری ہوتے ہیں وہ اس وقت مہیا ہو جاتے ہیں اگر وہی سامان کسی دوسرے وقت بھی مہیا ہو سکیں تو اس وقت بھی ضرور اُگ آئے.تو ضروری سامانوں کے مہیا ہونے کا نام وقت مقررہ ہوتا ہے.مثلاً انسان کا معدہ ہے رات بھر آرام پاتا ہے.صبح کے وقت تمام اعصاب امن اور سکون میں ہوتے ہیں.پہلی غذا ہضم ہو چکی ہوتی ہے اور وہ وقت ایسا ہوتا ہے جبکہ معدہ چاہتا ہے کہ اس میں غذا ڈالی جائے اور اعصاب اس بات کے منتظر ہوتے ہیں کہ خوراک کو استعمال کر کے طاقت حاصل کریں.اس لئے دانا لوگوں نے یہ

Page 169

خطبات محمود جلد (5) مثل بنالی کہے ۱۵۹ یک لقمۂ صباحی : بہتر ز مرغ و ماہی صبح کے وقت ایک لقمہ کھانا دوسرے اوقات میں مرغ اور مچھلی کھانے سے بہتر ہے کیوں؟ اس لئے کہ اس وقت اس لقمہ کو ہضم کرنے کے جیسے ذرائع موجود ہوتے ہیں کسی دوسرے وقت میں ویسے نہیں ہوتے تو وقت مقررہ سے مراد سامانوں کا مہیا ہونا ہوتا ہے جب کسی کام کے سب سامان مہیا ہو جاتے ہیں تو وہ اس کا وقت مقررہ ہوتا ہے اور اس وقت اس کا کرنا بہترین نتائج پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے.میں نے پچھلے دو جمعوں میں دعا کے متعلق کچھ بیان کیا تھا اور بتایا تھا کہ یہ کسی ضروری ہے اور جو کام اس سے نکل سکتے ہیں وہ اور کسی ذریعہ سے نہیں نکل سکتے.آج میں اس بات کے متعلق کچھ بیان کروں گا کہ جس طرح دوسرے تمام کاموں کے لئے ایسے اوقات مقرر ہیں جن میں انہیں کرنے سے بڑے بڑے اعلیٰ ثمرات پیدا ہوتے ہیں اس طرح دعا کے بھی اوقات مقرر ہیں.ان وقتوں میں کی ہوئی دعا بھی بہت بڑے نتائج پیدا کرتی ہے اور دوسرے اوقات میں اس سے دوگنی چوگنی دعا بھی وہ کام نہیں کرتی جو وقت مقررہ کی ایک سیکنڈ کی دعا کر جاتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اتَّقُوا دَعْوَةَ الْمَظْلُوم - اے مظلوم کی دعا سے ڈرو.کیوں؟ اس لئے کہ اس کی دعا قبول ہونے کا وہ وقت ہوتا ہے کیونکہ جب وہ اپنے اوپر ہر طرف سے مصائب ہی مصائب دیکھتا.اور خدا کے سوا کوئی سہارا نہیں پاتا تو اس کی تمام توجہ خُدا ہی کی طرف پھر جاتی ہے اور وہ تمام و کمال خدا ہی کے آگے گر پڑتا ہے.اس وقت وہ جو دعا کرتا ہے قبول ہو جاتی ہے کیونکہ دعا کے قبول ہونے کے سامانوں میں سے ایک اعلیٰ درجہ کا سامان یہ بھی ہے کہ انسان کی ساری توجہ ہر طرف سے ہٹ کر خدا ہی کی طرف ہو جائے چونکہ مظلوم کی یہی حالت ہوتی ہے اس لئے اس کے لئے یہ بھی ایک ایسا موقعہ ہوتا ہے جبکہ اس کی دعا تمام روکوں کو چیرتی ہوئی آسمان پر جا پہنچتی ہے.اسی طرح دعا کے قبول ہونے کے اور اوقات بھی ہیں لیکن وہ روحانی ہیں جن کا بیان کرنا کوئی آسان کام نہیں اور پھر ان کا سمجھانا بہت ہی مشکل ہے کیونکہ وہ ظاہری سامانوں کی حد بندی کے نیچے نہیں ہوتے بلکہ وہ انسانی قلوب بخاری کتاب المظالم باب الاتقاء والحذر من دعوة المظلوم.

Page 170

خطبات محمود جلد (5) 17.کی خاص حالتیں اور کیفیات ہیں جنہیں وہ انسان محسوس کر سکتا ہے جس پر وہ حالت وارد ہو.گو خدا تعالیٰ نے ان کے سمجھنے اور سمجھانے کے لئے بھی سامان مہیا فرما دیے ہوئے ہیں مگر پھر بھی ان کا بہت کچھ تعلق ذوق سے ہے.اس لئے ہر شخص کے لئے ان کو سمجھنا آسان نہیں ہے.میں جب حضرت خلیفہ اول سے بخاری پڑھا کرتا تھا تو ایک رؤیا دیکھا جس کا تعلق اس بات سے تھا کہ ایک حدیث پڑھی.جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی کے متعلق پوچھا گیا.کہ کس طرح ہوتی ہے.تو آپ نے فرمایا کہ کصلصلة الجرس لے مجھے اس سے تعجب ہوا کہ گھنٹے کی آواز سے وحی کو کیا تعلق ہے.رویا میں میں نے ایک عجیب نظارہ دیکھا میں نے دیکھا کہ میرا دل ایک کٹورے کی طرح ہے.جیسے مراد آبادی کٹورے ہوتے ہیں.اس کو کسی نے ٹھکورا ہے.جس سے ٹن ٹن کی آواز نکل رہی ہے اور جوں جوں آواز دھیمی ہوتی جاتی ہے مادہ کی شکل میں منتقل ہوتی جاتی ہے.ہوتے ہوتے اس سے ایک میدان بن گیا ہے اس میں سے مجھے ایک تصویر سی نظر آئی جو فرشتہ معلوم ہونے لگا.میں اس میدان میں کھڑا ہو گیا.اس فرشتہ نے مجھے بلایا.اور کہا کہ آگے آؤ.جب میں اس کے پاس گیا تو اس نے کہا.کیا میں تم کو سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھاؤں.میں نے کہا سکھاؤ اس نے سکھانی شروع کی.سکھاتے سکھاتے جب إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تک پہنچا.تو کہنے لگا تمام مفسرین میں سے کسی نے اس سے آگے کی تفسیر نہیں لکھی سارے کے سارے یہاں آکر رہ گئے ہیں لیکن میں تمھیں اگلی تفسیر بھی سکھاتا ہوں چنانچہ اس نے ساری سکھائی.جب میری آنکھ کھلی تو میں نے اس بات پر غور کیا.کہ اس کا کیا مطلب ہے کہ تمام مفسرین نے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِین تک کی تفسیر کی ہے.آگے کی کسی نے نہیں کی.اس کے متعلق میرے دل میں یہ تاویل ڈالی گئی کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تک تو بندے کا کام ہے جو اس جگہ ختم ہو جاتا ہے.آگے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ سے خدا کا کام شروع ہو جاتا ہے تو تمام مفسرین کے اس حصہ کی تفسیر نہ لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس حصہ کی تفسیر تو کر سکتا ہے جو انسانوں کے متعلق ہے بخاری باب كيف كان بدء الوحى الى رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم.

Page 171

خطبات محمود جلد (5) ۱۶۱ اور جن کا موں کو انسان کرتا ہے ان کو بیان کر سکتا ہے مگر اس حصہ کی تفسیر کرنا اس کی طاقت سے باہر ہے جس کا کر نا خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سورہ فاتحہ کے دو حصے ہیں.آدھی بندہ کے لئے اور آدھی خدا کے لئے.لے آدھی میں بندہ طالب اور خدا مطلوب.آدھی میں خدا طالب ہے اور بندہ مطلوب.جس حصہ میں بندہ طالب ہے اور خدا مطلوب.اس کے متعلق وہ بتا سکتا ہے اور دوسرا حصہ جو خدا سے تعلق رکھتا ہے اس کے متعلق کچھ نہیں بتا سکتا.اور اس حصہ کی کوئی کیفیت نہیں بیان کر سکتا اسی سبب سے سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب فتوح الغیب میں لکھا ہے کہ انسان کا قلبی تعلق جو خدا سے ہوتا ہے اس کی نسبت پیرا اپنے مرید کا اور مرید اپنے پیر کا پتہ نہیں لگا سکتا ہے کہ کس قدر ہے.لے تو اھدِینا سے وہ بار یک کیفیات شروع ہوتی ہیں جن کو کوئی انسان بیان نہیں کر سکتا اسی طرح دعا کے متعلق بعض ایسی باتیں ہیں جن کو انسان نہیں بتا سکتا.ہاں جس پر وہ وارد ہوتی ہیں وہ انہیں خوب جانتا ہے.لیکن بعض باتیں خدا نے اپنے فضل اور کرم سے انعام کے طور پر لوگوں کو بتا بھی دی ہیں تا کہ وہ لوگ جو قلبی کیفیات سے واقف نہیں ہوتے وہ بھی ان پر عمل کر کے دعا کا مزہ چکھ لیں.چنانچہ ان میں سے ایک مظلوم کی دعا ہوتی ہے.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مصائب اور مشکلات کے وقت اپنے لئے یا دوسروں کے لئے بددعا کر بیٹھتے ہیں.اور وہ موقع جو خدا نے ان کو دعا کے قبول کرانے کا دیا تھا کھو دیتے ہیں.لیکن یہ بہت بڑی غلطی ہے ایسا نہیں کرنا چاہئیے.اس وقت جبکہ کوئی مظلوم ہو.کسی قسم کی بد دعا نہ کرے بلکہ اپنے لئے دعا کرے کیونکہ خدا نے اسے دعا کرنے کے لئے بہت عمدہ موقعہ دیا ہے.اور دعا کے قبول ہونے کا یہ ایک ایسا وقت ہے جسے ہر ایک شخص بخوبی سمجھ سکتا ہے.اسی طرح دعا کے قبول ہونے کا ایک اور وقت ہے جس کے معلوم کرنے کے.لئے بھی بار یک کیفیات سے واقف ہونے کی ضرورت نہیں.اور وہ وقت مسلم باب وجوب القراءة الفاتحة في كل ركعة - ۲ فتوح الغیب مقالہ نمبر ۱۷۷

Page 172

خطبات محمود جلد (5) ۱۶۲ رمضان کا مہینہ ہے.یہ آیت جو میں نے پڑھی ہے اس کو خدا تعالیٰ نے روزوں کے ساتھ بیان فرمایا ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ اس کا روزوں سے ضرور بہت بڑا تعلق ہے.اس کے روزوں کے ساتھ بیان کرنے کی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح ایک مظلوم کی ساری توجہ محدود ہو کر ایک ہی طرف یعنی صرف خدا ہی کی طرف لگ جاتی ہے اسی طرح ماہ رمضان میں مسلمانوں کی توجہ خدا کی طرف ہو جاتی ہے اور قاعدہ ہے کہ جب کوئی بہت سی چیز محدود ہو جائے تو اس کا زور بہت بڑھ جاتا ہے چنانچہ جہاں دریا کا پاٹ تنگ ہوتا ہے وہاں پانی بڑے زور سے چلتا ہے اور جہاں چوڑا ہوتا ہے.وہاں ایسا زور نہیں ہوتا.کشمیر کے راستہ میں جہلم کا دریا پڑتا ہے.میں نے دیکھا ہے جہاں پہاڑوں سے تنگ ہو کر گزرتا ہے وہاں اگر اس میں بڑی بڑی لکڑیاں ڈال دی جائیں تو بھی ان کو چور چور کر دیتا ہے لیکن وہی دریا جب نیچے آکر چوڑا ہو جاتا ہے تو لوگ اس میں تیرتے اور کشتیاں چلاتے ہیں.تو جو چیز پھیلی ہوئی ہو.اس کا زور کم ہوتا ہے اور جو محدود ہو اس کا زیادہ.جب کسی انسان کی دعا ایسی حالت میں ہوتی ہے کہ اس کی نظر بہت سی طرفوں میں جاسکتی ہے.یعنی کبھی وہ سمجھتا ہے کہ فلاں اسباب سے کامیاب ہو جاؤں گا کبھی فلاں سے.کبھی کسی ذریعہ کو کامیابی کی راہ سمجھتا ہے کبھی کسی کو.ایسی حالت میں اس کی دعا ایک وسیع میدان میں سے گذرتی ہوئی جاتی ہے.مگر جو شخص مظلوم ہوتا ہے اس کی دعا محدود ہو جاتی ہے.دعا.خواہش.آرزو اور التجا.ان چاروں چیزوں کا ایک بڑا سمندر ہے جس میں پھیل کر انسان کی دعا کمزور ہو جاتی ہے مگر مظلوم کے لئے یہ سارے دروازے بند ہوتے ہیں اور صرف خدا ہی کی طرف کا دروازہ کھلا ہوتا ہے اس لئے اس کی دعا میں ایسا زور پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ ضرور قبول ہو جاتی ہے اور اس کے راستہ میں جو چیز روک بنتی ہے اسے اکھاڑ کر دور پھینک دیتی ہے تو ایک مظلوم کے لئے وہ سامان مہیا ہو جاتے ہیں جو دعا کے قبول ہونے کے لئے ضروری ہوتے ہیں.اگر اس وقت سے وہ فائدہ اٹھائے تو اس کے لئے بڑے نیک نتائج پیدا ہو جاتے ہیں.اسی طرح رمضان کے مہینہ میں وہ اسباب پیدا ہو جاتے ہیں جو دعا کی قبولیت کا باعث ہوتے ہیں اور وہ یہ کہ اس مہینہ

Page 173

خطبات محمود جلد (5) ۱۶۳ میں ایک جماعت کا اتحاد ہو جاتا ہے یوں تو دوسرے دنوں میں بھی مسلمانوں میں ایک ایسی جماعت ہوتی ہے جو راتوں کو عبادت کرتی ہے مگر اس زمانہ میں لوگوں کا اکثر حصہ ایسا ہے جو تمام رات آرام سے پڑا سوتا ہے لیکن رمضان کے مہینہ میں سحری کی خاطر سب کو اٹھنا پڑتا ہے اور جب کوئی اٹھتا ہے تو سوائے اس کے جو بہت ہی غافل ہو ہر ایک کچھ نہ کچھ عبادت بھی کرتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ جو مجھے وقت ملا ہے اس سے فائدہ ہی اٹھا لوں.تو جس طرح ایک چیز میں محدود ہو کر بہت زور پیدا ہو جاتا ہے.اسی طرح ایک جگہ ہر روز ہزاروں لاکھوں آدمیوں کی دعائیں پڑنے سے بھی بہت زور پیدا ہو جاتا ہے رمضان میں لاکھوں لاکھ انسانوں کی پے در پے دعائیں جب خدا کے حضور پہنچتی ہیں تو ضرور قبول ہو جاتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں رڈ کرنے میں بڑا محتاط ہے.پس ایسی حالت میں اگر ظاہری سامان نہ بھی ہوں تو بھی خدا تعالیٰ قبول کر لیتا ہے.پھر ان دعا کرنے والوں سے بعض ایسے بندے بھی ہوتے ہیں جن کی دعائیں خدا کے حضور منظور ہوئی ہوتی ہیں اور بعض کمزور بھی ہوتے ہیں مگر جب سارے مل کر دعائیں کرتے ہیں تو سب کی قبول ہو جاتی ہیں اور کمزور بھی کامیاب ہو جاتے ہیں.دیکھو فو جیں لڑتی ہیں ان میں سے سارے سپاہی بہادر نہیں ہوتے مگر ایک پلٹن ایک کمپنی ایک رجمنٹ ایک بٹالین میں سے جب دو تین آدمی بہادری کے تمغے حاصل کر لیتے ہیں تو ساری بٹالین مشہور ہو جاتی ہے.اب کوئی یہ نہیں کہتا کہ اس میں کے فلاں فلاں سپاہی بہادر نہیں.بلکہ سب کو مجموعی طور پر بہادر کہا جاتا ہے.اس میں شک نہیں کہ خاص انعام خاص اشخاص کو ہی ملتے ہیں.مگر عام شہرت میں بُز دل بھی شامل ہوتے ہیں.اسی طرح رمضان کے مہینہ میں جب ایک جماعت ملکر دعائیں کرتی ہے تو کمزوروں کی دعائیں بھی قبول ہو جاتی ہیں.ان دنوں کی دعائیں خاص طور پر مقبول ہوتی ہیں اس لئے کہ ہزاروں انسانوں کی توجہ مل کر خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ رو نہیں کرتا.پھر تمام کی تمام جماعت ایک کرب کی حالت میں ہوتی ہے ایک نہیں دو نہیں بلکہ سارے کے سارے ایسے وقت میں جو کہ آرام حاصل کرنے کا ہوتا ہے خدا کے حضور کھڑے ہو کر دعا کرتے ہیں.پھر کس طرح ممکن ہے کہ ان کی دُعا

Page 174

خطبات محمود جلد (5) ۱۶۴ قبول نہ ہو.درد اور کرب کی دعا تو ضرور ہی سنی جاتی ہے چنانچہ حضرت یونس کی قوم کی نسبت لکھا ہے کہ وہ تباہ ہونے لگی تھی اور اخیر وقت تک حضرت یونس سے ٹھٹھے کرتی رہی لیکن جب عذاب کے آثار ظاہر ہونے لگے تو وہ اپنے جانوروں بیوی بچوں کو لے کر باہر نکل گئے.اور جنگل میں جا کر جانوروں کے آگے سے چارہ ہٹا لیا.اور بچوں کو ماؤں سے الگ کر دیا.اور مرد و عورت سب اعلیٰ لباس اتار کر سادہ کپڑے پہن کر دعائیں کرنے لگے ادھر جانوروں اور بچوں نے چیخنا شروع کر دیا ادھر مردوں عورتوں نے رو رو کر دعائیں مانگیں.ان کی اس حالت کو دیکھ کر خدا تعالیٰ نے ان کو بخش دیا اور ان سے عذاب ٹل گیا.حالانکہ وہ نہ ٹلنے والا عذاب تھا.اے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کے معاف کرنے کو ایک خاص بات قرار دیا ہے ہے.جس کی وجہ یہی تھی کہ وہ سب اکٹھے ہو کر خدا کے حضور جھک گئے تھے.رمضان میں مسلمانوں کی حالت بھی گویا یونس کی قوم کی حالت ہوتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی تھی کہ البہی میری ساری امت تباہ نہ ہو اور خدا نے قبول کر لی تھی ہے.میرے خیال میں آپ کی امت کے تباہ نہ ہونے کے اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے.کہ مسلمان رمضان میں جو دعائیں کرتے ہیں وہ قبول کی جاتی ہیں.پس رمضان کا مہینہ دعاؤں کے قبول ہونے کے لئے ایک خاص وقت ہے.نادان ہے جو اس کو غفلت میں کھودے اور بعد میں افسوس کرنے لگے.کسی نے سچ کہا ہے.مشتے کہ بعد از جنگ یادآید برکلہ خود باید زد.جو گھونسا جنگ کے بعد یاد آئے اسے اپنے سر پر مارنا چاہئیے.یہ دس دن ہیں ان سے فائدہ اٹھاؤ.اپنے لئے اسلام کی ترقی کے لئے.جماعت کی ان مشکلات کے دور ہونے کے لئے جو اس کے رستہ میں حائل ہیں.خدا کے فضل کے شامل حال ہونے کے لئے دعائیں کرنے کا یہ تمھیں موقعہ ملا ہے.ماہ رمضان میں ان لوگوں کو بھی جاگنے کا موقع مل جاتا ہے جنہیں عام طور پر جاگنے کی عادت نہیں ہوتی.اس لئے انہیں بھی اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیئے.خدا تعالیٰ کے رحم اور نوازش کو دیکھو لے بائیبل.یونا نبی کی کتاب باب ۳.یونس:٩٩.مسلم كتاب الفتن باب هلاك هذه الامة بعضهم ببعض.

Page 175

خطبات محمود جلد (5) ܬܪܙ انسانوں کے لئے مجبور کر کے ایسے سامان مہیا کرتا ہے کہ جن سے انہیں فائدہ ہو.یہی رمضان کا مہینہ دیکھو.سب کو جاگنے کے لئے مجبور کر دیا.گو یا خود جگا کر کہہ دیا کہ لو جو مجھ سے مانگنا ہے مانگ لو.کیسا نادان ہے وہ شخص جو اس موقع سے فائدہ نہیں اُٹھاتا.خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے سب سامان مہیا کر دیئے ہیں.باقی ان سے فائدہ اٹھانا یہ ہمارا اپنا کام ہے.کچھ عرصہ سے میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری جماعت میں دعائیں کرنے کے متعلق سستی ہوتی جاتی ہے.کئی لوگوں کو رویا میں بھی اس سے آگاہ کیا گیا ہے.کہ قادیان کے لوگ دعاؤں میں شست ہو گئے ہیں.اس سستی کو میں خود بھی محسوس کر رہا ہوں.جس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری جماعت نے اپنی کا میابیاں دیکھ کر سمجھ لیا ہے کہ بس اب ہمارا کام ہو گیا ہے لیکن کیسا نادان ہے وہ شخص جو راستہ میں سست ہو جائے.یہ ایسی ہی بات ہے جیسی ایک کچھوے اور خرگوش کی کہانی مشہور ہے کہ دونوں ایک جگہ سے ایک مقام کی طرف اس شرط پر روانہ ہوئے کہ کون پہلے پہنچتا ہے.خرگوش جلدی جلدی چھلانگیں مارتا ہو ا مقررہ مقام سے کچھ ورے جا کر اس خیال سے سو گیا کہ کچھوا یہاں تک بہت دیر کو پہنچے گا اتنا عرصہ میں آرام کر لوں لیکن وہ وہاں ہی سویا رہا.جب کچھوا آہستہ آہستہ مقررہ مقام پر پہنچ گیا تو اس کی نیند کھلی تو یہ بہت کم عقلی کی بات ہے کہ انسان اپنی ترقی پر فخر کر کے کہہ دے کہ میری ہمت اور کوشش کی حد ہو گئی ہے.دوسری قوموں کو تو جانے دو.لاہوریوں کو ہی دیکھو.ابھی تک تمہارے راستہ سے دور نہیں ہوئے.پس تمھیں ست نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ مومن کبھی شست نہیں ہوتا.خلافت کے متعلق جب جھگڑا پیدا ہوا تو میں نے بہت دُعائیں کیں کہ البہی اس کے متعلق حق حق سمجھا دے.آخر رات کو ارادہ کیا کہ میں وہاں نہیں جاؤں گا.جب فیصلہ ہو جائے گا تب جاؤں گا لیکن جب صبح کو اٹھا تو میری زبان پر یہ الفاظ جاری تھے.کہ قُل مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَانُكُمْ.میں نے قُلْ سے پتہ لگالیا کہ اگر یہ نہ ہوتا تو گویا ہم کو جھاڑ تھی لیکن اب ہماری تائید میں ہے.یعنی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کہد و کہ اگر تمہاری دعائیں نہ ہوں تو کیا خدا اس بات کا محتاج ہے کہ تمہاری ترقی تمہارے آرام

Page 176

خطبات محمود جلد (5) ۱۶۶ اور تمہاری بیجہتی کے لئے اسباب مہیا کرے اور تم غافل بیٹھے رہو.پس خوب سمجھ لو کہ اگر تم آہ و بکا اور عجز و انکسار میں سستی کرو گے تو خدا کو تمہاری کیا پرواہ ہے انسان خدا کا محتاج ہے نہ کہ خدا انسان کا.انسان کو خدا کی ضرورت ہے نہ کہ خدا کو انسان کی.ہم فقیر ہیں اور خدا غنی اس لئے ہمیں ضرورت ہے کہ اس کا دروازہ کھٹکھٹا میں نہ کہ وہ ہمیں اپنے فضل اور رحم سے جگائے اور پھر بھی ہم اس سے کچھ نہ مانگیں.پس ستی کو چھوڑ کر دعائیں کرنے کی عادت ڈالو.کئی لوگ صرف فرض عبادت کو ضروری سمجھتے ہیں اور دعائیں اور ذکر الہی کرنے سے غافل رہتے ہیں.مگر یہ بھی دہریت کی ایک رگ ہے جب کوئی قوم ذکر الہی کو چھوڑ دیتی ہے تو ایک فضول چیز کی طرح نکال کر پھینک دی جاتی ہے.مدرسہ کے افسروں کو چاہیے کہ اپنے اندر دعا اور ذکر الہی کرنے کی عادت ڈالیں اور پھر طالب علموں کو اس میں لگا ئیں.تم سب لوگ چوکس اور ہوشیار رہو.اور ہمیشہ دعاؤں میں لگے رہو.مگر آجکل خاص دن ہیں ان میں ضرور ضرور بہت بہت دعائیں کرو.تا کہ خدا تعالیٰ ان روکوں کو ہٹا دے جو ہمارے راستہ میں ہیں.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو سمجھ دے.خصوصا قادیان کے لوگوں کو.کہ دعا کرنے میں کبھی سست نہ ہوں.اور یہ نہ سمجھیں کہ ہمارا کام ہو گیا ہے.ہم ہر وقت خدا تعالیٰ کی مدد اور تائید کے محتاج ہیں اور جتنی جتنی ہماری عمر میں بڑھتی جاتی ہیں اتنی ہی زیادہ احتیاج بھی ہوتی جاتی ہے اس لئے کبھی ست نہیں ہونا چاہئیے.جس قدر امتحان کے دن قریب آتے ہیں اسی قدر زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے.اور اسوقت مست لڑکے بھی چست بن جاتے ہیں.تم بھی کسی وقت ست نہ ہوا اور کبھی یہ نہ سمجھو کہ ہمارا کام ختم ہو گیا ہے.کیونکہ موت تک تمہارا کام ختم نہیں ہوسکتا.پس خدا تعالیٰ کے حضور دن رات ایک کر کے عرض کرو.اور دعاؤں کو اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے سوتے جاگتے.غرضیکہ ہر وقت ور د زبان رکھو.دعا صرف زبان سے ہی نہیں کی جاتی.بلکہ ہر ایک عضو دعا کرتا ہے.کیا جب آنکھیں عجز و نیاز سے آنسو بہاتی ہیں تو وہ دعا نہیں ہوتی.پھر کیا جب عاجزانہ شکل بنتی ہے تو وہ منہ دعا نہیں کرتا.یا جب ہاتھ گھٹنوں پر گرتے ہیں تو دعا نہیں کرتے یا جب

Page 177

خطبات محمود جلد (5) ۱۶۷ کمر خدا کے حضور جھکتی ہے تو وہ دُعا نہیں کرتی.سب اعضاء پاؤں.ماتھا.ناک.کان.انگلیاں سب دعا کرتی ہیں اور سب سے زیادہ دل دعا کرتا ہے.پس ہر وقت دعا کی عادت ڈالو.عادت سے مراد غفلت کی عادت نہیں بلکہ تکرار کی عادت ہے کہ تمھیں ہر وقت خدایا در ہے.جب ایسا کرو گے تو خدا کے فیض کے دروازے تم پر کھل جائیں گے.پھر تم دیکھو گے کہ خدا نے سچ کہا ہے.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَلى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ.خدا تعالیٰ ہمیں دعائیں کرنے کی توفیق دے اور ان کو قبول کر کے ہمیں اپنے فضلوں کا وارث بنائے.الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۱۶ء)

Page 178

۱۶۸ 22 خطبات محمود جلد (5) گورنمنٹ کی ہر قسم کی مدد کرو (فرموده ۱۴؍ جولائی ۱۹۱۶ء) تشہد وتعوذ وسورہ فاتحہ اور مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کے بعد فرمایا:.إنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ - يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (النحل ٩١): میں نیت تو یہ کر کے چلا تھا کہ چونکہ رمضان کا مہینہ ہے اس لئے جس طرح پہلے میں نے یہ بیان کیا تھا کہ دعاؤں کے قبول ہونے کے ایسے اوقات مقرر ہیں کہ ان میں کی ہوئی دعا خاص طور پر قبول ہوتی ہے.چنانچہ ان میں سے ایک وقت رمضان کا مہینہ ہے.اسی طرح یہ بھی آپ لوگوں کے سامنے بیان کروں کہ دعا کون سے رنگ اور کن حالتوں میں کرنے سے زیادہ قبول ہوتی ہے اور اگر اعلیٰ اور عمدہ وقت میں کی جائے گی تو سونے پر سہا گہ ہو جاتا ہے.کیونکہ ایک تو وہ وقت ہی قبولیت دعا کا ہوتا ہے دوسرے عمدگی سے دعا کی جاتی ہے لیکن رستہ میں اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ایک اور خیال ڈال دیا ہے.اس لئے اس وقت اسی کے متعلق کچھ بیان کرتا ہوں اور پہلی بات کو کسی اور توفیق کے موقعہ پر چھوڑتا ہوں.اس وقت جو میں نے آیت پڑھی ہے اس میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک خاص بات کی طرف متوجہ کیا ہے.فرمایا ہے.اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ الله عدل - احسان اور ایتائی ذی القربی کی تاکید کرتا اور حکم دیتا ہے اور فحشاء منکر اور بغی سے روکتا ہے.

Page 179

خطبات محمود جلد (5) ۱۶۹ اس زمانہ میں میں نے دیکھا ہے.بغاوت کا مادہ عجیب عجیب رنگ میں پھیلایا جاتا ہے اور ایسے ایسے خوش رنگ میں پیش کیا جاتا ہے کہ بعض لوگ اس کو مفید اور کار ثواب سمجھنے لگ جاتے ہیں اور ایک زمانہ ایسا گذرا ہے کہ لوگ بغاوت کے لفظ تک کو حقارت سے دیکھتے تھے اور بڑے بڑے دکھ اور تکلیفیں اٹھاتے تھے مگر وفاداری کو نہیں چھوڑتے تھے.مگر آجکل بغاوت کے مفہوم کی کچھ ایسی تعریف بدلی ہے کہ بعض نادان اسے اعلیٰ درجہ کا کام سمجھنے لگ گئے ہیں اور اس کا نام خدمت ملکی اور قومی جوش رکھ رہے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ جو اپنی حفاظت کرتا ہؤ امارا جائے وہ شہید ہوتا ہے.اس طرح انہوں نے بغاوت کو نہ صرف جائز قرار دے لیا ہے بلکہ بہت مفید اور کا ثواب سمجھ رکھا ہے اور اس طرح بہت لوگ دھو کہ میں آکر وہ کام کر گزرتے ہیں جو انہیں نہیں کرنے چاہئیں.لیکن مج لَّا يَشْكُرُ النَّاسَ لَا يَشْكُرُ الله.جو انسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا.وہ خدا کا بھی نہیں ادا کر سکتا.کیونکہ انسان کے انسان پر بہت تھوڑے احسان ہوتے ہیں جب وہ ان کو ہی نہیں ادا کر سکتا تو خدا تعالیٰ کے احسان جو ادا ہی نہیں ہو سکتے ان کے ادا کرنے کا تو وہ خیال بھی نہیں کرے گا.پس جو شخص انسانوں کی بغاوت کرتا ہے ضرور ہے کہ وہ خدا کا بھی باغی ہوا اور یہ لازما ہے کہ وہ انسان جو اپنے محسن اور آقا کی بغاوت کرتا ہے کبھی خدا کی اطاعت نہیں کر سکتا صوفیا تو اطاعت کے معاملہ میں بہت ہی بڑھ گئے ہیں اور انہوں نے اپنے رنگ میں عجیب عجیب طرز پر مسائل لکھے ہیں.احسان کی قدر کرنے اور اپنے محسن کے شکر گزار ہونے کے متعلق یہ مسئلہ اٹھایا ہے کہ اگر کوئی شخص دین کے معاملہ میں ماں باپ کی بغاوت اور نافرمانی کرے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ بوجہ اس کے کہ اس نے خدا کے لئے ماں باپ کی نافرمانی کی بخشا جائے گا.مگر چونکہ اس نے ماں باپ کی نافرمانی کی ہوگی.جو اس کے کسی گناہ ہی کا موجب ہے.کیونکہ اگر کوئی گناہ نہ ہوتا تو اسے ایسا موقع ہی پیش نہ آتا کہ اسے نافرمانی کرنی پڑتی.اس لئے مجمع بحارالانوار جلد ۲ باب الستین.

Page 180

خطبات محمود جلد (5) 12.وہ اس وقت تک بہشت میں نہیں جائے گا جب تک خدا تعالیٰ اسے نہیں کہے گا کہ چونکہ تم نے میرے لئے ماں باپ کی نافرمانی کی تھی اس لئے میں ہی تمھیں بخشتا ہوں.خدا جانے یہ بات کہاں تک درست ہے مگر اس میں اطاعت اور فرمانبرداری کرنے کی اعلیٰ درجہ کی مثال ہے.باوجود اس کے کہ اطاعت اور فرمانبرداری ایسی ضروری ہے پھر بھی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اس سے روگردانی کر بیٹھتے ہیں.وہ اپنے دل میں کچھ خوش کن خیالات پیدا کر لیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ ہماری کوششوں سے یہ ہو جائے گا.یاوہ ہو جائیگا.لیکن ان کے یہ خیالات شیخ چلی کے منصوبہ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے.جیسا کہ مثل مشہور ہے.کہ شیخ چلی نے کہا کہ مجھے یہ جو مزدوری ملے گی اس کے انڈے خرید لوں گا.ان کو فروخت کر کے مرغی پھر بکری.گھوڑا.اونٹ.وغیرہ خریدتا جاؤں گا.اور اس طرح تجارت کرتے کرتے جب بہت بڑا مالدار ہو جاؤں گا تو بادشاہ کی لڑکی سے شادی کر لوں گا.پھر بچے پیدا ہوں گے.وہ جب میرے پاس کچھ مانگنے آیا کریں گے تو میں یوں لات ماروں گا.جب اس نے لات ماری تو وہ گھی کا مٹکہ جس کے اٹھانے کے عوض میں اسے مزدوری ملنی تھی زمین پر گر کر ٹوٹ گیا مالک ملکہ نے اسے گردن سے پکڑ کر خوب مرمت کی.تب اسے ہوش آیا.تو اس قسم کے خیالات محض اوہام ہوتے ہیں کبھی ان سے نتیجہ نہیں نکلا کرتا.کبھی خفیہ سازشیں اور منصوبے کرنے والے بادشاہ نہیں ہوئے اور کبھی ان کی شرارتوں سے حکومتیں نہیں گر جاتیں.اگر کوئی حکومت گرتی ہے تو اس کے اور ہی اسباب ہوتے ہیں.آج تک تاریخ میں سے اس قسم کا ایک نمونہ بھی نہیں مل سکتا کہ کسی زمانہ میں خفیہ سازشیں کرنے والوں نے حکومت کے تغیر سے فائدہ اٹھایا ہو.بلکہ ایسا ہی ہوا ہے کہ آنے والوں نے آکر سب سے پہلے کام ہی یہی کیا ہے کہ ان کو نیست و نابود کیا ہے.کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جب انہوں نے اس سلطنت سے بغاوت کی جس کے ان پر بہت سے احسان تھے تو ہم سے کیوں نہ کریں گے.جس کے ابھی یہ رہین منت نہیں ہیں.تو ایسے لوگ ہمیشہ ناکام اور نا مراد ہی رہتے ہیں.اس زمانہ میں بھی کچھ لوگ ہیں جو خفیہ تدبیریں کرتے ہیں لیکن وہ یا درکھیں کہ ان کا بھی وہی انجام ہوگا.جوان سے پہلوں کا ہوا.ہماری جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار بار اس طرف

Page 181

خطبات محمود جلد (5) 121 متوجہ کیا ہے کہ وہ ہر وقت گورنمنٹ کی وفادار اور مددگار رہے.اور بتایا ہے کہ وہ وقت آتا ہے جبکہ شورشیں ہوں گی اور صرف ہماری ہی جماعت گورنمنٹ کی اعلیٰ درجہ کی وفادار ثابت ہوگی.ہمیں اس معاملہ میں گورنمنٹ سے ہمدردی ہے کہ بعض ناعاقبت اندیش شورش پھیلانا چاہتے ہیں.لیکن ساتھ ہی ہمارا ایمان بھی تازہ ہورہا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فرستادہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ بات جو آپ نے بہت پہلے بتائی تھی پوری ہو رہی ہے.مگر اس موقع پر آپ نے ہماری جماعت کا یہ فرض رکھا ہے کہ ہم ہر طرح سے گورنمنٹ کی مدد اور تائید کریں.پھر آپ نے سورۃ الناس کی تفسیر لکھتے ہوئے بتایا ہے کہ گورنمنٹ کی وفاداری اور اطاعت کرنا ہمارا فرض ہے آج کل يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ ہو رہا ہے.پس یہ وہ وقت ہے جبکہ ہم نے اس بات کا ثبوت دینا ہے کہ ہم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ اپنی جماعت کے متعلق کہا تھا وہ سب سچ ہے.19ء میں جب فساد ہوا تھا اور ہندو مسلمانوں نے اپنا اتفاق ظاہر کرنے کے لئے چاندی کے برتنوں میں اکٹھا پانی پیا تھا.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو کہا تھا کہ گورنمنٹ کو اپنی خدمات پیش کرو.کہو کہ جو خدمت ہم سے چاہیئے ہم وہ دینے کو تیار ہیں.اس وقت بھی جبکہ گورنمنٹ ایک عظیم الشان جنگ میں مشغول ہے کچھ شریر لوگ اس قسم کے منصوبے کر رہے ہیں کہ گورنمنٹ کی توجہ بٹ جائے.اس لئے ہماری جماعت سے جہاں تک اور جس طرح ہو سکے گورنمنٹ کی مدد کرے تا حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی تمام و کمال پوری ہو جائے.اس کا ایک حصہ تو پورا ہو چکا ہے اور دوسرا حصہ ہمارے ساتھ تعلق رکھتا ہے اس لئے وہ ہمارے ذریعہ پورا ہوگا.خدا تعالیٰ کی بعض پیشگوئیوں کا پورا ہونا انسانوں سے تعلق رکھتا ہے تا کہ وہ اسے پورا کر کے انعامات کے مستحق ہو جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا تھا کہ ہمارے گھر میں طاعون نہیں پڑے گی.اے لیکن باوجود اس کے آپ صفائی وغیرہ کی بڑی احتیاط کرتے تھے.اور فرماتے کہ یہ حصہ ہمارے ساتھ تعلق رکھتا ہے اس لئے اس کا پورا کرنا ہمارا فرض ہے.تو خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی کا ایک حصہ ا تذکره ص ۴۲۵.

Page 182

خطبات محمود جلد (5) ۱۷۲ ہمارے ہاتھ میں رکھا ہے اور دوسرا دشمنوں کے ہاتھ.انہوں نے گورنمنٹ برطانیہ کے احسانات کی قدر نہ کی.اور شرارتیں شروع کر دیں.اب دوسرا حصہ پورا ہونا ہے جو حضرت مسیح موعود کے مریدوں سے متعلق ہے.پس جب آپ کے دشمنوں نے پیشگوئی کا وہ حصہ جو ان سے تعلق رکھتا ہے پورا کر دیا ہے تو کیسا نادان اور بدقسمت ہے وہ دوست جس کے ہاتھ سے اس کا متعلقہ حصہ پورا نہ ہو.پس میں خاص طور پر اپنی جماعت کو متوجہ کرتا ہوں کہ اس وقت گورنمنٹ کی خاص طور پر مدد کرنی چاہئیے.یہ نادان لوگوں کے غلط اور بیہودہ خیال ہیں کہ وہ گورنمنٹ کو نقصان پہنچا سکیں گے جو کوئی اس سلطنت کا مقابلہ کرے گا.وہ خود رسوا اور ذلیل ہوگا.یہ گورنمنٹ خدا کی طرف سے یہاں آئی ہے اور حضرت مسیح موعود اس میں پیدا ہوئے ہیں.تاا س کے ذریعہ اسلام کی اشاعت اور ترقی ہو.پس اب اسلام کی اشاعت اسی سلطنت کے ذریعہ ہوگی.حضرت مسیح موعود نے رویا میں دیکھا تھا کہ یہ قوم گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہو رہی ہے.اور دوسروں کو کر رہی ہے.ہماری جماعت کو چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم کو مد نظر رکھے.اور جہاں کسی کے دل میں کوئی فاسد خیال دیکھے.فوراً نکالنے کی کوشش کرے.اور جس طرح بھی ہو سکے گورنمنٹ کی مدد کرے کیونکہ ایسا کرنا نہ صرف گورنمنٹ کی مدد کرنے کے فرض کو ادا کرنا ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کو بھی پورا کرنا ہے.خدا تعالیٰ ہمیں قرآن کریم کے احکام کے سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق دے.اور ہماری گورنمنٹ جس طرح امن پھیلانے کا کام کر رہی ہے اسی طرح دین اسلام پھیلانے میں بھی ہمارے کام آئے.اور جس طرح دنیاوی لحاظ سے ہمارے ساتھ تعلق رکھتی ہے دینی لحاظ سے بھی تعلق رکھے.آمین.(الفضل ۲۲ جولائی ۱۹۱۶ء) ا تذکرہ ص ۴۱۰

Page 183

۱۷۳ 23 خطبات محمود جلد (5) قبولیت دعا کے طریق (فرموده ۲۱ جولائی ۱۹۱۶ء) تشہد وتعو ذوسورہ فاتحہ اور مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کے بعد فرمایا:- وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَلَى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (البقرة : ۱۸۷) فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں بیان کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو میں اس امر کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ انسان کو دُعا کس رنگ اور کس طریق میں کرنی چاہئیے جس کے نتیجہ میں قبولیت کا وہ زیادہ امیدوار ہو.اور وہ کیا شرائط ہونے چاہئیں.جن کے مطابق کی ہوئی دعا خدا تعالیٰ کے حضور قبول ہو جائے.یوں تو اللہ تعالیٰ بادشاہ ہے اور ہم اس کی رعایا کسی کی درخواست اور عرضی کو قبول کرنا بادشاہ کا اپنا کام ہے رعایا کا نہ یہ فرض ہے نہ کام ہے.اور نہ حق ہے کہ بادشاہ یا حاکم ضرور ہی اس کی درخواست کو قبول کر لے.اگر وہ ہر بات کو قبول کر لے اور ضرور قبول کر لے تو گویا وہ نوکر ہوا اور رعایا آقا.وہ خادم ہوا اور رعا یا مخدوم.کیونکہ جو کسی کی ہر ایک بات ماننے کے لئے مجبور ہوتا ہے وہ آقا نہیں بلکہ خادم ہوتا ہے.آقا خادم کی بات ماننے کے لئے مجبور نہیں ہوتا.بلکہ مختار ہوتا ہے اس کے اختیار میں ہوتا ہے کہ چاہے تو قبول کرے اس کے لئے وہ مجبور نہیں ہوتا.اور چاہے تو رد کر دے اس سے اس پر کوئی الزام نہیں آتا.چونکہ خدا تعالیٰ نہ صرف آتا ہے اور ہم خادم بلکہ وہ مالک ہے اور ہم غلام.پھر وہ خالق ہے اور ہم مخلوق تو جبکہ خادم اور آقا کا تعلق بھی ایسا نازک ہوتا ہے کہ خادم کو کبھی یہ امید نہیں ہو سکتی کہ

Page 184

خطبات محمود جلد (5) ۱۷۴ میر آقامیری ہر بات کو ضرور ہی مان لے گا تو ایک انسان کس طرح خیال کر سکتا ہے کہ اس کی ہر ایک بات خدا تعالیٰ کو قبول کر لینی چاہئیے.اگر کوئی خادم یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کی ہر ایک بات اس کا آقا مان لیتا ہے تو اس کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے.خادم کو ہمیشہ خدمت کے مقام پر کھڑا رہنا چاہیئے.اور اپنے رویہ طریق اور خیالات کو اسی حد میں محدود رکھنا چاہیئے.جو اس کی خادمیت کے مناسب ہے.نہ کہ آقابنا چاہئیے.پس کسی کا یہ امید کرنا یا ایسا خیال کرنا کہ اگر میری تمام دعا ئیں خدا قبول کرے اور کسی کو رڈ نہ کرے تب خدا خدا ہو سکتا ہے ورنہ نہیں.اس طرح کی بات ہے کہ گویا نعوذ باللہ وہ انسان خدا ہے اور خدا اس کا بندہ.یہ آتا ہے اور وہ خادم.یہ مالک ہے اور وہ غلام.کیونکہ جو کسی کی ہر ایک بات ماننے کے لئے مجبور ہوتا ہے وہ بندہ.اور غلام ہوتا ہے نہ کہ منوانے والا خادم اور غلام.تو یہ امید کرنا ہی باطل ہے کہ میری تمام کی تمام دعائیں قبول ہو جانی چاہئیں یہ خیال کوئی جاہل سے جاہل اور نادان سے نادان انسان کرے تو کرے ورنہ دا نا نہیں کر سکتا.گو آج کل کے مسلمانوں میں سے بعض اسی قسم کے خیالات رکھتے ہیں.بعض لوگ جو مجھے دعا کے لئے لکھتے ہیں انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ انشاء اللہ دعا کی جائے گی.مگر کچھ عرصہ کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ ابھی تک وہ کام نہیں ہوا.معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے دعا نہیں کی.اب آپ ضرور دعا کریں.ہم لکھتے ہیں ہمارا کام دعا کرنا ہے.وہ کرتے ہیں آگے کام کرنا خدا کے اختیار میں ہے اس میں ہمارا کوئی دخل نہیں.اس کے جواب میں لکھتے ہیں کہ آپ نے یہ کیا لکھ دیا.آپ تو جو چاہیں خدا سے منوا سکتے ہیں.پس ہمارا یہ کام بھی کروا دیجئے.تو اس قسم کے خیالات ہیں آجکل کے مسلمانوں کے جو اس جہالت کا نتیجہ ہیں جو ان میں پھیلی ہوئی ہے.انہوں نے کسی کے بزرگ ہونے کے یہ معنی سمجھ رکھے ہیں کہ وہ نعوذ باللہ خدا سے بھی بزرگ ہے جو چاہے کروا سکتا ہے.حالانکہ بزرگ کے اصل معنی یہ ہیں کہ وہ لوگوں میں سے بزرگ ہے جیسے کہتے ہیں کہ باپ کا بزرگ بیٹا.یعنی سب سے بڑا بیٹا.اس کے یہ معنی نہیں ہوا کرتے کہ وہ اپنے باپ سے بھی بزرگ ہے.بلکہ یہ کہ دوسرے بھائیوں سے بزرگ ہے اسی طرح خدا کے بزرگ کے یہی معنے ہیں کہ اس کی مخلوق سے بزرگ ہے

Page 185

خطبات محمود جلد (5) ۱۷۵ اور خدا اوروں کی نسبت اس کی دعا ئیں زیادہ قبول کرتا ہے.جیسے گورنمنٹ کے اعلیٰ حکام ہوتے ہیں ان کی باتیں دوسروں کی نسبت بہت زیادہ مانی جاتی ہیں مگر یہ نہیں ہوتا کہ گورنمنٹ ان کی سب کی سب باتیں مان لے.تو یہ ایک باطل عقیدہ ہے جو پھیلا ہوا ہے کہ خدا کو سب دعائیں قبول کر لینی چاہئیں.پچھلے جمعہ کے خطبہ میں جو میں نے یہ کہا تھا کہ ایسے طریق بتاؤں گا.جن سے دعائیں قبول ہوتی ہیں.اس سے شاید کسی کے دل میں یہ بات آئی ہو کہ اگلے جمعہ میں کوئی ایسی ترکیب بتا دی جائے گی جس سے جو چاہیں گے خدا تعالیٰ سے منوا لیں گے اور اب یہ سنکر کہ خدا تعالیٰ ہر ایک دعا قبول کرنے کے لئے مجبور نہیں ہے اور نہ ہی کسی عقلمند کو یہ خیال کرنا چاہیئے کہ اسکی تمام دعائیں قبول ہو جائیں گی.کوئی کہہ دے کہ پہاڑ کھودنے سے چوہاہی نکلا ہے.یعنی جب کسی بڑی چیز کی امید ہو اور بہت چھوٹی چیز حاصل ہو تو یہی کہا جاتا ہے.پس اگر کسی نے یہ خیال کیا تھا کہ اگلے خطبہ جمعہ میں کوئی ایسا طریق بتا دیا جائے گا.جس سے جو بات چاہیں گے خدا سے قبول کروالیں گے تو وہ اپنے دل سے اس کو نکال دے کیونکہ یہ کفر ہے اور یہ بات نہ میرے ذہن میں آئی اور نہ ہی کسی ایسے انسان کے ذہن میں آسکتی ہے جو خدا تعالیٰ کی عظمت.جلال اور قدرت سے واقف ہے.میرا مدعا تو یہ تھا کہ ایسا طریق بتایا جائے جس سے نسبتا خدا تعالی زیادہ دعائیں قبول فرما لے.یہ ہرگز نہیں تھا کہ میں کوئی ایسا گر جانتا ہوں یا بتا سکتا ہوں یا یہ کہ میرا عقیدہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے انسان جو چاہے منوا سکتا ہے.چاہےمنواسکتا.پس میں پہلے اس بات کو صاف کرنا چاہتا ہوں کہ میں قطعا کوئی ایسا گر نہیں جانتا کہ جس سے آقا خادم اور خادم آقا بن جائے.خالق مخلوق ہو جائے اور مخلوق خالق.مالک غلام قرار پا جائے اور غلام مالک.کیونکہ آقا.آقا ہی ہے اور غلام غلام.خدا تعالیٰ ازل سے آقا ہے.خالق ہے.مالک ہے.رازق ہے.اور ہمیشہ اسی طرح رہا ہے اسی طرح رہے گا.انسان ہمیشہ سے خادم مخلوق اور مملوک رہا ہے اور اس کی یہی حالت ہمیشہ رہے گی.حتی کہ جنت میں جب اعلیٰ سے اعلیٰ مدارج پر ہوگا تو بھی یہی حالت ہوگی.تو اس قسم کا خیال کفر ہے.اور میں ہرگز ہرگز اس کا قائل نہیں.ہاں ایسے رنگ اور طریق ضرور ہیں کہ

Page 186

خطبات محمود جلد (5) ۱۷۶ جن سے انسان اللہ تعالیٰ کو خوش کر کے جہاں تک آقا اور مالک خالق اور مخلوق مالک اور مملوک کا تعلق ہے اپنی بات منوا سکتا ہے جیسے ایک بچہ اپنے باپ سے اور شاگرد اپنے استاد سے منوالیتا ہے مگر ایسا کوئی بچہ نہیں ہو سکتا جو باپ سے اپنی ہر بات منوا لے اور نہ ایسا کوئی شاگرد ہوسکتا ہے جو استاد سے جو چاہے منظور کر والے.کوئی جاہل اور نادان باپ یا استاد ہر ایک بات مان لے تو یہ ایک الگ بات ہے جیسا کہ کہتے ہیں کسی پٹھان نے اپنے لڑکے کو پڑھانے کے لئے ایک استا در کھا تھا ایک دن استاد نے لڑکے کے سبق یاد نہ کرنے پر اسے سخت پیٹنا شروع کر دیا.لڑکا تو تلوار لے کر مارنے پر آمادہ ہو گیا.استاد بیچارہ جان بچانے کے لئے بھاگا.وہ اس کے پیچھے دوڑا.راستہ میں لڑکے کا باپ مل گیا.استاد صاحب نے سمجھا کہ اب جان بچ جائے گی.اس لئے اس کے پاس جا کر کہنے لگا دیکھئے آپ کا لڑکا مجھے قتل کرنا چاہتا ہے اس کو روکیئے.اس نے کہا کہ بھا گومت ٹھہر جاؤ.میرے بیٹے کا یہ پہلا وار ہے خالی نہ جانے پائے.تو کوئی بیوقوف ہی ایسا کر سکتا ہے نہ کہ عقلمند.پس میں جو دعاؤں کے قبول ہونے کا طریق بتاؤنگا وہ ایسا ہی ہوگا کہ جس سے خدا زیادہ دعائیں قبول کر لے گا نہ ایسا کہ ہر ایک دعا کو قبول کر لے گا.پہلا طریق جس سے دعا ئیں قبول ہوتیں اور کثرت سے خدا تعالیٰ سنتا ہے وہ تو اس قسم کا ہے کہ ہر ایک انسان اسے اختیار نہیں کر سکتا.بلکہ خاص خاص انسان ہی اس پر چل سکتے ہیں کیونکہ وہ انسان کے کسب سے متعلق نہیں بلکہ اس کے رتبہ اور مرتبہ سے تعلق رکھتا ہے اس مرتبہ کا جو انسان ہوتا ہے اس کی نسبت تو میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ اسکی ہر ایک دعا قبول ہو جاتی ہے.ابھی میں نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ انسان کی ہر ایک دعا قبول نہیں ہوتی.مگر اب میں نے کہا ہے کہ اس مرتبہ کے انسان کی ہر ایک دعا قبول ہو جاتی ہے ان دونوں باتوں میں اختلاف پایا جاتا ہے.لیکن جب میں یہ بتاؤں گا کہ وہ مرتبہ کیا ہے تو آپ لوگ خود بخود سمجھ جائیں گے کہ کوئی اختلاف نہیں ہے.میں نے اس مرتبہ اور مقام کا نام آلہ یعنی ہتھیار رکھا ہوا ہے جس کے ہاتھ میں ہتھیار ہو وہ اسے جہاں چلائے چلتا ہے اور اگر وہ ہتھیا رضرب نہ لگائے تو اس کا قصور نہیں ہوتا بلکہ چلانے والے کا ہوتا ہے لیکن کوئی چلانے والا یہ کبھی

Page 187

خطبات محمود جلد (5) 122 نہیں چاہتا کہ وہ کوئی ہتھیار چلائے اور وہ نہ چلے بلکہ وہ یہی چاہتا ہے کہ میں جہاں بھی چلاؤں وہیں چلے.اسی طرح انسان پر ایک ایسا وقت آتا ہے جبکہ وہ خدا کے ہاتھ میں بطور ہتھیار کے ہو جاتا ہے.وہ نہیں کھاتا.جب تک کہ خدا اسے نہیں کھلاتا.وہ نہیں پیتا.جب تک کہ خدا اسے نہیں پلاتا.وہ نہیں سنتا جب تک کہ خدا اسے نہیں سنا تا.وہ نہیں جاگتا جب تک کہ خدا اسے نہیں جگا تا.وہ نہیں سوتا جب تک کہ خدا اسے نہیں سُلا تا.غرضیکہ اس کی ہر حرکت اور ہرسکون اللہ تعالیٰ کے لئے اور اسی کے اختیار میں ہوتی ہے.ایسا انسان جو دعا کرتا ہے وہ قبول ہو جاتی ہے کیونکہ وہ اس کی نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے اس کے کرنے کا حکم ہوتا ہے.اس لئے کرتا ہے اور اس کی دعا کا قبول کر لینا خدا تعالیٰ کی شان کے خلاف نہیں ہے کیونکہ جو دعا مانگی جاتی ہے.وہ در اصل خدا ہی نے منگوائی ہوتی ہے.پس چونکہ مانگنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے اور دینے والا بھی اللہ ہی.اس لئے وہ ضرور قبول ہو جاتی ہے اور ممکن نہیں کہ قبول نہ ہو مثال کے طور پر دیکھئے.جب کوئی حاکم اپنے ماتحت کام کرنے والوں کا معائنہ کرنے آتے ہیں تو ماتحت اپنی ضروریات کو ان کے سامنے پیش کرتے ہیں.مثلاً فرض کرو ایک ڈپٹی کمشنر تحصیل میں آیا.اور تحصیلدار نے اپنی ضروریات اس کے سامنے پیش کیں کہ فلاں چیز کی ضرورت ہے فلاں سامان خریدنا ہے.فلاں کام کروانا ہے وغیرہ وغیرہ.وہ اس میں سے کچھ مان لے گا اور کچھ رڈ کر دے گا لیکن کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ ڈپٹی کمشنر خود کوئی ضرورت دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ چیز بھی ہونی چاہئیے اس کے لئے تحصیلدار کو کہتا ہے کہ اس چیز کی منظوری حاصل کرنے کے لئے رپورٹ کر دو.وہ رپورٹ کر دیتا ہے اب یہ کبھی نہ ہوگا کہ ڈپٹی کمشنر اس رپورٹ کو رڈ کر دے یا نا منظور کر دے کیونکہ اس کے متعلق وہ خود کہہ گیا تھا کہ کرو.اسی طرح خدا تعالیٰ بھی اپنے بندے کی زبان پر خود دعا جاری کرتا ہے.پس جب خود کرتا ہے تو پھر اسے رد نہیں کرتا.یہ اس بندے کے قرب اور درجہ کے اظہار کے لئے ہوتا ہے اور اگر وہ کوئی اور دعا کرنے لگے تو خدا تعالیٰ اس کے دل اور دماغ پر ایسا تصرف کر لیتا ہے کہ اس کے منہ سے وہ کلمات ہی نہیں نکلتے.جوہ نکالنا چاہتا تھا بلکہ ایسے کلمات نکلتے

Page 188

خطبات محمود جلد (5) ۱۷۸ ہیں جو قبول ہونے والے ہوتے ہیں.تو ایسے انسانوں کے دعا کرنے کے دو طریق ہوتے ہیں.ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام یا کشف یا وحی یا رویا کے ذریعہ سے انہیں بتا دیا جاتا ہے کہ یہ دعا مانگو.دوسرا یہ کہ اگر وہ کوئی ایسی دعا مانگنے کی نیت کرے جو قبول نہ ہونے والی ہو تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسا تصرف ہوتا ہے کہ ان کی نیت بالکل بدل جاتی اور یہ خواہش ہی بالکل جاتی رہتی ہے کہ دعا کرے پھر جو الفاظ اور جو طریق اس دعا کے کرنے کے لئے اس کے مد نظر ہوتا ہے وہ بھول جاتا ہے اور زبان سے خدا کی طرف سے بنے بنائے الفاظ جاری ہو جاتے ہیں جس سے خود بھی حیران رہ جاتا ہے.کہ میں کہنا کیا چاہتا تھا اور کہہ کیا رہا ہوں اس قسم کی دعا میں وسعت بھی بہت زیادہ ہوتی ہے اتنی کہ دو دو گھنٹے گزر جاتے ہیں مگر انسان سمجھتا ہے کہ کوئی پانچ چھ منٹ ہوئے ہونگے.وقت گزرتے ہوئے بھی پتہ نہیں لگتا کیونکہ وہ ایسا محو ہوتا ہے کہ اس دنیا سے اس کا دل و دماغ بالکل کھینچ جاتا ہے.اور صرف خدا ہی خدا اسے نظر آتا ہے.مگر یہ کوئی ایسا طریق نہیں ہے جس کے متعلق ہر ایک انسان کو کہہ دیا جائے کہ اس طرح کیا کرو.کیونکہ یہ مرتبہ سے تعلق رکھتا ہے جس کا پانا کسی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں.پس جبکہ یہ انسانی اختیار میں ہی نہیں تو اس پر عمل کرنا یا کر سکنے کے کیا معنے ؟ اس لئے میں یہ طریق بھی نہیں بتاؤں گا بلکہ وہ بتاؤں گا جس میں بندے کا اختیار اور تصرف ہو.لیکن اس سے یہ نہیں ہوگا کہ ساری کی ساری دعائیں قبول ہو جاتی ہیں بلکہ یہ کہ زیادہ قبول ہوتی ہیں.پس سب سے پہلا طریق جو میں بتانا چاہتا ہوں.وہ اسی آیت میں ہے جو میں نے ابھی پڑھی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُون میرے بندے جب میری نسبت سوال کریں.یعنی کہیں کہ خدا کس طرح دعا قبول کرتا ہے تو کہو فیائی قریب.میں سب سے بہتر مدعا کو پورا کرسکتا ہوں.کیونکہ میری ایک صفت یہ بھی ہے کہ میں ہر ایک چیز کے قریب ہوں.دعا کرنے والے کے بھی.اور جس مدعا کے لئے دعا کی جائے اس کے بھی.یہاں ایک سوال ہو سکتا تھا.اور وہ یہ کہ ہرا یک قریب ہونے والا تو فائدہ

Page 189

خطبات محمود جلد (5) 129 نہیں اٹھا سکتا.ایک چپڑاسی بادشاہ کے دربار میں جاتا ہے لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتا کہ کسی کرسی پر بیٹھ سکے.اسی طرح چتر اٹھانے والا وزیر سے بھی زیادہ بادشاہ کے قریب بیٹھا ہوتا ہے مگر کیا وہ وزیر کی گرسی پر بیٹھنے کی جرات کر سکتا ہے ہر گز نہیں تو انسان خدا کے نزدیک ہونے سے یہ تو نہیں ہوسکتا کہ خدا تعالیٰ اس کی دعا بھی قبول کر لے گا اور وہ اس وجہ سے فائدہ حاصل کر لے گا.اس کے متعلق خدا تعالیٰ نے ایک ایسا گر بتایا ہے جس میں اس سوال کا جواب بھی آجاتا ہے اور جو عام طور پر فطرتِ انسانی میں کام کرتا نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِی.تم میری ہر ایک بات مان لیا کرو.اور جو حکم ہم نے تمہارے لئے بھیجے ہیں.ان پر عمل کرو.اور اپنے تمام حرکات وسکنات کو شریعت کے ماتحت لے آؤ تو پھر تمہاری دعا میں قبولیت بہت بڑھ جائے گی کیوں؟ اس لئے کہ خادم کو انعام اس وقت ملا کرتا ہے جبکہ آقا خوش ہوتا ہے.اگر کوئی خادم اپنے آقا کو ناراض کر کے مانگتا ہے تومحروم رہتا ہے اس طرح کبھی کسی کو انعام نہیں ملا کرتا.کیونکہ ناراضگی کا وقت ایسا نہیں ہوتا جبکہ انعام و اکرام دیا جائے.چھوٹے بچوں ہی کو دیکھ لو.انہیں کوئی سمجھ نہیں ہوتی لیکن اگر ماں باپ سے کچھ مانگنے آئیں اور انہیں غصہ میں دیکھیں تو چپکے ہو کر الگ بیٹھ جاتے ہیں.لیکن جب خوشی میں دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ چیز لے دو.وہ لے دو.تو بچے بھی سمجھتے ہیں.کہ غصہ میں ہماری بات نہیں مانی جائے گی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کوئی بلا وجہ نہیں ہؤا کرتی.اسی وقت ہوتی ہے جبکہ اس کے احکام کی خلاف ورزی کی جائے.پس دعا میں قبولیت حاصل کرنے کا ایک رنگ یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال پر غور کرے کہ کوئی فعل اس سے شریعت کے خلاف تو نہیں ہو گیا.ہر ایک کام جو وہ کرے شریعت کے ماتحت کرے جب یہ حالت پیدا ہو جائے گی تو اس کی دعا قبول ہو جائے گی.جس طرح ایک محنتی طالب علم جو اچھی طرح سبق یاد کر کے لاتا ہو.استاد کے نزدیک اس کی بات زیادہ مانی جاتی ہے بہ نسبت اس لڑکے کے جو یاد کر کے نہ لاتا ہو.عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ اگر طلباء نے چھٹی لینی ہو تو جولٹ کالائق ہوا سے استاد کے پاس بھیجتے ہیں تا کہ وہ چھٹی مانگے.اس کی ایک وجہ ہوتی ہے اور وہ یہ کہ طالب علم سمجھتے ہیں کہ اگر ایسے لڑکوں نے چھٹی مانگی جو سکول کا کام

Page 190

خطبات محمود جلد (5) ۱۸۰ اچھی طرح نہیں کرتے تو استاد کہے گا کہ پڑھائی سے بچنے کے لئے چھٹی لیتے ہیں اور اگر لائق لڑکے مانگیں گے تو پھر ایسا خیال نہیں کیا جائے گا چونکہ استاد پہلے بھی ان پر خوش ہوتا ہے اس لئے رخصت دے دیگا.خدا تعالیٰ بھی اسی کی دعا قبول کرتا ہے جو اس کو راضی رکھتا ہے اسلئے فرمایا فَلْيَسْتَجِيبُوا لی.میرے بندوں کو چاہیے کہ اگر وہ اپنی دعاؤں کو قبول کروانا چاہتے ہیں تو میری باتیں مان لیا کریں.اگر یہ میرے احکام کو قبول کریں گے اور ان پر عمل کریں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کی دعائیں قبول ہو جائیں گی خدا تعالیٰ نے اپنے آپ کو مومن کا ولی قرار دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما یا کرتے تھے.دوست اسے نہیں کہتے جو ہر ایک بات مان لے بلکہ اسے کہتے ہیں جو کچھ مانے اور کچھ منوائے.اللہ تعالیٰ اپنے آپ کو مؤمنوں کا ولی فرماتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سی باتیں بندہ کی میں مان لیتا ہوں.اور بہت سی اسے ماننی چاہئیں.خدا فرماتا ہے کہ جو مجھے پکارتا ہے میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں.مگر اس کے قبول ہونے کا طریق یہ ہے کہ وہ بھی میری باتیں قبول کرے.وہ میرے احکام کو مانے پھر اسے جو تکلیفیں اور مصیبتیں پیش آئیں گی ان کو میں دور کروں گا.گویا خدا تعالیٰ ایک عہد کرتا ہے کہ تم میری باتیں مانو میں تمہاری مانوں گا تو دعا کے قبول ہونے کا یہ پہلا گر خدا تعالیٰ نے اس آیت میں بتا دیا ہے.دوسرا گر بھی اسی آیت میں ہے اور وہ یہ کہ فرمایا.وَلْيُؤْمِنُوا پی.اگر میرے بندے دعا قبول کروانا چاہتے ہیں تو اس کا دوسرا طریق یہ ہے کہ مجھ پر ایمان بھی لا ئیں.بظا ہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ زائد الفاظ ہیں کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی تمام باتیں مانے گا ضرور ہے کہ وہ ایمان بھی لائے گا اور جو ایمان نہیں لائے گا وہ مانے گا بھی نہیں.مثلاً جو نماز پڑھے گا روزے رکھے گا.زکوۃ دے گا.حج کرے گا.وہ یونہی نہیں کرے گا اور نہ ہی رسمی طور پر.کیونکہ رسمی طور پر کرنے کی خدا تعالیٰ نے پہلے ہی نفی فرما دی ہے.کیونکہ پہلے یہ نہیں فرمایا کہ اگر تم شریعت کے حکموں پر عمل کرو گے تو میں ا حقیقة الوحی ص ۱۸.

Page 191

خطبات محمود جلد (5) ۱۸۱ تمہاری دُعا قبول کروں گا.بلکہ لفظ ہی ایسا رکھا ہے جو شریعت پر عمل کرنا بھی ظاہر کر دیتا ہے.اور رسم کے طور پر عمل کرنے کا رڈ بھی کر دیتا ہے.یعنی استجابت.اس کے معنے ہیں کہ ایک طرف سے آواز آئے اور دوسرا اس کو قبول کر کے اس پر عمل کرے.نہ یہ کہ کسی کے اپنے نفس میں رحم اور سخاوت ہے تو وہ بھی اس کا مصداق ہو سکے اور نہ ہی رسمی یا عادت کے طور پر کوئی کام کرنا اس میں داخل ہوسکتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جو میری آواز سُنے اور اس پر عمل کرے اس کی دعا قبول ہوگی.اس طرح ایک ناقص ایمان والا شخص جو رسمی طور پر شریعت کے احکام پر عمل کرتا ہے.یا ایک دہر یہ جو یونہی لوگوں کے ڈر سے نماز پڑھ لیتا ہے.داخل نہیں ہو سکتا.پھر سوال ہوتا ہے کہ وَلْيُؤْمِنُوا پی کے فرمانے کا کیا مطلب ہوا.جب پہلے سے ہی یہ شرط موجود ہے کہ دعا اس وقت قبول ہوتی ہے جبکہ استجابت ہو.اور استجابت اس وقت ہوتی ہے جبکہ ایمان باللہ ہو تو پھر ایمان لانے کے کیا معنے.استجابت جب ایمان لانے کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی.تو پہلے ایمان ہونا چاہیئے.اور بعد میں استجابت نہ کہ پہلے استجابت اور بعد میں ایمان.اس صورت میں ایک ظاہر بین کو اختلاف نظر آتا ہے لیکن یہ بات غلط ہے.یہاں خدا تعالیٰ پر ایمان لانے سے اس کی شریعت پر ایمان لانا مراد نہیں ہے بلکہ دعا کے قبول ہونے کا ایک اور گر بتایا ہے جس کے نہ سمجھنے سے بہت سے لوگوں نے ٹھو کر کھائی ہے اور ان کی دعائیں رڈ کی گئی ہیں وہ گر یہ ہے کہ انسان شریعت کے تمام احکام پر عمل کرے اور دعائیں مانگے مگر ساتھ ہی اس بات پر ایمان بھی رکھے کہ خدا تعالیٰ دعائیں قبول کرتا ہے.بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ شریعت کے احکام پر بڑی پابندی سے عمل کرتے ہیں.ان کے دلوں میں خشیت اللہ بھی ہوتی ہے.بڑے خشوع و خضوع سے دعائیں بھی کرتے ہیں مگر پھر یہ کہتے ہیں کہ فلاں اتنا بڑا کام ہے اس کے متعلق دُعا کہاں سُنی جاسکتی ہے یا یہ کہتے ہیں کہ ہم گنہ گار ہیں ہماری دُعا خدا کہاں سنتا ہے اس قسم کا کوئی نہ کوئی خیال شیطان ان کے دل میں ڈال دیتا ہے جس سے ان کی دعا میں قبولیت نہیں رہتی.اس نقص بچنے کے لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ تم اس بات پر بھی ایمان رکھو کہ جب تم ہمارے احکام پر اچھی طرح

Page 192

خطبات محمود جلد (5) ۱۸۲ چلو گے تو میں تمہاری دعائیں قبول کرلوں گا.جب یہ یقین ہو تو پھر دعا قبول ہوتی ہے لیکن اگر کوئی زبان سے دعا تو کرتا ہے لیکن اسے یقین نہیں کہ خدا اس کی دعا قبول کر لے گا تو کبھی اس کی دعا قبول نہ ہو سکے گی.کیونکہ خدا تعالیٰ بندہ کے یقین پر دعا قبول کرتا ہے.اگر کسی کو یقین ہی نہ ہو تو لاکھ ماتھا رگڑے ناک گھساتے گھساتے دب جائے.حلق بیٹھ جائے کبھی دعا قبول نہیں ہوگی.کیونکہ جس کو خدا پر امید نہیں ہوتی.اس کی دعا وہ نہیں سنتا.فرماتا ہے.لَا تَايْنَسُوا مِنْ روح الله (يوسف : ۸۸) اللہ کی رحمت سے کبھی ناامید نہ ہو.اللہ کی رحمت سے کوئی نا شکرا انسان ہی نا اُمید ہوتا ہے ورنہ جس نے اپنے اوپر خدا تعالیٰ کے اس قدر نشان دیکھے ہوں جن کو وہ گن بھی نہ سکتا ہو.وہ ایک منٹ کے لئے بھی یہ خیال نہیں کر سکتا کہ میرا فلاں کام خدا نہیں کرے گا.اور فلاں دعا قبول نہیں ہوگی.خواہ اس کی کیسی ہی خطرناک حالت ہو اور کیسی ہی مشکلات اور مصائب میں گھرا ہوا ہو.پھر بھی وہ یہی سمجھتا اور یہی یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ایک ادنیٰ سے ادنی اشارہ سے بھی یہ سب کچھ دور ہوسکتا ہے اور خدا ضرور دور کرے گا اور اگر اسے دعا کرتے کرتے ہیں سال بھی گذر جائیں تو بھی یہی یقین رکھتا ہے کہ میری دعا ضائع نہیں جائے گی.اور اس وقت تک دعا کرنے سے باز نہیں رہتا جب تک کہ خدا تعالیٰ ہی منع نہ کر دے کہ اب یہ دعا مت کرو.گو اس کی دعا قبول نہ ہو لیکن آخر کا ر خدا تعالیٰ کے کلام کا شرف تو حاصل ہو گیا کہ خدا نے فرما دیا کہ اب دعا نہ مانگو.تو جب تک خدا تعالیٰ نہ کہے اس وقت تک دعا کرنے سے نہیں رکنا چاہیئے.دعا قبول نہ ہو تو بھی انسان کو یہ نہیں چاہیئے کہ وہ دعا کرنا چھوڑ دے.کیونکہ اگر اب قبول نہیں ہوئی تو پھر سہی پھر سہی دیکھو بعض اوقات جب بچہ ماں باپ سے پیسہ مانگتا ہے تو اسے نہیں بھی ملتا.لیکن اس کے بار بار کے اصرار پر مل ہی جاتا ہے اس طرح انسان کو کرنا چاہیئے.اگر ایک دفعہ دعا قبول نہ ہو تو دوسری دفعہ سہی.دوسری دفعہ نہ ہو تو تیسری دفعہ سہی.تیسری دفعہ نہ ہو تو چوتھی دفعہ سہی.حتی کہ کبھی تو ہو ہی جائے گی.اس لئے مانگنے سے نہیں رکنا چاہیئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے تھے کہ دو قسم کے گدا گر ہوتے ہیں.ایک وہ جو دروازے

Page 193

خطبات محمود جلد (5) ۱۸۳ پر آکر مانگنے کے لئے جب آواز دیتے ہیں تو کچھ لئے بغیر نہیں ٹلتے.ان کو خر گدا کہتے ہیں اور دوسرے وہ جو آکر آواز دیتے ہیں.اگر کوئی دینے سے انکار کر دے تو اگلے دروازہ پر.، دروازہ پر چلے جاتے ہیں.ان کو نر گدا کہتے ہیں.آپ فرماتے کہ انسان کو خدا تعالیٰ کے حضور نر گدا نہیں بننا چاہئیے.بلکہ خر گدا ہونا چاہیئے.اور اسوقت تک خدا کی درگاہ سے نہیں ہٹنا چاہئیے.جب تک کچھ پل نہ چکے.اس طرح کرنے سے اگر دعا قبول نہ بھی ہوئی ہو تو خدا تعالیٰ کسی اور ذریعہ سے ہی نفع پہنچا دیتا ہے پس دوسرا گر دعا کے قبول کروانے کا یہ ہے کہ انسان خر گدا بنے نہ کہ نر گرا.اور سمجھ لے کہ کچھ لے کر ہی ہٹنا ہے خواہ پچاس سال ہی کیوں نہ دعا کرتا رہے یہی یقین رکھے کہ خدا میری دعا ضرور سنے گا.یہ خیال بھی اپنے دل میں نہ آنے دے کہ نہیں سنے گا.اگر چہ جس کام یا مقصد کے لئے وہ دعا کرتا ہو وہ بظاہر ختم شدہ ہی کیوں نہ نظر آئے.پھر بھی دعا کرتا ہی جائے.لکھا ہے ایک بزرگ ہر روز دعا مانگا کرتے تھے.ایک دن جبکہ وہ دعا مانگ رہے تھے انکا ایک مرید آکر ان کے پاس بیٹھ گیا.اس وقت ان کو الہام ہو ا جو اس مرید کو بھی سنائی دیا لیکن وہ ادب کی خاطر چپکا ہو رہا.اور اس کے متعلق کچھ نہ کہا.دوسرے دن پھر جب انہوں نے دعامانگنی شروع کی تو وہی الہام ہو ا جسے اس مرید نے بھی سنا.اس دن بھی وہ چپ رہا.تیسرے دن پھر وہی الہام ہو ا.اس دن اس سے نہ رہا گیا.اس لئے اس بزرگ کو کہنے لگا کہ آج تیسرا دن ہے کہ میں سنتا ہوں ہر روز آپ کو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہاری دعا قبول نہیں کروں گا.جب خدا تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے تو پھر آپ کیوں کرتے ہیں.جانے دیں.انہوں نے کہا.نادان ! تو صرف تین دن خدا کی طرف سے یہ الہام سنکر گھبرا گیا ہے اور کہتا ہے کہ جانے دو.دعا ہی نہ کرو.مگر مجھے تیس سال ہوئے ہیں یہی الہام سنتے لیکن میں نہیں گھبرایا.اور نہ نا امید ہو ا ہوں.خدا تعالیٰ کا کام قبول کرنا ہے اور میرا کام دعا مانگنا.تو خواہ مخواہ دخل دینے والا کون ہے؟ وہ اپنا کام کر رہا ہے میں اپنا کر رہا ہوں.لکھا ہے دوسرے ہی دن الہام ہوا کہ تم نے تیس سال کے عرصہ میں جس قدر دعا ئیں کی تھیں ہم نے وہ سب قبول کر لی ہیں!.تو اللہ سے کبھی نا امید نہیں ہونا چاہیئے.نا امید ہونے ا یہ مضمون حدیث میں بھی بیان ہوا ہے کہ قبولیت دعا میں جلد بازی نہیں چاہئیے.( بخاری کتاب الدعوات باب يستجاب العبد مالم يستعجل ).

Page 194

خطبات محمود جلد (5) ۱۸۴ والے پر اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑک اُٹھتا ہے جو شخص ناامید ہوتا ہے وہ سوچے کہ کونسی کمی ہے.جو اس کے لئے خدا نے پوری نہیں کی.کیسے کیسے فضل اور کیسے کیسے انعام ہوئے اور ہورہے ہیں.پھر آئندہ نا امید ہونے کی کیا وجہ ہے.پس دعا مانگنے کا ایک طریق تو یہ ہے کہ انسان اپنے تمام اعمال کو شریعت کے مطابق کرے.کیوں؟ اس لئے کہ جس طرح ماں باپ بھی اسی بچے کی باتیں مانتے ہیں جو ان کی مانے.اور پوری پوری فرمانبرداری کرے.جو ان کی باتوں کی پرواہ نہیں کرتا اس کی باتوں کی وہ بھی نہیں کرتے.پھر استاد اسی لڑکے کی بات مانتا ہے جو محنتی اور اچھی طرح سبق یاد کرنے والا ہو.اسی طرح خدا تعالیٰ بھی اپنے فرمانبردار بندوں کی نافرمان بندوں سے زیادہ مانتا ہے.پس تم لوگ اول تو اپنے اعمال کو شریعت کے مطابق بناؤ اور دوسرے یہ کہ خدا کے فضل اور رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو.بلکہ دعا کرتے وقت یہ پختہ یقین رکھو کہ خدا تعالیٰ تمہاری دعا ضرور سُنے گا.اور ضرور سنے گا اور اس وقت تک دعا کرتے رہو کہ خدا کی طرف سے یہ حکم نہ آ جائے کہ اب یہ دعا مت مانگو.لیکن جب تک خدا تعالیٰ یہ کسی کو نہیں کہتا.بلکہ یہ کہتا ہے کہ میں تمہاری دعا قبول نہیں کرتا.اس وقت تک ہرگز ہرگز باز نہ رہو.کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہ کہنا کہ میں تمہاری دعا قبول نہیں کرتا.گو یا اشارہ یہ کہنا ہے کہ اے میرے بندے تو مانگتا جا.میں گو اس وقت قبول نہیں کرتا لیکن کسی وقت کر ضرور لوں گا.ورنہ اگر اس کہنے سے یہ مراد نہ ہوتی بلکہ دعا کرنے سے روکنا ہوتا تو خدا تعالیٰ یہ کہ سکتا تھا کہ یہ دعامت مانگ نہ یہ کہ میں نہیں مانوں گا.پس جب تک کان میں یہ الفاظ نہ پڑیں کہ یہ دعا مت مانگ“ اس کے مانگنے کی میں تمھیں اجازت نہیں دیتا.اس وقت تک نہیں رکنا چاہیئے.اس طرح تو ان کو مطلع کیا جاتا ہے جنہیں الہام اور کشف کا رتبہ حاصل ہوتا ہے.اور جنہیں یہ نہ ہو ان کو اس بات سے متنفر کر دیا جاتا ہے جس کے متعلق وہ دعا کرتے ہیں.جن پر الہام اور وحی کا دروازہ کھلا ہوتا ہے ان کو تو خدا کہہ دیتا ہے کہ ایسا مت کرو.لیکن جن کے لئے نہیں ہوتا ان کے دل میں نفرت پیدا کر دی جاتی ہے.اس لئے وہ خود ہی اس دعا کے مانگنے سے باز رہ جاتے ہیں اس کا نام مایوسی نہیں بلکہ ان کا یہ تو یقین ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمارا فلاں مقصد

Page 195

خطبات محمود جلد (5) ۱۸۵ پورا کر سکتا اور ہمیں فلاں چیز دے سکتا ہے لیکن ہم خود ہی اسے نہیں لینا چاہتے پس اگر کسی کے دل میں دعا مانگتے ہوئے اس چیز سے نفرت پیدا ہو جائے تو اسے بھی دعا کرنا چھوڑ دینا چاہئیے.ورنہ نہیں رکنا چاہئیے.خواہ قبولیت میں کتنا ہی عرصہ کیوں نہ لگ جائے.بعض دفعہ دعا کرتے کرتے کچھ ایسے سامان پیدا ہو جاتے ہیں کہ اگر دعا قبول ہو جائے تو اس سے شریعت کا کوئی حکم ٹوٹتا ہے.اس سے بھی سمجھ لینا چاہئیے کہ وہ وقت آگیا ہے کہ اس دعا سے باز رہنا چاہئیے خدا تعالیٰ کے دعا کو قبول کرنے سے انکار کرنے کا یہ بھی ایک طریق ہے.یعنی بجائے قول کے خدا تعالیٰ کا فعل سامنے آجاتا ہے.اس لئے اس کے کرنے سے رک جانا چاہئیے تو دعا کرنے سے رکنے کے تین پہلو ہیں.اول یہ کہ الہام یا کشف ہو جائے کہ یہ دعا مت کرو.یا ہماری طرف سے اس کے کرنے کی اجازت نہیں ہے.دوم یہ کہ جس مقصد کے حصول کے لئے دعا کی جائے اس سے نفرت پیدا ہو جائے.سوم یہ کہ جس بات کے لئے دعا کی جائے وہ شریعت کے محذورات کے ساتھ وابستہ ہو جائے.اگر ان تینوں حالتوں میں سے کوئی حالت بھی نہ ہو تو دعا کرنے سے کبھی نہیں رکنا چاہیئے.اور کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے.بلکہ یہی سمجھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ جو مانگنے کا موقعہ دیا ہوا ہے اس میں مانگتا ہی جاؤنگا تا کہ یہ ضائع نہ جائے.جب کوئی اسی طرح کرے گا تو ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ اس کی دعا یا تو قبول کر لے گا.یا ان تینوں طریقوں میں سے کسی سے اُسے روک دیگا ( ان تینوں کے علاوہ ابھی تک اور کوئی روک میری سمجھ میں نہیں آئی ) لیکن اگر روک بھی دے تو کیا دعا مانگنے کا یہ تھوڑا فائدہ اور نفع ہے کہ خدا وند تعالیٰ کے ساتھ مکالمہ ومخاطبہ کا شرف حاصل ہو گیا.اور خدا تعالیٰ نے اُسے اس قابل سمجھا کہ مخاطب کرے.آج میں دعا کے قبول ہونے کے صرف یہی دو طریق بتاتا ہوں.اور بھی ہیں مگر وقت تنگ ہو رہا ہے.اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو اگلے جمعہ میں ان کو انشاء اللہ بیان کر دوں گا.الفضل ۲۹ ؍جولائی ۱۹۱۶ء)

Page 196

JAY 24 خطبات محمود جلد (5) قبولیت دعا کے طریق نمبر (فرموده ۲۸ جولائی ۱۹۱۶ء) تشہد وتعوذوسورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیت پڑھ کر فرمایا :- وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَلَى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة: ۱۸۷) بہت سی باتیں بظاہر ہلکی اور چھوٹی نظر آتی ہیں اور جن لوگوں نے ان کے فوائد سے محروم رہنا ہوتا ہے وہ ان کو بے حقیقت اور معمولی سمجھ کر ان پر سے اندھوں کی طرح گذر جاتے ہیں.لیکن ان پر عمل کرنے سے بہت بڑے اور اعلیٰ درجہ کے نتائج پیدا ہوتے ہیں.دیکھو سارے پڑھے لکھے آدمی خط لکھتے ہیں لیکن سب کا خط خوبصورت نہیں ہوتا.لکھنے والی قلم.سیاہی اور کا غذ ایک ہی طرح کا ہوتا ہے.پھر ہاتھ بھی ایک ہی جیسا ہوتا ہے.وہی پانچوں انگلیاں سب کی ہوتی ہیں جو ایک خوشنویس کی ہوتی ہیں.ایک ہی طرح کے گوشت ہڈیوں اور نسوں سے بنی ہوتی ہیں.مگر جب ایک لکھتا ہے تو ایسا خوبصورت کہ دیکھنے والے کی طبیعت خوش ہو جاتی ہے اور جب دوسرا لکھتا ہے تو ایسا کہ دیکھنے والے کی طبیعت مکدر ہو جاتی ہے.دونوں خطوں میں بڑا فرق ہوتا ہے اور دونوں کا اپنے اپنے رنگ میں بڑا اثر پڑتا ہے.میں نے دیکھا ہے اعلیٰ اور عمدہ خط کی طرف انسان کی طبیعت خود بخود ھنچتی ہے.گو میرا اپنا خط کوئی ایسا اچھا نہیں لیکن میری ڈاک میں جو خط اچھے لکھے ہوتے ہیں.ان کو میں پہلے پڑھتا ہوں.تا کہ آسانی سے پڑھ سکوں اور جو مشکل سے پڑھے جاتے ہیں ان کو بعد میں پڑھتا ہوں.تو خوبصورت خط کا ایک فوری اثر ہوتا ہے.لیکن جانتے ہو.خط کی خوبصورتی کہاں سے آتی ہے

Page 197

خطبات محمود جلد (5) ۱۸۷ بد اگر کہو ہاتھ سے تو ہاتھ تو سب کے ہوتے ہیں.اگر کہو قلم سے تو قلم بھی سب کے پاس ہوتی ہے.اگر کہو سیاہی سے.تو سیاہی بھی ہر ایک رکھتا ہے.اور اگر کہو کا غذ سے.تو کاغذ بھی ہر ایک کے پاس ہوتا ہے.پھر وہ کیا چیز ہے جس کی موجودگی ایک کے خط کو بہت عمدہ اور خوبصورت بنادیتی ہے اور جس کی عدم موجودگی دوسرے کے خط کو بدصورت اور بدنما بنا دیتی ہے.یہ دراصل ایک معمولی سی حرکت اور خفیف سا بیچ ہوتا ہے اگر اس کے متعلق کوئی خوشنویس بتائے تو سننے والا حیران ہو کر کہہ دیگا کہ کیا اس ذراسی حرکت کے نتیجہ میں ایسا اعلیٰ نتیجہ ہو جاتا ہے.لیکن دراصل بات تو یہی ہے کہ نہایت خفیف سی حرکت کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ بہت خوبصورت خط ہوتا ہے اور اسی کی کمی سے بڑ صورت نظر آتا ہے.اس حرکت کو جاننے والے بڑے بڑے اعلیٰ درجہ کے خوشنویس گذرے ہیں ہندوستان میں ایک خوشنویسں تھا.جب کوئی فقیر اس کے پاس مانگنے کے لئے آتا.اور وہ اس پر مہربان ہوتا تو اسے ایک حرف لکھ کر دے دیتا.اس کا ایک حرف آسانی سے ایک روپیہ کو بک جاتا.جس طرح آجکل قطع نمائش کے لئے لگائے جاتے ہیں.اسی طرح اس کے ایک ایک حرف کو زینت کے طور پر لوگ لگاتے تھے.لیکن اس میں کوئی نئی چیز نہیں تھی.صرف ہاتھ کی حرکت ہی تھی جو اس کے خط کو خوبصورت کر دیتی تھی.اس کو اگر وہ بیان کرتا تو ہر ایک اس بات کو نہ سمجھ سکتا کہ اتنی سی معمولی حرکت سے ایسا خوبصورت حرف کس طرح لکھا جا سکتا ہے.لیکن خوبصورتی کا باعث وہی حرکت تھی.تمام پیشوں کا یہی حال ہے.ایک ہی لکڑیاں چیر نے والا آرہ.اور ایک ہی طرح کے سب آدمی ہوتے ہیں مگر ایک کی بنائی ہوئی چیز ایسی عمدہ ہوتی ہے کہ انسان اس کی طرف سے آنکھیں نہیں ہٹانا چاہتا.اور دوسرے کی ایسی ہوتی ہے کہ دیکھ کر منہ پھیر لیتا اور کہتا ہے کہ اس نے تو لکڑی کو ہی خراب کر دیا ہے ان دونوں کی بنائی ہوئی چیزوں میں اتنا بڑا فرق پیدا کرنے والی بھی ایک حرکت ہی ہوتی ہے جسے اگر بیان کیا جائے تو سننے والا حیران رہ جائے کہ یہ اس بات کا موجب کس طرح ہو سکتی ہے.اسی طرح کھانا پکانے والے ہیں.ایک ایسا علیٰ درجہ کا پکاتا ہے کہ اگر انسان کو بھوک نہ بھی ہو تو بھی دیکھ کر اشتہاء پیدا ہو جاتی ہے.اور ایک ایسا پکاتا ہے کہ اگر سخت بھوک لگی ہوئی ہو تو بھی کھانا دیکھ کر

Page 198

خطبات محمود جلد (5) ۱۸۸ بند ہو جاتی ہے.اگر اس اچھا کھانا پکانے والے سے پوچھا جائے کہ تم نے کس طرح پکایا ہے تو یہ نہیں ہوگا کہ وہ ترکیبوں اور احتیاطوں کے کوئی دو تین صفحے لکھا دے گا بلکہ یہی کہے گا کہ جس طرح سب لوگ پکاتے ہیں اسی طرح میں نے بھی پکایا ہے.میں کوئی نئی ترکیب تو نہیں جانتا.یا اگر زیادہ کرے گا تو یہ کہہ دے گا کہ نمک مرچ اس طرح ڈالتا ہوں.مسالہ اس طرح بھونتا ہوں.آگ اس قدر جلاتا ہوں وغیرہ.ان باتوں کو شنکر پوچھنے والا سمجھے گا کہ یہ مجھ سے دھو کہ کر رہا ہے اور اصل بات نہیں بتا تا.اس طرح تو میں پہلے ہی کرتا ہوں لیکن اصل اور درست بات وہی ہوتی ہے جو وہ بتا رہا ہوتا ہے.یہی حال عمارت بنانے والوں کا ہے.یہی علم پڑھانے والوں کا.ایک مدرس کی بات بہت کم طالب علم سمجھتے ہیں.لیکن دوسرے کی ہر ایک سمجھ جاتا ہے اس کو بیان کرنے کی ایک معمولی مشق ہوتی ہے اسے اگر وہ بیان کرے تو لوگ بہت معمولی سمجھیں.اسی طرح اور کئی باتوں کو معمولی سمجھا جاتا ہے.لیکن یہی معمولی باتیں بہت بڑے نتائج پیدا کرنے کا موجب ہو جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے میں نے سنا.آپ کسی عورت کا قصہ بیان فرماتے کہ اس کا ایک ہی لڑکا تھا.وہ لڑائی پر جانے لگا تو اس نے اپنی ماں کو کہا کہ آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیں جو میں اگر واپس آؤں تو تحفہ کے طور پر آپ کے لئے لیتا آؤں اور آپ اسے دیکھ کر خوش ہو جا ئیں.ماں نے کہا.اگر تو سلامت آجائے تو یہی بات میرے لئے خوشی کا موجب ہو سکتی ہے لڑکے نے اصرار کیا اور کہا آپ ضرور کوئی چیز بتائیں.ماں نے کہا.اچھا اگر تم میرے لئے کچھ لانا ہی چاہتے ہو تو روٹی کے جلے ہوئے ٹکڑے جس قدر زیادہ لا سکولے آنا.میں انہیں سے خوش ہو سکتی ہوں.اس نے اس کو بہت معمولی بات سمجھ کر کہا کہ کچھ اور بتائیں لیکن ماں نے کہا.بس یہی چیز مجھے سب سے زیادہ خوش کر سکتی ہے.خیر وہ چلا گیا.جب وہ روٹی پکا تا تو جان بوجھ کر اسے جلاتا.تا جلے ہوئے ٹکڑے زیادہ جمع ہوں.روٹی کا اچھا حصہ تو خود کھالیتا اور جلا ہوا حصہ ایک تھیلے میں ڈالتا جاتا.کچھ مدت کے بعد جب گھر آیا.تو اس نے جلے ہوئے ٹکڑوں کے بہت سے تھیلے اپنی ماں کے آگے رکھ دیئے.وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئی.اس نے کہا.اماں! میں نے آپ کے کہنے پر عمل تو کیا ہے.مگر مجھے ابھی تک معلوم نہیں ہوا کہ یہ بات کیا تھی.ماں نے کہا اس وقت جبکہ تم گئے تھے اس کا

Page 199

خطبات محمود جلد (5) ۱۸۹ بتانا مناسب نہ تھا.اب میں بتاتی ہوں.اور وہ یہ کہ بہت سی بیماریاں انسان کو نیم پختہ کھانا کھانے کی وجہ سے لاحق ہو جاتی ہیں.میں نے جلے ہوئے ٹکڑے لانے کے لئے اس لئے کہا کہ تم ان ٹکڑوں کے لئے روٹی کو ایسا پکاؤ کہ وہ کسی قدر جل بھی جائے گی.جلی ہوئی کو رکھ دو گے اور باقی کھا لو گے.اس سے تمہاری صحت بہت اچھی رہے گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.یہ کیا چھوٹی سی بات تھی لیکن در حقیقت اس کے بچہ کو بچانے کا موجب ہوگئی.سپاہی چونکہ جلدی جلدی کھانا پکا کر کھا لیتے ہیں اور اسطرح اکثر کچا رہتا ہے اس لئے انہیں پیچش اور محرقہ وغیرہ امراض اکثر لاحق رہتی ہیں.اس کی ماں نے ایسی بات بتائی جو بظاہر تو بہت معمولی تھی مگر جب اس نے اس پر عمل کیا تو بہت بڑا فائدہ اٹھایا.یعنی اس سے اس کی صحت سلامت رہی.یہ میں نے تمہید کیوں بیان کی ہے اس لئے کہ جو کچھ میں نے پچھلے جمعہ کو بیان کیا تھا.اور جو آج کرنے لگا ہوں وہ بظاہر سننے میں بہت معمولی معلوم ہوا ہوگا.اگر وہ ایسا ہی معمولی ہے جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ خوبصورت لکھنے والے.عمدہ اشیاء بنانے والے.اعلیٰ کھانا پکانے والے کے ہاتھ کی حرکت ہے.عام لوگ سمجھتے ہیں کہ جن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں.وہ کوئی خاص گر جانتے ہیں.حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ ان کے پاس بھی وہی گر ہوتا ہے مگر وہ استعمال نہیں کرتے.اس لئے ان کی دعائیں رڈ کی جاتی ہیں اور جو استعمال کرتے ہیں ان کی قبول ہوتی ہیں.پس تم لوگ ان کو معمولی نہ سمجھو وہ گو معمولی نظر آتی ہیں مگر نتائج اعلیٰ رکھتی ہیں.جب تم ان باتوں کوسُنو گے جو اب میں سنانا چاہتا ہوں تو کہو گے کہ یہ معمولی باتیں ہیں.ان کو ہم بھی جانتے ہیں مگر جاننا اور بات ہے اور عمل کرنا اور بات.غیر احمدی کہا کرتے ہیں کہ مرزا صاحب مسیح موعود ہو کر کیا آئے جس دن سے آئے ہیں اسی دن سے لوگوں پر ہلاکت اور تبا ہی آرہی ہے.ہم کہتے ہیں ان کا آنا ہلاکت اور تباہی سے نہیں بچا سکتا.بلکہ ان کا ماننا بچاتا ہے.پس ہمیں یہ بتایا جائے کہ کتنوں نے آپ کو مانا ہے.جب آپ کو مانتے نہیں تو پھر تباہیوں سے کس طرح بچیں تو کسی بات کا جاننا یا زبانی ماننا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں دیتا جب تک کہ اس پر عمل نہ کیا جائے.گذشتہ جمعہ میں میں نے دعا کے قبول ہونے کے لئے دو باتیں بتائی تھیں

Page 200

خطبات محمود جلد (5) ۱۹۰ ان میں سے ایک یہ تھی کہ انسان اپنے اعمال میں پاکیزگی پیدا کرے اور خدا تعالیٰ کے ہر ایک حکم کو بجالائے.کیوں؟ اس لئے کہ جس سے انسان خوش ہوتا ہے اس کو انعام دیتا ہے اسی طرح جس پر خدا تعالیٰ خوش ہوتا ہے اسی پر انعام کرتا ہے اس طریق کو سنکر بعض لوگ کہہ دیں گے کہ یہ تو ایک بڑی بات ہے ہمیں پہلے اپنے اعمال کی درستی کے لئے ہی دعا کی ضرورت ہے کیونکہ دعا تو تب قبول ہوگی.جبکہ اعمال درست ہوں گے اور اعمال اس وقت تک درست نہیں ہو سکتے جب تک کہ خدا تعالیٰ ہماری دستگیری نہ کرے اس لئے کوئی ایسی بات بتاؤ.جس پر عمل کرنے سے ہمارے جیسے کمزور ایمان اور کمزور اعمال والے انسانوں کی دعائیں بھی قبولیت کا شرف حاصل کر سکیں.کیونکہ ہم کو بہ نسبت دوسروں کے بہت زیادہ ضرورت ہے تا کہ ہمارے اعمال دعا کے ذریعہ درست اور مضبوط ہوں اور ہمیں کامل ایمان حاصل کرنے کی توفیق ملے.اس کے لئے میں آج چند ایسی باتیں بھی بیان کرتا ہوں جن کو ہر ابتدائی حالت والا انسان عمل میں لا سکتا ہے اور گو وہ معمولی نظر آتی ہیں لیکن در حقیقت بہت بڑی ہیں اور ان سے بڑے بڑے نتائج پیدا ہوتے ہیں ان میں سے ایک بات تو وہ ہے جو گزشتہ خطبہ میں میں نے بتائی تھی کہ انسان دعا کرتے ہوئے اس بات پر کامل ایمان رکھے کہ میں خدا کے حضور سے کبھی نا امید نہیں ہوں گا.اور کبھی تہیدست نہیں پھروں گا.لیکن اگر کوئی انسان دعا تو کرتا ہے مگر اس کا دل کہتا ہے کہ تیری دعا قبول نہیں ہوگی تو واقعہ میں اس کی دعا قبول نہیں ہوگی.اس لئے ہر ایک انسان اس یقین سے دعا مانگے کہ خدا تعالیٰ ضرور سنے گا اور قبول کرے گا.دوسری بات یہ ہے کہ ہم انسانوں میں دیکھتے ہیں کہ ان کے جو پیارے ہوتے ہیں ان سے جو نیک سلوک کرتا ہے وہ بھی ان کی نظروں میں پیارا معلوم دینے لگ جاتا ہے.مثلاً اگر کوئی ایک بچہ کو ہلاکت سے بچائے تو اس بچہ کے ماں باپ اس کے شکر گزار ہوں گے اور اسے یہ نہیں کہیں گے کہ تو نے بچہ کو بچایا ہے نہ کہ ہم کو.کہ ہم تیرے مشکور ہوں.تو یہ محبت کا تقاضا ہے کہ جو چیز کسی کی محبوب ہوتی ہے تو جب اس کو کوئی فائدہ پہنچائے یا اسکی نسبت کوئی اچھی بات کہے تو محب کے دل میں اس کی بھی محبت پیدا ہو جاتی ہے.یہی گر دُعا میں بھی انسان استعمال کر سکتا ہے.اللہ تعالیٰ کو اس سے بہت زیادہ محبت انسانوں سے ہوتی ہے..

Page 201

خطبات محمود جلد (5) ۱۹۱ جو بندوں کو بندوں سے ہوتی ہے.کیوں؟ اس لئے کہ محبت کی بنیاد تعلق پر ہوتی ہے.چونکہ بندوں کا ایک دوسرے کے ساتھ ابتداء کے لحاظ سے بھی اور انتہاء کے لحاظ سے بھی عارضی تعلق ہوتا ہے اس لئے ان کی محبت خواہ کتنی ہی زیادہ ہو.پھر بھی خدا کی محبت سے مقابلہ نہیں کر سکتی.کیونکہ خدا تعالیٰ کی محبت دائمی اور ہمیشہ کے لئے ہے.ایک جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے.کفار کو شکست ہو چکی تھی.صحابہ قیدیوں کو.مال اسباب وغیرہ جمع کر رہے تھے پکڑ دھکڑ شروع تھی کہ ایک عورت بھاگی بھاگی پھرتی نظر آئی.وہ جس بچہ کو دیکھتی اُسے پکڑ کر پیار کرتی اور پھر دیوانہ وار آگے چل پڑتی.اسی طرح چلتے چلتے اُسے اپنا بچپل گیا.جسے اس نے پکڑ کر چھاتی سے لگالیا.اور آرام سے بیٹھ گئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا کیا تم نے اس عورت کو دیکھا.اپنے بچہ کی محبت سے کس طرح بے تاب ہو رہی تھی.اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے اس سے بھی زیادہ محبت اور پیار ہے.تو خدا تعالیٰ کی محبت انسانوں کی محبت سے بہت زیادہ ہے پس جس طرح اگر کوئی کسی انسان سے محبت کرتا ہے تو اس کے محب کے دل میں اس کی بھی محبت اور الفت پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے بندوں پر اگر کوئی احسان مروت اور رحم کرے تو اللہ تعالیٰ بھی اس پر رحم کرتا ہے تو دعاؤں کی قبولیت کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ جب کوئی اہم معاملہ در پیش ہو اور اس کے لئے دعا کرنی ہو تو اس وقت کسی ایسے انسان کے جو کسی قسم کے دُکھ اور تکلیف میں ہو دکھ کو دور کیا جائے یا دور کرنے کی کوشش کی جائے.جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کے کسی بندے سے ایسا سلوک کرے گا تو اس کی وجہ سے خدا تعالیٰ اس کے دکھ کو دور کر دے گا.کیونکہ اس نے اس کے ایک بندہ کا دکھ دور کیا تھا یہ بہت اعلیٰ طریق ہے.دعا کرنے سے پہلے کوئی ایسا شخص تلاش کرنا چاہئیے جو کسی مصیبت اور تکلیف میں ہو.خواہ وہ تکلیف جانی ہو یا مالی عزت کی ہو یا آبرو کی کسی قسم کی ہو.تم کوشش کرو کہ دور ہو جائے آگے دور ہو یا نہ ہو اس کے تم ذمہ دار نہیں ہو تم اپنی ہمت اور کوشش کے مطابق زور لگا دو.اس کے بعد خدا تعالیٰ کے حضور جاؤ اور جا کر اپنے مدعا کے لئے دعا کرو.اس طریق کی دعا بہت حد تک قبول ہو جائے گی.تم خدا تعالیٰ کے کسی بندے کی تکلیف کو دور کرنے کے لئے جس قدر توجہ کرو گے.خدا تعالیٰ تمہاری تکلیف دور کرنے کے لئے اس سے بہت زیادہ توجہ فرمائے گا.ا بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الولد

Page 202

خطبات محمود جلد (5) ۱۹۲ اور کیا سمجھتے ہو کہ خدا تعالیٰ کی توجہ بھی بے نتیجہ ہوسکتی ہے.ہرگز نہیں.ممکن ہے کہ تم جس انسان کی تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کرو اس میں تمھیں کامیابی نہ ہو کیونکہ تم بندے ہو اور کسی بندے کے اختیار میں نہیں کہ جو کچھ کرنا چاہے اس میں کامیاب بھی ہو جائے.لیکن خدا تعالیٰ کی وہ ذات ہے کہ وہ جس بات کو کرنا چاہے وہ ضرور ہی ہو جاتی ہے.اس لئے تم کبھی یہ خیال مت کرنا کہ چونکہ تمہاری کوشش کامیاب نہیں ہوئی اس لئے خدا تعالیٰ بھی تمہاری دعا قبول نہیں کرے گا.کیونکہ جب خدا تعالیٰ تمہارا کام کرنے کا ارادہ کرے گا تو ضرور ہو جائے گاوہ ہر چیز کا خالق اور مالک ہے.جس طرح چاہتا ہے ان سے کام لے لیتا ہے.پس تم اس طریق کو ضرور استعمال کرو.اس کے علاوہ :.تیسرا طریق یہ ہے کہ وہ انسان جو اس درجہ کو نہ پہنچے ہوں کہ خدا تعالیٰ خود انہیں دعا ئیں سکھائے اور بتائے کہ یہ دعا کرو اور یہ نہ کرو.وہ دعا کرنے سے پہلے کثرت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہ انسان ہیں جو خدا تعالیٰ کے حضور تمام بنی نوع انسان سے زیادہ مقبول ہیں.خواہ آپ سے پہلے گذرے یا بعد میں آئے.یا آئندہ آئیں گے ہر ایک انسان کی نظر میں اس کا استاد یا اس کا خاندان کا بزرگ بڑا ہوتا ہے.کہتے ہیں کہ رنجیت سنگھ کے مرنے پر بڑا واویلا مچا ہوا تھا.پاس سے ایک چوہڑا گذر رہا تھا.اس نے کسی کو کہا اتنی بڑی کیا آفت آ گئی ہے کہ سارا شہر پاگل بنا ہوا ہے.اس نے کہا مہاراجہ رنجیت سنگھ مر گیا ہے.یہ سنکر وہ ایک ٹھنڈا سانس کھینچ کر کہنے لگا.باپوجی جیسے مر گئے تو رنجیت سنگھ کون تھا جو نہ مرتا.گویا اس کے نزدیک با پوجی اتنی حیثیت رکھتے تھے کہ رنجیت سنگھ جو اپنے وقت کا بادشاہ تھا.کچھ حقیقت نہ رکھتا تھا.یہ اس کے دل میں وہی جذ بہ کام کر رہا تھا جو اپنے بزرگوں کی محبت اور الفت کا ہر ایک انسان میں ہوتا ہے.مذاہب میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے.دیکھو باوجود اس کے کہ حضرت مسیح حضرت موسیٰ کے خلفاء میں سے ایک خلیفہ تھے مگر اس محبت اور الفت نے جو اپنے استاد یا بزرگ سے ہوتی ہے عیسائیوں کو ایسا مجبور کیا کہ انہوں نے ان کو حضرت موسی سے بہت زیادہ بڑھا دیا.تو میں نے جو یہ کہا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سے پہلے آنے والوں اور اپنے سے بعد میں آنے والوں میں سے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ

Page 203

خطبات محمود جلد (5) ۱۹۳ شان رکھنے والے ہیں.ان میں میں نے حضرت مسیح موعود کو بھی شامل کر لیا ہے حضرت مسیح موعود اپنے موجودہ درجہ میں ہوں یا اس سے بھی بڑے درجہ میں تو بھی آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم اور غلام ہی کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ آپ کا قرب اور درجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے طفیل ہے.اور آپ ہی کی وجہ سے حاصل ہوا ہے.میں نے بتایا ہے کہ حقیقی محبت استثناء کرتی ہے.یعنی جس سے تعلق ہو اس کو دوسروں سے بڑھ کر دکھاتی ہے.مگر ہم کو جس انسان سے اس زمانہ میں نو ر ملا ہے ہم اس کو مستثنیٰ نہیں کرتے.اور علی الاعلان کہتے ہیں کہ سب انسانوں کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اعلیٰ اور ارفع ہے اور آپ ایک ایسے مقام پر ہیں کہ گویا سب سے علیحدہ ہو کر ایک اکیلے نظر آجاتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کلمہ توحید کے ساتھ آپ کا نام بھی رکھ دیا ہے.ایسے انسان کی نسبت جو درود بھیج کر خدا تعالیٰ سے برکات چاہے خدا تعالیٰ کی رحمت جوش میں آکر اس پر فضل کرنا شروع کر دیتی ہے.یہ بات احادیث سے ثابت ہے.( وقت کی کمی کی وجہ سے میں یہ نہیں بیان کر سکتا کہ جوطریق میں بیان کر رہا ہوں ان کو میں نے کس آیت اور کس حدیث سے استدلال کیا ہے.مگر اتنا بتا دیتا ہوں کہ یہ سب باتیں قرآن کریم اور احادیث سے لی گئی ہیں ) تو دعا کے قبول ہونے کے ساتھ درود کا بڑا تعلق ہے.وہ انسان جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج کر دعا کرتا ہے اس کی ہر ایک ایسے انسان سے بڑھ کر دعا قبول ہوتی ہے جو بغیر درود کے کرے.انعام دینے کا یہ بھی ایک طریق اور رنگ ہوتا ہے کہ اپنے پیارے اور محبوب کی وساطت اور وسیلہ سے دیا جائے.خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انعامات کا وارث کرنے اور سب سے بڑا رتبہ عطا کرنے کے لئے اس طریق سے بھی کام لیا ہے کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج کر دعا مانگیں گے ان کی دعائیں زیادہ قبول ہوں گی.دنیا میں کونسا انسان ہے جسے خدا تعالیٰ کی ضرورت نہیں.ہر ایک کو ہے.اس لئے ہر ایک ہی اپنی مصیبت کے دور ہونے اور حاجت کے پورا ہونے کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کرے گا.اور جب ترمذی ابواب السفر باب الثناء على الله والصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلّم

Page 204

خطبات محمود جلد (5) ۱۹۴ دعا کرے گا تو اگر چہ وہ پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا عادی نہ ہوگا لیکن اپنی دعا کے قبول ہونے کے لئے درود بھیجے گا.جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقی درجات کا موجب ہوگا اور اس طرح اسے بھی انعام مل جائے گا.غرض خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کی دعائیں قبول کرنے کے لئے ایک بات یہ بھی بیان کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج کر پھر دعا کی جائے اور یہ کوئی ناروا بات نہیں.یہ اسی طرح کی ہے کہ جو محبوب سے اچھا سلوک کرتا ہے وہ بھی محب کا محبوب ہو جا تا ہے.چوتھا گر یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی حمد کرے.یہ بھی ایک عام طریق ہے جو اسلام کی تعلیم سے بھی معلوم ہوتا ہے.اور فطرت انسانی میں بھی پایا جاتا ہے دیکھو فقراء جب کچھ مانگنے آتے ہیں تو جس سے مانگتے ہیں اس کی بڑی تعریف کرتے ہیں.کبھی اسے بادشاہ بناتے ہیں کبھی اس کی بلندشان ظاہر کرتے ہیں کبھی کوئی اور تعریفی کلمات کہتے ہیں.حالانکہ جو کچھ وہ کہتے ہیں اس میں وہ کوئی بات بھی نہیں پائی جاتی.مگر مانگنے والا اس طرح کرتا ضرور ہے اور ساتھ ہی اپنے آپ کو بڑا محتاج اور سخت حاجتمند بھی ظاہر کرتا ہے کیونکہ سمجھتا ہے کہ اس طرح کرنے سے میں اپنے مخاطب کو رحم اور بخشش کی طرف متوجہ کرلوں گا اور اللہ تعالیٰ کی تو جس قدر بھی تعریف کی جائے وہ کم ہوتی ہے کیونکہ وہی سب خوبیاں اپنے اندر رکھتا ہے.اور اسی لئے دوسرے لوگوں کی جو تعریف ہوتی ہے وہ سچی اور جھوٹی دونوں طرح کی ہو سکتی ہے مگر خدا تعالیٰ کی جو تعریف بھی کی جائے وہ سب سچی ہی ہوتی ہے.اس لئے جب کبھی دعا کی ضرورت ہو تو دعا کرنے سے پہلے خدا تعالیٰ کی حمد کر لینی چاہیئے.چنانچہ سورہ فاتحہ سے ہمیں یہ نکتہ معلوم ہوتا ہے.سورۃ فاتحہ وہ سب سے بڑی دعا ہے جو خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کو سکھائی ہے.اور ہر روز کئی بار پڑھی جاتی ہے اس میں پہلے خدا نے یہی رکھا ہے کہ الحمدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ فرمایا ہے.اس میں یہی گر سکھایا گیا ہے کہ جب کوئی دعا کرنے لگو تو پہلے کثرت سے خدا تعالیٰ کی حمد کر لو.(حمد تمام خوبیوں اور پاکیزیوں کے جمع ہونے اور سب نقصوں

Page 205

خطبات محمود جلد (5) ۱۹۵ اور کمزوریوں سے منزہ سمجھنے کا نام ہے.اس لئے تسبیح بھی اس میں شامل ہے.اور یہ بھی ایک قسم کی حمد ہی ہوتی ہے ) خدا تعالیٰ کی حمد کر کے دعا کرنے سے بہت زیادہ دعا قبول ہوتی ہے.پس انسان کو چاہئیے کہ دعا کرنے سے پہلے خدا تعالیٰ کی حمد کرے اس کی عظمت اور جلال کا اقرار کرے اور اس کی تعریف بیان کرے.اس طرح دعا بہت زیادہ قبول ہو جاتی ہے.وجہ یہ کہ چونکہ بندہ خدا تعالیٰ کی صفات کو بیان کرتا اور اپنے آپ کو بالکل بیچ ظاہر کرتا ہے.اس لئے وہ خدا جور حمن.رحیم.مالک.خالق قادر ہے اور جس کے خزانوں میں کبھی کمی نہیں آسکتی.اس کی دعا کو قبول کر لیتا ہے.جب ایک انسان کسی انسان کے سامنے اپنے آپ کو محتاج پیش کرتا اور اس کی تعریف و توصیف کرتا ہے تو اسے رحم آجاتا ہے اور وہ اس کی کچھ نہ کچھ مدد کر دیتا ہے.تو خدا تعالیٰ کے حضور جب کوئی انسان اپنی حالت زار کو پیش کرے.اور اس کی حمد و تعریف بیان کرے تو کیونکر ہوسکتا ہے کہ وہ اس کی دعا کورڈ کر دے.پس جب کوئی انسان خدا تعالیٰ کی صفات کو بیان کر کے کچھ مانگتا ہے تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا یہ محتاج بندہ جو کچھ مانگتا ہے وہ اسے دیا جائے.جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے سے خدا تعالیٰ کی محبت جوش میں آتی ہے.اسی طرح حمد کرنے سے اس کی غیرت جوش میں آتی ہے.درود پڑھنے سے تو خدا تعالیٰ یہ کہتا ہے کہ یہ بندہ چونکہ ہمارے پیارے بندہ کے لئے دعا کرتا ہے کہ اس پر فضل کیا جائے اس لئے میں اس پر بھی فضل کرتا ہوں اور حمد کرنے کے وقت کہتا ہے کہ یہ میرا بندہ جو میری صفات بیان کر رہا ہے میں اس پر اپنی صفات ظاہر بھی کر دیتا ہوں تا اس کو عملی طور پر معلوم ہو جائے کہ جو کچھ وہ میرے متعلق کہتا ہے وہ سب درست ہے.تو حمد خدا تعالیٰ کی سب صفات کو جوش میں لے آتی ہے اور سب صفات جمع ہو کر ایک طرف جھک جاتی ہیں تا کہ اس بندہ کا کام کر دیں.اس کے علاوہ دعا کی قبولیت کے لئے یہ بھی یا درکھو کہ دعا کرنے سے پہلے اپنے کپڑوں اور بدن کو صاف کرو.گو ہر ایک دعا کرنے والا نہیں سمجھتا اور نہ محسوس کرتا ہے مگر جو محسوس کرتے یا کر سکتے ہیں ان کا تجربہ ہے کہ جب انسان دعا کرتا ہے تو اسے خدا تعالیٰ کا ایک قرب حاصل ہو جاتا ہے اور اس کی روح اللہ تعالیٰ کے حضور کھیچی جاتی ہے گو دیکھنے والے کو معلوم نہیں ہوتا کہ خدا نظر آ رہا ہے مگر

Page 206

خطبات محمود جلد (5) ۱۹۶ جس طرح خواب میں روح کو جسم سے آزاد کر دیا جاتا ہے اسی طرح اس وقت خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کے لئے روح الگ کی جاتی ہے.چونکہ روح کی صفائی جسم کی صفائی سے تعلق رکھتی ہے.اور روح کی ناپاکی جسم کی ناپاکی ہے.اس لئے اگر جسم نا پاک ہو تو روح پر بھی اس کا نا پاک ہی اثر پڑتا ہے.اور اگر جسم پاک ہو تو روح پر بھی اس کا پاک ہی اثر پڑتا ہے.ایک واقعہ لکھا ہے.واللہ اعلم کہاں تک درست ہے مگر ہے نتیجہ خیز.لکھا ہے کسی شہزادی نے ایک معمولی شخص سے شادی کر لی.جب وہ دونوں خلوت میں جمع ہوئے تو چونکہ مرد نے کھانا کھا کر ہاتھ نہ دھوئے تھے اس لئے ہاتھوں کی بُو سے اسے اتنی تکلیف ہوئی کہ اس نے کہا اس کے ہاتھ کاٹ دو.چنانچہ اس کے ہاتھ کاٹ دیئے گئے.گو خدا تعالیٰ پر کسی کے گندہ اور ناپاک ہونے کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا.مگر خدا تعالیٰ ہر ایک گند اور ہر ایک ناپاکی کو سخت نا پسند کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے تمام عبادتوں کے لئے صفائی کی شرط ضروری قرار دی ہے جس طرح وہ شخص جو پیشاب سے بھرے ہوئے کپڑوں کے ساتھ کھڑا ہو کر نماز پڑھتا ہے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی.اسی طرح وہ دعائیں جو ایسی حالت میں کی جائیں وہ بھی قبول نہیں ہوتیں.بلکہ جب کوئی انسان گندی حالت میں خدا کے حضور پیش ہوتا ہے تو بجائے فائدہ اٹھانے کے وہاں سے نکال دیا جاتا ہے.یہی ستر ہے کہ صوفیاء نے دعائیں کرنے کا لباس الگ بنا رکھا ہوتا ہے جسے خوب صاف ستھرا رکھتے اور خوشبوئیں لگاتے ہیں.تو دعا کے قبول ہونے کا یہ بھی ایک طریق ہے کہ دعا کرنے سے پہلے انسان اپنے کپڑوں کو صاف ستھرا کر لے.جو شخص غریب ہے وہ اس طرح کر سکتا ہے کہ ایک الگ جوڑا بنا رکھے اور اسے صاف کر لیا کرے.اس طرح دعا زیادہ قبول ہوتی ہے.پھر دعا کی قبولیت کے لئے ایک اور طریق ہے اور وہ یہ کہ دعا کے لئے ایک ایسا وقت اور جگہ انتخاب کرے جہاں خاموشی ہو.مثلاً اگر دن کا وقت ہے تو جنگل میں کسی ایسی جگہ چلا جائے جہاں سمجھے کہ کوئی میرے خیالات میں خلل انداز نہیں ہو سکے گا یا رات کے وقت جبکہ سب لوگ سوئے ہوئے ہوں دعا کرے.اس طرح یہ ہوتا ہے کہ خیالات پراگندہ نہیں ہونے پاتے.جب کسی ایسی جگہ یا ایسے وقت دعا کی جاتی ہے کہ ادھر سے آوازیں آتی رہتی ہیں تو دعا کی طرف خاص توجہ نہیں ہوسکتی اس طرح

Page 207

خطبات محمود جلد (5) ۱۹۷ تو جہ کبھی کسی طرف چلی جاتی ہے اور کبھی کسی طرف.چونکہ انسان کی طبیعت میں مجس کا مادہ ہے.اس لئے ذراسی آواز آنے پر جھٹ ادھر متوجہ ہو جاتا ہے.تا معلوم کرے کہ کیا ہوا ہے.اس سے بچنے کے لئے وہ لوگ جن کو جلوت سے خلوت میتر نہیں آسکتی یا آتی ہے مگر بہت تھوڑی دیر کے لئے.وہ ایسے وقت دعا کریں جبکہ خاموشی ہو یا ایسی جگہ کریں جہاں کسی قسم کا شور نہ ہو.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا ہے آپ جنگل میں تنہا چلے جایا کرتے تھے.اس بات کا علم اکثر لوگوں کو نہیں ہے مگر آپ اس راستہ سے جو میاں بشیر احمد کے مکان کے پاس سے گزرتا ہے دس بجے کے قریب سیر کو جانے کے علاوہ اکیلے بھی جایا کرتے تھے.ایک دن جو آپ جانے لگے تو میں بھی آپ کے ساتھ چل پڑا.تھوڑی دور چلے تو واپس لوٹ آئے اور مسکرا کر فرمانے لگے پہلے تم جانا چاہتے ہو تو ہو آؤ.میں بعد میں جاؤنگا اس سے میں سمجھ گیا کہ آپ اکیلے جانا چاہتے تھے.میں واپس آ گیا.غرضیکہ علیحدہ جگہ اور خاموش وقت میں خاص توجہ سے دعا کی جاسکتی ہے.کیونکہ توجہ کے لئے کوئی بیرونی روک نہیں ہوتی اس لئے طبیعت کا زور ایک ہی طرف لگتا ہے.اور جیسا کہ میں نے کسی گزشتہ خطبہ میں بتایا تھا جب تمام زور ایک طرف لگتا ہے تو اپنے راستہ کی ہر ایک روک کو بہا کر لے جاتا ہے.پھر ایک یہ بھی طریق ہے کہ جب کوئی انسان کسی معاملہ کے متعلق دعا کرنے لگے تو پہلے اپنے نفس کی کمزوریوں کا مطالعہ کرے.اور اتنا مطالعہ کرے اتنا کرے کہ گو یا اس کا نفس مر ہی جائے اور اسے اپنے نفس سے گھن آنی شروع ہو جائے اور نفس کہہ اُٹھے کہ تو بغیر کسی بالا دست ہستی کی مدد اور تائید کے خود کسی کام کا نہیں ہے.اور کچھ نہیں کر سکتا.جب نفس کی یہ حالت ہو جائے تو دعا کی جائے ایسی حالت میں جس طرح ایک بے دست و پا بچہ کی ماں باپ خبر گیری کرتے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ بھی اپنے بندے کی کرتا ہے.ماں باپ کو دیکھو.جب بچہ بڑا ہو جاتا ہے تو اسے کہتے ہیں خود کھاؤ پیو.مگر دودھ پیتے بچہ کی ہر ایک ضرورت اور احتیاج کا انہیں خود خیال اور فکر ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کے حضور بھی انسان کو اپنے نفس کو اسی طرح ڈال دینا چاہئیے.جس طرح دودھ پیتا بچہ ماں باپ کے آگے ہوتا ہے لیکن اگر نفس فرعون ہوا اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہو تو اس کی کوئی بات قبول نہیں ہو سکتی.اس لئے سب سے پہلے انسان کو چاہیے کہ اپنے نفس کو بالکل گرا دے

Page 208

خطبات محمود جلد (5) ۱۹۸ یہ بندے اور خدا میں تعلق پیدا ہونے کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور اس سے دعا بہت زیادہ قبول ہوتی ہے.ایک یہ بھی طریق ہے کہ جب انسان دعا کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ کے انعامات کو اپنی آنکھوں کے سامنے لے آئے.کیونکہ انسان کو خواہش اور امید کام کروایا کرتی ہے.اللہ تعالیٰ کے انعامات کو دیکھنے کے لئے سر سے لے کر پاؤں تک خوب غور کرے اور دیکھے کہ اگر میری فلاں چیز نہ ہوتی تو مجھے کس قدر تکلیف اور نقصان ہوتا.مثلاً اس طرح نقشہ کھینچے کہ اگر میرے ہاتھ نہ ہوتے اور کوئی دوست مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھاتا تو میں کیا کرتا.یا پیاس لگی ہوتی تو پانی کس طرح پی سکتا.پیشاب کرنا ہوتا.تو ازار بند کس طرح کھولتا.اور پھر باندھ سکتا.غرضکہ اسی طرح ہر ایک چیز کو دیکھے.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کے انعام اور فضل کا ایسا نقشہ کھینچے کہ اس کا رُو آں رُوآں خدا کی محبت اور الفت سے پر ہو جائے.اس وقت اس کے دل پر جوش اور شوق سے امید ایک ایسی لہر مارے گی کہ وہ جو دعا کرے گا وہ قبول ہو جائے گی.کیونکہ جب وہ دیکھے گا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے بغیر مانگے اور سوال کئے اس قدر انعامات دے رکھے ہیں تو مانگنے سے کیوں نہ دے گا.جب اس کو یہ یقین حاصل ہو جائے گا تو جو مانگے گا وہ مل جائیگا.ایک طریق یہ بھی ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ کے انعامات کو نظر کے سامنے لانا چاہئیے.اسی طرح اس کے غضب کو سامنے لایا جائے.اور جس طرح یہ سوچا تھا کہ اگر میرا فلاں عضو نہ ہوتا تو کیا ہوتا.اسی طرح یہ سوچے کہ یہ انعام جو مجھے دیئے گئے ہیں یہ چھین لئے جائیں.تو پھر کیا ہو؟ اور یہ بھی دیکھے کہ بہت سے لوگ تھے جن پر میری طرح ہی خدا تعالیٰ کے انعام تھے مگر ان سے چھین لئے گئے اس بات کے لئے تباہ شدہ گھر اور ہلاک شدہ بستیاں یا اپنے جسم کا ہی کوئی تباہ شدہ حصہ کا فی سبق دے سکتا ہے.وہ اسے دیکھے اور پھر دعا کرے یہ دعا خوف اور طمع کی دعا ہو گی.جس کو قرآن کریم نے بھی بیان کیا ہے.ایک طرف اس کے خوف ہوگا اور دوسری طرف طمع.یہ دو دیوار میں ہوں گی.جو اسے دنیا سے کاٹ کر اللہ کی طرف مائل کر دیں گی.اور اس طرح اس کی دعا قبول ہو جاتی ہے.پھر جب کوئی شخص دعا کرنے لگے تو اپنی حالت کو چست بنائے.کیونکہ

Page 209

خطبات محمود جلد (5) ۱۹۹ جسطر ح نفس مُردہ ہو تو اس کا اثر جسم پر پڑتا ہے.اسی طرح اگر جسم مردہ ہو تو اس کا اثر نفس پر پڑتا ہے.جب کوئی سستی کی حالت اختیار کرتا ہے تو اس کے نفس پر بھی سستی چھا جاتی ہے.یہی وجہ ہے کہ نماز میں قیام.رکوع.سجدہ وغیرہ جتنی حالتیں رکھی گئی ہیں وہ سب چستی کی رکھی ہیں.تو جسم کی شستی کا اثر روح پر اور خیالات پر ہوتا ہے.اس لئے دعا کرنے کے وقت انسان کو چستی کی حالت میں ہونا چاہئیے.یہ نہ ہو کہ سجدہ میں جائے تو کہنیاں زمین پر گرا دے.مجھے ہمیشہ اس بات کا شوق لگا رہتا ہے کہ میں شریعت کے ہر ایک چھوٹے سے چھوٹے حکم میں بھی معلوم کروں کہ کیا حکمت ہے.اس وجہ سے میں نے اس بات پر غور کرنے کے لئے کہ یہ کیوں حکم ہے کہ سجدہ کرتے وقت کہنیاں زمین پر نہ گرائی جائیں.نوافل میں کہنیاں گرا کر دیکھا ہے اس سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ اگر پہلے بڑے زور سے دعا ہورہی ہو تو اس طرح کرنے سے رک گئی ہے.اور جب کہنیاں اٹھائی ہیں تو پھر وہی حالت پیدا ہوگئی ہے.جو پہلے تھی.تو دعا کرتے وقت چستی ہونی چاہئیے.اور وہ چستی جو امید کی چستی ہوتی ہے نہ کہ کوئی اور.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زبان سے دعا زیادہ عمدگی سے نکلتی ہے اور مختلف پیرایوں میں دعا کرنے کی توفیق ملتی ہے.پھر ایک طریق یہ بھی ہے کہ جب کسی اہم امر کے متعلق دعا کرنے لگو تو اس سے پہلے چند اور دعائیں کر لو.اور پھر اصل دعا کرو.خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے یہ بات رکھی ہے کہ اس کا ہر ایک کام آہستگی سے شروع ہوتا ہے اور جب وہ شروع ہو جاتا ہے تو پھر ترقی کرتا جاتا ہے.گو یا اس کے کاموں میں تیزی آہستہ آہستہ پیدا ہوتی ہے نہ کہ یکلخت.اس لئے بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی مقصد کے لئے دعا کرتا ہے لیکن کچھ عرصہ بعد کامیابی نہ دیکھ کر کرنے سے رہ جاتا ہے.وجہ یہ کہ وہ چاہتا ہے کہ جلدی دعا قبول ہو جائے حالانکہ وہ جلدی نہیں ہونے والی ہوتی.اس لئے بہتر یہ ہے کہ کسی اہم معاملہ کے متعلق دعا کرنے سے پہلے اور دعائیں کی جائیں.جب ان کی وجہ سے ان میں تیزی اور چستی پید ا ہو جائے گی.اور اس کے خیالات بلند ہو جائیں گے اس وقت اپنے خاص مقصد کو خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر دے.اس کے لئے ایک اور بہتر طریق یہ بھی ہے کہ انسان پہلے ایسی دُعائیں مانگے جنہیں خدا تعالیٰ ضرور قبول کر لیتا ہے.دفاتر میں جو ہوشیار کلرک

Page 210

خطبات محمود جلد (5) ۲۰۰ ہوتے ہیں وہ اسی طرح کیا کرتے ہیں کہ اگر ان کا منشاء ہو کہ ہمارا افسر فلاں درخواست کو نا منظور کرے تو اس کے سامنے چار پانچ ایسی درخواستیں پیش کر دیتے ہیں جن کے متعلق انہیں پورا یقین ہو کہ نامنظور کی جائیں گی جب افسران کو نا منظور کر چکتا ہے اور خاص طور پر بر افروختہ ہوتا ہے تو نامنظور کرانے والی کو پیش کر دیتے ہیں اس طرح وہ بھی نا منظور ہو جاتی ہے.اور جب کسی درخواست کے متعلق ان کا یہ منشاء ہو کہ منظور ہو جائے.تو پہلے ان امور کو پیش کرتے ہیں جن سے افسر خوش ہو جائے جب دیکھتے ہیں کہ خوش ہے تو اسے بھی پیش کر دیتے ہیں اور اس طرح وہ منظور ہو جاتی ہے.اس طرح کام کرنے والے اور ہوشیار کلرک کیا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ بھی نکتہ نواز ہے.افسر کبھی تو جان بوجھ کر بھی کسی نامنظور کرنے والی درخواست کو منظور کر لیتا ہے کہ اس نے چونکہ ہمیں خوش کیا ہے اس لئے ہم بھی اس کو خوش کر دیں.لیکن کبھی وہ نادانی سے ایسا کر بیٹھتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ کی شان ہی ایسی ہے کہ اس کو کبھی دھوکہ نہیں لگ سکتا.اس لئے وہ خوش ہی ہو کر بات قبول کرتا ہے.پس کسی خاص معاملہ کے قبول کرانے کے لئے پہلے ایسی دعائیں کرنی چاہئیں.جن کو خدا تعالیٰ نے قبول ہی کر لینا ہو.مثلاً یہ کہ الہی دین اسلام کی بڑے زورشور سے اشاعت ہو.تیرا جلال اور قدرت ظاہر ہو.تیرے انبیاء کی عزت اور تو قیر بڑھے.خدا تعالیٰ کہے گا ایسا ہی ہو.اس طرح دعائیں کرتے کرتے کرتے اپنا مقصد بھی پیش کر دیں کہ الہی یہ بات بھی ہو جائے.تو دعا قبول کرانے کا ایک یہ بھی طریق ہے.اس طرح کرنے سے تیزی اور چستی پیدا ہو جاتی ہے.اس لئے دعا نہایت عمدگی اور خوبی سے کی جاسکتی ہے اور دوسرے سے خدا تعالیٰ خوش ہو جاتا ہے اور جب اس کے خوش ہونے کی حالت میں دعا پیش کی جائے گی تو وہ ضرور قبول ہو جائے گی.ایک طریق یہ ہے کہ ایسی جگہ دعا مانگی جائے جو بابرکت ہو.کیونکہ جگہ کا بھی قبولیت دعا سے خاص تعلق ہوتا ہے.یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ دنیا کی کسی چیز کا کوئی اثر اور کوئی حرکت ایسی نہیں ہوتی جو ضائع جاتی ہو.بلکہ ہر ایک چیز کی خفیف سے خفیف حرکت بھی قائم اور محفوظ رہتی ہے.پس جب کسی اچھی چیز سے انسان کا تعلق ہوتا ہے تو اس انسان کا خاص اثر اس پر ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مدینہ اور مسجد اقصٰی میں نماز

Page 211

خطبات محمود جلد (5) ۲۰۱ پڑھنے کا کسی اور جگہ پڑھنے سے بہت زیادہ درجہ بتایا ہے !.کیا وہاں کے پتھر اور گارا کوئی خاص قسم کے ہیں نہیں بلکہ جگہیں برکت والی ہیں اور جو ان میں نماز پڑھتا ہے اس پر اچھا اثر ہوتا ہے.یہ بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ انسان سے برکت چلی جاتی ہے.قومیں بے برکت ہو جاتی ہیں.کیونکہ یہ اپنی نادانی اور بیوقوفی سے اس درِ بے بہا کو کھو دیتی ہیں.مگر بے جان اشیاء میں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے برکت ڈالی جاتی ہے وہ کبھی نہیں جاسکتی اور ہمیشہ کے لئے رہتی ہے (سوائے نہایت خاص وجوہ کے یا خطر ناک بد اعمالی کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ - (الرعد : ۱۲ ) کہ جب خدا تعالیٰ کسی قوم پر احسان اور فضل کرتا ہے تو اس وقت تک اس میں تغیر نہیں کرتا اور اسے نہیں ہٹا تا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت میں تغیر نہ پیدا کرے تو انسان اپنی بداعمالیوں اور بد افعالیوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے فضل کو اپنے اوپر سے بند کر لیتا ہے.لیکن ایک بے جان چیز ایسا نہیں کر سکتی.اس لئے اس پر ہمیشہ کے لئے فضل قائم رہتا ہے.دیکھو مدینہ کے لوگ اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے ایسے ہو گئے ہیں کہ جس.طرح وہاں کے لوگوں کی دعائیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت پوری ہوتی تھیں اس طرح آج ان کی نہیں ہوتیں.مکہ کے رہنے والوں کی بھی یہی حالت ہے.وہاں آج بھی دعائیں قبول ہونے کا ویسا ہی اثر ہے جیسا کہ پہلے تھا کیونکہ وہاں کی اینٹیں گا را اور زمین نہیں بگڑی بلکہ آدمی بگڑ گئے ہیں.تو جن جگہوں پر خدا تعالیٰ کا فضل نازل ہو جاتا ہے وہ پھر کبھی نہیں رکتا.کیونکہ خدا تعالیٰ کا خزانہ ایسا وسیع ہے کہ جس کے خالی ہونے کا کبھی خیال بھی نہیں آ سکتا جن مقامات پر خدا تعالیٰ نے فضل کر دیا ہے پھر ان سے کبھی منفصل نہیں ہوتا.اس لئے خاص مقامات میں دعا خاص طور پر قبول ہوتی ہے.پس انسان کو چاہئیے کہ جب دعا کرنے لگے تو ایسے ہی مقام کو چن کر کرے.حضرت خلیفتہ المسیح اول رضی اللہ عنہ کے پاس بھی ایک مصلی تھا.آپ فرماتے تھے کہ میں جب کبھی اس مصلے پر بیٹھ کر دعا کرتا ہوں.خاص طور پر قبول ہوتی ہے.تو خاص اشیاء میں خاص برکت کی وجہ سے خاص ہی اثر ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بخاری کتاب الصلوة في مسجد مكة والمدينة باب لا تشد الرجال الا الى ثلاثة مساجد.

Page 212

خطبات محمود جلد (5) ٢٠٢ نے اس بات کو پسند فرمایا ہے اور صحابہ کرام نے اس پر عمل کیا ہے کہ گھر میں نماز پڑھنے کے لئے ایک خاص جگہ معین کر دیتے تھے.جہاں سوائے عبادت کے اور کام نہیں کئے جاتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بیت الدعاء بنایا ہوا تھا تو یہ بھی دعا کے قبول ہونے کا ایک طریق ہے.یہ بہت سے طریق میں نے آپ لوگوں کو بتائے ہیں.دیر ہوگئی ہے ورنہ میں ابھی اور بھی کئی ایک طریق بتا سکتا تھا.یہ باتیں گو بظاہر چھوٹی چھوٹی معلوم ہوتی ہیں مگر دراصل چھوٹی نہیں ان کو استعمال کر کے دیکھو تو پتہ لگے گا کہ ان سے کتنے کتنے بڑے نتائج نکلتے ہیں.جس طرح ایک ذراسی کشش بدخط سے خوبصورت خط بنا دیتی ہے اسی طرح یہ باتیں دعا کو قبولیت کے درجہ پر پہنچا دیتی ہیں.اس زمانہ میں ہمارے لئے بہت مشکلات کا سامنا ہے.قسم قسم کے مخالف پیدا ہو گئے ہیں اور قسم قسم کے اعتراض اسلام پر کئے جاتے ہیں ان کے دفعیہ کے لئے ہمیں بہت کوشش اور ہمت کی ضرورت ہے.اور اس سے بڑھ کر ہمارے لئے اور کونسا طریق کامیابی کا ہوسکتا ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے حضور عرض کریں کہ آپ ہی ہماری مدد کیجیئے.پس آپ لوگ اپنے اعتقاد اپنے اعمال میں خاص اصلاح کر لیں.تا تمہارا کھانا.پینا.چلنا پھرنا.سونا جاگنا.غرضیکہ ہر سکون اور ہر حرکت اسی کے لئے ہو جائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.خطبہ میں ایک ایسا وقت آتا ہے کہ اس وقت کی کی ہوئی دعا قبول ہو جاتی ہے.پھر جمعہ سے مغرب تک ایسا ہی وقت آتا ہے.پھر رمضان کے آخری عشرہ میں بھی ایسا ہی موقعہ آتا ہے.خدا کے فضل سے آپ لوگوں کو یہ سب موقعے نصیب ہیں.اس لئے خوب دعائیں کرو.تا خدا تعالیٰ اس مبارک مہینہ کے طفیل اور اس بابرکت پیغام کے طفیل جو تم دنیا کو پہنچانا چاہتے ہو تمہارے راستہ سے سب روکیں دور کر دے.اور تمھیں اس کام کا پورا پورا اہل بنائے.جو تمہارے سپر دکیا گیا ہے.(آمین) الفضل ۸ /اگست ۱۹۱۶ء) مشکوة کتاب الصلوۃ باب المساجد ومواقع الصلوة -

Page 213

٢٠٣ 25 خطبات محمود جلد (5) گورنمنٹ برطانیہ خُدا کے فضلوں میں سے ایک فضل ہے (فرموده ۴ /اگست ۱۹۱۶ء) تشهد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی حمد کی کوئی حد بندی نہیں ہو سکتی.جب خدا تعالیٰ اپنا فضل اور احسان کرتا ہے تو پھر اس کی انتہاء مقرر کرنی یا اس کو گننے کی کوشش کرنا نادانی ہوتی ہے دیکھو ابھی تھوڑی دیر ہوئی کہ بارش ہوئی ہے.یہ بھی خدا تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک فضل ہے لیکن کیا کسی کی طاقت ہے کہ اس کے قطرے گن سکے.ہر گز نہیں.خدا کا ہر ایک جسمانی فضل نمونہ ہوتا ہے روحانی فضل کا.اور روحانی فضل جسمانی سے بہت زیادہ وسیع ہوتا ہے.جب جسمانی فضل کا ہی گنا ناممکن ہے تو روحانی فضل کا گنا کس طرح ممکن ہوسکتا ہے.پھر خدا کے فضل کی وہ بارشیں جو روحانی رنگ میں ہوتی ہیں کبھی کبھی خاص طور پر بھی ہوتی ہیں جس طرح سخت تپش اور گرمی کے بعد بہت زیادہ بارش ہوتی ہے.اسی طرح رُوحانی طور پر جب دنیا میں تپش ہو جاتی ہے تو اس کے بعد روحانی بارش بڑے زور سے برستی ہے اور ہونا بھی ایسا ہی چاہئیے.کیونکہ انسان اس وقت تک کسی چیز سے خوشی اور راحت محسوس ہی نہیں کرتا.جب تک کہ اس کے مقابلہ میں اسے دکھ اور تکلیف نہ پہنچ چکی ہو.ایک ایسا فقیر جس کی آنکھیں ہوں وہ کبھی اس بات پر خوشی کا اظہار نہیں کرے گا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ کیسی نعمت دی ہے لیکن اگر اسے کوئی ایک پیسہ دے دے گا تو بہت خوش ہوگا اور دینے والے کا شکریہ ادا کرے گا.کیوں؟ اس لئے کہ آنکھیں تو اس کے پاس پہلے سے ہی تھیں.اور پیسہ نیا ملا ہے.جو کہ اس کے پاس پہلے نہ تھا.چونکہ اس کی آنکھیں نہیں گئی تھیں.اس لئے اسے معلوم ہی نہیں کہ یہ بھی

Page 214

خطبات محمود جلد (5) ۲۰۴ کوئی نعمت ہے لیکن جن لوگوں کو موتیا بند ہو جاتا ہے اگر چہ وہ ایک عارضی ہی پر دہ ہوتا ہے لیکن جو ڈاکٹر اس پردہ کو دور کر دیتا ہے اس کے سامنے اس کی آنکھیں اونچی نہیں ہو سکتیں.کس قدر حیرت اور تعجب کا مقام ہے کہ اکثر لوگ اصل آنکھوں کے بنانے والے کے آگے اپنی گردنیں اونچی ہی رکھتے ہیں.کیوں؟ اس لئے کہ اس نے ان کو چھین کر نہیں دیں.بلکہ پہلے سے ہی دے رکھی ہیں.مگر ایک ڈاکٹر اس وقت آنکھیں بناتا ہے جبکہ ان سے کچھ عرصہ کے لئے چھینی جا چکتی ہیں.اس لئے اس کے شکر گزار ہوتے ہیں.تو یہ ایک عام بات ہے کہ جو چیز پہلے نہ ہو اور پھر ملے.اس پر لوگ خوش ہوتے اور اسے نعمت سمجھتے ہیں اور جو پہلے سے ہی انہیں ملی ہوئی ہو.اس کی طرف توجہ بھی نہیں کرتے.خدا تعالیٰ کی بھی یہ ایک سنت ہے کہ ایک زمانہ میں وہ روحانی ترقیات کی طاقت بخشتا ہے مگر کچھ مدت کے بعد لوگوں کو اپنی عادت کے مطابق یہ گھمنڈ ہو جاتا ہے کہ خدا نے ہمیں کیا بتانا تھا یہ سب کچھ ہم نے اپنی عقل سے ہی تجویز کیا ہے گویا وہ اپنی نادانی سے دین کو اپنی ایک ایجاد سمجھ لیتے ہیں.چنانچہ مسلمانوں پر بھی جب تصنیفات کا زمانہ آیا تو ان کے لئے خدا اور رسول اڑ کر صرف یہی رہ گیا کہ امام ابوحنیفہ یہ کہتے ہیں.امام حنبل یہ فرماتے ہیں.یعنی ان کے دلوں میں خدا اور اس کے رسول کا کوئی احسان نہ رہا.بلکہ اماموں کا ہو گیا.اور وہ یہ سمجھنے لگ گئے کہ اگر یہ امام نہ ہوتے تو آج کچھ نہ ہوتا.کہتے ہیں.ایک پٹھان نے کسی کتاب میں پڑھا تھا.نماز پڑھتے ہوئے ہاتھ نہیں ہلانے چاہئیں.ورنہ نماز ٹوٹ جاتی ہے.پھر اس نے کہیں یہ پڑھا کہ آنحضرت نے ایک دفعہ نماز پڑھتے ہوئے کسی کے آواز دینے پر دروازہ کھول دیا.تو کہنے لگا محمد ( صلے اللہ علیہ وسلم ) کا نماز ٹوٹ گیا.گویا اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک امام کے حکم کے ماتحت لانا چاہا.حالانکہ امام ابوحنیفہ وغیرہ جس قدر بھی امام ہوئے ہیں وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خوشہ چین ہیں اور آپ باغبان.امام مالک.امام شافعی.امام ابوحنیفہ.امام حنبل یہ سب آپ کے خوشہ چین اور جاروب کش ہیں.آپ کے باغ میں جھاڑو دے کر پھل جمع کر لانے کے علاوہ اور کیا کرتے ہیں.مگر نادانوں اور کم عقلوں کے سامنے یہ جھاڑو دینے والے تو ہیں اور پھل پیدا کرنے والا اور ان کو پرورش دینے والا پوشیدہ ہے.اس لئے ان کو نہیں دیکھتے.ایسے ہی وقت میں خدا تعالیٰ

Page 215

خطبات محمود جلد (5) ۲۰۵ اپنے دین کو دنیا سے اٹھا لیتا ہے اور اس طرح انہیں بتاتا ہے کہ تم نے خدا اور اس کے رسول کی قدر نہ کی.اب بتاؤ تمہارے پاس کیا ہے اگر کچھ رکھتے ہو تو تم میں کوئی ابوحنیفہ پیدا تو ہو.کوئی فقیہہ اور زاہد تو دکھلاؤ لیکن وہ کچھ نہیں دکھلا سکتے.اس وقت ان کی روحانی امور میں عقلیں ماری جاتی ہیں دنیاوی لحاظ سے تو بال کی کھال کھینچتے ہیں.مگر روحانی طور پر ان کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا.جب دنیا کی یہ حالت ہو جاتی ہے.تو خدا کی بارش نازل ہو کر بتاتی ہے.کہ دیکھو اب ہم اپنا کام کرتے ہیں.پھر لوگوں کے چہروں پر تازگی اور بشاشت آجاتی ہے.وہی لوگ جو مُردہ دل ہوتے ہیں زندہ ہو جاتے ہیں وہ جو دین سے بالکل غافل اور بے پرواہ ہو جاتے ہیں دین پر جان دینے والے بن جاتے ہیں کیونکہ ان کی نگاہیں انسانوں پر نہیں بلکہ خدا پر ہوتی ہیں اور اس وقت ان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ ؎ جدھر دیکھتا ہوں اُدھر تو ہی تو ہے اس وقت ان کے منہ سے بے اختیار الْحَمدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ لکھتا ہے.لیکن کچھ عرصہ بعد جس طرح ڈاکٹر کے موتیا بند دور کرنے سے اس کا تو احسان یا درکھا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کو بھلا دیا جاتا ہے اسی طرح اس روحانی بارش کے بعد بد قسمت لوگ خدا تعالیٰ کو بھلا کر انسانی عقل و فہم پر بھروسہ کر بیٹھتے ہیں ابھی دیکھ لو.کوئی زیادہ عرصہ نہیں گذرا کہ چند لوگوں نے کہہ دیا مرزا صاحب نے آکر ہمیں کیا دیا صرف وفات مسیح کے مسئلہ کو صاف کیا ہے.مگر ان نادانوں نے نہ دیکھا کہ ہم میں اور غیر احمدیوں میں کیا فرق ہے.اگر یہ غور کرتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ ان میں اور ان میں بہت بڑا فرق ہو گیا تھا.کیا ان کے لئے قرآن کریم ایک زندہ کتاب نہ ہو گئی تھی.اور کیا ان کے لئے رسول کریم ایک زندہ رسول نہ ثابت ہو گئے تھے.پھر کیا جب یہ قرآن کریم پر غور کرتے تو ان کے ذہنوں میں بجلی کی طرح حقائق اور معارف نہیں ڈالے جاتے تھے.اور کیا وہ باتیں جو دوسروں کے لئے ٹھوکر کا باعث ہوتی تھیں.ان کے لئے عجیب عجیب نکات نہیں ثابت ہوتی تھیں.پھر کیا وہی آیتیں جو نعوذ باللہ لغو اور فضول سمجھی جاتی تھیں ان کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرکت ان کے لئے بڑی بڑی حکمت نہیں رکھتا تھا.یہ سب کچھ تھا مگر انہوں نے ان باتوں کو اپنی عقل اور سمجھ کا نتیجہ قرار دیا.اور یہ کہہ دیا.

Page 216

خطبات محمود جلد (5) ۲۰۶ کہ مرزا صاحب کے ذریعہ وفات مسیح کے سوا ہمیں اور کچھ نہیں ملا.ان لوگوں کو دیکھ کر تم ان لوگوں کی حالت کا قیاس کرلو.جو زمانہ نبوت سے بہت دور ہو جاتے ہیں.پس جب ان کے منہ سے الحمد للہ نہیں نکلتی.تو اللہ تعالیٰ اپنا انعام ان سے چھین لیتا ہے پھر انہیں پتہ لگ جاتا ہے کہ ہماری عقل اور دانائی کچھ کام نہیں دے سکتی.لیکن جس طرح بارش کے بند ہونے سے کنوئیں بھی خشک ہو جاتے ہیں اسی طرح روحانی بارش کے بند ہونے سے تمام روحانی چشمے خشک ہو جاتے ہیں پھر خدا تعالیٰ بارش نازل فرماتا ہے لیکن نادان انسان اصل بھیجنے والے کو پھر بھلا دیتے ہیں.غرض خدا تعالیٰ روحانی خشکی کے وقت ضرور روحانی بارش نازل فرماتا ہے اور جو لوگ وہ زمانہ پاتے اور اس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں.وہ بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں کیونکہ وہ حمد ہی حمد کا زمانہ ہوتا ہے.تمام دنیا کے لئے ایک حمد کا زمانہ تو وہ تھا.جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے پھر ایک یہ زمانہ ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے ہیں اور جس کے پانے کا ہمیں موقعہ ملا ہے.اس لئے ہمارے لئے کیا ہی حمد کا زمانہ ہے.ہمارے دل سے کیسے جوش کے ساتھ حد نکلتی ہے.کیوں؟ اس لئے کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے شارع دیا.تو ایسا کہ تمام انبیاء اس کے مقابلہ میں طفل مکتب ہیں.یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.کہ لَوْ كَانَ مُوسی وَعِيسَى حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتَّبَاعِی.اگر عیسی اور موسیٰ زندہ ہوتے تو وہ بھی میرے ہی مدرسہ میں داخل ہوتے.دیکھو موسیٰ علیہ السلام کی کتنی بڑی شان تھی.مگر ان کے متعلق بھی آپ نے یہی کہا کہ اگر وہ آج زندہ ہوتے تو میرے سامنے زانوئے ادب خم کرتے.لوگوں نے حضرت موسیٰ اور خضر کا یونہی ایک جھوٹا قصہ بنالیا ہے.اصل بات کچھ اور ہے.لیکن حضرت عبد القادر جیلانی کے متعلق لکھا ہے کہ ان کے پاس کشف میں خضر آیا.انہوں نے اسے کہا کہ مجھے بھی موسیٰ“ نہ سمجھ لینا کہ تمہاری بات نہ سمجھ سکوں گا.میں محمد ی سلسلہ کا فرد ہوں میں ان باتوں سے خوب واقف ہوں گے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی کشف میں ہی دکھایا گیا تھا جس طرح حضرت موسیٰ ابن کثیر جلد ۲ ص ۲۴۶ حاشیہ الیواقیت والجواہر جلد ۲ ص ۲۲-۲

Page 217

خطبات محمود جلد (5) ۲۰۷ کو خضر کشف میں دکھائی دیا تھا.جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے اور یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ خضر ملائکہ کے رنگ میں تھا.اسی طرح عبد القادر کو بھی کشف میں نظر آیا.مگر انہوں نے کہا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہوں اس لئے تیرا اثر مجھ پر نہیں ہوسکتا.یہ بھی ایک رنگ ہوتا ہے.لوگوں نے اپنی نادانی سے خضر کچھ اور سمجھا ہوا ہے.مگر انہوں نے قرآن کریم کی آیات پر غور نہیں کیا اور نہ اس واقعہ کی حکمت اور اصلیت کو سمجھا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں اور کسی کا درجہ نہیں ہے.بلکہ باقی سب انبیاء کا آپ سے استاد شاگرد جیسا تعلق ہے اسی لئے آپ نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی کے لئے فرمایا کہ اگر وہ بھی زندہ ہوتے تو میری اتباع کرتے.اتباع اسی وقت کی جاتی ہے جبکہ بہت بڑا فرق ہو.تو خدا نے ہمیں ایسی شان کا رسول دیا پھر کون ہے جس کے منہ سے بے اختیار الحمد للہ رب العالمین نہ نکلے.پھر قرآن کریم ایسی مکمل کتاب دی کہ جس کا کوئی لفظ کوئی حرکت کوئی نقطہ بے موقع نہیں ہے بلکہ ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرکت میں ایسی حکمت اور معرفت بھری ہوئی ہے کہ انسان اگر غور کرے تو ساری عمر اسی میں مست رہے اور کوئی چیز اس کی توجہ کو دوسری طرف نہ کھینچ سکے.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسا شارع نبی اور قرآن کریم ایسی کامل کتاب ہمیں دی گئی.پھر خدا تعالیٰ نے ہم پر یہ کتنا فضل کیا کہ اس تاریکی اور ظلمت کے زمانہ میں جس میں ایسے نبی اور ایسی کتاب کو لوگ چھوڑ بیٹھے تھے.مسیح موعود علیہ السلام جیسا ہادی اور راہ نما بھیج دیا.جس کی نسبت ہر زمانہ میں ہزار ہاولی ترستے چلے گئے.بلکہ جس کے زمانہ کو دیکھنے کی بعض انبیاء نے بھی خواہش کی.کیونکہ آپ کا زمانہ خاص فتوحات کا زمانہ تھا.اللہ تعالیٰ تو چونکہ سب کا خدا ہے.اس لئے میں نے اس کا نام نہیں لیا لیکن اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جس طرح جلوہ فرمایا ہے اس طرح پہلے کسی نبی کے ذریعہ نہیں فرمایا.اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ایسا خدا ملا.جیسا کسی کو نہیں ملا.یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں جو ہم پر ہوئے ہیں اسی لئے قرآن کریم کو الحمد للہ رب العالمین سے شروع کیا گیا ہے.

Page 218

خطبات محمود جلد (5) ۲۰۸ اسی طرح ہم پر خدا تعالیٰ کے دنیاوی رنگ میں بھی بڑے فضل ہوئے ہیں.ہم سے پہلی قوموں نے بڑی بڑی تکلیفیں اور مصیبتیں اٹھائی ہیں دیکھو حضرت مسیح جس وقت آئے تو گو انہوں نے تلوار نہ اٹھائی اور نہ ان کے مقابلہ میں اٹھائی گئی.مگر یہودیوں نے پکڑ کر صلیب پر چڑھا دیا.مگر تم اپنے مسیح کو دیکھو.آپ کو خدا تعالیٰ نے ایک ایسی سلطنت میں پیدا کیا کہ آپ کا کوئی بڑے سے بڑا مخالف بھی بال بیکا نہ کر سکا.آپ اسی سلطنت میں بیٹھ کر تبلیغ کرتے رہے اور تبلیغ بھی نہ صرف اور وں کو بلکہ اسی سلطنت اور شہنشاہ کو.پہلے زمانوں میں کیا مجال تھی کہ کوئی بادشاہ کو تبلیغ تو کر سکے.یہ بہت بڑی گستاخی اور بے ادبی سمجھی جاتی تھی.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کو ایک خط لکھا جس میں اسے اسلام کی طرف بلا یا اور کہا کہ اگر اسے قبول کر لوگی تو آپ کا بھلا ہوگا.یہ سنکر بجائے اس کے کہ ان کی طرف سے کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار کیا جاتا.اس چٹھی کے متعلق اس طرح شکریہ ادا کیا گیا کہ ہم کو آپ کی چٹھی مل گئی جسے پڑھ کر خوشی ہوئی.یہ سب اللہ تعالیٰ کے احسان اور فضل ہیں.ہر ایک مومن کو چاہئیے کہ ان کی قدر کرے کیونکہ جو شخص ابتداء میں الحمد کہتا ہے اس کا انجام بھی الحمد پر ہی ہوتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَاخِرُ دَعُوهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (یونس : ۱۱) کہ مومن جس طرح شروع میں حمد کرتے ہیں اسی طرح انجام کا ر بھی ان کے منہ سے یہی نکلتا ہے کہ الحمد للہ رب العالمین.بہت لوگ ہوتے ہیں جواپنی پہلی عمر میں خدا تعالیٰ کا شکر اور حمد کرتے ہیں.لیکن جب بوڑھے ہوتے ہیں تو ان کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے ایک مومن جس طرح خدا کی حمد کہتے کہتے بالغ ہوتا ہے اسی طرح جانکنی کے وقت بھی اسکے منہ سے یہی نکلتی ہے وہ کبھی مصائب اور آلام میں اس طرح گرفتار نہیں کیا جاتا کہ اس کے منہ سے حمد نہ نکلے کیونکہ اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کے بہت سے انعام ہوتے ہیں.ان کی وہ قدر کرتا ہے پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کے انعام حاصل کرنا چا ہے.اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی زبان پر حمد الہی جاری رکھے.وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں ملا.ہمیں فلاں تکلیف ہے فلاں مصیبت ہے ان کو دیئے ہوئے انعام بھی خدا تعالیٰ واپس لے لیتا ہے.غالب اُردو کا ایک شاعر گزرا ہے.تھا تو وہ شرابی.مگر

Page 219

۲۰۹ خطبات محمود جلد (5) اس کے کلام میں بعض باتیں عجیب بھی پائی جاتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دل میں سعادت بھی تھی.کیونکہ کہیں کہیں اس کے شعروں سے پتہ لگتا ہے کہ وہ اپنا معشوق خدا تعالیٰ کو قرار دیتا ہے.ہمیں اس پر بدظنی کرنے کی کیا ضرورت ہے.ہو سکتا ہے کہ اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت اور الفت ہو.وہ ایک شعر میں کہتا ہے.ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو کہ میں خدا کو بے مہر.بے مہر کہتا ہوں تو پھر وہ مجھ پر مہربانی کیوں کرے.تو جو بندہ خدا تعالیٰ کی حمد نہیں کرتا بلکہ یہ کہتا ہے کہ خدا نے مجھے کیا دیا ہے.خدا تعالیٰ نے اس پر جو انعام کیا ہوتا ہے وہ بھی چھین لیتا ہے جب انعام چھن جاتا ہے تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ مجھ پر فلاں انعام تھا.فلاں تھا.تو اللہ تعالیٰ کے مزید انعام حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی حمد جاری رکھی جائے اور جو نعمتیں اس کی طرف سے ملی ہیں ان کے شکریہ میں بے اختیار الحمد للہ رب العالمین نکلے.میں نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے یہ حکومت برطانیہ بھی ایک نعمت ہے بعض نادان اور کم عقل ہیں جو اس کے ماتحت رہتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمیں فلاں فلاں حقوق نہیں دیئے گئے.ہمیں فلاں اختیارات نہیں سپر د کئے گئے.یہ نہیں دیا.وہ نہیں دیا.لیکن انہیں پتہ تب لگے.جب کہیں باہر جا کر دیکھیں.یہاں تو وہ کہہ لیتے ہیں کہ ہمیں فلاں حقوق نہیں دیئے گئے.ہماری فلاں بات نہیں مانی گئی.مگر کسی اور جگہ اتنا کہنے کی بھی اجازت نہیں پائیں گے اور یہ کہنے پر پکڑ کر قید کر دیئے جائیں گے.یہاں تو جلسے ہوتے اور بعض اوقات گورنمنٹ کے خلاف بھی تقریریں کرتے ہیں اور بعض اخباروں میں سخت سخت الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں لیکن گورنمنٹ بہت کچھ برداشت کر جاتی ہے اور جب تک فتنہ وفساد کا ڈر نہ ہو د خل نہیں دیتی.ایسے وقت میں اس کے لئے دخل دینا ضروری ہو جاتا ہے کیونکہ اگر اس وقت بھی دخل نہ دے تو گویا اس میں حکومت کرنے کا مادہ ہی نہیں سمجھا جاتا.تو یہ حکومت بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے اس لئے اس کی قدر کرنی چاہئیے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ سورہ والناس اس گورنمنٹ کے لئے بطور پیشگوئی کے ہے.پھر آپ نے -

Page 220

خطبات محمود جلد (5) اس کے متعلق یہ دعا کی ہے کہ ؎ ۲۱۰ تاج و تخت بند قیصر کو مبارک ہو مدام ان کی شاہی میں میں یاتا ہوں رفاہ روزگار اس میں کسی خاص بادشاہ کا نام لے کر دعا نہیں کی گئی.کیونکہ بادشاہ تو بدلتے رہتے ہیں اس لئے آپ نے سلطنت کے لئے دعا کی ہے.انبیاء کا دل بڑا شکر گزار ہوتا ہے.ایک معمولی سے معمولی بات پر بھی بڑا احسان محسوس کرتے ہیں.میں نے دیکھا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں جب دن رات چھپتیں تو باوجود اس کے کہ آپ کئی کئی راتیں بالکل نہیں سوتے تھے.لیکن جب کوئی شخص رات کے وقت پروف لاتا تو اس کے آواز دینے پر خود اُٹھ کر لینے کے لئے جاتے اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے جاتے کہ جزاک اللہ احسن الجزاء.اس کو کتنی تکلیف ہوئی ہے.یہ لوگ کتنی تکلیف برداشت کرتے ہیں.خدا ان کو جزائے خیر دے.حالانکہ آپ خود ساری رات جاگتے رہتے تھے.میں کئی بار آپ کو کام کرتے دیکھ کر سویا اور جب کبھی آنکھ کھلی تو کام ہی کرتے دیکھا.حتی کہ صبح ہو گئی.دوسرے لوگ اگر چہ خدا کے لئے کام کرتے تھے لیکن آپ اُن کی تکلیف کو بہت محسوس کرتے تھے.کیوں؟ اس لئے کہ انبیاء کے دل میں احسان کا بہت احساس ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے تمام احسانات کو اپنی طرف کھینچ لیتے تھے.الحمد اللہ رب العالمین کے سوا ان کے منہ سے کچھ نکلتا ہی نہیں.پس تم لوگ بھی خدا تعالیٰ کے انعامات کو دیکھ کر الحمد للہ رب العالمین ہی کہا کرو.جیسا کہ میں نے بتایا ہے.گورنمنٹ برطانیہ بھی خدا تعالیٰ کا ایک فضل ہے.تم لوگ اگر اُس کے لئے شکر کرو گے تو یہی نہیں ہو گا کہ تم خدا کے شکر گزار بندے بنو گے بلکہ اللہ تعالیٰ کے اور انعامات بھی حاصل کر لو گے میرے خیال میں وہ لوگ جو گورنمنٹ کی مخالفت کرتے اور اسکے احسانات کی ناقدری کرتے ہیں وہ اگر گورنمنٹ کے شکر گزار ہوں تو ان پر خدا تعالیٰ کا فضل ہو جائے اور ان کی مشکلات بھی دور ہو جائیں.گورنمنٹ کی آجکل مشکلات کے لئے لوگ جلسے کرتے ہیں.لیکن ان سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا.کیونکہ کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دل میں کچھ اور رکھتے ہیں اور زبان پر کچھ اور.مگر چونکہ اظہار وفاداری کا یہ بھی ایک طریق ہے.اگر ہماری جماعت بھی اس طرح کرے.

Page 221

خطبات محمود جلد (5) ۲۱۱ تو کوئی حرج نہیں.لیکن اصل وفاداری اور ہمدردی اسی کا نام ہے جو دل سے کی جائے.گورنمنٹ چونکہ انسانوں کا مجموعہ ہے اور انسان دل کی حالت کو معلوم نہیں کر سکتے.اس لئے جلسے کرنا کوئی معیوب بات نہیں مگر حقیقی و فاداری اسی کا نام ہے کہ گورنمنٹ کے لئے دعا کی جائے.اور پوشیدہ طور پر یہ کوشش کی جائے کہ جس طرح اس نے ہمیں موقعہ دیا ہے کہ ہم اپنے دین کی اشاعت کر رہے ہیں اس طرح خدا تعالیٰ اسے موقعہ دے کہ یہ اپنی سلطنت کی توسیع کر سکے.اور جس طرح اس نے ہماری دینی رنگ میں حفاظت کی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ اس کی دنیاوی رنگ میں حفاظت کرے.بلکہ دین میں بھی اسی راستہ پر چلائے جس پر ہم چل رہے ہیں.اس میں شک نہیں کہ موجودہ جنگ دنیا میں عذاب کے طور پر آئی ہے.اور خدا تعالیٰ اس طرح اپنا جلال ظاہر کر رہا ہے.کیا خدا تعالیٰ دعا کرنے سے اپنے جلال کا اظہار چھوڑ دے گا.ہاں اس سے یہ ہوگا کہ جب دنیا دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جائے گی تو پھر اس کو کیا ضرورت ہے کہ ہلاک کرے.آپ لوگ دعائیں کریں کہ جس طرح گورنمنٹ نے ہم پر احسان کئے ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ ان پر کرے اور ہمارے دل ہمیشہ اپنے محسن کے لئے شکر گزار ہوں.ناشکر گزار نہ ہوں.تا خدا تعالیٰ کے اور فضلوں اور انعاموں کے جاذب بن جائیں.(الفضل ۱۹ اگست ۱۹۱۷ء)

Page 222

٢١٢ 26 خطبات محمود جلد (5) دُعاؤں کی طرف توجہ کرو (فرموده ۱ ار اگست ۱۹۱۶ء) تشهد وتعوذ اور سورہ فاتحہ پڑھ کر فرمایا:- کسی کے کام کے کرنے سے جو انسان اعراض کرتا ہے یا کوئی ایسی چیز جس کے حصول کے لئے کوشش نہیں کرتا وہ وہی ہوتی ہے جس کے حاصل کرنے میں کوئی فائدہ اور کوئی نفع نہیں دیکھتا یا جس کے حاصل کرنے کے سامان مہیا نہیں ہوتے یا جس کے حاصل کرنے کا اسے طریق معلوم نہیں ہوتا.اگر کسی کام کے کرنے یا کسی چیز کے حاصل کرنے میں اسے کوئی فائدہ نظر آتا ہو.اس کی ضرورت محسوس کرتا ہو.پھر اس کام کے کرنے یا اس چیز کے حاصل کرنے کا طریق بھی اسے معلوم ہو پھر اس کام کے کرنے یا اس چیز کے حاصل کرنے کے ذرائع بھی مہنتا ہوں تو کبھی بھی کوئی انسان اس کام کے کرنے یا اس چیز کے حاصل کرنے میں کوتاہی اور غفلت نہیں کرتا.سوائے اس کے جس کو بد قسمتی پیچھے کی طرف پھینک دے یا جس کی عقل میں فتور آ گیا ہو.یا جو بے سمجھی اور نادانی سے سستی کر بیٹھے.یا جس کے دل پر غفلت غالب ہو اور گناہوں اور بدا فعالیوں کی وجہ سے قلب پر زنگ لگ گیا ہو.ورنہ ان تینوں باتوں کے مہیا ہونے کے بعد کوئی انسان کوشش اور ہمت کرنے سے نہیں رُکا کرتا.یعنی اول جب کوئی کام یا کوئی چیز سے ایسی معلوم ہو جس کے حاصل کرنے کی اسے ضرورت ہو اور وہ اس کا محتاج بھی ہو.دوم.اس کام کے کرنے یا اس چیز کے حاصل کرنے کی اُسے ترکیب بھی آتی ہو.سوم.اس کے حصول کے سب ذرائع بھی مہیا ہوں تو کبھی کوئی عقلمند انسان سعی کرنے سے نہیں رکتا.لیکن اگر کوئی باوجود ان باتوں کی موجودگی کے کسی کام کے کرنے یا کسی چیز کے حاصل کرنے سے غافل رہے تو ضرور ہے کہ اس کے دل پر زنگ لگ چکا ہے اور بد اعمالیوں کی زنجیر نے اُسے

Page 223

خطبات محمود جلد (5) ۲۱۳ پیچھے باندھا ہوا ہے.ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس کے کرنے سے رُکے کیونکہ اگر پھر بھی کسی کے دل پر غفلت اور ہاتھ پاؤں میں سستی ہو.تو ضرور ہے کہ اس کی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے ورنہ اپنے نفع کو دیکھ کر کبھی کوئی انسان پیچھے نہیں بنتا اور پھر جب حاجتمند بھی ہو تو پورا پورا زور لگاتا ہے.مگر جب با وجود حاجتمند ہونے کے سامانوں کے مہیا ہونے اور طریق کے آنے کے سستی کرتا ہے تو ضرور ہے کہ اس کے قلب پر زنگ لگ گیا ہے.اور جس شخص یا جس جماعت کے اعمال میں کسی بات کے متعلق یہ نمونہ نظر آئے اس شخص یا ان لوگوں کو چاہئیے کہ اپنے اعمال پر غور کریں اور سوچیں کہ کوئی کل خراب ہے تب ہی مشکلات کے دور ہونے کے لئے دعا کرنے اور اس چیز کے حاصل کرنے میں سستی ہو رہی ہے جس کا حاصل کرنالازمی اور ضروری ہے.میں نے پچھلے چند خطبوں میں دعا کی ضرورت.اس کے مانگنے کی ترکیب.اور اس کے قبول ہونے کے ذرائع بیان کئے تھے جس سے ہر ایک شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ دعا کے بغیر گزارہ نہیں ہے کیونکہ یہی ایک ایسی چیز ہے جو تمام مشکلات اور تمام مصائب سے بچا سکتی ہے.پھر یہ ایسی چیز ہے کہ اس کی ترکیب استعمال نہایت آسان ہے.ہر ایک چیز کے حاصل کرنے کے لئے انسان کو کچھ نہ کچھ حرکت کرنی پڑتی ہے.لیکن دعا کے لئے کوئی حرکت نہیں کرنی پڑتی اگر کسی انسان کے ہاتھ پاؤں میں کیل گاڑ دی جائیں اس کی گردن میں موٹے رسے باندھ دیئے جائیں.اور اس کے تمام جسم پر کوئی ایسا اثر کر دیا جائے کہ اس کا چمڑا خفیف سے خفیف حرکت بھی نہ کر سکے.تو کیا وہ دعا کرنے سے روک دیا جا سکتا ہے.ہر گز نہیں.ایسی حالت میں بھی وہ دعا کر سکتا ہے تو جب دعا ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے حصول کے ایسے طریق ہیں جو قرآن کریم اور حدیث میں نہایت واضح طور پر بیان کر دیئے گئے ہیں.اور اس کی حاجت بھی بہت سخت ہے.پھر بھی اگر کوئی اس کے متعلق سستی کرتا ہے تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کے دل اور قلب پر اس کی بداعمالیوں کی وجہ سے زنگ لگ گیا ہے اور اس کے گزشتہ گناہ اس کے لئے روک کا موجب بن گئے ہیں.اور اس چیز کے حصول میں مانع ہو گئے ہیں کہ جس کے بغیر اُسے کوئی کامیابی نہیں ہو سکتی.

Page 224

خطبات محمود جلد (5) ۲۱۴ اللہ تعالیٰ بڑا رحمان ہے پھر وہ بڑا رحیم ہے.اس کی رحمانیت اس طرف متوجہ کرتی ہے کہ انسان اس کی رحیمیت کا بھی مزا چکھے.یورپ کے لوگ انسانی فطرت پر بہت غور کرتے ہیں اور اپنے کاموں کو عجیب عجیب طریقوں سے ترقی دیتے ہیں.میں نے دیکھا ہے خدا تعالیٰ کی سنتوں پر انہوں نے خوب غور کیا ہے لیکن افسوس کہ مسلمان اس طرف سے بالکل غافل ہو گئے.یورپ کے تاجر جب اپنے کام کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارا مال اچھا ہے ہم کوئی دھوکہ نہیں دیتے.اور نہ ہی غلط کہتے ہیں تو وہ نمونہ مفت دینے کا اعلان کرتے ہیں کیونکہ بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو غلط اور جھوٹ اشتہار دے کر لوگوں کو بدظن کر دیتے ہیں.اس لئے وہ لوگ جنھیں اپنے مال کے عمدہ ہونے اور مفید ہونے کا یقین ہوتا ہے سینپل (نمونہ ) شائع کرتے ہیں اشتہار دیتے ہیں اور اس میں لکھتے ہیں کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمارا مال قیمتا منگوا ؤ بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ایک پیسہ کا پوسٹ کارڈ بھیج کر ہم سے اس کا نمونہ طلب کرو.تمہارا خط آنے پر ہم تمھیں مفت نمونہ بھیج دیں گے.تم اس کو استعمال کرنا.اگر مفید ثابت ہو تو اور قیمتا منگوا لینا.ورنہ نہ منگوا نا.اس طرح کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو چونکہ صرف ایک پیسہ کا کارڈ لکھنا پڑتا ہے اور باقی سب خرچ یعنی دوائی کی قیمت شیشی کا مول محصول ڈاک.خط و کتابت کا خرچ مال والوں کو ہی کرنا پڑتا ہے.اس لئے بہت سے لوگ نمونہ منگوا کر استعمال کرتے ہیں اور جب وہ دیکھتے ہیں کہ اس تھوڑی سی دوائی سے ہمیں اس قدر فائدہ ہوا ہے.اگر زیادہ کھائیں گے تو ضرور ہے کہ زیادہ فائدہ ہو اس لئے وہ قیمتا منگوا لیتے ہیں اس طرح کا رخانہ والوں کی شہرت بھی ہو جاتی ہے اور فائدہ بھی.خدا تعالیٰ نے بھی اپنے انعام و اکرام دینے کے نمونے مقرر کئے ہوئے ہیں.انسان کو دعا.عبادت اور نیک اعمال کی طرف متوجہ کرنے کے لئے اپنی رحمانیت کی صفت ظاہر کرتا ہے جو کہ بغیر عمل کے بغیر کوشش کے اور بغیر محنت اور تدبیر کے جاری ہوتی ہے.یعنی بلا کام کئے خدا کا فضل نازل ہوتا ہے.اور وہ نمونہ کے طور پر ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے رحمانیت کو رحیمیت سے پہلے رکھا ہے.چنانچہ فرمایا.بسم الله الرَّحمٰنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم.پہلے رحمانیت کو بیان کر کے

Page 225

خطبات محمود جلد (5) ۲۱۵ پھر رحیمیت کو بیان کیا ہے اس سے انسان کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ یہ ہمارا نمونہ ہے ہم نے کچھ احسانات بغیر تمہارے کہنے اور کچھ کرنے کے تم پر کئے ہیں تم ان پر غور اور تدبر کرو.اور دیکھو کہ تمھیں ان سے کتنا نفع اور آرام پہنچ رہا ہے.ان کے حاصل کرنے کے لئے نہ تم نے کوشش کی ہے نہ محنت کی ہے نہ تدبیر کی ہے محض ہمارے فضل سے تمہیں ملے ہیں پس جب بغیر تمہاری کسی محنت.کوشش تدبیر اور بغیر کسی عمل کے ہم نے یہ انعامات دیئے ہیں.تو اب اگر تم ہمارے احکامات کے ماتحت کچھ کام کرو گے تو سمجھ لو کہ کتنے بڑے انعام حاصل کر لو گے اور رحیمیت کی صفت تمہیں کیا کچھ نہ دکھائے گی.تو رحمانیت کی صفت نمونہ ہے.جو انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف کھینچنے کے لئے ظاہر ہوتا ہے.کیونکہ جب کوئی انسان خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں پر غور کرتا ہے اور دیکھتا ہے کہ جب میں نے کچھ نہیں کیا.تو خدا تعالیٰ نے مجھے آنکھیں.ناک.کان.عقل.دولت.عزت وغیرہ دی ہے تو جب میں کچھ کروں گا اور خدا تعالیٰ کے حکم مانوں گا.پھر وہ کیا کچھ نہ دے گا.جس طرح ایک دوائی کا نمونہ استعمال کرنے والا کہتا ہے کہ مجھے اس تھوڑی سی دوائی نے اس قدر فائدہ دیا ہے اگر میں زیادہ استعمال کروں گا تو زیادہ فائدہ ہوگا.اس لئے وہ روپیہ خرچ کر کے اور منگواتا ہے.جو پہلے سے زیادہ آ جاتی ہے اسی طرح رحمانیت کی صفت خدا تعالیٰ کی طرف کھینچتی ہے.اور بتاتی ہے کہ جب رحمانیت کے ماتحت تجھ پر اس قدر فضل نازل ہو اتو جب رحیمیت کے نیچے آجائے گا تو اس وقت کتنا فضل ہوگا.کیونکہ اس وقت تو فضل حاصل کرنے کا تیرا استحقاق پیدا ہو جائے گا.گوکسی انسان کا خدا تعالیٰ پر کوئی حق نہیں ہے.مگر خدا تعالیٰ نے خود مقرر کر دیا ہے اور وہ وعدوں کا سچا ہے.پس بلا استحقاق کے جب اس قدر فضل ہوتے ہیں تو جب استحقاق ہو جائے اس وقت تو بہت زیادہ ہوں گے جس طرح دوائی دینے والا جب مفت دوائی دیتا ہے تو قیمت لے کر کیوں نہ دے گا.اسی طرح خدا تعالیٰ جب بغیر کام کے دیتا ہے.تو عمل.محنت اور کوشش کرنے سے کیوں نہ دے گا.تو رحمانیت نمونہ ہے رحیمیت کا.اس سے خدا تعالیٰ کی شان کا علم ہوتا ہے.اور جتنا جتنا کوئی اس صفت کے نیچے آئے اتنا ہی زیادہ انعام پاتا ہے.رحیمیت کے انعام خاص شان اور درجہ رکھتے ہیں.رحمانیت کے ماتحت تو

Page 226

خطبات محمود جلد (5) ۲۱۶ ساری دنیا ہے.ایک کتا اور ایک بلا بھی اسی کے ماتحت ہے لیکن رحیمیت کے انعام خدا کے خاص خاص بندوں کو ہی ملتے ہیں اور جانتے ہو جو فضیلت ان کو حاصل ہوتی ہے اس کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا.رحمانیت کا نزول چونکہ سہارے کے لئے ہوتا ہے اس لئے سب کو حاصل ہوتی ہے.جیسے دوائی کا نمونہ ہے ہر ایک اس شخص کو دیا جاتا ہے جو درخواست کرتا ہے لیکن پھر پوری دوائی اسی کو دیتے ہیں جو قیمت ادا کرتا ہے اور ایسے چند ہی ہوتے ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ کی رحیمیت بھی خاص ہے اور خاص لوگوں سے ہی تعلق رکھتی ہے.اس سے جولطف اور سرور وہ اٹھاتے ہیں وہ اور کوئی نہیں اٹھا سکتا.اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے ماتحت آنکھ.ناک.کان.زبان وغیرہ سب کو ملے ہوئے ہیں.اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے ساتھ شریک ہیں.مگر پھر وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے آپ کو تمام جہانوں پر فضیلت دی گئی ہے اور وہ کیا چیز ہے جس نے آپ کو تمام نبیوں سے بڑھا دیا ہے.وہ آپ کا پورے طور پر رحیمیت کے ماتحت آنا ہے.آپ نے خدا تعالیٰ کی رحمانیت کو دیکھ کر سمجھا کہ یہی ایک بہت بڑی ہستی ہے اور تمام کامیابیاں اور ترقیاں اسی سے تعلق رکھتی ہیں.یہ سمجھ کر آپ پر رحمانیت نے وہ اثر کیا کہ تمام انسانوں سے بڑھ کر اپنے تمام جوارح کو خدا تعالیٰ کی اطاعت میں لگا دیا.اس لئے سب سے بڑے اور کامل رحیمیت کے مظہر آپ ہی ہوئے.اور سب اگلوں پچھلوں سے بڑھ گئے.پس ہر ایک انسان کو چاہیے کہ وہ خدا تعالیٰ کے رحمانیت کے نمونوں کو دیکھے.تا اسے رحیمیت کے فضل حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہو لیکن جب احتیاج بھی بہت ہو.سامان بھی میسر ہوں.ترکیب بھی آتی ہو.تو پھر سوائے اس کے کہ انسان کے دل پر اپنے شامت اعمال کی وجہ سے زنگ لگ چکا ہو.کوئی وجہ نہیں ہوسکتی کہ وہ دعا کرنے سے باز رہے.اور اپنے اعمال میں اصلاح پیدا نہ کرے.ہماری جماعت کے لوگوں پر خدا تعالیٰ نے بہت فضل کئے ہیں.وہ باتیں جو پوشیدہ تھیں ان پر ظاہر کی ہیں.وہ نور جو لوگوں کی نظروں سے نہاں تھا ان پر آشکارا کر دیا ہے.وہ دروازہ جو دوسروں پر بند تھا.ان پر کھول دیا ہے.اس لئے ہمارے لئے بہت کچھ آسانیاں ہو گئی ہیں.کیونکہ دوسرے لوگ دعا کی حقیقت.خدا تعالیٰ کے قرب کے فوائد اور اس کے حاصل کرنے کی

Page 227

خطبات محمود جلد (5) ۲۱۷ ترکیبوں سے واقف نہیں ہیں اور نہ ہی وہ اس کی حاجت سمجھتے ہیں.ان کے لئے دنیا کے دولت.مال.عہدہ.اور خطاب ہی سب کچھ ہیں.اس لئے ان کو نہ حاجت ہے نہ ان کے پاس سامان ہیں اور نہ ہی ترکیب استعمال جانتے ہیں.اس لئے وہ ایک حد تک معذور بھی ہیں.لیکن جن کے لئے خدا تعالیٰ نے سب ذرائع مہیا کر دیئے ہیں اور سب قسم کے بند کھول دیئے ہیں.وہ اگر دعائیں کرنے میں ستی کریں تو کس قدر افسوس کی بات ہے.میری ان خطبات سے یہ مراد نہ تھی کہ میں کوئی علمی مضمون بیان کروں.بلکہ یہ تھی کہ اپنی جماعت کو اس طرف متوجہ کروں اور دعا کرنے کی عادت ڈالوں بہت لوگ ہیں جو دعاؤں میں سستی کرتے ہیں.( بہت سے مراد ایک کثیر حصہ جماعت مراد نہیں بلکہ یہ کہ ایسے لوگ بھی تھوڑے نہیں ) ان کے لئے یہ کافی ہے کہ کسی سے سلسلہ کے متعلق بحث مباحثہ کر لیا جائے.مگر وہ اصلاح جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیدا کرنا چاہتے تھے.اس سے غافل ہیں.اس قسم کے جوش جن میں محض زبان ہی زبان کام کر رہی ہو.کوئی نفع نہیں دیتے.نفع اسی سے ہوتا ہے کہ انسان اپنے تمام جوارح پر اللہ تعالیٰ کے احکام جاری کرے اور اس کی محبت میں گداز ہو جائے اور اس کی الفت میں گرد بن جائے.اگر کوئی شخص یہ نہیں کرتا تو حکم عدولی کرتا ہے.تو صرف زبان سے اقرار کر لینا نہ صرف کوئی فائدہ ہی نہیں دیتا بلکہ بہت زیادہ نقصان بھی پہنچاتا ہے.پھر ہو سکتا ہے کہ کوئی سچے دل سے اقرار کرتا ہومگر اسے عمل کی توفیق نہ ملتی ہو.تو یہ اس کے پچھلے گناہوں کے زنگ کی وجہ سے ہوگا.جس طرح ایک شخص بیڑیوں سے جکڑا ہوا ہو.اور اس کے کھانے کے لئے شیر آ رہا ہو.تو کوئی یہ نہیں کہے گا کہ اس کے دل میں شیر کا خوف نہیں ہے اس لئے خاموش بیٹھا ہے اور بھاگتا نہیں.کیونکہ وہ تو بھاگ ہی نہیں سکتا.اگر وہ بھاگ سکتا تو ضرور بھاگ کر جان بچانے کی کوشش کرتا.وہ جانتا ہے کہ خونخوار شیر مجھے کھا جائے گا.مگر چونکہ اس کے پاؤں بندھے ہوئے ہیں اس لئے بھاگنے کی طاقت ہی نہیں رکھتا.اسی طرح بعض لوگوں کو ایمان تو حاصل ہوتا ہے لیکن ان کے پچھلے گناہ اور نقص اعمال کے راستہ میں حائل ہو جاتے ہیں اور ان کے پاؤں میں بیٹریوں کی طرح ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیوں کی طرح اور ان کے گلے میں طوقوں کی طرح پڑے ہوتے ہیں وہ اس بات کو جانتے

Page 228

خطبات محمود جلد (5) ۲۱۸ ہوئے کہ ہمیں یوں کرنا چاہیئے اس طرح نہیں کر سکتے.اور اس سے اپنے دل میں کڑھتے بھی ہیں.افسوس بھی کرتے ہیں مگر کرتے وہی ہیں جو انہیں نہیں کرنا چاہئیے یہ اعمال کے زنگ کی وجہ سے ہوتا ہے.ان کا دل خوب محسوس کرتا ہے مگر کشش برائی کی طرف ہی کرتا ہے.اس وقت یہی علاج ہے کہ زنگ کو دور کیا جائے اور پاؤں کی زنجیروں کے توڑنے اور ہاتھوں کی ہتھکڑیوں کے کاٹنے اور گلے کے طوقوں کو اتارنے کی کوشش کی جائے.جب یہ ہو جائے گا تو پھر ایمان نفع اور فائدہ دیگا اور یہ سب کچھ دعا کے ذریعہ ہوسکتا ہے.ہماری جماعت میں جو ایسے لوگ ہیں ان کو اس طرف توجہ کرنی چاہئیے اور اس کا یہی علاج ہے کہ انہیں جس قدر دعا کرنے کی توفیق ملے.اُسے اسی کے لئے خرچ کریں لیکن اگر دل قائم نہ ہو تو زبان سے لفظ نکالنے کی جس قدر توفیق ملے اسی قدر نکالیں.اگر لفظ بھی نہ نکال سکتے ہوں تو خیالات کے ذریعہ ہی دعا کی طرف متوجہ رہیں.زبان سے کہنا اور بات ہوتی ہے اور خیالات کرنا اور.اگر دعا کرنے سے کسی کا قلب منکر ہو.اور زبان بھی انکار کرتی ہو کہ لفظ نکالے تو اسے اس طرف خیالات دوڑانے چاہئیں.اگر چہ خیالات بہت ہی ادنے ہوتے ہیں جس طرح ایک بہت مریل سا گھوڑا ہو.جو چاہے اسکے اوپر چڑھ بیٹھے.یہی حال خیالات کا ہوتا ہے.لیکن انسان کم از کم خیالات کے ذریعہ تو دعا کی طرف متوجہ ہو.اس سے آہستہ آہستہ اوپر ترقی شروع ہو جاتی ہے.پہلے زمانہ میں مجرموں کو سزا دینے کا یہ طریق ہوتا تھا کہ کسی بڑے اونچے مینار پر قید کر دیتے تھے.ایسے قیدیوں کو جو لوگ چھڑانا چاہتے.وہ اتنی اونچی جگہ کوئی موٹا رسہ تو پھینک نہ سکتے جس کے ذریعہ وہ نیچے اُتر آئے.اس لئے اس طرح کرتے کہ ایک باریک دھاگے کا گولہ تیر کے ساتھ باندھتے اور اسے کمان کے ذریعہ اوپر پہنچاتے.اس طرح دھاگہ اس قیدی تک پہنچ جا تا.وہ اس کا ایک سرا خود پکڑتا اور باقی کو نیچے گرا دیتا.پھر وہ اس کے ساتھ ذرا موٹا دھاگہ باندھ دیتے جسے وہ اوپر کھینچ لیتا.اس طرح کرتے کرتے آخر کار وہ موٹا رستہ اس تک پہنچا دیتے تھے اور وہ نیچے اتر آتا تھا.یہ ترکیب اس لئے ایجاد کی گئی کہ کمزور چیز بڑا بوجھ نہیں اٹھا سکتی.یہی حال دعا اور اعمال میں ہوتا ہے وہ انسان جو زیادہ بوجھ نہیں اٹھا سکتا اسے چاہیے کہ پہلے تھوڑا اٹھائے اور جب اُسے

Page 229

خطبات محمود جلد (5) ۲۱۹ عادت ہو جائے گی تو زیادہ سے زیادہ اُٹھاتا جائے اور اس طرح کرتے کرتے بڑے سے بڑا بوجھ بھی اٹھا لے گا.ہاں اسے چاہئے کہ ہمت نہ ہارے اور مایوس نہ ہو.ہمارے راستہ میں جو مشکلات حائل ہیں.ان کا انکار کوئی نادان ہی کرے تو کرے.ورنہ عقل مند کبھی نہیں کر سکتا.ہم نے تمام دنیا سے مقابلہ کی ٹھانی ہوئی ہے لیکن نہ ہمارے پاس مال ہے نہ دولت ہے نہ دنیا وی عزت ہے.نہ حکومت ہے.اس صورت میں اگر ہم وہ حقیقی ہتھیار جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیں ملا ہے اس سے بھی کام نہ لیں.تو اور کیا صورت ہوگی جس سے ہم کامیاب ہونگے.ایک جنگل اور بیابان میں بیٹھا ہوا انسان غافل نہیں ہوتا.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس میں شیر.چیتے اور ڈاکو رہتے ہیں.لیکن وہاں تو ایک آدھ شیر چیتے کا ڈر ہوتا ہے یہاں کروڑوں کروڑ شیر اس بات کے لئے تیار ہیں کہ ہمیں چیر پھاڑ کر پھینک دیں.اگر کہیں ایک شیر ہو.بلکہ شیر نہ بھی ہو صرف وہم ہی ہو.یا ایک ڈاکوؤں کی جماعت ہو.جماعت نہ بھی ہو صرف خیال ہی ہو.تو بھی لوگ ہوشیار اور چوکس رہتے ہیں.لیکن ہمارے لئے ایک شیر نہیں بلکہ کروڑوں شیر ہیں.ایک ڈاکوؤں کی جماعت نہیں بلکہ بے شمار ڈاکو ہیں.اس لئے ہمیں ہوشیار رہنے کی بہت ہی ضرورت اور حاجت ہے.اس لئے ہمیں جس رنگ اور جس طریق سے توفیق ملے اسی سے کوشش اور ہمت کرنی چاہئیے.پھر جبکہ ہم خدا تعالیٰ کے قرب اور اس کے فضل کے محتاج ہیں اور اس کے حصول کے ذرائع اور طریق بھی معلوم ہیں پھر غفلت کیسی.اگر کسی میں غفلت ہے تو اس کے پہلے گناہوں کے زنگ کی وجہ سے ہے جسے بہت جلد دور کرنے کی کوشش کرنا چاہیئے اگر دل کے ایک حصہ میں لگ چکا ہے.تو دوسرے حصہ کے ذریعے اُسے کھرچنے کی کوشش کرو.ایک ہاتھ بندھا ہو تو دوسرے سے کھولنے کی کوشش کی جاتی ہے.ایک پاؤں گڑا ہوا ہو تو دوسرے سے نکالنے کی ہمت کی جاتی ہے.تم بھی اسی طرح کرو.اگر قلب پر زنگ ہے تو زبان سے ہٹانے کی کوشش کرو.اگر زبان پر ہے تو ہاتھ سے ہٹانے کی کوشش کرو.اور اگر ہاتھوں پر ہے تو پاؤں سے.اس طرح تمہیں ایک چھوٹا عمل بڑے کی توفیق دے گا.اور وہ اس سے بھی بڑے کی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ - (الرعد : ۱۲)

Page 230

خطبات محمود جلد (5) ۲۲۰ اللہ تعالیٰ اپنے انعامات کسی قوم سے اس وقت تک واپس نہیں لیتا جب تک کہ اس میں کمزوریاں اور نقص نہیں پیدا ہو جاتے.پس اگر تم پر کوئی مصیبت یا ابتلا آتا ہے تو تمہارے ہی ہاتھوں کی کمائی ہوئی وجہ سے.اس لئے ہوشیار ہو جاؤ اور اس کے دور کرنے کے لئے کوشش کرو.خدا تعالیٰ کے وعدے سچے ہیں وہ ضرور پورے ہوں گے مگر تم اپنی غفلت اور سستی کو چھوڑ دو.میں تو اس کو بھی نیچریت ہی سمجھتا ہوں کہ کوئی منہ سے دعوے تو بہت کچھ کرے مگر قلب کے حضور کے ساتھ ان کے حصول کی کوشش نہ کرے.اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقوں سے استکبار کرنا اچھا نہیں.گو کوئی ان کو اچھا سمجھے.لیکن جو اپنے خیالات یا موجودہ زمانہ کے حالات سے ڈر کر ذکر الہی کو عملی طور پر لغو سمجھے اور اس کے لئے کوئی وقت خالی نہ کرے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجے.وہ عملی طور پر استکبار کرتا اور خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقوں کی تحقیر کرتا ہے.بہت سے لوگ ایسے ہیں جو تہجد اور نوافل پڑھنے کی کوشش نہیں کرتے.بہت ایسے ہیں جو صرف فرائض کا ادا کر لینا ضروری سمجھتے ہیں.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بندہ نوافل سے قرب الہی حاصل کرتا ہے لوگوں نے اس کے معنے یہ کئے ہیں کہ نوافل بھی قرب کا باعث ہوتے ہیں.لیکن میرے نزدیک اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ نوافل ہی قرب کا باعث ہوتے ہیں.کیونکہ فرائض کی ادائیگی انسان کو ایمان کے درجہ پر پہنچاتی ہے.دیکھ لو.گورنمنٹ کے ملازمین کے جو فرائض ہوتے ہیں ان کے ادا کرنے پر وہ صرف تنخواہ کے مستحق ہوتے ہیں.انعام کے نہیں.ہاں اگر وہ اپنے فرائض سے بڑھ کر کوئی کام کریں تو بے شک انعام پاتے ہیں.اسی طرح صرف فرائض کا ادا کرنا خدا تعالیٰ کے قرب کا باعث نہیں ہوتا.بلکہ یہ ایمان کی بنیاد پر قائم کرتا ہے آگے نوافل بڑھاتے اور درجہ دلاتے ہیں.پھر بعض اوقات نوافل فرائض کی جگہ بھی کام آتے ہیں کیونکہ کوئی فرض کسی دل سے ادا کیا جاتا ہے اور کوئی کسی سے.اس لئے نوافل فرائض کے قائم مقام ہو جاتے ہیں.مثلاً ایک گڑھا ہو.اگر وہ زیادہ گہرا ہو تو اس میں جو مٹی ڈالی جائے گی وہ اسی میں غائب ہو جائیگی لیکن اگر کم گہرا ہوتو اور مٹی ڈالنے سے وہ گڑھے والی جگہ اور بھی اونچی ہو جائیگی اسی طرح اگر فرائض کی کمی ہو تو نوافل اُسے پر کر دیتے ہیں اور اگر کمی نہ ہو تو

Page 231

خطبات محمود جلد (5) ۲۲۱ اُسے اور اونچا کر دیتے ہیں.بہت سی باتیں ہیں جن کی طرف لوگوں کی توجہ نہیں ہے.بحث و مباحثہ کرنے میں تو ہوشیار ہیں مگر ذکر الہی اور دُعا کرنے میں سست اور غافل لغو اور فضول باتوں سے پر ہیز نہیں کرتے.اور دین کی عظمت ان کے دلوں میں نہیں ہے.تبعید کی ادائیگی اور نوافل کے پڑھنے کی طرف خیال نہیں کرتے.یہاں کے بعض لوگوں میں بھی یہ کمی ہے جس کے دور کرنے کی طرف انہیں بہت جلد توجہ کرنی چاہیئے.یہاں قریبا نو ماہ سے بخار چلا آتا ہے اس کے آنے سے دو تین ماہ پہلے میں نے اپنا رویا بھی بتلا دیا تھا کہ میں نے یہ خطر ناک بخار دیکھا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے پہلے بتانے کی یہی غرض ہوتی ہے کہ لوگ عاجزی اور تضرع اختیار کریں اور خدا کے حضور گر جائیں.کہتے ہیں شیر کے آگے اگر کوئی گر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا.شیر کا تو پتہ نہیں لیکن اگر خدا کے آگے کوئی گرے تو وہ ضرور ہی حملہ نہیں کرتا.جو کوئی خدا کے حضور گرتا ہے وہ گویا اپنے نفس کو مار دیتا ہے.اس لئے سزا سے بچ جاتا ہے دیکھو انسان کے آگے بھی کوئی جھک جائے تو اسے بھی شرم آجاتی ہے.پھر خدا تعالیٰ اپنے آگے گرے ہوئے پر کیوں رحم نہ کرے.بچپن میں ہم نے ایک کشتی بنوائی تھی لڑکے اسے ڈھاب میں تیرانے کے لئے لے جاتے تھے.اور بے احتیاطی سے توڑ دیتے تھے.میں نے ایک دفعہ لڑکوں کو کہا کہ جب کوئی لڑکا کشتی لے جائے تو مجھے بتانا.میں اسے سزا دوں گا.چنانچہ ایک دن جب چند لڑ کے اسے لے گئے تو لڑکوں نے مجھے بتایا.میں وہاں گیا تو وہ سب بھاگ گئے لیکن ایک کو پکڑ لیا گیا.جب میں اسے مارنے لگا تو اس نے آگے سے سر ڈال دیا.اور کہا کہ لو مارلو.یہ سنکر میری ہنسی نکل گئی اور میں نے اسے چھوڑ دیا.تو جھکے ہوئے پر جب انسان کو بھی رحم آجاتا ہے تو خدا کو کیوں رحم نہ آئے.جھکنے سے اس کا بھی غضب ٹھنڈا ہو جاتا ہے.اللہ تعالی گرے ہوئے پر کبھی قدم نہیں مارتا.ہاں جو چھاتی نکال کر کھڑا ہو جائے.اور عید اور غلطی کر کے اس پرا کڑے.اسے گراتا ہے.اور جس پر سے اس کا غضب ٹھنڈا ہو جاتا ہے وہ نہ صرف سزا سے بچ جاتا ہے بلکہ اس کے لئے خدا تعالیٰ کی رحمانیت بھی جوش میں آتی ہے.غرض ہماری جماعت کے لئے بہت توجہ کی ضرورت ہے.یہاں کے لوگ بھی اور باہر کے بھی نمازوں میں

Page 232

خطبات محمود جلد (5) ۲۲۲ بہت ہوشیاری پید ا کریں.اور دعائیں کریں.جس طرح استقلال کی ہر ایک کام میں ضرورت ہوتی ہے اسی طرح دعا میں بھی ہے.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں.جو چند دن دعا کر کے چھوڑ دیتے ہیں.پھر مساجد میں بہت سی لغو باتیں اور بیہودہ جھگڑے کئے جاتے ہیں.حالانکہ مسجد میں ذکر الہی اور دینی امور کے لئے ہیں.اسی طرح بہت سی باتیں ہیں جو بظاہر چھوٹی معلوم ہوتی ہیں مگر ان کی وجہ سے آہستہ آہستہ دل پر زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے جس طرح ایک چھوٹی نیکی بڑی نیکی کا موجب ہوتی ہے اسی طرح چھوٹی بدی بڑی بدی کا باعث ہوتی ہے.تم لوگ ان باتوں میں اصلاح کرو.اور اپنے اندر عاجزی اور فروتنی کا مادہ پیدا کرو.تا کہ اگر خدا کا غضب ہو تو ٹھنڈا ہو جائے.یہ بیماریاں اور مشکلات بلا وجہ نہیں آرہیں.جماعت کا کوئی نہ کوئی حصہ ضرور ایسا ہے جس کی وجہ سے یہ تکالیف ہیں.اس لئے اصلاح کرو.اور دعاؤں پر خوب زور دو.جب تمہارے سامنے دو چیزیں ہیں.ایک خدا کا غضب اور دوسرے اس کا رحم.تو تم اچھی چیز کو حاصل کرنے کی کوشش کرو.اس کے حصول کے لئے دعائیں کرو.اور بہت کرو.اور عاجزی بھی پیدا کرو.صرف دعا اس وقت تک کوئی نتیجہ نہیں پیدا کرتی جب تک کہ اس کے ساتھ عاجزی نہ ہو.ایک پگھلا ہوا اور گداز قلب اگر غلطی کرتا ہے تو بھی اسے خدا کے حضور گرنے کا موقعہ مل جاتا ہے اس لئے وہ آئندہ اس قسم کی غلطی سے بچ جاتا ہے.آجکل ہیضہ بہت پھیلا ہوا ہے ایسے غضب کے دنوں میں بہت بڑی توجہ کی ضرورت ہے تا کہ تم پر خدا تعالیٰ کا فضل نازل ہو.جب فضل نازل ہو جائے تو پھر اس کا غضب ہٹ جاتا ہے کہ رحم اور غضب دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے رحمتِی وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف: ۱۵۷ ) میری رحمت ہر شے پر چھائی ہوئی ہے.حتی کہ دوسری صفات پر بھی غالب ہے تو جب خدا کی رحمت آتی ہے سب بلائیں ٹل جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا تھا کہ مجھے آگ سے مت ڈراؤ.آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے.تو آگ سے کس وقت ڈر نہیں؟ جبکہ اپنے آپ کو غلام بناؤ تم اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے حضور اور نبیوں کے احکام کے آگے عبد کی طرح بناؤ.پھر کوئی چیز تمہارے لئے روک نہیں ہو سکے گی.نہ تم پر مصائب آئیں گے نہ بیماریاں غالب

Page 233

خطبات محمود جلد (5) ۲۲۳ ہوسکیں گی.نہ دشمن کچھ بگا ڑسکیں گے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اپنے کرم اور رحم کے ماتحت لائے اور تمام جماعت پر اپنا فضل کرے.اور اپنے خاص انعامات کا وارث بنائے.اور ہمیں ان عہدوں کے پورا کرنے کی توفیق دے.جو ہم نے کئے ہیں.وہ طاقت بخشے جس سے ہم اس کے انعاموں کے جذب کرنے والے بنیں.اور وہ قوت دے جو اس کے غضب کو ہٹانے اور رحم کو کھینچنے والی ہو.(آمین) الفضل ۲۲ / اگست ۱۹۱۶ء)

Page 234

۲۲۴ 27 خطبات محمود جلد (5) مشکلات کے وقت بہت زیادہ ہمت دکھانی چاہئیے ! (فرموده ۲۵ /اگست ۱۹۱۶ء) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد مندرجہ ذیل آیات پڑھ کر فرمایا :.وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ ، فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًاه (الاحزاب ۲۳-۲۴) کم ہمت انسان کبھی بھی دنیا میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا.بلکہ اپنے ہاتھ سے اپنی کامیابی کو خود ضائع کرتا ہے.بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ایک کام کرتے کرتے جب اس حد تک پہنچتے ہیں کہ کامیابی کا وقت نزدیک آجاتا ہے تو اسے چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں.ان کی مثال اس شخص کی طرح ہوتی ہے جو کنواں کھود نے لگے لیکن جب کھودتے کھودتے ایسی ریت نکل آئے کہ جس کے بعد پانی نکلتا ہے تو ہار کر بیٹھ جائے کہ اب مجھ سے محنت نہیں ہو سکتی.حالانکہ وہی وقت اس کی محنت کا ہوتا ہے اور اسی وقت تمام منتیں شمر لانے والی ہوتی ہیں.اور ان کے نتائج برآمد ہوتے ہیں.اگر کوئی ایسے وقت سستی کرتا اور ہمت ہار کر بیٹھ جاتا ہے تو اور کب چیستی کرے گا اس وقت کی سستی اس کی معمولی حیثیت کو بھی ضائع کر دے گی اور وہ پہلے سے بھی زیادہ گر جائے گا.تو کم ہمت انسان اپنی نادانی کم ہمتی اور شستی کی وجہ سے ان تمام پھلوں اور ثمرات کو جو اسے محنت کے نتیجہ میں حاصل ہوتے ہیں ضائع کر دیتا ہے.لیکن ہمت اور استقلال والا انسان کبھی مصائب اور مشکلات سے

Page 235

خطبات محمود جلد (5) ۲۲۵ نہیں گھبراتا.بلکہ جتنے زیادہ مصائب اور مشکلات آئیں وہ سمجھتا ہے کہ اتنے ہی زیادہ جوش اور ہمت سے مجھے کام کرنا چاہئیے.اگر پہاڑوں کے پہاڑ مصائب کے اس پر ٹوٹ پڑیں پھر بھی وہ اسی یقین اور استقلال سے کام کے لئے جاتا ہے جو اسے پہلے سے حاصل ہوتا ہے اور وہ خوب سمجھتا ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے کام ہی ایسے بنائے ہیں کہ انسان محنت ، تدبیر اور لگا تار کوشش سے انہیں کرے تب کامیابی ہوتو پھر کوئی وجہ نہیں کہ میں پوری ہمت اور کوشش کئے بغیر چھوڑ کر بیٹھ رہوں اور کام نہ کروں.میرے سامنے اگر کوئی روک واقعہ ہوتی ہے اور کوئی مشکل پیش آتی ہے تو مجھے تو اپنی انتہائی طاقت اور کوشش سے کام کرنا چاہئیے.اگر غور کیا جائے تو مصائب اور مشکلات کے وقت جس قدر محنت اور کوشش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اتنی کسی اور وقت نہیں ہوتی.گویا محنت کرنے کا اصل وقت وہی ہوتا ہے کہ جس کے بعد کامیابی نصیب ہوتی ہے.دنیا میں جس قدر کامیاب اور نامور لوگ گزرے ہیں ان کی زندگیوں پر اگر نظر کی جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے لئے سب سے زیادہ کام کرنے کا وقت وہی ہوا ہے جبکہ سب سے زیادہ مشکلات ان کے سامنے آئی ہیں اور ان کے لئے سب سے زیادہ جرات اور بہادری دکھانے کا وہی موقعہ ہوا ہے جبکہ سب سے زیادہ خوف وخطر ان کو در پیش ہوا ہے اور وہ سب سے زیادہ اسی وقت خطرہ اور تکلیف سے بے پرواہ ہوئے ہیں جبکہ حد سے زیادہ ڈر اور خوف ان کے سامنے آیا ہے.میں نے بارہا ایک صحابی کا واقعہ سنایا ہے.ان کا نام ضرار بن از در تھا بڑے بہادر اور دلیر تھے اور بہادری میں خاص شہرت رکھتے تھے.وہ ایک دفعہ ایسے دشمن کے مقابلہ کے لئے نکلے کہ جس کے مقابلہ میں کئی مسلمان نکل کر شہید ہو چکے تھے.بعض بڑے بہادر مسلمان بھی اس کے مقابلہ میں گئے.مگر وہ اتنا طاقتور تھا کہ باوجود ان کے ایمانی جوش اور جرات کے ان کو اس نے شہید کر دیا.اس کے مقابلہ کے لئے ضرار نکلے جب میدان کے درمیان میں پہنچے تو جلدی سے بھاگ کر واپس لوٹ آئے.اور اپنے خیمہ میں چلے گئے مسلمانوں میں تو ایک کمزور سے کمزور شخص بھی بُزدلی اور ڈر کا نام تک نہیں جانتا تھا.

