Khutbat-eMahmud V4

Khutbat-eMahmud V4

خطبات محمود (جلد 4)

خطبات جمعہ ۱۹۱۰ ء تا ۱۹۱۵ء
Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔


Book Content

Page 1

خطبا محمود (خطبات جمعہ ) ١٩١٠ء تا ۱۹۱۵ء فرموده سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد اصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی جلد شائع کردہ نظارت نشر واشاعت قادیان

Page 2

نام کتاب بیان فرموده : : خطبات محمود جلد 4 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفة المسیح الثانی ستمبر 2018ء اشاعت حدا انڈیا بار اول : 1000 : نظارت نشر و اشاعت قادیان،143516 ضلع گورداسپور (پنجاب) انڈیا فضل عمر پر میں قادیان : تعداد زیر اہتمام مطبع KHUTBAT-E-MAHMOOD Vol-4 (Urdu) Delivered by: Hazrat Mirza Bashiruddin Mahmood Ahmad Khalifatul Masih 2nd First Edition In India : In 2018 Copies: 1000 Published by: Fazl-e-umar Foundation India Supervised by : Nazarat Nashro Isha'at Qadian - 143516 Distt.Gurdaspur (Punjab) INDIA Printed at : Fazl-e-Umar Press Qadian ISBN :978-817912-269-3

Page 3

عرض ناشر خطبات محمود کی جلدیں قبل ازیں سے شائع ہوئی ہیں.نظارت نشر واشاعت قادیان ابتدائی 15 جلدوں کی کمپوزنگ کراکے پہلی بار ان کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے شائع کرنے سعادت حاصل کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ تمام قارئین کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیان فرمودہ حقائق و معارف کو سمجھنے اور ان انوار و فیوض سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ان جلدوں کی تیاری کے سلسلہ میں تعاون کرنے والے جملہ کارکنان کو اجر عظیم عطا فرمائے.آمین ڈائریکٹر فضل عمر فاؤنڈیشن انڈیا

Page 4

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ حمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے فضل عمر فاؤنڈیشن کو ”خطبات محمود کی چوتھی جلد احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے.اَلْحَمْدُ لِلهِ عَلَى ذَالِكَ یہ جلد چند سال قبل شائع ہوئی تھی اب اس کا نیا کمپوز ڈایڈیشن شائع کیا جارہا ہے.حوالہ جات کے سلسلہ میں باقی جلدوں میں جو طریق اختیار کیا گیا ہے اس کے مطابق اس جلد میں بھی تبدیلی کر دی گئی ہے.اور اب نئے طریق کے مطابق ہر خطبہ کے آخر میں حوالہ جات کو درج کر دیا گیا ہے.اس ایڈیشن میں آپ کو ایک نیا خوبصورت اضافہ انڈیکس کی شکل میں نظر آئے گا جو کا مرتب کردہ ہے.اس جلد میں جولائی ۱۹۱۰ بر تا دسمبر ۱۹۱۵؛ تک کے پچانوے خطبات جمعہ شامل ہیں.۱۹ نومبر ۱۹۱۵ ء اور ۱۷ دسمبر ۱۹۱۵ء کے خطبات جمعہ جواب دستیاب ہوئے ہیں وہ بھی اس جلد میں شامل کئے جار ہے ہیں.حضرت فضل عمر سلطان البیان کے خطبات علوم و معارف کا انمول خزانہ ہیں اور پیشگوئی کے الہامی الفاظ وہ علومِ ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا“ پر شاہد ناطق ہیں.حضرت مصلح موعودؓ کا دورِ خلافت جو کم و بیش ۵۲ سال پر محیط ہے ایک تاریخ ساز دور تھا.اس نہایت کامیاب طویل دور میں حضور کے خطبات نے جماعت کی علمی وروحانی ترقی اور تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا.ہمارا یہ روحانی و علمی ورثہ سلسلہ کے لٹریچر میں بکھرا پڑا تھا اور جماعت کے دوستوں کو اس سے استفادہ کرنا مشکل تھا.فضل عمر فاؤنڈیشن اس جماعتی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ان خطبات کو کتابی

Page 5

شکل میں شائع کر رہی ہے.اس جلد کی تیاری میں محترم نے خاکسار کی عملی معاونت فرمائی.فجزاهُمُ اللهُ احْسن الجَزَاءِ اللہ تعالیٰ ہمیں ان خطبات سے پورے طور پر استفادہ کرنے اور جماعتی ذمہ داریوں کو احسن رنگ میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 6

فہرست مضامین خطبات محمود (خطبات جمعه ۱۹۱۰ تا ۱۹۱۵ء) خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده ۶ Λ ۹ 1.11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶ لا ۱۸ ۱۹ جلد ۴ موضوع خطبه صفحہ ۲۹ جولائی ۱۹۱۰ء انسانی ترقی کے تین درجات.۵ جنوری ۱۹۱۲ء قرآن شریف کا اول و آخر ۲۹ اگست ۱۹۱۳ء رمضان بڑے انعامات اور بڑے خوف کا مہینہ ہے.۲۴ اکتوبر ۱۹۱۳ لوگوں کو واحد خدا کی طرف بلاؤ.۲ جنوری ۱۹۱۴ اللہ تعالیٰ رب العلمین ہے.۹ جنوری ۱۹۱۴ء قرآن کریم پر عمل انسان کو دکھوں سے بچالیتا ہے ۱۶ جنوری ۱۹۱۴ء هُدَى لِلمُتَّقِينَ کا صحیح مفہوم ۲۳ جنوری ۱۹۱۴ء متقی کون ہے ۶ فروری ۱۹۱۴ء نا قدری کرنے پر نعمتیں چھین لی جاتی ہیں.۱۳ فروری ۴۱۹۱۴ ۲۰ فروری ۱۹۱۴ منافق لوگوں سے پر ہیز واجب ہے.اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے دو گروہ بیان فرمائے ہیں ۲ مارچ ۱۹۱۴ء اپنے رب کے فرمانبردار بنو.۱۳ مارچ ۱۹۱۴ء خدا تعالیٰ ہی مصیبتوں سے بچاسکتا ہے ۲۰ مارچ ۱۹۱۴ء صدقہ و خیرات اور دعاؤں سے الہی نصرت حاصل کرو.۲۷ مارچ ۱۹۱۷ء ترقی کیلئے عقل کی بجائے کلام الہی کی اتباع لازم ہے ۳ اپریل ۱۹۱۴ سب سے بڑی جنت دل کی تسلی اور اطمینان ہے ۱۰.اپریل ۱۹۱۴ء نبی کا انکار خدا کا ہی انکار ہے.۱۷.اپریل ۱۹۱۴ ہر نئے امر کی مخالفت ہوتی ہے.۲۴.اپریل ۱۹۱۴ مومن اپنی خدمات پر تکبر نہیں کرتے.یکم مئی ۱۹۱۴ء اللہ تعالیٰ کے عہدوں کو پورا کرنے سے ہی انعام حاصل ہوتے ہیں 1.۱۴ ۱۷ ۲۲ ۲۶ ۲۹ ٣٣ ۳۸ ۴۲ ۴۵ ۴۹ ۶۰ ۶۶ اے ۷۵ ΔΙ

Page 7

صفحہ ۸۶ ۹۰ ខ ۱۰۲ 1+2 = 111 ۱۱۵ ۱۱۸ ۱۲۲ ۱۲۷ ۱۳۲ ۱۳۹ ۱۴۳ ۱۴۹ ۱۵۹ ۱۶۳ ۱۷۰ ۱۷۹ ۱۸۴ ۱۸۹ ۱۹۵ ۲۰۰ ۲۰۴ خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۳۰ ۳۱ ۳۲ ۳۳ ۳۴ ۳۵ ۳۶ ۳۷ ۳۸ ۳۹ ۴۰ ۴۱ 3 ۴۲ ۴۳ ۴۴ ۴۵ موضوع خطبه ۸ مئی ۱۹۱۴ قرآن گذشتہ انبیاء اور الہامی کتب کی تصدیق کرتا ہے.۱۵ مئی ۱۹۱۲ء حق کو چھپانا اور حق اور باطل کا ملانا سخت نقصان دہ ہے ۲۲ مئی ۱۹۱۳ء اللہ تعالیٰ کے حضور گرنے والے کے اعمال ضائع نہیں جاتے.۲۹ مئی ۱۹۱۲ء حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم پر ایک احسان کا ذکر ۵ جون ۱۹۱۴ ء خدا تعالیٰ کی عظمت اور جبروت کا ہمیشہ خیال رکھو.۱۲ جون ۱۹۱۴ ء جے تو میر اہور ہیں سب جگ تیرا ہو ۱۹ جون ۱۹۱۴ء نعمتیں ملنے پر خدا تعالی کے زیادہ فرمانبردار بنو.۲۶ جون ۱۹۱۴ء افراط و تفریط مہلک مرض ہے ۳ جولائی ۱۹۱۴ سیاست کو چھوڑ کر تم دین میں لگ جاؤ جولائی ۱۹۱۳ خوف وجون سے نجات سچائی کی علامت ہے.۱۷ جولائی ۱۹۱۴ء الہی بیع میں کوئی نقصان نہیں.۲۴ جولائی ۱۹۱۴ ء کامیابی کیلئے دعوئی کے مطابق عمل ضروری ہے ۳۱ جولائی ۱۹۱۴ : رمضان کی عبادتیں مشکلات سے بچنے کا ذریعہ ہیں.۷.اگست ۱۹۱۴ ؛ خدا تعالیٰ کے احکام سے لا پرواہی انسان کو ذلیل وخوار کر دیتی ہے.۱۴ اگست ۱۹۱۴ ء انسان بہت سے سوال کر کے اپنے آپ کو مشکل میں ڈال دیتا ہے.۲۱ اگست ۱۹۱۴ ہر ایک ترقی قربانی چاہتی ہے ۲۸ اگست ۱۹۱۴ قصاص سے لوگوں کی زندگی محفوظ ہو جاتی ہے.۴ ستمبر ۱۹۱۴ء مومن عبرت کے سامان دیکھ کر ڈر جاتا ہے ۱۸ ستمبر ۱۹۱۴ کائنات خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قواعد کے ماتحت چل رہی ہے.۲۵ ستمبر ۴۱۹۱۲ نفاق بہت بڑی مصیبت ہے ۲ اکتوبر ۴۱۹۱۴ ہر شخص قرآن کریم سیکھنے کی کوشش کرے.۹ اکتوبر ۴۱۹۱۴ قرآن مجید کے معنی کرنے میں بہت احتیاط کرو.۱۶.اکتوبر ۱۹۱۴ انعام ہمیشہ اطاعت کرنے والوں کو ہی ملا کرتا ہے.۲۳ اکتوبر ۱۹۱۴ ہر قسم کے شرک اور بدعملی سے بچتے رہیں.۳۰ اکتوبر ۱۹۱۴ ء حج کے دن آنحضرت صحابہ کرام اور صلحائے امت کیلئے بہت دعائیں کرو.

Page 8

صفح ۲۰۷ ۲۱۶ ۲۲۲ ۲۲۹ ۲۳۶ ۲۴۲ ۲۴۶ ۲۵۰ ۲۵۹ ۲۶۳ ۲۶۵ ۲۶۹ ۲۷۴ ۲۷۸ ۲۸۲ ۲۹۱ ۳۰۷ ۳۱۳ ۳۲۵ ۳۳۰ ۳۴۲ ۳۴۶ ۳۵۵ ۳۵۹ خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده ۴۶ ۴۷ ۴۸ 2 6 ۴۹ ۵۱ ۵۲ ۵۳ ۵۴ ۵۵ ۵۶ لا ۵۸ ۵۹ ۶۰ ۶۱ ۶۲ ۶۳ ۶۴ ۶۶ ۶۷ ۶۸ ۶۹ 2.موضوع خطبه ۶ نومبر ۱۹۱۴ء جب مسلمانوں نے خدا تعالیٰ کو چھوڑ دیا تو وہ عزت اور مرتبہ سے محروم ہو گئے.۱۳ نومبر ۱۹۱۴ عذاب سے قبل اصلاح انسان کو تباہی سے بچا لیتی ہے ۲۰ نومبر ۴۱۹۱۴ جسمانی اعضاء کی طرح روحانی اعضاء سے کام لینا چاہیئے ۲۷ نومبر ۱۹۱۴ : اللہ تعالیٰ کے احسانات کو یا درکھنا چاہیئے ۴ دسمبر ۱۹۱۴ بغاوت اور سرکشی سے بیچ کر ہی اتفاق قائم رہ سکتا ہے ۱۱ دسمبر ۱۹۱۲ء اصل دولت صداقت اور راستی ہے اس کی حفاظت کرو.۱۸ دسمبر ۱۹۱۲ء تمسخر اور ٹھٹھے کی ابتداء ہمیشہ تکبر سے ہوتی ہے ۲۵ دسمبر ۱۹۱۷ء جلسہ سالانہ کے انتظام میں ہمیں حج کے قواعد وضوابط سے فائدہ ۴۱۹۱۵ اٹھانا چاہیئے یکم جنوری 1914ء دل تلوار سے نہیں ، خدائی تعلق سے فتح ہوتے ہیں.۸ جنوری ۱۹۱۵ء دعائیں کرو اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو طاعون سے خاص طور پر ۱۹۱۵ء بچائے ۱۵ جنوری ۱۵ محض اپنے خیالات اور آرزو کے مطابق مذہب پر عمل کرنا اطاعت نہیں.۲۲ جنوری ۱۹۱۵ به حق و باطل میں امتیاز کیلئے خاص دعا ئیں کرو.۱۹ فروری ۱۹۱۵ اللہ تعالیٰ نے جلد حق آشکارا کر دیا.۲۶ فروری ۱۹۱۵ء کلمہ شہادت اسلام کا ایک بے نظیر خلاصہ ہے.۵ مارچ ۱۹۱۵ چھوٹی بدی کا نتیجہ بڑی بدی پیدا کرتا ہے ۱۲ مارچ ۱۹۱۵ء انبیاء کی تعلیم زمانہ کی رو کے خلاف ہوتی ہے.۱۹ مارچ ۱۹۱۵ ؛ تمہاری کامیابی کا گر تقویٰ ہے اپریل ۱۹۱۵ء قرآن شریف جنت کی ایک کھڑ کی ہے ۱۶.اپریل ۱۹۱۵ء صحابہ کی کامیابی اور غلبہ کا راز ۲۳ اپریل ۱۹۱۵ : اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کے خزانے وسیع ہیں.۳۰ اپریل ۱۹۱۵ ء غیر احمدی کے جنازہ کے متعلق سوال اور اس کا جواب.مئی ۱۹۱۵ء صرف خدا تعالیٰ ہی عالم الغیب ہے.۱۴ مئی ۱۹۱۹ مخالفت اور بغض انسان کو حق سے بہت دور کر دیتا ہے ۲۱ مئی ۱۹۱۵ء اللہ کی نعمت سے ہم بھائی بھائی بن گئے ہیں.۲۸ مئی خوف اور طمع کے بغیر ایمان کامل نہیں ہوسکتا.۱۹۱۵؛

Page 9

صفحہ ۳۶۳ ۳۷۱ ۳۸۱ ۳۸۴ ۳۹۵ ۳۹۸ ۴۰۳ ۴۱۳ ۴۲۰ ۴۲۵ ۴۳۳ ۴۴۳ ۴۵۷ ۴۶۹ ۴۷۹ ۴۸۶ ۴۹۴ ۴۹۸ ۵۱۲ ۵۲۲ ۵۲۷ ۵۳۸ خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده 21 ۷۲ ۷۳ ۷۴ ۷۵ ۷۶ LL ZA ۷۹ ۸۰ ΔΙ ۸۲ ۸۳ ۸۴ ۸۵ ۸۶ ۸۷ ΑΛ ۸۹ ۹۱ ۹۲ ۹۳ ۹۴ 3 موضوع خطبہ ۴ جون ۱۹۱۵ ء مقابلہ اور لڑائی میں بھی تمہارا طریق ظالمانہ نہ ہو.۱۸ جون ۱۹۱۵ء خدا تعالیٰ کے مقررہ راستوں پر چل کر ہی انسان فلاح پاسکتا ہے.۲۵ جون ۱۹۱۵ء کوشش کرو کہ تمہیں اعلیٰ درجہ کی موت نصیب ہو.۲ جولائی ۱۹۱۵ء تبلیغ مسلمانوں کا اہم فریضہ ہے ۹ جولائی ۱۹۱۵ء احْكُمُ الْحَاکمین خدا سے تعلق قائم کرو.۱۶ جولائی ۱۹۱۵ ء رمضان کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی عنائت ہے.کی ۲۳ جولائی ۱۹۱۵ ء قرآن شریف دنیا کیلئے ہدایت نامہ ہے ۳۰ جولائی ۱۹۱۵ء رسول کی اطاعت دراصل خدا تعالیٰ کی اطاعت ہے.۶ - اگست ۱۹۱۵ء تمام کامیابیوں کی گنجی دُعا ہے ۱۳ اگست ۱۹۱۵ء خلافت سے وابستہ ہونے میں بڑی برکات ہیں..۲۰ اگست ۱۹۱۵ دینی عزت اسی کو حاصل ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کی خاطر عاجزی اختیار کرے.۳ ستمبر ۱۹۱۵ء اسلام وقتی جوش کیلئے نہیں بلکہ موت تک قربانی کیلئے بلاتا ہے ۱۰ ستمبر ۱۹۱۵ خواجہ صاحب کے مطالبہ حلف کا جواب ۲۴ ستمبر ۱۹۱۵ اجتماع جمعہ کی برکات یکم اکتوبر ۱۹۱۵ قرآن شریف کے حکم کے مطابق لڑکیوں کو جائیداد سے حصہ ملنا چاہیئے ۸ اکتوبر ۱۹۱۵ ہر صادق نبی پر ایک ہی قسم کے اعتراضات کئے جاتے ہیں.۲۲ اکتوبر ۱۹۱۵ ترجمۃ القرآن انگریزی کی اشاعت کیلئے تحریک ۲۹ اکتوبر ۱۹۱۵ ء خدا تعالیٰ کے کلام کا ہر لفظ اپنے اندر حکمت رکھتا ہے.اپنے اندر زندگی کی علامات پیدا کرو.۵ نومبر ۱۹۱۵؛ ۱۲ نومبر ۱۹۱۵ اصل مقصد اور مدعا کے حصول کی خاطر مصائب کی پروانہ کرو خدا اور اس کے رسولوں کے ساتھ استہزاء بہت بڑا جرم ہے.۱۹ نومبر ۱۹۱۵ : ۱۰ دسمبر ۱۹۱۵ کامل ایمان کا پتہ مصیبت کے وقت ہی لگتا ہے ۱۷ دسمبر ۱۹۱۵ اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں بڑی بڑی حکمتیں مخفی ہیں ۲۴ دسمبر ۱۹۱۵ عزت اور کامیابی محنت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی.۳۱ دسمبر ۹۵ جلسہ سالانہ صداقت مسیح موعود کا عظیم نشان ہے.۱۹۱۵ء نشان

Page 10

خطبات محمود جلد ۴ (1) انسانی ترقی کے تین درجات فرموده ۲۹ جولائی ۱۹۱۰ء.بمقام قادیان) سال ۱۹۱۰ء تشهد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آیت قرآنی اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ ا پڑھ کر حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا:.دنیا میں ہر چیز کے تین ہی درجے بیان ہوتے ہیں.ادنی ، اوسط، اعلیٰ اسی طرح اس آیت میں انسانی ترقی کے تین درجے بیان فرمائے ہیں جو انسان ان تین درجوں کو طے کرتا ہے اسے ساتھ ترک شر کے بھی تین درجے حاصل ہو جاتے ہیں.سب سے اول ادنی درجہ تو یہ ہے کہ انسان عدل کرے.جس کا جتنا حق ہو اس کو اتنا ہی دے.دوسرا درجہ یہ ہے کہ جو حق ہے اسی پر کفایت نہ کرے بلکہ حق سے زیادہ دے.اس کا نام احسان ہے.تیسرا درجہ یہ ہے کہ انسان خدا کے ہاتھ میں کل کی طرح کام کرنے والا ہو.اور اس کو بلا کسی خیال و معاوضہ کے نفع رسانی کی دُھن لگی رہے.جب انسان عدل پر قائم ہوتا ہے تو بغی سے بھی بچتا ہے جس میں کھلی کھلی سرکشی پائی جاتی ہے اور جب احسان کی راہوں پر قدم مارتا ہے تو ایسے امور سے محفوظ رہتا ہے جن کا نقصان صرف اسی کو نہ ہو بلکہ وہ دوسروں کیلئے مضر اور غیروں کی نظر میں بھی ناپسند ہوں.اور جب ایتاء ذی القربی والی حالت وارد ہوتی ہے تو پھر اسے ان چھوٹے چھوٹے گناہوں پر بھی آگاہی ہوتی ہے اور ان سے پاک رہنے کی کوشش کرتا ہے جو انسان کے نفس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور زبان شریعت میں فحشاء کہلاتے ہیں.یہ صرف قرآن کا خاصہ ہے کہ جب وہ کسی

Page 11

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۰ ء بدی یا گناہ سے روکتا ہے تو اس سے بچنے کی ترکیب بھی بتاتا ہے چنانچہ یہاں بغی ،ہمنکر، فحشاء سے بچنے کیلئے عدل، احسان، ایتاءِ ذِی القربی کا ارشاد فرمایا.اور ان بدیوں سے محفوظ رہنا ان نیکیوں کیلئے بطور نتیجہ کے بیان کیا پھر فرمایا کہ تم عہدوں کو پورا کرنے والے بنو نہ صرف وہ عہد جو خدا سے کئے ہیں بلکہ مخلوق سے بھی عہد شکنی نہ کرو کہ عہد شکن منافق ہوتا ہے جو کسی نیکی کی بات پر ثابت قدم نہیں رہ سکتا.اللہ تمہیں وعظ کرتا ہے کہ عبودیت اختیار کرو تا الوہیت کے فیوض سے متمتع ہو.النحل:۹۱ ( اخبار بدر.۲۸ جولائی ۱۹۱۰ء)

Page 12

خطبات محمود جلد ۴ (4) قرآن شریف کا اول و آخر فرموده ۵ جنوری ۱۹۱۲ء بمقام قادیان) سال ۱۹۱۲ء تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نے سورۃ الفلق کی تلاوت فرمائی:.بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ.مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَمِنْ شَرِ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ وَمِنْ شَيْرِ النَّفْتَتِ فِي الْعُقَدِ وَمِنْ شَيْرِ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ.اس کے بعد فرمایا:.قرآن شریف کو جن لوگوں نے غور اور تدبر سے پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ تمام قرآن شریف کالب کباب الحمد شریف یعنی سورہ فاتحہ ہے گویا کہ سارا قرآن شریف مجملاً بطور فہرست کے سورہ فاتحہ ہے.اور جن لوگوں نے اس سے زیادہ غور وفکر کیا ہے انہوں نے بسمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيمِ کو سورۃ فاتحہ کا خلاصہ قرار دیا ہے.بعد اس کے یہ ایک صاف بات ہے کہ سورہ فاتحہ میں صراط مستقیم والی دعا کے ساتھ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ، کی دعا سکھلا کر افراط اور تفریط سے بچنے کی ترغیب دلائی ہے.صراط مستقیم کے جادہ سے ادھر اُدھر ہونا یہ ایک اندرونی فتنہ ہے اور مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ يَضَالین کی راہ اختیار کرنا گویا بیرونی فتنہ میں مبتلاء ہونا ہے.اندرونی فتنہ کے بالمقابل سب سے بڑا بیرونی فتنہ ضالين والا فتنہ ہے.یہ تو قرآن مجید کی ابتداء کی سورہ ہے اب قرآن شریف کے اخیر میں بھی سورہ فاتحہ کے مضمون کے بالمقابل دوفتنوں کا ذکر الگ الگ دو سورتوں میں بیان فرما کر ان می

Page 13

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۲ ء بچنے کیلئے خدا تعالیٰ ہی کی پناہ مانگنے کی تعلیم دی ہے.جیسا کہ وَلَا الضَّالین کو سورہ فاتحہ کے اخیر میں رکھا ہے اسی طرح سے سورۃ الناس کو جس میں عیسائیوں کے فتنہ کا ذکر ہے قرآن شریف کے اخیر میں رکھا ہے اور سورۃ الناس سے ماقبل سورۃ الفلق کو سورہ فاتحہ کے اندرونی فتنہ کے بالمقابل رکھا ہے اور سورۃ فاتحہ میں اندرونی فتنہ کا جو مجمل بیان تھا اس کے کسی قدر آثار زیادہ بیان کر کے اسکی تشریح کردی.فلق بمعنی خلق بھی آیا ہے.مِن شَرِّ مَا خَلَقَ کہ کر تمام قسم کے فتنوں کا ذکر کر دیا کیونکہ فتنے جب تھوڑے ہوں تو گنتی بھی کی جاوے مگر فتنے جب حد سے بڑھ جاویں تو کہاں تک اس کو شمار کیا جاوے.مَا خَلَقَ میں ہمارے اس زمانہ کی طرف اشارہ ہے کہ فتنہ اور فسادوں کی کوئی حد ہی نہ رہی.وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَب میں غاسق چاند کو کہا ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ پیغمبر صلانی ایم نے چاند کی طرف دیکھا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ اِسْتَعِيْنِى مِن هذَا فَإِنَّهُ فَاسِقٌ إِذَا وَقَبَ - س جب کسی قوم میں ہلاکت آتی ہے تو پہلے اس ہلاکت کا پیش خیمہ آپس کی ہی اندرونی پھوٹ اور آپس ہی کی اندرونی مخالفتیں ہوتی ہیں.امراء امراء کے علماء علماء کے مخالف ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے سخت جانی دشمن ہو جاتے ہیں.پھر بعد میں بیرونی فتنہ کو اندرونی فتنہ پر غلبہ پانے کی راہ کھل جاتی ہے.گو یا جب کوئی قلعہ اندر اور باہر دونوں طرف سے مضبوط ہوتا ہے تو دشمن دفعہ اس پر حملہ آور نہیں ہوتا.جب قلعہ کی اندرونی حالت خراب ہو جاتی ہے.تو پھر دشمن کو بھی ہمت مل جاتی ہے خدا کسی قوم کو نہیں بگاڑتا جب تک کہ وہ بگڑنے کے سامان اپنے ہاتھوں سے پہلے آپ نہ کرلیں.اِنَّ اللهَ لا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْت وَمِن شَر النفقت في العقد میں شاعروں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کیونکہ پھونک مارنے والے کی طرح شاعر بھی اپنے منہ میں اندر ہی اندر اشعار کی پھونک پھانک لگاتا رہتا ہے اور یوں اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان جو عقد اور رشتہ ہوتا ہے اس کو توڑنا چاہتا ہے ہے.وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَد کا بازار اس قدر گرم ہو گیا ہے کہ ایک سلطنت دشمن کے حملہ سے تباہ ہو جاتی ہے تو دوسری سلطنت اس کے پہلو میں بولتی تک نہیں ، بالکل خاموش بیٹھی دیکھتی ہے کہ اچھا ہے کمزور ہوئے.مسلمانوں کو چاہیے کہ اس سورۃ کو کثرت سے پڑھیں اور اللہ تعالیٰ سے ان الفاظ میں دعا کریں بَارَكَ اللهُ لَنَا وَلَكُمْ مِنَ الْقُرْآنِ الْعَظِيمِ وَ

Page 14

خطبات محمود جلد ۴ نَفَعَنَا وَإِيَّاكُمْ بِالذِكرِ الْحَكِيمِ ل سورة الفلق ت الفاتحة: اخبار بدر ۱۸ جنوری ۱۹۱۲ء) سے ترمذی ابواب التفسير باب سورة المعوذتین میں الفاظ اس طرح ہیں اسْتَعِيْنِى بِاللهِ مِنْ شَرِ هَذَا فَإِنَّ هَذَا هُوَ الْغَاسِقُ إِذَا وَقَبَ الرعد: ١٢

Page 15

خطبات محمود جلد ۴ (۳) رمضان بڑے انعامات اور بڑے خوف کا مہینہ ہے فرموده ۲۹ - اگست ۱۹۱۳ ء بمقام قادیان) سال ۱۹۱۳ ء تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ زمر کے رکوع ۲ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.دنیا میں تین قسم کے آدمی ہوتے ہیں.ایک وہ جو خدا تعالیٰ کا خوف نہیں کرتے.نہ اس کے ساتھ تعلق ، نہ اس کا ادب، نہ اس کا رعب، نہ اس سے محبت و پیار غرض کچھ بھی نہیں.صريحا اللہ تعالیٰ کے احکام کے منکر ہوتے ہیں.اعتقادی طور پر نہ ہوں تو عملی طور پر.دوسری قسم کے وہ لوگ ہوتے ہیں جو منکر تو نہیں ہوتے مگر ان کے اعمال کی بنیا د خدا کے تقویٰ پر نہیں ہوتی وہ دین کا اتباع کرتے ہیں مگر نہیں کرتے.نمازیں پڑھتے ہیں مگر نہیں پڑھتے ، روزے رکھتے ہیں مگر نہیں رکھتے ، حج کرتے ہیں مگر نہیں کرتے ، زکوۃ دیتے ہیں مگر نہیں دیتے ، ان کے افعال عادتا ہوتے ہیں.مثلاً ہزاروں مسلمان ہیں جو کھانا کھاتے وقت بشیر اللہ پڑھتے ہیں اور بعد میں الحمد اللہ کہتے ہیں.مگر جس وقت وہ الحمد للہ کہتے ہیں کیا حقیقت میں ان کا دل جوش محبت الہی میں بھرا ہوا ہوتا ہے.کیا ان میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کھا نا خدا کا فضل ہے.اگر اس کی عنایت شامل حال نہ ہوتی تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا کہ اس قسم کا کھانا تیار ہوگا.لقمہ تو ڑ کر منہ میں ڈال لینا تو آسان ہے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ لقمہ کتنی محنتوں مصیبتوں اور کتنے آدمیوں کے عمل کے بعد اس صورت میں آیا ہے.اسی طرح مسلمان آپس میں اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہتے ہیں.مگر کیا سارے مسلمان اس کی حقیقت سے واقف ہیں اور ان کے دل میں وہی جذبہ اور وہی شوق

Page 16

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۳ : ہوتا ہے جس کے جتلانے کیلئے رسول کریم ملایا کہ تم نے یہ فقرہ جاری کیا تھا.اور کیا دوسرے بھائی کی نسبت یہ بھی خواہش موجزن ہوتی ہے کہ خدا اسے ہر شر سے بچائے ، ہر قسم کی فتنہ پردازی کو دور کرے، وہ خدا جس کا نام سلام ہے اسے محفوظ رکھے.غرض ایسے بندے ہوتے ہیں جو اس طرح کام کرتے ہیں.روزہ رکھیں گے پیاسے اور بھوکے رہیں گے.نہایت پوشیدہ تعلقات کو ترک کر دیں گے مگر جو حقیقت روزوں کی علت غائی ہے اس کے حصول کی خواہش تک نہ کریں گے.تیسرا گروہ وہ ہے جو خدا کے خوف وخشیت کے ماتحت اپنے تمام اعمال کرتا ہے یہ لوگ نماز اس لئے نہیں پڑھتے کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ یہ نماز نہیں پڑھتے.اپنا جبینِ نیاز خدا کی درگاہ میں اس لئے نہیں رکھتے کہ لوگ انہیں بزرگ سمجھیں.بھو کے اس لئے نہیں رہتے کہ انہوں نے اپنے باپ دادا کو روزے رکھتے پایا.زکوۃ اس لئے نہیں دیتے کہ لوگ انہیں کہیں کہ یہ زکوۃ دیتے ہیں.حج اس لئے نہیں جاتے کہ لوگ انہیں حاجی کہیں بلکہ ان کے تمام افعال اس ہستی کے خوش کرنے کیلئے ہوتے ہیں جو آسمان پر بڑے جلال کے ساتھ قائم ہے.یہی وہ لوگ ہیں جن کی عبادتیں قبول ہوں گی.خداوند تعالیٰ اپنے بندوں کو فرماتا ہے کہ تم نے تو دعوی کیا ہے کہ ہم ایمان لائے لیکن تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تم دائم تقویٰ پر قائم نہ رہو اور اپنے رب کی خشیت تمہارے دلوں میں نہ ہو.رسمی نمازیں تو یہودی بھی پڑھتے ہیں رسمی روزے تو ہندو بھی رکھتے ہیں بلکہ ہندو تو آٹھ رکھتے ہیں اور تین تین دن تک نہیں کھاتے.مگر کیا وہ ان روزوں کے بڑے انعام پائیں گے؟ نہیں کیونکہ انہوں نے یہ کام تقویٰ اور فرمانبرداری کو مدنظر رکھ کر نہیں کیا بلکہ عادتنا یا رسما ایسا کیا.پس تم غور کرو کہ اگر مہینے تک تم نے تکلیف بھی اٹھائی اور کچھ فائدہ بھی نہ اٹھایا یعنی اپنے اندر کچھ تبدیلی نہ کی تو خیر الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ کے سوا اور کیا ہے.یہ رمضان کا مہینہ بڑے انعامات کا بڑے خوف کا مہینہ ہے.پس تم رمضان سے پہلے پہلے فیصلہ کر کے اپنے نفسوں میں تبدیلی کرو اور اِتَّقُوا رَبَّكُمْ ۲ کے ارشاد کی تعمیل کرو.یہ جمعہ آخری جمعہ ہے.جمعے کا روز بڑی برکات کا روز ہوتا ہے.پھر یہ گھڑی بڑی بابرکت ہے جس میں خطیب خطبہ پڑھتا ہے.پس تم اس مبارک گھڑی میں عہد کر لو کہ ہماری نمازیں ، ہمارے روزے ہمارے سب عمل خدا کیلئے ہوں گے نہ کہ رسم و عادت کے طور پر.کون جانتا ہے کہ مجھے اگلا مہینہ ملے گا یا نہیں.شاید یہ دن آخری دن یہ مہینہ آخری مہینہ، یہ سال

Page 17

خطبات محمود جلد ۴ آخری سال ہو.زندگیوں کا کوئی اعتبار نہیں اس بابرکت گھڑی سے فائدہ اٹھاؤ.خدا تعالیٰ رسم سے خوش نہیں ہوتا ہے کی بلکہ اس چیز سے خوش ہوتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہے.قربانی کرو کیونکہ خدا کے حضور قربانی کے سوال نہیں پہنچ سکتے.تقویٰ اختیار کرو کیونکہ تقویٰ تمام عملوں کی روح ہے.تقویٰ کے معنی ہیں، اپنی خواہشوں کو خدا کے حضور قربان کر دینا.حضرت صاحب رسول کریم مالی اسلم کا یہ ارشاد سنایا کرتے تھے کہ ابو بکر کو جو تم پر فضیلت ہے نماز اور روزے سے نہیں بلکہ اس شے کی وجہ سے ہے جو اس کے دل میں ہے.۳.ایک دفعہ ایک مسئلہ پیش ہوا.میں اس کا فیصلہ اس طرح کرنا چاہتا تھا جس طرح خلیفہ مسیح کا منشاء تھا.مگر ایک دوست مجھے بار بار کہتا تھا کہ میاں صاحب تقومی کرو.تقویٰ کر و آخر یہ بات خلیفہ المسیح تک پہنچی.آپ نے فرمایا کہ اس کی عمر کا اپنی عمروں سے مقابلہ کر و.جب یہ ہمارے منشاء کو سمجھتا ہے تو آپ لوگوں کو جو بڑی عمر کے ہیں، اس سے زیادہ سمجھنا چاہیئے.غرض تقوی خواہش کی پیروی کا نام نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کا نام ہے.اگر خدا کی فرمانبرداری میں انہیں کچھ مشکلات ہوں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہے کہ میری زمین بڑی وسیع ہے.یہ اجازت نہیں کہ اپنے بادشاہ کے خلاف تلوار میں لے کر کھڑے ہو جاؤ بلکہ ہجرت کر جاؤ اور صبر سے کام لو کیونکہ صابروں کو بغیر حساب دینے کا جو وعدہ ہے وہ پورا پورا دیا جائے گا.پھر رسول اللہ لایا یہ تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ تو کہہ دے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت بڑے خلوص کے ساتھ کروں اور اس کا فرمانبردار بنوں کے جب خَاتَمَ النَّبِین کو یہ حکم ہے تو اور کون ہے جو عبادت سے مستثنی ہو سکتا ہے.خدا کی کامل اطاعت و کامل فرمانبرداری کا نمونہ حضور کی ذات بابرکات ہے.اسی واسطے حضرت عائشہ نے فرمایا.كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآن ھے یعنی قرآن میں جس قدر باتوں کے کرنے کا حکم ہوا ہے وہ آپ کرتے تھے اور جس قدر باتوں سے منع کیا گیا وہ آپ نہیں کرتے تھے.کیسا پاک نمونہ ہے جو ہمارے لئے موجود ہے اور جس نمونے کو تازہ کرنے کیلئے اس صدی پر بھی ایک مامور آیا.اور کیسی پاک تعلیم ہے جو قرآن مجید میں موجود ہے.عیسائی اگر شراب پئیں تو وہ معذور ہیں کیونکہ ان کا خداوند یسوع بھی شراب پیتا تھا.- وام مارگی سے اگر شراب اور بے حیائی کی باتیں کرتے ہیں تو افسوس کی بات نہیں

Page 18

خطبات محمود جلد ۴ ۹ سال ۱۹۱۳ء کیونکہ ان کی تعلیم ہی ایسی ہے مگر مسلمان یہ کام کریں تو کتنے بڑے افسوس کی بات ہے کیونکہ قرآن کریم نے ان باتوں سے بڑی سختی سے روکا ہے.خدا تو رسول کریم صلی ا یہ تم کوفرماتا ہے کہ تو کہہ دے کہ اگر میں نافرمانی کروں تو میں خدا کے عذاب سے ڈرتا ہوں تو پھر اور کون ہے جو الہی عذاب سے باوجود نا فرمانی کے بچ سکتا ہے.پس تم گندوں کو چھوڑ دو اور ان سے یوں نکل جاؤ جیسے سانپ اپنی کینچلی سے نکل جاتا ہے.جس طرح تم نے جمعہ کے دن ظاہری غسل کیا ہے اسی طرح اپنے باطن کو تمام آلائشوں سے صاف کر لو اور اپنی روح کو معطر.کیونکہ خدا قدوس ہے اس کے حضور پاکبازوں کے سوا کوئی نہیں پہنچ سکتا.خدا تمہیں تو فیق دے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک نمونے پر چلنے کی ، اسلام کی اتباع کی ، خدا ہمارے اقوال و افعال کو ایک اور نیک کر دے، خدا ہم سے راضی ہو مسلمان ہی جئیں ، مسلمان ہی مریں اور مسلمان ہی اٹھیں.الحج : ١٢ الفضل ۳ ستمبر ۱۹۱۳ء) الزمر : نزهة المجالس مصنفه شيخ عبد الرّحمن الصفورى جلد ۲ صفحه ١٥٣ م مطبوعه مصر الزمر : ١٣،١٢ ۵۱۳۱۳ ه مسند احمد بن حنبل جلد ۶ صفحه ۹۱ ، ۲۱۶ المكتب الاسلامى بيروت ابن آدم کھاتا پیتا آیا اور وہ کہتے ہیں کہ دیکھوکھا ؤ اور شرابی آدمی ( متی باب ۱۹ آیت ۱۱ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۴۳ء) ک قدیم ہندوستان کا ایک بے راہ رو فرقہ جو بقول دیانند سرسوتی شراب نوشی و زنا کاری اور ماں بہن تک سے بدفعلی کو نجات کا ذریعہ گردانتے تھے.(ستیارتھ پر کاش مصنفہ پنڈت دیانند سرسوتی بانی آریہ سماج باب ۱۱ صفحه ۳۷۶ تا ۳۸۰ مطبوعہ لاہور ۱۸۹۹ء)

Page 19

خطبات محمود جلد ۴ (۴) لوگوں کو واحد خدا کی طرف بلاؤ فرموده ۲۴.اکتوبر ۱۹۱۳ء.بمقام قادیان) سال ۱۹۱۳ء تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ اور اخلاص کی تلاوت کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے انسان کو بڑی طاقت دی ہے.ایسی قوتیں اسے بخشی ہیں جن کی وجہ سے یہ سب پر حکمران ہے حالانکہ جسم کے لحاظ سے کئی جاندار اس سے بڑھ کر ہیں.باوجود اس کے بعض قوتیں اس میں ایسی ہیں جن سے کام لے کر انسان ان بڑے بڑے جانداروں پر حکومت کرتا ہے.انسان کو تو یہاں تک دسترس حاصل ہے کہ اسے پر نہیں دیئے گئے پھر بھی یہ اُڑ سکتا ہے.وہ حشرات الارض جو اسے کھلی آنکھ سے نظر نہیں آسکتے ان پر بھی اس نے قابو پالیا اور ان کے ہلاک کرنے کا سامان بہم پہنچا لیا.سورج، چاند، ستارے کروڑوں میل پر واقع ہیں، ان سے بھی یہ فائدہ اٹھاتا ہے.آفتاب کی روشنی سے کام لیتا ہے، بجلی سے کام لیتا ہے ایتھر سے کام لیتا ہے غرض جو کچھ دنیا میں ہے یہ ان پر حکمران ہے.سچ ہے خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مگر باوجود اس طاقت و حکومت کے کمزور ایسا ہے کہ ایک منٹ کیلئے بھی نہیں بتاتے سکتا کہ میں زندہ رہوں گا.ایک طرف ایسی طاقت اور ایک طرف ایسی کمزوری بتاتی ہے کہ ایک ہستی ہے جو سب پر حکمران ہے.وہ بادشاہ جس کی سلطنت میں آفتاب غروب نہیں ہوتا ، اپنی تاجپوشی کے دربار کا اعلان کرتا ہے اور آخر مجبور ہوکر ایک عمل جراحی کراتا ہے اور دربار ملتوی کرنا پڑتا ہے.

Page 20

خطبات محمود جلد ۴ " سال ۱۹۱۳ء بے شک وہ بڑی حکومت کا مالک تھا مگر خدا تعالیٰ نے بتا دیا کہ میں اَحْكُمُ الْحَاكِمِينَ ہوں.غرض انسان کے اندر ایسی شہادتیں موجود ہیں جو اسے متنبہ کرتی رہتی ہیں کہ تجھ پر حکمران ایک طاقتور ہستی ہے اور وہ ایک ہے، اس کے سوا جن چیزوں کو بعض نادانوں نے معبود ٹھہرایا وہ تو ایسی کمزور ہیں کہ خود انہی کے بھائی بند دوسرے انسانوں نے اس میں تصرف کیا.گنگا میں کوئی نہر نہ تھی.خوش اعتقادوں نے کہا یہ پرمیشر کی ہے، اس میں سے حصہ نہیں لینے دیا.آخر ایک صاحب نے اس میں سے بھی نہر کاٹ لی.اور کسی نے خوب برجستہ مصرع کہا.کاٹ لی ۲ نے نہر گنگا کاٹ لی بےشک انسانوں کو ایسی طاقتیں دی گئی ہیں.مگر دوسری طرف اسے حد سے بڑھنے نہیں دیا.وہ بڑے بڑے دعوے کرتا ہے لیکن ایسی ٹھو کر دیتا ہے کہ اسے اقرار کرنا پڑتا ہے مجھ پر حکمران ایک اور ہستی ہے.ایک مقام کے لوگوں نے حضرت اقدس سے ایک مسجد کے بارے میں عرض کیا.فرمایا اگر ہمارا سلسلہ سچا ہے تو یہ مسجد تمہیں مل جائے گی.بعض وقت قبولیت کے لئے خاص ہوتے ہیں.اس کے بعد مقدمہ شروع ہوا.حج جس وقت فیصلہ کیلئے بیٹھے تو ایک جج نے جو مسلمان تھا مخالفت شروع کی.وہ فیصلہ احمدیوں کے خلاف لکھ کر گھر سے چلنے لگا اور نوکر کو بوٹ پہنانے کا حکم دیا کہ جان نکل گئی.پھر اس کے قائم مقام جو حج ہوا، اس نے احمدیوں کو مسجد دلا دی.یہ خدا کے کام ہیں اور وہ اپنی باتیں یوں منواتا ہے، اس میں کسی انسان کا دخل نہیں ہو سکتا.کوئی عہدے میں خواہ کتنا بڑھ جائے ، وائسرائے ہو یا نواب بادشاہ ہو یا دنیا کی اصطلاح میں شہنشاہ (اصل شہنشاہ تو خدا ہے ) آخر ایک غریب کی طرح مٹی میں دفن ہوتا ہے.یہ تو بادشاہوں کا حال ہے مگر ان سے بھی بڑھ کر ایک اور گروہ ہے جن کے مقابلے میں بادشاہ ہمیشہ ہارتے رہے ہیں یعنی انبیاء، وہ بھی خدا کے مقابلہ میں کوئی چیز نہیں.دیکھو حضرت موسی جیسے آدمی نے فرعون جیسے مطلق العنان اَنَا رَبُّكُمُ الأَعلى سے کہنے والے بادشاہ کا مقابلہ کیا.اور وہ آپ کے سامنے ذلیل و خوار سمندر میں غرق ہوا.مگر خود جب خدا کا فرستادہ ملک الموت آیا تو اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہ کر سکے.حتی کہ انبیاء میں سے جن کو معبود ٹھہرایا گیا جیسے کرشن، رام چندر ، حضرت مسیح ، ان پر زیادہ مصیبتیں ڈالی گئیں.اور ان میں ایسی کمزوریاں لگا دیں کہ جن سے صاف کھل جائے یہ کسی اعلیٰ و مقتدر ہستی کے

Page 21

سال ۱۹۱۳ء خطبات محمود جلد ۴ ما تحت ہیں.ابتلاء تو بے شک حضرت موسی و داؤ د وسلیمان علیہم السلام پر بھی آئے مگر دشمن ان پر ایسا غلبہ نہ پا سکا جتنا مسیح پر.اس میں یہ حکمت تھی اور اللہ یہ بتانا چاہتا تھا کہ مسیح خدا نہیں بلکہ خدا تو میں ہوں.الغرض هو الله احد سے کا مسئلہ ایسا صاف ہے مگر پھر بھی بعض انسان ایسے گرے کہ انہوں نے پتھروں کو معبود بنایا، درختوں دریاؤں کو معبود بنایا، سانپوں کو معبود بنایا، پیدا ہونے والوں مرنے والوں لگنے موتنے والوں کو خدا بنایا.پھر بعض نے روپے کو خدا بنا یا، بعض نے اپنے دوستوں کو، حالانکہ خدا نے اپنے وقت پر ان سب چیزوں کی حد درجے کی کمزوری ثابت کر دی.جس دوست پر کسی نے بھروسہ کیا، کام پڑنے سے پہلے اسے ہلاک کر دیا تا یہ جان لے کہ توکل کے قابل اور ذات ہے جو حی و قیوم ہے ٹھو کر لگنے پر تو بہت سمجھ جاتے ہیں مگر مبارک ہے وہ انسان جو ٹھوکر لگنے سے پہلے خدا کی باتوں پر ایمان لائے اور اسے ایک جانے مانے اور اسی کی ذات پر کل امور میں بھروسہ کرے.دیکھو ھندہ نے جب بیعت کی اور حضرت نبی کریم ملا یا تم نے لا تشر كُن باللہ کہا تو اس نے کہا کیا اب بھی ہم خدا کا شریک کسی کو بنات سکتے ہیں؟ اتنا مقابلہ کیا ایک طرف ہزاروں لاکھوں آدمی اور دوسری طرف معدودے چند مگر نہ کثرت کام آئی اور نہ بتوں نے کچھ مدد کی.جس سے حق الیقین کی طرح ہم پر یہ مسئلہ کھل گیا کہ هُوَ اللهُ اَحَدٌ بهنده اور اس کی قوم نے یہ سمجھا مگر بہت سی ٹھوکریں کھانے کے بعد لیکن وہ انسان کیا ہی مبارک ہے جو اس مسئلہ کو پہلے سمجھے اور یقین کرے.خدا ہی معبود ہے اور وہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں کوئی مدمقابل نہیں.صرف وہی ذات ہے جو صمد کہلانے کی حقدار ہے کیونکہ صمد ا سے کہتے ہیں جس کی مدد کے بغیر کام ہو ہی نہ سکے.اس معبود برحق کو ناراض نہ کرو.دیکھو ایک گورنمنٹ کسی پر ناراض ہو جائے تو سب دوست و احباب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں.پچھلے دنوں کا ذکر ہے جب گورنمنٹ لالہ لاجپت رائے پر ناراض ہوئی تو آریہ سماج جس کی وہ از حد مدد کرتے رہے اور کرتے ہیں نے ریزولیوشن پاس کئے کہ ان کا ہم سے کوئی تعلق نہیں.تو پھر وہ احکم الحاکمین جس پر ناراض ہو اس کا کیا حال ہو گا.پس تم سب اس ذات پاک کو راضی کرو.اور اس کی ایسی عبادت کرو جیسا کہ حق ہے عبادت کرنے کا.شرک سے بھی انسان جبھی بیچ سکتا ہے کہ ہر امر میں اللہ کی فرمانبرداری کا خیال رکھے، اسے خوش کرو تو سب خوش.ہے کی

Page 22

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۳ء مخلوق کو خوش کرنے کے درپے ہونے سے کیا بن سکتا ہے، خالق کو راضی کرو پھر سب راضی ہی راضی ہیں.دعائیں کرتے رہو کہ بڑی بڑی خفیہ راہوں سے شرک آتا ہے.سب سے بڑا شرک تو اس کے زمانے میں دنیا پرستی کا تھا جسے امام نے یہ عہد لے کر توڑا.میں دین کو دنیا پر مقدم کروں گا“ اب اس عہد کو نباہو.اگر ہم بھی امانتوں میں خیانت کرنے والے، چوریاں کرنے والے، رشوتیں لینے والے، جھوٹ بولنے والے ہوں تو ہم میں اور غیر میں فرق کیا ہوا.حضرت اقدس کے زمانہ میں ہم سیکھتے تھے، اب ہمارے کام کرنے کے دن آئے ہیں.چاہیئے کہ پورے جوش کے ساتھ اس اَحَد حَمَد لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا كى فرمانبرداری میں لگ جائیں اور لوگوں کو اس واحد خدا اور اس کے مامور کی طرف بلائیں تا ان مصائب بی سے نجات پائیں جو عذاب الہی کی صورت میں ہر طرف سے بڑھ رہی ہیں (الفضل ۲۹.اکتوبر ۱۹۱۳ء) البقرة:٣٠ سے کاٹ لی (ایک انگریز انجینئر ) التزعت : ۲۵ الاخلاص : ۲

Page 23

خطبات محمود جلد ۴ ۱۴ (۵) سال ۱۹۱۴ء اللہ تعالیٰ رب العلمین ہے ال (فرمودہ ۲.جنوری ۱۹۱۴ ء بمقام قادیان) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ رب العلمین ہے اس کے بڑے بڑے رحم انسان کے اوپر ہیں.کوئی ایسا انسان نہیں جو گن سکے کیونکہ ہر کام میں انسان اس کا محتاج ہے.عمر بھر کے احسان کجا صرف صبح سے شام تک جو احسان اللہ تعالیٰ انسان پر کرتا ہے وہ بھی کوئی گنے بیٹھے تو نہیں گن سکتا اور پھر ہزاروں احسان تو ایسے ہیں کہ انسان خود بھی نہیں سمجھ سکتا.مثلاً بیسیوں بیماریاں ہیں جو خود بخود پیدا ہوتی ہیں اور خود بخود اللہ تعالیٰ کے فضل سے دور ہو جاتی ہیں.میں نے تجربہ کار ڈاکٹروں سے سنا ہے کہ جب انہوں نے کسی انسان کا پوسٹ مارٹم کیا تو معلوم ہوا کہ اسے سل ہوئی تھی جو اندر ہی اندر اچھی ہوگئی.یہ تو اس قسم کی بیماریوں کا حال ہے جو اپنا نشان پیچھے چھوڑ جاتی ہیں مگر کئی بیماریاں ایسی ہیں جو اپنا نشان نہیں چھوڑ تیں.کیا معلوم کہ وہ کس تعداد میں پیدا ہوئیں اور کب اللہ تعالیٰ کے فضل نے انہیں دور کر دیا اسی طرح انسان کو بڑھاپے میں احتیاجیں ہیں.پھر جوانی میں ، پھر اس سے پہلے بچپن میں ، پھر اس سے پہلے ماں کے پیٹ میں ، ان سب کو اللہ تعالیٰ کے احسان نے ہی پورا کیا ہے.پھر ماں کے پیٹ سے پہلے انسان جس حالت میں تھا پھر اس سے پہلے جسے ماں باپ بھی نہیں جانتے ان سب حالتوں میں بھی خدا ہی کے فضل سے انسان اس موجودہ حالت تک پہنچا ہے.خیر ! یہ تو پوشیدہ احسانات ہیں ظاہری احسانات کو بھی انسان اگر گننا چاہے تو نہیں گن سکتا.باوجود اس کے بہت سے لوگ

Page 24

خطبات محمود جلد ۴ ۱۵ سال ۱۹۱۴ء ہیں جو سخت احسان فراموش ہیں.حالانکہ پیدائش سے پہلے پیدائش کے بعد جوانی بڑھاپے سے گذرتے ہوئے حشر و نشر تک ان احسانات کا سلسلہ چلا جاتا ہے.ان احسانات پر غور کرتے ہوئے ہمارا فرض ہو جاتا ہے کہ ہم اس ذات بابرکات کی فرمانبرداری کریں جو ان احسانات کا سرچشمہ ہے.مخلوقات میں سے تھوڑا سا بھی کوئی احسان کرتا ہے تو وہ احسان کر کے یہی چاہتا ہے کہ میرا فرمانبردار ہو.حالانکہ مخلوق میں سے جو احسان کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا ہی پیدا کردہ ہے پھر جس چیز سے وہ احسان کرتا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی پیدا کی ہوئی ہے.اور پھر وہ شفقت اور مہربانی جو باپ یا ماں اپنے بیٹے پر کرتے ہیں وہ بھی خدا ہی نے پیدا کی ہوئی ہے اس لئے اصل میں حمد کے لائق اور احسان ماننے کے قابل تو وہ ہستی ہے جو رب العلمین ہے جس کے احسانات ذرے ذرے پر ہویدا ہیں.دنیا میں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جو کسی پر ذرا بھی احسان کرے تو وہ اس کی نافرمانی برداشت نہیں کرتا.مگر اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا یہ حال ہے کہ چور چوری کرتا ہے تو اس کے دیئے ہوئے ہاتھوں سے، اس کی دی ہوئی آنکھوں سے ، اس کے دیئے ہوئے پاؤں سے ، اس کے بنائے ہوئے رستہ پر چل کر اور اتنا نہیں سوچتا کہ میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا غلط طور پر استعمال کر کے سکھ پا سکتا ہوں.کیا جس نے دیکھنے کے لیئے آنکھیں دیں اس میں یہ طاقت نہیں کہ ان آنکھوں کو اندھا کر دے.کیا جس نے ہاتھ دیئے اس میں یہ طاقت نہیں کہ ان ہاتھوں کو توڑ دے مگر وہ ایسا نہیں کرتا.ان سب باتوں پر جب مجموعی طور سے غور کیا جائے تو بے اختیار زبان سے نکلتا ہے الْحَمدُ لِلهِ رَبّ العلمين ! لیکن باوجود نافرمانی کے پھر بھی احسان پر احسان دیکھ کر بعض شریر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خدا کی تائید ہمارے ساتھ ہے اور جو کچھ ہم کرتے ہیں ٹھیک کرتے ہیں.اگر جو ہم کرتے ہیں اس کے منشاء کے خلاف ہے تو وہ کیوں اپنے فعل سے ظاہر نہیں کر دیتا کہ میں کس کے ساتھ ہوں.سو اس لئے فرمایا.آلر محمن الرَّحِیمِ ت یعنی خدا کی صفت رحمانیت پر غور کرو.وہ فرماتا ہے الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ سے یعنی میں رحمان ہوں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ میں نے قرآن سکھایا.اگر ہم ہر بات کو پسند کرتے اور چوری کو جائز ٹھہرانے والے ہوتے تو دنیا میں اپنی طرف سے قرآن کیوں بھیجتے.پھر فرماتا ہے کہ میں رحیم بھی ہوں یعنی نیکی کا اعلیٰ سے اعلیٰ بدلہ دینے والا ہوں.جب کوئی سچے دل سے نیکی بجالاتا ہے تو اس پر خاص رحمت نازل کرتا ہوں.

Page 25

خطبات محمود جلد ۴ 17 سال ۱۹۱۴ء الغرض ربوبیت پر جو اعتراض وارد ہوتا ہے وہ صفت رحمانیت پر غور کرنے سے حل ہو جاتا ہے اور جو رحمانیت پر اعتراض ہوتا ہے وہ صفت رحیمیت پر غور کرنے سے حل ہو جاتا ہے.صفت رحمانیت نے نیکی سکھائی مگر وہ نیکی پر مجبور نہیں کرتا جیسا کہ بدی پر بھی کوئی مجبور نہیں کرتا.کیونکہ اگر صبر سے کام لیتا اور نیکی بدی کا کرنا انسان کے اپنے اختیار میں نہ ہوتا تو صفت رحیمیت کا ظہور کس طرح ہوتا اور انسان نیکی پر اجر کس طرح پاتا.پھر اس کے ساتھ مُلِكِ يَوْمِ الدین ہے بھی فرما دیا یعنی یہ نہ سمجھو کہ انسان کو خدا تعالیٰ نے بالکل کھلا چھوڑ دیا ہے بلکہ انعامات کے ساتھ نافرمانی کرنے والوں کو سزائیں بھی مل رہی ہے ہیں.لیکن اس کی صفت ربوبیت و رحمانیت کی وجہ سے یہ نہیں ہوگا کہ جہاں کسی نے بدی کیلئے ہاتھ اٹھایا اس کا ہاتھ کٹ گیا ، آنکھ اٹھائی اور وہ اندھی ہو گئی ، زبان کھولی تو زبان بند ہوگئی کیونکہ اس طرح تو پھر انسان کی بقا نہیں رہ سکتی اور بقا اول ہے اور کفر و اسلام اس کے بعد.جب اس کی ہستی ہی نہ رہی تو کفر و اسلام اور اس کیلئے کتب الہیہ کا نزول اور رسولوں کی بعثت یونہی بے فائدہ ٹھہرے گی.ہاں نیکی کے حصول کیلئے اور بدی سے رکنے کیلئے ایک جدو جہد کی ضرورت ہے.اور انسان میں کمزوریاں ہیں اور ان کمزوریوں سے بچنے کے لئے دعا سکھلائی کہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا.رستے تو کئی موجود ہیں اور ہر ایک کا دعوی ہے کہ ہمارا راستہ ہی سیدھا ہے اس لئے سکھایا کہ یوں کہو وہ رستہ دکھا اور اس پر چلا جو تیرے مُنْعَمُ عَلَيْهِمُ کا رستہ ہے.پھر ایسے لوگ بھی ہیں جو اس رستے پر چلے لیکن انہوں نے وہ رستہ چھوڑ دیا یا بوجہ ان کی بدعملیوں کے خدا نے ان سے چھڑا دیا اس لئے اس نے بتلایا کہ یوں عرض کرو کہ ہمیں مُنْعَمْ عَلَيْهِمْ کا سیدھا رستہ ہدایت کر اور ان میں سے نہ بنا جن کو تو نے چھوڑ دیا اور نہ ان میں سے بنا جنہوں نے تجھے ترک کر دیا.خدا تعالیٰ مجھے اور آپ کو صراط مستقیم کی ہدایت کرے.(الفضل ۷.جنوری ۱۹۱۴ ء ) ل الفاتحة : ٢ الفاتحة: ٤ الفاتحة: الرحمن : ٣،٢

Page 26

خطبات محمود جلد ۴ ۱۷ (y) قرآن کریم پر عمل انسان کو دکھوں سے بچالیتا ہے (فرموده ۹.جنوری ۱۹۱۴ء بمقام قادیان) سال ۱۹۱۴ء تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نے درج ذیل آیات کی تلاوت کی: الم - ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقُتُهُمْ يُنْفِقُونَ ا اور پھر فرمایا:.کوئی انسان دنیا میں ایسا نظر نہیں آتا جو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا چاہتا ہو.ہر ایک انسان کامیاب اور مظفر ومنصور ہونا پسند کرتا ہے.اور ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ وہ دکھوں اور مصیبتوں سے بچ جاوے.چھوٹے چھوٹے بچے بھی تکلیفوں کو خوب سمجھتے ہیں وہ ذرا کسی بات میں دکھ معلوم کر لیں.تو فورا اس سے الگ ہو جاتے ہیں.اور کسی بات کو نفع مند دیکھیں تو اس کو کرنے کی کوشش کرتے ہیں.انسان نا واقعی کے سبب ہی کسی تکلیف میں پھنستا ہے ورنہ جان بوجھ کر کوئی بھی نقصان دہ چیز کو ہاتھ نہیں ڈالت.سانپ اگر چہ کیسا ہی خوبصورت ہو مگر اسے کوئی ہاتھ نہیں لگاتا.شیر کے منہ کے سامنے جان بوجھ کر کوئی نہیں جاتا.دیدہ دانستہ کبھی بھی کوئی گرنے والے مکان کے نیچے نہیں جاتا.اگر اسے معلوم ہو کہ اس چیز میں زہر ہے تو وہ اسے نہیں کھاتا.انسان اسی صورت میں کسی کام کو ہاتھ ڈالتا ہے جبکہ اسے اس میں نفع کی امید ہو اور وہ سمجھتا ہو کہ مجھے

Page 27

خطبات محمود جلد ۴ ۱۸ سال ۱۹۱۴ء اس میں نقصان نہیں ہوگا.بیمار ہمیشہ واقف کار اور تجربہ کار اور لائق طبیب کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اسے خوف ہوتا ہے کہ اگر میں کسی ناواقف طبیب کے پاس گیا تو بجائے نفع کے مجھے نقصان ہی ہو گا.جب اسے کوئی عمدہ طبیب مل جاتا ہے تو وہ اس سے اپنا علاج کرواتا ہے اور پھر طبیب بھی اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ اس بیمار کو بالکل تکلیف نہ ہو اور نسخہ اس کیلئے عمدہ تجویز کرتا ہے جس سے اس کو نقصان نہ ہو.پھر بعض نسخے ایسے ہوتے ہیں کہ ان سے نقصان تو نہیں ہوتا مگر فائدہ بھی نہیں ہوتا کامل طبیب ایسا نسخہ تجویز کرتا ہے جس سے نقصان نہ ہو اور فائدہ بھی ہو.جسمانی بیمار اپنے لئے عمدہ طبیب تلاش کرتے ہیں اور طبیب بھی عمدہ نسخہ تلاش کر کے جو فائدہ مند ہو اور نقصان دہ نہ ہو اس کیلئے دیتا ہے اور طبیب کا یہ کام ہے کہ وہ مفید نسخہ تلاش کر کے دے اور مصر نسخہ سے احتراز کرے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے القد تم واقف کار علم والے، تجربہ کار طبیب کی تلاش کرتے ہو تو فرمایا آنا الله اعلم میں علم رکھتا ہوں.میں خدا ہوں تم مجھ سے نسخہ لو.اس کا تجویز کردہ نسخہ ایسا ہے کہ اس میں انسان کیلئے فائدہ ہی فائدہ ہے لا ریب فیہ اس میں نقصان ہرگز نہیں اس میں ہلاکت نہیں ہے هُدًى لِلْمُتَّقِينَ.اس میں پرہیز گاروں کیلئے بڑے بڑے فوائد ہیں.جب کسی کو ایسا نسخہ مل جائے اور وہ پھر اسے استعمال نہ کرے تو اس کی تباہی میں کیا شک ہے.اس کتاب کا لانے والا جامع کمالات حسنہ تھا جو کچھ قرآن کریم میں مذکور ہے وہ سب اس نے کر کے دکھلا دیا.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے نبی کریم صلی ایتم کی سیرت کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی یتیم کی سیرت قرآن ہے ۲ جو قرآن میں مذکور ہے وہ سب کچھ آپ کرتے ہیں.انسان کے سب سے زیادہ واقف اسکے گھر کے لوگ ہوتے ہیں کوئی انسان اگر باہر اپنی حرکات لوگوں سے مخفی رکھ لے تو تکلف اور بناوٹ سے رکھ سکتا ہے لیکن گھر کے لوگوں سے وہ کسی حالت میں مخفی نہیں رہ سکتیں کیونکہ ہر وقت انسان نے انہیں میں رہنا ہوا تو آخر کب تک وہ ان سے چھپا سکتا ہے.یہ گواہی حضرت عائشہ کی ہے کہ آپ کی سیرت قرآن تھا وہ ایک اعلیٰ درجہ کا انسان تھا جس نے ہمیں عمل کر کے دکھلا دیا.ی تعلیم اگر چہ بظاہر بہت ہی نرم اور بہت ہی عمدہ معلوم ہوتی ہے کہ:.

Page 28

خطبات محمود جلد ۴ ۱۹ سال ۱۹۱۴ء کوئی اگر تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسری اس کے سامنے کر دو اور اگر کوئی تم سے ایک کپڑا مانگے تو دوسرا بھی اتار کر دے دو.اور اگر کوئی تمہاری ایک چیز اٹھا کر لے لے تو دوسری چیز تم خود اس کے آگے حاضر کر دو ۳ لیکن اگر اس پر عمل کیا جاوے تو دنیا ایک دن میں تباہ ہوسکتی ہے.اس کے پیش کرنے والے خود پر عمل نہیں کرتے بلکہ جس کی طرف یہ تعلیم منسوب کی جاتی ہے خود اس نے اس پر عمل کر کے نہیں دکھلایا.پادریوں کے ساتھ اگر ایسا کیا جاوے تو وہ برداشت نہیں کر سکتے.ایک جگہ ایک پادری انہی آیات پر وعظ کر رہا تھا تو اس نے کہا کہ مسلمانوں کی تعلیم بہت سخت ہے ہماری تعلیم دیکھو کیسی نرم ہے.مسلمانوں کی تعلیم میں رحم بالکل نہیں ہے ایک آدمی نے حاضرین میں سے اٹھ کر پادری صاحب کے ایک تھپڑ رسید کیا تو وہ بڑے برافروختہ ہوئے اور اسے مارنے لگے تو لوگوں نے کہا.کہ پادری صاحب ! یہ کیا بات ہے.ابھی تو آپ اپنی تعلیم کی تعریف کر رہے تھے اور ابھی عمل کا وقت آیا تو یہ حال ہے تو پادری صاحب نے جواب دیا کہ اس وقت تو مجھے تمہاری تعلیم پر عمل کرنا پڑے گا.عملاً تو اسلام کی تعلیم ہی باقی رہ جاتی ہے.کہتے ہیں کہ خدا محبت ہے بیشک وہ رحیم کریم ہے لیکن وہ اس کے ساتھ ہی شدید الْعِقَابِ بھی تو ہے اگر بہشت موجود ہے تو دوزخ بھی اس کے ساتھ ہی موجود ہے.اگر کوئی زانی ہے تو اسے آتشک بھی ہو ہی جاتی ہے.بد پرہیزی کرنے والا بیمار بھی ہو جاتا ہے.شریر کو سزا ملتی ہے.یہ خدا کا عمل ہے.ہر ایک گناہ پر سزا ہی نہیں ملا کرتی عفو بھی ہے.اللہ تعالیٰ نے وہ تعلیم دی ہے کہ جس پر عمل ہو سکے.مناسب محل کام کرنے کی تعلیم دی ہے.نبی کریم صلی ایم کے مقابلہ میں اور کوئی اعلیٰ نمونہ نہیں مل سکتا کیونکہ آپ کی تعلیم وہی تھی جس پر انسان عمل کر سکتا ہے تو ایسی تعلیم جس پر عمل کرنے سے کوئی تباہی نہ ہو اور اس میں نقص بھی کوئی نہ ہو بلکہ اسپر عمل کرنے سے فائدہ ہی فائدہ ہو تو اگر اس پر کوئی عمل نہ کرے تو اس پر کیسا افسوس ہے.مسلمان اول تو قرآن کو پڑھتے ہی نہیں اگر پڑھیں تو تدبر نہیں کرتے پھر عمل بھی نہیں کرتے.انہیں کوئی دنیاوی بیماری اگر لگ جاوے تو اس کیلئے طبیب تلاش کرتے ہیں اور عمدہ سے عمدہ اور فائدہ مند نسخے تلاش کرواتے ہیں اور وہ جان کو باقی رکھنا چاہتے ہیں.جان کے دو حصے ہیں

Page 29

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۴ء ایک جسم اور دوسرا روح جسم کا حصہ کچھ تو بچپن میں گذر جاتا ہے آگے پھر کوئی ۲۵ - ۳۰ سال ہوش کے رہتے ہیں اور وہی عمدہ حصہ شمار ہوتا ہے ، پھر بڑھا پا آ جاتا ہے افسوس ہے کہ اس مدت قلیل میں انسان اپنی بہتری و بهبودی کیلئے اور اپنے آرام کیلئے کوئی تدبیر نہ کرے.جس انسان کو دیکھو وہ اگر کسی تکلیف میں ہو تو اس کی وجہ قرآن کریم کی مخالفت ہی ہے اور اگر وہ کسی سکھ میں ہے تو اس کی وجہ قرآن کریم پر عمل کرنا ہی ہے.سود کا نظارہ دیکھ لو اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر تم سود سے باز نہیں آتے تو فَأَذَنُوا بِحَرب تین اللہ یہ تو اللہ تعالیٰ سے لڑائی کرنا ہے تو تم پھر اللہ سے لڑائی کیلئے تیار ہو جاؤ بعض لوگ کہتے ہیں کہ سود میں کچھ حرج نہیں ہے اور اس کے بغیر دنیا تباہ ہوتی ہے اور اس کے سوا کام نہیں چل سکتا لیکن قرآن شریف میں تو یہ آیا ہے کہ لاریب فیه یعنی اس کتاب میں ہلاکت کی تعلیم نہیں ہے تو گویا یہ کہنے والے کہ سود کے بغیر کام نہیں چل سکتا اور دنیا ہلاک ہوتی ہے وہ قرآن کریم کی تعلیم کو جھوٹا قرار دیتے ہیں اور ان کو قرآن کریم پر ایمان نہیں ہے.لوگ تجارت اور سود کو برابر بتلاتے ہیں وَاَحَل اللهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرَّبوا ھی حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام ٹھیرایا ہے.اس پر بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ حرمت سود و حلت بیع پر دلیل نہیں دی.حالانکہ جب ڈاکٹر ایک چیز سے منع کرتا ہے تو وہ ضرور مضر ہوگی.اور اگر وہ کسی چیز کو جائز قرار دیتا ہے تو وہ ضرور فائدہ مند ہوگی.پس اللہ جس چیز کو حرام قرار دیتا ہے وہ ضرور ہی ضرر رساں ہوگی پس یہی دلیل ہے.بینکوں کے معاملے کو دیکھ لو اور ان کے دیوالے نکلنے سے معلوم کر لو اس سے بخوبی ثابت ہو جائے گا کہ تجارت اور سود ایک چیز نہیں کیونکہ ایک بینک کے ٹوٹنے سے دوسرے کئی بینک اس وجہ سے ٹوٹ گئے کہ ان کا نی آپس میں سودی لین دین تھا.دوسرے بے اعتباری ہونے پر امانتداروں نے اپنا روپیہ واپس لینا شروع کرتی دیا.اگر کسی تجارتی کوٹھی کو نقصان پہنچتا تو اس کا نتیجہ یہ ہر گز نہ ہوتا بلکہ ایک دکان جاتی رہنے سے بہت سی دکا نیں فروغ پا جاتی ہیں کیونکہ ان کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہ تھا.الغرض سانپ چاہے کیسا ہی خوبصورت ہو اور بچہ اسے پکڑنا چاہے لیکن والدین بچے کو اس بات سے روکتے ہیں اور اسے سانپ کے نزدیک بھی نہیں جانے دیتے.پس خدا جو خالق ہے وہ اپنی مخلوق کو تباہ کیوں ہونے دے.اس نے ہمیں

Page 30

خطبات محمود جلد ۴ ۲۱ سال ۱۹۱۴ء ان اشیاء سے منع کیا ہے جو کہ ہمارے لئے مضر ہیں.مسلمان بہت ذلیل ہو چکے ہیں اب بھی وقت ہے کہ وہ سنبھلیں اور قرآن کریم کو پڑھیں اور اس پر غور و تدبر کریں اور اس پر عمل کریں.جن چیزوں سے اس نے منع کیا ہے وہ ضرور بُری ہیں اور نقصان دہ ہیں اور جن چیزوں کا اس نے حکم دیا ہے وہ اگر چہ بظاہر ہم کو مکر وہ معلوم ہوں لیکن وہ ضرور ہمارے لئے مفید ہوتی ہیں اور وہ خیر سے پر ہوتی ہیں.صحابہ کو ہجرت کا حکم دیا گیا اس وقت گھر بار چھوڑنا اور اعزاء و اقرباء کو چھوڑنا اگر چہ دو بھر معلوم ہوتا ہوگا لیکن بعد میں ان کو جتنے نفعے حاصل ہوئے وہ سب کو معلوم ہی ہیں.جس نے ایک گھر خدا کیلئے چھوڑا تھا اسے ملک دیا گیا اور ی جس نے چند درہم خدا کیلئے دیئے تھے اسے لاکھوں روپے دیئے گئے.چنانچہ ایک صحابی " کا ترکہ ۱۲ کروڑ نکلا.جب ایک شخص نے کہا کہ تم تو دولت کو برا کہا کرتے تھے تمھارے پاس تو کتنی دولت ہے تو اس صحابی نے اسے کہا کہ تم کو کیا معلوم ہے آؤ میرے گھر کا حساب دیکھو انہوں نے جا کر اس سوال کرنے والے کو اپنے گھر کا حساب دکھلایا تو کئی ہزار روپے تو صرف صدقے کا خرچ تھے.اور ان کا اپنے گھر کا خرچ صرف ۲۵ روپے تھا.یہ سب قرآن کریم کی اتباع کا نتیجہ ہے.پس تم بھی قرآن کریم کو پڑھو اور اس پر غور و تدبر کرو اور اس پر عمل کرو تمہیں نفع ہو گا.اللہ کریم سب کو اس کی سمجھ عنایت فرمائے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے.ل البقره: ۲ تا ۴ الفضل ۱۴.جنوری ۱۹۱۴ء) مسند احمد بن حنبل جلد ۶ صفحه ۲۱۶ مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت ۱۳۱۳ھ متی بات ۵ آیت ۴۰،۳۹ ( مفهوما ) البقره: ۲۸۰ حضرت عبدالرحمن بن عوف ه البقرة - ۲۷۶

Page 31

خطبات محمود جلد ۴ ۲۲ (۷) هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ کا صحیح مفہوم (فرموه ۱۶ جنوری ۱۹۱۴ء) سال ۱۹۱۴ء تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نے درج ذیل آیات کی تلاوت کی الم ذَلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ - الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقُتُهُمْ يُنْفِقُونَ - وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ.أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ وَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ اور پھر فرمایا میں نے پچھلے جمعہ میں بیان کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی صداقت معلوم کرنے والوں کو ی یہ ثبوت دیا ہے کہ جو لوگ سچے مذہب کے متلاشی ہیں اور جو راستی کی تڑپ رکھنے والے ہیں وہ تمام تعلیموں کو دیکھیں اور جو ان پر عمل کرنے سے سکھ یاد کھ ملتا ہے اسے معلوم کریں، تو ان تمام تعلیموں میں سے قرآن کریم میں ہی ایسی تعلیم ملے گی جس کے احکام پر چلنے والا اور اس کی نواہی سے رکنے والا ہی سکھ پائے گا اور جو اس کے خلاف کرے گا اسے دکھ پہنچے گا.برخلاف اس کے اور جتنی تعلیمیں ہیں ان پر چل کر انسان سکھ نہیں پاسکتا.یہ کتاب هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ہے.یہ کتاب متقیوں کو ہدایت دیتی ہے.متقی کون لوگ ہیں متقی وہ لوگ ہوتے ہیں جو لوگ ایمان بالغیب رکھتے ہیں اور نمازوں کو قائم کرتے ہیں اور خدا کی دی ہے

Page 32

خطبات محمود جلد ۴ ۲۳ سال ۱۹۱۴ء ہوئی نعمتوں کو اس کے رستے میں خرچ کرتے ہیں اور قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کتا بیں قرآن کریم سے پہلے اُتریں اور جو اس کے بعد الہام ہوں گے ان پر اور قیامت پر ایمان اور یقین رکھتے ہیں.متقیوں کو یہ کتاب راستہ دکھلاتی ہے.اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ یہ کتاب جو پہلے ہی سے متقی ہے اس کو تو راستہ دکھلاتی ہے لیکن دیگر عوام الناس کیلئے پھر کونسی تعلیم ہے جو ان کی راہ نمائی کرے، کتاب تو وہ چاہئیے جو سب کی یکساں راہ نمائی کرے.اس قسم کے اعتراض کرنے والوں نے تدبر سے کام نہیں لیا.اگر وہ سوچتے تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ ہر ایک انسان جب اس سے پوچھا جائے کہ آپ کیا ہیں تو وہ اپنا اعلیٰ سے اعلیٰ دعوی ہی پیش کرے گا نہ کہ پہلے ادنی درجوں کو گنے بیٹھ جائے اور بعد میں بتلائے کہ میں یہ ہوں.مثلاً اگر کوئی کسی تحصیلدار سے سوال کرے کہ آپ کون ہیں تو وہ یہ نہیں کہے گا کہ میں پہلے پٹواری یا گرد اور تھا.پھر نائب تحصیلدار پھر اب تحصیلدار ہوں بلکہ وہ یہی کہے گا کہ میں تحصیلدار ہوں.اسی طرح جب کوئی کسی ڈاکٹر سے سوال کرے کہ آپ کون ہیں تو کیا وہ پہلے یہ کہے گا کہ میں نے پہلے پرائمری پھر مڈل پھر انٹرنس پاس کر کے پھر میں نے ڈاکٹری کی جماعت پڑھی اور اب میں ڈاکٹر ہوں.اسی طرح اگر کوئی ایم.اے سے پوچھے تو وہ پہلے ہی آپ کو ایم.اے بتلائے گا نہ کہ جماعتیں گننے بیٹھے گا.اسی طرح قرآن کریم کی تعلیم ہے یہ ہر ایک کو ہدایت دے سکتی ہے خواہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا یا کسی طرح کا ہو.میدان مذاہب میں اسلام نے بھی اپنے آپ کو پیش کیا ہے.اس پر یہ سوال ہوسکتا تھا کہ تمہاری کیا خصوصیت ہے جو ہم تمہیں اختیار کریں.دکانوں والے اپنی دکانوں کے سامنے سائن بورڈ لگا دیا کرتے ہیں اور وہ اس پر اپنی اپنی خصوصیات لکھ دیتے ہیں.کوئی لکھتا ہے کہ یہاں سے مال عمدہ اور ارزاں ملے گا.کوئی لکھتا ہے یہاں سے دیسی مال مل سکتا ہے.کوئی لکھتا ہے کہ یہاں سے اعلیٰ درجہ کا اور دیر پاولایتی ہے مال ملے گا.غرض اسی طرح ہر ایک کوئی نہ کوئی اپنی خصوصیت لکھ دے گا.گا ہک بھی کسی خصوصیت کی وجہ سے ہی وہاں آئے گا.اسی طرح مذاہب میں جھگڑا ہے.ہر ایک اپنے آپ کو سچا کہتا ہے.اسلام میں کونسی خوبی ہے کہ جو یہ ایک نیا مذہب پیش کیا جاتا ہے.کوئی ایسی خوبی ہونی ضروری ہے جو پہلے مذاہب میں سے کسی ایک میں بھی نہ ہو.اگر پہلے مذاہب اور اسلام میں کوئی فرق نہ ہو تو کسی کو کیا ضرورت ہے کہ

Page 33

خطبات محمود جلد ۴ ۲۴ سال ۱۹۱۴ء وہ اپنا مذہب ترک کر کے اسلام میں داخل ہو.قرآن کریم کے شروع میں ہی اس سوال کو حل کر دیا ہے هُدًى لِلْمُتَّقِينَ تمام مذاہب کی آخری و بات اور آخری معیار یہ ہے کہ وہ انسان کو متقی بنا دیتے ہیں.ہندو ہو یا عیسائی، یہودی ہو یا کوئی اور یہ سب یہی کہتے ہیں کہ ہمیں مان لو تو پاک ہو جاؤ گے.مگر ہم کہتے ہیں کہ اس کا ثبوت کیا ہے.سب مذاہب والے یہی کہیں گے کہ اس کا نتیجہ تمہیں آخرت کو چل کر معلوم ہو جائے گا، فی الحال تمہارے لئے مان لینا ہی کافی ہے.قبول کر لینے کی غرض تو یہ ہے کہ مولیٰ راضی ہو جاوے.آخرت میں جا کر اگر معلوم ہوا کہ یہ راہ جس پر ہم چلتے تھے وہ غلط تھی تو اس وقت پھر کیا فائدہ ہوگا.وہاں سے تو انسان واپس نہیں آسکتا کہ واپس آکر دوسرا صحیح طریق اختیار کر لیوے.قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ میں صرف متقی ہی نہیں بنا دیتا بلکہ میں ہدایت دیتا ہوں اور ایک دروازہ کھول دیتا ہوں جس سے متقی بننے کے ثمرات سے اسی دنیا میں متمتع ہو سکتے ہیں اور پھر متقی سے آگے جو بلند درجات ہیں وہ حاصل ہوتے ہیں.اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی اعلیٰ افسر ہو اور ایک آدمی اس کو ملنا چاہتا ہو.تو اس آدمی کو ایک آدمی تو کہتا ہے اس کے دروازے تک میں پہنچا سکتا ہوں اور دوسرا ایک آدمی ہے جو اسے کہے کہ میں آپ کو اندر اس کے پاس پہنچا سکتا ہوں اور اس سے ملاقات کروا سکتا ہوں.تو وہ ان دونوں میں سے کس کی بات مانے گا وہ اس کی بات مانے گا اور اسی کے ساتھ ہولے گا جو اسے اس کے ساتھ ملا دینے کا وعدہ کرتا ہے اور اندر لے جائے گا.تمام مذاہب کا دعویٰ یہی ہے کہ ہم دروازے تک پہنچا دیں گے مگر اسلام صرف یہی دعوی نہیں کرتا کہ میں دروازے تک پہنچا دوں گا بلکہ وہ اندر لے جانے کا دعوی کرتا ہے اور خدا سے ملا دینے کا وعدہ کرتا ہے.اسلام پر چلنے سے تمہیں اسی دنیا میں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ تم پر راضی ہے.متقی جو اپنی طرف سے تمام نیک اعمال میں کوشش کرتا ہے اور تمام کاموں میں اللہ کی خشیت مدنظر رکھتا ہے، اپنی کوشش ختم ہونے کے بعد پھر یہی باقی رہ جاتا ہے کہ دوسری طرف سے کوشش شروع ہو جاتی ہے.پس اپنی طرف سے انتہائی کوشش کر کے جو اسلام کے دروازے تک پہنچ جاتے ہیں یہ کتاب انہیں محبوب سے ملا دیتی ہے.ہر زمانے میں اسلام میں مجدد اور امام آتے رہے ہیں اور تمام مذاہب میں سے کسی ایک میں ایسا نہیں پایا جا تا کوئی آدمی کسی کی دکان میں جائے تو اگر وہ اپنی مطلوبہ چیز اس دکان میں نہ پائے تو وہ وہاں داخل نہیں ہوتا.

Page 34

سال ۱۹۱۴ء خطبات محمود جلد ۴ ۲۵ جس دکان میں اس کی مطلوبہ چیز پائی جائے گی وہ اسی دکان میں داخل ہوگا.تمام مذاہب نے خدا کے حضور پہنچا دینے سے انکار کیا ہے صرف اسلام کا ہی یہ دعوی ہے کہ وہ خدا کے حضور پہنچا دیتا ہے اس کی تصدیق ہم دیکھتے ہیں ہر زمانے میں ہو رہی ہے اور ہر زمانہ میں خدا کی طرف سے مخلوق کی ہدایت کیلئے اس کے بندے آتے رہتے ہیں.کوئی آدمی اگر ایسا ہے کہ وہ بی.اے کو پڑھا سکے تو وہ الف با بھی پڑھا سکتا ہے.اسی طرح هُدًى لِلْمُتَّقِينَ سے مراد یہ ہے کہ یہ اعلیٰ درجہ تک پہنچا سکتا ہے تو کیا ادنی درجہ کے لوگوں کو ادنی باتیں یہ نہیں سمجھا سکتا اور ان کو ہدایت نہیں دے سکتا.اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو دعوی میں بھی بڑھ گیا اور یہی لوگوں کی غرض کو پورا کرنے والا ہے اسی وجہ سے تمام مذاہب پر فائق ہے.اور بھی بہت سے دلائل ہیں وقت چونکہ تنگ ہے اس لئے آج هُدًى لِلْمُتَّقِينَ پر ہی بس کرتا ہوں.(الفضل ۲۱.جنوری ۱۹۱۴ء) ل البقرة: ۲ تا ۶

Page 35

خطبات محمود جلد ۴ (v) متقی کون ہے فرموده ۲۳.جنوری.بمقام قادیان) سال ۱۹۱۴ء تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نے سورۃ بقرہ کے پہلے رکوع کی تلاوت کی.اور پھر فرمایا:.یہ سب سے پہلا رکوع ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے نزول اور رسول اللہ صلی ایتم کی بعثت کی غرض بیان کی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ کتاب انسان کو متقی بنا کر اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ تک پہنچاتی ہے اور ان دینی و دنیوی ترقیات کی راہ دکھاتی ہے جن پر ایک انسان پہنچ سکتا ہے.چونکہ ہر قوم کے نقطہ خیال سے متقی کی جدا تعریف ہے، ہندوؤں کے نزدیک متقی اور ہے ، یہود کے نزدیک اور عیسائیوں کے نزدیک اور.اس لئے اب بتانا ہے کہ ہمارے نزدیک متقی کون ہے.دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں ایک وہ جن کا ظاہر و باطن یکساں ہے جو خیالات ان کے جی میں ہیں اس کے مطابق ان کا عمل ہے.دوسرے وہ جن کا اندر کچھ ہے اور باہر کچھ، ظاہر کچھ باطن کچھ.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ متقی وہ ہے کہ ہم خواہ کتنے ہی غیب میں ہوں ہم پر اس کا ایمان کامل رہتا ہے اور پھر اور جو چیزیں غیب میں ہیں ان پر ایمان لاتا ہے.اس کے دل میں کھوٹ نہیں ہوتا.پھر وہ نمازوں کو قائم کرتا ہے.یہ تو اپنے خالق سے تعلقات کی نسبت فرمایا.دوسرا تعلق مخلوق سے ہے.سو اس کے لئے ارشاد ہوتا ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اس کو دیا ہے وہ اس میں

Page 36

خطبات محمود جلد ۴ ۲۷ سال ۱۹۱۴ء سے خرچ کرتا رہتا ہے.جس شخص کے مخلوق سے تعلقات عمدہ نہیں اس کے تعلقات اپنے خالق سے بھی اچھے نہیں رہ سکتے.اس لئے قرآن مجید نے دونوں طرفوں کو لیا ہے.جو بڑی لمبی لمبی نمازیں پڑھتا ہے اور خدا کی مخلوق سے بد معاملگی کرتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص اپنے حاکم کے سامنے نہایت موڈب کھڑا ہومگر جب وہ اپنے حاکم کے سامنے سے ہے تو اپنے ماتحتوں پر ظلم کرنا شروع کر دے.یہ شرفاء کا کام نہیں.خدا نے اپنی مخلوق پر شفقت کرنے کو بھی عبادت فرمایا ہے.چنانچہ لکھا ہے کہ قیامت کے دن خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نگا تھا تم نے مجھے کپڑا نہ پہنایا، بھوکا تھا مجھے کھانا نہ کھلایا ، پیاسا تھا مجھے پانی نہیں پلایا، بیمار تھا میری بیمار پرسی نہیں کی.وہ بندے عرض کریں گے کہ یہ آپ کی شان کہاں ہے.اللہ تعالیٰ فرمائے گا میری مخلوق میں سے چھوٹے سے چھوٹے بیمار یا بھوکے پیاسے کے ساتھ ہمدردی کرنا گویا میرے ساتھ ہمدردی کرنا ہے اے خدا نے اپنی بخشی ہوئی نعمتوں کی کوئی حد بندی نہیں کی جو کچھ بھی کسی کو خدا نے دیا ہے چاہیے کہ اس میں سے کچھ اس دینے والے کے نام پر خرچ کرے.اگر علم دیا ہے تو علم میں سے ، مال دیا ہے تو مال میں سے.اس صفت سے متصف انسان دوسروں کے حقوق تلف نہیں کرتا کیونکہ جو اپنے پاس سے بھی کچھ دینے کی عادت رکھتا ہو وہ کبھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ کسی کے مال پر بیجا تصرف کرے.غرض منتقی کے خالق اور مخلوق دونوں سے تعلقات نہایت عمدہ ہوتے ہیں وہ اپنے اندر فرمانبرداری کی روح رکھتا ہے.نہ صرف قرآن مجید پر ہی ایمان رکھتا ہے بلکہ اس سے پہلے جو کتابیں آئیں ان پر بھی ایمان لاتا ہے اور قرآن مجید کے بعد جو وحی نازل ہو اس پر بھی ایمان لانے کو تیار ہے.اس کا اپنا کوئی نفس باقی نہیں رہتا وہ ہر حالت میں خدا کی رضا جوئی کا آرزو مند رہتا ہے.ایسے لوگوں کی نسبت فرماتا ہے کہ یہ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور جو ہدایت پر چلیں گے وہی کامیاب اور منصور ہوں گے.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف ہاتھ میں ہاتھ دینے سے نجات ہو جاتی ہے مگر ایسا ہر گز نہیں عمل کی ضرورت ہے جو خدا کے فضلوں کا جاذب ہے.اللہ کا یہ احسان کیا کم ہے کہ اس نے ہماری ہدایت کیلئے ایسی روشن کتاب عطا فرمائی اس احسان کے شکریہ میں تو اور بھی اس کا فرمانبردار بنا چاہیئے.نہ یہ کہ الٹا خدایا اس کے فرستادہ پر احسان رکھیں کہ ہم ایمان لائے.اگر کوئی رستہ سے بھٹک گیا ہو اور دوسرا اسے سیدھے راستہ پر چلا دے تو اب یہ اس رستہ پر چل کر راہنما پر احسان

Page 37

خطبات محمود جلد ۴ ۲۸ سال ۱۹۱۴ء نہیں جتا سکتا کہ دیکھ میں تیرے بتائے ہوئے رستہ پر چل رہا ہوں بلکہ اسے ممنون ہونا چاہئیے کہ مجھے بھولے ہوئے کو رستہ دکھایا.خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے احسانات ہیں اور ہم پر تو بہت ہی احسان ہیں اس لئے ہمیں چاہئیے کہ عبد شکور بنیں.اللہ تعالیٰ توفیق بخشے کہ ہم سب متقی ہوں اور پھر متقی ہو کر قرآن کی بتائی ہوئی ہدایت پر چلیں اور اس پر چل کر کامیاب ہوں.الفضل ۲۸ - جنوری ۱۹۱۴ ء ) مسلم کتاب البر والصلة باب فضل عيادة المريض

Page 38

خطبات محمود جلد ۴ ۲۹ (۹) سال ۱۹۱۴ء ناقدری کرنے پر نعمتیں چھین لی جاتی ہیں (فرموده ۶ - فروری ۱۹۱۴ء بمقام قادیان) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نے سورۃ بقرہ رکوع اول کی آخری دونی آیتیں پڑھ کر فرمایا: دنیا میں دو ہی قسم کے آدمی ہوتے ہیں ایک تو وہ لوگ ہیں کہ وہ کسی چیز کا انکار کریں تو اپنی کم علمی کی وجہ سے کرتے ہیں اور جب ان کو کوئی خوبی کوئی نیکی اچھی طرح سے سمجھا دی جاوے تو وہ مان لیتے ہیں.دوسرا گر وہ وہ لوگ ہیں جو کہ کسی بات کا انکار اپنی کم علمی کے سبب سے نہیں کرتے بلکہ وہ ایک بغض اور ضد، تعصب اور ہٹ دھرمی کے سبب سے انکار کرتے ہیں.جولوگ کہ کم علمی کی وجہ سے انکار کرتے ہیں ان کو سمجھانا بالکل آسان ہوتا ہے اور وہ ہدایت کے بالکل قریب ہوتے ہیں اور ان کیلئے ہدایت پا جانا بالکل آسان ہوتا ہے.اور دوسرا فریق جو تعصب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے انکار کرتے ہیں ان کیلئے سمجھا نا کبھی با برکت نہیں ہوسکتا اور وہ ہدایت نہیں پاسکتے.ہر ایک نبی کے وقت میں ایسے گروہ پیدا ہوتے رہے ہیں.ایسے لوگ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کیلئے بھی گمراہی کا موجب بنتے ہیں.حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ سے یہ بات شروع ہے.آدم کا اور ابلیس کا مقابلہ ہوا.ابلیس نے کہا انا خَیرٌ مِّنْهُ اے میں آدم سے بہتر اور اس سے اعلیٰ ہوں اور میرا درجہ اس سے بلند ہے.پھر اس کو خدا کی عظمت و جبروت سے ڈرایا گیا.مگر اس نے قبول نہ کیا اور انکار ہی کرتا رہا.آدم بھی اکیلا تھا اور اس کا ابلیس بھی اکیلا ہی تھا.

Page 39

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۴ء پھر آدم علیہ السلام کے قائم مقام بھی بڑھے اور اس کی اولاد نے ترقی کی تو ادھر ابلیس کے بھی قائم مقاموں نے ترقی کی اور وہ بڑھتے گئے پھر جتنا جتنا زمانہ بڑھتا گیا اتنے ہی یہ دونوں تو میں بڑھیں.موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا اور حضرت عیسی کے ساتھ بھی.اور آنحضرت مصلای ایلم کے زمانہ مبارک میں بھی ایک ایسی جماعت پیدا ہو گئی تھی جنہوں نے اس وجہ سے نافرمانی کی کہ ان میں سے ایک آدمی نکل کر سمجھانے کے لئے کھڑا ہو گیا ہے اور وہ نبی بن گیا ہے.ہمارے زمانے میں بھی ایک جماعت نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کیا اور انہوں نے انکار اس وجہ سے نہیں کیا کہ ان کو سمجھ نہیں تھی بلکہ اس وجہ سے انکار کر دیا کہ ان کے دل میں ایک تعصب اور ہٹ دھرمی تھی.جب کسوف و خسوف ماہا رمضان میں ہوئے تو ایک مولوی جو اس وقت مسجد میں ٹہل رہا تھا بار بار کہتا جا رہا تھا.ممن لوگ گمراہ ان ہون گے، ہن لوگ گمراہ ہون گے یعنی اب لوگ گمراہ ہو جائیں گے کیونکہ حدیثوں میں یہ مہدی کا نشان لکھا ہے کیونکہ اس کے زمانہ میں کسوف و خسوف دونوں ماہ رمضان میں اکٹھے ہوں گے.اور اب وہ بات تو سچی ہوگئی اور ایک شخص ایسا بھی موجود ہے جس کا یہ دعویٰ ہے کہ میں مسیح موعود و مہدی معہود ہوں اور اس نے اپنی صداقت کا نشان یہ بھی بتلایا ہوا ہے تو اب لوگ اس کو مان لیں گے.اب اس کی ضد اور تعصب کو دیکھو کہ وہ کہتا ہے کہ لوگ جو مان لیں گے وہ گمراہ ہو جائیں گے.وہ سمجھا ہوا تھا مگر ایک بغض جو اس کے دل میں تھا اس کی وجہ سے اس نے اس ہدایت کا نام بھی گمراہی رکھا.ایک اور مولوی جس سے احمدیوں کا مباحثہ ہوا وہ بہت ہی خلاف باتیں لوگوں کو بتلا رہا تھا.اسے ایک دوسرے آدمی نے اسی کی زبان میں سمجھانا چاہا تو اس نے جواب دیا کہ ہم اگر لوگوں کو تمہاری مخالفت کی وجہ سے ایک کی بجائے دو خدا منوانا چاہیں تو یہ ماننے کو تیار ہیں.ایسے لوگوں کا کام صرف مقابلہ ومجادلہ ہی ہوا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرما یا دو گروہوں میں سے جو لوگ کہ کسی بے علمی کی وجہ سے انکار کرتے ہیں اور جب علم ہو گیا تو مان لیتے ہیں ایسے لوگ کامیاب ہوں گے اور جو لوگ کہ ضد اور تعصب اور ہٹ دھرمی کو کام میں لاتے ہیں ایسے لوگوں کو تیرا ڈرانا یا نہ ڈرانا برا بر ہے، ایسے لوگ ہدایت نہیں پاسکتے.خدا تعالیٰ بڑا غیور ہے.بہت سے انسان با غیرت ہوتے ہیں انسان کی فطرت میں غیرت کے سمجھانے کیلئے یہ رکھا ہے کہ انسان جب کسی کے ساتھ کوئی احسان کرے یا کسی پر خوش

Page 40

خطبات محمود جلد ۴ ۳۱ سال ۱۹۱۴ء ہو کر اس کو انعام دے اور آگے اس کی بے قدری ہو تو اس سے انعام لے لیتا ہے اور پھر اس کو انعام نہیں دیتا.اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَئِن شَكَرْتُمْ لَا زِيدَ نَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لشديد ۳.تم اگر میری نعمتوں کی قدر کرو گے تو میں تم پر انعام زیادہ کروں گا.یہاں تا کید فرمائی ہے کہ میں ضرور تمہاری نعمتوں کو زیادہ کروں گا.یہ فطرت انسانیہ سمجھائی ہے.ہر ایک انسان اپنے نفس میں سمجھ سکتا ہے کہ اگر وہ کسی پر انعام کرے اور وہ آگے سے انعام کی بے قدری کرے تو پھر انسان اس پر کبھی انعام نہ کرے گا اور اسے کچھ نہ دے گا.اگر انسان کسی کو کپڑا دے اور وہ وہیں اس کے سامنے چیر پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دے یا کھانے کی چیز دے اور وہ کتے کے آگے پھینک دے.یا دودھ دیا اور اس نے یے پھینک دیا اور انعام کی بے قدری کی تو پھر اسے انعام دینے کو جی نہیں چاہتا اور انسان پھر دوبارہ اس پر انعام نہیں کرے گا.انسان تو اگر انعام کی بے قدری ہوتے دیکھے تو جس پر انعام کرے اس سے سب انعام چھین لیتا ہے اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کے انعاموں کی بے قدری کرے تو اللہ تعالیٰ چونکہ رب العالمین ہے ہمارے تو حو صلے پست ہوتے ہیں اس لئے سب انعام اس سے چھین لیتے ہیں) اللہ تعالیٰ جس نعمت کی ناقدری دیکھے وہی اس سے چھینتا ہے اور صرف اس کی سزا دیتا ہے جس کا خلاف ہو.انعامات دو قسم کے ہوتے ہیں جسمانی اور روحانی.جسمانی انعامات میں سے آنکھ کو لے لو.جو نص کہ آنکھ سے کام نہ لے اور اسے استعمال میں نہ لائے تو آنکھ نا کارہ ہو جاتی ہے اور تباہ ہو جاتی.ہے کی پھر وہ کبھی کام نہیں دے سکتی.بعض ہندو لوگ ہاتھوں کو سکھا دیتے ان سے کام نہیں لیتے اور ان کو یونہی کھڑار کھتے ہیں تو وہ ہاتھ سوکھ کر سکتے ہو جاتے ہیں.غرض انسان جس عضو سے کام لیوے وہ ترقی کرتا ہے اور جسے بیکار چھوڑ دے وہ نکتا ہو جاتا ہے.جس طرح انسان کے ظاہری اعضاء کے ساتھ معاملہ ہے ایسے ہی روحانی اعضاء کا معاملہ ہے.ہر ایک عضو کے دو کام ہوتے ہیں روحانی اور جسمانی.اگر کوئی آدمی عقل سے کام نہ لے تو اس کی عقل ماری جاتی ہے اور جو حافظہ سے کام نہ لے اس کا حافظہ نکما ہو جاتا ہے.ایسے ہی جو شخص دانائی سے کام نہ لے تو اس کا بھی یہی حال ہوگا.اسی طرح اگر کوئی شخص قرآن کریم کو نہ پڑھے اور اگر وہ قرآن کریم کی ایک آیت کو بھی غور سے نہ دیکھے اور اسے سمجھنے کی کوشش نہ کرے تو وہ روحانی معاملات کے سمجھنے سے قاصر رہتا ہے.ایسے لوگ جو قرآن کریم کے سمجھنے میں اپنے

Page 41

خطبات محمود جلد ۴ ۳۲ سال ۱۹۱۴ ء افکار سے کام نہ لیں اور اس کو سمجھنے کی کوشش نہ کریں تو ایسے لوگوں کے دلوں پر مہبر ہو جاتی ہے اور وہ کچھ سمجھ نہیں سکتے.اور جس طرح ظاہری اعضاء کو کام میں نہ لایا جائے تو وہ بے کار ہو جاتے ہیں ایسے ہی ان کی دل کی آنکھوں پر پردے پڑ جاتے ہیں اور ان کے دل کی بینائی ماری جاتی ہے اور بالکل ضائع ہو جاتی ہے اور ان کے کانوں میں بوجھ پڑ جاتے ہیں وہ کچھ نہیں سُن سکتے.اور ان کو سزا دی جاتی ہے اور انہیں سخت عذاب ہوگا.اور جو ایمان لے آتا ہے اور ماننے اور ہدایت کو قبول کرنے کیلئے تیار رہتا ہے اُسے تو اور زیادہ انعام ملتے ہیں اور وہ کامیاب و مظفر و منصور ہوتا ہے.اور جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی نا قدری کرتا ہے اور وہ کفر کرتا ہے تو اس سے وہ نعمتیں چھین لی جاتی ہیں اور اسے عذاب ملتا ہے.ایسے منکر جو بغض سے کام نہ لیں ان کیلئے تو ہدایت کے رستے کھلے ہوتے ہیں.یہ تو منکرین قرآن کیلئے ہے جو شخص کہ قرآن کریم کی ایک آیت کا بھی انکار کرتا ہے تو جس طرح اگر کوئی ایک عضو کو کام میں نہ لائے تو نامی کارہ ہو جاتا ہے ایسے ہی وہ ایک آیت کا انکار کرنے والا بھی تمہیں چاہیئے کہ اس کی قدر کرو.قرآن کریم کو پڑھو اور اس پر غور وفکر کرو.اگر کوئی ایک آیت کا بھی انکار کرتا ہے تو اس کے دل کی بینائی ماری جاتی ہے.مومن کو ہر وقت ہوشیار رہنا چاہئیے اور کوشش کرنی چاہیئے کہ انکار کی حالت دور ہو اور ہر عضو سے مناسب کام لینا چاہئیے.ایسانہ ہو کہ کہیں ناکارہ ہو جا ئیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو تو فیق عطا فرمائے.الفضل ۱۱.فروری ۱۹۱۴ء) الاعراف: ۱۳ سنن الدار قطني الجزء الثانی صفحہ ۶۵ مطبوعہ قاهره ۱۹۶۶ء ابراهیم : ۸

Page 42

خطبات محمود جلد ۴ ۳۳ (1.) سال ۱۹۱۴ء منافق لوگوں سے پر ہیز واجب ہے فرموده ۱۳.فروری ۱۹۱۴ء بمقام قادیان) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نے سورۃ بقرہ رکوع دوم کا ایک حصہ پڑھ کر فرمایا کہ:.اللہ تعالیٰ نے دو گروہوں کا ذکر پہلے رکوع میں بیان فرمایا ہے جو قرآن کریم کے نزول کے وقت ہوئے تھے.ایک وہ گروہ جو ایمان لے آئے اور دوسرا گر وہ جنہوں نے نہ مانا.پھر ان کا نتیجہ بیان فرمایا اور بتلایا کہ ان کو کیا اجر ملے گا.فرمایا کہ جنہوں نے مان لیا وہ تو کامیاب اور مظفر اور منصور ہو گئے اور جنہوں نے نہ مانا ، ان کو عذاب عظیم ہوگا اور وہ تباہ ہو جائیں گے.اب فرمایا کہ ایک گروہ اور بھی ہے جو ان دونوں گروہوں میں سے اپنے آپ کو الگ بتاتا ہے.مگر قرآن کریم نے ان کو دوسرے گروہ میں شامل کیا ہے.وہ اپنے مونہوں سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے.ہم نے اللہ کو مان لیا اور یوم آخرت کو بھی ہم مانتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے لیکن در حقیقت وہ مومن نہیں.ان کا اندرونہ و بیرو نہ ایک نہیں ہے.وہ منہ سے کچھ کہتے ہیں اور ان کے دلوں میں گند بھرا ہوا ہے.ایسے لوگوں کا منہ سے اقرار کرنا نفع رساں نہیں ہے.اور یہ مومن نہیں ہیں بلکہ یہ بھی منکرین میں سے ہیں اور انہی میں شامل ہیں.ایسوں کی اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں ہے.تو یہ ایک تیسرا گروہ پیدا ہو گیا.وہ اپنے منہ سے ایمان کا اقرار کرتے ہیں اگر ان کے دلوں میں بھی وہی ہو جو وہ منہ سے کہتے ہیں تب تو ٹھیک ہے مگر وہ ایسے نہیں اس لئے مومنین کے ساتھ شامل نہیں ہو سکتے.انہوں نے اللہ کو

Page 43

خطبات محمود جلد ۴ ۳۴ سال ۱۹۱۴ء چھوڑ دیا اور مومنین کو چھوڑ دیا اور اب سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم ان کو ہلاک کر دیں گے.یہ ایسا ہر گز نہیں کر سکتے بلکہ انہوں نے اپنی ہی جانوں کو ہلاکت میں ڈال دیا لیکن یہ سمجھ نہیں سکتے اور ان کو معلوم نہیں ہوتا.ہر زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسوں سے تمہارا کوئی تعلق نہیں.وہ خدا کو بھی اور مومنوں کو بھی چھوڑتے ہیں ان کے دلوں میں ایمان نہیں اور نہ ہی ان کو حقیقی طور پر خدا کا ڈر ہے.جس شخص کے دل میں حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ کا ڈر اور اس کی عظمت ہو تو وہ اوروں سے نہیں ڈرتا.ان منافق لوگوں کے دل میں لوگوں کا ڈر ہے.یہ سمجھتے ہیں کہ اگر فریقین سے ہم تعلق نہیں رکھیں گے تو ہم دکھوں سے محفوظ نہیں رہ سکتے.حالانکہ انسان کو ہمیشہ اس بات کا خیال رہتا ہے کہ کسی ایسے سے اس کی عداوت یا لڑائی نہ ہو جو اس کے آقا کا دوست ہو یا آقا اس کی عداوت کی وجہ سے ناراض ہو.بلکہ ایسے موقعہ سے حتی الوسع انسان بچتا ہے اور اس شخص سے دوستی رکھتا ہے جو اس کے آقا کا دوست ہو اور آقا کے دشمن سے یہ دشمنی رکھتا ہے.انسان تو انسان کتے بھی ایسا ہی کرتے ہیں.جن لوگوں کو یہ دیکھتے ہیں کہ ہمیشہ ہمارے مالک کے پاس آتے ہیں اور اس کے دوست ہیں ان کو تو کچھ نہیں کہتے اور جس کو یہ دیکھیں کہ یہ کبھی ہمارے مالک کے پاس نہیں آیا تو وہ اگر آوے تو اسے بھو سکتے ہیں اور اسے کاٹنا چاہتے ہیں.جب کتنے کا یہ حال ہے کہ جب اس کے مالک سے کسی کا تعلق ہو تو وہ اسے نہیں کا شتا تو جب انسان اللہ تعالیٰ سے جو خالق و مالک اور احکم الحاکمین رب العالمین ہے اپنا تعلق پیدا کر لے گا تو ضرور وہ ہر بلا سے محفوظ رہے گا اور اسے کوئی تکلیف نہ ہوگی اور اسے کسی موذی چیز سے ایذاء نہ پہنچے گی.حضرت مسیح موعود کو الہام ہوا کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے“ جب طاعون پڑی تو اس وقت سے پہلے یہ الہام آپ کو ہوا تھا.پہلے آپ کو دکھلایا گیا تھا کہ طاعون اس طرح تباہ کرے گی اور اس طرح نافرمانوں کو ہلاک و برباد کرے گی.اس سے انسان کو ڈر ہوسکتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ ہمیں بھی اس سے گزند پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے یعنی ہم تمہیں طاعون سے بچاویں گے بلکہ تمہارے غلاموں اور ان کے غلاموں کی بھی حفاظت کریں گے تو جب حاکم راضی ہو تو ی ماتحت خود بخو د راضی ہو جاتا ہے.اس پر غور کرنے سے کھلتا ہے کہ کیونکر انسان تمام قسم کے خوفوں سے محفوظ

Page 44

خطبات محمود جلد ۴ ۳۵ سال ۱۹۱۴ء رہ سکتا ہے.جو ایسا نہیں کرتے ان کو خدا تعالیٰ پر پورا پورا ایمان نہیں ہے.نبی کریم صلی سی ایم نے جب اپنا دعویٰ کیا تو سب سے زیادہ خطر ناک بات جس کی لوگوں نے سخت مخالفت کی وہ لَا اِلهَ إِلَّا الله کا پیش کرنا تھا.وہ لوگ مُحمدٌ رَسُولُ اللہ کو ماننے کو تیار تھے مگر لا إلهَ إِلَّا اللہ کو وہ نہیں مانتے تھے.چنانچہ وہ لوگ آپ کے پاس آئے اور آکر عرض کیا کہ اگر آپ کو حکومت کا شوق ہے تو ہم آپ کو اپنا بادشاہ بنانے کو تیار ہیں اور اگر آپ کو مال کی خواہش ہے تو ہم اتنا مال جمع کر سکتے ہیں جتنا تم چاہو اور اگر شادی کرنا چاہوتو ہم تم کو خوبصورت سے خوبصورت بیوی لا دیتے ہیں اور اگر تم بیمار ہو تو آپ کا علاج کروانے کو تیار ہیں.تو نبی کریم سنای ایتم نے فرمایا کہ سورج اور چاند اگر میرے دائیں بائیں لا کر رکھ دیئے جاویں تو بھی میں لا إله إلا اللہ کی تعلیم سے نہیں رک سکتا ہے.ان لوگوں کی مخالفت صرف لا إلهَ إِلَّا الله کے سبب سے تھی.وہ بتوں کے پجاری تھے اور بت بنا بنا کر بیچا کرتے تھے اور وہ ان کے رزق کا ایک ذریعہ بنے ہوئے تھے.وہ اس لا اله الا اللہ کی تعلیم سے بڑھ کر کوئی اور خطرناک بات نہیں سمجھتے تھے.وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے اس تعلیم کو مان لیا تو ہمار استیا ناس ہو جائے گا تو جس شخص کا یہ حال ہے وہ کیوں مخالفت نہ کرے گا.تو ایسی حالت میں جبکہ نبی کریم صلی یا کہ تم اکیلے تھے اور باوجود اس کے کہ تمام عرب مخالف تھا، آپ اس کہنے سے نہیں رکے اور آخر کار کامیاب و مظفر ومنصور ہو گئے.پس جو شخص پھر ایسا ہو جاوے لوگ اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے.اور جو شخص ایسا نہیں ہے اور وہ جماعت میں داخل نہیں ہوتا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا جب تک کہ وہ بیعت کر کے جماعت میں داخل نہ ہو جاوے اس قطع تعلق کا نقصان ان کی اپنی جانوں پر ہے اور کسی کو اس کا نقصان نہ ہوگا.ظاہری دشمن کا مقابلہ آسان ہوتا ہے کھنچی ہوئی تلوار کا مقابلہ انسان آسانی سے کر سکتا ہے مگر زہر کی پڑیا کا مقابلہ نہیں کر سکتا.تلوار سے تو وہ بھاگ سکتا ہے اس کا مقابلہ کر سکتا ہے مگر زہر کی پڑیا کا اس کو کچھ پتہ نہیں لگ سکتا.اسی طرح منافق انسان ہے وہ ایک زہر کی پڑیا کی طرح جس کو انسان نہیں جانتا کہ میرے کھانے میں ملی ہوئی ہے.وہ کہتے ہیں کہ ہم مصلح ہیں اور ہم صلح جو اور صلح گن ہیں اور ہم نے دونوں فریق سے صلح رکھی ہوئی ہے.فسادی تو تم ہو کہ خواہ مخواہ ایک جماعت کو الگ کر کے لوگوں سے لڑائی کرتے ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ سخت مفسد ہیں.یہ آپس میں لڑائی اور فساد ڈلواتے

Page 45

خطبات محمود جلد ۴ ۳۶ سال ۱۹۱۴ء ہیں اور پھر دونوں فریق سے صلح رکھنے کیلئے ان کو طرح طرح کے حیلے کرنے پڑتے ہیں.مخالفوں کے پاس گئے تو مسلمانوں کی باتیں ان کو بتلاتے رہے اور جب مسلمانوں کے پاس آئے تو مخالفوں کی باتیں ان کو بتانی ہے پڑتی ہیں.اور اگر وہ ایسانہ کریں اور ہر ایک فریق کے سامنے اس کی خیر خواہی کا اقرار نہ کریں تو صلح کس طرح رکھ سکیں اس لئے ان کو ایک فریق کی بات ضرور دوسرے فریق کے سامنے ظاہر کرنی پڑتی ہے جو دونوں گروہوں سے تعلق رکھنا چاہے.ضرور ہے کہ وہ آپس میں فساد بھی ڈلوا دے اور آخر کار پھر ان کو اس بات کا نتیجہ بھگتنا پڑتا ہے.ان کو بیعت کیلئے کہا جاوے تو کہتے ہیں یہ احمق ہیں ہم جب مانتے ہیں تو بیعت کرنے کی کیا ضرورت ہے صرف ماننا ہی کافی ہے.سُفَهَاء سَفة عربی میں بکھیرنے کو کہتے ہیں جو چیز بکھر جائے وہ کمزور ہو جاتی ہے.وہ کہتے ہیں کہ یہ سفیہ ہیں ، انہوں نے اپنے مال ، اپنے گھر بار اور رشتہ داروں کو چھوڑ دیا.ہم نے دیکھوا اپنا مال بچا یا ہوا ہے.یہ سُفَهَاء ہیں، دیکھو انہوں نے اپنے مالوں کی حفاظت نہ کی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہی سُفَهَاء ہیں اور یہی کمزور ہیں.مومن بڑھ جاویں گے اور کامیاب ہوں گے.یہاں قرآن کریم نے صاف صاف فرما دیا ہے کہ وہ مومن نہیں ہیں بلکہ کفار میں شامل ہیں وَإِذَا خَلَوْا إلى شَيطِي م س دیکھو شیاطین کی نسبت ان کی طرف کی وہ باتیں بنا بنا کر ان کو خوش رکھنا چاہتے ہیں.اللہ تعالی فرماتا ہے اللهُ يَسْتَهْزِئُ بہم ہے عربی کا قاعدہ ہے کہ کسی کے جرم اور اس جرم کی سزا کا ایک ہی لفظ ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ ان کی ہنسی کی ان کو خوب سزا دے گا اور انہیں ان کی شرارت کا مزا چکھائے گا اور ان کو برا بدلہ ملے گا، ان کی تجارت بڑی ہے وہ ہدایت یافتہ نہ ہوئے.یہ گروہ منافقین کا ہے.اس زمانہ میں بھی ایک ایسا گروہ پیدا ہو گیا ہے جو احمدیوں کے پاس آتے ہیں تو ان کے پاس آکر حضرت صاحب کی تعریف کرتے ہیں.وہ بیعت نہیں کرتے کیونکہ انہوں نے بیعت کو معمولی سمجھ رکھا ہے.یہ کافر ہیں ان کو خدا پر یقین نہیں اور اس کی طاقتوں پر ایمان نہیں ہے.اگر ان کو خدا پر ایمان ہوتا تو یہ ایسا بھی نہ کرتے.یہ منافق ہیں مومن نہیں ہیں ان کو سخت سزا ملے گی.اللہ سے زیادہ سچا کوئی نہیں.ایک اخبار والے کو ہمارے احمدیوں میں سے ایک نے خط لکھا کہ مجھے بھی اپنی انجمن میں شامل کرلو.تو اس نے ان کو جواب دیا کہ تم لوگ پہلے ہی بڑا کام کر رہے ہو تم سے بڑھ کر کوئی خدمت دین نہیں

Page 46

خطبات محمود جلد ۴ ۳۷ سال ۱۹۱۴ء کر رہا لیکن جب اس کے معتقدوں نے اسے تنگ کیا تو وہ یہ اشتہار دینے پر مجبور ہوا کہ میں ان احمد یوں کے عقیدے کو بالکل پسند نہیں کرتا اور میں کسی مسیح و مہدی کا قائل نہیں.ایسے لوگوں سے پر ہیز واجب ہے.یہ لوگ تفرقہ و فساد ڈلوانا چاہتے ہیں ان سے سوائے اس کے اور کوئی نفع نہیں حاصل ہوتا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو محفوظ رکھے.ا تذکرہ صفحہ ۳۹۷.ایڈیشن چہارم الفضل ۱۸.فروری ۱۹۱۴ء) سیرت ابن هشام (عربی) جلد ۱ صفحه ۲۸۵ مطبع المصطفی البابی الحلبی مصر ١٩٣٦ء البقرة : ١٥ البقرة : ١٦

Page 47

خطبات محمود جلد ۴ ۳۸ (11) سال ۱۹۱۴ء اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے دو گروہ بیان فرمائے ہیں (فرموده ۲۰ فروری ۱۹۱۴ء بمقام قادیان) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نے درج ذیل آیات کی تلاوت کی مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمتٍ لَّا يُبْصِرُونَ.صُهُم بُكْمٌ عُمَى فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ.أَوْ كَصَيِّبٍ مِّن السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي أَذَانِهِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ وَاللهُ مُحِيطٌ بِالْكَفِرِينَ يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ كُلَّمَا أَضَا لَهُمْ مَّشَوا فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ إِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ اور پھر فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے دو گروہ بیان فرمائے ہیں.پچھلی آیات میں تو فرمایا تھا کہ منافق کون ہوتے ہیں.اب یہاں مثال دے کر سمجھایا ہے.ایک منافق تو وہ ہوتے ہیں جو دل سے تو منکر ہوتے ہیں مگر ظاہر یہ کرتے ہیں کہ ہم مومن ہیں.اور دوسرے وہ ہیں جو دل سے تو سچا یقین کرتے ہیں اور مانتے ہیں لیکن لوگوں سے ڈر کے مارے ظاہر نہیں کرتے اور عمل کی طاقت نہیں رکھتے.وہ لوگوں سے ڈر کر گھبرا جاتے ہیں.مال و جان کے خوف کے مارے ایمان ظاہر نہیں کر سکتے.

Page 48

خطبات محمود جلد ۴ ۳۹ سال ۱۹۱۴ء نبی کریم صلی الی الہ وسلم جب مدینہ شریف میں تشریف فرما ہوئے تو مدینہ کی حالت بہت خطرناک تھی.مدینہ والوں نے جب باہر کے دشمنوں کو دیکھا اور اپنی حالت کو دیکھا تو انہوں نے اتفاق کی غرض سے عبد اللہ بن ابی کو اپنا سردار بنانا چاہا تھا.وہ بالکل تیار ہی تھے کہ اسے سردار بنا لیں تو نبی کریم صل للہ الہی تم مدینہ پہنچ گئے.ان کو ایک بنا بنا یا بادشاہ ہل گیا جس نے ان کو خانہ جنگیوں اور آئے دن کے فسادوں کی بجائے محبت و پیار کی ایک اعلیٰ چٹان پر کھڑا کر دیا اور ان کو اس کے رسے میں جکڑ دیا تو وہ خدائی بادشاہ کی بجائے اور کسی کو کیوں بادشاہ بناتے.اس لئے پھر اس سے عبداللہ بن اُبی کو بڑا صدمہ ہوا.۲ اس نے بھی لوگوں کو ادھر دیکھ کر آپ کی اطاعت کر لی اور چونکہ وہ تاب مقابلہ نہیں رکھتا تھا اس لئے اس کے ہم عقیدہ لوگ بھی بظاہر اس کے ساتھ ہی ہو گئے مگر بہ باطن انہوں نے حکومت کے حصول کیلئے اردگرد کے یہود کو ابھار نا شروع کیا.اور کفار قریش کو بھی جوش دلانا شروع کیا اور کہا کہ باہر سے تم حملہ آور ہونا اور اندر سے ہم ان کی جڑ اکھاڑیں گے اور اس طرح مل ملا کر انہوں نے مسلمانوں کو تباہ کر دینے کا منصوبہ کیا.باہر سے یہود اور کفار نے حملے کرنے شروع کر دیئے ، مسلمان کل ہزار ڈیڑھ ہزار تھے ، انہوں نے سوچا تھا کہ ان کو اس طرح تباہ کر سکیں گے.لیکن جو راہ انہوں نے اپنے نفع کیلئے سوچی تھی وہی ان کیلئے وبال جان بن گئی.وہ چونکہ اپنے آپ کو مسلمان بتلاتے تھے تو اب گروہ کفار کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے برخلاف جنگ کرتے.کفار جب ہار جاتے تو آخر ان کا نفاق کھل جاتا.اور ان سے سوال کیا جا تا کہ تم جو اپنے آپ کو مسلمان بتلاتے تھے تو تم ان کے ساتھ کیوں مل گئے.جنگ اُحد میں عبداللہ بن ابی تین سو آدمیوں کو لے کر اس خیال سے واپس ہو گیا کہ مسلمانوں نے تو بہر حال شکست کھانی ہی ہے اور یہ مارے جائیں گے اس لئے ان کا ساتھ مت دو.اس موقع پر ان کا نفاق کھل گیا.مسلمان باوجود زخمی ہونے کے پھر بھی معت ابلہ پر آگئے اور کفار کو شکست دی.ان کو بجائے فائدہ کے نقصان اٹھانا پڑا.اور منافقوں نے جو مسلمانوں کو تباہ کرنے کیلئے آگ جلائی تھی انہوں نے اس کو خوب بھڑ کا یا.اور وہ روشن ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے اس آگ کو بجھا دیا اور ان کے نور اسلام کو ( جو تھوڑا بہت ان میں تھا لے گیا.ان منافقوں کی منافقت ظاہر ہو گئی اور جس عارضی روشنی سے وہ اپنا بچاؤ کرتے تھے وہ بھی جاتی رہی اور وہ اندھیروں میں آگئے.اب انہوں نے اپنے اوپر سے وہ الزام ہٹانے کیلئے اور اس بات کو چھپانے 3

Page 49

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۴ء کیلئے طرح طرح کے حیلے اور بہانے شروع کر دیئے.انہوں نے اپنی منافقت کو چھپانا چاہا اور سوچنے لگے کہ کیا بات بناویں اور ان کو کیا جواب دیں کہ جس سے ان کی سرخروئی ہو اور یہ داغ ان پر سے مٹ جاوے.مگر جس کا نہ کان ہو نہ زبان ہو نہ آنکھ ہو کچھ بھی نہ ہو اس کا کیا حال ہوگا.یہی کہ وہ راستہ سے بھٹک جاوے گا اور تباہی میں گرے گا.سنے والا تو کسی پکارنے والے کی آواز سن کر ہی راستہ پر چل پڑا.اور دیکھنے والا اپنی آنکھوں سے کام لے کر چلے گا.لیکن جس کا تینوں میں سے کچھ بھی نہ ہوا سے تو نہ پکارنے والے کی پکار فائدہ دے سکتی ہے نہ راستہ دکھلانے والے کا راستہ دکھلا نا کام آسکتا ہے وہ تو بہر حال تباہی سے نہیں بچ سکتا اور اس سے لوٹ نہیں سکتا.وہ تو اس میں ہی گرے گا اس لئے فرما یا صُمْ بُكْمٌ عُمى فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ.دوسرے وہ جو کہ دل سے مانتے ہیں لیکن اپنا ایمان ظاہر نہیں کر سکتے یا مال کے ڈر سے وہ کچھ نہیں کرتے.ادھر چندوں کا حکم دیا گیا تو یہ لوگوں سے ڈر گئے اور نہ دیا.ادھر دشمن سے مقابلہ کرنے کا حکم دیا گیا لیکن یہ گھبرا کر بھاگ گئے یا مقابلہ ہی نہ کیا یا گئے ہی نہیں.ایسوں کی مثال دی او گصیب من السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمتْ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ بادل جب آتا ہے تو سورج کی روشنی کو ڈھانپ لیتا ہے.تو عقلمند لوگ اس سے ناخوش نہیں ہوتے بلکہ خوش ہوتے ہیں کیونکہ اس سے پھر بارش ہوگی اور زمین سرسبز و شاداب ہوگی.جو عقلمند لوگ ہوتے ہیں وہ تو اپنی کھیتیوں کو پانی دینے کیلئے تیاری کر لیتے ہیں لیکن بیوقوف اپنی کھیتی کو کاٹ کر اس سے پانی نکال دینے کا سامان کرتے ہیں.اسی طرح انبیاء کا معاملہ ہے جب نبی آتا ہے تو دنیا میں جو فیضان جاری ہوتا ہے وہ رک جاتا ہے جیسا کہ بادل کے سبب سورج کی روشنی رک جاتی ہے لیکن جب وہ بادل برستا ہے تو پھر وہ روشنی بہت نفع مند ہوتی ہے.اور اگر بر خلاف اس کے بادل نہ ہوں تو وہی سورج ان کیلئے ہلاکت کا موجب بن جاوے اور لوگ تباہ ہو جائیں.اسی طرح انبیاء کے آنے پر جو فیضان رک جاتے ہیں وہ پھر اس رحمت الہی کے ساتھ دگنے ہو ہو کر لوگوں کو ملتے ہیں.انبیاء سے پہلے لوگ عیاش ہو جاتے ہیں.ان کو ان کی غلطیوں اور خطا کاریوں پر متنبہ کیا جاتا ہے.وہ نہیں رکتے تو طرح طرح کی بلائیں نازل ہوتی ہیں جن سے بظاہر تو لوگ تکلیف محسوس کرتے ہیں اور ان کو دکھ معلوم ہوتا ہے مگر سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں اور ایمان لا کر ان دکھوں سے رہائی پاتے ہیں اور وہ مصیبتیں ان کیلئے رحمت بن جاتی ہیں.پس انبیاء کی آمد کا معاملہ بادل کی

Page 50

خطبات محمود جلد ۴ ۴۱ سال ۱۹۱۴ء مثال دے کر سمجھایا کہ کسان سمجھتا ہے کہ میرا اس بادل سے فائدہ ہے تو وہ اپنی زمین کیلئے جلد جلد سامان تیار کرتا ہے اور پانی کو روکنے کا انتظام کرتا ہے.لیکن جو بے سمجھ زمیندار ہو وہ اپنی زمین کے بند توڑ دیتا ہے کہ پانی اس کی زمین میں نہ ٹھہرے.بعض سمجھدار تو ہوتے ہیں لیکن وہ بجلی سے ڈرتے ہیں.اس لئے باہر نہیں نکلتے اور اپنی زمین کا انتظام نہیں کرتے حالانکہ کڑک سے پہلے وہ بجلی گر چکی ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے والله مُحیط بالکفِرِینَ.فرمایا ان سے مت ڈرو! ہم ان کو تباہ کر دیں گے.ڈرے تو کوئی اس سے جس کے بیچ جانے کا اندیشہ ہو لیکن ہم نے ان کو تباہ ہی کر دینا ہے تو تم پھر ان سے کیوں ڈرتے خدا کی باتیں تو ہو کر رہتی ہیں.کانوں میں انگلیاں ڈالنے سے کیا فائدہ.غرض ان دو مثالوں میں علمی اور عملی منافقوں کی حالت کا نقشہ دکھایا ہے.پہلوں کو تو ہم بُكْم غم فرمایا ہے کیونکہ ان میں ایمان ہی نہیں.اور دوسروں کیلئے يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ آیا.کیونکہ ان کی آنکھوں میں نور تو ہے مگر وہ اس سے کام نہیں لیتے.انہوں نے اگر اپنی آنکھوں سے کام نہ لیا تو جس طرح اگر کسی عضو سے کام نہ لیا جاوے تو وہ بیکار ہو جاتا ہے.ایسے ہی ان کی آنکھیں اچک لی جائیں گی اور بے کار کر دی جائیں گی اور ان کی بینائی مار دی جائے گی.مومن کو ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہیئے.اور گھبرانانہ چاہیئے.مومن کی اللہ تعالیٰ خود مددکرتا ہے.پچھلے وقتوں میں تو صرف کمزور آدمی ہی نفاق کرتے تھے لیکن اب اس وقت میں بڑے بڑے بھی نفاق کرتے ہیں.اس لئے بہت خطرناک وقت ہے.تم مومن بنو اور ایسی باتوں سے بچو کیونکہ مومن کو ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہیئے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو محفوظ رکھے.البقرة: ١٨ تا ٢١ ۲۱ الفضل ۲۵ فروری ۱۹۱۴ ء ) بخاری کتاب المرضى باب عيادة المريض راكبًا وماشيًا سے سیرت ابن هشام عربی جلد ۳ صفحه ۶۸ مطبع مصطفی البابی الحلبی مصر ١٩٣٦ء

Page 51

خطبات محمود جلد ۴ ۴۲ (اله) سال ۱۹۱۴ء اپنے رب کے فرمانبردار بنو (فرموده ۶.مارچ ۱۹۱۴ء بمقام قادیان) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نے سورۃ بقرہ کے رکوع سوم کی پہلی چند آیات پڑھ کر فرمایا:.پچھلے دور کوع میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کی غرض اور اس کی ضرورت اور قرآن کا دعوئی بتلا ہے اور یہ بھی بتلایا ہے کہ جو لوگ اس کے احکام پر عمل کریں گے ان کو ان کے اجر ملیں گے اور ان کو انعام دیا جائے گا.اور جولوگ انکار کریں گے اور اس کے احکام پر عمل نہ کریں گے ان کو سزا دی جاوے گی اور انہیں عذاب ہو گا.اور ایک فرقہ جس کے افراد ہمت سے کام نہیں لیتے اور وہ نفاق سے کام لیتے ہیں ان کو بھی کفار کے ساتھ شامل کیا ہے.وہ بظاہر اپنے آپ کو کفار سے الگ بتلاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو کفار کے ساتھ شامل کیا ہے.اب جبکہ بظاہر تین قسم کے گروہ ہو گئے تو اللہ تعالیٰ بتلاتا ہے کہ تم کو کونسا طریق اختیار کرنا چاہیئے.انسان کو کسی نہ کسی کی عبادت کرنی ضروری ہوتی ہے.انسان کو ضرور کسی کی اطاعت کرنی پڑتی ہے.دنیا میں کوئی ایسا نہ ملے گا جو کسی نہ کسی کی اطاعت میں نہ ہو.بچپن میں آدمی اپنے والدین کی اطاعت کرتا ہے.اگر ان کی اطاعت نہ کرے تو اس کی تربیت اچھی نہیں ہوگی اور جوانی میں استاد کی اطاعت کرنی ہوتی ہے.اس طرح بڑے ہو کر آدمی کو حکومت کی فرمانبرداری کرنی پڑتی ہے.اگر حکومت کی اطاعت نہ کی جائے گی تو آدمی عمدہ شہری نہیں

Page 52

خطبات محمود جلد ۴ ۴۳ سال ۱۹۱۴ء ہو سکتا.علاوہ ازیں انسان کو اپنے نفس کی اطاعت کرنی پڑتی ہے اور دوستوں کی اور بیوی بچوں کی.بعض دفعہ بچے ایک بات کرنے کیلئے کہتے ہیں اگر چہ اس کے کرنے کو جی نہ چاہے مگر مجبورا انسان کو ایسا کرنا پڑتا ہے بھائیوں کی بھی بات ماننی پڑتی ہے.جب یہ بات ہے کہ انسان کو کسی نہ کسی کی اطاعت ضرور کرنی پڑتی ہے تو بہتر یہی ہے کہ انسان اعلیٰ ہستی کی فرمانبرداری کرے.اور جب کسی نہ کسی کی خدمت کرنی ضروری ہو تو یہی چاہیئے کہ انسان اعلیٰ درجے کے آقا کی خدمت کرے اور ایک اعلیٰ ہستی کے فرمانبردار بنیں يَايُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمْ لا فرمانبردار بنو.فرمانبرداری تو ہر ایک انسان کر لیتا ہے ہے.یہاں بتلایا ہے کہ تم اس کے فرمانبردار بنو جو تمہارا رب ہے.وہ محسن ہے اس نے تمہیں پیدا کیا ہے وہ صرف کسی تھوڑی دیر کیلئے تمہارا رب نہیں ہے بلکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے.اس وقت سے لے کر ہر وقت وہ تمہاری پرورش کرتا ہے.پھر وہ رب بھی کیسا ہے ربِّكُم تمہارا رب ہے.انسان ایسے آقا کو اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے جو انعام دینے کی بھی طاقت رکھتا ہو.اس لئے فرمایا کہ رب کی اطاعت کرو وہ تمہیں دے گا.جسے طاقت ہی نہ ہو اور جس کے پاس ہو ہی نہیں اس نے دینا کیا ہے.اس کے پاس سب کچھ ہے.وہ رب ہے.رب بھی تمہارا رب.عموما محسن جو ہوتے ہیں وہ ساری دنیا پر تو احسان نہیں کرتے.صرف کسی ایک پر احسان کرتے ہیں تو بھی انہیں محسن سمجھا جاتا ہے.لیکن اللہ صرف زید و بکر کا ہی محسن نہیں ہے وہ تمہارا سب کا محسن ہے اور تم سب کا رب ہے.اور وہ ہر وقت تمہاری ربوبیت کرتا ہے.پھر بعض محسن ہوتے ہیں کہ ان کا احسان صرف ایک محدود وقت تک محدود ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا احسان کسی خاص وقت تک محدود نہیں ہوتا.اس کا احسان جب سے تم کو اس نے پیدا کیا ہے اس وقت سے تم پر ہے اور جب سے تمہارا وجود ہے تب سے اس کا احسان تم پر ہے.اس لئے تمہیں چاہیئے کہ اس کی فرمانبرداری کرو.پھر بعض لوگوں کا تعلق صرف ہماری ذات سے ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کا تعلق صرف ہم سے ہی نہیں ہے.اس نے ہمارے باپ دادا کو بھی پیدا کیا ہے اور وہ ان کا بھی محسن ہے اور ہمارا بھی وہ محسن ہے.وہ ہمارا آقا ہے اور وہ ہمارا مہربان بھی ہے.وہ بادشاہ ہے وہ کسی کا محکوم نہیں ہے بلکہ وہ حاکم ہے حکومت کرتا ہے.وہ حسن ہے چند روز سے نہیں بلکہ جب سے تم پیدا ہوئے تب سے ہے.پھر صرف تمہارا ہی وہ محسن نہیں ہے بلکہ تمہارے آباء واجداد کا بھی محسن ہے.

Page 53

خطبات محمود جلد ۴ ۴۴ سال ۱۹۱۴ء اب یہاں تمام دروازے دوسرے معبودوں کے بند کر دیئے ہیں.کوئی عذر ایسا باقی نہیں رہنے دیا جس سے کوئی دوسرے کی طرف جا سکے.اگر کوئی کسی کی اطاعت کرتا ہے تو اس لئے کہ اس کو فائدہ ہو تو بتلایا کہ تم اللہ کی اطاعت کرو گے تو وہ یونہی ضائع نہیں جائے گی بلکہ تمہیں اجر ملے گا.لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ تم بچ جاؤ گے.یہی ایک طریق ہے جس سے تم بچ سکتے ہو.جب تم اپنے رب کے فرمانبردار ہو گے تو تم تباہ نہیں ہو سکتے.یہاں بہت ہی لطیف پیرائے میں سمجھایا ہے اور بتلایا ہے کہ اگر تم نجات چاہتے ہو تو اس کا طریق یہی ہے کہ تم رب کے فرمانبردار بن جاؤ.اللہ تعالیٰ ہم سب کو تو فیق عنایت فرمائے کہ ہم اس کی فرمانبرداری کریں.اور تقویٰ حاصل کرنے کی طاقت ملے اور ہماری سب کو تاہیاں معاف فرمادے.البقرة: ٢٢ الفضل ال.مارچ ۱۹۱۴ ء )

Page 54

خطبات محمود جلد ۴ ۴۵ (۱۳) خدا تعالیٰ ہی مصیبتوں سے بچاسکتا ہے فرموده ۱۳.مارچ ۱۹۱۴ء بمقام قادیان) سال ۱۹۱۴ء تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نے درج ذیل آیات کی تلاوت کی:.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَلَى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوالى وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ اور پھر فرمایا:.میرا ارادہ تو یہ تھا کہ میں ان خطبوں میں جن کا آپ لوگوں کے سامنے بیان کا موقع ملے ، قرآن کو ابتداء سے آیت آیت کر کے ترجمہ اور مطلب بیان کروں لیکن آج میں نے بجائے اس آیت کے جو مجھے اب پڑھنی چاہئے تھی ، یہ آیت ایک مصلحت کیلئے پڑھی ہے.میرا ارادہ تو تھا کہ اس پر ایک مفصل تقریر کروں لیکن اس وقت میرے سر میں درد ہو رہا ہے.میں جب رستے میں آرہا تھا تو خدا نے میرے جی میں یہ ڈالا کہ میں اس آیت کو پڑھوں اور اس پر کچھ بیان کروں.اب مسجد میں مجھے ایک شخص نے ایک خط دیا ہے وہ لکھتا ہے.میں مشکلات میں ہوں.میں جگہ جگہ گیا.میں ہر ایک بزرگ کے پاس گیا.اور بہتیری تدبیریں کیں لیکن میرا کام بجائے بڑھنے کے کم ہی ہوتا گیا.اور دن بدن میں نقصان پر نقصان اٹھا تا رہا.اور اب میں بجائے ایک بڑی جائداد کے صرف چند روپوں کا مالک ہوں“.