Page 236

خطبات محمود جلد (5) ۲۲۶ اور اس کے وہم میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ کسی کافر کے مقابلہ سے بھاگ آئے.اور وہ تو خاص شہرت اور ناموری رکھتے تھے.اس لئے ان کے واپس لوٹنے سے مسلمانوں پر بہت برا اثر ہؤا.اور وہ گھبرا گئے کہ یہ کیا ہو گیا ہے.ضرار کیوں واپس لوٹ آیا ہے.چنانچہ بعض صحابہ اس بات کے دریافت کرنے کے لئے ان کے پاس گئے.ایک صحابی ان کے خیمہ کے دروازہ تک ہی پہنچا تھا کہ وہ باہر نکل رہے تھے اس نے پوچھا.آپ نے یہ کیا کیا ؟ تمام مسلمانوں میں سخت گھبراہٹ اور غیرت پھیلی ہوئی ہے اور وہ بڑے اضطراب سے دریافت کر رہے ہیں کہ آپ جیسا بہادر انسان ایک کافر کے مقابلہ سے کیوں بھاگ آیا ہے.انہوں نے جواب دیا کہ میں ڈر کر نہیں واپس لوٹا تھا بلکہ بات یہ تھی کہ آج میں نے دو زرہیں پہنی ہوئی تھیں.جب میں دشمن کے مقابلہ کے لئے چلا تو مجھے خیال آیا کہ اس کا فر نے کئی ایک مسلمانوں کو شہید کر دیا ہے.اے ضرار ! کیا تم نے دوزر ہیں اس لئے تو نہیں پہنیں کہ تو اس سے ڈر گیا ہے.اس خیال سے میں ایسا شرمندہ ہوا کہ گویا میں خدا تعالیٰ کی ملاقات سے ڈرتا ہوں.اس بات کا مجھ پر اتنا خوف طاری ہوا کہ میں نے کہا کہ اگر ابھی میری جان نکل جائے تو میں جہنم میں ڈالا جاؤں گا اس لئے میں جلدی بھاگا بھاگا واپس آیا.اب میں نے زر ہیں اتار دی ہیں اور اس کے مقابلہ کے لئے جا رہا ہوں.چونکہ کافر نے ایسی ہمت دکھائی تھی کہ کئی صحابہ کو شہید کر دیا تھا اس لئے اس کے مقابلہ میں اس صحابی نے بھی ایسی ہی جرات دکھائی.وہ ایک خاص دشمن تھا اس لئے اس صحابی نے کہا کہ بڑے دشمن کے لئے بڑے ہی دل کی ضرورت ہے.چنانچہ اس نے اتنا بڑا دل دکھایا کہ زرہیں بھی اتار کر مقابلہ کے لئے گیا.اور جا کر مار لیا.تو جس قدر خطرہ بڑا ہوتا ہے بہادر اور جوانمرد انسان اس کے مقابلہ میں جرات بھی اتنی ہی بڑی دکھاتے ہیں.خطرہ سے ڈرنا اور خوف سے بھاگنا یہ تو بزدلی ہوتی ہے اور یہ بہت کم ہمت اور غیر مستقل مزاج انسانوں کا کام ہوتا ہے.لیکن ایک ایسا شخص ہوتا ہے کہ دشمن سے ڈرتا نہیں بلکہ مقابلہ کرتا ہے.له اصابہ جلد ۳ ص ۲۶۹ حالات ضرار بن از در.

Page 237

خطبات محمود جلد (5) ۲۲۷ پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ نہ صرف مقابلہ کرتا ہے بلکہ اس سے بالکل نڈر ہو جا تا اور ذرہ پرواہ نہیں کرتا کہ کیا نتیجہ نکلے گا.یہ اعلیٰ درجہ کی جرات اور بہادری کہلاتی ہے.اور ایسے ہی لوگ جرات اور بہادری کا اعلیٰ نمونہ دکھاتے ہیں.بزدل تو دشمن کے مقابلہ سے بھاگ جاتے ہیں اور دلیر مقابلہ کرتے ہیں اور جو بہت زیادہ دلیر اور بہادر ہوتے ہیں اور جن میں خاص ایمانی جرات ہوتی ہے وہ نہ صرف مقابلہ کرتے ہیں بلکہ دشمن کو حقیر سمجھتے ہیں اور جب اس پر غلبہ پالیتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے دل پر جو ایک بوجھ سا پڑا ہوا تھا وہ اُتر گیا ہے.گو یا مقابلہ کرنا تو الگ رہا.وہ جرات میں ایسے بڑھ جاتے ہیں کہ بڑے سے بڑا دشمن بھی ان کی نظر میں کچھ وقعت اور حقیقت نہیں رکھتا.صحابہ کرام کی شان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اسی قسم کے تھے.جنگ احزاب کے موقعہ پر دشمنانِ اسلام بہت زیادہ تعداد میں جمع ہو کر حملہ آور ہوئے تھے.یعنی ان کا لشکر دس ہزار جوانوں پر مشتمل تھا.لے اتنا بڑا لشکر عرب میں اس قسم کی مقامی جنگوں میں پہلے بھی جمع نہیں ہوا تھا.اور نہ ہی ایسے چیدہ چیدہ لوگ کبھی اکٹھے ہوئے تھے.لیکن یہ لشکر خاص طور پر تیار کیا گیا تھا.گو یا ملک عرب نے اپنے تمام بہادر اُگل کر انہیں کہہ دیا تھا جاؤ جا کر اسلام کو ( نعوذ باللہ ) بیخ و بن سے اکھیڑ کر پھینک دو.تمام اقوام اور قبائل کے سردار اپنا اپنا لشکر لے کر آ گئے تھے.اور یہود جو مدینہ میں رہنے والے تھے ان کے ساتھ انہوں نے یہ منصوبہ باندھ رکھا تھا کہ باہر سے ہم حملہ آور ہوں گے اور اندر سے تم مسلمانوں کی عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں کو قتل کرنا شروع کر دینا.ہے اس خطر ناک حالت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے گرد خندق کھودنے کا حکم فرمایا.مسلمانوں کی تعداد منافقوں سمیت تین ہزار تھی.اور اگر منافق نکال دیئے جائیں تو اور بھی کم ہو جاتی ہے لیکن کفار دس ہزار تھے اور چنے ہوئے تھے اور یہ ایسا خطرناک موقعہ تھا کہ وہ منافق جن کی زبانیں مسلمانوں کے رعب کی وجہ سے بند تھیں اور جنہیں جرات نہیں ہو سکتی تھی کہ مسلمانوں کے سامنے ایک حرف بھی نکال سکیں وہ بھی تمسخر اور استہزاء کرنے لگ گئے حتی کہ ے ابن ہشام و طبقات ابن سعد غزوہ خندق کے سیرت ابن ہشام حالات غزوہ خندق.

Page 238

خطبات محمود جلد (5) ۲۲۸ صحابہ جب خندق کھود رہے تھے تو ایک سخت پتھر سامنے آ گیا.ہر چند اس کے اکھیڑنے کے لئے زور لگایا گیا.مگر وہ نہ اُکھڑا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی گئی.آپ آئے اور آکر کدال سے اس پتھر پر ضرب لگائی.اس سے ایک شعلہ نکلا.آپ نے کہا.اللہ اکبر صحابہ نے بھی یہی کہا.دوسری بار پھر ضرب لگائی.پھر شعلہ نکلا.آپ نے کہا.اللہ اکبر.صحابہ نے بھی یہی کہا.تیسری بار پھر اسی طرح ہوا.آپ نے کہا.اللہ اکبر.صحابہ نے بھی یہی کہا.تیسری دفعہ پتھر ٹوٹ گیا.صحابہ نے عرض کیا.یا رسول اللہ ! آپ نے اللہ اکبر کیوں کہی تھی.آپ نے فرمایا.تینوں بارضرب لگانے پر شعلہ نکلتا رہا ہے.اور ہر شعلہ میں مجھے ایک نظارہ دکھایا گیا ہے.پہلی دفعہ جو چمک ظاہر ہوئی.اس میں خدا تعالیٰ نے مجھے یمن کا ملک دیا.اور دوسری بار ملک شام اور مغرب کو اور تیسری بار مشرق کو مجھے عطا کیا.' جب آپ نے یہ کشف سنایا تو منافقوں نے کہہ دیا کہ پاخانہ پھرنے کے لئے تو جگہ نہیں ملتی اور ملکوں کے فتح کرنے کی خوا ہیں آتی ہیں تو ایسی نازک حالت ہوگئی تھی کہ منافقوں کو بھی ہنسی اور محول کرنے کی جرات پیدا ہو گئی تھی.ایسی حالت میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ بچے اور پکے مسلمانوں نے کیا نظارہ دکھایا کہ وَلَمَّارَاَ الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ وَمَاذَا دَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا - تے جب کفار کا وہ بڑا عظیم الشان لشکر کہ جو تمام عرب کے چنے ہوئے انسانوں پر مشتمل تھا.اس کی خبر ان کو معلوم ہوئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خندق کھودنی اور کھدوانی پڑی اور مسلمانوں کی ان کے مقابلہ میں بہت قلیل تعد ا دتھی تو اس وقت صحابہ نے کہا کہ یہ لشکر تو وہی ہے جس کے متعلق خدا اور اس کے رسول نے پہلے سے ہی وعدہ دیا ہوا ہے کہ ایک بڑا بھاری لشکر آئے گا اور ذلیل وخوار ہو کر واپس چلا جائے گا.دیکھو! بجائے اس کے کہ صحابہ کے دل گھبراتے یا نہ گھبراتے دشمن کا مقابلہ کرتے.لیکن انہوں نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ اس کے ساتھ ایمانی جرات ا مسند احمد بن حنبل و نسائی بحوالہ فتح الباری جلد ۷ ص ۳۰۴ ص ۳۰۵.سے سوره احزاب ۲۳.

Page 239

خطبات محمود جلد (5) ۲۲۹ اور جوش کی وجہ سے یہ بھی کہہ دیا کہ یہ تو ہمارے رسول کی ایک پیشگوئی تھی جو سچی ہو رہی ہے.دیکھئے.منافقوں کو جو چیز موت نظر آرہی تھی.وہی ان کے لئے ایک عظیم الشان فتح اور کامیابی تھی.دشمن اگر چہ اس لئے آیا تھا کہ اسلام کو قطعہ عرب سے اکھاڑ کر پھینک دے.مگر اسے یہ معلوم نہ تھا کہ اس کے آنے کے ساتھ ہی اسلام نہایت مضبوطی سے گڑ جائے گا.کیونکہ مسلمانوں نے اس کو دیکھ کر کہہ دیا کہ خدا کی شان رسول کریم نے اتنی مدت پہلے جو بات بتائی تھی اور جس طرح بتائی تھی اُسی طرح آج پوری ہو رہی ہے اور چونکہ آپ نے ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا تھا کہ یہ دشمن شکست کھا کر نا کام اور نا مراد بھاگ بھی جائے گا.اس لئے بہت جلدی وہ بات بھی پوری ہونے والی ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.مَازَادَهُمْ إِلَّا ايْمَانًا و تسليما.صرف یہی نہیں ہوا کہ مسلمان کفار کے اتنے بڑے لشکر سے ڈرے نہیں اور جرات اور دلیری سے مقابلہ کے لئے تیار ہو گئے.بلکہ وہ اس سے بھی بہت زیادہ بڑھ گئے کہ ان کے ایمان اور فرمانبرداری میں اور زیادتی ہوگئی.بجائے اس کے کہ ایسے خطرناک موقعہ پر وہ ڈگمگاتے اور فرمانبرداری کو چھوڑتے اسی پر قائم نہ رہے بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ آگے بڑھ گئے اور پہلے کی نسبت بہت زیادہ فرمانبردار ہو گئے.یہی رنگ ہر ایک مومن کو ہمیشہ دکھانا چاہئیے.مومنوں پر کوئی مصیبت ایسی نہیں آتی کہ جس کی خبر پہلے سے انہیں نہیں کر دی جاتی.تمام وہ ابتلاء اور مصائب جو جماعتوں کے لئے آتے ہیں.ان کی نسبت اللہ تعالیٰ پہلے سے ہی کسی نہ کسی رنگ میں اطلاع دے دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد بڑے بڑے ابتلاء آئے اور کئی ایک رنگوں میں آئے اور سب سے بڑا وہ ابتلاء تھا کہ جس سے جماعت میں تفرقہ پڑ گیا.اور دوگروہ ہو گئے.پھر اب وہ ابتلاء ہے جو مالی رنگ میں رہتا ہے.اور ایک مدت سے چلا آ رہا ہے.اس زمانہ میں یہ بھی بہت بڑا ابتلا ہے.کئی لوگ ہیں جو اس سے گھبرا جاتے ہیں اور بجائے اس کے کہ ہمت اور کوشش سے اس کا مقابلہ کریں.یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہمیں بڑے چندے دینے پڑتے ہیں اس گھبراہٹ اور بزدلی میں پہلے جو چندہ دیتے ہیں وہ بھی دینا چھوڑ دیتے ہیں.حالانکہ ایک مومن کے لئے یہ ابتلاء ایک طرح خوشی کا موجب ہیں کیونکہ جب وہ دیکھتا ہے کہ آج سے کئی سال پہلے حضرت

Page 240

خطبات محمود جلد (5) ۲۳۰ مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ خدا کا کلام مجھے فرماتا ہے کہ کئی حوادث ظاہر ہوں گے اور کئی آفتیں زمین پر اتریں گی.کچھ تو ان میں سے میری زندگی میں ظہور میں آئیں گی اور کچھ میرے بعد ظہور میں آئیں گی.“ پس جس طرح صحابہ احزاب کو دیکھ کر کہہ اُٹھے تھے کہ هذا مَا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُولُهُ اسی طرح انہیں کہنا چاہیئے تھا کہ یہ جو ابتلاء آرہے ہیں یہ حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی پوری ہورہی ہے.پھر حضرت مسیح موعود نے یہ بھی پہلے سے ہی بتا دیا تھا.کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جائیں گے اور کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے.اس لئے جس طرح اس لشکر عظیم کو دیکھ کر صحابہ کے ایمان بجائے متزلزل ہونے کے اور زیادہ بڑھ گئے تھے اسی طرح وہ لوگ جو ہم سے جدا ہوئے.ان کو دیکھ کر ان کے ایمان بڑھنے چاہیئے تھے اور وہ یہ کہہ اٹھتے کہ حضرت مرزا صاحب کی صداقت کا یہ ایک اور نشان ظاہر ہوا ہے کیونکہ آپ نے پہلے ہی بتادیا تھا کہ اس طرح ہوگا.نادان ہیں وہ لوگ جو اس قسم کے ابتلاؤں کو دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم پر بہت بڑا بوجھ پڑ گیا ہے اور ہمیں بڑے چندے دینے پڑتے ہیں.انہیں تو چاہئیے کہ ایسے وقت میں پہلے سے بھی زیادہ ہمت اور کوشش سے کام لیں.کیونکہ جو زیادہ مشکلات کے دن ہوتے ہیں ان میں زیادہ ہمت سے کام کرنا پڑتا ہے.دیکھو جب کوئی زیادہ بیمار ہو جاتا ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ وہ دوا کھانا ہی چھوڑ دیتا یا احتیاط کرنا ہی ترک کر دیتا ہے.بلکہ اس وقت خاص طور پر وہ دوا استعمال کرتا اور خاص احتیاط کرتا ہے.دنیا کے تمام معاملات میں یہی دیکھا جاتا ہے.پس جب بڑی مشکلات کے وقت ہمت بڑھا دی جاتی ہے.اور زیادہ بیماری کے وقت علاج پر خاص زور دیا جاتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ان دینی مشکلات کے وقت زیادہ ہمت سے کام نہ لیا جائے اور اس سے بڑھ کر طاقت اور جرات نہ دکھائی جائے جو پہلے دکھاتے تھے.اگر بعض لوگوں کا ارتداد یا بعض لوگوں کی سستی بیت المال اور الوصیت ص ۵

Page 241

خطبات محمود جلد (5) ۲۳۱ دیگر صیغہ جات میں آمدنی کی کمی کا باعث ہوئی ہے تو چاہئیے تمہاری ہمت اور بھی زیادہ بڑھ جائے کہ اور بوجھ آپڑا ہے.اس لئے پہلے کی نسبت حو صلے اور دل اور وسیع کرنے چاہئیں نہ یہ کریں کہ جس وقت مشکل زیادہ آ پڑے تو ہمت کم کر دیں.یہی وقت ایمان کو تازہ کرنے کا ہے.کیونکہ جب انسان دیکھتا ہے کہ باوجود ہر قسم کے سامان کے مخالف ہونے کے پھر خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت ہمارے ساتھ ہے تو اس کا ایمان تازہ ہو جاتا ہے.آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ کیا چیز تھی جس نے صحابہ کرام کے ایمان کو ایسا مضبوط کر دیا تھا کہ کوئی بڑی سے بڑی مصیبت اور تکلیف انہیں متزلزل نہیں کر سکتی تھی.یہی کہ وہ دیکھتے تھے کہ ہر مصیبت اور ہر مشکل جو ہمیں پیش آتی ہے اس میں خدا کی نصرت زیادہ سے زیادہ ہی دیکھی جاتی ہے.یہی باعث تھا کہ جب احزاب میں لشکر جمع ہو کر آیا تو انہوں نے سمجھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کا ایک حصہ تو پورا ہو گیا ہے اب دوسرا حصہ بھی پورا ہوگا.جو یہ ہے کہ لشکر نا کام اور نامراد ہو کر بھاگ جائے گا.گو یا دشمن کا آنا بھی ان کے لئے ایمان کی زیادتی کا موجب ہوا اور جانا بھی.اور ہر حالت میں ان کے لئے ایمان کی زیادتی تھی یہی حال خدا کے پیارے بندوں کا ہوتا ہے.یہاں رہنے والے لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ مولوی عبد الکریم صاحب اور مبارک احمد کی بیماری میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو علاج معالجہ کا کس قدر خیال ہوتا تھا.دیکھنے والوں کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ اپنے سلسلہ کی ترقی انہی کی زندگی پر سمجھتے تھے.ان ایام میں سوائے اس کے اور کوئی ذکر ہی نہ ہوتا تھا کہ کس طرح علاج ہو اور کیا علاج کیا جائے لیکن ان کی وفات کے وقت کیا ہوا یہی کہ یکلخت آپ کی ایسی حالت بدلی کہ حیرت ہی ہو گئی.یا تو اتنا جوش کہ صبح سے لے کر شام تک انہی کے علاج معالجہ کا ذکر یا آپ اس بات پر ہنس ہنسکر اور نہایت بشاش چہرہ سے تقریر فرما رہے ہیں کہ ان کی وفات کے متعلق خدا تعالیٰ نے پہلے سے ہی بتا دیا ہوا تھا.مبارک احمد کی وفات ہوئی تو بعض اشخاص کو اس سے گھبراہٹ ہوئی مجھے ب یاد ہے کہ جب مبارک کا دم نکلا تو حضرت مولوی نور الدین ،خلیفہ

Page 242

خطبات محمود جلد (5) ۲۳۲ رشید الدین صاحب اور ڈاکٹر یعقوب بیگ وہاں موجود تھے.حضرت مولوی صاحب نبض دیکھ رہے تھے آپ نے نبض دیکھتے دیکھتے حضرت صاحب کو کہا حضور حالت نازک ہے.مشک لائیں.حضرت صاحب ابھی مُشک لائے بھی نہ تھے کہ دم نکل گیا.حضرت مولوی صاحب نے چونکہ حضرت صاحب کو مبارک احمد کی بیماری میں خاص محبت اور خاص جوش سے علاج کرتے اور خیال رکھتے دیکھا تھا اس لئے جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے اور منہ سے کچھ نہ کہہ سکے.دوسرے لوگوں نے بھی یہی خیال کیا کہ حضرت صاحب کو اس سے بڑا صدمہ ہوگا.لیکن حضرت صاحب کو دیکھو.آپ نے جہاں مشک رکھی ہوئی تھی وہیں کارڈ اور لفافے بھی رکھے ہوئے تھے.جب آپ نے مبارک احمد کے فوت ہو جانے کے متعلق سنا تو وہیں سے مشک نکالنے کی بجائے کارڈ اور لفافے نکال کر خط لکھنے شروع کر دیئے کہ مبارک احمد فوت ہو گیا ہے.گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں.اس وقت آپ کے چہرہ پر کسی قسم کی گھبراہٹ کا کوئی نشان نہ تھا.بلکہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کو کوئی بہت بڑی فتح نصیب ہوئی ہے پھر آپ باہر تشریف لائے.ابھی تک لوگوں کو معلوم نہ ہوا تھا کہ مبارک احمد فوت ہو گیا ہے.آپ نے رضا بالقدر کے متعلق ایک لمبی تقریر شروع فرما دی آپ کے چہرہ سے ایسی بشاشت ٹپکتی تھی کہ گویا کسی بڑے دشمن کو شکست دے کر آئے ہیں.تو مومن پر جو مصائب اور ابتلاء آتے ہیں.وہ اس کی ترقی کا باعث ہوتے ہیں کیونکہ خدا کی طرف سے اسے بتایا جاتا ہے اس لئے اس کے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں ہوتی.مومن پر ہر ایک مصیبت جو آتی ہے وہ اپنے ساتھ دونشان رکھتی ہے ایک اس کے آنے کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے اور ایک جانے کے ساتھ.جب آنے والا پورا ہو جائے جو دشمنوں سے تعلق رکھتا ہے.تو پھر اس کے جانے والا نشان پورا ہونا ہوتا ہے جو مومنوں سے متعلق ہونا ہوتا ہے.اس لئے وہ بہت زیادہ اور بڑھ چڑھ کر کوشش کرتے ہیں.اور جب کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کا ایمان بہت ترقی کر جاتا ہے.اس قسم کے مصائب وغیرہ کا آنا خدا تعالیٰ کی سنت ہے.جو پہلے لوگوں سے ہوتی آئی ہے.اس زمانہ میں اس کے خلاف ہماری جماعت کے ساتھ بھی نہیں ہو سکتا.

Page 243

خطبات محمود جلد (5) ۲۳۳ یہ نہیں ہوسکتا کہ ہماری جماعت وہ انعامات تو حاصل کرلے جو پہلے لوگوں نے حاصل کئے تھے مگر ان مشکلات سے نہ گزرے جن سے پہلے لوگ گزرے ہیں.جس محنت.ایثار اور قربانی کے بعد پہلے لوگوں نے شیریں پھل کھائے ہیں وہی ہمیں کرنی پڑے گی.پس ہماری جماعت کو چاہیے کہ ان مصائب اور مشکلات سے گھبرائے نہیں بلکہ اور آگے بڑھے.جو کم حوصلہ گھبرا جاتے ہیں.ایسے لوگوں کو ہم کہتے ہیں کیا حضرت مسیح موعود نے نہیں فرمایا تھا کہ مصائب پر مصائب آئیں گے ضرور فرمایا تھا.اب آپ کی یہ پیشگوئی پوری ہورہی ہے لیکن آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ مصائب کے بادل چھٹ بھی جائیں گے.پس جب ایک پہلو پورا ہو رہا ہے تو ضرور ہے کہ دوسرا بھی پورا ہو.اور مبارک ہے وہ جو دوسرا پہلو پورا ہونے تک صبر اور استقلال سے کام لے.اور اپنے آپ کو ملنے والے انعامات کا مستحق بنالے.کیونکہ یہ مصیبتیں اپنے ساتھ بشارت کی ہوا ئیں رکھتی ہیں.قبل اس کے کہ یہ فساد یہ صیبتیں اور یہ فتنے ہوتے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا تھا کہ ایسا ہوگا.چنانچہ وہ وقت آ گیا اور اس نے بتادیا کہ جو کچھ خدا کے برگزیدہ مسیح نے کہا تھا وہ پورا ہو گیا پھر اس نے کہا تھا کہ جب وہ فتنے آئیں گے تو تم میں سے جو استقلال کے ساتھ ان کا مقابلہ کریں گے اور ہر قسم کی قربانی کر کے دکھا دیں گے وہ کامیاب ہو جائیں گے.پس جب ایک بات پوری ہو گئی ہے تو چاہئے کہ تم دوسری کے پورا ہونے کے لئے پوری ہمت اور کوشش سے کام لو.یہ مصائب اور ابتلاؤں کے دن کامیابی کی کلید ہوتے ہیں.لیکن ضرور ہے کہ وہ لوگ جو دوسرے دنوں کو دیکھنا چاہتے ہیں وہ سنت قدیمہ کے مطابق اپنے مالوں اور اپنی جانوں کی قربانی کر کے دکھا ئیں.پس ان مصائب اور مشکلات میں خواہ وہ مالی ہوں یا جانی.خواہ دشمنوں کے شر کے متعلق ہوں یا اپنی غلطیوں کے نتیجہ میں.ان میں چاہیے کہ مومن اپنے ایمان کو اور زیادہ بڑھائیں اس طرح کرنے سے وہ ان انعامات کے وارث ہو جاتے ہیں جو خدا تعالیٰ نے اپنے ایسے بندوں کے لئے مقرر کئے ہوئے ہیں.یہ بات خوب یا د رکھنی چاہئیے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے راستہ میں کچھ دیتا ہے وہ کھوتا نہیں.دیکھو خدا تعالیٰ کی بنائی ہوئی زمین میں اگر کوئی ایک دانہ

Page 244

خطبات محمود جلد (5) ۲۳۴ ڈالتا ہے تو اس سے سینکڑوں دانے نکلتے ہیں اور یہ جسمانی زمین ہے.لیکن اگر کوئی روحانی زمین میں بیج ڈالے تو اس کے پھل اس سے بہت زیادہ ہوتے ہیں.اس لئے کبھی کوئی اس تجارت سے گھاٹا نہیں پاسکتا.خدا تعالیٰ نے اپنے لئے یہ بات خاص کر چھوڑی ہے کہ جب بندہ اس سے لین دین کرتا ہے تو نفع ہی نفع حاصل کرتا ہے.چونکہ سود بھی ایک قسم کا نفع ہے جس میں نفع ہی نفع ہوتا ہے.نقصان نہیں ہوتا.اس لئے خدا تعالیٰ نے اس فعل کو اپنے لئے خالص کرنے کے لئے بندوں کو منع کر دیا ہے کہ وہ سود نہ لیں یہ خدا تعالیٰ ہی کی صفت ہے کہ وہ نفع ہی نفع دیتا ہے.پس جب خدا کو اتنی غیرت ہے کہ اس نے بندوں کو اس قسم کے لین دین سے بھی منع کر دیا ہے تا کہ یہ صرف خدا ہی کی خصوصیت رہے.حالانکہ بندوں کا فعل خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں بہت ہی حقیر اور لاشئے ہے اور اکثر دفعہ سود کی بجائے نقصان اٹھانا پڑتا ہے.تاہم خدا تعالیٰ نے اس کو پسند نہیں کیا.پس وہ جو اس کی رضا کے لئے کچھ خرچ کرتا ہے.کبھی نقصان نہیں اٹھاتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ - (الاحزاب : ۲۴) که مومنوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ کے ساتھ جو انہوں نے وعدہ کیا تھا اس کو انہوں نے سچا کر دکھایا اور کچھ ان میں سے ایسے ہیں کہ انہوں نے جو نذر مانی تھی اسے پورا کر سکے ہیں یعنی خدا کی راہ میں انہوں نے اپنے آپ کو ایسا لگایا کہ اپنی جان بھی دے چکے ہیں اور کچھ ایسے ہیں کہ جان تو نہیں دے چکے مگر وہ یہی عہد کئے بیٹھے ہیں کہ جس وقت اللہ تعالیٰ چاہے جان لے لے.یہ اور بات ہے کہ ابھی تک ان کی جان اللہ تعالیٰ نے نہیں لی.مگر وہ پیچھے نہیں ہے.اور نہ ہٹیں گے.چنانچہ صحابہ میں اس کی بڑی بڑی نظیرمیں مل سکتی ہیں.ینتظر کی مثال تو یہ دیکھ لیجئے کہ خالد بن ولید ابتدائی صحابہ میں سے نہیں تھے.جس بیماری میں انہوں نے وفات پائی.اس کے متعلق ان کے ایک دوست کہتے ہیں کہ میں انہیں ملنے کے لئے گیا.میں نے دیکھا کہ وہ رو ر ہے ہیں.میں نے پوچھا آپ کیوں روتے ہیں.انہوں نے کہا.میں اس لئے روتا ہوں کہ میں سالہا سال جنگ کرتا رہا ہوں اور خطر ناک سے خطر ناک جگہ تلاش کر کے وہاں گھستا رہا ہوں.

Page 245

خطبات محمود جلد (5) ۲۳۵ کیونکہ میں چاہتا تھا کہ خدا تعالیٰ مجھے شہادت دے لیکن باوجود اس کے کہ میرے سر سے لے کر پاؤں تک تمام جگہ زخم لگے.اور کوئی جگہ ایسی نہ رہی جہاں زخم نہ لگا ہو.مگر آج میں چار پائی پر مر رہا ہوں.اور مجھے شہادت نصیب نہیں ہوئی.اے انہوں نے یہ اپنے جوش اور ایمان کی زیادتی کی وجہ سے کہا.ورنہ درحقیقت ہر ایک زخم کا وہ نشان جوان کے بدن پر پڑا ہوا تھا ان کے لئے شہادت تھی.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کہاں شہید ہوئے.مگر جس طرح آپ نبی تھے اسی طرح صدیق اور شہید بھی تھے.ہاں آپ کی شہادت تلوار سے نہیں ہوئی تھی.کیونکہ ضروری تھا کہ آپ کی جان کی حفاظت کی جاتی اگر چہ یہ بات آپ کے درجہ اور علوشان کے خلاف تھی کہ آپ شہید ہوتے.مگر آپ نے خدا کی راہ میں جان تک دینے سے بھی کوئی پرواہ نہ کی.اسی طرح اور کئی ایک صحابہ دنیا کی نظر میں تو شہید نہیں ہوئے مگر خدا کی نظر میں شہید ہیں.کئی انسان چلتے پھرتے نظر آتے ہیں.مگر خدا کے لئے وہ شہید ہو چکے ہوتے ہیں اور ہر منٹ ان پر موت وارد ہوتی ہے.یہی ایمان کا وہ درجہ ہے جس کی طرف خدا تعالیٰ بلاتا ہے.اور اس قسم کا ایمان رکھنے والوں کا ذکر اس لئے کرتا ہے کہ تا دوسروں کے لئے باعث ترغیب ہو.فرماتا ہے بعض لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے راستہ میں ایسے لگا دیتے ہیں کہ موت تک پیچھے نہیں ہٹتے.بلکہ آگے ہی آگے بڑھتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ گو وہ زندہ ہوتے ہیں مگر ہر منٹ اور ہر ساعت وہ اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ کب ایسا موقعہ آئے کہ ہم اپنی جان بھی لڑا دیں.یہی ایمان خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے چاہتا ہے.اور یہی وہ ایمان ہے جو خدا تعالیٰ کے انعامات کا وارث بناتا ہے ورنہ صرف زبانی دعوے سے کچھ نتیجہ نہیں نکلتا.ہماری جماعت میں ابھی ترقی کا بہت میدان کھلا ہے اور ترقی تو کبھی ختم ہی نہیں ہوتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم الشان انسان بھی ترقی کر رہا ہے اور ہمیشہ کرتا رہے گا.تو اور کون ہے جو ترقی کے تمام مدارج طے کر لے مگر ہماری جماعت کے لئے اس درجہ تک پہنچنے کے لئے بھی بہت میدان باقی ہے جو صحابہؓ نے حاصل کیا تھا.اور بہت لوگ ایسے ہیں جنہیں ضرورت ہے کہ لے اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ حالات خالد بن ولید و تاریخ والتخمیس جلد ۲ ص ۲۷۵

Page 246

خطبات محمود جلد (5) ۲۳۶ اسی رنگ میں رنگین ہو جائیں جس میں صحابہ رنگے گئے تھے.اپنا مال اپنی جان اپنا آرام جس طرح صحابہ نے قربان کیا تھا اسی طرح ان کو بھی کرنا چاہیئے ہماری قربانیاں صحابہ کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہیں لیکن جب تک ہم بھی وہی قربانیاں نہ کریں گے جو صحابہ نے کی ہیں اس وقت تک اس انعام کے مستحق نہیں ہو سکیں گے جو صحابہ کو ملا تھا.اللہ تعالیٰ کا کسی سے رشتہ نہیں اس لئے اس نے جس طرح پہلوں پر انعام کئے تھے اسی طرح اب اور آئندہ بھی کر سکتا ہے اور جو کوئی اس کی طرف جھکے اس کو وہی درجہ دے دیتا ہے.جو جھکنے والوں کو پہلے دیتا آیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں ایسے لوگ بھی ہیں اور کثیر تعداد میں ہیں کہ ان کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں مِنْهُمْ مَنْ قَطَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ.کئی ہیں جنہوں نے خدا کے راستہ میں جانیں قربان کر دی ہیں.سید عبد اللطیف صاحب شہید اور ان کے شاگرد نے اپنی جان دینی منظور کر لی.مگر ایمان نہ دیا.پھر اور بہت سے بزرگ تھے.حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ اور مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم.پھر ایک تعداد ایسے مردوں کی زندہ بھی ہے.ایک تو وہ تھے کہ فوت ہو گئے مگر اپنے عہد کو نہ توڑا اور ایک وہ ہیں جو اس دن کے منتظر بیٹھے ہیں کہ خدا کے دین کی خدمت کرتے کرتے جان نکلے.ابھی تھوڑے دن ہوئے ہمارا ایک مخلص بھائی دنیا سے گزرا ہے اس کا میرے ساتھ بہت تھوڑی مدت تعلق رہا ہے.مگر میں نے اس عرصہ میں اسے دیکھا ہے کہ وہ مَنْ يَنْتَظِرُ کے گروہ میں شامل تھا.یہ ذکر میں نے اس لئے نہیں کیا کہ اس کی وفات سے ہمارے سلسلہ کوکوئی بڑا نقصان پہنچا ہے.بلکہ دوسروں کو اس طرف متوجہ کرنے کے لئے کیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان صحابہ کے لئے جو جنگ اُحد میں شہید ہوئے تھے اسی طرح فرمایا تھا ورنہ کون کہہ سکتا ہے کہ مجھ سے سلسلہ احمدیہ کی ترقی وابستہ ہے یا فلاں شخص سے جو ہم میں نہیں رہا وابستہ تھی.خدا تعالیٰ کسی کا محتاج نہیں بلکہ ہر ایک انسان اس کا محتاج ہے.پس میں یہ ذکر اس طور پر نہیں کرتا کہ ہمارے اس بھائی کے فوت ہو جانے سے سلسلہ احمدیہ کو کوئی نقصان پہنچا ہے کیونکہ نقصان کسی آدمی کے جانے سے نہیں پہنچ سکتا.خدا تعالیٰ جس نے اس کو قائم کیا ہے

Page 247

خطبات محمود جلد (5) ۲۳۷ وہی اس کو چلاتا ہے.ہاں ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ ایک انسان کا انجام اچھا ہو گیا اور اس طرح ذکر کرنے سے لوگوں میں اس کے متعلق دعا کرنے کی تحریک ہوتی ہے.اسی رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے صحابہ کا ذکر فرمایا تھا.اور اسی رنگ میں حضرت مسیح موعود نے ذکر کیا.اور اسی رنگ میں میں ذکر کرتا ہوں.میں نے قاضی عبد الحق صاحب کو دیکھا ہے آپ ترجمۃ القرآن کا کام کرتے تھے ان کی محنت میرے لئے قابل حیرت ہوتی تھی.میں بڑا تیز لکھنے والا ہوں.اور خدا کے فضل سے بہت تیز لکھ سکتا ہوں.اور بھی تیز لکھنے والے ہوں گے لیکن میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ مجھ سے زیادہ تیز لکھ سکتا ہو.میں مضمون کے سوسواسو صفحے ایک دن میں لکھ سکتا ہوں.لیکن میں نے دیکھا ہے کہ اگر چہ ترجمہ کرنے کا کام مشکل ہوتا ہے.تاہم اگر میں تھوڑی دیر کے لئے بھی ترجمۃ القرآن کے کام کو چھوڑ کر کسی اور کام میں لگ جاتا تو یہ نہیں ہوتا تھا کہ قاضی صاحب مجھ سے پیچھے رہ جاتے.میں جب یہ سمجھتا کہ اب ان کے پاس کافی مضمون ہو گیا ہے اور کسی اور کام میں مصروف ہوتا اور ان سے ترجمہ کے متعلق پوچھتا تو وہ یہی کہتے اور مضمون دیجئے.پہلا ختم ہو چکا ہے.اور پھر اس کام کے ساتھ وہ مدرسہ میں بھی پڑھاتے.پھر میں رات کے وقت مقابلہ کرنے کے لئے ان سے ترجمہ سنتا تو گیارہ اور بارہ بجے رات تک سناتے رہتے.دس بجے تک تو ضرور ہی سناتے.اس کے بعد وہ اپنے مکان پر جاتے تھے.گویا عصر سے لے کر کم از کم رات کے دس بجے تک میرے پاس رہتے اس کے بعد جا کر ترجمہ کرتے اور صبح مدرسہ میں پڑھاتے.پھر یہ کام ایک دن کا نہ تھا بلکہ ایک لمبے عرصہ تک ہوتا رہا.لیکن وہ اس سے ذرا نہ گھبرائے اور جس طرح ایک چیز کی حرص ہوتی ہے اس طرح مجھ سے کام مانگ لیتے اور کہتے کہ فلاں کام بھی میرے سپر دکر دیا جائے.ایسے لوگ خدا تعالیٰ کے انعام پانے سے خالی نہیں رہتے.وہ لوگ جو ان کے کام سے واقف ہوتے ہیں ان کے منہ سے ان کے لئے بے اختیار دعائیں نکلتی ہیں.چنانچہ قاضی صاحب کی بیماری میں میں نے دیکھا ہے یہاں کے لوگ بڑے فکر سے ان کے لئے دعائیں کرتے تھے.یہ ان کے اس کام کا نتیجہ تھا جو انہوں نے خدا تعالیٰ کے لئے کیا.میں نے بھی ان کے لئے دعائیں

Page 248

خطبات محمود جلد (5) ۲۳۸ کیں اور ہماری جماعت کے لوگوں نے بھی کیں.خدا تعالیٰ جب چاہتا ہے کسی دعا کو قبول کرتا ہے.اور جب نہیں چاہتا نہیں کرتا.لیکن اگر جس رنگ میں دعا کی جائے اس رنگ میں قبول نہ ہو تو جس کے لئے دعا کی جائے اسے کوئی اور فائدہ پہنچ جاتا ہے اور اس کے لئے ترقی مدارج کا باعث ہو جاتی ہے.ہم نے جو دعائیں قاضی صاحب کے متعلق کیں یقینا وہ ان کے لئے ترقی مدارج کا باعث ہوگئیں.تو خدا تعالیٰ اپنے راستہ میں کام کرنے والوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا.پس ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہیے کہ جو اس آیت کے مستحق ہیں وہ اور زیادہ ترقی کریں اور یہ نہ سمجھیں کہ بس ہم پوری ترقی کر چکے ہیں اور جو مستحق نہیں وہ مستحق بننے کی کوشش کریں.اور ایسی محنت اور کوشش کریں کہ خدا تعالیٰ کے حضور انہیں میں شامل ہو جائیں جن کے متعلق آیا ہے کہ فَمِنْهُم مَّن قَطى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ- ایسے لوگوں کی خدا تعالیٰ دنیا میں بھی قبولیت بڑھا دیتا ہے اور ان کے لئے لوگوں کے منہ سے دعائیں نکلتی ہیں.سو یہ میری نصیحت ہے اس کو خوب یا درکھو کہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جو کچھ کوئی خرچ کرتا ہے وہ ضائع نہیں جاتا.اس لئے اپنے مالوں اپنی جانوں اپنے وقتوں غرضیکہ ہر ایک چیز کو اللہ کے راستہ میں خرچ کرو.اور جو تم میں سے اعلیٰ نمونہ رکھتے ہیں ان کو دیکھو اور ان کے نقش قدم پر چلو.تا کہ ان میں شامل ہو جاؤ جن کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے.فَمِنْهُم مَّن قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ.اس دنیا کی زندگی بہت قلیل ہے.اس قلیل عرصہ کو ضائع نہ جانے دو.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو توفیق دے کہ اس کا ہر ایک فرد اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرے کہ اسے خدا تعالیٰ کے قرب کا مقام حاصل ہو جائے.(الفضل ورستمبر ۱۹۱۶ء)

Page 249

۲۳۹ 28 خطبات محمود جلد (5) جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے وہ دوسروں کو دو.(فرموده یکم ستمبر ۱۹۱۶ء) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل سورۃ کی تلاوت کے بعد فرمایا.إنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ - فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ (الكوثر ) بخل اور کنجوسی اسی وقت انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے جبکہ اس کا ہاتھ تنگ ہو یا اسے اس بات کا خطرہ ہو کہ میرا ہاتھ تنگ ہو جائے گا اس کے سوا بخل نہیں پیدا ہوتا.لوگ اس ہوا سے جو تمام انسانوں کے لئے خدا تعالیٰ نے بنائی ہے سانس لیتے ہیں اور سانس لے کر اس پاک اور طیب ہوا کو جسے خدا تعالیٰ نے انسانی زندگی کے قیام اور طاقت دینے کا باعث بنایا ہے خراب اور گندہ کر کے اپنے منہ سے نکال دیتے ہیں.کوئی دنیا کی غذا اور کوئی کھانے پینے کی شے یا کوئی ایسی بیرونی چیز جونفس انسانی کے لئے آرام دینے والی ہے ایسی قیمتی نہیں جیسی کہ ہوا ہے.کیونکہ ہر چیز کے بغیر انسان کچھ مدت تک گزارا کر سکتا ہے.اگر کپڑے نہیں تو چھپ کر کہیں بیٹھ سکتا ہے اور ایک دو دن کے لئے بلکہ دو تین چار مہینے تک بیٹھا رہ سکتا ہے زندگی کو اس سے کوئی حرج نہیں ہوگا.اسی طرح پانی کے بغیر تین چار دن تک زندہ رہ سکتا ہے اور کھانے کے بغیر چار پانچ چھ سات دن تک لیکن ہوا کے بغیر ایک گھنٹہ چھوڑ ایک منٹ بھی زندہ نہیں رہ سکتا.غرض دنیا میں جتنی چیزیں انسان کو راحت اور آرام پہنچانے والی اور اس کی زندگی کو قائم رکھنے والی ہیں ان سے سے قیمتی اور مفید اور ضروری ہوا ہی ہے.کسی چیز کی قیمت اس کے فائدے سے اور ضرورت کے لحاظ سے ہوتی

Page 250

خطبات محمود جلد (5) ۲۴۰ ہے.اور پھر اپنی تعداد کے لحاظ سے بعض وہ چیزیں جو بظاہر فائدہ رساں معلوم نہیں ہوتیں.یا جن کی بظاہر کوئی ضرورت دکھائی نہیں دیتی پھر بھی وہ مفید اور ضروری ہوتی ہیں.گو ہر ایک انسان ان کا محتاج نہیں ہوتا.ان کی بھی ایک قیمت ہوتی ہے.مثلا موتی.ہیرے لعل.جواہر.یہ ایک توطنتی لحاظ سے بڑے مفید ہوتے ہیں.دوسرے تعداد میں بہت کم ہوتے ہیں اور ان کی ضرورت امراء اور دولتمندوں کو پڑتی ہے.یہ ایک ظاہر بات ہے کہ جس قدر اعلیٰ درجہ کا آرام ہے اتنا ہی کم لوگوں کو میٹر آتا ہے چونکہ ایسی قیمتی چیزوں کی احتیاج بڑے لوگوں کو ہی ہوتی ہے.اور یہ ان میں اور دوسرے لوگوں میں امتیاز پیدا کرنے والی چیزیں ہوتی ہیں.اس لئے ان کی بڑی قیمت ہوتی ہے تو یہ باتیں کسی چیز کی قیمت کا فیصلہ کیا کرتی ہیں.اوّل ضرورت.دوم - فوائد.سوم تعداد.کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز ضروری ہوتی ہے گو اس کے فوائد عام طور پر کوئی ایسے اعلیٰ نہیں سمجھے جاتے.مگر ایک وقت میں اس کی قیمت بہت بڑھ جاتی ہے.اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ فوائد بھی نہیں ہوتے اور ضرورت بھی کوئی ایسی نہیں ہوتی لیکن جس حد تک دنیا میں اس کی ضرورت ہوتی ہے اس سے اس کا خزانہ کم ہو جاتا ہے.اس وقت بھی اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے.مثلا گیہوں.چنے.ماش وغیرہ.یہ ایسی چیزیں ہیں جو بڑی کثرت سے پیدا ہوتی ہیں.اس لئے ان کی قیمت ایسی ہوتی ہے کہ ہر ایک خرید سکتا ہے مگر جب ان کی پیدائش میں کمی واقعہ ہو جاتی ہے تو قیمت بہت بڑھ جاتی ہے.اس وقت کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ بھی ویسے ہی گیہوں یا چنے ہیں جیسے پچھلے سال تھے.پھر ان کی قیمت کیوں بڑھادی گئی ہے.ہوا میں دو باتیں پائی جاتی ہیں.ایک یہ کہ انسانی صحت کا مدار اسی پر ہے.دوسرے ہر وقت اس کی ضرورت اور حاجت ہے.اور ہر انسان کو ہے.مگر باوجود اس کے کوئی شخص ہوا کے معاملہ میں بخل سے کام نہیں لیتا.اور نہ ہی اس میں کنجوسی کرتا ہے.کیا کبھی ایسا ہو ا ہے کہ کوئی کسی کو کہے کہ ہمارے گھر سے نکل جاؤ کیونکہ تمہارے سانس لینے اور سونگھنے سے ہوا خراب ہو رہی ہے.خواہ کوئی کیسا ہی بخیل ہو.اپنے نفس پر کتناہی بخل کرنے والا ہو.پھر بھی یہ کبھی نہیں کہے گا کیوں؟ اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ خدا تعالیٰ

Page 251

خطبات محمود جلد (5) ۲۴۱ نے ہوا کا ایسا خزانہ کھولا ہوا ہے کہ جس میں کبھی کی نہیں آسکتی اسی بات کی وجہ سے اس کے دل میں بھی تنگی نہیں آتی.حالانکہ فوائد اور ضرورت کے لحاظ سے تمام اشیاء سے اس کی قیمت بہت زیادہ ہے.تو بخل کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ انسان کا دل تنگی کرتا ہے.وہ کہتا ہے اگر میں نے یہ چیز خرچ کی تو میرے پاس کم ہو جائے گی.یا کم ہو جانے کا اسے خطرہ ہوتا ہے.مثلاً ایک آدمی کے پاس اگر کروڑوں کروڑ روپیہ ہو تو گو وہ اس قدر کم نہیں ہوگا کہ اسے تکلیف اٹھانی پڑے.تاہم وہ ڈرتا ہے کہ اگر میں نے خرچ کیا تو کم ضرور ہو جائے گا.اسی طرح ایک غریب آدمی جس کے پاس ایک دو روپے ہوں وہ بھی خرچ نہیں کرتا.کیوں؟ اس لئے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر ان کو میں نے خرچ کر دیا تو ضرورت کے وقت مجھے تکلیف ہوگی.غرض بخل اسی طرح پیدا ہوتا ہے کہ یا تو چیز کا کم ہو جانا خیال میں ہوتا ہے یا کم ہو جانے کا خطرہ اور ڈر ہوتا ہے.لیکن جہاں یہ دونوں باتیں نہ ہوں وہاں اس کے خرچ کرنے میں کوئی شخص دریغ نہیں کرتا.مگر بڑا تعجب آتا ہے اور بڑی حیرت ہوتی ہے کہ نادان انسان اپنی نادانی کی وجہ سے ادھر مال کے متعلق جو بخل اور کنجوسی کرے اس پر بنی کرتا اور اس کا بخیل اور کنجوس نام رکھتا ہے.اور کہتا ہے کیا ہوا.اگر چیز کم ہو جاتی ہے تو زیادہ بھی تو ہو ہی جاتی ہے.پھر زندگی کا کیا اعتبار ہے ممکن ہے آج ہی جان نکل جائے.اور تمام جمع کیا کرا یا دھرار ہے.پھر مال تو ہاتھوں کی میں ہے.ہاتھ سلامت رہے تو اور مل رہے گا.اور اگر ہاتھ ہی نہ رہے تو مال کی بھی ضرورت نہ رہے گی غرض بہت زور اور دلائل کے ساتھ بخیل پر جنسی اور ملامت کرتا ہے.مگر باوجود اس کے اس کے کئی معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے متعلق وہ دوسروں پر اعتراض کرتا بلکہ ان کے خلاف وعظ اور نصیحت بھی کرتا ہے.لیکن ان میں وہ خود بخل سے کام لیتا ہے اور پھر تعجب یہ ہے کہ ایسی چیزوں میں بخل کرتا ہے کہ جن کے کم ہونے کا بالکل خطرہ نہیں ہوتا.ایک مالدار بخل کرتا ہے مگر اس کی وجہ وہ یہ قرار دیتا ہے کہ اگر میں خرچ کروں تو شائد میرا مال کم ہو جائے.حتی کہ اسی خیال میں وہ مر بھی جاتا ہے اور خود بھی کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتا.بے شک ایسا شخص قابل الزام ہے.اور بے شک اس نے اللہ پر بھروسہ نہیں کیا.اور بے شک بنی نوع انسان پر کہ جس

Page 252

خطبات محمود جلد (5) ۲۴۲ کی ہمدردی اور مدد اس پر فرض تھی اس نے کچھ خرچ نہیں کیا مگر پھر بھی وہ ایک حد تک معذور ہے کیونکہ جو خزانہ اس کے پاس ہے خواہ وہ کتنا ہی بڑا ہو.تا ہم خرچ کرنے سے کم ہو ہی جاتا ہے.اور کسی انسان کے پاس کوئی ایسا خزانہ نہیں جو کم نہ ہوتا ہو.سب سے بڑا خزانہ حکومتوں کا ہوتا ہے لیکن دیکھو اس کے کم ہونے کے بھی اسباب پیدا ہو ہی جاتے ہیں.موجودہ جنگ میں ہی دیکھ لو گورنمنٹ برطانیہ کالے کروڑ روپیہ روزانہ کا خرچ ہے.گو کوئی شخص گورنمنٹ جتنا مالدار نہیں ہو سکتا.مگر فرض کر لو کہ اگر کسی کے پاس اتناہی خزانہ ہو تو بھی اس کے لئے ایسے مصارف نکل سکتے ہیں کہ وہ خرچ ہو سکتا ہے.حضرت خلیفہ امسیح اوّل رضی اللہ عنہ فرما یا کرتے تھے کہ ایک امیر جب مرا تو اس نے لاکھوں رو پیدا اپنے پیچھے چھوڑا.اس کا ایک لڑکا تھا.لڑکے نے اپنے دوستوں یاروں کو بلا کر مشورہ کیا کہ میرے پاس جو اس قدر روپیہ ہے اسے کس طرح خرچ کیا جائے کسی نے کوئی طریق بتا یا کسی نے کوئی.لیکن اسے کوئی پسند نہ آیا.ایک دن وہ بازار سے گزر رہا تھا کہ ایک بزاز کے کپڑا پھاڑنے کی آواز اسے سنائی دی.وہ آواز اسے ایسی پسند آئی کہ گھر آ کر کپڑے کے تھان منگوا منگوا کر پھڑوانے شروع کر دیئے.اور چرچر کی آواز سننے لگ گیا.اسی طرح اس نے اپنا سارا روپیہ برباد اور تباہ کر دیا.اور تھوڑے ہی عرصہ میں مفلس اور نادار ہو گیا.تو خواہ کسی کے پاس لاکھوں روپے ہوں یا کروڑوں.پھر بھی ایسے مصارف نکل سکتے ہیں کہ وہ خرچ ہو کر اسے نادار بنا دیں.اس لئے اگر کسی کے پاس خواہ کتنا ہی روپیہ ہو.تا ہم اگر وہ یہ خیال کر کے کہ اگر میں اس میں سے خرچ کروں گا تو کم ہو جائے گا.اس لئے خرچ نہیں کرتا تو ایک حد تک معذور ہے.کیونکہ اس کا خزانہ ایسا ہے کہ ضرور خرچ ہو کر کم اور ختم ہوسکتا ہے.لیکن جس طرح ہوا کا خزانہ کبھی ختم نہیں ہوتا.اس لئے اس میں جو بخل کرنے والا ہو بڑا ملزم ہے.اسی طرح علم کا خزانہ ہے.یہ بھی کبھی ختم نہیں ہوتا.اس میں بھی بخل کرنے والا بہت بڑا مجرم ہے.پھر علم کا خزانہ نہ صرف یہ کہ کم نہیں ہوتا بلکہ جتنا خرچ کیا جائے.اتنی ہی زیادہ ترقی کرتا ہے اور دوسری چیزوں کے خلاف اس میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ خرچ کرنے سے خرچ ہو جاتی ہیں.لیکن علم ایک ایسی دولت ہے کہ جتنا خرچ کیا جائے اتنا ہی 1

Page 253

خطبات محمود جلد (5) ۲۴۳ بڑھتا ہے.اور جو لوگ اس کو خرچ نہیں کرتے اور خرچ کرنے کے عادی نہیں ہوتے.ان سے چھین لیا جاتا ہے.ایک بخیل روپیہ جمع کرتا ہے تو اس کا خزانہ بڑھتا ہے لیکن برخلاف اس کے ایک عالم اگر علم جمع کرتا جاتا اور اسے خرچ نہیں کرتا تو اس کا خزانہ گھٹتا جاتا ہے.مثلاً اگر ایک شخص کو کہا جائے کہ تم محنت و مزدوری کر کے روپیہ جمع کرتے رہو اور دوسرے کو کہا جائے کہ تم علم پڑھ کر اکٹھا کرتے رہو تو کچھ عرصہ کے بعد ان دونوں کا مقابلہ کیا جائے گا.تو وہ جو روپیہ کماتا اور اسے خرچ نہ کرتا بلکہ جمع کرتا تھا اس کے پاس بہت سا روپیہ ہو گیا.لیکن وہ جو علم پڑھ کر اسے خرچ نہیں کرتا رہا.اس نے کچھ کھو دیا ہوگا کیونکہ مالدار اگر روپیہ کو جمع کرتا رہتا ہے تو روپیہ ویسے کا ویسا ہی پڑا رہتا ہے لیکن اگر علم کو رکھ چھوڑا جائے تو ذہن اس خزانہ کور ڈی حالت میں کر دیتا ہے.مگر باوجود اس کے کس قدر افسوس اور تعجب کا مقام ہے کہ مال میں بخل کرنے والوں پر ہنستے اور انہیں بُرا بھلا کہتے ہیں لیکن بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے عقل دی.فہم دیا.علم دیا.سمجھ دی.وہ ان چیزوں کے خرچ کرنے میں بخل کرتے ہیں.حالانکہ اگر وہ غور کریں تو انہیں معلوم ہو جائے کہ ان کے بخل کرنے کی کوئی وجہ نہیں.مسلمانوں میں ایک جماعت اس قسم کی پیدا ہو گئی تھی کہ جو صوفی کہلاتے تھے.ان کو اگر کوئی بات معلوم ہو جاتی تو اس کو بڑا چھپا چھپا کر رکھتے.اور دوسرے کو نہ بتاتے تھے.ہاں مرنے کے وقت اگر کسی پر بڑے ہی خوش ہوتے اور اس پر بڑا ہی انعام کرنا چاہتے تو کوئی ایک آدھ بات بتا دیتے.اور اسی طریق عمل کو بہت اچھا سمجھتے.حالانکہ اس کا نتیجہ بہت خطرناک نکلا.اس طرح کرنے سے ان کی اولا دان سے جاہل نکلی.ان کی اولا دان سے جاہل نکلی.پھر ان کی اولا دان سے جاہل نکلی اور آخر کار یہ ہؤا کہ مسلمانوں میں کچھ نہ رہا.نہ علم رہا نہ تقویٰ رہا.نہ فہم رہا.نہ عقل رہی.تمام علوم وفنون میں یہی حال ہو گیا تھا اگر کسی طبیب کو کوئی اچھا نسخہ ہاتھ آجاتا تو وہ دوسرے کو نہ بتا تا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ علم ہی محدود ہو گیا.اور اب دیکھ لو کہ طب کیسی رڈی حالت میں پہنچ گئی ہے.یا تو وہ زمانہ تھا کہ مسلمانوں میں بڑے بڑے طبیب اور معالج تھے مگر ان کے آگے دوسروں کو نہ بتانے کی وجہ سے آہستہ آہستہ اعلیٰ

Page 254

خطبات محمود جلد (5) ۲۴۴ اور اچھے نسخے مٹتے گئے اور آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے.بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک خاندان ترقی کر لیتا ہے لیکن اس کے بعد میں آنے والے افراد اس قابل نہیں ہوتے کہ کاروبار کو سنبھال سکیں.لیکن چونکہ اس خاندان کی وہ باتیں جن سے اس نے ترقی کی ہوتی ہے.انہی تک محدود ہوتی ہیں.اس لئے ان کے تباہ ہونے کے ساتھ ہی وہ بھی تباہ ہو جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی حجام کی نسبت فرماتے تھے کہ اس کو ایک ایسا اچھا مرہم بنانا آتا تھا کہ خواہ کیسا ہی گندہ اور بگڑا ہو از زخم ہو.اس سے اچھا ہوجاتا تھا لیکن وہ اس مرہم کا بنانا کسی اور کو نہ بتاتا تھا.حتی کہ اپنے بیٹوں کو بھی نہ بتاتا تھا.جب وہ مرنے لگا تو اس کے بیٹوں نے کہا اب تو آپ ہم سے جدا ہونے لگے ہیں اب ہی وہ مرہم بنا نا بتا دیں وہ کہنے لگا میں تم کو بتا تو دیتا لیکن ابھی مجھے امید ہے کہ میری زندگی باقی ہے اگر میں اچھا ہو گیا تو پھر کیا ہوگا.وہ اسی مرض میں مر گیا.اور مرہم کے متعلق نہ ہی بتا یا.اسی طرح ہزاروں علوم ایسے تھے کہ جو لوگوں کی نادانی اور جہالت کی وجہ سے مٹ گئے.ان کے جاننے والوں نے انہیں اپنے سینے کی قبر میں ایسا دفن کیا کہ وہ پھر نہ نکل سکے.اور اس طرح گھٹتے گھٹتے بالکل نا پید ہو گئے.دیکھ لیجئے.آجکل طب ایسی گر گئی ہے کہ کوئی پوچھتا تک نہیں.اور ڈاکٹروں کی موجودگی میں طبیبوں کی طرف کوئی توجہ بھی نہیں کرتا.ڈاکٹروں نے کوئی نئی طب نہیں بنائی.بلکہ یہ وہی پرانی طب ہے.اور یورپ نے مسلمانوں سے ہی سیکھی ہے.لیکن جب ان کے پاس گئی اور انہوں نے اس پر عملدرآمد اور تجربہ کرنا شروع کر دیا اور جو نئی بات کسی کو معلوم ہوئی.اس کی خوب شہرت کی اور اچھی طرح پھیلا دی تو اس طرح ایک کی بات دوسرے کو.دوسرے کی تیسرے کو.تیسرے کی چوتھے کو پہنچتی گئی.اور ایک نے دوسرے کی مدد سے اور دوسرے نے تیسرے کی مدد سے اور تیسرے نے چوتھے کی مدد سے ترقی کرنا شروع کر دی.اور ہوتے ہوتے آج یہ حالت ہوگئی کہ جس طرح ایک گٹھلی اور آم میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے.اور جس طرح ایک خوبصورت پھول اور اس کے بیج میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے.حالانکہ پھول اسی بیج سے نکلا ہوتا ہے.مگر دونوں کی حالت میں اتنا بڑا

Page 255

خطبات محمود جلد (5) ۲۴۵ فرق ہوتا ہے کہ ایک کا دوسرے سے مقابلہ نہیں ہوسکتا.اگر بیج کسی کے ہاتھ کو لگ جائے تو جھاڑ کر پھینک دے گا کہ کیا لگ گیا ہے لیکن پھول کو بڑے شوق اور پیار سے بار بار ناک کے ساتھ لگائے گا.اسی طرح گو ڈاکٹری طب سے ہی نکلی ہے.مگر بڑھتے بڑھتے ایک عظیم الشان درخت ہو گئی ہے کہ دونوں میں کوئی نسبت نہیں رہی.اہل یورپ نے چونکہ اس کے بڑھانے میں کوئی بخل نہیں کیا.اگر ایک کا علم ختم ہو گیا تو آگے دوسرے نے شروع کر دیا.دوسرے کا ختم ہو گیا تو تیسرے نے شروع کر دیا.تیسرے کا ختم ہو گیا تو چوتھے نے شروع کر دیا.پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ اگر ایک بات ایجاد کر لیتا تو دوسرے کو نہ بتا تا.اس لئے دوسرے کو اگر وہی بات ایجاد کرنی ہوتی تو اسے بھی اتنی ہی محنت کرنی پڑتی جتنی کہ پہلے نے کی ہوتی.لیکن اب یہ ہوا کہ ایک نے ایک دروازہ کھول دیا اور وہ تھک کر بیٹھ گیا.تو دوسرا کھڑا ہو گیا.اور اس نے دوسرا دروازہ کھول دیا.تیسرے نے اس سے اگلا کھول دیا.اس طرح آہستہ آہستہ وہ اس حد تک پہنچ گئے کہ بہت بڑا فرق ہو گیا.دہلی میں ایک طبی جلسہ پر وائسرائے نے کہہ دیا تھا کہ دیسی طب اور ڈاکٹری در اصل ایک ہی ہے.لیکن یہ سنکر ڈاکٹروں نے اس پر بڑا شور مچایا کہ ہماری ہتک کی گئی ہے کیونکہ یہ غلط ہے کہ دیسی طب اور ڈاکٹری ایک ہی ہے.اگر چہ ان کا شور مچانا ایسا ہی تھا جیسے کوئی محسن کش جب کوئی عہدہ پالیتا ہے تو ماں باپ سے ملنا بھی عار سمجھتا ہے.ایک مجسٹریٹ کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ بہت غریب خاندان سے تھا.اس کا باپ اس سے ملنے کے لئے آیا تو بے دھڑک اس کے پاس کرسی پر جا بیٹھا.اہلکاروں نے پوچھا.یہ کون ہے تو اس نے کہا یہ ہمارا خدمت گار ہے.تو بعض کم عقل جب ترقی کر جاتے ہیں تو اپنے اصل منبع اور مخرج کی طرف منسوب ہونا بھی ہتک سمجھتے ہیں.اسی طرح ڈاکٹری والے بھی چونکہ بہت ترقی کر گئے ہیں اور طب والے بہت گر گئے ہیں.اس لئے وہ ان کی طرف منسوب ہونا ہتک سمجھتے ہیں.چونکہ طب والوں نے اس علم کو پھیلا یا نہیں اس لئے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کم ہو گیا.اور ڈاکٹری والوں نے چونکہ اسے خوب پھیلا یا.اس لئے وہ بہت ترقی کر گیا.صحابہ کرام کے پاس کوئی چیز ایسی نہ تھی کہ جو انہوں نے لچھپا رکھی ہو.سوائے

Page 256

خطبات محمود جلد (5) ۲۴۶ ان خاص باتوں کے کہ جو ابتلاء کا موجب بن سکتی تھیں یا ایسی خاص کیفیات جن کا بیان کرنا ہی ناممکن تھا.صحابہ کو تو عمدہ اور مفید باتوں کی اشاعت کرنے کا یہاں تک شوق تھا کہ ایک صحابی جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بات بتائی تھی اور فرمایا تھا کہ یہ خاص تیرے ہی لئے ہے.اسے کسی کو نہ بتائیو.جب فوت ہونے لگا تو اس نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک بات بتائی تھی اور فرمایا تھا کہ یہ کسی کو نہ بتانا.اس لئے میں اس کے بتانے سے ڈرتا ہوں لیکن قرآن کریم اور رسول کریم کا یہ حکم ہے کہ جو اچھی بات تمہیں معلوم ہو وہ دوسروں کو بتاؤ.اب میں کروں تو کیا کروں.آخر کار اس نے یہی فیصلہ کیا کہ میں یہی پسند کرتا ہوں کہ بجائے اس کے کہ خاموش رہوں بتا ہی دوں.اور نہ بتانے کے گناہ کے مقابلہ میں بتانے والا گناہ اٹھالوں لے.تو صحابہ اس قدر جوش رکھتے کہ دوسروں کو ہر ایک ایسی بات سے جسے وہ اپنے لئے مفید سمجھتے تھے بتا دیتے تھے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں ہر قسم کے علوم وفنون بڑھے.لیکن مسلمانوں پر ایک ایسا زمانہ آیا.جبکہ وہ ہر ایک اچھی بات کو چھپا چھپا کر رکھتے تھے.طبیب اپنے نسخوں کو.مولوی اپنے وردوں کو.صوفیاء اپنے رنگوں کو دوسروں پر ظاہر نہیں کرتے تھے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ ان میں علم رہا.نہ نیکی رہی.نہ تقویٰ رہا.نہ برتری رہی.جنس کو دیکھ کر جنس ترقی کیا کرتی ہے.لیکن جب انہوں نے دین کی باتیں بھی چھپانی شروع کیں تو نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دنیاوی علوم سے بھی جاہل ہو گئے.اور ان کی اولا د بھی جاہل ہو گئی.اگر وہ ایک دوسرے کو بتاتے اور ان باتوں کو پھیلاتے تو آج ان کی یہ حالت ہر گز نہ ہوتی.تعجب کی بات ہے کہ ہماری جماعت میں سے بھی بعض لوگ ایسے نکل آئے ہیں کہ جو نیکی کی باتوں کو پھیلا نا نہیں چاہتے.میں نے پچھلے دنوں دعا کے متعلق خطبے پڑھے تھے.ان کے متعلق کسی شخص کا میرے نام خط آیا.اس کا نام تو پڑھا نہیں گیا.لیکن چونکہ اس نے میری طرف خط لکھا ہے.اس لئے خیال گزرتا ہے کہ وہ احمدی ہی ہوگا.وہ لکھتا ہے کہ آپ نے قبولیت دعا کے بخاری کتاب العلم باب مَنْ خَصَّ بالعلم قَوْمًا دُونَ قَوْمٍ.

Page 257

خطبات محمود جلد (5) ۲۴۷ متعلق طریق بتا کر پوشیدہ اور سر بستہ راز کھول دیئے ہیں یہ تو بڑی محنتوں اور مشقتوں کے بعد کسی کو نصیب ہوا کرتے تھے.کوئی بہت ہی دعائیں کرنے والا اور خدا کے حضور گریہ وزاری کرنے والا ہوتا تو اسے ان طریق سے کوئی ایک القا کیا جاتا.لیکن آپ نے تو یونہی سب بتا دیئے ہیں اور اب ہر ایک ان سے آگاہ ہو جائے گا.اس بات پر وہ بڑی حیرانی ظاہر کرتا ہے اور آخر لکھتا ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ آپ بھی مجبور تھے.آپ ایک جماعت کے امام جو ہوئے اس لئے اپنی جماعت کی محبت کے جوش میں آکر آب سے یہ حرکت ہوگئی ہے.“ دیکھئے ! ادھر اس کو تو یہ صدمہ ہوا ہے کہ میں نے یہ طریق ظاہر کیوں کر دیئے ہیں.لیکن ادھر مجھے خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ایک اور نمونہ دکھایا ہے.جب میں خطبہ پڑھ کر مسجد سے گھر گیا.تو دل میں آیا کہ سوائے دو تین طریقوں کے جو وقت کی تنگی کی وجہ سے بیان نہیں ہو سکے.باقی سب میں نے بیان کر دیئے ہیں اور یہ جو مجھے یاد ہیں ان کے علاوہ اور کوئی طریق نہیں ہے لیکن اسی وقت جبکہ جمعہ کا دن اور رمضان المبارک کا مہینہ تھا.میں نے دعا شروع کی.تو خدا تعالیٰ نے کئی نئے طریق مجھے اور بتا دیئے.میں نے سمجھا تھا کہ وہی طریق کو چھوڑ کر جن کو انسان بیان ہی نہیں کر سکتا جس قدر بھی کسی طریق ہیں.اور جنہیں ہر ایک انسان استعمال کر سکتا ہے وہ سب میں نے اخذ کر لئے ہیں لیکن جاتے ہی خدا تعالیٰ نے چار پانچ طریق اور بتا دیئے.گویا جب میں نے جگہ خالی کی.تو اور آگئے.علم کا خلا اس کا پھیلا نا ہی ہوتا ہے یہ نہیں کہ وہ نکل جائے دوسری چیزیں اس وقت خلا پیدا کرتی ہیں جبکہ وہ خود نکل جائیں لیکن علم باوجود موجود رہنے کے خرچ کرنے سے خلا پیدا کر دیتا ہے.پس مجھے تو بجائے کسی قسم کا نقصان یا کمی ہونے کے فائدہ ہی ہؤا کہ خدا تعالیٰ نے اور طریق سکھا دیئے.( ان طریقوں میں سے بھی دو طریق جو حضور نے درس القرآن میں فرمائے بڑھا دیئے گئے ہیں ) لیکن اس کو خواہ مخواہ افسوس کرنا پڑا.یہ ایک غلطی ہے جو بڑی خطرناک ہے.چھپانے والی چیز تو وہ ہوا کرتی ہے جو بُری اور خراب ہو.اچھی چیز تو ظاہر کرنے کے لئے ہوا کرتی ہے.پھر وہ چیز جس میں کبھی کمی نہیں آسکتی.بلکہ بڑھتی ہے پھر اس کے چھپانے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے اسلام کی تعلیم تو ایسی ہی ہے کہ جو کبھی ختم نہیں ہو سکتی.خدا تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ

Page 258

خطبات محمود جلد (5) ۲۴۸ علیہ وسلم کو فرماتا ہے.اِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ - فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ - لَم ہم نے تمہیں جو علم دیئے ہیں وہ ایک ایسی نہر ہے کہ جو بھی ختم نہیں ہوسکتی اور جس کی تہ نہیں ہے.ایسی نہر پر جولوگ کھڑے ہوں ان سے اگر کوئی ایک گلاس مانگے.اور وہ کہیں نہیں دیتے تو ان سے بڑھ کر بخیل اور کنجوس اور کون ہو سکتا ہے.جس طرح ہوا سے کوئی بخل نہیں کرتا اسی طرح اسلام کی تعلیم سے دوسروں کو واقف کرنے سے اس وقت تک کوئی بخل نہیں کرتا جب تک کہ جاہل مطلق اور نادان نہ ہو.اگر کوئی ایسی نادانی کرتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے علم میں کمی آنا شروع ہو جاتی ہے اور آخر کار بالکل بیکار ہو جاتا ہے.مجھے تو اگر خدا تعالیٰ کوئی نکتہ سمجھا تا ہے یا کوئی علم دیتا ہے تو میں تو یہی چاہتا ہوں کہ جس طرح ہو سکے دوسروں تک پہنچا دوں اس سے ایک تو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ فائدہ جو مجھے حاصل ہو رہا ہوتا ہے وہی دوسروں کو ہونے لگتا ہے.پھر اس پر ترقی کر کے وہ جو باتیں پیدا کریں گے وہ مجھے مل جائینگی اور میں ان سے فائدہ اٹھالوں گا.لیکن وہ لوگ جو کسی بات کو اپنے تک ہی محدود رکھنا چاہتے ہیں ایک خطرناک مرض میں مبتلا ہیں آپ لوگوں کو چاہئیے کہ جہاں تک ہو سکے اس مرض کے دور کرنے کی کوشش کریں اور جو اچھی اور عمدہ بات خواہ دین کے متعلق ہو یا دنیا کے انہیں بتانے سے دریغ نہ کیا جاوے یہ ترقی کا بہت بڑا راز ہے.اگر کوئی اس کو سمجھ لے تو اس کا علم روزانہ ترقی کرتا رہے گا.پس ہماری جماعت کے لوگوں کو خوب یادرکھنا چاہئیے کہ جس چشمہ سے ان کے علوم نکلتے ہیں وہ کوثر ہے اور ہمارے تمام علوم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشہ چینی اور آپ کے طفیل ہیں.اور اس چشمہ کا نام خدا تعالیٰ نے کوثر رکھا ہوا ہے کہ جس میں کبھی کمی نہیں آسکتی.بلکہ جس قدر بھی ضرورت ہو اس سے بڑھ کر اس میں سے نکلتا رہتا ہے.کوثر اس چشمہ کا بھی نام ہے جو جنت میں ہوگا.اس میں بھی کمی نہیں آتی.مگر اسلام کی تعلیم جہاں سے نکلتی ہے اس کا نام بھی کوثر ہے.پس جس چشمہ سے ہم پانی لیتے ہیں اس کا نام خدا تعالیٰ نے کوثر رکھا ہوا ہے.پھر کیسی نادانی ہوگی.اگر کوئی یہ خیال کرے کہ اس میں سے خرچ کرنے سے کمی آجائیگی اور پھر یہ کیسی نادانی ہوگی کہ کوئی مانگے اور ہم نہ دیں.پھر یہ بھی کیسی نادانی ہوگی کہ جو مانگنا نہیں جانتے ان کو ہم خود نہ

Page 259

خطبات محمود جلد (5) ۲۴۹ پہنچا ئیں.وہ قوم جس کو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی معرفت کو ثر ملا ہے اس کا یہ کام ہونا چاہئیے کہ اگر اس سے کوئی نادانی اور جہالت کی وجہ سے نہیں مانگتا تو بھی وہ اسے خود بخو ددے اور سیراب کرے.جس کو خدا تعالیٰ نے علم دیا ہے وہ علم کو پھیلائیں اور جن کو کوئی اور بات معلوم ہے وہ اسے شائع کریں اور ذرا بھی بخل نہ کریں.اس زمانہ میں ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ نے اس کوثر کا داروغہ مقرر کیا ہے تیرہ سو سال میں متفرق جماعتوں کے ہاتھ میں وہ رہا.مگر اب خدا تعالیٰ نے ان سب سے چھین کر ہمیں دے دیا ہے.اس لئے ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ لوگ جو اس آب حیات کے بغیر مر رہے ہیں.ان تک پیالے بھر بھر کر پہنچائے.اور انہیں پکڑ پکڑ کر پلائے.اور یادر کھے کہ اس چشمہ میں کبھی کمی نہیں آ سکتی.اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت تمہیں اس لئے دی ہے کہ تم خود بھی اس سے فائدہ اٹھاؤ اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاؤ.دیکھو بعض امیر مال تقسیم کرنے کے لئے دارو نے مقرر کرتے ہیں.لیکن اگر وہ داروغے مستحق لوگوں کو مال دینے سے دریغ کریں تو انہیں ہٹا دیتے ہیں.اور ان سے وہ کام چھین کر اور کو دے دیتے ہیں.اسی طرح دین کے متعلق ہے.وہ جو اسے تقسیم نہیں کرتے اور بے دینوں میں نہیں پھیلاتے ان سے چھین لیا جاتا ہے.پس تم میں سے ہر ایک وہ جس کو قرآن یا حدیث یا جو کچھ بھی آتا ہے وہ دوسروں کو پڑھائے اور یہ خیال نہ کرے کہ اس کے علم میں کمی آجائے گی.اس کے منہ سے نکل کر کوئی بات دوسرے کے کان تک نہیں پہنچے گی کہ اُسے ایک اور بات حاصل ہو جائے گی.میں نے اس بات کا خوب تجربہ کر کے دیکھا ہے اور جس طرح روئیت کے متعلق شہادت دی جاسکتی ہے اسی طرح میں اس کے متعلق دیتا ہوں کہ کوئی بات اپنی جگہ سے نہیں ہلتی کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس سے زیادہ نہیں مل جاتی ہے.اور بیبیوں گنے زیادہ ملتی ہے گو یا لوگوں کو بتا نا ایک ڈاٹ ہوتا ہے کہ اس کو جب کھول دیا جاتا ہے تو اس زور سے دھار نکلنا شروع ہو جاتی ہے کہ بعض اوقات انسان اٹھا بھی نہیں سکتا.پس تم لوگ کسی بات کے پہنچانے میں کبھی بخل مت کرو.جہانتک ہو سکے دوسروں کو پہنچاؤ.اور جو علم بھی خدا تعالیٰ نے تمھیں دیا ہے اُسے ان تک پہنچانے میں لگے رہو.جن کے پاس اس سے تھوڑا ہے یا جن کے پاس بالکل ہی نہیں.وہ تم سے دور بھاگیں گے.لیکن تم انہیں پکڑ پکڑ کر دو.وہ

Page 260

خطبات محمود جلد (5) ۲۵۰ تم سے نفرت کریں گے.لیکن تم ان کو محبت سے دو.وہ تمہاری باتیں نہیں سنیں گے.مگر تم ان کو پیار سے سناؤ.یہاں بعض لوگ علم دین حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں.اُن کو مشکل پیش آتی ہے.حالانکہ ہمارا تو یہ فرض ہے کہ لوگوں کے گھروں میں جا کر پہنچا ئیں.لیکن یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ لوگ ہمارے گھر چل کر آ جاتے ہیں.پھر اگر ہم ان کو کچھ نہ سکھائیں تو کیسی نادانی ہے.اگر کوئی شخص کسی کو نہیں سکھاتا.خواہ اس کی کوئی وجہ ہوتو وہ یادر کھے کہ اس کا علم بڑھ نہیں رہا.بلکہ کم ہو رہا ہے اور ایک دن اس پر ایسا آئیگا کہ وہ ایک بیکار اور فضول جسم رہ جائے گا.خدا تعالیٰ ہماری جماعت کے ہر ایک فرد کو اس بات کی توفیق دے کہ جو علم خدا تعالیٰ کی طرف سے اُسے دیا گیا ہے.وہ لوگوں تک پہنچائے.اور اپنے اوقات سے بچا کر کچھ وقت دین کے کاموں میں صرف کریں.اور اس دین کو پھیلانے اور دنیا کے کونے تک پہنچانے میں لگ جائیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ان کو ملا ہے.آمین الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۱۲ء)

Page 261

۲۵۱ 29 خطبات محمود جلد (5) ہر گل کے ساتھ خار ہوتا ہے.(فرموده ۸ ستمبر ۱۹۱۶ء) تشهد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- کہ سورۃ فاتحہ روزانہ بلکہ دن کے ہر تغیر کے وقت ہمیں بتاتی ہے اور اس طرف متوجہ کرتی ہے کہ ہر انعام کے ساتھ کچھ مشکلات بھی لگی ہوتی ہیں اور کچھ خطرہ بھی ہوتا ہے اور جس پر انعام نہیں ہوا ہوتا.وہ ذمہ داریوں سے بھی بچا ہوتا ہے.ایک جنگل میں رہنے والا انسان جس کو حکومت کے معاملات میں کچھ دخل نہیں اس سے کسی قسم کی پرسش بھی نہیں.لیکن ایک وزیر جہاں بادشاہ کا مقرب اور منظور نظر ہے.وہاں اس کی ذمہ واریاں بھی بہت زیادہ ہوتی ہیں.اور جس طرح اس کے لئے یہ خوشی اور فخر کرنے کا مقام ہوتا ہے کہ اسے عزت حاصل ہوتی ہے.اسی طرح اس کے لئے یہ ڈرنے اور خوف کرنے کا بھی مقام ہوتا ہے کہ مجھے سے کوئی ایسی حرکت نہ ہو جائے کہ میں اپنے آقا کا معتوب ہو جاؤں.تو سورہ فاتحہ اس طرف متوجہ کرتی رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے انعام مانگو.لیکن ساتھ ہی ان انعاموں کے ملنے پر یہ بھی خیال رکھو کہ ایسے افعال میں نہ پڑ جاؤ کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے اوپر ناراض کر بیٹھو.دیکھو جتنے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کے انعامات ہوتے ہیں ان میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں کہ تکبر اور گھمنڈ میں آ جاتے ہیں.چنانچہ امراء میں جس قدر تکبر.گھمنڈ.عداوت بغض.کینہ.بیوفائی.بدعہدی وغیرہ وغیرہ افعال شنیعہ پائے جاتے ہیں.غرباء میں ان کی نسبت بہت کم ہوتے ہیں کیوں؟ اس لئے کہ ان پر جو مصائب اور تکالیف آتی رہتی ہیں وہ انہیں خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کئے رکھتی ہیں.اس میں شک نہیں کہ انعام ایک اچھی چیز ہے.اس سے بہتر کیا ہو گا.پھر خــدا تعالی کا انعام.لیکن جہاں انعام کی جستجو ہو وہاں یہ خیال بھی رکھنا چاہئیے کہ انعام

Page 262

خطبات محمود جلد (5) ۲۵۲ ملنے سے جو تکبر.خودی کبریائی آجاتی ہے اس سے بچیں.ہماری جماعت پر خدا تعالیٰ نے بڑے فضل اور انعام کئے ہیں.اگر وہ ان پر فخر کرے تو بجا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے انہی کے متعلق فرمایا ہے کہ آخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعه ) لیکن ساتھ ہی انہیں یہ بھی فکر رکھنی چاہئیے کہ وہ اپنے آپ کو آخَرِينَ مِنْهُم سمجھتے اور جانتے ہیں تو ان ذمہ داریوں کے نیچے بھی دبے ہوئے ہیں جو ان سے پہلوں کی تھیں.اب اللہ تعالیٰ تم سے پوچھ سکتا ہے کہ ہم نے جو تم پر اتنا بڑا احسان کیا تھا کہ تم نے خود بھی اسے محسوس کیا تھا.اور اس پر فخر کرتے تھے.پھر جب تم نے نافرمانیاں کیں.اپنے عہدوں کو ٹالا.تو تمہاری کیا سزا ہونی چاہئیے.جس طرح بادشاہ کا وزیر سب سے زیادہ مقرب ہو سکتا ہے لیکن قصور وار ہونے کی حالت میں سب سے زیادہ سزا کا بھی مستحق ہوتا ہے.اسی طرح منعم جماعتیں جب ٹھوکر کھاتی ہیں تو بہت ہی بری طرح گرتی ہیں.دیکھو بعض افراد کی عزت کی وجہ سے یہود خدا تعالیٰ کے حضور بہت منعم ہو گئے تھے.پے در پے ان میں سے نبی بنائے گئے.ان میں انبیاء کا ایک سلسلہ چلا جار ہا تھا مگر جب وہ گرے تو ایسے گرے کہ ذلت اور رسوائی میں تمام قوموں سے بڑھ گئے.ہندوؤں کا مذہب ان سے بہت پہلے کا مذہب ہے لیکن ان کی ابتک کچھ نہ کچھ حکومت چلی ہی جاتی ہے.اور یہودیوں کی ایک چپہ زمین پر حکومت نہیں.ہندو جہاں بھی ہیں امن و امان سے گزارہ کرتے ہیں.مگر یہود کبھی ایک ملک سے نکالے جاتے ہیں کبھی دوسرے سے.حالانکہ یہ ہندوؤں سے بہت بعد کی قوم ہے.اس میں ان کے مقابلہ میں زیادہ طاقت ہونی چاہئیے تھی مگر نہیں.بہت پہلی قوم میں ان سے زیادہ طاقت ہے اور اس میں نہیں کیوں؟ اس لئے کہ اس پر جس قدر انعامات ہوئے تھے اتنے ہندوؤں پر نہیں ہوئے تھے.اس لئے جب وہ گری تو ان سے بہت زیادہ نیچے گر گئی.ہماری جماعت کے لوگوں کو اس بات کی بہت فکر چاہیے کہ جہاں وہ آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بھر میں داخل ہیں وہاں ان پر بڑے بڑے فرائض بھی ہیں.اگر وہ ان کو پورا نہیں کریں گے تو خدا ان کا رشتہ دار نہیں.پس اگر تم نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کیا ہوا ہے اور ضرور کیا ہوا ہے تو پھر اس کے پورا کرنے کا کونسا وقت آئے گا.دین کی اس حالت کو جس کی نسبت حضرت

Page 263

خطبات محمود جلد (5) مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ؎ ۲۵۳ ہر طرف کفر است جو شاں ہمچو افواج یزید دین حق بیمار بے کس ہمچو زین العابدین یعنی ہر طرف کفر اس طرح جوش مار رہا ہے جس طرح یزید کی فوجیں تھیں اور دین کی یہ حالت ہے کہ امام زین العابدین کی طرح بیمار اور بیکس پڑا ہے.واقعی یہی حالت اسلام کی ہے اس کو سمجھتے ہوئے جوسستی کرتے اور اپنی ضروریات کو دین کی ضروریات سے مقدم کرتے ہیں.وہ سوچیں کہ کیا کر رہے ہیں.ایسے لوگوں کے لئے بہت خطرہ کا مقام ہے.انہیں تو ایک منٹ کے لئے بھی دین کی طرف سے غافل نہیں ہونا چاہیئے وہ آدمی جسے پہرہ پر کھڑا کیا جائے.وہ اگر ذرا بھی غفلت کرے تو اسے بہت سخت سزا دی جاتی ہے اور آجکل تو اتنی سختی کی جاتی ہے کہ اگر پہرہ دار کو اونگھتا ہو ابھی دیکھا جائے تو گولی مار دیتے ہیں کیوں؟ اس لئے کہ اس کی تھوڑی سی غفلت بہت بڑے نقصان کا موجب ہو جاتی ہے.اسی طرح وہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا کے لئے بطور پہرہ دار شاہد اور نگران مقرر کئے جاتے ہیں.اگر وہ اپنے فرائض سے ذرا بھی غافل ہوں تو بہت سزا پاتے ہیں دوسرے اگر سوئیں تو کوئی نہیں پوچھتا.لیکن وہ اگر اونگھیں بھی تو گولی مارنے کے قابل ہو جاتے ہیں.پس تم لوگ اس خطرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کے سمجھنے کی طرف توجہ کرو.تا کہ غفلت سے محفوظ رہ کر انعامات حاصل کر سکو.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کی توفیق دے کہ اس نے جو عہد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر کیا ہے اس کو پورا کرے.اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے.(الفضل ۲۶ ستمبر ۱۹۱۲ء)

Page 264

۲۵۴ 30 خطبات محمود جلد (5) وسواس الخناس سے بچنے کے طریق فرموده ۲۲ /ستمبر ۱۹۱۶ء) تشہد وتعو ذاور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد مندرجہ ذیل سورۃ پڑھ کر فرمایا :- قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ إِلَهِ النَّاسِ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ (الناس) انسان کی پیدائش اللہ تعالیٰ نے ایسی طرح کی ہے کہ یہ بڑی سے بڑی ترقیات بھی حاصل کر سکتا ہے.اور چونکہ ترقیات کے لئے مشکلات کا سامنا بھی ضروری ہوتا ہے اس لئے یہ نیچے سے نیچے بھی گر سکتا ہے.اس کے ارد گرد ہر وقت ایسے سامان موجود رہتے ہیں کہ جن میں سے بعض تو اس کو اوپر کی طرف کھینچتے ہیں اور بعض نیچے کی طرف.پھر خدا تعالیٰ نے اس کے اپنے اندر ایسی طاقت رکھی ہے کہ یہ ان دونوں قسم کے سامانوں میں سے جن سے متاثر ہونا چاہے ہوسکتا ہے.گو یا اس کی مثال اس انجن کی ہے جس میں سٹیم بھرا ہو ا ہو.اور وہ ایک ڈھلوان سڑک پر کھڑا ہو.اس وقت وہ دونوں طرف جا سکتا ہے.اوپر کی طرف بھی اور نیچے کی طرف بھی.اگر وہ سٹیم سے کام لے گا تو اوپر کی طرف جا سکے گا اور اگر اس طاقت سے جو اس کے اندر رکھی گئی ہے کام نہ لے گا تو نیچے سے نیچے چلا جائے گا.پھر جس طرح انجن کو ایک ایسی جگہ کھڑا کر دیا جائے جو ڈھلوان ہو.اور اس میں سے طاقت نکال دی جائے تو نیچے ہی کی طرف آئے گا.اسی طرح ایک انسان کو جس کے اندر طاقتیں رکھی گئی ہیں.جب وہ ان طاقتوں کو چھوڑ دیتا اور ان سے کام نہیں لیتا تو نیچے ہی گرتا چلا جاتا ہے.اور اتنا نیچے گر جاتا ہے کہ اس کے دوسرے ساتھی حیران ہو جاتے ہیں کہ کیا اتنا نیچے گر گیا.لیکن جب

Page 265

خطبات محمود جلد (5) ۲۵۵ انسان طاقتوں سے کام لیتا ہے تو اوپر بھی اتنا چڑھتا ہے کہ دیکھنے والے حیران رہ جاتے ہیں.جس طرح دور سے ستارے بہت چھوٹے اور چمکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور ان پر غور کرنے والا حیران ہو جاتا ہے کہ کتنی بڑی فضا ہے اور اس میں کس قدر ستارے ہیں.اور خدا تعالیٰ کی کیسی کیسی عجیب مخلوق ہے.اسی طرح انسان کی ترقی اور تنزیل کا حال ہے.جس طرح اس فضا کی حد بندی نہیں ہو سکتی.اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ چار یا دس یا سو یا ہزار ارب میل پر یہ ختم ہو جاتی ہے.اسی طرح یہ بھی کوئی نہیں کہہ سکتا کہ فلاں مقام پر جا کر انسان کی ترقی بند ہو جاتی ہے.پھر جس طرح کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ زمین کے نیچے فلاں حد سے آگے کوئی مخلوق نہیں اسی طرح انسان کے گرنے کے متعلق بھی کوئی حد بندی نہیں کر سکتا.انسان ترقی کرتے کرتے ایسا ایمان حاصل کر سکتا ہے اور اس میں اتنی خوبیاں جمع ہو سکتی ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اس طرح اپنے اندر لے لیتا ہے کہ دیکھنے والے کو یہ دھو کہ لگ جاتا ہے کہ یہی خدا ہے.چنانچہ جن برگزیدہ انسانوں نے اپنے قلوب کو بہت ہی صاف کر لیا.اور ایمان کے اعلیٰ درجہ کو پہنچ گئے ان کی نسبت لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا کہ یہی خدا ہیں یا ان میں خدا ہے.حضرت کرشن حضرت را مچندر.حضرت مسیح.حضرت عزیر کو لوگوں نے خدا بنالیا.اور سب سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام پر پہنچے تھے کہ آپ کو لوگ خدا سمجھتے.مگر آپ کے دل میں خدا تعالیٰ کی توحید کا ایسا جوش تھا اور شرک کے نام تک سے ایسی نفرت تھی کہ آپ نے اس کے مٹانے کے لئے لَا إِلَهَ إِلَّا الله کے ساتھ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُۂ لگا دیا.نادان اور نا سمجھ انسان اعتراض کرتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے خدا کے ساتھ اپنے نام کو لگا کر اپنے آپ کو خدا کا شریک قرار دے لیا ہے.مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ آپ نے اپنے تئیں خدا تعالیٰ سے علیحدہ کرنے کے لئے کیا ہے نہ کہ خدا تعالیٰ سے ملانے کے لئے.پورا حکم تو یہی ہے اَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُه - کہ جس طرح ہم یہ گواہی دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ہے اسی طرح ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم با وجود اس قدر کمالات رکھنے کے اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہی تھے.کیا یہ شرک ہے.نہیں.بلکہ یہ تو شرک کے مٹانے کا ذریعہ ہے.

Page 266

خطبات محمود جلد (5) ۲۵۶ یہی وہ حکم ہے جس نے لوگوں کو آپ کے خدا بنانے سے روکا.ورنہ آپ حضرت کرشن حضرت مسیح وغیرہ سے زیادہ اس بات کے حقدار تھے کہ آپ کو خدا سمجھا جاتا.بائیبل کی پیشگوئیوں میں بھی آپ کی شان اور مرتبہ کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کو خدا ہی کے رنگ میں پیش کیا گیا ہے.اور حضرت مسیح کو بیٹے کی حیثیت سے.چنانچہ بائیبل میں ایک تمثیل کے طور پر حضرت مسیح اپنے آپ کو بیٹے کی نسبت دیتے ہیں اور رسول کریم کے آنے کو خود خدا تعالیٰ کا آنا کہتے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح کہتے ہیں.ایک اور تمثیل سُنو.ایک گھر کا مالک تھا.جس نے انگوری باغ لگا یا اور اس کے چاروں طرف احاطہ گھیرا.اور اس میں حوض کھو دا.اور بُرج بنایا.اور اسے باغبانوں کو ٹھیکے پر دے کر پردیس چلا گیا.اور جب پھل کا موسم قریب آیا تو اس نے اپنے نوکروں کو باغبانوں کے پاس اپنا پھل لینے کو بھیجا اور باغبانوں نے اس کے نوکروں کو پکڑ کر کسی کو پیٹا اور کسی کو قتل کیا.اور کسی کو سنگسار کیا پھر اس نے اور نوکروں کو بھیجا.جو پہلوں سے زیادہ تھے.اور انہوں نے ان کے ساتھ بھی اسی طرح کیا.آخر اس نے اپنے بیٹے کو ان کے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ وہ میرے بیٹے کا تو لحاظ کریں گے.جب باغبانوں نے بیٹے کو دیکھا تو آپس میں کہا کہ یہی وارث ہے آؤ اسے قتل کر کے اسکی میراث پر قبضہ کر لیں.اور اسے پکڑ کر باغ سے باہر نکالا.اور قتل کر دیا.پس جب اس باغ کا مالک آئے گا تو ان باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا.انہوں نے اس سے کہا.ان برے آدمیوں کو بری ،، طرح ہلاک کرے گا اور باغ کا ٹھیکہ اور باغبانوں کو دے گا.جو موسم پر اس کو پھل دیں.اس عبارت میں حضرت مسیح نے اپنے آنے کو بیٹے کا آنا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کو خود ما لک باغ کا آنا قرار دیا ہے.واقعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی شان ایسی تھی کہ اگر خدا تعالیٰ دنیا میں انسان کے بھیس میں آتا.تو آپ ہی کے وجود میں آتا.اور آپ ہی کی شان کو دیکھ کر لوگوں کو اس بات کا دھو کہ لگ جاتا.لیکن خدا تعالیٰ نے اس سے لوگوں کو بچانے کے لئے اور اس خرابی کو دور کرنے کے لئے اپنی وحدانیت کے اقرار کے ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبودیت بھی لگا دی.امتی باب ۲۱

Page 267

خطبات محمود جلد (5) ۲۵۷ غرض انسانوں میں سے ایسے انسان ہوئے ہیں کہ جن کو اتنے بڑے درجے حاصل ہوئے اور جن کے قلب میں اتنی صفائی ہوگئی تھی کہ ان کو لوگوں نے غلطی سے خدا یا خدا کے بیٹے یا خدا کے شریک سمجھ لیا.گویا انسانوں نے اپنے میں اور ان برگزیدہ انسانوں میں اتنا فرق سمجھ لیا کہ گویا ہم عابد ہیں اور وہ معبود.حالانکہ وہ ان جیسے ہی ہوتے تھے.ایسی ہی ان کی طاقتیں بھی ہوتی تھیں جیسی کہ ان کو معبود ماننے والوں میں ہوتی تھیں.مگر جب انھوں نے اپنی طاقتوں سے عمدگی کے ساتھ کام لیا تو دوسرے جنھوں نے ان طاقتوں کو بیکا ر چھوڑے رکھا ان کو خدا یا خدا کے اوتار اور خدا کے بیٹے سمجھنے لگ گئے.اس کے مقابلہ میں ایک دوسری مخلوق بھی ہے.وہ اپنے مقام سے اتنی گری اتنی گری کہ اس کو انسان کہنا.اس کی طرف منسوب ہونا.اس سے دوستی رکھنا.اس کے نام رکھنا بھی کوئی پسند نہیں کرتا.کیوں؟ اس لئے کہ وہ اتنی نیچے گری کہ جس طرح دور کی چیز بہت چھوٹی اور حقیر معلوم ہوتی ہے اسی طرح وہ چونکہ انسانیت سے گر کر بہت نیچے اور دُور ہو گئے.اس لئے انسانوں کی نظروں میں حقیر دکھائی دینے لگے.جو اوپر چڑھے وہ تو ان سے بلند ہوئے کہ ان کو انہوں نے اپنے میں سے خارج سمجھ کر خدا اور خدا کے اوتار بنالیا.لیکن جو نیچے گرے ان کی ذلت اور ادنی ترین حالت کی وجہ سے لوگوں نے ان کو انسان بھی قرار نہ دیا.اور واقعی وہ انسان کہلانے کے مستحق ہی نہ تھے.خدا تعالیٰ نے بھی ان کو انسان نہیں کہا.بلکہ بندر اور سؤر قرار دیا ہے گویا خدا تعالیٰ نے اس بات کی تصدیق فرما دی ہے کہ وہ انسان جو گر نے والوں کو ان کی دوری اور بعد کی وجہ سے اپنے میں شامل کرنا پسند نہیں کرتے.وہ ٹھیک کرتے ہیں.واقعی ایسے لوگ ان میں سے نہیں بلکہ بندر اور سور ہیں.تو یہ مدارج ہیں.بعض اونچے ہیں اور بعض نیچے اور بعض درمیانی.ان کے حصول کے لئے خدا تعالیٰ نے انسان میں طاقتیں بھی رکھ دی ہیں بعض طاقتیں انسان کو اوپر لے جانے والی ہیں اور بعض نیچے.لیکن نیچے لے جانیوالی طاقتیں کوئی علیحدہ نہیں ہوتیں.بلکہ وہ جو اوپر کھینچنے والی ہوتی ہیں انہیں کے عدم کا نام نیچے لے جانے والی طاقتیں ہے.جس طرح اگر انجن سے سٹیم نکال لی جائے تو وہ ایک ڈھلوان جگہ سے خود بخود نیچے آجاتا ہے.اس کے نیچے آنے کا باعث کوئی اور طاقت نہیں ہوتی بلکہ سٹیم کا نہ ہونا ہی اس کے نیچے آنے کا باعث ہوتا ہے

Page 268

خطبات محمود جلد (5) ۲۵۸ اسی طرح خدا تعالیٰ نے جو طاقتیں انسان کے اندر رکھی ہیں وہ سٹیم کی طرح اسے اوپر لے جانے والی ہیں.ہاں جب کوئی ان سے کام نہیں لیتا تو وہ نیچے گرنا شروع ہو جاتا ہے.جس قدر بڑی طاقتیں ہیں وہ اچھی اور اعلیٰ کے نہ ہونے سے بنتی ہیں.مثلاً حقارت کیا ہے.محبت کے نہ ہونے کا نام ہے.کسی سے محبت گھٹتے گھٹتے ایک ایسے درجہ پر پہنچ جاتی ہے کہ اس کا نام حقارت ہو جاتا ہے.دیکھو جس طرح سردی نام ہے گرمی کے نہ ہونے کا.اسی طرح تمام بد اخلاقیاں اور برائیاں اخلاق اور بھلائیوں کے نہ ہونے کا نام ہے.یہ کوئی علیحدہ نہیں.بعض نادان اعتراض کیا کرتے ہیں کہ کیا خدا نے ہی بدی اور برائی کو پیدا کیا ہے.اگر خُدا نے ہی کیا ہے تو بہت بُرا کیا ہے.وہ نادان نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ نے کوئی بدی پیدا نہیں کی.بلکہ اس نے نیکی پیدا کی ہے.جو بد بخت کسی نیکی کو نکال کر پھینک دیتے ہیں.ان میں اس کی بجائے بدی آجاتی ہے تو بدی نیکی کے عدم کا نام ہے.اخلاق کے اثر کا یہاں تک تجربہ کیا گیا ہے کہ ایسی لکڑی کے پنگھوڑے بنائے گئے ہیں جو ذرا سے اثر سے بھی جھک جاتے ہیں.اس پر لیٹ کر جب محبت اور خوشی کے خیال کئے گئے ہیں تو تختہ اونچا ہوا ہے اور جب نفرت اور حقارت کے خیال کئے گئے ہیں تو نیچے دبتا گیا ہے تو اونچالے جانے والی طاقت جب نکل جائے تو پھر نیچے لے جانے والی طاقت خود بخود پیدا ہو جاتی ہے.انسان کے ارد گرد دو قسم کے سامان ہیں.ایک تو ایسے کہ جو انسان کو اعلیٰ اخلاق اور عادات سے دُور کرتے جاتے ہیں.اور دوسرے ایسے کہ ان کے ذریعہ محبت.اخلاق.وفاداری.نیک سلوک.احسان اور مروت کرنے کی صفات پیدا ہوتی ہیں اور یہ بڑھتی رہتی ہیں اور انسان کو اوپر ہی اوپر لے جاتی اور بلند کر دیتی ہیں.کہ دیکھنے والے حیران ہو جاتے ہیں.لیکن بعض ایسے کام ہیں جو ان صفات سے جدا کر دیتے ہیں.اور اس سے انسان گرتا جاتا ہے.لیکن جس طرح انجن کے محفوظ رکھنے اور عمدگی سے چلانے کے لئے گارڈ اور ڈرائیور کی ضرورت ہوتی ہے.اسی طرح ہر ایک انسان کو شرور اور وساوس سے بچانے کے لئے ملائکہ مقرر..ہوتے ہیں وہ اس کو نیکی کے کام کرنے میں مدد دیتے رہتے ہیں لیکن جب وہ ملائکہ الگ ہو جائیں تو جس طرح انجن سٹیم کے نکال لینے سے خود بخود ڈھلوان سے نیچے آنا شروع ہو جاتا ہے.اسی طرح کچھ بدروحیں ہوتی ہیں وہ انسان کو نیچے کھینچنا شروع کر دیتی ہیں.جو انسان اپنی غفلت اور کوتاہی سے ملائکہ سے قطع تعلق پیدا کر لیتا ہے.تو پھر اس کا خود بخود بدروحوں سے تعلق جڑ جاتا ہے.ان سے بچنے

Page 269

خطبات محمود جلد (5) ۲۵۹ کے لئے خدا تعالیٰ نے اس سورۃ میں جو میں نے ابھی پڑھی ہے.علاج بتایا ہے.فرمایا کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر محبت کا سلوک کرتے ہیں لیکن چونکہ ان کا تعلق ملائکہ سے نہیں ہوتا.اس لئے بجائے اس کے کہ کسی کو اوپر لے جانے میں مدد دیں.اور نیچے گرا دیتے ہیں ان کو انسان دوست سمجھتا ہے لیکن دراصل وہ اس کے دشمن ہوتے ہیں.فرمایا ان سے بچنے کی ہم تمھیں ایک ترکیب بتاتے ہیں اور وہ یہ کہ قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ.خدا سے ہمیشہ ان سے محفوظ رہنے کی دعا مانگو.اس کو کہو کہ اے خدا! تو رب ہے.رب کے معنے ہیں پیدا کرنے والا اور پیدا کرنے کے بعد اس کی بار یک در بار یک ضروریات کو پورا کر کے کمال تک پہنچانے والا تو فرمایا تم ایسے خدا سے مدد مانگو جورب ہے اور اسے کہو کہ ہمیں اس سے بڑھ کر اور کیا ضرورت ہوگی کہ ہمیں ایسی خواہشات اور ایسے لوگوں سے تعلق نہ ہو جو ہمیں نیچے ہی نیچے لے جانے والے ہوں.پس ہم اپنے آپ کو تیرے ہی سپر د کرتے ہیں کہ تو ہمیں اوپر لے جاتو ربوبیت کا واسطہ دے کر دعا ہوئی.اس سے بڑھ کر مالکیت کا درجہ ہے.فرمایا پھر اس خدا کو پکارو جو ملك الناس ہے.لوگوں کا بادشاہ ہے.بادشاہ بھی یہ پسند نہیں کرتا.کہ کوئی باغی اس کی رعایا کو تکلیف پہنچائے.اس لئے فرمایا.خدا کو ملک کے نام سے اپنی مدد کے لئے پکارو.کہ اے خدا ہم تیری رعایا ہیں.کیا اگر ہمیں کوئی دکھ دے.کوئی تکلیف پہنچائے تو تیری شان بادشاہت کو غیرت نہیں آئے گی.ضرور آئے گی.پس ہم کو بچا.دیکھود نیاوی بادشاہوں کی رعایا کو اگر کوئی بہکائے تو انہیں غیرت آتی ہے اور وہ اسے ہلاک اور تباہ کر دیتے ہیں.اسی طرح اگر کوئی خدا تعالیٰ کو اپنا آپ سپر د کر دے.تو کیا وہ اس کے بہکانے والوں کو سزا نہیں دیگا ضرور دے گا.پس فرمایا کہ تم اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دو اور کہو کہ الہی ! تو ہی ہمارا بادشاہ ہے اور ہم تیری رعایا.ہمیں ان باغیوں اور سرکشوں سے نجات دے جو تیرے جادہ اطاعت سے ہمیں منحرف کرنا چاہتے ہیں.مالکیت سے بڑھ کر الوہیت کا تعلق ہے.ہر ایک بادشاہ اللہ نہیں ہوسکتا.ایک ہی بادشاہ ایسا ہے جو اللہ ہے.اور وہ خدا تعالیٰ ہے فرمایا.الی الناس.پھر الوہیت کی صفت کو پکارو.اور کہو خدا یا.ہم تیرے بندے ہیں اور تو ہمارا معبود.جب کوئی بادشاہ یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کی رعایا کوکوئی ورغلائے تو پھر تو جو معبود ہے کس طرح پسند کر سکتا ہے کہ تیرے بندوں کو کوئی ورغلائے.پس ہم تیرے ہی حضور عرض کرتے ہیں

Page 270

خطبات محمود جلد (5) ۲۶۰ کہ تو ہمیں فسادوں اور فتنوں سے بچا اور شریروں اور باغیوں کے وساوس سے نجات دے اور بلند سے بلند درجے حاصل کرنے کی توفیق بخش.جس طرح بلندی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ مشکلات بھی بڑھتی جاتی ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ نے اپنی صفات بھی علی الترتیب اعلی بیان فرما دی ہیں.تا کہ جہاں مشکلات بڑھتی جائیں وہاں خدا تعالیٰ کو اس کی اعلیٰ صفات کے مطابق اپنی مدد اور تائید کے لئے پکارتے جاؤ.اس زمانہ میں اس سورۃ کے پڑھنے کی بڑی ضرورت ہے.لوگوں کو آجکل دین سے بڑی نفرت ہو گئی ہے.بعض جگہ بہت چھوٹی چھوٹی اور معمولی باتوں سے ابتلاء آ جاتے ہیں.مثلاً کسی کا جنازہ نہیں پڑھا.یا کسی نے رشتہ نہیں دیا.یا فلاں کیوں سیکریٹری بنایا گیا.اور فلاں پریزیڈینٹ کیوں بنایا گیا.مجھے حیرت ہی آتی ہے کہ اس زمانہ میں ایمان کی قیمت کیوں اس قدر تھوڑی ہو گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ اس زمانہ سے اس سورۃ کا بہت تعلق ہے.چنانچہ تجربہ بتا تا ہے کہ واقعہ میں ہمارے دوستوں کو اس کی بہت ضرورت ہے تا وہ شریر لوگ جو ان کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں ان سے محفوظ رہیں.خناس وہی ہستیاں ہوتی ہیں جو نظر نہیں آتیں یعنی پوشیدہ رہتی ہیں.کبھی کسی لباس میں اور کبھی کسی لباس میں آکر وسو سے ڈالتی رہتی ہیں اور انسان سمجھتا ہے کہ یہ میری خیر خواہ اور ہمدرد ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ انسان رات کو مؤمن سوئے گا اور صبح کو کافر اُٹھیگا اور اسے پتہ بھی نہیں ہو گا کہ کس طرح اس کا ایمان چلا گیا.وہ یہی زمانہ ہے اس میں لالچ.حسد بغض.ناجائز رعب.خوف اتنا ترقی کر گیا ہے کہ ایمان کی کچھ بھی قیمت نہیں رہی.اور وہ اس طرح بیچ دیا جاتا ہے کہ گویا بہت ہی حقیر چیز ہے.جس قدر جلدی اپنے پاس سے دور ہو.اتنا ہی اچھا ہے.اپنے گندوں اور میلوں کو لوگ اتنا جلدی نہیں پھینکتے جتنا ایمان کو پھینکتے ہیں.اگر ان کو کہا جائے کہ رسم و رواج کے گندوں کو چھوڑ دو تو لڑنے پر تیار ہو جاتے ہیں کہ اس طرح ہماری ناک کٹ جاتی ہے مگر ایمان کو ترک کرنے کے لئے اگر کوئی کہے تو بڑی خوشی سے تیار ہو جاتے ہیں تو یہ زمانہ اس سورۃ کے پڑھنے کا بہت مستحق ہے.تا کہ خدا تعالیٰ کی ربوبیت مالکیت اور الوہیت کی صفات مدد کریں اور نیچے گرنے والی ہستیوں میں سٹیم بھر جائے تاکہ وہ اوپر چڑھ سکیں یہ خدا تعالیٰ کی مدد کے سوا ہو نہیں سکتا.اس میں شک نہیں کہ

Page 271

خطبات محمود جلد (5) ۲۶۱ کامیابی کے لئے اسباب کا ہونا بھی ضروری ہے.مگر جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے توفیق نہیں ملتی.باوجود سامانوں کے اس کام کے کرنے کا جوش اور ہمت نہیں پیدا ہوسکتی.دیکھو اگر کسی کو کچھ تکلیف پہنچے اور وہ پولیس میں رپورٹ کرے تو پولیس اس کی تحقیقات کرے گی لیکن اگر پولیس کو حکام بالا کی طرف سے خاص طور پر اس کی تحقیقات کا حکم ہو تو وہ بہت کوشش اور تندہی سے اس کام کو کرے گی.اس طرح خدا تعالیٰ نے ہر کام کے لئے سامان پیدا کئے ہیں.لیکن جب خدا تعالیٰ ان کو یہ کہہ دے کہ میرے فلاں بندے کی مدد اور تائید کرو تو سمجھ لو کہ وہ کس قدر زور سے کریں گے.تو صرف سامان کوئی چیز نہیں.اکثر اوقات سامان کی موجودگی میں ناکامی ہوتی ہے.لیکن جب خدا تعالیٰ کا حکم ہو جائے تو پھر کامیابی یقینی ہوتی ہے.پس ہماری جماعت کو اس بات کی بڑی ضرورت ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی خاص خاص صفات کو یادکیا کرے اور اس سورۃ کو پڑھا کرے.تا کہ جن کے دلوں میں وساوس نہیں ان میں آئندہ بھی نہ پڑیں.اور جن میں پڑے ہوں.ان سے نکل جائیں.خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو وساوس سے بچائے اور ان کے مقام کو بلند کرے کہ دنیا کی نظروں سے اتنے ہی دور ہو جا ئیں جتنے ستارے ہیں.اور ان لوگوں میں ہمارا نام لکھا جائے جو نبیوں اور صد یقوں اور شہیدوں کی جماعت ہے.الفضل ۳ اکتوبر ۱۹۱۶ء)

Page 272

۲۶۲ 31 خطبات محمود جلد (5) اولی الامر منکم کی اطاعت فرض ہے (فرموده ۲۹ ستمبر ۱۹۱۲ء) (النساء:۵۹-۶۰) تشہد وتعو ذاور سورہ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیات پڑھ کر فرمایا :- إنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْآمَنَتِ إِلَى أَهْلِهَا ۖ وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللهَ نَعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ إِنَّ اللهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًاه کسی قوم کی تباہی اور ہلاکت عام طور پر ان اندرونی اسباب کے ذریعہ ہوتی ہے جو خود اس میں پیدا ہو جاتے ہیں.بیرونی سامانوں سے قوموں کا تباہ ہونا بہت کم پایا جاتا ہے اور شاذ و نادر ہی ایسا ہوا ہے کہ کوئی قوم واقعہ میں طاقتور اور مضبوط ہولیکن اس کے خلاف اس سے زیادہ طاقتور قوم زیادہ ساز وسامان کے ساتھ کھڑی ہو گئی ہو اور اس نے اس کی طاقت کو توڑ دیا ہو.عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ اسی وقت کوئی قوم تباہ و برباد ہوتی ہے جبکہ خود اس کے اندر کمزوریاں اور بدیاں پیدا ہوگئی ہوں.اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے اوقات میں بیرونی سامان بھی اس کی تباہی کے ممد و معاون ہو جاتے ہیں.مگر وہ کامیاب تب ہی ہوتے ہیں.جبکہ اندرونی سامان اس قوم کو گھن کی طرح کھا چکے ہوتے ہیں.اور وہ کھوکھلی اور کمزور ہو چکی ہوتی ہے اس کی حالت ایسی ہی ہوتی ہے کہ ایک شخص ایک ایسے درخت کے سہارے کھڑا ہو جس کو گھن کھا چکا ہو اور وہ گر جائے.وہ درخت گرا

Page 273

خطبات محمود جلد (5) ۲۶۳ تو اس کے سہارا لینے سے ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے گرنے کا اصل باعث اس شخص کا سہارا لینا نہیں.بلکہ وہ گھن ہے جو اسے اندر ہی اندر کھا چکا ہے اگر اسے گھن نہ کھا چکا ہوتا تو سہارا چھوڑ اگر وہ شخص زور بھی لگاتا تو بھی نہ گرتا.مگر گھن کے کھا جانے کی وجہ سے محض سہارا لینے سے ہی گر گیا.اسی طرح لوگ چھتیں ڈالتے ہیں اور گرمی کے موسم میں ان کے او پر جا بیٹھتے ہیں.کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ تمام چھت پر آدمی ہی آدمی بیٹھے ہوتے ہیں لیکن وہ ان کے بوجھ کو سہارے رہتی ہے.لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی آدمی کے بوجھ سے اس میں سوراخ ہو جاتا ہے.اس لئے کہ گھن کی وجہ سے بہت کمزور ہو چکی ہوتی ہے.اس سوراخ کے ہونے کا باعث تو اسی آدمی کا بوجھ ہوا جو چھت کے اوپر چڑھا تھا.مگر وہ چھت پہلے سے ہی اسی انتظار میں تھی کہ مجھ پر اس کا بوجھ پڑے.اور میں گروں.یہی حال قوموں کا ہوتا ہے.ہمیشہ وہی قو میں گرتی ہیں کہ جن کو اندرہی اندر گھن کھا چکا ہوتا ہے اور باہر سے حملہ کرنے والا ان کے کے گرانے کا باعث بن جاتا ہے دیکھنے والے کہتے ہیں کہ فلاں قوم پر فلاں نے حملہ کر کے اسے تباہ کر دیا.مگر وہ نہیں جانتے کہ وہ قوم پہلے سے ہی تباہ ہونے کو تیار بیٹھی تھی.اور اس بات کا ثبوت اس طرح بھی مل سکتا ہے کہ اس قوم کا کامیابی کے زمانہ سے مقابلہ کر کے دیکھنا چاہئیے کہ آیا وہ جوش وہ اتحاد اور وہ سامان جو اس وقت اسے حاصل تھے وہی تباہی کے وقت بھی اس کے پاس موجود تھے یا نہیں.اگر ویسے ہی موجود ہوں اور پھر کوئی قوم اس پر حملہ آور ہو کر اسے تباہ و برباد کر دے تو کہا جا سکے گا کہ دوسری قوم نے اپنی زیادہ طاقت اور کثرت سامان کے ذریعہ اس پر کامیابی حاصل کر لی ہے.لیکن اگر تباہ ہونے والی قوم میں وہ جوش وہ قوت اور وہ اتحاد نہ ہو جو اس میں کامیابی کے زمانہ میں تھا اور اس کے پاس وہ سامان موجود نہ ہوں جن کے ذریعہ اس نے فتح حاصل کی تھی اور پھر کوئی قوم اسے مغلوب کر لے.تو صریح طور پر معلوم ہوگا کہ بیرونی قوم کا حملہ تو اس کی تباہی اور بربادی کے لئے ایک بہانہ ہی تھا بلکہ اس نے اپنی کمزور اور ناتوان حالت سے خود یہ جرات اور دلیری دلائی تھی کہ وہ اس پر حملہ آور ہو.اگر اسے یہ معلوم ہوتا کہ وہ مضبوط اور طاقتور ہے تو کبھی حملہ ہی نہ کرتی.

Page 274

خطبات محمود جلد (5) ۲۶۴ لکھا ہے کہ حضرت علی اور حضرت معاویہ کی جنگ کے وقت ایک عیسائی سلطنت نے حضرت علی پر حملہ کرنا چاہا.اس کو حملہ کرنے کا خیال پید اہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس نے مسلمانوں کو کمزور سمجھا.ورنہ پہلے کی نسبت نہ اس کی طاقت بڑھ گئی تھی نہ اس کے پاس سامان زیادہ ہو گیا تھا اور نہ ہی مسلمانوں کی سلطنت چھوٹی رہ گئی تھی.لیکن جب اس نے دیکھا کہ مسلمانوں کو نا اتفاقی کا گھن کھا رہا ہے تو اس نے حملہ کرنے کا ارادہ کر دیا.مگر در اصل وہ گھن اسی قسم کا تھا جو چھلکے کے اوپر ہی او پر ہوتا ہے نہ کہ اندر.اس لئے جب اس نے حملہ کا ارادہ کیا.اور اپنے مشیروں سے مشورہ لیا.تو ایک نے کہا کہ آپ سمجھتے نہیں.یہ مسلمانوں کی حقیقی کمزوری کی علامت نہیں.اگر آپ ان پر حملہ آور ہوں گے تو ضرور شکست کھائیں گے.چنانچہ جب امیر معاویہ کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اسے کہلا بھیجا کہ ہم جو آپس میں لڑ رہے ہیں تو یہ شرعی مسائل کے متعلق لڑتے ہیں تم اس سے یہ نہ سمجھنا کہ ہم ایک دوسرے کے دشمن ہیں.اگر تم نے علی پر حملہ کیا تو ان سے صلح کر کے سب سے پہلے جو تمہارے ساتھ لڑنے کے لئے نکلے گا وہ میں ہوں گا.اس کے بعد وہ عیسائی بادشاہ حملہ کرنے سے رُک گیا کیونکہ اس نے دیکھ لیا کہ مسلمانوں کو گھن نہیں لگا ہوا.لیکن اس کی حملہ کرنے کی خیالی جرات اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس نے سمجھا کہ مسلمان کمزور ہو گئے ہیں اور آپس میں جنگ و جدال کر رہے ہیں.تو دشمن جب کمزوری کی علامت دیکھتا ہے تو حملہ آور ہونے پر آمادہ ہو جاتا ہے.پھر وہ حملہ کرنے سے رُکا تو اس لئے نہیں کہ اس کی وہ فوج جس کے بھروسے پر اس نے حملہ کرنے کا خیال کیا تھا.وہ بھاگ گئی تھی.یا مری کے پڑنے سے ہلاک ہو گئی تھی.یا سامانِ حرب تباہ ہو گیا تھا.بلکہ اس لئے کہ اس نے دیکھ لیا کہ مسلمانوں میں گھن نہیں ہے تو جو قوم بیرونی دشمنوں کے حملوں سے ہلاک ہوا کرتی ہے وہ وہی ہوتی ہے جس کے اندر کمزوری اور نا طاقتی کی علامات پائی جاتی ہیں.انہیں کو دیکھ کر دشمن سمجھ لیتے ہیں کہ یہ قوم آج بھی مٹی اور کل بھی مٹی.مگر اس خیال سے کہ اگر خود بخود مٹی تو اس کے کھنڈرات سے کوئی اور قوم نکل آئے گی جو اس کی مجمع بحارالانوارجلد ا ص ۲۶ زیر لفظ ارس

Page 275

خطبات محمود جلد (5) ۲۶۵ جگہ قابض ہو جائے گی.اس لئے کیوں نہ ہم ہی اس کو مٹا کر اس جگہ پر قبضہ کر لیں.جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ جنگل میں اگر لاوارث بکری مل جائے تو اسے کیا کرنا چاہیئے.آپ نے فرمایا تم اس پر قبضہ کر لو.اگر تم قبضہ نہ کرو گے تو اسے بھیڑیا کھا جائے گا.یہی حال قوموں کا ہوتا ہے.جب کوئی قوم مٹنے کے بالکل قریب ہو جاتی ہے تو کوئی دوسری قوم اُٹھ کر اس کا نام و پستہ مٹا کر اپنا نام اس کی جگہ لکھ دیتی ہے کہ اگر میں نے ایسانہ کیا تو کوئی اور قوم ہوگی جو ایسا کرلے گی.تو سب سے زیادہ خطرناک حملہ جو کسی قوم پر ہوتا ہے وہ اس کے اپنے اندرونی عیوب اور کمزوریاں ہی ہوتی ہیں.مسلمانوں کی تباہی اور ہلاکت کی یہی وجہ ہوئی ہے.یہ نہیں کہ دشمن ان سے طاقتور تھے.اس لئے انہوں نے غلبہ پالیا.بلکہ اصل باعث یہی ہے کہ مسلمانوں کی قوم کو اندر ہی اندر گھن لگ گیا تھا اور وہ ایک کھوکھلے تنے کی طرح ہو گئی تھی.ایسی حالت میں جو بہت چھوٹے اور ذلیل شمن تھے وہ بھی آنکھیں دکھانے لگ گئے.مسلمانوں میں ایسی بدیاں اور کمزوریاں پیدا ہوگئیں کہ جن کے ذریعے دشمن نے محسوس کر لیا کہ یہ آج بھی گرے اور کل بھی.اس لئے انہوں نے حملے کر کر کے ان سے ملک چھینے شروع کر دیئے.بظاہر تو مسلمانوں کے ممالک چھینے جانے کا باعث دشمنوں کے حملے تھے.لیکن دراصل اس کا سبب وہ اندرونی گھن تھا.جس نے انہیں کسی کام کا نہ رہنے دیا تھا.چنانچہ ان گھنوں میں سے ایک گھن ایفائے عہد کا معدوم اور مفقود ہو جانا تھا.اس سے غدر اور بغاوت کی طرف ان کی بڑی توجہ بڑھ گئی اور خیانت اور بدعہدی کی طرف ان کے دل مائل ہو گئے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا اعتبار اُٹھ گیا.اور ان میں کمزوری پیدا ہو گئی.کیونکہ اسطرح کرنے سے ان کا آپس میں بھی ایک دوسرے پر اعتبار نہ رہا.جب کسی نے ایک سے دھو کہ اور بدعہدی کی تو وہ دوسرے تیسرے اور چوتھے سے بھی ضرور کر سکتا ہے اور جو ایک کے ساتھ دھو کہ کرنے سے بچتا ہے وہ دوسرے تیرے اور چوتھے سے بھی بچتا ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ کے بخاری کتاب الادب باب ما يجوز من الغضب والشدة -

Page 276

خطبات محمود جلد (5) ۲۶۶ حيوة.کہ قاتل کے قتل کرنے میں تمہاری زندگی ہے.حالانکہ مرنے والا تو مر گیا.اب اگر اس کے قاتل کو قتل کر دیا جائے گا تو وہ تو زندہ نہیں ہو سکتا.پھر قصاص میں حیات کس طرح ہوئی.اس طرح کہ اگر آج تم ایک شخص کے قاتل کو پکڑ کر قتل نہ کرو گے.تو کل وہ تم میں سے کسی دوسرے کو قتل کر دے گا.اس لئے فرمایا کہ قصاص میں زندگی ہے.یعنی اگر قاتل سے قصاص نہ لیا جائے گا تو وہ تم میں سے کسی اور کی زندگی کا خاتمہ کر دے گا.اس سے خدا تعالیٰ نے یہ سمجھایا ہے کہ جو شخص ایک کام ایک جگہ کرتا ہے وہ وہی کام دوسری جگہ بھی کر لے گا.اگر کسی نے خالد کے ہاں چوری کی ہے تو وہ بکر کے ہاں بھی کر سکتا ہے.اور اگر اس نے خالد سے غدر کیا ہے تو وہ بکر کے ساتھ بھی کر سکتا ہے.پھر اگر ایک سے وفاداری کرتا ہے تو دوسرے سے بھی کر سکتا ہے.کیوں؟ اس لئے کہ اس قسم کے اخلاقی جرم متعدی ہوتے ہیں اور پھیل جاتے ہیں.متعدی سے ایک تو یہ مراد ہوتی ہے کہ کوئی برائی ایک انسان سے دوسرے انسان میں سرایت کر جائے لیکن یہاں متعدی سے میری مراد یہ ہے کہ جس انسان کے ایک حصہ میں اس قسم کی بیماری ہوتی ہے اس کے دوسرے حصہ میں بھی پہنچ جاتی ہے.مثلا کوئی کہے کہ اپنے ہموطن لوگوں کے سوا دوسروں سے نفرت کرنی چاہئیے.اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ آہستہ آہستہ اپنے ہموطنوں سے بھی نفرت کرنے لگ جائے گا.اور اس طرح وہ نفرت جو اس کے دل کے تھوڑے سے حصہ میں دوسرے لوگوں کے متعلق تھی وہ زیادہ پھیل جائے گی اس قسم کا انسان بہت خطرناک ہوتا ہے اس سے جہاں تک ہو سکے بچنا چاہیئے.اور یہ نہیں سمجھنا چاہئیے کہ اس نے فلاں کو نقصان پہنچایا ہے.مجھے تو نہیں پہنچایا.کیونکہ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ ایک مکان کو آگ لگ رہی ہو اور اسکے پاس کے مکان والا کہے کہ میرے مکان کو تو آگ نہیں لگی ہوئی.کہ میں اس کے بجھانے کی کوشش کروں.ایسا کہنے والا انسان نادان اور سخت نادان ہوگا کیونکہ بہت جلدی وہ آگ اس کے مکان تک پہنچ کر اسے بھی جلا کر خاک سیاہ کر دیگی اسی طرح اگر کوئی شخص ایک سے غداری کرتا ہے تو دوسرے کو بھی سمجھ لینا چاہئیے کہ اگر اسے موقعہ ملا تو مجھ سے بھی ضرور کرے گا.بنی اسرائیل کو دیکھو.پہلے اس نے حکومت وقت سے غدر کیا.اور بادشاہوں کے

Page 277

خطبات محمود جلد (5) ۲۶۷ مقابلہ پر کھڑی ہوئی.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خدا کے مقابلہ پر بھی آمادہ ہوگئی.یہ مرض اس وقت مسلمانوں میں بھی بہت پایا جاتا ہے.اور یہی ان کی تباہی اور ہلاکت کا موجب ہورہا ہے.وہ اپنے پاس سے مسائل گھڑ گھڑ کر گناہوں کو جائز کر لیتے ہیں کبھی یہ کہتے ہیں کہ فلاں موقعہ پر جھوٹ بول لینا جائز ہو جاتا ہے.فلاں موقعہ پر بغاوت کرنا گناہ نہیں ہوتا.فلاں موقعہ پر بدعہدی جائز ہو جاتی ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ان میں جھوٹ.فریب.دغا اور غدر کی کوئی حد نہیں رہی.اور وہ اپنے خیال میں ایسی باتوں کو جائز سمجھتے ہیں.حالانکہ بدی کسی طرح بھی جائز نہیں ہوسکتی ہے جھوٹ بہر حال جھوٹ ہی ہے.خواہ کسی وقت بولا جائے.اسی طرح غدر بہر حال غدر ہی ہے خواہ کسی موقعہ پر کیا جائے.خیانت ہر وقت خیانت ہی ہے خواہ کوئی کرے اس میں کچھ فرق نہیں آ سکتا.لیکن اب جا کر مسلمانوں سے پوچھو.یہی کہیں گے کہ ہندوؤں اور عیسائیوں سے دغا اور فریب کرنا جائز ہے.حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ امرتسر میں اہلحدیث میں سے ایک شخص تھا اس کو میں نے ایک چوٹی دی کہ دو آنے کی فلاں چیز لے آؤ اور دو آنے واپس لے آنا.جب وہ واپس آیا.تو دو آنے کی وہ چیز بھی لے آیا اور چھ آنے بھی لا دیئے.میں نے کہا.یہ کیا چھ آنے کس طرح لے آئے ؟ اس نے کہا.میں نے ایک ہندو سے یہ چیز خریدی ہے.اور اسی سے یہ پیسے بھی لے آیا ہوں.آپ لے لیجئے.حضرت مولوی صاحب نے کہا.اس نے کس طرح تم کو چھ آنے دے دیئے.کہنے لگا میں اس سے خود لایا ہوں وہ کہاں دیتا تھا.اس طرح کیا کہ جب میں نے اس سے یہ چیز لے لی اور چوٹی دے دی تو اس سے ایک ایسی چیز مانگی جو اس نے اندر رکھی ہوئی تھی وہ چوٹی کو صندوقچی کے اوپر ہی رکھ کر اس کے لینے کے لئے اندر گیا.اس کے اندر جانے پر میں نے چوٹی اٹھالی.جب وہ چیز لے کر واپس آیا تو میں نے ناپسند کر دی اور نہ خریدی اس نے سمجھا کہ میں نے جو چونی لی تھی.وہ صندوقچی میں ڈال لی تھی.اس لئے اس نے دوٹی نکال کر مجھے دے دی.اور میں لے کر چلا آیا.حضرت مولوی صاحب فرماتے.میں نے اس سے کہا یہ کیا ؟ یہ تو فریب اور دھوکہ ہے.کہنے لگا.دوکاندار کا فر تھا اور کافروں سے ایسا کر لینا جائز ہے.تو اسی قسم کے خیالات نے مسلمانوں کو دوسروں سے ناجائز افعال کرنے پر آمادہ کر دیا.لیکن اب جا کر دیکھ لو.کیا ایسے مسلمان نہیں ہیں جو مسلمانوں سے ہی دغا اور فریب کرتے ہیں.پہلے انہوں نے

Page 278

خطبات محمود جلد (5) ۲۶۸ یہ سمجھا کہ کافروں سے ایسا کر لینا جائز ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپس میں بھی ایک دوسرے سے ایسا ہی کرنے لگ گئے.کیونکہ ان کی ابتداء ہی غلط اور بیہودہ تھی اور جب کوئی ایک سے فریب کرے گا تو دوسرے سے بھی کرے گا.اور پھر وہ یہ نہیں دیکھے گا کہ اس سے مجھے کوئی تعلق اور واسطہ ہے یا نہیں.بلکہ جہاں وہ عمدہ موقعہ پائیگا.وہیں اپنی عادت کو کام میں لے آئے گا.میں جب کشمیر گیا.تو وہاں ایک غالیچہ باف کو غالیچے بننے کے لئے کہا گیا.اور قیمت پیشگی دے دی.غالیچہ کا طول و عرض سب اس کو بتا دیا گیا.ہم آگے چلے گئے جب واپس آکر اس سے غالیچے مانگے تو اس نے لیٹے ہوئے ہمارے ہاتھ میں دیدیئے اور کہنے لگا کہ اسی طرح بند کے بند ہی لے جاؤ.کھولو نہیں لیکن اس کے بار بار اس بات پر زور دینے سے ہمیں خیال ہوا کہ کوئی بات ہی ہے جب یہ کہتا ہے کہ بند کے بند ہی لے جاؤ.اس لئے کھول کر دیکھنے چاہئیں.جب کھولے اور نا پے تو معلوم ہوا کہ ایک ایک بالشت طول میں اور ایک ایک چپہ عرض میں کم تھے.ہم نے اسے کہا.یہ تم نے کیا کیا؟ وہ کہنے لگا.جی ہم مسلمان ہوتے ہیں.میں اسے کہوں کہ اسلام میں تو ایسا کرنا نا جائز ہے.پھر تم نے مسلمان ہو کر کیوں ایسا کیا.اس کا وہ یہی جواب دیتا رہا کہ میں مسلمان ہوں.اس کہنے سے اس کا یہ مطلب تھا کہ اگر ہم مسلمان لوگ ایسا نہ کریں تو ہمارا گزارہ نہیں ہوتا.تو اب مسلمانوں میں ہر ایک سے دھوکہ فریب دغا کرنے کی عادت ہی ہو گئی.جب انہوں نے دوسروں سے غدر کرنا سیکھا تو اب اپنوں پر بھی اس کو استعمال کرنے لگ گئے.اس طرح ان کا نہ آپس میں اعتبار بھروسہ اور اطمینان رہا.اور نہ دوسروں کے نزدیک.اور ان اخلاقی جرموں کی پاداش میں ان کی حالت اس قدر ذلت اور رسوائی کو پہنچ گئی کہ اب کشمیر کی تجارت پہلے کی نسبت سینکڑوں گنا کم ہو گئی ہے.میں نے اس کی وجہ پوچھی تو یہ بتائی گئی کہ یہاں کے لوگ ناقص مال بنا کر بھیجتے تھے.جس کا آہستہ آہستہ یہ انجام ہؤا کہ لینے والوں نے مال کا لینا ترک کر دیا.اور جب مال نہ بکا.تو بنانے والوں نے بھی اس کام کو چھوڑ کر اور کام اختیار کر لئیے.اور اس طرح تجارت کو زوال آگیا.تو غدر.بے وفائی.بد عہدی کا نتیجہ بھی اچھا نہیں ہوتا.جب کوئی قوم ان بڑے کاموں میں مبتلا ہو جاتی ہے تو دوسرے ہر وقت اس کی طرف سے چوکس

Page 279

خطبات محمود جلد (5) ۲۶۹ اور ہوشیار رہتے ہیں.اور اس پر کبھی اعتبار اور بھروسہ نہیں کرتے اس لئے وہ قوم گر جاتی ہے اور دن بدن زیادہ ہی زیادہ گرتی جاتی ہے.مسلمانوں کی تجارتیں حکومتیں.عزتیں سب انہی باتوں کی وجہ سے ضائع ہو گئیں اور وہ ذلت اور رسوائی کی آخری حد کو پہنچ گئے لیکن ان کے خیال سے یہ بات ابھی تک نہیں گئی کہ کافروں سے غداری بد عہدی اور فریب وغیرہ جائز نہیں.اس زمانہ میں مسلمان بظاہر سارے کے سارے اپنے آپ کو گورنمنٹ کے بڑے وفادار اور ہمدرد ظاہر کرتے ہیں.لیکن انہیں اندر سے دیکھو تو چپکے چپکے یہ پھیلا رہے ہیں کہ مسلمانوں کو تو اولی الامر منکم کی اطاعت کا حکم ہے نہ کہ دوسرے جو آکر حاکم بن جائیں ان کی اطاعت کا بھی.یہاں میرے پاس ایک معزز غیر احمدی آیا.بڑی ثقہ صورت بنا کر کہنے لگا.مجھے آپ سے چند مسائل دریافت کرنے ہیں.میں نے کہا کیجئے.اس نے قرآن کریم سے چند ایک جہاد کے متعلق آیتیں پڑھیں.اور کہنے لگا ان میں تو جہاد کا حکم ہے.اب کیا ہم مسلمانوں پر نفاق کا فتویٰ تو نہیں عائد ہورہا ئیں نے سمجھا کہ یہ میرا عند یہ معلوم کرنا چاہتا ہے.میں نے اسے خوب کھول کھول کر بتایا.ایسے لوگ چونکہ ایمانی قوت نہیں رکھتے اس لئے بات اس رنگ میں کرتے ہیں اگر مشکل پیش آ جائے تو پہلو بدل سکیں.اسی طرح اس نے کیا.اگر وہ یہ سوال کرتا.کہ ان آیتوں میں جہاد کا حکم ہے پھر مسلمان جہاد کیوں نہیں کرتے انہیں جہاد کرنا چاہئیے تو پہلو بچانے کا اسے کوئی راستہ نہ تھا.لیکن اس نے اس سوال کو اس طریق سے کیا کہ یہ جو جہاد کے متعلق آیات ہیں.ان کے کیا معنی ہیں اور اگر ان کے یہ معنے ہیں تو کیا ان کے خلاف کرنے والوں پر نفاق کا فتویٰ تو نہیں لگتا.میں نے اسے ان آیتوں کے معنے سمجھائے.سنگر کہنے لگا.ہاں آپ کے کئے ہوئے معنی مجھے بہت پسند آئے ہیں پہلے میں کچھ اور معنے سمجھے ہوئے تھا.تو عام مسلمانوں کا مذہب اور عقیدہ یہی ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کو مسلمان حکمران کی اطاعت کا ہی حکم دیا ہے نہ کہ غیر مسلم سلطنت کا بھی.مگر ان سے پوچھو کہ مسلمانوں نے مسلمان حکمرانوں کی کہاں اطاعت اور فرمانبرداری کی ہے.تم پر چونکہ مسلمان حکمران نہیں اس لئے تم کہتے ہو کہ مسلمان حکمران کی اطاعت کرنی چاہئیے نہ کہ کسی اور کی لیکن یہ تو بتلاؤ کہ ترک کمبخت کیا کر رہے ہیں ان کے چھوٹے سے لے کر بڑے تک اور ادنی سے لے کر اعلیٰ تک تمام افسر ایسے ہی ہیں کہ جنہوں نے قوم اور ملک

Page 280

خطبات محمود جلد (5) ۲۷۰ کو تباہ و برباد کر دیا ہے.وہ قوم قوم پکارتے ہیں لیکن جس قدر ان کے ہاتھوں قوم کی مٹی پلید ہورہی ہے اس قدر کسی اور نے بھی نہیں کی.بات یہ ہے کہ جب تک انسان پر کوئی بات آنہیں پڑتی.اس وقت تک جو اس کا جی چاہے دعویٰ کر لے.لیکن جب آپڑتی ہے تو سب دعووں کی حقیقت کھل جاتی ہے.اس وقت مسلمانوں کی عملی زندگی بتلا رہی ہے کہ ان کے اخلاق بگڑ چکے اور جھوٹ.دغا.فریب اور بدعہدی کے جراثیم ان میں سرایت کر چکے ہیں.وہ غلط کہتے ہیں کہ ہم دوسروں کی اطاعت نہیں کرتے اگر مسلمان حکمران ہوں تو ان کی کریں.یہ کسی کی بھی اطاعت نہیں کریں گے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم.حضرت ابوبکر.حضرت عمر.حضرت عثمان ".حضرت علی.کی بھی حکومت ہوتی اور یہی آجکل کے مسلمان ہوتے تو ان سے بھی بغاوت اور بدعہدی ہی کرتے.خواہ کوئی حکمران ہوتا یہ کسی کی بھی اطاعت اور فرمانبرداری نہ کرتے.کیوں؟ اس لئے کہ ان میں امانت.دیانت.وفاداری اور اطاعت کا مادہ ہی نہیں رہا.اگر ان میں یہ مادہ ہوتا اور یہ بچے دل سے مسلمان بادشاہوں کے وفادار اور اطاعت شعار ہوتے تو ترکوں میں ایک سے ایک بڑھ کر غداری کرنے والے اور اپنے ملک اور قوم کو تباہ و برباد کرنے والے دکھائی نہ دیتے.بلغاریہ سے جب ترکوں کی لڑائی ہوئی تو ترکوں کے بڑے بڑے افسروں نے ترکوں کو بجائے گولہ بارود پہنچانے کے لکڑی کے بنے ہوئے کارتوس پہنچائے.پھر دشمن حملہ آور ہو رہا ہے.سپاہ لڑ رہی ہے اور کئی دنوں سے لڑ رہی ہے لیکن ذمہ دار افسر اُن کے لئے کھانا نہیں بھیجتے.سپاہیوں کی بھوک سے یہ حالت ہو رہی ہے کہ بندوقیں ہاتھوں سے گر گر جاتی ہیں.بھوک کے مارے ان سے سیدھا کھڑا نہیں ہوا جاتا.لیکن اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی اور نہایت بیدردی سے دشمن کے ہاتھ سے بھوکی اور پیاسی سپاہ کو ہلاک اور تباہ کروادیا جاتا ہے.کیوں؟ اس لئے کہ ان میں غداری اور بے وفائی دخل پا چکی تھی.خیانت اور بددیانتی انکی عادت ہو چکی تھی.اب ان مسلمانوں کو دیکھو جو عیسائی سلطنتوں کے ماتحت ہیں.ان کے وہ اخلاق مٹ چکے ہیں جو ایک مومن کی شان کے شایاں ہیں.ان میں طرح طرح کی خرابیاں اور کمزوریاں پیدا ہو چکی ہیں.پس اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم پر چونکہ ایک غیر قوم حکمران ہے اس لئے ہم اس کی اطاعت نہیں کرتے.تو یہ ان کا محض بہانہ ہے اگر ان کو کسی ایسے مسلمان بادشاہ کے ماتحت بھی کر دیا جائے جو بڑا ہی نیک اور عادل

Page 281

خطبات محمود جلد (5) ۲۷۱ ہو تو بھی وہ اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کو بالائے طاق رکھنے کے لئے کوئی نہ کوئی عذر گھڑ ہی لیں گے.ان کے لئے کفر کا فتویٰ لگانا کوئی مشکل بات نہیں بلکہ بہت معمولی ہے.بادشاہ سے غداری کرنے کے لئے کئی بہانے بنا سکتے تھے.اگر اس نے آمین اونچی کہی یا ناف کے نیچے ہاتھ باندھے تو بڑی آسانی سے اس پر یہ فتویٰ لگ جائے گا کہ یہ منکم میں رہا ہی نہیں.ہندوستان میں ایک مولوی صاحب ہیں وہ اس طرح فتویٰ دیا کرتے ہیں کہ فلاں نے فلاں بات ایسی کی ہے جو حدیث کے خلاف ہے اور جب حدیث کے خلاف ہے تو قرآن کے خلاف ہوئی اور جب قرآن کے خلاف ہوئی تو خدا تعالیٰ کے خلاف ہوئی اس لئے یہ شخص کا فر ہوا.اور جب کا فر ہوا تو اس کی بیوی بیوی نہ رہی مومن اور کافر کا نکاح نہیں رہ سکتا.اس لئے نکاح فسخ ہو گیا.اور جب نکاح فسخ ہو گیا.تو جو اس کی اولاد ہوئی.وہ ولد الزنا ہوئی.ایسے مولویوں کے ہوتے ہوئے کوئی بھی بادشاہ ہو اس پر کفر کا فتویٰ لگانا کونسا مشکل ہے اور جب اس پر کفر کا فتویٰ لگ گیا.تو وہ منکم میں سے ہی نہ رہا.اور جب مِنكُم میں سے نہ رہا تو اس کی اطاعت بھی جائز نہ رہی.در اصل یہ ایک گند ہے اور غداری کا اصل باعث یہ ہے کہ مسلمانوں میں ایمان نہیں رہا.ایسے ہی یہ لوگ فتوی دیتے ہیں کہ عیسائی ہم میں سے نہیں ہیں اس لئے ان کی اطاعت جائز نہیں ہے.کیا وہ نہیں دیکھتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار سے معاہدے کئے اور بڑی بڑی تکلیفیں برداشت کرنے کے باوجودان کو پورا کیا.اگر کفار سے عہد کر کے پورا کرنا جائز نہیں.اگر کفار سے بدعہدی اور عہد شکنی کرنا روا ہے تو پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں ایفائے عہد کئے.اور کیوں نہ آپ نے ان عہدوں کو کالعدم قرار دے دیا.لیکن یہ غلط ہے اور بالکل غلط ہے کہ کفار سے بد عہدی کرنا جائز ہے.اسے جائز قرار دینے والوں کی طرف سے سب سے بڑی دلیل جو پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اس آیت میں جو میں نے پڑھی ہے لفظ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ آیا ہے.پھر مِنكُمْ کے سوا اور کسی کی اطاعت کس طرح جائز ہو سکتی ہے.ہم کہتے ہیں صرف یہی آیت اس بات کے لئے بطور دلیل کے پیش نہیں کی جاتی کہ مسلمانوں کو کسی غیر قوم کی فرمانبرداری کرنی چاہئیے بلکہ اور بھی دلائل ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ

Page 282

خطبات محمود جلد (5) ۲۷۲ فرماتا ہے.قَاتِلُوا في سبيل اللهِ الَّذِينَ يقاتِلُونَكُمْ (البقرۃ: ۱۹۱) کہ اللہ کی راہ میں تمہارا جھگڑا انہیں لوگوں سے ہونا چاہیئے جو تم سے لڑتے ہوں اور وہ جو تمہارے امن کا باعث ہوں تمھیں کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچا ئیں بلکہ سکھ کا موجب ہوں.تمہارے مال و اموال کی حفاظت کریں.ان سے کسی طرح جنگ نہیں کرنا چاہئیے تو قتال کا حکم انہیں سے ہے جو ہم سے لڑیں اور جولڑائی نہیں کرتے بلکہ آرام و آسائش کا باعث بنتے ہیں اور ہماری حفاظت کرتے ہیں.ان سے قتال جائز نہیں.دیکھو طاعون پڑتی ہے تو یہ گورنمنٹ اس کے دُور کرنے کی کتنی کوشش کرتی ہے یہ اور بات ہے کہ طاعون چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک عذاب ہے.اس لئے اس کے دور کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی لیکن اس میں شک نہیں کہ گورنمنٹ نے اس کے انسداد کی کم کوشش نہیں کی.کتنے ہی ڈاکٹر صرف اس کام کے لئے مقرر کئے جاتے ہیں.اسی طرح علوم اور فنون کے پھیلانے میں گورنمنٹ نے خاص کوشش کی ہے.بعض نادان کہتے ہیں کہ ایسا کرنا گورنمنٹ کا فرض تھا.ہم کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی سلطنت کے آخری زمانہ میں کیا مسلمان بادشاہوں کو ایسے فرائض معاف ہو گئے تھے.وہ رعایا سے ٹیکس وصول کرتے تھے لیکن رعایا کے لئے کیا کرتے تھے.اس میں شک نہیں.ابتدائی بادشاہ رعایا کے آرام و آسائش کا بہت خیال رکھتے تھے.لیکن بعد میں آنے والوں کی حالت کو دیکھو اور اس زمانہ سے ان کا مقابلہ کرو.اس وقت ہزاروں قسم کے علوم سکھائے جاتے ہیں.پھر علم اس قدر مٹ چکا تھا کہ اگر گورنمنٹ چاہتی تو ایک مدرسہ بھی نہ کھولتی.اور آج لوگ اسی طرح جاہل اور بے علم ہوتے جس طرح ہو چکے تھے.مسجدوں میں کنز اور قدوری بیٹھے پڑھتے ہوتے.کسی کو یہ بھی معلوم نہ ہوتا کہ امریکہ بھی کچھ ہے اور یہ کوئی جانتا ہی نہ کہ کوہ قاف کس کو کہتے ہیں اس کی کسی کو خبر ہی نہ ہوتی کہ زمین گول ہے یا چپٹی لیکن گورنمنٹ نے لاکھوں روپے خرچ کر کے جاہلوں کو عالم بنایا تعلیمی مصارف کا اندازہ لگانے کے لئے یہی دیکھ لو کہ ایک دفعہ تاجپوشی کے موقعہ پر پچاس لاکھ روپیہ اس غرض کے لئے دیا گیا.یہ درست ہے کہ ایسا کرنا گورنمنٹ کا فرض ہے لیکن اپنے فرائض کو سمجھنا اور پھر ادا کرنا بھی ہر ایک کا کام نہیں ہے.اور جو اپنے فرض پوری طرح ادا کرتا ہے وہ کوئی کم شکریہ کا مستحق نہیں ہوتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر ایک داروغہ مال کو دیانتداری کے ساتھ تقسیم کرتا ہے تو وہ بھی اتنے ہی ثواب کا مستحق ہوتا

Page 283

خطبات محمود جلد (5) ۲۷۳ ہے جتنے کا مال دینے والا.دیکھو کتنے ایسے انسان ہیں جو اپنے کام کے عوض معقول تنخواہیں لیتے ہیں مگر جب تک کچھ لے نہ لیں اپنے فرض کو ادا نہیں کرتے.بے شک گورنمنٹ کا فرض منصبی ہے کہ رعایا کے آرام کا خیال رکھے.اسے علم سے بہرہ ور کرے لیکن اگر اس میں (خدانخواستہ ) اصلاح اور نیکی نہ ہوتی تو وہ کر سکتی تھی کہ مسلمانوں کو جاہل اور بے علم ہی رہنے دیتی.اسی ہندوستان میں پرتگیزوں کا علاقہ ہے وہاں کے لوگوں کو انہوں نے تلوار کے ذریعہ عیسائی کر لیا.وہاں اب تک کئی مسجد میں موجود ہیں.لیکن کوئی انہیں کھول نہیں سکتا.اب بعض بعض جگہ کھلوائی گئی ہیں.اور وہ بھی گورنمنٹ انگریزی کے طفیل.کیا یہ گورنمنٹ اس طرح نہیں کر سکتی تھی.اس کا نتیجہ خواہ کچھ ہی ہوتا.لیکن کیا دنیا میں ایسا نہیں ہوتا.جن کی طبیعتوں میں شر اور فساد ہوتا ہے وہ ایسا ہی کیا کرتے ہیں اور نیکی اور حسن سلوک وہی کرتے ہیں.جو نیکی کو پسند کرتے اور فطرت نیک رکھتے ہیں ایسے بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اس خیال سے نیکی کرتے ہیں کہ اس کا نتیجہ اچھا ہوگا.یا برائی سے اس لئے بچتے ہیں کہ اسکا نتیجہ بڑا ہوگا.بلکہ جیسی ان کی طبیعت ہوتی ہے ویسا ہی کام کرتے ہیں.گورنمنٹ جو احسان اور نیکی کرتی ہے تو اس لئے کہ اس کی طبیعت کا رجحان ہی نیکی کی طرف ہے اگر اس کا میلان برائی کی طرف ہوتا تو یہ بھی اسی طرح کرتی.جس طرح اور باوجود اس بات کے جاننے کے کہ برائی کا نتیجہ برا ہوا کرتا ہے کرتے ہیں.گورنمنٹ کے پاس اس طرح کرنے کے لئے سب کچھ تھا.مگر اس نے نہیں کیا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھلائی اور نیکی کرنے کی طرف فطر کا مائل ہے.اگر گورنمنٹ تجربہ ہی ایسا کرتی کہ کسی گاؤں یا شہر کی طرف توپ کامنہ کر کے کہتی کہ تم سب کے سب عیسائی ہو جاؤ.ورنہ توپ سے اڑا دیئے جاؤ گے تو تمام کے تمام یہی کہتے کہ ہم تو پہلے ہی عیسائی ہونے کے لئے تیار بیٹھے تھے.سو ہم عیسائی ہو جاتے ہیں مسلمانوں کے پاس ہے ہی کیا.لیکن خدا تعالیٰ نے اس گورنمنٹ کو ایسی صلاحیت بخشی ہے کہ اس کی شان ایسی باتوں سے بہت بلند ہے.ہم جو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں تو دلیل میں یہی آیت پیش نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ خواہ کوئی قوم اور کسی مذہب کے لوگ حکمران ہوں ان سے غداری کرنا جائز نہیں.آجکل سورہ تو بہ جو میرے درس میں ہے اس میں اللہ تعالیٰ مومنوں کو فرماتا ہے کہ جن لوگوں سے تم نے عہد کیا ہے.

Page 284

خطبات محمود جلد (5) ۲۷۴ اس عہد کو پورا کرو فر ما یا.اِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُوا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُوا إِلَيْهِمُ عَهْدَهُمْ إِلَى مُدَّتِهِمْ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (التوبه : (۴) مشرکین میں سے وہ لوگ کہ جن کے ساتھ تم نے عہد باندھا.پھر انہوں نے اس عہد کو نہ توڑا.اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی.پس تمہارا فرض ہے کہ تم ان کے عہد کو پورا کرو.ان کی مدت تک.اور یا درکھو کہ اللہ تعالیٰ متقیوں سے محبت رکھتا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عہد کے پورا کرنے والوں کو متقی قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ایسا کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے.یعنی اگر کوئی ایسا نہ کرے تو خدا اس سے محبت نہیں کرے گا.اور خدا تعالیٰ جو مسلمانوں سے محبت کرتا اور ہر موقعہ پر ان کی تائید اور نصرت کرتا ہے تو اسی لئے کہ وہ غداری سے بچتے ہیں.اگر وہ اس سے نہ بچیں اور نقض عہد کریں تو خدا کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.غیروں سے اب لڑائی کے معنی ہی کیا ہوئے تم خود ہی غیر بن کے محل سزا ہوئے جب تم نے اپنے دل سے ہی خدا کو نکال دیا تو اس نے بھی تمھیں چھوڑ دیا.تو أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمُ والی آیت کے علاوہ اور جگہ بھی قرآن کریم میں بار بار یہی تاکید کی گئی ہے کہ ہر قسم کی غداری سے بچو.حتی کہ خدا تعالیٰ نے مؤمنین کی نشانی یہی بتائی ہے کہ وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَنتِهِمْ وَعَهْدِ هِمْ رَاعُونَ (المؤمنون : ۹ ) کہ وہ اپنی امانتوں اور عہدوں کو پورا کرنے والے ہوتے ہیں تو مومن بننے کے لئے یہ شرط ہے کہ اپنے عہدوں کو پورا کرے.کوئی کہے کہ مومن کے لئے کا فر کا عہد پورا کرنا ضروری نہیں.میں کہتا ہوں تم مومن ہی تب بنو گے جبکہ ہر ایک عہد کو پورا کرو گے.پھر اس کے کیا معنے ہوئے کہ مومن کے لئے کافر کا عہد پورا کرنا ضروری ہی نہیں بلکہ اس وقت تک کوئی مومن ہی نہیں کہلا سکتا جب تک کہ عہد کو پورانہ کرے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.یہود کہتے ہیں لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ (آل عمران : ۷۶ ) کہ یہ مسلمان اُمی ہیں ان کا ہم پر کوئی حق نہیں ہے خواہ ہم ان کے مال چھین لیں.ان سے بد عہدی کریں ان سے خیانت کریں.ان کا سب کچھ ہمارے لئے جائز اور روا ہے.لیکن آج مسلمان بھی جن کی نسبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہودی ہو جائیں گے ا.یہودیوں مشکوۃ کتاب الانذار والتحذير باب تغير الناس.

Page 285

خطبات محمود جلد (5) ۲۷۵ کی طرح کہتے ہیں کہ ہم پر بھی کسی کا حق نہیں ہے کہ اس سے عہد کو پورا کریں.جو کوئی اس گورنمنٹ کے ملک میں رہتا ہے وہ گویا اس بات کا عہد کرتا ہے کہ میں اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کروں گا.پس جب تک وہ اس کے ماتحت ہے اس کا فرض ہے کہ اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرے.اور اپنے اس عہد کو پورا کرے.اگر وہ دیکھتا ہے کہ مجھ پر ظلم ہوتا ہے.مجھ سے انصاف نہیں کیا جاتا تو اسے چاہئے کہ اس حکومت سے نکل جائے.ہم ایسے شریر اور مفسد لوگوں کو جو گورنمنٹ کے متعلق طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلاتے رہتے ہیں.کہتے ہیں کہ اگر تمہارے نزدیک گورنمنٹ ظالم ہے تو اس کے ملک کو چھوڑ دو.اور پھر جو تمہارا جی چاہے کرو لیکن چونکہ ایسے لوگ فریبی اور دغا باز ہیں اس لئے وہ ایسا نہیں کر سکتے.اور یونہی جھوٹ پھیلاتے رہتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی نصرت اور تائید ان کے ساتھ نہیں ہے اور یہ دن بدن ذلیل اور رسوا ہور ہے ہیں.غرض اس آیت کو اگر نہ بھی لیا جائے تو بھی کفار سے امانتوں اور عہدوں کی پابندی کرنے کا حکم موجود ہے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم موجود ہے آپ فرماتے ہیں کہ کافر سے بھی بدعہدی کرنے کا حکم نہیں ہے.صلح حدیبیہ میں کفار سے ایک یہ بھی شرط ہوئی تھی کہ اگر تمہارا آدمی ہم میں آملے تو ہم اُسے تمھیں واپس لوٹا دیں گے.اور اگر ہمارا آدمی تم میں جائے تو تم اسے اپنے پاس رکھ سکو گے.عہد میں یہ شرح لکھی جا چکی تھی اور ابھی دستخط نہیں ہوئے تھے کہ ایک شخص ابو جندل نام جسے لوہے کی زنجیروں سے جکڑ کر رکھا جاتا اور جو بہت کچھ دکھ اُٹھا چکا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آکر اپنی حالت زار بیان کی.اور عرض کیا.یا رسول اللہ! آپ مجھے اپنے ساتھ لے چلیں.یہ لوگ میرے مسلمان ہونے کی وجہ سے مجھے سخت تکلیف دیتے ہیں.صحابہ نے بھی کہا.یا رسول اللہ اسے ساتھ لے چلنا چاہیئے.یہ کفار کے ہاتھوں بہت دکھ اٹھا چکا ہے لیکن اس کے باپ نے آکر کہا کہ اگر آپ اسے اپنے ساتھ لے جائینگے تو یہ غداری ہوگی.صحابہ نے کہا کہ ابھی عہد نامہ پر دستخط نہیں ہوئے اس نے کہا لکھا تو جا چکا ہے دستخط نہیں ہوئے تو کیا ہو ا.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اسے واپس کر دو.ہم عہد نامہ کی رُو سے اسے اپنے پاس نہیں رکھ سکتے.صحابہ اس بات پر بہت تلملائے لیکن آپ نے اُسے واپس ہی کر دیا اور وہ

Page 286

خطبات محمود جلد (5) اُسے لے گئے لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں آئے.تو پھر وہ چھٹ کر آپ کے پاس چلا آیا.اس کے پیچھے ہی دو آدمی اس کے لینے کے لئے آگئے.انہوں نے آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ آپ نے عہد کیا ہوا ہے کہ ہمارے آدمی کو آپ واپس کر دیں گے.آپ نے کہا کہ ہاں عہد ہے اسے لے جاؤ.اس نے کہا.یا رسول اللہ ! یہ لوگ مجھے بہت دکھ دیتے اور تنگ کرتے ہیں.آپ مجھے ان کے ساتھ نہ بھیجئے.آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں غداری نہ کروں.اس لئے تم ان کے ساتھ چلے جاؤ.وہ چلا گیا اور راستے میں جا کر ایک کو قتل کر کے پھر بھاگ آیا اور آ کر کہا کہ یارسول اللہ! آپ کا ان سے جو عہد تھاوہ تو آپ نے پورا کر دیا.لیکن میرا تو ان سے عہد نہ تھا کہ میں ان کے ساتھ جاؤں گا.اس لئے میں پھر آ گیا ہوں.دوسرا شخص پھر اسکے لینے کے لئے آگیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم تمھیں اپنے پاس نہیں رکھ سکتے.آپ نے پھر اسے بھیج دیا لیکن وہ اکیلا آدمی اسے نہ لے جاسکا.اس لئے وہ رہ گیا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار یہی کہا کہ میں جو عہد کر چکا ہوں اس کے خلاف نہیں کروں گا اے.تو آپ نے باوجود کافروں سے عہد کرنے کے اور ایک مسلمان کے سخت مصیبت میں مبتلا ہونے کے اُسے پورا کیا.انگریز اگر کافر ہیں تو وہ مشرک تھے جن کی بیٹیاں لینی بھی جائز نہیں لیکن عیسائیوں کے متعلق تو خدا تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِيْنَ قَالُوا إِنَّا نطرى (المائدة : ۸۳) یہ مؤڈت میں تمہارے بہت قریب ہیں.پس جب مشرکین سے جو نہ قیامت کے قائل ہیں نہ کوئی کتاب رکھتے ہیں اور نہ کسی نبی کو مانتے ہیں ان سے کئے ہوئے عہد کو توڑ نا جائز نہیں تو اُن سے کئے ہوئے عہد کو توڑنا کیونکر جائز اور روا ہوسکتا ہے جو اہل کتاب ہیں اگر کوئی کہے کہ میں نے تو اس سے کوئی عہد نہیں کیا.میں کہتا ہوں گورنمنٹ اسے اپنی رعایا سمجھ کر بہت سے فوائد پہنچاتی ہے.اگر وہ اس کی رعایا نہ ہو تو کبھی اس سے ایسا سلوک نہ کرے اور پھر وہ اپنے آپ کو رعایا ظاہر بھی کرتا ہے اس طرح گویا وہ اس بات کا عہد کرتا ہے کہ میں گورنمنٹ کی اطاعت اور فرمانبرداری کروں گا.ہاں اگر کوئی یہ اعلان کر دے کہ میں گورنمنٹ کی رعایا نہیں ے بخاری کتاب الشروط.

Page 287

خطبات محمود جلد (5) ۲۷۷ تو پھر اور بات ہے.لیکن جو اپنے آپ کو رعایا ظاہر کرتے ہوئے اس عہد کو تو ڑ تا ہے وہ غداری کرتا ہے.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت مسلمان ایک عیسائی حکومت لے کے ماتحت جا کر رہے ہیں.اگر کافر کے ماتحت رہنا جائز نہ ہوتا اور اس کی اطاعت فرض نہ ہوتی تو مسلمان وہاں کیوں رہتے.پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ غیر مذہب حکومت کی اطاعت کرنا جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہے.اب میں اس آیت کو لیتا ہوں.اس سے بھی ان مفسد لوگوں کی بات نہیں بنتی.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ.اگر یہاں أولى الْأَمْرِ مِنْكُمْ کے وہی معنے لئے جائیں جو یہ لوگ کرتے ہیں تو قرآن کریم کی دوسری آیات کے معنی کرنے میں بڑی مشکل پیش آئے گی.سورہ زمر میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب قیامت کے دن کفار دوزخ میں ڈالے جائیں گے تو دوزخ کا داروغہ انہیں کہے گا کہ آلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلُ مِنْكُمْ (زمر - ۷۲) اگر اولی الْأَمْرِ مِنْكُمْ کے یہی معنی ہیں کہ مسلمانوں میں سے ہی اُولی الامر ہونا چاہئیے نہ کہ کوئی اور تو یہاں یہ معنے کرنے پڑیں گے کہ کفار کو کہا جائے گا کہ کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی یعنی کا فر رسول نہیں بھیجے گئے تھے.اور اس طرح یہ ماننا پڑے گا کہ نعوذ باللہ حضرت موسیٰ.حضرت عیسی وغیرہ انبیاء کا فر تھے.لیکن کیا کوئی عقلمند یہ معنے کر سکتا ہے.ہرگز نہیں.اس سے پتہ لگتا ہے کہ جو کسی کی طرف بھیجا جائے اسے بھی منکم کہتے ہیں.اور یہ ضروری نہیں کہ صرف ہم مذہب ہی کو منکم کہیں.کیونکہ اگر یہ معنی کئے جائیں تو یہ بھی ماننا ہوگا کہ نبی کفار کے ہم مذہب تھے.کیونکہ کافروں کو مخاطب کر کے نبیوں کی نسبت کہا ہے کہ وہ منکم تھے.لیکن یہ معنی کوئی نہیں کرتا.پھر ادھر قرآن کریم غداری اور بیوفائی سے بڑے زور کے ساتھ روکتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ منکھ سے مراد یہ نہیں کہ ہو.مسلمان ہی اُولِى الأمرِ ہو اب اگر کوئی کہے کہ یہاں منکم سے مراد ہم قوم ہے اور چونکہ وہ نبی جن کی طرف آتے رہے ان کے ہم قوم تھے.اس لئے ان کی نسبت منکم کا لفظ استعمال کیا گیا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ بہر حال یہ تو تسلیم کرنا پڑا کہ منکم کے معنے ہم مذہب ہی نہیں لے حبشہ کی حکومت ( ناقل)

Page 288

خطبات محمود جلد (5) ۲۷۸ ہو ہوتے بلکہ اور معنی بھی ہوتے ہیں.اور پھر اس آیت میں تو ہم قوم کے معنی بھی چسپاں نہیں سکتے.کیونکہ ان معنوں کی تردید تو خود مسلمان ہی کر رہے ہیں کیونکہ شریف مکہ کے آزاد ہونے پر کہتے ہیں کہ اس نے بغاوت اور سرکشی کی ہے اگر منکم سے مراد ہم قوم لئے جائیں تو شریف پر کسی طرح بھی کوئی الزام نہیں کیونکہ وہ قریشی النسب ہیں اس لئے اُنکے لئے یہ جائز ہی نہیں تھا کہ ترکوں کے ماتحت جو ایک غیر قوم ہے رہتے انہوں نے جو کچھ کیا ہے بالکل جائز اور درست کیا ہے.پھر ان معنوں کے لحاظ سے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ مدینہ والوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنی جائز نہ تھی.کیونکہ آپ ان کے ہم قوم نہ تھے مگر یہ کوئی تسلیم نہیں کرتا.اس لئے یہ بات بھی رڈ ہو گئی کہ ہم قوم ہی اولی الامر ہو تو اس کی اطاعت کرنی چاہئیے.اگر ایسا ہو تو چاہیے کہ مغل مغل کی اطاعت کریں.راجپوت راجپوت کی.اسی طرح تمام قو میں اپنی اپنی قوم کے حاکم کی اور اگر اپنی قوم کا حاکم نہ ہو تو پھر وہ بغاوت کر دیں پھر ہر قوم میں کئی ذاتیں ہوتی ہیں.ہر ایک ذات والا کہے کہ میں تو اپنی ہی ذات کے حاکم کی اطاعت کروں گا.دوسرے کی کرنا میرا فرض نہیں اور نہ ہی جائز ہے اس طرح تو کوئی حکومت دنیا میں رہ ہی نہیں سکتی اور نہ کوئی حکمران حکومت کر سکتا ہے اس لئے منکم کے معنے ہم قوم بھی نہ ہو سکے.اب یہ سوال ہوتا ہے کہ پھر منکم کے معنے کیا ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ منکم کے معنے اس جگہ تم پر کے ہیں اور اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ان محکام کی اطاعت کرو جو تم پر حاکم ہیں.اور جس طرح رُسُلٌ مِّنكُمْ والی آیت میں منکم کا ترجمہ نہ تو ہم مذہب کیا جا سکتا ہے اور نہ ہم قوم.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے.اور آپ ساری دنیا کے ہم قوم نہیں کہلا سکتے.اسی طرح اس آیت میں بھی یہ ترجمہ جائز نہیں بلکہ اس جگہ اور ترجمہ کرنا پڑے گا جو قرآن کریم کے دوسرے احکام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہو.اور وہ یہی ترجمہ ہے کہ ان حکام کی اطاعت کرو جو تم پر حاکم ہیں.اور لغت ان معنوں کی تائید کرتی ہے.اور مین کے معنے عربی زبان میں کبھی فی اور کبھی علی کے بھی آتے ہیں.پس منکُم کے یہ معنے ہوئے کہ تم میں یا تم پر.جس کو ہم نے اُولی الامر بنا کر بھیجا.اس کی اطاعت کرو.اور اس لفظ کے بڑھانے میں یہ حکمت تھی کہ اگر صرف اولی الا مرہی ہوتا تو یہ

Page 289

خطبات محمود جلد (5) ۲۷۹ مشکل پڑتی کہ کونسے اولی الامر کی اطاعت کی جائے.کیا اگر کسی دوسرے ملک کا بادشاہ کوئی حکم دے تو اُسے بھی ماننا چاہیئے.اس مشکل کو دور کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے منکم فرما دیا کہ جو تم پر حاکم ہواس کی اطاعت کرنی تمہارا فرض ہے.یہ ایک ایسی پر امن تعلیم ہے کہ اس پر عمل کرنے سے تمام فتنے مٹ سکتے ہیں فتنہ اور فساد کا باعث یہی ہوتا ہے کہ اپنے حاکم کی نافرمانی کی جاتی ہے یا غیر حاکم کی فرمانبرداری کی جاتی ہے اس لئے فرمایا کہ اے مومنو! تم پر اللہ اور اس کے رسول کی اور اسکی جو تم پر حاکم ہو یا جو تم میں اولی الامر ہو اطاعت فرض ہے.اس میں یہ بات بھی بتادی کہ دنیا کے ہر ایک اولی الامر کی اطاعت فرض نہیں بلکہ اس کی جس کے ماتحت تم ہو اور جو تم پر حکومت کرتا ہو.ہاں اگر کسی اور کے علاقہ میں چلے جاؤ تو پھر اس کی اطاعت کرنا تمہارا فرض ہوگا.یہ ایسی امن کی تعلیم ہے کہ اگر مسلمان اس پر عمل کرتے تو بڑی عزت اور رتبہ کے مالک ہوتے لیکن انہوں نے اس کے معنی بدل کر اپنے لئے ذلت اور رسوائی خرید لی.بعض لوگ کہتے ہیں کہ فان تنازعتم فی شئی فردوه الی الله والرسول ان كنتم تؤمنون بالله واليوم الأخر اگر تمہارا کسی بات میں تنازع ہو جائے تو اُسے اللہ اور رسول کی طرف پھیرو.اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتے ہو.اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ اولی الامر مسلمان ہی ہوتا ہے.کیونکہ حکم ہے کہ اگر تمہارا آپس میں جھگڑا ہو جائے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف کو ٹا دو.اس سے پتہ لگا کہ یہاں اولی الامر سے مراد مسلمان حاکم ہیں کیونکہ اگر مسلمان حاکم ہوگا تب ہی تو وہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کو قبول کرے گا لیکن یہ اعتراض درست نہیں کیونکہ ہم ہی نہیں بلکہ پچھلے مفسرین بھی اس کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر تمہارا حاکموں سے جھگڑا ہو جائے تب ایسا کرو بلکہ یہ آپس کے جھگڑوں کے متعلق ہے کہ اگر تمہارا آپس میں جھگڑا ہو جائے تو اس کا فیصلہ اللہ اور اسکے رسول کے حکم کے ماتحت کرلو.یہ ایک الگ بات ہے.پہلے خدا تعالیٰ نے حکام سے تعلق رکھنے اور ان کی اطاعت کرنے کے متعلق فرمایا ہے پھر آپس کے تعلقات کے متعلق حکم دیا ہے.وہ لوگ جن کی اتباع کا مسلمان دعوی کرتے ہیں وہ بھی اس کے یہی معنی کرتے آئے ہیں.چنانچہ نواب صدیق حسن خاں صاحب مرحوم والی بھو پال نے بھی اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس آیت کے یہ معنے کرنے کہ اے رعایا اگر تیرا حکام سے جھگڑا ہو جائے تو پھر اس اس طرح کرو درست نہیں.اور اکثر ائمہ نے ان معنوں کو باطل قرار دیا ہے.پس اگر اسی آیت کو لیا جائے تب بھی اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ اس میں کسی خاص مذہب یا قوم کے حکام کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے بلکہ یہ تعلیم عام ہے اور جب عام ہے تو کسی شخص کا حق نہیں کہ اپنے خیال سے اسے خاص کرے اور یہ شرط لگا دے کہ مسلمان حاکم ہو تو اس کی اطاعت فرض ہے ورنہ نہیں.آیت میں مسلمان غیر مسلمان کا کوئی ذکر نہیں.پس جس مذہب یا جس قوم کا بھی حاکم ہو اس کی اطاعت اس حکم

Page 290

خطبات محمود جلد (5) ۲۸۰ کے ماتحت ہر ایک مسلمان پر فرض ہے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو توفیق دے کہ وہ لوگوں کے دلوں سے ایسے گندے خیالات نکالے کیونکہ اسلام کی ترقی کے وہی دن ہوں گے جبکہ لوگوں کے دلوں سے ایسے خیالات نکل جائیں گے.خدا تعالیٰ مسلمانوں کو فرماتا ہے شہداء علی الناس.اس وقت شہداء علی الناس احمدی جماعت ہی ہے اسلئے اس کا فرض ہے کہ لوگوں کے ایسے خیالات کی اصلاح کرے اور انہیں سمجھائے.جو قرآن کریم کی اتباع کا دعوی کرتے ہیں انہیں قرآن کریم سے سمجھائے.جو نہیں انہیں اپنے عمل اور عقل سے بتائے اور انہیں اپنی طرح گورنمنٹ کا مطیع اور فرمانبردار بنائے.خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کی توفیق دے.پھر دوسرے مدعیانِ اسلام کو بھی توفیق دے کہ وہ خدا تعالیٰ ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کو بدنام کرنے والی تعلیم سے بچیں اور سچی تعلیم پر عمل کریں.(الفضل ۱۰ اکتوبر ۱۹۱۶ء)

Page 291

۲۸۱ 32 خطبات محمود جلد (5) (فرموده ۶ اکتوبر ۱۹۱۶ء) سورہ فاتحہ اور مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کے بعد فرمایا:.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوْمِينَ لِلهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِأَيْتِنَا أُوْلَئِكَ أَصْحَبُ الْجَحِيمِ ! کسی چیز کی محبت یا کسی چیز سے نفرت بعض دفعہ انسان کو اندھا کر دیتی ہے.محبت کبھی اپنے محبوب کے عیب اور نقص چھپا دیتی ہے اور بغض کبھی مبغوض کے ہنروں کو پوشیدہ کر دیتا ہے.اور انسان اس چیز کو جو اس کی محبوب ہو بے عیب اور بے نقص خیال کرتا ہے اور وہ چیز جس سے اسے بغض ہوا سے تمام خوبیوں سے عاری اور تمام عیبوں سے پُر خیال کر لیتا ہے.اور بہت سی باتیں اس کے دشمن اور پیارے کی اس کی نظر سے ایسی گذرتی ہیں کہ دوسرے انہیں دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ یہ اسے نظر کیوں نہیں آتیں.گویا وہ آنکھیں رکھتے ہوئے اندھا، کان رکھتے ہوئے بہرہ اور دل رکھتے ہوئے نافہم اور ناسمجھ ہو جاتا ہے.اس کی زبان ہوتی ہے مگر وہ چکھ نہیں سکتا.اس کی ناک ہوتی ہے مگر وہ خوشبو اور بد بو میں تمیز نہیں کر سکتی کیونکہ محبت یا بغض کے پردے اس پر پڑے ہوتے ہیں.تم کئی آدمی ایسے دیکھو گے کہ وہ ایک چیز سے نفرت کرتے ہوں گے مثلاً کسی کھانے کی چیز سے.اگر انہیں اس کے کھانے کے لئے کہا جائے گا تو کہیں گے تو بہ تو بہ ہم تو اس کو دیکھ بھی نہیں سکتے.لیکن اگر اسی چیز کا نام اور شکل بدلا کر انہیں کھلا دو تو کچٹ کر جائیں گے اور ممکن ہے کہ کھاتے ہوئے یہ بھی کہتے جائیں کہ بہت مزیدار بہت لذیذ اور بہت عمدہ ہے.اگر درمیان میں ہی انہیں کہہ دیا جائے کہ یہ تو فلاں چیز ہے تو پہلے تو اسی بات سے انکار کریں گے کہ اجی نہیں یہ کہاں وہ چیز ہوسکتی ہے اُس کا ذائقہ ہی الگ ہوتا ہے.اور اگر یہ کہنے کی گنجائش نہ دیکھیں گے تو کہیں گے پہلے ہی کھاتے ہوئے ہماری طبیعت پر بوجھ سامحسوس ہورہا تھا.اسی طرح اگر ل المائدة : ٩ تا ١١

Page 292

خطبات محمود جلد (5) ۲۸۲ رکسی چیز کو محبوب رکھتے ہوں اور اس کی بجائے کوئی اور بتا دیا جائے اور کہا جائے کہ یہ وہی ہے تو اس کی ایسی تعریف کرنے لگ جائیں گے جیسی کہ اپنی محبوب چیز کی کرتے ہوں گے اور جب بتایا جائے کہ یہ تو وہ نہ تھی تو شرمندہ ہو جائیں گے.اس قسم کا ابھی ایک واقعہ گذرا ہے.ولایت میں ایک مشہور مصنف ہے ایک اخبار ہمیشہ اس کے خلاف لکھا کرتا تھا اور کہتا تھا اس کے مضامین کوئی اعلیٰ پایہ کے نہیں ہوتے بلکہ ادنی اور معمولی درجہ کے ہوتے ہیں.اس مصنف کے کسی دوست نے اس کا ایک مضمون لیکر ایک ایسے مشہور مصنف کے نام سے اس اخبار میں چھپنے کے لئے بھیج دیا جس کو وہ پسند کرتا تھا.اس اخبار نے اس مضمون کو نمایاں جگہ پر موٹے الفاظ میں شائع کیا اور اپنی طرف سے بیبیوں خوبیاں اس مضمون اور مضمون نگار کی گنا دیں.شائع ہونے کے بعد اسے لکھا گیا کہ یہ تو فلاں آدمی کا مضمون تھا.اس پر اس کی تعریف بند ہوگئی.اسی طرح انوری ایک مشہور فارسی کا شاعر گذرا ہے وہ لکھتا ہے کہ میں اپنے استاد کے پاس شعر بنا کر دکھانے کے لئے لے جاتا تو وہ دیکھ کر کہ دیتا کہ کچھ اچھے نہیں ہیں.استاد ہر روز اسی طرح کہتا.میں بڑی احتیاط اور کوشش سے شعر لکھتا لیکن وہ ناپسند کر دیتا.ایک دن مجھے اپنے گھر سے کچھ پرانے کاغذات ملے ان پر میں نے نہایت مدھم سی.سیاہی کے ساتھ اپنے شعر لکھے اور استاد کے پاس لے گیا کہ یہ کاغذات مجھے پرانی کتابوں میں سے ملے ہیں ان پر لکھے ہوئے شعروں کو آپ پڑھئے.انوری لکھتا ہے استاد ان شعروں کو پڑھے اور لوٹتا جائے اور کہے کہ ایسا کامل استاد میں نے کبھی نہیں دیکھا یہ شعر کسی بڑے ہی اعلیٰ اور کامل استاد کے کہے ہوئے ہیں.خیر اس کی وجہ تو اس نے اور بتائی ہے مگر ہم یہ دیکھتے ہیں بہت سی ایسی چیزیں جن کو انسان محبوب سمجھتا ہے بلا سوچے سمجھے ان کی تعریف شروع کر دیتا ہے اور بہت سی ایسی چیزیں جن کو نا پسند کرتا ہے ہلاسوچے سمجھے ان کی مذمت کرنے لگ جاتا ہے.اس وقت دلائل اور واقعات اس کی نظر سے پوشیدہ ہو جاتے ہیں.آج ہی میں نے کسی کا خط پڑھا ہے مجھے تو حیرت ہی ہوئی ہے کہ کس طرح کسی چیز کی محبت یا بغض ہوتو انسان کی عقل اور سمجھ پر پردہ پڑ جاتا ہے.الفضل میں کوئی مضمون شائع ہوا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ ہم حضرت مرزا صاحب کو نبی یا رسول مانتے اور کہتے ہیں.بلکہ یہ بھی کہہ دو کہ کامل نبی حقیقی نبی.مستقل نبی.مگر ایسا کہنے سے جو ہماری مراد ہے وہ بھی سُن لو.“ ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہم حضرت مرزا صاحب کو ہرگز ہرگز ایسا نبی نہیں مانتے.نہ وہ کوئی شریعت لائے نہ انہوں نے احکام شریعتِ سابقہ منسوخ کئے.نہ وہ ایسے ہیں کہ نبی سابق کی اُمت نہ کہلائیں.نہ وہ براہ راست بغیر افاضہ کسی نبی سابق کے نبوت پانے والے

Page 293

خطبات محمود جلد (5) ہیں.۲۸۳ اس کے متعلق وہ لکھتا ہے کہ اب تم کو ماننا پڑا ہے کہ ہم مرزا صاحب کو ایسا نبی سمجھتے ہیں اور پھر یہ بھی لکھا ہے کہ جو تعریف تم نے حضرت مرزا صاحب کی نبوت کی کی ہے.وہ وہی تعریف ہے جو غیر مبائعین کرتے ہیں (اس کے اصل الفاظ یہ ہیں.نبی کی تعریف کی ذیل میں آپ نے وہ تعریف بھی لکھ دی ہے جو متفقہ مبائعین وغیر مبائعین اصحاب کی مراد ہے) حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.اس مضمون میں کوئی ایسی بات نہیں لکھی گئی ہے جس کے متعلق کہا جا سکے کہ ہم نے اب تسلیم کی ہے اور پہلے اسے تسلیم نہ کرتے تھے کیونکہ سب سے پہلے رسالہ کی صورت میں ”القول الفصل میں یہی مضمون چھپا ہے پھر ” حقیقت النبوة کی تمہید اس مضمون پر ہے کہ ہم جو حضرت مسیح موعود کو حقیقی نبی کہتے ہیں تو اس لحاظ سے کہ حقیقتا آپ کو نبوت ملی تھی نہ اس لئے کہ آپ بلا واسطہ یا شرعی نبی تھے.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب نے جب یہ لکھا تھا کہ ”میاں صاحب فی الواقع حضرت مسیح موعود کو حقیقی نبی مانتے ہیں اس کا جواب میں نے ”القول الفصل میں لکھ دیا تھا کہ " حضرت مسیح موعود نے حقیقی نبی کے خود یہ معنی فرمائے ہیں کہ جونئی شریعت لائے.پس ان معنوں کے لحاظ سے ہم ان کو ہر گز حقیقی نبی نہیں مانتے.“ (القول الفصل ص ۱۲) اسی بات پر حقیقۃ النبوة کی تمہید ہے.پھر اس وقت تک بیبیوں مضامین الفضل میں اس پر لکھے جاچکے ہیں.مگر وہ خط لکھنے والا لکھتا ہے کہ آج تم نے اس بات کو مانا ہے اور پہلے نہیں مانتے تھے.حالانکہ ہم پہلے بھی وہی مانتے تھے جواب مانتے ہیں.پھر یہ بھی بالکل غلط ہے کہ حضرت مسیح موعود کو نبی کہنے سے جو ہماری مراد ہے وہی غیر مبائعین کی ہے.غیر مبائعین ہمارے بالکل خلاف کہتے ہیں.وہ حضرت مسیح موعود کو ہماری طرح ظلی ، بروزی، امتی اور مجازی نبی تو کہتے ہیں لیکن اس سے ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ گویا حضرت صاحب نبی نہیں ہیں.اور ہم جو یہ الفاظ کہتے ہیں تو ہمارا یہ مطلب ہوتا ہے کہ آپ نبی ہیں اور حقیقی نبی ہیں مگر کوئی شریعت نہیں لائے اور نہ بلا واسطہ نبی ہوئے ہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے آپ پابند تھے اور آنحضرت کے واسطہ سے ہی آپ نبی ہوئے.اگر غیر مبائعین کا بھی یہی مطلب ہے تو پھر وہ ہمارے مقابلہ میں کتابیں اور رسالے کیوں لکھتے ہیں.میں نے ”القول الفصل میں لکھ دیا تھا کہ د مستقل نبی کے معنی خود حضرت مسیح موعود نے یہ کئے ہیں کہ جس کو بلا واسطہ نبوت عطا ہو اور جو کسی اور نبی کی اتباع سے انعام نبوت نہ حاصل کرے.ان معنوں کے لحاظ سے ہم حضرت مسیح موعود کو ہرگز مستقل نبی نہیں مانتے.“ اس کے رد میں انہوں نے لکھا.پھر حقیقۃ النبوة میں اسی بات کو کھول کھول کر لکھا گیا تھا.اس کے خلاف بھی انہوں نے ایک کتاب لکھی.اگر ان کا اور ہمارا مفہوم ایک ہی تھا تو پھر ان کا مخالفت میں کتا ہیں

Page 294

خطبات محمود جلد (5) لکھنے کا کیا باعث تھا.۲۸۴ ہم جب حضرت مسیح موعود کو حقیقی نبی کہتے ہیں تو اس کی تشریح بھی ساتھ ہی کر دیتے ہیں کہ اگر کوئی حقیقی نبی کے یہ معنے کرے کہ وہ بناوٹی یا نقلی نہ ہو بلکہ در حقیقت خدا کی طرف سے خدا تعالیٰ کی مقرر کردہ اصطلاح کے مطابق قرآن کریم کے بتائے ہوئے معنوں کے رُو سے نبی ہو اور نبی کہلانے کا مستحق ہو.تمام کمالات مبقت اس میں اس حد تک پائے جاتے ہوں جس حد تک نبیوں میں پائے جانے ضروری ہیں تو ان معنوں کی رُو سے حضرت مسیح موعود حقیقی نبی تھے.گوان معنوں کی رُو سے کہ آپ کوئی نئی شریعت لائے حقیقی نبی نہ تھے.ہاں ہم بھی آپ کو ظلی نبی کہتے ہیں وہ بھی ظلی نبی کہتے ہیں.ہم بھی امتی نبی کہتے ہیں وہ بھی امتی نبی کہتے ہیں.ہم بھی بروزی نبی کہتے ہیں وہ بھی بروزی نبی کہتے ہیں.لیکن باوجود اس کے کہ لفظ ایک ہی ہیں پھر وہ ہمارا ر ڈ لکھتے ہیں اور ہم ان کا.اس خط لکھنے والے نے شاید یہ سمجھا ہے کہ الفاظ کی تعین میں اختلاف ہے جواب دُور ہو گیا حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ الفاظ کی تشریح میں فرق ہے.وہ کہتے ہیں کہ ظلی نبی نبی نہیں ہوتا اور ہم کہتے ہیں کہ نبی ہوتا ہے.وہ کہتے ہیں کہ نبی وہ ہوتا ہے جو بلا واسطہ نبوت پائے اور صاحب شریعت ہو.ہم کہتے ہیں وہ بھی نبی ہوتا ہے جو بالواسطہ نبوت پائے اور جو صاحب شریعت نہ ہو.وہ کہتے ہیں حضرت صاحب کا یونہی نبی نام رکھ دیا گیا ہے ورنہ حقیقت میں آپ نبی نہیں تھے کیونکہ آپ کوظلی نبی کہا گیا ہے اور کل سایہ کو کہتے ہیں اور سایہ کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی.ان میں سے بعض تو کہتے ہیں کہ سایہ پر جوتیاں مارنے سے بھی کوئی حرج نہیں ہوتا کیونکہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی.لیکن ہمارے نزدیک ظلی نبی کی یہ شان ہے کہ وہ کئی پہلے نبیوں سے بھی بڑھ کر ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ میں پہلے مسیح سے افضل ہوں اور وہ دعوی یہ ہے:.” خدا نے اس اُمت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس سے پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے.“ ( ریویو جلد نمبر ۶ ص ۲۵۷) اور پہلے آئمہ نے بھی اسی بات پر اتفاق کیا ہے کہ آنے والا مسیح بعض انبیاء سے بڑھ کر ہوگا.واقعہ میں یہی بات درست ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظلت کوئی معمولی چیز نہیں ہے.ایک ظل سایہ ہوتا ہے لیکن حضرت مسیح موعود پر یہ معنی چسپاں نہیں ہو سکتے.آج ایک صاحب حضرت مسیح موعود کی نبوت کا انکار کرتے ہیں مگر آج سے کچھ عرصہ پہلے انہوں نے خواجہ صاحب کی حلف کے جواب میں ایک مضمون لکھ کر مجھے بھیجا تھا جس میں لکھا تھا کہ خواجہ کہتا ہے کہ ظل کچھ نہیں ہوتا اور اس کی کچھ حقیقت نہیں ہوتی کیونکہ ظل سایہ کو کہتے ہیں اور سایہ بے حقیقت چیز ہوتا ہے.اگر چہ عام طور پر ظل سایہ کو کہتے ہیں مگر دراصل نور کے درمیان حائل ہونے والی روک سے جو اندھیرا پیدا ہو

Page 295

خطبات محمود جلد (5) ۲۸۵ اُسے ظل کہتے ہیں.یعنی جتنے حصہ پر نور کو وہ روک نہ پڑنے دے اُسے خلق کہتے ہیں.اگر یہی معنی خلق کے حضرت مسیح موعود پر چسپاں کئے جائیں تو اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ہتک ہوتی ہے اور حضرت مسیح موعود کی بھی کہ آپ گویا دُنیا کے لئے اندھیرا اور تاریکی ہو کر آئے تھے لیکن ظن کے یہ معنے آپ کے متعلق استعمال نہیں کئے جا سکتے.اس شخص نے یہ دلیل اس وقت لکھی تھی.اور اس میں کیا شک ہے کہ یہ ایک زبردست دلیل ہے مگر آج اس کو یہ پھول گئی ہے اور اسی طرح بھول گئی ہے جس طرح یہ بھول گیا ہے کہ احمد حضرت مسیح موعود نہیں ہیں.پہلے تو وہ صاحب یہ کہا کرتے تھے کہ جب خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو قرآن کریم میں احمد کہا ہے تو پھر میں کیوں آپ کی تعریف نہ کروں اور ہر آیت سے آپ کی تصدیق نکالتے تھے.پھر کفر و اسلام کے مسئلہ پر گول کمرہ میں مجھ سے گفتگو کرتے رہے اور کہتے کہ آپ کے منکرین کو کافر نہ کہنا آپ کے درجہ کو گھٹانا اور آپ کی بہتک کرنا ہے مگر آج وہ یہ ساری باتیں بھول گئے ہیں.توظلی نبی کی جو تعریف غیر مبائعین کرتے ہیں اس کا وہی مطلب ہے جو اس شخص نے اس وقت نکالا تھا جبکہ اسے دُوری نہیں ہوئی تھی اور وہ ایک خطر ناک مطلب ہے کیونکہ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سخت ہتک ہوتی ہے اور مانا پڑتا ہے کہ (نعوذ باللہ ) آپ کا وجود ایسا کثیف تھا کہ اس کے خدا تعالیٰ کے نور کے سامنے حائل ہونے سے اندھیرا پیدا ہو گیا اور وہ اندھیرا حضرت مسیح موعود تھے.جس قدر کوئی چیز شفاف ہوتی ہے اسی قدر اس کا ظلت کم اندھیرا پیدا کرتا ہے.مثلا شیشہ ایک شفاف چیز ہے اس کو سورج کے سامنے رکھنے سے جو ظل پیدا ہوگا وہ بہ نسبت ایک غیر شفاف چیز کے بہت کم ہوگا.توظلت کا مطلب یہ ہے کہ ایک نورانی چیز کے سامنے کوئی ایسی روک کھڑی ہو جائے جو اس کے نور کو روک لے اور جتنے حصہ سے روک لے وہ اس کا ظلت ہوگا.اگر یہی معنی ظلت کے حضرت مسیح موعود کے متعلق لئے جائیں تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ (نعوذ باللہ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے خدا تعالیٰ کے نور کے سامنے آنے سے جو اندھیرا پیدا ہو اوہ حضرت مسیح موعود تھے.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ایسا کثیف تھا کہ اس نے خدا کے نور کے سامنے آکر اندھیرا پیدا کر دیا اور جتنے حصہ پر آپ کی وجہ سے روشنی نہیں پڑ سکتی وہ مسیح موعود کا وجود ہے.لیکن اس سے بڑھ کر خان کے بدترین معنے جو حضرت مسیح موعود کے متعلق لئے جائیں اور کوئی نہیں ہو سکتے کہ باقی تمام حصہ پر نور ہی نور ہے مگر ایک حصہ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کھڑے ہو جانے کی وجہ سے اندھیرا اور تاریکی ہوگئی ہے اور وہ تاریکی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وجود ہے.کیا ظلن کے یہ معنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر چسپاں ہو سکتے ہیں.اگر کوئی چسپاں کرتا ہے تو دیکھ لے کہ اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے.لیکن جس کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور حضرت مسیح موعود کی قدر ہے وہ تو کبھی بھی خلل کے یہ معنے نہیں کرسکتا اور نہ ہی خلق سے یہ مراد لے سکتا

Page 296

خطبات محمود جلد (5) ۲۸۶ ہے بلکہ خلق سے وہی مراد لے گا جو حضرت مسیح موعود نے لی ہے کہ عکس اور عکس بھی ایسا جس میں تمام خوبیاں آگئی ہوں.ہر نبی میں کچھ خوبیاں ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں سارے انبیاء کی خوبیاں جمع تھیں.وہ خوبیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ سے حاصل کیں.ہاں آپ ظل اس لئے ہیں کہ آپ کو جو کچھ ملا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ملا بلا واسطہ کچھ نہیں ملا.تو ظن کے لفظ میں اختلاف نہیں بلکہ اس کی تشریح میں اختلاف ہے.ہم کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظلن ہو کر آپ کے تمام کمالات حاصل کر لئے تھے اور غیر مبائعین کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود وہ تاریک حصہ تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کثیف وجود کے خدا تعالیٰ کے سامنے آنے سے پیدا ہو گیا تھا.یہی اختلاف ہمارا اور غیر مبائعین کا پہلے تھا اور یہی اب ہے.اس خط کے لکھنے والے نے معلوم ہوتا ہے یہ سمجھ رکھا تھا کہ لفظوں میں اختلاف ہے.مبائعین ظلی نبی نہیں مانتے اور اب انہوں نے مان لیا ہے.حالانکہ ہم جس طرح پہلے ظلی نبی مانتے تھے اسی طرح اب بھی مانتے ہیں.اس نے محبت میں اندھا ہو کر ہماری پہلی تحریروں سے غلط نتیجہ نکالا ہے.دوسری بات وہ یہ لکھتا ہے کہ جب تم بھی کامل نبی مستقل نبی اور حقیقی نبی کی وہی تعریف کرتے ہو جو متفقہ مبائعین و غیر مبائعین اصحاب کی ہے تو بجائے اس کے کہ لوگوں کو اپنے پاس تمہاری بنائی ہوئی ڈکشنری رکھنی پڑے کہ کن معنوں میں تم نبی کہتے ہو تم کیوں حضرت صاحب کو مجد د نہیں کہتے جس کے لئے کسی ڈکشنری کی ضرورت نہیں.معلوم ہوتا ہے اس نے مجد د اور رسول میں فرق ہی نہیں سمجھا.امت محمدیہ میں مجد دوں کی پیشگوئی اس طرح ہے کہ پہلی امتوں میں ایسے لوگ ہوتے رہے ہیں جو نبی نہیں تھے مگر خدا تعالیٰ ان سے کلام کرتا تھا.اسی طرح میری اُمت میں بھی ایسے لوگ ہوں گے.اور محدث تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کو بھی کہا تھا لیکن حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کس نام سے اس کو پکارا جائے.اگر کہو محدث رکھنا چاہئے تو میں کہتا ہوں کہ تحدیث کے معنی کسی لغت کی کتاب میں اظہارِ غیب نہیں ہے.“ ( ایک غلطی کا ازالہ ص ۳) پس جب کوئی محدث نبی نہیں ہو سکتا تو مجد دکہاں نبی ہو سکتا ہے مجد دکا لفظ تو اور لوگوں پر بھی بولا جاسکتا ہے.اگر اس حدیث کو پیش نظر نہ رکھیں تو غیر مذاہب کے لوگوں کے متعلق بھی یہ کہہ سکتے ہیں کیونکہ کسی مٹی ہوئی بات کو قائم کرنے اور کسی چیز کی اصلاح کرنے والا مجد د ہوتا ہے.جو بھی اس طرح کرتا ہے اسے مجد و کہا جاسکتا ہے.لیکن کسی محدث یا مجد د کوکسی لغت میں نبی نہیں کہا گیا.پھر ہم حضرت مسیح موعود کو محدث یا مجد د کیونکر کہیں.آپ کو ایک دفعہ یہی کہا گیا تھا کہ آپ اپنے آپ کو نبی کیوں کہتے ہیں محدث کیوں نہیں کہتے

Page 297

خطبات محمود جلد (5) ۲۸۷ تو آپ نے اس کا یہ جواب دیا کہ خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والے کا کس لغت کی کتاب میں محدث نام رکھا گیا ہے.اس سے معلوم ہو گیا کہ آپ نے محدث کہلانے سے انکار کر دیا ہے.پھر اب کیا ہم اسلئے آپ کو نبی کہنا چھوڑ دیں اور محدث اور مسجد دکہا کریں کہ لوگ ہم پر اعتراض کریں گے.کیا یہ ہمارے لئے جائز ہو سکتا ہے.یہی آیت جو میں نے ابھی پڑھی ہے.اس میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یا تیکا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَومِینَ لِلہ اے مومنو تم قوام ہو جاؤ خدا کے لئے.یعنی جو کام بھی انسان خدا کے لئے کرے اس میں بزدلی نہ دکھائے.پھر فرمایا ہے شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ کہ جو بات کرو انصاف اور عدل کے ساتھ کرو یہ نہیں کہ عدل کو چھوڑ دو.پھر فرمایا وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى اور تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس بات پر نہ آمادہ کر دے کہ تم عدل ترک کر دو بلکہ عدل کرو یہ بات تقویٰ کے بہت قریب ہے.شنان قوم کے دو معنی ہیں.اول یہ کہ تمہاری کسی قوم سے دشمنی ہو اور دوسرے یہ کہ تم سے کسی قوم کی دشمنی ہو.اس لئے اس کے یہ معنی ہوئے کہ تم حق کی گواہی دینے سے اس لئے مت ڈکو کہ تم کو کسی سے دشمنی ہو یا اس لئے کہ کسی کو تم سے دشمنی ہے.اس حکم کے ہوتے ہوئے کس طرح ممکن ہے کہ غیر احمدی چونکہ ہم سے دشمنی رکھتے ہیں اس لئے ہم سچی گواہی چھپارکھیں خدا نے کہا ہے اور بار بار کہا ہے کہ مسیح موعود نبی ہے، نبی ہے، نبی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ نبی ہے.پھر پہلے نبیوں نے آپ کو نبی کہا ہے.پھر امت محمدیہ کے صلحاء کی شہادت ہے کہ آپ نبی ہیں.پھر خدا تعالیٰ نے یہاں تک آپ کو کہا ہے کہ سیقول العدولست مرسلا.تیرا دشمن کہے گا کہ تو نبی نہیں ہے.چنانچہ ان نبی نہ کہنے والے لوگوں نے جتنی دشمنی اور عداوت کا ثبوت دیا ہے اور کسی نے نہیں دیا جو لوگ احمدی ہوتے ہیں ان کو برگشتہ کرنے میں لگے رہتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اس قدر درجہ گھٹاتے ہیں کہ ایک شریف دشمن بھی ایسا نہیں کر سکتا.کوئی شریف دشمن کبھی یہ نہیں کہے گا کہ ظلت پر بجوتی مارنی جائز ہے مگر انہوں نے کہہ دیا.تو خدا تعالیٰ کی طرف سے سیقول العدولست مرسلا کہنا شہادت ہے اس بات کی کہ آپ خدا کے نبی اور رسول تھے.اور جو آپ کا دشمن ہوگا وہی آپ کو نبی نہیں مانے گا.پھر کیوں نہ ہم آپ کو نبی کہیں.غیر احمدی اگر اس حق بات کے کہنے سے چڑتے ہیں تو چڑیں ہمیں ان کی کیا پرواہ ہے.ہاں ہماری ان سے کوئی دشمنی نہیں کہ اگر وہ کہیں کہ مرزا صاحب کوئی شریعت نہیں لائے تو ہم کہیں کہ لائے ہیں.اگر وہ کہیں کہ بلاواسطہ ہی نہیں ہوئے تو ہم کہیں کہ بلاواسطہ ہوئے ہیں.اور نہ ہی ان کی ہم سے کوئی دشمنی ہے اس لئے ہم یہ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نبی اور رسول ہیں.یہ دونوں باتیں نہیں.نہ تو ہم تذکره ص ۳۹۱

Page 298

خطبات محمود جلد (5) ۲۸۸ مسیح موعود کا درجہ بڑھاتے ہیں کہ ہم دشمن کو تنگ کریں اور چڑا ئیں اور نہ ہی حضرت صاحب کے اصل درجہ کو چھپاتے ہیں کہ غیر احمدی ہمارے دشمن ہیں.حق کہنا ہر ایک مومن کا فرض ہے اور ہم بھی حق ہی کہتے ہیں خواہ جان بھی چلی جائے.ہم تو حق کہنے سے کبھی نہیں ڈرتے اگر کوئی ڈرتا ہے تو حق کو چھپائے رکھے.ہمارا یقین اور ایمان ہے کہ حضرت مسیح موعود خدا تعالیٰ کے نبی تھے ہاں ایسے نبی جو کوئی شریعت نہیں لائے تھے اور نہ بلا واسطہ نبی ہوئے تھے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل نبی ہوئے تھے اور آپ ظلی نبی تھے مگر اس لحاظ سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات آپ نے اخذ کر لئے تھے نہ اس لحاظ سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کے سامنے آنے سے کوئی ظلمت پیدا ہوگئی تھی اور آپ وہ ظلمت تھے.اسی تشریح کے ساتھ ہم آپکو نبی مانتے ہیں.باقی رہا یہ کہ اس سے لوگوں کو دھو کہ لگ سکتا ہے اور انہیں ڈکشنری پاس رکھنی پڑے گی اس لئے اس کو چھوڑ دینا چاہیئے.اگر اس لحاظ سے اس کو چھوڑ دیا جائے تو قرآن کریم کے کئی احکام ہیں جن کو چھوڑنا پڑے گا.مثلاً ملائکہ کو مشرک لوگ خدا کی بیٹیاں کہتے تھے ا.اب جو شخص یہ کہے گا کہ ہم ملائکہ کو مانتے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ مشرکین اس سے یہ سمجھیں کہ یہ بھی ہماری طرح ہی ملائکہ کو خدا کی بیٹیاں سمجھتا ہے اس لئے چاہیئے کہ وہ ملائکہ سے ہی انکار کر دے تا کہ ان کو دھوکہ نہ لگے.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں ماننا چاہیئے کیونکہ وہ لوگ رسول اس کو سمجھتے تھے کہ جس کے پاس بہت سے خزانے ہوں ،غیب جاننے والا ہو، آسمان پر چڑھنے والا ہو..چونکہ رسول کے لفظ سے ان کو اس قسم کا دھو کہ لگتا تھا اس لئے چاہئے تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو رسول نہ کہتے اور نہ ہی کوئی مسلمان آپ کو رسول کہتا.لیکن یہ بات ہی فضول ہے.کسی کو اگر اس سے دھو کہ لگتا ہے تو یہ ہمارا قصور نہیں ہے بلکہ اس کی اپنی سمجھ کا قصور ہے.ہمارے متعلق یہ کہنا کہ یہ مرزا صاحب کو نبی کہ کر پھر اس کی تشریح کرتے ہیں.اس تشریح کو کون یاد رکھے یہ بھی نادانی کی بات ہے.ہم کہتے ہیں کہ اگر تشریح کرنا کوئی بری بات ہے تو پھر خدا تعالیٰ نبی کہ کر پھر کیوں تشریح کرتا ہے.جب خدا تعالیٰ نبی کی تشریح کرتا ہے تو ہمارا فعل اس کے مطابق ہی ہے نہ کہ خلاف.خدا تعالیٰ رسول کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ علم غیب نہیں جانتا.اپنی طاقت سے کوئی نشان نہیں دکھا سکتا اور یہ نہیں کہ وہ وفات نہ پائے اور یہ بھی نہیں کہ کھانا نہ کھاتا ہو بلکہ رسول ہوتے ہوئے اس میں یہ سب باتیں پائی جاتی ہیں.اب کوئی کہے کہ خدا تعالیٰ کو رسول کا لفظ کہہ کر جو اس قدر تشریح کرنے کی ضرورت پڑی ہے اس لئے چاہیئے تھا کہ اس کو چھوڑ ہی دیتا اور کوئی ایسا لفظ کہتا جس کے متعلق اسے تشریح نہ کرنی پڑتی.مگر کوئی عظمند نہیں کہہ سکتا.اور باوجود اس کے کہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ رسول کہنے سے کفار اور مشرکین کو دھو کہ الزخرف ۲۰ بنی اسرائیل ۹۴

Page 299

خطبات محمود جلد (5) ۲۸۹ لگتا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ رسول وہ ہوتا ہے جو آسمان پر اڑ جائے.وہاں سے کوئی کتاب لے آئے وغیرہ وغیرہ.پھر بھی خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول ہی کہا.ہاں ان کے اس قسم کے غلط خیالات کی تردید کر دی اور رسول کے لئے جو باتیں ضروری تھیں وہ بیان کر دیں.پھر دیکھو جہاد کا مفہوم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ جو کافر ملے اسے قتل کر دو.اب کیا اس لفظ کو قرآن کریم سے اڑا دینا چاہیئے کہ اس کی وجہ سے کسی کو دھوکہ نہ لگے.ہرگز نہیں.پھر قرآن کریم میں ایسی آیات ہیں جن میں کفار سے لڑنے کا حکم ہے اور دوسری جگہ لڑائی کے شرائط بیان کئے گئے ہیں.اب ان لڑائی کے متعلق آیات کو نکال دینا چاہئیے کہ ان کی وجہ سے غلطی لگ سکتی ہے.اسی طرح تو کچھ بھی باقی نہیں رہ سکتا.ہر ایک آیت سے کسی نہ کسی انسان کو دھو کہ اور غلطی ضرور لگے گی.اس لئے (نعوذ باللہ ) تمام قرآن کو ہی جلا دینا چاہئیے کسی کے دھوکہ لگنے کے خوف سے اگر کوئی بات ترک کرنی چاہیئے تو پھر کچھ بھی باقی نہ بچے گا.ہاں اگر یہ ہو کہ کسی لفظ کے لغت ایک معنے کرتی ہو اور خدا تعالیٰ نے بھی اس کے معنے کر دیئے ہوں اور اس کے برخلاف کوئی نئے معنے پیدا کرتا ہو تو اس کو چھوڑ دینا چاہئیے کہ اس سے دھو کہ لگ سکتا ہے.مثلاً کوئی کہے کہ میں اپنا نام اللہ رکھ لیتا ہوں.ہم کہیں گے کہ نہ تو لغت میں آدمی کو اللہ کہا گیا ہے اور نہ خدا تعالیٰ نے کسی انسان کا اللہ نام رکھا ہے اس لئے یہ نام رکھنا چھوڑ دینا چاہیے کہ اس سے دھو کہ لگتا ہے.اسی طرح اگر کوئی کہے کہ آدمی کے معنے گفتا ہوتے ہیں اس کو بھی ہم یہی جواب دیں گے.اسی طرح اگر اس زمانہ میں جہالت اور نادانی سے لوگوں نے نبی کی یہ تعریف سمجھ رکھی ہے کہ (۱) نبی وہ ہوتا ہے جو شریعت لاتا ہے (۲) بعض احکام شریعت کو منسوخ کرتا ہے (۳) کسی نبی کا متبع نہیں ہوتا بلکہ براہ راست نبوت پاتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ نبی کی یہ تعریف نہ خدا تعالیٰ نے بیان کی ہے نہ قرآن کریم سے اس کا پتہ لگتا ہے اور نہ ہی لغت نبی کی یہ تعریف کرتی ہے.پھر ہم کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی کہنا چھوڑ دیں.اگر نبی کی تعریف خدا تعالیٰ کے نزدیک قرآن کریم کے رُو سے اور لغت میں وہی ہوتی جو لوگ سمجھے ہوئے ہیں تو ہم حضرت مسیح موعود کونبی کہنا چھوڑ دیتے کہ یہ باتیں آپ میں نہیں پائی جاتیں اس لئے لوگوں کو دھو کہ لگ سکتا ہے.لیکن جب ان کا نبی میں پایا جانانہ خدا تعالیٰ کے نزدیک نہ قرآن کریم کے نزدیک اور نہ لغت کے نزدیک ضروری ہے تو پھر ہم کیوں نہ حضرت مسیح موعود کو نبی کہیں.بلکہ ہمارے لئے تو ضروری ہے کہ بڑے زور سے آپ کو نبی کہیں کیونکہ لوگوں نے جوغلطی سے نبی کے غلط معنی سمجھ رکھے ہیں اس کی اصلاح ہو جائے نہ یہ کہ ان کے باطل خیال اور نبی کی باطل تعریف کے کرنے کی وجہ سے نبی کا درست اور جائز استعمال بھی اس لئے ترک کر دیں کہ وہ چڑتے ہیں اور انہیں دھو کہ لگتا ہے.دُنیا میں کونسی بات ہے جس سے کسی کو دھو کہ نہیں لگ سکتا.ہم دھو کہ لگنے سے احتیاط کریں گے لیکن اسی وقت تک کہ دین کا کوئی پہلو نہ جاتا ہو.لیکن جب ایک نبی کی ہتک ہوتی ہو اُس وقت ہم اس بات کا ہرگز خیال نہیں کریں گے اس وقت ہم وہی بات کہیں گے جو خدا اور اس کے نبی نے

Page 300

خطبات محمود جلد (5) ۲۹۰ بتائی ہے.اور یہ بات کونسی مشکل ہے کہ ہر ایک کو اس کے سمجھنے سے دھو کہ لگ سکتا ہے.آخر ہزاروں لاکھوں آدمیوں نے اس کو سمجھا ہے یا نہیں پھر اور کوئی کیوں نہیں سمجھ سکتا.کسی کا یہ کہنا کہ حضرت مسیح موعود نے لکھ دیا ہے کہ رسالہ فتح اسلام، توضیح مرام اور ازالہ اوہام میں جہاں جہاں میں نے نبی کا لفظ لکھا ہے اسے محدث سمجھ لو اس لئے آپ کو نبی نہیں کہنا چاہئیے یہ بات بھی غلط ہے کیونکہ یہ اس وقت آپ نے لکھا تھا جبکہ آپ اپنے آپ کو نبی نہ سمجھتے تھے اور جب سمجھا تو اس کو منسوخ کر دیا.پس جب آپ نے اس کو منسوخ کر دیا تو آب اور کس کا حق ہے کہ اس کو منسوخ نہ کرے.پھر وہی شخص لکھتا ہے کہ احمدی وہ ہوتا ہے جو حضرت صاحب کی کسی تحریر کومنسوخ نہ سمجھتا ہو.ہم کہتے ہیں حضرت مسیح موعود نے ایک وقت حضرت عیسی کو زندہ مانا ہے اس لئے اب ان کو زندہ ہی سمجھنا چاہئیے اور جو ایسا نہیں سمجھتا وہ تمہارے نزدیک احمدی ہی نہیں.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء میں متعہ کی اجازت دی لیکن بعد میں منع فرما دیا.اب اس کے خیال میں وہ شخص مسلمان ہی نہیں جو متعہ کو اب ناجائز سمجھے اسی طرح کئی اور احکام کی اجازت تھی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے کرنے سے منع نہ فرماتے تھے مگر بعد میں ممانعت ہوگئی.مثلاً ابتداء میں کئی ایسے مسلمان تھے جنہوں نے اپنی سوتیلی ماؤں سے نکاح کیا ہو اتھا بعد میں آپ نے منع فرما دیا.پھر گدھے کی حلت تھی ہے اور بعد میں کم آگیا کہ ایسانہ کرو.اور کئی اس قسم کے احکام ہیں کہ پہلے اس کے متعلق حکم دیا یا جائز سمجھا اور اس سے منع نہ کیا لیکن بعد میں منسوخ کر دیا.اس سے کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسلمان ہی نہ تھے.پھر ایک زمانہ ایسا بھی آیا ہے که ۹۹ فیصدی مسلمان قرآن کریم کی کسی نہ کسی آیت کو منسوخ سمجھتے تھے.کیا وہ سب کے سب کا فر تھے لیکن قرآن کریم کی کسی آیت کو ہم اس لئے منسوخ نہیں کہہ سکتے کہ قرآن کریم اس سے انکار کرتا ہے.لیکن جس تحریر کو حضرت مسیح موعود نے منسوخ کر دیا ہے اس کو منسوخ نہ کرنا بلکہ قائم رکھنا ایک بہت بڑا ظلم ہے.اب کوئی کہے کہ اگر اس طرح تحریریں منسوخ ہونے لگیں تو اندھیر آ جائے گا لیکن ہم کہتے ہیں اندھیر کس طرح آسکتا ہے اندھیر تو تب آئے جب کوئی اپنی عقل اور اپنی رائے سے کسی تحریر کو منسوخ قرار دے لے لیکن جب وہی تحریر منسوخ ہو جس کو لکھنے والا منسوخ کرے تو پھر کوئی حرج نہیں واقعہ ہوتا.دیکھو گورنمنٹ ایک حکم دیتی ہے اور پھر اس کو منسوخ کر دیتی ہے.کیا اس طرح اندھیر پڑ جاتا ہے.نہیں.ہاں اگر گورنمنٹ کے کسی حکم کو وکلاء منسوخ قرار دیں تو پھر ابتری پڑسکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریر کو آپ ہی منسوخ قرار دیا ہے.اب ہمارے لئے یہی ضروری ہے کہ ہم آپ کی ناسخ تحریر کو مانیں بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر ايضا

Page 301

خطبات محمود جلد (5) ۲۹۱ نہ کہ منسوخ شدہ کو.پس یہ کہہ دینا نادانی اور جہالت ہے کہ منسوخ کرنے سے تو اندھیر پڑ جائے گا یا حضرت صاحب کی ہتک ہوگی.ہم تو خدا تعالیٰ کے کلام میں بھی ناسخ و منسوخ دیکھتے ہیں.قرآن کریم بتاتا ہے کہ قبلہ کا حکم منسوخ ہوا تھا اور یہ تحویل قبلہ صاف بتا رہی ہے کہ پہلے کوئی اور حکم تھا پھر اور ہوا.چنانچہ قرآن کریم بھی کہتا ہے کہ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِى كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ ينْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ ا ہم نے قبلہ کو اس لئے بدلا ہے تا کہ جان لیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون ایڑیوں کے بل پھر جاتا ہے.اب کیا جو لوگ تحویل قبلہ مانتے ہیں وہ مسلمان نہیں ہیں.میں پھر یہ بتادینا ضروری سمجھتا ہوں کہ قرآن کریم کی کوئی آیت اس لئے منسوخ نہیں ہے کہ کوئی آیت کسی آیت کے ناسخ ہونے کے متعلق نہیں ہے.اگر قرآن کریم میں کہیں یہ آجا تا کہ فلاں آیت منسوخ ہے تو ہم اس کو بھی مان لیتے لیکن اب جبکہ قرآن کریم میں ایسی کوئی آیت نہیں آئی تو اور کوئی کسی آیت کو منسوخ نہیں کر سکتا.کیونکہ اگر ہر ایک اپنی مرضی کے مطابق منسوخ کرنے لگے تو سارا قرآن ہی منسوخ ہو جائے.کوئی کسی آیت کو منسوخ سمجھ لے اور کوئی کسی کو.اسلئے کسی کا حق نہیں ہے کہ قرآن کی کسی آیت کو منسوخ قرار دے.تو یہ بھی ایک غلط خیال ہے.اس کی وجہ سے بھی ہم سچی گواہی کو نہیں چھپا سکتے اور نہ اس لئے کہ لوگ ہمیں کیا کہیں گے.لوگ ہمارے مسیح موعود کہنے سے ہم پر کہاں خوش ہیں.تو کیا یہ کہنا بھی چھوڑ دینا چاہیئے کہ اس طرح ان کو مسیح ابن مریم کا دھوکہ لگتا ہے.پھر لوگوں کا خیال ہے کہ مہدی خونی آئے گا اس لئے حضرت صاحب کو مہدی بھی نہیں کہنا چاہئیے کیونکہ اس طرح لوگوں کا خیال خونی مہدی کی طرف چلا جاتا ہے.ہرگز نہیں.کہنے والا تو آپ کو یہی کہے گا کہ آپ مسیح موعود ہیں، آپ مہدی ہیں کیونکہ واقعہ میں یہی بات درست ہے.اس سے چاہے کسی کو دھو کہ لگے یا تکلیف ہو یہ کہنے سے کبھی نہیں رکے گا.اسی طرح ہم بھی نبی کا لفظ آپ کے متعلق بولنا اس لئے نہیں چھوڑ سکتے کہ واقعہ میں آپ نبی تھے.اگر آپ واقعہ میں نبی نہ ہوتے بلکہ یونہی آپ کو نبی کہا جاتا تو ہم آپ کو نبی کہنا چھوڑ دیتے.پھر اب تو ہم نے یہ بھی دیکھ لیا ہے کہ نبی کا لفظ نہ استعمال کرنے کی وجہ سے بعض لوگوں کو آپ کے متعلق دھو کہ لگ گیا ہے اس لئے بھی اس کا استعمال کرتے ہیں.ہاں ساتھ ہی تشریح بھی کر دیتے ہیں تا کہ لوگوں کے غلط خیال کی اصلاح ہو جائے.ہم لوگوں کے ڈر سے یہ کہنے سے نہیں رک سکتے.ایک صحابی کہتے ہیں کہ اگر کوئی میری گردن پر تلوار رکھ دے اور رسول کریم کی کوئی حدیث رہ گئی ہوگی تو میں جلدی جلدی اسے بیان کر دوں گا کہ میرے سینہ میں ہی نہ رہ جائے ہے.تو کامل ایمان اسی کو کہتے ہیں.ہم تو خدا تعالیٰ سے ایسے ہی ایمان کی توفیق چاہتے ہیں باقی جو بزدل ہیں وہ چھپاتے البقرة : ۱۴۴ سے یہ حضرت ابوذر کا قول ہے ( بخاری کتاب العلم باب العلم قبل القول والعمل) کے

Page 302

خطبات محمود جلد (5) ۲۹۲ پھریں.ہمیں تو لوگوں کی کچھ پرواہ نہیں صرف خدا ہی کی پرواہ ہے.جب اس نے حضرت مسیح موعود کا نام نبی رکھا ہے اور جو آپ کو نبی نہیں کہتا اُسے آپ کا دشمن قرار دیا ہے تو ہم کیوں آپ کو نبی نہ کہ کر آپ کے دشمن بنیں.ہم تو خدا کے فضل سے آپ کے دوستوں میں ہیں جس کا جی چاہتا ہے کہ دشمن بنے وہ آپ کو نبی نہ کہے.ہم بڑی دلیری اور جرات سے کہتے ہیں کیونکہ نہ کہنا عدو کا کام ہے.ہم خادم ہیں اس لئے خدمت کا حق ادا کرتے ہیں اور وہ یہی ہے کہ دُنیا کے سامنے آپ کا سچا دعویٰ پیش کریں.کسی کا یہ کہنا کہ بائیل میں مسیح کو ابن اللہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کہا گیا ہے لے تو کیا واقعہ میں مسیح کو خدا کا بیٹا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا مان لینا چاہیئے.ہم کہتے ہیں یہ ایسی کتاب میں لکھا ہوا ہے جو محترف و مبدل ہے.قرآن کریم نے کسی جگہ ایسا نہیں کہا تو پھر ابن اللہ تو ایک محاورہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی الہام ہے کہ انت منی بمنزلة ولدی اس کا یہی مطلب ہے کہ حضرت مسیح موعود کا خدا تعالیٰ کے نزدیک وہی درجہ ہے جو اگر کوئی اس کا ولد ہوتا تو اس کا ہوتا.یہ آپ کی منزلت بتانے کے لئے اسی طرح کہا گیا ہے جس طرح قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کو اپنا فعل قرار دے کر آپ کا درجہ بتایا ہے نہ کہ خدا کا قرار دیا ہے.فرمایا إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللهَ يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ سجن لوگوں نے تیری بیعت کی دراصل انہوں نے اللہ کی بیعت کی ہے اور اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے.اس آیت سے کوئی نادان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوخدا نہیں کہہ سکتا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی وہ انہیں انعامات کے مستحق ہو گئے جن کے خدا سے بیعت کرنے پر مستحق ہو سکتے تھے.پھر ایک اور آیت ہے جو یہ ہے کہ مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ الله رھی کہ جب تو نے پھینکا تو تُو نے نہیں پھینکا ( یہاں خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو الگ وجود قرار دیا ہے اور تو کا لفظ اس کو واضح کر رہا ہے ) بلکہ خدا نے مٹھی پھینکی تھی.اس میں بھی خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نہیں قرارد یا بلکہ ایک غیر کہہ کر پھر اس بات کو بتایا ہے کہ خدا کے پھینکنے پر جو نتیجہ برآمد ہو سکتا تھا وہی تیرے پھینکنے سے ہوا.پس یہ غلط ہے کہ آنحضرت کو قرآن کریم میں کہیں خدا کہا گیا ہے.باقی رہی بائیبل وہ محفوظ ہی کہاں ہے کہ اس کی دلیل مانی جائے.پھر اگر ہے تو مسیح کو نبی کہنے اور مسیح کو ابن اللہ کہنے میں بہت فرق ہے کیونکہ نبی کی لغت میں وہی تعریف ہے جو ہم کہتے ہیں.لیکن ابن اللہ کے متعلق لغت کچھ نہیں بتا سکتی.اب ہم جو کچھ کہتے ہیں اس سے اگر کسی کو دھو کہ لگتا ہے تو وہ معذور نہیں ہے کیونکہ جو ہم کہتے ہیں وہی لغت کہتی ہے.ہاں اگر لغت ہمارے خلاف ہوتی تو وہ معذور ہوتے.مثلاً کوئی کہے کہ اینٹ کے معنی گھوڑا ہے تو ہم اُسے کہیں گے کہ ایسا نہیں کہنا چاہئیے اس سے ه استثناء باب ۳۳ سے تذکره ص ۵۲۶ ۳ فتح: ۱۱ الانفال: ۱۸

Page 303

خطبات محمود جلد (5) ۲۹۳ لوگوں کو دھو کہ لگتا ہے.لیکن ایک درست بات کے متعلق کسی کو نہیں روکا جاسکتا.اس مسئلہ کے متعلق بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ابھی اچھی طرح واقف نہیں ہوئے.میرا خیال ہے کہ نبوت کے متعلق قرآن اور حدیث سے بحث کروں اور بتاؤں کہ قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود نبی تھے اور آئندہ بھی نبی آئیں گے.یہ تو جب ہوگا.ہوگا.لیکن میں چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت کے وہ لوگ جنہیں علم دیا گیا ہے وہ اس مسئلہ کے متعلق لکھتے رہیں.غیر مبائعین سے مقابلہ اب صرف اسی بات پر آرہا ہے باقی سب طرفوں سے وہ بھاگ گئے ہیں اس لئے ہمارے علماء کو چاہیے کہ بار بار اس مسئلہ کے متعلق لکھتے رہیں.میں نے حقیقۃ النبوۃ میں بہت کچھ لکھ دیا ہے لیکن ایک بڑی کتاب کو لوگ بار بار نہیں پڑھ سکتے لیکن اگر اخبار میں مختلف پیراؤں میں اس کے متعلق لکھا جائے تو پڑھتے رہیں گے.میرے نزدیک تو اسلام کے لئے وہ دن موت کا دن ہوگا جبکہ تمام مسلمان یہ سمجھ لیں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.میں تو ایک منٹ کے لئے بھی یہ خیال نہیں کر سکتا.خط لکھنے والا ایک لکھتا ہے کہ میں نے ۱۸۸۹ء میں حضرت صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہے اور دوسرا کہتا ہے کہ میں نے ۱۸۹۶ء میں بیعت کی ہے.گویا اس لئے ہماری رائے وزن دار ہے کہ ہم نے فلاں سن میں بیعت کی ہے.لیکن یہ دونوں شخص ایسے ہیں کہ جب سے انہوں نے بیعت کی ہے ایک ایک یا دو دو دفعہ یہاں آئے ہیں.میں کہتا ہوں ایسے لوگ جو نہ حضرت صاحب کے پاس آئے اور نہ آپ کی صحبت میں رہے وہ اگر ۱۸۸۶ء میں (اگر اس وقت حضرت صاحب بیعت لیتے ) بیعت کر لیتے تو پھر کیا تھا.۳۱۳ میں سے اتنی ۸ فیصدی ایسے ہیں جو میری بیعت میں داخل ہیں پھر ان کا عقیدہ کیوں ان سے وزن دار نہیں ہے.ہم حضرت صاحب کو نبی کہتے ہیں اور علی الاعلان کہتے ہیں.مسلم میں آیا ہے کہ ہر نبی کے لئے ایک ایسی دعا ہوتی ہے وہ جس طرح کی جاتی ہے اُسی طرح قبول ہو جاتی ہے ا مجد دوں اور محمد نوں کے لئے یہ ہرگز نہیں آیا.حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول نے مجھے ایک دفعہ کہا جاؤ جا کر حضرت صاحب سے پوچھو کہ آپ نے وہ دعا کی ہے یا نہیں.میں نے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ نہیں کی.پھر مولوی صاحب نے کہا کہ اب جا کر پوچھو کسی کے متعلق وہ دعا کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں یا نہیں.آپ نے فرمایا کہ دُنیا میں رسول اللہ نے بھی وہ دعا نہیں کی تھی سے میں بھی نہیں کروں گا بلکہ قیامت میں کروں گا.اگر حضرت صاحب نبی نہیں تھے تو میرے پوچھنے پر آپ مجھے ڈانٹتے کہ میں نبی نہیں ہوں پھر تم مجھ سے یہ سوال کیوں کرتے ہو لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ ایسا جواب دیا جو آپ کی نبوت کی تصدیق کرتا ہے.بخاری کتاب التوحيد باب في المشيئة والارادة

Page 304

خطبات محمود جلد (5) ۲۹۴ ایسی ایسی گواہیوں کے ہوتے ہوئے اگر کوئی ۱۸۸۹ ء یل۱۸۹۶ء میں بیعت کرنے والا اس کے خلاف کہتا ہے تو ہم کہیں گے کہ غلط کہتا ہے.مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی کہنے پر ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ ایک اور ایک دو ہونے پر.یہی وجہ ہے کہ میں غیر مبائعین کو کہتا ہوں کہ مقابلہ پر آکر مباہلہ کرلیں.یہ تو اُن کے لئے ہے جو کچھ حیثیت رکھتے ہیں اور جو ایسے نہیں اُن کو بھی اجازت ہے کہ وہ اپنی طرف سے اعلان کر دیں کہ جو جھوٹا ہے وہ ہلاک ہو جائے.اگر ایسا نہیں کرنا چاہتے تو اپنے لیڈر کو میدان میں نکالیں.مجھے تو ذرا بھی خیال نہیں آتا کہ حضرت مسیح موعود نبی نہ تھے.ہم آپ کے سامنے آپ کو نبی کہتے رہے ہیں.ایک دفعہ کسی نے کہا کہ آپ بھی ایسے ہی ہیں جیسے کہ پہلے مجدد تھے.آپ لیٹے ہوئے تھے اُٹھ بیٹھے اور کہا کہ میں نبی ہوں.اور نبی مبالغہ کا صیغہ ہے.مجھ سے پہلے اس اُمت میں کون ایسا ہوا ہے جو کثرت سے غیب کی خبریں دیتا تھا.اس سے معلوم کر لو کہ آپ نبی تھے یا نہیں.کوئی آپ کو پہلے مجد دوں کی طرح سمجھتا ہے تو دیکھ لے کہ کدھر جا رہا ہے.خیر اخیر میں میں پھر اس بات کی طرف اپنی جماعت کو تو مجہ دلاتا ہوں اور یہاں اور باہر کے رہنے والوں کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ وہ مسئلہ نبوت کے متعلق بار بار اخبار میں مضامین لکھتے رہیں اور نہ صرف حضرت مسیح موعود کی کتابوں سے بلکہ قرآن، حدیث اور آئمہ کے اقوال سے.اور یہ مضمون اس کثرت سے شائع ہوتے رہیں کہ لوگوں کو یاد ہو جائیں اور ایسے یاد ہوں کہ جن کے بھولنے کی مرنے تک امید نہ ہو.ہمیں کسی سے بغض نہیں اور کسی بات سے خاص تعلق نہیں ہمیں تو خدا تعالیٰ سے غرض ہے ہم اسکے خوش کرنے کے لئے ہر ایک بات کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں.ہاں دعا کرتے ہیں کہ جس طرح ہمیں اپنے عقائد پر شرح صدر ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ یہی درست عقائد ہیں اسی طرح ان کو بھی جو ہمارے دوست تھے ان عقائد کے سمجھنے کی توفیق نصیب ہوتا کہ مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا اظہار کرنے والی ایک متحدہ جماعت تیار ہو اور درمیان سے فتنہ اور فساد دُور جائے.(الفضل ۲۱ اکتوبر ۱۹۱۶ء)

Page 305

۲۹۵ 33 خطبات محمود جلد (5) قرآن کریم میں حضرت مسیح موعود کے زمانہ کے متعلق پیشگوئی (فرموده ۱۳ /اکتوبر ۱۹۱۶ء) سورہ فاتحہ اور مندرجہ ذیل سورہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِنْ شَيْرٍ مَا خَلَقَ وَمِنْ شَرِ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ وَمِنْ شَرِ النَّقْفتِ فِي الْعُقَدِ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ! انسان کی ترقی اور کامیابی کے لئے خدا تعالیٰ نے اس قدر سامان پیدا کئے ہیں کہ کوئی شخص ان کی حد بندی نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ اگر تم اس کی نعمتوں کو مار کرنا چاہوتو تمہاری طاقت میں نہیں کہ انکو شمار کر سکو سے.پھر فرماتا ہے کہ سمندر اگر سیاہی ہو جائیں اور تمام درخت قلمیں اور ان سے خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو لکھنا شروع کیا جائے تو یہ تمام کے تمام صرف ہو جائیں مگر مَا نَفِدَتْ كَلِمتُ اللہ سے اللہ تعالیٰ کے کلمات کبھی ختم نہیں ہو سکتے.اللہ تعالیٰ کے کلمات اس کی تمام پیدا کی ہوئی مخلوق ہے اور وہ تمام انعامات جو اُس نے انسان کے نفع اور فائدہ کے لئے پیدا کئے ہیں سب کلمات اللہ ہی ہیں انسان کی کیا طاقت ہے کہ ان کی حد بندی کر سکے اور ان کو شمار میں لا سکے.پس جب اس کے انعامات غیر محدود ہیں تو انسان کی ترقی کا میدان کس طرح محدود ہو سکتا ہے وہ بھی غیر محدود ہی ہے اس لئے انسان ترقی بھی غیر محدود ہی کر سکتا ہے لیکن ان کے حصول کے لئے پھر غیر محدود محنت اور مشقت کی ضرورت ہے.مثلاً کسی مکان کی بیش ۲ سیڑھیاں ہیں تو اس پر چڑھنے کے لئے بین آ ہی دفعہ ہر سیڑھی پر گذرنے کے لئے کوشش کرنی پڑے گی.تو غیر محدود ترقی حاصل کرنے والے کو غیر محدود محنت اور ان تھک کوشش کی ضرورت ہوتی ہے.خدا تعالیٰ نے انسان کی ترقی کے لئے بڑے سامان پیدا کئے ہیں.پھر ان سامانوں کے ساتھ کچھ ایسے مواقع بھی ہوتے ہیں جن کے ذریعہ انسان کو چوکس اور ہوشیار کیا جاتا ہے.قاعدہ کی بات ہے کہ تکلیف سے انسان چوکس اور ہوشیار ہوتا ہے اور اس کے برخلاف راحت الفلق : ص ٢ النحل : ۱۹ لقمان : ۲۸

Page 306

خطبات محمود جلد (5) ۲۹۶ اور آرام سے غافل اور سست ہوتا ہے اس لئے جتنی تکلیف زیادہ ہو اتنا ہی اس کو زیادہ چوکس رہنا پڑتا ہے اور جتنا اس کو زیادہ آرام حاصل ہو اتنا ہی اس پر زیادہ مستی اور غفلت طاری ہوتی ہے.مثلاً شیر کے سامنے اگر کوئی پڑا ہوا ہو یا کسی اور خوف وخطر کی جگہ میں ہو تو اُسے نیند نہیں آتی مگر جب ٹھنڈی جگہ، ٹھنڈا پانی اور نرم بستر پر پنکھا جھلنے والے خدام اس کو میسر آئیں تو بڑی غفلت کی نیند سو جاتا ہے کیونکہ آرام غفلت کا باعث ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ ہر نعمت انسان کو غافل کر دیتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کے انعامات کے ساتھ کچھ تکالیف بھی ہوتی ہیں جو اس کو چستی اور ہوشیاری کی طرف لے جاتی ہیں تا وہ انعامات سے راحت اور آرام حاصل کر کے غافل اور سست نہ ہو جائے.جو شخص ان دونوں باتوں کو مد نظر نہیں رکھتا وہ ترقی اور کامیابی حاصل نہیں کر سکتا.انسان کو تکالیف سے یہ یقین ہونا چاہیئے کہ اس کو غفلت سے بچانے اور سستی سے دُور رکھنے کے لئے ہیں.جو اپنے آپ کو ان مشکلات سے بچانا چاہتا ہے وہ غافل اور مست ہو کر ترقی سے محروم رہ جاتا ہے اور ایسے ہی لوگ ہمیشہ ذلیل اور خوار ہوتے ہیں ورنہ خدا تعالیٰ نے انسان کو ذلت اور رسوائی کے لئے نہیں بلکہ بڑے انعامات کے لئے پیدا کیا ہے لیکن اس میں وہی کامیاب ہو سکتا ہے جو مشکلات اور مصائب کو بھی برداشت کرتا ہے اور ان مشکلات اور تکالیف کو انعام کے ساتھ رکھنے کی غرض صرف یہی ہے کہ انسان غافل اور سست نہ ہو جائے.پس کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ نہ تو انسان تکالیف سے گھبرائے اور نہ ہی انعامات سے آرام میں پڑ کر خدا تعالیٰ سے غافل ہو جائے.اس صورت میں خدا تعالیٰ نے ان مشکلات سے بچنے کا ایک طریق بیان کیا ہے.فرمایا تمہارے راستے میں بڑی مشکلات ہیں.ہر ایک اچھی چیز میں بھی انسان کے لئے کوئی نہ کوئی پہلوٹھوکر کا ہوتا ہے حتی کہ اللہ کی ذات جو انسان کے حق میں بہت ہی مفید اور بابرکت ہے اور ہمیشہ اس کے لئے فائدہ ہی فائدہ چاہتی ہے.اس میں بھی یہ ٹھوکر کھا جاتا ہے.کبھی اس کی صفات کو نہ سمجھنے اور کبھی اس کی قدرتوں اور طاقتوں کے نہ جاننے کے باعث وہ گمراہی اور ضلالت کے گڑھے میں گر جاتا اور راہ راست سے دُور جا پڑتا ہے.یہی کھانا جو انسان کے لئے قوت اور طاقت کا باعث بلکہ انسانی زندگی کا انحصار اسی پر ہوتا ہے.جب کوئی اسے حد سے زیادہ استعمال کر لیتا ہے تو یہی اس کے لئے نقصان دہ اور ہلاکت کا باعث ہو جاتا ہے.ہندوؤں کے ہاں شرادہ ہوتے ہیں.سنا گیا ہے کہ بعض وقت شرطیں لگا لگا کر پنڈت اتنا کھا جاتے ہیں کہ پیٹ پھٹ جاتا ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ ایک برہمنی کسی خاندان میں بیاہی گئی.ایک روز اس کی ساس نے اس کو کہا کہ اپنے سسر کے لئے بستر بچھا چھوڑو کہ وہ آج شرادھ کھانے گیا ہے.جب کھا کر آتا ہے تو بیٹھ نہیں سکتا.یہ سنکر بہو رونے اور پیٹنے لگی کہ میں کن کمینوں کے ہاں بیاہی گئی ہوں ہماری قوم کی تو انہوں نے ناک کاٹ دی.ساس نے پوچھا تم کیوں روتی پیٹتی ہو.کہنے لگی تمہارے ہاں میرے بیا ہے جانے سے تو ہمارے خاندان کی ناک کٹ گئی ہے.ہمارے خاندان سے تو جو کوئی شرادھ کھانے جاتا ہے وہ خود چل کر

Page 307

خطبات محمود جلد (5) ۲۹۷ گھر نہیں آ سکتا بلکہ چار پائی پر اُٹھا کر اُسے لانا پڑتا ہے اور تم کہتی ہو کہ وہ شرادھ کھا کر آتے ہیں تو بیٹھ نہیں سکتے.انہیں تو اتنا کھانا چاہیے کہ چل کر آ بھی نہ سکیں.کھانا عمدہ چیز ہے مگر دیکھو اسکی بد استعمالی نے ایسے لوگوں کو کیسا نکتا اور سست کر دیا اسی طرح بعض لباس بھی بڑی شستی اور غفلت کا باعث ہوتے ہیں.بعض لوگ تو اس قسم کا لباس استعمال کرتے ہیں کہ ذراسی تکلیف بھی برداشت نہیں کر سکتے.جو لوگ کالر لگاتے ہیں وضو کرنا ان کے لئے نا قابل برداشت تکلیف ہو جاتی ہے.انہیں یہی فکر دامنگیر ہوتی ہے کہ کالر کو کہیں گیلی انگلی نہ چھو جائے.ڈاڑھی کو اچھی طرح دھونا اور خلال کرنا ان کے لئے مصیبت ہوتی ہے اس لئے اکثر تو ڈاڑھی منڈاہی دیتے ہیں اور جور کھتے ہیں وہ بھی بہت چھوٹی.اسی طرح پتلون ہے.اکثر دیکھا گیا ہے کہ پتلون پہنے والے کو نماز کی صورت بدلنی ہی پڑتی ہے تاکہ کہیں پتلون میں بل نہ آجائے.اسی قسم کے لباس انسان کو عیش پسند اور آرام طلب بنا کر سُست اور غافل کر دیتے ہیں.پھر پینے کی چیزیں ہیں جو کیا جسمانی اور کیا روحانی دونوں رنگ میں انسان کے لئے مضر ہوتی ہیں.یہ اس لحاظ سے بری نہیں کہ خدا نے ان کو بُرا بنایا ہے بلکہ ان میں برائی جو پیدا ہوگئی ہے تو ان کی بد استعمالی کی وجہ سے پیدا ہوگئی ہے.یہ آیات جو میں نے پڑھی ہیں ان میں خدا نے یہاں لفظ ہی ایسے رکھے ہیں جو ہر چیز کے شر اور نقصان سے بچنے کے لئے استعمال ہوئے ہیں.فرمایا قُل اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ کہ رب الفلق کے حضور تم پناہ مانگو کہ وہ ان تمام اشیاء کے بدنتائج سے جو انسان کی شستی اور غفلت کی وجہ سے پیدا ہو جاتے ہیں تم کو ان سے محفوظ رکھے.پھر چونکہ ظلمتیں بھی انسان کے لئے گمراہی کا باعث ہوتی ہیں اس لئے فرمایا اعوذ برب الفلق کہ جب تم ظلمت اور اندھیرے میں پڑ جاؤ تو روشنیوں کا پیدا کرنے والا رب ہے اس سے پناہ مانگو تا وہ تم کو ظلمت سے نکال کر روشنی میں لاوے.فلق کے معنے پو پھٹنے کا وقت اور تمام مخلوقات کے بھی ہیں.تو فرمایا تم تمام مخلوقات کا جو خدا ہے اُس کے حضور پناہ مانگو جو کچھ اس نے پیدا کیا اور اس سے جو بدنتائج پیدا ہو سکتے ہیں ان سے وہ تم کو محفوظ رکھے کیونکہ تمام چیزیں جو اس کی پیدا کی ہوئی ہیں.جب انسان ان کا غلط استعمال کر بیٹھتا ہے تو وہ اس کے لئے مضر اور نقصان دہ ہو جاتی ہیں اس لئے تم کو ان کے پیدا کرنے والے کی طرف توجہ کرنی چاہیے بہت سے انسان ہیں جو عیاشی میں پڑ کر حد سے گذر جاتے ہیں.جب اس کے بدنتائج کا منہ دیکھتے اور تکلیف اُٹھاتے ہیں تو پھر بے اختیار خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں.یورپ کو دیکھو کس قدر ترقی کی.اپنے سامانوں اور اپنی ایجادوں پر کس قدر اس کو ناز اور فخر تھا لیکن آج وہی سامان وہی ایجادیں وہی علوم اُس کی ہلاکت کا موجب ہو رہے ہیں.ان کو ہر روز یہی فکر لگی رہتی ہے کہ معلوم نہیں سائنس آج کونسا موت کا آلہ ہمارے لئے تیار کرتی ہے.پس ثابت ہوا کہ جس قدر اشیاء پائی جاتی ہیں اگر

Page 308

خطبات محمود جلد (5) ۲۹۸ اُن سے نفع حاصل ہوتا ہے تو ضرر بھی ان میں ضرور ہے اس لئے ان کے پیدا کرنے والے کی طرف تو حجہ کرنی چاہئیے تا کہ ان کے نقصانات سے محفوظ رہیں آرام کے وقت انسان کم ہی نعمت کی قدر کرتا ہے.جب تک آنکھوں میں نور ہے دوسروں کی عیب چینیاں کرتا اور جب بینائی جاتی رہتی ہے تو پھر پشیمان ہوتا اور افسوس کرتا ہے.جب تک زبان میں قوت ذائقہ ہے کہتا ہے فلاں چیز کا ذائقہ اچھا نہیں فلاں چیز بدمزہ ہے.لیکن جب زبان کی وہ قوت ہی جاتی رہتی ہے تو کہتا ہے کاش ! معمولی مزہ ہی زبان میں ہو.پس ان تمام اشیاء میں جو شرور ہیں ان کو اور جو جو ان میں تکالیف ہیں ان کو دیکھتے ہوئے رب الفلق ہی تمہارا ملجاء و مالوی ہونا چاہیے اور اسی کے حضور پناہ لے کر تم ان مشکلات کے بدنتائج سے بچ سکتے ہو.تو فرمایا پناہ مانگورب الفلق یعنے خالق اشیاء کے حضور من شر ما خلق جو کچھ بھی اس نے پیدا کیا ہے اُس کے شر سے تا کہ جو ان اشیاء کی بد استعمالی کی وجہ سے بدنتائج پیدا ہونے والے ہوں اُن سے وہ تم کو محفوظ رکھے.اور پناہ مانگو رب الفلق یعنے روشنی کے پیدا کرنے والے کے حضور.من شر غاسق اذا وقب تمام اندھیروں کے شرور سے اندھیرے وہ ہیں جو انسان اپنی غفلت کے باعث مختلف نامرادیاں اور ناکامیاں دیکھتا ہے اور شرور سے مراد کھ اور تکلیفیں ہیں.جب انسان صرف انہی اشیاء سے تعلق لگا کر یہ سب مصائب دیکھتا اور دُکھ اُٹھاتا ہے تو مجبور ہوکر اس کو خدا کی طرف توجہ کرنی پڑتی ہے.میرے نزدیک اس سورۃ میں حضرت مسیح موعود کے زمانہ کی پیشگوئی کی گئی ہے اور یہ وہی وقت ہے جس کا اس میں ذکر کیا گیا ہے کیونکہ آج ہی وہ زمانہ آیا ہے جس میں ہر قسم کے شر اور اندھیرے رونما ہوئے ہیں.فساد کی کوئی حد نہیں حسد نے دلوں کو کھا لیا ہے.بغاوت نے راحت و آرام کھو دیا ہے.ان سب امور کی بدانجا میوں سے بچنے کے لئے جولوگوں کی بد استعمالیوں کی وجہ سے پیدا ہو گئے ہیں صرف یہی صورت ہے کہ تم خدا کی طرف دوڑو.اور یہ فساد اسی لئے اُٹھے ہیں کہ تا تم اس کی طرف جھکو.اس میں بتایا گیا ہے کہ ان نقصانات کو دیکھ کر بے اختیار اس وقت کہہ اُٹھیں گے کہ ہم تیری ہی پناہ میں آتے ہیں.جس قدر ہم ان اشیاء کی طرف جھکے اسی قدر تجھ سے دُور ہوئے.اب ان سے نقصان اُٹھا کر پھر تیری طرف ہم متوجہ ہوتے ہیں تو ہماری دستگیری فرما.میں سمجھتا ہوں مسلمانوں کے لئے یہ سورۃ بڑی قابل توجہ ہے.ان کا نور کو چھوڑ کر ظلمت کی طرف جانا پھر آپس میں حسد، بغض اور عداوت ایک دوسرے کے خلاف منصوبے کرنا یہی ہمیشہ ان کی ہلاکت کا باعث ہوئے.حضرت صاحب بارہا ان کو ان الفاظ سے مخاطب کرتے

Page 309

خطبات محمود جلد (5) ۲۹۹ کہ دیکھو تمام اشیاء تمہارے لئے ہلاکت کا باعث ہو رہی ہیں.طاعون نے تمہاری زندگیاں تلخ کردی ہیں.قحط سالی نے تمہاری آنکھوں کے آگے دُنیا اندھیر کر دی ہے.تم جس طریق سے عزت چاہتے ہو اس سے تمہارے لئے ذلت کا سامنا ہوتا ہے.تم چاہتے ہو عروج ہو اور ہوتا زوال ہے غرض جو اسباب بھی تم استعمال میں لاتے ہو تمہارے خلاف ہی نتائج پیدا کرتے ہیں تو پھر تم اب بھی کیوں نہیں خدا کی طرف رجوع کرتے.مگر مسلمانوں کی طرف سے یہی جواب ملتا رہا قحط اور بیماریاں ہمیشہ ہوتی آئی ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں.معلوم ہوتا ہے ان کی قسمت میں ابھی اور بہت کچھ مصائب لکھے ہیں.جب تک وہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لیں خدا کی طرف رجوع نہیں لائیں گے.میں نے ایک ٹریکٹ بنگال میں تقسیم کرنے کے لئے شائع کیا تھا.ایک شخص نے اسے پڑھ کر مجھے خط لکھا کہ تم جو اس بات پر زور دیتے ہو کہ مہدی آگیا، میسج آ گیا.مہدی کس طرح آسکتا ہے جبکہ ابھی ایک حکومت مسلمانوں کی باقی ہے.چند ہی روز گذرے کہ ترک بھی شریک جنگ ہو گئے اور خدا نے کہا کہ یہ برائے نام حکومت اور تھوڑی سی نعمت بھی تم رکھنا نہیں چاہتے وہ بھی ہم چھین لیتے ہیں.اب تک بہت سا علاقہ ان کے قبضہ سے نکل چکا ہے.اگر بفرض محال جنگ کے خاتمہ تک وہ بچ بھی رہے تو کیا طاقت باقی رہے گی.نہ ہونے کے برابر ہوگی.ہماری جماعت اس لحاظ سے تو ترقی پر ہے کہ دُنیا کی محبت سے ان کے دل سرد ہیں.مگر اس سورۃ کے پچھلے حصے سے مجھے خوف آتا ہے کہ ابھی تک یہ بات ان میں پیدا نہیں ہوئی.حسد اور عداوت ذراذراسی باتوں پر لڑائیاں اور جھگڑے پیدا ہو جاتے ہیں.نفثت کے معنے چپکے سے کانوں میں کچھ پھونک دینا.نفقت فی العقد وہ لوگ ہیں جو چپکے چپکے ایک دوسرے کے کان میں کچھ کہ کہلا کر تعلقات اور دوستیاں تو ڑ وادیتے ہیں اور بجائے دوست کے ایک دوسرے کا دشمن بنا دیتے ہیں.سچی دوستی اور محبت دُنیا میں ہی مفید نہیں ہوتی بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دنیا میں سچی دوستی اور محبت کرنے والے قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے عرش کے سایہ کے نیچے ہوں گے.تو فرمایا ان کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے بھی تم اللہ ہی کے حضور پناہ مانگو.ہماری جماعت کو اس بات کی طرف بہت کم توجہ ہے.اللہ تعالیٰ ہم کو تمام اشیاء کے بدنتائج سے محفوظ رکھے اور ہم کو ہر قسم کے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف راہنمائی کرے اور کوئی شخص ہم میں دوستیوں اور محبتوں کو قطع کرنے والا نہ ہو اور ایک دوسرے کی ترقی کو دیکھ کر ہمارے دل میں حسد پیدا نہ ہو بلکہ ہم خوش ہوں کہ ہمارے بھائی کو خدا نے یہ ترقی دی ہے.(الفضل ۳۱ اکتوبر ۱۹۱۶ء)

Page 310

خطبات محمود جلد (5) 34 دیگر مذاہب پر اسلام کی فضیلت (فرموده ۲۰/اکتوبر ۱۹۱۶ء) سورہ فاتحہ اور مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کے بعد فرمایا:- يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَانِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ، فَإِنْ لَّمْ تَجِدُوا فِيْهَا أَحَدًا ( النور : ۲۹،۲۸) فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّى يُؤْذَنَ لَكُمْ ، وَإِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوا هُوَ ازْکى لَكُمْ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ اسلام کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دیگر مذاہب پر جو فضیلتیں حاصل ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں ایسے مسائل جو ہیں تو جز وی لیکن حمدن یا اخلاق یا عظمت الہی یا اللہ تعالیٰ کی محبت کے پیدا کرنے میں ان کا بڑا دخل یا اثر ہے ان کو بالتفصیل بیان کرتا ہے اور یہ فضیلت ایک ایسی بین اور روشن فضیلت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی جبکہ ابتدائی زمانہ تھا اور لوگوں کا حسد اور بغض بہت بڑھا ہوا تھا اور بعد میں بھی جبکہ اسلام کے متعلق مخالفین کے دلوں میں غصہ اور کینہ بہت سرایت کر گیا تھا اس کو تسلیم کیا گیا ہے.چنانچہ یہود کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ ان کو اِس بات کا اقرار تھا اور وہ یہ کہتے کہ اسلام نے جس تفصیل سے باتیں بیان کی ہیں اور کسی مذہب نے نہیں کیں.گویا ان کو اسلام کی ایسی باتوں پر رشک آتا ہے.اور کسی نے کہا ہے الفضل ما شهدت به الاعداء کہ خوبی وہی ہوتی ہے جس کا اقرار دشمن کرے.بخاری کتاب الایمان باب زيادة الايمان و تنقیصه -

Page 311

خطبات محمود جلد (5) ٣٠١ تو دشمنوں نے بھی اس بات کا اقرار کیا ہے کہ اسلام میں جزوی مسائل کے متعلق بھی اس طرح کھول کھول کر بتادیا گیا ہے جن سے مسلمان بہت فوائد حاصل کر سکتے ہیں.اس زمانہ میں مسلمانوں کے دین سے بعد ہو جانے کی وجہ سے وہ تمدن جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم نے قائم کیا تھا بہت کمزور ہورہا ہے اور باوجود اس کے کہ اسلام نے تمام مسائل کو ایسے تفصیلی رنگ میں بیان کر دیا ہے کہ جس کی نظیر کسی اور مذہب میں نہیں پائی جاتی.تاہم مسلمان دن بدن گرتے جارہے ہیں.احکام کے لحاظ سے تو کسی مذہب کی کوئی کتاب قرآن کریم اور احادیث کا مقابلہ نہیں کر سکتی لیکن اب مسلمان عمل کے لحاظ سے تمام لوگوں سے پیچھے ہیں.وحشت، خود پسندی، لڑائی جھگڑے ان میں بہت بڑھ گئے ہیں.مدنیت کو چھوڑ کر بدویت کی طرف جھک گئے ہیں.اسلام تمدن سکھانے والا مذہب ہے اور انسان کو تمدن سے وابستہ کر دیتا ہے اس کا ثبوت اس سے ہی ملتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ فتن کے وقت مومن کو چاہئیے کہ جنگل میں چلا جائے ا یعنی ایسے وقت جبکہ ضلالت اور گمراہی حد سے بڑھ گئی ہو اور اس کا علاج سوائے خدا کے کسی فرستادہ کے اور کوئی نہ کر سکتا ہو تو چاہیے کہ عام لوگوں سے علیحدہ ہو جائے.اس سے پتہ لگا کہ مومن کا اصل کام تو یہی ہے کہ لوگوں میں رہے.ان سے تعلقات رکھے.ہاں سخت تاریکی کے وقت اسے علیحدہ ہو جانا چاہیئے.اگر ایسی حالت نہ ہو تو پھر یہی بہتر اور ضروری ہے کہ لوگوں میں رہے.تمدنی تعلقات بڑھائے.انہیں اسلام کی تعلیم دے.تو تمدن اور اسلام دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں.جہاں اسلام ہوگا وہاں تمدن بھی ہوگا.ہاں اگر کوئی اسلامی احکام کے خلاف کرتا ہے اور پھر تمدن نہیں رہتا تو یہ اسلام کا قصور نہیں بلکہ اس کا اپنا قصور ہے.اگر کوئی شخص کھانا نہ کھائے اور کہے کہ میرا پیٹ نہیں بھرتا.تو ہم کہیں گے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کھانا کھائے بغیر پیٹ بھر جائے.ہاں اگر کوئی کھانا کھائے جائے اور پھر پیٹ نہ بھرے تو پھر یہ اُسے کہنے کا حق ہو سکتا ہے کہ یہ کھانا ہی رڈی ہے.اسی طرح اگر کوئی قوم اسلامی قواعد پر عمل ہی نہیں کرتی تو اس کی کمزوری اور نا اہلی اسلام کی کمزوری نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ اس پر عمل ہی نہیں کرتی.ہاں اگر وہ عمل کرے اور درست طریق سے عمل کرے پھر کمزور کی کمزور ہی رہے تو کہا جائے گا کہ اس تعلیم کا نقص ہے.لیکن اس وقت تک دُنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں ہوئی کہ جو اسلام کے بتائے ہوئے قوانین حمدن پر چلی ہو اور پھر وہ اعلیٰ درجہ کی متمدن نہ ہوگئی ہو.اس زمانہ میں مسلمانوں کی جو حالت ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اسلامی قواعد پر عمل نہیں کرتے اور بخاری کتاب الفتن باب التعرب في الفتن.

Page 312

خطبات محمود جلد (5) ان سے دُور چلے گئے ہیں.تمام ہندوستان میں یہ بات نظر آتی ہے کہ مسلمان السلام علیکم کہنے کوعیب سمجھتے ہیں اور بہت ایسے ہیں کہ جن کو اگر السلام علیکم کہہ دیا جائے تو لڑ پڑتے ہیں کہ کیا ہمیں تم دُھنیا یا جولاہ سمجھتے ہو.گویا ان کے نزدیک السلام علیکم ایک ایسی معیوب بات ہے جو صرف جولا ہوں اور دھنیوں کے لئے استعمال کی جاسکتی ہے دوسروں کے لئے نہیں.بعض اسلامی ریاستوں میں تو یہ حکم جاری کر دیا گیا ہے کہ والی ریاست کو السلام علیکم کہنا بہتک سمجھی جائے گی.اور اگر کسی نے کہا تو اسے سزا دی جائے گی.ہاں کورنش بجالانا چاہیے.چنانچہ مکن نہیں کہ جو لوگ ایسے والیانِ ریاست کو ملنے جاتے ہیں اس کے خلاف کر سکیں وہ اسلام علیکم کبھی نہیں کہہ سکتے کہ اس سے ہتک سمجھی جاتی ہے.اس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ مسلمان کہاں تک اسلام سے دُور ہو گئے ہیں.نہ صرف یہ کہ ان میں السلام علیکم کہنے کا رواج اور عمل نہیں رہا بلکہ اس پر عمل کرنا بہتک سمجھا جاتا ہے اور جہاں انہیں اختیار حاصل ہے وہاں اس پر سزا دینے کے لئے تیار ہیں.پھر اگر کوئی لاعلمی کی وجہ سے السلام علیکم کہہ دے تو کہتے ہیں کہ یہ کیا پتھر کی طرح اُٹھا کر ماردیا.کیا تم میں اتنی بھی تہذیب نہیں کہ بڑوں کو السلام علیکم کہتے ہو.” آداب عرض“ کہنا چاہیئے.اس پر وہ خوش ہوتے ہیں.ایک دفعہ ہم دہلی گئے.جن کے گھر ہم ٹھہرے ہوئے تھے ان کا ایک چھوٹا سا لڑکا تھا اس کو میں نے علیحدہ لے جا کر خوب اچھی طرح سکھا دیا کہ السلام علیکم کہا کرو آداب عرض نہ کہا کرو.ایک دفعہ ہم باہر سے جو گھر آئے تو اس لڑکے نے کہا السلام علیکم.ہم نے وعلیکم السلام کہا.تھوڑی دیر بعد معلوم ہوا کہ ایک کو نہ سے اس بچے کے رونے کی آواز آرہی ہے.دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اُس کی اتاں اس بچے کو آہستہ آہستہ اس لئے مار رہی ہے کہ تم نے بڑوں کو السلام علیکم کیوں کہا.ہم نے کہا اس بیچارے کا کوئی قصور نہیں یہ تو ہم نے ہی اسے سکھایا ہے.تو السلام علیکم کہنا بڑی بہتک سمجھی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ شرفاء کا طریق نہیں ہے حالانکہ اصل میں یہی شرافت ہے.” آداب عرض“ کے معنی ہی کیا ہوئے ایک فضول اور لغوسا فقرہ ہے لیکن السلام علیکم کہنے میں دُعا کی جاتی ہے.یہ کہنے والا کہتا تو یہ ہے کہ تجھ پر سلامتی ہولیکن اس فقرہ کا رنگ بدلا ہوا ہے تا کہ آپس میں محبت اور الفت کا اظہار ہو.اصل میں اس کے یہ معنی ہیں کہ اے اللہ تو اس بندے پر سلامتی نازل کر.اب دیکھ لو کہ یہ کہنے سے نیک نتائج نکل سکتے ہیں یا آداب اور تسلیمات کہنے سے.السلام علیکم کہنا تو ایک دعا اور خواہش ہے جو خدا تعالیٰ سے کی جاتی ہے لیکن دوسرے صرف الفاظ ہی الفاظ ہیں معنی کچھ نہیں رکھتے.اس لئے جو برکت دُعا میں ہے وہ ان میں کہاں ہو سکتی ہے.مگر باوجوداس کے مسلمانوں نے اسے ترک کر دیا ہے اور آج سے نہیں بلکہ آج سے بہت عرصہ پہلے سے.مدت ہوئی

Page 313

خطبات محمود جلد (5) ۳۰۳ ایک سیاح ابن بطوطہ ہندوستان میں آئے تھے وہ لکھتے ہیں میں نے دیکھا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں السلام علیکم کہنے کا طریق نہیں رہا اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا.اگر چہ یہ اور اسی قسم کی اور چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن درحقیقت یہ بہت بڑی بڑی ہیں.یہی دیکھ لو السلام علیکم کہنا ایک معمولی سی بات ہے لیکن نتیجہ کے لحاظ سے کس قدر عظیم الشان ہے.دن میں ایک انسان کئی بار دوسروں سے ملتا ہے اگر وہ تمام کے تمام اسے کہیں کہ خدا کی طرف سے تجھ پر سلامتی ہو تو خیال کرلو کہ اسے کتنا فائدہ ہوسکتا ہے.لیکن اگر اسے ہزار انسان بھی آداب تسلیم اور بندگی وغیرہ کہے تو سوائے اس کے کہ یہ لغو فقرات اس کے سامنے دہرائے جائیں گے اور کچھ نہیں ہوگا.آجکل مسلمان تمدن سے بہت دُور ہو چکے ہیں اور اسلام کو چھوڑ کر اور طرف نکل گئے ہیں اور السلام علیکم کہنے کو ہتک سمجھتے ہیں حالانکہ اس کی بجائے آداب ، تسلیمات وغیرہ جتنے الفاظ ر کھے گئے ہیں وہ سب لغو ہیں اور سلام ایک دعا ہے لیکن یہ مسلمانوں میں سے مٹ گئی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبات میں اس قسم کی باتوں کو بھی عام طور پر بیان کرتے تھے تا کہ لوگ ناواقفیت کی وجہ سے صداقت سے دور اور ان کے فوائد سے محروم نہ رہ جائیں جو پاک تعلیم پر عمل کرنے سے حاصل ہو سکتے ہیں.آج مجھے بھی خیال آیا کہ ایسی باتیں جو بظاہر چھوٹی چھوٹی معلوم ہوتی ہیں لیکن ان کا نتیجہ بہت بڑا نکلتا ہے انہیں بیان کیا جائے تا کہ اگر ہماری جماعت میں سے بھی کوئی ان سے ناواقف ہو تو وہ واقف ہو جائے.خدا کے فضل سے ہماری جماعت میں السلام علیکم کہنے کا طریق بہت عمدگی سے رائج ہے گو ہندوستان سے آنے والے لوگوں میں کچھ کمی ہے ایسے لوگوں کو فائدہ پہنچ جائے گا پھر اپنی جماعت کے لوگ دوسرے لوگوں کو یہ باتیں آسانی سے سکھا سکیں گے کیونکہ ہر ایک شخص کو خواہ کوئی ہو نیکی سکھانا اور شریعت اسلام سے واقف کرنا ہمارا فرض ہے اور خاص کر غیر احمدیوں کو.کیونکہ جب وہ شریعت سے واقف ہوں گے اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ واقفیت ہمیں احمدی جماعت کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے اس لئے وہ احمدی بھی ہو جائیں گے اور یہ ایک ذریعہ ہوگا ان کے احمدی ہونے کا.تو جولوگ ہماری جماعت میں سے ان باتوں پر عمل کرتے ہیں.میرے بیان کرنے سے ان کے دلوں میں خاص اہمیت گڑ جائے گی اور وہ دوسروں کو سمجھانا ضروری سمجھیں گے اور جو نا واقفیت اور لاعلمی کی وجہ سے ان پر عمل نہیں کرتے وہ عمل کر کے فائدہ حاصل کریں گے.میں نے اس وقت جو آیتیں پڑھی ہیں ان میں خدا تعالیٰ نے دو ایسے حکم دئے ہیں جو اگر چہ شریعت کے قوانین نہیں ہیں تمدن سے تعلق رکھتے ہیں مگر ان پر بہت زوردیا گیا ہے کیونکہ ان کا اثر دین پر پڑتا ہے حکم یہ ہیں.اول یہ کہ جب کسی کے مکان میں داخل ہونے لگو تو داخل ہونے سے پہلے مکان میں رہنے والوں سے اجازت حاصل کر لو.اگر وہ اجازت دے دیں تو داخل ہو جاؤ.دوم یہ کہ جب مکان میں وہ

Page 314

خطبات محمود جلد (5) ۳۰۴ داخل ہو جاؤ تو انہیں سلام کرو.پہلے حکم کے متعلق یہ اور فرمایا کہ اگر اندر آنے کی اجازت نہ ملے تو پھر داخل مت ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی اور تشریح فرما دی ہے.قرآن کریم نے کہا ہے کہ پہلے اذن مانگو اور پھر اگر اجازت پاؤ تو مکان میں داخل ہو اور اگر اجازت نہ ہوتو نہ داخل ہوا.اس اذن مانگنے کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تشریح فرمائی ہے کہ یہ اذن تین دفعہ مانگو تین دفعہ کے بعد اگر اجازت نہ ملے تو واپس کوٹ آؤ.یہ نہیں کہ بار بار آوازیں دیتے یا کنڈی کھٹکھٹاتے رہو.اگر کسی کو داخل ہونے کی اجازت مل جائے تو اس کے لئے قرآن کریم نے یہ دوسرا حکم دیا ہے کہ تسلمو اعلیٰ اھلھا.اس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے والّذی نفسی بیدو لا تدخلوا الجنة حتى تؤمنوا ولا تؤمنوا حتى تحابوا اولا ادلكم على شئ اذا فعلتموا تحاببتم افشوا السلام بینکم.کہ اسی ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم جنت میں نہیں داخل ہو سکتے جب تک کہ مومن نہ ہو.اور مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو.اور کیا میں تمہیں آپس میں محبت کرنے کی ترکیب بتاؤں وہ یہ کہ آپس میں سلام کو خوب پھیلا و یعنی کثرت سے ایک دوسرے کو سلام کہو.اجازت مانگنے کے متعلق فرمایا کہ تین دفعہ مانگو.یہ بات بھی اپنے اندر بہت بڑی حکمت رکھتی ہے بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ کسی کے دروازہ پر جا کر ایک بار کھٹکھٹائیں گے یا آواز دیں گے اگر کوئی آواز نہ آئے تو پھر ایسا ہی کریں گے حتی کہ گھنٹہ گھنٹہ اس طرح کرتے رہیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کرنے سے منع فرمایا ہے اور یہ حکم دیا ہے کہ تین دفعہ آواز یا دستک دو پھر اگر جواب نہ ملے تو واپس آجاؤ کیونکہ اندر سے اگر کوئی جواب نہیں دیتا تو اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں.ممکن ہے وہ گھر ہی نہ ہو یا اگر گھر میں ہو تو سویا ہوا ہو.اس صورت میں اگر کوئی بار بار آواز دیتا ہے تو اس کی نیند خراب ہوگی اس لئے اس طرح کرنا پسندیدہ بات نہیں.یا ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اس آدمی سے ملنا ہی پسند نہیں کرتا یا اس سے بات کرنا نہیں چاہتا اس لئے کوئی جواب بھی نہیں دے سکتا.یا کسی ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ جواب نہیں دے سکتا.ان تمام صورتوں میں بار بار آواز دینا یا گنڈی کھٹکھٹانا بہت معیوب اور نا پسندیدہ بات ہے.اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین دفعہ آواز پہنچا کر اجازت لینی چاہئیے اگر مل جائے تو اندر چلے جاؤ اور اگر اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ جاؤ یہ نہیں کہ جب تک اندر سے کوئی آواز نہ آئے ٹلنا ہی نہیں.اجازت نہ ملنے کے دونوں ل القور: ۲۹،۲۸ بخاری کتاب الاستيذان باب التسليم والاستيذان ثلثا النور: ۲۸ کتاب الایمان باب بیان انه لا يدخل الجنة الا المؤمنون وأن محبة المؤمنين من الايمان - مسلم

Page 315

خطبات محمود جلد (5) ۳۰۵ معنے ہو سکتے ہیں.ایک تو یہ کہ کوئی کہہ دے کہ آپ اندر نہ آئیں اس وقت فرصت نہیں.دوسرے یہ کہ کوئی جواب ہی نہ آئے.ان دونوں صورتوں میں واپس لوٹ جانا چاہیئے.پھر سلام کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی کثرت کرنی چاہئیے.کیوں.اسلئے کہ اس طرح آپس میں محبت پیدا ہوگی.جب کوئی دوسرے کے لئے سلامتی کی دُعا کرتا ہے تو ضرور ہے کہ اس کے دل میں محبت ہو.اور جوں جوں وہ زیادہ عام کرے وہ محبت بھی بڑھتی جائے گی.آجکل تو بہت سے لوگ ایسے ہیں جو السلام علیکم کے معنے ہی نہیں سمجھتے ایسے لوگوں کے دلوں میں اگر ایک دوسرے کی محبت پیدا نہ ہو تو اور بات ہے لیکن جو سمجھتے ہیں ان میں ضرور محبت پیدا ہوتی اور بڑھتی جاتی ہے اور جب ایک انسان دوسرے کے لئے دُعا کرے گا تو خود اس کے لئے بھی اور دوسرے کے لئے بھی وہ دعا بہت سے فوائد اور برکات کا موجب ہوگی.اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے بہت محبت اور پیار کرتا ہے اس لئے جو کوئی اس کی مخلوق سے محبت کرتا ہے اس سے وہ بھی محبت کرتا ہے.تو ایک دوسرے کو کثرت سے سلام کہنے کی وجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی کہ تمہاری آپس میں محبت ہوگی اور آپس کے تعلقات درست ہوں گے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہیں ایمان حاصل ہو گا اور جب ایمان حاصل ہوگا تو جنت میں داخل ہو جاؤ گے.اس سے ان لوگوں کو سبق لینا چاہیے جو اپنا کام یہی سمجھتے ہیں کہ دوسروں سے لڑیں اور ایک دوسرے کو لڑائیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کوئی شخص اس وقت تک جنت میں نہیں جا سکتا جب تک کہ اس میں ایمان نہ ہو اور ایمان اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ آپس میں محبت نہ ہو اور محبت پیدا کرنے کا طریق ایک دوسرے کو کثرت سے سلام کہنا ہے.لڑائی فساد سے ایمان کو بہت صدمہ پہنچتا ہے.بہت سے خاندان ایسے ہیں کہ باوجود ایک مذہب کو سچا سمجھنے کے دوسروں کی دشمنی اور عداوت کی وجہ سے اسے چھوڑ دیتے ہیں.میں نے اس فتنہ پر غور کیا ہے جو ہماری جماعت میں پیدا ہوا ہے.اس میں شامل ہونے والے وہی لوگ ہیں جن کو ذاتی عداوتیں اور رنجشیں تھیں.ایک آدمی کی نسبت تو مجھے خوب معلوم ہے اُس نے سمجھا ہو ا تھا کہ ہمارے خاندان نے کسی موقع پر اس کے ساتھ ہمدردی نہیں کی تھی.میں اُس وقت جبکہ اسے وہ واقعہ پیش آیا گھر موجود نہیں تھا کہیں گیا ہو ا تھا واپس آکر میں نے اس شخص کو ہمدردی کا خط لکھا جس کا اُس نے یہ جواب دیا کہ آپ نے میرے ساتھ بہت ہمدردی کی ہے لیکن فلاں فلاں نے نہیں کی.ان کی یہ بات مجھے مرنے تک نہیں بھولے گی.افسوس کہ یہ خط محفوظ نہ رکھا گیا ورنہ آج خوب کام دیتا.ایک اور نے کہا کہ اگر اور کوئی خلیفہ ہو ا تو اُس کی تو ہم بیعت کر لیں گے لیکن میاں محمود کی بیعت تو خواہ کچھ ہی ہونہیں کریں گے.یہ تو کل کی باتیں ہیں بنی اسرائیل کو دیکھو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی لئے نہ مانا کہ یہ ہم

Page 316

خطبات محمود جلد (5) ۳۰۶ میں سے نہیں.تو دشمنی اور عداوت کا بہت خطرناک نتیجہ نکلتا ہے اور اسی وجہ سے کئی لوگ بے دین ہو جاتے ہیں.کل ہی ایک شخص کا خط آیا ہے.چند دن ہوئے وہ یہاں آیا تھا کہتا تھا کہ مجھے میرا پوتا دیدیا جائے.میں نے کہا بچہ کا رکھناماں کا حق ہے اگر وہ لے جانے کی اجازت دیتی ہے تو لے جاؤ.اب اس نے جا کر لکھا ہے کہ تم نے تو قرآن ہی نیا بنالیا ہے.اس کو ایک معمولی بات سے صدمہ پہنچا کہ کیوں خواہ بچے کی ماں روتی اور چلاتی ہی رہتی مجھے بچہ چھین کر نہیں دے دیا گیا.اس وجہ سے اس نے لکھ دیا کہ تم نے قرآن ہی نیا بنالیا ہے.اس سے پہلے تو میں جو کچھ کہتا اور کرتا تھا اسے وہ قرآن کریم کے مطابق سمجھتا تھا لیکن اس بات کے فوراہی بعد جو کچھ میں کرتا یا کہتا ہوں وہ قرآن کریم کے خلاف ہو گیا ہے اور میں نے نیا قرآن بنالیا ہے.میری ہر بات اُسے بُری لگنے لگ گئی ہے.تو دنیاوی عداوتوں کا ایمان پر بہت برا اثر پڑتا ہے اور جب ایمان نہ ہو تو انسان جنت سے محروم رہ جاتا ہے.دیکھو یہ چھوٹی سی بات تھی مگر انجام کس قدر بڑا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سلام کہنے کا نتیجہ آپس میں محبت ہوگی اور محبت کا نتیجہ ایمان ہوگا اور ایمان کا نتیجہ جنت میں داخل ہونا ہوگا.اس کا اُلٹ یہ ہوا کہ سلام نہ کہنے کا نتیجہ تفرقہ ہوگا اور تفرقہ کا نتیجہ ایمان کا سلب ہونا ہوگا اور ایمان کے سلب ہونے کا نتیجہ جنت میں داخل نہ ہونا ہوگا.تو سلام کہنا معمولی بات تھی لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان جنت سے ہی محروم ہو جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس بات کو معمولی کر کے نہیں چھوڑ دیا بلکہ بیان کیا ہے اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور دُنیا میں کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں اس تفصیل سے بیان کیا گیا ہوصرف اسلام کو ہی یہ شرف حاصل ہے.اس بات پر اگر غیر مذاہب والے رشک کریں تو کیا تعجب کی بات ہے.لیکن تعجب ہے اُن مسلمانوں پر جو باوجود ایسی تعلیم کے پھر اس پر عمل نہیں کرتے.اسلام نے نہایت تفصیل سے کہہ دیا ہے کہ جب کسی کے ہاں جاؤ تو جا کر آواز دو یا دروازہ کھٹکھٹا ؤ جب اندر سے اجازت مل جائے تو داخل ہو ا جازت کے بغیر نہیں.اور یہ بھی نہیں کہ اگر کوئی جواب نہ آئے تو الخاموشی نیم رضا پر عمل کر کے اندر چلے جاؤ.یہ کسی کا قول ہے جو بہت دفعہ غلط ثابت ہو جاتا ہے.اسلام نے کنواری لڑکی سے نکاح کے متعلق پوچھنے پر خاموشی کو رضامندی قرار دیا ہے.لیکن ہر جگہ یہ بات درست نہیں ہو سکتی.پھر بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ گھر والا پوچھتا ہے کون ہے.اس کی یہ وجہ ہوتی ہے کہ بعض خاص آدمی ہوتے ہیں ان کے ملنے کے لئے اگر کوئی کام حرج بھی کرنا پڑے تو کر دیا جاتا ہے لیکن بعض کے ساتھ ملنا ضروری نہیں ہوتا اس لئے دریافت کیا جاتا ہے بخاری کتاب النکاح باب لا ينكح الاب وغيره البكر والقيب إلا برضاها.

Page 317

خطبات محمود جلد (5) تا کہ جیسا آدمی ہو ویسا اُسے جواب دیا جائے.اس طرح پوچھنے پر آگے سے یہ جواب ملتا ہے کہ میں ہوں.ایک دفعہ کسی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ پر دستک دی.آپ نے فرمایا من.دستک دینے والے نے کہا انا.یعنی میں ہوں.آپ نے فرمایا کیا میں میں نہیں ہوں.یہ کہنے سے میں تم کوکس طرح پہچان لوں.پس اگر پوچھا جائے تو اپنا نام بتانا چاہیئے تا پوچھنے والا پہچان لے کہ کون ہے.پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دستک دے کر دروازہ کے سوراخوں سے دیکھتے رہتے ہیں کہ اندر کیا ہو رہا ہے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ پر دستک دینے والے نے اس طرح کیا.آپ نے فرمایا یہ مجھے بعد میں پتہ لگا ہے اگر میں اُس وقت دیکھ لیتا تو اس کی آنکھیں پھوڑ دیتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مکان پر جا کر دستک دیتے تو اس سے دوسری طرف منہ کر کے کھڑے ہو جاتے اور جب اندر سے کوئی آتا تو السلام علیکم کہ کر اُس کی طرف لوٹتے سے.اس طرح کرنا بھی نہایت ضروری ہوتا ہے.کئی مکان ایسے ہوتے ہیں کہ ایک ہی کمرہ میں تمام گھر کے آدمی رہتے ہیں.جب اس کا دروازہ گھلتا ہے تو سامنے مستورات بیٹھی ہوتی ہیں اگر کوئی دروازہ کے سامنے مُنہ کر کے کھڑا ہوگا تو اس کی نظر ضرور اندر پڑے گی اور اس طرح بے پردگی ہوگی.اسی وجہ سے رسول کریم دائیں یا بائیں طرف مڑ کر کھڑے ہو جاتے تھے.یہ وہ آداب ہیں جو شریعت اسلام سکھاتی ہے.گو یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن اگر ان پر عمل کیا جائے تو نہایت سکھ اور آرام کی زندگی حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ اسلام کا ہر ایک حکم بہت مفید اور فائدہ رساں ہوتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو پھر بھی ان احکام پر جو تمدن کے متعلق ہیں کبھی کبھی بیان کرتار ہوں گا تا کہ وہی باتیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم نے بتائی ہیں ان پر ہماری جماعت عمل کرے اور دوسروں سے عمل کرائے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کی توفیق دے.بخاری کتاب الاستیذان باب اذا قال من ذا فقال انا.ے صحیح مسلم کتاب الادب باب تحریم النظر فی بیت غیرہ.الفضل ۴ /نومبر ۱۹۱۶ء) سنن ابی داود کتاب الادب باب كم مرة يسلم الرجل في الاستيذان.

Page 318

۳۰۸ 35 خطبات محمود جلد (5) دُعا کے ساتھ سامان سے کام لینا بھی ضروری ہے حضور نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر فرمایا:.(فرموده ۲۷/اکتوبر ۱۹۱۶ء) اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے ہی جو کام ہوتا ہے ہوتا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے ارادے اور منشاء کے ماتحت بنی نوع انسان کے لئے کچھ قوانین بھی مقرر فرمائے ہیں.اگر انسان ان سے ایک طرف ہو جاتا ہے تو دُکھ اُٹھاتا ہے.اس میں تو کچھ شک نہیں کہ دُعا اور توکل کا مسئلہ ایک اہم اور ضروری مسئلہ ہے.اور یہ بات بالکل درست ہے کہ جو کچھ دُعا کر سکتی ہے وہ کوئی اور چیز نہیں کر سکتی.اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ سامان کو بھی اس میں بڑا دخل ہے.ہاں صرف سامان پر ہی بھروسہ کر لینا کہ جو کچھ ہو سکتا ہے بس انہی کے ذریعہ ہوسکتا ہے یہ شرک ہے.ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا اتعلمون ماذ اقال ربّکم کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا.صحابہ نے عرض کی اللہ اور اُس کا رسول خوب جانتے ہیں ہمیں تو علم نہیں.آپ نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے من قال مطر نانبو کذا و کذا کہ جس نے کہا بارشیں فلاں فلاں ستارے کے اثر سے ہوتی ہیں اور یہ بارش جو ہوئی تو اسی لئے ہوئی کہ اس ستارے نے اپنا اثر کیا.ایسا شخص کا فربی و مؤمن بالکواکب.وہ میرا تو کافرہوتا ہے لیکن ستاروں پر ایمان لانے والا ہوتا ہے.لیکن اس میں کیا شک ہوسکتا ہے کہ موسموں پر کواکب کا بڑا اثر ہوتا ہے.چاند اور سورج بھی کواکب میں سے ہی ہیں اور ان کا موسموں کے ساتھ بڑا بھاری تعلق ہے مگر باوجود اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بارش فلاں فلاں ستارے کے اثر سے ہوئی وہ اللہ کے کافر ہیں اور ستاروں کے مؤمن لے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ ستاروں کے تغیرات کا کوئی اثر ہی نہیں.بعض لوگ کم فہمی کے باعث بخاری کتاب المغازی باب غزوة الحديبية -

Page 319

خطبات محمود جلد (5) ۳۰۹ یہ مفہوم نکالتے ہیں کہ اس حدیث میں کواکب کے اثرات سے انکار کیا گیا ہے.پھر وہ اس یقینی اور مشاہدہ میں آئی ہوئی بات کا انکار کرنے لگ جاتے ہیں کہ نہیں کو اکب کا کوئی اثر نہیں حالانکہ ان کا اثر ہوتا اور ضرور ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ کی ذات کو بالکل نظر انداز کر کے بکلی ستاروں پر انحصار کرنا کہ بارش جو برساتے ہیں تو یہ ستارے ہی برساتے ہیں یہ عقیدہ رکھنا درست نہیں.مگر ایسا شخص خدا کا منکر نہیں.جو خدا کو اصل موجب قرار دیتا ہے اور اعتقاد رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہی ان ستاروں کو پیدا کیا اور ان میں اثرات رکھے اور اسی کے ارادے کے ماتحت وہ اپنا اثر کرتے ہیں.دیکھئے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دینا شرک ہے مگر یہ عقیدہ کہ ملائکہ خدا کا کلام لاتے ہیں تثبیت قلب وغیرہ کرتے ہیں شرک نہیں ہے.لیکن ان دونوں باتوں میں فرق ہے.مشرک اور کافر بھی مانتے ہیں کہ ملائکہ ہیں اور وہ کچھ کام کرتے ہیں اور مسلمان بھی مانتے آئے اور مانتے ہیں کہ فرشتے ہیں اور ان پر ایمان لانا ضروری اور لازمی ہے مگر باوجود اس کے کافر مشرک کہلائے.کیوں؟ اسی لئے کہ کفار کا ماننا اس رنگ میں ہے کہ فرشتے جو کچھ کرتے ہیں خود ہی کرتے ہیں.مگر مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے تمام کام خدا تعالیٰ کے ارادے کے ماتحت ہوتے ہیں.اس لئے یہ شرک نہیں.ایک دفعہ آنحضرت کے پاس ایک اعرابی آیا.آپ نے پوچھا تمہارا اونٹ کہاں ہے.اُس نے کہا کہ باہر کھلا چھوڑ دیا ہے اور اللہ پر توکل کر کے آپ کے پاس آ گیا ہوں.فرمایا جاؤ اونٹ کا گھٹنہ باندھو پھر توکل کرو ا.حضرت مسیح موعود فرمایا کرتے کہ اسباب اور ذرائع سے کام نہ لینا اور پھر یہ کہنا کہ میں نے خدا پر توکل کیا ہے خدا کی آزمائش کرنا ہے لیکن ایک ادنی انسان کی کیا حیثیت ہے کہ وہ بادشاہ کی آزمائش کرے.یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو کبھی کامیابی نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے سامان کو ترک کرنے والا اور ان کو لغو قرار دینے والا متوکل نہیں کہلا سکتا بلکہ ان ذرائع کو جو خدا نے پیدا کئے ہیں کام میں لا کر پھر انہی پر اپنی کامیابی کا انحصار نہ کرتے ہوئے کامیابی کی امید خدا تعالیٰ پر ہی رکھنے والے کا نام متوکل ہے.ہاں خدا تعالیٰ خود اگر کسی خاص ذریعے سے کام لینا منع فرمادے تو وہ الگ بات ہے ورنہ اُس کے پیدا کردہ سامان کو لغو قرار دے کر ان کو استعمال میں نہ لانا خدا تعالیٰ کی آزمائش کرنا ہے.دیکھو طاعون کا ٹیکہ ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بھی ایک ذریعہ صحت ہے اور تجربہ سے ثابت ہوا ہے کہ اس وقت تک یہ ایک عمدہ علاج ہے مگر حضرت صاحب نے اپنی جماعت کو اس کے لگوانے سے منع فرمایا ہے حالانکہ آپ نے یہ بھی تسلیم فرمایا ہے کہ ٹیکہ بھی ایک علاج ہے.مگر چونکہ خدا تعالیٰ نے خود اس ذریعہ کو استعمال میں لانے سے روک دیا اس لئے آپ نے ل ترمذی کتاب صفة القيامة والرقائق والورع باب حدیث اعقلها و توکل) ۲ کشتی نوح

Page 320

خطبات محمود جلد (5) ۳۱۰ اپنی جماعت کو ٹیکہ کے لگوانے سے منع کر دیا ہاں ان کو اجازت دے دی جو حکام کی ماتحتی میں ٹیکہ لگوانے پر مجبور کئے جاتے ہیں.ٹیکہ کے متعلق قطعی رائے لگائی گئی تھی کہ طاعون کے لئے یہ یقینی علاج ہے اس لئے حضرت صاحب نے اس کے لگوانے سے روک دیا تا کہ آپ کی جماعت کی یہ خصوصیت کہ اس پر طاعون کا حملہ نہ ہوگا مشتبہ نہ ہو جائے اور یہ نہ سمجھا جائے کہ ٹیکہ لگوانے کی وجہ سے طاعون نے حملہ نہیں کیا ورنہ دوسرے ذرائع کو کام میں لانے سے حضرت صاحب نے نہیں روکا بلکہ فرماتے کہ جرابیں پہنو.اندھیری جگہوں میں نہ رہو.اور مکانات کو صاف اور سُتھرا رکھو.چونکہ ٹیکے کو یقینی علاج سمجھا گیا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے اس سے روک دیا اور دوسرے ذرائع پر بھروسہ نہیں کیا گیا تھا ان کے استعمال سے نہیں روکا گیا تھا حالانکہ واقعہ میں ٹیکہ بھی علاج تو ہے مگر چونکہ یہ علاج پیشگوئی میں رخنہ ڈالنے والا تھا اس لئے حضرت مسیح موعود نے اپنی جماعت کو منع فرما دیا ہاں جو ٹیکہ لگوانے پر مجبور کیا جاوے وہ مجبور ہے ) تا مخالفین کے لئے یہ ایک نشان ہو کہ باوجود یقینی علاج کو استعمال نہ کرنے کے ہماری جماعت کے لوگ شاذ و نادر ہی اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں مگر جہاں کا حکم نہ ہو وہاں اسباب اور ذرائع کو کام میں لاناہی تو گل ہے.چنانچہ سورہ فاتحہ جو پینتین بار ہر روز بلکہ پچاس ساٹھ بار اگر نوافل وغیرہ بھی شمار کئے جائیں پڑھی جاتی ہے.اور پھر کوئی روک نہیں کہ ہزار بار بھی پڑھی جائے کیونکہ نوافل کا پڑھنا کوئی محدود نہیں.اس میں خدا تعالیٰ نے دُعا کے گر بتائے ہیں.اوّل تو خود دعا سکھلائی ہے کیونکہ بندہ اگر خود دعا تجویز کرتا تو غلطی کا امکان تھا مگر خدا تعالیٰ نے دُعا خود سکھلا دی اور ساتھ ہی یہ فرما دیا کہ دُعا کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ بندہ خود بھی کچھ کوشش کرے.فرمایا إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ صرف منہ سے ہم تجھے معبود نہیں کہتے بلکہ عملاً اس عبودیت کے بجالانے کے لئے حاضر ہیں.پس اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ آپ عبودیت کے طریق ہمیں بتا ئیں.عبودیت خدا تعالیٰ کے فضل کی جاذب ہے.جب خدا کے فضل کے لئے بھی سامان عبودیت کی ضرورت ہے تو پھر دُنیاوی امور کے متعلق بدرجہ اولی سامان کی ضرورت ہونی چاہیئے.اگر کوئی عبودیت ان طریق پر نہیں کرتا تو پھر اس کی دُعا اور عبادت کا کوئی فائدہ نہیں.بہت لوگ ہیں جب ہم سے دُعا کا ذکر سنتے ہیں یا مولوی صاحب کے یا حضرت صاحب کی تحریروں میں پڑھتے ہیں تو وہ یہی سمجھ لیتے ہیں کہ بس جو کچھ ہے وہ دُعاہی دُعا ہے.اس بناء پر وہ کوشش اور محنت کو لغو ے حضرت مولوی نور الدین صاحب بھیروی خلیفہ اسیح اوّل.

Page 321

خطبات محمود جلد (5) ۳۱۱ اور بے فائدہ سمجھنے لگ جاتے ہیں حالانکہ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ ایسے لوگ جو اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ سامان سے کام نہیں لیتے وہ اللہ تعالیٰ کی آزمائش کرتے ہیں.ہاں اگر باوجود کوشش اور سعی کے کوئی سامان میٹر نہ ہو سکے تو ایسا شخص اگر باوجود ان ظاہری سامان کے نہ ہونے کے بھی دُعا کرتا ہے اور قبولیت دعا کے شرائط کو پورے طور پر بہم پہنچاتا ہے تو اسکی دعا قبول ہو جاتی ہے.ضرورت کے مطابق رکسی قافلے کی گری پڑی چیز ہی اس کو مل جائے گی جس کے ذریعہ وہ اپنی حاجت کو رفع کرلے گا یا خدا تعالیٰ اس کی حاجت کو ہی دُور کر دے گا.مگر یہ اُسی وقت ہوتا ہے جبکہ اپنی طرف سے انسان کوشش اور محنت کا حق ادا کر چکے.احادیث میں آیا ہے کہ کئی بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا موقع پیش آیا کہ سفر میں پانی کم ہو گیا آپ نے تھوڑے سے پانی میں ہاتھ ڈالا اور وہ بڑھ گیا..مگر یہ بھی ثابت ہے کہ اس خارق عادت امر دکھلانے سے پہلے آپ نے چاروں طرف آدمی دوڑائے کہ پانی کی تلاش کرو لیکن جب پانی کا کوئی سراغ نہ ملا تو پھر آپ نے ایسے ایسے معجزے دکھلائے کسی ایسی جگہ آپ نے کوئی معجزہ نہیں دکھلایا کہ جہاں سے پانچ سات میل تک پانی مل سکتا ہو اور آپ نے کہا ہو کہ وہاں سے پانی لانے کے لئے تکلیف کرنے کی کیا ضرورت ہے لو ہم خود اسی جگہ پانی بڑھا دیتے ہیں بلکہ اُس وقت آپ نے ایسا کیا جبکہ پانی کے ملنے سے بالکل نااُمیدی ہوئی.تو ایک شخص نے اگر پورا زادراہ لے کر ایک سینکڑوں میل کے جنگل کا سفر اختیار کیا ہو لیکن راستے میں اس کے سامان پر کوئی آفت آپڑی ہو اور وہ تباہ ہو گیا ہو اس لئے وہ نہ آگے کا رہا نہ پیچھے کا.ایسے وقت میں بغیر سامان مہیا کئے بھی وہ صرف دُعا پر بھروسہ کر سکتا ہے کیونکہ یہ ایسا موقعہ ہے کہ اب سامان کا مہیا کرنا اس کی طاقت سے باہر ہے.مگر جب کوئی شخص بغیر زادراہ کے اتنا لمبا سفر اختیار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ چلو ساتھ بوجھ کیا اُٹھانا ہے دُعا کر لیا کریں گے تو یہ درست نہیں ایسا کرنے والا تو خدا تعالیٰ کی آزمائش کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کو اس کی پرواہ کیا ہے.ہماری جماعت کو یا د رکھنا چاہئیے کہ دعاؤں کے ساتھ سامان کی بھی بڑی ضرورت ہے جو لوگ صرف دُعا پر ہی بھروسہ کر کے سامان کو لغو قرار دیتے ہیں وہ بجائے انعام الہی سے حصہ لینے کے غضب الہی کے مستحق ہو جاتے ہیں کہ وہ اس طریق عمل سے خدا تعالیٰ کا امتحان لیتے ہیں.امتحان ہمیشہ لائق لیا کرتا ہے.کیا کبھی کسی وزیر نے بھی بادشاہ کا امتحان لیا.نہیں بلکہ بادشاہ اور اس کی طرف سے لائق اشخاص کسی کی عقل فہم اور لیاقت کو دیکھتے ہیں اور اس طرح کوئی وزارت کا عہدہ پاتا ہے.پھر کسی طالب علم کا حق نہیں ہے کہ وہ اپنے اُستاد کا امتحان لے ہاں اُستاد کا حق ہے کہ اپنے صحیح مسلم کتاب الفضائل باب تفضیل نبینا صلی اللہ علیہ وسلم.

Page 322

خطبات محمود جلد (5) ۳۱۲ شاگرد کا امتحان لے تو پھر کسی انسان کی کیا حیثیت ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا امتحان لے بندہ کا یہ کام ہرگز نہیں اور جو ایسا کرتا ہے وہ اپنے آپ کو انعام النبی کا نہیں بلکہ عذاب الہی کا مستحق بنا تا ہے.جولوگ دُعاؤں کے عادی ہیں وہ اس بات کو کبھی نہ بھولیں.صدقہ و خیرات وغیرہ جس قدر بھی محبت اور قربت الہی کے ذرائع ہیں ان پر عمل کرتے ہوئے جو دُعا کرے گا وہ اپنے آپ کو فضلِ الہی کا مستحق بنائے گا.اسی طرح دُنیوی ترقی کے لئے بھی.مثلاً تجارت ہے، حرفت ہے.جو کوشش اور محنت کرتا ہے اور پھر ساتھ ہی دعا بھی کرتا ہے اس کو خدا تعالیٰ ترقی دیتا ہے.خدا تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے سامان کو ترک کرنا اس کی ہتک کرنا ہے.اس لئے ایسے لوگوں کی محض دعاؤں کی خدا کو کوئی پرواہ نہیں.مثلاً کسی نے امتحان دینا ہے.اب وہ کہے کہ مغز خوری کون کرے چلو دُعا کر کے امتحان میں شریک ہو جائیں گے ایسا شخص سوائے اس کے کہ ناکام رہے اور کیا فائدہ حاصل کر سکتا ہے.تو مقصد کے حصول کے لئے سامان کو مہیا کرنا اور اس سے کام لینا ضروری ہے اور پھر اس کے ساتھ دعا کی بھی سخت ضرورت ہے کیونکہ بعض انسان سامان مہیا کر لیتے ہیں اور ان سے کام بھی پورے طور پر لیتے ہیں مگر نتیجہ اچھا نہیں نکلتا.ان کی ساری محنت ضائع جاتی ہے.تو دُعا کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ نتیجہ بھی خیر نکلتا ہے اور محنت کا ثمرہ خدا تعالیٰ کی طرف سے پورا پورامل جاتا ہے.بعض لوگ سامان کو تو کل کے خلاف سمجھتے ہیں.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں لاہور سے گاڑی میں سوار ہوا اور اُسی گاڑی میں پیر جماعت علی شاہ بھی تھا.اُس نے کوئی ایسی چیز کھانے کو مجھے دینی چاہی جو میں نے کھانسی اور نزلے کے لئے مضر سمجھی اور کہا کہ مجھے نزلہ ہے میں نہیں کھا سکتا.پیر صاحب نے دیکھا کہ یہ موقعہ ہے کچھ تصوف کا اظہار کروں.بولے.ریزش نزلہ کا کیا ہے اگر خدا کو منظور نہیں تو آپ کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے.میں نے کہا پیر صاحب اگر آپ تھوڑی دیر پہلے یہ بتاتے تو آپ اور ہم دونوں فائدے میں رہتے اور وہ اس طرح کہ لاہور سے ہم ٹکٹ ہی نہ خریدتے بلکہ ٹانگے پر بھی پیسے نہ خرچ کرتے اگر خدا کو منظور ہوتا تو وہ مجھے یونہی قادیان اور آپ کو امرتسر پہنچا دیتا ( میں لاہور سے قادیان آرہا تھا اور وہ امرتسر ) کہنے لگے.خیر یہ تو سامان ہیں.میں نے کہا پھر یہ بھی تندرستی کو قائم رکھنے کے سامان ہیں.کہنے لگا ہاں ہاں میرا بھی یہی مطلب تھا.تو بعض لوگ سامان کا انکار قضاء و قدر کے ماتحت کر دیتے ہیں کہ اگر ایسا ہونا ہے تو ہو ہی جائے گا ہمیں کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے.اگر یہ بات صحیح تسلیم کی جائے تو پھر خدا تعالیٰ کا بدکاروں اور کافروں کو سزائیں دینا محض ظلم سمجھا جائیگا اس کی تو ویسی ہی مثال ہو جائے گی کہ ایک شخص کے ہاتھ میں چھری پکڑا کر اور پھر اس کے ہاتھ کو پکڑ کر ایک دوسرے کے گلے پر پھیر کر قتل کر دیتا ہے.اور پھر اس کو پھانسی پر لٹکاتا ہے کہ تو نے اسے کیوں قتل کیا.

Page 323

خطبات محمود جلد (5) اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ سُست ہوتے ہیں انہوں نے اپنی شستی پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ ڈھکونسلا بنالیا ہے کہ جو کچھ ہونا ہوتا ہے تقدیر سے ہوتا ہے.یہ تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں بعض تو قضاء و قدر کے ماتحت کہتے ہیں جف القلم بما هو كائن کہ جو کچھ ہونا ہے وہ پہلے ہی سے مقدر ہو چکا ہے اور اس طرح وہ سامان سے انکار کر دیتے ہیں.اور یہ دُنیا داروں کا طریق ہے کہ بدفعلیاں کیں اور قضاء قدر کے ذمہ لگا دیں.بعضوں نے دُعاؤں کے رنگ میں سامان کو ترک کر دیا ہے اور بعضوں نے توکل کے ماتحت.حالانکہ اسباب نہ دعا کے خلاف ہیں نہ قضاء و قدر کے خلاف اور نہ توکل کے خلاف.کیونکہ یہ بھی تو خدا کے ہی پیدا کئے ہوئے سامان ہیں اور کام میں لانے کی غرض سے پیدا کئے گئے ہیں.حضرت عمرؓ کے وقت جب طاعون نے زور پکڑا تو آپ نے حکم دیا کہ منتشر ہو جاؤ اور اپنی جگہوں کو چھوڑ دو.تو بعض صحابہ نے اعتراض کیا کہ آپ خدا کی قضاء سے بھاگتے ہیں.آپ نے فرما یا نفر من قضاء الله الى قضاء الله کہ ہم خدا کی ایک قضاء سے بھاگ کر اس کی دوسری قضاء کی طرف پناہ لیتے ہیں.تو سامان بھی خدا کے ہی پیدا کردہ ہیں ان سے کام لینا اس کی قضاء کے خلاف نہیں.اگر جبر تسلیم کیا جائے تو پھر خدا تعالیٰ ظالم ٹھہرتا ہے اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی کوئی خوبی خوبی ہی نہیں رہتی تا آپ سے کسی کے دل میں محبت پیدا ہو سکے.ایک جبریہ کہہ سکتا ہے کہ آپ کے بڑے ہونے میں آپ کی کوئی خوبی نہیں خدا نے پکڑ کر آپ کو بڑا بنادیا تو آپ کی ساری محنت، ریاضت اور خدا کی راہ میں مصائب کا جھیلنا کچھ چیز ہی نہ سمجھا جائے گا.آپ کا دُنیا میں صداقت کا پھیلا دینا کچھ وقعت نہیں رکھتا وہ کہہ سکتا ہے کہ انہوں نے اگر محنت کی تو خدا نے پکڑ کر کرائی.غرض اس طرح آپ کی کوئی خوبی بھی تسلیم نہیں کی جاسکتی.آپ کی جو خوبی بھی دیکھے گا کہے گا یہ دراصل خدا کا فعل تھا آپ کا اس میں کیا دخل تھا.لیکن سچی بات یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ سامان سے پورے طور پر کام لینے میں ہی مومن کی ترقی ہے اور مومن ہر رنگ میں ترقی کرتا ہے.صحابہ نے تجارت میں ترقی کی حکومت میں ترقی کی ، علوم میں ترقی کی.غرض مومن کی شان یہ ہے کہ وہ ہر رنگ میں دوسروں پر غالب رہے.صنعت اختیار کرے تو اُس میں اور حرفت اختیار کرے تو اُس میں.تجارت اختیار کرے تو اس میں ایک مومن کی یہی خواہش ہونی چاہیئے کہ وہ دوسروں پر غالب رہے.اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں صرف دینی ترقی کی ہی کوشش محدود نہیں بلکہ جس نے ے مسلم کتاب السلام باب الطاعون والطيرة نيز الفاروق حصہ اوّل مصنفہ مولا ناشبلی نعمانی.

Page 324

خطبات محمود جلد (5) ۳۱۴ تجارت کا پیشہ اختیار کیا ہوا ہے اس کو اس میں کوشش کر کے اور ترقی کرنی چاہیئے اور اس طرح مومن کو اپنے ہر کام میں چستی سے کام لینا چاہیئے.جو دنیا کے کاموں میں سُستی کرتے ہیں وہ پھر دین میں بھی شستی کرنے لگ جاتے ہیں.صحابہؓ کو جب خدا نے دیکھا کہ وہ بڑے چست اور ہوشیار ہیں تو دین اور دنیا دونوں میں ان کو عروج اور ترقی بخشی.خدا کرے ہماری جماعت کے لوگ بھی بڑے کا رکن محنتی اور ہوشیار ہوں اور پھر باوجود اس کے خدا کے فضل پر اُمید رکھیں نہ کہ ظاہری سامانوں پر.(الفضل ۷ نومبر ۱۹۱۶ء)

Page 325

۳۱۵ 36 خطبات محمود جلد (5) ۱۳۳۵ھ کی آمد (فرموده ۳ / نومبر ۱۹۱۶ء) سورہ فاتحہ اور مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کے بعد فرمایا:.وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدُه ! اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے احسان بہت وسیع ہیں.کوئی ادنیٰ سے ادنی مخلوق بھی یہ نہیں کہ سکتی کہ مجھ پر خدا کا کوئی احسان نہیں.کیوں.اس لئے کہ ہر ایک چیز کا وجود اللہ کے فضل کے ماتحت پیدا ہوا ہے.اور جوبھی مخلوق ہوگی وہ خدا کے زیر احسان ہی ہوگی اور ایسی کوئی چیز ہے نہیں جو مخلوق نہ ہو.پس ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کے احسانوں کے نیچے دبی ہوئی ہے.ادنیٰ سے ادنی کپڑے سے لے کر بڑے سے بڑے فرشتے اور نبی تک تمام اللہ تعالیٰ کے احسانوں اور فضلوں کے نیچے ہیں اور کسی کا کوئی دم ایسا نہیں گذرتا کہ اللہ کے احسانوں کے نیچے وہ زندگی نہ بسر کر رہا ہو لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ خدا کے فضلوں اور احسانوں سے خاص حصہ پاتے ہیں.اس لئے گو ہر ایک انسان بلکہ ہر ایک جاندار پر اللہ کا شکر ادا کرنا پر فرض اور واجب ہے مگر ان لوگوں، ان جماعتوں اور ان گروہوں کا خاص فرض ہوتا ہے جو اس کے انعامات سے خاص حصہ پاتے ہیں اور جولوگ اپنے او پر خدا تعالیٰ کے انعامات کے ہوتے ہوئے پھر اس کا شکریہ ادا نہیں کرتے یا ادا کرنے میں کوتاہی سے کام لیتے ہیں یا ان میں سے کچھ افراد شستی دکھاتے ہیں وہ خدا تعالیٰ سے بہت دُور جا گرتے ہیں اور بہت سخت سزا کے مستحق ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے قانون کے ماتحت اور اس قانون کے ماتحت کہ جو جب سے دُنیا کا سلسلہ شروع ے ابراہیم : ۸

Page 326

خطبات محمود جلد (5) ٣١٦ ہوا ہے چلتا آ رہا ہے.اب ایک نیا سال شروع ہوا ہے.اور کسی نئے سال کا آنا کوئی نئی بات نہیں ہر آنے والا سال نیا ہی ہوتا ہے اور ہر بارہا ماہ کے بعد نیا سال شروع ہو جاتا ہے.پس یہ کوئی نئی بات نہیں ہے.قانونِ قدرت کے ماتحت ایسا ہوتا آیا ہے اور اب بھی ہوا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی خاطر چاند، سورج اور ستاروں کے لئے رفتار مقرر کی ہوئی ہے اسی رفتار کے ماتحت دن، ہفتے، مہینے اور سال بدلتے رہتے ہیں.پس نئے سال کا چڑھنا کوئی نئی بات نہیں مگر اس سال کے متعلق بعض اندازوں کے مطابق ایک پیشگوئی ہے.بعض اندازے میں نے اس لئے کہا ہے کہ پیشگوئی کے الفاظ صاف نہیں ہیں بلکہ استدلال کیا گیا ہے اور مختلف استدلال کئے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس پیشگوئی میں جو بارہ سو اٹھانوے اور تیرہ سو پینتیس دن کا ذکر آتا ہے یہ بجری سنہ ہے کیونکہ الہامی زبان میں دن بمعنی سال کے ہوتے ہیں اس لئے بہتوں کی نظریں اس کی طرف لگی ہوئی ہیں.بعضوں کی تو اس لئے کہ یہ ایک خاص پیشگوئی ہے اور بعضوں کی دیگر وجوہات سے.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آخری سال حضرت مسیح کی آمد کا ۱۳۳۵ ہے.مجھے خوب یاد ہے کہ انبالہ سے ایک شخص نے اشتہار شائع کیا تھا غالیا ۵ یا لاء کا ذکر ہے اس میں اس نے لکھا تھا اور بڑے زور سے لکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود کی آمد ۱۳۳۵ھ میں ہوگی.اسی طرح دہلی سے ایک شخص نے رسالہ لکھا ہے اس نے بھی ۱۳۳۵ھ آخری میعاد حضرت مسیح موعود کے آنے کی رکھی ہے.یورپ کے لوگوں میں سے بھی بعضوں نے مختلف حسابات کے ماتحت اس بات کا فیصلہ کر چھوڑا ہے کہ ۱۳۳۵ھ مسیح کی آمد کا سال ہے.اسی بناء پر اس کا بڑا انتظار ہورہا تھا اب جو یہ سال آ گیا ہے تو اس کے نتائج کا انتظار ہے اللہ تعالیٰ چاہے گا تو ان بارہ مہینوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منکروں کو ایک اور نا امیدی ہوگی اور ان میں سے جو عقلمند اور دانا ہوں گے وہ سمجھ لیں گے کہ جس مسیح نے آنا تھا وہ آپ کا اور کسی نے نہیں آنا تو اس طرح ہمارے لئے ایک فتح تو ضروری ہے اور وہ یہ کہ دشمن نے جو اندازہ لگایا ہوا ہے کہ ۱۳۳۵ھ میں حضرت مسیح نے آنا ہے وہ آپکا ہے اب ان کے لئے دو ہی باتیں ہوں گی یا تو یہ کہ وہ کہہ دیں کہ کسی مسیح نے نہیں آنا اور یا یہ کہ جس نے آنا تھا وہ آ گیا.اب سوائے ان لوگوں کے جو یہودیوں کی طرح ڈھیٹھ ہوں گے کہ باوجود اس کے کہ حضرت مسیح ناصری کی آمد کو انیس سو سال ہو گئے مگر وہ ضد اور تعصب کی وجہ سے اس وقت تک اس خیال کو ترک نہیں کرتے کہ مسیح نے آنا ہے.وہ بھی یہی کہتے رہیں گے کہ مسیح موعود نے ابھی آنا ہے اور ایسے لوگوں کا مسلمانوں میں سے پیدا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو یہود سے مشابہت دی ہے مگر جو دانا اور سمجھدار ہوں گے اور جو تعصب اور عداوت ،ضد اور شرارت سے انکار نہیں کریں گے جب وہ دیکھیں گے کہ جن پیشگوئیوں کے مطابق ۱۳۳۵ھ میں مسیح موعود کی آمد کا اندازہ لگایا گیا تھا وہ اندازہ پورا ނ

Page 327

خطبات محمود جلد (5) ۳۱۷ ہو گیا ہے.تو یا تو انہیں اس پیشگوئی کو بناوٹی اور جعلی قرار دینا پڑے گا یا یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مسیح موعود آ گیا ہے.اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سوا اور کسی نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اس لئے آپ کو انہیں مسیح موعود مانا پڑے گا.یہ توہمارے لئے بنی بنائی فتح ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے لکھی جا چکی ہے.باقی اور بہت سی امیدیں کہ یہ سن ہمارے لئے فتوحات کا ابتدائی سال ہے.چنانچہ ہماری جماعت کے لوگ اس پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں اور میرے پاس مبارکباد کے خطوط بھی آئے ہیں لیکن میں ایسے سب لوگوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ۳۳۵ ھ میں بلحاظ دنوں، ہفتوں، اور مہینوں یا چاند کی رفتار کے ۳۳۶اه یا ۳۳۴اہ سے کوئی زیادتی نہیں ہے.یہ بھی اس قسم کائن ہے جیسے کہ پہلے گزر چکے ہیں.اس میں کونسے لعل لگے ہوئے ہیں کہ اسے دوسروں سے بڑا سمجھیں.اس میں کوئی خصوصیت نہیں ہے.وہ جماعت جو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے انعامات کا وارث ثابت کر دے اس کے لئے ۳۳۲ ھ اور ۳۳ھ بھی ۳۳۵ ھ ہی بن جاتے ہیں اور جو جماعت اپنے اعمال اور افعال سے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے غضب اور سزا کا مستحق بنالیتی ہے اس کے لئے ۱۳۳۵ھ یا د ۳۳ ھ یا ۱۳۴۰ ھ سب برابر ہو جاتے ہیں.ہر ایک فتح کے ساتھ شکست بھی ہوتی ہے.کیا آج تک ایسی بھی کوئی فتح ہوئی ہے کہ جس کے ساتھ شکست نہ ہو.ہرگز نہیں.آج تک تو یہی ہوتا چلا آیا ہے کہ اگر ایک گروہ کو فتح حاصل ہوئی ہے تو اسی فتح کے ساتھ دوسرے گروہ کو شکست بھی ہوئی ہے.پس اگر یہی سال ایک جماعت کے لئے مبارک ہے تو کیا اس کے ساتھ ہی یہ خیال بھی نہیں پیدا ہوتا کہ یہی ۳۳۵ ھ کسی اور کے لئے منحوس اور نامبارک بھی ہے.تو اس سال کی یہ خصوصیت نہیں ہو سکتی کہ تمام کے لئے مبارک ہی ہو.ضرور اگر ایک گروہ کے لئے مبارک ہے تو دوسرے کے لئے نامبارک بھی ہے.باقی رہا یہ کہ مبارک کس کے لئے ہے اور نامبارک رکس کے لئے؟ اس میں تو کچھ شک ہی نہیں کہ جو میدان ایک قوم کے لئے فتح اور کامیابی کا باعث بنتا ہے وہی میدان دوسری قوم کے لئے شکست اور نا کامی کا بھی موجب بنتا ہے.اور جس طرح وہ میدان یہ یاد دلاتا ہے کہ فلاں قوم کو اس میں فتح نصیب ہوئی تھی اسی طرح وہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ اسی موقعہ پر کسی کو شکست بھی ہوئی تھی.پس جہاں عظیم الشان فتح ہوتی ہے وہاں بہت بڑی شکست بھی ہوتی ہے.اس لئے ڈرنا چاہئیے کہ فتح ہمارے دشمنوں کو نہ ہو اور شکست ہمارے حصہ میں نہ آئے.جتنی بڑی کوئی فتح ہوتی ہے اس کے ساتھ اتنی ہی بڑی شکست بھی وابستہ ہوتی ہے.پس جہاں بہت بڑی فتح سے خوشی ہونی چاہئیے وہاں اس بات سے ڈرنا بھی بہت چاہئیے کہ ہمارے حصہ میں شکست نہ آئے.

Page 328

خطبات محمود جلد (5) ۳۱۸ کوئی کہے ۳۳۵ ھ تو فتح اور کامیابی کے لئے مقرر ہے اور خدا نے کہہ دیا ہے کہ ”مبارک وہ جو انتظار کرتا ہے اور ایک ہزار تین سو پینتیس روز تک آتا ہے.“ اے اِس لئے ہمیں ضرور کامیابی ہوگی.مگر ایسے لوگوں کو یا درکھنا چاہئیے کہ یہ پیشگوئی دانیال نبی کی کتاب میں ہے اور دانیال نبی حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے اتباع میں سے تھے.حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک اولوالعزم نبی تھے اور خاص شان رکھنے والے تھے.خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آپ سے مشابہت دی ہے.اور جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مشابہت دی جائے وہ کوئی معمولی انسان نہیں ہو سکتا.آپ سے خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ تو اور تیری قوم فلاں ملک کی وارث بنائی جائے گی لیکن چونکہ ان کی قوم نے اپنے آپ کو اس لائق نہ بنایا کہ خدا تعالیٰ اس کو اپنا یہ انعام دیتا اس لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اس وعدہ کو چالیس سال پیچھے ڈال دیا ہے.پس جب موسیٰ علیہ السلام جیسے عظیم الشان نبی کی پیشگوئی کو چالیس سال پیچھے ڈال دیا جا سکتا ہے تو حضرت دانیال کی پیشگوئی کو کیوں پیچھے نہیں ڈالا جاسکتا.اگر خدا تعالٰی کو کسی کا لحاظ یا کسی کی خاطر منظور ہوتی تو موسیٰ اس بات کے زیادہ مستحق تھے کہ ان کی قوم کو موعودہ ملک دے دیا جاتا کیونکہ وہ صاحب شریعت اولوالعزم نبی تھے.پھر خدا تعالیٰ ان کی نسبت فرماتا ہے كلم الله موسی تکلیمات کہ جب خدا تعالیٰ نے موسیٰ سے کلام کیا تو درمیان میں کوئی روک اور پردہ نہ تھا.اتنے بڑے نبی کی پیشگوئی کو جب اس کی جماعت کی شستی اور نالائقی کی وجہ سے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے تو حضرت دانیال کی پیشگوئی کو کیوں پیچھے نہیں ڈالا جا سکتا.پس ۳۵ ا ھ میں ہمارے لئے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے اس میں تو شک نہیں.اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے ہماری جماعت کے ساتھ اس سال کا خاص تعلق ہے.پہلے تو یہ خیال تھا کہ شاید اس سنہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہومگر وہ تو اس سے پہلے ہو چکی اس لئے وہ مراد نہیں ہوسکتی بلکہ اس سال سے ہماری جماعت کی ترقی کی ابتداء مراد ہے.وہ ترقی کیسی ہوگی ؟ رکس رنگ میں ہوگی؟ کس طرح ہوگی؟ اگر اس پیشگوئی کو جس طرح سمجھا گیا ہے اسی طرح درست مان لیا جائے تو بھی یہ باتیں نہیں بتائی جاسکتیں کیونکہ پیشگوئی کو پورا ہونے سے قبل سمجھنے میں تو ایک نبی بھی غلطی کھا سکتا ہے چہ جائیکہ ہم اس کے متعلق کچھ بتا سکیں.پس اگر واقعہ میں ۱۳۳۵ھ میں جماعت حضرت مسیح موعود کی فتوحات کی ابتداء ہے تب بھی ہم نہیں جانتے کہ ہمیں کس طرح اور کیا فتوحات حاصل ہوں گی.اللہ تعالیٰ کے وعدے کئی اقسام کے ہوتے ہیں.کبھی بڑے زور سے ایک بات کہی ہوئی معلوم ہوتی ہے لیکن جب پوری ہوتی ہے ه دانیال ۱۲/۱۲ ۲ اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا (امر مثل :) قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةٌ (المائده: ۲۷) ۴ النساء : ۱۶۵

Page 329

خطبات محمود جلد (5) ۳۱۹ تو بہت معمولی نکلتی ہے.اسی طرح کبھی ایک بات بالکل معمولی معلوم دیتی ہے لیکن جب پوری ہوتی ہے تو بڑے عظیم الشان نتائج پیدا کرتی ہے.کبھی جس رنگ میں کوئی بات کہی جاتی ہے اسی رنگ میں پوری ہوتی ہے.اس کی ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ انسان کی نظر ایک بات کوزور دار جھتی ہے مگر دراصل وہ کمزور ہوتی ہے.اور اسی طرح ایک بات کو انسان اپنے نزدیک کمزور سمجھتا ہے مگر دراصل وہ بہت زور دار ہوتی ہے.دیکھوظاہر نظروں میں بدر اور احزاب کی لڑائیوں میں بڑی بھاری فتح ہوئی تھی مگر خدا تعالیٰ نے صلح حدیبیہ کو جسے ظاہر میں شکست سمجھا گیا تھا بڑی بھاری فتح قرار دیا ہے.تو کبھی ظاہرہ الفاظ سے ایک بات بڑی معلوم ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ معمولی نکلتا ہے مگر اس لئے نہیں کہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ نے غلطی سے معمولی الفاظ کی بجائے زور دار الفاظ میں اس کو بیان کیا ہوتا ہے بلکہ اس لئے کہ وہ واقعہ بڑے بڑے نتائج پیدا کرتا ہے.اسی طرح اگر کسی بات کے متعلق الفاظ معمولی ہوں اور واقعہ بہت ہیبت ناک ظہور پذیر ہو اس لئے نہیں کہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ کو ایسا معلوم نہ تھا اس لئے اس نے معمولی الفاظ میں اس کا ذکر فرمایا ہوتا ہے بلکہ اس لئے کہ گوہ بظاہر خطرناک اور بڑا واقعہ ہوتا ہے مگر نتائج کے لحاظ سے کوئی ایسا خطر ناک نہیں ہوتا.اور اگر کوئی پیشگوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے جن الفاظ میں بیان کی جاتی ہے انہیں میں پوری ہوتی ہے تو اس کے متعلق یہ خیال نہیں ہوتا کہ اسی طرح پوری ہوئی بلکہ اس کے نتائج ہی ایسے مد نظر ہوتے ہیں.بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی کامیابی سمجھتا ہے اور اپنے خیال میں فتح حاصل کر چکا ہوتا ہے لیکن وہ فتح کوئی دیر پانہیں ہوتی فوراہی دشمن دوبارہ حملہ کر کے اسے شکست دے دیتا ہے.کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک کامیابی کو انسان بہت معمولی سمجھتا ہے مگر تھوڑے ہی عرصہ کے بعد اُسے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ کوئی معمولی کامیابی نہ تھی بلکہ بہت بڑی تھی کیونکہ اس کے نتائج بہت بڑے نکلتے ہیں.اس قسم کے نظارے ہم دُنیاوی جنگوں میں بھی کثرت سے دیکھتے ہیں.آج کل وہ لوگ جو جنگ کی خبریں پڑھتے ہیں وہ کثرت سے اس قسم کے واقعات بھی پڑھتے ہیں کہ ایک کامیابی کو بہت بڑا سمجھا جاتا ہے لیکن بعد میں اس کے متعلق کہنا پڑتا ہے کہ یہ بہت معمولی تھی.اسی طرح ایک فتح کو بہت معمولی قرار دیا جاتا ہے لیکن بعد میں پتہ لگتا ہے کہ وہ بہت اہم فتح ہے.چند ہی دن ہوئے ایک خبر آئی تھی کہ ایک معمولی سانا کہ فتح ہوا ہے لیکن اسی کے متعلق بعد میں یہ خبر آئی کہ جرمن اس کے فتح کرنے کے لئے بڑا زور ماررہے ہیں کیونکہ اس راستہ سے وہ اپنی فوجوں کو اسلحہ وغیرہ پہنچایا کرتے تھے.تو وہی نا کہ جو پہلے معمولی سمجھا گیا تھا بعد میں بہت بڑا قرار دیا گیا.لیکن خدا تعالیٰ تو پہلے ہی ہر ایک چیز کے نتائج سے واقف ہوتا ہے اس لئے جس واقعہ سے بڑے اہم نتائج نکلنے ہوتے ہیں اسے غیر معمولی قرار دیتا ہے خواہ بظاہر وہ چھوٹا ہی نظر آئے.اور جس سے معمولی نتائج نکلنے ہوں اسے معمولی کہتا ہے خواہ بظاہر وہ بڑا ہی

Page 330

خطبات محمود جلد (5) دکھائی دے.مگر انسان جس کی نظر ظاہر پر ہوتی ہے وہ ظاہر پر لٹو ہو کر بعض اوقات یہ بھی کہہ دیتا ہے کہ کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا.تو پیشگوئی میں ایسی باتیں بھی ہوتی ہیں.اس لئے ہم نہیں جانتے کہ یہ پیشگوئی اس رنگ میں جس میں کہ مجھی گئی ہے پوری ہوگی یا کسی اور رنگ میں.پھر یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ دنیا اس کے پورا ہونے کو فوراً دیکھ لے گی یا ہمیں بھی اس کے پورا ہونے کا پتہ نہیں لگے گا.اور بعد میں اس سے بڑے بڑے نتائج نکلیں.پس ہوسکتا ہے کہ ساری دُنیا اس پیشگوئی کو پورا ہوتا دیکھ لے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس طرح حضرت مسیح نے کہا ہے کہ وہ چوروں کی طرح آئے گا لے اس لئے یہ بھی چوروں کی طرح آئے.مگر وہی دو تین چار پانچ دس ہیں سال کے بعد بڑے بڑے اہم نتائج پیدا کرنے کا موجب ہو جائے.بعض درخت بڑے ہوتے ہیں لیکن ان کے بیچ بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور بعض چھوٹے ہوتے ہیں مگر ان کے بیج بڑے ہوتے ہیں.پس ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ پیشگوئی کس رنگ میں پوری ہوگی اور کس رنگ میں نہیں.ہاں سوال یہ ہے کہ ہماری جماعت نے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے انعامات کی مستحق قرار دے لیا اور انعام حاصل کرنے کے قابل بنالیا ہے یا نہیں.اس کے لئے خدا تعالیٰ ایک معیار مقررفرماتا ہے اور وہ یہ کہ وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْ تُمْ لَا زِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ.یاد کرو اس بات کو کہ جب تمہارے خدا نے بڑے زور اور بڑی شان و شوکت سے اس بات کا اعلان کر دیا ہے کہ لئن شَكَرْتُمْ اگر تم میرے شکر گزار بنو گے اور میرے پہلے انعامات کی قدر دانی کرو گے تو میں اپنی ذات کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تمہیں بڑے بڑے انعام دوں گا لیکن اگر تم میرے پہلے انعامات کی بے قدری کرو گے اور ان کے لئے شکر گذار نہ بنو گے تو یہ بھی یادرکھو کہ میں عذاب بھی بڑا سخت دیا کرتا ہوں.یہ ایک معیار ہے جواللہ تعالیٰ نے بتایا ہے اس سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ آیا میں انعام پانے کا مستحق ہوں یا عذاب کا.پس بجائے اس کے کہ ہماری جماعت کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کو مبارکباد دیں اور خوش ہوں کہ ۳۳۵ ھ آ گیا ہے انہیں اپنی حالت پر نظر کرنی چاہیئے.۱۳۳۵ھ میں کوئی زیادہ بات نہیں، یہ بھی ایسا ہی سال ہے جیسے کہ پہلے تھے.ہاں اس میں یہ خصوصیت ہے کہ اس کے متعلق ایک وعدہ اور پیشگوئی سمجھی جاتی ہے اور بے شک یہ ایک خصوصیت ہے مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَئِن شَكَرْتُم لَا زِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِید کہ وعدے بھی ایسی ہی قوم کے ساتھ پورے ہوتے ہیں جو اپنے آپکو ان کا اہل ثابت کر دیتی ہے اور جو اہل ثابت نہیں کرتی اس سے خدا تعالیٰ اپنے وعدے بھی ٹال دیتا ہے.دیکھو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم سے ایک وعدہ تھا لیکن خدا تعالیٰ نے اسے چالیس سال متی ۴۳/ ۲۴ -

Page 331

خطبات محمود جلد (5) ۳۲۱ پیچھے ڈالدیا.کیوں اس لئے کہ اس نے خدا تعالیٰ کے انعامات کی قدر نہ کی.خدا تعالیٰ کے ان لوگوں پر کتنے بڑے فضل ہوئے تھے.ایک ایسے جابر دشمن سے انہیں چھڑا یا گیا جس سے چھوٹنے کی انہیں کبھی اُمید نہ تھی.وہ اس کے مقابلہ میں ہر طرح سے کمزور اور نا توان تھے.ان کے لڑکوں کو مار دیا جاتا تھا اور ان کی لڑکیاں زندہ رکھی جاتی تھیں مگر باوجود ان کی اس حالت کے خدا تعالیٰ نے انہیں نجات دی اور ایک خطرناک راستہ سے سمندر میں سے صحیح و سلامت پار کر دیا اور ان کی آنکھوں کے سامنے ہی ان کے دشمن کو غرق کر دیا پھر بھی ان لوگوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بات کو نہ مانا اور جب انہوں نے حکم دیا کہ جاؤ لڑ و تو با وجود اس کے کہ انہیں فتح اور کامیابی کا وعدہ بھی دیا گیا تھا انہوں نے لڑنے سے انکار کر دیا اور کہ دیا کہ ہم سے نہیں لڑا جاتا.یموسی اِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا أَبَدًا مَّا دَامُوا فِيهَا فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَا قُعِدُونَ 10 اے موسی تو اور تیرا خدا جا کر ان سے لڑو ہم تو یہ بیٹھے ہیں.جب تک وہ لوگ اس ملک میں موجود ہیں ہم تو کبھی بھی اس میں داخل نہ ہوں گے.تو اس طرح انہوں نے اس ملک میں داخل ہونے سے انکار کر دیا جس کی سزا میں خدا تعالیٰ نے ان کا وعدہ چالیس سال اور پیچھے ڈال دیا.لڑنے والے عموما میں اکیس سال کے لڑائی کے قابل ہوتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اوسط عمر ساٹھ سال فرمائی ہے ۲.تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم سے وہ چھوٹی سے چھوٹی عمر کا انسان جس نے لڑنے سے انکار کیا اس چالیس سال کے عرصہ میں مر گیا تب جا کر ان کا وعدہ پورا ہو ا.چنانچہ بائیبل سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں سے چالیس سال تک وہی زندہ رہا جس نے لڑنے سے انکار نہیں کیا تھا اور انکار کرنے والے سب کے سب ہلاک ہو گئے تو ان سے وعدہ مل گیا.پس اگر ہم نے بھی اپنے اندر کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی اور خدا تعالیٰ کے انعامات کے شکر گزار نہیں ہوئے تو یہ سال ہمارے لئے کیا تبدیلی پیدا کر سکتا ہے.کیا اس سے پہلا سال اسی خدا کا نہ تھا.جس کا یہ ہے اسی کا تھا.پھر اس سال نے کیا کرنا ہے.ہاں اگر کوئی ذریعہ ہمیں فاتح اور کامیاب بنا سکتا ہے تو وہ تعلق ہے جو خدا تعالیٰ سے ہو.اور اگر کوئی چیز خدا تعالیٰ کے رحم اور فضل کو جذب کر سکتی ہے تو وہ وہ ایثار ہے جو ہم خدا کی راہ میں دکھائیں لیکن اگر ہم میں ایثار اور خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں اور ہم اس کی فرمانبرداری اور اطاعت میں کامل نہیں ہوئے تو یہ سال ہمارے اندر کوئی تبدیلی نہیں پیدا کر سکتا.اور جو سال ایسا ہے کہ اس میں ہمارا خدا تعالیٰ سے کامل تعلق ہو گیا المائده : ۲۵ - ۲ ترمذی کتاب الزهد باب ما جاء في فَنَاءِ اعمار هذه الامة ما بين الستين إلى السبعين.

Page 332

خطبات محمود جلد (5) ۳۲۲ ہے وہ سال ہمیشہ ۱۳۳۵ ہجری ہی ہے.یہی وجہ ہے کہ نبیوں پر جو خدا کے فضل ہوتے ہیں وہ کسی خاص سال سے تعلق نہیں رکھتے.حضرت مسیح موعود پر جو فضل ہوئے کیا ہ۳۳ ہجری میں آپ سے زیادہ کسی پر فضل ہو جائے گا.یا ۳۳۵لاھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے زیادہ کوئی بات حاصل ہو جائے گی.ان کے مقابلہ میں تو ۱۳۳۵ھ عشر عشیر بھی نہیں ہے.حضرت مسیح موعود کے لئے ۳۳۵لاھ کی کوئی شرط نہ تھی.آپ کے لئے ہر دن اور ہر گھڑی ۳۳۵اتھ ہی تھا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر.میں تو سمجھتا ہوں کہ ۳۳۵لاھ تک جود پر ہوئی ہے یہ ہماری کوتاہیوں اور سستیوں ہی کی وجہ سے ہوئی ہے ورنہ اگر ہم خدا تعالیٰ کی کامل فرمانبرداری اور اطاعت کرتے تو ہمارے لئے حضرت مسیح موعود کی زندگی سے ہی ۱۳۳۵ھ شروع ہو جاتا جیسا کہ صحابہ کرام کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے ہی شروع ہو گیا تھا.حضرت ابوبکر کے وقت ایک ابتلاء آیا تھا لیکن چھ مہینے کے اندر اندر دُور ہو گیا اور زیادہ سے زیادہ ایک سال تک اس کا اثر رہا اور ان کے زمانہ میں ایک قلیل حصہ اس کا رہا.تو ۱۳۳۵ ھ کوئی خصوصیت نہیں رکھتا.جس بات کی اس سال کی وجہ سے خوشی ہے وہ ہر روز اور ہر سال میتر ہو سکتی ہے مگر ضرورت ہے اس بات کی کہ خدا تعالیٰ کے انعامات کی پوری پوری شکر گذاری کا مادہ اپنے اندر پیدا کیا جائے.کس قدر احسانات ہیں جو ہم پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہوئے ہیں.کیسی جہالت اور تاریکی میں ہم پڑے ہوئے تھے.اللہ تعالیٰ کی محبت اور اُلفت کو جانتے تک نہ تھے.شریعت پر عمل کرنا دو بھر ہو گیا تھا مگر جس طرح اندھیرے اور ظلمت میں سورج نکل آتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو ظاہر کر دیا اور آپ کی وجہ سے تمام اندھیرا دُور ہو گیا.دُنیا کی یہ حالت ہو چکی تھی کہ نیکی کو برائی اور برائی کو نیکی سمجھا جاتا تھا.ہلاکت کو کامیابی اور کا میابی کو ہلاکت خیال کیا جاتا تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آکر برائی کو برائی اور نیکی کو نیکی دکھا دیا.پھر آپ کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی حقیقت، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور قرآن کریم کی قدر ہمیں معلوم ہوئی.پھر آپ کی وجہ سے اسلام کی شان و شوکت بڑے زور شور سے ظاہر ہوئی اور ہمیں خدا تعالیٰ کا قرب اور محبت حاصل ہوگئی.پھر دُنیاوی رنگ میں بھی ہماری جماعت کے لوگوں پر بڑے بڑے فضل ہوئے.ان کے مصائب دُور ہو گئے.خدا تعالیٰ نے انہیں عرب تیں دیں.ان کے دشمن ہلاک اور رُسوا ہوئے.اور اب اگر چہ دوسرے لوگ احمدیوں کو کافر ہی کہتے ہیں لیکن یہ بھی مانتے ہیں اگر کوئی گروہ قابل عزت ہے تو یہی ہے.یہاں جھنگ کے ضلع سے ایک شخص آیا کرتا ہے اس کے دوسرے رشتہ دار چور اور ڈاکو ہیں اور اُسے کہتے رہتے ہیں کہ تو احمدیت کو چھوڑ دے.اس بات کے لئے اُسے بہت تکلیف بھی دیتے ہیں اور وہ اُن سے بھاگ کر یہاں آجاتا ہے.لیکن چونکہ گھر کا کام کاج بہت اچھی طرح کرتا ہے اس لئے اُسے پھر بلا لیتے ہیں.اس کے ساتھ

Page 333

خطبات محمود جلد (5) ۳۲۳ تمام لوگ یہاں تک عداوت اور دشمنی کرتے ہیں کہ اس سے مل کر کھانا نہیں کھاتے اور پانی تک نہیں پیتے.لیکن جب کوئی چوری ہو اور اس کے رشتہ داروں پر اس کا شبہ ہو تو آکر کہتے ہیں کہ اگر یہ کہہ دے کہ تم نے چوری نہیں کی تو ہم مان لیں گے.وہ یہاں آکر کہا کرتا ہے کہ ایسے موقعہ پر میرے لئے بہت مشکل ہو جاتی ہے.اگر میں سچ بات کہوں تو میرے رشتہ دار مجھے مارتے ہیں کہ تو نے کیوں ہماری چوری بتادی.اور جھوٹ میں کہہ نہیں سکتا.ان کو بہتیرا کہتا ہوں کہ مجھ سے کیوں پوچھتے ہو مجھے تو تم کافر کہتے ہو جاؤ کسی اور سے دریافت کرلو لیکن وہ نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ تو ہے تو کا فرلیکن جھوٹ کبھی نہیں بولتا ہم تجھ سے ہی گواہی لیں گے.جب وہ اس بات پر زور دیتے ہیں تو میرے رشتہ دار بھی مجھے کہتے ہیں کہ تم گواہی دے دو لیکن ساتھ ہی اشاروں سے یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارا نام نہ لینا لیکن میں سچی گواہی دے دیتا ہوں اس پر وہ مجھے مارتے اور تنگ کرتے ہیں.تو ہمارے دشمنوں کو اقرار ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ جھوٹ نہیں بولتے.اور یہ بھی وہ مانتے ہیں کہ مرزا صاحب کے ماننے کی وجہ سے ان میں یہ تبدیلی پیدا ہوئی ہے.وہ ہماری جماعت کے لوگوں کی عزت کرتے اور دوسروں سے بڑھ کر اعتبار کرتے ہیں تو یہ ہم پر کس قدر خدا تعالیٰ کے فضل ہیں.پھر ہماری جماعت کا ہر ایک فرد غور کرے تو اُسے معلوم ہو جائے گا اس کے راستہ میں کس قدر مشکلات اور مصائب آئیں مگر مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے کی وجہ سے اُس کی یہ مشکل کس طرح دُور ہوگئی.پس اگر ہم خدا تعالیٰ کے ان فضلوں کو دیکھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وجہ سے ہم پر ہوئے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے ہم جتنی بھی کوشش کریں اسی قدر تھوڑی ہے میں یہ مانتا ہوں کہ ہماری جماعت کے لوگ جس قدر دین کی خدمت کرتے ہیں اُس قدر اور کوئی نہیں کرتا اور نہ کر سکتا ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ ہماری جماعت کے لوگوں کو یہ دیکھنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کے مقابلہ میں ہم نے کس قدر شکر گزاری کی ہے.یہ اور بات ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی شکر گذاری کرتے ہیں لیکن انعام کے مقابلہ میں یہ شکر گزاری بہت کم ہے اور کسی چیز کا اعلیٰ درجہ کا ہونا مقابلہ سے ہی ثابت ہوتا ہے.ایک اینٹ بھی سطح زمین سے اونچی ہوتی ہے مگر ایک مکان سے اونچی نہیں.اسی طرح کئی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اعلی ہوتی ہیں مگر دوسری کے مقابلہ میں علی نہیں ہوتیں.ہم ایک ایسے شخص کو جو کچھ کام کرتا ہے اُن لوگوں سے اچھا کہیں گے جو سارا دن بیکار پڑے رہتے ہیں.لیکن اس کو اس کے مقابلہ میں اچھا نہیں کہہ سکتے جو سارا دن کام کرتا ہے کیونکہ جس قدر وہ مزدوری پاتا ہے کام اُس سے بہت کم کرتا ہے.پس ہماری جماعت کو یہ نہیں دیکھنا چاہئیے کہ ہم دوسرے لوگوں سے بڑھ کر کیا کرتے ہیں بلکہ یہ دیکھنا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ نے جو انعام اُسے دئے ہیں ان کے مقابلہ میں وہ کیا کرتی ہے.اگر ہماری جماعت کا کوئی شخص اپنے مال کا کچھ حصہ خدا کی راہ میں دیتا

Page 334

خطبات محمود جلد (5) ۳۲۴ ہے تو وہ اُن لوگوں سے اچھا ہے جو کچھ بھی نہیں دیتے.مگر سوال یہ ہے کہ اُس نے خدا تعالیٰ کے انعامات کے مقابلہ میں کیا دیا ہے.اُسے تو چاہئیے کہ اپنا مال اپنی جائیداد، اپنا وقت ، اپنی جان سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کر دے.کیا اللہ تعالیٰ کے جو انعامات اُس پر ہوئے ہیں وہ اس قابل نہیں کہ وہ اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ کے راستہ میں صرف کر دے.ضرور ہیں.اور ایسا ہی ہر ایک مومن کو کرنا بھی چاہیئے لیکن جو ایسا نہیں کرتا مجھے ڈر ہے کہ وہ اُن لوگوں میں سے نہ ہو جو اِنَّ عَذَابِي لَشَدِید کے نیچے آتے ہیں.لڑتے تو یہودی بھی تھے.انہوں نے کئی لڑائیاں لڑیں مگر ایک ہی دفعہ کے انکار سے ناشکروں میں گنے گئے اور چالیس سال پیچھے ڈال دئے گئے.ان میں سے بہتوں نے خدا کے راستہ میں جانیں بھی دیں مگر ایک جگہ رہ جانے کی وجہ سے نا کام ہو گئے اور انہیں وہ ملک دیکھنا نصیب نہ ہو ا جس کا انہیں وعدہ دیا گیا تھا.پس تم لوگ اپنی خدمت دین پر مت گھمنڈ کرو.یہاں خدمت کا سوال نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ تم نے انعام کے مقابلہ میں کیا خدمت کی ہے.بس اس کی فکر کرو اور اپنے اعمال کو ایسا بناؤ جو خدا تعالیٰ کے انعامات کے مطابق ہوں.اگر ہماری جماعت اس وقت ان ذمہ داریوں کو بجھتی جو اس کی ہیں تو یہ موجودہ حالت نہ ہوتی.اگر ساری جماعت میں سے تیسرا حصہ بھی اپنے فرائض کو پوری طرح انجام دیتا تو بھی یہ حالت نہ ہوتی کہ آئے دن مختلف صیغوں کے آفیسر روپیہ کی کمی کی شکایت کرتے رہتے لیکن لوگوں نے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو سمجھا نہیں.بعض تو کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا روپیہ کسی اور کام میں لگا ہوا ہے اس لئے دینے کے لئے کچھ نہیں.بعض کوئی اور عذر کر دیتے ہیں.حالانکہ اللہ تعالیٰ یہ نہیں کہتا کہ تم اپنا سارا مال میری راہ میں خرچ کر دو بلکہ یہی کہتا ہے کہ مِمَّا رَزَقُهُم يُنفِقُونَ لا جو ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے کچھ ہمیں دو لیکن عجیب بات ہے کہ اس میں سے بھی خدا کی راہ میں دینے سے پہلو تہی کرتے ہیں.یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ ایک شخص کسی کو ایک روپیہ دے اور اُسے کہے کہ اس میں تم سے دو پیسے تو مجھے لا دینا اور باقی اپنے پاس رکھ لینا لیکن وہ کہہ دے کہ میں تمہیں اس میں سے کچھ نہیں دوں گا پورا رو پید اپنے ہی پاس رکھوں گا.اگر کوئی ایسا کرے تو یقینا تمام لوگ اس پر لعنتوں کا مینہ برسائیں گے.مگر بہت ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں.خدا تعالیٰ انہیں مال اموال دے کر کہتا ہے کہ اس میں سے کچھ میرے راستہ میں بھی خرچ کرو مگر وہ کہتے ہیں کہ کیا ہماری ضرورتیں کم ہیں کہ تیرے لئے خرچ کریں.اگر ایسے لوگ سوچتے کہ ہمیں تو یہ سب کچھ دینے والا ہی یہ کہہ رہا ہے کہ کچھ میری راہ میں دو تو وہ ضرور دے دیتے کیونکہ وہ تو سارا بھی لے سکتا ہے مگر بہت کم ہیں ایسے لوگ جو اس بات کو سوچتے اور خدا کی راہ میں البقرة: ۵

Page 335

خطبات محمود جلد (5) ۳۲۵ خرچ کرتے ہیں.دو پیسے یا تین پیسے فی روپیہ چندہ مانگا جائے تو شور مچا دیتے ہیں.ہم کہتے ہیں تم سے انجمن اپنے لئے نہیں کچھ مانگتی بلکہ خدا کے لئے مانگتی ہے اور جو کچھ تم سے لیا جاتا ہے وہ خدا کی راہ میں صرف ہوتا ہے.پس جس نے تمہیں ایک روپیہ دیا ہے اس کے لئے اس میں سے تین پیسے دینا کہاں کی موت ہے.ایسا شخص سوچے کہ مجھے سوا پندرہ آنے جو مل گئے ہیں کیا یہ کم ہیں.وہ اس پر کیوں گھبراتا ہے کہ مجھے تین پیسے دینے پڑے.اللہ تعالیٰ میں طاقت ہے اور وہ ایسا کر سکتا ہے کہ اُس کی آمدنی کم کر دے اور یہ بھی کر سکتا ہے کہ اپنے دین کے لئے کوئی اور سامان پیدا کر دے.پھر اپنے ہاتھ سے اُس کی راہ میں کیوں نہ دے دیا جائے.وہ تو اپنے لئے خود بھی کاٹ سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک بادشاہ تھا اُس کا خرچ بہت بڑھ گیا تو اُس نے خرچ کے کم کرنے کے لئے کچھ نو کر موقوف کر دئے.رات کو اُس نے رویا دیکھی کہ خزانوں کے دروازے کھلے ہیں اور روپوؤں کی گاڑیاں بھر بھر لے جائی جا رہی ہیں.اُس نے پوچھا تم کون ہو اور کیا کر رہے ہو.ایک نے کہا کہ ہم فرشتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ہمیں کہا ہے کہ ہم پہلے ان لوگوں کو اس شخص کی معرفت دیتے تھے اب اس نے ان کو نکال دیا ہے اس لئے جہاں جہاں وہ جائیں ان کے لئے وہیں پہنچاؤ اس لئے ہم یہ گاڑیاں بھر بھر کر لے جا رہے ہیں.اُس نے صبح اُٹھ کر تمام ملازمین کو واپس بلا لیا.تو خدا تعالیٰ اس رنگ میں بھی دلواتا ہے.جو لوگ خدا تعالیٰ کے لئے خرچ کرتے ہیں اُن کی آمدنیوں میں ترقی ہوتی ہے مگر باوجود اس کے ہماری جماعت میں سے ایک حصہ ایسا ہے جو خدا تعالیٰ کے رستہ میں خرچ کرنے سے غفلت کرتا ہے اور غفلت کا بہلی کا نتیجہ ہوتا ہے.اسی طرح اور بہت سی غفلتیں اور سُستیاں ہیں.اگر ہماری جماعت ان کو دور نہیں کرے گی تو اس کے لئے خوشی کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے.اوّل تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس پیشگوئی کے کیا معنے ہیں لیکن اگر وہی معنے ہیں جو ہم نے سمجھے ہیں تو بھی ہماری جماعت کو بہت ڈرنا چاہئیے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت پر اپنا فضل کرے اور اس کی شستی اور غفلت کو دُور کر دے.کوتاہیوں اور کمزوریوں کو معاف فرما دے.وہ بہت بڑا بادشاہ ہے.ہم کمزور ہیں وہ ہماری کمزوریوں کو دُور کر دے.ہم نا طاقت ہیں وہ ہماری ناطاقتی کا علاج کر دے اور ہمیں اپنے انعامات کے قابل بنادے اور ہمیں کسی سال کا منتظر نہ بنائے کہ ہم دیکھتے رہیں وہ کب آئے گا بلکہ ہمارے اندر ایسا اخلاص اور ایسا تقویٰ پیدا کر دے کہ ہمارے لئے ہر گھڑی اور ہر سال ہی مبارک ہو اور ہمیں کسی خاص سال کے انتظار کی ضرورت نہ رہے.آمین ختم آمین.(الفضل ۱۴ /۱۱ نومبر ۱۹۱۶ء)

Page 336

۳۲۶ 37 خطبات محمود جلد (5) خدائی نعمت کا اظہار کرو (فرموده ۷ ارنومبر ۱۹۱۶ء) حضور نے سورۂ فاتحہ پڑھ کر فرمایا:.نیوں تو اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان اپنے بندوں پر بے انتہا ہیں.خود بندہ کی پیدائش ہی خدا کے فضل کے ماتحت ہے.انسانی اعضاء کو ہی لے لو ہر ایک عضو پر جس قدر غور کریں اسی قدر خدا تعالیٰ کا فضل زیادہ معلوم ہوتا ہے.ہر ایک عضو کے فوائد کا تو مر ہی نہیں ہوسکتا.یہ سب خدا تعالیٰ کے احسان ہیں لیکن ان سب سے بڑا اور زیادہ احسان میرے نزدیک وہ ہے جو روح پر ہے.اللہ تعالیٰ ہمارا خادم نہیں ، غلام نہیں ، ہماری اطاعت وفرمانبرداری میں اس کا نفع نہیں محض اس کے فضل اور انعام کی بات ہے جو وہ اپنی مخلوق پر کرتا ہے کہ اس کی شریعت کو اُٹھا سکے اور اس کے احکام پر عمل کرے.اگر کوئی انسان خدا کی بتائی ہوئی شریعت پر عمل نہ کرے تو اُس کی خدائی میں کوئی فرق نہیں آجا تا مگر اس کے فضل اور احسان نے چاہا کہ اپنے انعام کو دنیا میں خاص طور سے انسان پر ظاہر کرے.پس جس طرح اس کے فضل اور احسان نے اپنے اعلیٰ ظہور کے لئے انسان کو پسند کیا اسی طرح جو انعام انسان کو ملے ہیں وہ اور انعاموں سے بھی بڑے ہیں.یوں تو اگر ایک چیز بھی اس کے انعام سے خالی رہے تو انسان کی حالت خراب ہو جاتی ہے.مثلاً آنکھ ہی جاتی رہے یا کان ہی کٹ جائے یا ناک ہی کٹ جائے یا ہاتھ پاؤں ٹوٹ جائیں تو انسان میں کس قدر ستم پیدا ہو جاتا اور کیسا برا معلوم ہوتا ہے.پرانے زمانہ میں کسی کا ناک وغیرہ اعضاء سزا کے طور پر کاٹے جاتے تھے.غرض ہر ایک چیز جو اللہ تعالیٰ نے دی ہے وہ اپنے اندر ایک حُسن رکھتی ہے مگر پھر بھی نسبتیں ہوتی ہیں بلحاظ اِس کے کہ یہ انعامات ایک محدود زندگی کے لئے ہیں مگر اس لا محدود زندگی کے لئے خدا تعالیٰ نے عقل، فہم ،شریعت دی ہے اور پھر وہ ذرائع دئے ہیں جن سے انسان اللہ تعالیٰ کا قرب ڈھونڈتا ہے.یہ انعام بہر حال بہت بڑا انعام ہے.