Page 55

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۴ء میں اس شخص کو اس آیت کی طرف ہی متوجہ کرتا ہوں.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَلَى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوالى وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ.فرمایا کہ جب میرے بندے مصیبتوں میں گھر جائیں اور ان کو کوئی یارو مددگار نہ ملے اور وہ پکار اٹھیں کہ اب ہمارا کوئی نہیں رہا اور وہ مصیبتوں سے گھبرا جائیں اور ان کی ہمت کی کمریں ٹوٹ جائیں اور ان کی امید قطع ہو جائے اور ہر طرف سے پاس ہی پاس ہو اور غم ہی غم نظر آوے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے میری طرف توجہ کریں اور مجھے پکاریں میں ان کی دعاسنوں گا اور اسے قبول کروں گا.وہ میرے حضور جھک جائیں اور میرے آگے آکر گریں تو وہ دیکھ لیں گے کہ انسان سے اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر زیادہ اور کوئی قریب نہیں ہے ہے.بظاہر لوگ ظاہری اسباب کی طرف دوڑتے ہیں لیکن حقیقتا ایک ہی ہستی ہے جو انسان کو چھڑا سکتی ہے.انسان اگر خدا کے حضور گر جاوے اور اس سے دعا کرے تو اللہ تعالیٰ تمام مشکلات کو حل کر دیتا ہے.میں بھی اور تمام دوست بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس آدمی کی مشکلات کو حل کر دے.اس وقت ایک اور معاملہ بھی ہمارے سامنے ہے اور وہ حضرت خلیفتہ المسیح کی بیماری ہے اس کیلئے تمام لوگوں کو چاہیئے کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت عنایت فرمادے اور اللہ تعالیٰ جماعت کو ہر ایک فتنہ و فساد سے محفوظ رکھے.صرف ایک نفس کو ھدایت دے لینا ایک لاکھ آدمی کو مرتد کر دینے سے مشکل ہے.ایک عظیم الشان اور ایک اعلیٰ سے اعلیٰ درجے کی عمارت کو سالہا سال میں تیار اور مکمل کر سکتے ہیں لیکن اس عمارت کو تباہ و برباد کرنے کے لئے صرف پندرہ منٹ ہی کافی ہو سکتے ہیں.اس نے کو تیار کرنے کیلئے تو کیسی کیسی مشکلات کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور کیسے کیسے اس کیلئے مسالے لائے جاتے ہیں لیکن اس کو گرانے کیلئے اور خراب کرنے کیلئے صرف تھوڑا سا ڈائنامیٹ ہی کافی ہوتا ہے.اس عمارت کو تیار کرنا معمولی آدمی کا کام نہیں ہوتا.بڑے بڑے اس علم کے ماہروں کی کئی مدت کی دماغ سوزی اور محنت کے بعد جا کر اس کا نقشہ تیار ہوتا ہے اور پھر کئی ماہروں کی محنت سے وہ عمارت تیار ہوتی ہے لیکن اس کو تباہ کرنے کے لئے ایک جاہل سے جاہل انسان بھی کافی ہوتا ہے اور ایک اگھڑ سے اگھر، آدمی بھی اسے گرا سکتا ہے.پس تو ڑنا آسان اور جوڑ نا مشکل ہے، بنا نا مشکل.

Page 56

خطبات محمود جلد ۴ ۴۷ سال ۱۹۱۴ء یہ وقت ایسا ہے کہ اس وقت ہمیں گھبرا جانا چاہئیے.میں دوستوں کو ایک بات کی طرف متوجہ کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اس مصیبت کا علاج ایک ہی ہے ہے وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَلَى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوالی.مومن بنو احکام الہی پر عمل کرو.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں قریب ہی ہوں.دنیا کے مددگار اور دنیاوی معین و معاون تو غافل ہو جاتے ہیں.لیکن نہ غافل ہونے والی ہستی اگر کوئی وه ہے تو وہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْم سے اُسے اونگھ اور نیند نہیں آتی.محبت کرنے والے ماں اور باپ بھی اپنے بچوں کی تیمار داری کرتے کرتے تھک جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی ہستی ایسی ہستی نہیں ہے.وہ چھکتا نہیں ہے.ڈاکٹر اور طبیب کو بلانے کیلئے کچھ وقت صرف ہوتا ہے اور دیرلگتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کو بلانے کیلئے کوئی دیر نہیں لگتی اور نہ ہی خدا کو بلانے کیلئے دوڑ و دھوپ کرنے کی ضرورت ہے.خدا کو بلانے کیلئے تو اگر کوئی مل جُل نہیں سکتا تو لیٹ کر سہی.اگر لیٹنے سے بھی وہ بول نہیں سکتا، ہاتھ نہیں ہلا سکتا اور اگر ہونٹ اور زبان بھی نہیں ہلا سکتا تو دل میں ہی خدا کو یاد کرے اور اس کا ذکر کرے اور اس کی طرف متوجہ ہو ، تب بھی خُد اسن لے گا.پس اگر کوئی طریق بچنے کا ہے تو وہ یہی ہے کہ انسان خدا کے حضور گر جاوے.میں نے خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے پیار اس تھی کی نصرت اور مدد اور دعا کی قبولیت کے نظاروں کو دیکھا ہے.میں ایک دم کیلئے بھی باور نہیں کر سکتا کہ ہماری دعاؤں کو رڈ کرے گا.ہم میں سے کون ہے جس نے حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ المسیح علیہا السلام کی دعاؤں کی قبولیت کے آثار نہ دیکھے ہوں.ہم میں سے ہر ایک کے اپنے نفس میں آثار قبولیت پائے جاتے ہیں.میں نے خود ایسے ایسے نظارے دیکھے ہیں جن کے سبب سے میں پھر دعا کے منکرین کی باتوں کو قبول نہیں کر سکتا.تین یا چار سال ہو گئے ہیں کہ قادیان میں طاعون بڑی سخت پڑی.عصر کے وقت میں نے دیکھا کہ میری ران میں سخت درد ہو رہا ہے.اور مجھے بخار بھی تھا.میں کمرہ کے اندر چلا گیا اور اندر سے دروازہ بند کر کے چار پائی پر لیٹ گیا.اور سوچنے لگا کہ اللہ تعالیٰ کا تو مسیح موعود سے یہ وعدہ تھا کہ اِنِّي أَحَافِظ كُلّ مَنْ فِي الدَّارِ سے تو خدا تعالیٰ اپنے وعدوں کو جھٹلایا نہیں کرتا.اور اب میں اپنے آپ میں طاعون کے آثار پاتا ہوں لیکن پھر میں نے اپنے

Page 57

خطبات محمود جلد ۴ ۴۸ سال ۱۹۱۴ء نفس کو یہ کہہ کر سلی دی کہ یہ تو خدا تعالیٰ کا وعدہ مسیح موعود کے ساتھ تھا اور یہ فیوض اور برکات انہی کے زمانہ میں رہیں اب وہ بھی اس دنیا میں نہیں ہیں نہ ہی وہ برکات ہیں.تو میں نے پھر دعا کی.میں جاگتا ہی تھا اور کمرے کی تمام چیزوں کو دیکھ رہا تھا تو میں نے خدا کو دیکھا وہ ایک نور تھا جو میرے کمرے کے نیچے سے نکل رہا تھا اور آسمان کی طرف کمرے کی چھت پھاڑ کر جا رہا تھا.اس کا نہ شروع تھا نہ ہی اس کا انتہاء تھا.لیکن اس نور میں سے ایک ہاتھ نکلا جس میں ایک سفید اور بالکل سفید چینی کا پیالہ تھا اور اس پیالہ میں دودھ تھا.اس نے وہ پیالہ مجھے پکڑا دیا.میں نے وہ دودھ پی لیا.میں جب وہ دودھ پی چکا تو میں نے دیکھا کہ نہ تو مجھے کوئی درد تھا اور نہ بخار بلکہ میں اچھا بھلا تھا اور مجھے کوئی ذرہ بھر بھی تکلیف نہ تھی.خدا تعالی عجیب عجیب نازک وقتوں میں انسان کی دستگیری کرتا اور مدد دیتا ہے.اگر مشکلات کے وقت مدد ینے والی اور مصائب سے بچانے والی کوئی ہستی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی ہے.وہ بڑی بڑی مشکلات کو حل کر سکتا ہے.تم اگر اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی طرف جاؤ گے تو تم یا درکھو کہ تم مشرک ہو.پس تم اسی کی طرف جھک جاؤ اور اسی کی طرف متوجہ ہو جاؤ تا کہ وہ تمہاری اس مشکل میں تمہاری مدد کرے.دعا کی توفیق بھی اسی کی طرف سے ملتی ہے.وہ ہمیں قبول ہونے والی دعا کرنے کی توفیق عنایت فرمادے اور وہ ہمیں رشد اور ہدایت کا رستہ دکھلائے اور ضلالت سے محفوظ رکھے.الفضل ۱۸.مارچ ۱۹۱۴ ء ) البقره: ۱۸۷ البقرة : ۲۵۶ سے تذکرہ صفحہ ۴۲۵.ایڈیشن چہارم

Page 58

خطبات محمود جلد ۴ ۴۹ (اله) سال ۱۹۱۴ء صدقہ وخیرات اور دعاؤں سے الہی نصرت حاصل کرو (مسند خلافت احمدیہ پر فائز ہونے کے بعد پہلا خطبہ جمعہ ) (فرموده ۲۰.مارچ ۱۹۱۴ء بمقام قادیان) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورۃ احزاب کا دوسرا رکوع پڑھ کر فرمایا:.دعویٰ کرنے کو تو سب لوگ کر سکتے ہیں لیکن آزمائش کے وقت اور امتحان کے موقع پر ہر انسان کی صداقت کا پتہ لگتا ہے اور اس وقت اس کے دعووں کا پتہ لگتا ہے کہ آیا وہ ٹھیک دعوے تھے یا کہ غلط.بہت ہے لوگ اپنے آپ کو دلیر اور بہادر سمجھتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ ہم تمام قوموں سے ممتاز ہیں لیکن مصیبت کے وقت ان کے تمام دعوے کھل جاتے ہیں اور ان کی حقیقت معلوم ہو جاتی ہے.اس وقت مدعی اپنے تمام دعوے بھول جاتے ہیں اور بجائے شیخی جتلانے کے اب پھر وہ ڈرنا شروع کر دیتے ہیں.چوہوں کی مثل مشہور ہے کہ ایک دفعہ بلی سے جو چوہے ست گئے تو چوہوں نے باہم مل کر مشورہ کیا کہ بلی جب آوے تو اسے پکڑ لو.تو کسی نے کہا میں اس کے ہاتھ کو لپٹ جاؤں گا کسی نے کہا کہ میں اس کا ہے کان پکڑ لوں گا، کسی نے ڈم، کسی نے کچھ، غرض کہ ساری چیزیں انہوں نے تقسیم کر لیں.ان میں ایک بوڑھا چوہا بھی تھا.اس نے کہا کہ تم سب کچھ پکڑ تو لو گے لیکن اس کی میاؤں کو کون پکڑے گا اس نے جب ایک ہی آواز دی تو تم سب ڈر کر بھاگ جاؤ گے کوئی وہاں نہ ٹھہرے گا.در حقیقت بہت سے لوگ ضدی ہوتے ہیں، ابتلاؤں کے وقت استقامت نہیں دکھا سکتے بزدلی دکھاتے ہیں سب انبیاء کے زمانہ میں ایسا ہوا اور تمام

Page 59

خطبات محمود جلد ۴.سال ۱۹۱۴ء ماموروں کے زمانہ میں بھی لوگوں کے ساتھ ایسا ہی ہوا اور ان پر مصائب آئے.نیک لوگوں کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ خدا کے رستہ میں پاؤں مارنا چاہتے ہیں تو ان کی آزمائش ہوتی ہے اگر کوئی کہے کہ اللہ تعالیٰ تو جانتا ہے اور وہ علم والا ہے تو اسے آزمائش کرنے کی کیا ضرورت ہے.امتحان تو وہ لیتے ہیں جنہیں علم نہیں ہوتا وہ امتحان لے کر دیکھتے ہیں کہ یہ آدمی کیسا ہے اور جب انہیں اس کا پتہ لگ جاتا ہے تو اسے مناسب انعام دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ آزمائش کرے وہ لا علم تو نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کی آزمائش میں بھی ایک بہت بڑا فائدہ مدنظر ہے اور وہ فائدہ یہ ہے اور اس امتحان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ آدمی اپنی حالت کو سمجھ لیتا ہے کہ اس کی حالت کیسی ہے اور اس کے ایمان کی کیا حالت ہے.اپنے آپ کو تو ہر ایک شخص ہی نیک اور بڑا متقی اور پارسا سمجھتا ہے اور اپنے ایمان کو دوسرے آدمی کے ایمان سے زیادہ مضبوط سمجھتا ہے.زید اور بکر جب ان دونوں کی خدا تعالی آزمائش کرتا ہے تو اگر زید کم ہمت بہ نسبت بکر کے نکلے تو اس وقت یہ شکایت اس کو نہ رہے گی کہ کیوں مجھ سے زیادہ بکر پر انعامات کئے جاتے ہیں اور مجھے کیوں کم نعمت ملتی ہے اور اسے شک کی گنجائش نہ ہوگی.تو انسان کو آزمائش میں پڑ کر اپنی حالت کا پتہ لگ جاتا ہے.انبیاء پر مصائب آئے اور ان پر طرح طرح کے ابتلاء آئے تو انہوں نے انعامات بھی حاصل کئے.انبیاء پر اگر مصائب نہ آتے اور یونہی ان کو انعامات مل جاتے تو لوگ اعتراض کرتے.اب بھی لوگ اگر کہیں کہ دیکھو موسی پر تو فلاں انعام ہوا وہ ہمیں کیوں نہ ملا تو تم کو چاہیئے کہ اپنی حالت اور موسیٰ کی حالت کا مقابلہ کرو.اور ان کے مصائب اور اپنے مصائب کا مقابلہ کر کے دیکھو.پھر دیکھو کہ کیوں ان کو زیادہ انعام ملا.اسی طرح اگر کوئی اعتراض کرے کہ مسیح پر انعام ہوئے وہ ہمیں کیوں نہیں دیئے گئے تو وہ اپنی اور ان کی حالت کا مقابلہ کر کے اسی طرح نبی کریم صلی اسلام کے متعلق اعتراض کرنے والا اپنی حالت کو دیکھے اور پھر نبی ﷺ کریم صلی یا کہ یتیم کی حالت کو دیکھے کہ کس کو زیادہ مصائب جھیلنے پڑے اور کسے زیادہ مشکلات پیش آئیں.اگر کوئی مشکل ان کو پیش نہ آتی تب تو یہ اعتراض ہو سکتا تھا کہ کیوں ان کو اتنے انعام دیئے گئے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو جو مشکلات پیش آئیں اور جو جو مصائب ان کو برداشت کرنے پڑے ان کا اندازہ کر لو.اس قسم کی آزمائش اور امتحان جو

Page 60

خطبات محمود جلد ۴ ۵۱ سال ۱۹۱۴ء ہو.رتے ہیں وہ ایک تسلی دینے کیلئے ہوتے ہیں نبی کریم میایم کیو ایم کے وقت میں جو جو مصائب مسلمانوں کو جھیلنے پڑے ان آیات میں ان کا نقشہ بتلایا ہے.فرمایا: مومنو! تم یاد کرو جبکہ لشکر آئے.جب وہ تمہاری مشرقی جانب اور مغربی جانب سے آئے جبکہ آنکھیں پھر گئیں اور دل منہ کو آنے لگے اور تم بھی اور منافق بھی طرح طرح کے خیالات دوڑانے لگے.مومن تو سمجھتے تھے کہ اب یہ ابتلاء جو ہم پر آیا ہے یہ ہمارے لئے رحمت کا موجب ہوگا اور ہمیں اب اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام ملیں گے اور منافق یہ خیال کرنے لگے کہ اگر یہ سچے ہوتے تو ان پر مصیبت کیوں آتی.اس وقت مومنوں پر ابتلاء آیا اور وہ بہت سخت ہلائے گئے اور منافق طرح طرح کی باتیں بنا کر کہنے لگے کہ تمام غلط باتیں ہیں اور یہ دھوکا ہے.اور ان میں سے ایک گروہ نے یہ بھی کہا کہ اومیٹر ب والو! اب تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے تم واپس لوٹ جاؤ.اور ان میں سے ایک گروہ رسول سے اجازت مانگتا تھا کہ ہمارے مکان محفوظ نہیں ہیں.ان کے مکان غیر محفوظ نہیں ہیں لیکن وہ تو جنگ سے بھاگنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور وہ بھاگنا چاہتے ہیں.اور اگر دشمن ان پر چڑھ کر اندر گھس آئے تو پھر اگر ان سے وہ مرتد ہونے کیلئے کہیں تو ضرور یہ مرتد ہو جاویں اور کفر کو اختیار کر لیں اور ذرا دیر بھی نہ کریں.انہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ وہ پیٹھ نہ پھیریں گے اور اللہ تعالیٰ کے عہد کے متعلق سوال کیا جاوے گا.ان کو کہ دو کہ تمہیں بھا گنا کچھ نفع نہ دے گا اگر تم بھاگے گئے تو تمہیں کچھ فائدہ نہ ہوگا.اللہ تعالیٰ تمہیں ضرر پہنچانا چاہے تو تمہیں کوئی بچا نہیں سکتا اور اگر اللہ تعالیٰ نفع دینا چاہے تو اس کی نعمت کو کوئی روکنے والا نہیں ہے.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے جو دوسروں کو روکتے ہیں اور ان کو بھی جانتا ہے جو دوسروں کو کہتے ہیں کہ لڑائی میں نہ جاؤ اور ہمارے پاس رہو.وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ تمہیں کچھ نفع ملے اور وہ تمہیں نفع پہنچانے کیلئے بخیل ہیں.اور جب کوئی خوف آوے تو تو اُن کو دیکھے گا کہ ان کی آنکھیں پھرتی ہیں جیسے کسی پر موت کی خوشی ہو اور جب ان کو امن ہو جاوے تو پھر وہ تمہیں بڑی سخت اور تیز زبانوں سے یاد کرتے ہیں.ان کے اعمال ضائع ہو گئے.وہ سمجھتے ہیں کہ دشمن ابھی گیا نہیں ہے اور وہ یہی چاہتے ہیں کہ وہ باہر جنگل میں ہوں اور وہاں سے تمہاری خبریں سنیں اور اگر وہ تمہارے اندر بھی ہوں تو وہ نہ لڑیں مگر تھوڑا یعنی بالکل نہ لڑیں.

Page 61

خطبات محمود جلد ۴ ۵۲ سال ۱۹۱۴ء مومنوں کی حالت احزاب کے موقع پر بڑی خطرناک تھی.وہ کئی کئی دن فاقہ میں گزار دیتے تھے اور باوجود فاقہ کشی کے ان کو دشمن سے لڑنا پڑتا تھا.حدیثوں میں آیا ہے کہ ایک رات جبکہ بہت سخت سردی تھی تو نبی کریم صلی پریتم نے فرمایا کہ کوئی ہے جو دشمن کی خبر لا وے تو اس وقت کسی کو جرات نہ ہوسکی کہ نکل کر دشمن کی خبر لاوے.اس وقت کپڑوں کی بھی مسلمانوں کو تنگی تھی.سارے یہی سمجھتے تھے کہ کسی کا نام تو لیا نہیں اس لئے سوائے ایک کے اور کوئی نہ بولا.دوبارہ حضور سالی یا پریتم نے کہا کوئی ہے جود شمن کی خبر لاوے.تب پھر وہی آدمی بولا.پھر سہ بارہ فرمانے پر بھی وہی آدمی بولا.آپ نے اسے فرمایا.جاؤ جا کر دیکھ آؤ کہ دشمن کی کیا حالت ہے.وہ گیا تو اس نے دیکھا کہ میدان خالی پڑا ہے اور وہاں کوئی فرد بشر نہیں ہے.ان کے بھاگنے کا عجیب معاملہ ہوا.اسی دن ایسی سخت ہوا چلی کہ ایک سردار کی آگ بجھ گئی.آگ بجھنے کو عرب لوگ برا سمجھتے ہیں اور ان کا خیال تھا کہ جس کی آگ بجھ گئی وہ گو یا ہار گیا.وہ بھا گا تو اس کے ساتھ والوں نے سمجھا کہ معلوم نہیں کیا آفت پڑی ہے کہ یہ بھاگا ہے، وہ بھی بھاگ گئے.اسی طرح تمام لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر بھاگ گئے.ابوسفیان ایسا گھبرایا کہ اسے اونٹ کی رسی کھولنی یاد نہ رہی اور اس پر سوار ہو گیا.اور تمام لوگ راتوں رات بھاگ گئے اے یہ اس وقت کے متعلق پیشگوئی تھی.اس موقع پر ایک خندق کھودی گئی جو کہ سلمان فارسی کے بتلانے پر نبی کریم صلی سی ایم نے حکم دیا کہ خندق کھودی جائے.اس کے پھر ٹکڑے تقسیم کر دیئے گئے کہ فلاں ٹکڑے پر فلاں فلاں آدمی کام کریں اور فلاں پر فلاں.جو ٹکڑ اسلمان اور ان کے ساتھیوں کے سپر د تھا اس میں ایک بڑا پتھر نکلا جسے وہ توڑ نہ سکے تو نبی کریم صلی لا یہ تم کو عرض کیا.تو آپ نے فرمایا کہ لاؤ کدال مجھے دو.میں توڑتا ہوں.آپ نے پھر اس پر ایک زور سے کدال ماری یہ قاعدہ ہے کہ لوہا اور پتھر ٹکرائیں تو ان میں سے آگ نکلتی ہے تو اس پتھر میں سے ایک آگ نکلی.تو نبی کریم سنی لیا کہ تم نے فرمایا کہ قیصر کا ملک فتح ہو گیا.پھر کدال ماری.تو دوبارہ آگ نکلنے پر فرمایا کسری کا ملک فتح ہو گیا.پھر آپ نے زور سے تکبیریں کہیں.منافق ہنتے تھے اور کہتے تھے کہ کھانے اور پہنے کو کچھ ملتا نہیں ہے اور رہنے کی جھونپڑیاں تک بھی میسر نہیں ہیں اور خوا ہیں ملکوں کی.صحابی نے رسول کریم سیل یا پیام سے پوچھا کہ آپ تکبیریں کیوں کہتے تھے.آپ نے فرمایا کہ مجھے کسری و قیصر کے ملک دکھائے گئے ہیں کہ وہ فتح ہو گئے ہیں.اس مصیبت میں

Page 62

خطبات محمود جلد ۴ ۵۳ سال ۱۹۱۴ء رحمت کا نمونہ اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا اور اس مشکل میں آئندہ راحت بتلا دی.اس وقت دشمن خوش ہے کہ احمدیوں میں اب تفرقہ پڑ گیا ہے اور یہ جلد تباہ ہو جائیں گے اور اس وقت ہمارے ساتھ زُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا سے والا معاملہ ہے.یہ آخری ابتلاء ہے جیسا کہ احزاب کے مواقع کے بعد دشمن میں یہ جرأت نہ تھی کہ مسلمانوں پر حملہ کرے.ایسے ہی ہم پر یہ آخری موقع اور دشمن کا حملہ ہے.خدا تعالیٰ چاہے ہم کامیاب ہوں تو انشاء اللہ پھر دشمن ہم پر حملہ نہ کرے گا بلکہ ہم دشمن پر حملہ کریں گے.نبی کریم صلی انا کلیم نے احزاب پر فرمایا تھا کہ اب ہم ہی دشمن پر حملہ کریں گے اور شکست دیں گے، دشمن اب ہم پر کبھی حملہ آور نہ ہو گاہے یہ ایک آخری ابتلاء ہے اس سے اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے تو دشمن کو پھر کبھی خوشی کا موقع نہ ملے گا.جنگیں تو احزاب کے بعد بھی ہوتی رہی ہیں.لیکن پھر دشمن کو یہ حوصلہ نہیں ہوا کہ مسلمانوں پر حملہ آور ہو.اسی طرح یہ آخری فتنہ ہے.پس تم دعا میں لگ جاؤ یہ فتنہ احزاب والا ہے.جس طرح وہاں صحابہ رِضْوَانُ اللہ علیہم کی حالت تھی وہی اب یہاں ہماری حالت ہے.اور جو اس دشمن کی حالت ہوئی وہی اب دشمن کے ساتھ ہو گی تمہیں چاہیئے کہ تم آگے بڑھو.دعاؤں میں لگ جاؤ کہ زلزلہ کے دن دُور ہوں اور یہ جو ہمارے درمیان فرق پڑ گیا ہے یہ فرق مٹ جاوے اور یہ تفرقہ اتحاد ہو جاوے.بچھڑے ہوئے مل جاویں.جو ٹوٹے ہوئے ہیں وہ جڑ جاویں اور جو اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح سے وعدے کئے تھے ہمارے ہاتھوں پر پورے ہوں.اگر ان مصائب سے ہم نکل جاویں تو ہم دشمن پر فتحیاب ہوں گے.ہمارے پاس لڑائی کا سا را سامان موجود ہے.ہمیں ان اشیاء کی کچھ ضرورت نہیں ہے جو کہ ہمارے پاس نہیں ہیں.جو ہتھیار ہمارے استعمال کیلئے ہمیں حضرت مسیح موعود دے گئے ہیں ہمارے لئے وہی کافی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں کافی ہتھیار موجود ہیں، ان کو استعمال کرو.ظاہری ہتھیاروں ، تو پوں، بندوقوں ،تلواروں وغیرہ کی ہمیں کچھ ضرورت نہیں ہے.جو ہتھیار حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے لئے چھوڑ گئے ہیں وہ ہمارے لئے کافی ہیں.ان سے ہم ایک ہی وار میں شیطان کا کام تمام کر سکتے ہیں.پس تم ان ہتھیاروں کو اپنے استعمال میں لاؤ اور دعاؤں میں لگ جاؤ.ہر روز صبح و شام پانچوں نمازوں میں اور تہجد کو اُٹھ اُٹھ کر دعا ئیں کرو.

Page 63

خطبات محمود جلد ۴ ۵۴ سال ۱۹۱۴ء یہ ایک ابتلاء ہے.خدا تعالیٰ ہمیں آزماتا ہے کہ ہمیں مسیح موعود علیہ السلام اور ان کی تعلیم سے کتنی محبت ہے.آج جمعہ کا دن ہے.یہ قبولیت کا دن ہوتا ہے.آج شام تک بیٹھ کر ہر ایک آدمی جس طرح اس سے ہو سکے وہ دعاؤں میں لگا رہے اور اگر کسی کو طاقت ہو تو وہ روزے بھی رکھے اور صدقہ دو، خیرات کرو.یہ ہماری کوتاہی ہے اللہ تعالیٰ اپنا فضل اور رحم کرے.یہ فتنہ دور ہو.ترقیات ملیں جیسے احزاب کے موقع پر صحابہ کو مد دملی تھی ہمیں بھی وہ مدد ملے اور اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہو.الفضل ۲۵.مارچ ۱۹۱۴ ء ) ل سیرت ابن هشام (عربی) جلد ۳ صفحه ۲۴۲، ۲۴۳ مطبع مصطفی البابی الحلبى مصر ١٩٣٦ء زرقانی جلد ۲ صفحه ۱۰۹ مطبع الازهريه المصرية ١٣٢٩ه الاحزاب : ١٢ بخاری کتاب المغازی باب غزوہ خندق

Page 64

خطبات محمود جلد ۴ ۵۵ (۱۵) ترقی کیلئے عقل کی بجائے کلام الہی کی اتباع لازم ہے فرموده ۲۷.مارچ ۱۹۱۴ء بمقام قادیان) سال ۱۹۱۴ء تشہد ، تعو ذاور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کی تلاوت کی :.يَأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادٌ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ.وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِّنَا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاتَكُمْ مِنْ دُونِ اللهِ إِن كُنتُمْ صَدِقِينَ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَفِرِينَ اور پھر فرمایا.پیچھے اللہ تعالیٰ نے بتلایا تھا کہ انسان کو جب کسی نہ کسی کی عبادت کرنی ضروری ہے اور یہ کہ ہر ایک تعلیم کے ماننے والے بھی ہوتے ہیں اور اس کا انکار کرنے والے بھی اور پھر بعض ان میں سے منافق بھی ہوتے ہیں تو فرمایا کہ انسان کو پاک تعلیم کی اتباع کرنا ضروری ہے تا کہ اس کا منکر بن کر تکلیف میں نہ پڑے.اب یہاں ایک سوال ہوتا ہے کہ ہم نے مان لیا اور ہم تسلیم کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کرنی لازمی امر ہے اور اس کی اطاعت ضروری ہے لیکن ہمیں اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ کوئی آسمان سے ہی کلام آوے.کیوں! ہم اپنی عقلوں کے مطابق کام کر کے اور کچھ اصول بنا کے ان کے مطابق خدا تعالیٰ کی عبادت

Page 65

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۴ء نہ کریں، آسمان سے کسی تعلیم کے آنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس اعتراض کا جواب یہاں دے دیا ہے.فرمایا : خوب یاد رکھو کہ انسان کے اندر ایک ترقی کرنے کا مادہ ہے انسان ترقی تب ہی کر سکتا ہے اگر اس کے پاس اللہ تعالیٰ کے پاس سے کلام اور ہدایت آوے.ورنہ اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے کلام نہ آوے تو انسان ترقی نہیں کر سکتا.مثال کیلئے دیکھو.زمین میں روئید گیاں باہر نکالنے کا مادہ ہے لیکن اگر آسمان سے بارش نہ ہو تو زمین اپنے مادے باہر نہیں نکال سکتی اور اسے ظاہر نہیں کر سکتی، برسات سے ہی یہ چیزیں نکل سکتی ہیں.تو خدا تعالیٰ نے بتلا دیا کہ آسمان سے کسی چیز کا آنا ضروری ہے.پانی کیسی عمدہ چیز ہے اور صاف ہے لیکن وہی پانی جب استعمال کیا جاوے تو کیسا گندہ ہو جاتا ہے.اب اگر اس مستعمل پانی کو استعمال میں لایا جاوے اور ہمیشہ وہی پانی ملے تو وہ ضرر رساں ہو جاتا ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا بلکہ اس پانی کی بجائے اللہ تعالیٰ صاف پانی بھیج دیتا ہے اور اس پانی کو بادلوں کے ذریعہ صاف کر کے بھیج دیتا ہے.اسی طرح شرائع الہیہ کا معاملہ ہے کہ وہ جب آتی ہیں تو پاک وصاف ہوتی ہیں.بعد میں جب لوگ اپنی رائیں ان میں ملا دیتے ہیں اور اپنی عقلوں سے کام لیتے ہیں تو وہ ان کو خراب کر دیتے ہیں.فی نفسہ تو وہ پاک وصاف ہوتی ہیں.لیکن لوگ انہیں خراب کر دیتے ہیں اور انہیں قابل استعمال نہیں چھوڑتے.تب پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور آتا ہے جو اس کو صاف کر کے لوگوں کے سامنے پیش کر دیتا ہے.قرآن کریم جیسی سچی اور پر معارف کتاب جس نے دنیا کو تاریکی سے پاک وصاف کر کے نور سے پر کر دیا لیکن دنیا نے اس میں اپنی عقلوں کا دخل دے کر اسے نا قابل عمل کر دیا.اب دنیا میں ایک مامور آیا اس نے اس پاک تعا کو پھر دوبارہ پاک و صاف کر دیا اور اسے ایسا کر دیا کہ اس پر آسانی سے عمل ہو سکے.مسلمانوں کی تفسیریں دیکھو کہ ان میں کئی ایسی باتیں بھری ہیں جو اسلام کے اصول حقہ کے خلاف ہیں.تو اس پانی کو صاف کرنے کیلئے ایک آسمانی پانی کی ضرورت پڑی.وہ پانی آسمان سے آیا اور اس نے اس کو صاف کر دیا اور اس نے تمام دنیا کو سمجھا دیا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم اپنے اندرون کو دیکھو کہ تم کیسے صاف پانی کو گندہ کر دیتے ہو.اسی طرح انسانی فطرت ہے کہ وہ کیسی صاف و پاک ہوتی ہے لیکن لوگ اسے اپنی عقلوں کا اس میں دخل دے کر گندہ کر دیتے ہیں.پچھلی تعلیمیں بھی اسی لئے ناقابل استعمال ہوئیں کہ لوگوں نے انہیں گندہ کر دیا.یہ

Page 66

خطبات محمود جلد ۴ ۵۷ سال ۱۹۱۴ء ایک دلیل ہے کہ تم یہ ہ سمجھ لو کہ ہم اپنی عقلوں سے کام لے کر کچھ کر لیں گے.زمین پر اگر آسمان سے بارش نہ ہو تو وہ اپنے پھل و پھول نہ نکالے گی.اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام کی بارش آوے تو جو اعلیٰ درجہ کی فطرت ہوگی وہ اپنے اندر اصلاح کرلے گی اور نیکی کی طرف ہو جائے گی.ان کا اعتراض رد کیا اور یہ بھی فرمایا کہ یہ اعتراض مشرکوں کا ہے مشرک ایسے اعتراض کیا کرتے ہیں اور یہ اعتقاد بر ہموؤں کا ہے.اس آیت میں بتلایا ہے کہ ایسا عقیدہ رکھنے والے جو ہیں وہ مشرک ہیں.قرآن کریم فرماتا ہے فَلَا تَجْعَلُوا لِلهِ أَنْدَادًا جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہمیں کسی آسمانی شریعت یا آسمانی کلام کی ضرورت نہیں.ہم خود بخود خدا تک پہنچ سکتے ہیں.وہ مشرک ہیں.وہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو اوروں کی طرف منسوب کرتے ہیں پس فرماتا ہے کہ اگر تمہیں اس میں شک ہو تو تم ایسی پاک تعلیم جیسی پاک اور بے عیب تعلیم لاؤ.وہ پاک نبی تو اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ تعلیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر الہام کی گئی ہے تو تم بھی کم ازکم اور کچھ نہیں تو اتنا ہی سہی یہ دکھلا دو کہ یہ تعلیم ہمارے فلاں بت نے ہمیں بتلائی ہے یا فلاں دیوتا نے الہام کی ہے.وَادْعُوا شُهَدَاءَ كُمُ.تم اپنے شرکاء سے کہلاؤ کہ ہم نے الہام کیا.یا یہ بتلاؤ کہ ہمیں فلاں بت نے الہام کیا.آج تک دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا نہ ہی دنیا میں کبھی کوئی ایسی تعلیم آئی.وہ بت بھی ایک پتھر ہے جس میں نہ جس ہے نہ حرکت.اس میں اور ی دوسرے پتھروں میں کوئی مَا بِهِ الْاِمتیاز نہیں ہے جیسے دوسرے پتھر ایسے ہی وہ پتھر.جیسے ان کو جو جی چاہے کر لیں ویسے ہی ان کو.تو فرمایا کہ اگر تم بھی سچے ہو تو ہماری پاک تعلیم کے مقابلہ پر یہ دعوی کرو کہ یہ ہماری تعلیم سچی ہے.اور اگر ایسا نہیں کرتے تو ڈر جاؤ تم آگ میں جاؤ گے اور ساتھ ہی پتھر بھی جائیں گے جن کو تم نے اپنا معبود بنایا ہوا ہے.کوئی کہے کہ ان پتھروں کا کیا قصور؟ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ انسان اگر خود بھی دکھ میں ہو اور پھر اس کو بھی دکھ میں پائے جس کی وہ پیروی کرتا ہے تو اسے زیادہ دکھ ہو گا.اسی لئے فرما یا کہ تم بھی اور تمہارے یہ بت بھی آگ میں جائیں گے.کفار مکہ کو ایک تو اپنے مغلوب ہونے کی ندامت اور عذاب تھا.دوسرے جب ان کے سامنے ان کے بت جن کو وہ بڑا محترم سمجھتے تھے اور ان کی بڑی عزت کرتے تھے.ان کے سامنے توڑے گئے تو ان کو کیسی کچھ تکلیف ہوئی ہوگی.میں نے شرک کے مسئلہ پر بہت غور کیا ہے.ہر ایک چیز کو فرڈ افرد الو اور اس پر غور کرو کہ ان کی خدائی کا

Page 67

خطبات محمود جلد ۴ ۵۸ سال ۱۹۱۴ء کیا ثبوت ہے تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ چیزیں جو ہماری خادم ہیں وہ ہماری مخدوم اور ہماری خالق کیسے ہوسکتی ہیں.تو فر ما یا تم اگر ایسا کرو گے اور اس سے باز نہیں آؤ گے تو یاد رکھو کہ تم کو ایک آگ میں ڈالا جاوے گا اور تمہارے یہ بت پتھر بھی اس آگ میں ڈالے جاویں گے.اس میں ایک پیشگوئی کی ہے کہ اس دنیا میں ہی ایک ایسی لڑائی ہوگی کہ اس میں تم بھی مارے جاؤ گے اور تمہارے بت بھی ساتھ ہی پیس ڈالے جائیں گے.یہ اس سوال کا جواب دیا ہے کہ خدا سے الہام کی ہمیں کیا ضرورت ہے.جو آقا کہ اپنے نوکر کی خبر گیری نہیں کر سکتا اور وقت پر اس کی مدد نہیں کر سکتا وہ آقا کس کام کا ہے اور اسی طرح جو خالق کہ اپنی مخلوق کو ان کی تباہی سے بچانے کیلئے کوئی راہ نہ بتلاوے اور الہام نہ کرے تو وہ خالق کس کام آ سکتا ہے.اس کے بعد میں ایک اور ضروری امر کی طرف جماعت کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ اب طاعون کثرت سے پھیل رہا ہے قادیان کے ارد گرد بھی طاعون آگیا ہے.قوم لوط پر جب عذاب آیا تو پہلے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ الہی کیا بدلوگوں کی وجہ سے نیکیوں کو بھی ہلاک کیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہیں بدوں کی وجہ سے نیکوں کو ہلاک نہیں کیا جاوے گا.تو انہوں نے عرض کیا کہ الہی! اگر اس بستی میں پچاس آدمی نیک ہوں اور باقی بد، تو کیا یہ بستی نہ بچ سکے گی.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا.ہاں اگر پچاس آدمی ہوں تو اس بستی کو بچا لیا جاوے گا.پھر ابراہیم نے عرض کیا کہ اگر پانچ آدمی کم ہوں اور پینتالیس آدمی ہی ہوں تو تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہاں اگر پینتالیس ہی نیک آدمی ہوں تو ان کو بچالیا جاوے گا.تو پھر حضرت ابراہیم نے عرض کیا کہ اگر پانچ آدمی اور کم ہوں اور صرف چالیس آدمی ہی نیک ہوں تو کیا ہوگا.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ چالیس نیک آدمیوں کی خاطر بھی اس بستی کو بچالیا جاوے گا.پھر حضرت ابراہیم نے عرض کیا کہ مولی ! اگر پانچ آدمی اور کم کہوں اور صرف پینتیس ہی نیک ہوں تو کیا پھر یہ بستی نہ بچائی جاوے گی.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا.ہاں اگر پینتیس آدمی بھی ہوں تو یہ لوگ بچ جائیں گے.تو پھر حضرت ابراہیم نے عرض کیا کہ مولی ! اگر پانچ اور کم ہوں اور صرف تیس نیک آدمی ہی ہوں تو کیا اس کو تباہ کر دیا جاوے گا.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہیں اگر تیس آدمی ہی ہے ہوں گے تو یہ ہلاک نہ ہوں گے.تو پھر حضرت ابراہیم نے عرض کیا کہ اگر دس آدمی اور نہ ہوں اور صرف ہیں آدمی

Page 68

خطبات محمود جلد ۴ ۵۹ سال ۱۹۱۴ء ہوں تو کیا ان کو ہلاک کیا جاوے گا.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہیں.میں آدمی بھی اگر ہوں گے تو ان کو ہلاک نہ کیا جاوے گا.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا کہ اگر دس آدمی ہی مل سکیں اور زیادہ نہ ملے سکیں تو کیا یہ ہلاک کر دیئے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہیں.اگر دس آدمی مومن بھی اس بستی میں ہوں گے تو یہ بستی ہلاک نہ ہوگی ۲.حضرت ابراہیم نے تو سمجھا ہوگا کہ دس آدمی تو ضرور ہی اس میں ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِينَ سے ضرور ایک گھر مسلمانوں مومنوں کا اس بستی میں ملا.دو تین آدمی تھے اس لئے وہ بستی ہلاک کر دی گئی.تو معلوم ہوا کہ اگر ایک بڑی بستی میں دس مومن بھی رہتے ہوں تو وہ بستی عذاب سے محفوظ رہے گی.حضرت لوط تو صرف ایک بستی کی طرف بھیجے گئے تھے لیکن ہمارے سردار اور آقا نبی کریم صلی یم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو ساری دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے.میں چاہتا ہوں کہ یہاں پچاس آدمی ہی کم از کم ایسے ہوں جو راتوں کو اُٹھ کر دعائیں کریں.خدا تعالیٰ کے قانون میں تبدیلی نہیں ہوتی.یہاں اگر پچاس آدمی ہی ایسے ہوں جو دعا کریں تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس عذاب سے بچالے گا.ل البقرة: ۲۲ تا ۲۵ پیدائش باب ۱۸ آیت ۲۳ تا ۳۲ ( مفهوما ) التريت: (الفضل یکم اپریل ۱۹۱۴ء)

Page 69

خطبات محمود جلد ۴ ۶۰ (M) سال ۱۹۱۴ء سب سے بڑی جنت دل کی تسلی اور اطمینان ہے (فرموده ۳.اپریل ۱۹۱۴ء بمقام قادیان) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کی تلاوت کی :.وَبَشِرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا الْأَنْهرُ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِيهَا خَلِدُونَ إِنَّ اللهَ لَا يَسْتَحْيَ أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبّهِمْ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللهُ بِهذَا مَثَلًا يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَ يَهْدِي بِهِ كَثِيرًا وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَسِقِينَ الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا آمَرَ اللهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أَوْلَئِكَ هُمُ الْخَسِرُونَ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِالله وكُنتُمْ اَمْوَاتاً فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ.هُوَ الَّذِى خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوهُنَّ سَبْعَ سَموتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيءٍ عَلِيمٌ.اور پھر فرمایا پیچھے اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ مشرک لوگ جو قرآن کریم کا مقابلہ کرتے ہیں اور اسے روکنا چاہتے ہیں وہ ذلیل کرنے والے عذاب میں ڈالے جاویں گے.اور وہ ایک خطرناک جنگ میں ڈالے جاویں گے.اور ان کو بھی ہلاک کیا جاوے گا اور ان کے بُت بھی ان

Page 70

خطبات محمود جلد ۴ पा سال ۱۹۱۴ء کے ساتھ ہلاک ہو جاویں گے.بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جنگوں میں طرفین کو بہت سخت نقصان ی کو بہت سخت نقصا پہنچتا ہے اور فاتحین کو ان کی فتح کوئی فائدہ مند نہیں ہوا کرتی.اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر ان مومنوں کا کیا حال ہو گا جو اللہ کو بھی مانتے ہیں اس کے رسول کو بھی مانتے ہیں.آیا یہ بچ جاویں گے یا یہ بھی مارے جاویں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مومنوں کو جو ایمان لائے ہیں اور عمل نیک کرتے ہیں بشارت دے دو کہ ان کیلئے خدا کے پاس جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں چلتی ہیں.ایک جنت تو آخرت میں ملے گی اور دنیا میں بھی مومنوں کو جنتیں ملتی ہیں.میرے نزدیک سب سے بڑی جنت دل کی تشفی ہوتی ہے.دل کی تسلی اور اطمینان ہی بڑی جنت ہیں.کتنی ہی کوئی مصیبت اور دکھ کیوں نہ ہو لیکن جو اس جنت میں ہو گا اسے قطعا کوئی دکھ دکھ اور کوئی مصیبت مصیبت نہیں معلوم ہوگی.میں نے دیکھا ہے کہ مبارک احمد میرا چھوٹا بھائی جن دنوں میں بیمار تھا تو حضرت صاحب اس کے علاج میں ہر وقت مصروف رہتے تھے آپ کو اس کی ایسی فکر تھی اور آپ اس کے علاج میں ایسے محو تھے کہ گویا اور آپ کو کوئی فکر ہی نہیں.اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ کو اس کے سوا اور کسی سے تعلق ہی نہیں.آپ اس کے علاج کیلئے رات کو بھی بہت ہی کم گو یا شاذ و نادر ہی سوتے تھے.بلکہ میں تو حیران ہوتا تھا کہ آپ سوتے کس وقت ہیں.آخری وقت میں جبکہ حضرت خلیفہ المسیح نے اس کی نبض دیکھی تو معلوم ہوا کہ مبارک احمد کی جان نکل چکی ہے.آپ نے حضرت صاحب کو عرض کیا کہ حضور نبض ہے نہیں.نبض ہے نہیں.آپ نے جب یہ سنا تو فرمایا انا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.پس ادھر مبارک احمد کی جان نکلی اور ادھر حضرت صاحب نے دوستوں کو خط لکھنے شروع کئے کہ کوئی گھبرانے کی بات نہیں گھبراؤ نہیں.یہ ایک خدا تعالیٰ کی امانت تھی جو اس نے اب لے لی ہے.وہی مبارک احمد جس کے علاج کے لئے آپ رات کو بھی آرام نہ کرتے تھے جب فوت ہو گیا تو آپ نے فرمایا یہ خدا کی امانت تھی جب تک یہ ہمارے پاس رہی ہم پر فرض تھا کہ اس کے علاج میں کو تاہی نہ کرتے ورنہ یہ اس کی امانت کی پوری ادا ئیگی نہ ہے تھی.پس جب تک ہمارا کام تھا ہم نے کیا.اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے اپنی امانت واپس لے لی تو ہمیں گھبرانا نہیں چاہیئے.یہ ہے اطمینان قلب جس سے بڑھ کر اور کوئی جنت نہیں.اس جنت کا مقابلہ دنیوی جنات میں سے اور کوئی نہیں کر سکتا.حضرت صاحب اکیلے تھے.اب تم دیکھ رہے ہو کہ یہ مسجد آدمیوں سے ہے

Page 71

خطبات محمود جلد ۴ ۶۲ سال ۱۹۱۴ء بھری ہوئی ہے ایک وقت تھا کہ چھوٹی مسجد کا صرف ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں بمشکل چودہ آدمی آن سکتے تھے وہ بھی پوری نہیں ہوتی تھی.پھر آدمی بڑھتے گئے یہاں تک کہ اس کو ٹھری میں بھی آنے لگ گئے جو الگ تھی.پہلے اس میں کوئی آدمی نماز نہ پڑھا کرتا تھا پھر اس کے بعد میں نے دیکھا کہ لوگ اوپر چھت پر بھی جانے لگے.اور پھر تو وہ بھی پوری نہ ہونے کے باعث مسجد کو وسیع کرنا پڑا.پہلے اس مسجد ( جامع مسجد ) میں کوئی آدمی نہیں آیا کرتا تھا لیکن اب یہاں بھی نماز پڑھنے والے ہوتے ہیں.اور چھوٹی مسجد بھی پر ہوتی ہے.اور اب پھر لاکھوں کی تعداد میں آدمی ہو گئے اور لاکھوں روپے چندہ آنے لگا.كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا.ان کو ان جنتوں میں سے پھل بھی ملیں گے جو ایک دوسرے کے ساتھ ملتے جلتے ہوں گے.مُتَشَا بھا کے کئی معنی ہیں ( اول ) یہ کہ اس دنیا کے پھلوں سے وہ ملتے جلتے ہوں گے ( دوم ) ایک شکل کے سب میوے ہوں گے صرف ان کا مزا الگ الگ ہوگا ( سوم ) روحانی لوگ کہتے ہیں کہ جو لوگ اس جہان میں عبادت کرتے ہیں ان کو ان کی عبادتوں کا پھل ملے گا ان کی عبادتیں ان کو پھلوں کے رنگ میں پیش کی جائیں گی اور وہ یہ کہیں گے کہ یہ وہی ہے جو ہمیں مل چکا (چہارم) اور اگر اس دنیا کے لحاظ سے لیا جاوے تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس دنیا میں کامیابیوں کی جنت اس سے مراد لی جائے.یعنی جنگیں ہوں گی اور ان میں کفار مارے جاویں گے ان ملکوں سے جو ثمرہ ان کو ملے گا تو وہ کہیں گے کہ یہ ہے جس کا ہمیں پہلے سے وعدہ دیا جاے چکا ہے.پھر یہ بھی کہ فتوحات ہوں گی اور پے درپے ہوں گی صرف ایک فتح پر ہی بس نہ ہو جاوے گی ایک سے ایک بڑھ چڑھ کر اور عمدہ ہوگی.پھر فرمایا.وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ مُسلمانوں کی بیویاں مطہر اور پاکیزہ ہوں گی.یہ ایک ایسا وعدہ ہے کہ سوائے مسلمانوں کے اور کسی سے نہیں ہوا.فتوحات کے وعدے تو انجیل میں اور تورات میں بھی ہوئے جو پورے بھی ہو گئے.لیکن یہ ایک ایسا وعدہ ہے جو سوائے مسلمانوں کے اور کسی سے نہیں کیا گیا.جنگوں میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بہت مدت تک مرد باہر رہتے ہیں وہ گھروں میں نہیں آسکتے اور فاتحین میں ہی ایسا ہوا کرتا ہے.ادھر مرد جن ملکوں کو فتح کرتے جاتے ہیں اس ملک کی عورتوں کے خاوند جنگ میں ہی مر چکے ہوتے ہیں ان کا کوئی والی وارث ہے اور ان کی کوئی جائے پناہ تو ہوتی نہیں اس لئے پھر ان پر فاتحین سپاہی قابو پالیتے ہیں اور ان میں اس طرح پر زنا پھیل جاتا ہے ادھر ان کی بیویوں کو خوب آزادی ہوتی ہے اور ان کو کھلا روپیہ خرچ کرنے

Page 72

خطبات محمود جلد ۴ ۶۳ سال ۱۹۱۴ء کیلئے ملتا ہے اور ان کے خاوندوں کو بھی کئی کئی سال باہر رہنا پڑتا ہے اس لئے پھر ان میں بھی زنا کثرت سے پھیل جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک عجیب طرح سے اس بات سے بچالیا اور ان کے ساتھ اپنا وعدہ پورا کیا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ رات کو دورہ کیا کرتے تھے.ایک دفعہ رات کو شہر میں پھر رہے تھے تو آپ نے ایک عورت کو سنا کہ وہ عشقیہ شعر پڑھ رہی ہے.آپ نے دن کو تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ اس کا خاوند مدت سے باہر رہتا ہے.آپ نے پھر یہ حکم دے دیا کہ کوئی سپاہی چار ماہ سے زیادہ باہر نہ رہے.اگر کوئی سپاہی زیادہ مدت تک باہر رہنا چاہتا ہوتو اپنی بیوی کو بھی اپنے ساتھ رکھے.ورنہ چار ماہ کے بعد اسے فوج کا افسر مجبور اواپس گھر بھیج دے ہے.اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو زنا سے بچالیا اور ان کی بیویوں کو مطہر رکھا.پس جب تک وہ لوگ جیئے یہ وعدہ تھا ان میں سے ایک بھی زندہ رہا تو یہ وعدہ ان سے پورا ہوتا رہا.پھر جب ایسے لوگ پیدا ہو گئے کہ وہ اس کے اہل نہ تھے اور ان میں وہ ایمان نہ تھا جو پہلوں میں تھا تو یہ وعدہ ان سے پورا نہ ہوا.یہ ایک پیشگوئی ہے جس میں اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ وہ ملک کب ملے گا اور وہ کون سا ملک ہے.حضرت مسیح موعود پر یہ ایک اعتراض کیا گیا ہے کہ آپ نے جو پیشگوئی کی تھی کہ میرا دشمن ہلاک ہو گا آپ نے اس میں وقت اور تاریخ نہیں بتلائی اس لئے ہم آپ کی پیشگوئی کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے کیونکہ اگر کسی کو بخار ہو گیا سر درد ہو گیا یا کوئی اور بیماری ہوگئی تو آپ تو کہ دیں گے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوئی.یہ اعتراض ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے.فرمایا کہ لوگ اعتراض کریں گے کہ ذراسی فتح مل گئی تو کہہ دیا کہ دیکھو ہمیں فتح مل گئی.ایک انگریز آرنلڈ نامی نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ آپ نے کوئی وقت اور مقام ہے مقر ر نہیں کیا تھا اس لئے آپ کی فتح پر اعتراض ہونے میں بھی ایک سنت اللہ ہے.إِنَّ اللهَ لَا يَسْتَحْيِ أن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا - اللہ تعالیٰ ایک مچھر کی مثال بیان کرنے سے نہیں رکتا.مومن اسے کہتے ہیں کہ یہ حق ہے لیکن بر خلاف اس کے منکرین یہ کہتے ہیں کہ یہ کیا مثال دی ہے اس سے اللہ تعالیٰ کی یہ مراد ہے کہ پیشگوئی میں ہمارا یہ بھی طریقہ ہے.مسلمان مومن تو سمجھ لیتے ہیں اور مان لیتے ہیں لیکن منکر اعتراض کرتے رہتے ہیں اور گمراہ ہی رہتے ہیں.خدا تعالیٰ نے کہا تھا کہ فلاں سے تعلق رکھو وہ اس سے قطع تعلق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے تو اس کے خلاف ہی کرنا

Page 73

خطبات محمود جلد ۴ ۶۴ سال ۱۹۱۴ء ہے.اور وہ زمین میں فساد کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ فساد مت کرنا.یہ پیشگوئیاں ہیں جو کہ صرف صحابہ کیلئے ہی نہ تھیں بلکہ اب بھی جو شخص و یسا بن جاوے اس کے ساتھ پوری ہوسکتی ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوکتا ہی کوئی دکھ ہو یا تکلیف ہو آپ گھبراتے نہ تھے.اسی طرح حضرت خلیفہ مسیح ( خدا کی آپ پر ہزاروں ہزار رحمتیں ہوں) کو میں نے دیکھا ہے آپ بھی کبھی کسی مشکل اور کسی دکھ سے گھبراتے نہیں تھے.آپ فرماتے تھے کہ دنیا وی دکھ اور مصیبتیں کچھ حقیقت نہیں رکھتیں.ان لوگوں کا دل سکینت میں ہوتا ہے دنیاوی مصیبتیں ان کے سامنے کچھ حقیقت نہیں رکھتیں.تم بھی ایسے ہی بنو.خدا تعالیٰ کے خزانے وسیع ہیں اس کے خزانے غیر محدود ہیں.اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑ وہ تمہیں آرام ملے گا.اس سے تعلق بڑھانے سے کوئی مصیبت تم کو ستا نہیں سکتی.کیونکہ جب انسان ایک مالک سے تعلق کر لے تو اس کے ماتحت اسے کچھ نہیں کہہ سکتے.جب کسی آدمی کو کسی بادشاہ کا چپڑاسی دُکھ دے تو جب وہ بادشاہ کا قرب حاصل کرلے تو چپڑاسی کا ڈر نہیں رہتا.ایک قاضی کے پاس کسی آدمی نے کچھ روپیہ امانت رکھا لیکن جب وہ واپس لینے کیلئے آیا تو قاضی نے کہہ دیا کہ کیسا روپیہ، مجھے کب دیا تھا تم غلط کہتے ہو.اس نے کہا حضور ! فلاں وقت اتنی تعدا دروپوں کی میں نے آپ کے حوالے کی تھی کہ اسے امانت رکھیں تو قاضی نے بڑی سختی سے اس بیچارے کو باہر نکلوا دیا اور کہا کہ کیا ہم خائن ہیں.تم نہیں جانتے کہ میں شہر کا حاکم ہوں قاضی ہوں تم مجھ پر بدظنی کرتے ہو.وہ بے چارہ بادشاہ کے پاس فریاد لے کر گیا تو بادشاہ نے کہا کہ میں اب کیا کر سکتا ہوں وہ کہہ دے گا کہ میں قاضی ہوں میں ایسا کر سکتا ہوں اور ثبوت تو کوئی ہے نہیں.ہاں البتہ ایک طریقہ ہو سکتا ہے.اگر تم ایسا کرو تو شاید تمہارا روپیہ واپس ملے سکے.وہ یہ کہ کل جب جلوس نکلے تو تم بھی دیکھنے والوں میں کھڑے ہو جانا.مگر قاضی کے نزدیک یا پاس کھڑے ہونا.میں آؤں گا اور تمہیں السّلامُ عَلَيْكُمْ کہوں گا.تم ڈرنا نہیں اور بڑی بے تکلفی سے میرے ساتھ باتیں کرنا.اس نے ایسا ہی کیا.جب بادشاہ آیا اور اس نے السّلامُ عَلَيْكُمْ کہا تو اس نے وَعَلَيْكُمُ السّلامُ کہا.بادشاہ نے کہا کہ کیوں میاں تاجر ( اس کا نام لے کر ) بڑے افسوس کی بات ہے کہ تم اتنی مدت ہوگئی کہ کبھی ملنے کو ہی نہیں آئے.تم تو ہمارے دوست ہو.غرض اسی طرح وہ اور بھی بڑی بے تکلفی سے باتیں

Page 74

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۴ء کرتا رہا.اور جب بادشاہ آگے چلا گیا تو قاضی صاحب نے آہستہ سے اس کو کہا.کہ کیوں میاں ! کل جو تم روپے کا ذکر کرتے تھے وہ کون سا روپیہ تھا.اس نے پھر وہی نشان بتلا دیئے جو اس نے پہلے بتلائے تھے تو قاضی نے اس کا روپیہ اس کو دے دیا.اور کہا کہ تم نے پہلے ہی یہ باتیں کیوں مجھ کو نہ بتلائیں.غرض اسی طرح انسان کا تعلق اگر مالک سے ہو جاوے تو مملوک اسے کچھ دکھ یا تکلیف نہیں دے سکتے.تمام پھر خدمت گار بن جاتے ہیں اس لئے تم بھی اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھو تا کہ تم کو کوئی دکھ نہ دے اور کوئی چیز تمہیں تکلیف نہ دے سکے گی.ل البقرة : ۲۶ تا ۳۰ تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحه ۹۹ مطبع نولکشور لکھنو ۱۳۲۳ھ الفضل ۸.اپریل ۱۹۱۴ء )

Page 75

خطبات محمود جلد ۴ ۶۶ (۱۷) نبی کا انکار خدا کا ہی انکار ہے (فرموده ۱۰.اپریل ۱۹۱۴ ء ) سال ۱۹۱۴ء تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کی تلاوت کی :.كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُميْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ.هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوْهُنَّ سَبْعَ سمُوتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ اور پھر فرمایا:.پیچھے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم مسایل پیہم کے مخالفین پر حجت قائم کی ہے اور بتلایا ہے کہ کیوں نبی کے آنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور کس طرح اللہ تعالیٰ کے کلام کے بغیر نجات نہیں مل سکتی.پھر کلام الہی کے مخالفین کی نسبت بتلایا ہے کہ وہ دکھ کے عذاب میں ڈالے جائیں گے اور تم دیکھ لو گے کہ وہ کس طرح تباہ و برباد ہوتے ہیں اور کلام الہی کو ماننے والے بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کریں گے اور وہ مظفر ومنصور ہوں گے اور وہ فتوحات حاصل کریں گے.پھر ایک بات ہوتی ہے جو صرف عقل ہی عقل ہوتی ہے اور ایک واقعہ ہوتا ہے پھر فرمایا کہ یہ بات صرف عقلا ہی نہیں بلکہ واقعہ بھی ایسا ہی ہے.پھر بتلایا کہ لوگ اعتراض کرتے ہیں فرمایا کہ جب کوئی نشان می آتا ہے تو مومن فور اسمجھ جاتے ہیں اور مان لیتے ہیں لیکن شریر اور بد بخت انسان ہمیشہ اعتراض ہی کرتے ر جاتے ہیں.كُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمُ اب یہاں ایک اور بات بتلائی کہ ایسا اس زمانے میں

Page 76

خطبات محمود جلد ۴ ۶۷ سال ۱۹۱۴ء نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ ہمیش سے ایسا ہوتا آیا ہے.اور یہ سنت اللہ ہے کہ اس نے پہلے جب تم مردہ تھے تو اس نے تم کو کھڑا کیا.پھر جب تم میں قابلیت نہ رہے گی تو تم کو مار دے گا اور تمہاری بجائے اور لوگوں کو کھڑا کر دے گا.اسی طرح پر ان کو مار کر اور دوسروں کو اس کی جگہ کھڑا کر دے گا.پچھلی آیات سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بالکل منکر نہ تھے بلکہ وہ بجائے ایک اللہ کے کئی ایک معبودوں کو مانتے تھے.اور ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی کسی صفت کا جھٹلا نا گو یا الہ تعالی کا جھٹلا نا ہے.ذکر تو اس بات کا تھا کہ نبی کو مان لو ورنہ تم سکھ نہ پاؤ گے تمہیں دکھ ہوگا لیکن یہاں كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللہ فرمایا ہے اس لاین سے معلوم ہوا کہ نبی کا انکار خدا کا ہی انکار ہے کیونکہ نبی ہی کے ذریعے خدا کی توحید قائم ہوتی ہے.چنانچہ اس زمانے میں بھی ایک انسان دنیا میں آیا جس نے قرآن کریم کی صداقت ثابت کر دی.اگر مسیح موعود علیہ السلام تشریف نہ لاتے تو قرآن کی صداقت ظاہر نہ ہوتی.حدیث شریف میں آتا ہے لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ بِالكُرَيَّا لَنَا لَهُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ فَارِسَ ۲ تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان ایک زمانہ میں دنیا سے اُٹھ جاوے گا اور اسے ایک آدمی اہل فارس میں سے دوبارہ لاوے گا.پھر اللہ تعالیٰ اور نبی کریم صلی سیستم کی سچائی ظاہر ہوگی.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو فرمایا ہے آنتَ مِلَّى مَنْزِلَةِ تَوْحِيدِى وَتَفْرِيدئی سے کہ تیرے ہی ذریعہ میری توحید و تفرید ثابت ہوئی.پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یا شمس یا قمر سے کہا ہے یا شمس اس لئے فرمایا کہ تیرے آنے سے ہی خدا تعالیٰ ظاہر ہوا.اور قمر اس لئے کہ یہ سب روشنی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہے اور اس کی ہے.اور اگر وہ نہ ہوتا تو آپ بھی نہ ہوتے.پس انبیاء کی آمد ایمان کو درست کرتی ہے اور خدا تعالیٰ کو اور پہلے نبیوں کو دوبارہ منواتی ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے منکرین نبوت کا نام تَكْفُرُونَ بِاللهِ رکھا ہے.وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا حالانکہ تم میں بارہا ایسے آدمی آتے رہے کہ تم مردہ تھے اور انہوں نے تم کو زندہ کیا.یہ ایک عجیب بات ہے کہ دنیا میں جب کبھی بھی کوئی نبی آیا تو اس کی وفات کے بعد لوگوں نے الہام کا انکار کر دیا کہ اب الہام کا دروازہ بند ہو گیا ہے اور اب کسی پر الہام نہیں ہوسکتا اور نہ کوئی نبی اب آ سکتا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام آئے تو ان کے بعد بھی ایسا ہی ہوا کہ یہود نے پھر الہام سے انکار کر دیا.اور الہام کے دروازہ کو مسدود ہی سمجھا.اور اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام اور ایسا ہی نبی کریم صلی ای یتیم کے وقت

Page 77

خطبات محمود جلد ۴ ۶۸ سال ۱۹۱۴ء کے بعد ہوا.نبیوں کی وفات کے بعد جب الہام کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے تو پھر لوگ الہام سے ہی منکر ہو جاتے ہیں اور لوگوں کے دلوں سے تقویٰ اور طہارت اٹھ جاتے ہیں.ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ.یہاں دو زمانوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے (۱) عرب مُردہ تھے تو ان کی طرف نبی کریم صلی پی ایم آئے اور وہ آپ کے وقت میں زندہ ہو گئے پھر ایک ایسا دن آیا کہ تم پہلوں کی طرح سچائی سے دور تھے اور مُردہ تھے تو تمہاری طرف بھی ایک نبی آیا.ایسا ہی خدا تعالیٰ تم کو جبکہ تم بے دین ہو جاؤ گے تو دوبارہ تمہیں زندہ کرے گا.اب فرماتا ہے هُوَ الَّذِی خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا - دنیا کی تمام چیزیں تمہارے لئے پیدا کیں لکم کے معنی ہیں تمہارے فائدہ کیلئے تا کہ تم کو اس سے نفع پہنچے.اس میں ایک حجت قائم کی ہے.ایک انسان اگر کسی عبث کام کیلئے محنت کرے جس میں کوئی فائدہ نہ ہو تو وہ انسان دانا نہیں بلکہ نادان ہوا کرتا ہے.تو فرمایا کہ ہم نے تمام چیزیں تمہارے نفع رسانی کیلئے پیدا کی ہیں.کوئی چیز دنیا میں ایسی نہیں ہے جو انسان کیلئے نفع رساں نہ ہو.زمین میں ہر ایک قسم کے فوائد ہیں.پانی.نباتات ، جمادات وغیرہ تمام اشیاء ان میں سے کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو فائدہ نہ دینے والی ہو.جتنے جتنے معلومات بڑھ رہے ہیں اتنا ہی معلوم ہو رہا ہے کہ کوئی چیز نا کارہ نہیں ہے.کوئی ادنیٰ سے ادنی چیز بھی لے لو وہ بھی نا کارہ نہ ہوگی.درختوں کی چھال ہی لے لو اس سے ہی کتنے فوائد حاصل ہوتے ہیں.منجملہ ان کے اس سے کاغذ بنتے ہیں اور اس کے کپڑے بھی بنتے ہیں.شہروں کے لوگ جانتے ہیں کہ پاخانہ سے کتنے فائدے ہوتے ہیں کسان اس سے کتنا فائدہ حاصل کرتے ہیں پہلے تو لوگ اسے یونہی باہر پھینک دیا کرتے تھے.تو جتنا جتنا علوم ترقی کرتے چلے جاتے ہیں اتنا ہی ہر ایک چیز کے فوائد معلوم ہوتے جار ہے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اتنے سامان جو پیدا کئے گئے ہیں کیا یہ سب عبث ہی بنائے ہیں.اگر اس زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی نہ ہوئی تھی اور اس کا نتیجہ صرف یہی تھا کہ اس دنیا میں انسان چند سالوں تک رہے پھر مر کر ناک ہو جاوے اور پھر اسے دوبارہ اپنی جزا ء سزا کیلئے نہ اٹھنا ہو اور پھر اس زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی نہ ہو تو پھر یہ سامان عبث جاتا.پھر فرمایا کہ صرف زمین ہی نہیں بنائی بلکہ سات بلند یاں بھی ہیں.ایک تو ہر ایک ستارے کا علیحدہ علیحدہ مرکز ایک الگ سماء بن جاتا ہے.سورج.چاند ستارے وغیرہ.صوفیاء نے تو پھر اس کی اور ہی تعریف کی ہے و دو سبع سموت کچھ اور ہی بتلاتے ہیں وہ کہتے ہیں.ایک

Page 78

خطبات محمود جلد ۴ ۶۹ سال ۱۹۱۴ء سماء وہ جو ہمارے اوپر ہے.ایک وہ جو خواب میں دکھائی دیتا ہے.ایک ملاء اعلیٰ کا.ایک حشر کا.ایک قبر کا.پھر دوزخ اور جنت کا یہ الگ الگ سماء ہیں.پھر سات آسمان سات بلند یاں.ہر روحانی ترقی کے بھی سات درجے ہیں اور جسمانی ترقی کے بھی سات درجے ہیں.سورۃ مومنون میں اس کا ذکر ہے.براہین احمدیہ حصہ پنجم میں حضرت مسیح موعود نے اس کو خوب کھول کر لکھا ہے اور ایسی تفسیر کی ہے کہ اُسے پڑھ کر انسان کا ایمان تازہ ہو جاتا ہے.وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِیمٌ.اسے ہر ایک چیز کا علم ہے.وہ عالم ہے یہ جو کچھ اس نے بنایا ہے عبث نہیں بنایا.وہ تو عالم ہے اور علماء تواغ اور عبث کا موں سے پر ہیز کرتے ہیں تو اللہ تعالی علیم وخبیر ہوکر ایسے کام کرے گا.اگلے رکوع میں مثالیں دے کر سمجھایا ہے.ایک صحابی تھا وہ لڑائی میں بڑے زور سے جنگ کر رہا تھا اور دشمن کا بڑی دلیری سے مقابلہ کر رہا تھا.اس کی نسبت نبی کریم صلی ا یہ تم نے فرمایا کہ یہ جہنمی ہے تو بعض صحابہ کو بہت برا معلوم ہوا کہ ایک بیچارہ اتنی سختی سے دشمن کا مقابلہ کر رہا ہے مگر آپ اسے جہنمی کہہ رہے ہیں.پھر بعض نے آپ کو عرض کیا تو آپ نے فرمایا.نہیں یہ ضرور جہنمی ہے.تو اس خیال سے کہ کسی کے ایمان میں خلل نہ آجاوے ایک صحابی اس کے ساتھ لگ گیا.اور جدھر وہ جاتا وہ بھی اس نے کے ساتھ ہی ہوتا.آخر کا ر ا سے ایک زخم لگا جس کے درد کو وہ برداشت نہ کر سکا.تو اس نے تلوار کوزمین پر ٹیک کر اور اس کے اوپر اپنا پیٹ رکھ کر دبایا اور خود کشی کر لی ۵.تب وہ صحابی واپس آیا اور اس نے نبی کریم صلی ایلم کے حضور آکر عرض کیا اور بتلایا کہ اس نے اس طرح خود کشی کر لی ہے.ایسا ہی بعض لوگ بظاہر تو نیک معلوم ہوتے ہیں لیکن دراصل وہ شقی ہوتے ہیں اور ان کا انجام برا ہوتا ہے.اور بعض لوگ بظاہر بڑے معلوم ہوتے ہیں لیکن وہ آخر کار نیک ہوتے ہیں.اس لئے انسان کو چاہئیے کہ ہمیشہ دعاؤں میں لگا رہے اور کبھی سنتی سے کام نہ لے.جس کو خدا تعالیٰ صداقت دیتا ہے وہ گمراہ نہیں ہوتا.بعض بڑے بڑے گندوں میں رہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کو بچا لیتا ہے.اور بعض بڑی بڑی عمدہ صحبتوں میں رہ کر بھی تباہ ہو جاتے ہیں.اس لئے انسان کو اللہ تعالیٰ کے حضور گرے رہنا چاہیئے.ہمارا مرنا اور جینا اللہ کیلئے ہو اور ہمارا سب کچھ اسی کیلئے ہو.الفضل ۱۵ اپریل ۱۹۱۴ ء )

Page 79

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۴ء ل البقرة : ٣٠،٢٩ بخاری کتاب التفسير - تفسير سورة الجمعة باب قوله و آخرين منهم لما يلحقوا بهم تذکرہ صفحہ ۶۶.ایڈیشن چہارم ۴، تذکره صفحه ۵۸۸ - ایدیشن چهارم ه بخاری کتاب المغازی باب غزوہ خیبر

Page 80

خطبات محمود جلد ۴ (IA) سال ۱۹۱۴ء ہر نئے امر کی پہلے مخالفت ہوتی ہے فرموده ۱۷.ایریل ۱۹۱۴ ء ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:.وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لا تَعْلَمُونَ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَئِكَةِ فَقَالَ اَنْبِتُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ اِنْ كُنتُمْ صَدِقِينَ قَالُوا سُبْحَنَكَ لا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ.قَالَ يَأْدَمُ انْبِتُهُم بِأَسْمَائِهِمْ فَلَمَّا أَنْبَأَهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي اعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ اس کے بعد فرمایا:.ہر ایک نئی بات پر ، ہر ایک نئی چیز پر ، انسان گھبرا جاتا ہے خواہ وہ کیسی ہی اچھی اور مفید کیوں نہ ہو لیکن طبیعت مضائقہ کرتی ہے کہ انسان اس کو اسی وقت مان لے.کفار مکہ ایک پتھر کے بت کے سامنے سجدہ کرتے تھے.رسول اللہ سایہ ایم ( جن کو وہ خود ایک صادق اور امین سمجھتے تھے ) نے جب ان کو آکر کہا کہ بت پرستی بہت بری ہے تو چونکہ ان کو ایک عادت پڑی ہوئی تھی اور مدتوں سے ایک بات ان کے دل میں بیٹھ گئی تھی جس کیلئے ان کے پاس کوئی دلیل وغیرہ نہ تھی، کوئی ثبوت اس کا نہ تھا، تو انہوں نے آپ کی بات کو نہ مانا اور اس کا انکار

Page 81

خطبات محمود جلد ۴ ۷۲ سال ۱۹۱۴ء کر دیا.اسی طرح جب کبھی دنیا میں کوئی نئی بات انسان کے سامنے آتی ہے تو خواہ وہ کیسی صداقت پر مبنی کیوں نہ ہو.شروع شروع میں طبیعت ضرور اس سے متنفر ہوتی ہے.اسی لئے جب انبیاء علیہم السلام دنیا میں آتے ہیں دنیا میں ان کی ضرور مخالفت ہوتی ہے اور اس طرح کے اعتراضات ہونے شروع ہو جاتے ہیں کہ یہ بھی ہماری طرح کا ایک انسان ہے.ہماری طرح کھاتا پیتا اور ہم میں چلتا پھرتا ہے اور آج یہ کہتا ہے ہے کہ میں تمہارا سردار ہو گیا ہوں.پھر جب دلائل سنتے ہیں تو جو ملائکہ صفت ہوتے ہیں وہ جھٹ اس کو مان لیتے ہیں.انبیاء اور ان کے خلفاء کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے.مامورخلیفہ کے ہونے پر طبائع میں یہ خیالات پیدا ہوتے ہیں کہ ہم اور یہ برابر کے تھے یہ ہم سے منوا تا تھا اور ہم اس سے منوا لیتے تھے.آج یہ مطاع ہو جائے اور ہم مطیع ہو جائیں اس کو ایسا کونسا سر خاب کا پر لگا ہوا ہے.جب اللہ تعالیٰ کے نبیوں اور خلفاء کے ساتھ ایسا ہوتا آیا ہے اور انبیاء سب سے زیادہ شان کے ساتھ آتے ہیں اور پھر مامور خلفاء کے ساتھ بھی یہی ہوتا آیا ہے.تو پھر غیر مامور خلفاء کی تو سب سے زیادہ مخالفت ہونی ضروری ہے.آدم آیا تھا ملائکہ نے اعتراض کر دیا.اَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا.کہ تو ایک مفسد کو جو فساد کرے گا پیدا کرتا ہے.اور ہم تو ہمیشہ تیری تسبیح و تقدیس کرتے تھے اور قدیمی خدمت گزار تھے پھر کیا ضرورت تھی کہ ایک خلیفہ بنایا جاوے.اس غریب نے کیا کرنا ہے.یونہی فساد ہوگا ( یہ لوگوں میں تبلیغ کرے گا.وہ اس کو نہ مانیں گے.پھر وفد آئیں گے.ٹریکٹ شائع ہوں گے اور قوم کا روپیہ ضائع ہو گا ) ایک انسان دوسرے انسان پر کسی ایک نہ ایک بات میں فضیلت بھی رکھتا ہے اس میں کیا شک ہے.اگر ایک بات میں موسیٰ بڑھے ہوئے تھے تو دوسری میں داؤد.ایک میں مسیح زیادہ ہیں تو دوسری میں سلیمان.جو خلیفہ مقرر کیا جاتا ہے اس میں دیکھا جاتا ہے کہ اس نے کل خیالات کو یکجا جمع کرنا ہے.اس کی مجموعی حیثیت کو دیکھا جاوے ممکن ہے کسی ایک بات میں دوسرا شخص اس سے بڑھ کر ہو.ایک مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر کیلئے صرف یہ نہیں دیکھا جا تا کہ وہ پڑھا تا اچھا ہے کہ نہیں ، یا اعلیٰ ڈگری پاس ہے یا نہیں.ممکن ہے اس کے ماتحت اس سے بھی اعلیٰ ڈگری یافتہ ہوں.اس نے تو انتظام کرنا ہے.افسروں سے معاملہ کرنا ہے.ماتحتوں سے سلوک کرنا ہے یہ سب باتیں اس میں دیکھی جاویں گی.اسی طرح سے خدا کی طرف سے جو خلیفہ ہوگا اس کی

Page 82

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۴ء مجموعی حیثیت کو دیکھا جاوے گا.خالد بن ولید جیسی تلوار کس نے چلائی مگر خلیفہ ابوبکر ہوئے.اگر آج کوئی کہتا ہے کہ یورپ میں میری قلم کی دھاک بچی ہوئی ہے تو وہ خلیفہ نہیں ہوسکتا.خلیفہ وہی ہے جسے خدا نے بنایا.خدا نے جس کو چن لیا اس کو چن لیا.خالد بن ولید نے ساٹھ آدمیوں کے ہمراہ ساٹھ ہزار آدمیوں پر فتح پائی.عمر نے ایسا نہیں کیا مگر خلیفہ عمر ہی ہوئے.حضرت عثمان کے وقت بڑے جنگی سپہ سالار موجود تھے.ایک سے ایک بڑھ کر جنگی قابلیت رکھنے والا ان میں موجود تھا.سارے جہان کو اس نے فتح کیا مگر خلیفہ عثمان ہی ہوئے.پھر کوئی تیز مزاج ہوتا ہے کوئی نرم مزاج.کوئی متواضع ، کوئی منکسر المزاج ہوتے ہیں.ہر ایک کے ساتھ سلوک کرنا ہوتا ہے جس کو وہی سمجھتا ہے جس کو معاملات ایسے پیش آتے ہیں.کوئی کہتا ہوگا کہ بڑی حکومت مل جاتی ہے.دو بچوں کا خوش کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے یہاں تو چار لاکھ انسان کے ساتھ معاملہ ہے.ملائکہ کو اپنے اپنے کام کی دھن ہوتی ہے کسی کو کوئی کام سپرد ہوتا ہے کسی کے کوئی.ایک فرشتے کے سپر دموت کا کام ہے بعض بارشوں پر اور بعض پہاڑوں کے موکل ہیں.غرض یہ کہ ہر ایک فرشتہ کسی ایک کام پر مقرر ہے.مگر بر خلاف اس کے آدم میں تمام مادے رکھے ہیں.موت کا فرشتہ بشارت نہیں جانتا.اور بشارت کا فرشتہ موت کو.ملائکہ مامور ہیں.وہ گناہ کرنا جانتے ہی ہے نہیں.وہ غفاری اور ستاری کی صفت کو کیا سمجھیں.يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ " کے ماتحت کام کرتے رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر اگر ہو سکتا ہے تو انسان ہی ہوسکتا ہے.کوئی ایسی ہستی ضرور ہونی چاہیئے جو بڑھے گھنٹے نیکی کرے اور بدی کرے.اسی طرح جو خلفاء ہوتے ہیں ان میں یہ رنگ پیدا کر دیتا ہے.اسماء صفات کی الہی ہیں.ملائکہ پر جب پیش کئے گئے تو انہوں نے لا علم لنا کہا.بے چارے شَدِيدُ الْاِنْتِقَامِ اور غفار کی صفت کیا سمجھ سکتے ہیں.اسی واسطے لکھا ہے کہ انبیاء کا درجہ ملائکہ سے بڑا ہوتا ہے.انہوں نے خدا کی تمام صفات کا مظہر اپنی ذات کو قرار دیا ہے.آدم نے تو سب کچھ بتلا دیا.لوط اور لوط کی بستی والے، ابراہیم اور اس کے مخالف ہموسی“ اور اس کے مخالف کسی جگہ بخشیش اور کسی جگہ سزا ہورہی ہے.کہیں نیکی ہو رہی ہے کہیں بدی ہو رہی ہے.بظاہر ملائکہ میں سے ہر ایک لائق ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک لائق نہیں تب ہی فرمایا.انّی اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ.اس زمانہ میں بھی ملائکہ نے اعتراض کیا لیکن آخر کار ملائکہ صفت فورا اپنی غلطی تسلیم کر کے ایمان لے آتے

Page 83

خطبات محمود جلد ۴ ۷۴ سال ۱۹۱۴ء ہیں.میں نے دیکھا ہے.ایک دن ایک خط آتا ہے جس میں پچاس اعتراض کئے ہوتے ہیں.دوسرے دن خط آتا ہے حضور میرے خط کے جواب کی ضرورت نہیں.مجھے افسوس ہے کہ میں اولین بیعت کنندگان میں کیوں نہ شامل ہو سکا میرے لئے خاص وقت میں دعا فرماویں.اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ہم سے ایسا کام اس نے لے لیا.دراصل یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہم سے کوئی خدمت لے لی.خدمت تو خدا کے فضل کے ماتحت ہوتی ہے نہ یہ کہ چونکہ میں نے خدمت کی ہے مجھے یہ ہونا چاہیئے.آنحضرت سلیا یتیم کی وفات کے بعد انتخاب خلافت کے وقت انصار نے حضرت ابوبکر کے مقابلہ میں یہ امر پیش کیا تھا کہ ہم نے بڑی مدد کی تمہیں جگہ دی.وغیرہ وغیرہ.حضرت ابوبکر اللہ تعالیٰ کے مامور تھے.اس لئے فرمایا.ہم کہتے ہیں تم مان جاؤ اگر ملائکہ صفت ہو.جب تک ضد نہ ہو، شرارت نہ ہو، خدا تعالیٰ فرماتا ہے انجام نیک ہوتا ہے.ملائکہ کو آخر حکم ہوا کہ اسْجُدُ والأدمت پہلے ملائکہ کوکوئی حکم نہیں ملا تھا کہ سجدہ کرو.انہوں نے جب آدم پر اعتراض کیا تو پھر فرمایا.اب تمہیں آدم کی ضرور فرمانبرداری کرنی ہوگی.حضرت خلیفہ المسیح کے عہد میں بعض نے برخلاف آواز اٹھائی تب حضرت نے دوبارہ بیعت لی اور کھول کھول کر بیعت لی.اور ہر ایک سے اعلان کروایا.انسان کو چاہیئے کہ وہ سوچے کہ اگر میں بڑا ہوں تو خدا مجھے خود بڑا بنا دے گا اور اگر میں چھوٹا ہوں اور بڑا بننا چاہتا ہوں تو ذلیل ہوں گا.الفضل ۲۲.اپریل ۱۹۱۴ء) البقره: ۳۱ تا ۳۴ التحريم: البقرة: ٣٥

Page 84

خطبات محمود جلد ۴ ۷۵ (19) سال ۱۹۱۴ء مومن اپنی خدمات پر تکبر نہیں کرتے فرموده ۲۴.اپریل ۱۹۱۴ء بمقام قادیان) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کی تلاوت کی وَاذْ قُلْنَا لِلْمَلَئِكَةِ اسْجُدُوا لِأَدَمَ فَسَجَدُوَ إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَفِرِينَ.وَقُلْنَا يَأْدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّلِمِينَ فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَنُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مَا كَانَ.فتلقى وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلى حِينٍ.ادَمُ مِنْ رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّلِى هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِأَيْتِنَا أَوْلَئِكَ أَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ پھر فرمایا کہ:.پچھلی آیات میں تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات کی طرف متوجہ فرمایا ہے کہ خلفاء ہمیشہ سے ہوتے آئے ہیں اور جب کبھی وہ آئے ہیں ان کا معت بلہ کیا گیا.اور بڑے بڑے لوگوں نے ان کے ماننے سے پہلے انکار کیا ہے لیکن ان میں جو سعید لوگ ہوتے ہیں وہ مان لیتے ہیں.اب اس نیکو کار گروہ کے علاوہ جو نا واقفی کی وجہ سے خلفاء کا مقابلہ کرتا ہے اس گروہ کا ذکر فرماتا ہے جو شرارت سے معت ابلہ کرتے ہیں.آدم کا مقابلہ فرشتوں نے کیا.اور اللہ تعالیٰ کو کہا

Page 85

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۴ء کہ ہم اس سے بہتر ہیں.ہم تیرے فرمانبردار ہیں اور تیری تعریف اور تقدیس کرتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ایسے انسان کو جو کہ دنیا میں لڑائی اور فساد کرے گا فتنے پھیلائے گا ہم سے سجدہ کروایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کی فرمانبرداری کرو لیکن جب اللہ نے ان کو فرمایا کہ تم نہیں جانتے کہ میری اس میں کیا مصلحت ہے تو انہوں نے گردن جھکالی.خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے فرمانبردار ہو جاؤ.پس سجدہ میں جھک پڑے.اگر چہ پہلے انہوں نے اعتراض کیا تھا لیکن جواب ملنے پر فرمانبردار ہو گئے.ہر ایک چیز پر فرشتے مسلط ہیں.خدا نے ان کو حکم دیا کہ جس چیز سے انسان فائدہ اٹھانا چاہے یا اس کو استعمال کرنا چاہے اس کو روکنا نہیں.یہی فرشتوں کی فرمانبرداری ہے جو کہ آدم کے لئے کروائی گئی.ایک ملائکہ انسان ہوتے ہیں ان کو امام وقت کی فرمانبرداری کا حکم ہوتا ہے گو ان کا دل مانے یا نہ مانے لیکن وہ فرمانبرداری کرتے ہیں.آنحضرت صلی السلام کے زمانہ میں حضرت ابوبکر " حضرت عمر " حضرت عثمان" حضرت علی فرشتے تھے لیکن سب کو حکم تھا کہ رسول کریم ملی ایتم کی خدمت کرو.پہلے انہوں نے انکار کیا لیکن ملائکہ تھے آخر مان گئے اور سجدہ کیا کہ رسول کریم سنی لیا اسلام کی وفات چھوڑا اپنی وفات تک سر نہ اٹھایا اور ساری عمر میں کسی نے ان کے منہ سے رسول کریم صلی ا یہ ان کے متعلق کوئی اعتراض نہ سنا مگر آنحضرت کو بھی ان لوگوں نے جو ابلیس تھے نہ مانا.ایک آدم علیہ السلام کے زمانہ کا ابلیس ہوگا.بعضوں نے کہا کہ شیطان ملائکہ کا استاد تھا باقی سب فرشتے جنہوں نے سجدہ کیا وہ اسکے شاگرد تھے.اور وجہ یہ بیان ہے کرتے ہیں کہ سجدہ کیلئے جہاں فرشتوں کا ذکر ہے اس کے ساتھ ہی ابلیس کا ذکر ہے اس لئے یہ بھی فرشتہ ہی ہے.لیکن یہ غلط ہے بادشاہ فوج کے کمانڈر انچیف کو حکم دیتا ہے اور وہ اپنا حکم اعلیٰ اور قریبی افسروں کو پہنچاتا ہے اس کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ وہ تمام فوج سے اس حکم کی تعمیل کروائے.حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا وند تعالیٰ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو پہلے قریبی فرشتوں کو حکم دیتا ہے.اور پھر وہ آگے پہنچا دیتے ہیں.ملائکہ کو فرمانبرداری کا حکم اس لئے ہوا کہ وہ دنیا سے فرمانبرداری کرائیں لیکن ابلیس نے انکار کر دیا.اور اس کی وجہ یہ تھی اس نے اپنے آپ کو بڑا سمجھا اور کہا کہ میں نہیں مان سکتا.جو انسان یہ کہے کہ میں نہیں مان سکتا وہ کبھی ہدایت نہیں پاسکتا.البتہ جو حق بات پر غور کرے اور درست و غلط میں تمیز

Page 86

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۴ء کرے وہ مان سکتا ہے اور ہدایت بھی پاسکتا ہے.ابلیس میں یہ نقص تھے.(۱) اول اباء کیا.(۲) تکبر کیا کہ ہم مان نہیں سکتے.ہم بڑے آدمی ہیں ہم نے بڑی بڑی خدمتیں کی ہوئی ہیں.اور اس نے ابھی کچھ نہیں کیا.البتہ اس نے فتنہ ڈلوا دیا ہے آج صبح کی نماز میں سورۃ سجدہ پڑھتے ہوئے خدا نے إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِأَيْتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُوا سُجَّدًا وَسَتَحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ " کے یہ معنی میرے دل میں ڈالے کہ مومن وہی ہوتا ہے جو کہ دین کی خدمت تو کرے لیکن اپنی خدمات پر اظہار تکبر نہ کرے.انھما کے معنی ہیں سوائے اس کے نہیں.یعنی سوائے ان لوگوں کے کوئی ہے مسلمان نہیں جن کو آیتیں سنائی جاتی ہیں تو فرمانبرداری کرتے ہیں اور خدا کو پاک ثابت کرتے ہیں.اور پھر یہی نہیں کہتے کہ ہم نے بڑی فرمانبرداری کی اور بڑی بڑی خدمتیں کی ہیں.مومنوں کی یہ نشانیاں ہوتی ہیں (۱) خود فرمانبردار ہوتے ہیں (۲) لوگوں میں خدا کو پاک ثابت کرتے ہیں (۳) اپنی خدمات کا اظہار اور ان پر تکبر اور تفاخر نہیں کرتے.شیطان نے انکار کیا کہ میں نے یہ یہ خدمتیں کی ہیں اور میں بڑا ہوں.آدم نے کیا کیا ہے جو اس کو خلیفہ بنایا جاتا ہے.لیکن کیا اس کو معلوم نہ تھا کہ آدم خدمت کے لئے ہی تو بنایا گیا ہے اور اس کے خدمت کرنے کا وقت اب آیا ہے اگر اس نے اس سے پہلے خدمت کی ہوتی تو پہلے کیوں خلیفہ نہ بنتا.خلیفہ خدمت کرنے کے لئے ہی مقرر کیا جاتا ہے.وہ انسان جو خلیفہ کا انکار کرتا ہے اس کے اندر پہلے ہی خرابی ہوتی ہے اور ضرور کوئی نہ کوئی گند اس میں ہوتا ہے اسی لئے انکار کرتا ہے.ورنہ ممکن نہیں کہ وہ تو خدا کا سچا فرمانبردار اور پکا مومن ہو لیکن خدا اس کا انجام بر اکر دے.یہ اس کا اپنا ہی قصور ہوتا ہے دشمنی ،بغض، جہالت اور ناپاکی اس کے اندر کسی نہ کسی گوشے میں ضرور ہوتی ہے جو اس کو حق.باز رکھتی ہے چاہے کوئی مانے یا نہ مانے اور کسی کو بڑا ہی لگے.لیکن میں تو صاف کہوں گا کہ اس زمانہ میں جنہوں نے مخالفت کی ہے وہ وہی ہیں جنہوں نے حضرت خلیفہ امیج اول پر اعتراض کئے اور وہ وہی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود کو خط لکھے کہ تم روپیہ کھا جاتے ہو کیا وہ اپنے خطوط سے انکار کر سکتے ہیں.جنہوں نے لکھا تھا کہ ہمیں تو قربانیاں کرنے کے لئے کہا جاتا ہے لیکن خود زیور بنواتے ہیں.ہمیں بتایا جاتا ہے کہ صحابہ بھوکے رہتے تھے اور خود اچھے اچھے کھانے کھاتے ہیں اور عالیشان مکانوں میں رہتے ہیں.

Page 87

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۴ء خدا وند تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے آدم کو کہا کہ جاؤ جنت میں جہاں چاہو رہو.شیطان تمہارا کر ہی کیا سکتا ہے.تم اس کی طرف متوجہ مت ہو اور جنت میں جہاں چاہو کھاؤ.ہاں ایک بات یادرکھنا کہ میرے جو شریعت کے احکام ہیں ان کی خلاف ورزی نہ کرنا.شجرہ کے معنی لوگ گیہوں کا درخت یا لڑائی جھگڑا اور اختلاف کرتے ہیں.میں اس کے معنی سمجھنے میں بڑی توجہ اور غور کرتا رہا ہوں اور خدا سے دعا کرتا رہا ہوں کہ اے الہی ! اس کے معنی مجھے قرآن سے ہی سمجھا دے.پس خداوند تعالیٰ نے اس کے معنی قرآن ہی سے سمجھائے ہیں.قرآن شریف میں دو شجروں کا ذکر آیا (۱) الخمر تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ ۳ (۲) مَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيئَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيئَةِ نِ جُتُنَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ ۴.ایک نیک نام ہیں وہ نیک شجر ہیں اور بد باتیں بدشجر.قرآن شریف نے نیک اور بد باتوں کا نام شجر رکھا ہے.آدم علیہ السلام کو خدا نے فرمایا.کہ اگر ایسا کرو گے.یعنی خدا کے احکام کی خلاف ورزی کرو گے تو نقصان اٹھاؤ گے.پھر چونکہ شیطان آدم کا دشمن تھا اس لئے با ہم ان میں لڑائی اور جنگ شروع ہوگئی اور جنگ میں غلطیاں بھی ہو جایا کرتی ہیں آدم سے غلطی ہوئی اور فتنہ پڑ گیا یعنی جس آرام و آسائش سے وہ رہتے تھے اس میں نہ رہے جیسا اب ہوا ہے.پہلا امن کہاں ہے.فَأَزَلَّهُمَا الشَّیطن ان کو کوئی غلطی لگ گئی.یہاں ابلیس کا لفظ خدا نے نہیں فرمایا.ابلیس اور شیطان کے ایک معنی نہیں ہیں.ابلیس تو وہ ہے جس کے متعلق خدا وند تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کا میرے بندوں پر کوئی تسلط نہیں ہے.شیطان شطن سے نکلا ہے.بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ.رسول کریم صنفی نیا ایام کے بعد خلافت کے منکرین خلیفہ کی بیعت کرنے والوں کے دشمن ہو گئے تھے.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر مجھے قتل کر دیا گیا تو مسلمان قیامت تک متفق نہ ہو سکیں گے ۵ پھر ایسا ہی ہوا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والے کبھی جمع نہیں ہوئے اور نہ ہو سکیں گے.ہمارے مسیح کو بھی الہام ہو ا وَ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ 1 کیسی خطرناک سزا ملی.عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ پہلے یہودی تھے اور پھر مسلمان ہو گئے.انہوں نے بائیبل میں نہ معلوم کس طرح یہ پیشگوئی نکالی تھی کہ ایک نبی آئے گا لوگ اگر اس کے خلیفہ کو مار دیں گے تو ہمیشہ ان میں دشمنی اور پھوٹ رہے گی.

Page 88

خطبات محمود جلد ۴ ۷۹ سال ۱۹۱۴ء وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَةٌ پھر جب مسلمانوں نے دیکھا کہ اب تو دشمنی ہو گئی ہے تو ڈر گئے کہ اب کیا کریں گے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہاں دنیا میں ہی گزارہ کرنا ہو گا ایک وقت تک.پھر آدم نے توبہ کی اور کہا کہ کوئی غلطی ہوگئی ہے جس سے فساد بڑھ گیا ہے اب کیا کریں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ استغفار کرو ہم معاف کر دیں گے.آجکل بھی خلافت کے جھگڑے میں ہمارے بعض لوگوں سے لکھتے وقت بعض سخت کلمات نکل گئے ہیں حالانکہ فریق مخالف نے بہت سخت لکھے ہیں اور ابتداء بھی انہیں کی ہے پس جن دوستوں سے غلطی ہوئی یا جن کی وجہ سے فتنہ میں ترقی ہوئی ہو وہ تو بہ کر لیں بس یہی علاج ہے.فَمَنْ تَبِعَ هُدی.خلافت ہمیشہ قائم رہے گی آدم سے لے کر آج تک خلافت میں وقفہ نہیں ہوا.کئی روحانی اور جسمانی خلافتیں ہوئی ہیں اگر روحانی نہ رہی تو جسمانی ہو گئی.اور جسمانی نہ رہی تو روحانی رہی ہے.پس جو کوئی اس ہدایت کی پیروی کرے گا اس کو کوئی فکر نہیں اور جولوگ انکار کریں گے وہ آگ میں ڈالے جائیں گے.رسول کریم صلی یتیم آدم تھے ان کا مقابلہ کیا گیا.اور بعض صحابہ سے غلطیاں ہوئیں لیکن پھر انہوں نے غلطیوں کی اصلاح کرلی.غلط کہتے ہیں وہ جو کہتے ہیں کہ ماموروں اور ان کے خلیفوں کا انکار کر کے بھی ہم سکھ پاسکتے ہیں.ہر ایک ہم میں سے آدم ہے جن نہیں.خدا نے سب پر آدم کا لفظ بولا ہے اور ہر ایک سے اس کا الگ الگ معاملہ ہے.ایک باپ کا بیٹا خلیفہ ہوتا ہے پھر بڑی قوم کا سردار خلیفہ ہوتا ہے.پھر غیر مامور خلیفے اور پھر انبیاء کے خلیفے ہوتے ہیں ان کے الگ رتبے ہوتے ہیں.اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو.مبارک ہے وہ انسان جو اپنی غلطیاں اپنے اوپر لگائے نہ کہ خدا پر.خدا سے اپنا تعلق مضبوط کرو اور ملائکہ کی طرح فرمانبرداری اختیار کرو.حضرت عثمان کے زمانہ میں صحابہ زیادہ تھے اور شریر لوگ تھوڑے لیکن جس قدر زمانہ گزرتا گیا وہ اتنے ہی زیادہ ہو گئے اور صحابہ کم.اور پھر تیرہویں صدی میں تو مسلمانوں کی یہ حالت ہوگئی کہ جس سے کہا جاتا ہے کہ جنگلی درندوں نے بھی پناہ مانگی ہے.اب چودھویں صدی کا مبارک زمانہ ہے اس میں اپنے اندر اصلاح پیدا کرو اور خدا کے سچے فرمانبردار بن جاؤ.الفضل ۲۹.اپریل ۱۹۱۴ ء ) ل البقرة: ۳۵ تا ۴۰ کے السجدة: ۱۶ ابراهیم : ۲۵

Page 89

خطبات محمود جلد ۴ ۸۰ سال ۱۹۱۴ء ابراهیم :۲۷ ه تاريخ الخلفاء للسیوطی صفحه ۱۱۵ مطبع نولکشور لکھنو ۱۳۲۳ھ میں یہ بات عبد اللہ بن سلام کی طرف منسوب ہے.انہوں نے حضرت عثمان کی شہادت سے قبل ناصحانہ انداز میں کہا تھا کہ:.وَإِنَّ سَيْفَ اللَّهِ لَمْ يَزِلُ مَغْمُودًا وَإِنَّكُمْ وَاللهِ اِنْ قَتَلْتُمُوهُ لَيُسَلَّنَّهُ اللهُ ثُمَّ لَا يَغْمِدُهُ عَنْكُمْ أَبَدًا..1 تذکرہ صفحہ ۶۱.ایڈیشن چہارم

Page 90

خطبات محمود جلد ۴ ΔΙ (۲۰) سال ۱۹۱۴ء اللہ کے عہدوں کو پورا کرنے سے ہی انعام حاصل ہوتے ہیں (فرموده یکم مئی ۱۹۱۴ء) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کی تلاوت کی:.يُبَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِي الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِى أَوْفِ بِعَهْدِ كُمْ وَإِيَّايَ فَارُهَبُونِ.وَامِنُوا بِمَا اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ وَلَا تَشْتَرُوا بِايْتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقِّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُونَ وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَأتُوا الزَّكَوةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ آتَا مُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَبَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ.وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ وَإِنّهَا لَكَبِيرَةُ إِلَّا عَلَى الْخَشِعِينَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلقُوا رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پھر فرمایا:.بہت لوگ دنیا میں اس قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ انصاف سے کام نہیں کرتے.جہاں کہیں ان کا معاملہ کسی سے پڑتا ہے ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ دوسرے کی چیز ہم لے لیں.یہ لوگ معاہدات کی پابندی نہیں کرتے ، حالانکہ بڑے شرم کی بات ہے کہ جب ایک بات پر معاہدہ ہو جائے تو اس سے یہ امید رکھی جاوے کہ اس کو زید تو پورا کرے اور میں نہ کروں اور کسی کا نقصان ہو تو ہولیکن مجھے ضرور ہی فائدہ پہنچ جاوے.تاجر لوگ چاہتے ہیں کہ ہر ایک چیز کی قیمت تو پوری لیں لیکن چیز گندی اور خراب

Page 91

خطبات محمود جلد ۴ ۸۲ سال ۱۹۱۴ء دیں.ادھر خریداروں کی خواہش ہوتی ہے کہ ہم قیمت تو تھوڑی دیں لیکن مال اچھا لیں.خواہ تاجر گھر سے ڈال کر دے.نوکر چاہتا ہے کہ میں محنت کم کروں لیکن تنخواہ زیادہ پاؤں اور آقا چاہتا ہے کہ کام پورا لوں لیکن تنخواہ بہت کم دوں.غرضیکہ ہر ایک آدمی اپنے معاملہ میں دوسرے کا نقصان ہی کرنا چاہتا ہے.لیکن یہ نہیں چاہتا کہ کسی اور کو بھی کوئی فائدہ پہنچ سکے.بعض دفعہ ہر دو فریق ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتے ہوئے خود نقصان اُٹھا لیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے میں نے سنا کہ ایک دفعہ ایک شخص نے ایک بزاز سے کپڑا خریدا.جب وہ خرید کر گھر چلا گیا تو فروخت کرنے والے شخص کو معلوم ہوا کہ اس کپڑے میں تو نقص تھا کیڑے نے اس کو نا کارہ کر دیا ہوا تھا.اس کو خوف خدا آیا کہ میں نے مسافر سے دھوکا کیا ہے.وہ ایک قافلے کا آدمی تھا قافلہ چلا گیا.تاجر اس کے پیچھے گیا اور دو تین منزلوں پر جا کر اس سے ملا اور کہا کہ میرا دل گھبرا گیا کیونکہ میں نے تم کو دھوکہ دیا.تم اپنا روپیہ واپس لے لو اور مجھے کپڑا دے دو.اس نے کہا کہ تو نے ہی دھوکا نہیں دیا میں نے بھی کیا ہے.جتنے روپے میں نے تم کو دیئے تھے وہ سب کھوٹے تھے مجھے تو نفع ہی رہا تھا.لوگوں سے تو دھوکا کیا ہی جاتا ہے لیکن آدمی اللہ کو بھی دھوکا دینا چاہتے ہیں.آدمی دھوکا کھا جاتا ہے.لیکن تعجب اور حیرت اس بات پر ہے کہ انسان خدا کو بھی دھوکا دینا چاہتے ہیں اور پھر عجیب در عجیب فریب کرتے ہیں.خدا کے ساتھ جو معاہدہ ہے اس کو تو پورا نہیں کرتے لیکن یہ امید رکھتے ہیں کہ خدا ہم سے اپنے عہد کو پورا کرے.یہ کہتے ہیں کہ ہم نے چونکہ مسلمان کہلا لیا پس خدا ہم کو مسلمان سمجھ لے گا خواہ ہم میں کتنا ہی بغض، کینہ ، دشمنی اور برائیاں کیوں نہ ہوں.اور خدا ہم سے مسلمانوں والا سلوک کرے گا اور دھوکا کھا جائے گا.لیکن انہیں معلوم نہیں کہ وہ عالم الغیب ہے.انسان دھوکا کھا سکتا ہے، دکاندار خریدار کو دھوکا دے سکتا ہے، نوکر آقا کو دھوکہ دے سکتا ہے اور آقا نوکر کے ساتھ دغا بازی کر سکتا ہے لیکن خدا دھوکا نہیں کھا سکتا کیونکہ وہ تو انسان کی ہر ایک کمزوری کو خوب جانتا ہے اور پوشیدہ بھیدوں اور ارادوں سے بھی خوب واقف ہے.بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان عبادت کرتا ہے لیکن خدا کی درگاہ میں قبول نہیں ہوتی.روزے رکھتا ہے لیکن خدا کے حضور قبول نہیں کئے جاتے.بیبیوں نیکی کے کام کرتا ہے لیکن رد کئے جاتے ہیں.جس کی وجہ یہ ہے کہ خدا انسان کی نیتوں اور اندرونی رازوں کو جانتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان باتوں سے کام نہیں بن سکتا میں

Page 92

خطبات محمود جلد ۴ ۸۳ سال ۱۹۱۴ء اسی وقت اپنے وعدے پورے کروں گا جبکہ تم بھی اپنے وعدے پورے کرو گے.جب تم راستباز بن جاؤ گے، گناہوں کو چھوڑ دو گے فسق و فجور سے قطع تعلق کر لو گے، بغض و کینہ سے اپنے سینوں کو صاف کر لو گے اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہو جاؤ گے تب تم سچے مسلمان بنو گے اور پھر تم سے وعدے پورے کئے جائیں گے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو بنی اسرائیل سے ہم نے وعدے پورے کئے تاریخ میں بنی اسرائیل کے حالات پڑھ کر رشک آتا ہے کہ چار چار سونبی ایک زمانہ میں پیدا ہوئے.کیا ہی محبت اور پیار کے دن ہوں گے نبیوں کی صحبتیں اور کثرت سے اولیاء کی صحبتیں کیا ہی مزا دیتی ہوں گی.خدا تعالیٰ کے پاس پہنچنے کے رستے کھلے ہوئے ہوں گے.لیکن جب انہوں نے اپنے عہدوں کو پورا کرنا چھوڑ دیا تو تباہ و برباد ہو گئے.یہودیوں سے بہت بڑھ کر مسلمانوں کے ساتھ خداوند تعالیٰ کے وعدے تھے اور اس جگہ اس آیت کا ذکر اس لئے ہے کہ تم میری نعمتوں کو یاد کرو.یہ وہی وعدے ہیں جو بنی اسرائیل سے کئے گئے.تم بھی میری نعمتوں کو دیکھ کر اپنے معاہدوں کو پورا کرو پھر میں بھی اپنے معاہدوں کو پورا کروں گا.کیا میں نے بنی اسرائیل سے پورے نہیں کئے تھے.تم ان نعمتوں کو دیکھ سکتے ہو جو ان پر ہوئیں.اب بھی میں ایسا کر سکتا ہوں بشرطیکہ تم اپنے آپ کو اس قابل بناؤ.میں پھر وعدے پورے کروں گا.مسلمانوں کے پاس یہودیوں سے بہت زیادہ ملک تھے.چین، افغانستان، بلوچستان ، ایران ، ترکستان آرمینیا ، یورپ کا بہت بڑا حصہ، افریقہ ، عرب.یہ ملک مسلمانوں کے پاس ان سے زائد تھے.پھر مسلمانوں کو نبی دیا تو ایسادیا کہ رسول کریم صلی یا کہ ہم نے فرمایا کہ لو كان مُوسَى وَعِيسَى حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتباعی ۲ اگر موسیٰ اور عیسی زندہ ہوتے تو انہیں میری ہی پیروی کرنی پڑتی.پھر عُلَمَاءُ أُمَّتِی كَأَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ سے ایسے عالی مرتبہ اولیاء بھیجے جو بڑی شان رکھتے تھے.بنی اسرائیل کے میں تو چار چارسو نبی ایک زمانہ میں ہوتے تھے ہم لیکن رسول کریم صلی اینم کی امت میں ایک ایک شہر میں چار چار سو دلی ہوئے.اور اس حدیث میں یہ بتایا گیا کہ گو کسی مصلحت سے ان کا نام نبی نہ رکھا جائے لیکن وہ نبیوں کی برکات والے ہوں گے.حضرت جنید رضی اللہ عنہ کے چار سوشا گرد ایک شہر میں رہتے تھے.دنیا کی کوئی حکومت اور طاقت رسول کریم مالی ایم کا معت الہ نہیں کرسکتی تھی اور کسی میں طاقت نہ تھی کہ وہ مسلمان سے لڑے.حضرت علی اور امیر معاویہ کی لڑائی کے وقت ایک عیسائی

Page 93

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۴ء بادشاہ نے حملہ کرنا چاہا تو امیر معاویہ نے اس کو کہلا بھیجا کہ اگر کوئی لڑائی کیلئے آیا تو علی کی طرف سے جو پہلا جرنیل نکلے گا وہ معاویہ ہوگا.۵.ایک پادری نے بادشاہ کو سمجھانے کے لئے دو کتے منگوائے اور ان کو بھوکا رکھا پھر ایک گوشت کا لوتھڑا منگوا کر اس پر ان کو چھوڑ دیا.اور ایک بھیڑیا بھی چھوڑا.تو وہ دونوں کتے اکٹھے ہو کر اس بھیڑیے پر حملہ آور ہوئے.اس نے کہا کہ یہی مثال مسلمانوں کی ہے.یہ اگر چہ آپس میں لڑتے ہیں لیکن کسی مقابلہ میں اکٹھے ہو جاتے ہیں.اگر چہ اس پادری نے یہ مثال تعصب اور عداوت کی وجہ سے گندی دی.لیکن اصل میں یہ واقعہ سچا تھا.اب مسلمانوں کی حکومتیں کہاں ہیں اور جو بے نام و نشان ہیں بھی انہیں دوسری سلطنتیں مردے کے ترکہ کی طرح بانٹ رہی ہیں.اور مسلمانوں کو کوئی پوچھتا تک نہیں.کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے یہودیوں کی طرح عہد شکنی کی ہے.اب تم نے بھی عہد باندھا ہے اس لئے خدا کی طرف سے یہ پیغام تمہارے لئے ہے کہ تم سے پہلی قوم صحابہ نے اپنے عہدوں کو پورا کیا.تم ان کی نعمتوں کو یاد کرو اور خدا کے عہدوں کو پورا کر وہ تمہارے ساتھ بھی یہ عہد پورے کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ل پس تم بیعت کے اقراروں کو پورا کرو ، خدا ( اُوفِ بِعَهْدِ (كُمْ) بھی پورا کر دے گا.پس کسی سے نہ ڈرو.بے جاؤر رکھنے والا ہلاک ہو جا تا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَارْهَبُونِ اللہ تعالیٰ کا ڈر دل میں رکھ کر کسی حکومت سلطنت اور دشمن کا ڈر نہیں رکھنا چاہیئے ہاں سلطنت کی فرمانبرداری صدق دل سے کرو.مگر یہ فرمانبرداری اس لئے کرو کہ خدا فرماتا ہے کہ اپنے حاکموں کی فرمانبرداری کرو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر میں وہی وعدے پورے کروں گا.مسلمانوں کی کیسی شان و شوکت تھی اگر کوئی جاہل انسان بھی ان حالات کو سنے تو اسے شوق آ جاتا ہے کہ کاش! میں بھی اس وقت ہوتا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اب بھی کوئی روک نہیں.اب تم وعدوں کو پورا کرو میں اس وقت بھی وہی کر سکتا ہوں.وعدے کئی قسم کے ہوتے ہیں.(۱) اپنے مطلب کے لئے وعدے کئے جاتے ہیں لیکن بعد میں نیت بدل جاتی ہے (۲) بعض وعدے تو سچے دل سے کئے جاتے ہیں لیکن مشکلات کی وجہ سے ان پر قائم نہیں رہا جا سکتا.(۳) وعدہ تو پورا کرنے کے لئے کیا جاتا ہے لیکن اس کو پورا کرنے کی توفیق ہی نہیں ملتی.لیکن خد

Page 94

خطبات محمود جلد ۴ ۸۵ سال ۱۹۱۴ء ان سب کمزوریوں سے پاک ہے.اللہ کی نہ نیت بدلتی ہے نہ وہ کمزور ہے نہ اس کے سامنے کوئی روک آ سکتی ہے.غرضیکہ اللہ تعالیٰ کی طرف کسی نقص کو منسوب کرنا ہی جہالت ہے تو جب ایسی ہستی وعدہ کرے تو اس کے پورا ہونے میں کون سا شک و شبہ ہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اس کی اطاعت اختیار کرو.اس سے جو وعدہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا کیا ہے اس کو پورا کرو.اسلام کے حکموں پر چلو تم نے ایک دفعہ نہیں دو دفعہ نہیں بلکہ تین دفعہ عہد کیا.یہ عام مشہور ہے کہ پہلی اور دوسری دفعہ تو گناہ معاف ہوسکتا ہے لیکن تیسری دفعہ معاف نہیں کیا جاتا.اپنے اندر ہوشیاری پیدا کرو.غفلت اور سستی کو چھوڑ دو.دنیا میں ایک بہادر سپاہی کی طرح رہو.ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی تمہیں مٹا نہیں سکتیں.عزت اور شان وشوکت مومن کی غلام ہے جب کوئی خدا کا فرمانبردار ہو جاتا ہے تو یہ ہاتھ باندھ کر آجاتی ہے.اللہ کے عہدوں کو پورا کرو تا کہ وہ اپنے انعاموں کا دروازہ تم پر کھولے.خدا تمہیں دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی توفیق دے تاکہ تم عہدوں کو پورا کر سکو.ل البقرة: استام (الفضل ۱۱ مئی ۱۹۱۴ ء ) ل اليواقيت و الجواهر جلد ۲ صفحه ۲ مطبوعہ مطبع ميمنة مصر ۱۳۱۷ھ مکتوبات امام ربانی از حضرت مجدد الف ثانی جلد ۱ صفحه ۳۳۶ مطبع نولکشور ۴ سلاطین باب ۲۲ آیت ۶ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳ء د مجمع بحار الانوار جلد ا صفحه ۲۶، ۲۷ زیر لفظ ”ارس“ مطبوعہ نولکشور ۱۳۱۴ھ حضرت امیر معاویہ کے اصل الفاظ اس پیغام میں یہ تھے.لئن تیممت على ما بلغنى لا صالحن صاحبى ولا كونن مقدمته ولا جعلن قسطنطنية حممة سوداء ولا نزعنك عن الملك نزع الاصطفلينه ولا ردنك اريسا من الارارسة ترعى الدوابل - یعنی اگر تو نے میرے پاس تھی پہنچنے والی خبر کے مطابق حملہ کا ارادہ کیا تو میں فور ا حضرت علی سے صلح کر کے ان کی طرف سے تیرے مقابل پر سب سے پہلا نکلنے والا جرنیل ہوں گا اور یاد رکھ کہ میں تیرے پایۂ تخت قسطنطنیہ کو جلا کر سیاہ کر دوں گا اور تجھے تیرے تاج و تخت سے علیحدہ کر کے تجھے ایک ذلیل چرواہا بنادوں گا کہ تو شوروں کے پہلے چرا تا پھرے گا.تذکرہ صفحہ ۶۱.ایڈیشن چہارم

Page 95

خطبات محمود جلد ۴ ۸۶ (۲۱) قرآن گزشتہ انبیاء اور الہامی کتب کی تصدیق کرتا ہے (فرموده ۸ مئی ۱۹۱۴ء) سال ۱۹۱۴ء تشهد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی: وَامِنُوا بِمَا أَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ وَلَا تَشْتَرُوا بايتي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقِّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقِّ وَأَنْتُم تَعْلَمُونَ اس کے بعد فرمایا:.بہت سی جگہ انسان اس لئے ٹھوکر کھا جاتا ہے کہ وہ کسی غصے اور جوش میں آکر ایک حق بات کو تسلیم نہیں کر سکتا.مثلاً ایک مبلغ کسی کو تبلیغ کرنے جائے اور جاتے ہی اس کو گالیاں سنانی شروع کر دے تو اس کی بات کا کہاں اثر ہوگا اور اس بات کو کب کوئی مانے گا.کیونکہ جس کو وہ تبلیغ کرے گا وہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے میرے سامنے اپنی باتوں کو ایسے رنگ میں پیش کیا تھا کہ میں مان نہیں سکتا تھا.بہت سے ایسے معاملات جو بُرے طریقے پر پیش کئے جاتے ہیں لوگوں کو سچائی کے ماننے سے روک دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن شریف کی نسبت اہل کتاب کو فرماتا ہے کہ اگر اس میں یہ لکھا ہوتا که نَعُوذُ باللہ) موسی جھوٹے ہیں یا توریت اللہ کی طرف سے نہیں ہے یا مسیح" کا دعویٰ نبوت غلط ہے یا انجیل الہامی کتاب نہیں ہے تو گو اس صورت میں بھی جو کچھ قرآن پیش کرتا غور کرنے کے قابل تھا لیکن اس میں تو ایسا نہیں ہے بلکہ یہ تو تمہارے عقائد کے مطابق ان کی

Page 96

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۴ء تصدیق کرتا ہے اس لئے تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ قرآن ہمارے سامنے ہمارے عقائد کو بڑے اور جوش دلانے والے رنگ میں پیش کرتا ہے اس لئے ہم مان نہیں سکتے تم کو تو ہماری کتاب پر غور کرنے کا بڑا موقع تھا اور تم ٹھنڈے دل سے اس پر غور کر سکتے تھے.اگر ایک یہودی ایک عیسائی کو تبلیغ کرے تو اس کو کہنا پڑے گا کہ انجیل خدا کی کتاب نہیں ہے.اسی طرح اگر ایک عیسائی ہندو کو تبلیغ کرے تو وہ وید کو جھوٹا کہے گا اور وہ یہ بھی کہے گا کہ تم میں کوئی نبی نہیں آیا لیکن قرآن شریف ایسا نہیں کہتا بلکہ یہ کہتا ہے کہ وَاِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيرٌ كوئى ايسى امت نہیں جس میں کہ نبی نہ آیا ہو.اس لئے قرآن شریف کا مانے والا یہ کبھی نہیں کہے گا اور مذہب والوں میں کوئی نبی نہیں آیا.وہ تو جب یہ سنے گا کہ کوئی قوم کہتی ہے ہم میں فلاں نبی آیا.تو وہ کہیں گے سبحان اللہ ! اس سے تو قرآن شریف کی صداقت ثابت ہو رہی ہے.باقی تمام مذاہب کو مشکلات پیش آ رہی ہیں کہ نئے نئے مذہب نکلتے آتے ہیں.لیکن کئی لاکھ نہیں بلکہ اگر کئی کروڑ بھی مذاہب پیدا ہو جا ئیں تو بھی قرآن شریف کے ماننے والے کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ قرآن شریف کہتا ہے کہ ہر ایک مذہب میں نبی آئے ہیں اس لئے اس کو کسی نبی کو نبی ماننے میں کوئی مشکل پیش نہیں آسکتی.اگر غور کیا جاوے تو بڑے غضب کی بات معلوم ہوتی ہے کہ جب سورج ، ہوا، پانی، زمین اور دیگر خدا کے انعامات سے دنیا کا ہرا ایک فرقہ بلا کسی خصوصیت کے یکساں طور پر فائدہ اٹھاتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ کوئی فرقہ کسی نبی کی ہدایت سے محروم رکھا جائے جو کہ خدا کے انعاموں میں سے ایک انعام ہے.ہم نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی کسی کو یہ کہنے کا حق ہے کہ قرآن سے پہلے کوئی الہامی کتاب نہ تھی.یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی نبی نہیں آیا.کیا وہ خدا کے بندے نہیں تھے جو اس انعام سے محروم رکھے جاتے.ہر ایک مذہب میں جو جو نبی آئے ہیں اور جو جو کتابیں ان پر نازل ہوئیں قرآن ان سب کی تصدیق کرتا ہے.تو جب قرآن ان کی تصدیق کرتا ہے تو اے اہل کتاب ! تم ایسی سچی کتاب کو کیوں نہیں مانتے اور کیوں اس پر عمل نہیں ہے کرتے.پہلی کتابوں کو سچا ماننا اور بات ہے اور ان کی شریعتوں پر عمل کرنا اور بات ہے.کیونکہ شریعت ایک قانون ہوتا ہے.جس طرح ایک متانون دوسرے قانون کے نافذ ہونے کی وجہ سے منسوخ ہو جاتا ہے اسی طرح پہلی شریعت دوسری شریعت سے منسوخ ہو جاتی ہے.یہ

Page 97

خطبات محمود جلد ۴ ۸۸ سال ۱۹۱۴ء قانون قدرت ہے کہ مختلف حالتوں کے ماتحت اشیاء تبدیل ہوتی رہتی ہیں مثلاً غلہ ہے اس کو اگر انسان استعمال نہ کریں تو کچھ مدت میں گل سڑ کر خراب ہو جاتا ہے.بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ایک وقت تو پسندیدگی کی نظر سے دیکھی جاتی ہیں لیکن دوسرے وقت میں انہی سے نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے اور وہ پسندیدگی اور نفع رسانی کے قابل نہیں رہتیں.ہر زمانہ میں نبی آئے لیکن ان کے بعد کے آنے والے نبیوں نے ان کی شریعتوں کو منسوخ کیا.ابراہیم علیہ السلام کی شریعت کو موسیٰ علیہ السلام نے منسوخ کیا.ویدوں کی شریعت کو رامچندر جی نے منسوخ کیا.اسی طرح قرآن شریف نے پہلی سب کتابوں پر عملدرآمد کرنے کو منسوخ کردیا لیکن ان کے منجانب اللہ ہونے سے انکار نہیں کیا.وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ ہے.ایک وہ شخص ہوتا ہے جس نے کسی چیز کا مزا ہی نہ چکھا ہو.مثلاً یورپ میں آم نہیں ہوتا.اس لئے اگر ہم کسی یورپین کو بتائیں کہ آم کا یہ مزا ہوتا ہے تو اگر وہ انکار کر دے تو گو وہ جھوٹا ہے لیکن وہ معذور بھی ہے.لیکن اگر کوئی ہندوستانی اس بات سے انکار کرے تو وہ اس کی نسبت زیادہ جھوٹ کا مرتکب ہوگا.اللہ تعالیٰ یہود اور نصاریٰ کو فرماتا ہے کہ تم نے تو خدا کی کتابوں کا مزا چکھا ہوا ہے تم الہام کو مانتے ہو شریعت کو مانتے ہونبیوں کو مانتے ہو تو پھر تمہاراحق نہیں کہ تم پہلے پہل انکار کر دو.وَلَا تَشْتَرُوا بِايْتي ثَمَنًا قَلِيلًا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میری تعلیموں کا تھوڑا مول کیوں لیتے ہو.کیا تم مجھ سے نہیں ڈرتے.جب کوئی قوم گندی ہو جاتی ہے تو خدا کی آیتوں کے اپنے خیالی معنے بنانے شروع کر دیتی ہے.مسلمان دکاندار جو قرآن شریف فروخت کرتے ہیں یہی آیت سنا کر جاہل لوگوں سے آنوں کی بجائے روپے وصول کرتے ہیں.اگر کوئی قرآن شریف کی قیمت ۱۰ آنے یا ۱۲ آنے کہے تو کہتے ہیں تو بہ تو بہ ! خدا کے کلام کی اتنی تھوڑی قیمت حالانکہ قرآن شریف میں عمنا قلیلا کے معنے خداوند تعالیٰ نے خود فرما دیئے ہیں کہ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِیل ۳ یعنی دنیا میں جو کچھ بھی ہے قلیل ہے.اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ تم دین کو بیچ کر دنیا نہ لو.آج کل مسلمان چند آنوں کے بدلے قرآن شریف اٹھانے کے لئے کچہریوں کے دروازوں پر پھرتے رہتے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے اہل کتاب! جب تم کو میری تعلیم سچی معلوم ہوئی ہے تو دنیا کی خاطر اس کو نہ چھوڑو تم کو اگر اس کی وجہ سے اپنا وطن ، دین ، مال اور اولا د چھوڑنی پڑے تو کوئی پرواہ نہ کرو.کیونکہ یہ چیز میں تم کو کوئی فائدہ

Page 98

خطبات محمود جلد ۴ ۸۹ سال ۱۹۱۴ء نہیں دے سکیں گی اور نہ خدا کے عذاب سے بچا سکیں گی.اگر کوئی آدمی کوڑھی ہو جائے تو وہی اس کے عزیز اور رشتہ دار جو اس کے ہاتھ چومتے تھے اس سے گھن کرنے لگتے ہیں اور پاس نہیں بیٹھنے دیتے.جب تم کو اس دنیا میں میرے عذاب سے کوئی بچا نہیں سکتا تو آخرت میں کون بچائے گا.اس وقت اسلام پر بڑی مصیبت پڑی ہوئی ہے.مسلمانوں نے قرآن شریف کو ، شریعت کو اور اعمال صالحہ کو چھوڑ دیا ہے.دین کو بھلا کر دنیا کے کاموں میں مشغول ہیں.اس وقت صرف تمہاری ہی ایک جماعت ہے جو ترقی کر سکتی ہے تمہارے لئے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں.تم نے تو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے.تم اپنی گفتار سے رفتار سے اعمال سے دنیا پر ثابت کر دو کہ ہمارے سامنے دین کے مقابلہ میں دنیا کوئی ہستی نہیں رکھتی.یہ مت خیال کرو کہ کسی کی ناراضگی اور دشمنی کی وجہ سے ذلیل ہو جاؤ گے.ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا.تم اپنے آقا حضرت مسیح موعود مہدی مسعود کو دیکھ لو.دنیا نے ذلیل کرنے میں کتنی کوشش کی.حکومت کی طرف سے مقدمے بنائے گئے.عوام نے مقدمے کرنے میں ایڑی سے لے کر چوٹی تک کا زور لگایا.لیکن خداوند تعالیٰ نے اپنے نبی کے مقابلے میں کسی کی پیش نہ جانے دی.اگر تم ان کے سچے فرمانبردار ہو تو کوئی دنیا کی تکلیف تمہیں نہیں پہنچ سکتی.اگر ایسے ہو جاؤ گے تو خداوند تعالیٰ یقینا تمہیں کبھی ذلیل نہیں ہونے دے گا.الفضل ۱۳ مئی ۱۹۱۴ء) البقرة: ۴۳، ۴۲ فاطر: ۲۵ النساء:

Page 99

خطبات محمود جلد ۴ ۹۰ (۲۲) سال ۱۹۱۴ء حق کو چھپانا اور حق اور باطل کا ملا ناسخت نقصان دہ ہے (فرموده ۱۵ مئی ۱۹۱۴ء) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:.وَلَا تَلْبِسُوالْحَقِّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ.وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَاتُو الزكوةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ اتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَبَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ.وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَوَةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ الا عَلَى الْخَشِعِينَ الَّذِيْنَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلْقُوْا رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ.اس کے بعد فرمایا:.حق اور باطل کا ملانا سخت نقصان دہ ہوتا ہے.جن چیزوں میں آسانی سے امتیاز ہو سکتا ہے اور وہ علیحدہ ہو سکتی ہیں ان میں ہر ایک انسان فیصلہ کر سکتا ہے لیکن اگر ایک نا واقف انسان کے سامنے بری اور بھلی چیز ملا کر رکھ دی جائے تو اس کو ان میں امتیاز کرنا مشکلات میں ڈال دیتا ہے.مثلاً اگر کسی آدمی کے سامنے زہر اور تریاق ملا کر رکھ دیا جائے تو وہ زہر اور تریاق میں ہر گز فرق نہیں کر سکے گا.لیکن یوں اگر کہیں کہ یہ زہر کا پیالہ ہے اور وہ شہر کا.بلکہ ان دنوں میں سے جس کو چاہو قبول کر لو تو بہت لوگ بلکہ سارے ہی لوگ سوائے ان کم بختوں کے جو کہ خود کشی کرنا چاہتے ہیں شہد کے پیالہ ہی کولیں گے اور اگر شہد میں زہر ملا کر پیالہ بھر دیا جائے اور پھر کہا جائے کہ یہ شہد کا پیالہ ہے تو سارے پی لیں گے.اسی طرح اگر حق اور باطل کو الگ الگ کر کے بتایا جائے تو لوگ جلد سمجھ لیتے ہے

Page 100

خطبات محمود جلد ۴ ۹۱ سال ۱۹۱۴ء لیکن شیطان اپنی کارروائی کرتا رہتا ہے.اور حق کو باطل میں ملا کر لوگوں کے سامنے رکھ دیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ایسا مت کیا کرو یعنی حق اور باطل کو مت ملاؤ.حق کو حق ہی کہو اور باطل کو باطل.کیونکہ اس طرح لوگ دھو کے میں آجاتے ہیں پھر حق کو چھپاؤ بھی نہ.اگر چھپاؤ گے تو لوگوں کو فائدہ کس طرح ہوگا.مجھے تعجب ہے کہ اگر کوئی دولتمند ہو تو اچھا لباس پہن کر یا امیرا نہ ٹھاٹھ سے وہ اپنی دولت کو ظاہر کرتا ہے اور اگر کوئی عالم ہو تو علیت کا اظہار کرتا ہے.اس طرح جو بھی کسی کے پاس اچھی چیز ہو اس کو لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے.ایک مثل مشہور ہے کہ کسی عورت نے ایک انگوٹھی بنوائی تھی اور اس کو لوگوں کو دکھانے کیلئے اس نے اپنے گھر کو آگ لگا دی.جب عورتیں اس کے پاس افسوس کے لئے آئیں تو کہنے لگی سب کچھ جل گیا ہے اور کچھ باقی نہیں بچا لیکن یہ انگوٹھی رہ گئی ہے.ایک عورت نے اس کو کہا کہ تو نے یہ انگوٹھی کب بنوائی ہے.تو اس نے کہا اگر یہی بات تو پہلے پوچھتی تو میرا گھر کیوں جلتا.اگر چہ یہ بات تو ایک لطیفہ ہے مگر اس میں شک نہیں کہ ذرا کسی کے پاس علم ہو، دولت ہو، وجاہت ہو وہ اس کو پھیلانے کی بڑی کوشش کرتا ہے لیکن لوگوں کے پاس دین کی بڑی بڑی خوبیاں ہوتی ہیں ان کے اظہار کی طرف توجہ نہیں کرتے.اگر کسی مسلمان کے پاس ایک ایسا ہیرا ہو جو کسی کے پاس نہ ہو تو وہ ضرور فخر کے طور پر لوگوں کو دکھاتا پھرے گا کہ میرے پاس اس قدر قیمتی ہیرا ہے جو کہ کسی اور کے پاس نہیں لیکن وہ خدا کے دیئے ہوئے قیمتی ہیرے لوگوں کو نہیں دکھاتا.قرآن شریف کے سوا یہ قیمتی ہیرے کہاں محفوظ ہیں اور اسلام کے بغیر کہاں ہیں ؟ مگر چونکہ مسلمان ان کو پیش نہیں کرتے اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو یقین نہیں ہے کہ یہ ہیرے ہیں کیونکہ اگر یہ ان کو ہیرے سمجھیں تو کیوں نہ کسی کے آگے پیش کریں.اب مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ اسلام کو چھپاتے پھرتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم جان بوجھ کر حق کو مت چھپاؤ.وَاقِيمُوا الصَّلوةَ وَاتُو الزَّكُوةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِيْنَ پھر فرماتا ہے کہ نماز کو قائم کرو اور زکوۃ دو.اور وہ لوگ جو اللہ کے فرمانبردار ہیں.ان کے ساتھ مل کر کام کرو.اس آیت کی میں اللہ تعالیٰ نے تین حکم بیان فرمائے ہیں.(۱) نماز قائم کرو (۲) زکوۃ دو ( ۳) رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو.اس تیسرے حکم پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ آقِیمُوا الصَّلوة میں رکوع بھی شامل ہے کیونکہ جو آدمی نماز پڑھے گا وہ رکوع بھی ضرور کرے گا تو جب رکوع

Page 101

خطبات محمود جلد ۴ ۹۲ سال ۱۹۱۴ء أَقِيمُو الصَّلوةَ میں شامل ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اركَعُوا مَعَ الرَّاكِعِيْنَ الگ فرماتا ہے.بعضوں کا خیال ہے کہ یہود اس کے مخاطب ہیں لیکن میرے نزدیک اس میں ایک حکمت ہے اور وہ یہ ہے کہ رکوع کے معنے جھکنے میلان کرنے اور مائل ہو جانے کے ہیں.یہاں اللہ تعالیٰ نے جو لطیف بات بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ شریعت کے معین شدہ احکام تو فرائض میں داخل ہیں اس لئے وہ تو اسی طرح بجالائے جاتے ہیں.جس طرح کہ ان کا حکم ہے مثلاً ظہر کی نماز کی چار رکعتیں ہیں.ہندوستان ، شام ، چین، مصر، عرب اور افریقہ غرضیکہ ہر ایک جگہ کے مسلمان چار ہی رکعتیں پڑھیں گے کیونکہ اس کی شریعت نے حد بندی کر دی ہے.اسی طرح جن احکام کو شریعت نے فرائض ٹھہرا دیا ہے ان کو ہر ایک مسلمان خواہ وہ کسی ملک میں رہنے والا ہو یا کوئی زبان بولنے والا ہو یکساں طور پر ادا کرے گا.ایسے سب احکام جو عبادت کیلئے ہیں آقِیمُو الصلوۃ وأتُوا الزَّکوۃ میں آ جاتے ہیں.کیونکہ ہر ایک عبادت جسمانی ہوگی یا مالی، اس لئے عبادت کے سب فرائض ان دو حکموں کے اندر ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کو تو اسی طرح پورا کرو جس طرح تم کو حکم دیا گیا ہے اور باقی نیکیاں جن میں تم کو اختیار دیا گیا ہے ان کے کرنے کا طریق یہ ہے کہ اِرْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِين جماعت سے مل کر کرو اور علیحدہ علیحدہ ہمارے حضور میں نہ آؤ.حدیث سے ثابت ہے کہ رسول کریم ملا سین نے فرمایا کہ جو شخص جماعت میں سے ایک بالشت بھی دور ہو جاتا ہے وہ ہم سے نہیں ہے ۲.اب لوگ کہتے ہیں کہ جبکہ ہمارے پاس سچی تعلیم موجود ہے تو پھر جماعت کی کیا ضرورت ہے لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر نیک بات بھی کرنی ہو تو بھی جماعت کے ساتھ مل کر کرو.صحابہ کرام نے اپنے عمل سے اس کی تشریح کر دی ہے.حضرت ابن عمر بہت محتاط آدمی تھے جب بہت بغاوت ہوئی تو انہوں نے حضرت عثمان سے پوچھا کہ لوگ تو مارتے ہیں.اب میرے لئے کیا حکم ہے حضرت عثمان نے جواب دیا کہ جماعت کو لو اور جماعت کے ساتھ رہو.انہوں نے کہا کہ اگر جماعت آپ کے خلاف ہو تب میں کیا ہے کروں.فرمایا.پھر بھی جماعت کے ساتھ رہو.انہوں نے پھر کہا کہ لوگ آپ کو قتل کر دیں گے تو پھر.آپ نے فرمایا کہ پھر بھی جو جماعت ہو اس کے ساتھ مل جاؤ علیحدگی ہرگز اختیار نہ کرو.اتأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتب أفَلا تَعْقِلُونَ.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے یہود ! تم لوگوں کو تو بھلائی کا حکم کرتے ہو اور ان کو پڑھ پڑھ کر

Page 102

خطبات محمود جلد ۴ ۹۳ سال ۱۹۱۴ء سناتے ہو.لیکن اپنے آپ کو بھول گئے ہو.آجکل بھی لوگ اتفاق، اتحاد کا وعظ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شریعت کے احکام کو نہ توڑو اور ان کو ترک نہ کر ولیکن خود سب کچھ کرتے ہیں اور برے کاموں کو نہیں چھوڑتے ایسے آدمی کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہم ایسا کریں تو رشتہ دار، ماں، باپ، بھائی وغیرہ مخالفت کرتے ہیں.اس لئے ان کیلئے خدا تعالیٰ نے فرمایا اِسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة یعنی زکوۃ اور صلوٰۃ سے مدد مانگو اور دعائیں مانگو.پھر یہ کام مشکل تو ہے مگر خدا کے حضور متوجہ ہونے والے لوگ کسی مشکل کی پرواہ نہیں کرتے اور حق بات کی مخالفت سے نہیں ڈرتے.بے دین لوگوں کیلئے پانچ وقت کی نماز پڑھنی مشکل ہوتی ہے دنیاوی کاموں میں لگے رہتے ہیں.یہاں ایک آدمی آیا تھا جب وہ واپس گیا تو کسی نے یہاں کے حالات دریافت کئے.وہ کہنے لگا کہ وہاں تو کوئی کام نہیں ہوتا.دن میں ہزاروں نمازیں پڑھی جاتی ہیں.جن لوگوں کا تعلق خدا تعالیٰ سے نہیں ہوتا.ان و نماز کی کہاں توفیق مل سکتی ہے.نماز کیلئے عزت و مال اور وقت کی قربانی کرنی پڑتی ہے.مثلاً اگر ایک افسر یا حاکم مسجد میں نماز پڑھنے کیلئے جا کر بیٹھے تو اس کا چپڑاسی اس کے پاس بیٹھ سکتا ہے یا اسکے کندھے سے کندھا ملا کر ایک نو مسلم چو ہڑا نماز پڑھ سکتا ہے لیکن جن لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب سے ملیں گے ان کیلئے یہ باتیں ذرا بھی مشکل نہیں ہوتیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کے کام ضائع نہیں ہوں گے بلکہ سب کاموں کا پورا پورا اور ٹھیک بدلہ ان کو دیا جائے گا.خدا تعالیٰ کے حضور گر جاؤ اور اللہ تعالیٰ کو ہر وقت یاد کرتے رہو جو اس کے حضور گر جاتے ہیں وہ کبھی ضائع نہیں ہو سکتے.وہی نہیں بلکہ حضرت داؤ د فرماتے ہیں کہ میں نے خدا کے بندوں کی اپنی عمر میں سات پشتوں تک کی اولا دکو بھیک مانگتے نہیں دیکھاس بیہ ترقی کا گر ہے کہ تم خدا کو کبھی نہ بھولو تم اور تمہاری اولا د اور پھر اولاد کی اولاد بھی کبھی ضائع نہ ہوگی.تم اللہ تعالیٰ کے حضور پسندیدہ ہو جاؤ.خدا اپنے ہر ایک بندے سے وفاداری کرتا ہے کیونکہ فرماتا ہے کہ اِنَّ اللهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ " جب تک انسان خود اپنے اندر گندا اور پلیدی پیدا نہ کرے اللہ تعالیٰ اپنے انعام واکرام بند نہیں کرتا.جب کبھی تم پر کوئی مصیبت یا ابتلاء آئے اور آتے رہیں گے کیونکہ یہ سلسلہ نہ آج تک بند ہوا ہے اور نہ آئندہ بند ہوگا.خلافت خواہ دوسری ہو یا ت تیسری یا چوتھی ہو یا پانچویں یا چھٹی.ہمیشہ یہ ابتلاء آتے رہیں گے.اگر ابتلاء نہ آئیں تو پھر خدا کی طاقت کس طرح ظاہر ہو.

Page 103

خطبات محمود جلد ۴ ۹۴ سال ۱۹۱۴ء ان ابتلاؤں کا علاج صرف یہی ہے کہ تم خدا تعالیٰ کو یا درکھو اور اس کے حضور گر کر دعائیں کرو.خدا تعالیٰ ایسے اسباب پیدا کر دے گا جن سے تمہارے سب مصائب دور ہو جائیں گے اس گر کے یادرکھنے والے کیلئے نہ آج دکھ ہے اور نہ آج سے کئی سال بعد ہو سکتا ہے یہ ناممکن ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کو یا درکھتا ہے خدا اُس کو تباہ کرے.ل البقرة: ۳تا۴۷ الفضل ۲۰ مئی ۱۹۱۴ ء ) مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَمَاتَ إِلَّا مَاتَ مِيْتَةً جَاهِلِيَّةً بخاری کتاب الفتن باب قول النبی ﷺسترون بعدی امورا....الخ میں نے صادق کو بے کس اور اُس کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے نہیں دیکھا“.(زبور باب ۳۷ آیت ۲۵) الرعد: ١٢

Page 104

خطبات محمود جلد ۴ ۹۵ (۲۳) اللہ تعالیٰ کے حضور گرنے والے کے اعمال ضائع نہیں جاتے.فرموده ۲۲.مئی ۱۹۱۴ء) سال ۱۹۱۴ء تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:.يبنى إسْرَاءِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِي الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَلَمِينَ وَاتَّقُوا يَوْمًا لَّا تَجْزِى نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ وَإِذْ نَجَيْنَكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَ كُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ وَفِي ذلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ اس کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے حضور جو شخص گرتا ہے اور پناہ چاہتا ہے، خواہ وہ کسی قوم کا یا کسی مذہب کا یا کسی ملک کا ہو اس کے اعمال ضائع نہیں جاتے.یہ صرف تنگدل اور ان لوگوں کا کام ہے جو وسعت حوصلہ نہیں رکھتے اور جن کی شفقتیں اور عنایتیں اپنے رشتہ داروں، بھائیوں اور بیٹوں کیلئے مخصوص ہوتی ہیں، ایسے لوگوں کی نظریں اپنے لواحقین تک ہی محدود رہتی ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کو اپنی نگاہ میں رکھتا ہے.انسانوں میں سے کوئی شام کا ہو یا عرب کا ، ایران کا ہو یا مصر کا ، ہندوستان کا ہو یا انگلستان کا ، ایشیاء کا ہو یا یورپ کا غرض کسی جگہ کا رہنے والا ہو وہ خدا کی مخلوق ہے.پھر انسان ہی نہیں بلکہ جمادات اور نباتات بھی خدا ہی کی مخلوق ہیں.تو جب سب کچھ اسی کا ہے تو صرف ایک خاص گروہ سے اللہ تعالیٰ کا تعلق کس طرح

Page 105

خطبات محمود جلد ۴ ۹۶ سال ۱۹۱۴ء ہوسکتا ہے؟ اس کا تعلق تو ہر ایک چیز سے ایک جیسا ہی ہے.اس لئے جو کوئی بھی اس کے حضور گر جائے اور اس کے دین کی خدمت کرے اور اپنے گناہوں سے تو بہ کرے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرے وہ کبھی ضائع نہیں ہوسکتا ہے.ہر زمانے میں ایسے آدمی گزرے ہیں جنہوں نے اپنے نفسوں کو مار کر خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کیا ہے.اور پھر ان کو بڑی بڑی کامیابیاں بھی نصیب ہوئی ہیں.یہی ہندوستان دیکھ لو اور ہندوؤں کی حالت پر نظر کرو.جواب پتھر کے بت اپنے ہاتھوں سے بنا کر ان کے آگے گرتے ہیں حالانکہ پتھر کی جو کچھ حیثیت ہے وہ ان کو خوب معلوم ہے.رسول کریم صلی نام کے ایک صحابی فرماتے ہیں کہ مجھے بت پرستی سے اس طرح نفرت ہے ہوئی کہ میں ایک دفعہ سفر کو چلا اور بت کو اپنے ساتھ لیا.راستے میں مجھے ایک جگہ سے کوئی چیز لانے کی ضرورت ہے پڑی.میرے پاس بو جھ تھا.میں نے بوجھ کو رکھ کر اس کے پاس بت کو کھڑا کر دیا اور کہا کہ میرے مال کی حفاظت کرتے رہنا.لیکن جب میں واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک گیدڑ ٹانگ اٹھا کر اس کے سر پر پیشاب کر رہا ہے.میں نے خیال کیا کہ میں اس کو پوجتا ہوں جس کو اتنی بھی طاقت نہیں کہ گیدڑ کی ٹانگ توڑ دے تو اس نے مجھے کیا فائدہ پہنچانا ہے.مجھے اس سے ایسی نفرت ہوئی کہ میں نے اسی وقت اس کو توڑ دیا ۲؎ یہ تو بتوں کی طاقت ہے لیکن ہمیں دیکھنا یہ چاہیئے کہ ان ہندوؤں کی ابتداء کہاں سے شروع ہوئی ہے.انہی بت پرستوں کے اندر ہمیں ایسے ایسے بہت سے نام ملتے ہیں جن کی وفات پر ہزاروں سال گزر گئے ہیں لیکن اب بھی کروڑوں انسان ان کے نام پر اپنی جانیں قربان کرنے کیلئے تیار ہیں.اور ایسی قوم میں جو پتھر ایسی بے حقیقت چیز کے آگے سجدہ کرتی ہے ان کی عزت و توقیر چلی آتی ہے.پارسیوں میں زرتشتیوں میں، بدھوں میں، یہودیوں میں غرضیکہ ہر قوم میں ایسے آدمیوں کے نام پائے جاتے ہیں جنہوں نے خدا سے تعلق پیدا کیا.اور باوجود یکہ اب وہ قو میں گر گئی ہیں لیکن ان کے نام میں عزت میں اور تو قیر میں کوئی فرق نہیں آیا.وہ لوگ جو حریت کا دم بھرنے والے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم کسی کی ماتحتی نہیں کر سکتے یعنی اہل یورپ ان کی بھی مسیح کے نام پر گردنیں جھک جاتی ہیں.اور مسیح کا نام لکھتے وقت Our Lord ہی لکھتے ہیں.مسلمان خواہ کتنے ہی شریر ، بدکار، زانی، فاسق فاجر کیوں نہ ہوں لیکن جب آنحضرت صلہ اسلام کا نام آئے تو بے اختیار ان کے منہ سے سالی یا اینم کا کلمہ جاری

Page 106

خطبات محمود جلد ۴ ہو جائے گا.۹۷ سال ۱۹۱۴ء ہر ایک قوم میں نذیر کیوں آئے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر قوم یہ سمجھے کہ ہمارے ساتھ بھی کسی وقت الہی تعلق رہا ہے اور خدا تعالیٰ کی عنایات کسی خاص قوم سے وابستہ نہیں ہیں.اس لئے خدا تعالیٰ نے ہر ایک قوم کے پاک آدمیوں کے ناموں کو زندہ رکھا.چوہڑوں اور چماروں کو ہی دیکھو ان میں بھی ایسے آدمی گزرے ہیں.لال بیگ وغیرہ نام اب تک ان کی زبانوں سے سنے جاتے ہیں لیکن چونکہ ان کو بہت مدت گزر گئی ہے اس لئے کہ گرتے گرتے اس حالت تک پہنچ گئے ہیں.ان کی سیاست کا زمانہ ہندوؤں سے پہلے کا تھا.ہندو چونکہ ہندوستان کے اصلی باشندے نہیں ہیں اس لئے جب یہ یہاں آئے تو انہوں نے اصلی باشندوں کو اپنا غلام بنالیا اور اپنا تمام کام کاج ان سے کروانے لگ گئے اس لئے یہ سخت رذیل ہو گئے.سانسی بھی ان میں ہی ایک قوم ہے جو کہ جوتی نہیں پہنتے وہ کہتے ہیں کہ جب اپنی حکومت ہوگی تب جوتی پہنیں گے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی زمانہ میں یہ قوم بھی صاحب حکومت رہے چکی ہے اور اب انہوں نے جوتی نہ پہنا اپنی حکومت کے مٹنے کا نشان رکھا ہوا ہے.بڑے تعجب کی بات ہے کہ سانسی جو نظر حقارت سے دیکھے جاتے ہیں وہ تو اپنا قومی نشان رکھتے ہیں لیکن مسلمانوں کے ملک پر ملک تباہ ہور ہے ہیں اور ان کو پرواہ تک نہیں.سکندر بہت بڑا بادشاہ گزرا ہے اب بعض لوگ اسے گالیاں دیتے ہیں لیکن کسی کو پر واہ بھی نہیں ہے کہ کوئی کیا کہتا ہے.لیکن اگر ان لوگوں کو جنہوں نے خدا سے تعلق پیدا کیا تھا کوئی برا بھلا کہے تو ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں انسان اپنی جانیں قربان کر دیں گے.مسیح وہی تو تھا جس کو یہودیوں نے پکڑ کر سولی پر لٹکا دیا تھا.اور سکندر وہ تھا جو جہلم تک ملک فتح کرتا چلا آیا لیکن اس کو اگر کوئی برا کہے تو کوئی برا نہیں منا تا لیکن مسیح کے خلاف بہت سے لوگ ایک بات بھی نہیں سن سکتے.یہی وہ بین فرق ہوتا ہے.اللہ سے تعلق رکھنے والوں کے نشانوں کو کوئی نہیں مٹا سکتا.بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ خدا سے تعلق پیدا کیا اور فرمانبرداری کی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ نے ان کو بڑی ترقی دی اور ان میں سے نبی ہوئے لیکن آنحضرت صلا السلام کے زمانہ میں انہوں نے اطاعت چھوڑ دی اس لئے ذلیل ہو گئے موسیٰ علیہ السلام کون تھے؟ ایک یہودی تھے.ہارون علیہ السلام کون تھے.ایک یہودی تھے.مسیح

Page 107

خطبات محمود جلد ۴ ۹۸ سال ۱۹۱۴ء علیہ السلام کون تھے ایک یہودی تھے اور وہ بھی یہودی تھے جنہوں نے آنحضرت سالن پہ ستم کا مقابلہ کیا تھا لیکن ان کا اب کوئی نام بھی نہیں جانتا.اور ان کے نام لینے والے اس وقت کثرت سے موجود ہیں.قومیت کے لحاظ سے یہ اور وہ ایک ہی تھے مگر انہوں نے چونکہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کیا تھا اس لئے ان کے نام اب تک قائم ہیں.اور انہوں نے ایک رسول کا مقابلہ کیا تھا اس لئے ان کے نام صفحہ دنیا سے محو ہو گئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے بنی اسرائیل ! دیکھو تم پر ہم نے بڑے بڑے انعام کئے تم میری نعمتوں کو یاد کرو میں نے تم کوگل جہان پر فضیلت دی تھی.یہودیوں پر ایک ایسا زمانہ آیا تھا کہ اس وقت کوئی ان کا مقابلہ کرنے والاصفحہ روزگار پر نہ کی تھا.دنیا کے بہت بڑے حصے پر ان کی حکومت تھی.حتی کہ اس وقت انہوں نے فرمانبرداری کی تھی لیکن جب اس سے علیحدہ ہو گئے تو ذلیل ہو گئے.انِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعُلَمین اس آیت کے متعلق لوگوں کو بہت دھوکا لگا ہے کہ خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو تمام امتوں پر فضیلت دے دی حتی کہ آنحضرت مالی ایم کی امت پر بھی ان کو فضیلت ہے حالانکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ کہیں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے آدم علیہ السلام کی اولاد کو فضیلت دی اور کہیں ابراہیم علیہ السلام کی قوم کو.جس کے یہ معنے ہیں کہ ان کو اپنے اپنے زمانہ میں سب قوموں سے فضیلت تھی.ایک مجلس میں اگر کسی آدمی کو کہا جاوے کہ یہ سب سے بڑا ہے تو اس کے معنے یہی ہوں گے کہ ان مجلس میں بیٹھے ہوئے آدمیوں سے بڑا ہے نہ کہ سارے جہان کے آدمیوں سے بڑا ہے.اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو فرماتا ہے کہ ہم نے تم کو اپنے زمانہ میں بڑی فضیلت دی تھی اور کو ئی تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا.لیکن اب تم نے نبی کا مقابلہ کیا ہے اس لئے تم کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وَاتَّقُوا يَوْمًا لا تَجْزِى نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ.یعنی اس دن سے ڈرو جس دن کہ کوئی نفس کسی نفس کے کام نہیں آئے گا اور نہ شفاعت قبول کی جائے گی اور نہ بدلہ لیا جاوے گا اور کوئی کسی کا مددگار نہیں ہوگا.مصیبت کے وقت رشتے دار دوست آشنا چھوڑ دیتے ہیں اور بعض ایسی مصیبتیں ہوتی ہیں کہ ان میں کوئی کچھ مدد بھی نہیں دے سکتا.اور اے بنی ہے اسرائیل! وہ وقت تمہیں یاد نہیں جبکہ تم فرعون کے ماتحت تھے اور وہ تمہیں دکھ دیتے تھے تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے اور عورتوں کو زندہ رکھتے تھے اس میں تمہارے اوپر ابتلاء تھا.

Page 108

خطبات محمود جلد ۴ ۹۹ سال ۱۹۱۴ء اللہ تعالیٰ نے ان کو پچھلے مصائب یاد دلائے کہ تمہاری کیا حالت تھی لیکن جب تم نے نبی کی فرمانبرداری کی تو آرام و آسائش میں ہو گئے.اب بھی نبی آیا ہے اگر اس کی اطاعت کرو گے تو پھر وہی انعامات تم پر کئے جاویں گے.ورنہ پھر اسی طرح کر دیئے جاؤ گے.قوم فراعنہ ان پر بڑے ظلم کرتی تھی اور چونکہ فرعون کے لوگ اصل مصری باشندے نہ تھے اس لئے ان کو ہر وقت خطرہ رہتا تھا کہ ہم سے کوئی ملک نہ چھین لے اس لئے وہ باہر سے آنے والی قوموں سے لڑتے رہتے تھے.جس طرح ہندوستان پر جب یورپ کی مختلف قوموں نے قبضہ کیا تو وہ آپس میں ہی لڑتے رہے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اصل باشندے تو اس قابل نہیں کہ مقابلہ کر سکیں.اگر کسی سے خطرہ ہوسکتا ہے تو وہ باہر سے آنے والوں سے ہی ہوسکتا ہے.اسی طرح فرعون کی قوم نے حکم دے رکھا تھا کہ بنی اسرائیل کے بچے قتل کر دیئے جایا کریں تاکہ ان کی تعداد کم ہوتی جاوے.بعض لوگوں کو غلطی لگی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کے مصر میں آنے کے بعد بھی ایسا ہوتا رہا ہے لیکن یہ غلط ہے البتہ فرعون نے اس قسم کا ارادہ کیا تھا لیکن وہ اس وقت اس میں کامیاب نہ ہو سکا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصر کے اصل باشندے بہت کمزور اور ذلیل حالت میں تھے کیونکہ وہ ان سے ڈرتے نہیں تھے اور باہر والوں سے لڑتے رہتے تھے.خدا تعالیٰ نے یہاں یہ لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے کہ يُذبّحُونَ أَبْنَاءَ كُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نسائكم یعنی ذبح کرتے تھے تمہارے بیٹوں کو اور زندہ رکھتے تھے تمہاری عورتوں کو اور یہ نہیں فرمایا کہ يُذَبِّحُونَ رِجَالَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَائِكُمْ کہ تمہارے مردوں کو قتل کرتے اور عورتوں کو زندہ رکھتے تھے اور نہ اس طرح فرمایا کہ لڑکوں کو قتل کرتے اور لڑکیوں کو زندہ رکھتے تھے.اس میں یہ حکمت ہے کہ جولڑ کا قتل ہو جاتا ہے اس کی وہی عمر رہتی ہے اور وہ کسی کا باپ نہیں بن سکتا.بیٹا ہی رہتا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کی وہی عمر بیان فرمائی ہے اور چونکہ وہ لڑکیوں کو زندہ رکھتے تھے جو کہ بڑی ہو کر ان کی بیویاں بنتی تھیں اور عورتیں ہی بنانے کو وہ مدنظر رکھتے تھے اس لئے ان کی اصل عمر بیان فرمائی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم حکومت کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے وہ تم پر ظلم کرتی تھی لیکن ہم نے تم کو چھڑایا.اور یہ تم پر انعام کیا کہ ایسی خطرناک حکومت سے نکال کر لے آئے.اب اگر نبی کی اطاعت نہیں کرو گے تو پھر اسی طرح کر دیئے جاؤ گے.

Page 109

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۴ء اس زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ نے اپنے فضل اور کرم سے ہم میں ایک نبی مبعوث فرمایا ہے گو لوگ نبی کے لفظ سے گھبراتے ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم میں نبی نہیں آیا تو مرنے کا مقام ہے.مجھے خود خدا تعالیٰ نے بغیر فرشتہ کے واسطہ کے بتایا ہے کہ تم میں ایک نبی آیا ہے اور آئندہ بھی آئیں گے.میں تو کبھی اس سے انکار نہیں کر سکتا میں اس بات کو نہیں سمجھ سکتا کہ ایک امتی نبی کی عزت بڑھ جاتی ہے لیکن اس کی نبوت میں کوئی کمی واقع نہیں ہو سکتی.ایک موٹی مثال سے یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے.مثلاً زید کو کہیں سے گرے پڑے دس ہزار روپے مل جائیں اور بکر کو عمر دس ہزار روپے دے دے.تو اس طرح جس نے بکر کو روپے دیئے ہیں اس کا تو مرتبہ بڑھ گیا ہے.لیکن لینے والا مال کے لحاظ سے اس سے کسی طرح کم نہیں ہے جس کو گرے ہوئے روپے مل گئے ہیں.کیونکہ اس کے پاس بھی دس ہزار روپیہ ہے اور دوسرے کے پاس بھی دس ہزار ہی.مسیح موعود کے امتی نبی ہونے کی وجہ سے رسول کریم سی ایم کا رتبہ تو بڑھ گیا ہے لیکن مسیح موعود علیہ السلام کے نبی ہونے میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوسکتی.ہم میں بھی خدا تعالیٰ نے ایک شخص کو مبعوث فرمایا ہے جس نے لوگوں کو بد بختیوں ، وساوس، بدیوں اور بدکاریوں کی قید سے چھڑایا ہے.فرعون تو بچوں کو قتل کرتا اور عورتوں کو قید کرتا تھا لیکن اس زمانہ میں عورتیں ، مرد، بچے ، بوڑھے اور جو ان سب تباہ ہو رہے تھے.بنی اسرائیل تو فرعون کی قید میں تھے لیکن آج کل لوگ شیطان کی قید میں تھے.علم کی جہالت نے ، آزادی کی جگہ غلامی نے لے رکھی ہے.ان قیدوں سے ہمیں ایک شخص نے چھڑایا ہے.اگر ہم اس سے تعلق قائم رکھیں گے تو فَضَّلْتُكُمْ عَلَى العالمین میں شامل ہو جائیں گے ورنہ جو لوگ قطع تعلق کریں گے ان کا وہی حال ہو گا جو کہ یہودیوں کا ہوا تھا.سو تم اس تعلق کو مضبوط کرو.اور جس قدر ہو سکے مونہوں سے، ہاتھوں سے، پاؤں سے، دانتوں سے اس رسی کو مضبوط پکڑے رہو.خدا تعالیٰ بڑی آسانیاں پیدا کر دیگا اور تم پر کامیابیوں کے دروازے کھل جائیں گے.کوئی قوم دنیا میں تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتی کیونکہ تم نے ایک رسول اور نبی کو مانا ہے اور دوسروں نے انکار کیا ہے.خدا تعالیٰ نے تمہیں خزانے میں داخل کر دیا ہے لیکن وہ باہر ہی بیٹھے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو مال دینے کا وعدہ کیا ت تھا پھر ایک دن جب بہت سا مال آیا تو آپ مسجد میں بیٹھے تھے.فرمایا کہ آپ جس قدر مال

Page 110

خطبات محمود جلد ۴ 1+1 سال ۱۹۱۴ء اٹھا سکتے ہیں لے جائیے حضرت عباس نے چادر میں اس قدر مال ڈال لیا کہ یا رسول اللہ ! مدد کر یو.آر نے فرمایا کہ نہیں خود ہی اٹھا لیجئے.پھر حضرت عباس نے کچھ کم کیا اور پھر بھی نہ اٹھا کر لے جا سکے.اور گھسیٹتے گھسٹتے باہر لے گئے اور کہنے لگے کہ جب رسول کریم صلی یا کہ تم نے موقعہ دیا ہے تو میں کیوں کمی کروں.تم کو بھی خدا تعالیٰ نے موقعہ دیا ہے جس قدر تم لے سکتے ہو لے لو تمہارے لئے روحانیت معرفت اور خدا تعالیٰ کے قرب کے دروازے کھل گئے ہیں.تم سے جتنا بھی ہو سکے اس مال کے سمیٹنے کی کوشش کرو.ایسانہ ہو کہ وقت جاتا رہے.ہم سب کو اللہ تعالی سمیٹنے کی توفیق دے اور نیک بندوں میں داخل کرے.( الفضل ۲۷ مئی ۱۹۱۴ء ) ۵۰ البقرة: ٣٨تا٠ه اس صحابی کا نام زمانہ جاہلیت میں غاوی بن ظالم اسلمی تھا جسے آنحضرت میانی ایتم نے ان کے قبول اسلام کے بعد بدل کر راشد بن عبد اللہ کر دیا.اس واقعہ کے متعلق حضرت راشد بن عبد اللہ نے یہ شعر بھی کہا.عَرَب يَبُولُ التَّعْلُبَانُ بِرَأْسِهِ لَقَدْ ذَلَّ مَنْ بَالَتْ عَلَيْهِ التَّعَالِبُ یعنی کیا وہ بت خدا ہو سکتا ہے جس کے سر پر گیڈر پیشاب کریں.حقیقتا وہ بت تو ذلیل ترین ہے جس پر گیدڑ پیشاب کریں.بعض کے نزدیک یہ شعر حضرت ابوذرغفاری یا عباس بن مرواس کا ہے (لسان العرب جلد ۲ صفحه ۱۰۱ مطبوعہ بیروت لبنان ۱۹۸۸ ء ) اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ سیرت ابن ہشام جلد ۱ صفحه ۱۵۸، ۱۵۹ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ میں بھی ملتا ہے.اور وہاں عمرو بن الجموح صحابی کی طرف منسوب ہے.بخارى كتاب الجزية ما اقطع النبى صلى الله عليه وسلم من البحرين وما وعد من مال البحرين...

Page 111

خطبات محمود جلد ۴ ۱۰۲ (۲۴) سال ۱۹۱۴ء حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم پر ایک احسان کا ذکر (فرموده ۲۹ مئی ۱۹۱۴ء) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی :.وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنجَيْنَكُمْ وَأَغْرَقْنَا الَ فِرْعَوْنَ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ وَاذْوعَدُنَا مُوسَى أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِةٍ وَانْتُمْ ظَالِمُونَ ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ وإِذَاتَيْنَا مُوسَى الْكِتَب وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ.وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يُقَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إلَى بَارِيكُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِنْدَ بَارِيكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ پھر فرمایا:.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ ایک اور احسان بیان فرماتا ہے جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ ان رکوعوں میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو بار بار اپنے احسانات گنائے ہیں اور بار بار احسان گنانے کی وجہ یہ ہے کہ ان کو بتایا ہے کہ دیکھو بنی الحق سے جو وعدے ہم نے کئے تھے وہ پورے ہو گئے ہیں اور ان سے ہم نے وعدہ خلافی نہیں کی.جب ان سے وعدہ خلافی نہیں کی گئی تو پھر کیا وجہ ہے کہ تم سے وعدہ خلافی کی جاوے گی.جو انعامات بنی اسرائیل پر خدا تعالیٰ نے کئے تھے ان میں سے ایک اور انعام بیان فرماتا ہے کہ.وَاذْفَرَقْنَا بِكُمُ البَحْرَ فَأَنجَيْنَكُمْ وَاغْرَقْنَا الَ فِرْعَوْنَ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ

Page 112

خطبات محمود جلد ۴ ۱۰۳ سال ۱۹۱۴ء جب موسیٰ علیہ السلام بہت مدت فرعون اور اس کی قوم کو تبلیغ کرتے رہے اور ان کو کوئی اثر نہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ تم اپنی قوم کو لے کر اس ملک سے نکل جاؤ.جب آپ اپنی قوم کو لے کر چلے تو فرعون کو اس بات کا پتہ لگ گیا وہ بہت سا لشکر لے کر ان کے پیچھے دوڑا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور طاقت سے موسیٰ علیہ السلام اور اس کے ساتھیوں کو تو بچا لیا لیکن فرعون اور اس کے ہمراہیوں کو غرق کر دیا.اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو فرماتا ہے کہ ہم نے تمہاری خاطر سمندر کو پھاڑا اور تم کو فرعون کے لشکر سے نجات دی اور تمہاری آنکھوں کے سامنے آل فرعون کو غرق کیا.ایک احسان ایسا ہوتا ہے جو انسان سنتا ہے کہ ایسا میرے لئے ہوا.اس بات کا اس پر اور اثر ہوتا ہے لیکن جب وہ اپنی آنکھوں سے اپنے اوپر کوئی احسان ہوتے دیکھتا ہے تو اس کی خوشی اور راحت بہت بڑھ جاتی ہے.بنی اسرائیل نے اپنی آنکھوں سے یہ دیکھا کہ ہم اور ہمارے دشمن ایک ہی جگہ سے آئے تھے لیکن جب ہم دریا سے گزرے ہیں تو دریا کا اکثر حصہ خشک تھا اور کہیں کہیں پانی تھا اس لئے ہم تو صحیح و سلامت گزر گئے ہیں لیکن جب اسی جگہ سے فرعون اور اس کا لشکر گزرنے لگا ہے تو پانی کی ایک لہر نے ان کو غرق کر دیا ہے.مگر باوجود اتنے اتنے بڑے اور کھلے نشانات دیکھنے کے وہ باز نہ آئے اور موسیٰ علیہ السلام کو دکھ ہی دیتے رہے اور ان کی نافرمانی ہی کرتے رہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے بنی اسرائیل ! جو وعدہ ہم نے تمہارے ساتھ فرعون سے چھڑانے کا کیا تھا اور تم کو مصیبت سے نجات دی تھی لیکن تم نے اس کی کوئی قدر نہ کی.پھر موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا ( تیس راتوں کا ایک دفعہ اور دس کا ایک دفعہ.دونوں ملا کر چالیس راتیں ہوئیں لیکن اے بنی اسرائیل! باوجود یکہ تم نے اتنے نشانات دیکھے لیکن پھر بھی تم بچھڑے کے پجاری بن گئے اور مشرک ہو گئے.ظالم مشرک کو بھی کہتے ہیں.بنی اسرائیل فرعونیوں کے ماتحت تھے اس لئے ان کے دلوں میں ان کی صحبت کی وجہ سے بچھڑے کی پرستش کے خیالات بیٹھے ہوئے تھے.اب بھی جہاں جہاں مسلمان ہندوؤں کے زیر اثر ہیں وہاں گائے کا گوشت نہیں کھاتے.میں یہاں کے پرائمری سکول میں پڑھنے جایا کرتا تھا اور جیسا کہ پرائمری سکولوں کا قاعدہ ہے کہ تمام دن کھلے رہتے ہیں.ہمارا سکول بھی کھلا رہتا تھا.اس لئے میرا کھا نا مدرسہ ہی میں گیا.جب میں کھانا کھانے لگا تو ایک مسلمان لڑکے نے

Page 113

خطبات محمود جلد ۴ ۱۰۴ سال ۱۹۱۴ء مجھے کہا کہ ہیں مرزا جی! آپ ماس کھانے لگے ہیں.مجھے معلوم نہیں تھا کہ ماس کیا ہوتا ہے.میں نے کہا کہ ماس کیا ؟ تو اس نے کہا کہ کیا آپ گوشت کھایا کرتے ہیں؟ میں نے کہا ہم تو ہر روز اپنے گھر گوشت کھاتے ہیں.اس مسلمان لڑکے کی اس قدر تعجب سے مجھ سے یہ بات پوچھنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ ہندو استاد سے پڑھتا تھا.بنی اسرائیل میں فرعونیوں کے خیالات اثر کر چکے تھے جن کی موسیٰ علیہ السلام اصلاح کرتے رہتے تھے.اس لئے ان کو اپنے خیالات پر عمل کرنے کا موقع نہ ملتا تھا لیکن جب موسیٰ علیہ السلام ان سے چند دنوں کیلئے جدا ہوئے تو ان کو موقع مل گیا اور انہوں نے بچھڑے کی پرستش شروع کر دی.جس طرح ہمارے چند آدمیوں نے چونکہ حضرت خلیفہ المسیح مرحوم ومغفور کی بیعت کی ہوئی تھی اس لئے آپ کے سامنے کچھ نہیں کر سکتے تھے لیکن ادھر آپ کی آنکھیں بند ہوئیں اور ادھر انہوں نے ٹریکٹ شائع کر دیا.یہ کام ہمیشہ جھوٹے ہی لوگوں کا ہوتا ہے اور وہ ہر وقت نیش زنی کے منتظر رہتے ہیں جہاں ہے ان کو موقع ملتا ہے وہیں شرارتیں شروع کر دیتے ہیں.بچے آدمی کبھی ایسا نہیں کرتے.بنی اسرائیل میں جب تک موسیٰ علیہ السلام رہے انہوں نے کسی قسم کی چوں وچرانہ کی لیکن جب آپ گئے تو جھٹ بچھڑے کو پوجنے لگ گئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر ہم نے اس کے بعد تم پر رحم کر کے عفو کیا.یعنی با وجود ساری قوم کے مشرک ہو جانے کے عذاب بعض لوگوں کو ہی دیا.جس کی غرض زیادہ تر یہ تھی کہ تم شکر کرتے اور موسیٰ کی فرمانبرداری کرتے مگر تم نے کچھ بھی ایسا نہ کیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے موسیٰ کو فرقان دیا تا کہ تم ہدایت پاؤ.تمام انبیاء کے لئے ایک کتاب ہوتی ہے اور ایک فرقان.بعض انبیاء تونئی شریعت لاتے ہیں، اس لئے ان کو نئی کتاب ملتی ہے.لیکن بعض کو الہام کے ذریعے بتایا جاتا ہے کہ تم پہلی شریعت کی ہی پیروی کرو.یہ بھی ان کے لئے کتاب ہوتی ہے.فرقان یہ ہوتا ہے کہ انبیاء کو خدا تعالیٰ حق و باطل میں تمیز کرنے کی فراست اور طاقت عطا کر دیتا ہے.فرقان کے معنی ہیں رستہ کے.یعنی اللہ تعالیٰ انبیاء کو ہر ایک مصیبت کے وقت ایسی راہ بتا دیتا ہے کہ جس سے وہ دشمن سے کبھی مغلوب نہیں ہوتے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور فرمتان دیا تا کہ تم ہدایت پاؤ لیکن تم نے اس پر عمل نہ کیا اور شرارت کرنی شروع کر دی.پھر موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم! تم نے یہ اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے کہ ایک بچھڑے کو پوجنے لگ گئے

Page 114

خطبات محمود جلد ۴ ۱۰۵ سال ۱۹۱۴ء ہو پس اب اس کا علاج یہ ہے کہ اپنے رب کی طرف جھک جاؤ اور اپنے رشتہ داروں کو جنہوں نے شرارت میں زیادہ حصہ لیا ہے قتل کر دو.یہی تمہارے لئے بہتر ہے تمہارے رب کے نزدیک.اگر تم ایسا کرو گے تو خدا بھی تمہاری طرف جھک جائے گا اور تمہیں باوجود اتنی شرارتیں کرنے کے بھی معاف کر دے گا کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے.جب موسیٰ علیہ السلام واپس آئے تو انہوں نے دیکھا کہ شرارت بہت بڑھ گئی ہے تو انہوں نے حکم دیا کہ اس شرارت کے جولوگ سرغنے ہیں ان کو تلاش کرو جب سرغنے پکڑے گئے تو انہوں نے حکم دیا کہ ان کے رشتہ دار ہی ان کو قتل کریں.فَاقْتُلُوا انْفُسَكُمْ کے یہی معنی ہیں کہ اپنے اپنے رشتہ داری کو مارو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شرارت تو تم سب نے کی تھی.لیکن تمہارے بڑے بڑے سرغنوں کو ہی سزا دے کر باقیوں کو ہم نے چھوڑ دیا.مگر پھر بھی تم نے اپنی شرارتوں کو نہ چھوڑا.ہم نے تو تمہاری شرارتوں کے باوجود بھی تم سے تعلق نہ توڑا.اور اگر پھر بھی تم تو بہ کرتے تو ہم معاف کر دیتے.خدا تعالیٰ اور خدا کے نیک بندے کسی سے خود فورا اقطع تعلق نہیں کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی محمد حسین بٹالوی کی نسبت ایک کتاب میں لکھا ہے کہ تو نے ہی محبت کا درخت کاٹا ہے میں نے نہیں کاٹا.۲؎ تم اس بات کو یاد رکھوکہ تم اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھو گے تو وہ کبھی تم سے اپنا تعلق قطع نہیں کرے گا.جب کبھی کسی قوم کا تعلق خدا سے کٹا ہے اس کے اپنے ہی نفسوں کی غلطیوں سے کٹا ہے.اگر انسان اپنے نفس کی غلطیوں کے متعلق احتیاط سے کام لے تو خدا تعالیٰ ضرور اس پر رحم کرتا ہے.تم بنی اسرائیل ہی کو دیکھو، کتنی شرارتیں اور بدیاں انہوں نے کیں لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ اپنے رحم سے انہیں معاف ہی کرتا رہا.جب انسان کو کسی قسم کی سزا ملے تو اس کو یہی سمجھنا چاہیئے کہ یہ کسی میرے اپنے ہی قصور اور گناہ کی وجہ سے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ رنجیت سنگھ کا ایک بیٹا تھا.ایک دن اس کے باورچی سے کھانے میں نمک زیادہ پڑ گیا اس نے حکم دیا کہ اس کی کھال اُتروا دو.وزیر نے یہ حکم سن کر عرض کیا کہ اس چھوٹے سے قصور پر اتنی بڑی سزا دینا ظلم ہے.اس سے لوگوں میں نفرت پیدا ہو جائے گی.تو اس نے کہا کہ تم جانتے نہیں اس باورچی نے تو میرا سو بکرا کھالیا ہے ،نمک کا زیادہ پڑنا تو اس کو سزا دینے کا بہانہ ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ انسان

Page 115

خطبات محمود جلد ۴ 1+4 سال ۱۹۱۴ء ب گناہ کرتا کرتا حد سے گزر جاتا ہے تب معمولی سا قصور ہی اس کی سزا کا موجب بن جاتا ہے.اس لئے ہر وقت انسان کو تو بہ میں لگے رہنا چاہیئے سے.انسان جب بہت غلطیاں کرتا ہے اور بڑی بڑی شرارتیں اس سے سرزد ہوتی ہیں تب جا کر خدا تعالیٰ اس کو پکڑتا ہے.بعض غلطیاں انسان سے ایسی بھی ہو جاتی ہیں جن کو وہ سمجھ نہیں سکتا.اس لئے چاہیئے کہ انسان ہر وقت تو بہ اور استغفار میں لگار ہے.تم خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کرو.جن سے خدا تعالیٰ کا تعلق ہوتا ہے ان سے خدا تعالیٰ خود کبھی نہیں تو ڑتا.بنی اسحق پر جو انعامات ہوئے وہ اب بھی پورے ہو سکتے ہیں بشرطیکہ تم ان برگزیدہ کی طرح ہو جاؤ.الفضل ۳.جون ۱۹۱۴ ء ) ل البقرة: ١ه تاهه جلد ۲۱ صفحه ۳۳۵ قَطَعْتَ وِدَادًا قَدْ غَرَسُنَاهُ فِي الصَّبَا.براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۳۳۵ روحانی خزائن ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۶۳۹ ( نیا ایڈیشن) میں یہ واقعہ رنجیت سنگھ کی بجائے شیر سنگھ کے بیٹے پرتاب سنگھ کے متعلق درج ہے.

Page 116

خطبات محمود جلد ۴ 1.6 (۲۵) سال ۱۹۱۴ء خدا تعالیٰ کی عظمت اور جبروت کا ہمیشہ خیال رکھو (فرمودہ:۵.جون ۱۹۱۴ء) تشہد ، وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:.وَاذْ قُلْتُمْ يَمُوسى لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّعِقَةُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُونَ ثُمَّ بَعَثْنَكُمْ مِّنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ اس کے بعد فرمایا:.بہت سی باتیں دنیا میں ایسی ہوتی ہیں کہ حقیقت میں تو ان کے منہ سے نکالنے میں کوئی حرج نہیں لیکن ان کی طرز ادا ہلاک کر دینے والی ثابت ہوتی ہے.حضرت خلیفہ المسیح فرمایا کرتے تھے کہ ایک شخص نے ایک راجہ صاحب کے متعلق لکھا کہ فلاں جگہ جلسہ ہوا تھا جہاں سے راجہ صاحب دُم دبا کر بھاگ گئے.جب راجہ صاحب نے یہ پڑھا تو اس پر بہت ناراض ہوئے.میں نے سمجھا کہ اس آدمی کو اردو نہیں آتی.اس نے واپس چلے جانے کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے.راجہ صاحب نے اس کو بلایا.تو میں نے پوچھا کہ کیا تم کوئی اخبار پڑھا کرتے ہو.اس نے کہا کہ ہاں پنچ اخبار پڑھا کرتا ہوں.میں نے کہا کہ اس نے اس اخبار میں یہ فقرہ پڑھا ہے جس کو غلطی سے اس نے استعمال کر دیا ہے.اس لئے معافی کے قابل ہے.سو بعض باتوں کا غلط طور پر ادا کرنا تباہی اور ہلاکت کا باعث ہو جاتا ہے.وہ انسان جونا واقفیت کی وجہ سے ایسا کرتا ہے وہ تو بخشا جاتا ہے لیکن جو شرارت کی وجہ سے ایسا کرتا ہے وہ ہلاک ہو جاتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ وہی بات غلط طریق پر ادا کرنے سے نقصان اٹھانا پڑتا ہے وہی

Page 117

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۴ء آسانی سے دوسرے طریق پر ادا کی جاسکتی ہے.؟ مثلاً کھانا کھانے کیلئے کہنا کہ ” تناول فرما لیجئے نوش جاں فرما لیجئے کھا لیجئے ٹھونس لیجئے نگل لیجئے زہر مار کر لیجئے.ان سب کے کہنے کا مطلب تو ایک ہی ہے کہ کھانے کو اٹھا کر منہ میں ڈالو اور نگل جاؤ لیکن پہلے تین فقروں سے سمجھا جاتا ہے کہ جس کو کھانے کیلئے کہا گیا ہے اس کا ادب ملحوظ رکھا گیا ہے.اور پچھلے تین فقروں سے اس کی تحقیر ثابت ہوتی ہے.ٹھونس لیجئے“ کہنے والا کہہ تو سکتا ہے کہ اس کا بھی وہی مطلب ہے جو کھا لیجئے کا ہے کیونکہ وہ بھی اسی طرح لقمہ ہاتھ سے اٹھا کر منہ میں ڈالے گا جس طرح دوسرا ڈالے گا.لیکن صرف مطلب کو ہی مدنظر نہیں رکھا جاتا بلکہ طرز ادا کو بھی دیکھا جاتا ہے.تو ایک بات ایک رنگ میں ادا کرنے سے تو فائدہ مند ہوتی ہے لیکن وہی بات دوسرے رنگ میں کرنے سے مضر ہو جاتی ہے کیونکہ طرز ادا کا انسان پر بہت بڑا اثر پڑتا ہے.اس لئے اس میں بہت ہے احتیاط مد نظر رکھی جاتی ہے اور خصوصا راجوں مہاراجوں کے درباروں میں تو بہت ہی محتاط رہنا پڑتا ہے.ایک مشہور قصہ ہے کہ انشاء اللہ خان ایک بہت مشہور اور نامور شاعر گزرا ہے.وہ بادشاہی دربار میں بیٹھا کرتا تھا جس کی عادت تھی کہ جو کوئی بھی بادشاہ کی تعریف کرتا وہ اس سے بڑھ کر تعریف کر دیتا.ایک دن کسی نے بادشاہ کی تعریف کی کہ آپ بڑے عالی خاندان ہیں.دوسرے نے کہا کہ آپ والا نسب ہیں.تیسرے نے کہا کہ آپ نجیب الطرفین ہیں.انشاء اللہ نے چونکہ ان سب سے بڑھ کر کہنا تھا.اس لئے اس نے کہا کہ آپ نجیب کیا بلکہ انجب ہیں.انجب کے چونکہ دو معنی تھے.ایک یہ کہ لونڈی زادہ اور دوسرے اعلیٰ خاندان کا اور چونکہ بادشاہ لونڈی زادہ تھا، اس لئے لوگوں کی نظریں اسی طرف گئیں.اور انشاء اللہ یہ کہنے کی وجہ سے ذلیل ہو گیا حالانکہ لفظ کے اچھے معنی بھی تھے.اسی طرح اگر کوئی آدمی کسی سے اجازت طلب کرے کہ کیا اب میں جاؤں تو وہ کہے کہ جائے.لیکن اگر وہ اس کو کہے کہ نکل جاؤ تو دونوں باتوں کا مطلب تو ایک ہی ہے لیکن اگر اس کو یہ کہا جائے گا کہ نکل جاؤ تو وہ لڑنے پر آمادہ ہو جائے گا.اور کہے گا کہ گھر آنے والے کی تم یہی عزت کرتے ہو؟ ایسی بہت سی باتیں ہیں جن کیلئے احتیاط کرنی نہایت ضروری ہے.پھر خدا کے حضور بات کرنے کیلئے تو اور بھی احتیاط کرنی چاہیئے.کیونکہ خدا تعالیٰ کی عظمت ، شوکت، جبروت اور عزت کا مقابلہ کوئی بڑے سے بڑا بادشاہ بھی نہیں کر سکتا.جب آپس میں لحاظ کوملحوظ رکھنا پڑتا ہے تو خدا کی جبروت

Page 118

خطبات محمود جلد ۴ 1+9 سال ۱۹۱۴ء اور عظمت کی وجہ سے تو بہت ہی محتاط ہونا چاہیئے.اسی لئے صوفیاء لکھتے ہیں کہ بعض دعا ئیں انسان کی ہلاکت کا باعث ہو جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو موسیٰ علیہ السلام سے مشرکوں نے کہا کہ ہم کبھی تم کو نہیں مانتے یہاں تک کہ خدا کونہ دیکھیں.خدا تعالیٰ کو دیکھنے کی کیا ہی پاک خواہش تھی.وہ انسان جس کے دل میں یہ خیال نہیں کہ میں اپنے محبوب کو دیکھوں میرے خیال میں ایک لمحہ کیلئے بھی یہ بات نہیں سما سکتی کہ اس کو اس سے محبت ہو سکتی ہے.اگر یہ اتنا کہتے کہ ہم خدا تعالیٰ کو دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ گستاخی نہیں تھی.مگر انہوں نے تو یہ کہا کہ ولن تو من کہ اے موسیٰ ! ہم تم پر کبھی ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ خدا کو سامنے سامنے نہ دیکھ لیں.اگر ایک زمیندار کا بادشاہ کو دیکھنے کو دل چاہے اور وہ دیکھنے کی درخواست کرے تو یہ کوئی گستاخی نہیں لیکن اگر وہ یہ کہے کہ جب تک بادشاہ میرے پاس خود نہ آئے اور میں اس کو دیکھ نہ لوں اس وقت تک میں معاملہ نہیں دیتا تو یہ اس کی گستاخی ہے.یوں تو زمیندار ڈ پٹی کمشنر کی کوٹھی پر اس سے ملنے کی درخواست دے سکتا ہے اور ڈپٹی کمشنر بعض دفعہ ملتا بھی ہے اور ناراض نہیں ہوتا مگر زمیندار یہ نہیں کہہ سکتا کہ ڈپٹی کمشنر میرے گھر آ کر معاملہ مانگے گا تب دوں گا.بات تو ایک ہی ہے لیکن ایک میں تحکم پایا جاتا ہے اور دوسری میں عاجزانہ رنگ.عاجزانہ طریقہ سے مانگنے والا ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے اور محکمانہ رنگ سے مانگنے والا تباہ و برباد ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ انبیاء، رسولوں ہجہ دوں ، اور ماموروں کے معجزات لوگوں کو دکھاتا ہے لیکن جو یہ کہے کہ جب تک میں یہ معجزہ نہ دیکھ لوں نہیں مانوں گا اس کو اللہ تعالیٰ کوئی معجزہ نہیں دکھاتا اور وہ اسی حالت میں تباہ ہو جاتا ہے.تو منہ سے بات کہنے میں بڑا فرق پڑ جاتا ہے.اس لئے مومن کو ہمیشہ محتاط رہنا چاہئے اور ادب کو ملحوظ رکھنا چاہیے تا کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی ایسی بات منہ سے نکل جاوے جس سے بجائے نفع کے نقصان اٹھانا پڑے.اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھاؤ مگر ایسے نہ ہو جاؤ کہ ادب کو ملحوظ نہ رکھنے کی وجہ سے نقصان اٹھاؤ.یہودیوں نے کہا کہ اے موسیٰ ! ہم اس وقت تک نہیں مانیں گے جب تک کہ خدا کو نہ دیکھ لیں یہ شرط لگانے کی وجہ سے وہ تباہ ہو گئے.ان پر بجلیاں گریں یہ سب کچھ انہوں نے دیکھا اور انہوں نے اپنی گستاخی کا نتیجہ پالیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر تباہی کے بعد ہم نے تم پر رحم کیا اور تم کوموت کے بعد زندہ کر دیا.مجھے تعجب آیا کرتا ہے اس آیت کے متعلق ایک بزرگ کا قول نقل کیا جاتا ہے کہ

Page 119

خطبات محمود جلد ۴ 11 + سال ۱۹۱۴ء وہ اصلی مردے نہیں تھے بیہوش ہو گئے تھے، اصلی مردے زندہ نہیں ہو سکتے مگر مسیح کے مردے زندہ کرنے کے وقت نہ معلوم کس طرح اصلی مردوں کا زندہ ہو نامان لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم نے یہ کہا کہ ہم خدا کو دیکھے بغیر ایمان نہیں لا سکتے تو تم تباہ و برباد ہو گئے جس طرح ایک گاؤں کے لوگ کہیں کہ ہم معاملہ نہیں دیتے.لیکن جب پولیس کے سپاہی آکر ان کو تباہ کرنا شروع کر دیں تو دے دیتے ہیں اس لئے ان کو چھوڑ دیا جاتا ہے.اسی طرح جب ان کی قوم تباہ ہو گئی تو خدا تعالیٰ نے باقیوں کو معاف کر دیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارے معاف کرنے کی غرض یہ تھی کہ تم شکر کرو.اس بات کو خوب یا درکھو بنی اسرائیل نے ہی نہیں کہا اب بھی بہت سے لوگ یہی کہتے ہیں.میرے نام بیسیوں خطوط آئے ہیں کہ آپ دعوی کریں کہ میں الہام کے ذریعہ خلیفہ مقرر کیا گیا ہوں تو ہم مان لیں گے.میں کہتا ہوں کہ جب الہام کے ذریعہ میں خلیفہ بنوں گا تو تم فاسق نہیں رہو گے بلکہ کافر ہو جاؤ گے.یہ تو خدا تعالیٰ کا بڑا ہی فضل ہے کہ خلیفہ مامور نہیں ہوتا کیونکہ اگر مامور خلیفہ ہو تو انکار کرنے والے کا فر ٹھہرتے ہیں.حضرت ابوبکر کی خلافت سے لوگوں نے انکار کیا مگر وہ کافر نہ ہوئے.حضرت عمررؓ کی ہے خلافت سے لوگوں نے انکار کیا مگر وہ بھی کافر نہ ہوئے.اسی طرح حضرت عثمان اور حضرت علی کی خلافتوں کے منکر بھی کا فرنہ ہوئے اور مسلمان ہی رہے.لیکن اگر ان کی خلافت الہام کے ذریعے ہوتی اور ی پھر اس کے بعد لوگ انکار کرتے تو وہ مسلمان نہ رہتے.یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے کہ خلیفہ مامور نہیں ہوتا.کیونکہ کچھ کمزوریاں اور غلطیاں ان لوگوں میں ہوتی ہیں جو خلیفہ کا انکار کرتے ہیں اس لئے وہ فاسق ہی ٹھہرتے ہیں نہ کہ کافر ہو جاتے ہیں.فاسق نیک اعمال کرنے کی وجہ سے جنت میں جاسکتا ہے مگر کافر براہ راست جنت میں نہیں جاسکتا.یہ خدا تعالیٰ کی گستاخی ہے کہ اگر الہام ہوگا تب مانیں گے ورنہ نہیں.خدا تعالیٰ کو کسی کی کیا پرواہ ہے.اگر ایک جائے تو وہ لاکھوں لا سکتا ہے.تم خوب یاد رکھو کہ دعاؤں اور عبادتوں میں گستاخی اور تحکمانہ لہجہ نہیں اختیار کرنا چاہیئے.عاجزانہ طور پر خدا تعالیٰ کے حضور سے ہر ایک مدد مانگو.ورنہ دعائیں قبول نہیں ہو سکتیں.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو ہم سمجھ ، فراست اور حقیقی تقویٰ کی راہ بتادے.الفضل ۱۰.جون ۱۹۱۴ ء ) ل البقرة: ۵۷،۵۶

Page 120

خطبات محمود جلد ۴ (۲۶) سال ۱۹۱۴ء جے تو میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو (فرمودہ ۱۲.جون ۱۹۱۴ء) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کی تلاوت کی :.وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَانْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَ وَالسَّلوى كُلُوا مِن طيبت ما رَزَقْنَكُمْ وَمَا ظَلَمُوْنَا وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ.وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِظَةٌ نَغْفِرْ لَكُمْ خطيكُمْ ، وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ فَبَتَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيْلَ لَهُمْ فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِّنَ السَّمَاءِ مَا كَانُوا يَفْسُقُونَ اس کے بعد فرمایا:.انسان کی طبیعت پر گردونواح کا اثر بہت پڑتا ہے جس قسم کے لوگوں میں وہ رہے انہی کے خیالات ، عادات واطوار کو وہ اختیار کر لیتا ہے اور جو اس کے سامنے رہے اس کا وہ عادی ہو جاتا ہے.اور جن اشیاء کا وہ عادی نہ ہو اور جو چیز کبھی اس کے سامنے نہ آئی ہو اس کا وہ شروع میں ضرور مقابلہ کرتا ہے.اور وہ چیز خواہ کیسی عمدہ ہو اس سے وہ کتراتا ہے اور ایسی چیز کو کرنا اسے دو بھر معلوم ہوتا ہے.محکوم لوگوں میں ایک مدت کے بعد حکومت کی طاقت جاتی رہتی ہے اور وہ سمجھ ہی نہیں سکتے کہ حکومت کس طرح کی جاتی ہے اور ایسے لوگوں کے سپرد اگر حکومت ہو جاوے تو وہ ڈرتے رہتے ہیں کہ مبادا ہم سے کوئی غلطی ہو جاوے.تو وہ بالکل نہیں اُبھر سکتے.

Page 121

خطبات محمود جلد ۴ ۱۱۲ سال ۱۹۱۴ء سکھوں کے زمانے میں مسلمانوں کو اذان دینے سے روک دیا گیا تھا.اب بعض جگہوں میں دیکھا ہے کہ حاکم بھی مسلمانوں کو کہتے ہیں کہ اذان دو تو وہ چونکہ ڈرے ہوئے ہیں اس لئے اذان نہیں دیتے.ایسے لوگوں کے ایک مدت کے بعد حکومت کے قومی بالکل باطل ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ وہ یروشلم کو جاویں تا شام کا ملک ان کے ہاتھ پر فتح ہو اور ان کو حکومت ملے.وہ چار سو سال یا اڑھائی سو سال فرعون کے ماتحت رہ کر طرح طرح کے ظلم سہنے کے عادی بن چکے تھے.اور ان میں حکومت کے قومی بالکل نہیں رہے تھے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک مدت باہر جنگل میں رکھا کہ وہ آزا در ہیں کسی کے ماتحت نہ ہوں.اور ان کے دلوں سے محکومیت کا خیال نکل جاوے اور محنت نہ کرنے سے ان کے قومی مضبوط ہو جاویں.جب موسیٰ علیہ السلام نے دعوی کیا تو فرعون نے بنی اسرائیل پر اور زیادہ محنتیں اور مشقتیں ڈال دیں کہ بیکار رہنے سے ان کے خیالات ایسے ہو گئے ہیں اور یہ سلطنت لینا چاہتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو فرعونیوں سے نجات دلوا کر آزاد کیا.اور ان پر بارشیں اتاریں اور بادلوں کے سائے بھیجے.عماد میرے خیال میں اس کے معنی بارش کے ہی ہیں.کیونکہ اگر ہر وقت بادل ہی بادل رہیں تب تو وہ لوگ تباہ ہو جاویں.اس سے مراد بارش ہی ہے کیونکہ آگے اس کے کھانے کا ذکر ہے اور وہاں اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے کثرت سے جانور پیدا کر دیئے.مج بلا محنت کے جو چیز مل جاوے.مختلف قسم کے پھل.نبی کریم سالی یہ تم نے فرمایا ہے کہ گھمبیاں بھی من ہیں کیونکہ یہ جنگل میں بکثرت پیدا ہو جاتی ہیں.قحط کے دنوں میں اکثر ایسی چیزیں بافراط پیدا ہوتی ہیں.سلوی.بٹیر اور تیتر یا ان کی قسم کا دوسرا کوئی جانور.جس سال زلزلہ آیا اور حضرت صاحب ان دنوں شہر سے باہر تشریف لے گئے تھے.ان دنوں میں تیتر بہت کثرت سے پیدا ہو گئے تھے ، بعد میں اتنے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے.اللہ تعالیٰ اب اہل کتاب کو اپنا احسان بتلاتا ہے کہ دیکھو ہم نے تمہیں ایسی ایسی نعمتیں دیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی الہام ہوا تھا کہ.آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے ۲.اس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ فلاں بزرگ کیلئے آسمان سے دستر خوان آتا

Page 122

خطبات محمود جلد ۴ ۱۱۳ سال ۱۹۱۴ء تھا وہ دستر خوان کس طرح اُترتے ہیں.جو لوگ خدا تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں اور اپنا جان و مال سب خدا کا کر دیتے ہیں آسمان ان کیلئے برستا ہے.اور زمین ان کیلئے مختلف قسم کی عمدہ عمدہ چیزیں پیدا کر دیتی ہے اور اللہ تعالیٰ ہر قسم کے سہولت کے سامان ان کیلئے پیدا کر دیتا ہے.حضرت صاحب ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) ایک مرتبہ امرتسر سے آ رہے تھے بٹالے کو.راستہ میں دھوپ کی سخت تکلیف تھی یکہ میں بیٹھنے لگے (ریل نہیں تھی تو ایک آدمی جو ہندو تھاوہ کو دکر پہلے اندر جا بیٹھا اور اپنے موٹاپے سے تمام یکہ کو اندر سے روک لیا.اب حضرت صاحب کو دھوپ میں بیٹھنا پڑا.اللہ تعالی نے فورا ایک بادل بھیج دیا جو امرتسر سے لے کر بٹالہ تک برابر آپ کے سر پر سایہ کرتا آیا.تو ہر ایک شخص جو خدا کیلئے اپنی رضا کو چھوڑ دے اور اللہ کی رضا کو مقدم رکھے خدا اس کیلئے سب سامان کر دیتا ہے.بعض لوگ شکایت کرتے ہیں.اگر وہ اللہ تعالیٰ کے ہو جاویں تو یہ زمین ان کی خادم بن جاوے اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ رحمت کے سامان پیدا کر دے.ان بنی اسرائیل نے مصر کو اللہ تعالیٰ کے لئے چھوڑا.انہیں جنگل میں طرح طرح کی نعمتیں مل گئیں جو اللہ تعالیٰ کا ہو جاوے اگر چہ تمام کی تمام دنیا اور تمام دُنیا کے بادشاہ اور ہر ایک فردان کا مخالف ہو جاوے اور ان کے مقابلہ کے لئے نکلے تو بھی وہ اسے ضرر نہ دے سکیں گے.کوئی طاقتور سے طاقتور دشمن بھی کیوں نہ ہو مگر اللہ تعالیٰ اسے ایک پل میں تباہ کر سکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ اپنی حالتوں میں تبدیلی پیدا کرو.دعاؤں میں لگے رہو غفلتوں اور سستیوں کو ترک کر دو.بس پھر خدا تعالیٰ تمہارا ہو گا تم اس کے ہو جاؤ.جے توں میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو س مسیح نے کہا ہے پہاڑ تمہارے اشارے سے چلنے لگیں اور پانیوں پر تمہاری حکومت ہو ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ پہاڑوں جیسے بڑے لوگ تمہارے کہے پر چلیں اور پانی جیسی خطرناک چیز جس میں انسان غرق ہو جاوے وہ تمہارے قابو میں آ جاوے مگر شرط یہی ہے کہ خلوص ہو.قوم موسیٰ نے تو اللہ تعالیٰ کے ایک برگزیدہ کو مانا اور اس کے ساتھ جنگل کو چلے گئے ان کے اس خلوص کی وجہ سے ان کو جنگل میں بھی نعمتیں ملیں.تو اس شہر میں جہاں کہ اس کے فضل کے بڑے بڑے وعدے ہیں یہاں ذرا سی تبدیلی کی ضرورت ہے.وَمَا ظَلَمُونَا وَلكِن كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ.ہم نے ان کو انعام دیئے اور ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ بڑے پر

Page 123

خطبات محمود جلد ۴ ۱۱۴ سال ۱۹۱۴ء اعمال کر کے اپنے اوپر ظلم کرتے تھے.سواگر تمہیں کوئی دکھ پہنچے تو وہ تمہارے ہی اپنے کئے کا پھل ہے خدا ظالم نہیں وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا.تم اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو.کوئی سائل اگر کسی امیر سے کچھ مانگے تو وہ امیر اسے دے دیتا ہے خواہ وہ کسی وجہ سے دے.مگر اللہ تعالیٰ تو بلند شان والا ہے تم اس کے دروازے پر گر جاؤ وہ تمہیں دے گا.تم اس کے سامنے عاجزی کرو گے تو ر ڈ نہ کئے جاؤ گے.میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے میں نے تجربہ کیا ہے ہے کہ اگر کسی کے دل میں تڑپ ہو اور سچی تڑپ کسی کام کیلئے ہوتو اللہ تعالیٰ ضرور ضرور وہ کام کر دیتا ہے بلکہ بعض بعض باتیں سورج ابھی غروب نہیں ہوتا کہ اس سے پہلے پہلے ہی ہو جاتی ہیں.یہ جو مشہور ہے کہ فلاں بزرگ کیلئے سورج کو روک دیا گیا.اس کا یہی مطلب ہے کہ جو کام وہ کرنا چاہتے تھے وہ خواہ کتنے دنوں میں ہونے والا ہو یا جو کام دس سال میں جا کر ہونا تھا.جس کام کو دوسرے لوگ ہزاروں ہزار سال میں کر سکتے تھے وہ ان کیلئے سورج کے غروب ہونے سے پہلے کر دیا گیا.نبی کریم صلی ا یہ تم نے جو کام ایک ایک گھنٹہ میں کیا ، دنیا کے لوگ اسے لاکھوں لاکھ سال میں نہیں کر سکتے ٹمپرنس (TEMPERANCE) سوسائٹیاں سالہا سال سے اس کوشش میں ہیں شراب رک جاوے مگر وہ تو ی بڑھ رہا ہے.مگر آنحضرت سی یا یہی تم نے ایک حکم دیا اور تمام عرب میں اسی دن سے شراب گرا دیا گیا.اور پھر بھی وہاں شراب کا استعمال نہ ہوا.پس تم اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق قائم کرو اور تقوی اختیار کرو، اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو.سستی غفلت چھوڑ دو.اللہ تعالیٰ ہم پر اپنا فضل کرے.اس کا ہمارے ساتھ تعلق ہو اور محبت ہو.جس رستے پر حضرت مسیح موعود ہمیں چلانا چاہتے تھے اس پر ہم چلیں.ہمارا کھانا پینا پہنا سب اسی کیلئے ہو اور اس کی رضامندی کے ماتحت ہو اور ہمارا کوئی کام اس کے حکم کے خلاف نہ ہو.ل البقرة: ٥٨ تا ٦٠ تذکرہ صفحہ ۳۹۷.ایڈیشن چہارم ے تذکرہ صفحہ ۴۷۱.ایڈیشن چہارم متی باب ۲۱ آیت ۲۱ (مفہوما ) (الفضل ۱۷.جون ۱۹۱۴ ء )

Page 124

خطبات محمود جلد ۴ ۱۱۵ (۲۷) نعمتیں ملنے پر خدا تعالیٰ کے زیادہ فرمانبردار بنو (فرمودہ ۱۹.جون ۱۹۱۴ء) سال ۱۹۱۴ء تشہد وتعوّ ذاور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی :.وَاذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَ قُوْلُوْا حِظَةٌ تَغْفِرْ لَكُمْ خَطِيكُمْ وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ اس کے بعد فرمایا:.دنیا کے آرام اور دنیا کی نعمتیں چونکہ جلد انسان تک پہنچ جاتی ہیں اس لئے اکثر لوگ اس دنیا کے پھندے میں پھنس جاتے ہیں اور اس کی وجہ اکثر ناواقفی ہی ہوتی ہیں.کسی بچے کے ہاتھ میں اگر ایک ہیرا ہو تو تم اس سے ایک خربوزہ دے کر ہیرا لے سکتے ہو.وہ چونکہ اس کے فوائد یا اس کی ماہیت کو نہیں جانتا اس لئے وہ ایک تھوڑی سی خوشنما چیز کے بدلے اسے دے دے گا.وہ تو اسے معمولی پتھروں کی طرح ایک پتھر ہی سمجھے گا.ایک دفعہ ایک سوداگر کی ہیروں کی تحصیلی گم ہو گئی وہ کسی بچے کے ہاتھ میں آگئی اس نے وہ پیسے کے تین تین اپنے ہم جماعتوں کو دیدیئے.اس کے نزدیک پیسوں کی قدر ان پتھروں سے زیادہ تھی.جب اس سے پولیس نے پتہ لگنے پر دریافت کیا تو وہ کہنے لگا بازار میں سے یہ تھیلی مجھے ملی ہے اور اب ہم ان سے کھیلیں گے کیونکہ یہ کھیلنے کی گولیاں ہیں.یہ سب ان کی ناواقفیت تھی.اکثر لوگ ناواقفیت کی وجہ سے اعلیٰ چیز کے بدلے ادنی کو اختیار کر لیتے ہیں.جتنی جتنی کسی چیز کی واقفیت ہو اتنی ہی اس کی قدر ہوتی ہے.جتنی ناواقفیت ہو اتنا ہی انسان اعلیٰ کو ادنی سے بدل لیتا ہے.

Page 125

خطبات محمود جلد ۴ ۱۱۶ سال ۱۹۱۴ء اسلام نے ایسے اصول مقرر فرما دیئے ہیں کہ جن پر انسان عمل کرتارہے تو وہ ادنیٰ و اعلیٰ میں امتیاز کر سکے.مثلاً سب کاموں کے ابتداء میں بسم اللہ کہہ لینا ضروری رکھا تا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کا ہر وقت خیال رہے.اسی طرح کسی نعمت کے ملنے پر الحمد للہ کہنا سکھایا.تا کہ اسے خدا تعالیٰ کی طرف ہی توجہ رہے اور وہ اسے خوش کرنے کی کوشش کرے.اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ہستی اس کے سامنے آ جاوے گی اور تمام کاموں میں اس کی نظر اسی کی طرف ہوگی.اور اس سے غرض یہ ہے کہ تا وہ سمجھ لے کہ ان نعمتوں کی اللہ تعالیٰ کے مقابل پر جو دینے والا ہے کچھ قدر نہیں.مگر باوجود اس کے بعض لوگ دنیاوی نعمتوں کی طرف جھک جاتے ہیں اور یاد الہی کو بھول جاتے ہیں اس کی وجہ نافہمی ہی ہوتی ہے.اس جگہ بنی اسرائیل کا ایک واقعہ بیان فرمایا ہے ان کو حکم ہوا تھا کہ اس شہر میں داخل ہو جاؤ، مگر میرے فرمانبردار رہنا اور دعائیں کرتے جائیں کہ کہیں کوئی غلطی نہ ہو جائے اور نافرمانی نہ ہو.مگر جب ان کو طرح طرح کی نعمتیں ملیں تو وہ یاد خدا کو بھول گئے اور لغویات میں مشغول ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کی.اور بجائے الہی باتوں کے دنیاوی کاموں میں مشغول ہو گئے آخر نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہلاک کر دیئے گئے اور تباہ کر دیئے گئے.مسلمانوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے سلطنتیں دیں.اور پہلے فرما دیا کہ دیکھو تمہیں سلطنتیں ملیں گی لیکن تم خدا کو نہ بھولنا.جب تک مسلمانوں نے خدا کو یا درکھا اور ہر کام میں اس کو مقدم رکھا تب تک وہ بڑے آرام میں رہے اور انہیں کوئی دکھ اور تکلیف نہ ہوئی لیکن جب انہوں نے ایسے ایسے کام کئے کہ یہود میں بھی شاید ہی ایسا ہوا ہو.اور بے حیائی میں حد سے بڑھ گئے اتنا کہ بعض نے ایسا کام کیا کہ سیڑھیوں پر چڑھ رہے ہیں اور...ادھر دربار لگا ہوا ہے اور اپنے پیچھے...پہرہ کیلئے....ہیں.جب مسلمانوں نے ایسی ایسی خباثتیں کیں تو ان کی بھی وہی حالت کی گئی جو یہود کی ھے ہوئی اور ان کو ہلاک کر دیا گیا اور ان پر طرح طرح کے عذاب آئے جیسے ان کو انعام زیادہ ملے تھے ویسے ہی ان پر عذاب بھی زیادہ آئے.اللہ تعالیٰ کی نعمتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں.اس لئے انسان کو چاہیئے کہ کسی دنیوی نعمت کے بدلے خدا تعالیٰ کو نہ چھوڑے.کیسا ہی احمق ہے وہ شخص جو ایک عمدہ چشمے کو چھوڑ کر ایک پانی کا گلاس پسند کرتا ہے.جو نعمتیں انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہیں ان کو اگر خیال کرے تو اس کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرے.کیونکہ اصل پہنچانے والا وہی ہے

Page 126

خطبات محمود جلد ۴ 112 سال ۱۹۱۴ء اور اسی سے تمام نعمتیں مل سکتی ہیں.اس کی نعمتیں کبھی ختم نہیں ہوں گی.انسان کے خزانے ختم ہونے والے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے خزانے ختم نہیں ہو سکتے.پانی کو ہی دیکھ لو کہ کروڑ ہا سالوں سے تمام مخلوق اسے پی رہی ہے لیکن وہ ختم ہونے میں نہیں آتا.ہوا کو سانس لے لے کر گندہ کیا جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ ہر روزنئی اور مصفی ہوا بھیج دیتا ہے.ایسے ہی غلے پھر جمادات، سونا، چاندی، تانبا، سکہ وغیرہ تمام دھاتیں ، ان کی کا نیں ختم ہونے میں ہی نہیں آتیں.تو خدا تعالیٰ کی نعمتوں کی کوئی انتہا نہیں.جیسے وہ ذات خود غیر محدود ہے ویسے ہی اس کی نعمتیں غیر محدود ہیں.بعض لوگ ان دنیاوی نعمتوں میں پھنس کر اللہ تعالیٰ کو ناراض کر بیٹھتے ہیں انہیں یا درکھنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں آزمائش کیلئے آتی ہیں..ہم سے پہلے ہزاروں طاقتور قو میں گزر چکی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی نعمتیں دیں مگر نافرمانی کی وجہ سے وہ نعمتیں ان سے چھینی گئیں اور انہیں ہلاک کر دیا گیا.مسلمانوں پر بھی آج کل آزمائش کے دن ہیں.خدا تعالیٰ دیکھتا ہے کہ ہم اس کی فرمانبرداری کرتے ہیں یا کہ اس کو بھلا کر دنیاوی نعمتوں میں پھنس جاتے ہیں.اس لئے ہمیں دعاؤں میں لگ جانا چاہیئے اور فکر کرنا چاہیئے.اللہ تعالیٰ کی جس طرح نعمتیں غیر محدود ہیں ایسے ہی اس کے عذاب بھی سخت ہیں اور غیر محدود ہیں.خدا تعالیٰ تھکتا نہیں.جیسے اس کی نعمتیں نئی سے نئی ہیں ویسے ہی وہ عذاب نئے سے نئے دے سکتا ہے.یورپ والے بیماریوں کے علاج کرتے ہیں لیکن ابھی ایک بیماری کا علاج وہ مکمل نہیں کر پاتے کہ ایک اور نئی قسم کی بیماری نکل آتی ہے.بہت فکر اور احتیاط کا مقام ہے خدا تعالیٰ سے تعلق ایسا ہی ہے جیسے تیز تلوار کی دھار پر چلنا.اس لئے احتیاط چاہیئے کہ خدا تعالیٰ کی نارضامندی نہ ہو.دنیا کی نعمتیں اگر اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں خرچ کر دی جاویں تو وہ اور نعمتیں دیتا ہے.اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر کرو، اس کی فرمانبرداری کرو.اللہ تعالیٰ کے خوش کرنے سے تمام مشکلات حل ہو جاتے ہیں.الفضل ۲۵.جون ۱۹۱۴ء) ل البقرة: ٥٩

Page 127

خطبات محمود جلد ۴ ۱۱۸ (۲۸) سال ۱۹۱۴ء افراط و تفریط مُہلک مرض ہے (فرموده ۲۶.جون ۱۹۱۴ء) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.وَإذِ اسْتَسْقَى مُوسَى لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِبُ بِعَصَاكَ الْحَجَرَه فَانفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا قَد عَلِمَ كُلُّ أناسٍ مَّشْرَبَهُمْ ، كُلُوا وَاشْرَبُوا مِنْ رِزْقِ اللهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ اس کے بعد فرمایا:.ط افراط و تفریط، ان دونوں نے گل دنیا کے مذاہب کو تباہ کر دیا ہے.انسان ایک حد تک بہت کم رہتا ہے.کئی جوش میں آکر حد سے آگے نکل جاتے ہیں اور کئی ضعف سے بالکل ہی پیچھے رہ جاتے ہیں.اصل منزل مقصود تک بہت کم لوگ پہنچتے ہیں.کئی لوگوں نے حد سے بڑھ کر ایسا کہ دیا کہ خدا ایک نہیں ہے بلکہ ایک سے زیادہ خدا ہیں.پھر بعض نے تو اس پر ہی بس نہیں کی بلکہ ایک ایک شہر، پھر ایک ایک قبیلہ، پھر ہر ایک گھر کا ایک ایک خدا بنا دیا.پھر دوسرے آئے انہوں نے کہہ دیا کہ خدا کوئی ہے ہی نہیں ، ہم خود بخود پیدا ہوئے ہیں اور جو کچھ دنیا میں ہے آپ ہی آپ سے بن گیا ہے.ایک گروہ افراط میں تباہ ہو گیا اور ایک گروہ تفریط میں.پھر بعض گروہ ایسے ہیں جنہوں نے بعض انبیاء کو خدا بنا دیا.اور ایک گروہ نے تو کہہ دیا کہ عیسی خدا کا بیٹا ہے.خدا نے اس کو ہماری خاطر صلیب پر لٹکا دیا اور ہمارے گناہ معاف ہو گئے.دوسرا گروہ اٹھا انہوں نے کہا کہ وہ (حضرت عیسی ابن مریم ( تو نعُوذُ بِاللهِ لعنتی تھا اور

Page 128

خطبات محمود جلد ۴ 119 سال ۱۹۱۴ء فریبی تھا اور اس پر اپنے ناپاک اور گندے خیالات سے طرح طرح کے الزامات لگائے.تمام مذاہب میں ان دو ہی وجھوں سے اختلافات پیدا ہوئے اور ان میں باطل پھیلا.اسلام میں بھی دوسرے مذاہب کی طرح ایسے گروہ پیدا ہو گئے.اور ایک گروہ ان میں سے ایسا ہوا جس نے اہل بیت نبی پر بڑے بڑے نا پاک حملے کئے اور ان کو گندہ کہا اور انہوں نے اس بات کا فیصلہ کر دیا کہ اہل بیت نبی نَعُوذُ باللہ ناپاک تھے.اور ایک گروہ ایسا پیدا ہوا جس نے ان کی تعریف میں ایسا مبالغہ کیا کہ حد سے بڑھ گئے اور کہا ان سے کبھی کوئی غلطی ہو سکتی ہی نہیں.کچھ ایسے ہوئے کہ اگر صحابہ سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو ان کو گالیاں دینی شروع کر دیں.کچھ ایسے ہوئے جنہوں نے کہہ دیا جو کرتا ہے خدا ہی کرتا ہے ہمارا کچھ اختیار نہیں، ہم کچھ نہیں کر سکتے.سب کچھ خدا ہی کرتا اور خدا ہی کرواتا ہے ہمارا اس میں کچھ دخل نہیں ہے.دوسروں نے ایسا کہ دیا کہ خدا کا کسی بات پر تسلط ہی نہیں جو کرتے ہیں ہم خود کرتے ہیں.ایک تو اتناحد سے بڑھ گئے کہ خدا ہی کرتا کرواتا ہے.خدا ہی چوری، جھوٹ اور برائیاں کرواتا ہے.دوسروں نے کہا کہ سب کچھ ہم خود ہی کرتے ہیں خدا کا اس میں دخل ہی کوئی نہیں.تو افراط و تفریط سے ہی تمام مذاہب پر تباہیاں آئیں حالانکہ ان سب کیلئے ایک نقطہ وسط تھا جس پر وہ جمع ہو سکتے تھے.نبی کریم صلی یہ تم نے مرنے کے بعد کا ایک واقعہ بیان فرمایا ہے جو افراط و تفریط سے بچانے کیلئے آپ نے فرمایا: کہ ایک پل صراط ہے جس پر سے گزر کر جنت کو جانا ہوگا.جو اس پر سیدھا چلے گا اور ذرا بھی ادھر ادھر نہ ہو گا وہ جنت میں پہنچ جاوے گا اور ذرا ادھر ادھر ہو گا تو دوزخ میں گرے گا ۲ معجزات ایک زندہ نشان ہوتے ہیں مذہب کیلئے.اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے اس سے بہت بڑی فوقیت دوسرے مذاہب پر دی ہوئی ہے.اور یہ ایک نشان ہے خدا کی طرف سے.اس سے اسلام کو ہر وقت تائید و نصرت ہوتی ہے مگر بعض مسلمانوں نے اس کو یہاں تک بڑھا دیا کہ اپنے پیروں کو خدا کا شریک ٹھہراد یا اور کہ دیا کہ ان سے کوئی چیز مخفی نہیں رہ سکتی.اور جو کچھ ہے انہی کے اختیار میں ہے اور وہ جو کرنا چاہیں کر سکتے ہیں.دوسرے آئے انہوں نے کہہ دیا کہ نبی کریم صلی ال ایام کے بعد اب اللہ تعالیٰ کسی سے کلام نہیں کرتا.گو یا خدا تعالیٰ کو نَعُوذُ باللہ گونگ قرار دیا.بعض نے کہ دیا کہ پہلے بھی کبھی اللہ تعالیٰ کسی سے ہمکلام نہیں ہوا اور نہ ہی اب کسی سے ہمکلام ہوتا ہے اور الہام وغیرہ کوئی چیز نہیں.یہ

Page 129

خطبات محمود جلد ۴ ۱۲۰ سال ۱۹۱۴ء صرف نیچر کے اسباب دیکھ کر جو دل میں کوئی عمدہ بات پیدا ہو جاوے.اس کا نام الہام رکھ دیا گیا ہے.اسی طرح قرآن کریم کا ترجمہ کرتے ہوئے لوگوں نے ایسی ایسی تاویلوں سے کام لیا کہ اصل مطلب کو ضائع کر دیا.کئی تو حد سے بہت آگے نکل گئے اور کئی نے اس کو محال خیال کر کے اور ہی تاویلیں کر دیں اور وہاں تک پہنچے ہی نہیں.اور معجزات کو بری طرح پیش کیا مثلاً نَاقَةُ الله اس کے متعلق طرح طرح کے خیالات ظاہر کئے اور عجیب عجیب تشریحیں شروع کر دیں.ناقَةُ اللهِ اللہ کی اونٹنی.یہ کوئی معمولی سی اونٹنی تو نہ ہوگی.اب لگے اس کی تاویلیں کرنے.بعض نے کہہ دیا کہ کفار نے معجزہ مانگا تھا کہ پہاڑ سے اونٹنی نکالوں جس کے بچہ بھی ہو.پس حضرت صالح علیہ السلام نے دعا کی تو فوراً پہاڑ اونچا ہونا شروع ہو گیا اور اس میں سے ایک اونٹنی نکل آئی.پھر اونٹنی کو فورا ہی حمل ہو گیا اور اسی وقت ایک بچہ اس نے کے پیدا ہو گیا.دوسرے آئے انہوں نے اسلام کی تائید میں جو حقیقی معجزات تھے ان کی بھی تاویلیں شروع کر دیں اور تمام حق باتوں کو مٹانا چاہا.نہ تو حد سے بڑھنے کی ضرورت تھی اور نہ ہی کسی اور طرف جانے کی ضرورت تھی.اگر جیسا قرآن کریم نے لکھا ہے ویسا کرتے تو یہ ٹھوکریں نہ لگتیں.یہاں قرآن کریم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک واقعہ بیان فرمایا ہے.ان میں الفاظ کی کمی یا زیادتی کرنا جائزہ نہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے مصر سے نکلے.رستے میں ایک جگہ پانی کی ضرورت پڑی.پانی کہیں سے نہ ملا.اللہ تعالیٰ سے دعا کی.اللہ تعالیٰ نے بذریعہ الہام ان کو بتلا دیا کہ اس پتھر پر اپنا عصا مارو.انہوں نے ایسا ہی کیا.اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے.یہ نظارے عموما دیکھے جاتے ہیں کہ پہاڑوں میں کئی جگہوں میں پانی جمع ہوتا ہے اور موقع ملے تو وہ بہہ نکلتا ہے.ایسی جگہ ہر ایک آدمی معلوم نہیں کر سکتا.آج کل کچھ ایسے علوم نکل آئے ہیں جن کے ذریعہ سے معلوم ہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ان کو ( حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ) بذریعہ الہام بتلا دیا کہ فلاں جگہ پانی نزدیک ہے وہاں سوٹا مارو پانی نکل آئے گا.انہوں نے حکم الہی کے مطابق کیا.وہاں سے بارہ چشمے بہہ نکلے.ایسا دیکھا گیا ہے کہ بعض جگہوں میں سترہ سترہ چشمے ایک پتھر سے نکلتے ہیں.اس میں ایک سہولت ہوتی ہے کہ بہت سے لوگ جمع ہوں تو ایک ہی جگہ پر ان کو پانی لینے میں تکلیف ہوتی ہے مگر بہت سا پانی ہو تو وہاں

Page 130

خطبات محمود جلد ۴ ۱۲۱ سال ۱۹۱۴ء سے پانی لینے میں بہت آسانی ہوتی ہے.اس سے ان کے اختلافات بھی مٹ گئے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ کی جیب میں کوئی پتھر تھا اس میں سے وہ چشمے نکلے تھے.یہ غلط ہے.یہ قرآن کریم میں ذکر ہے.اگر احادیث میں ہوتا تو جرح بھی ہو سکتی تھی.لیکن اب اس پر جرح نہیں ہو سکتی.یہ اللہ تعالیٰ کا ان پر احسان تھا کہ پانی کی جگہ الہام کے ذریعہ ان کو بتلائی.وہ ہمیشہ سے احسان کرتا آیا ہے اور کرتا رہے گا.اس پر ہمیں اعتراض کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے.اور ہمیں کوئی ضرورت نہیں کہ قرآن کریم کے الفاظ کو چھوڑ کر خواہ نخواہ افراط و تفریط میں مبتلا ہوں.اکثر لوگوں کو معجزات کے متعلق بڑی بڑی ھے غلطیاں لگی ہیں.میں نے ایک آدمی کو یہ کہتے سنا کہ وہ سیاہی جو کشف کی حالت میں حضرت صاحب کے کپڑوں پر گری تھی) وہ کسی چھپکلی کی دم کٹ گئی ہوگی اور وہ لہو آپ کے کپڑوں پر گرا ہو گا.میں نے تب خیال کیا کہ ابھی اس زمانہ میں ہی لوگوں کو شک اور احتمال شروع ہو گئے ہیں تب مدت کے بعد ان کا کیا حال ہوگا تب تو یقین تک نوبت پہنچ جاوے گی.مومن کیلئے افراط و تفریط سے بچنے کا آسان اور عمدہ طریق یہی ہے کہ اصل الفاظ کو لے لے.نہ افراط کی طرف جاوے اور نہ تفریط کی طرف.بعض لوگ مباحثہ کرتے وقت کہہ دیتے ہیں کہ کیا خدا قادر نہیں کہ عیسی کو زندہ رکھ سکے اور آسمان پر لے جاوے.خدا قادر تو ہے اور وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ ایک چنے کے دانے سے ایک چشمہ نکال دے مگر کر سکتا.“ اور ” کرنا ان میں فرق ہے.قادر ہونے سے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ عیسی زندہ آسمان پر ہے.یا ایک چنے کے دانے سے چشمہ نکلتا ہے.میں اس وقت اس مسجد میں کھڑا ہوں تو ممکن تو ہے کہ میں باغ میں ہوں.ہو سکتا ہے کہ ایک شخص یہاں ہو گر وہ کسی اور شہر میں ہو ممکن تو ہے کہ ایک شخص یہاں ہو لیکن وہ ریل میں سفر کر رہا ہو لیکن ایسا فی الواقع ہے تو نہیں.معجزات اور آیات کی تشریح اور معانی میں اصل الفاظ کو ملحوظ رکھو.اللہ تعالیٰ کے کاموں میں ایسا کرنا گستاخی ہے.مومن کو چاہئے کہ ہمیشہ محفوظ طریق اختیار کرے.جتنا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے پس اسی پر اکتفاء کرے.ل البقرة :۶۱ الفضل ۲.جولائی ۱۹۱۴ ء ) ے مسلم کتاب الایمان باب ادنى اهل الجنة منزلة فيها.

Page 131

خطبات محمود جلد ۴ ۱۲۲ (۲۹) سیاست کو چھوڑ کر تم دین میں لگ جاؤ (فرمودہ ۳.جولائی ۱۹۱۴ ء ) سال ۱۹۱۴ء الله تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی :.وَإِذْ قُلْتُمْ لِمُوسى لَن نَّصْبِرَ عَلَى طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجُ لَنَا مِهَا تُنْبِتُ الْأَرْضُ مِنْ بَقْلِهَا وَقِتَائِهَا وَفُوْمِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا قَالَ اَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ ادْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرُ اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُمْ مَّا سَأَلْتُمْ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ اللَّلَّهُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَآءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ ذُلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِأَيْتِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّنَ بِغَيْرِ الحَقِّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ اس کے بعد فرمایا:.جب کوئی قوم مدت تک ماتحت اور غلام رہتی ہے تو اس کے اخلاق بگڑ جاتے ہیں اور پھر ضرورت ہوتی ہے اس بات کی کہ ان کو آزاد رکھا جائے.تب اس قوم کی حالت درست ہوتی ہے.بنی اسرائیل مدت تک فرعون کی جابر حکومت کے ماتحت رہے اور ان کے قومی حکومت اس سے بہت بگڑ گئے اور ان کی اخلاقی حالت بالکل گر گئی.اور ان میں حکومت کا مادہ بالکل نہ رہا.ان میں لڑائی کرنے کی قابلیت اور جرات بالکل نہ رہی تھی.جیسے قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حضرت موسیٰ کو کہہ يا - اذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ إِنَّا هُهُنَا قَعِدُونَ ان وجوہات سے اللہ تعالیٰ نے ان کو جنگل میں رکھا تا کہ ان کے اخلاق سدھر جائیں.یہ

Page 132

خطبات محمود جلد ۴ ۱۲۳ سال ۱۹۱۴ء اللہ تعالیٰ نے ان کی آزادی کیلئے سامان پیدا کر دیا.تا کہ وہ اپنے پرانے خیالات بھول کر حکومت کرنے کے لئے تیار ہو جائیں لیکن انہوں نے ایسی راہ اختیار کی جس کی وجہ سے ان سے وہ نعمتیں چھن گئیں اور ان پر عذاب آیا.اس آیت میں بیان کیا ہے کہ جو کچھ ان کو اللہ تعالیٰ نے دیا ان کو اس پر صبر نہ آیا اور انہوں نے موسیٰ کو کہہ دیا که لَن نَّصْبِرَ على طَعَامٍ واحدٍد ہم ایک کھانے پر صبر نہیں کر سکتے.موسیٰ ہمیں کسی ایسی جگہ لے چلو جہاں سے ہمیں گیہوں ، ساگ اور لکڑیاں اور مسور اور پیاز لہسن وغیرہ مل سکیں.تا کہ ہم انہیں کھائیں.ان کے اس نے سوال سے یہ مراد تھی کہ ہمیں کسی شہر میں لے چلو جہاں ہمیں یہ چیزیں میسر ہو سکیں.اللہ تعالیٰ کا منشاء چونکہ ان کو حکومت دینے کا تھا مگر وہ چونکہ گند سے بھرے ہوئے تھے اور تباہ ہونے والے تھے.اس لئے انہوں نے کہا.موسیٰ ہمیں کسی شہر میں لے چلو.جہاں یہ چیزیں کھانے کو مل سکیں.یہاں جنگل میں کیا رکھا ہے.جنگل کی چیزوں پر ہم بسر نہیں کر سکتے.یہاں تو یہی ہے کہ جنگلی جانوروں کو پکڑا اور کھا لیا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تم اسے جو بہتر ہے اس سے بدلنا چاہتے ہو جو ادنی ہے.یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ وہ چیز میں دراصل ادنی تو نہیں تھیں.ان اشیاء کو تو بی کریم ملا ہی ہم بھی کھایا کرتے تھے بلکہ اگر گوشت پکا ہوا ہوتا اور اس میں کرو ہوتا تو آپ کر وکوٹول ٹول کر نکالتے اور اسے کھا لیتے تھے ۳؎ تو ترکاری کا کھانا کوئی برانہیں ہے.اگر برا ہوتا تو آپ خود بھی نہ کھاتے اور صحابہ کو بھی منع فرما دیتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی گوشت کم کھایا کرتے تھے.اور سبزی کو پسند کرتے تھے.گوشت سے ایک گونہ آپ کو نفرت ہی تھی.اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکومت دینی تھی چونکہ ان کو اللہ تعالیٰ کی پیشگوئی پر یقین نہ آیا.اس لئے انہوں نے چاہا کہ حکومت تو معلوم نہیں کہ ملے یا نہ ملے اور خدا جانے کب ملے گی.کچھ دن روٹی تو آرام سے کھاویں.اس لئے کہا کہ ہمیں سبزیاں ترکاریاں چاہئیں اور وہ تو کھیتی کرتے تو اس سے ملتیں.انہوں نے چونکہ اللہ تعالیٰ کی ایک پیشگوئی کا انکار کیا اس لئے اللہ تعالیٰ ان پر ناراض ہوا اور حکم دیا کہ کسی شہر میں چلے جاؤ وہاں تم کھیتی کرنا.وہاں سے تمہیں جو مانگا ہے مل جاوے گا.ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوا.اور چونکہ انہوں نے خدا کی پیشگوئی کا انکار کیا اور اس پر ایمان نہ لائے بلکہ جلد بازی سے کام لیا اس لئے ذلیل ہو گئے.اور بجائے اس کے کہ ان کو حکومت ملتی ، اب ایک معمولی کسان بننا انہوں

Page 133

خطبات محمود جلد ۴ ۱۲۴ سال ۱۹۱۴ء نے پسند کیا.ان کو اللہ کے حکم پر ایمان نہ ہوا اور یقین نہ آیا کہ ہمیں سلطنت مل سکے گی اور اپنا بادشاہ بننا ممکن خیال نہ کیا اس لئے پھر ذلیل ہو گئے.جولڑ کے پڑھتے ہیں انہیں یقین ہو کہ ایک دن آتا ہے جب ہم کچھ بن جاویں گے تب تو وہ ضرور محنت کرتے ہیں اور پڑھائی ان کو کوئی مشکل نہیں معلوم ہوتی لیکن جن طلباء کو امید نہیں ہوتی اور یقین نہیں ہوتا کہ ہم علم سے بڑے مرتبہ تک پہنچ سکتے ہیں وہ پھر محنت نہیں کرتے اور اپنا وقت کھیل کود میں ضائع کر دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے خدا کی پیشگوئی پر یقین نہ کیا اور یہ سمجھا کہ موسیٰ غلط کہتا ہے.ہمیں کوئی بادشاہت نہ ملے گی اور یہ بات ان کے دلوں میں اس لئے آئی کہ وہ رسول کا مقابلہ کرتے تھے.کسی بزرگ یا مامور من اللہ کا مقابلہ کرنا بہت خطرناک ہے.مقابلہ کرنے والے کا ایمان آہستہ آہستہ سلب ہو جاتا ہے.حضرت صاحب نے اس پر مفصل بحث تریاق القلوب میں کی ہے.جو شخص کسی مامور من اللہ کا مقابلہ کرتا ہے اس کے دل پر ایک سیا ہی آجاتی ہے اور جوں جوں وہ مقابلہ کرتا چلا جاتا ہے توں توں اس کے دل کی سیاہی بڑھتی جاتی ہے.اور اس کا ایمان آہستہ آہستہ سلب ہوتا جاتا ہے اور اگر وہ مقابلہ پر اڑا رہے تو آخر کار اس کا ایمان بالکل سلب ہو جاتا ہے اور اس کا دل بالکل سیاہ ہو جاتا ہے.یہ معاملہ صرف کسی ایک بزرگ یا مامور سے خصوصیت نہیں رکھتا بلکہ کل انبیاء کا یہی حال ہے جو ان کا مقابلہ کرے گا اس کا ایمان سلب ہو جائے گا.بعض لوگوں نے سلب ایمان اور کفر میں فرق بتایا ہے.یہ غلط بات ہے.حضرت صاحب نے تریاق القلوب میں بتا دیا ہے کہ ایک آدمی کس طرح کا فر بنتا ہے.وہ پہلے اللہ تعالیٰ کے کسی نبی کا مقابلہ کرتا ہے.اور پھر آہستہ آہستہ اس سے نور ایمان چھین لیا جاتا ہے.اور جوں جوں وہ مقابلہ میں دلیری سے کام لیتا ہے اور بڑھتا ہے آہستہ آہستہ اس سے نیکی کی توفیق بالکل اٹھالی جاتی ہے.عبد الحکیم کو دیکھ لو.جب وہ احمدی جماعت میں تھا تو اس کی اور حالت ہے تھی.لیکن جب اس نے ارتداد اختیار کیا اور آپ کا ( حضرت مسیح موعود ) کا مقابلہ کیا تو پھر اس سے اعمال صالحہ کی توفیق اٹھالی گئی.یہ سب کچھ کیوں ہوا.ذلِكَ بِمَا عَصَوا.یہ اس کا بدلہ ہے جو مامور کی نافرمانی کی اور اس کا مقابلہ کیا.اس سے تدریجا آہستہ آہستہ اس کا ایمان سلب ہوتا گیا یہاں تک کہ بالکل ہی

Page 134

خطبات محمود جلد ۴ ۱۲۵ سال ۱۹۱۴ء اس سے ایمان اٹھ گیا.بہت سے لوگ اس لئے نہیں مانتے کہ اگر مانیں گے تو بہت سی باتیں ترک کرنی ہے پڑیں گی.اس لئے پھر وہ نبی کا مقابلہ کرتے ہیں اور جب مقابلہ کیا تو جو کچھ وہ کرتا ہے اس کے بھی ضرور خلاف کرنا ہوا.اس لئے وہ پھر ایمان سے محروم ہو جاتے ہیں.پہلے انسان حد سے بڑھتا ہے.پھر نبی کا مقابلہ کرتا ہے اور پھر آخر کار آیات اللہ سے بالکل انکار کرتا ہے.پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خیر وشر میں تمیز نہیں کرسکتا.جیسا کہ بچہ ایک عمدہ سے عمدہ چیز کی بجائے روٹی ہی پسند کرتا ہے.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو فرمایا ہے کہ ہم تمہیں انعام دیں گے اور تمہیں بڑی بڑی نعمتوں کا وارث کریں گے مگر یا درکھو کہ ساتھ ہی اس کے کچھ دنیاوی لالچ بھی ہوں گے مگر ہوشیار رہنا ان لالچوں میں نہ پڑ جانا.صلح حدیبیہ میں مسلمانوں میں بعض کمزور ایمان والوں کو ٹھوکر لگی اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اب یہ ایک موقع تھا جو ہاتھ سے نکل جائے گا.اس میں اگر جنگ کرتے تو فتح کر لیتے مگر اللہ تعالیٰ کی مصلحتوں کو وہ نہیں سمجھ سکتے تھے.دیکھو آخر کار وہی صلح فتح کا موجب ہوئی.ہماری جماعت میں بھی بعض لوگوں کو ٹھوکر لگی ہے.اور وہ ٹھو کر سیاست سے متعلق لگی ہے.حضرت صاحب کی تعلیم یہ ہے کہ سیاست کو چھوڑ کر تم دین میں لگ جاؤ.اسی سے متعلق تم کو سیاست بھی حاصل ہو جائے گی.مگر لوگوں نے اسے سمجھا نہیں.دین میں لگنے سے وہ باتیں جو سیاست سے بھی حاصل نہیں ہو سکتی تھیں وہ مل سکتی ہیں مسلمانوں نے اگر زیادہ سے زیادہ سیاست میں کچھ حصہ لیا تو انہیں یہی کچھ ملا کہ وہ معمولی عہدوں پر رکھ لئے گئے.کوئی بڑا عہدہ ان کو نہیں ملا.لیکن اس کے مقابل پر اگر انبیاء کی تعلیم پر چلا جاوے تو تھوڑے دنوں میں کامیابی حاصل ہو جاوے.بر خلاف اس کے دیکھو لو کہ جو لوگ سیاست میں مشغول ہوتے ہیں وہ دین سے غافل ہو جاتے ہیں.سیاست دراصل کوئی بری چیز نہیں ہے.لیکن اس وقت وہ ہمارے لئے ترقی کی راہ میں روک ہے.اس لئے دین میں ہمہ تن لگ جانا چاہیئے.سیاست میں پڑنے والوں کی بعینہ وہی حالت ہے کہ آتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ اَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ.دین جو بالکل خیر و برکت تھا اسے چھوڑ کر دنیاوی معاملات میں پڑ گئے اور دین سے غافل ہو گئے.خدا تعالیٰ نے یہ ایک راہ ( دین ) ترقی کیلئے نکالی تھی.مگر بعض نے سیاست میں حصہ لینا چاہا.اور سیاست میں ضرورت تھی جتھے کی.اس لئے انہوں نے غیر احمدیوں سے ملنا چاہا.اس لئے اپنوں سے جدا ہوئے ادھر

Page 135

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۴ء جن سے ملے ہیں انہوں نے بھی ان کو قبول نہ کیا اور ابھی سے ان کو دھکے دینے شروع کر دیئے ہیں.اس وقت صرف مذہب ہی ہے جو ترقی دے سکتا ہے.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سیاست سے روک دیا تا دین کی طرف سے یہ لوگ غافل نہ ہو جاویں.اور دین کی طرف توجہ کریں اور کامیاب ہو جاویں.اور دیوانوں اور بچوں کی طرح نہ ہو جاویں کہ ایک روٹی کے بدلے ہیرے دے دیں.جو کام کرو اس میں دیکھ لو کہ حقیقی کامیابی کس طرح ہو سکتی ہے.راستے میں بہت سے لالچ ہوتے ہیں ان سے بچ کر رہنا چاہیئے اور احتیاط سے کام لینا چاہیئے.اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی کامیابی عطا فرما دے اور ایسے رستوں سے بچائے جس میں حقیقی کامیابی نہیں مل سکتی.(الفضل ۹.جولائی ۱۹۱۴ء) البقرة: ٦٢ المائدة: ۲۵ ترمذی کتاب الاطعمة باب ما جاء في أكل الدباء

Page 136

خطبات محمود جلد ۴ ۱۲۷ (۳۰) خوف وخون سے نجات سچائی کی علامت ہے (فرموده ۱۰.جولائی ۱۹۱۴ ء ) سال ۱۹۱۴ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی :.إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِيْنَ هَادُوا وَالنَّصْرَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ اس کے بعد فرمایا:.کوئی دنیا کا انسان اپنے پیاروں اور عزیزوں کو مصیبت اور تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا.اگر دو آدمیوں میں خفیف سے خفیف بھی محبت یا تعلق ہو تو ایک کی تکلیف کا اثر دوسرے پر ضرور پڑے گا.باپ اپنے بیٹے کو مصیبت میں دیکھ کر کبھی یہ برداشت نہیں کرتا کہ خود آرام سے بیٹھا ر ہے.اور اسی طرح بیٹا باپ کو تکلیف میں دیکھنا گوارا نہیں کرتا.بھائی بھائی کی تکلیف کو ، دوست دوست کی تکلیف کو، بیوی خاوند کی تکلیف کو اور خاوند بیوی کی تکلیف کو دیکھ کر آرام سے نہیں بیٹھ سکتا.غرضیکہ جن انسانوں کا آپس میں ذرا بھی تعلق ہوتا ہے ان کو ایک دوسرے کی تکلیف دیکھ کر ضرور درد پیدا ہو جاتا ہے.بہت سے واقعات ایسے ہوئے ہیں کہ گھر میں آگ لگ گئی ہے اور بچہ اندر ہے تو باپ یا ماں نے آگ میں کود کر یا تو بچے کو بچالی یا خود بھی اس کے ساتھ جل کر کباب ہوگئی ہے.تو محبت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جس کے ساتھ محبت اور پیار ہوتا ہے اس کی ہر ایک تکلیف

Page 137

خطبات محمود جلد ۴ ۱۲۸ سال ۱۹۱۴ دور کرنے کیلئے اپنی جان تک قربان کر دی جاتی ہے.اور مصیبت کے وقت ہی کسی کے پیار کا پتہ لگتا ہے، ایک عام شعر ہے کہ:.دوست آن باشد که گیر دست دوست در پریشان حالی و درماندگی بہت لوگ کہنے کو تو کہتے ہیں کہ مجھے آپ سے بڑی محبت ہے لیکن موقع پر چھوڑ دیتے ہیں.حقیقی محبت اور پیار کا یہی ایک نشان ہے کہ اگر ایک دوست کو کوئی تکلیف پہنچے تو دوسرا دوست بھی اس تکلیف کو محسوس کرے اور اس کے دور کرنے کی کوشش میں لگ جائے اور اگر کوئی اپنے دوست کو مصیبت میں دیکھ کر اس کی مدد، تائید اور نصرت نہ کرے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کو اس سے کوئی تعلق اور محبت نہیں ہے.تو جب ہم روزانہ انسانوں کو دیکھتے ہیں کہ ذرا ذرا سے تعلق کی وجہ سے اپنے دوستوں اور عزیزوں کو بچانے کیلئے جان بھی قربان کر دیتے ہیں تو اگر کسی جماعت سے اللہ تعالیٰ کا تعلق ہو اور اس کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا ہو تو باوجود اس کے وہ مصیبت کی زندگی دنیا میں بسر کرتی ہو اور خدا تعالیٰ اس کیلئے آرام کے سامان مہیانہ کرتا ہو اور تکالیف سے بچنے میں ان کی مددنہ کرتا ہو.حالانکہ انسان تو کسی کی مدد کرتے ہوئے اپنی کوئی چیز کھو کر مدد کرتا ہے اور خدا تعالیٰ تو اس سے بھی پاک ہے کیونکہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ خدا تعالیٰ نے کسی کو مصیبت سے بچایا ہو اور خود مصیبت میں پڑ گیا ہو.یا خدا تعالیٰ نے کسی کو مال و دولت دی ہو تو اس کا خزانہ خالی ہو گیا ہو.بائیبل میں یہ لکھا ہے کہ خدا نے سات دن میں زمین کو بنایا اور پھر تھک گیا.لیکن اسلام کا یہ مسئلہ نہیں ہے.تو جب خداوند تعالیٰ کے خزانہ میں کسی کو مالا مال کر دینے کی وجہ سے کمی نہیں آئی اور کسی کو مصیبت سے بچانے کی وجہ سے اسے خود کچھ تکلیف برداشت نہیں کرنی پڑتی تو پھر اگر کسی جماعت یا گروہ سے اللہ تعالیٰ کا تعلق ہو اور وہ مشکلات میں پڑی رہے اور اللہ تعالیٰ اس کی مدد نہ کرے تو ہم کہیں گے کہ اس قوم کا خدا تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہے.اس معیار کے ماتحت جب ہم تمام مذاہب کو پر کھتے ہیں تو اسلام کے سوا اور کوئی مذہب نہیں ٹھہر سکتا.یوں تو ہر ایک مذہب اس بات کا دعویدار ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہم سے بڑا تعلق ہے اور ہم سے بڑی محبت رکھتا ہے لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ اس بات کا ثبوت کیا ہے.اگر ایک شخص جس کا کسی دنیا کے مذہب سے تعلق نہیں وہ تمام مذاہب سے علیحدہ ہو کر یہ سوال کرے کہ میں کس مذہب کو اختیار کروں اور مجھے اس بات کا ثبوت دو کہ کونسا مذہب سچا ہے تو صرف

Page 138

خطبات محمود جلد ۴ ۱۲۹ سال ۱۹۱۴ء یہی ایک زندہ ثبوت اس کے سامنے پیش کیا جائے گا کہ جس مذہب کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت تمہیں شامل نظر آتی ہے وہی سچا ہے اور جس کے ساتھ تائید نہیں وہ جھوٹا ہے اور اس کے سچا ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کا صرف دعوئی ہی دعوئی ہے.کیونکہ جب کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ فلاں حاکم سے میرا تعلق ہے تو اس کا ثبوت وہ یہ دے گا کہ اگر کوئی مصیبت کا تکلیف کا وقت آئے تو وہ اس کی مدد کرتا ہے لیکن اگر وہ حاکم اس کو دکھ سے نہیں چھڑاتا یا اس کے سر پر آئی ہوئی آفت کو دور کرنے میں اس کی مدد نہیں کرتا تو اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے.اور اگر ایک شخص کو جب کوئی تکلیف پہنچے تو فورا اس ملک کا بادشاہ اس کی مدد کیلئے آمادہ ہو جائے اور اگر اسے مالی مشکلات پیش آئیں تو بادشاہ کے خزانے اس کیلئے کھول دیئے جائیں.اور اگر اسے کوئی ذلیل کرنا چاہے تو بادشاہ اس کی عزت قائم کر دے تو کیا ان نشانات کو دیکھ کر بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ بادشاہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے.یا ایک شخص بادشاہی دربار میں ذلیل کیا جاتا ہو لوگ اُسے دکھ دیتے ہوں لیکن بادشاہ کو کوئی پرواہ نہ ہو تو کیا کوئی یہ بات مان سکتا ہے کہ اس شخص کا تعلق بادشاہ سے ہے خواہ وہ کتنا ہی کہتا رہے.اسی معیار کو خدا تعالیٰ نے پیش کر کے فرمایا ہے کہ وہ لوگ جو مومن کہلاتے ہیں اور وہ جو یہودی اور نصاری اور صابی کہلاتے ہیں ہیں جو کوئی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے احکام کے ماتحت نیک عمل کرتا ہے ایسے لوگوں کو اس کی طرف سے بڑے بڑے اجر ملیں گے اور ایسے لوگوں کیلئے کوئی خوف نہ ہوگا اور نہ انہیں کوئی خون ہوگا.تو اللہ تعالیٰ نے سچے مذہب کا یہ معیار فرمایا ہے کہ قرآن ایک ایسے زمانہ میں اُترا ہے کہ جو اس کو مانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمارا مذ ہب سچا ہے اور یہودی کہتے ہیں کہ ہمارا مذ ہب سچا ہے.تو جب ہر ایک مذہب سچا ہونے کا ہی دعویٰ کرتا ہے تو جو در حقیقت سچا مذہب ہے اس کی دوسرے مذاہب پر کوئی فضیلت ہونی چاہیئے اور ساتھ ہی اس فضیلت کی دلیل بھی ہونی چاہیئے.پس بچے مذہب کی فضیلت کی یہ دلیل ہے کہ اس پر چلنے والے عمل صالح کرنے والے لوگ ہوں گے جو کہ خدا تعالیٰ کے پیارے ہوں گے.اور ان کو بڑے بڑے انعام دیئے جائیں گے اور ان کو کسی قسم کا کوئی خوف نہیں ہوگا.اگر انہیں پچھلی تکالیف کی وجہ سے کوئی خون اور ملال ہوگا تو ان پر ایسے انعام کئے جائیں گے کہ وہ بھی بھول جائیں گے.اب اگر کسی مذہب والے کہتے ہیں کہ ہم خدا کے پیارے ہیں.اور ہم سے خدا تعالیٰ کا تعلق ہے لیکن وہ

Page 139

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۴ء خوف میں ہیں ، تکالیف اٹھاتے ہیں اور حزن میں مبتلا ہیں تو وہ کبھی سچے مذہب کے پیرو نہیں ہو سکتے.لیکن جن لوگوں کو انعام ملیں اور ان کے خوف وحزن دور ہو جائیں وہی سچے مذہب کے معتقد کہلا سکتے ہیں.اب دیکھو کہ کس زمانہ میں یہ آیت نازل ہوئی اور اس وقت آنحضرت صلی یا اسلام کے پاس کتنے آدمی تھے اور وہ کس حالت میں تھے.بہت تھوڑے لوگ تھے جو کہ لوگوں کی نظروں میں حقیر اور ذلیل سمجھے جاتے تھے مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ بہت بڑا درجہ رکھتے تھے.لوگوں کے خیال میں وہ بے کار اور فضول تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے علم میں وہی بلند ہونے والے تھے.ان کے مقابلہ میں یہودیوں ، عیسائیوں ، مجوسیوں اور کفار کی بڑی سلطنتیں تھیں یا ان کے جتھے تھے مگر باوجود اس قدر ملک اور طاقت رکھنے کے انہیں ذلیل اور خوار ہونا پڑا.پہلے انہیں کوئی غم اور خون نہ تھا.لیکن آنحضرت صلی ایم کے مقابلہ پر آکر وہ مختلف قسم کے خوف اور حزن میں مبتلا ہو گئے.پس یہ باتیں ہوتی ہیں جو کسی مذہب کو سچا ثابت کرتی ہیں کیونکہ انہی باتوں سے پتہ لگتا ہے کہ فلاں جماعت کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہے اور فلاں کا نہیں ہے.کسی مذہب کی سچائی کی یہ علامت ہمیشہ کے لئے قائم ہے کہ اگر اس کے پیروؤں سے خوف وخون جاتا رہے اور خدا تعالیٰ کے انعام و اکرام کے دروازے ان پر کھلے جائیں تو وہ سچا ہے.لیکن اگر وہ خوف و حزن میں مبتلا ہوں تو سمجھنا چاہیئے کہ وہ جھوٹے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مختلف کتابوں میں تحریر فرمایا ہے کہ آجکل مسلمان قسم قسم کے خوفوں اور حزنوں نے میں جو مبتلا ہیں تو اگر یہ سچے مسلمان ہوتے تو خدا تعالیٰ کیوں انہیں ذلیل کرتا.اور کیوں یہ تباہ ہوتے ہ جاتے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا خدا تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہے.اس لئے وہ انہیں ان تکالیف سے نجات بھی نہیں دلاتا.پس تم اپنے اعمال پر غور کرو اور جس وقت دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کے ان تعلقات میں کوئی کمی واقع ہو گئی ہے اور تمہیں خوف وحزن میں مبتلا ہونا پڑا ہے توفورا اپنے اندر تبدیلی پیدا کر لو.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان اللہ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۳ پس اگر تم کسی خوف یا حزن میں مبتلا ہو جاؤ تو فورا اپنی اصلاح کی فکر میں لگ جاؤ.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے مضبوط تعلق پر قائم رہیں اور ہمارے خوف دور ہو کر ترقی کریں.اور اللہ تعالیٰ ہمیں اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے نجات دے اور جس طرح اپنے پاک بندوں -

Page 140

خطبات محمود جلد ۴ ۱۳۱ کی ہمیشہ تائید کرتا ہے ہماری بھی کرے.آمین ثم آمین.البقرة: ٦٣ پیدائش باب ۲ آیت ۱ تا ۳ ( مفہوما ) الرعد: ١٢ سال ۱۹۱۴ء الفضل ۱۶.جولائی ۱۹۱۴ ء )

Page 141

خطبات محمود جلد ۴ ۱۳۲ (۳۱) الہی بیچ میں کوئی نقصان نہیں (فرمودہ ۱۷.جولائی ۱۹۱۴ ء ) سال ۱۹۱۴ء تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی :.إِنَّ اللهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اَنفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحِوْنَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ الأمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللهِ وَبَيِّرِ الْمُؤْمِنِينَ فرمایا:.چونکہ جلد ہی دونوں سکولوں میں رخصتیں ہونے والی ہیں اور غالبا اسی ہفتہ میں ہمارے بعض استاد اور سب بچے اپنے گھروں کو جاویں گے اس لئے میں نے وہ ترتیب جو شروع کی ہوئی تھی اسے چھوڑ کر چاہا کہ بچوں کو کچھ نصائح کر دوں.دنیا میں قسم قسم کی بیعیں ہوتی ہیں اور بڑا بیو پار اور تجارت ہو رہی ہے.یورپ کا سارا زور تجارت پر ہے.اس زمانہ میں تجارت کا اتنا زور ہے کہ اس کی وجہ سے بعض مفید اور نیک باتیں دنیا سے مفقود ہیں.مثلاً مہمان نوازی یہ ایک اعلیٰ وصف تھا.لیکن یورپ میں کوئی کیسا عزیز دوست کیوں نہ ہوا سے ہوٹل میں اترنا پڑتا ہے اور کھانے پینے کا بل اس کے سامنے

Page 142

خطبات محمود جلد ۴ ۱۳۳ سال ۱۹۱۴ء پیش کر کے پیسے وصول کر لئے جاتے ہیں.اور اس زمانہ میں ہر ایک ذلیل سے ذلیل چیز کی بھی بیع ہورہی ہے.حیرت کا مقام ہے،شہروں میں اب پاخانہ بھی فروخت کیا جاتا ہے.اور اس کے علاوہ کوئی ذرا بھر نفع دینے والی چیز ہوا سے جھٹ فروخت کر دیا جائے گا.تم یہاں سے چلو گے تو یہیں سے تم بیع میں لگے جاؤ گے.یکہ والے سے بیج ، ریل میں پھر سٹیشنوں پر جا کر مختلف قسم کی بیعیں ہوں گی.برف ، مٹھائی، مختلف قسم کے میوے اور مختلف قسم کی اور چیزیں ہوں گی جن کی تم بیع کرو گے لیکن یہ وقتی بیعیں ہوں گی.یہ سب چیزیں جو تم لو گے کچھ تو گھر پہنچتے پہنچتے تمہارا جزو بدن بن چکی ہوں گی.کچھ فضلہ بن کر تم سے الگ ہوں گی.پھر جو چیزیں تم گھروں میں لے جاؤ گے وہ تم اپنے بھائیوں اور عزیزوں کو دو گے، بچوں کو دو گے وہ بھی انہیں کھا کر ختم کریں گے.لوگ بھاگے بھاگے ادھر سے اُدھر، اُدھر سے ادھر پھرتے ہوں گے.ان کی غرض یہ ہے کہ ان کی چیزیں بک جائیں اور اس کے بدلے میں روپے پیسے لیں.وہ چیزیں بھی تمہارے پاس نہ رہیں گی بلکہ تمہارا جزو بدن بن جائیں گے.یہ تو وقتی بیعیں ہیں جو فنا ہونے والی اور محدود ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک بیع بتلاتا ہے اور وہ یہ ہے اِنَّ اللهَ اشْتَرَى مِنَ المُؤْمِنِينَ اَنْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ.خدا فرماتا ہے ہم تم سے ایک بیع کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ تم ہمارے پاس اپنے ہی نفس اور اموال بیچ دو اور تمہیں اس کے بدلے میں ہم ایک کبھی نہ ختم ہونے والی چیز دیتے ہیں وہ کبھی ختم نہ ہوگی اور اس کے بدلے میں آرام اور سکھ تم کو ملے گا.دنیا میں تو جو چیز دے کر دوسرے کے پاس سے اس کی محنت لیتا ہے بیچنے والا ایک چیز اپنی محنت کے ذریعہ پیدا کرتا ہے پھر اسے بیچتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ انسان کو بغیر اس کی محنت و مشقت کے ایک چیز دیتا ہے پھر کہتا ہے اچھا یہ چیز ہمارے پاس بیچ دو ہم تمہیں اس کے بدلے میں ایک غیر فانی چیز دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے انسان کو خود ناک، کان ، ہاتھ ، پاؤں ،سر، منہ غرض تمام اعضاء عنایت کئے اور مال بھی اپنے پاس سے دیا لیکن پھر وہ انسان کو کہتا ہے یہ چیز بیچ دو اس کے بدلہ میں میں تم کو ایک اعلیٰ چیز دوں گا.کیا تم بتلا سکتے ہو کہ اس بیع میں کوئی نقصان ہے؟ نادان ہے وہ شخص جو اس بیج کے کرنے میں ہچکچائے.پھر اس بیچ میں اور عجائب ہیں کوئی انسان جب کوئی چیز خریدتا ہے تو اسے اپنے گھر لے جاتا ہے اور اسے اپنے پاس رکھ لیتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اَنفُس واموال کو خرید کر فرماتا ہے اچھا

Page 143

خطبات محمود جلد ۴ ۱۳۴ سال ۱۹۱۴ء تم اسے اپنے پاس رکھو اور اپنے استعمال میں لاؤ.ہاں جب کبھی ہم کوئی حکم تم کو کریں تو وہ ادا کر دینا.باوجود اس کے کہ تم وہ چیز بیچ چکے ہو لیکن پھر تمہیں دے دی کہ تم اس سے فائدہ حاصل کرو.ہاں ہمارا کوئی حکم ہو اسے مان لینا اور پھر اس کو جہاں چاہو استعمال کر لینا.نفس پک کر آسمان پر نہیں چلا جاتا بلکہ ہمارے ہی پاس رہتا ہے.ہم تمام اعضاء کو استعمال کرتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ خدا کوئی حکم دے تو اسے ماننا ہوگا یہ تو اس بیع کے انجو بے ۲_ اور اسکے نفعے بتلائے.اب کام فرماتا ہے کہ کیا کرنا ہے.يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ نفس و اموال کس طرح خریدے جاسکتے ہیں.وہ کسی خزانے میں داخل نہیں ہو جاتے بلکہ ہمارے پاس ہی رہتے ہیں.شرط صرف یہ ہے کہ مومن کو خدا کے رستے میں لڑنا چاہیئے اور اس کی عظمت و جلال قائم کرنے اور اسے ثابت کرنے کیلئے کوشش کریں.ان شریروں کا مقابلہ کریں اور اگر وہ دین حقہ کو تلوار سے مٹانا چاہیں تو یہ تلوار کو ان کے مقابل پر چلائیں اور خدا کی عظمت کو ظاہر کریں.اور اگر وہ مال یا جان یا کتب کے شائع کرنے سے مقابلہ کریں تو مومن کو چاہئیے کہ وہ ان کا مقابلہ جان، مال یا کتب شائع کرنے سے کرے.پھر مقابلہ پر تو بعض لوگ مارے جاتے ہیں کبھی کسی مصیبت میں پھنس جاتے ہیں یا دشمن مار دے.مگر مومن اپنے مارے جانے کی پرواہ نہیں کرتے.یہ وعدہ کوئی نیا تم سے ہی نہیں بلکہ یہ وعدہ ہم پہلے تو رات میں پھر انجیل میں کر چکے ہیں اور اس وعدہ کو تم تو رات میں آزما چکے ہو اور انجیل میں بھی.جب ہم اس کو دو مرتبہ سچا کر کے دکھلا چکے ہیں تو کیا اب ہم اس سے پھر جائیں گے؟ تم تبہ دیکھ چکے ہوجنہوں نے تو رات کی پیروی کی، انجیل کی پیروی کی وہ کامیاب ہو گئے.جس خدا نے دو مرتبہ اسے سچا کر دیا وہ اب بھی اسے سچا کر دکھلائے گا ( دو مرتبہ ان مخاطب قوموں کے لحاظ سے فرما یا ورنہ ایسے تو ہزاروں قوموں پر صادق آچکا ہے ) انسان جب ایک بات کو ایک مرتبہ آزما لے تو پھر اسے اس کے کرنے میں کوئی جھجک نہیں رہتی اور وہ اسے کرتے ہوئے ڈرتا نہیں.انسان جب ایک مرتبہ پانی پی کر دیکھتے لیتا ہے کہ پانی نے پیاس کو بجھا دیا تو اب اسے دوبارہ کبھی اس بات میں تامل نہیں رہے گا کہ پانی پیاس بجھاتا ہے یا نہیں.اور جب دیکھتا ہے کہ روٹی سے پیٹ بھر جاتا ہے تو اسے کبھی شک نہ ہوگا کہ روٹی سے پیٹ نہیں بھرتا.تو خدا نے جب دو مرتبہ اس وعدہ کو سچا کر کے دکھلا دیا تو اب اس کے ماننے میں کوئی انکار کی گنجائش نہیں رہے گی اور اسے یقین کرنا چاہیئے.رتبہ

Page 144

خطبات محمود جلد ۴ ۱۳۵ ١٩١٤ء یہ بیع بہر حال مفید ہے:.فَاسْتَبْشِرُوا.پس اے لوگو! تم اپنی اس بیچ پر خوش ہو.ایک دنیا میں عظیم الشان کامیابی ہے.لوگ دنیا میں آٹھ آٹھ دس دس روپے کے بدلے سر کٹوا دیتے ہیں لیکن وہ تخوا ہیں اور وہ وعدے ج دنیاوی گورنمنٹ کی طرف سے ہوتے ہیں وہ محدود ہوتے ہیں.وہ موت سے پہلے پہلے کیلئے ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے احسان اور انعام صرف اسی دنیا تک کیلئے نہیں ہیں بلکہ وہ مرنے سے پہلے بھی ملتے ہیں اور مرنے کے بعد وہ اور زیادہ زور سے ملنے شروع ہو جاتے ہیں.دنیا میں ایک سپاہی کو ایک گولی لگی ہوئی گورنمنٹ کے انعاموں سے محروم کر سکتی ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کے انعاموں سے اسے کوئی چیز محروم نہیں کر سکتی.پس تم یہ انعام لینا چاہتے ہو تو التَّائِبُونَ.تائب ( خدا کی طرف جھکنے والے) بن جاؤ.لوگ بعض کو بڑے سمجھ کر ان کی طرف جھکتے ہیں لیکن مومن وہی ہے جو خدا کی طرف جھکے.الْعَابِدُونَ تم خدا کے فرمانبردار بن جاؤ اور اس کی اطاعت میں لگ جاؤ.اسلام کا خدا ایسا خدا نہیں ہے جو غلطی کو معاف نہ کرے بلکہ جو خدا ن اسلام نے پیش کیا ہے اگر تم سے کوئی غلطی ہو جائے تو تم اس کی طرف جھکو اور اس کی فرمانبرداری کرو.وہ تم کو معاف کر دے گا.تم اس کی اطاعت کرو.اطاعت دو قسم کی ہے.ایک انسان ہے جو اطاعت کرتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتا رہتا ہے کہ مجھ پر ظلم ہورہا ہے.ایک اطاعت یہ ہے کہ انسان اطاعت کرے اور اسے ظلم پر محمول نہ کرے.مومن خدمت کر کے الحامدون خدا کی حمد کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنی اطاعت کی توفیق دی اور اپنے خدام میں شامل کیا نہ کہ چڑے بلکہ اطاعت کرے اور ساتھ حمد بھی کرے.پھر اس پر بس نہیں بلکہ السائحون نفس پر دکھ بھی جھیلتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں.لوگوں سے قطع تعلق کر کے ایک طرف ہو کر خدا کی عبادت کرتے ہیں اور اللہ کی خدمت اور فرمانبرداری کے لئے سفر کرتے ہیں پھر الراکعون وہ علیحدہ ہو کر اللہ کی عبادت کے لئے جھک جاتے ہیں صرف جھکتے ہی نہیں بلکہ اَلسَّاجِدُونَ بالکل گر ہی جاتے ہیں اور جب ان کے نفس اس حد تک پہنچتے ہیں تو وہ اس سے ترقی کر کے الْأَمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ لوگوں کو نیک باتوں کی طرف بلاتے رہتے ہیں صرف اپنی جان کیلئے لوگوں کو آمر بِالْمَعْرُوفِ نہیں کرتے بلکہ دنیا میں امر بِالْمَعْرُوفِ تو بہت ہی آسان ہے نَهى عَنِ الْمَنگر مشکل ہے اس لئے مؤمن النَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ نَبِی عَنِ الْمُنْكَرِ بھی کرتے ہیں.بمبئی میں میں نے دیکھا ہے کوئی

Page 145

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۴ء مولوی اگر وعظ کرنے لگے تو اسے کہہ دیا جاتا ہے کہ مولوی صاحب ! اگر روپے لینے ہیں تو یہاں سود پر تقریر مت کرنا اور جو باتیں ہم کرتے ہیں ان سے روکنے کیلئے وعظ مت کرنا.ہاں ویسے وعظ نصیحت کر دو.اور نماز روزہ کی تاکید کردو تو لوگوں کو ان کے قصور پر مطلع کرنا اور اس سے روکنا مشکل امر ہے.پھر اس کا صرف یہی کام نہیں.جب وہ یہاں تک پہنچے تو اسے وَالْحَفِظُونَ يحدُودِ اللهِ پولیس مین police man) کی طرح چوکس رہنا چاہیئے.اور ہوشیاری سے کام کرنا چاہیئے.کوئی آدمی اللہ تعالیٰ کے حکم کو توڑے نہیں.وہ اللہ تعالیٰ کے احکام قائم کرواتے رہتے ہیں وبشر الْمُؤْمِنِينَ ایسے مومنوں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہے.تو تم رستے میں کئی طرح کی بیعیں دیکھو گے لیکن خوب یادرکھو اللہ تعالیٰ بھی ایک بیع تم سے کرتا ہے اور ہر شخص جو اپنا نام مسلمان رکھتا ہے وہ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ میں نے خدا سے یہ بیچ کی.پس تم اس بات کا خیال رکھنا کہ تم اس پر کتنا عمل کرتے ہو.تم نے مسلمان ہونے کا دعویٰ کیا ہے تم اب قادیان سے جاتے ہو لوگ تمہیں دیکھیں گے کہ تم اس معاہدہ کے کتنے پابند ہو اور وہ دیکھیں گے کہ تم وہاں سے کیا سیکھ کر آئے ہو.اور تم ان شرائط کی کسی حد تک پابندی کرتے ہو.میں یہ نہیں کہتا کہ تم سے غلطی ہو نہیں سکتی.ہاں اگر تم سے کوئی غلطی سرزد ہو بھی جائے تو فور اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک جاؤ اور گھبراؤ نہیں جب غلطی ہو تو فوڑ ا خدا کے سامنے جھک جاؤ اور اس سے معافی مانگ لو.انسان گرتا ہی سوار ہوتا ہے جو کبھی سوار ہی نہیں ہوا وہ گرے گا کیسے اور وہ میدان جنگ کا سپاہی کیونکر بنے گا.کسی شاعر نے کہا ہے:.گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے اپنے تمام کاموں میں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف خیال رکھو اور عبادت کی طرف خیال رکھو اور کڑھو نہیں بلکہ اتحامِدُون خدا کی حمد کرتے رہو اور اسی کی حمد کر کے اٹھو نماز و روزہ وغیرہ ادا کرو.دین میں سستی نہ کرو.اور اللہ تعالیٰ کی حمد ادا کرو کہ اس نے تمہیں ایسے والدین دیئے جو دین کے خادم ہیں.خود کام کرو تو بھی الحمد للہ کہو.کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں تو فیق دی.جو بات امر الہی کے خلاف ہے اور لغو ہو اسے فورا ترک کردو اور فوڑ ا س

Page 146

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۴ء سے علیحدہ ہو جاؤ اور خدا کے احکام کے پورا کرنے میں لگ جاؤ.الرّاكِعُونَ تمہارا سر ہمیشہ اسی کے دروازے پر جھکا رہے.السّاجِدُون پھر بالکل اسی کی طرف جھک جاؤ کوئی دوسری جگہ ایسی تمہاری نگاہ میں نہ ہو جو خدا کے سوا ہو.وہ شخص جو ایک خدا کو نہیں مانتا اسے مختلف دروازوں پر جانا پڑے گا لیکن ایک مسلمان اور ایک مومن انسان کو کبھی یہ امید نہیں رکھنی چاہیئے کہ اسے کسی اور جگہ سے بھی ملے گا.ایک عابد تھا جو پہاڑ میں رہا کرتا تھا اس کو اللہ تعالیٰ اس کا رزق پہاڑ ہی میں پہنچا دیتا تھا.ایک دن اسے روٹی نہ ملی اس نے صبر کیا.دوسرے دن نہ ملی.پھر صبر کیا.تیسرے دن نہ ملی تو وہ اس پہاڑ سے اتر کر ایک شہر میں چلا گیا وہاں سے سوال کر کے اس نے تین روٹیاں حاصل کیں.جس مکان کے مالک سے اس نے روٹیاں لیں اس کا کتا اس فقیر کے پیچھے لگ گیا.فقیر نے اُسے آدھی روٹی ڈال دی.پھر اُس نے پیچھا کیا اس نے نصف اور ڈال دی.اسی طرح اس نے دو روٹیاں اس کے آگے ڈالیں.پھر جو کتے نے اس کا پیچھا کیا تو اس نے کہا.تجھے شرم نہیں بے حیا! دور وٹیاں تو میں تجھے ڈال چکا ہوں.پھر اس فقیر کو کشفی ہے حالت میں اس کتے نے کہا.بے حیا تو تو ہے.تین دن روٹی نہیں ملی تو اپنے مالک کو چھوڑ کر دوسروں سے مانگنے لگ گیا.مجھے سات سات دن بھوکا رہنا پڑتا ہے لیکن کبھی اپنے مالک کا گھر چھوڑ کر دوسری جگہ نہیں گیا.بتا بے حیا میں ہوں یا تو ؟ جو اپنے رازق کا دروازہ چھوڑ کر ایک ادنی آدمی کے پاس مانگنے چلا آیا.سجدے کے کیا معنی: تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن کو چاہیئے کہ سجدے میں گر جاوے.رکوع میں تو انسان کی نظر پھر بھی تھوڑی دور تک پہنچ سکتی ہے لیکن سجدے میں اسے سوائے سجدے کی جگہ کے اور کچھ بھی نظر نہیں آتا.اس سے بتلایا کہ مومن کو چاہیئے کہ اس کی نظر سوائے خدا کے کسی پر نہ پڑے اور اس کی توجہ صرف اسی کی طرف ہو.رکوع اور سجدہ کا لفظ اسی لئے علیحدہ علیحدہ بیان فرما یاور نہ نماز کا حکم ہی کافی تھا.الأمِرُونَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ.پھر تم لوگوں کو امر بالمعروف کرو اور بُری بات اگر دیکھو تو اس سے روکو.نبی کریم اللہ الیہ امام نے فرمایا ہے کہ مومن اگر کسی بری بات کو دیکھے تو چاہیئے کہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے.اگر نہیں تو منہ سے ورنہ دل میں ہی اس کو برا منائے.یہ سب سے کمزور ایمان ہے ۳.پس تم کسی کی پرواہ مت کرو اور کوئی

Page 147

خطبات محمود جلد ۴ ۱۳۸ سال ۱۹۱۴ء بری بات دیکھو تو اس سے روک دو.اور حافظین لحدود اللہ ہو جاؤ.پولیس مینوں کی طرح لوگوں کو برائی سے روكو دین پر قائم ہو جاؤ:.ایک بیھیں تو تم سٹیشنوں پر کرو گے ایک بیج یہاں بھی کرتے جاؤ سٹیشنوں پر تو تمہیں کوئی روکنے والا نہ ہوگا.تم اسراف سے کام نہ لینا.بیعیں بے شک کرو اس سے ہم منع نہیں کرتے لیکن اسراف سے بچنا.تم لوگوں کے کیلئے نمونہ بننا.ان کی توجہ تمہاری طرف ہے.وہ دیکھیں گے کہ تم کیا سیکھ کر آئے ہو.تم ان کیلئے ٹھوکر کا باعث نہ ہو جاؤ.اپنے گھروں کے فسادوں کو دور کرو اور دین کے لئے اپنے اندر خاص جوش رکھو.بچپن میں تم سیکھ لو اور بچپن میں کام کرو تا کہ بڑے ہو کر تمہیں کوئی خاص مشکل نہ پڑے.اور بچپن میں ہی نماز ، روزہ ،صدقہ، زکوۃ کی عادت ڈالو تا کہ بڑے ہو کر تم کو تکلیف نہ ہو.میں نے دیکھا ہے کہ جو چھوٹے ہونے کی حالت میں نماز نہیں پڑھتے وہ بڑے ہو کر نماز میں پاؤں سیدھا نہیں رکھ سکتے کیونکہ درد ہوتا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کو عادت نہیں.اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہاں موقعہ دیا ہے کہ تم ہر ایک نیک کام کو سیکھو.دنیا کے بیچے گنہ گار یا ملزم نہیں ان کو موقع نہیں ملا لیکن تم الزام کے نیچے ہو اور تم مجرم ہو.کیونکہ تم سن چکے ہو اور تمہیں تعلیم دی گئی ہے تم اپنی اصلاح اسی وقت کرو.چھوٹا پودا جو ابھی اُگا ہی ہوا سے بچہ بھی اپنی انگلی پر لپیٹ سکتا ہے لیکن وہی پودا جب درخت بن جاوے اور بڑا درخت ہو جاوے تو اس کو اکھیڑنا مشکل ہے تم ابھی سے اپنے دلوں میں دین کی تعلیم بٹھا لو.اس وقت جو تعلیم تم سنتے ہوا سے ذہن نشین کر لو اور اس پر عمل کرو.خدا تعالیٰ تمہیں توفیق دے تم دین کو سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ.اور جو تم نے سیکھا ہے اس میں سے خرچ کر کے ترقی کرو.ایک چیز انسان خرچ کرتا ہے تو وہ چیز بڑھتی ہے تم دین کولوگوں کو سکھاؤ تم خیریت سے جاؤ اور خیریت سے اپنے گھروں میں رہو اور گھر والے تم کو اور تم ان کو خیریت سے دیکھو.پھر اس میں جو تم نے سیکھا ہوا ہے ترقی کر کے مع الخیر یہاں واپس آؤ اور اس سے آگے آکر سیکھو.الفضل ۲۳ - جولائی ۱۹۱۴ ء ) ل التوبة : ١١١، ١١٢ اعجوبے: اعجوبہ.عجیب شے.انوکھی چیز مسلم کتاب الایمان باب بيان كون النهي عن المنكر من الايمان

Page 148

خطبات محمود جلد ۴ ۱۳۹ (۳۲) کامیابی کیلئے دعوئی کے مطابق عمل ضروری ہے (فرموده ۲۴.جولائی ۱۹۱۴ ء ) سال ۱۹۱۴ء تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی :.وَإِذْ اَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُورَ خُذُوا مَا أَتَيْنَكُمْ بِقُوَّة وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَلَوْلَا فَضْلُ اللهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لكُنْتُمْ مِّنَ الْخَسِرِينَ ! پھر فرمایا:.منہ سے ایک بات کا دعوی کرنے اور اس پر عمل کر کے دکھانے میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے اگر انسانوں کے زبانی دعووں پر جائیں تو یہ دنیا کچھ اور کی اور ہی بن جائے بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی بڑے پیار اور محبت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن جب عمل کا وقت آتا ہے تو دشمن ثابت ہوتے ہیں اس لئے اگر ہر ایک کے دعوئی پر یقین کر لیا جائے تو دنیا میں اندھیر پڑ جائے ہر ایک شخص کے دعوئی کا تجربہ اس کے عمل کے بعد ہوتا ہے جو لوگ کسی بات پر یونہی یقین کر لیتے ہیں وہ اکثر دھوکا کھاتے ہیں.اپنے منہ سے تو یہودی، عیسائی، ہندو، مسلمان سب ہی کہتے ہیں کہ ہم نجات پا جائیں گے.ہمارے ساتھ خدا تعالیٰ کا تعلق ہے لیکن ان سب میں سے کس کس کی بات مانی جائے.دراصل اسی کی بات ماننے کے قابل ہے جو اپنی بات کی تائید اپنے عمل سے کرتا ہے.اور جو عمل سے تائید نہیں کرتا وہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کی بات مانی جائے.