Page 337

خطبات محمود جلد (5) ۳۲۷ دُنیا کی ترقی و تنزیل میں اس کا بہت بڑا تعلق ہے.شریعت اور معرفت کی دُنیا میں عملاً لوگ بہت عزت کرتے ہیں.اس میں شک نہیں کہ جہاں دنیاوی منافع کا خیال نہ ہو وہاں بہت سے لوگ دین کی خاطر لڑتے اور جوش دکھاتے ہیں خواہ وہ کیسے ہی بے دین کیوں نہ ہوں اور شریعت اور قوانین الہیہ سے انہیں کوئی تعلق نہ ہو.اس سے پتہ لگتا ہے کہ اکثر لوگ دین کو دُنیا پر مقدم تو کرتے ہیں مگر جہاں دُنیا دین کے مقابلہ میں نہ ہو ایسے موقعہ پر جتنا جوش اس قسم کے لوگ دین کے لئے دکھاتے ہیں وہ کسی اور چیز کے لئے نہیں دکھاتے.اگر ایک شخص کسی گاؤں میں رہتا ہو اور چوری یا کوئی اور برافعل کرتا ہو تو لوگ اس سے قطع تعلق نہیں کریں گے.بلکہ کہیں گے کہ اس کا ایمان تو سلامت ہے.لیکن جہاں مذہبی اختلاف پید اہو اوہاں بیٹا باپ سے اور باپ بیٹے سے، بیوی خاوند سے اور خاوند بیوی سے، بہن بھائی سے اور بھائی بہن سے بالکل جدا ہو جاتے ہیں اور وہ سب قرابت کے تعلقات دُور ہو جاتے ہیں.بہت سے لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ان میں اگر چہ کئی عیب ہوتے ہیں اور عملاً انہیں مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن پھر بھی وہ مذہب کے لئے جوش دکھاتے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہب نے کس قدر دلوں پر رعب جمایا ہوا ہے اور ایک اچھی اور عمدہ چیز بھی جاتی ہے.واقعہ میں مذہب ایک اعلیٰ اور پیاری چیز ہے اور جو سچا مذہب رکھنے والے اور عرفان سے ایک مذہب کو قبول کرنے والے ہیں ان کے لئے سب سے بڑی اور سب سے اعلی نعمت مذہب ہی ہے شریعت قانون اور وہ ذرائع جو انسان کو خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے ملے ہیں اور جن سے انسان خدا کو معلوم کر سکتا ہے اگر یہ اس کو نہ دئے جاتے تو انسان اور حیوان برابر ہوتے.پس یہی وہ انعام ہے جو اسے حیوانوں سے اعلیٰ اور برتر ثابت کرتا ہے اس لئے ہر ایک انسان کو چاہیے کہ اس کی قدر کرے اگر مذہب کو علیحدہ کر دیا جائے تو گدھے بھی کھاتے پیتے ہیں اور انسان بھی.وہ بھی ہو ا سونگھتے ہیں اور انسان بھی سونگھتا ہے.اس صورت میں تو ایک انسان اور گدھے میں کوئی فرق نہیں ہے ہاں انسان کی قدر شریعت اور قوانین الہیہ کے جاننے سے ہے اس لئے اس کے دل میں اس کی عزت اور محبت بہت زیادہ ہونی چاہئیے کیونکہ انسان جو سب چیزوں سے بڑا سمجھا جاتا ہے اسی شریعت کے حامل ہونے سے ورنہ اور کوئی فرق نہیں.یہ ایک عام بات ہے جو چیزیں اعلیٰ ہوتی ہیں ان کو چھپایا نہیں جاتا.ہمیشہ انسان اپنے کسی نقص اور کمزوری یا بُری چیزوں کو چھپاتا ہے اور اپنی اعلیٰ درجہ کی چیزوں کو ظاہر کرتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ کسی شخص کو کوئی ایک نسخہ معلوم ہوتا ہے.وہ نہ کوئی طبیب ہوتا ہے نہ مرض کے اسباب کا علم رکھتا.ہے اور نہ ہی وہ مرض کے اسباب اور علامات کو جانتا ہے.مثلا کسی کو کھانسی ہو تو وہ صرف یہ کہ

Page 338

خطبات محمود جلد (5) ۳۲۸ گلے میں خراش ہے یا ریزش ہے.اس کو دیکھ کر اصل مرض سمجھ لے گا اور جھٹ اپنا نسخہ استعمال کرنے کے لئے کہہ دے گا کیونکہ اس نسخہ سے کبھی اسے بھی فائدہ ہوا تھا.اس وقت وہ یہ بھی نہیں سوچے گا کہ آیا اس کو وہ بیماری ہے بھی یا نہیں جو مجھے تھی.اور اگر وہ یہ خیال بھی کرے تو بھی معلوم نہیں کر سکتا کیونکہ اس میں یہ قابلیت ہی نہیں ہوتی لیکن باوجود اس کے وہ اپنا نسخہ استعمال کرنے کے لئے ضرور بول اُٹھے گا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ ہر جگہ اور ہر مرض میں اس سے فائدہ ہوگا.میں نے خود بعض بوڑھی عورتوں کو دیکھا ہے خواہ کوئی کتنا ہی اعلیٰ طبیب مریض کے لئے نسخہ تجویز کر رہا ہودہ فوراً اپنانسخہ پیش کر دیں گی کہ اس کو استعمال کرنا چاہئیے.کیوں؟ اس لئے کہ وہ اپنے نسخہ کومفید اور عمدہ بجھتی ہیں.اسی طرح لوگ عمدہ عمدہ لباس پہن کر مجالس میں جاتے ہیں جس سے مقصودا اپنی بڑائی کا اظہار ہوتا ہے.اگر کوئی غریب ہو اور سردی کی وجہ سے اسے موٹا اور بدنما کپڑا پہنا پڑے تو وہ اُسے نیچے پہن کر اوپر اچھا کپڑا پہنتا ہے تا کہ اچھے کپڑے کو ظاہر کرے اور بُرے کو چھپائے.تو چھپانے کی چیز ہمیشہ ادنی ہوا کرتی ہے اور جو اعلیٰ ہو اس کو ظاہر کیا جاتا ہے.بُری چیز کو تو بعض جانور بھی چھپاتے ہیں.بلیاں پاخانہ پر مٹی ڈال دیتی ہیں یا اگر کپڑے پر ہو تو اس کپڑے کو الٹا دیتی ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بُری چیز کو چھپانا نہ صرف انسان کی فطرت میں ہے بلکہ بعض جانوروں میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے.ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک عورت نے انگوٹھی بنوائی اور اس کے اظہار کے لئے بہت طریق استعمال کئے مگر کسی نے توجہ نہ کی.آخر اس نے اپنے گھر کو آگ لگا دی جب لوگ دوڑ کر آگ بجھانے کے لئے آئے تو اتفاقاً ایک عورت کی انگوٹھی پر نظر پڑ گئی.اُس نے کہا کہ بہن یہ انگوٹھی تم نے کب بنوائی تھی.اُس نے کہا کم بخت اگر تو اس کے متعلق پہلے ہی پوچھ لیتی تو میرا گھر کیوں جلتا.ایسا تو کوئی بیوقوف ہوگا جو ایک انگوٹھی کے دکھانے کے لئے اپنے گھر کو آگ لگا دے مگر ہاں اس حکایت کے بنانے والے نے اس سے یہ ظاہر کیا ہے کہ انسانی فطرت میں یہ بات ہے کہ وہ اپنی اچھی چیز کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے.پس جب انسانی فطرت میں یہ بات پائی جاتی ہے اور پھر مذہب خدا کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے تو جس کے پاس یہ ہو اس کے دل میں اس کے ظاہر کرنے کے لئے کم از کم اس عورت جتنا تو جوش ہونا چاہئیے جس نے انگوٹھی دکھانے کے لئے اپنے گھر کو آگ لگادی تھی.جس کے پاس سچا مذہب ہوا سے تو اس وقت تک چین نہیں آنا چاہیے جب تک کہ اپنے مذہب کا اظہار دوسروں پر نہ کر لے.انگوٹھی کو اگر لوگ دیکھ بھی لیتے تو انہیں کیا فائدہ ہوتا.کچھ نہیں.مگر مذہب تو ایک ایسی چیز ہے کہ اگر یہ کسی شخص کو دی جائے تو دینے والے کو خود بھی اس سے فائدہ ہوتا ہے اور جتنا کسی کو دے اتنا ہی اپنے پاس اور زیادہ پاتا ہے کیونکہ خدا کا وعدہ ہے جو دوسرے کو دیتے ہیں ان کو خدا اور دین کے سمجھنے

Page 339

خطبات محمود جلد (5) ۳۲۹ اور اپنی محبت میں بڑھنے کی توفیق دیتا ہے.گویا مذہب ایک اس قسم کی چیز ہے کہ جس قدر اس کو ظاہر کیا جائے اس قدر زیادہ چمکتی اور روشن ہوتی ہے.بعض کپڑوں کے رنگ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ دُھوپ میں خوشنما نہیں لگتے اس لئے دُکان داران کو چھاؤں میں مکان کے اندر رکھتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ وہ دُھوپ میں اور چمکتے ہیں ان کو ایسی جگہ رکھا جاتا ہے جہاں روشنی اچھی طرح پڑتی ہو.یہی حال بچے مذہب کا ہے اس کو جس قدر زور کے ساتھ روشنی میں لایا جائے اور لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے اُسی قدر وہ زیادہ خوشنما اور عمدہ نظر آتا ہے اور پیش کرنے والے کو بہت زیادہ روشن کر دیتا ہے.پس ایک ایسی چیز جس کے پیش کرنے سے پیش کرنے والے کو بیش از بیش فائدہ ہو اس کے ظاہر کرنے کے لئے تو بہت زیادہ کوشش کرنا چاہیئے.لیکن افسوس! کہ اس کے لئے بعض لوگ کمزوری دکھاتے ہیں اور اپنے مذہب کو دوسروں تک نہیں پہنچاتے.میرے نزدیک اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ مذہب کی حقیقت سے واقف نہیں ہوتے مثلاً گورنمنٹ اعلان کر دے کہ جو شخص کسی شخص کو جتنی زمین دلوائے گا اتنی ہی سر کار اُس شخص کو اور زمین بھی دے گی تو اس اعلان کے ہوتے ہی بار میں رہنے والے لوگ دوسرے لوگوں کو ادھر کھینچ کر لے جائیں گے کیونکہ اس میں خود دان کا نفع ہے.ہم سے تو خدا تعالیٰ کا اس طرح کا وعدہ ہے.اور مذہب میں یہ شرط رکھی ہے کہ جو شخص کسی کو ہدایت کرے گا اس کو بھی اس کے بدلہ میں انعام ملے گا.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اپنے مذہب کا اظہار تو ایک بڑی اعلیٰ درجہ کی چیز تھا کیونکہ جتنا لوگوں کو فائدہ پہنچتا اتنا ہی ہم کو بھی پہنچ جاتا لیکن افسوس کہ بعض لوگ اس کی حقیقت کو سمجھتے نہیں.عجیب بات ہے کہ بہت سی ایسی باتوں کو ظاہر کرتے ہیں جن سے کوئی فائدہ متصوّر نہیں ہوتا اور اُن چیزوں چھپاتے ہیں جن سے فائدہ ہوا کرتا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ ان کی حقیقت سے واقف نہیں ہوتے مثلاً ایک شخص کے پاس ایک ہیرا ہو اور وہ اس کی جیب میں پڑا ہو اور اس کو معلوم نہ ہو کہ یہ ہیرا ہے تو وہ وہیں پڑا رہے گالیکن جب اس کو معلوم ہو گا تو فوراً اُس کو کسی انگوٹھی میں جڑوا کر اپنے ہاتھ میں پہن لے گا.ہمیں مذہب سے جو حصہ خدا نے دیا ہے وہ ہمارے دعوی کے مطابق نہ صرف وافر بلکہ صرف ہمیں کو دیا گیا ہے.میں نے بارہا اس امر پر زور دیا ہے اور ہمیشہ زور دیتا رہوں گا.اس کی کئی وجہیں ہیں اوّل تو جب تک کوئی اس کو سمجھے نہیں اس وقت تک اس کا سمجھانا ہمارا فرض ہے.دوسرے بعض لوگ سمجھ کر پھر بھول جاتے ہیں.اس لئے بھی زور دیا جاتا ہے کہ وہ لوگ بھو لیں نہیں.پس میں پھر کہتا ہوں کہ یہ ایک خدا کی نعمت ہے اس کو چھپانا نہیں بلکہ بڑے زور کے ساتھ ظاہر کرنا چاہیئے.ہر مذاق کا آدمی اپنے رنگ میں اپنے اپنے مذاق کے لوگوں کو تبلیغ کر سکتا ہے.جب ایک

Page 340

خطبات محمود جلد (5) ۳۳۰ شخص اچھا کپڑا پہن کر اظہار کرتا ہے حالانکہ اس کا فائدہ اس کے سوا اور کسی کو نہیں ہوتا تو مذہب جو ایک بہت ہی خوبصورت اور دوسروں کے لئے مفید ہے اس کا کیوں نہ اظہار کیا جائے.پس اس کا اظہار کرو اور اس کو خوب پھیلاؤ جتنا اس سے کسی کو فائدہ ہوگا اسی قدر تم کو بھی ہوگا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انی مکاثر بکم الامم اے کہ میں کثرتِ اُمّت کے باعث فخر کروں گا.ہر ایک نبی اپنی اپنی امت کا امام ہوگا.اس وقت حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کے امام ہوں گے اور اپنی اُمت کی کثرت پر فخر کریں گے.لیکن کیا صرف اُمت کا زیادہ ہونا کوئی فخر کی بات ہے.ہرگز نہیں.بلکہ آپ کے لئے فخر کی یہ بات ہوگی کہ جب آپ کے ذریعہ سب سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچے گا تو اس کے بدلہ میں آپ کو بھی سب سے زیادہ اجر ملے گا اور سب سے بڑھ کر آپ کا درجہ ہوگا اسی لئے آپ فخر کریں گے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ تو یوں بھی سب انبیاء سے بڑا ہے مگر اس طرح اور زیادہ بڑا ہوگا.حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص کسی کو جس قدر نفع پہنچاتا ہے اتنا ہی اس کو بھی اس کا فائدہ ہوتا ہے..پس اگر کوئی کسی کے ذریعہ مسلمان ہو جائے اور اُسے ہدایت نصیب ہو تو جس قدر وہ نیکیاں کرے گا ان کا ثواب اُسے مسلمان کرنے والے کو بھی ملے گا اور پھر اس کے ذریعہ جس کو ہدایت ہوگی اس کی نیکی کرنے سے بھی پہلے شخص کے نام ثواب لکھا جائے گا ہاں ان کے ثواب میں کسی قسم کی کمی نہ ہوگی بلکہ اس کے علاوہ خدا تعالیٰ ثواب دے گا.گویا شود در شود، شود در سود ہو کر خدا کی طرف سے ملتا ہے.اب جو لوگ دوسروں کو سیدھی راہ دکھانے کی کوشش نہیں کرتے ان کے متعلق سوائے اس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس بات کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں اگر واقف ہوتے تو کبھی ایسا نہ کرتے.دیکھو یورپ کو اپنی سولیزیشن پر بڑا گھمنڈ ہے حالانکہ اسلام کے مقابلہ میں اسکی کچھ بھی حقیقت نہیں مگر وہ اس کو اس زور سے بات بات پر پیش کرتے ہیں کہ ہمارے کان پھٹے جاتے ہیں.وہ صرف یورپ کے لوگوں نے چند قواعد ایجاد کئے ہیں اور اس میں اس قدر غلطیاں ہیں کہ وہ بعض اوقات ہلاکت کا باعث ہو جاتی ہیں لیکن دیکھ لو وہ لوگ دُنیا کے سامنے اپنی سولیزیشن کس زور سے پیش کرتے ہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ ہماری جماعت اپنے مذہب کو پیش نہ کرے.جو شخص اپنے مذہب کو دوسروں تک نہیں پہنچا تا وہ غفلت میں ہے اور نہیں جانتا کہ اس کا فرض کیا ہے.اس وقت تک اگر ہر ایک شخص ایک آدمی کو بھی سلسلہ میں داخل کرتا تو چند سالوں میں تمام ہندوستان احمدی ہو جاتا.ڈیڑھ ہزار سالانہ احمدی ہونے والے کیا حقیقت لے سنن ابی داؤد کتاب النکاح باب في تزویج الا بکار.مسلم کتاب الذکر والدعاء والتوبہ باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن وعلى الذكر

Page 341

خطبات محمود جلد (5) ٣٣١ رکھتے ہیں.ہاں ہماری جماعت میں بعض لوگ ایسے ہیں کہ جن کے ذریعہ سے سوسو احمدی ہوئے ہیں.لیکن ایسے لوگ بہت کم ہیں.اور تبلیغ میں حصہ لینے والے تو پانچ چھ سو کے قریب ہوں گے.اگر ساری جماعت کے لوگ تبلیغ کریں تو آج بہت لوگ احمدی ہو سکتے ہیں مگر بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اس کام کو قطعا نہیں کیا حالانکہ اس سے بڑی نعمت کوئی ہے ہی نہیں.سب کو اس کی قدر کرنی چاہیئے.خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو توفیق دے کہ وہ سمجھ کر اس کام کو سر انجام دے اور جو صداقت ہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ لی ہے اور وہ اسلام جو ہم کو پاک صاف ہو کر اب ملا ہے ہم اسے دُنیا کے سامنے پیش کریں اور ہمیں اس وقت تک صبر نہ آئے جب تک تمام دنیا میں اس کو پھیلا نہ لیں.میں تو حیران ہوتا ہوں کہ اگر ایک چیز کی قدر معلوم ہو تو پھر اُس کو دُنیا میں نہ پھیلایا جائے.حضرت صاحب کو رات کے وقت کئی لوگ بہت معمولی معمولی شعر سناتے اور آپ سنتے رہتے.ایک دن کسی نے عرض کیا کہ حضور ایسے شعروں کو آپ کیوں سنتے ہیں جن کا کچھ مطلب نہیں ہوتا.فرمایا: جب میں رات کو لیٹتا ہوں تو اس کثرت سے اسلام کی تبلیغ کے خیالات میرے دماغ میں آتے ہیں کہ میرا دماغ پھٹنے لگتا ہے اور مجھے خیال ہوتا ہے کہ کہیں ان خیالات سے دماغ پھٹ نہ جائے.جب لوگ شعر سناتے ہیں تو کچھ خیال ہٹ جاتا ہے اور ان خیالات سے توجہ ہٹ جاتی ہے.واقعہ میں اسلام ایسی ہی نعمت ہے اور پھر تازہ بتازہ انعام اور وہ زندہ مذہب جو لنا لۂ رجل من ابناء فارس لے کالا یا ہوا ہے اس کو تو وہی چھپا سکتا ہے جس کو اس کی قدر معلوم نہ ہو.اور جو قدر جانتا ہو اس کو تو بغیر ظاہر کئے صبر نہیں آ سکتا بعض لوگ ایسے لوگوں کو وسیع الحوصلہ کہا کرتے ہیں جو اپنے مذہب کی صداقت کو پیش نہیں کرتے لیکن یہ وسعت حوصلہ نہیں.کیا کبھی بخیل بھی وسیع حوصلہ رکھتا ہے.ہمیشہ سخی ہی وسیع الحوصلہ ہوا کرتا ہے.پس خدا کی ایک نعمت کا دُنیا تک پہنچانا ہی وسعت حوصلہ ہے نہ کہ اُسے اپنے پاس چھپائے رکھنا.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم تبلیغ اسلام کے فرض کو سمجھیں.مجھے تو بار بار خیال آتا ہے کہ اگر خدانخواستہ ترقی کا یہی حال رہا تو پھر ہماری تو نسلوں کی نسلیں بھی ان وعدوں کو پورا ہوتا نہیں دیکھیں گی جو حضرت مسیح موعود سے خدا تعالیٰ نے کئے ہیں.خدا تعالیٰ ہمیں وہ ترقی دکھائے اور ہم دُنیا کے چاروں طرف احمدیت کو پھیلا ہوا دیکھ جائیں.ہم کل ہی حضرت صاحب کی ایک کتاب دیکھ رہے تھے جس میں حضرت صاحب نے ثناء اللہ کو مخاطب لے بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورة الجمعة آيت وَأَخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ -

Page 342

خطبات محمود جلد (5) ۳۳۲ کرکےفرمایا ہے کہ تو میرا مقابلہ کیا کرسکتا ہے میری صداقت تو تمام دنیا میں پھیل جائے گی لیکن اس کے پھیلنے کا یہ طریق نہیں جو موجودہ رفتار تبلیغ ہے کیونکہ یہ بہت شست رفتار ہے بلکہ یہ ہے کہ ہر ایک احمدی تبلیغ میں مشغول ہو اور اس کو اپنا سب سے ضروری فرض سمجھے.خدا کے حضور دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے فرائض کے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین ختم آمین.(الفضل ۲۵ نومبر ۱۹۱۶ء)

Page 343

۳۳۳ 38 خطبات محمود جلد (5) حضرت مسیح موعود کے الہامات کا درجہ (فرمودہ یکم دسمبر ۱۹۱۷ء) سورہ فاتحہ اور مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کے بعد فرمایا:.م هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَبَ مِنْهُ ايتٌ مُحْكَمتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَبِ وَأَخَرُ مُتَشْبِهُنَّ ، فَأَمَّا الَّذِيْنَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ، وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيْلَةَ إِلَّا اللهُ وَالرَّسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ أَمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِندِ رَبِّنَا ، وَمَا يَذْكُرُ إِلَّا أُولُوا الْأَلْبَابِ رَبَّنَا لا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنْكَ رَحْمَةٌ ، إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ رَبَّنَا إِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ ج الْمِيعَادَه اللہ تعالیٰ کی یہ سنت قدیم سے چلی آتی ہے کہ اس کے کلام میں ایک حصہ محکمات کا ہوتا ہے اور ایک حصہ متشابہات کا اور اس میں بڑی بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں.ایک حکمت تو یہی ہے کہ اس طرح کمزور ایمان والوں اور قومی ایمان والوں کی ہمتقیوں اور غیر متقیوں کی ، صالحین اور غیر صالحین کی پر کچھ ہو جاتی ہے.جن لوگوں کا ایمان کمزور ہوتا ہے وہ تو متشابہات کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور علم کی کمی یا تقویٰ کے فقدان یا ایمان کی کمزوری کی وجہ سے ایسی راہ اختیار کر لیتے ہیں جو ان کی ہلاکت کا باعث ہو جاتی ہے.لیکن وہ لوگ جن میں تقویٰ و طہارت کا مادہ ہوتا ہے، جن کے ایمان مضبوط ہوتے ہیں اور جن کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی عظمت گھر کئے ہوتی ہے وہ متشابہات کے پیچھے ایسے رنگ میں نہیں پڑتے جوان کے ایمان کے ضائع کرنے کا باعث ہو.پس چونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے اپنے مخلص اور پیارے ال عمران: ۸ تا ۱۰

Page 344

خطبات محمود جلد (5) ۳۳۴ بندوں کو کمزوروں اور منافقوں سے علیحدہ کرنا چاہتا ہے اس لئے اپنے کلام میں محکمات اور متشابہات دونوں کو رکھ دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر نبی پر جو اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہوتا ہے اس میں محکمات اور متشابہات ہوتے ہیں.ایک بڑی وجہ محکمات اور متشابہات کے بیان کرنے کی تو یہی ہوتی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جتنی ایسی چیزیں پیدا کی ہیں جن کی تخلیق میں کسی قسم کا انسانی دخل اور تصرف نہیں ہوتا بلکہ وہ براہ راست خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتی ہیں.ان پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں ایسی بات رکھی گئی ہے کہ ان پر جس قدر غور و خوض کیا جائے ان کے متعلق اسی قدر علم وسیع ہوتا جاتا ہے اور ایسی چیزوں میں خدا تعالیٰ نے ایسے علوم پوشیدہ رکھے ہوتے ہیں کہ جو کبھی ختم ہونے میں نہیں آتے بلکہ جب بھی انسان ان پر غور کرے نئے نئے علوم کھلتے رہتے ہیں.دُور جانے کی ضرورت نہیں انسان اپنے جسم میں ہی دیکھ لے انسانی جسم کی تشریح کو ہی آج تک دنیا مکمل نہیں کر سکی.اس کی اور خصوصیات کو جانے دو جو انسان کے رُوح ، اخلاق و عادات کے متعلق ہیں پھر یہ کہ علوم کا منبع کیا ہے.علوم کس جگہ سے پیدا ہوتے ہیں، انسان کے فیلنگ کا کس چیز سے تعلق ہے وغیرہ وغیرہ یہ مختلف شاخیں ہیں ان سب کو چھوڑ کر صرف انسان کی صحت اور بیماری کو ہی لے لو اس کے متعلق ہی دُنیا کسی قطعی فیصلہ پر نہیں پہنچ سکی.اس بات پر بحث کی گئی ہے کہ طب یونانی قدیم ہے یاطب ہندی یا یہ کہ دونوں ایک ساتھ شروع ہوئی ہیں یا آگے پیچھے.اکثروں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہندی طب پہلے کی ہے اور طب یونانی بعد کی.میرے نزدیک بھی یہی بات درست اور صحیح ہے.اس لحاظ سے تین زمانے ہوتے ہیں.ایک وہ زمانہ جس میں ہندی طب کا نشو نما ہوا اور اس نے اتنی ترقی اور عروج حاصل کیا کہ اس کے ماہرین کے نزدیک کوئی ایسی بات باقی نہ رہ گئی جو انسانی صحت اور تندرستی کے لئے ضروری تھی لیکن اس کے بعد دوسرا زمانہ وہ شروع ہو اجس میں طب یونانی کا ظہور ہوا اور یہ اتنی بڑھی کہ باوجود اس کے کہ ہندی طب کو ایک علم کہا جاتا تھا اس کے ماہرین نے کہہ دیا کہ وہ کچھ بھی نہیں ہے بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ وہ جہالت اور نادانی ہے.اس کے بعد تیسر ازمانہ وہ شروع ہوا جس میں ڈاکٹری شروع ہوئی اور اس نے ایسی ترقی کی کہ آج طب یونانی اور طب ہندی کو اس کے مقابلہ میں بیچ اور ناکارہ قرار دیا جاتا ہے حالانکہ وہ دونوں اپنی اپنی ذات میں ایک ایک علم ہیں.اگر یہ کہا جائے کہ ان کی بعض باتیں غلط ثابت ہوئی ہیں اور بعض باتوں میں نقص پایا گیا ہے اس لئے وہ قابل التفات نہیں تو یہ بات انگریزی طب میں بھی پائی جاتی ہے اس کی بعض باتیں بھی آئے دن بدلتی رہتی ہیں لیکن کسی علم میں کچھ غلطیاں ثابت ہو جانے کا یہ مطلب نہیں ہوا کرتا کہ و علم ہی نہیں ہے اس طرح کرنے سے تو کوئی علم بھی علم نہیں کہلا سکتا تو یہ تینوں علم ہیں.یونانی طب سے پہلے ہندی طب بھی ایک علم تھا اور بڑی بڑی کوششوں اور جانفشانیوں سے دریافت کیا گیا تھا لیکن جب یونانی طب ظاہر ہوئی تو اسے جہالت قرار دیا گیا.اس کے بعد یونانی

Page 345

خطبات محمود جلد (5) ۳۳۵ طب کا دور دورہ ہو الیکن جب ڈاکٹری ظاہر ہوئی تو اسے جہالت کہہ دیا گیا.اب ڈاکٹری کے بھی کئی دور رہے ہیں اور چونکہ موجودہ زمانہ میں ہر ایک قسم کے علوم بہت ترقی کر گئے ہیں اس لئے ڈاکٹری کے دور بہت جلدی جلدی بدلتے رہتے ہیں.یوں تو کوئی خیال کر سکتا ہے کہ اب چونکہ علوم میں بہت ترقی ہو گئی ہے اس لئے اب کسی بات کے متعلق جو رائے قائم کی جائے اسے پہلے کی نسبت بہت مضبوط اور پختہ ہونا چاہیئے کیونکہ وہ زیادہ تجربہ اور بہت تحقیق کے بعد قائم ہوگی.لیکن حالت اس کے بالکل بر خلاف ہے.اگر پہلے کسی بات میں ہزار سال کے بعد تبدیلی واقع ہوتی تھی تو آج سال دو سال کے اندر ہی تبدیلی ہو جاتی ہے اس لئے آج جو طبی رائے ہوتی ہے وہ دو سال کے بعد بدل جاتی ہے.اس سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس رائے سے پہلے جو کچھ رائے تھی وہ علم ہی نہیں تھا.ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ بھی علم تھا لیکن اب اس سے بہتر علم نکل آیا ہے.تو انسانی جسم کے متعلق جو ایک چھوٹی چیز ہے جس کے متعلق پہلے لوگ بھی تحقیقات میں لگے رہے ہیں اور اب بھی لگے ہوئے ہیں لیکن یہ کمل ہونے میں نہیں آتی.انسان کا جسم بڑے سے بڑا اگر سات گز کا بھی سمجھ لیا جائے حالانکہ موجودہ زمانہ میں اس قد کا کوئی انسان نظر نہیں آتا پھر بھی کیا ہے ایک بہت ہی محدود شے ہے مگر خدا تعالیٰ نے اس کے ساتھ اس قدر علوم کو وابستہ کر دیا ہے کہ انسان دیکھ دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے.انسانی جسم کے صرف اسی شعبہ کے متعلق کیوں اس قدر علوم نکل رہے ہیں اس لئے کہ خدا تعالیٰ کی ہر ایک پیدائش ذو الوجوہ ہوتی ہے اس کا تعلق صرف ایک بات سے نہیں بلکہ بیبیوں اور ہزاروں سے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ بیماریوں کے علاج کے لئے بعض تو دوائیوں کی طرف چلے گئے ہیں بعضوں نے یہ ایجاد کیا ہے کہ جس عضو میں بیماری ہو اس کو کاٹ کر نکال دینا چاہئیے.بعض نے یہ کہا کہ بیمار عضو کو کاٹنا نہیں چاہئیے بلکہ اس کو اچھا کر نیکی کوشش کرنا چاہیئے.بعضوں نے ٹیکے ایجاد کئے.پھر دوائیوں کی طرف جانے والوں میں سے کچھ ایسے بھی نکل آئے جنہوں نے کہا کہ بیمار کو دوائیوں کے قدمے بھر بھر دینے سے فائدہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اس طرح دوائی کا اثر پھیلا ہوا ہونے کی وجہ سے بہت کم اور بہت دیر میں ہوتا ہے اس لئے دوائیوں کا اثر نکال کر بیمار کو دینا چاہئیے.تو یہ نئے نئے علاج نکلتے آتے ہیں اور جس قدر زیادہ غور و خوض کیا جاتا ہے اسی قدر اس فن میں ترقی ہوتی جاتی ہے.پھر اب تو بعض نے غسل سے صحت حاصل ہونے کا طریق نکالا ہے اور بعض نے رنگوں سے یہ کام لیا ہے.بعضوں نے مالشوں سے علاج کرنا شروع کر دیا ہے.بعضوں نے دبانے اور بھاپ کے علاج نکالے ہیں.یہ علاج پہلے کہاں تھے.لیکن انہی پر بس نہیں ہو گئی آئے دن نئی نئی باتیں نکلتی رہتی ہیں.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو چیز خدا نے پیدا کی ہے اس میں اس قدر علوم بھرے پڑے ہیں کہ ان کا احاطہ آج تک نہ کوئی انسان کر سکا اور نہ کبھی کر سکے گا.یہی حالت خدا تعالیٰ کے کلام کی بھی ہے لیکن خدا تعالیٰ کے قول اور فعل میں ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کے فعل

Page 346

خطبات محمود جلد (5) ٣٣٦ سے تو انسان کا کوئی تعلق نہیں لیکن قول سے تعلق ہے کیونکہ وہ انسانوں کے لئے ہی نازل ہوتا ہے اس لئے ضروری تھا کہ وہ انسانوں کی زبان میں ہی نازل کیا جاتا لیکن انسانوں کی بنائی ہوئی چیز محدود ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کو بھی انسانی زبان میں جو محدود ہے کلام نازل کرنا تھا کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو پھر خدا تعالیٰ کے کلام کو سمجھتا کون.اس میں شک نہیں کہ عربی زبان الہامی ہے لیکن وہ نہیں محفوظ رہ سکتی تھی جب تک کہ اس کا تعلق انسانوں سے نہ ہوتا.انسانوں کے ساتھ تعلق رکھنے کے بغیر وہ مٹ جاتی.خدا تعالیٰ کی دوسری پیدا کردہ چیزوں کا تعلق اگر انسان سے نہ ہوتا تو وہ زندہ رہ سکتی تھیں مثلاً اگر انسان گھوڑوں کو نہ پالتا تو وہ جنگلوں میں پل سکتے تھے جیسا کہ اب بھی بعض جنگلوں میں پلتے ہیں.یہی حال اور چیزوں کا ہے.لیکن عربی زبان کا تعلق جب تک اِنسانوں سے نہ ہوتا وہ قائم نہ رہ سکتی تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے اسے بنایا تومحدود لیکن اس میں وسعت پیدا کرنے کا ایک اور طریق رکھا اور وہ یہ کہ استعاروں اور تشبیہوں میں معانی کی وسعت رکھی گئی.یہ بالکل صحیح بات ہے کہ عربی زبان میں جس قدر وسعت ہے اس قدر دُنیا کی اور کسی زبان میں نہیں.مگر خدا تعالیٰ دُنیا کو جو اپنے معارف اور حقائق سمجھانا چاہتا تھا ان کو یہ زبان بھی نہیں اُٹھا سکتی تھی اس لئے اس میں خدا تعالیٰ نے استعارہ کا رنگ اختیار کیا اور اس طرح لغت بہت وسیع ہو گئی.چونکہ الفاظ محدود اور پھر ان کے معانی محدود تھے اس لئے وہ خدا تعالیٰ کے غیر محدود معارف کا احاطہ نہیں کر سکتے تھے اس لئے خدا تعالیٰ نے روحانی علوم کو وسیع کرنے کے لئے اپنے کلام میں ابتداء سے ہی تشبیہ اور استعارے کا باب کھول رکھا ہے چنانچہ دُنیا میں جس قدر ایسی کتابیں موجود ہیں جن کی نسبت دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہیں ان میں سے ایک بھی تو ایسی نہیں ہے جس میں استعارے اور تشبیہات نہ ہوں.حضرت داؤد ، حضرت موسی ، حضرت عیسی اور بہت سے انبیاء پر خدا تعالیٰ کے کلام کے نازل ہونے کی تو قرآن کریم تصدیق کرتا ہے انکے علاوہ قرآن کریم یہ بھی کہتا ہے کہ ہر ایک قوم میں نبی آئے ہیں لے اور ایسی قومیں اب بھی موجود ہیں جو اس بات کا دعوی کرتی ہیں کہ ہم میں نبی آئے.اُن کے پاس جو کلام موجود ہے گو وہ کسی صورت میں ہی ہوتا ہم اس میں بھی استعارے پائے جاتے ہیں اور قرآن کریم میں تو استعاروں کے لئے بڑا وسیع دروازہ کھلا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ابتداء سے جو اپنے کلام میں یہ طریق جاری کیا ہوا ہے اور تمام نبیوں پر اسی طرح نازل ہوا ہے تو اس میں کوئی بہت بڑی حکمت ہے ورنہ کیا یہ یونہی ہے ہرگز نہیں.خدا تعالیٰ کے کلام کی نسبت یہ کبھی وہم و گمان بھی نہیں کیا جا سکتا.پس اس میں یہی حکمت ہے کہ اس طرح معانی اور مطالب میں وسعت ہو جائے اور انسان کے لئے روحانی علوم میں ترقی کرنے کا الرعد : فاطر: ۲۵

Page 347

خطبات محمود جلد (5) ۳۳۷ دروازہ کھل جائے کیونکہ اس طرح الفاظ میں اتنی وسعت پیدا ہو جاتی ہے کہ جو کبھی ختم ہونے میں ہی نہیں آتی.لیکن استعارہ اور تشبیہہ کا دروازہ کھولنے میں ایک دقت بھی تھی اور وہ یہ کہ بعض اوقات انسان اس کی وجہ سے اصل راستہ کو چھوڑ کر کہیں کا کہیں نکل جا سکتا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے ایک علاج مقرر کر دیا اور وہ یہ کہ جہاں استعارات کا باب رکھا وہاں محکمات کی بھی ایک شاخ رکھ دی.کیونکہ جہاں استعارہ ہوگا وہاں انسان وسیع معنی کر سکے گا اور ممکن ہے کوئی انسان معانی کو اس قدر وسعت دے یا ایسے معنی بھی کرے جو خدا تعالیٰ کے منشاء کے خلاف ہوں.لیکن اسے یہ کس طرح پتہ لگے کہ فلاں معنی خدا تعالیٰ کی منشاء کے خلاف ہیں اور فلاں منشاء کے ماتحت.اس کے لئے کوئی کسوٹی ہونی چاہیئے اور وہ کسوٹی یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے بڑے بڑے اصول دین کے لئے ایسے الفاظ رکھے ہیں جن میں کوئی استعارہ اور تشبیبہ نہیں بلکہ وہ عین مطابق ہیں اور ان کو خدا تعالیٰ نے بطور حکم کے رکھ دیا ہے وہ اس بات کا فیصلہ کر دیتے ہیں کہ جو آیات ذو المعانی ہیں ان کے فلاں معنی خدا تعالیٰ کی منشاء کے خلاف ہیں اور فلاں معنی بالکل مطابق.کیونکہ جو معنی ان کے خلاف ہوں گے وہ ضرور غلط اور خدا تعالیٰ کی منشاء کے خلاف ہوں گے لیکن جو ان کے خلاف نہیں ہوں گے وہ غلط نہیں ہو سکتے خواہ ایک ہی آیت کے کتنے معنی نکلتے آئیں.یہی وجہ ہے کہ فقیہوں نے ایک ہی آیت کے کئی کئی معنی کئے ہیں اور رسول کریم نے بھی فرمایا ہے کہ ہر ایک آیت کے سات بطن ہیں اور ایک صحابی کہتے ہیں کہ جیتک ایک آیت کے پیچیش " معانی کسی کو معلوم نہ ہوں اُس وقت تک وہ فقیہ نہیں کہلا سکتا.اس صحابی کو جھو ٹا تو کہہ نہیں سکتے اور نہ ہی ہم آنحضرت کی اس بات کو کہ ہر ایک آیت کے سات بطن ہوتے ہیں چھوڑ سکتے ہیں.اس لئے اب یہی معنی کریں گے کہ بطن سے مراد ایک بڑا جز و اور حصہ ہے اس سے آگے ہر ایک بطن کے کم از کم پچھتیں پچھتیں معانی ہوتے ہیں.پس جب کسی کو ایک بطن کے پچھتیں معانی آتے ہوں تب وہ فقیہہ ہوسکتا ہے.اس سے دیکھو کہ معانی میں کس قدر وسعت ہو گئی ہے.پھر رسول کریم کی صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ایک ہی آیت کے ایک جگہ ایک اور دوسری جگہ دوسرے معنی کئے ہیں.صحابہ کرام کی نسبت بھی ایسا ہی ثابت ہے.اب یہ تو کہا نہیں جا سکتا کہ دوسرے معنے غلط ہیں بلکہ یہی کہا جائے گا کہ ایک آیت کے کئی معنے ہوتے ہیں کیونکہ ایک ہی آیت میں خدا تعالیٰ نے بہت سے معانی اور مطالب رکھے ہوئے ہیں جو کھلتے رہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے کلام کے ایک چھوٹے سے حصہ میں جو کچھ مراد ہے وہ سب کچھ الفاظ میں بتایا جاتا تو قرآن کریم اتنا بڑا ہو جاتا کہ ابخاری کتاب فضائل القرآن باب انزل القرآن على سبعة أحرف

Page 348

خطبات محمود جلد (5) ۳۳۸ کوئی پڑھ بھی نہ سکتا لیکن اب خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کو ایسے مختصر طور پر اُتارا ہے کہ ہر ایک اسے پڑھ سکتا اور اپنی لیاقت اور قابلیت کے مطابق اسے سمجھ سکتا ہے اور اس کے معانی سے آگاہ ہو سکتا ہے اب جس قدر کوئی قرآن کریم کے مطالب اور معانی پر آگاہ ہو سکتا ہے اس کے لئے وہی قرآن ہے اور جوں جوں کسی میں تقوی وطہارت بڑھتا جاتا ہے اسی قدر قرآن کریم کے زیادہ معارف اس پر گھلتے جاتے ہیں اور اس کے لئے یہی چھوٹا سا قرآن کریم بہت وسیع ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی تصانیف میں بعض جگہ لکھا ہے کہ قرآن کریم کی آیات کے معنی مجھ پر اس قدر کھولے جاتے ہیں کہ میں الفاظ نہیں پاتا کہ ان کو ادا کرسکوں.یہ ہے دوسری وجہ متشابہات کے رکھنے کی.پس کیا ہم متشابہات کو بُرا کہہ سکتے ہیں.ہرگز نہیں کیونکہ اگر یہ برائی اور نقص ہوتا تو خدا تعالیٰ اس کو قرآن کریم میں کیوں رکھتا.پھر خدا تعالیٰ نے تو اس کو سورہ زمر میں اپنے فضلوں میں سے ایک فضل قرار دیا ہے اور دوسرے مذاہب پر ایک محبت قائم کرتے ہوئے قرآن کریم کی یہ ایک خوبی جتلائی ہے کہ كِتَابًا مُتَشَابِهَا اور تشبیہات قرآن کریم میں کثرت سے ہیں اور یہ اس کی خوبی ہے لیکن اگر کوئی متشابہات کو نقص قرار دیتا ہے تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ وہ قرآن کریم کو ناقص قرار دے رہا ہے مگر قرآن کریم ناقص نہیں ہوسکتا پس ثابت ہوا کہ ینقص نہیں بلکہ خوبی ہے.متشابہات رکھنے کی اور بھی بہت سی حکمتیں ہیں لیکن اوّل تو آج کچھ دیر ہوگئی ہے دوسرے اس وقت مجھے ایک اور مضمون بیان کرنا ہے پھر کبھی خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو اس کے متعلق بیان کروں گا.یہ آیات جو میں نے پڑھی ہیں ان میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض لوگ جن کے دلوں میں کبھی ہوتی ہے وہ محکمات کو چھوڑ کر متشابہات کے پیچھے پڑ جاتے ہیں.میں نے ابھی بتایا ہے کہ متشابہات کے الفاظ ہی ایسے رکھے جاتے ہیں کہ ان کے ذریعہ کثیر معانی پیدا ہوسکیں.پس جب ایسا ہو گا تو ایسے معنی بھی کئے جاسکیں گے جو کلام کرنے والے کی منشاء کے خلاف ہوں گے اس بات کے ازالہ کے لئے خدا تعالیٰ نے محکمات رکھی ہیں لیکن وہ لوگ جن کے دلوں میں گند اور نا پا کی ہوتی ہے وہ بالکل متشابہات کی طرف چلے جاتے ہیں اور محکمات کو حج نہیں مقرر کرتے اس لئے ٹھوکر کھا کر خود بھی گمراہ ہو جاتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں اس میں نہ تو ( نعوذ باللہ ) خدا تعالیٰ کا قصور ہے اور نہ ہی شریعت کا الزمر : ۲۴

Page 349

خطبات محمود جلد (5) ۳۳۹ اور نہ ہی ان الفاظ کا کیونکہ خدا تعالیٰ نے ٹھوکر سے بچنے اور سید ھے راستہ پر چلنے کے لئے محکمات کو رکھا ہوا ہے ان کے مطابق اگر کسی متشابہ آیت کے بیسیوں نہیں سینکڑوں اور ہزاروں معنی کئے جائیں تو جائز اور بالکل درست ہیں لیکن ان کے خلاف اگر ایک معنی بھی کئے جائیں تو وہ بھی درست نہیں ہو سکتے.اگر کسی کو کسی متشابہ آیت کے وہ معنی کرنے نہیں آتے جو محکمات کے مطابق ہوں تو وہ نہ کرے لیکن یہ اس کے لئے ہرگز جائز اور درست نہیں کہ ان کے خلاف معنی کر دے جو کوئی ایسا کرے گا وہ ایک بہت بڑی غلطی کا مرتکب ہوگا اور اس طرح سیدھے راستہ سے بہت دُور جا پڑے گا.ہمارے موجودہ اختلاف میں بھی اس بات سے بعض لوگوں کو دھو کہ لگا ہے.بعض اوقات ایک انسان کسی معمولی سی بات پر اڑ جاتا ہے اور پھر ضد اور ہٹ سے کہیں کا کہیں نکل جاتا ہے ایسی حالت میں اس کے لئے کوئی بات بھی کارگر نہیں ہوتی.کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اگر کسی کو کہا جائے کہ تم نے یہ بات قرآن کریم کے خلاف کی ہے تو وہ غصہ کی حالت میں کہہ دیتا ہے کہ جاؤ قرآن کو گھر رکھو.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جار ہے تھے کہ ایک عورت قبر پر بیٹھی رو رہی تھی آپ نے اسے فرمایا صبر کرو اس نے کہا اگر تیرا بچہ مرتاتو تجھے پتہ لگتا کہ صبر کس طرح ہو سکتا ہے.اس نادان کو کیا معلوم تھا کہ جتنے بچے آپ کے فوت ہوئے ہیں اگر اتنے اس کے فوت ہوتے تو غم سے مر ہی جاتی.تو جب کوئی شخص غصہ اور ضد میں ہو تو ان باتوں کی بھی پرواہ نہیں کرتا جن کو وہ صحیح اور درست مانتا ہے اور ان کے خلاف کرنے پر بھی آمادہ ہو جاتا ہے.کسی پٹھان کی نسبت مشہور ہے کہ جب فقہ اور حدیث کے جھگڑے شروع ہوئے تو یہاں تک بڑھے کہ اس نے کسی حدیث میں پڑھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھتے ہوئے دروازہ کھولا یا بچے کو گود سے اتارا تو اس نے کہہ دیا کہ اومحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا نماز ٹوٹ گیا.اس طرح اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی ہتک کرنے کی پرواہ نہ کی.پھر بعض نے اسی ضد میں امام بخاری کی بڑی سخت ہتک کی ہے.تو ضد میں انسان کسی بات کی پرواہ نہیں کرتا.اس وقت کچھ لوگ ہمارے مقابلہ میں بھی ضد اور ہٹ دھرمی کو لے کر اُٹھے ہیں اور یہاں تک بڑھ گئے ہیں کہ انہوں نے کہہ دیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کچھ وقعت نہیں رکھتے.حتی کہ ان میں سے ایک نے کہہ دیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام ضعیف حدیث سے بھی کمتر ہیں.ضعیف حدیث کے کیا معنی ہیں؟ یہی کہ ایسے شخص کی روایت سے پہنچی ہوئی حدیث جو جھوٹا ہو یا 'جھوٹ کا عادی تو نہ ہو لیکن معتبر بھی نہ ہو یا اس کا حافظہ ایسا ہو کہ کسی بات کو صحیح طور پر یاد نہ رکھ سکتا ہو.یا ایسا شخص جس نے جان بوجھ کر کوئی ٹھوٹی حدیث بنائی ہو.ایسے راویوں کی بیان کی ہوئی ے بخاری کتاب الجنائز باب زيارة القبور

Page 350

خطبات محمود جلد (5) ۳۴۰ حدیث کو ضعیف کہتے ہیں.اور اگر ایسے راویوں کی روایت سے کوئی حدیث پہنچے جو نیچے اور معتبر ہوں اور جن کے حافظہ میں نقص نہ ہو تو اس حدیث کو ضعیف نہیں کہتے.پس جس حدیث کو ضعیف کہا جاتا ہے اسکے یہ معنی نہیں ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اسی طرح فرمائی ہے مگر وہ آپ کا ادنیٰ قول ہے بلکہ یہ ہے کہ اس کے پہنچانے والوں نے ہم تک درست اور صحیح نہیں پہنچائی.اس کے متعلق سوال راویوں کے بچے اور ٹھوٹے ہونے پر ہے.جس حدیث کو ضعیف کہا جاتا ہے وہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کے راوی قابلِ اعتبار نہیں ہوتے اور جس کو صحیح کہا جاتا ہے وہ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اس کے راوی قابل اعتبار اور نیچے ہوتے ہیں.اب بحث اس بات پر ہے کہ کیا ہم ایسے راویوں کی باتیں مانیں جن کے بچے اور معتبر ہونے کا بھی اعتبار نہیں.یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتوں کو مانیں جو کہتے ہیں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے یہ کہا ہے.دیکھو ایک شخص کہتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے لیکن اس نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کو نہیں ئنا بلکہ بیسیوں ایسے انسانوں کی روایت سے اس تک وہ بات پہنچی ہے جن میں سے بعض مجھوٹے ہیں.بعضوں پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا بعضوں کی نسبت پتہ ہی نہیں کہ کون تھے اور بعضوں کی نسبت یہ شبہ ہے کہ جس کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ اس سے ہم نے یہ بات سنی ہے اس سے وہ ملے بھی ہیں یا نہیں ایسے لوگوں کی معرفت پہنچی ہوئی رکسی بات کو ہم مان لیں یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو کہتے ہیں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے براہِ راست فلاں بات بتائی ہے.ہر ایک وہ شخص جس کے دل میں حق کا تھوڑا سا مادہ بھی ہے وہ یہی کہے گا کہ حضرت مسیح موعود کے الہامات کو ماننا چاہئے لیکن کچھ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ نہیں حضرت مسیح موعود کے الہامات کو نہیں ماننا چاہئیے بلکہ ان لوگوں کی باتوں کو ماننا چاہیئے اور ان کے ماتحت حضرت صاحب کے الہامات کو رکھنا چاہیے جو ضعیف حدیث بیان کرتے ہیں.ایسا کیوں کہا گیا صرف ہمارے بغض اور حسد کی وجہ سے.اب جبکہ انہوں نے یہ کہہ دیا تو انہیں اپنی تائید کے لئے دلائل کی بھی ضرورت پیش آئی اور سب سے بڑی دلیل انہوں نے یہ دی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہام ایسے ہیں جن میں شرک پایا جاتا ہے.مثلاً ایک تو یہ ہے کہ آنتَ مِلّی بِمَنْزِلَةِ وَلدِیا لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر کسی متشابہ الہام کی وجہ سے حضرت مسیح موعود کے الہامات ضعیف حدیثوں کے بھی ماتحت رکھے جائیں گے تو پھر قرآن کریم کو بھی ضعیف حدیثوں کے ماتحت رکھنا پڑے گا کیونکہ اس میں بھی متشابہ آیات ہیں.مثلاً قرآن کریم میں ہے کہ حضرت مسیح مُردے زندہ کرتے تھے.پھر مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ ری رسول کریم تذکره ص ۵۲۶ الانفال: ۱۸

Page 351

خطبات محمود جلد (5) ۳۴۱ کے کنکر پھینکنے کی نفی کی گئی ہے حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکر پھینکے اور صحیح حدیثوں سے ثابت ہے.اب یا تو یہ کرنا ہوگا کہ ان حدیثوں کو بھی غلط اور بناوٹی قرار دیا جائے جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کنکر پھینکنے کا ذکر ہے یا یہ مانا پڑے گا کہ قرآن کریم میں یہ استعارہ ہے.حدیثوں کو تو کوئی غلط نہیں کہہ سکتا اور نہ ہی وہ غلط ہیں اس لئے یہی تسلیم کرنا پڑے گا کہ قرآن کریم میں استعارہ کے رنگ میں یہ بیان کیا گیا ہے.پس جبکہ قران کریم میں استعارہ ہے اور اس کو استعارہ سمجھ کر بھی پھر قبول کیا جاتا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام کیوں قبول نہیں کیا جاسکتا.اگر استعارہ کی وجہ سے حضرت مسیح موعود کا الہام نا قابل قبول ہے تو اس کو چھوڑ نے سے پہلے قرآن کریم کو چھوڑنا چاہیئے.اور اگر کہا جائے کہ قرآن کریم میں متشابہات کے مقابلہ میں محکمات بھی ہیں ان سے فیصلہ ہو سکتا ہے.اگر ایک جگہ یہ آیا ہے کہ حضرت مسیح مردے زندہ کرتا تھا تو دوسری جگہ یہ بھی تو آ گیا ہے کہ خدا کے سوا اور کوئی زندہ کرنے اور مارنے والا نہیں ہے.اس سے معلوم ہوگیا کہ مسیح کے مُردہ زندہ کرنے کا کوئی اور مطلب ہے اور وہ یہ کہ رُوحانی مُردے زندہ کرتا تھا.تو اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ اگر مسیح موعود کا یہ الہام ہے کہ انت منی بمنزلة ولدی تو آپ ہی کے الہامات میں یہ بھی ہے کہ خدا کا کوئی بیٹا نہیں.پس اگر قرآن کریم کی ایک آیت دوسری آیت کی تشریح کر دیتی ہے تو پھر کیوں ہم حضرت مسیح موعود کے ایک الہام کی تشریح دوسرے الہام سے نہ کریں.اگر حضرت مسیح موعود کے الہامات متشابہات کے رنگ میں ہی ہوتے اور محکمات نہ ہوتے تو کوئی کہہ سکتا تھا کہ ان میں شرک پایا جاتا ہے لیکن آپ کے الہامات تو محکمات بھی ہیں اور اگر ایک میں انت معی بمنزلة ولدی آیا ہے تو دوسرے میں یہ بھی آیا ہے کہ خدا ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور نہ اس کا کوئی بیٹا ہے.اب قرآن کریم کی آیات اور حضرت مسیح موعود کے الہامات کی ایک ہی حالت ہے پھر یہ کہاں کی دینداری ہے کہ انت منی بمنزلة ولدی کے الہام کو لیکر حضرت مسیح موعود کے تمام الہامات کوضعیف حدیث سے بھی نیچے گرا دیا جائے.جو کوئی اس طرح کرتا ہے اسے قرآن کریم بھی چھوڑنا پڑے گا کیونکہ ایک طرف تو قر آن کہتا ہے کہ حضرت مسیح مردے زندہ کیا کرتا تھا اور ادھر کہتا ہے کہ صرف خدا ہی زندہ کرتا ہے.پس جو حضرت مسیح موعود کے الہامات کو چھوڑے گا اسے قرآن کریم چھوڑنا پڑے گا.مگر میں کہتا ہوں کیا حدیثوں میں متشابہ نہیں ہیں.ایک ہزار متشابہ احادیث نکال دینے کا تو میں ذمہ دار ہوں.وہی حدیث جس میں نبی اللہ کا لفظ آیا ہے اس کے متعلق غیر مبائعین کہتے ہیں کہ اس میں استعارہ کے طور پر نبی اللہ کہا گیا ہے.اسی سے ثابت ہو گیا کہ حدیث میں بھی استعارہ ہے پھر اس کو بھی چھوڑ دینا چاہیئے.اب اُس شخص کو جو حضرت مسیح موعود کے الہامات کو ضعیف حدیث ا سیرت ابن ہشام جز و ۲ ص ۶۲۸

Page 352

خطبات محمود جلد (5) ۳۴۲ کے ماتحت اس لئے رکھتا ہے کہ ان میں استعارے ہیں چاہئیے کہ کہہ دے کہ قرآن کریم اور احادیث اور حضرت مسیح موعود کے الہامات سب کو چھوڑ دینا چاہئیے اور ان کو میرے الفاظ کے ماتحت لانا چاہئیے کیونکہ ان سب میں استعارے ہیں.پھر عجیب بات ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کو نبی تو کہا گیا ہے مگر اس سے مراد ظلی نبی ہے تو اس کو بھی چھوڑ دینا چاہیئے.سب کچھ چھوڑنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ گویا مذہب کوئی چیز ہی نہیں نہ قرآن ماننے کے قابل نہ حدیث ماننے کے قابل نہ حضرت مسیح موعود کے الہامات ماننے کے قابل.کیونکہ ان سب میں استعارے ہیں ان سب کو چھوڑ کر سوفسطائی بن جانا چاہیئے.کسی بادشاہ کی نسبت مشہور ہے کہ اس نے کسی سوفسطائی کو ہاتھی کے سامنے ڈال دیا جب وہ بھاگنے لگا تو بادشاہ نے کہا بھاگتے کیوں ہوا سکو بھی خیال ہی سمجھ لو.اس نے کہا بھاگتا کون ہے یہ بھی آپ کا خیال ہی ہے کہ میں بھاگ رہا ہوں.تو متشابہات کے ہونے کی وجہ سے جو سب کچھ چھوڑ دیا گیا تو پھر پیچھے وہم ہی وہم رہ گیا.قرآن کریم کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتب مِنْهُ ايت تُحكَمَتْ هُنَّ أُم الكتب وَأَخَرُ مُتشبهت ط کہ اس میں محکمات اور متشابہات ہیں.لیکن جس میں متشابہات ہوں وہ تو قابل اعتبار نہیں اس لئے اس کو چھوڑ دینا چاہیئے.پھر احادیث میں متشابہات ہیں اس لئے وہ بھی قابل قبول نہیں ان کو بھی ترک کر دینا چاہئیے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں متشابہات ہیں ان کو بھی چھوڑ دینا چاہیئے.جب ان سب کو چھوڑ دیا گیا تو پھر باقی رہ کیا گیا.لیکن یا درکھنا چاہیے کہ استعارے دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک تو وہ جو لغت میں شامل ہیں اور دوسرے وہ جو ہر انسان خود بنا لیتا ہے.دوسری قسم کے استعاروں کے متعلق شبہ ہو سکتا ہے کہ ان میں شرک کی آمیزش ہے اور وہ مشکل سے سمجھ میں آسکتے ہیں.مگر وہ جو زبان کے اندر داخل ہو گئے ہوں ان کی نسبت یہ خیال نہیں کیا جا سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں جو استعارہ ہے وہ بھی اسی قسم کا ہے.ولد کے دو معنی لغت میں آئے ہیں (۱) بیٹا (۲) جماعت تو انت منی بمنزلة ولدی کے وہی معنی ہوئے جو جری اللہ فی حلل الانبیاء اے کے ہیں کہ تو مجھے ایسا پیارا ہے جیسے ایک جماعت پیاری ہوتی ہے.لغت کی مشہور کتب لسان اور تاج میں ولد کے معنی ربط کے آئے ہیں اور ربط جماعت کو کہتے ہیں جیسا کہ حضرت شعیب کی نسبت قرآن کریم میں آیا ہے کہ لَوْلَا رَهْطك ترجمتك لے تو ولد کے معنی اولیاء کی جماعت ہوئی.اس لئے اس الہام کے یہ معنی ہوئے کہ خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فرماتا ہے کہ تو میرے نزدیک وہی درجہ رکھتا ہے جو انبیاء کی ایک جماعت رکھتی ہے کیونکہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مظہر ہیں اور آپ کا مظہر تمام انبیاء کا قائم مقام ہے جیسا کہ قرآن کریم ے تذکره ص ۷۹ هود: ۹۲

Page 353

خطبات محمود جلد (5) ۳۴۳ نے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بعثت کو تمام انبیاء کے مقابلہ میں رکھا ہے.فرمایا وَإِذَا الرُّسُلُ أقتت ا پس جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نوع ، ابراہیم، یعقوب، الحق ، اسمعیل ، موسی اور مسیح تھے.اسی طرح آپ کے بروز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی ان سب کے قائم مقام ہیں.تو انت منی بمنزلة ولدی کے معنی ہیں انت منی بمنزلة رهطی.یعنی آپ کا خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ درجہ اور رتبہ ہے کہ جو انبیاء کی جماعت مجموعی طور پر پاسکتی ہے.اب کوئی یہ تو کہہ سکتا ہے کہ اس سے دوسرے انبیاء کی ہتک ہو گئی ہے لیکن یہ ہرگز نہیں کہہ سکتا کہ اس سے شرک پایا جاتا ہے.پس یہ بات باطل ہوگئی کہ آپ کے الہاموں میں شرک پایا جاتا ہے.پھر انت منی بمنزلۃ ولدی سے شرک نہ ہوا بلکہ تو حید قائم ہوئی کیونکہ یہ وہ زمانہ تھا جس میں تمام امتوں میں شرک پایا جاتا تھا اس کو حضرت مسیح موعود نے آکر ڈور کیا یہی وجہ ہے کہ ان نبیوں کے نام آپ کو دیئے گئے.پھر آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اُلفت میں ایسے صاف ہوئے کہ آپ کا عکس اپنے اندر لے لیا اس لئے آپ کا نام بھی پایا.اس میں شرک کی کونسی بات ہے.جو لوگ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کے ان الہامات میں شرک ہے ان کے علم و عقل کا پردہ فاش ہو گیا ہے.انہوں نے اعتراض تو ایک ایسے انسان پر کیا جو جری اللہ فی حلل الانبیاء ہے لیکن خود اتنی بھی تحقیقات نہیں کی کہ اس الہام کے معنی کیا ہیں.کسی نے کہا ہے ؎ چوں خدا خواهد که پرده کس درد میلش اندر طعنه پاکاں زند اس وقت ایسے لوگ بھی ہیں جو احمدی کہلا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ آور ہور ہے ہیں.مگر ان کو یاد رکھنا چاہئیے کہ وہ جو حملہ بھی کریں گے وہی ان کی علمیت کی چادر کو چاک چاک کر دیگا ان کو اگر اپنے علم کا دعویٰ ہے تو ہو ہمیں نہیں ہے.لیکن اگر ساری دُنیا کے عالم بھی ان کے ساتھ مل کر آجائیں گے تو وہی لوگ جن کو انہوں نے جہاں کی جماعت کہا تھا ان کی ایسی پردہ دری کریں گے کہ ان کے لئے مرنا جینے سے اچھا معلوم ہوگا اور وہ مرنے کو بہتر سمجھیں گے.پس ان کے لئے بہتر ہے کہ تو بہ اور استغفار کر لیں.اور پیشتر اس کے ان کی پردہ دری ہوا اپنی ان حرکات سے باز آجائیں ورنہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کا درجہ متشابہات کی وجہ سے ضعیف حدیث سے بھی گھٹ جاتا ہے تو پھر قرآن کریم اور صحیح حدیثوں کا بھی یہی حال ہوگا اور انہیں بھی ان کو چھوڑنا پڑیگا کیونکہ ان میں بھی متشابہات ہیں.المرسلات: ۱۲

Page 354

خطبات محمود جلد (5) ۳۴۴ اسی قسم کے کئی ایک اعتراض ان کی طرف سے کئے گئے ہیں جن میں انہوں نے اپنی علمی برتری دکھانے کی کوشش کی ہے لیکن ہر دفعہ ہی نہایت ذلیل اور رسوا ہوئے ہیں.انہیں میں سے ایک نے کہا تھا کہ مسلم کی حدیث میں جو نبی اللہ کا لفظ آیا ہے اس سے پتہ لگتا ہے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہیں بلکہ کسی ہندی کا ہے کیونکہ نبی کے ساتھ اللہ کا لفظ لگایا گیا ہے.جب کوئی نبی ہوگا تو اللہ ہی کا نبی ہوگا پھر نبی اللہ کہنے کی کیا ضرورت ہے.اگر یہ بات درست ہے تو ہم کہتے ہیں کہ انبیاء اللہ جو قرآن کریم میں آیا ہے وہ کیا کسی عجمی نے قرآن کریم میں داخل کر دیا ہے.کیسی نادانی اور جہالت کی بات ہے لیکن اس پر بڑا فخر کیا گیا جس کے نتیجہ میں آخر ذلّت اُٹھانی پڑی.اب بھی ایسا ہی ہوگا اور انی مهین من اراد اهانتك ا کے ماتحت جو حضرت مسیح موعود کی ہتک کرے گا وہ خود ذلیل اور رُسوا ہو گا.صرف آپ کی ہتک کرنے والا کبھی عزت نہیں پاسکتا تو پھر آپ کے الہامات کی ہتک کرنے والا کہاں عزت پاسکتا ہے کیونکہ جو الہامات کی ہتک کرتا ہے وہ اس کی ہتک کرتا ہے جس کا وہ کلام ہے یعنی خدا تعالیٰ کی.خدا تعالیٰ ان لوگوں کی آنکھیں کھولے اور انہیں حق کے سمجھنے کی توفیق دے اور اس ذلت و رسوائی سے بچائے جس کے سامان وہ اپنے ہاتھوں کر رہے ہیں.اگر چہ ان کو ذلت ان کے اپنے ہی افعال سے پہنچتی ہے مگر وہ کہلاتے تو احمدی ہیں اس لئے ہمیں افسوس بھی آتا ہے اور ہم دُعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ انہیں سمجھ دے.الفضل ۱۲ ؍ دسمبر ۱۹۱۷ء) تذکره ص ۳۴

Page 355

خطبات محمود جلد (5) ۳۴۵ 39 ہم اور ہمارے مخالفین میں کھلا فیصلہ (فرموده ۱۵؍ دسمبر ۱۹۱۶ء) سورہ فاتحہ اور مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کے بعد فرمایا :- وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسْجِدَ اللهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا ط أولَئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ! قرآن شریف میں تین جماعتوں کی نسبت فرمایا گیا ہے کہ ان سے زیادہ ظالم کوئی نہیں.ایک تو وہ جو خدا پر افتراء کرتے ہیں.ان کو کوئی الہام نہیں ہوتا.کوئی وحی نہیں ہوتی بلکہ جان بوجھ کر چھوٹ ٹوٹ الہام بنا لیتے ہیں ان سے زیادہ بھی کوئی ظالم نہیں تے.(۲) دوسرے وہ لوگ جو بچے ملہموں اور ماموروں کا انکار کرتے ہیں سے.(۳) وہ لوگ ہیں جو مساجد میں ذکر الہی سے روکتے ہیں.ہے خدا پر افتراء کرنے والا جو یہ کہتا ہے کہ مجھ پر وحی ہوئی ہے حالانکہ اس پر خدا کی طرف سے کوئی وحی نہیں ہوئی ہوتی.پھر وہ شخص جس کے لئے خدا کی طرف سے ایک شخص پیغام لے کر آتا ہے لیکن اسکے پاس اگر اس کے گھر سے کوئی پیغام لائے تو اس کی سنتا اور مانتا ہے اور اگر سر کار کی طرف سے چپڑاسی آئے تو اس کی عزت و توقیر کرتا ہے.لیکن وہ جو خدا کی طرف سے اس کے لئے پیغام لے کر آتا ہے اس کو کافر کہتا ہے اور اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جاتا ہے.تیسرے وہ لوگ جو ان جگہوں سے روکتے ہیں جن کا نام اللہ کا گھر ہے اور جن کے بنانے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ ان میں اللہ کا ذکر کیا جائے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہم ان میں عبادت نہیں کرنے دیں گے ان سے زیادہ بھی کوئی ظالم نہیں اور جو سب سے زیادہ ظالم ہوگا وہ کا فر بھی ہوگا.لیکن البقرہ: ۱۱۵ الانعام: ۹۴ العنكبوت: ۶۹ الزمر: ۳۳ البقرہ: ۱۱۵.

Page 356

خطبات محمود جلد (5) ۳۴۶ خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ یہ تین قسم کے لوگ ظالم نہیں بلکہ اظلم ہیں یعنی سب سے بڑے کافر ہیں.یعنی وہ لوگ جو جھوٹا الہام بناتے ہیں اور وہ جو بچے نبی کا انکار کرتے ہیں اور وہ جو اللہ کے نام پر بنائی ہوئی مساجد سے لوگوں کو نماز پڑھنے سے روکتے ہیں.ان کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے لئے ذلت ہے اور فرمایا انہ لا یفلح الظلمون نے ظالم کا میاب نہیں تو یہ واظلم ہیں یہ کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں.پس ان کے لئے دنیا و آخرت میں ذلت و نا کامیابی ہے.یہ تین بڑے گروہ ہیں جن کے متعلق فرمایا کہ یہ کامیاب نہیں ہو سکتے.حضرت مسیح موعود کی صداقت کے متعلق جس وقت ہم یہ معیار پیش کرتے ہیں تو وہ چند لوگوں کے نام لے دیا کرتے ہیں.مثلاً باب وغیرہ.کہ وہ بھی تو تیئیس سال سے زیادہ تک زندہ رہے.پس ان لوگوں کا کامیاب ہونا اور تیئیس سال تک زندہ رہنا ثابت کرتا ہے کہ ظالم بھی کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن یہ ان کی غلطی ہے کہ ہمارے سامنے ان لوگوں کو پیش کرتے ہیں جو مفتری علی اللہ نہ تھے.یعنی یا تو ان کا دعویٰ نبوت تھا ہی نہیں یا وہ مجنون تھے اور مجنون سزا کا مستوجب نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ نے سزا افتراء علی اللہ کرنے والوں کے لئے رکھی ہے یعنی جو اللہ پر جان بوجھ کر افتراء باندھتے ہیں لیکن مجنون بیچارہ تو نہیں جانتا کہ میں کیا کہ رہا ہوں اور مجنون کو پہچانا کوئی مشکل نہیں.پس جو شخص رسالت یا نبوت کا مدعی ہی نہیں یا جو مجنون ہے اسکی مثال ہمارے سامنے نہیں پیش کی جاسکتی اور وہ جو اللہ ہونے کا مدعی ہو وہ بھی پیش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ معیار انہیں لوگوں کے پر کھنے کا ہے جو افتراء علی اللہ کرتے ہیں اور مجنون نہیں ہوتے.بہاء کا دعوی خدائی کا تھا اور اس میں سخت نا کام ہو الیکن لوگ اس کے حالات کی ناواقفیت کی وجہ سے کہہ دیا کرتے ہیں.پس اس کا رسالت کا دعوی نہ تھا اور قرآن نے جھوٹے خداؤں کے لئے کوئی سزا اس جگہ بیان نہیں فرمائی اور نہ اس کی ضرورت تھی کیونکہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک ضعیف اور ناتوان انسان کبھی خدا نہیں ہو سکتا.لیکن رسول چونکہ انسان ہی ہوا کرتے ہیں اس لئے اگر جھوٹے رسول بھی کامیاب ہو جایا کرتے تو دُنیا گمراہ ہوکر ہلاک ہو جاتی اور پھر بچے اور جھوٹے رسول میں کوئی امتیاز نہ رہتا.اس لئے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کے لئے یہ سزا مقرر کی کہ وہ ہلاک کئے جاتے ہیں.ہمارے سامنے جن کو پیش کیا جاتا ہے ان میں بہت سے تو پاگل تھے اور بعض رسالت کے مدعی ہی نہ تھے اور مجنون اور پاگل کے لئے یہاں عذاب کی شرط نہیں ہے کیونکہ مجنون کبھی اپنے دعوئی میں کامیاب نہیں ہو سکتا.لیکن حضرت مسیح موعود کو ہر مذہب وملت کے لوگوں نے مانا ہے اور ہر طبقہ کے لوگوں نے قبول کیا ہے اور یہ آپ کے کامیاب ہونے کی علامت ہے.ایک مجنون کی حرکات وسکنات ل الانعام : ۲۲ -

Page 357

خطبات محمود جلد (5) ۳۴۷ میں وقار نہیں ہوتا اور وہ ہر ایک بات میں حدود سے باہر ہو جاتا ہے اس لئے سمجھدار اور دان منتقی اور باوقار لوگ اس کے ماتحت نہیں ہوا کرتے.یوں تو مجنون تمام انبیاء کو ہی کہا گیا ہے اور حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور حضرت مسیح موعود (علیہ الصلوۃ والسلام ) کو بھی کہا گیا ہے لیکن حضرت نبی کریم اور حضرت مسیح موعود کوان لوگوں نے قبول کیا جن کی دانشوری اور عقلمندی دُنیا میں مسلم تھی اور جن کو متفقہ طور پر دانا کہا جاتا تھا.ان لوگوں کا آپ کو قبول کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ مجنون نہ تھے اس کے علاوہ اور بھی بہت سے دلائل ہیں جن سے آپ کے بچے ہونے کا ثبوت ملتا ہے.مگر یہی ایک دلیل ایسی موٹی اور واضح ہے کہ ہر شخص اس کو سمجھ سکتا ہے.وہ لوگ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود کو قبول کیا یہ نہیں کہ کہیں دور کے رہنے والے تھے اور آپ کے حالات سے ناواقف تھے.بلکہ یہ وہ لوگ تھے جو بچپن سے لے کر جوانی تک اور پھر آخری عمر تک آپ کے حالات کو خوب اچھی طرح جانتے تھے.حضرت ابوبکر جو اپنی قابلیت اور دانائی کے لحاظ سے تمام قوم میں عزت و وقعت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے اور جب کسی پر کوئی مشکل آپڑتی تھی تو وہ آپ کی طرف مشورہ کے لئے رجوع کرتا تھا.جس وقت اُن کو معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوی نبوت کیا ہے اُس وقت آپ سفر سے آرہے تھے آپ نے سننے کے ساتھ فوراً ہی قبول کر لیا اور کہا کہ اس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا.پھر حضرت ابو بکر ہی نہیں بلکہ ہزاروں داناؤں نے آپ کو قبول کیا.اُن لوگوں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوتسلیم کرنا جن کی دانائی و عقل مندی مشہور تھی آپ کے مجنون نہ ہونے پر گواہ ہے.اس لئے وہ لوگ جو ایسے لوگوں کی مثالیں لا کر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی کو جھٹلانا چاہتے ہیں جنہوں نے دعوی نبوت ہی نہیں کیا یا وہ مجنون تھے بہت بڑی غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود کو بھی بہت سے اسی قسم کے لوگوں نے مانا ہے جو اپنے حلقہ میں خاص عزت و احترام رکھتے تھے.مثلاً حضرت مولوی نورالدین صاحب ایک ایسے شخص تھے جن کو تمام ہندوستان میں کم و بیش لوگ خوب جانتے اور آپ کی قابلیت کو تسلیم کئے ہوئے تھے.اور خصوصا آپ علم طب میں ایسے شہرہ آفاق تھے کہ جس کی نظیر نہیں.اور جب وہ علم ہے کہ جس سے جنون کو خوب پہچانا جا سکتا ہے.پس آپ کا حضرت مسیح موعود کے دعویٰ کو تسلیم کرنا ثابت کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود مجنون نہ تھے کیونکہ اگر مجنون ہوتے تو وہ شخص جس کی طبی قابلیت خاص طور پر مشہور تھی اور جو اپنے پیشہ میں فرد تھا اُس کو وہ تسلیم نہ کرتا لیکن اُس نے ایسا تسلیم کیا کہ سب کچھ چھوڑ کر اُس کے پاس آبیٹا اور یہیں اپنی زندگی بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم باب مناقب المہا جرین.

Page 358

خطبات محمود جلد (5) کوختم کر دیا.۳۴۸ پھر اور بہت سے لوگ ہیں جو اپنے اپنے حلقہ میں خاص درجہ رکھتے تھے.انہوں نے حضرت مسیح موعود کو قبول کیا.یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ آپ مجنون نہ تھے.حضرت مولوی نورالدین صاحب دعوی سے کئی سال پہلے کے حضرت صاحب سے ملنے والے تھے.روزانہ مجالس میں ساتھ رہے.پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس سے اس قسم کی اعلیٰ کتب لکھوائیں کہ دنیا نے اُن کی عمدگی اور برتری کو تسلیم کر لیا.اور جان لیا کہ یہ وہ کام ہے جس کو اور عقل مند بھی نہیں کر سکے.پس براہین احمدیہ کا آپ سے لکھوانا اور دانا لوگوں کا آپ کو قبول کرنا شاہد ہے اس بات پر کہ آپ مجنون نہ تھے.پھر بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ کئی ولی اور صدیق ہوئے کہ لوگوں نے اُن کے وقت میں اُن کا انکار کیا اور باوجود انکار کرنے کے ہلاکت سے بھی بچ گئے.ہم کہتے ہیں کہ تم ایک نہیں ہزار ولیوں کے مخالفین کا حال بھی پیش کرو وہ ہمارے مقابلہ میں کوئی وقعت نہیں رکھتا ہاں اگر تم لوگ اپنے دعوئی میں سچے ہو تو کسی نبی کی مثال پیش کرو کہ اُس کو جھٹلانے اور اُس کی مخالفت میں سرگرم رہنے والے کامیاب ہوئے ہوں کیونکہ حضرت مسیح موعود کا نبوت کا دعویٰ تھا لیکن ایک نبی کی بھی مثال پیش نہیں کی جاسکتی.غرض یہ تین گروہ ہیں جن کو اظلم قرار دیا گیا ہے اور جن کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ کامیاب نہ ہوں گے یہ آیتیں میں نے دیکھا ہے احمدیوں اور غیر احمدیوں میں خوب فیصلہ کرتی ہیں.دونوں گروہ مدعی اسلام ہیں اور ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں.اب ہمارا اور اُن کا فیصلہ آسان ہے.اظلم کے معنی کافر کے ہیں اور ہمارا اور اُن کا یہ اختلاف ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود کو مفتری علی اللہ قرار دیتے ہیں لیکن ہم حضرت مسیح موعود کوسچا اور راستباز یقین کرتے ہیں اور غیر احمدیوں کو اس بچے مدعی کو جھٹلانے والے کہتے ہیں.اب ہم دونوں میں اختلاف ہے ہم کہتے ہیں کہ تم کذب بائیتہ کے مصداق ہو کر اظلم ہو اور وہ ہمیں نعوذ باللہ مفتری علی اللہ کو ماننے والے قرار دے کر اظلم بمعنی کا فر کہتے ہیں.ہم دونوں میں اختلاف ہے یہ دونوں فریق کومسلم ہے کہ اسلام سچا مذ ہب ہے.اس کے باہر کوئی سچا مذ ہب نہیں.جب اسلام کے باہر سچائی نہیں تو ان دونوں میں سے ایک سچا ضرور ہے.اگر دونوں میں سے کوئی سچا نہیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ دنیا میں سچا مذہب کوئی نہیں کیونکہ دونوں فریق کو یہ مسلم ہے کہ اسلام کے باہر کوئی مذہب سچا نہیں.پس ان دونوں میں سے ایک سچا ہے اور ہمیں اس بچے کو ہی معلوم کرنا ہے.اب ہم فیصلہ کے لئے قرآن مجید کی طرف جاتے ہیں وہاں ان دو ۲ گروہوں کے علاوہ ایک اور گروہ ہے جس کے متعلق ومن اظلم ممن منع مسجد اللہ آیا ہے یعنی ایک گروہ ہے کہ وہ بھی بڑا ظالم ہے جو لوگوں کو اللہ کی مسجدوں سے روکتا ہے کہ اُن میں عبادت نہ کرو.اب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ

Page 359

خطبات محمود جلد (5) ۳۴۹ آیت کن پر چسپاں ہوتی ہے.آیا ہم ہیں وہ لوگ جو اپنی مسجدوں میں کسی کو عبادت کرنے سے روکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری مسجدوں میں آکر کوئی نماز نہ پڑھے یا غیر احمدی ہیں جو احمدیوں کے لئے مسجدوں میں عبادت کرنے کی ممانعت کرتے ہیں.جو اس طرح کرتے ہوں گے یعنی اپنی مسجدوں میں نماز پڑھنے سے روکتے ہوں گے اُن پر یہ آیت چسپاں ہوگی.ہم پر تو چسپاں نہیں ہو سکتی کیونکہ ہماری مسجدوں میں ہر ایک شخص خواہ ہمیں کا فر ہی کہتا ہو یا ہمارے قتل کا فتویٰ ہی دیتا ہو یا ہمارا مال غصب کرنا بھی جائز جانتا ہو نماز پڑھ سکتا ہے ہم ان میں سے کسی کو منع نہیں کریں گے وہ آئیں اور ہماری مسجدوں میں نماز پڑھیں لیکن دیکھو غیر احمدی ہم سے کیا سلوک کر رہے ہیں.کیا اُن کی بعض مسجدوں کے دروازوں پر نہیں لکھا ہوتا کہ اس مسجد میں کسی مرزائی (احمدی ) کو داخل ہونے کی اجازت نہیں.پھر کیا اُن کے علماء کی طرف سے یہ فتوے شائع نہیں ہوئے کہ احمدی ہماری مسجدوں میں آکر نماز نہیں پڑھ سکتے.پس یہی لوگ ہیں جو مسجدوں میں نماز پڑھنے سے ہم کو روکتے ہیں اس لئے وہ اس آیت ومن اظلم ممن منع مسجد اللہ کے ماتحت اظلم قرار پائے اور اس آیت نے فیصلہ کر دیا ہے کہ جو شخص مساجد اللہ سے روکتا ہے وہ کافر ہے.پس اس آیت نے ہمیں بتادیا کہ یقینی طور پر غیر احمدی جھوٹے ہیں اور ہم بچے ہیں.نیز یہ بھی فیصلہ ہو گیا کہ ان دونوں گروہوں میں سے جو اسلام کے مدعی ہیں کون حق پر ہے.آج ہمارے نئے مخالف (غیر مبایعین ) ہم کو کہتے ہیں کہ تعلیم یافتہ طبقہ اس قسم کا ہے کہ وہ ہمیں کا فرنہیں کہتا.پس جب وہ لوگ ہمیں کافر نہیں کہتے تو ہم بھی ان کو حضرت مسیح موعود کے ارشاد کے ماتحت کافر نہیں کہہ سکتے.ہم کہتے ہیں اگر کوئی ایسے لوگ ہیں تو ان کو تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ان کا فرض ہے کہ وہ کم از کم دو سو مولویوں کے نام بنام کی فہرست بنا کر جنہوں نے ہمیں کا فر کہا ہے شائع کر دیں کہ ہم ان مولویوں کو کافر سمجھتے ہیں.اور پھر وہ خدا کے ان تازہ بتازہ نشانات کو جو ہمیں خدا کی طرف سے ملے ہیں ان کو قبول کریں اور ان کے دل میں کوئی شعبہ نفاق نہ ہو.جب وہ ایسا کریں گے تو ہم بھی ان کو مسلمان کہیں گے.اب یہ ایسی ہی بات ہے جیسی کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کے متعلق فرمائی ہے کہ اگر خدا کا بیٹا ہو تو اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تم ان سے کہہ دو کہ میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرتا.گویا نہ خدا کا کوئی بیٹا ہے نہ اس کی عبادت ہو سکتی ہے.اسی طرح نہ کوئی ایسا غیر احمدی شخص ہے جس نے حضرت صاحب کی اس شرط کو پورا کیا ہو اور نہ ہم کسی کو مسلمان کہہ سکتے کیونکہ اس قسم کا آدمی جوان مولویوں کو کافر کہے اور پھر حضرت مسیح موعود کے تازہ بتازہ نشانات کو مانے اور پھر اس میں کوئی شعبہ نفاق بھی نہ ہو تو وہ پھر غیر احمدی نہیں رہ سکتا وہ تو ضرور حضرت مسیح موعود کی جماعت میں داخل ہو جائے گا لیکن اگر اس نے بیعت نہیں کی تو معلوم ہوا کہ اس کے دل میں شعبہ نفاق باقی ہے.ہم کہتے ہیں کہ اس قسم کی کوئی مثال نہیں پائی جاتی مگر غیر مبایعین کہتے ہیں کہ پائی جاتی ہے

Page 360

خطبات محمود جلد (5) ۳۵۰ لیکن ہم نے تو اس وقت تک کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں دیکھا اگر ان کو کوئی ایسا شخص معلوم ہو جو حضرت مسیح موعود کی اس شرط کو پورا کرنے والا ہو تو اُسے پیش کریں لیکن وہ یادرکھیں کہ یہ شرط زبان سے کہہ دینے سے پوری نہیں ہوتی کیونکہ اس کا تعلق عمل سے ہے.اب اگر کوئی ان کے پاس الگ بیٹھ کر یہ بھی کہہ دیتا ہو کہ میں احمدیوں کو مسلمان سمجھتا ہوں تو وہ اس وقت تک کسی شمار میں نہیں آ سکتا جب تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقررہ شرط کو پورا نہ کر لے.پس ہر ایک وہ شخص جو کہتا ہے کہ میں احمدیوں کو مسلمان سمجھتا ہوں وہ اس شرط پر بھی عمل کر کے دکھائے پھر ہم اس کو کا فرنہیں کہیں گے لیکن ایسا آدمی ایک بھی نہیں.جب ایک بھی نہیں تو ہم ان غیر احمد یوں کو کس طرح مسلمان کہہ دیں.ہم چیلنج کرتے ہیں کہ غیر مبایعین ایک آدمی ہی اس قسم کا دکھا دیں جس میں یہ شرط پائی جاتی ہو اور پھر وہ غیر احمدی ہو.یہ ہر گز نہیں ہوسکتا.کیونکہ ایسا شخص ضرور حضرت مسیح موعود کی جماعت میں داخل ہو جائے گا.ہمیں کہا جاتا ہے کہ تعلیم یافتہ گروہ ایسا نہیں جو ہم کو کا فرکہتا ہو.اوّل تو ہم کہتے ہیں کہ چونکہ حضرت مسیح موعود نے جو شرط ان کو مسلمان کہنے کے لئے لگائی ہے اس کو پورا نہیں کرتے اس لئے ہم ان کو مسلمان نہیں کہہ سکتے.دوسرے یہ بھی غلط ہے کہ انگریزی تعلیم یافتہ ہمیں کا فرنہیں کہتے.آج ہی میں نے انگریزی اخبار سول میں ایک تار پڑھا ہے.مونگکھیر میں ہمارا ایک مقدمہ ہے.پہلے عدالت ماتحت میں مقدمہ ہو اوہاں کی عدالت نے فیصلہ کیا کہ یہ احمدی ہیں تو مسلمان مگر غیر احمدیوں کی مسجد میں جماعت نہیں کر سکتے.اس کے متعلق ہماری طرف سے ہائیکورٹ میں اپیل ہوئی ہے.غیر احمدیوں کی طرف سے مظہر الحق وکیل ہے جو انگریزی خوانوں کا بہت بڑا لیڈر ہے اور بہت بڑا آزادطبع مشہور ہے بلکہ اس قدر حد سے زیادہ آزاد ہے کہ جب لیگ کا جلسہ بمبئی میں ہو اتو مسلمانوں نے کہا کہ اس شخص کو کیوں صدر بنایا گیا ہے جس کے منہ پر نہ ڈاڑھی نہ مونچھ.یہ ہمارا قائم مقام نہیں ہوسکتا.اس کو اسلام سے کوئی تعلق نہیں.اس مقدمہ میں اس نے عدالت میں بیان کیا ہے کہ احمدی لوگ کافر ہیں اس لئے ان کو مسجدوں میں آنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئیے.اگر کوئی کہے کہ وکیل تو اپنے مؤکل کا مذہب پیش کیا کرتا ہے اس لئے مظہر الحق نے غیر احمدیوں کا مذہب پیش کیا ہے تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ دونوں طرف کے وکیل مفت اس مقدمہ کی پیروی کر رہے ہیں.پس اس کا اس جگہ آکر مفت کھڑا ہونا ہی ثابت کر دیتا ہے کہ وہ ہمیں کا فرسمجھتا ہے.اور اگر اس نے دل سے ہمیں کا فرنہیں کہا اور بظاہر ہمارا نام کا فر رکھا ہے تاکہ اس کے مؤکل اس سے خوش ہوں تو یہ اس سے بھی بڑا ہے.اس نے بڑا زور اس دلیل پر دیا ہے کہ چونکہ یہ لوگ کا فر ہیں اس لئے یہ ہماری مساجد میں آکر نماز نہیں پڑھ سکتے اور ان کو ہماری مسجدوں میں آنے کا حق نہیں.کیا اب بھی کسی کو شک ہے کہ

Page 361

خطبات محمود جلد (5) ۳۵۱ انگریزی تعلیم یافتہ میں کافر نہیں کہتے.وہ شخص جو ہمیں بچے دل سے مسلمان کہے گا وہ ضرور احمدی ہو جائے گا کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے الَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا.اللہ تعالیٰ قسم کھا کر فرماتا ہے کہ جو ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ہم ضرور ان کو ہدایت دیتے ہیں.پس جو شخص ہمیں مسلمان کہے گا وہ یقینا احمدی ہو کر رہے گا.اس موقعہ پر مظہر الحق کا ہمیں کا فر کہنا بھی ہمارے لئے ایک فتح ہے.تعلیم یافتہ گروہ اس موقع پر ہمارے مقابلہ میں آیا ہے اور اس وقت ان کے بڑے سر گردہ نے ہمیں کا فرکہا ہے.اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں بہت بڑا بغض ہے ورنہ ان لوگوں کا تو یہ رویہ ہے کہ یہ بظاہر کسی کو بھی برا نہیں کہتے بلکہ یہ تو اس کو تہذیب سمجھتے ہیں کہ کسی کی بُری بات کو بھی برا نہ کہا جائے اور ایک دوسرے کے عقیدہ کے متعلق کوئی بات نہ چھیڑی جائے.غالبا اسی مظہر الحق نے ایک ہندوؤں کی مجلس میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلمانوں کو ہندوؤں سے فلسفہ سیکھنا چاہئیے یہ کسی کو بھی برا کہنا جائز نہیں جانتے.لیکن ہمیں ان لوگوں کا مساجد سے روکنا اور کہنا کہ یہ لوگ بوجہ کافر ہونے کے مساجد سے رو کے جانے چاہئیں اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ہمیں کا فر جانتے ہیں.بعض لوگوں نے اس آیت کے یہ معنے کئے ہیں کہ جو کسی کے جی میں آئے مسجد میں کھڑا ہو کر کہہ دے لیکن یہ درست نہیں کیونکہ تقریر ہر مقرر کا اپنا خیال ہوتا ہے اس کا نام ذکر اللہ نہیں رکھا جا سکتا.اس مسجد میں بھی بعض لوگ بولنا شروع کرتے ہیں اور دوسرے لوگ جو سنتیں یا اوراد پڑھ رہے ہوتے ہیں ان کو تکلیف ہوتی ہے اس لئے ایسا کرنا جائز نہیں ہے تقریر اپنا ایک خیال ہے وہ ذکر اللہ نہیں.اس طرح اگر کوئی پادری آئے اور مسجد میں تقریر شروع کر دے تو کیا یہ اس کا حق ہے.ہرگز نہیں.کیونکہ یہ تو ذکر اللہ نہیں.لیکن اگر وہ اپنے طریق عبادت سے ہماری مسجد میں عبادت کرنا چاہے تو ہم اس کو بڑی خوشی سے اجازت دیں گے.اگر چہ وہ طریق غلط ہے مگر ان کے ہاں چونکہ اسی طرح خدا کی عبادت کرتے ہیں اس لئے ہم اس کو نہیں روکیں گے.آپ لوگوں کو یا درکھنا چاہیئے کہ ذکر الہی تسبیح وتحمید اللہ اکبر اونچا نہیں کہنا چاہیئے اس طرح دوسروں کو تکلیف ہوتی ہے.لیکن بعض لوگ اُونچی اونچی بول کر دوسروں کی نماز اور ذکر الہی میں حارج ہوتے ہیں.آج سے میں اعلان کرتا ہوں کہ کسی شخص کو یہاں کی مسجدوں میں میری اجازت کے بغیر تقریر کرنے کی اجازت نہیں ہے لیکن ذکر الہی خواہ ہندو بھی کرنا چاہیں تو ہم ان کو اجازت دیں گے اور بڑی خوشی سے دیں گے.ایک دفعہ حضرت ابو ہریرہ مسجد میں بیٹھے ہوئے اونچی آواز سے حدیث سنا رہے تھے حضرت العنكبوت: ۷۰ رض

Page 362

خطبات محمود جلد (5) ۳۵۲ عائشہ نے روک دیا اور کہا کہ یہ کیا کرتے ہو اور کہا کہ کیا رسول اللہ کے وقت میں بھی اسی طرح ہوتا تھا جس طرح تم کرتے ہو.حضرت ابو ہریرہ خاموش ہو گئے ا.تو مساجد میں ہلا انتظام لیکچر شروع کر دینا یہ دوسروں کے لئے ابتلاء ہے.بعض لوگ تقریر کے شور سے مجبور ہو کر اپنے نفل چھوڑ دیتے ہیں.پس مساجد میں تقریروں کے لئے انتظام ہونا ضروری ہے.اگر غیر احمدی اپنی مسجدوں میں حضرت صاحب کے دعویٰ بیان کرنے سے ہمیں روکیں تو وہ ہمیں روک سکتے ہیں کیونکہ قرآن کریم نے عبادت کی اجازت دی ہے اور اس میں انسان کے اپنے خیالات کا دخل نہیں ہوتا.جس طرح کسی کا عقیدہ ہو وہ اسی طرح کر سکتا ہے لیکن ہمیں تو عبادت کرنے سے روکا جاتا ہے اس لئے اس آیت کی رُو سے ہمیں مسجدوں سے روکنے والے غیر احمدی اظلم ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری جماعت حق پر ہے.بعض لوگ ہمارے قرآن کریم کی آیت کو حضرت مسیح موعود کی صداقت کا معیار قرار دینے سے چڑا کرتے ہیں لیکن وہ بے شک چڑیں.قرآن کریم بسم اللہ سے لے کر سورہ والناس تک حضرت مسیح موعود کی صداقت سے لبریز ہے کیونکہ قرآن کریم رسولوں کی صداقت کے نشان بتلاتا ہے اور حضرت مسیح موعود کا دعوی رسالت کا ہے پس آپ میں تمام انبیاء کے نشان پائے جاتے ہیں اس لئے جس قدر نبیوں کی شناخت کے معیار قرآن کریم میں ہیں وہ سب آپ پر بھی چسپاں ہوتے ہیں اور قرآن کریم جس طرح حضرت ابراہیم، نوع ، داؤد.الحق ، یعقوب اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ظاہر کرتا ہے اسی طرح حضرت مسیح موعود کے دعوئی کو ثابت کرتا ہے.پس ہم سے لڑنے والا ہم سے نہ لڑے بلکہ خدا سے لڑے جس نے تمام معیار حضرت مسیح موعود کی صداقت میں رکھ دئے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمارے دشمنوں کو اس امر کے سمجھنے کی توفیق دے کہ وہ ہمیں اپنی مسجدوں سے روک کر کونسا پہلو اختیار کر رہے ہیں.وہ خوب یاد رکھیں کہ جو شخص مساجد سے روکتا ہے وہ دُنیا و آخرت میں کبھی عزت نہیں پاسکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ دُنیا میں بھی ذلیل ورسوا ہوں گے اور آخرت میں بھی.پس وہ مسجدیں جن سے آج ہمیں روکتے ہیں وہ دن آتا ہے کہ اول بھی اور بعد بھی ہم ہی ان میں نماز پڑھنے پڑھانے والے ہوں گے.ا مسلم باب الزہد باب التشبت في الحديث وحكم كتابة العلم.(الفضل ورجنوری ۱۹۱۷ء)

Page 363

۳۵۳ 40 خطبات محمود جلد (5) شعائر اللہ کی تعظیم (فرموده ۲۲ دسمبر ۱۹۱۶ء) سورہ فاتحہ تلاوت فرمانے کے بعد حضور نے یہ آیت پڑھی:- وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ LO یہ آیت جوسورہ فاتحہ کے بعد میں نے پڑھی ہے بہت چھوٹی سی آیت ہے اور اس کے اندر چند ہی لفظ ہیں لیکن انسان کے فرائض اور اس کی ذمہ داریوں کو اس میں ایسے صریح اور صاف اور کھلے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص سمجھ اور عقل سے کام لینے والا ہو تو اسی کے ذریعہ وہ اپنے تمام اعمال درست کر سکتا ہے.سب انسانوں میں عقل اور سمجھ ہی کا فرق ہوتا ہے ورنہ ایک ہی قسم کے سب ہوتے ہیں آنکھ، کان ، ناک، منہ ،سر، پاؤں وغیرہ کے لحاظ سے تو سب برابر ہوتے ہیں لیکن باوجود اس کے کہ سب کا ایک ہی سر ہوتا ہے دو کسی کے نہیں ہوتے اور باوجود اس کے کہ سب کی آنکھیں دو ہی ہوتی ہیں تین رکسی کی نہیں ہوتیں اور باوجود اس کے کہ سب کے کان دو ہی ہوتے ہیں چار یا پانچ کسی کے نہیں ہوتے لیکن انہیں میں سے ایک تو اتنی ترقی کر جاتے اور اس قدر بلند ہو جاتے ہیں کہ دوسروں کی نظروں سے ہی پوشیدہ ہو جاتے ہیں اور ان کو آدمی نہیں سمجھا جاتا بلکہ خدا بنا لیا جاتا ہے گویا وہ اُڑ کر دوسرے انسانوں کی نظروں سے اس قدر بعید ہو جاتے ہیں کہ وہ ان کی اصلی حالت کا اندازہ ہی نہیں کر سکتے.ان کی انسانیت پوشیدہ ہو جاتی ہے اور کمالات اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ انہیں خدا بنا لیا جاتا ہے لیکن کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ کیا فرق ہوتا ہے اُس انسان میں جس کو خدا بنالیا جاتا ہے اور اس میں جو اس کے آگے سجدہ کرتا ہے یہی عقل کا ہی فرق ہوتا ہے ایک نے چونکہ عقل سے کام لیا اس لئے بہت بڑھ گیا اور دوسرے نے نہ لیا اس لئے وہ سجدہ کرنے والا بن گیا.ایک بڑھا تو اتنا بڑھا کہ خدا سمجھ الج:۳۳

Page 364

خطبات محمود جلد (5) ۳۵۴ لیا گیا اور دوسرا گرا تو اتنا گرا کہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر اس کے بندہ کو سجدہ کرنے لگ گیا.یہ عقل اور سمجھ کا ہی فرق ہے جس سے ایک بڑا اور ایک چھوٹا ہو گیا.پس جو لوگ عقل سے کام لینے والے ہوتے ہیں وہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی بڑے بڑے فائدے حاصل کر لیتے ہیں اور جو عقل سے کام نہیں لیتے وہ بڑی بڑی باتوں سے بھی کچھ فائدہ نہیں اٹھاتے.جو لوگ خدا تعالیٰ کا قرب اور معرفت حاصل کرنے والے ہوتے ہیں وہ وہی ہوتے ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں.وہ ہر شے سے نصیحت حاصل کرتے اور ہر بات سے سبق لیتے ہیں.ان کے لئے ایک گری ہوئی دیوار، ایک بیمار آدمی، ایک ٹو ٹاہو اکھمبا واعظ ہوتا ہے ان کے لئے ایک مکھی اور چیونٹی نصیحت کے لئے کافی ہوتی ہے لیکن جو ایسے نہیں ہوتے وہ ویران اور تباہ ملکوں میں چلتے اور و بازدہ اور ہلاک شدہ علاقوں میں سے گذرتے ہیں مگر ان کی آنکھیں اندھی اور ان کے کان بہرے اور ان کے دل مردہ ہوتے ہیں اس لئے کچھ محسوس نہیں کرتے عقلمند انسان ایک ایسے بیمار سے نصیحت حاصل کر لیتا ہے جس کی بیماری ابھی ابتدائی حالت میں ہوتی ہے اور اس وقت سبق لے لیتا ہے جبکہ بیمار سے ابھی موت بہت دُور ہوتی ہے مگر دوسرا انسان قبرستان میں کھڑا ہو کر بھی کچھ نہیں سمجھتا اور اس وقت بھی کچھ فائدہ نہیں اُٹھا سکتا جبکہ موت اس کی آنکھ کے سامنے واقعہ ہو رہی ہو.یہ فرق صرف عقل اور سمجھ ہی کی وجہ سے ہے.سب انسان ایک ہی قسم کے ہوتے ہیں مگر جب کچھ لوگ اس سے کام لیتے ہیں تو بہت بڑھ جاتے ہیں.اور جو نہیں لیتے وہ بہت نیچے گر جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک دفعہ امریکہ سے دو مرد اور ایک عورت آئی.ایک مرد نے حضرت مسیح موعود سے آپ کے دعوئی کے متعلق گفتگو کی دوران گفتگو میں حضرت مسیح ناصری کا ذکر آ گیا اُس شخص نے کہا وہ تو خدا تھے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا ان کے خدا ہونے کا تمہارے پاس کیا ثبوت ہے.اُس نے کہا کہ انہوں نے معجزے دکھائے ہیں.آپ نے فرمایا معجزے تو ہم بھی دکھلاتے ہیں.اسنے کہا مجھے کوئی معجزہ دکھلا ؤ.آپ نے فرمایا تم خود میرا معجزہ ہوں.یہ سنکر وہ حیران سا ہو گیا اور کہنے لگا میں کس طرح معجزہ ہوں.آپ نے فرمایا قادیان ایک بہت چھوٹا سا اور غیر معروف گاؤں تھا معمولی سے معمولی کھانے کی چیزیں بھی یہاں سے نہیں مل سکتی تھیں حتی کہ ایک روپیہ کا آٹا بھی نہیں مل سکتا تھا اور اگر کسی کوضرورت ہوتی تو گیہوں لے کر پسوا تا تھا.اُس وقت مجھے خدا تعالیٰ نے خبر دی تھی کہ میں تیرے نام کو دنیا میں بلند کروں گا ور تمام دنیا میں تیری شہرت ہو جائے گی.چاروں طرف سے لوگ تیرے پاس آئیں گے اور ان کی آسائش اور آرام کے سامان بھی یہیں آجا ئیں گے يَأْتُونَ مِن كُل فج عمیق اور ہر قسم اور ہر ملک کے لوگ تیرے پاس آئیں گے يَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ فَج عميق لے اور اس قدر آئیں گے تذکره ص ۵۲

Page 365

خطبات محمود جلد (5) ۳۵۵ کہ جن راستوں سے آئیں گے وہ عمیق ہو جائیں گے.اب دیکھ لو کہ راستے کسی قدر عمیق ہو گئے ہیں.بٹالہ سے قادیان تک جو سڑک آتی ہے اس پر پچھلے ہی سال گورنمنٹ نے دو ہزار روپیہ کی مٹی ڈلوائی ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے فرمایا کہ تم میرے پاس امریکہ سے آئے ہو تمہارا مجھ سے کیا تعلق تھا جب تک کہ میں نے دعوئی نہ کیا تھا مجھے کون جانتا تھا مگر آج تم اتنی دور سے میرے پاس چل کر آئے ہو یہی میری صداقت کا نشان ہے.مجھے خوب یاد ہے کہ جس وقت یہ گفتگو ہورہی تھی اور اس شخص نے کہا تھا کہ آپ مجھے اپنا کوئی معجزہ دکھا میں توسب لوگ حیران تھے کہ حضرت مسیح موعود اسکا کیا جواب دیں گے.سب نے یہی خیال کیا تھا کہ آپ کوئی ایسی تقریر کریں گے گے جس میں معجزات کے متعلق بتائیں گے کہ کس طرح ظاہر ہوتے ہیں لیکن جونہی اس نے اپنی بات کو ختم کیا اور آپ کو انگریزی سے اردو ترجمہ کر کے سنائی گئی تو آپ نے فورا یہی جواب دیا.یہ ایک چھوٹی سی بات تھی لیکن ہر ایک انسان کی عقل اس تک نہیں پہنچ سکتی تھی.اب بھی ہر ایک وہ انسان جو عقل سے کام نہیں لے گا کہے گا کہ یہ کیا مجزہ ہے.مگر جن کی آنکھیں کھلی ہوئی اور عقل و سمجھ رکھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بہت بڑا معجزہ ہے اور حق کے قبول کرنے والے کے لئے یہی کافی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ میری صداقت میں لاکھوں نشانات دکھلائے گئے ہیں لیکن میں تو کہتا ہوں کہ اتنے نشانات دکھلائے گئے ہیں جو گنے بھی نہیں جاسکتے مگر پھر بھی بہت سے نادان ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اتنے تو مرزا صاحب کے الہام بھی نہیں پھر نشانات کس طرح اس قدر ہو گئے.لیکن عقل اور سمجھ رکھنے والے انسان خوب جانتے ہیں کہ لاکھوں نشانات تو ایک الہام سے بھی ظاہر ہو سکتے ہیں ایک قصہ مشہور ہے کہتے ہیں کوئی شخص تھا اس نے اپنے بھتیجوں سے کہا کہ کل میں تم کو ایک ایسا لڈو کھلاؤں گا جو کئی لاکھ آدمیوں نے بنایا ہوگا.دوسرے دن جب وہ کھانا کھانے بیٹھے تو انہوں نے لڈو کے کھانے کی اُمید پر کچھ نہ کھایا اور چا کو کہا کہ وہ لڈو د یجئے.اس نے ایک معمولی لڈو نکال کر انکے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ یہ ہے وہ لڑ وجس کا میں نے تم سے وعدہ کیا تھا.اس کو دیکھ کر وہ سخت حیران ہوئے کہ یہ کس طرح کئی لاکھ آدمیوں کا بنایا ہوا ہے.چچا نے کہا کہ تم کاغذ اور قلم لے کر لکھنا شروع کرو میں تمہیں بتا تا ہوں کہ واقعہ میں اس لڈ و کوکئی لاکھ آدمیوں نے بنایا ہے.دیکھو ایک حلوائی نے اسے بنایا.اس کے بنانے میں جو چیزیں استعمال ہوئی ہیں ان کو حلوائی نے کئی آدمیوں سے خریدا.پھر ان میں سے ہر ایک چیز کو ہزاروں آدمیوں نے بنایا.مثلا شکر کو ہی لے لو اس کی تیاری پر کتنے آدمیوں کی محنت خرچ ہوئی ہے کوئی اس کو ملنے والے ہیں کوئی رس نکالنے والے کوئی نیشکر کھیت سے لانے والے کوئی ہل جو تنے والے، پانی دینے والے.پھر ہل میں جولو ہا اور لکڑی خرچ ہوئی اس کے بنانے والے اس طرح سب کا حساب لگاؤ تو کس قدر آدمی بنتے ہیں.پھر شکر کے سوا اس میں آتا ہے اس کے تیار

Page 366

خطبات محمود جلد (5) ۳۵۶ کرنے والوں کا اندازہ لگاؤ.کیا اس طرح کئی لاکھ آدمی نہیں بنتے بھتیجوں نے یہ سنکر کہا کہ ہاں ٹھیک ہے یہ بات ان بچوں کی سمجھ میں نہ آئی تھی لیکن وہ شخص چونکہ عقلمند تھا اس لئے وہ دیکھ رہا تھا کہ ایک لڈو کے تیار ہونے میں لاکھوں آدمیوں کی محنت خرچ ہوتی ہے.یہ تو اس نے دنیاوی رنگ میں نصیحت کی تھی مگر جوڑ و حانی بزرگ گزرے ہیں انہوں نے بھی ایسا ہی کہا ہے.مرزا مظہر جان جاناں کی نسبت لکھا ہے کہ انہوں نے بٹالہ کے ایک شخص غلام نبی کو دو لڈو دیئے اُس نے مُنہ میں ڈال لئے اور کھا گیا تھوڑی دیر کے بعد اس سے انہوں نے پوچھا تم نے ان لڈوؤں کو کیا کیا.اس نے کہا کھالئے ہیں.یہ سنکر انہوں نے نہایت تعجب انگیز لہجہ میں پوچھا کہ ہیں کھا لئے ہیں.اس نے کہا ہاں کھالئے ہیں.اسی طرح وہ بار بار اس سے پوچھتے رہے اور تعجب کرتے رہے کہ اتنی جلدی تم نے کھالئے.اس کو خیال ہوا کہ انہیں دیکھنا چاہیئے کہ یہ کس طرح کھاتے ہیں.ایک دن کو ئی شخص ان کے پاس کچھ لڈولا یا ان میں سے آپ نے ایک لڈو اُٹھا کر رومال پر رکھ لیا اور اس میں سے ایک ریزہ تو ڑ کر آپ نے تقریر شروع کر دی کہ میں ایک ناچیز ہستی ہوں میرے لئے خدا تعالیٰ نے یہ اتنی بڑی نعمت بھیجی ہے اس میں کیا کیا چیزیں پڑی ہیں پھر ان کو کتنے آدمیوں نے بنایا ہوگا.کیا مجھ ناچیز کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ نعمت بھیجی ہے.اس طرح تقریر کرتے رہے ادھر اپنی عاجزی اور فروتنی بیان کرتے اور ادھر خدا تعالیٰ کی حمد اور تعریف کرتے اسی طرح ظہر سے کرتے کرتے ابھی پہلا ہی دانہ جو منہ میں ڈالا تھاوہی کھایا تھا کہ عصر کی اذان ہوگئی اور اسے چھوڑ کر وضو کرنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے.یہ کیا بات تھی؟ یہی کہ اس لڈو میں انہیں خدا تعالٰی کے ہزاروں نشان نظر آتے تھے یوں کھانے والا تو چار پانچ ، دس بیس لڈو بھی جھٹ پٹ کھا جاتا ہے مگر مظہر جانِ جاناں کے لئے ایک ہی لڈو اتنا بوجھل ہو گیا کہ اس کے کھانے سے ان کی کمر ٹوٹی جاتی تھی.تو عقل ہی ایک چھوٹی سی چیز کو بڑا بنا دیتی ہے اور نادانی نظر آنے والی بڑی چیز کو چھوٹا ظاہر کر دیتی ہے اسی طرح عقل ایک بڑی نظر آنے والی چیز کو چھوٹا دکھا دیتی ہے اور نادانی ایک معمولی چیز کو بڑا دکھاتی ہے تو دانا انسان چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے نشان دیکھ لیتا ہے اور نادان بڑی بڑی اہم باتوں میں بھی کچھ نہیں دیکھتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میری صداقت کے خدا تعالیٰ نے لاکھوں نشانات دکھلائے ہیں یہ بالکل درست ہے اور میں تو کہتا ہوں کہ آپ کی صداقت کے خدا تعالیٰ نے اس قدر نشانات دکھلائے ہیں کہ جن کا شمار بھی نہیں ہو سکتا مگر رکن کے لئے انہیں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں.اگر کوئی شخص آپ کی صداقت کے نشانات دیکھنے کے لئے یہاں آئے تو یہ جس قدر بھی عمارتیں سامنے نظر آ رہی ہیں (مسجد اقصٰی میں کھڑے ہو کر ) ان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی سب آپ کے نشان ہیں.پھر احمد یہ بازار سے آگے کے جس قدر مکانات بنے ہیں ان کے لئے جو زمین تیار

Page 367

خطبات محمود جلد (5) ۳۵۷ کی گئی تھی اس میں ڈالا ہو امٹی کا ایک ایک بورانشان ہے.یہاں، اتنا بڑا گڑھا تھا کہ ہاتھی غرق ہوسکتا تھا پھر قادیان سے باہر شمال کی طرف نکل جائے وہاں جو اونچی اور بلند عمارتیں نظر آئیں گی ان کی ہر ایک اینٹ اور بچونے کا ایک ایک ذرہ حضرت مسیح موعود کی صداقت کا نشان ہے.پھر قادیان میں چلتے پھرتے جس قدر انسان نظر آتے ہیں خواہ وہ ہندو ہیں یا سکھ یا غیر احمدی ہیں یا احمدی سب کے سب آپ ہی کی صداقت کے نشان ہیں.احمدی تو اس لئے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کو دیکھ کر اپنے گھر بار چھوڑ کر یہاں کے ہورہے ہیں اور غیر احمدی اور دوسرے مذاہب والے اس لئے کہ ان کی طرز رہائش لباس وغیرہ حضرت مسیح موعود کے دعویٰ سے پہلے وہ نہ تھے جو اب ہیں.ان کی پگڑی، ان کا گرتہ، ان کا پاجامہ، ان کی عمارتیں ، ان کا مال، ان کی دولت وہ نہ تھی جو اب ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی کرنے پر لوگ آپ کے پاس آئے اور ان لوگوں نے بھی فائدہ اُٹھا لیا اور لایشقی جلیسھم نے کی وجہ سے ان کو بھی نعمت مل گئی تو یہ سب آپ کی صداقت کے نشانات ہیں.دُور جانے کی ضرورت نہیں اسی مسجد کی یہ عمارت ، یہ لکڑی، یہ کھمبا سب نشان ہیں کیونکہ یہ پہلے نہیں تھے جب حضرت مسیح موعود نے دعویٰ کیا تو پھر بنے.پس لاکھوں نشانات تو یہاں ہی مل سکتے ہیں.پھر سالانہ جلسہ پر جس قدر لوگ آتے ہیں ان میں سے ہر ایک آنے والا ایک نشان ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ ہر سال ظاہر کرتا ہے اور جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا کرتا رہے گا.تو حضرت مسیح موعود نے اپنے نشانات کا یہ بہت کم اندازہ لگایا ہے کہ وہ لاکھوں ہیں میں تو کہتا ہوں کہ وہ اس قدر ہیں کہ کوئی انسانی طاقت ان کو گین ہی نہیں سکتی صرف خدا تعالیٰ ہی کے اندازہ میں آسکتے ہیں.لیکن جہاں یہ نشانات ہمارے لئے تقویت ایمان کا موجب ہوتے ہیں وہاں اس آیت کے ماتحت یہ بھی بتاتے ہیں کہ اول ہر ایک آنے والا انسان آنکھیں کھول کر دیکھے کہ یہاں کس قدر نشانات ہیں اور پھر وہ خود بھی ایک نشان ہے.دوسرا یہ کہ تعظیم شعائر اللہ تقوی القلوب میں داخل ہے یعنی متقی ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ کے نشانات کی عزت و توقیر کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کی ہستی پر دلالت کرتے ہیں.پس میں جماعت کے اس حصہ کو جو ہجرت کر کے یہاں آگیا ہے نصیحت کرتا ہوں کہ یہ سالانہ جلسہ کے دن جوان کے لئے تازہ تازہ اور نئے نئے نشانات دیکھنے کا موجب ہوتے ہیں ان میں جہاں وہ اپنے ایمانوں کو تازہ کرتے اور خدا تعالیٰ کی حمد اور تقدیس کرتے ہیں کہ ان کی آنکھوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیاں بڑے زور سے پوری ہو رہی ہیں وہاں ان کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ آنیوالے مہمانوں کی تعظیم اور بخاری کتاب الدعوات باب فضل ذکر اللہ عز وجل

Page 368

خطبات محمود جلد (5) ۳۵۸ تکریم کریں اور ان کے آرام اور آسائش کی کوشش کریں.اس کے علاوہ یوں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مہمان کی تکریم کرنا ایمان میں داخل ہے.حضرت خدیجہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں جو پانچ باتیں بیان کی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ مہمان کی خاطر داری کرتے ہیں اے اس لئے خدا تعالیٰ آپ کو ضائع نہیں کرے گا.تو مہمان کی مہمان داری کرنا یوں بھی داخلِ ایمان ہے مگر سالانہ جلسہ پر آنے والے لوگ صرف مہمان ہی نہیں بلکہ شعائر اللہ ہیں، اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت ہیں حضرت مسیح موعود کی صداقت کا نشان ہیں اس لئے ان کی خاص طور پر تعظیم کرنی چاہئیے.ہمارے دوست جو قادیان میں رہنے والے ہیں ان کو چاہئے کہ خاص طور پر ان کی تواضع اور تکریم کرنے کی کوشش کریں اور آنے والے دوست قادیان کی گلیوں میں پھر کر اور کثیر التعداد مجمع کو دیکھ کر صرف یہ نہ کہیں کہ جلسہ بہت کامیاب ہوا ہے بلکہ فائدہ اُٹھائیں کیونکہ اگر انہوں نے اس موقع سے کوئی فائدہ نہ اُٹھایا تو ان کے لئے کہاں جلسہ کامیاب ہوا.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ شعائر اللہ کی تعظیم کرنا تقویٰ میں داخل ہے لیکن جو شعائر اللہ کی تعظیم نہیں کرتا وہ کہاں کا میاب ہوا اس کے لئے تو رونے کا مقام ہے کیونکہ اس کو ایک موقع ملا تھا جسے اس نے کھو دیا.یہاں کے سب لوگوں کو چاہیئے کہ آنے والے مہمانوں کی خدمت کریں اپنے مہمانوں کی خدمت کرنا کوئی ذلت نہیں ہوتی بلکہ مہمان کو کسی قسم کی تکلیف پہنچا میز بانوں کے لئے ذلت ہوتی ہے اس لئے جو شخص یہ خیال رکھتا ہے کہ مہمانوں کی خدمت کرنا میری عزت کے خلاف ہے وہ نادان ہے اور وہ نہیں سمجھتا کہ خدمت کرنا عزت کو بڑھاتا ہے نہ کہ گھٹاتا ہے.پس میں قادیان کے لوگوں کو اس کی طرف خاص طور پر تو جہ دلاتا ہوں کہ وہ خاص طور پر مہمانداری میں حصہ لیں اور اپنا گرج کر کے بھی حصہ لیں.میں یہاں کے دُکانداروں کو دُکانداری سے روکنا پسند نہیں کرتا خدا تعالیٰ نے حج کے موقع پر بھی تجارت کو جائز رکھا ہے قادیان کے دُکانداروں کے لئے بھی یہ تجارت کرنے کا موقع ہے مگر جہاں خدا تعالیٰ ایسے موقعہ پر تجارت کرنے سے منع نہیں کرتا وہاں یہ بھی اجازت نہیں دیتا کہ بالکل اسی میں لگ جائیں.پس دُکاندار خوب کمائیں اور خوب تجارت کریں مگر کچھ وقت مہمانداری میں بھی صرف کریں.مثلاً کھانا کھلانے کے وقت دُکانوں کو بند کر دیں اور اس وقت مہمانوں کی خدمت کریں.اس وقت قریبا تمام مہمان کھانا کھا رہے ہوتے ہیں اور سودا کم خریدتے ہیں اور جو لوگ فارغ ہوں وہ سارے اوقات خدمت گذاری میں لگا ئیں اور ثواب کمائیں مومن کی تو یہ شان ہونی چاہئیے کہ ثواب کمانے کا کوئی موقع نہ جانے دیں.صحابہ کرام کتنی کوشش کرتے تھے حدیث میں آیا ہے کہ غریب صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ امیر زکوۃ دے دیگر بخاری و مسلم کتاب الایمان باب بدء الوحي الى رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم.

Page 369

خطبات محمود جلد (5) ۳۵۹ ہم سے ثواب میں بڑھ رہے ہیں ہم کیا کریں کہ ان کے برابر ثواب حاصل کریں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بتایا کہ خدا تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید نماز کے بعد کیا کرو.کچھ عرصہ اس طرح کرنے کے بعد وہ پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ امراء نے بھی اس طرح کرنا شروع کر دیا ہے اور زکوۃ بھی دیتے ہیں اب ہم کیا کریں.آپ نے فرمایا کہ جب خدا تعالیٰ ان کو نعمت دیتا ہے اور وہ اس کی راہ میں دے کر ثواب حاصل کرتے ہیں تو میں کیا کروں یہ ان کی ہمت اور اخلاص ہے.اے پس آپ لوگ بھی پورے طور پر کوشش کر کے زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کریں.اگر کسی کے ذمہ کوئی فرض لگایا جائے اور وہ اس کو پورا کر دے لیکن اس کے کرنے کا کوئی اور کام ہو تو اسے چاہیے کہ وہ بھی کرے اور بڑی خوشی کے ساتھ کرے اور اگر کوئی اس پر سختی کرے تو اسے بھی برداشت کرے اور کام کے کرنے میں ہرگز کوتا ہی نہ کرے.اسی طرح وہ لوگ جو باہر سے آئے ہیں وہ یا درکھیں اور جو ابھی نہیں آئے انہیں پہنچا دیں کہ قادیان کی ہر ایک چیز شعائر اللہ ہے اس لئے ان سے ان کو بھی فائدہ اُٹھانا چاہئیے اور اپنے اوقات کو ادھر ادھر پھر کر رائیگاں نہیں کھونا چاہیئے اگر کوئی شخص یہاں آکر کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتا تو سمجھ لے کہ وہ اپنے اوقات کو ضائع کرتا ہے پس آنے والا ہر ایک شخص اپنے اوقات کو فائدہ اُٹھانے میں لگائے.نمازیں باجماعت پڑھے اور عبادت کرے.خدا تعالیٰ یہاں کے میز بانوں اور مہمانوں کو اس موقع سے فائدہ اُٹھانے کی توفیق دے تا کہ وہ تقوی کو حاصل کریں اور زیادہ بڑھائیں.الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۱۷ء) نوٹ : ۲۹ دسمبر کے خطبہ کے بارہ میں الفضل ۳۰ دسمبر ۱۹۱۶ء کے ص ۲ پر لکھا ہے کہ :- مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ کے لئے ابجے تک لوگ اپنی جگہ پر بیٹھ گئے.پونے دو بجے اعلان ہوا کہ جمعہ باہر ( جلسہ گاہ مسجد نور میں ) ہوگا.وہاں دوڑے دوڑے پہنچے.دو بجے حضور نے مختصر خطبہ سورۃ العصر پر پڑھا.“ بخاری کتاب الصلوة باب الذكر بعد الصلوة

Page 370

7161 خطبات جمعہ

Page 371

٣٦٠ 41 خطبات محمود جلد (5) خُدا کے فضلوں کو دیکھ کر زیادہ شکر گذار بنو فرموده ۵ /جنوری ۱۹۱۷ء تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- اللہ تعالیٰ کے احسانات کو جو اس کے اپنے بندوں پر ہیں کون ہے جو گن سکے.وہ احسانات اپنے اندر عجیب نوعیت رکھتے ہیں.اگر ہماری جماعت کے لوگ ان احسانات کو گنیں جو اُن پر ہیں.تو کوئی شخص ان کا اندازہ نہیں کر سکتا.اور نہ کوئی جماعت ان انعامات کا مقابلہ کر سکتی ہے.جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہماری جماعت پر ہورہے ہیں.اگر چہ سب ہی لوگوں پر فرض ہے کہ خُدا کے احسانات پر الحمد للہ کہیں.مگر ہماری جماعت پر تو خاص طور پر فرض ہے کہ وہ الحمد للہ کہے اگر ہم سوچیں کہ اللہ تعالیٰ کس کس رنگ میں ہماری نُصرت فرماتا اور کس کس طرح ہمارے دشمنوں کو ذلیل کرتا ہے تو بے اختیار الحمدللہ کہنے کو جی چاہتا ہے.یہ ادا اللہ تو مالک اور بادشاہ ہے.مخلوق میں سے بھی اگر کوئی شخص احسان کرے تو ہم کس طرح اس کا شکریہ کرتے ہیں.اپنی حیثیت سے بڑھ کر اس کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تا کہ اس کے احسان کا بدلہ ہو.مگر اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکریہ ادا کرنا انسان کے شکریہ کے ادا کرنے کے مقابلہ میں بہت ہی چھوٹا ہے.اور وہ یہ که انسان زبان سے خدا تعالیٰ کے احسانات کا اقرار کرے یعنی صرف زبانی اقرار ہی شکریہ ہے.یہ بھی خدا تعالیٰ کا اپنے بندوں پر بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ اس کے احسانات تو اس قدر ہیں کہ کوئی گین بھی نہیں سکتا.مگر ان کا شکریہ نہایت آسان ہے.لیکن افسوس کہ بہت سے انسان ہیں جو زبان اور دل سے بھی خدا کی نعمتوں کا شکریہ ادا نہیں کرتے.یوں تو ہر سال ہی ہماری جماعت کو مشکلات پیش آتی ہیں.مگر چند سال سے وہ لوگ جو ہماری جماعت سے الگ ہو گئے ہیں.خواہ وہ احمدی کہلائیں.مگر ہماری جماعت میں نہیں ہیں.ان کی طرف سے ہمارے خلاف بہت زیادہ کوشش ہو رہی ہے اور وہ ہمیں ہر طرح نقصان پہنچانے میں لگے رہتے ہیں.مگر نتیجہ کا وقت سالانہ جلسہ ہوتا ہے.اس پر معلوم ہوسکتا ہے.کہ ان کی کوششیں

Page 372

خطبات محمود جلد (5) ۳۶۱ ہمارے خلاف کس قدر کامیاب ہوئی ہیں اور انہوں نے ہماری جماعت کو کیا نقصان پہنچایا ہے.۱۹۱۴ء کے سالانہ جلسہ پر جو ان لوگوں کے الگ ہونے کے بعد پہلا جلسہ تھا.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے بتا دیا تھا کہ اس جلسہ پر پہلے سالوں کی نسبت زیادہ لوگ آئے اور زیادہ کامیاب جلسہ ہوا.اس کے بعد خواجہ صاحب اپنے ولایت سے آکر تمام ہندوستان کا دورہ کیا.اور ہمارے خلاف لوگوں کے دلوں میں شکوک پیدا کرنے اور برے خیالات پھیلانے میں جس قدر زور لگا سکتے تھے لگایا.مگر خُدا تعالیٰ کے فضل سے ۱۹۱۵ ء کا جلسہ پہلے کی نسبت بھی زیادہ کامیاب ہوا.اس سال انہوں نے مولوی محمد احسن کو بت بنایا.اور کوشش کی کہ جماعت کو توڑ دیں.مگر ۱۹۱۶ ء کا جلسہ خُدا کے فضل سے تمام پہلے جلسوں کی نسبت بہت زیادہ کامیاب ہوا.اور ہر طرح کامیاب رہا ہے اس میں بہت زیادہ لوگ آئے.اور ان کے جوش اور اخلاص پہلے کی نسبت بڑھے ہوئے تھے.ہم میں سے کون انسان ہے جس نے لوگوں کے دلوں پر قبضہ کیا ہو.مجھے کو تو خُدا نے یہ خلافت کا کام سپر دکیا ہے.لیکن مجھے تو یہ دعوی نہیں.پھر اور کون ہے.جو دعویٰ کرے کہ وہ لوگوں کے دلوں پر قبضہ رکھتا ہے دلوں کو قابو میں رکھنا اور ایک طرف جھکا دینا صرف خُد اتعالیٰ ہی کے قبضہ میں ہے اور کسی کو اس میں کچھ دخل نہیں.خدا تعالیٰ ہی ہے جو دلوں کو کھینچ کر لے آتا اور ہم میں شامل کرتا ہے اور وہی ہے جو ہر روز ہمیں ترقی دیتا ہے.ہمیں ہر ایک قوم سے مقابلہ ہے.گویا کہ ہم بتیس دانتوں میں ہیں.ایک طرف مسلمان ہم پر دانت پیس رہے ہیں.دوسری طرف سکھ اور عیسائی اور ہندوؤں کا ہم سے مقابلہ ہے.غرض ہر ایک قوم ہم سے مقابلہ کر رہی ہے.مگر چونکہ خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت ہمارے شاملِ حال ہے اس لئے ہم کسی سے دب کر نہیں رہتے.اس نصرت خداوندی پر جس قدر بھی شکریہ ادا کیا جاوے کم ہے.شکریہ کے معنے یہ نہیں ہیں کہ اب ہم بیٹھ جائیں.اور عمل میں کوشش نہ کریں.بلکہ ہم میں سے ہر ایک کو چاہئیے کہ عمل میں ترقی کرے.صحابہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضور ہم تو عمل میں کوشش اس لئے کرتے ہیں کہ ہمارے گناہ معاف ہوں لیکن آپ کے تو خدا نے سب اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیئے ہیں آپ کیوں اس قدر کوشش کرتے ہیں یہ سُن کر آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور فرمایا.کیا میں تم سے زیادہ اتنی نہیں ہوں ہے.پھر فرمایا کہ کیا میں عبد شکور نہ بنوں.میرے لئے عبادت شکر کے طور پر ہے کیونکہ جس پر زیادہ فضل ہو وہ زیادہ مستحق ہے کہ دوسروں سے بہت 1 :- خواجہ کمال الدین صاحب ( ناقل) سے بخاری کتاب الایمان باب قول النبی صلعم انا اعلمكم بالله

Page 373

خطبات محمود جلد (5) ۳۶۲ زیادہ عبادت اور شکر گذاری کرے لے.تو خدا تعالیٰ کے فضلوں کا نتیجہ مستی نہیں ہونا چاہیئے.بلکہ عبادت اور شکر گذاری میں اور بڑھنا چاہیئے.یہاں رہنے والے دوست خوب سُن لیں اور باہر کے دوستوں کو اخبار کے ذریعہ یہ بات پہنچ جائے گی کہ ہماری جماعت کے لوگ شکر گذاری میں اور بڑھیں اور ان کی کوششوں میں اور زیادہ ترقی ہو یہ نہ ہو کہ جلسہ کے دنوں میں جو جوش و اخلاص آپ لوگوں نے دکھایا ہے.اور جو معرفت ان دنوں حاصل ہوئی ہے اس کو اور زیادہ نہ بڑھاؤ.اور اس میں ترقی نہ کرو.یہ سب خدا کے فضل کے نظارے ہیں جو آپ لوگوں نے دیکھے ہیں.بس آپ لوگوں کو چاہیئے کہ خدا کی حمدوثنامیں اور بڑھیں اور اپنی کوشش اور سعی کو اور زیادہ وسیع کریں.دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کس پر خدا کے فضل ہوں گے.لیکن جس قدر آپ پر خُدا کے فضل اور احسان ہیں اُسی قدر آپ عبادت اور شکر گزاری میں سب سے بڑھ کر تھے.نادان ہے وہ شخص جس نے کہا.- کرم ہائے تو مارا کرد گستاخ کیونکہ خُدا کے فضل انسان کو گستاخ نہیں بنایا کرتے اور سرکش نہیں کر دیا کرتے.بلکہ اور زیادہ شکر گذار اور فرمانبردار بناتے ہیں.پس تم لوگ پہلے کی نسبت زیادہ شکر گزار بن جاؤ.کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ لَ کہ جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے اگر تم اس پر شکر کرو گے تو میں اور زیادہ دوں گا.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو شکر گزار بنائے اور پہلے کی نسبت زیادہ فیضان الہی حاصل کرنے کے قابل ٹھہرائے.امین یارب العالمین.بخاری کتاب الرقاق باب الصبر عن المحارم.سے سورہ ابراہیم: ۸.الفضل ۲۳ جنوری ۱۹۱۷ء)

Page 374

۳۶۳ 42 خطبات محمود جلد (5) ایک مُبارک تجویز فرموده ۱۲ جنوری ۱۹۱۷ء تشهد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءَ فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِّنْهَا ط كَذَالِكَ يُبَيّنَ اللهُ لَكُمْ أَيْتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَO اور فرمایا: - اتفاق و اتحاد کئی ایک رنگ کا ہوتا ہے.ایک اتفاق یہ ہوتا ہے کہ آپس میں لڑیں نہیں.دنگا فسادنہ کریں.مل جل کر رہیں.اس کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی.کیونکہ لڑنے جھگڑنے والے تباہ و برباد ہو جاتے ہیں.یہ آئتیں جو میں نے اس وقت پڑھی ہیں.ان کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ آپس میں لڑو جھگڑو نہیں.اتفاق و اتحاد سے رہو.اور دوسرا مطلب میرے نزدیک ان آیتوں کا وہ ہے جس پر کسی قوم کو ترقی کرنے کے لئے عمل کرنا ضروری ہے.اگر آپس میں لڑنے والی قوم کی طاقت برباد ہو جاتی.اور اتفاق سے کام کرنے سے قوم کا شیرازہ مضبوط ہوتا اور قوم ترقی کی طرف قدم اٹھاتی ہے.تو جن لوگوں کی تعدا د شمن کے مقابلہ میں کم ہوتی ہے.اور وہ آپس میں مل کر کام کرتے ہیں.ان کے لئے یہ بہت مفید اور فائدہ مند ہوتا ہے.پس جس طرح یہ ضروری ہے کہ آپس میں لڑیں نہیں.اسی طرح اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ سب افرا دل کر متحدہ طور پر مجموعی کوشش سے دشمن کے مقابلہ میں کام کریں.سب قومی کاموں میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا ئیں اور قوم میں ایک بھی اس قسم کا فرد نہ ہو.جو قومی کام سے ہٹا ہوا ہو یا جو کچھ نہ کچھ حصہ نہ لیتا ہو.بلکہ مجموعی رنگ میں سب کے سب لگے ہوئے ہوں.یہ بھی ایک اتفاق ہے اور اس کے بغیر کبھی ترقی نہیں ہوسکتی.لیکن جب کوئی قوم اس طرح کام کرنے والی ہو تو پھر اس کے مقابلہ پر کوئی قوم نہیں ٹھہر سکتی.پس صرف اس قدر اتفاق کافی نہیں کہ آپس میں لڑو نہیں جھگڑو نہیں.بلکہ ترقی کے لئے ایک : - آل عمران ۱۰۳، ۱۰۴.

Page 375

خطبات محمود جلد (5) ۳۶۴ ہو جانا اور سب کاموں کو جو قوم سے تعلق رکھتے ہیں.سب افراد قوم کا مل کر سر انجام دینا بھی ضروری ہے.دوسروں سے امتیاز حاصل کرنے کے لئے اس طرح کرنا از حد ضروری اور لازمی ہے ورنہ اس کے بغیر کبھی ترقی نہیں ہو سکے گی.میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں اس بات کی ابھی کمی ہے.اگر چہ فردا فردا بہت لوگ کوشش کرنے والے ہیں مگر سب نے مل کر اس کام کے کرنے کی کوشش نہیں کی جو ان کا متفقہ کام قرار دیا گیا ہے.یوں تو جماعت کے جلسے ہوتے ہیں.سالانہ جلسہ پر ایک اجتماع عظیم ہوتا ہے پہلے سے زیادہ لوگ شامل ہوتے ہیں.آپس میں محبت بھی ہے اتفاق بھی ہے.مگر اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے.کہ دین کی خدمت کا کوئی کام سپر دہو تو اس کے کرنے میں کسی کو عذر نہ ہو.اور دینی خدمت سے نہ کوئی بچہ باہر رہے نہ عورت نہ جوان مرد اور نہ بوڑھا.جمیع کا لفظ جو اس آیت شریفہ میں آیا ہے وہ بتاتا ہے کہ دینی خدمت سے قوم کا کوئی فرد با ہر نہیں رہنا چاہیئے.اصل بات یہ ہے کہ خواہ کتنا ہی اتفاق و اتحاد ہوا گر سب ایک کام کو انجام دینے میں مصروف نہ ہوں.تو جماعت کی ترقی رک جاتی ہے.یہی وجہ ہے کہ جب ایک قوم بگڑتی ہے.تو خدا کی طرف سے ایک مامور آتا ہے.اور سب کو ایک مقصد اور مدعا پر جمع کر دیتا ہے.اگر چہ اس کے وقت پہلی ہی شریعت ہوتی ہے.اور پہلی ہی نماز روزہ.تاہم وہ اپنی جماعت کو دوسرے لوگوں سے الگ کر لیتا ہے اس کی کیا وجہ ہے کہ الگ جماعت بنائی جاتی ہے.کیوں دوسروں کے ساتھ ہی مل کر کام نہیں کیا جاتا.بظاہر تو یہ اچھا معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں سے مل کر کام کیا جائے مگر در حقیقت ان لوگوں سے مل کر کام کرنا اس جماعت کو بھی ضائع کرنا ہے.کیونکہ جب ان ست لوگوں سے مل کر کام کیا جائے جن کی شستی کے سبب سے خدا تعالیٰ نے ایک نئی جماعت قائم کی ہے.تو ضرور ہے کہ انکی مستیوں کا بھی اثر پڑے.پس خواہ وہ لوگ جنہوں نے نبی کو قبول نہیں کیا ہوتا.تعداد میں کتنے ہی زیادہ ہوں.مگر پھر بھی اس نبی کی بنائی ہوئی جماعت کے برابر ہرگز دینی کام نہیں کر سکتے.کیونکہ ان میں بہت سست ہوتے ہیں.لیکن نبی کی جماعت میں کام کرنے والے بہت پچست ہوتے اور شست کم مثلا ایک گاڑی کے چار پہیتے ہوں اور دوسری کے دو.تو جس گاڑی کے چار پہیہ ہوں.اس کے اگر دوٹوٹ جائیں تو وہ چل نہیں سکتی.لیکن وہ جس کے دو ہی پہیہ ہوں اور دونوں درست.وہ اپنے دونوں پہیوں سے خوب چل سکے گی.اگر کوئی کہے کہ کیا ہوا اس چو پہیہ گاڑی کے دو پہیہ نہیں رہے تو نہ سہی.ابھی دو تو باقی ہیں.پھر کیوں نہیں چلتی.اس کا جواب یہ ہے کہ اس چو پہیہ گاڑی میں تو ایک نقص آ گیا.اور اس دو پہیہ والی میں کوئی نقص نہیں.یہی مثال نبی کے مقابلہ والے اور نبی کی جماعت کے لوگوں کی ہوتی ہے.غرض باوجود اس بات کے کہ نبی کی جماعت کے لوگ اس دو پہیہ گاڑی کی طرح تعداد میں کم ہوتے

Page 376

خطبات محمود جلد (5) ۳۶۵ ہیں.مگر چونکہ کام سب کے سب کرتے ہیں.اس لئے بہت کچھ کر لیتے ہیں.لیکن ان کے خلاف دوسروں کے اگر چہ افراد زیادہ ہوتے ہیں.مگر کام کرنے والے بہت تھوڑے ہوتے ہیں اس لئے وہ کچھ نہیں کر سکتے.کیونکہ شست لوگ کام کرنے والوں کو بھی کام نہیں کرنے دیتے.اس کی مثال یہ ہے.کہ بعض انسانوں کے بعض اعضاء سوکھ جایا کرتے ہیں.اگر ان کے خشک اعضاء کو جسم کے ساتھ ہی رہنے دیا جائے تو وہ کام میں سخت حارج ہوتے اور درست اعضاء کو بھی اچھی طرح کام نہیں کرنے دیتے.لیکن اگر ان کو کاٹ دیا جائے.تو کام اچھی طرح ہو سکتا ہے.سوکھے ہوئے اعضاء انسان کے جسم پر ایک بوجھ کی طرح ہوتے ہیں.جن کی موجودگی میں کام نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ کام میں مد و معاون ہونے کی بجائے روک کا موجب ہوتے ہیں.اسی طرح شست اور کاہل انسان دوسروں کے لئے بھی وبال جان ہوتے ہیں.یہی وجہ ہوتی ہے کہ وہ نبی اگر چہ شریعت نہیں لاتے تاہم ان کے منکر کا فر ہوتے ہیں.اگر ایک چار پہیہ کی گاڑی بنائی جائے اور اس کا ایک پہیہ ٹوٹ جائے تو وہ تین پہیوں کے ہوتے ہوئے چل نہیں سکتی لیکن یکہ دو پہیوں سے ہی چل سکتا ہے.کیوں پہلی میں نقص ہے اور دوسرے میں نہیں.پہلی کے کچھ حصے کام نہیں کرتے.مگر دوسری کے سب کرتے ہیں.اسی طرح جماعتوں کا حال ہوتا ہے.غرض ترقی حاصل کرنے کے لئے سب افراد کا کام کرنا ضروری ہوتا ہے.جب ایک سست ہو تو اس کا سب پر اثر پڑتا ہے اور جب تک اس کی بگڑتی ہوئی حالت درست نہ ہو جائے اس وقت تک اپنی قوم کے لئے بجائے مفید ہونے کے نقصان رساں ہوتا ہے.پھر ایک اور اتفاق ہے فرمایا: - وَاعْتَصِمُوا بِحَبل الله جمیعا.اللہ کی رسی کو سب مضبوط پکڑو.اگر چھوڑ دیں گے تو وہ باقیوں کے لئے رکاوٹ کا موجب ہوں گے.گورنمنٹ برطانیہ کے مقابلہ میں جو طاقت لڑ رہی ہے اس کا سامان اگر چہ ہماری حکومت کے سامنے کم ہے.مگر اس کی کیا وجہ ہے کہ آج تک کہ اس جنگ پر تیسرا سال گذر رہا ہے.فیصلہ نہیں ہوتا اسکی یہی وجہ ہے.کہ وہ پہلے سے اس جنگ کی تیاری کر رہی تھی.اور اس کے سب کے سب افراد اس میں شامل ہیں.ایک چھوٹی طاقت جس نے اپنی تمام طاقتوں کو مجتمع کر لیا ہو وہ ایک مدت تک بڑی طاقتوں کا مقابلہ کرسکتی ہے.اب میرا ارادہ ہے کہ ایسا انتظام کیا جائے کہ جماعت کے سب افراد کے سپر دکوئی نہ کوئی کام کیا جائے تا کہ جماعت ترقی کرے اور سب کام میں مشغول رہیں.اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک بات میرے دل میں ڈالی ہے.اور وہ یہ کہ جس طرح ہر ایک احمدی نے ماہوار چندہ لکھوایا ہوا ہے.اسی طرح ہر

Page 377

خطبات محمود جلد (5) ۳۶۶ ایک سے لکھوایا جائے کہ وہ کیا کام کر سکے گا.یہاں کے لوگ تو مفت بہت سا کام کر سکتے ہیں اوپر وہ کام جن پر روپیہ خرچ ہوتا ہے.وہ تھوڑی سی توجہ سے بلا اجرت احسن طور پر انجام پاسکتے ہیں اور کام کی کئی تقسیمیں کی جاسکتی ہیں.جو لوگ اچھے پڑھے لکھے ہیں وہ اپنی حیثیت کے مطابق کام کر سکتے ہیں اور جو معمولی قابلیت کے ہیں وہ اپنی حیثیت کا.اور جو پڑھے لکھے نہیں.وہ یہ کام کر سکتے ہیں کہ اپنا نام لکھوا دیں.کہ ہم جس وقت کوئی کتاب چھپے اس کے فرمے توڑیں گے.پیکٹ بنائیں گے یا اور اسی قسم کا جو کام ہو گا کریں گے.غرض ہر جماعت میں رجسٹر تیار ہوں.اور لوگوں سے پوچھ کر اُن کے نام لکھ دئے جائیں.جب کسی کام کے وقت ضرورت پڑے تو ملا زم کی طرح اُن کو بلا لیا جاوے.اور وہ آکر خوشی سے وہ کام کر دیں.جو لوگ تقریر کر سکتے اور لیکچر دے سکتے ہیں وہ یہ لکھوادیں کہ ہم تقریر کر سکتے ہیں.پھر جہاں کہیں ضرورت ہوگی اُن کو بھیج دیا جایا کرے گا.بعض لوگ زمینداروں میں خوب تبلیغ کر سکتے ہیں اور بعض شہروں میں.پس ہر ایک اپنی قابلیت کو دیکھ کر کھوا دے کہ میں فلاں کام کر سکتا ہوں تا کہ جب ضرورت پڑے تو ان کو بلوالیا جاوے.اور جہاں کہیں بھیجنا ہو بھیج دیا جاوے.اس طرح ایک تو جماعت کے کام کرنے والے لوگوں کا علم ہوتا رہے گا.دوسرے اخراجات میں بچت ہوگی.پھر جب مجموعی طور پر کوشش ہوگی.تو کامیابی بھی بہت زیادہ ہوگی.بعض لوگ جوعربی جانتے ہوں.مگر بولنے کی مشق نہ رکھتے ہوں وہ سوالات کے جواب لکھ سکتے ہیں بعض حضرت مسیح موعود کی کتب کے حوالے خوب دے سکتے ہیں.بعض احادیث میں تجربہ رکھتے ہیں.اور بعض تفاسیر سے دلچسپی رکھتے ہیں.ایسے تمام لوگوں کے مکمل پتے رکھے جائیں.اور وہ ایک انتظام کے ماتحت کام کریں.اور اس طرح تمام سے کام لیا جائے.جب اس طرح انتظامی رنگ میں مجموعی طور پر کوشش ہوگی تو انشاء اللہ کام بہت زیادہ ہو گا.اور اچھی طرح ہوگا.باہر کے لوگ اپنے اپنے نام اور جو کام وہ کر سکتے ہیں.وہ لکھ کر بھیج دیں یہاں سے کام تقسیم ہو جائیں گے.اس کے بعد ہر ایک اپنے مفوضہ کام کوتند ہی اور پوری کوشش سے کرے.بعض گورنمنٹوں نے ہر ایک کے ذمہ فوجی خدمت لازمی قرار دی ہوئی ہے.اس لئے جب کسی کی ضرورت سمجھی جاتی ہے تو اُسے فوراً طلب کر لیا جاتا ہے.اور وہ حاضر ہو جاتا ہے.خواہ اُسے اپنے دوسرے نہایت ضروری کام چھوڑنے پڑیں اور کتنا ہی حرج ہو.جو لوگ اس انتظام کے ماتحت تبلیغ کریں وہ پندرہ دن یا مہینہ کے بعد آپس میں ملیں.اور ایک دوسرے کو اپنی اپنی رپورٹ سنائیں کہ ہم نے فلاں فلاں کام کیا ہے اور کام کرنے میں ان کو جو جو مشکلات پیش آئی ہوں ان کو نوٹ کریں اور ان کے دُور کرنے کی تدابیر سوچیں.اور وہ سوالات

Page 378

خطبات محمود جلد (5) ۳۶۷ جوان کے سامنے کثرت سے پیش کئے جائیں.ان کے متعلق یہاں لکھیں.یہاں سے ٹریکٹ کی صورت میں ان کے جواب لکھ کر شائع کر دئے جایا کریں گے.اور اس طرح ہمارے پاس مختلف مضامین پر بہت سے ٹریکٹ ہو جائیں گے اور تبلیغ میں آسانی ہوگی.بعض لوگوں کا صرف ایک سوال ہوتا ہے.اگر اس کا انہیں جواب مل جائے.تو ان کی تسلی ہو جاتی ہے.مگر ہمیں اس کو بہت بڑی کتاب دینی پڑتی ہے.لیکن جب چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ مختلف سوالات کے جوابات کے الگ الگ ہوں گے.تو جس کو جو سوال ہوگا ہم اس کو اس مضمون کا ٹریکٹ دے دیں گے.غرض اس طرح تمام جماعت کی طاقت کام کر سکتی ہے.اس کے لئے باہر کے لوگوں کو اگر چہ اخبار کے ذریعہ بھی اطلاع ہو جائے گی.مگر میرا ارادہ ہے کہ انشاء اللہ ایک اشتہار کے ذریعہ اعلان کروں کہ تمام لوگ اس طرح کام کرنے کے لئے اپنے اپنے نام لکھا ئیں.اوّل یہاں کے لوگوں کو چاہیے کہ کاموں کی ایک فہرست بنائیں.اور ہر ایک شخص سے پوچھا جائے کہ وہ کیا کام کر سکتا ہے.اور کس کام میں حصہ لے سکتا ہے.پھر اس کے سپر داس کی طاقت کے مطابق کام کر دیا جائے.اس طرح سب کاموں پر وقت اور طاقت متفقہ طور پر خرچ ہوگی.اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں کام کرنے کے طریق سمجھائے.اور پھر اس کے نیک نتائج پیدا کرے.اور ہماری کمزوریوں کو دُور کر دے.آمین یا رب العالمین.الفضل ۲۷ جنوری ۱۹۱۷ء)

Page 379

۳۶۸ 43 خطبات محمود جلد (5) عدل پر کار بند رہو فرموده ۱۹ جنوری ۱۹۱۷ء تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت فرمانے کے بعد حضور نے یہ آیت پڑھی:- ان الله يأمر بالعدل والاحسان و ایتائ ذى القربى وينهى عن الفحشاء والمنكر والبغي يعظكم لعلكم تذکرون.اور فرمایا:- عدل یعنی برابری کسی کے ساتھ برابر کا سلوک کرنا کئی قسم کا ہوتا ہے.بعض قسم کا ناجائز ہوتا ہے مثلاً اللہ سے کسی چیز کو برابر کرنا کوئی کہے کہ میں عدل کرتا ہوں کہ اللہ کے برابر کسی کو جانتا ہوں.تو یہ عدل نہیں بلکہ شرک ہوگا اور بُری بات ہوگی.کیونکہ ایک بادشاہ سے غلام کو برابر کرنا انصاف اور عدل نہیں بلکہ ناانصافی اور ظلم ہوگا.ہاں عدل یہ ہوتا ہے کہ جتنا کسی کا حق ہو اتنا اس کو دے دیا جائے.اس میں کسی قسم کی کمی بیشی کرنا اور جتنا حق ہو اتنا نہ دینا اور جس کا حق نہ ہو اس کو دینا.یہ عدل کے خلاف ہو جاتا ہے.پھر حق کئی اقسام کے ہوتے ہیں مثلاً کئی اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ایک شخص کسی سے کچھ لیتا ہے اور اتناہی اس کو دیتا ہے.کچھ حقوق خدا کی طرف سے ہوتے ہیں تو جو شخص ان حقوق کو پورا نہیں کرتا وہ غلطی کرتا ہے.اور کچھ حقوق تمدن کی طرف سے ہوتے ہیں.تمدن چاہتا ہے کہ خاص لوگوں سے مروت اور احسان کیا جائے.اگر کوئی ان حقوق کو پورے طور پر ادا نہ کرے تو وہ ظالم ہوگا کچھ حقوق انسان اپنے نفس پر مقرر کر لیتا ہے مثلاً کہتا ہے کہ فلاں شخص سے یہ سلوک کروں لیکن اگر اس سے وہ سلوک نہیں کرتا تو عدل کے خلاف کرتا ہے.غرض یہ مختلف حقوق خواہ وہ خدا کی طرف سے ہوں خواہ حکام کی طرف سے خواہ قرض کے طور پر ہوں خواہ تمدن کے رنگ میں خواہ اس کے اپنے نفس کے متعلق ہوں اور خواہ اور کسی قسم کے ان کو پورے : النحل: ۹۱

Page 380

خطبات محمود جلد (5) ۳۶۹ طور پر ادا کرنا انسان کو نیکی کی ایک ادنیٰ قسم کا وارث بناتا ہے.اور ان حقوق کے ادا کرنے سے جو پیچھے ہٹتا ہے وہ نیکی کی طرف نہیں بلکہ بدی کے میدان میں آتا ہے.اور اسکا قدم بدی کی طرف بڑھتا ہے.جو شخص اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول یا حکام وقت کے حقوق ادا نہیں کرتا یا ان میں کوتاہی کرتا ہے یا جو حقوق قرضہ کے طور پر اس پر عائد ہوتے ہیں ان میں کوتاہی کرتا ہے یا جو تمدن کے حقوق میں کمی کرتا ہے یا اگر اپنے نفس کے لئے مقرر کئے ہوئے حقوق کو ادا نہیں کرتا وہ عدل سے نکل کر ظلم میں آتا ہے.اور برائی کا مرتکب ہوتا ہے.خدا تعالیٰ مسلمانوں کو اس کی نسبت فرماتا ہے.اے مومنو عدل سے کام لو.یعنی جو خُدا کے حقوق ہیں ان کو ادا کرو جو اس کے رسول کے حقوق ہیں ان کو ادا کرو.اور وہ حقوق جو حکومت کے ہیں ان کو بھی ادا کرو.اگر لوگوں کے کچھ حقوق قرض کے طور پر آتے ہیں تو ان کو ادا کرو.جو حقوق تمدن نے تم پر قائم کئے ہیں ان کو ادا کرو.یا وہ جو تم پر تمہارے نفس نے فرض کئے ہیں.ان کو بھی ادا کرو.اگر تم ان حقوق کوادا کرو گے تو یہ نیکی کی ادنیٰ قسم ہے.یعنی اگر کوئی شخص عدل سے کام لے تو اس پر کوئی الزام نہیں آتا.اور گو اس کو مدارج عالیہ حاصل نہ ہوں مگر وہ گنہ گار نہیں ہوسکتا.مثلا اگر کوئی شخص نماز کے فرائض اور سنن کو ادا کرتا ہے اور نفل نہیں پڑھتا یا کوئی زکوۃ جو خدا نے اور اس کے رسول نے مقرر کی ہے ادا کرتا ہے اور مسکینوں اور یتیموں کو زکوۃ کے ماسوا امداد کے طور پر کچھ نہیں دیتا تو وہ قابل الزام نہیں اسی طرح حکومت کی طرف سے جو باتیں مقرر ہیں ان کو پورے طور پر جس طرح سمجھتا ہے ادا کرے تو وہ زیر مؤاخذہ نہیں آسکتا.یا کسی کا قرض دینا ہو اور اس کو دے دیا جائے تو کوئی الزام نہیں آتا.یا تمدن نے جو حقوق قرار دیئے ہیں ان کو ادا کرے تو کوئی اس پر حرف نہیں رکھے گا.یا خود اپنے نفس کے حقوق مقرر شدہ اور ثابت شدہ ہیں ان کو ادا کرے تو زیادہ کے نہ دینے پر کچھ الزام نہیں.پس ان حقوق کے ادا کرنے سے وہ صرف اپنے نفس کو پاک کرتا ہے اور پاکیزگی یہی ہے کہ اس پر کوئی الزام نہ ہو.پس عدل کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ اس پر کوئی الزام عائد نہ ہو.لیکن اس عدل سے بڑھ کر یہ ہے کہ یہی نہ ہو کہ کسی انسان پر کوئی الزام عائد نہ ہو بلکہ اس کی تعریف بھی ہو.اس زمانہ میں بڑی نیکی یہ سمجھی جاتی ہے کہ کوئی شخص بُرا کام نہیں کرتا یعنی کسی سے کسی بُری بات کی نفی کرنا اس زمانہ میں بڑی خوبی اور نیکی سمجھی جاتی ہے.مثلاً کہتے ہیں کہ فلاں ظالم نہیں وہ بڑا اچھا آدمی ہے حالانکہ ظلم نہ کرنابڑی نیکی نہیں بلکہ نیکی کا ادنی مقام ہے کیونکہ کسی کا حق ادا کر دینا کونسی بڑی نیکی کرنا ہے.بعض جگہ تو عدل کا ذکر کر نا شرم کی بات ہوتی ہے.حضرت صاحب ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ کسی شخص کے کوئی مہمان آیا میزبان نے اس کو بہت کچھ تواضع و تکریم کی اور کھانا وغیرہ اچھی طرح کھلا یا بالآخر دنیا کے طریق کے بموجب اور اکرام ضیف کے رنگ میں اس مہمان سے کہا کہ میں نہایت شرمندہ ہوں کہ

Page 381

خطبات محمود جلد (5) ۳۷۰ جناب کی کچھ خدمت نہیں کر سکا.مہمان نے جواب دیا کہ کیا اس طرح تم احسان جتاتے ہو کہ مجھ کو تم نے کھانا کھلایا ہے.تم سوچو تو سہی کہ تمہارا کھانا کھلا کر مجھ پر احسان ہو ایا میرا تم پر کیا جب تم اندرکھانا لینے گئے تھے اگر اس وقت میں تمہارے مکان کو آگ لگا دیتا تو یہ تمام سامان جل کر راکھ کا ڈھیر ہو جاتا.تو یہ تو میرا تم پر احسان ہے کہ میں نے تمہارے گھر کو آگ نہیں لگائی کسی کے مال کی حفاظت کرنا اور کوئی نقصان نہ پہنچانا ایک اچھا کام ہے.مگر اس مہمان نے جس طرح اس بات کو ادا کیا.کیا کوئی عقلمند اس کو پسند کرے گا.اس میں شک نہیں کہ اس نے اپنا فرض ادا کیا.کہ صاحب خانہ نے چونکہ اسے آرام پہنچایا تھا وہ بھی کوئی ایسا فعل نہ کرتا جس سے میزبان کو نقصان اٹھانا پڑتا مگر اس کا اس بات کو بیان کرنا کچھ قابل تعریف نہ تھا.اور یہ کوئی خوبی کی بات نہیں تھی.بلکہ اس کا اظہار بھی قابل شرم اور لائق نفرت بات تھی.غرض نیکی کے مقامات میں سے سب سے ادنیٰ مقام عدل کا ہے یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے لَا يُؤْمِنُ اَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسه لے کہ انسان اس وقت تک مومن ہی نہیں بن سکتا جب تک کہ اس کو اپنے بھائی کے لئے وہی بات پسند نہ ہو جو اس کو اپنے نفس کے لئے پسند ہے.کیوں.اس لئے کہ اگر کسی شخص سے عدل میں فرق آتا ہے تو اس سے اس کے ایمان میں بھی فرق آجاتا ہے کیونکہ عدل کرنے سے ہی انسان ایمان کے پہلے درجہ میں داخل ہوتا ہے باقی رہے مدارج سو وہ عدل سے حاصل نہیں ہوتے.اور صرف عدل سے کوئی شخص اعلیٰ درجہ کا ایمان حاصل نہیں کر سکتا.ہاں نجات کے لئے صرف عدل کافی ہے.چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے آکر اسلام کے متعلق پوچھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو فرمایا کہ دن رات میں پانچ نمازیں ہیں.اس نے کہا کیا ان کے سوا اور بھی ہیں.آپ نے فرمایا نہیں.لیکن اگر تو زیادتی کرے یعنی نفل پڑھے.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اور رمضان کے روزے.اس نے کہا کیا ان کے سوا اور روزے بھی ہیں.آپ نے فرمایا نہیں.مگر جو تو زیادہ رکھے.یعنی نفل کے طور پر.پھر آپ نے فرمایا.زکوۃ دینی چاہئیے.اس نے کہا کیا اس کے سوا اور بھی ہے.آپ نے فرمایا نہیں مگر جو تو زیادتی کرے.یعنی اپنے طور پر خیرات کرے.یہ ٹن کر وہ شخص یہ کہتا ہوا چلا گیا.کہ خدا کی قسم میں نہ ان میں زیادتی کروں گا نہ کی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹن کر فرمایا.یہ شخص کامیاب ہو گیا اگر اس نے سچ کہا ہے.جو شخص فرائض کو ادا کرتا ہے وہ صرف نجات کا مستحق ٹھہرتا ہے.مگر قرب اور مدارج حاصل کرنے کے لئے اور طریق ہیں.رسول اللہ صلعم نے بھی یہی فرمایا ہے کہ اگر ان باتوں میں اس نے کمی نہ کی تو یہ نجات پا گیا.یہ نہیں : صحیح مسلم کتاب الایمان باب من خصال الایمان ان يحب لا خيه ما يحب لنفسه من الخير - بخاری کتاب الصوم باب وجوب صوم رمضان.

Page 382

خطبات محمود جلد (5) فرمایا کہ وہ اعلیٰ درجہ اور مقام بھی حاصل کر لے گا.غرض ادنیٰ سے ادنی درجہ ایمان کا عدل ہے.اور سب فرائض کو بغیر کسی کمی بیشی کے ادا کرنا نجات کے لئے کافی ہے.لیکن اگر اس میں کمی کرے یا اس میں نقص آ جائے تو ایمان میں نقص آجائے گا.اس لئے ہر ایک مومن کو چاہئیے کہ اس بات کے لئے زور لگائے کہ اس درجہ سے ترقی کرے اور یہ نہ ہو کہ وہ اس درجہ سے گر جائے کیونکہ اس سے گرنا ایمان کا ضائع کرنا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم میں سے اس وقت تک کوئی مومن ہی نہیں بن سکتا جس وقت تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی کچھ پسند نہ کرے جو اس کو اپنے نفس کے لئے پسند ہو.یعنی اگر یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کے ساتھ نیکی کریں تو اس پر بھی فرض ہے کہ اپنے بھائی کے ساتھ وہ بھی عدل وانصاف کرے.سو کوشش کرنا چاہئیے کہ کم از کم عدل پر تو انسان قائم ہو.قرآن شریف میں آتا ہے لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا.خدا نے کوئی ایسی مشکل بات نہیں رکھی جو انسان کے نفس کی طاقت سے زیادہ ہو.پس اگر کوئی شخص اپنی طرف سے کوشش کرے تو عادل ہو سکتا ہے.بعض لوگ کوشش ہی نہیں کرتے.اور اس کا نام فطرت رکھتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ اسی طرح کرنے پر مجبور ہیں.اور یہ غلط ہے.کیونکہ وہ ایک بری عادت کا نام فطرت رکھتے ہیں.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اعلی طاقت اور نیک فطرت دی ہے اور قرآن کریم اس بات سے بھرا پڑا ہے.پس انسان کی فطرت کامل ہے.ہاں جو اس سے کام نہیں لیتا.یا اُلٹے رستہ پر ڈال کر خراب کر لیتا ہے اس کا اپنا قصور ہے.بہت سے لوگ سخت زبانی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری فطرت ہی اس قسم کی واقع ہوئی ہے حالانکہ یہ درست نہیں ہے اور وہ اپنی عادت کو اگر درست کرنے کی کوشش کریں تو کر سکتے ہیں کیونکہ یہ بات ان کے اپنے اختیار میں ہے.اور سخت کلامی کی عادت انہوں نے خود پیدا کی ہوئی ہے.اور جو عادت خود پیدا کی ہو وہ دُور بھی کی جاسکتی ہے.خدا نے تو انسان کو اعلیٰ درجہ کی فطرت پر پیدا کیا ہے.پس اگر لوگ خود اس کو مسخ کر لیتے ہیں تو یہ کیوں ممکن نہیں کہ اپنی حالت کو درست بھی کر لیں.پس کم سے کم عدل کی طرف توجہ ہو.میں قادیان کے رہنے والوں کو بالخصوص نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بہت زیادہ عدل کی طرف متوجہ ہوں.بعض لوگوں کے میرے پاس خطوط آئے ہیں کہ قادیان کے بعض لوگ عدل سے کام نہیں لیتے.اس میں شک نہیں کہ بعض باتیں غلط ہیں مگر بعض درست بھی ہیں.بعض تو اس قسم کی باتیں ہیں کہ مجبوراً کرنی پڑتی ہیں.مجھ کولکھا گیا ہے کہ جلسہ کے موقعہ پر یہاں کے بعض لوگ خوش خلقی سے پیش نہیں آئے.بعض اوقات ایسا ہوتا ہے.کہ کسی سے جو بات کہی جائے وہ ا.البقرہ:۲۵۷.

Page 383

خطبات محمود جلد (5) ۳۷۲ ٹھیک ہوتی ہے.لیکن اس کا لہجہ سخت یا درشت ہونے کی وجہ سے دوسرے کو رنجیدہ کر دیتا ہے لیکن اگر وہی بات نرمی کے ساتھ اور عمدگی سے کہی جائے.تو پھر شکایت نہیں پیدا ہوتی.مثلاً ایک شخص سوال کرتا ہے کہ فلاں چیز مجھے دے دو اور اس کو یہ جواب دیا جاتا ہے کہ میں نہیں دوں گا.گو یہ جواب معاملہ کے لحاظ سے عدل ہو مگر اخلاق کا عدل اجازت نہیں دیتا کہ اس قسم کا جواب دیا جائے.کیونکہ یہی بات نرمی سے بھی کہی جاسکتی ہے.اور نرمی سے کلام کرنا کسی پر بار نہیں گزر سکتا.یہی وجہ تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے انسان کو بھی حکم ہوا کہ فرعون کے ساتھ نرم نرم باتیں کرنا.فرعون وہ ہے کہ جو خدائی کا دعویدار ہے اور بڑا سرکش اور متکبر ہے.مگر اس کے ساتھ گفتگو کرنے کا طریق خُدا نے یہ بتلایا کہ نرم نرم باتیں کرنا تو وہی بات جو ایک انسان سختی سے کہنا چاہے نرمی سے بھی کہہ سکتا ہے.اس میں شک نہیں کہ مالی رنگ میں کسی ایسے شخص کو کچھ نہ دینا کہ جس کا حق نہ ہو.عدل کے خلاف نہیں.لیکن درشتی سے پیش آنا عدل کے بالکل خلاف ہے.قواعد چیز کے نہ دینے پر مجبور کرتے ہیں مگر ایسا جواب دینے پر مجبور نہیں کرتے جس سے رنجش پیدا ہو.پس اگر کوئی شخص تم سے کوئی سوال کرتا ہے اور تمہارے تو اعد تم کو اجازت نہیں دیتے کہ اس کو پورا كروتو انما السَّائِل فَلا تنہرا کے ماتحت اس سے پیش آؤ.اور اس کو قول معروف کہہ دو اور ترش روئی سے جواب نہ دو.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ عدل ایک ادنی درجہ ہے جو اس سے ہٹتا ہے وہ برائی کی طرف قدم مارتا ہے.اب اگر کوئی کسی سے نرم بات نہیں کرتا.اور اپنی سختی کو فطرت کے سر تھوپتا ہے تو اس کے یہ معنے ہوئے کہ نعوذ باللہ قرآن کریم نے جھوٹ کہا ہے.کیونکہ قرآن شریف سے تو ظاہر ہوتا ہے.کہ خُدا نے انسان کو اعلیٰ اخلاق دیئے ہیں.آگے وہ خود اپنی عادات کو خراب کر لیتا ہے.لیکن اگر وہ اس پر زور دیوے تو اس کو درست بھی کر سکتا ہے.پس جو شخص عادل نہیں وہ مومن نہیں ہوسکتا.کیونکہ جب عدل میں نقص آیا.تو ایمان مٹ گیا.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی کی دل شکنی ہوگئی تو کیا ہوا.حالانکہ کسی سے اچھے اخلاق سے معاملہ کرنا عدل میں داخل ہے.اس لئے ہر ایک انسان کو چاہئیے کہ دوسرے کے ساتھ اس طریق سے پیش آئے جس طریق پر وہ خود چاہتا ہے کہ لوگ اس سے سلوک کریں.پس میں یہاں کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ لوگوں کے لئے ٹھوکر کا باعث نہ بنیں.حضرت مسیح ناصری اس شخص پر بہت افسوس کرتے ہیں جو اپنی کسی حرکت سے دوسرے کے لئے ٹھوکر کا موجب بنے.لیکن بعض لوگ کہا کرتے ہیں.کہ اجی کیا ہو ا ہمارے ذریعہ کوئی گمراہ ہوا.قرآن شریف کے ذریعہ بھی تو گمراہ ہوتے ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَ يَهْدِى بِهِ كَثِيرًا :- :- الضحى : 11 :- البقرہ:۲۷.

Page 384

خطبات محمود جلد (5) مگر ان کو معلوم نہیں کہ جولوگ قرآن شریف کی وجہ سے گمراہ ہوتے ہیں ان کے لئے قرآن شریف میں کوئی ایسی ٹھو کر نہیں ہے جس کے باعث وہ گمراہ ہوتے ہیں.بلکہ ان کی اپنی طبیعت کی تیرگی ان کے گمراہ ہونے کا سبب ہوتی ہے.حدیثوں میں آتا ہے کہ حضرت معاذ " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ کر دوسروں کو جا کر نماز پڑھاتے.اور بہت لمبی سورتیں پڑھتے.ایک روز آپ نے سورۃ بقرہ شروع کر دی.ایک شخص نے نماز توڑ کر الگ پڑھ لی.مسلمانوں نے کہا کہ یہ منافق ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ذکر ہوا.آپ نے اس کو بلایا.اس نے عرض کیا.حضور وہ لمبی نماز پڑھتے ہیں.میں تھکا ماندہ تھا.مجھ سے ان کے ساتھ پڑھی نہیں جا سکتی.یہ سُن کر آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا آپ نے معاذ کو فرمایا کہ تو فتان یعنی تو فتنہ باز ہے ا.چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھا کرو.بظاہر بڑی سورتیں پڑھنا نیکی ہے.لیکن چونکہ اس سے فتنہ پیدا ہوتا ہے.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ کو فتمان کہا.حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے اصل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نوافل میں بڑی سورتیں پڑھتے ہیں.اور اس نے اجتہاد میں غلطی کر کے فرائض میں بھی بڑی سورتیں پڑھنی شروع کر دیں.یہ ایک غلطی تھی.اور اس سے لوگوں کو ابتلا ہوتا تھا.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روک دیا.اگر چہ فرائض میں بڑی سورتیں پڑھنا گناہ نہیں.مگر غلطی ضرور تھی.پھر یہ کوئی بداخلاقی نہیں بلکہ اجتہادی غلطی ہے.لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو فتمان قرار دیا.اس سے سمجھ لینا چاہیے کہ جہاں بدا خلاقی ہو وہاں کیا کہنا چاہیئے.بداخلاقی کے مقابلہ میں تو یہ غلطی کچھ بھی نہیں.کیونکہ بد اخلاقی کے نتائج بہت بڑے ہیں.اور خوش اخلاقی میں کچھ نقصان نہیں.صرف اپنی زبان پر قابو کرنا ہے.پھر ایک شخص کہتا ہے کہ قادیان میں ہر ایک شخص اپنے تئیں مسیح موعود سمجھتا ہے.اس میں شک نہیں کہ قادیان میں رہنا برکت کا موجب ہے.مگر یہ نہیں کہ ہر ایک شخص قادیان میں رہنے کی وجہ سے دوسروں پر خواہ مخواہ فخر کرے.پس اگر تم کسی سے گفتگو کر وتو یہ کہہ کر کہ میں قادیان میں رہنے والا ہوں اس کو جھڑ کو نہیں اور نہ اس طرح اس پر فضیلت جتلاؤ.بلکہ دلائل سے بات چیت کر سکتے ہو تو کرو.اور دلائل سے خاموش کرنا اور بات ہے.میں کہتا ہوں قادیان کی رہائش اگر خوش خلقی نہیں سکھاتی تو پھر قادیان کی رہائش کوئی موجب فخر نہیں.فخر تو اس بات کا ہے کہ تم میں اور دوسروں میں ایک نمایاں فرق ہو.تمہارے اخلاق اطوار اعلیٰ ہوں.قادیان کی رہائش کو برکت والی ثابت کرو.اگر تم میں اکرام ضیف ہو.تو لوگ خود بخود تم پر ٹو ہو جائیں گے.اور تمہارے کہنے کی ضرورت ہی نہ رہے گی.لیکن اگر بے جا طور پر فخر کرو گے اور اپنے منہ سے بڑے بنو گے تو اس طرح دوسروں کے بخاری کتاب الاذان باب اذا طول الامام.

Page 385

خطبات محمود جلد (5) ۳۷۴ لئے ابتلاء کا موجب ٹھہرو گے.پس اگر تم دشمن کے سامنے کسی بات پر فخر کرو تو کر سکتے ہو.لیکن یہ ٹھیک نہیں کہ اپنے بھائیوں پر فخر کرنے لگو.اگر تمہارے اندر خوش خلقی ہوگی تو لوگ خود تمہاری عزت اور تکریم کرنے پر مجبور ہوں گے.پس تم میں سے ہر ایک شخص اگر اور کچھ نہیں تو کم از کم اپنے اندر ادنی قسم کا ایمان تو پیدا کر لے کہ دوسروں سے وہ سلوک کرے جس کی توقع دوسروں سے رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے دوستوں کو توفیق دے کہ وہ کسی کے لئے ٹھوکر کا موجب نہ ہوں.اللہ تعالیٰ تمام جماعت خصوصا قادیان کے لوگوں کو اپنے اعمال میں ترقی کی توفیق دے.الفضل ۱۳ / فروری ۱۹۱۷ء)

Page 386

۳۷۵ 44 خطبات محمود جلد (5) خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرو فرموده ۲۶ جنوری ۱۹۱۷ء حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ العصر کی تلاوت فرمانے کے بعد فرمایا :.کہ اسلام کی تعلیم کا نچوڑ اور خلاصہ تو ا اله الا اللہ ہی ہے.یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مَنْ قال لا إلهَ إِلَّا الله - فدخل الجنة 1.لیکن اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ صرف لفظ لا إلهَ إِلَّا اللہ کہنے سے ہی کوئی شخص جنت میں داخل ہو جائے گا.کیونکہ ان الفاظ کا مفہوم تو اسلام کے سوا غیر مذاہب میں بھی پایا جاتا ہے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہودونصاری کے متعلق یہی فرماتے ہیں کہ ان کے پاس بھی صداقتیں ہیں اور وہ بھی خُدا کے نبیوں کے نوشتوں کے حامل ہیں.مگر باوجود اس کے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ مانیں تو نجات نہیں پا سکتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان دونوں قولوں میں بظاہر اختلاف معلوم ہوتا ہے.در حقیقت ان میں کوئی اختلاف نہیں.کیونکہ لا إله إلا الله کہنے سے یہ مراد ہے کہ من عمل بالا سلام یعنی جو اسلام کے مطابق اپنی زندگی بنائے وہ لا إله إلا الله کہتا ہے.اس لئے لا إله إلا الله سے یہ استنباط نہیں ہوتا کہ انسان بے عمل جنت میں داخل ہو جائے گا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ لا إلهَ إِلَّا الله کے کیا معنے ہیں پھر آپ ہی فرمایا کہ اس کے یہ معنے ہیں کہ اللہ کو ایک جانو.اور مجھے کو اس کا رسول مانو.غرض اللہ کے مانے میں اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی سب تعلیم اور قرآن و حدیث بھی داخل ہیں.یعنے اسلام میں جس قدرا حکام ہیں وہ سب پھل ہیں.اور لا إلهَ إِلَّا الله بیج ہے.جس کے پاس صحیح اور سالم بیج ہوگا.اور وہ اس کو بوئے گا.تو ضرور ہے وہ پھل لائے اور جس کو اچھے پھل حاصل ہوں وہ سمجھ لے کہ ان کا بیج اچھا تھا.اور جس کو کوئی پھل نہ ہو وہ سمجھ لے کہ اس کا بیج ناقص تھا.تو جب دل صاف ہو تب ہی ایمان درست ہوتا ہے.لیکن اگر پھل اچھا نہیں پیدا ہوا.تو معلوم ہوا کہ اس بیج نے دل سے تعلق نہیں پکڑا جیسے مثلاً زمین میں کوئی شخص بیج ڈالے مگر وہ ناقص اور خراب ہو.تو ضرور ہے کہ اس بیچ کوکوئی پھول پھل نہ آئے اور یہ کہ وہ زمین سے سر ہی نہ اٹھائے.ترمذی کتاب الایمان باب ماجاء فيمن يموت وهُوَ يشهد أن لا إله إِلَّا اللهُ

Page 387

خطبات محمود جلد (5) غرض لا إلهَ إِلَّا الله اسلام کا ایک بیج ہے جو ایسی زمین میں پڑ کر پھل پھول نہیں لاسکتا جو اس کی اہل نہ ہو.اگر ہم خدا کے فعل یعنی کائنات دنیا کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک چیز خدا کی ہستی کی محتاج ہے.کوئی ایسی چیز نہیں جو قائم بالذات ہو.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو ایک دفعہ رویا میں لا إلهَ إِلَّا اللہ کے معنے سمجھائے گئے کہ دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اپنے وجود کے قیام کے لئے کسی دوسری چیز کی محتاج نہ ہو.مگر خدا ایک ایسی ہستی ہے جو قائم بالذات ہی نہیں بلکہ قیوم بھی ہے یعنے دوسروں کو بھی قائم رکھنے والی ہے.پس جو اشیاء اپنے وجود کے قیام کے لئے کسی دوسری چیز کی محتاج ہیں وہ اس بات کی اہل نہیں کہ ان کو خُدایا معبود کہا جائے.اس سورۃ میں مسلمانوں کو یہی مضمون بتایا گیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی چیز قائم بالذات نہیں.مثلاً چھت ہی ہے جو قائم نہیں رہ سکتی.جب تک کہ دیواریں نہ ہوں.چھت خواہ لوہے کی ہو.مگر دیوار میں کمزور ہوں تو چھت کی مضبوطی کچھ کام نہیں دے سکتی.کیونکہ چھت کا قیام اپنی مضبوطی کی بناء پر نہیں بلکہ اس کا قیام ہے دیواروں پر اور جب دیواریں کمزور ہیں تو چھت بھی گو یا کمزور ہی ہے.اس کی جہاں دیوار میں گریں.وہاں چھت بھی ضرور زمین پر آ رہے گی.لیکن اگر دیوار میں ایسی ہیں جو ایک دو ماہ یا سال دو سال یا سوسال یا ہزار سال تک رہ سکتی ہوں تو چھت بھی اس مدت تک رہ سکتی ہے جو چیز کسی دوسری چیز کے سہارے پر قائم ہو وہ اس وقت تک قائم رہ سکتی ہے جب تک سہارا دینے والی چیز قائم کرنے مگر جونہی اس کا خاتمہ ہو اوہ بھی جاتی رہے گی.چونکہ دنیا کی اشیاء میں انسان بھی داخل ہے اور وہ بھی دوسری چیزوں کے سہارے قائم رہتا ہے اس لئے اس پر بھی یہ بات عاید ہوتی ہے لیکن ادھر ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی خواہش ہے کہ وہ ہمیشہ قائم رہے.اور ہر ایک انسان کے دل میں خواہش ہے اور اس خواہش سے کوئی دل خالی نہیں.اور کوئی انسان نہیں جس کے دل میں یہ آرزو نہ ہو کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے.اور فنا نہ ہو.خواہ کوئی جاہل سے جاہل ہی کیوں نہ ہو.مگر اس کی بھی یہ خواہش ضرور ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے اور اس کو موت نہ آئے.جب ہم حج پر گئے تو میر ناصر نواب صاحب سے ایک شخص ملا جو نہایت ضعیف تھا اور حج کو جا رہا تھا.ایک دن میں نے اس کو مٹی کے مقام پر پوچھا کہ میاں عبد الوہاب یہ اس کا نام تھا.تمہارا مذہب کیا ہے.اس نے کہا کہ ٹھہر جاؤ سوچ کر بتاتا ہوں.میں نے کہا مذہب کے متعلق سوچنے کی کونسی بات ہے.جو تمہارا مذہب ہو بتا دو.کہنے لگا جلدی نہ کرو بتاتا ہوں.پھر کہنے لگا اچھا جب میں حج سے واپس جاؤں گا تو اپنے وطن سے مولوی صاحب سے پوچھ کر اپنا مذہب لکھوا بھیجوں گا.میں نے کہا تم خود بتاؤ کہنے لگا اچھا ٹھہر و بتاتا ہوں.میر امذہب اعظم ہے.میں نے کہا میاں اعظم تو کوئی مذہب نہیں.کہنے لگا ٹھہر جاؤ جلدی نہ کروسو چنے دو.میرا مذہب علیہ علیہ ہے.میں نے کہا کہ میاں یہ بھی کوئی مذہب نہیں.آخر کہنے

Page 388

خطبات محمود جلد (5) ۳۷۷ لگا کہ میرا مذ ہب ہے اعظم علیہ.میں سمجھ تو گیا کہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہنا چاہتا ہے.مگر پھر میں نے کہا کہ اعظم علیہ تو کوئی مذہب نہیں.اس نے کہا ٹھہر جاؤ تم تو جلدی کرتے ہو.میرا مذہب حنیفہ اعظم علیہ اور پھر بڑی مشکل سے کہا اعظم رحمتہ اللہ علیہ اور آخر میں کہا کہ تم جلدی کرتے ہو.میں اپنے گھر سے تمہیں لکھوا بھیجوں گا.اب اس شخص کو دیکھو نہ اس میں طاقت اور نہ خرچ مگر مدینہ کی تیاری کر رہا تھا.میں نے اس کو کہا.میاں عبد الوہاب مدینہ جانا فرض نہیں تم مت جاؤ.اس نے کہا کہ نہیں میرے بیٹوں نے کہا تھا کہ مدینہ ضرور جانا.تو اس قسم کے لوگ بہت ہیں.جن کو معلوم نہیں کہ ان کا مذہب کیا ہے.مگر اپنا نام قائم رکھنے کی ان میں خواہش ہوگی.ایسے لوگ نہ خُدا کو جانتے ہیں نہ خدا کے رسول کو مگر انہیں یہ خواہش ضرور ہے کہ ان کا نام قائم رہے.پھر لوگ اولاد کی خواہش کرتے ہیں صرف اس لئے کہ ان کا نام نہ مٹ جائے.مگر باوجود اس بات کے ان کو یقین نہیں کہ اگر ہمارے اولا د ہوئی بھی تو یہ کیا یقینی بات ہے کہ اس اولاد کے اولاد ہوگی.اور اگر پوتے ہوئے بھی تو یہ کوئی یقین نہیں کہ آگے بھی اولاد ہوگی.لیکن ان کی یہ خواہش کیوں ہے.اس لئے کہ نام قائم رہے.اس لئے کئی کئی شادیاں کراتے ہیں.پھر اپنا اور بیوی کا علاج کراتے ہیں کہ کسی طرح اولاد ہو تو ہر ایک کے دل میں یہ جذبہ پایا جاتا ہے.خواہ وہ بادشاہ ہو.یا گدڑی پوش فقیر.فلاسفر اور حکیم ہو یا جاہل مطلق کہ ہمارا نام قائم رہے.دوسری طرف ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز قائم بالذات نہیں کیونکہ ہر چیز دوسرے کے سہارے قائم ہے اور ہر ایک کو فنا لگی ہوئی ہے.اب سوال ہوتا ہے کہ ایک طرف تو فطرت میں رکھا گیا کہ ہم قائم رہیں اور دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ فنا اپنا کام کر رہی ہے.اور زندگیوں کا خاتمہ کر رہی ہے.اور یہ دونوں باتیں خُدا ہی کی طرف سے ہیں.یہ خواہش جو ہر ایک انسان کے دل میں رکھی ہوئی ہے جھوٹی تو ہے نہیں.کیونکہ ہر ایک انسان خواہ وہ کسی طبقہ میں سے ہو اس میں پائی جاتی ہے.اگر یہ خواہش جھوٹی ہوتی تو اس کا وجودسب انسانوں میں نہ پایا جاتا لیکن اسکاسب انسانوں میں پایا جانا بتلاتا ہے کہ یہ فطرتی بات ہے اور جو فطرت کے تقاضہ سے بات ہو وہ خُدا کی ہی طرف سے ہوا کرتی ہے.اب ہر ایک چیز فنا ہورہی ہے.اور کسی کو بقا حاصل نہیں.اور دوسری طرف انسان کی خواہش ہے کہ وہ زندہ رہے.لیکن یہ کیسے پوری ہو.اس لئے اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے:.والعصر ان الانسان لفي خسرة زمانہ کی قسم بیشک انسان کے ساتھ ہلاکت لگی ہوئی ہے.انسان کہہ دینے سے سب چیزیں اس میں

Page 389

خطبات محمود جلد (5) ۳۷۸ آگئیں.کیونکہ انسان سب اشیاء پر حاکم اور متصرف ہے.تو جب انسان حاکم ہے اور اس کے لئے خسر ہے تو سب چیزیں ہی گھاٹے میں ہیں.فرمایا کہ انسان کے گھاٹے کی طرف زمانہ شہادت دیتا ہے اور اس سے پتہ لگتا ہے کہ ہر ایک چیز گھاٹے کی طرف جا رہی ہے.اور انسان کی خواہش یہ ہے کہ وہ ہمیشہ رہے.پھر اس کے لئے کیا ہو.یہی کہ انسان کوئی ایسا سہارا تلاش کرے جو ہمیشہ قائم رہنے والا ہو اور وہ سہارا اللہ تعالیٰ ہے.پس وہ انسان جو اللہ پر بھروسہ کرے گا اور اس سے اپنا تعلق جوڑے گا.وہ ہلاک نہ ہوگا.اس لئے جو لوگ اللہ پر ایمان لاتے اور ایک ایسی ہستی پر سہارا کرتے ہیں جس کو ہلاکت نہیں.جو ہر قسم کی ہلاکتوں اور مصائب سے پاک ہے.تو وہ بھی ہلاک نہیں ہو سکتے اور ان کے نام نہیں مٹ سکتے.یہ حقیقی بات ہے کہ جو اعلیٰ چیز سے تعلق رکھتا ہے وہ خود بھی اعلیٰ ہو جاتا ہے.دیکھ لو ایک بڑے دربار میں بعض بڑے بڑے اہلکار نہیں جاسکتے مگر بادشاہ کا چپراسی جا سکتا ہے.تو جب کوئی بڑی چیز سے وابستگی حاصل کرتا ہے تو ضرور ہے کہ اس کی بڑائی بھی ہو.اور یہ ایک سچی بات ہے کہ خُدا کا ذکر اور اس کا نام مٹ نہیں سکتا.اس لئے جو شخص خُدا کے ساتھ تعلق پیدا کرے وہ بھی نہیں مٹ سکتا.یہ ایک علاج ہے اس بات کا کہ ہر ایک چیز کے لئے فنا ہے.مگر انسان اس سے بچ سکتا ہے کیونکہ اس کا تعلق خُدا سے ہو جاتا ہے.جو ہمیشہ قائم رہنے والا ہے.پس اگر تم ہلاکت سے بچنا چاہتے ہو تو اس سے تعلق پیدا کر جس کے لئے ہلاکت نہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وہ لوگ جو خود ایمان لائے اور جنہوں نے اچھے عمل کئے اور دوسروں کو نیک عمل کرنے کی تعلیم دی وہ اس قابل ہو گئے کہ خُدا تعالیٰ ان کو بچائے اور قائم رکھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.جس کے ذریعہ کسی کو ہدایت ہواس کے نام بھی اس شخص کی ہر ایک نیکی کے بدلہ میں نیکی لکھی جائے گی.اور یہ سلسلہ قیامت تک چلا جاتا ہے.کیونکہ پھر اس شخص کے ذریعہ جس شخص کو ہدایت ملے گی اس کی نیکی کے بدلہ میں بھی اس کو نیکی کا بدلہ ملے گا.چنانچہ حضرت صاحب نے کہا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اب جوشان ہے وہ پہلے کی نسبت بڑی ہے کیونکہ نبی کریم صلعم کے ذریعہ جن لوگوں نے ہدایت پائی.اور پھر ان لوگوں کے ذریعہ جن لوگوں نے ہدایت پائی ضرور ہے کہ ان سب کی نیکیوں کے بدلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نیکی ملے.اور حضور کے درجات و مراتب میں ترقی ہو.تو اس وقت سے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے.اور اس کے بعد لوگوں نے نیکیاں کیں.ان کا اجر آنحضرت کو بھی ملا.تو جو آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مظہر ہوگا.وہ ضرور ہے کہ ایک بڑی شان کا ہو.بعض نادان اس کے کچھ کے کچھ معنے لے اڑے اور کہہ دیا کہ مرزا صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے تئیں بڑھاتے ہیں.لیکن یہ غلط ہے.آپ کا مطلب یہی تھا کہ

Page 390

خطبات محمود جلد (5) ۳۷۹ آنحضرت صلعم کے ذریعہ جو ہدایت پھیلی ضرور ہے کہ آنحضرت کو اس کے بدلہ اور ثواب میں بہت سی نیکیاں ملیں اور جو آج آنحضرت کا مظہر ہو گا اس کا جلال بھی بڑا ہوگا.غرض جس کا سہارا خُدا پر ہو وہ بڑھے گا.اور جس کا سہارا ان چیزوں پر ہو جو ہلاک ہونے والی ہیں وہ بھی ہلاک ہو جائے گا.پس ہلاکت سے بچنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ خُدا پر سہارا ہو جو شخص اللہ کے دین اور اس کے ذکر کو پھیلائے وہ ضرور بڑھے گا.چونکہ انسان کی خواہش ہے کہ وہ قائم رہے.اور اس کے نام کو قیام ہو اور یہ اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ خدا پر سہارا ہو.کیونکہ اللہ کی ذات ہی ایک ایسی ذات ہے جس کے لئے ہلاکت نہیں اور جو دوسروں کے سہارے پر قائم نہیں وہ قائم بالذات ہی نہیں بلکہ قیوم بھی ہے کہ جس کے سہارے تمام چیزیں قائم ہیں.اس لئے اس سے تعلق پیدا کرو.خدا تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم مادی چیزوں کے سہاروں کو چھوڑ دیں اور صرف خداوند تعالیٰ کی ذات پر ہمارا بھروسہ ہو.آمین.الفضل ۱۷ فروری ۱۹۱۷ء)

Page 391

۳۸۰ 45 خطبات محمود جلد (5) جماعت احمدیہ کو ایک خاص ہدایت فرموده ۲ فروری ۱۹۱۷ء تشہد وتعوذ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی: b وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرُ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وإلى أولى الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَنَ إِلَّا قَلِيلًا ل L اس کے بعد فرمایا :- سیاست کئی قسم کی ہوتی ہے.ایک سیاست حکومت کی ہے اس سے بہت سے لوگ واقف ہیں.بلکہ لوگوں نے سیاست کے معنے یہ بنالئے ہیں کہ وہ انتظام جو حکومت سے متعلق ہے اس کو سیاست کہتے ہیں.لیکن در حقیقت سیاست ایک وسیع لفظ ہے.حکومت کی سیاست کے علاوہ اور بھی سیاستیں ہیں جو اپنی اہمیت کے لحاظ سے حکومت کی سیاست سے کم نہیں.خواہ کوئی بڑی سے بڑی حکومت ہی ہواس کی سیاست بھی اور سیاستوں سے مستغنی نہیں کر سکتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.کلکم راع وكلكم مسئول عن رعیتہ ۲.کہ تم میں سے ہر ایک چرواہا ہے.اور ہر ایک سے اس کی رعیت کی نسبت سوال کیا جائے گا کیونکہ کوئی ایسا انسان نہیں جسکی کوئی ذمہ داری نہ ہو.عربی زبان بڑی کامل زبان ہے.اس کے الفاظ بھی ایسے ہی کامل ہیں کہ پورے پورے مفہوم کو ادا کرتے ہیں.سیاست اصل میں عربی میں ایسے انتظام کو کہتے ہیں جس کے ماتحت نہ تو کسی کو بالکل آزاد چھوڑا جائے.اور نہ اس زور اور سختی سے کام لیا جائے کہ جس سے اس کے تمام اعضاء تھک کر رہ جائیں.چنانچہ گھوڑا اسکھانے والے کو سائیں کہتے ہیں.اگر چہ ہمارے ہاں سائیں اس کو کہتے ہیں جو گھوڑے کے لئے گھاس پانی وغیرہ کا خیال رکھے.اصل میں یہ لفظ سائیں عربی لفظ سائس کا بگڑا ہوا ہے.عربی میں محاورہ ہے.سائس الدواب یعنے جانوروں سے اتنا کام لینے : بخاری کتاب الاستقراض باب العبد راع في مال سيده ا:- النساء:۸۴-

Page 392

خطبات محمود جلد (5) ۳۸۱ والا جو نہ کم ہو نہ زیادہ.بعض لوگ گھوڑے خریدتے ہیں.اور ان سے کوئی کام نہیں لیتے.اس لئے وہ کھڑے کھڑے بے حد موٹے ہو جاتے ہیں.اور بعض اتنا کام لیتے ہیں جس سے ان کے پٹھے گل کر ان کی زندگی ختم ہو جاتی ہے.ایسے لوگوں کو سائس اللو اب نہیں کہہ سکتے.تو جو آدمی افراط یا تفریط سے کام لیتا ہے وہ سیاسی آدمی نہیں کہلا سکتا.مسلمانوں کی سلطنتوں میں اُن کی رعا یائست پڑی رہتی ہے.لوگوں سے خاطر خواہ کام نہیں لیا جاتا.اور نہ اُن سے خدمات پورے طور پر ادا کرائی جاتی ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ترقی کے میدان میں بہت پیچھے ہیں.اور یہ ایسی ہی بات ہے کہ جیسے گھوڑے سے کام نہ لیا جائے.اور وہ گھوڑا موٹا ہوتار ہے.حتی کہ کام دینے کے بالکل قابل نہ رہے.مسلمانوں کے مقابلہ میں زیادہ کام لینے والا یورپ میں نپولین ہؤا ہے.اس نے اپنی قوم سے ایسا کام لیا.اور اس کثرت سے لیا کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی.اور بعد میں ایک عرصہ تک کے لئے اپنے دشمنوں کے مقابلہ سے عاجز آگئی.پس جہاں آج کل ایسے مسلمان حکمران جو اپنی رعایا سے کام نہیں لیتے وہ سیاست دان نہیں ہیں.اسی طرح نپولین جس نے اپنی قوم سے اتنا کام لیا.وہ بھی سیاست دان نہیں کہلا سکتا.غرض سیاست کے مفہوم میں یہ بات داخل ہے کہ کام اس میانہ روی سے لیا جائے.جونہ زیادہ ہواور نہ کم.اور یہ سیاست صرف حکومت سے ہی تعلق نہیں رکھتی.بلکہ ہر ایک تاجر کی ایک الگ سیاست ہے.اور ہر ایک پیشہ ور کی الگ.تاجر کی سیاست تو یہ ہے کہ وہ باہر سے مال نہ اس بے احتیاطی اور کثرت سے خریدے کہ اس کی دوکان میں ہی پڑا خراب ہوتا رہے اور نہ اتنا کم لائے کہ لوگوں کی ضروریات بھی پوری نہ ہوں بلکہ وہ ضروریات کو دیکھتا ہو ا کسی چیز کی خریداری پر ہاتھ ڈالے تا کہ نہ اس کو ایک لمبے عرصہ تک خریداروں کا انتظار کرنا پڑے اور نہ یہ ہو کہ اس کے ہاں سے مال ہی نہ ملے.اسی طرح پیشہ ور کی سیاست یہ ہے کہ نہ تو اشیاء کے تیار کرنے میں اتنی دیر لگائے جس سے مانگ کا وقت گذر جائے اور نہ اتنا پہلے کہ ابھی مانگ کا موقع ہی نہ آئے.اور وہ اشیاء کے تیار کرنے میں مصروف رہے.اسی طرح پر گھر کی بھی ایک سیاست ہے.چنانچہ باپ کے متعلق اولاد ہے خاوند کے متعلق بیوی ہے.اُسے چاہیئے کہ نہ تو وہ ان کو اس طرح چھوڑ دے کہ وہ کسی کام کے ہی نہ رہیں اور نہ اس سے اتنا کام لے کہ وہ بچور ہو جائیں.مثلاً بچوں کو پڑھنے پر اتنا مجبور کرے جس سے ان کے دماغ گند ہوجائیں.اور وہ آئندہ علمی ترقی سے محروم رہ جائیں گھر سے بڑھ کر جماعتوں میں سیاست چلی جاتی ہے جہاں ہر ایک شخص کے سپر د کچھ کام ہوتے ہیں.اور ہر ایک اپنے فرائض منصبی کا ذمہ دار ہوتا ہے.لیکن اگر کوئی شخص اپنے فرائض سے قطع نظر کر کے دوسرے کے فرائض میں دخل دے تو یہ سیاست کے خلاف ہوگا.

Page 393

خطبات محمود جلد (5) ۳۸۲ سیاست کے متعلق کچھ قواعد بھی ہیں.اور ان کی نگہداشت نہایت ضروری ہے.لیکن اگر ان کو مد نظر نہ رکھا جائے تو پھر سیاست یا انتظام میں خرابی عظیم واقع ہو جاتی ہے.سیاست کا سب سے بڑا قاعدہ یہ ہے کہ جس کے ہاتھ میں کوئی کام ہو.دوسرے لوگ اس میں دخل نہ دیں.مثلاً ایک گھوڑے کے لئے ایک سائیس رکھا گیا ہے.لیکن ایک اور آدمی یہ خیال کر کے کہ ممکن ہے سائیں نے دانہ نہ دیا ہو دانہ دے دے.حالانکہ پہلے دانہ دیا جا چکا ہو.تو اس کا دانہ کھلانا کیسا بُرا ہوا.یا مثلاً ایک عورت سالن پکا رہی ہو.اور مرد اس خیال سے کہ ممکن ہے نمک نہ ڈالا گیا ہو.خود نمک ڈال دے تو وہ ہنڈ یا یقینا خراب ہوگی.تو اس طرح جانور کو دانہ کھلانے اور ہنڈیا میں نمک ڈالنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہنڈیا خراب اور جانور بیمار ہو جائے گا.غرض سیاست کا سب سے بڑا اصل یہی ہے.کہ کوئی کام جس کے سپر دہو.دوسرا اس میں دخل نہ دے اور اگر دوسرے لوگ دخل دیں گے.تو نتیجہ ہمیشہ خراب نکلے گا.قرآن کریم میں آیا ہے.وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ طَ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُوْلِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْبِطُوْنَهُ مِنْهُمْ - فرمایا کہ اگر یہ لوگ سیاست دان ہوتے تو وہ باتیں جو خواہ امن سے تعلق رکھتی ہوں یا خوف سے غیر اہل لوگوں کے پاس نہ پھیلاتے.بلکہ اللہ کے رسول یا اُن لوگوں کے پاس جاتے جن کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے.پھر وہ فیصلہ کرتے.دوسرے لوگوں کا یہ کام ہے کہ خواہ کسی قسم کی بات ہو وہ ان تک پہنچا دیں.اور ان کو واقف کر دیں.جن کے سپر دیہ کام ہو.پھر جوان کی سمجھ میں آئے وہ فیصلہ کر دیں یہ نہیں کہ انہیں اطلاع ہی نہ دی جائے.اور خود بخود کسی بات کا فیصلہ کر لیا جائے.یہ حکم تمام کاموں میں چلتا ہے.ایک گھر سے لے کر بڑی سے بڑی حکومت تک.اور ایک میاں بیوی سے لے کر ایک جماعت تک اور جو شخص اس کے خلاف کرتا ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا.ہماری جماعت خدا کے فضل سے ایک بڑی جماعت ہے اور اس میں بھی ایک سیاست ہے.حکومت کی بھی ایک سیاست ہے.جو دنیوی امور سے تعلق رکھتی ہے.لیکن ہماری سیاست دینی سیاست ہے.اور جس طرح دنیوی سیاست کے خلاف عمل کرنا برے نتائج پیدا کرتا ہے.اسی طرح دینی سیاست کے خلاف عمل کرنا بھی نہایت ہی خطرناک نتائج پیدا کرتا ہے.حکومت کی سیاست کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ تمام جسمانی طاقتوں کو باضابطہ ایک قاعدہ اور قانون کے ماتحت چلائے.اور دینی سیاست کا یہ ہوتا ہے کہ رُوحانی طاقتیں بھی تمام کی تمام ایک نظام کے ماتحت ہوں.پس جس طرح حکومت کی سیاست کے ماتحت جسمانی قوی سے عمدہ اور مفید نتیجہ پیدا کرنے کے لئے کوشش کی جاتی ہے.اسی طرح روحانی طاقتوں سے بھی عمدہ نتائج پیدا کئے جاتے ہیں.ل :- النساء : ۸۴

Page 394

خطبات محمود جلد (5) ۳۸۳ لیکن اگر ہر ایک شخص سیاست حکومت میں دخل دے تو اس کا نتیجہ نہایت خراب نکلتا ہے.مثلا اگر ایک شخص کسی کو قتل کر دے.اور مقتول کا رشتہ دار قاتل کو قتل کر دے تو اُسے گرفتار کر لیا جائے گا.اور اس پر مقدمہ چلایا جائے گا.اگر چہ گورنمنٹ بھی قاتل کو قل ہی کرتی مگر چونکہ اس شخص نے سیاست کو اپنے ہاتھ لیا ہے اس لئے گورنمنٹ اس شخص کو نہیں چھوڑے گی.اور ضرور سزا دے گی اس کا کوئی حق نہ تھا کہ قاتل کوقتل کرتا بلکہ اس کا فرض یہ تھا کہ اصحاب سیاست کے پاس جاتا.اور تحقیقات کے بعد حکومت خواہ اس سے بھی سخت سزا دیتی.جو اس نے دی یا مثلاً کسی شخص نے کسی سے کچھ روپیہ لینا ہو.اور مقروض دینے سے انکار کرے.تو لینے والے کا یہ حق نہیں ہے کہ اس سے چھین لے.بلکہ اس کا فرض یہ ہے کہ حکومت تک اس بات کو پہنچا دے.یہی بات دینی معاملات میں ہے.اگر کوئی شخص جماعت کے کسی آدمی کا خلاف آئین و شریعت کوئی فعل دیکھے تو اس کا یہ حق نہیں ہے کہ خود ہی اس کے لئے کوئی سزا تجویز کرے بلکہ اس کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بات کو ان لوگوں تک پہنچا دے جو ذمہ دار ہیں یا جو دینی امور کو سر انجام دے رہے ہیں.میں اپنی جماعت کے لوگوں کو تنبیہ کرتا ہوں کہ وہ ہر گز دوسروں کے کاموں میں دخل نہ دیا کریں.اور جو کام جس کے سپرد ہو اس کو کرنے دیا کریں.ہاں اگر وہ کوئی نادرست بات دیکھیں تو اُن کا فرض ہے کہ ہم تک اس کو پہنچا ئیں.بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جماعت کے لوگوں میں کوئی شخص حضرت مسیح موعود کے کسی حکم کے خلاف کوئی بات کرتا ہے تو دوسرے لوگ اس کو جماعت سے خود بخود الگ کر دیتے ہیں.ایسا نہیں ہونا چاہیئے.ان کا فرض تو یہ ہے کہ ہمیں اطلاع دیں.پھر ہم تحقیقات کریں گے.اور جس طرح مناسب ہوگا کیا جائے گا.کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی فعل کے بعد بچے دل سے تائب ہو جاتے ہیں.لیکن جب وہ جماعت کے لوگوں کا اپنے ساتھ یہ سلوک دیکھتے ہیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے دل کی کیا حالت ہوتی ہوگی.بعض دفعہ بالکل معمولی بات ہوتی ہے.مگر ذاتی کاوشوں اور رنجشوں کی وجہ سے وہاں کے لوگ اس کو جماعت سے یا امامت سے الگ کر دینا چاہتے ہیں.اور جب تحقیقات کی جاتی ہے تو وہ بات اتنی سخت معلوم نہیں ہوتی جسقدر کہ ظاہر کی جاتی ہے.اس میں کیا شک ہے کہ اختلاف آپس میں ہوتا ہے.اور کونسی ایسی بات ہے جس میں اختلاف نہ ہو.مگر وہاں تک ہونا چاہیے جہاں تک ذاتی عناد تک نوبت نہ پہنچے.دیکھود نیوی قانون جو کہ نہایت تنگ اور محدود ہے جب اس کو بھی کوئی شخص خود بخو داپنے ہاتھ میں لیکر سزا سے نہیں بچ سکتا تو شریعت کا قانون جس پر اجتہاد بھی کیا جا سکتا ہے.اس کو کوئی ہاتھ میں لے کر کیسے سزا سے بچ سکتا ہے.شریعت میں ایک حنفی کہلاتے ہیں اور ایک حنبلی ہیں.اگر ان میں ایک دوسرے کے اخراج

Page 395

خطبات محمود جلد (5) ۳۸۴ کا سلسلہ چلے تو پھر کیسی خرابی لازم آتی ہے.گو اصول میں اختلاف نہیں ہوتا.مثلاً قانون ہے کہ جو شخص کسی کو قتل کرے.اس کو قتل کر دیا جائے مگر قاتل کو کون قتل کر سکتا ہے.وہی جس کے ہاتھ میں قدرت نے سیاست دی ہے.لیکن اگر مقتول کے رشتہ دار قاتل کو قتل کرنا چاہیں تو یہ ان کا سیاست میں دخل دینا ہوگا.جس کے بڑے نتیجہ سے وہ لوگ بچ نہیں سکتے.لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری دینی معاملات ہیں.ان میں ہر شخص اگر خود بخو دفتوی دینے لگے تو جماعت میں ایک فتنہ عظیم برپا ہو سکتا ہے.یہاں پر زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے اور ذراسی بے احتیاطی سے انسان گنہگار ہو جاتا ہے جب انسان حکومت کی سیاست میں دخل دے کر سزا سے بچ نہیں سکتا تو دینی سیاست میں دخل دے کر کوئی شخص کیسے بچ سکتا ہے.حکومت کی سیاست میں جب کوئی شخص کسی بات کو قانون کے خلاف پاتا ہے تو ان تک پہنچا دیتا ہے جن کے سپر د حکومت نے اس کا فیصلہ کرنا کیا ہوتا ہے.ایسا ہی دینی امور میں بھی ہونا چاہیے اور خلافت کی ضرورت بھی یہی ہے کہ جماعت کا ایک منتظم ہو.اور ہر دینی امر کود یکھ کر فیصلہ کرے نہ کہ ہر شخص کو یہ اختیار ہے کہ خود ہی فیصلہ کرنے بیٹھ جائے.بعض لوگ ایسے ہیں کہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ کسی شخص سے حضرت مسیح موعود کے حکم کے خلاف ہوا.مثلاً کسی نے اپنی لڑکی غیر احمدی کو دے دی.تو وہ فورا اُس کا بائیکاٹ کر دیتے ہیں.لیکن ان کا یہ حق نہیں کہ خود بخود اس کا بائیکاٹ کریں.ان کو چاہئے کہ ہم تک معاملہ پہنچائیں.پھر ہم دیکھیں گے کہ وہ مجرم ہے یا نہیں ؟ اور اگر ہے تو اس نے کن اسباب کے ماتحت ایسا کیا ہے.آیا بے علمی سے اس سے یہ کام ہوگیا یا کوئی اور وجہ ہے.پس آپ لوگوں کا فرض ہے کہ جب کوئی ایسی بات دیکھیں تو بجائے اس کے کہ خود بخو دفیصلہ کر لیں کہ اس کے پیچھے نماز نہ پڑھیں.یا اس کو احمدی نہ سمجھیں.ہمیں اطلاع دیں.اور جب تک یہاں سے کوئی فیصلہ نہ ہو.اس وقت تک خود ہی کوئی فیصلہ نہ کریں.کیونکہ اس سے فساد بڑھتا ہے.دیکھو میں نے مثال دی ہے کہ اگر کوئی کسی کو قتل کر دے تو قانونا اگر چہ قاتل قتل کیا جانا چاہیے.مگر مقتول کے رشتہ داروں کو یہ حق نہیں کہ فوراً اُس کو قتل کر دیں.ہاں وہ حکومت تک پہنچا دیں.حکومت جو سزا چاہے تجویز کرے.اسی طرح ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اگر اپنی جماعت کے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ یا امام یا کسی اور فرد کی کسی بات کو حضرت مسیح موعود کے حکم کے خلاف دیکھیں تو یہ نہ ہو کہ اس کو جھٹ بائیکاٹ کر دیں بلکہ ان کو چاہیے کہ ہم تک پہنچا دیں آگے ہم خود فیصلہ کریں گے.غیر احمدی کولڑ کی دینا.اس میں شک نہیں کہ حضرت مسیح موعود نے اس کو سخت نا پسند کیا ہے

Page 396

خطبات محمود جلد (5) ۳۸۵ لیکن اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو جماعت کے لوگ خود بخود اس سے الگ نہ ہوں.بلکہ ان کو چاہیے کہ وہ یہاں لکھ بھیجیں.اگر خود بخود ایسا کریں تو یقینی بات ہے کہ وہاں کی جماعت کے دو ٹکڑے ہو جائیں گے.کچھ بائیکاٹ کرنے والوں کے ساتھ ہوں گے.اور کچھ اس شخص کے ساتھ جس کو الگ کیا جائے گا.اس طرح بہت فتنہ ہوتا ہے.اس میں نہایت احتیاط کی ضرورت ہے.یہاں سے کسی کے متعلق جو فیصلہ ہو اس پر عمل کیا جائے.اور خود بخو د کوئی فیصلہ نہ کر لیا جائے.اگر اس طرح کھلا چھوڑ دیا جائے تو جماعت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے.پس میں خاص طور پر اپنی جماعت کے لوگوں کو تنبیہ کرتا ہوں کہ وہ اپنے اس قسم کے فتووں کو روکیں کہ فلانا احمدی نہیں رہا.اور جماعت سے الگ ہو گیا.اب اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیئے.جو معاملہ ہو وہ ہم تک پہنچائیں.خود بخو د فتویٰ دینا فتنہ کو بڑھاتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:.إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابٌ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ کہ جولوگ مؤمن مردوں اور عورتوں کو فتنہ میں ڈالتے ہیں اور پھر تو بہ نہیں کرتے ان کے لئے دوزخ کا اور جلا دینے والا عذاب ہے.پس جس طرح کسی کا یہ حق نہیں کہ قاتل کو قتل کرے.بلکہ سیاست و حکومت کے سپر دکرے اس طرح آپ لوگوں کا بھی فرض ہے.جس کسی سے کوئی کمزوری صادر ہو.اس کی اطلاع ہمیں دو.تا کہ اس کا علاج کیا جائے.اور خود بخو دکوئی فیصلہ نہ کرو.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اپنے فرائض کے سمجھنے کی توفیق دے اور ہماری جماعت سے ان امور کو اٹھا دے جو فتنہ کا موجب ہوں.اور ان پر قائم کرے جو اتحاد کا موجب ہیں.آمین الفضل ۲۰ فروری ۱۹۱۷ء) :- البروج:

Page 397

۳۸۶ 46 خطبات محمود جلد (5) مولوی محمد احسن صاحب کی خلاف بیانی (فرموده ۹ فروری ۱۹۱۷ء) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے یہ آیت تلاوت فرمائی:.إنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ فرمایا.انسان کی حالت کچھ ایسی نازک اور کمزور ہے کہ ایک ذراسی ٹھوکر سے اس کی کل ٹوٹ جاتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص بڑے جوش اور زور کے ساتھ مسلمانوں کی طرف سے کفار کے ساتھ لڑا اور ایسے زور سے لڑا کہ مسلمان اس پر رشک کرنے لگے.اور اس کو دیکھ کر حیران رہ گئے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اس کے متعلق فرمایا کہ اگر کسی شخص نے اس دنیا میں چلتا پھرتا دوزخی دیکھنا ہو تو اس کو دیکھ لے.اس بات سے صحابہ کو بہت حیرت ہوئی کہ یہ تو بہت مخلص اور جوشیلا معلوم ہوتا ہے.اور جنگ میں خطر ناک سے خطرناک جگہ پہنچ کرحملہ کرتا ہے.پھر اس نے اس بہادری اور دلیری سے کفار کو قتل کیا کہ باوجود اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دوزخی قرار دیا تھا.بے اختیار صحابہ کے منہ سے یہ نکلتا کہ اللہ تعالیٰ اس کو جزائے خیر دے.اور قریب تھا کہ بعض نئے اسلام لانے والے ٹھوکر کھا جاتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا وجہ اس کو دوزخی کہا ہے.کہ اس وقت ایک صحابی اُٹھے اور قسم کھائی کہ جب تک میں اس شخص کا انجام نہ دیکھ لوں.اس کا پیچھا نہ چھوڑوں گا.یہ کہکر وہ اس کے پیچھے ہو گئے.اور اُسے دیکھتے رہے.لڑائی میں اسے بہت سے زخم لگے.حتی کہ زخموں کی وجہ سے وہ گر گیا.شدت درد کے وقت لوگ اس کے پاس آتے اور کہتے کہ تجھے جنت کی بشارت ہو.لیکن وہ کہتا مجھے جنت کی بشارت نہ دو بلکہ دوزخ کی دو تم تو مجھے جنت کی بشارت اسلئے دیتے ہو کہ میں بڑی بہادری سے لڑا ہوں اور خطر ناک سے خطرناک جگہ حملہ کرتا رہا ہوں.لیکن تمہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ میں کس نیت سے لڑ رہا تھا.میرے لڑنے کی یہ غرض نہ تھی کہ اسلام کی تائید اور :.النحل:۹۱

Page 398

خطبات محمود جلد (5) ۳۸۷ مدد کے لئے لڑوں یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کروں یا اسلام کے مخالفین کو تہ تیغ کروں بلکہ میں اس لئے لڑتا رہا ہوں کہ میری اس قوم سے ایک پرانی ذاتی عداوت تھی.جس کے نکالنے کا آج مجھے موقع ملا تھا.اس لئے میں لڑا ہوں.تھوڑی دیر بعد جو اسے زخموں کی سخت تکلیف ہوئی اور اس شدت سے ہوئی کہ وہ برداشت نہ کر سکا.تو اس نے زمین میں برچھا گاڑ کر اس پر پیٹ رکھ کر خود کشی کر لی اور ہلاک ہو گیا.اسلام نے چونکہ خودکشی کو حرام قرار دیا ہے اور وہ اس کا مرتکب ہوا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات درست ثابت ہو گئی کہ وہ دوزخی تھا.وہ صحابی جو اس کا انجام دیکھنے کے لئے اس کے ساتھ تھا یہ دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا.آپ اس وقت مجلس میں تشریف رکھتے تھے.اس نے دُور سے ہی کہا.اشھد ان لا اله الا اللہ واشهد ان محمدا عبدہ و رسولہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے کیوں کہا ہے.اُس نے جواب دیا.یارسول اللہ جس شخص کی نسبت آپ نے فرمایا تھا کہ دوزخی ہے.اس کے متعلق میں نے دیکھا کہ اس کی بہادری اور جرات کی وجہ سے بعض لوگوں کے دلوں میں ایک وسوسہ پیدا ہو رہا تھا.اور وہ سمجھنے لگے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یونہی اس کے متعلق فرما دیا ہے.اس وقت میں نے قسم کھائی کہ جب تک اس کا انجام نہ دیکھ لوں اس کا پیچھا نہ چھوڑوں گا.اب وہ خود کشی کر کے مرگیا ہے.اور میں حضور کو یہ منانے آیا ہوں کہ حضور کی یہ بات درست نکلی.یہ ٹن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا :- اشهد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمدا عبده ورسوله پھر آپ نے فرمایا کہ اس بات کو خوب یا درکھو کہ ایک شخص دوزخیوں کے عمل کرتا ہے مگر اس کے قلب میں کوئی ایسی نیکی ہوتی ہے جو اسے انجام کار جنت میں لے جاتی ہے اور ایک شخص جنتیوں کے کام کرتا ہے مگر جب اس کی موت قریب آتی ہے تو اس کے دل میں کوئی ایسی برائی ہوتی ہے جو اسے کھینچ کر دوزخ میں لے جاتی ہے..یعنی پہلا شخص موت کے قریب جنتیوں کے کام کرنے لگ جاتا ہے.اور دوسرا دوزخیوں کے.اس لئے پہلے کا خاتمہ باوجود ساری عمر دوزخیوں کے کام کرنے کے جنتیوں کی طرح ہوتا ہے.اور دوسرے کا باوجود ساری عمر جنتیوں کے کام کرنے کے خاتمہ دوزخیوں کی طرح ہوتا ہے.کیونکہ وہ دوزخیوں کے کام کرنے لگ جاتا ہے.یہ واقعہ سورہ فاتحہ کی تفسیر ہے.اس سورہ میں خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو یہ دعا سکھلاتا ہے کہ اياك نعبد و اياك نستعين اهدنا الصراط المستقيم صراط الذین انعمت ا : بخاری کتاب المغازی باب غزوہ خیبر.:- بخاری کتاب القدر باب العمل بالخواتیم.