Page 149

خطبات محمود جلد ۴ ۱۴۰ سال ۱۹۱۴ء پاگل اور عقلمند میں فرق:.میں ہمیشہ اس بات پر غور کرتا ہوں کہ پاگل اور عقلمند میں کیا فرق ہوتا ہے تو مجھے یہی بات ثابت ہوئی ہے کہ پاگل وہی ہوتا ہے جو ایک بات کا دعویٰ تو کرے لیکن عمل سے اس کو ثابت نہ کرے.اور دانا وہ ہوتا ہے جو جس بات کا ہے دعوی کرے اس کو عمل سے ثابت کر دے.مثلاً اگر ایک شخص کہے کہ میں بادشاہ ہوں اور دراصل وہ بادشاہ نہ ہو تو لوگ اسکو پاگل کہیں گے لیکن اگر ایک شخص اپنے آپ کو بادشاہ کہے اور فی الواقع وہ بادشاہ ہو تو اسکو کوئی پاگل نہیں کہے گا.اسی طرح وہ شخص جو ٹھیکریوں کو روپے اور اینٹوں کو سونا چاندی کہے پاگل ہوتا ہے لیکن روپوں کو روپے اور سونے کے چاندی کو سونا چاندی کہنے والے کو کوئی پاگل نہیں کہتا.پس یہی پاگل اور عقلمند میں فرق ہوتا ہے.لیکن بڑے تعجب کی بات ہے کہ اکثر لوگ نیک اور متقی ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور وہ نہیں ہوتے تو دنیا انہیں پاگل نہیں کہتی.حالانکہ اس پاگل اور اس پاگل میں (جس کو لوگ پاگل کہتے ہیں ) کوئی فرق نہیں ہوتا.وہ بھی ایک دعوی کرتا ہے جس کا ثبوت اس کے پاس نہیں ہوتا اور یہ بھی متقی اور پر ہیز گار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے جس کو اپنے عمل سے ثابت نہیں کر سکتا.وعدہ پر قائم رہنا: اسی طرح بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو وعدہ تو کرتے ہیں لیکن اپنے وعدہ پر قائم نہیں رہتے.وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے وعدوں کے مطابق کر رہے ہیں لیکن ان کا عمل ان کی بات کی تصدیق نہیں کرتا.دوسری قوموں کو کیا کہنا ہے.مسلمانوں کو ہی دیکھ لو کہ ایک مسلمان کتنے وعدے کرتا ہے پہلے کلمہ پڑھتا ہے اَشْهَدُ أن لا إلهَ إِلَّا الله.یہ کتنی بڑی شہادت ہے.کہتا ہے کہ میں خدا کے سوا کسی کو معبود نہیں مانتا.تمام طاقتیں ، خوبیاں اور بڑائیاں اسی کیلئے ہیں.میں کسی کو خدا تعالیٰ ایسی عزت نہیں دیتا کسی کو اس سے زیادہ طاقتور نہیں سمجھتا.لیکن باوجود یہ باتیں کہنے کے کہیں عزت کی وجہ سے، کہیں نفس کی خواہشات کی وجہ سے، کہیں عہدہ حاصل کرنے کی غرض سے سازشیں کرتا ہے.جھوٹ، غیبت، چوری، ڈاکہ زنی قتل اور طرح طرح کے فسق و فجور کرتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ میں لا إلهَ إِلَّا اللہ کا قائل ہوں.کنچنیاں بھی باوجود اس قدر گندی اور پلیدی کے یہی کہتی ہیں کہ الحمد للہ کہ ہم مسلمان ہیں.جیل خانوں میں اگر خطر ناک سے خطر ناک جرم کے قیدی سے بھی پوچھا جائے تو وہ بھی یہی کہتا ہے کہ مسلمان ہوں.حالانکہ مسلم وہ ہوتا ہے جس

Page 150

خطبات محمود جلد ۴ ۱۴۱ سال ۱۹۱۴ء کے دل میں خدا تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کسی چیز کی عظمت ،محبت ،طلب اور پیار نہ ہو لیکن ایک شخص تمام افعال بد کرتا ہوا بھی یہی کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں تو یہ کہاں مسلمان ہو سکتا ہے.رسول کریم صلی الی اکرام کو مانتا.پھر ایک شخص محمد رسول اللہ کہتا ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ آنحضرت صلی ہی تم نے جو کچھ فرمایا ہے اس کو میں مانتا ہوں.لیکن صریح آپ کے احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں.تو بہت منہ سے بہت کچھ کہتے ہیں لیکن کرتے نہیں.یہی وجہ اسلام کے تنزل کی ہے کہ مسلمان باوجود لا إلهَ إِلَّا اللہ کا اقرار کرتے ہوئے کہ ہم خدا سے ہی محبت رکھتے ہیں اور کسی سے نہیں رکھتے اوروں سے تعلق رکھنے لگے.پھر آنحضرت سلیم کے احکام پر عمل کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے ان کی پرواہ نہ کرنے لگے اور اپنے نفس، ماں، باپ، حاکم ، دوست وغیرہ کا تو حکم مانتے ہیں لیکن اگر کسی کا حکم نہیں مانتے تو ہمارے رسول کریم سایی پیام کاحکم نہیں مانتے.کہنے کو تو سب کہتے ہیں کہ ہم متقی ہیں، پر ہیز گار ہیں، ہمارا خدا تعالیٰ سے تعلق ہے لیکن جس شرط کی وجہ سے وہ مسلمان کہلاتے ہیں جب اس کو پورا نہیں کرتے تو وہ مسلمان کس طرح ہو سکتے ہیں اور خدا تعالیٰ کا ان سے تعلق کیونکر ہوسکتا ہے بلکہ یہ تو سزا کے مستحق ٹھہرتے ہیں.پہلی قوموں کو اسی عادت نے تباہ کیا کہ جو کچھ وہ کہتی تھیں وہ کرتی نہ تھیں.مسلمان بھی اسی وجہ سے تباہ ہوئے ہیں.اب مسلمان اس وقت تک کبھی ترقی نہیں کر سکیں گے جب تک کہ جو کچھ منہ سے کہتے ہیں وہ عمل سے نہ کر دکھا ئیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے یہودیوں سے پکا عہد لیا اور بحالیکہ وہ طور کے دامن میں تھے کہا جو کچھ تم کو دیا جاتا ہے اس کو مضبوط پکڑنا اور ان باتوں کو خوب یادرکھنا تا کہ تم عذاب سے بچو.لیکن پھر تم اس کے بعد پھر جاتے ہو.تَوَلَّيْتُم کی مثال مسلمانوں کے اعمال میں ہے.کہ وہ خدا کے حضور پانچ وقت اقرار کرتے ہیں.ايَّاكَ نَعْبُدُ ہم تیرے ہی فرمانبردار ہیں اور تیرے حکم کے خلاف کچھ نہیں کریں گے مگر پھر مسجد سے نکلتے ہی احکام الہی کی خلاف ورزی شروع کر دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحمت نہ ہوتی اور تم کو تمہارے اعمال کی وجہ سے سزا دی جاتی تو تم بڑے گھاٹا پانے والوں میں سے ہوتے.اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کی شرارتوں کی وجہ سے سزا دینا شروع کرے تو کوئی بھی دنیا

Page 151

خطبات محمود جلد ۴ ۱۴۲ سال ۱۹۱۴ء میں نہ بچ سکے.خدا تعالیٰ کا رحم اور فضل ہوتا ہے کہ ڈھیل دیتا ہے.پس شریف وہی ہوتا ہے جو تم کو دیکھ کر فائدہ اٹھائے اور سزا سے بچے.دعا:- خدا کرے تم سب لوگ شریف بنو.اور خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کو دیکھ کر اپنے اندر اصلاح پیدا کرو.اگر خدا ہماری غلطیوں کو دیکھ کر پکڑتا نہیں تو یہ اس کی ستاری ہے.تم اس سے فائدہ اٹھاؤ اور اصلاح کر لو اور جو وعدے کئے ہیں ان پر قائم رہو.اور خدا تعالیٰ سے دعا کرتے رہو کہ اے الہی ! جو ہم نے وعدے کئے ہیں ان کے پورا کرنے کی آپ ہی ہمیں توفیق دینا.ہم تو بہت کمزور ہیں.الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۱۴ ء ) ل البقرة: ۶۵،۶۴ الفاتحة : ٥

Page 152

خطبات محمود جلد ۴ ۱۴۳ (۳۳) رمضان کی عبادتیں مشکلات سے بچنے کا ذریعہ ہیں (فرموده ۳۱.جولائی ۱۹۱۴ ء ) سال ۱۹۱۴ء تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی :.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصَّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ اس کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ کا کس قدر احسان کس قدر فضل اور کس قدر رحمت ہے کہ اس نے مسلمانوں پر جو شریعت نازل فرمائی ہے اور جو آنحضرت سلیم کے ذریعہ عمل کرنے کیلئے احکام اتارے ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو نا قابل عمل ہو.بلکہ ہر ایک وہی حکم دیا ہے جسے انسان آسانی سے کر سکتا ہے.کھانا پینا انسان کیلئے ایسے لازمی اور ضروری حوائج ہیں کہ اگر انسان کو کہا جائے کہ تم کو یہ ایک مدت تک چھوڑنے پڑیں گے تو وہ یہ سنکر گھبرا جائے.لیکن اللہ تعالیٰ نے کیا لطیف پیرائے میں یہ بات بیان فرمائی ہے.ارشاد ہوتا ہے اے مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں.یہ حکم سن کر ممکن تھا کہ لوگ گھبرا جاتے کہ کس طرح ہم کھانا پینا اور ایک حد تک بولنا عورتوں سے تعلق رکھنا قطع کر سکیں گے.اس لئے فرمایا كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ.یہ کوئی ایسا حکم نہیں ہے کہ کوئی اس کو کر نہ سکے.یہ حکم تو ہم پہلے بندوں کو بھی دیتے آئے ہیں اس لئے تمہارے گھبرانے کی کوئی بات نہیں.قرآن شریف کا یہ ایک معجزہ ہے کہ جو حکم دیتا ہے اس حکم کی وجہ سے جو خطرات اور

Page 153

خطبات محمود جلد ۴ ۱۴۴ سال ۱۹۱۴ء مشکلات انسان کے دل میں پیدا ہونے ہوتے ہیں ساتھ ہی ان کا جواب دے دیتا ہے تو جہاں یہ حکم دیا کہ اے مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں وہاں ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ ممکن ہے تمہیں یہ بات بڑی معلوم ہو کہ کس طرح کھانا پینا اور بہت حد تک بولنا اور عورت سے صحبت کرنا ترک کرسکیں گے اور فطر کا تمہیں یہ خیال پیدا ہوا ہوگا لیکن دراصل یہ کوئی ایسا حکم نہیں جس پر تم عمل نہ کر سکو.اس حکم پر تو تم سے پہلے لوگ بھی عمل کرتے آئے ہیں اور یہ ایک ایسا مجرب نسخہ ہے کہ اگر تم اس پر عمل کرو گے تو متقی ہو جاؤ گے.انسان کے بہت سے عمل مشق اور اس کی طاقتوں کے مطابق ہوتے ہیں.ایک انسان جو بہت سوتا ہے اس کی عادت ہی زیادہ سونے کی تی ہو جاتی ہے لیکن اگر وہ اپنے سونے کو کم کرنا چاہے تو کم بھی کر سکتا ہے.پس بہت حد تک انسان کی ایسی طاقتیں ہوتی ہیں کہ جیسی ان کو مشق کرائی جائے ویسا ہی وہ کام دینے لگ جاتی ہیں اسی لئے جو شریعتیں آتی ہیں وہ انسان کے اندر ایسے جوارح پیدا کر دیتی ہیں کہ جن کے مشق کرنے کی وجہ سے انسان کسی موقع پر بھی مشکلات اور مصائب کا شکار نہیں ہوسکتا.خدا تعالیٰ کیلئے کھانا ترک کرنا اس بات کی مشق ہوتی ہے کہ کبھی مصیبت آ پڑے تو کوئی پرواہ نہ ہو.اسی طرح خدا تعالیٰ کیلئے پانی پینا، عورت سے صحبت کرنا چھوڑنا اور راتوں کو جاگ جاگ کر عبادت کرنا ان باتوں ہے کیلئے تیار کرنا ہے کہ اگر کوئی ایسی تکلیف اٹھانی پڑے اور کچھ چھوڑنا پڑے تو انسان گھبرائے نہیں.ماہ رمضان میں مومن محض خدا تعالیٰ کے لئے کھانا چھوڑتا ہے جو کہ اس بات کا نمونہ ہے کہ اگر کبھی اسے خدا کی راہ میں کچھ چھوڑنا پڑے تو وہ ضرور چھوڑ دے گا.مومن رمضان میں پانی پینا خدا تعالیٰ کے لئے ترک کرتا ہے.بیوی کے تعلقات خدا تعالیٰ کیلئے چھوڑتا ہے اپنی نیند کو قربان کر کے خدا تعالیٰ کی عبادت میں لگ جاتا ہے.یہ خدا تعالیٰ انسان کو نمونہ دکھاتا ہے کہ تم ایک مہینہ مشق کر کے دیکھ لو تا کہ اگر تمہیں کہیں یہ باتیں پیش آئیں تو آسانی سے کر ہر انسان کو مشق کرانے کی ضرورت :.دنیا کی سب گورنمنٹوں میں کچھ اس قسم کی فوجیں ہیں جو کہ سارا سال کام کرتی ہیں اسی طرح مومنوں میں بھی ایک گروہ ہے جس کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَلْتَكُن مِّنْكُمْ أُمَّةٌ يدعون إلى الخير وَيَأْمُرُونَ بِالمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنگری اور گورنمنٹوں کی ایک

Page 154

خطبات محمود جلد ۴ ۱۴۵ سال ۱۹۱۴ء ریز روفوج ہوتی ہے جو کہ سال میں ایک یا دو مہینے کام کرتی ہے.اور جب جنگ کا موقع ہوتا ہے تو چونکہ ان کو مشق کروائی ہوئی ہوتی ہے اس لئے فوراً ان کو بلا لیا جاتا ہے.چونکہ عام طور پر تمام مسلمان بارہ مہینے روزے نہیں رکھتے اور نہ ہی تہجد پڑھتے ہیں اس لئے رمضان میں خصوصیت فرما دی کہ تمام مسلمان اس ایک ماہ میں مشق کریں.گو خدا تعالیٰ کا ایک گروہ ایسا بھی ہوتا ہے جو سارا سال ان باتوں میں لگا رہتا ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم یہ مشق کرو تا کہ تم مشکلات سے بچ جاؤ.جس گورنمنٹ کی فوج مشق کرتی ہے رہتی ہے وہ دشمن سے شکست نہیں کھاتی.اسی طرح جس قوم کے لوگ متقی اور نیک ہوتے ہیں.اور جو خدا تعالیٰ کیلئے ہر ایک چیز کو چھوڑنے والے ہوتے ہیں شیطان کی مجال ہی نہیں ہوتی کہ ان کو زک دے سکے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان دنوں میں جو جماعت بدی سے بالکل محفوظ رہتی ہے اس پر شیطان کو حملہ کرنے کا خیال بھی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ شیطان بھی پلید اور نا پاک دلوں پر ہی حملہ کرتا ہے.ایک شرابی دوسرے شرابی کو ہی شراب پینے کے لئے کہے گا لیکن اس کو یہ بھی جرات نہیں ہوگی کہ کسی متقی کو کہے تو جب تمام جماعت متقی ہو جاتی ہے تو شیطان بھی حملہ نہیں کر سکتا.فرمایا کہ اگر تم ایسا کرو گے تو شیطان کے حملوں سے بچ جاؤ گے.چونکہ تم میں سے ہر ایک فرد سپاہی ہوگا اور اس نے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے مشق کی ہوئی ہوگی اس لئے شیطان کو حملہ کرنے کی جرأت ہی نہیں ہوگی.یہی وجہ ہے کہ جب تک مسلمان تمام سپاہی تھے شیطان نے ان پر کوئی حملہ نہیں کیا لیکن جب خال خال رہ گئے تو اس وقت ان پر حملہ کیا گیا.اور شیطان نے ان کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈال کر ان کو تباہ کر دیا.ایک زمانہ تو ایسا ہوتا ہے کہ جب خاص خاص لوگ خدا تعالیٰ کے حضور راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر دعا میں کرتے ہیں لیکن یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے فضل اور کرم ہے کہ اس نے ایک ایسا موقع بھی رکھ دیا ہے جس میں سب لوگ مل کر رات کو عبادت کر سکتے ہیں.کیونکہ بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو کہ ہمیشہ رات کو نہیں اٹھا سکتے.چنانچہ بعض مزدوری پیشہ لوگ ہوتے ہیں جو کہ دن کو محنت کرتے ہیں اس لئے رات کو ان کا اٹھنا مشکل ہوتا ہے.آنحضرت سیلیا کی تم نے ایسے لوگوں کو اجازت دے دی تھی کہ ہمیشہ تہجد نہ پڑھا کرو ۳ مگر رمضان میں تو سب کو اٹھنا پڑتا ہے اس لئے مل کر سب کی دعائیں اس وقت جب کہ خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ میں قبول کرتا ہوں قبولیت کے درجہ کو پہنچ جاتی ہیں.چنانچہ روزوں کے ساتھ ہی خدا تعالیٰ فرماتا.ہے

Page 155

خطبات محمود جلد ۴ ۱۴۶ سال ۱۹۱۴ء وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَلَى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوالى وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ سے روزوں کے مبارک دن ہوتے ہیں پس مبارک ہے وہ انسان جو ان سے فائدہ اٹھائے.آنحضرت صلی یا یتیم کے وقت میں تہجد کی جماعت نہیں ہوتی تھی.بعد میں صحابہ نے پسند کیا کہ بعض لوگ چونکہ سست ہوتے ہیں اس لئے جماعت سے مل کر وہ بھی پڑھ لیا کریں گے.پس بہتر ہے کہ ایسے لوگ جو اپنے نفسوں سے ڈرتے ہیں اور سحری کھانے سے پہلے پچھلی رات یا پھر پہلی رات ہی باجماعت پڑھ لیا کریں اور جن کو اپنے نفسوں پر قابو ہے وہ الگ گھر میں پڑھ لیا کریں.اصل مدعا تو قرآن کریم کا پڑھنا اور دعاؤں میں مشغول رہنا ہے.گھر میں بھی لمبی لمبی سورتیں پڑھی جاسکتی ہیں.اس زمانہ میں ہمارے لئے بہت سی مشکلات ہیں.دنیا کے مقابلہ میں پہلے ہی ہماری جماعت ایک قلیل جماعت تھی لیکن اب تو اس میں سے بھی کچھ حصہ الگ ہو گیا ہے.پہلے ہم غیر احمدیوں کے حملوں کو اندرونی حملے کہا کرتے تھے لیکن اب تو اندرونی در اندرونی شروع ہو گئے ہیں اس لئے جو شخص با وجود دشمنوں کے تین حلقوں سے گھرا ہوا ہونے کے آرام سے سوتا ہے وہ بیوقوف ہے اور خصوصا اس وقت جب کہ اسے جاگنے اور دشمن کے مقابلہ کیلئے تیاری کرنے کا موقع بھی مل جائے.تم ان دنوں میں خوف خدا کو مد نظر رکھ کر دعائیں کرو تا کہ خدا تعالیٰ اس اندرونی فتنہ کو دور کر دے.تم خوب سمجھ رکھو کہ خدا تعالیٰ کی نصرت کے بغیر نہ کبھی پہلے کچھ ہوا اور نہ اب ہوگا.تمہارے پاس فوج بلشکر عزت ، دولت ، آلات وغیرہ کچھ نہیں جس سے تم نے تمام دنیا کا مقابلہ کرنا ہے تمہاری کامیابی کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اگر اس کو پکڑ لو گے تو کامیاب ہو جاؤ گے.اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی چوکھٹ کو پکڑ لو.اور اسی کے آگے عرض کرو کہ ہمیں تمام دشمنوں سے بچائیے.ایک ڈاکو اسی وقت تک کسی کے مال پر حملہ کرتا ہے جبکہ وہ پولیس کے ہیڈ کوارٹر سے دور ہوتا ہے اور اگر تھانے کے پاس ہو تو وہ حملہ نہیں کرتا.تم بھی خدا تعالیٰ کے حضور گر جاؤ.اور اس کی چوکھٹ کو پکڑ کر اس سے پناہ مانگو پھر تم پر کوئی حملہ نہیں کر سکے گا اور اگر کرے گا تو اس بادشاہوں کے بادشاہ کے سپاہی اس کو خود پکڑ کر سزا دیں گے.یہ دن ضائع مت کرو فتنے بند نہیں ہو رہے بلکہ بڑھ رہے ہیں ، مصائب کم نہیں ہورہے بلکہ زیادہ ہو رہے ہیں اس لئے تم مستی نہ کرو.مسلمانوں کی تاریخ پڑھ کر حیرانی آتی ہے کہ عین جنگ کے موقع پر بھی باقاعدہ

Page 156

خطبات محمود جلد ۴ ۱۴۷ سال ۱۹۱۴ء تہجد پڑھتے تھے.سارا دن لڑائی میں مشغول رہتے اور رات کو بجائے سونے کے خدا تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہو جاتے تھے.جنگ یرموک میں عیسائی بادشاہ نے اپنے ایک آدمی کو کوئی بات دریافت کرنے کیلئے رات کو مسلمانوں کے لشکر میں بھیجا.تو اس نے واپس آکر کہا کہ ہم کبھی ان پر غالب نہیں آسکتے.ہمارے سپاہی تو راستہ میں ہی کمریں کھولنی اور ہتھیار اتارنے شروع کر دیتے ہیں.تا کہ چل کر جلدی آرام کریں.لیکن وہ تو رات کو بھی دعاؤں اور خدا تعالیٰ کی عبادت میں لگے رہتے ہیں ۵ تم خدا تعالیٰ کا نام لو.کون پسند کرتا ہے کہ اس کا نام مٹا دیا جائے.نام کے بقاء کیلئے ہی لوگ اولاد کے متمنی ہوتے ہیں تو جب کمزور انسان پسند نہیں کرتا کہ اس کا نام مٹ جائے ، تو وہ بڑی قدرتوں اور طاقتوں والا خدا کب پسند کر سکتا ہے کہ اس کا نام مٹ جائے اگر تم خدا تعالیٰ کے نام لیوا ہو گے تو تمہارا مٹانا خدا کے نام کا ہی مٹانا ہوگا.پس اس کی چوکھٹ پر گر جاؤ اور دعاؤں میں لگے رہو.ممکن ہے کہ تم میں سے کسی کی دعا قبول ہو جائے اور یہ موجودہ فتنہ دور ہو جائے.اس رمضان سے بہت سے فوائد حاصل کر کے گزرو اور خدا تعالیٰ کی عبادت کرو.جب تمہارے ذریعہ خدا تعالیٰ کا نام روشن ہوگا اور تم اس کے دروازے پر جھک جاؤ گے تو کوئی تمہیں تباہ نہیں کر سکے گا.اور اگر تم اس کے دروازے سے ہٹ جاؤ گے تو اس کو بھی تمہاری کوئی پرواہ نہیں وہ کسی اور قوم کو بھیج دے گا.کیونکہ وہ ہمارا محتاج نہیں بلکہ ہم اس کے محتاج ہیں.ایک باغبان باغ میں درخت لگاتا ہے لیکن جو بے پھل درخت ہوتا ہے اس کو کاٹ دیتا ہے تا کہ وہ بے فائدہ جگہ کو نہ گھیرے رہے اور پھر وہ جلانے کے کام آتا ہے.تو یہ باغ سیح موعود علیہ السلام نے لگایا ہے.اگر یہ پھل نہ دے گا تو اور باغ لگایا جائے گا.پس جو کوئی اس باغ میں بے پھل کھڑا ہے اس کو بہ نسبت اس کے جو کہ جنگل میں کھڑا ہے زیادہ ڈرنا چاہئیے کیونکہ جنگل میں بے پھل اور خاردار درخت بھی کھڑے رہ سکتے ہیں لیکن باغ میں ایسے درختوں کو ضرور کاٹ دیا جاتا ہے.تم اس باغ کے درخت ہو تمہارے لئے اوروں کی نسبت زیادہ خطرے کی بات ہے اس لئے جو کوئی تم میں سے اپنے اندر بے پھل یا خاردار درخت کی ایسی خصلتیں دیکھتا ہے وہ تبدیلی پیدا کرے.تم روزوں میں خاص طور پر خدا تعالیٰ کی عبادت میں لگ جاؤ تاکہ تمہارے لئے عید خوشی کا موجب ہو.عید کی تمہیں اس لئے خوشی نہ ہو کہ اس دن کھاؤ پیو گے بلکہ اس دن خدا

Page 157

خطبات محمود جلد ۴ ۱۴۸ سال ۱۹۱۴ء کی خاص رحمتوں کے پھل اور میوے کھاؤ گے.عید کا دن تمہارے لئے اس لئے خوشی کا دن نہ ہو کہ دوستوں اور عزیزوں سے ملو گے بلکہ اس لئے کہ خدا کی اور مخلوق اس دن تم سے مل جائے.یہ بہت بابرکت مہینہ ہے جو اس سے فائدہ اٹھانا چاہے گا اس پر خدا کی بڑی بڑی برکتیں اور رحمتیں نازل ہوں گی.البقرة : ۱۸۴ ۲ ال عمران : ۱۰۵ البقرة : ۱۸۷ الفضل ۶ - اگست ۱۹۱۴ ء ) ه تاریخ طبری اردو جلد ۲ ( حالات خلافت را شدہ حصہ اول ) صفحه ۲۶۴ مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی جون ۱۹۶۷ء

Page 158

خطبات محمود جلد ۴ ۱۴۹ (۳۴) سال ۱۹۱۴ء خدا تعالیٰ کے احکام سے لا پرواہی انسان کو ذلیل و خوار کر دیتی ہے (فرمودہ ۷.اگست ۱۹۱۴ ء ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی :.وَلَقَد عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ فَجَعَلْنَهَا نَكَالًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقِينَ پھر فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم فرما کر اور ان کی حالت کو مد نظر رکھ کر ترقی دینے کیلئے قواعد مقرر کئے ہیں.بہت سے انسان بھی قواعد بناتے ہیں لیکن خدا کے قواعد کے مقابلہ میں انسانی قواعد کوئی وقعت نہیں رکھتے.کیونکہ انسان لاعلم اور آئندہ کے واقعات سے بے خبر، انسانی فطرت سے نا آشنا، انسانی فطرت کے اختلافات سے ناواقف ، انسانی جذبات سے بے علم ہوتا ہے اس لئے اسے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کی اصلاح کیلئے کونسے قانون اور قواعد مفید ہو سکتے ہیں.اگر تمام دنیا کے لوگ یکساں خیالات یا ایک ارادہ یا ایک ہی جیسے جذبات رکھتے ہوں اور پھر دنیا میں ایک ہی جیسے واقعات ہر روز پیش آتے رہیں تو بے شک ایک انسان کے قواعد کام دے سکتے ہیں لیکن انسانی حالت میں بہت ہی زیادہ اختلافات ہیں.ہر ایک واقعہ آنے والے تغیرات کا منتظر ہوتا ہے.آج کے خیالات کل کے خیالات کے خلاف ظہور پذیر ہوتے ہیں اور کچھ پتہ نہیں لگتا کہ ایک منٹ یا ایک سیکنڈ میں اور کیا خیالات ہو جائیں گے اور دوسر المحہ انسان پر کیسا گزرے گا.

Page 159

خطبات محمود جلد ۴ ۱۵۰ سال ۱۹۱۴ء تو جب صورت حال یہ ہے تو کسی کو کیا معلوم ہو سکتا ہے کہ انسانی حالت ایک دن ، دودن ، سال دو سال میں کیا کچھ تغیر پذیر ہوگی اور کہاں کہاں نکل جائے گی.یہی وجہ ہے کہ انسانوں کے مقرر کردہ قواعد و ضوابط میں نت نئے تغیرات کی ضرورت لاحق ہوتی ہے لیکن خدا تعالیٰ نے جو طریق اور رستے انسانی ہدایت کے بتائے ہیں وہ کبھی نہیں بدل سکتے کیونکہ اس نے انسان کی ہر ایک حالت کو مد نظر رکھ کر اخذ کئے ہیں.تو انسان کی ترقی کے لئے حقیقی اور کامل وہی راہ ہے جو خدا تعالیٰ نے بتائی ہے اور اسی پر چل کر انسان کامیاب ہوسکتا ہے.لیکن جب انسان اس کے خلاف کرتا ہے تو بڑی بڑی ٹھوکریں کھاتا ہے اور شریعت کے چھوٹے سے چھوٹے حکم کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے بھی تباہ ہو جاتا ہے.اگر کوئی دنیا میں ایسی شریعت ہے کہ اس کے احکام کو ترک کر کے کوئی کامیاب ہو سکتا ہے تو وہ الہی شریعت نہیں ہے.الہی شریعت وہی ہو سکتی ہے کہ جب کوئی انسان اس کو چھوڑے تو ذلیل و خوار ہو جاوے.ایک سچی اور جھوٹی شریعت کا معیار ہی یہی ہے.وہ شریعت جھوٹی ہے یا اگر کبھی سچی تھی تو اب اس میں اور باتیں مل گئیں ہیں یا لوگوں کی دست برد سے محفوظ نہیں ہے جس کے احکام کے چھوڑنے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا اور بجا آوری کی صورت میں فائدہ نہیں ہوتا.اس کے مقابلہ میں حقیقی اور سچی اور تغیر و تبدل سے محفوظ وہ شریعت ہے کہ جس کے چھوٹے سے چھوٹے حکم کے انکار کی وجہ سے بھی کبھی کوئی سکھ نہیں پاسکتا.اسی معیار کے ماتحت اسلام اور دوسرے مذاہب کا فیصلہ ہوسکتا ہے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا.اگرچہ یہ ایک الگ مضمون ہے کہ اسلامی احکام کو چھوڑنے کی وجہ سے کیا کیا بدنتائج پیدا ہوتے ہیں اور کیوں؟ دوسرے مذاہب کے احکام کو چھوڑنے سے بدنتائج پیدا ہونے تو الگ رہے مجبورا چھوڑنے پڑتے ہیں اور چھوڑنے میں فائدہ ہوتا ہے.اس وقت میں اس مضمون سے قطع نظر کر کے اس موضوع کو یہاں بیان کرتا ہوں جس کے متعلق میں نے آیت پڑھی ہے.یہاں قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے ایک حکم بیان فرمایا ہے جو یہود کو دیا گیا تھا اور جو بظاہر چھوٹا سا معلوم ہوتا ہے یہ حکم مسلمانوں کو بھی دیا ہے لیکن آج کل مسلمان اس کی پر واہ نہیں کرتے.یہی تو وجہ ہے کہ یہ دن بدن ذلیل ہوئے جا رہے ہیں.مختلف شریعتوں میں ہفتے میں ایک دن خاص عبادت کا مقرر ہے گو اس میں اختلاف ہے کیونکہ شمسی حساب رکھنے والی

Page 160

خطبات محمود جلد ۴ ۱۵۱ سال ۱۹۱۴ء قوموں نے اتوار کا دن مقرر کیا ہے.یہودیوں میں ہفتے کا دن مانا جاتا ہے.عیسائیوں میں بھی ابتداء میں ہفتہ ہی مانا جاتا تھا.لیکن جب روما کے امراء اس میں داخل ہوئے تو چونکہ وہ سورج کی پرستش کرتے تھے اس لئے عیسائیوں نے بھی ان کی خاطر ہفتہ کو چھوڑ کر اتوار مقرر کر لیا.اب تک بھی عیسائیوں میں ایسے فرقے موجود ہیں جو کہ ہفتہ کو ہی خاص دن کہتے ہیں.مسلمانوں کیلئے جمعہ کا دن عبادت کیلئے خاص طور پر رکھا ہے.تو تمام مذاہب والوں کا اس پر اتفاق ہے خواہ وہ ویدک دھرم ہوں یا یہودی ہوں یا عیسائی ہوں یا مسلمان ہوں تمام میں ایک دن ایسا رکھا گیا ہے جو کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کیلئے مخصوص ہے.تو اس قدر ہفتہ میں ایک دن عبادت کیلئے مقرر کرنے پر خصوصیت سے تمام مذاہب کا اجتماع ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بھی کوئی بڑی خاص اہمیت ہے ورنہ فروعات میں تو بڑے بڑے تغیرات ہوتے ہیں.یہ ایک ایسا حکم ہے جو بظاہر لوگوں کی نظروں میں بڑا معلوم نہیں ہوتا لیکن گل شریعتوں کو اس پر اتفاق ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بڑا اہم مسئلہ ہے.جس طرح مختلف مذہبوں میں اس دن کی تخصیص میں اختلاف ہے.اسی طرح عبادت اور اس دن کے فوائد حاصل کرنے میں بھی فرق ہے.لیکن اسلام نے جو طریق رکھا ہے وہ سب سے افضل اور اعلیٰ ہے.اس دن ایک نماز رکھی ہے تاکہ سب لوگ اس میں شامل ہو سکیں.دیگر مذاہب نے اس خاص دن کے متعلق مختلف اصول مقرر کئے ہیں.لیکن جس خوبی سے اسلام نے اس کی غرض اور غایت کو پورا کرنے کا طریقہ رکھا ہے اور کوئی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.اسلام نے پہلے روزانہ پانچ وقت ایک جگہ جمع ہونے کے لئے حکم دیا.پھر ہفتے میں ایک دن ایسا رکھا کہ تمام شہر کے اور ارد گرد کے لوگ ایک جگہ جمع ہو جائیں.پھر ایک عید کا دن رکھا تا کہ قریب قریب کے گاؤں کے لوگ ہی نہ بلکہ دور کے بھی اس میں شامل ہوں.پھر حج کا ایک وقت می ایک سال میں مقرر کیا تا کہ تمام دنیا کے مسلمان ایک جگہ جمع ہوں.تو اس طرح ایک چھوٹے سے اجتماع سے چلانی کر بڑے بھاری اجتماع پر پہنچایا.اب ہم دیکھتے ہیں کہ آیا دنیا وی حکومتوں میں بھی اس کا کوئی نمونہ پایا جاتا ہے یا کہ نہیں تو ہم یہ پاتے ہیں کہ اول قصبوں اور شہروں میں چند آدمیوں کو چن کر ایک میونسپل کمیٹی بنائی جاتی.ہے.پھر اس سے اخذ کر کے ڈسٹرکٹ بورڈ بنتا ہے.پھر اسی طرح بڑھتے بڑھتے صوبہ کی کونسل تک معاملہ پہنچ جاتا ہے.تو اسلام نے اسی اصل کو مد نظر رکھ کر پہلے تھوڑے لوگوں کو پانچ وقت جمع ہونے

Page 161

خطبات محمود جلد ۴ ۱۵۲ سال ۱۹۱۴ء کا حکم دیا.پھر کچھ زیادہ آدمیوں کیلئے ہفتے میں ایک دفعہ اجتماع رکھا.پھر اس سے زیادہ لوگوں کیلئے سال بھر میں دو دفعہ اجتماع کا وقت مقرر کیا.پھر سال میں ایک دفعہ مگر ساری دنیا کی اطراف سے آئے ہوئے لوگوں کے شامل ہونے کیلئے موقع رکھا.اس طرح کرنے سے فائدہ کیا ہوا اور کیوں اس طرح کیا.اس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کچھ لوگ تھے جنہوں نے ہمارے مقرر کردہ قواعد کے خلاف کیا اور جو دن ہم نے ان کی عبادت کیلئے مقرر کیا تھا اس کا انہوں نے ادب نہ کیا اس لئے ہم نے ان کو ذلیل بندر کی طرح کر دیا.بندر کیوں ذلیل و خوار ہوتا ہے اس لئے کہ اس کی خود کوئی حیثیت نہیں ہوتی جس طرح اس کو نچانے والا نچاتا ہے اسی طرح وہ ناچتا ہے اور جس طرح وہ ہے انسانوں کو کرتے دیکھتا ہے اس کی نقل اتارتا ہے خود اسے کچھ سمجھ اور عقل نہیں ہوتی.ایک کہانی مشہور ہے کہ ایک شخص ٹوپیوں کی دکان کیا کرتا تھا اور اس نے خود بھی ٹوپی پہنی ہوئی تھی.ایک دن وہ ٹوپی پہنے ہی سو گیا تو بندروں نے اس کی تمام ٹو پیاں لے کر اپنے سروں پر پہن لیں اور درختوں پر چڑھ گئے وہ بیچارہ بہتیرا ٹوپیوں کو واپس لینے کی کوشش کرتا رہا.لیکن ناکام رہا اگر وہ نیچے سے پتھر مارتا تو وہ اوپر سے پھل اتار کر پھینکتے اور جس طرح وہ کرتا اسی طرح وہ بھی کرتے جاتے.آخر اس نے اپنی ٹوپی اتار کر زمین پر پھینک دی یہ دیکھ کر تمام بندروں نے بھی ٹوپیاں اُتار کر پھینک دیں اور اس نے اٹھا لیں تو یہ بندر میں دوسرے تمام جانوروں سے خصوصیت ہوتی ہے کہ ہر ایک بات کی نقل بڑی جلدی اتارتا ہے مگر اس کی اصلیت سے بالکل نا واقف ہوتا ہے ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہود نے اس دن کا ادب کرنا جو چھوڑ دیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے پاس صرف شریعت کی نقل رہ گئی اور اصل اڑ گیا.اصل وحدت، اتفاق اور اتحاد کو انہوں نے ترک کر دیا اور بناوٹی اتحاد اور صلح ان میں رہ گئی.مسلمانوں کی حالت :.كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِین سے آجکل کے مسلمانوں کو یہ مناسبت ہے کہ نمازیں پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں ، زکوۃ دیتے ہیں، حج کرتے ہیں لیکن یہ ان کا سب کچھ بندر کی حرکات سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا.مسلمانوں پر اسی وقت سے مصیبت اور تباہی نازل ہوئی ہے جب سے کہ انہوں نے جمعہ کو چھوڑا ہے.اول تو اکثر حصہ مسلمانوں کا جمعہ پڑھتا ہی نہیں اور جو پڑھتا ہے وہ بعد میں احتیاطی پڑھ لیتے ہیں کہ شاید جمعہ کی نماز ہوئی بھی ہے یا نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہمارا ایک دوست

Page 162

خطبات محمود جلد ۴ ۱۵۳ سال ۱۹۱۴ء حصہ غلام نبی کا تھا.اس نے ہمارے ساتھ ایک گاؤں میں جمعہ پڑھا.وہ وہابی تھا.اور وہابی جمعہ پڑھنے کے کے قائل ہوتے ہیں لیکن اس نے جمعہ کی نماز پڑھنے کے بعد چار رکعتیں اور پڑھیں.ہم نے اس سے پوچھا کہ یہ تم نے کیا کیا ہے تو وہ کہنے لگا کہ احتیاطی پڑھی ہے لیکن لوگ تو اس لئے احتیاطی پڑھتے ہیں کہ نماز نہیں ہوئی اور میں نے اس لئے پڑھی ہے کہ مار نہ پڑے کیونکہ ایسا نہ کرنے والے کو یہ لوگ مارتے ہیں.تو یہ حال ہے مسلمانوں کا.اول تو انہوں نے جمعہ کو ترک ہی کر دیا اور پھر جو پڑھتے ہیں انہیں ماریں پڑنے کا ڈر ہوتا ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں وحدت ، اتحاد اور یک جہتی قائم نہیں رہی اور یہ بھی قِرَدَةً خَاسِئِین ہو گئے ہیں اور دن بدن ذلیل ہوتے جاتے ہیں.اتحاد میں خدا تعالیٰ نے بڑی عظیم الشان حکمتیں رکھی ہیں لیکن اب مسلمانوں میں سے کون روزانہ مسجدوں میں آتا ہے.آئے دن سنا جاتا ہے کہ فلاں جگہ مسجد میں کتیا نے بچے دیئے.فلاں جگہ کسی نے پاخانہ کر دیا وغیرہ وغیرہ جب انسان مسجدوں میں داخل نہ ہوں تو پھر مسجد میں درندوں اور پرندوں کا بسیرا نہ بنیں تو کیا بنیں؟ امراء مسجدوں میں آنا گناہ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا ہم کسی ادنی درجہ کے آدمی کے ساتھ کھڑے ہوں.جمعہ تو اس طرح چھوٹا ، باقی رہا حج.امیر لوگ تو حج کو جاتے ہی نہیں.غرباء جاتے ہیں جو بعض کسی قسم کا فائدہ حاصل کرنے کی بجائے بے ایمان ہو کر آتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ حج کو جاؤ وہ تو جاتے نہیں اور جن کو حکم نہیں وہ جاتے ہیں.تو نہ جانے والوں کا اس لئے ایمان ضائع ہو جاتا ہے کہ وہ حکم کی تعمیل نہیں کرتے اور دوسرے حکم عدولی کرتے ہیں اس لئے ان کو ابتلاء پیش آتے ہیں اور ذلیل و خوار ہو کر واپس آتے ہیں.اجتماع کا حکم مسلمانوں کیلئے ایک ضروری ہے حکم تھا لیکن انہوں نے اِعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِي السَّبْتِ کیا.یہودکو اللہ تعالیٰ نے ذلیل کر کے آئندہ آنے والوں کیلئے ایسا عبرت بخش سبق رکھ دیا کہ جو متقیوں کیلئے نصیحت کا سامان ہو سکتا ہے.آج تک یہودیوں کو سکھ نصیب نہیں ہوا.سو یا د رکھو کہ خدا تعالیٰ کا چھوٹے سے چھوٹا حکم بھی دراصل بہت بڑا حکم ہوتا ہے.بھلا اتنے بڑے بادشاہ کا کوئی حکم چھوٹا ہو سکتا ہے.بہت لوگ ہیں جو جمعہ کی نماز پڑھنے میں لا پرواہی کرتے ہیں اور جو پڑھتے ہیں وہ احتیاط نہیں کرتے مسجد میں باتیں کرتے رہتے ہیں اور جو باتوں کی جرات نہیں کرتے وہ اشاروں سے کام لیتے ہیں یہ سب کچھ اختدَوْا فِي السَّبُتِ ہی ہے.یہ اجتماعی

Page 163

خطبات محمود جلد ۴ ۱۵۴ سال ۱۹۱۴ء تو اس لئے رکھا گیا ہے کہ سب اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کی حالت کو دیکھیں اور خطیب جو کچھ ضرور یات اور حالات کو مد نظر رکھ کر کہے اس سے نصیحت اور فائدہ حاصل کریں.اللہ تعالیٰ ہم کو توفیق دے کہ ان احکام پر چلیں اور صرف چلیں ہی نہ بلکہ ان کے اصل مغز تک پہنچ جائیں جمعہ تو بہت لوگ پڑھتے ہیں مگر جو اس کی غرض اور غایت ہے یعنی اتحاد اور روحانی ترقی ، خدا کرے کہ وہ ہمیں حاصل ہو اور ہم خدا تعالیٰ کے انعامات کے مورد ہوں.ل البقرة : ٦٦٦ الفضل ۱۳.اگست ۱۹۱۴ ء )

Page 164

خطبات محمود جلد ۴ ۱۵۵ (۳۵) انسان بہت سے سوال کر کے اپنے آپ کو مشکل میں ڈال دیتا ہے (فرموده ۱۴.اگست ۱۹۱۴ ء ) سال ۱۹۱۴ء حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد درج ذیل آیات کی تلاوت کی:.وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً قَالُوا اتَّتَّخِذُنَا هُزُوًا قَالَ أَعُوذُ بِاللهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَهِلِينَ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنَ لَّنَا مَا هِيَ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَلَا بِكُرُ عَوَانٌ بَيْنَ ذلِكَ فَافَعَلُوا مَا تُؤْمَرُوْنَ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنُ لَنَا مَا لَوْنُهَا قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَة صَفْرَاء فَائِعٌ لَّوْنَهَا تَسُرُ النَّاظِرِينَ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لنا ما هى إن الْبَقَرَ تَشَابَهَ عَلَيْنَا وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ لَمُهْتَدُونَ.قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لا ذَلُول تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِي الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَّا شِيَةَ فِيهَا قَالُوا الْآنَ جِئْتَ بِالحَقِّ ۚ فَذَبَحُوْهَا وَمَا كَادُوا يَفْعَلُونَ پھر فرمایا:.ایک ادب کا طریق اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کیلئے بیان فرمایا ہے.انسان بہت سے سوال کر کے اپنے آپ کو مشکل میں ڈال لیتا ہے.یہاں فرمایا ہے ایک گائے کے ذبح کرنے کا یہود کو حکم دیا گیا تھا.انہوں نے بجائے اس کے کہ حکم کی تعمیل کرتے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو

Page 165

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۴ء کہا کہ تم ہم سے ہنسی کرتے ہو اور بات کو قہقہ لگا کر ہنسی میں ٹال دیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ بنسی کرنا جاہلوں کا کام ہے.کیا میں جاہل ہوں؟ انہوں نے کہا کہ پھر آپ بیان کریں کہ گائے کیسی ہو.حضرت موسیٰ نے فرمایا.کہ درمیانہ عمر کی ہو.نہ بوڑھی ہو نہ بچہ.پھر انہوں نے سوال کیا کہ اس کا رنگ کیسا ہو حضرت موسیٰ نے فرمایا.اس کا رنگ نہایت عمدہ ہو اور وہ خوبصورت گائے ہو.کہا کیسی گائے ہو.فرمایا وہ گائے کام میں نہیں لگائی گئی بے داغ ہے نہ ہل چلاتی ہے نہ کھیتی کو پانی پلاتی ہے.پھر انہوں نے اسے ذبح کیا لیکن غذر معذرت برابر کرتے رہے اور مشکل سے اس حکم پر عمل کی توفیق ملی.مسلمانوں کو اس سے یہ بتلایا کہ تمہارے لئے بھی احکام نازل ہوں گے.تم بہت سوال مت کیا کرنا کہ جی یہ کام ہم کیوں کریں ، اس میں کیا حکمت ہے اور اس کے شرائط کیا کیا ہیں.یہ ایسا کیوں ہے ایسا کیوں نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس بات کی ضرورت ہوگی میں خود بیان کر دوں گا.تم اگر خود شرائط بڑھاؤ گے اور سوال کرو گے تو تم کو دقتوں کا سامنا ہوگا اور تم مشکلات میں پڑ جاؤ گے.عبد اللہ بن عمرو بن العاص فرماتے ہیں کہ میں دن کو روزہ رکھتا اور رات کو قیام کیا کرتا تھا.نبی کریم سایہ تم نے یہ معلوم ہونے پر مجھے طلب فرمایا.اور فرمایا کہ یہ طریق ٹھیک نہیں ہے ایک ماہ میں تین دن روزے رکھا کرو اور پھر افطار کیا کرو.میں نے عرض کیا میں اپنے اندر اس سے زیادہ طاقت پاتا ہوں.آپ نے فرمایا پھر نبی اللہ داؤد کا روزہ رکھا کرو.وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کیا کرتے تھے.میں نے عرض کیا میں اپنے اندر اس سے زیادہ طاقت پاتا ہوں آپ نے فرمایا نہیں.اس سے بہتر کوئی روزہ نہیں ہوسکتا.پھر جب یہ بوڑھے ہو گئے تو ان کو طاقت نہ تھی.کہتے ہیں پھر میں کہا کرتا تھا.کاش! میں نبی کریم سلام کا حکم مان لیتا اور سوال نہ کرتا.لیکن مجبور ہوں کہ نبی کریم صلی اشیا کی تم سے وعدہ کر چکا ہوں اس لئے چھوڑ نہیں سکتا.جنگ اُحد میں جانے سے پہلے نبی کریم صلی یہ تم نے ایک خواب دیکھا کہ ایک گائے ذبح کی گئی ہے (یہاں بھی اَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً ہے ) دوسرے یہ دیکھا کہ میری تلوار میں کچھ نقص ہے اور میں نے ایک مضبوط زرہ پر ہاتھ رکھا ہے.اس کی تعبیر آپ نے یہ کی کہ چند صحابہ مارے جائیں گے اور جنگ میں میرا کوئی رشتہ دار بھی مارا جائے گا.اور وہ زرہ مدینہ منورہ

Page 166

خطبات محمود جلد ۴ ۱۵۷ سال ۱۹۱۴ء ہے.پھر آپ باہر تشریف لائے اور صحابہ کو فرمایا کہ میرا ارادہ ہے کہ اندر بیٹھ کر ہی دشمن کا مقابلہ کریں.نوجوان صحابہ نے یہ بات نہ مانی اور عرض کیا ہم باہر نکل کر لڑیں گے کیونکہ لوگ ہمیں بزدل کہیں گے.آخر آپ صحابہ کے اصرار پر باہر نکلے.پھر صحابہ کو خیال آیا کہ ہم نے آپ کو مجبور کیا ہے.ایسا نہ ہو اس کا کوئی بد نتیجہ نکلے.پھر آپس میں مشورہ کر کے نبی کریم صلی یا پی ایم کے حضور عرض کیا کہ ہم نے حضور پر بہت زور دیا ہے.حضور اب واپس تشریف لے چلیں.آپ نے فرمایا نبی ہتھیار باندھ کر نہیں رکھا کرتے بالآخر نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے صحابہ فتح ہونے کے بعد ذبح ( شہید ) ہوئے اور نبی کریم صلی یا یتیم کے رشتہ دار بھی شہید ہوئے.اگر شہر میں رہتے تو تیسری بات بھی پوری ہو جاتی.غرض بہت سوال پیش کرنے دکھ کا موجب ہوتے ہیں.جو شریعت کا حکم ہو یا جو نبی حکم دے وہ کرو.زائد بات مت طلب کرو کہ اس کا نتیجہ اچھا نہیں.نبیکریم ملی ایم کا معمول تھا کہ آپ مانگ کر کسی عہدہ کو لینے والے کے سپر د کوئی عہدہ نہ کرتے کیونکہ آپ جانتے تھے کہ اسے کبھی اس کو پورا کرنے کی توفیق نہیں ملے گی ، آپ تو فطرت انسانی کا بڑا مطالعہ رکھنے والے تھے.خدا تعالیٰ جسے آسانی دے وہ خود اپنے لئے تنگی کیوں اختیار کرے.دینے والا دیتا ہے، تم اس کو لینے سے کیوں انکار کرتے ہو؟ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے سفر میں روزے نہ رکھنے اور نماز قصر کرنے کی اجازت دی.لیکن انہوں نے نے روزے رکھے اور نماز قصر نہ کی.بالآخر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کو مشکلات پڑگئیں اور سرے سے روزے اور نماز کو ہی ترک کر دیا.نہ گھر میں نہ باہر نماز پڑھی نہ روزے رکھے.یہ اجازت پر عمل نہ کرنے اور خودساختہ شرائط پر چلنے کا نتیجہ ہے.بے حیا کا کام ہوتا ہے کہ جو کام (خواہ وہ کیسا ہی اچھا ہو ) وہ نہ کرے، اس کو کہ دیتا ہے کہ لغو ہے اور اس کے نہ کرنے پر پھر فخر کرتا ہے.زائد بات کے لئے کبھی سوال مت کرو ورنہ یہود جیسی حالت ہو جائے گی.صوفیاء نے لکھا ہے کہ یہ ان کے انشاء الله " کہنے کا نتیجہ تھا کہ ان کو تو فیق ملی ورنہ انہیں بالکل توفیق نہ ملتی.تو تم یاد رکھو کہ دین کا کام ہو یا دنیا کا ہوجتنا آسانی سے کرسکو کرو.شریعت کے حکم سے زائد اپنے او پر مت ڈالو.باہر ایک جگہ سے رپورٹ آئی چندوں کے متعلق کہ یہاں کے لوگ کیا کرتے ہیں کہ چندے بہت بہت لکھواتے ہیں.پھر ایک دو ماہ ادا کیا اور بس.جب چھ ماہ گزر گئے تو ان کو اکٹھا کر کے کہا گیا.تو کہا اچھا.پچھلا تو جانے دو اور اب آئندہ کیلئے لکھواؤ.

Page 167

خطبات محمود جلد ۴ ۱۵۸ سال ۱۹۱۴ء جب لکھوانے کا وقت آیا.تو کہا بھئی خوب بڑے بڑے چندے لکھواؤ.تھوڑے نہیں لکھوانے چاہئیں.لیکن ادائیگی کے وقت پھر وہی حالت.حضرت عائشہ نبی کریم سی ایم کی نسبت روایت کرتی ہیں کہ آپ کو ہمیشہ وہی بات پسند تھی جو تھوڑی ہو لیکن اس میں دوام ہو ۴ تو تم جو کام اپنے ذمہ لو اتنالو جو آسانی سے کر سکو اور اس میں دوام ہو.زیادہ کرو تو تمہارے لئے زیادہ ثواب کا موجب ہوگا.اور اگر تم بہت بڑا کام اپنے ذمہ لو یا ایک بڑے کام کا عہد کر لو.اور اسے کرو نہیں تو یہ تمہارے لئے عذاب کا باعث ہوگا اور تم الزام کے نیچے ہو.یہ قصہ اللہ تعالیٰ نے لغو نہیں سنایا.یہ تمہیں عمل کیلئے سنایا ہے.جتنا تمہیں حکم ملے وہ کرو.زائد سوال مت کرو.یہود کو حکم دیا گیا تھا کہ گائے ذبح کرو.انہیں چاہئے تھا کہ وہ ایک خوب موٹی تازی گائے لے کر ذبح کر دیتے.وہ ثواب کے مستحق ہوتے لیکن انہوں نے خود اپنے اوپر قید بڑھائی.فرمایا.قریب تھا کہ وہ نہ کرتے تو تم اپنے لئے سہولت اختیار کرو اور جو کام تمہارے سپرد کیا گیا ہے اسے پوری طرح اداری کرو.اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ جو احکام ہمارے لئے مقرر ہیں ہم انہیں پورا کریں اور جو وعدے کریں ان سے بڑھ کر ان کا ایفاء کریں آمین ثم آمین.ل البقرة: ۶۸تا۲ الفضل ۲۰ اگست ۱۹۱۴ء) بخاری کتاب الصوم باب حق الجسم في الصوم سیرت ابن ہشام عربی جلد ۳ صفحه ۶۸ مطبع البابي الحلبى مصر ١٩٣٦ء بخاری کتاب اللباس باب الجلوس على الحصير ونحوه

Page 168

خطبات محمود جلد ۴ ۱۵۹ (۳۶) ہر ایک ترقی قربانی چاہتی ہے (فرموده ۲۱.اگست ۱۹۱۴ء) سال ۱۹۱۴ء حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیت تلاوت کی :.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ پھر فرمایا:.آج میرا ارادہ تھا کہ ایک نہایت ضروری معاملہ کی نسبت تفصیل سے سناؤں چونکہ میری طبیعت کچھ اچھی نہیں ہے اس لئے مختصر طور پر کچھ ہدایات سنا دیتا ہوں.ہر ایک ترقی جو دنیا میں ہوتی ہے وہ کچھ قربانی چاہتی ہے کوئی قوم آج تک ترقی کی منزل پر نہیں چڑھی جب تک اس نے کچھ قربانی نہیں کی.ہمارے آنحضرت ایسی ہی تم سے اللہ تعالیٰ کو کتنا محبت پیار تھا اس نے کچھ مال اللہ تعالی پیار حتی کہ فرما دیا.اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله اگر اللہ تعالیٰ سے محبت کرنی ہو تو اس کیلئے ایک طریق ہے کہ تم میری پیروی کرو تم خدا تعالیٰ کے محبوب ہو جاؤ گے لیکن آپ کو بھی مسلمانوں کو ترقی دینے کے لئے قربانیاں کرنی پڑیں.اپنا وطن ترک کیا ، اپنے عزیز اور اپنے پیارے خادم قربان کرنے پڑے، پھر کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا اور کسی کا بھائی قربان ہو گئے پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ترقی دی.قربانیاں دو قسم کی ہوا کرتی ہیں.ایک وہ جو انسان خود کرتا ہے اور ایک وہ جو خود نہیں کرنی پڑتیں بلکہ جب مامور آتا ہے اور لوگ اس کی تکذیب کرتے ہیں اور ہنسی کرتے ہیں

Page 169

خطبات محمود جلد ۴ ۱۶۰ سال ۱۹۱۴ء کہتے ہیں کہ ہم بڑے ہیں اور تم رذیل ہو، ہم تمہارے متبع کس طرح ہو جائیں اس وقت اللہ تعالیٰ اپنی پیاری جماعت کو بڑھانے کیلئے قربانی کرتا ہے.تب بیماریاں آتی ، زلزلے اور قحط پڑتے لڑائیاں ہوتی ہیں.اس وقت وہ خود سر لوگ گھٹنوں کے بل گرا دیئے جاتے ہیں.اور خدا کی مشیت بتلا دیتی ہے کہ جس شخص کی مخالفت تم نے کی وہ سچا ہے.یہ بھی ایک مامور کا زمانہ ہے اس زمانہ میں بھی اس قسم کی قربانیاں چاہئیں.ایک قربانی تو ہماری طرف سے چاہیئے اور ایک قربانی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.ہماری طرف سے یہ قربانی ہوگی کہ جو عہد ہم نے اللہ سے کیا تھا اس کو ہم ثابت کر دیں کہ وہ بالکل سچا تھا اور اس کیلئے ہمیں جو قربانی بھی کرنی پڑے ہم کریں.اور ایک قربانی خدا کروائے گا تاکہ وہ اپنے رسول کو سچا ثابت کر دے اور بتا دے کہ وہ جو اس قلیل جماعت کو برا کہتے ہیں اور ان کو رذیل سمجھتے ہیں ان کا غگو ٹوٹے اور ان کو معلوم ہو کہ یہ سچ ہے.خدا کی طرف سے وہ قربانی شروع ہو چکی ہے.طاعون آئی اور خطر ناک طور پر آئی اور زلزلے بھی آئے.وہ زلزلے تو دنیا کے کسی کسی حصہ پر آتے تھے مگر اب جو زلزلہ آیا ہے اس نے تمام دنیا کو پکڑ کر ہلاتی دیا ہے.اور وہاں ہزاروں نہیں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی قربانیاں ہو رہی ہیں.دنیا اپنے مال و دولت گھمنڈ کرتی تھی کہ ہمیں اب کسی کی پر واہ کیا ہے.خدا نے ان کا یہ گھمنڈ دور کرنا ہے.پس اس وقت میں تمہیں اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے تو قربانی کر دی.خدا تعالیٰ مدتوں سے قربانیاں کر رہا ہے اس نے ہمارا اتنا انتظار فرمایا ہے.تم اب قربانی کرو.ہم میں اب تک بہت ہیں جنہوں نے اب تک کوئی قربانی نہیں کی.خدا تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کیا تم اپنا وعدہ پورا کرو تا تم پر انعام ہوں اور تمہیں ترقی ملے.جنگ میں فاتح و مفتوح دونوں چور ہو جاتے ہیں.ہندوستان سے جنگ ابھی بہت دور ہے لیکن یہاں بھی اس کا اثر تجارت پر اور دیگر اشیاء پر پڑ رہا ہے.تو میں تمہیں بتلاتا ہوں کہ اول تو تم نے جو عہد اللہ سے کیا ہے ہوا ہے اسے پورا کرو.دوسرے ایک عہد ہے جو حضرت مسیح موعود نے اپنی جماعت سے لیا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اس گورنمنٹ سے وفاداری رکھنا.عہد کرنے تو آسان ہوتے ہیں لیکن ان کا نبھانا مشکل.اس وقت ہماری گورنمنٹ مشکل میں ہے اور یہی ایک موقع ایسا آیا ہے کہ ہم اپنے عہد کو پورا کر کے دکھلائیں.اس میں صرف ہماری صداقت ہی نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود کی اس تحریر کی بھی صداقت ہے جو

Page 170

خطبات محمود جلد ۴ 171 سال ۱۹۱۴ء آپ نے گورنمنٹ کو لکھا تھا کہ مشکل کے وقت گورنمنٹ دیکھ لے گی کہ اس وقت جو عایا اپنا مذہبی فریضہ سمجھ کر وفادار ہوگی وہ یہی احمد یہ جماعت ہوگی سے اس لئے تمہیں ضروری ہے کہ اس عہد کو جس طرح بھی ہو سکے پورا کرنے کیلئے ہر ممکن سے ممکن کوشش کرو.اور جو عہد تم نے مسیح موعود کے ساتھ کیا تھا اسے پورا کرنے کے لئے گورنمنٹ کی جس طرح بھی ہو سکے مدد کرو.یہ دو باتیں ہیں تیسری بات یہ ہے کہ فاتح ومفتوح دونوں قوموں کو نقصان پہنچتا ہے.بعض دفعہ ایک قوم بظاہر فاتح معلوم ہوتی ہے لیکن در حقیقت وہ قوم اپنی حالت کے لحاظ سے مفتوح ہوتی ہے.ہم نہیں جانتے کہ اس جنگ کا نتیجہ کیا ہوگا.تم خصوصیت سے دعا کرو کہ جو کچھ بھی ہو اللہ تعالیٰ اس جنگ سے اسلام کیلئے کوئی بہتر صورت پیدا کر دے.یہ جنگ ساری دنیا سے نرالی جنگ ہے.تمام انبیاء نے اس کیلئے پیشگوئیاں کیں اور پھر حضرت مسیح موعود نے بھی اس کیلئے پیشگوئی فرمائی.یہ تمام انبیاء کا پیشگوئیاں کرنا اور یہ حشر کوئی لغو نہیں.یہ جنگ ایک عظیم الشان جنگ ہے آج تک دنیا میں کوئی ایسی جنگ نہیں ہوئی.ہم نہیں جانتے اس جنگ سے دین کیلئے کیا نتیجہ نکلے.تو تم آج سے ہی دعاؤں میں لگ جاؤ جو بھی اس کا نتیجہ ہو اللہ تعالیٰ اسے دین اسلام اور ہمارے سلسلہ کیلئے عمدہ اور بہتر بنائے.اگر لوگ دین کی طرف متوجہ نہ ہوں تو ہمارے پاس کوئی ایسی تدبیر نہیں کہ جس سے ہم ان کو دین کی طرف متوجہ کر لیویں.خدا تعالیٰ اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے فرماتا ہے.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَلى فَإِنِّي قَرِيبٌ جب میرے بندے گھبرا جائیں اور انہیں ایسی کوئی صورت نہ ملے جس سے انہیں اطمینان حاصل ہو تو میرے حضور دعا کریں میں دعا کرنے والے کی دعا کو جب وہ دعا کرے تو قبول کرتا ہوں تو تم دعاؤں میں لگ جاؤ اور گورنمنٹ کی وفاداری کرو.یہ وقت ہماری صداقت اور حضرت مسیح موعود کی صداقت کے پر کھنے کا آیا ہے.یہ ایک آزمائش کا وقت ہے تم ہرممکن سے ممکن کوشش سے گورنمنٹ کی خدمت کرو.ایک جاہل سے جاہل اور اجڈ انسان بھی گورنمنٹ کی خدمت کر سکتا ہے.ایک آدمی گھر سے باہر اس حالت میں رہ کر کام کر سکتا ہے جب اسے اس بات کا اطمینان ہو کہ میرے گھر میں بالکل فساد نہیں ہے اس صورت میں وہ باہر جم کر کام کر سکتا ہے.تو زمیندار یہ بہتر سے بہتر خدمت کر سکتا ہے وہ کوشش کر کے اپنے گاؤں میں کوئی فساد نہ ہونے دے.گورنمنٹ کو اپنے ملک کی طرف سے بالکل مطمئن کر دیں.یہ ایک عمدہ خدمت

Page 171

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۴ء ہے.اور مالدار آدمی یہ خدمت کر سکتا ہے کہ وہ زخمیوں کی مرہم پٹی اور بیواؤں اور یتامی کی خدمت کیلئے چندہ دیں.یوں بھی بیواؤں اور یتیموں کی پرورش اور زخمیوں کی خبر گیری عمدہ کام ہے اور اس طرح گورنمنٹ کے لئے سہولت ہو جائے گی اور بہت کچھ وقتیں ان کی رفع ہوسکتی ہیں تو یہ ایک پنتھ دو کاج ہو گئے.اور اہل قلم کیلئے بیبیوں خدمات ہیں.عوام میں وفاداری کے خیالات کو پھیلانا اور لوگوں کو ہر ایک قسم کی قربانی کیلئے تیار کرنا بھی ایک عمدہ اور اعلیٰ خدمت ہے.یہ ایک آزمائش کا وقت ہے.ہمارا فرض ہے کہ اس وقت وفاداری سے کام لیں.ہم نہیں جانتے کہ نتیجہ کیا ہوگا.ہمارا فرض ہے کہ ہم وفاداری سے کام لیں اور اپنے فرض کو پورا کریں.یہ انعام ہیں ان کو یاد کرو.اپنی زبانوں کو پورا کرو.گورنمنٹ کی وفاداری اپنے ہر قول و فعل سے ثابت کر دو.گورنمنٹ کی اندرونی مشکلات کو پورا کرنے کیلئے کوشش کرو.اپنے عہد کو پورا کرو.دعائیں کرو کہ کوئی نتیجہ ہو.اسلام بڑھے خدا کا نام پھیلے.خدا ایسا ہی کرے.آمین ثم آمین.البقرة : ۱۸۷ ال عمران : ۳۲ الفضل ۲۷ اگست ۱۹۱۴ ء ) س میں امید رکھتا ہوں کہ تجربہ کے وقت سرکار انگریزی ان کو اول درجہ کے خیر خواہ پائے گی.( مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصہ سوئم صفحه ۲۶۰ مطبوعه بدر ایجنسی قادیان ضلع گورداسپور )

Page 172

خطبات محمود جلد ۴ (۳۷) قصاص سے لوگوں کی زندگی محفوظ ہو جاتی ہے (فرموده ۲۸.اگست ۱۹۱۴ء) سال ۱۹۱۴ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے ان آیات کی تلاوت کی :.وَإِذْ قَتَلْتُمُ نَفْسًا فَاللَّدَ تُمْ فِيهَا وَاللهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا كَذَلِكَ يُحْيِ اللَّهُ الْمَوْلَى وَيُرِيكُمْ أَيْتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ اس کے بعد فرمایا:.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہود کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ تم نے قتل کیا ایک نفس کو اور اپنی طرف سے بڑی احتیاط کی کہ اس کا پتہ نہ لگ سکے اور قاتل کا پتہ نہ چلے.بہت خفیہ درخفیہ تدابیر کے ماتحت اسے چھپانا چاہا.مگر پھر جس چیز کو خدا ظاہر کرنا چاہے اسے کون چھپا سکتا ہے.کیسی بار یک در بار یک خفیه در خفیہ کارروائی کیوں نہ ہو.اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب یہ فیصلہ ہو جاوے کہ اس کو ظاہر کر دیا جاوے تو کون ہے جو اسے پوشیدہ رکھ سکے.تم نے کوشش کی کہ اس کو چھپاؤ مگر ہم نے اس کو ظاہر کر دیا.اور صرف ظاہر ہی نہیں کیا بلکہ اس قاتل کو سزا بھی دلوا دی.ہم نے حکم دیا کہ اس قاتل کو قتل کر دیا جاوے اور یہ قاتل کو قتل کرنے کی سزا بیہودہ نہیں بلکہ دنیا کی زندگی اس سے وابستہ ہے.جو شخص کسی کو بلا وجہ اور بلا کسی قصور کے قتل کر دے اس کو اس سے یہ دلیری ہو جاتی ہے کہ اوروں کو بھی قتل کر دے.تعداد کا معاملہ الگ ہے اس کی جرات اور اس کے دل کی حالت یہ چاہتی ہے کہ وہ ہزاروں کو بھی قتل کر سکے تو جو شخص ایک دفعہ ایسی جرات کرے دنیا کی زندگیاں اس کی

Page 173

خطبات محمود جلد ۴ ۱۶۴ سال ۱۹۱۴ء رف سے غیر مامون اور غیر محفوظ ہو جاتی ہیں.اس سے بچانے کیلئے یہ تدبیر بتلائی کہ ایسے آدمی کو قتل کر دیا جاوے اس لئے قرآن کریم میں ایک جگہ وَلَكُمْ فِي القِصَاصِ حَیوناس فرمایا ہے.تو پچھلے باقی ماندہ آدمیوں کی زندگیاں بچانے اور مقتول کا قصاص یعنی اس کی جان کا بدلہ لینے کیلئے بھی یہ مناسب ہے کہ اس کو قتل کر دیا جاوے.تو فرمایا ہم نے تمہاری شرارت کو ظاہر کر کے مقتول کا بدلہ لیا.یہ ہم نے لغد نہیں کیا بلکہ لوگوں کو زندہ کرنے اور ان کی جانیں بچانے کیلئے ہم نے ایسا کیا.مجرم اپنے جرم کو چھپانے کی بڑی کوشش کرتا ہے.چوروں کو دیکھو وہ اس لئے کہ ہمیں چوری کرتے وقت کوئی دیکھ نہ لے بڑی بڑی کوششیں کرتے ہیں اور اس لئے کہ کسی کو پتہ نہ لگ سکے وہ دن کے وقت چوری نہیں کرتے کیونکہ دن کے وقت آدمی دیکھ لیتے ہیں اس لئے انہوں نے رات کا وقت چوری کے لئے رکھا ہے.پھر وہ اتنی احتیاط کرتے ہیں کہ دنوں کو دیکھ لیتے ہیں کہ کون سے ہیں.مثلاً یہ کہ گھر کا مالک گھر میں نہ ہو اور یا پکڑنے والا مرد کوئی گھر پر نہ ہو.پھر وہ راتیں مخصوص کر لیتے ہیں کہ کونسی ہوں پھر وہ ایسی آہستہ چلتے ہیں کہ ذراسی بھی آہٹ نہ ہو.باوجود اتنی احتیاطوں کے پھر بھی گورنمنٹ کے قید خانوں کو جا کر دیکھ لو کہ بھرے پڑے ہیں.ہزاروں چور پکڑے جاتے ہیں باوجود اس کے کہ وہ کتنی کوششیں اپنے جرم کو پوشیدہ رکھنے کی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم شریر کی شرارت اور مجرم کے مجرم کو آخر کا رظاہر کر ہی دیتے ہیں.سب سے بڑی تسلی جو مجرم اپنے دل میں رکھتا ہے اور جو اس کو اس جرم پر دلیر کرتی ہے وہ یہ ہے کہ میں نے بڑی احتیاط کر لی ہے میرا جرم ظاہر نہیں ہوگا اور نہ میری لوگوں میں ذلت ہوگی اور میرے فعل کا کسی کو علم نہیں ہوگا.چور چوریاں کرتے ہیں پھر وہ اپنی طرف سے اس کے نشان اس طرح مٹاتے ہیں کہ کسی کو بالکل علم نہ ہو سکے.مویشی چرا لئے اور دریا میں سے آٹھ آٹھ دس دس میل گزر گئے تا کہ کسی کو نشان نہ مل سکے مگر اللہ تعالیٰ نے بھی ایسے علوم پیدا کر دیئے ہیں کہ ان کے ذریعہ خواہ چور ہیں ہیں میں پانی کے اندر سے گزر جائے تا ہم اس کا پتہ لگ جاتا ہے.یہ ہم کو نصیحت کی ہے.مجرم کو جرم پر دلیر کرنے کیلئے یہ کافی ہے کہ اسے امید ہوتی ہے کہ میرا پتہ نہیں لگ سکے گا اور یہی امید اس کو جرم پر دلیر کرتی ہے.فرمایا خوب یا درکھو کہ کوئی مجرم بھی پوشیدہ نہیں رہ سکتا.چور رات کے وقت چوری کو جاتا ہے.کیوں؟ دن کو

Page 174

خطبات محمود جلد ۴ ۱۶۵ سال ۱۹۱۴ء اس کے دل میں آدمیوں کا ڈر ہوتا ہے کہ کوئی دیکھ نہ لے.پھر وہ اپنے دل کو بڑی بڑی تسلیاں دیتا ہے اور ڈر دور کرتا ہے اور وہ چوری کو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے خوب یا درکھو ہم ایسی باتوں کو آخر کار نکال ہی دیا کرتے ہیں.گورنمنٹ کے قید خانے اس بات کا ثبوت ہیں کہ مجرم چھپا نہیں رہ سکتا.خدا تعالیٰ نے مجرم کا جرم ظاہر کرنے کے لئے بڑے بڑے سامان پیدا کئے ہیں.لوگ بڑے بڑے ظلم کرتے ہیں لوگوں کے حقوق کو تلف کرتے ہیں اور پھر سمجھتے ہیں کہ کسی کو پتہ نہیں لگے گا.تو یاد رکھو کہ کوئی مجرم جو اپنے جرم پر اصرار کرنے والا ہو ایسا نہیں ملے گا کہ آخر کار اس کا جرم ظاہر نہ ہو گیا ہو اور اس کا راز پوشیدہ رہا ہو اور یا وہ تادم مرگ باعزت رہا ہو.یہ نصیحت کی ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ کسی کو معلوم نہ ہوگا.خدا تعالیٰ تمام راز ظاہر کر دیتا ہے.کوئی زانی ہو،شرابی ہو، چور ہو، ڈاکو ہو، فریبی ہو، دغا باز ہو، اللہ تعالیٰ تمام کے رازوں کو ظاہر کر دیتا ہے.لوگ بہتیرا چھپاتے ہیں لیکن آخر کار راز کھل جاتا ہے.فرمایا تم یہ سمجھ کر کہ کس کو علم نہ ہو گا کسی جرم پر جرات مت کرو.انسان اگر یہ یقین کرلے اور اس کے یقین کرنے کے لئے یہ عمدہ طریق ہے کہ وہ یہ سمجھ لے کہ وہ اگر جرم کرتا ہے اور ایک مدت تک اگر یہ نیک مشہور بھی رہے اور اس کی شرارت پر پردہ پڑا ہے تو وہ آخر کار ظاہر ہو ہی جاوے گا.جب انسان کو اس بات کا یقین ہو جاوے تو اسکے دل میں خدا تعالیٰ کا ڈر پیدا ہو جاوے گا اور وہ گناہوں سے بچ جاوے گا.خدا پر اسے یقین ہو جائے گا اور اگر خدا پر یقین نہ ہو تو کم از کم آدمیوں کا اس کے دل میں ڈر پیدا ہو جائے گا اور وہ اس شر سے محفوظ رہے گا.خدا پر انسان یقین کر ی لے تو جان سکتا ہے کہ یہ بات کیسی کچی ہے وَاللهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ اب اس آیت کے ماتحت دیکھ لو کہ ہر ایک ملک میں جو جو ایجاد یں ہوئی ہیں جہاں اور ایجادیں بڑھیں وہاں مجرموں کے متعلق بھی بڑی بڑی ایجاد یں ہوئی ہیں.ایسے ایسے ہتھیار تیار ہوئے ہیں کہ لوہے کے دروازوں کو جس طرح پنیر کاٹا جاتا ہے کاٹ کر بلا کھٹکے کے ان میں سے گزر جاتے ہیں مگر اس کے مقابلہ میں ان مجرموں کا پتہ لگانے کے لئے بھی بڑی عجیب ایجادیں ہوئی ہیں.ایک ایسا آلہ ایجاد ہوا ہے کہ آدمی اس کا ایک سرا اپنے گھر میں رکھ دیتا ہے اور اس آلہ کا دوسرا سرا پولیس سٹیشن میں ہوتا ہے چور آتا ہے.چور بھی بڑی احتیاط کرتا ہے لیکن اس

Page 175

خطبات محمود جلد ۴ ۱۶۶ سال ۱۹۱۴ء کی ہر ایک حرکت کا پتہ پولیس والوں کو لگتا رہتا ہے اور اس کی ایک تصویر بھی اتر جاتی ہے یا بعض آدمی اس کا ایک سرا گھر میں اور دوسرا دفتر میں رکھ لیتے ہیں.چور آیا بس فوراً پتہ لگ گیا کہ فلاں کوٹھڑی میں چور ہے اور اسکا فوٹو بھی ساتھ ہی اتر آتا ہے.اور اسکا پتہ لگ جاتا ہے امراء کو اس سے بہت فائدہ پہنچا ہے اور وہ بہت کچھ ایسی وارداتوں سے محفوظ رہتے ہیں.شرارتیوں نے اپنی شرارتوں کی ایجادیں کیں.اور اللہ تعالیٰ نے ان کی خباثتوں کو ظاہر کرنے کیلئے سامان پیدا کر دیئے.میں تو اس کو بھی ایک پیشگوئی ہی سمجھتا ہوں.اگر چوروں نے ایسی ایجادیں کیں کہ ان سے ان کا جرم پوشیدہ رہے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے جرم کو ظاہر کرنے کے لئے سامان پیدا کر دیئے ہیں.یہ بڑی عبرت اور نصیحت کا مقام ہے.مجرم کو اپنے جرم پر دلیر کرنے والی چیز اور ان کیلئے یہ بڑی تسلی ہوتی ہے کہ ہم اپنے جرم کو چھپالیں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے بھی کیسے کیسے سامان پیدا کر دیئے ہیں کہ مجرم کا جرم کسی حالت میں مخفی نہیں رہ سکتا.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم مخفی در مخفی اور ظاہر حالات میں بھی اس کے فرمانبردار اور مطیع ہوں اور اس کے احکام کو ماننے والے ہوں.آمین ثم آمین.ل البقرة: ۷۴۷۳ البقرة : ١٩٠ الفضل ۳ ستمبر ۱۹۱۴ ء )

Page 176

خطبات محمود جلد ۴ 172 (۳۸) مومن عبرت کے سامان دیکھ کر ڈر جاتا ہے (فرموده ۴ ستمبر ۱۹۱۴ء) سال ۱۹۱۴ء حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد اس آیت کی تلاوت کی:.ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً وَإِنَّ مِن الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهرُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللهِ وَمَا اللهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ل پھر فرمایا:.بہت سے لوگ ایک واقعہ کو دیکھ کر اس کو یادر کھتے ہیں اور اس سے بہت فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن کچھ ایسی مخلوق بھی ہوتی ہے جو ایک نظارہ کو دیکھ کر جھٹ پٹ اسے فراموش کر دیتی ہے بھلا دیتی ہے اور ذہن سے اتار دیتی ہے.ایسے لوگ ہمیشہ ٹھوکریں کھاتے رہتے ہیں.انہیں ایک دفعہ نصیحت ہوتی ہے اس کو چھوڑ دیتے ہیں پھر ہوتی ہے پھر ترک کر دیتے ہیں اور ہر دفعہ انہیں نئے تجربہ اور نئی آزمائش کی ضرورت در پیش ہوتی ہے.دانا انسان ایک تجربہ شدہ بات کو حاصل کر کے اس سے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دیتا ہے مگر بیوقوف اور نادان انسان ہر دفعہ نیا تجربہ کرنا چاہتا ہے وہ کہتا ہے کہ ایک دفعہ اتفاقی طور پر یہ بات ہو گئی تھی.جس قدر ترقی کرنے والی اور بڑھنے والی قومیں دنیا میں ہوتی ہیں ان کے کاموں کا دارو مدار اتفاقی باتوں پر نہیں ہوتا بلکہ وہ ہر ایک کام کی وجہ اور ذریعہ دریافت کرتی ہیں.ایک

Page 177

خطبات محمود جلد ۴ ۱۶۸ سال ۱۹۱۴ء احمق اور تنزل میں جانے والا انسان کہتا ہے کہ اتفاق سے یہ بات ہو گئی ہے.مگر ہوشیار اور ترقی کرنے والا انسان کبھی اس طرح نہیں کہتا.وہ ہر ایک بات کی وجہ دریافت کر کے اگر اس کو اپنے لئے مفید اور فائدہ مند سمجھتا ہے ہے تو اس پر عملدرآمد کرنا شروع کر دیتا ہے.اور اگر مضر اور نقصان رساں پاتا ہے تو اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ان کی شرارت کی وجہ سے ان کو سزا دی لیکن انہوں نے اس بات کو نہ سمجھا بلکہ ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ پھر ان کے دل سخت ہو گئے اور اس سزا کو انہوں نے بھلادیا اور کہا کہ ایسے اتفاق ہو ہی جایا کرتے ہیں حالانکہ انہیں یہ سمجھنا چاہئے تھا کہ یہ سزا جو ہمیں ملی ہے یہ ہماری شرارتوں کا نتیجہ ہے.قوم تباہ ہوگئی ،سردار مارے گئے، شہر اور گاؤں ویران ہو گئے لیکن انہوں نے ان سب باتوں کو اتفاق پر ہی محمول کیا.اسی طرح اب کہا جاتا ہے.فرمایا کہ پتھر بھی ایسے نرم ہوتے ہیں کہ جن سے پانی نکل آتا ہے لیکن یہ خبیث ایسے ہیں کہ کبھی دانائی کی بات نہیں کرتے.رحم کا مادہ ان میں نہیں رہا، نیکی اور تقویٰ ان سے اُڑ گیا ہے.یہ روزانہ عبرت کے سامان دیکھتے ہیں لیکن پھر اندھے ہو کر گزر جاتے ہیں.ان کے دلوں میں نہ خوف خدا ہے نہ رحم ہے نہ مہربانی.اس لئے ہر ایک بات کو اتفاقی کہہ دیتے ہیں اور کبھی اس بات کے اسباب اور علتوں پر غور نہیں کرتے.اگر یہ غور کرتے تو انہیں معلوم ہو جا تا کہ یہ سزا جو ہمیں ملی ہے کہ ہم پر عذاب نازل ہو رہے ہیں یہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی اور نبیوں کے مقابلہ کی وجہ سے ہے لیکن یہ دن بدن سنگ دل سے سنگ دل ہی ہوتے چلے گئے جس کا نتیجہ یہ نکلاکہ تباہ ہو مومن کی شان :- مومن کی یہ شان نہیں ہوتی وہ عبرت کے سامان دیکھ کر ڈر جاتا ہے اور طرح طرح کے بہانے نہیں بناتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سناتے تھے کہ کسی گاؤں میں ہیضہ جو پڑا تو ایک شخص کسی کی لاش دیکھ کر کہنے لگا کمبخت پیٹ بھر کر کھاتے ہیں اس لئے مرتے ہیں.ہم تو ایک چپاتی کھاتے ہیں اس لئے بیمار بھی نہیں ہوتے.دوسرے ہی دن ایک جنازہ نکلا پو چھا گیا کہ کس کا ہے تو معلوم ہوا اس ایک چپاتی کھانے والے کا ہے.تو بد بخت لوگ سامان عبرت کو دیکھ کر اندھے اور بہرے ہو کر گزر جاتے ہیں.وہ لوگوں کو تباہ ہوتا دیکھتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ اوروں کیلئے ہی یہ ہلاکت ہے ہمارے

Page 178

خطبات محمود جلد ۴ ۱۶۹ سال ۱۹۱۴ء لئے نہیں.اور اپنے آپ کو ہر ایک قسم کے دکھوں اور تکلیفوں سے مامون اور مصئون سمجھتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے دل سخت ہو جاتے ہیں.بعض جگہ طاعون پڑی ہے تو ایسا بھی ہوا ہے کہ بجائے اس کے کہ اس سے لوگ نصیحت اور عبرت پکڑتے قبروں کو اکھیڑ کر مردوں کے کفن اتارتے رہے ہیں اور ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ مُلاں نے مُردے کو جلدی دفن کرنے کی وجہ سے اس کے زیور نہ اُتارنے دیئے اور پھر قبر کھود کرمیت کے ہاتھ اور کان زیور کیلئے کاٹ لئے.ان عبرتوں کو دیکھ کر بھی جن کے سامان خدا تعالیٰ کی طرف سے مہیا ہوتے ہیں کمبخت لوگ فائدہ نہیں اٹھاتے لیکن جو خدا تعالیٰ کے فرمانبردار اور نیک بندے ہوتے ہیں وہ ضرور نفع حاصل کر لیتے ہیں.یہ انسان بھی عجیب قسم کے ہوتے ہیں ہم نے ان کا دل تو نرم بنایا تھا حتی کہ اس میں ہڈی بھی کوئی نہیں رکھی تھی مگر ان کے دل پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو گئے روزانہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہیں لیکن پھر کہہ دیتے ہیں کہ یہ اتفاقی بات ہے.خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو اپنی باتوں کے سمجھنے اور ان سے فائدہ حاصل کرنے کی طاقت دے.تمہارے دلوں کو نرم کر دے اور محبت و اخلاص سے بھر دے.اور آپس میں اتفاق رکھنے کی توفیق دے.الفضل ۱۰ ستمبر ۱۹۱۴ ء ) البقرة:

Page 179

خطبات محمود جلد ۴ ۱۷۰ (۳۹) کائنات خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قواعد کے ماتحت چل رہی ہے (فرموده ۱۸.ستمبر ۱۹۱۴ء) سال ۱۹۱۴ء تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی :.افَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ا اس کے بعد فرمایا:.اس دنیا کے کارنانے پر غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے تمام کاموں کیلئے خواہ وہ کام دین کے ہوں خواہ دنیا کے خواہ وہ کام جسم کے متعلق ہوں خواہ وہ روح کے دوستوں کے متعلق ہوں یا رشتہ داروں کے، اپنے عزیزوں کے متعلق ہوں یا اپنے نفس کے، حکام کے متعلق ہوں یا رعایا کے، بڑوں کے متعلق ہوں یا چھوٹوں کے، دوستوں کے متعلق ہوں یا دشمنوں کے، عالموں کے متعلق ہوں یا جاہلوں کے ان کیلئے خدا تعالیٰ نے ضرور کچھ قواعد مقرر کئے ہوئے ہیں جن کی خلاف ورزی کبھی ہو ہی نہیں سکتی.تمام کائنات اور اس دنیا کے کارخانے کا کام ان قواعد کے ماتحت چل رہا ہے.ان کو سمجھنے اور ذہن نشین کر لینے کے بعد انسان بہت سی مشکلات اور مصائب سے بیچ سکتا ہے.یہ قواعد ایسے وسیع ہیں کہ کوئی بڑی سے بڑی چیز بھی ان سے باہر نہیں نکل سکتی اور کوئی چھوٹے سے چھوٹا ذرہ ان کی حکومت سے باہر نہیں رہ سکتا ہے.ہمارے بنائے ہوئے قواعد کمزور اور غلط ہو سکتے ہیں کیونکہ انسان کا علم بھی کمزور اور ناقص ہے.اور یہی وجہ ہے کہ بہت دفعہ انسان کے بنائے ہوئے

Page 180

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۴ء قواعد نیچے رہ جاتے ہیں اور کئی بڑی بڑی ہستیاں ان کو روند کر اوپر سے گزرجاتی ہیں.یا وہ بہت اوپر رہ جاتے ہیں، اس لئے کئی چھوٹی چھوٹی ہستیاں نیچے سے گزر جاتی ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ واسع اور محیط گل ہے اور اس کا علم ایک ایک ذرے کا احاطہ کئے ہوئے ہے، وہ خالق ہے، مالک ہے، رازق ہے، اس.اس کے مقرر کردہ قواعد سے کوئی چیز باہر نہیں جاسکتی.ان قواعد میں سے جو اس دنیا کے لئے بنائے گئے ہیں ایک قاعدہ ڈھیل کا ہے اور یہ میں نے اس کا نام اپنی زبان میں رکھا ہے اللہ تعالیٰ نے ہر ایک چیز کیلئے ڈھیل کا کچھ میدان مقرر کیا ہوا ہے حکیم اور علیم ہستی کے قواعد کبھی بلا حکمت نہیں ہوتے.ایک انسان تو کہتا ہے کہ فلاں بات یوں ہو جائے ورنہ یوں ہو جائے گالیکن اللہ تعالیٰ کبھی ایسا نہیں کرتا.اس نے سب کاموں کے قاعدوں میں مہلت اور ڈھیل کا میدان رکھا ہوا ہے اس کے اندر مختلف تغیرات میں سے انسان گزرتا ہے کبھی اس کی حالت کچھ ہوتی ہے اور کبھی کچھ.کئی انسان زنا کرتے ہیں.لیکن ہر ایک کو سزا نہیں ملتی.اسی طرح کئی انسان نیکیاں کرتے ہیں لیکن ہر ایک نبوت کے درجہ تک نہیں پہنچ سکتا.بہت دفعہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی نماز میں روتے روتے گھنٹوں سجدے میں گزار دیتا ہے.اور اتنی لمبی نماز پڑھتا ہے کہ تمام رات میں دو رکعت ہی ختم کرتا ہے.لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم اس کی اس نماز کی خوبصورتی اور عبادت کی عمدگی کو دیکھ کر یہ کہہ دیں کہ انبیاء کی عبادت سے بڑھی ہوئی ہے.اسی طرح ایک شخص کفر کے کلمے بگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو گالیاں دیتا ہے اس کی ذات کی طرف گند منسوب کرتا ہے لیکن پھر اسی وقت تباہ نہیں ہو جاتا.پہلے کی طرح ہی کھاتا پیتا، چلتا پھرتا ، اٹھتا بیٹھتا اور رہتا سہتا ہے.پھر ایک آدمی کو ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی سخت چیز نگل لیتا ہے جس کو اس کا معدہ ہضم نہیں کر سکتا.لیکن اسی دن اس کو قولنج نہیں ہو جاتا.بعض بچے شیشے کے ٹکڑے کھا جاتے ہیں اور نہیں مرتے.پھر اگر کوئی ایک قطرہ آرسنک ( سنکھیا ) کا پی جائے تو مرتا نہیں یا ایک لقمہ گھی کا کھالے تو موٹا نہیں ہو جاتا.اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ڈھیل کا میدان رکھا ہوا ہے.ایسا انسان ابھی اسکے اندر ہوتا ہے.یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ آج کل کے جنگوں میں تم دیکھ رہے ہو کہ ایک دن لکھا ہوتا ہے کہ جرمن فلاں جگہ سے آگے بڑھے اور دوسرے دن خبر ہوتی ہے کہ پیچھے ہٹادیئے گئے.ان باتوں کو لڑائی کا فیصلہ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ابھی اس میں ڈھیل ہے اس لئے یہ لڑائیاں میدان جنگ کی کارروائی کا نتیجہ نہیں پیدا کر سکتیں.اسی طرح انسان کو اس کے اعمال

Page 181

خطبات محمود جلد ۴ ۱۷۲ سال ۱۹۱۴ء کبھی کسی طرف دھکیل کر لے جاتے ہیں اور کبھی کسی طرف لیکن جو انسان نفس مطمئنہ کے درجہ کو پہنچ جاتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور جو دوسری طرف آخری نقطہ پر چلا جاتا ہے.وہ پھر ایسا گمراہ ہو جاتا ہے کہ کسی نصیحت کرنے والے کی نصیحت اور وعظ کرنے والے کا وعظ اس کیلئے مؤثر نہیں ہو سکتا.اس جنگ میں کامیاب ہونے والے انسان کی مثال اسی طرح ہوتی ہے کہ جس طرح ایک فاتح دشمن کے قلعے پر کھڑا ہوکر ٹھنڈی ہوا کھا رہا ہو اور اردگرد کے منظر اور سبزی سے لطف اٹھارہا ہو.اسے دیکھ کر اور پھر ایک ایسے سپاہی کو دیکھ کر جولڑائی میں بڑی جانبازی اور کوشش سے تلوار چلا رہا ہو ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ قلعہ پر چڑھ کر سیر کرنے والا بے کا رہے اور کوئی محنت نہیں کرتا لیکن اسے کیا معلوم ہے کہ اس نے مدتوں تلوار کھینچی اور محنت کی ہے اور اسی وجہ سے آج قلعہ تک پہنچا ہے.اس کا لڑائی میں تلوار چلانا اس کی فتح نہ تھی کیونکہ کبھی یہ ایک قدم آگے بڑھ آتا تھا اور کبھی اس کو پیچھے ہٹنا پڑتا تھا لیکن جب اس نے دشمن کو کامل شکست دی، تب جا کر قلعہ پر قبضہ کرنے کے قابل ہوا.تو ایک میدان خدا تعالیٰ نے بھی رکھ دیا ہوا ہے.بہت کم عقل ہوتے ہیں وہ لوگ جو اس میدان میں ترقی کا ایک قدم چل کر کہتے ہیں کہ ہم کامیاب ہو گئے.ایسے لوگوں کو شیطان گھسیٹ کر ایک قدم پیچھے پھینک دیتا ہے اس کے خلاف ایک ایسی قوم بھی ہوتی ہے جو اگر اصل راہ سے ایک قدم پیچھے ہٹ جائے تو مجھتی ہے کہ اب ہمارے سنبھلنے کا کوئی طریق نہیں.ایسوں کو بھی شیطان اُبھر نے نہیں دیتا.کامیابی وہی انسان حاصل کر سکتا ہے جو اگر آگے بڑھے تو خوش نہیں ہوتا اور اگر پیچھے ہٹے تو مایوس نہیں ہوتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جہاں میں نے پہنچنا ہے وہ اور ہی جگہ ہے.ایک طبیب مریض کو دیکھ کر کہہ سکتا ہے کہ اس کی حالت اچھی ہے نبض چلتی ہے، طاقت قائم ہے.مگر اس کے ماں باپ وغیرہ رو بیٹھتے ہیں.پھر کبھی ایک طاقتور انسان ہوتا ہے اور لوگ اسے موٹا تازہ سمجھتے ہیں لیکن طبیب کہ دیتا ہے کہ اس کے دل کو ایسا صدمہ پہنچا ہوا ہے ممکن ہے کہ ذراسی زور کی آواز سے اس کی جان نکل جائے.تو انسان کے لئے اپنی حالت کی نسبت بظا ہر فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن جب وہ کسی حد کو پہنچ جاتا ہے تو پھر اس کی حالت کا اندازہ کرنے میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں رہ جاتا.اگر ایک آدمی کچھ عرصہ بے کا رر ہے تو اس کے اعضاء کسی قدر کام کرنے کے ناقابل ہو جاتے ہیں لیکن اگر وہ مطلقا ان سے کوئی کام نہ

Page 182

خطبات محمود جلد ۴ ۱۷۳ سال ۱۹۱۴ء لے تو وہ بالکل سکتے ہو جاتے ہیں.یہی حال روحانیت کا ہے.روحانیت میں وہ درمیان کا راستہ جس کا خدا تعالیٰ نے ڈھیل نام رکھا ہے اس میں انسان کی کامیابی اور شکست حقیقی نہیں ہوتی.اس سے اکثر لوگوں کو دھوکا لگتا ہے وہ چند روز اچھی طرح نمازیں پڑھ کر یا ایک مہینہ روزے رکھ کر خیال کرتے ہیں کہ ہم پاک اور معصوم بن گئے ہیں.لیکن انہیں کیا معلوم ہوتا ہے کہ شیطان ان کی بغلوں میں باہیں دیئے کھڑا ہوتا ہے.اور ان کو ایک ہی دھکا دے کر تحت القمری میں گرا دیتا ہے.حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر انسان گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے.اور اگر نیکی کرتا ہے تو نور آ جاتا ہے.آخر کاران دونوں میں سے کوئی غالب آجاتا ہے کہ ہاں انسان پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جبکہ وہ شیطان کی زد سے محفوظ ہو جاتا ہے یا اس کے برخلاف اس کی حالت ایسی گر جاتی ہے کہ پھر سنبھلنے کے قابل نہیں رہتا.کئی لوگ اپنے خیال میں دوسروں پر اس رنگ میں رحم کرتے ہیں کہتے ہیں ممکن ہے کہ وہ ہدایت پا جائیں.اور بعض اس کی ضد میں یہ کہتے ہیں کہ نبی بھی تو انسان ہی ہوتا ہے وہ بھی زنا کا مرتکب ہو سکتا ہے.یہ دونوں گروہ غلط اور بیہودہ خیالات رکھتے ہیں.ایک رسول بے شک انسان ہی ہوتا ہے لیکن وہ اس حد سے گزر چکا ہوتا ہے جہاں تک کہ کسی گناہ کے کرنے کا امکان ہوتا ہے.اسی طرح ابو جہل اور فرعون بھی بندے ہی تھے لیکن وہ گمراہی کی اس حد تک پہنچ چکے تھے جہاں سے واپس لوٹانا ممکن تھا.اور ان کیلئے ہلاکت ہی ہلا کت تھی.یہی مثال اس زمانہ میں دیکھ لوکہ لیکھرام کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام تھا کہ ہلاک ہو جائے گا اس کیلئے کوئی شرط وغیرہ نہیں تھی کیونکہ یہ اس حد تک پہنچ چکا تھا کہ اس کے اندر نور کا پیدا ہونا ناممکن تھا.اور جس طرح ایک ہاتھ خشک ہو جانے یا آنکھ کا نور ضائع ہو جانے کے بعد پھر طاقت اور نور پیدا نہیں کیا جا سکتا.اسی طرح اس کا دل ایسا تاریک ہو گیا بھت کہ اس میں نور پیدا نہیں ہوسکتا تھت اس لئے خدا تعالیٰ نے حکم دیا کہ یہ بلا شک ہلاک کیا جائے گا.یہ کوئی اس پر ظلم نہیں تھا بلکہ اس کے اعمال کا عین نتیجہ تھا لیکن آتھم اس کی طرح نہیں تھا س وہ ہلاکت کی حد سے کچھ ورے تھا اور اسے ابھی کچھ ڈھیل کا میدان اور عبور کرنا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کیلئے شرط لگا دی کہ اگر یہ تو بہ کر لے گا تو ہلاک نہیں ہوگا ورنہ تباہ ہو جاوے گا.اس نے پہلے تو کہ دیا کہ میں نے محمد ( رسول الله ال سی ایم ) کو دجال نہیں کہا.لیکن جب اسے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نیکی

Page 183

خطبات محمود جلد ۴ ۱۷۴ سال ۱۹۱۴ء دیکھ کر ڈر جانے کی وجہ سے ہلاکت سے بچالیا تو اس نے خیال کیا کہ میرے متعلق جو پیشگوئی تھی وہ جھوٹی ہی تھی.اس نے اپنے ڈر جانے والی حق بات کو چھپا لیا اور اسے ظاہر نہ کیا اس لئے پھر تباہ ہو گیا.تو خدا تعالیٰ نے ہم کو ہر طرح کے نظارے دکھا دیئے کہ بعض انسان ایسے ہوتے ہیں جو آگے بڑھ سکتے ہیں لیکن بعض میں آگے بڑھنے کی طاقت نہیں ہوتی.بعض انسان ایسے ہوتے ہیں جو گناہ کر کے اس پر فخر کرتے ہیں وہ شرارت سے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں.اور بعض ایک گناہ مجبوری سے کرتے ہیں مثلاً ان پر حرص غالب آجاتی ہے طمع اندھا کر دیتا ہے، جوش محبت ، دشمنی وغیرہ جذبات مجبور کر دیتے ہیں مگر ایک گناہ ایسا ہوتا ہے جو کہ انتہائی درجہ کو پہنچ جاتا ہے.وہ فوری جوش سے نہیں ہوتا بلکہ نا پاک طبیعت کا نتیجہ ہوتا ہے.ایسے انسان بے حیا ہو جاتے ہیں اور گرتے گرتے ایسے گر جاتے ہیں کہ پھر کبھی اٹھ نہیں سکتے اور ان کو ہدایت نصیب نہیں ہو سکتی.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایسے ہی لوگوں کا ذکر فرمایا ہے کہ کیا ایسے آدمیوں سے تم ایمان لانے کی طمع رکھتے ہو؟ اس سے معلوم ہوا کہ کسی کی نسبت ایمان لانے کی طمع رکھنی ٹھیک ہے کیونکہ یہ نہیں فرمایا کہ کیوں طمع رکھتے ہو؟ اللہ تعالیٰ نے یہاں ایک خاص گروہ کا ذکر فرمایا ہے کہ کیا تم ان کے ایمان کی طمع رکھتے ہو کہ وہ تمہاری بات مان کر نیکی کریں گے نہیں وہ کبھی ایسا نہیں کریں گے.ایک کمزور ایمان انسان ممکن ہے کبھی اپنی کمزوری سے مجبور ہو کر انسان کے کلام میں تحریف کر دے مگر ایک انسان جو ایک کلام کو خدا تعالیٰ کا کلام مانتا ہو اور اسے اس بات کا یقین بھی ہو اور پھر اس میں تحریف کرے تو وہ بہت بڑے جرم کا مرتکب ہو جاتا ہے.یہاں خدا تعالیٰ نے يَسْمَعُونَ الْقُرْآن نہیں فرمایا بلکہ کلام اللہ فرمایا.اس لئے اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو قرآن شریف کو کلام اللہ سمجھتے ہیں ورنہ ایسے لوگ تو بہت ہیں جو قرآن شریف کو کلام اللہ نہیں سمجھتے.پھر ایسے لوگ کیا کرتے ہیں.اس میں تحریف کر دیتے ہیں.تحریف تو غلطی سے بھی ہو جاتی ہے مثلاً کسی نے غلط تفسیر کر دی.لیکن یہ ایسا نہیں کرتے بلکہ یہ خوب سمجھتے ہیں کہ اس کلام کا یہ مطلب نہیں.مگر پھر وہ کہتے ہے ہیں کہ یہی ہے.پھر بعض دفعہ انسان سمجھتا ہے کہ یہ مطلب ہے مگر اس سے بے جانے بوجھے تحریف ہو جاتی ہے مثلاً جلدی سے کوئی کلمہ نکل جاتا ہے حالانکہ انسان کے دل میں کچھ اور ہوتا ہے.جس طرح حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص نے کہا اے خدا تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا خدا ہوں گے وہ اصل بات جانتا تھا مگر اس

Page 184

خطبات محمود جلد ۴ ۱۷۵ سال ۱۹۱۴ء کے منہ سے یہ نکل گیا اور اس نے جان کر ایسا نہ کہا تھا.بہت سے موقعے ایسے ہوتے ہیں کہ انسان سمجھتا کچھ ہے اور کہہ کچھ جاتا ہے.فرمایا کہ جب انسان میں یہ تین باتیں ہوں کہ ایک تو وہ خدا کا کلام سمجھتا ہو.دوسرے اس کے معنے اور مطلب بھی سمجھتا ہو.تیسرے تحریف بھی جان بوجھ کر کرتا ہو.پھر ایسے انسان سے ایمان کی کیا امید رکھ سکتے ہو.وہ تو گناہ کے اس درجہ کو پہنچ چکا ہے کہ اب اس سے واپس آنا اس کیلئے نام ممکن ہے.یہ شرائط اس لئے لگائی ہیں کہ ممکن ہے کہ ایک آدمی تمام قرآن سے واقف نہ ہو.اس لئے ایک آیت کی تفسیر میں ٹھو کر کھا جائے.سارے قرآن کا جاننے والا تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا.پہلے مفسرین اور علماء کی آج ہمیں غلطیاں معلوم ہو رہی ہیں اور ممکن ہے کہ ہماری غلطیاں آئندہ آنے والی نسلوں کو معلوم ہوں.قرآن خدا تعالیٰ کا کلام ہے بندے کا کیا مقدور ہے کہ اس سارے کا احاطہ کر سکے.مگر اس قسم کے لوگ اس حد تک خوب سمجھتے ہیں جہاں تک کہ انہیں بیان کرنا ہوتا ہے.لیکن پھر جان بوجھ کر شرارت کرتے ہیں.ہمارے سلسلہ کے بھی بعض ایسے دشمن ہیں جو باوجود اصل معنی جاننے کے اور اور معنے کرتے ہیں.بڑے بڑے مخالف حضرت صاحب کی تحریروں کا مطلب خوب سمجھتے ہیں لیکن ظاہر نہیں کرتے اور اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ایسے لوگ کبھی مباہلہ کے میدان میں نہیں آتے.خواہ انہیں کتنی ہی غیرت اور جوش دلا یا جاوے.حضرت صاحب کی عبارات کو خوب سمجھتے ہیں کچھ اگلا اور کچھ پچھلا حصہ کاٹ کر شائع کر دیتے ہیں.غرضیکہ بعض لوگ گناہ کی حد کو پہنچ جاتے ہیں جس کا نتیجہ انہیں بہت برا حاصل ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو آدمی ہمارے کلام کو ہمارا کلام سمجھتا ہو پھر اس کے معنی بھی جانتا ہو.پھر جان بوجھ کر لوگوں کو ایسے معنے بتائے جو اصل میں نہ ہوں تو ایسے آدمی کی نسبت ایمان لانے کا طمع رکھنا کچھ مفید نہیں ہو سکتا.ایسا انسان ڈھیل کی حد کو طے کر چکا ہوتا ہے اس کیلئے ہدایت کی امید رکھنا فضول ہے.اب اگر کوئی کہے کہ ایسے اشخاص کو بھی کچھ نہ کہو کیونکہ وہ شاید مان جائیں یا ایک شخص کہے کہ نبی کا انجام دیکھنا چاہئیے کیا ہوتا ہے.تو ایسا آدمی پاگل ہے وہ شخص جو گمراہی کی آخری حد کو پہنچ چکا ہو وہ کبھی ہدایت نہیں پا سکتا.اور جو نبی ہو اس کا انجام کبھی برانہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم کارخانہ قدرت پر غور نہیں کرتے.ہر ایک چیز کیلئے دو نقطے

Page 185

خطبات محمود جلد ۴ 124 سال ۱۹۱۴ء ہوتے ہیں جیسے بعض اوقات صحت بیماری پر غالب آجاتی ہے اس لئے اس کو دبا لیتی ہے.یا بعض دفعہ بیماری صحت پر غالب آجاتی ہے.ایک بیمار کی درمیانی حالت میں کبھی صحت غالب آجاتی ہے اور کبھی بیماری لیکن انتہاء میں جو غالب ہو وہی نتیجہ سمجھا جاتا ہے اور سب کاموں میں اسی طرح ہوتا ہے.بعض انسان اپنے دماغ کا استعمال چھوڑ دیتے ہیں.پھر انہیں کوئی بات سمجھ ہی نہیں آسکتی.یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پرانا خادم پیرا ہوتا تھا.اس کو باوجود کئی دفعہ سمجھانے کے بھی مذہب کی اتنی سمجھ نہ آئی کہ ہوتا کیا ہے.لیکن ایسے آدمیوں کے مقابلہ میں وہ بھی ہوتے ہیں جو اپنے جان و مال کی عزت و آبرو، خویش واقارب تک کو چھوڑ دیتے ہیں مگر اپنے تک شیطان کا ہاتھ نہیں آنے دیتے.ان سے شیطان ناامید ہو جاتا ہے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اصطلاح میں ان کا شیطان بھی مسلمان ہو جاتا ہے.ایسے لوگوں کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ درمیانی حد کو عبور کر چکے ہوتے ہیں.انسان کے اند ر کبھی ملائکہ نیکی کی تحریکیں کرتے ہیں اور کبھی شیطان بدی کی ترغیب دیتا ہے ان کی آپس میں خوب جنگ ہوتی ہے.پھر اگر خود انسان ملائکہ سے مل جائے تو یہ دونوں مل کر شیطان کو پچھاڑ دیتے ہیں اور اگر شیطان سے مل جائے تو دونوں ملائکہ پر غالب آ جاتے ہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ جب یہ خود شیطان کے ساتھ مل کر اپنے آپ کو تباہ کر رہا ہے تو ہمیں بچانے کی کیا ضرورت ہے.اس اندر کی جنگ کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی جنگ نہیں آسکتی.جرمنی اور فرانس میں جنگ ہورہی ہے یہ ایک دوسرے کو مارتے مارتے آخر کار صلح کر لیں گے.لیکن جو انسان کے اندر جنگ ہوتی ہے اس کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ یا تو انسان کو خدا کے پاس جا بٹھاتی ہے.ابد الآباد تک جہنم میں ڈال دیتی ہے.اس لڑائی کے مقابلہ میں دنیا کی فوجیں چیز ہی کیا ہیں.انسان کو خدا کا قرب حاصل کرنے کیلئے ہزاروں خواہشوں کا ہر روز خون کرنا پڑتا ہے اس کی تلوار کبھی میان میں نہیں ہوتی کیونکہ جب تک وہ قتل عام جاری نہ رکھے وہ کامیاب نہیں ہوسکتا.اس کے مقابلہ میں بعض ایسے انسان جو کہ نیکوں کا خون کرتے ہیں اور اپنے نیک ارادوں اور خواہشوں کو بری باتوں پر قربان کر دیتے ہیں.تو انسان کے اندر ایک بڑی بھاری جنگ شروع ہے اس لئے اس سے کسی وقت غافل نہیں ہونا چاہیئے.اور تھوڑی سی کامیابی حاصل کر ے یہ نہ سمجھ لینا چاہیئے کہ اب اس جنگ کا فیصلہ ہو گیا ہے.یہ فیصلہ اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک کہ نفس امارہ ایسا پا مال نہ ہو جائے کہ

Page 186

خطبات محمود جلد ۴ 122 سال ۱۹۱۴ء اسے پھر اٹھنے کی طاقت ہی نہ رہے.اگر دل میں کبھی بدی کی تحریک ہوتو یہ سمجھ لیناچاہئے کہ ابھی دشمن طاقتور ہے اس کے قلع قمع کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.پھر جب شیطان بالکل ناامید ہو جائے تو وہ وقت مومن کیلئے خوشی کا وقت ہوتا ہے.اسی طرح جب کافر کی تباہی کا وقت قریب آجاتا ہے تو مومنوں کو اس کی نسبت حکم ہو جاتا ہے کہ اب اس کو چھوڑ دو.اگر کوئی شخص مُردہ کو اس لئے دوائی پلائے کہ شاید زندہ ہو جائے کیونکہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں حضرت یعقوب کا قول بیان فرمایا ہے.وَلَا تَايْنَسُوا مِنْ زَوْحِ اللهِ إِنَّهُ لَا يَايُنَسُ مِنْ روح الله إلَّا الْقَوْمُ الْكَفِرُونَ ھے تو وہ پاگل ہے.یا اللہ تعالیٰ کے قانون سے ناواقف ہے کیونکہ مردہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ جہاں خدا نے کہہ دیا ہے کہ اس سے علیحدہ ہو جاؤ اور ایک گڑھے میں اس کود با دو.اگر نا امید نہ ہونا خدا تعالیٰ کا حکم ہے تو علیحدہ ہو جانا بھی تو اسی کا حکم ہے.اسی طرح جب کافر اپنے کفر میں بڑھ رہا ہو لیکن ابھی وہ ڈھیل کے میدان کے اندر ہو تو ہمیں حکم ہے کہ اس سے نا امید نہ ہو جاؤ اور اس کے ایمان لانے کی طمع رکھو اور اس کیلئے کوشش کرو لیکن اگر وہ اس حالت کو پہنچ جائے جہاں خدا تعالیٰ کا یہ فتویٰ ہے کہ اب ہدایت نہیں پاسکتا.تو ہم کو اس پر وقت ضائع کرنے کی بجائے اس کی طرف متوجہ ہونا چاہیئے جو کہ قبول کرنے والا ہو.ہر ایک مومن کو دیکھنا چاہیے کہ شیطان میرے کاموں میں تو شریک نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تو وہ سمجھے کہ میں ابھی اس حد تک نہیں پہنچا جہاں کہ شیطان سے بالکل محفوظ رہ سکتا ہوں.ایسا مومن ابھی میدان جنگ میں ہے اس کو یقین کرنا چاہیئے کہ دشمن ابھی بھا گا نہیں.وہ مومن جو اپنے نفس کے بدلے خدا کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو بھی غافل نہیں ہونا چاہیئے یہاں تک کہ دشمن اس سے بالکل طمع چھوڑ دے.کبھی تم نے دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس کوئی شخص اس لئے آیا ہو کہ آپ کو سمجھائے لیکن کئی احمدی ایسے ہیں کہ جن کے پیچھے لوگ لگے رہتے ہیں اور اپنے قبضہ میں کرنا چاہتے ہیں.تو جو مومن یہ دیکھے کہ دشمن مجھ سے طمع رکھتا ہے اسے سمجھ لینا چاہیئے کہ وہ کامیابی کے انتہائی نقطہ پر نہیں پہنچا.اپنی حالت کے پر کھنے کا یہ ایک بہت عمدہ معیار ہے.شیطان کا مومنوں کی طرف سے نا امید ہونا یہ ہے کہ وہ ان کو کسی برے کام کی طرف ترغیب دینا چھوڑ دے لیکن اس کا مسلمان ہونا یہ ہے کہ مومن اس درجہ کو پہنچ جاوے کہ

Page 187

خطبات محمود جلد ۴ ۱۷۸ سال ۱۹۱۴ء وہی لوگ جو اس کی تکالیف کا موجب ہوتے تھے ، اس کے پاس آکر کہیں کہ ہمیں سمجھاؤ اور سیدھی راہ بتاؤ.دیکھو حضرت مسیح موعود کے پاس پہلے لوگ اس لئے آتے کہ سمجھا ئیں لیکن پھر وہی مقابلہ پر آنے والوں میں سے ہی اس لئے آئے کہ ہمیں سمجھاؤ اور اپنے ساتھ ملا لو.اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم اس درجہ اور اس مقام کو پہنچ جائیں.جہاں شیطان اور اس کے دوستوں کی تمام امیدیں منقطع ہو جائیں اور وہ مایوس ہو کر بیٹھ رہیں.البقرة: 1 الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۱۴ء) کے مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحه ۳۸۶ المكتب الاسلامية بيروت ۱۳۱۳ھ ے عیسائی پادری ڈپٹی عبد اللہ آتھم اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ۲۲ مئی ۱۸۹۳ء سے لے کر ۵.جون ۱۸۹۳ ء تک بمقام امرتسر ہونے والے مباحثہ میں عیسائیوں کی طرف سے پیش ہوا.بخاری کتاب الدعوات باب التوبة ه یوسف : ۸۸

Page 188

خطبات محمود جلد ۴ ۱۷۹ (۴۰) نفاق بہت بڑی مصیبت ہے (فرموده ۲۵.ستمبر ۱۹۱۴ء) سال ۱۹۱۴ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی :.وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَا بَعْضُهُمُ إلى بَعْضٍ قَالُوا تُحَدِ ثُوْنَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَاجُو كُمْ بِهِ عِنْدَ رَبِّكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ اَوَلَا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ! اس کے بعد فرمایا:.دنیا کی بڑی بڑی مصیبتوں میں سے ایک نفاق کی مصیبت بھی ہے.منافق انسان کا حملہ بہت خطرناک حملہ ہوتا ہے.سامنے سے حملہ کرنے والا انسان خواہ کیسا ہی بہادر، دلیر اور طاقتور کیوں نہ ہو اور جس پر حملہ کیا گیا ہو وہ خواہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو لیکن پھر بھی وہ ضرور کچھ نہ کچھ مقابلہ کرتا ہے.لیکن منافق انسان جو پوشیدہ اور خفیہ طور پر حملہ کرتا ہے، دوست بن کر دشمنی کرتا ہے،ساتھ دے کر عداوت کا ثبوت دیتا ہے اور محبت جتا کر تکلیف اور دُکھ پہنچاتا ہے اس کا حملہ نہایت خطرناک ہوتا ہے.کوئی کتنا ہی بڑا پہلوان کتنا ہی مضبوط نوجوان اور کتنا ہی دانا ہو لیکن اگر وہ کنویں میں جھانکنے لگے تو ایک چھوٹا بچہ بھی اسے اچانک دھگا دے کر کنویں میں گرا سکتا ہے.بڑے بڑے جرنیل اور سپہ سالار جن کی شکل دیکھ کر دشمنوں کے حواس باختہ ہو جاتے ہیں اور وہ کانپنے لگتے ہیں ان کو بہت چھوٹے چھوٹے اور مریل انسان منافقانہ رنگ میں قتل کر دیتے ہیں.

Page 189

خطبات محمود جلد ۴ ۱۸۰ سال ۱۹۱۴ء حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خلافت کے زمانہ میں کس قدر رعب اور جلال تھا کہ بڑے بڑے بادشاہ نام سن کر کانپ جاتے تھے.ایک دفعہ ایک رومی بادشاہ نے سفیر کو آپ کی طرف بھیجا تو اس نے آکر کسی مسلمان سے پوچھا کہ بادشاہ کا کون سا حل ہے.اس نے کہا کہ کونسا بادشاہ ہمارا تو کوئی بادشاہ نہیں.سفیر نے کہا کہ عمر تو اس نے کہا کہ اوہ! خلیفہ ! اس کا محل کیا ہونا ہے.مسجد میں جا کر دیکھو لیٹے ہوئے ہوں گے.وہاں گیا تو پتہ لگا کہ باہر گئے ہوئے ہیں.وہ بھی وہیں پہنچا اور دیکھا کہ زمین پر چادر بچھائے لیٹے ہوئے تھے اس نے اپنے خیال میں بڑا عظیم الشان نقشہ جمایا ہوا ہوگا کہ وہ عمر جس نے سارے یورپ اور ایشیاء کے ساتھ جنگ شروع کی ہوئی ہے وہ بڑے عالیشان محلوں میں رہتا ہوگا اس کا دربار بڑی شان وشوکت کے ساتھ لگتا ہوگا.لیکن وہ زمین پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو لیٹا دیکھ کر ایسا مبہوت ہوا کہ بول ہی نہیں سکتا تھا.آپ نے اس کو فرمایا کہ کہو کیا بات ہے ڈرو نہیں اور اپنا مطلب بیان کرو.تو آپ کا اس قدر رعب تھا کہ لوگوں کی زبان بھی بند ہو جاتی تھی لیکن ایک خبیث انسان ۲ نے جو کہ نہ کوئی بڑا بہادر تھا اور نہ ہی دلیر.نہ وہ عقلمند اور مدبر تھا اور نہ کوئی مشہور و معروف سردار، صبح کی نماز پڑھنے کے لئے نکلتے وقت آپ کو چھری سے مار دیا.روم کا قیصر اور ایران کا کسریٰ جو کام نہ کر سکے وہ ایک نہایت پاچی سے اور خبیث انسان نے منافقت سے کر دیا.لاکھوں فوجیں آپ پر چڑھ کر آئیں اور دشمنوں نے آپ کی جان لینے کے واسطے بڑا زور مارا لیکن کچھ نہ کر سکے.اور وار چلایا تو ایک حقیر اور غیر معروف انسان نے جس کی کوئی طاقت اور حقیقت نہ تھی پر وہ صرف نفاق کی وجہ سے کامیاب ہو گیا.تو بے شک حضرت عمر رضی اللہ عنہ بڑے بہادر اور دلیر تھے لیکن نفاق کا علاج ان کے پاس بھی نہ تھا.وہ انسان جو میدان جنگ میں موت کی ذرا پرواہ نہیں کرتا اور بہادرانہ اپنی تلوار چلاتا ہے اس کو اگر کوئی دھوکا سے زہر دے دے تو اس کا وہ کیا مقابلہ کر سکتا ہے.منافق کا حملہ بہت خطرناک ہوتا ہے.وہ اندر ہی اندر اور خفیہ طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے.یوں اگر بادشاہ کو اپنے دشمن کا علم ہو تو وہ اپنے ساتھ فوج رکھے گا.اور ہر وقت چوکس رہے گا.لیکن اگر وزیر ہی اس کی جان کا پیاسا ہو تو اس کا وہ کوئی علاج نہیں کر سکے گا کیونکہ اس کی دوستی نے اس کے نفاق پر پردہ ڈالا ہوا ہے.یہی وجہ ہے کہ منافق کا حملہ بہت سخت ہوتا ہے.قرآن شریف میں اسی وجہ سے منافق کو بہت برا کہا گیا ہے.ایک طرف نفاق کے نقصان کی اہمیت کو دیکھ کر ایک رذیل سے رذیل انسان

Page 190

خطبات محمود جلد ۴ ۱۸۱ سال ۱۹۱۴ء بڑے بڑے بہادروں اور جانبازوں کی جان لے سکتا ہے.اور ادھر آنحضرت مسی سی ایم کے پاس جہاں ہزاروں جانیں نثار کرنے والے تھے وہاں ایسے لوگ بھی پا کر جو صرف اس بات کے منتظر رہتے تھے کہ موقع ملے تو حملہ کر دیں گے اور پھر آپ ان کو علیحدگی میں بات چیت کرنے کا موقع دیتے تھے.تو ان باتوں کو اور آپ کے دعوی کی نوعیت کو دیکھ کر آپ کے صحیح سلامت رہنے سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کا کس قدر دشمنوں پر رعب اور غلبہ تھا.بادشاہت اور حکومت کے لحاظ سے آنحضرت ﷺ کی وہ شوکت کہاں ہے تھی جو حضرت عمر کی تھی مگر ان پر باوجود اتنے رعب کے بھی چھری چلا ہی دی گئی.اس کے مقابلہ میں آنحضرت مصلی یا تم کو دیکھو کہ کتنا بڑا جتھا منافقین کا آپ کے اردگر در ہتا تھا مگر ان کی بات کرتے ہوئے بھی جان نکلتی تھی.وہ اکیلے اور تنہا آپ سے ملتے تھے مگر کسی کی مجال نہ تھی کہ ہاتھ اٹھانے کی جرات کر سکے.وہ سب آپ کی نظر اُٹھانے سے ہی بھاگ پڑتے تھے.یہ خدا تعالیٰ کی طاقت اور قدرت تھی جو کہ آپ کی زندگی میں نظر آتی تھی.ورنہ جو خبیث انسان حضرت عمر کو قتل کرنے میں کامیاب ہوا وہ آسانی سے آپ پر حملہ کرنے کا مرتکب ہوسکتا تھا.یہ جو آیت میں نے پڑھی ہے اس میں منافقوں کا ذکر ہے منافق لوگوں کے دلوں میں اتنا ڈر ہوتا ہے کہ جب مسلمانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے خادم ہیں.ہم اپنی جان اور مال سے تمہاری مدد کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن جب جُدا ہوتے ہیں تو آپس میں کہتے ہیں کہ مسلمانوں سے زیادہ کھل کر باتیں نہ کیا کرو پھر وہ ہمیں تکلیف دیں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا ان کو معلوم نہیں کہ ہم ان کی تمام باتوں کو جانتے ہیں جو کہ چھپاتے ہیں یا جن کا اظہار کرتے ہیں.ہمارے زمانہ میں بھی منافقوں کا ایک گروہ پیدا ہو گیا تھا جو کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم سے جدا کر دیا ہے.پچھلے دنوں میں نے رویا میں دیکھا تھا کہ ایک بڑا عظیم الشان مکان ہے اس میں کچھ سوراخ ہیں اور اس کی چھت میں دو تین کڑیوں کی جگہ خالی ہے.مجھے یہ بتایا گیا کہ یہ خالی جگہ نہیں بلکہ یہاں کے منافق ہیں.اس کے بعد خدا تعالیٰ نے ان میں سے کچھ لوگوں کو نکال دیا.پانچ چھ دن ہوئے ہیں کہ رویا میں مجھے ایک اور شخص دکھا یا گیا ہے.ایک مکان میں تہجد کی نماز پڑھ رہا ہوں میرے دل میں کھٹکا پیدا ہوا کہ کوئی شخص چوری کے ارادے سے اس مکان میں داخل ہوا ہے میں اس خیال سے کہ وہ کوئی چیز نہ چرالے.جلدی نماز ختم کر کے اسکی طرف بڑھا تو وہ بغیر کوئی چیز اٹھانے کے بھاگ گیا.اس وقت اس نے چوروں

Page 191

خطبات محمود جلد ۴ ۱۸۲ سال ۱۹۱۴ء کی طرح تمام کپڑے اتار کر صرف لنگوٹی باندھی ہوئی تھی.میرے دل میں یہ ڈالا گیا کہ یہ منافق ہے جو کہ نقصان پہنچانا چاہتا ہے لیکن نہیں پہنچا سکے گا.تو منافق خفیہ خفیہ اپنی کارروائی میں لگے رہتے ہیں اور وہ خود بھی بڑی مشکلات میں ہوتے ہیں کیونکہ انہیں دونوں طرفوں کو خوش رکھنا پڑتا ہے اس لئے وہ ایک طرف کی باتیں دوسری طرف اور ان کی باتیں دوسروں کی طرف پہنچاتے رہتے ہیں اور اس بات سے بھی ڈرتے ہیں کہ یہی بات نہ کھل جائے اس لئے وہ بیچ بیچ کر پوشیدہ طور پر باتیں کرتے ہیں اور نقصان پہنچانے کے درپے رہتے ہیں.لیکن جب کوئی کام اللہ تعالیٰ کی منشاء کے ماتحت ہورہا ہو تو وہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے.منافق انسان کی حالت دین اور دنیا دونوں میں خراب اور ابتر ہی رہتی ہے کیونکہ کوئی ان کا اعتبار نہیں کرتا.بہت سے ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ کسی بادشاہ نے رشوت کا لالچ دے کر کسی کو قتل کروادیا.لیکن جب وہ انعام لینے آیا تو اس کو یہی انعام ملا کر قتل کر دیا گیا.تو واقعہ میں دانا انسان منافق کا کبھی اعتبار نہیں کرتا اور منافق کبھی سکھ نہیں پاسکتا.میں ایسے انسان کو نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ وہ ہمارا کچھ نقصان نہیں کر سکے گا اور اس کے پاس صرف لنگوٹی ہی رہ جائے گی.وہ سمجھ جائے اور منافقت سے باز آجائے.ورنہ اللہ تعالیٰ ہر ایک پوشیدہ اور ظاہر بات کو جانتا ہے.وہ یہ نہ سمجھے کہ میں اپنے نفاق پوشیدہ رکھ سکوں گا خدا تعالیٰ ضرور اسکی باتوں کو ایک دن ظاہر کر دیگا اور پھر اسے منہ دکھانا بھی مشکل ہو جائے گا.مجھے ایک واقعہ یاد کر کے مزا آ جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کس طرح پوشیدہ باتوں کو ظاہر کرتا ہے.میں نے اخبار میں پڑھا کہ کچھ بنگالی طالب علم فرانس کے کسی شہر کے ہوٹل میں کھانا کھا رہے تھے اور ایک کمشنر کی نقلیں اتار رہے تھے کہ وہ یوں یوں کیا کرتا تھا.جب وہ باتیں ختم کر چکے تو ایک آدمی جو کہ ان کے سامنے بیٹھا ہوا تھا.اُٹھ کر ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں آپ سے معافی مانگتا ہوں کہ ایسی حرکات مجھ سے ہی سرزد ہوتی رہی ہیں.اس شخص کے اچانک بول اٹھنے سے وہ سخت شرمندہ ہوئے اور معافی مانگی تو خدا تعالیٰ بڑے بڑے بھید ظاہر کر دیتا ہے.آنحضرت صلی ا لی ایم کے زمانہ میں ایک صحابی نے اپنے رشتہ داروں کو مکہ پر مسلمانوں کے حملہ کرنے کی خبر پوشیدہ طور پر پہنچانی چاہی تاکہ اس ہمدردی کے اظہار کی وجہ سے وہ اس کے رشتہ داروں سے نیک سلوک کریں.لیکن آنحضرت صالنا ہی تم کو الہام کے ذریعہ یہ بات بتا دی گئی.آپ نے حضرت علی اور چند ایک اور صحابہ کو بھیجا کہ فلاں جگہ ایک عورت ہے اس سے جا کر کاغذ

Page 192

خطبات محمود جلد ۴ ۱۸۳ سال ۱۹۱۴ء لے آؤ.انہوں نے وہاں پہنچ کر اس عورت سے کاغذ مانگا تو اس نے انکار کر دیا بعض صحابہ نے کہا کہ شاید رسول کریم کوغلطی لگی ہے.حضرت علی نے کہا نہیں آپ کی بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی.جب تک اس سے وہ کاغذ نہ ملے میں یہاں سے نہ ہٹوں گا.انہوں نے اس عورت کو ڈانٹا تو اس نے وہ کاغذ نکال کر دے دیا ہے.تو منافق خواہ کتنا ہی چھپائے وہ ظاہر ہو ہی جاتا ہے اور وہ خود بخود ذلیل ہو جاتا ہے.چنانچہ منافقوں نے آپس میں ایک دوسرے کو کہا کہ تم اپنے دل کی باتیں مسلمانوں کو کیوں بتاتے ہو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کو تقویت حاصل ہو جائے گی اور وہ ہمیں نقصان پہنچائیں گے.یہ ایسی ہی بات ہے کہ منافق ایک دوسرے کو ڈانٹتے ہیں کہ کسی کو کوئی بات نہ بتانا لیکن خود انہیں مجبور ابتانی ہی پڑتی ہے.مومن ہمیشہ بہادر اور دلیر ہوتا ہے.نفاق خطرے اور ڈر کی وجہ سے کیا جاتا ہے.لیکن جو انسان خدا تعالیٰ پر یقین رکھتا ہے اس کا کوئی کچھ نقصان نہیں کر سکتا.اس لئے وہ کسی سے ڈرتا بھی نہیں.پس مومن کے دل میں جو بات ہوا سے چاہیئے کہ اچھی طرح بہادری سے اس کا اظہار کر دے اور جو نہ مانے اس کو چھوڑ دے.مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ آج کل لوگ کون سی بات کے ڈر سے نفاق کا پردہ اوڑھے ہوئے ہیں.اور سچی بات کے اظہار کی طاقت نہیں رکھتے.ایسے پر امن زمانہ میں جبکہ کوئی کسی کو کچھ تکلیف نہیں پہنچا سکتا اگر کسی کی طبیعت نفاق کی طرف جھکتی ہے تو وہ بہت ہی بد فطرت انسان ہے.آنحضرت سلیم گوتلوار سے کسی پر رعب اور ڈر نہ ڈالتے تھے لیکن چونکہ آپ کے ہاتھ میں تلوار تھی اس لئے کوئی کہ سکتا ہے کہ اس ڈر سے بعض منافقت اختیار کئے ہوئے تھے لیکن اب تو امن و امان کا زمانہ ہے اس لئے اب اگر کوئی منافقت کرتا ہے تو وہ آنحضرت مالی ایام کے زمانہ کے منافق سے ہزار درجہ زیادہ منافق ہے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو آئندہ منافقوں سے بچائے اور جس طرح اس نے بعض منافقین کو جدا کر یا ہے اسی طرح اگر اور کوئی ہو تو اس کو بھی نکال کر ہم سب میں اتفاق پیدا کر دے.الفضل یکم اکتوبر ۱۹۱۴ء) البقرة: ۷۸،۷۷ ایک عیسائی غلام ابولولو نے حضرت عمر کو شہید کیا تھا.سے پاجی: کمینه، ذلیل، بدذات شریر بخاری کتاب المغازی باب غزوة الفتح وما بعث حاطب بن ابی بلتعة.

Page 193

خطبات محمود جلد ۴ ۱۸۴ (۴۱) ہ شخص قرآن کریم سیکھنے کی کوشش کرے (فرموده ۲.اکتوبر ۱۹۱۴ء) سال ۱۹۱۴ء تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی :.وَمِنْهُمْ أُمِّتُونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَبَ إِلَّا أَمَا نِي وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ پھر فرمایا:.بہت لوگ اللہ تعالیٰ کے کلام کی حقیقت کو نہیں سمجھتے اور بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے دل میں خدا تعالیٰ کے کلام کی حقیقت سمجھنے کی خواہش بھی پیدا نہیں ہوتی.اگر کسی دوست کسی رشتہ دار یا کسی عزیز کا خط آ جائے تو لوگ بڑی توجہ اور خوشی سے اس کو پڑھتے ہیں اور اگر خود پڑھنا نہ آتا ہو تو اس کے پڑھوانے کیلئے بھاگے بھاگے پھرتے ہیں اور کئی کئی میل پر بھی جاتے ہیں.اور پڑھوا کر سنتے ہیں.آن پڑھوں کو تو دیکھا ہے کہ ایک دفعہ کے سننے سے ان کی تسلی نہیں ہوتی بلکہ کئی کئی آدمیوں سے پڑھواتے اور سنتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک کلام آیا خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کتاب آئی احکم الحاکمین کے طرف سے ایک خط آیا.مگر اس کے پڑھنے اور پڑھوا کر سننے کی طرف بہت کم توجہ کی جاتی ہے.باپ، بھائی ، عزیز ، دوست ، خاوند ، بیوی کا خط ہو تو لوگ فوڑا پڑھتے ہیں یا اگر نہیں پڑھ سکتے تو کسی سے پڑھواتے ہیں.مگر اللہ تعالیٰ کا کلام ان کے پاس پڑا رہتا ہے اس کو دیکھتے بھی نہیں اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ اُسے جھوٹا سمجھتے ہیں یا بناوٹ اور فریب خیال کرتے ہیں بلکہ وہ اس بات کا پختہ یقین رکھ کر کہ یہ خدا کا کلام ہے.پھر

Page 194

خطبات محمود جلد ۴ ۱۸۵ سال ۱۹۱۴ء بھی توجہ نہیں کرتے.لاکھوں لاکھ ایسے مسلمان جن کے گھروں میں قرآن مجید ہوگا ہی نہیں.پھر لاکھوں لاکھ ایسے ہیں جنہوں نے اگر گھروں میں قرآن رکھا ہوا ہے تو کبھی اس کی طرف دیکھا بھی نہیں اور طاق پر پڑے پڑے اس پر گرد جم گیا ہے.پھر لاکھوں لاکھ ایسے ہیں کہ اگر قرآن پڑھتے ہیں تو ایسے رنگ میں کہ معنی نہیں جانتے.اور اس طوطے سے زیادہ ان کے پڑھنے کی حقیقت نہیں ہوتی جو خود ہی متکلم اور خود ہی مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ میاں مٹھو چوری کھانی ہے وہ قرآن پڑھتے ہیں.لیکن پڑھنے میں انہیں کوئی لطف اور مزا نہیں آتا نہ ان کی تسلی ہوتی ہے نہ انہیں قرآن سے محبت پیدا ہوتی ہے بلکہ یونہی ورق الٹتے جاتے ہیں ان کے دل میں یہ وہم بھی نہیں ہوتا کہ ہم محبت ، شوق اور عمل کرنے کے ارادہ سے قرآن کو پڑھتے ہیں وہ ایک قصہ یا وظیفہ سمجھ کر پڑھتے ہیں.میں نے سنا ہے کہ لوگوں میں بعض ایسے وظیفے مشہور ہیں جن کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ ان کے پڑھنے سے مال و دولت بڑھتی ہے.لیکن یہ وظیفے ایسے لغو اور بے معنی ہوتے ہیں کہ ان کے الفاظ کے کچھ معنی ہی نہیں بنتے لیکن پھر بھی لوگ ان کے مفید ہونے کا اعتقاد رکھ کر ان کو رشتے رہتے ہیں.اسی طرح لوگ قرآن پڑھتے ہیں جو کہ ان کے نزدیک ایک بے معنی الفاظ کا وظیفہ ہوتا ہے.اللہ ! مسلمان ہے اور وہ مسلمان جن کی کتاب میں اس بات پر حیرت ظاہر کی گئی ہو اور اللہ نے یہود پر یہ الزام لگایا ہو کہ یہودی بھی کوئی حیثیت رکھتے ہیں.یہ تو ایک ایسی جماعت ہے جو کہ توریت کے معنی نہیں سمجھتی انہوں نے تو اپنے خیالات کو ہی مذہب بنایا ہوا ہے اور نہیں جانتے کہ مذہب ہوتا کیا ہے.انہوں نے سن لیا کہ ہم موسیٰ (علیہ السلام) کی امت ہیں اس لئے یہودی کہلانے لگ گئے.انہیں تو کتاب کا علم ہی نہیں اور یہ اسے سمجھتے ہی نہیں انہوں نے کچھ جھوٹ موٹ باتیں سنی ہوئی ہیں یا جو انکے اپنے خیالات ہیں انہی پر ان کے مذہب کا دارو مدار ہے.اب مسلمانوں کے مذہب کا دار ومدار بھی روایات اور خیالات پر آ گیا ہے.قرآن مجید نے جو اعتراض یہود پر کیا تھا، کیا آج مسلمانوں کے گھروں میں وہ بات صادق نہیں آتی رہی.میں نہیں سمجھتا کہ مسلمانوں میں سے ایک فیصدی بھی قرآن پڑھنے والے ہوں گے اور میں نہیں یقین کرتا کہ لاکھ میں سے پانچ بھی ایسے ہوں گے جو قرآن شریف کے معنی جانتے ہونگے.یہاں اتنے آدمی بیٹھے ہیں ان میں سے بھی نصف کے قریب ایسے نکلیں گے جو ترجمہ نہیں

Page 195

خطبات محمود جلد ۴ ۱۸۶ سال ۱۹۱۴ء نتے.حالانکہ یہاں اس قدر قرآن شریف پڑھایا جاتا ہے کہ دنیا کے صفحہ پر اور کسی جگہ نہیں پڑھایا جا تا.تو مسلمانوں کا ایک کثیر حصہ ایسا ہے جو نہیں جانتا کہ قرآن میں کیا لکھا ہے.لیکن پھر بھی وہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں.ہم جنت میں جائیں گے کیا انہوں نے مسلمانوں کے گھر پیدا ہو کر جنت میں جانے کا ٹھیکہ لے لیا ہے؟ ان کا مذہب محض سنی سنائی باتوں، روایتوں اور خیالات پر رہ گیا ہے جو کچھ مولوی انہیں سناتے ہیں وہی مان لیتے ہیں.ایک دوست نے سنایا کہ کچھ مسلمانوں میں بحث ہورہی تھی کر مسلمین کے کیا معنی ہیں اور مسلم کے کیا ؟ تو آخر یہ فیصلہ ہوا کہ مسلمین وہ ہوتے ہیں جو پرانے ہوں اور مسلمان وہ جو نو مسلم ہوں.تو مسلمان عربی زبان سے اتنے نا واقف ہو چکے ہیں کہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اسے پڑھا جائے تو اور معنی ہونگے اور ی پڑھا جائے تو اور.اکثر مسلمان تو صحیح معنوں میں یہ بھی نہیں جانتے کہ قرآن کیا ہے اور دین کیا ہوتا ہے.آیا کوئی خدا سے کتاب آئی بھی ہے یا نہیں.اور اگر آئی ہے تو اس کا مطلب کیا ہے.کسی گاؤں میں جا کر پوچھ لو وہاں ایسے ایسے شریعت کے مسئلے رائج ہوں گے جن کو سن کر حیرت آ جائے گی نئی سے نئی شریعتیں بنی ہوئی ہیں.اور ملا لوگ جھٹ پٹ نیا مسئلہ گھڑ دیتے ہیں.ایک مدت سے مجھے ایک مسئلہ حیران کر رہا ہے اور کئی خطوط آچکے ہیں کہ میں نے فلاں کام کیا تھا.مولوی صاحب کہتے ہیں کہ تمہارا نکاح ٹوٹ گیا ہے.نہ معلوم ہر ایک کام کو نکاح سے کیا تعلق ہے کہ جھٹ ٹوٹ جاتا ہے.لیکن مولوی کچھ نہ کچھ تعلق نکال ہی لیتے ہیں اور عجیب و غریب شریعت کے مسئلے بنا لیتے ہیں.مگر بڑے شرم کی بات ہے کہ قرآن شریف نے تو یہود پر اعتراض کیا تھا کہ کتاب نہیں جانتے یعنی یہ نہیں جانتے کہ اس میں کیا لکھا ہے ان کے نہ جاننے کی وجہ یہ تھی کہ اصل تو ریت عبرانی زبان میں تھی اور یہو دعبرانی بہت کم واقف ہے کیونکہ وہ بہت کم بولی جاتی تھی اس لئے متروک ہوگئی.مگر تعجب ہے کہ عربی تو بڑی کثرت سے بولی جاتی ہے.عرب میں، مصر میں ، طرابلس میں ، مراکش میں الجیریا میں ، ٹیونس میں عربی زبان ہی بولی جاتی ہے.ان کے علاوہ اور بہت سے علاقے ہیں جہاں کی زبان عربی ہے.اس لئے مسلمانوں کو قرآن شریف سمجھنے کیلئے وہ وقتیں نہ تھیں جو یہود کو تھیں لیکن پھر بھی یہود کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ایسی رڈی قوم ہے کہ نہیں جانتی کہ کتاب میں کیا لکھا ہوا ہے اور اپنے خیالات پر چل رہی ہے، مگر آج کل مسلمانوں کی حالت ان سے بھی بدتر ہو چکی ہے.ہر ایک گاؤں اور شہر میں الگ الگ

Page 196

خطبات محمود جلد ۴ ۱۸۷ سال ۱۹۱۴ء اسلام بن گیا ہے جو کہ بہت افسوس اور شرم کی بات ہے.کیا فائدہ ہے اس مسلمان کے جینے کو جو مسلم کہلاتا ہے مگر با وجود مسلم کہلانے کے نہیں جانتا کہ مسلم کے معنی کیا ہیں.مسلم کہلانا مگر ایک دفعہ بھی اس کتاب کے پڑھنے کی طرف توجہ نہ کرنا جس کو خدا تعالیٰ نے لوگوں کے مسلم بنانے کے لئے بھیجا ہے.تو کیوں پھر مسلمان اس مندرجہ بالا آیت کے مصداق نہ ہوں.ہماری جماعت کے آدمیوں کو چاہیئے کہ خواہ کوئی اسی برس کا بوڑھا ہی کیوں نہ ہو.پھر بھی قرآن کریم کے پڑھنے اور معنی سیکھنے کی کوشش کرے.کون کہتا ہے کہ بڑی عمر میں پڑھا نہیں جاتا جس طرح وہ دنیا کے کاموں میں محنت کرتے اور مشکلات اٹھاتے ہیں اور وقت صرف کرتے ہیں اگر اس کا نصف حصہ بھی قرآن شریف کے سیکھنے میں لگا ئیں تو سیکھ سکتے ہیں.یہ ہر ایک احمدی کا فرض ہے کہ کم از کم قرآن شریف کا تو ترجمہ پڑھ لے اور انسان اور با خدا انسان بنے نہ کہ میاں مٹھو بنے.قرآن شریف کے معنی نہ سمجھنا اور یونہی پڑھنا میاں مٹھو بننا ہے.پس ترجمہ سیکھو اور معنی اور مطلب سمجھوتا کہ تمہیں معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کیا حکم دیتا ہے.تم قرآن کے بامعنی پڑھنے کی کوشش کرو.یہود کی طرح نہ بنو کیونکہ یہ صفت یہود کی ہے توریت ان کے پاس موجود تھی مگر وہ اس کے معنی نہیں جانتے تھے.تم مسلمان بنو اور مسلمان ہو کر قرآن کے معنے سیکھو جب سیکھ جاؤ گے تو اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرو گے اور جب عمل کرو گے تو خدا تعالیٰ کے مقرب بن جاؤ گے.اپنا وقت نکال کر بوڑھے، جوان ، عورتیں بچے قرآن سیکھیں اور جہاں موقع پائیں کو تا ہی نہ کریں احمدی جماعت کو شرم کرنی چاہیئے کہ ابھی تک بہت حصہ نے قرآن نہیں سیکھا.ہمارے لئے وقتیں بھی ہیں کہ احمدی بڑی عمر کے لوگ ہوتے ہیں جن کی تربیت اور پڑھنے کا زمانہ گزر چکا ہوتا ہے مگر صحابہ میں ایسے آدمی پائے جاتے ہیں جنہوں نے بڑی عمر میں ہی دوسرے مذاہب کی کتابوں کو پڑھ کر فائدہ اٹھایا.انگلستان میں ایک لاطینی زبان کا بڑا ماہر ہوا ہے.جس نے ستر برس کی عمر میں علم سیکھا تھا.تو تم قرآن کا ترجمہ سیکھو تا کہ خدا تعالیٰ کی وعید میں نہ آؤ.جن کو قرآن آتا ہے وہ دوسروں کو پڑھانے کی کوشش کریں اور جن کو نہیں آتا وہ پڑھنے کی کریں.مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے آنے کی وجہ یہی تھی کہ لوگ یہودی ہو گئے تھے.اگر آپ کے آنے کے بعد بھی کوئی یہودی رہتا ہے تو وہ آپ کی بعثت کی غرض سے بالکل بے بہرہ ہے.صحابہ کرام "

Page 197

خطبات محمود جلد ۴ ۱۸۸ سال ۱۹۱۴ء سب مسائل سے واقف تھے اگر کوئی کہے کہ وہ عربی زبان جانتے تھے اس لئے مسائل سے واقف ہو گئے تھے تو یہ بھی ٹھیک نہیں.اب عربوں کو جا کر دیکھ لو کہ قطعا قرآن نہیں جانتے.حضرت خلیفہ اسیح الاول فرماتے تھے کہ ایک عالم نے زندہ جانور کا گوشت کاٹ کر پکا لیا میں نے شکایت کی تو شریف مکہ نے کہا یہاں مکہ میں تو ایسے آدمی رہتے ہیں جو کہ صحیح کلمہ بھی نہیں پڑھ سکتے.تم جو احمد کی طرف منسوب کئے جاتے ہو ایسے بن جاؤ کہ مکمل احمدی اور محمدی ہو جاؤ ورنہ اگر محمدی ہونا کسی کیلئے مفید نہیں ہو سکا تو احمدی ہونا کیا فائدہ دے سکتا ہے.خدا تعالیٰ کی کتاب سیکھو اور اس پر عمل کرو.خدا تعالیٰ تم سب کو اس کے بات کی توفیق دے.آمین ل البقرة: (الفضل ۱۱.اکتوبر ۱۹۱۴ء )

Page 198

خطبات محمود جلد ۴ ۱۸۹ (۴۲) سال ۱۹۱۴ء قرآن مجید کے معنی کرنے میں بہت احتیاط کرو (فرموده ۹.اکتوبر ۱۹۱۴ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی :.فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتب بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِنْدِ الله لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيْلًا فَوَيْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا يَكْسِبُونَ...اس کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ یہود کی ایک اور خصلت بیان فرماتا ہے کہ ایک بات لکھتے پھر کہتے ہیں کہ یہ ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہے.اس سے ان کی یہ غرض ہوتی ہے کہ کچھ مال مل جائے ، آمدنی ہو جائے ، عزت بڑھ جائے.یہود میں بہت کثرت سے اس قسم کے قصے ہمعجزات اور آیات مشہور ہیں.اور بڑی بڑی کتابیں پائی جاتی ہیں.جن کی کوئی اصلیت نہیں ہوتی لیکن وہ خدا کی طرف انبیاء اور اولیاء کی طرف منسوب کی جاتی ہیں.چنانچہ اس وقت یہودیوں کے تمام عملیات کا دارو مدار ایک کتاب پر ہے جو کہ حضرت مسیح کے بھی بعد کی لکھی ہوئی ہے.ٹائیٹس (TITUS) نے جب یروشلم کو تباہ کیا تو یہود نے ایک جگہ جمع ہو کر یہ کتاب اس لئے تیار کی کہ ہماری حکومت تو تباہ ہو چکی ہے اور بیت المقدس بھی برباد ہو چکا ہے.اب مذہب بھی نابود نہ ہو جائے.اس وقت جو اقوال ان لوگوں کو یاد تھے وہ ایک جگہ جمع کر دیئے گئے.اس میں ایسے ایسے عجیب و غریب قصے کہانیاں، اور واقعات درج ہیں کہ پڑھ کر حیرت آتی

Page 199

خطبات محمود جلد ۴ ۱۹۰ سال ۱۹۱۴ء ہے لیکن ان میں سے وہ کچھ نبیوں کی طرف ، کچھ اولیاء کی طرف اور دوسرے بزرگوں کی طرف منسوب کرتے ہیں.جس کی وجہ یہ ہے کہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو اس کتاب کو کوئی بھی نہ مانے.اور اس کے جمع کرنے والوں کی کوئی عزت نہ کرے اور نہ ہی انہیں کچھ روپیہ پیسہ مل سکے.اس کتاب کے جمع کرنے والوں کی عزت تو ہوئی ہوگی لیکن انہوں نے روپیہ بھی بہت حاصل کیا ہوگا.اور اب بھی ہے کما رہے ہیں.میں نے سنا ہے کہ ابھی یہ کتاب ولایت میں چھپی ہے جس کی قیمت ڈیڑھ سو روپیہ رکھی ہے گئی ہے.مسلمانوں میں بھی یہ صفت پائی جاتی ہے.آنحضرت سالی اسلام نے فرمایا تھا کہ مسلمان بھی ایک وقت میں یہود کی طرح ہو جائیں گے ۲؎ آج مسلمانوں میں بھی یہودیوں کی یہ صفت پائی جاتی ہے.عجیب قسم کے قصے اور کہانیاں لکھتے ہیں پھر ان کو آنحضرت صلی ا یہ ستم کے معجزات قرار دیتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ خدا وند تعالیٰ نے آنحضرت صلی سیستم کی تصدیق اور اسلام کی تائید میں یہ واقعات ظاہر فرمائے ہیں.حالانکہ بالکل جھوٹ اور افتراء ہوتا ہے.کوئی ہرنی نامہ لکھتا ہے کوئی گوہ کا قصہ گھڑتا ہے کہ آنحضرت سائی یتیم کے دربار میں حاضر ہو کر اس نے بڑا فصیح و بلیغ عربی قصیدہ پڑھا تھا.تو عجیب وغریب جھوٹے قصے بناتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ یہ نشانات خداوند تعالیٰ کی طرف سے آئے تھے جن سے اسلام کی تائید ہوتی ہے حالانکہ یہ اسلام کی ذلت اور بدنامی کا باعث ہوتے ہیں.پھر مسلمان قرآن شریف کی ایسی تفسیر کرتے ہیں کہ ایک واقعہ جس کا کوئی ذکر نہیں ہوتا ہے آنحضرت صلی یا ایلیم نے اس کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ہوتا ، صحابہ کرام کی اس کے متعلق کوئی شہادت نہیں ہوتی لیکن مفسر صاحبان اپنی طرف سے جھوٹا واقعہ درج کر دیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے حالانکہ محض افتراء ہوتا ہے.ہمارے مقابلہ میں جو مسلمان ہیں ان کو دیکھ لو.ہماری مخالفت میں بڑی بڑی کتا میں ہے لکھتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن کی رو سے ہم نے حیات مسیح کو ثابت کر دیا ہے.لیکن اگر ایک دلیل بھی قرآن کی ان سے پوچھی جائے تو نہیں بتا سکتے.لیکچروں اور وعظوں میں ہے بڑے زور سے کہتے ہیں کہ ہم نے قرآن سے مسیح کا زندہ ہونا ثابت کر دیا ہے جو کہ محض جھوٹ ہوتا ہے اور وہ اپنی طرف سے باتیں بنا کر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں.اس طرح کرنے سے ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ شہرت ہو.کتابوں کی بکری زیادہ ہو، تو ایسا بہت لوگ کرتے ہیں کہ اپنی طرف سے قصہ گھڑ کر بیان کر دیتے ہیں ، اور اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب

Page 200

خطبات محمود جلد ۴ ۱۹۱ سال ۱۹۱۴ء کر دیتے ہیں.بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک ایسی بات مسیح کی حیات پر پڑھ دیتے ہیں جس کا کوئی مطا نہیں ہوتا.لیکن وہ یہی کہے چلے جاتے ہیں کہ اس سے حیات مسیح ثابت ہوتی ہے.ایک مرحوم دوست کو یہ واقعہ پیش آیا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کے دعوئی سے پیشتر براہین احمدیہ کے پڑھنے کی وجہ سے اخلاص رکھتا تھا.جب آپ نے دعوی کیا تو وہ آپ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ تو بڑے متقی ہیں یہ کیا دعویٰ قرآن کے خلاف کر دیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ آپ کو دھوکا لگا ہے.تو آپ نے فرما یا اگر قرآن سے یہ بات غلط ثابت کر دو تو میں مان لوں گا.اس نے کہا کہ میں حیات مسیح کی بیسیوں دلیلیں قرآن شریف سے آپ کو دکھا سکتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ ایک ہی لاؤ.اس کی دوستی محمد حسین بٹالوی سے بھی تھی.وہ اس کے پاس آیا اور کہا کہ مرزا صاحب تو بڑے نیک آدمی ہیں انہوں نے میری بات مان لی ہے اور جھگڑا بالکل طے ہو گیا ہے.وہ کہتے ہیں کہ ایک ہی آیت قرآن سے حیات مسیح کی نکال دو تو میں مان لونگا.بس آپ مجھے کچھ آیات نکال کر دیجئے تا کہ میں ان کو جا کر بتاؤں.مولوی محمد حسین یہ سن کر اسے گالیاں دینے لگ گیا اور کہا کہ تم وہاں کیوں گئے تھے.آخر کار جب مولوی محمد حسین نے باوجود اس کے اصرار کے ایک دلیل بھی قرآن شریف سے نہ بتائی تو اس نے سمجھ لیا کہ کوئی دلیل ہے ہی نہیں اس لئے اُس نے آکر بیعت کر لی.تو یہ لوگ قرآن سے کوئی دلیل نہیں بتا سکتے.لیکن اگر یہ سوال پوچھا جائے تو فورا کہہ دیتے ہیں کہ قرآن شریف کے خلاف ہے.اگر پوچھو کہ قرآن کی کس آیت کے خلاف ہے تو کہتے ہیں کہ فلاں تفسیر میں لکھا ہے فلاں مولوی صاحب کہتے ہیں تو یہ لوگ اپنی طرف سے بات بنا کر خدا تعالیٰ کی کتاب یعنی خدا تعالیٰ ہی کی طرف منسوب کر دیتے ہیں تا کہ لوگ غور اور توجہ سے ان کی باتیں سنیں اور قدر کریں.عام طور پر احمد یوں کو غیروں سے مباحثات میں یہ دقت پیش آتی ہے اور مجھے خود بھی ایک دفعہ اس بات کا تجربہ ہوا.حضرت خلیفہ مسیح الاول نے ہم چند آدمیوں کو ایک جگہ لیکچر دینے کیلئے بھیجا.راستے میں ایک مولوی صاحب سے مباحثہ ہو گیا.میں نے حافظ روشن علی صاحب کو گفتگو کرنے کے لئے کہا.حافظ صاحب نے بات چیت شروع کی لیکن وہ مولوی یہی کہتا جائے کہ بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيهِ میں جوہ کی ضمیر ہے وہ کدھر جاتی ہے.حافظ صاحب نے اس کو کئی دفعہ جواب دیا لیکن وہ بار بار یہی کہتا رہا کہ میرے سوال کا جواب تو ابھی ملا نہیں میں آگے بات کس طرح کروں.اگر اس کا جواب دے

Page 201

خطبات محمود جلد ۴ دو تو حیات مسیح ثابت ہو جائے.۱۹۲ سال ۱۹۱۴ء چند دن ہوئے.ایک واعظ نے لکھا تھا کہ ایک مولوی صاحب جو کہ حافظ قرآن بھی تھے مجھے یہ کہا کہ قرآن کریم میں ہے اِتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا - یعنی ابراہیم علیہ السلام اور امام حنیفہ کے دین کی پیروی کرو.تو ہم امام حنیفہ کے مذہب پر ہیں یہ آیت اس نے اپنی طرف سے بنا کر کہہ دیا حالانکہ قرآن کریم میں ہرگز یہ آیت نہیں بلکہ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ہے یعنی ابراہیم کے دین کی جو حنیف تھا پیروی کرو.تعجب ہے کہ امام حنیفہ جو دو سو سال بعد آنحضرت مالی یہ تم سے پیدا ہوئے ان کی پیروی کرنے کا حکم قرآن میں درج بتاتے ہیں.تو یہ کس قدر جرات اور بے باکی ہے کہ ایک فقرہ اپنے مطلب کا بنا کر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جو خود لکھ کر اس کو خدا کی طرف منسوب کرتی ہے.اس لئے کہ آمدنی ہو اور عزت بڑھے.مگر ایسے لوگ کبھی سکھ میں نہیں ہوتے.ان کا کھانا پینا ذلت اور خواری کا ہوتا ہے اور وہ دنیا میں ہی ذلیل ہو جاتے ہیں تم دیکھ لو ایک زمانہ تھا علماء کی قدر کی جاتی تھی کہ بادشاہ کی ان کے سامنے مجال نہ ہوتی تھی کہ کچھ کر سکے.اب تو ترکوں کو یورپ والے بد نام کر رہے ہیں کہ بڑے ظالم اور بے رحم ہیں لیکن ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ترک بادشاہ کسی بات پر ناراض ہو گیا اور اس نے کہا کہ میں قتل عام کروں گا.مگر جب شیخ الاسلام نے کہا کہ یہ نا جائز ہے میں اس کی اجازت نہیں دوں گا تو بادشاہ نے شیخ الاسلام کے حکم کے آگے گردن جھکا دی اور کچھ نہ بولا.تو اس وقت جبکہ علماء میں انتقاء اور پر ہیز گاری ہوتی تھی تو ان کی قدر بھی کی جاتی تھی لیکن اب تو دو دو پیسے کو دھکے کھاتے پھرتے ہیں.جس کی وجہ یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے کلام کی قدر نہیں کرتا اسے کی بھی قدر نہیں کی جاتی.اس لئے جب سے مسلمانوں نے قرآن شریف کے معنی بدلنے اور اس میں جھوٹے قصے کہانیاں ملانی شروع کی ہیں.اسی وقت سے ذلیل ہو رہے ہیں.تعجب آتا ہے کہ لوگوں میں اس حد تک کس طرح جرات پیدا ہو گئی ہے کہ جھوٹی آیتیں بنا کر شرارت سے لوگوں میں مشتہر کرتے ہیں.پنجاب کی ایک مشہور انجمن کے جلسہ میں ایک دفعہ ایک لیکچرار صاحب بار بار ایک عربی عبارت کو دہراتے اور کہتے تھے کہ یہ قرآن کی آیت ہے حالانکہ وہ ہرگز قرآن کی آیت نہیں تھی.لیکن اس لیکچرار کو مولویوں سے سُن سُن کر اس قدر اس کے آیت قرآنی ہونے پر پختہ

Page 202

خطبات محمود جلد ۴ ۱۹۳ سال ۱۹۱۴ء یقین ہو گیا تھا کہ اتنے مجمع میں پے در پے دہراتا تھا.لوگ جھوٹی آیتیں، حدیثیں ، اور معجزے بنا لیتے ہیں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی.ہماری جماعت میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے کہ بعض لوگ بڑی جرات سے قرآن شریف کی آیات کے معنی کر لیتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں کرنا چاہیئے.اس میں شک نہیں کہ قرآن شریف میں غور اور تدبر کرنا عمدہ بات ہے اور جولوگ اس بات کو چھوڑ دیتے ہیں وہ تباہ ہو جاتے ہیں مگر جو دل میں معنی آئیں وہی کر دینے یہ بھی ہرگز درست نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس لئے آئے تھے کہ لوگ یہودی خصلت ہو گئے تھے اور آپ کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی منشاء کے تحت ہماری جماعت قائم ہوئی ہے.لیکن ہمارے لئے بھی بڑی احتیاط کی ضرورت ہے.جہاں تک ہو سکے قرآن شریف کے معنی کرنے میں احتیاط کرو.آنحضرت سلیم کے بتائے ہوئے معنی اور افعال کے خلاف ہرگز کسی آیت کے معنے نہیں کرنے چاہئیں.پھر صحابہ کرام کا جن معنوں پر اتفاق ہوان کے خلاف نہیں ہونا چاہئیے.پھر جو معنے لغت کے خلاف ہوں ان کے بیان کرنے کی بھی جرات نہیں کرنی چاہئیے.یہ قرآن شریف کے معنے کرنے کے قواعد ہیں ان کے مطابق معنے ہونے چاہئیں.بعض کم عقل کہتے ہیں کہ خُدا صرف ونحو کے قواعد کا پابند نہیں.گو خدا تعالیٰ کو صرف و نحو کی ضرورت نہیں لیکن ہمیں تو ہے.اگر خدا تعالیٰ نے لغت اور قواعد زبان کے ماتحت کلام نازل نہیں فرمایا تو ہم کس طرح اس کو سمجھ سکتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ وہ کلام جو ہمارے لئے نازل کیا گیا ہے وہ انہی قواعد کو مدنظر رکھ کر اتارا گیا ہو.جو کہ ہم جانتے ہوں اور سمجھ سکتے ہوں.قرآن شریف کے معنے کرنے میں ان باتوں کا لحاظ رکھو کہ (۱) آیت کی تفسیر جو دوسری آیت نے کر دی ہے اسکو مد نظر رکھو (۲) آنحضرت مصلی یا تم نے جس آیت کے معنے فرمائے ہیں ان کو مانو (۳) اس تفسیر کو مانو جو کوئی اللہ کا مامور کرے اور الہام کے ذریعے اُسے جو کچھ بتایا گیا ہو (۴) پھر جن معنوں پر صحابہ کی کثرت رائے ہو (۵) پھر اپنے قیاس کے ماتحت معنی کر ولیکن اس میں لغت اور صرف ونحو کا بڑا لحاظ رکھو اور کبھی اپنی طرف سے زائد بات نہ ملاؤ کیونکہ ایسا کرنا خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑکا دیتا ہے.یہ یہود کی صفت ہے خدا تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے ہماری اصلاح کی ہے.اس لئے میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ان قواعد سے سیر مو ہے ادھر اُدھر نہ ہونا.کیونکہ ایسے لوگ ذلیل ہو جاتے ہیں جو خدا کے کلام کے جھوٹے معنے کرتے ہیں.

Page 203

خطبات محمود جلد ۴ ۱۹۴ سال ۱۹۱۴ء خدا تعالیٰ ہم سب کو اس سے بچائے اور اپنے فضل و کرم سے قرآن شریف کے سمجھنے کیلئے صحیح فہم و فراست عطا فرمائے.البقرة : ٨٠ ترمذی کتاب الایمان باب افتراق هذه الامة النساء:۱۵۹ البقرة : ١٣٦ ه سرمو : ذرا سا.رائی برابر.بال کی نوک کے برابر الفضل ۱۵ اکتوبر ۱۹۱۴ء)

Page 204

خطبات محمود جلد ۴ ۱۹۵ (۴۳) انعام ہمیشہ اطاعت کرنے والوں کو ہی ملا کرتا ہے (فرموده ۱۶.اکتوبر ۱۹۱۴ء) سال ۱۹۱۴ء تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی :.وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا ايَّامًا مَّعْدُودَةً قُلْ اتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللهِ عَهْدًا فَلَنْ تُخْلِفَ اللهُ عَهْدَهُ اَمَ تَقُولُونَ عَلَى اللهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ بَلَى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَاحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُوْلَئِكَ أَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ اس کے بعد فرمایا:.نسلی اور قومی تعصب ہمیشہ سے دنیا میں چلا آیا ہے ہر ایک قوم اپنی نسبت چند ایسی خصوصیات تجویز کر لیتی ہے جن کا دوسروں کی طرف منسوب کر ناوہ پسند نہیں کرتی.اسلام سے پیشتر کے جتنے مذاہب ہیں ان تمام کو جب ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو ایسا ہی محدود اور مخصوص کر رکھا ہے جیسا کہ اور اپنے بڑے بڑے قومی آدمیوں کو.ان مذاہب کی کتب کا مطالعہ کرنے اور پڑھنے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہر قوم خدا کو اپنا مخصوص دیوتا مجھتی ہے.چنانچہ یہود کی اس بات کو جائز نہیں سمجھتے کہ اور دنیا کے لوگ جنت میں داخل ہو سکتے ہیں.یا یہ کبھی پسند نہیں کرتے کہ کوئی یہودی بھی دوزخ میں جاسکتا ہے.یہی حال دوسری قوموں کا ہے خواہ وہ زرتشتی ہوں یا سناتنی ، آریہ ہوں یا بدھ تو ان مذہبوں نے اپنے لئے ایسی خصوصیات سمجھ لی ہوئی ہیں جن سے اور کسی کو متمتع ہونے کے

Page 205

خطبات محمود جلد ۴ ۱۹۶ سال ۱۹۱۴ء قابل نہیں سمجھتے.اسلام نے ان تمام خصوصیات کو مٹا دیا ہے اور صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تمام مخلوقات کا خدا ہے اور کسی خاص فرقہ سے خاص تعلق نہیں رکھتا.قرآن شریف بتاتا ہے کہ نجات کا دارو مدار اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل پر رکھا ہے.اور فضل کے جاذب اعمال صالح کو رکھا ہے.نیک اعمال فضل کو جذب کرتے ہیں اور پھر فضل سے نجات ہوتی ہے اور جب تک کوئی شخص خواہ وہ کسی مذہب میں کیوں نہ داخل ہو اعمال صالح نہیں کرتا اسلام اس کی نسبت کبھی نہیں کہتا کہ وہ نجات پاسکتا ہے اور نہ اسلام یہ کہتا ہے کہ خواہ کوئی کتنا ہی خدا تعالیٰ کے حضور گڑ گڑائے ، عاجزی اور فروتنی دکھائے اعمال صالح کرے اور متقی بن جائے لیکن پھر بھی خدا تعالیٰ اس کو اپنے حضور سے اس لئے نکال دیتا ہے کہ چونکہ تم فلاں قوم سے نہیں ہو اس لئے تمہیں کچھ اجر نہیں مل سکتا.اس آیت میں اللہ تعالیٰ یہود کا قول بیان فرماتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اول تو ہم کو آگ چھونے کی ہی نہیں کیونکہ ہم خدا تعالیٰ کی برگزیدہ قوم کی اولاد سے ہیں.بھلا یہ کبھی ہوسکتا ہے کہ ہمیں عذاب دیا جائے.عذاب دینے کے لئے کیا اور مخلوق تھوڑی ہے اور اگر ہم میں سے کسی کو عذاب دیا ہی گیا تو وہ بہت تھوڑا یعنی چند دن ہوگا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان سے پوچھو کہ کیا تم نے خدا سے عہد لیا ہے کہ تمہیں عذاب نہیں ہوگا.اللہ تو اپنے عہد کے خلاف کبھی نہیں کرتا.لیکن اصل بات یہ ہے کہ تم جھوٹے ہو اور وہ بات کہتے ہو جس کو تم جانتے نہیں.بدکار انسان ضرور سزا پائیں گے.اور ابراہیم ، موسی ، ہارون ، داؤد وغیرہ انبیاء کی نسل سے ہونا کسی کو عذاب سے نہیں بچا سکتا اور مسلمانوں میں تو محمد صلی سیتم ) کی نسل سے ہونا بھی کسی کو عذاب سے چھڑ ا نہیں سکتا جب تک کہ نجات پانے کا جو راستہ ہے اس پر نہ چلا جائے اور اس طریقہ کو اختیار نہ کیا ہے جائے جس کو اختیار کر کے داؤ د داؤد بنا.ابراہیم ابراہیم کہلایا.موسیٰ موسیٰ ہوا اور محمد نے محمد کا لقب پایا.جب تک کوئی ان کی تعلیم پر عمل نہیں کرتا خدا کے حضور اسے کوئی عزت اور کوئی رتبہ نہیں مل سکتا.اسلام نے یہ بتا کر تمام قومی اور نسلی تعصبات کو تباہ کر دیا ہے کہ کسی خاص قوم اور خاص مذہب سے نجات وابستہ نہیں.بلکہ جو شخص خدا تعالیٰ کی رضا کے راستہ کو اختیار کرتا ہے وہی نجات پا سکتا ہے.ایک ہندو، ایک آریہ، ایک عیسائی ، لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کہنے سے وہی حقوق پا سکتا ہے جو دوسرے نیک اعمال کرنے والے مسلمانوں کو ملتے ہیں.پھر وہ مسلمان جو خواہ کتنا ہی

Page 206

خطبات محمود جلد ۴ ۱۹۷ سال ۱۹۱۴ء عالی خاندان کا ہو درست اعمال نہ کرتا ہو کبھی نجات نہیں پاسکتا.بڑے افسوس کی بات ہے کہ یہود کی صفت اب مسلمانوں میں بھی پائی جاتی ہے.یہود کی صفت ی تھی کہ انہوں نے کہا کہ خدا ہمیں کچھ مقررہ مدت تک عذاب دے کر آزاد کر دے گا.یہ اب مسلمان علماء کا عقیدہ ہے عوام نے تو حد ہی کر دی ہے.سادات تو یہ بات سن ہی نہیں سکتے کہ کبھی کوئی سید دوزخ میں جائے گا وہ کہتے ہیں کہ ہمارے لئے آل رسول ہونا ہی کافی ہے.حضرت خلیفہ اسیح مرحوم و مغفور فرماتے تھے کہ ہماری رشتہ دار ایک عورت یہاں آئی.تو میں نے اس کو کہا کہ تم اپنے پیر سے یہ تو پوچھنا کہ تمہاری بیعت کا ہمیں کیا فائدہ ہے.وہ جب واپس آگئی اور جا کر پوچھا تو پیر صاحب نے کہا معلوم ہوتا ہے کہ تم قادیان گئی ہو اور نور دین نے تمہیں یہ بتایا ہے.اس نے کہا کہ ہاں بتایا تو اُسی نے ہے لیکن مجھے جواب دیجئے وہ کہنے لگا تمہیں اس کا فائدہ معلوم ہی نہیں.قیامت کے دن جب تم سے سوال و جواب ہوگا تو ہم کہیں گے کہ ان کی ذمہ داری ہم لیتے ہیں ان کو چھوڑ دیا جائے اور جو کچھ پوچھنا ہے وہ ہم سے پوچھئے.پس تم دوڑتی دوڑتی پل صراط سے گذر کر بہشت میں داخل ہو جاؤ گی.اور دنیا میں خواہ تم کچھ کر وان سب باتوں کے جواب دہ ہم ہوں گے.اور تمہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا.ہم سے جب تمہارے متعلق پوچھا جائے گا تو کہہ دیا جائے گا کہ ایک امام حسین کی قربانی ہمارے لئے کافی نہیں ہے.یہ سن کر اللہ لا جواب ہو جائے گا اور ہم بہشت میں چلے جائیں گے.تو یہودی نے تو یہی کہا تھا کہ ہمیں تھوڑے دن ہی آگ چھوٹے گی.مگر مسلمانوں نے کہا کہ ہمیں آگ بالکل چھوئے گی ہی نہیں.انہوں نے یہودیوں سے بھی بڑھ کر ایک قدم آگے مارا.یہ ایک بڑی بھاری مشابہت ہے جو آج کل کے مسلمانوں کو یہود سے ہوگئی ہے.عام فقیروں ، گدی نشینوں اور پیروں نے تو بعض بزرگوں اور اولیاء کی یہاں تک طاقت بڑھادی ہے کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ خدا ان سے ڈرتا ہے.سید عبد القادر جیلانی کی نسبت اسی قسم کا ایک قصہ بنایا ہوا ہے کہ ایک بڑھیا کے لڑکے کو زندہ کرنے کے لئے انہوں نے عزرائیل سے تمام قبض شدہ روحوں کا تھیلا چھین لیا اور جب وہ شکایت لے کر خدا کے پاس گیا تو خدا تعالیٰ نے کہا کہ شکر کرو کہ اسی پر خلاصی ہو گئی ہے اگر وہ چاہتا تو آج تک کی تمام روحوں کو چھوڑ دیتا ہے تو اس قسم کے لغو قصے کہانیاں بنا بنا کر اتنا بڑھایا ہے کہ جس کی کوئی حد ہی نہیں رہی اسی بھروسہ پر وہ کہتے ہیں کہ ہمیں آگ نہیں چھوٹے گی.ہمارے پیر صاحب

Page 207

خطبات محمود جلد ۴ ۱۹۸ سال ۱۹۱۴ء ہماری طرف سے جواب دہی کریں گے.جب یہ خیال ہوا تو پھر جو چاہیں کرتے رہیں.چوریاں کریں ، ڈاکے ماریں، زنا کریں فسق و فجور پھیلائیں، کسی کا ڈر ہی کیا ہے.یہی وجہ ہے کہ مسلمان با وجود آبادی کے لحاظ سے کم ہونے کے قید خانوں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں.ان پیروں فقیروں سے اُتر کر مولوی لوگ کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے جو گناہ گار ہوں گے وہ تھوڑے دنوں عذاب میں رہ کر چھوٹ جائیں گے لیکن باقی تمام لوگ ہمیشہ کے لئے دوزخ میں پڑے رہیں گے.اس کا بھی وہی مطلب ہے جو یہودیوں کے کہنے کا ہے.اللہ تعالیٰ کی ہزاروں ہزار رحمتیں نازل ہوں مسیح موعود علیہ السلام پر کہ انہوں نے ہمیں اس اعتقاد سے چھڑا کر سیدھا راستہ بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے.اس کے دل میں کسی قوم یا کسی مذہب کی طرف سے بغض نہیں کہ خواہ مخواہ اس کو دوزخ میں جھونکے رکھے.دوزخ تو خدا تعالیٰ نے علاج کی جگہ بتائی ہے.جس طرح گور نمنمیں ریفارمیٹری( REFORMATORY) سکول بناتی ہیں اسی طرح دوزخ ہے.جس وقت انسان گندے مواد جل کر پاک وصاف ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کو اس سے نکال دیتا ہے.باقی رہا یہ کہ صرف خدا دوزخ دکھا کر ہی مسلمانوں کو بہشت میں داخل کر دے گا یہ محض جھوٹ اور کذب ہے.ایک مسلمان بد کار کو اسی طرح سزا دوزخ میں ملے گی.جس طرح کسی اور مذہب کے بد کار کو جس کو اس کی خطاؤں نے گھیر لیا ہو گا.پس ایسے لوگ ضرور دوزخ میں رہیں گے کیونکہ یہ دوزخ کے ہی قابل ہیں.خواہ کتنے بڑے اعلیٰ خاندان اور نسل کے ہوں لیکن بد کار ہونے کی صورت میں اپنی بدکاری کی وہ ضرور سزا پائیں گے.بشرطیکہ وہ تو بہ نہ کرلیں.یعنی تو بہ کر کے ایمان لے آئیں اور عمل اچھے کریں.پس جس وقت ان کی یہ حالت ہو جائے گی تو ایسے لوگ جنت کے وارث ہو جائیں گے اور اسی میں رہیں گے.یہ بات خوب یاد رکھو کہ اسلام میں نجات خدا تعالیٰ کے فضل پر ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل کے جاذب نیک اعمال ہوتے ہیں.اور اگر کوئی کہے کہ فضل کا واسطہ کیوں رکھا ہے اور کیوں نیک اعمال کی وجہ سے نجات نہیں ہو جاتی.تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان سے کچھ نہ کچھ غلطیاں بشریت کی وجہ سے سرزد ہو جاتی ہیں.اگر ان پر خدا تعالیٰ گرفت کرنے لگے تو کسی انسان کا نجات پانا محال ہو جائے.تو ایسی غلطیاں جو بشریت اور انسانی کمزوری کی وجہ سے انسان سے ہو جاتی ہیں خدا تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے ڈھانپ دیتا ہے اور اپنے فضل کو انسان کی

Page 208

خطبات محمود جلد ۴ ۱۹۹ سال ۱۹۱۴ء نجات کا موجب بنا دیتا ہے.تم جو احمدی کہلاتے ہو یہ کبھی مت خیال کرو کہ ساری دنیا دوزخی ہے.اور صرف ہم احمدی نجات پائیں گے.اس میں شک نہیں کہ جو سلسلہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اس کی نجات ہوتی ہے.لیکن یہ خیال کرنا کہ ہم چونکہ احمدی ہو چکے ہیں اس لئے خواہ کچھ ہی کرتے جائیں ہمیں کوئی نہیں پکڑے گا.یہ بالکل غلط خیال ہے.اور یہ خوب یا درکھو کہ ہمیشہ سے نیک اعمال ہی خدا تعالیٰ کے فضل کے جاذب رہے ہیں.اس لئے نیک اعمال کے لئے کوشش کرو.سستی ،غفلت اور لا پرواہی کو چھوڑ دو.کتنا بڑا کام ہے جس کے کرنے کے تم ذمہ دار ہو.پچھلے دنوں ایک چھوٹا سا فتنہ اپنے میں سے اٹھا تھا اور ابھی تک دور نہیں ہوا تم میں سے کتنے ہیں جو اس فساد کے دور ہونے کیلئے دعائیں کرتے ہیں.یہ تو ایک بہت معمولی سا کام ہے لیکن کتنے ہیں جو اتنے بڑے عظیم الشان فرائض کی بجا آوری کی فکر میں ہیں.سن لو اور دل کے کانوں سے سن لو کہ انعام ہمیشہ کام کرنے والوں کو ہی ملا کرتا ہے یوں کسی بات کا دعوی کر لینے سے کبھی کچھ نہیں ملا.پس تم احمدی ہونے سے نہیں بلکہ احمدیت کے شرائط پورے کرنے سے نجات پاسکتے ہو.اور اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکتے ہو.تمہارا کام اتنا عظیم الشان ہے کہ اگر خدا کی نصرت اور مددکا یقین نہ ہو تو انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے.ایک سے دو سے مقابلہ نہیں بلکہ احمد یوں کا تمام دنیا سے مقابلہ ہے اور اربوں ارب مخالفین سے تھوڑے سے نفوس کی جنگ ہے.پس تم اسی طرح ترقی کر سکتے ہو کہ ہمت اور کوشش کرو.دعاؤں سے کام لو پھر تم اسلام کی اسی شان وشوکت کو دیکھ سکتے ہو جو صحابہ کرام کے وقت تھی.کیونکہ خدا تعالیٰ کا تم سے یہی وعدہ ہے.پس تم ایمان اور اعمال حسنہ میں ترقی حاصل کرو تا کہ کامیاب ہو جاؤ.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کی توفیق دے اور اپنے فضل و کرم سے ہمارے اعمال کو ایسے بنا دے کہ وہ خدا کے فضل کے جاذب ہو جائیں.ورنہ ہم بہت کمزور ہیں.ل البقرة: ۸۲،۸۱ الفضل ۲۲.اکتوبر ۱۹۱۴ء) گلدسته کرامات از مفتی غلام سرور صاحب صفحہ ۳۸ مطبوعہ مفید عام پریس لاہور ۱۳۱۳ھ

Page 209

خطبات محمود جلد ۴ (۴۴) ہر قسم کے شرک اور بد عملی سے بچتے رہیں (فرموده ۲۳ اکتوبر ۱۹۱۴ء) سال ۱۹۱۴ء تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی :.وَإِذْ اَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَذِى الْقُرْبى وَالْيَمى وَالْمَسْكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَاَقِيْمُوا الصَّلوةَ وَأتُوا الزَّكَوةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْكُمْ وَأَنْتُمْ مُّعْرِضُونَ اس کے بعد فرمایا:.پچھلی آیات میں خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی کچھ صفات رذیلہ بیان فرمائی تھیں.ان کی ایک اور صفت بیان فرماتا ہے کہ یہ لوگوں کو ایسی باتیں بتاتے ہیں جو کہ ان کی مذہبی کتاب میں نہیں پائی جاتیں.ایک ایسی جماعت ہے جو کہ مسیح کو خدا کا بیٹا کہتی ہے، روح القدس کو خدا کا شریک ٹھہراتی ہے، اپنے انبیاء احبار اور رہبان کو خدا کی صفات میں شریک سمجھتی ہے.حالانکہ ان کی کتاب میں یہ عہد لیا گیا تھا کہ ہم خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں گے اور اس کو ایک خدا یقین کریں گے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے بنی اسرائیل سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ خدا کے سوا کسی کی پرستش نہیں کریں گے لیکن باوجود اس کے انہوں نے نبیوں کی قبروں پر سجدے کرنے شروع کر دیئے.اب یہی باتیں جو خدا تعالیٰ نے یہود وغیرہ کے متعلق بیان فرمائی تھیں مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں.یہود سے تو صرف عہد ہی لیا گیا تھا کہ تم خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا لیکن مسلمانوں

Page 210

خطبات محمود جلد ۴ ۲۰۱ سال ۱۹۱۴ء پر خداوند تعالیٰ نے اتنا فضل کیا تھا کہ اسلام کی بنیاد ہی لا الهَ إِلَّا اللہ پر رکھی تھی یعنی اس بات پر کہ خدا کے سوائے کوئی معبود نہیں کوئی چیز قابل پرستش نہیں ہو سکتی کسی چیز میں خدا کی صفات نہیں آسکتیں اور خدا اپنی صفات کو دوسروں میں تقسیم نہیں کرتا پھرتا.وہ قادر مطلق ہے وہ ہر ایک کام کو خود کر سکتا ہے اس کو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے مگر باوجود اس کے کہ اسلام کی بنیاد لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ پر تھی آج جس قدر شرک مسلمانوں میں پایا جاتا ہے اور قوموں کی نسبت بہت کم ہے.مسلمان قبروں پر ایسی صفائی اور بغیر کسی قسم کے حجاب کے سجدہ کرتے ہیں کہ خدا کے آگے سجدہ کرنے والوں میں اور ان میں ذرا بھی فرق نہیں رہ جاتا.مجھے اس بات پر سخت تعجب آیا کرتا تھا کیا کبھی کوئی مسلمان بھی قبر پر سجدہ کر سکتا ہے.میں باوجود متواتر شہادتوں اور کھلی باتوں کے اس بات پر یقین نہیں کیا کرتا تھا.لیکن ایک دفعہ جب ہم چند آدمی ہندوستان میں اسلامی مدارس دیکھنے کیلئے گئے تو لکھنو میں فرنگی محل کا مدرسہ دیکھ کر دل بہت خوش ہوا.اچھے لائق اور عالم استاد تھے.ہوشیار اور ذہین شاگرد معلوم ہوتے تھے اس مدرسہ کے دیکھنے کے بعد ہم دیگر مدارس کو دیکھ کر جب شام کو واپس مکان پر آرہے تھے تو ایک قبر کے سامنے جو آدمی پورا پورا سجدہ کر رہا تھا وہ فرنگی محل کے مدرسہ کے ایک مولوی صاحب تھے.مجھے اس کو دیکھ کر بہت تعجب ہوا کہ اس نے علم پڑھ کر اس کی کچھ بھی قدر نہ کی.قبروں پر سجدہ کرنا تو الگ رہا اپنی نفس پرستی ، عیش و آرام پرستی ، دنیا پرستی ، رسم و رواج پرستی میں جس قدر شرک کیا جاتا ہے اسکی تو کوئی حد ہی نہیں.مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اس لئے شرک کا ذکر نہیں سنایا تھا کہ یہودی کیا کرتے تھے بلکہ اس لئے سنایا تھا کہ ایک دن ایسا ہی آنا ہے جب کہ تم نے بھی اس طرح کرنا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہود سے ہم نے یہ اقرار لیا تھا والدین کے ساتھ احسان کرنا.یہ بات اس زمانہ میں مسلمانوں میں سے بالکل مٹ گئی ہے.یہ تو ضروری سمجھا جاتا ہے کہ والدین اولاد سے نیک سلوک کریں ، ان کی پرورش کریں ، ان پر اپنا مال صرف کریں لیکن یہ ضروری نہیں سمجھا جاتا کہ اولا د بھی والدین پر احسان کرے اور ان کی خدمت بجالائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ والدین کی خدمت کرنے کا عہد ہم نے یہود سے لیا تھا لیکن انہوں نے توڑ دیا.پھر یہ عہد لیا تھا کہ قریبیوں، یتیموں ، اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا.پھر تمام

Page 211

خطبات محمود جلد ۴ ۲۰۲ سال ۱۹۱۴ء دنیا میں جس قدر لوگ ہیں ان کو نیک باتیں کہنا.یہ کیا اچھی اور عمدہ تعلیم تھی.کوئی بوجھ نہ تھا کوئی عقل کے خلاف بات نہ تھی.لیکن آج مسلمانوں نے اسی صاف اور سیدھی تعلیم کو بگاڑ کر کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا.کوئی انسانی طاقت اور ہمت سے باہر کام نہ تھا.مگر باوجود ایسی اعلی تعلیم اور اکمل تعلیم کے مسلمانوں نے اس کو چھوڑ دیا.پھر حکم تھا کہ نماز پڑھو یعنی خدا کی عبادت کرو لیکن دیکھ لو کہ کئی کروڑ انسان مسلمان ای کہلاتے ہیں مگر ایسے بہت کم ہیں جو نماز پڑھتے ہیں.پھر حکم تھا کہ زکوۃ دو مگر بہت تھوڑے ہیں کہ اس کے پابند ہیں.اللہ تعالیٰ یہود کی نسبت فرماتا ہے کہ وہ احکام کو سن کر پھر گئے اور ان پر عمل نہ کیا.اسی طرح اب مسلمانوں نے کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام سے اکثر پھر گئے ہیں اور ان احکام کو پیچھے چھوڑ کر بہت آگے نکل گئے ہیں.گندے سے گندا انسان بھی یہ کہنے میں ہر گز نہیں جھجکتا کہ میں متقی اور پرہیز گار ہوں لیکن عمل ایک ایسی چیز ہے جو کہ اصلیت کو ظاہر کر دیتی ہے.خدا تعالیٰ قرآن شریف میں منافقین کی نسبت فرماتا ہے کہ جب وہ باتیں کرتے ہیں تب تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دین سے ان کو بہت گہرا تعلق ہے لیکن جب ان کی کے عمل کو دیکھا جائے تو کچھ بھی نہیں ہوتا.تو کسی چیز کا کھرا اور کھوٹا ہونا اس کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے.دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں جس کے پیرو اس کو جھوٹا سمجھتے ہوں حتی کہ وہ لوگ جو نہایت ہی بدترین مذہب رکھتے ہیں یعنی پاخانہ تک کھا لیتے ہیں اور عورت و مرد کی شرمگاہوں کی پرستش کرتے ہیں وہ بھی یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے مذہب جیسا کوئی اور مذہب پاک اور پوتر نہیں ہے..تو اگر ایک مسلمان بھی اسی مذہب کے پیرو کی طرح صرف زبان سے کہتا کہ ہمارا مذہب سچا ہے اور اس بات کی اپنے عمل سے تصدیق نہیں کرتا.اور لوگوں کو اپنا عمدہ نمونہ نہیں دکھاتا تو اس میں اور ایک وام مارگی میں کچھ بھی فرق نہیں ہے.وہ بھی گند بدکاری اور طرح طرح کی پلیدیوں میں مبتلاء ہے اور یہ بھی.تو پھر اسلام کی خوبی کسی کو کیا معلوم ہوسکتی ہے.ہمیشہ وہی بات اعلیٰ اور عمدہ ہوتی ہے جو تجربہ سے اعلیٰ ثابت ہو.اگر ایک شخص اسلام کی صداقت کا مدعی ہے.اور وہ خود اس کی تعلیم پر عمل نہیں کرتا تو وہ بہ نسبت اس کے جس کے مذہب میں کوئی خوبی نہیں زیادہ مجرم ہے.اس وقت مسلمان ذی القربی کو شریکہ یعنی دشمنی کا باعث سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جن کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا تھا ان سے دشمنی اور لڑائی جھگڑے کئے جاتے ہیں.

Page 212

خطبات محمود جلد ۴ ۲۰۳ سال ۱۹۱۴ء یتیموں کے ساتھ نرمی اور ملاطفت کا حکم تھا لیکن ان کے مال و اموال بڑی دلیری سے کھائے جاتے ہیں.مسکینوں کی خبر گیری ان کا فرض تھا لیکن حقارت نفرت سے ان کو دیکھا جاتا ہے اور ان پر ظلم و ستم کیا جاتا ہے.تمام بنی نوع کو نیک باتیں کہنی ان کا فرض تھا.لیکن یہ آپس کے ہی دو آدمی جہاں اکٹھے ہوتے ہیں اتنا لڑتے ہیں کہ حیرت آتی ہے.یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی کوئی ایسی مشتر کہ جماعت نہیں جو امن و امان سے کام کر رہی ہو.ہندو، عیسائیوں اور سکھوں کی آپس میں صلح ہو سکتی ہے اور وہ مل کر کام کرتے ہیں لیکن مسلمان کبھی مل کر کام نہیں کرتے جہاں اکٹھے ہوتے ہیں لڑائی جھگڑا شروع کر دیتے ہیں.حالانکہ خدا تعالیٰ نے ان کو بتادیا تھا کہ ہم نے یہود کو یہ تعلیم دی تھی جو کہ اس سے پھر گئے یعنی تعلیم تو سچی تھی لیکن انہوں نے اس پر عمل نہ کیا پھر نماز اتنا بڑ ا فرض ہے اس کے تارک کو کافر کہا گیا لیکن اب بہت کم مسلمان ہیں جو پڑھتے ہیں.پھر ز کوۃ کا اتنا بڑا حکم ہے کہ حضرت ابوبکرڑ نے نہ دینے والوں کو فاسق قرار دیا تھا اور ان سے بالکل کافروں جیسا سلوک کیا تھا.حضرت عمرؓ نے کہا بھی تھا کہ یہ لوگ مسلمان ہیں ان سے کچھ تو رعایت کریں لیکن انہوں نے کچھ رعایت نہ کی ۲ اس وقت مسلمانوں میں سے دو فیصدی بھی ایسے نہیں جو کہ زکوۃ دیتے ہیں.اس وقت ان حالات کو جو قرآن شریف نے یہودیوں اور عیسائیوں کے متعلق بیان کئے ہیں پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آج کل کے مسلمانوں کے حالات ہیں.اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرما دے اور اپنی پناہ میں لے کر یہود صفت لوگوں سے علیحدہ رکھے اور اپنے فرمانبردار اور نیک بندوں میں داخل کر دے.ل البقرة : ۸۴ الفضل ۲۹ اکتوبر ۱۹۱۴ ء ) تاريخ الخلفاء للسیوطی حالات سیدنا ابوبکر صفحہ ۵۵ مطبوعہ ۱۳۲۳ مطبع لکھنو.

Page 213

خطبات محمود جلد ۴ ۲۰۴ (۴۵) حج کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام اور صلحاء امت کیلئے بہت دعائیں کرو (فرموده ۳۰.اکتوبر ۱۹۱۴ء) سال ۱۹۱۴ء حضور نے تشہد، تعو ذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اگر جس حساب سے ہماری عید ہے اسی حساب کے مطابق مکہ میں عید ہوئی تو وہاں آج حج کا دن ہے.لاکھوں لاکھ آدمی کوئی کسی قوم کا کوئی کسی ملک کا، ایک دوسرے کی رسم و رواج، ایک دوسرے کی زبان، ایک دوسرے کی عادتوں، ایک دوسرے کی خواہشوں، ایک دوسرے کی اُمنگوں سے ناواقف ایک بہت بڑے وسیع میدان میں جمع ہوں گے اور نہ صرف ان کے سامنے یہ نظارہ ہوگا کہ دنیا کے کن کن کونوں میں خدا تعالیٰ نے اسلام کو پھیلا یا.بلکہ یہ بھی ہوگا کہ اس بے برگ و گیاہ جنگل میں (جہاں ایک مشک پانی کی روپیہ دے کر بھی بمشکل ہاتھ آتی ہے ) کہاں کہاں سے لوگ آئے ہیں یہ عجیب منظر دیکھ کر ہر انسان کے دل میں عجیب کیفیت پیدا ہوتی ہے.اور اسلام کی سچائی کا بہت بڑا ثبوت ملتا ہے کہ اس جنگل اور وادی غیر زرع میں ایک بلند ہونے والی آواز جس کو غیر تو الگ رہے اپنے بھی نہیں سنتے تھے اور آواز دینے والے کو جھڑک دیتے تھے، وہی آواز تمام دنیا کے کونوں تک پہنچ کر آج ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں انسانوں کے اجتماع کا باعث ہوئی ہے.تمام وہاں جانے والے انسانوں کے پیش نظر یہ نظارہ ہوتا ہے کہ کہاں محمد (صلی سایتم ) پیدا ہوئے اور اس نے ایسی آواز بلند کی جو گونجتی گونجتی ہمارے دور دراز ملکوں میں پہنچی اور وہ اپنے اندر ایسی کشش رکھتی تھی کہ

Page 214

خطبات محمود جلد ۴ ۲۰۵ سال ۱۹۱۴ء یہاں کھینچ لائی.اس کے علاوہ اس وقت لوگوں میں ایک محبت اور عقیدت کے جذبات جوش مارتے ہوں گے جبکہ وہ خیال کرتے ہوں گے کہ آج ہم اس متبرک اور پاک سرزمین پر پھر رہے ہیں جس پر آج سے تیرہ سو سال پیشتر حضرت سان لا الہ اتم پھرتے تھے.اور پھر خصوصا یہ کہ جب آنحضرت صلہ یہ تم کو اہل مکہ نے یہاں سے نکال دیا تو کس شان و شوکت سے دوبارہ وہ قدوم میمنت لزوم یہاں پہنچے اور وہ مکہ کے لوگ جن کی اذیتوں اور تکلیفوں کی وجہ سے مسلمانوں کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا اور یہاں لا الہ الا اللہ کہنے کی اجازت نہیں تھی.لیکن آج ہر ایک کی زبان پر الله أكبر الله اكبر لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ اللهُ اَكْبَرُ وَلِلهِ الْحَمْدُ جاری ہوتا دیکھ کر کیا ہی لذت آتی ہوگی.آج کے دن زوال سے لے کر سورج کے ڈوبنے تک حاجی عرفات میں اور مغرب سے لیکر صبح تک مزدلفہ میں آنحضرت سلیم کی سنت پر عمل کرنے والے دعاؤں میں لگے رہتے ہیں.افسوس کہ بہت کم لوگ اس کے طرف توجہ کرتے ہیں اور اکثر ادھر اُدھر پھر کر وقت گزار دیتے ہیں.آنحضرت سل ستم کی نسبت لکھا ہے کہ آپ صبح تک دعاؤں میں مشغول رہتے.دعاؤں کیلئے یہ وقت بہت مبارک ہے.جس کو خدا نے عرفات اور مزدلفہ میں دعاؤں کی توفیق دی ہے وہ تو بہت خوش نصیب ہے لیکن جو اپنے گھروں میں ہیں ان کیلئے بھی خوش قسمتی کا موقع ہے وہ بھی دعاؤں میں مشغول ب سے پہلے اس انسان کے لئے بہت دعائیں کی جائیں جس کے طفیل مذہب اسلام ہمیں ملا یعنی آنحضرت سلیم کیلئے.اگر آپ کی مصیبتیں ، آپ کی جان کا ہیاں اور آپ کی دعائیں نہ ہوتیں تو ہم تک کہاں اسلام پہنچ سکتا تھا.اور آپ نے دن رات لگ کر تیئیس سال متواتر بلا ایک دم اور لمحہ راحت اور چین میں رہنے کے اسلام کی اشاعت کی جس کے نتیجہ میں ایک ایسی جماعت پیدا ہو گئی جس نے ہم تک اسلام کو پہنچایا.تو پہلے آنحضرت صلی یا کہ تم کیلئے پھر صحابہ کی جماعت کے لئے دعائیں کرو.اس نے جماعت نے اپنی جانیں، اپنے مال، اپنا وطن ، اپنی بیویاں ، اپنے بیٹے غرضیکہ سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا.خبیث الفطرت ہے وہ انسان جو صحابہ کرام کی قدر نہیں کرتا ، پھر ان لوگوں کیلئے دعا ئیں کرو جنہوں نے صحابہ سے اخذ کر کے بعد میں آنے والی نسلوں کو اسلام پہنچایا.ان میں سے محدثین کی جماعت جس نے آنحضرت مال یتیم کے اقوال کو ہم تک پہنچایا.پھر آئمہ دین کی جماعت کہ

Page 215

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۴ء جنہوں نے اپنی ساری عمر میں صرف کر کے آنحضرت سیلی نیا اسلام کے اقوال سے مسائل استنباط کئے.پھر وہ جماعت جس کا خدا تعالیٰ سے خاص تعلق ہوتا ہے.یعنی صوفیاء کی جماعت جنہوں نے اسلام کی باطنی خصوصیات کو قائم رکھا.یہ ایسی جماعتیں ہیں جن کیلئے جس قدر بھی دعائیں کی جائیں کم ہیں.پھر اس نے زمانہ میں جس انسان نے ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے.اس کیلئے تڑپ تڑپ کر دعائیں کرو.اسلام کی روح نکل چکی تھی اور اسلام مُردہ ہو چکا تھا.لیکن اس انسان نے اپنے مولیٰ کے حضور شبانہ روز کی عاجزی اور زاری کر کے اور بڑی محنت اور کوشش سے ایک ایسی جماعت بنائی جس کے پاس آج زنده اسلامی موجود ہے.اس جماعت کی ترقی کے لئے دعائیں کرو.پھر ایک حصہ جماعت کا جو علیحدہ ہو چکا ہے اور ابھی تک اپنی ضد پر قائم ہے اس کیلئے دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ انہیں سمجھ دے.پھر قرب الہی کیلئے ، اپنی جانوں کیلئے دعائیں کرو.کہ خدا تعالیٰ اپنی رضامندی کی راہوں پر چلائے کیونکہ جب تک قوم کا ہر فرد اپنے اندر کمالات نہ رکھتا ہو اس وقت تک کوئی ترقی نہیں ہوسکتی.پس اپنے دین کی ترقی ، ایمان کی ترقی اور سلسلہ کی ترقی کیلئے دعائیں کرو.پھر اس کیلئے بھی دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں خدمت دین کی توفیق دے اور تمہاری نسلیں نیک پیدا ہوں.اپنے والدین ، اپنے بھائیوں، اپنے بیٹوں، اپنے رشتہ داروں، اپنے نوکروں، اپنے آقاؤں اور اپنے محسنوں کیلئے دعائیں کرو.میں بھی تمہارے لئے دعائیں کروں گا اور تم بھی میرے لئے دعائیں کرنا.وہ کام جسے ہم نے کرنا ہے بہت ہی عظیم الشان ہے لیکن وہ خدا تعالیٰ جو ایک چھوٹے سے بیج سے بڑ جیسا بڑا درخت اور ایک دانے سے ہزاروں دانے پیدا کر سکتا ہے کیا وہ اشرف المخلوقات انسان کو بڑا نہیں بنا سکتا.ضرور بنا سکتا ہے اور اس کے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے.صرف مانگنے کی دیر ہے.پس تم مانگنے لگ جاؤ.اور خوب دعائیں کرو.خدا تعالیٰ تم سب کی دعائیں قبول فرمائے.الفضل ۵.نومبر ۱۹۱۴ء)

Page 216

خطبات محمود جلد ۴ ۲۰۷ (۴۶) جب مسلمانوں نے خدا تعالیٰ کو چھوڑ دیا تو وہ عزت اور مرتبہ سے محروم ہو گئے (فرموده ۶ - نومبر ۱۹۱۴ء) سال ۱۹۱۴ء حضور نے تشہد ، تعو ذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.ایک زمانہ قوم پر ترقی کا ہوتا ہے اور ایک ایسا بھی زمانہ آتا ہے جبکہ اس قوم کا ہر ایک قدم تنزل کی طرف جاتا ہے.کسی زمانہ میں مسلمانوں کو خدا تعالیٰ نے بڑی عزت اور بڑا رتبہ دیا تھا اور بہت بڑھایا اور بڑی حکومت دی تھی اور یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کا معاملہ ان کی نیکی ، ان کے تقومی اور ان کی پر ہیز گاری کی وجہ سے تھا.سینکڑوں سال تک انہوں نے اللہ تعالیٰ کے انعامات اور افضال کا معائنہ اور مشاہدہ کیا.لیکن پھر جب انہوں نے خدا تعالیٰ کو چھوڑ دیا تو خدا تعالیٰ نے بھی ان کو چھوڑ دیا.اِنَّ اللهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيَّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِم خدا تعالیٰ تو بڑا وفادار بڑی محبت کرنے والا اور بڑا پیار کرنے والا اور اپنے بندوں سے بڑا ہی اُنس رکھنے والا ہے.مگر جب لوگ گندے، بدکار اور شریر ہو جاتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کا عذاب اُن پر نازل ہوتا ہے.یہ کیا ہی پاک قانون اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ کسی قوم کی وہ حالت جس میں وہ ہوتی ہے اور جن آراموں جن سکھوں اور جس قدر ترقی میں ہوتی ہے اس سے وہ نہیں ہٹاتا.جس مزے اور جس آرام و آسائش سے وہ زندگی بسر کر رہی ہوتی ہے اسی میں رہنے دیتا ہے جب تک کہ وہ اپنے نفسوں کی حالت نہیں بدل ڈالتی.اور جب وہ اپنے نفسوں کی حالت کو بدل کر گندی اور نا پاک ہو جاتی ہے تو خدا تعالیٰ اس سے اپنے انعامات چھین لیتا ہے.

Page 217

خطبات محمود جلد ۴ ۲۰۸ سال ۱۹۱۴ء دیکھو اور غور کرو کہ اگر کوئی انسان اپنی آنکھوں کو عمدگی اور احتیاط سے ان قواعد کے ماتحت استعمال کرے جو اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ کے متعلق فرمائے ہیں تو اس کی آنکھیں کبھی اندھی نہیں ہوتیں مگر اس آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں جو کہ خدا کے بتائے ہوئے قوانین سے ایک طرف چلا جاتا ہے.غرضیکہ خدا کبھی کسی سے انعامات نہیں چھینتا لیکن انسان آپ ہی اپنے آپ کو ایسا بنا دیتا ہے کہ انعاموں کے قابل نہیں رہتا.آج کل بھی مسلمانوں کے لئے بڑی تباہی اور ہلاکت کے دن آئے ہوئے ہے معلوم ہوتے ہیں.مگر تم خوب یاد رکھو کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ظلم نہیں ہے اور نہ ہی خدا کبھی کسی پر ظلم کرتا ہے.آنَّ اللهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِت ایسے موقع پر ہزاروں انسان گھبرا گئے ہوں گے اور بہت سارے لوگ تو خدا تعالیٰ کی ہستی اور دین اسلام کی سچائی پر ہی شبہ کرنے لگ جائیں گے کیونکہ وہ خیال کریں گے کہ جس دین پر چل کر ہم کو اس قدر مصائب برداشت کرنے پڑے ہیں وہ سچا نہیں ہو سکتا.مگر تم یہ شبہات جن لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوں گے ان کی حالت کو دیکھو اور ان کے نفسوں کا ہے مطالعہ کرو.آج عام مسلمانوں کی حالت ان کے علماء کی حالت ان کے امراء کی حالت ان کے صوفیاء کی حالت ان کے حکمرانوں کی حالت ان کے بادشاہوں کی حالت کو دیکھو کہ وہ کیسے ہیں.کیا وہ اس قابل ہیں کہ ان کیلئے خدا تعالیٰ کے انعامات قائم رہیں ان کی حالتیں دیکھ کر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ خدا نے جو تباہی ان پر نازل کی ہے یہ اس کے پورے مستحق تھے.خدا کسی پر ظلم نہیں کرتا وہ مسلمان جو تخت حکومت پر متمکن ہیں اور وہ جو بادشاہت کے دعویدار ہیں اور وہ جو کسی ملک کی حکومت کی باگ اپنے ہاتھوں میں رکھتے ہیں اول درجہ کے بدکار، دین سے غافل نماز سے غافل، روزے کے تارک اور حج کے تارک ہیں.پھر اخلاق اور عادت میں نہایت گندے اور خطر ناک قسم کی بدکاریوں میں گرفتار پائے جاتے ہیں.پس ان کے ایسے اعمال کے بعد اللہ تعالیٰ کو ان کی کیا پرواہ ہے کہ وہ ان کو بادشاہت پر قائم رکھے.اور اللہ تعالیٰ کو کیا ضرورت ہے کہ اپنی پیاری مخلوق کی باگ ایسے ظالموں کے ہاتھوں میں دے دے اور اپنے بندوں پر ان خونخوار انسانوں کو حکومت کرنے کی اجازت دے جبکہ کوئی عقل مند انسان کبھی یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کا بیٹا ظالم اور نا ترس استاد کے قبضہ میں ہو جو کہ مار مار کر اس کا چمڑا بھی اُتار دے.تو پھر خدا تعالیٰ کس طرح یہ پسند کرتا ہے کہ اپنی

Page 218

خطبات محمود جلد ۴ ۲۰۹ سال ۱۹۱۴ء مخلوق کی باگ ظالم لوگوں کے ہاتھوں میں دے دے.سواب مسلمانوں نے اپنی کرتوتوں اپنی بداعمالیوں اپنی شرارتوں اور اپنی خباثتوں سے خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑکا دیا ہے اور اب منشائے الہی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک مسلمانوں کی جو نام کی حکومت تھی وہ بھی نہ رہے اور یہ اس لئے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی نا فرمانیاں کرنے والوں کے تباہ ہونے کے کئی ایک نمونے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھے کئی سلطنتوں کو ذلیل و خوار ہوتے دیکھا ان کیلئے بڑا موقع تھا کہ یہ ان سے عبرت حاصل کرتے.خدا تعالیٰ سے تعلق قائم کرتے.قرآن شریف کی طرف لوٹتے.مگر یہ اپنی بدکاریوں سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے بلکہ آگے بڑھتے سوخدا تعالیٰ کا یہ فیصلہ صادر ہو گیا اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نام کی حکومت بھی دنیا سے اُٹھ جائے گی پھر مسلمانوں کی وہی حالت ہو جائے گی جو کہ اس وقت یہودیوں کی ہے.مسلمان ذلیل اور خوار ہوتے رہیں گے.اس وقت یہ خدا تعالیٰ پر کسی قسم کا اعتراض کرنے کے حقدار نہیں ہوں گے کیونکہ خدا نے ان کو بڑے موقع دیئے اور بڑے بڑے نظارے ان کو دکھائے اور بار ہا ان سے درگزر کیا اور کئی دفعہ ان کو متنبہ کیا کہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو لیکن یہ اندھوں کی طرح ان نظائر سے گزرتے گئے اور کچھ پرواہ نہ کی اور خدا کے حکموں کو پس پشت ڈال دیا اس لئے اب ان کی حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ جو ان کی حکومت اس وقت تک قائم ہے اس کو بھی مٹا دیا جاوے.موجودہ وقت کے پیدا شدہ اسباب سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی مرضی ہے کہ ان ظالم ہاتھوں سے حکومت لے کر امن دینے والے ہاتھوں کو دے دی جائے.اہل یورپ نے باوجود عیسائی ہونے کے دنیا سے نیک سلوک کیا.چنانچہ یورپین قوموں کے تحت جو رعایا ہے وہ بہت آرام اور آسائش میں ہے لیکن وہ جو مسلمان کہلانے والے ہیں ان کی رعایا کو کوئی آرام نہیں.ان مسلمانوں کے اخلاق اور اعمال گندے ہو گئے ہیں.اور وہ جو خلیفتہ المسلمین کہلاتے ہیں انکی نسبت عیسائی لوگ رعایا کیلئے بہت زیادہ مفید اور مہربان ہے ہیں.مذہب کو ایک طرف رہنے دو.کچھ اخلاق ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں سارے انسان مشترک ہو سکتے ہیں.اسی لحاظ سے عیسائی بادشاہوں اور امراء کی حالت کا مقابلہ مسلمان بادشاہوں اور امراء سے کرو اور دیکھ لو کہ ان کے عیسائی بادشاہوں کی حالت ان سے بدرجہا اچھی اور اعلیٰ ہے.جس قسم کی بدکاریاں ان مسلمان بادشاہوں اور امراء میں پائی جاتی ہیں عیسائی بادشاہوں اور امراء میں وہ نہیں ہیں.مسلمان غفلت اور خود فراموشی کے گڑھے

Page 219

خطبات محمود جلد ۴ ۲۱۰ سال ۱۹۱۴ء میں گرے ہوئے ہیں لیکن عیسائی اپنی رعایا کوسکھ دینے اور دکھ دور کرنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں.مسلمان اپنے محلوں میں بیٹھے اپنے لئے روپیہ جمع کرتے اور عیش و عشرت میں دن رات گزارتے ہیں.اس لئے وہ جو ازل ہے سے مقدر ہو چکا ہے اس کا ظہور ہو چکا ہے.اور اب اس خدائی فیصلہ کو کوئی ٹال نہیں سکتا.چند دن ہی ہوئے کہ مجھے ایک خط آیا ہے جس میں لکھا ہوا تھا کہ آپ کا ٹریکٹ پڑھا ہے ( یہ بنگالی زبان میں لکھا ہوا تھا) جس میں آپ نے لکھا کہ مسیح اور مہدی آگیا لیکن جب تک قسطنطنیہ کی بادشاہت تباہ نہ ہوئے اس وقت تک مسیح اور مہدی نہیں آسکتا.اس خط کو آئے ہوئے ابھی پانچ ہی دن ہوئے تھے کہ خدائی حکم صادر ہو گیا کہ لوجو یہ مسلمانوں کی نام کی حکومت باقی تھی اس کو بھی ہم مٹا دیتے ہیں.سو یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا ہے اور خدا کا غضب ہے جو مسلمانوں پر نازل ہونے والا ہے.وہ انسان بڑا احمق ہے جو خدائی فیصلہ پر اعتراض کرتا ہے اور وہ انسان ہے جو خدا کے حکم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے؟ خدا تعالیٰ نے جو کچھ کیا ہے انصاف سے کیا ہے اور ترکوں سے جو ان کی نادانی کی وجہ سے سلوک ہونے والا ہے وہ اس کے پورے طور پر حقدار تھے.ایک بزرگ لکھتے ہیں کہ بغداد کی تباہی اور بربادی کے وقت شہر کے امراء اور رؤسا ایک ولی اللہ کے پاس گئے اور کہا کہ شہر کو تباہی سے بچنے کے لئے دعا کرو.انہوں نے فرمایا کہ میں دعا کیا کروں مجھے تو آسمان سے آواز آ رہی ہے کہ يَا أَيُّهَا الكُفَّارُ اقْتُلُوا الْفُجَارَ اے کا فرو! فاجروں کو قتل کرو.پس وہ خدا جس نے اس وقت فاجر مسلمانوں کو کفار کے ہاتھوں قتل کروادیا تھا وہی آج کل کے فاجروں کو کافروں سے قتل کروانے کا منشاء رکھتا ہے کیونکہ یہ اس کے دین کیلئے روک کا موجب ہورہے ہیں.دیکھو عیسائی ملکوں میں جس آزادی کے ساتھ عیسائی مذہب کی تردید ہو سکتی ہے ایسی مسلمانوں کے ملکوں میں نہیں ہو سکتی.ترکوں کی حکومت میں کسی کو اجازت نہیں کے کہ عیسائیوں کے خلاف کچھ کہے یا لکھے.عیسوی مذہب کے خلاف لکھنے والے سزائیں پاتے اور ان کی کتابیں ضبط کر کی جاتی ہیں.لیکن خیال کرو کہ انگریزوں کی حکومت میں ہم کس آزادی سے عیسائیت کی تردید کرتے ہیں اور کتابیں لکھتے ہیں اور خواہ انہی کے ہاتھوں میں کتابیں دی جائیں تو بھی وہ برا نہیں مناتے.بلکہ سنجیدہ اور فہیم لوگ اسلام کی سچائی کو قبول بھی کرتے ہیں.اور جب تک کوئی شخص جوش غضب سے اندھا ہو کر ان کے مذہب پر حملہ نہ کرے وہ کچھ نہیں کہتے.اسلامی حکومتوں میں یہ بات نہیں پائی جاتی.آج

Page 220

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۴ء پچھتیں چھبیس سال ہونے کو ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لوگوں کو اپنے سلسلہ کی طرف بلا یا لیکن گورنمنٹ نے کبھی اتنا بھی نہ پوچھا کہ کیوں تم ایسا کرتے ہو بلکہ ہر وقت آپ کی معین و مددگار رہی.لیکن کابل میں ایک شخص نے کہا کہ میں مسیح موعود کو مانتا ہوں تو وہ اس جرم میں سنگسار کر دیا گیا.کیا برٹش گورنمنٹ نے کسی احمدی کو کبھی قید میں ہی رکھا ہے یا کیا کبھی کسی سے تعرض ہی کیا ہے.ہر گز نہیں تو پھر جب خدا تعالیٰ کے دین کیلئے اس حکومت کا وجود با برکت ثابت ہوا ہے تو اس کا مقابلہ اسلامی حکومتیں کس طرح کر سکتی ہیں چونکہ اسلام کی ترقی مسیح موعود سے وابستہ ہے اور کوئی فرقہ دنیا میں دوسرے مذاہب پر غالب نہیں آسکتا مگر وہی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وابستہ ہو گیا ہے وہ مسلمان جنہوں نے احمد سے اپنا تعلق نہیں جوڑا وہ گرتے ہی جائیں گے.اور گرتے گرتے یہودیوں کی طرح ہو جائیں گے.یہودی موسیٰ علیہ السلام کے نائب کا انکار کرنے کی وجہ سے ذلیل ہوئے تھے.اور انہوں نے حضرت محمد صلی یا الیتیم کے نائب کا انکار کیا ہے چونکہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شان حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شان سے بہت بلند ہے اس لئے آپ کے نائب کا انکار کرنے والوں کی ذلت یہودیوں سے بھی بہت بڑھ کر ہوگی.ان کیلئے یہودیوں کی نظیر موجود تھی اور یہودیوں کے لئے کوئی نظیر نہ تھی.یہودیوں نے حضرت مسیح کو کہا کہ چونکہ ایلیاء نبی آسمان سے نہیں آیا اس لئے ہم اس کے آنے سے پیشتر تمہیں کس طرح مان سکتے ہیں.اور حضرت مسیح نے کہا کہ یحی ہی ایلیاء تھا ہم تو گویا حضرت مسیح نے بتادیا کہ آسمان سے اترنے کا کیا مطلب ہوتا ہے.یعنی آسمان سے آنے والے کی صفات رکھنے والا اس سے مراد ہوتی ہے.مسلمانوں کے پاس یہ ایک بڑی بھاری شہادت موجود تھی.مگر باوجود یہ کہ مسیح موسوی سے مسیح محمدی کی شان بڑھ کر تھی انہوں نے انکار کر دیا.اور اس مسیح کو سخت دکھ دیئے.تم یہ مت سمجھو کہ انہوں نے چونکہ مسیح موعود کو صلیب پر نہیں چڑھایا.اور یہودیوں نے تو مسیح ناصری کو صلیب پر چڑھا دیا تھا اس لئے مسیح موعود کو انہوں نے کوئی دکھ نہیں دیا.ان کا ایسا نہ کر سکنا ہم پر کوئی احسان نہیں ہے.بلکہ یہ تو گورنمنٹ برطانیہ کا ہم پر احسان ہے.خدا تعالیٰ نے اسلامی حکومت کے سلوک کا نمونہ تو دکھا دیا تھا کہ مسیح کو نہیں بلکہ اس کے ایک خادم کو اس نے سنگسار کر دیا.اور سنگسار کرنا صلیب پر چڑھانے سے بہت زیادہ تکلیف وہ ہے.ر پس اسلام کی ترقی احمدی سلسلہ سے وابستہ ہے اور چونکہ یہ سلسلہ مسلمان کہلانے والی وی

Page 221

خطبات محمود جلد ۴ ۲۱۲ سال ۱۹۱۴ء حکومتوں میں نہیں پھیل سکتا اس لئے خدا نے چاہا کہ ان کی جگہ اور حکومتوں کو لے آئے تا اس سلسلہ حقہ کے پھیلنے کے لئے دروازے کھولے جائیں.مصر میں انگریزی حکومت ہے وہاں ہم آزادی سے تبلیغ کر سکتے ہیں.لیکن عرب میں ، شام میں ، کابل میں اس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک کہ کسی رئیس کی پناہ لے کر یا خفیہ طور پر نہ کریں.پس مسلمانوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے تمہاری ترقی کے لئے راستہ کھول دیا ہے تم خدا کے حضور گر جاؤ اور بہت دعائیں کرو کیونکہ اگر ایک طرف ترقی کا زمانہ قریب آرہا ہے تو دوسری طرف دنیا کی خطر ناک تباہی بھی قریب ہے.اس میں کچھ شک نہیں کہ قوموں کی ظاہری حکومتوں کے مٹنے کے ساتھ اُن کے زور بھی ٹوٹ جاتے ہیں اور وہ دنیا کی نظروں سے گر جاتی ہیں.لیکن ہم تو اس خدا کے ماننے والے ہیں جو العمر تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْبِ الْفِيلِ أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا آبَابِيلَ تَرْمِيهِمْ بِحِجَارَةٍ مِّنْ سِجَيْل فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّا كُولٍ ھے کا نظارہ دکھا سکتا ہے.سو بے شک ترکوں کی حکومت خطرہ میں ہے.جس کو مکہ اور مدینہ کی محافظ کہا جاتا ہے مگر تم مسیح موعود کے اس ارشاد کو یاد رکھو کہ اس وقت تک مکہ اور مدینہ ترکوں کی حفاظت کرتا رہا ہے نہ کہ ترک اس کے محافظ رہے ہیں.ترک آج تک کیوں تباہ نہیں ہوئے.کیا ان کی بدکاریاں ایران ، مراکش اور ہندوستان کے بادشاہوں لکھنو کے نوابوں، الجزائر اور ٹیونس کے رئیسوں سے کم تھیں ہر گز نہیں بلکہ یہ اُن سے بڑھ کر تھے جس طرح یہ دین سے ڈور اور بے بہرہ تھے وہ نہیں تھے لیکن ان کے قائم رہنے کی یہی وجہ تھی کہ یہ اپنے آپ کو مکہ اور مدینہ کی طرف نسبت کرتے تھے.خدا تعالیٰ نے ان کی وجہ سے ان کی آج تک محافظت کی ہے ورنہ یہ کبھی کے مٹ گئے م ہوتے.سو یہ ان کے محافظ نہیں ہیں بلکہ خدا نے ان کی وجہ سے اب تک ان پر رحم کئے رکھا ہے.گورنمنٹ برطانیہ نے مسلمانوں پر یہ احسان کیا ہے اور ان کو وفاداری کا بہت عمدہ بدلہ دیا ہے کہ گورنمنٹ روس اور فرانس سے یہ عہد لیا ہے کہ وہ متبرک معتامات کا ادب ملحوظ رکھیں گے.لیکن اگر یہ حکومتیں برطانیہ کی بات نہ بھی مانیں تو ہم اس خدا کے ماننے والے ہیں جو زندہ ہے اور اپنے متبرک معتامات کی خود حفاظت کر سکتا ہے.پس اگر ایک طرف مصیبت کا وقت ہے تو دوسری طرف انعام و اکرام کا بھی وقت ہے.ایسے وقت میں جبکہ دونوں

Page 222

خطبات محمود جلد ۴ ۲۱۳ سال ۱۹۱۴ء پہلوا کٹھے ہوں انسان کو بہت ڈرنا چاہئیے کہ نہ معلوم غفلت ہو جائے جس کی وجہ سے بلا کا پلہ بھاری ہو جائے اور انعامات ہٹا لئے جاویں.میں نہیں سمجھتا کہ وہ احمدی احمدی کس طرح ہو سکتا ہے جس کے دل میں اس نے وقت بھی یہ درد پیدا نہیں ہوتا کہ وہ اسلام کے پھیلنے اور ان لوگوں سے اسلام کے محفوظ رہنے کے لئے جو کہ اس کی نسبت برے خیالات رکھتے ہیں دعائیں کرے.ہمارے پاس سوائے دعا کے اور کوئی چیز نہیں جس سے ہم اسلام کو بچاسکیں.اور اگر ہم خدا تعالیٰ کو اپنا معین و مددگار نہیں بنائیں گے تو اور کون سا ذریعہ ہے جس سے اسلام پھیل سکتا ہے؟ پس اپنے اندر خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کرو تا کاٹے نہ جاؤ اور اخلاص پیدا کرو تا بڑھائے جاؤ.دنیا کی نظروں میں تم قلیل ہو لوگوں کی نظروں میں تم عزت ، حکومت اور مال کے لحاظ سے حقیر ہومگر باوجود اس کے تمہارے پاس وہ کچھ ہے جو اور کسی کے پاس نہیں ہے تمہارا وہ خدا ہے جس کے قبضہ میں لوگوں کے دل ہیں.دلوں کی حکمرانی کے مقابلہ میں تلوار کی بادشاہت کچھ حقیقت نہیں رکھتی.تم اگر نیکی اور تقویٰ اختیار کرو گے تو ساری دنیا تمہارے ساتھ شامل ہو جائے گی.کیا خدا تعالیٰ کے اختیار میں نہیں ہے کہ جو قوم تم پر حکمران ہے اسی کو مسلمان کر دے یہ میرا خیال ہے اور مسیح ناصری کے وقت بھی ایسا ہی ہوا تھا کہ حاکم قوم نے اس کا مذہب اختیار کر لیا تھا.اب بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ یورپ اسلام قبول کر لے گا اور وہی قوم جو تم پر حاکم ہے ایک وقت تمہاری شاگرد ہو کر تم سے دین سیکھے گی.لیکن اس کیلئے شرط یہ ہے کہ تم اپنے اندر تقویٰ پیدا کرو، غفلت اور ستی کو چھوڑ دو اور لغو بحثوں سے احتراز کرو.اور ایسی مجلسیں جن میں ہنسی اور مخول ہوتا ہو، ترک کر دو.اور اپنے دلوں کو نرم کرو بلکہ پگھلالو.کیونکہ پچھلی ہوئی چیز کو جس سانچے میں ڈھالا جائے اسی میں ڈھل جاتی ہے.جن لوگوں کے دل سخت ہوتے ہیں انکو خدا متقیوں کے سانچے میں نہیں ڈھالتا.پس تم خدا تعالیٰ کے حضور اپنے آپ کو ڈال دو.ایک بچہ جس وقت ہاتھ پاؤں بھی نہیں ہلا سکتا اسوقت ماں باپ اس کی فکر کرتے ہیں اور اس کی ہر طرح سے نگہداشت کرتے ہیں.تم بھی خدا تعالیٰ کے آگے اسی طرح اپنے آپ کو ڈال دو.جس طرح دودھ پیتا بچہ ہوتا ہے تاکہ تمہارے بولنے اور کہنے کی بھی ضرورت نہ رہے.اور خدا تعالیٰ خود ہی تمہارے لئے سامان پیدا کر دے.میری یہ باتیں روز کی باتیں نہ سمجھو.ان سے نصیحت حاصل کرو.اگر تم نصیحت حاصل کر لو گے تو بہت جلدی کامیاب ہو سکتے ہو ، ورنہ یاد رکھو ذلیل ہو جاؤ گے.آج تمہارے لئے

Page 223

خطبات محمود جلد ۴ ۲۱۴ سال ۱۹۱۴ء بہت عمدہ موقع ہے اگر تم نے اس کو رائیگاں جانے دیا تو پھر بہت مشکل سے تم کو ترقی نصیب ہوگی.اور یہ بھی ممکن ہے کہ خدا کوئی اور ہی جماعت کو کامیابی عطا کرنے کیلئے چن لے جو اسلام کا بول بالا کرنے والی ثابت ہو.تم غفلت اور سستی کو چھوڑ دو.یہ بہت نازک موقع ہے اس لئے بڑے خوف کا مقام ہے.اور ایسے وقت میں جس طرح اخلاص سے دعائیں نکل سکتی ہیں اور وقتوں میں نہیں نکلتیں.پس تم دعاؤں میں لگ جاؤ.تمہارے لئے رستہ بالکل صاف ہے.دوسرے لوگ آج کل دلائل دے رہے ہیں کہ چونکہ ترکوں نے پہلے جنگ شروع کی ہے اس لئے ہم ان سے بے زار ہیں اور ان سے ہمدردی نہیں رکھتے.مگر ہمیں ہرگز کوئی دلیل دینے کی ضرورت نہیں ہے.ہمیں مسیح موعود نے قبل از وقت بتلا دیا ہوا ہے کہ مجھے ترکوں کے امراء اور حکمرانوں کی حالت اچھی نظر نہیں آتی.یہ لوگ گندے اور بدکار ہو گئے ہیں اور میں ان کی تباہی دیکھ رہا ہوں.آج اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے دن آگئے ہیں.لوگ کہتے ہیں کہ ترکی کا بادشاہ خلیفتہ المسلمین ہے.لیکن تمہارے لئے کتنی آسان بات ہے کہ تم نے ایک خلیفہ کو مانا ہوا ہے تو دوسرا کہاں سے آسکتا ہے اس لئے تمہیں کسی قسم کے دلائل دینے کی ضرورت نہیں کہ ہمیں کیوں لڑکی سے تعلق نہیں ہے.تمہیں مسیح موعود کی وہ پیشگوئی نہیں بھول سکتی جو ۱۸۹۷ء میں آپ نے کشف کے ذریعہ بیان فرمائی تھی کہ میں ترکوں کی حالت اچھی نہیں دیکھتا وہ بدکاریوں میں مبتلاء ہیں.پھر آپ نے خود ہی سوال اٹھایا کہ کوئی کہے کہ وہ تو محافظ حرمین شریفین ہیں وہ نہیں ہیں اور خلیفہ المسلمین زبانی کہہ دینا اور بات ہے لیکن ان سے دین کو بجائے فائدہ کے نقصان پہنچ رہا ہے.تمہارے سامنے آج بھی یہ الفاظ وہی حقیقت رکھتے ہیں جو اس وقت رکھتے تھے اس لئے تمہارے لئے کوئی مشکل امر نہیں ہے.ہاں یہ بھی یادر ہے کہ جہاں تمہارے لئے اس پیشگوئی کے پورا ہونے میں ایمان تازہ ہوئے ہیں وہاں تم میں یہ درد بھی پیدا ہونا چاہئیے کہ دعاؤں میں لگ جاؤ کہ خدا تعالیٰ اس سلسلہ کو ترقی عطا فرمائے.پس تم اپنے دلوں کو اس قابل بنا لو کہ وہ خدا تعالیٰ کے افعال کے جاذب ہو جائیں اور تم پورے اور پکے مومن بن جاؤ.یا د رکھو کہ خدا تعالیٰ کبھی پکے مومن کو ضائع نہیں کرتا.کبھی ضائع نہیں کرتا کبھی ضائع نہیں کرتا.خدا تعالیٰ تمہیں سمجھ دے تا کہ تم میری ان باتوں کی کنہ اور حقیقت تک پہنچو اور سرسری اور ظاہری نظر سے ان کو نہ دیکھو.اس وقت تمہارے لئے

Page 224

خطبات محمود جلد ۴ ۲۱۵ سال ۱۹۱۴ء ایک طرف زہر اور دوسری طرف تریاق ہے.ایک طرف خدا تعالیٰ کے انعام ہیں.اور دوسری طرف ہلاکت کا پیالہ ہے تم اپنے آپ کو اس قابل بناؤ کہ خدا تعالیٰ اپنے انعام تم پر نازل کرے اور ہلاکت کا پیالہ تم سے ٹال دے.اے خدا ! تجھ کو سب قدرتیں ہیں تو ہم سے ایسا ہی کر.ل الرعد: ١٢ الحج: سے مہر منیر مؤلفه فیض احمد فیض جامع غوثیہ گولڑہ صفحه ۳۴.الفضل ۱۲ نومبر ۱۹۱۴ء) متی باب ۱۱ آیت ۱۱ تا ۱۴ ( مفہوما ) برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی انار کلی لاہور ۱۹۴۳ ؛ ه الفيل: ۲تا۶ تذکرہ صفحہ ۳۰۱.ایڈیشن چہارم

Page 225

خطبات محمود جلد ۴ ۲۱۶ (۴۷) عذاب سے قبل اصلاح انسان کو تباہی سے بچالیتی ہے (فرموده ۱۳.نومبر ۱۹۱۴ء) سال ۱۹۱۴ء تشهد تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کی تلاوت کی:.وَمَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ فرمایا:.دنیا میں قسم قسم کے انسان ہوتے ہیں.بعض انسان ایک دفعہ حکم سن کر پوری طرح اس کی فرمانبرداری اور اطاعت کرتے ہیں.بعض کے دلوں میں بار بار دہرانے سے نیکی اور بھلائی کا خیال پیدا ہوتا ہے.کچھ اور لوگ ہوتے ہیں جو بار بار کہنے سے بھی تو جہ نہیں کرتے لیکن اگر ان کوسختی سے کہا جائے تو وہ مان لیتے ہیں.کچھ ان سے بھی سخت طبائع ہوتی ہیں وہ سختی سے کہنے سے بھی نہیں مانتیں.بلکہ سخت ڈر اور خوف ان کو بتایا جائے تو سمجھ جاتی ہیں.اور پھر کچھ طبائع ایسی بھی ہوتی ہیں کہ دوسروں کو سزا بھگتے دیکھ کر سچائی کو قبول کر لیتی ہیں.مگر کچھ لوگوں کے دل ایسے سخت ہوتے ہیں کہ جب تک خود ان پر مصیبت نہ ٹوٹے پڑے ، ان کے دل نرم نہیں ہوتے.ان میں سے وہ جماعت جو بلا کسی جھڑ کی سرزنش ، دھمکی ، ڈراوے ، سزا کا نظارہ دیکھے اور اپنے اوپر مصیبت آنے کے ، ہدایت کو قبول کر لیتی ہے وہ نہایت اعلیٰ درجہ رکھتی ہے.اور پھر اس کے سے اتر کر جس طرح کوئی جماعت ہدایت کو قبول کرتی ہے اسی کے مطابق اس کا درجہ ہوتا ہے مومن انسان کو یہ سوچنا چاہئیے کہ میں کس جماعت میں شامل ہوں.

Page 226

خطبات محمود جلد ۴ ۲۱۷ سال ۱۹۱۴ء اس میں تو کچھ شک نہیں کہ جو شخص بلا کسی قسم کی سرزنش کے بات مان لیتا ہے وہ ان کی نسبت جو مارکھا کر مانتا ہے باعزت ہوتا ہے اور جو دھمکی سے یا مار کی وجہ سے مانتا ہے وہ گرے ہوئے اخلاق کا انسان ہوتا ہے.اس لئے مومن کو باعزت جماعت میں ہی شامل ہونا چاہئیے.وہ انسان جو قید خانہ میں جا کر کہے کہ اب میں بات مان لیتا ہوں وہ بہت ذلیل ہو جاتا ہے.اور لوگوں کی نظروں میں اس کی کچھ عزت نہیں ہوتی لیکن خدا تعالیٰ فوران کسی پر اپنا عذاب نازل نہیں فرما تا بلکہ ڈھیل دیتا ہے.اور بار بار ڈھیل دینے کے باوجود جب کوئی انسان نیکی اختیار نہیں کرتا تو خدا تعالیٰ سزا کا طریق استعمال کرتا ہے.پہلے صرف نصیحت اور ذکر ہی فرماتا ہے مگر جب لوگ نہیں مانتے تو عذاب نازل کرتا ہے.پھر اس عذاب کا کون مقابلہ کر سکتا ہے.اس کا مقابلہ کرنا کوئی آسان کام نہیں بلکہ مشکل بھی نہیں.کیونکہ مشکل کو بھی انسان حل کر ہی لیتے ہیں.خدا تعالیٰ کے عذاب کا مقابلہ تو ممکن ہی نہیں کہ کوئی کر سکے.خدا کی طرف سے ایک ذرہ تکلیف کو بھی انسان برداشت نہیں کر سکتا.اور پھر ہزاروں خدا کے عذاب کی راہیں ہیں.بیماریاں ملکوں کے ملک ویران کر دیتی ہیں.قحط سے لوگوں کے بڑے حال ہوتے ہ ہیں.وہی اولاد جس کیلئے وہ ہر ایک تکلیف برداشت کرنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں، بچہ بیمار ہوتا ہے تو ماں نے راتوں کو جاگتی ہے لیکن قحط کے دنوں میں خدا کا ایسا سخت عذاب نازل ہوتا ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو بھی کھاتی جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ کسی شخص نے بیان کیا کہ ایک دفعہ قحط کے دنوں میں ہم کشمیر جارہے تھے راستے میں ایک جگہ ہم نے دیکھا کہ آگ جلا کر کسی نے بچہ بھون کر کھایا ہے اور اس کی ایک ران پھر کھانے کے لئے رکھی ہوئی ہے.تو خدا تعالیٰ کی گرفت اور عذاب کے وقت لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں کیونکہ اللہ کے عذاب کوئی معمولی عذاب تو ہوتے نہیں ان کا مقابلہ انسانوں کی تکلیفوں اور عذابوں سے کرنا سخت نادانی اور بیوقوفی ہے.خدا تعالیٰ کے عذاب کے وقت کوئی پیاری سے پیاری چیز کسی کو پیاری نہیں رہتی.يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ آخِيْهِ وَأُمِّهِ وَآبِيْهِ.وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ لِكُلِّ امْرِي مِنْهُم يَوْمَئِذٍ شَأْنْ يُغْنِيهِ بھائی بھائیوں کو ، ماں باپ بیٹوں کو ، بیٹے ماں باپ کو ، بی بی خاوند کو، خاوند بیوی کو چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے.ہر ایک انسان اپنی اپنی حالت میں مبتلاء ہوتا ہے.اور کوئی کسی کی مدد کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا.یوں جو لوگ جان قربان کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں اس موقع پر ذرا بھی

Page 227

خطبات محمود جلد ۴ ۲۱۸ سال ۱۹۱۴ء کام نہیں آتے.تو اللہ تعالیٰ کا عذاب بالکل اور چیز ہے اور انسانی عذاب اور چیز.پھر بہت بڑا احمق ہے وہ انسان جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کے نازل ہونے کی ترتیب نہیں دیکھتا اور اس سے فائدہ نہیں اٹھاتا.اللہ تعالیٰ آہستہ آہستہ عذاب نازل کرتا ہے جس طرح وہ رب ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ ربوبیت کرتا ہے اسی طرح عذاب بھی نازل کرتا ہے.لیکن جب عذاب نازل ہو جاتا ہے تو پھر وہ ایسی خطرناک صورت اختیار کر لیتا ہے کہ اس سے بچنے کی کوئی صورت ہی نہیں ہوتی.تم خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کے لئے قرآن شریف نے دو طریق بیان فرمائے ہیں.جو آیت میں نے پڑھی ہے اسی میں یہ دوطریق درج ہیں.اول یہ کہ جس قوم میں نبی موجود ہو اس پر عذاب نازل نہیں ہوتا.یہ تو نبی کا جسمانی طور پر فائدہ ہے جو لوگوں کو ہوتا ہے تو ایک نبی کا زمانہ ہو تو بھی خدا اس کی وجہ سے اس کی جماعت کو بچائے رکھتا ہے اور جماعت کیا نبی سے جسمانی تعلق رکھنے والے کفار کو بھی بچاتا ہے.دوسرا انسان گناہ کر کے خدا تعالیٰ سے بخشش مانگے تو بھی عذاب سے بیچ جاتا ہے.حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے جب انسان تو بہ کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ بہت خوش ہوتا ہے اور فرشتوں کو فرماتا ہے کہ میرے بندے کی حاجت پوری کر دو کیونکہ اس کو یقین ہے کہ میں گناہ معاف کرتا ہوں.اسی لئے میرے پاس آیا ہے.اب میں ضرور اس کے گناہ معاف کر دوں گا.تو دوسرا طریق یہ ہے کہ اگر انسان استغفار کریں اپنے گناہوں کے متعلق معافی کے طلب گار ہوں اپنے اندر عذاب سے بچنے کے لئے صلاحیت پیدا کر لیں تو ایسی حالت میں بھی خدا تعالیٰ ان پر رحم کر دیتا ہے.پہلی صورت تو کسی کسی زمانہ میں ہی میسر ہوتی ہے.لیکن جب یہ زمانہ ہو تو لوگوں کو دوسرا طریق ہی اختیار کرنا چاہیئے.یعنی اپنے گناہوں کی معافی چاہنے کیلئے خدا کے حضور گرنا چاہیئے.آج کل کا زمانہ بھی بڑا نازک ہے.ایک طرف دینی دنیا وی اور روحانی ابتلاء ہیں تو دوسری طرف عزتیں جانیں اور مال ابتلاء میں ہیں.دین کا یہ حال ہے کہ روز بروز کمزور ہی ہوتا چلا جاتا ہے.روحانیت کا یہ حال ہے کہ ایسے ایسے گندے اور مخرب الاخلاق سامان دن بدن پیدا ہورہے ہیں جو روحانیت کو تباہ اور معدوم کرنے کیلئے کافی ہیں.جانوں اور جسموں کا یہ حال ہے کہ ہزاروں قسم کی بیماریاں اور تباہیاں پھیل رہی ہیں.عزت کا یہ حال کہ لڑائیوں نے سینکڑوں کو نہیں بلکہ ہزاروں ایسے لوگوں کو جو بڑی عزت اور تو قیر رکھتے تھے معمولی انسان بنا دیا ہے.

Page 228

خطبات محمود جلد ۴ ۲۱۹ سال ۱۹۱۴ غرضیکہ کوئی عذاب کا ایسا طریق نہیں جو باقی رہا ہو.دین برباد ہو رہا ہے، روحانیت تباہ ہو رہی ہے، حکومتیں مٹ رہی ہیں، عزتیں کھوئی جارہی ہیں، مال و دولت لوٹی جارہی ہے تو ایسے وقت میں بھی اگر کوئی انسان اپنے اندر تبدیلی پیدا نہیں کرتا تو اور کون سا وقت آئے گا جبکہ وہ کرے گا.تم خوب یا درکھو کہ آج کل عذاب کے دن ہیں.ان دنوں میں انسان کو خدا تعالیٰ کے حضور بہت زیادہ گرنا چاہیئے.قادیان کے قریب ہی طاعون ہے اور سخت ہے اسے یہاں آتے ہوئے بھی دیر نہیں لگتی.لیکن تمہارے پاس ایک ہتھیار ہے.اس کو اگر تم چلاؤ تو وہ کبھی یہاں آنے کا نام بھی نہیں لے سکتی.وہ استغفار کا ہتھیار ہے.اگر کامل اصلاح کر کے تو بہ میں لگ جاؤ تو اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ پھر ہم عذاب نہیں دیتے.اللہ تعالیٰ سے سچا تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا.دنیا کی حکومتیں وعدہ کرتی ہیں تو لوگ خوش ہو جاتے ہیں.اور جب خدا تعالیٰ وعدہ کرے تو پھر کیوں بندہ خوش نہ ہو.سو تمہارے پاس ایسا ہتھیار ہے جو کسی حکومت اور کسی زبر دست سے زبر دست انسان کے پاس نہیں ہے.حکومتیں ہزار ہارو پے صرف کر چکی ہیں.ڈاکٹروں نے بڑی بڑی عمریں اس پر صرف کر دی ہیں کہ طاعون کا علاج معلوم ہو.لیکن جب آتی ہے تو کسی کی اس کے سامنے پیش نہیں جاتی.مگر تمہارے پاس وہ علاج ہے کہ اگر تمام دنیا اس کو استعمال کرے تو ساری دنیا پر ہی طاعون کا نام و نشان نہ رہے اور وہ علاج استغفار ہے.یہ ایک ایسا ٹیکہ ہے کہ جو انسان لگائے اس کے قریب بھی طاعون نہیں آسکتی پھر جس جگہ کے لوگ لگا ئیں وہاں بھی نہیں آسکتی.پھر جس ملک کے لوگ لگا ئیں وہاں بھی نہیں آسکتی.پھر ساری دنیا لگائے تو یہ دنیا سے ہی معدوم ہو سکتی ہے اور یہی ایک بلا نہیں جو آج کل نازل ہو رہی ہے.بلکہ قحط بھی پڑ رہا ہے اگر چہ قریبا چار ماہ سے غلہ ہندوستان سے باہر نہیں جاتا.لیکن پھر بھی گرانی بہت بڑھ گئی ہے.اور گورنمنٹ قحط الاؤنس دے رہی ہے اور اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ کیوں غلہ مہنگا ہورہا ہے.یہ تو ظاہری ابتلاء ہیں.جو اس وقت پوشیدہ ہیں مگر ظاہر ہونے والے ہیں.حضرت مسیح موعود لیہ السلام نے جماعت احمدیہ کی نسبت لکھا ہے کہ اس کو زلزلے پر زلزلے آئیں گے.بہت مضبوط دل والے انسان قائم رہیں گے.اور کمزور دل والے تو کہہ اُٹھیں گے کہ ( نَعُوذُ بِالله ) به سلسلہ ہی جھوٹا ہے.دیکھو ایک دو زلزلے ہی کیسے خطرناک آئے ہیں کہ کئی لوگ علیحدہ ہو گئے ہیں.پھر چند دنوں سے میں متواتر دیکھ رہا ہوں کہ کچھ ابتلاء آنے والے ہیں.قریبا مہینہ ہونے کو ہے کہ

Page 229

خطبات محمود جلد ۴ ۲۲۰ سال ۱۹۱۴ء مختلف ابتلاؤں کا مجھے پتہ بتلایا گیا ہے.ان سب کا علاج صرف یہی ہے کہ استغفار کیا جائے اور اپنی اصلاح کی جائے.اللہ تعالیٰ کا عذاب بندوں کی طرح نہیں ہوتا کہ بس پیس کر ہی رکھ دیتا ہے بلکہ اگر انسان اصلاح کرے تو عذاب دور بھی ہو جاتا ہے.پس اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو ، استغفار میں لگ جاؤ اور دعاؤں میں مشغول ہو جاؤ.ابتلاؤں کے دور کرنے کے ذریعے قرآن شریف نے جو بیان فرمائے ہیں وہ یہ ہیں.نماز ، روزہ اور صدقہ.اور یہ بڑا مجرب نسخہ قرآن شریف جیسی اعلیٰ نسخوں والی کتاب کا ہے.اس کے علاوہ استغفار کے بڑے مدارج ہیں.لیکن استغفار منہ سے ہی نہیں ہونا چاہئیے.بلکہ عمل سے بھی اس کا ثبوت ہونا چاہیئے.پس تم نماز ، روزہ ،صدقہ اور تو بہ میں لگ جاؤ اور پیشتر اس کے کہ خدا تعالیٰ کے عذاب آئیں اپنے اندر تبدیلی پیدا کرلو.ان علاجوں میں سے جس جس کی کسی کو توفیق ہے وہ اس پر عمل کرے.یاد رکھو کہ اگر تم تبدیلی پیدا کر لو گے تو خدا تعالیٰ تم کو ہر ایک قسم کے ابتلاؤں سے بچالے گا.اور اگر تم کو تا ہی کرو گے تو میں تو بڑے بڑے طوفان دیکھ رہا ہوں.تمہاری جماعت پہلے ہی کمزور ہے اگر اس پر کچھ اور بوجھ پڑ گیا تو تم جانتے ہی ہو کہ کیا حالت ہوگی.پس جو لوگ یہاں بیٹھے ہیں وہ سن لیں اور جو نہیں بیٹھے ان کو سنا دو.اب وقت ہے کہ کچھ کر لو.یہ خدا تعالیٰ کا تم پر بڑا فضل ہے کہ اس نے تم کو پہلے بتا دیا ہے.خدا تعالیٰ اپنی قدرت اور عذاب کے نظارے دنیا میں دکھانا چاہتا ہے.اور جو لوگ ان لوگوں کی مشابہت اختیار کریں گے جن کیلئے عذاب نازل ہونے والا ہے ان پر عذاب آئے گا اس لئے تم آج ہی سے تبدیلی پیدا کرنی شروع کر دو.اور جس کو خدا نے توفیق دی ہے صدقہ دے اور جس کو طاقت دی ہے روزے رکھے.اس وقت کے سوا اور کون سات وقت آئے گا جب کہ تم اصلاح کرو گے.عذاب آجانے کے بعد پھر کوئی موقع اصلاح کا نہیں ہوتا.اگر کوئی چور چوری کی نیت کر کے گھر سے نکلے اور وہ راستہ ہی سے پلٹ آئے تو وہ بیچ سکتا ہے لیکن اگر کوئی چورسیندھ لگا تا ہوا پکڑا جائے اور وہ اس وقت کہے کہ اب میں تو بہ کرتا ہوں تو کبھی نہیں بچ سکتا.پس اس کے وقت کو غنیمت جانو اور جس قدر بھی اپنی حالتوں میں تغیر پیدا کر سکتے ہو کر لو.جس وقت بڑے عذا آتے ہیں اس وقت خدا تعالیٰ کے فضلوں کے دروازے بھی کھل جاتے ہیں.اس لئے اگر کوئی انسان اس کے حضور گر جائے تو وہ عذاب اس کیلئے فضلوں کا باعث ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ ہم کو ابتلاؤں سے بچائے اور بجائے تنزل کے ترقی عطا فرمائے.اور ہماری کمزوریاں دور کر کے ہمیں نیک اعمال کی

Page 230

خطبات محمود جلد ۴ ۲۲۱ سال ۱۹۱۴ء توفیق عطا فرمائے.خدا تعالیٰ ہماری جماعت کے ہر ایک فرد پر اس دنیا میں اور مرنے کے وقت اور مرنے کے بعد بھی اپنے افضال نازل فرمائے.اور جماعت کو ہر قسم کے تفرقہ اور ہر قسم کے ابتلاؤں سے محفوظ رکھے.آمین الفضل ۱۹.نومبر ۱۹۱۴ء ل الانفال: ۳۴ ل عبس: ۳۵ تا ۳۸

Page 231

خطبات محمود جلد ۴ ۲۲۲ (۴۸) جسمانی اعضاء کی طرح روحانی اعضاء سے کام لینا چاہیئے (فرموده ۲۰.نومبر ۱۹۱۴ء) سال ۱۹۱۴ء تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی :.أَوَلَمْ يَهْلِلَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسْكِينِهِمْ إِنَّ فِي ذلِكَ لايت أَفَلَا يَسْمَعُونَ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَسُوقُ الْمَاءَ إِلَى الْأَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهِ زَرُعًا تَأْكُلُ مِنْهُ أَنْعَامُهُمْ وَأَنْفُسُهُمْ أَفَلَا يُبْصِرُونَ اس کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے انسان کو کچھ اعضاء عطا فرمائے ہیں.ہاتھ ہیں، پاؤں ہیں، کان ہیں، آنکھیں، ناک ہے، زبان ہے اور یہ اس لئے دیئے ہیں کہ انسان محتاج ہے بہت سے اشیاء کا اور وہ اشیاء تمام دنیا میں پراگندہ اور منتشر ہیں اور دوسری مختلف قسم کی ایسی اشیاء میں ملی ہوئی ہیں جو کہ بعض انسان کیلئے مضر ہیں اور بعض مفید ہیں اس لئے خدا وند تعالیٰ نے انسان کے اعضاء تین قسم کے بنائے ہیں.ایک وہ اعضاء جن کے ذریعہ سے انسان اپنی ضرورت کی چیزوں تک پہنچ جاتا ہے یا ان کو اپنے تک لاسکتا ہے.دوسرے وہ اعضاء ہیں جن سے انسان مخلوط چیزوں میں یہ فرق کر سکتا ہے کہ کون میرے لئے مضر ہیں اور کون سی مفید اور کون سی ایسی ہیں جن کا استعمال کرنا چاہئیے اور کون سی ایسی ہیں جن کو اپنے گھر میں رکھنا چاہئیے اور کون سی ایسی ہیں جو پھینک دینی چاہئیں تا کہ ایسا نہ ہو کہ بجائے نفع کے نقصان پہنچ جائے.تیسرے وہ اعضاء ہیں کہ جب کوئی چیز استعمال کی جائے تو وہ فائدہ اٹھاتے ہیں.

Page 232

خطبات محمود جلد ۴ ۲۲۳ سال ۱۹۱۴ء مثلاً پاؤں انسان کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں.کوئی چیز جنگلوں میں، کوئی آبادیوں میں کوئی پانی میں، کوئی خشکی میں کوئی پہاڑوں میں، کوئی غاروں میں ہوتی ہیں لیکن پاؤں ان سب تک انسان کو پہنچا سکتے ہیں.پھر اس چیز کو ہاتھ پکڑ کر لے آتے ہیں.پھر کئی حسیں ہیں جن سے انسان ان چیزوں میں سے اچھی اور بری چیزوں کو پہچانتا ہے.کانوں کے ذریعہ اچھی اور بری آواز معلوم کرتا ہے.آنکھوں کے ذریعہ بھلی اور بری اشیاء میں تمیز کرتا ہے.زبان کے ذریعہ خوش ذائقہ بدذائقہ کا پتہ لگا تا ہے.اور چھونے سے سخت اور نرم پہچانتا ہے ہے.پھر اسی طرح ان چیزوں کے فوائد کے اثرات دیکھ کر عقل کے ذریعہ سمجھتا ہے کہ کون سی میرے لئے مفید اور کون سی مضر ہیں.تو جس طرح انسان کے جسم کیلئے یہ اعضاء خدا تعالیٰ نے بنائے ہیں اور ہر قسم کے اشیاء سے فائدہ اٹھانے اور ان کے نقصانات سے بچنے کے ذرائع بتائے ہیں اسی طرح روحانی اعضاء بھی ہوتے ہیں، روحانی کان بھی ہوتے ہیں، روحانی آنکھیں بھی ہوتی ہیں، روحانی قوت ذائقہ بھی ہوتی ہے اور روحانی حستیں بھی ہوتی ہیں اور ان باطنی اعضاء کے ذریعہ ان چیزوں کو پہچانا جاتا ہے جو روح کے لئے مفید یا مضر ہوتی ہیں.لیکن افسوس کہ ان اعضاء سے بہت کم لوگ فائدہ اٹھاتے اور بہت تھوڑے ان کو استعمال میں لاتے ہیں.کسی شخص نے ایک لطیفہ لکھا ہے اور ہے تو وہ لطیفہ ہی مگر عقلمند انسان ہر ایک بات سے سبق حاصل کر کے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.اس لئے یہ لطیفہ بھی فائدہ سے خالی نہیں.لکھا ہے کہ کسی بادشاہ نے برسبیل تذکرہ اپنے ایک وزیر سے پوچھا کہ دنیا میں اندھے زیادہ ہیں یا سو جا کھے.تو اس نے کہا کہ حضور اندھے زیادہ ہیں.بادشاہ نے کہا کہ یہ بات تو مشاہدہ کے خلاف ہے کیونکہ اگر ہم بازار میں جائیں تو ہمیں سو جاکھے بہت نظر آتے ہیں اور اندھے بہت کم ہوتے ہیں اور اگر تمہاری بات صحیح ہے تو تم اندھوں کی ایک فہرست بنا کر دکھاؤ.اس نے کہا بہت اچھا میں فہرست بنا کر حضور کے پیش کروں گا.اس کے بعد وہ کہیں بازار میں رہتی بٹنے لگ گیا.چونکہ وہ بادشاہ کا درباری تھا اور یہ کام اس کی حیثیت سے بہت گرا ہوا تھا اس لئے جو کوئی گزرتا ہے اس سے پوچھتا کہ جناب کیا کر رہے ہیں؟ تو وہ کہتا کہ رتی بٹ رہا ہوں اور پوچھنے والے کا نام اپنی فہرست میں لکھ لیتا.حتی کہ بادشاہ بھی جب اس راستہ سے گزرا تو اس نے بھی یہی سوال کیا کہ کیا کر رہے ہو؟ تو اس نے کہا کہ رتی بٹ رہا ہوں اور بادشاہ کا نام بھی اس فہرست میں لکھ لیا.دوسرے دن

Page 233

خطبات محمود جلد ۴ ۲۲۴ سال ۱۹۱۴ء اس نے بادشاہ کی خدمت میں وہ فہرست پیش کر دی.کہ دیکھئے حضور اندھے زیادہ ہیں سوجا کھے.بادشاہ نے جب اپنا ہی نام سب سے پہلے دیکھا تو حیران رہ گیا اور پوچھنے لگا کہ یہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ حضور میں رہتی بٹ رہا تھا اور جو گزرتا تھا یہی پوچھتا تھا کہ کیا کر رہے ہوحالانکہ جو کچھ میں کر رہا تھاوہ ہر ایک کو نظر آتا تھا.چونکہ یہ لوگ باوجود دیکھنے کے پھر پوچھتے تھے اس لئے میں نے ان کو اندھوں میں ہی لکھ لیا.تو اس وزیر نے دنیا کے لحاظ سے ایک معقول بات کہی.اور وہ یہ کہ دنیا کے لوگ بہت چیزیں دیکھتے ہیں لیکن ان کے نتیجہ تک نہیں پہنچتے.ان لوگوں کو تو چاہئیے تھا کہ اس سے سوال کرتے کہ کیوں ایسا کر رہے ہو؟ نہ کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ یاکی اب اگر ہم اس اصل کے لحاظ سے دنیا میں غور کریں تو اندھے بہت زیادہ ملیں گے ایسے لوگوں کی گو جسمانی آنکھیں ہوتی ہیں لیکن حقیقت کو نہیں دیکھتے.ان کے جسمانی کان ہوتے ہیں لیکن اصلیت کو نہیں سنتے.انکی جسمانی زبان ہوتی ہے لیکن حق کی بات نہیں پوچھتے اور اگر کسی کے یہ جسمانی اعضاء نہ بھی ہوں تو کیا ہے.بڑی سے بڑی عمر انسان کی دو اڑھائی سو سال تک کی بھی اگر سمجھ لی جائے حالانکہ آج کل تو کوئی بھی اس عمر تک نہیں پہنچتا تو بھی ایک جسمانی اندھے کے لئے محدود زمانہ تک یہ تکلیف ہے لیکن روحانی اندھے کی حالت اس سے بہت بدتر ہوتی ہے.مگر جب ہم دیکھتے ہیں تو جسمانی اندھے تھوڑے ہوتے ہیں مگر روحانی اندھے بہت زیادہ نظر آتے ہیں.وہ عبرت ناک نظائر دیکھتے ہیں مگر عبرت نہیں پکڑتے ، تباہیوں اور بربادیوں کے حالات سنتے ہیں ، مگر غور نہیں کرتے.ایک جسمانی اندھا کیوں بُرا سمجھا جاتا ہے.کسی کی آنکھیں ہیں اور کسی کی نہیں.تو اس میں حرج ہی کیا ہوا.یوں بھی تو دنیا میں ایک دوسرے انسان کے حالات میں فرق ہے.ایک بڑھئی کا کام کرتا ہے تو دوسرا لوہار کا.ایک ایک کام کرتا ہے تو دوسرا دوسرا.اسی طرح اگر ایک کی آنکھیں ہیں اور ایک کی نہیں تو اس کو برا سمجھنے کی کیا وجہ ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ اس کی تمیز کرنے کی ایک حس جاتی رہی ہے اور وہ اپنے راستہ میں حائل ہونے والے گڑھے یا دیوار کو نہیں پہچان سکتا اور وہ اپنے آپ پر حملہ کرنے والے دشمن کو نہیں دیکھ سکتا.اور نہ اپنے بچاؤ کی کوئی تدبیر کر سکتا ہے.وہ نور اور ظلمت میں فرق نہیں کر سکتا اس لئے وہ اور وں سے زیادہ دکھ اور تکلیف میں ہے.اور واقعی اس کیلئے بڑا دکھ ہے اس لئے وہ رحم کے قابل ہے.مگر ہم

Page 234

خطبات محمود جلد ۴ ۲۲۵ سال ۱۹۱۴ء کہتے ہیں کہ روحانی اندھا اس سے بہت زیادہ دکھ میں ہوتا ہے.اور اس کی حالت اس کی نسبت بہت زیادہ قابل رحم ہوتی ہے.ایک جسمانی اندھا آنکھوں کے نہ ہونے کی وجہ سے گڑھوں میں گرتا ہے.تا ہم پھر بھی وہ لاٹھی سے کچھ نہ کچھ اونچ نیچ معلوم کر لیتا ہے.مگر روحانی اندھوں کے لئے کوئی ایسی لاٹھی نہیں ہوتی کہ جس کے ذریعہ سے وہ اپنے آگے کے گڑھوں اور روکوں کو معلوم کر سکیں.جسمانی اندھا تو دوسروں کی بات سن کر سنبھل جاتا ہے اور گڑھے میں گرنے یا کسی چیز سے سر ٹکر ا لینے سے بچ جاتا ہے.مگر روحانی اندھے میں یہ عجیب بات ہوتی ہے کہ وہ بہرہ بھی ہوتا ہے اور جو روحانی بہرہ ہوتا ہے وہ اندھا بھی ضرور ہوتا ہے اور ساتھ ہی گونگا بھی ہوتا ہے اور جب کسی انسان کی روحانی آنکھوں پر پردہ پڑ جائے تو ساتھ ہی اس کی دوسری حسیں بھی ماری جاتی ہیں اس لئے روحانی اندھا بہت خطر ناک مصیبت اور دکھ میں ہوتا ہے.لیکن باوجود اس حالت کے دیکھا جاتا ہے کہ دنیا میں روحانی اندھے اور بہرے بہت زیادہ ہوتے ہیں.ایک نبی جب دنیا میں آکر آواز دیتا ہے تو بہت تھوڑے ہوتے ہیں جو اس کی آواز پر کان دھرتے ہیں.پھر اس قلیل جماعت میں سے بھی بعض یسے لوگ ہوتے ہیں جو نبی کی آواز کوسن تو لیتے ہیں لیکن ان کی بینائی کی طاقت بہت کمزور ہوتی ہے.اور پھر ایک وقت میں ماری ہی جاتی ہے.ایسے لوگ روحانی اندھے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں فرمایا ہے کہ کیا ان لوگوں کو کوئی ہدایت نہیں دی.اس بات نے کہ ان سے پہلے کئی نسلوں اور قوموں کو ہم نے تباہ کر دیا ہوا ہے.ان سے پہلے بڑی بڑی قومیں دنیا میں ایسی گزریں جو صدیوں تک حکومت کرتی رہی ہیں.مگر اب ان کا نام ونشان بھی نہیں ملتا.اس وقت سب سے پرانی دنیا کی تاریخ دس ہزار سال تک کی ملتی ہے.اور بعض ممالک تو ایسے بھی ہیں کہ جن کے تین چار ہزار سال سے پہلے کے حالات معلوم نہیں ہو سکتے.آجکل لوگ ان تباہ شدہ قوموں کے برباد شدہ مکانوں اور گھروں میں چلتے پھرتے ہیں مگر باوجود اس کے کہ یہ ان کیلئے عبرت اور نصیحت کے نشان ہیں ، ان کو دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے اور ان سے کچھ بھی نہیں سمجھتے.تو بتاؤ کہ ان سے زیادہ اندھے اور کون ہوں گے.جو شخص ایک انسان کی آواز نہیں سنتا، وہ بہرہ کہلاتا ہے.مگر ان کی نسبت تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہزاروں سال کی وہ قومیں جو تباہ ہو چکی ہوئی ہیں چیخ چیخ کر سنا رہی ہیں مگر پھر بھی نہیں سنتے تو ان سے زیادہ بہرہ اور کون ہوگا.پھر فرمایا.یہ بہرے ہی نہیں بلکہ اندھے بھی ہیں.کیا انہوں.

Page 235

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۴ء نے دیکھا نہیں کہ کس طرح ہم پانی لاتے ہیں.اور ایک بے برگ و گیاہ زمین جس میں سبزی کا نام ونشان بھی نہیں ہوتا ، پانی پڑنے کی وجہ سے اس میں سے کس طرح کھیتیاں اُگ آتی ہیں.کیا یہ دیکھ کر بھی ان لوگوں کو ہدایت نہیں آتی.اور یہ اس بات سے خوش نہیں ہوتے کہ ان کیلئے بھی ہم نے سامان بنائے ہوئے ہیں.اور نبی ان سامانوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں.تو کیسے سرسبز ہو جاتے ہیں.حضرت زکریا نے حضرت مریم سے جب وہ بچہ تھیں پوچھا.کہ یہ کھانا کہاں سے آیا ہے تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے.اس کہنے کا حضرت زکریا پر اتنا اثر ہوا کہ اسی جگہ دعا کی کہ اے الہی ! مجھے بھی اولاد د بیجئے تا کہ میں بھی اسی طرح کی باتیں اس سے سنوں ۲.تو یہ نبیوں کا کام ہوتا ہے کہ ہر ایک چھوٹی سے چھوٹی چیز کو دیکھ کر بھی فائدہ حاصل کر لیتے ہیں.مگر جو لوگ کوئی فائدہ حاصل نہیں کرتے ان کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ أوَلَمْ تُمَكِّن لَّهُمْ حَرَمًا امِنَا تُجْلَى إِلَيْهِ ثَمَرَتُ كُلِّ شَيْءٍ رِزْقَا مِن لَّدُنَاس کہ تم بھی اس سے انکار نہیں کر سکتے تم پر تو بہت بڑھ کر فضل کیا گیا ہے کہ تمام دنیا کے پھل تمہارے پاس کھنچے چلے آتے ہیں.لیکن پھر تم ہر روز دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے.اور سنتے ہوئے نہیں سنتے.اس قسم کی مخلوق بڑی قابل رحم ہوتی ہے.اور یہ بڑے دکھ میں پڑی ہوئی ہوتی ہے.تَأْكُلُ مِنْهُ أَنْعَامُهُمْ وَأَنْفُسُهُمْ میں خدا تعالیٰ نے ایک بہت ہی لطیف ترتیب رکھی ہے انعام پہلے رکھا ہے اور انفس کو پیچھے کہ کھیتوں سے ان کے چوپائے بھی کھاتے ہیں اور یہ خود بھی کھاتے ہیں.حالانکہ انسان پہلے ہونا چاہیئے تھا کیونکہ سب چیزیں انسان کے لئے ہی بنائی گئی ہیں.دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو پہلے رکھا ہے اور چوپاؤں کو پیچھے فرمایا ہے.فَلْيَنْظُرِ الْإِنْسَانُ إِلى طَعَامِةِ أَنَّا صَبَبْنَا الْمَاءَ صَبَّا ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا فَأَنْبَتْنَا فِيهَا حَبًّا وَعِنَبا وَقَضْبًا وَزَيْتُونَا وَنَخَلًا وَحَدَائِقَ غُلْبًا وَفَاكِهَةً وَابًا مَّتَاعًا لَّكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں قرآن شریف نے ایک قاعدہ کلیہ بیان کر دیا ہے کہ دنیا کی ہر ایک چیز انسان کیلئے ہے اور اسی کے فائدے کے لئے بنائی گئی ہے اور واقعہ میں چونکہ انسان خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہے اس لئے ہر ایک چیز اسی کیلئے پیدا کی گئی ہے.تو یہاں انعام سے پہلے انسان چاہئے تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے پہلے ہی رکھا لیکن کھیتی میں سے چوپائے انسان سے پہلے کھاتے ہیں اور انسان تو کھیتی پک جاتی ہے تب اس میں سے کھاتا

Page 236

خطبات محمود جلد ۴ ۲۲۷ سال ۱۹۱۴ء ہے اس لئے انسان کو اس جگہ پیچھے رکھا.اللہ تعالیٰ یہ کھیتوں کے نظارے اور گزری ہوئی قوموں کی باتوں کی نسبت فرماتا ہے کہ ان میں بڑے نشانات ہیں.یہ دو آیتیں جو میں نے پڑھی ہیں ان میں خدا تعالیٰ نے ایک نہایت لطیف مضمون کی بیان فرمایا ہے.انسانوں کے تنزل کے دو ہی سبب ہوا کرتے ہیں.ایک استغناء کہ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں کسی کی پرواہ نہیں ہے.ایسے لوگوں کی نسبت فرمایا.اَوَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسْكِيهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لأيتِ أَفَلَا يَسْمَعُونَ تم کو کیوں پرواہ نہیں ہے.تم سے کئی پہلی قوموں نے اسی طرح کہا تھا اس لئے وہ تباہ و برباد ہوگئیں.تم ان کے تباہ ہونے سے نصیحت حاصل کرو.دوسر اسبب نا امیدی ہوتا ہے.ایسے لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم کیا کریں ہم سے تو کچھ ہو ہی نہیں سکتا.ان کی نسبت فرمایا: - أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَسُوقُ الْمَاءَ إِلَى الْأَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا تَأْكُلُ مِنْهُ أَنْعَامُهُمْ وَأَنْفُسُهُمْ.کیا تم دیکھتے نہیں کہ کیسی بنجر زمین ہوتی ہے.اس میں جب ہم پانی ڈالتے ہیں تو کھیتی پیدا ہو جاتی ہے.ہم جب خشک زمین سے سرسبز کھیتی پیدا کر سکتے ہیں تو کیا ہم تمہارے دلوں میں کچھ نہیں اُگا سکتے ، ضروراً گا سکتے ہیں.تو یہاں خدا تعالیٰ نے ان دو تنزلوں کے سببوں کو توڑ دیا ہے.تم لوگوں نے بھی دونوں نظارے دیکھتے ہیں.ایک تو ان نظاروں کو قرآن شریف میں پڑھا ہے پھر یہی نظارے تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں کیونکہ تمہارے زمانہ میں ایک خدا تعالیٰ کا مامور آیا.جس کا جن لوگوں نے انکار کیا، خدا نے تمہارے سامنے ان کو ذلیل کر دیا.قادیان آتے ہوئے راستہ میں بٹالہ ہے وہاں محمد حسین ہی کو دیکھ لو.سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اسی نے کفر کا فتوی لگا یا تھا.اُس وقت اس کی بہت عزت ہوتی تھی.مگر آج اس کو دیکھو کہ کس حالت میں ہے.پھر بہت سی بستیاں مسیح موعود کے انکار کی وجہ سے تباہ ہو چکی ہیں.تو تم نے یہ نظارے سنے اور پڑھے ہی نہیں بلکہ آنکھوں سے دیکھے بھی ہیں.پھر ایک انسان کو تمہارے دیکھتے دیکھتے خدا تعالیٰ نے کامیاب کر کے دکھا دیا.اور لاکھوں انسانوں کی جماعت پیدا کر دی.تم نے نہ پہلی تباہ شدہ قوموں کا حال پڑھا ہے بلکہ اس زمانہ میں دیکھ لیا ہے اور تمہارے سامنے کھیتیوں میں پانی برسنے اور ان کے اُگنے کے ہی نظائر نہیں ہیں بلکہ تم نے ایک ایسا کامل انسان دیکھ لیا ہے جس پر خدا نے اپنے فضل کا مینہ برسایا اور

Page 237

خطبات محمود جلد ۴ ۲۲۸ سال ۱۹۱۴ء اس کو سرسبز کر کے دکھا دیا.تو دنیا عذر کرسکتی ہے تو کرے مگر تم خوب یا درکھو کہ تم کوئی عذر نہیں کر سکتے تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے کسی پر خدا کا عذاب نازل ہوتا نہیں دیکھا.اور تم نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ کے نافرمان قوموں کا کیا حال ہوتا ہے اور ان کو کیا سزا ملتی ہے اور تم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں کھیتیوں کے نظاروں سے نصیحت حاصل کرنا نہیں آتا کیونکہ تم نے ان نظاروں کو اپنی آنکھوں.دیکھ لیا ہے.پس تمہارے پاس کوئی عذر نہیں ہے.تم اگر اپنی اصلاح نہ کرو گے تو سب سے بڑے مجرم ہو گے.اس لئے تم اپنے اندر تغیر پیدا کر لو، تبدیلی پیدا کر لو تمہارے لئے ہر ایک حجت پوری ہو چکی ہے.تم نصیحت حاصل کرو اور خدا کے فضل اور انعاموں سے استغناء مت کرو.خدا تعالیٰ بڑی طاقت رکھنے والا ہے لیکن اس کے فضل سے نا امید بھی نہ ہونا.دیکھ خدا تعالیٰ کا فضل جب آتا ہے تو مٹی کو جس پر انسان بیٹھنا بھی پسند نہیں کرتا سرسبز کر دیتا ہے.اور پھر لوگ اسی کے سیر کیلئے جاتے ہیں.تو گو اللہ تعالیٰ کے عذاب بڑے سخت ہوتے ہیں مگر فضل بھی بڑے بڑے کرتا ہے.اگر خدا تعالیٰ کا قہر بڑا ہے تو رحم بھی بڑا ہے.سو تم خدا تعالیٰ کے قہر سے ڈر کر اس کے رحم کے طالب ہو جاؤ.اور غضب سے ڈر کر فضل کے جاذب بن جاؤ ، خدا تعالیٰ بڑا رحیم و کریم ہے ہم نے کب اس کے حضور عرض کیا تھا کہ ہم میں مسیح موعود بھیجو اس نے خود ہی اپنے فضل سے ہم پر یہ احسان کیا.پس اس وقت اپنے دلوں کے دروازے کھول دو اور فائدہ اٹھا لو.اپنے کھیتوں کے گرد آڑیں بنا لوتاکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کی بارش کا پانی اس میں پڑے اور پڑ کر نکل نہ جائے.اب اس شان کا احسان جیسا کہ تم نے دیکھا ہے دنیا میں نہیں آئے گا.بہت لوگ ایسے تھے جو کہتے تھے کہ اگر ہم آنحضرت کے زمانہ میں ہوتے تو ایسا کرتے.ان لوگوں کی اصلیت ظاہر کرنے کیلئے خدا تعالیٰ نے اپنے ایک برگزیدہ کو بھیج دیا کہ اب ہی کچھ کر کے دکھا دو لیکن انہوں نے جو کچھ کیا وہ معلوم ہی ہے.تو پھر کبھی یہ دن نہیں آئیں گے.تم ان سے فائدہ اٹھالو.خدا تعالیٰ تم پر رحم کرے.(الفضل ۲۶.نومبر ۱۹۱۴ء) السجده: ۲۷، ۲۸ ۲ ال عمران: ۳۹،۳۸ ۳ القصص : ۵۸ عبس: ۲۵ تا ۳۳

Page 238

خطبات محمود جلد ۴ ۲۲۹ (۴۹) اللہ تعالیٰ کے احسانات کو یادرکھنا چاہیئے (فرموده ۲۷.نومبر ۱۹۱۴ء) سال ۱۹۱۴ء حضور نے تشہد ، تعوّ ذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں پر بہت بڑے بڑے احسان ہیں مگر بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے منہ سے الحمد للہ نکلتی ہے.ایک ایک ذرہ ہمارے جسم کا اور ہر ایک ذرہ ہمارے کھانے کا جو ہمارے پیٹ میں جاتا ہے اور ہر ایک قطرہ پانی کا جسے ہم پیتے ہیں اور تمام وہ ہوا جو ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی ہے اور ہر ایک سانس کے ساتھ ہمارے اندر جاتی ہے اور ہر ایک چیز جس پر ہماری نظر پڑتی ہے اور ایک ایک لفظ جو ہوا کے ذریعہ ہمارے کانوں میں جاتا ہے اور ہر ایک چیز جسے ہم پکڑتے ہیں اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد دلا رہی ہے مگر پھر بھی بہت کم لوگ ہیں جو اس قدر احسانات کی قدر کرتے ہیں.وہ کیا زمانہ تھا جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوی کیا.پھر دنیا نے کس طرح آپ کا انکار کیا اور آپ سے ٹھٹھا اور ہنسی کرتے تھے.کہنے والے نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ میں نے ہی اسے بڑھایا تھا اور اب میں ہی اسے گھٹا دوں گا.اور واقعہ میں اس وقت کے حالات ایسے تھے کہ وہ ایسا کہہ سکتا تھا.اس نے سمجھا کہ میں نے ہی اشاعتہ السنہ میں اس کی کتاب کی تعریف کی ہے اور میری وجہ سے یہ مشہور ہوا ہے اور میں ہی اب ایک مضمون اس کے خلاف لکھ دوں گا اور میں ہی اس پے کفر کا فتویٰ لگا دوں گا تو یہ گر جائے گا اور تمام لوگ اسے چھوڑ دیں گے.