Page 399

خطبات محمود جلد (5) ۳۸۸ عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالین اے ہمارے خدا ہمیں جنت کا رستہ دکھائے.مگر وہ رستہ ایسا نہ ہو کہ عین اس کے سرے پر پہنچ کر ہمیں پھر پیچھے کھینچ لیا جائے اور دوزخ کے رستہ پر ڈال دیا جائے.پس یہ بڑی عبرت کا مقام ہے کہ ایک شخص تمام عمر دوزخیوں کے سے کام کرتا ہے مگر چونکہ اس کے دل میں خدا تعالیٰ یا اس کے دین کی محبت نہایت مضبوطی سے گڑی ہوئی ہے اور اس کا ایمان ایسا مضبوط ہوتا ہے کہ اس کا عارضی طور پر بھٹکنا ڈور ہو کروہ یک لخت جنت کی طرف چل پڑتا ہے.مگر ایک انسان ہوتا ہے کہ وہ جنت کے بالکل قریب پہنچ چکا ہوتا ہے.مگر چونکہ اس کے دل میں کوئی ایسی برائی اور بدی ہوتی ہے جو آخر کار غالب آجاتی ہے اس لئے وہ جنت کی طرف سے کھینچا جاتا اور دوزخ کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے.اس قسم کی بہت سی نظیر میں ملتی ہیں کہ بعض انسان جو جنت کے قریب تھے وہ دُور ہو گئے اور جودُ ور تھے وہ قریب ۱.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کاتب وحی مرتد ہو گیا ہے.اور طلحہ بن خویلد مدعی نبوت مرنے سے کچھ ہی عرصہ پہلے مسلمان ہو گیا.حالانکہ اس کی نسبت فتویٰ لگ چکا تھا کہ اسے قتل کر دیا جائے.چنانچہ جب وہ ایمان لایا تو صحابہ میں اس کے متعلق اختلاف ہوا کہ اسے قتل کرنا چاہیے یا نہ.لیکن ایک عجیب طریق سے وہ اس سزا سے بچ گیا.اور وہ اس طرح کہ ایک صحابی شرجیل بن حسنہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب تھے.ایک جنگ میں لڑ رہے تھے.یوں وہ بڑے بہادر اور دلیر سپاہی تھے.مگر چونکہ روزے کثرت سے رکھتے تھے.اس لئے ان کا جسم کمزور تھا.ان سے ایک عیسائی مقابلہ کر رہا تھا.جب اس نے دیکھا کہ میں تلوار سے مقابلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا.تو اس نے آپ کا گریبان پکڑ کر آپ کو گرا لیا.اور چھاتی پر بیٹھ کر انہیں قتل کرنے لگا کہ اسی کے لشکر سے ایک شخص نکلا اور اس نے آکر اس کی گردن کاٹ دی.اور شرجیل کو آزاد کر دیا.اس وقت اس شخص نے اپنا منہ لپیٹا ہوا تھا.شرجیل نے پوچھا تم کون ہو.اس نے کہا میں نے اپنے آپ کو پوشیدہ رکھنے کے لئے ایسا کیا ہے.کیونکہ میں ایک سخت گناہ کا مرتکب ہو چکا ہوں.اسکی سزا میں تخفیف ہونے کے خیال سے میں نے اس عیسائی کو قتل کیا ہے.اس لئے میں اپنا نام نہیں بتاؤں گا.لیکن شرجیل نے جب بہت اصرار کیا تو اس نے بتایا کہ میں وہ مدعی نبوت طلحہ بن خویلد ہوں جس کے قتل کرنے کا فتوی مل چکا ہے اور اب میں اس دعوئی سے تو بہ کر چکا ہوں میں چونکہ جانتا ہوں کہ میراجرم بہت بڑا ہے اور اس کی معافی کی کوئی صورت نہیں ہے.اور نہ میں مسلمان ہو سکتا ہوں.اس لئے میں اپنے آپ کو پوشیدہ ہی رکھنا چاہتا ہوں.اس کی یہ بات سنکر :- بخاری کتاب القدر باب العمل بالخواتیم.: تفسیر کبیر مصری الجز ء۶ ص ۲۷۶.

Page 400

خطبات محمود جلد (5) ۳۸۹ شرجیل اسے اپنے ساتھ ابو عبیدہ کے پاس لے گئے.اور تمام سرگذشت سنائی.انہوں نے کہا کہ میں خود تو اس کے متعلق کچھ نہیں کر سکتا.البتہ حضرت عمر کی خدمت میں سفارش کے طور پر ایک رقعہ لکھ دیتا ہوں آگے اُن کی مرضی.جس طرح چاہیں کریں.ابو عبیدہ نے یہ رقعہ لکھ کر دیا کہ میں جانتا ہوں کہ اس شخص کا جرم بہت بڑا ہے.اور شاید میرے رقعہ لکھنے کہ وجہ سے آپ ناراض بھی ہوں لیکن اس کے شرجیل کو بچانے کی وجہ سے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کا تب ہے.سفارش کرنے کی جرات کرتا ہوں کہ اسے معاف کیا جائے.جب یہ خط حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پہنچا تو انہوں نے فرمایا کہ چونکہ تمہیں ابوعبیدہ نے معاف کر دیا ہے اس لئے میں بھی معاف کرتا ہوں لیکن اگر وہ معاف کرنے سے پہلے مجھ سے پوچھتے تو میں کبھی معاف نہ کرتا.اچھا اب تم اس طرح کرو کہ ہر وقت جنگ میں لگے رہو.اس نے اس بات کو منظور کر لیا.اے تو اس کا ایسا سنگین جرم تھا کہ اس کے متعلق قتل کا فتوی دیا جا چکا تھا.اور باوجود اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب کو اس نے بچایا تھا.پھر بھی حضرت عمرؓ اس کو معاف کرنے پر تیار نہ تھے.مگر وہ ہدایت پا گیا.اور اللہ تعالیٰ کے فضل نے اُسے نجات دلا دی.کیوں؟ اس لئے کہ اس کے دل میں کوئی ایسی نیکی تھی جس نے ایسے سامان پیدا کر دئے کہ حضرت عمر کو بھی آخر معاف کرنا پڑا.اور اس کا انجام نیکی پر ہوا.تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ انجام کو اچھا یا برا کر دیتے ہیں.اور کوئی اندرونی نیکی ہوتی ہے.جس کی وجہ سے انجام نیکی پر ہوتا ہے اور کوئی اندرونی بدی ہوتی ہے.جس کی وجہ سے انجام بدی پر ہوتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی حالت بڑی نازک اور کمزور ہوتی ہے.اور اس کی کسی ایک حالت میں کچھ اعتبار نہیں کیا جاسکتا.قابل اعتبار وہی حالت ہے جس پر موت واقعہ ہو.اگر کوئی شخص مرنے کے وقت مسلم ہے تو اس کی باقی ساری عمر اگر کفر کی حالت میں بھی گذری ہو تو بھی کوئی ہرج نہیں.اور اگر مرنے کے وقت کا فر ہے تو اس کی ساری عمر مسلمان رہنا اسے کوئی فائدہ نہیں دے گا.یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو یہ وصیت کی ہے کہ.یبنی اِنَّ اللهَ اصْطَفى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ.کہ تمہاری موت اسلام پر ہونی چاہیئے.تو معاملات کی خوبی یا برائی انجام پر معلوم ہوتی ہے.درمیانی حالت پر کچھ نہیں کہا جاسکتا.میں نے یہ تمہید کیوں بیان کی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تازہ ایسی بات پیدا ہوئی ہے.: تاریخ اسلام مولا نا شر رص ۱۵۶ تا ص ۱۵۸.: سورۃ البقرہ: ۱۳۳.

Page 401

خطبات محمود جلد (5) ۳۹۰ جس کے متعلق یہ تمہید بیان کرنے کی تحریک ہوئی ہے اور وہ یہ کہ پرسوں مجھے ایک ٹریکٹ رجسٹری ملا ہے جب میں نے اس کو کھولا تو معلوم ہوا کہ وہ مولوی محمد احسن صاحب کا مضمون ہے.میں نے ان کو سالانہ جلسہ سے چند ہی دن پہلے ایک خط میں لکھا تھا کہ مختلف دوستوں کے خطوط اور اخبارات سے معلوم ہوا ہے کہ آپ چند روز کے لئے لاہور تشریف لائے ہوئے ہیں.افسوس ہے کہ آپ قادیان تشریف نہ لائے.حالانکہ اگر آپ تشریف لاتے تو پالکی وغیرہ سواری کا انتظام کیا جاسکتا تھا.جس سے آپ کو ہرگز تکلیف نہ ہوتی.“ پھر یہ بھی لکھا تھا کہ اگر آپ چاہیں تو لاہور میں ہی دوسری جگہ آپ کی رہائش کا انتظام کر سکتے ہیں اور اگر آپ چاہیں تو آپ کے قادیان لانے کے لئے بھی ہر طرح کے آرام کا انتظام کیا جا سکتا ہے.مجھے خداوند تعالیٰ نے محبت کرنے والا دل دیا ہے.میں نے جو تعلق بنایا ہو اُسے توڑنے کا عادی نہیں.ہاں دوسرے کی طرف سے ابتدا ہو تو الگ بات ہے.پس میں تو ہر طرح آپ سے محبت کا معاملہ ہی کروں گا الا ماشاء اللہ اور میری طرف سے ابتداء نہ ہوگی.ہاں اگر جماعت کو ابتلا میں ڈالا گیا تو جس کام پر خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے اس کے پورا کرنے کے لئے کسی اور تعلق کی پرواہ نہیں کرتا.خواہ مجھے کیسا ہی پیارا رشتہ کیوں نہ تو ڑنا پڑے.مجھے اس کی پروا نہیں.“ اس خط کے جواب میں انہوں نے یہ مضمون لکھا ہے.مجھے پہلے بھی بتایا گیا تھا کہ مولوی صاحب نے اپنے بعض مضامین میں ہمارے متعلق ایک عجیب بات لکھی ہے لیکن میں نے خود نہیں پڑھی تھی.اس مضمون کو جو میں نے پڑھا تو اس میں بھی وہ بات لکھی ہوئی پائی.مجھے حیرت ہوئی تھی کہ وہ کس طرح ہماری طرف وہ بات منسوب کرتے ہوں گے.مگر اس مضمون میں تو خود دیکھ لیا ہے.وہ میرے متعلق لکھتے ہیں کہ :.آپ اپنی خلافت کو سیاسی ہی خلافت اعتقاد کر رہے ہیں.جب ہی تو آپ نے انوارِ خلافت میں جو تاریخ خلیفہ ثالث ورابع کی بہ نسبت خوارج لکھی ہے.اس کو اپنی خلافت پر قیاس کیا ہے تو میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی اس کا خیال تک نہ لانا.گورنمنٹ عالیہ کے منشاء کے محض خلاف ہے.“ چونکہ ۱۹۱۵ ء کے سالانہ جلسہ پر میں نے جو تقریر کی تھی اور جوانوار خلافت کے نام سے چھپ چکی ہے.اس میں میں نے بتایا تھا کہ حضرت عثمان کے وقت اس طرح جھگڑے ہوئے تھے.ہماری جماعت کو ہوشیار رہنا چاہیئے.اس لئے مولوی محمد احسن صاحب کے نزدیک میں اپنی خلافت کو

Page 402

خطبات محمود جلد (5) ۳۹۱ سیاسی خلافت اعتقاد کرتا ہوں.مجھے یہ پڑھ کر حیرت ہوئی کہ دشمنی اور عداوت انسان کو کہاں سے کہاں تک لے جاتی ہے اور حق اور صداقت سے پھرنا کیسی بری حالت تک پہنچا دیتا ہے.یہ وہی مولوی صاحب ہیں جنہوں نے چند ہی مہینہ پہلے مجھے لکھا تھا کہ آپ میری کتاب سے ناراض نہ ہوں.پہلے خلفاء کے وقت بھی اختلاف ہوتا رہا ہے.پھر آپ ہی اختلاف کی مثالیں بھی دی تھیں کیا اسوقت مولوی صاحب کو یہ یاد نہ رہا تھا کہ مجھے خلفاء سے وہ مشابہت دے رہے ہیں وہ حکمران تھے پھر انہوں نے کیوں ایسا جرم کیا.جو بقول ان کے سیاسی خیالات کا پتہ دیتا ہے.پھر میں کہتا ہوں.اگر مولوی صاحب کی یہ بات درست ہے کہ میں نے انوار خلافت میں جو تاریخ خلیفہ ثالث ورابع کی بہ نسبت خوارج لکھی ہے.اس لئے میں اپنی خلافت کو سیاسی خلافت اعتقاد کرتا ہوں تو انہیں معلوم ہو جانا چاہئیے کہ اس طرح تو سب سے بڑی اور مضبوط سیاست کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رکھی ہے.کیونکہ آپ الوصیت میں تحریر فرماتے ہیں:.خد اتعالیٰ دو ۲ قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے.(۱) خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے.(۲) ایسے وقت جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے.اور دشمن زور میں آجاتے ہیں.اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا.اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں.اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں.تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے.خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے.جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق کے وقت میں ہوا.جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی.اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے.اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے.تب خداوند تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا.“ اس کے بعد اپنی جماعت کو فرماتے ہیں :.وو سواے عزیز و ! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالی دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے.سواب

Page 403

خطبات محمود جلد (5) ۳۹۲ ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو.اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں.کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے.“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے اپنے بعد آنے والے خلفاء کو حضرت ابوبکر اور دوسرے خلفاء کی طرح قرار دیا ہے.اور فرمایا ہے.جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق کے وقت میں ہوا.ایسا ہی اب بھی ہوگا.اب ( نعوذ باللہ ) مولوی محمد احسن صاحب کو سب سے پہلے حضرت مسیح موعود کو باغی کہنا چاہئیے.کیونکہ آپ نے حضرت ابو بکر وغیرہ سے اپنے بعد کے خلفاء کو مشابہت دی ہے.اور یہ تو مولوی صاحب کو بھی خوب معلوم ہے کہ حضرت ابوبکر نے تلوار سے جماعت کو سنبھالا تھا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عداوت کی وجہ سے کس طرح عقل ماری جاتی.وہ خوش ہوتے اور سمجھتے ہوں گے کہ میرے اس لکھنے پر پولیس نے قادیان کو گھیر لیا ہوگا.اور تلاشی ہو رہی ہوگی.قادیان والے سخت مصیبت اور مشکل میں پھنسے ہوئے ہوں گے مگر میں کہتا ہوں کہ انہوں نے حضرت عثمان کے زمانہ کے حالات بیان کرنے کی وجہ سے مجھے سیاسی خیالات رکھنے والا کیوں قرار دیا ہے.میں تو کئی بار گورنمنٹ برطانیہ سے اپنی جماعت کی مشابہت بیان کر چکا ہوں.انہیں تیرہ سو سال پیچھے جانے کی کیا ضرورت تھی.موجودہ گورنمنٹ کے ساتھ مشابہت قرار دینے سے کیوں باغی نہیں کہتے.انہوں نے شائد اس معاملہ اور محسن گورنمنٹ کو اندھی نگری چوپٹ راجا سمجھ لیا ہوگا.اور جس طرح خود سیاست سے نابلد اور نا واقف ہیں.اسی طرح گورنمنٹ کو خیال کرتے ہوں گے اور سمجھتے ہوں گے کہ میرے اس لکھ دینے سے ان کو گورنمنٹ فوراً پکڑلے گی.پھر حضرت مسیح موعود " تو اپنے سلسلہ کی مثال کئی ایسے انبیاء سے دے چکے ہیں جنکی حکومتیں تھیں.مثلاً حضرت موسی وغیرہ.کیا اس سے کہا جائے گا کہ آپ سیاسی خیالات رکھتے تھے.ہمارے متعلق یہ بات کہنے والے کو کم از کم اپنا مقام تو دیکھ لینا چاہئے تھا.اب شاید میرے اس کہنے کے بعد وہ کچھ دیں تو دیں.مگر اس سے پہلے کی نسبت مجھے یقین ہے کہ انہوں نے موجودہ جنگ میں گورنمنٹ کی امداد کے لئے ایک پیسہ بھی چندہ نہیں دیا ہوگا.مگر اب وہ اپنی طرف سے گورنمنٹ کے خیر خواہ بن کر آگئے ہیں.اور ہمیں مشورہ دینے کی تکلیف برداشت کر رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے بھی جب مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا.تو غیر احمدیوں نے آپ پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے وہ مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے جو دیگر مذاہب والوں سے جنگ کرے گا.اور ان کو نیست و نابود کر کے اپنی حکومت چلائے گا.حالانکہ یہ الزام حضرت مسیح موعود پر عائد نہیں ہوسکتا تھا.کیونکہ آپ تو کسی ایسے شخص کے آنے کو مانتے ہی نہیں تھے.ہاں کہنے والوں پر عائد ہوتا تھا.کیونکہ وہ ایک ایسے

Page 404

خطبات محمود جلد (5) ۳۹۳ انسان کے منتظر ہیں.لیکن غیر احمدیوں نے اپنے خیال میں حضرت مسیح موعود پر یہ ایک ایسا حملہ کیا تھا جس کے متعلق انہیں یقین تھا کہ ضرور نقصان دہ ثابت ہوگا.مگر جو کچھ اس کا نتیجہ ہوا.وہ سب کو معلوم ہے.اسی طرح مولوی محمد احسن صاحب نے اپنے خیال میں ہم پر یہ ایک بڑا ھر بہ چلایا ہے مگر وہ یا درکھیں کہ اس سے کچھ نہیں بنے گا.ان کی اس قسم کی تحریروں کو پڑھ کر تو کوئی جاہل سے جاہل حاکم بھی دھو کہ نہیں کھا سکتا.مگر ہمارے حاکم تو بڑے عقلمند اور دانا ہیں.وہ مولوی صاحب کے دھو کہ میں کس طرح آسکتے ہیں.میں تو یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ اگر کوئی اندھی نگری چوپٹ راجا بھی ہوتا.تو بھی ان کے دھوکہ میں نہ آتا.گورنمنٹ خوب سمجھتی ہے کہ ہماری کیا حیثیت ہے اور ان کی کیا.اور جن کے ساتھ وہ اب جا کر ملے ہیں.ان کے متعلق بھی گورنمنٹ کو خوب معلوم ہے کہ سیاست سے کیسا اور کہاں تک تعلق رکھتے ہیں.خواجہ صاحب با وجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت ناپسند فرمانے کے مسلم لیگ میں داخل ہو گئے.پھر خواجہ صاحب نے ولایت جا کر وزیر اعظم تک کو دھمکیاں دیں.اور لکھا کہ اگر ترکوں سے جنگ کی گئی تو ساری دنیا ان کی مدد کے لئے اٹھ کھڑی ہوگی.حالانکہ یہ بالکل غلط تھا.چنانچہ اب جبکہ جنگ ہوئی تو بجائے اس کے ترکوں کی مدد کے لئے کوئی اٹھتا.ان کے اپنے صوبے ہی ان سے الگ ہو رہے ہیں.تو جن لوگوں کے لیڈروں کے ایسے خیالات ہوں.ان میں شامل ہو کر ہمارے متعلق یہ الزام لگانا کہ ہم سیاسی خیالات رکھتے ہیں.صریح طور پر دھوکہ دہی نہیں تو اور کیا ہے.کیونکہ اس قسم کے خیالات تو ان کے ہیں نہ کہ ہمارے.مولوی صاحب خود ہی غور کریں کہ سب سے پہلی بات جس پر انہوں نے اظہار ناراضگی کیا.وہ کیا تھی.وہ ی تھی کہ ابوالکلام کے خلاف الفضل میں کیوں لکھا گیا ہے.(اس کے متعلق ہمارے پاس مولوی صاحب کا خط محفوظ ہے.اگر وہ چاہیں تو ہم شائع کر سکتے ہیں.ایڈیٹر افضل ) اور ابوالکلام وہ شخص ہے جس کو گورنمنٹ نے نظر بند کر رکھا ہے.اور جس کے متعلق حال ہی میں اعلان ہوا ہے کہ وہ چونکہ ہر مجسٹی ملک معظم کے دشمنوں سے غذارا نہ خط و کتابت کرتا رہا ہے.اس لئے اس کے متعلق خاص نگرانی کے احکام نافذ کئے جاتے ہیں.ایسے شخص کے متعلق کچھ لکھنے پر ناراض ہونے والے کو اپنے اوپر غور کر لینا چاہیئے.پھر مولوی صاحب تو کہتے ہیں کہ وہ حدیثیں جن میں حضرت مسیح موعود کا ذکر ہے.حضرت مسیح موعود پر اپنے لفظی معنوں کے لحاظ سے چسپاں نہیں ہوتیں اور شاید یہ معنی کر کے کوئی اور مسیح آجائے.اور وہ وہی ہو جو تلوار لے کر لڑے گا.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کس کے خیالات سیاسی ہیں.ہمارے یا ان کے.باوجود اس کے ہمارے متعلق کہا جاتا ہے کہ اپنی خلافت سیاسی خلافت سمجھتے ہیں.جو محض دشمنی اور عداوت کی وجہ

Page 405

خطبات محمود جلد (5) ۳۹۴ سے ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ عداوت اور دشمنی کی وجہ سے حد سے نہیں بڑھنا چاہیئے.لیکن ان کو اس کی بھی کچھ پرواہ نہیں ہے.ہم گورنمنٹ کے متعلق وفاداری کے جو خیالات رکھتے ہیں اور جس طرح ہم نے اس جنگ میں گورنمنٹ کی خدمت کی ہے اور ہماری خدمات کے متعلق گورنمنٹ نے جو کچھ لکھا ہے وہ کوئی پوشیدہ بات نہیں.چند ہی ماہ ہوئے.ہر آنرلیفٹینٹ گورنر کی طرف سے میرے نام ایک چٹھی آئی تھی.جس میں لکھا تھا کہ ہر آنراحمدیہ کمیونٹی کی اس مخلصانہ وفاداری کا مزید یقین دلانے سے مسرور ہیں.جس کا اس نے گورنمنٹ کے ساتھ لڑائی شروع ہونے سے اب تک عملی ثبوت دیا ہے.ان باتوں کے ہوتے ہوئے گورنمنٹ پر مولوی محمد احسن صاحب کے اس لکھنے سے کیا اثر ہوسکتا ہے.پھر گورنمنٹ کو یہ بھی معلوم ہے کہ کانپور کے معاملہ کے متعلق گورنمنٹ کے خلاف کس نے لکھا ہے.اور اس حادثہ میں مرنے والوں کے ساتھ کس نے وفاداری کا اظہار کیا تھا.اور ظفر علیخاں کی وہ نظم جو سلطان ٹرکی کی شان میں بعنوان خلیفتہ المسلمین لکھی گئی تھی.پیام میں کس نے درج کرائی تھی.ان باتوں کے ہوتے ہوئے کس طرح ہمارے متعلق وہ یہ لکھ سکتے ہیں کہ ہمارے خیالات سیاسی ہیں.سوائے اس کے کہ کسی کی عقل ماری جائے.یا جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک انسان نیک کام کرتا ہے مگر اس کا انجام برا ہو جاتا ہے.اسی طرح آخری عمر میں یہ کہنے والے کی رہنی بھی برائی کی طرف کھینچی گئی ہے.ان کی یہ کوشش ایک لغو اور بے ہودہ ہے اور سوائے اس کے کہ ایسا لکھنے والے کی اپنی جہالت اور نادانی ثابت ہو.اور کیا نتیجہ نکل سکتا ہے.ہاں دانا اور سمجھدار انسان اس سے عبرت حاصل کر سکتا ہے کہ ایک سمجھتا بُوجھتا انسان غصہ اور عداوت کی وجہ سے کیسا جاہل اور نادان بن جاتا ہے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت میں سے ہر ایک کو اپنی حفاظت میں رکھے.اور اس کے فضل کے ماتحت ہمارا انجام مؤمنوں والا ہو.اور ہماری موت اسلام پر ہو.آمین ثم آمین.الفضل ۱۷ فروری ۱۹۱۷ء)

Page 406

۳۹۵ 47 خطبات محمود جلد (5) انسانی ترقی کی وسعت فرموده ۱۶ / فروری ۱۹۱۷ء حضور نے تشہد وتعوذ کے بعد سورہ فاتحہ پڑھ کر فرمایا :- اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کی ترقی کے لئے اس قسم کے سامان مہیا ہیں کہ وہ جتنا بھی بلند ہونا چاہے اُتنا ہی ہوسکتا ہے.اور جتنا بھی بڑھنا چاہے بڑھ سکتا ہے.اس وقت تک کوئی انسان دنیا میں ایسا نہیں گذرا کہ جس کا حوصلہ اس قدر وسیع ہو.اور جس کے دل میں اتنی وسعت ہو کہ دنیا میں اس کے کرنے کا کوئی کام باقی نہ رہا ہویا اس کے لئے ترقی کا سلسلہ بند ہو گیا ہو اور اُسے یہ کہنا پڑا ہو کہ میں تو کام کرنے کے لئے تیار ہوں.لیکن افسوس سب کام ختم ہو گئے.اور میرے کرنے کا کوئی کام باقی نہیں رہا.کوئی انسان اس قسم کا نہیں ہوا بلکہ ہم تو دیکھتے ہیں کہ بڑے سے بڑا حوصلہ رکھنے والا اور بڑی سے بڑی ہمت دکھانے والا اور بہت زیادہ محنت اور کوشش کرنے والا بھی جب کوئی انسان فوت ہوا ہے تو یہی کہتا ہو ا فوت ہوا ہے کہ میرے سامنے ترقی کرنے اور بڑھنے کا بہت وسیع میدان موجود تھا.لیکن افسوس کہ میں نے کچھ ترقی نہ کی.اور جو ارادے میرے دل میں تھے.ان کو پورا نہ کر سکا.اس کے برخلاف کوئی انسان ایسا نظر نہیں آتا.جو یہ کہے کہ میرے سب کام ختم ہو گئے ہیں اب میں کروں تو کیا کروں.اور باقی زندگی کو کس طرح خرچ کروں.تمام علوم کو تو جانے دو.کوئی شعبہ علم بھی ایسا نہیں.جس کے متعلق کوئی کہہ سکے کہ میں نے اس کو کمال تک پہنچادیا ہے.مثلاً جغرافیہ کو ہی لے لو.کیسا محدود علم ہے مگر اس کے متعلق بھی کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اس کے تمام منازل طے کر لئے ہیں.اسی طرح اور دنیاوی علوم کو لو.اور ان کی کسی شاخ کے کام کرنے والے کو دیکھو.مثلاً تاجر صناع.علمی تحقیقات کرنے والا.سیاست دان.منتظم.غرضیکہ کسی رنگ میں کام کرنے والا ہو.کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری وسعت اور حوصلہ تو بہت بڑا ہے.لیکن کام کرنے کی جگہ نہیں رہی.اور آگے بڑھنے کا میدان ختم ہو گیا ہے.بلکہ ہم تو دیکھتے ہیں کہ جس قدر کوئی زیادہ کام کرنے والا ہوتا ہے.اس قدر زیادہ یہ کہتا ہے کہ میرے آگے کام کرنے کا میدان تو بہت وسیع اور فراخ پڑا ہے لیکن میں کام کر نہیں سکا.کیوں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے ترقی کرنے کا میدان بہت وسیع بنایا ہے.اور بڑھنے کے لئے نہایت فراخ میدان رکھ دیا ہے اور ترقیوں کی کمی

Page 407

۳۹۶ خطبات محمود جلد (5) نہیں.ہاں اگر کمی ہوتی ہے تو انسان کی اپنی طرف سے.خدا تعالیٰ کی طرف سے میدان بہت وسیع ہے.اور انسان جتنا بھی بڑھنے کی کوشش کرے.اتنا ہی بڑھ سکتا ہے.اس کے لئے کوئی حد نہیں کہ وہاں جا کر ترقی رک جاتی ہے.اور آگے نہ بڑھنے کے لئے دروازہ بند ہو جاتا ہے لیکن اگر انسان کے ترقی کرنے اور بڑھنے میں روک ہوتی ہے تو یہی کہ انسان کسی اپنے گناہ اور قصور کی وجہ سے ترقیوں سے اپنے آپ کو محروم کر لیتا ہے.دنیا میں ایسے انسان موجود ہیں جو ترقی کرنا تو در کنار نیچے ہی نیچے گرنے لگ جاتے ہیں.بڑا علم سیکھا ہوتا ہے مگر ان کا حافظہ ایسا کمزور ہو جاتا ہے اور حواس ایسے بے کار ہو جاتے ہیں کہ انہیں اپنا نام تک یاد نہیں رہتا.میں نے ایسے واقعات سُنے ہیں کہ بعض انسانوں کا حافظہ اس قدر کمزور ہو گیا کہ وہ نوٹ بک میں اپنا نام لکھ رکھتے ہیں.اور جب کوئی ان سے ان کا نام پوچھتا ہے.تو نوٹ بک کو دیکھ کر بتاتے ہیں.بعض اتنے بوڑھے ہو جاتے ہیں کہ پاگل ہو جاتے ہیں مگر یہ سب کچھ ان کے اپنے گناہوں کی شامت کی وجہ سے ہوتا ہے.اور ان کا اپنا قصور ہوتا ہے.پھر بعض انسان بڑے بڑھتے ہیں.لیکن ایک وقت جا کر ایسے رکھتے ہیں کہ ایک قدم نہیں اٹھا سکتے.اس کی یہ وجہ نہیں.کہ ان کے بڑھنے کا میدان ختم ہو جاتا ہے بلکہ یہ کہ ان کی اپنی کمزوریاں اور گناہ ان کے پاؤں میں زنجیریں ڈال دیتے ہیں.وہ دیکھتے ہیں کہ آگے بڑھنے کے لئے میدان خالی پڑا ہے.لیکن آگے قدم نہیں رکھ سکتے.تو ہر ایک ترقی خواہ وہ کسی فرد کی ہو یا جماعت کی ہو.کہیں نہ کہیں جا کر رکتی ہے.مگر اس لئے نہیں کہ ترقی کرنے کے سامان اور ذرائع ختم ہو گئے بلکہ اس لئے کہ ترقی کرنے والے نے آپ اپنے پاؤں میں زنجیریں ڈال لیں.پس اس بات کو خوب یادرکھنا چاہیئے.کہ جب کوئی ترقی کرنے سے رکتا ہے تو اسی وجہ سے رکتا ہے کہ اپنے پاؤں کو آپ باندھ لیتا ہے اور اُس کے پاؤں آگے نہیں پڑتے بلکہ پیچھے پڑتے ہیں.اسی بات کی طرف خدا تعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں مسلمانوں کو تو جہ دلائی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّين کہ خدا تعالیٰ کے احسانات اور انعامات کی کوئی حد بندی نہیں ہے.کیوں؟ اس لئے کہ کوئی بھی حمد جوممکن ہے وہ خدا تعالیٰ میں پائی جاتی ہے.پس جب تمام حمد اللہ کے لئے ہوئی تو اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اللہ کے انعامات کی کوئی حد بندی نہیں ہے لیکن اگر خدا تعالیٰ کے انعامات کی وسعت کو محدود کر دیا جائے.اور یہ سمجھ لیا جائے کہ ایک خاص حد تک اس کے انعامات مل سکتے ہیں اور آگے نہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خدا تعالیٰ بعض حمدوں سے خالی ہو جائے گا.مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے رب العالمین کہ ہم تمام جہانوں کے رب ہیں.اگر کوئی بڑا عالم ہے تو اس کے بھی ہم رب ہیں.اور اگر کوئی لی عقل کا انسان ہے تو اس کے بھی.اگر کوئی روحانی ترقی میں بہت بڑھ گیا ہے تو اس کے بھی ہم رب ہیں.اور معمولی

Page 408

خطبات محمود جلد (5) ۳۹۷ اگر کوئی ابتدائی حالت میں ہے تو اس کے بھی.یہ نہیں کہ کوئی انسان کسی بڑے سے بڑے درجہ پر پہنچ کر کہہ دے کہ اب خدا تعالیٰ میرا رب نہیں رہا.یعنی میں آگے بڑھنا چاہتا ہوں.لیکن وہ بڑھا نہیں سکتا.بلکہ انسان کسی طبقہ اور کسی مقام پر چلا جائے.اور کسی درجہ میں شامل ہو.خدا اس کا رب ہی رہتا ہے اور کبھی خدا تعالیٰ یہ نہیں کہتا کہ اب فلاں انسان میری حد سے نکل گیا ہے.کیونکہ انسان کسی حالت میں بھی ہو.اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے ماتحت ہی رہے گا.پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے.الرحمن الرحيم مالك يوم الدين_خدا کی ربوبیت کوئی معمولی درجہ کی نہیں ہوگی بلکہ انسان ہر قدم جو ترقی کیلئے بڑھائے گا.اس پر اسے نئے سرے سے رحمانیت کے فیوض حاصل ہوں گے اور پھر رحیمیت کے ماتحت انعام حاصل کرے گا یعنی ہر ترقی کرنے پر اور آگے بڑھنے کے لئے اسے نیا مصالح دیا جائے گا کہ لواب اس کے ذریعہ آگے بڑھو.ابتداء میں ترقی کرنے کے لئے جو اسباب دئے جاتے ہیں وہ محض خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کا نتیجہ ہوتے ہیں وہ انسان کی کسی کوشش اور محنت کا نتیجہ نہیں ہوتے.چنانچہ قریبا تمام موجد اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری ایجاد میں آنی خیالات کی بناء پر ہوئی ہیں.ہماری کوشش اور محنت کا ان میں دخل نہیں ہے.مثلاً تار برقی کا موجد ہے وہ کہتا ہے کہ اس کے متعلق میرے دل میں خُدا نے یونہی ایک خیال ڈال دیا.اور خیال کو لے کر جب میں نے کوشش کی تو یہ نتیجہ نکلا.اسی طرح ایڈیسن ایک بہت بڑا موجد ہے.اور کئی ہزار ایجاد اس نے کی ہے.میں نے اسکا قول پڑھا ہے.وہ لکھتا ہے کہ میں نے کوئی ایک ایجاد بھی ایسی نہیں کی.جو سوچ سوچ کر نکالی ہو.بلکہ یونہی ایک تحریک ہوئی اور جب میں نے اس پر غور کیا.تو ایک نئی چیز نکل آئی.اسی طرح نیوٹن گذرا ہے.اس نے کشش ثقل کا نتیجہ اخذ کیا ہے.اس کو بھی اتفاقیہ ہی اس طرف توجہ پیدا ہوگئی اور پھر اس نے اسے علمی رنگ دے لیا تو تمام ترقیوں کی ابتداء اسی طرح ہوتی ہے کہ پہلے خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت کے ماتحت کچھ اسباب بغیر انسانی محنت اور کوشش کے پیدا ہو جاتے ہیں اور پھر رحیمیت کے ماتحت ان میں دن بدن ترقی ہوتی رہتی ہے.یہ نہیں کہ انسان کسی بات کا خیال پہلے قائم کر لے اور پھر اس کی ایجاد میں کوشش کرے.مثلاً تار برقی ہے.اس کے متعلق یہ نہیں ہوا کہ اس کے موجد کو پہلے یہ خیال پیدا ہوا ہو کہ خبریں پہنچانے میں دیر لگتی اور تکلیف ہوتی ہے.اس لئے کوئی آسان طریق نکالنا چاہیئے.بلکہ یونہی اتفاقیہ طور پر اس کو تحریک ہوئی.اور اس نے کوشش شروع کر دی.اور بہت کم ایسی ایجادیں ہوتی ہیں جن کے ایجاد ہونے سے پہلے ان کا ارادہ کر لیا جاتا.اور پھر اس میں کامیابی حاصل ہوئی ہے.لیکن کثرت کے ساتھ وہی ایجادیں ہیں.جن کی ابتداء اتفاقیہ طور پر ہوئی.اور ان کی ایسی کثرت ہے کہ یہ بات کلیہ کہلانے کی مستحق

Page 409

خطبات محمود جلد (5) ۳۹۸ ہوگئی کہ ہر ایجاد کی ابتداء رحمانیت کے ماتحت ہوتی ہے.ہاں ایجاد ہونے کے بعد اس میں اپنی کوشش اور محنت سے ترقی دی جاتی.اور اسے اعلیٰ درجہ پر پہنچایا جاتا ہے.مثلاً ہوائی جہاز ایجاد ہوئے ہیں.فرض کر لو.جس وقت ایجاد ہوئے اس وقت سو میل فی گھنٹہ رفتار پیدا ہو سکی لیکن بعد میں اس کو ترقی دیتے دیتے ایک سو ہیں میل یا اس سے بھی زیادہ رفتار کے جہاز تیار کر لئے جائیں تو ایجاد ہونے کے بعد ترقی دینے اور تجربہ کرنے میں موجد لگتے ہیں پہلے انہیں خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ہم کامیاب ہوں گے یا نہیں؟ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسانی ترقی کے لئے جو سامان پیدا کئے ہیں وہ بہت وسیع ہیں.اور جب ان کو کام میں لایا جاتا ہے تو انسان بڑی ترقی اور عروج حاصل کر لیتا ہے اور رحمانیت کے بعد رحیمیت اور رحیمیت کے بعد پھر رحمانیت کے ماتحت وہ ترقی پر ترقی کرتا چلا جاتا ہے.یعنی جب ایک صفت کے ماتحت کام کرتا ہے تو دوسری سے اسے مستفیض کیا جاتا ہے.اور جب دوسری کو کام میں لاتا ہے تو پھر پہلی سے اسے فائدہ پہنچایا جاتا ہے.اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک نجار کو میز بنانے کے لئے لکڑی دی جائے.جب وہ بنالے تو اور دے دی جائے اور اسی طرح جب وہ فارغ ہو.اُسے اور لکڑی دے دی جایا کرے.خدا تعالیٰ انسانوں کے ساتھ یہی معاملہ کرتا ہے کہ جب وہ ایک ترقی کر چکتے ہیں تو ان کے سامنے آگے بڑھنے کے لئے اور سامان رکھ دیتا ہے.اور پھر فرماتا ہے.ہماری ربوبیت اسی دنیا میں ختم نہیں ہو جاتی یعنی یہ نہیں کہ جب انسان مر گیا تو اس کی ترقی بھی بند ہو گئی.بلکہ خُدا مالک یوم الدین ہے اس لئے دنیا میں جو کام تم کرتے ہو یہ ایک بیج کی طرح ہو جاتے ہیں.اور ان سے پھل نکلنے شروع ہو جاتے ہیں.یہی دو عالم ہیں.جب ان میں ترقی ختم نہیں ہوتی.اور تیسرا کوئی عالم ہی نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ انسانی ترقی کبھی ختم نہیں ہوتی.سورۂ فاتحہ میں اسی وسعت کی طرف خدا تعالیٰ نے انسان کو متوجہ کیا ہے.لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتادیا ہے کہ باوجود اس وسعت اور فراخی کے انسان کی اپنی غلطی اور کوتاہی سے اس کی ترقی رک بھی جاتی ہے.چنانچہ غیر المغضوب عليهم ولا الضالین میں بتایا کہ وہ لوگ جو ترقی نہیں کرتے بلکہ تنزل کرتے ہیں یا جو کام چھوڑ کر بیٹھ رہتے ہیں ان کے متعلق یہ نہ سمجھنا کہ انہوں نے ترقی کی تمام منازل طے کر لی ہیں.اور اب آگے بڑھنے کے لئے ان کے پاس کوئی سامان نہیں ہے کیونکہ ہمارے انعامات بھی ختم نہیں ہوتے.ہاں اگر انسان خود تھک کر بیٹھ رہے.اور کوشش کرنا چھوڑ دے.اور اپنی بدا فعالیوں سے ہمیں ناراض کر لے.تو پھر مغضوب علیہم میں شامل ہو جاتا ہے اس کے لئے تمہیں یہ کرنا چاہیے کہ ہم سے یہ التجا کرو کہ اے ہمارے خُدا ہمیں مغضوب لوگوں میں

Page 410

۳۹۹ خطبات محمود جلد (5) شامل نہ کیجئے.اور نہ ایسا ہو کہ ترقی کرتے کرتے ہماری کمزوریوں کی وجہ سے نیچے گرا دیا جائے.پھر ایسا نہ ہو کہ ہم خود ہی صراط مستقیم چھوڑ کر دائیں یا بائیں نکل جائیں.اور منزل پر پہنچنے سے محروم رہیں.تو انسان کی ترقی کبھی ختم نہیں ہوسکتی.اس لئے مسلمانوں کو چاہیے کہ کبھی ان کا حوصلہ پست نہ ہو.بلکہ اتنا وسیع ہو کہ کوئی مشکل سے مشکل کام بھی گھبراہٹ نہ پیدا کر سکے اور کوئی مومن یہ خیال بھی نہ کرے کہ مجھ سے فلاں کام نہیں ہو سکتا.ہر ایک مومن تو پانچ وقت خدا تعالیٰ کے حضور کئی بار اقرار کرتا ہے کہ اے خدا تیرے انعام و اکرام کی کوئی حد بندی نہیں ہے بلکہ بہت وسیع ہیں.اور جب تک ہماری اپنی کمزوری درمیان میں حائل نہ ہو.تیرے انعام نہیں رک سکتے.اس لئے ہم اپنی کمزوریوں اور بد اعمالیوں کے بد نتائج سے بچنے کی دُعا مانگتے ہیں.تو اس طرح یہ حد بندی بھی نہ رہی.کیونکہ انسانی کمزوریوں سے بچنے اور ان کے نتائج سے محفوظ رہنے کے متعلق خُدا نے خود بتا دیا کہ اگر تم اس کے متعلق مجھ سے دُعا مانگو گے تو یہ زنجیر بھی ٹوٹ جائے گی.تو انسانی ترقی کے لئے میدان بہت وسیع پڑا ہے مگر افسوس کہ بہت سے انسان ایسے ہیں جو اپنی کم ہمتی سے یہ سمجھ کر کہ اب کوئی ترقی نہیں ہو سکتی.بیٹھ جاتے ہیں یا اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی نافرمانیوں اور سرکشیوں سے ایسا بنا لیتے ہیں کہ ان کے کاموں اور ارادوں میں کامیابی نہیں رہتی.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کی توفیق دے کہ اللہ تعالیٰ کے نہ ختم ہونے والے اور وسیع انعامات سے فائدہ اٹھا ئیں.اور کسی ایک مقام پر ہمارے قدم نہ ٹھہریں بلکہ ہم ترقی کے میدان میں آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں.آمین ثم آمین.الفضل ۲۴ فروری ۱۹۱۷ء)

Page 411

۴۰۰ 48 خطبات محمود جلد (5) جماعت قادیان کے متعلق فرموده ۲۳ فروری ۱۹۱۷ء تشہد وتعوذ کے بعد حضور نے حسب ذیل آیات کی تلاوت کی :- قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ إِلَهِ النَّاسِ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الخنَّاسِ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ (الناس) اور فرمایا:- آج میں مختصر طور پر ایک خاص بات کی طرف یہاں کے لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں.بہت سی باتیں اس قسم کی ہوتی ہیں کہ جنہیں کہنے والا تو اپنے منہ سے نہایت آسانی اور جلدی سے نکال دیتا ہے.مگر وہ دوسروں کے لئے ابتلاء کا موجب بن جاتی ہیں اور ان کے دل میں ایسا وسوسہ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ کہیں کے کہیں چلے جاتے اور بالکل گمراہ ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کا نام جو دوسروں کے دلوں میں وسوسے پیدا کرتے ہیں خنّاس رکھتا ہے.اور ایسی باتیں کرنے والوں اور اس قسم کے فتنہ کو اتنا بڑا اور اس قدر خطر ناک قرار دیتا ہے کہ اپنی تین صفات کے ذریعہ ان سے پناہ مانگنے کی ہدایت کرتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.قُل اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ إِلهِ الناس تو خدا تعالیٰ کی ان تین صفات - رَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاس اور الهِ النَّاس کے ذریعہ ایسے لوگوں اور ان کے فتنہ سے پناہ مانگی جاتی ہے.عام طور پر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کو ایک ہی صفت سے پکارا جاتا ہے.مگر یہاں تین صفتیں بیان فرمائی ہیں.کہ ان کے ذریعہ پناہ مانگو.اس سے پتہ لگتا ہے کہ یہ فتنہ بہت ہی بڑا ہے.بعض اوقات ایک بات کو بہت معمولی اور چھوٹا سمجھا جاتا ہے.مگر اس کے نتائج بہت خطرناک نکلتے ہیں.آپ لوگوں نے سنا ہوگا.حضرت مولوی صاحب سنایا کرتے تھے کہ خلافت بغداد کی تباہی کی ابتداء دو شخصوں کی معمولی باتوں سے ہی شروع ہوئی تھی.دونوں جا رہے تھے.ایک نے دوسرے کو کہا.آؤ کباب کھا ئیں.دوسرے نے کہا کباب کیا کھانے ہیں.آؤلڑائی کرائیں.چنانچہ انہوں نے شیعوں کے محلہ میں جا کر کہدیا کہ سنی تمہارے متعلق یہ کہہ رہے ہیں.اور سنیوں کے ہاں جا کر شیعوں کی نسبت یہ کہد یا.اس پر دونوں فرقوں میں لڑائی شروع ہو گئی.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بغداد کی خلافت

Page 412

خطبات محمود جلد (5) تباہ ہوگئی.اے ۴۰۱ آپ لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ فتنہ پیدا کرنے والی بات خواہ کتنی چھوٹی ہو.زبان سے نہ نکالنی چاہئیے.نہ مزاقیہ طور پر نہ ہنسی سے.کیونکہ ایسی بات کرنے والے کو اللہ تعالیٰ خنّاس کہتا ہے.اس قسم کی باتوں سے بہت پر ہیز کرنا چاہئیے.اللہ تعالیٰ نے اگر توفیق دی تو آئندہ میں کھول کر بتلاؤں گا.آج چونکہ دیر ہو گئی ہے اس لئے مختصر طور پر کہتا ہوں کہ اتنی بات خوب یاد رکھو.ایک دیا سلائی بہت چھوٹی سی ہوتی ہے.مگر سارے گھر کو جلا کر خاک سیاہ کر دیتی ہے.اسی طرح فتنہ انگیز بات ہوتی ہے.اس لئے اگر چہ وہ چھوٹی معلوم ہو.تو بھی اُسے چھوٹا نہ سمجھو.اور کبھی منہ سے نہ نکالو.اس سے بہت بڑا نقصان اور فتنہ پھیلتا ہے.اس وقت جس قدر مسلمانوں کی حکومتیں تباہ ہوئی ہیں.ان کا باعث چھوٹی چھوٹی باتیں ہی ہوئی ہیں.مگر بعد میں ان کے بڑے خطرناک نتائج نکلے ہیں.ایسی تمام تباہیوں کا وبال انہیں لوگوں پر پڑتا ہے.جو فتنہ اٹھاتے ہیں.اس لئے ہر ایک مومن کو چاہئے کہ کوئی فتنہ والی بات کبھی منہ سے نہ نکالے.اس کا نتیجہ بہت خطرناک ہوتا ہے.“ الفضل ۲۷ فروری ۱۹۱۷ء) :- تاریخ اسلام مرتبہ شاہ معین الدین ندوی و تاریخ الخلفاء للسیوطی حالات خلافت عباسیہ.

Page 413

۴۰۲ 49 خطبات محمود جلد (5) گورنمنٹ برطانیہ اور جماعت احمدیہ فرموده ۲ مارچ ۱۹۱۷ء) تشہد وتعوذ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی :- والتَّزِعَتِ غَرْقًا ه وَالنَّاشِطتِ نَشْطًا ه والسَّابِحَتِ سَبْعًا ، فَالشيقَتِ سبقًا ، فَالْمُدَتِرْتِ اَمْرًا ) يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّجِفَةُ ، تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ ) قُلُوبٌ يَوْمَئِذٍ وَاجِفَةٌ ) اَبْصَارُهَا خَاشِعَةٌ ، يَقُولُونَ ءَ إِنَّا لَمَرْدُودُونَ فِي الْحَافِرَةِ ءَ إِذَا كُنَّا عِظَامًا تَخِرَةً ، قَالُوا تِلْكَ إِذَا كَرَّةً خَاسِرَةٌ هُ فَإِنَّمَا هِيَ زَجْرَةٌ وَاحِدَةٌ فَإِذَا هُمْ بِالسَّاهِرَةِ (النزعت ا تا ۱۴) بعد ازاں فرمایا :- میں نے کسی پہلے خطبہ جمعہ میں بیان کیا تھا کہ ہر ایک جماعت اور قوم کا ایک مقصد اور مدعا ہوتا ہے.اور اس کے حصول کے لئے جس قربانی کی بھی اسے ضرورت پڑتی ہے.کرتی ہے.لیکن اگر نہ کرے.تو کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی.کامیاب مظفر اور منصور وہی قوم ہوتی ہے.جو اپنے اس مقصد اور مدعا کو حاصل کرنے کے لئے جسے وہ اپنا مطمح نظر بنالیتی ہے ہر ایک چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتی ہے.اور ہر ایک پیاری سے پیاری اور عزیز سے عزیز چیز کو اس کے لئے ترک کر دیتی ہے.اسلام میں انسان کا مقصد و مدعا دین اور اللہ تعالیٰ کی رضا قرار دیا گیا ہے.اس کے حصول کے لئے کوئی چیز خواہ وہ کتنی ہی کیوں نہ پیاری ہو قربان کر دینی ضروری اور لازمی ہے.چنانچہ خُدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرما دیا ہے کہ وہ جو اللہ اور اس کے رسول کے مقابلہ میں مال یا جان یا اولادکو عزیز رکھتا ہے.وہ ایمان دار نہیں ہے.ابتداء میں ہر ایک بات سے پوری پوری واقفیت نہیں ہوسکتی.اور اسلام کی ابتداء تو ایک ایسی قوم سے ہوئی تھی جو کچھ بھی نہیں جانتی تھی.اس لئے اسے قدم قدم پر سیکھنا اور ہر ایک بات کو سمجھنا پڑا.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ یا رسول اللہ آپ مجھے سوائے اپنی جان کے سب چیزوں سے پیارے ہیں.چونکہ انہیں اس وقت تک علم کامل نہ تھا اس لئے یہ کہا.رسول کریم

Page 414

خطبات محمود جلد (5) ۴۰۳ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا.جب تک کہ تمہاری جان سے بھی میں تمہیں پیارا نہ لگوں کے یہ سنکر حضرت عمرؓ نے کہا.اچھا یا رسول اللہ اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی پیارے ہیں.حضرت عمرؓ کے اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے علم کی کمی کی وجہ سے یہ کہا تھا کہ یا رسول اللہ آپ مجھے اپنی جان کے سوا باقی سب سے پیارے ہیں.ورنہ آپ کے ایمان میں کوئی کمی اور نقص نہ تھا.کیونکہ جب آپ کو علم ہو ا تو فوراً کہدیا کہ آپ مجھے سب چیزوں سے پیارے ہیں.اگر ان کا ایمان کامل نہ ہوتا تو ان کو یہ جواب دینے میں کچھ دیر لگتی.اور ایمان کے کامل ہونے تک یہ جواب نہ دے سکتے لیکن انہوں نے فوراً کہدیا.جس سے پتہ لگتا ہے کہ ان کے ایمان میں کوئی نقص نہ تھا.صرف اس بات کا علم حاصل نہ تھا.یہ تو حضرت عمرؓ کا ذکر ہے.لیکن ہر ایک مومن کا فرض ہے کہ وہ خُدا اور اُس کے رسول کے راستہ میں ہر ایک پیاری سے پیاری اور عزیز سے عزیز چیز کو قربان کرنے کے لئے تیار رہے.اور پورے طور پر خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے میں لگ جائے.جو آیات اس وقت میں نے پڑھی ہیں.ان میں خدا تعالیٰ نے انسانی ترقی کا راستہ اور مشکلات اور مصائب سے بچنے کی راہ بتلائی ہے.اور بتایا ہے کہ کامیابی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے آپ کو اس میں اس طرح لگا دے کہ اسے اپنے آپ کی بھی ہوش نہ رہے.اور بڑے شرح صدر اور خوشی سے اس کام کو کرے.پھر اس طرح اس میں مشغول ہو کہ اس کے کرنے میں اسے خوشی ہی نہ ہو بلکہ اس میں اسے کوئی مشکل مشکل اور کوئی روک روک معلوم نہ ہو اور پھر قوم کا ہر ایک فرد ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی خواہش اور کوشش کرے.تب کامیابی حاصل ہوتی ہے.لیکن اگر یہ بات نہ ہو تو وہ خطرناک زلازل اور مصائب آتے ہیں جن کو وہ قوم برداشت نہیں کر سکتی اور تباہ و برباد ہو جاتی ہے.میں نے مثالیں دیگر بتایا تھا کہ موجودہ زمانہ میں دیکھ لو.قوموں نے جو مقصد اور مدعا قرار دیا ہوا ہے.اس کے لئے مال.جان عزیز رشتہ دار اور وطن غرضیکہ سب کچھ قربان کر رہے ہیں.اور کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتے.ہماری جماعت کا بھی ایک مدعا اور مقصد ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا.اور دوسروں کو رضا الہی حاصل کرنے کے طریق بتانا.لیکن اس مقصد کے حصول میں ہمیں اس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی.جب تک ہم اپنے آپ کو اس کلیہ کے ماتحت نہ کر دیں.جو اس وقت تک صفحہ دنیا پر چلا آیا ہے.اور وہ یہی کہ اس مقصد کے لئے ہم تمام پیاری سے پیاری اور عزیز سے عزیز چیزوں کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائیں.لیکن اگر کسی ایک چیز کو بھی اس قربانی سے باہر رکھیں تو سمجھ لینا چاہئیے کہ ہماری قربانی میں نقص آ گیا ہے.اور ہم پورے طور پر اس کلیہ کے ماتحت نہیں ہوئے.پس ہمیں چاہیئے کہ جب 1 : بخاری کتاب الایمان باب حب الرسول من الایمان.

Page 415

خطبات محمود جلد (5) ۴۰۴ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا.اور دوسروں کو کرانا ہمارا مقصد اور مدعا قرار پا گیا ہے تو اس راستہ میں کوئی چیز جو سامنے آئے اسے گرا دینا چاہیئے.اور کسی کی پرواہ نہیں کرنا چاہئے.کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کہد یتے ہیں کہ فلاں بات کا دین سے کیا تعلق ہے.لیکن اگر ان کی بات کو مان لیا جائے تو وہ تو تمام باتوں کو دین سے بے تعلق کہدیں گے.اور پھر بھی انکارین دین ہی رہے گا.ان کی مثال اس دوکاندار کی سی ہوگی جو کہتا تھا کہ میری دوکان میں سب کچھ موجود ہے.جب اس سے پوچھا گیا کہ ہلدی ہے تو کہنے لگا یہ نہیں اور سب کچھ ہے.پھر مرچیں پوچھی گئیں تو کہنے لگایہ نہیں اور سب کچھ ہے.اسی طرح جو چیز بھی دریافت کی جائے اس کے متعلق کہدے کہ یہ نہیں اور سب کچھ ہے.تو اسکی بھی دوکان ہی تھی.لیکن اس طرح کام نہیں چلا کرتے.اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ فلاں بات کا دین سے تعلق نہیں ہے.اس لئے میں اسے عمل میں نہیں لاتا تو یہ اس کی غلطی ہے.اسے چاہیئے ہر ایک چیز دین کے لئے قربان کرنے کو تیار ہے.خواہ کسی چیز کا اسے دین سے تعلق سمجھ میں آئے یا نہ آئے.اس زمانہ میں ایسی ہوا پھیل رہی ہے جسے آزادی کہا جاتا ہے.لیکن دراصل وہ غلامی سے بھی بدتر ہے.خیال کیا جاتا ہے کہ گورنمنٹ برطانیہ سے ہمارا کیا تعلق ہے.یہ ایک باہر سے آئی ہوئی حکومت ہے.پھر نہ ہمارے آدمی اعلیٰ عہدوں پر ہیں.نہ ہمیں ہمارے حقوق دیئے جاتے ہیں.اس لئے اس کی فتح و شکست کا اثر ہم پر کچھ نہیں ہے.یہ اور اس قسم کے اور خیالات فاسدہ کے ماتحت عوام میں اور خصوصا تعلیم یافتہ طبقہ میں ایک ایسی روح پیدا کی جاتی ہے کہ گورنمنٹ کی مدد کرنا فرض نہیں ہے.سیاسی طور پر یہ خیالات کہاں تک درست ہیں اس کے متعلق اس وقت کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے.کیونکہ جمعہ کے خطبے ایسی سیاست کے لئے نہیں ہوتے.جو محض دنیا سے تعلق رکھتی ہو.لیکن میں اس قدر بتا دیتا ہوں کہ گو اس قسم کے خیالات رکھنے والے لوگ سیاسی طور پر بھی غلطی اور بڑی بھاری غلطی پر ہیں.لیکن ہماری جماعت کو سیاسی طور پر اس پہلو کو نہیں دیکھنا.بلکہ اس نقطہ نظر سے دیکھنا ہے کہ اس کا دین سے کیا تعلق ہے.اگر اپنی ضروریات اور مفاد کے لحاظ سے گورنمنٹ برطانیہ کی وفادارانہ خدمت کرنا.اور اس کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھنا اور اس کی ہر ضرورت کے وقت مدد کرنا ہمارا فرض ہے تو خواہ سیاسی خیالات اس کے خلاف ہی ہوں.تو بھی ہمیں ان کو چھوڑنا پڑے گا.لیکن اگر کوئی دین کے معاملہ میں سیاسی خیالات کو مستثنی کرتا ہے.اور کہتا ہے کہ ان کا دین سے تعلق نہیں ہے.تو اسے یادرکھنا چاہیئے.اس کا دین کامل نہیں ہے کیونکہ دین کے لئے ضروری ہے کہ جس قسم اور جس چیز کو بھی قربان کرنا پڑے قربان کر دی جائے.خواہ وہ مال ہو یا اولا دخواہ وہ قرابت کا تعلق ہو یا دوستانہ خواہ وہ خیالات ہوں یا عقائد غرضیکہ ہر ایک چیز قربان کر دے.اور اگر یہ نہیں کیا جا تا تو کبھی ترقی اور کامیابی نہیں ہو سکتی.پس ہماری جماعت کے لئے اتنا کافی نہیں کہ اس

Page 416

خطبات محمود جلد (5) ۴۰۵ بات پر غور کرے کہ گورنمنٹ کے ساتھ سیاسی طور پر کیا تعلقات ہیں.بلکہ یہ کہ دینی طور پر کیا ہیں.دینی طور پر ہماری جماعت کے جو تعلقات گورنمنٹ کے ساتھ ہونے چاہئیں ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی سب سے بہتر سمجھ سکتے تھے.چنانچہ آپ نے اس کے متعلق خوب کھول کھول کر لکھا ہے.حتی کہ آپ لکھتے ہیں کہ میں نے کوئی کتاب ایسی نہیں لکھی جس میں گورنمنٹ کی وفاداری کی طرف توجہ نہ دلائی ہو.پھر فرماتے ہیں.گورنمنٹ کے سکھ کو اپنا سکھ گورنمنٹ کی تکلیف کو اپنی تکلیف گورنمنٹ کی ترقی کو اپنی ترقی گورنمنٹ کے تنزل کو اپنا تنزل سمجھنا چاہئے.یہ تو حکما ہو گیا کیونکہ ہمارے امام حضرت مسیح موعود نے خود اسکی تشریح کر دی ہے.لیکن اگر عقل و فکر سے دیکھیں تو بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہماری ترقی اس گورنمنٹ سے وابستہ ہے.مشاہدہ سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے.اسی کے مطابق دیکھ لو کہ وہ کونسی جگہ ہے جہاں احمدیت کو ترقی ہوتی ہے.کابل کی سرزمین کو دیکھو وہاں ہمارے دو آدمی محض احمدی ہونے کی وجہ سے شہید کئے گئے اور اس وقت تک بھی وہاں علی الاعلان احمدیت کا اظہار نہیں ہوسکتا.پھر ترکوں کی حکومت ہے.جس کے بادشاہ کو امیر المومنین کہا جاتا ہے وہاں ہمارا ایک آدمی کتابیں لے کر پہنچا تو اس سے کتابیں لے کر جلا دی گئیں.یہاں سے ایک اشتہار عربی میں شائع ہو ا تھا.وہ وہاں چسپاں کیا گیا تو اس پر بڑی لے دے ہوئی.اور آخر اس کو اتر واد یا گیا.یہ تو دور کی با تیں ہیں.ہندوستان میں ہی دیکھ لو.جہاں مسلمانوں کی کچھ ریاستیں باقی ہیں.جن کے متعلق حضرت خلیفہ مسیح اول فرما یا کرتے تھے کہ ان کو خد اتعالیٰ نے اس لئے باقی رکھا ہے کہ ان کو دیکھ کر معلوم ہو جائے کہ اسلامی حکومت کی یہ حالت تھی.ان میں سے ایک ریاست کا یہ حال ہے کہ احمدیوں کو مسجد بنانے تک کی اجازت نہیں دی جاتی.مندر.گرجے اور گردوارے تو بن رہے ہیں.ان کے لئے بڑی خوشی سے اجازت دی جاتی ہے.لیکن اگر اجازت نہیں دی جاتی تو احمد یوں کو مسجد بنانے کی نہیں دی جاتی.ایک اور ریاست ہے.جہاں کوئی احمدی بنا.جھٹ اس پر کوئی نہ کوئی مقدمہ کھڑا کر دیا گیا.یہ سلوک ہے.جو ہم سے کیا جاتا ہے.اس کے مقابلہ میں گورنمنٹ برطانیہ کودیکھئے.ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ ہم سے ایسا سلوک کرتی ہے جو دوسروں سے نہیں کرتی.بلکہ ہم سے بھی وہ اس طرح پیش آتی ہے.جس طرح دوسروں سے لیکن اس سے یہ نہیں ہوسکتا کہ اگر دوسروں کے دلوں میں شکر گزاری کا جذبہ نہیں ہوتا تو ہمارے دلوں میں بھی نہ ہو.کیونکہ اگر انہیں دین کی اشاعت کی ضرورت اور پر واہ نہیں ہے تو ہمیں تو ہے.پس اگر ہمارے ساتھ گورنمنٹ کا سلوک ایسا ہی ہے جیسا کہ دوسروں کے ساتھ تو اس کے یہ معنی نہیں کہ اگر وہ گورنمنٹ کے ساتھ ہمدردی نہ رکھیں اور اس کے شکر گزار نہ ہوں تو ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیئے.کیونکہ ہم سے بھی گورنمنٹ ویسا ہی سلوک کرتی ہے.جیسا کہ ان سے.یہ دلیل بالکل بے ہودہ اور لغو ہے.پھر ایک اور بات ہے اور وہ یہ کہ ان لوگوں کے لئے امن ہے

Page 417

خطبات محمود جلد (5) ۴۰۶ لیکن ہمارے لئے نہیں ہے.ہر ایک ہمارا دشمن ہے.پھر خدا تعالیٰ نے اپنے سلسلہ کی ترقی کیلئے اسی سر زمین کو چنا ہے جو گورنمنٹ برطانیہ کے ماتحت ہے.اس لئے یہی مبارکباد کے قابل ہے.اگر کوئی سلطنت اس سے بڑھ کر اچھی اور محمد ہ ہوتی تو خدا تعالیٰ اپنے سلسلہ کی نشو نما کے لئے اُسی کو چنا.لیکن خُدا تعالیٰ نے اس کو چنا ہے جو اس کی فضیلت کی ایک بہت بڑی دلیل ہے.پس یہ حکومت جس قدر وسیع ہوگی.ہمارا سلسلہ بھی وسیع ہوتا جائے گا.اور ہمیں آزادی حاصل ہوتی جائے گی.اس لئے اگر کوئی ہم سے پوچھے تو یہی کہیں گے کہ وہ علاقے جہاں ہمارے آدمی قتل کئے گئے.کل کی بجائے آج ہی گورنمنٹ برطانیہ کے ماتحت آئیں تو ہم خوش ہیں.کیونکہ ہماری ترقی گورنمنٹ برطانیہ سے وابستہ ہے اور خدا تعالیٰ کا فعل اور ہمارا مشاہدہ اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ اس گورنمنٹ کے ماتحت ہمیں کامیابی ہوگی.ہم یہ جانتے ہیں.اور یقین رکھتے ہیں کہ دوسرے ممالک میں بھی کامیابی ہوگی.مگر اس میں شک نہیں کہ وہاں بڑی بڑی تکلیفوں اور مشکلوں کے بعد ہوگی.اور صاف بات تو یہ ہے کہ وہاں خون کی آبیاری سے ہوگی.مگر یہاں اس کے مقابلہ میں کچھ تکلیف نہیں ہے.ہم نے تو اپنے ساتھ سلوک میں اتنا فرق دیکھا ہے کہ دیسی مجسٹریٹوں کے پاس حضرت مسیح موعود کا جو مقدمہ گیا ہے اس کو انہوں نے خراب ہی کیا ہے لیکن اس کے برعکس دیکھئے.ایک انگریز کے لے پاس مقدمہ جاتا ہے.اور قتل کا مقدمہ ہے.مدعی عیسائی ہے.مگر مجسٹریٹ اپنے پاس حضرت مسیح موعود کو کرسی پر بٹھاتا ہے.دوسری طرف ایک خبیث الفطرت کمپینہ اور رذیل شخص کی طرف سے مقدمہ ہے.اور فضول مقدمہ ہے.اس موقعہ پر حضرت مسیح موعود کو بیماری کا دورہ ہوتا ہے.ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں.ضعف طاری ہو جاتا ہے.وکیل مجسٹریٹ سے سے پانی پلانے کی اجازت مانگتا ہے.مگر وہ ایسی حالت میں بھی پانی پلانے کی اجازت نہیں دیتا.یہ فرق ہے انگریزوں اور دوسروں میں.پس ہمارا دل تو یہی کہے گا اور کہتا ہے کہ جن کی حکومت اور سلطنت سے ہمیں امن ملا ہے انہیں کے فوائد سے ہمیں ہمدردی ہے.پھر جب ہمارا اصل مدعا اور مقصد دین کی اشاعت ہے اور یہ گورنمنٹ برطانیہ کے ساتھ ہو کر حاصل ہو سکتا ہے تو پھر کیوں ہم گورنمنٹ کی ہر طرح سے امداد اور ہمدردی نہ کریں.فرض کر لو.گورنمنٹ کے خلاف جوش پھیلا کر اور اس سے ہمدردی نہ کر کے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں.مگر کن کو انہیں کو جنکی آنکھ میں ہم کانٹے کی طرح کھٹک رہے ہیں.اگر خدانخواستہ ان لوگوں کو پارلیمینٹ مل جائے.تو پہلا ایکٹ یہی پاس کریں کہ احمدیوں کو کاٹ ڈالو.کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب کبھی ان کا داؤ چلا ہے انہوں نے ہمیں نقصان پہنچانے میں کمی نہیں کی.اور اس کی دادرسی گورنمنٹ برطانیہ سے ہی ہوئی ہے.پس ہمیں عقل اور مشاہدہ اور حضرت مسیح موعود کی تعلیم بتا رہی ہے کہ ہمارے فوائد گورنمنٹ برطانیہ 1: کیپٹن ڈگلس ڈپٹی کمشنر گورداسپور.: - آتما رام.

Page 418

خطبات محمود جلد (5) ۴۰۷ کے ساتھ وابستہ ہیں.پھر دیکھو ہمارے لئے کس قدر تبلیغ میں آسانی ہے.گورنمنٹ برطانیہ کی وجہ سے انگریزی زبان تو کاروبار کے لئے سیکھنی پڑتی ہے.پھر اس زبان کے ذریعہ جہاں گورنمنٹ برطانیہ کی حکومت ہوو ہیں ہم تبلیغ کر سکتے ہیں لیکن اگر کسی اور حکومت میں تبلیغ کرنے کے لئے جائیں تو وہاں کی زبان سیکھنی پڑے گی.یہاں ہم انگریزی زبان کاروبار کے لئے پڑھتے ہیں.لیکن وہی تبلیغ کے کام آجاتی ہے، اور اس طرح گویا ہماری محنت آدھی رہ جاتی ہے.اب ہمارے مبلغ ماریشس اور نائیجیریا میں تبلیغ کرنے کے لئے جاتے ہیں.مگر کیوں.اس لئے کہ یہ ملک گورنمنٹ برطانیہ کے ماتحت ہیں.اور ان میں جانے کے لئے کسی اور زبان کے سیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی.انگریزی سے ہی کام ہوسکتا ہے.لیکن اگر کسی ایسی جگہ تبلیغ کے لئے جانا ہو.جہاں انگریزی زبان کام نہیں دے سکتی.تو اس کے لئے بڑی بھاری محنت اور اخراجات کی ضرورت ہوگی.تو ہر رنگ میں گورنمنٹ کی ترقی سے ہماری ترقی وابستہ ہے.پھر گورنمنٹ کے احسانات کے مقابلہ میں بھی ہمارا فرض ہے کہ اس کا حق ادا کریں.ان باتوں کے ہوتے ہوئے کوئی گندہ اور ناپاک خیالات کا ہی انسان ہو گا جو یہ کہے گا کہ گورنمنٹ کی ہمدردی کا دین سے تعلق نہیں ہے.چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ ہندوستان میں کچھ ایسے خیالات بھی پھیلے ہوئے ہیں جن کو وفادارانہ نہیں کہا جاسکتا.اور ہماری جماعت خُدا کے فضل سے چونکہ ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے اس لئے میں بار بار گورنمنٹ کی وفاداری کی طرف توجہ دلاتا ہوں.اور جس طرح حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ میں نے کوئی ایسی کتاب نہیں لکھی.جس میں گورنمنٹ کی وفاداری کی تاکید نہیں کی.یا توجہ نہیں دلائی.اسی طرح حضرت مسیح موعود نے کئی ایک کتا بیں مختلف مضامین پر لکھی ہیں.مگر وفات مسیح کا ذکر ضرور کسی نہ کسی رنگ میں ہر ایک میں کر دیا ہے.کیوں؟ اس لئے کہ جب یہ مسئلہ حل ہو جائے.پھر آپ کو قبول کرنے والے کے لئے بہت آسانی ہو جاتی ہے.تو حضرت مسیح موعود نے جو اپنی کتابوں میں اس بات پر خاص زور دیا ہے کہ گورنمنٹ کے ساتھ ہمارے تعلقات نہایت وفادارانہ ہونے چاہئیں اور ہمیں ہر طرح اس کی مدد کرنا چاہیئے.حتی کہ آپ نے یہ بھی لکھدیا ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جب صرف میری ہی جماعت گورنمنٹ کی وفادار ثابت ہوگی.یہ یونہی نہیں لکھدیا.خدا تعالیٰ کے مامور کوئی لغو کام نہیں کیا کرتے.پس اس کے متعلق یہ تو کہا نہیں جاسکتا کہ آپ نے نعوذ باللہ گورنمنٹ کی خوشامد کرنے کے لئے اس طرح لکھدیا ہے.کیونکہ اگر آپ ایسا نہ لکھتے تو آپ کو کیا خطرہ تھا.آریہ.ہندو سکھ وغیرہ تو میں بھی تو اسی ہندوستان میں رہتی ہیں.انہوں نے اگر نہیں لکھا تو انہیں کیا ہو گیا ہے.پھر ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کا رویہ گورنمنٹ کو پسند نہیں.مگر باوجود اس کے گورنمنٹ انہیں گرفتار نہیں کرتی.پھر حضرت مسیح موعود کا کوئی ایسا دعویٰ بھی نہ تھا کہ گورنمنٹ کو اس کے متعلق کوئی کاروائی کرنی پڑتی.آپ پر دشمنوں کا یہ اعتراض تھا کہ گورنمنٹ کی خوشامد کے لئے ایسا کرتے ہیں.لیکن یہ بالکل

Page 419

خطبات محمود جلد (5) ۴۰۸ غلط ہے.آپ نے گورنمنٹ کی خدمت کی اور بہت بڑی خدمت کی.مگر اس کے بدلہ میں کوئی امید نہیں رکھی.مگر باوجود ان باتوں کے آپ نے گورنمنٹ کی وفاداری پر کیوں اتناز ورد یا.اسکی سوائے اس کے کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایک زمانہ ایسا آنا تھا.جبکہ گورنمنٹ کے خلاف بعض لوگوں کے خیالات پھیلنے تھے.آپ نے ۱۸۹۸ء میں لارڈ ایلیجن کو لکھا تھا کہ مذہبی مباحث کے لئے ایسے قواعد پاس ہونے چاہئیں جن کی وجہ سے امن میں خلل واقعہ نہ ہو.اور اس کے متعلق کچھ تجاویز بھی پیش کی تھیں.لیکن اس وقت چونکہ ایسے حالات نہ تھے اس لئے ان پر توجہ نہ کی گئی.مگر ۱۹۱۴ ء میں ان کو تسلیم کرنا پڑا.الد پس حضرت مسیح موعود نے جو گورنمنٹ کے متعلق وفادارانہ خیالات رکھنے کے متعلق اس قدر کوشش کی کہ مشورے دیئے.اس کی ترقی کے لئے دعائیں کیں.اپنی کتابوں میں بار بار توجہ دلائی.تو یہ یونہی نہیں تھا.بلکہ ایک پیشگوئی کے ماتحت تھا.کیونکہ ایک ایسا زمانہ آنا تھا.جبکہ لوگوں کے خیالات میں تبدیلی ہوئی تھی.مگر حضرت مسیح موعود نے اس سے پیشتر ہی آگاہ کر دیا کہ تم اس سے متاثر نہ ہونا اور گورنمنٹ کے متعلق اپنے وفادارانہ اور ہمدردانہ خیالات رکھنا.پس میں بھی حضرت مسیح موعود کے تتبع میں اپنی جماعت کے لوگوں کو آگاہ کرتا رہتا ہوں اور اب بھی کرتا ہوں کہ اس زمانہ میں جو نا پاک اور گندے خیالات پھیل رہے ہیں.ان سے پورے طور پر بچیں.اور نہ صرف خود ہی بچیں.بلکہ دوسروں کو بھی بچائیں.بعض رؤیا ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے ایک حصہ کا پورا کرنا انسان کا کام ہوتا ہے.دیکھو یہ منارہ ایک پیشگوئیوں کے پورا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود نے بنوانا شروع کیا تھا.جس پر پچیس ہزا روپیہ صرف ہوا ہے.تو پیشگوئی کے بعض حصے ایسے ہوتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ پورا کرتا ہے اور بعض ایسے جو انسانوں کے ذریعہ پورے ہوتے ہیں.اب اسوقت خدا تعالیٰ نے اپنا حصہ تو اس طرح پورا کر دیا ہے کہ ایک ایسی لہر پیدا کر دی ہے جس سے لوگوں کے خیالات میں تغیر واقعہ ہو گیا ہے.اب دوسرا حصہ ہمارے ساتھ تعلق رکھتا ہے.اور وہ یہ کہ ایسے موقعہ پر ہماری جماعت پوری پوری وفادار ثابت ہوگی.پس میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس قسم کے خیالات سے اپنے آپ کو بکلی بچائے.جو گورنمنٹ کے خلاف ہوں.اور پھر ان کے مٹانے کی پوری پوری کوشش کرے.خصوصا وہ لوگ جو مدرس ہیں خواہ یہاں کے سکولوں کے یا باہر کے.انکی زیر نگرانی جو طلباء ہوں وہ ان میں گورنمنٹ کی وفاداری کا بیج بوئیں.طلباء کے دلوں میں بویا ہؤا بیج خوب پھل لاتا ہے.گورنمنٹ نے اس بات کو مانا ہے.کہ وہ اسکمیٹیشن سخت خطر ناک ہوتی ہے جو طالب علموں کے ذریعہ پھیلائی جاتی ہے.چنانچہ بنگال کے گورنر نے اپنی ایک تقریر میں یہی کہا ہے.اس کے مقابلہ کے لئے ہمیں بھی وہی ذریعہ اختیار کرنا چاہئیے.یعنی طلباء کے دلوں میں پورے زور

Page 420

خطبات محمود جلد (5) ۴۰۹ کے ساتھ گورنمنٹ کی وفاداری کے خیالات بٹھانے چاہئیں.اور جس کو وہ غلطی سے آزادی سمجھتے ہیں.حالانکہ وہ آزادی نہیں بلکہ نفس کی قید ہے اس سے انہیں آزاد کرنا چاہیئے.آجکل جس کو آزادی کہا جاتا ہے.وہ ایک سخت خطرناک قید ہے.ان ملکوں کو دیکھو جہاں اس قسم کی آزادی پائی جاتی ہے.اور ان کا گورنمنٹ برطانیہ سے مقابلہ کرو.وہ ملک کیوں تباہ اور برباد ہو رہے ہیں.اسی لئے کہ وہ ایک ناجائز بات کو آزادی قرار دے رہے ہیں.اور ایک دوسرے کی بات نہیں مانتے جو جی چاہتا ہے کرتے ہیں.کیا یہ آزادی کہلا سکتی ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ تو تباہی اور ہلاکت کے سامان ہیں.لیکن چونکہ طلباء نوجوان ہوتے ہیں.اور انہوں نے تازہ تازہ تاریخیں پڑھی ہوتی ہیں.جن کے واقعات کو وہ اچھی طرح سمجھے نہیں ہوتے.اس لئے جوش میں آکر ناروا باتوں کے مرتکب ہو جاتے ہیں.پس ہماری جماعت کے مدرسوں کا خصوصا اور دوسرے لوگوں کا عموما یہ فرض ہے کہ ایسے لوگوں کے خیالات کی اصلاح کرتے رہیں.چونکہ ہمارا کام دین کی اشاعت ہے اور وہ وابستہ ہے گورنمنٹ برطانیہ سے اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو گورنمنٹ کی مدد اور تائید کریں.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کی توفیق اور سمجھ دے کہ حضرت مسیح موعود کی باتوں کی تصدیق کرے.اور ان کو پورا کر کے خُدا تعالیٰ کے انعامات حاصل کرنے کی اہل بنے.آمین (الفضل ۶ / مارچ ۱۹۱۷ء)

Page 421

۴۱۰ 50 خطبات محمود جلد (5) اپنے فرائض ادا کرو فرموده ۹ / مارچ ۱۹۱۷ء تشہد وتعوذ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:.الم ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ : هُدًى لِلْمُتَّقِينَ O الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ، وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ، أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ LO بعد ازاں فرمایا:- ایک جماعت ایسی ہوتی ہے جو اپنے منہ سے اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ فلاں فلاں قواعد و قوانین کی میں اتباع کروں گی.کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ان قواعد و قوانین کی اتباع کا اقرار نہیں کرتے.یہ لوگ بھی جو ان قواعد کو تسلیم نہیں کرتے.ان کی خلاف ورزی کرنے پر مجرم ہوتے ہیں.لیکن جو اقرار کر کے پھر ان قواعد پر عمل نہیں کرتے وہ زیادہ مستحق سزا ہوتے ہیں.جن لوگوں نے قواعد کو تسلیم ہی نہیں کیا ہوتا.ان کی طرف سے کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ابھی قواعد بنانیوالی حکومت و طاقت کے اختیار کو ہی تسلیم نہیں کیا.وہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی کوئی حکومت ہے ہی نہیں جو ہمارے لئے قواعد منضبط کرے.اگر ہے تو اسے اختیار ہی نہیں کہ ہمارے لئے کسی قسم کے قواعد بنائے.اس لئے ان لوگوں کا انکار تصفیہ حقوق کے لئے ہے.مگر جوان قواعد کو مان کر انکار کرتے ہیں وہ بغاوت کرتے ہیں.ان دونو گروہوں میں فرق ہے.اول گروہ جس نے ابھی قواعد کو تسلیم نہیں کیا اس کے افراد تو کہتے ہیں کہ ہم ماننے کے لئے تیار ہیں.مگر ہمیں یہ تو سمجھا دیا جائے کہ آپ کو ان قوانین کے بنانے کا اختیار بھی ہے.پس جب آپ یہ ثابت کر دیں گے تو ہم مان لیں گے.مگر دوسرے گروہ کی حالت بالکل : البقره: ۲ تا ۶

Page 422

خطبات محمود جلد (5) ۴۱۱ اس کے مخالف ہے.اس کے افراد کہتے ہیں کہ بے شک آپ کو اختیار ہے کہ آپ قواعد بنا ئیں اور ہم سے منوائیں.اور ہم اس بات کو مانتے ہیں.مگر ان پر عمل نہیں کریں گے.پس جنہوں نے تصفیہ حقوق نہیں کیا ہوتا ان کی نسبت وہ لوگ زیادہ مستحق سز او عقوبت ہوتے ہیں جو حکومت کو مانتے ہوئے پھر اس کے احکام کا انکار کرتے ہیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ایک راجہ لاے کا قصہ بیان فرمایا کرتے تھے.اُس نے آپ سے کہا.مولوی صاحب آپ نے بھی کوئی بہت رکھا ہوا ہے یا نہیں.آپ نے فرمایا نہیں راجہ صاحب ہم نے تو کوئی بت نہیں رکھا ہوا ہے.اس نے کہا مولوی صاحب کوئی تو ہوگا.فرمایا نہیں کوئی بھی نہیں حیران ہو کر کہنے لگا.مولوی صاحب سچ سچ کوئی بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا.راجہ صاحب سچ سچ کوئی نہیں کہنے لگا.مولوی صاحب میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ اور کوئی بت رکھیں یا نہ رکھیں مگر ڈرگا کا ضرور رکھ لیں.اس کا رکھنا نہایت ضروری ہے.آپ نے فرمایا.راجہ صاحب! ہم تو کسی درگا وغیرہ کے قائل نہیں.اور نہ اس کا بت رکھتے ہیں.راجہ صاحب نے کہا.مولوی صاحب اب میں سمجھا کہ کیوں آپ کو یہ نقصان نہیں پہنچا سکتے.آپ تو ان کی حکومت میں ہی نہیں ہیں اسلئے وہ آپ کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتے.مگر ہم تو ان کی حکومت میں ہیں.اگر ہم ان کے خلاف کریں تو وہ ضرور ہم کو نقصان پہنچاتے ہیں.اسکی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی ہماری ریاست میں رہ کر ہمارے قوانین کے خلاف کرے تو ہم اس کو سزا دے سکتے ہیں.مگر جو ریاست کے باہر جا کر ہمارے قوانین کے خلاف کرے ہم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے.ہے اس کی یہ بات درست نہیں.کیونکہ بت کوئی چیز نہیں ہیں.مگر جس اصل کے ماتحت اس نے بیان کی ہے وہ درست ہے کہ جب کوئی کسی کو تسلیم ہی نہیں کرتا اور اس کی حکومت سے ہی باہر ہوتا ہے.تو وہ اسے کوئی سز انہیں دے سکتا.مگر جو حکومت کو مانتا ہوا اس کے خلاف کرتا ہے اس کو ضرور سزا دی جاتی ہے.فقہائے اسلام میں اس بات پر بحث ہوئی ہے کہ کفار پر اوامر شرعیہ کا بجالا ناواجب ہے یا نہیں.ان میں سے جو محققین ہیں وہ اس طرف گئے ہیں کہ مسلمان جو شریعت کی حکومت کو تسلیم کرتے ہیں.ان پر تو بے شک احکامِ شرعیہ کی بجا آوری فرض ہے.مگر جو شریعت اسلام کو ہی نہیں مانتے وہ احکام شریعت کے ماننے پر مکلف نہیں.ان سے صرف یہ مطالبہ ہو گا کہ تم نے اسلام کیوں قبول نہیں کیا.مگر ایک مسلمان سے یہ سوال ہوگا کہ تم نے اسلام تو قبول کیا.مگر اسلام نے جو احکام بتائے تھے ان کو تم نے کیوں تسلیم نہیں کیا.ا: مہاراجہ کشمیر.ہے :- مرقاۃ الیقین فی حیاة نورالدین

Page 423

خطبات محمود جلد (5) ۴۱۲ بہت دفعہ جب مسلمانوں کو کہا جاتا ہے کہ تم پر جو ذلت و نکبت واد بار آرہا ہے وہ اسلئے ہے کہ تم نے اسلام کو پس پشت ڈال دیا ہے.اور شریعت اسلام کی پابندی کو چھوڑ دیا ہے تو وہ اکثر یہ کہتے ہیں کہ اگر ہمارا ان عذابوں اور ذلتوں میں گرفتار ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ ہم نے اسلام کے احکام کی پابندی کو چھوڑ دیا ہے.تو عیسائی.موسائی اور دیگر اقوام جو ہر بات میں روز افزوں ترقی کر رہی ہیں ان کی ترقی کا کیا سبب ہے.حالانکہ ہم لوگ تو اسلام کی صداقت کو مانتے ہیں.مگر وہ تو اس کے نام تک سے متنفر ہیں.پھر وہ کیوں دن بدن ترقی کر رہے ہیں.اس سے معلوم ہوا کہ ہماری ذلّت واد بار کواحکام اسلام کی نافرمانی کا باعث قرار دینا کسی طرح درست نہیں ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ جو ترقی کر رہے ہیں انہوں نے اسلام کو قبول ہی نہیں کیا اور اسلام کو قبول نہ کرنے کی سزا ان کو اس جہان میں نہیں بلکہ اگلے جہان میں ملے گی.اس جگہ جو کسی کو سزا ملتی ہے تو وہ حق کے مقابلہ اور شرارت کے باعث ملتی ہے.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود اسی مسجد سے گھر کی طرف جارہے تھے.جب اُس بڑے مکان کے بالمقابل پہنچے تو اپنی چھڑی کو زمین پر مارتے جارہے تھے اور فرماتے تھے کہ اگر یہ لوگ میری اور میری جماعت کی مخالفت میں شرارت اور فتنہ کو چھوڑ دیں تو خُدا تعالیٰ ضرور ان کو طاعون سے نجات دیدے کیونکہ خدا تعالیٰ نہ ماننے پر اس دنیا میں سزا نہیں دیتا.بلکہ آخرت میں دیتا ہے اور یہاں اُس وقت سزا دیتا ہے جبکہ لوگ شرارت اور فتنہ پردازیوں سے حق کا مقابلہ کرتے ہیں.مسیحیوں کا ترقی کرنا اس لئے ہے کہ وہ اسلام کو سرے سے مانتے ہی نہیں اور مسلمانوں کا عذابوں میں گرفتار ہونا اس لئے ہے کہ وہ بغاوت کے مرتکب ہیں.یعنی اسلام کو مان کر پھر اس کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں.اس لئے خُدا ان کو سزا دیتا ہے.اور اگر مسلمانوں کو ان کی اس بغاوت کی کوئی سزا نہ ملتی.تو حق و باطل کی تمیز ہی اُٹھ جاتی.اب ان کو سزا ملنے سے پتہ لگتا ہے کہ کوئی خُدا ہے جو دیکھ رہا ہے.اگر اس کی بات کو مان کر پھر اس کی خلاف ورزی کی جائے تو وہ سزا دیتا ہے.لیکن جو اس کے احکام کو ہی نہیں مانتے ان کے لئے بھی سزا ہے.مگر وہ اور قسم کی ہے.اور آخرت میں ملتی ہے.وہ جو مان کر انکار کرتے ہیں.ان کو یہیں سزا دی جاتی ہے.پس یہ اصل ثابت شدہ ہے کہ جب کوئی قوم خُدا کے قوانین کو چھوڑ دیتی ہے تو خدا تعالیٰ ایک نبی کو بھیجتا ہے.جب وہ قوم اس کا مقابلہ کرتی ہے اور شرارت اور فتنہ سے اس کے مقابلہ میں کھڑی ہو جاتی ہے.اور اس سے گستاخی سے پیش آتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو اپنے عذاب میں پکڑ لیتا اور سزا دیتا ہے.مگر یہ عذاب اس کی شرارت اور گستاخی کے باعث ہوتا ہے نہ اس لئے کہ اس نے اس نبی کو کیوں تسلیم نہیں کیا؟

Page 424

خطبات محمود جلد (5) ۴۱۳ اس اصل کے ماتحت میں جماعت کے تمام لوگوں کو خواہ وہ قادیان کے رہنے والے ہوں یا باہر کے.متوجہ کرتا ہوں کہ تم نے ایک نبی کے ذریعہ اسلام کے احکام پر عمل کرنے کا تہیہ کیا ہے مگر دوسروں نے اس نبی کے ہاتھ پر کوئی اقرار نہیں کیا.تم نے یہ اقرار کیا ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کریں گے.مگر انہوں نے اس قسم کا کوئی عہد نہیں باندھا.اگر چہ وہ اس نبی کو نہ ماننے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے مواخذہ کے نیچے ہیں.مگر تم جنہوں نے یہ عہد کیا ہے.اگر اس کے خلاف کرو گے تو بہت زیادہ سزا کے مستحق بنو گے.اگر وہ ادھر توجہ نہ کریں تو انہیں اس پر سز انہیں دی جائے گی.کیونکہ وہ اس سے بری ہیں کہ عہد باندھ کر اس کے خلاف کر رہے ہیں.مگر ہماری جماعت کے لوگوں نے تو یہ عہد کیا ہے کہ یہ اپنی جان.اپنے مال.اپنے آرام کو خُدا کی راہ میں قربان کریں گے.پھر اگر تم اپنی خوشی سے اس عہد کو پورا نہیں کرو گے.اور خُدا کے عہد کو فراموش کر دو گے تو وہ زبردستی پورے کرائے گا.اور اس وقت تم کچھ نہیں کر سکو گے.تھوڑا ہی عرصہ ہوا گورنمنٹ برطانیہ کے وزراء نے اعلان کیا تھا کہ گورنمنٹ کو قرضہ کی ضرورت ہے.اگر خوشی سے روپیہ دو تو بہت اچھی بات ہے.اس پر علاوہ خوشنودی سرکار کے سود بھی بہت دیا جائے گا.لیکن اگر اپنی خوشی سے روپیہ نہیں دو گے تو پھر گورنمنٹ اس قسم کے قوانین بنائے گی کہ مجبوراً تم کو روپیہ دینا پڑے گا.اور پھر سود بھی اس شرح سے نہیں دیا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے دو قسم کے ابتلاء ہیں.ایک تو وہ جو خدا تعالیٰ خود انسان کو اختیار دیتا ہے کہ تم خود اپنے اوپر وار د کر لو.جیسے نماز ہے.سردی کا موسم ہے.وضو کرنا ہے.ٹھنڈے پانی کو اگر گرم کر لیا جائے تو کوئی ممانعت نہیں.جس طرح انسان آرام دیکھے کر سکتا ہے.پھر روزہ ہے.موسم سخت ہے اس کے لئے انسان ایسا انتظام کر سکتا ہے کہ بھوک نہ لگے.ایسی مقوی غذا ئیں کھائے جو اسے ناطاقت نہ ہونے دیں.یا ایسی ثقیل خوراک کھائے جو شام تک ہضم ہو.پھر زکوۃ ہے کہ انسان سال بھر میں ایک دفعہ اپنے مال کا کچھ حصہ خُدا کی راہ میں دیدے.پھر حج ہے اس کے لئے یہ نہیں کہ ہر سال کوئی حج کرے بلکہ تمام عمر میں ایک دفعہ جب موقعہ ملے.اور فراغت دیکھے تو حج ادا کر دے یہ ایسی ریاضتیں ہیں جن کے ادا کرنے کا انسان کو اختیار دیا گیا ہے.اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسا کہ کوئی استاد اپنے شاگرد کو کہے کہ تم اپنے آپ کو اتنے بید لگا لو.جب وہ خود لگائے گا تو اُستاد کی نسبت ضرور ہی ہلکے لگائے گا.جب انسان اس تکلیف کو اپنے لئے پسند نہیں کرتا جس کا اُسے اختیار دیا جاتا ہے اور اس کو اپنے پر وارد نہیں کرتا تو پھر خدا تعالیٰ خود سزا دیتا ہے.اور پھر وہ سزا بہت سخت ہوتی ہے.جیسے جب کوئی لڑکا خود اپنے تئیں بیدنہ مارے تو پھر اُستاد خود مارتا ہے اور اس نرمی اور احتیاط سے نہیں مارتا جس سے خود وہ لڑکا اپنے تئیں سزا دے سکتا تھا.اسی طرح جب انسان خُدا کے

Page 425

خطبات محمود جلد (5) ۴۱۴ مقرر کردہ پہلے ان ابتلاؤں کو جو خُدا نے اس کے اختیار میں دے رکھے ہیں اپنے پر وار د نہیں کرتا تو خُدا خود اسے ابتلا میں ڈالتا ہے.اگر وہ ٹھنڈے پانی کی وجہ سے نماز ادا کرنے سے جی چراتا ہے جسے وہ گرم بھی کرسکتا تھا تو اُسے ایسے ٹھنڈے پانی میں غرق کر دیا جاتا ہے جس سے وہ بھی نکل نہیں سکتا.اور اگر وہ اپنی خوشی سے خُدا کے لئے ۱۲ گھنٹے فاقہ برداشت نہیں کر سکتا تو خدا اس کو ایسے فاقہ میں ڈال دیتا ہے کہ اسے مانگنے سے بھی کچھ نہیں ملتا.پھر اگر وہ خدا کی رضا کے لئے اپنی خوشی سے زکوہ نہیں دیتا تو خدا اس کا سارا مال برباد کر دیتا ہے اور وہ دیکھتا رہ جاتا ہے.پھر اگر انسان خود اپنی خوشی سے خدا کی راہ میں عمر بھر میں باوجود ہر قسم کی سہولتوں اور ہر قسم کے امن و امان کے ایک دفعہ بھی حج نہیں کرتا تو خُدا ایسی جلا وطنیوں میں ڈال دیتا ہے کہ اسکو اپنے وطن کا کچھ پتہ نہیں رہتا.لیکن اگر یہ خود بخود اپنے لئے ان سزاؤں کو جو اس کے اختیار میں خُدا نے رکھی ہیں تجویز کر لے تو اس پر کوئی بوجھ نہیں ہوگا.بلکہ اس حالت میں خدا تعالیٰ اس کا ممد و معاون ہوتا ہے.ہاں اگر وہ اُن ابتلاؤں سے جی چرائے تو اس کے لئے کوئی مرد نہیں رہتا.پس میں اپنی جماعت کے لوگوں کو وہ عہد یاد دلاتا ہوں جو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر کیا کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کریں گے.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کام مقرر فرمائے ہیں ان میں سے تبلیغ ہے.مدرسہ ہے.رسالہ ہے لنگر ہے وغیرہ وغیرہ.ان کی ضرورت دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہے.چاروں طرف سے مبلغوں کے مانگنے کی صدائیں آ رہی ہیں.ان کاموں کو چلانے کے لئے حضرت مسیح موعود نے ہر ایک احمدی پر اس کی حیثیت کے مطابق چندہ مقررفرمایا ہے جس کا ادا کرنا ہر ایک پر فرض ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد کے ماتحت بہت سے ایسے ہیں جو اپنی حیثیت سے بھی بڑھ کر چندہ دیتے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جو حیثیت کے مطابق دیتے ہیں.اور بہت سے ایسے ہیں جو حیثیت سے کم لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جو مطلق کچھ نہیں دیتے.میں ایسے لوگوں کو یہ اصل یاد دلاتا ہوں کہ تم نے حضرت مسیح موعود کے دست مبارک پر اقرار کیا ہوا ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کریں گے.لیکن اگر تم اس اقرار کو پورا نہیں کرو گے تو بتلاؤ کہ پھر تم سزا کے مستوجب ٹھہرو گے یا نہیں.ضرور تم سزا کے مستوجب ٹھہرو گے.یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسی کہ گورنمنٹ کے وزراء نے کہی کہ اگر تم خوشی سے گورنمنٹ کو قرض دو تو سود ملے گا.اور اگر نہیں دو گے تو پھر ایسے قوانین بنائے جائیں گے جن کے ماتحت تم کو مجبور ادینا پڑے گا.اور اس وقت تم کو اس شرح سود سے بھی جو اسوقت دیا جاتا ہے نہیں دیا جائے گا.پس یہی حال یہاں بھی ہوگا.اگر اپنے عہدوں کو یاد کرو اور خوشی سے ان کاموں کو انجام دیتے رہو جو خدا کا مسیح تم پر مقرر کر گیا ہے تو بڑا نفع اور بڑا فائدہ پاؤ گے.

Page 426

خطبات محمود جلد (5) ۴۱۵ اور اگر اپنی خوشی سے ایسا نہیں کرو گے تو مجبور کر کے تم سے لیا جائے گا.اور اس وقت تمہارے لئے کوئی اجر نہ ہوگا.خدا تعالی کی راہ میں جو کچھ دیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بھی قرض سے ہی تعبیر فرماتا ہے.کہ اگر تم ہم کوقرض دو گے تو ہم تمہیں بہت سود یعنی نفع دیں گے لے لیکن اگر خدا کے دین کے لئے نہیں دو گے تو پھر اپنے مال کار کی طرف دیکھو اور اس سزا پر غور کر وج مان کر اس کے خلاف کر نیوالوں کے لازم حال ہے.گورنمنٹ تو زیادہ سے زیادہ پانچ فیصد سود دیتی ہے.لیکن خدا کو قرض دینے والے کو جو نفع خدا کی طرف سے ملتا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے.غرض خُدا کی طرف سے ملنے والے نفع کو اس نفع سے کچھ نسبت نہیں ہے پس اگر تم خُدا کی راہ میں خوشی سے اپنے مال قربان نہیں کرو گے تو یاد رکھو کہ تمہارے مال تمہارے کسی کام نہیں آئیں گے.کیونکہ اگر کوئی خُدا کے لئے اپنے مال کو قربان نہیں کرتا تو اس کو مجبوراً چھوڑنا پڑے گا.اور اگر کوئی خدا کے لئے اپنے تعلقات کو قربان نہیں کرتا تو اس کو تمام تعلقات مجبوراً قطع کرنے پڑیں گے.پس جب تک تمہارے اختیار میں ہے.خوشی سے کرو.اور اگر اپنی خوشی سے نہ کرو تو پھر خدا تعالیٰ تم سے مجبوراً کرائیگا.میں اپنی جماعت کو اس کے عہد یاد دلاتا ہوں.اس وقت خُدا کے دین کیلئے جانوں کی ضرورت نہیں بلکہ مال کی ضرورت ہے اور تم نے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کریں گے.پس خوشی سے دین کے کاموں میں حصہ لو.اور بڑھ بڑھ کر قدم آگے بڑھاؤ.اس کے بدلہ میں تمہارے لئے بڑے بڑے اجر ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (السجده: ۱۸) اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ لا عين رأت ولا اذن سمعت ولا خطر على قلب بشر ۲.پس اگر ہم خوشی سے ان فرائض کو انجام دیں گے تو ہمارے لئے بڑے انعامات ہیں.لیکن اگر خوشی سے ادا نہ کریں گے تو پھر خود ہی سمجھ لو کہ کیا ہو گا.جس طرح کوئی ایسا نفع نہیں جو خُدا نہ دے سکتا ہو.اسی طرح کوئی سزا ایسی نہیں جو وہ نہ دے سکتا ہو.خدا تعالیٰ ہمارے کاموں کو دن بدن بڑھا رہا ہے اور ان کا بڑھنا بتلاتا ہے کہ ہم اس کو برداشت کر سکتے ہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.لا يكلف الله نفسًا إِلَّا وسعھا.اگر ہم برداشت نہ کر سکتے تو وہ ہم پر اور بوجھ نہ ڈالتا ہ جدا بات ہے کہ ہم شستی کریں اور اس کو اچھی طرح نہ سنبھالیں.ابھی نائیجیریا میں ایک سو سے زیادہ احمدی ہوئے ہیں.ہمارا تو کوئی آدمی وہاں نہیں گیا.خُدا نے خود ہی ان کو احمدیت کی طرف راہ نمائی کی ہے.وہ لوگ اب مبلغ چاہتے ہیں.اگر اُن کو مبلغ نہ دیا جائے تو وہ اور ترقی نہیں کر سکتے.پس ان کے لئے فوراً آدمی چاہیئے.اسی طرح اور کئی جگہوں کے لئے مبلغوں کی ضرورت ہے.پس تم خدا تعالیٰ کے دین کی نصرت کے لئے اُٹھ کھڑے ہو.خدا تعالیٰ سے دُعا ہے کہ ہمیں ان سب فیوض کے حاصل کرنے کی توفیق دے.جو راستبازوں کے لئے ہیں.اور پہلے انبیاء کی جماعتوں کو ملے ہیں.اللہ تعالیٰ ایسا ہی کرے.آمین.(الفضل ۱۳ مارچ ۱۹۱۷ء) ان - ممَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً (البقرہ:۲۴۶) :.بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورہ سجدہ.

Page 427

۴۱۶ 51 خطبات محمود جلد (5) خُدا تعالیٰ کے نزدیک بڑائی کا معیار تقویٰ ہے فرموده ۱۶ مارچ ۱۹۱۷ء تشہد وتعوذ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی :.اِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَهُمْ جَنَّتُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُهُ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُه (البروج :۱۱، ۱۲ ) اور فرمایا:- انسان فخر اور بڑائی کے عیب میں جب مبتلا ہو جاتا ہے تو بہت سے گناہ اس سے سرزد ہوتے ہیں.منجملہ ان کے دوسروں کی عیب چینی بھی ہے.اللہ تعالیٰ کو وہ انسان جو عیب چین ہو اور کسی مومن کوفتنہ میں ڈالے پسند نہیں ہے.اس میں شک نہیں کہ جو انعامات خُدا تعالیٰ بندوں کو دیتا ہے.وہ محض اپنے فضل اور احسان سے ہی دیتا ہے.دیکھو ایک نماز پڑھنے والے کو نماز پڑھنے کی طاقت کہاں سے ملی ہے.ظاہر ہے خدا تعالیٰ سے.انسان کی آنکھیں ہیں.اس کا دل ہے.انگلیاں ہیں.غرض جتنے وہ اعضاء ہیں جن کو انسان عبادت میں لگاتا ہے.وہ اللہ تعالیٰ کی بخشش اور انعام ہیں.اس لئے ان کے ذریعہ سے جو نتیجہ برآمد ہوگا وہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہی ہے.اور یہ ایسی ہی بات ہے کہ جس طرح کسی کو کوئی کچھ چیزیں دے اور کہدے کہ تم ہماری ان دی ہوئی چیزوں کو خرچ کرو.اور ان سے فائدہ اٹھاؤ.اب جب وہ ان سے فائدہ اٹھائے گا تو اس کا دینے والے پر کوئی احسان نہیں ہوگا.بلکہ دینے والے کا اس پر احسان ہوگا.اسی طرح انسان جب خدا تعالیٰ کی دی ہوئی چیزوں کو اسی کی راہ میں صرف کر کے انعام حاصل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس انعام کا نام جزاء رکھتا ہے.جو کہ اس کا احسان اور محض بندہ نوازی اور اپنے غلاموں کی قدر افزائی ہے کہ اس کا نام جزار کھتا ہے.کیونکہ ہماری اپنی تو کوئی چیز نہیں.ہر ایک چیز اسی کی دی ہوئی ہے.

Page 428

خطبات محمود جلد (5) ۴۱۷ غرض جس قدر نیکیاں ہیں.وہ سب در حقیقت خدا تعالیٰ کا احسان ہیں.انسان کی ہنرمندی کا ان میں کچھ بھی دخل نہیں لیکن پھر بھی خدا تعالیٰ ان کا نام جزار کھتا ہے.جو صرف قدر افزائی اور مزید احسان کرنے کے لئے ہے.بعض لوگوں کا بعض پر کسی قسم کا حق ہوتا ہے.جس کے لینے کے وہ اس لئے حقدار ہوتے ہیں کہ انہوں نے فی الواقعہ ان کا کوئی کام کیا ہوتا ہے.مگر خدا تعالیٰ جو انسان کے کاموں کا اجر دیتا ہے.وہ اس لئے نہیں دیتا کہ انسان اس کا کوئی کام کرتا ہے.بلکہ وہ صرف اس لئے انسان کا حق کہلاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے او پر اُس کو مقرر کر لیا ہے.اور خود اس کا نام حق رکھ دیا ہے.ورنہ بندہ کا خدا تعالیٰ پر کیا حق ہے.اگر کوئی انسان فرائض بھی ادا کرتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کا کوئی کام نہیں کرتا کیونکہ وہ سب طاقتیں جن کے ذریعہ فرائض کو پورا کرتا ہے انسان کو خُدا ہی کی دی ہوئی ہیں.پس فرائض کے ادا کرنے میں جو اجر خدا تعالیٰ دیتا ہے اگر چہ وہ اس کا نام جزار کھتا ہے لیکن دراصل وہ بھی اس کا احسان اور انعام ہی ہے.غرض انسان کو جو اجر بھی ملتا ہے وہ سب خُدا کی طرف سے انعام اور احسان ہوتا ہے اگر کوئی انسان اس پر بے جا فخر کرے اور دوسروں پر جن کو وہ چیز نہیں ملی ہوتی ہنسی اور ٹھٹھا کرے تو پھر اس سے بھی وہ چھین لی جاتی ہے.دیکھو ایک بچہ کوکوئی مٹھائی یا کوئی اور ایسی چیز دی جائے جس کا دوسرے بیمار بچے کو دینا مناسب نہ ہو.اور وہ بچہ اس بیمار کے پاس جائے اور اس کو وہ چیز دکھا دکھا کر چڑائے اور رُلائے تو ماں باپ ہرگز یہ پسند نہیں کریں گے کہ اس کے پاس وہ چیز رہنے دیں.بلکہ اس سے فوراً چھین لیں گے.تاکہ دوسرے بچہ کو تنگ نہ کرے.اسی طرح اگر کسی شخص کو خدا تعالیٰ نے کوئی درجہ یا مرتبہ دیا ہو.یا کوئی اور انعام اس پر کیا ہو.اور وہ اس پر فخر کر کے اللہ تعالیٰ کی دوسری مخلوق کو چڑائے اور ان کی تذلیل و تحقیر کرے تو خدا وند کریم بھی جو اپنی مخلوق کے ساتھ ماں باپ سے بھی کہیں زیادہ محبت اور پیار رکھتا ہے اس سے اپنے انعام واپس لے لیتا ہے تا کہ وہ اس کی مخلوق کی تحقیر نہ کر سکے.اس ملک ہندوستان میں بڑے بڑے گھرانے ایسے گذرے ہیں جو اپنے رتبہ اور درجہ کے گھمنڈ میں یا خدا تعالیٰ کے کسی اور انعام کے حاصل ہونے کی وجہ سے دوسروں کی تذلیل اور تحقیر کرتے تھے.مگر آج کوئی جا کر دیکھے کہ ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا اور انقلاب زمانہ کے ایسے چکر میں پڑے اور ایسے ذلیل ہوئے کہ اب ان کی اولا دکو کوئی جانتا تک نہیں اس کے مقابلہ میں وہ جن کی تحقیر اور تذلیل کیا کرتے تھے ان کو خدا وند تعالیٰ نے بہت بڑا اور اونچا کر دیا.ہنسی کرنے اور دوسروں کو تحقیر کی نظر سے دیکھنے والے چھوٹے ہو گئے اور جن پر ہنسی کی گئی وہ بڑے اور

Page 429

خطبات محمود جلد (5) ۴۱۸ معزز ہو گئے.کیونکہ عزت اور بڑائی کوئی ایسی چیز نہیں جو ہمیشہ ایک ہی قوم کے لوگوں کے پاس رہنے والی ہو.بلکہ سائے کی طرح پھرتی رہتی ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ آج ایک شخص معزز ہے مگر کل ذلیل ہو جاتا ہے.اور کل ایک ذلیل تھا.مگر آج اس کو خداوند تعالیٰ نے معزز بنادیا ہے.دیکھو یہی سائنسی جو آج کل مارے مارے پھرتے ہیں اور جن کی عورتیں اور بچے ہر جمعہ کو اس مسجد کے دروازوں پر تم سے بھیک مانگتے ہوئے تمہارے لئے عبرت کا نمونہ بن کر بیٹھے ہوتے ہیں.ان کے متعلق پرانی روایات سے ثابت ہے کہ ہندوؤں کے آنے سے پیشتر اس ملک کے یہی مالک اور بادشاہ تھے.جب ان کی حکومت ہوتی تھی تو یہ بھی کسی قوم سے نفرت کرتے اور اسے حقیر سمجھتے اور نیچ ذات بتاتے ہوں گے.مگر آج جو ان کی حالت ہے وہ تم دیکھ رہے ہو.کیا تم جس شخص کو ادنیٰ سے ادنی بھی خیال کر سکتے ہو وہ گوارا کرے گا کہ ان کو لڑکی دینا تو الگ رہا ان کی لڑکی لے.اسی قسم کی اور کئی قومیں ہیں.مثلاً نٹ وغیرہ.ایک زمانہ تھا کہ یہ اس ملک کے بادشاہ تھے.اپنی حکومت وسلطنت پر فخر کرتے تھے.اپنے زیر دستوں کو ذلیل و حقیر سمجھتے تھے لیکن اب دیکھو.دنیا ان کوکیا بجھتی ہے.اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فخر کرنے اور دوسرے کو ذلیل سمجھنے سے سخت ناراض ہو جاتا ہے اور وہ باتیں جن کے باعث کوئی قوم یا کوئی انسان دوسروں کو تنگ کرنے اور ذلیل کرنے کے لئے فخر کرے.چھین لیتا ہے اور پھر ایسے رنگ میں سزا دیتا ہے کہ جس کا کوئی علاج نہیں ہوسکتا.جہاں خدا تعالیٰ کی مخلوق کو حقیر کرنے کے لئے فخر کرنا خطرناک اور نہایت بُری بات ہے وہاں تکبر اور عیب چینی بھی نہایت ہی بڑے افعال ہیں.کیونکہ ان سے فتنے بڑھتے ہیں.دیکھو مذہبی تاریخ میں سب سے پہلا گناہ آبا و استکبار ہی ہے.آبى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ ( البقرہ:۳۵) خدا تعالیٰ نے ایک کو بلند کیا.اور دوسرے کو کہا کہ تم اس کی اطاعت کرو.مگر اس نے انکار اور تکبیر کیا اس لئے وہ کا فر یعنی ناشکرا ہو گیا.حالانکہ اس کو شرم کرنی چاہئے تھی.اور سوچنا چاہئے تھا کہ اگر مجھ کو کوئی رتبہ حاصل ہے تو وہ کس نے دیا ہے.اسی نے جواب اطاعت اور فرمانبرداری کا حکم دے رہا ہے.پھر اُسے دیکھنا چاہئے تھا کہ یہ رتبہ مجھے کسی اپنی محنت اور کوشش سے حاصل نہیں ہوا.بلکہ خُدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل اور احسان کے طور پر دیا ہے.پھر میں کون ہوں.جو اس رتبہ کے باعث دوسرے کو اپنے سے کم تر سمجھوں اور اس کی اطاعت سے انکار کر دوں جس کی نسبت خد اتعالیٰ حکم دے رہا ہے مگر اس نے اباء واستکبار سے کام لیا.جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خُدا نے اُسے ذلیل اور خوار کر دیا.اس نے اپنے تیں آدم کے مقابلہ میں بڑا جانا اس لئے ذلیل کیا گیا.اس نے آدم کو حقیر سمجھا.مگر خُدا نے اُسے بلند کر دیا.

Page 430

خطبات محمود جلد (5) ۴۱۹ پس استکبار سے بہت بچنا چاہئیے.دیکھو جب ابلیس نے تکبر کیا اور کہا انا خیر منہ(ص:۷۷) کہ میں اس آدم سے بہتر ہوں تو خدا تعالیٰ نے اس سے وہ بزرگی جس کے باعث اس نے یہ دعویٰ کیا تھا چھین لی.اور ہر ایک اس طرح کرنے والے سے خُدا تعالیٰ یہی سلوک کرتا ہے؟ کیوں؟ اس لئے کہ تکبر کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں پر تکبر کا اظہار کیا جاتا ہے وہ فتنہ میں پڑ جاتے ہیں.اور کسی کو فتنہ میں ڈالنے والے انسان پر خُدا تعالیٰ بڑی سخت ناراضگی کا اظہار کرتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے:.اِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُو بُوا فَلَهُمْ عَذَابٌ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ کہ جن لوگوں نے مسلمان مردوں اور عورتوں کو فتنہ میں ڈالا ان کے لئے جہنم کا عذاب اور جلنے کا عذاب ہے.پس یہ کوئی معمولی بات نہیں.بلکہ بہت بڑی بات ہے.یہی وجہ ہے کہ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ ایسا سخت عذاب بیان فرماتا ہے.لیکن بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ایسی باتوں کو معمولی اور چھوٹا خیال کرتے ہیں.لیکن جو لوگ دوسروں کی عیب چینیاں کرتے ہیں.ان کی ابتداء ابلیس سے ہے.اور انتہا جہنم ہے.پس جس کی وجہ سے کوئی شخص فتنہ میں پڑتا ہے وہ جہنم کا وارث بنتا ہے.مگر کس قدر تعجب کا مقام ہے کہ بہت سے لوگ ہیں جو شراب پینے اور چوری کرنے والوں کو حقارت سے دیکھتے ہیں.مگر جب کوئی عیب چینی کرے دوسروں کو ذلیل جانے اور ان پر اپنا فخر جتائے تو کہدیتے ہیں کہ یہ بڑا آدمی ہے.پھر ہنسی ہنسی میں دوسروں کو کمینہ اور رذیل وغیرہ کہدیتے ہیں.جس کا نتیجہ نہایت خطرناک ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُو بُوا فَلَهُمْ عَذَابٌ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ پس یہ جرم کوئی معمولی اور چھوٹا جرم نہیں.بلکہ بہت بڑا ہے اور انسان کو کافر اور جہنمی بنادیتا ہے.پھر اگر کوئی کہے کہ میں فلاں ذات کا آدمی ہوں جو بڑی معزز ہے.اور دوسرار ذیل قوم کا ہے اور اس طرح اس کی تحقیر کرے تو یہ محض جہالت اور نادانی ہے اگر کوئی خدا تعالیٰ کی نعمت کے شکریہ کے طور پر کہے تو اور بات ہے.ورنہ جو دوسروں کو حقیر سمجھ کر کہتا ہے کہ ہم مغل یا پٹھان یا سید ہیں.اور تم فلاں ذات کے ہو.جور ذیل ہے تو اس کا یہ فعل نہایت لغو اور بے ہودہ ہے.اس طریق سے اپنی ذات پر فخر کرنا میری سمجھ میں تو کبھی نہیں آیا.کیونکہ ذاتوں کی حفاظت کا صحیح ثبوت کوئی نہیں دے سکتا.بلکہ

Page 431

خطبات محمود جلد (5) ۴۲۰ تھوڑے تھوڑے عرصہ اور قریب قریب کے زمانہ کے بعد ہی فرق پڑ جاتا ہے.مثلاً ایک خاندان سید یا مغل یا پٹھان ہے.مگر افلاس نے اُسے مجبور کر دیا ہے کہ موچی کا کام کرے.اور وہ یہ کام کرنے لگ گیا ہے.اب جب دو تین پشتیں اس کام پر اس کی گذر جائیں گی تو سب لوگ انہیں موچی ہی کہنا شروع کر دیں گے.اور بعض دفعہ تو وہ لوگ خود بھی نہیں جانتے کہ ہم اصل میں کون تھے لیکن اگر جانتے بھی ہوں اور وہ کہیں کہ ہم فلاں قوم سے ہیں تو پھر کوئی ان کی بات کو باور نہیں کرتا.یہ ہندوستان میں ہی ایک نہایت نامعقول رواج ہے کہ پیشوں سے ذاتوں کی تشخیص کی جاتی ہے اس طرح بعض لوگوں کی ذاتیں تو پیشہ کے سبب سے مٹ جاتی ہیں.اور بعض خاص فوائد کے ماتحت اپنی ذاتوں کو بدل لیتے ہیں.ابتداء میں گولوگ انہیں جانتے ہیں مگر کچھ پشتوں کے بعد کوئی جانتا بھی نہیں کہ یہ لوگ اصل میں کون تھے.پس اگر کوئی موچی کا کام کرتا ہے تو فی الواقعہ وہ موچی اور رذیل قوم سے نہیں ہے.اسی طرح آج جو سید یا مغل یا پٹھان کہلاتا ہے.وہ قسم کھا کر نہیں کہ سکتا کہ فی الواقعہ وہ سید یامغل یا پٹھان ہی ہے.جب حالت یہ ہے تو پھر حیرت ہے کہ کوئی کسی پر آوازہ کے.اور کہے کہ دیکھو جی فلاں موچی تھا.آج سیّد بن بیٹھا ہے.یا فلاں جو لا ہا تھا آج پٹھان بن گیا ہے میں پوچھتا ہوں کہ اس طرح کہنے والے کو کیا فائدہ ہوسکتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے نسب کو چھپاتا ہے وہ جہنمی ہے.اب اگر کسی شخص نے فی الواقعہ اپنے نسب کو چھپایا ہے.اور کچھ اور ظاہر کرتا ہے تو وہ خود گنہگار ہے.اس کی سز اوہ خود پائے گا.لیکن اگر وہ اپنے دعوی میں سچا ہے.جس کے جھوٹا ہونے کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں تو پھر تمہارے کہنے سے اس کو جو ابتلاء آئے گا اس کے نتیجہ میں تمہارے لئے بھی جہنم ہے.کیونکہ تم اس کے ابتلاء کا موجب بنے ہو.اصل بات تو یہ ہے کہ پیشوں کا قومیت سے کوئی تعلق ہی نہیں.کیونکہ تمام ناجائز طریقوں سے کچھ حاصل کرنے کی نسبت ہر ایک پیشہ اعلیٰ درجہ رکھتا ہے.پس جو شخص کوئی ایسا پیشہ اختیار کرتا ہے جو شرعا ممنوع نہیں.اس سے اس کی ذات میں کوئی خرابی نہیں ہو سکتی.دیکھو افغان اپنے ملک میں سب کام کرتے ہیں.کوئی جوتا بناتا ہے.کوئی کپڑا بنتا ہے لیکن اس سے ان کی ذات میں کوئی نقص نہیں آتا.اور سب کو پٹھان ہی کہتے ہیں.یہی حال یورپ کا ہے.پس جب وہاں ان پیشوں کے کرنے سے ان لوگوں کی ذات میں کوئی نقص پیدا نہیں ہوتا تو پھر ہندوستان میں یہ نقص کیوں گنا جائے اور پیشوں کی وجہ سے لوگوں کی قومیت سے جو وہ بتائیں کیوں انکار کیا جائے.یہ کمال جہالت اور نادانی کی علامت ہے کہ کسی کے نسب پر اس لئے طعن کیا جائے کہ اس کا یا اس کے خاندان کا کسی پیشہ سے تعلق ہے.اگر کوئی اپنے نسب کو چھپاتا ہے تو وہ ایک گناہ کا مرتکب ہوتا ہے لیکن اگر وہ

Page 432

خطبات محمود جلد (5) ۴۲۱ درست کہتا ہے.اور اس کے پیشہ کی وجہ سے تسلیم نہیں کیا جاتا تو یہ بہت بری بات ہے.دیکھو چوری کرنا ایک گناہ ہے.شراب پینا اور بیچنا ایک ذلیل کام ہے اور اس لئے ذلیل ہے کہ شریعت نے اس کو گناہ قراردیا ہے.لیکن رزق حلال کمانا گناہ نہیں.پھر وہ طریقہ کسب معاش جو اسکے کمانے کے لئے اختیار کیا جائے.کیسے ذلیل کہا جاسکتا ہے.پس یہ لغو اور بے ہودہ بات کہنے کا کیا فائدہ کہ فلاں سید بن گیا اور فلاں پٹھان بن گیا.کسی کا اس سے کیا تعلق ہے.اگر اس نے اپنے نسب کو بدلا تو ایک گناہ کیا جس کا جواب دہ وہ خود ہوگا.دوسروں کا اس نے کیا بگاڑا ہے کہ اس کے لئے ابتلاء کا موجب بنتے ہیں.ہندوستان میں قریشیوں، اور پٹھانوں اور مغلوں کا آنا بحیثیت سپاہی کے تھا.لیکن جب زمانہ کے بدلنے کی وجہ سے ان میں سے بعض خاندانوں کی حالت خراب ہو گئی تو انہوں نے کوئی پیشہ اختیار کر لیا.تو کیا وہ یہ ذلت گوارا کرتے کہ سید یا مغل یا پٹھان ہو کر بھیک مانگتے پھرتے.اور اس طرح ان کی عزت ہی رہتی.لیکن چونکہ انہوں نے بھیک مانگنے اور دوسروں کے دست نگر ہونے کی بجائے کوئی پیشہ اختیار کر لیا اسلئے ذلیل ہو گئے.گویا جب انہوں نے حلال معاش کا طریق اختیار کیا تو ذلیل ٹھہر گئے.حالانکہ ذلت اس میں تھی کہ وہ بھیک مانگتے.اور اپنے نسبوں کو لئے پھرتے مگر اس میں کوئی ذلت نہیں کہ انہوں نے دوسروں کے آگے دست سوال دراز کرنے کی ذلت کو گوارہ نہ کیا بلکہ حلال طریق سے کسب معاش کی.کتنی حیرانی کی بات ہے کہ وہ لوگ اس لئے ذلیل ہو گئے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت کسب معاش کے لئے موچی.جولاہے کا پیشہ اختیار کیا.یہ ایک بیہودہ بات ہے کہ کسی کو کسی حلال پیشہ کے اختیار کرنے کی وجہ سے ذلیل سمجھا جائے.اور کہا جائے کہ وہ سید نہیں رہا یا وہ پٹھان نہیں رہا یا مغل نہیں رہا.حضرت صاحب نے کشتی نوح میں لکھا ہے کہ جو دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے وہ میری جماعت سے نہیں.میرے پاس آج ہی ایک خط آیا ہے جس کے لکھنے والا شکایت کرتا ہے کہ قادیان کی جماعت احمدیت کی صداقت کا نمونہ ہے.مگر جب ہم بازار میں گذرے.تو طنزاً کہا گیا کہ یہ سیّد آ گئے ہیں.یہ تو ان کی غلطی ہے کہ سارے لوگوں کو ایسا ہی سمجھتے ہیں.صرف چند آدمی ایسے ہیں جن میں کمزوری کی علامات پائی جاتی ہیں.اس لئے ایسے لوگوں پر سب کو قیاس نہیں کرنا چاہئیے.اور ایک دو کے ایسا کہ دینے سے یہاں کی ساری جماعت کو بُرا خیال کرنا غلطی اور ایمان کی کمزوری کی علامت ہے مگر پھر بھی جنہوں نے یہ کہا ہے وہ یا درکھیں کہ خُدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو جو مومنوں کو فتنہ میں ڈالتے ہیں.دوزخ کی بشارت دیتا ہے.پس دوزخ ان کے لئے منہ کھولے ہوئے تیار ہے اس میں

Page 433

خطبات محمود جلد (5) ۴۲۲ ڈالے جائیں گے اور وہاں ان کو پیپ اور کھولتا ہوا پانی ملے گا.اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی شخص معز ز نہیں مگر وہی جو متقی ہو.اگر کوئی کہے کہ حضرت صاحب نے بھی بعض پیشہ کےلوگوں کے متعلق لکھا ہے.تو اس کو معلوم ہو کہ آپ نے کسی پر طعن نہیں کیا.بلکہ یہ فرمایا کہ ان میں سے مامور نہیں ہوسکتا.کیونکہ دنیاوی لحاظ سے لوگ اس پر طعن کر سکتے ہیں.ہاں وہ ولی اور خُدا کا دوست ہوسکتا ہے یہ ایسی ہی بات ہے جیسے آنحضرت نے فرمایا کہ اگر لوگوں کے فتنہ کا خیال نہ ہوتا تو میں موجودہ کعبہ کو مسمار کر کے اس کی اصل حدود پر قائم کر دیتا.پس حضرت مسیح موعود کے یہ لکھنے کا یہی مطلب ہے.کہ اگر خُدا ان کو مامور کرے تو لوگ طعن کریں گے.ہاں وہ درجہ ولایت پاسکتے ہیں.جب وہ ولی اور خُدا کے دوست ہو سکتے ہیں تو پھر وہ ذلیل کیونکر ہوئے.کیا اللہ کے دوست بھی حقیر اور ذلیل ہو سکتے ہیں.وہ لوگ اللہ کا خوف کریں جو لوگوں کو ذلیل سمجھتے ہیں.اور دوسروں کو فتنہ میں ڈالتے ہیں.خُدا جس کو چاہتا ہے معز ز کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل بنا دیتا ہے.سید یا پٹھان یا مغل ہونا خدا کی گرفت سے نہیں بچا سکے گا.جیسا کہ یہودیوں کو حضرت ابراہیمؑ اور حضرت یعقوب کی نسل سے ہونا ذلت اور رسوائی سے نہیں بچا سکا.خدا کی گرفت سے متقی اور پرہیز گار لوگوں کے لئے رستگاری ہے.خواہ وہ کسی قوم کے ہوں.پس وہ لوگ جو دوسروں کے لئے فتنہ اور ابتلاء کا باعث ہوتے ہیں.وہ جہنم کی آگ سے ڈریں.کیونکہ خُدا تعالیٰ نے ان کے لئے یہی سزا مقرر فرمائی ہے.اگر کوئی کسی کی قومیت پر اُسے ذلیل کرنے کے لئے حملہ کرتا ہے تو خُدا تعالیٰ اس کو ذلیل کر دیتا ہے.اور کوئی کسی کے کہنے سے ذلیل نہیں ہو جاتا.ذلیل وہی ہے جو خُدا کی نظر میں ذلیل ہو.پس اپنی زبان کو تھام لو تمہیں کسی کے متعلق کچھ پتہ نہیں کہ کس قوم میں سے ہے.پھر جھوٹی بات کی خاطر اپنے ایمان کو ضائع مت کرو.اپنی گفتار کو درست کرو کہ خُدا کے انعام کے وارث بنو.آمین ثم آمین.الفضل ۲۴ مارچ ۱۹۱۷ء)

Page 434

۴۲۳ 52 خطبات محمود جلد (5) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک عظیم الشان پیشگوئی پوری ہوئی فرموده ۲۳ مارچ ۱۹۱۷ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.قرآن کریم الحمد للہ سے شروع ہوتا ہے جس میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے ایک عظیم الشان بشارت اور خوشخبری رکھی ہے.اور وہ خوشخبری یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو بتایا ہے کہ قرآن کریم میں تمہارے لئے ایسے سامان رکھ دیئے گئے ہیں جن کی وجہ سے تمہاری زبان پر الحمد للہ جاری رہے یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورۃ کو ہر رکعت میں پڑھنے کا حکم دیا ہے اے بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خود بخود برضاء و رغبت طوعاً اور خوشی سے خدا تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے اور خواہ ان پر خُد اتعالیٰ کے کتنے ہی بڑے بڑے انعام ہوتے چلے جائیں.شکر گزاری کی طرف ان کی توجہ ہی نہیں ہوتی.مگر مسلمانوں پر خدا تعالیٰ نے ایسا احسان اور فضل کیا ہے کہ چونکہ ان پر خدا تعالیٰ کے بہت سے فضل واحسان ہونے تھے اور ان میں سے بعض کو ان احسانات کے بدلے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی طرف توجہ نہ ہونی تھی.اس لئے ہر رکعت میں اس سورۃ کو پڑھنا رکھ دیا گیا کہ جب کوئی نماز پڑھے گا تو اس طرح وہ خدا تعالیٰ کے انعامات کا شکریہ بھی ادا کر سکے گا.ہاں جو نماز نہیں پڑھتا وہ مسلمان بھی کہاں ہوسکتا ہے لیکن جو شخص نماز پڑھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے انعامات کا اپنی طاقت اور ہمت کے مطابق شکریہ ادا کرنے سے قاصر نہیں رہ سکتا.یوں تو خدا تعالیٰ کے انعامات کا پورا پورا شکریہ ادا کرنا کسی انسان کا کام نہیں.مگر جو انسان ہر روز نماز میں تیں چالیس بار الحمد للہ رب العالمین کہتا ہے.اسے ناشکروں میں شامل نہیں کیا جاسکتا نا شکر گذار تو کافروں میں شامل ہوتا ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے اس طرح مسلمانوں کو ناشکری کے گناہ سے بچالیا ہے کہ وہ ہر رکعت میں اس شورہ کو پڑھتے ہیں اور اس کے انعامات کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور اس کے علاوہ بھی جب خُدا تعالیٰ کا کوئی انعام دیکھتے ہیں تو بے اختیار اُن کے منہ سے الحمد للہ رب العالمین نکل جاتا ہے اور یہ ان کے مؤمن ہونے کی پہلی علامت ہے.پھر مسلمانوں کی اللہ تعالیٰ نے ایک اور علامت قرآن کریم میں بیان فرمائی ہے.اور وہ یہ ہے:.1 : صحیح مسلم کتاب الصلوۃ باب وجوب قراءة الفاتحه في كل ركعة

Page 435

خطبات محمود جلد (5) ۴۲۴ وَاخِرُ دَعْوهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ.(یونس : ۱۱) کہ آخری پکار بھی ان کی یہی ہوتی ہے کہ الحمد للہ رب العالمین.اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اسلام کی ابتداء بھی الحمد للہ سے ہوئی ہے اور انتہا بھی الحمد للہ پر ہی ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور احسان سے ہی قرآن کریم کو نازل کیا.ورنہ کس انسان کی طاقت تھی کہ ایسا بے نظیر کلام بنا سکتا یا اس کا کیا حق تھا کہ خدا تعالیٰ اس کے لئے قرآن نازل کرتا.مگر دیکھو اس وقت جبکہ ہر قسم کے علوم میں ترقی اور ایزادی ہوئی ہے.تمام دنیا قرآن کریم کے مٹانے کے پیچھے پڑی ہوئی ہے.لیکن کیا اس کا نتیجہ سوائے اس کے کچھ اور بھی نکلا ہے کہ ایسا کرنے والے خود ذلیل اور شرمندہ ہو گئے ہیں.پھر کیا یہ درست نہیں ہے کہ آج تک کسی انسان کو یہ توفیق نہیں ملی کہ قرآن کریم سے بڑھ کر کوئی کتاب پیش کر سکے.آج تک تمام مخالفین اسلام کا کام قرآن کریم پر اعتراض اور شکوک پیدا کرنا ہی رہا ہے.اس سے بڑھ کر وہ کچھ نہیں کر سکے.حالانکہ شکوک اور اعتراضات کا پیدا کرنانہ تو کوئی مشکل کام ہے اور نہ ہی کسی چیز کی صداقت کو چھپا سکتا ہے شبہات تو کئی انسانوں کو اپنے جسم کے متعلق بھی پیدا ہوتے ہیں.چنانچہ سوفسطائی لوگ کہتے ہیں کہ انسان کا جسم بھی کوئی چیز نہیں.یہ صرف وہم ہی وہم ہے.تو و ہم پیدا کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے.مثلاً ایک شخص کسی دوست کی بڑی پر تکلف دعوت کرے اور اس کی خاطر و مدارات کے لئے بہت بڑی تیاری کرے.مگر اس کے دوست کو وہم ہو جائے کہ اس نے میرے لئے اچھے کھانے اس لئے پکوائے ہیں کہ ان میں زہر ملا کر مجھے ہلاک کر دے.کیا اس وہم کے بعد وہ اس دعوت میں شریک ہوگا.ہرگز نہیں.بلکہ بھاگ جائے گا.اسی طرح کتنا ہی پختہ مکان بنا ہو.مگر ایک شخص خیال کر لے کہ اگر کوئی چھوٹا سا خیمہ ہوتا اور وہ میرے اوپر گر پڑتا تو شاید میں بچ جاتا لیکن اگر میں اس گھر کے اندر داخل ہوا.اور یہ میرے او پر گر پڑا تو پھر نہیں بچ سکوں گا.یہ خیال کر کے وہ کبھی اس میں داخل نہیں ہوگا.بلکہ بھاگ جائے گا.یہ محض خیالی باتیں ہی نہیں ہیں.بلکہ اس قسم کے انسان دنیا میں ہوتے بھی ہیں چنانچہ خیر پور کے نواب صاحب جو موجودہ نواب صاحب سے پہلے تھے.ان کو اسی قسم کی بیماری تھی کہ وہ مکان کے اندر داخل نہیں ہو سکتے تھے انہیں یہی خیال لگارہتا کہ میں مکان کے اندر گیا اور وہ میرے اُو پر گرا.تو وہم اور خیال کا پیدا کر لینا کوئی مشکل اور بڑی بات نہیں ہر ایک بات اور ہر ایک سچائی کے متعلق نہایت آسانی سے پیدا کیا جا سکتا ہے.لیکن اگر مذہب کی بنیاد بھی و ہم پر ہی ہو تو کبھی کسی بات کا فیصلہ نہ ہو سکے.فیصلہ ہمیشہ خوبیوں اور صداقتوں کے مقابلہ سے ہی ہو ا کرتا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ فلاں چیز میں خوبی ہے یا نہیں اور دوسروں سے خوبیوں کے لحاظ سے بڑھ کر ہے یا

Page 436

خطبات محمود جلد (5) ۴۲۵ ادنی ور نہ شک اور شبہ سے انسان کبھی یقین اور اطمینان تک نہیں پہنچ سکتا.شبہ ہمیشہ شبہ ہی ہے.دُنیا اس وقت تک قرآن کریم کی خوبیوں کے مقابلہ میں کوئی خوبی نہیں پیش کر سکی.جو اُٹھا ہے اس نے اپنی طرف سے نقائص اور شکوک ہی پیش کرنے کی کوشش کی ہے.ہم کہتے ہیں کہ شک کا نتیجہ شک ہی ہوتا ہے.اور یقین کا نتیجہ یقین.پس قرآن کریم کی مخالفت کر نیوالوں کو یقین پیش کرنا چاہئیے.نہ کہ شک و شبہات.مگر اس وقت تک کسی کی طرف سے یقین نہیں پیش کیا گیا.بلکہ جب بھی کسی نے حملہ کیا ہے.کوئی نہ کوئی اعتراض ہی جڑ دیا ہے.اور یہ ہمت کسی کو نہیں ہوئی کہ قرآن کریم کے مقابلہ میں کوئی اعلیٰ تعلیم پیش کرتا.حالانکہ فیصلہ کا طریق یہی ہے کہ جس چیز کو ناقص اور خراب قرار دیا جائے اس کے مقابلہ میں بہتر اور اعلیٰ پیش کی جائے.مثلاً کونین ہے بخار کے لئے کیا ہی اعلیٰ درجہ کی مفید ثابت ہوئی ہے.مگر کئی دیسی اطبا اس تعصب کی وجہ سے جو انہیں انگریزی دواؤں کے ساتھ ہے.باوجود اس کے کئی فوائد کے اور قریبا یقینی فوائد کے اس کے متعلق شبہ پھیلاتے رہتے ہیں کہ اس سے کان بہرے ہو جاتے ہیں.جگر بڑھ جاتا ہے.یہ نقص پیدا ہو جاتا ہے وہ ہو جاتا ہے.کیا ان کے اس طرح کہنے سے کونین کا استعمال بند ہو گیا ہے.ہرگز نہیں.بلکہ دن بدن بڑھ رہا ہے.یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ محض شبہات اور شکوک کوئی حقیقت نہیں رکھتے.اور نہ ہی ان کا کوئی نتیجہ نکلتا ہے.ہاں اگر کوئی اور دوائی پیش کر کے ثابت کر دیں کہ وہ نقص جو کونین میں پائے جاتے ہیں اس میں نہیں ہیں تو پھر کو نین کو کوئی استعمال نہ کرے گا.بلکہ اس دوائی کو ہی استعمال کیا جائے گا.تو یہ تجربہ اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ نقائص اور شکوک نکالنے سے کوئی چیز مغلوب نہیں ہوسکتی.مغلوب اسی وقت ہوتی ہے جبکہ اس سے بہتر اور اعلی دکھائی جائے.قرآن کریم پر جس قدر حملے کئے گئے ہیں.وہ صرف نقائص نکالنے اور شکوک پیدا کرنے تک ہی محدود ہیں.یہ نہیں کہ کسی نے اس سے بڑھ کر اور بہتر تعلیم بھی پیش کی ہو.حالانکہ یہی وہ معیار ہے جس سے فیصلہ ہو سکتا ہے.تو خدا تعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں کو ایسی تعلیم ملی ہے کہ جس کا کوئی دوسری تعلیم مقابلہ نہیں کرسکتی.بڑے بڑے مخالفوں نے مقابلہ کی کوشش کی.بڑے بڑے اعتراضات کئے گئے.اپنے خیال میں بڑے بڑے نقائص نکالے گئے (اس وقت یہ بحث نہیں کہ ان کے اعتراضات اور نقائص درست بھی تھے یا نہیں) مگر ان سے جو کچھ ہو سکا.وہ یہی کچھ تھا.نہ کہ اس کے علاوہ کچھ اور لیکن کیا وہ قرآن کریم کی تعلیم سے بہتر کوئی تعلیم پیش کر سکے.ہرگز نہیں.پس اس سے صاف طور پر ثابت ہو گیا کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کی الہامی کتاب ہے.کیونکہ ساری دنیا بھی اس کا صحیح طور پر مقابلہ نہیں کر سکی تو ایسی تعلیم کے ملنے پر بے اختیار مسلمان کے منہ سے الحمد للہ نکل جاتا ہے.پس یہ ابتدا الحمد سے

Page 437

خطبات محمود جلد (5) ۴۲۶ ہے کہ اسلام کی بنیاد ایسی تعلیم سے شروع ہوئی جس کا کوئی تعلیم مقابلہ نہیں کر سکتی.اس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے تھوڑا ہے.پھر اس کی انتہاء یہ ہے کہ اس پر چل کر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ کے سایہ کے نیچے انسان آجاتا ہے.خُلد میں اس کا مقام تیار کیا جاتا ہے.پس مسلمان اس انتہا پر بھی جس قدر خُد اتعالیٰ کی حمد کریں تھوڑی ہے.خدا تعالیٰ کا کس قدر احسان ہے کہ مسلمانوں کو جو کتاب ملی.وہ الحمد سے شروع ہوتی ہے.پھر وہ تعلیم ملی کہ جس پر چلنے والے کا انجام بھی الحمد پر ہی ہوتا ہے.پس یہ کتنی بڑی نعمت ہے.دیکھو ایک شخص دوسرے کو کہے کہ تم فلاں راستہ پر چلے جاؤ.اس کے تمہیں یہ یہ فوائد حاصل ہوں گے.لیکن اگر اسے چلتے چلتے اخیر پر بڑی گہری غار دکھائی دے یا کوئی اور نقصان یا تکلیف پہنچے اور کوئی فائدہ حاصل نہ ہو تو گو وہ ابتداء میں اس راستہ بتانے والے کا شکریہ ادا کر دے.اور جزاک اللہ کہے کہ اس نے مجھ پر بڑی مہربانی کی ہے کہ رستہ بتا دیا ہے.مگر اس کی انتہا اس بات پر ہوگی کہ کہے گا وہ بڑا ہی خبیث اور شریر انسان تھا جس نے مجھے یہ راستہ بتایا.اور مجھے تکلیف اور مصیبت میں ڈالا.لیکن اگر واقعہ میں اسے اس راستہ پر چل کر بڑا آرام اور فائدہ ہوگا تو وہ انتہا پر بھی اس کا شکریہ ادا کرے گا.اور اس کا شکر گزار ہو گا کہ اس نے مجھے کیا اچھا راستہ بتایا.اس سے پتہ لگتا ہے کہ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی ابتد احمد سے ہوتی ہے.مگر انتہاء حمد سے نہیں ہوتی.اور بعض ایسی ہوتی ہیں.جن کی ابتداء حمد سے نہیں ہوتی مگر انتہا حمد سے ہوتی ہے.مثلاً بعض ایسی باتیں ہیں جو بذات خود بری ہوتی ہیں.مگر ان سے انسان ٹھوکر کھا کر انجام کار ہلاکت اور تباہی سے بچ جاتا ہے لیکن اسلام ایک ایسا مذہب ہے کہ اس کی تعلیم میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے ایسے سامان رکھ دئے ہیں کہ اس کی ابتداء بھی حمد سے ہوتی ہے.اور انتہاء بھی حمد سے.پس ایک تو یہ معنی ہیں.وآخر دعوهم ان الحمد لله رب العالمین (یونس : ۱۱) کے لیکن ایک اور معنے بھی ہیں.اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں مسلمانوں کے لئے دو زمانے مقرر فرمائے ہیں.ایک ابتدائی زمانہ اور دوسرا آخری زمانہ.اور آخر دعواهم ان الحمد لله رب العلمین میں خدا تعالیٰ نے یہ بھی بتایا ہے کہ جس طرح حشر کے دن مسلمانوں کا انجام یہ ہوگا کہ وہ حمد ہی حمد کرتے نکلیں گے.اسی طرح اسلام کی ابتداء بھی حمد سے ہی شروع ہوئی ہے اور اس کی انتہا بھی حمد پر ہی ہوگی.چنانچہ سورۃ فاتحہ میں مسیح موعود کی پیشگوئی ہے.اور پہلے نبیوں نے ترمزی کتاب الادب باب مثل الصلوة الخمس

Page 438

خطبات محمود جلد (5) ۴۲۷ بھی کہا ہے کہ اس کو یہ سورہ دی جائے گی.دراصل یہ سورہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اور آپ کو دی گئی.اب اس کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دینے کا یہی مطلب ہو سکتا ہے کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ایسے ایسے انعامات دیئے گئے تھے جن کا شکریہ ادا کرنے کے لئے الحمد للہ رب العالمین سکھایا گیا.اور اس کے نتیجہ میں اور زیادہ انعام دیئے گئے.اسی طرح اس کے نتائج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی دیئے جائیں گے.اور اُسے اور اس کی جماعت کو ایسی عظیم الشان فتوحات دی جائیں گی جن کی وجہ سے اس کی اور اس کی جماعت کے لوگوں کی زبان پر الحمد للہ رب العالمین جاری ہو جائے گا.یہ ہے ابتدا بھی الحمد سے اور انتہا بھی الحمد پر.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام کے ذریعہ جو سامان ترقی ایمان کے لئے خدا تعالیٰ نے بتائے ہیں.ان کو دیکھ کر بے اختیار ہمارے منہ سے الحمد للہ رب العالمین نکل جاتا ہے.کہاں یہ تاریکی اور ظلمت کا زمانہ اور کہاں یہ دہریت اور لا مذہبی کے دن جبکہ انسان کہ اُٹھے تھے کہ خدا کی کوئی ضرورت باقی نہیں ہے.دنیا کا کارخانہ خود بخود چل رہا ہے.اور چلتا رہے گا.ہر ایک کو اپنے علم اور اپنی تحقیقات پر گھمنڈ تھا.مذہب کو ایک حقیر اور فضول چیز سمجھا جاتا تھا.ایسے وقت میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ دین اسلام کو قائم کر کے اپنے جلال اور قدرت کے ظاہر کرنے کے سامان پیدا کر دیئے.اور اس طرح ہم پر وہ احسان اور فضل کیا کہ جس کے لئے ہم جس قدر بھی اس کی حمد اور تعریف کریں.تھوڑی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے مسلمان مولوی کہاں ان لوگوں کی قلم کی کششوں کا مقابلہ کر سکتے تھے.اسلام ایک ناتواں اور کمزور چیز کی طرح ہو رہا تھا.جو اُٹھتا اس پر حملے کرنے شروع کر دیتا.خود مسلمان اسلام کو چھوڑ کر دوسرے مذاہب میں جا رہے تھے مگر حضرت مسیح موعود کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے ایسا احسان کیا کہ وہی دین جو پہلے قابل نفرت سمجھا جاتا تھا.اس کو جب آنکھیں کھول کر دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ اگر کوئی چیز قابل تسلی اور لائق اطمینان ہو سکتی ہے تو وہ مذہب اسلام ہی ہے.خدا تعالیٰ نے ہزار ہا نشان اس کی تائید میں دکھائے اور اس قدر دکھائے کہ اگر کوئی گننا چاہے تو ہرگز گن نہیں سکتا.ایک دفعہ امریکہ سے ایک انگریز حضرت مسیح موعود کو ملنے کے لئے آیا.اور آ کر کہا کہ آپ مجھے اپنی صداقت کا کوئی نشان دکھلائیے.آپ نے فرمایا تم بھی میری صداقت کا نشان ہو.اس نے کہا.کس طرح؟ آپ نے فرمایا.ایک زمانہ وہ تھا کہ کوئی مجھے جانتا تک نہ تھا.اور نہ ہی کوئی میرے پاس آتا تھا.اس وقت خُدا تعالیٰ نے مجھے الہام کیا کہ یا تون من كل فج عميق و ياتيك من كل فج عمیق ا.تیرے پاس دُور دُور سے لوگ آئیں گے اور تیرے پاس دور دور سے چیزیں آئیں گی.اور اس قدر لوگ آئیں گے کہ ان کی آمد و رفت سے راستوں :- تذکرہ ص ۲۹۷.

Page 439

خطبات محمود جلد (5) ۴۲۸ میں گڑھے پڑ جائیں گے یہ الہام اس وقت چھاپ کر شائع کر دیئے گئے.اور اس وقت کتابوں میں موجود ہیں.اب تم امریکہ سے میرے ملنے کے لئے آئے ہو.کیا یہ میری صداقت کی دلیل نہیں ہے لے.یہ ن کر وہ خاموش رہ گیا.یوں تو دعوی کرنے والے کئی اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں.یہاں بھی حضرت مسیح موعود گود یکھ کر ایک شخص نے دعوی کیا تھا.لیکن اس کو کسی نے پوچھا تک نہیں.اور نہ ہی کوئی اس کے دعوے کو سن کر اس کے پاس آیا بلکہ جب ایک سب انسپکٹر نے اس سے دریافت کیا کہ تمہارا کیا دعویٰ ہے تو اس نے ڈر کی وجہ سے صاف انکار کر دیا کہ میرا کوئی دعوی نہیں ہے.پس حضرت مسیح موعود کو جو کامیابی اور ناموری حاصل ہوئی.وہ کسی فریب اور بناوٹ کی وجہ سے نہ تھی.اگر چہ جھوٹے دعوی کرنے والوں میں سے بھی بعض کا نام مشہور ہو جاتا ہے.لیکن ان کے دعویٰ رہے میں یہ کشش نہیں ہوتی کہ لوگوں کو کھینچ لائے.یہ کشش سچا دعوی کرنے والے میں ہی ہوتی ہے.تو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ اس قدر نشان دکھلائے ہیں کہ ان کو کروڑوں کہو تو بھی تھوڑے ہیں.یہاں بننے والے ہر ایک مکان کی اینٹ اور بھرتی کا ایک ایک روڑا آپ کی صداقت کا نشان ہے.کیونکہ آپ کی کشش کے علاوہ اور کیا چیز تھی جس نے بہتوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر یہاں رہنے پر مجبور کر دیا.اور ان میں سے کئی ایک نے اپنے ہزاروں روپے کے مکانوں کو کوڑیوں کے مول بیچ کر یہاں مکان بنانے کو بہتر سمجھا.حضرت خلیفہ اسیح اول جب یہاں آئے تو پیچھے عظیم الشان مکان بنوار.تھے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا.یہیں رہیں.اس کے بعد انہوں نے وطن جانے کا بھی خیال تک نہ کیا.تو حضرت مسیح موعود کی صداقت کے خدا تعالیٰ نے اس قدر نشان دکھلائے ہیں کہ جن کو اگر کوئی گننا چاہے تو ہرگز نہیں گن سکتا.مگر پھر بھی وہ خزانہ ختم نہیں ہوا.بلکہ بار بار ظاہر ہو کر ہمیں بتاتا ہے کہ احمد للہ رب العالمین کہو.ابھی خدا تعالیٰ نے ایک تازہ نشان دکھلایا ہے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ انبیاء کے کلام بھی کیسے عظیم الشان نشان ہوتے ہیں.اور ان کی باتیں خواہ وہ الہام بھی نہ ہوں تو بھی جو ان کی زبان اور قلم پر جاری ہو جائے وہ خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود نے ایک نظم لکھی تھی.اس میں نہایت دردناک طریق سے موجودہ جنگ کا نقشہ کھینچتے ہوئے یہ بھی لکھا تھا کہ ؎ مضمحل ہو جا ئیں گے اس خوف سے سب جن وانس زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحال زار ا ذکر حبیب مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب.

Page 440

خطبات محمود جلد (5) ۴۲۹ زار روس کا بادشاہ تھا.اس کے متعلق آپ نے بتایا تھا کہ وہ ایک سخت مصیبت میں مبتلا ہوگا.یہ پیشگوئی جس وقت کی گئی.اسی وقت اس شعر پر کہ :.یک بیک اک زلزلہ سے سخت جنبش کھائیں گے کیا بشر اور کیا شجر اور کیا حجر اور کیا بحار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہدیا تھا کہ :- ”خدا تعالیٰ کی وحی میں زلزلہ کا بار بار لفظ ہے.اور فرمایا کہ ایسا زلزلہ ہوگا جو نمونہ قیامت کا ہوگا.بلکہ قیامت کا زلزلہ اس کو کہنا چاہیئے.جس کی طرف سورہ اذا زلزلت الارض زلزالها اشارہ کرتی ہے.لیکن میں ابھی تک اس زلزلہ کے لفظ کو قطعی یقین کے ساتھ ظاہر پر جما نہیں سکتا.ممکن ہے کہ یہ معمولی زلزلہ نہ ہو.بلکہ کوئی اور شدید آفت ہو.جو قیامت کا نظارہ دکھلاوے.جس کی نظیر کبھی اس زمانہ نے نہ دیکھی ہو اور جانوروں اور عمارتوں پر سخت تباہی آوے.ہاں اگر ایسا فوق العادت نشان ظاہر نہ ہو اور لوگ کھلے طور پر اپنی اصلاح بھی نہ کریں تو اس صورت میں میں کا ذب ٹھہروں گا.اے اس عبارت میں صاف طور پر آپ نے بتلایا ہے کہ یہ وحی کے ماتحت پیشگوئی ہے.اگر چہ آپ نے وہ جی نہیں بتلائی لیکن اس کی تفصیل ان اشعار میں نہایت واضح طور پر کر دی تھی.جو حرف بحرف پوری ہو رہی ہے.ان شعروں میں ایک شعر یہ ہے:.رات جو رکھتے تھے پوشاکیں برنگ یاسمن صبح کر دے گی انہیں مثلِ درختان چنار یعنی رات کو چنبیلی کے پھولوں کی طرح جن کی سفید پوشاک ہوگی صبح ان کا یہ حال ہو گا کہ جس طرح چنار کے پتے کا رنگ سُرخ ہوتا ہے اسی طرح خون سے ان کے کپڑوں کا رنگ سرخ ہو جائے گا.اب اگر یہ ایک شاعرانہ تشبیہہ ہی ہوتی اور لڑائی میں ایسا ہو بھی جاتا تو بھی ان لوگوں کو جن کی نسبت یہ پیشگوئی تھی یہ بتانا مشکل ہوتا کہ چنار کے درخت کے پٹوں کی طرح تمہارے لباس خون سے سُرخ ہو گئے ہیں.کیونکہ جن لوگوں نے چنار کے درخت کو دیکھا نہ ہوتا اور جو جانتے ہی نہ ہوتے کہ چنار کے پتوں کا کیا رنگ ہوتا ہے.وہ اس تشبیہ کو اچھی طرح سمجھ نہ سکتے.اور ان کے خیال میں زیادہ سے زیادہ یہ بات آسکتی کہ جس طرح دوسرے بعض درختوں کے پتوں میں کچھ سرخی پائی جاتی ہے.اسی طرح چنار کے پتوں میں بھی سُرخی ہوگی.مگر حقیقت یہ ہے کہ چنار کے پتہ پر ایسی سُرخی ا : - براہین احمدیہ حصہ پنجم.

Page 441

خطبات محمود جلد (5) ۴۳۰ ہوتی ہے جیسی کہ گاڑھے جے ہوئے خون کی رنگت.اور ہو بہو خون ہی معلوم ہوتا ہے.اب دیکھئے فرانس میں جہاں لڑائی کا سب سے زیادہ شور رہا ہے اور اب بھی ہے.وہاں میدانِ جنگ میں چنار کے درخت دُور دُور تک پھیلے ہوئے ہیں.چنانچہ تھوڑا ہی عرصہ ہوا.ہمارے ایک دوست نے لکھا تھا کہ میں جنگی خدمت ادا کرنے کے لئے میدان جنگ میں کھڑا ہوں.گولے برس رہے ہیں.اور میں چنار کے درخت کے نیچے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ شعر پڑھتا ہوا کہ رات جو رکھتے تھے پوشاکیں برنگ یاسمن صبح کر دے گی انہیں مثلِ درختان چنار زخمیوں کے زخموں کو دھو کر مرہم پٹی کر رہا ہوں.اس دوست نے چنار کا ایک پتہ بھی بھیجا تھا.جس کے ایک طرف کا رنگ ہو بہو خون کی طرح تھا اور دوسری طرف کا کچھ زردی مائل.پس یہ کوئی شاعرانہ بات نہ رہی.بلکہ خدا تعالیٰ کے فعل نے بتا دیا کہ واقعہ میں اس مقام پر چنار کے پتے تھے.اور انہیں کے رنگ کی پوشاکیں ہورہی تھیں.اگر جنگ کسی ایسے ملک میں ہوتی جہاں چنار کے پتے خون سے سُرخ ہونے والے کپڑوں کی طرف اشارہ نہ کرتے تو کوئی کہ سکتا تھا کہ یہ شاعرانہ طور پر کہا گیا ہے.مگر ان درختوں کا وہاں موجود ہونا.اور پھر ان کے پیچھے انسانوں کا خون سے لت پت ہونا بتاتا ہے کہ یہ شاعرانہ بات نہ تھی.بلکہ اصل حقیقت بیان کی گئی تھی.غرض اس پیشگوئی کی جو تفصیل حضرت مسیح موعود نے بیان فرمائی ہے.وہ ایسی کھلی کھلی اور صاف طور پر پوری ہوئی ہے کہ بے اختیار منہ سے الحمد للہ رب العلمین نکل جاتا ہے.لیکن پیشگوئی کی تفصیل میں ایک بات ایسی بھی تھی جو ابھی تک باقی تھی.اور جس کے متعلق بار بار گفتگو ہوئی کہ کس طرح پوری ہوگی.کئی لوگوں نے کہا کہ ان اشعار میں جو پیشگوئی کی گئی ہے وہ واقعہ میں موجودہ جنگ کے متعلق ہے.لیکن اس کو عام طور پر کس طرح شائع کریں.جبکہ اس میں لکھا ہے کہ زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحال زار کیونکہ زار ہماری گورنمنٹ کا حلیف ہے.اور سیاست چاہتی ہے کہ ہم اپنی گورنمنٹ کے حلیف کے متعلق کوئی ایسی بات نہ شائع کریں جس سے اس پر زد پڑتی ہو.پھر کیا کیا جائے.ان حالات کے ہوتے ہوئے ممکن تھا کہ یہ پیشگوئی دبی ہی رہتی.مگر خدا تعالیٰ چاہتا تھا کہ اس کا اعلان کرائے.اور دنیا کو پورا کر کے دکھا دے.کیونکہ اگر خدا تعالیٰ اس کا اعلان نہ کرانا چاہتا تو پھر حضرت مسیح موعود بھی اس کو شائع نہ کرتے.مجھے حضرت مسیح موعود کے ایسے الہامات معلوم ہیں جن کے متعلق آپ کو بتایا گیا کہ ان کو

Page 442

خطبات محمود جلد (5) ۴۳۱ ظاہر نہ کیا جائے.ایسے الہامات اس وقت کی مصلحت کے خلاف ہوتے ہیں.اور صرف نبی کو کسی خاص غرض کے لئے بتائے جاتے ہیں.مگر اس پیشگوئی کے متعلق حیرت ہوتی تھی کہ حضرت مسیح موعود نے اس کو شائع کیا ہے.اور بڑے زور کے ساتھ شائع کیا ہے.مگر اب جبکہ اس کے باقی حصے پورے ہورہے ہیں ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ ہم اس کی اشاعت نہیں کر سکتے.کیونکہ زار روس گورنمنٹ برطانیہ کا حلیف ہے.اور گوہم کسی واقعہ پر اس لئے خوشی نہ کرتے کہ زار روس کو نقصان پہنچا ہے بلکہ اس لئے خوشی کرتے کہ حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی پوری ہوئی ہے.جیسا کہ جب مبارک احمد فوت ہوا تو حضرت مسیح موعود نے خوشی کا اظہار کیا.مگر یہ خوشی لڑکے کے مرنے کی وجہ سے نہ تھی بلکہ اس لئے تھی کہ اس طرح ایک پیشگوئی پوری ہوئی ہے.اسی طرح ہم اگر سلطنت روس کے متعلق خوشی کرتے اور گوافسوس بھی ہوتا.تا ہم ہماری وہ خوشی پیشگوئی کے پورا ہونے پر ہوتی.اور ہماری نیت نیک ہوتی.مگر اس کا لوگوں پر اظہار ظاہر میں یہی نتیجہ نکالنے پر مجبور کرتا تھا کہ گویا ہم سلطنت روس کے مصائب اور مشکلات پر خوش ہو رہے ہیں.اور ایسا کرنا اپنی گورنمنٹ کے خلاف کرنا تھا.اس سے ہم حیران تھے کہ اگر یہی حالت رہی تو ہوگا کیا.ہمارے خیال میں یہی تھا کہ سلطنت روس کو اس شعر کے مطابق کوئی نقصان پہنچے گا.اور اس کو ہم اچھی طرح ظاہر نہ کر سکیں گے لیکن اللہ تعالیٰ کی منشاء کچھ اور تھی.جو ہمارے خیال میں نہیں آتی تھی.اور اب بالکل صاف اور واضح طور پر ظاہر ہوگئی ہے.سو وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود نے یہ نہیں فرمایا کہ ع بلکہ یہ فرمایا ہے کہ ع روس بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحال زار زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحال زار اس سے پتہ لگتا ہے کہ روس کی ساری سلطنت کو چھوڑ کر جو صرف زار کا نام لیا گیا ہے اور اس کی حالت زار بتائی گئی ہے تو اس پیشگوئی کا تعلق زار کی ذات خاص سے تھا.گویا اس پیشگوئی میں جس کا نقشہ ان اشعار میں کھینچا گیا ہے.ایک اور پیشگوئی زار کے متعلق تھی جس کے متعلق بتادیا کہ وہ بھی اس وقت پوری ہوگی جبکہ یہ جنگ شروع ہوگی جس کا نقشہ کھینچا گیا ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور خبریں آگئی ہیں کہ جب لوگوں نے دیکھا کہ زار اور اس کے وزراء جنگ میں پوری کوشش اور سعی نہیں کرتے تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان کو ہٹا دیا جائے.چنانچہ اب زار کو معزول کر دیا گیا ہے اور پارلیمینٹ قائم ہو گئی ہے.اور ہماری گورنمنٹ نے بھی نئی جمہوریت کو تسلیم کر لیا ہے.گویاوہ مصیبت جس کا ذکر پیشگوئی میں ہے وہ زار پر ہی پڑی.اب ہم اس کو جس قدر بھی شائع کرنا چاہیں کر سکتے ہیں.اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ اب تو ہماری گورنمنٹ نے خود اس خبر کو شائع کیا ہے.اور

Page 443

خطبات محمود جلد (5) ۴۳۲ بتایا ہے کہ موجودہ روسی گورنمنٹ جنگ میں پہلے کی نسبت بہت زیادہ جوش سے کام لے گی.اس طرح ہمارے لئے دو ہری خوشی ہے.ایک تو یہ کہ روی سلطنت ہماری گورنمنٹ کی مدداور تائید پہلے کی نسبت بہت زیادہ کرے گی اور دوسرے یہ ہے کہ یہ پیشگوئی ایسے صاف اور واضح طور پر پوری ہوئی ہے کہ کوئی اس سے انکار نہیں کر سکتا.ابھی کچھ دن ہوئے.میں گورداسپور گیا تو اسی پیشگوئی پر گفتگو کرتے ہوئے ایک وکیل صاحب نے کہا کہ کیا ہوا اگر زار کو معزول کر دیا گیا ہے.اس وقت تک بیبیوں زار معزول ہو چکے ہیں.اب کوئی اور زار بن جائے گا.جس طرح ایران میں باپ کو ہٹا کر بیٹے کو اور ترکوں نے ایک بھائی کو ہٹا کر دوسرے کو بادشاہ بنالیا تھا.اسی طرح یہاں بھی ہوگا.اس لئے یہ پیشگوئی تو پوری نہ ہوئی کیونکہ دوسرازار بن گیا.اور اس کا حال زار نہ ہوا.اگر چہ یہ غلط ہے کہ اسوقت تک بیبیوں زار معزول کئے گئے.لیکن ہم مان لیتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا.مگر اس سے تو موجودہ زار کے معزول ہونے کی پیشگوئی کی اور زیادہ شان ظاہر ہوتی ہے.کیونکہ آج تک کی جو خبریں آئی ہیں.ان سے پتہ لگتا ہے کہ اب آئندہ کوئی زار نہ بنایا جائے گا.بلکہ پارلیمینٹ ہوگی.گو یاز ارکا ایسا حال زار ہؤا کہ آئندہ کوئی زار ہی نہ ہوگا.پس خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ عظیم الشان پیشگوئی پوری کر کے دکھائی ہے.اس پر ہم جس قدر اس کی حمد کریں تھوڑی ہے اور جس قدر اس کا شکر بجالائیں کم ہے.اس پیشگوئی کے پورا ہونے سے ہماری ترقی کا راستہ روس میں بھی کھل گیا ہے اور اب میرا ارادہ ہے کہ روسی زبان میں اشتہار شائع کراؤں تا کہ روس کے لوگوں کو بتایا جائے کہ یہ جو کچھ تم نے کیا ہے.خُدا کی منشاء کے ماتحت کیا ہے.اور اس کی خبر خُدا نے اپنے ایک برگزیدہ انسان کے ذریعہ پہلے سے ہی دے رکھی تھی.یہ خُدا تعالیٰ کا ہم پر بہت بڑا فضل ہوا ہے ہم کہاں اس کا شکریہ ادا کر سکتے ہیں مگر اس نے بتایا ہے کہ الحمد لله رب العلمین کہو.پس ہم یہی کہتے ہیں.ہمارے پاس دنیا کا مقابلہ کرنے کے لئے کیا ہے نہ مال ہے نہ دولت ہے نہ اسباب ہیں.لیکن خدا تعالیٰ ہماری مدداور تائید کے لئے اسباب پیدا کر رہا ہے.اور ایسے زبر دست اسباب پیدا کر رہا ہے کہ جن کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا.اس لئے ہر وقت ہمیں اس کی حمد کرنی چاہیئے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس حمد کے پوری طرح ادا کرنے کی توفیق دے جو اس کے انعامات کے مقابلہ میں اس پر واجب ہے.( الفضل ۲۷ مارچ ۱۹۱۷ء)

Page 444

۴۳۳ 53 خطبات محمود جلد (5) خُدا کی راہ میں کام کرنے والوں کو نصیحت فرموده ۳۰ مارچ ۱۹۱۷ء تشہد وتعوذ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائیں :.قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدُ اللهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ (الاخلاص) بعد ازاں فرمایا :- بہت سے لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ جو کسی دینی خدمت کے لئے اپنے اوقات کا کوئی حصہ بھی نہیں نکال سکتے.پھر کچھ لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں جو اپنے دنیاوی کاموں سے کچھ وقت بچا کر دین کی خدمت کرنے میں لگا دیتے ہیں.ان کے دو گروہ ہیں.ایک وہ جو دین کی خدمت تو کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی انہیں اقرار ہوتا ہے کہ ہم کچھ نہیں کرتے.اور دوسرے وہ جو کچھ دینی کام کر کے اسی پر فخر اور بڑائی کرتے ہیں کہ ہم فلاں کام کرتے ہیں یا فلاں خدمت خدا تعالیٰ کے راستہ میں بجالاتے ہیں.جولوگ کچھ بھی دین کی خدمت نہیں کرتے وہ بھی بے شک بُرے ہیں.لیکن وہ شست اور غافل کہلا سکتے ہیں.مگر وہ جو کسی خدمت کے کرنے کی توفیق پاتے ہیں.اور پھر اس پر اس طرح تکبر بڑائی اور فخر کرتے ہیں کہ گویا اللہ تعالیٰ پر احسان جتلاتے ہیں وہ سست اور غافل نہیں کہے جاسکتے بلکہ متکبر اور مشرک کہلاتے ہیں.کیوں؟ اس لئے کہ وہ خیال کرتے ہیں کہ خُدا ہماری خدمت کا محتاج ہے اور ہم نے خدمت کر کے خُدا پر احسان کیا ہے.پھر جولوگ کچھ خدمت کرتے ہوئے اقرار کرتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں کر رہے.ہم سے جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے احسان اور فضل کے ماتحت ہی ہوتا ہے.ان کے بھی دوگروہ ہیں ایک تو وہ گروہ جو منہ سے کہتا ہے کہ جی ہم کچھ نہیں کرتے اور نہ ہی کچھ کر سکتے ہیں.یہ اور اس طرح کے کلمات سے وہ اپنا انکسار اور عاجزی ظاہر کرتا ہے.لیکن در حقیقت اس کے دل میں تکبر ہوتا ہے اور عملاً اس کی حرکات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے اپنی خدمات سے خُدا

Page 445

خطبات محمود جلد (5) ۴۳۴ پر احسان کر رہا ہے گو وہ منہ سے کہے کہ ہم سے کیا ہو سکتا ہے.خدا کی توفیق اور فضل سے ہی ہمیں کچھ کرنے کا موقعہ ملا ہے.اور خدا تعالیٰ کے احسانات کا کیا شکریہ ادا کر سکتے ہیں.لیکن درحقیقت یہ گروہ بھی انہی لوگوں میں شامل ہوتا ہے جو خُدا پر احسان رکھتے اور اس کا اظہارا اپنی زبانوں سے بھی کرتے ہیں.ایسے لوگوں کے دل کے گہرے گڑھوں اور پوشیدہ کونوں میں تکبر اور معجب بھرا ہوتا ہے.اس کا پتہ اُن کے اس انکسار سے لگ سکتا ہے جو محض تکلف اور بناوٹ کے طور پر ہوتا ہے.ان میں حقیقی طور پر شکر گذاری کا مادہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے جب کوئی موقعہ پڑتا ہے تو ان کا سارا انکسار جا تا رہتا ہے.اور ان کی حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے.ایسے انکسار کو عربی میں تو اضع کہتے ہیں اور یہ تکلف ہوتا ہے.کہتے ہیں کسی جگہ دو ہندوستانی اکٹھے ہو گئے.یہ دونوں ایسے علاقوں کے تھے جہاں کے لوگوں کا دعویٰ تھا کہ ہم تہذیب میں دوسرے علاقہ کے لوگوں سے بڑھ کر ہیں.اب گو تکلف بہت کم ہو گیا ہے.مگر مسلمانوں کے آخری زمانہ میں بہت بڑھ گیا تھا.اور وہ دونوں اس آخری زمانہ کے باقی ماندہ تھے.ان میں سے ایک سید تھا.دوسرا مغل.دونوں سٹیشن پر کھڑے تھے اتنے میں ریل آگئی ایک نے دوسرے کو سوار ہونے کے لئے کہا مرزا صاحب آپ گاڑی پر تشریف رکھیئے دوسرے نے کہا میر صاحب آپ تشریف رکھیئے بار بار کہتے اور اپنے متعلق عجز کے الفاظ استعمال کرتے رہے کہ گاڑی چل پڑی.اب دونوں کو تکلف بھول گیا.اور جلد سوار ہونے کے لئے ایک دوسرے کو دھکے دینے لگے.یہی حالت ظاہری تواضع اور تکلف کی ہوا کرتی ہے اور اس کی حقیقت اس وقت کھلتی ہے جب خطرہ یا نقصان کا موقعہ آئے.اور ایسے وقت میں انسانوں کی آزمائش ہوتی ہے.مثلاً ایک شخص جو کوئی دینی خدمت کرتا ہے یا نہیں کرتا.مگر اپنی طرف سے کوشش کرتا ہے وہ اگر کہتا ہے کہ میرے لئے جو خدمت مقرر ہے مجھ میں کہاں طاقت ہے کہ اس کو اچھی طرح بجالا سکوں لیکن جہاں اس خدمت کے نتیجہ اور بدلہ میں اسے کچھ ملنے کی اُمید ہوتی ہے وہ اس کو نہیں ملتا بلکہ ایک ایسے شخص کو مل جاتا ہے جو اس کے خیال میں اس کا مستحق نہیں ہوتا تو وہ کہہ دیتا ہے کہ حق تو میرا تھا.وہ کیوں لے گیا.یا مثلاً ایک غلام ہے وہ آقا کو کہتا ہے کہ جو کچھ آپ مجھے دیتے ہیں وہ آپ کی نوازش اور مہربانی ہے.ورنہ خدمات کچھ بھی نہیں.لیکن جب ترقی یا انعام کا موقعہ آئے.اور آقا دوسرے کو دے دے.تو وہ یہ کہنے لگ جائے کہ میری خدمات کی طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی تو اس سے اس کی انکساری کی حقیقت کھل جائے گی.کیونکہ اگر واقعہ میں وہ اپنی خدمات کو حقیر سمجھتا ہوگا تو ایسے موقعہ پر اپنی حق تلفی نہیں سمجھے گا.لیکن اگر

Page 446

خطبات محمود جلد (5) ۴۳۵ ایسے موقعہ پر وہ بُرا منا تا.اور چڑتا ہے تو معلوم ہوا کہ وہ اپنا کچھ حق سمجھتا تھا.اس وقت پتہ لگ جاتا ہے کہ واقع میں اس میں تو اضع تھی یا تکلف کے طور پر تواضع کا اظہار کرتا تھا.لیکن جو لوگ اس قسم کے امتحانوں میں کامیاب ہو جاتے ہیں.وہی اس بات کے مستحق ہوتے ہیں کہ انہیں خدا تعالیٰ کے لئے خدمت کرنے والے سمجھا جائے.لیکن ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں.اکثر ایسے ہی دیکھے گئے ہیں کہ اپنے نزدیک جو اپنا وہ درجہ قرار دے لیں اگر اس کے خلاف اُن سے سلوک ہو جائے تو سب انکسار اور تواضع بھول جاتے ہیں.اور کہہ اُٹھتے ہیں کہ ہماری خدمات کا کوئی لحاظ نہیں کیا گیا.یہی حال دینی امور میں بھی ہوتا ہے.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب کسی دینی امر میں کسی اور کو ان پر فوقیت مل جائے تو اعتراض کرنے شروع کر دیتے ہیں.پھر جن باتوں کا فیصلہ خدا تعالیٰ کرے.ان کے متعلق بھی خدا تعالیٰ پر اعتراض کرنے والے ہوتے ہیں.یوں تو کہیں گے کہ اللہ کا ہم پر بڑا احسان اور فضل ہے.بڑے انعامات ہیں.مگر جب کوئی مصیبت آئے تو کہدیتے ہیں کہ نمازیں پڑھ کر اور روزے رکھ کر دیکھ لیا کچھ فائدہ نہ ہوا.گویا وہ جو نمازیں پڑھتے اور روزے رکھتے تھے وہ خدا پر احسان کرتے تھے.میں نے بتایا ہے کہ ایسے لوگوں کی حالت ان سے بھی بدتر ہوتی ہے جو خُدا کے راستہ میں کوئی کام ہی نہیں کرتے.ایک شخص جو نماز نہیں پڑھتا روزے نہیں رکھتا.وہ غافل اور بہت بڑی سزا کا مستحق ہے.مگر ایک ایسا شخص جو کوئی تبلیغی کام کرتا ہے.یا علم پڑھاتا ہے خواہ وہ الفاظ میں اس بات کا احسان خدا تعالیٰ پر جتلا دے.خواہ اس کے دل کے کسی کو نہ میں یہ بات مخفی ہو کہ میں خُدا تعالیٰ پر احسان کر رہا ہوں.وہ بہت زیادہ خطرہ میں ہے.کیونکہ پہلے انسان کی نسبت کہہ سکتے ہیں کہ اس کی شستی اور غفلت ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ مجھے خُدا کی کوئی پروا نہیں کہ اس کے احکام کو مانوں.مگر دوسرے انسان کے اعمال کا یہ ترجمہ ہوتا ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ خُدا میرا محتاج ہے ان دونوں فقروں میں کہ ایک کہتا ہے مجھے خُدا کی کوئی پروا نہیں اور دوسرا کہتا ہے.خُدا میرا محتاج ہے.سمجھ لو کہ کونسا زیادہ سخت ہے.اس میں شک نہیں کہ پہلا فقرہ بھی بہت سخت اور بہت بڑی سزا کا موجب ہے.مگر دوسرا اس سے بھی زیادہ ہے.پس یہ خیال بہت ہی خطرناک اور بڑے نتائج پیدا کرنے والا اور انسان کو ہلاکت تک پہنچانے والا ہے.کیونکہ ایسے لوگوں کو ذرا ذراسی بات پر ٹھوکر لگ جاتی ہے.ایک سمجھتا ہے کہ یہ میرے حقوق ہیں اور جب اس کے سمجھے ہوئے حقوق میں سے کچھ دوسرے کو مل جاتا ہے تو سب کچھ بھول جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قل ھو اللہ احد کہو اللہ ایک ہے.ہر بات میں وہ واحد ہے.اور کوئی اس کا شریک نہیں.اللہ الصمد اللہ وہ ہستی ہے کہ ہر ایک چیز اس کی محتاج ہے اور وہ کسی کا محتاج نہیں ہے.

Page 447

خطبات محمود جلد (5) ۴۳۶ اس آیت میں مسلمانوں کو شرک سے بچنے کی تعلیم دینے کے علاوہ یہ بھی نصیحت کی گئی ہے کہ اگر تم کوئی دینی خدمت کرتے ہو تو یہ خُدا تعالیٰ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایسا موقعہ دیا کہ تم خُدا پر یا اس کی طرف سے جو جماعت کے انتظام کے لئے مقرر کیا جاتا اس پر کوئی احسان جتلاؤ.ایسا کرنے والے ہمیشہ ہلاک اور تباہ ہوا کرتے ہیں.دیکھ لو ہم میں سے ابھی جو لوگ علیحدہ ہوئے ہیں وہ کون تھے.وہی تھے جنہوں نے کوئی کام کیا اور کہا کہ ہم نے بڑی بڑی دینی خدمتیں کی ہیں.خدا تعالیٰ نے ان کو اپنی جماعت سے نکال کر اس طرح باہر پھینک دیا جس طرح دودھ سے لکھی.ابھی مولوی محمد احسن صاحب جُدا ہوئے ہیں.ان کی بھی یہی حالت تھی کہ بڑا فخر کیا کرتے اور کہتے تھے کہ میں نے یہ کیا وہ کیا.چونکہ اللہ تعالیٰ کو یہ بات سخت نا پسند ہے کہ کوئی انسان اس پر احسان رکھے.اس لئے ایسے انسان ہمیشہ گرائے اور نیچے پھینکے جاتے ہیں.پس میں اپنی جماعت کے لوگوں کو خاص طور پر یہ نصیحت کرتا ہوں کہ گو وہ حصہ جو خطرناک طور پر اس مرض میں گرفتار تھا وہ نکل گیا ہے.مگر ابھی تک کچھ نہ کچھ ہے ہی.بعض کہتے ہیں ہمیں فلاں حق کیوں نہیں دیا گیا اور ہم سے فلاں قسم کا سلوک کیوں نہیں کیا گیا.میں کہتا ہوں.جب وہ دینی خدمت کرتے ہیں تو پھر حق کیسا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ایک جنگ کے موقعہ پر جبکہ حضرت عمرؓ.خالد اور ابو عبیدہ جیسے نامور اشخاص لشکر میں شامل تھے.اسامہ بن زید کو لشکر کا سپہ سالار بنایا گیا تھا جس کی عمر ۱۸ سال کی تھی.اور جس نے کوئی خدمت نہ کی تھی مگر بڑے بڑے صحابہ میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہ کہا کہ ہماری خدمات کی طرف توجہ نہیں کی گئی.واقعہ میں ہر ایک مومن کو ایسا ہی ہونا چاہیئے کیونکہ جب اللہ کے لئے دینی خدمت کی جائے تو پھر اس کے کیا معنی کہ ہماری خدمات کا لحاظ نہیں کیا گیا.اللہ تعالیٰ تو انسانوں کو پہلے دیتا ہے اور اس کے بعد وہ اس کے راستہ میں کچھ صرف کرتے ہیں.ایک نوکر اپنے آقا کی خدمت آئندہ ملنے والی تنخواہ کے لئے کرتا ہے مگر انسان جو اللہ تعالیٰ کے لئے کام کرتا ہے.وہ اس انعام کے بدلہ کرتا ہے جو اسے پیشتر مل چکا ہوتا ہے.خدا تعالیٰ چونکہ احد ہے.انسان اگر کسی سے کچھ کام لیتے ہیں تو اس چیز کے بدلے بعد میں دیتے ہیں لیکن اللہ اپنے بندوں کو جو کام بتلاتا ہے وہ اس کے بدلے میں ہے جو انہیں دے چکا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا.قومی دیئے دولت علم عقل و ہمت دی.اس کے بعد کہتا ہے کہ ان میں سے کچھ ہمارے راستہ میں خرچ کرو.اللہ تعالیٰ یہ نہیں کہتا کہ پہلے تم کوئی کام کرو تو پھر میں تمہیں یہ چیزیں دوں گا.کیونکہ ہر ایک چیز اس کی محتاج ہے.جب ہر چیز محتاج ہوئی.تو جب تک وہ چیزیں نہ دے اس وقت تک کوئی کام کس طرح کر سکتا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ پہلے 1:- بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم باب مناقب زید بن حارثہ.

Page 448

خطبات محمود جلد (5) ۴۳۷ دیتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ اس طرح کرو.پس جب خدا تعالیٰ کچھ کرنے سے پہلے ہی دے دیتا ہے تو پھر یہ کہنا کہ ہمارا حق نہیں ملا یا ہماری خدمات کا لحاظ نہیں کیا گیا حد درجہ کی نادانی نہیں تو اور کیا ہے.یہ تو ایسی بات ہے کہ ہم ایک مزدور کو بٹالہ بھیجیں اور آٹھ یا بارہ آنہ مزدوری اسے پہلے دے دیں.لیکن وہ واپس آکر کہے کہ مجھے کچھ نہیں دیا گیا.یہ اس کی جہالت نہیں ہوگی تو اور کیا ہوگا.تو اللہ تعالیٰ پہلے دیتا ہے اور بعد میں کام لیتا ہے.ایسی صورت میں دینی خدمت کر کے اپنا حق جتلانا گستاخی ہے.پس ایسے لوگ جو زبان سے تو کہتے ہیں کہ ہم خدا کے لئے کام کرتے ہیں.اور ہماری طاقت ہی کیا ہے کہ کوئی دینی کام کرسکیں جو کچھ ہوتا ہے خُدا کے فضل سے ہی ہوتا ہے.مگر اس وقت جبکہ اُن کی جگہ کسی دوسرے کو مقرر کر دیا جائے.یا ان کی نسبت کسی دوسرے کو کچھ زیادہ مل جائے تو وہ بھی انہیں لوگوں میں شامل ہو جاتے ہیں جو کوئی کام کر کے خُدا تعالیٰ پر احسان جتلاتے ہیں اور یہ مرض جو ان کے سینہ کے کسی کو نہ میں مخفی ہوتا ہے باہر نکل آتا ہے.اس لئے سب دوستوں کو چاہیے کہ اپنے نفسوں کا خاص طور پر مطالعہ کریں.اور اس مرض کو بالکل نکال دیں.مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس جماعت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو ذراسی بات پر کہدیتے ہیں کہ ہماری حق تلفی ہوئی ہے میں کہتا ہوں جب وہ دین کے لئے اور خدا تعالیٰ کے لئے کام کرتے ہیں تو حق تلفی کے کیا معنی دیکھو حضرت مسیح موعود نے خدا تعالیٰ کے حضور کس قدر عاجزی اور انکساری اختیار کی ہے فرماتے ہیں.کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں پھر فرماتے ہیں.ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں تو نالائق بھی ہو کر یا گیا درگاہ میں بار یہ ایک اتنا بڑا انسان اپنے متعلق کہتا ہے جس کی نسبت تمام انبیاء نے پیشگوئی کی.جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا موعود تھا.آپ کی امت میں بہت بڑے فتنہ کے وقت آپ کا نائب مقرر ہو کر آیا تھا.اور آپ کا بروز ہو کر کھڑا ہو ا تھا.پس جب وہ خُدا تعالیٰ کے حضور اس قدر گرتا اور فروتنی اختیار کرتا ہے کہ اپنے آپ کو انسان بھی نہیں قرار دیتا ہے.تو اور کسی نے اس کے مقابلہ میں دین کی کیا خدمت کرنی ہے کہ خدا تعالیٰ پر اپنا حق سمجھے.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے عظیم الشان انسان سے بھی جس کی غلامی سے حضرت مسیح موعود جیسا انسان

Page 449

خطبات محمود جلد (5) ۴۳۸ پیدا ہوا.جب حضرت عائشہ نے کہا کہ آپ تو عملوں کے ذریعہ جنت میں جائیں گے.تو آپ نے فرمایا نہیں میں بھی خُدا کے فضل سے ہی جنت میں جاؤں گا.پس وہ انسان جو سید الانبیاء اور اگلے پچھلے تمام انسانوں کا سردار ہے وہ بھی جب خدا کا نام آتا ہے.تو کہتا ہے کہ میرے عمل کیا اس کے فضل سے ہی جنت میں جاؤں گا.تو کیسا نادان ہے وہ انسان جو ان کے خادموں کا غلام ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ سے وہ مطالبہ کرتا ہے جو انہوں نے بھی نہیں کیا وہ ان کے غلاموں کا غلام ہونے کا مدعی ہے.مگر اللہ تعالیٰ کو اپنا غلام بنانا چاہتا ہے.حالانکہ کسی غلام کی یہ طاقت نہیں ہوتی کہ اپنے آقا کا مقابلہ کرے.پھر جو غلاموں کا غلام ہو.اُس کا کیا حق ہو سکتا ہے.تو یہ بہت بڑی بات ہے کہ جب بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنے حقوق نہیں ملے تو بڑا شور مچاتے ہیں.ایسے لوگوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ اگر وہ کوئی دینی خدمت کرتے ہیں تو ان کے دل سے یہ خیال نکل جانا چاہئیے.جب تک ان کو دینی خدمت کی توفیق ملتی ہے.انہیں سب کچھ پل رہا ہوتا ہے.لیکن جب انہیں حقوق کا خیال پیدا ہوتا ہے تو ان کا سب کچھ جاتا رہتا ہے.خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو توفیق دے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احسانوں کو سمجھے اور اس بات کا عملی طور پر ثبوت دے کہ اللہ اس کا محتاج نہیں.بلکہ وہ اللہ کی محتاج ہے.خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو ہر قسم کے تکبر سے بچائے.آمین.الفضل ۷ را پریل ۱۹۱۷ء) بخاری کتاب الرقاق باب القصد والمداومة على العمل.

Page 450

۴۳۹ 54 خطبات محمود جلد (5) احمدیہ کا نفرنس کے متعلق فرموده ۶ را پریل ۱۹۱۷ء حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد یہ آیت پڑھی:- يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ( آل عمران : ۲۰۱) بعد ازاں فرمایا:- اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحم اور احسان سے بنی نوع انسان کی ہدایت اور روحانی ترقی کے لئے اپنی صفت رحمانیت کے تقاضا کے ماتحت جس قسم کے سامانوں کی ضرورت تھی تمام مہیا کر دیئے ہیں اور کوئی چیز جو انسان کی روحانیت کے لئے ضروری ہو ایسی نہیں جس کے نازل اور مہیا کرنے میں دریغ کیا گیا ہو.چنانچہ جس محبت اور پیار.جس رحم اور کرم سے خدا تعالیٰ پہلے لوگوں کو دیکھتا تھا جس شفقت کی نظر ان پر تھی.اس مہربانی اور رحم وکرم سے ہم کو دیکھتا ہے.اور وہی نظر ہم پر ہے.اس کے رحم اور فضل کے سامانوں میں سے انبیاء کی بعثت بھی ایک سامان ہے.اس سے بھی ہم کومحروم نہیں رکھا گیا.اس زمانہ میں انبیاء کی اطاعت تو الگ رہی.لوگوں نے تو یہ بھی فیصلہ کر لیا تھا کہ اب کوئی نبی ہی نہیں آئے گا.اور کہا کہ اگر کوئی نبی آئے تو اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہوگی.یہ خیال قائم کر کے بعثت انبیاء اور ان کی اطاعت سے مخلصی حاصل کر لی تھی.مگر اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے ایک نبی مبعوث کر کے اپنی صفت رحمانیت کے ماتحت ہم پر خاص احسان کیا ہے.لیکن جہاں خدا تعالیٰ رحمن ہے.وہاں رحیم بھی ہے.جہاں اس نے صفت رحمانیت کے ماتحت ہمارے لئے سامان مہیا کئے ہیں.وہاں اس کی صفت رحیمیت اس بات کی مقتضی ہے کہ اس کے ماتحت کام کر کے فائدہ اٹھایا جائے اور یہ وہ لوگ کر سکتے ہیں جو اس کے فضل سے رحمانیت کے انعام کے وارث ہو چکے ہیں.اور وہ ہماری ہی جماعت کے لوگ ہیں.اس کے مطابق ہماری جماعت کے لوگ کام کرتے ہیں.اور ہر ایک جائز طریق سے کوشش

Page 451

خطبات محمود جلد (5) ۴۴۰ میں لگے رہتے اور عمدہ تجاویز پر عمل کرتے ہیں.انہی میں سے ایک احمدیہ کا نفرنس کی تحریک ہے.اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قائم کی ہوئی ایک انجمن ہے.جو صدر انجمن احمد یہ کہلاتی ہے.اس کے قائم کرنے کی غرض اور غایت یہ تھی کہ وہ اموال جولوگ یہاں خُدا کے راستہ میں خرچ کرنے کے لئے بھیجتے ہیں ان کی حفاظت کرے.اور دیانتداری کے ساتھ خرچ کرے.اگر کسی ایک شخص کے سپرد مال ہو تو اس میں کئی قسم کے نقص پیدا ہو سکتے ہیں.لیکن جب بہت سے لوگ مل کر کام کریں تو محافظت کا اچھا.سامان ہوسکتا ہے.صحابہ میں بھی یہی طریق تھا کہ مال کا انتظام بعض معتبر صحابہ کے سپر دتھا.اس لحاظ سے صدر انجمن مفید تھی اور ہے اور ہوگی.جب تک کہ دیانت اور امانت سے کام کرے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے فرمایا ہے کہ مجھے اس بات کا اندیشہ نہیں ہے کہ مال کہاں سے آئے گا.مال تو بہت آئے گا.مگر اس بات کا اندیشہ ہے کہ مال کو دیکھ کر لوگوں کے خیالات خراب نہ ہو جائیں ا.اس لئے اس احتیاط کی ضرورت تھی کہ مالوں کی حفاظت پورے طور پر ہو سکے.موجودہ اختلاف جو حضرت خلیفہ اول کے بعد ہوا.کتنا بڑا تھا.مگر اس سے بھی بڑے بڑے اختلافات ہو سکتے ہیں.حضرت علیؓ اور حضرت معاویہ کی جنگ بہت خطرناک تھی.یہ ہمارا اختلاف اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں تھا.اس وقت حضرت ابن عباس کے قبضہ میں مال تھا.جس وقت اختلاف ہوا.اور حضرت علی اور معاویہؓ میں جنگ چھڑی تو انہوں نے مال پر قبضہ کر لیا اور کہدیا کہ یہ میرا حصہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی قسم کے خطروں کو مد نظر رکھ کر دُور اندیشی سے ایک انجمن بنائی.اور اس کا نام انجمن معتمدین رکھا تا کہ وہ اموال جولوگوں کے اس کے قبضہ میں آئیں ان کو اچھی طرح اور صحیح طریق پر خرچ کرے.یہ ایک بابرکت اور مفید بات ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر عمدہ نتائج پیدا کرنے والی بات وہ ہے جو آپ نے الوصیت میں فرمائی ہے کہ سب میرے بعد مل کر کام کرو.اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ تمام احمدی اپنے اپنے وطن چھوڑ کر ایک جگہ آجائیں اور پھر کام کریں.کیونکہ اس طرح تو جماعت بجائے ترقی کرنے کے تنزل کی طرف جائے گی.سومل کر کام کرنے کے یہ معنے ہیں کہ آپس میں مشورہ سے کام کرو.اور یہ ثابت شدہ بات ہے کہ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی.اور نہ ہی اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتی ہے.جب تک اس کے سب افراد ان کاموں کو جن کا کرنا ان پر فرض کیا گیا ہے.دلچسپی اور جوش سے نہ کریں.اور ان کو انجام دینے میں حصہ نہ :- الوصیّت.

Page 452

خطبات محمود جلد (5) ۴۴۱ لیں.چونکہ انسانوں کے دماغ مختلف ہوتے ہیں.اس لئے کسی کام کے کرنے سے متعلق اگر زیادہ لوگ غور و خوض کریں تو ان کے ذہن میں مختلف طریق آتے ہیں.اور جب مختلف خیالات معلوم ہو جا ئیں تو ان میں سے زیادہ عمدہ باتیں معلوم ہو جاتی ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی طریق تھا کہ آپ کسی معاملہ کے متعلق صحابہ کو جمع کر کے ان سے مشورہ کر لیا کرتے تھے.ہاں یہ ضروری نہیں تھا کہ آپ ہر ایک کے مشورہ پر عمل بھی کرتے.آپ کو حکم تھا کہ وَشَاوِرُهُمْ فِي الأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ لا جس کام میں ضرورت ہو مشورہ لو.مگر جب کسی کام کے کرنے کا ارادہ کر چکو تو پھر اللہ پر توکل کر کے شروع کر لو.دیکھو یہ جو اذان دی جاتی ہے یہ اس طرح تجویز ہوئی کہ مشورہ کیا گیا کہ لوگوں کو نماز کے وقت کس طرح جمع کیا جایا کرے.کسی نے کوئی طریق بتایا.کسی نے کوئی ایک صحابی نے عرض کیا کہ میرے خیال میں ہر نماز کے وقت بلند آواز سے اللہ اکبر اللہ اکبر (ساری اذان ) کہا جایا کرے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کو پسند فرمایا.دوسرے دن ایک اور صحابی آئے اور انہوں نے کہا کہ مجھ کو رویاء میں یہ اذان بتائی گئی ہے..اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مجھے بھی رویا میں یہی بتایا گیا ہے ہے.اس سے معلوم ہوا کہ اس صحابی کی یہ بات خدا تعالیٰ کو بھی پسند آئی.اور اس نے رویاء کے ذریعہ بعض لوگوں پر ظاہر کر دی.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اس کی پسندیدگی کا خیال بھی پیدا کر دیا.بظاہر تو یہ ایک شخص کا مشورہ تھا.مگر خدا تعالیٰ کو اور رسول کریم کو بھی پسند آ گیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب تمام دنیائے اسلام میں یہی طریق رائج ہے.اور صفحہ عالم پر پانچ وقت روزانہ بلند آواز سے اس کا اعلان کیا جاتا ہے.تو مشورہ ایک عمدہ بات ہے.لوگوں کو اگر کوئی حکم دیا جائے کہ فلاں کام اس طرح کرو تو وہ اسے مان تو جاتے ہیں مگر دل میں اس کے کرنے کا خاص جوش پیدا نہیں ہوتا.مگر مشورہ کے ذریعہ سب کو ایک بات کی ضرورت معلوم ہو جاتی ہے.اور جب ضرورت معلوم ہو جائے تو لوگ جوش اور رغبت سے کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.پس مشورہ ایک مفید چیز ہے.مگر یہ نادانی ہے کہ کوئی کہے کہ ہمارے مشورہ پر عمل کیوں نہیں کیا گیا.مشورہ اور چیز ہے اور اس پر عمل کرنا ایک الگ چیز.کا نفرنس حضرت مسیح موعود کے اس حکم کو پورا کرنے والی ہے کہ میرے بعد مل کر کام کرو.صحابہؓ کے وقت بھی جب ایسی ضروریات پیش آتی تھیں تو بڑے بڑے بزرگ صحابہ کو بلا کر ان سے - بخاری کتاب الاذان باب بدء الاذان ا آل عمران : ۱۶ - ترمزی کتاب الاذان باب ماجاء في بدء الآذان.