Page 239

خطبات محمود جلد ۴ ۲۳۰ سال ۱۹۱۴ء لیکن وہ کیا جانتا تھا کہ خدا تعالیٰ نے ایک پیج اپنے ہاتھ سے بویا ہے اور وہ اسے اتنا بڑھائے گا اور اس درخت کو اتنا بڑا بنائے گا کہ اس کے سایہ میں جتنے لوگ بھی آنا چاہیں گے خواہ لاکھوں ہوں یا کروڑوں آجائیں گے اور اس کا سایہ سب کیلئے ہوگا اور اس کی شاخیں پھیلیں گی کہ اس کے نیچے چاہے کتنے آدمی آجاویں وہ سب کو اپنے سائے میں لے لیں گی اور کسی کو سایہ میں لینے سے انکار نہ کریں گی.ہاں بد بختی انسان اس کے سایہ کے نیچے آنے سے انکار کریں گے کیونکہ خدا تعالیٰ کے رازوں کو وہی لوگ جانتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے.اس زمانہ میں کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور آپ کی اس قدر مخالفت ہو رہی ہے اس لئے معلوم نہیں ہوتا کہ حضور کو لوگ کس طرح پہچان کر مان لیں گے.آپ نے فرمایا کہ پہلی رات کے چاند کو تمام دنیا نہیں دیکھ سکتی مگر وہ بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اندھوں کے سوا سارے لوگ دیکھ لیتے ہیں.تو اس وقت آپ کی شان اور قدر کو کون سمجھ سکتا تھا لیکن آج اللہ تعالیٰ نے ثابت کر دیا.گو خدا کا مسیح اب موجود نہیں ہے مگر اس کے لگائے ہوئے پودے کو خدا خود سیراب کر رہا ہے اور خدا کے ملائکہ اس کے بوئے ہوئے بیج کی پرورش کر رہے ہیں.ہماری طرف سے کون سی کوشش ہوئی ہے، یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ لوگوں کے پاس کسی نہ کسی ذریعہ سے حضرت مسیح موعود کی باتیں پہنچ ہی جاتی ہیں.سیلون سے ایک آدمی کا خط آیا ہے.وہ لکھتا ہے کہ میں نے آپ کی کتابیں دیکھیں اور آپ کو مان چکا ہوں.اب مجھے آپ بتلائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے اور کس طرح میں اور لوگوں کو بھی یہ حق پہنچاؤں.ہماری طرف سے وہاں کون گیا ہے اور کس نے اس کو کتا ہیں دی ہیں یہ خدا تعالیٰ کا اپنا ہی کام ہے.ماریشس سے ایک آدمی کا خط آیا ہے.وہ بھی اسی طرح لکھتا ہے ہم نے میں سے کس نے یہ کوشش کی ہے اور کون وہاں گیا ہے، کوئی نہیں گیا.یہ باتیں اسی نے وہاں پہنچائی ہیں جس نے تمام دنیا میں سے ایک بے نشان بستی میں رہنے والے انسان کے دل کو اپنے لئے چنا اور جس میں یہ قدرت تھی اسی نے ان دلوں کو دنیا میں تلاش کیا جن میں اس کی تائید کا جوش پایا جاتا تھا اور اسی نے سیلون اور ماریشس وغیرہ میں ایسے دل تلاش کئے جن میں صداقت کا مادہ تھا.اسی مقادیان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو نہیں جانتے کہ مرزا ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) کیا کرتا رہا ہے.وہ ایک دکانداری سمجھتے ہیں.ان کو یہ معلوم نہیں کہ مرزا کا

Page 240

خطبات محمود جلد ۴ ۲۳۱ سال ۱۹۱۴ء خدا تعالیٰ سے کیا تعلق تھا اور خدا تعالیٰ کا مرزا سے کیا تعلق تھا.مگر سیلون، افریقہ ،عرب ، ماریشس، برما، مالا بار وغیرہ علاقوں میں کس طرح خدا تعالیٰ نے آپ کی صداقت کا بیج پھیلا دیا اور کس طرح اپنے فضل سے اب پھیلا رہا ہے.واقعہ میں دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضل بے انتہا ہیں لیکن لوگ قدر نہیں کرتے.میں نہیں سمجھتا کہ لوگ کونسا ایسا کام کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل اور رحم سے ان میں ایک نبی مبعوث فرماتا ہے اور پھر ایسے لوگوں میں جو کہتے ہیں کہ ہم اس نبی کو قبول نہیں کرتے مگر اللہ تعالیٰ ان پر اپنا فضل نازل کرتا ہے.لوگ اس کو رد کرتے ہیں مگر خدا تعالیٰ ان کو دیتا ہے.لوگ انکار کرتے ہیں مگر خدا تعالیٰ اس انعام کا اعادہ کرتا ہے.لوگ کفر کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ اس پر اصرار کرتا ہے اور انہیں یہ انعام عنایت فرماتا ہے.یہ خالق ہی کا کام ہے جو اس طرح کرتا ہے ہے.حدیثوں میں ایک خبر آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ مسیح ایک منارہ پر نازل ہوگا حضرت مسیح موعود نے اس منارہ کے بنانے کی تجویز کی تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی باتوں کو پورا کرنا انسان کا فرض ہے اس لئے حضرت مسیح موعود نے ایک مینار کی بنیاد ڈالی تھی.اس وقت کے حالات کے مطابق مینار کا بنا مشکل کام تھا.مجھے خوب یاد ہے کہ حضرت صاحب نے مشورہ کیلئے چند آدمی جمع کئے تھے.بھٹہ تیار ہورہا تھا.اینٹیں بن رہی تھیں.بنیا دیں کھودی جا رہی تھیں کہ حکیم حسام الدین صاحب مرحوم آئے انہوں نے حضرت صاحب کے سامنے کھڑے ہو کر کہا حضور ! اس کے لئے دس ہزار روپیہ کی ضرورت ہے حضرت صاحب بار بار فرماویں کہ کوئی ایسی تجویز بتاؤ کہ اس سے کم روپیہ خرچ ہو ہماری جماعت کمزور ہے کہاں دس ہزار روپیہ دے سکے گی.اس وقت واقعی اس قدر رو پیدہ کا جمع ہونا بھی مشکل تھا.مگر آج باہر جا کر دیکھ لوڈیڑھ لاکھ کی عمارتیں کھڑی ہیں اس وقت جتنا منارہ بن بنا اور پھر اس وقت بعض وجوہات سے بننارُک گیا.مجھے خوب یاد ہے کہ ایک آدمی آپ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا کہ ی حضور نے مینار بنانے کے متعلق اعلان کیا تھا کہ بنے گا اور اب روک دیا گیا ہے اس لئے مخالف لوگ ہنس رہے ہیں اور ہم سے محول کرتے ہیں.آپ نے ہنس کر فرمایا کہ اگر سارے کام ہم ہی کر جائیں تو بعد میں آنے کے والے لوگ کیا کریں گے اور وہ کس طرح ثواب لیں گے پھر آپ نے فرمایا کہ بہت سی برکات ایسی ہیں جن کا نزول مینار کے بننے پر ہوگا.اللہ تعالیٰ کا ہر ایک کام اندازے کے مطابق چلتا ہے اور جو وقت اس کے پورا ہونے کا

Page 241

خطبات محمود جلد ۴ ۲۳۲ سال ۱۹۱۴ء ہوتا ہے اس سے پہلے خواہ کتنا ہی زور مارا جائے نہیں ہو سکتا.ایک وہ وقت تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جیسا عظیم الشان انسان فرما تا تھا کہ مینار کے خرچ کے لئے دس ہزار سے کم روپیہ کا اندازہ کرو کیونکہ جماعت اس کو برداشت نہیں کر سکتی.پھر آج یہ وقت ہے کہ ڈیڑھ لاکھ کی عمارت باہر تیار کھڑی ہے اور اس کا سب رو پیدا اسی جماعت نے دیا ہے.پھر آپ کا یہ فرمانا کہ اگر سب کام ہم ہی کر جائیں تو دوسروں کو ثواب کا موقع کس طرح ملے.اللہ تعالیٰ نے شاید اس کیلئے یہی زمانہ رکھا ہوگا.پرسوں مجھے خیال آیا کہ ہم نے جہاں اور بہت سے کام شروع کئے ہوئے ہیں اور پانچ چھ ہزار روپیہ کا ماہوار خرچ ہے وہاں اس کو بھی شروع کر دیا جاوے اور اس میں بھی کچھ خرچ ہوتا رہے اور یہ آہستہ آہستہ بنتا ر ہے اور خدا تعالیٰ ہمیں اس کی تکمیل کا شرف عطا فرمادے اور اس کی برکات کی وجہ سے ابتلاء دُور ہو جاویں.مینار کی تکمیل ہونے پر حضرت صاحب نے بہت سی برکات کے نزول کا وعدہ فرمایا تھا.آج کل بہت سے ابتلاء آنے والے ہیں ممکن ہے اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے ہی ان میں بھی تخفیف کر دے اور ہمیں بچالے.شائد تم لوگ یہ سامنے کی کھٹ کھٹ دیکھ کر حیران ہو گے کہ یہ کیا ہونے لگا ہے میں تمہیں بتا تا ہوں کہ یہ ایک امانت ہمارے ذمہ تھی.میں نے چاہا کہ اگر خدا تعالیٰ توفیق دے تو اس کو پورا کیا جائے.اس لئے میرا ارادہ ہے کہ جمعہ کے بعد اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ کر اس کام کو شروع کرا دیں.اور جس طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق ملتی رہے گی مینار بنتا رہے گا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی مکمل ہو جائے گا.یہ اللہ تعالیٰ کا ایک فضل ہے کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی کام ادھورا نہیں رکھنا چاہا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کام تو جتنے شروع کئے تھے سارے ہی ایسے معلوم ہوتے تھے کہ کون ان کو پورا کرے گا مگر خدا تعالیٰ جس کا خود کفیل ہو اس کے کاموں کو کون روک سکتا ہے سو اس کی توفیق سے سب کام ایک ایک کر کے پورے ہو رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ یہ کام بھی ہماری زندگی میں پورا ہو جائے تا کہ حضرت صاحب نے جو یہ فرمایا ہے کہ وہ تو اب کون لے اس کے ہم ہی مستحق ہو جائیں اور ہم ہی لے لیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے کیا بعید ہے.مگر تم دل سے اللہ تعالیٰ کے انعاموں کی قدر اور شکر کرو کیونکہ خدا تعالیٰ کا فرمان ہے لَئِن شَكَرْتُمْ لازِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدُ ۱۳ اگر انسان خدا کے انعامات کا شکر کرے تو خدا تعالیٰ شکر

Page 242

خطبات محمود جلد ۴ ۲۳۳ سال ۱۹۱۴ء کرنے والے کو بڑی ترقیات دیتا ہے.سو تم یہ خیال مت کرو کہ تم نے بھی دین کی کوئی خدمت یا کام کیا ہے بلکہ تم خدا کا شکر کرو کہ اس نے تمہیں دین کی خدمت کرنے کا موقع دیا ہے.تم اپنی خدمات کا خیال کبھی دل میں نہ لاؤ.خوب یاد رکھو کہ جن لوگوں نے یہ کہا کہ ہم نے خدمات دین کیں انہیں کوٹھوکر لگتی ہے اور پھر ایسی ٹھوک لگتی ہے کہ پھر ان کو اُٹھنے کا موقع ہی نہیں ملتا.پس تم یہ خیال نہ کرو کہ ہم نے یہ کام کیا ہے تمہاری ہستی ہی کیا ہے آنحضرت سلیم نے بھی کبھی نہیں کہا کہ میری وجہ سے اس طرح ہوا ہے.حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی الی تم سے دریافت کیا گیا کہ حضور وفات کے بعد کہاں جائیں گے تو آپ نے فرمایا.اگر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا تو جنت میں جاؤں گا.انہوں نے عرض کیا.کیا آپ کو بھی جنت میں جانے کی نسبت معلوم نہیں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ جنت میں جانا اعمال پر منحصر نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل پر ہے.وہ جس کو چاہے جنت میں داخل کر دے گا ہم تو نبی کریم سنی لیا کہ تم جیسے عظیم الشان انسان نے بھی اپنا جنت میں جانا اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر بتلایا.اور آپ نے یہ نہیں کہا کہ میں نے ایسے ایسے کام کئے ہیں اس لئے میں ضرور جنت میں جاؤں گا.بلکہ آپ نے اعمال کو بیج سمجھا تو اور کون ہے جو اپنے اعمال پر بھروسہ رکھ سکے.جب حضرت خَاتَمَ النَّبِینَ "جیسا انسان اتنی احتیاط کرتا ہے اور وہ بھی خدا کی قدرت اور جمال کو دیکھ کر اپنی کمزوری اور عاجزی کا اقرار کرتا ہے تو تمہاری کیا ہستی ہے.پس تم اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکر ادا کرو.اگر تمہارے ہاتھوں سے کوئی خدمت سرانجام ہو تو یہ نہ کہو کہ ہم نے ایسا کیا بلکہ خدا کا شکر کرو.کیا لاکھوں انسان ایسے نہیں؟ جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا علم ہی نہیں.انہیں آپ کی شناخت کا موقع نہیں ملا لیکن تم نے کیا کیا تھا کہ تمہیں شناخت کی توفیق ملی، یہ خدا تعالیٰ کا فضل تھا.پھر کیا لاکھوں انسان ایسے نہیں ہیں جن کو آپ کی خبر ہوئی لیکن انہوں نے انکار کردیا لیکن تمہارے کون سے اعمال تھے کہ تمہیں مسیح موعود کے ماننے کی توفیق ملی.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ، رحم اور احسان ہی تھا اور کچھ نہ تھا.پھر کیا ہزاروں انسان ایسے نہیں ہیں جنہوں نے وں نے آپ کا انکار تو نہیں کیا لیکن ان کو ایمان لانا نصیب نہیں ہوا لیکن تم میں کون سی خوبی تھی کہ تمہیں یہ موقعہ حاصل ہوا، یہ صرف خدا تعالیٰ کا فضل ہی تھا.پھر کئی انسان ایسے ہیں جنہوں نے آپ کو مان کر انکار کر دیا لیکن تم

Page 243

خطبات محمود جلد ۴ ۲۳۴ سال ۱۹۱۴ء نے کون سے ایسے کام کئے تھے کہ خدا تعالیٰ نے تمہارے ایمان کی حفاظت کی ، بی محض اس کا فضل تھا.پھر ایسے بھی انسان ہیں جنہوں نے مان کر انکار تو نہیں کیا لیکن کسی اور وجہ سے ان کو ٹھوکر لگ گئی ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ تم محفوظ رہے ہو، یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہی ہے.پھر ہزاروں لوگ قادیان میں آئے لیکن انہیں خدمت دین کا اس قدر موقع نہ ملا جس قدر تم کو ملا ہے لیکن تم نے کون سا کام کیا تھا کہ خدا تعالیٰ نے تم کو یہ موقع دیا ہے، یہ اس کا احسان اور فضل ہی ہے.تم میں سے کون ہے جو یہ دعوی کرے کہ میری وجہ سے یہ جماعت بڑھی اور میری وجہ سے یہ سلسلہ قائم ہوا.جو خدا اتنے دلوں کو یہاں پھیر کر لایا ہے اور آج تک مسیح موعود کے کاموں کو انجام دیتا رہا ہے، وہ اب بھی باقی کاموں کے لئے تمہارا ہرگز ہر گز محتاج نہیں ہے.تم اگر کوئی خدمت دین کرتے ہو تو شکر کرو کہ خدا نے تمہیں اپنے فضل سے یہ موقع دیا ہے.انبیاء کی صحبت میں بیٹھنے والوں کا بھی کیا عجیب حال ہوتا ہے.نبی کریم صلی ایلیا میمن نے ایک دفعہ ایک صحابی ها کو بلا کر فرمایا.کیا تمہیں کچھ بتا ئیں.اس نے عرض کیا حضور فرمائیے.آپ نے فرمایا کہ خدا نے مجھے کہا ہے کہ میں تمہیں سورة البينة (لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا ) پڑھاؤں.اس نے زور دے کر پوچھا.کیا خدا نے آپ کو فرمایا ہے کہ آپ مجھے یہ سورۃ پڑھا ئیں اور اس فقرہ کو بار بار دہراتا اور زور زور سے روتا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ کیا میں بھی اس لائق ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھے یاد کرے تو واقعہ میں انسان کا یہی کام ہے کہ اپنے آپ کو کچھ بھی نہ سمجھے.لاکھوں انسان مسیح موعود کے زمانہ کو ترستے گئے ہیں.پھر وہ کیسے خوش قسمت ہیں جنہیں خدا تعالیٰ نے اپنا مامور بھیج کر اپنی طرف بلایا اور ان سے کچھ کام لیا.اگر انسان اپنے آپ کو اور خدا کے احسانوں کو دیکھے اور غور کرے تو اسے اپنی حقیقت معلوم ہو جائے.اس سے زیادہ اللہ کا اور کیا فضل ہوگا کہ ایک نطفہ سے پیدا شدہ کو خدا فرمائے کہ ہم تم سے یہ کام لیتے ہیں.سو اللہ تعالیٰ کے احسانوں کی قدر کرو اور دعا کرو کہ خدا تعالیٰ تم سے یہ کام بھی لے لے.حضرت صاحب نے اس کیلئے بڑی بڑی دعائیں کیں اور ی بڑی بڑی دعاؤں کے بعد اس کی بنیادیں رکھی تھیں.شاید ہماری ہی غلطیوں کی وجہ سے اس میں روک پڑ گئی ہو.آؤ اب ہم دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں تا کہ خدا تعالیٰ اس کی تکمیل کی ہمیں ی توفیق دے.اور شکریہ ادا کرو کہ تم کو بہت سے کام کرنے کی توفیق ملی ہے.خدا تعالیٰ ہم سے

Page 244

خطبات محمود جلد ۴ ۲۳۵ سال ۱۹۱۴ء نیک اور پاک خدمتیں لے اور ہم شکر کریں کہ ہم میں تکبر پیدا نہ ہو.پہلا گناہ ہی اباء ہے جو تکبر سے پیدا ہوا.خدا تعالیٰ ہمیں اباء اور استکبار سے محفوظ رکھے.ہمارا انجام نیک ہو.خدا تعالیٰ کی رضاء کے ماتحت ہماری زندگی اور موت ہو.اس کی رضاء کے ماتحت جو کام ہم سے ہو گئے ہیں یا ہوں گے ان سے آگے دنیا کو فائدہ ہو اور ہم کو ثواب پہنچے.لے مولوی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر رسالہ اشاعۃ السنہ مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال وصفته ابراهیم : الفضل ۳.دسمبر ۱۹۱۴ء) بخاری کتاب الرقاق باب القصد والمداومة على العمل ھے اس صحابی کا نام ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تھا.بخاری کتاب المناقب باب مناقب ابی بن کعب

Page 245

خطبات محمود جلد ۴ ۲۳۶ (۵۰) بغاوت اور سرکشی سے بیچ کر ہی اتفاق قائم رہ سکتا ہے.(فرموده ۴.دسمبر ۱۹۱۴ء) سال ۱۹۱۴ء حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی :.اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَايْتَأَى ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمَنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ اس کے بعد فرمایا:.نعمتوں کا ضائع کرنا آسان ہوتا ہے مگر ان کا حاصل کرنا بہت مشکل کام ہے.آنکھ ہوتی ہے.انسان کیلئے کیسی مفید چیز ہے جو کہ ایک تھپڑ مار کر نکال دی جاسکتی ہے، چھوٹی سی سوئی چبھو کر پھوڑی جاسکتی ہے.لیکن پھر اگر ساری دنیا کے ڈاکٹر مل کر بھی اس کو بنانا چاہیں تو نہیں بنا سکتے.اور اگر کوئی بڑے سے بڑا بادشاہ بھی اپنی تمام بادشاہت دے دے تو بھی ایک پھوٹی ہوئی آنکھ نہیں بن سکتی.اسی طرح خدا تعالیٰ کی تمام نعمتوں کا حال ہے.اللہ تعالیٰ کے سواوہ اور کوئی دیتا نہیں اور نہ کوئی دے سکتا ہے مگر باوجود اس کے بہت لوگ ان نعمتوں کی قدر نہیں کرتے.جب تک کسی کی آنکھیں درست ہوتی ہیں وہ معمولی بات سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ سب لوگوں کی آنکھیں ہیں میری بھی ہیں تو کیا ہوا لیکن جب جاتی رہتی ہیں تو رونے لگتا ہے.اسی طرح کان، ناک ، ہاتھ ، پاؤں وغیرہ ہیں جن کے متعلق اس کو خیال بھی پیدا نہیں ہوتا کہ یہ بھی کوئی چیزیں ہیں لیکن جب یہ نہیں رہتے تو پیٹنے لگتا ہے.

Page 246

خطبات محمود جلد ۴ ۲۳۷ سال ۱۹۱۴ء انسان عمدہ سے عمدہ لطیف سے لطیف اور مزیدار سے مزیدار چیزیں کھاتا ہے لیکن وہ یہ نہیں سمجھتا کہ زبان کا ذائقہ بھی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت ہے، ہاں اگر بیماری کی وجہ سے زبان کا مزہ بگڑ جائے تب اسے پتہ لگتا ہے کہ واقعی یہ بھی کوئی چیز تھی.تو جب ایسے لوگوں کے پاس خدا تعالی کی نعمتیں ہوتی ہیں اس وقت قدر نہیں کرتے اور جب وہ ان سے چھین لی جاتی ہیں تب ان کے حصول کیلئے کوششیں کرتے.ہیں.اس وقت جبکہ انہیں بلا محنت اور مشقت کے اور بلا کچھ خرچ کئے مفت یہ چیزیں دستیاب ہوتی ہیں ، معمولی باتیں سمجھتے ہیں لیکن جب نہیں رہتیں تو محنت اور مال خرچ کر کے ان کو پانے کی سعی لاحاصل کرتے ہیں.تو نعمتوں کا حاصل کرنا مشکل بلکہ بعض کا تو ناممکن ہوتا ہے اور جب وہ ایک دفعہ چھین لی جاتی ہیں تو پھر نہیں دی جاتیں.ایمان اور قلب سلیم کا حصول بڑا مشکل اور بہت ہی مشکل کام ہے اور سالہا سال کی کوششوں اور محنتوں کے بعد یہ بات نصیب ہوتی ہے مگر ایک منٹ میں کفر کا کلمہ بولنے.ساری عمر کا ایمان ضائع ہو جاتا ہے اور پھر اس کے حاصل کرنے کیلئے اتنی ہی کوشش اور محنت نہیں کرنی پڑتی جتنی کہ پہلے کی گئی تھی بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ کرنی پڑتی ہے.اجتماع، اتفاق اور اتحاد بھی خدا تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے.اس کو ضائع کرنے والا تو آسانی سے کر دیتا ہے اور پھر چاہتا بھی ہے کہ دوبارہ ملے لیکن پھر یہ کہاں آسانی سے مل سکتی ہے اسی لئے ہمارے لئے خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے.اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَايْتَأَي ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغِى يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ.اتفاق ، اتحاد اور امن کا حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور جب حاصل ہو جائے تو احسان اور عدل سے کام لینا چاہیے اور بغی سے بچنا چاہئے کیونکہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ فساد پڑے گا، لڑائی جھگڑے ہوں گے اور اتفاق جاتا رہے گا.کسی بزرگ نے مسلمانوں پر یہ بڑا احسان کیا ہے کہ اس نے اس آیت کو خطبہ...میں رکھ دیا ہے اور خدا تعالیٰ کو یہ بات ایسی پسند آئی ہے کہ اس کی قبولیت کو پھیلا دیا ہے اور یہ ہر جگہ پڑھی جاتی ہے.اس آیت میں ایک لطیف اشارہ ہے اور وہ یہ ہے کہ جمعہ پڑھنے کے لئے لوگوں کا آنا ایک اجتماع ہے اور لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اس موقع پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تمہیں اجتماع اور اتفاق کی نعمت حاصل ہو جائے تو تمہیں ہر قسم کی بغاوت اور سرکشی سے بچنا چاہیئے

Page 247

خطبات محمود جلد ۴ ۲۳۸ سال ۱۹۱۴ء تا کہ ایسانہ ہوکہ تم میں پھوٹ پڑنا شروع ہو جائے اور تم کہیں کے کہیں جا پڑو.خدا تعالیٰ کے نزدیک بغاوت اور سرکشی بہت ہی نا پسندیدہ چیز ہے.اتحاد کو توڑ دینا، امن عامہ میں خلل ڈالنا بہت ہی بری بات ہے.یہ ہوتا تو آسان ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس کا پھر حاصل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے.پھر اگر ساری دنیا کا مال و دولت بھی خرچ کر دیا جائے تو بھی کچھ نہیں بنتا.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہوتا ہے کہ امن قائم ہوتا ہے.ہمارے ہاں ہی دیکھ لوکیسا امن ہوتا تھا کیسا اتفاق تھا لیکن کسی کو ایک اعلان کی ایسی ضرورت پڑی کہ سارا امن اور سارا اتحاد اس نے قربان کر دیا.اب اگر کوئی صلح کی آرزو کرے تو اسے کہاں میسر ہو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ انعام دیا تھا اس وقت کیوں قدر نہ کی اور ایسی کون سی اعلان کی ضرورت پڑی تھی.اب دیکھ لوخواہ کتنا ہی زور ماریں لیکن وہ گند جو بعض کے سینوں سے نکلا ہے وہ بھی صلح نہیں ہونے دیتا.اسی طرح خدا تعالیٰ نے دنیاوی رنگ میں ہمارے لئے گورنمنٹ قائم کی ہے.ہمیں کیسا آرام ہے ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہم بلا کسی قسم کے خوف کے جا سکتے ہیں، کیسے آرام اور امن سے عبادتیں کرتے ہیں اور اگر کوئی ہمارے کاموں میں مخل ہوتا ہے تو گورنمنٹ کے سپاہی اس کے روکنے کیلئے تیار رہتے ہیں.آج کل بعض شریر الطبع اور خبیث فطرت لوگ چاہتے ہیں کہ اس امن میں خلل ڈالیں خدا نخواستہ اگر وہ اپنے کاموں میں کامیاب ہو گئے تو پھر دکھ ہی دکھ ہوگا.تمہارا اس وقت جو کچھ فرض ہے وہ میں بار بار بتا چکا ہوں کہ تم امن پسند زندگی بسر کرو اور ان لوگوں سے جو شریر ہیں علیحدہ رہو اور ان کی اصلاح اور درستی کی فکر کرو.تم شاید یہ کہو ہم ایسے نہیں ہیں.یہ ٹھیک ہے کہ تم ایسے نہیں ہو لیکن اگر تمہارے ہمسائے ایسے ہیں تو تم کو بھی اس سے نقصان پہنچے گا.اگر کسی کے ہمسایہ کے گھر کو آگ لگے تو وہ ضرور اس کے گھر تک پہنچتی ہے.اور اگر کوئی شریر گورنمنٹ کے خلاف ڈاکے مارے تو گو تمہیں اس سے کوئی غرض اور تعلق نہیں ہے لیکن وہی ڈاکو ایک دن تم پر حملہ کرے گا خواہ تم کتنے ہی امن پسند ہو.لیکن اگر بعض شریروں کی شرارت سے ملک کا امن اٹھ جائے تو.تمہیں بھی بہت نقصان پہنچے گا اس لئے ملک میں امن قائم رکھنا تمہارا کام ہے.حضرت مسیح موعود علہ السلام کی ہمیشہ یہی تعلیم رہی ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا.آپ کے یہ فقرے میرے کانوں میں گونج رہے ہیں کہ میں نے ایسی کوئی کتاب نہیں لکھی جس میں گورنمنٹ کی وفاداری کی تعلیم نہ دی ہو.میں

Page 248

خطبات محمود جلد ۴ ۲۳۹ سال ۱۹۱۴ء نے اتی (۸۰) کے قریب کتابیں لکھی ہیں اور تمام میں کسی نہ کسی رنگ میں گورنمنٹ کی تابعداری بتائی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لوگوں نے الزام لگایا ہے کہ یہ ( نَعُوذُ باللہ) منافقت سے گورنمنٹ کی خوشامد کرتا ہے لیکن ان احمقوں نے اتنا بھی نہ سمجھا کہ آپ کو گورنمنٹ کی خوشامد کی کیا ضرورت تھی.وہ انسان جس کو خدا تعالیٰ یہ کہے کہ تو میرا رسول اور نبی ہے اس کے نزدیک دنیا کی بادشاہت کیا حیثیت رکھتی ہے.دنیا کی حکومتیں آسمانی حکومت کے مقابلہ میں کچھ وقعت نہیں رکھتیں.میں تو کہتا ہوں کہ تم میں ہر ایک احمدی اگر ان احسانات کو سوچے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے واسطہ سے خدا تعالیٰ نے اس پر کئے ہیں تو اس کے نزدیک بھی کوئی چیز اس سے بڑھ کر قابل وقعت نہیں رہتی.تو کسی کا یہ خیال کرنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خوشامد سے گورنمنٹ کی وفاداری کی تعلیم دی ہے پرلے درجے کی نادانی اور نالائکھتی ہے.آپ نے سچے دل سے اور واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ تعلیم دی ہے.اب اگر کوئی یہ کہے کہ وہ وقتی تعلیم تھی تو وہ منافق ہے وہ احمدی ہی نہیں ہے.بھلا یہ کیونکر ممکن ہے کہ ان آنکھوں کے ہوتے ہوئے جنہوں نے مسیح موعود کو دیکھا اور ان کانوں کے ہوتے ہوئے جنہوں نے آپ کی باتوں کو سنا کوئی کہے کہ گورنمنٹ کی وفاداری نہیں کرنی چاہئیے تو اس کو احمدی سمجھا جائے.گورنمنٹ کی خوشامد کرنے کی ہمیں کوئی غرض نہیں ہے کیونکہ چاہے ہم کہیں کہ گورنمنٹ کے وفادار ہیں اور چاہے نہ کہیں مذہبی آزادی تو ملی ہوئی ہے.اور باقی بھی ہر طرح کے آرام میسر ہیں ، پھر گورنمنٹ کا کوئی بڑے سے بڑا احسان ایسا نہیں ہے جو مسیح موعود کی خدمت کرنے کی وجہ سے ہم پر ہوا ہے.کوئی بڑے سے بڑا عہدہ، کوئی بڑے سے بڑا خطاب ایسا نہیں ہے جو ہمارے لئے مسیح موعود کے خادم ہونے سے بڑھ کر عزت کا باعث ہو سکے.پھر کون سی ایسی چیز ہے جو ہمیں خوشامد پر مائل کر سکتی ہے.نہیں کوئی بھی نہیں.یہ خدا تعالیٰ کا ، آنحضرت سلیم کا اور حضرت مسیح موعود کا حکم ہے کہ ہم گورنمنٹ کی وفاداری کریں اور امن قائم رکھنے کے لئے گورنمنٹ کا ہاتھ بٹائیں.اگر گورنمنٹ ہماری ان باتوں کو خوشامدانہ رنگ میں سمجھے تو یہ اس کی غلطی ہے اور اگر کوئی اور ایسا سمجھتا ہے تو اس کی بھی غلطی ہے.ہمارا یہ ایمان ہے اور اسلام ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ تم ایسا کرو، اس لئے ہم ایسا کرتے ہیں.اور ایک مسلمان اس وقت تک مسلمان ہی نہیں رہ سکتا جب تک وہ بغاوت کے کاموں سے حتی کہ بغاوت کی باتوں سے دور نہ رہے.خدا تعالیٰ

Page 249

خطبات محمود جلد ۴ ۲۴۰ سال ۱۹۱۴ء کے فضل سے ہماری جماعت ایسی ہے اور یہی میرا منشاء ہے.لیکن تم اوروں کو بھی ایسا ہی بنانے کی کوشش کرو.کیونکہ اگر ان کی وجہ سے امن میں خلل واقع ہوگا تو تمہیں بھی ایسا ہی نقصان پہنچے گا جیسا کہ اوروں کو پہنچے گا.کئی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ انسان منہ سے نکال دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اظہار رائے ہے لیکن بعض ایسی باتیں نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں اس لئے تمہیں باتوں میں اور خیالات کے اظہار میں محتاط رہنا ہے چاہیئے.جس وقت کوئی شخص احمدی ہوتا ہے تو اس کو اپنے تمام پہلے والے خیالات قربان کرنے ہوتے ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ سوائے میری جماعت کے اور کوئی جماعت گورنمنٹ کی وفادار نہیں رہے گی ۲ سو یا د رکھو کہ تمہارا کام با امن رہنا ہی نہیں بلکہ ایسے خیالات اور باتیں جن کے اظہار سے گورنمنٹ کی کسی قسم کی سبکی ہوتی ہو پر ہیز کرنا بھی ہے.تم ایسی مجلسوں سے الگ رہو جن میں گورنمنٹ کے خلاف باتیں ہوتی ہیں.۱۹۰۷ء میں جب آریوں میں شورش ہوئی، مجھے خوب یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود کا چہرہ اخبار میں یہ خبر پڑھ کر چمک اٹھا اور آپ نے فرمایا کہ ہماری پیشگوئی پوری ہو رہی ہے کہ ان پر مصیبت آئی ہے.آج اگر حضرت مسیح موعود زندہ ہوتے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ ہر روز اشتہارات شائع کرتے اور گورنمنٹ کی وفاداری کو بار بار دہراتے.گو اس وقت حضرت مسیح موعود ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن آپ کا فیصلہ موجود ہے اور اس فیصلہ کے ہوتے ہوئے اور کسی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ حَكَمًا وَعَدَلًا تھے.اس وقت تم اپنے عمل سے ثابت کر دکھاؤ کہ حضرت مسیح موعود نے جو کچھ کہا تھا وہ ٹھیک ہے.مجھے اس بات کی بڑی خوشی ہوئی ہے کہ باہر سے خط آئے ہیں کہ آپ اعلان کیوں نہیں کرتے.مجھے معلوم ہے کہ ہماری جماعت میں ایسے آدمی موجود ہیں، جو چاہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی بات نہ رہ جائے اور مجھے یقین ہے کہ تمہارے سب کے یہی خیالات ہوں گے لیکن تم اپنے دلوں میں وہ نقشہ بنالو کہ اگر حضرت مسیح موعود اس وقت ہوتے تو آپ جماعت کو کس طرح گورنمنٹ کی وفاداری سے آگاہ کرتے.اس نے وقت بعض شریر لوگ بعض واقعات کی وجہ سے ملک میں فساد ڈلوانے میں لگے ہوئے ہیں.ہماری جماعت کی کے لوگوں کو چاہیے کہ ایسے آدمیوں کو سمجھا ئیں کہ تم اپنا ہی نقصان کر رہے ہو.تم گورنمنٹ کی وفاداری میں آگے بڑھ جاؤ اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ جو امن

Page 250

خطبات محمود جلد ۴ ۲۴۱ سال ۱۹۱۴ء ہمیں اس گورنمنٹ کی وجہ سے میسر ہے اور کسی جگہ نہیں ہے اور اگر کسی میں ہوتا تو حضرت مسیح موعود وہاں پیدا ہوتے لیکن ایسا نہیں ہوا.حضرت مسیح موعود نے کہا ہے کہ اس گورنمنٹ کے بہترین ہونے کا یہی ثبوت ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اسی میں پیدا کیا ہے ورنہ اور جگہ پیدا کرتا تا کہ اسلام آسانی سے پھیل سکتا اس گورنمنٹ کے امن میں خلل ڈالنا گو یا اشاعت اسلام کے کام کو روک دینا ہے.اب دیکھو کہاں تبلیغ ہو سکتی ہے، ہمارے مبلغ سمجھتے ہیں کہ جس سے بات کی جائے وہ کہتا ہے کہ آج کل جنگ کے سوا اور کچھ نہیں سوجھتا.میرا ارادہ تھا کہ مختلف جگہوں میں اور مبلغ بھیجوں اور اگر جنگ نہ ہوتی تو کئی جگہ حضرت مسیح موعود کا نام پہنچ جاتا.لیکن اب نہیں بھیجے جا سکتے.تو جس قدر امن زیادہ ہوگا اس قدر ہمارا سلسلہ ترقی کرے گا.اس بات کو سمجھ کر ہر ایک احمدی کو چاہیے کہ وہ اپنے حلقہ اثر میں امن قائم رکھنے کی باتیں سناتا ہے رہے اور اس بات کی ہرگز پرواہ نہ کرے کہ کوئی اسے خوشامدی کہتا ہے، ہماری غرض خوشامد نہیں بلکہ حق کو پہنچانا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ گورنمنٹ کے ہم پر احسان ہیں پھر ہم اس کی قدر کیوں نہ کریں کہ اگر کسی کو امن نہیں تو وہ حکومت چھوڑ کر چلا جائے قرآن شریف سے یہی ثابت ہوتا ہے.بغاوت اور مخالفت کی اسلام نے کبھی اجازت نہیں دی.اللہ تعالیٰ تمہیں ان باتوں کے سمجھنے کی توفیق دے اور تم دنیا کے امن سے فائدہ اٹھا کر حضرت مسیح موعود کا نام پھیلانے کے قابل ہو سکو اور اللہ تعالیٰ کا جاہ وجلال اور آنحضرت سالی سیا سیم کی اور حضرت مسیح موعود کی صداقت تمام دنیا پر پھیل جائے.التحل: ٩١ تحفہ قیصریه صفحه ۱۲ روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۲۶۴ سے تحفہ قیصریه صفحه ۳۲،۳۱ روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۸۴،۳۸۳ (الفضل ۱۰.دسمبر ۱۹۱۴ ء )

Page 251

خطبات محمود جلد ۴ ۲۴۲ (۵۱) اصل دولت صداقت اور راستی ہے اس کی حفاظت کرو (فرموده ۱۱.دسمبر ۱۹۱۴ء) سال ۱۹۱۴ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.دنیا میں دو قسم کے انسان ہوتے ہیں.ایک وہ جنہیں محنت اور کوشش کے ساتھ سامان زندگی مہیا کرنے پڑتے ہیں اور ایک وہ جنہیں مہیا کئے کرائے سامان مل جاتے ہیں.ہر ایک وہ انسان جس کے پاس بہت سی دولت اور مال ہو، بہر حال انہیں دو قسم کے لوگوں میں سے ایک قسم میں شامل ہوگا.یا وہ غریب ماں باپ کے گھر پیدا ہوا ہو گا اور اس نے اپنی محنت اور کوشش سے دولت کمائی ہوگی یا یہ کہ وہ دولت مند گھرانے کی میں پیدا ہوا ہوگا اور اس کو ورثہ اور ترکہ میں دولت ملی ہوگی اور وہ ہلا کسی قسم کی محنت اور کوشش کے اس دولت سے فائدہ اٹھا رہا ہو گا.اسی طرح جو غرباء ہیں ان کی بھی دو ہی قسمیں ہیں.یا تو وہ ایسے لوگ ہوں گے جن کے ماں باپ غریب تھے اور اس غربت کی وجہ سے وہ غریب ہی رہے یا ایسے ہوں گے جن کے ماں باپ تو بڑے دولت مند اور بڑے مالدار تھے مگر وہ اپنی بیوقوفی ، اپنی نا لا کھتی ، اور اپنی کوتاہ اندیشی سے ی اسراف کرنے کی وجہ سے مفلس غریب اور نادار ہو گئے ہوں گے.ان دو اقسام کے سوا تیسری کوئی قسم نہیں ہو سکتی.ان دونوں قسم کے لوگوں میں سے ایسے لوگ جو غریب والدین کے گھر پیدا ہوئے اور انہوں نے دنیا میں کوئی ایسا کام نہ کیا جس سے ان کی دولت مال ، عزت آبرو بڑھتی اور انہوں نے خدا تعالیٰ کے دیئے ہوئے قومی سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا ، اچھے اور کسی کی تعریف کے قابل نہیں ہیں.مگر بہت ہی خراب ہیں وہ لوگ جنہوں نے خدا تعالیٰ کی دی ہوئی دولت اور مال کو ضائع کر دیا اور غریب اور

Page 252

خطبات محمود جلد ۴ ۲۴۳ سال ۱۹۱۴ء کنگال ہو گئے.تمام دنیا کے انسانوں کا مذہب میں بھی یہی حال ہے.ایک گروہ تو ایسا ہوتا ہے کہ اس کو صداقت ورثہ میں ملی ہوتی ہے اور اس کو پیدا ہوتے ہی ماں باپ سے صداقت ملتی ہے اور شروع سے اس نے کے کان خدا تعالیٰ کی تحمید اور تقدیس کو سنتے ہیں، اس کی آنکھیں اپنے والدین کو خدا تعالیٰ کی عبادت ہے کرتے دیکھتی ہیں، اس کا دل اپنے والدین کی دینداری سے متائثر ہوتا ہے جیسے ایک سچے مسلمان کی.اولاد.اور ایک گروہ وہ ہوتا ہے جس کو پیدائش سے ورثہ میں صداقت تو نہیں ملی ہوتی جیسے دیگر مذاہب والے لوگ مگر ان میں سے کچھ لوگ مسلمان ہو کر خود صداقت حاصل کر لیتے ہیں.اسی طرح گمراہ لوگوں کی کا حال ہے یا تو وہ لوگ گمراہ ہوتے ہیں جن کو گرا ہی ورثہ میں ملی ہوئی ہوتی ہے یعنی وہ ایسے مذاہب اور قوموں میں پیدا ہوتے ہیں جن میں کوئی نور کوئی ہدایت نہیں ہوتی جیسے ان کے ماں باپ گمراہی میں پڑے ہوتے ہیں اسی طرح وہ ہوتے ہیں.یا وہ لوگ گمراہ ہوتے ہیں کہ ان کو صداقت تو ملی ہوتی ہے لیکن باوجود صداقت کے ملنے کے اس سے فائدہ نہ اٹھانے کی وجہ سے گمراہ ہو جاتے ہیں جیسے آج کل کے مسلمان.بے شک وہ انسان قابل ملامت ہے جس کے ماں باپ گمراہ تھے اور وہ بھی گمراہی میں رہا.کیوں اس نے نے ہمت اور کوشش سے کام لے کر ہدایت حاصل نہیں کی.جب خدا نے اس کو ایسا ہی دماغ دیا تھا جیسا کہ وہ اپنے پیاروں کو دیتا ہے، ایسی ہی آنکھیں دی تھیں جیسی کہ وہ اپنے محبوبوں کو دیتا ہے، ایسے ہی کان دیئے تھے جیسے کہ وہ اپنے محبوں کو دیتا ہے اور ایسا ہی دل دیا تھا جیسا کہ وہ اپنے عزیزوں کو دیتا ہے تو کیوں اس نے ان سے فائدہ اٹھا کر ہدایت اختیار نہیں کی لیکن بہت زیادہ ملامت اور نفرین کے قابل وہ انسان ہے جس کو صداقت ملی اور اس نے اس کو چھوڑ کر گمراہی اختیار کر لی.مسلمانوں کی حالت اسی طرح ہے جس طرح کسی کو ورثہ میں دولت ملی ہو اور وہ اسے چھوڑ چھاڑ کر کنگال اور نادار ہو گیا ہو.ایسے شخص کو جس نے کہ ماں باپ کی دولت کو ضائع کر دیا ہومسلمان بھی یہی کہتے ہیں کہ بڑا نالائق اور بیوقوف ہے اس نے ماں باپ کی دولت کو ضائع کر دیا ہے اور مفلس اور نادار ہو گیا ہے لیکن وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہمیں والدین سے ورثہ میں کیا ملا تھا اور ہم نے اس کی کیا قدر کی ہے.ایک مسلمان کے پیدا ہوتے ہی سب سے پہلے توحید کی تعلیم اس کے کان میں ڈالی جاتی ہے.اور وہ جوں جوں بڑا ہوتا ہے اپنے والدین کو نماز پڑھتے ، روزہ رکھتے پھلی باتیں کہتے دیکھتا اور بڑا ہو کر قرآن شریف جیسی نعمت کو پاتا اور آنحضرت ملا سلیم کیپاک تعلیم کو دیکھتا ہے اور ان باتوں کے

Page 253

خطبات محمود جلد ۴ ۲۴۴ سال ۱۹۱۴ء ہوتے ہوئے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہوتی.مگر باوجود اس کے کہ پکا پکا یا کھانا اس کے سامنے رکھا ہوتا ہے مگر پھر بھی سو میں سے ایک ہی ہوتا ہے جو اس کی قدر کرتا ہے.قرآن شریف مسلمانوں کے گھروں میں ہوتا ہے لیکن وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے ، آنحضرت سیلی یہ تم کا کلام ان کے پاس موجود ہوتا ہے لیکن انہیں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ اس سے مستفیض ہوں اور یہ اس احمق کی طرح ہیں جس کے گھر میں کھانا موجود ہو اور وہ بھوکوں مر رہا ہو.اس سے زیادہ احمق کون ہے جس کے صحن میں کنواں موجود ہو اور وہ پیاسا جان تو ڑ رہا ہو.وہ شخص بھی دکھ میں ہے جو جنگل میں پیاسا مر رہا ہو مگر قابل ہزار ملامت وہ ہے جس کے گھر میں کنواں ہو اور وہ پانی نہ پیتا ہو.مسلمانوں کو خدا تعالیٰ نے پانچ وقت دن میں نماز پڑھنی سکھلائی اور اس میں بڑی اعلی درجہ کی دعائیں سکھائیں.خدا کے حضور گرنے کا طریقہ بتایا، خدا کی مدد پر بھروسہ رکھنے کا طریق بتایا، بدیوں سے بچنے کے احکام بتائے اور سیدھا راستہ اختیار کرنے کے لئے صاف اور کھلی کھلی تعلیم دی مگر با وجود ان باتوں کے گمراہی میں پڑے رہنا بد بختی کی دلیل نہیں تو اور کیا ہے.ان کے گھر میں کنواں ہے مگر یہ اس سے اپنی پیاس کو نہیں بجھاتے ، ان کے گھر میں روٹی ہے مگر یہ اسے کھا کر بھوک دور نہیں کرتے.ان کو ماں باپ سے دولت ورثہ میں ملی تھی لیکن انہوں نے اس کی کچھ قدر نہ کی.یہی قرآن تھا جس نے اہل عرب کے بدترین لوگوں کو ایسا بنا دیا کہ آج دنیا ان کے نمونہ کو اپنا را ہنما بنارہی ہے.اور انہوں نے بڑی محنتوں اور کوششوں سے سب کچھ حاصل کیا تھا لیکن آج مسلمانوں کو کوئی محنت اور مشقت نہیں کرنی پڑتی تاہم ہر ایک زندگی کے شعبہ میں کمزور اور ذلیل ہیں.احمدی جماعت میں سے اگر کوئی شخص ایسا ہو تو اس کیلئے بہت ہی زیادہ افسوس کا مقام ہے کیونکہ اس کے لئے صرف اسلام کی تعلیم ہی نہیں ہے بلکہ اس نے تو اس تعلیم سے جو ثمرات حاصل ہوتے ہیں وہ بھی دیکھ لئے ہیں.ہم احمدیوں کو کسی نئی محنت اور کوشش کی ضرورت نہیں ہے.ایک عیسائی جو عیسائی ماں باپ کے گھر پیدا ہو اس کیلئے ، ایک ہندو جو ہندو ماں باپ کے گھر پیدا ہو اس کیلئے اور اسی طرح دوسرے لوگوں کیلئے حق اور صداقت کا اختیار کرنا بڑا مشکل ہے اور انہیں اپنے عزیزوں، رشتہ داروں، بیوی بچوں، دوستوں، دولت، مال و جائداد کو چھوڑنا پڑتا ہے پھر مختلف رسومات، عقائد اور خیالات کو ترک کرنا پڑتا ہے اور پھر وہ خود غور و خوض اور تحقیق کر کے حق مذہب کو اختیار کرنا چاہے تو

Page 254

خطبات محمود جلد ۴ ۲۴۵ سال ۱۹۱۴ء اس کیلئے ہزاروں سال درکار ہیں.لیکن بتاؤ مسلمانوں کو اسلام کیلئے کیا کچھ چھوڑنا پڑتا ہے.قرآن پر عمل کرنے سے دوست آشنا، بیوی بچے، مال و دولت کچھ بھی نہیں چھوڑنا پڑتا تو پھر اگر کوئی ایسا شخص جو اسلام کے احکام پر نہ چلے تو اس پر کتنا افسوس ہے.اسلام کے احکام پر عمل کرنے سے کوئی مصیبت اور تکلیف نہیں ہوتی صرف ہمت اور ارادہ اور اخلاص کی ضرورت ہے اور ہم احمدیوں کیلئے تو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے بہت ہی آسان کر دیا ہے اس لئے ذرا بھی کوتاہی نہیں ہونی چاہیئے.تم خوب یادرکھو کہ قرآن شریف سے بہتر دنیا میں کوئی چیز نہیں ہے اور اسی میں تمام دنیا کے خزانے ہیں یہی وہ چیز تھی جس کو صحابہ لے کر کھڑے ہوئے تو تمام دنیا نے ان کے آگے سر جھکا دیا.اگر تم بھی اسی کو لے کر نکلو تو کسی کی طاقت نہیں کہ تمہارے آگے ٹھہر سکے.کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس دولت اور مال نہیں اس لئے مفلس اور کنگال ہیں لیکن انہوں نے سونا چاندی کو دولت سمجھا ہوا ہے.اصل دولت صداقت اور راستی ہے یہ جس کے پاس اور جس گھر میں ہے اس کو کسی اور چیز کی پرواہ نہیں اور جو یہ دولت رکھتا ہو اس کے سامنے دنیا کے سب خزانے بیچ ہیں اور دنیا کے لوگ ایسے لوگوں کے پاس دعا کرانے کیلئے دوڑے آتے ہیں.تو تمہارے گھروں میں وہ مال ہے جو تمام دنیا کے وہم و گمان میں بھی نہیں.آج یورپ کہتا ہے کہ مسلمان غریب اور مال و دولت سے تہی دست اور ہر علم میں کمزور ہیں لیکن ہم کہتے ہیں کہ یورپ کا تمام مال و دولت اور ایجاد میں قرآن شریف کے ایک ایک شوشہ کا بھی مقابلہ نہیں کرے سکتیں.اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ مسلمان مال نہ ہونے کی وجہ سے ذلیل ہیں تو یہ غلط ہے.ہمارے پاس ایسا مال ہے جو کہ خرچ کرنے سے بڑھتا ہے اور ان کا مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے گویا ہمارے پاس ایک چشمہ ہے جتنا اس سے پانی نکالا جائے اتناہی بڑھتا جاتا ہے تو ایک پکے مسلمان کیلئے یاس اور حسرت کی کوئی وجہ نہیں ہے.خدا نے اسے وہ کچھ دیا ہے جو اور کسی کے پاس نہیں ہے مگر قدر کرنے والے ہی اس سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں.خدا تعالیٰ آپ سب لوگوں کو توفیق دے تا کہ اس خزانہ سے آپ فائدہ اٹھا سکیں جو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل اور کرم سے تمہیں دیا ہے اور ہمارے بزرگوں نے بڑی محنت اور کوشش سے جو کچھ ہمارے لئے مہیا کیا ہے اس سے خود بھی فائدہ اٹھائیں اور اوروں تک بھی اسے پہنچائیں.(الفضل ۱۷.دسمبر ۱۹۱۴ء)

Page 255

خطبات محمود جلد ۴ ۲۴۶ (۵۲) تمسخر اور ٹھٹھے کی ابتداء ہمیشہ تکبر سے ہوتی ہے (فرموده ۱۸.دسمبر ۱۹۱۴ء) سال ۱۹۱۴ء تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی :.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاء مِنْ نِّسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ اس کے بعد فرمایا:.اس زمانہ میں سنجیدگی اور صداقت بہت کم ہو گئی ہے اور یہی وہ دو چیزیں ہیں جن پر انسانی ترقی کی پہلی اینٹ رکھی جاتی ہے.گو یا روحانی ترقی کیلئے یہ بنیادی چیزیں ہیں مگر افسوس کہ یہی دونوں چیزیں اس وقت دنیا میں مفقود ہورہی ہیں اور جب بنیاد ہی نہ ہوگی تو عمارت کہاں تیار ہو سکے گی.ہنسی تمسخر اور ٹھٹھے کی ابتداء ہمیشہ تکبر سے پیدا ہوتی ہے اور ان کا انجام بھی ہمیشہ منافقت اور تکبر ہی ہوتا ہے.قرآن شریف میں جہاں خدا تعالیٰ نے لوگوں کے فتنہ اور فساد کے مٹانے کیلئے احکام بیان فرمائے ہیں وہاں یہ بھی فرمایا ہے کہ کسی کو ہنسی اور تمسخر نہ کرو کیونکہ اس سے انسان صرف اوروں کو ہی نقصان نہیں پہنچا تا بلکہ اس میں بھی تکبر اور نفاق پیدا ہو جاتا ہے اور یہ دونوں باتیں تمسخر اور ہنسی کا لازمی نتیجہ ہیں جو کہ انسان کی ہلاکت کا باعث ہوتی ہیں.دوسرے سے انسان اسی وقت تمسخر کرتا ہے جبکہ اسے حقیر اور اپنے سے کم درجہ پر سمجھتا ہے.ورنہ کوئی انسان یہ جرات کبھی نہیں کر سکتا کہ اپنے سے معزز انسان کو بھی مخول

Page 256

خطبات محمود جلد ۴ ۲۴۷ سال ۱۹۱۴ء کرے.اس لئے جب کوئی مخول کرے گا تو اسی سے کرے گا جس کو وہ اپنے سے کمتر سمجھے گا.اور یہ اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ جس سے کوئی تمسخر کرتا ہے اس کو اپنے سے چھوٹا سمجھتا ہے اور یہ اس کے تکبر اور خود پسندی کی علامت ہے.یا وہ انسان کسی سے تمسخر کرتا ہے جو صاف اور سیدھی بات کرنے کی جرات نہیں رکھتا جس کا انجام نفاق ہوتا ہے.لوگوں میں ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی ہنسی اور محول کی عادت ہے پھیلتی جاتی ہے لیکن جو انسان اس عادت بد کو نہیں چھوڑتا اسے بہت برا خمیازہ اٹھانا پڑتا ہے.جو انسان تمسخر کرتا ہے گوابتداء میں اس میں تکبر اور بڑائی نہ بھی ہو تو ہوتے ہوتے وہ دوسروں کو حقیر سمجھنے لگ جاتا ہے یا اس میں سے حق گوئی کی جرات ماری جاتی ہے اور اس میں نفاق پیدا ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم کیوں کسی سے نہی اور مخول کرتے ہو.تمہیں کیا معلوم ہے کہ خدا کے نزدیک کون بڑا اور کون چھوٹا ہے.در حقیقت بڑا تو وہی ہے جو اللہ کے نزدیک بڑا ہے اور چھوٹا وہی ہے جو اللہ کے حضور چھوٹا ہے.اگر کوئی انسان عمدہ کھانا کھا رہا ہو اور اس نے بہت اعلیٰ پوشاک پہنی ہوئی ہو، بڑا خوبصورت ہو لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ذلیل ہو تو وہ ذلیل ہی ہوگا.اور خواہ کوئی ساری دنیا کا بادشاہ بھی ہو تو بھی معزز نہیں ہو سکتا.وہ انسان جس کے سر پر تلوار لٹک رہی ہو کیا اس کو کوئی عیش و آرام بھلا معلوم ہوتا ہے، ہر گز نہیں.اسی طرح اگر کوئی ساری دنیا پر بھی حکومت کرتا ہو لیکن اسے یہ خیال ہو کہ مرنے کے بعد مجھ سے بدترین معاملہ کیا جائے گا اور مجھے ایک ایسے دربار میں ذلیل اور رسوا کیا جائے گا جہاں میرے باپ دادا اور بیٹے بیٹیاں سب رشتہ دار موجود ہوں گے.اور میرے اس ناز و نعمت میں پلے ہوئے جسم کو آگ میں ڈالا جائے گا تو ایسے شخص کی زندگی کہاں سکھ اور آرام کی زندگی ہو سکتی ہے.ایک شخص جس کو صلیب پر لٹکا یا جانا ہو اس کو اگر عمدہ سے عمدہ کھانا لا کر دیا جائے اور اعلیٰ سے اعلیٰ پوشاک پہنائی جائے تو اسے کہاں مزا آسکتا ہے.کیوں ؟ وہ تو جانتا ہے کہ یہ کھانا ابھی مجھے ہضم نہیں ہونے پائے گا کہ میری جان نکل جائے گی.اور یہ کپڑے ابھی میلے بھی نہ ہو سکیں گے کہ میری روح جسم سے جدا ہو جائے گی.اسی طرح وہ انسان جس کی زندگی بدکاری میں گزرتی ہے اور وہ جانتا ہے کہ مجھے مرنے کے بعد سخت سزا ملے گی اس کی بھی ایسی ہی زندگی ہے جس کے سر پر تلوار کھینچی ہوئی ہو اور وہ خوراک کھا رہا ہو اور پوشاک پہن رہا ہو، اسے دیکھنے والا تو یہی سمجھے گا کہ عمدہ کھانا کھا رہا ہے اور اچھے کپڑے پہنے ہوئے ہے لیکن آدمی سے پوچھنا چاہیئے

Page 257

خطبات محمود جلد ۴ ۲۴۸ سال ۱۹۱۴ء کہ اس کی کیا حالت ہے.پس بڑائی اسی کی ہے جس کو خدا تعالیٰ دے، خود اپنے منہ سے کوئی بڑا نہیں بن سکتا.تم اپنے اندر تبدیلی پیدا کر لو اور صداقت اور سنجیدگی میں ترقی کرو تمسخر اور جنسی کو چھوڑ دو.ایک مزاح ہوتا ہے ہے (جس سے بگڑ کر مذاق بن گیا) وہ الگ بات ہے اس میں اور تمسخر میں بہت بڑا فرق ہے.تمسخر دوسرے کو ذلیل سمجھ کر اور اسے ذلیل کرنے کیلئے کیا جاتا ہے لیکن مزاح میں کسی کی حقارت اور اس کا راز افشا کر نامد نظر نہیں ہوتا.انسان کی طبیعت میں ہنسی اور رونا دونوں باتیں رکھی گئی ہیں کبھی انسان ہنستا ہے اور کبھی روتا ہے.مزاح بھی ہنسی کا ایک طریق ہے.آنحضرت سلیم نے فرمایا کہ جنسی تو ہم بھی کر لیتے ہیں مگر اس میں جھوٹ نہیں ہوتا.ایک دفعہ آپ بیٹھے ہوئے تھے.آپ کے پاس ایک بڑھیا آئی.اس نے کہا یا رسول اللہ میں کیا جنت میں جاؤں گی؟ آپ نے فرمایا.بڑھیا تو کوئی جنت میں نہیں جائے گی.وہ یہ سن کر رو پڑی.آپ نے فرمایا کہ میرا یہ مطلب نہیں تھا کہ دنیا میں جو بوڑھے ہیں وہ جنت میں نہیں جائیں گے بلکہ یہ تھا کہ جنت میں سارے جوان ہو کر جائیں گے.ایک دفعہ آپ کھجوریں کھا رہے تھے اور صحابی بھی ساتھ بیٹھے ہوئے تھے.آپ نے اشارہ فرمایا کہ گٹھلیاں حضرت علی کے آگے رکھتے جاؤ.جب کھا چکے تو آپ نے حضرت علی کو فرمایا کہ تمہارے آگے سب سے زیادہ گٹھلیاں ہیں کیا تم نے سب سے زیادہ کھجوریں کھائیں ہیں.حضرت علی نے کہا کہ میں گھلیاں پھینکتا گیا ہوں جس کا مطلب یہ تھا کہ جن کے آگے گٹھلیاں نہیں وہ ان کو بھی کھا گئے ہیں.ایک دفعہ ایک صحابی کھڑا تھا.آنحضرت سلیلا ہی تم نے پیچھے سے آکر اس کی آنکھیں بند کر لیں.اس صحابی نے اپنے ماتھا سے آپ کے نرم اور ملائم ہاتھوں کو پہچان لیا اور وہ آپ کے کپڑوں سے اپنے کپڑے ملنے لگ گیا.آپ نے سمجھ لیا کہ اس نے پہچان لیا ہے فرمایا کہ کیا کوئی اس کو مول لیتا ہے.اس نے کہا کہ مجھے کون مول لے سکتا ہے.نبی کریم صلی یا سیستم نے فرمایا نہیں خدا اور اس کے رسول کے نزدیک تمہاری بے شمار قدر و قیمت ہے.۳ تو ایک نبی اپنی امت کے لوگوں سے ایک خلیفہ اپنی جماعت سے ایسی باتیں کر سکتا ہے اور کرتے ہوئے شرماتا نہیں.مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے لَا يَسْخَرُ قَوْمٌ مِّن قوم کہ تمسخر نہیں کرنا چاہئیے.اس سے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ مزاح اور ہے تم

Page 258

خطبات محمود جلد ۴ ۲۴۹ سال ۱۹۱۴ء اور کیونکہ اگر ایک ہی ہوتا تو صحابہ آنحضرت مال یتم سے پوچھ سکتے تھے کہ آپ " تو خدا تعالیٰ کا ہمیں حکم سناتے ہیں اور پھر آپ کس طرح ایسا کرتے ہیں.تو آج بھی خدا تعالیٰ کا یہ حکم ویسی ہی قدر و منزلت رکھتا ہے.تمسخر میں کسی کی حقارت اشارہ یا کنایہ منظر ہوتی ہے جو کہ مومن کی شان سے بعید ہے کیونکہ اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا.پھر ہمارے لئے تو بہت ہی خوف و ہراس کے دن ہیں ہمیں کس طرح ہنسی اور مخول سوجھ سکتے ہیں.جو مصیبت کے دن اس وقت اسلام پر آئے ہیں ان سے بڑھ کر اور کون سے دن آئیں گے.اس وقت بھی کوئی تمسخر کی طرف متوجہ ہو؟ ایسی حالت میں ان باتوں کی طرف متوجہ ہونا سنگدلی کا ن نتیجہ ہوتا ہے.آج کل چونکہ ساری دنیا میں محول اور جنسی کا رواج ہو گیا ہے اور بہت زوروں پر ہے،اس لئے بعض مومن بھی ٹھو کر کھا جاتے ہیں لیکن ہر ایک مومن کو چاہیئے کہ جس قدر بھی جلدی ہو سکے اس کو ترک کر دے.ممکن ہے کہ ایک انسان کے کپڑوں پر ایسی جگہ گزرتے ہوئے جہاں اوپر سے کیچڑ پھینکا جارہا ہو کچھ چھینٹے پڑ جائیں لیکن تم کیا جانتے ہو کہ اس وقت وہ کیا کرتا ہے وہ فورا اپنے کپڑوں کو دھو ڈالتا ہے.اسی طرح مومن کو چاہیئے کہ اس پر جنسی اور مخول کی گندگی کے کچھ چھینٹے اڑ کر پڑ گئے ہوں تو وہ بہت جلدی ان کو دور کر دے اور اپنے کپڑوں کو پاک وصاف کرلے.پس تم اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو ہنسی اور تمسفر کو پگلی چھوڑ دو.بہت غم اور رنج کا وقت ہے.اپنے اعمال میں تبدیلی کر لو کیونکہ یہ تکلیفوں کے دن ہیں.اللہ چاہے تو تم پر خوشی کی حالتیں بھی آجائیں گی مگر تمسخر اس وقت بھی نہیں کرنا ہوگا.تم اپنے اندر تبدیلی پیدا کر کے آنے والے انعامات کا اپنے آپ کو مستحق بناؤ.خدا تعالیٰ تم سب کو توفیق دے کہ تم کسی بھائی کی تحقیر نہ کر وخواہ تمہیں اس میں کیسے ہی نقص نظر آتے ہوں.خدا تعالیٰ اپنے احکام کی تعمیل کرنے کی ہمیں توفیق دے اور ہم اپنے مرنے سے پہلے پہلے اسلام کی ایسی حالت دیکھ لیں کہ ہماری موت خوشی کی موت ہو.الحجرات : ١٢ الفضل ۲۴.دسمبر ۱۹۱۴ء) ، ترمذی ابواب شمائل الترمذی باب ما جاء في صفة مزاح رسول اللہ ﷺ

Page 259

خطبات محمود جلد ۴ ۲۵۰ (۵۳) جلسہ سالانہ کے انتظام میں ہمیں حج کے قواعد وضوابط سے فائدہ اٹھانا چاہئیے (فرموده ۲۵.دسمبر ۱۹۱۴ء) سال ۱۹۱۴ء تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی :.الْحَجُّ اشْهُرٌ مَّعْلُومَتْ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَتَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الحَج وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمُهُ اللهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُوْنِ يَأُولى الْأَلْبَابِ پھر فرمایا:.پیشتر اس کے کہ میں اس آیت کے متعلق جو میں نے ابھی پڑھی ہے آپ لوگوں کے سامنے کچھ بیان کروں ایک بات بیان کرناضروری سمجھتا ہوں.تھوڑے دن ہی ہوئے ہیں کہ لاہور سے ایک شخص آیا اور اس نے مجھ سے ایک ات کا ذکر کیا جس سے مجھے بہت تکلیف ہوئی.میں عام طور پر لوگوں کی باتوں پر دھیان کرنے کا عادی نہیں ہوں اور لوگ بہت سی اس قسم کی باتیں کرتے رہتے ہیں مجھے ان کا کبھی ذرا بھی خیال نہیں آیا لیکن اس بات کا مجھ پر اثر ہوا اس لئے نہیں کہ وہ میری اپنی ذات کے متعلق تھی بلکہ اس لئے کہ جماعت کو اس ابتلاء سے بچانا چاہیئے تا ایسا نہ ہو کہ یہ ابتلاء بڑھتا بڑھتا بہت پھیل جائے.اس شخص نے بیان کیا کہ مجھ سے ایک بڑے شخص نے تمسخر سے پوچھا کہ

Page 260

خطبات محمود جلد ۴ ۲۵۱ سال ۱۹۱۴ء چودھری فتح محمد ولایت میں کیا کام کرتے ہیں.اس سے اس کا مطلب یہ تھا کہ تمہاری تعلیم کے مطابق کہ دنیا میں احمدیت پھیلائی جائے وہ کوشش کر رہا ہے اس کو کیا کامیابی ہوئی ہے.اگر تمہارے طریق سے کامیابی ہوتی تو چودھری صاحب اس وقت تک ایک دو انگریزوں کو ہی مسلمان کرتے.ایک اور شخص نے اسی مجلس میں سے کہا کہ میں نے چودھری فتح محمد کا خط چھپا ہوا دیکھا ہے جس میں لکھا تھا کہ جنگ ہورہی ہے جس سے اس کی مراد یہ تھی کہ چودھری صاحب ولایت میں کچھ نہیں کر رہے یونہی لغو کوشش کر رہے ہیں بھلا اس طرح کامیابی ہوسکتی ہے.یہ باتیں سن کر میرے دل میں درد پیدا ہوا.میں نے خدا تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ الہی! اگر یہ سچ ہے کہ تو نے دنیا کی ہدایت اور راہ نمائی کیلئے مسیح موعود کو بھیجا، اگر یہ درست ہے کہ مسیح موعود تیری طرف سے مامور ہو کر آیا تھا، اگر یہ سچ ہے کہ دنیا سے اسلام اُٹھ چکا تھا اور مسیح موعود کو تو نے اسلام کے پھیلانے کے لئے بھیجا تھا تو دنیا میں اس کا نام لے کر اور اس کا ذکر خیر کر کے ہمیں برکت ہونی چاہئیے نہ یہ کہ ہم ترقی نہ کر سکیں اور اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہوں.اے میرے مولیٰ ! تو نے اپنے مسیح کو ہم میں رحمت کے طور پر بھیجا تھا یا عذاب کے طور پر.اگر وہ عذاب کے طور پر آیا تھا تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ اس کو چھپائیں اور اس کی باتوں کو پوشیدہ رکھیں تا کہ مغضوب قوم نہ کہلائیں لیکن اگر وہ در حقیقت فضل اور رحمت تھا دنیا کی بدیوں کو دور کرنے اور اصلاح خلق کیلئے اور دنیا سے فسق و فجور دور کر کے امن و امان قائم کرنے کیلئے آیا تھا تو اسی کے ذریعہ دینِ اسلام کی ترقی ہونی چاہیئے مگر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ خیال غلط ہے مسیح موعود کو دنیا نہیں مان سکتی.کہنے والے نے تو یہاں تک بھی کہہ دیا کہ مسیح موعود کا ذکر سلیم قاتل ہے.اس بات کو کوئی نہیں دن گزرے ہیں.میں نے متواتر ہر روز دعا کرنی شروع کی کہ الہی میں اپنے ہی ہے فائدہ کیلئے نہیں بلکہ تمام دنیا کے فائدے کیلئے یہ چاہتا ہوں کہ تو اس بات کو ثابت کر دے کہ جس نبی کو تو نے ہم میں بھیجا وہ رحمت اور فضل ہے.اسکے لئے کوئی سامان کر کے ایسا نظارہ دکھلا دیجئے کہ ہر ایک اسکو دیکھ لے اور اسے معلوم ہو جائے کہ حضرت مسیح موعود کا ذکر کر کے کامیابی ہوسکتی ہے.گزشتہ ہفتوں میں جو ولایتی ڈاک آئی ، اس کو میں نے اس خیال سے پڑھا کہ خدا تعالیٰ کوئی خوش کن خبر پہنچائے گا، اس گزشتہ ہفتہ بھی میں نے اسی شوق سے خطوط کو پڑھا.لیکن کوئی خط نہ تھا.تا ہم مجھے خیال تھا کہ ایک منگل ( اس دن

Page 261

خطبات محمود جلد ۴ ۲۵۲ سال ۱۹۱۴ء قادیان میں آج کل ولایت کی ڈاک آتی ہے ) جلسہ کے ایام میں بھی آتا ہے خدا تعالیٰ اسی میں کوئی صورت نکالے گا لیکن پیشتر اس کے کہ منگلوار آئے آج چودھری فتح محمد صاحب کا تار آیا ہے کہ Corio became Ahmadi muslim یعنی مسٹر کور یو احمدی مسلمان ہوئے ہیں تو خدا تعالیٰ نے میری اس دعا کو قبول کیا.اگر ساری دنیا بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہ مانے تو ہمیں کیا پرواہ ہے کیونکہ ہمارے پاس حق ہے.اگر دنیا اس کو قبول کرے گی تو اس کا بھلا ہوگا اور اگر قبول نہیں کرے گی تو تباہ برباد ہوگی ، ہمیں اس کے نہ قبول کرنے سے کوئی نقصان نہیں ہے.کیا دنیا کے تمام لوگوں کے قرآن شریف کو قبول نہ کرنے سے اس کی قدر و منزلت کم ہو سکتی ہے، ہر گز نہیں.قرآن اپنے اندر حق رکھتا ہے، اسلام اپنے اندر صداقت اور خوبی رکھتا ہے اگر ساری دنیا اس کی تعریف کرنے لگے جائے تو اس میں کچھ بڑھ نہیں جاتا اور اگر ساری دنیا اس کو چھوڑ دے تو اس میں سے کچھ گھٹ نہیں جاتا.لیکن ہماری ترقی کی کوششوں میں یہ ایک روک تھی کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا نام لے کر ولایت میں تبلیغ کرنے میں کامیابی نہیں ہو سکتی.خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ بھی مٹ گئی.اس کے بعد میں اس آیت کے متعلق جو میں نے پہلے پڑھی ہے بیان کرتا ہوں.میری تقریر اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ، زندگی رہی اور ہر طرح کے سامان خدا تعالیٰ نے مہیا کئے تو ۷ ۲۸،۲ تاریخ کو ہوگی.میری طبیعت بیمار ہے دیکھئے اس وقت بھی کھانسی ہورہی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے دنوں مجھے ریزش ہو گئی چونکہ جلسہ قریب ہی آنے والا تھا اس لئے میں نے درس بند کر دیا تا کہ حلق صاف ہو جائے مگر شاید اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی.درس ہوتا رہتا تو وہ آپ ہی کوئی انتظام حلق کے صاف ہونے کیلئے کر دیتا.لیکن ایسی قدرت الہی ہوئی کہ درس بند کئے ابھی دو دن ہی ہوئے تھے کہ دو عیسائی ہے یہاں آئے اور انہوں نے کہا کہ ہم اسلام کے متعلق دریافت کرنا چاہتے ہیں اور بڑا وقت اس کام کیلئے آپ سے لیں گے.یہ خدا تعالیٰ کی حکمت ہی تھی تین دن ان سے گفتگو ہوتی رہی اس کی وجہ سے کھانسی ہوگئی.یہ تو اللہ تعالیٰ کو ہی معلوم ہے کہ ۲۷، ۲۸ کو مجھے تقریر کرنے کا موقع ملے گا یا نہیں.اللہ خوب جانتا ہے مگر آج ایک اور ضروری بات ہے وہ بیان کرتا ہوں اور وہ یہ ہے:.دنیا میں انسان جو کام کرنے لگتا ہے اس قسم کی دوسری مثالوں کو دیکھ کر ان سے نتائج اخذ کر لیتا ہے.مثلانی کمیٹی بنانے والے دوسری کمیٹیوں کے قواعد اور ضوابط منگوا کر دیکھتے ہیں

Page 262

خطبات محمود جلد ۴ ۲۵۳ سال ۱۹۱۴ء ان سے انہیں معلوم ہوتا ہے کہ پریذیڈنٹ ہوتا ہے وہ بھی کہتے ہیں کہ ہاں ہماری انجمن کا بھی پریذیڈنٹ ہونا چاہیئے.وہ دیکھتے ہیں کہ ایک سیکرٹری ہوتا ہے وہ سیکرٹری بنا لیتے ہیں.وہ دیکھتے ہیں کہ ایک محاسب ہوتا ہے وہ بھی محاسب بنا لیتے ہیں.اسی طرح وہ تجارتی کمیٹی جونئی بنتی ہے وہ دوسری تجارتی کمیٹیوں کے قواعد وضوابط ا منگواتی ہے.تعلیمی کمیٹی بنانے والے اور ایسی ہی کمیٹیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو ہر ایک قسم کی کمیٹی کے بنانے والے اپنے سے پہلی نظیروں سے فائدہ اٹھا کر ان کے قواعد پر عمل کرتے ہیں اور ایسا ہی ان کو کرنا بھی چاہیئے کیونکہ بڑا بیوقوف ہے وہ انسان جو تجربہ شدہ بات کو چھوڑ کر خود تجربہ کر نا شروع کر دے اور اگر وہ اس طرح کرنے لگے تو کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا کیونکہ اتنی تو کسی کی عمر بھی نہیں ہو سکتی کہ وہ سارے تجربے خود کر سکے.وہ تو اسی کوشش اور سعی میں ہی وفات پا جائے گا.تو تجربہ شدہ باتوں سے فائدہ اٹھا نا عقل مندوں کا کام ہے.ہمارے لئے بھی جلسہ ہر سال آنے والی چیز ہے جس طرح وہ کمپنیاں دوسری اپنی ایسی کمپنیوں کے قواعد سے نتیجہ اخذ کرتی ہیں اسی طرح ہمیں بھی چاہئیے کہ اس جلسہ کی رنگ کی کسی چیز سے نتائج اخذ کر کے فائدہ اٹھا دیں.ہم اپنے جلسہ کو کسی کمیٹی یا جلسہ سے کسی طرح بھی مشابہت نہیں دے سکتے.انجمنیں اور کمیٹیاں تو دنیا میں بہت ہیں مگر ان سے ہمارے جلسہ کو اس لئے مشابہت نہیں ہے کہ وہ انسانوں کی بنائی ہوئی ہیں مگر ہم جس کام کی نظیر چاہتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور اسی کا قائم کردہ ہے لوگ کئی جگہ اکٹھے ہوتے ہیں، میلے لگتے ہیں، جلسے ہوتے ہیں لیکن ہم کسی میلہ کیلئے اکٹھے نہیں ہوتے ہماری غرض تماشہ دیکھنا نہیں ہوتی.دنیا میں لوگ تماشوں کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں ، بڑے بڑے سامان لاتے ہیں، خرید و فروخت ہوتی ہے، ہم اس کیلئے بھی جمع نہیں ہوتے.اب ہم جو قواعد بنا ئیں تو کس طرح بنائیں اور کس چیز سے اپنے اجتماع کو مشابہت دیں.اس کیلئے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک چیز دنیا میں ایسی ہے جس سے ہمارے جلسہ کو مشابہت ہوسکتی ہے اور وہ حج ہے.حج کوئی میلہ نہیں ، نمائش نہیں کسی انجمن کا جلسہ نہیں ، وہ خدا کا کام ہے اور دین کیلئے قائم کیا گیا ہے.خدا کے نبیوں کے ذریعہ قائم ہوا ہے اس لئے ہمیں چاہیئے کہ حج کے لئے جو قواعد اور ضوابط ہیں ان سے فائدہ اٹھائیں.یہ آیت جو میں نے پڑھی ہے اس میں حج کے متعلق احکام ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حج کے کچھ معلوم مہینے ہیں ( محرم ، ذی القعدہ ، ذی الحج ، سارا مہینہ یا دس دن ) پس جو کوئی ان میں

Page 263

خطبات محمود جلد ۴ ۲۵۴ سال ۱۹۱۴ء حج کا قصد کرے اس کو کیا کرنا چاہئیے؟ وہ یہ کرے کہ حج میں رفت، فُسُوق اور جدال نہ کرے، یہ اس کیلئے جائز نہیں ہے.ہر وہ شخص جو حج کیلئے جاتا ہے اس کیلئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حج میں رَفَتَ فُسُوق اور جدال نہ کرے.رفت کیا ہے.جماع کو کہتے ہیں.یہ بھی حج میں منع ہے لیکن اس کے معنی اور بھی ہیں جو یہاں چسپاں ہوتے ہیں اور وہ یہ ہیں.بدکلامی ، گالیاں دینا ، گندی باتیں کرنا ، گندے قصے سنانا لغو اور بیہودہ باتیں کرنا جسے پنجابی میں گپیں مارنا کہتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر کوئی حج کو جاتا ہے تو اسے کسی قسم کی بد کلامی نہیں کرنی چاہئیے، گندے قصے نہ بیان کرنے چاہئیں، گپیں نہ ہانگنی چاہئیں.فسوق کے معنی ہیں اطاعت اور فرمان نبرداری سے باہر نکل جانا.حاجیوں کا فرض ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری سے باہر نہ نکلیں اور تمام احکام کو بجالا ئیں.پھر جہاں لوگوں کا مجمع ہوتا ہے وہاں لڑائیاں بھی ہوا کرتی ہیں کیونکہ لوگوں کی مختلف طبائع ہوتی ہیں اور بعض تو ضدی واقعہ ہوتی ہیں اس لئے ان میں ذرا ذراسی بات پر لڑائی ہو جاتی ہے مثلاً یہی کہ اس نے میری جگہ لے لی، مجھے دھکا دے دیا ہے وغیرہ وغیرہ.اس لئے فرمایا کہ لڑائی نہ کرنا.اس میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو بتایا ہے کہ جب تم حج کے لئے نکلو تو یہ تین باتیں یا درکھو.آج جلسہ کا پہلا دن ہے اور ہمارا جلسہ بھی حج کی طرح ہے.حج خدا تعالیٰ نے مومنوں کی ترقی کیلئے مقرر کیا تھا.آج احمدیوں کیلئے دینی لحاظ سے حج تو مفید ہے مگر اس سے جو اصل غرض یعنی قوم کی ترقی تھی وہ انہیں حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ حج کا مقام ایسے لوگوں کے قبضہ میں ہے جو احمد یوں کو قتل کر دینا بھی جائز سمجھتے ہیں اس لئے خدا تعالیٰ نے قادیان کو اس کام کیلئے مقرر کیا ہے.ہمارے آدمیوں میں سے جن کو خدا تعالیٰ توفیق دیتا ہے حج کرتے ہیں مگر وہ فائدہ جو حج سے مقصود - سالانہ جلسہ پر ہی آ کر اٹھاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو اس غرض کیلئے نکلے وہ گندی اور لغو باتیں نہ کرے.خدا کے کسی حکم کی نافرمانی نہ کرے اور لڑائی جھگڑا بھی نہ کرے.پس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ آپ لوگوں کو اگر یہاں آکر فائدہ اٹھانا ہے تو ان احکام پر عمل کرو.ایک دوسرے سے فضول باتیں کرنا، گپیں ہانکنا، لغواور بیہودہ قصے سنا سنانا اور بہت جگہ بھی ہوتے ہیں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہی باتوں کو نابود کرنے کیلئے تلوار کھینچی ہے اور خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ ان کو مٹا کر یہ اجتماع قائم کیا ہے تو جس طرح اس شخص کیلئے وہ حج بے فائدہ اور غیر مفید ہے جو رفت ہے وہ کی

Page 264

خطبات محمود جلد ۴ ۲۵۵ سال ۱۹۱۴ء فُسُوق اور جدال کو حج کے ایام میں نہیں چھوڑتا، اسی طرح اس جلسہ پر آنے والا وہ شخص بھی ثواب اور فائدہ سے محروم رہتا ہے جو ان باتوں کو نہیں چھوڑتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمُهُ اللهُ س تمہیں ان باتوں کے چھوڑنے میں وقتیں پیش آئیں گی.مشکلات ہوں گی.مثلاً ایک شخص کو کسی نے گالی دے دی اگر وہ یہ کہے کہ میری غیرت نہیں برداشت کرتی، میں ضرور اس سے بدلہ لوں گا.ایسا آدمی اگر صبر سے کام لے تو گو اس کیلئے کسی قدر مشکل ہوگالیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اس طرح خدا کیلئے کرو گے تو کیا یہ ضائع کیا جائے گا، ہرگزنہیں تم جوبھی بھلائی کا کام کرو ہم اس کو خوب جانتے ہیں.تم اپنے افسروں اور حاکموں کو خوش کرنے کیلئے بڑی بڑی تکلیفیں اٹھاتے ہو اور چاہتے ہو کہ وہ تمہاری ان خدمات کو دیکھیں لیکن جب تم کو یہ معلوم ہو کہ ہم جو کچھ خدا کیلئے تکلیف برداشت کریں گے اس کے دیکھنے اور جاننے والا خدا موجود ہے تو کیا تم اس کیلئے تکلیف برداشت نہیں کر سکتے.وَتَزَودُوا س جب دنیا میں لوگ سفر کیلئے نکلتے ہیں تو کیسی تکالیف برداشت کرتے ہیں اور سامان سفر کے مہیا کرنے کے لئے انسان کس طرح اسباب اور دیگر اشیاء مہیا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ جو تم ایک جگہ جمع ہوئے ہو تو یہ تمہارے ایک آخرت کے سفر کی تیاری ہے.تمہیں چاہیئے کہ جب تم چھوٹے چھوٹے سفروں کیلئے سامان مہیا کرتے ہو تو اس کیلئے بھی کرو.اور سب سے اچھا سامان تو یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کرو اور اگر تمہیں تکالیف اور مشکلات برداشت کرنی پڑیں تو کر لو.دنیا میں انسان اگر کسی دکھ اور تکلیف کے برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں ایسا کروں گا تو مجھے نقصان اٹھانا پڑے گا.مثلاً کسی کو کسی نے گالی دی تو وہ یہ سمجھے گا کہ اگر میں نے اس کا جواب نہ دیا اور چپ رہا تو میری ہتک اور ذلت ہوگی.تو انسان نقصان کے خطرہ کی وجہ سے تکلیف کے برداشت کرنے سے انکار کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاتَّقُونِ يَأُولِي الْأَلْبَابِ سے ہمارے مقابلہ میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اس لئے اے دانا ؤا تم مجھ سے ہی ڈرو.اگر تم مجھ سے ڈرو گے تو کون ہے جو تمہیں نقصان پہنچا سکے.یہ خوب یا درکھو کہ رفت، فُسُوق اور جدال تو ہمیشہ ہی منع ہے مگر اس اجتماع کے موقع پر یہ اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ انسان ہمیشہ کیلئے اپنے آپ پر دباؤ نہیں ڈال سکتا.مگر

Page 265

خطبات محمود جلد ۴ ۲۵۶ سال ۱۹۱۴ء ایک وقت کیلئے تو وہ ڈال سکتا ہے.مثلاً ایک شخص کسی کو گالیاں دے رہا ہو لیکن اگر اس کو اپنے افسر کے سامنے جانا پڑ جائے تو وہ اپنی زبان کو روک لے گا اور اپنے نفس پر دباؤ ڈالے گا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اب جو تم خدا کے حکم سے ایک جگہ جمع ہوئے ہو تو ان باتوں کو اس موقع پر قطعا چھوڑ دو اور ان کو چھوڑ کر جو تم بھلائی کماؤ گے اس کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے.تم لوگ جو ان جلسہ کے پانچ ایام میں ان باتوں کو چھوڑ دو گے اور اپنے نفس پر ظلم برداشت کرو گے اور اپنے نفس کو مارو گے تو یہ جو تمہاری بھلائی ہوگی خدا تعالیٰ اسے بھلائے گا نہیں بلکہ اس کے عوض تم سے ساری عمر کے لئے یہ باتیں چھڑا دے گا.ایک کسان کھیت میں بیج ڈال کر اس کو خدا تعالیٰ کے حوالہ کر آتا ہے.تم بھی اس پیج کی طرح اپنے دلوں میں اس بھلائی ہے کو ڈال کر خدا تعالیٰ کے حوالہ کر دو.وہ خودا سے بڑھائے گا اور اس کی حفاظت کرے گا.بیج ضرور ہونا چاہیئے اس کو بڑھانا خدا کا کام ہے اور وہ ضرور بڑھاتا ہے.پھر ان دنوں میں جو کچھ کرنا چاہیئے وہ بھی خدا تعالیٰ نے بتا دیا ہے.فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَّنَا سِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكُرِكُمْ أَبَانَكُمْ او اشد ذكراه یعنی جب تم مناسک حج کو پورا کر لو تو ساتھ ہی اس طرح خدا کو یاد کرنا شروع کر دو جس طرح تم اپنے ماں باپ کو یاد کرتے تھے اور خدا کا ذکر اس سے بھی بڑھ کر کرو یہاں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ماں باپ کا جس طرح ذکر کرتے تھے اسی طرح خدا کا کرو.ماں باپ کا تعلق تو بہت محدود ہوتا ہے لیکن جو ہمیں اس خدا تعالیٰ کے قائم کردہ جلسہ سے تعلق ہے وہ بہت بڑھ کر ہے اس لئے ہمیں اس سے یہ نصیحت مل گئی کہ جیسا کہ حج میں رَفتَ فُسُوق اور جدال منع ہیں ایسا ہی اس جلسہ میں بھی منع ہیں اور جیسا حج میں مناسک حج کے بعد ذکر خدا کا حکم ہے اسی طرح ہماری جماعت جب لیکچر سننے سے فارغ ہو جائے تو فاذْكُرُو اللہ تم خدا کے ذکر میں لگ جاؤ.اس حکم میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کہ آنحضرت مصلی یا الی یوم کے وقت میں جب حج کر چکتے تو اپنے آباؤ اجداد کا نام لے کر ان کا ذکر کرتے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا کا ذکر کرو اس سے بڑھ کر جیسا کہ تم اپنے آباء کا ذکر کرتے ہو.اس کے یہ معنی ہی نہیں ہیں کہ جس طرح تم اپنے ماں باپ کی تعریف کرتے ہو اسی کے طرح یا اس سے زیادہ خدا کی کرو.بلکہ یہ بھی کہ جس طرح ایک چھوٹا بچہ ماں باپ سے جب بچھڑ جاتا ہے تو روتا اور چلاتا ہے اور اس وقت تک آرام نہیں لیتا جب تک کہ اپنے ماں باپ کو نہ پالے بلکہ اس سے بھی

Page 266

خطبات محمود جلد ۴ ۲۵۷ سال ۱۹۱۴ء زیادہ خدا کے حضور انسان کو تڑپنا اور بلکنا چاہیئے.جن لوگوں کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ جتنا اپنے آباء کا ذکر کرتے ہو اس سے بڑھ کر خدا کا ذکر کرو وہ تو گزر گئے (اہل عرب حج کے بعد اپنے آباء واجداد کے کارنامے فخریہ ذکر کرتے تھے ) مگر ہمارے لئے یہ موقع ہے تم یقینا سمجھو کہ جو لوگ ان احکام کو مانیں گے اور ان پر عمل کریں گے وہ اپنے اندر نمایاں تغیر اور تبدیلی دیکھیں گے اور جب یہاں سے واپس جائیں گے تو بہت سی ہے ان کمزوریوں سے جن کو وہ دور کرنا چاہتے تھے اور وہ دور نہیں ہوتی تھیں آسانی سے دور کر دیں گے.خدا تمہیں اس کی توفیق دے.ایک اور بات میں بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ سردی کے دن ہیں ، سردی سے بچنا.بغیر کافی کپڑوں کے باہر نہیں نکلنا چاہیئے.ہم جو اس قدر کوشش کرتے ہیں کہ ہماری جماعت بڑھے تو جو اس جماعت میں داخل ہو گئے ہیں کیا ان کی ہمیں قدر نہیں.بہت بڑی قدر ہے.پس تم اپنی جانوں کی حفاظت کرو اور سردی سے بچنے کی بہت کوشش کرو.بعض لوگ اپنے ڈیروں پر ہی نماز پڑھ لیتے ہیں.یہ دن تو بہت زیادہ عبادت ہے کرنے کے دن ہیں اس لئے نماز با جماعت مسجد میں پڑھنی چاہیئے.مومن کبھی ست نہیں ہوتا تم نے تو بڑے کام کرنے ہیں.تمہارے آگے ساری دنیا ہے جس کو تم نے فتح کرنا ہے.جو لوگ دار العلوم میں رہتے ہیں وہ مسجد نور میں اور جو قادیان میں رہتے ہیں وہ چھوٹی اور بڑی مسجد میں نمازیں پڑھیں.وہ لوگ جو قادیان کے رہنے والے ہیں ان کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ پانچ باتیں جن لوگوں میں پائی جاتی ہوں وہ کبھی ذلیل نہیں ہوتے اور ان پانچوں میں سے ایک مہمان کی قدر کرنا ہے.قادیان کے رہنے والے کہتے ہیں کہ ہماری نسبت حضرت مسیح موعود کے الہامات ہیں اور آپ نے ہماری نسبت بہت عمدہ الفاظ بیان فرمائے ہیں.میں ان باتوں کو مانتا ہوں مگر تم اپنے اعمال سے بھی ثابت کر دکھاؤ کہ واقعی تم ان باتوں کے مستحق ہو.پس جو مہمان تمہارے پاس آئے ہیں ان کی خاطر تواضع میں لگ جاؤ.کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ میرے مہمان نہیں ہیں اس لئے مجھے خدمت کرنے کی کیا ضرورت ہے.اس کو یا درکھنا چاہئیے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں اور تم اس کے بندے ہو تو کیا یہ بندے کا فرض نہیں ہے کہ وہ اپنے آقا کے مہمان کی خبر گیری کرے ، ضرور ہے.پس یہ مہمان خدا کے گھر اور خدا ہی کی آواز پر آئے ہیں کیونکہ مامور من اللہ کی آواز خدا ہی کی آواز ہوتی ہے.تم لوگ ان کی خبر گیری کرو.اگر تمہیں کسی سے تکلیف بھی پہنچ جائے تو اس کو برداشت کرو.اور کسی کی ہتک کرنے کا خیال بھی دل میں

Page 267

خطبات محمود جلد ۴ ۲۵۸ سال ۱۹۱۴ء نہ لاؤ جو مہمان کی ہتک کرتا ہے وہ اپنی ہی بہتک کرتا ہے کیونکہ مہمان اس کی عزت ہوتا ہے.پس اس سے احمق کون ہے جو اپنی عزت آپ برباد کرے یا اپنا گلا آپ ہی کاٹے.تم لوگ ہر طرح سے مہمانوں کی خاطر اور تواضع میں لگے رہو.اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو میں آپ لوگوں کو درد کی باتیں سناؤں گا.یہاں ہی کسی نے کہا تھا کہ ہمارے جانے کے بعد یہاں عیسائی پھریں گے.اللہ تعالیٰ کا کتنا فضل ہے کہ آج یہاں مسلمان ہی اُترے ہوئے ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ جلسہ کے ایام میں لوگ ٹھہریں گے.اللہ جن کو توفیق دے گا میری باتیں سنیں گے اور میں سناؤں گا.( دوسرا خطبہ جمعہ پڑھتے ہوئے حضور نے فرمایا:) مجھے ایک اور خیال آیا ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جلسہ کے ایام میں ذکر الہی کرو.اس کا فائدہ خدا تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اُذْكُرُوا اللهَ يَذْكُرُكُھ.اگر تم ذکر الہی کرو گے تو خدا تمہارا ذکر کرنا شروع کر دے گا.بھلا اس بندے جیسا خوش قسمت کون ہے جس کو اپنا آقا یاد کرے اور بلائے.ذکر الہی تو ہے ہی بڑی نعمت، خواہ اس کے عوض انعام ملے یا نہ ملے.پس تم ذکر الہی میں مشغول رہو.الفضل ۳.جنوری ۱۹۱۵ء) تا ۴ البقرة : ١٩٨ هي البقرة: ٢٠١

Page 268

خطبات محمود جلد ۴ ۲۵۹ (۵۴) دل تلوار سے نہیں خدائی تعلق سے فتح ہوتے ہیں (فرموده یکم جنوری ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے فرمایا:.دنیا میں بہت سے مشکل کام بھی ہوتے ہیں اور بہت سے آسان بھی ہوتے ہیں لیکن تمام مشکل کاموں سے بڑا مشکل کام دلوں کو فتح کرنا ہوتا ہے کیونکہ دوسرے کے دل پر کسی کا قبضہ و تصرف نہیں ہوتا.دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں جنہوں نے تلوار کے زور سے ملکوں کے ملک فتح کر لئے اور وہ فتوحات پر فتوحات کرتے چلے گئے لیکن کسی کو ان کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہ ہوئی لیکن باوجود اتنی فتوحات کے وہ دلوں پر قابض نہ ہو سکے اور وہ دلوں پر فتح نہ حاصل کر سکے.ذرا ان سے سستی ہوئی اور ادھر ملک میں بغاوت شروع ہو گئی.اگر بغاوت نہ بھی ہوئی تو بھی ان کے ماننے والوں نے ان کی اطاعت تلوار کے ڈر سے کی.لیکن اللہ تعالیٰ کے ماننے والوں کی اطاعت لوگ تلوار کے ڈر سے نہیں بلکہ دل سے کرتے ہیں.بعض لوگ دنیا میں سچے دوست کی تلاش میں ہزاروں ہزار روپیہ خرچ کر دیتے ہیں مگر انہیں کوئی سچا دوست نہیں ملتا.اور بعض انسانوں پر بعض لوگ ہزاروں روپیہ خرچ کرتے ہیں لیکن وقت پر وہ ان سے بے وفا ہو جاتے ہیں..خدا کی حکومت دلوں پر ہے.دنیا کے لوگوں کی حکومت صرف جسموں پر ہے اس لئے جو آدمی خدا کی طرف سے کھڑا ہوتا ہے خدا تعالیٰ اس کے قبضہ میں دل دے دیتا ہے.دیکھو یا تو انسان ایسا کمزور ہوتا کہ ایک دل کا بھی اپنے قبضہ میں کرنا اس کی طاقت سے باہر ہوتا ہے.یا

Page 269

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۵ء پھر جب وہ خدا سے تعلق پیدا کر لے اور خدا کی طرف سے اسے کھڑا کیا جاوے تو ہزاروں ہزار دل اللہ تعالیٰ اس کے ماتحت کر دیتا ہے.دنیا میں سلطنت کے لحاظ سے بڑے بڑے بادشاہ اور دولت مند امیر اور عالم ، طاقت اور قوت کے لحاظ سے بڑے بڑے قومی اور عقل و دانش کے لحاظ سے بڑے بڑے عقلمند لوگ موجود ہیں لیکن باوجود ان تمام کے اگر دلوں پر کسی کو حکومت ملی تو تمام دنیا میں سے ہندوستان کے ایک گوشہ میں ایک گمنام بستی میں رہنے والے مرزا غلام احمد کو ملی.یہ کونسی طاقت تھی جس نے تمام دنیا میں سے ایک ایسے دل کو تلاش کیا جو گمنامی کے گوشہ میں تھا.وہ کوئی دولت مند نہ تھا، وہ مشہور عالموں میں سے نہ تھا ، وہ دنیاوی بادشاہ نہ تھا، اس کا نام مشہور نہ تھا اور وہ دنیاوی دولت کے لحاظ سے بڑا نہ تھا لیکن آسمان سے آواز آئی کہ میں اب اس کو حکومت دیتا ہوں جیسے گڈریے کی آواز پر بھیڑیں اس کے گرد جمع ہو جاتی ہیں اسی طرح خدا کی طرف سے ایک آواز آئی اور نیک دل رکھنے والے لوگ اس کے گرد جمع ہو کچھ لوگوں نے اس کی مخالفت بھی کی مگر اس کا کچھ بگاڑ نہ سکے بلکہ اپنا ہی نقصان کیا.اور کہنے والوں نے یہ بھی کہا بس یہ سلسلہ اس کی (حضرت اقدس مسیح موعود ) کی زندگی تک ہے پھر یہ کھیل ختم ہو جائے گا اور یہ سلسلہ نابود ہو جائے گا لیکن خدا نے جس کی طرف سے وہ آیا تھا دشمنوں کو شرمندہ کیا اور بتلا دیا کہ دلوں کی حکومت انسانوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ ہمارے ہاتھ میں ہے اور ہم تو زندہ ہیں.دشمن سلسلہ کی تباہی کے منتظر تھے لیکن خدا نے ان کی آنکھوں میں خاک جھونک دی اور بتلا دیا کہ یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے.دشمنوں نے پھر کہا کہ ہم نہیں کہتے تھے کہ مرزا نے اپنے پاس مولوی چھپا کر رکھے ہوئے ہیں اور وہی سب کچھ کر رہے ہیں.بس اب یہ سلسلہ مولوی نور الدین کی زندگی تک ہی ہے ان کی آنکھ بند کرنے کی دیر ہے بس پھر تباہ ہو جائے گا.یہ بات صرف لوگوں کے دلوں میں نہ تھی بلکہ اسے اخباروں اور رسالوں میں بھی چھاپا گیا اور میں نے خود پڑھا کہ یہ سلسلہ بس مولوی صاحب کی زندگی تک ہے.دنیا میں کون سا انسان ایسا ہو سکتا ہے جو ہمیشہ کے لئے زندہ رہے.نبی کریم صلی ا یہ تم جیسا عظیم الشان انسان قوت ہو گیا.اب تک مسیح ناصری کو لوگوں نے زندہ رکھا ہوا تھا اسے بھی مسیح محمدی نے آکر فوت شدہ ثابت کر دیا.آخر حضرت خلیفتہ المسیح بھی وفات پا گئے اور جیسا کہ

Page 270

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۵ء خدا نے پہلے بتلا دیا تھا کہ دشمن کا بھی ایک وار نکلا.دشمنوں کو اب بھی موقع مل گیا اور انہوں نے خیال کیا کہ اب یہ جماعت بکھر جائے گی.ا ہندوستان میں دو قسم کے لوگ تھے، ایک وہ جو علماء و عوام کے طرف دار تھے اور دوسرے وہ جو انگریزی خوانوں کے حامی تھے.حضرت مسیح موعود کی وفات پر لوگوں نے کہا کہ مولوی نور الدین حضرت خلیفہ المسح الاول ) کے سبب سے یہ سلسلہ قائم تھا لیکن جب وہ بھی رحلت فرما گئے تو لوگوں نے کہا کہ اس جماعت میں بعض انگریزی خواں ہیں انہی کے سہارے یہ سب کام ہوں گے.چونکہ خدا نے چاہا کہ اس زمانہ میں شرک مٹے اور توحید قائم ہو اور اسلام روشن ہو.دشمن نے چاہا کہ اپنے خیالات اور اپنے منہ کی پھونکوں کے ساتھ اس روشنی کو بجھادے لیکن خدا نے جس کی طرف سے یہ سلسلہ تھا اسے محفوظ رکھا اور دشمن نا کام ہوا.ان انگریزی خوانوں کو جن کے سہارے اس سلسلہ کا قائم رہنا سمجھا جاتا تھا خدا تعالیٰ نے نکال کر پھر دکھا دیا کہ ہم اس کے قائم رکھنے والے ہیں اور کوئی نہیں ہے.باوجود اس کے کہ جماعت پر خطرناک زلزلے آئے لیکن اس خدا کی بنائی ہوئی عمارت پر کوئی غالب نہ آسکا اور یہ عمارت زلازل سے محفوظ رہی.یوں بھی تو تفرقہ دور ہو چکا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے جلسہ سالانہ پر دکھلا دیا کہ جماعت ٹوٹی نہیں بلکہ اور خدا تعالیٰ نے اسے مضبوط کر دیا.مجھے یہ یقین ہے اور غالبا یہ شائع بھی ہو چکا ہے خدا تعالیٰ نے مجھے الہام کیا یا نارُ كُونِی بَرْدًا وَسَلَمًا.وہ آگ بجھ گئی اور خدا تعالیٰ اسے بجھاتا رہے گا اور کوئی تم میں تفرقہ نہیں ڈال سکے گا.کیونکہ دلوں کی حکومت خدا کے ہاتھ میں ہے.میں نے سورۃ فاتحہ اسے لئے پڑھی ہے کہ اس کی ابتداء ہی الحمد للہ سے کی گئی ہے اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَئِن شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ ۲ اگر شکر کرو گے تو میں تمہیں پیش از پیش نعمتیں دوں گا اور تم پر ایک سے ایک بڑھ کر انعام کروں گا.تم سب مل کر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرو تو یہ جو کچھ تھوڑا سا تفرقہ رہ گیا ہے یہ بھی جلدی دور ہو سکتا ہے.وہ دن آتے ہیں اور وہ بعید نہیں ہیں صرف ایک دو سال اور ہیں کہ یہ سب مشکلات دور ہو جائیں گی.صرف دو سال مشکلات کے اور ہیں اور جیسا کہ مجھے معلوم ہوا ہے تیسرا سال ایسا آنے والا ہے کہ جماعت کے لوگ بڑی بڑی کامیابیاں دیکھیں گے.پس آو! سب مل کر دعا کریں الْحَمدُ للهِ رَبِّ العلمين 3 الہی ! آپ بڑی خوبیوں والے ہیں.

Page 271

خطبات محمود جلد ۴ ۲۶۲ سال ۱۹۱۵ء الرحمن بڑے رحمان ہیں.ہم نے کیا کام کیا اور ہم نے کیا کیا.ہم کس طرح لوگوں کے دلوں سے کفر کو نکال سکتے تھے.یہ سب آپ ہی کا رحم اور فضل تھا.الرّحِیم اگر ہم نے کوئی کوشش کی تو آپ نے اس کا عمدہ سے عمدہ پھل دیا اور اسے ضائع نہیں جانے دیا.آپ ملِكِ يَومِ الدِّينِ " ہیں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَايَّاكَ نَسْتَعِین و پیچھے جو کچھ ہم نے کیا وہ آپ ہی کا فضل تھا کہ ہم نے کیا.آئندہ بھی ہم آپ ہی سے مدد چاہتے ہیں آپ ہی ہمیں مدد دیں تو ہم کچھ کر سکتے ہیں.اِهْدِنَا الصِّرَاط الْمُسْتَقِيمَ : آپ ہی ہماری رہنمائی کریں اور اپنے مقصود تک پہنچائیں.صِرَاطَ الَّذِينَ انْعَمْتَ عَلَيْهِمُ ہماری نظریں آپ ہی پر ہیں آپ کے پاس ہی صداقت ہے.ہم آپ سے صداقت کے طالب ہیں پس ہمیں صداقت دیجئے تا کہ ہم صادقوں کی راہ پر چلیں.غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالین A ایسا کبھی نہ ہو کہ آپ ہم پر ناراض ہوں اور ناراض ہو کر ہم سے یہ نعمت چھین لیں اور نہ ہی ایسا ہو کہ ہم اسے چھوڑ دیں (امينَ يَارَبِّ الْعَلَمِينَ) ل الحکم ۳۰.اکتوبر ۱۹۰۲ء + تذکرہ صفحہ ۶۱۲ ایڈیشن چہارم الفاتحة : ( الفضل ۷ جنوری ۱۹۱۵ء) ابراهیم : ۸ الفاتحة : في الفاتحة: ه ت الفاتحة: ع الفاتحة:

Page 272

خطبات محمود جلد ۴ ۲۶۳ (۵۵) دعائیں کرو اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو طاعون سے خاص طور پر بچائے (فرموده ۸.جنوری ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء حضور نے تشہد.تعوّ ذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.چونکہ میری طبیعت علیل ہے اس لئے میں زیادہ بول نہیں سکتا لیکن ایک ضروری بات ہے اس کی طرف آپ لوگوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.قریبا ڈیڑھ دو مہینہ سے قادیان کے ارد گرد کے گاؤں میں ایک حلقے میں طاعون پھیلا ہوا ہے.میں بہت دعائیں کرتا رہا ہوں کہ الہی ! قادیان کو محفوظ رکھئیے.ہمارا سالانہ جلسہ ہونے والا ہے.ہجوم ہو گا ایسے ہجوم میں تو اگر کوئی بیماری نہ ہو تو بھی خطرہ رہتا ہے چہ جائیکہ قادیان میں طاعون ہو.اللہ تعالیٰ نے جلسہ کے ہونے تک قادیان کو محفوظ ہی رکھا ہے لیکن اب سنتا ہوں کہ یہاں بھی کچھ کیس ہونے شروع ہو گئے ہیں.یہ مرض مارچ سے اپریل تک شروع رہتا ہے اور بعض دفعہ تو مئی میں بھی رہتا ہے اس لئے دوستوں کو ہوشیار ہو جانا چاہیئے ہو شیار آدمی پر اگر دشمن کا حملہ ہو بھی جائے تو وہ برداشت کر لیتا ہے.لیکن جس پر غفلت کی حالت میں حملہ ہو وہ بہت مشکل سے اپنی جان بچا سکتا ہے.سو تمہیں ہوشیاری اختیار کرنی چاہیئے.جب کسی جگہ آگ لگتی ہے تو باقی مکانوں کو بچانے کا آسان طریقہ یہ استعمال کیا جاتا ہے کہ درمیان کے کچھ مکان گرادیئے جاتے ہیں تا کہ ان کی وجہ سے دوسرے مکانوں تک بھی آگ نہ پہنچ جائے.اس طرح مکان گرانے سے دوسرے جلنے سے بچ جاتے ہیں.انسان کو بھی

Page 273

خطبات محمود جلد ۴ ۲۶۴ سال ۱۹۱۵ء چاہیے کہ اس آگ کے وقت اپنے نفس کی شرارتیں اور برائیاں گرا دے تاکہ محفوظ ہو جائے.پس تم بہت دعاؤں سے کام لو.بیماریاں تو ہوا ہی کرتی ہیں لیکن طاعون عذاب کے طور پر ہے اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مخالفوں کے لئے ہے.ہماری جماعت کو اس سے بہت ڈرنا چاہیئے.تم خاص طور پر دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اور خصوصا قادیان میں رہنے والوں کو اس سے محفوظ رکھے.مصیبت اور عذابوں سے بچنے کیلئے صدقہ ایک عمدہ چیز ہے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کے غضب کو بجھا دیتا ہے.دنیا میں گورنمنٹ رعایا کے بچاؤ کے سامان کرتی ہے اگر کہیں آگ لگ جائے تو فائر بریگیڈ کے پانی کے نلکے لے جا کر آگ بجھا دی جاتی ہے.خدا تعالیٰ نے بھی روحانی آگ کے بجھانے کے لئے سامان کیا ہوا ہے اور وہ صدقہ ہے.دنیا میں جس کے گھر آگ لگتی ہے وہ فورا فائر بریگیڈ کے محکمہ میں اطلاع دیتا ہے.اسی طرح انسان کو چاہیئے کہ جب خدا کے غضب کی آگ لگی ہوئی دیکھے تو صدقہ کرنا شروع کر دے.اس سے فائر بریگیڈ کی طرح ہی آگ بجھ جاتی ہے.اس میں حکمت ہے اور وہ یہ کہ ہر ایک انسان یہ پسند کرتا ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والی چیز میں ایسے لوگوں کے ماتحت ہوں جو نرم دل ہے ہوں.باپ ہمیشہ یہی چاہتا ہے کہ اس کا بیٹا نرم دل اور رحم کرنے والے استاد کے سپر د ہو اور کبھی وہ یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے لڑکے کا استاد ظالم اور بد خو ہو.اسی طرح اللہ تعالیٰ جو ماں باپ سے زیادہ انسانوں سے تعلق رکھنے والا ہے وہ بھی پسند نہیں کرتا کہ اس کی مخلوق جابر اور ظالم سے دکھ میں رہے.تو جب انسان صدقہ دے کر خدا کی مخلوق سے نیک سلوک کا اظہار کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ ان پر مہربان ہو جاتا ہے اس لئے صدقہ بہت مفید چیز ہے.پس تم صدقہ دو.غرباء اور مساکین کو کھانا اور کپڑے بنوا دو اور دعائیں مانگو کہ جہاں کہیں بھی ہماری جماعت کا کوئی آدمی ہے خدا اسے بچائے اور طاعون ہماری ہلاکت نہیں بلکہ جیسا خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے ترقی کا موجب ہو.الفضل ۱۴.جنوری ۱۹۱۵ء)

Page 274

خطبات محمود جلد ۴ ۲۶۵ (۵۶) محض اپنے خیالات اور آرزو کے مطابق مذہب پر عمل کرنا اطاعت نہیں فرموده ۱۵.جنوری ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی :.وَإِذْ اَخَذْنَا مِيْنَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَ كُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ ثُمَّ أَنْتُمْ هَؤُلَاءِ تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ تَظْهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِن يَأْتُوكُمْ أسرى تُفَدُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمُ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الكتب وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيمَةِ يُرَدُّونَ إِلى اَشَلِ الْعَذَابِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ! اس کے بعد فرمایا:.ایک بہت بڑی مرض جو انسان کی روح کو کھانے والی ہے وہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ اپنے منشاء، اپنے ارادے اور اپنے خیالات اور اپنی آرزو کے مطابق مذہب کی جو بات دیکھتے ہیں صرف اسی پر عمل کرنا کافی سمجھتے ہیں اور اس سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اطاعت ہو چکی ہے.چونکہ انسانوں کی فطرتیں ان کے اخلاق اور عادات مختلف حالات اور صحبتوں کی وجہ سے بدلتے رہتے ہیں اس لئے ہر ایک انسان اپنا ایک خاص ذوق رکھتا ہے.اپنے ذوق کو انسان آسانی سے پورا کر لیتا ہے.اگر ہندوستان کے ہی مختلف علاقوں میں لوگوں کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بعض جگہ

Page 275

خطبات محمود جلد ۴ ۲۶۶ سال ۱۹۱۵ء کے لوگ نمازوں کے زیادہ پابند ہوتے ہیں اور روزوں میں سستی کرتے ہیں اور بعض جگہ کے لوگ زکوۃ تو بڑی پابندی سے دیتے ہیں مگر نماز روزہ کی پرواہ نہیں کرتے.اسی طرح بعض جگہ نماز روزہ کی تو پابندی کی جاتی ہے ہے مگر ز کوۃ نہیں دیتے.بعض جگہ کے لوگ حج نہیں کرتے اور بعض جگہ تو ایسے ہوتے ہیں کہ اگر حج کیلئے بھی جائیں تو شاید ہی اس سفر میں بھی نماز پڑھیں.اب اس نماز ، اس روزہ اس زکوۃ ، اس حج کو خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اگر وہ خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کرتے ہوتے تو جس خدا نے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے اسی نے روزہ رکھنے کا حکم فرمایا ہے.اور جس خُدا نے زکوۃ دینے کا ارشاد فرمایا ہے اس نے حج کی تاکید فرمائی ہے لیکن ان کے ایک حکم ماننے اور دوسرے کو ترک کرنے ، ایک حکم کے قبول کرنے اور دوسرے کو رد کرنے نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ ایسے لوگ جس فعل کو خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری سمجھتے ہیں وہ اصل میں فرمانبرداری نہیں بلکہ ان کے نفس اور ذوق کے مطابق وہ بات تھی جس کو انہوں نے کر دیا ہے.ہاں اطاعت اور فرمانبرداری کا ثبوت تب ملتا ہے جبکہ ہر ایک رنگ میں اور ہر ایک رنگ کا مطیع اور ی فرمانبردار انسان اپنے آپ کو کر دکھائے خواہ وہ حکم اس کے ذوق ، منشاء ، خواہش، خیالات، رسم ورواج اور عادات کے مطابق ہو یا مخالف ، وہ اس میں اپنی اطاعت اور فرمانبرداری میں سر مموفرق نہ آنے دے.لیکن اگر کوئی انسان احکام کے ایک حصہ کی اطاعت اور ایک حصہ کی مخالفت کرتا ہے تو اسے خوب سمجھ ہے لینا چاہئیے کہ اس بات کو اطاعت اور فرمانبرداری سمجھنے سے اس کا نفس اسے دھوکا اور فریب دے رہا ہے.وہ سمجھتا ہے کہ میں اطاعت کیش ہوں حالانکہ وہ نا فرمان ہے.وہ سمجھتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے دوستوں میں داخل ہوں حالانکہ اس کا دشمنوں سے تعلق ہے کیونکہ ہر ایک انسان کی فرمانبرداری کا ثبوت تب ہی ملتان ہے جبکہ وہ اپنے عادات ، خیالات اور ذوق کے خلاف باتوں میں بھی اطاعت کرے اور ی ان کے پورا کرنے میں پورا نکلے.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی طبیعتوں میں غصہ نہیں ہوتا.ان کے کے خلاف اگر کوئی بات کہتا ہے تو وہ بڑی خندہ پیشانی سے اس کو برداشت کرتے ہیں.اور عفو اور درگزر خدا تعالیٰ کی ان پاک تعلیموں میں سے ہیں جو اس نے انسان کیلئے مقرر فرما ئیں.تو بیشک ایسے انسان عفو اور درگزر کرتے ہیں لیکن اگر ان پر کوئی ایسا موقع آئے جہاں خدا تعالیٰ کیلئے غضب اور ناراضگی کی ضرورت ہے اور وہ وہاں بھی عفوا اور درگزر کرتے ہیں تو معلوم ہوا کہ ان کا یہ عفو اور درگزر کوئی اور

Page 276

خطبات محمود جلد ۴ ۲۶۷ سال ۱۹۱۵ء چیز ہے کیونکہ ان کا عفو خدا تعالیٰ کے حکم اور منشاء کے ماتحت ہوتا تو جہاں اللہ تعالیٰ کا منشاء تھا کہ عفو کے بجائے غضب ہو وہاں کیوں غضب سے کام نہ لیتے اور عفو کو دور کر دیتے.یہ ان کی عادت ، ذوق اور طبیعت تھی جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ ایسا کرتے تھے.اور اس کو خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری نہیں کہا جا سکتا.اطاعت اسی کا نام ہے کہ جب اپنی عادات ، اپنے خیالات، اپنی خواہشات اور اپنی آرزوؤں کے خلاف کوئی حکم پہنچے تو اس پر عمل کر کے دکھایا جائے.یہود کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے ان کا یہی حال تھا.یہ بڑے بڑے گناہ تو کر لیتے تھے اور بڑے ضروری احکام کی خلاف ورزی ہے کرنے کی پرواہ نہیں کرتے تھے لیکن چھوٹی باتوں اور حکموں کے متعلق کہہ دیتے تھے کہ ہم ان کی پابندی کرتے ہیں کیونکہ یہ خدا کے حکم ہیں.ان کو حکم تھا کہ دیکھو قتل مت کرو.جس طرح ہمیں حکم ہے اسی طرح ان کو تھا کہ وہ لوگوں پر ظلم نہ کریں، انہیں قتل نہ کریں اور اپنے لوگوں کو گھروں سے نہ نکالو.یہی حکم مسلمانوں کو ہے مگر یہود لڑائی جھگڑے میں خوب ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے.ان کے تین قبیلے مدینہ میں رہتے تھے.بنونضیر، بنو قینقاع.بنوخزاعہ.ان کے نام تھے.بنو نضیر مشرکین کے ایک گروہ کے ساتھ تھے اور بنو قینقاع اور بنو خزاعہ ایک دوسرے کے حلیف تھے.جب مشرک آپس میں لڑتے تو انہیں بھی ساتھ ہی لڑنا پڑتا تھا.ایک دوسرے کے آدمی بھی مارے جاتے تھے جلا وطن کئے جاتے تھے، یہاں تک تو کوئی پرواہ نہیں کرتا تھا کہ خدا تعالیٰ نے قتل کرنے اور جلا وطن کرنے سے منع کیا ہوا ہے، اس لئے نہ کریں لیکن جب ان کا کوئی آدمی قید ہو جا تا تو پھر وہ چندہ کر کے اس کے چھڑانے کی فکر کرتے اور کہتے کہ بائبل کا چونکہ حکم ہے کہ کوئی یہودی غیر قوم کے پاس قیدی نہ رہے، اس لئے ہم اس حکم کی تعمیل کیلئے اسے چھڑاتے ہیں.انہیں قتل کرنے اور جلا وطن کرنے کے وقت تو بائبل کا حکم یاد نہ آیا لیکن قیدی کیلئے یاد آ گیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بھلا ان کی اس اطاعت سے ہم خوش ہو سکتے ہیں، ہر گز نہیں.ایسی اطاعت کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں جو حکم اپنی مرضی کے مطابق دیکھا اس کی تعمیل کرلی اور جو نہ دیکھا اس کو پس پشت ڈال دیا.ایسی اطاعت سے ہم خوش نہیں ہو سکتے بلکہ اور غصہ ہوتے ہیں.ایسے لوگوں کو ہم ذلیل اور خوار کریں گے.یہ شریر آدمی جب اپنی مرضی کے خلاف بات دیکھتے ہیں تو بڑے بڑے احکام کی پرواہ نہیں کرتے اور ان کی خلاف ورزی کر لیتے ہیں اور جب اپنی مرضی کے مطابق پاتے ہیں تو مان لیتے ہیں.مومن کی شان سے یہ بات بعید ہے.

Page 277

خطبات محمود جلد ۴ ۲۶۸ سال ۱۹۱۵ء مومن تو ہر ایک بات اور ہر ایک حکم میں خواہ اس کی مرضی کے مطابق ہو یا نہ ہو خدا تعالیٰ کی رضامندی کے حاصل کرنے کی سعی اور کوشش کرتا ہے.یہ بہت گندی مرض ہے کہ جو بات اپنی مرضی کے مطابق دیکھی اس کو مان لیا اور جو خلاف ہوئی اس کو ترک کر دیا.مومن خدا تعالیٰ کے احکام میں اپنی مرضی نہیں دیکھتے وہ ہر بات میں خدا تعالیٰ کی مرضی کو مد نظر رکھتے ہیں.حضرت خلیفہ المسیح الاول فرماتے تھے کہ ایک شخص زانی تھا.میں نے اس کو نصیحت کی کہ یہ کام چھوڑ دے.وہ کہنے لگا میں نے اس عورت سے عہد کیا ہوا تھا کہ تم سے بیوفائی نہیں کرونگا اچھا اب آپ فرماتے ہیں تو میں بیوفائی کا جرم کر لیتا ہوں.اس شخص نے بیوفائی اور عہد کے توڑنے کو تو گناہ سمجھا لیکن زنا کرنے کے وقت اسے کسی گناہ کا خیال نہ آتا تھا.تو بعض انسان ایسے ہوتے ہیں کہ ایک حد تک جب اپنی خواہشات کو پورا کر لیتے ہیں اور جوش نکال لیتے ہیں تو پھر کسی چھوٹی سی بات کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ چونکہ خدا تعالیٰ کا حکم اس کے خلاف ہے اس لئے ہم اس گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے.لیکن مومن کیلئے ضرورت ہے کہ وہ ہر وقت ہوشیار رہے اور خدا تعالیٰ کے تمام حکم خواہ وہ بڑے ہوں یا چھوٹے ، اس کی مرضی کے مطابق ہوں یا خلاف، سب میں فرمانبرداری اور اطاعت کرے اور کسی بات کی بھی خلاف ورزی نہ کرے.اللہ تعالیٰ ہم سب لوگوں کو اپنے تمام احکام کی فرمانبرداری کرنے کی توفیق دے اور ہر قسم کی نافرمانی سے بچائے.ل البقرة: ٨٦٨٥ الفضل ۲۱ جنوری ۱۹۱۵ء)

Page 278

خطبات محمود جلد ۴ ۲۶۹ (۵۷) حق و باطل میں امتیاز کیلئے خاص دعائیں کرو (فرموده ۱۲.فروری ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء حضور نے تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.انسان کی زندگی اور اس کی زیست جس طرح مختلف جسمانی اشیاء پر منحصر ہے ایسے ہی ہستی باری تعالیٰ بھی انسان کی زندگی کے قیام کا ذریعہ ہے.میری مراد اس سے یہ ہے کہ :.ہر ایک انسان پر دنیا میں ضرور مشکلات آتی ہیں اور اسے طرح طرح کی دقتیں پیش آتی ہیں اور اس کے کاموں میں رکاوٹیں پیش آتی ہیں ایسے وقت میں دوسری دنیاوی چیزیں جو انسانی زندگی کے قیام کا ذریعہ ہیں مثلاً ہوا، پانی کھانا ،لباس، سورج ، رات، دن یہ ایک دہریہ کو بھی حاصل ہیں.اور ان سے ایک خدا کا منکر بھی ایسا ہی فائدہ حاصل کرتا ہے جیسے ایک خدا کا ماننے والا اور اس کی صفات پر ایمان رکھنے والا.تو جب انسان پر مشکلات آئیں اور اسے تکلیفوں کا سامنا ہوتا ہے تو خدا کا نہ مانے والا اس کی قدرتوں ، اس کی نصرت ، تائید اور اعانت پر یقین نہ رکھنے والا جب دنیا وی سامانوں کو اپنے ہاتھ سے نکلتے دیکھتا ہے اور جب دنیا کی اشیاء اس کے مخالف ہو جاتی ہیں تو اس کا دل بیٹھ جاتا ہے، اس کی ہمت پست ہو جاتی ہے، اس کا حوصلہ ٹوٹ جاتا اور وہ ہار جاتا ہے لیکن ایسے وقت میں ایک خدا کا ماننے والا جو جانتا ہے کہ خدا اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے، خدا قادر ہے جب دنیاوی سامان مخالف ہو جاویں تو اس کا دل نہیں بیٹھتا، وہ گھبراتا نہیں.کیوں؟ اس کا خدا پر ایمان ہے.پس خدا کی ہستی پر ایمان انسان کو بہت سی مشکلات سے بچالیتا ہے.

Page 279

خطبات محمود جلد ۴ ۲۷۰ سال ۱۹۱۵ء بہت سے نادان لوگ مشکلات اور مصائب کے وقت خود کشی کر لیتے ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کو خدا پر ایمان نہیں ہوتا اور وہ نہیں جانتے کہ کوئی ایسی ہستی بھی ہے جو مشکلات سے بچا سکے اسی لئے اسلام میں خود کشی کو حرام فرما دیا ہے.پس اس وقت جب تمام دنیا کی اشیاء انسان کے مخالف ہو جاتی ہیں ایسے وقت میں خدا نے ہی ہے جو انسانی دل کو ڈھارس دیتا ہے.جب دنیا کے لوگ حق اور صدق کو چھوڑ کر ناراستی اختیار کر لیتے ہیں اور حق کے مخالف ہو جاتے ہیں تو خدا پر ایمان لانے والا جانتا ہے کہ بچے کو کوئی ڈر نہیں.تو جب مومن یہ دیکھتا ہے تو اس کے دل سے بے اختیار الحمد لاتی ہے.الحمد لله رب العلمين لاے کہ مولیٰ یہ سب تیرا فضل ہے کہ جب دنیا میرے مخالف ہو گئی تو تیری ہستی پر میری نظر پڑی تو ہی میرا مددگار ہوا.یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ اس نے اپنی ہستی کو ظاہر کر کے اپنے بندوں کو مصائب سے رہائی دی.میں نے بولنا نہ تھا مجھے ریزش کی وجہ سے کھانسی سے بہت تکلیف ہے چند دن ہوئے میں نے رویا میں دیکھا کہ میں نے مولوی سید سرور شاہ صاحب کو کہلا بھیجا کہ آپ جمعہ پڑھاویں لیکن پھر جلدی سے ایک لڑکے کے ہاتھ کہلا بھیجا ہے کہ میں خود ہی پڑھاؤں گا.آج میرا ارادہ بولنے کا نہ تھا.میں نے ایک اشتہار کے چند فقرات سنے ہیں.بعض آدمیوں نے یہ مشہور کیا تھا کہ میں نے گورنمنٹ کے سامنے ایک درخواست پیش کی ہے کہ مجھے اگر خلیفہ المسلمین تسلیم کرایا جاوے تو میں گورنمنٹ کی بہت مدد کر سکتا ہوں.اس پر میں نے شائع کیا تھا کہ یہ جھوٹ اور خلاف واقعہ امر ہے.میں نے گورنمنٹ سے کوئی ایسی درخواست نہیں کی اور میں نے اس کی تردید کر دی تھی لیکن وہ انسان جس کا منشاء صداقت کی مخالفت اور اس کا انکار ہوا سے سچی باتوں میں بھی قصور نظر آتا ہے.اس نے یہ کہ دیا.خطاب طلب کرنے کے لئے میاں نے عرضی دینے سے انکار کیا ہے یہ تو نہیں لکھا کہ میں نے خلیفہ تسلیم کئے جانے کیلئے کوئی عرضی نہیں دی.اگر اس کا منشاء مجھے دکھ پہنچانے کا تھا اور میرے دل میں درد پیدا کرنے کا بھتا تو اُسے مبارک ہو کہ ایسا ہو گیا.اب اللہ تعالیٰ میرا اور اس کا فیصلہ کرے گا اب سوائے اس کے اور امر نہیں رہا.میں قسمیں کھاتا ہوں اور اسے جھوٹ قرار دیا جاتا ہے اور اسے فریب اور دھوکا بازی پر محمول کیا جاتا ہے.میں کہتا ہوں کہ میں نے گورنمنٹ سے کوئی خطاب خلیفہ وغیرہ

Page 280

خطبات محمود جلد ۴ ۲۷۱ سال ۱۹۱۵ء کالے کر کیا کرنا ہے.مگر یہ لوگ اسے یہ کہ کر کہ گورنمنٹ کو عرضی دینے سے انکار نہیں کیا حق و باطل کو ملتبس کر دیتے ہیں.خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں اور لعنت اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ کہتا ہوں اور کہتا ہوں کہ میں نے ہرگز گورنمنٹ کو اپنے خلیفہ تسلیم کرائے جانے کی کوئی عرضی نہیں دی مگر یہ اسے تقیہ یا توریہ بتاتے ہیں حالانکہ میں نے لَعْنَتُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبین لکھ کر بتادیا تھا.اگر میں نے ایسا کیا ہو تو مجھ پر لعنت ہو اور اگر میں نے ایسا نہیں کیا اور یہ مجھ پر الزام لگایا جاتا ہے تو مجھ پر جھوٹا الزام لگانے والے پر لعنت پڑے گی.تو اب میرے مولیٰ سے یہ میری درخواست ہے کہ وہ اس امر کا فیصلہ کرے اور وہ صدق و کذب میں فیصلہ کر کے حق کو باطل سے ممتاز کرے اور جو اس امر میں جھوٹا ہے اس کا جھوٹ ظاہر کر دے.میں نے یہ کہا تھا کہ مولوی محمد علی صاحب نے خواجہ صاحب کو خط لکھا اور پھر اس کے بعد میری کوئی تحریر اس کے خلاف نہیں نکلی.اگر کسی تقریر کو ضبط کرنے والے نے بجائے خواجہ کے حضرت صاحب لکھ دیا ہے تو یہ اس کی غلطی ہے.میں نے یہ نہیں کہا کہ مولوی محمد علی صاحب نے حضرت صاحب کو ایسا خط لکھا کہ میری تحریر ہی ہے اور میں نے یہی کہا ہے کہ مولوی صاحب نے خواجہ کمال الدین صاحب کو اس طرح کا خط لکھا تھا.میں اس خدا کی قسم کھاتا ہوں جس نے نب کر یم مالی لی پی پی کو بھیجا.اس خدا کی قسم جس کا فرستادہ حضرت مسیح موعود تھا.اس خدا کی قسم قرآن جس کا کلام ہے.حضرت مسیح موعود نے یہ فرمایا تھا کہ مولوی محمد علی صاحب نے ایک اس قسم کا خط لکھا ہے کہ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ کس کو لکھا.پھر حضرت صاحب نے فرمایا کہ:.ایسا لکھنے والا احمق ہے وہ بیوقوف ہے وہ نہیں دیکھتا کہ مہمان تو یہاں ( ان دنوں حضرت مسیح موعودلاہور میں تشریف فرما تھے ) آرہے ہیں.قادیان میں اب جا تا کون ہے اُسے چاہئے تھا کہ وہ لاہور اور مت ادیان کا خرچ جمع کر کے دیکھتا کہ کتنا ہے.پھر فرمایا کہ خدا نے مجھے بتلایا ہے کہ لنگر جب تک تمہارے ہاتھ میں ہے چلتا رہے گا.اگر میں اسے ان کے ہاتھ میں دے دوں تو یہ چند دنوں میں ہی بند ہو جاوے.میں کہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.یہ قسم کھالیں کہ ہم نے کبھی ایسا نہیں لکھا یا یہ کہ حضرت مسیح موعود نے یونہی کہہ دیا تھا ہم نے کوئی نہیں لکھا.پس فیصلہ کا آسان طریق یہی ہے.ہمارا

Page 281

خطبات محمود جلد ۴ ۲۷۲ سال ۱۹۱۵ء خدا زندہ خدا ہے.وہ قادر ہے اسے طاقت ہے جو چاہے کرے.وہ ہر ایک امر کا آسانی سے فیصلہ کر دیتا ہے.یہ بھی اللہ تعالیٰ سے درخواست کریں.میں بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس کا فیصلہ صادر فرمائے اور حق کو حق اور باطل کو باطل ظاہر کر دے.میں کسی کو بددعا نہیں دیتا بلکہ میرا مذہب تو یہ ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے اجازت نہ ملے یا خدا تعالیٰ کوئی کلمہ زبان سے نہ نکلوا دے ( یعنی زبان پر بے ساختہ کلمات جاری نہ ہوتی جائیں ) تب تک بددعا کرنا نا جائز ہے.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ حق کو باطل سے الگ کر دے خواہ کسی طریق سے ہو.مجھ پر حملے کرتے ہیں.میں کہتا ہوں میں نے کب اپنے آپ کو پاک کہا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ میری خدمات ایسی ہیں.خدا تعالیٰ نے یہ ایک خدمت میرے سپرد کر دی ہے میں نے اس سے اس کی درخواست نہیں ہے کی.خدا نے مجھے خود خلیفہ بنادیا.خدا تعالیٰ نے مجھے قبل از وقت ایسی خبریں بتلائیں جو بتلاتی تھیں کہ میں خلیفہ نے ہوں گا.بعد میں بھی اس نے مجھے ڈھارس دی کہ میں حق پر ہوں.میں نے اگر اپنی خلافت دھوکے سے منوائی ہے تو آئیں فیصلہ کر لیں.اگر یہ فیصلہ کیلئے بھی نہ آویں تو خدا خود فیصلہ کرے گا.میں نے ان تمام لوگوں کو جن کو تھی میرے ساتھ تعلق ہے اور جنہوں نے میری بیعت صداقت اور صدق دل سے کی ہے نفاق اور شرارت سے نہیں کی ، کہتا ہوں کہ وہ ساتھ مل کر دعا کریں کہ خدا تعالیٰ حق کو باطل سے علیحدہ کر دے، چالیس دن تک وہ اس دعا میں لگے رہیں.میں پھر کہتا ہوں کہ بددعا کسی کیلئے نہ کریں.خدا تعالیٰ سے یہ طلب کرو کہ وہ خود صادق کو کا ذب سے الگ کر دے اور ان میں فرق کر دے.اگر خلافت حق ہے تو اسے قائم کر دے اور دشمنوں کو ذلیل کرے.پھر خدا ایسے سامان کر دے کہ حق و باطل علیحدہ ہو جاوے.چالیس دن میں نے اس لئے کہا ہے کہ چالیس کا عدد تکمیل کو چاہتا ہے.حضرت موسی سے تیس رات کا وعدہ فرما یا لیکن پھر دس روز بڑھا کر چالیس کو پورا کر دیا.پس چالیس دن تک دعا میں لگے رہیں.بددعا نہ کریں بلکہ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ جلد حق کو باطل سے جدا کر کے جھوٹوں کا جھوٹ ظاہر کرے.خدا تعالیٰ اپنی تمام محبوب چیزوں کے واسطہ سے، اپنے پیارے رسول صلی ای یتیم کے واسطہ اور اپنے کلام برحق قرآن کریم کے واسطہ سے ، وہ قدوس ہے اپنی قدوسیت کے واسطہ سے ، وہ سبحان ہے، وہ صادق ہے، وہ صدق کو چاہتا ہے، وہ اپنی تمام صفات پاک کے طفیل سے

Page 282

خطبات محمود جلد ۴ ۲۷۳ سال ۱۹۱۵ء سے، پھر اپنے پیارے مسیح موعود کے طفیل سے حق و باطل میں فیصلہ کرے تا کہ دنیا کو صدق و کذب کا پتہ لگ جاوے.بہت مباحث ہو چکے ہیں اب بات حد سے بڑھ رہی ہے خدا خود کوئی فیصلہ صادر فرمائے.خدا کی آواز آسمان سے نہیں آیا کرتی بلکہ زمین پر ہی کشوف اور الہامات کے ذریعہ سے وہ حق ظاہر کر دیتا ہے.سو الحمد اللہ خدا تعالیٰ نے میری تائید اس طرح بھی کی.اور کئی سو مومنوں کو بذریعہ الہامات وكشوف ورؤیاء صادقہ میری خلافت حقہ کی خبر دی.ہاں ایک طریق جھوٹے کو ظاہر کر دینے کا ہے.پس خدا اب یہ نشان بھی دکھلائے.خدا تعالیٰ نے نشان تو بہت سے دکھلائے لیکن اندھی دنیا نے نہ دیکھا.پس خدا خود ایسے طریق سے باطل کی بطالت کو ظاہر کرے کہ لوگوں پر حق روشن ہو جاوے اور دنیا کو پتہ لگ جاوے کہ باطل پر کون ہے.الفضل ۲۵ فروری ۱۹۱۵ء) ل الفاتحة:

Page 283

خطبات محمود جلد ۴ ۲۷۴ (۵۸) اللہ تعالیٰ نے جلد حق آشکارا کر دیا (فرموده ۱۹.فروری ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی:.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوَالِى وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ فرما یا: دنیا میں کسی شخص کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنے کی بہت بڑی وجہ احسان ہوتی ہے.ایک شخص دوسرے کی بعض حاجتوں کو پورا کرتا ہے، اس کی بعض تکلیفوں کو دور کرتا ہے ، اس کی بعض مصیبتوں میں اس کے کام آتا ہے اور اس کے بعض دکھوں کو اس سے ہٹاتا ہے، اس کے بدلہ میں وہ شخص اس کی فرمانبرداری اور اطاعت کرتا ہے.دیکھو فوج کا ایک سپاہی پندرہ روپیہ لے کر گورنمنٹ کیلئے اپنی جان دینے کیلئے تیار ہوتا ہے اس لئے کہ اس کو کھانے پینے پہنے وغیرہ کاموں کیلئے روپیہ کی ضرورت تھی جس کو گورنمنٹ پورا کرتی رہتی ہے اس لئے وہ بھی گورنمنٹ کیلئے فرمانبرداری کرنے کو تیار ہوتا ہے غرضیکہ جو ہستی کسی دوسرے کی ضروریات کو پورا کرتی ہے اس کیلئے فطرت کے مطابق اور ان قواعد اور قوانین کے مطابق جو کسی انسان کے بنائے ہوئے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے جاری کردہ ہیں انسان مطیع اور فرمانبردار ہو جاتا ہے.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ أجِيبُ دَعْوَةَ النَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ که تم لوگ ہمیشہ جو ایسا کرتے ہو کہ جو تمہاری ضروریات کو پورا کرتا ہے تم اس کی فرمانبرداری

Page 284

خطبات محمود جلد ۴ ۲۷۵ سال ۱۹۱۵ء کرتے ہو.تو آؤ ہم بھی تمہیں کچھ بتا ئیں کہ جب کسی بندہ کوکوئی مصیبت پیش آجائے، کوئی دکھ پہنچے، کوئی رنج والم ہو اور وہ میری نسبت سوال کرے اور کہے کہ وہ خدا جو مشکلات کو دور کیا کرتا ہے، مصائب اور آلام کو ہٹاتا ہے، کہاں ہے؟ اور وہ خدا جس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ اپنے بندوں کی دعائیں سنتا ہے، آج کہاں ہے کہ میری مشکلات کو بھی دور کرے؟ فرمایا اس کو کہو کہ تمہیں خدا کے متعلق یہ پوچھنے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ وہ کہاں ہے.وہ تو تمہارے پاس اور بہت ہی قریب موجود ہے اور ہر وقت ہر ایک انسان کے پاس موجود رہتا ہے، تم سے دور نہیں ہے.جب کوئی پکارنے والا دکھ اور درد کی حالت میں پکارتا ہے تو میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں اور اس کے مصائب اور آلام کو دور کرتا ہوں.ہاں اب یہ چاہیئے کہ جس طرح دنیا میں ہر ایک محسن کی اطاعت کی جاتی ہے، اسی طرح میری بھی اطاعت کریں.جب انسان اپنی ایک دو حاجتوں کے پورا کرنے والے اور بعض ضرورتوں میں کام آنے والے لوگوں کا ہمیشہ فرمانبردار ہو جاتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ وہ خدا جس کے احسانوں اور انعاموں کو انسان گنے کی بھی طاقت نہیں رکھتا اس کی فرمانبرداری اور اطاعت نہ کرے اس فرمانبرداری کے نتیجہ میں اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ تمہارا ہی اس میں بھی فائدہ ہے اور وہ یہ کہ تم راہ راست کو پا لو گے اور ہدایت یافتہ ہو جاؤ گے.یہ کیسی سچی بات ہے اور کیسا سچا کلام ہے.واقعی اللہ تعالیٰ کے حضور جو پکارتا ہے ، خدا اس کی دعا کو کبھی ضائع نہیں کرتا.تم لوگوں نے تو ابھی یہ نظارہ دیکھا ہے.پچھلے جمعہ میں نے ایک اشتہار دیکھا تھا جس میں لکھا تھا ”میاں صاحب نے گورنمنٹ سے اپنے خلیفہ المسیح تسلیم کئے جانے کی استدعا کی ہے اور گورنمنٹ نے بالمقابل مذہبی معاملات میں مداخلت سے انکار کیا ہے.یہ خبر ہم نے وثوق کے ساتھ سنی اور جو طریق عمل میاں صاحب نے خلافت کے شوق میں اختیار کر رکھا ہے اس سے اس خبر پر یقین کر لینا ہمارے لئے بالکل ضروری تھا.پھر اشتہار لکھنے والے نے اس خبر کی صداقت پر یہ دلیل دی تھی کہ :.”میاں صاحب نے اس اشتہار میں نہایت عظمندی سے کام لیا ہے.آپ لکھتے ہیں کہ مجھے گورنمنٹ سے کسی خطاب کی ضرورت نہیں نہ میں نے

Page 285

خطبات محمود جلد ۴ کوئی درخواست دی ہے.یہ کس نے کہا ہے کہ آپ نے کوئی درخواست بطلبی خطاب دی ہے.خبر تو یہ ہے کہ آپ نے کوئی چٹھی اپنے خلیفہ مسیح تسلیم کئے جانے کے متعلق لکھی ہے.آپ نے کسی ایسی چٹھی بھیجنے سے انکار نہیں کیا.“ سال ۱۹۱۵ء اس نادان نے یہ نہیں سمجھا کہ گورنمنٹ سے یہ کہنا کہ مجھے خلیفہ اسی تسلیم کروا دو، خطاب نہیں تو اور کیا ہے؟ کیونکہ گورنمنٹ صرف نام ہی دے سکتی ہے لیکن اس کا کام نہیں دے سکتی.چونکہ اس شخص کے دل میں گندے خیالات تھے اس لئے اس نے اپنی فطرت پر قیاس کر کے میری نسبت بھی کہہ دیا کہ میں نے پیچدار بات کر کے جھوٹ بولا ہے.جیسا کہ میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں سنایا تھا کہ اس سے مجھے بہت تکلیف ہوئی تھی.میں نے اعلان میں لکھ دیا تھا کہ لعنت اللہ علی الکاذبین اللہ تعالیٰ کی جھوٹوں پر لعنت ہو.لیکن باوجود اس کے کہا گیا کہ میں نے اس خبر سے انکار نہیں کیا اور لوگوں کو دھوکا دیا ہے.دیکھو اللہ تعالیٰ کیسا قادر ہے کہ ابھی اس بات کو یعنی ایک الزام کا ازالہ اشتہار کے ہمیں پہنچے پورا ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ گورنمنٹ کی طرف سے ایک دوست کو جواب آ گیا ہے کہ کسی نے کوئی ایسی درخواست گورنمنٹ کو نہیں بھیجی.اس دوست نے اپنی چٹھی اور گورنمنٹ کے جواب کو بیجنیسہ شائع کر دیا ہے.اس سے صاف طور پر معلوم ہو جائے گا کہ الزام کے قابل کون ہے اور یہ ہمارے لئے ثبوت ہے اس بات کا کہ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ.جب کوئی ہمیں پکارتا ہے تو ہم اس کی دعا کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں.لیکن فَلْيَسْتَجِيبُوالي وَلْيُؤْمِنُوابی.شرط یہ ہے کہ ہماری فرمانبرداری اور اطاعت کی جائے.مومن انسان کی زندگی کیسے سکھ اور آرام کی زندگی ہوتی ہے.دنیا میں ایک ایسا جس کے گھر میں ڈاکٹر موجود ہو وہ بیماری کے وقت بہت آرام میں رہتا ہے.ایک ایسا جس کے گھر کا پلیڈر اور بیرسٹر ہو، وہ کسی مقدمہ میں گرفتار ہونے کے وقت بہت سکھ پاتا ہے.اور پھر ایک ایسا شخص جس کے رشتہ دار دولت مند اور معزز ہوں ، وہ افلاس اور تکلیف کے وقت بہت مدد حاصل کرتا ہے.تاہم پھر بھی کوئی انسان دنیا کی تمام نعمتیں اپنے گھر مہیا نہیں کر سکتا مگر وہی شخص جو اِذا دَعَانِ میں شامل ہو.یعنی خدا کو اپنی ضرورتوں اور تکلیفوں کے

Page 286

خطبات محمود جلد ۴ ۲۷۷ سال ۱۹۱۵ء وقت پکارے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی طبیب اور ڈاکٹر نہیں ہے، اللہ تعالی سے بڑھ کر کوئی وکیل اور پلیڈر نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی دولت مند اور غنی اور حافظ و ناصر نہیں ہے.وہ انسان جس کے گھر میں تمام نعمتیں جمع ہو سکتی ہیں وہ وہی ہوتا ہے جو اِذَا دَعَانِ میں شرکت اختیار کرتا ہے اس کو پھر کسی چیز کی پرواہ نہیں رہتی اور کوئی غم کوئی فکر اور کوئی دکھ نہیں رہتا.کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کو فرماتا ہے کہ اگر تمہیں کوئی دکھ کوئی تکلیف ہو تو اس کا علاج مجھ سے چاہو اور اس کی دوا مجھ سے مانگو، ہم تمہیں دیں گے.سو ہم نے مانگا اور خدا نے ہمیں دے دیا.ہماری نظر تو چالیس دنوں پر تھی لیکن خدا تعالیٰ نے چارہی دن میں ہماری دعا کو قبول فرما لیا.کیونکہ گورنمنٹ کا جواب ۱۶.فروری کو وہاں سے چلا ہے اور ۱۹ کو یہاں پہنچ گیا ہے.قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کی ایک نیکی دس کے برابر ہوتی ہے.سوخدا تعالیٰ نے ہمارے ایک دن کو دس دن کے برابر کر دیا.اور چار ہی دن کے اندر خدا تعالیٰ نے ہماری بریت کر دی.اب ہمارا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری کریں اور اس کے حکموں کو ما نیں.اللہ تعالیٰ اور اس کے حکموں کو مانا ایک بہت بڑا خزانہ ہے.جس کا خدا ہو گیا اس کو اور کسی کی پرواہ نہیں ہے.اور جس کا کوئی نہیں اس کا خدا ہے.پس تم لوگ دعاؤں میں لگے رہو اور اس کے تمام حکموں اور ارشادوں کی دل و جان سے تعمیل کرو.اللہ تعالیٰ ہماری سب جماعت کو سچے اور سیدھے راستہ پر چلنے کی توفیق دے اور ہماری ہر راحت اور رنج میں ہمارے ساتھ ہو.البقرة: ١٨٧ الفضل ۲۵ فروری ۱۹۱۵ء)

Page 287

خطبات محمود جلد ۴ ۲۷۸ (۵۹) کلمہ شہادت اسلام کا ایک بے نظیر خلاصہ ہے (فرموده ۲۶.فروری ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد کلمہ شہادت پڑھا.اَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.پھر فرمایا:.کلمہ شہادت اسلام کا ایک ایسا بے نظیر خلاصہ ہے کہ اسلام کی اصولاً کوئی بات اس سے خارج نہیں.اگر ہم غور کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ در حقیقت دنیا میں دو ہی کام انسان کے نصب العین ہو سکتے ہیں.اول سب سے بڑا اور پہلا کام یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرے اور دوسرا بڑا بھاری کام یہ کہ بنی نوع انسان سے شفقت، ہمدردی اور مروت سے پیش آئے.تو اگر لا إلهَ إِلَّا الله اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ایک ہی حقیقی معبود ہے جس کی عبادت کرنی چاہئیے.اور ماسوا اللہ سے اپنی توجہ ہٹا کر الہی کی طرف جھک جانا چاہئے تو محمد رَّسُولُ اللہ کا کلمہ اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ جب اللہ اپنی مخلوق سے ایسا پیار اور محبت رکھتا ہے کہ ان کی گمراہی کے وقت ان کی دستگیری کرنے کے لئے اپنے رسول مبعوث کرتا ہے اور بغیر اس کے کہ کسی کا محتاج ہو یا کچھ حاجت رکھتا ہو، جب اپنے بندوں سے یہ سلوک کرتا ہے تو معلوم ہو سکتا ہے کہ ایک انسان کو دوسرے انسان سے کیا سلوک کرنا چاہیئے.پس اگر کلمہ شہادت کا پہلا حصہ انسان کے تعلقات کو خدا تعالیٰ سے مضبوط کرتا ہے تو

Page 288

خطبات محمود جلد ۴ ۲۷۹ سال ۱۹۱۵ء نہیں دوسرا حصہ بندوں سے تعلقات رکھنے کی طرف متوجہ کرتا ہے.پھر اگر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے اَشهَدُ ان لا إلهَ إِلَّا الله تمام اسلام کی جان ہے اور اس کے دوسرے حصہ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ كَا ذکر بھی اسی میں آجاتا ہے کیونکہ تمام رسالتیں، تمام کتابیں، تمام احکام خواہ عبادت کے متعلق ہوں خواہ بندوں کے متعلق ، ان کی جڑ اللہ تعالیٰ ہے اور ان باتوں میں اختلاف مختلف معبودوں کے بنانے کی وجہ سے واقعہ ہوتا ہے.چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات بے عیب اور پاک ہے اس لئے اس کی طرف سے وہی مذہب ہو سکتا ہے جو نقائص اور عیبوں سے پاک ہوا اور کسی قسم کا اس کے احکام میں اختلاف نہ ہو اور وہ مذہب صرف اسلام ہے.کل مذاہب اسی لئے ایجاد ہوئے کہ لا إلهَ إِلَّا اللہ کو لوگوں نے نہ سمجھا.ایک نادان انسان لا اله إلا الله کے یہ معنی خیال کرتا ہے کہ اللہ کو مان کر اور کسی کے ماننے کی ضرورت نہیں ہے.لیکن اگر وہ غور کرتا تو اس کو معلوم ہوتا ت کہ لا إله إلا اللہ کا انناہی آنحضرت سلا ملا ہی تم پر دلالت کرتا ہے اور اسی کامانا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے پر دلالت کرتا ہے.تو لا إلهَ إِلَّا اللہ کو جو نادان اس بات کا ذریعہ سمجھتا ہے کہ تمام مذاہب ایک ہوں اسی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمام مذاہب خدا کی طرف سے نہیں ہو سکتے کیونکہ خدا ہر گز مختلف دیتا.تعلیموں میں تو تب اختلاف ہو کہ خدا بھی مختلف ہوں.کیا یہ ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ ایک نبی مبعوث کرے اور ادھر کہے کہ دنیا اس نبی کو مانے اور اس کے احکام کی فرمانبرداری کرے اور اُدھر کہے کہ دنیا نہ مانے ، یہ ہو نہیں سکتا.پس لا إله إلا اللہ کے ہی ماننے کا ثبوت ہے محمد سال یا ایسین کا مانا اور لا اله الا اللہ کے ہی ماننے کا ثبوت ہے حضرت مسیح موعود کا ماننا کیونکہ ان کے بھیجنے والا ایک ہی ہے اس لئے جس نے ان میں سے ایک کامی انکار کیا اس نے خدا کا انکار کیا.تولا إلهَ إِلَّا اللہ میں خدا نے یہ بتایا ہے کہ جب تمہارا تعلق ایک ہی ہستی سے ہے تو ہر ایک وہ چیز جو مجھ سے تعلق رکھتی ہے اس سے بھی تمہیں تعلق رکھنا چاہیئے.معبودانِ باطلہ کے ماننے والوں میں اسی لئے جنگ ہوتی ہے کہ ایک کہتا ہے کہ یہ فلاں معبود کو مانتا ہے اس لئے اس کو نابود کرنا چاہیئے.چونکہ ہندوؤں میں تو یہ قصہ بھی مشہور ہے کہ ایک دفعہ برہما پیدا کرنے والے خدا اور شو مارنے والے خدا کے درمیان ایک انسان کے متعلق ایک لمبا جھگڑا ہوتا رہا.شو مارتا اور برہما زندہ کر دیتا تھا.تو لڑائی اور فساد اسی سے شروع

Page 289

خطبات محمود جلد ۴ ۲۸۰ سال ۱۹۱۵ء ہوتا ہے کہ چیزوں میں اختلاف پیدا کر لیا جاتا ہے اور کوئی ایک چیز کو اپنی ملکیت ظاہر کرتا ہے تو کوئی دوسری کو.مثلاً اب جنگ ہو رہی ہے اور ممالک کو ویران کیا جا رہا ہے کیوں؟ اسی لئے کہ ایک دوسرے کو یہی کہتے ہیں فلاں ملک غیر کا ہے، اس لئے ہم اس کو تباہ کر دیں.لَا إِلَهَ إِلَّا الله کا ماننے والا دنیا میں کسی قسم کا فساد نہیں ڈال سکتا.اس کے دل میں جو شفقت علی خلق اللہ ہوتی ہے وہ کسی دوسرے کے دل میں نہیں ہو سکتی.ہماری جماعت اس وقت اسی غرض کیلئے قائم کی گئی ہے AND AT ALTINTENANTANA اللہ کی تعلیم کو قائم کرے.اس لئے اس کو چاہیئے اس بات پر غور کرے کہ اگر ایک طرف اللہ تعالیٰ سے تعلقات مضبوط ہوں تو دوسری طرف اس کی مخلوق سے بھی ہوں.میں نے سنا ہے کہ بعض جگہ پلیگ کی بیماری پھیلنے کی وجہ سے لوگ اپنے رشتہ داروں کو بیمار چھوڑ کر بھاگ گئے اور ان کی دوائی وغیرہ نہ کی.ایسا کرنا اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے.لا الهَ إِلَّا الله کے ماننے کے بعد انسان کے دل میں شفقت علی خلق اللہ کا ہونا نہایت ضروری ہے.پر ہیز کرنا بھی ضروری ہے لیکن اس بات پر لوگوں نے غور نہیں کیا کہ انسان کو اسباب پر کہاں تک نظر رکھنی چاہیئے.اور تو گل کے کیا معنے اور مطلب ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کہتا ہے انسان اپنے آپ کو اس بیماری کی ہلاکت میں نہ ڈالے، اس کے یہ معنی ہیں کہ جہاں طاعون کی بیماری ہو وہاں نہ گھسے اور اگر وہاں جہاں وہ رہتا ہے بیماری شروع ہو جائے تو وہاں سے جانا بھی منع ہے.اور یہ دونوں باتیں حکمت پر مبنی ہیں نہ پہلے حکم کے یہ معنے ہیں کہ انسان اپنے رشتہ داروں کو چھوڑ دے بلکہ توکل کرے اس حد تک تو تو گل ہے کہ رشتہ داروں دوستوں وغیرہ کو بیماری کی حالت میں چھوڑ کرانسان بھاگ نہ جائے بلکہ خدا پر توکل اور بھروسہ کر کے ان کی خدمت کرتا رہے اور اسباب پر نظر رکھنے کا یہ طریق ہے کہ انسان اسباب کا لحاظ رکھے کہ خود اپنے آپ کو مصیبت میں نہ ڈالے یعنی جہاں بیماری ہو وہاں نہ جائے کیونکہ جو خود مصیبت میں پڑتا ہے وہ فیل ہو جاتا ہے اسی لئے اسلام نے منع کیا ہے کہ اگر کسی جگہ وبا ہو تو مومن کا فرض ہے کہ وہاں جانے سے بچے لیکن اگر خدا کی منشاء نے چاہا ہے کہ اسے ابتلاء میں ڈالے یعنی اس کے محلہ میں بیماری شروع ہو جائے تو پھر توکل کرے اور یہ ایمان رکھے کہ وہ خدا جو ابتلاء بھی ڈال سکتا ہے وہ ابتلاء سے نکال بھی سکتا ہے.جب اس کا کوئی رشتہ دار بیمار ہو تو اسے تو کل کر کے اس کی خدمت کرنی چاہیئے.بہت نادان لوگ توکل کے غلط معنے سمجھ کر خواہ مخواہ

Page 290

خطبات محمود جلد ۴ ۲۸۱ سال ۱۹۱۵ء بیماری میں گھس گئے، پھر اس کے پنجہ سے نہ نکل سکے کیونکہ ایسا انسان جو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سامنے اس لئے پیش کرتا ہے کہ کچھ کرنا ہے کر لے، تو اس کو خدا ضرور سزا دیتا ہے.مومن کی یہ شان نہیں ہے وہ تو خدا تعالیٰ سے ہر وقت ڈرتا رہتا ہے اور جہاں خدا کا عذاب نازل ہوتا ہے وہاں سے الگ اور علیحدہ رہتا ہے لیکن جب وہ امتحان میں مبتلاء کیا جاتا ہے تو پھر اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس میں پاس ہونے کی کوشش کرے اور سمجھ لے کہ خدا نے میرا امتحان لینا چاہا ہے اس لئے میں پاس ہو جاؤں اور وہ ہے ثابت کر دیتا ہے کہ خدا پر میرا پورا ایمان ہے.اگر ایسے وقت میں کوئی بچنا چاہتا ہوتو بھی خدا اس کو پکڑتا ہے کہ ہم امتحان لینا چاہتے ہیں تو یہ کیوں نہیں دیتا.ہماری جماعت کا فرض ہے کہ جس طرح باپ بھائی اور بیٹا تکلیف کے وقت ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اسی طرح یہ بھی ایک دوسرے کے ساتھ سلوک کریں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کیونکہ احمدیوں کا ایک دوسرے سے تمام رشتہ داروں سے بڑھ کر تعلق ہے اس لئے چاہیئے کہ تمام احمدی جہاں کہیں بھی ہوں صرف اپنے لئے ہی نہیں بلکہ تمام احمدیوں کیلئے دعا کریں اور اگر ان کے گاؤں میں بیماری نہیں تو اور ایسے گاؤں بھی تو ہیں جہاں آدمی ہیں اور وہاں بھی بیماری کی آگ لگی ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ تمہیں اس نکتہ کے سمجھنے کی توفیق دے کہ تم ایک طرف تعلق باللہ کو مضبوط کرو تو دوسری طرف شفقت علی خلق اللہ کو مدنظر رکھو اور یہ بھی سمجھ لو کہ تو گل کیا ہوتا ہے اور اسباب سے کام لینا کیا ہوتا ہے.بہت سے انسان غلطی سے کبھی تو گل کا نام اسباب اور اسباب کا نام توکل رکھ لیتے ہیں اور پھر ٹھوکر کھاتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ ہی ہماری جماعت کا محافظ ہو اور آپ ہی اس کا حامی و ناصر ہو.ہمارا اللہ تعالیٰ کے سوا اور کون ہے؟ (الفضل ۱۱.مارچ ۱۹۱۵ء)

Page 291

خطبات محمود جلد ۴ ۲۸۲ (۶۰) چھوٹی بدی کا نتیجہ بڑی بدی پیدا کرتا ہے (فرموده ۵.مارچ ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:.كَلَّا إِنَّ كِتَبَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِينٍ وَمَا أَدْرَكَ مَاسِجين - كتب مَّرْقُومُ.وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ الَّذِينَ يُكَذِبُونَ بِيَوْمِ الدِّينِ وَمَا يُكَذِّبُ بِهَ إِلَّا كُلُّ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ ايْتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ كَلَّا بَلْ رَانَ عَلى قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ اس کے بعد فرمایا:.ایک چھوٹی بدی کا نتیجہ بڑی بدی پیدا ہوا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ترقی کرنے اور کامیابی حاصل کرنے کی یہ قوت رکھ دی ہے کہ ہر ایک کام جو وہ کرتا ہے اسے اسی طرح آگے پیش آنے والے اور کام کیلئے وہ مضبوط کر دیتا ہے.دیکھو ایک طالب علم الف پڑھتا ہے، تو پھر اس کے بعد با پڑھنی اس کیلئے آسان ہو جاتی ہے اور جب وہ الف با تا پڑھ لیتا ہے تو اس کیلئے قاعدہ پڑھنا آسان ہو جاتا ہے.اور قاعدہ پڑھنے کے بعد قرآن مجید آسانی سے پڑھ سکتا ہے.غرضیکہ ایک لفظ جو انسان سیکھتا ہے اور ایک ایک کام جو کرتا ہے وہ اسے اگلے الفاظ اور اگلے کاموں کیلئے تیار کر دیتا ہے.اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان بہت سی ترقیوں سے محروم رہ جا تا.کبھی کوئی علم نہ سیکھ سکتا اور کبھی کوئی کام اعلیٰ درجہ پر نہ کر سکتا.اگر پہلے دن ہی کوئی

Page 292

خطبات محمود جلد ۴ ۲۸۳ سال ۱۹۱۵ء طالب علم سیپارہ پڑھنا شروع کر دے تو وہ ہرگز اسے یاد نہیں کر سکتا.لیکن جب وہ تھوڑے تھوڑے حروف یاد کر لیتا ہے پھر اس کیلئے ایک دن میں کتاب ختم کر لینا بھی آسان ہو جاتا ہے.غرضیکہ انسان کی ترقی کیلئے خدا تعالیٰ نے اس کے اندر کچھ قو تیں رکھی ہیں مگر شریر اور گندہ انسان انہی قوتوں کو استعمال کر کے شرارت اور بدکاری کیلئے تیار ہو جاتا ہے اور اس طرح بڑھتا جاتا ہے.تھوڑے دن ہوئے ایک شخص نے مجھ سے فتویٰ پوچھا کہ اگر ایک انسان صغیرہ گناہ کر کے کبیرہ سے بچ جانے کی امید رکھتا ہو تو کیا صغیرہ گناہ کر لینا جائز ہے.میں نے اسے یہ جواب لکھایا کہ صغیرہ گناہ بنیاد ہے کبیرہ گناہ کی جو صغیرہ کرے گا ضرور ہے کہ وہ کبیرہ بھی کرے اس لئے کبیرہ سے بچنے کیلئے صغیرہ گناہ کر لینا ہرگز جائز نہیں.کیونکہ اس طرح تو دو گناہ ہو جائیں گے، صغیرہ تو کبیرہ سے بچنے کیلئے کیا جائیگا اور کبیرہ صغیرہ کا نتیجہ ہوگا.تو جس طرح انسان الف - با - تا وغیرہ پڑھنے سے قاعدہ، سپارہ اور قرآن پڑھنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے اسی طرح صغیرہ گناہ کبیرہ گناہ کیلئے تیار کرتا ہے.دیکھو جس طرح چھلانگ مار کر کوٹھے پر پہنچنا مشکل امر ہے اسی طرح ایک پاک انسان کا کبیرہ گناہ کر نا بھی مشکل ہے لیکن مکان پر چڑھنے کیلئے جو شخص سیڑھی پر پہلا قدم رکھ لیتا ہے وہ بہ نسبت پہلے کے اپنے آپ کو چھت کے قریب کر لیتا ہے.یہی حال صغیرہ گناہ کرنے والے انسان کا ہے وہ بھی اپنے آپ کو اس طرح کبیرہ گناہ کیلئے تیار کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ تمہیں معلوم ہے یہ شریر لوگ بدکاریوں میں کیوں مبتلاء ہوتے اور بڑھتے جاتے ہیں؟ اس لئے کہ جو کچھ یہ کرتے تھے اس نے ان کے دلوں کو جکڑ لیا ہے.پس تم یاد رکھو کہ بہت لوگ غلطی سے ایک گناہ کو چھوٹا گناہ اور ایک نیکی کو چھوٹی نیکی سمجھتے ہیں لیکن نہ کوئی گناہ چھوٹا گناہ ہے.اور نہ کوئی نیکی چھوٹی نیکی ہے کیونکہ ہر چھوٹا گناہ بڑے گناہ کیلئے تیار کرتا ہے.اور ہر چھوٹی نیکی بڑی نیکی کیلئے مستعد کرتی ہے.اس اصول کو اچھی طرح سمجھ لو کہ ایک نیکی خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو دوسری نیکی کے حاصل کرنے کو آسان کرتی ہے.اور ایک بدی خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو دوسری بدی کے کروانے کو آسان بناتی ہے.پس نیکیوں اور بدیوں کا معاملہ اسی طرح پر ہے جس طرح کسی کا چھت پر چڑھنا.چھت پر بغیر سیڑھی کے نہیں چڑھا جاتا اور جو پہلی سیڑھی پر چڑھ جاتا ہے وہ چھت کے کچھ نزدیک اور قریب ہو جاتا ہے.وہ انسان جو خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے یہ کہے کہ میں چھوٹا گناہ کر لوں تا کہ

Page 293

خطبات محمود جلد ۴ ۲۸۴ سال ۱۹۱۵ء بڑے کے کرنے کی نوبت نہ پہنچے.ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ میں کو ٹھے پر نہ چڑھنے کے لئے پہلی سیڑھی پر چڑھ جاتا ہوں.جب وہ پہلی سیڑھی پر چڑھے گا تو اس کا دل دوسری پر چڑھنے کی طرف راغب ہوگا اور جب اس پر چڑھا تو آگے چڑھنے کی تحریک اس کے دل میں ہوگی اور ہوتے ہوتے وہ ایک وقت چھت پر جائے گا.اسی طرح جب ایک شخص ایک نیکی کرے گا تو دوسری کے کرنے کی اسے اُمنگ اور خواہش پیدا ہوگی اور جب وہ دوسری کرلے گا تو تیسری کیلئے اسے اور زیادہ شوق پیدا ہوگا اور اس کا قدم دن بدن نیکیوں کی طرف بڑھتا جائے گا.تم نے کبھی کوئی آبشار دیکھی ہے جس طرح آبشار کے قریب آکر پانی بہت تیز ہو جاتا ہے.اسی طرح جب انسان گناہوں کے گڑھے کے قریب کی راہ تک پہنچ جاتا ہے تو بہت تیز ہوکر اس تیرہ و تار گڑھے میں بہت جلدی گر پڑتا ہے.اور جب انسان نیکیوں کی راہ پر چل کر اتقاء کے مرتبہ کے نزدیک ہو جاتا ہے تو بہت جلدی اس درجہ کو حاصل کر لیتا ہے.پس اس بات کو خوب یاد رکھو کہ ایک بدی دوسری بدی کی طرف، ایک گناہ دوسرے گناہ کی طرف، ایک نیکی دوسری نیکی کی طرف اور ایک تقویٰ کی بات دوسرے تقویٰ کے کام کی طرف انسان کو کھینچ کر لے جاتی ہے.دیکھو ابھی سال بھی نہیں گزرا.آج پانچ مارچ ۱۹۱۵ ء ہے.اور ۱۴.مارچ ۱۹۱۴ء کو جماعت کے ایک حصہ نے ایک صداقت کا انکار کیا تھا اور ایک راستباز کو جھٹلا دیا تھا.بظاہر تو انہوں نے یہ کہا کہ جماعت کیلئے کسی خلیفہ کی ضرورت نہیں لیکن خلیفہ کے وجود کو الگ کر کے یہ ایک صداقت تھی جس کا انہوں نے انکار کیا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابھی سال بھی نہیں ہوا کہ اسی جماعت کے لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر حملے کرنے شروع کر دیئے ہیں.ایک اخبار میں ایک شخص بحضرت مولا نا امیر قوم علامہ مولوی محمد علی صاحب سلّمه رجه کر کے لکھتا ہے اور اسی شخص کا ایک خط انجمن احمد یہ اشاعت اسلام لاہور کے رسالہ المہدی میں ایک مخلص کا خط حضرت امیر قوم کے نام“ کے عنوان سے چھپتا ہے وہ لکھتا ہے یہ سچ ہے کہ ان میں یعنی مرزا صاحب میں بھی بیشک اتنی شخصیت ضرور تھی کہ ان کو رسول و نبی کہلانے کا شوق ضرور تھا.جب ہی تو ایک طرف لکھتے جاتے ہیں کہ میں نبی ہوں ، رسول ہوں ، ساتھ ہی پھر گول مول جملہ بنانے کی خاطر یہ بھی لکھتے جاتے ہیں کہ میں مجاز أرسول ہوں اور لغوی معنوں میں نبی ہوں اسلامی اصطلاح پر نبی اور رسول نہیں ہوں.ادھر وحی کا دعویٰ ہے تو ادھر الہام کے مدعی ہیں کبھی وحی رسالت کا

Page 294

خطبات محمود جلد ۴ ۲۸۵ سال ۱۹۱۵ء دعوی ہوتا ہے تو گا ہے وحی ولایت کا اقرار ہے.شخصیت نہ ہوتی تو صرف یہ کافی تھا کہ میں مجدد ہوں ، مہدی ہوں مسیح ہوں ہلہم ہوں.پھر یہی شخص آگے چل کر لکھتا ہے.قیامت میں تمہارا شفیع محمد مصطفے احمد مجتبی صلا نم ہو گا.نہ مرزا ہوگا نہ محمود ہوگا.بھیڑ کی دُم پکڑ کر دریا عبور کرنا چاہتے ہو.پھر لکھتا ہے اس مسیح یعنی مرزا صاحب نے تثلیث وصلیب کی خوب کسر کی کہ تثلیث کی بھی پگر دادا گرا ہی ان کے مرنے کے بعد نکل آئی.یہ باتیں لکھنے والا بھی اس جماعت کے امیر کا مخلص ہے اور اس مخلص کا خط احمد یہ انجمن اشاعت اسلام کے رسالہ المہدی میں چھپتا ہے جس میں وہ لکھتا ہے.مسلمانوں نے اسلام کا عاشق، محمد کا عاشق سمجھ کر خادم اسلام سمجھ کر مرزا صاحب کو قبول کیا ہے جب یہ قلعی کھلی کہ یہ تو در پردہ محمد سے بڑی دشمنی کی گئی ہے، اُس کی عزت عظمت حرمت خاک میں ملائی گئی ہے تو ایک دم مسلمان چونک پڑیں گے.پھر اسی رسالہ المہدی کا ایڈیٹر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت لکھتا ہے.کیا چند الہامات اور کشوف اور غیب کی خبروں سے جو صرف اس کی اپنی ہی ذات یا متعلقین یا چند دیگر اشخاص یا حوادث کے متعلق ہیں وہ محمد رسول اللہ سی ایم جیسا نبی ہو گیا.سی برت كلِمَةً “ آگے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنحضرت سی ای پی ایم جیسا نبی ہونے کے متعلق لکھتا ہے.تم کیوں اس کے کامل پیر و حضرت غلام احمد کو نبی کہ کر محد علا ینہم کی ہتک کرتے ہو.نادانو! اگر امتی نبی نبی ہوتا تو اس کو نبی کہنا کیوں نبوت کا ملہ تامہ حمدیہ کی ہتک ہوتا.پھر لکھتا ہے اب میں عرض کرتا ہوں کہ کیا مسیح موعود کو اگلے انبیاء کی طرح کا نبی مان کر قرآن کی تکذیب کرو گے یا تصدیق.آخر کیا کرو گے.کچھ تو بتلاؤ.پھر لکھتا ہے ہے سو ہر جگہ ہر کتاب اور ہر مکتوب اور ہر اشتہار میں حقیقی معنی میں نبی ہونے سے حضرت صاحب نے صاف انکار کیا ہے.اور جب آپ حقیقی نبی نہیں ہیں بلکہ مجازی نبی ہیں تو اس سے یہی لازم آتا ہے کہ آپ واقعہ میں نبی نہیں.یہ کچھ حضرت مسیح موعود کے متعلق اس رسالہ میں لکھا گیا ہے جو انجمن احد یہ کا رسالہ ہے اور جس کے اجراء کا مقصد موٹے الفاظ میں یہ لکھا ہوا ہے.کہ مشن احمدیت.مسائل احمدیت.احیاء احمدیت.“ یہ احمدیت کا مشن ہے.اور یہ احیاء احمد یت ہورہی ہے.ادھر حضرت سیح موعود نزول مسیح صفحہ ۸۱ ۸۲ پرتحریر فرماتے ہیں وو جیسا کہ وحی تمام انبیاء علیہم السلام کی حضرت آدم سے لے کر آنحضرت

Page 295

خطبات محمود جلد ۴ ۲۸۶ سال ۱۹۱۵ء سی ای نام تیک از قبیل اضغاث احلام وحدیث النفس نہیں ہے ایسا ہی یہ وحی بھی ان شبہات سے پاک اور منزہ ہے اور اگر کہو کہ اس وحی کے ساتھ جو اس سے پہلے انبیاء علیہم السلام کو ہوئی تھی مجزات اور پیشگوئیاں ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ اکثر گزشتہ نبیوں کی نسبت بہت زیادہ معجزات اور پیشگوئیاں موجود ہیں بلکہ بعض گزشتہ انبیا علیہم السلام کے معجزات اور پیشگوئیوں کو ان معجزات اور پیشگوئیوں سے کچھ نسبت ہی نہیں.اور نیز ان کی پیشگوئیاں اور معجزات اس وقت محض بطور قصوں کہانیوں کے ہیں.مگر یہ معجزات اور پیشگوئیاں ہزار ہا لوگوں کیلئے واقعات چشم دید ہیں.اور اس مرتبہ اور شان کے ہیں کہ اس سے بڑھ کر متصور نہیں.یعنی دنیا میں ہزار ہا انسان ان کے گواہ ہیں سے " پھر آپ چشمہ معرفت کے صفحہ ۳۱۷ پر تحریر فرماتے ہیں :.اور خدا تعالیٰ نے اس بات کے ثابت کرنے کیلئے کہ میں اس کی طرف سے ہوں.اس قدر نشان دکھلائے ہیں کہ اگر وہ ہزار نبی پر بھی تقسیم کئے جائیں تو ان کی بھی ان سے نبوت ثابت ہوسکتی ہے.لیکن چونکہ یہ آخری زمانہ تھا اور شیطان کا مع اپنی تمام ذریت کے آخری حملہ تھا اس لئے خدا نے شیطان کو شکست دینے کے لئے ہزار ہا نشان ایک جگہ جمع کر دیئے “ یہ تو حضرت مسیح موعود اپنے نشانات منجزات اور پیشگوئیوں کی نسبت لکھتے ہیں.لیکن وہ لکھتا ہے کہ چند الہامات اور کشوف اور غیب کی خبروں سے جو صرف ان کی اپنی ہی ذات یا متعلقین یا چند دیگر اشخاص یا حوادث کے متعلق ہیں.تم نے اسے نبی بنا دیا.انہوں نے کیوں ایسا لکھا اس لئے کہ اس نے ایک صداقت کا انکار کیا اور بہانہ یہ بنایا کہ ہم حضرت مسیح موعود کے اقوال کو مانتے ہوئے کسی اور کو نہیں مانی سکتے لیکن دراصل انہوں نے حضرت مسیح موعود کے اقوال کو مانا نہیں بلکہ چھوڑا ہے.وہ ہمیں کہتے ہیں کہ تم نے صداقت کو چھوڑا لیکن ہم نے کہاں چھوڑا ہے.صداقت کو تو انہوں نے چھوڑا جو حضرت مسیح موعود کو چھوڑ گئے پھر آنحضرت سیل کی تم کو چھوڑنا پڑے گا اور یہی نہیں انہیں خدا کو بھی چھوڑنا پڑے گا کیونکہ

Page 296

خطبات محمود جلد ۴ ۲۸۷ سال ۱۹۱۵ء انہوں نے حق باتوں کو اساطیر الاولین کہہ کر رد کر دیا.اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی نسبت فرماتا ہے.كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ - کہ ان کے دلوں پر ان کے صداقت کا انکار کرنے اور اسے اساطیر الاولین کہنے سے ایسا زنگ لگ گیا ہے کہ اب وہ دور نہیں ہوسکتا کیونکہ ایک صداقت کا انکار دوسری صداقت کا انکار کرواتا ہے اور اس طرح بڑھتے بڑھتے ضلالت کے گڑھے میں گرا دیتا ہے.بھلا کوئی ایسی نظیر پیش کی جاسکتی ہے کہ مبائعین میں سے کوئی دہر یہ ہوا ہو.ہر گز نہیں.اگر کوئی دہر یہ ہو تو انہیں میں سے جنہوں نے خلافت کا انکار کیا.بھلا کوئی یہ ثابت کر سکتا ہے کہ مبائعین میں سے کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کوئی حملہ کیا ، ہر گز نہیں.اگر کوئی حملہ کرنے والے پیدا ہوئے تو انہیں میں سے جنہوں نے خلافت کو اڑانا چاہا تو کیا یہ باتیں ثابت نہیں کرتیں کہ صداقت ہمارے ساتھ ہے اگر ان کے ساتھ صداقت ہوتی تو ان کے ساتھی کیوں دہر یہ ہوتے اور انہی میں سے کوئی یہ کیوں لکھتا کہ مرزا صاحب میں بھی بے شک اتنی شخصیت ضرور تھی کہ ان کو رسول و نبی کہلانے کا شوق ضرور تھا.حضرت مسیح موعود پر حملہ کرنے والا آنحضرت صلی یا ہیکہ تم اور خدا کو بھی نہیں مانتا کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے شخص کو مسیح موعود کر کے بھیجا جس میں شخصیت کا غلبہ تھا تو اس نے لوگوں کی اصلاح اس کے ذریعہ کیا کروانی تھی اس نے اپنی شخصیت کو ہی منوایا اور اسی کا اسے شوق تھا.تو یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر الزام نہیں کیونکہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سچا مان کر آپ پر کسی قسم کا الزام لگاتا ہے وہ دراصل خدا تعالیٰ پر الزام لگاتا ہے اور پھر وہ آنحضرت سیلم پر حملہ کرتا ہے.آنحضرت سلام تومسیح موعود کو حکما وعدلا فرماتے ہیں.یعنی یہ کہ وہ بچے اور درست فیصلے کرے گا.لیکن یہ شخص لکھتا ہے کہ مرزا صاحب میں شخصیت ضرور تھی.پھر جو یہ لکھتا ہے کہ چند الہامات اور کشوف اور غیب کی خبریں بتائی گئیں ، وہ یہ بتائے کہ کیا وہ انسان جس کی خبر خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی سلیم کو دی اور جس کی نسبت حضرت دانیال، حضرت کرشن اور حضرت زرتشت اپنے اپنے زمانہ میں خبر دیتے آئے وہ چند الہامات اور کشوف ہی کا رکھنے والا تھا.چند الہامات اور کشوف تو مجھے بھی ہوئے ہیں.کیا اسی انسان کی نسبت یہ خبر دی گئی تھی جس کو چند الہام اور کشوف ہوئے کہ وہ شیطان سے آخری جنگ کرے گا اور کیا اسی کی نسبت آنحضرت صایم کیو ایم نے یہ فرمایا تھا کہ وہ امت جس کے پہلے میں اور اخیر میں مسیح موعود ہو ، و

Page 297

خطبات محمود جلد ۴ ۲۸۸ سال ۱۹۱۵ء ہلاک نہیں ہو سکتی ہے چند رویا اور کشوف دیکھنے والے تو قادیان میں سے ہی پیش کئے جاسکتے ہیں.کیا ان میں سے کسی کی نسبت رسول کریم سایا ہی تم نے خبر دی ہوئی تھی.اصل بات یہ ہے کہ صداقت کے انکار کی وجہ سے ان کی عقل پر پردے پڑ گئے ہیں اور یہ جو کچھ لکھ رہے ہیں یہ اسی صداقت کے انکار کا نتیجہ ہے.اگر کوئی سوچنے والا ہو تو ہماری صداقت کیلئے یہ بھی ایک بہت بڑا نشان ہے کیونکہ اگر صداقت ان کے پاس ہوتی تو ان کے قدم اس طرف کیوں اٹھتے جدھر سے خدا اور اس کے رسول آنحضرت صلی یتیم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہتک ہوتی.كَلَّا بَلْ رَانَ عَلى قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ.ایک صداقت کے انکار کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے دلوں پر جھوٹ اور باطل پرستی نے قبضہ کر لیا اس لئے وہ کہیں سے کہیں جا پڑے.تم اس سے نصیحت حاصل کرو اور اچھی طرح اس کو سمجھو اپنے افعال اور اقوال میں اس بات کو مد نظر رکھو.بہت لوگ ہنسی میں بعض باتوں کو ٹال جاتے ہیں ایسا نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ جب کسی بات کی بنیاد رکھی جائے گی تو آہستہ آہستہ اس پر عمارت بنائی جائے گی.اللہ تعالیٰ کیلئے انسان کا دل شیشے کی طرح ہے.ایک دفعہ مجھے دکھایا گیا کہ انسان کا دل خدا کیلئے شیشے کی طرح ہے جب شیشہ خراب ہو جاتا ہے اور اس میں شکل اچھی طرح نظر نہیں آتی.تو توڑ دیا جاتا ہے.اسی طرح انسان کا دل جب گندہ ہو جاتا ہے تو اس کو بھی خدا تو ڑ دیتا ہے کیونکہ اس میں خدا کا جلال اور عظمت نظر نہیں آتی پس تم لوگ اپنے دلوں کو اس قابل بناؤ کہ خدا تعالیٰ کی شان و شوکت ان سے دکھائی دے اور اس بات سے ڈرتے اور دوسروں کو ڈراتے رہو کہ کسی صداقت کا انکار ہرگز ہر گز نہیں کرنا چاہیئے خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو.خدائی فیصلہ کیلئے دعا کرنے میں ایک نشان کے پورا ہونے پر لوگوں نے سستی کر دی ہے لیکن اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ابھی کوئی اور فیصلہ کرے.غیر مبائعین میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر آنحضرت صلی اینم پر اور خدا تعالیٰ پر سچے دل سے ایمان رکھتے ہیں مگر انہیں یہ یقین دلایا گیا ہے کہ ہم صداقت اور راستی پر ہیں اس لئے وہ ان کے ساتھ ہیں.تم دعا کرو کہ خدا تعالیٰ انہیں سمجھ دے دے تا ایسا نہ ہو کہ وہ ان میں رہتے رہتے انہیں جیسے ہو جائیں.تمام جماعت کا یہ فرض ہے کہ دعا کرے کہ وہ لوگ جو صداقت اور راستی سمجھ کر ان کے ساتھ ہیں ، ان کو خدا تعالیٰ جلدی ہدایت دے.اخباروں والے اس بات

Page 298

خطبات محمود جلد ۴ ۲۸۹ سال ۱۹۱۵ء کو شائع کر دیں کہ تمام جماعت آج سے چالیس دن تک خوب زور سے دعا میں مشغول رہے تا کہ وہ لوگ جن کے دلوں میں راستی ہے اور جو ضد سے کام نہیں لے رہے ان کو خدا تعالیٰ ہدایت دے.اور پھر وہ دن لائے کہ سلسلہ احمدیہ سے بد نما داغ دور ہو کر اتفاق اور اتحاد پیدا ہو جائے.اور ہماری جماعت دن دونی اور رات چوگنی ترقی کرے.نا پاک ہے وہ شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چھوڑ کر اسلام کی ترقی ہو سکتی ہے.جھوٹا ہے وہ انسان جو یہ کہتا ہے کہ حضرت مسیح موعود میں شخصیت تھی اور بہت جھوٹا ہے وہ انسان جو لکھتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کو چند الہامات اور کشوف ہوئے.ایسے سب انسان اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے دور ہیں اور اللہ تعالیٰ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے.اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فرماتا ہے کہ راني مُهِينٌ مَنْ أَرَادَاهَا نَتك هي جو تیری اہانت کا ارادہ کرے گا میں اس کی اہانت کروں گا.ادھر تو وہ شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت لکھتا ہے کہ چند الہامات اور کشوف ہوئے اور ادھر لکھتا ہے کہ حضرت سید نا امیر کا اثر ظاہر ہے کہ آپ نے اپنی پر زور مدلل تحریروں سے ایک تو غیر قوموں کو دکھا دیا کہ اسلام اس پستی اور تاریکی میں نہیں ہے جو وہ خیال کرتے تھے بلکہ وہ ایک روشن آفتاب ہے جو سیاہ بدلیوں میں چھپا ہوا تھا.پھر لکھتا ہے:.ہاں سیدنا امیر نے ان مردہ دلوں میں ایک کھلبلی ڈال دی جن کو لوگ زندہ جانتے تھے.اور ان طبیعتوں میں ایک شور پیدا کر دیا جن میں کسی قسم کی 66 تحریک کی قوت باقی نہ تھی.“ اس کے نزدیک اسلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت تو بدلیوں میں چھپا رہا اور لوگ مردہ رہے لیکن آج مولوی محمد علی نے آکر اسلام کو روشن کر دیا اور مردوں میں حسان ڈال دی.یہ حضرت مسیح موعود کی ہتک نہیں تو اور کیا ہے.سو تم آج سے پھر دعا کرنا شروع کر دو اور اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ عرض کرو کہ ہمارے بعض وہ بھائی جو غلطی سے شریروں ( حضرت مسیح موعود کی ہتک کرنے والوں ) سے مل گئے ہیں وہ صداقت کو اندھوں کی طرح رو نہ کریں ، بہروں کی طرح انکار نہ کریں اور مجنونوں کی طرح اس سے بھاگتے نہ پھریں.اللہ تعالیٰ

Page 299

خطبات محمود جلد ۴ ۲۹۰ سال ۱۹۱۵ء ان پر رحم کرے اور ہم پر بھی ہر وقت اپنا فضل کرے.آمِيْنَ ثُمَّ آمِيْنَ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ ل المطفّفين: ۸ تا ۱۵ چشمہ معرفت صفحه ۳۳۲ روحانی خزائن جلد ۲۳.(الفضل ۱۶.مارچ ۱۹۱۵ء ) نزول اسیح صفحه ۸۴ ، ۸۵ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۶۱،۴۶۰ مشكاة المصابيح كتاب الفتن باب ثواب هذه الامة ه تذکره صفحه ۳۴.ایڈیشن چہارم

Page 300

خطبات محمود جلد ۴ ۲۹۱ (۶۱) سال ۱۹۱۵ء انبیاء کی تعلیم زمانہ کی رو کے خلاف ہوتی ہے فرموده ۱۲.مارچ ۱۹۱۵ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی :.وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ وَلَا نَبِي إِلَّا إِذَا تَمَتَى الْقَى الشَّيْطَنُ فِي أَمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَحُ اللهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطنُ ثُمَّ يُحْكُمُ اللهُ ايَتِهِ وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ لِيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطنُ فِتْنَةً لِلَّذِينَ قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ وَالْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ ، وَإِنَّ الظَّلِمِينَ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ.وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَيُؤْمِنُوا بِهِ فَتُخْبِتَ لَهُ قُلُوبُهُمْ وَإِنَّ اللهَ لَهَادِ الَّذِينَ آمَنُوا إِلَى صِرَاطٍ مستقيم اس کے بعد فرمایا :.b جس طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ ایسے بندے بھیجے جاتے ہیں جو کہ دنیا کو شیطان کے پنجہ سے چھڑ ا کر خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کرتے ہیں اسی طرح شیطان بھی ہمیشہ نئی نئی طرح سے لوگوں کو گمراہی اور ہلاکت کی طرف لے جانا چاہتا ہے.تو اگر ایک طرف ملائکہ کا شکر انسانوں کے دلوں میں پاک اور عدہ تحریکیں کرتا ہے تو دوسری طرف شیطان کی ذریتیں گندی اور بری تحریکیں دلوں میں ڈالنے کے لئے لگی رہتی ہیں.اور اگر ایک طرف خدا تعالیٰ کے برگزیدہ اور نیک بندے خدا تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں تو دوسری طرف شریر اور نا پاک لوگ بدیوں اور گمراہیوں کی طرف کھینچتے ہیں اور ایک طرف نیک اور پاک لوگ تقویٰ اللہ کی تعلیم دیتے ہیں تو دوسری طرف ایسے بھی خبیث ہیں جو تقویٰ

Page 301

خطبات محمود جلد ۴ ۲۹۲ سال ۱۹۱۵ء اللہ اور خشیت اللہ کا نام و نشان مٹا دینا چاہتے ہیں.اور اگر ایک طرف زبر دست آسمانی حملوں سے خدا تعالی کی تعلیم کی سچائی اور پر حکمت ہونا ثابت ہوتا ہے تو دوسری طرف شیطان بھی طرح طرح کے مکروں اور حیلوں سے تعلیم کو مٹانا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَا اَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِي إِلَّا إِذَا تَلَى الْقَى الشَّيْطَنُ فِي أَمْنِيّته - کہ کوئی رسول اور نبی ایسا نہیں گزرا کہ جب اس نے کسی کام کے کرنے کا ارادہ کیا ہو تو جھٹ شیطان نے اس کے کام میں روکیں نہ ڈال دی ہوں تا کہ وہ کامیاب نہ ہو سکے.بہت سے نادان لوگوں نے اس آیت سے ٹھو کر کھائی ہے اور بعض نے تو اس آیت کے ایک غلط معنے کر کے ان کی تائید میں جھوٹی حدیثیں بھی پیش کر دی ہیں.وہ کہتے ہیں کہ آنحضرت سان سیستم سورۃ نجم پڑھ رہے تھے کہ آپ کی زبان سے ایک شرک کا کلمہ جاری ہو گیا اس لئے آپ نے سجدہ کیا.آنحضرت مایا کیا تم نے تو اس لئے سجدہ کیا کہ آپ سے شرک کا کلمہ جاری ہو گیا ہے اس کی تلافی ہو جائے لیکن مشرکوں نے اس خوشی میں سجدہ کیا کہ آپ کی زبان سے ایسا کلمہ نکلا ہے.اس غلط واقعہ کی تائید میں یہی آیت پیش کی جاتی ہے.اور پھر کہتے ہیں کہ جب کوئی نبی وحی پڑھنے لگتا تھا تو شیطان دھوکا سے اس میں کچھ ملا دیا کرتا تھا لیکن یہ بات ایسی گندی اور بیہودہ ہے کہ اس کے ماننے سے تمام انبیاء کی تعلیم پر پانی پھر جاتا ہے اور کسی شریعت کا نام ونشان بھی نہیں رہ جاتا کیونکہ پھر کوئی انسان یہ نہیں سمجھ سکتا کہ وحی کا فلاں حصہ شیطان کا ڈالا ہوا ہے یا رحمن کا اس لئے اس عقیدہ کو رکھنے سے شریعت بالکل باطل ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرو عظمت اور جلال اٹھ جاتا ہے.پس سچی اور پاک بات یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب کوئی نبی یارسول کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو شیطان اس میں روکیں ڈالتا ہے اور چاہتا ہے کہ نبی اپنے ارادہ میں کامیاب نہ ہو.شیطان کئی طرح کے فتنے کھڑے کر دیتا ہے تاکہ لوگوں کو حق سے دور لے جائے اور قریب نہ آنے دے.لیکن جب شیطان کی ذریت یعنی شریر انسان ایسی شرارتیں کرتے ہیں کہ لوگوں کو حق سے دور ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اور نبی کی ناکامی میں کوشاں ہوتے ہیں تو اللہ فَيَنْسَحُ اللهُ مَا يُلقى الشَّيْطَنُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللهُ أَيْتِهِ وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ان دھوکا دینے والوں کی کارروائیوں اور کوششوں کو مٹا دیتا ہے اور انبیاء اور رسولوں کے کاموں کو ترقی دیتا ہے.خدا کی طرف سے انبیاء کی معرفت جو نشان آتے ہیں ان کو قائم کرتا ہے.انبیاء کی بات اور ارادہ کو مضبوط کرتا

Page 302

خطبات محمود جلد ۴ ۲۹۳ سال ۱۹۱۵ء ہے ( انبیاء بھی آیۃ اللہ میں داخل ہیں ) خدا ان کے قدموں کو مضبوط کرتا ہے انکی صداقت کو ظاہر کرتا ہے اور شیطانی کارروائیوں کو مٹا دیتا ہے کوئی نبی اور رسول ایسا نہیں ہوا جس کے ساتھ یہ معاملہ نہ ہوا ہو.حضرت آدم علیہ السلام کو اگر انبیاء میں شامل کر لیا جائے تو ان سے لے کر اور آنحضرت صلی ی ی یتم تک ایک بھی نبی ایسا نہیں آیا کہ اس نے کوئی ارادہ کیا ہو اور اس کی مخالفت نہ کی گئی ہو بلکہ جب کبھی بھی کسی نبی اور رسول نے چاہا ہے کہ وہ راستی ، ہدایت اور پاک تعلیم کو لوگوں میں پھیلائے جب ہی شیطان کھڑا ہو گیا ہے اور اس نے اس ارادہ سے روکنا چاہا ہے لیکن یہ بھی قدیم سے ہی سنت اللہ ہے کہ جو شیطان بشکل انسان انبیاء کو روکنے کے لئے کھڑے ہوئے وہ ہلاک اور بر باد ہی ہو گئے اور اگر کوئی جماعت کامیاب ہوئی تو وہی جو نبی کو ماننے والی تھی.پھر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی نبی جب اپنے زمانہ میں کسی صداقت کو لے کر کھڑا ہوا ہو اور شیطان لوگوں نے اس صداقت کو مٹا دیا ہو.ہاں نبی کے ایک عرصہ بعد تو ایسا ہوتا ہے مگر اس نبی کے زمانہ میں یا اس کی وفات کے ساتھ ہی اس کی جماعت میں ایسا تغیر نہیں ہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نبی کے زمانہ میں شیطانی کوششوں اور کاموں کو مٹاتے اور نبی کے کاموں کو مضبوط کرتے ہیں.مگر کیسے غضب کی بات ہے کہ آج ہمارے سامنے پیش کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہو کر آئے اور چالیس سال تک لوگوں کو ہدایت دینے میں لگے رہے پھر ایک ایسی جماعت جس کی تعداد آپ ہی نے چار لاکھ بیان فرمائی، آپ کے ساتھ ہوئی یہ سب کچھ مانتے ہوئے پھر کہتے ہیں کہ شیطان نے حضرت مسیح موعود کے کام میں روک ڈال دی یعنی بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس آیت یعنی مسیح موعود علیہ السلام کو مضبوط کرتا اُلٹا منسوخ کر دیا ہے اور اتنی بڑی جماعت میں سے صرف چند لوگوں کو مومن رہنے دیا ہے اور باقی سب کو گمراہ کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ ہم شیطان کی کارروائی کو منسوخ کرتے ہیں اور انہی لوگوں کے کام مضبوط کئے جاتے ہیں جو ہماری طرف سے آتے ہیں.پس خدا کے اس کلام میں کوئی شک نہیں کوئی شبہ اور کوئی ریب نہیں ہوسکتا اور اگر یہ خدا تعالیٰ کی بات قطعی نہیں، سچی نہیں ، اور صادق نہیں تو قرآن شریف پر شک پڑتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ ہمارے مرسلوں کے خلاف جو کوششیں کرنے والے ہوتے ہیں ان کو ہم تباہ کرتے ہیں اور اپنے رسولوں اور نبیوں کو کامیاب کرتے ہیں مگر آج اس کے بر خلاف

Page 303

خطبات محمود جلد ۴ ۲۹۴ سال ۱۹۱۵ء کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے راستی کی نہیں بلکہ ناراستی کی اور صداقت کی نہیں بلکہ کذب کی تائید کی ہے اور گویا اس نے اپنی قدیم سنت کو چھوڑ دیا ہے.لیکن ایسا کہنے والے یا درکھیں اور خوب یاد رکھیں کہ گو انہیں اپنے چند دوستوں کی واہ واہ اور غیر احمد یوں سے مالی فائدہ حاصل ہو جائے لیکن ان کا یہ حملہ قرآن شریف پر ہے کیونکہ اگر وہ ثابت کریں کہ حضرت مسیح موعود کی جماعت کا کثیر حصہ گمراہ اور تباہ ہو گیا ہے تو انہیں قرآن شریف کی بہ آیت منسوخ قرار دینی پڑے گی لیکن یہ ہو نہیں سکتا.ہم کہتے ہیں کہ اسی بات پر ہی مقابلہ کر کے کیوں نہیں دیکھ لیا جاتا کہ خدا کس کو گھٹا رہا ہے اور کس کو بڑھا رہا ہے.یہاں میرے ہاتھ پر اڑھائی ہزار کے قریب لوگوں نے بیعت کی تھی اور اُس وقت کی تھی جبکہ میرے مقابلہ میں وہ لوگ تھے جو قوم میں چیدہ اور باوقعت تھے اور انہوں نے فرعون کے ساحروں کی طرح مل کر مجھے مٹانا چاہا تھا لیکن کیا اب وہ دیکھتے نہیں کہ خدا تعالیٰ اسی سلسلہ کو بڑھا رہا ہے جس کے مثانے میں انہوں نے ایڑی چوٹی تک کا زور صرف کر دیا اور انہی لوگوں کو خدا تعالیٰ نے بڑھایا جو میرے ساتھ تھے اور ان کو گھٹایا جو میرے مقابلہ پر تھے.کیا یہ اس بات کا بین ثبوت نہیں ہے کہ ہمارا فعل ہی خدا تعالیٰ کا منظور نظر ہے.پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سچے تھے اور اگر خدا تعالیٰ کا کلام سچا ہے اور ضر ور سچا ہے تو یہ ضرور ہی ماننا پڑے گا کہ وہ سلسلہ جس کو خدا بڑھا رہا ہے وہ سچا ہے اور جس کو گھٹا رہا ہے وہ جھوٹا.اس میں کوئی شک نہیں کہ قوم میں سے ایک زمانہ میں صداقت اُٹھ جاتی ہے مگر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کے زمانہ میں اور اس کی اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی جماعت کو ضرور صداقت پر قائم رکھتا ہے اور اسے بڑھا تا اور ان کے مخالفوں کو گھٹاتا ہے.اب دیکھئے کہ خدا نے کس کو مضبوط کیا اور بڑھایا ہے اور کس کو کمزور کیا اور گھٹایا ہے.ہمیں خدا تعالیٰ ہزاروں سے لاکھوں بنادیا ہے اور ہمارے مخالفوں کو ہزاروں سے سینکڑوں پر لے آیا ہے اور اس سے بھی نیچے گرا رہا ہے.یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ خدا تعالیٰ کے راستہ پر چلنے والی جماعت کم نہیں ہوتی لیکن یہ بھی سنت اللہ ہے کہ ان کے راستہ میں روکیں ڈالنے والے بھی ضرور ہوتے ہیں سو یہ بھی تمہارے راستہ میں روک ہے کہ چند لوگ تم میں سے نکل کر حضرت مسیح موعود کی شان کو کم کرنے لگ گئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روکیں آیا ہی کرتی ہیں مومنوں کو ان سے گھبرانا نہیں چاہیئے.ایسا ضرور ہوا کرتا ہے شیطانی روکیں

Page 304

خطبات محمود جلد ۴ ۲۹۵ سال ۱۹۱۵ء رحمانی کاموں میں آیا کرتی ہیں مگر رحمانی لوگ ہی کامیاب ہوا کرتے ہیں.خدا تعالیٰ کے برگزیدہ لوگ اہل دنیا کو دنیا کے مقابلہ میں لے کر اس طرح جاتے ہیں جس طرح ایک سٹیم انجن دریا کے بہاؤ کے خلاف اپنے سواروں کو لے کر جاتا ہے لیکن شیطان لوگوں کو اس طرح ساتھ لیتا ہے کہ جدھر دریا کا بہاؤ ہو ادھر ہی وہ بھی کشتی پکڑ کر چلنا شروع کر دیتا ہے اور جس طرف دنیا کا رُخ ہوتا ہے ادھر ہی شیطان بھی لے چلتا ہے.مجھ سے ایک شخص نے پوچھا کہ سرسید، مسٹر گو کھلے اور مرزا صاحب کے کاموں میں فرق کیا ہے.میں نے اسے کہا کہ فرق یہ ہے کہ یہ لوگ جدھر دریا کی رو جارہی تھی ، ادھر ہی ساتھ چل پڑے لیکن حضرت مرزا صاحب جدھر سے دریا کی رو آ رہی تھی اس طرف چلے.چنانچہ دیکھو کہ سرسید انگریزی تعلیم کیلئے جدو جہد کرنے کیلئے اس وقت اٹھا جبکہ لوگوں کے دل محسوس کر رہے تھے اور وہ اس بات پر آمادہ تھے کہ تعلیم ہونی چاہئیے کیونکہ انہیں معلوم ہو چکا تھا کہ گورنمنٹ کے ہاں عہدے اور ترقیاں اسی پر منحصر ہیں.بے شک کچھ لوگوں نے سرسید کی مخالفت کی مگر وہ بھی اس بات پر مجبور تھے کہ اس کی بات کو مان لیں.پس وہ اس رو کی طرف جو ایک دریا کی طرح چل رہی تھی اور جس میں چلنے کیلئے لوگ مجبور تھے چل پڑا اس لئے لوگوں نے اس کی آواز پر لبیک کہا.ہاں وہ اس بات کیلئے تعریف کا مستحق ہے کہ اس نے لوگوں کے دلوں کو ٹول لیا اور ان کی چھپی ہوئی آرزو کو معلوم کر لیا اس لحاظ سے وہ قابل عزت ہے.اسی طرح مسٹر گو کھلے اور بیندر ناتھ بھی قابل قدر ہیں کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ دنیا حقوق مانگ رہی ہے انہوں نے اٹھ کر کہہ دیا کہ آؤ ہمارے ساتھ مل کر مانگو، ہم تم کو راہ بتاتے ہیں.گو بعضوں نے ان کا مقابلہ بھی کیا مگر آخر مقابلہ کرنے والوں کو بھی ادھر ہی چلنا پڑا جس طرف باقی دنیا جا رہی تھی.لیکن ان کے مقابلہ میں دیکھو کہ حضرت مسیح موعوداً ایسے وقت میں کھڑے ہوتے ہیں جبکہ یورپ کا فلسفہ لوگوں کو سکھا رہا تھا کہ وحی کوئی چیز نہیں ہوتی.مسلمانوں میں یہ پختہ عقیدہ ہو چکا تھا کہ یہ انعام کا دروازہ بند ہو چکا ہے اور اب کسی کو وحی نہیں ہوسکتی.دنیا اپنی تمام خوبصورتی اور حسن کے ساتھ پورا پورا بناؤ سنگار کر کے آگئی تھی اور وہ دنیا جو ابتداء سے انسان کو اپنا والہ وشیدا بناتی چلی آئی تھی اس پر لوگ فریفتہ ہو رہے تھے.اس وقت متادیان سے ایک آواز آتی ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کرو.اس سے بآسانی سمجھ آسکتی ہے کہ حضرت مرزا صاحب اور سر سید اور مسٹر گو کھلے وغیرہ کے کاموں

Page 305

خطبات محمود جلد ۴ ۲۹۶ سال ۱۹۱۵ء میں کیا فرق ہے.سرسید کے وقت دنیا انگریزی تعلیم کیلئے بے تاب ہورہی ہے اور سرسید اٹھ کر کہتا ہے کہ تعلیم حاصل کرو اس پر دنیا لبیک کہتی ہے.مسٹر گو کھلے کے وقت اہل ہند حقوق حاصل کرنے کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں انہوں نے کہا کہ آؤ حاصل کریں اس لئے لوگ ان کے ساتھ ہو گئے اور ایسا ہونا بھی تھا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو یہ کہا کہ دین کو دنیا پر مقدم کرو.یہ اس وقت کہا جبکہ ہر طرف سے اس کے خلاف ثبوت مل رہے تھے.قدیم وجدید کا فلسفہ کہتا تھا کہ الہام کا نام نہ لو.مسلمان مولویوں نے فیصلہ کر دیا تھا کہ الہام کا دروازہ بند ہو گیا ہے لیکن آپ نے کہا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام پا کر کھڑا ہوا ہوں اور مجھ پر خدا اپنی وحی نازل کرتا ہے.آپ نے اس آزادی اور خود مختاری کے زمانہ میں کھڑے ہو کر کہا کہ میرے ماننے کے بغیر کسی کی نجات نہیں ہو سکتی.سو آپ نے وہ بات کہی جس کے خلاف دنیا چل رہی تھی.آپ کے اور دوسرے لوگوں کے کاموں میں یہی فرق ہے کہ ان کا کام جلتی آگ پر تیل ڈالنا تھا اور آپ کا کام جلتی آگ پر پانی ڈالنا.اس زمانہ میں دنیا کی محبت گرم ہو رہی تھی اور دین کی سرد.ان لوگوں نے دین کی محبت کو اور سرد کر دیا اور ہے دنیا کی محبت کو زیادہ گرم کر دیا لیکن آپ نے دنیا کی محبت کو سرد کیا اور دین کی محبت کو گرم.پس یہی ان کے کاموں نے میں عظیم الشان فرق ہے.جب کوئی خدا تعالیٰ کا برگزیدہ بندہ آتا ہے تو شیطان طرح طرح کی تدبیروں سے لوگوں کو دنیا کے بہاؤ کی طرف چلانا چاہتا ہے لیکن وہ اس کے خلاف دوسری طرف لوگوں کو لے جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لوگوں کو دنیا سے چھڑا کر دین کی طرف متوجہ کیا.شیطان لوگوں کو کہتا ہی رہا کہ اگر تم اس کی بات مانوں گے تو ذلیل اور حقیر ہو جاؤ گے دنیا میں ترقی نہیں کر سکو گے لیکن خدا تعالیٰ نے اس کی کوششوں کو نا کام کردیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کام ہی کو ترقی ہوئی کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم شیطان کے کاموں کو مٹا دیتے ہیں.آج ہمارے زمانہ میں بھی شیطان نے وہی کام اختیار کیا ہے جو ہمیشہ حقانیت اور سچائی کے مقابلہ میں کرتا آیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جماعت کو کھڑا کیا تھا.شیطان نے اس پر ایسے زور کا اور سخت حملہ کیا کہ آج تک اس نے نہ کیا تھا.اس نے بہت زور لگایا کہ لوگ خدا کی طرف نہ جائیں لیکن خدا پرست لوگوں نے اس کی ایک نہ مانی اور اسے نا کام اور نا مراد کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بہت عرصہ بعد اگر آپ کی جماعت پر غلو کرنے کا الزام لگایا

Page 306

خطبات محمود جلد ۴ ۲۹۷ سال ۱۹۱۵ء جا تا تو کسی حد تک درست بھی ہوتا لیکن اس وقت اس میں ذرا بھی صداقت نہیں ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے اور اپنے متعلق ایسے کسر نفسی کے کلمات استعمال کئے کہ کسی اور نبی کے ایسے الفاظ پیش ہی نہیں کئے جاسکتے.آپ فرماتے ہیں:.کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں تو نالائق بھی ہو کر پا گیا درگاہ میں بار چونکہ شیطان کا اس زمانہ میں آخری حملہ ہونا تھا جس کے متعلق تمام انبیاء خبر دیتے آئے تھے، اس کی لئے اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے سر کو اچھی طرح کچلا.مگر شیطان نے کہا کہ "کرم خاکی ہوں تو انہوں نے کہہ دیا ہے، اب دوسری طرح داؤ لگانا چاہیئے کہ درجہ کو گھٹانا چاہیئے.نادان انسان کہتا ہے کہ جماعت میں غلو پیدا ہو گیا ہے.ہم کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے کیونکہ کسی نبی کے زمانہ میں یا اس کے وفات پانے کے ساتھ ہی ایسا نہیں ہو سکتا.پھر ہم کہتے ہیں کہ اگر پہلے لوگوں نے انبیاء کا درجہ بڑھایا اور غلو سے کام لیا تو آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان کو گھٹانے والے پیدا ہونے چاہئیں.کیونکہ غلو کے رستہ سے شیطان کے حملہ کو تو حضرت مسیح موعود نے روک دیا اور اب یہ نہیں ہو سکتا.البتہ تفریط کا رستہ رہ گیا تھا اس لئے کچھ ایسے لوگ کھڑے ہو گئے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درجہ گھٹانا شروع کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم شیطانی کام گھٹاتے اور انبیاء کے کام کو بڑھاتے ہیں اس لئے ہمیں اس روک سے ذرا بھی ملول خاطر نہ ہونا چاہیئے.لیکن اس کے علاوہ ہمیں اور کام بھی کرنا ہے.شیطان تو چاہتا ہے کہ ان میں روکیں ڈال دوں اور یہ انہیں کے دور کرنے میں لگے رہیں اور دوسرے کام نہ کریں اس لئے کہیں وہ مولویوں سے کفر کے فتوے لگواتا ہے، کہیں جماعت میں ہی اختلاف ڈلواتا ہے لیکن مومنوں یعنی رسولوں کی جماعت کا کام یہ ہوا کرتا ہے کہ اگر وہ ایک ہاتھ سے پیش آمدہ روک کو ہٹاتے ہیں تو دوسرے ہاتھ سے وہ کام کرتے ہیں جس کیلئے وہ کھڑے کئے ہے جاتے ہیں.پس تم لوگ ایک طرف اس گھر کے فتنہ کو دور کرنے کی طرف توجہ کرو اور دوسری طرف ان لوگوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرو جو گمراہی اور ضلالت میں پڑے ہوئے ہیں.خدا تعالیٰ نہیں

Page 307

خطبات محمود جلد ۴ ۲۹۸ سال ۱۹۱۵ء چاہتا کہ کوئی روک تمہارے راستہ میں اڑ سکے.پس تم بھی شیطان کی کسی روک سے نہ گھبراؤ ، وہ روکیں ڈالا ہی کرتا ہے.اس فتنہ کے دور ہونے کیلئے خدا تعالیٰ سے دعائیں کرو مگر ساتھ ہی اپنے اصلی کام کو پیش نظر رکھو اور باطل مذاہب کی کمزوریوں کو لوگوں کے سامنے رکھ دو اور اسلام کی حقانیت اور صداقت سے ان کو آگاہ کر دو.یہ ہے وہ کام جو آج اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعہ کروانا چاہتا ہے.گوشیطان چاہتا ہے کہ تفرقہ کے ذریعہ روک ڈال دے.لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے کہ شیطان تم پر کامیاب ہو سکے.پس ایک طرف تمہارا یہ کام ہے کہ اس اندرونی دشمن کو جو پیدا ہو گیا ہے بے حس و حرکت کر دو اور اس کے دھوکا میں ہر گز نہ آؤ.اور دوسری طرف اپنے بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کرتے رہو کیونکہ دانا وہی انسان ہے جو دونوں طرف کے حملہ سے بچنے کیلئے مستعد اور تیار رہتا ہے.ہمارے لئے یہ آزمائش کا وقت ہے کیونکہ ایک طرف اندرونی دشمن کا مقابلہ ہے تو دوسری طرف بیرونی کا اس لئے تم خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرو کہ وہ تمہیں اس ابتلاء میں کامیاب کرے اور اسلام کا قدم آگے ہی آگے ہو.تم اپنے دلوں کو مضبوط کرو اور خدا تعالیٰ کے اس وعدہ کو یاد رکھو کہ ہم شیطانی کاموں کو مٹاتے ہیں اور انبیاء کے کاموں کو بڑھاتے ہیں.ہم حق پر ہیں اور یقینا حق پر ہیں اس لئے ہمارے مقابلہ کرنے والوں کا نام و نشان ہی مٹ جائے گا اور ان کی کوئی حیثیت نہ رہے گی.اور وہ اس طرح کہ وہ یا تو ہم میں ہی شامل ہو جائیں گے یا غیروں میں مل جائیں گے یا ایسے کمزور ہو جائیں گے کہ ان کا ہونا اور نہ ہونا برا بر ہوگا.یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے اور سچا وعدہ ہے پس تم لوگ اپنے آپ کو اس قابل بناؤ کہ خدا تعالیٰ تم پر اپنے انعامات نازل کرے اور اپنے اندر بہت بڑی اصلاح کرو تا تمہاری خاطر دنیا میں اصلاح ہو.اپنے اندر بہت بڑی تبدیلی کرو تا تمہارے لئے دنیا میں تبدیلی ہو.تم اس یقین اور ایمان کو لے کر اٹھو، تم پر دشمن کبھی غالب نہیں آسکتا.اگر دشمن کی فوج کروڑوں کروڑ بھی ہو تو بھی وہ تم پر غالب نہیں آسکتا اور تمہارا ہی قدم آگے ہوگا اور اللہ تمہارے دشمن کو ہی مٹائے گا اور تمہیں غالب کرے گا کیونکہ فرماتا ہے وَاللهُ عَلِيمٌ حَکیم اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے.دنیا میں دو طرح سے ہی کام بگڑا کرتے ہیں.اول اس طرح کہ انسان کو علم نہیں ہوتا.مثلاً ایک شخص کسی کے بیٹے کو اس کی غیر موجودگی میں قتل کر دیتا ہے؟ اور باپ اپنے بیٹے کی مدد کیلئے کچھ نہیں کر سکتا.کیوں؟ اس لئے کہ اسے اس کے متعلق کچھ علم نہیں ہوتا.لیکن

Page 308

خطبات محمود جلد ۴ ۲۹۹ سال ۱۹۱۵ء اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں جاننے والا ہوں اور ہرا یک بات کا علم رکھتا ہوں اس لئے ممکن نہیں کہ خدا کا قائم کردہ سلسلہ تباہ ہو جائے.پھر اللہ تعالیٰ حکیم ہے اس کا کوئی کام لغو نہیں ہوسکتا.ایک انسان اپنے ہاتھ سے لگائے ہوئے درخت کو اپنی آنکھوں کے سامنے کتا ہوا نہیں دیکھ سکتا تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ جو ایک سلسلہ کو قائم کرے اور پھر اس کی حفاظت کا اسے خیال نہ ہو.پس اللہ علیم ہے اس لئے وہ شیطان کے کام کو تباہ کرے گا اور اپنے نبی کے کام کو مضبوط کرے گا.اللہ حکیم ہے.اس نے یہ سلسلہ اس لئے قائم کیا ہے کہ تا اس کے ذریعہ دنیا پر ہدایت پھیلائے اس لئے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ اس پر ہی چلنے والوں کو گمراہ کر دے.تم لوگ دعائیں کرو اور بہت زور سے دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ ہمارا قدم صدق اور راستی پر مضبوط کرے تاکہ ہمارے ذریعہ خدا کا جلال ظاہر ہو اور ہم خدا کے انعامات کے مستحق ہو جائیں.الفضل ۱۸.مارچ ۱۹۱۵ء) ل الحج: ۵۳ تا ۵۵

Page 309

خطبات محمود جلد ۴ (۶۲) تمہاری کامیابی کا گر تقوی ہے فرموده ۱۹.مارچ ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيّاتِكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ، وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ اس کے بعد فرمایا:.انسان کو اپنی زندگی کے راستہ میں بہت سی مشکلات ، بہت سی تکلیفیں اور بہت سی رکاوٹیں پیش آتی ہیں کیونکہ وہ تمام نتائج جو انسانوں کے کاموں کے نکلتے ہیں، زمانہ آئندہ سے تعلق رکھتے ہیں اور آئندہ کا علم کسی کو ہوتا نہیں اس لئے انسان کیلئے زندگی بسر کرنا ایسا ہی مشکل ہے جیسا کہ اندھیرے میں کوئی شخص کسی چیز کے پکڑنے کے لئے ہاتھ بڑھاتا ہے اور نہیں جانتا کہ وہ چیز کہاں ہے اور میرا ہاتھ کدھر جارہا ہے.یہی حال انسان کے کاموں کا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ میں روشنی میں کام کر رہا ہوں ، وہ جانتا ہے کہ میں سورج کی روشنی میں دیکھ بھال کر کام کر رہا ہوں اور وہ خیال کرتا ہے کہ اُجالے میں میرا کام ہو رہا ہے مگر دراصل وہ اندھیرے میں ، ظلمت میں اور تاریکی میں کام کر رہا ہوتا ہے.پس چونکہ انسان کے تمام کاموں کی غرض نتائج مرتب کرنا ہوتی ہے اور نتائج آئندہ سے تعلق رکھتے ہیں اور آئندہ کا علم انسان کو ہوتا نہیں اس لئے اس کے تمام کام ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے اندھیرے میں کوئی کام کر رہا ہو اور نہ جانتا ہو کہ مجھے کیا پیش آنے والا ہے.جب یہ صورت ہو تو سوال ہوسکتا ہے کہ پھر انسان

Page 310

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۵ء - کیلئے اپنے کاموں میں کامیاب اور بامراد ہونے کی کیا تدبیر ہو سکتی ہے.اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لوگو! آؤ ہم تمہیں تدبیر بتاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ یاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللهَ الَّ مومنو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اس کی خشیت کو دل میں جگہ دو اور خوف الہی اپنے دلوں میں پیدا کرو یہی تمہاری کامیابی کا گر ہے.تقویٰ اللہ کہنے کو تو چند لفظ ہیں جو آسانی سے کہے جا سکتے ہیں لیکن عمل میں تقویٰ ایک نہایت ہی مشکل بات ہے.ایک بزرگ نے تقویٰ کی یہ تعریف بیان کی ہے کہ ایک شخص نے کھلے کھلے کپڑ.پہنے ہوئے ہوں جو ادھر اُدھر لٹکتے جا رہے ہیں اور اس نے ایک ایسے تنگ راستہ سے گزرنا ہو جس سے صرف ایک ہی شخص گزرسکتا ہے اور اس راستہ کے دونوں طرف خار دار جھاڑیاں ہوں جن کے کانٹے قدم قدم پر اس کے کپڑوں کو کھینچتے ہوں ایسی جگہ سے جس طرح یہ شخص اپنے تمام کپڑے سمیٹ کر صحیح و سلامت گزر جاتا ہے اور اپنے کپڑوں کو پھٹنے نہیں دیتا، اسی طرح وہ شخص جو اپنی زندگی میں دنیا کی تمام آلائشوں اور تمام گندوں اور تمام ناپاکیوں سے گزر جائے اور اپنے کپڑوں کو نا پاک نہ ہونے دے اس کا نام تقویٰ اللہ ہے.پس کہنے کو تو یہ فقرہ آسان ہے مگر در حقیقت نہایت مشکل ہے اور اس راستہ پر چلنا ہر ایک انسان کا کام نہیں ہے کیونکہ اس کے حصول کیلئے انسان کو بہت سی کوششوں اور ریاضتوں کے کرنے کی ضرورت پڑتی ہے لیکن جو شخص ہمت کرتا ہے وہ ضرور کامیاب بھی ہو جاتا ہے.اور صرف یہی ایک طریق ہے جس سے انسان دنیا میں اپنے کاموں اور ارادوں میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ اے مومنو! متقی بن جاؤ.اس بزرگ نے تقویٰ کے معنے بہت درست کئے ہیں.تقویٰ کے معنی بچاؤ کرنے کے ہیں.انسان کا نفس جسم ہے پاکیزگی اور طہارت اس کا لباس ہے اور دنیاوی پلید یاں اور گندگیاں کانٹے ہیں جو ہر وقت پاکیزگی اور طہارت کے لباس کو پھاڑنے کے لئے تیار رہتے ہیں.انسان کا یہ کام ہے کہ اپنی ساری زندگی میں اس راستہ سے صحیح و سلامت گزرنے کی کوشش کرے اور اس کو ایک تنگ راستہ سمجھے.آنحضرت ملا ہی تم نے اس راستہ کو تلوار سے مشابہ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ تلوار کی دھار کی طرح تیز ہے اور اس کا نام آپ نے پل صراط رکھا ہے س گویا کہ یہ جہنم اور بہشت کے اوپر کا راستہ ہے جس پر انسان چل رہا ہے اور اتنا باریک اور تنگ ہے کہ انسان کو اس پر چلنے کے لئے ساری توجہ اور ساری کوشش سے کام لینا پڑتا ہے.اگر کسی نے ان

Page 311

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۵ء بازی گروں کو دیکھا ہے جو رسہ پر پاؤں رکھ کر چلتے ہیں اور اپنے پاؤں سے سینگ باندھ کر اور سینگ کی نوک رسہ پر ٹیک کر چلتے ہیں تو اسے معلوم ہوگا کہ وہ کیسی عمدگی سے اپنے پیروں کو رکھتے اور کس خوبی سے اپنے وزن کو برابر رکھتے ہیں نہ ادھر گرتے ہیں نہ اُدھر گرتے ہیں.یہی حال متقی کا ہے اس کو بھی اسی طرح احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے کیونکہ دنیا میں ہی تقویٰ کی راہ اس کیلئے بہشت کا موجب ہوتی ہے اگر کوئی اس راستہ سے ذرا ادھر ہو جائے تو وہ جہنم کے گڑھے میں گر پڑتا ہے.تو جس طرح بازیگر چند پیسوں کیلئے رسہ پر اعتدال اور کوشش سے چلنے کی مشق کرتا ہے اور پھر اس پر چلتا ہے اسی طرح مومن کا کام ہے کہ وہ اپنے نفس کو بچاتا ہوا اعتدال سے زندگی بسر کرے اور تقویٰ کے راستہ سے ذرا ادھر ادھر نہ سر کے تا کہ جہنم کے عمیق گڑھے میں گرنے سے بچ جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنْ تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرقانًا.اگر تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو گے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تمہارے لئے فرقان پیدا کر دے گا.فرقان کیا ہے.اس کے کئی معنے ہیں.اول وہ چیز جو حق و باطل میں تمیز اور فرق کر دے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے لئے تقویٰ کرنے سے ایسی تدبیریں کی جائیں گی کہ جس بات پر تم قائم ہو اور جس صداقت کو تم پیدا کرنا چاہتے ہو اللہ بڑی زور آور تائیدوں سے اس کولوگوں پر ظاہر کر دے گا اور اس طرح حق و باطل میں کھلا کھلا فرق ہو جائے گا.دوم فرقان کے معنے ایسے راستہ کے ہیں جس پر چل کر انسان مصیبتوں تکلیفوں اور رنجوں سے نکل جائے یعنی اگر تم اللہ کیلئے تقویٰ اختیار کرو گے تو وہ تمہارے لئے ایسا راستہ پیدا کر دے گا کہ تم ہر قسم کی مصیبتوں سے بچ کر نکلا جاؤ گے.واقعہ میں ہر ایک کمزور کیلئے دنیا میں آرام سے رہنے کیلئے یہی ایک راستہ ہوتا ہے کہ وہ طاقتور کا سہارا لے.دیکھو ایک کمزور جو چار پائی سے قدم بھی اٹھا نہیں سکتا میلوں کا سفر اس طرح طے کر لیتا ہے کہ اس کے تندرست ساتھی اس کو اٹھا کر لے جاتے ہیں.پس کمزور اور نا طاقت انسان کیلئے مصیبتوں اور تکلیفوں سے بچنے کا یہی طریق ہے کہ وہ طاقتور کا سہارا لے.اسی لئے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا اے مومنو! اگر تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو گے تو وہ آپ تمہارے لئے مصیبتوں سے بچنے کا راستہ نکالے گا اور تمہیں خود اٹھا کر ہلاکت کے گڑھے سے پار کر دے گا اور وَيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیّاتِكُمْر تمہاری کمزوریوں کو ڈھانپ دے گا.انسان میں بہت سی کمزوریاں ہوتی ہیں اور اس کے پچھلے گناہ اس کے راستہ میں حائل

Page 312

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۵ء ہو کر گمراہ کر دیتے ہیں اس لئے فرمایا کہ اگرتم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تو نہ صرف یہ ہوگا کہ خدا تمہیں آنے والی مشکلات اور مصائب سے بچالے گا بلکہ تمہیں صداقت کے راستہ سے جو حرصیں اور گناہ روکنا چاہیں گے ان سے بھی محفوظ رکھے گا اور تمہاری پہلی بدیوں کو ڈھانک دے گا.وَيَغْفِرُ لَكُمْ اور تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا.یعنی بدیوں کا ڈھانپنا یہ نہیں ہوگا کہ ان پر پردہ ڈال دے گا اور نہ یہ کہ لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ کر دے گا تاکہ ان کے سامنے ذلت اور رسوائی نہ ہو بلکہ ان گزشتہ بدیوں اور گناہوں کے بدنتائج سے تمہیں بچالے گا وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ.اور یہ تو معمولی باتیں ہیں جو متقیوں کیلئے بیان کی گئی ہیں ورنہ اللہ تو بہت کچھ رکھتا ہے.یہ جو متقیوں کیلئے تین انعام بیان کئے گئے ہیں.اول یہ کہ ہر مشکل سے بچائے جائیں گے.دوم یہ کہ ان کے گناہوں کو ڈھانپ دیا جائے گا اور سوم یہ کہ ان کے گناہوں کو عفو کیا جائے گا.یہ اس دنیا کے لحاظ سے بیان کر دیئے گئے ہیں ورنہ جو کوئی متقی ہوگا اس کیلئے ہمارے پاس بہت بڑے بڑے انعامات ہیں.اللہ تعالیٰ کے انعامات کے متعلق آنحضرت صلی سیستم فرماتے ہیں لَا عَيْنُ رَأَتُ وَلَا أذُنٌ سَمِعَت ۳ کہ نہ کوئی آنکھ ہے جو ان کو دیکھ سکے اور نہ کوئی کان جو ان کے متعلق سن سکے یہی وجہ ہے کہ نہ خدا تعالیٰ کے انعام الفاظ میں بیان کئے جا سکتے ہیں اور نہ سزا ہی بیان ہو سکتی ہے کیونکہ انسانی ہے لغت محدود ہے.مثلاً درد کا ایک لفظ ہے.قولنج کی تکلیف ہو تو اسے بھی در دہی کہیں گے اور اگر کانٹے کی تکلیف ہو تو اسے بھی درد ہی کہیں گے اور دیوانہ کتے کے کاٹے کی تکلیف کا نام بھی لغت درد ہی رکھتی ہے حالانکہ کانٹے کا درد اور ہے.قولنج کا درد اور ہے اور کتے کے کاٹے کا اور ، اور ان میں بہت بڑا فرق ہے.الفاظ ان کی دردوں کو زیادہ سے زیادہ ان الفاظ میں ادا کر سکتے ہیں کہ ” بہت ہی سخت درد مگر جس شخص پر کسی درد کی حالت گزرتی ہے وہی اس کی اصلیت سے واقف ہوسکتا ہے.دوسرا جس کو درد نہیں ہے اس تکلیف کو اپنے قیاس میں بھی نہیں لا سکتا.اسی طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے جو آرام اور راحت انسان کو ملتی ہے دنیا نے اس کا آرام اور راحت ہی نام رکھ دیا ہے.مگر ہم کہتے ہیں کہ دھوپ سے سائے میں جانے سے بھی آرام ہوتا ہے مگر الفاظ خدا تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے آرام اور دوسرے آرام میں کوئی فرق نہیں بتاتے اور نہ الفاظ اس آرام کو جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے ادا کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم

Page 313

خطبات محمود جلد ۴ ۳۰۴ سال ۱۹۱۵ء ، اور کیا کیا بتا ئیں.تمہاری زبان میں الفاظ تو ہیں نہیں جن سے تمہیں سمجھا دیا جاوے اس لئے ہم تمہیں ایک ہی بات بتا دیتے ہیں اور وہ یہ کہ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ اللہ بڑے فضلوں ہے وہ تمہیں وہ کچھ دے گا جس کے سمجھنے کی بھی اس وقت تمہیں طاقت نہیں ہے.پس خوب یا درکھو کہ دنیا کی تکلیفوں سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ انسان متقی ہو جائے.بہت نادان ہے وہ شخص جو فروع کی طرف دوڑتا ہے اور اصول کو ترک کرتا ہے.اگر کسی شخص کے پاس صرف ایک گلاس پانی کا ہو تو وہ پیاس کے خطرہ سے مطمئن نہیں ہوسکتا کیونکہ اس گلاس کے پی لینے کے بعد جب اسے پیاس لگے گی تو اس کے پاس کچھ نہ ہوگا.بلکہ اس کے پیاس سے بچنے کا یہ ذریعہ ہے کہ کنویں کے پاس چلا جائے، پھر اسے پیاس کا کوئی ڈر نہیں رہے گا.دیکھو جنگلوں اور بیابانوں میں رہنے والا انسان پانی کی دور دور تلاش کرتارہتا ہے اور بڑی تکلیف اٹھاتا ہے لیکن جن شہروں میں لوگوں کے گھروں میں نلکے لگے ہوتے ہیں یا کنویں موجود ہوتے ہیں ان کو پانی کے حاصل کرنے کیلئے کچھ بھی تکلیف نہیں ہوتی.پس دانا انسان کا کام یہ ہے کہ بجائے پانی کا ایک گلاس اپنے پاس رکھنے کے چشمہ کو تلاش کر کے اس کے پاس بیٹھے اور بجائے ایک دو پھلوں کو تلاش کرنے کے پھلدار درخت کی تلاش کرے.لوگ سکھ اور آرام حاصل کرنے کے لئے مختلف تدبیریں کرتے ہیں.کوئی علم پڑھتا ہے، کوئی دولت جمع کرتا ہے، کوئی عزت حاصل کرنے کی فکر میں رہتا ہے، کوئی ہنر سیکھتا ہے اور کوئی کسی اور طریقہ سے آرام حاصل کرنا چاہتا ہے مگر ہم کہتے ہیں کہ دنیا کے سکھ اور دُکھ ہزاروں قسم کے ہیں ان کیلئے انسان اپنی کوشش سے کامیاب نہیں ہو سکتا.مثلاً ایک انسان ایک ہنر اور پیشہ اس لئے سیکھتا ہے کہ میں اس کی جہ سے تکالیف سے بچ جاؤں گا لیکن کل اس پیشہ میں مرورِ زمانہ کی وجہ سے کوئی ایسا نقص پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ چلتا نہیں مثلاً پہلے زمانہ میں کپڑا بننے کا ہنر سیکھا جاتا تھا جو بہت عمدہ بھی تھا لیکن اب مشینوں کے نکل آنے کی وجہ سے وہ باطل ہو گیا ہے اور ہندوستان کے لاکھوں جولا ہوں کا کام رک گیا ہے.کیوں؟ اس لئے کہ مشینوں کا مقابلہ جو لا ہے کہاں کر سکتے ہیں.اسی طرح دیکھو طب ایسا پیشہ تھا جس کے بدلنے کا کسی کو خیال بھی نہ تھا مگر اب اس میں بھی نقص پیدا ہو گیا ہے.ہندوستان میں یونانی طب تھی جب اس سے بڑھ کر ڈاکٹری آ گئی تو اب اسے کوئی پوچھتا بھی وجہ.

Page 314

خطبات محمود جلد ۴ ۳۰۵ سال ۱۹۱۵ء نہیں.اور وہی طبیب جن کے دروازے پر ہاتھی جھوما کرتے تھے ، اب کھانے کیلئے مارے مارے ، مارے پھرتے ہیں.تو آج انسان کوئی تدبیر نکالتا ہے، کل اس سے بڑھ کر تد بیر نکل کر پہلی کو بے کار کر دیتی ہے.یہی حال مصیبتوں اور تکلیفوں کا ہے.اگر ایک انسان کسی کی دیوار میں سوراخ کر دے اور وہ دیوار والا اس سوراخ کو بند کر دے تو وہ دوسری جگہ سے کر دے گا اس لئے اس کی شرارت سے بچنے کا یہی ذریعہ ہے کہ اس شخص کو پولیس مین کے حوالہ کیا جاوے تا کہ کسی اور جگہ سے اس کے سوراخ کرنے کا خطرہ نہ رہے.تو ایک ایک چیز جو انسان حاصل کرتا ہے اور ایک ایک رستہ جس سے وہ دکھوں اور تکلیفوں سے محفوظ رہنا چاہتا ہے اس کیلئے کامل سکھ اور کامل راحت کا باعث نہیں ہوسکتا.اس کیلئے ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ جس کے قبضہ جس کے حکم اور جس کے اشارے میں سکھ اور دکھ ہے اس سے انسان دوستی پیدا کر لے پھر اس کیلئے کوئی ڈرکوئی خوف اور کوئی غم نہیں ہوسکتا.وہ انسان جو یہ کوشش کرے کہ مجھے ایک پیسٹل جائے اگر وہ اس سے ملنے کی کوشش کرے جو پیسوں کے بنانے والا ہے اور وہ اسے مل بھی جائے تو پھر اسے کیا پر واہ رہتی ہے.پس حقیقی آرام اور آسائش حاصل کرنے کا صرف یہی ایک طریقہ ہے اور وہ یہ کہ انسان خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر لے.جب اس سے تعلق پیدا کر لے گا تو پھر سب کچھ اپنے آپ ہی اس کا مطیع اور فرمانبردار ہو جائے گا.مجھے یہ قصہ ہمیشہ یاد آ کر مزا دیا کرتا ہے کہ ایک شخص بادشاہ کے پاس یہ شکایت لے کر گیا کہ میں نے شہر کے قاضی صاحب کے پاس روپے بطور امانت رکھے تھے لیکن اب مانگنے پر دیتے نہیں.میں نے انہیں معتبر سمجھ کر کوئی گواہ بھی نہیں رکھا تھا.بادشاہ نے سوچا کہ اگر میں قاضی صاحب کو یہاں بلوا کر پوچھوں گا تو وہ انکار کر دیں گے اور ان کے روپے لینے کا کوئی ثبوت ہے نہیں ،اس لئے مشکل ہوگا.قاضی صاحب سے کسی تدبیر سے روپے وصول کرنے چاہئیں.بادشاہ نے تدبیریہ کی کہ اس شخص کو کہا کہ کل جب میرا جلوس بازار سے نکلے تو تم قاضی صاحب کے مکان کے قریب بیٹھ جانا.میں وہاں آکر تم سے باتیں کروں گا اور تم نے گھبرانا نہیں.دوسرے دن جب بادشاہ کا جلوس نکلا تو قاضی صاحب کے مکان کے قریب جا کر بادشاہ نے اس سے کچھ باتیں کیں اور پھر چلا گیا.بادشاہ کے جانے کے بعد قاضی صاحب اُسے کہنے لگے.بھئی تم نے کل کچھ امانت کا ذکر کیا تھا.کچھ نشان بتاؤ تا کہ میں اس کی نسبت سوچ کر بتا سکوں.اس نے وہی نشان جو پہلے دن بتائے تھے،

Page 315

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۵ء بتا دیئے.قاضی نے روپیہ نکال کر اس کے حوالے کیا اور کہا کہ پہلے تم نے کیوں نہ مجھے یہ باتیں بتائیں تا کہ میں اسی وقت تمہیں روپیہ دے دیتا.تو اس طرح اس کا روپیہ وصول ہوا کہ وہ بادشاہ کا دوست تصور کیا گیا.اب رعایا کی مجال نہیں تھی کہ اس کی مخالفت کرتی.پس جو شخص خدا تعالیٰ سے دوستی پیدا کر لے پھر خدا کی مخلوق کی طاقت نہیں کہ اس کو دکھ دے سکے.پس اس بات کو خوب یاد رکھو کہ جب بادشاہ سے تعلق ہو جائے تو پھر رعایا کی مجال نہیں کہ اس کا مقابلہ کر سکے.خدا تعالیٰ سے بڑا بادشاہ کون ہوگا اور بادشاہوں کی اس کے سامنے ہستی ہی کیا ہے وہ ایک سیکنڈ میں ان کی جان نکال لے تو وہ کچھ بھی نہ کر سکیں.ان کے پاس بڑے بڑے لائق اور قابل ڈاکٹر بیٹھے کے بیٹھے رہ جاتے ہیں کہ موت کا فرشتہ اپنا کام کر جاتا ہے.ان بادشاہوں کے پاس جو کچھ ہے خدا تعالیٰ ہی کی عطا اور بخشش ہے.جب ان کے دوستوں اور تعلق رکھنے والوں کو کوئی دکھ نہیں دے سکتا تو خالق سے تعلق رکھنے والوں کو مخلوق کے دکھ دینے کی کیا مجال ہے.جب خالق مہربان ہو جائے تو مخلوق خود بخو دگر دن جھکا دیتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تم ہمارا تقویٰ اختیار کرو گے تو ہم تمہارے لئے آسانیوں کے دروازے کھول دیں گے اور کوئی مشکل ، کوئی مصیبت اور کوئی دکھ تمہیں نہ پہنچ سکے گا.کیونکہ خدا آپ تمہاری مدد کرے گا اور تمہاری گذشتہ بدیوں کو ڈھانپ دے گا اور گناہوں کو بخش دے گا اور یہ کیا وہ تو تم پر بڑے بڑے فضل اور انعام کرے گا کیونکہ وہ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ ہے.پس تم لوگ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو.اللہ تعالیٰ تمہیں متقی بنائے اور تقویٰ کے راستہ پر چلنے کی توفیق دے.اور باریک در باریک راہیں جو اس کی رضا ورغبت حاصل کرنے کی ہیں وہ بتائے اور اپنے پاک اور نیک بندوں کی راہوں پر چلائے اور اپنے فضل کے دروازے تم پر کھولے اور ہر قسم کی خفیہ در خفیہ اور بار یک در بار یک شرارتوں سے پاک کر کے اپنے راستباز بندوں میں شامل کر دے.آمین ثم آمین.الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۱۵ء) ل الانفال: ٣٠ بخاری کتاب التوحید باب قول الله وجوه يومئذ ناضرة الى ربها ناظرة.بخاری کتاب بدء الخلق باب ما جاء صفة الجنة

Page 316

خطبات محمود جلد ۴ ۳۰۷ (۶۳) سال ۱۹۱۵ء قرآن شریف جنت کی ایک کھڑکی ہے (فرموده ۹.اپریل ۱۹۱۵ء) حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: خدا تعالیٰ کے ہم پر بہت ہی فضل اور احسان ہیں.انسان اگر خدا تعالیٰ کے فضلوں ، نعمتوں اور احسانوں کو گنا اور یاد کرنا شروع کرے تو اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت کی بڑی لہر جوش مارتی ہے.جس قدر دنیا میں قربانیاں اور فدائیت کا اظہار ہو رہا ہے اس کی بناء تمام کی تمام محبت پر ہی ہے.ایک چیز سے جب انسان کو محبت ہو جاتی ہے تو وہ اس کیلئے اپنی جان، اپنا مال اور اپنی عزت کو قربان کرنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے، اپنے عزیزوں، اپنے دوستوں ، اور اپنے وطن کی پرواہ نہیں کرتا اور جس جس قدر انسان کو کسی چیز سے محبت پیدا ہوتی جاتی ہے اسی اسی قدر وہ اس محبت والی چیز کیلئے دوسری چیزوں کو قربان کرتا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے جس قدر احسان اپنے بندوں پر ہیں، ان کو سوچ کر اگر انسان اپنے دل کی اصلاح کرنا چاہے تو بہت کچھ کر سکتا ہے.ہر ایک انسان اگر خدا تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھے تو اس کو اپنے اوپر اس قدر فضل اور احسان نظر آئیں کہ باقی سب لوگوں سے وہ انہیں بڑھ کر پائے گا.اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کا عجیب معاملہ ہوتا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جن لوگوں کا تعلق تھا ان میں سے ہر ایک یہی خیال کرتا تھا کہ سب سے زیادہ آپ کا مجھ سے ہی تعلق ہے.خدا سے تعلق رکھنے والے بندوں کا بھی یہی حال ہوتا ہے.وہ محبت وہ پیار کرتے ہیں اور احسان اور انعام اپنے اوپر دیکھ کر یہ گمان ہی

Page 317

خطبات محمود جلد ۴ ۳۰۸ سال ۱۹۱۵ء نہیں کر سکتے کہ ہم سے زیادہ کسی اور پر بھی خدا کے فضل ہیں بلکہ ہر ایک یہی خیال کرتا ہے کہ مجھ پر ہی سب سے زیادہ خدا کے انعام واکرام ہیں.غرضیکہ اگر انسان خدا تعالیٰ کے احسانوں اور انعاموں کا مطالعہ کرے تو اس کے دل میں محبت کی ایک لہر جوش مارتی ہے جو اسے بہت بڑی بڑی قربانیوں کیلئے آمادہ کر دیتی ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف کی ابتداء کو اللہ تعالیٰ نے یوں شروع کیا ہے اور سورہ فاتحہ جو قرآن شریف کا لب لباب ہے اس کی ابتداء اس طرح فرمائی ہے کہ الحمدُ للهِ رَبّ العلمين اتمام تعریفیں اسی کے لئے ہیں جو اول تو اللہ ہے.اللہ کے معنے خود قرآن شریف نے بتا دیئے ہیں.لَهُ الْأَسْمَاءُ الحُسنی ہے کہ اس میں کسی قسم کی بدی اور نقص نہیں ہے.وہ تمام خوبیوں کا جامع اور تمام تعریفوں سے متصف ہے اس لئے الْحَمْدُ لِلہ یعنی اللہ ہی کیلئے سب تعریفیں ہیں اور جب سارے نقصوں اور عیبوں سے وہی ایک ہستی ہے جو پاک ہے اور جب تمام صفات کا جامع اور تمام محامد کے لائق صرف اللہ ہی ہے تو پھر اور کس کی حمد ہو سکتی ہے، کسی کی نہیں ہو سکتی.اور کوئی اس قابل ہی نہیں ہے کہ اس کی حمد کی جائے صرف اللہ ہی ہے جس کیلئے سب تعریفیں ہیں.پھر فرمایا یہی نہیں کہ وہ اللہ ہے بلکہ رب بھی ہے.ایک خوبصورتی تو ایسی ہوتی ہے کہ اس کا اس چیز کی ذات تک ہی تعلق ہوتا ہے لیکن ایک وہ بھی خوبصورتی اور خوبی ہوتی ہے جس کا اثر دوسروں پر بھی پڑتا ہے اور دوسرے بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.باغوں میں جا کر دیکھو تو معلوم ہوگا کہ ایک ایسے پھول ہوتے ہیں جو بڑے خوبصورت ہوتے ہیں مگر خواہ ناک کی کتنی ہی قوت تیز کیوں نہ ہو ان کی خوشبو سونگھنے سے نہیں آتی لیکن ایسے بھی پھول ہوتے ہیں جو دیکھنے میں بھی خوبصورت ہوتے ہیں اور ان کی خوشبو بھی بہت عمدہ اور لطیف ہوتی ہے.پس جس پھول کی صرف شکل اور بناوٹ اچھی ہے اور بو نہیں وہ بھی اچھا ہے.مگر جس میں بو بھی ہے اور شکل بھی اچھی ہے وہ اور بھی اچھا اور بہت ہی اچھا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : الحَمدُ لِلهِ رَبّ العلمين سب تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں جو سب بدیوں، سب کمزوریوں ، سب نقصوں اور سب عیبوں سے پاک ہے اور تمام خوبیوں، تمام نیکیوں اور تمام حسنوں کا جامع ہے.پھر رب ہے.یعنی یہی نہیں کہ اپنی ذات میں ہی اس کی ایسی خوبیاں ہیں بلکہ مخلوقات پر بھی اس کے بڑے بڑے فضل اور انعام ہیں حتی کہ اپنی مخلوق سے اس کا اتنا تعلق ہے کہ اس کی عنایت اور نوازش کے بغیر کوئی چیز زندہ ہی نہیں رہ سکتی کیونکہ وہ رب

Page 318

خطبات محمود جلد ۴ ۳۰۹ سال ۱۹۱۵ء ہے یعنی ایسی ہستی ہے کہ پیدا کرتی ہے اور پھر اس کی تمام ضروریات کو پورا کرتے کرتے درجہ کمال کو پہنچا دیتی ہے.پھر صرف رب ہی نہیں بلکہ رب العلمین ہے اس کی ذات کی دستگیری کے سوا کوئی بھی چیز زندہ اور قائم نہیں رہ سکتی.اور ساری کی ساری چیزیں اس کی ربوبیت کے اندر ہیں.کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے کہ اس کا وجود اپنے آپ سے قائم ہو.سب چیزیں اللہ کی مدد اور نصرت اور ربوبیت سے قائم ہیں کیونکہ وہی خالق ، وہی رازق، وہی قائم رکھنے والا اور وہی بڑھانے والا ہے.اور یہ تعلق ایک دو تین چار انسانوں سے ہی نہیں ہے بلکہ سب سے ہے پھر مومنوں سے ہی نہیں بلکہ کافروں سے بھی ہے.غرضیکہ کوئی پہلو حسن یا احسان کا ایسا نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات میں نہ پایا جاتا ہو.خوبصورت ہے تو ایسا کہ کوئی عیب اور نقص اس میں نہیں ہے اور پھر ساری خوبیاں جمع ہیں.اور محسن ہے تو ایسا کہ پیدا بھی کرتا ہے پھر بڑھاتا ہے اور بہت بڑھاتا ہے اور یہ ایک دو سے نہیں بلکہ سب سے خواہ کوئی مومن ہو یا کا فرا اپنی ربوبیت کا تعلق رکھتا ہے.جب یہ بات ہوئی تو پھر اس سے زیادہ حسین اور خوبصورت اور کون ہوسکتا ہے.خدا تعالیٰ کبھی کسی انسان سے قطع تعلق نہیں کرتا.بلکہ انسان خود ہی اپنی ذات میں بغاوت کر کے اس کی ربوبیت کو اپنے اوپر بند کر دے تو کر دے خدا تعالی کبھی انسان سے اپنی ربوبیت کو نہیں ہٹا تا.دیکھو اللہ تعالیٰ کا سورج نکلتا ہے اور سب کو روشنی پہنچاتا ہے.اگر کوئی کمبخت خود دروازہ بند کر کے اندھیرے میں بیٹھ رہے یا نادانی سے اپنی آنکھوں کو ضائع کر کے سورج کی روشنی سے محروم ہو جائے تو یہ اور بات ہے.خدا تعالیٰ کی جو چیز ہے وہ سب کو ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے وہ انعامات جو بلا عمل ملتے ہیں اور سب کیلئے یکساں ہیں لیکن انسان اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے ان سے محروم ہو جاتا ہے.سب سے بڑا انعام جو دنیا کو خدا تعالیٰ سے ملال وہ قرآن کریم ہے اور ساری دنیا کیلئے ہے.اگر کوئی انسان آپ ہلاک اور تباہ ہونا چا ہے اور اس سے آنکھیں بند کر لے تو وہ اور بات ہے ورنہ قرآن سب جہان کیلئے ہے.اس میں مصر، عرب ، افریقہ، امریکہ، یورپ وغیرہ کسی جگہ کی خصوصیت نہیں ہے.جہاں جہاں قرآن پہنچے سب کیلئے ہدایت ہے اور جو اس کو قبول کرے اسی کو کامیابی حاصل ہو سکتی ہے اور جو قبول نہ کرے اور ہلاک ہو جائے یہ اس کی اپنی غلطی ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے انعاموں میں کمی نہیں کی.اگر بندہ اپنی غلطیوں اور نادانیوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے انعامات کے دروازے

Page 319

خطبات محمود جلد ۴ ۳۱۰ سال ۱۹۱۵ء بند کر لے تو یہ اس کا قصور ہے نہ کہ خدا تعالیٰ اس کے انعامات کو بند کر دیتا ہے.اس وقت ہمارے پاس جو نعمت ہے وہ قرآن کریم ہی ہے اس میں جتنا زیادہ کوئی غور اور تدبر کرے اتنی ہی زیادہ معارف اور حقائق کی کھڑکیاں کھلتی جاتی ہیں.حدیثوں میں آتا ہے کہ مومن اور کافر کیلئے قبروں میں جنت اور دوزخ کی کھڑکی کھولی جاتی ہے.مومنوں کیلئے اس میں سے جنت کی ہوا آتی رہتی ہے اور کافروں کو دوزخ کی لو اس میں سے پہنچتی ہے ۳ پھر اگر حدیثوں پر غور کیا جائے تو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسی دنیا میں یہ دونوں باتیں ہوتی ہیں قبر میں جو کھڑ کی کھلے گی وہ تو کھلے گی ہی مگر اس دنیا میں بھی یہ کھڑ کی کھل جاتی ہے.اور وہ ہے اس طرح کہ خدا تعالیٰ کی باتوں اور احکام کو ماننے والوں کیلئے دنیا میں ہی جنت کی کھڑ کی کھول دی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کی باتوں اور حکموں کو رد کرنے والوں کیلئے اسی دنیا میں ہی دوزخ کی کھڑکی کھول دی جاتی ہے.قرآن شریف کو میں سمجھتا ہوں کہ جنت کی کھڑکی ہے جتنا اس پر غور کیا جائے اُتنا ہی یہ کھڑ کی کھلتی جاتی ہے اور اس قدر فراخ ہو جاتی ہے کہ اسی دنیا میں اس کھڑکی کے ذریعہ خدا تعالیٰ کو، ملائکہ کو، جنت کو ، دوزخ کو، عذاب قبر کو انسان دیکھ لیتا ہے اور یہ ایک ایسا آئینہ ہے کہ جب انسان اس پر غور اور تعشق کی نظر ڈالتا ہے تو آئندہ کی وہ باتیں جو ہوتی ہوتی ہیں وہ روشن ہو جاتی ہیں.اور انسان اور خدا تعالیٰ کے درمیان ایک ایسا راستہ بن جاتا ہے جس پر وہ چل کر خدا تک پہنچ جاتا ہے گویا قرآن کریم ایک ایسا ذریعہ اور واسطہ ہے جو خدا اور اس کے بندوں کے درمیان ہے جس کے ذریعہ انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے.پس ہمارے دوستوں کو چاہیئے کہ قرآن شریف پر بہت غور کر کے اس سے فائدہ اور نفع حاصل کریں.اور خوب یا درکھیں کہ کوئی علم ایسا نہیں جو انسان کی روحانیت کو بڑھانے والا ہو اور وہ قرآن میں نہ ہو.کوئی ایسی بات نہیں جس سے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو اور اس کا ذکر قرآن شریف نے نہ کیا ہو.جب انسان کی تمام ضروریات اس کے اندر ہیں تو اس مخزن اور خزانہ کو کھو دینا بڑی نادانی اور کم عقلی کی بات ہے.لوگ بڑی بڑی کوششیں اس بات کیلئے کیا کرتے ہیں کہ ایک کتاب میں سب قسم کی باتوں کو جمع کر دیں اور کوئی بات ایسی نہ ہو جو باہر رہ جائے.اس مقصد کیلئے انسائیکلو پیڈیا بناتے ہیں مگر پھر بھی بہت سی با تیں باہر رہ ہی جاتی ہیں.اور نئے نئے علوم اور باتیں نکل کر ان کے مجموعہ کو نامکمل کر دیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ

Page 320

خطبات محمود جلد ۴ ۳۱۱ سال ۱۹۱۵ء پندرہ بیس سال کے عرصہ کے بعد انسائیکلو پیڈیا کے بدلانے کی ضرورت درپیش ہوتی ہے اور نئی چھاپنی پڑتی ہے.پھر میں نے دیکھا ہے ڈاکٹر ایسے بکس دوائیوں کے تیار کرتے ہیں جو سفر میں ہر قسم کی بیماریوں میں کام آسکیں مگر اللہ تعالیٰ کے عذابوں کا علاج کہاں ہو سکتا ہے اور اس کے انعاموں کا شمار کس طرح کیا جا سکتا ہے اس لئے کوئی اس کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکا.تو اب تک نہ کوئی ایسا بکس تیار ہوا ہے جو تمام انسانی بیماریوں کیلئے کافی ہو سکے اور نہ کوئی ایسا انسائیکلو پیڈیا تیار ہوئی ہے جس میں تمام باتیں درج کی جاتی سکی ہوں اور جس کے بدلنے کی ضرورت پیش نہ آئی ہو.مگر قرآن شریف کا یہ کیسا زندہ معجزہ ہے کہ روحانیت کیلئے کوئی ایسی بات نہیں جو اس نے بیان نہ کی ہو اور اس سے باہر رہ گئی ہو.کوئی دنیا کی ترقی اس کی باتوں میں رخنہ نہیں ڈال سکتی.انسائیکلو پیڈیا کو بڑے بڑے مد تر عقلمند اور عالم مل کر بناتے ہیں مگر چند سالوں کے بعد کئی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو غلط نکل آتی ہیں اور کئی ایسی ہوتی ہیں جو اس میں لکھی نہیں جاتیں اور کئی ایسی ہوتی ہیں جن کا انہیں علم ہی نہیں ہوتا اور بعد میں معلوم ہوتی ہیں.مگر خدا تعالیٰ کے دین کیلئے جو انسائیکلو پیڈیا ہے اور جومخزن ہے اس میں کوئی چیز تغیر نہیں ڈال سکتی اور نہ کوئی بات اس سے باہر ہے.زمانہ کا بدلنا ، قوموں کی رسومات اور عادات کا تبدیل ہونا ہلکوں اور علاقوں کا مختلف ہونا غرضیکہ کسی وجہ سے بھی اس میں نقص نہیں آسکتا بلکہ ہر وقت کامل اور مکمل ہے پس ایسی کتاب کے ہوتے ہوئے کیوں نہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے.پس بہت ضروری ہے کہ جہاں تک ہو سکے قرآن شریف کے علوم سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے.قرآن شریف انسان کی تمام بیماریوں ، تمام نقصوں اور تمام کمزوریوں کا علاج بتلاتا ہے اس لئے ہر ایک انسان کو چاہیئے کہ اس سے فائدہ اٹھائے.میں نے سنا ہے کہ بعض نادان لوگ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے آکر دنیا میں کیا کیا؟ مسلمان اب بھی ذلیل اور کمزور ہی ہوتے جا رہے ہیں.میں کہتا ہوں کہ یہ بڑی جہالت اور نادانی کی بات ہے.دیکھو کونین تپ کیلئے مفید ہے لیکن اگر کوئی تپ کا بیمار کو نین کی پڑ یا باندھ کر رکھ دے اور کہے کہ اس سے مجھے فائدہ نہیں ہوتا تو اس کا یہ کہنا کہاں درست اور عقل کے مطابق ہو سکتا ہے.اس کو کس طرح کونین سے فائدہ ہو جبکہ وہ اسے کھاتا ہی نہیں.میں کہتا ہوں کہ کیا مسلمانوں نے حضرت مرزا صاحب مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کر لیا ہے اور ان کی تعلیم پر عمل کر رہے ہیں تو انہیں ذلت نصیب ہو رہی ہے یا انہوں نے قبول ہی نہیں

Page 321

خطبات محمود جلد ۴ ۳۱۲ سال ۱۹۱۵ء کیا.جب انہوں نے قبول ہی نہیں کیا تو پھر انہیں کس طرح فائدہ ہو سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کا بے فائدہ ہونا تو تب ثابت ہو جبکہ مسلمان انہیں قبول کر لیں اور پھر ذلیل ہوں لیکن انہوں نے قبول ہی نہیں کیا بلکہ رد کر دیا ہے تو پھر ان کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے.قرآن شریف کا بھی یہی حال ہے اور ہر ایک خوبی کا یہی حال ہوتا ہے جو کوئی اسے قبول کرتا ہے اسے فائدہ پہنچتا ہے اور جور ڈ کرتا ہے اس کو نہیں پہنچتا.یہی قرآن ان مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے جو ذلیل و خوار ہورہے ہیں اور اس لئے کہ یہ ان کے پاس نسخہ ہے لیکن وہ اسے استعمال نہیں کرتے.جب وہ اسے استعمال ہی نہیں کرتے تو پھر قرآن شریف کا کیا قصور ہے؟ بہت نادان ہے وہ انسان جو یہ خیال کرے کہ خدا تعالیٰ نے بیماریوں اور کمزوریوں کا کوئی علاج نہیں کیا.اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کیلئے علاج مقرر کیا ہوا ہے.یہ انسان کی کمزوری ہے کہ وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتا.پس فائدہ اٹھانا یا نہ اٹھانا انسان کا کام ہے سامان خدا تعالیٰ نے مہیا کر دیئے ہوئے ہیں.روحانی دیکھو تو وہ بھی کسی خاص قوم یا کسی خاص ملک تک محدود نہیں.اب اگر کوئی فائدہ نہ اٹھائے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے.ہماری جماعت کو چاہئیے کہ اس خزانہ سے یعنی قرآن شریف سے جس قدر بھی فائدہ اٹھا سکے اٹھائے.خدا تعالیٰ کا ہم پر بڑا فضل اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں زندہ قرآن دیا ہے اور قرآن کی وہ آیتیں جو گونگی، بے مطلب اور بے معنی معلوم ہوتی تھیں ان کو زندہ کر کے دکھا دیا ہے اور بتا دیا ہے کہ قرآن کا کوئی حصہ ایسا نہیں جو بے کار ہو بلکہ ہمیشہ زندہ اور کارآمد ہے.پس اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کو ہمارے لئے زندہ کتاب ثابت کر دیا ہے اس لئے ہمارے لئے بہت ضروری ہے کہ اس سے فائدہ اٹھائیں.خدا تعالیٰ ہمیں قرآن شریف کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.ل الفاتحه : ۲ الحشر : ٢٥ (الفضل ۲۲.اپریل ۱۹۱۵ء) سنن ابی داود کتاب السنة باب في المسئلة في القبر و عذاب القبر

Page 322

خطبات محمود جلد ۴ ۳۱۳ (۶۴) سال ۱۹۱۵ء صحابہ کی کامیابی اور غلبہ کا راز (فرموده ۱۶.اپریل ۱۹۱۵ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.وَلَا تَهِنُوا فِي ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ اِنْ تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَألَمُونَ وَ تَرْجُونَ مِنَ اللهِ مَا لَا يَرْجُونَ وَكَانَ اللهُ عَلِيمًا حَكِيمًا ل اس کے بعد فرمایا:.اسلام کی ترقی اور اس کے غلبہ کا گر اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے.بڑے بڑے بہادر دنیا میں ایسے گزرے ہیں اور بڑے بڑے مستقل مزاج ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے مطالب کے حاصل کرنے کیلئے بڑی بڑی کوششیں کی ہیں اور دنیا کیلئے انہوں نے اپنے آپ کو عمدہ نمونہ قرار دیا ہے لیکن اسلامی تاریخ کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف کے پھیلانے اور اسلام کی تبلیغ کرنے والوں کی زندگیاں ان تمام لوگوں کی زندگیوں سے علیحدہ ہی ہیں.آج تک عقل انسانی حیران ہے اور تیرہ سو سال گزرے اس حیرانی میں کچھ بھی کمی نہیں آئی کہ وہ کون سی طاقت اور ہمت تھی کہ ایک جنگل اور غیر آبا دجگہ سے نکل کر انہوں نے کس طرح بڑی بڑی سلطنتوں کو ملیا میٹ کر دیا اور تمام دنیا پر پھیل گئے تھے.بہادر فوجیں اور طاقتور سلطنتیں انہیں روک نہ سکیں اور جو بھی ان کے آگے آیا پر کا ہ س کی طرح اُڑ گیا.جس طرح دریا جب لہریں مارتا ہوا چلتا ہے تو چھوٹے چھوٹے کیا ریت کے بڑے بڑے

Page 323

خطبات محمود جلد ۴ ۳۱۴ سال ۱۹۱۵ء تو دوں کو بھی بہا لے جاتا ہے اور یہ پتہ نہیں لگتا کہ اس جگہ کبھی خشکی تھی.اسی طرح قرآن شریف کو لے کر جب صحابہ اُٹھے تو تمام دنیا میں اس کو پھیلا دیا.جانتے ہو وہ کیا چیز تھی جو ان کے اندر پیدا ہوگئی اور جس کی وجہ سے انہیں کوئی دنیا کی چیز بڑھنے سے نہ روک سکی.نہ انہیں دنیا کی لالچیں اور حرصیں روک سکیں ، نہ جان اور مال کا خوف باز رکھ سکا.نہ مذاہب کے پھیلانے والے اور منادان کیلئے روک کا باعث ہو سکے اور نہ تلوار چلانے والے سپاہی ان کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک سکے وہ ہر ایک روک ، ہر ایک آڑا اور ہر ایک مشکل کو پاؤں میں روندتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتے گئے.دیکھو! ایک انسان کا اگر ایک سے مقابلہ ہوتا ہے اور اس کو اپنے مقابلہ میں اگر ایک دشمن دکھائی دیتا ہے تو اس کیلئے مشکل ہو جاتا ہے لیکن صحابہ کا تو ایک نہیں دو نہیں بلکہ ساری دنیا ہی دشمن تھی.پھر ان کے پاس نہ مال و دولت تھی، نہ حکومت و شوکت تھی ، نہ رعب و دبدبہ تھا، نہ سامان جنگ و آلات حرب تھے جن سے دشمن کا مقابلہ کر کے اس پر غالب آیا جاتا ہے.سامان جنگ کے ذریعہ دشمن خواہ کتنا ہی قوی اور طاقتور ہو تو بھی مغلوب ہوسکتا ہے کیونکہ جو نہتہ ہو اس کو ایک ایسا شخص جو اٹھ کر بیٹھنے کی بھی طاقت نہیں رکھتا لیٹے لیٹے ہی بندوق سے مارسکتا ہے تو ایک سامان ہوتا ہے جو کمزوروں اور قلیل لوگوں کو فتح دلانے کا باعث ہوتا ہے مگر صحابہ کے پاس یہ بھی نہ تھا.بعض اوقات جب صحابہ جنگ کیلئے نکلے ہیں تو بعض کے ہاتھوں میں صرف لٹھ ہی ہوتا تھا اور پیٹ میں بھوک کی وجہ سے بل پڑتے جاتے تھے.یہ تو ان کے سامان کا حال تھا.آج کل بھی دیکھ لولڑائی کا دارو مدار سامان جنگ پر ہی خیال کیا جاتا ہے.پس ایک چیز جو دنیا میں اپنے دشمنوں پر فتح پانے کے لئے بڑی ضروری ہوتی ہے وہ سامان حرب ہوتا ہے.صحابہ کے پاس کچھ بھی نہ تھا.قلعوں کو فتح کرنے کے لئے جاتے لیکن قلعوں کو توڑنے کے ہتھیار ان کے پاس نہ ہوتے تھے تاہم دنیا کا کوئی مضبوط سے مضبوط قلعہ ایسا نہیں ہوا جس پر انہوں نے حملہ کیا ہو اور پھر وہ نہ ٹوٹا ہو.تو دنیاوی لحاظ سے دشمنوں پر فتح دلانے کیلئے ہتھیار ہوتے ہیں وہ ان کے پاس نہیں تھے اور جو کچھ تھے وہ بھی اس زمانہ کے اعلیٰ درجہ کے ہتھیاروں میں شمار نہیں کئے جاتے تھے.تلوار اور تیر ہی لڑائی کے ہتھیار ان کے پاس تھے لیکن جس اعلیٰ درجہ کے یہ ہتھیار رومیوں اور ایرانیوں کے پاس تھے وہ صحابہ کے پاس نہیں تھے.پھر دشمن پر غالب آنے کیلئے مال ودولت ہوتی ہے.ایک پلہ کمزور ہوتا ہے مگر

Page 324

خطبات محمود جلد ۴ ۳۱۵ سال ۱۹۱۵ء مال کے ذریعہ فتح پالیتا ہے یعنی اندر ہی اندر رشوت چلا کر فوج کے افسروں کو اپنے ساتھ ملا لیتا ہے اور وہ صلح کر لیتے ہیں.تو روپیہ بھی فتح دلا دیتا ہے لیکن صحابہ کے پاس روپیہ بھی نہیں تھا اور یہی وجہ تھی کہ جب صحابه ایران پر حملہ آور ہوئے تو ایرانیوں نے ان کے سامنے یہ بات پیش کی کہ تم فی سپا ہی دو دو پونڈ اور فی سوار چار چار پونڈ اور افسر زیادہ روپے لے لو کیونکہ تم بھوکے مرتے آئے ہو یہ روپیہ لے لو اور یہاں سے چلے جاؤ.تو صحابہ کی غربت کا یہ حال تھا کہ ایرانی بادشاہ نے ان کو دو دو پونڈ دے کر رخصت کرنا چاہا.تیسری چیز کامیابی کے لئے فنون جنگ ہوتے ہیں اس سے بھی خواہ فوج تھوڑی ہولیکن وہ ایسی فوج پر جو فنون جنگ کی ماہر نہ ہو غالب آجاتی ہے.کیونکہ ایسی فوج ایسی ایسی تجویزیں کرتی ہے کہ وہ تو میں جو ایسے ہنر نہیں جانتیں مقابلہ نہیں کر سکتیں مگر صحابہ میں یہ بھی نہیں تھا.وہ تو عرب تھے اور عرب کے لوگ ایک افسر کے ماتحت رہ کر لڑنا جانتے ہی نہ تھے اور انہیں حاکم اور محکوم کا تعلق معلوم ہی نہ تھا ہر ایک قبیلہ کی الگ الگ حکومت ہوتی تھی.پھر بعض تو میں لڑائی میں اس لئے بھی کامیاب ہو جاتی ہیں کہ ان کی بہادری اور شجاعت کی پرانی روایتیں چلی آتی ہیں ان روایتوں کو قائم رکھنے کیلئے وہ جان پر کھیل کر کامیاب ہو جاتی ہیں مگر صحابہ میں یہ بھی نہیں تھا.پھر رعب اور د بد بہ بھی دشمن کو مرعوب کر کے شکست دینے کا باعث ہو جاتا ہے اور اس سے بھی بہادر لوگ کمزوروں سے دب جاتے ہیں.ایک قصہ مشہور ہے واللہ أعْلَمُ کہاں تک درست ہے کہ ایک چور رستم پہلوان کے گھر آیا اور رستم سے اس کی کشتی شروع ہو گئی اس نے رستم کو گرا لیا اور اس کی چھاتی پر چڑھ بیٹھا.رستم نے اسے ڈرانے کیلئے کہا کہ رستم آگیا رستم آگیا.وہ چور یہ سُن کر بھاگ گیا.دیکھو اس نے رستم کو گرا لیا تھا اور اس کی چھاتی پر بھی چڑھ بیٹھا تھا لیکن رستم کے نام نے اس کو بھگا دیا.تو رعب کا بھی بڑا اثر ہوتا ہے.جن علاقوں میں بعض قوموں کا دبدبہ اور رُعب بیٹھا ہوا ہوتا ہے وہاں ان قوموں کا کوئی کمزور آدمی بھی چلا جائے تو بھی لوگ اس سے ڈرتے ہیں لیکن صحابہ میں یہ بات بھی نہ تھی بلکہ اس وقت ایرانیوں کا رُعب تھا اور اہل عرب ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے یہی وجہ تھی کہ ایرانی عرب کے ایک حصہ پر قابض تھے.غرضیکہ کوئی ایسی چیز جو تھوڑوں کو بہتوں پر غالب کرنے کا موجب ہوتی ہے اور اپنے سے زیادہ لوگوں کو پراگندہ کر دیتی ہے وہ صحابہ کے پاس نہ تھی.ان کے پاس مال نہیں تھا، سامانِ جنگ نہیں تھا، رُعب نہیں تھا، آباء و اجداد کے کارنامے تاریخی طور

Page 325

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۵ء پر محفوظ نہیں تھے جو انہیں جوش دلاتے ، فنون جنگ سے واقفیت نہ تھی.اور پھر یہی نہیں کہ صحابہ کی یہ حالت تھی تو دشمن کوئی زیادہ طاقتور نہیں تھا بلکہ ان کے مقابلہ میں رومی اور ایرانی بڑے مالدار، بڑے بہادر، بڑے رُعب دار اور بڑے فنون جنگ کے ماہر تھے اور یورپ اور ایشیاء کے بڑے بڑے ملکوں پر انہی دو قوموں کا قبضہ تھا.رومی قسطنطنیہ ، اناطولیہ، ٹیونس ، آرمینیا کا کیشیا، بلغاریہ سرویہ وغیرہ ملکوں پر حکمران تھے.اور ایرانیوں کے پاس ایران، عراق عجم ،خراسان وغیرہ ملک تھے.ایشیاء اور چین کے لوگ ان کے باجگزار تھے.ہندوستان کی ریاستوں اور کا بل و بلوچستان کے علاقوں سے بھی یہ روپیہ وصول کرتے تھے.تو حکومت اور تعداد کے لحاظ سے ان کی یہ وسعت تھی.مال ان کے پاس اتنا تھا کہ فرش پر ایک ایک قالین تین تین کروڑ روپیہ کا ہوتا تھا اور ایک ایک افسر کی تلوار ہزاروں اور لاکھوں روپوں کی قیمت رکھتی تھی.فنونِ جنگ کے بھی بہت بڑے ماہر تھے یہی تو وجہ تھی کہ وہ اتنے بڑے علاقہ پر حکمران تھے.سامانِ جنگ بھی ان کے پاس کافی تھا کیونکہ پرانی سلطنتیں تھیں اور رعب بھی بڑا تھا.لیکن باوجود ان تمام باتوں کے ان میں پائے جانے کے اور مسلمانوں میں نہ پائے جانے کے ان کے پاؤں مسلمانوں کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے تھے.مسلمانوں کی تھوڑی سی فوج ہوتی مگر ان کے مقابلہ پر اڑنے کی کسی میں طاقت نہ تھی.مسلمان ایک ہی وقت میں ایک طرف رومیوں سے جنگ کر رہے ہوتے تو دوسری ہے طرف ایرانیوں سے برسر پیکار ہوتے تھے اور انہوں نے تمام دنیا کو اپنے آگے لگایا ہوا تھا.کیوں؟ اس لئے ہے کہ یہ حکم ان کے پیش نظر تھا وَلَا تَهِنُوا فِي ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ کہ اسلام کے دشمنوں کو پکڑنے اور انہیں سزا دینے میں ضعف اور کمزوری نہ دکھانا.جو قوم اس نصب العین کو لے کر نکلتی ہے اس کو کوئی روک روک نہیں سکتی اور پھر جبکہ قرآن نے ان کو یہ بتا دیا تھا کہ اِن تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ وَتَرْجُونَ مِنَ الله مالا يَرْجُونَ.یعنی اے مسلمانو! اٹھو اور اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرنا شروع کر دو.اگر وہ تمہیں تلوار کے ذریعہ کسی قسم کا ضعف پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں تو تم بھی تلوار ہی سے ان کا مقابلہ کرو اور اگر وہ تلوار سے مقابلہ نہیں کرتے تو تم بھی تلوار کو ہاتھ میں نہ لو کیونکہ تمہیں تلوار کو ہاتھ میں لینے کی اجازت تو جان بچانے اور دشمن کے ضرر سے محفوظ رہنے کیلئے دی گئی ہے.جب تمہارا دشمن ہی تلوار سے

Page 326

خطبات محمود جلد ۴ ۳۱۷ سال ۱۹۱۵ء حملہ نہیں کرتا تو پھر تمہیں تلوار سے مقابلہ کرنے کی اجازت نہیں.ہاں جس طرح تمہارا دشمن تمہیں مغلوب کرنا چاہتا ہے اسی طرح تم اس پر حملہ کرو اور جہاں کہیں اسلام کے دشمن ہوں، ان کو تلاش کر کے ان پر حملہ کرنے میں کبھی ستی نہ دکھاؤ.اور اگر تم یہ کہو کہ اس طرح تو ہمیں دُکھ اور تکلیفیں ہوں گی تو کیا تم اپنے مخالفوں کو نہیں دیکھتے کہ دین کے پھیلانے میں کس طرح لگے ہوئے ہیں اور کسی تکلیف کی پرواہ نہیں کرتے.نہ مال کے خرچ کرنے میں انہیں کوئی تائمل ہوتا ہے.اگر لڑائی ہو تو لڑائی میں اور لڑائی کے بغیر یوں اشاعتِ عیسائیت میں عیسائی کروڑ وں کروڑ روپے خرچ کر دیتے ہیں اور خطر ناک سے خطر ناک جگہوں پر اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈال کر تبلیغ مذہب کرتے ہیں.عیسائی عورتیں جو تبلیغ کیلئے جاتی ہیں قتل ہو جاتی ہیں تو دوسری ان کی جگہ جانے کو تیار ہو جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ مسلمانو! اگر تمہیں اسلام کی اشاعت اور تبلیغ کرنے اور دوسرے ادیان پر اسے غالب کرنے کیلئے کوشش کرنے پر اگر دشمن تلوار اٹھاتا ہے تو اس کا مقابلہ تلوار سے کرنے سے تکلیفیں ہوں گی ، زخم لگیں گے، جانیں جائیں گی اور تمہارا وقت اور مال صرف ہوگا تو تمہارے دشمن کا بھی ایسا ہی حال ہوتا ہے.اگر تمہارے ملک میں ویرانی ہوتی ہے اور فصلیں تباہ ہوتی ہیں تو دشمن کا بھی تو یہی حال ہے.اگر تمہیں زخم لگتے ہیں تو تمہارے دشمن کو بھی لگتے ہیں اگر تمہارے ساتھی مارے جاتے ہیں تو ان کے بھی تو مرتے ہیں ان باتوں میں تم ان سے برابر ہو مگر ایک بات ہے جو تمہارے دشمن کو حاصل نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ تم کو جو اپنے رب سے امیدیں لگی ہوئی ہیں اور تمہیں جو اپنے خدا سے فضلوں کی امیدیں ہیں یہ انہیں نہیں ہیں.تم نے تو اپنے رب کے فضلوں اور انعاموں کے زندہ نمونے دیکھے ہیں اس لئے تمہیں امیدیں ہیں لیکن ان کے پاس کوئی زندہ نمونہ نہیں ہے اس لئے ان کو کسی قسم کی امید بھی نہیں ہے تو جب یہ لوگ باوجود اپنے پاس زندہ نمونہ نہ رکھنے کے اور کسی قسم کے امیدوار نہ ہونے کے تکلیفیں اور مصیبتیں اُٹھا ئیں تو تم جبکہ نمونہ اور امیدیں رکھتے ہو تم کیوں گھبراؤ.پس یہ وہ گر تھا جس نے ان کو دنیا کے ہر میدان میں کامیاب ہی کیا کیونکہ انہیں یہ معلوم ہو گیا تھا کہ اگر ہم مر گئے تو شہید ہوئے اور اگر زندہ رہے تو غازی بنے یعنی مرے تو بھی مزا اور جیتے رہے تو بھی مزا.جب صحابہ کا یہ خیال اور یقین تھا تو وہ کسی حالت میں بھی دشمن

Page 327

خطبات محمود جلد ۴ ۳۱۸ سال ۱۹۱۵ء کے مقابلہ سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے تھے.جنگ میں جو بڑا بھاری خطرہ ہوتا ہے وہ یہی ہوتا ہے کہ جان جائے گی لیکن صحابہ کا تو یہ حال تھا کہ مر گئے تو بھی راحت، زندہ واپس آگئے تو بھی راحت.لیکن ان کے دشمنوں کو یہ بات حاصل نہ تھی.ان میں سے ہر ایک یہی کہتا تھا کہ اگر میں غالب رہا تو فتح ہوگی لیکن اگر مر گیا تو مجھے کوئی فائدہ نہ ہوگا.اس میں شک نہیں کہ ہر مذہب و ملت والے اپنے مذہب کی راہ میں مرنے سے اجر اور نفع کی امید رکھتے ہیں.لیکن ان میں اور مسلمانوں میں یہ فرق تھا کہ انہوں نے خدا تعالیٰ سے انعام واکرام پانے کا کوئی زندہ معجزہ نہیں دیکھا تھا اور گو کتابوں میں پڑھتے تھے کہ دین کے راستہ میں تکلیفیں اٹھانے کا بدلہ ملا کرتا ہے لیکن سامنے انہوں نے دیکھ لیا ہو کہ خدا انعام دیتا ہے یہ نہیں ہو سکتا تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فرمایا کہ جو امیدیں تمہیں ہیں وہ غیروں کو نہیں ہیں کیونکہ تم نے خدا کے فضلوں کو سامنے دیکھ لیا ہے لیکن ان کی امیدوں اور آرزوؤں کے کی بنیاد صرف شک اور اعتقاد پر ہے اور تمہاری امیدیں مشاہدات پر.پس جو امیدیں یقین کے ساتھ ہوسکتی ہیں وہ ان کو نہیں ہو سکتیں اس لئے تم ان وعدوں، انعاموں، اور امیدوں کے ہوتے ہوئے پھر کس طرح سنتی دکھا سکتے ہو.یہ وہ بات تھی جو صحابہ کو آگے ہی آگے لئے جاتی تھی اور ان کے جوش و خروش کو کبھی کم نہ ہونے دیتی تھی.انسانی زندگی کیلئے سب سے خطرہ کی بات موت ہی ہوتی ہے مگر موت ان کیلئے ایک پردہ تھا جو ہٹ جاتا تھا اور وہ اپنے محبوب کا دیدار کر لیتے تھے.لکھا ہے کہ ایک جنگ میں حضرت ضرار کے سامنے دو تین صحابی قتل کئے گئے اور پھر ان کو بلایا گیا کہ آؤ مقابلہ کیلئے نکلو.ضرار یہ سن کر بھاگے بھاگے اپنے خیمہ کی طرف گئے دشمنوں نے سمجھا کہ بھاگ گئے ہیں.آپ جلدی سے خیمہ سے واپس آگئے تو صحابہ نے پوچھا کہ آپ کیوں بھاگ گئے تھے.انہوں نے کہا کہ آج میں نے دوز رہیں پہنی ہوئی تھیں میں نے خیال کیا کہ میری نسبت یہ خیال کیا جائے گا کہ ضرار د شمن سے ڈرتا ہے اور اپنی جان کو بچانا چاہتا ہے اس لئے اس نے دوزر ہیں پہنی ہیں لیکن میں موت کو ایک پردہ سمجھتا ہوں جس کے اٹھنے کے بعد خدا تعالیٰ کا دیدار ہے جس کے اٹھنے کے بعد جنت ہے اور جس کے اٹھنے کے بعد نعمتیں اور فضل ہیں اسی لئے میں خیمہ میں گیا تھا اور دونوں زرہوں کو اتار کر مقابلہ کیلئے آیا ہوں ، پھر لکھا ہے کہ جب کبھی سخت جنگ ہوتی تھی تو صحابہ اپنی چھاتی سے کپڑا

Page 328

خطبات محمود جلد ۴ ۳۱۹ سال ۱۹۱۵ء بھی ہٹا دیتے تھے تا کہ اپنے اور خدا کے درمیان یہ بھی حائل نہ رہے اور یہ بھی روک نہ بنے.کیوں اس طرح کرتے تھے؟ اس لئے کہ ان کو جو اللہ تعالیٰ کے انعاموں کی رجا تھی اور اس کے فضلوں کی امید تھی اور جو خدا کے وعدے ان کے ساتھ تھے، وہ ان کو آگے ہی آگے لئے جاتے تھے.واقعہ میں جب کسی انسان کو یہ یقین ہو جائے کہ مرنا کچھ ہے ہی نہیں تو پھر اس کے سامنے دشمن کہاں ٹھہر سکتا ہے.دیکھو پاگل کو چونکہ اپنی جان کا ڈر نہیں ہوتا اس لئے اس کو دس دس آدمی بھی پکڑتے ہیں تو وہ چھڑا لیتا ہے.اس میں زیادہ طاقت نہیں آ جاتی بلکہ اس کی عقل پر چونکہ ایسا پردہ پڑ جاتا ہے جو اسے موت سے بالکل بے خوف کر دیتا ہے اس لئے وہ اپنے بچاؤ کا کوئی پہلو مد نظر نہ رکھ کر زور لگاتا ہے اور چھوٹ جاتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کے افضال اور اکرام کا یقین کامل بھی انسان کو موت سے بے خوف کر دیتا ہے.دیکھو اگر ایک انگارہ پڑا ہوا ہو تو اس کو ہاتھ لگانے سے انسان احتیاط کرتا ہے لیکن جب وہ اسے انگارہ ہی نہ سمجھے بلکہ لعل سمجھے تو پھر احتیاط نہیں کرتا.اسی طرح جب تک انسان موت کو ایک خطر ناک تکلیف اور دکھ اور مصیبت سمجھتا ہے اس وقت خواہ وہ کتنا ہی بہادر ہومرنے سے پہلو بچاتا ہی رہتا ہے.لیکن جب وہ یہ سمجھ لے کہ اس موت میں دیکھ نہیں بلکہ عین راحت اور آرام ہے تو پھر اس کیلئے اپنی جان پر کھیل جانے میں کوئی روک نہیں رہ جاتی.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے مسلمانو! تم ہر گز سستی اور شعف نہ دکھاؤ بلکہ اپنے دشمنوں کو تلاش کر کے جہاں کہیں بھی پاؤ ان پر حملہ کرو.اگر جسمانی جنگ ہو تو جسمانی اور روحانی جنگ ہو تو روحانی حملہ کرو.اور اگر تمہیں دیکھا اور تکلیفیں پہنچتی ہیں تو انہیں بھی پہنچتی ہیں مگر جو امیدیں تمہیں ہیں وہ انہیں نہیں ہیں وَكانَ اللهُ عَلِيمًا حَكِيمًا اور اللہ جاننے والا اور حکمت کے کام کرنے والا ہے.اگر تم ایسے کمزور ہوتے کہ اس کام کونہ کر سکتے اور تم دشمنوں کے مقابلہ میں تیار ہو جاتے تو تمہارے سپرد یہ کام ہی نہ کیا جاتا.وہ تو لیم اور حکیم ہے اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا.ایک انسان کو جس شخص کی طبیعت معلوم ہو کہ وہ ایک من سے زیادہ بوجھ نہیں اٹھا سکتا اس سے دومن بوجھ نہیں اٹھوائے گا.تو اللہ جو تمام انسانوں کا خالق ہے اور ان کے تمام حالات سے واقف ہے وہ کہاں کسی پر اُس کی طاقت سے زیادہ بوجھ رکھتا ہے.پس جب خدا ایک قوم کے سپر د ایک کام کرتا ہے تو اس قوم کے کسی فرد کا یہ خیال ہے کرنا کہ ہم تباہ ہو جائیں گے بالکل غلط بات ہے.پس ایک مومن کیلئے دین کے رستے میں اپنی جان کے لڑا

Page 329

خطبات محمود جلد ۴ ۳۲۰ سال ۱۹۱۵ء دینے میں کوئی عذر نہیں ہوسکتا.میں نے یہ آیت اس لئے پڑھی ہے کہ ہمارے سپر د بھی اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے ایک کام کیا ہے اور وہ یہ کہ تمام دنیا اسلام کے مٹانے میں پورا پورا زور لگا رہی ہے گویا اسلام ان کے نزدیک ایسا ہے جس کے گھر میں سانپ نکل آتا ہے اور سارے اس کے مارنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں.یا وہ اسلام کو نَعُوذُ باللہ ) گند اور نجاست سمجھتے ہیں اور جس طرح ایک پاک انسان نہیں چاہتا کہ اس کے کپڑوں کو نجاست لگے اس طرح ( نَعُوذُ بِاللهِ ) دنیا اسلام کو بجھتی ہے اس لئے جو کوئی بھی ہے وہ اسلام کے مٹانے میں لگا ہوا ہے.ہمارے سپر د خدا تعالیٰ نے اسلام کی حفاظت کی ہے.لیکن اس زمانہ میں ہمارا مقابلہ تلوار سے نہیں ہے کیونکہ آنحضرت سلیم کی پیشگوئی ہے کہ اس زمانہ میں تلوار کی لڑائی مذہب کیلئے موقوف ہو جائے گی.پس اس زمانہ میں جو اسلام کیلئے تلوار اٹھائے گا اور تلوار سے اسلام کے مخالفوں کا مقابلہ کرنا چاہے گا وہ اسلام کی حفاظت کرنے کی بجائے خود ذلیل ہو جائے گا.پس اس وقت اسلام کی حفاظت کا ایک ہی جائز ذریعہ ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے مقرر کر دیا ہوا ہے اور وہ یہ کہ ہم تحریر سے ، تقریر سے اور دعاؤں سے دشمنوں کا مقابلہ کریں.پس یاد رکھو کہ اِنْ تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ گیا تالبُونَ.اگر ہمیں اپنا وقت، اپنا مال اور اپنی محنت خرچ کرنی پڑتی ہے اور بہت سے کاموں کا نقصان کر کے دین کیلئے قربانیاں کرنی پڑتی ہیں تو یہ ہمارے دشمنوں کو بھی کرنی پڑتی ہیں.عیسائیوں میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ انہوں نے اپنے مذہب کی اشاعت کیلئے روپیہ جمع کرنے کیلئے اچھی اچھی چیزیں کھانی چھوڑ دیں تا کہ اس طرح روپیہ بیچ رہے حالانکہ دنیا کی نظروں میں ان کا مذہب ایک غالب مذہب نظر آتا ہے اور پھر وہ بڑے بڑے مالدار بھی ہیں.جب اس قوم کا یہ حال ہے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ اس قوم کو کیا کرنا چاہیئے جو دنیا کے نزدیک ایک کمزور قوم ہے.دیکھو جب ایک تندرست انسان اپنے بچاؤ کیلئے بچاؤ کرتا اور نقصان رساں چیزوں سے پر ہیز کرتا ہے تو ایک بیمار کیلئے تو بہت ہی ضروری ہے کہ وہ بہت زیادہ پر ہیز کرے کیونکہ وہ تو پہلے ہی بیمار ہے.پس دنیاوی تکلیفوں اور قربانیوں میں تم اور وہ برابر ہو لیکن ایک بات جو تم میں ہے وہ ان میں نہیں ہے اور وہ یہ کہ تمہارے ساتھ جو خدا تعالیٰ کے وعدے ہیں اور تمہیں جو خدا تعالیٰ سے امیدیں ہیں وہ انہیں نہیں ہیں، اس لئے تمہارے لئے

Page 330

خطبات محمود جلد ۴ ۳۲۱ سال ۱۹۱۵ء یہ بہت ضروری ہے کہ متحدہ کوشش کرو.گو اس میں شک نہیں کہ جو امیدیں تمہیں ہیں وہ تمہارے دشمنوں کو نہیں مگر یہ امیدیں تب ہی پوری ہو سکتی ہیں جبکہ تم خدا کیلئے قربانیاں کرو اور اس کے رستے میں کسی بات کی پرواہ نہ کرو.بے شک تمہاری جماعت کمزور ہے مگر یاد رکھو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَكَانَ اللهُ عَلِيمًا حكيما.ہم جاننے والے اور حکمت والے ہیں.ہم نے یونہی تمہارے سپر د یہ کام نہیں کر دیا کہ تم اس کو کر ہی نہیں سکتے بلکہ جب ہم نے یہ دیکھا کہ تیس کروڑ انسان جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں وہ اس کام کو کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تو ہم نے ایک انسان کو کھڑا کر دیا جس کی قائم کردہ تم ایک جماعت ہو اس لئے اب تم اس کام کے کرنے کے ذمہ دار ہو.ایک مالک مکان جب دیکھتا ہے کہ مکان کی فلاں دیوار کمزور ہوگئی ہے اور بوجھ کے اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتی تو وہ اسے گرا کر دوسری اس کی جگہ بنا دیتا ہے.اور یہ کام معمولی سی عقل والا انسان بھی کرنا ضروری سمجھتا ہے تو اللہ تو علیم اور حکیم ہے اگر تم سے ستی ہوگی تو یہ نہیں کہ تم یہ کام نہیں کر سکتے.کر سکتے تو ہو لیکن کرتے نہیں کیونکہ اگر تم نہ کر سکتے تو خدا تمہیں کبھی اپنے مامور کی جماعت قرار نہ دیتا.پس یہ خوف اور فکر کا مقام ہے اور اس وقت ضرورت ہے کہ تم اس کام کے کرنے میں کوشش اور محنت سے کام لو.میں نے اس کام کیلئے ترقی اسلام کی ایک انجمن بنائی ہے اور اس کے سپرد یہ کام کیا ہے.اس انجمن کے بہت سے کام شروع ہو گئے ہوئے ہیں.ولایت اور ماریشس میں مبلغ کام کر رہے ہیں.قرآن شریف کا انگریزی اور اردو ترجمہ چھاپنے کا انتظام کیا جا رہا ہے.کتابیں اور اشتہارات اردو اور انگریزی میں چھاپے جاتے ہیں.ہندوستان میں بھی تبلیغ کا کام شروع ہے غرضیکہ کئی کام جاری ہیں اور ساری دنیا کا مقابلہ اس چھوٹے سے گھر نے کرنا ہے.اب تم قیاس کرو کہ تمہیں کس قدر قربانیوں کی ضرورت ہے.ایک بڑا شمشیر زن آرام بھی کر سکتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ جب میں اُٹھوں گا اسی وقت دشمن کا سرتن سے جدا کر دوں گا.مگر جو انسان کمزور اور نا تواں ہوا سے تو ہر وقت ہوشیار رہنا چاہئیے.صحابہ کے مقابلہ میں ہم میں کمزوریاں ہیں جب صحابہ کو اتنی اتنی بڑی قربانیاں کرنی پڑیں تو ہمیں تو بہت ہی تیاری کرنے کی ضرورت ہے.اگر ایک کمزور اور ایک طاقتور انسان نے سفر کو جانا ہو تو کمزور طاقتور کی نسبت زیادہ تیاری کرے گا.پس ہمار ا ضعف اور کمزوری تو اور بھی زیادہ تیاری کو چاہتی ہے اس لئے

Page 331

خطبات محمود جلد ۴ ۳۲۲ سال ۱۹۱۵ء تم ایک منٹ کی بھی سستی نہ کرو.میں اس بات سے حیران ہوتا ہوں کہ موجودہ جنگ میں عورتیں اور بچے بھی حصہ لے رہے ہیں اور اس بات کیلئے اپنی جانوں کو قربان کر رہے ہیں کہ ہم اپنی آزادی نہیں کھو سکتے گووہ اپنی خیالی آزادی کیلئے قربان ہو رہے ہیں.مگر آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں.اگر ایک مارا جاتا ہے تو دواس کی جگہ کھڑے ہو جاتے ہیں.مرد مرتے ہیں تو عورتیں اور بچے ان کی جگہ کام کرتے ہیں اور ذراستی نہیں کرتے.تمہیں تو اس سے بھی بڑھ کر اپنے کام میں ہوشیار ہونا چاہیئے.اس وقت اس انجمن کی ضروریات کے پورا کرنے کیلئے میرا ارادہ اعلان کرنے کا ہے.ہماری جماعت کو خیال رکھنا چاہئیے کہ دنیا سے ہمارا مقابلہ چند مہینوں اور سالوں کا نہیں ہے بلکہ تمام عمر کا ہے.اور یہ بہت خطرناک جنگ ہے کیونکہ اس جنگ کی نسبت انبیاء کہتے آئے ہیں کہ اس زمانہ میں شیطان کی آخری جنگ ہو گی.گورنمنٹ انگلشیہ نے اندازہ لگایا ہے کہ جرمن کے ساتھ اصل جنگ وہ ہوگی جب ہم اس کے ملک میں داخل ہوں گے اور اس کیلئے ابھی سے تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں لیکن ہمارا یہ حال ہے کہ ہمارا مقابلہ تمام دنیا سے ہے اور تمام دنیا کو ہم نے فتح کرنا ہے لیکن ہماری جنگ اور دنیا کی جنگ میں فرق ہے کیونکہ تلوار بندوق اور توپ سے اگر کسی فوج کے سپاہی مارے جاتے ہیں تو وہ پھر کسی کام کے نہیں رہتے لیکن اس روحانی جنگ میں جو مارا جاتا ہے وہ اپنا ہو جاتا ہے اور ہمارے ہاں آکر زندہ ہو جاتا ہے اور اس طرح ہمیں مدد ملتی ہے مگر پھر بھی ہمیں بڑی کوشش کی ضرورت ہے.قوموں کے غلبے سینکڑوں سال کے بعد ہوا کرتے ہیں پس جو کوئی قوم میں سے سستی کرتا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ اس کو ہٹا کر پیچھے کر دیا جائے تا کہ اس کو دیکھ کر اور شست نہ ہو جائیں.ہمارا اس وقت یہ حال ہے کہ ہم روحانی جنگ کی صف اولین میں کھڑے ہیں اس لئے ہمیں بہت ہوشیاری سے کام لینا چاہیئے.میں قوم کو ہوشیار کرنے کیلئے ایک اعلان کرنے والا ہوں مگر اول مرکز والوں کو چاہئیے کہ ابتداء کریں یہاں ایک جلسہ کیا جائے اور ماہوار چندے مقرر کر دیئے جائیں.جتنا چندہ کوئی اپنی مرضی سے لکھائے لکھ لیا جائے اور تم یہ نہ سمجھو کہ پچھلے سال جو چندہ دیا تھا اب کس طرح دیں.کیونکہ یہ زمانہ فتوحات کا ہے اس میں آرام سے بیٹھنا نہیں چاہیئے.یاد رکھو کہ جب کسی قوم کا حملہ رُک جاتا ہے اور وہ آرام سے بیٹھ جاتی ہے تو وہ اس کے تنزل کا پہلا دن ہوتا ہے کیونکہ جس دن کوئی امن کی نیند سوئے گا وہ پہلا دن اس کے گرنے کا ہوگا.پس

Page 332

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۵ء کیا تم یہ خیال کرتے ہو تمہارے تنزل کے دن آگئے ہیں نہیں آئے اور نہیں آئیں گے اور ہماری نسلوں درنسلوں تک نہیں آئیں گے بلکہ ترقی ہی ہوتی رہے گی.لیکن جہاں ایک طرف رحمت آئے گی وہاں دوسری طرف دشمن کیلئے اور زیادہ تیاری کرنی ہوگی ایک جگہ ٹھہر جانا اچھا نہیں جو لوگ بڑھتے ہیں وہ بڑھتے ہی ہیں اور جب نہیں بڑھتے تو پھر گھٹتے ہیں.پس تم یہ خیال مت کرو کہ پچھلے سال جو چندہ دیا تھا تو اب کیا دیں.جو اس جماعت میں رہے گا اسے ہمیشہ ہی چندہ دینا پڑے گا تمہیں یہ بات مدنظر رکھنی چاہئیے اگر تم کو دین کیلئے اپنا مال خرچ کرنا پڑتا ہے تو تمہارے دشمن بھی تو کرتے ہی ہیں.ہاں جو تمہیں امیدیں ہیں وہ تمہارے دشمنوں کو نہیں ہیں اس وقت روپیہ کی بہت سخت ضرورت ہے.قرآن شریف کا ترجمہ شائع کرنے میں جتنی جلدی ہو سکے اتنی ہی کرو تا کہ جس قدر کسی کی زندگی میں قرآن کا ترجمہ شائع ہو جائے وہی اس کیلئے بہتر ہو.تمہارے لئے یہ روحانی لڑائی میں حملے کے دن ہیں مرنے کے بعد تو آرام ہوتا ہے یا سزا ہوتی ہے جو کچھ کیا جانا چاہئیے اس کا یہی وقت ہے.تم قادیان کے رہنے والے باہر کے لوگوں کیلئے نمونہ ہو اور وہ اور وں کیلئے نمونہ بنیں تا کہ دشمن ہم میں کسی قسم کی کمزوری نہ پائے اور ہم بُنْيَانِ مَرْصُوص ہوتے چلے جائیں.دشمنوں کی کوئی بات ہم پر اثر نہ کرے لیکن ہماری باتیں ان کیلئے مؤثر ہوں اور ہم ان پر غالب ہی رہیں.ایک دوست نے مجھے کہا ہے کہ میں نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا ہے کہ زیور اسی غرض کیلئے بنایا جاتا ہے کہ گھر کی ضرورت کے وقت کام آئے.جب ہم اپنے گھر کی ضرورت پر زیور خرچ کر سکتے ہیں تو اس وقت جبکہ دین کیلئے خرچ کرنے کی ضرورت ہے تو کیوں خرچ نہ کریں.اس لئے ہم اپنا سارا زیور دیتے ہیں.ایک اور دوست نے کہا ہے کہ میں اپنی ساری زمین دیتا ہوں آپ اسے فروخت کر کے اشاعت اسلام میں لگا دیں.گو ہر ایک کے لئے ایسا کرنا مشکل کام ہے مگر خدا تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کرنے والے ضرور بڑے بڑے اجر کے مستحق ہوتے ہیں.اس وقت واقعہ میں بڑی ہمت کی ضرورت ہے دنیا میں لوگ جس حالت کو آرام کہتے ہیں اصل میں وہ ذلت کی اور ستی کی زندگی ہوتی ہے.مومن کی راحت کام کرنے میں اور دشمن پر حملہ کرنے میں ہے اور اس زمانہ میں تلوار کا حملہ نہیں بلکہ دلائل و براہین اور دعا کا حملہ ہے.مومن کی جنت اس کے دل میں ہوتی ہے.اچھے کھانے ، عمدہ کپڑے پہنے میں

Page 333

خطبات محمود جلد ۴ ۳۲۴ سال ۱۹۱۵ء نہیں ہوتی.کیونکہ اور چیزوں کو تو لوگ چھین بھی لیتے ہیں.مومن کی عطاء غیر مجذوذ ہوتی ہے جو کسی سے چھینی نہیں جاسکتی.پس اصل جنت دل میں ہوتی ہے.ظاہر میں آرام و آسائش بھی جب خدا تعالیٰ چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے.پس تم اپنی زندگی کا ایک لمحہ بھی سستی اور کاہلی میں نہ گزارو بلکہ کوششوں اور ان قربانیوں میں لگے رہو اور خدا تعالیٰ سے کامیابی کی امید رکھو.خدا تعالیٰ ہم سب کو اشاعت اسلام اور اعلائے کلمتہ اللہ کے مقصد کو پورا کرنے میں کامیاب کرے.آمین لى النساء : ۱۰۵ پر کاہ: گھاس پھوس کا پتہ.بہت ہلکا الفضل ۲۵.اپریل ۱۹۱۵ء) تاریخ طبری (اردو ) جلد ۲ حالات خلافت را شد حصہ اول صفحه ۲۵۹ مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی جون ۱۹۶۷ء ے اس صحابی کا نام ضرار بن از ور تھا ( الاصابة عربی جلد ۳ صفحه ۵۴۱).