Page 453

خطبات محمود جلد (5) ۴۴۲ مشورہ کر لیا جاتا تھا.اور جو خاص لوگ کہیں باہر ہوتے تھے.ان سے بھی خطوط کے ذریعہ مشورہ کر لیا جاتا تھا.حضرت علی اور حضرت معاویہ کے اختلاف اور حضرت معاویہؓ کے ابتلاء کی یہی وجہ ہوئی کہ انہوں نے کہا کہ جب وہ ایک صوبہ کے گورنر تھے تو کیا وجہ ہے کہ اُن سے مشورہ نہیں کیا گیا.اور انہوں نے حضرت علی کے اس مشورہ نہ لینے کو عداوت پر محمول کیا.پس خلفاء بھی حتی الامکان بیرونی لوگوں سے مشورہ لینے کی کوشش کرتے تھے.لیکن چونکہ اس وقت سفر کے سامان نہ تھے.اور نہ سفر میں ایسی آسانیاں تھیں.نہ ریل تھی.نہ ڈاک تھی نہ محکمہ تار تھا.اس لئے اگر تمام قوم کو جو دنیا کے مختلف حصص میں پھیلی تھی.اطلاع کی جاتی تو کوئی کام بآسانی نہ ہوسکتا.اور ہر ایک بات کے متعلق مشورہ کرنے کے لئے کم از کم پانچ سال کا عرصہ درکار ہوتا.اس صورت میں وہ کام جن کا جلد ہونا ضروری ہوتا.بہت دیر پر جا پڑتے.اور بہت نقصان ہوتا.اس لئے مقامی صحابہ سے ہی مشورہ کر لیا جاتا تھا.ہاں حج کا ایک ایسا موقعہ ہوتا تھا کہ تمام دنیائے اسلام کے لوگ وہاں جمع ہوتے تھے.اس لئے ان سے مشورتاً باتیں دریافت کر لی جاتی تھیں.چنانچہ حضرت عمرؓ کے خطبات حج میں ہم ان باتوں کو پاتے ہیں.آج چونکہ سفر میں بہت سہولتیں ہیں اور ایک قلیل مدت میں دور دراز کے لوگ جمع ہو سکتے ہیں.اس لئے ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیئے.پس میں سمجھتا ہوں کہ کانفرنس و ہی مجلس شوری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء کے وقت تھی.لیکن چونکہ اب بیرونی احباب بھی آسانی سے شامل ہو سکتے ہیں.اس لئے ہم ان آسانیوں سے فائدہ اٹھا کر ان کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں.میرے نزدیک کانفرنس ایک اہم امر ہے.اور وہ در حقیقت حضرت مسیح موعود کے اس حکم کو پورا کرنے کے لئے ہے جو آپ نے مالوں کی حفاظت اور مل کر کام کرنے کے متعلق دیا ہے.اور اس کی بنیاد آنحضرت کے وقت سے قائم ہے.دیکھو صدر انجمن کے سپرد صرف مدرسہ لنگر اور ایسے ہی دوسرے کام کئے گئے.جن کا تعلق چندہ سے ہے.مگر جماعت کا انتظام حضرت مسیح موعود نے انجمن کے سپرد نہیں کیا.اللہ تعالیٰ کے جو کام ہوتے ہیں وہ آہستہ آہستہ ہوتے ہیں.اب کی دفعہ چونکہ احباب باہر سے آئے ہیں.اور وہ ان امور پر غور کریں گے جو ان کے روبرو پیش کئے جائیں گے اور آپس میں مشورہ کر کے سوچیں گے کہ کس طرح کام کرنا چاہیئے.اور ہماری جماعت کی سیاسی حالت آئندہ کیا ہوگی.میں نے پہلے بھی بتایا ہے.اور اب بھی بتا تا ہوں کہ بہت سے لوگ سیاست کے معنوں سے واقف نہیں.اس لئے وہ صرف سلطنت اور حکومت سے ہی اسکا تعلق سمجھتے تاریخ سعودی ( مروج الذہب ) الجزء الثانی ص ۳۰۷.

Page 454

خطبات محمود جلد (5) ۴۴۳ ہیں.لیکن یہ درست نہیں ہے.سیاست کا تعلق ہر ایک انتظامی بات سے ہے.اور جس طرح سلطنتوں کی سیاست ہوتی ہے.اسی طرح مذہب کی بھی ایک سیاست ہے.سیاست کہتے ہیں اس انتظام کو جس کے ماتحت کسی کام کرنے والی جماعت کی طاقتیں محفوظ ہو کر ایک قاعدہ کے ماتحت اس طرح آجائیں کہ نہ ان سے اس قدر زیادہ کام لیا جائے جس سے آئندہ قوم کام کرنے کے قابل نہ رہے.اور نہ اتنا کم کہ کوئی کام ہی انجام نہ پاسکے.پس سیاست نام ہے جماعت کے اس انتظام کا جو مناسب حدود پر قائم کیا جائے.یہ آیت جو میں نے اس وقت پڑھی ہے.اس میں کچھ احکام بیان کئے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ اگر کامیاب ہونا چاہتے ہو تو ان پر عمل کرو.ہدایتیں جو اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہیں نہایت مکمل اور نہایت ضروری ہیں.کیونکہ یہ اس ہستی کی طرف سے ہیں جو عالم الغیب ہے.ان پر عمل کرنا کسی ایسی قوم کے لئے جو دنیا میں ترقی کرنا چاہتی ہو نہایت ضروری ہے.چونکہ ہماری جماعت کے لوگ بھی یہاں اسی غرض سے جمع ہوئے ہیں کہ وہ ایسی تجاویز سوچیں جن سے ترقی کر سکیں.اور آئندہ کے لئے اپنے طریق عمل پر غور کریں.پس میں اس آیت کے معنے بیان کر دیتا ہوں تا کہ مشورہ دیتے وقت اس آیت کا مضمون آپ لوگوں کو مد نظر ر ہے.فرمایا.یا ایها الذین امنو اصبروا.اے مومنو! اگر تم چاہتے ہو کامیاب ہونا تو آؤ ہم تمہیں کامیابی کے گر بتاتے ہیں.جن پر عمل کرنا یقینی کامیابی حاصل کرنا ہے.پہلا گر یہ ہے کہ تم اپنے اندر صبر کا مادہ پیدا کرو کہ اگر تم پر مصائب اور مشکلات آئیں تو تم ان کو برداشت کر سکو.اپنے اندر دلیری پیدا کرو.جو مضر باتیں ہیں ان سے بچنے کے لئے سخت کوشش کرو.اور جو مفید ہیں ان کے حصول کے لئے بہت سعی کرو.بہادری پیدا کرو.مشکلات و مصائب پر مت گھبراؤ.نا امیدمت ہو.بُری بات نظر آئے تو اس سے رک جاؤ.اچھی کے حاصل کرنے میں بڑھے جاؤ.یہ ہیں معنی اصبروا کے.جب کوئی قوم بڑھنا چاہتی ہے تو دوسری اس کا مقابلہ کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ اسے نہ بڑھنے دے.کیوں؟ اس لئے کہ بڑھنے والی قوم اسی صورت میں بڑھے گی کہ دوسری کو فنا کر دے.اور ان کو نگل جائے.پس چونکہ دوسری قومیں اس نئی قوم کے بڑھنے میں اپنی فنا دیکھتی ہیں تو وہ اپنی بقاء کے لئے اس کا مقابلہ ضروری سمجھتی ہے.اور جب تک کوئی قوم دوسری مد مقابل قوم کو اپنے اندر جذب نہ کر لے اس وقت تک وہ ترقی نہیں کر سکتی.اللہ تعالیٰ کی مخلوق محدود نہیں.مگر جب کوئی مخلوق ترقی شروع کرتی ہے.تو دوسری کا خاتمہ ہوتا ہے.اگر سمندر ترقی کرے تو خشکی باقی نہیں رہے گی.اگر خشکی بڑھے گی تو سمندرکم ہو جائے گا.کوئی چیز ہو.کوئی نسل ہو.جب وہ

Page 455

خطبات محمود جلد (5) ۴۴۴ ترقی کرے گی تو دوسری یقینا فناہوگی یہ ایک علمی مسئلہ ہے کہ کیوں دوسری مد مقابل چیز گھٹتی ہے.جس کی تفصیل کی یہاں ضرورت نہیں.ایک چیز کا گھٹنا دوسری کے بڑھنے اور دوسری کا بڑھنا پہلی کے گھٹنے کی علامت ہے.مثلاً جب مسلمان بڑھے تو دوسری قومیں جو ان کے مقابلہ میں تھیں کم ہونا شروع ہو گئیں.اس وقت مسلمانوں کی نسلی ترقی کے ساتھ مذہبی ترقی بھی ہوتی تھی جب ایک قوم کی تجارت بڑھے گی تو دوسری کی تجارت پر ضرور زوال آئے گا.پس جو قوم یہ چاہتی ہو کہ وہ تمام دنیا پر حاوی ہو جائے اس کی تبلیغ تمام دنیا پر ہو.وہ گویا تمام باقی مذاہب کو مٹانا چاہتی ہے.لیکن کون ہے جو چاہتا ہے کہ میری ہستی فنا ہو جائے.یہی وجہ ہے کہ تمام مذاہب کے لوگ سچے مذہب کے مقابلہ کے لئے مل کر کھڑے ہو جاتے ہیں.کیا وجہ تھی کہ مکہ کے لوگوں نے آنحضرت اور صحابہ کو ہر قسم کی تکلیفیں دینا شروع کر دی تھیں اور نبی کریم پر حملے کرنے شروع کر دیئے تھے.یہی کہ وہ دیکھتے تھے.کہ اگر ان کا مقابلہ نہ کیا گیا تو تمام لوگوں پر ان کا اثر ہو جائے گا.اور جب سب لوگ اسلام کو قبول کر لیں گے تو پھر ہمارے ان جنوں کی عزت چھوڑ دی جائے گی اور ان کی بہتک کی جائے گی.اب بھی یہی وجہ ہے کہ غیر احمدی ہر جگہ احمد یوں کو تکلیفیں دے رہے ہیں.وہ صداقت کا اسی طرح مقابلہ کرنا چاہتے ہیں وہ سب لوگ جو صداقت سے دور ہوتے ہیں.صداقت کا مقابلہ کرنے کے لئے جمع ہو جاتے ہیں.جس طرح بکریاں آپس میں لڑیں بھڑیں گی.مگر جب شیر آجائے تو وہ اپنی لڑائی چھوڑ دیں گی یا اور جانور ہوں.وہ لڑائیاں چھوڑ کر شیر کا مقابلہ کریں گے.اگر مقابلہ نہیں کر سکیں گے تو اپنے بچاؤ کی فکر تو ضرور کریں گے.پس یہی صورت ہے.جھوٹے مذاہب کی کہ وہ سب مل کر سچے کے مقابلہ میں جمع ہو جاتے ہیں.کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ مذہب پھیلا تو ہماری خیر نہیں.اس لئے وہ بہت سخت مقابلہ کرتے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.یا ایها الذین امنوا اصبروا کہ اے مومنو! چونکہ تم کو بڑھنا اور ترقی کرنا ہے.اس لئے تمہاری راہ میں ہر قسم کی تکالیف اور مصائب آئیں گی.لیکن ان سے گھبرانامت.بلکہ صبر سے کام لینا اور ان مصائب کو جو تم پر آئیں.بہادری سے برداشت کرنا.پس پہلا حکم یہ ہے کہ اپنے اندر صبر کا مادہ پیدا کرو.اپنی ناجائز امیدوں اور جوشوں کو دباؤ.اور ان کو روکنے کی کوشش کرو.پہلا حکم تو تھا اصبروا.دوسرا حکم ہے صابروا.اپنے ایک دوسرے سے بڑھ کر کام کرو.اس کا نام مصابرت ہے.یہ درجہ پہلے درجہ سے اعلیٰ بھی ہو سکتا ہے اور دوسرے درجہ پر بھی.صابر وا کے معنے ہیں ایک دوسرے کے مقابلہ میں صبر کر کے دکھاؤ.یعنی ہر ایک

Page 456

خطبات محمود جلد (5) ۴۴۵ کی یہی خواہش اور کوشش ہونی چاہئیے کہ میں دوسرے سے بڑھ جاؤں.اور ہر ایک کہے کہ بھئی تم تکلیف نہ اٹھاؤ.یہ کام میں کرتا ہوں.یہ ایک ایسا اصل ہے جس کے نہ سمجھنے کے سبب سے بہت سی قومیں ترقی کے میدان میں پیچھے رہ جاتی ہیں.مسلمانوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ تم میں سے ہر ایک کی یہ آرزو ہو کہ میں ہی غلبہ پاؤں.اور میں ہی اس کام میں زیادہ حصہ لوں یا اگر کسی سے کوئی تکلیف پہنچے اس کے بدلہ میں اس کے ساتھ نیکی کر کے صبر میں بڑھنے کی کوشش کرنا چاہئیے.یہ نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی کسی کے متعلق بات کرے تو وہ کہے کہ اس نے میری ہتک کی ہے.اب میں بھی اس سے انتقام لوں.یا یہ کہ جب قربانی کا موقعہ آئے تو یہ نہ ہو ہر ایک دوسرے کو کہے کہ آپ آگے بڑھیں.اور آپ یہ کام کریں.بلکہ یہ ہونا چاہیے کہ ہر ایک یہی کہے کہ میں اس کام کو کروں گا اور میں ہی سب کے آگے بڑھوں گا.اس طرح ہر ایک اپنے اپنے فوائد کو قربان کرے یہ نہ ہو کہ ہر ایک دوسرے کے مقابلہ میں اپنے فوائد کو مقدم کرے.حضرت صاحب دو صحابیوں کے متعلق ایک بات سناتے تھے.میں نے تو ان کا حال کسی کتاب میں نہیں پڑھا.مگر چونکہ حضرت صاحب سناتے تھے اس لئے بیان کرتا ہوں.ایک بازار میں گھوڑا بیچنے کے لئے لایا.دوسرے نے اس سے قیمت دریافت کی.اس نے کچھ بتائی لیکن خریدنے والے نے کہا.نہیں اس کی یہ قیمت ہے.اور جو اس نے بتائی وہ بیچنے والے کی بتائی ہوئی قیمت سے زیادہ تھی.لیکن بیچنے والا کہے میں تو وہی قیمت لوں گا.جو میں نے بتائی ہے اور خریدنے والا کہے نہیں میں یہی قیمت دوں گا جو میں نے قرار دی ہے.یہ تو صحابہ کا ایک معمولی واقعہ ہے.وہ لوگ تو ہر ایک نیکی کے میدان میں ایک دوسرے سے بڑھنا چاہتے تھے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.تم نیکی میں ایک دوسرے سے بڑھو اگر ایک دین کا کوئی کام کرے تو تم کوشش کرو کہ اس سے بھی بڑھ کر کرو اور دوسرے کے مقابلہ میں اپنے نفس کو قربان کرو.صحابہ کی عجیب شان ہے.ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مہمان آئے آپ نے صحابہ میں ایک ایک کر کے تقسیم کر دیئے.ایک صحابی دو مہمانوں کو اپنے گھر لے گئے.بیوی سے کھانے کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا صرف دو آدمی کا کھانا ہے جو صرف بچوں کے لئے ہے لیکن میں ان کو سلا دیتی ہوں.چنانچہ ایسا ہی کیا گیا.لیکن پھر یہ خیال ہوا کہ یہ مہمان اس وقت تک کھانا نہیں کھائیں گے جب تک کہ ہم بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر نہ کھا ئیں گے.مگر کھانا اتنا نہیں کہ سب کے لئے کافی ہو سکے.اس لئے وہ بھوکے رہ جائیں گے اس کے متعلق صحابی نے بیوی کو کہا

Page 457

خطبات محمود جلد (5) ۴۴۶ ایک تدبیر کرنی چاہئیے.اور وہ یہ کہ جب کھانا کھانے بیٹھیں گے تو میں تمہیں کہوں گا چراغ کی بتی اونچی کر دو لیکن تم بجائے اونچی کرنے کے اس طرح کرنا کہ چراغ بجھ جائے.پھر میں معذرت کر دوں گا کہ چراغ جلانے کا کوئی سامان نہیں آپ کو بہت تکلیف ہوئی ہے معاف فرمائیں اور اندھیرے میں ہی کھانا کھا لیں.جب وہ اندھیرے میں کھانا شروع کریں گے تو ہم ساتھ یونہی مچا کے مارتے رہیں گے جس سے وہ سمجھیں گے کہ یہ بھی کھا رہے ہیں.چنانچہ اسی طرح کیا گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی بتلا دیا.جب یہ صحابی صبح گئے تو آپ ہنسے اور فرمایا کہ خدا تمہارے اس فعل سے بہت خوش ہوا ہے اور ہنسا ہے.چونکہ خدا تعالیٰ ہنسا ہے.اس لئے میں بھی ہنستا ہوں.تو یہ تھی ان لوگوں کی شان.اوّل تو ایک کی بجائے دو مہمان لئے.پھر بچوں کو بھو کا سلا یا.خود بھوکے رہے مگر یہ گوارا نہ کیا کہ مہمان بھو کے رہیں.اور بہت سے واقعات ہیں.مثلاً ایک دفعہ بحرین سے مال آیا آنحضرت نے انصار سے کہا کہ آؤ تمہیں مال دوں.انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ مہاجرین ہم سے زیادہ مستحق ہیں ان کو دیا جائے.اگر چہ اللہ کو یہ بات پسند نہ آئی کہ کیوں انہوں نے حکم نہ مانا.مگر یہ ضرور ہے کہ فی نفسہ یہ بات بُری نہ تھی.اس کا نتیجہ یہ تھا کہ انہوں نے خوب ترقی کی اور خوب بڑھے.پس دوسری بات یہ ہے کہ نہ صرف اپنے نفس کو ہی قابو کرناسکھو بلکہ نیکی میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرو.تیسرا طریق یہ ہے کہ رابطوا جب ان دو مراتب کو طے کر چکو تو دشمن پر حملہ کرو پھر تمہیں گھر میں رہنے کی ضرورت نہیں.سرحدوں پر ڈیرے ڈال دو.جب جماعت میں صبر اور ایک دوسرے سے بڑھ کر کام کرنے کی طاقت پیدا ہو جائے تو پھر اس کے لئے دشمن پر حملہ کرنا اور اس میں کامیاب ہونا آسان اور یقینی ہوتا ہے.اس لئے فرمایا ان دو باتوں کے بعد سرحدوں کو مضبوط کر لو.اور بجائے اس کے کہ تم پر دشمن حملہ آور ہو تم اس پر حملہ کرو.یہ سب باتیں کرو اور ساتھ ہی اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.اگر ایسا کرو گے.توضرور فلاح پاؤ گے.چونکہ کا نفرنس کے اجتماع کا یہ پہلا موقعہ ہے اور اس دفعہ مناسب سمجھا گیا کہ ایک ان مسلم کتاب الاشربہ باب اکرام الضیف.بخاری کتاب مناقب الانصار باب قول النبی بالا نصار - اصبر واحتی تلقونی علی الحوض.

Page 458

خطبات محمود جلد (5) ۴۴۷ رات کی بجائے زیادہ وقت معاملات پر غور کرنے کے لئے رکھا جائے.اس کے لئے کچھ احباب آگئے ہیں.اور کچھ ابھی آئیں گے.کل کا نفرنس ہوگی.میں احباب کو نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے وہ اختلاف رائے وغیرہ کی صورت میں صبر سے کام لیں.اور ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرنے میں بڑھنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق دے اور نیک نتائج پیدا کرے.(الفضل ۱/۲۴ پریل ۱۹۱۷ء)

Page 459

۴۴۸ 55 خطبات محمود جلد (5) تمام خوبیاں صرف خُدا تعالیٰ میں ہیں (فرموده ۱/۲۷ پریل ۱۹۱۷ء) حضور نے تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ:- انسان کا تجربہ اور مشاہدہ جتنا کم ہوتا ہے.اتنا ہی وہ نئی چیزوں کو دیکھ کرنا پسند کرتا یا خوش آئند پا کر اس کے جوش زور سے ابھرتے ہیں.لیکن جتنا اس کا مشاہدہ وسیع ہوتا جاتا ہے.اسی قدر اس کا جوش اس کے قابو میں آجاتا ہے.دیکھو ایک سیاح جو دنیا کے مختلف کونوں میں پھر چکا اور جو مختلف قسم کی اشیاء کو دیکھ چکا ہے.جب اس کی نظر کسی نئی چیز پر پڑے گی تو وہ اپنے جوش کو دبانے پر قادر ہوگا.اور کسی نئی چیز کو دیکھ کر خوشی یا نا خوشی کے اظہار کے لئے بے اختیار نہیں ہو جائے گا.برخلاف اس کے ایک بچہ ہے.جس کا تجربہ اور مشاہدہ بالکل محدود ہوتا ہے یا ایک گاؤں کا رہنے والا.ہل چلانے والا ہے جب وہ کسی نئی چیز کو دیکھتا ہے.جو اسے خوشنما معلوم دیتی ہے تو اس کی آنکھیں اس کے پاؤں قابو میں نہیں رہتے خواہ کوئی کیسی ہی ادنیٰ چیز ہو.مگر ہوایسی جو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھی ہو.تو وہ بڑی توجہ اور حیرانی سے اسے دیکھے گا.کیوں؟ اس لئے کہ اس کا مشاہدہ بہت محدود اور تنگ دائرہ تک ہوتا ہے.غرض مشاہدہ کا کم ہونا اور وسعت نظر کا نہ ہونا ہر ایک نئی چیز کو عجوبہ اور عزت انگیز بنادیتا ہے.ایک ایسا انسان جسے کبھی کوئی خاص خوشی نہ پہنچی ہو.جب خوشی پہنچے تو وہ اس کے اظہار کے لئے بے اختیار ہو جاتا ہے.اسی طرح ایک ایسا شخص کہ جس نے خوشی میں ہی اپنی تمام زندگی بسر کی ہو.اس کو اگر کوئی معمولی سا رنج بھی پہنچ جائے تو وہ برداشت نہیں کرسکتا.ایک مثل مشہور ہے.خُدا بہتر جانتا ہے کہاں تک درست ہے.کہتے ہیں ایک عورت تھی.اس کو زیور بنوانے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا تھا.ایک دفعہ اس نے انگوٹھی بنوائی تو کسی نے انگوٹھی کی طرف توجہ نہ کی.اس پر اس نے اپنے گھر کو آگ لگا دی.جب گھر جل کر راکھ کا

Page 460

خطبات محمود جلد (5) ۴۴۹ ڈھیر ہو گیا تو عورتیں افسوس کے لئے آتیں اور پوچھتیں کہ کچھ بچا بھی ہے.وہ کہتی کہ صرف یہ انگوٹھی بچی ہے.اور کچھ نہیں بچا.ایک عورت نے کہا.بہن یہ انگوٹھی کب بنوائی ہے تو اس نے چیخ مار کر کہا کہ اگر مجھ سے یہ پہلے پوچھا جاتا تو میرا گھر کیوں جلتا.گو یہ ایک قصہ اور کہانی ہے.لیکن اس میں شک نہیں کہ جو لوگ کم حوصلہ کم تجربہ اور کم مشاہدہ رکھتے ہیں ان کو اگر کوئی خوشی کی خبر پہنچتی ہے یا کوئی ایسی چیز حاصل ہوتی ہے جسے وہ اچھا سمجھتے ہیں تو وہ اس پر اتراتے ہیں اور پھولے نہیں سماتے.گووہ کیسی ہی حقیر اور ادنی درجہ کی کیوں نہ ہو.ایسے لوگ جو حقیر کو معزز.صغیر کو کبیر اور قلیل کو کثیر سمجھ لیتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے حوصلے وسیع نہیں ہوتے.اسی طرح غم اور مصیبت کے متعلق ہوتا ہے.بعض لوگ جن کو کبھی غم نہیں پہنچا ہوتا.اگر ذرا سی رنجیدہ بات دیکھیں تو گھبرا جاتے ہیں.اور ایک کانٹا بھی چبھ جائے تو تلملا اٹھتے ہیں.ایک تو وہ ہوتے ہیں جو خوشی کے اظہار کے لئے گھر بار کو خاک کر دیتے ہیں.اور ایک یہ ہوتے ہیں کہ جو کانٹے کے چھنے جتنی تکلیف پر بھی شور مچاتے ہیں.وجہ یہی ہے کہ ان کی نظر وسیع نہیں ہوتی.جوں جوں کسی انسان کا تجربہ اور مشاہدہ بڑھتا جاتا ہے اس کے جوش اس کے قابو میں آتے جاتے ہیں.ہر ایک رنگ اور ہر ایک طریق میں یہی بات ہے.جس کو مختلف تجارب ہوتے جاتے ہیں وہ کبھی کسی بات پر نہیں گھبراتا.اور جن لوگوں میں کسی قسم کے تجارب کی کمی ہوتی ہے.ان سے اسی قسم کی کمزوریاں سرزد ہوتی ہیں.بعض لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جن کو تجارب کا موقعہ ہی نہیں ملتا.لیکن بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو موقع تو ملتا ہے مگر وہ توجہ نہیں کرتے.ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کسی مکان کے پاس سے مہینوں نہیں سالوں گذرتا رہتا ہے.مگر اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس مکان کی دیوار میں کتنے روشندان اور کتنی کھڑکیاں ہیں.کیوں؟ اس لئے کہ اس نے باوجود پاس سے گذرنے کے ان کی طرف توجہ ہی نہیں کی ہوتی.تو بہت سے لوگ ارد گرد کی چیزوں کی طرف توجہ نہیں کرتے جس سے انہیں تجر بہ اور مشاہدہ نہیں ہوتا.اور یہ ان کی سستی اور لا پرواہی ہوتی ہے.ایسے لوگ باوجود وسیع دنیا میں رہنے کے ایک مختصر اور نہایت ہی محدود دنیا میں رہتے ہیں.ان کے حوصلے پست ہوتے ہیں کیونکہ ان کا مشاہدہ وسیع نہیں ہوتا.اور جب مشاہدہ وسیع نہیں ہوتا تو گویا ان کے لئے دنیا ہی تنگ ہوتی ہے.اس لئے وہ تھوڑی سی خوشی کو زیادہ خوشی سمجھ لیتے ہیں.اور ادنی سے رنج پر بہت زیادہ مصیبت کا اظہار کرتے ہیں.

Page 461

خطبات محمود جلد (5) ۴۵۰ بچوں کو دیکھو ان کی یہی حالت ہوتی ہے.لیکن جوں جوں ان کے تجارب بڑھتے جاتے ہیں.اوران کا مشاہدہ وسیع ہوتا جاتا ہے.اسی قدر ان کی حالت کی اصلاح ہوتی جاتی ہے اور وہ زیادہ وقار سیکھ جاتے ہیں.مگر تجربہ سے پہلے وہ تھوڑی سی بات پر بھی خوش یا نا خوش ہو جاتے ہیں اور نئی چیز جہاں کہیں نظر آئے یا کوئی نئی بات پیش آئے تو ان کے جوش زور کر کے باہر آتے ہیں.تمدنی تعلقات انسان کو تجربہ اور مشاہدہ کرا کے بہت پختہ کر دیتے ہیں.ایسا انسان نہ تو کسی نئی چیز کو دیکھ کر حیرت اور تعجب کا اظہار کرتا ہے اور نہ کسی تکلیف اور مشکل کے وقت جھٹ گھبرا جاتا ہے.لیکن جو شخص الگ تھلگ زندگی بسر کرے گا اُس کا تجربہ اور مشاہدہ نہایت محدود رہے گا.تمدن انسان کو رنج کا خوگر اور خوشی میں حد اعتدال سے متجاوز نہ ہونا سکھاتا ہے.مگر وہ انسان جس نے اپنی آنکھوں سے کبھی کوئی بات نہ دیکھی ہو وہ بہت جلد گھبرا جائے گا.ہر ایک وہ چیز جو کچھ بھی اپنے اندر عجوبہ رکھتی ہو اس پر بے حد تحیر ظاہر کریگا.ایسا آدمی خاص طور پر کار آمد اور مفید نہیں ثابت ہو سکتا.مثلاً کہیں مبلغ بنا کر بھیجا جائے اور وہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ نہ پائے.یا ان میں کوئی اور کمزوری محسوس کرے یا اپنی تبلیغ کا کوئی فوری اثر نہ دیکھے تو بالکل ہمت ہار بیٹھتا ہے.وہ چونکہ لوگوں کو فرشتہ دیکھنا چاہتا ہے.اس لئے ان کی معمولی معمولی کمزوریوں پر اس کی حالت دگرگوں ہو جاتی ہے.اس کی حالت ایک ایسے بچہ کی سی ہوتی ہے.جو بہت جلد ناراض ہوتا اور رودیتا ہے یا بہت جلدی خوش ہو جاتا اور ہنس دیتا ہے.اور اس کی یہ حالت اس لئے ہوتی ہے کہ وہ کثرت سے موافق و مخالف بات دیکھنے کا عادی نہیں ہوتا.مگر جب وہ اس قسم کے بہت سے نظارے دیکھ لیتا ہے تو اس پر کبھی گھبراہٹ نہیں آتی.بعض لوگ حضرت مسیح موعود کے پاس آتے اور کہتے کہ ہمارے گاؤں میں فلاں شخص ہے اگر وہ احمدی ہو جائے تو تمام گاؤں کے لوگ احمدی ہو جائیں گے.حالانکہ ان کا یہ خیال صحیح نہیں ہوتا.کیونکہ اگر وہ مان بھی لے تب بھی بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو نہیں مانتے اور تکذیب سے باز نہیں آتے.چنانچہ ایک گاؤں میں تین مولوی تھے وہاں کے لوگ کہتے کہ اگر ان میں سے کوئی مرزا صاحب کو مان لے تو ہم سب کے سب مان لیں گے.ان میں سے ایک نے بیعت کر لی.تو سب لوگوں نے کہدیا کہ ایک نے مان لیا تو کیا ہوا اس کی تو عقل ماری گئی ہے.ابھی دونے نہیں مانا.پھر ایک اور نے بیعت کر لی.تو پھر مخالفین نے یہی کہا کہ ان دونوں مولویوں کا کیا ہے.ابھی ایک نے تو بیعت نہیں کی ہے.

Page 462

خطبات محمود جلد (5) ۴۵۱ ایسے واقعات ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں.لیکن جن لوگوں کا تجربہ وسیع نہیں ہوتا وہ اسی دھن میں لگے رہتے ہیں کہ فلاں شخص مان لے تو سب لوگ مان لیں گے مگر اکثر ایسا نہیں ہوتا.پھر بعض دفعہ وہ کسی میں کوئی معمولی نیکی دیکھ لیتے ہیں تو اُس کو چڑھا کر غوث و قطب اور ابدال تک کا درجہ دے دیتے ہیں.اور اگر کسی میں ان کو معمولی درجہ کی کوئی کمزوری نظر آتی ہے تو ابوجہل کا خطاب دینے میں ان کو باک نہیں ہوتا.کبھی وہ ادنی باتوں کے بڑے عظیم الشان نتائج سمجھ بیٹھتے ہیں.اور کبھی بڑی اور عظیم الشان باتوں کے معمولی اور ادنی درجہ کے نتائج خیال کر لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ وہ تجربہ کار انسان بنیں.چنانچہ فرماتا ہے.الحمد لله ربّ العلمین.کہ اگر تم کوئی ایسی کامل ہستی دیکھنا چاہتے ہو جس میں کوئی عیب کوئی نقص اور کوئی سقم نہ ہو.تو وہ صرف اللہ ہی ہے.کوئی انسان ایسا نہیں ہو سکتا جس میں کوئی بھی سقم اور کمزوری نہ ہو.انبیاء علیہم السلام کا گروہ معصوم ہے.مگر بشریت کی کمزوریاں تو ان میں بھی پائی جاتی ہیں.اور اجتہادی غلطیاں تو ان کو بھی لگتی ہیں.اس میں شک نہیں کہ شرعی گناہوں سے وہ لوگ بالکل پاک ہوتے ہیں.اور کوئی شرعی گناہ ان سے سرزد نہیں ہوتا.تاہم بشری کمزوریاں ان میں بھی ضرور پائی جاتی ہیں.وہ بیمار ہوتے ہیں.جسمانی تکالیف اٹھاتے ہیں.پس ہر قسم کے نقائص سے پاک تو صرف اللہ ہی کی ذات ہے.ایک انسان دوسرے کی کمزوریوں پر تو اعتراض کرتا ہے.لیکن اگر اپنے نفس کو دیکھے تو پھر اس کو خود معلوم ہو جائے گا کہ خود اس میں کس قدر کمزوریاں ہیں.اسی طرح انسان اگر خوبیوں کو دیکھے تو کسی انسان کو کسی نہ کسی خوبی سے خالی نہیں پائیگا.ہر ایک انسان میں کچھ نہ کچھ خوبی ضرور ہوتی ہے.ابو جہل میں بھی خوبی تھی اور فرعون میں بھی.اس میں کیا شک ہے کہ فرعون ایک محب وطن شخص تھا.اور اس کی خواہش تھی کہ اس کی قوم اور اس کا ملک ترقی کرے.یہ ایک الگ بات ہے کہ جو طریق اس نے اختیار کیا وہ خطرناک طور پر غلط تھا.جس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑا.اسی طرح ابو جہل اسلام کا ایک خطرناک دشمن تھا مگر ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ وہ ایک بہادر آدمی تھا.وہ جو کچھ کرتا تھا صرف اس لئے کرتا تھا کہ اُسے صحیح اور درست سمجھتا تھا.چنانچہ اس نے دُعا کی ہے کہ خدایا اگر محمد (صلعم) سچا ہے تو مجھ پر پتھر برسال.گویا اس کو یقین تھا کہ وہ حق پر ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو باطل پر سمجھتا تھا.یہ بالکل الگ بات ہے کہ وہ آنحضرت کا دشمن اور اسلام کا خطرناک دشمن تھا.اور جوطریق اس نے بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ الانفال.

Page 463

۴۵۲ خطبات محمود جلد (5) اختیار کیا وہ سر تا پا غلط تھا.کیونکہ وہ اپنے خیالات کو سچ سمجھا.اور اس حق کو جو درحقیقت حق تھا.سمجھنے کی کوشش نہ کی.مگر جس کو اس نے حق سمجھا.اس پر بڑی مضبوطی اور جوش کے ساتھ قائم رہا.یہ اس کی خوبی تھی.تو اسی طرح کوئی بد سے بدتر انسان بھی ایسا پیش نہیں کیا جا سکتا.جس میں کوئی نہ کوئی خوبی نہ ہو.باقی رہی بشری کمزوریاں سو وہ تو انبیاء میں بھی ہوتی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ اگر تم میں سے دو آدمی جھگڑتے ہوئے میرے پاس آئیں اور میں اپنی سمجھ کے مطابق ایک کا حق دوسرے کو دلوا دوں تو یا درکھو کہ اگر چہ جس کا حق نہیں وہ دوسرے کا حق لے گیا ہے تاہم وہ خُدا کے حضور جواب دہ ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے.غرض جو انسان وسیع نظر سے دیکھے.اس کو معمولی معمولی باتوں سے گھبراہٹ نہیں ہوتی.اور جولوگ معمولی معمولی باتوں کو بڑا سمجھ لیتے ہیں.وہ کسی عمدہ نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے.ان کی صحت خراب ہو جاتی ہے.ہر وقت دکھ اور تکلیف میں رہتے ہیں.ان میں خود پسندی کی مرض پیدا ہو جاتی ہے اور یہ ایسی مرض ہے جو انسان کو بہت نقصان پہنچاتی ہے.دوسرے میں عیب دیکھنا اور اپنی ذات کو اعلیٰ سمجھنا.اس سے بڑھ کر کوئی عیب اور نقص نہیں ہے.پس ہر انسان کو یا د رکھنا چاہئیے کہ تمام خوبیوں والی اور ہر قسم کے عیوب سے منزہ ذات تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے.اس لئے اگر کسی کو کسی بھائی میں کوئی نقص نظر آتا ہے تو وہ اس کو سمجھائے اور اس کے نقص دُور کرنے کی کوشش کرے لیکن اگر وہ اس پر گھبرائے گا اور بجائے اس کا نقص دُور کرنے کی کوشش کرنے کے اُلٹا اس کا نام دہرے گا تو اس کا نتیجہ بجز خرابی کے اور کچھ نہیں ہوگا.اگر کوئی توجہ کرے تو کمزوریاں ہوشیار کرنے کا موجب ہو سکتی ہیں.بعض لوگ زلازل اور دیگر قسم کے عذابوں پر خدا تعالیٰ کی نسبت کہا کرتے ہیں کہ خُدا ( نعوذ باللہ ) ظالم ہے مگر وہ جانتے نہیں کہ یہ ظلم نہیں ہے.بلکہ خدا تعالیٰ کے اس فعل میں ہزاروں حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں.مثلا اگر انسان کے سر میں جوئیں نہ پڑیں تو وہ بھی سر دھونے کی طرف متوجہ ہی نہ ہوتا.اور گندہ ہو جا تا یامثلاً اگر آنکھوں میں سرخی نہ پیدا ہوجاتی یا اور کوئی خرابی کی ایذائی علامت ظاہر نہ ہوتی تو انسان علاج کی طرف متوجہ ہی نہ ہوتا اور اندھا ہوجاتا.تو سر میں جوؤں کا پڑنا اور آنکھوں میں سرخی کا آنا یہ بطور آگاہی کے ہے جو بڑے نقصان سے بچانے کے لئے ہے.اسی طرح اگر کسی انسان میں کوئی کمی اور نقص تمہیں نظر آئے تو اصلاح کی فکر کرو.یہ نہیں کہ : ل بخاری کتاب الاحکام باب موعظة الامام لخصوم - -

Page 464

خطبات محمود جلد (5) ۴۵۳ معمولی معمولی باتوں پر اچھل پڑو.اور اسے شکستہ دل بنا کر اور کمزوریوں کا مرتکب بناؤ اس سے کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.ہر ایک انسان کو یہ باور ہونا چاہئیے کہ خوبیوں والی ذات تو صرف اللہ ہی کی ہے اور ہر ایک شخص کو یہ بھی خیال کرنا چاہیئے کہ جس طرح مجھ میں کچھ خوبیاں ہیں.اور کچھ نقص ہیں.اسی طرح دوسرے میں بھی کچھ نقص اور خوبیاں ہیں.اس کے متعلق یہ ہونا چاہیے کہ اس سے اس کی نیکیاں سیکھی جائیں اور اس کو اپنی نیکیاں سکھائی جائیں.پس اس طرح آپس میں ایک دوسرے کی اعانت کرو.تمدن کی غرض بھی یہی ہے.جو لوگ اس بات کو نہیں سمجھ سکتے نہ وہ خود کامیابی حاصل کر سکتے ہیں.اور نہ کسی دوسرے کے لئے مفید ہو سکتے ہیں.پس ضرورت ہے کہ ہماری جماعت کا تمدن اعلیٰ ہو.ایک کی مدددوسرا کرے.یہ نہیں کہ معمولی معمولی باتوں پر بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا جائے جس سے قوم کے افراد کے اندر خرابی پیدا ہو.نقصوں سے پاک تو صرف اللہ ہی کی ذات ہے.مگر نہ مانے والے تو خدا کو بھی نہیں مانتے اور اس میں بھی نقص نکالتے ہیں.پس اصلاح کا طریق یہ ہے کہ معمولی غلطیوں کو نظر انداز کیا جائے.اور نیک نیتی سے ان کے دور کرنے کی کوشش کی جائے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو وہ ذریعہ بتائے جو بہتر سے بہتر اور کامیابی کے لئے یقینی ہو.الفضل ۱۲ رمئی ۱۹۱۷ء)

Page 465

۴۵۴ 56 خطبات محمود جلد (5) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان فرموده ۴ رمئی ۱۹۱۷ء حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیات تلاوت فرمائیں:.لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَؤُفٌ رَّحِيْمٌ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللهُ وَ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ (التوبه ۱۲۸-۱۲۹) تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ بعد ازاں فرمایا :- یوں تو اللہ تعالیٰ کے احسانوں.فضلوں اور انعاموں کی گنتی نہیں.انسان کے جسم کا کونسا حصہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے احسان کے نیچے دبا ہوا نہیں.لیکن اس کے انعامات میں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ایک بہت بڑا انعام ہے.بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا نہیں اور اکثر ہیں جنہوں نے سمجھا نہیں.جو آپ کے دشمن ہیں.وہ اگر آپ کی شان ارفع میں کچھ گستاخی کرتے ہیں تو وہ ایک حد تک معذور کہے جا سکتے ہیں.لیکن افسوس ماننے کا دعویٰ کرنے والوں پر ہے کہ وہ آپ کے مرتبہ کو نہیں سمجھتے.اور ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں جو آپ کی مزیل شان ہوتی ہیں.بہت سے ایسے لوگ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ کو نہیں سمجھا.وہ نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت دُور جا پڑے ہیں.حالانکہ خدا تعالیٰ نے آپ کو وہ شان عطا فرمائی ہے کہ مسلمان جس قدر بھی آپ کی تعریف کرتے کم تھی.ہر ایک قوم اپنے بڑوں کو بڑا بناتی ہے.عیسائی حضرت مسیح کو.ہندو کرشن اور رامچندر کو خُدا بنا رہے ہیں.اسی طرح دیگر مذاہب کے لوگوں کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے بھی اپنے بڑوں کو اتنا بڑا درجہ دیا کہ خدائی تک دے دی.ان کا یہ فعل بُرا ہے اور اس میں شک نہیں کہ وہ غلطی پر ہیں.کیونکہ وہ شرک کے مرتکب ہوئے ہیں.لیکن ہمیں اس جماعت

Page 466

خطبات محمود جلد (5) ۴۵۵ پر تعجب آتا ہے جس نے ایسا پیشوا پایا جو سب سے بڑا ہے مگر اس نے اپنے محسن کو اس کے اصل درجہ سے بھی گھٹانا شروع کر دیا.بہت سے مسائل ایسے ہیں کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی عظمت کو سمجھتے تو غلطی میں نہ پڑتے.مجھے حضرت خلیفہ اول کے وقت میں بار بار لیکچروں کے لئے باہر جانے کا اتفاق ہوا.میں نے سننے والے لوگوں کو اکثر یہی بتایا کہ ہمارے تمہارے اختلاف کا تصفیہ ایک آسان طریق سے اس طرح ہو سکتا ہے کہ دیکھا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور عظمت ہمارے اعتقادات کے رو سے ثابت ہوتی ہے یا کہ تمہارے اعتقادات سے.اگر آپ کی عظمت اور عزت کا خیال رکھا جائے تو سب اختلاف مٹ جاتے ہیں.حیات و وفات مسیح کے مسئلہ میں دیکھنا چاہیئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور عظمت کس میں ہے آیا اس میں آپ کی عظمت ہے کہ جب آپ کی امت بگڑ جائے تو اسکی اصلاح کے لئے ایک اور شخص کولا یا جائے جو براہ راست آنحضرت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا.اس کے نبوت ورسالت پانے میں آپ کا کوئی تعلق نہیں یا اس میں آپ کی عزت ہے کہ جب آپ کی امت بگڑے تو آپ ہی کے غلاموں میں سے کوئی شخص اصلاح کے لئے کھڑا کر دیا جائے.پھر کیا آپ کی اس میں عزت ہے کہ آپ کے آنے سے وہ فیضان نبوت جو آدم کے وقت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک ابناء آدم کومل رہا تھا بند ہو گیا.اور آپ نعوذ باللہ اس فیض کے دریا میں روک ہو گئے.اور آپ کی امت اس سے محروم کر دی گئی یا اس میں کہ آپ کی کامل اتباع اور پوری فرمانبرداری سے یہ رتبہ حاصل ہو سکتا ہے.ان تمام مسائل میں جو ہم میں اور غیر احمدیوں میں اختلافی ہیں.اگر یہ دیکھا جائے کہ کن مسائل کو تسلیم کرنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ہوتی ہے اور کن سے ہتک تو معلوم ہو جائے گا کہ حق پر کون ہے.غرض آپ کے درجہ کے نہ سمجھنے سے بڑا اختلاف پڑ گیا ہے.اور اکثر لوگوں نے ٹھوکر کھائی ہے.اگر ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محاسن معلوم ہوتے تو ضرور تھا کہ محبت پیدا ہوتی کیونکہ ہمیشہ محبت اور عشق خوبیوں کو دیکھنے سے ہی پیدا ہوتا ہے.اور یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ کسی شخص کی نہ کوئی خوبی معلوم ہو.اور نہ اس کے محاسن.اور پھر انسان اس سے محبت کرے یا اس سے عشق پیدا ہو.مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی نے بیان کیا ہے کہ بے رویت کبھی عشق پیدا نہیں ہو سکتا

Page 467

خطبات محمود جلد (5) ۴۵۶ اور دیکھنا صرف آنکھوں سے ہی نہیں ہوتا.بلکہ علم سے بھی دیکھا جا سکتا ہے.مثلاً انسان کسی ایسے بہادر آدمی کا قصہ پڑھتا ہے جس کو گذرے سینکڑوں برس ہو جاتے ہیں مگر پڑھنے والے کے دل میں اس کے حالات پڑھ کر خاص کیفیات پیدا ہو جاتی ہیں.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے پاک حالات کو دیکھا جائے.آپ کا اُٹھنا.بیٹھنا.چلنا.پھرنا.کھانا.پینا.جاگنا.سونا.لباس اور طر ز ماندو بود.میل و ملاقات کو آنکھوں کے سامنے لایا جائے.جب یہ باتیں صحیح طور پر معلوم ہو جائیں گی.تو یقینا آپ سے ایک محبت اور عشق پیدا ہو جائے گا.یہ رویت علم کے ذریعہ ہوگی.پس اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات سے لوگ واقف ہوتے تو آپ کی ہتک پر تیار نہ ہو جاتے اور خُدا سے دور نہ جاپڑتے.اگر ان باتوں کو مد نظر رکھ کر تحقیقات مسائل ہوتو پھر کبھی کوئی جھگڑا پیدا نہیں ہوسکتا.آپ کی محبت اور آپ سے عشق خدا کی محبت اور خُدا کے عشق کا موجب ہے جیسا کہ فرمایا.قُل اِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله اگر تم اس انسان کی اتباع کرو گے.اور اس کے ساتھ محبت رکھو گے تو خدا تم سے محبت اور پیار کرے گا تو آپ کی محبت خدا کی محبت ہے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کے حالات کا معلوم ہونا کیسا ضروری ہے.میں نے جو آیات پڑھی ہیں ان میں آپ کے کمالات کا کچھ حصہ بیان کیا گیا ہے.حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق اگر دیکھنا ہو تو قرآن کریم کو دیکھو ہے.اس وقت جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے.دنیا کی حالت بدترین تھی.بحر و بر میں خرابی پھیلی ہوئی تھی.دنیا کی کوئی برائی ایسی نہ تھی جو نہ پائی جاتی تھی.اگر چہ انسان گردو پیش کے حالات سے بہت متاثر ہوتا ہے.اور جس قسم کا نمونہ اپنے سامنے دیکھتا ہے اس طرح خود بھی کرنے لگتا ہے لیکن باوجود اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو بدترین نمونہ موجود تھا.تمام عرب برائیوں اور بدکاریوں سے بھرا ہوا تھا.اس وقت کے عیسائیوں کی حالت خود عیسائی مؤرخ لکھتے ہیں کہ نہایت خراب ہو چکی تھی.زرتشتی بگڑے ہوئے تھے.ہندوستان میں اصنام پرستی اور عناصر پرستی کا زور تھا.اس تاریکی کے زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسے انسان کا پیدا ہونا کیا کوئی معمولی بات ہے؟ فرمایا لقد جاء کم رسُولٌ مِنْ اَنْفُسِكُمْ.لوگو ذرا سوچو تو سہی کہ یہ رسول تمہارے پاس تم میں سے ہی آیا ہے.تم میں ہی پیدا ہوا تم میں ہی رہا تم میں ہی اس نے دن رات : ال عمران : ۳۲ : - مسند احمد بن حنبل جلد ۶ ص ۲۱۶.

Page 468

خطبات محمود جلد (5) ۴۵۷ گزارے.مگر دیکھو تمہاری صحبت میں رہ کر یہ تم سے متاثر نہ ہؤا.اس کے اعلیٰ اخلاق کو دیکھو.اس کے پاس نمونہ تو تم تھے.اس لئے چاہیئے تو یہ تھا کہ یہ تمہارے جیسا ہوتا مگر اس نے اخلاق میں اس قدر ترقی کی کہ خدا نے اس کو رسول بنا کر تمہارے پاس بھیج دیا.واقع میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات پڑھ کر حیرت آتی ہے.کیسی ہمت اور کیسا استقلال تھا آپ کا کہ آپ ان میں رہ کر ان سے الگ رہے.گو بظاہر اس آیت سے آپ کی کوئی فضیلت نہیں معلوم ہوتی کہ اے لوگو! تم میں سے ہی تمہارے پاس رسول بھیجا کوئی غیر نہیں بھیجا.گو یا اس قوم کو بتایا گیا کہ تو بڑی خوش قسمت ہے.جس میں سے خُدا کا نبی آیا.لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اسی آیت میں خدا تعالی نے الفاظ کے لحاظ سے مجمل مگر معانی کے لحاظ سے مفصل آپ کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو بیان کر دیا ہے.مشرکین کو کہا گیا ہے کہ تم اپنی کسی بات کو پیش کرو اس کا عمل اس کے خلاف ہی ہوگا.تم مشرک ہو.مگر یہ اپنا موحد ہے.تمہارے اخلاق میں رذالت ہے.مگر اس کے اخلاق نہایت اعلیٰ درجہ کے ہیں.تم ظالم ہو.مگر یہ رحیم ہے.حالانکہ یہ بھی تم میں ہی پیدا ہوا تم میں ہی رہا.تمہارے پاس ہی عمر گزاری.باوجود اس کے جب اس میں ایسی اعلیٰ درجہ کی باتیں پائی جاتی ہیں تو اس کی عظمت اور بڑائی کا اندازہ کرو.پھر فرمایا.عزیز علیہ ما عنتم حريص عليكم بالمؤمنین رؤف رحیم.پہلے آپ کی عظمت بیان کی.اس کے بعد آپ کے رسول ہونے کا ذکر کیا.پھر فرمایا.اس پر شاق گذرتا ہے.اس پر ایسا بوجھل ہوتا ہے کہ جس سے کم ٹوٹ جائے (وہ امر جس کی برداشت نہ ہواسکوامر عزیز کہتے ہیں ) جب تم پر کوئی مشکل اور مصیبت آئے تو یہ تکلیف میں پڑ جاتا ہے.مگر ہر تکلیف کے وقت نہیں بلکہ اسی وقت جبکہ دیکھتا ہے کہ تم پر ایسی مصیبت آئی ہے جو مافوق ہے.وہ استاد جو جانتا ہے کہ لڑکے کی اصلاح کس طرح ہوتی ہے وہ کسی وقت اس کو سزا بھی دیتا ہے.مگر اس کا سزا دینا اس کی اصلاح کو مدنظر رکھ کر ہوتا ہے وہ جانتا ہے کہ اس وقت اس کو سزا دینی چاہیے یا نہیں؟ ماں باپ کو اس میں دخل دینے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن اگر ماں باپ دیکھیں کہ استاد کی سز الڑکے کی طاقت سے بڑھ کر ہے.اور ایسی ہے کہ وہ بجائے اصلاح کے بچہ کا خاتمہ کر دے گی تو بے شک ماں باپ دخل دیں.لیکن جو والدین اُستاد کی ہر ایک سزا میں دخل دیتے ہیں اور واجبی سزا سے بھی گھبراتے ہیں وہ گو یا اپنی اولاد کو آپ خراب کرتے ہیں.پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی حالت ہے کہ اگر کوئی ایسی بات ان لوگوں پر آتی کہ جس سے وہ برباد ہونے لگتے تو آپ پر یہ بات شاق گزرتی.مگر واجبی

Page 469

خطبات محمود جلد (5) ۴۵۸ تکالیف سے جو انکی اصلاح کے لئے ہوتیں.آپ نہ گھبراتے تھے.عنت.اس مصیبت کو کہتے ہیں جس سے انسان ہلاک ہو جائے.تو آپ کو گھبراہٹ ایسی ہی بات پر ہوتی تھی جس سے وہ لوگ ہلاک ہوتے نظر آتے تھے.ورنہ جہاد کی ترغیب تو آپ خود دلاتے تھے.کیونکہ وہ ان لوگوں کی ترقیات کے لئے ضروری تھا.لیکن اس میں کیا شک ہے کہ جہاد میں تکالیف ہوتی ہیں.اگر آپ پر لوگوں کی ہر تکلیف شاق گزرتی تو گویا آپ مسلمانوں کو ترقیوں سے روکتے.جیسا کہ ناجائز محبت کے مرتکب ماں باپ اپنی اولاد کو تھوڑی سی تکلیف میں بھی نہیں دیکھ سکتے.اور اس طرح ان کی زندگی کو تباہ کر دیتے ہیں.بلکہ ان مصائب کو دیکھ کر آپ کو شاق گذرتا تھا جو لوگوں کی بربادی اور ہلاکت کا موجب ہوتی تھی.پس آپ ایسی تکالیف پر نہیں گھبراتے تھے جو قوم کی ترقی وفلاح کا موجب ہوں.عنت.لغت میں ایسی تکلیفوں اور مشقتوں کو کہتے ہیں جن کے نیچے دب کر انسان ہلاک ہو جائے.کیا ہی بے نظیر آپ کے اخلاق تھے.آپ کو تڑپ تھی.اور آپ کو دکھ ہوتا تھا ان کے ایسے مصائب سے جن سے وہ ہلاک ہونے لگتے.صحابہ میں بعض لوگوں نے دین کے لئے بڑی بڑی مشقتیں کرنی شروع کیں.جن سے آپ نے ان کو روک دیا.مگر یہ نہیں کہا کہ سردی کے موسم میں صبح کے وقت مسجد میں نہ آؤ کہ تمہیں تکلیف ہوگی.اور گھر پر ہی نماز پڑھ لیا کرو یا یہ کہ دشمنوں سے لڑنے کے لئے نہ جاؤ.کہ تمہاری جانیں ضائع ہوں گی.اور دشمن کے نیزے اور خنجر تمہیں زخمی کریں گے.اس کے لئے تو آپ حرص دلاتے تھے.ہاں جو باتیں ان کے لئے ہلاکت کا موجب ہو سکتی تھیں.ان سے آپ کو تکلیف ہوتی تھی.اور ان سے منع بھی فرماتے تھے.پھر فرما یا.حریص علیکم.ایک تو اس کی یہ حالت ہے کہ کسی کی ایسی مصیبت نہیں دیکھ سکتا جس میں وہ ہلاک ہوتا ہو.دوسرے یہ کہ جب کسی کو مصیبت میں دیکھتا ہے تو اس کی نجات کے لئے دوڑتا ہے.دوسرے معنے یہ کہ سب کو جمع کرنا چاہتا ہے.اس کی خواہش ہے کہ سب دنیا اس کے پاس آجائے تاوہ دکھوں اور مصیبتوں سے نجات پا جائے.جس طرح انسان مال کو اس لئے جمع کرتا ہے کہ محفوظ ہو جائے.اسی طرح آپ یہی چاہتے کہ لوگ جن کے لئے الگ الگ رہنے میں ہلاکت ہے.آپ کے پاس آجائیں تا ہلاکت سے بچ جائیں تو فرمایا کہ یہ مومنوں کو جمع کرتا اور خدا کی محبت پیدا کرنے کے طریقے سکھاتا ہے.پھر فرمایا.بالمؤمنین رؤف رحیم کہ جب یہ لوگوں کو جمع کر لیتا ہے تو ان سے رافت اور رحمت کا سلوک کرتا ہے.حریص علیکم کا نتیجہ تو ہے.حریص علیکم کا نتیجہ تو یہ ہے کہ مومن پیدا ہوں.جب

Page 470

خطبات محمود جلد (5) ۴۵۹ مومن پیدا ہو گئے تو اب یہ بتانا تھا کہ ان کے ساتھ کیسا سلوک کرنا ہے! اس لئے فرمایا.وہ لوگ جو اس کے پاس آجاتے ہیں اُن سے نہایت ہی شفقت.رافت.محبت.رحم وکرم کا سلوک کرتا ہے.بعض لوگ تو جمع کرتے تک اچھا سلوک کرتے ہیں.جب ان کے قبضہ میں لوگ آجاتے ہیں تو پھر ان کی کچھ پرواہ نہیں کرتے.لیکن آپ کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ نہایت ہی شفقت سے پیش آتے ہیں.اور آپ ان کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں.یہ ایک کرشمہ ہے نبی کریم کے ان اعلیٰ اخلاق اور اعلی محاسن کا جو قرآن شریف میں بیسیوں جگہ ذکر ہوئے ہیں.پس غور کرو کیسا ہے وہ انسان اور کتنا بڑا ہے اس کا رتبہ جو لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے ان پر کس قدر افسوس ہے.دیکھو آج ہمیں مسیح موعود ملا تو اس کے طفیل.حضرت مسیح موعود کی بعثت اسی کی دعاؤں کا نتیجہ ہے.آپ کی اُمت بگڑ چکی تھی.اور ضرورت تھی کہ آپ کا کوئی خادم اُٹھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت اس میں کام کرے اس لئے حضرت مسیح موعود آنحضرت کی روحانیت سے مبعوث ہوئے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اگر باوجود ان تمام خوبیوں کے لوگ توجہ نہ کریں.تو کہد وفان تولوا فقل حسبى الله لا إله الا هو عليه توكلت وهو رب العرش العظیم.مجھے تو تمہاری کوئی پروا نہیں.خواہ تم سب کے سب پرے ہٹ جاؤ.میں تو موحد ہوں.اور ایک زندہ خُدا کا ماننے والا ہوں.اسی نے مجھے یہ رتبہ دیا ہے اور وہی میرے درجہ کو ظاہر کریگا.چنانچہ اب جبکہ مسلمانوں نے اپنے ایسے عقائد بنا لئے جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہوتی ہے.اور آپ کو بالکل چھوڑ دیا تو خدا تعالیٰ نے آسمان سے ایک ایسا مرسل بھیجا جس نے آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل شان لوگوں کے سامنے رکھ دی.اب اگر کوئی مقابلہ کر دیگا تو اس کا کچھ نقصان نہیں ہوگا.بلکہ اسی کا نقصان ہوگا جو مقابلہ پر آئے گا.فرما یا کہ اگر یہ لوگ تجھ سے پھریں تو کہدو کہ میرا تو سوائے اللہ کے کسی پر بھروسہ نہیں وہی رب عرشِ عظیم ہے وہ میری صداقت کے پھیلانے کا سامان پیدا کر دیگا.چنانچہ جب مسلمانوں نے اس رب عرش عظیم پر توکل کر نیوالے کی ہتک کی تو خُدا نے ایک مرسل کو بھیجا جو اسکی عظمت و شان کو دنیا پر ظاہر کرے.اب خدا اپنی فوجوں سے اس کی مدد کریگا اور دنیا نے اگر قبول نہیں کیا تو خدا اسے قبول کر یگا اور بڑے زور آور حملوں سے اسکی سچائی ظاہر کر دیگا.اللہ تعالیٰ ہمارے تمام دوستوں اور تمام ان لوگوں کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دم بھرتے ہیں.اس بات کی سمجھ اور معرفت دے کہ وہ اس عظیم الشان انسان کو پہچانیں اور جانیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ کیا تھا.اور مخالفین کی آنکھیں کھلیں کہ وہ کس درجہ کا انسان تھا.جو خدا نے دنیا میں بھیجا تھا.الفضل ۱۹ / ۱۵ مئی ۱۹۱۷ء)

Page 471

۴۶۰ 57 خطبات محمود جلد (5) ایسا کوئی رسول نہیں آیا جس سے استہزاء نہ کیا گیا ہو فرموده ارمئی ۱۹۱۷ء حضور نے تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی:.يحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ (يس: 31) فرمایا: - بظاہر تو شاید کسی کو یہ بات بے جوڑ معلوم ہو کہ میں نے سورۃ فاتحہ کے ساتھ کہ جس کی ابتداء بسم اللہ کے بعد الحمد للہ سے ہوتی ہے.اور جو مومنوں سے بڑے بڑے عظیم الشان وعدے کرتی ہے.دوسری ایسی آیت پڑھی ہے جس میں ایسے مضامین بیان کئے گئے ہیں جو درد پیدا کرنے والے اور دُکھ کا اظہار کرنے والے ہیں.سورۃ فاتحہ تو اس طرح شروع ہوتی ہے.خدا کا شکر ہے جو ایسا خُدا ہے.اور جس کی یہ تعریفیں ہیں.اور دوسری آیت میں یہ مضمون ہے کہ افسوس بندوں پر کہ ان کے پاس کوئی ایسا رسول نہیں آیا.جس کو انہوں نے ہنسی اور ٹھٹھے میں نہ اڑایا ہو.بظاہر تو ان آیات میں کوئی تعلق نہیں معلوم ہوتا.لیکن میرے نزدیک بہت بڑا تعلق ہے.خوشیاں کئی قسم کی ہوتی ہیں.اور ہر ایک قسم کی خوشی کا احساس مختلف طریقوں سے ہوتا ہے جب کوئی رنج کی بات ہو تو اس کے مقابلہ میں ایک خوشی بھی ہوتی ہے.اور ایسی خوشی کی قدر بہت زیادہ ہوتی ہے.مثلاً ایک ایسا شخص ہو جس نے کبھی اندھا نہ دیکھا ہو تو اس کو آنکھوں کی قدر نہ ہوگی.جیسی اس شخص کو ہوگی جس نے اندھے کو ٹھوکریں کھاتے اور تکلیف اٹھاتے دیکھا ہوگا اسی طرح جس نے لنگڑا نہ دیکھا ہو.اس کو ٹانگوں کی ایسی قدر نہیں ہوگی جیسی اس شخص کو ہوگی جس نے لولے لنگڑوں کو دُکھ اُٹھاتے دیکھا ہوگا.اسی طرح جس شخص نے کوئی پاگل نہ دیکھا ہو.اس کو ہوش و حواس کی ایسی قدر نہ ہوگی جیسی اس کو ہوگی جس نے کسی پاگل کی دردناک حالت دیکھی ہوگی.اسی طرح جس نے جاہل کو نہ دیکھا ہوگا اس کو علم کی قدر نہ ہوگی.جس شخص نے کبھی تاریکی اور ظلمت کو نہ دیکھا ہو اس کو روشنی کی قدر نہ ہوگی.لیکن جب انسان لنگڑے کو دیکھتا ہے تو اس کو

Page 472

خطبات محمود جلد (5) ۴۶۱ اپنی ٹانگوں کی قدر معلوم ہوتی ہے.اور جب انسان اندھے کو دیکھتا ہے تو اپنی آنکھوں کی قیمت معلوم ہوتی ہے.جب تاریکی کو دیکھتا ہے تو روشنی اور نور کی قدر معلوم ہوتی ہے.اسی طرح وہ جماعت جس کو خدا تعالیٰ نے ایک نبی کی معرفت دی ہو وہ جب ایک طرف دیکھتی ہے کہ خُدا نے اسے ایک نبی کی معرفت کی توفیق دی ہے اور دوسری طرف اسے یہ دکھائی دیتا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کو یہ توفیق حاصل نہیں ہوئی.اور وہ اس نعمت سے محروم پڑے ہیں تو اس وقت اسے حقیقی خوشی کا احساس ہونے پر جہاں اس کے منہ سے بے اختیار الحمدللہ کا کلمہ نکلتا ہے وہاں محروم رہنے والے لوگوں کو دیکھ کر حسرت و افسوس کے کلمات بھی نکلتے ہیں کہ افسوس یہ قوم نبی وقت کی شناخت سے محروم رہی جاتی ہے.پس میں نے جو سورہ فاتحہ پڑھی ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے کہ ہمیں اپنے نبی کی معرفت کی توفیق دی ہے.لیکن جب ان لوگوں کی طرف نظر جاتی ہے جو اس نبی پر جنسی کر رہے ہیں تو زبان سے یہ حسرت بھر اکلمہ نکلتا ہے کہ افسوس بندوں پر کہ ان کے پاس کوئی ایسا نبی نہ آیا جس پر انہوں نے ہنسی نہ کی ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لِحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِم مِّنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يستفزون.حسرت کہتے ہیں کسی کھوئی ہوئی چیز پر جو رنج پیدا ہوتا ہے.لیکن انسانوں اور خُدا کی حسرت میں فرق ہے.انسانوں کی حسرت تو یہ ہے کہ جب ان کی کوئی چیز کھوئی جاتی ہے.تو وہ اس پر رنج کے ساتھ افسوس کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ ان کا نقصان ہو گیا ہوتا ہے.مگر خدا تعالیٰ کے حسرت کرنے کے یہ معنے نہیں کہ نبی کے ساتھ استہزاء کرنے سے اس کا کچھ نقصان ہو گیا ہے.جس پر خدا تعالیٰ افسوس کر رہا ہے.بلکہ خدا تعالیٰ کا حسرت کا اظہار کرنا محبت کی علامت ہوتی ہے کہ افسوس یہ بندے اپنی اصلاح کر کے ہلاکت سے بچ سکتے تھے.مگر باوجود اس کے کہ ہم نے ان کو اصلاح کرنے کے ذرائع بتائے لیکن انہوں نے بجائے ان کی قدر کرنے کے الٹا ان سے ہنسی مذاق اور استہزاء شروع کر دیا.اگر ایسا نہ کرتے تو اس میں ان کا ہی فائدہ تھا.پس یہ حسرت خدا تعالیٰ کے کسی نقصان پر دلالت نہیں کرتی.بلکہ اس محبت کا اظہار کرتی ہے جو اسے اپنے بندوں سے ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.افسوس ہے بندوں پر کہ ہم نے ان کے پاس کوئی نبی اور رسول نہ بھیجا جس کے ساتھ انہوں نے جنسی اور مذاق نہ کیا.ہمیشہ بندوں کا طریق یہی رہا.تمام خدا کے رسولوں میں سے کوئی ایک بھی مثال پیش نہیں کی جاسکتی جس پر ان لوگوں نے ہنسی نہ کی ہو.اس کی ہر ایک بات کو حقیر نہ جانا ہو.اس کی تعلیم پر انہوں نے ہنسی کی اس کی پیشگوئیوں پر

Page 473

خطبات محمود جلد (5) ۴۶۲ انہوں نے اعتراض کئے.اس کی جماعت کو حقیر اور ذلیل انہوں نے بتایا کہ یہ کیا مٹھی بھر لوگ ہیں.تمام دنیا کے مقابلہ میں کیا کریں گے.اس نے جو دین کی خدمات کیں وہ ان کی نظر میں نہ جچیں ان کو حقیر بتایا اور کہا کہ اس نے دین کی کوئی بڑی خدمت نہیں کی ہے.اس سے بڑھ کر تو فلاں فلاں نے کی ہے.اس کی پیشگوئیوں کے متعلق کہا کہ اس طرح تو جوتشی بھی کر لیتا ہے.غرض اسے اور اس کی ہر ایک بات کو حقیر جانا.اس کے اخلاق و عادات پر اعتراض کئے گئے.اس کی خوبیاں بھی انہیں برائیاں نظر آئیں اور جو بات بھی اس نے پیش کی.اسی پر انہوں نے سر ہلا کر کہدیا کہ کچھ نہیں تو ایک نبی بھی ایسا نہیں جس سے انہوں نے ایسا سلوک نہ کیا ہو.حتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اگلے اور پچھلے سب نبیوں سے افضل اور سب کے سردار تھے.جن کی خوبیوں کا انسان نہ آپ سے پہلے کوئی پیدا ہوا نہ آئندہ ہوگا.اس عظیم الشان انسان کو بھی حقیر سمجھا گیا اور اس پر بھی استہزاء کیا گیا.پس جبکہ استہزاءسب انبیاء کے ساتھ ہوا تو ضرور تھا کہ اب جو رسول آیا ہے اس کے ساتھ بھی ہنسی اور استہزاء سے پیش آیا جاتا.اور اگر اس سے استہزاء نہ کیا جاتا تو گویا وہ رسول نہ ہوتا.اگر کوئی نبی ہوکر آئے.اور لوگ اس سے ہنسی اور استہزاء نہ کریں وہ نبی نہیں ہو سکتا.کیونکہ خدا تعالیٰ نے نبیوں کی علامات میں سے ایک بڑی علامت یہ بھی مقرر کی ہے.اور یہ ایسی علامت ہے جس میں کسی ایک نبی کا بھی استثناء نہیں ہے.بعض لوگوں کو اس نبی کی شناخت ہی اسی طرح ہوئی.اور ان کے حق قبول کرنے کا ذریعہ ہی یہ بات ہوئی ہے.ایک شخص نے مجھے بتایا کہ وہ بالکل کچھ پڑھنا لکھنا نہیں جانتا.اس کے پاس کسی شخص نے ذکر کیا کہ پنجاب میں ایک شخص نے دعویٰ کیا ہے کہ میں مسیح موعود ہوں.تمام مولوی اس کی تکفیر کر رہے ہیں.اور ہر طرف سے اس پر لعنت و ملامت ہو رہی ہے مگر وہ اپنے دعویٰ سے ذرا نہیں ہٹتا.یہ کہنے سے اس کی غرض استہزا تھی کہ باوجود مولویوں کے اس قدر ہنسی کرنے کے پھر بھی وہ ایسا آدمی ہے کہ اپنے دعویٰ سے باز نہیں آتا.لیکن اس شخص نے کہا کہ میں نے ایک دفعہ وعظ میں ایک مولوی سے اسی آیت پر وعظ سنا تھا کہ قرآن میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ کوئی ایک بھی نبی ایسا نہیں ہوا جس سے استہزاء نہیں کی گئی.یہ بات میرے دل میں بیٹھی ہوئی تھی.میں نے اس شخص سے یہ سنتے ہی کہد یا کہ وہ سچا ہے.اس نے پوچھا کیوں؟ میں نے جواب دیا کہ اس لئے کہ قرآن میں لکھا ہے کہ کوئی رسول نہیں آیا جس سے لوگوں نے ہنسی نہ کی ہو.تو اس طرح اس کے لئے یہ بات ہدایت کا موجب ہوئی.

Page 474

خطبات محمود جلد (5) ۴۶۳ لیکن بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی عقلیں ماری جاتی ہیں.اور وہ نبی سے ہنسی اور استہزاء سے پیش آتے ہیں.دنیاوی لحاظ سے سید احمد خاں بڑا آدمی تھا.بڑا سنجیدہ اور بڑا مہذب ہی نہیں بلکہ دوسروں کو تہذیب سکھلانے کا مدعی تھا.اور اپنے کام میں بڑا مستقل تھا.مولویوں کے فتووں سے ہر گز نہیں ڈرا.جو کام اس نے شروع کیا تھا اس میں لگا ہی رہا.اس نے مولویوں اور سجادہ نشینوں کے خلاف بہت سے مضامین ان کی غلطیوں اور بد اخلاقیوں کے ظاہر کرنے کے لئے لکھے.لیکن اُس نے بھی حضرت مسیح موعود کے معاملہ میں اپنے تمام اعلیٰ اور سنجیدہ اخلاق کو چھوڑ دیا.چنانچہ جب حضرت مسیح موعود علی گڑھ تشریف لے گئے تو اس سے کسی نے کہا کہ آپ حضرت مرزا صاحب سے ملیں.اس نے کہا.یوں ملنے کا کیا فائدہ ہے.ملنے کا مزا تو تب ہے کہ مرزا صاحب پیر بنیں اور میں مُرید اور پھر روپیہ جمع کریں.جس میں سے دوا حصّہ وہ خود لے لیں اور ایک حصہ مجھے کالج کے لئے دے دیں.دیکھو بڑے اعلیٰ اخلاق اور دوسروں کے اخلاق کی اصلاح کرنے کا مدعی تھا.مگر جب حضرت مسیح موعود کے مقابلہ میں آتا ہے تو ہنسی سے ہی کام لیتا ہے.حضرت صاحب سے ہنسی کرنے کی خدا تعالیٰ نے جو سزا اسے دی وہ تو دی ہی.مگر اُس کا یہ فعل ثبوت تھا اس بات کا کہ اس خُدا کے رسول کے مقابلہ میں سب سے زیادہ سنجیدہ اور متین کہلانے والوں نے بھی ہنسی سے کام لیا.پس یہ ایک ایسی سنت ہے کہ جس سے کوئی نبی اور رسول نہیں بچا.حضرت مسیح موعود سے وہ کونسا گروہ ہے جس نے ہنسی نہیں کی.اور کونسا فرقہ ہے جس نے استہزاء سے کام نہیں لیا.مولوی بننے والوں نے آپ سے جنسی کی.عالم کہلانے والوں نے آپ پر استہزاء کیا.گدی نشینوں اور فقیروں نے آپ پر آوازے کسے.لیڈروں اور واعظوں نے آپ سے محول کئے.حضرت مسیح موعود کے پاس بعض شخص آتے کہ ہمیں اتنے روپیہ مثلاً ایک لاکھ کی ضرورت ہے.یہ روپیہ دیجئے.آپ اس کو سمجھاتے کہ ہمارے پاس کہاں روپیہ ہے.مگر وہ اصرار کرتے کہ نہیں جی.آپ کے پاس ہیں.آپ ضرور دیں.لیکن جب ان سے پوچھا جاتا کہ تمہیں کس نے یہاں بھیجا ہے تو کوئی نہ کوئی بڑا مولوی ہی معلوم ہوتا.اب دیکھو وہ صرف ایک خیالی خوشی پر کہ یہ شخص جا کر مرزا صاحب سے مانگے گا.اور مرزا صاحب اس کو دیں گے نہیں.اور اس طرح ایک ہنسی ہوگی.ایسا فعل کرتے اور اس خیالی خوشی کی خاطر وہ خود جھوٹ بولتے اور گناہ کے مرتکب ہوتے.اور وہ غریب بے وجہ تکلیف میں پڑتا.وہ نادان صرف حدیث کے ظاہری الفاظ کے مطابق نہ دیکھ کر حضرت مسیح موعود پر ہنسی کرتے مگر نہیں جانتے تھے کہ آپ کا سلسلہ بھی اسی طرح غربت سے شروع ہونا تھا جس طرح دوسرے نبیوں کے ہوا کرتے ہیں.

Page 475

خطبات محمود جلد (5) ۴۶۴ غرض لوگوں کا آپ پر استہزاء کرنا آپ کی صداقت میں کوئی شک نہیں پیدا کرتا.بلکہ اس سے آپ کی صداقت اور ظاہر ہوتی ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کوئی نبی ایسا نہیں آیا جس سے انسی اور استہزاء نہ کیا گیا ہو.ابھی کچھ دن ہوئے حضرت مسیح موعود کی ایک عظیم الشان پیشگوئی پوری ہوئی ہے.اس پر میں نے دوٹریکٹ مخالفین کی طرف سے دیکھتے ہیں جس میں انہوں نے ہنسی اور تمسخر کا پہلو ہی اختیار کیا ہے.ایک ٹریکٹ پرسوں ہی میں نے دیکھا.جس پر لکھا ہوا تھا ” بغرض ریویو" چونکہ حضرت مسیح موعود کی اس پیشگوئی کے متعلق دو مضمون شائع ہوئے ہیں.ایک میری طرف سے اور ایک مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے.اس لئے اس اشتہار کے لکھنے والے نے اپنی طرف سے یہ چالا کی کی ہے کہ ابتداء میں مولوی محد علی صاحب کو مخاطب کر کے کچھ بُرا بھلا کہا ہے.اور ہماری تعریف کر دی ہے.اس کے بعد حضرت مسیح موعود پر اعتراض کئے ہیں.اس سے اس نے یہ سمجھا ہو گا کہ قادیان والے تو اس خیال سے کہ میں نے ان کے مخالف مولوی محمدعلی کو برا کہا ہے.میرا جواب لکھنے سے خاموش رہیں گے.اور مولوی محمد علی کو جواب دینے کی ضرورت ہی نہیں.کیونکہ اس نے اپنے مضمون میں یہی لکھا ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں ایسے ایسے شخص پیدا ہوتے ہیں اور بس.اس کے سوا اسے اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ کوئی مرزا صاحب کو مانے یانہ مانے اس کے نزدیک ماننا یا نہ ماننا برا بر ہے.اس طرح جب دونوں طرف سے جواب نہیں ملے گا تو نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگوں کے دلوں میں مرزا صاحب کے متعلق ہمارے ڈالے ہوئے شکوک بیٹھ جائیں گے.لیکن اس بے وقوف نے ہمارا اندازہ بھی اپنے نفس پر ہی کیا ہے.حالانکہ جب کوئی حضرت مسیح موعود کو گالیاں دے اور آپ کی تکذیب کرے گا تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کو جواب دیں.خواہ وہ اعتراضات کسی کو مخاطب کر کے کئے گئے ہوں یا ساتھ ہی ہمارے کسی دشمن کو بھی اس میں کچھ کہا گیا ہو.کیونکہ خدا کے فضل سے ہم ان لوگوں میں نہیں ہیں جو اپنی دشمنی کی وجہ سے حضرت مسیح موعود کی شان کی کوئی پرواہ نہیں کرتے.پھر کیا اسے معلوم نہیں کہ ہماری جو مولوی محمد علی صاحب وغیرہ سے مخالفت ہے وہ کسی ذاتی خصومت کی بناء پر نہیں بلکہ ہمارے خیال میں وہ چونکہ حضرت مسیح موعود کے خلاف چل رہے ہیں اس لئے ان سے اختلاف ہے.اب اگر کوئی شخص ان لوگوں کو برا بھلا کہتا ہؤا حضرت مسیح موعود پر بھی حملہ کر دے تو ہم اس خیال سے کہ اس نے ہمارے مخالفوں کو بُرا بھلا کہا ہے.ان اعتراضوں کو دور کرنے سے اغماض نہیں کریں گے جو حضرت مسیح موعود پر کئے گئے ہوں گے.کیونکہ ہمارا ان لوگوں سے بھی تو اختلاف حضرت مسیح موعود کی خاطر ہی ہے.پس اس کا یہ خیال کہ میں قادیان والوں کی کچھ تعریف کر کے اور مولوی

Page 476

خطبات محمود جلد (5) محمد علی کو مد مقابل بنا کر حضرت مسیح موعود پر جو اعتراض کروں گا ان کا کوئی جواب نہیں دے گا غلط تھا.جب میں نے وہ اشتہار پڑھا تو میرے دل میں جوش پیدا ہوا کہ اس بے وقوف نے کیسی چالا کی کی ہے مگر اس کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ہم اس معاملہ میں کسی دشمنی اور کسی اختلاف کو راہ نہیں دیتے.بلکہ جب کوئی حضرت مسیح موعود پر حملہ آور ہوگا ہم اس کا ضرور جواب دیں گے.اُس نے اپنے اشتہار میں کئی طرح سے مغالطہ دئے ہیں.مثلاً اس نے براہین احمدیہ حصہ پنجم سے ایسے حوالہ نقل کئے ہیں جن سے یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ اس پیشگوئی سے مراد زلزلہ ہی ہے.جنگ وغیرہ نہیں ہے.لیکن اس کو معلوم نہیں کہ وہاں جو تعیین کی گئی ہے وہ اس پہلے زلزلہ کے متعلق ہے جو ۱/۴ پریل ۱۹۰۵ء کو آیا تھا.دوسرے اس نے یہ اعتراض کیا ہے کہ حضرت مرزا صاحب تو فرماتے ہیں کہ زلزلہ میری زندگی میں آئے گا.اگر اس جنگ کو ہی اس پیشگوئی کا مصداق ٹھہرایا جائے تو پھر یہ آپ کی زندگی میں ہی کیوں شروع نہیں ہوئی.یہ ٹھیک ہے کہ حضرت صاحب نے تحریر فرمایا تھا کہ میری زندگی میں ہی یہ پیشگوئی پوری ہوگی.مگر خدا تعالیٰ نے ہی آپ کو الہاما یہ دعا سکھائی.رب اخر وقت هذا ا.اے خدا اس نشان کے وقت میں تاخیر ڈال دے.پہلے جس طرح آپ کو کہا گیا تھا.اسی کے مطابق آپ نے لکھا.مگر پھر خدا تعالیٰ نے الہاما یہ دعا سکھلائی کہ اس نشان میں تاخیر ہو جائے.اس لئے تاخیر ہوگئی.پھر اس بات پر بہت زور دیا گیا ہے کہ جب زلزلہ کا لفظ موجود ہے تو اس سے جنگ کس طرح مراد لی جاسکتی ہے.حالانکہ عذاب جنگ کے لئے زلزلہ کا لفظ قرآن مجید میں موجود ہے.پھر یہ لکھا گیا ہے کہ اس ملک میں اس کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوا.مگر یہ کس قدر غلط ہے.کیا یہ ملک جنگ کے اثر سے محفوظ ہے؟ اب تک کس قدر جانیں اس ملک کی اس جنگ کی نذر ہو چکی ہیں.اور ابھی تک یہ سلسلہ چلا جاتا ہے.اس پیشگوئی میں تو یہ فرمایا گیا ہے مضمحل ہو جائیں گے اس خوف سے سب جن و انس زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی با حال زار ہے یعنے یہ جنگ کسی خاص ملک سے متعلق نہیں ہوگی بلکہ عالمگیر ہوگی.کیونکہ فرمایا.اس کا خوف تمام جن و انس پر حاوی ہوگا.اور اس کا خاص جولان گاہ وہ جگہ ہوگی جس کے ایک خطہ میں زار بھی ا: تذکره ص ۶۰۶ ہے :.براہین احمدیہ حصہ پنجم.

Page 477

خطبات محمود جلد (5) ۴۶۶ ہوگا.اور افراد میں سے سب سے زیادہ مصیبت زار کے لئے در پیش ہوگی.دیکھو بلجیم تباہ ہوا.مگر اس کا بادشاہ.بادشاہ ہی ہے.اس کے سفیر تمام ممالک میں موجود ہیں.مگر زار کی جو حالت ہوئی ہے وہ سب کو معلوم ہے.اس سے زیادہ اور کیا صاف اور کھلا نشان ہوسکتا ہے.پس آپ کی ایسی کھلی کھلی پیشگوئیوں کے باوجود آپ سے استہزاء کیا جانا صاف ظاہر کر رہا ہے کہ آپ خُدا کے نبی اور رسول تھے.خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود کے دشمنوں کو آنکھیں بخشے.تا وہ آپ کو پہچانیں.اللہ کے رسول بڑا فضل ہوتے ہیں.جو لوگ ان کو قبول کرتے ہیں وہ بڑے فضلوں کے وارث ہو جاتے ہیں، ہماری دُعا ہے کہ خدا وہ دن جلد لائے کہ اسلام کی صداقت تمام دنیا پر پھیل جائے.اتنا فرما کر آپ بیٹھ گئے اور جب دوسرے خطبہ کے لئے اٹھے تو فرمایا ) ایک بات بیان کرنی رہ گئی ہے.اور وہ یہ کہ مخالفین کو دھو کہ لگا ہے کہ ان کے نزدیک حضرت مسیح موعود نے صرف ایک یہ ہی زلزلہ کی پیشگوئی کی ہے.مگر واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کو خدا نے کئی زلزلوں کی خبر دی ہے.چنانچہ ان میں سے بعض بڑے بڑے فرانسسکو وغیرہ مقامات میں آپ کی زندگی میں ہی آچکے ہیں.اور ابھی کو نسے رُک گئے ہیں.جس دن اشتہار آیا.اور میری توجہ ادھر ہوئی کہ کیسے حق پوش لوگ ہیں.ایسے کھلے اور بین نشانات کو بھی نہیں مانتے.اور کہتے ہیں زلزلہ آنا چاہیئے تھا تو خدا تعالیٰ نے.۱۰ رمئی کی رات کو ایک زور کا زلزلہ بھیج دیا کہ اگر تم یہی چاہتے ہو تو اسی کو دیکھ لو.دہرم سالہ سے خط آیا ہے کہ بڑے زور کا زلزلہ تھا.نقصان جان بھی ہوا ہے.عمارات کو بھی نقصان پہنچا اور نیز یہ بھی لکھا ہے کہ ۱۹۰۵ء سے زیادہ تھا.ابھی اس کی تفصیلات شائع نہیں ہوئیں.وہ نادان ابھی سے کیوں گھبراتا ہے.زلزلہ خُدا کے پاس بہت ہیں.جس طرح خُدا کے پاس فضل اور احسان بہت ہیں.اسی طرح اس کے پاس شریروں کے سزا دینے کے لئے زلزلے بھی ہیں.ابھی تو اور بڑے بڑے عظیم الشان زلزلے آئیں گے.خدا بہت بڑا رحیم ہے.ویساہی عذاب دینے میں بھی بہت سخت ہے.خدا تعالیٰ لوگوں کو حق کے سمجھنے کی توفیق دے.آمین.الفضل ۲۲ مئی ۱۹۱۷ء) 1: حقیقة الوحی.

Page 478

۴۶۷ 58 خطبات محمود جلد (5) دُعا سے بڑھ کر کوئی کامیابی کا ذریعہ نہیں فرموده ۱۸ رمئی ۱۹۱۷ء تشہد وتعوذ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَلَى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ اور فرمایا:- (سوره بقره رکوع ۲۳) یوں تو دُعا ایک ایسی چیز ہے کہ جس کے مقابلہ میں کوئی روک نہیں ٹھہر سکتی.اور یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جس کی کاٹ کو کوئی ڈھال نہیں روک سکتی.اگر تمام قسم کی دھاتوں کو جمع کیا جائے اور ان سے ایک ڈھال بنائی جائے تب بھی وہ دعا کے حملہ کا مقابلہ نہیں کرسکتی.بہت سے لوگ ہوں گے جنہوں نے بچپن میں بوڑھی عورتوں سے قصے سنے ہوں گے اور بہت سے ہوں گے جنہوں نے ابتدائی تعلیم کے دوران میں کچھ قصے پڑھے ہوں گے.میں نے ایک قصہ سنا تھا کہ کوئی جادو کا محل تھا.جو کوئی اس پر حملہ کرتاوہ کامیاب نہ ہوتا تھا پھر کسی نے غالباً اسم اعظم پڑھ کر ماش کا دانہ مارا تو وہ چل پھٹ گیا.اس میں خزانہ وغیرہ تھے.ان پر اس سے قبضہ کر لیا.اور اس طرح کے دوسرے قصے محض بچوں کے خوش کرنے کو بیان کئے ہیں.لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو وہ مقامات فتح کرنے کی کوئی تدبیر نہیں ہوتی.وہ صرف خدا کے حضور آنسو بہا دینے سے فتح ہو جاتے ہیں.ماش کے ذریعہ قلعہ فتح ہو جانا صرف ایک قصہ ہے.مگر یہ واقعہ ہے کہ خداوند کریم ہر ایک قسم کی مشکلات کے پہاڑ صرف چند لفظوں کے کہنے اور آنکھوں سے چند دانے گرانے سے اڑا دیتا ہے.آنسو بھی دانہ کے مشابہ ہی ہوتے ہیں.لیکن بظاہر اس سے بھی زیادہ نازک اور کمزور کہ جو انگلی کے ساتھ چھونے سے ہی ٹوٹ جاتے ہیں.وہ قلعہ جس کو کوئی فتح نہیں کر سکتا وہ ان سے فتح ہو جاتا ہے.تو دُعاہر زمانہ اور ہر وقت بڑے بڑے عظیم الشان کام کرتی ہے.لیکن ہمارے زمانہ میں تو بہت ہی کار آمد ہتھیار ہے.میں نے ایک رؤیا دیکھی اور آج

Page 479

خطبات محمود جلد (5) ۴۶۸ تک جب یاد آتی ہے اس کی لذت محسوس کرتا ہوں.میں نے دیکھا کہ ایک اثر دھا ہے اور ایک سڑک ہے کچھ آدمی آگے بڑھے ہوئے ہیں اور ایک جماعت میرے ساتھ ہے جو لوگ آگے ہیں ان کے متعلق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہی ساتھ سے الگ ہوئے ہوئے ہیں.اس کا شاید یہ مطلب ہو کہ بظاہر تو ساتھ ہیں.مگر اطاعت میں تقدم کرتے ہیں.چلتے چلتے کسی کے چیخنے کی آواز آئی ہے.اور میں اس کی طرف دوڑتا ہؤا گیا کہ اسے مصیبت سے بچاؤں.دیکھا کہ ایک اثر دھا ہے جو لوگوں پر حملہ کر رہا تھا.اور کوئی انسان اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا جب وہ سانس لیتا تھا تو بے اختیار لوگ اس کی طرف کھینچے چلے جاتے اور کوئی ان کو روک نہ سکتا.انسانوں پر ہی کیا موقوف ہے ہر ایک چیز درخت وغیرہ تک اس کی طرف کھینچنے لگتے اور جب وہ سانس باہر نکالتا جہاں تک پہنچتا وہاں تک کی ہر ایک چیز کو جلا کر راکھ کر دیتا.اس وقت میں نے اپنے دوستوں میں سے ایک کو دیکھا جس پر وہ حملہ آور ہو رہا تھا.میں بھاگ کر گیا کہ اس کی مدد کروں.لیکن وہ اثر دہا اس سے ہٹ کر مجھ پر حملہ کرنے لگا.اس وقت مجھ کو وہ اثر دہا یا جوج ماجوج ہی معلوم ہونے لگا.اور خیال آیا کہ اس کا سامنے ہو کر تو مقابلہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ لا یدان لا حد لقتالھماتے کہ اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکے گا.اور یہ حدیث یا جوج ماجوج کے متعلق ہے.اس سے مجھے کچھ گھبراہٹ سی پیدا ہوئی لیکن معا یہ بات مجھے سمجھائی گئی کہ اس حدیث کا تو یہ مطلب ہے کہ اس کے سامنے ہو کر کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا.اگر کسی اور طریق سے حملہ کیا جائے تو ضرور کامیابی ہوگی.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک چار پائی پیدا ہوئی ہے.جو بنی ہوئی نہیں صرف چوکھٹ ہے اور وہ اس اثر د ہے کی پیٹھ پر رکھی گئی ہے.میں اس پر کھڑا ہو گیا اور ہاتھ اٹھا کر دعا کرنی شروع کر دی ہے جس سے وہ پگھلنا شروع ہو گیا.اور آخر کار مر گیا.یہ میں نے اس کے سامنے ہو کر مقابلہ نہیں کیا بلکہ اوپر ہو کر کیا تھا.اس لئے کامیاب ہو گیا.آج جو اسلام کے خلاف فتنہ برپا ہے کوئی نہیں جو تلوار سے اس کو مٹا سکے اس کے مٹانے کا ذریعہ صرف ایک ہی ہے.اور وہ ہے خدا کے حضور دعا کرنا.پس سب ملکر دعائیں کرو اور اسلام کی تائید میں اس ہتھیار سے بہت زیادہ کام لو.دیکھو جو کوئی اسلام کا نام لے کر کسی کے مقابلہ میں تلوار اٹھاتا ہے وہ سخت ذلیل اور خوار ہوتا ہے.کیونکہ رسول کریم نے فرمایا ہے کہ اس وقت تلوار کام نہیں دے گی.تو اس زمانہ میں صرف دُعا ہی ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے مخالفین اسلام کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے مگر جو لوگ اسلام کے نام پر اس وقت تلوار اٹھاتے ہیں وہ در حقیقت اسلام کے دشمن ہیں.وہ نہ صرف خُدا اور : مسلم بحوالہ مشکوۃ المصابیح کتاب الفتن باب العلامات بين يدى الساعة.

Page 480

خطبات محمود جلد (5) ۴۶۹ رسول کے حکم کے خلاف ہی کرتے ہیں بلکہ اسلام سے دشمنی بھی کرتے ہیں.کیونکہ یہ وہ ذریعہ استعمال کرتے ہیں جو قرآن نے نہیں بتایا.پس یہ زمانہ خصوصیت سے دعاؤں سے تعلق رکھتا ہے.دعاؤں کے خاص اوقات یہ ہیں.نمازوں میں نوافل میں خاص طور پر روزوں میں دعائیں کرنی چاہئیں کیونکہ اسلام کی ترقی اسی میں ہے.بعض اہم کار در پیش ہیں.ان میں رکاوٹیں ہوتی جاتی ہیں.سب دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ان کے کرنے کی ہمیں توفیق دے.ترقی کا وقت یہی ہے لیکن ہماری طاقت بھی کمزور ہے.پورے سامان بھی نہیں ہیں.میں تو اپنی صحت کو دیکھتا ہوں.ہمیشہ بیمار ہی رہتا ہوں ایک وقت صحت ہوتی ہے تو دوسرے وقت بیمار.پس اس وقت ضرورت ہے کہ ہماری تمام جماعت پورے جوش کے ساتھ دعائیں کرے کہ خدا تعالیٰ نور ہدایت کو تمام دنیا میں پھیلا دے اور ہمیں سامان دے جن سے ہم کامیاب ہوں.لیکن صرف سامانوں سے ترقی اور غلبہ حاصل نہیں ہوسکتا.اس لئے سامان ہوں تو ساتھ خُدا کا فضل بھی ہو.پس ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہیے کہ دُعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہمیں وہ سامان دے جن سے اسلام کی ترقی ہو.اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کرے اور چشم پوشی فرمائے اور وہ کام جو مسیح موعود کے ذریعہ ہم پر فرض ہوئے ہیں ان کے پورا کرنے کی توفیق دے تاہم اسلام کی ترقی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں.الفضل ۲۶ مئی ۱۹۱۷ء)

Page 481

۴۷۰ 59 خطبات محمود جلد (5) اسلام کی ترقی کے سامان پیدا ہورہے ہیں فرموده ۲۵ رمئی ۱۹۱۷ء تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے آیت شریفہ يَمْحَقُ الله الرّبوا وَيُربي الصَّدَقْتِ وَاللهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ (البقرہ:۲۷۷) تلاوت کر کے فرمایا :- اسلام کی بعض تعلیمات اس قسم کی ہیں جن کو لوگوں نے اپنی کوتاہ نظری سے مصر سمجھ رکھا ہے.لیکن جب خدا تعالیٰ اصلاح کرنا چاہتا ہے تو ایسے سامان پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ پھر وہی صداقتیں دنیا میں قائم ہو جاتی ہیں جن کا انکار کیا جاتا ہے.اسلام کی اشاعت میں اس وقت جو بہت سی روکیں ہیں ان میں سے تین روکیں بہت بڑی ہیں جو یورپ کیلئے اسلام کے راستہ میں حائل ہیں.اوّل شراب پینے کی ممانعت.دوسرے تعدد ازدواج کی اجازت.تیسرے سُود.یہ تین باتیں ایسی ہیں جو اہلِ یورپ کے اسلام قبول کرنے میں بہت بڑی روک ہیں.شراب کو وہ لوگ اس طرح استعمال کرتے ہیں جس طرح پانی.ایک سے زیادہ بیویاں کرنا ان کے نزدیک بہت بڑا جرم ہے.اور ایسا جرم ہے جس کی معافی ہو ہی نہیں سکتی.سُود کو وہ لوگ کسی قوم کی ترقی کے لئے ایسا ضروری اور لازمی خیال کرتے ہیں کہ اس کے بغیر ان کے خیال میں کوئی سلطنت یا قوم قائم ہی نہیں رہ سکتی.لیکن اسلام ان تینوں باتوں میں یورپ کے بالکل خلاف ہے.اسلام شراب کو بالکل ناجائز قرار دیتا ہے.اور ایک سے زیادہ بیویاں کرنے سے نہ صرف یہ کہ روکتا نہیں بلکہ پسند کرتا ہے کہ استطاعت ہوتے ہوئے ایک سے زیادہ بیویاں کی جائیں.سود کو ایسا نا پسند کرتا ہے کہ جو سود لے اس کے اس فعل کو وہ خُدا سے جنگ کرنے کے برابر ٹھہراتا ہے گویا اس کو بغاوت کے مجرم میں داخل کرتا ہے گویا جس طرح باغی ملک پر بادشاہ چڑھائی کرتے ہیں اسی طرح سود لینے والوں کے متعلق فرمایا کہ اگر تم اس سے باز نہیں آؤ گے تو فاذنوا بحرب من اللہ اللہ کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ.کیونکہ تم نے اس کی بغاوت کی ہے.

Page 482

خطبات محمود جلد (5) ۴۷۱ چنانچہ مسلمان حکومتیں اکثر سود لے کر یا دے کر ہی تباہ ہوئی ہیں.دوسری حکومتیں بھی سود لیتی اور دیتی ہیں مگر ان کو اس سے نقصان نہ پہنچنے اور مسلمانوں کے تباہ ہو جانے کی وجہ یہ ہے.جو شخص کسی مذہب کی صداقت کا ہی قائل نہیں اس پر اس مذہب کے کسی حکم کی خلاف ورزی پر کوئی سزا نہیں ہوتی.مگر جو لوگ قائل ہوں ان کوضرور سزا دی جاتی ہے.عیسائی سود لیتے ہیں ان پر اس کی بناء پر عذاب نہیں آسکتا.کیونکہ وہ اسلام کو مانتے ہی نہیں.اور یہ اسلام کا ایک حکم ہے کہ سود نہیں لینا چاہیئے.مگر مسلمان کہلانے والے تو اس کے خلاف کرنے سے سزا سے نہیں بچ سکتے.کیونکہ وہ اسلام کے سچا ہونے کا اقرار کرتے ہوئے پھر اس کے خلاف کرتے ہیں.دیکھو خُدا تعالیٰ نے کفر کا عذاب اس جہان میں نہیں بلکہ اگلے جہان میں رکھا ہے.اور یہاں ایسے ہی لوگوں کو عذاب دیا جاتا ہے جو شرارت اور فسق و فجور کی زندگی بسر کرتے یا دوسروں کو بھی کفر پر مجبور کرتے ہوں یا فساد پھیلاتے ہوں.لیکن ایسا کافر جو کسی کو دکھ نہیں دیتا اور اپنے خیال کی بناء پر اپنے مذہب پر لگا ہوا ہے اس سے اس جگہ پرسش نہیں ہوگی.بلکہ مرنے کے بعد ہوگی.اور وہ بھی یہ کہ تم نے اسلام کیوں قبول نہیں کیا.نہ یہ کہ تم نے اسلام کے فلاں حکم کے خلاف کیوں کیا.مگر وہ لوگ جو اسلام کو قبول کرتے ہوئے پھر بھی اسلام کے احکام پر عمل نہیں کرتے ان کو یہاں بھی سزا دی جاتی ہے.اور وہاں بھی دی جائے گی.پس یہی وجہ ہے کہ وہ اسلامی سلطنتیں جنہوں نے سود لیا یاد یا سب کی سب مٹ گئیں.دوسری قوموں کی سلطنتوں کو بھی زوال آئے.مگر وہ سیاسی طور پر تھے اور ان کے وجوہات کچھ اور تھے.لیکن اسلامی سلطنتیں اسی طرح فنا ہوئی ہیں کہ انہوں نے سُود پر قرض لیا یا دیا.اگر لیا تو روپیہ دینے والی سلطنتوں نے ان کے ملک میں آہستہ آہستہ اپنا تسلط جمانا شروع کیا.کبھی ریلوں کا ٹھیکہ لیا.کبھی کانوں کو کفالت میں رکھا.کبھی کسی اور صیغہ پر قبضہ کر لیا.غرض آہستہ آہستہ تمام ملک پر چھا گئے.آخر مسلمانوں کو سلطنت سے دست بردار ہونا پڑا اور اگر سود پر قرض دیا تو جب کبھی سلطنتوں کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی تو وہ ارکان سلطنت جنہوں نے اپنا تمام سرمایہ غیروں کو شود پر دیا ہو ا تھا اپنے قرضداروں کے طرفدار ہو گئے تاکہ ان کا روپیہ نہ مارا جائے.کیونکہ اگر سلطنت کا ساتھ دیتے تو روپیہ جاتا تھا.پس سُود نے اس طرح مسلمانوں کی اکثر حکومتوں کو تباہ کر دیا.اہل یورپ کے خیال میں سود کے بغیر کسی قوم کی زندگی نہیں.مگر اسلام کہتا ہے کہ سود کے چھوڑے بغیر زندگی نہیں.دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.باوجود اس فرق کے رکس

Page 483

خطبات محمود جلد (5) ۴۷۲ طرح ممکن ہے کہ وہ لوگ اسلام قبول کریں.لیکن زمانہ کے تغیرات مجبور کر رہے ہیں.اور حالات اس قسم کے پیدا ہور ہے ہیں کہ لوگ اسلام قبول کریں.اور اس قسم کے فرق دُور ہو جا ئیں.شراب تو اس جنگ کی وجہ سے ایسی رو کی جا رہی ہے کہ روس جس میں 4 کروڑ روپیہ صرف محصول شراب کا ہی وصول ہوتا تھا.حکما بند کر دی گئی ہے.اور شراب کے تمام کارخانوں پر سرکار نے قبضہ کر لیا ہے.کیونکہ تمام قسم کی تیز شر ہیں جنگی سامان میں صرف کی جاتی ہیں.اس کے علاوہ فرانس اور انگلینڈ میں بھی اس کے روکنے کی کوشش کی جارہی ہے.ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کو وہ لوگ اس قسم کا جرم خیال کرتے تھے کہ جس کی معافی نہیں ہو سکی تھی.مگر اب یورپ کے رسالوں میں کثرت سے ایسے مضامین شائع ہورہے ہیں جن میں کثرت ازواج پر زور دیا جاتا ہے.اور کہا جاتا ہے کہ اس جنگ سے جو نسل کو نقصان پہنچا ہے.اس کا علاج بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ ایک مرد کئی شادیاں کرے.پھر بہت سے لوگ گورنمنٹ کو ایک ایسا قانون بنانے کا مشورہ دے رہے ہیں کہ جس سے قانونا ایک سے زیادہ بیویاں کرنا جائز ہو.اور جب تک یہ نہ ہو اس وقت تک ایک سے زیادہ بیویاں کرنے پر باز پرس نہ ہو اور کوئی سزا نہ دی جائے.یعنی اگر کوئی کرے تو گورنمنٹ کے حکام اس قانون پر عمل نہ کریں.یہ مضامین نویں مثالیں دے دے کر ثابت کر رہے ہیں.ایک سے زیادہ بیویاں کرنا بہت مفید ہے انہوں نے بلغاریہ کی مثال دی ہے کہ جب جنگ نے اس کے مردوں کو گھٹا دیا توانہوں نے پھر ایک سے زیادہ بیویاں کیں جس سے ان کی وہ کمی پوری ہونے لگ گئی.پھر مردوں کے لئے ہی مضامین اس مسئلہ پر نہیں نکل رہے ہیں.بلکہ عورتوں کے رسالوں میں بھی ایسے مضامین زنکل رہے ہیں کہ اب عورتوں کو قربانی کرنی چاہیئے.جبکہ مردا اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ عورتیں اپنے خیالات کو بھی قربان نہ کریں.پس عورتوں کو دوسری شادی سے بُرا نہ منانا چاہئیے.خواہ انہیں کتنی ہی تکلیف کیوں نہ ہو.ہر ایک عورت کو اولاد پیدا کرنے کی کوشش کرنا چاہیئے.ایسے مضامین کا صاف طور یہ مطلب ہے کہ کئی کئی عورتیں ایک مرد سے شادی کریں.ورنہ ہر ایک عورت اولا د کس طرح پیدا کر سکتی ہے جبکہ عورتوں کی تعداد پہلے ہی مردوں سے زیادہ تھی.اور اب تو جنگ کی وجہ سے بہت ہی زیادہ ہوگئی ہے.تیسرا مسئلہ سود کا ہے.شراب اور کثرت ازواج کا تعلق تمدن سے ہے.مگر سود کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا تعلق تمدن کے علاوہ سیاست سے بھی ہے مگر اہل یورپ ابھی تک اس کے لینے دینے کی ضرورت پر قائم ہیں.مگر انشاء اللہ وہ وقت آنے والا ہے جبکہ اس کے متعلق بھی اسلام

Page 484

خطبات محمود جلد (5) ۴۷۳ کے حکم کو اسی طرح قبول کیا جائے گا جس طرح شراب اور تعدد ازواج کے متعلق کیا گیا ہے.گورنمنٹ ہند نے جب قرضہ جنگ کی تحریک کی تو میں نے اپنی جماعت کی طرف سے کوشش کی کہ کوئی صورت اس قسم کی بھی ہونی چاہیئے کہ جو لوگ قرضہ بلا سود دینا چاہیں وہ بھی اس میں شامل ہوسکیں.اس کے متعلق سرکاری حکام سے خط و کتابت کرائی گئی.مگر یہی جواب ملا کہ ایسا نہیں ہوسکتا.تاہم میں نے کوشش برابر جاری رکھی اور دو ایک جگہ جب قرضہ جنگ کے متعلق جلسے ہوئے تو میں نے اپنے آدمیوں کو بھیجا.جنہوں نے وہاں بھی یہی تجویز پیش کی آخر گورنمنٹ نے اعلان کر دیا کہ گورنمنٹ ایسے قرض کو بھی وصول کرلے گی جو بلاسود دیا جائیگا.صدیوں کے بعد یہ پہلا موقعہ ہے کہ کسی گورنمنٹ نے بلاسود قرض لینے کی تجویز کو منظور کیا ہے.ترکوں نے جو مسلمانوں کی حکومت کہلاتی ہے.ارد گرد کے حالات سے متاثر ہوکر اپنے علماء کو مجبو رکیا تھا کہ کسی نہ کسی طرح وہ سود کے جواز کا فتویٰ دے دیں.لیکن ادھر ایک غیر مسلم سلطنت ہے.اس کے اپنی رعیت کے ساتھ ایسے تعلقات ہیں کہ اس کی رعایا کا ایک حصہ اس کو مجبور کرتا ہے کہ ہم سے جس قدر بن پڑتا ہے اور جتنی ہماری طاقت ہے اس کے مطابق ہم سے بغیر کسی سود کے روپیہ لیا جائے.کیونکہ ہمارے نزدیک وفاداری کا ثبوت تو یہی ہے کہ بغیر کسی قسم کی حرص کے مدد کی جائے.ہر ایک شخص کے پاس کچھ نہ کچھ روپیہ ہوتا ہے اور اس وقت ضرورت ہے کہ ہر ایک شخص اسلام کی صداقت کو ظاہر کرنے کے لئے اس قرضہ میں کچھ نہ کچھ حصہ ضرور لے.ہم لوگوں سے جس قدر ہو سکے گورنمنٹ کو قرض بلا سود دیں.کیونکہ جو شخص اپنے گھر کے پہرہ دار کو یہ کہے کہ مجھ کو کچھ دے تب میں تمہیں اپنے گھر کی حفاظت کے سامان دوں گا تو کس قدر عقل سے دُور بات ہے.گورنمنٹ بھی رعایا کی ایک پہرہ دار اور محافظ ہی ہے.ہماری حفاظت کر رہی ہے.اب جب یہ ہماری حفاظت کے لئے روپیہ طلب کرتی ہے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم کہیں کہ ہمیں کچھ نفع دو.تب ہم تمہیں روپیہ دیں گے.مسلمانوں کی حکومت کی تو یہ حالت کہ اس کو مولویوں سے سُود کے جواز کے فتویٰ کی ضرورت پڑی کہ لوگ اس کو قرض دیں.ادھر خُدا نے ہماری گورنمنٹ کے دلوں میں ایسی محبت ڈال دی کہ اس کی رعایا کا ایک طبقہ گورنمنٹ کو مجبور کرتا ہے کہ ہمیں موقعہ دیا جاوے کہ ہم بلاسود کے قرضہ میں شامل ہوں.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ لوگوں کے دلوں میں کسی گورنمنٹ کی محبت ڈال دیتا ہے.میں اپنی جماعت سے چاہتا ہوں کہ جس قدر ہو سکے جنگ کے قرضہ میں حصہ لے.جب

Page 485

خطبات محمود جلد (5) ۴۷۴ وہ بلاشو داس میں حصہ لے کر ایک نیک مثال قائم کرے گی تو آئندہ سود کے خلاف یہ ایک بہت عمدہ ہتھیار ہوگا.فی الحال یہ اجازت ہونا کہ بلا سود بھی قرضہ لیا جائے گا.سُود کے بالکل مٹ جانے کے لئے نیک فال ہے.پھر چونکہ یہ ہماری تجویز گورنمنٹ نے منظور کر لی ہے اس لئے ہمیں اس پر خاص طور سے عمل کر کے دکھانا چاہیئے.ہماری جماعت کی طرف سے جو رقم پیش ہوگی.اگر چہ وہ کچھ زیادہ نہ ہوگی کیونکہ ہماری جماعت تمام ہندوستان کے مقابلہ میں تھوڑی ہے.اور پھر غرباء کی جماعت ہے.مگر بہت سی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں.جو آئندہ بڑے نتائج پیدا کیا کرتی ہیں.امید ہے کہ اس سے بھی بہت اعلیٰ نتائج نکلیں گے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کر دے کہ اسلام کے رستہ سے تمام روکیں دُور ہو جائیں.اور خدا تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اسلام کی اشاعت کر سکیں.(الفضل ۵رجون ۱۹۱۷ء)

Page 486

۴۷۵ 60 خطبات محمود جلد (5) اتفاق و اتحاد کی ضرورت فرموده کیم جون ۱۹۱۷ء تشہد وتعوذ کے بعد سورۃ فاتحہ کی تلاوت کر کے فرمایا :- کوئی نعمت کوئی فضیلت کوئی رحمت اور کوئی احسان خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے بندوں پر نازل نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ ان کا کام اور ان کی ذمہ داری بھی نہیں بڑھ جاتی.خدا تعالیٰ کی نعمتیں اور احسان ہی ایک ایسی چیز ہیں کہ جو انسان کے کندھوں کو فرائض کے بوجھ سے خم کر دیتی ہیں.ایک دانا اور عقلمند انسان تو اس بوجھ کو سمجھتا ہے.لیکن ایک نادان کی نظر نعمت اور انعام کی طرف تو ہوتی ہے.مگر بوجھ کی طرف نہیں دیکھتا.ایک بڑے بزرگ کی نسبت لکھتے ہیں ان کو کسی جگہ کا قاضی مقرر کیا گیا.اسلام میں قاضی ایسے ہی ہوتے تھے جیسے آجکل حج ہوتے ہیں.اور یہ ایک بہت معزز عہدہ چلا آیا ہے.اور اب بھی معزز ہی ہے.ان کے قاضی مقرر ہونے پر ان کے دوست آشنا جمع ہوئے کہ انہیں مبارکباد دیں.لیکن جب ان کے پاس آئے تو دیکھا کہ وہ رور ہے ہیں.اور روتے روتے گھگی بندھی ہوئی ہے.دیکھ کر حیران ہو گئے.اور کہا ہم تو آپ کے پاس اس لئے آئے تھے کہ آپ کو قاضی مقرر ہونے پر مبارکباد دیں.مگر آپ رو ر ہے ہیں.کیا کوئی ایسا سانحہ ہوا ہے جس کی تکلیف سے آپ رور ہے ہیں.اس بزرگ نے کہا.کیا قاضی مقرر کئے جانے سے بڑھ کر بھی کوئی ایسا واقعہ ہوسکتا ہے جس پر میں روؤں.انہوں نے کہا یہ تو خوشی کا مقام ہے نہ کہ رونے کا.بزرگ نے کہا.تمہیں کیا معلوم؟ یہی تو رونے کا مقام ہے.اس میں شک نہیں کہ یہ مجھ پر ایک انعام ہوا ہے.مگر اس میں شک نہیں کہ ساتھ ہی مجھ پر ایسی ذمہ داری بھی عائد کی گئی ہے جس کو میں اُٹھا نہیں سکتا.دیکھو میں عدالت میں جاؤں گا.لوگوں کے جھگڑے میرے پاس فیصلہ کے لئے آئیں گے.اور باوجود اس کے کہ جھگڑنے والے مجھ سے زیادہ جھگڑے کی حقیقت سے واقف ہوں گے مجھے اس کا فیصلہ کرنا پڑے گا.ایک شخص آکر کہے گا.فلاں نے میرا اتنا روپیہ دینا ہے.دلوائے لیکن دوسرا کہے گا.مجھے اس کا کوئی روپیہ نہیں دینا.اب روپیہ لینے والا جانتا ہے کہ وہ اپنے

Page 487

خطبات محمود جلد (5) دعوے میں سچا ہے یا جھوٹا.یعنے اس نے روپیہ لینا ہے یا نہیں لینا.مگر میرے سامنے آکر یہی کہتا ہے کہ لینا ہے.اسی طرح مدعا علیہ جانتا ہے کہ اس نے روپیہ دینا ہے یا نہیں دینا اور سچا ہے یا جھوٹا.لیکن میرے سامنے انکار ہی کرتا ہے.اب باوجود اس کے کہ مدعی اور مدعا علیہ دونوں اصل معاملہ سے واقف ہیں.مدعی خوب جانتا ہے کہ اُسے روپیہ لینا ہے یا نہیں.اسی طرح مدعا علیہ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اسے روپیہ دینا ہے یا نہیں.لیکن دونوں جھگڑتے ہیں اور کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے.ان کا فیصلہ کرنے کے لئے مجھے مقرر کیا جاتا ہے.جسے ان کے لین دین کے متعلق کچھ بھی واقفیت نہیں ہے.بتاؤ یہ رونے کا مقام ہے یا نہیں.یہ کہکر ان کی چیخیں نکل گئیں.اور رونے لگ گئے.یہ صرف ان قاضی صاحب ہی کی بات نہیں ہے.بلکہ ہر کام اور ہر محکمہ کا انسان اگر دیکھے تو اسے معلوم ہو جائے کہ جس قدر مجھ پر انعامات ہو رہے ہیں.اسی قدر میری ذمہ داریاں بھی بڑھ رہی ہیں.اور مجھ پر بوجھ رکھا جا رہا ہے.یہی وجہ ہے کہ سورۃ فاتحہ الحمد للہ سے شروع ہوتی اور ضالین پر ختم ہوتی ہے.ایک ظاہر بین انسان تو یہی کہے گا کہ جب الحمد للہ سے شروع ہوئی ہے تو ختم بھی الحمد پر ہی ہونا چاہیئے تھی.مگر ایسا نہیں ہے.بلکہ ضالین پر ختم ہوتی ہے.جس کی وجہ یہی ہے کہ ہر انعام جو خدا تعالیٰ کی طرف سے انسانوں پر ہوتا ہے.اس کے ساتھ ان کی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے.لیکن بہت ہوتے ہیں جو انعام ہونے کے وقت ذمہ داری کو نہیں سمجھتے.اس لئے ٹھوکر کھا کر کہیں کے کہیں نکل جاتے ہیں.گویا ان کے لئے انعام ٹھوکر کا موجب بن جاتا ہے.شبلی ایک مشہور بزرگ گذرے ہیں.وہ جنید بغدادی کے جو صوفیا کے گویا باپ تھے.شاگرد تھے.وہ ایک علاقہ کے گورنر تھے.کسی غرض کے لئے جس طرح حکام اپنے بالا دست افسروں کے پاس مشورہ کے لئے آتے ہیں وہ بھی ایک دفعہ بادشاہ کے پاس آئے.اور جس مجلس میں آپ بادشاہ کے پیش ہوئے.اُسی میں ایک ایسا شخص بھی پیش ہوا.جس نے لڑائی میں بڑی بہادری دکھلائی اور بڑی خدمت کی تھی جس کے صلہ میں اُسے خلعت دیا جانا تھا.بادشاہ نے اُسے ایک نہایت بیش قیمت خلعت پہنایا.اتفاقاً اسے ریزش کی شکایت تھی.چھینک جو آئی تو ناک سے رطوبت بہہ گئی.بد قسمتی سے وہ رومال لانا بھول گیا تھا.اور اپنے کپڑے نیچے پہنے ہوئے تھے.جن کے او پر خلعت تھا.اس لئے گھبراہٹ اور جلدی سے کہ اگر بادشاہ نے رطوبت دیکھ لی تو ناراض ہوگا.خلعت سے ہی پونچھ دی.بادشاہ کی نظر اس پر جا پڑی.سخت ناراض ہو کر حکم دیا کہ اس کا خلعت اُتار لو اور باہر نکال دو.کہ اس نے میرے دئے ہوئے خلعت کی ہتک کی ہے.اس واقعہ کو دیکھ کر شبلی کی چیخ نکل گئی اور بادشاہ کو کہا کہ میرا استعفاء قبول کیجئے.بادشاہ نے پوچھا تمہیں کیا ہوا ہے.تم کیوں استعفاء دیتے ہو.انہوں نے کہا.اس شخص نے آپ کی خدمت بڑی

Page 488

خطبات محمود جلد (5) ۴۷۷ جاں نثاری کے ساتھ کی ہے.جس کے بدلہ آپ اسے جو کچھ بھی دیتے تھوڑا تھا.لیکن آپ نے ایک خلعت پہنا یا جوا گر چہ اس کی خدمت اور کام کے نتیجہ میں ہی تھا.مگر باوجود اس کے اور رومال کے نہ ہونے کی وجہ سے جب اس نے منہ پونچھ لیا تو آپ نے اس کے ساتھ یہ سلوک کیا.حالانکہ اگر وہ منہ نہ پونچھتا تو بھی اس کے ساتھ اسی قسم کا سلوک کیا جاتا.لیکن مجھے جو خدا تعالیٰ نے خلعت عطا فرمائی ہے وہ میرے کسی فعل کے نتیجہ میں نہیں ہے.بلکہ محض اس کے فضل سے ہے.اس لئے میں اگر اس کی قدر نہ کروں گا تو کس قدر سزا کا مستحق ہوں گا.پس میں آپ کی ملازمت سے باز آیا تو وہ اس طرح استعفاء دے کر اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جنید کے پاس چلے گئے اور ان کے شاگردوں میں داخل ہو گئے ا.تو انعام کے ساتھ ذمہ داری بھی بہت بڑھ جاتی ہے.ہماری جماعت جو خدا تعالیٰ کے خاص فضل اور رحم کے ماتحت قائم ہوئی ہے.اس کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ خوب یا درکھے کہ ہر انعام کے ساتھ ایک ذمہ داری بھی ہوتی ہے.اور پھر وہ انعام جو ہم پر ہوا ہے.وہ چونکہ بہت ہی عظیم الشان ہے اس لئے ہماری ذمہ داری بھی بہت زیادہ اور بہت بڑھی ہوئی ہے.ہمیں وہ زمانہ نصیب ہوا ہے جس کے دیکھنے کی خواہش اور آرزو بڑے بڑے بزرگ اپنے ساتھ لے گئے.پس جہاں یہ بہت بڑا انعام ہم پر ہوا ہے.وہاں ساتھ ہی بہت بڑی ذمہ داریاں بھی ہم پر عائد ہوگئی ہیں.اس لئے ہمیں اپنے قول اپنے فعل اپنی رفتارا اپنی گفتار میں بہت احتیاط کرنی چاہئیے.تا کہ کسی کی ٹھوکر کا موجب ہو کر جماعت کو نقصان نہ پہنچائیں ہمیں ساری دنیا کے لوگوں کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے جو دنیاوی ساز وسامان کے لحاظ سے ہر طرح بڑھے ہوئے ہیں.ان کے مقابلہ میں ہماری مٹھی بھر جماعت ہے.کروڑوں کی تعداد میں ہندو.عیسائی.یہود اور غیر احمدی موجود ہیں.پھر ان کے پاس ہر قسم کے سامان ہیں.اور ہمارے پاس ان سب کی کمی ہے.ایک مثال ہے کہ بیا الٹا سوتا ہے.کسی نے اُس سے پوچھا کہ اس طرح کیوں سوتے ہو.اس نے کہا اس لئے سوتا ہوں کہ اگر آسمان گر پڑے تو اُسے اپنی ٹانگوں پر اٹھائے رکھوں.اور لوگوں کو مرنے سے بچا لوں.یہ مثال اس وقت بیان کی جاتی ہے جبکہ کوئی معمولی آدمی کسی بڑی ذمہ داری کو اُٹھانے کا مدعی ہوتا ہے.یہ مثال غلط ہے یا صحیح.مگر ہمارا حال واقعہ میں دنیا وی رنگ میں یہی ہے.وہ ضلالت اور گمراہی کا سمندر جو سب کو بہائے لئے جا رہا ہے.اس کے روکنے کے لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں.پس جہاں پہلے ہی یہ حالت ہو.وہاں اگر آپس میں نا اتفاقی اور فتنہ ہو تو پھر کس قدر رنج اور افسوس کا مقام ہے.آپ لوگوں کو خوب معلوم ہے کہ خطرات کے وقت دشمن اور دوست بھی ایک ہو جاتے ہیں.اسی انيا تذکرۃ الاولیاء ص ۳۴، ص ۳۵.

Page 489

خطبات محمود جلد (5) ۴۷۸ جنگ میں دیکھو.فرانس.روس.اور انگلینڈ ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلولڑ رہے ہیں.حالانکہ ان میں مدتوں سے رنجشیں چلی آرہی تھیں.اب یہ کیوں اکٹھے ہو گئے ہیں.اس لئے کہ ایک عظیم الشان خطرہ سے انہیں مقابلہ آپڑا ہے.لیکن اگر غور کیا جائے تو اسلام کے لئے اس وقت اس سے بھی زیادہ خطرہ در پیش ہے.اس لئے اس کے دُور کرنے کے لئے ہمیں تو بہت ہی کوشش کرنی چاہئیے.اور جو پہلی عداوتیں یار رنجشیں ہوں ان کو بھی بھول جانا چاہئیے نہ کہ اور پیدا کرنی چاہئیں.پس اس بات کو خوب یاد رکھو.ہر ایک احمدی کا فرض ہے کہ وہ اپنی زبان اور ہاتھ کو سنبھال کر رکھے.اور ایک دوسرے کے ساتھ ایسا تعلق ہو کہ جماعت میں لڑائی اور فساد کا نام تک نہ ہو.جب کوئی دیکھے کہ فلاں بات سے فلاں بھائی کی دل شکنی ہوتی ہے تو زبان کو روکے.اور ہاتھ کو بند رکھے.حضرت مسیح کہتے ہیں افسوس اس پر جو دوسرے کے لئے ٹھو کر کا موجب بنتا ہے.پس اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اسے خوش نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ ایک دن وہ خود ٹھوکر کھائے گا.اس وقت اتحاد اور اتفاق کی سخت ضرورت ہے.اسی کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو بھیجا.پس اب جو اتحاد کو توڑتا ہے وہ گویا مسیح موعود کی بعثت کو عبث قرار دیتا ہے.اور آپ کے کام میں رکاوٹ ڈالنا چاہتا ہے.وہ رکاوٹ تو نہیں ڈال سکے گا.کیونکہ حضرت مسیح موعود سے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ میں تیری مدد کروں گا.ہاں وہ خود ذلیل اور رسوا ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو سمجھ دے.تا ان کے آپس میں ایسے تعلقات اور رشتے ہوں جیسے سگے بھائیوں اور عزیزوں میں ہوتے ہیں.بلکہ ان سے بھی بڑھ کر.اور خدا تعالیٰ کے احکام کے مقابلہ میں اپنے تمام جوشوں اور خواہشوں کو قربان کرنے کے لئے تیار رہیں تا خدا تعالیٰ کی مدداور نصرت ان کے ساتھ ہو.اور وہ کامیاب ہوں.الفضل ۱۲ / ۹ جون ۱۹۱۷ء)

Page 490

۴۷۹ 61 خطبات محمود جلد (5) لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا کے معنے فرموده ۸ جون ۱۹۱۷ء حضور نے تشہد وتعوذ کے بعد حسب ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.يزَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَمِنِ اسْمُهُ يَحْلِى لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا ( مریم رکوع اول) اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ ہر ایک عظیم تغیر جو دنیا میں کرتا ہے.اس سے پہلے اس کا ایک نمونہ پیدا کرتا ہے جیسا کہ اس کی حکمت کا ملہ چاہتی ہے تا کہ وہ نمونہ مثال کے طور پر کام آئے اور اس کو دیکھ کر لوگ آئندہ حق کے قبول کرنے کے لئے تیار ہو جاویں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے اور خدا تعالیٰ کی صفات چاہتی ہیں درحقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کامل نبی گزرے ہیں.کیونکہ جو رب العالمین کی طرف سے کامل نبی ہوضرور ہے کہ وہ ساری دنیا کی طرف ہو.لیکن لوگوں کو نبوت و رسالت سے آگاہ کرنے کے لئے گاؤں بگاؤں نبی بھیجے گئے.وہ انبیاء ایک نمونہ تھے.لوگوں نے ان پر اعتراض کئے.بحث مباحثے کئے.ان کے مقابلے کئے.اس پر انکی سچائی کے نشان ظاہر ہوئے اور انکی تعلیم معلوم ہوئی کہ کیسی ہوتی ہے اور یہ بھی پتہ لگا کہ اس تعلیم کو بجھنے کے لئے کن کن مسائل کا جاننا اور سمجھنا ضروری ہے.جب سب قومیں ان باتوں کو جان چکیں تب وہ نبی آیا جو رب العالمین کی طرف سے تمام جہان کے لئے تھا.اسی طرح وہ کتاب بھی ایسی لایا جو تمام دنیا کے لئے ایک ہی ہے اور ابد الآباد تک قائم رہنے والی ہے.جس طرح اس خدا کی خدائی کو کوئی نہیں بدل سکتا.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خدا

Page 491

خطبات محمود جلد (5) ۴۸۰ کی طرف سے کتاب دی گئی ہے اسکو بھی کوئی نہیں بدل سکتا.اور اسی طرح اس کی نبوت بھی قیامت تک ختم نہیں ہوسکتی بلکہ آپ کے ذریعہ نبوت کا دروازہ کھلا ہے اور ایک ایسا شخص جو خدا کے علم میں اس کا کامل متبع ہو اس کو بھی اس کی اتباع سے نبوت مل سکتی ہے.ان مثالوں کے بیان کرنے یعنی پہلے انبیاء کے بھیجنے میں خدا وند کریم کی ایک بہت بڑی حکمت یہ تھی کہ تمام دنیا کے لئے ایک ایسا موعود بھیجا جائے جس کو پہلے انبیاء کے نام دئے جائیں.اور ان سے پہلے انبیاء کے ماننے والوں کو اسکے قبول کرنے میں آسانی ہو.کیونکہ انسان کے دل میں جن لوگوں کی عزت ہوتی ہے.اگر وہی لوگ آئیں تو بہت خوشی ہوتی ہے.لیکن انکی بجائے خواہ ان سے بڑا بھی آ جائے تب بھی چنداں التفات نہیں کرتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی دوسرے نبی کو حاصل نہیں.اگر مسیح موعود علیہ السلام کو یہ درجہ حاصل ہوا تو صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی سے ہی حاصل ہوا ہے.مگر چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گزشتہ انبیاء کے نام نہیں دئے گئے تھے.اس لئے لوگ مسیح وغیرہ کے تو منتظر رہے اور اب بھی ہیں.مگر آپ کے منتظر نہیں.حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیاء کے موعود ہیں.جیسا کہ گزشتہ مذہبی کتب سے ظاہر ہے.مگر ہندوؤں میں جس طرح حضرت کرشن کی دوبارہ آمد کا انتظار کیا جاتا ہے.اس طرح اس عظیم الشان نبی کا نہیں کیا گیا.پھر عیسائی صاحبان جس طرح مسیح کی آمد ثانی کے منتظر ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں تھے.تو باوجود اس کے کہ آنحضرت درجہ اور شان کے لحاظ سے تمام انبیاء کے سردار ہیں مگر لوگ آپ کے اس اضطرار سے منتظر نہیں تھے.جس طرح ان کو خیال ہے کہ مسیح آئے.کیوں؟ اس لئے کہ مسیحیوں کو حضرت مسیح کے نام سے اور ہندوؤں کو کرشن کے نام سے، اور بُدھ ازم والوں کو بُدھ کے نام سے جو محبت اور انس ہے وہ آپ سے نہیں.کیونکہ مسیحی لوگ حضرت مسیح پر جان دینے کو تیار ہیں.بدھ لوگ بُدھ کے نام پر مر مٹنے پر آمادہ ہیں

Page 492

خطبات محمود جلد (5) ۴۸۱ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو ان سب کی صف میں سب سے آگے ہیں.آپ کا ان لوگوں کو خیال تک نہیں.اگر چہ ان لوگوں کی کتب میں آپ کی پینگوئی مستقل طور پر پائی جاتی ہے.مگر چونکہ ان کے مانے ہوئے انبیاء کے نام سے نہیں اس لئے ان کو آپ کا خیال نہیں.اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وہ سب لوگ آئیں جن کے ہر ایک مذہب والے منتظر ہیں.اس لئے خدا تعالیٰ نے اپنی مصلحت اور حکمت کے ماتحت ایک ہی شخص کو ان تمام موعود انبیاء کے نام دیدیئے ہیں.تاہر مذہب والے کو اس کے ماننے اور قبول کرنے میں آسانی ہو.موعود انبیاء کے نام ایک ہی کو دینے میں یہ حکمت ہے کہ اگر ان لوگوں کو غیر شخص فیصلہ کے لئے دیا جاتا تو وہ اس کو قبول کرنے کو تیار نہ ہوتے.لیکن اگر وہی شخص ان کو حکم بنا کر دیا جائے جس کو وہ پہلے سے جانتے پہچانتے ہیں اور جس کے نام سے ان کو خاص محبت ہے تو وہ ضرور اسکی طرف توجہ کریں گے.پس اگر دیگر مذاہب کے لوگوں کو کہا جائے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگئے تو وہ تو جہ نہیں کریں گے.لیکن اگر ہندوؤں کو کہا جائے کہ کرشن آگئے تو کرشن کے نام کے ساتھ محبت رکھنے والے ہند و فوراً پوچھیں گے کہ کہاں آئے ہیں.اسی طرح عیسائی صاحبان کو جب کہا جائے کہ حضرت مسیح آ گئے تو وہ بڑی خوشی سے اس خبر کو سنیں گے.اور اسکی تصدیق کی طرف متوجہ ہوں گے.کیوں؟ اس لئے کہ انہیں ایک آنیوالے کی اس نام سے خبر دی گئی ہے.جسکی غرض یہ تھی کہ آنیوالے کے نام سے یہ لوگ فائدہ اٹھا ئیں اور حق قبول کریں.پس جب دنیا میں ایک عظیم الشان شخص کو پہلے انبیاء کے ناموں کے ساتھ بھیجنا تھا تو ضروری تھا کہ اس کا کوئی نمونہ بھی پیش کیا جاتا تا کہ لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے.اور وقت پر لوگ ٹھوکر نہ کھاتے اب چونکہ خدا وند کریم ایک ہی شخص کو گزشتہ تمام انبیاء کے نام دے کر اور حکم بنا کر بھیجنا چاہتا تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کا ایک نمونہ پہلے سے رکھ دیا.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے :.

Page 493

خطبات محمود جلد (5) ۴۸۲ طور : يَازَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَمِنِ اسْمُهُ يَحْيَى لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا اے ذکر یا ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ لڑکا بچپن میں فوت نہیں ہو جائے گا.بلکہ زندہ رہے گا اور ہم تجھے ایک اور خوشخبری بھی دیتے ہیں کہ اس لڑکے میں ایک ایسی بات ہوگی جس میں یہ منفرد ہو گا.اور اس سے قبل کوئی اس بات میں اس کا شریک نہیں ہوگا.وہ یہ کہ وہ ایک نبی کا مثیل ہوگا.اور اس سے پہلے اس کی کوئی نظیر نہیں ہے.انبیاء ماسبق مستقل پر نبی تھے.کسی نبی کے وہ مشیل نہیں تھے.لیکن حضرت یحیی “ جسکو یوحنا بھی کہا جاتا ہے ایک نبی کے مثیل قرار دیئے گئے.یعنی حضرت الیاس جس کو ایلیا بھی کہتے ہیں ان کے آپ مثیل تھے.حضرت مسیح کے آنے کے متعلق بائیل میں پیشگوئی موجود تھی.اور اب بھی ہے کہ وہ نہیں آسکتا جب تک ایلیاء آسمان سے نازل نہ ہوا.لیکن ایلیاء نے آسمان سے کیا آنا تھا.ایک اور شخص کو خدا تعالیٰ نے انہی صفات کے ساتھ جن سے ایلیاء متصف تھے.حضرت مسیح سے پہلے مبعوث فرما دیا.تو حضرت بیٹی" میں ایک ایسی بات رکھی گئی جو آپ سے پہلے کسی نبی میں نہ تھی.اور اس سے حضرت بیٹی کا نام زندہ جاوید ہو گیا.کیوں؟ اس لئے کہ آپ حضرت مسیح موعود کے لئے ایک دلیل کے طور پر ہو گئے جب مسیح موعود کی صداقت پیش کی جائے گی تو ضرور حضرت سجی کو نظیر کے طور پر پیش کیا جائے گا.اور جب کسی عیسائی کے سامنے یہی یوحنا اور ایلیاء کا واقعہ رکھیں گے تو پھر اس میں تاب نہ رہے گی کہ کچھ بول سکے.بہت سے لوگوں نے اس آیت کے معنی کرنے میں ٹھو کر کھائی ہے اور اس سے یہ سمجھا ہے کہ سیکی نام پہلے کسی کو نہیں دیا گیا.یعنی آپ کا وہ نام رکھا گیا ہے جو آپ سے پہلے کسی نبی یا غیر نبی کا نہیں رکھا گیا حالانکہ یہ بات بالبداہت تاریخ سے غلط ہے.لیکن اگر تسلیم بھی کر لیا جائے : ملا کی ۴/۵

Page 494

خطبات محمود جلد (5) ۴۸۳ کہ آپ سے پہلے اس نام کا کوئی انسان نہیں ہوا تو یہ کوئی ایسی بات نہیں جسے خدا تعالیٰ ایک انعام کے طور پر بیان فرماتا.پس لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا کے یہ معنے کہ حضرت یحی سے پہلے کئی نام کا کوئی شخص نہیں گزرا غلط ہیں.در حقیقت اس کا یہ مطلب ہے کہ حضرت بھی ایک بات میں بے مثل ہیں.یعنی ان کو ایک ایسا کام سپر د کیا گیا ہے جو ان سے پہلے کسی اور نبی کے سپرد نہیں کیا گیا یعنی ان کو ایک نبی کا نام دیکر اور اسکا قائم مقام بنا کر بھیجا گیا تا کہ وہ کسی آئندہ آنیوالے کے لئے رستہ صاف کریں اور دنیا کے لئے نمونہ ہوں.اب جب حضرت مسیح موعود کی صداقت کے متعلق ایک عیسائی کے ساتھ بحث ہو.اور جب ہم اسے یوحنا کی آمد کی نظیر بتلا کر حضرت مسیح موعود کی آمد کی حقیقت بتا ئیں گے تو ضرور ہی وہ لا جواب ہو جائے گا.اور سینکڑوں لوگ اس بات کے ذریعہ جو حضرت یحیی کے ذریعہ مسیح موعود کی صداقت میں قائم ہوئی.ہدایت پاسکیں گے.اس آیت میں جو میں نے پڑھی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہی میں ایک ایسا کمال رکھیں گے جس کے باعث وہ ایک عظیم الشان انسان کے لئے جو سب نبیوں کا موعود ہوگا.بطور مثال پیش کیا جائے گا.بنی اسرائیل میں اس سے قبل ایسی کوئی مثال موجود نہیں تھی.ان میں یہ نمونہ قائم فرما دیا.اور حضرت مسیح نے فیصلہ کیا کہ ایلیاء جو آنے والا تھا.وہ یوحنا ہی ہے لے.جو ا سکے رنگ میں آیا.اسی کو قبول کرو اب حضرت کی ایک نظیر بن گئے.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر ہوگا تو ضرور ہے کہ حضرت سجی کو دلیل اور مثال کے طور پر پیش کیا جائے.اور اس طرح پر وہ زندہ ہیں.اور ان کا نام قائم ہے یہ ایک ایسی فضیلت ہے جو حضرت سجی سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئی.یہ ایک ایسی مثال ہے.جو بہت چھوٹی ہے.کیونکہ حضرت یحی کو صرف ایک نبی کا نام دیا گیا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جن کے : متی ۱۱/۱۴

Page 495

خطبات محمود جلد (5) ۴۸۴ لئے حضرت سکی ایک دلیل کے طور پر ہیں.تمام گزشتہ انبیاء کے نام دیئے گئے.زرتشت کے متعلق بھی ان کے محققین کا یہی فیصلہ ہے کہ یہ زرتشت جو مشہور ہے.اس کا اصل میں کچھ اور نام تھا.اور اس سے پہلے ایک شخص زرتشت نام گزرا ہے.جس کے نام کے ساتھ ہی دوسر از رتشت جس کا اصل نام مفقود ہو گیا مشہور ہے.اور یہ اسکا مثیل ہے.تعجب ہے کہ لوگ حضرت سکی کے متعلق ادھر توجہ نہیں کرتے بلکہ اس کے نام میں خصوصیت تلاش کرتے ہیں حالانکہ کسی نام میں منفر د ہونا کوئی خصوصیت نہیں.حضرت مسیح ناصری کی آمد کے لئے نشان تھا کہ وہ نہیں آ سکتے جب تک کہ ایلیاء آسمان سے نازل نہ ہو.لیکن جب حضرت مسیح آئے.اور آپ سے سوال کیا گیا کہ ایلیاء کہاں ہے.جس نے آپ سے پہلے آسمان سے نازل ہونا تھا تو انہوں نے اس پیشگوئی کی حقیقت اس طرح بیان کی کہ یوحنا ہی ایلیاء ہے.یعنی یہ اس کے رنگ میں ہو کر آیا ہے اس کو قبول کرو.اسی طرح حضرت مسیح موعود کے متعلق وعدہ تھا کہ مسیح آئے گا.لوگوں نے سمجھ لیا کہ مسیح ناصری ہی آئے گا.حالانکہ ان کا ایسا سمجھنا غلط تھا.کیونکہ اس پیشگوئی کی حقیقت بھی یہی تھی کہ جس طرح یوحنا کو ایلیاء حضرت مسیح نے خود قرار دیا.اسی طرح ان کی پیشگوئی سے بھی کوئی ایسا ہی شخص مراد ہے جس کا نام تو کچھ اور ہو گا مگر اس کو وہ تمام صفات دے دی جائیں گی.لوگوں کو یہ مثال تو بتا دی گئی تھی.مگر افسوس انہوں نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا اور جس طرح اور حقائق کو بھلا دیا.اسی طرح اس بات کو بھی فراموش کر دیا.بنی اسرائیل کے پاس اس کی کوئی مثال نہیں تھی.مگر مسیحی لوگوں اور مسلمانوں کے پاس تو یوحنا کی ذات میں ایلیاء کی دوبارہ آمد کی مثال موجود ہے.مگر افسوس جب اس مثال سے فائدہ اٹھانے کا وقت آیا تو انہوں نے اس کو فراموش کر دیا.بنی اسرائیل تو معذور بھی قرار دئے جا سکتے ہیں کیونکہ ملا کی نبی کی

Page 496

خطبات محمود جلد (5) ۴۸۵ کتاب میں صاف طور پر پیشگوئی ہے کہ ایلیاء آسمان پر گیا ہے اور آسمان سے ہی آئے گا.اور اس کے بعد مسیح مبعوث کیا جائے گا مگر جب ان کو اسکے خلاف ایک ایسے شخص کو جوان میں ہی پیدا ہوا.اور انہی میں پرورش پائی.اور جس کا نام یوحنا تھا.ایلیاء کے نام سے موسوم کیا گیا تو وہ حیران رہ گئے لیکن مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے اس وقت یہ وقت باقی نہیں ہے.عیسائیوں کے لئے تو صرف یہ کافی ہے کہ جس طرح یوحنا ایلیاء ہے.اسی طرح حضرت مرزا صاحب مسیح ہیں باقی رہے مسلمان سوان کے لئے بھی حضرت سکی کی مثال نہایت کارآمد ہے.کیونکہ حضرت مسیح کے لئے یہ نہیں آیا ہے کہ وہ آسمان پر گیا ہے اور جب آسمان پر گیا ہی نہیں تو آسمان سے آنا کیسا؟ یہاں صرف نزول کا لفظ ہے.اور اس کے یہ معنی ہر گز نہیں کہ آسمان سے اترے گا.بلکہ یہ عربی کا محاورہ ہے کہ ادنی کے آنے پر خروج کا لفظ اور اعلیٰ کے لئے نزول کا لفظ استعمال کرتے ہیں.چنانچہ دجال کے لئے خروج کا لفظ آیا ہے.اور مسیح کے لئے نزول کا.پس اگر لوگ اس مثال سے فائدہ اٹھاتے تو اُن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام جیسی نعمت کے قبول کرنے سے محروم نہ رہنا پڑتا.پس اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ اس بات میں تحیل کا کوئی مثیل نہیں کہ ان کو ایک ایسا کام سپر د کیا گیا جو کسی اور کو آپ سے پہلے نہیں سپر د کیا گیا تھا.اگر مسلمان اس حقیقت پر غور کرتے تو ضرور ان کو ہدایت ہوتی مگر وہ ضد میں آکر حقائق کا انکار کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو حضرت مسیح موعود کو قبول نہیں کر سکے سمجھ دے اور ہدایت کی راہیں بتائے.(الفضل ۶ ارجون ۱۹۱۷ء)

Page 497

خطبات محمود جلد (5) ۴۸۶ 62 حضرت مسیح موعود کی کتب پڑھو (فرموده ۱۵/جون ۱۹۱۷ء) حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ اور سورۃ والناس کی تلاوت کے بعد فرمایا.ایک امر جس کے متعلق حضرت مسیح موعود ہمیشہ زور دیتے تھے میں دیکھتا ہوں کہ اس کی طرف بہت کم تو مجہ ہے.لیکن میں چاہتا ہوں کہ یہاں کی اور باہر کی جماعتیں اس پر پوری پوری توجہ کریں.میری طبیعت کئی دن سے خراب ہے.نزلہ سینہ پر گرتا ہے جس سے بخار اور سر در دبھی ہو گیا ہے اور کھانسی بھی ہے.اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو میرا ارادہ ہے کہ اس مضمون کو کئی حصوں میں تقسیم کر کے آئنده مفصل بیان کروں.لیکن اس وقت میں جماعت کو ادھر متوجہ کرنا چاہتا ہوں.اور مختصراً اس بات کو بیان کر دیتا ہوں.حضرت مسیح موعود کے آنے کی غرض یہ ہے کہ وہ ٹور اور ہدایت جولوگوں کو خدا وند کریم کی طرف سے دیا گیا تھا اور جس سے وہ نا واقف ہونے کی وجہ سے دشمنوں کا شکار ہو جاتے تھے.دوبارہ دیا جائے.اسلام کو جو ضعف پہنچا ہے وہ نہ صرف اس لئے کہ مسلمانوں میں علم کی کمی ہے بلکہ اس لئے بھی کہ ان میں روحانیت کی بھی جو اسلام کی جان ہے کمی ہو گئی ہے.پس جب مسلمانوں میں نہ اسلام کی حقیقت کے سمجھنے کا علم ہے نہ روحانیت تو اگر وہ غیروں کا شکار ہوں یا دوسروں کی طرف جھکنے لگیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں.ضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ میرے آنے

Page 498

خطبات محمود جلد (5) ۴۸۷ کی غرض یہ ہے کہ ان صداقتوں کی طرف لوگوں کو متوجہ کروں جو اسلام میں پائی جاتی ہیں.اسی لئے آپ بار بار اپنی کتب کے پڑھنے اور کثرت کے ساتھ قادیان آنے پر زور دیا کرتے تھے.مگر بہت سے لوگ ہیں جو کتب نہیں پڑھ سکتے.ان کے لئے قادیان آنا اس لئے بہت زیادہ مفید ہے کہ یہاں پر زبانی طور پر انکو کامل علم ہو جائے.لیکن جو لوگ کتب پڑھ سکتے ہیں وہ کتابوں کو بھی پڑھیں.اور قادیان بھی آئیں.کیونکہ اکثر مضامین تحریر میں اختصار کے ساتھ لکھے جاتے ہیں لیکن زبانی طور پر تفصیل سے بیان ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے جس قدر حضرت مسیح موعود پر افضال و انعام اور معارف اور حقائق کھولے ہیں.اور جوصداقتیں اسلام میں پائی جاتی ہیں.وہ آپکی کتب میں موجود ہیں.اور اللہ تعالیٰ نے اس وقت اسلام کی حفاظت کا یہی انتظام فرمایا ہے کہ حضرت مسیح موعود کو مبعوث فرمایا.اور آپ پر اپنے انعامات کے دروازے کھول دئے.پس بغیر ان کتب کو بار بار پڑھے اور قادیان میں کثرت سے آنے کے ایمان کامل نہیں ہوسکتا.جو لوگ سلسلہ کی کتب کو نہیں پڑھتے وہ یا درکھیں کہ محض سلسلہ میں داخل ہو جانا کوئی بات نہیں.جب تک کہ سلسلہ سے کما حقہ واقفیت نہ پیدا ہو.مثلاً کوئی شخص کسی ایسے اعلیٰ درجہ کے مکان میں داخل ہو جس کی کوئی نظیر نہ ہو.مگر داخل ہوتے ہی آنکھیں بند کر لے تو ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ وہ اس مکان کی خوبصورتی کو نہ تو دیکھ سکتا ہے.اور نہ اس سے کچھ لطف اٹھا سکتا ہے.یا اسی طرح کوئی نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا لیمپ ہو اسکی روشنی سے ایک ایسا شخص تو فائدہ اٹھا سکے گا جو اس سے بہت فاصلہ پر ہو.مگر وہ کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا جو قریب بیٹھا ہوا گر اپنی آنکھیں بند کر لے.ایسا انسان تو خواہ اپنا منہ لیمپ کے اندر بھی لے جائے تو بھی اس کی روشنی سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتا.یہی حال ہے ایسے انسان کا جو سلسلہ میں تو داخل ہو مگر اپنی آنکھوں سے کام نہ لے.اور ان معارف اور حقائق کو نہ دیکھے جو خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ میں رکھے ہیں کیونکہ اسوقت تک کسی خدائی سلسلہ میں داخل ہونا یا

Page 499

خطبات محمود جلد (5) ۴۸۸ امام اور خلیفہ کی بیعت کرنا کوئی بات نہیں جب تک کہ آنکھوں کو کھول کر ان صداقتوں سے فائدہ نہ اٹھایا جائے جو اس سلسلہ کے امتیازات ہوں.اور ان باتوں سے واقف نہ ہو جائیں جو اسمیں موجود ہوں.بعض لوگ کہتے ہیں کہ اپنے مخالفین سے نہ ملو.میرے نزدیک یہ غلط ہے.ان کو سمجھانے اور حق پہنچانے کے واسطے تو ملو.لیکن اس غرض سے نہ ملو کہ تم ان سے کسی قسم کا کوئی فائدہ حاصل کرنے کی توقع یا امید رکھو.جو لوگ یہ طاقت رکھتے ہوں کہ ان کو سمجھا سکیں اور ان کے اعتراضات کا جواب دے سکیں وہ ضرور ملیں.کیونکہ ان کا فرض ہے کہ انہیں حق پہنچا ئیں.ایسے لوگوں کا اپنے مخالفین سے نہ ملنا اپنے ایمان کی حفاظت کرنا نہیں ہے اور نہ اس طرح ایمان کی حفاظت ہو سکتی ہے.بلکہ ایمان کی حفاظت اپنے مذہب سے پورا واقف ہونے اور اپنے دعاوی کے ثبوت میں دلائل رکھنے سے ہوتی ہے.دیکھو اگر ہم غیر احمد یوں اور غیر مبائعین سے ملنا چھوڑ دیں تو ان لوگوں کو حق کس طرح معلوم ہو اور ہماری جماعت کس طرح ترقی کرے.لیکن ملنا اس وقت مفید ہو سکتا ہے جبکہ ملنے کی طاقت بھی ہو.ورنہ وہ شخص جو چار پائی سے بھی نہ اُٹھ سکتا ہو وہ کسی زور آور کا کیا مقابلہ کر سکے گا.یا وہ شخص جس کا جسم زخموں سے چھلنی ہو وہ میدان میں نکل کر کیا بہادری دکھلائے گا.ایسے آدمی کا تو میدان میں جانا دشمن کو نقصان پہنچانے کی بجائے اپنی جان کو نقصان پہنچانا ہے.پس دشمن سے مقابلہ کرنے سے پہلے اپنے اندر طاقت اور قوت پیدا کرنی چاہئیے.اور پھر مقابلہ کے لئے نکلنا چاہیئے.ہماری جماعت کے لوگوں کو اپنے مخالفین سے مقابلہ کرنے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی کتب پڑھنی چاہئیں.قرآن کریم اور احادیث نبویہ کا مطالعہ کرنا چاہیئے.اور اور کتب جو یہاں سے کسی کے مقابلہ میں لکھی جاتی ہیں.ان کو پڑھیں.اور نہ صرف پڑھیں بلکہ ان کو غور سے پڑھ کر انکے حقائق کو ازبر کریں.پھر میدان میں نکلیں اور غیروں کو سمجھانے کی کوشش کریں.یہ نہیں ہونا چاہیئے کہ اپنی کتب کو پڑھا ہی نہ جائے.ان کے

Page 500

خطبات محمود جلد (5) ۴۸۹ حقائق اور معارف سے واقفیت ہی نہ ہو اور اپنی کمزوری کو چھپانے کے لئے غیروں سے مقابلہ کرنے کے لئے ہی نہ نکلیں.ایسے لوگوں کو فوراً اپنے اس نقص کو دور کرنا چاہیے اور حضرت مسیح موعود کی کتب کو پڑھنا اور ان سے واقف ہونا چاہئیے.کیونکہ ہر ایک شخص کا فرض ہے کہ پہلے وہ خود اپنے مذہب کو سمجھے اور اس کی سچائی کے دلائل معلوم کرے.پھر کسی دوسرے کے سامنے رکھے.اور یہی وہ طریق ہے جو صداقت کے پھیلانے کا موجب ہوسکتا ہے.اگر تمام لوگ اس کو عمل میں لاتے تو کبھی یہ اختلاف جو تمام مذاہب میں پایا جاتا ہے، نہ پیدا ہوتا.لیکن افسوس کہ اکثر ایسا نہیں کرتے.اگر کوئی شخص اپنے طور پر نہ سمجھ سکے تو اس کا فرض ہے کہ دوسروں سے جو دین سے واقف ہیں دریافت کرے نہ یہ کہ سمجھنے کی کوشش ہی نہ کرے.پس تم لوگ خود سمجھو.اور دوسروں سے دریافت کرو اور پھر غیروں کو سمجھاؤ.پس دین سے پوری پوری واقفیت خوب تو جہ سے اور نہایت جلد پیدا کر و.اور سب کے سب دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہو جب تک اس طرح نہ ہوگا.تمام جہان پر صداقت نہ پھیل سکے گی.لیکن اگر کسی سے نہیں ملو گے.اور اس کے سامنے حق نہ رکھو گے تو بتلاؤ کہ ہماری جماعت کس طرح بڑھے گی.کیا اگر ہمیں یہی خوف دامن گیر رہے کہ کہیں سکھ نہ مقابلہ پر آجائیں.آریوں سے مقابلہ نہ ہو جائے.غیر احمدی یا عیسائیوں وغیرہ سے مقابلہ نہ ہو جائے تو کیا اس طریق سے اسلام کی صداقت دنیا میں پھیل سکتی ہے.ہرگز نہیں.بلکہ اسکا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہاری ترقی بند ہو جائے گی.اور جب ترقی بند ہوئی تو گویا جماعت کا خاتمہ ہو گیا.کیونکہ ترقی کے رکنے کا لازمی نتیجہ یہی ہوتا ہے.لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ بعض لوگوں میں یہ کمزوری پائی جاتی ہے.ہمارے مخالفین کا کام اسلام کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شکوک پیدا کرنا اور وسوسے ڈالنا ہے اور کسی بات کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنا یا اس میں نقص نکالنا کوئی بڑا کام نہیں.مثلاً ہر ایک شخص روٹی کو دیکھ کر یہ تو کہہ دے گا.کچی ہے یا ٹیڑھی ہے یا جلی ہوئی ہے.مگر یہ

Page 501

خطبات محمود جلد (5) ۴۹۰ نہیں کر سکے گا کہ خود بھی روٹی پکا کر دکھاوے پس وسوسہ ڈالنا کوئی مشکل نہیں ہاں اسکے مقابلے میں کچھ کر کے دکھانا ایک کام ہے.خدا تعالیٰ نے سورۃ الناس میں تین صفات الہیہ سے پناہ منگائی ہے اور اس طرح یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وسوسہ کے دُور کرنے میں کون سی صفات کام کرتی ہیں.پس پہلے ان صفات کو اپنے اندر جلوہ گر کرو اور پھر وساوس اور شکوک کے دُور کرنے کیلئے نکلو.پہلے ربوبیت ہو.یعنی انسان آہستہ آہستہ ترقی کرتا اور بڑھاتا جائے.جس طرح ربّ کے معنی ہیں بتدریج ترقی دینے والا.اسی طرح جب انسان صفت، ربوبیت کو اپنے اندر پیدا کر لے گا تو یہ بھی اپنے علم کو آہستہ آہستہ ترقی دیتا جائے گا.پھر ربوبیت سے بڑھ کر ملکیت ہے.جس طرح بادشاہ فیصلہ کرتا ہے اسی طرح تم بھی خدا کی صفت ملکیت کے فیضان کو اپنے اوپر جاری کرو اور فیصلہ کرنے کی قوت اپنے اندر پیدا کرو.اس کے بعد صفتِ الوہیت کی چادر کو اپنے اوپر لے لو.جب یہ حالت ہو جائے گی تو پھر کوئی مخالف طاقت اثر نہ کر سکے گی.بلکہ فرمانبرداری کرنے پر مجبور ہوگی.عیسائیوں نے اس حقیقت کو نہ سمجھنے کے سبب سے حضرت مسیح کو خدا اور خدا کا بیٹا کہہ دیا حالانکہ اس وجہ سے اگر یہ درجہ کسی انسان کو دیا جا سکتا تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے.کیونکہ آپ پر شیطان کا کوئی اثر نہ ہو سکتا تھا.یہی وجہ ہے کہ آپ نے فرمایا: میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے ا.پس یہ تیسرا کمال کا درجہ ہے اور یہاں شیطان کا کوئی داؤ کام نہیں کر سکتا اور وہ کوئی وسوسہ نہیں ڈال سکتا بلکہ خود اسکو ایسے انسان کی فرمانبرداری کرنی پڑتی ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا نہیں تھے مگر آپ نے صفت الوہیت کو اپنے اندر اس قدر لیا کہ خدا تعالیٰ نے بھی کہہ دیا.قُلْ يَا عِبَادِی (الزمر : ۵۳) کہو اے میرے بندو! یاران كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي ل : صحیح مسلم کتاب صفات المنافقين و احكامهم باب تحريش الشيطان و ان مع كل انسانٍ قرينا

Page 502

خطبات محمود جلد (5) ۴۹۱ ( آل عمران : ۲۲) اگر خدا سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسقدر اس صفت میں رنگین ہوئے کہ آپ کے متعلق یہ الفاظ کہہ دئے گئے.یہ اس لئے تھا کہ آپ نے الوہیت کی چادر کو اپنے اوپر لے لیا.غرض وسواس سے بچنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے یہ ذرائع بتائے ہیں.اوّل علم حاصل کرنا.دوسرے فیصلہ کی طاقت پیدا کرنا.جب یہ دونوں باتیں پیدا ہو جائیں تو پھر الوہیت کا پر تو پڑنا شروع ہو جاتا ہے.اور اس وقت وسواس اثر نہیں ڈال سکتے.پس خوب یا درکھو کہ مقابلہ کے لئے سامنے نکلے بغیر کبھی کامیابی نہیں ہوا کرتی.جولوگ مقابلہ سے جی چراتے ہیں وہی شکست کھاتے ہیں.اور ایک دفعہ مقابلہ سے خوف کھانے سے آئندہ حوصلے پست ہو جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ رویاء دیکھی کہ مولوی عبد اللہ صاحب امرتسری (غزنوی) ایک چار پائی پر بیٹھے ہیں.آپ بھی اسی پر بیٹھ گئے.مولوی صاحب ذرا آگے سرک گئے.حضرت صاحب اور آگے ہو گئے.اسی طرح ہوتے ہوتے آخر مولوی صاحب نیچے ہو بیٹھے اور حضرت صاحب کے لئے چار پائی خالی چھوڑ دی اے.تو جو مرکز کو چھوڑ دے گا.اور پیچھے ہٹے گا.ضرور ہے کہ وہ شکست کھائے.یہ بڑی کمزوری کی علامت ہے اگر کہا جائے کہ دشمن سے نہ ملو.اگر تم کو سلسلہ سے پورے طور پر آگاہی ہوگی.اور تم اسلام سے اچھی طرح واقف ہو گے.پھر دشمن میں کہاں طاقت ہے کہ تمہارے دل پر شکوک ڈال سکے.اور اسلام تو کہتا ہے.كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ.اے مسلمانو ! تمہاری غرض یہی ہے کہ تم میدان میں نکلو.پس جن لوگوں نے اب تک اس طرف توجہ نہیں کی.انکا فرض ہے کہ وہ دین سے واقفیت پیدا کریں.اللہ تعالیٰ اپنی توفیق ہمارے شامل حال کرے اور ہمیں ان علوم اور انوار کا وارث کرے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس نے اپنے فضل سے عطا فرمائے ہیں تا کہ دنیا میں ہدایت اور نور پھیلے.آمین ثم آمین.(الفضل وارجون ۱۹۱۷ء) ان تذکره ص ۲۹

Page 503

خطبات محمود جلد (5) ۴۹۲ 63 اختیاری امتحانوں میں پورے اُترو فرموده ۲۲ جون ۱۹۱۷ء تشھد وتعوذ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی :- يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصَّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون اور فرمایا:- (البقره: ۱۸۴) خدا تعالیٰ کی طرف سے بندہ کی آزمائش کے لئے دو قسم کے امتحان ہوتے ہیں.ایک وہ جن میں بندہ کا اپنا دخل ہوتا ہے اور دوسرے وہ جن میں بندہ کا دخل نہیں ہوتا.بلکہ ان امتحانات کا تمام سامان خدا تعالیٰ کی طرف سے کیا جاتا ہے.جو امتحانات بندہ کے اختیار میں ہیں ان میں اس کی ہمت کا اُسے ثواب ملتا ہے اور جو امتحانات خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ رکھے ہیں ان میں انسان کو صبر کا ثواب ملتا ہے.انسان کے ہاتھ میں جو امتحانات ہیں وہ نماز روزہ حج زکوۃ.صدقہ و خیرات اور دین کی خدمت ہے.اگر دشمن تلوار سے اسلام کو مٹانا چاہے تو تلوار سے اور اگر مال سے نقصان پہنچانا چاہے تو مال سے اور اگر قلم و زبان سے حملہ آور ہوتو قلم وزبان سے اس کا مقابلہ کیا جائے.ان امتحانوں میں بہت سی سہولتیں ہیں اور انسان ان میں بہت سی آسانیاں پیدا کر لیتا ہے مثلاً نماز ، اگر اسکے پڑھنے کیلئے ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے میں تکلیف ہو تو گرم پانی استعمال کر لیتا ہے.اگر جسم کو سردی کی تکلیف ہو تو گرم کپڑے پہن لیتا ہے.یا اگر گرمی کے باعث

Page 504

خطبات محمود جلد (5) ۴۹۳ چھت کے نیچے نہ کھڑا ہوا جاتا ہو تو میدان میں کھڑا ہو جاتا ہے.اگر زمین تپی ہوئی ہو تو نیچے کپڑا بچھا لیتا ہے.اگر کھڑا ہونے سے تکلیف ہو تو بیٹھ کر اور اگر بیٹھ کر تکلیف ہو تو لیٹ کر پڑھ لیتا ہے.غرض اس صورت میں انسان اپنی تکلیف کے دور کرنے کیلئے بہت سی آسانیاں پیدا کر سکتا ہے.اسی طرح روزہ کا امتحان ہے وہ بھی بندہ کے ہاتھ میں دیا گیا ہے.اس میں بھوک پیاس لگتی ہے.اس کے لئے سحری کے وقت ایسی غذائیں استعمال کر سکتا جو تمام دن معدہ میں رہیں.یا ایسے کام ترک کر سکتا ہے.جن سے بھوک یا پیاس لگے.اسی طرح حج ہے اس کے لئے فرصت کا وقت تجویز کر سکتا ہے سفر کے ایسے سامان بہم پہنچا سکتا ہے جو آرام کا موجب ہوں اور سواری میں اونٹ پسند نہیں تو گھوڑے پر سفر کر سکتا ہے.ریل بھی ہے اور ریل نہ ہو تو امراء پالکیاں اور نالکیاں بہم پہنچا لیا کرتے ہیں.غرض سفر کو آسانی سے طے کرنے کے لئے جو سامان چاہئیے استعمال کر سکتا ہے.زکوۃ کا بھی یہی حال ہے ایک مقررہ رقم ہے اور جس قسم کی چیزیں ہوں انہی میں سے زکوۃ دی جاسکتی ہے.پھر یہ نہیں کہ ایک ہی دفعہ دے دی جائے.بلکہ واجب زکوۃ سال کے اندر اندر دی جاسکتی ہے غرض کئی قسم کی اور بھی سہولتیں پیدا کی جاسکتی ہیں.پس نماز میں بھی سہولتیں ہیں روزہ میں بھی حج میں بھی اور زکوۃ میں بھی.جہاد میں بھی سہولتیں پیدا کی جا سکتی ہیں.پیدل کام نہ ہو سکے تو سوار ہو جاؤ.زرہ پہن لو ہتھیار جس قدر نو ایجاد اور حفاظت کے لئے ضروری ہوں سب سے کام لیا جا سکتا ہے اور اگر تلوار سے جہاد کا وقت نہ ہو تو اس وقت جس طریق سے دین کی خدمت کی ضرورت ہو.اس طرح کر سکتا ہے یعنی اگر لکھنا جانتا ہے تو قلم سے اگر بولنا جانتا ہے تو زبان سے کام کر سکتا ہے.اموال خرچ کر سکتا ہے.یہ امتحان اس لئے ہیں کہ جو انسان ان کو پورا کر لیں وہ ان امتحانوں سے بچائے جائیں جو خدا نے اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں اور ان میں انسان کا کوئی دخل نہیں.مثلاً مری پڑے اور تمام بچے ہلا ہو جائیں.بے وقت

Page 505

۴۹۴ خطبات محمود جلد (5) بارشیں ہوں یا حد سے زیادہ ہوں اور کھیت کے کھیت تباہ ہو جائیں اور متواتر کئی سال تک ایسا ہی ہوتا رہے یا تجارت کرتا ہو اور اس میں گھاٹا پڑ جائے.اسی طرح کے اور امتحان بھی ہیں جن میں انسان کا اپنا کوئی دخل نہیں ہوتا.انسان کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ جس میں کسی پہلو سے آرام نہیں آتا.لیکن اگر وہ باتیں جو انسان کے اختیار میں رکھ دی گئی ہیں انکو پورا کر دیا جائے تو وہ ایسے ابتلاؤں کے لئے بطور کفارہ کے ہو جاتی ہیں.لیکن اگر ان کو پورا نہ کرے تو پھر ایسے مصائب میں ڈالا جاتا ہے جن سے بچنا محال ہو جاتا ہے.مثلاً جہاد کے لئے مال خرچ کرنا پڑتا ہے.وقت صرف ہوتا ہے اور محنت اور کوشش کرنی پڑتی ہے.مگر جب کوئی شخص اس راہ میں باوجود اس قدر آسانیاں پیدا کر دینے کے خود بخو د قدم نہیں اٹھاتا تو پھر اس کو ایسی تکلیف دی جاتی ہے اور ایسے امتحان میں ڈالا جاتا ہے کہ جس میں نہ اس کا کوئی دخل ہوتا ہے اور نہ اس سے بچنے کے لئے کوئی آسانی پیدا کر سکتا ہے.ہم دیکھتے ہیں جو انسان اپنے لئے خود کوئی تکلیف یا امتحان تجویز کرتا ہے وہ اگر زیادہ بھی ہوتو بھی برداشت کر لیتا ہے مثلاً کسی شخص کے پاس سو روپیہ ہو اور وہ اس میں سے دس روپے صدقہ کر دے تو اس کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی مگر جب اس کے دس روپے گر جائیں یا کوئی اس سے چھین لے تو اس کو سخت رنج اور تکلیف ہوگی کیوں؟ اس لئے کہ پہلے دس اس نے خود صدقہ کئے اور دوسرے اسکی مرضی کے خلاف اس کے ہاتھ سے گئے.یا مثلاً ایک شخص اپنی جان خدا کی راہ میں دیتا ہے مگر ایک دوسرا خدا کی راہ میں جان دینے سے جی چرا کر اپنے گھر میں بیٹھ رہتا ہے.مگر کوئی مصیبت آتی ہے اور اسکی جان لے کر جاتی ہے.اب مرنے کو تو دونوں مر گئے.وہ بھی جو خدا کی راہ میں مرا اور وہ بھی جو گھر بیٹھ کر مرا لیکن ان دونوں کے مرنے کے وقت ایک کی حالت نہیں ہو سکتی وہ جو خدا کی راہ میں خود قدم بڑھاتا ہے وہ خوشی سے اپنی جان دیتا ہے کیوں؟ اس لئے کہ پہلا شخص خود اپنے لئے خدا کی راہ میں جان دینا تجویز کرتا

Page 506

خطبات محمود جلد (5) ۴۹۵ ہے اس لئے اسکو تکلیف نہیں خوشی ہوتی ہے اور دوسرا شخص چونکہ خدا کی گرفت میں آ کر جان دیتا ہے اسلئے وہ زیادہ تکلیف محسوس کرتا ہے اسی طرح ایک ایسا شخص جو نماز تہجد کے لئے سردی کی راتوں میں اٹھتا اور دو تین گھنٹہ آہ وزاری میں لگا رہتا ہے اس کے جسم کو بھی تکلیف پہنچتی ہے مگر وہ اس کی کوئی تکلیف محسوس نہیں کرتا.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کا یہ تکلیف اٹھا نا خدا کی رضا کے لئے ہے اور اس نے اپنے لئے خود تجویز کی ہے مگر اس کے مقابلہ میں وہ شخص جو کسی مصیبت کے باعث روتا ہے اسکا دل مرجاتا ہے وہ سخت کرب اور دُکھ محسوس کرتا ہے.ان دونوں کا فرق ظاہر ہے پہلا خدا کی راہ میں خوشی سے خود تکلیف برداشت کرتا ہے اور دوسرا اس تکلیف کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا.اس لئے اس کو وہ تکلیف بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے.ہاں جو شخص خدا کی بھیجی ہوئی مصیبتوں اور ابتلا ؤں پر مبر کرتا ہے وہ بھی ثواب کا مستحق ہو جاتا ہے.پہلا جو ہے اسکو تو دوہرا ثواب ملتا ہے ایک اس لئے کہ اس نے خدا کی راہ میں خود خرچ کیا اور تکلیف اٹھائی اور دوسرے یہ کہ اس تکلیف کو خوشی سے برداشت کیا.دوسرا شخص اگر چہ خود تو خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتا اور نہ خود خدا کی راہ میں تکلیف اٹھاتا ہے مگر جب خدا خود اس کا امتحان لیتا ہے تو پھر صبر وشکر کو نہیں چھوڑتا اس لئے اسکو بھی ثواب ملتا ہے مگر پہلے سے آدھا.اگر چہ وہ لوگ بھی جوان ابتلاؤں اور امتحانوں کو اپنے اوپر جاری کر لیتے ہیں جو خدا نے انسان کے ہاتھ میں رکھے ہیں.بعض اوقات ان ابتلاؤں میں ڈالے جاتے ہیں جو خدا کے ہی اختیار میں ہیں اور انسان کا ان میں کچھ بھی دخل نہیں لیکن یہ جو ان کے لئے اس قسم کے ابتلاء بھیجے جاتے ہیں تو ان سے یہ ہرگز غرض اور غایت نہیں ہوتی کہ وہ ہلاک کر دئے جائیں.بلکہ ان ابتلاؤں سے ان لوگوں کی روحانی نشو و نما اور درجات میں ایک دوسرے پر تفوق ظاہر کیا جاتا ہے کیونکہ اختیاری امتحانوں میں تو وہ سب برابر ہوتے ہیں پھر ایسے امتحانوں میں بڑھ کر صبر اور شکر دکھاتے ہیں.انکے درجات بلند کئے جاتے ہیں..

Page 507

خطبات محمود جلد (5) ۴۹۶ اس آیت شریفہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا اَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصَّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ اے مومنو! تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلوں پر فرض کئے گئے تم یہ نہ سمجھنا کہ یہ کوئی نئی بات ہے.نئی نہیں اس پر کہا جاسکتا تھا کہ ہم مانتے ہیں پہلے لوگوں پر روزے فرض تھے اور انہوں نے اس بوجھ کو اٹھایا تھا.لیکن انہوں نے غلطی کی تھی ہم پر یہ بوجھ نہ ڈالا جائے اگر پہلوں پر ڈالا گیا اور انہوں نے اٹھا لیا تو یہ انکی بے عقلی تھی اس کے متعلق فرمایا دیکھو یہ نہ پہلوں پر بوجھ تھا نہ ان کو مجبور کیا گیا تھا اور نہ اب تم پر بوجھ ہے اور نہ تم کو مجبور کیا جاتا ہے.بلکہ اس کی غرض یہ ہے کہ تم اس آفت سے بچ جاؤ جو لوگوں پر انکی ہلاکت اور تباہی کے لئے اس وقت آتی ہے جب وہ خدا کی طرف سے بالکل غافل اور بے پروا ہو جایا کرتے ہیں.پس یہ ہرگز مت سمجھو کہ تم پر کوئی بوجھ لا دا گیا ہے ہر گز نہیں بلکہ یہ تو تمہارے ہی فائدہ کے لئے ہے.اس سے بتلایا گیا ہے کہ روزے ان ابتلاؤں میں سے ہیں جن کا ہلکا اور آسان کرنا بندہ کے اختیار میں ہے جولوگ اس ابتلاء میں پورے اترتے ہیں وہ جسمانی اور روحانی کئی قسم کے ایسے ابتلاؤں سے بچ جاتے ہیں جو ان ابتلاؤں کو پورا نہ کرنے کی صورت میں لازمی ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے اس حکمت کے لئے ہیں کہ تم سخت اور ہلاک کر نیوالی آزمائشوں سے بچ جاؤ.لیکن جو انسان ان امتحانوں کو اپنے اوپر جاری نہیں کرتا اس پر خود خدا تعالیٰ اپنے امتحان بھیجتا ہے جن کے سامنے وہ کچھ نہیں کر سکتا.دیکھو ایک استاد کبھی طالب علم کو کہتا ہے کہ اپنے کان کھنچو.یا اپنے منہ پر آپ تھپڑ مارو.اگر طالب علم اپنے منہ پر آپ تھپڑ مارے تب تو خیر لیکن اگر خود تھپڑ مارنے یا خود کان کھینچنے سے انکار کرے تو پھر استاد مارتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ استاد وہ نرمی روا نہیں رکھے گا جو خود طالبعلم اپنے اوپر روا رکھ سکتا تھا اسی طرح جو لوگ ان ابتلاؤں کی پروا نہیں کرتے جو خدا نے انسان کے ہاتھ میں چھوڑے ہیں تو پھر خدا کی طرف سے ایسے ابتلاء آتے ہیں جن سے ہلاک کئے جاتے ہیں.میں اپنی جماعت کے لوگوں کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں کیونکہ میں دیکھ رہا

Page 508

خطبات محمود جلد (5) ۴۹۷ ہوں کہ بہت سے لوگ اس سے غافل ہو چکے ہیں.ان کو معلوم ہو کہ خدا کا غضب بھڑ کا ہوا ہے اور حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ اس زمانہ میں خدا کا غضب ایسا بھڑ کا ہے کہ پہلے کبھی ایسا نہیں بھڑکا تھا وہ چاہتا ہے کہ جلا کر خاکستر کر دے مگر بندوں کو پھر بھی مہلت دے رہا ہے پس حضرت صاحب نے کچھ بھنتیں اور کام اشاعت دین کے لئے مقرر فرمائے ہیں جو لوگ انکو پورا کریں گے وہ خدا کے غضب سے بچ جائیں گے لیکن جو اس میں سستی کریں گے وہ خدا کے اس غضب سے بچ نہیں سکتے جو وہ نازل کرنا چاہتا ہے.ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہئیے کہ اس سے بچنے کے لئے خاص طور پر توجہ کریں ان میں جس قدر وہ سہولتیں بہم پہنچانا چاہیں.بہم پہنچا سکتے ہیں.اگر وہ اس وقت تو جہ نہیں کریں گے تو پھر دوسری قسم کے ابتلاء میں انکی کچھ پروانہیں کی جائے گی اگر وہ اس وقت مال خرچ نہیں کریں گے تو خدا تعالیٰ ان پر ایک ایسا وقت لائے گا کہ ان کے بیوی بچوں کے لئے بھی کچھ نہیں چھوڑے گا.بعض لوگوں کی حالت یہ ہے کہ موجودہ شرح چندہ کو اپنے لئے ایک مصیبت قرار دیتے ہیں ہاں بہت سے ایسے بھی ہیں کہ اگر ان کو تین پیسہ فی روپیہ کہا جائے تو وہ چار پیسہ دینے کے لئے تیار رہتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں.لیکن جو ایسے نہیں ان کو سمجھ لینا چاہیئے کہ جس قدر زیادہ وہ اپنے طور پر دیں گے اسی قدر ان کے لئے فائدہ مند ہوگا اور اگر وہ نہیں دیں گے تو خدا ان سے جبراً چھین لے گا.اور وہ کچھ نہیں کر سکیں گے.مثلاً بچہ کو جب دوائی دی جاتی ہے اور وہ نہیں پیتا تو اس کے منہ میں چمچہ ڈال کر ز بر دستی اس کے گلے سے نیچے اتار دی جاتی ہے.غرض خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ سب لوگ کچھ نہ کچھ دین کی خدمت کریں جو نہیں کریں گے ان کے مال ضائع جائیں گے اس وقت ان کو اس امر کی خوشی نہ ہوگی کہ خدا کی راہ میں کچھ خرچ کیا ہے مگر پھر وہ ایسے ابتلاؤں میں ڈالے جائیں گے جن میں پڑ کر انجام اچھا نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کے ان ابتلاؤں کو جو ہمارے اختیار میں ہیں بجالائیں.تا ان چیزوں کے وارث ہوں جو خدا نے اپنے بندوں کے لئے رکھی ہیں اور وہ ہمیں اپنے غضب سے بچائے کہ اسکے غضب کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا.( الفضل ۳۰ جون ۱۹۱۷ء)

Page 509

۴۹۸ 64 خطبات محمود جلد (5) خلفاء کی نیچے دل سے اطاعت کرو فرموده ۲۹ جون ۱۹۱۷ء) حضور نے تشہد وتعوذ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.يا ايها الذين امنوا لا تقولوا راعنا وقولوا انظرنا واسمعواوللكفرين عذاب الیم ط مايود الذين كفروا من اهل الكتب ولا المشركين ان ط ينزل عليكم من خير من ربكم والله يختص برحمته من يشاء والله ذو الفضل العظيم.(البقرہ: ۱۰۵) اور فرمایا :.بہت سے لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے کلام اور اپنی تحریر پر قابو نہیں رکھتے.حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ صوفیاء کا قول ہے.الطريقة كلها ادب تو جب تک انسان اپنے قول اور تحریر پر قابو نہیں رکھتا اور نہیں جانتا کہ اسکی زبان اور قلم سے کیا نکل رہا ہے وہ انسان کہلانے کا مستحق نہیں وہ تو حیوان سے بھی بدتر ہے کیونکہ جانور بھی خطرہ کی جگہوں سے بچتا ہے لیکن انسان مال اندیشی سے ہرگز کام نہیں لیتا.جانور کوکسی خطرہ کی جگہ مثلاً غار کی طرف کھینچیں تو وہ ہرگز ادھر نہیں جائے گا.مولوی رومی صاحب نے اپنی مثنوی میں ایک مثال لکھی ہے کہ ایک چوہا ایک اونٹ کو جس طرف وہ اونٹ جارہا تھا ادھر ہی اسکی نکیل پکڑ کر لے چلا لیکن جب راستہ میں ندی آئی تو اونٹ نے اپنا رخ پھیر لیا اور چوہا ادھر گھسٹتا ہوا چلنے لگا جدھر اونٹ جارہا تھا تو ایک چوہا بھی ایک اونٹ کو جہاں خطرہ نہ ہو لے جاسکتا ہے مگر جہاں خطرہ ہو وہاں چوہا تو کیا ایک طاقتور آدمی بھی اونٹ کو نہیں لے جاسکتا.

Page 510

خطبات محمود جلد (5) ۴۹۹ یا شکرے اور باز جس وقت آتے ہیں تو جانور درختوں میں اس طرح دبک کر بیٹھتے ہیں گو یا وہاں کوئی جانور ہے ہی نہیں مگر انسانوں میں ایک ایسی جماعت ہے جو بات کہتی ہے اور نہیں سمجھتی کہ اس کا کیا مطلب ہے حالانکہ اکثر اوقات ذراسی غلطی خطرناک نتائج پیدا کر دیا کرتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اے مومنو! دو معنی والے لفظ رسول کے مقابلہ میں استعمال نہ کرو.ورنہ تمہارا ایمان ضائع ہو جائے گا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ مومن تھے اس لئے فرمایا کہ تمہارا ایمان ضائع ہو جائے گا.فرمایا کہ تم اگر چہ اس وقت مومن ہولیکن اگر تم نے اپنی زبانوں پر قابونہ رکھا تو یاد رکھو کہ ہم تمہیں کا فربنا کے دُکھ کے عذاب میں مبتلا کر کے ماریں گے مومن سے شروع کیا لیکن اس غلطی کے باعث کفر پر انجام ہوا.پس انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے قول کا نگران ہو.ورنہ ایمان کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے.میں اورتحریر میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ زبان سے تو اقرار کرتے ہیں اور تحریر وتقریر میں خلیفہ مسیح علیہ اسے کہتے ہیں مگر جوحق اطاعت ہے اس سے بہت دُور ہیں زبانی خلیفہ امسیح کہنا یالکھنا کیا کچھ حقیقت رکھتا ہے؟ شیعوں نے لفظ خلیفہ کے استخفاف اور نہی کے لئے نائیوں اور درزیوں تک کو خلیفہ کہنا شروع کر دیا.لیکن کیا خلفاء ان لوگوں کی ہنسی سے ذلیل ہو گئے ہر گز نہیں.لوگوں نے اس لفظ خلیفہ کو معمولی سمجھا ہے مگر خدا کے نزدیک معمولی نہیں.خدا نے ان کو بزرگی دی ہے اور کہا ہے کہ میں خلیفہ بنا تا ہوں اور پھر فرما یا مَن كَفَرَ بَعد ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (النور ).ان خلفاء کے انکار کا نام فسق ہے جو انکار کرے گا وہ میری اطاعت سے باہر ہو گیا.پس لفظ خلیفہ کچھ نہیں لوگ نائی کو بھی خلیفہ کہتے ہیں.مگر وہ خلفاء جو خدا کے مامورین کے جانشین ہوتے ہیں ان کا انکار اور ان پر جنسی کوئی معمولی بات نہیں وہ مومن کو بھی فاسق بنا دیتی ہے.پس یہ مت سمجھو کہ تمہارا اپنی زبانوں اور تحریروں کو قابو میں نہ رکھنا اچھے نتائج پیدا کرے گا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ایسے لوگوں کو اپنی جماعت سے علیحدہ کردوں گا.فاسق کے معنے ہیں کہ خدا سے کوئی تعلق نہیں.اس کو خوب یا د رکھو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو انتظام ہو.جو شخص اس کی قدر نہیں کرے گا اور اس انتظام پر خواہ مخواہ اعتراضات کریگا خواہ وہ مومن

Page 511

خطبات محمود جلد (5) بھی ہو.اور جو اس کے متعلق بولتے وقت اپنے الفاظ کو نہیں دیکھے گا تو یاد رکھو کہ وہ کافر ہوکر مرے گا.اس آیت میں رسول کریم مخاطب ہیں :.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا مگر جس کے لئے ادب کا حکم ہوتا ہے وہ بھی اس آیت میں داخل ہوتا ہے.خدا نے حضرت ابوبکر کو اس مقام پر کھڑا کیا تھا جو ادب کی جگہ تھی.جس وقت اختلاف شروع ہوا.آپ نے کہا کہ میں اسوقت تک لوگوں سے لڑوں گا خواہ تمام جہان میرے برخلاف ہو جائے جب تک یہ لوگ اگر ایک رسی بھی جو آنحضرت کو دیتے تھے نہیں دیں گے.پس یہ مت سمجھو کہ حفظ مراتب نہ کرنا کوئی معمولی بات ہے اور کسی خاص شخص سے تعلق رکھتا ہے.بلکہ خواہ دینی ہو یا دنیاوی خلافت جب ان کے لئے ادب کا حکم ہے سب کے لئے ضروری ہے کہ اس کا ادب کیا جائے.کوئی شخص اگر بادشاہ کا ادب نہیں کرے گا تو جانتے ہو وہ سزا سے بچ جائے گا ؟ میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ انشاء اللہ خان بڑا شاعر تھا اور ہمیشہ اس امر کی کوشش کیا کرتا تھا کہ بادشاہ کی تعریف میں دوسروں سے بڑھ کر بات کہے دربار میں بادشاہ کی تعریف ہونے لگی کسی نے کہا کہ ہمارے بادشاہ کیسے نجیب ہیں.انشاء اللہ خان نے فوراً کہا نجیب کیا.حضور تو انجب ہیں ہے.اب انجب کے معنے زیادہ شریف کے ہیں اور ساتھ ہی لونڈی زادہ کے بھی.اتفاق یہ ہوا کہ بادشاہ تھا بھی لونڈی زادہ.تمام دربار میں سناٹا چھا گیا اور سب کی توجہ لونڈی زادہ کی طرف ہی پھر گئی.بادشاہ کے دل میں بھی یہ بات بیٹھ گئی اور انشاءاللہ ان کو قید کر دیا جہاں وہ پاگل ہو کر مر گیا.پس زبان سے محض خلیفہ اسیح خلیفہ اسیح کہنا کچھ نہیں.مجھے آج ہی ایک خط آیا ہے جس میں اس خط کا لکھنے والا لکھتا ہے کہ آپ نے جو فیصلہ کیا ہے، وہ غریب سمجھ کر ہمارے خلاف کیا ہے.اب اگر فی الواقعہ ایسی ہی بات ہو کہ کوئی شخص فیصلوں میں درجوں کا خیال رکھے تو وہ تو اول درجہ کا شیطان اور خبیث ہے چہ جائے کہ اس کو خلیفہ کہا جائے.دیکھو میں نے ان لوگوں کی بھی کچھ پرواہ نہیں : تاریخ الخلفاء للسیوطی ص ۶۱ :- آب حیات مصنفہ مولانا محمد حسین آزاد

Page 512

خطبات محمود جلد (5) ۵۰۱ کی جو میرے خیال میں سلسلہ کے دشمن تھے.پس میں کسی انسان کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتا.خواہ سب کے سب مجھ سے علیحدہ ہو جائیں کیونکہ مجھ کو کسی انسان نے خلیفہ نہیں بنایا بلکہ خدا نے ہی خلیفہ بنایا ہے.اگر کوئی انسان کی ہی حفاظت میں آئے تو انسان اس کی کچھ حفاظت نہیں کر سکتا.خدا ایسے شخص کو ایسے امراض میں مبتلا کر سکتا ہے.جن میں پڑ کر بری طرح جان دے.میں اس خلافت کو جو کسی انسان کی طرف سے ہو لعنت سمجھتا ہوں.نہ مجھے اس کی پرواہ ہے کہ مجھے کوئی خلیفہ اسیح کہے.میں تو اس خلافت کا قائل ہوں جو خدا کی طرف سے ملے.بندوں کی دی ہوئی خلافت میرے نزدیک ایک ذرہ کے بھی برابر قدر نہیں رکھتی.مجھے کہا گیا ہے کہ میں انصاف نہیں کرتا.غریبوں کی خبر گیری نہیں کرتا.پس اگر میں عادل نہیں ہوں تو میرے ساتھ کیوں تعلق رکھتا ہے.جو عدل نہیں کرتا وہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا ایسے لوگوں کا مجھے کوئی نقصان نہیں مجھے تو اس سے بھی زیادہ لکھا گیا ہے.قاتل مجھ کو کہا گیا.سلسلہ کو مٹانے والا غاصب اور اسی قسم کے اور بُرے الفاظ سے مجھ کو مخاطب کیا گیا ہے.پس اس کے مقابلہ میں تو یہ کچھ بھی نہیں.ہر ایک وہ شخص جو مقدمہ کرتا ہے وہ اپنے تئیں ہی حق پر سمجھتا ہے لیکن عدالت جو فیصلہ کرتی ہے وہ اسکو قبول کرنا پڑتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِي مَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ (النساء : ٢٦) جب تک یہ لوگ کامل طور پر تیرے فیصلوں کو نہ مان لیں یہ مومن ہو ہی نہیں سکتے جب لوگوں کو عدالتوں کے فیصلوں کو ماننا پڑتا ہے تو خدا کی طرف سے مقرر شدہ خلفاء کے فیصلوں کا انکار کیوں.اگر دنیاوی عدالتیں سزا دے سکتی ہیں تو کیا خدا نہیں دے سکتا خدا کی طرف سے فیصلہ کر نیوالے کے ہاتھ میں تلوار ہے.مگر وہ نظر نہیں آتی اسکی کاٹ ایسی ہے کہ دور تک صفایا کر دیتی ہے.دنیاوی حکومتوں کا تعلق صرف یہاں تک ہے مگر خداوہ ہے جس کا آخرت میں بھی تعلق ہے.خدا کی سزا گو نظر نہ آوے مگر حقیقت میں بہت سخت ہے.اپنی تحریروں اور تقریروں کو قابو میں لاؤ اگر تم خدا کی قائم کی ہوئی خلافت پر اعتراض کرنے سے باز نہیں آؤ گے تو خدا تمہیں بغیر سزا کے نہیں چھوڑے گا جہاں تمہاری نظر بھی نہیں جاسکتی وہاں خدا کا ہاتھ پڑتا ہے.اللہ تعالیٰ تمہیں فہم دے اپنے آپ کو اور اس شخص کے درجہ کو جو

Page 513

خطبات محمود جلد (5) ۵۰۲ تمہارے لئے کھڑا کیا گیا ہے پہچانو کسی شخص کی عزت اس شخص کے لحاظ سے نہیں ہوا کرتی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اس لئے نہیں کہ آپ عرب کے باشندہ تھے اور عبد اللہ کے بیٹے تھے بلکہ اس درجہ کے لحاظ سے ہے جو خدا نے آپ کو دیا تھا.اسی طرح میں ایک انسان ہوں اور کوئی چیز نہیں مگر خدا نے جس مقام پر مجھ کو کھڑا کیا ہے.اگر تم ایسی باتوں سے نہیں رکو گے تو خدا کی گرفت سے نہیں بچ سکتے.بعض باتیں معمولی ہوتی ہیں مگر خدا کے نزدیک بڑی ہوتی ہیں.خدا تم کو سمجھ دے.آمین.(الفضل ۷ جولائی ۹۷! ء)

Page 514

۵۰۳ 65 خطبات محمود جلد (5) کلمہ الْحَمْدُ للہ ہم سے کیا چاہتا ہے (فرموده ۶ / جولائی ۱۹۱۷ء) حضور نے سورۃ فاتحہ تلاوت فرمانے کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ فاتحہ میں مسلمانوں کو متوجہ فرماتا ہے کہ ان کی کامل خوشی اسی وقت ہوگی اور ہونی چاہئیے جبکہ تمام جہان میں وہ صداقت پھیل جائے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت خدا نے بھیجی ہے.فرمایا.کہ الحمد للہ اب مومنوں کو اس میں دعا سکھائی کہ کہو الحمد للہ.اس کی دلیل بھی ساتھ ہی دے دی کہ کیوں اللہ کی حمد کی جائے اور کیوں وہ ہی تمام حمدوں کا مستحق ہے فرمایا کہ وہ چونکہ رب العلمین ہے تمام جہانوں کا رب ہے تو اس سے بڑھ کر کون حمد کا.مستحق ہوسکتا ہے.اگر ہر ایک جہان کا الگ الگ ربّ ہو تب تو بے شک کہا جا سکتا ہے کہ یہ فقرہ درست نہیں.مگر جب تمام جہانوں کی وہی ربوبیت فرماتا ہے تو پھر کون اس کے سواحمد کا مستحق ہے.پس الحمد للہ کہنے کی وجہ بیان فرمائی کہ کیوں اس کی حمد کی جائے.اس لئے کہ وہی حمد کا مستحق ہے.پھر اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا کے لئے حمد تو ہے ہی مگر اس کے اظہار کی کیا ضرورت ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حمد کے ہمیشہ دو مواقع ہوتے ہیں یعنی دو غرض کیلئے کسی کی حمد کی جاتی ہے.(۱) حمد اس وقت کی جاتی ہے جب کسی کا شکر یہ ادا کرنا ہو (۲) دوسرے اس وقت جب کسی سے طلب نعمت مقصود ہو.کوئی کسی کی تعریف کیوں کرتا ہے یا تو اس کا مرہونِ احسان ہے یا اس سے

Page 515

خطبات محمود جلد (5) ۵۰۴ کچھ مانگتا ہے جیسے مثلاً فقیر ہوتے ہیں جب وہ کسی سے مانگتے ہیں تو معمولی معمولی آدمیوں کو بھی بڑی سرکار بڑی سرکار کہا کرتے ہیں تو اس تعریف سے ان کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ پہلے کسی کی مدح کرتے ہیں اور بعد میں کچھ مانگتے ہیں اور مدح جھوٹی بھی ہوسکتی ہے.مگر حمد ہمیشہ سچی ہی ہوا کرتی ہے.توحمد کی ایک وجہ طلب نعمت ہے جو اس طرح کی جاتی ہے کہ سوال سے پہلے اس شخص کی جس سے کچھ مانگنا ہو تعریف کی جاتی ہے اور دوسرے اس وقت جب کوئی نعمت مل جاتی ہے تو اس نعمت کے شکریہ کے طور پر حمد کی جاتی ہے.یہی وجوہات یہاں بھی ہیں.کہا کہ اللہ کیلئے تمام حمد ہے.اللہ کون ہے جس کیلئے تمام حمد ہے وہ اللہ رب العالمین ہے یہ صفت تمام حمد کو اللہ ہی کے لئے ہونے کی وجہ بتاتی ہے.ورنہ بعض حصوں میں تو غیر بھی شامل ہو سکتے ہیں.مگر تمام حمد میں کوئی شریک نہیں ہوسکتا.انسان خدا کی حمد کرتا ہے اس سے کچھ مانگتا ہے اور اس سے کچھ عرض کرتا ہے کہ حضور تو تمام جہانوں کے رب ہیں کوئی نہیں جس کی آپ ربوبیت نہ فرماتے ہوں اس سوال کو پورا کرنے کے لئے یہ دلیل دی گئی ہے کہ لوگ جب کسی دوسرے کے گھر پر مانگنے جاتے ہیں تو وہ آگے سے کہ دیتا ہے کہ بابا اگلے گھر جاؤ میرے پاس نہیں.مگر جب کوئی خدا کے حضور جاتا ہے اور عرض کرتا ہے کہ حضور کے دروازے پر مانگنے آیا ہوں.اور ساتھ یہ بھی اشارہ کرتا ہے کہ میں اور کس کے دروازہ پر جاؤں.رب العلمین تو ہوئے آپ.آپ کے بعد کہاں انسان کا ٹھکانہ ہے.انسان الحمد للہ رب العلمین کہ کر ظاہر کرتا ہے کہ میں حضور کے سوا کس کے پاس مانگنے جاؤں مجھے تو کوئی نہیں معلوم ہوتا جو آپ کے سوا مجھے کچھ دے سکے.صفات کے اظہار سے غرض یہ ہوتی ہے کہ ان کے ذریعہ انسان جو کچھ بھی طلب کرنا چاہتا ہے کرتا ہے پس صفت رب العلمین متوجہ کرتی ہے کہ وہ ہی چونکہ در حقیقت تمام جہانوں کا رب ہے اس لئے تمام حمدوں کا وہی مالک ہے اور اسلئے وہی ہے جس سے مدد مانگنی چاہئیے کیونکہ خدا خود یہی فرماتا ہے تو پھر بندہ اور کہاں جاسکتا ہے اسلئے طلب نعمت کیلئے اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ صفت رب العالمین لگائی گئی ہے مطلب یہ کہ خدا یا جب سب کی ربوبیت تیرے ہی ذمہ ہے تو ہم کہاں جاسکتے ہیں.

Page 516

خطبات محمود جلد (5) اس میں یہ حکمت ہے کہ جب خدا سے مانگنے لگو تو صفت ربوبیت کا ضرور واسطہ دو.دوسرے اظہار تشکر کیلئے اس میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو بتلایا کہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ للناس تم بہترین اُمت ہو جو لوگوں کے فائدے کیلئے لائے گئے ہو يَدُعُونَ إِلَى الْخَيْرِ لوگوں کو اسلام کی طرف بلا نا تمہارا کام ہے اور تمہارے قیام کی غرض لوگوں کو فائدہ پہنچانا ہے.الناس میں کسی خاص گروہ کی طرف اشارہ نہیں کسی جگہ کے لوگ ہوں.جن عالموں سے امت محمدیہ کا تعلق ہے وہ تمام الناس میں داخل ہیں جن کے فائدہ کے لئے امت محمدیہ کو کھڑا کیا گیا ہے.اب بہت سی ایسی قومیں ہیں جو غیر اللہ کی حمد کرتی ہیں.ہر ایک قوم نے خدا کے سوا اور بھی ارباب بنا رکھے ہیں مگر جن کو وہ رب بنا رہے ہیں ان سب کی ربوبیت بھی خدا رب العالمین کے ہاتھ میں ہے پس سب کا رب العالمین ہونے کے لحاظ سے حمد کا مستحق خدا ہے نہ کوئی اور اب مسلمانوں کو متوجہ کرتا ہے کہ جب خدا رب العالمین ہے اور تم لوگوں کے فائدہ کے لئے لائے گئے ہو اور تم یہ بھی دیکھ رہے ہو کہ خدا کا حق غیروں کو دیا جارہا ہے پھر تم کس طرح شکر یہ ادا کر سکتے ہو.غور کرو تو معلوم ہوگا کہ حقیقی حمد چاہتی ہے کہ بجائے نفسی نفسی کے تمام وہ لوگ جو حقیقی معبود اور حقیقی رب کی بجائے دوسرے لوگوں کی حمد کر رہے ہیں ان تمام کو غیر اللہ سے ہٹا کر خدا کی طرف لایا جائے اور وہ لوگ اپنے رب کو پہچانیں اس کی نعمتوں کی قدر کریں.اور اسکی اسی طرح حمد کریں جس طرح خود مومن کرتے ہیں ورنہ مومن اسوقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک تمام جہان صرف اللہ رب العلمین کی طرف نہ ٹھک پڑے اور اسکی طرف متوجہ نہ ہو جائے.مومن کو راحت نہیں ہو سکتی جب تک وہ خدا سے روٹھنے والے بندوں کو خدا کے حضور لا کر نہ جھکا دے.اب جب یہ کام کر چکے مومن خوش ہو سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ الحمد للہ کہ وہ کام جو میرے ذمہ بوجہ اس نعمت کے جو خدا نے مجھ کو دی تھی یعنی مجھکو تمام لوگوں پر اس لئے فضیلت دی تھی کہ میں لوگوں کو حق پہنچاؤں وہ میں نے پورا کر دیا.اس طرح کبھی حقیقی شکریہ ادا نہیں ہو سکتا کہ خود ہدایت لے کر اور خاموش ہو کر گھر میں بیٹھ جاؤ....جب ایک دہر یہ موجود ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے وجود کا منکر ہے ہم اسکی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے وہ خدا کی حمد نہیں کرتا.چاہیے کہ دہریہ کو بتایا جائے کہ خدا ہے

Page 517

خطبات محمود جلد (5) اور اس خدا سے برگشتہ کو خدا کی طرف لائیں اگر الفاظ میں بھی حمد کی جاتی ہے تو عملاً بھی حمد ادا کرنا چاہیئے.اس کی طرف آیت شریفہ سَبِّحُ اسْمَ رَبِّكَ الأغلى (سورۃ اعلے :۲) میں بھی اشارہ ہے.بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے شکروں کو بجائے خدا کو دینے کے غیروں کو دیتے ہیں.اس کا دفعیہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں کو جو خدا سے دُور ہو چکے ہیں انکو خدا کے حضور لا ؤ اور کتنے افسوس کی بات ہے کہ مسلمان اقرار کرتا ہے کہ بیشک اللہ ہی مستحق حمد ہے اور پھر اپنی عبودیت کا بھی اقرار کرتا ہے.پس عبد کا کیا کام ہے جب وہ دیکھے کہ کوئی شخص آقا کی چیز کو اٹھا کر کسی اور غیر جگہ لئے جا رہا ہے تو وہ اس غیر سے چھین لے اور اپنے آقا کے پیش کرے.عبد اقرار کرتا ہے کہ اللہ رب العالمین کی ہی تمام اشیاء ہیں غیروں کا ان اشیاء میں کوئی دخل نہیں پس کیسا وہ عبد ہے جو دیکھ رہا ہے کہ آقا کی چیزیں دوسروں کو دی جارہی ہیں اور وہ خاموش بیٹھا ہے.تمام وہ مذاہب جو خدا کا شریک بناتے ہیں حقدار ہیں کہ ان کو خدا کی طرف لایا جائے الحمد بتلاتی ہے کہ حق تو سب خدا کا ہی ہے مگر اس سے چھین کر دوسروں کو دیا جاتا ہے.پس کتنے افسوس کی بات ہے کہ مسلمان پانچ وقت عبودیت کا اقرار کرتا ہے مگر جب آقا کی چیز کو غیروں کے پاس جاتا دیکھتا ہے تو کچھ پرواہ نہیں کرتا.کیا اگر خود اس کی چیز کو کوئی اٹھا کر لے جائے تو وہ اسی طرح خاموش بیٹھا رہے گا اور لے جانیوالے سے چھینے کی کوشش نہیں کرے گا.جو بندہ الحمد للہ کہتا ہے اس پر ذمہ داری آتی ہے کہ خدا کے دین کی اشاعت میں سرگرم رہے.اب وہ یہ عذر نہیں کر سکتا کہ میں اس کام کو کر نہیں سکتا اسکا فرض ہے کہ اگر اس کی جان بھی جائے تو بھی خدا کے دین کی اشاعت میں لگا ر ہے.پس عبد ہونے کا اقرار کر چکا ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ خدا کی چیز کو خدا کے پاس لائے.اسکے مالک کی کروڑ ہا مخلوق غیر اللہ کے آگے جھکائی جا رہی ہے.کوئی عیسی کو خدا بنا رہا ہے اور کوئی عزیر کو.عبد ا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے کہ میرے مالک کی چیز غیروں کے پاس پہنچائی جارہی ہے.لیکن بہت ہیں جو فرض کو نہیں سمجھتے مثلاً لوگوں پر چندہ مقرر ہے وقت پر

Page 518

خطبات محمود جلد (5) ۵۰۷ ادا نہیں کریں گے جب پوچھا جائے کہ وقت پر کیوں نہیں ادا کیا تو کہہ دیتے ہیں جی کوئی لینے نہیں آیا تھا کس کو دیتے یہ عجیب جواب ہے کیا جو شخص بیمار ہو.وہ خود طبیب کے پاس جاتا ہے یا طبیب اس کے پاس آتا ہے.کوئی بیمارا پنا علاج نہ کرائے کہ چونکہ طبیب میرے پاس نہیں آیا اس لئے میں علاج نہیں کراتا بھوکا کھانے کے پاس نہ جائے کہ چونکہ کھانا میرے پاس نہیں لایا گیا میں کیسے کھا تا اور پیاسا پانی نہ پئے کہ پانی خود میرے پاس نہیں آیا.میں نہیں پیتا.تو یہ عذر کسی کا بھی درست اور جائز نہیں.بعض لوگوں کو جب تبلیغ کے لئے کہا جائے تو وہ کہہ دیتے ہیں.ہمیں بولنا نہیں آتا.پس اگر واقعہ میں کوئی شخص اللہ کے حضور میں اس کا عبد ہے تو کوئی مذہب نہیں کہ جس کے مقابلہ کیلئے وہ تیار نہ ہو اور اسکی غلطی پر اسکو آگاہ نہ کر لے.منہ سے اقرار کچھ وقعت نہیں رکھتا جب تک فعل سے ثابت نہ کیا جائے کوئی شخص جب تک اپنی جان مال تک اس راہ میں قربان نہیں کرے گا وہ کیسے اللہ کا عبد ثابت ہوگا.صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ انعام والے بندوں کا راستہ نہیں ملے گا.جب تک ان کی ایسی باتیں اختیار کی نہیں جائیں گی.قرآن بتلاتا ہے کہ موسیٰ نے نبوت سے قبل ظالموں کے ظلم مٹائے.آنحضرت نے دعوی سے قبل لوگوں کی اصلاح فلاح و بہبود کے لئے انجمنیں قائم کی تھیں.اور آپ کے دل میں تڑپ تھی کہ خدا کے بندے کسی اور کے بندے نہ ہو جا ئیں.حضرت صاحب کے بھی دعویٰ سے قبل اس وقت کے مشہور اخبارات میں غیر مذاہب کے رد میں مضامین نکلا کرتے تھے.پس جب تک عملاً الحمد للہ کو ثابت نہ کیا جائے اور پوری کوشش نہ کی جائے کہ خدا کے بندے کسی اور جگہ نہ جانے پائیں اسوقت تک انسان عبد نہیں کہلا سکتا.انعامات کا مستحق بندہ اسی وقت ہوتا ہے جب مالک کی راہ میں کسی چیز کی بھی پرواہ نہ کرے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو توفیق دے کہ وہ اپنے فرض کو سمجھے اور اسکا پورے طور پر احساس کرے کہ ہم جو اقرار کرتے ہیں وہ پورے بھی کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فرائض اور عہدوں کے پورے کرنے کی توفیق دے وہ لوگ جنہوں نے سچی تعلیم کو اب تک قبول نہیں کیا.ان تک حق پہنچائیں تا وہ خدا کے حضور یہ نہ کہیں کہ ہمیں کسی نے حق نہیں پہنچایا تھا.الفضل ۱۴ ؍ جولائی ۱۹۱۷ء)

Page 519

۵۰۸ 66 خطبات محمود جلد (5) رمضان سے سبق سیکھو (فرموده ۱۳ جولائی ۹۱۷اء) حضور نے تشہد وتعوذ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.ان الابرار يشربون من كاس كان مزاجها كافورا عينًا يشرب بها عباد الله يفجرونها تفجيرا يوفون بالنذر و يخافون يوما كان شره مستطيرًا ويطعمون الطعام على حبّه مسكينًا ويتيما و أسيرًا O انما نطعمكم لوجه الله لا نريد منكم جزاء ولا شكورًا انا نخاف من ربنا يومًا عبوسًا قمطريرا فوقهم الله شر ذلك اليوم ولقُهم نضرة وسرورًا و جزاهم بما صبر واجنة و حريرًا متكئين فيها على الا رآئك لا يرون فيها شمسا ولا زمهريرا و دانية عليهم ظللها و ذللت قطوفها (الدھر : ۶ تا ۱۵) تنلیلا اور فرمایا:- رمضان کو دوسرے مہینوں پر اللہ تعالیٰ نے فضیلت دی ہے حتی کہ رمضان کا ہی مہینہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام قرآن کے دور کو آیا کرتے تھے اے.رمضان کے مہینہ میں بہت سی برکات اللہ تعالیٰ نے رکھی ہیں اور اس میں بہت سے سبق دیئے ہیں.ان اسباق میں ایک تو یہی ہے جس کی ے :- بخاری کتاب الصوم باب اجود ما كان النبي صلى اللہ علیہ وسلم یکون فی رمضان

Page 520

خطبات محمود جلد (5) طرف آج میں آپ لوگوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.اس میں شک نہیں کہ انسان دوسرے کی تکلیف اسی وقت سمجھ سکتا ہے جب وہ خود مبتلا ہو.ایک آدمی جو کبھی بیمار نہ ہوا ہو اس کو دوسرے کی بیماری سمجھنا بہت مشکل ہے.ایک آدمی جس نے کوئی موت نہ دیکھی ہو اس کو اس گھرانے کی مصیبت کو سمجھنا بہت مشکل ہے جس پر موت آگئی ہو.وہ شخص جس نے غم نہ دیکھا ہواس کے لئے دوسروں کے غم کا اندازہ کرنا آسان نہیں.بیماری کی تکلیف کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس نے بیماری اٹھائی ہو.غم کو وہی جان سکتا ہے جوغم میں مبتلا ہوا ہو دوسرے کی موت سے وہی تکلیف محسوس کر سکتا ہے جسکے عزیزوں میں کبھی موت اس کے سامنے آئی ہو.اسی طرح جس نے کبھی نہ دیکھا ہو کہ بھوک کیا ہے وہ نہیں سمجھ سکتا کہ بھو کے انسان کی کیا حالت ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ چونکہ وہ اپنے بندوں کے دلوں میں احساس پیدا کرنا چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق کن ابتلاؤں سے گزر رہی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ اپنی پیاری جماعتوں کو آزماتا ہے.چنانچہ پہلے ہی پارہ میں آزمائشیں بیان فرماتا ہے کہ مالی آزمائشیں بھی آتی ہیں.جانی بھی.بھوک بھی اپنا کام کرتی ہے اور اور قسم کی آزمائشیں بھی آتی ہیں.لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ آزمائش کی غرض کیا ہوتی ہے.وہ سمجھ لیں کہ آزمائشوں کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ان لوگوں میں ہمدردی پیدا ہو.اللہ کے بندے بھوک سے گزارے جاتے ہیں.موت اور قلت مال سے گزارے جاتے ہیں بیماریوں کے دروازوں سے گزارے جاتے ہیں.خدا کے بندے ان تنگ دروازوں سے اس لئے نہیں گزارے جاتے کہ وہ ہلاک کئے جائیں بلکہ اس لئے کہ مخلوق خدا کی حالت سے انہیں ہمدردی پیدا ہو.یہی بات ہے جس کے نہ سمجھنے کے سبب سے مسیح کو کفارہ بنایا گیا.گناہ کے دور کرنے کا اور ذریعہ تھا.مسیح کو مصلوب کرنا اسکا ذریعہ نہیں تھا.یہ سچ ہے کہ خدا اپنے نبیوں کو تکالیف میں ڈالتا ہے تا ان کو معلوم ہو جائے کہ مخلوق خدا کن مشکلات میں سے گزر رہی ہے.کوئی دُکھ نہ ہو.جس کے ازالہ کیلئے ان میں جوش پیدا نہ ہو.پس یہ ٹھیک ہے کہ مسیح صلیب دیئے گئے.کفارہ کیلئے نہیں بلکہ اس لئے تا ان کو معلوم ہو کہ دنیا کس طرح گندی زندگی میں سے گذر رہی ہے اور وہ اسکا علاج کریں.

Page 521

خطبات محمود جلد (5) ۵۱۰ رمضان بھی ابتلاؤں میں سے ایک ابتلاء ہے.بڑے بڑے امیر آدمی جن کے پاس ہزاروں ہی نعمتیں ہوتی ہیں جب رمضان کا مہینہ آتا ہے.باوجود تمام قسم کی نعمتیں اور عمدہ سے عمدہ کھانے اور اعلیٰ درجہ کے مسالے بھی ہوتے ہیں بھوک بھی سخت ہوتی ہے.مگر خدا کے حکم کے ماتحت سب کچھ چھوڑ دیتے ہیں.پھر ان کو معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی مخلوق کی کیا حالت ہے.رمضان ایک سبق ہے کہ تا وہ سمجھیں کہ جن کو بھوک ہوتی ہے اور جو پیاسے ہوتے ہیں انکی کیا حالت ہوتی ہے.اس لئے وہ انکی بھوک اور پیاس کے دور کرنے کی کوشش کریں.انکے دلوں میں ہمدردی کا جوش پیدا ہو.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینہ میں بہت خیرات کرتے تھے.حتی کہ حدیث میں آتا ہے کہ آپ رمضان میں صدقہ اس کثرت سے کرتے تھے جیسا کہ تیز ہوا چلتی ہے لا.آپ دوسرے ایام میں بھی صدقہ کرتے تھے.مگر رمضان کے مہینہ میں بالخصوص حضور بہت صدقہ و خیرات سے کام لیتے تھے.یہ آیات جو میں نے پڑھی ہیں.ان میں بھی اللہ تعالیٰ نے مومن کا ایک کام یہ بھی بتایا ہے ويطعمون الطعام على حبه مسكينًا و یتیما و اسیرا وہ اللہ کی محبت کے سبب سے نہ ریاء کے طور پر کھانا کھلاتے ہیں.مسکینوں یتیموں اور اسیروں کو چنا نچہ وہ کہتے ہیں انما نطعمکم لوجہ اللہ لا نريد منكم جزاء ولا شكورا کہ ہم جو تمہیں کھانا کھلاتے ہیں یہ محض اللہ کی خاطر ہے ہم تم سے اس کا کوئی بدلہ نہیں چاہتے نہ یہ چاہتے ہیں کہ آپ لوگ شکریہ کے طور پر جزاک اللہ ہی کہیں مگر یہ کھانا کھانے والوں کا فعل ہے کہ جب ان پر کوئی احسان ہو تو اس احسان کا شکر یہ ادا کریں.پس وہ مومن کہتے ہیں کہ ہم تو صرف اس لئے آپ لوگوں کی کچھ خدمت کرتے ہیں کہ صرف اللہ راضی ہو جائے.ان سبقوں میں سے ایک سبق خیرات بھی ہے مگر اس کا اب طریق بدل گیا ہے انجمنوں میں دیتے ہیں کہ نام و نمود ہو.مگر جو طریق قرآن کریم نے بتایا ہے.اس کی طرف سے توجہ ہٹ گئی ہے.فقراء بھی بڑھ گئے ہیں.چیزیں بھی مہنگی ہوگئی ہیں.چاہئیے تو یہ تھا کہ توجہ زیادہ ادھر ہوتی مگر اس کی طرف سے توجہ ہٹ گئی ہے.لوگ ادھر ل : بخاری کتاب الصوم باب اجود ما كان النبي صلى اللہ علیہ وسلم یکون فی رمضان.

Page 522

خطبات محمود جلد (5) ۵۱۱ دیتے ہیں جہاں نام و نمود ہو.لیکن ابرار میں شامل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کو کھانا کھلایا جائے کیونکہ انکی صفات میں ایک صفت کھانا کھلانا بھی ہے جو کہ یہ کہتے ہیں کہ ہم کسی بدلہ کے لئے تمہیں کھانا نہیں کھلاتے بلکہ محض اللہ کیلئے کھانا کھلاتے ہیں.کیونکہ ایک دن آنے والا ہے انا نخاف من ربنا يومًا عبوسا قمطریرا کہ جب ہمارے پاس کچھ نہیں ہوگا.پس ہم جو تمہیں دیتے ہیں تم سے کچھ لینے کیلئے نہیں دیتے.بلکہ اس لئے دیتے ہیں کہ وہ دن جس دن ہمارے پاس کچھ نہیں ہوگا ہم اللہ تعالیٰ سے لیں گے.پس یہ دن مبارک ہیں.میں جماعت کو بتانا چاہتا ہوں کہ اب بھوک کے سبق کو ہر ایک شخص جانتا ہے.قادیان میں بہت سے لوگ ہیں اور میں ان کو جانتا ہوں کئی کئی فاقے ان پر گزر جاتے ہیں.اور ایسے لوگ ہر جگہ موجود ہیں انکے پاس کچھ نہیں ان کے بچے فاقہ کر کے راتیں گزارتے ہیں.اب یہ اچھا موقعہ ہے کہ پھر بھول نہ جاؤ اللہ تعالیٰ نے بھی ہر سال رمضان لگا دیا ہے.دیکھا جاتا ہے جب بیماری ختم ہو جائے تو انسان کو پرواہ نہیں رہتی.مثلاً کسی کے پیٹ میں درد ہو اس وقت وہ عہد کرے گا کہ آئندہ کبھی ایسی چیز نہیں کھاؤں گا جس سے پیٹ میں درد ہو.لیکن جو نہی کہ افاقہ شروع ہوا وہ عہد بھولنا شروع ہو گیا اور مزیدار شوربے کا خیال آنے لگا.پس جہاں تک ہو سکے رمضان سے عملی سبق لینا چاہیئے.یہاں کے لوگ یہاں صدقہ کر سکتے ہیں.اور باہر کے باہر.یہ شرط نہیں ہے کہ اپنے ہی ہاں دیا جائے.غیروں کو بھی دینا چاہئیے.غیروں کو بلکہ ضرور ہی دینا چاہئیے تا خدا کی مخلوق سے ہمدردی عام ہو.میرے نزدیک تو کتے بلیاں اور چو ہے بھی مستحق ہیں کہ ان کو بھی کھلانا پلانا چاہیئے.یہ تو صدقہ کے متعلق تھا.مگر ایک بات اور بھی یا درکھو ایک جماعت ہے جو صدقہ نہیں کھا سکتی.غریب ہے نادار ہے.اس کی بھی مدد کی صورت نکالنی چاہئیے وہ سیدوں کی جماعت ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نسل کو صدقہ سے منع فرمایا ہے.بعض نے کہا ہے کہ اب سیدوں کیلئے صدقہ لینے میں کوئی حرج نہیں لے :- بخاری کتاب الزکوۃ باب اخذ صدقة التمر عند صرام النخل وحل بیترک الصبي ليمس تمر الصدقة -

Page 523

خطبات محمود جلد (5) ۵۱۲ کیونکہ وہ نادار ہیں مگر میرے نزدیک درست نہیں جس بات سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے اس کو جائز کیا جائے.صدقہ کے علاوہ اور بھی طریق ہو سکتے ہیں.جن سے ان کی مدد ہو سکتی ہے اور اس طرح محبت بھی بڑھ سکتی ہے.وہ ہدایا کا طریق ہے.اگر ایک دوست کا بچہ آتا ہے تو آدمی اسے کچھ دیتا ہے مگر وہ صدقہ نہیں ہوتا.اور اس طرح ان میں محبت بڑھتی ہے.اسی طرح سید آنحضرت کی بیٹی کی اولاد ہیں.اب انکو بھی ہدایا دیئے جائیں اس احسان کے بدلہ میں جو آنحضرت کا ہم پر ہے.آنحضرت نے ہمیں کفر سے نکالا ظلمتوں سے باہر لائے.پس اس فضل کی وجہ سے ہمارا فرض ہے کہ ہم آپ کی لڑکی کی اولاد کے ساتھ ویسا ہی دوستانہ سلوک کریں.بلکہ اس سے بڑھ کر کریں جیسا کہ آپ دوسرے دوستوں سے کرتے ہیں.وہ صدقہ نہیں کھا سکتے.اس لئے ہم ان کو بطور ہدا یا دیں.ہم ان کو خدا تعالیٰ کی محبت کے طور پر دے سکتے ہیں.ان کو آنحضرت سے نسبت ہے.ایک شاعر نے کہا ہے بات تو گندی ہے لیکن ہے درست.کیونکہ پتہ لگتا ہے کہ نسبتوں کا بھی کہاں تک خیال ہوتا ہے.گو واں نہیں پے واں کے نکالے ہوئے تو ہیں کعبه سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دُور کی حضرت صاحب نے قصیدہ الہامیہ میں فرمایا ہے: اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار کا خر کنند دعوی حب پیمبرم خواہ غیر احمدی ایک نبی کے انکار کی وجہ سے کا فر ہی ہو گئے ہیں.مگر وہ کہتے تو ہیں کہ ہمارا آنحضرت سے تعلق ہے.جہاں وہ ایک نبی کے منکر ہیں وہ ایک سے پیار کا بھی دعویٰ کرتے ہیں.پس سیدوں کو آنحضرت سے تعلق نبی ہے.اس لئے جہاں میں آپ لوگوں کو صدقات کی طرف متوجہ کرتا ہوں وہاں یہ بھی بتاتا ہوں کہ میں نہیں چاہتا کہ صدقہ کسی فتوی سے سیدوں کے لئے جائز کر دیا جائے.رسول کریم کے ہم پر احسانات ہیں اسکے بدلہ میں سیدوں کو ہدیہ دیئے جائیں.رسول کریم خود بھی ہد یہ کھاتے تھے.پس رمضان ایک سبق ہے بعد میں کسی کو یادر ہے یا نہ رہے اب اس کام کو کرو کہ خدا کے فضلوں کے وارث بنو.الفضل ۲۱/۲۴ جولائی ۱۹۱۷ء)

Page 524

۵۱۳ 67 خطبات محمود جلد (5) اکثر چھوٹی باتیں بڑے نتائج پیدا کرتی ہیں (فرموده ۲۰ جولائی ۱۹۱۷ء) حضور نے تشہد وتعوذ کے بعد مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.يبَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطنُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ يَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَواتِهِمَا ، إِنَّهُ يَرَكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيْطِيْنَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ (الاعراف: ۲۸) بعد ازاں فرمایا:- دنیا میں بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ بظاہر چھوٹی نظر آتی ہیں.لیکن وہ ایک بیج کی طرح ہوتی ہیں جن سے ایک بہت بڑا درخت پیدا ہوتا ہے.بڑ کے بیچ سے کوئی نا واقف کیا قیاس کر سکتا ہے کہ اتنے چھوٹے بیج سے اتنا بڑا درخت پیدا ہو جائے گا.پھر بعض درختوں کی شاخ زمین میں گاڑ دی جاتی ہے جس کو ایک بچہ بھی مل سکتا ہے.مگر ایک وقت آتا ہے کہ وہی کمزور شاخ اس قدر مضبوط ہو جاتی ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا انسان بھی اس کو جنبش نہیں دے سکتا.مگر بہت کم لوگ کسی چیز کو اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ اسکے نتائج کیا نکلیں گے.ایک آم کی گٹھلی کتنی چھوٹی ہوتی ہے جس کو نا واقف دیکھ کر کہے گا کہ اس سے اتنا بڑا درخت کیسے پیدا ہوسکتا ہے جو اس سے ہوتا ہے اور وہ حیران ہو جائے گا لیکن عقلمند انسان کا کام ہے کسی چیز یا واقعہ کو اس کی موجودہ شکل میں نہ دیکھے بلکہ اسے یہ دیکھنا چاہیئے کہ زمانہ کے گزرنے پر اس کی کیا صورت ہو جائے گی.اور اگر واقعات کو انکی موجودہ صورت میں دیکھا جائے تو دنیا میں ایک تباہی آجائے.کیونکہ بہت سے

Page 525

خطبات محمود جلد (5) ۵۱۴ امور جو ابتداء چھوٹے ہوتے ہیں حقیقت میں بہت بڑے نتائج پیدا کر نیوالے ہوتے ہیں.اور بہت سے بڑے معلوم ہوتے ہیں مگر انکے نتائج بہت چھوٹے ہوتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین کے بعد بہت سے اموال جو حضور کے پاس پہلی غنیمتوں میں سے بھی جمع تھے مکہ کے نومسلموں کو دلائے.اس پر انصار میں سے بعض نوجوانوں نے کسی مجلس میں کہدیا کہ اب تک خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے مگر مال ان لوگوں کو دے دیا گیا جوحق دار نہیں تھے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ انصار میں سے بعض نے اس طرح کہا ہے تو حضور نے انصار کو بلوایا اور پوچھا کہ اے انصار کیا تم نے اس طرح کہا ہے.وہ لوگ منافقت پسند نہ کرتے تھے.جن کی مجلس میں یہ باتیں ہوئی تھیں انہوں نے کہدیا کہ حضور بعض نادان نو جوانوں نے بیشک کہہ دیا ہے لیکن ہمیں کسی قسم کا اعتراض نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انصار ! تم میری نسبت کہہ سکتے ہو کہ یہ اکیلا آیا تھا ہم نے اس کا ساتھ دیا.اسے گھر والوں نے نکال دیا تھا ہم نے اس کو جگہ دی.اس پر دشمنوں نے حملے کئے ہم نے اپنی تلواروں سے اس کی مدد کی.اسلام غریب تھا ہم نے اپنے مالوں سے اسکی مدد کی لیکن جب وقت آیا تو ہماری قدر کرنے کی بجائے غیروں کو مال دیئے گئے پھر تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ خدا کے رسول کو ہم نے اس وقت قبول کیا جبکہ اس کے شہر والوں نے اس کو نکال دیا تھا.مگر آج مال ان کو دیدیا گیا ہے.مگر اے انصار کیا تم اس بات کی قدر نہیں کرتے کہ مہاجرین بھیڑ اور بکریاں لے کر اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے ہیں اور تم خدا کے رسول کو گھر لے آئے ہو.انصار نے پھر عرض کیا.حضور" بعض نو جوانوں نے نادانی سے یہ کہدیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اچھا جو ہونا تھا ہو گیا.تم میں سے بعض نے دنیا کی خواہش کی جس کا نتیجہ تمہیں بھگتنا پڑیگا اب تم اپنا حصہ کوثر پر مجھ سے مانگنا لے.اس پر غور کرو کہ مدینہ میں جو چند مہاجرین تھے ان کی نسل تو دنیا میں کس کثرت سے موجود ہے.مگر انصار جو کہ وہیں کے باشندہ تھے.انکی نسل دنیا سے ایسی معدوم ہوئی کہ تمام دنیا میں بہت ہی تھوڑے لوگ ہیں جو اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں.پس انصار نے ایک معمولی سی بات کہی تھی مگر دیکھو اس کا نتیجہ کیسا عبرتناک نکلا.تو کسی بات کو معمولی مت سمجھو بلکہ اس کے انجام کی طرف غور کرو.: بخاری کتاب مناقب الانصار

Page 526

خطبات محمود جلد (5) ۵۱۵ اکثر چھوٹی باتیں ہوتی ہیں مگر ان کے نتائج خطر ناک ہوا کرتے ہیں.حکومت بغداد کی تباہی کی ابتداء ایک معمولی بات سے ہوئی تھی ،شہر میں ایک گروہ تھا جن کو عیار کہتے تھے.وہ گو یا پولیس کے قائم مقام ہوتے تھے.ان کا کام بدمعاشوں کی فہرستیں تیار کرنا ہوتا تھا.ایک دن دو عیاروں میں سے ایک نے کہا کہ چلو بھٹی کباب کھائیں.دوسرے نے کہا کباب کیا کھانے ہیں ذرا لڑائی کا تماشہ دیکھیں.شیعہ منی کو لڑوائیں اور تماشہ دیکھیں.یہ کہہ کر ایک شیعوں کے محلہ میں چلا گیا اور دوسر استیوں کے محلہ میں اور وہاں جا کر کچھ ایسی باتیں بنائیں کہ دونوں گروہوں کو لڑوا دیا.وزیر اعظم شیعہ تھا.اس نے سُنیوں کی گرفتاری کے احکام نافذ کئے.اس پرستی ولی عہد کے پاس گئے اور کہا کہ وزیر اعظم کی طرف سے ہم امن میں نہیں ہیں.اس نے ہماری گرفتاری کیلئے فوج کو بھیج دیا ہے.ہمیں بچائیے اور شیعوں کے مظالم سے حفاظت کیجئے.ولیعہدستی تھا.اس نے خاص اپنی باڈی گارڈ کو بھیج دیا کہ اگر سینیوں کو کوئی گرفتار کرے تو مزاحم ہو.اسطرح دونوں فوجوں میں کچھ جنگ بھی ہوئی اور وزیر اعظم کے دل میں کینہ اور بغض بیٹھ گیا.اس نے ہلا کو خان کو لکھا کہ آپ حملہ کریں میں آپکی مدد کیلئے تیار ہوں.ہلاکو خان چڑھ آیا.ادھر بھی لشکر تیار ہوا.اگر چہ اس گئے گزرے وقت میں بھی مسلمان ہلاکو خان کے مقابلہ کی تاب رکھتے تھے مگر وزیر نے مسلمانوں کی فوج کو دریا کے دہانہ پر اتارا اور رات کو دریا کا بند تڑوا دیا جس سے لاکھوں مسلمان غرق ہو گئے.خلیفہ نے صلح کی درخواست کی ہلا کو کی طرف سے کہا گیا کہ ملک آپ کا ہے ہمیں کیسے یقین آئے کہ آپ صلح کرنا چاہتے ہیں اس کیلئے آپ کچھ منتخب لوگ ہمارے پاس بھیج دو.چنانچہ ادھر سے جس قدر کام کرنے والے لوگ تھے.امراء.علماء.صوفیاء جرنیلوں میں سے منتخب کر کے بھیج دیئے گئے.ہلاکو نے ان کو گرفتار کر لیا ہے.دیکھو ایک چھوٹی سی بات تھی جو صرف ایک تماشہ دیکھنے کیلئے کی گئی تھی.لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بغداد تباہ ہو گیا.۱۸ لاکھ آدمی قتل ہوا.اس میں شیعہ سنی کی تمیز نہ کی گئی.ایک ہزار کے قریب شاہی خاندان کی عورتوں سے زنا بالجبر کیا گیا تا کہ آئندہ کوئی مدعی خلافت نہ کھڑا ہو.تو فتنہ کی بات ہمیشہ چھوٹی ہی ہوا کرتی ہے.مگر نتائج نہایت خطرناک پیدا کرتی ہے.دیکھودیا سلائی کتنی چھوٹی ہوتی ہے مگر میل ہامیل کے جنگل جلا کر راکھ کر دیتی ہے.ل : تاریخ اسلام مرتبہ شاہ معین الدین حصہ چہارم حالات خلافت عباسیہ.

Page 527

خطبات محمود جلد (5) ۵۱۶ ہماری جماعت پر خدا کی طرف سے ایک بوجھ لادا گیا ہے.اور جو قو میں ہمارے مقابلہ میں ہیں انکی طاقتیں ہم سے کروڑوں حصّہ زیادہ ہیں.مال کے لحاظ سے وہ ہم سے زیادہ ہیں.درجوں کے لحاظ سے وہ ہم سے بڑھ کر ہیں.تعداد کے لحاظ سے ہم سے زیادہ ہیں.غرض ہر طرح ہم سے زیادہ ہیں.ایسے خطرناک دشمنوں کا مقابلہ ہے.اس لئے ہماری ذمہ داری بہت بڑی ہے.اس لئے ہمیں اپنی طاقت کو مضبوط بنانے اور دشمنوں کے مقابلہ میں کامیاب ہونے کیلئے ہر ایک بات بہت احتیاط اور سوچ کر منہ سے نکالنی چاہئیے.اور خاص اس مہینہ میں کیونکہ رمضان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ.اس کی غرض یہ ہے کہ تم متقی بن جاؤ.پس اگر ہم نے رمضان سے یہ سبق حاصل نہ کیا.تقوی شعاری اختیار نہ کی تو گویا کچھ نہ کیا.کون جانتا ہے کہ اس کو اگلے رمضان کے دیکھنے کی توفیق ملے گی.اگلا رمضان تو دُور کی بات ہے آج اس رمضان کا آخری جمعہ ہے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ اگلا جمعہ بھی کس پر آئے گا.پس چاہیئے رمضان نے جو ہمیں سبق سکھائے ہیں اور خاص کر سبق تقویٰ دیا ہے اس کو ازبر کریں.اپنے ہر ایک عضو کو قابو میں لائیں.ان فضلوں کو جذب کریں جن کے دروازے خدا نے ہم پر کھولے ہیں.آئندہ غلطیوں سے بچنے کی پوری پوری کوشش کریں تا وہ تقویٰ ملے جس کا خدا وعدہ کرتا ہے.پس ہمیشہ احتیاط کرو کہ کہیں کوئی فتنہ والی بات نہ منہ سے نکلے.فتنوں سے بچنا بھی تقوی میں داخل ہے کیونکہ تقویٰ کا لفظ ایک وسیع المعنی لفظ ہے.ہر ایک شرارت سے بچنے کا نام تقویٰ ہے.بہت سے لوگ منہ سے تقویٰ کہتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ تقویٰ کیا چیز ہے.ہر ایک نقصان رساں اور مضرت بخش چیز سے بچنے کا نام تقویٰ ہے.اور رمضان اسی غرض سے آتا ہے.تا وہ انسان کو بتلائے کہ جب ایک شخص ایک وقت میں جائز چیزوں کو بھی خدا کے حکم کے ماتحت ترک کر دیتا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ خدا کے حکم کے خلاف ناجائز چیزوں کو استعمال میں لائے.پس تم اصل تقویٰ حاصل کرو چونکہ ہر ایک انسان کے ساتھ ایک شیطان بھی لگا ہوتا ہے.بہت سے انسان شیطان صفت اور بہت سی بدروحیں ہوتی ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے بنی آدم جس طرح تمہارے آباء کو اس نے ایک فتنہ میں ڈال دیا.اور ان سے انکی امن کی زندگی ضائع کرا دی.اسی طرح شیطان کہیں

Page 528

خطبات محمود جلد (5) ۵۱۷ تم کو بھی فتنہ میں ڈال کر تمہارے امن و امان کو ضائع نہ کر دے.لیکن یہ مت سمجھو کہ آدم صرف آدم ہی تھے.بلکہ ہر ایک نبی آدم ہوتا ہے.اور اس آدم کی جماعت اس کی اولا د ہوتی ہے.جیسے کہ بنی نوع انسان آدم کی اولاد ہے.نبی بھی امت کا باپ ہوتا ہے.پس خدا تعالی آگاہ کرتا ہے.جس طرح آدم اوّل کو جنت یعنی سکھ اور آرام و اطمینان کی زندگی کو چھوڑنا پڑا تھا اسی طرح ہمارے نبیوں کے ذریعہ تمہیں بھی ایک سکون حاصل ہوا تھا.دیکھنا کہیں فتنہ میں پڑ کر اس سکون کو ضائع نہ کر لینا.جو شخص کسی فتنہ کا موجب ہوتا ہے اس کا وبال بھی اسی کی گردن پر ہوتا ہے.خدا کی قائم کی ہوئی جماعتوں میں فتنہ ڈالنا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے.پس ہر ایک وہ بات جس سے جماعت میں فتنہ کا اندیشہ ہو.اس سے محتر زر ہو.میں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اب رمضان جا رہا ہے.تقویٰ کے دروازے کھلے ہیں ان میں سے گزرو اور ایسا نہ ہو کہ یہ ایام جو سبق دے چلے ہیں انکو بھلا دو.قرآن کریم میں شیطان کا قول نقل کیا گیا ہے.وہ کہتا ہے.لا تیتہم من بین ایدیهم ومن خلفهم وعن ايما نهم وعن شمائلهم (الاعراف: ۱۸) میں ضرور ضرور ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے.ان کے دائیں سے اور انکے بائیں سے آؤں گا.اور ان میں سے اکثر کو ضر ور ضرور تیری راہ سے گمراہ کروں گا.دوسری جگہ اس کا قول درج ہے.الا عبادك منهم المخلصين (الحجر: ۴۱) که خدا یا جو تیرے مخلص بندے ہیں ان پر میرا کوئی زور نہیں.پس اپنی زندگی میں ایک تبدیلی پیدا کرو.انسان کو روحانی زندگی اسی وقت دی جاتی ہے جب وہ شیطان کے حملوں سے محفوظ ہو جاتا ہے.اور اپنے اندر ایک نمایاں تبدیلی پیدا کر لیتا ہے.اس کی طرف توجہ کرو.اور تو بہ کرو.تو بہ کرو.پھر اگر سمندر کی جھاگ کی طرح گناہ ہوں گے تو بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت وسیع ہے.وہ سب کے سب گناہ معاف کر دیگا.کیونکہ جو خدا کے حضور جھکتا ہے.خدا اس پر بہت مہربانی فرماتا ہے.کیونکہ وہ ماں باپ سے بھی زیادہ مہربان ہے.کسی کو چھوٹا مت سمجھو.کسی پر جنسی ٹھٹھا نہ کرو.خدا کی نظر میں کوئی چھوٹا اور حقیر نہیں جو متقی ہے.اور کوئی بڑا اور معز ز نہیں جو اتقاء سے دُور ہے.لوگوں کے ساتھ اخلاق سے پیش آؤ.بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو کسی کو ذلیل کرنا ایک معمولی بات سمجھتے ہیں.لیکن اس سے بہت سے لوگ فتنہ میں پڑتے ہیں.ان کا وبال بھی انہی پر

Page 529

خطبات محمود جلد (5) ۵۱۸ ہوتا ہے.انکی تو معمولی سی بات ہوتی ہے.مگر اس سے خدا کی جماعتوں میں فتنے پڑ جاتے ہیں.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے بنی آدم فتنوں سے بچو.نہ خود پڑو نہ دوسروں کو فتنوں میں ڈالنے کا موجب بنو.شیطان کے حملوں سے بچو.کیونکہ وہ ہر نبی کے وقت میں لوگوں کو فتنہ میں ڈال دیتا ہے.تم خدا سے ڈرو.اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کرو تا کہ جب تم پر موت آئے تو تم کو مسلم پائے.جسکی زبان اس کے قابو میں نہیں وہ اپنی زبان کو قابو میں لائے.جسکی تحریر اس کے قابو سے باہر ہے وہ اپنی تحریر کو قابو میں لائے.اپنے اخلاق اور اطوار کو درست کرے.خدا سے جلد صلح کرلے اپنے گناہوں اور قصوروں کی اس سے معافی مانگے اور آئندہ کو اچھے افعال و اعمال و اخلاق سے گزشتہ غلطیوں کی تلافی کرے.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ لوگوں کو بھی رمضان شریف کے سکھائے ہوئے سبقوں سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے.اور برائیوں سے بچائے.پھر وہ انعامات کے دروازے جو اس نے کھولے ہیں ہمیں ان میں سے گزرنے کی توفیق بخشے.اور ہم ان وعدوں کے پورے کرنے والے ہوں جو مسیح موعود سے خدا نے کئے ہیں.ہماری غلطیوں اور کمزوریوں سے ان میں رکاوٹ نہ آئے.ہم ہر وقت اس کی راہ میں قربان ہونے کو تیار ہوں.ہم پر کوئی گھڑی نہ آوے کہ ہم اس وقت اس پر قربان نہ ہو سکتے ہوں.(الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۱۷ء)

Page 530

خطبات محمود جلد (5) ۵۱۹ 68 نیکی میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرو.(فرموده ۲۷ جولائی ۱۹۱۷ء) حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ تلاوت فرمانے کے بعد آیت مندرجہ ذیل تلاوت فرمائی:.ولكلٍ وجهةً هو موليها فاستبقوا الخيرات اين ما تكونوا يات بكم الله جميعا ان الله عَلى كُلّ شيءٍ قدير (البقره: ۱۴۹) تمام مذاہب اپنے پیروؤں کو اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ نیکی اور تقویٰ کو اختیار کرنا چاہیے.لیکن اسلام اور دیگر تمام مذاہب میں ایک فرق ہے.یہ بے شک درست ہے کہ اسلام بھی ان مذاہب کی طرح تعلیم دیتا ہے کہ نیکی اختیار کرومگر جہاں اور فرق ہیں.وہاں ایک یہ بھی ہے کہ دوسرے مذاہب صرف لفظ نیکی کی طرف متوجہ کرتے ہیں.اور اسلام اس بات کی بھی اطلاع دیتا ہے کہ جس نیکی کی طرف متوجہ کرتے ہیں.وہ چیز کیا ہے.ی ممکن نہیں کہ کوئی مذہب بدی کی تعلیم دیتا ہو.کیونکہ کوئی پاگل نہیں جو یہ کہے کہ تم بدی اختیار کرو.تو دنیا میں کوئی مذہب ایسا نہیں جو بظاہر شرارت کی طرف لوگوں کو بلاتا ہو کیونکہ محض عقل بھی بلا کسی الہامی مدداور اشارہ کے یہی تعلیم دیتی ہے کہ نیکی اختیار کرنا چاہیئے.پس مذاہب میں فرق اس بات میں نہیں کہ نیکی اختیار کرنا چاہئیے یا نہیں بلکہ اختلاف اس امر میں ہے کہ دوسرے مذاہب جو نیکی کی تعریف کرتے ہیں وہ حقیقت سے دور کر نیوالی ہوتی ہے.

Page 531

خطبات محمود جلد (5) ۵۲۰ پہلا فرق اسلام اور دیگر مذاہب میں یہ ہے کہ اسلام کے سوا تمام مذاہب صرف لفظ نیکی کی طرف بلاتے ہیں.اور اسلام اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے جو اصل مقصود ہے.اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص بیمار ہو تو یہ اکثر لوگ کہیں گے اس مرض کا علاج کرنا چاہئیے.اور کچھ ان میں سے کوئی نہ کوئی دوا بھی بتائیں گے.جن میں بہت اختلاف ہوگا.اور جو بجائے مرض کو دور کرنے کے اکثر نقصان کا موجب ہوں گی.مگر جو دانا انسان ہوگا.اور جو مرض کو سمجھتا ہو گا وہ اس مرض کا مناسب علاج بتائے گا.پس اسلام اور دیگر مذاہب میں نیکی کے بارہ میں ایک فرق ہے.اور وہ یہ کہ اسلام حقیقی تعریف نیکی کی بتاتا ہے.اور حقیقت کی طرف لاتا ہے.مگر دیگر مذاہب حقیقت سے بہت دور کر دیتے ہیں.اسلام اور دوسرے مذاہب میں دوسرا فرق یہ ہے کہ دوسرے مذاہب صرف نیکی کی طرف بلاتے ہیں.مگر اسلام استباق کی طرف بلاتا ہے.کہ نیکی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو.سبقت کے معنی ہیں آگے بڑھنا.اور استباق کے معنے ہیں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ولکل وجهة هو موليها فاستبقوا الخيرات - گولفظاً سب مذاہب نیکی کی طرف لے جاتے ہیں.مگر اصل یہ ہے کہ وہ نیکی سے دور لے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ہر ایک نے ایک ایک طرف اختیار کر لی ہے اور نیکی کی طرف سے منہ پھیر لیا ہے.اگر چہ کہتے یہی ہیں کہ ہم نیکی کی طرف لئے جاتے ہیں لیکن واقعہ میں ایسا نہیں کرتے.پس ان کے اور طرفوں کو اختیار کر لینے سے نیکی کی طرف خالی رہ گئی ہے.تم اس کو لے لو.مدعی دوسرے بھی ہیں کہ وہ نیکی کی طرف لئے جاتے ہیں.مگر وہ نیکی سے دُور لئے جاتے.مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ جب تمام مذاہب نے اپنے لئے اور طرفیں اختیار کر لی ہیں تو تم کو کیا کرنا اہیئے.یہ کہ اول تو نیکی کی طرف کو اختیار کرو.دوسرے استباق کرو.کیا لطیف قرآن کریم کا طریق کلام ہے.یہاں استباق کا لفظ رکھا ہے جس میں بظاہر سرعت اور تیزی نہیں پائی جاتی.کیوں؟ اسلئے کہ اگر دو آدمی شست روی سے جار ہے ہوں اور ایک ان میں سے کسی قدر آگے بڑھ جائے تو اس نے استباق کر لیا.اور اس طرح ہر کام میں تھوڑے سے بڑھنے کا نام استباق رکھ لیا.اور سمجھ لیا کہ میں نے خدا کے حکم کو پورا کر دیا ہے.لیکن دراصل اس لفظ میں انتہاء درجہ کی سرعت اور تیزی سے آگے بڑھنے کا مفہوم پایا جاتا ہے.کیونکہ ہر ایک کیلئے یہ حکم ہے کہ استباق کرے.اب اگر ایک

Page 532

خطبات محمود جلد (5) ۵۲۱ کوشش سے کچھ آگے بڑھے تو دوسرے کیلئے حکم ہے کہ وہ اس سے بڑھے.جب وہ اس سے بڑھے گا تو پھر پہلے کو وہی حکم آگے بڑھنے کیلئے تیار کر دیگا.غرض ہر ایک کے لئے استباق کا حکم ہے.تو ہر ایک جہاں تک انسانی طاقت میں ہے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے گا.اس لفظ فاستبقوا کی بجائے کئی اور لفظ ہو سکتے تھے.مثلاً فاسعوا ہو سکتا تھا یا ازیں قبیل کوئی اور لفظ.مگر جو حقیقت لفظ فاستبقوا میں رکھی گئی ہے.وہ کسی اور میں نہیں آسکتی تھی.اس لئے اسی کو رکھا گیا.اس جگہ قرآن کریم اسلام اور دیگر مذاہب کا مقابلہ کرتا ہے.اور بتاتا ہے کہ تمام مذاہب خیرات کی طرف سے غافل ہیں.اور خیرات کی حقیقت سے ناواقف.پس اس وقت مسلمانوں کے لئے اچھا موقع ہے کہ آگے بڑھیں.یہ لفظ ایسا جامع ہے کہ جس سے بڑھ کر کسی مقصد اور مدعا کی طرف دوڑنے اور جلدی کرنے کا حکم ہو ہی نہیں سکتا.ہو سکتا ہے کہ ایک شخص دوڑے مگر پوری طاقت سے نہ دوڑے.جلدی کرے.مگر جس قدر کہ چاہئیے.اسقدر جلدی نہ کرے.لیکن استباق کے حکم کا اس وقت تک پورا ہونا ناممکن ہے.جب تک کہ پورے زور اور پوری طاقت سے کام نہ لیا جائے.ایک آدمی تیزی سے چلتا ہے.اس کو حکم ہے کہ دوسرے سے آگے بڑھے اب جس قدر وہ دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر سکتا ہے وہ اس لفظ استباق میں آگئی کیوں؟ اس لئے کہ جب ایک شخص سے دوسرا بڑھتا ہے تو اسکو بھی تو حکم ہے کہ آگے بڑھو.اسلئے وہ اس سے زیادہ تیزی سے آگے بڑھے گا.پھر پہلے کیلئے حکم ہے کہ تم آگے بڑھو.اسلئے وہ اس سے زیادہ تیزی اختیار کر یگا حتی کہ جس قدر کسی میں طاقت اور ہمت ہوگی.وہ سب اس میں صرف کر دیگا.پس استباق اپنے اندر تیزی اور دوڑنے یا جلدی کرنے کے معنی نہیں رکھتا.مگر حقیقت میں اسقدر تیزی رکھتا ہے کہ جس قدر کسی انسان میں طاقت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا.(البقرہ:۲۸۷) تو اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر جس قدر بھی طاقت ہے.اس تمام کے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے.اور اس غرض کیلئے لفظ بھی ایسا رکھا ہے جو تمام غفلتوں کو کاٹ دیتا ہے.تمام مُستیوں کو دُور کر دیتا ہے.دیگر مذاہب کہتے ہیں کہ نیکی کرو.مگر اسلام کہتا ہے کہ نیکی کرو اور ایک دوسرے سے بڑھو.یہ کام کوئی معمولی کام نہیں ہے.ایک دو کا مقابلہ ہو تو خیر.لیکن یہاں تو ہزاروں ہی اس کے لئے تیاری کر رہے ہیں.اور ان میں سے ہر ایک دوسرے سے

Page 533

خطبات محمود جلد (5) ۵۲۲ بڑھ جانے کی کوشش کر رہا ہے.جب ایک دو کے مقابلہ میں تیاری کی ضرورت ہوتی ہے تو جہاں ہزاروں میں مقابلہ ہو وہاں کتنی تیاری کی ضرورت ہوگی.گھوڑ دوڑوں میں کتنی تیاری کی جاتی ہے.اسی طرح جب لوگ آپس میں دوڑتے ہیں کتنی کوشش اور تیاری کرتے ہیں لیکن جہاں کروڑوں ہوں وہاں کتنی تیاری کی ضرورت ہوسکتی ہے.اسلام نے اس حکم کے ساتھ سب سستیوں کو کاٹ دیا ہے.پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا سکھائی ہے کہ خدا یا سستی اور غفلت اور کسل سے بچالے.قرآن شست لوگوں کو پسند نہیں کرتا.اور شست کبھی خدا کا مقبول نہیں ہو سکتا.پس اسلام نہ صرف نیکی ہی کی تعلیم دیتا ہے.بلکہ دوسروں سے نیکی میں بڑھنے کا حکم دیتا ہے.اور ہر وقت اور ہر گھڑی چست اور تیار رہنے کی تلقین کرتا ہے.اگر قرآن کریم کے اس ایک ہی حکم پر مسلمان عمل کرتے تو سارے جہان پر بھاری اور سب پر حاوی ہو جاتے.مگر افسوس انہوں نے اس طرف توجہ نہ کی.اور ذلیل وخوار ہو گئے.اب ہم لوگوں کو جنہیں خدا تعالیٰ نے اصل اسلام پر قائم کیا ہے بہت تیاری کرنے کی ضرورت ہے.ہمیں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرنے دینا چاہئیے کہ ہمارے قدم پہلے سے زیادہ تیزی کے ساتھ نیکی کی طرف نہ اٹھ رہے ہوں.کیونکہ مسلمانوں کو صرف اس امر کا حکم نہیں دیا گیا کہ نیکی کرو.بلکہ یہ حکم دیا گیا ہے کہ نیکی کر نیوالوں میں سب سے آگے بڑھ جاؤ.آریہ لوگوں نے اھدنا الصراط المستقیم پر اعتراض کیا ہے کہ کیا مسلمانوں کو اب تک رستہ نہیں ملا کہ وہ اس کے پانے کی دعائیں کرتے رہتے ہیں.مگر نادان نہیں جانتے کہ مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ فاستبقوا الخیرات کسی وقت بھی غفلت نہ کرو.بلکہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو.اور ہدایت کے معنے صرف رستہ بتانے کے ہی نہیں.بلکہ رستہ پر چلانے اور مقصود تک پہنچانے کے بھی ہیں.اور اسلام چونکہ روحانی ترقیات کی کوئی حد بندی نہیں کرتا.بلکہ اعلیٰ سے اعلیٰ کمالات کا وارث بناتا جاتا ہے اور اس کے خزانہ میں کبھی کمی نہیں.اس لئے یہ دُعا ایک بڑے سے بڑا خدا کا پیارا انسان بھی کر سکتا ہے اور ایک گنہگار بھی.پس اھدنا الصراط المستقیم کی دعا ترقی کو محدود نہیں کرتی بلکہ یہ بتاتی ہے کہ خواہ تم کتنا ہی بڑا درجہ حاصل کر لو.پھر بھی خدا کے انعامات : بخاری کتاب الدعوات باب الاستعاذہ من العجز والكسل.

Page 534

خطبات محمود جلد (5) ۵۲۳ اور فضلوں کو ختم نہیں کر سکتے.اگر اسلام درجات کی حد بندی کر دیتا اور کہ دیتا کہ فلاں فلاں انعام کے بعد تمہیں کچھ نہیں مل سکتا.تو گویا اپنے پیروؤں کوست کر دیتا مگر اسلام تو ستی کا دشمن ہے.اس لئے اس نے درجات کی حد بست نہیں کی.بلکہ کہہ دیا کہ اگر کسی نے بڑے سے بڑا درجہ بھی روحانیت کا حاصل کر لیا ہے تو بھی اسکے لئے آگے بڑھنے کا رستہ کھلا ہے.پس اسلام تو یہی کہتا ہے کہ آگے بڑھو اور آگے بڑھو.اور بڑھتے ہی چلے جاؤ.دنیا کی جو حالت نبی کریم کے وقت میں تھی.وہی حالت اب بھی ہے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں تقویٰ کی بجائے عصیان کا دور دورہ تھا.آج بھی ایسا ہی ہے.دنیا کا کثیر حصہ اس قسم کا ہے جو خدا کی محبت کی جگہ دنیا کی محبت کے پیچھے پڑ گیا ہے.اور خدا کو چھوڑ کر دنیا میں مشغول ہو گیا ہے.اس وقت خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو دنیا کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے بھیجا ہے.پس یہ مسیح موعود کا زمانہ ہے.اگر یہ موقعہ بھی سستی اور غفلت میں گزرگیا تو پھر اور کون سا موقعہ آئے گا.اس وقت رحمت کے دروازے کھلے ہیں.قرآن کریم میں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کی گئی ہے وہاں خدا تعالیٰ فرماتا ہے: واذا الجنۃ از لفت (التکویر ) اب ہر قسم کی شرارت اپنے زور پر ہے.دہریت نے ہر طرف اپنے پیر پھیلا رکھے ہیں.خدا کے بندے خدا سے دُور جا رہے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے حالات اور ایسے وقت میں جنت کو قریب کر دیا جائے گا.پس ہمارے دوستوں کو چاہئیے کہ نیکی میں استباق کریں.مگر یا درکھو کہ نیکی کرو اور ساتھ ہی خدا سے ڈرو.بعض لوگ نیکی میں اگر قدم آگے بڑھاتے ہیں تو اس پر فخر کرتے ہیں.اور اگر ان کے کسی معاملہ میں انکے خلاف کچھ نوٹس لیا جائے تو کہتے ہیں کہ ہم سے یہ معاملہ کیوں کیا گیا.یادرکھو.خُدا کو کسی کی خدمت کی پرواہ نہیں.اللہ غنی ہے.وہ صمد ہے.قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ اللهُ الصَّمَدُ (الاخلاص) کہہ دو کہ اللہ ایک ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں.سب اسکے محتاج ہیں.بعض لوگوں نے صمد کے معنی غنی کئے ہیں.مگر نہیں اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ کسی کا محتاج نہیں.پس یاد رکھو کہ اللہ صمد ہے.وہ ہرگز ہر گز کسی کا محتاج نہیں بلکہ سب اسی کے محتاج ہیں.فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَات کا حکم خدا نے اس لئے نہیں دیا کہ نعوذ باللہ خدا کسی مصیبت میں مبتلا ہے.اور کہتا ہے کہ بھا گنا بھا گنا اور جلدی مجھے اس

Page 535

خطبات محمود جلد (5) ۵۲۴ مصیبت سے بچانا.اس کا یہ حکم دینا اس کے کسی فائدہ کیلئے نہیں.بلکہ خود تم پر احسان ہے.اور دین کی خدمت کرنا خدا پر احسان کرنا نہیں بلکہ یہ بھی تم پر خدا کا احسان ہے کہ اس نے تمہیں یہ موقع دیا.یہ اللہ کا احسان ہے کہ وہ ہم کو اس کام کا موقع دے اگر تم تقویٰ پیدا کرو گے تو خدا پر احسان نہیں کرو گے.یہ سب خدا کے احسان ہیں کہ باوجود یہ سب کام اسکے نہیں ہمارے اپنے لئے ہیں.پھر وہ ہمیں ثواب اور انعام دیتا ہے.پس کیسا نادان ہے وہ انسان کہ اسی کے فائدہ کیلئے کوئی اسے بتادے کہ میاں اس طرح کرو گے تو تمہارے لئے مفید ہوگا.وہ مان تو لے گا مگر الٹا اس پر احسان جتائے کہ میں نے تمہارا کہا مانا ہے.خدا بندوں کو نیکی کی طرف متوجہ کرتا ہے.وہ کسی کا محتاج نہیں بلکہ لوگ محتاج ہیں کہ خدا انکی مدد اور نصرت فرمائے.پھر نعوذ باللہ خداد و بتا نہیں کہ اپنے بندوں کو اپنی مدد کیلئے بلا رہا ہے.بلکہ بندے ڈوب رہے ہیں وہ انکی مدد اور ان ڈوبتوں کو بچانے کیلئے بڑھتا ہے اور غرق ہونے سے بچنے کے طریق بتاتا ہے.پس کیسا نادان ہے وہ شخص کہ جو ڈوب رہا ہے.اور کوئی اس کو بچانے کے لئے رسہ پھینکے اور کہے کہ پکڑ لو غرق ہونے سے بچ جاؤ گے تو وہ کہے کہ اگر تمہارے کہنے سے میں نے رسہ پکڑ لیا تو کیا انعام دو گے.تو خدا بندوں کو اس لئے نیکی کا حکم نہیں دیتا کہ نعوذ باللہ اس کو کسی ہلاکت کا اندیشہ ہے.بلکہ اس لئے کہ اگر بندے اسکی بتلائی ہوئی راہوں پر قدم نہیں ماریں گے تو ہلاک ہو جائیں گے.پس جس کو کوئی دین کا کام کرنے کا موقع ملتا ہے وہ خوش قسمت ہے.اس کا خدا پر کوئی احسان نہیں.بلکہ اپنی جان پر احسان ہے.کیسی نادانی ہے کہ کام اپنی جان کے فائدہ کیلئے کیا جائے.اپنے نفس کو بچایا جائے.مگر سمجھا یہ جائے کہ ہم نے خدا پر احسان کیا ہے.اس میں خدا کو کونسا فع ہوا.پھر اس پر احسان کے کیا معنے؟ پس وہ لوگ بڑے نادان ہیں جو فخر کرتے ہیں کہ ہم نے فلاں خدمت کی اور ہم نے فلاں کام کیا وہ غور کریں کہ کیا انہوں نے خدا کی خدمت کی یا اپنے نفس کی.یا خدا نے آقا ہوکر مالک ہو کر ان اپنے غلاموں کی خدمت کی.انہیں ہلاکت سے بچنے اور انعامات کے حاصل کرنے کے طریق بتلائے تو احسان اس کا ہے کہ اسکے بتانے سے ہم ہلاکت سے بچ گئے نہ کہ ہمارا کہ ہم نے ان پر عمل کیا.کیا وہ شخص عقلمند ہوسکتا ہے جو تاریکی میں راستہ بھولا ہوا گرتا پڑتا ٹھوکریں کھا رہا ہو.کوئی اسے بتائے کہ تم ادھر سے جاؤ اور فلاں دیوار کے ساتھ ساتھ جانا.پھر آگے تمہیں فلاں گلی ملے گی.وہاں سے نکل کر آگے

Page 536

خطبات محمود جلد (5) ۵۲۵ بڑھو گے تو سید ھے اس جگہ پہنچ جاؤ گے.جہاں جانا چاہتے ہو.اب یہ شخص اسکی ہدایت پر عمل کرے اور اپنے گھر پہنچ کر رستہ بتانیوالے کو خط لکھے کہ چونکہ میں نے آپ کی باتوں کو مانا ہے اس لئے آپ مجھ کو انعام دیں.یہ میرا آپ پر احسان ہے کہ میں نے آپکی بات تسلیم کی کوئی سمجھدار اور عظمند ایسا نہیں کر سکتا.اسی طرح اللہ کے جسقد راحکام ہیں وہ اس کے اپنے فائدہ کیلئے نہیں بلکہ بندوں کے نفع کیلئے ہیں اور بندوں کی ہی جان بچانے کے لئے ہیں.اس لئے ان پر عمل کرو.دین کی خدمت کرو اور ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرو.مگر یہ ضرور احتیاط کرو کہ ریاء نہ آنے پائے.خدمت کر کے کبھی خیال نہ کرو کہ ہم نے کچھ کام کیا ہے.اور ہمارا خدا پر احسان ہے کہ ہم نے اس کے دین کی خدمت کی ہے.بہت سی جماعتوں نے خدا کے دین کی خدمت کی.اور پھر اس پر فخر کیا.اس لئے وہ ہلاک ہو گئیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی کی حالت کی طرف دیکھو.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو وحی لکھوا ر ہے تھے.زور کلام اللہ کا اس پر بھی اس قدر پڑا کہ وحی کا آخری حصہ فَتَبَارَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَالِقِین اس کی زبان پر جاری ہو گیا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی لکھو.اس نے کہا.میں سمجھ گیا.وحی نہیں ہوتی آپ ہی لکھواتے ہیں.اور اس کا نام وحی رکھ دیتے ہیں.اور یہ منصوبہ ہے اس طرح وہ رسول کریم کا منکر ہو گیا.اس پر خدا کا ایک فضل ہوا تھا.مگر وہ اس کو جذب نہ کر سکا.پس خوب یاد رکھو کہ خدمت کرو.مگر ساتھ ہی خدا سے ڈرو.اگر تکبر کرو گے یا احسان جتلاؤ گے تو خدا کی درگاہ سے نکال دیئے جاؤ گے.صحابہ کو ہم دیکھتے ہیں انہوں نے بڑی بڑی خدمتیں کیں.مگر کسی پر ظاہر نہ کیا.کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ محض اللہ کا فضل ہے کہ ہمیں یہ موقعہ ملا.قرآن کریم میں جہاں یہ حکم ہے.فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَات.وہاں یہ بھی ہے.يَأْيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تبطلوا صدقتكم بالمن والاڈی(البقرہ: ۲۶۵) کہ اپنے صدقات کو ظاہر کر کے یا احسان بتلا کر یا دوسروں کو تکلیف دیگر ضائع مت کرو.صدقات کے اظہار کے بھی مواقع ہوتے ہیں.تو فر ما یا چندہ دو.مگر اس طرح نہ دو کہ وبال جان ہو جائے.پس ان باتوں کو خوب یاد رکھو.یہ وہ زمانہ ہے جس کا نقشہ قرآن کریم میں کھینچا گیا ہے.آج تمام دنیا دین سے بے خبر ہے مگر رحمت کے دروازے کھولے گئے ہیں.اور - تفسیر کبیر مصرى الجزء ۶ ص۲۷۶.

Page 537

خطبات محمود جلد (5) ۵۲۶ مامور کے ذریعہ خدا کی رحمت آئی ہے.پس ایک دوسرے سے آگے بڑھ جاؤ.تمام باتوں میں قناعت کرو.مگر نیکی کے حصول میں کبھی قناعت نہ کرو.اور یہ ہرگز مت خیال کرو کہ اب بہت کچھ ہو گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھو کہ دنیا کے متعلق تو یہ کہ مال آتا ہے تو انصار کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے بھائی مہاجرین کو دیدیا جائے.مگر نیکی کے معاملہ میں کبھی یہ نہیں ہوا کہ انصار نے کہا ہو مہاجرین ہی کر لیں یا مہاجرین کہیں کہ انصار ہی کر لیں یا فلاں کرلے.ہم نے بہت کچھ کر لیا ہے.بلکہ ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چندہ کے متعلق فرمایا تو حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے خیال کیا کہ ہمیشہ ابوبکر صدقات میں بڑھ جاتے ہیں.آج میں ان سے بڑھ جاؤں گا.میں اپنا نصف مال لے جاؤں گا.چنانچہ میں اپنا نصف مال لے گیا.مگر حضرت ابوبکر اپنا تمام اثاثہ لے گئے.میں جی میں شرمندہ ہوا ہے.اسی طرح جنگ خیبر کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو خدا سے پیار رکھتا ہے.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ اس سے پہلے کبھی میرے جی میں نہیں آیا تھا کہ نبی کریم کے آگے بڑھ کر بیٹھوں.لیکن اس وقت میں اُچھل کر آنحضرت کے آگے آگرا تا کہ حضور مجھ کو دیکھ لیں کہ میں موجود ہوں.اور شاید جھنڈا مجھے ہی دیدیں سے تو نیکی میں قناعت اور سستی اور کمزوری نہیں ہونی چاہیئے.ہمارا کام نیکی میں بڑھنا ہے.مگر یہ ضرور یادر ہے کہ اسکے ساتھ ریا نہ ہو.بہت سے لوگ اپنے کاموں کا اظہار چاہتے ہیں کہ انکے کاموں کو بار بار سراہا جائے.مگر یہ ایک مرض ہے.جو بہت مخفی ہوتا ہے اور اسکے بڑے خطرناک نتائج نکلتے ہیں.یہ بات مبلغوں میں بھی ہے.وہ رپورٹ لکھ کر بھیجتے ہیں.جب نہ چھپے تو اخبار والوں کو ڈانٹ ڈانٹ کر خط لکھتے ہیں کہ کیا ہما راحق نہیں تھا کہ اخبار میں ہماری رپورٹ چھپتی.واعظوں میں بھی یہ بات ہے.اسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انکے دل کو زنگ لگ جاتا ہے.کئی انجمنیں ہیں جنکی خواہش ہوتی ہے کہ انکے کام کی تعریف کی جائے.وہ اپنے کام کی نمائش کرتی ہیں تا کہ لوگ کہیں کہ انہوں نے بڑا کام کیا ہے.حالانکہ ایسا کر نیوالوں نے کچھ بھی نہیں کیا.دوسروں کو کام پر آمادہ کرنے اور تحریک کیلئے کسی کو اپنا کام دکھانا اور بات ہے.مگر یہ نہ ہو کہ دوسروں کے منہ سے یہ ل : بخاری کتاب مناقب الانصار باب قول النبي اصبر واحتی تلقونی علی الحوض ترمذی کتاب المناقب باب فی مناقب ابی بکر و عمر رضی الله عنهما كليهما - بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر.

Page 538

خطبات محمود جلد (5) ۵۲۷ سننے کیلئے کہ انہوں نے بڑا کام کیا ہے.ایسا کیا جائے.پس مومن کو ریا سے بچنا چاہیئے.خدا کا قرب ایسا نہیں کہ ریا کاری سے میسر آجائے.خدا کے فضل محدود نہیں.وہ بڑا رحیم و کریم ہے.انسان ہی اسکی صفات کا منکر ہے.اس کے فضل اور اسکے انعام اس قدر زیادہ ہیں کہ اگر کوئی انسان اس قدر بھی لے لے کہ اس سے پہلے کسی نے اس کے برابر نہ لیا ہوتو بھی وہ اس سے کم ہے.جتنا ایک چیونٹی سمندر سے پانی بھر کر لے جائے.اللہ کے دروازے ہر ایک کیلئے کھلے ہیں.اس کے انعام اور فضل ہر ایک کیلئے ہیں.دوسری بات یہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ من اور احسان جتلانے سے بہت نقصان ہوتا ہے.خدمت کر کے جتانا اپنے کام کو کھونا ہے.جب انسان احسان جتاتا ہے تو آئندہ اس سے توفیق چھین لی جاتی ہے.لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے.کیا وہ انسان دانا ہے جو بڑی لاگت سے ایک مکان بنائے اور پھر خود ہی اسے دیا سلائی لگا کر جلا دے.مگر بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان سے کوئی غلطی یا قصور ہو جائے.اور اس پر انہیں سزادی جائے تو کہتے ہیں کہ ہم نے دین کی فلاں فلاں خدمت کی ہے مگر ہماری قدر نہیں کی گئی.انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ کوئی کام کرنا الگ بات ہے اور کسی نقص پر سزا دینا یا محاسبہ کرنا یہ بالکل علیحدہ بات ہے.کعب بن مالک کا واقعہ کیسا سبق آموز ہے.وہ تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے.مکہ کی فتح میں بھی ساتھ تھے.مگر غزوہ تبوک میں سُستی سے پیچھے رہ گئے.نبی کریم نے انہیں ایسی سخت سزا دی کہ انکے سلام کا جواب تک نہ دیتے تھے.تمام مسلمانوں کو کلام کرنے سے روک دیا.حتی کہ بیوی کو بھی الگ کر دیا.اسی حالت میں غسان کے بادشاہ کا اینچی ان کے پاس خط لا یا جس میں لکھا تھا کہ تیرے صاحب نے تیری قدر نہیں کی.تو میرے پاس آجا.انہوں نے یہ کہہ کر کہ یہ شیطان کا آخری حملہ ہے خط کو تنور میں ڈال دیا اور ایلچی کو کہا کہ اپنے بادشاہ کو یہ پیغام پہنچا دینا ہے.مگر آجکل کے لوگ ہیں کہ ان سے اگر کچھ باز پرس کی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ ہماری خدمات کا لحاظ نہیں رکھا گیا.ہماری قدر نہیں کی گئی.یاد رکھنا چاہیے کہ انتظام الگ چیز ہے اور کام کرنا الگ چیز اور انتظام قائم رکھنے کیلئے جو غلطی کرتا ہے.اس سے پوچھا جاتا ہے خواہ وہ کوئی ہو.: بخاری کتاب المغازی باب غزوہ تبوک حدیث کعب بن مالک.

Page 539

خطبات محمود جلد (5) ۵۲۸ پس خدا کے حکم کے ماتحت دین کے لئے ایسی کوششیں کرو کہ شیطان کو بھگا دو.مگر اس لئے ہرگز نہ کرو کہ تمہاری تعریف کی جائے.اور کام کر کے یہ مت خیال کرو کہ ہماری غلطیوں پر ہم سے باز پرس نہ کی جائے گی.پھر خدا پر احسان مت جتاؤ من واذی سے کام نہ لو.تمام ذرائع سے اسلام کی خدمت کرو.جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا زمانہ بہتر ہے.پھر جو اسکے بعد آئے.پھر جو اسکے بعد اے.اسی طرح حضرت مسیح موعود کے متعلق ہے کہ سب سے بہتر زمانہ حضرت مسیح موعود کا تھا.پھر وہ جو آپ کے بعد آئے.پھر جو اسکے بعد آئے.آج کے بعد اگلا دن اس سے بہتر نہیں ہوگا.اور پرسوں کل سے بہتر نہیں ہوگا.اور نبی سے جتناز مانی بعد ہوتا جائے گا.اتناہی استباق فی الخیرات میں کمی آتی جائے گی.لفظ خیرات میں ایک اور بات بھی رکھی گئی ہے.اگر صرف لفظ خیر ہوتا تو اس میں وسعت پیدا نہ ہوتی.کیونکہ پیاسے کو پانی پلانا بھی ایک نیکی ہے.مگر یہاں لفظ خیرات رکھا گیا جو نیکی کی ہر قسم پر حاوی ہے.تو فرمایا.فَاسْتَبِقُوا الخيرات.کیونکہ اسلام انسان کو ہر طرح کامل بنانا چاہتا ہے.خیر سے صرف ایک نیکی معلوم ہوتی ہے.مگر خیرات میں ہے کہ تبلیغ کرو.مال بھی لاؤ.جان بھی دو.اسوقت تلوار کی ضرورت نہیں.حسنِ اخلاق سے کام لو.خدا نے صرف ایک لفظ خیرات رکھ کر معانی میں اس قدر وسعت پیدا کر دی ہے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو فائدہ اٹھانے کی توفیق دے.اس میں من واذی نہ ہو.ہم سمجھ لیں کہ اگر ہم کوئی کام کرتے ہیں تو خدا پر کوئی احسان نہیں کرتے.بلکہ یہ اس کا ہی ہم پر احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس کام کے کرنے کا موقع دیا.اللہ تعالیٰ کے فضل ہمارے شامل حال ہوں.الفضل ا ر ا گست ۱۹۱۷ء) بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم

Page 540

۵۲۹ 69 خطبات محمود جلد (5) اسلام کی وجہ سے کوئی شرمندہ نہیں ہوسکتا (فرموده ۳ / اگست ۱۹۱۷ء) حضور نے تشہد وتعوّذ اور سورۃ فاتحہ تلاوت فرمانے کے بعد فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل اور بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے اپنے فضل وکرم سے ہمارے لئے ایک ایسا دین نازل فرمایا ہے کہ جس پر چلنے کی وجہ سے ہمیں کسی مجلس اور کسی مقام پر کسی تذکرہ کے دوران میں اس طرح ذلّت نہیں اٹھانی پڑتی جس طرح دوسرے لوگوں کو جنہوں نے اپنے عقلی ڈہکونسلوں سے مذہب بنائے ہیں.یا الہی مذہب کو اپنی تحریفات سے گھنا ؤ نا بنا دیا ہے.اگر ہم بھی اسلام کو ایسا ہی کر دیتے یا اسلام ایسا ہی ہوتا تو ہمیں بھی ہر مقام پر شرمندہ ہونا پڑتا.مگر اسلام کی کوئی بات ایسی نہیں جس پر وہ شخص جو عقل رکھتا ہو.ضد و تعصب سے الگ ہو.اعتراض کر سکے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم الحمد سے شروع کیا گیا ہے.یعنی قرآن کی کوئی تعلیم ایسی نہیں.جس پر ایک قرآن کے بچے پیرو کو شرمندہ ہونا پڑے.اور اسکے منہ سے خدا کی تعریف نہ نکلے.اگر کوئی اعتراض کرے تو اسکا زبردست جواب بھی اسی جگہ ملے گا.قرآن کو لیکر دہریوں میں چلے جاؤ.قرآن کو لیکر عیسائیوں اور یہودیوں میں چلے جاؤ قرآن کو لیکر سکھوں اور آریوں میں چلے جاؤ.غرض قرآن کو لیکر تمام مذاہب کے پاس چلے جاؤ.کہیں بھی اسکی کسی تعلیم کی وجہ سے تم شرمندہ نہیں ہوسکو گے.کیوں؟ اس لئے کہ اس کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایسی کامل تعلیم رکھی ہے اور ایسے پاک اور اعتراضوں سے بالا مسائل بیان فرمائے ہیں کہ ان پر کوئی اعتراض ہو ہی نہیں سکتا.اسلام کے خطرناک دشمن بیسیوں سال کی کوشش اور تلاش کے بعد کوئی اعتراض کرتے ہیں.مگر

Page 541

خطبات محمود جلد (5) ۵۳۰ اس چھوٹی سی کتاب میں اس کا رڈ موجود ہوتا ہے.پھر کسی لمبی تحریر کی ضرورت نہیں ہوتی.اس کے اشاروں میں ہی وہ بات حل ہوتی ہے.پس اسلام ہی ایک ایسا پاک مذہب ہے کہ اسکے کسی عقیدہ کو بیان کرتا ہوا انسان کہیں شرمندہ نہیں ہو سکتا.عبادات کے بیان میں شرمندگی نہیں.عقائد ایسے صاف اور پر حکمت ہیں کہ ان کے بیان کرنے میں ہمیں ایک ذرہ بھر شرمندگی نہیں.اعمال کو لو یا کسی اور تعلیم کولو.خدا کے ساتھ انسان کے کیسے تعلقات ہوں.بڑوں کے ساتھ کیسے تعلقات ہوں.اور چھوٹوں کے ساتھ کیسے.اسی طرح سیاسی تعلیم کو لو.غرض کسی پہلو کی تعلیم ہو.دشمن کو اس پر اعتراض کرنے کی گنجائش نہیں ہے.لیکن دیگر مذاہب کی یہ حالت نہیں بلکہ اسکے برعکس ہے.وہ اپنی تعلیم کو سمجھدارلوگوں کے سامنے پیش نہیں کر سکتے.انکی باتیں لوگوں کو ان پر ہنسی کا موقعہ دیتی ہیں.مثلاً عیسائی ہیں وہ کہتے ہیں کہ باپ.بیٹا.روح القدس تینوں مل کر ایک خدا ہوئے اور تینوں الگ الگ بھی خدا ہیں.مگر یہ کہاں کا حساب ہے کہ تین مل کر ایک ہوتا ہے؟ کیونکہ کسی کی عقل میں اس کی بات کا آنا تو الگ رہا.خود اسکی عقل میں بھی نہیں آسکتی اور کسی طریق سے ثابت نہیں کیا جاسکتا.غرض ہر مجلس میں خواہ وہ عالموں کی ہو یا جاہلوں کی.انکی اس بات پر ہنسا جائے گا.اسی طرح ہندو مذہب والا ہے.وہ بھی اپنے مذہب کے عقائد کو صاف طور پر اور بلا کسی قسم کی ہچکچاہٹ کے بیان کر سکے یہ ممکن نہیں.مثلاً تناسخ کا مسئلہ ہے یا نیوگ کا.جب نیوگ کا مسئلہ اوّل اوّل ظاہر کیا گیا تو آریوں نے اس پر بڑا فخر کیا.مگر جب حضرت مسیح موعود نے اسکی حقیقت کھول کر رکھ دی تو اب اس پر کبھی تقریر نہیں کرتے اور نہ اسے علی الاعلان پیش کرتے ہیں.مگر اسلام کی کوئی ایسی تعلیم نہیں ہے جسکو چھپانے کی ضرورت پڑے.یا جس کے اظہار پر شرمندگی دامنگیر ہو.دوسرے مذاہب کو یہ فخر حاصل نہیں ہے.مفتی صاحب نے ایک پادری کے متعلق لکھا ہے کہ اس سے میری گفتگو ہو رہی تھی.اور وہ رومن کیتھولک تھا.اس گفتگو کوٹن کر ایک دوسرا شخص مفتی صاحب

Page 542

خطبات محمود جلد (5) ۵۳۱ کو الگ لے گیا.اور کہا کہ آپ نے اس پادری کی خوب خبر لی ہے.مگر میں آپ کو ایک بات کہنا چاہتا ہوں.اور وہ یہ کہ آپ جانتے ہیں.یسوع بے گناہ تھے.اور باقی سب انسان گنہگار تھے.اس لئے گنہگار کی نجات بے گناہ کے ذریعہ ہی ہو سکتی ہے.مگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) گناہ گار تھے.انکے ذریعہ تو نجات ہو نہیں سکتی.اس لئے نجات دہندہ یسوع ہی ہوا.اس پر مفتی صاحب نے وہی حربہ چلا یا جو ہمارا مشہور حربہ ہے کہ آپ یہ بتائیں کہ آدم نے جو گناہ کیا اس کا ذریعہ حوا ہوئی تھی یا نہیں؟ اور اگر مرد حضرت آدم کی اولاد ہونے کی وجہ سے گنہگار ہیں تو عورت جو حوا کی قائم مقام ہے کیوں گنہگار نہیں.پس مسیح صرف عورت کے بطن سے ہونے کی وجہ سے ضرور گنہگار ہوئے مفتی صاحب کا یہ کہنا تھا کہ وہ سرپٹ دوڑا.مفتی صاحب لکھتے ہیں کہ میں بھی اسکے پیچھے پیچھے چلا.وہ ایک مجمع میں جا گھسا اور بمنت کہنے لگا.آپ جانے دیجئے.ایک اور پادری صاحب کے متعلق مفتی صاحب نے مزیدار گفتگو کھی ہے جو بالکل لا جواب ہو گیا.تو یہ بہت بڑا فرق ہے.اسلام اور دوسرے مذاہب میں.دیکھو وہی یورپ جو زمین و آسمان کے قلابے ملا رہا ہے.اور جس نے ہمارے جاہل.نادان اور وحشی نام رکھے ہیں جو دنیاوی علوم میں ہمیں بہت عرصہ تک بہت کچھ سکھا سکتا ہے.مگر وہی کتاب جس کو نادانوں نے تیرہ سو برس کی پرانی کتاب کہا.جب وہ لیکر ہم اہلِ یورپ کے سامنے جاتے ہیں تو اس کو ادب کے ساتھ اپنے زانو ہمارے سامنے نہ کرنے پڑتے ہیں.اور جو دنیاوی علوم میں ہمارے استاد بنتے ہیں دینی علوم میں اس کتاب کے ذریعہ ہمارے شاگرد بننے پر مجبور ہو جاتے ہیں.پس اسلام اور قرآن کی کوئی بات حمد سے خالی نہیں.یہی وجہ ہے کہ قرآن کو الحمد سے شروع کیا گیا ہے.واقعہ میں کوئی شخص قرآن کو ہاتھ میں لے کرنا کام اور نامراد نہیں ہوسکتا.مگر افسوس کہ مسلمانوں نے اسکو چھوڑ دیا.اب حضرت مسیح موعود کا طفیل ہے کہ ہمیں قرآن کا علم ملا ہے.ورنہ پہلے قرآن ہی تھا کہ جسے مولویوں نے غیروں کو دکھانے تک سے منع کر دیا تھا تا کہ نہ کوئی دیکھے اور نہ ان سے کچھ پوچھے.اور اگر کوئی مسلمان بھی پوچھتا تو بجائے اسکے کہ اسے جواب دیتے کہتے

Page 543

خطبات محمود جلد (5) کہ تو کا فر ہو گیا ہے.۵۳۲ یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے ہمیں ایسا دین عطا فرمایا جس کی طرف منسوب ہونے سے ہم شرمندہ نہیں ہیں.پھر اس کا یہ بہت بڑا فضل ہے کہ اس نے ہم میں ایک انسان مبعوث فرمایا جس نے اس کے مغز کو بتایا.اور جس کے باعث ہم ہر جگہ کامیاب ہیں.الفضل ۱۸ اگست ۱۹۱۷ء)

Page 544

۵۳۳ 70 خطبات محمود جلد (5) اللہ کی راہ میں خرچ کرو (فرموده ۱۰ اگست ۱۹۱۷ء) حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی.مثل الذين ينفقون اموالهم فى سبيل الله كمثل حَبَّةٍ انبتت سبع سنابل في كل سنبلة مائة حبة ط والله يضعف لمن يشاء والله واسع (البقرہ:۲۶۲) عليم.بعد ازاں فرمایا:- اللہ تعالیٰ کی یہ سنت قدیم سے چلی آتی ہے کہ وہ اپنے بندوں کی ترقی مدارج کے لئے زیادہ سے زیادہ سامان پیدا کرتا رہتا ہے.خدا تعالیٰ کسی بات کا محتاج نہیں.وہ منی ہے.ہاں لوگ اسکے محتاج ہیں.پس وہ بندوں کو اگر کوئی کام کرنے کا موقعہ دیتا ہے تو اس لئے نہیں کہ اس کو ضرورت ہے.بلکہ وہ ان پر رحم کرنا چاہتا ہے.اس سنت کے ماتحت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی آتے رہے ہیں.اور وہ دو قسم کے تھے.اول وہ جو ایک ستون کے طور پر ہوتے تھے کہ عمارت کے قیام اور سہارے کیلئے ان کو نیچے کھڑا کر دیا جاتا تھا.مثلاً حضرت داؤ د اور حضرت سلیمان علیہما السلام وغیرہ.ان کے سپر دصرف جماعت کو سنبھالنے کا کام ہوتا تھا.لیکن جو دوسری قسم کے انبیاء ہوتے ہیں.ان کو نئے سرے سے جماعت قائم کرنا پڑتی تھی.مثلاً حضرت مسیح ناصری، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ہمارے حضرت مسیح موعود.ان کی ابتداء ایسی ہوتی ہے کہ دنیا انکو دیکھ کر خیال نہیں کر سکتی کہ یہ لوگ بھی دنیا کے لئے کچھ مفید ثابت ہوں گے.مگر خدا ان کے ذریعہ دنیا کی حالت کو درست کر دیتا ہے.

Page 545

خطبات محمود جلد (5) ۵۳۴ اور ان انبیاء کو کمزوری کی حالت سے بلندی کی طرف لے جاتا ہے.اس وقت دنیا معلوم کرتی ہے کہ خدا ہے.جس کے آگے کوئی کام ان ہونا نہیں.ثواب کا اعلیٰ موقعہ : ایسے انبیاء کے وقت انکی اُمتوں کو موقعہ دیا جاتا ہے کہ وہ جس طرح بھی ہو سکے دین کی خدمت کریں.چونکہ وہ وقت تعمیر قوم کا وقت ہوتا ہے اس لئے لوگوں کو مقابلہ کا موقعہ دیا جاتا ہے.اور وہی ثواب کا وقت ہوتا ہے.کیونکہ ابتداء میں جبکہ انبیاء کمزور نظر آتے ہیں جو لوگ ان کو قبول کرتے ہیں وہ سب انعام کے وارث ہو جاتے ہیں.وہ لوگوں کو ایمان کی طرف بلاتے ہیں اور ایمان کے ساتھ ان کو روحانی طاقت وقوت ملتی ہے.یہ محض خدا کا فضل ہے.اور انسان کا اس میں نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہے.یہی وجہ ہے کہ انسان خدا کی راہ میں خرچ کر کے ضائع نہیں کرتا.بلکہ اس کو اور زیادہ ملتا ہے.صحابہ کرام کی مثال : صحابہ رضوان اللہ علیہم نے اپنے وطن کو چھوڑا ان کو ان کے وطن سے بہتر وطن ملا.مکان چھوڑے ان سے بہتر مکان ملے.بہن بھائی چھوڑے انکو بہتر بہن بھائی ملے.اور انہوں نے اپنے ماں باپ کو چھوڑا انہیں کروڑوں ماں باپ سے بہتر محبت کر نیوالے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مل گئے.تو خدا کی راہ میں چھوڑنے والا ضائع نہیں کرتا بلکہ اسکو بہت بہت بڑھ چڑھ کر واپس ملتا ہے.یہ آیت جو میں نے پڑھی ہے اسمیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مثل الذين ينفقون فى سبيل الله كمثل حبّة انبتت سبع سنابل في كل سنبلة مائة حبّة ط والله يضعف لمن يشاء والله واسع علیم.خدا کے رستے میں جس طرح اور چیزیں خرچ کی جاتی ہیں.اسی طرح مال خرچ کرنے کے بھی موقعے پیش آتے ہیں.لیکن کسی کو مال پیارا ہوتا ہے.کسی کو جان عزیز ہوتی ہے.کسی کو عزت و آبرو کا پاس ولحاظ ہوتا ہے.اس لئے مومن کی ہر طرح کی آزمائش ہوتی ہے.اور جس طرح کا انسان ہو اسکی اسی طرح کی آزمائش ہوتی ہے.اگر کسی کو مال پیارا ہو تو وہ مال خرچ کرے.اگر کسی کو جان عزیز ہوتو وہ جان کو قربان کرے تا کہ معلوم ہو کہ اس کا ایمان اس قدر مضبوط ہے کہ خدا کی راہ میں پیاری سے پیاری چیز خرچ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا.

Page 546

خطبات محمود جلد (5) ۵۳۵ خدا تعالیٰ کی راہ میں دیا ہوا کس قدر بڑھتا ہے: خدا تعالیٰ فرماتا ہے:مثل الذین ينفقون (الآیۃ ) وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں انکی مثال ایسی ہے جیسے کہ کوئی دانہ کھیت میں ڈالا جائے اور وہ دانہ سات بالیں نکالے اور ہر بال میں سنتو دانہ ہو گویا ایک دانہ سے سات سو گنا پیدا ہوا.یہ ایک مثال ہے.ورنہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے والله يضعف لمن یشاء اللہ تعالیٰ اس سے بھی بڑھا کر دیتا ہے اور اس سے بھی زیادہ بڑھا تا ہے.خدا کی طرف سے دینے میں بخل تو تب ہو جبکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی چیز کی کمی ہو.واللہ واسع.اللہ بڑی وسعت بڑی فراخی والا ہے.اور پھر اللہ علیم ہے وہ جانتا ہے کہ یہ شخص کس قدر انعام کا مستحق ہے.اگر کوئی کروڑوں گنے کا بھی مستحق ہو تو بھی اللہ تعالیٰ اس کے خرچ کئے ہوئے کو اس کے لئے بڑھا دیگا.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب زمیندار دانہ زمین میں ڈال دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسکو بڑھا کر دیتا ہے تو جو شخص اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا کیسے ممکن ہے کہ اس کا خرچ کیا ہوا ضائع جائے.اللہ کی راہ میں خرچ کئے ہوئے کا تو کم از کم سات سو ملتا ہے اور اس سے زیادہ کی کچھ حد بندی ہی نہیں.اگر انتہائی حد مقرر کر دی جاتی تو اللہ تعالیٰ کی ذات کو بھی محدود ماننا پڑتا.جو خدا تعالیٰ میں ایک نقص ہوتا.اس لئے فرمایا کہ تم خدا کی راہ میں ایک دانہ خرچ کرو گے تو کم از کم سات سو دانہ ملے گا.اور زیادہ کی کوئی حد نہیں جتنا بھی مل جائے تو خوب یا درکھو کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ضائع کرنا نہیں بلکہ بڑھانا ہے.حضرت مسیح ناصری نے فرمایا ہے کہ اپنے مال کو وہاں جمع کرو جہاں کوئی چور چرا نہیں سکتا.اور غلہ کو وہاں رکھو جہاں کوئی کیڑا کھا نہیں سکتا !.یہ حضرت مسیح نے اپنے رنگ میں اچھی بات کہی ہے.مگر قرآن کریم ان سے بڑھ کر کہتا ہے.انہوں نے صرف یہ فرمایا ہے کہ تم اگر خدا کے خزانہ میں جمع کرو گے تو کوئی چرا نہیں سکے گا.لیکن قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر تم خدا کے خزانہ میں جمع کرو گے تو یہی نہیں کہ کوئی اس کو چرائے گا نہیں بلکہ امتی ۲/۲۰

Page 547

خطبات محمود جلد (5) ۵۳۶ تمہیں کم از کم سات سو گنا ہو کر ملے گا.اور اس سے زیادہ کی کوئی حد بندی نہیں.پھر حضرت مسیح کہتے ہیں کہ وہاں غلہ کوکوئی کیڑ انہیں کھا سکتا.مگر قرآن کہتا ہے کہ صرف کیڑے سے ہی محفوظ نہیں رہتا.بلکہ ایک سے سات سو گنا بڑھ بھی جاتا ہے.ہمیں کیا کرنا چاہیے: ہمارا زمانہ ایسی قربانی کا نہیں کہ جنگ کریں اور جان دیں.ہاں اس طرح جانی قربانی بھی ہو سکتی ہے کہ کوئی محض اپنا وقت خرچ کرے محنت اٹھائے.یا جس طرح ہمارے دو بزرگ کابل میں مارے گئے یا بعض کو اپنے وطن چھوڑنے پڑے اور یہاں آکر آباد ہوئے.یہاں کیلئے برکتوں کا وعدہ ہے مگر اس میں اس طرح ہجرت کر کے آنا جس طرح مدینہ میں حکما ہجرت کرنا پڑی تھی فرض نہیں ہے.ہاں اگر کوئی ہجرت کر کے آئے تو اس کے لئے بہت برکت کا موجب ہوگا.پس خوب یا درکھو اس وقت صرف ایک ہی راستہ کھلا ہے.اگر وہ بھی بند ہو گیا تو پھر کوئی رستہ نہیں جس سے تمہیں دین کی خدمت کے لئے بلایا جائے.حضرت صاحب نے ایک کام شروع کیا اسکی مدد کرنا ہمارا فرض ہے.آپ نے براہین احمدیہ حصہ پنجم میں لکھا ہے کہ ہم نے جو دینی اور تبلیغی کام شروع کئے ہیں ہماری جماعت کا فرض ہے کہ چندوں سے اسکی مدد کرے.کیونکہ اس لئے کہ آپ کے وقت میں بڑی خدمت روپیہ کا خرچ کرنا ہی ہے.اسی لئے حضرت مسیح موعود نے ان شرائط کے علاوہ جو شریعت نے مقرر کی ہیں صرف چندوں کے متعلق ہی لکھا ہے کہ جو شخص تین مہینہ تک چندہ نہ دے وہ میری جماعت سے نہیں ہے.تو آجکل جان نہیں مانگی جاتی.مہینہ کے بعد چندہ طلب کیا جاتا ہے.کیونکہ آجکل یہی کامیابی کا ذریعہ ہے.غور کر و حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صرف ایک آدمی تھے.مگر خدا نے انکو اس قدر برکت دی.اب آپ کے نام پر فدا ہو نیوالے کتنے ہیں.اور دین کی خدمت کرنے والے کس قدر.اس میں شک نہیں کہ ہماری جماعت دین کی خدمت کے لئے جو کچھ کر رہی ہے وہ دوسروں کے مقابلہ میں بہت بڑھ کے ہے.لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ اس قدر ہے جس قدر کہ ہماری جماعت کو کرنا چاہئیے.اس کے متعلق کہنا پڑتا ہے کہ دوسرے مذاہب

Page 548

خطبات محمود جلد (5) ۵۳۷ کے مقابلہ کے لئے جس جد و جہد کی ضرورت ہے اس سے اب تک کام نہیں لیا گیا.یہ سچ ہے کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات.مگر کوئی ہونہار بروا دیکھ کر پانی دینا چھوڑ دے کہ بس اب کیا کرنا ہے تو یہ اس کی نادانی ہے.حضرت مسیح موعود نے ایک جگہ پر لکھا ہے کہ وہ وقت آتا ہے جب کہ جس طرح خدا ایک ہے.اسی طرح زمین پر بھی ایک ہی دین ہوگا.مگر غور کرو کہ دنیا کے مقابلہ میں ہماری کیا تعداد ہے.پنجاب میں سینکڑوں گاؤں ایسے ہیں کہ وہاں کوئی احمدی نہیں.ہندوستان میں بہت کثرت سے گاؤں ہیں جہاں احمدیت کا کوئی نام تک نہیں جانتا یورپ تو قریبا سارا ہی خالی ہے.ہماری دوسروں کے مقابلہ میں وہ جو آٹے میں نمک کی مثال بیان کیا کرتے ہیں وہ بھی نہیں ہے.تو ابھی ہماری مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ چھوٹا پودا جس کو ذراسی طاقت سے بھی اکھاڑ کر باہر پھینک دیا جا سکتا ہے.لیکن جب وہ درخت بڑھ جاتا ہے تو پھر بڑی بڑی طاقتیں بھی اس کو اسکی جگہ سے جنبش نہیں دے سکتیں.اس لئے اس وقت بہت کوشش کی ضرورت ہے.پس وہ اقرار جو ہم نے حضرت مسیح موعود کے ہاتھ پر کئے.ان کے پورا کرنے کا اب وقت ہے.ہم نے وعدہ کیا ہے کہ جس چیز کی بھی ضرورت ہوگی ہم اسلام کی راہ میں صرف کریں گے اگر مال کی ضرورت ہوگی تو مال اگر جان مطلوب ہوگی تو اس کے خرچ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا.اب جان کا وقت نہیں.ہاں مال کی ضرورت ہے.سو اسکے متعلق یہ مت خیال کرو کہ اگر خدا کی راہ میں صرف کرو گے تو وہ ضائع ہو جائے گا.نہیں ضائع نہیں ہوگا.بلکہ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مثل الذين ينفقون في سبيل الله كمثل حبة انبتت سبع سنابل فى كل سنبلة مائة حبة ط کہ تم جو اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے وہ ضائع نہیں جائے گا.بلکہ بہت بڑھایا جائے گا.پس اس کام کی اہمیت اور عظمت کو سمجھو اور خدا کی راہ میں قربانی کرو.اگر تم پوری طاقت اور کوشش سے اس راہ میں قدم نہیں بڑھاؤ گے تو جو کچھ اب تک کر چکے ہو وہ بھی ضائع ہو جائے گا.اب یہ درخت زمین سے کسی قدر بلند ہو گیا ہے اگر تم نے اس سے بے اعتنائی کی تو ضائع ہو جائے گا.پس دوسروں کی نسبت ہماری حالت خطرناک ہے.ہمارے لئے بہت احتیاط کی

Page 549

خطبات محمود جلد (5) ۵۳۸ ضرورت ہے.دنیا نے اس خدمت کو رڈ کیا مگر خدا نے اسے ہمارے سپر د کیا.پس ایسا نہ ہو کہ ہم نالائق ثابت ہوں.اب بیٹھنے کا وقت نہیں اور نہ ہی پیچھے ہٹنے کا وقت ہے.ہم جو قدم آگے بڑھاتے ہیں اس کے پیچھے دیوار کھڑی کر دی جاتی ہے.اور جتنے بڑھتے ہیں ہمارے پیچھے کنویں کھود دیئے جاتے ہیں.اس لئے ہم پیچھے نہیں ہٹ سکتے.ہم اسی قدر کوشش اور سعی کرنے کے ذمہ دار ہیں جس قدر ہم کر سکتے ہیں.زیادہ کا ہم سے مطالبہ نہیں کیا جائے گا.آگے اللہ تعالیٰ خود ذمہ دار ہے.ہماری جماعت کو یہی حکم ہے کہ جس قدروہ کر سکے دین کی راہ میں خرچ کرے.قادیان کی جماعت اس وقت سب سے پہلے میری مخاطب قادیان کی جماعت ہے.کیونکہ وہ ان برکتوں سے حصہ لینے والے لوگ ہیں جو قادیان میں رکھی گئی ہیں.اور وہ بہت فیضان حاصل کرتے ہیں.دین کی معرفت کی باتیں جو انہیں معلوم ہوتی رہتی ہیں وہ دوسروں کو نہیں.سلسلہ کی دینی سیاست کے متعلق جو یہاں کے احباب سے مشورے لئے جاتے ہیں وہ باہر کے دوستوں سے نہیں کئے جاسکتے.اس لئے جہاں برکات سے زیادہ حصہ یہاں کی جماعت کے لوگ پاتے ہیں.وہاں ضروری ہے کہ دین کی خدمات میں بھی یہ باہر کے لوگوں سے زیادہ حصہ لیں.اور زیادہ قربانی کر کے دکھلائیں.پس چاہیئے کہ یہ لوگ باہر کے لوگوں کے لئے نمونہ بنیں.میں نے قرضہ صدر انجمن کیلئے سالانہ جلسہ کے موقع پر جماعت کو توجہ دلائی تھی.سوخدا کے فضل سے وہ قرضہ قریبا اتر گیا ہے.لیکن ایک حصہ اور ہے جو توجہ چاہتا ہے.یہاں پر جو کام ہو رہے ہیں ان کے دو حصہ ہیں ایک تو وہ جو قادیان میں ہی جاری ہیں.مثلاً لنگر ہے.مدرسہ ہے.ریویو ہے.وغیرہ.یہ سب کام صدر انجمن کے سپرد ہیں.دوسرا کام بیرونی تبلیغ ہے.یہ ترقی اسلام کے سپرد ہے.تبلیغ کا کام بڑے پیمانے پر وسیع ہو رہا ہے.اس لئے ترقی اسلام کی انجمن مقروض ہوتی جارہی ہے باہر نئی جماعتیں قائم ہو رہی ہیں.ان کے لئے ابتداء خرچ کی ضرورت ہوگی پھر خدا کے فضل سے ان پر خرچ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی.اور وہ نہ صرف اپنا خرچ آپ برداشت کریں گی بلکہ دوسروں کے لئے خرچ کرنے میں مدد دیں گی.انگلستان.ماریشس.سیلون.سیرالیون میں اس وقت جماعتیں بن رہی ہیں.اور جنگ کی وجہ سے ہمارے جو دوست

Page 550

خطبات محمود جلد (5) ۵۳۹ ایران میں ہیں ان کے ذریعہ وہاں بھی بیج بویا گیا.برما میں بھی جماعت قائم ہوگئی ہے.ان کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے.مگر یورپ کے عیسائی یا آریہ یا غیر احمدی وغیرہ لوگ تو حضرت مسیح موعود کا نام پھیلانے کے لئے خرچ کرنے نہیں آئیں گے.اگر کوئی خرچ کرے گا تو وہ احمدی جماعت کے لوگ ہی ہوں گے.تو ضروریات بڑھتی جا رہی ہیں خدا کے کام ہو کر رہیں گے.مگر جو تم خرچ کرو گے وہ ضائع نہیں ہوگا.جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ اس کا خدا کی راہ میں خرچ کیا ہوا ضائع ہو جائے گا وہ غلط خیال رکھتا ہے.اور اس کے لئے بہتر تھا کہ وہ پیدا ہی نہ ہوا ہوتا.اس کی موت اس کی ایسی زندگی سے بہتر ہے.مومن خدا کی راہ میں خرچ کر کے ایک کے بدلے میں کم از کم سات سو پائے گا.یہ جہان ختم ہو جائے گا.مگر اگلا جہان ختم ہونے والا نہیں.اس لئے خدا کے انعام بھی ختم ہونے والے نہیں.وہ شخص جو اس دنیا میں خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے سے دریغ کرتا ہے مال اس کے کام نہیں آئے گا.جب دفن کر کے آئیں گے تو خزانہ بھی اس کے ساتھ دفن نہیں کر دیں گے.اور اگر ایسا کر بھی دیں تو اسے فائدہ کیا ہوسکتا ہے.پس سوچنا چاہیئے کہ وہ وقت جبکہ ماں باپ بہن بھائی تک جواب دیدیں گے اور ہر ایک کو اپنی اپنی ہی پڑی ہوگی.اس وقت اگر کام آئے گا تو یہی اپنا خرچ کیا ہوا جو کہ خدا کی طرف سے بے شمار ہو ہو کر واپس ملے گا.یوم یفرّ المرء من اخیہ وامہ و ابیہ وصا حبتہ و بنیہ لکل امرئ منهم يومئذ شان یغنیه (عبس : ۳۵ تا ۳۸) وہ ایسا وقت ہوگا کہ کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا.ہر ایک شخص اپنی فکر میں ہوگا.پس دین کی خدمت کی طرف توجہ کرو میں نے تحریک کی تھی کہ ہماری جماعت کا ایک سو آدمی سوسو روپیہ دے.تا کہ تبلیغ ولایت کا کام چلے.چنانچہ احباب نے وہ دیا.اب وہ روپیہ ختم ہو گیا ہے.اور ضروریات در پیش ہیں.پس یہاں کے لوگ بھی جلسہ کریں اور باہر کی جماعتیں بھی جلسہ کریں.اب فضل کے دروازے کھولے گئے ہیں.جس قدر خرچ کر سکتے ہو کر دو ورنہ وقت آئے گا کہ لوگ خرچ کرنا چاہیں گے مگر ان کے لئے

Page 551

خطبات محمود جلد (5) ۵۴۰ خرچ کا موقعہ نہیں ہوگا.ابتداء ہی انعام کا موقعہ ہوتا ہے.آج تو ہم دین کے لئے مانگنے جاتے ہیں.پھر لوگ دینے آئیں گے مگر لینے والوں کو ضرورت نہ ہوگی.تو سب سے پہلے قادیان کی جماعت نمونہ دکھائے.جہاں تک ہو سکے کرے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ اس کام کی اہمیت کو سمجھ لیں یہ خطرناک وقت ہے.خدا وند تعالیٰ ہمیں اس میں کامیاب ہونے کی توفیق دے اور اپنے فضل سے کامیابی کا منہ دکھائے.آمین.الفضل ۲۵ / اگست ۱۹۱۷ء)

Page 552

۵۴۱ 71 خطبات محمود جلد (5) فتنہ سے بچو کیونکہ یہی ہلاکت کی راہ ہے فرموده ۲۴ را گست ۱۹۱۷ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: يايها الذين أمنوا اتقوا الله حق تقته ولا تموتن الا وانتم مسلمون ) واعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا واذكر وا نعمة الله عليكم اذ كنتم اعداء فالف بين قلوبكم فاصبحتم بنعمته اخوانا و کنتم على شفا حفرة من النار فانقذ كم منها كذلك يبين الله لكم اياته (آل عمران : ۱۰۳، ۱۰۴) لعلكم تهتدون بعد ازاں فرمایا:- میری طبیعت چونکہ کچھ دنوں سے بیمار ہے اسلئے میرا ارادہ ہے کہ اس آنے والے ہفتہ میں چند دنوں کے لئے تبدیل آب و ہوا کے لئے باہر چلا جاؤں آج بھی طبیعت صاف نہ تھی حلق کی بیماری جس کے علاج کیلئے دو سال ہوئے لاہور جانا پڑا تھا پھر شروع ہوگئی ہے تھوڑا سا بولنے میں بھی درد ہونے لگتا ہے.تپ بھی ہو جاتا ہے.کمزوری ایسی ہوگئی ہے کہ یہاں تک چل کر آیا ہوں.تپ ہو گیا ہے.لیکن خدا نے انسان کو کچھ قواعد کے ماتحت بنایا ہے.جن قواعد کے ماتحت انسان ہو.ان قواعد کی پابندی ہر انسان کو ضروری ہے.جس کام کیلئے خدا نے مجھ کو کھڑا کیا ہے میرے لئے بہر حال ضروری ہے کہ اس کا خیال رکھوں.پس میں نے ضروری سمجھا کہ میں آج جمعہ کے دن آپ لوگوں کو کچھ سمجھاؤں اور بیرونی جماعتوں

Page 553

خطبات محمود جلد (5) ۵۴۲ کو یہ باتیں اخبار کے ذریعہ پہنچ جائیں گی.دنیا میں فتنہ وفساد کے نمونہ اس قدر ملتے ہیں کہ ان کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں وہ خود متوجہ کرتے ہیں.کون سا ملک ہے جہاں فتن و فساد کے نمونہ نہیں اور جس کو فتنہ و فساد نے تباہ نہیں کیا.وہ کون سا مذہب ہے جس کی ہلاکت کا باعث تفرقہ نہیں ہوا.ہر انسان کے لئے خواہ وہ کسی قوم و مذہب یا ملک سے تعلق رکھتا ہوا اسکے تلخ نمونہ موجود ہیں یعنی وہ نصیحت پکڑ سکتا ہے مگر باوجود اس کے کہ ہر جگہ نمونہ موجود ہیں ۹۹ فیصدی ایسے انسان ملتے ہیں جو فتنہ و فساد سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے.خود مسلمانوں نے ہی اس فتنہ و فساد کے باعث وہ تلخ جام پیا کہ ایک در در کھنے والا ان واقعات کو پڑھ کر برداشت نہیں کر سکتا کہ آنسوؤں کو تھام سکے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر قائم ہو نیوالی جماعت جس نے ایثار کے ایسے نمونے دکھائے کہ کوئی کیا دکھا سکے گا.جنہوں نے تمام چیزوں کو لات مار دی.مال انہوں نے چھوڑ دیئے جانوں کی انہوں نے پرواہ نہ کی.وطن سے وہ نکل گئے.رسم و رواج کو انہوں نے مٹا دیا.اپنے خیالات اور جذبات کو انہوں نے ترک کر دیا.ہر ایک وہ چیز جو ان کو پسند تھی اسکو خدا کی راہ میں قربان کر دیا.درمیان میں انہوں نے کوئی بات نہ رہنے دی گویا وہ مٹ گئے.خدا ہی خدا باقی رہ گیا.خدا موجود تھا ان کا کچھ باقی نہیں رہا.یہی تو حید ہے اور یہی توحید پر ایمان لانا.منہ سے تو عیسائی بھی کہتے ہیں کہ ہم توحید پرست ہیں.عیسائی مسلمانوں کو الزام دیتے ہیں کہ مسلمان مشرک ہیں اپنے ملک میں یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف جب لوگوں کو نفرت دلاتے ہیں تو یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلمان مشرک ہیں حالانکہ تثلیث کو پوجنے والے عیسائی خود ہیں.اور منہ سے تو وہ قوم بھی جو تینتیس ۳۳ کروڑ دیوتا پوجنے والی قوم ہے یہی کہتی ہے کہ ہماری قوم موحد ہے اور شرک بُری چیز ہے زرتشتی سمندر کے پاس جا کر اس کو سجدہ کریں گے.آگ کو سجدہ کرتے سورج سے دعائیں مانگتے ہیں.لیکن ان کے دستور جس وقت ممبر پر کھڑے ہوں گے یہی کہیں گے کہ شرک بُری چیز ہے اور خدا صرف ایک ہی ہے.

Page 554

خطبات محمود جلد (5) ۵۴۳ پس حقیقت میں خدا کا ایک ماننا کیا ہے کہ درمیان سے اپنے آپ کو مٹا ڈالے عملی توحید ہی اصلی چیز ہے.انسان کا نفس اس کو خدا کی راہ سے نہ روکے.مال اس کو خدا کی طرف سے نہ ہٹا سکے.رشتہ دار.خیالات و جذبات.دولت و جائداد غرض کوئی بھی عزیز چیز ایسی نہ ہو جو اسکے لئے خدا کے رستہ میں روک ہو.پردہ پھٹ جائے دوئی مٹ جائے ایک خدا ہی خدارہ جائے.غور کرو مسلمان وہ لوگ تھے جو رسول کریم کے ہاتھ پر اسلام لائے.انہوں نے اپنے آپ کو اس راہ میں مٹا ڈالا.انہوں نے تمام عقلی و نقلی دلائل حقانیت اسلام سے گزر کر عملاً ثابت کیا کہ خدا ایک ہے.نہ نفس ان پر غالب آسکا نہ جذبات انکے لئے ٹھوکر کا موجب بن سکے کوئی روک ان کے درمیان حائل نہ رہی.لیکن ایسی توحید پرست قوم جس نے زبانوں اور قولوں سے گزر کر عمل سے ثابت کیا کہ خدا ایک ہے.جب ان میں فتنہ پڑا بھائی نے بھائی کو قتل کیا.بیٹے نے باپ کو.شریروں نے فتنہ ڈلوایا وہ امتیاز جو رسول کریم کے باعث قائم ہوا تھا میٹ گیا.ہم جو ان کا ادب کرتے ہیں صرف اس لئے کہ انکی جنگ بھی توحید کی خاطر تھی اور پھر اخلاص سے تھی لیکن اس میں شک نہیں کہ شریر لوگوں نے اس وحدت کو مٹا ڈالا.علی کالشکر معاویہ کے مقابلہ میں آگیا اور حضرت عائشہ طلحہ اور زبیر علی کے مقابلہ میں آگئے.غرض ہر رنگ میں دشمنِ اتفاق و اتحاد نے اتفاق کو توڑ دیا تھا.وہ ترقی جو مسلمانوں کو ہو رہی تھی رُک گئی.مگر اس فتنہ میں بھی صحابہ نے ہمت نہ چھوڑی اپنے کام میں لگے رہے.انہوں نے تشدد سے اس تفرقہ میں بہر حال حفاظت اسلام کے لئے کوشش کی.بنوامیہ نے تشدد سے کام لیا.اگر چہ وہ اسلام کے خلاف تھا مگر اسلام کو بچانے والا ضرور تھا.ان کو چاہیئے تھا کہ لوگوں کو اسلام کی طرف بلانے کیلئے دعاۃ مقرر کرتے اور مبلغوں کے ذریعہ اتحاد پیدا کرتے.بیشک کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ جابر و ظالم تھے.مگر ان لوگوں میں ایسے بھی تھے جو اسلام کے نیچے خادم تھے.ان میں سے بعض پر بڑے بڑے الزام لگائے گئے ہیں.چنانچہ یزید تو متفقہ طور پر بڑا ظالم.جابر.فاسق انسان تھا.لیکن اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو انہوں نے اسلام کی حفاظت کی ہے جس کا انکار نہیں کیا

Page 555

خطبات محمود جلد (5) ۵۴۴ جاسکتا.ان سب کو جو بری نظر سے دیکھا جاتا ہے اسکی وجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ بنوامیہ کے بعد عہد حکومت بنوعباس کا تھا.ان سے جس قدر ہو سکا بنو امیہ کے معائب کی تشہیر کی اور انکو بد نام کیا اور انکی خوبیوں کو چھپایا.جس وقت بنو عباس غالب ہوئے انہوں نے بنوامیہ کا استیصال شروع کر دیا.بنوامیہ کے وقت میں صرف مسلمانوں کی ایک حکومت تھی لیکن بنو عباس کے وقت میں مختلف حکومتیں قائم ہوگئیں.چنانچہ ہسپانیہ میں جو حکومت تھی وہ بڑی شان و جبروت کی تھی.غور کرو.یہ اختلاف کیا تھا.صرف قومی اختلاف تھا.بنو عباس اور بنوامیہ کی ذاتی خصومتیں تھیں.معمولی باتوں پر اختلاف شروع ہوا.اور مسلمانوں کا اتفاق و اتحاد سب غارت ہو گیا.میں نے ۵ابہ ء کے جلسہ میں بتایا تھا کہ کس طرح حضرت عثمان کے وقت میں معمولی معمولی باتوں نے حضرت عثمان کو شہید اور مسلمانوں کو خانہ جنگی کا شکار کیا.بنوامیہ کے خلاف شکایات آتی تھیں حضرت عثمان نے ان کو کچھ اہمیت نہ دی.اور یہ محض ایک قومی جھگڑا تھا جیسا کہ کبھی ہندوستانی اور پنجابی کا جھگڑا شروع ہو جایا کرتا ہے.ہر ایک گروہ اپنی ترقی کا خواہاں تھا.پس اس جھگڑے نے جو رنگ اور جو صورت اختیار کی اسکا نتیجہ جو کچھ ہوا.میں نے خوب کھول کر بیان کر دیا تھا.عجمی لوگ اپنی بڑائی چاہتے تھے کہ عربوں سے تمام عہدے چھین کر عجمیوں کو دے دیئے جائیں.بھلا یہ کیسے ہو سکتا تھا.عرب وہ لوگ تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت پائی تھی.اس وجہ سے وہ بادشاہ ہوئے تھے.ابتدا میں ان کا عمل دخل ضروری تھا.لوگوں کو چاہیے تھا کہ ان سے پہلے اسلام سیکھتے چنانچہ تمام لوگ ان عہدوں پر عرب ہی ہوئے.قاضی وغیرہ.مگر ایرانیوں نے اس بات کو نا پسند کیا چالیں شروع کر دیں.بعض نے حضرت علی کی اولاد کی طرف داری شروع کی بعض بنو عباس کی طرف ہو گئے کہ یہ لوگ حضرت عبد اللہ بن عباس عم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد سے تھے.چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس کے پوتے محمد بن علی بن عبد اللہ نے آہستہ آہستہ ایران میں آدمی بھیج کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اگر چہ یہ ایک معمولی بات تھی.مگر اسلام کیلئے آئندہ چل کر کیسی خطرناک ثابت ہوئی.بنوامیہ

Page 556

خطبات محمود جلد (5) ۵۴۵ کو مٹایا گیا اور پہلی ہی دفعہ دو اسلامی حکومتیں قائم ہوگئیں.مسلمان چاہتے تھے کہ ایک ہی ان کا بادشاہ ہومگر جب بنوعباس نے زور پکڑا تو ہسپانیہ میں بنوامیہ کی ایک شاخ نے علیحدہ حکومت کھڑی کر دی.اب بنو فاطمہ نے کہا کہ اگر رسول اللہ کے چچا کی اولاد ہونے کی وجہ سے بنو عباس حکومت کے حقدار ہو سکتے ہیں تو ہم بدرجہ اولیٰ حکومت کے حقدار ہیں.چنانچہ فاطمیوں نے اپنی الگ حکومت مصر میں قائم کر لی گو یا اب تین حکومتیں ہو گئیں.اتحاد مٹ گیا.ایرانی آگے بڑھ گئے.وہ کتنا بڑا ظالمانہ حکم تھا جو ابو العباس سفاح نے دیا کہ تمام وہ لوگ جو عربی بولنے والے ہیں قتل کر دیئے جائیں لے.اس حکم کی تعمیل میں جس قدر عربی بولنے والے ملے ہلاک کئے گئے.بڑے بڑے علماء شہید ہو گئے.چھ لاکھ عربی بولنے والا انسان خراسان کے علاقہ میں قتل کیا گیا.یہ وہ لوگ تھے.جو اس لئے اپنے گھروں کو چھوڑ کر باہر گئے تھے کہ اسلام کی حفاظت کریں اور یہ وہ لوگ تھے جو سپاہی تھے جوان تھے.اگر چہ موت سب پر آتی ہے.مگر ان لوگوں کے خیال کے مطابق جو اس بات کے قائل ہیں کہ تدبیر سے موت میں کچھ تعویق ہوسکتی ہے.وہ لوگ کچھ عرصہ اور جی جاتے مگر دیکھنا یہ ہے کہ اسلام کو اس قتل عام سے کتنا بڑا نقصان پہنچا.نتیجہ اس قتل و غارت کا یہ ہوا کہ عربوں نے بالکل قطع تعلق کر لیا.عباسیوں کی حکومت سے انہوں نے کچھ واسطہ نہیں رکھا.پھر عباسی خلیفوں پر ترک غلاموں نے اتنا غلبہ پایا کہ خلفاء کو تر کی غلام تخت پر سے نیچے کھینچ لیا کرتے تھے.پھر میں نے سنایا تھا کہ شیعہ سنی کے سوال نے کتنا فتنہ برپا کیا تھا جس کی صرف یہ وجہ تھی کہ وزیر شیعہ تھا وہ چاہتا تھا کہ سُنیوں کو سزا دلوائے.ولی عہد سلطنت اس کے اس ارادہ میں مزاحم ہوا.پس وہی ایرانی جن کی خاطر عربوں کا استیصال کیا گیا تھا اب خلفاء کے خلاف ہلاکو خان کو چڑھا لائے.۱۸ لاکھ زن و مرد بوڑھا بچہ بغداد میں قتل ہوا.خدا نے سزا دلوائی کہ تم نے چھ لاکھ قتل کرایا.اب تمہارے ۱۸ لاکھ قتل ہوتے ہیں.پھر اسی پر بس نہیں بلکہ عباسیوں کے خاندان کی ایک ہزار عورت سے زبر دستی زنا کیا کہ آئند کوئی ان کی نسل سے ایسا آدمی نہ اُٹھ - تاریخ الخلفاء حالات عبد اللہ بن محمد بن علی التفاح

Page 557

خطبات محمود جلد (5) ۵۴۶ کھڑا ہو جو دعویٰ خلافت کر دے.اس کے علاوہ اور تباہی ایسی آئی جس کی کوئی حد نہیں !.یا تو مسلمانوں کا اتفاق و اتحاد زبان زد خواص و عوام تھا اور ان کے اتحاد کا ایک رُعب تھا.لیکن ان واقعات کے بعد جب آپس میں خوب اچھی طرح پھوٹ پڑ گئی.یورپ کے لوگوں نے گیارہویں.بارہویں.تیرہویں صدی میں جو صدمہ اسلام کو پہنچایا وہ کوئی کم درد انگیز نہیں.یورپ کے لوگ مسلمانوں پر اس لئے چڑھ آئے تھے کہ مسلمانوں کو مٹا کر شام کا ملک خصوصا بیت المقدس ان کے قبضہ سے نکال لیں.اس وقت مسلمانوں کو اپنے مسلمان بھائیوں سے کیا مدد پہنچی ؟ وہ یہ تھی کہ فرقہ باطنیہ کے بادشاہ نے عیسائیوں کو لکھ بھیجا کہ آپ کو جس قدر مدد درکار ہوگی میں مسلمانوں کے خلاف بہم پہنچاؤں گا.وہ ایسی ظالمانہ جنگیں تھیں کہ عیسائی مؤلفین تک ان کو ظالمانہ جنگیں کہتے ہیں.ان میں عیسائیوں نے مسلمانوں کے بوڑھوں بچوں عورتوں تک کو قتل کر ڈالا تھا.چنانچہ اس مسلمان بادشاہ نے فرانس کے عیسائی بادشاہ فلپ کو اپنے ہاں بلوایا.جس مکان میں اس سے ملاقات کی اسکی اوپر کی منزل میں کھڑکیاں تھیں.ان میں دو دو پہرے دار کھڑے تھے.فلپ کو اپنا رعب اور اپنی مدد کی اہمیت دکھانے کے لئے کہا کہ یہ میرے پہرہ دار ہیں.میں دکھاؤں کہ یہ کیسے فرمانبردار ہیں.ہاتھ سے دو کی طرف اشارہ کیا وہ دونوں اوپر کی منزلوں سے زمین پر گرے اور گرتے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے.اور جب ان کا یہ انجام ہو چکا دو اور کو اشارہ کیا وہ بھی اسی طرح گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے.اس باطنیہ فرقہ کے ایک فدائی نے ان صلیبی جنگوں میں یہ کام کیا کہ صلاح الدین جو نہایت نیک اور بہادر مسلمان بادشاہ تھا اور اکیلا تمام یورپ کے مقابلہ میں مدافعت کر رہا تھا عین اس وقت جبکہ وہ نماز پڑھ رہا تھا.اس پر حملہ کیا.خدا کی قدرت کہ حملہ کر نیوالا ٹھوکر کھا کر صلاح الدین کے آگے جا گرا.اور تلوار ہاتھ سے گر گئی.سلطان نے تلوار اٹھا کر اس کو قتل کیا.اسی طرح اس فرقہ باطنیہ کے فدائیوں نے دو تین : تاریخ الخلفاء حالات معتصم بالله و تاریخ اسلام از شاہ معین الدین ندوی جلد چہارم.

Page 558

خطبات محمود جلد (5) ۵۴۷ دفعہ بعض خطرناک موقعوں پر اس پر حملہ کیا.مگر خدا نے اسکی حفاظت کی اور ان کے شر سے محفوظ رکھا ہے.غرض اس فتنہ اس شقاق کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک گھر بھی ایسانہ رہا جو ملکر بیٹھ سکے.کوئی صوفی مسلمانوں کو جمع نہ کر سکا.کوئی عالم جمع نہ کر سکا.جس قدر انہوں نے مسلمانوں کے جمع کرنے کی کوشش کی اسی قدر خلاف ثابت ہوئی کسی نے کہا ہے.مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی جتنی کوشش کی گئی اس قدر نفاق بڑھا اور فتنہ نے ترقی کی.آج مسلمانوں سے بڑھ کر کوئی ذلیل قوم نہیں.یا وہ وقت تھا کہ مسلمانوں سے بڑھ کر کوئی معز زقوم نہ تھی.سو یہ مسلمانوں کا حال ہوا کہ ان کا کوئی وقار قائم نہ رہا.کس طرح نہ رہا.اسی طرح کہ ان کو اتفاق واتحاد کے باعث یہ سب عزت ملی لیکن جب معمولی معمولی باتوں پر کہیں عہدہ کیوجہ سے کہیں کسی اور وجہ سے آپس میں جنگیں چھڑ گئیں بنو عباس کی بنوامیہ سے نہیں بنتی تھی.بنی فاطمہ کا بنوعباس سے نبھاؤ نہیں ہوتا تھا.آپس میں لشکر کشیاں ہو کر اسلام کے لئے کتنا خطرناک نتیجہ برآمد ہوا وحدت گئی رعب گیا زور ٹوٹ گیا.یہ اتفاق و اتحاد خدا کا فضل ہوتا ہے.مجد دین وصوفیا مولویوں وغیرہ نے ہزار کوشش کی مگر وہ بات پیدا نہ کر سکے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت پاک نے مسلمانوں میں پیدا کر دی تھی.تیرہ سو برس میں یہ بات حاصل نہیں ہوئی.مگر اب خدا ہی کے فضل سے ایک نبی کی معرفت ایک جماعت قائم ہوئی ہے.پہلوں کے تلخ تجربہ سے فائدہ اٹھاؤ تمہارے ہاں فتنہ بھی پیدا ہوں گے شریر بھی ہوں گے فتنہ پیدا کریں گے.ان سے بچنے کیلئے ابھی سے کوشش کرو اور اگر ابھی سے ہر قسم کے فتنوں اور فسادوں سے بچنے کی کوشش نہیں کرو گے.اور ان باتوں سے پر ہیز نہیں کرو گے جو ابتداء اگر چہ : کتاب الرو تین جلد اول ص ۲۵۸ بحواله تاریخ اسلام از شاہ معین الدین ندوی.

Page 559

خطبات محمود جلد (5) ۵۴۸ معمولی نظر آتی ہیں مگر حقیقت میں انہی سے بعد میں بڑے بڑے خطرناک نتائج پیدا ہوتے ہیں.مرض کی ابتدا ہو.یا مرض کا خطرہ ہو.اسی وقت اسکا علاج زیادہ سود مند ہوتا ہے لیکن جب مرض ترقی کر جائے پھر علاج مشکل اور اکثر اوقات ناممکن ہو جایا کرتا ہے.غافل انسان بات کرتا ہوا نہیں سوچتا مگر اسکی بات خطرناک نتائج پیدا کرسکتی ہے.خوب یاد رکھو کہ ہمیشہ فتنہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہی ترقی کیا کرتا ہے.فرما يا يَأْيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ اے مسلمانو! جب ہم اتفاق و اتحاد پیدا کر دیں پھر تم اس کو توڑنے سے پرہیز کرو.خدا نے قرآن اور نبی اور انکے خلفاء کے ذریعہ اتفاق پیدا کیا ہے.اسکے توڑنے والے کو ڈرنا چاہئیے کیونکہ جو بات انسان خود پیدا کرتا ہے اس کو تو دوبارہ بنا سکتا ہے لیکن جو بات انسان کے اختیار میں نہ ہو.اس کا ضائع کرنا عقلمندی نہیں.کوئی شخص نہیں جو اپنی آنکھ پھوڑ لے.اور کوئی نہیں جو اپنے کان اور اپنی ناک کو کاٹ ڈالے.کیوں نہیں اس لئے کہ انسان کو ان چیزوں کے بنانے پر دسترس نہیں.اذ كنتم اعداء فالف بين قلوبكم فاصبحتم بنعمته اخوانا.یاد کرو کہ ایک وقت تھا کہ تم آپس میں دشمن تھے.خدا نے تم میں صلح پیدا کر دی.اب اگر تم اس خدا کی پیدا کی ہوئی صلح کو توڑ ڈالو گے تو پھر اسکو جوڑ نہیں سکو گے.پس میں احمدی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ پہلوں کے حالات سے نصیحت پکڑیں.پہلے مفسد ہوئے اب بھی ہوں گے اور یادرکھو کہ فتنہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہی پیدا ہوا کرتا ہے.نتیجہ میں پہلوں کے حالات کو سامنے رکھ لو.اگر فتنہ کی راہوں سے بچنے کی کوشش نہیں کرو گے تو خوب یا درکھو کہ ان لوگوں کا نتیجہ کیا ہوا تھا.جو ان کا انجام ہوا وہی تمہارا ہو گا یعنی جماعت کی تباہی اور ہلاکت.ہمیشہ احتیاط کرو کہ کہیں فتنہ کا موجب نہ بن جاؤ.جماعت میں تفرقہ اندازی سے بڑھ کر ہلاکت کی راہ کوئی نہیں.جو رستہ پہلے خطرناک ثابت ہوا ہو.کوئی دانا اس رستہ پر نہیں چلتا.کیا کوئی شخص ہے جو گلے پر چھری پھیر لیتا ہو.ہرگز نہیں.کیوں نہیں اس لئے کہ جانتا ہے کہ چھری پھیرنے سے گلا کٹ جائے گا.کوئی نہیں جو سانپ کے

Page 560

خطبات محمود جلد (5) ۵۴۹ بچہ سے کھیلے.وہ جانتا ہے کہ سانپ ڈنک مارے گا جس سے جان جائے گی کوئی انسان نہیں دیکھا ہوگا جو جنگلی شیر کے منہ میں دیدہ و دانستہ اپنا ہاتھ ڈال دے کیونکہ جانتا ہے کہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ شیر چیر پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے گا.مگرفتنہ کی راہ اس سے بھی زیادہ تجربہ شدہ ہے.سانپوں کے ڈسے ہوئے بچ جاتے ہیں.شیر کے پھاڑے ہوؤں کا علاج ہو جاتا ہے.آگ سے سلامتی ہو جاتی ہے لیکن اگر نہیں سلامتی تو فتنہ کے بعد نہیں.کوئی نظیر نہیں بتلائی جاسکتی کہ فتنہ کے بعد کوئی قوم سلامت رہی ہو.پھر حیرت ہے باوجود یہ جانتے ہوئے کیسے لوگ فتنہ اندازی سے نہیں ڈرتے مگر حقیقت یہی ہے کہ لوگ نہیں جانت کہ فتنہ کا نتیجہ کیا ہوتا ہے.پس خوب یادرکھو کہ فتنہ نے کسی قوم کو سلامت نہیں رکھا.حتی کہ اسلام کی جو کہ آخری جماعت ہے اور جو اپنے سے پہلی تمام جماعتوں سے برگزیدہ ہے.وہ بھی اس کے بدنتائج سے نہ بیچ سکی تو پھر ہماری جماعت جو اسلام سے باہر نہیں بلکہ جس کا دعویٰ یہ ہے کہ اگر حقیقی اسلام اس وقت کسی جماعت کے پاس ہے تو وہ خدا کے فضل سے ہماری ہی جماعت ہے.پس کیسے فتنہ کے بدنتائج سے محفوظ رہ سکتی ہے.پس میں ہوشیار کرتا ہوں کہ ان تمام بلاؤں اور ہلاکتوں سے بچنے کا صرف ایک ہی گر ہے وہ ہے اتفاق و اتحاد.جب تک اتفاق و اتحاد سے رہو گے اور جب تک اسی کوشش میں رہو گے کہ کسی طرح اس راہ کو نہ چھوڑیں کوئی بڑے سے بڑا دشمن بھی فتح نہیں پاسکے گا.لیکن اگر یہ باتیں چلی گئیں.اختلاف رونما ہو گیا تو چھوٹے چھوٹے آدمی بھی تم پر غالب آجائیں گے.ایک وقت تھا کہ جب مسلمان اتفاق و اتحاد رکھتے تھے.ان کے سینکڑوں غیروں کے لاکھوں پر بھاری ہوتے تھے لیکن جب یہ اتفاق و اتحاد مفقود ہو گیا پھر یہی مسلمان تھے کہ ان کو چھوٹی حکومتوں نے پسپا کر دیا اور تباہ کر ڈالا.میری حالت رنج سے غیر ہو جاتی ہے جب میں تواریخ میں ہسپانیہ کا حال پڑھتا ہوں.وہاں پر کتب کا وہ ذخیرہ تھا اگر وہ آج ہوتا تو ہمیں اسلام کی تائید میں نقلی طور پر بہت مدد ملتی.لیکن تفرقہ نے جب اس اسلامی حکومت کو کمزور کر دیا تو وہ سلطنت

Page 561

خطبات محمود جلد (5) ایسی مٹی کہ جہاں مسلمانوں کی حکومت تھی.آج اس جگہ ایک بھی مسلمان نظر نہیں آتا.مسلمانوں نے حملہ آوروں سے صرف اتنی اجازت چاہی تھی کہ ہمیں اپنی کتابیں لے جانے دو.انہوں نے اجازت دے دی.مسلمانوں نے کتابوں کو انتخاب کیا اور کئی جہاز بھر لئے.جس وقت روانگی کا وقت آیا.ظالموں نے مسلمانوں کے بھرے ہوئے جہازوں کو آگ لگا کر غرق کر دیا.مسلمانان سپین کا یہ نتیجہ کس لئے ہوا.صرف اس لئے کہ انہوں نے اتفاق و اتحاد کو مٹا دیا.پس میں تم کو نصیحت کرتا ہوں تمہیں کو نہیں بلکہ قیامت تک آنیوالے احمدیوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ہمیشہ فتنہ سے بچیں.اگر تم اتفاق و اتحاد کے رشتہ کو نہیں چھوڑو گے.کامیابی نصرت فتح مندی و ظفر یا بی تمہاری ہمرکاب رہے گی.ورنہ ہلاکت در پیش ہے.کیونکہ فتنہ وفساد کا علاج کچھ بھی نہیں.خدا نے تم پر اپنے فضل سے ایک نورانی کھڑ کی کھولی ہے.دنیا میں اس نور کو پھیلاؤ کہ خدا کے فضلوں کے وارث بنو.فتنہ وفساد کی راہوں سے بچو کیونکہ یہ ہلاکت کی راہیں ہیں.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اتفاق و اتحاد پر قائم رکھے.فتنہ و فساد سے بچائے اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہماری جماعت کا شعار ہو.اللہ تعالیٰ ان کو ہر میدان میں کامیابی دے ہماری جماعت تھوڑی اور دشمن زیادہ ہیں.ہم کمزور ہیں دشمن قوی.ہمارا آسرا صرف اس اللہ رب العالمین پر ہے جو رزاق ہے.ہمارے تعلقات آپس میں نہایت اتفاق و اتحاد کے ہوں.فتنہ و فساد سے اللہ تعالیٰ ہمیشہ بچائے.آمین.الفضل ۴ ستمبر ۱۹۱۷ء)

Page 562

۵۵۱ 72 خطبات محمود جلد (5) عزم راسخ اور نیت نیک ہو تو اعلیٰ خدمات کا موقع مل جاتا ہے فرمودہ ۷ ستمبر ۱۹۱۷ء بمقام شملہ ) حضور نے تشہد وتعوذ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.وَجَاءَ الْمُعَذِرُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ لِيُؤْذَنَ لَهُمْ وَقَعَدَ الَّذِينَ كَذَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ، سَيُصِيبُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ هِ لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَى وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُوْلِهِ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيْمٌ (التوبه : ۹۱،۹۰) بعد ازاں فرمایا: اللہ تعالیٰ نے انسان کی ترقی اور اس کی بہبود کیلئے بہت سی راہیں تجویز فرمائی ہیں.لیکن ان راہوں کے نہ جاننے کی وجہ سے انسان بہت سی تکالیف اٹھاتا ہے انسان کے جسم کی بیماریوں کے متعلق ہی غور کرو تو معلوم ہوگا کہ ہر مرض کے لئے کئی کئی دوائیاں پیدا کی گئی ہیں.کہیں کسی دوائی سے فائدہ ہوتا ہے.تو کہیں کسی دوائی سے کبھی ٹیکہ لگوانے سے فائدہ ہوتا ہے تو کبھی دوائی کھانے سے.جب تک انسان نے تمام معالجات کو معلوم نہ کیا تھا تب تک گو بہت سی امراض کو لا علاج بتایا جاتا تھا لیکن جوں جوں انسان کا علم ترقی کرتا گیا تو معلوم ہوتا گیا کہ ہر مرض کا علاج ہے.یہاں تک کہ ہمارے زمانہ میں تو شاید ایک آدھ ہی ایسی مرض ہو کہ جس کو لا علاج بتایا جاتا ہو.لیکن جس زمانہ میں ابھی اطباء کا علم بالکل نامکمل حالت میں تھا

Page 563

خطبات محمود جلد (5) ۵۵۲ وہ بے شمار امراض کو لا علاج جانتے تھے.چنانچہ پرانے زمانے کے اطباء اپنی کتابوں میں بہت سی امراض کے متعلق صاف طور پر لکھتے ہیں کہ وہ امراض لا علاج ہیں.ایسے زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا لِكُلِّ داءِ دَواء لا یعنی ہر مرض کا علاج ہے.اور آج علم کی ترقی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی تصدیق کر دی.رُوحانی امراض کا علاج :- امراض رُوح کے متعلق بھی بہت سے علاج ہیں لیکن ان کو نہ جاننے کے باعث انسان ترقی سے محروم رہ جاتا ہے.حالانکہ بعض ایسی باتیں بھی ہیں کہ جن کے باعث انسان بغیر کچھ کئے بھی بہت کچھ حاصل کر لیتا ہے.چنانچہ جن آیات کو میں نے پڑھا ہے.ان میں بھی ایسی ہی باتوں کا بیان ہے.فرمایا لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَى وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ حَرَج إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُوْلِهِ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.یعنی ضعفاء پر اور مریضوں میں اور ان پر جو نہیں پاتے کچھ کہ جسے وہ خرچ کریں کوئی حرج یعنی اعتراض نہیں جبکہ اخلاص رکھیں اللہ اور اسکے رسول سے نہ صرف یہ کہ ان پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ خدا انہیں محسن قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ یعنی وہ لوگ محسن ہیں اور ان پر کوئی الزام نہیں کیونکہ یہ لوگ دل میں تڑپ رکھتے ہیں کہ وہ کچھ کریں لیکن ان کے پاس کچھ نہیں ہے.چنانچہ جنگ تبوک کے موقع پر کچھ لوگ آئے اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری مانگی لیکن بسبب نہ میسر آنے سواری کے وہ نہایت حزیں ہو کر واپس چلے گئے ہے.حزن سخت غم کو کہتے ہیں.اب یہ غم کیوں تھا کیا اس لئے کہ وہ دنیا کے مال سے محروم رہ گئے نہیں بلکہ بظاہر تو سخت خطرہ تھا.کیونکہ یہ جنگ تو قیصر روم کے ساتھ تھا جس کی اتنی بڑی بھاری قوت تھی جس سے عرب ڈرتے تھے.پس ان کا حزن اسلئے نہ تھا صحیح مسلم کتاب السلام باب لكل داء دواء" بخاری کتاب المغازی غزوہ عسره یعنی تبوک و سیرت ابن ہشام حالات غزوہ تبوک.

Page 564

خطبات محمود جلد (5) ۵۵۳ کہ وہ دنیا کے مال سے محروم رہے اور بظاہر حال یہ تو خیال بھی نہیں ہو سکتا تھا اور نہ اس کی کوئی امید ہوسکتی تھی.پس یہ کس طرح ممکن تھا کہ مال غنیمت کا خیال ان کو مغموم بنا رہا ہو پس ان کا خون اس لئے نہ تھا بلکہ جیسا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ان کو صدمہ اس لئے تھا کہ کاش ان کے پاس مال ہوتا تو وہ اسے خدا کی راہ میں خرچ کرتے اس لئے خدا نے فرمایا کہ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلِ یعنی محسنوں پر کوئی الزام نہیں ہے.پہلے فرمایا.لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ مِنْ حَرَج حرج کے معنے اعتراض کے ہیں.جیسا کہ عرب لوگ جو بڑی ہیں کہا کرتے ہیں کہ حدث عن البحر وما عليك من حرج یعنی سمندر کے متعلق جو چاہے بیان کرے پھر تجھ پر کوئی حرج نہیں.یعنی کوئی اعتراض نہیں.پھر فرمایا کہ یہ حسن ہیں ان پر کوئی الزام نہیں کیونکہ جب وہ بسبب سواری نہ مل سکنے کے واپس کوٹے تو انکی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں.فیض کے معنے ہیں کہ برتن کا بھر کر اس میں سے پانی کا بہنا.پس ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کا بہنا ان کے قلب کے خون سے پُر ہونے میں ایک نشان ہے یہاں ان لوگوں کو صرف دل کی خواہش نے محسن بنادیا ہے گو یا بغیر کسی کام کرنے کے وہ خدا کے حضور میں محسن کہلائے.اس حال میں کہ ان کے دلوں میں خدا اور اسکے رسول کی محبت بھری ہوئی تھی.اگر ان کے پاس مال ہوتا تو وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے اور اگر موقعہ ملتا تو وہ جان کو بھی قربان کرتے.پس معلوم ہوا کہ بغیر عمل کئے بھی انسان محسن ہو سکتا ہے اور یہ اس صورت میں جبکہ اس کے دل میں صدق اور اخلاص ہو.آجکل جان دینے کا موقعہ نہیں ہے لیکن پھر بھی اگر ایک احمدی دل میں یہ نیت رکھتا ہے کہ اگر اس کو اللہ کی راہ میں گھر سے بے گھر اور مال و اولاد سے یک طرف اور خویش و اقارب سے علیحدہ ہونا پڑے اور خدا کی راہ میں جان دینی پڑے تو وہ بلا دریغ نہایت خوشی کے ساتھ اللہ کی راہ میں جان دے دے گا.تو ایسے لوگوں کیلئے بھی خدا تعالیٰ کے ہاں وہی درجہ ہے جو اللہ کی راہ میں ہجرت کر نیوالوں اور اس کے دین کے لئے جان لڑانے والوں کا درجہ ہے.ایسے لوگ نہ صرف وہ ثواب پاتے ہیں جو اللہ کی راہ میں جہاد کر نے والوں

Page 565

خطبات محمود جلد (5) ۵۵۴ کو ملتا ہے.بلکہ یہ لوگ ان کے ساتھ ہی ہوتے ہیں.ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے کہا کہ مدینے میں کچھ ایسی جماعتیں ہیں کہ وہ مدینہ میں بیٹھے ہی تمہارے ساتھ ہیں.اگر چہ وہ جماعتیں وہ تکالیف نہیں اٹھا تیں جو تم اٹھارہے ہو کیونکہ وہ مجبور اوہاں رہ گئے ہیں.مگر یہ در جہ صرف معمولی خواہش سے حاصل نہیں ہو سکتا.بلکہ یہ درجہ اسوقت ملتا ہے جبکہ دل اپنی مجبوری پر سخت مغموم ہو اور کڑھتا ہو اور اس میں سخت تڑپ ہو کہ کاش وہ بھی کچھ اللہ کی راہ میں صرف کرنے کی قدرت رکھتا اور اسے بھی اللہ کی راہ میں جان کو قربان کرنے کا موقع ملتا.اگر چہ ایسی حالت میں انسان کے جوارح ساتھ نہ ہوں لیکن بسبب سچی تڑپ وہی درجہ پاتا ہے جو درحقیقت خدا کی راہ میں جان ومال قربان کرنے والوں کو ملتا ہے.آجکل ہماری جماعت بھی کئی کام نہیں کر سکتی.بسبب مجبوری کے تو ان آیات میں اس کیلئے بھی ایک سبق ہے.مثلاً اگر کسی شخص کو یہ توفیق نہیں کہ وہ اپنے کام سے فرصت پا کر تبلیغ کرے.یا بسبب افلاس کے کچھ خدا کی راہ میں خرچ کر سکے تو اگر اس کی ہمت بلند ہو.اور نیت پاکیزہ ہواور دل میں یہ تڑپ ہو کہ کاش وہ اللہ کی راہ میں خرچ کر سکے اور تبلیغ حق کی اسے توفیق ہو تو اس کے لئے بھی اللہ کے ہاں وہی اجر ہے جو تبلیغ کرنے والوں اور فی سبیل اللہ خرچ کر نیوالوں کے لئے ہے.بہت سے لوگ ہیں جو نیت کے سبب بڑے مدارج پر پہنچ جاتے ہیں.اور بہت ہیں جو نیک نیت نہ ہونے کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق کی وجہ فضیلت یہی بیان کی کہ ابوبکر کو جو تم پر فضیلت ہے وہ اسکے اعمال کے باعث نہیں بلکہ اس کی نیت کے باعث ہے.حضرت عمرؓ کا قول ہے نیۃ المومن خیر من عملہ..اس قول کے متعلق دو غلطیاں ہوئیں ایک یہ کہ اس کو حدیث قرار دیا گیا.دوسرے یہ کہ اس کے معنے یہ کئے گئے کہ عمل کرنے کی نسبت نیک نیت بہتر ہے دراصل اس کے معنے یہ ہیں کہ مومن جس قدر : بخاری کتاب الجہاد والسیر باب من حبه العذرعن الغزو.:- اردو تر جمہ مکاشفتہ القلوب مصنفہ امام غزالی.

Page 566

خطبات محمود جلد (5) ۵۵۵ نیک عمل کرتا ہے.اس سے بڑھ کر عمل نیک کرنے کی نیت رکھتا ہے.ہزار خرچ کرتا ہے تو نیت ہوتی ہے کہ اگر دس ہزار ہوتا تو وہ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتا اور باوجود اس کے اسے غم ہوتا ہے کہ میں نے کوئی خدمت نہ کی اور وہ بڑھ کر عمل کرنے کی نیت رکھتا ہے.نیست بدانسان کو اکثر ہلاک ہی کرتی ہے.کہتے ہیں کہ ایک شخص کی کتیا نے بچے دیئے.اس کے کسی دوست نے اس سے ایک بچہ مانگا تو اس نے جواب دیا کہ کتیا کے بچے تو سب کے سب مر گئے.لیکن اگر وہ زندہ بھی ہوتے تب بھی میں کوئی بچہ نہ دیتا.اس کے دوست نے کہا کمبخت تمہارے خبث باطن کی پردہ پوشی کے لئے بچے تو سب کے سب مر ہی گئے تھے لیکن تم نے اپنے خبث باطن کو ظاہر کر ہی دیا.غرض ایک شخص یہ نیت رکھتا ہے کہ میں اگر ضرورت پیش آجاوے تو وطن کو مال کو اولا د کو کاروبار کو خدا کے لئے چھوڑ دوں گا تو وہ شخص اپنے گھر اور بال بچوں میں رہتے ہوئے اور اپنا کا روبار کرتے ہوئے بھی ان لوگوں میں داخل ہو جائے گا جنہوں نے وہ سب کچھ فی الواقعہ ترک کیا.نیت نیک سے عمل نیک کی توفیق بھی ملتی ہے.اور وہ انسان کو کام کا اہل بھی بنادیتی ہے جبکہ وہ بار بار اس کو دل میں لاتا رہتا ہے.جب زندہ لوگ اپنی قوم میں ایسی رُوح پھونکنا چاہتے ہیں تو ان کی ہمتوں کو بلند کرنے کے لئے ان کو مختلف پیرائیوں میں بتاتے ہیں کہ وہ ایسے ہیں اور ایسے ہیں اور ان کے آباؤ اجداد ایسے تھے کہ ملک کیلئے اپنی جانوں کو بے دریغ قربان کرتے تھے وغیرہ وغیرہ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وقت پر وہ قوم بھی جان قربان کرنے کو تیار ہو جاتی ہے.برخلاف اس کے متعصب لوگوں کی لکھی ہوئی تاریخ ہند پڑھ پڑھ کر بہت سے لوگوں کو اسلامی سلطنت کے ظالم ہونے کا خیال پیدا ہو گیا.انگلینڈ کو دیکھو کہ موجودہ جنگ کے موقعہ پر ابتداء تھوڑی سی فوج جو قریب ایک لاکھ تھی دشمن کے مقابل لا سکا.لیکن چونکہ اہلِ انگلینڈ کے دلوں میں ابتداء سے ہی فرض شناسی کی عادت قومی اور خدمت ملکی کے جذبات کو بار بار ڈالا گیا تھا اس لئے اب ضرورت کے وقت وہ دفعتہ تیار ہو گئے.یہاں تک کہ اب سب سے زیادہ فوج انگلستان ہی

Page 567

خطبات محمود جلد (5) کی ہے جو اس جنگ میں دشمن کا مقابلہ بڑی سرگرمی سے کر رہی ہے.شملہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں کام کی کثرت ہے اور فرصت کم.مثلاً ملازمت پیشہ لوگوں کا بہت سا وقت ملازمت میں ہی صرف ہو جاتا ہے.لیکن اگر یہاں کے لوگ بھی ہمت بلند اور نیت نیک رکھیں اور ہر وقت اللہ کی راہ میں اعلیٰ خدمات کی بجا آوری کے لئے تیار رہیں تو یہ لوگ بھی ان لوگوں میں شامل ہوں گے جو اللہ کی راہ میں کوشش کر نیوالے اور اعلیٰ خدمات بجالانے والے ہیں.الفضل ۲۵ ستمبر ۱۹۱۷ء)

Page 568

خطبات محمود جلد (5) 73 خلاصه خطبہ جمعہ فرموده ۱۴ ستمبر ۱۹۱۷ء بر مکان شہزادہ واسد یوارف بریلی همله ) آج کے خطبہ میں تشہد وتعوذ کے بعد حضور نے وَإِذَا تُجحِيمُ سُيِّرَتْ وَإِذَا الْجَنَّةُ ازْ لِفَتْ کی نہایت لطیف تفسیر فرمائی اور فرمایا کہ شیطان نے اس زمانہ میں حملے تو بے شمار اور اس زور کے ساتھ کئے ہیں جن کی نظیر پہلے نہیں ملتی.مگر ان حملوں سے غیر مبایعین کے الگ ہیں اور نیا حملہ ہے.یہ لوگ احمدی کہلا کر حضرت احمد اور احمدیت سے دشمنی رکھتے ہیں اور اشاعت احمدیت میں حارج ہیں.الفضل ۱۸ ستمبر ۱۹۱۷ء ص ۱۲ کالم ۳ )

Page 569

۵۵۸ 74 خطبات محمود جلد (5) خلاصه خطبہ جمعہ فرموده ۲۱ ستمبر ۱۹۱۷ء بر کوٹھی شہزادہ بہادر واسد یوصاحب بمقام شمله تشہد وتعوذ کے بعد حضور نے خطبہ جمعہ میں اپنی جماعت کو نصیحت کی کہ دنیا اس وقت سامانوں پر جھکی ہوئی ہے.اور محض سامانوں کو ہی سب کچھ سمجھتی ہے.اور قرآن کریم گو ہم کو سامانوں کے استعمال سے نہیں روکتا.مگر فرماتا ہے : سامانوں کے پیدا کرنے والے پر ہی تو کل رکھو.حضور نے سورۃ ق رکوع ۲ سے ولقد خلقنا الانسان و نعلم ما تو سوس به نفسه ونحن اقرب اليه من حبل الوريد کی تلاوت فرمائی.اور فرمایا: اس میں آریہ سماج کا بھی رڈ ہے.کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کو خالق نہیں مانتے جو ان کا پیدا کر نیوالا ہی نہ ہووہ بھلا ان کی ضروریات کا کیونکر عالم ہو سکتا ہے.اور ان کیلئے سامان کیونکر بہم پہنچا سکتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہم نے انسان کو پیدا کیا.ہم اس کے دل کی باتوں کو جانتے ہیں.اس کے قلب کے وساوس کا علاج ہم کو معلوم ہے اور ہم اس کا اصلی سہارا ہیں.اقرب کو ظاہر پر محمول نہ کرنا چاہئیے.بلکہ اس کے اصلی معنے ہیں :.اصلی سہارا اور علاج ہم ہیں.ہم سے ذرا قطع تعلق ہوا تو انـــان مَر

Page 570

خطبات محمود جلد (5) ۵۵۹ گیا.پس سامان کرو.مگر تو کل اللہ پر رکھو.اس وقت سیاسیات کے دلدادہ لوگ محض سامان پر ہی ترقی کا مدار رکھتے ہیں اور مجھ سے بھی پوچھتے ہیں.کہ اب کیا کریں مگر میں کہتا ہوں کہ سنو ! دنیا کے حصہ کثیر کا مذہب انشاء اللہ احمدیت ہوگا.اور جو بھی حکومت ہوگی.وہی احمدی ہو جائے گی.تم محض سامان پر نہ جھکو.اللہ پر توکل کرو.الفضل ۲۹ ستمبر ۱۹۱۷ء)

Page 571

۵۶۰ 75 خطبات محمود جلد (5) مومن کا بہشت فرموده ۲۸ رستمبر ۱۹۱۷ء بمقام شمله حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ تلاوت فرمانے کے بعد کہا کہ مومن اور کافر میں یہ فرق ہے کہ مومن ہمیشہ اور ہر گھڑی خوش ہی رہتا ہے کوئی مصیبت.کوئی دکھ اور کوئی رنج اس کو غمزدہ نہیں کر سکتا.خائف اور محزوں نہیں بنا سکتا.وہ ہر وقت اسی دنیا میں جنت میں ہی رہتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ مومنین کے متعلق فرماتا ہے : فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي (الفجر :٣) تو اس دنیا میں خدا تعالیٰ مومن کو جنت میں داخل کر دیتا ہے.عید ایک خوشی کے دن کا نام ہے.کیونکہ عید کوٹ کوٹ کر آنیوالی چیز کو کہتے ہیں.یہ دعا ہے کہ فلاں وقت بار بار لوٹے.اور بار بار خوشی کی بات کے لوٹنے کی ہی خواہش کی جاتی ہے نہ کہ غم اور تکلیف کی کسی کے ہاں اگر بیٹا ہو تو وہ خواہش کرتا ہے کہ ایسا موقعہ اسے پھر بھی نصیب ہو.یا اگر کسی کو مال ملے تو وہ چاہتا ہے کہ پھر اسے ایسا ہی وقت نصیب ہو.لیکن اگر کسی کے ہاں ماتم ہو یا مال چوری ہو جائے تو وہ کبھی خواہش نہیں کرے گا کہ ایسا پھر بھی ہو.تو دوبارہ آنے کی خواہش اسی بات کی ہوتی ہے جو خوشی کی ہو.اور اسی کو عید کہتے ہیں.لیکن مومن چونکہ ہر وقت ہی خوشی اور راحت میں ہوتا ہے اس لئے ہر وقت ہی عید ہوتی ہے.اور بعض عید میں جو اسلام نے مقرر کی ہیں ان میں اور حکمتیں بھی ہوتی ہیں.مثلاً جمعہ کا

Page 572

خطبات محمود جلد (5) ۵۶۱ دن.عید الفطر اور عید الاضحی.ان میں بڑے بڑے سبق اور نصیحتیں رکھی گئی ہیں.ورنہ مومن کے لئے تو ہر روز اور ہر گھڑی عید ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کو الحمد لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کہہ کر شروع کیا ہے.اور پھر جب مومن آخری دفعہ خدا کے حضور پیش ہوں گے تو خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ اس وقت وہ کہیں گے.آخِرُ دَعْوَانَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العلمين.اس سے معلوم ہوا کہ انسان پہلے الحمد سے شروع کرتا ہے اور عمل کرتے کرتے اس کا خاتمہ بھی حمد پر ہی ہوتا ہے تو اس سورۃ میں یہ سبق رکھا گیا ہے کہ مومن ہمیشہ خدا کی حمد ہی کرتا رہتا ہے.اور وہ کبھی کسی ایسے غم اور مصیبت میں مبتلا نہیں ہوتا کہ وہ خدا کی حمد نہ کر سکے اس سورۃ میں ایک عجیب نکتہ بیان کیا گیا ہے جو یادر کھنے کے قابل ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اَلحَمدُ للهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ کہ مومن انسان سے خدا تعالیٰ جو بھی معاملہ کرتا ہے وہ اسے آرام اور راحت پہنچانے والا ہی ہوتا ہے.جو تکلیف وہ اٹھاتا ہے وہ انسانوں ہی کی طرف سے اٹھاتا ہے.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مارے گئے.وطن سے نکال دیا گیا اور طرح طرح کے دُکھ پہنچائے گئے مگر اللہ تعالیٰ نے آپ سے جو معاملہ کیا وہ ایسا ہی تھا کہ آپ کی زبان سے حمد اور تعریف ہی نکلتی تھی تو مومن کبھی خدا تعالیٰ کی حمد کے بغیر نہیں رہ سکتا.اس لئے مومن کی یہ علامت بیان کی گئی ہے کہ وہ ہر وقت خدا تعالیٰ کی حمد کرتا رہتا ہے.لیکن ایک ایسا شخص جس کے دل میں کوئی ناراضگی یا نا خوشی ہوئی اور وہ منہ سے الحمد للہ رب العالمین کہے تو وہ منافقت سے کہے گا کیونکہ یہ بات اس کے دل سے نہیں نکل رہی ہوگی.دل میں تو وہ سخت نا خوش ہوگا اس لئے خدا تعالیٰ انسانوں کو ارشاد فرماتا ہے کہ تم مجھ سے اپنے معاملات ایسے بناؤ کہ تم سے ایسا سلوک کیا جائے کہ تمہارے منہ سے حمد ہی حمد نکلے لیکن جو ایسے تعلقات نہیں رکھتا.اور دکھ و تکلیف اٹھاتا ہے اس کے منہ سے حمد نہیں نکل سکتی اور اگر نکلتی ہے تو اس کا دل اس کو ملامت کر رہا ہوتا ہے.تو ایک شخص کامل مومن اسی وقت ہوتا ہے جبکہ بچے دل سے خدا تعالیٰ کی حمد کرتا ہے.اس وقت اس سے کوئی ایسا معاملہ نہیں کیا جاتا کہ اسے غم اور تکلیف ہو.چونکہ

Page 573

خطبات محمود جلد (5) ۵۶۲ نماز میں کئی بار الحمد للہ کہا جاتا ہے.اس لئے نماز کو صحیح طور پر ادا کرنے اور مومن کامل بننے کی خاطر یہ ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ سے ایسا معاملہ ہو کہ جس پر خدا اس سے ایسا سلوک کرے کہ اسکے منہ پر حمد ہی حمد جاری رہے اور کبھی غمگین اور رنجیدہ نہ ہو.خدا تعالیٰ ہم سب کو اس کی تو فیق عطا فرمادے.آمین.( الفضل ۹ را کتوبر ۱۹۱۷ء)

Page 574

خطبات محمود جلد (5) ۵۶۳ 76 خُدا کے انعام کی قدر کرو فرموده ۵/اکتوبر ۱۹۱۷ء بمقام شمله ) حضور نے تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ تلاوت کرنے کے بعد فرمایا: غالبا اس سفر کے دوران میں یہ آخری جمعہ ہے جس کا خطبہ پڑھنے کیلئے میں آپ لوگوں کے سامنے کھڑا ہوں.اسوقت میں مختصر ا چند ایک نصائح آپ لوگوں کو کرنا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں ہمیں اس بات کی طرف متوجہ کیا ہے کہ جوشخص اللہ کیلئے کچھ قربانی کرتا اسکی اطاعت اور فرمانبرداری میں رہتا اس پر تو کل اور بھروسہ رکھتا ہے.اس پر بڑے بڑے انعام کئے جاتے ہیں.چونکہ ہم خدا تعالیٰ کے انعامات کے وارث بننا چاہتے ہیں.اس لئے ہمیں اس کا خاص خیال رکھنا پاہیئے کسی سے کچھ حاصل ہونے کی امید دوہی وجہ سے ہو سکتی ہے.اور جس میں یہ دو باتیں پائی جائیں اس کے دروازہ سے مانگنے والا انسان کبھی مایوس اور نامراد ہو کر واپس نہیں آتا.وہ دو باتیں یہ ہیں.(۱) اس میں دینے کی قابلیت ہو.(۲) اسے دینے کی عادت ہو.تیسری بات مانگنے والے اور سائل میں پائی جانی ضروری ہے.اور وہ یہ کہ اس میں خود پسندی اور خودی نہ ہو.اگر پہلی دو باتیں دینے والے میں اور تیسری لینے والے میں ہو تو کبھی اسے ناکامی اور نامرادی نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں یہ تینوں باتیں بیان فرمائی ہیں.بندہ کے متعلق تو جو کچھ ہے اس کا کرنا اسکے ذمہ ہے وہ کرے یا نہ کرے.یہ اسکا کام ہے.مگر اپنے

Page 575

خطبات محمود جلد (5) ހ ۵۶۴ متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے.میں رب العلمین.الرحمن الرحیم ہوں.کہ مانگنے والے کو دینے کی میں پوری پوری قابلیت اور طاقت رکھتا ہوں.لیکن اگر یہ خیال ہو کہ میں باوجود دینے کی قابلیت کے شاید بخل سے کام لوں اور مانگنے والے کو نہ دوں تو اس کے لئے صراط الذین انعمت علیہم کو یاد رکھو اس سے تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ تم سے پہلے بہت سی ایسی جماعتیں گزر چکی ہیں جن کو میں نے دیا.اور بہت کچھ دیا.تو ایک منظم جس کا دروازہ انسان کو کھٹکھٹانا چاہیے.اس میں دو باتیں دیکھنی چاہئیں.ایک یہ کہ اس کے پاس دینے کو موجود بھی ہے یا نہیں.کیونکہ ایک بھوکے اور نادار سے مانگنے کا یہ نتیجہ ہوگا کہ خالی ہاتھ واپس آنا پڑے گا.اسی طرح اگر ایک ننگے سے کپڑا مانگا جائے تو سوائے نامرادی کے اور کچھ نہ حاصل ہوگا.یا اگر ایک پیاسے سے پیاسا پانی مانگے گا تو خائب و خاسر رہے گا.اس لئے کچھ ملنے اور حاصل ہونے کی اُمید اسی سے رکھنی چاہئیے جس کے پاس بھی کچھ ہو.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں فرمایا ہے کہ میرے پاس بہت کچھ ہے.دوسری بات یہ کہ اسے دینے کی عادت بھی ہو.کیونکہ بہت لوگ بڑے دولتمند اور مالدار ہوتے ہیں.مگر دینے کے وقت انکے ہاتھ سکڑ جاتے ہیں.اور ان میں دینے کی ہمت اور طاقت ہی نہیں رہتی.اس لئے دوسری یہ بات دیکھنی ضروری ہے کہ اسے دینے کی عادت بھی ہے یا نہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.یہ دیکھنے کیلئے ذرا تم اس بات پر تو غور کرو کہ تم سے پہلوں کو ہم نے کیا کیا دیا.دُور نہ جاؤ نزدیک ہی دیکھ لو کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اور اس کی اُمت کو ہم نے روحانی اور جسمانی کس قدر انعامات دیئے.پھر دیکھو مسیح اور اس کے حواریوں کو ، موسی اور اس کے ماننے والوں کو.ابراہیم داؤد وغیرہ انبیاء اور ان کے پیروؤں کو کیا کچھ دیا.پس تم صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ کو دیکھ کر نتیجہ نکال لو کہ ہم میں دینے کی قابلیت ہے یا نہیں.تو اس سورۃ میں خدا تعالیٰ نے نہایت مختصر الفاظ میں انسان کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ مومن کو ہم بڑے بڑے انعام دے سکتے ہیں.اور پھر ان انعامات کی کوئی حد بندی نہیں کی.بلکہ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ فرما کر بہت وسیع کر دیا ہے کہ ہر ایک وہ انعام جو پہلوں کو حاصل ہو اوہ اب بھی دیا جا سکتا ہے.

Page 576

خطبات محمود جلد (5) چنانچہ اسی بات کو ثابت کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں ایک انسان کو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا بروز بنا کر بھیج دیا اور اس کو وہ سب کمالات بروزی رنگ میں دیئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے گئے تھے تا کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ جو صفات خدا تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے تھے وہ اب کسی کو نہیں دے سکتا.چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان تمام انبیاء سے اعلیٰ اور ارفع ہے.اس لئے کوئی انعام ایسا نہیں ہوسکتا جو آپکو نہ دیا گیا ہو.پس جب آپ کے کمالات بروزی رنگ میں ایک انسان کو دیئے جا سکتے ہیں تو پھر کونسا انعام ہے جو نہیں مل سکتا.مگر باوجود اس قدر عظیم الشان انعامات دینے کے متعلق فرماتے ہوئے ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے اس طرف بھی اشارہ کر دیا ہے اور انعام حاصل کرنے والوں کو تو جہ دلا دی ہے کہ جہاں ہم بڑے سے بڑا انعام دے سکتے ہیں وہاں ہم سخت سے سخت سزا بھی دے سکتے ہیں.اور اسکی مثال غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ تمہارے سامنے ہے اس کو دیکھ لو.یہودیوں پر خدا تعالیٰ کا کیسا غضب نازل ہوا.اسکا پتہ اس سے لگ سکتا ہے کہ تین ہزار سال گزر چکے ہیں.لیکن زمین کے ایک چپہ پر بھی انکی حکومت نہیں ہے.پھر ضلالت کی سزا جن کو ملی انکی حالت کو دیکھ لو دنیا کے سارے علوم جانتے ہیں بڑے بڑے موجد اور فلسفی ہیں مگر ایک انسان کو خدا بنائے بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ مذہب میں عقل کو دخل نہیں ہے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ جہاں خدا تعالیٰ بہت بڑے بڑے انعام دیتا ہے وہاں سزا بھی بہت سخت دیتا ہے.اس لئے جس انسان پر خدا تعالیٰ کا کوئی انعام ہوا سے ہر قسم کے تکبر اور انانیت کو چھوڑ کر حد درجہ کا عجز اور فروتنی اختیار کرنی چاہیئے اور ساتھ ہی خدا کے خوف کو ہر وقت دل میں رکھنا چاہیئے تا کہ اس رستہ پر جانے سے بچا ر ہے جو مغضوب اور ضال بنا دیتا ہے.پس میں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا جو

Page 577

خطبات محمود جلد (5) انعام تم پر کیا ہے.اس کی قدر کرو.اور اس سورۃ کو ہر وقت یاد رکھو نیز خدا کے خوف کو دل میں جگہ دو.تا کہ ان عذابوں اور سزاؤں سے بچو جن سے خدا تعالیٰ نے اس سورۃ میں ڈرایا ہے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اس کی توفیق دے.آمین.(الفضل ١٦ /اکتوبر ۱۹۱۷ء)

Page 578

خطبات محمود جلد (5) ۵۶۷ 77 ہر ایک انعام کے ساتھ آزمائش ہے (فرموده ۱۹ اکتوبر ۱۹۱۷ء) حضرت نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ تلاوت فرمانے کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی سنت قدیم سے چلی آتی ہے.اور یہ ان اصول میں سے ہے جن پر بہت سے معاملات کی بنیاد ہے کہ ہر بھلائی کے ساتھ ہر ترقی اور ہر درجہ کے ساتھ کچھ دُکھ اور تکلیف بھی ہوتی ہے.چنانچہ دیکھ لوسورۃ فاتحہ جس کو الحمد سے شروع کیا ہے.بتلاتی ہے کہ اس میں بڑے انعام دیئے گئے ہیں.مگر باوجود اس کے کہ الحمد سے شروع ہوتی ہے.صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے ساتھ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ بھی رکھا گیا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خواہ کتنا بڑا بھی انعام ہو اس کے ساتھ کچھ تکالیف اور مشقتیں ضرور لگی ہوتی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہر انعام کے ساتھ امتحان بھی ہوتا ہے.سو ہر بڑے انعام کے ساتھ آزمائش بھی بڑی ہوتی ہے.اور کوئی نعمت نہیں ملتی جس کے ساتھ آزمائش نہ ہو.گلاب کے پھول کو دیکھو اس کی پنکھڑیاں کیسی خوبصورت ہوتی ہیں.مگر کانٹے ساتھ ہوتے ہیں.اس کے سونگھنے سے دماغ کو لذت حاصل ہوتی ہے.اور چھونے سے ہاتھ اور دیکھنے سے آنکھ حظ اُٹھاتی ہے.مگر ایسی عجیب وغریب اور عمدہ چیز بھی کانٹوں محصور ہوتی ہے.اور اس کا حاصل ہونا اس صورت میں آسان ہے کہ کانٹوں

Page 579

خطبات محمود جلد (5) ۵۶۸ کی چھن کو بھی برداشت کیا جائے.پس جو کانٹوں میں سے ہاتھ گزرے گا وہی پھول کو حاصل کر سکے گا.تو ہر اس کام سے جو مفید اور بابرکت ہوتا ہے.بغیر تکلیف راحت نہیں ملتی اور بغیر مشکلات کے عظمت حاصل نہیں ہوتی.کیونکہ اللہ کی قدرت کا جلوہ اسی وقت ظاہر ہوتا ہے.جب مشکلات سے گزر کر انسان کامیاب ہو جاتا ہے.وہ دیکھتا ہے کہ بظاہر وہ ناکام ہے.اور دنیا کا کوئی سامان اس کے موافق نہیں.لیکن پھر بھی جب کامیاب ہو جاتا ہے تو اس وقت اسے خدا کی قدرت کی سمجھ آتی ہے.پس اللہ تعالیٰ جو بھی انعام دیتا ہے اس کے ساتھ تکالیف رکھتا ہے.اور اس کے دیئے ہوئے انعام دوسروں سے نرالے ہوتے ہیں.کوئی شخص کامیاب نہیں ہوسکتا.جب تک کہ محنت نہ کرے.لیکن خدا کے پیاروں کی حالت ان سے الگ ہوتی ہے.ان کو بھی محنت کرنا پڑتی ہے.جیسا کہ دوسرے لوگ کسی مقصد کے حاصل کرنے کے لئے کرتے ہیں.مگر دوسروں کو صرف محنت کرنا ہوتی ہے.اور کوئی شخص ان کے ارادوں کا مزاحم نہیں ہوتا.مگر خدا کے پیارے جن کو خدا دنیا میں بڑا بنانا چاہتا ہے انکی حالت ان سے مختلف ہوتی ہے.انکو محنت بھی کرنا پڑتی ہے اور ساتھ ہی ایک دنیا مقابلہ اور ان کے مٹانے کیلئے کھڑی ہو جاتی ہے.اس لئے ان کی کامیابی اور رنگ کی اور بہت اہم ہوتی ہے.کیونکہ وہ اپنے مخالفین کو نا کام کر کے کامیابی حاصل کرتے ہیں.اور انکی مثال ایسی ہے کہ ایک وزنی گولہ ہو.اور کسی شخص کو کہہ دیا جائے کہ اس کو کھینچو.اسے کھینچنے میں محنت کرنا پڑیگی مگر ایک دوسرا شخص ہو.اسکو کہا جائے کہ اس گولے کو کھینچو اور مخالف سمت میں کئی لوگ بھی اس کے خلاف زور لگا رہے ہوں تو اس وقت اگر وہ اس گولے کو کھینچ لے جائے تو یہ ایک بڑی اور نمایاں کامیابی ہوگی.اور پہلے سے بہت بڑھ کر ہوگی.پس ہر انعام جو خدا کے برگزیدوں کو حاصل ہوتا ہے.وہ محنت کے ساتھ اپنے اندر یہ بات بھی رکھتا ہے کہ دنیا اس کے چھینے کیلئے بڑی کوشش کرتی ہے مگر کامیاب وہی ہوتا ہے جس کے ساتھ خدا کا غیبی ہاتھ کام کر رہا ہوتا ہے.اور جس کو دنیا

Page 580

خطبات محمود جلد (5) اپنی متفقہ قوت سے مٹا دینا چاہتی ہے.۵۶۹ دوسرے لوگوں کے لئے سامان ہوتے ہیں.انہیں ان سامانوں کو بہم پہنچانا اور صرف ان سے کام لینے کیلئے محنت کرنا ہوتی ہے.مگر ان لوگوں کیلئے سامان کی فراہمی کے ساتھ اپنی مخالف طاقتوں کا مقابلہ بھی درپیش ہوتا ہے.سامان تو بہر حال ہو سکتے ہیں.مگر مخالف طاقتوں کو پچھاڑ کر آگے نکلنا یہ ان کی کامیابی میں بڑی بات ہوتی ہے.کیونکہ سامان مخالفین کے پاس بھی ہوتے ہیں.اور پھر وہ اس شخص کو شکست دیکر فنا کر دینے کے درپے ہوتے ہیں.نادان خیال کرتا ہے کہ اللہ کے نبی اور مشکلات.احمق سمجھتا ہے کہ خدا کے برگزیدہ اور تکالیف.کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ ہماری یہ حالت ہے کہ جس شخص سے ہمیں محبت ہوتی ہے اسکو کبھی تکلیف دینا نہیں چاہتے بلکہ اگر تکلیف کا خیال بھی ہو تو فوراً اس کے دُور کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا کے نبی.خدا کے برگزیدہ اور خدا کے پیارے تکالیف اور رنج ومحن سے گزارے جائیں.اور خدا ان کی تکالیف کو دور نہ کرے.کیا کبھی ایسا ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے کسی عزیز کو ماریں اور مار کر پیار کریں یا زہر دیں اور پھر زہر دے کر ڈاکٹر کو بلائیں کہ یہ ہمارا بہت پیارا ہے.ہرگز نہیں.پھر کیا یہ ہو سکتا ہے کہ پہلے بھوکا رہنے دیں.اور پھر کہیں کہ یہ ہمارا دوست ہے.اس کو کھا نا کھلائیں.پس جب ہم اپنے کسی عزیز کو تکلیف دے کر پیار نہیں کرتے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ خدا کے پیارے طرح طرح کی تکلیف اٹھا ئیں.اور خدا انہیں تکالیف میں ڈال کر پھر انعام دے.اگر کوئی خدا ہے تو اسے اپنے پیارے بندوں کو تکالیف سے بچانا چاہیئے.نہ یہ کہ پہلے وہ تکالیف اٹھائیں اور پھر انعام پائیں.اگر ایسا نہیں تو خدا کی خدائی میں شک کی گنجائش ہے.کیونکہ ایسا نہ کرنے سے خدا کو اپنے پیاروں کی مدد کرنے کی قدرت سے خالی ماننا پڑے گا.اور جب قدرت سے خالی ہوا تو خدا خدا نہیں ہوسکتا.لیکن نادان نہیں جانتا کہ اللہ کے پیارے جو دنیا کی اصلاح کے لئے آیا کرتے ہیں

Page 581

خطبات محمود جلد (5) ۵۷۰ ان کا ایک کام یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ خدا کو خدا ثابت کریں.اور اسکی قدرتوں اور طاقتوں کا جلوہ دنیا کو دکھائیں.ان کا کام محض اپنے آپ کو خدا کا پیارا ثابت کرنا نہیں ہوتا.بلکہ یہ بھی دنیا کو ثابت کر کے دکھلانا ہوتا ہے کہ خدا موجود ہے اور خدا کی قدرت اور جلال کا ظہور ان کے ذریعہ ہوتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے پیارے جن کے سپر داصلاح خلق کا کام ہوتا ہے.چونکہ خدا کے جلال کا مظہر ہوتے ہیں اس لئے جب تک ان کے مخالف سامان پیدا نہ ہوں.اور ان کے مخالفین اپنی قوت پورے طور پر ان کے خلاف نہ دکھلائیں اس وقت تک خدا کا جلال اور ان کا منجانب اللہ ہونا ثابت نہیں ہوسکتا.اسی غرض کیلئے ان تکالیف اور مشکلات کا سامنا ہوتا ہے.جن میں کامیاب ہو کر وہ خدا تعالیٰ کی طاقت اور جلال کا ثبوت بنتے ہیں.پس وہ لوگ جو اپنے پر قیاس کر کے کہتے ہیں کہ خدا کے پیارے کیسے تکالیف میں پڑتے ہیں.غلطی پر ہیں.اور نہیں جانتے کہ خدا اپنے پیاروں کو کیوں مشکلات میں ڈالتا ہے.ہمیں جواپنے پیاروں سے محبت ہوتی ہے تو اس سے اپنی طاقت اور جلال کا اظہار مدنظر نہیں ہوتا.مگر خدا تعالیٰ کو یہ منظور ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے ذریعہ اپنا جلال ظاہر کرے.اور ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے زمانہ میں جن اطباء کو اپنا کوئی کمال دکھانا منظور ہوتا تھا وہ ایسا کرتے تھے.مثلاً اگر انہوں نے کسی زہر کا تریاق معلوم کیا تو لوگوں کو اپنی ایجاد کے مفید اور نفع رساں ہونے کا یقین دلانے کے لئے زہر کو خود کھا لیا اور بعد میں تریاق استعمال کیا.پس جب خدا میں اپنے بندوں کی نازک سے نازک وقت میں مدد کرنے کی طاقت ہے تو اس کو اپنی طاقت کے اظہار کے لئے دکھلانا ہوتا ہے کہ یہ ہمارے بندے جو ایسی حالت میں ہیں اور ساری دنیا ان کی مخالفت میں سرگرم ہے کامیاب ہوں گے اور دنیا کو دکھا دیں گے کہ خدا میں کس قدر طاقت اور قوت اور سطوت ہے یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ ہر قسم کے مصائب اور تکالیف برداشت کرتے ہیں.مگر خدا کا ہاتھ نہیں چھوڑتے اور جس کام کیلئے دنیا میں آتے ہیں اسکو کر دکھاتے

Page 582

خطبات محمود جلد (5) ۵۷۱ ہیں.اور اس وقت خدا کی طاقت اور جلال ظاہر ہوتا ہے.کیونکہ خدا جن کو منتخب کرتا ہے اور وہ جو جماعتیں قائم کرتے ہیں.وہ اخلاص کے ساتھ باوجود ہر قسم کی تکالیف کے آگے ہی آگے بڑھی چلی جاتی ہیں.ان پر ہمیشہ ابتلاء لائے جاتے ہیں مگر ان کے لئے قبل از وقت پیشگوئیاں موجود ہوتی ہیں کہ بالآخر تمہیں ہی کامیابی ہوگی.اس راہ میں مخالفین قدم قدم پر ان پر حملہ آور ہوتے ہیں.ان کے مقابلہ میں سارا زور لگا دیتے ہیں.مگر ہوتا وہی ہے جس کی خدا کے نبی پہلے اطلاع دے چکے ہوتے ہیں.دیکھو اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف کس قدر زور لگایا گیا.پھر باوجود مخالفت کے دشمن کو ماننا پڑتا ہے کہ مرزا صاحب کو کامیابی ہوئی.ابتداء میں حضرت صاحب کی کامیابی کے کوئی سامان نہیں تھے.مگر آخر دشمن کو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ مرزا صاحب کامیاب ہو گئے.ایک دشمن یہ دیکھتے ہوئے کہ آپ کو کامیابی ہوئی.اس معیار کا تو انکار کر دیگا کہ کامیابی کوئی معیار صداقت نہیں.لیکن آپ کی کامیابی سے انکار نہیں کر سکتا.لیکن اگر وہ معیار کا انکار کرتا ہے تو اس سے حضرت مرزا صاحب کی تکذیب ہی نہیں ہوتی محمد صلی اللہ علیہ وسلم.حضرت عیسی.حضرت موسی.حضرت یعقوب.حضرت ابراہیم غرض کہ سب انبیاء کی تکذیب ہوتی ہے.کیونکہ اگر یہ معیار پہلوں کو صادق ثابت کرتا ہے تو پھر حضرت مرزا صاحب کو بھی صادق ہی ماننا پڑے گا.پس وہ جو آپ کی کامیابی کو تسلیم کریگا گو یہ کہے کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس سے آپ کی صداقت ظاہر ہو.مگر اسے اپنے اس قول کے ساتھ قرآن اور حدیث کو جھٹلانا پڑے گا.اور یا تو اسے پہلے انبیاء کا بھی انکار کرنا پڑے گا.یا حضرت مسیح موعود کا اقرار کریگا.اور یہ ایسی زبردست دلیل ہے جس کی موجودگی میں حضرت مرزا صاحب کی صداقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا.صداقت پسند لوگ جن کے دلوں میں صداقت کا بیج بویا گیا ہے.وہ تو آپ پر ایمان لے آئیں گے لیکن وہ جو صداقت سے دُور ہیں.انکے ماننے کی کوئی صورت نہیں.جن میں صداقت کا مادہ ہے.وہ مانتے ہیں کہ قبل از وقت یہ باتیں کہی

Page 583

خطبات محمود جلد (5) ۵۷۲ گئی تھیں.اور اس وقت کہی گئی تھیں جبکہ ہر قسم کے سامان ان کے مخالف تھے اور اب ہو بہو پوری ہو رہی ہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی صداقت کو تسلیم نہ کیا جائے.دیکھو صوفیوں.مولویوں.جاہلوں.امیروں غرض ہر طبقہ کے لوگوں نے مخالفت کی.مگر کامیابی اسی کو حاصل ہوئی جس کو لوگ مٹانے پر تلے ہوئے تھے.اور وہ حضرت مرزا صاحب تھے.جب مکہ فتح ہوا تھا تو مکہ کی عورتوں کے ساتھ ہندہ.ابو سفیان کی بیوی بھی بیعت کرنے کو آئی آنحضرت نے فرمایا.اقرار کرو کہ ہم آئندہ شرک نہیں کریں گی.ہندہ نے کہا.یا رسول اللہ کیا اب بھی ہم شرک کریں گی.آپ اکیلے تھے.ساری قوم متفقہ طاقت کے ساتھ بتوں کی مدد میں کھڑی ہوئی تھی.مگر آپ جوا کیلے تھے کامیاب ہوئے.اور ساری قوم نے شکست پر شکست کھائی.کیا اس سے ظاہر نہیں ہو گیا کہ بجٹوں میں کچھ طاقت نہیں.اگر بتوں میں کچھ بھی طاقت ہوتی تو کیسے ممکن تھا کہ آپ ایک اکیلے ساری قوم پر غالب آجاتے.تو یہ ایک فطرت کا تقاضا تھا جو ایک عورت کے مُنہ سے ظاہر ہوا.عورتوں کیلئے کہا جاتا ہے کہ وہ جاہل ہوتی ہیں.اور اس میں شک نہیں کہ جہاں تعلیم نہ ہو عورتیں ضرور جاہل ہی ہوتی ہیں.اور عرب میں بھی اس وقت عورتوں کو سیاست میں کچھ دخل نہ تھا.ایسی صورت میں ہندہ کا یہ کہنا بتاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا باوجود کیلے ہونے کے ساری قوم پر کامیاب ہو جانا انکی صداقت کا عظیم الشان ثبوت ہے.پس نبیوں کی صداقت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ لوگوں کی مخالفتوں کے باوجود کامیاب ہوا کرتے ہیں.تا کہ خدا کی خدائی ثابت ہو.خطرناک ابتلاء آتے ہیں.جن سے دوسرے لوگوں کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں.مگر وہ صداقت پر قائم رہتے ہیں.آخر کار مظفر و منصور ہوتے ہیں.اور ان کے دشمن خائب و خاسر ہو جاتے ہیں.یہی معاملہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہوا.دنیا نے آپکی مخالفت میں کوئی کسر نہ چھوڑی.مگر آپ کامیاب ہوئے.اب پھر میں دیکھتا ہوں کہ کچھ آرام کے بعد ہمارے مخالفین کی طرف سے پھر

Page 584

خطبات محمود جلد (5) ۵۷۳ ہمارے رستہ میں تکالیف اور دشواریاں پیدا کی جا رہی ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ ہم پر خدا کے فضل ہو نیوالے ہیں.اس لئے جس طرح ہر بہار کے وقت زہریلے پودے بھی پھوٹ نکلتے ہیں.اسی طرح ہمارے مخالف بھی اب جوش دکھلانے لگے ہیں اور پھر میدان میں آئے ہیں.ہم نے کسی کا کیا بگاڑا ہے.لیکن جو اُٹھتا ہے.ہمیں پر گالیوں کی بوچھاڑ شروع کر دیتا ہے.ہندو رسول کریم کو گالیاں دیتے ہیں.عیسائی اس مقدس وجود کو برا بھلا کہتے ہیں.ان لوگوں کے مقابلہ میں انکی رگِ حمیت حرکت میں نہیں آتی پھر اگر کوئی ہندو عیسائی ہوتا ہے تو وہ بھی اسلام کے خلاف لکھتا ہے.اور اگر سکھ عیسائی ہوتا ہے تو اس کا زور بھی اسلام ہی کے خلاف صرف ہوتا ہے.یہ نہیں کہ جس قوم میں سے کوئی عیسائی ہو اس کے متعلق لکھے.تا کہ سمجھا جائے کہ اس کو اپنی قوم سے ہمدردی ہے.اس لئے ایسا کرتا ہے.نہیں جو بھی اُٹھتا ہے وہ اسلام کے مقابلہ میں ہی اپنی طاقت خرچ کرتا ہے.مگر اسکے لئے مسلمانوں کو جوش نہیں آتا.ان کو اگر جوش آتا ہے.اگر یہ بھڑک اُٹھتے ہیں تو احمدیوں کے خلاف.اور احمدیوں کے ان مضامین کے خلاف جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جلال ظاہر ہوتا ہے.ان کے صوفیاء اگر اُٹھیں گے تو احمدیوں کے خلاف لکھیں گے.ان کے مولوی اپنی گالیوں کا نشانہ بنائیں گے تو احمدیوں کو.اگر کوئی مسلمان عیسائی ہو جائے تو ان کو ناگوار نہیں گزرتا.لیکن اگر کوئی احمدی ہو جائے تو گویا اس میں سارے عیب جمع ہو جاتے ہیں.اور اس کی مخالفت کرنا وہ عین فرض سمجھتے ہیں.مختلف مذاہب کے لوگ کسی قصبہ یا گاؤں میں رہتے ہوں کسی کو کچھ تکلیف نہیں ہوتی.لیکن جہاں کوئی احمدی ہوا.اس کے نکالنے کے درپے ہو جاتے ہیں.کیونکہ ان کے نزدیک اس سے بڑھ کر کوئی برا نہیں.مولویوں کے قلم کے تلوار اگر کسی کے مقابلہ پر اُٹھتے ہیں تو وہ ہم ہی ہیں.خدا نے ان سے لوہے کی تلوار تو چھین لی ہے.کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ایک بچے مذہب کے مقابلہ میں یہ لوگ اُٹھیں گے.لیکن ان کے قلم کے تلوار اپنا پورا زور ہمارے مقابلہ میں صرف کر رہے ہیں.وہ اپنی بدگوئی اور گالیوں کی بارش ہم پر کر رہے ہیں.اور

Page 585

خطبات محمود جلد (5) ۵۷۴ ایسا کرنے میں انہیں کوئی خوف نہیں.کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جن سے ہمارا مقابلہ ہے وہ شریف ہیں.اس لئے گالیوں کا جواب گالی سے نہیں دیں گے.وہ اپنی گالیوں اور استہزاء پر ہی خوش ہور ہے ہیں.کیونکہ عوام دلائل کو نہیں سنتے.اور استہزاء سے پیار کرتے ہیں.لیکن یاد رکھیں کہ وہ دن آنیوالے ہیں.جب لوگ گالیوں سے تنگ آکر دلائل کی طرف توجہ کریں گے.صوفیوں کو جوش آتا ہے تو احمدیوں کے خلاف.مولویوں کو جوش آتا ہے تو احمدیوں کے خلاف.امراء کو جوش آتا ہے تو احمدیوں کے خلاف.حاکموں کو جوش آتا ہے تو احمدیوں کے خلاف ، سوائے ان حکام کے جو گورنمنٹ کے ماتحت ہیں.مسلمانوں کی ریاستوں میں ہندو امن سے ہیں.انکے مندراورشوالے.اور سکھوں کے گوردوارے بنتے ہیں.مگر احمد یوں کیلئے اجازت نہیں کہ مسجد بنا سکیں.ان کی تبلیغ کے لئے چند پابندیاں ہیں.مگر احمد یوں کو ممانعت ہے.ہمارے مخالفین ایک دفعہ زور لگا کر بیٹھ گئے تھے.اب پھر اُٹھے ہیں.لیکن انکی حالت ایسی ہی ہے جیسے بجھنے والے چراغ کی تم نے دیکھا ہوگا کہ چراغ میں جب تیل ختم ہو جاتا ہے تو وہ آخر میں پوری روشنی دیتا ہے.مگر تھوڑی دیر بعد مجھ جاتا ہے.پس ہمارے مخالفین کا اب جوش دکھانا ان کے آخری سانس کا پتہ دے رہا ہے.اور ان کے لئے آخری لمحہ ثابت ہوگا.انشاء اللہ.ہمارےخلاف ان لوگوں کی کوششیں.گالیاں نہی.استہزاء پر آرہی ہیں لیکن یہ باتیں صداقت کو نقصان نہیں پہنچا سکتیں.صداقت پھیلے گی اور ضرور پھیلے گی.مگر اس وقت ہمارا فرض ہے کہ اس کیلئے سامان مہیا کریں.اتفاق واتحاد اور یحجہتی سے کام میں مشغول ہوں اور ہر قسم کی قربانیاں کرنے کو تیار رہیں.بلکہ کریں.کیونکہ اس مقابلہ کیلئے قربانیوں کی ضرورت ہے.پھر کامیابی انشاء اللہ ہماری ہی ہوگی.ہمارے لئے انعام مقرر ہے.صرف محنت کرنے کی دیر ہے.اور یہ آخری وقت ہے.اس وقت زیادہ محنت کی ضرورت ہے.مزدوروں کو دیکھا ہو گا کہ وہ شام کے وقت محنت زیادہ کرتے ہیں.کیونکہ مزدوری ملنے کا وہی وقت ہوتا ہے.وہ جانتے ہیں اگر اس وقت مالک خوش ہو گیا تو انعام پائیں گے.پس

Page 586

خطبات محمود جلد (5) ۵۷۵ ہمیں بھی چاہیئے کہ اس وقت ہر قسم کی قربانیاں کرنے کے لئے تیار رہیں.کیونکہ پردہ اُٹھنے کی دیر ہے.خدا تعالیٰ کا ارادہ اس فتنہ وفساد کے مقابلہ میں جو ہمارے مخالف ہمارے مقابلہ میں کر رہے ہیں.یہ ہے کہ ہمیں انعام دے.پس میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ دشمن نے کروٹ بدلی ہے.ہم جسے مُردہ سمجھتے تھے وہ ابھی مرا نہیں.ہاں آخری دم کو پہنچ چکا ہے پس اس کے فتنوں کے مقابلہ میں ہمت دکھلاؤ.اور قربانیاں کرو.انعام تمہارے ہاتھوں سے نہیں جائے گا.اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں دشمن کے مقابلہ میں کامیاب فتح ہو.اور اسکے بعد دشمن کو سر اٹھانے کی جرات نہ ہو تو خاص طور پر ہمت دکھاؤ.اور قربانیاں کرو.(الفضل ۳۰ اکتوبر ۱۹۱۷ء)

Page 587

۵۷۶ 78 خطبات محمود جلد (5) اہل قلم اصحاب تو جہ کریں (فرموده ۲۶ /اکتوبر ۱۹۱۷ء) حضور نے تشہد وتعوذ کے بعد مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.اور فرمایا:- ( آل عمران : ۱۰۵) اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو مذاہب لوگوں کی ہدایت اور اصلاح کیلئے آتے ہیں انکی کامیابی اشاعت اور غلبہ اللہ تعالیٰ کی قدرت.فضلوں.اور زبر دست نشانوں کے ساتھ ہی ہوتا ہے.لیکن باوجود اس کے جو مذہب خدا کی طرف سے ہو اس میں انسانی کوشش کے بغیر کامیابی نہیں ملتی.اس میں کوئی شک نہیں کہ جو کامیابی بھی ہوتی ہے وہ کوشش کا نتیجہ نہیں ہوتی جو انسان کرتے ہیں.لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ انہیں کوشش ضرور کرنی پڑتی ہے.دیکھو اسلام کی اشاعت کیلئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو وطن چھوڑنے پڑے.مالوں کو عزیز و اقرباء کو چھوڑنا پڑا.دشمنوں کا تلوار کے ساتھ مقابلہ کرنا پڑا لیکن جو ترقی ہوئی اس کے مقابلہ میں قربانی کچھ بھی نہ تھی.رسول کریم کا مقابلہ ساری دنیا سے تھا.اور جو قوم آپ کے معت ابلہ پر آئی تھی وہ اپنی تعداد کے لحاظ سے.اثر کے لحاظ سے.رسوخ کے لحاظ سے.مال و دولت کے

Page 588

خطبات محمود جلد (5) ۵۷۷ لحاظ سے.غرض ہر حیثیت سے زیادہ تھی.مگر کامیابی رسول کریم کو ہی ہوئی.اور اس کو انسانی کوشش کا نتیجہ نہیں کہا جاسکتا.اگر انسانی کوششوں سے ہی ایسی عظیم الشان کامیابی ہوا کرتی ہے تو آج بھی ایک قوم سے جنگ شروع ہے.ادھر طاقت.مال.رسوخ.غرض کہ تمام سامان اُس کی نسبت زیادہ ہیں.فرق صرف اتنا ہے کہ اسکی پہلے سے تیاری تھی لیکن باوجود اس کے آج تک ایک کروڑ آدمی مرا.اور زخمی ہو چکا ہے.تاہم مقصد حاصل نہیں ہوا.اسلام کے مقابلہ میں جو حملہ آور تھے وہ تعداد میں اور ہر حیثیت میں زیادہ تھے.انکوایسی شکست ہوئی کہ ان کا نام و نشان باقی نہ رہا.مگر اس لڑائی میں دیکھو اگر چہ دشمن کی تعداد تھوڑی ہے.مگر پھر بھی وہ مغلوب نہیں ہوا.افغانستان کی ساری آبادی یا آجکل کے عرب کی جس قدر بھی آبادی ہے اس ساری کو دگنا کر دیا جائے تو انکی تعداد اتنی ہوگی جتنے اس جنگ میں اس وقت تک مر چکے ہیں.مگر فیصلہ ابھی تک ہونے میں نہیں آتا.ادھر دیکھو.مسلمانوں کی جماعت.ایک محدود جماعت تھی.اور مال و دولت ساز و سامان بھی محدود ہی تھا.مگر انکی قربانیاں ایسے پھل لائیں کہ دشمن بالکل مٹ گئے.مسلمان جس قدر مارے گئے.اور جتنا مال انہیں خرچ کرنا پڑا.وہ بہت کم تھا.اس کامیابی کے مقابلہ میں جو ان کو حاصل ہوئی.رسول کریم کے وقت کی جنگوں میں جو مسلمان شہید ہوئے انکی تعداد دو تین سو سے زیادہ نہیں.اور دشمن کے ہلاک ہو نیوالوں کی تعداد ہزار ڈیڑھ ہزار سے زیادہ نہیں.لیکن ان جنگوں کا نتیجہ دیکھو کیسا فیصلہ کن.اور عظیم الشان نکلا کہ دشمن بالکل کچلا گیا.اسے مسلمانوں کی قربانیوں اور کوششوں کا نتیجہ نہیں کہا جا سکتا.تو یہ قربانی کچھ بھی نہیں.افراد کے لحاظ سے اگر چہ انہوں نے بڑی بڑی قربانی کی.مگر مجموعی لحاظ سے جو قربانی ہوئی وہ کامیابی کے مقابلہ میں بڑی نہ تھی.اور جب قوموں سے مقابلہ ہوتا ہے تو جماعتوں کی قربانی دیکھی جایا کرتی ہے.اور اس بات کا لحاظ ہوتا ہے کہ جماعت کی طرف سے کتنی قربانی ہوئی.مسلمانوں نے فرداً فرداً جو قربانی اور اخلاص دکھایا اور دین کی راہ میں جو کوشش

Page 589

خطبات محمود جلد (5) ۵۷۸ کی وہ بے نظیر تھی.مگر کامیابی اس کوشش کا لازمی نتیجہ نہیں تھی.کیونکہ اگر لازمی نتیجہ ہوتی تو ہر ایک وہ قوم جو ان جتنی تعداد رکھتی.اسے ایسی ہی کامیابی ہوا کرتی لیکن کیا کوئی ایسی نظیر دنیا میں پیش کی جاسکتی ہے.ہرگز نہیں.تو مسلمانوں کا مقابلہ بڑی تعداد کے ساتھ ہوا.افراد کے لحاظ سے گوانہوں نے بڑی بڑی قربانیاں کیں.اور ان سے بڑھ کر کوئی کیا کرے گا.اور جب صحابہ کرام کی قربانیوں کا ذکر ہوگا تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ ان کے اتنے آدمی مارے گئے کہ جتنے کسی کے نہیں مارے گئے.یا یہ نہیں کہا جائے گا کہ ان کا اتنامال خرچ ہوا کہ کسی اور نے نہیں کیا.بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ ان کے ایک آدمی نے جتنا کام کیا اتنا کسی اور نے بھی کیا ہے.یا نہیں.اس کے مقابلہ میں ان سے بڑھ کر کوئی اور نظر نہیں آئے گا.لیکن انکی مجموعی قربانی اور کوشش کو دیکھو.اور پھر انکی کامیابی کی طرف نظر کرو کہ کیا نسبت رکھتی ہے.انہوں نے عرب کو فتح کیا.اور خدا کے فضل سے ہی کیا.نہ کہ انکی کوشش اور قربانی کی وجہ ہے.اگر خدا کی قدرت کے ماتحت نہ ہوتا تو انہیں کبھی کامیابی نہ ہو سکتی.اس وقت ہی عراق عرب.جو عرب کا ایک حصہ ہے.اس کے فتح کرنے کیلئے گورنمنٹ برطانیہ کے قریبا ہیں ہزار آدمی کام آچکے ہیں.مگر سارا علاقہ صاف نہیں ہوا.حالانکہ ساز و سامان کے لحاظ سے.طاقت کے لحاظ سے خرچ کے لحاظ سے قربانی تو زیادہ ہوئی ہے.اس لئے چاہیئے تھا کہ کامیابی بھی زیادہ ہوتی.مگر ایسا نہیں ہوا.پس صحابہ کرام کو جو کامیابی ہوئی اور انکی قربانیوں کا جو نتیجہ نکلا.وہ خدا کے فضل سے اور اسی کی تائید سے نکلا.اس کو انکی کوشش کا لازمی نتیجہ نہیں کہہ سکتے.لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو بھی ایسا کرے اسکوضرور وہ نتیجہ حاصل ہو جائے مگر ہر ایک کو ایسا کرنے کے باوجود.بلکہ اس سے بھی زیادہ کرنے پر وہ حاصل نہیں ہوسکتا.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر خدا نے اپنی قدرت سے ہی یہ نتائج مسلمانوں کیلئے مہیا کئے تو کیا ضرورت تھی کہ تین سو آدمی انکے مرتے.اسکے بغیر ہی فتح دے دیتا انکے سب مخالفوں کو ہلاک کر دیتا.اور یہ قلیل التعداد لوگ بغیر کسی قسم کی تکلیف

Page 590

خطبات محمود جلد (5) ۵۷۹ اٹھائے کامیاب و بامراد ہو جاتے.ابوجہل.عتبہ.شیبہ.وغیرہ جتنے سرکش اور دشمنانِ اسلام تھے آنحضرت جب صبح کو نماز کیلئے اُٹھتے تو دیکھتے کہ ان کے گلے میں طوق پڑے ہوئے ہیں.اور آپ کے دروازے پر پڑے ہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کی قدیم سے سنت ہے کہ پہلے اپنے مخلص بندوں کو کوشش کرنے کیلئے کہتا ہے.جتنی انکی طاقت ہوتی ہے.اس کو وہ خرچ کرتے ہیں.باقی مد دخدا تعالیٰ خود دیتا ہے.اور وہ کامیاب ہو جاتے ہیں.اگر ایسا نہ ہو تو ان کے اخلاص کا کیسے اظہار ہو.اس کی مثال ہم گورنمنٹ میں دیکھتے ہیں.بعض کاموں کیلئے وہ لوگوں کو کہہ دیتی ہے کہ تم اتنا روپیہ مثلاً پندرہ یا بیس ہزار اگر جمع کر لوتو باقی ہم دے دیں گے.یہی اللہ تعالیٰ کا طریق ہے.پس کسی کامیابی کے لئے کوشش ضرور کرنی پڑتی ہے.پھر اللہ تعالیٰ کا تصرف خود کام کرتا ہے.اور عظیم الشان کامیابی حاصل ہو جاتی ہے.انسانی عقل اور تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ مسلمانوں نے کوشش کی مگر ان کی کوشش کا لازمی نتیجہ فتح نہ تھی.وہ خدا نے اپنے فضل سے ان کو دی.یہی حال ہمارا ہے.یہ سچ ہے کہ ہمارے دشمن ناکام ہوں گے.ان میں ہمیں یقینا غلبہ حاصل ہوگا.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود سے وعدہ فرمایا و جاعل الذين اتبعوك فوق الذين كفروا الى يوم القیامۃ.کہ تیرے متبعین کو تیرے منکرین پر غلبہ دوں گا.پس باوجود اسکے کہ کامیابی خدا کے ہی فضل سے ہوگی.مگر یا درکھو کہ خدا کا فضل اس وقت تک نہیں آئے گا.جب تک کہ ہم اپنی تمام طاقت و ہمت صرف نہ کر لیں.ہماری فتح اور کامیابی یقینی ہے.مگر اس کو ہماری کوشش اور سعی کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا ہے.اس لئے جب تک ہم اپنی پوری طاقت اور کوشش سے کام نہ لیں گے.کامیابی حاصل نہ ہوگی.دین کے لئے خدمت کرنا کوئی فرض کفایہ نہیں.بلکہ جس طرح نماز روزہ ہر ایک اس انسان پر فرض ہے جو عاقل بالغ ہے.اسی طرح دین کی خدمت ہر ایک پر فرض ہے.اس لئے ہر ایک کو اس میں لگ جانا چاہیئے.میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں بتایا تھا کہ ہمارے مخالف پھر زور کر کے اٹھے ہیں.اور زور کے ا :- تذکرہ ص ۶۱ ، ص ۹۶

Page 591

خطبات محمود جلد (5) ۵۸۰ ساتھ مقابلہ میں آئے ہیں.انہوں نے خیال کیا ہے کہ آج تک ہم نے پورے زور کے ساتھ مقابلہ نہیں کیا.اگر ابتداء سے ہم ایسا کرتے تو ان کو مٹا دیتے حالانکہ یہ ان کا خیال غلط ہے.وہ پہلے اپنا سارا زور لگا کر نا کام ہو چکے ہیں.لیکن معلوم ہوتا ہے.وہ پہلی کمزوری کو بھول گئے ہیں.اور اب پھر انہیں یہ وہم ہوا ہے پہلے بھی انہوں نے یہ زور لگایا تھا.جسے خود پسندی سے بھول گئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ہمارا مقابلہ پہلے کچھ نہیں کیا.حالانکہ پہلے مایوس ہو گئے تھے.مگر اب انہوں نے سمجھا ہے کہ اگر کچھ کریں تو ضرور ہمیں نقصان پہنچا دیں گے.اور ایسا ہوا کرتا ہے کہ جب مقابلہ میں کسی کو زک ہوتی ہے تو تھوڑی دیر بعد وہ زور لگاتا ہے کہ شاید اب کے کچھ کامیابی ہو جائے.یہی خیال ہمارے مخالفین کو پیدا ہوا ہے.پس ہماری جماعت کے ہر ایک فرد کا فرض ہے کہ اس مقابلہ کے لئے تیار ہو جائے.میں دیکھتا ہوں کہ جماعت کو اپنے اس فرض کی طرف بہت کم توجہ ہے.آج صرف تقریروں کا زمانہ نہیں.بلکہ تحریر کا ہے.اور تحریر سے ایک شخص دُور دُور تک ہلچل ڈال سکتا ہے.اس زمانہ میں مطابع کی ایجاد اور کاغذ کی کثرت نے حملہ کے طریق کو بدل دیا ہے.اور جس طرح شرارت کے اسباب زیادہ ہو گئے ہیں.اسی طرح ہدایت کے سامان بھی بہت وسیع ہو گئے ہیں.پس زبانی طور پر تبلیغ کا کام کرنے کی بجائے یہ طریق زیادہ مؤثر ہے.اسوقت ہمارے مخالف انہی سامانوں کے ساتھ اٹھے ہیں.ستارہ صبح.ذوالفقار.اہل حدیث وغیرہ اخباروں میں حملے ہور ہے کئی انجمنیں ہیں جو ٹریکٹ ہمارے خلاف شائع کرتی ہیں اور ان ٹریکٹوں کی بیسیوں تک نوبت پہنچ گئی ہے جن کا کوئی جواب نہیں دیا گیا.کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ایک وہ وقت تھا ہمارا قرضہ دشمنوں کے ذمہ ہوتا تھا.لیکن اب ہمارے ذمہ ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ آجکل جو لوگ لکھ سکتے ہیں.انہوں نے فرض کفایہ کی طرح دین کی خدمت کو سمجھ لیا ہے وہ کہتے ہیں ہم میں سے فلاں فلاں جو کام کر رہے ہیں.ہمیں کیا ضرورت ہے.حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مجموعی طور پر مخالفین کا مقابلہ کیا جائے.اس لئے میں تمام دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سستی اور غفلت کو چھوڑ دیں.اور ہر ایک ٹریکٹ، اشتہار، اخبار

Page 592

خطبات محمود جلد (5) ۵۸۱ خواہ وہ غیر احمد یوں کے ہوں.یا غیر مبائعین کے.یا عیسائیوں کے.یا آریوں کے غرض کسی طرف سے ہوں.ان کا جواب دیا جائے.اور ان پر اعتراض کئے جائیں.تا کہ دشمن کو حملہ کا پہلو چھوڑ کر دفاع کا طریق اختیار کرنا پڑے.اور حملہ شرافت سے بھی ہو سکتا ہے.اب تک تو کسی حد تک دفاع کا پہلو رہا ہے.لیکن اب حملہ کرنا چاہیئے.ان حملوں میں انسانیت کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں.دیکھو فتح مکہ دفاع نہیں تھا.حملہ تھا.عربوں نے جب کئی دفعہ حملہ کیا اور مسلمانوں کی طرف سے دفاع کیا گیا تو رسول کریم نے غزوہ احزاب میں فرمایا کہ اب تک تو دشمن ہم پر حملہ کر رہے ہیں لیکن ہم اب انہیں حملہ کا موقعہ نہیں دیں گے.اور خودان پر حملہ کریں گے ا.چنانچہ چند ہی سالوں میں مخالفین کی جمیعت منتشر اور پراگندہ ہو کر ضائع ہو گئی.ہجرت کے تیرہ سال میں آٹھ سال مسلمانوں نے دفاع کیا.ان میں اتنی کامیابی نہیں ہوئی جتنی ساڑھے پانچ سال میں جن میں حملہ کیا گیا.حملہ کے ساتھ شرط نہیں کہ ظالمانہ ہو.اور دوسروں کے بڑوں کو گالیاں دی جائیں.یا جن کے مذہب کا ذکر بُرے الفاظ میں کیا جائے.ان کے بزرگوں کو جھوٹے اور مکار کہیں.ہاں انکے مذہب کے کمزور پہلوؤں کو بیان کریں اور ان پر اعتراض کریں تا کہ ان کو بھی کچھ فکر پڑے.جو ان کا اعتراض ہواس کا بھی جواب دیا جائے.مگر اپنی طرف سے ان پر اعتراض ہوں.قانون کے اندر رہ کر انکی تردید ہو.جب یہ حالت ہوگی تو ان کو بھی اپنی فکر پڑ جائے گی.پس وہ سب لوگ جو لکھ سکتے ہیں اخبار میں مضامین لکھیں.اشتہار شائع کریں.ٹریکٹ لکھیں.پہلے جو کوتا ہی ہو چکی ہے.ہو چکی ہے.اب کو تا ہی کا وقت نہیں ہے.پہلے ان کے اعتراضات کی طرف توجہ نہیں کی گئی.اور جب تک ہماری طرف سے خاموشی رہی ان کے حملے بڑھتے گئے اب وقت ہے کہ ہم ان کے حملوں کا رڈ کر کے ان پر حملہ کر سکتے ہیں.ورنہ ہم ان کے اعتراضات کے نیچے دب جائیں گے.حضرت مسیح موعود کے وقت تمام لوگ کام میں لگے رہتے تھے.پرانے بدر اور الحکم کے فائل اُٹھا کر دیکھ لو تمہیں معلوم ہو جائے :- بخاری کتاب المغازی باب غزوہ خندق وھی الاحزاب.

Page 593

خطبات محمود جلد (5) ۵۸۲ گا کہ مخالفوں کو چھوٹے بھی جواب دے رہے ہیں.اور بڑے بھی.مولوی نور الدین صاحب بھی لکھتے ہیں.مولوی عبد الکریم صاحب بھی لکھ رہے ہیں.وہ لوگ اخباروں میں مضامین لکھنا اپنی ہتک نہیں سمجھتے تھے.ایک طرف ان کا جواب ہوتا تھا تو ساتھ ہی کسی کم علم کا جواب بھی ہوتا تھا جس کا املاء بھی درست نہ ہوتا تھا.جب یہ حالت تھی تو دشمن بھی حملہ کرنا بھول گئے تھے.پس میں ساری جماعت کو نصیحت کرتا ہوں.خصوصا قادیان کے لوگوں کو.کہ کوئی ٹریکٹ.اشتہار.اخبار وغیرہ نہ رہ جائے جس کا جواب ہماری طرف سے نہ دیا جائے.اسلام کے جس مسئلہ پر بھی اعتراض ہو ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کا جواب دیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ولتكن منكم امة يدعون الی الخیر.اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ یہ کام کر سکتے ہیں.وہ کریں.یہ مراد نہیں کہ ایک خاص جماعت ہونی چاہئیے.پس تمام ان دوستوں کو توجہ کرنی چاہئے جو کام کر سکتے ہیں کہ وہ اس مخالفت کی روکو روکنے میں بہت کوشش کریں.جن سالوں میں ہم نے توجہ نہیں کی وہ یقینا تاریخ احمد یہ میں ضائع شدہ سال سمجھے جائیں گے.اللہ تعالیٰ رحم کرے.(الفضل ۳ نومبر ۱۹۱۷ء)

Page 594

۵۸۳ 79 خطبات محمود جلد (5) کامیابی کیلئے دعائیں کرو (فرموده ۲ نومبر ۱۹۱۷ء) تشہد وتعوذ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: إنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَايْمَانِ ذِي الْقُرْبَى وَيَعْنِي عَنِ الْفَحْشَاءِ والْمُنكَرِ وَالْبَغَى يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَلكُرُونَ (النحل:۹۱) اللہ تعالیٰ کے انعامات اور افضال بعض اس قسم کے ہوتے ہیں کہ جب تک انسان کی طرف سے ان کیلئے استدعانہ کی جائے حاصل نہیں ہوتے.جب محنت کے بعد وہ آتے ہیں تو بھی وہ انعام ہی ہوتے ہیں.اس لئے کہ وہ محنت کا لازمی نتیجہ نہیں ہوتے.بلکہ وہ انسان کی محنتوں اور کوششوں سے بہت بڑھ کر ہوتے ہیں.لہذا ان کو کسی صورت میں محنت اور کوشش کی جز انہیں کہا جا سکتا تاہم آتے اسی وقت ہیں جب محنت سے کام لیا جاتا ہے.مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایسے انعامات صرف کوشش کے ساتھ ہی نہیں آتے بلکہ ظاہری سامانوں کے مہیا کرنے کے علاوہ قلب کی کیفیات کا بدلنا بھی ان کے لانے کا موجب ہوتا ہے.اور وہ اس طرح کہ خدا ان انعامات کو نہیں بھیجتا جب تک انسان درخواست نہیں کرتا.جیسا کہ معز زلوگوں کا طریق بھی ہے.اور بجا طریق ہے کہ وہ بن بلائے کسی کے پاس نہیں جاتے کیونکہ اگر وہ لوگ ایسا نہ کریں تو انکی احتیاج پائی جائے.اللہ تعالیٰ نے بھی انعامات دو حصوں میں تقسیم کر رکھے ہیں.ایک وہ جو بن مانگے

Page 595

خطبات محمود جلد (5) دیتا ہے.۵۸۴ اور دوسرے وہ جو محنت کے ساتھ مانگنے پر ملتے ہیں.پس جو ایسے اعلیٰ درجہ کے انعامات ہوتے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ کوشش سے ہی ملتے ہیں بلکہ کوشش کے ساتھ مانگنا بھی پڑتا ہے.پس جہاں ان مشکلات اور مصائب کے مقابلہ میں محنت اور کوشش کی ضرورت ہے جو ہمارے دشمنوں کی طرف سے ہماری راہ میں پیدا کی گئی ہیں.اور ضرورت ہے کہ ہم اپنی تمام خدا داد طاقتوں اور قوتوں کو انکے مقابلہ میں صرف کریں جو ہم میں پائی جاتی ہیں کہ اسلام اور احمدیت کا منور چہرہ دنیا پر ظاہر ہو.وہاں اس کے علاوہ خدا کے انعامات کا وارث ہونے کیلئے درخواست بھی کرنی چاہئیے.رتبہ بغیر مانگنے کے نہیں ملتا.پس محض کوشش اور محنت انعامات نہیں دلوا سکتی اس لئے سامانوں کے استعمال کیلئے ضروری ہے کہ دعا سے بھی کام لیا جاوے.اسلئے ہماری جماعت کیلئے ضروری ہے کہ سامان بھی مہیا کرے اور درخواست بھی کرے کہ خدا یا ہم پر اپنے فضل نازل فرما.یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ جیسے ممکن نہیں کہ دروازہ کھول دیا جاوے اور روشنی نہ آئے.اور ممکن نہیں کہ کھانا کھایا جائے اور سیری نہ ہو.اور ممکن نہیں کہ پانی پیا جائے اور پیاس نہ بجھے.اور ممکن نہیں کہ لباس پہنا جائے اور برہنگی دُور نہ ہو.اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ محنت کے ساتھ ساتھ جب خدا سے درخواست بھی کی جائے تو انعام نہ ملے.ہاں اگر کوئی عقل یہ تجویز کرسکتی ہے کہ دروازہ کھلے اور روشنی اندر نہ آئے.کھانا کھایا جائے اور سیری نہ ہو.پانی پیا جائے اور پیاس نہ بجھے.اور کپڑے پہنے جائیں اور عریانی دُور نہ ہو.یہ تو شاید ہو سکے.مگر یہ قطعا ممکن نہیں کہ خدا کے دیئے ہوئے سامانوں کو استعمال کر کے پھر اسی سے استدعاء کی جائے تو وہ کامیاب و مظفر و منصور نہ کرے اور اپنے انعامات کا وارث نہ بنائے.پس ہمارے ارد گرد پہاڑوں کے پہاڑ مشکلات کے جمع ہیں.خدا سے دعائیں کرنی چاہئیں کہ وہ ان رکاوٹوں کو دور فرمادے اور ہم پر انعامات نازل کرے.(الفضل ۶ نومبر ۱۹۱۷ء)

Page 596

۵۸۵ 80 خطبات محمود جلد (5) حصول علم ہر احمدی کا فرض ہے (فرموده ۹ نومبر ۱۹۱۷ء) حضور نے تشہد وتعوذ کے بعد مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: ولا تقف ماليس لك به علم ان السمع والبصر والفواد كل اولئك كان عنه مسئولا ( بنی اسرائیل : ۳۷) چونکہ یہ زمانہ.زمانہ اشاعت اسلام ہے.اور منشاء الہی یہ ہے کہ اسلام کو اپنی تمام شان کے ساتھ دنیا میں ظاہر کرے.اس لئے اس زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق تبلیغ اسلام کے متعلق ضروری ہے کہ زیادہ زور دیا جائے اور اس کام کے کرنے کیلئے جو ضروریات اور سامان ہیں ان کو مشرح کر کے بیان کیا جائے تا کہ ہر شخص اس میں حصہ لے سکے.حقیقتا تبلیغ کے لئے دو ہی باتیں ہیں جن کی بہت بڑی ضرورت ہے.اول علیم صحیح.جب تک صحیح علم کسی بات کا حاصل نہ ہو انسان خودا پنی تسلی تسکین اور تشفی نہیں کر سکتا.میرا مطلب تسلّی اور تسکین سے وہ حالات سکر اور نشہ نہیں جو جہالت کا نتیجہ ہوتی ہے.بلکہ وہ حقیقی یقین مراد ہے جس کے بغیر اطمینان کامل نصیب نہیں ہو سکتا.جہالت کا نتیجہ بھی آرام ہے.لیکن وہ حقیقی آرام نہیں کہلا سکتا.میں اس کو مثال دیکر سمجھاتا ہوں.مثلاً کوئی شخص ایسے جنگل میں ہو جہاں شیر پائے جاتے ہوں.مگر اس کے سامنے کوئی شیر نہ ہو اور نہ اس کو علم ہو کہ اس بن میں شیر ہیں تو اس کو ایک اطمینان ہوگا.مگر ایک دوسرا شخص ہو جس نے تمام جنگل کو دیکھ بھال کر یقین کر لیا ہو کہ شیروں

Page 597

خطبات محمود جلد (5) ۵۸۶ سے خالی ہے تو اس کو بھی اطمینان حاصل ہوگا.مگر ظاہر ہے کہ دونوں کے اطمینان میں فرق ہے.پہلے کا اطمینان جہالت سے ہے.اور دوسرے کا صحیح علم سے.یا مثلاً کوئی کہیں بیٹھا ہو.اور ایک شخص کسی جگہ اس کے اکلوتے بیٹے کوقتل کر رہا ہو.یا کوئی شخص اپنے کھیت پر یا مکان پر.یا دفتر میں ہو اور اس کی غیبت میں اس کا گھر لٹ رہا ہو.کھیت جل رہا ہو.اس کے عزیز واقارب پر مصیبت پڑ رہی ہو تو چونکہ اس کو علم نہیں اسلئے وہ اطمینان میں ہوگا.لیکن اس کا اطمینان و آرام واقعی نہیں ہے.بلکہ اس لئے ہے کہ اس کو پتہ نہیں اور خطرہ سے لاعلم ہے.یا مثلاً کسی کو کلورا فارم سنگھا کر بیہوش کر دیا گیا ہو ایسی حالت میں خواہ کسی بھی عضو کو کاٹ دو.اس کو اس حالت میں خبر نہ ہوگی.یا مثلاً ایک شخص کھانا کھاتا ہے.اور اس کو علم نہیں کہ اسمیں زہر کی آمیزش ہے تو وہ اطمینان اور تسلی سے کھائے گا.مگر ایک دوسرا شخص ہے کہ اس کو علم ہے کہ میرا کھانا زہر سے بالکل پاک ہے.اب اگر چہ ان دونوں کو اطمینان ہے.مگر انکے اطمینان میں فرق ہے.ایک کا اطمینان جہالت سے ہے.دوسرے کا علم سے.پس علم کے بغیر کسی کو کیا سمجھانا ہے.انسان اپنے نفس میں خود مطمئن نہیں ہوسکتا.تبلیغ کے لئے ضروری ہے کہ ان باتوں کا علم حاصل کیا جائے جن کی تبلیغ منظور ہے.اب غور کرنا چاہیئے کہ ایک طرف تو قرآن سب مسلمانوں کا فرض قرار دیتا ہے کہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ للناس ( آل عمران : ۱۱۱) کہ تم ایک بہترین امت ہو جو لوگوں کے نفع کے لئے نکالے گئے ہو.پس ثابت ہوا کہ تبلیغ ہر ایک مسلمان پر فرض ہے.ادھر قرآن فرماتا ہے لا تقف مالیس لك به علم کہ جس بات کا تمہیں علم نہ ہو دوسروں کو مت کہو.ان دونوں کو ملانے سے جو نتیجہ ہم نکالتے ہیں وہ یہی ہے کہ تبلیغ ہر ایک پر فرض ہے نیز یہ بھی کہ تبلیغ کے لئے ضروری مسائل کا علم حاصل کرے.جن کی تبلیغ منظور ہے اگر ایسا نہیں کرتا.بے علمی کے ساتھ تبلیغ کرتا ہے تو خدا کے حضور پوچھا جائیگا.تبلیغ چونکہ ہر شخص پر فرض ہے.اس لئے ہرا یک شخص کا یہ بھی فرض ہے

Page 598

خطبات محمود جلد (5) کہ وہ دلائل بھی معلوم کرے.۵۸۷ شاید بعض لوگ خیال کریں کہ اس سے تو معلوم ہوا کہ مولوی ہونا فرض ہے.لیکن ایسا خیال کرنا غلطی ہے.کیونکہ در حقیقت چند مسائل ہیں.جو اصولی ہیں ان کا سمجھنا کافی ہے.باریک در باریک باتیں.بڑے علوم فلسفہ و منطق طب وغیرہ جو لوگ پڑھتے ہیں.ان کا تعلق دین سے کچھ نہیں.ان کا حصول تو فروعات کے لئے مفید ہو سکتا ہے.دین کیلئے فقط اصول کی ضرورت ہے.زائد باتوں کی دین کے لئے اتنی ضرورت نہیں.بڑے علوم کی جن کو تحقیق اور ان میں کمال پیدا کرنے کی ضرورت ہو وہ بیشک کریں.یہ بھی مفید ہے.مگر دین کا انحصاران علوم پر نہیں.اسی طرح مذاہب کے مقابلہ میں چند اصولی باتیں ہیں.اگر ان اصول کو غلط ثابت کر دیا جائے تو وہ مذاہب خود بخود باطل ہو جائیں گے.جب دیواریں گر پڑیں تو چھت قائم نہیں رہ سکتی.وہ خود گر پڑے گی.سب سے اہم اصول ہوتے ہیں اگر اصول حل ہو جائیں تو فروع خود بخود حل ہو جاتے ہیں.اس زمانہ میں جماعت احمدیہ پر فرض مقرر کیا گیا ہے کہ اشاعتِ اسلام کرے اور اس سچے اسلام کو دنیا تک پہنچائے جو اس کو ملا ہے.پس مسلمانوں کے دوسرے فرقے بھی جو اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں محتاج ہیں کہ ان کو بھی حقیقی اسلام بتایا جائے.کیونکہ دوسرے فرقوں کے پاس وہ اسلام نہیں جو اصل اسلام ہے.تو ہماری جماعت نے اپنے ذمہ لیا ہے.بلکہ خدا نے ان کے ذمہ ڈالا ہے کہ وہ تبلیغ اسلام کرے.پس جماعت کے لوگوں کو چاہئیے کہ پہلے تبلیغ کے اصل کو پورا کریں.تمام ضروری علوم کو حاصل کریں جن کی تبلیغ کی ضرورت ہے.غیر احمدیوں کے لئے تین چار مسئلہ ہیں.ا - وفات مسیح.۲ - آمد مسیح کا ثبوت قرآن و حدیث سے.۳.راستبازوں کی پہچان کے معیار.۴.پیشگوئیوں کے متعلق خدا تعالیٰ کی سنت کیا ہے.۵.ہر قسم کی نبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بند ہو گئی یا کوئی قسم جاری بھی ہے.یہ پانچ مسائل ہیں.پہلا مسیح فوت ہو چکا ہے.دوسرا اسی اُمت میں سے ہے.اس کی تائید قرآن کریم اور فلاں فلاں احادیث سے ہوتی ہے

Page 599

خطبات محمود جلد (5) ۵۸۸ پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا طریقہ کیا ہے.ان سب مسائل کیلئے نوا آیات اور احادیث سے زیادہ نہیں بنتی ہوں گی.ان کو اچھی طرح سمجھ لے.زیادہ سے زیادہ ایک مہینہ میں انسان بخوبی سمجھ سکتا ہے.اگر پورا وقت نہ دے سکے صرف ڈیڑھ دو گھنٹہ بوجہ اپنے کام کاج کی مصروفیت کے دے سکے تو پانچ چھ مہینے میں اچھی طرح خوب یاد کر سکتا ہے.اگر غور کریں تو بہت سا فرصت کا وقت محض لغو باتوں میں بہت سے ہیں جو صرف کر دیتے ہوں گے.وہ اسی وقت کو جو ایسی باتوں میں خرچ کرتے ہیں جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں.اس دین کے علم حاصل کرنے میں لگا ئیں تو وہ بخوبی فائدہ اٹھا سکتے ہیں.اور ان کے کام کاج میں بھی کچھ حرج واقع نہیں ہوگا.کیونکہ ضائع ہونے والا وقت ان سے مانگا جاتا ہے اگر ایسی چیز جو ضائع ہو رہی ہو.کسی سے طلب کی جائے تو اس کو دینے میں عار نہیں ہوگا.یا مثلا اگر کوئی شخص زائد روٹی باہر پھینک رہا ہو کہ کوئی کہتا کھا لے گا.اگر کوئی بھوکا مانگے تو اس آدمی کو دینے میں کچھ تکلیف نہیں ہوگی.اگر ہر ایک شخص اپنے اوقات پر غور کر کے دیکھے تو اس کو معلوم ہو جائے گا کہ اس کا کوئی نہ کوئی وقت ضرور ضائع ہو رہا ہے.پس اگر وہ اس کام سے فائدہ اٹھائے.اور اس وقت میں ضروری علم دین حاصل کرے تو اس میں اتنی قابلیت پیدا ہوسکتی ہے کہ خواہ کتنا ہی بڑا مولوی کیوں نہ ہو وہ اس کا مقابلہ اچھی طرح کر سکتا ہے.ساری صرف و نحو پڑھنے کی ضرورت نہیں.اگر کسی کو یوں علم کے طور پر پڑھنے کی ضرورت ہو تو تین چار سال میں آسکتی ہے.لیکن ہر ایک کے لئے اتنی صرف ونحو کی ضرورت نہیں.علوم بہت وسیع ہیں اور ہر ایک وہ چیز جو خدا کی طرف سے آتی ہے.وہ بے حد ہی ہوتی ہے.پس کوئی انسان نہیں جو تمام علوم کو حاصل کر سکے.ضرورت تو ان مسائل کی ہے جو سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں.اور جن سے اسلام کا تعلق ہے.پس ان مسائل کے لئے صرف و نحو کے بھی آٹھ دس مسائل سے زیادہ نہیں.اردو پنجابی کے بہت سے اشعار لوگ یاد کر لیتے ہیں.کیا یہ مشکل ہے کہ آیات.احادیث اور ان مختصر قواعد صرف دھو کو یاد کر لیا جائے.ادیب کیلئے بڑے

Page 600

خطبات محمود جلد (5) ۵۸۹ مسائل کی ضرورت ہے.سو ہر شخص کو ادیب نہیں بنا.پس وہ لوگ جو اشعار یاد کر لیتے ہیں.ان کیلئے ان ہر چند ضروری مسائل کا یاد کر لینا کونسی مشکل بات ہے.اگر تقسیم کر کے دیکھا جائے تو بہت تھوڑا وقت ان چیزوں پر صرف ہوگا اسی طرح عیسائیوں سکھوں.آریوں کے متعلق بھی چند اصولی مسائل ہیں.جو پندرہ بیس سے زیادہ نہیں.ان پر بھی اگر آدھ آدھ گھنٹہ لگایا جائے تو سارا کام ایک سال سے زیادہ کا نہیں.ہر ایک مسئلہ اور ہر ایک کتاب کو بالاستیعاب دیکھنے پڑھنے کی عام لوگوں کو ضرورت نہیں.صرف اصولی مسائل کا علم ضروری ہے.جماعت کے لوگ خواہ پڑھے لکھے ہوں خواہ ان پڑھ.سب اس طریق سے دین کے ضروری مسائل کے عالم ہو جائیں گے.جن کو اللہ تعالیٰ توفیق دے وہ اور بھی بڑے بڑے علوم حاصل کریں.مگر ہر ایک شخص کے لئے موقع نہیں کہ ان علوم کو حاصل کرے.اگر ان چیزوں کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے تو کسی مولوی کی طاقت نہیں کہ ان کو دھوکہ دے سکے.چونکہ جماعت کا کام ہی تبلیغ ہے.اس لئے نہایت ضروری ہے کہ جماعت کے لوگ علم کی طرف توجہ کریں ورنہ جو لوگ علم کے بغیر لوگوں کو سمجھاتے ہیں وہ گناہ کرتے ہیں.کیسی بے حیائی ہے کہ خود ایک بات کا علم نہ ہومگر کوشش یہ کی جائے کہ دوسرے کو یقین دلا دیا جائے.پہلے خود علم سیکھا جائے.بغیر اس کے کام نہیں ہوسکتا.صحابہ کون سے علوم کے جو آجکل مولوی بننے کیلئے ضروری سمجھے جاتے ہیں عالم تھے.مگر ان کو دین کا علم تھا.اور اس کا انہیں شوق تھا.احادیث سے ثابت ہے کہ جب وہ آپس میں ملتے تھے تو یہ نہیں ہوتا تھا کہ اپنے وقت کو ضائع کر دیں.بلکہ وہ کہتے تھے.آؤ بھائی دین کی باتوں سے اپنے دل کو ٹھنڈک پہنچائیں.انکی مجالس میں لغو باتیں نہیں ہوتی تھیں.بلکہ ایمان کی باتیں ہوتی تھیں اور وہ اپنی مجالس میں کہتے تھے کہ آؤ ایمان کی باتیں کریں.تو ان کو دین کا شوق تھا اور وہ سیکھتے تھے.ل : بخاری کتاب الایمان باب بنی الاسلام على خمس

Page 601

خطبات محمود جلد (5) ۵۹۰ پس صرف ونحو کے مسائل اتنے سیکھ لو جتنے دین کے لئے ضروری ہیں.باقی وہ سیکھیں جنہیں زبان عرب میں کمال حاصل کرنا ہو.کیونکہ دین سے اس کا چنداں تعلق نہیں.بعض لوگ اس سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں.ان کو جب کہا جاتا ہے تبلیغ کرو تو کہہ دیتے ہیں کہ علم نہیں.یہ تو مولویوں کا کام ہے.یہ ان کا کہنا درست نہیں کیونکہ سارے علوم اور تو اور نبی بھی نہیں جانتے.زراعت کے متعلق ایک دفعہ نبی کریم سے پوچھا گیا.آپ نے رائے دی.اس سے فصل اچھی نہ آئی.عرض کیا گیا فرمایا انتم اعلم بأمور دنیا کم.میں اس علم کو نہیں جانتا.تم خود ہی اس کو خوب جانتے ہو.سارے مسائل نہیں آتے تو کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور آتا ہی ہو گا مثلاً وفات مسیح کا ہوگا یا آمد مسیح کا.یا راستبازوں کے معیاروں کا.یا نبوت کا یہ غلط ہے کہ کوئی بھی مسئلہ نہ آتا ہو.جو آتا ہے اس کی تبلیغ کرے.اسکو کون کہتا ہے کہ وہ سارے مسائل کی تبلیغ کرے.لیکن یہ قصور کس کا ہے کہ اس کو دینی مسائل سے واقفیت نہیں.اسکا فرض تھا کہ وہ سیکھتا.یہ کوئی جواب نہیں کہ مجھ کو نہیں آتا.ماں کے پیٹ سے کون سیکھ کے آتا ہے.علوم سیکھنے سے ہی آتے ہیں.وضوء کا مسئلہ ہے.یہ نہیں کہ وضو کیا کرایا پیدا ہو.بلکہ انسان سیکھتا ہے تو آتا ہے.وضو کا حکم نماز میں ہی داخل ہے.جو نماز پڑھتا ہے اسکو وضو کا علم ہونا چاہیئے.اب اس پر فرض ہے کہ دوسروں کو سکھائے.ہر ایک کا فرض ہے کہ جو اس کو آتا ہو دوسروں کو سمجھائے.اگر ان مسائل میں شک پڑے جن کا اسے علم نہیں تو اسکی ہتک نہیں.اگر کہہ دے کہ مجھ کو ان مسائل میں واقفیت نہیں.اس کہنے سے خدا کے حضور گناہ کا مرتکب نہیں ہوگا.غرض اس زمانہ میں تبلیغ فرض ہے.اور ہمارا فرض ہے کہ اس فرض کو پورا کریں.جس کا طریق ایک یہ ہے کہ پہلے علم ہونا چاہیئے.دلائل خوب یا د ہوں.تا کہ دشمن پر حجت کریں.میں نے بتایا تھا کہ دو باتیں تبلیغ کے لئے ضروری ہیں.آج صرف پہلی بیان ہوئی ہے.دوسری انشاء اللہ آئندہ بیان کروں گا.الفضل ۷ ارنومبر ۱۹۱۷ء) : صحیح مسلم کتاب الفضائل باب وجوب انتشال ما قاله صلعم شرعا.

Page 602

۵۹۱ 81 خطبات محمود جلد (5) حق کے قبول کرنے میں کسی کی پروا نہیں ہونی چاہئیے.فرموده ۱۶/ نومبر ۱۹۱۷ء بمقام دیلی) تشہد وتعوذ کے بعد حضور نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر فرمایا: کلمہ شہادت جو اسلام کا اصل الاصول اور تعلیم اسلام کا خلاصہ ہے اور جس کا اقرار کئے بغیر کوئی انسان کسی صورت میں مسلمان ہی نہیں ہو سکتا اپنے اندر ایسے وسیع مطالب اور معانی رکھتا ہے کہ جنگی حد بندی کرنا کسی انسان کا کام نہیں ہے.اور اس کے مطالب کو ایک یا دو یا اس سے زیادہ تقریروں یا کتابوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا.اس کلمہ کے جو اسلام کی تمام تعلیم کا قائم مقام رکھا گیا ہے صرف دو فقرے ہیں.ایک لا إلهَ إِلَّا الله اور دوسرا مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله ان دونوں فقروں کے اقرار کرنے کا جو یہ مطلب رکھا گیا ہے کہ انسان مسلمان ہو جاتا ہے تو معلوم ہوا کہ ان میں اسلام کی ساری تعلیم آجاتی ہے.کیونکہ اگر یہ نہیں تو پھر انکے کہنے سے کوئی مسلمان کیونکر ہو سکتا ہے.کسی کام کے کرنے والا اس کو کہا جاتا ہے جو اس تمام کام کو کرے.ورنہ وہ کام کرنے والا نہیں کہلا سکتا.مثلاً اگر کوئی شخص کسی مکان میں اپنی ایک انگلی داخل کر دے تو اس کے متعلق یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ مکان میں داخل ہو گیا ہے.ہاں جب وہ اپنا سارا جسم مکان میں داخل کر دیگا تب کہا جائے گا کہ مکان میں داخل ہو گیا ہے.تو ان دو فقروں کے کہنے والے کے متعلق جو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اسلام کے اندر داخل ہو گیا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ یہ فقرے اسلام کی ساری تعلیم کا خلاصہ ہیں.پس اسلام کے وہ تمام احکام جو بڑے سے

Page 603

خطبات محمود جلد (5) ۵۹۲ بڑے ہیں.اور تمام وہ جو چھوٹے سے چھوٹے ہیں.وہ ان دو جملوں میں شامل ہیں.لیکن بہت لوگوں کو اس سے غلطی لگی ہے.اور انہوں نے خیال کر لیا ہے کہ بس یہی دو فقرے ہیں جن کا اقرار کر لینا ضروری ہے.باقی جس قدر اسلام کے احکام ہیں ان کو ماننے کی ضرورت نہیں ہے.حالانکہ اسلام کے تمام احکام انہی دو ۲ فقروں کے اندر داخل ہیں.اس لئے ان کا مانا بھی نہایت ضروری ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ ایک موقعہ پر آپ نے صرف یہ کلمہ بیان فرمایا ہے.مگر ساری تشریحات کو اس میں داخل قرار دیا ہے.چنانچہ ایک دفعہ عبد القیس قبیلہ کا وفد جب آپ کے پاس حاضر ہوا.اور اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ کے اور ہمارے درمیان ایک ایسی روک حائل ہے جو ہمیں بار بار آپ کے پاس نہیں آنے دیتی اور وہ مضر قبیلہ کے لوگ ہیں.جو اسلام کے سخت مخالف اور ہمارے بڑے دشمن ہیں.ان میں سے گزر کر ہم سوائے اشہر حرم کے اور کسی مہینے میں آپ کے پاس نہیں پہنچ سکتے.اس لئے آپ ہمیں کوئی ایسی تعلیم بتادیں جو ہم اپنی قوم کو دے سکیں.اور وہ ہدایت پا جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا کہ میں تمہیں چار باتوں کے کرنے کا حکم دیتا ہوں.اور چار کے کرنے سے روکتا ہوں.وہ چار باتیں جن کے کرنے کا آنحضرت نے ان کو حکم دیا.ان میں سے ایک یہ تھی کہ اللہ کے ایک ہونے پر ایمان لانا.بس اتنا ہی آپ نے فرمایا.اس کے ساتھ اپنی رسالت کے اقرار کا ذکر ہی نہیں کیا.پھر آپ نے ان سے سوال کیا کہ جانتے ہو خدا کو ایک ماننے کے کیا معنی ہیں.معلوم ہوتا ہے جس طرح آجکل بعض لوگوں نے اَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُول الله کے ظاہری الفاظ کو پیش نظر رکھ کر غلطی کھائی ہے.اور یہ نہیں سوچا کہ اس میں اسلام کی تمام تعلیم کو خلاصہ کے طور پر بیان کر دیا گیا ہے.اس غلطی میں مبتلا ہو جانے کا خیال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے متعلق پیدا ہوا.اس لئے آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ اس کا تم کیا مطلب سمجھتے ہو.انہوں نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اس کے یہ معنی ہیں کہ اللہ کو ایک

Page 604

خطبات محمود جلد (5) ۵۹۳ سمجھو.اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا رسول یقین کرو اے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جواب سے معلوم ہو گیا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا رسول ماننا خدا تعالیٰ کو ایک ماننے کے اندر داخل ہے.پس یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ ایک فقرہ جو مجمل اور مختصر طور پر بیان کیا جائے.گو بظاہر وہ ایک ہی بات نظر آئے.لیکن جب اس کے مفہوم کو وسیع کیا جائے تو اور بھی بہت سی باتیں اس میں شامل ہوتی ہیں.اس بات کے ثابت ہو جانے کے بعد جب کلمہ شہادت پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ یہ کلمہ اگر چہ صرف دو جملوں سے مرکب ہے.لیکن اس میں اسلام کی ساری تعلیم کو خلاصہ رکھ دیا گیا ہے.اور جس طرح صرف لا إله إلا الله کے اندر مُحمد رسُول اللہ بھی آجاتا ہے.جیسا کہ میں ابھی بتا چکا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایسا فرمایا ہے.اسی طرح ان دونوں جملوں میں باقی تمام اسلام کی باتیں آجاتی ہیں.اگر انسان لا إلهَ إِلَّا اللہ پر غور کرے تو خود بخو دا سے معلوم ہو جاتا ہے کہ رسولوں کا ماننا اس کے اندر آجاتا ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کا پتہ رسولوں کے ذریعہ لگتا ہے.اور اگر وہ نہ بتائیں تو پھر یہ معلوم نہیں ہوسکتا.دیکھئے ایک کمرہ کے اندر کچھ آدمی بیٹھے ہوں.تو اس کمرہ سے باہر کے لوگ نہیں معلوم کر سکتے کہ اس کے اندر کوئی بیٹھا ہے یا نہیں.لیکن اگر کوئی شخص اندر جا کر دیکھ آئے اور پھر آ کر بتائے تو معلوم ہو سکتا ہے کہ اتنے آدمی بیٹھے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ تو ایک پوشیدہ ہستی ہے.اس لئے لوگ نہیں جان سکتے کہ خدا ایک ہے یا زیادہ.لیکن وہ انسان جو اس کی طرف سے بھیجا جاتا ہے.اور جس کا خدا تعالیٰ سے پورا پورا تعلق ہوتا ہے.وہ جب بتاتا ہے کہ خدا ایک ہے تو پھر لوگ T TALENTله الا اللہ کا پورا اقرار کرتے ہیں.پس خدا تعالیٰ کو ایک ماننے کے یہ معنی صاف طور پر معلوم ہو گئے کہ اسکا اقرار کرنے کے ساتھ ہی.اس انسان کے خدا کا رسول ہونے پر ایمان لانا ضروری ہے.جس نے یہ بات بتائی ہو.کیونکہ اسکے بتائے بغیر یہ علم نہیں ہوسکتا کہ خدا ایک ہے :- بخاری کتاب العلم باب تحريض النبي وفد عبد القيس على ان يحفظوا الايمان والعلم ويخبر وا من ورائهم.

Page 605

خطبات محمود جلد (5) ۵۹۴ یا زیادہ تو جس طرح لا إله إلا الله کے اندر محمد رسول اللہ شامل ہے.اسی طرح ان دونوں جملوں میں اسلام کی ساری تعلیم داخل ہے.مگر بہت لوگ ہیں جو کہہ دیتے ہیں کہ صرف ان دو جملوں کے کہہ دینے سے اور اسلام کی باقی تعلیم پر عمل نہ کرنے سے بھی انسان مسلمان ہوسکتا ہے.حالانکہ انہیں دو جملوں میں اسلام کی ساری تعلیم شامل ہے.اور اسلام کی کوئی بات ایسی نہیں جس کا ثبوت ان سے نہیں ملتا.اس زمانہ میں کلمہ شہادت پر غور نہ کرنے کی وجہ سے مسلمانوں میں جہاں اور بہت سی کمزوریاں پیدا ہو گئی ہیں.وہاں ایک نہایت خطرناک برائی بھی پیدا ہوگئی ہے.جس کا رڈ اسی کلمہ سے ہوسکتا ہے.اور وہ برائی یہ ہے کہ آجکل ان سے جتنے فعل سرزد ہو رہے ہیں.وہ یا تو دوسروں کے خوف سے ہو رہے ہیں یا اپنے طمع اور لالچ کی وجہ سے وہ کوئی کام کرنے لگیں.اس میں یہ دیکھیں گے کہ دوسرے ہمیں کیا کہیں گے.اور بجائے اس کے کہ وہ یہ دیکھتے کہ جو کام کرنے لگے ہیں.وہ حق ہے یا نہیں.یہ دیکھیں گے کہ اس کے کرنے پر دوسرے ہمارے متعلق کیا رائے قائم کریں گے.آیا اچھا کہیں گے یا برا.یہ بات ان کے تمام کاموں میں نظر آتی ہے خواہ وہ دینی ہوں یا دنیاوی.وہ یہ نہیں دیکھتے کہ حق اور راستی کیا ہے بلکہ دوسروں کے خوف اور ڈرکو دیکھتے ہیں.اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ یہ لوگ بہت سی باتیں محض اس لئے قبول نہیں کرتے کہ لوگ ہمیں برا کہیں گے.حالانکہ ان کے حق ہونے میں انہیں کوئی شک و شبہ نہیں ہوتا اور اس طرح دین کی باتوں کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے ایمان کو اور دنیاوی باتوں کے اختیار نہ کرنے کی وجہ سے دنیاوی حقوق کو برباد کر رہے ہیں.اور یہ بُرائی ان کے دلوں میں ایسی گڑ گئی ہے کہ وہ حق کو چھوڑ دینا آسان سمجھتے ہیں.لیکن لوگوں کی ناراضگی سے ڈر کر ناحق کو ترک کرنا بہت مشکل خیال کرتے ہیں.حالانکہ وہ لا إله إلا اللہ کہہ کر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے مقابلہ میں کسی چیز کی پرواہ نہیں کریں گے.اور سب کو چھوڑ دیں گے.لیکن جب وہ لوگوں کے ڈر کی وجہ سے حق کو چھوڑتے اور ناحق کو اختیار کرتے ہیں تو انکے متعلق کس طرح کہا جا

Page 606

خطبات محمود جلد (5) ۵۹۵ سکتا ہے کہ لا إله إلا اللہ کا صحیح طور پر اقرار کرتے ہیں.آجکل ہی جو سیاسی شور پڑا ہوا ہے.اس میں لاکھوں مسلمان ایسے ہیں جو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جس بات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے.وہ اگر حاصل ہو گئی تو ہمیں سخت نقصان اٹھانا پڑے گا مگر باوجود اس جاننے کے چونکہ انہیں یہ خوف لگا ہوا ہے کہ اگر ہم نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تو لوگ ہمیں خوشامدی کہیں گے.اس لئے وہ بھی ساتھ شامل ہو گئے ہیں یہ تو ایک بات ہے.ان کے ہر کام میں یہی نقص اور غلطی نظر آتی ہے.حالانکہ اسلام کا اصل الاصول یعنی کلمہ شہادت انہیں بتلاتا اور آگاہ کرتا ہے کہ ایسا نہیں کرنا چاہئیے بلکہ خدا کو ایک اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسکا رسول ماننا چاہئیے.یعنی ان کے مقابلہ میں کوئی ایسی چیز نہیں ہونی چاہئیے جس سے ڈر اور خوف پیدا ہو.اور راستی کو چھوڑ دیا جائے.جب ہم یہی بات مذہب کے متعلق دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے اس میں بھی یہی کمزوری دکھائی جاتی ہے.ہماری جماعت میں ہی ایک اختلاف پیدا ہوا.اور اسکی وجہ سے کچھ لوگ الگ ہو گئے.اگر ان کے الگ ہونے کی سب سے بڑی وجہ دیکھی جائے تو یہی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم حضرت مرزا صاحب کو نبی کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کریں.اور ان کے نہ ماننے والوں کو کافر کہیں تو لوگ ہماری مخالفت کرتے ہیں.اور انکے جوش ہمارے خلاف بھڑک اٹھتے ہیں.لیکن یہ وہی خوف اور ڈر ہے جس کا لا الهَ إِلَّا اللہ میں رڈ کیا گیا ہے کہ مومن کو خدا اور اس کے رسول کے مقابلہ میں کسی بات کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے.اور حق کو کسی مخالفت اور دشمنی کی وجہ سے نہیں چھوڑ نا چاہئیے.اور یہ ثابت شدہ بات ہے کہ حق کو قبول کرنے والے ہی کامیاب ہوا کرتے ہیں.پس ہم نے جب حضرت مرزا صاحب کو خدا کا سچا رسول مان لیا ہے تو پھر ان کو کیوں دنیا کے سامنے پیش نہ کریں.اور لوگوں کی مخالفت سے کیوں ڈرجائیں وہ ہمارا بگاڑ ہی کیا سکتے ہیں.اس وقت تک ہمارا کیا بگاڑ لیا ہے کہ آئندہ کچھ بگاڑ لیں گے.ہم کو طرح طرح کی تکلیفیں دی گئی ہیں.ہماری جائدادیں چھینی گئیں.ہمیں مشکلات میں ڈالا گیا.ہم سے ہر قسم کے تعلقات منقطع کر لئے گئے.مگر باوجود انکی ہر قسم کی مخالفانہ کوششوں کے دیکھنایہ چاہیئے کہ کیا ہم گھٹ رہے ہیں یا بڑھ رہے ہیں

Page 607

خطبات محمود جلد (5) ۵۹۶ خدا کے فضل سے کوئی دن ایسا نہیں گذرتا جس میں ہماری جماعت میں اضافہ نہیں ہوتا.ہر روز لوگ بیعت کرتے ہیں اور ہماری جماعت میں داخل ہوتے ہیں.بیعت کے خطوط روزانہ ڈاک میں آتے ہیں.اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ساری دنیا کی مخالفت کے باوجود ہمارا قدم آگے ہی آگے پڑ رہا ہے.اور انکی مخالفت ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکی.پس جس دنیا کی مخالفت ایسی ذلیل اور حقیر ہو.اس سے ہمیں کیا ڈر رکھنا چاہیئے.اور جبکہ ہمیں پورا پورا یقین اور ایمان ہے کہ حضرت مرزا صاحب خدا کے بچے نبی ہیں.اور آپ کا انکار ہلاکت اور تباہی ہے تو کیوں اس کے اظہار سے باز رہیں.اور جبکہ کلمہ توحید میں ہمیں یہی تعلیم دی گئی ہے.یہی طریق دنیاوی معاملات کے متعلق ہمارے لئے ضروری ہے.الفضل ۲۴ نومبر ۱۹۱۷ء)

Page 608

۵۹۷ 82 خطبات محمود جلد (5) اسلام کا درد کس کے دل میں ہے (فرموده ۳۰/نومبر ۱۹۱۷ء) حضور نے تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دنیا میں دو قسم کے انسان ہوتے ہیں جو خدا سے دوری کی وجہ سے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں.ا.وہ لوگ کہ جنہیں ہدایت اور نور کی روشنی پہنچی ہی نہیں ہوتی.یا پہنچی تو ہوتی ہے لیکن انہوں نے اپنی آنکھوں کو بند کر لیا ہوتا ہے جس کے باعث وہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے.ایسے ہی وہ لوگ بھی کہ جن کے گھروں میں ہدایت اور نور کی روشنی نہیں گئی ہوتی.دُکھ میں ہوتے ہیں.لیکن دوسری قسم کے وہ لوگ جن کے دائیں بھی نور ہو اور بائیں بھی.اوپر بھی نور ہو اور نیچے بھی.آگے بھی نور ہو اور پیچھے بھی.لیکن انہوں نے نور کو اپنے اندر داخل نہ ہونے دیا.اپنی آنکھوں کو بند کر لیا.وہ پہلوں کی نسبت جن کو نور پہنچا ہی نہیں.زیادہ دُکھ اور مصیبت اور عذاب میں ہوتے ہیں.دیکھئے.ایک شخص ہے.جو پانی سے بہت دُور ہے.وہ بھی پیاس کے باعث دُکھ اٹھائے گا.لیکن وہ شخص جو چشمہ پر کھڑا ہے.بلکہ اس کی گردن پانی کے قریب جھک گئی ہے.اس کے ہونٹ پانی سے مس کرتے ہیں.لیکن وہ گھونٹ نہیں بھرتا.حالانکہ پیاس سے مرا جاتا ہے.پہلے کی نسبت زیادہ قابل عذاب اور لائق ملامت ہوگا.ایک ایسا پیاسا شخص جس کے پاس پانی کا پیالہ تو دھرا ہو.لیکن اس کو خیال ہو

Page 609

خطبات محمود جلد (5) ۵۹۸ کہ اس میں زہر ملا ہوا ہے.وہ اس پانی کو نہ پینے.اور پیاس کی وجہ سے ہلاک ہو جانے کے باعث قابلِ علامت ہوگا.لیکن ایک دوسرا شخص جس کو یقین ہو کہ اس پیالہ کا پانی خالص ہے اور اس میں کسی قسم کی آمیزش نہیں اور اس کو پیاس بھی ستا رہی ہو.اور وہ اسکو اٹھا کر پھینک دیتا ہے.یا پتا نہیں.تو پہلے کی نسبت زیادہ قابل ملامت ہے.یا مثلاً گورنمنٹ کا کوئی عہدیدار ہو اور کوئی چور اس کی نگرانی میں رکھا گیا ہو.اور وہ چور بھیس بدل کر وہاں سے نکل بھاگے تو اس عہدہ دار سے ضرور مؤاخذہ ہوگا.مگر ایک دوسرا عہدہ دار ہواس کے سپر د بھی کوئی چور کیا گیا ہو.اور چور بغیر بھیس بدلنے کے وہاں سے نکل جائے.تو یہ افسر پہلے کی نسبت زیادہ زیر عتاب ہوگا.یہی حال خدا تعالیٰ کے حضور مسلمان کہلانے والوں اور غیر مذاہب کے لوگوں کا ہے غیر مذا ہب کے لوگ تو ایسے ہیں کہ ایک سورج چڑھا اور انہوں نے خیال کیا کہ اس سورج کا وجود ہمارے لئے مضر ہے.اس لئے وہ اپنے مکانوں میں گھس گئے اور اپنے کواڑ اور کھڑکیاں بند کر لیں تا اسکی روشنی اندر نہ آسکے.تا کہ ایسا نہ ہو جس سے ہماری نظر کو نقصان پہنچے.انہوں نے کافی سمجھا کہ ہمارے پاس جو دیئے ہیں.انہیں میں اپنا تیل ڈالیں گے اور کام کرتے رہیں گے.اس میں شک نہیں کہ ان لوگوں نے غلطی کی.اور بے وجہ خیال کیا کہ سورج سے ہماری آنکھیں چندھیا جائیں گی.اور ہمارے کام میں رکاوٹ پیدا ہو جائے گی.اس غلطی کے باعث ضرور ان سے پوچھا جائے گا.لیکن مسلمانوں کی حالت ان کے برعکس ہے یہ لوگ وہ ہیں جنہوں نے سورج کو چڑھا ہوا دیکھ کر پرانے اور بوسیدہ چراغوں کو گل کر دیا اور سورج کے نیچے آ جمع ہوئے.مگر اسکی روشنی سے فائدہ نہ اٹھایا بلکہ اپنی آنکھوں کو بند کر لیا.جس کے باعث ان کے کام کاج بند ہو گئے.مگر دل میں اسلام کے نور کو داخل نہ ہونے دیا.اس لئے یہ لوگ پہلوں کی نسبت زیادہ زیر عتاب ہیں.اسلام کے سوا باقی سب مذاہب میں ایسے لوگ ہیں جو دین کی باتوں سے حتی کہ خدا تعالیٰ پر بھی ہنسی اور ٹھٹھا کرتے ہیں.لیکن باوجود اس کے وہ لوگ

Page 610

خطبات محمود جلد (5) ۵۹۹ دنیاوی طور پر ترقی کرتے ہیں.لیکن مسلمان ان کے مقابلہ میں ایسے نہیں.اس وجہ سے ان پر عذاب اور مصیبتیں آتی ہیں اور وہ دنیا میں ترقی کی بجائے تنزل کرتے ہیں.عیسائیوں میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جو عیسائیت سے الگ ہیں.ہندوؤں میں ہزاروں ایسے ہیں جو مذہب سے بالکل بے تعلق ہیں.وہ خدا کو نہیں مانتے.وہ نیچر کے پرستار ہیں.وہ کہتے ہیں کہ نیچر ہی ہماری پیدائش کا ذریعہ ہے.اور ہم نیچر کے ذریعہ ہی ترقی کر سکتے ہیں.لیکن دنیا کی کوئی راحت نہیں جو ان کو حاصل نہیں.ان کے مقابلہ میں مسلمان نسبتا زیادہ مذہب کے پابند ہیں.پھر بھی مصائب و آلام کا شکار ہورہے ہیں.اس کی وجہ سمجھتے ہو کیا ہے؟ یہی کہ وہ لوگ جن مذاہب کو چھوڑ رہے ہیں.وہ باطل تھے.ان میں اس وقت حق نہیں تھا.اس لئے انہوں نے ان مذاہب کو چھوڑ کر کوئی جرم نہیں کیا.بلکہ ان کے لئے ترقی کا میدان کھل گیا ہے مگر مسلمانوں نے جس مذہب کو چھوڑا ہے وہ باطل نہیں بلکہ حق ہے.اس لئے انہوں نے ایک بہت بڑا گناہ کیا ہے.لہذا ضروری تھا کہ ان کو اس کی پاداش میں مبتلائے آلام کیا جاتا.غیر مذاہب کے لوگوں سے اسلام نہ قبول کرنے کی وجہ سے عاقبت میں باز پرس ہو گی.مگر مسلمانوں کو یہاں بھی مؤاخذہ سے بری نہیں کیا جا سکتا.اور وہ اسی وجہ سے مصائب اور تکالیف کا شکار ہور ہے ہیں.یہی وجہ ہے کہ سورۃ فاتحہ میں یہ دعا سکھائی گئی کہ خدا یا ہمیں ان لوگوں میں سے نہ بنانا جو انعام یافتہ ہو کر پھر تیرے عتاب کے نیچے آئے اور تیرے دربار سے نکال دیئے گئے.آج مسلمانوں کی جو حالت ہے وہ پوشیدہ نہیں.ان کے لئے کوئی ترقی کا راستہ نہیں.گرے ہوئے ہیں.اور تھک کر بیٹھ گئے ہیں.یہ اپنے آپ کو ڈوبنے سے بچانے کیلئے ہاتھ پیر مارتے ہیں لیکن اور زیادہ لہروں کے نیچے دبے جا رہے ہیں.ان کی مثال دلدل میں پھنسے ہوئے انسان کی مانند ہے.جو نکلنے کے لئے جس قدر زور لگاتا ہے اسی قدر دھنستا چلا جاتا ہے.اور آخر غرق ہو جاتا ہے.اس کی کیا وجہ ہے کہ وہ ذلت اور رسوائی سے نکلنے کیلئے جو بھی کوشش کرتے ہیں وہ انکے لئے اور زیادہ

Page 611

خطبات محمود جلد (5) ۶۰۰ ذلت کا موجب بنتی ہے.وہ جس قدر زیادہ ہلاکت سے بچنے کیلئے زور لگاتے ہیں اسی قدر زیادہ غرق ہوتے جاتے ہیں.یہی کہ انکی کوشش غلط طریق پر ہے.دلدل سے بچنے کا ایک ہی طریق ہوتا ہے.اور وہ یہ کہ بیرونی مدد آئے.اور اس کے ذریعہ باہر نکلا جائے.پس دلدل میں پھنسے ہوئے انسان کو چاہیے کہ باہر سے جو رستہ اس کے نکالنے کیلئے اسکی طرف پھینکا جائے.اسے پکڑے اور اسکے ذریعہ باہر آ جائے.چونکہ ایک زمانہ مسلمانوں پر ایسا آنا تھا.اور ایسے خطرناک دلدل میں پھنسنا تھا جس سے انہیں کوئی دنیاوی کوشش نہیں نکال سکتی تھی.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اس وقت مسیح اترے گا جو ان ڈوبتوں کو بچالے گا.کیونکہ جب ایسی حالت ہو جایا کرتی ہے تو صرف ایک ہی علاج کارگر ہوتا ہے اور وہ یہ کہ خدا کی طرف سے مدد آئے.اور خدا ڈوبتوں کے بچاؤ کے لئے آسمان سے رسی ڈالے.چونکہ انبیاء حبل اللہ ہوتے ہیں.اس لئے اس وقت خدا نے دنیا کو بچانے کیلئے حضرت مسیح موعود کو بھیجا.مگر افسوس کہ جب خدا نے ان کیلئے یہ حبل اللہ اتاری تو بجائے اس کے کہ یہ لوگ اس کو پکڑتے.انہوں نے رتی کو کاٹنا شروع کر دیا.اس وقت جو مسلمانوں کی حالت ہے.وہ بد سے بدتر ہورہی ہے.مگر کیسی افسوسناک بات ہے کہ انہوں نے بجائے اس رتی کو پکڑنے کے جو ان کو بچانے کے لئے ڈالی گئی تھی.چاہا کہ کاٹ ڈالیں.اس کا کیا نتیجہ ہوگا.ظاہر ہے کہ ہلاک ہوں گے.یہ بیمار تھے.خدا نے ان کے لئے طبیب بھیجا.مگر انکی تمام تر کوشش اسی ایک امر پر آرہی ہے کہ اس طبیب کو ہلاک کر دیں.یہ اپنی بیماری اور اپنا ڈ و بنا بھول گئے.اس طبیب کی تباہی اور اس حبل اللہ کو کاٹنے کے درپے ہو گئے.اس کے کٹ جانے پر کس کو خوشی ہوگی.کیا اسلام کو.ہرگز نہیں.بلکہ اسلام کے دشمنوں کو خوشی ہوگی.لیکن کیا یہ حبل اللہ کٹ جائے گا.ہر گز نہیں.اس کے کاٹنے والے ہی کٹ جائیں گے.انکی کوششوں کا وہی نتیجہ ہوگا جو ہمیشہ حق کی مخالفت کرنے ے صحیح مسلم کتاب الفتن و اشراط الساعة باب خروج الله قبال ونزول عیسی بن مریم

Page 612

خطبات محمود جلد (5) ۶۰۱ والوں کی کوشش کا ہوتا آیا ہے.کیونکہ اس کی محافظ کوئی کمزور ہستی نہیں.بلکہ خدا تعالیٰ ہے جس نے اس کو اپنی مخلوق کی نجات کے لئے بھیجا ہے.پس یہ لوگ اس حبل اللہ کا مقابلہ کر کے اپنی جانوں پر ظلم کر رہے ہیں.اور اسلام کا نقصان کر رہے ہیں.اگر یہ عقل سے کام لیتے تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ اسلام کے بچانے کیلئے کون سی جماعت ہے.کیا وہ مولوی جو حضرت مسیح موعود پر طرح طرح کے حملہ کرنے اور گالیاں دینے کو ہی اپنی زندگی کا بڑا مقصد سمجھتے ہیں؟ ہر گز نہیں.اسلام مرے یا جئے.انہیں اس سے کوئی غرض نہیں.اسلام کی خاطر ان کی کوشش نہیں ہوتی.بلکہ جب کبھی اسلام کی حفاظت اور اسلام کی طرف سے مقابلہ کرنے کا سوال پیدا ہو تو کہا جاتا ہے کہ کسی مرزائی کو بلاؤ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ حضرت مرزا صاحب جن کو وہ نعوذ باللہ دجال کہتے ہیں.انہی کے خدام کو ایسے وقت میں بلایا جاتا ہے.وہ ذرا غور تو کریں کہ کیا مرزا صاحب نے دجال ہو کر ایسے انسان پیدا کر دیئے ہیں جو اسلام کی طرف سے ہر دشمن کے مقابلہ میں سینہ سپر ہونے کیلئے تیار رہتے ہیں.اگر ایسے ہی دجال ہوتے ہیں تو.میں تو کہتا ہوں کہ خدا کرے بہت سے ایسے دجال ہوں تا کہ اسلام کی حفاظت ہو.یہ غور کرنے کی بات ہے.جب کبھی حفاظت اسلام کا سوال پیدا ہوتا ہے تو لوگوں کی ان کفر باز مولویوں کی بجائے احمدی جماعت پر ہی نظر پڑتی ہے.چنانچہ میرے پاس آج ہی ایک خط آیا ہے.اور وہ ایسے علاقہ سے آیا ہے جہاں اردو نہیں بولی جاتی.خط انگریزی میں ہے.اس میں لکھا ہے کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ کی طرف سے اسلام کی تبلیغ کے لئے ایک جماعت مقرر ہے اور آپ کے آدمی دور دراز ملکوں میں جا کر تبلیغ کر رہے ہیں.میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ جاوا کے علاقہ میں جہاں مسلمانوں کی کثرت ہے ان کی حالت نہایت ناگفتہ بہ ہے.وہ لوگ نماز روزہ سے بالکل غافل ہیں.بھوں کے آگے سجدے کرتے ہیں.ان کے نکاح بجائے مولویوں کے پنڈت پڑھاتے ہیں.اس لئے آپ ان لوگوں کی طرف توجہ کریں.اور انہیں اسلام سکھا ئیں.پھر گورنمنٹ کی رپورٹ میں جو کچھ رائے لکھی گئی ہے.اسکولکھا ہے کہ اگر ان مسلمانوں کی یہی حالت رہی تو یہ ہندوؤں میں مل جائیں گے.خط کے اخیر میں لکھا ہے کہ آپ خدا کیلئے ادھر توجہ فرمائیں اور ان لوگوں کو جو اسلام سے بالکل

Page 613

خطبات محمود جلد (5) ۶۰۲ دور ہو چکے ہیں اسلام سے واقف کریں.مجھے آپ کی جماعت کے سوا اور کوئی جماعت ایسی نظر نہیں آئی جس کے دل میں اسلام کا درد اور محبت ہو.اس لئے میں آپ کو ہی متوجہ کرتا ہوں.اب ہم کہتے ہیں کیا وہاں مولوی نہیں ہیں.پھر کیا دنیا میں ایسے لوگ نہیں ہیں جو مسلمان کہلاتے ہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ اس خط کے لکھنے والے نے ان مولویوں اور مسلمانوں سے مایوس ہو کر ہمیں لکھا ہے کہ تم ادھر توجہ کرو.اصل بات یہ ہے کہ عقلمند اور سمجھدار لوگ خوب جانتے ہیں کہ اسلام کی حفاظت اور تبلیغ خدا کے فضل سے ہمیں لوگ کر سکتے ہیں.اور کر رہے ہیں.جن کو ان کے مولوی ایک دجال کے ماننے والے کہتے ہیں.دیکھئے ابھی مولوی صاحبان قادیان میں آئے تھے.اور حضرت مسیح موعود کے خلاف جس قدر ان سے ہو سکا زور لگا کر چلے گئے ہیں.باہر بھی جہاں تک ان سے ہو سکتا ہے ہمارے سلسلہ کے خلاف زور لگاتے رہتے ہیں.اسلام کی حفاظت کے لئے کیا کرتے ہیں.چالیس کروڑ مسلمانوں کی تعداد بتلائی جاتی ہے.ان کے مقابلہ میں احمدیوں کی تعداد بہت قلیل ہے.گویا کچھ بھی نہیں.کیونکہ وہ ہم سے ہزاروں گنا زیادہ ہیں.لیکن تبلیغ دین اور حفاظت اسلام کے متعلق ان تمام مسلمانوں اور ہماری جماعت کی کوششوں کا مقابلہ کر کے دیکھ لیا جائے کہ کیا نسبت ہے.وہ باوجود اس قدر زیادہ ہونے کے دین کی خاطر کیا کر رہے ہیں.اور ہم باوجود اس قدر قلیل ہونے کے کس کام میں مصروف ہیں.اگر ان کے بڑے بڑے امیروں اور تاجروں کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے اور کاموں کے لئے خواہ کتنا ہی خرچ کیا ہو.مگر اشاعت اور حفاظت اسلام کے لئے شاید ہی کوئی رقم تمہیں ان کے اخراجات میں نظر آئے گی.مگر ان کے مقابلہ میں ایک غریب سے غریب احمدی کو بھی دیکھا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ اس غریب نے اپنے ماتھے کے پسینے کی کمائی سے بھی ایک حصہ اشاعت اور حفاظت اسلام کے لئے خرچ کیا ہوگا.ہما را دعوی ہے کہ اسلام ہمارا ہے.اور ان کا دعویٰ ہے.اسلام ہمارا ہے.لیکن

Page 614

خطبات محمود جلد (5) ۶۰۳ دیکھنا یہ ہے کہ جب اسلام پر کوئی مصیبت آتی ہے.تو کون ہے جس کے دل کو تکلیف ہوتی ہے.اور جس کا قلب درد محسوس کرتا ہے.اور اپنی جان تک اس راہ میں لڑا دیتا ہے.اسی ایک معیار سے ہمارا اور ان کا فیصلہ ہوسکتا ہے.اور پتہ لگ سکتا ہے کہ اسلام سے تعلق ان کا ہے یا ہمارا.جس طرح حضرت سلیمان نے ایک جھگڑے کا فیصلہ کیا تھا.اسی طرح ہمارے اور انکے جھگڑے کا فیصلہ ہو جاتا ہے.دوعور تیں تھیں.جن میں سے ایک کے بچہ کو بھیڑیا کھا گیا تھا.اور دوسری کا بچ گیا تھا.جس کے بچہ کو بھیڑیا کھا گیا تھا.اس نے دوسری سے کہا کہ میرا بچہ تو زندہ ہے.تیرے بچہ کو بھیڑیا کھا گیا ہے.اس پر دونوں میں جھگڑا شروع ہوا.قاضیوں کے پاس مقدمہ گیا.مگر کچھ فیصلہ نہ کر سکے.حضرت سلیمان نے کہا کہ میں اس کا فیصلہ فوراً کئے دیتا ہوں.ایک چھری لاؤ.آدھا آدھا دونوں کو کاٹ کر دے دوں گا.یہ سن کر ایک عورت نے کہا کہ آپ ایسا نہ کریں.اسی کو بچہ دیدیں.مگر دوسری خاموش رہی.حضرت سلیمان نے کہا.کہ یہ اسی عورت کا بچہ ہے جو کہتی ہے کہ دوسری کو دید ہیں.کیونکہ اسکو درد پیدا ہوا ہے اور اس نے سمجھا ہے کہ اگر بچہ کٹ جائے گا تو میرا کٹے گا.اس کا تو پہلے ہی مر چکا ہے.لیکن اگر وہ لے لیگی تو زندہ تو رہے گا.اس پر بچہ اسے دیدیا گیا!.اسی طرح کا ہمارا اور ان کا جھگڑا ہے.وہ بھی اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں.اور ہم کہتے ہیں کہ اسلام ہمارا ہے.اب فیصلہ کر نیوالی بات یہ ہے کہ دیکھا جائے.کون ہے وہ جو اس وقت جبکہ اسلام کو مٹانے کیلئے دنیا بڑھتی ہے اپنی گردن آگے رکھ دیتا ہے.اور کہتا ہے کہ پہلے میرے سر کو دھڑ سے الگ کر دو پھر اسلام پر حملہ کرنا.اور کون ہے وہ جس کو خبر تک بھی نہیں ہوتی.صاف بات ہے.ہمارے فریق مقابل کے بڑے بڑے سیٹھوں اور امیروں کو دیکھو.ان کے صوفیوں اور پیروں کو دیکھو کہ اسلام کی راہ میں کیا خرچ کر رہے ہیں.اور پھر اس کے مقابلہ میں ہماری جماعت کے غریب سے غریب لوگوں کو دیکھو.اور انکی طرف نظر کرو.جنہیں دو وقت پیٹ بھر کر کھانے کو بھی میسر نہیں.کہ دین کے راستہ میں کس خوشی اور محبت سے جو کچھ بھی ان سے ہو سکتا ہے دینے سے دریغ نہیں کر رہے.- صحیح بخاری کتاب الفرائض باب اذا ادعت المرأة ابناً

Page 615

خطبات محمود جلد (5) ۶۰۴ اگر ان مسلمان کہلانے والوں کو بھی اسلام سے کچھ تعلق ہوتا تو کیوں ان کو اسلام کی ایسی حالت دیکھ کر جوش نہ آتا.لیکن بات یہ ہے کہ ان کی حالت اس مخلص کی مانند ہو گئی ہے جو جانتا ہے کہ پانی موجود ہے اور اس میں تریاق ملا ہوا ہے.لیکن وہ اس کو پیتا نہیں.کیونکہ اس کی شامت اعمال حائل ہوگئی ہے.پس یہ زیادہ عتاب کے نیچے ہیں.انہوں نے خدا سے منہ پھیر لیا.خدا نے ان سے اسلام کی خدمت کی توفیق ہی چھین لی.جو شخص خدا کے پسندیدہ اور اس کے مامور انسان کی پروانہیں کرتا.خدا کو اس کی پروا نہیں.اسلئے انکو خدمت اسلام کی توفیق ہی نہیں ملتی.سوچنے والے سوچیں.اس میں ہمارے سلسلہ کی حقانیت کا کتنا بڑا ثبوت ہے.یہ لوگ ہمارا نام و نشان مٹانا چاہتے ہیں.مگر ہمیں ان سے ہمدردی ہے.اور ہم انکے لئے دعا ہی کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود نے بھی فرمایا ہے.اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاه دار کا خر کنند دعوی حبّ پیمبرم یہ لوگ آخر قر آن اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں.اسلئے ہم ان کے لئے دعا کرتے ہیں کہ خدا یا ان کی آنکھیں کھول.تا اس سورج کو دیکھیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں جو تُو نے انہی کے فائدہ کیلئے چڑھایا ہے.اور اس جبل کو تھام لیں جو تو نے ڈوبتوں کو غرق ہونے سے بچانے کیلئے بھیجا ہے.( الفضل اار دسمبر ۱۹۱۷ء)

Page 616

خطبات محمود جلد (5) 83 اشاعت اسلام کے لئے زندگی وقف کرنے کی تحریک (فرمودہ کے ردسمبر ۱۹۱۷ء) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے آیہ شریفہ ولتكن منكم امة يدعون الى الخير ويا مرون بالمعروف وينهون عر المنكر واولئك هم المفلحون پڑھی اور فرمایا: (آل عمران : ۱۰۵) میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں.اس وقت جو مسلمانوں کی حالت ہو رہی ہے.اور جس طرح وہ محتاج ہیں کہ انکی دینی تربیت کی جائے.اور اسلام جن مشکلات سے گزر رہا ہے.اور احمد یہ جماعت کا جو فرض ہے.وہ بیان کیا تھا.آج میں اس انتظام اور طریق عمل کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں جس کے ذریعہ ہمارا یہ فرض آسانی کے ساتھ پورا ہوسکتا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ جو کام ہمارے سامنے ہے.اسکی اہمیت اور شوکت کا اندازہ لگانا انسانی طاقت سے بالا ہے.کس قدر تاریکی کی طاقتیں ہمارے مقابلہ میں کام کر رہی ہیں.جونور کومٹا دینا چاہتی ہیں.ہمیں جس قدر علم واقعات سے ہو سکتا ہے.وہ ہمیں ہشیار کر دینے کے لئے کافی ہے.ہمارے مقابلہ والے تعداد کے لحاظ سے.علوم کے لحاظ سے.جو ظاہر سے تعلق رکھتے ہیں.مال کے لحاظ سے غرض کسی حیثیت سے بھی دیکھا جائے.دشمنوں کے مقابلہ میں ہماری کوئی حیثیت ہونا تو الگ رہا ہم کوئی جماعت کہلانے کے بھی مستحق نہیں.پھر اربوں آدمی ہیں جنہیں ہم کو

Page 617

خطبات محمود جلد (5) اسلام سکھانا.اور اس کی حقیقت بتانی ہے.پھر جو ہمارے مقابلہ میں مال صرف ہورہے ہیں.ان کا اندازہ بھی مشکل ہے.ساٹھ کروڑ روپیہ عیسائیت کی تبلیغ میں صرف ہوتا ہے اور ستر ہزار عیسائی مشنری دنیا میں کام کر رہا ہے.اور صرف انہی مشنریوں پر ہی ان کی تبلیغ کا دائرہ ختم نہیں ہو جا تا.بلکہ اور بھی بہت سے طریق ہیں جن کے ذریعہ عیسویت کی تبلیغ کی جاتی ہے.کالج بنائے گئے ہیں.سکول کھولے گئے ہیں.ہسپتال قائم کئے گئے ہیں ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں کتب شائع کی جاتی ہیں.یتیم خانے بنائے گئے ہیں اگر ان تمام اخراجات کو نظر انداز کر کے صرف ستر ہزار مبلغوں کی تنخواہوں کا ہی اندازہ کیا جائے.اور اوسط تنخواہ سنو روپیہ ماہوار فرض کی جائے تو نظام دکن کی آمدنی جتنا ان کا صرف مبلغوں کا ہی خرچ ہوگا.اور جو دوسری مدات میں صرف ہوتا ہے وہ ۲۰ کروڑ سے کیا کم ہوگا.اس کے مقابلہ میں ہمارے لئے جو سامان ہیں.وہ گویا کچھ بھی نہیں.اگر ہماری جماعت تکلیف برداشت کر کے اپنی ساری آمدنیوں کو بھی دیدے تو بھی اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی.ہماری تو وہی مثل ہے ایک انار وصد بیمار کسی طبیب کو تو ایک انار کی موجودگی میں سو بیمار کی شکایت کرنا پڑی تھی.لیکن یہاں تو ایک انار اور کروڑ ہا بیمار کا معاملہ ہے.جب صورتِ حال یہ ہے تو کوئی ایسی تجویز سوچنا چاہیئے جس سے ہمارا فرض عمدگی کے ساتھ ادا ہو جائے.اور یہ صاف بات ہے.کبھی کوئی کام اس وقت تک عمدگی سے نہیں ہو سکتے.جب تک کہ تدبیر کے ساتھ اس کے تمام پہلوؤں پر غائر نظر کر کے دیکھ نہ لیا جائے.پس سب سے پہلے دیکھنا یہ چاہئیے کہ تبلیغ اسلام کی راہ میں روکیں کیا ہیں اور سامان کیا ہیں.پھر ہم آسانی کے ساتھ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس طرح اور کس طریق سے ہمیں کام کرنا چاہئیے.یہ بات یا در کھنے کے قابل ہے کہ دنیا میں محض طاقت سے کام نہیں ہو سکتا جب تک کہ طاقت کے ساتھ تدبیر اور انتظام نہ ہو دو پہلوان کشتی لڑتے ہوں.ان میں جو طاقت ور ہونے کے ساتھ داؤ پیچ سے بھی

Page 618

خطبات محمود جلد (5) ۶۰۷ واقف ہوگا.وہی کامیاب ہوگا.پھر آجکل طاقت کا دخل بہ نسبت تدبیر کے بہت کم ہے.جرمن سلطنت مال و ملک و افواج کے لحاظ سے ہماری گورنمنٹ کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں.مگر چونکہ وہ ایک عرصہ سے تدبیر میں لگی ہوئی تھی.اس لئے اب تک وہ مقابلہ کر رہی ہے.پس اگر ہم اپنا سارا زور خرچ کریں لیکن انتظام کے ساتھ نہ کریں تو ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.اس لئے ضرورت ہے کہ ہماری ساری طاقتیں جمع کی جائیں اور ان کو بہتر سے بہتر طریق کے ساتھ چلایا جائے.تا کہ ان طاقتوں سے اس قدر کام نہ لیا جائے کہ بالآخر وہ ٹوٹ جائیں.چھت تب ہی قائم رہتی ہے.جب کڑیوں پر زیادہ بوجھ نہ ہو.ہمارا دشمن ظاہری ساز و سامان کے لحاظ سے ہر طرح ہم سے بڑھا ہوا ہے مگر مدد کیلئے چاروں طرف سے آوازیں آ رہی ہیں.اسلام میں ارتداد بڑھتا چلا جاتا ہے.اب اگر ہم سب طرف توجہ کریں تو اس ہر دلعزیز والا معاملہ ہوتا ہے جو دریا کے کنارے لوگوں کو پارا تارنے کے لئے بیٹھا رہتا تھا.وہ ایک شخص کو جب سوار کر کے لے جاتا تو دوسرا آواز دیتا کہ جلدی کرنا مجھے پارلے جانا.وہ یہ سن کر پہلے کو دریا میں ہی چھوڑ آتا.اور دوسرے کے لئے آ جاتا تا کہ اس کی ہر دلعزیزی قائم رہے.اور اس طرح سب کو ہلاک کر دیتا تھا.اس وقت بعض مقامات ایسے ہیں کہ جہاں ہم ایک روپیہ خرچ کر کے جو کام کر سکتے ہیں.وہ بعد میں دس لاکھ روپیہ خرچ کر کے بھی نہیں کر سکتے.اس لئے دنیا کے سارے مقامات کو جانے دو.مگران مقامات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو زیادہ محتاج اصلاح ہیں.اور زیادہ خرچ بھی نہیں چاہتے.لیکن اب تک ایسے مقامات جن میں واقعی ضرورت ہے.ان میں سے بھی سودان ' حصہ نہیں جسکی طرف ہم توجہ کر سکے ہیں.ہماری جماعت پر دن بدن بوجھ بڑھ رہا ہے.اور بعض کمزور طبائع ہیں جو اس بوجھ کو نہیں برداشت کر سکتیں.لیکن اگر موجودہ طریق کو کتنا بھی بڑھا دیا جائے تب بھی اس عظیم الشان کام کے مطابق نہیں ہو سکتا جو ہمارے پیش نظر ہے.اسوقت ہماری حالت تو یہ ہے نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن.

Page 619

خطبات محمود جلد (5) ۶۰۸ میں تبلیغ کے مسئلہ پر بہت غور کرتارہا ہوں.اس سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے موجودہ طر ز تبلیغ کے خاطر خواہ نتائج نہیں نکل سکتے.میں جانتا ہوں کہ اگر موجودہ چندہ دینے والے دُگنے بھی ہو جا ئیں تو بھی اس طریق پر کام خاطر خواہ نہیں ہوسکتا.غیروں سے تو ہم روپیہ نہیں مانگ سکتے.اور یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ جب ہم ان کے خیالات کو مٹانا چاہتے ہیں تو انہیں سے مدد مانگیں.اور وہ ہماری مدد کریں.ہم انکے غلط عقائد کی بنیادوں کو گرانا چاہتے ہیں.پھر ہماری غیرت کیسے تقاضہ کر سکتی ہے کہ انہیں سے جا کر سوال کریں.اور دنیا میں اس طرح کب ہوا ہے کہ کوئی کسی کو کہے کہ میاں چھری لانا.میں تیرے بیٹے کو ماروں.وہ لوگ تو اپنے غلط عقائد کو صحیح سمجھتے ہیں.خواہ وہ کتنے ہی خلاف اسلام کیوں نہ ہوں.مثلاً انکا یہ خیال کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسیہ ( نعوذ باللہ ) ایسی نہیں کہ جس سے کوئی کامل انسان پیدا ہو سکے.پھر ان سے یہ بھی تو توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس حصہ میں ہی ہماری مدد کر سکیں جو ان میں اور ہم میں مشترک ہے.کیونکہ وہ اگر ایسے ہوتے تو پھر مسیح موعود کے آنے کی ضرورت ہی کیا تھی.لیکن مسیح موعود کا آنا بتا تا ہے کہ وہ دین کی خدمت کرنے کے لائق نہیں رہے تھے.اور یہ کام مسیح موعود کی جماعت کے ہی سپر د ہوا ہے.اور میں نے بتایا تھا کہ ہماری غریب جماعت جس قدر روپیہ محض تبلیغ اسلام کے لئے خرچ کرتی ہے.سارے مسلمان باوجود اپنی بڑی تعداد کے انتنار و پید اس غرض کے لئے نہیں خرچ کرتے.یہ لوگ کالج قائم کرتے ہیں.لیکن ان میں بجائے دیندارلڑ کے پیدا ہونے کے ایسے تیار ہوتے ہیں جو دین سے بالکل بے بہرہ ہوتے ہیں.پس ہم ان پر اُمید ہر گز نہیں رکھتے.اور نہ رکھ سکتے ہیں.فقط ہماری تو امید اللہ پر ہی ہے.لیکن ہمارے موجودہ ذرائع کافی نہیں.اور ان ضروریات کو پورا نہیں کر سکتے جو ہمیں در پیش ہیں.پس ایسے ذرائع سوچنے چاہئیں جن سے جماعت پر بوجھ بھی نہ بڑھے.اور ہم اپنے فرض کو بھی پورا کرسکیں.میں نے اس مسئلہ پر غور کرتے ہوئے تاریخ اسلام پر خوب نظر کی ہے.تو معلوم ہوا ہے کہ بعض ذرائع ایسے ہیں جن پر اسوقت تک عمل نہیں ہوا.اسلام دنیا میں

Page 620

خطبات محمود جلد (5) ۶۰۹ طریق سے نہیں پھیلا.جس طریق پر ہماری تبلیغ ہو رہی ہے.پھر کون سا طریق تھا جس سے اسلام دنیا میں پھیلا.یہ تو نہیں تھا کہ تمام دنیا میں آسمان سے ایک آواز آ گئی تھی کہ اسلام سچا مذہب ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہو گئے ہیں.اس پر لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تھا.بلکہ اس وقت بھی اسلام کوشش اور سعی سے ہی پھیلا تھا.اور اب بھی اسی طرح پھیلے گا.لیکن وہ طریق دیکھنے چاہئیں جو اس وقت استعمال کئے گئے تھے.ہماری جماعت کے موجودہ چندہ کو خواہ کئی گنا بڑھا دیا جائے.کتاب پر کتاب شائع کی جائے تب بھی ہم تمام تبلیغی ضروریات کے مطابق کامیاب نہیں ہو سکتے.اب سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کا کیا طریق تھا.جس سے تمام دنیا میں اسلام پھیل گیا.سو یا درکھنا چاہیے کہ وہ طریق تبلیغ ہمارے صوفیا کرام رضوان اللہ علیہم کا طریق تھا ہندوستان میں اسلام حکومت کے ذریعہ نہیں پھیلا.بلکہ حکومت کے آنے سے صدیوں پہلے اسلام ہندوستان میں آچکا تھا.حضرت معین الدین چشتی کے ذریعہ اسلام کی تبلیغ ہوئی پھر قطب الدین بختیار کا کی ہے.فرید الدین شکر گنج سے.نظام الدین صاحب اولیاء یہ لوگ ملک کے مختلف گوشوں میں پھیل گئے اور خدا کے دین کی اشاعت میں مصروف ہو گئے.یہ لوگ تنخواہ دار نہیں تھے.بلکہ انہوں نے اپنی زندگیاں وقف کر دی تھیں.کچھ حصہ دن میں اپنا کام کرتے تھے اور باقی وقت دین کی اشاعت میں صرف کرتے تھے.یہی حال دوسرے ممالک کا ہے.وہاں بھی حکومت کے ذریعہ اسلام نہیں پھیلا.بلکہ ایسے ہی لوگوں کے ذریعہ پھیلا ہے.ے ہندوستان میں سلسلہ چشتیہ کے مسلمہ سردار، والد ماجد کا نام خواجہ غیاث الدین حسن.آپ حسینی سادات میں سے تھے.حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی ولادت ۵۳۷ھ اور وفات ۱۳۳ ھ مزار مبارک بمقام اجمیر شریف.ے حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے جانشین وفات دوشنبه ۱۴ ربیع الاول مزار مبارک بمقام دہلی.آپ حضرت خواجہ بختیار کاکی کے خلیفہ اور اپنے وقت کے غوث و قطب تھے ۵ محرم ۲۳۴ ھ کو وفات پا کر پاکپٹن میں مدفون ہوئے.خلیفه و جانشین حضرت شیخ گنج شکر.آپ کا شمار مشائخ عظام میں ہوتا ہے.ولادت قصبہ بدایون میں اور وفات ۱۸ / ربیع الاول ۲۵ ھ میں ہوئی.مزار مبارک دہلی میں ہے.(سفینتہ الاولیاء از دارا شکوہ)

Page 621

خطبات محمود جلد (5) ۶۱۰ پس یہ وہ طریق ہے جس کے ذریعہ اسلام نے دنیا میں ترقی کی تھی.اور جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی پسند فرمایا تھا.حضرت صاحب کے وقت اس مسئلہ پر غور کیا گیا تھا.اور آپ نے قواعد بنانے کیلئے سید حامد شاہ صاحب کو مقتز رفرمایا تھا.سید صاحب نے جو قواعد مرتب کر کے دیئے تھے وہ حضرت صاحب نے مجھ کو دیکھنے کیلئے دیئے تھے.کہ درست ہیں یا نہیں.تو میں نے عرض کیا تھا کہ درست ہیں.حضرت صاحب نے بھی ان کو پسند کیا تھا.ان قواعد پر عمل کرنے کیلئے تجویز ہوا تھا کہ دوستوں کو اپنی زندگیاں وقف کرنی چاہئیں.تا کہ سلسلہ پر ان کا کوئی بوجھ نہ ہو اور وہ خود محنت کر کے اپنا گزارہ بھی کریں.اور اسلام کی اشاعت میں بھی مصروف رہیں اور وہ ایک ایسے انتظام کے ماتحت ہوں کہ ان کو جہاں چاہیں جس وقت چاہیں بھیج دیں.اور وہ فوراً چلے جائیں.ان تجاویز کو حضرت صاحب نے پسند فر ما یا تھا اس وقت کچھ لوگوں نے اپنی زندگی وقف بھی کی تھی.مگر پھر معلوم نہیں کہ کیا اسباب ہوئے کہ وہ سلسلہ قائم نہ رہ سکا.ابتدائے اسلام میں ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام ایسے ہی لوگوں کے ذریعہ پھیلا.وہ لوگ چند آدمیوں کی جماعت بن کر مختلف اقطاع میں چلے جاتے تھے.اپنے گھر بار چھوڑ دیتے تھے.اور بال بچوں سمیت جدھر حکم ہوتا تھا.چل کھڑے ہوتے تھے.یہی وہ رُوح تھی.جس نے اسلام کو ابتداء میں پھیلا یا.اور یہی وہ رُوح ہے جو حقیقی اسلام کی روح ہے.ابتداء میں تبلیغ کا یہی رنگ تھا.اور طریق بعد میں پیدا ہوئے ہیں.حضرت مسیح موعود نے اس کو پسند فرمایا ہے.اور یہی وہ طریق ہے جس کے ذریعہ ہم کامیاب ہو سکتے ہیں.پس جب تک کام اس طرح نہیں ہوگا.وہ کام انجام نہیں پائے گا جو ہمارے پیش نظر ہے.پس ہمارے دوست اپنی زندگیاں وقف کریں.اور مختلف پیشہ سیکھیں پھر ان کو جہاں جانے کیلئے حکم دیا جائے.وہاں چلے جائیں اور وہ کام کریں جو انہوں نے سیکھا ہے.کچھ وقت اس کام میں لگے رہیں تا کہ ان کے کھانے پینے کا انتظام ہو سکے اور باقی وقت دین کی تبلیغ میں صرف کریں.مثلاً کچھ لوگ ڈاکٹری سیکھیں کہ یہ بہت مفید علم ہے.بعض طب سیکھیں.اگر چہ طب جہاں ڈاکٹری پہنچ گئی ہے کامیاب نہیں ہو سکتی.مگر ابھی بہت سے علاقہ ایسے ہیں جہاں طب کو لوگ پسند کرتے ہیں.اسی طرح

Page 622

خطبات محمود جلد (5) ۶۱۱ اور کئی کام ہیں.ان تمام کاموں کو سیکھنے سے انکی غرض یہ ہو کہ جہاں وہ بھیجے جائیں وہاں خواہ ان کا کام چلے یا نہ چلے.لیکن کوئی خیال انکو روک نہ سکے، یہ ہونا چاہیے کہ مثلا کوئی شخص ہے اپنی زندگی وقف کر چکا ہے.اس کو کسی ایسی جگہ بھیجا ہوا ہے جہاں اس کی طب وغیرہ چل نکلی ہے.اس حالت میں اس کو حکم ملتا ہے کہ اس جگہ کو چھوڑ دو اور فلاں جگہ چلے جاؤ.اسے فوراً تیار ہو جانا چاہیئے.تو خواہ زندگی وقف کرنے والے کا کسی جگہ کتنا ہی کام کیوں نہ پھیلا ہوا ہو.جب اسکو حکم ملے کہ فلاں جگہ جاؤ.تو اس کو فوراً اس کام سے دست بردار ہونا پڑے گا.کیونکہ یہ کام اس نے اپنے منافع کے لئے شروع نہیں کیا تھا.بلکہ دین کی خاطر شروع کیا تھا.اور اب دین کی ضروریات اس کو وہاں سے ہٹا کر کہیں اور لے جانا چاہتی ہیں.اس لئے اس کو تامل نہیں ہونا چاہیے اسی طرح ڈاکٹری.نجاری معلمی ہے.غرض مختلف پیشہ ہیں جو ہر جگہ کام دے سکتے ہیں اگر اس طریق کو اختیار نہ کیا جائے تو ہم کبھی ساری دنیا میں تبلیغ نہیں کر سکتے.عیسائی با وجود کروڑ ہا روپیہ خرچ کرنے کے ساری دنیا کی تبلیغ کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکے.تو ہم کیسے لے سکتے ہیں.عیسائیوں میں بھی اس طریق پر عمل کیا جاتا ہے اور اُن میں بہت سے لوگوں نے ہسپتال اور مدرسہ وغیرہ کھول رکھے ہیں.وہ اپنا خرچ خود اٹھانے کے علاوہ اپنی تمام آمدنی بھی مشن میں خرچ کرتے ہیں.لیکن ان کی تعداد کے لحاظ سے ایسے لوگ بہت کم ہیں.میرے دل میں مدت سے یہ تحریک تھی لیکن اب تین چار دوستوں نے باہر سے بھی تحریک کی ہے کہ اسی رنگ میں دین کی خدمت کی جائے پس میں اس خطبہ کے ذریعہ یہاں کے دوستوں اور باہر کے دوستوں کو متوجہ کرتا ہوں کہ دین کے لئے جوش رکھنے والے بڑھیں.اور اپنی زندگیاں وقف کر دیں.جوابھی تعلیم میں ہیں.اور زندگی وقف کرنا چاہتے ہیں.وہ مجھ سے مشورہ کریں کہ کس ہنر کو پسند کرتے ہیں.تا ان کیلئے اس کام میں آسانیاں پیدا کی جائیں.لیکن جو فارغ التحصیل تو نہیں لیکن تعلیم چھوڑ چکے ہیں.وہ بھی مشورہ کر سکتے ہیں.میں جانتا ہوں کہ بعض لوگ جوش میں آکر اس وقت عہد کر لیں گے.اور اپنی زندگیاں وقف کر دیں گے.مگر وہ نبھا نہیں سکیں گے.اس لئے جہاں میں یہ کہتا ہوں

Page 623

خطبات محمود جلد (5) ۶۱۲ کہ زندگیاں وقف کرو.وہاں یہ بھی کہتا ہوں کہ خوب سوچ سمجھ کر اس راہ میں قدم رکھو.کیونکہ یہ اقرار کرنا پڑے گا کہ ہم اپنی زندگیوں سے دستبردار ہو گئے.بعض عزیزوں رشتہ داروں کی طرف سے مشکلات پیدا کی جائیں گی.یا اپنا نفس ہی پیچھے ہٹنے کے لئے کہے گا.پس خوب سوچ کر دعاؤں کے بعد اس راہ میں قدم رکھو.پھر یہ بھی اقرار کرنا پڑیگا کہ جہاں اور جس جگہ چاہو بھیج دو.ہمیں انکار نہیں ہوگا.اگر ایک منٹ کے نوٹس پر بھی ان کو بھیجا جائے گا تو ان کو جانا پڑیگا.اگر چہ یہ بہت بڑا کام اور بہت بڑا ارادہ ہے.مگر اسکے انعامات بھی بہت بڑے ہیں.اگر کسی کو ایک جگہ ہزار روپیہ بھی آمدنی ہوگی تو اسکو چھوڑنا پڑے گا.اور ایسی جگہ جانا ہوگا جہاں صرف دس روپے ملنے کی امید ہوگی.اور آباد علاقوں کو چھوڑ کر جنگلوں کے سفر میں جانا پڑے گا.شہروں کو چھوڑ کر گاؤں میں رہنا پڑے گا.خطر ناک موسم انکو اس ارادہ سے روک نہ سکیں.جنگیں ان کے لئے رکاوٹ کا موجب نہ ہوں.دشوار گزار راستہ ان کو بددل نہ کر دیں.بیوی بچوں کے تعلقات ان کے عزم کو ڈھیلا نہ کر سکیں.وہ چاہیں تو بیوی بچوں کو لے جائیں یا کہیں رکھیں مگر یہ نہیں ہو گا کہ کہیں کہ ہم ان سے علیحدہ نہیں ہو سکتے.پس جو ان تکالیف کو برداشت کریں گے.خدا انکی مدد کرے گا.اور ان کو بڑے بڑے انعامات کا وارث بنائے گا.پس جو اپنے آپکو پیش کریں.وہ سوچ سمجھ کر کریں.یہ کام بڑی بڑی قربانیاں چاہتا ہے.جولوگ تعلیم کی عمر کو گزار چکے ہیں.وہ اس میں شامل ہو سکتے ہیں.اور جو کوئی ہنر بھی جانتے ہیں.ان کو اس وقت بھیج دیا جا سکتا ہے.اور جو طالبعلم ہیں تو وہ تیار ہو سکتے ہیں.اور مجھ سے مشورہ کر سکتے ہیں.کہ کون سا کام سیکھیں.اگر ہمیں ۲۰ آدمی بھی ایسے مل جائیں تو موجودہ تبلیغ سے کہیں بڑھ کر تبلیغ ہوسکتی ہے اور ایسے نتائج پیدا ہو سکتے ہیں جو آج تک کی کامیابیوں سے بہت بڑھ کر ہونگے جب تک ایسے انسان نہیں ہوں گے کام بخوبی نہیں ہو سکے گا.کچھ دوستوں نے اپنے بچوں کو دین کے لئے وقف کیا ہے.نہیں معلوم وہ بچے بڑے ہو کر کیا پسند کریں گے.لیکن ماں باپ کو تو اپنی نیت کا ثواب مل چکا ہے.پس جو لوگ اپنے بچوں

Page 624

خطبات محمود جلد (5) ۶۱۳ کو وقف کرنا چاہیں وہ پہلے قرآن کریم حفظ کرائیں.کیونکہ مبلغ کیلئے حافظ قرآن ہونا نہایت مفید ہے.بعض لوگ خیال کرتے ہیں.اگر بچوں کو قرآن حفظ کرانا چاہیں تو تعلیم میں حرج ہوتا ہے.لیکن جب بچوں کو دین کے لئے وقف کرنا ہے.تو کیوں نہ دین کے لئے جو مفید ترین چیز ہے وہ سکھالی جائے.جب قرآن کریم حفظ ہو جائے گا تو اور تعلیم بھی ہو سکے گی.میرا تو ابھی ایک بچہ پڑھنے کے قابل ہوا ہے اور میں نے تو اس کو قرآن شریف حفظ کرانا شروع کرا دیا ہے.ایسے بچوں کا تو جب انتظام ہوگا اس وقت ہوگا.اور جو بڑی عمر کے ہیں وہ آہستہ آہستہ قرآن حفظ کر لیں گے.لیکن جو زندگی وقف کرنا چاہتے ہیں.مجھ سے مشورہ کریں.کہ کون سا پیشہ سیکھیں گے.پھر انکے متعلق وہ پہلو اختیار کیا جائے گا.جو زیر نظر ہے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے لوگوں کو توفیق دے کہ وہ قربانیاں کریں.اور ان کے اعمال.افعال عقائد خدا ہی کی رضا کے ماتحت ہوں تا کہ اس کے فضلوں کے وارث ہو جائیں.الفضل ۲۲ دسمبر ۱۹۱۷ء)

Page 625

۶۱۴ 84 خطبات محمود جلد (5) زندگی وقف کر نیوالوں کے متعلق خدا تعالے کا شکریہ اور جلسہ کیلئے احباب قادیان کو نصیحت (فرموده ۱۴ ؍ دسمبر ۱۹۱۷ء) حضور نے تشہد وتعوذ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: وَلَمَّا جَاءَتْ رُسُلُنَا لُوطًا سِيى بهم وَضَاقَ بِهِمُ ذَرُعًا وَقَالَ هَذَا يَوْمٌ عَصِيبٌ وَجَاءَهُ قَوْمُهُ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ وَمِنْ قَبْلُ كَانُوا يَعْمَلُونَ السَّيَاتِ قَالَ يُقَوْمِ هَؤُلَاءِ بَنَاتِي هُنَّ أَظْهَرُ لَكُمْ فَاتَّقُوا اللهَ وَلَا تُخْزُونِ فِي ضَيْفِيط أَلَيْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَشِيْدُه اور فرمایا: (ہود: ۷۸ تا ۷۹) پہلے تو میں اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہماری جماعت کو دین کی خدمت کی توفیق عطا کی.اور وہ اپنی ہمت اور مقدرت کے مطابق ضرور کوشش کرتی ہے.میں نے پچھلے جمعہ اعلان کیا تھا کہ ہم اپنے مقصد میں اس ذریعہ سے کامیاب نہیں ہو سکتے اور اپنے فرض کو ادا نہیں کر سکتے کہ صرف مال سے ہی کام لیں.بلکہ ہماری کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ ہماری جماعت میں سے کچھ دوست ایسے کھڑے ہوں جو اپنی زندگیوں کو وقف کر دیں.تا ان کو جہاں بھیجا جائے چلے جائیں جہاں مقر ر کیا جائے کام کریں.کچھ ہنر سیکھیں جس کے ذریعہ وہ اپنے کھانے پینے کا

Page 626

خطبات محمود جلد (5) ۶۱۵ بند و بست کریں.تا ان کا جماعت پر کسی قسم کا بوجھ نہ ہو.انکو کوئی تنخواہ جماعت کے فنڈ سے نہ دی جائے لیکن کام وہ ایک انتظام کے ماتحت کریں.اس طریق پر کام کرنا ایسا مشکل کام ہے کہ اس کیلئے بہت کم لوگ نکل سکتے ہیں.یورپ جس کی آبادی بہت بڑھی ہوئی ہے.اس میں سے بھی ایسے لوگ نکلنے مشکل ہیں.اور وہاں سے دس ہزار آدمی بھی نکل آئیں تو ان کی ہماری جماعت کے مقابلہ میں کوئی نسبت نہیں ہے.باقی اور جماعتوں میں تو اس کی بہت ہی کم مثالیں مل سکتی ہیں میں نے کہا تھا کہ اگر فی الحال ساری جماعت میں سے ۲۰ آدمی بھی نکل آئیں جو اپنے آپکو اس راہ میں وقف کر دیں.اور انہیں کسی وقت بھی کہیں جانے میں کوئی عذر نہ ہو.اپنی ذات کو اللہ کے سپر د کر دیں تو خدا کے فضل کے ماتحت کامیابی کی فوری سبیل نکل آئے گی.ابھی وہ خطبہ چھپ کر باہر نہیں گیا تھا کہ قادیان کے دوستوں نے جیسا کہ ان سے توقع تھی.اور ان کو اس کا اہل ہونا چاہیئے تھا.کیونکہ یہ دوسروں کی نسبت بہت زیادہ قرآن کریم اور حدیث سنتے رہتے ہیں.پھر یہ ایسے مقام میں رہنے والے ہیں جو خاص برکات والا ہے.کیونکہ مسیح موعود کے نزول کی جگہ ہے یہاں کے لوگوں نے اس کا بہت اچھا جواب دیا ہے.اس وقت ۲۵ آدمی ہیں جنہوں نے اپنے نام پیش کئے ہیں.جب یہ خطبہ باہر جائے گا.اور باہر کے لوگ بھی درخواستیں بھیج دیں گے تو انتخاب کیا جائے گا.فی الحال میں یہ بتادیتا ہوں کہ اخلاص الگ چیز ہے.اور کسی کام کا اہل ہونا الگ وہ لوگ جنہوں نے اپنے نام پیش کئے ہیں انہوں نے ثواب حاصل کر لیا ہے.۱۰ تو قادیان کی بیرونی آبادی میں سے ہیں اور ۱۵ اندرونی میں سے دسن تو اس قابلیت کے ہیں کہ جواب بھی باہر بھیجے جاسکتے ہیں.اس وقت ہم نہیں کہہ سکتے کہ ان میں سے کس کا عہد پورا ہوگا.مگر لَئِن شَكَرُ تُم لَأَزِيدَ نَّكُمْ (ابراہیم:۸) کے ماتحت ہمارے لئے شکریہ بہر حال ضروری ہے.اور اللہ تعالیٰ سے اُمید ہے کہ وہ اس شکر گزاری کے بدلہ میں ہی ان دوستوں کو اپنے عہد کے پورا کرنے کی توفیق دے گا.جب باہر کے دوستوں کو اطلاع ہو جائے گی.اور وہاں سے بھی درخواستیں آجائیں گی تو پھر انتخاب کر کے جن کو تجویز کیا جائے گا انکو اطلاع

Page 627

خطبات محمود جلد (5) دے دی جائے گی.فی الحال جن کی درخواستیں آچکی ہیں.ان کو فرد فردا بتانے کی بجائے اس وقت اطلاع دیتا ہوں کہ ان کے نام میرے پاس محفوظ ہیں.میں قواعد بنا کر ان کو اطلاع دوں گا.اگر وہ ان قواعد کو منظور کرلیں گے تو پھر انکے نام مشتہر کر دیئے جائیں گے.اس کے ماسوا میں اپنے یہاں کے دوستوں کو ایک آنیوالے فرض کی طرف بھی متوجہ کرتا ہوں.درس میں کئی دن سے مہمان نوازی کا مضمون شروع ہے.یہ آیات جو میں نے پڑھی ہیں ان میں مہمان نوازی کا ہی ذکر ہے.حضرت لوط جس بستی میں رہتے تھے وہ ساری کی ساری مہمان نوازی کے خلاف اور انکی دشمن تھی اور لوگ انکومہمان نوازی اور مسافروں کو ٹھہرانے سے منع کرتے تھے مگر باوجود اس تنگی اور مشکل کے جو ان پر تھی پھر بھی وہ مسافروں کو لے آتے تھے اور انکی مدارت کرتے تھے.دیکھئے وہ اپنے نفس کے لئے نہیں بلکہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے کیلئے بہت سی دشتوں اور تکلیفوں کو برداشت کرتے تھے.آپ ایک دن حسب معمول باہر گئے.اور کچھ مسافروں کو دیکھ کر انہیں کہا.چلو میرے ہاں ٹھہر و.انہوں نے جانے سے انکار کر دیا.لیکن آپ ان کو لے جانے پر اصرار کرتے رہے.جب اس پر بھی انہوں نے نہ مانا تو حضرت لوط نے کہا.آج میرے لئے کیسا مصیبت کا دن ہے.گویا مہمانوں کا ان کے ہاں نہ جانا انکے لئے مصیبت بن گئی.آخر آپ ان لوگوں کو اپنے گھر لے گئے جب انکی قوم کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے آ کر کہا کہ لوط ہم نے تجھے منع نہیں کیا ہوا کہ لوگوں کو یہاں نہ لایا کرو.اس پر حضرت لوط ان لوگوں کے رو بروا پیل کرتے ہیں کہ تم مہمانوں کو ذلیل نہ کرو.اس میں میری ذلّت ہے.دیکھو باوجود حضرت لوط اپنی اس بیچارگی کے قوم سے کہتے ہیں کہ تم اگر میرے مہمانوں کو ذلیل کرو گے تو اس میں میری ذلت ہوگی.یہ نہایت درجہ کے اخلاق کی بات ہے جو انبیا علیہم السلام کی سنت ہے.پس میں آپ لوگوں کو جو ایک نبی اور رسول کے ماننے والے ہو تاکید کرتا ہوں کہ آپ کے ہاں مہمان آئیں گے.آپ لوگ خوشی کے ساتھ انکی خدمت کریں آپ لوگ منتظمین کے پاس جائیں اور ان سے کہیں کہ ہم جس کام کے قابل ہوں ہمیں بتایا جائے تا کہ ہم کریں.اگر تم پر کسی مہمان کی طرف سے کوئی سختی بھی ہو تو اسکو بھی برداشت

Page 628

خطبات محمود جلد (5) ۶۱۷ کرنا چاہیئے.کیونکہ جو شخص مہمان کو ذلیل کرتا ہے وہ بڑا ہی کمینہ ہے.لوگ دُنیاوی باتوں میں کہا کرتے ہیں کہ ناک کٹ گئی.حالانکہ ان باتوں میں تو ناک نہیں کٹتی لیکن جو شخص مہمان کو ذلیل کرتا ہے اسکی.یقینا ناک کٹ جاتی ہے.مہمان نوازی انبیاء کی خاص صفت ہوتی ہے.اس لئے انکے متعلقین میں بھی اسکا ہونا ضروری ہے.حضرت خدیجہ کو جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کی ابتداء کا حال سنا یا تو کہا تھا کہ آپ مہمان نواز ہیں.خدا آپ کو ضائع نہیں کریگا.اللہ تعالی آپ لوگوں کو توفیق دے کہ آپ مہمان نوازی کا حق ادا کریں.الفضل ۵ /جنوری ۱۹۱۸ء)

Page 629

۶۱۸ 85 خطبات محمود جلد (5) خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگو.فرموده ۲۸ دسمبر ۱۹۱۷ء بر موقع جلسه سالانه مسجد نور ) تشہد وتعوذ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت پڑھی: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَلَى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ.(البقره: ۱۸۷) اور فرمایا: جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی ہستی کے ثبوت میں اور ہزاروں ہزار ثبوت دیئے ہیں وہاں ایک نہایت زبر دست اور عظیم الشان ثبوت قبول دعا کا بھی دیا ہے.باقی جس قدر ثبوت ہیں ان کا کثیر حصہ ایسا ہے کہ جن سے ہستی باری تعالیٰ کا ثبوت تو مل جاتا ہے.لیکن ان سے انسان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا لیکن یہ ثبوت ایسا ہے کہ ایک پنتھ دو کاج.جہاں اس سے یہ ثابت ہو جاتا کہ خدا تعالیٰ ہے.وہاں انسان خود بھی بہت بڑا فائدہ حاصل کر لیتا ہے.پس مومنوں کیلئے یہ نہایت بابرکت اور مفید طریق ہے.اس لئے اس پر ہمیشہ کار بند رہنا چاہیئے.خدا تعالیٰ کی طرف سے جو جماعتیں قائم ہوتی ہیں.وہ ابتداء میں نہایت کمزور اور ضعیف ہوتی ہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ دنیا کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ میرے مذہب کے پھیلانے میں کسی انسان کا دخل نہیں.چونکہ خدا تعالیٰ بڑا تیور ہے.اسلئے وہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے کام کے متعلق یہ کہا جائے کہ فلاں کی مد داور کوشش سے ہوا ہے.پس اس کی ہمیشہ یہ سنت ہے کہ ایسے نبی جن کے ذریعہ امتیں قائم ہوتی ہیں کبھی کسی

Page 630

خطبات محمود جلد (5) ۶۱۹ ایسی جماعت یا قوم سے مبعوث نہیں کرتا جو پہلے سے دنیا میں رعب.اقتدار اور غلبہ رکھتی ہو.بلکہ دنیاوی لحاظ سے نہایت چھوٹے درجہ اور غریب لوگوں سے ایسے انبیاء اٹھاتا ہے.کیونکہ اگر وہ بادشاہوں کو اس کام کے لئے بچنے تو دنیا کہ سکتی ہے کہ فلاں کے رعب اور حکومت کے ذریعہ فلاں سلسلہ چلا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ ایسے لوگوں میں سے اُمت قائم کر نیوالے انبیاء کو مبعوث نہیں کرتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مخالفین اسلام کے مقابلہ میں تلوار چلانے کی ضرورت تھی.اسوقت اگر کوئی بادشاہ نبی بنا کر بھیجا جاتا تو دنیا کہتی کہ اس نے تلوار کے زور سے اسلام پھیلایا ہے.ورنہ در اصل اس میں کوئی خوبی اور صداقت نہیں.لیکن اب یہ کہنے والوں کے لئے کیسا سیدھا اور صاف جواب ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیا ہے کہ مانا اسلام تلوار کے زور سے پھیلا.لیکن یہ تو بتاؤ کہ اسلام کی خاطر تلوار چلانے والے آئے کہاں سے تھے.ایک اتنی بہادر قوم کہ جس نے تلوار کے ذریعہ اسلام کی اشاعت کی.اس کے دل میں کس طرح اسلام داخل ہو گیا تھا.اور اگر اس کے دل میں دلائل و براہین کے ذریعہ اسلام جاگزیں ہو گیا تھا تو پھر کیا وجہ ہے کہ باقی لوگ دلائل کے ذریعہ حلقہ اسلام میں داخل نہ ہو سکتے تھے.پس یہ جو دندان شکن جواب دیا جاتا ہے.اسی لئے دیا جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی حالت دنیاوی لحاظ سے بہت کمزور تھی.ورنہ دنیا پر یہ ثابت کرنا بہت مشکل ہو جاتا کہ اسلام تلوار کے ذریعہ نہیں پھیلا.تو اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ کسی جماعت کو حق پر قائم کرنے کے وقت غیرت دکھاتا ہے.اور یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کا کام کسی اور کی طرف منسوب کیا جائے اس لئے وہ سب کچھ خود کرتا ہے.یعنی اسکا نام پھیلانے والے چھوٹے درجہ کے لوگ ہوتے ہیں.لیکن جب وہ اس کام کو شروع کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ انہیں بڑا بنا دیتا ہے اس لئے وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ دین کا فلاں کام ہم نے کیا یا ہمارے ذریعہ دین پھیلا بلکہ یہ کہتے ہیں کہ فلاں کام کرنے کی وجہ سے ہم پر انعام ہوا.پس کوئی نبی.کوئی صحابی.کوئی ولی.کوئی بزرگ نہیں کہہ سکتا کہ ہماری طاقت اور ہمت سے خدا کا دین پھیلا.بلکہ انکی ابتدائی حالت کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں دین کا خادم ہونے کی وجہ سے

Page 631

خطبات محمود جلد (5) ۶۲۰ اعلیٰ مراتب پر پہنچایا گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھئے.آپ کے زمانہ میں چونکہ ترقی نہایت سرعت کے ساتھ ہوئی ہے.اس لئے انکی نظیر نہایت بقین اور صاف ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہونے والے لوگ کون تھے.یہی کوئی اونٹوں کے چرانے والا.کوئی معمولی دوکاندار کوئی معمولی زمیندار.مگر اسلام میں داخل ہو کر جانتے ہو کیا سے کیا ہو گئے.اسلام نے انہیں حکمران اور بادشاہ بنا دیا.لیکن چونکہ وہ نہایت ادنیٰ حالت سے ترقی کر کے اسلام کی خدمت کرنے کی وجہ سے اعلیٰ درجہ پر پہنچے تھے.اسلئے انکا نفس یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ میں نے کچھ کیا ہے.بلکہ ان کے شکر گزار دل سے یہی آواز نکلی تھی کہ ہم پر خدا نے فضل کیا ہے.اور انکی گردنیں اسلام کے احسانات کے بار سے جھکی ہوئی تھیں.اور وہ اقرار کرتے تھے کہ اسلام لانے کی وجہ سے ہم پر یہ انعام ہوئے ہیں.کسی انسان کو سب سے بڑا سمجھنے والا اسکا اپنا نفس ہوتا ہے.چنانچہ کوئی ذلیل سے ذلیل قوم ایسی نہیں جو اپنے آپکو اعلیٰ نہ سمجھتی ہو.اور دیکھا گیا ہے کہ دنیا میں ادنیٰ سے ادنی جوتو میں کہی جاتی ہیں.ان کے کسی انسان کو بھی اگر کسی اعلیٰ کہلانے والی قوم سے رشتہ کیلئے کہا جائے تو وہ کہ دیتا ہے کہ اس طرح ذات بگڑ جاتی ہے.تو سب سے زیادہ انسان کا نفس اسکی عظمت اور بڑائی کا بیان کرنے والا ہوتا ہے.لیکن میں آپ لوگوں کو ایک واقعہ سناتا ہوں.اس سے معلوم ہو جائے گا کہ کس طرح اسلام کے احسانات کے نیچے عربوں کی گردنیں خم تھیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلافت کے مقام پر کھڑے ہوئے تو انکے والد کو کسی نے جا کر کہا کہ آپکا بیٹا خلیفہ ہو گیا.یہ سُن کر بلحاظ اس قاعدہ کے انسان کا نفس اپنی تعریف چاہتا ہے.طبعا یہ نتیجہ نکلنا چاہیئے تھا کہ وہ کہتے کہ واقعہ میں ہمارا ہی خاندان اس قابل ہے کہ اس سے خلیفہ ہو.اور کون ہے جو اس منصب کو حاصل کر سکے.مگر اسلام کا احسان ان پر اس قدر بھاری تھا کہ ان کے نفس کو ذرا بھی سر اٹھانے کی جرات نہ ہوئی.کیونکہ انکی اپنی حالت دنیاوی لحاظ سے اتنی گری ہوئی تھی کہ نفس ان کو جتنا بھی بڑا بنا تا وہ یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہمارا ہی خاندان اس قابل تھا کہ اس سے خلیفہ ہو.چنانچہ انہوں نے نہ تو یہ کہا اور نہ ہی چپ رہے بلکہ سنانے والے کو کہا کہ تم کو غلطی لگی ہے.کیا ابو قحافہ ( یہ انکا نام تھا )

Page 632

خطبات محمود جلد (5) کا بیٹا خلیفہ ہوسکتا ہے؟ اے ۶۲۱ ان کا یہ کہنا شہادت ہے اس بات کی کہ ان پر اسلام نے کس قدر بڑا احسان کیا تھا.ہوسکتا تھا کہ انکا نفس انہیں بڑا بنا کر دکھاتا.پھر وہ اوّلین صحابہ میں سے نہ تھے.بلکہ فتح مکہ کے بعد اسلام لائے تھے.ایسے آدمی کا نفس بالکل مردہ نہیں ہوسکتا.اسلئے وہ تو انہیں بڑا بنا تا ہوگا.مگر باوجود اسکے کہ انکے بیٹے کا خلیفہ بنا اتنابڑا انعام اور احسان تھا کہ وہ سمجھ ہی نہ سکتے تھے کہ میرے بیٹے کو یہ حاصل ہوسکتا ہے.اسی لئے انہوں نے بتانے والے کو کہا کہ تمہیں غلطی لگ گئی ہے.اس ایک مثال سے پتہ لگ سکتا ہے کہ کس طرح اسلام کے احسانات کے نیچے انکی گردنیں جھکی ہوئی تھیں.اس قسم کی ایک اور مثال سناتا ہوں.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جو قاضی مقرر کئے گئے.ایک دفعہ دربار لگائے بیٹھے تھے کہ ایک نہایت قیمتی رومال نکال کر اس میں تھوکا.اور اپنے آپکو کہا.واہ واہ ابو ہریرہ اب تو بھی بڑا بن گیا.حاضرین نے پوچھا آپ کے اس کہنے کا کیا مطلب ہے.انہوں نے بتایا کہ آپ لوگوں کو معلوم نہیں کہ پہلے میرا کیا حال تھا.میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عشق کی وجہ سے آپ کے دروازہ پر بیٹھا رہا کرتا تھا.اس وقت ہمارے گھرانہ کی اتنی بھی کا ئنات نہ تھی کہ مجھ اکیلے کو روٹی ہی کھلا سکتے اور کسی سے سوال کرنے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہوا تھا.اس لئے سات سات وقت میں بھوکا رہتا اور جب انتہائے بھوک کی وجہ سے بے ہوش ہو کر گر جاتا تو لوگ جو تیاں مارا کرتے تھے.عرب میں رواج تھا کہ مرگی کے مریض کو جوتیاں مارا کرتے تھے تا کہ اچھا ہو جائے.ان کے ساتھ بھی مرگی کا مریض سمجھ کر یہی سلوک کرتے تھے مگر آج اسلام کے طفیل خدا نے وہ عزت دی ہے کہ یہ رومال جو میرے ہاتھ میں ہے.اور جس میں میں نے تھوکا ہے ایران کے بادشاہ کسریٰ کا ہے.جسے وہ دربار کے وقت ہاتھ میں رکھا کرتا تھا.ہے تو صحابہ کہاں تھے لیکن اسلام نے کہاں تک پہنچا دیا.غرض ابتدائی حالت انبیاء کی جماعتوں کی بہت کمزور ہو ا کرتی ہے.جو سنت اللہ ہے.اور کمزوری کی حالت میں انسان کو بہت - تاریخ اخلفاء کا نپوری ص ۵۳ حالات سید نا ابوبکر فصل فی مبایقه - بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب و السته باب ماذكر النبی گو حض على اتفاق اهل العلم -

Page 633

خطبات محمود جلد (5) ۶۲۲ مضبوط سہارے کی ضرورت ہوا کرتی ہے.اور ان جماعتوں کا سہارا دعا ہوا کرتی ہے.اسی کے ذریعہ انہیں کامیابی حاصل ہوتی ہے.ہم بھی چونکہ ایک نبی کی جماعت ہیں اور اس وقت ہماری ابتدائی حالت ہے اس لئے ہمیں دعاؤں کی سخت ضرورت ہے.اگر کوئی ایسی قوم جو دولتمند اور دنیاوی لحاظ سے طاقتور ہو.دُعا سے استغنا کرے.گو خدا تعالیٰ سے کوئی بھی استغناء نہیں کرسکتا.مگر وہ بظاہر نظر معذور کہی جاسکتی ہے.لیکن ہم جن کی کہ ابتدائی حالت ہے.ہم استغناء نہیں کر سکتے.ہماری حالت ہمیں مجبور کرتی ہے کہ خدا کے حضور دعائیں کرتے رہیں.چونکہ درد اور تکلیف میں دُعا زیادہ قبول ہوتی ہے اور ہماری ایسی ہی حالت ہے.اس لئے ہمارے لئے یہ موقع ہے کہ اس سے فائدہ اٹھائیں اور دعاؤں میں لگ جائیں.اس وقت جو میں نے آیت پڑھی ہے.اسمیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، کہ اگر میرے بندے مجھ سے دعا کریں تو میں انکی دعائیں سنتا اور قبول کرتا ہوں پس جب قرآن کریم میں یہ وعدہ ہے.اور ادھر ہماری یہ حالت ہے.تو ہمیں اس موقعہ سے فائدہ اٹھانا چاہیئے.اس موقعہ کو ضائع کرنا نادانی ہوگی.اور یہ ایسی ہی بات ہوگی کہ ایک انسان سخت پیاسا ہو.اور اسے پانی بھی ملتا ہو لیکن وہ پیئے نہ.ہم پیاسے بھی ہیں.اور خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے پانی بھی مہیا کیا ہوا ہے.اور وہ دینے کو تیار بھی ہے.پھر اگر ہم اُسے نہ پئیں تو کتنا افسوس کا مقام ہوگا.پس اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیئے.بلکہ خاص طور پر اپنے لئے.اپنی جماعت کیلئے.اسلام کی اشاعت کیلئے دعائیں کرنی چاہئیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سفر میں دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں اے اس لئے میں آج آپ لوگوں کو جو ہزارہا یہاں موجود ہیں.تحریک کرتا ہوں کہ خوب دعائیں کریں بہت لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ سفر میں دعا ئیں کرنا چھوڑ دیتے ہیں.انکی ایسی ہی مثال ہے کہ یوں تو وہ اپنے پاس دوائی کی بوتل رکھتے ہیں.لیکن جب بیمار ہوں اُسوقت اُسے پرے پھینک دیتے ہیں.تو سفر میں کئی لوگ نمازیں پڑھنے اور دعائیں کرنے میں سستی کرتے ہیں.حالانکہ یہی وقت خاص طور پر قبولیت کا ہوتا ہے.دیکھو اللہ تعالیٰ نے ترمزی کتاب الدعوات باب ما يقول إذا ركب الناقة

Page 634

خطبات محمود جلد (5) ۶۲۳ ہم پر کتنا بڑا احسان کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت حکم ہوا ہے کہ سفر میں چار کی بجائے دو رکعت نماز پڑھا کرو.یعنی خدا نے بتایا ہے کہ لو ایسی حالت میں ہم اپنا آدھا حق عبادت معاف کر دیتے ہیں.اس وقت میں بھی تم دعائیں مانگ لو.مگر کئی لوگ سفر میں اس طرف توجہ نہیں کرتے.میں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ جب تک یہاں رہیں.اس جگہ بھی اور رستہ میں بھی ضرور دعائیں مانگیں.ہمارے دشمن اس قدر طاقتور اور قوی ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کے وعدے ہمارے ساتھ نہ ہوں تو نہ معلوم انکا خیال کر کے ہماری حالت کیا ہو.اس لئے خدا تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے اور اس کے فضل کو جذب کرنے کیلئے ضروری ہے کہ آپ لوگ خاص طور پر دعاؤں میں مصروف رہیں.خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو اس کی توفیق دے.آمین.الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۱۸ء) بخاری کتاب الصلوۃ ابواب تقصیر الصلوة

Page 635

اشاریہ مرتبہ مولوی سلطان احمد صاحب پیر کوٹی

Page 636

آتما رام - ۴۰۰ آب حیات (کتاب) ۵۰۰ اشاریہ خطبات محمود آدم - ۲۸-۳-۸۶-۱۲۸-۱۳۸-۴۵۵-۵۳۱.آسٹریا.۱۱۷.۱۱۸.آریہ سماج - ۵۵۸ جلد پنجم اللہ تعالی -۱، ۲، ۳، ۶،۴، ۷، ۹ ، ۱۱،۱۰، ۱۲، ۱۴ ، ۱۵، ۱۶، ۱۵۲، ۱۵۳، ۱۵۴، ۱۵۵ ، ۱۵۶، ۱۵۹ ، ۱۶۱،۱۶۰، ۱۶۲ء ALP JLPOLPLLP7LPVLPbLP +711719 ٥٠ ٧٠ ٢٠٠٦٠ له له له له له 10 761761661200 961hbi امالد احله 1611 OV1.61161 والله والله ۷۱ ۰۷۱۱۷۱ 077177771671 71لد 71 1471 ،۲۸،۲۶،۲۵،۲۴ ، ۲۳ ،۲۲ ،۲۱،۲۰ ، ۱۹ ،۱۸،۱ ۴۳۷،۳۶،۳۵ ۳۴ ۳۳ ۳۲ ۳۱ ،۳۰،۲۹ الد 7 ولد ولد ولد له ولد الله ولد له ولدا له م له ۷ ۲۲۱،۲۲۰ ،۲۱۹ ،۲۱۷ ، ۲۱۶ ،۲۱۵ ،۲۱۴ ،۲۱۱،۲۱۰ ۴۲۲۹ ۲۲۸ ۲۲۷ ۲۲۶ ۲۲۵ ۲۲۳ ۲۲۲ ۴۲۳۶ ،۲۳۵ ،۲۳۴ ،۲۳۳ ۲۳۲ ،۲۳۱ ،۲۳۰ ۴۶۰،۵۸،۵۵،۵۴ ،۵۳ ،۵۲ ۵۱ ۵۰ ۴۹ ۴۸ له لد ٧ ل لد 7 ولد لد لله وللد والله له له 7 The th' th' Wh' OL' Wh' 7h° VW' bh' 07177767 و7لد 7 17 0717 ۴۲۵۵ ،۲۵۴ ،۲۵۳ ۲۵۲ ۲۵۱ ،۲۵۰ ،۲۴۹ ۴۲۷۱،۲۶۷ ،۲۶۱،۲۶۰،۲۵۹،۲۵۸،۲۵۷،۲۵۶ ۰۹۰،۸۹،۸۸،۸۷،۸۶،۸۵،۸۴ ،۸۳ ،۸۱،۸۰ ۱۰۰ ،۹۹ ،۹۸ ،۹۷ ،۹۶ ،۹۵ ،۹۴ ،۹۳ ،۹۲ ،۹۱ حال و 16 و 67 ۷۷ ۶۷ ۸۷ و ۰۷ 077177467 له حلد وله الله 17 J*PL P7+PV+Pb+PIIP JIPOIPLIP ٠٥١١١١ الد ٧الد والده والد والد له والدلله الدله والدا الله الله الله الله الله له والله له والله االلہ حوالہ 7 الله له الله الله الله له الله ۷۱۱۱۱۰ ۳۰۱،۳۰۰،۲۹۹ ،۲۹۸ ،۲۹۷ ، ۲۹۶ ،۲۹۵ ،۲۹۴ ۳۱۰ ،۳۰۹ ،۳۰۸ ،۳۰۷ ،۳۰۵ ،۳۰۳ ،۳۰۲ الله 7 ولم hl ولم ا وله الد وله الله الله الله الله ال 1

Page 637

۲۵۱۶،۵۱۲ ،۵۱۱،۵۱۰،۵۰۹،۵۰۸،۵۰۷،۵۰۵ ۴۵۲۴ ،۵۲۳ ،۵۲۲ ،۵۲۱ ،۵۲۰ ، ۵۱۸ ،۵۱۷ ۵۳۲ ،۵۳۰،۵۲۹،۵۲۸ ،۵۲۷ ،۵۲۶،۵۲۵ ۴۵۴۱،۵۴۰،۵۳۹،۵۳۷،۵۳۵،۵۳۴ ،۵۳۳ ۴۵۵۳،۵۵۱،۵۵۰،۵۴۸،۵۴۷،۵۴۳ ،۵۴۲ ۴۵۶۱،۵۶۰،۵۵۹،۵۵۸ ،۵۵۶ ،۵۵۵ ،۵۵۴ ۵۶۸ ،۵۶۷ ، ۵۶۶ ،۵۶۵ ،۵۶۴ ،۵۶۳ ،۵۶۲ ۴۵۷۶،۵۷۵،۵۷۳ ،۵۷۲،۵۷۱،۵۷۰،۵۶۹ ۵۸۶ ،۵۸۴ ،۵۸۳ ،۵۸۲ ،۵۷۹ ،۵۷۸ ۴۵۹۴ ،۵۹۳ ،۵۹۲ ،۵۹۰ ،۵۸۹ ،۵۸۸ ،۵۸۷ ۶۰۱،۶۰۰ ،۵۹۹ ،۵۹۸ ،۵۹۷ ،۵۹۶ ،۵۹۵ ۴۶۱۷ ،۶۱۵،۶۱۴ ،۶۱۳ ،۶۱۲ ،۶۰۹ ،۶۰۴ ،۶۰۲ ۳۲۴ ،۳۲۳ ،۳۲۲ ،۳۲۱،۳۲۰ ،۳۱۹ ،۳۱۸ ۳۳۲،۳۳۱،۳۳۰،۳۲۹،۳۲۷ ،۳۲۶،۳۲۵ ۴۳۳۸ ،۳۳۷ ۳۳۶ ،۳۳۵ ۳۴ ۳۳۳ لم لد له ولد الدالله والبلد له ولد لدا له له له له ما ۴۳۵۴،۳۵۳،۳۵۲،۳۵۱،۳۴۹،۳۴۶،۳۴۵ ۳۶۴ ،۳۶۲ ،۳۶۱ ،۳۶۰ ،۳۵۹،۳۵۷ ،۳۵۶ ۲۳۷۴ ،۳۷۲،۳۷۱،۳۶۹ ،۳۶۸ ،۳۶۷،۳۶۵ ۴۳۸۲ ،۳۷۹ ،۳۷۸ ،۳۷۷ ،۳۷۶ ،۳۷۵ ۱۳۹۱،۳۹۰،۳۸۹ ،۳۸۸ ،۳۸۷ ،۳۸۶،۳۸۳ ۲۳۹۹ ،۳۹۸ ،۳۹۷ ،۳۹۶ ،۳۹۵ ،۳۹۴ ،۳۹۲ ۴۰۶ ،۴ ولد ولد ولد له ولد له ولد ۱۰ له ۰۰ ولد ولد ولد الد ولد الله ولد الله ولد ۷۰ ولد ۶۰ ولد لولد ولد له الله ولد له ولد لا ولد ام ولد ۷۱ دلدار ۶۲۳،۶۲۲،۶۲۰،۶۱۹،۶۱۸.۴۲۶، ۴۲۷، ۴۳۱،۴۳۰،۴۲۹،۴۲۸، ۴۳۲ ابراہیم - ۵۳، ۹۷، ۳۴۳، ۳۸۹،۳۵۲، ۴۲۲، ۵۶۴، ولد له ولد ١٥ ولد لد ٧ ولد لد 7 ولد له ولد له - ام عمر من الفوق النا والد لولد ال لا لله ولد لد له ولد لدا دلداده دلداده ها 1707 الد الله ٧ ولد الله 7 ولد hd ولد له ولد الله له ولد الله الله ابن بطوطہ - ۳۰۳.ابن عباس.۴۴۰.ابن کثیر (کتاب)-۲۰۶.ابن مسعود - ۱۲۲.ابوبکر - ۱۲۲،۵۳، ۲۷۰، ۳۲۲، ۳۹۱،۳۴۷، ۳۹۲، ۶۲۱،۶۲۰،۵۵۴،۵۲۶،۵۰۰ ابوجندل - ۲۷۵.2 ۴۶۱،۴۶۰ ،۴۵۹،۴۵۷ ،۴۵۶ ،۴۵۴ ،۴ ۵۳ الد ٧7 ولد 77 ولد 17 ولد 07 ولد ولد ولد حله ولد 17 ولد 7.ولد bh له 7h ولد hh ولد الله ولد له ۴۴۸۷۰۴۸۶،۴۸۵،۴۸۳ ،۴۸۱،۴۸۰،۴۷۹ الد hb ولد 96 ولد خالد ولد خاله ولد حاله ولد 16 ولد 6• ۵۰۴ ،۵۰۳ ،۵۰۲ ،۵۰۱ ،۵۰۰ ، ۴۹۹ ،۴۹۷

Page 638

ابو جہل -۵۷۹،۴۵۱ ابوذر - ۲۹۱ ابوسفیان - ۵۷۲ ابوعبیده - ۴۳۶،۳۸۹.ابوالعباس العسفاح - ۵۴۵.ابو قحافہ ۶۲۰.ابوالکلام - ۳۹۳.ابوہریره -۳۵۱، ۶۲۱،۳۵۲ ابی بن کعب - ۱۲۳.اجمیر - ۶۰۹.احمد - ۵۵۷،۲۸۵- احمدیت - ۴۵، ۱۲۴، ۴۲۱،۴۰۵،۳۳۱،۳۲۲، ۵۸۴،۵۵۷،۵۳۷ ازالہ اوہام - ۱۳۴ ،۲۷۰.اسامہ بن زید - ۴۳۶.استثناء (کتاب) - ۲۴۲ - اسحاق - ۳۴۳، ۳۵۲.اسد الغابه - ۳۵، ۲۳۵،۵۷،۵۴- اسلام - ۸، ۹ ، ۱۰ ، ۱۱، ۱۳، ۱۴ ، ۱۵، ۱۶، ۲۱، ۲۸، ۵۲ ۳۴۸،۳۳۱،۳۳۰ ،۳۲۲ ،۳۰۷،۳۰۶،۳۰۳ ۴۳۸۶ ،۳۷۶ ،۳۷۵،۳۷۰ ،۳۵۰ ،۳۴۹ ولد له لد ولد الله ولد الله ولد اا ولد ۰له الله 67 لله 77 ۴۴۶۸ ، ۴۶۴ ،۴۵۱،۴۴۲ ،۴۴۱ ،۴۲۷ ،۴۲۶ الد ٨٧ 'لد ۷۶ ولد ولد ولد 17 ولد 17 ولد 7 له bh ۲۵۱۹ ،۵۱۴ ،۵۰۵ ،۴۹۲ ،۴۹۱ ،۴۸۹ ،۴۸۷ ۵۲۹ ،۵۲۸ ،۵۲۳ ،۵۲۲ ،۵۲۱ ،۵۲۰ ،۵۴۴ ،۵۴۳ ،۵۳۸ ،۵۳۷،۵۳۱،۵۳۰ ۵۷۳ ،۵۶۰،۵۴۹،۵۴۷ ،۵۴۶،۵۴۵ ۵۸۵،۵۸۴ ،۵۸۲ ،۵۷۹،۵۷۷ ،۵۷۶ ۵۹۴ ،۵۹۳ ،۵۹۲ ،۵۹۱ ،۵۸۸ ،۵۸۷ ۰۶۰۲،۶۰۱،۶۰۰،۵۹۹،۵۹۸ ،۵۹۷ ، ۵۹۵ ۶۰۸ ،۶۰ ،۶۰۶ ،۶۰۵ ،۶۰۴ ،۶۰۳ ۶۲۲،۶۲۱،۶۲۰،۶۱۹،۶۱۰ ،۶۰۹ اسماعیل - ۵۴۳ افغانستان-۵۷۷،۵۳.اکمل ( قاضی ظہور الدین ) - ۴۵.الاصابه-- ۲۲۶،۹۷،۵۳- الحکم (اخبار)-۵۳، ۵۸۱،۶۳.الفاروق - ۳۱۳،۴.الفضل ۳، ۱۷، ۲۲، ۲۵، ۳۹، ۵۱،۴۸، ۵۹ ١٠، ٠١١٦،١٠٩۴ ،۹۷ ،۹۱،۸۲ ،۷۷ ،۶۰۶۶ ۴۱۸۵ ،۱۷۲ ،۱۶۷ ،۱۵۶ ،۱۴۷ ،۱۳۷ ، ۱۲۷ ،۶۵،۶۴ ،۶۰ ، ۵۸ ۵۷ ۵۶ ۵۵ ۵۴ ۵۳ ۴۸۲ ،۸۱،۷۸ ،۷۷ ،۷۳ ،۷۲ ،۶۹ ،۶۸ ،۶۷ ،١٣٦،١٣١،١٣٠ ، ۱۲۹، ۱۱۵ ، ۱۰۵ ، ۱۰۴ ،۹۹ ،۹۷ ۲۰۰،۱۹۶ ،۱۹۴ ، ۱۷۲ ، ۱۶۴ ، ۱۵۰ ، ۱۴۹ ، ۱۴۴ ۲۶۸ ،۲۵۳ ،۲۴۸ ،۲۴ ۷ ،۲۲۹ ،۲۲۷ ،۲۰۲ ۳۰۲ ،۳۰۱،۳۰۰ ،۲۹۳ ،۲۸۵ ،۲۸۰ ، ۲۶۹ - 3

Page 639

۱۴۸ ۱۱۸ ۲۰۲، ۲۱۱ ، ۲۲۳، ۲۳۸ ، ۲۵۰ ، ۲۵۳ امرت سر - ۱۰۲، ۲۶۷، ۳۱۲.۲۶۱، ۲۸۰، ۲۸۲، ۲۸۳ ، ۲۹۴ ، ۲۹۹ امریکه - ۴۲۸،۳۵۵،۳۵۴،۲۷۲.۳۰۷، ۳۱۴، ۳۲۵، ۳۳۲، ۳۴۴ انبالہ - ۳۱۶ انس بن مالک - ۱۰۲.انشاء اللہ خان - ۵۰۰.انگلستان / انگلینڈ برطانیہ ۳۲، ۴۴۰۲ ،۳۶۵ ،۲۴۲ ،۲۱۰ ،۲۰۹ ،۲۰۳ ،۱۷۲ ۴۳۱ ،۴۱۳ ،۴۰۹ ،۴۰۷، ۴۰۶ ،۴۰۵ ،۴۰۴ ۵۷۸،۵۵۵،۵۳۸،۴۷۸ ،۴۷۲ ۳۷۴ ،۳۶۷ ،۳۶۲ ،۳۵۹ ،۳۵۲ ۴۰۱،۳۹۹،۳۹۴ ،۳۹۳ ،۳۸۵ ،۳۷۹ ۴۴۳۸ ،۴۳۲ ،۴۲۲ ،۴۱۵ ،۴۰۹ ۴۶۹ ،۴۶۶ ،۴۵۹ ،۴۵۳ ،۴۴۷ ۴۹۷ ،۴۹۱ ،۴۸۵ ،۴۷۸ ،۴۷۴ ۴۵۲۸ ،۵۱۸ ،۵۱۲ ،۵۰۷ ، ۵۰۵ ،۵۰۲ ۵۵۹،۵۵۷،۵۵۶،۵۵۱،۵۴۰،۵۳۲ ۵۹۰،۵۸۴،۵۸۲،۵۷۴ ،۵۶۶۰۵۶۰ ۵۹۶، ۶۰۴، ۶۱۳، ۶۱۷، ۶۲۳.القول الفصل ۲۸۳.الوصیت - ۴۴۰،۲۳۰ انوار خلافت - ۴۹۱،۳۹۰.انوری ( شاعر ) - ۲۸۲.اہل حدیث (اخبار)-۵۸۰.ایڈیشن ۳۹۷.ایران ۴۳۷، ۵۳۹، ۶۲۱،۵۴۴ ایک غلطی کا ازالہ - ۲۸۶.الیاس / ایلیا - ۴۸۲، ۴۸۳، ۴۸۵،۴۸۴ الیواقیت والجواہر - ۲۰۶.امام ابو حنیفہ - ۷۴، ۳۷۷،۲۰۵،۲۰۴.امام بخاری - ۳۳۹،۷۵ امام حسین - ۵۳.امام ( احمد بن حنبل - ۴۵، ۲۰۴.امام زین العابدین - ۲۵۳.امام شافعی - ۴۵، ۲۰۴ امام غزالی - ۵۵۴ امام مالک - ۴۵، ۲۰۴ - امت محمدیہ - ۲۸۶،۲۲، ۲۸۷.باب-۳۴۶.بائبل - ۴۸۲،۳۲۵،۲۹۲،۲۵۶،۱۶۴.بٹالہ - ۴۳۷،۳۵۶،۳۵۵،۳۴۲.بحرین - ۴۴۶.بخاری - ۱۹ ، ۳۴، ۳۹، ۵۳، ۵۴، ۵۷، ۶۲ ۴۱۲۳ ،۱۲۲ ، ۱۲۰ ، ۱۱۹ ، ۱۰۱ ، ۷۵ ، ۷۴ ،۷۰ ۲۰۷ ، ۱۹۱ ، ۱۸۳ ،۱۶۰ ، ۱۵۹ ، ۱۳۰ ، ۱۲۵ ۳۰۰،۲۹۳ ،۲۹۱،۲۹۰،۲۷۶،۲۶۵ ،۲۴۶ ۳۳۷ ،۳۳۱ ،۳۰۸ ،۳۰۷ ،۳۰۶ ،۳۰۱ 4

Page 640

۳۳۹، ۳۴۷، ۳۶۱، ۳۶۲، ۳۷۰، ۳۷۳ بیت الدعا - ۲۰۲.۳۸۰، ۳۸۷، ۳۸۸، ۴۰۳، ۴۱۵، ۴۳۶ ، بیت المقدس - ۵۴۶ - ۵۰۸ ،۴۵۲ ،۴۵۱ ،۴۴۶ ،۴۴۱ ،۴۳۸ ۴۵۲۷ ،۵۲۶ ،۵۲۲ ،۵۱۴ ،۵۱۱ ،۵۱۰ ۵۹۳ ،۵۸۹،۵۸۱،۵۵۳ ،۵۵۲ ،۵۲۸ بدایوں - ۶۰۹.بدر (اخبار) - ۵۸۱،۳۱۹ بدھ - ۴۸۰.پاک پٹن.۶۰۹.پنجاب - ۱۴۸،۵۰، ۴۶۲ ، ۵۳۷ پورٹ بلیر - ۱۴۸.براہین احمدیہ.۱۳۵،۷۵، ۴۲۹٬۳۴۸،۱۳۶، پیر جماعت علی - ۳۱۲.بر ما- ۵۳۹ - ۵۷۶،۵۶۵ بریلی ۵۵۷ بغداد - ۵۴۵،۵۱۵،۴۰۲ محمد بیم - ۴۴۶، ۴۷۲.بلغاریہ - ۴۷۲،۲۷۰.بلوچستان - ۵۶ - بمبئی - ۳۵۰.بنگال - ۵۳۶،۴۰۸،۲۹۹،۱۲۸.بنوامیہ - ۷۴، ۵۴۷،۵۴۵،۵۴۴ بنو عباس - ۵۴۷،۵۴۵،۵۴۴ بنو فاطمه - ۵۴۷ تاج العروس-۳۴۲.تاریخ اسلام (شاہ معین الدین) ۴۰۱ ، ۵۴۶،۵۱۵ ۵۴۷ تاریخ اسلام ( عبدالحلیم شرر ) - ۳۸۹.تاریخ الخلفاء کانپوری -۶۲۱ - تاریخ الخلفاء للسیوطی-۴۰۱، ۵۴۶،۵۴۵،۵۰۲.تاریخ الخمیس - ۳۵، ۹۷، ۲۳۵.تاریخ سعودی عروج الذہب) - ۴۴۲.ابنی اسرائیل - ۱۱۸ ، ۱۳۲، ۲۶۶، ۳۰۵، ۴۸۳ تذکره - ۷۳، ۱۴۶ ، ۱۷۱ ، ۱۷۲، ۲۸۷، ۲۹۲، ۱۳۴۰ ۴۸۴ بہاء اللہ - ۳۴۶.بھوپال-۲۷۹.۵۷۹،۴۹۱،۴۶۵،۴۲۷،۳۵۴ ،۳۴۴ ،۳۴۲ تذکرہ اولیائے کرام -۹۶.5

Page 641

ترمذی (جامع ) ۷۱ ، ۱۹۳ ، ۳۲۱،۳۰۹، ۴۲۶،۳۷۵ ۶۲۲،۵۲۵،۴۴۱ تفسیر کبیر مصری - ۵۲۵،۳۸۸ توضیح مرام - ۲۹۰.ثناء اللہ (مولوی) ۳۳۱.جاوا - ۶۰۱،۵۶.جاماسپ - ۱۴۴ جاما ہیں.۱۴۴.جبریل.۵۰۸٬۸۵،۳۰.جرمنی ۱۵۱ 2 ۲۳۰۷ ،۳۰۵ ،۳۰۳ ، ۲۹۹ ،۲۹۴ ،۲۹۳ ۳۱۸ ،۳۱۷ ،۳۱۴ ،۳۱۱ ،۳۱۰ ،۳۰۹ ۲۳۳۰،۳۲۵ ،۳۲۴ ،۳۲۳ ،۳۲۲ ،۳۲۰ الله الله tha' ۳۶۱ ۳۵۷ ۳۳۱ ۱۳۸۴ ،۳۸۳ ،۳۸۲ ،۳۸۰،۳۷۴ ،۳۶۵ ،۴۰۲ ،۳۹۹ ،۳۹۶ ،۳۹۲ ،۳۹۰ ،۳۸۵ الد اله ولد 60 ولد ۷۰ ولد ۲۰ ولد ولد ولد لله الد الله ۷ ولد الله ولد الله له ولدان ولد الد ولد الله ولد 7 لله ولد bh ولد والله ولد له الله ولد لد له ولد الله ما ولد hb 'لد 6 ولد ٧٧ ولد ۷۶ ولد 77 ولد ولد ۴۵۲۸ ،۵۱۶ ،۵۱۱ ،۵۰۷ ،۴۹۹ ،۴۹۷ ۵۴۹،۵۴۸ ،۵۴۰، ۵۳۹ ،۵۳۸ ،۵۳۶ ۴۵۸۲ ،۵۸۰ ،۵۷۹،۵۵۸ ،۵۵۴ ،۵۵۰ ۲۶۰۲ ،۵۹۶ ،۵۹۵ ،۵۸۹ ،۵۸۷ ،۵۸۴ جلسه سالانه - ۱۳۳، ۳۱۸، ۳۶۱،۳۶۰،۳۵۸،۳۵۷، -۵۳۸،۳۹۰،۳۶۴ ۶۰۹ ،۶۰۸ ،۶۰ ،۶۰۶ ،۶۰۵ ،۶۰۳ -۲۲۳،۶۱۵،۶۱۴ ،۶۱۳ جماعت احمدیہ ہماری جماعت / سلسلہ احمدیہ - ۷، ۲۱،۲۰، جنت / بہشت ۲ ، ۴، ۹۵، ۱۰۴، ۱۰۵، ۱۰۷ ، ۱۰۸ ۲۳۰۵ ،۳۰۳ ، ۲۴۸ ، ۱۷۵ ، ۱۷۰ ، ۱۳۰ ،۱۲۹ ۴۴۳۸ ،۳۸۸ ،۳۸۷ ،۳۸۶ ،۳۷۵ ،۳۰۶ ۵۶۰،۵۲۳ ولد ۷ ولد 7 ولد ولد 7 hd الله الله وله ولد له ولد الله ۴۷۳ ،۶۹ ،۶۶ ،۶۵ ،۶۳ ،۶۲ ،۶۱ ،۵۹ ،۵۰ ،۴۹ ۱۱۵ ، ۱۰۴ ، ۱۰۲ ، ۱۰۰ ، ۹۵ ، ۹۱ ،۸۲ ،۷۶ ،۷۵ ، ۱۶۴ ،۱۵۶،۱۵۵ ، ۱۴۹ ، ۱۴۸ ،۱۴ ۷ ، ۱۴۵ ،۱۴۴ ۲۱۷ ،۲۱۶ ،۲۱۰ ، ۱۲ ،۱۱ ، ۱۷۰ ، ۱۶۶ ،۱۶۵ جنگ اُحد - ۲۳۶ - جنگ احزاب - ۳۱۹،۲۳۱،۲۳۰،۲۲۷.جنگ خیبر - ۴۲۶،۱۳۰،۱۲۹.جنید بغدادی -۴۷۶ ،۴۷۷.۲۴۶، ۲۴۹، ۲۵۰، ۲۵۲ ۲۵۳، ۲۶۱، ۲۸۰ جھنگ - ۳۲۲.۴۲۳۸ ،۲۳۶،۲۳۵ ،۲۳۳ ،۲۲۳ ،۲۲۱،۲۱۸ 6

Page 642

جہلم (دریا) - ۱۶۲.جہنم / دوزخ - ۱۱، ۱۰۵، ۲۲۶،۱۲۹،۱۰۷، ۱۳۸۶،۳۶۵ ۴۲۱،۴۲۰،۴۱۹،۳۸۷، ۴۲۲.چچ چشمه معرفت - ۱۳۵ - چوہدری فتح محمد ( سیال ) - ۳۸.حافظ عبید اللہ - ۱۸.حبشہ ۲۲۷.حدیبیہ - ۳۱۹،۲۷۵.حقيقة النبوة - ۱۳۴، ۲۸۳، ۲۹۳.حقیقة الوحی - ۴۶۶،۱۸۰،۱۴۰.حوا - ۵۲۱ ۴۰۵،۴۰۰،۳۷۶،۳۴۸،۳۴۷ ، ۳۱۰،۲۹۳ ۵۸۲،۴۵۵،۴۴۰،۴۲۸،۴۱۱ خلیفہ ثانی / میاں صاحب -۱۷۴،۱۸، ۳۰۵.خلیفہ رشید الدین - ۲۳۲.خواجہ غیاث الدین حسن - ۶۰۹.خواجہ ( کمال الدین ) صاحب - ۲۸۴، ۲۹۳.خوارج - ۳۹۰ خیر پور - ۴۲۴.دانیال (کتاب)۳۱۸.دانیال (نبی) - ۳۱۸.داؤد - ۵۶۴،۵۲۳،۳۵۲،۳۳۶،۱۱۸،۵۴ دروس الادب - ۸۴.دمشق - ۲۰.دھرم ساله - ۴۶۶ دہلی ۵۰، ۵۱، ۹۵، ۹۶، ۱۰۲، ۲۴۵، ۳۰۲، ۳۱۶ -۶۰۹،۵۹۱ خالد بن ولید - ۲۰۱،۹۷،۳۵، ۲۳۴، ۴۳۶،۲۳۵.ذکر حبیب - ۴۴۸.رض خدیجه - ۶۲۷،۳۵۸.خراسان - ۵۴۵ خضر - ۲۰۶ ،۲۰۷.خلیفہ ( کمال الدین ) صاحب - ۲۸۴، ۳۹۳.ذوالفقار (اخبار) - ۵۸۰ - ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ.۲۳۲.رام چندر - ۲۵۵، ۴۵۴ خلیفہ اول / مولوی نورالدین - ۵، ۷، ۴۵، ۵۵، ۱۰۷ ۴۲۶۷ ،۲۴۲ ،۲۳۶ ،۲۳۲ ،۲۳۱،۱۶۰ ،۱۳۳ 7 ربوه - ۱۸.

Page 643

رسول کریم - ۹ ، ۱۶ ، ۳۹،۳۰،۲۱،۱۹، ۴۴ ولد ٤٧ ولد ١٥ ولد له ولد له ولد لد لد ۴۵۹،۴۵۷ ،۴۵۶ ،۴۵۵ ،۴۵۴ ۴۸۱ ،۴۸۰ ،۴۷۹ ،۴۶۸ ،۴۶۲ ۵۰۷،۵۰۳،۵۰۲،۵۰۰،۴۹۱،۴۹۰ ۵۲۳،۵۲۲ ،۵۱۴ ،۵۱۲ ،۵۱۰ ، ۵۰۸ ۵۳۱،۵۲۸ ،۵۲۷ ،۵۲۶ ،۵۲۵ ۵۴۴ ،۵۴۳ ،۵۴۲ ،۵۳۴ ،۵۳۳ ۵۶۱ ،۵۵۴ ،۵۵۲ ،۵۴۷ ،۵۴۵ ۵۷۳ ،۵۷۲ ،۵۷۱ ،۵۶۷ ،۵۶۴ ۵۸۷ ،۵۸۱ ،۵۷۹ ،۵۷۷ ،۵۷ ۶۰۰،۵۹۵،۵۹۴،۵۹۳ ،۵۹۲،۵۹۰ ۶۲۰،۶۱۹ ،۶۱۷ ،۶۰۹ ،۶۰۸ ،۶۰۴ ۴۵۴،۵۳ ،۵۰،۴۸ ،۴۷ ،۴۶ ،۴۵ ۴۶۵ ،۶۲ ،۵۹،۵۸ ،۵۷،۵۶ ،۵۵ ۸۴ ،۷۵ ،۷۴ ،۷۳ ۷۲ ۷۱ ۷۰ ۱۱۵ ،۱۰۴ ، ۱۰۳ ،۱۰۰ ،۹۸،۹۵ ،۸۵ ۱۲۵ ،۱۲۳ ، ۱۲۲ ، ۱۲۰ ،۱۱۹ ،۱۱۸ ۱۲۹، ۱۳۰، ۱۳۶، ۱۴۳، ۱۵۱، ۱۵۲ء ۱۹۲ ،۱۹۱،۱۶۹ ، ۱۶۴ ، ۱۶۱ ،۱۶۰ ،۱۵۹ ۲۰۲ ،۲۰۱ ،۲۰۰ ، ۱۹۵ ، ۱۹۴ ،۱۹۳ ۲۲۰،۲۱۶،۲۰۷،۲۰۶،۲۰۵ ،۲۰۴ ۲۳۵ ،۲۳۱ ،۲۲۹ ،۲۲۸ ،۲۲۷ ۲۴۸ ،۲۴۷ ،۲۴۶ ،۲۳۷ ،۲۳۶ ۴۲۶۵،۲۶۰،۲۵۶۰۲۵۵،۲۵۰،۲۴۹ رنجیت سنگھ (مہاراجہ ) -۱۹۲.روس - ۱۱۲ ، ۴۳۱،۴۲۹،۱۱۸، ۴۷۸،۴۷۲.ریویو آف ریلیجز (اُردو) ۵۳۸،۲۸۴ ز زار - ۴۳۱،۴۳۰،۴۲۹،۴۲۸، ۴۶۶،۴۶۵.۴۲۷۵ ،۲۷۴ ،۲۷۲ ،۲۷۱ ۲۷۰ ۲۸۴ ،۲۸۳ ،۲۷۸ ،۲۷۷ ،۲ ۲۸۹ ،۲۸۸ ،۲۸۷ ،۲۸۶ ،۲۸۵ ،۳۰۰،۲۹۹ ،۲۹۳ ،۲۹۲ ،۲۹۱ ،۲۹۰ ۳۰۷ ،۳۰۶ ،۳۰۴ ،۳۰۳ ،۳۰۱ ۳۱۸ ،۳۱۶،۳۱۳ ،۳۱۱ ، ۳۰۹ ، ۳۰۸ ۳۳۷ ،۳۳۱ ،۳۳۰ ،۳۲۲ ،۳۲۱ رض زبیر - ۵۴۳ لد له والدله - الله له الله والله له له ولله لدا لله لده له له ما ۳۴۴، ۳۴۷، ۳۴۹، ۳۵۲، ۳۵۸ زکریا - ۴۸۲.۴۳۷۳ ،۳۷۱ ،۳۷۰ ،۳۶۲ ،۳۵۹ الله ٠٧ ولله 67 ولله ٧٦ وليد 97 ولله ولد ۳۹۱ ،۳۸۹ ،۳۸۸ ،۳۸۷ ،۳۸۶ ۴۲۷ ،۴۲۶ ،۴۲۳ ،۴۲۰ ،۴۰۲ زید بن حارثہ -۴۳۶.س پین / ہسپانیہ - ۵۵۰،۵۴۹،۵۴۵،۵۴۴- ۴۳۶، ۴۳۷، ۴۳۹، ۴۴۱، ۴۴۲ | ستاره صبح (اخبار) - ۵۸۰ 8

Page 644

سرویه - ۱۱۸ سری گوبند پور - ۴۲.سفینتہ الاولیاء ( از دارا شکوه) ۶۰۹.سلیمان - ۱۱۸،۵۴، ۵۳۳، ۶۰۳- سماٹرا - ۵۶ - -۲۱۸،۵۳۳،۵۲۵،۵۲۱ سورة آل عمران - ۲۷۴، ۳۵۳، ۳۶۳، ۴۳۹ ۵۸۶ ،۵۷۶ ،۵۴۱ ،۴۹۱ ،۴۵۶ ،۴۴۱ سورة النساء- ۴۰، ۴۴، ۵۲، ۶۹، ۱۳۴، ۲۶۲، ۳۱۸ سنکھیا - ۲۱.سنن ابی داؤد -۳۳۰،۳۰۷،۵۹.سنن ابن ماجہ -۲۱.۵۰۱،۳۸۲،۳۸۰ سورۃ مائده - ۸، ۳۲۱،۳۱۸،۲۸۱،۲۷۶،۷۸.سورۃ انعام - ۳۴۶.سورۃ الاعراف-۲۲۲، ۵۱۷،۵۱۳ سورة فاتحہ -۱، ۸، ۱۸، ۲۳، ۲۶، ۴۰، ۱۴۹ ۱۰۵ ،۹۹ ،۹۲ ،۸۳ ،۷۸ ،۶۷ ،۶۰،۵۲ ۴۱۵۷ ،۱۴۸ ، ۱۳۸ ،۱۲۸ ،۱۱ ،۱۱۶ ،۱۱۰ ۲۰۳ ، ۱۹۴ ،۱۸۶،۱۷۳ ، ۱۶۸،۱۶۱ ،۱۶۰ ۴۲۶۲ ،۲۵۴ ،۲۵۱ ،۲۳۹ ،۲۲۴ ،۲۱۲ ۳۱۵ ،۳۱۰ ،۳۰۸ ،۳۰۰،۲۹۵ ،۲۸۱ ۳۶۳ ،۳۶۰،۳۵۳ ،۳۴۵ ،۳۳۳ ،۳۲۶ ۴۲۳ ،۳۹۸ ،۳۹۶ ،۳۹۵ ،۳۸۷ ،۳۶۸ ۴۶۱ ،۴۶۰ ، ۴۵۴ ،۴۴۸ ،۴۳۹،۴۲۶ ۵۱۹،۵۰۳ ،۴۸۶ ،۴۷۶ ،۴ ۷۵ ،۴۷۰ ۵۶۴ ،۵۶۳ ،۵۶۰،۵۴۱،۵۳۳ ،۵۲۹ -۶۰۵،۵۹۸،۵۹۷ ،۵۹۱،۵۶۷ ه - ۲۰، ۵۷ ، ۶۰، ۹۹، ۱۰۸ ، ۱۲۱ سورة بقره - ۲۹۱،۲۷۲ ، ۱۸۶،۱۷۳ ،۱۵۵،۱۴۸،۱۲۸ ۴۱۵ ،۴۱۰ ،۳۸۹ ،۳۷۳ ،۳۷۲ ،۳۴۵ ۵۱۹ ،۴۹۸ ،۴۹۲ ،۴۷۰ ،۴۶۱ ،۴۱۸ سورۃ انفال -۴۵۱،۳۴۰،۲۹۲،۶۷.سورۃ توبه - ۱۰، ۹۲، ۲۷۴، ۴۵۴.سورۃ یونس -۴۲۶،۲۰۸،۱۶۹.سورة هود - ۳۴۲، ۶۱۴.سورۃ یوسف - ۱۸۲.سورة رعد - ۲۱۹،۲۰۱، ۳۳۶.سورۃ ابراہیم - ۳۱۵، ۳۶۲.سورة حجر -۵۱۷.سور نحل ۱۴۸، ۵۸۳،۳۸۶،۳۶۸،۲۳۵.سورۃ بنی اسرائیل -۲۸۸، ۵۸۵.سورة مريم -۲۷۹.سور قطه - ۱۲۰،۸۵ - سورة حج - ۳۵۳ سورۃ المومنون - ۲۷۴.سورة نور - ۳۰۰، ۴۹۹،۳۰۴.9

Page 645

سورۃ فرقان - ا.سورة الشعراء-۶۵.سورۃ نمل - ۱۴۵.سورة العنكبوت - ۳۵۱،۳۴۵،۲۶ سورة لقمان - ۲۹۵ - سورۃ سجده - ۳۹، ۴۱۵.سورۃ احزاب - ۲۲۸،۲۲۴، ۲۳۴.سورة فاطر - ٣٣٦ سورۃ ئیس - ۴۶۰.سورة ص - ۴۱۹٬۹۰،۸۳.سورہ زمر - ۴۹۰،۳۴۵،۳۳۸،۲۷۷.سورۃ زخرف-۲۳۸.سورة فتح - ۲۹۲ سورة ق -۵۵۸ - سورۃ ذاریات.۱۱۷.سورۃ جمعہ - ۲۵۲.سورۃ مزمل - ۳۹۹،۳۱۸ سورۃ دہر - ۵۰۸.سورۃ مرسلات - ۳۴۳.سورہ نازعات - ۴۰۲.سورة عبس - ۵۳۹ سورة تكوير - ۵۲۳.سورة بروج - ۴۱۶،۳۸۵.سورة اعلی - ۵۰۶ سورة فجر - ۲.سورة الصلحی - ۵۷۲ - سوره بینه -- سورۃ عصر -۳۷۵.سورة کوثر - ۲۴۹ سورة اخلاص - ۴۳۳، ۵۲۳.سور فلق - ۲۹۵ سورة الناس - ۲۵۱،۲۰۱۰۱۷۱ ۴۸۶،۴۰۰،۲۵۲، ۴۹۰.سول اینڈ ملٹری گزٹ.۳۵۰.سید احمد خاں.۴۶۳.سید حامد شاه - ۶۱۰.سید عبدالقادر جیلانی - ۲۰۷،۲۰۶،۱۶۱.سید عبد اللطیف شہید - ۲۳۶ سیرت ابن ہشام - ۳۴۱،۲۲۷، ۵۵۲.سیر الصحابه - ۵۴ - سیلون-۵۶ شام - ۳، ۲۲۸، ۵۴۳ شیلی ۴۷۶.شبلی نعمانی - ۴، ۳۱۳.شرجیل بن حسنہ - ۳۸۹،۳۸۸ شطر نج.۲.شعیب - ۳۴۲.شملہ ۵۵۶،۱۴۷، ۵۶۰،۵۵۸،۵۵۷ 10

Page 646

۴۱۲.شہزادہ بہادر واسد یو.۵۵۸،۵۵۷.طبری - ۴.شیبه - ۵۷۹.شیخ چلی - ۱۷۰ طلحه - ۵۴۳ طبقات ابن سعد - ۲۲۷.شیطان ابلیس - ۷۶،۲، ۱۲۴، ۱۸۱،۱۴۴ ، ۴۹۰،۴۱۵، طلحہ بن خویلد -۳۸۰.۵۵۷،۵۲۸،۵۲۷،۵۱۸،۵۱۷،۵۱۶،۵۰۰ ص-ض ظفر علی خاں.۳۷۶.ع غ صحابه - ۳، ۴، ۳۴، ۵۴، ۵۹،۵۷ عائشہ - ۵۴۳،۴۵۶،۳۵۸،۳۵۲،۷۴،۵۸،۵۷- | ،۱۰۳ ،۹۶،۷۶،۷۳ ،۱،۶۵ ،۶۴ ۱۴۸،۱۳۶،۱۲۹،۱۲۲ ،۱۱۹ ،۱۱۵ ۲۲۷ ،۲۲۶ ،۲۰۲ ،۱۹۱ ،۱۵۱ ۲۹۵ ،۲۹۴ ،۲۹۱ ،۲۹۰ ،۲۲۸ ۳۰۸،۲۷۵ ،۲۴۶ ،۲۴۵ ،۲۹۶ ۳۸۶،۳۶۱،۳۵۸ ،۳۳۷،۳۲۲ ۴۴۰،۴۳۶،۴۱۹ ،۳۹۱،۳۸۸ عباسی - ۱۲۲.عبد اللہ بن جعفر - ۵۴.عبداللہ بن عباس - ۵۴۴.عبداللہ بن عبد المطلب-۵۰۲.عبد القیس ( قبیلہ )-۵۹۳،۵۹۲.عتبه - ۵۷۹ عثمان - ۲۷، ۳۹۰،۵۳، ۳۹۲، ۵۴۴.۵۰۲ ،۴۵۶ ،۲۲۹ عراق-۵۷۸.عرب - ۲۲۸ ، ۵۹۰،۵۷۸،۵۷۷،۵۷۲،۵۵۳ عزیر-۵۰۶،۲۵۵،۱۰.علی ۱۹، ۲۲، ۴۴۰،۲۷۰،۲۶۴.ڑھ - ۵۴۶،۵۴۳،۴۶۳ علی گڑھ." عمار - ۱۲۵،۱۲۲.۴۵۸،۴۴۵ ، ۴ ۴ ۴ ،۴۴۲ ،۴۴۱ ۵۵۴،۵۴۳۰۵۳۴،۵۲۶۰۵۲۵ ۶۲۱،۶۲۰،۵۸۹،۵۷۸۰۵۷۶ صدرانجمن احمدی - ۳۴۰، ۳۴۲، ۵۳۸ - احمدية.صلاح الدین ایوبی ) - ۵۴۶ ضرار بن از در ۲۲۶،۲۲۵،۹۷،۹۶.b-b طاعون - ۲۴، ۷۱، ۲۷۲ ، ۲۹۹، ۳۰۹، ۳۱۰ عمر - ۳، ۴، ۲۷۰،۱۲۵،۱۲۲،۵۷،۵۳، 11 ،۳۱۳

Page 647

۱۰۲،۳۸۹ ،۳۱۳ ،۲۸۶ ۵۵۴ ،۵۲۶،۴۴۲ فرانسیس کو.۴۴۶.فرشتے ملائکہ ۱۱ ، ۱۲ ، ۳۰، ۱۲۰، ۱۵۳، ۱۶۰، ۲۰۷ ۳۰۹،۲۸۸،۲۵۹،۲۵۸، ۴۵۰،۳۲۵،۳۱۵.عیسی مسیح یسوع - ۱۰ ، ۳۸ ، ۵۰، ۵۴ - الد له والله 9 والله الله الله له ۷۱۱ ۴۲۰۸ ،۲۰۷ ،۲۰۶ ،۲۰۵ ،۱۹۲ ۴۲۸۴ ،۲۷۷ ،۲۵۶،۲۵۵،۲۳۷ ۳۲۰،۳۱۶ ،۲۹۲ ،۲۹۱ ،۲۹۰ فرعون -۱۱۲،۹۵، ۴۵۱،۵۷۲.فریدالدین شکر گنج -۶۰۹.فلپ (بادشاہ) -۵۴۶.قادیان - ۲۳ ، ۴۲، ۵۹، ۱۰۲، ۱۱۰ ، ۱۶۵ الله h7 ولله 7لله ولله 17 وله 60 ٧٥ ۳۵۷ ،۳۵۵ ،۳۵۴ ،۳۱۲،۱۶۶ الد ٥٧ ولد ٧ لد ولد ٧ الله ولد ٤٧ ولد ١٧ ۳۵۳،۳۴۳ ،۳۴۱،۳۴۰،۳۳۶ ۴۸۰،۴۵۵،۴۵۴،۴۰۷ ،۳۷۲ :۴۱۳ ،۴۰۰ ،۳۹۲ ،۳۹۰ ،۳۷۵ ۵۳۸ ،۵۱۱ ،۴۸۷ ،۴۶۶ ،۴۲۱ - ۶۱۵،۶۱۴ ،۶۰۲،۵۸۲،۵۴۰ ۵۷۱،۵۳۶۰۵۳۵۰۵۳۳ ،۵۰۹ - ۵۹۰،۵۸ غالب (اسد اللہ خاں)-۲۰۸.غزوہ تبوک-۵۵۲،۵۲۷.غز و چنین - ۵۱۴ قاسم (علی میر ) - ۴۵.قاضی عبد الحق / قاضی صاحب - ۲۳۸،۲۳۷.قاضی محمد عبد اللہ - ۳۸.غزوہ خیبر - ۵۸۷ قدوری (کتاب) - ۲۷۲ غسان -۵۲۷.غلام نبی.۳۵۶.فارس - ۵۶ - فق فتح اسلام (کتاب) - ۲۹۰ - فتح الباری - ۲۲۸- فتوح الغیب - ۱۶۱.فرانس-۰،۱۱۲ لد ولد ٧7 ولد له ولد الله ١٠ قرآن کریم - ۲، ۸، ۹ ، ۱۰ ، ۱۴ ، ۱۵، ۱۶، ۱۹ ، ۳۹، ۴۴ ۶۸،۶۵ ،۵۹،۵۵ ،۵۳ ،۴۸،۴۷ ،۴۶ ،۴۵ ،۹۹ ،۸۶ ،۸۲ ،۸۱،۸۰ ، ۷۹ ،۷۷،۷۳ ،۷۲ ۴۱۷۲ ،۱۶۴ ،۱۵۲ ،۱۴۶،۱۳۴ ، ۱۲۳ ،۱۲۱ ، ۱۰۰ ،۲۴۹ ،۲۴۶ ،۲۱۳ ،۲۰۷ ،۲۰۵ ،۱۹۸ ، ۱۹۳ ،۲۸۰،۲۷۸،۲۷۷ ،۲۷۴ ۲۷۳ ،۲۷۱،۲۶۹ ۴۲۹۲ ،۲۹۱ ،۲۹۰ ،۲۸۹ ،۲۸۸ ،۲۸۵ ،۲۸۴ ،۳۰۷،۳۰۶،۳۰۴ ،۳۰۱،۲۹۵،۲۹۴ ،۲۹۳ 12

Page 648

۳۴۰،۳۳۹،۳۳۸ ،۳۳۷،۳۳۶ ۳۴۵ ،۳۴۴ ،۳۴۳ ،۳۴۲ ،۳۴۱ کوہ قاف - ۲۷۲.کیپٹن ڈگلس -۴۰۶.۳۴۶، ۳۴۸، ۳۴۹، ۳۵۲، ۳۷۱ گورداسپور - ۴۳۲.۴۰۰،۳۸۵ ،۳۸۲ ،۳۷۳ ،۳۷۲ ۴۲۶،۴۲۵ ،۴۲۴ ،۴۲۳ ،۴۰۲ ۴۶۹ ،۴۶۵ ،۴۶۲ ،۴۵۹ ،۴۵۶ ۵۰۸ ۵۰۷ ،۴۸۸ ،۴۸۱ ،۴۸۰ لارڈ ایلجین - ۴۰۸.لم ۵۲۵،۵۲۳،۵۲۲،۵۲۱،۵۱۷،۵۱۰ ۵۴۸۰۵۳۶۰۵۳۵ ،۵۳۱ ،۵۲۹ لاہور - ۵۳، ۱۰۲ ، ۷ ۱۳، ۵۴۱،۳۹۰،۳۱۲ لسان العرب - ۳۴۲.لوط - ۶۱۶.۵۵۸، ۵۶۱، ۵۷۱، ۵۸۶، ۵۸۷ لیکھرام - ۵۹،۵۴،۵۳.۶۰۴، ۶۲۲،۶۱۵،۶۱۳.قطب الدین بختیار کا کی.۶۰۹.فیصر روم - ۵۵۲ ۵۳۵،۴۸۳ ،۳۲۰،۲۵۶،۱۳۲- ماریشس -۱۸، ۱۴۸، ۵۳۸،۴۰۷.متی (انجیل) -۲ مثنوی رومی - ۴۹۸.قیصرہ ہند - ۲۰۸.مجلس شوری - ۴۴۲.ک گ مجمع بحار الانوار ۱۶۰، ۲۶۴.کابل - ۵۳۶،۴۰۵ کاکیشیا - ۵۶.کتاب الروخستین - ۵۴۷ کرشن - ۲۵۵ ۲۵۶، ۴۸۱،۴۸۰،۴۵۴.کرمی - ۴۲۱.کشتی نوح - ۴۲۱،۳۰۹.شمیر - ۱۶۲، ۲۶۸.کعب بن مالک -۵۲۷.- ۵۱۲،۷۵،۷۴.کنز (کتاب)-۲۷۲.محمد بن علی بن عبد الله - ۵۴۴ محمد حسین (مولوی) بٹالوی - ۵۸،۵۴ - مدینہ - ۲۰۰ ۲۰۱، ۲۲۷ ۲۷۶، ۳۷۷،۲۷۸، ۵۱۴، -۵۵۴،۵۳۶ مرقاۃ الیقین -۴۱۱.مسجد اقصی - ۲۰۰.مسجد اقصیٰ ( قادیان) - ۳۵۰.مسجد نور ( قادیان)-۴۱۸.مسلم (صحیح) - ۳۴ ۳۹، ۱۰۳، ۱۶۱، ۱۶۳ 13

Page 649

ولد له ولد له ولد 69 ولد ٠٥ ولد له ولد له له ولد الله ولد الله ولد ٥٠ ولد ۷۰ ولد ۶۰لد ۸۰ ولد له ولد 7 ولد له الله ولد له ولد له ولد الد ولد لد ا ولد لد.ولد الله 7 ولد الله ا ولد له ولد له ما ،۴۰۵ ،۳۹۳ ،۳۹۲ ،۳۹۱،۳۸۴ ،۳۸۳ مسلم لیگ - ۳۵۰، ۳۹۳.مسند احمد بن حنبل - ۴۵۶،۲۲۸.مسیح موعود مرزا صاحب حضرت صاحب ۷، ۱۹، ۲۱ ، ۲۲ -۶۰۰،۵۹۰،۵۵۲،۴۹۰،۴۶۸ م۳۴ ۳۵۲، ۳۵۸، ۳۷۰، ۴۲۳، ۴۴۶ الله الله له له ولله الله الله الا الله 70 لله ولد وله حالمه ۱۰۴۷۹،۴۷۸ ، ۴۶۹ ،۴۶۶ ،۴۶۵ ،۴۶۴ ۱۴۸۵ ،۴۸۴ ،۴۸۳ ،۴۸۲ ،۴۸۰ ،۴۹۷ ،۴۹۱،۴۸۹ ،۴۸۸ ،۴۸۷ ،۴۸۶ ،۵۳۰،۴۲۸،۵۲۳ ،۵۰۸،۵۰۷ ،۴۹۸ ۱،۵۷۱،۵۳۹،۵۳۷،۵۳۶،۵۳۳ ،۵۳۱ ،۶۰۰ ،۵۹۶ ،۵۹۵ ،۵۸۱ ،۵۷۹ ،۵۷۲ -۶۱۹،۶۱۰ ،۶۰۸،۶۰۴ ،۶۰۲،۶۰۱ مشکوۃ المصابیح).۲۰۲،۷۰، ۴۶۸،۲۷۴.،۴۵،۴۴ ،۴۰،۳۸ ،۳۷ ،۳۶ ،۳۴ ،۲۹ ،۲۵ ،۶۹،۶۸،۶۳ ،۶۱،۵۵،۵۴ ،۵۰،۴ ،۴۷ ۴۶ ۱۲۶،۱۲۴ ، ۱۲۳ ،۱۱۸،۸۲ ،۷۵ ، ۷۴ ۷۳ ۷۱ الد.والله 7 والله الله الله له والله له واللها 710171.والده والده والدله والدلله ،۱۹۳ ،۱۸۹ ، ۱۸۸ ،۱۸۲ ،۱۸۰،۱۷۲ ،۲۰۹ ، ۲۰۸ ،۲۰۷ ، ۲۰۵ ،۲۰۲ ، ۱۹۷ ۲۱۷، ۲۲۲، ۲۲۹، ۲۳۱،۲۳۰، ۲۳۲ | مصر - ۵۴۵،۱۳۲- ۲۳۳، ۲۳۴، ۲۵۰، ۲۵۳، ۲۶۰ ، مضر ( قبیله )-۵۹۲- ۲۷۴، ۲۸۲، ۲۸۳، ۲۸۴، ۲۸۵ ، مظہر جان جاناں - ۳۵۶،۱۱۴.۲۸۶، ۲۸۷، ۲۸۸، ۲۸۹، ۲۹۰، ۲۹۱ ، مظہر الحق (وکیل) -۳۵۱،۳۵۰.۲۹۲، ۲۹۳، ۲۹۴، ۲۹۵، ۲۹۶، ۲۹۸، معاذ - ۳۷۳.۳۱۶،۳۰۹، ۳۱۸، ۳۲۲، ۳۲۳، ۳۲۵، معانی الادب - ۸۴ - ۳۳۱، ۳۳۳، ۳۳۹،۳۳۸ ، ۳۴۰ ، معاویه - ۴۴۰،۲۶۴، ۴۴۲، ۴۴۳.۳۴۴ ، معین الدین چشتی - ۶۰۹ وله لها ۳۴۲ والله له الله ۳۴۶، ۳۴۷، ۳۴۸، ۳۴۹ ، ۳۵۰ ، مفتی محمد صادق صاحب)-۵۳۱،۵۳۰،۴۲۸.۳۵۲، ۳۵۴، ۳۵۵، ۳۵۶، ۳۵۷ ، مکاشفۃ القلوب - ۵۵۴ - 14 ۱۳۷۸ ،۳۷۳ ،۳۶۹ ،۳۶۶ ،۳۵۸

Page 650

مکه - ۲۰۱،۲۰۰، ۲۷۳، ۴۴۴، ۵۱۴، ۵۲۷، ۵۷۷ نپولین - ۳۸۱،۱۱۲.-۶۲۱،۵۸۱ ملا کی (کتاب) - ۴۸۴ نسائی-۲۲۵.نظام الدین اولیاء - ۶۰۹ ملا کی (نبی) - ۴۸۴ مئی ۳۷۶.نواب صدیق حسن خاں.۲۷۹.نوع - ۹۵،۵۰،۲۹، ۳۵۲،۳۴۳.موسی - ۵۰، ۵۴، ۹۵، ۱۱۸، ۱۹۲ ، ۲۰۶ ، ۲۰۷، ۲۷۷ نیا تذکرۃ الاولیاء.۴۷۷.۳۱۸، ۳۳۶،۳۲۱، ۳۴۳، ۳۷۲، ۳۹۲، ۵۰۷ نیوٹن-۳۹۷.۵۷۱،۵۶۴ مولوی رومی - ۴۹۸.مولوی عبد اللہ غز نوی-۴۹۱.مولوی عبد الکریم -۲۳۶،۲۳۱، ۳۸۲.مولوی محمد احسن (امروہی ) - ۳۶۱، ۳۸۶، ۳۹۰، ۱۳۹۱ ۳۹۲، ۳۹۳، ۴۳۹،۴۹۴.مولوی محمد حسین آزاد - ۵۰۰- مولوی محمد علی - ۵۹، ۲۸۳، ۴۶۴.مولوی محمد قاسم نانوتوی - ۴۵۵ مونگیر - ھیر - ۳۵۰.میاں بشیر احمد (صاحبزادہ) - ۱۹۷.میاں عبدالوہاب -۳۷۷،۳۷۶.میاں مبارک احمد ( صاحبزاده)-۲۳۱، ۴۳۱،۲۳۲.ہلاکو خان - ۵۴۵،۵۱۵ ہندوستان ہند - ۳۴، ۵۰، ۵۳، ۵۷، ۱۱۱، ۱۸۷، ۲۱۰، ۳۶۱،۳۴۷،۳۴۰ ،۳۳۰، ۳۰۳ ،۳۰۲ ،۲۷۱ ۴۷۴ ،۴۷۳ ،۴۲۱،۴۲۰ ،۴۱۷ ، ۴۰۷ ، ۴۰۵ -۶۰۹،۵۵۵،۵۳۹،۵۳۷ هنده - ۵۷۲.ی میر محمد اسحق -۵۵.میر ناصر نواب -۳۷۶.نا پنجیر یا ۴۰۷، ۴۱۵.15 یا جوج ماجوج - ۴۶۸.یحی / یوحنا - ۴۸۲، ۴۸۳، ۴۸۵،۴۸۴.یزید - ۲۵۳ یعقوب - ۵۴، ۴۲۲،۳۵۲،۳۴۳

Page 651

16 یمن - ۲۲۸.یورپ - ۵، ۵۳ ، ۵۶، ۱۱۱ ، ۱۴۳ ، ۲۱۴، ۲۴۴، ۲۴۵، ۵۳۷ ،۴۷۲ ،۴۷۱ ،۳۸۱ ،۳۲۰ ،۳۱۶ ،۲۹۷ یوسف-۶.یوناہ نبی کی کتاب.۱۶۴.یونس - ۱۶۵.

Page 652

کتابیات قرآن کریم تفسیر احادیث ابن کثیر تفسیر کبیر مصری.صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ سنن نسائی ،مسنداحمد بن حنبل ،مشکوۃ المصابیح، فتح الباری.کتب حضرت مسیح موعود براہین احمدیہ حصہ پنجم ، تذکرہ، حقیقۃ الوحی ، الوصبر عہد نامہ قدیم وجدید استثناء، دانیال ، ملا کی یوناہ نبی کی کتاب ہمتی (انجیل) تاریخ وسیرت اسدالغابہ، الاصابه، تاریخ اسلام از شاه معین الدین ندوی، تاریخ اسلام از عبد الحلیم شرر، تاریخ الخلفاء کانپوری ، تاریخ الخلفاء للسیوطی، تاریخ الخمیس، تاریخ سعودی ( مروج الذہب)، ذکر حبیب، سیرت ابن ہشام، سیر الصحابہ، طبری،طبقات ابن سعد، الفاروق.17

Page 653

تصوف تذکرہ اولیائے کرام ( ادبستان).سفینتہ الاولیاء از دارا شکوہ، فتوح الغیب.مکاشفۃ القلوب.نیا تذکرۃ الاولیاء.دیگر کتب و اخبارات الجواہر.آب حیات، الحکم، دروس الادب، کتاب الرو فستین مجمع بحارالانوار، معانی الادب الیواقیت و 18

Page 653