Page 334

خطبات محمود جلد ۴ ۳۲۵ (۶۵) اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کے خزانے وسیع ہیں (فرموده ۲۳.اپریل ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی:.قُل لِّمَن مَّا فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ قُلْ لِلهِ كَتَبَ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ اس کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ کی صفات کا بیان جو مختلف مذاہب نے کیا ہے اس میں بہت بڑا فرق نظر آتا ہے ہر مذہب کے لوگ دوسرے مذہب کے لوگوں سے کچھ علیحدہ ہی باتیں بیان کرتے ہیں.بعض مذاہب نے تو اللہ تعالیٰ کی صفت خالقیت سے انکار کر دیا ہے.بعض نے اس کی وحدانیت سے انکار کر دیا ہے بعض اس کی رحمانیت کے منکر ہیں اور ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس کے صدق سے بھی انکار کر دیا ہے.غرضیکہ مختلف خیالات کے پھیلانے والے مذاہب ہیں.کسی مذہب نے خدا کی کوئی صفت باطل قرار دے دی ہے اور کسی نے خدا کی طرف کوئی گند منسوب کر دیا ہے لیکن اسلام اور صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو کہ تمام صفات حسنہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا اور تمام بدیوں اور نقصوں سے اسے پاک ٹھہراتا ہے اور یہ اسلام کی صداقت کا بہت بڑا ثبوت ہے.ہر ایک انسان آسانی سے اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ جو نیکیاں اور صفات حسنہ مخلوق میں ہوں کس طرح ممکن ہے کہ وہ اس مخلوق کے خالق میں نہ ہوں ضروری

Page 335

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۵ء ہے کہ اس میں پائی جائیں اور بہت زیادہ پائی جائیں.لیکن بہت سے مذاہب نے اس بات کی پرواہ نہیں کی اور ان کی پرواہ نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان مذاہب کی کتابوں اور عقائد میں انسانوں نے اپنی طرف سے باتیں بنا کر ملا دیں.یاوہ مذہب ہی سرتا پا خود ساختہ ہیں اور خدا تعالیٰ نے ان کو کسی زمانہ میں قائم نہیں کیا.ان دو وجوہات سے مختلف مذاہب میں گند پیدا ہو گیا ہے.ان کے مقابلہ میں اسلام خدا تعالیٰ کا نازل کردہ مذہب ہے اور پھر قرآن شریف میں کسی انسان کا نہ دخل ہوا.اور نہ ہو سکتا ہے اس لئے قرآن شریف آج بھی اُسی طرح ہے جس طرح کہ اترا تھا اس وجہ سے اسلام ہر طرح کے گندوں سے پاک اور صاف ہے لیکن مسلمانوں نے اپنی سمجھ اور علم کی وجہ سے خدا تعالیٰ کو تمام صفات حسنہ والا مانتے ہوئے اس کی بعض صفات کی طرف توجہ نہیں کی.ایسے لوگ یہ قیاس کر لیتے ہیں کہ جیسے ہم ایک دوسرے سے سلوک کرنے کے جذبات کو کام میں لاتے ہیں ویسے ہی خدا تعالیٰ بھی اپنی مخلوق کے ساتھ برتاؤ کرتا ہے.یا یہ لوگ رائج الوقت خیالات کو اپنے عقائد کے ساتھ ملا کر کچھ اور کی اور ہی باتیں بنالیتے ہیں.مذہب اسلام نے جہاں خدا تعالیٰ کو اور نقصوں سے پاک قرار دیا ہے وہاں ان لوگوں کے عقائد کی تردید بھی کی ہے جو کہتے ہیں کہ خدا بخشا نہیں اور کسی پر رحم نہیں کرتا.یہ بہت سے مذاہب نے فیصلہ کر دیا ہوا ہے کہ خدا ہر گز نہیں بخشا.ایسے مذاہب والوں کے خیال میں گویا خدا کے انتقام لینے کی صفت اس کی رحم کی صفت کے ماتحت نہیں بلکہ بالا ہے اور جہاں رحم اور انتقام کا مقابلہ ہوتا ہے وہاں رحم دب جاتا ہے اور انتقام اپنا کام کرتا ہے.لیکن قرآن شریف نے اس کے خلاف اور بات بیان کی ہے اور وہ یہ کہ اس نے خدا تعالیٰ کے انتقام لینے کی غرض بتائی ہے کہ خدا لوگوں کو سزا دینے کی غرض سے ان کے گناہوں کی وجہ سے ان سے انتقام نہیں لیتا بلکہ اس کے سزا دینے سے لوگوں کی اصلاح مد نظر ہوتی ہے.پھر بتایا کہ کتب عَلى نَفْسِهِ الرَّحمة خدا نے تو اس بات کا فیصلہ کر دیا ہے کہ ہمارا رحم ہمیشہ سزا پر غالب رہتا ہے یعنی اس طرح اگر کوئی ایسا موقع پیش آئے کہ رحم سے کسی کی اصلاح ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس انسان کے جرم کی چشم پوشی کر دے گا اور اسے سز انہیں دے گا اور اگر کوئی ایسا موقع ہو کہ انتقام اور رحم دونوں کے استعمال کرنے سے اصلاح ہو سکتی ہے تو بھی خدا تعالیٰ رحم کو ہی کام میں لائے گالیکن اگر کوئی ایسا موقع در پیش ہو کہ رحم سے اصلاح نہ

Page 336

خطبات محمود جلد ۴ ۳۲۷ سال ۱۹۱۵ء ہوسکتی ہو اور انتظام سے اصلاح ہوتی ہو.تب خدا تعالیٰ سزا دے گا اگر کوئی یہ سوال کرے کہ کیوں خدا تعالیٰ ایسا کرتا ہے کہ جب تک عفو اور درگزر سے اصلاح ہوتی ہے اس وقت تک اپنے مجرموں سے انتقام نہیں لیتا حالانکہ ہم انسانوں کو دیکھتے ہیں کہ اگر کسی نے اپنے دشمن سے انتقام لینا ہو تو گو اس کے اس دشمن کی اصلاح رحم میں ہی ہوتی ہو تو بھی اس انسان کا دل اسی وقت ٹھنڈا ہوتا ہے جب وہ انتقام لے لیتا ہے اور دنیا میں یہ عام رواج ہے کہ لوگ دکھ کا بدلہ دکھ اور تکلیف کا بدلہ تکلیف دینا ہی پسند کرتے ہیں اور اگر نرمی سے کہیں کام چلتا ہو تو بھی اس سے کام نہیں لیتے.پھر خدا تعالیٰ کیوں ایسا کرتا ہے اور تمام انسان جب خدا تعالیٰ کی مخلوق اور مملوک ہو کر اس کے احکام کو توڑتے ہیں تو خدا تعالیٰ انہیں سزا کیوں نہیں دیتا بلکہ جہاں تک ہو سکے رحم ہی کرتا ہے.اس کی وجہ خدا تعالیٰ بیان فرماتا ہے قُلْ لِمَنْ مَّا فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ قُلْ لِلهِ.اے رسول! ان لوگوں کو کہ دو! بتاؤ یہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ کس کا ہے.یہ تو جواب دیں گے یا نہ دیں گے اس کا جواب تم ہی ہے یہ دے دو کہ یہ سب کچھ اللہ کا ہے.اور جب یہ اللہ کا ہے، اللہ ان کوتباہ کرنا پسند نہیں کرتا.جس طرح کوئی اپنی چیز کو خراب نہیں کرنا چاہتا اور جہاں تک اس کی طاقت اور ہمت میں ہوتا ہے یہی چاہتا ہے کہ یہ چیز درست ہی ہو جائے اسی طرح خدا تعالیٰ بھی یہی چاہتا ہے کہ اس کی ہر ایک چیز بغیر سزا پانے کے ہی درست ہو جائے..دیکھو کسی کا بیٹا یا بھائی قصور کرتا ہے تو وہ یہی چاہتا ہے کہ اس کو نرمی سے ہی سمجھا دیا جائے اور اس پر سختی نہ کی جائے.لیکن جہاں انسان انتقام لینے کیلئے آمادہ ہوتا ہے وہ جگہ غیر ہوتی ہے جس کے نقصان اٹھانے سے اس کا اپنا حرج نہیں ہوتا جس کے مرنے سے اس کا کچھ نقصان نہیں ہوتا اور جس کی عزت و آبرو کے برباد ہونے سے اسے کچھ محسوس نہیں ہوتا مگر جہاں اس کی اپنی چیز ہو اس کو نقصان پہنچانے سے پہلو تہی کرے گا مثلاً اگر ایک مکان کو آگ لگ جائے تو اس کے بجھانے کے دو طریق ہی ہیں.اول یہ کہ آگ پر پانی ڈال دیا جائے اور دوسرا یہ کہ اس نے مکان کی دیوار میں گرادی جائیں.اگر کسی کا اپنا مکان ہو تو یہی کوشش کرے گا کہ جس طرح بھی ہو پانی ڈال کر آگ بجھائی جائے اور مکان نہ گرایا جائے اور اگر کسی کے دشمن کے گھر کو آگ لگی ہو تو اس کے متعلق یہی کہے گا کہ بہت جلدی مکان کو گرا دیا جائے تاکہ دوسرے گھروں کو آگ نہ لگے.اسی طرح کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی آنکھ کے بیمار ہو جانے کی وجہ سے ڈاکٹر انہیں مشورہ دیتا ہے کہ

Page 337

خطبات محمود جلد ۴ ۳۲۸ سال ۱۹۱۵ء اس کو نکلوا دو لیکن وہ سالوں سال اسی امید میں نہیں نکلواتے کہ شاید اچھی ہو جائے لیکن دشمن کی تو صحیح وسالم آنکھ کو نہایت بے دردی سے پتھر مار کر پھوڑ دیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو لوگ کیسے نادان اور کم عقل ہیں.کہتے ہیں کہ اللہ میں رحم نہیں ہے اور اگر کوئی اس کا گناہ کرے تو وہ اسے معاف نہیں کرتا بلکہ سزا ہی دیتا ہے.لیکن ان لوگوں کا اپنا یہ حال ہے کہ اگر ان کی اپنی کسی چیز میں نقص پیدا ہو جائے تو اس کے بچانے میں پورا پورا زور لگاتے ہیں اور اللہ کی نسبت کہتے ہیں کہ وہ لوگوں کو جب ان میں کسی قسم کا نقص پیدا ہوجاتا ہے تو ہلاک ہی کر دیتا ہے.یہ ان کی بہت بڑی حماقت ہے کیا انہیں معلوم نہیں کہ یہ تمام اشیاء جو زمین و آسمان میں ہیں کس کی ہیں یہ تو سب کچھ خدا کا ہی ہے.جب یہ سب کچھ خدا کا ہی ہے تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ وہ ان کو تباہ کر دے سوائے ایسی صورت کے کہ اس کے سوا اصلاح نہ ہوتی ہو.جس طرح ایک انسان کو معلوم ہو کہ اگر میں اپنی بیمار آنکھ کو نہ نکلواؤں گا تو دوسری بھی اس کی وجہ سے بے کار ہو جائے گی اس وقت وہ اسے نکلوا دیتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کرتا ہے چنانچہ فرماتا ہے کہ كتب على نفسه الرحمة جہاں تک ہو سکتا ہے ہم رحم ہی کرتے ہیں اور سزا اس وقت دیتے ہیں جبکہ رحم سے اصلاح نہ ہو سکے.اس مسئلہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے جہاں عیسائیوں کو ٹھوکر لگی ہے وہاں مسلمانوں نے بھی دھوکا کھایا ہے.آج کل مسلمانوں میں سے اکثر لوگ ایسے ہیں کہ جب کسی کو کوئی تکلیف پہنچے تو وہ کہتا ہے کہ اے خدا! یہ تکلیف دور ہو جائے اور اس کی بجائے دوسری آجائے مثلاً اگر کسی کا بیٹا بیمار ہوتو وہ کہتا ہے الہی! میرا بیٹا تندرست ہو جائے اور میں اس کی بجائے بیمار ہو جاؤں یا اس کی بجائے میں مر جاؤں.ایسے لوگ گویا یہ سمجھتے ہیں کہ خدا کسی کو چھوڑ تو سکتا نہیں اس لئے ایک کی بجائے دوسرے کو معاوضہ میں دے کر رہائی چاہتے ہیں لیکن یہ بہت بڑی کمزوری ایمان کا نتیجہ ہے.ایسے لوگ خدا تعالیٰ کی صفات پر غور نہیں کرتے کہ وہ كَتَبَ عَلَى نَفْسِهِ الرّحمة ہے.انسان کو چاہیئے کہ خدا تعالیٰ سے رحمت کی دعا مانگے کیونکہ اس کو طاقت ہے کہ اگر بیٹا بیار ہو اور باپ دعا کرے تو دونوں کو بچالے.اللہ تعالیٰ کی رحمت وسیع ہے وہ سب کچھ کر سکتا ہے.یہ خدا تعالیٰ کی صفات کی بے ادبی ہے کہ کہا جائے کہ یہ لے لو اور وہ دے دو یا یہ پکڑ لو اور وہ چھوڑ دو.ایسا کہنا مومن کی شان سے بہت بعید ہے.پس تم اپنی دعاؤں میں ہمیشہ اس

Page 338

خطبات محمود جلد ۴ ۳۲۹ سال ۱۹۱۵ء بات کو یاد رکھو کہ تم کبھی یہ نہ کہنا کہ فلاں بات ہو جائے اور اس کی بجائے فلاں نہ ہو بلکہ تم یہ کہو کہ الہی ! دونوں ہو جائیں.اللہ تعالیٰ سے انسان جتنا مانگتا جائے اتنا ہی وہ دیتا جاتا ہے اور اس کے خزانہ میں کوئی کمی نہیں آپ سکتی.ایک چیز کے لینے کی بجائے دوسری چیز وہ لیا کرتے ہیں جنہیں اپنے خزانہ اور ذخیرہ کے ختم ہو جانے کا اندیشہ ہوا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ ایسے نقائص سے پاک ہے.اس لئے مومن کو ایسی دعاؤں سے احتراز کرنا چاہئیے.اور ہر وقت خدا سے خیر ہی مانگنی چاہئیے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کے خزانے نہ کبھی خالی ہو سکتے ہیں اور نہ ان میں کمی آسکتی ہے.پس اگر وہ ایک چیز دے سکتا ہے اور ایک تکلیف دور کر سکتا ہے تو دوسری چیز بھی دے سکتا ہے اور دوسری تکلیف بھی ہٹا سکتا ہے اور اس کو کسی بدلہ لینے کی ضرورت نہیں ہے.اللہ تعالیٰ تم کو اس بات کی سمجھ عطا فرمائے تا کہ تمہاری دعائیں اس کے ادب کو ملحوظ رکھتی ہوئی ہوں اور اس رنگ میں ہوں جو خدا تعالیٰ پسند فرماتا ہے.آمین.ل الانعام : ۱۳ (الفضل ۳۰.اپریل ۱۹۱۵ء)

Page 339

خطبات محمود جلد ۴ ۳۳۰ (۶۶) غیر احمدی کے جنازہ کے متعلق سوال اور اس کا جواب (فرموده ۳۰.اپریل ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء b حضور نے تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی :.الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَوَعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ اِسْتَغْفِرُ لَهُمْ اَوْلَا تَسْتَغْفِرُ لَهُمْ ، إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَهُمْ، ذلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ.فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللهِ وَكَرِهُوا أَنْ يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللهِ وَقَالُوا لا تَنْفِرُوا فِي الْحَرِّ ، قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ اَشَدُّ حَرّاء لَوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ.فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا وَليَبْكُوا كَثِيرًا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ فَإِن رَّجَعَكَ اللهُ إلى طَائِفَةٍ مِّنْهُمْ فَاسْتَأْذَنُوكَ لِلْخُرُوجِ فَقُلْ لَّن تَخْرُجُوا مَعِيَ اَبَدًا وَلَن تُقَاتِلُوا مَعِيَ عَدُوًّا إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخَالِفِينَ.وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ ابَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللهِ وَرَسُوْلِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ اس کے بعد فرمایا:.آج کل ہماری جماعت میں ایک سوال پیدا ہوا ہے اور وہ یہ کہ غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا چاہیئے یا نہیں.بعض کہتے ہیں کہ پڑھ لینا چاہئیے اور بعض کہتے ہیں نہیں پڑھنا چاہیئے.جو کہتے

Page 340

خطبات محمود جلد ۴ ۳۳۱ سال ۱۹۱۵ء ہیں نہیں پڑھنا چاہیئے وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غیر احمدی کا جنازہ پڑھنے سے منع کیا ہے اور جو کہتے ہیں کہ پڑھنا چاہیئے وہ بھی حضرت مسیح موعود کی ایک ڈائری پیش کرتے ہیں جو یہ ہے کہ:.سوال ہوا کہ جو آدمی اس سلسلہ میں داخل نہیں اس کا جنازہ جائز ہے یا نہیں.حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا.اگر اس سلسلہ کا مخالف تھا اور ہمیں بڑا کہتا اور سمجھتا تھا تو اس کا جنازہ نہ پڑھو اور اگر خاموش تھا اور درمیانی حالت میں تھا تو اس کا جنازہ پڑھ لینا جائز ہے بشرطیکہ نماز جنازہ کا امام تم میں سے کوئی ہو ورنہ کوئی ضرورت نہیں.اس میں چونکہ حضرت صاحب نے اجازت دی ہے تو پھر ہم کون ہیں جو یہ فیصلہ کریں کہ غیر احمدی کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئیے.میرے پاس مختلف جگہوں سے اس کے متعلق خطوط آ رہے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیئے آیا ہم غیر احمدی کا جنازہ پڑھیں یا نہ پڑھیں؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے بہت بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ ہمارے درمیان طریق فیصلہ کیا ہونا چاہیئے پھر جو طریق قرار پائے اس کے مطابق ہم فیصلہ کر لیں.اس میں تو کوئی شک نہیں کہ حضرت مسیح موعود کاہی فیصلہ درست صحیح اور حق ہے لیکن وہ جس طریق سے ہم تک پہنچا ہے اس پر بحث کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ خالی از شبہات نہیں ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے آنحضرت سی پیہم کی احادیث اور شریعت اسلام کے متعلق کچھ اصول تجویز کئے ہیں کہ کونسی احادیث اور احکام ماننے کے قابل ہیں اور کون سے رڈ کرنے کے قابل.آپ نے لکھا ہے کہ اول تو قرآن شریف کو ماننا چاہئیے کیونکہ یہ خدا کی کتاب ہے اور خدا تعالیٰ نے خود اس کی محافظت کا وعدہ کیا ہوا ہے اور پھر اگر کوئی اس میں کچھ ملانے یا کم کرنے کی کوشش کرے تو وہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے.چونکہ قرآن شریف میں کمی بیشی کرنے کی کسی کو جرات نہیں اس لئے اس کو سب سے اول مانا چاہیئے.یہ باتیں احادیث کے متعلق نہیں مانی جاتیں اس لئے سب سے اول جو احکام ماننے کے قابل ہیں، وہ قرآن شریف ہی کے ہیں.پس جب کسی بات کے متعلق قرآن شریف کا فیصلہ مل جائے تو وہ یقینی اور پختہ ہوتی ہے.دوم قرآن شریف کے بعد آپ نے سنت کو قرار دیا ہے یعنی ان باتوں کا ماننا جو ہم

Page 341

خطبات محمود جلد ۴ ۳۳۲ سال ۱۹۱۵ء تعامل سے پہنچی ہیں اور یہ بھی حدیث سے زیادہ معتبر ہیں کیونکہ حدیث صرف قول ہے اور وہ عمل ہے.پھر قول تو ایک دو تین چار یا کچھ اور زیادہ صحابہ کا بیان کردہ ہوتا ہے اور عمل سارے صحابہ نے کیا ہے.مثلاً ظہر کی چار عصر کی چار مغرب کی تین عشاء کی چار اور صبح کی دورکعتیں فرض کی ہیں.اب اگر ہم ان کو مکمل در پورے طور پر ایک حدیث سے معلوم کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے اور اگر تمام حدیثوں کو لیا جائے تو وہ بھی دس میں ہی ملیں گی اور تمام صحابہ نے ان کو بیان نہیں کیا ہوگا بلکہ زیادہ سے زیادہ سوڈیڑھ سو صحابہ روایت کرنے والے ہوں گے.مگر عمل کرنے میں تو سارے صحابہ مشترک ہوں گے کیونکہ حدیث تو کم بیان کرتے تھے اور ایسا کرنا ان کیلئے کوئی ناروا نہ تھا.مگر نمازیں پڑھنا تو ہر ایک کیلئے ضروری اور لازمی تھا.اس لئے تمام کے تمام پڑھتے تھے پھر ان کو تابعین نے ایسا کرتے دیکھا پھر ان کو تبع تابعین نے ایسا کرتے دیکھا.پھر ان کو اگلے آنے والوں نے دیکھا اسی طرح ہوتے ہوتے آج جو رکعتیں ہم تک پہنچی ہیں وہ تیس کروڑ انسانوں سے پہنچی ہیں تو سنت یعنی تعامل قرآن سے اتر کر وہ چیز ہے جو حدیث سے بالا درجہ رکھتی ہے.کیونکہ حدیث کے چند راوی ہوتے ہیں اس کے مقابلہ میں تعامل کے تمام کے تمام مسلمان شاہد.پھر حدیث قول ہے اور بعض اوقات قول کا سمجھنا ہی مشکل ہوتا ہے اور اس کے سمجھنے میں بعض وقت غلطی لگ جاتی ہے.اصل بات کچھ اور ہوتی ہے لیکن سمجھنے والا کچھ اور مجھ لیتا ہے.تو اول قرآن ہے پھر تعامل اور ان کے بعد حدیث کا درجہ ہے.حدیث میں بھی جو متواتر ہوں گی وہ مضبوط اور قوی ہوں گی کیونکہ بہت سے صحابہ ان کے بیان کرنے والے ہوں گے.پھر اس سے کم پھر اور کم درجہ حدیثوں کے ہوتے جائیں گے حتی کہ ضعیف اور موضوع بھی حدیثوں کے درجہ ہوں گے.ان درجوں کی حدیثوں میں سے جو اعلیٰ درجہ کی حدیثوں کے مقابلہ میں آئیں گی وہ رڈ کر دی جائیں گی، جو تعامل کے خلاف آئیں گی وہ بھی ناقابل قبول ہو جائیں گی اور جو قرآن شریف کے مغائر واقع ہوں گی وہ بھی چھوڑنی پڑیں گی.سنت کا حدیث سے بالا درجہ رکھنے کی وجہ :.یہ سچ اور بالکل سچ ہے کہ تعامل کبھی قرآن شریف کے خلاف نہیں ہو سکتا.ہاں حدیثیں قرآن سے ٹکرا جائیں تو ٹکرا جائیں لیکن تعامل اور قرآن میں کبھی اختلاف واقعہ نہیں ہو سکتا.اور یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ حدیث اور تعامل یا حدیث اور قرآن میں جو اختلاف

Page 342

خطبات محمود جلد ۴ ۳۳۳ سال ۱۹۱۵ء ہوتا ہے وہ حدیث کے بیان کرنے والے کی وجہ سے ہوتا ہے ورنہ تعامل اور قرآن میں کہیں اختلاف نہیں ہوتا.اب یہ ثابت ہوا کہ کوئی حدیث تعامل کے مطابق ہوتی ہے اور کوئی تعامل کے خلاف.اسی طرح کوئی حدیث قرآن کے مطابق ہوتی ہے اور کوئی خلاف.اس کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اصل قرار دیا ہے اور وہ یہ کہ اگر کوئی حدیث قرآن اور تعامل کے خلاف ہو تو وہ رد کر دینے کے قابل ہے اور اگر موافق ہو تو مان لینی چاہیئے.حضرت مسیح موعود کے اس اصل کے مقرر کرنے سے بعض لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھا کہ آپ نے حدیثوں کو رد کر دیا ہے اس لئے انہوں نے امام بخاری اور امام مسلم کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا جس کی آپ کو تردید کرنی پڑی.اور آپ نے بتایا کہ ہم نے حدیثوں کو ہر گز رو نہیں کیا بلکہ درجے قائم کئے ہیں.جب وہ درجے آپس میں ٹکرا جائیں تو نچلے درجہ کی باتوں کو چھوڑ دینا چاہیئے اور یہی حق اور درست بات بھی ہے مثلاً خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں، آنحضرت صلی اسلام کے صاف اور صریح حکم کے مقابلہ میں اور اللہ تعالیٰ کے ماموروں کے حکم کے مقابلہ میں اگر ماں باپ کا حکم آجائے تو اللہ تعالی فرماتا ہے کہ قبول نہیں کرنا چاہیئے اور ماں باپ کا حکم نہیں مانا چاہئیے.لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ اس طرح ماں باپ کے تمام احکام رڈی اور نا قابل عمل ہو گئے ہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ وقصٰی رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أو كِلَهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أَفْ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيما.اس آیت میں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ماں باپ کو اُف بھی نہ کہنا چاہئیے حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جنگ میں کفار سے جب لڑائی ہوتی ہے تو بیٹا باپ کو بے دریغ قتل کر سکتا ہے.توریت میں آتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے طور پر جانے کے بعد جب بنی اسرائیل نے بچھڑے کی پوجا شروع کر دی تو ان کیلئے حکم ہوا کہ ہر قریبی رشتہ دار اپنے قریبی رشتہ دار کو مارے.یعنی باپ بیٹے کو، بیٹا باپ کو ، بھائی بھائی کو.اب اس جگہ یہی حکم درست اور صحیح تھا جو اس کے خلاف کرتا وہ گناہ گار ہوتا.پس مقابلہ اور چیز ہے اور صداقت اور چیز.ایک حکم اور ایک صداقت اپنے اپنے رنگ اور حدود کے اندر اہمیت رکھتی ہے لیکن جب وہ اپنے سے بڑے حکم اور اعلیٰ صداقت کے مقابلہ پر آ جائے تو کچھ بھی نہیں رہتی.مثلاً ایک تحصیلدار اپنی تحصیل میں کچھ اختیارات رکھتا ہے اور ان کے مطابق وہ جو حکم اپنے ماتحتوں کو دیتا ہے وہ ان کیلئے بجا لانا ضروری ہوتا ہے.لیکن جب

Page 343

خطبات محمود جلد ۴ ۳۳۴ سال ۱۹۱۵ء تحصیلدار کے مقابلہ میں ڈپٹی کمشنر کوئی حکم دے تو اس کا حکم منسوخ ہو جاتا ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ اب تحصیلدار کے تمام حکم ردی ہو گئے ہیں.بلکہ یہ کہ ڈپٹی کمشنر کے مقابلہ میں اس کا حکم رڈی ہو گیا ہے.پس اسی طرح حدیثوں کا معاملہ ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت سلیم انسان تھے اور انسان انسان ہی ہوتا ہے اور خدا خدا ہی لیکن آپ جو کچھ بھی فرماتے تھے وہ خدا تعالیٰ کے حکم سے ہی فرماتے تھے اس لئے اگر یہ ثابت ہو جائے کہ فلاں حکم آپ کا صحیح قول ہے تو ہم اس کو ہرگز رد نہیں کرتے لیکن اگر کوئی حدیث ہم چھوڑتے ہیں تو اس لئے چھوڑتے ہیں کہ اس کے صحیح ہونے کا ثبوت نہیں ہے اور معلوم نہیں کہ واقعہ میں آپ نے اس طرح فرما یا بھی ہے یا نہیں.حضرت مسیح موعود کی ڈائری اور آپ کے تعامل کا مقابلہ:.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ڈائریاں ہیں یہ بھی ہمارے لئے قابل قبول ، قابل عزت اور حقیقت میں ہمارے ماننے کیلئے ضروری ہیں لیکن آپ کے تعامل کے مقابلہ میں آپ کی کسی ڈائری کا وہی درجہ ہوگا جو آنحضرت سلیم کی حدیث کا آنحضرت کے تعامل کے معت ابلہ میں ہے.پس اگر کوئی بات ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی کتاب میں ملتی ہے یا جس بات پر آپ خود عامل ہوں تو وہ سچائی کے یقینی درجے تک پہنچی ہوئی ہے.اس کے مقابلہ میں جو ڈائری آجائے وہ اگر اس کے مطابق نہ کی جا سکے تو رد کرنے کے قابل ہوگی.اسی طرح حضرت مسیح موعود کی تحریر کے مقابلہ میں اگر کوئی حدیث آتی ہے تو وہ بھی تشریح کے قابل ہے اگر وہ صحیح حدیث ہے تو ضرور اس میں اور مسیح موعود کے قول میں مطابقت ہوگی اور اگر مطابقت ممکن نہیں تو پھر اس کی صحت میں ضرور کوئی نقص ہوگا اور رد کرنے کے قابل ہوگی اور یہ اس لئے نہیں کہ حضرت مسیح موعود کوئی نئی شریعت لائے تھے بلکہ اس لئے کہ چونکہ آپ قرآن شریف کی غلط تفسیروں اور لوگوں کے غلط اعمال کی اصلاح کرنے کیلئے آئے تھے.اس لئے ہم آپ کے تعامل اور قول کو رسول اللہ سنی لی لی ایم کے اس کی حکم کے مطابق کہ وہ حکماً وعدلاً ہوگا اور قرآن شریف کے اس ارشاد کے مطابق کہ وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا جلد سے قرآن کریم کی سچی تفسیر اور آنحضرت سال یا پین کے صحیح اقوال کو ثابت کرنے والے یقین کریں گے.اور ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم کے کبھی خلاف نہ کریں گے.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے

Page 344

خطبات محمود جلد ۴ ۳۳۵ سال ۱۹۱۵ء ایک بادشاہ رعایا کو کہے کہ فلاں شخص نے میری بات کو اچھی طرح اور صحیح معنوں میں سمجھ لیا ہے وہ جو کچھ تمہیں کہے اسے مان لو تو اس کی بات لوگ اس لئے نہیں مانیں گے کہ وہ کہتا ہے بلکہ اس لئے کہ چونکہ بادشاہ نے کہا ہے کہ اس کی بات کو مان لو اس لئے مانتے ہیں.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کہنے کو ہم اس لئے نہیں مانتے کہ آپ کوئی نئی شریعت لائے تھے بلکہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ یہ میرے احکام کی سچی تفسیر ہے اور رسول اللہ صلی یا کہ تم نے فرمایا ہے کہ یہ حکم اور عدل ہے اس لئے مانتے ہیں.اب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس ڈائری کو لیتے ہیں اور آپ کے تعامل کو دیکھتے ہیں ان کا آپس میں مقابلہ ہوگا.اب اگر غیر احمدی کا جنازہ پڑھنے کے متعلق جو اس ڈائری میں لکھا ہے قرآن شریف کا کوئی حکم نہ ہو اور حضرت مسیح موعود کا کوئی عمل نہ ہو تو ہمیں اسے رد نہیں کرنا چاہیئے لیکن اگر قرآن شریف کا فیصلہ اور حضرت مسیح موعود کا عمل اس کے خلاف ہو تو وہ رد ہو جائیں گی.لیکن یہ یادرکھنا چاہئیے کہ یہ ڈائری اس لئے رڈ نہیں ہوگی کہ آپ کی ڈائری کی ہمارے نزدیک کوئی حیثیت نہیں کیونکہ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہمارے سلسلہ کا بہت بڑا حصہ باطل ہو جاتا ہے جیسے تمام حدیثوں کے رد کر دینے سے اسلام کا بہت بڑا حصہ باطل ہو جاتا ہے.ویسے ہی حضرت صاحب کی ڈائریوں کو چھوڑ دینے سے احمدیت کا بڑا حصہ اندھیرے میں ہو جاتا ہے لیکن اگر ہم کسی کی ڈائری کو نہیں مانتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈائری لکھنے والے کوغلطی لگ گئی ہے اور اس نے بات کو غلط سمجھا ہے اور ایسا ہونا کوئی ناممکن بات نہیں بلکہ ایسا ہو ہی جاتا ہے.بات کو سمجھنے میں غلطی کھانے کی ایک تازہ مثال ہی دیکھ لو.اخبار الفضل میں جو درس چھپ رہا ہے اس میں میری طرف وہ بات منسوب کی گئی ہے جو میں نے بالکل نہیں کہی.اس میں لکھا گیا ہے کہ ”مج کو توریت میں بٹیر لکھا سلوی کو گھمبیاں لکھا ہے.حالانکہ نہ من کو بٹیر کہتے ہیں اور نہ سلویٰ کو کھمبیاں.اور نہ ہی یہ توریت میں لکھا ہے من اور سلوی کے معنے لکھنے میں تو لغت کی غلطی کی ہے اور حدیث کی بجائے توریت لکھ دیا ہے جو مجھنے میں غلطی کھانے کی وجہ سے بات کو الٹ دیا گیا ہے لیکن اب اس غلطی کی وجہ سے یہ نہیں کہا جائے گا کہ تمام درس ہی قابل اعتبار نہیں رہا اور اس میں میری کوئی بھی بات نہیں ہے بلکہ پیغلطی درس لکھنے والے سے ہوئی ہے کہ یا تو اس نے جو درس کے نوٹ لکھے ہیں وہ بعد میں پڑھے نہیں گئے یا اس نے میری بات کو اور

Page 345

خطبات محمود جلد ۴ ۳۳۶ سال ۱۹۱۵ء سمجھا ہی غلط ہے.پس بعض دفعہ بات سمجھنے والے سے غلطی ہو جاتی ہے لیکن اس غلطی لگنے کو ایسا وسیع نہیں کیا جا سکتا کہ ہر بات کیلئے کہہ دیں کہ لکھنے والے نے غلط سمجھا اور غلط لکھا ہے ہاں جب کوئی بات قرآن شریف اور احادیث صحیحہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عمل کے خلاف ہو گی تب کہیں گے کہ لکھنے والے کی غلطی سے اس طرح لکھی گئی ہے.اب ہم غیر احمدی کے جنازہ کو لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس کے متعلق قرآن شریف اور حضرت صاحب کا تعامل کیا بتا تا ہے.وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا جائز ہے ان کو ہم کہتے ہیں کہ اگر یہ جائز بات ہے اور جائز بھی ایسی جو شفقت علی الناس سے تعلق رکھتی ہے تو ضرور ہے کہ حضرت مسیح موعود کا تعامل بھی اس کی تصدیق کرے کیونکہ ایک بات ایسی ہوتی ہے جو جائز ہوتی ہے لیکن لوگوں کے ساتھ شفقت کرنے کا اس میں کوئی پہلو نہیں ہوتا.مثلاً ایک شخص کیلئے لٹھے کی قمیض پہنا جائز ہے اور اگر وہ ململ کی قمیض پہنے تو یہ بھی اس کیلئے جائز ہے لیکن اس میں کسی پر کوئی شفقت نہیں پائی جاتی.لیکن جنازہ پڑھنا اس قسم کا جائز ہے کہ اس میں دوسرے پر شفقت بھی پائی جاتی ہے کیونکہ یہ دوسرے پر رحم کرنا اور اس کیلئے رحم کی دعامانگنا ہے.انبیاء تو بڑے رحیم و کریم ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ آنحضرت سلیم کی نسبت فرماتا ہے إِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِیم ۵.تو ہر ایک وہ جائز بات جو شفقت علی الناس سے تعلق رکھتی ہے وہ انبیاء کے لئے بہت ضروری ہوتی ہے کیونکہ وہ آتے ہی اسی لئے ہیں کہ دنیا سے محبت و پیار اور الفت اٹھ جاتی ہے وہ آکر اسے لوگوں میں پیدا کرتے ہیں.دشمنوں کو دوست، بیگانوں کو لگانے اور پرایوں کو اپنے بناتے ہے ہیں اور یہ انبیاء کیلئے ضروری بات ہوتی ہے.پس اگر غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا جائز ہوتا اور ڈائری لکھنے والے نے آپ کی بات کو ٹھیک اور درست سمجھا ہوتا تو ضرور ہے کہ حضرت مسیح موعود کے تعامل سے بھی یہ بات ثابت ہوتی.یعنی کبھی غیر احمدی مرے ہوں اور حضرت صاحب ان کا جنازہ پڑھنے کیلئے گئے ہوں.اچھا یہ تو نہ سہی کہ حضرت صاحب کسی کا جنازہ پڑھنے کیلئے گئے ہوں لیکن بعض جگہیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ وہاں تو ضرور شفقت اور رحم کو کام میں لانا پڑتا ہے.آؤ ہم ایسی جگہوں کو بھی دیکھیں کہ حضرت صاحب نے کسی کا جنازہ پڑھا ہے یا نہیں.ایسے قریبی رشتہ دار باپ بھائی اور بیٹا وغیرہ ہوتے ہیں.آپ کے بھائی باپ تو آپ کے دعوئی سے پہلے ہی فوت ہو چکے تھے ہاں بیٹا آپ کی زندگی میں فوت ہوا ہے فضل احمد اس کا نام تھا.اس کی

Page 346

خطبات محمود جلد ۴ ۳۳۷ سال ۱۹۱۵ء وفات پر مجھے خوب یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام باہر صحن میں ٹہلتے ہوئے فرماتے تھے کہ اس کو ہم سے بہت محبت تھی.اس نے کبھی ہماری مخالفت نہیں کی تھی ، بیماری میں ہماری خدمت کیا کرتا تھا مگر چونکہ وہ غیر احمدی تھا اس لئے حضرت مسیح موعود نے اس کا جنازہ نہیں پڑھا تھا.میں نے پہلے ہی بتایا ہے کہ شفقت علی الناس تو نبی پر فرض ہو جاتی ہے.رسول اللہ صلی ہی یہ نیم کے زمانہ میں ایک خادم مسجد فوت ہو گیا تو لوگوں نے یونہی اسے دفن کر دیا کہ رسول اللہ کو اس کے جنازہ کی کیا خبر کرنی ہے.جب آپ کو یہ بر پہنچی تو بڑے ناراض ہوئے کہ کیوں مجھے خبر نہیں دی گئی ہے تو جنازہ پڑھنا چونکہ شفقت علی الناس سے تعلق رکھتا ہے.اگر غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا جائز ہوتا تو حضرت صاحب اپنے اس بیٹے کا ضرور جنازہ پڑھتے جس کی نسبت آپ نے فرمایا تھا کہ اس نے کبھی ہماری مخالفت نہیں کی تھی.بہت سے لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ ابتداء میں جب حضرت صاحب نے دعویٰ کیا ہے اور آپ پر پے در پے بیماری کے دورے ہوئے ہیں تو فضل احمد آپ کی بڑی خدمت کرتا رہتا تھا.پھر یہاں تک آپ کا فرمانبردار تھا کہ احمد بیگ والی پیشگوئی کے وقت جب حضرت مسیح موعود نے اسے کہا کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو کیونکہ وہ ان سے تعلق رکھتی ہے تو اس نے طلاق لکھ کر حضرت صاحب کے پاس بھیج دی کہ اگر وہ آپ کے حکم پر عمل نہ کرے تو آپ اسے یہ طلاق نامہ بھیج دیں.تو حضرت صاحب سے اس کا تعلق بھی ایسا تعلق تھا کہ بڑے بڑے معاملات میں بھی اطاعت کرتا تھا یہ تو اس کا تعلق تھا.مگر باوجود اس کے جب وہ فوت ہوتا ہے تو آپ اس کے جنازہ پر نہیں جاتے اور نہ ہی کسی احمدی کو جانے کیلئے فرماتے ہیں یہ تو آپ کا ایسے قریبی رشتہ دار سے اس شفقت کا سلوک تھا.پھر سر سید احمد خان کو کون نہیں جانتا کہ وہ مکفر مولویوں کا سب سے بڑا دشمن تھا اور وہ تو عیسائیوں تک کو کافر کہنے کی جرات نہیں کرتا تھا.حضرت مسیح موعود کو تو اس نے یہاں تک کہلا بھیجا تھا کہ آپ پیر بنیں اور میں مرید بنتا ہوں اور ہم حیدر آباد چلتے ہیں وہاں سے جس قدر رو پے ملیں گے ان میں سے تین حصے آپ کے اور ایک حصہ کالج کا ہوگا.لیکن جب وہ فوت ہوا تو لاہور سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں خط آیا کہ ہماری جماعت کو چاہئیے کہ اس کا جنازہ پڑھے تا کہ یہ پتہ لگے کہ ہم صلح کل ہیں.اس خط کے جواب میں مولوی عبد الکریم صاحبہ نے ایک خط لکھا تھا جو اب ملا ہے.اس میں لکھا ہے کہ (حضرت مسیح موعود ) متولی کی خبر سن کر خاموش رہے.

Page 347

خطبات محمود جلد ۴ ۳۳۸ سال ۱۹۱۵ء ہماری لاہوری جماعت نے متفقا زور شور سے عرضداشت بھیجی کہ وہاں جنازہ پڑھا جائے اور پھر نوٹس دیا جائے کہ سب لوگ جماعت کے ہر شہر میں اسی طریق پر جنازہ پڑھیں اور اس سے نوجوانوں کو یقین ہوگا کہ ہمارا فرقہ صلح کل فرقہ ہے.اس پر حضرت صاحب کا چہرہ سرخ ہو گیا.فرمایا.اور لوگ نفاق سے کوئی کارروائی کریں تو بچ بھی جائیں مگر ہم پر تو ضرور غضب الہی نازل ہو.کے پس اس روایت کے مقابلہ میں یہ روایت پیش ہو گئی ہے مگر حضرت مسیح موعود کے عمل کے مقابلہ میں عمل کو ئی نہیں پیش کیا جا سکتا.پھر جو یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ایک شخص نے حضرت مسیح موعود کو کہا کہ میری والدہ مرگئی ہے اس کا جنازہ پڑھا جائے تو آپ نے کہا کہ پڑھو.اس سے معلوم ہوا کہ آپ نے غیر احمدی کا جنازہ پڑھنے کی اجازت دی ہے.ہم کہتے ہیں کہ اس سوال سے کہاں معلوم ہوتا ہے کہ آیا اس نے آپ کو یہ بھی بتایا تھا کہ میری والدہ احمدی ہے یا نہیں.جب اس نے یہ بتایا ہی نہیں تو پھر یہ کہاں سے ثابت ہو گیا کہ غیر احمدی کے جنازہ کی آپ نے اجازت دے دی.اور یہ کہنا کہ اس شخص نے چونکہ دو سال پہلے اپنی ماں کے احمدی ہونے کیلئے دعا کروائی تھی اس لئے ثابت ہوا کہ آپ کو اس کے غیر احمدی ہونے کی خبر تھی.یہ بھی بہت ہی فضول بات ہے کیونکہ آپ ایسی باتوں کو کہاں یادرکھتے تھے ایک دفعہ ایک آدمی یہاں آیا حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے اس کو کہا کہ آؤ میں تمہیں حضرت صاحب سے ملا دوں.اس نے کہا مجھے حضرت صاحب جانتے ہیں، میں خود مل لوں گا.وہ جا کر دو گھنٹے تک دباتا رہا لیکن آپ نے اس کو نہ پہچانا تو انبیاء لغو اور بے فائدہ باتوں کو کہاں یا درکھتے ہیں.وہ تو اس بات کو یادرکھتے ہیں جس کیلئے وہ آتے ہیں چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بعض دفعہ ایسے ایسے حوالے نکال لیتے تھے کہ بڑے بڑے مولوی حیران رہ جاتے تھے.پھر ہم قرآن شریف کو دیکھتے ہیں ابھی میں نے جو آیتیں پڑھی ہیں ان میں یہی ذکر ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ منافق لوگ جو تمہارے ساتھ مل کر کام نہیں کرتے ، جہاد میں نہیں جاتے ، اللہ کے راستے میں مال خرچ نہیں کرتے اور مسلمانوں سے ٹھٹھے کرتے ہیں ان کیلئے دردناک عذاب ہے.تو خدا تعالیٰ نے با وجود ان کے ظاہرہ طور پر مسلمان ہونے کے رسول کریم کو فرمایا

Page 348

خطبات محمود جلد ۴ ۳۳۹ سال ۱۹۱۵ء کہ اگر تو ان کیلئے توبہ استغفار کرے یا نہ کرے اور اگر توستر بار بھی ان کیلئے تو یہ استغفار کرے تو بھی ہرگز قبول نہ کی جائے گی کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ہے اور اللہ فاسقوں کے گروہ کو کبھی ہدایت نہیں دیتا.انہی کا ذکر کرتے ہوئے خدا تعالیٰ آگے فرماتا ہے کہ اگر ان میں سے کوئی مر جائے تو اس کا جنازہ نہیں پڑھنا اور ان کی قبر پر کھڑے نہیں ہونا.کیونکہ قبر پر کھڑے ہونے سے بھی دعا کی تحریک ہو جاتی ہے.تو یہ کافروں کے متعلق خدا تعالیٰ کا حکم نہیں بلکہ ان کیلئے جو ایمان لے آئے تھے لیکن دراصل منافق تھے.دیکھو رسول اللہ سنی لیا کہ تم چاہتے ہیں کہ ان کیلئے استغفار کریں ان کا جنازہ ہے پڑھیں لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کیلئے جو استغفار کی جائے گی وہ اگر ستر بار بھی کی جائے تو بھی قبول نہ ہو سکے گی اور تم اُن کا جنازہ نہ پڑھنا اور نہ قبر پر جانا.یعنی ان مواقع پر بھی ان کیلئے رحم کی دعا نہ کرنا.اس منع کرنے کی وجہ بیان فرمائی کہ اِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ.ان کیلئے زندگی میں دعا کرنی جائز تھی مگر انہوں نے چونکہ اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کو نہیں مانا اور اسی حالت میں یہ مرگئے ہیں اس لئے ان کیلئے تو بہ اور رحم کی دعا نہیں کرنی چاہیئے.کوئی کہہ سکتا تھا کہ جب کسی کا جنازہ نہ پڑھنے اور اس کیلئے رحم کی دعا کرنے کی ممانعت اس لئے ہے کہ اس نے خدا اور اس کے رسول کی باتوں کا انکار کیا ہے تو کیا وہ لوگ جو ابتداء میں خدا اور رسول کا انکار کرتے ہیں ان کا جنازہ بھی نہیں پڑھنا چاہئیے.اور ان کیلئے بھی دعاء تم نہ کرنی چاہئیے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ وجدان کے جنازہ نہ پڑھنے اور ان کیلئے دعا نہ مانگنے کی نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ تو اسی حالت میں مر بھی گئے ہیں اس لئے ان کا جنازہ پڑھنانا جائز ہو گیا ہے.اب یہ سوال ہوتا ہے کہ موت کی وجہ سے کیوں جنازہ ناجائز ؟ اس کا جواب خدا تعالیٰ نے دوسری جگہ قرآن میں دیا ہے.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا.^ کہ وہ لوگ جو ہماری محبت میں کوشش کرتے ہیں ہم ضرور ضرور ان کو ہدایت دے دیتے ہیں اور اگر کوئی شخص واقعہ میں اخلاص رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ضرور ضرور اسے ہدایت دے دیتے ہیں.وہ جو ایسی حالت میں مرجاتا ہے اور اسے ہدایت نصیب نہیں ہوتی ، اس لئے ثابت ہوا کہ اس کی نسبت جو یہ خیال تھا کہ یہ آدمی نیک اور اچھا ہے غلط خیال تھا کیونکہ اگر وہ اچھا ہوتا تو ضرور تھا کہ ہدایت پا جاتا.اللہ تعالیٰ ظالم

Page 349

خطبات محمود جلد ۴ ۳۴۰ سال ۱۹۱۵ء نہیں ہے اور نہ وہ کسی پر ظلم کرتا ہے.پس اگر وہ واقعہ میں اخلاص رکھتا ہوتا تو ضرور تھا کہ اللہ اس کوا.مامور کے پہچاننے کی توفیق دیتا.یہاں اللہ تعالیٰ نے فاسق کا لفظ رکھا ہے تا کہ کوئی یہ نہ کہے کہ یہ تو کافروں کے متعلق آیا ہے اور كَفَرُوا باللہ کے یہ معنے ہیں کہ خدا کی باتوں کو نہ ماننا.پس ایسے لوگ جو گو بظاہر اسلام رکھتے مگر دراصل اللہ اور رسول کے حکم نہیں مانتے تھے اور اسی حالت میں مر گئے ان کا جنازہ جائز نہیں ہے.پس حضرت مسیح موعود کا عمل اور یہ ڈائری اور قرآن شریف کے اس حکم کے ہوتے ہوئے ہم کبھی یہ نہیں مان سکتے کہ غیر احمدی کا جنازہ جائز ہے.حق یہی ہے کہ کوئی اسے قبول کرے یا نہ کرے میں تو ایک منٹ کیلئے بھی یہ خیال نہیں کر سکتا کہ کوئی انسان حق اور صداقت کی تلاش کرتا ہو اور پھر خدا اسے ہدایت نہ دے.خدا تعالیٰ ضرور ہدایت دے دیتا ہے بشرطیکہ کسی میں اخلاص اور صدق پایا جاتا ہو.یہاں ایک شخص تھا جو بہت زیادہ شراب پیا کرتا تھا حتی کہ شراب کی وجہ سے ہی سخت بیمار ہو گیا تھا.پھر بہت بڑے لوگوں سے اس کا تعلق اور صحبت تھی اس کی نسبت کسی کو وہم بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ اس کو ہدایت ہوگی.مگر ایک دن اسے خواب آئی کہ ساری دنیا پر اندھیرا ہی اندھیرا ہے اور صرف حضرت مسیح موعود کی چار پائی کے نیچے نور ہے اور میں اس کے نیچے گھس گیا ہوں.اس کے بعد اس نے آکر آپ کی بیعت کر لی.بیعت کے چند ہی دن کے بعد مر گیا.پس نیک اور مخلص آدمی کتنا ہی بد صحبت اور گند میں ڈوب گیا ہو اور غلط فہمی سے بڑی سخت مخالفت بھی کرتا ہولیکن خدا تعالیٰ ضرور ہی اس کو ہدایت دے دیتا ہے.اور اگر اللہ کسی کو ہدایت نہیں دیتا تو یقینا سمجھنا چاہیئے کہ وہ جَاهَدُوا فِینا میں شامل نہیں ہے اس لئے اس کا جنازہ پڑھنا بھی جائز نہیں ہے.اور اگر کوئی شخص ایسی جگہ مرجائے جہاں ہماری تبلیغ نہیں پہنچی اس کے جنازہ کے متعلق یہ ہے کہ ایسی جگہ ہم جنازہ پڑھنے کیلئے کہاں موجود ہوں گے کیونکہ اگر ہوتے تو کیا تبلیغ احمدیت نہ کرتے.اور اگر یہ کہا جائے کہ کسی ایسی جگہ جہاں تبلیغ نہ پہنچی کوئی مرا ہوا ہو اور اس کے مر چکنے کے بعد وہاں کوئی احمدی پہنچے تو وہ جنازہ کے متعلق کیا کرے.اس کے متعلق یہ ہے کہ ہم تو ظاہر پر ہی نظر رکھتے ہیں.چونکہ وہ ایسی حالت میں مرا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نبی اور رسول کی پہچان اسے نصیب نہیں

Page 350

خطبات محمود جلد ۴ ۳۴۱ سال ۱۹۱۵ء ہوئی، اسلئے ہم اس کا جنازہ نہیں پڑھیں گے اور اگر وہ شخص خدا کے نزدیک بخش کا مستحق ہے تو ہمارے جنازہ پڑھنے کے بغیر ہی خدا اسے بخش دے گا.اور اگر وہ بخشش کے لائق نہیں تو ہمارے جنازہ پڑھنے سے بھی نہیں بخشا جائے گا.پس جہاں ہم ہیں وہاں احمدیت کی تبلیغ ہوگی اس لئے کسی کے جنازہ کے متعلق صاف بات ہے اور جہاں ہم نہیں ہیں وہاں ہمیں جنازہ پڑھنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی.خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو سچی سمجھ دے اور ہماری زندگی اس کی عین فرمانبرداری اور اطاعت میں ہو.ہم اس کے احکام کو اچھی طرح بجان لانے والے ہوں اور اس کی رضا کی راہوں پر چلیں.(الفضل ۶ مئی ۱۹۱۵ء) ل التوبة: ۷۹ تا ۸۴ ملفوظات جلد ۲ صفحه ۲۰۷ بنی اسرائیل: ۲۴ الجمعة : ۴ ه القلم : ۵ صحیح مسلم کتاب الجنائز باب الصلوة على القبر و بخارى كتاب الجنائز باب الصلوة على القبر بعد ما يُدفن ك الفضل ۲۸ مارچ ۱۹۱۵ء صفحہ آخر العنكبوت:

Page 351

خطبات محمود جلد ۴ ۳۴۲ (۶۷) صرف خدا تعالی ہی عالم الغیب ہے (فرموده ۷.مئی ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء حضور نے تشہد، تعوّ ذاور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَةً إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضَ وَلَا يَعُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ اللہ تعالیٰ کی ہستی چونکہ نظر نہیں آتی اور اس کی ذات چونکہ وراء الور ی ہے اس لئے کوئی انسان ان مادی آنکھوں سے اسے نہیں دیکھ سکتا جس قدر لطیف چیزیں دنیا میں ہوتی ہیں وہ نظر نہیں آتیں.پھر خدا تعالیٰ تو ان لطیف چیزوں کے پیدا کرنے والا ہے اس لئے ان آنکھوں سے اس کا نظر آنا تو ناممکن ہے.کسی شاعر نے کیا لطیف بات کہی ہے.کہتا ہے ؎ جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا یعنی اگر کہیں دُوئی کا معاملہ ہوتا تو کبھی اس سے ملاقات ہو جاتی لیکن چونکہ وہ یگانہ ہے دوسری چیزوں کی اس کے مقابلہ میں کچھ ہستی نہیں ، کوئی اس کا ہمسر ہی نہیں اور کوئی اس کی ذات کا حصہ اور جنس ہی نہیں ہے اس لئے اس سے ملاتا ت بھی نہیں ہوتی.جب اس کا یہ حال ہے تو جو اس کی مخلوق اور اس کی پیدا کردہ چیزیں ہیں ان کی آنکھوں سے وہ کہاں نظر آ سکتا ہے.پس خدا تعالیٰ ان آنکھوں سے کسی کو دکھائی نہیں دیتا بلکہ اپنی قوت اور اپنے جلال اور اپنے

Page 352

خطبات محمود جلد ۴ ۳۴۳ سال ۱۹۱۵ء ت کاروبار اور اپنے خاص الخاص بندوں کے ذریعے ہی نظر آتا ہے.چونکہ خدا تعالیٰ اپنے برگزیدہ اور پیارے بندوں کے ذریعہ لوگوں کو نظر آتا ہے، اس لئے بعض نادان ان بندوں کو ہی خدا سمجھ لیتے ہیں یا ت ان میں خدا کی صفات قرار دے دیتے ہیں.جس طرح ایک نادان انسان پانی میں سورج کا عکس دیکھ کر کہہ دے کہ یہی سورج ہے حالانکہ اصل سورج تو اور ہے اسی طرح یہ لوگ کرتے ہیں، اسی بات سے بہت سے لوگوں کو بڑا دھوکا لگا ہوا ہے.یہ جو خدا کے اوتار مانتے ہیں ان کو بھی یہی غلطی لگی ہے کیونکہ خدا تو اپنی جگہ ہے انسانوں میں داخل نہیں ہوتا.پس اس دھوکا اور غلطی کی وجہ سے جس قدر بڑے بڑے لوگ گزرے ہیں ان کو نادانوں نے خدا بنانے کی کوشش کی ہے.کسی کو انہوں نے خدا کا بیٹا بنالیا توکسی کو خدا ہی قرار دے دیا اور کسی کو خدائی صفات کا وارث مان لیا.چونکہ آنحضرت ﷺ نے شرک کے خلاف ایسا زور لگایا ہے جیسا کسی نبی نے نہیں لگایا، اس لئے آپ کی امت کو خدا تعالیٰ نے بہت کچھ اس سے بچائے رکھا ہے.مسلمان اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ كه كر اس فتنہ سے تو بچے کہ آنحضرت صلی اب تم کو خدا بناتے یا خدائی صفات دے دیتے لیکن پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت شرک کم کیا.مگر بعد میں آنے والے بزرگوں کی نسبت بہت زیادہ شرک میں مبتلا ہو گئے.چنانچہ سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی نسبت عجیب عجیب قصے مشہور کر رکھے ہیں.حضرت معین الدین چشتی ، بابا فرید الدین شکر گنج وغیرہ بزرگوں سے بہت بڑا شرک کیا جاتا ہے اور پھر ان سے بھی زیادہ شرک ان کی معمولی قبروں سے کیا جاتا ہے جو قریبا ہر گاؤں میں بنی ہوتی ہیں.میں نے خودا پنی آنکھوں سے لوگوں کو قبر پر اس طرح پورا سجدہ کرتے دیکھا ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ کیلئے کیا جاتا ہے اور ان سجدہ کرنے والوں کو یہ پورا یقین ہوتا ہے کہ ہم اس طرح برکت حاصل کر رہے ہیں حالانکہ قرآن شریف میں شروع سے لے کر اخیر تک اس شرک کی بیخ و بن کو اکھاڑا گیا ہے.اگر مسلمان سمجھتے تو قرآن نے تو ایسا بیان کر دیا تھا کہ ان پر شیطان شرک کی راہ سے کبھی حملہ نہ کرتا لیکن افسوس انہوں نے قرآن کو بالکل چھوڑ دیا اور شیطان کی زد میں آگئے.اس وقت میرا روئے سخن ایک خاص مسئلہ کے متعلق ہے اور وہ یہ کہ علم غیب کسی انسان کو ہوتا ہے یا نہیں؟ اس بات پر بڑی بحثیں ہوئی ہیں کہ آنحضرت سائی تم کو بھی یہ علم تھا یا نہیں.حنفیوں نے کہا ہے کہ نہیں اس لئے ان کے اس کہنے پر ان پر بڑے بڑے فتوے

Page 353

خطبات محمود جلد ۴ ۳۴۴ سال ۱۹۱۵ء لگے ہیں کہ انہوں نے آنحضرت صلی یا پریتم کی بے ادبی کی ہے حالانکہ یہ آیت جو میں نے پڑھی ہے اس میں خدا تعالیٰ نے صاف طور پر بتا دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے علم کا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا.نہ آنحضرت سلیم اور نہ کوئی اور شخص.بے شک آنحضرت سلی ایتم تمام نبیوں کے سردار اور اللہ تعالیٰ کے بڑے اور اور محبوب بلکہ آپ کی اتباع کرنے والا خدا کا محبوب ہو جاتا ہے مگر باوجود اس کے آپ خدا تعالیٰ کی مخلوق اور اسی کے محتاج تھے.پس آپ کے اندروہی صفات رہیں گی جو بندوں میں ہوتی ہیں اور وہ صفات کبھی نہیں آسکتیں جو خدا تعالیٰ نے صرف اپنے لئے مخصوص کر رکھی ہیں.علم غیب بھی اسی میں سے ہے اس لئے صرف خدا ہی جانتا ہے کہ کیا کچھ ہوتا ہے اور کیا ہوگا.ان آیتوں میں خدا تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ علم غیب کے ہونے کیلئے کتنی چیزوں کے ہونے کی ضرورت ہے.اول یہ کہ اَلْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ.یعنی ہمیشہ زندہ رہنے والا ، خود قائم رہنے والا اور دوسروں کو قائم رکھنے والا ہو.سوئے نہیں اور نہ اُسے اونگھ آئے.کیونکہ جب سو گیا تو اس کے سونے کے عرصہ کا اسے علم کہاں رہا.دوم.آه مَا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الأَرْضِ.اسی کے قبضہ قدرت میں وہ سب چیزیں ہوں جو زمین و آسمان میں ہیں.وہی ان کی حفاظت کرنے والا اور وہی ان کا نگران ہو.یہ سب باتیں علم غیب کیلئے ضروری ہے ہیں.جب کسی انسان کی نسبت علم غیب کا ہونا کہا جائے گا تو یہ سب صفات بھی اس میں مانی پڑیں گی کیونکہ جب تک کسی میں یہ باتیں نہ ہوں وہ عالم الغیب نہیں ہو سکتا آنحضرت سمائی کہ تم تو سو یا بھی کرتے تھے.آپ پیدا بھی ہوئے اور وفات بھی پاگئے جس کو آج تیرہ سوسال سے زائد عرصہ ہونے کو آیا ہے، پھر آپ کی نسبت عالم الغیب ہونا کس طرح کہا جاسکتا ہے.پس آنحضرت صلی یا الہی تم ہوں یا کوئی اور انسان ہو ، اسی حد تک اس کے اندر طاقتیں ہیں جو خدا نے انسانوں کیلئے پیدا کی ہیں اور وہ طاقتیں جو خدا نے اپنے لئے مخصوص کر رکھی ہیں وہ آنحضرت ایا ہی ہمیں بھی نہیں پائی جاتیں.پس جب آپ میں نہیں تو اور کسی نبی میں بھی نہیں نہ حضرت موسیٰ“ میں نہ حضرت عیسی " میں اور نہ مسیح محمدی میں نہ عبد القادر جیلانی وغیرہ میں اور نہ ہماری جماعت میں سے کسی انسان میں.بعض لوگ نادانی سے یوں کہہ دیتے ہیں کہ حضور پر سب کچھ روشن ہے حضور تو پوشیدہ خیالات کو خود معلوم کر سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ.یہ شرک کے کلمات ہیں اور خطر ناک شرک ہے.ہمارا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا

Page 354

خطبات محمود جلد ۴ ۳۴۵ سال ۱۹۱۵ء تو یہ حال الگ رہا ، ہمارے آقا حضرت محمد صلی ا یہ تم پر سب کچھ روشن نہیں تھا.اور نہ آپ خود بخود کچھ پردہ غیب سے معلوم کر سکتے تھے.پھر ہم کیا ہیں جو استاد کے پاس ہوتا ہے وہی شاگردوں میں بھی آتا ہے جب ہمارے استاد کے پاس یہ علم نہیں تھا تو ہم میں کہاں سے آتا.ہم نے وہی کچھ سیکھا ہے جو آنحضرت صلی شی پہ ستم کے پاس تھا.پس جماعت کو چاہیئے کہ بہت احتیاط سے الفاظ کو منہ سے نکالا کرے اور اپنے خیالات کو ایسا محفوظ رکھے کہ شرک سے بالکل بری ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم ہر قسم کی بدی معاف کر دیں گے مگر شرک معاف نہیں کریں گے.پس ہر ایک مومن کو چاہیئے کہ ایسے الفاظ بولے جن میں خدا کی حمد، تعریف اور ستائش پائی جائے.خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کی توفیق دے کہ اللہ کو اللہ اور مخلوق کو مخلوق سمجھے اور کوئی بدی خدا کی طرف منسوب نہ کرے.البقرة: ۲۵۶ (الفضل ۱۳ ، ۱۶ مئی ۱۹۱۵ء )

Page 355

خطبات محمود جلد ۴ ۳۴۶ (YA) مخالفت اور بغض انسان کو حق سے بہت دُور کر دیتا ہے (فرموده ۱۴ مئی ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَبِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَؤُلَاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا اس کے بعد فرمایا:.مخالفت اور بغض انسان کو حق سے بہت دور ڈال دیتا ہے.اگر بغض انسان کے دل میں نہ ہو تو غلطیاں اور کمزوریاں تو ہوتی ہی رہتی ہیں لیکن انسان بہت دفعہ ٹھوکر کھاتے ہوئے سنبھل جاتا ہے اور اکثر اوقات گرتے ہوئے محفوظ ہو جاتا ہے.تو کمزوری اور غلطی تو انسان کے ساتھ وابستہ ہے.ہاں ان سے بچنے اور علیحدہ رہنے کے سامان خدا تعالیٰ نے مہیا کر دیئے ہوئے ہیں.اس لئے غلطی خوردہ اور اے کمزوری کا شکار شدہ انسان ٹھوکریں کھاتے کھاتے ایسا ہی سنبھل جاتا ہے جیسا کہ ابتداء میں بچہ چلتے ہوئے گرتا پڑتا ہے اور بالآخر مضبوط ہو جاتا ہے لیکن جہاں بغض، حسد اور عداوت درمیان میں آ جاتے ہیں وہاں کسی بات کا ماننا اور حق کا قبول کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے.دیکھو آدم علیہ السلام کا انکار ملائکہ نے کیا تھا اور ایک رنگ میں انہوں نے یہ اعتراض بھی کیا تھا کہ جب آدم پیدا ہو گا تو فساد ہوگا یا اس کی نسل فساد کرے گی لیکن ان کا یہ اعتراض نیک نیتی کی بناء پر تھا.وہ چونکہ نہیں سمجھتے تھے کہ ایسی مخلوق کی کیا ضرورت ہے جو

Page 356

خطبات محمود جلد ۴ ۳۴۷ سال ۱۹۱۵ء سفک دم کرے گی ۲ اس لئے انہوں نے حصول علم کیلئے سوال کیا.اس کے مقابلہ میں ابلیس نے بھی حضرت آدم کا انکار کیا ہے لیکن اس کا انکار تکبر اور شرارت سے تھا.چنانچہ اس نے کہا کہ اس کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور مجھے آگ سے ، میں اس کی اطاعت کس طرح کر سکتا ہوں.۳ ملائکہ نے ایسا نہیں کہا تھا بلکہ یہ کہا تھا کہ خلیفہ کی تو اُس وقت ضرورت ہوتی ہے جبکہ فساد کا خطرہ ہو.پس آپ کے خلیفہ بنانے سے یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ کوئی ایسی مخلوق بھی پیدا کریں گے جو فساد کرے گی اس کی پیدائش کی غرض ہم کو بتائی جائے.گو یہ بھی اعتراض ہی تھا مگر تکبر اور غرور کی وجہ سے نہ تھا بلکہ ایک رنگ میں علم حاصل کرنے کے لئے کیا گیا تھا.ابلیس کی اعتراض کرنے کی یہ غرض نہیں تھی بلکہ اسے حسد تھا کہ کیوں اسے بڑا بتایا ہے اور مجھے چھوٹا قرار دیا ہے.ملائکہ کو تو مانے کی توفیق مل گئی مگر ابلیس کو نہ ملی اور وہ ہمیشہ کیلئے راندہ گیا.پس اختلاف کوئی بری چیز نہیں ہے، اختلاف ہوا ہی کرتے ہیں اور لوگ اعتراض کیا ہی کرتے ہیں لیکن جو نیک نیتی سے ایسا کرتے ہیں وہ تو ہدایت پا جاتے ہیں اور جو حسد، بغض اور کینہ اور بد نیتی سے کرتے ہیں انہیں ہدایت نصیب نہیں ہوتی.حضرت مسیح موعود نے جب پہلے پہل دعوی کیا تو صرف چند آدمی آپ کے ساتھ تھے اور باقی تمام لوگ مخالفت میں کھڑے ہو گئے تھے اور آپ پر اعتراض کرنے لگ گئے لیکن جوں جوں انہی لوگوں کو جو اعتراض کرتے تھے سمجھ آتی گئی مانتے گئے.پس جہاں مخالفت بغیر حسد اور ضد کے ہوتی ہے وہاں بہت کچھ امید ہو سکتی ہے کہ شاید سمجھ آ جائے لیکن جہاں ایسا نہ ہو وہاں کچھ امید بھی نہیں ہوسکتی کیونکہ ایسے لوگ بہت دور نکل جاتے ہیں.خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرمایا ہے کہ آلخم تَرَ إِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتب يُؤمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوْا هَؤُلَاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا.ان اہل کتاب کو دیکھو ان کی طرف خدا نے کتاب نازل کی تھی اور یہ خدا کے انبیاء کو مانتے ہیں لیکن باوجود اس کے کہ خدا کا کلام ان کے پاس موجود ہے اور ایک ایسا نبی ان کے زمانہ میں پیدا ہوا ہے جو اُن کے انبیاء کو پہچاننے والا اور ان کی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے خدا کی تو حید کو پھیلاتا ہے لیکن یہ ہٹ اور ضِد میں ایسے بڑھے ہیں کہ ایک طرف تو شریر مشرکوں اور شیطان کے پرستاروں کی پیروی کرتے ہیں اور ان کی باتوں کو

Page 357

خطبات محمود جلد ۴ ۳۴۸ سال ۱۹۱۵ء مانتے ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کی نسبت کہتے ہیں کہ ان سے وہ لوگ اچھے ہیں اور یہ مسلمان کہلانے والے اور اس نبی کے ماننے والے بہت گندے اور بڑے ہیں.فرما یاد یکھو کیسے حماقت میں بڑھ گئے ہیں کہ وہ انسان جو ان کی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے ان کے نبیوں کو سچا مانتا ہے، توحید کا اعلان کرتا ہے اور شرک کی بیخ کنی کرتا ہے، اس کو اور اس کے ماننے والوں کو تو یہ کہتے ہیں کہ گمراہ اور گندے ہیں اور وہ لوگ جو ان کے نبیوں کو گالیاں دیتے ہیں، ان کی کتابوں کو جھوٹا سمجھتے ،شرک کرتے اور قسم قسم کی برائیوں میں مبتلا ہیں اُن کو ان سے اچھا سمجھتے ہیں.کیوں ایسا کہتے ہیں اس لئے کہ ضد اور ہٹ کی وجہ سے یہ حد سے بڑھ گئے ہیں.کہتے ہیں واقعات دوبارہ دنیا میں ہوتے رہتے ہیں اور پہلی باتوں کا اعادہ کرتے رہتے ہیں یہ درست ہے.شاید بعض لوگوں کو تعجب ہوتا ہو کہ یہودی مسلمانوں کو یہ کس طرح کہہ سکتے تھے کہ ان کی نسبت مشرک اچھے ہیں یہ مسلمان گمراہ اور کافر ہیں لیکن مشرک اور بت پرست ان سے زیادہ ہدایت پر ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ شاید بہت سے لوگ یہ کہہ دیں کہ یہ تو ناممکن ہے کون ایسا کہہ سکتا ہے؟ لیکن نہیں خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جیسے نیک لوگ ایک زمانہ میں پیدا ہوتے ہیں ویسے ہی دوسرے زمانہ میں بھی پیدا ہوتے ہیں اور جیسے شریر انسان ایک وقت میں ہوتے ہیں ویسے ہی دوسرے وقت میں بھی ہوتے ہیں تا کہ ہر زمانہ کے لوگوں کو معلوم ہو کہ پچھلے واقعات قصے اور کہانیاں نہیں بلکہ واقعات ہیں.مثلاً یہی کوئی کہہ دے کہ یہود نے تو مسلمانوں کو ایسا نہیں کہا، یونہی ان کی طرف یہ اعتراض بنا کر پیش کر دیا گیا ہے.پس ان گزشتہ باتوں کو واقعات کے رنگ میں لوگوں کے سامنے رکھنے کے لئے ہر زمانہ میں دہرایا جاتا ہے.چنانچہ ایک زمانہ تھا جبکہ کسی کا بھائی یا بیٹا احمدی ہو جاتا تو وہ کہتا کہ اس سے تو عیسائی ہو جاتا تو اچھا تھا لیکن کاش احمدی نہ ہوتا.گو غیر احمدی یہ تسلیم نہ کریں کہ آنحضرت سایتم کی احمدی دل سے عزت کرتے ہیں، قرآن شریف کو دل سے خدا تعالیٰ کا کلام سمجھتے ہیں لیکن یہ تو نہ مانیں گے اور انہیں ضرور مانا پڑے گا کہ ایک احمدی زبانی طور پر تو ان باتوں کا اقرار کرتے ہیں اور یہ بھی ان کو ماننا پڑے گا کہ احمدی خدا کو تین نہیں بلکہ ایک ہی مانتے ہیں اور آنحضرت ملی کہ تم کو نعوذ باللہ ) گالیاں نہیں دیتے لیکن باوجود اس کے وہ یہی کہا کرتے ہیں کہ ہمارا فلاں رشتہ دار عیسائی ہوتا تو اس سے بہتر تھا کہ احمدی ہوتا.پس یہی وہ لوگ تھے جو اس آیت کے معنوں کے مصداق ہیں.

Page 358

خطبات محمود جلد ۴ ۳۴۹ سال ۱۹۱۵ء عیسائی جو آنحضرت سال اینم کے منکر ہیں اور آپ پر طرح طرح کے بہتان باندھتے ہیں خدا تعالیٰ کو واحد نہیں بلکہ تین مانتے ہیں.اور ایک انسان کو خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں ان سے احمدیوں کو جو آنحضرت صلہ یہ تم کو عزت دینے والے، آپ کو سچا ماننے والے اور آپ کو خاتم النبین یقین کرنے والے خدا کو واحد سمجھنے والے اور کسی کو اس کا شریک نہ بنانے والے ہوں زیادہ گمراہ اور ہدایت سے دور قرار دیتے تھے.پھر اللہ تعالیٰ بھی بہت بڑا غیور ہے اس نے اپنی غیرت سے کئی ایک ایسے واقعات دکھائے کہ غیر احمدیوں کو سخت ذلیل ہونا پڑا.واقعات تو بہت ہوئے ہیں لیکن میں صرف ایک کی نسبت کچھ سناتا ہوں کسی لڑکے کو احمدیت کی تبلیغ کی گئی جب اس کے والد کو اس کا پتہ لگا اور اس نے دیکھا کہ لڑکا احمدیت کی طرف مائل ہوتا جاتا ہے تو اس نے ایک مجلس میں کہا کہ کاش میرا لڑکا احمدی نہ ہو بلکہ عیسائی ہو جائے تو مجھے اتنا افسوس نہیں ہوگا.کچھ مدت کے بعد واقعہ میں وہ لڑکا عیسائی ہو گیا.اب اس کے باپ کو ہوش آئی اور احمدیوں کے پاس آیا کیونکہ اور تو کوئی ایسا ذریعہ نہ تھا.کہ جس سے وہ اپنے لڑکے کے واپس لانے کی کوشش کرتا اور کامیاب ہو جاتا ) اور آکر کہا کہ اسے احمدی کر لو اور عیسائیت سے نکال لاؤ.پس ایسے لوگوں نے ہی اس بات کی تصدیق کر دی کہ پہلے زمانہ میں بھی ضرور یہود نے مسلمانوں کو یہ کہا تھا.اب اس کے بعد دیکھو ہمارے اندر اختلاف ہوا.اس بات کو جانے دو کہ ہم غلطی پر ہیں یا وہ مگر کچھ ہم میں سے اور کچھ ان میں سے ایسے لوگ ضرور مانے کے جانے چاہئیں جو نیک نیتی سے ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہوں.فرض کر لو ( گو ہم خدا کے فضل سے ہرگز غلطی پر نہیں ہیں ) کہ ہماری طرف سے ہی غلطی ہوئی ہے لیکن انہیں پھر بھی یہ مانا پڑے گا کہ ہم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کسی عداوت اور ضد کی وجہ سے مخالفت نہیں کر رہے.اسی طرح اگر یہ کہا جائے کہ وہ غلطی پر ہیں اور وہ ضرور غلطی پر ہیں) تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ ان میں سے کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو غلطی اور نانی سے مخالفت کر رہے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ وہ باتیں جو پہلے دوسرے لوگ کہتے تھے اب اس مخالف گروہ نے کہنی شروع کرے دی ہیں اور وہی رنگ اختیار کر لیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تشَابَهَتْ قُلُوبُهُمُ سے واقع میں ان کے دل انہی کی طرح کے ہو گئے ہیں اس لئے وہی اعتراض کرنے لگ گئے ہیں جو حق کی مخالفت میں ضد اور ہٹ میں آنے والا گروہ کیا کرتا ہے.ان کی طرف سے ایک وقت کہا گیا تھا کہ مشرک بخشے جائیں تو بخشے جا سکتے

Page 359

خطبات محمود جلد ۴ ۳۵۰ سال ۱۹۱۵ء ہیں لیکن احمدی نہیں بخشے جائیں گے.اب انہوں نے بھی کہ دیا کہ اور تو سب بخشے جاسکتے ہیں لیکن بیعت کرنے والے نہیں بخشے جائیں گے.برہمو سماج والے بخشے جائیں گے کیونکہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کے خلیفہ کی بیعت نہیں کی اور خدا کے فرستادہ مسیح موعود کو نہیں مانا.یونیٹیرین عیسائی باوجود اس کے کہ وہ آنحضرت مصلی یہ تم کو گالیاں دیتے ، قرآن کریم کی بے ادبی کرتے اور اسلام کو جھوٹا مذہب مانتے ہیں بخشے جائیں گے مگر یہ مبائعین نہیں بخشے جائیں گے کیونکہ انہوں نے ایک خلیفہ کی بیعت کی ہے.پھر اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ پیغام میں ایک مضمون نکلا ہے جس میں لکھا ہے کہ اب سوال جو پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جو محمود یہ بغیر تمیز دریدہ دہنی اور دلیری سے ان لوگوں کو جن کو خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسلمان کہا ہے کا فرقرار دیتے ہیں، کیا وہ خود اپنے منہ سے کافر نہیں بن جاتے.پھر وہ محمود یہ جو ان کو خلاف عقیدہ اپنے پیر کے مسلمان سمجھتے ہیں وہ ہمیں بتائیں کہ وہ اپنے پیر کو اس حدیث کے ماتحت کیا سمجھتے ہیں نیز یہ بھی معمہ حل کر دیں کہ کیا ایک مومن کافر کی بیعت کر سکتا ہے.“ دیکھو ان کے نزدیک غیر احمدی با وجود حضرت مسیح موعود کو گالیاں دینے ،جھوٹا، فریبی ، دغا باز اور دکاندار وغیرہ وغیرہ کہنے ، اس سلسلہ کو باطل ماننے ، خدا تعالیٰ کے وعدوں کو جھٹلانے اور آیت اللہ کی تکذیب کرنے کے تو اهدی مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا یعنی پکے مسلمان ہیں مر مبائعین کافر اور ان سے بدتر ہو گئے ہیں.یہ نتیجہ ہے بغض اور ضد کا.ہماری جماعت کے لوگ اس بات کو یاد رکھیں کہ بغض اور حسد کی وجہ سے حد سے نہیں بڑھنا چاہیئے.اس میں شک نہیں کہ انسان کے دل میں گالیاں سن کر ضرور جوش آتا ہے مگر مومن کو چاہیئے کہ حد پر جا کر رک جائے اور اس سے آگے قدم نہ اٹھائے.مانا کہ وہ تم پر زیادتیاں کرتے ہیں اور تمہیں دکھ پہنچاتے ہیں لیکن وہ ایسا کرتے جائیں تمہیں ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہئیے.ممکن ہے تم میں سے بھی بعض لوگ کہہ اٹھیں کہ چونکہ وہ اس قدر حد سے بڑھ گئے ہیں اس لئے ان کے متعلق ہم کوئی فتویٰ دے دیں لیکن ایسا نہیں چاہئیے.دیکھو انہوں نے ہمیں کا فر کہا ہے ہم بھی اگر انہیں کا فر کہیں تو پھر دنیا میں مومن کون رہ جائے گا.یہ ایک مشکل مسئلہ ہے کہ مومن کو کافر کہنے والا کس طرح کا فر ہو جاتا ہے اس کے

Page 360

خطبات محمود جلد ۴ ۳۵۱ سال ۱۹۱۵ء سمجھنے میں لوگوں نے غلطی کھائی ہے.لیکن تم لوگ اس بات کو خوب یاد رکھو کہ اگر فتوؤں کو ایسا وسیع کیا جائے تو دنیا میں کوئی بھی مسلمان نہیں رہ سکتا.مسلمانوں میں جس قدر بڑے بڑے آئمہ گزرے ہیں، ان کے متعلق کفر کے فتوے ملتے آئے ہیں.پس اگر اس حدیث کو ایسا ہی وسیع کیا جائے جیسا کہ یہ لوگ کرتے ہیں تو وہ سب مسلمان کا فر قرار پاتے ہیں.فرقہ معتزلہ پر بہتوں کی طرف سے کفر کا فتویٰ لگا ہے حالانکہ حضرت مسیح موعود نے انہیں مسلمان کہا ہے.پس معتزلی جماعت کے پیدا ہونے کے وقت سے اس وقت تک جس قدر مسلمان ہوئے ہیں یا کم سے کم ان میں سے اکثر کو تو ضرور کا فر کہنا پڑے گا.ابن تیمیہ جیسا عظیم الشان امام - حضرت محی الدین ابن عربی کو کافر قرار دیتا اور ابلیس اور رئیس الملحدین کے نام سے یاد کرتا ہے.حضرت مسیح موعود دونوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.پھر کیا اس امام کو بھی کا فر کہو گے.غرض اگر اس حدیث کو عام کرو تو آنحضرت صل یتیم کے کچھ عرصہ کے بعد سے آج تک ایک بھی مسلمان ثابت نہیں کر سکتے.پھر اتنا تو غور کریں کہ جن غیر احمد یوں کو یہ لوگ مسلمان قرار دیتے ہیں وہ سب کے سب ایک دوسرے کو کا فرقرار دیتے ہیں پھر ان کو مسلمان کہنے کا ان کے پاس کیا ثبوت ہے.اول تو وہ سب ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں اور اگر تعلیم یافتہ گروہ کا ایک حصہ اس سے پاک ہے تو وہ ان کا فر کہنے والوں کو بھی مسلمان قرار دیتا ہے اور اس طرح کافر بن جاتا ہے.پھر ان لوگوں کو اپنے ہی خیال کے خلاف مسلمان کیوں کہتے ہیں.دراصل لوگوں نے اس مسئلہ کو سمجھا ہی نہیں.میرا ارادہ ہے کہ کسی وقت اس مسئلہ کے متعلق اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو کچھ لکھوں اور اس حدیث کا جو مطلب خدا تعالیٰ نے مجھے سمجھایا ہے اس سے لوگوں کو آگاہ کروں.آج کل تو جماعت کے دو ٹکڑے ہیں.ایک دوسرے کو جو چاہے کہہ لے لیکن حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول کی بیعت میں تو دونوں فریق تھے کیا وہ اس فریق کو جو غیر احمدیوں کو کا فرقرار دیتا بھت کافر کہتے تھے.اگر نہیں اور یقینا نہیں کیونکہ وہ ان لوگوں کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے تو اب یہ سوال ہے کہ حضرت مسیح موعود کے اس فتویٰ کے مطابق کہ کافر کو مسلمان کہنے والا بھی کافر ہوتا ہے.حضرت خلیفہ اول کی نسبت یہ ہم پر فتوی لگانے والے کیا کہیں گے.غرض اپنی نادانی سے یہ لوگ ساری دنیا کو کافر بناتے ہیں اور کوئی جماعت بھی مسلمانوں کی نہیں رہتی.غیر احمدی اس لئے کا فر کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں

Page 361

خطبات محمود جلد ۴ ۳۵۲ سال ۱۹۱۵ء یا کافر کہنے والوں کو مسلمان سمجھتے ہیں.احمدی جماعت اس لئے کافر کہ ایک حصہ تو مسلمانوں کو کافر کہتا ہے اور ایک دوسرا حصہ ان کا فر کہنے والوں کو مسلمان ہی خیال کرتا ہے.اور ان پر کفر کا فتویٰ نہیں لگاتا.اور ی ایک تیسرا حصہ اس لئے کہ گو وہ احمدی جماعت کے اس حصہ کوتو کا فر کہتا ہے جوغیر احمد یوں کو کافر سمجھے لیکن وہ حضرت خلیفہ اول کو جو اس حصہ کو مسلمان سمجھ کر نَعُوذُ باللہ کا فر ہو چکے تھے مسلمان سمجھتا ہے نَعُوذُ بالله مِنْ ذَلِكَ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ میرے دوستو ! خوب یادرکھو فتوی لگانا ہر شخص کا کام نہیں ہے کیونکہ ہر ایک آدمی بار یک مسائل نہیں سمجھ سکتا.مسلمانوں کو کافر کہنے والے اور کافرکو کافر نہ سمجھے والے پر کفر کا فتویٰ لگانا آسان ہے لیکن کوئی سوچ کر بتائے کہ پھر مسلمان کون رہ جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو اس مسئلہ پر زور دیا ہے تو مانے ہوئے اصول کے مطابق ان پر حجت قائم کی ہے کیونکہ ان کو ان کے کفر کے منوانے کا یہ سیدھا طریق تھا کہ ان کو کہا جاتا تم اپنے عقیدے کے مطابق خود ہی کا فر ہو کیونکہ جب ہم اپنے آپ کو مومن سمجھتے ہیں تو تم ہم کو کافر کہنے والے کا فر ہو گئے ہو.یہ ایک آسان طریق ان کو کافر کہنے کا تھا ورنہ اصل وجہ ان کے کفر کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انکار کی تھی چنانچہ جہاں آپ نے ان کو مسلمان کہنے کے متعلق ذکر فرمایا ہے وہاں یہ شرط بھی لگا دی ہے بشرطیکہ ان کے ایمان میں نفاق اور شبہ نہ پایا جاوے اور خدا کے کھلے کھلے معجزات کے مکذب نہ ہوں“.تو ان کو اصل کفر حضرت مسیح موعود کے انکار کی وجہ سے ان پر عائد ہوتا تھا پس اس مسئلہ میں حد سے نہیں بڑھنا چاہیئے.غیر مبائعین خواہ میں کافر چھوڑ آ کفر کہیں اور جو ان کا جی چاہے فتویٰ لگا ئیں اور غیر احمدیوں کو مسلمان کہنے کی خاطر ہمیں کا فرقراردیں لیکن ہم انہیں غیر احمدیوں سے اچھا ہی سمجھتے ہیں اور کافر نہیں مسلمان یقین کرتے ہیں.اس لئے ہم الَّذِينَ أوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَبِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَؤُلَاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا سے بری ہیں غیر احمدی حضرت مسیح موعود کا انکار کرتے ، آپ کو گالیاں دیتے اور برا بھلا کہتے ہیں لیکن غیر مبائعین ایسا نہیں کرتے.انہوں نے خدا کے ایک فرستادہ کو مانا ہے، خواہ مان کر انہوں نے اس کے درجہ کو گھٹا

Page 362

خطبات محمود جلد ۴ ۳۵۳ سال ۱۹۱۵ء ہی دیا مگر پھر بھی وہ اُمَنُوا میں شامل ہیں کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے سب نبیوں پر ایمان لاتے ہیں.بلکہ ہم تو عیسائیوں اور غیر احمدیوں کے مقابلہ میں بھی غیر احمدیوں کو آھدی قرار دیتے ہیں نہ کہ مسیحیوں کو کیونکہ غیر احمدی ایمان کے جس درجہ پر ہیں گو وہ ان کو مسلمان نہ بناتا ہومگر مسیحیوں سے بہر حال ہزار درجہ بہتر ثابت کرتا ہے کیونکہ غیر احمدی صرف آخری مامور کے منکر ہیں.حالانکہ مسیحی آنحضرت ا ایلیم اورقرآن کریم کے بھی منکر ہیں.اسی طرح مسیحی اور یہودی مذہب کے مقابلہ میں ہم یہودیوں کو بھی مسیحیوں سے آھدی نہ کہیں گے کیونکہ وہ حق کے قبول کرنے میں یہودیوں کی نسبت مسلمانوں کے قریب ہیں.غرض جس جس قدر کوئی شخص ایمان کی باتوں کو زیادہ مانتا ہے خواہ وہ مسلمان نہ بھی ہو، ہم تب بھی اس سے کم درجہ کے انسان سے اسے اکھنڈ ی ہی یقین کرتے ہیں.باقی رہا سزا جزاء کا معاملہ وہ خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور یہ اس کا کام ہے اس میں دخل دینے والا انسان احمق اور نادان ہے.اللہ تعالیٰ جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے سزا دے.ہاں اس نے کچھ قواعد مقرر کئے ہوئے ہیں جو کچھ ظاہری ہیں اور کچھ باطنی.باطن کی نسبت ہم نہیں جانتے کہ وہ کس پر منطبق ہو سکتے ہیں.البتہ ظاہری قواعد پر ہم کسی کو پرکھ سکتے ہیں.لیکن جزاء وسزا کا فیصلہ اندرونی خیالات ، حالات اور اعتقادات وغیرہ پر ہی ہوگا، اس لئے کسی کی نسبت جہنمی یا بہشتی ہونے کا فیصلہ ہم نہیں کر سکتے ممکن ہے کہ ایک مسلمان ہو مگر اعمال سے ایسا گرا ہوا ہو کہ جہنم کے قابل ہو اور ممکن ہے ایسا کا فر ہو کہ آنحضرت سلیم کا نام اس تک نہ پہنچا ہو مگر اس کے اعمال بتاتے ہوں کہ اگر یہ آنحضرت ﷺ کا نام سنتا تو ضرور مان لیتا.اور جس طرح آنحضرت صلی ایم نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو موقع دیا جائے گا ہو سکتا ہے کہ وہ شخص اس وقت مان کر بہشت میں داخل ہو جائے.اسی طرح ممکن ہے کہ ایک احمدی گنہ گار سزا پا جائے لیکن ایک غیر احمدی جو مسیح موعود کے نام سے بھی ناواقف ہے وہ دوبارہ موقع دیا جانے پر ہدایت قبول کر کے انعام الہی کا وارث ہو جائے.پس کفر و اسلام کے متعلق فتویٰ دینا بہت مشکل ہے.جب تک غیر مبائعین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوؤں کی تاویلیں کرتے ہیں اور انکار نہیں کرتے اور جب تک کوئی ایسا مامور من اللہ نہیں آتا جس کا انکار کفر ہو اور یہ اس کا انکار نہیں کرتے تب تک

Page 363

خطبات محمود جلد ۴ ۳۵۴ سال ۱۹۱۵ء باوجود ہمارے اس عقیدہ کے کہ ان کے عقائد حضرت صاحب کے دعوؤں کے خلاف ہیں اور یہ حضرت صاحب کے دعوؤں کی غلط تاویلیں کرتے ہیں ان کے متعلق ہمارا اعتقاد یہی ہے کہ وہ احمدی ہیں اور غیر احمدیوں سے اچھے ہیں.ان کا ہم کو کافر کہنا ضد اور ہٹ کی وجہ سے ہے اور یہ بھی ان کی کمزوری کی بہت بڑی دلیل ہے کیونکہ وہ ہم کو تو کافر کہتے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود کے اشد ترین مخالفوں کو مومن خیال کرتے ہیں.ایسے لوگوں کو ہدایت بہت کم نصیب ہوتی ہے لیکن ہماری تو پھر بھی یہی دعا ہے کہ خدا تعالیٰ انہیں ہدایت دے.آمین ل النساء : ۵۲ البقرة: ٣١ البقرة: ١١٩ الفضل ۲۰۱۷ مئی ۱۹۱۵ء) ص: ۷۷

Page 364

خطبات محمود جلد ۴ ۳۵۵ (۶۹) اللہ کی نعمت سے ہم بھائی بھائی بن گئے ہیں (فرموده ۲۱.مئی ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُم مُّسْلِمُونَ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْن قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِةِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِّنْهَا.كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَيْتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ پھر فرمایا:.کسی جماعت کی ترقی کیلئے اس بات کی بہت ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے سب افراد آپس میں ایک ہو جا ئیں.جب تک کوئی جماعت فرد واحد کی طرح نہیں ہو جاتی ، ترقی نہیں کر سکتی خواہ وہ جماعت دینی ہو یا دنیوی.کیونکہ تمام کامیابیوں اور ترقیوں کیلئے خدا تعالیٰ نے یہ قاعدہ جاری کیا ہوا ہے کہ جب تک ساری جماعت ایک نہ ہو جائے لڑنا جھگڑنا ، دشمنی و نفاق ، حسد و کینہ بغض اور عداوت کو چھوڑ نہ دے، اس وقت تک ترقی نہ کرے جیسے کوئی انسان اس وقت تک کوئی سکھ اور آرام نہیں پاسکتا.جب تک کہ اس کے تمام اعضاء میں مناسبت اور درستی نہ ہو اور وہ ایک دوسرے کے مُمد اور معاون نہ ہو.ایسے ہی کوئی قوم اُس وقت تک آرام اور سکھ نہیں پاسکتی جب تک کہ اس کا ہر ایک فرد دوسرے کے دکھ کو اپنا دکھ اور دوسرے کے آرام کو اپنا آرام نہ سمجھے.دیکھو کسی طبیب کی طبیعت وہاں علاج کرنے.ނ

Page 365

خطبات محمود جلد ۴ ۳۵۶ سال ۱۹۱۵ء گھبراتی ہے جہاں ایک بیماری کا علاج کرے تو دوسری پیدا ہو جائے.کیوں؟ اس لئے کہ اگر وہ جگر کا علاج کرتا ہے تو معدہ خراب ہو جاتا ہے اور اگر معدہ کا علاج کرتا ہے تو سینہ خراب ہو جاتا ہے.پس جہاں دو چیزیں ایسی مقابلہ میں آجاتی ہیں کہ ایک سے دوسری بیماری اور دوسری سے تیسری بیماری پیدا ہو جاتی ہے اور ایک عضو کے ساتھ دوسرا بیمار ہو جاتا ہے تو اس وقت انسان کو آرام نہیں ہو سکتا.اسی طرح جس قوم کے افراد ایسے ایک دوسرے سے دور ہوں کہ اگر ایک کو سکھ پہنچے تو دوسرے کو دکھ محسوس ہو اور اگر ایک کو تکلیف پہنچے تو دوسرے کو آرام ہو اس قوم کیلئے کسی قسم کی ترقی کی امید نہیں ہو سکتی.یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو خدا تعالیٰ نے بار بار قرآن شریف میں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ اگر تم ترقی کرنا چاہتے ہو اور کامیاب قوم بننا چاہتے ہو تو آپس کے لڑائی جھگڑوں کو چھوڑ کر ایک ہو جاؤ.فرمایا وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا کہ آپس کے اختلافات کو چھوڑ دو اور حبل اللہ کو مضبوط پکڑ لو.جب تمام آدمی ایک رستہ کو پکڑ لیتے ہیں تو میں نے دیکھا ہے ان میں سے اگر ایک کو جھٹکا لگے تو سب کو لگتا ہے گویا خدا تعالیٰ نے اتفاق اور اتحاد کا یہ نشان بتایا ہے حبل اللہ کو ایسا مضبوط پکڑو کہ ایک کے سکھ میں سارے سکھ محسوس کرو اور ایک کے دکھ میں سب کو دکھ پہنچے جب کسی قوم کے لوگ ایسے ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ایسی قوم کی ترقی کے راستے کھول دیتے ہیں.ہماری جماعت کو جہاں اور بڑے بڑے کاموں کی طرف توجہ ہے وہاں اس طرف بھی بہت توجہ کرنی چاہئیے.میں نے دیکھا ہے کہ اس میں ابھی کمی ہے جہاں کوئی جھگڑا یا اختلاف ہوتا ہے وہاں ذاتی اغراض کو مدنظر رکھ کر جماعت کے اغراض و مقاصد کو قربان کیا جائے تو افسوس کی بات ہے.یادرکھنا چاہئیے کہ اس وقت تک کبھی ترقی نہ ہوگی جب تک کہ ذاتی فوائد کو قومی فوائد پر قربان نہ کیا جائے گا.پس ہمارے دوستوں کو چاہیے کہ اس طرف بہت توجہ کریں کیونکہ جب تک تمام قوم میں اتحاد اور اتفاق نہ ہو اور تمام قوم ایک سلک میں منسلک نہ ہو اور ہر ایک دوسرے کے دکھ سکھ کو اپنا دکھ سکھ نہ سمجھے ترقی ہونا ناممکن ہے.کبھی کوئی انسان یہ نہ دیکھے گا کہ کسی کی آنکھ کو دکھ ہوا اور اس کا باقی جسم آرام میں ہو یا ناک، کان ، ہاتھ ، پاؤں وغیرہ اعضاء میں تکلیف ہو تو باقی جسم میں دکھ نہ ہو.پس ہماری جماعت کو چاہیے کہ آپس میں جسم کے اعضاء کی طرح ہو جائیں بیمار اعضاء کی طرح نہیں بلکہ

Page 366

خطبات محمود جلد ۴ ۳۵۷ سال ۱۹۱۵ء تندرست اعضاء کی طرح ہو جائیں کیونکہ جب تک یہ نہیں ہوگا قومی ترقی مشکل اور نہایت مشکل ہے.پھر آپس کے اختلافات میں کئی جگہ جھگڑے ہوتے ہیں جن کا اگر نتیجہ دیکھا جائے تو یہ ہوتا ہے کہ اپنے کسی رشتہ دار کا خواہ وہ غیر احمدی ہی کیوں نہ ہو لحاظ کر کے احمدی کو نقصان پہنچایا جاتا ہے.پس جو ایسا کرتا ہے وہ قومی اتحاد اور اتفاق کو پراگندہ کرتا ہے اور قومی یک جہتی کو توڑتا ہے.یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ جو کوئی جماعت میں داخل ہو گیا وہ اپنا ہو گیا اور سب امیر وغریب ایک ہو گئے.وہی ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں وہی ایک دوسرے کے عزیز ہیں اور وہی ایک دوسرے کے دوست اور محب ہیں.باقی دوسروں سے جب مذہبی جدائی ہوگئی تو پھر وہ جسمانی رشتہ دار کہاں ہو سکتے ہیں.پس یہی ہماری برادری ہے جو خدا تعالیٰ نے لاکھوں کی تعداد میں پیدا کر دی ہے.جو بھی احمدی ہے وہ ہمارا رشتہ دار، ہمارا عزیز اور ہمارا پیارا ہے، وہ ہم میں سے ہے اور ہم اس سے ہیں اور جو احمدی نہیں وہ ہمارا کچھ بھی نہیں.ہاں اس کے ساتھ اس وقت اور اس حد تک تعلق ہے جہاں تک کہ دنیا کے چین اور امن میں اس سے فائدہ پہنچتا ہے اور دنیاوی کاروبار اس سے متعلق ہیں.مگر تمدن قومی اور جماعت کے فوائد کا جہاں تک تعلق ہوگا اور ی جماعت اور قوم کو جہاں اس سے نقصان پہنچتا ہو گا وہاں وہ کچھ بھی نہیں ہوگا اور وہی ہمارا بھائی وہی ہمارا عزیز ہو گا جو ہماری قوم میں سے ہوگا، اسی کے فوائد ہمارے زیر نظر ہوں گے.جب تک یہ بات پیدا نہ ہو جائے اس وقت تک یہ خیال کر لینا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے نصرت اور مدد آئے گی محال ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَا ءِ فَأَلَّفَ بَيْن قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ اِخْوَانًا.تم میری نعمت کو یاد کرو تم ایک دوسرے کے دشمن تھے میں نے تمہیں بھائی بھائی بنادیا.کیا ہی لطیف بات بیان فرمائی کہ جب ہم نے تمہاری دشمنی کو مٹا کر تمہیں دوست بنا دیا ہے اور تم ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہو گئے ہو تو بھائی کے ساتھ بھائی کو محبت رکھنا کیا مشکل ہے؟ بھائی کس طرح بنا دیا.بھائی ان کو کہا جاتا ہے جو ایک باپ کے بیٹے ہوتے ہیں اور ان کا آپس میں اس لئے سلوک ہوتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک باپ کے بیٹے ہیں.دنیا میں جب لڑائیاں اور فساد پیدا ہو جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ اپنے مامور کو بھیج دیتا ہے.پس جتنے لوگ اس مامور سے تعلق پید ا کرتے جاتے ہیں وہ ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہو جاتے ہیں.تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ایک آدمی کے ساتھ تعلق کرا کر

Page 367

خطبات محمود جلد ۴ ۳۵۸ سال ۱۹۱۵ء تم کو ایک باپ کے بیٹے بنادیا اور یہ اس حالت میں بنایا جب کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے حالانکہ دشمن سے دوستی پیدا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے.جب ہم نے تمہیں دشمنوں سے ایک دوسرے کے بھائی بنا دیا تو تم ایسے کاموں سے پر ہیز کرو جن سے بھائی دشمن بن جائے.پس ہماری جماعت کو چاہئیے کہ خدا نے اپنے فضل سے ہمیں بھائی بھائی بنا دیا ہے تو اب یہ تمہارا کام ہے کہ اس برادرانہ تعلق کو کمزور نہ کرو بلکہ مضبوط کرو اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ آپس میں لڑائی جھگڑے نہ ہوں، ایک بھائی کے مفاد کو اپنا مفاد سمجھا جائے ، ایک بھائی کے دکھ کو اپنا دکھ خیال کیا جائے اور ایک بھائی کے سکھ کو اپنا آرام سمجھا جائے.ہماری جماعت کو تو کچھ مشکل ہی نہیں کیونکہ یہ ایک عادل گورنمنٹ کے زیر سایہ ہے لیکن جہاں ایسا نہیں ہوتا وہاں وہ قوم بہت جلد تباہ ہو جاتی ہے جس میں اتحاد نہ ہو اور جس کے افراد بھائی بھائی کی طرح نہ ہوں.حالات قومی کے بڑھنے کے ساتھ لڑائی اور فساد بھی بڑھتے ہیں ان کی وجہ سے قو میں بہت ہے سی برکتوں سے محروم ہو جاتی ہیں اس لئے ہماری جماعت کو خیال رکھنا چاہیئے کہ اگر جھگڑا اور فساد کے وقت ایک آدمی گرم ہے تو دوسرا نرم ہو جائے.اگر ایسا کرو گے تو دیکھو گے کہ اسی گرم آدمی کے ساتھ ایسا اتحاد ہو جائے گا کہ وہ تمہاری جگہ خون بہانے کو تیار ہو گا.اگر ایک لڑائی کیلئے ہاتھ اٹھائے تو دوسرا نہ اٹھائے.اس وقت کے گزرجانے کے بعد دیکھنا کس قدر فائدہ ہوتا ہے.تھوڑی سی دیر کیلئے منہ کو بند نہ کر کے جھگڑے کو طول دینے کی وجہ سے قومی مفاد کو پراگندہ کر دینا بہت نادانی ہے.پس ہماری جماعت کو اس کا بہت خیال رکھنا چاہیئے.ہماری برادری اور رشتہ دار احمدی جماعت ہونی چاہئیے بلکہ احمدی کیا اسلام ہونا چاہیئے کیونکہ اسلام وہی ہے جو ہمارے پاس ہے.احمدی تو تمیز کیلئے نام رکھا گیا ہے.اسلام تمام رشتہ داریوں کو مٹا کر ایک ایسی وسیع پیمانہ پر رشتہ داری مقرر کر دیتا ہے جس میں ہر قوم ہر ملک اور طبقہ کے لوگ ہوتے ہیں اور جو بھی اسلام قبول کرتا ہے وہ دوسروں کا بھائی بن جاتا ہے.اللہ تعالے ہماری جماعت کو اس بات کی توفیق دے کہ تمام جماعت ایک رشتہ میں مربوط ہو اور وہ مشکلات جو کسی جماعت کی ترقی میں روک ہو جاتی ہیں آسان ہو کر ترقی کا راستہ صاف ہو جائے.ا ال عمران : ۱۰۲ ۱۰۳ الفضل ۲۷ مئی ۱۹۱۵ ء )

Page 368

خطبات محمود جلد ۴ ۳۵۹ (<•) خوف اور طمع کے بغیر ایمان کامل نہیں ہو سکتا (فرموده ۲۸ مئی ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے جو قدیم سے چلی آتی ہے کہ وہ ہر انسان کے ساتھ ہی نہیں بلکہ ہر قوم اور ہر جماعت کے ساتھ اپنے معاملہ میں ایسا طریق اختیار فرماتا ہے کہ ہر ایک انسان اور ہر ایک قوم کی توجہ ایک طرف ہی نہ لگ جائے.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے بار بار فرمایا ہے کہ مومن کا ایمان اُسی وقت کامل اور اُسی وقت نفع رساں ہوتا ہے جبکہ وہ خوف اور طمع کے درمیان ہو جیسا کہ فرمایا تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْهُم يُنْفِقُونَ اس کے نتیجہ میں فرمایا: فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةٍ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ.تو وہ ایمان کامل جو نفع رساں اور بہتری کا موجب ہو وہ وہی ہوتا ہے جو خوف اور طمع کے درمیان ہو اور دونوں باتوں کے بین بین ہو.یعنی اگر ایک طرف اللہ تعالیٰ کی رحمانیت ، رحیمیت، فضل ، ربوبیت اور کرم پر نظر ہو اور انسان یہ خیال کرے کہ جس قدر دنیا کی مہربان ہستیاں ہیں ان کی محبت اور مہربانی خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں کوئی ہستی نہیں رکھتی تو دوسری طرف وہ اس فکر میں بھی لگا ر ہے کہ خدا تعالیٰ انسان کی اصلاح کیلئے کبھی کبھی سزا بھی دیتا ہے اور پھر خدا تعالیٰ سے بڑھ کر دُنْیا وَمَا فِيهَا میں کوئی ایسی ہستی نہیں جو خدا کی سزا کے برابر سزا دے سکے ، خواہ وہ علماء اور حکماء ہوں، خواہ ایجاد و اختراع کرنے والے ہوں، خواہ کی

Page 369

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۵ء دنیا کے امراء اور بادشاہ ہوں ، خواہ بڑی بڑی حکومتوں اور سلطنتوں والے ہوں اور خواہ عوام الناس ہوں کوئی بھی ان میں سے ایسی طاقت نہیں رکھتا جو اللہ کی سزا اور گرفت کے مقابلہ میں سزا اور گرفت کر سکے.سو اس بات کو یاد رکھنا چاہئیے کہ جب تک انسان کا ایمان ان دونوں دیواروں کے اندر نہ آجائے اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا بلکہ خطرہ میں رہتا ہے کیونکہ کامل ایمان اسی وقت ہوتا ہے جبکہ یہ دونوں باتیں پیدا کی جائیں ایک خوف کے اسباب دوسرے طمع کے سامان.چونکہ انسان کے کمال کا ظہور اُس وقت تک نہیں ہے ہوسکتا جب تک ایمان کامل نہ ہو.اور ایمان کامل اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک خوف اور طمع کے درمیان نہ ہو اس لئے خدا تعالیٰ کی یہ قدیم سے سنت ہے کہ جس قوم یا جس جماعت کو وہ ترقی دینا چاہتا ہے یا جس انسان کا درجہ بلند کرنا چاہتا ہے اس کیلئے یہ دونوں قسم کے سامان پیدا کر دیتا ہے.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ لوگ جہاں دنیا میں سب سے بڑے مُنْعَمُ عَلَيْهِ ہوتے ہیں اور جہاں خدا تعالیٰ کے افضال کی ان پر ہر وقت بارش ہوتی ہے وہاں دوسرے لوگوں کی نسبت انہیں زیادہ خطرناک ابتلاؤں میں سے بھی گزرنا پڑتا ہے یہ دیکھ کر نادان انسان کہ دیتا ہے کہ جس طرح اور لوگ دکھ اور تکلیف میں پڑے ہوئے ہیں اسی طرح یہ بھی ہے اس لئے ہمیں کس طرح معلوم ہو کہ یہ خدا کا برگزیدہ ہے لیکن اگر کوئی غور کرے تو اسے معلوم ہو جائے کہ ان کیلئے ابتلاؤں کے سامان ان کے درجہ کی بلندی اور ایمان کی ترقی کیلئے ہوتے ہیں کیونکہ مومن کی ترقی اسی طرح ہوتی ہے.پس اگر اللہ تعالیٰ ایک طرف ایمان میں ترقی دینے کے لئے طمع کے سامان مہیا فرماتا ہے تو دوسری طرف ان کے راستہ میں مشکلات کی گھاٹیاں بھی لاتا ہے تا کہ اگر ایک پہلو سے طمع ہو تو دوسرے پہلو سے خوف سے باہر نہ نکل جائیں.سورۃ فاتحہ میں خدا تعالیٰ نے جو دعا سکھائی ہے اس میں بھی اسی طرف متوجہ فرمایا ہے کہ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّين ۲؎ یعنی وہ رب العلمين جو رحمن اور رحیم ہے اور وہ خدا جس نے اعمال کو دیکھ کر جزاء وسزا دینی ہے ہم اس کی حمد کرتے ہیں.اس آیت میں ایک طرف رحمن اور رحیم صفات کو بیان فرما یا تو دوسری طرف ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ بھی فرما دیا.ان کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ یہ صرف صفات الہیہ ہی ہیں یا دنیا کا تجربہ بھی اس کی تصدیق کرتا ہے اس لئے فرما یا یہ صفات ہی نہیں

Page 370

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۵ء بلکہ تجربہ بتا تا ہے کہ اگر ایک طرف فضل الہی نازل ہورہے ہوں، انعام واکرام کی بارش ہو رہی ہے اور آرام اور سکھ مل رہے ہیں تو دوسری طرف غضب الہی بھی ہے جو خدا کے احکام کے توڑنے والوں پر گرتا ہے.اور یہ دونوں قسم کی باتیں ثابت کر رہی ہیں کہ اگر ایک جماعت خدا تعالیٰ کے دروازے کی طرف جارہی ہے تو دوسری اس دروازے کے راستہ سے بھٹک کر واپس آرہی ہے.پس یہ بات یادرکھنی چاہئیے کہ انسان کی ترقی کیلئے ابتلاؤں کا آنا ضروری ہے کیونکہ ایمان اُس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ خوف اور طمع دونوں کے وقت ایمان ترقی نہ کرے اور اگر کوئی خدا کی محبت اور عشق میں ایسا چور ہو کہ ایک منٹ کیلئے بھی خدا کو نہ بھلا سکے تو دوسری طرف یہ بھی چاہئیے کہ ایک منٹ کیلئے بھی خدا تعالیٰ کے احکام کے خلاف کرنے کا خیال دل میں نہ لائے کیونکہ اگر خدا تعالیٰ کا رحم اور فضل غیر محدود ہے تو اس کا عذاب بھی بڑا سخت ہے اور اس نے اگر ایک طرف ترقی رکھی ہے تو دوسری طرف تنزل بھی رکھا ہے.اگر نور ہے تو اس مقابلہ میں ظلمت ہے، اگر صحت ہے تو اس کے مقابلہ میں بیماری ہے، اگر خیر ہے تو اس کے مقابلہ میں شر ہے، اگر راحت ہے تو اس کے مقابلہ میں دکھ ہے.یہ خدا تعالیٰ نے مقابلہ میں باتیں رکھی ہیں کیوں؟ اس لئے کہ انسان کی ترقی کیلئے دونوں پہلوضروری ہیں.پس کبھی ایسا زمانہ ہوتا ہے کہ جماعت اور قوم پر راحت اور آرام آتا ہے تو ترقی کرتی ہے اور کبھی ابتلاء آتے ہیں ان میں ترقی کرتی ہے.جو مومن ہوتے ہیں وہ دونوں حالتوں میں ترقی کرتے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو راحت کے زمانہ میں تو ساتھ چلتے رہتے ہیں لیکن دکھ اور تکالیف کے زمانہ میں چھوڑ کر الگ ہو جاتے ہیں مومن دونوں حالتوں میں سے گزرتا ہے.وہ اگر ایک طرف یہ سمجھتا ہے کہ مجھ پر خدا تعالیٰ کے انعام واکرام ہوئے ہیں تو دوسری طرف دکھوں اور ابتلاؤں سے اس کا ایمان مضبوط ہوتا ہے اور جب وہ دونوں امتحانوں میں پاس ہو جاتا ہے یعنی آگ اور پانی سے سلامت نکل آتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کا درجہ بہت بلند کر دیتا ہے.پس مومن کو چاہئیے کہ جیسا آرام اور راحت میں خوش ہو ایسا ہی اگر ابتلاء آ ئیں تو بھی خوش ہو کیونکہ اس سے اس کی ترقی ہوگی اس طرح اسے صاف کیا جاتا ہے نہ کہ مٹایا جاتا ہے.کیا لوہار لوہے کو بھٹی میں اس لئے ڈالتا ہے کہ جلا دے نہیں بلکہ صاف کرنے کیلئے ڈالتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ بھی ابتلاؤں میں ڈالتا ہے تو اسی لئے کہ انسان کے

Page 371

خطبات محمود جلد ۴ صاف ہو جائے.۳۶۲ سال ۱۹۱۵ء بہت لوگ ابتلاؤں سے ٹھو کر کھا جاتے ہیں لیکن یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ طمع اور خوف کے بغیر ایمان کامل ہو ہی نہیں سکتا.خدا تعالیٰ کے نبیوں سے بڑھ کر کون انسان اعلیٰ درجہ کا ہوتا ہے مگر ان کیلئے بھی یہ دونوں باتیں ہوتی ہیں کوئی نبی ایسا نہیں آیا کہ جس کو دونوں قسم کے حالات سے نہ گزرنا پڑا ہو.چونکہ ہماری جماعت سے خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے وعدے ہیں اس لئے یاد رکھو کہ اگر ہم ان وعدوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں تو دوسری طرف اس بات کیلئے بھی تیار رہنا چاہیئے کہ ایسے وعدوں کے پورا ہونے کیلئے خدا تعالیٰ کی طرف سے ابتلاء بھی آتے ہیں اور جو ان میں ثابت قدم رہتے ہیں انہی کو کامیابی ہوتی ہے.اگر کوئی انسان جو آرام اور راحت میں رہ کر ہر وقت کامیابی ہی کامیابی چاہتا ہے تو وہ سنت اللہ سے واقف نہیں ہے، ممکن ہے اسے آج ہی ٹھوکر لگے یا کل.پس تمہیں جہاں کا میابی کی امید ہو وہاں خدا تعالیٰ کے ابتلاؤں کیلئے بھی تیار رہنا چاہئیے.اللہ تعالیٰ ہمارے قدموں کو محسر یسر ، آرام و تکلیف میں ثابت رکھے اور اپنے فضلوں سے ہماری کمزوریوں پر نظر ترحم کرتے ہوئے ہمارے لئے ترقیوں اور کامیابیوں کے راستے کھول دے.(آمین) الفضل ۳.جون ۱۹۱۵ء) ل السجده : ۱۸،۱۷ الفاتحة: ٢ تام

Page 372

خطبات محمود جلد ۴ ۳۶۳ (۷۱) مقابلہ اور لڑائی میں بھی تمہارا طریق ظالمانہ نہ ہو (فرمودہ ۴.جون ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللهَ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ اس کے بعد فرمایا:.قرآن کریم نے انسان کی زندگی کے لئے جس قدر ضروری مسائل تھے ان سب کو خوب کھول کھول ہے کر بیان کر دیا ہے اس لئے ایک ایسا شخص جو قرآن شریف پر ایمان لاتا اور اس کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اسے اپنی زندگی کے کسی پہلو میں بھی روحانی ترقی کرنے یا روحانیت کو قائم رکھنے کے لئے کسی اور کتاب کی کچھ ضرورت نہیں ہے، نہ وہ اس بات کا محتاج ہے کہ دوسرے مذاہب کے علماء سے کسی بات کے متعلق فتویٰ پوچھے، نہ وہ اس بات کا محتاج ہے کہ کسی اور مذہب کی کتاب سے کوئی فتویٰ ڈھونڈے، اور نہ اس کو اس بات کی ضرورت ہے کہ اپنے عقل و فکر سے کسی معاملہ کے متعلق کوئی بات دریافت کرے.ہاں اگر اس کو ضرورت ہے تو اس بات کی کہ قرآن شریف پر غور وفکر اور تدبر کرے کیونکہ جو کچھ ضرورتیں اس کو در پیش ہیں اور جور کا وٹیں اس کے رستہ میں حائل ہیں ان سب کو دور کرنے کا طریق قرآن شریف نے بتا دیا ہے.انسان کی زندگی میں جہاں بہت سے دوست، عزیز اور محبت کرنے والے ہوتے ہیں وہاں

Page 373

خطبات محمود جلد ۴ ۳۶۴ سال ۱۹۱۵ء دشمنوں سے بھی اسے مقابلہ کرنا پڑتا ہے.اور اگر ایک طرف ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اس کی عزت و آبرو اور راحت و آرام کیلئے اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں تو دوسری طرف ہر ایک انسان کیلئے ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اس کو دکھ اور مصیبت میں ڈالنے کے لئے اپنے آپ کی بھی پرواہ نہیں کرتے.بہت سے ایسے انسان ہوتے ہیں جو اپنی جان و مال اور عزت کو اس خیال سے برباد کر دیتے ہیں کہ دوسرے کی جان و مال اور عزت تباہ ہو جائے.ہر ایک انسان کو یہ باتیں پیش آتی ہیں کہ کوئی اس کی محبت کا دم بھر رہا ہے تو کوئی اس کی دشمنی کی آگ کو سینہ میں دبائے ہوئے ہے، کوئی اس کا عزیز ہے تو کوئی اس کے خون کا پیاسا، کوئی جان دینے کے لئے تیار ہے تو کوئی جان لینے کے در پے.پس جب ہر ایک انسان کی زندگی کا یہ حال ہے تو وہ کتاب جو انسان کی روحانی ترقی کیلئے آئی ہو اس کا یہ بھی کام ہے کہ جہاں وہ دوستوں ، عزیزوں اور پیاروں کے ساتھ برتاؤ کا طرز بتائے وہاں دشمنوں اور مخالفوں کے ساتھ سلوک کرنے پر بھی روشنی ڈالے.قرآن شریف نے دونوں طریق بتائے ہیں.اگر ایک طرف والدین، بھائی، بہن وغیرہ رشتہ داروں ، دوستوں، آشناؤں اور تمام بنی نوع انسان سے خواہ وہ کسی قوم کسی مذہب کسی ملک کے ہوں، خواہ کسی عمر کے ہوں ، مرد ہوں، عورتیں ہوں، بچے ہوں بوڑھے ہوں، ان سب کے تعلقات اور سلوک کی ہدایات بتائی ہیں تو دوسری طرف دشمنوں اور معاندوں سے بھی سلوک کرنا بتایا ہے.یہ آیت جو میں نے پڑھی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ دشمن کے ساتھ تمہیں کس طرح معاملہ کرنا چاہئیے.فرمایا لڑو اور جنگ کرو اللہ کے راستہ میں یعنی دین کے معاملہ میں تمہیں جنگ کرنے کا حکم ہے مگر کہاں اور کن لوگوں سے؟ ان سے جو تم پر حملہ آور ہوں.اگر وہ تمہیں دین کے معاملہ میں تنگ کریں اور تمہیں دین سے ہٹانے اور بدلانے کیلئے یا تمہارے دین کو مٹانے کیلئے جنگ کریں تو تم بھی ایسے لوگوں سے ضرور جنگ کرو لیکن یہ بھی یا درکھو کہ تمہیں یہ اجازت نہیں کہ کسی قوم پر اس لئے حملہ کر دو کہ وہ تمہارے دین میں نہیں ہے اور تمہارے مذہب کو قبول نہیں کرتی، قرآن شریف کو نہیں مانتی.ہاں اگر کوئی قوم تمہیں مذہب سے برگشتہ کرنے اور تمہارے مذہب کو تباہ کرنے کیلئے تم پر حملہ کرے تو پھر تمہیں اس سے لڑنے کی اجازت ہی نہیں بلکہ حکم ہے، پس تم ضرور اس سے لڑ ولیکن ایک اور بات بھی لڑائی کے وقت تمہارے مد نظر رہنی چاہئے اور وہ یہ کہ جنگ میں جوش اور غصہ کی وجہ سے انسان کے ہوش اڑ جاتے ہیں.بہت لوگ نرم طبع

Page 374

خطبات محمود جلد ۴ ۳۶۵ سال ۱۹۱۵ء ہوتے ہیں لیکن اگر ایک دفعہ انہیں غصہ آجائے تو پھر ان کے جوش کی کوئی حد نہیں رہتی.وہ اس جوش میں تمام اخلاقی تعلیمیں اور اخلاقی جذبات کو بھول جاتے ہیں.بعض انسان تو ایسے ہوتے ہیں کہ بہت سی سخت باتوں کو برداشت کر جاتے ہیں اور بڑی تکلیفیں اٹھا لیتے ہیں اور غصہ نہیں ہوتے لیکن جب ایسے انسان غصہ ہو جا ئیں تو ایسے سخت غصہ ہوتے ہیں کہ تمام نرمی کو بھول جاتے ہیں.خدا تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے کہ اگر دشمنوں سے تمہاری جنگ ہو تو اس بات کا خیال رکھنا کہ جوش اور غصہ میں حد سے نہ گزر جاؤ کیونکہ مسلمان کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے.اس میں خدا تعالیٰ نے دو شرطیں بیان فرمائی ہیں.ایک یہ کہ لڑ و مگر ان لوگوں سے لڑو جو تم پر حملہ آور ہوں اور وہ جو حملہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ان پر تم حملہ نہ کرنا یعنی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں سے نہ لڑنا ، جو تلوار اٹھا کر مقابلہ پر آئیں ان لوگوں سے جنگ کرنا.دوسری شرط یہ کہ جن لوگوں سے تم لڑو ان سے ایسے طریق سے لڑو کہ ظالمانہ طریق نہ ہو.آج کل جنگ ہو رہی ہے وہی تو میں جو بڑی مہذب بنتی تھیں آج ایسے طریق اختیار کر رہی ہیں جو کہ ظالمانہ ہیں کہیں گیسیں استعمال کی جاتی ہیں تو کہیں قیدیوں کو پکڑ کر لڑائی کے وقت اپنے آگے رکھا جاتا ہے.خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ تم ایسے دشمنوں سے لڑو جو تم پر حملہ آور ہوتے ہیں لیکن لڑائی میں اعتداء نہ کرنا بلکہ وہ طریق اختیار کرنا جو ظالمانہ نہ ہو.یہ بھی اعتداء میں داخل ہے کہ دشمن کا لباس پہن کر یا اس کا نشان دکھا کر حملہ آور ہونا یا صلح کے بہانے حملہ کر دینا.یہ سب ایسے طریق ہیں جو باوجود دشمن کے ساتھ لڑائی کرنے کے بھی جائز نہیں ہیں.لڑائی کے وقت بھی انسان کو انسانی حدود کے اندر رہنا چاہئیے.اللہ اعتداء کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا.فرمایا مسلمانوں کی قوم تو وہ قوم ہے جسے خدا کا محبوب بننا چاہئیے اگر تم لوگ ہی وقتی غصہ اور جوش میں آکر اعتداء کرو گے تو خدا کے محبوب نہیں بن سکو گے.کیونکہ اگر تم لڑائی کے وقت ان حدود کو تو ڑ کر آگے نکل جاؤ گے تو یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ تمہاری لڑائیاں نفسانی اور اپنی خواہشات کی لڑائیاں ہیں نہ کہ خدا کیلئے.اس بات پر خدا تعالیٰ نے کیوں بار بار زور دیا.میں نے بتایا ہے کہ جنگ کے وقت ہوش نہیں رہتے.دیکھو وہی مہذب قومیں جن کا سب سے بڑا اعتراض قرآن شریف پر یہ تھا کہ یہ لڑائی اور جنگ کی تعلیم دیتا ہے اور قتل و غارت کا سبق پڑھاتا ہے آج ایسے ایسے شرمناک

Page 375

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۵ء طریق پر جنگ کر رہی ہیں کہ ان کا نام لیتے ہوئے بھی شرم آتی ہے.یہ لوگ کیوں ایسا کرتے ہیں اس لئے کہ غصہ اور غضب میں سب کچھ بھول گئے ہیں.خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو بتایا ہے کہ ایسے موقع پر تمہیں بہت ہی ہوشیار رہنا چاہیئے تا ایسانہ ہو کہ کوئی نا جائز بات کر بیٹھو.میں نے یہ آیت ایک خاص غرض کیلئے پڑھی تھی لیکن حلق خراب ہے.اس لئے زیادہ بولا نہیں جاتا.تاہم کچھ مختصر سا بیان کر دیتا ہوں.۳۰ مئی کے اخبار پیغام صلح میں ایک مضمون چھپا ہے جو ایک ایسے شخص نے لکھا ہے جو کہتا ہے کہ میں قادیان سے ان باتوں کو اچھی طرح معلوم کر کے آیا ہوں.وہ لکھتا ہے کہ دوسرا منافقانہ طریقہ یہ اختیار کر رکھا ہے کہ بیعت میں عہد لیا جاتا ہے کہ مرزا غلام احمد صاحب کو مہدی مسعود اور مسیح موعود مانو اور پیغمبر خدا کو خاتم النبيين مانو.جب جماعت میں داخل ہو جاتا ہے تو رفتہ رفتہ معلوم کراتے ہیں کہ مسیح موعود خود خاتَمَ النَّبِيِّينَ ہیں.پہلے امتی نبی تھے پھر حقیقی نبی ہو گئے.لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رّسُولُ الله حضرت صاحب کا ہی کلمہ ہے.قرآن شریف دنیا سے مفقود ہو گیا تھا.موجودہ قرآن شریف مسیح موعود پر نازل ہوا ہے بھلا یہ منافقت نہیں تو پھر کیا ہے؟ پھر وہ کذاب لکھتا ہے کہ قادیان والے یہ اعتقادر کھتے ہیں کہ زیارت قادیان حج بیت اللہ ہے.پھر ہماری طرف یہ بات منسوب کرتا ہے کہ قرآن شریف دنیا سے اٹھ کر ثریا پر چلا گیا تھا مسیح موعود نے دوبارہ ہم کولا کر دیا لہذا ہم پر آنحضرت صلانی ایم کا کوئی احسان نہیں ہے مسیح موعود خاتم الانبیاء ہیں.مسیح موعود حقیقی نبی ہیں ، اسی طرح کے کئی ایک جھوٹ اس نے بولے ہیں اور خوب دل کھول کر جھوٹ کی غلاظت پر منہ مارا ہے.مجھے حیرت ہے کہ ان لوگوں کی عقل اور سمجھ کہاں گئی ہے اور انہیں کیا ہو گیا مگر یہ دشمنی اور عداوت کا نتیجہ ہے کہ اس میں عقل ماری جاتی ہے اور جائز نا جائز میں تمیز کرنے کی اہلیت نہیں رہتی.قرآن شریف نے کیا ہی لطیف بات بیان کی ہے کہ اے مسلمانو ! تم اپنے دشمنوں سے لڑو.اگر تلوار کی جنگ ہو تو تلوار سے اور اگر تحریری اور تقریری جنگ ہو تو اس طرح اور یہ تمہارا حق ہے کہ جن لوگوں کو تم حق پر نہیں سمجھتے ان سے خوب بحث و مباحثہ کرو.ایک مسلمان کا فرض ہے کہ ایک آریہ سے مذہبی بحث کرے اور جہاں تک اس کی طاقت ہو خوب زور سے کرے اور ایسا ہی کرنے کا آریہ کو بھی حق ہے لیکن کسی کو یہ حق نہیں کہ ایک دوسرے پر افتراء کرے، جھوٹ بولے اور دوسرے کی طرف وہ باتیں

Page 376

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۵ء منسوب کرے جو اس نے نہیں کہیں یا اس کا مذہب نہیں کہتا.اسی طرح مومن کا فرض ہے اور ہر ایک مومن کا خدا تعالیٰ نے یہ کام مقرر فرمایا ہے اس لئے اسے چاہیئے کہ آریوں ، عیسائیوں، برہموؤں اور یہودیوں وغیرہ کو خوب تبلیغ کرے اور پورے زور سے کرے لیکن مباحثہ میں یہ بات ضرور مد نظر رکھے کہ جھوٹ اور افتراء سے کام نہ لے کیونکہ جو قوم جھوٹ اور افتراء کو استعمال کرتی ہے وہ اپنی شکست کا خود اقرار کرتی ہے.گویاوہ یہ مانتی ہے کہ ہمیں اپنے دشمنوں اور مخالفوں میں اب کوئی عیب نظر نہیں آتا ، اس لئے ہم خود ان کیلئے باتیں بناتے ہیں.اگر کوئی ایسا مذہب ہے جو جھوٹ کو پھیلاتا اور سچائی کو دباتا ہے تو اس کیلئے افتراء اور جھوٹ کی کیا ہے ضرورت ہے اس میں تو خود بہت سی ایسی باتیں ہوں گی جو اس کے نقائص کی تصدیق کریں گی اور اسے لغوی مذہب قرار دیں گی.کہا گیا ہے کہ مبائعین آنحضرت سالم کو خاتم النبین نہیں مانتے.لیکن مجھے افسوس آتا ہے ان لوگوں پر جو یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی شام کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا اور پھر باوجود اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین بھی کہتے ہیں وہ خاتم یعنی مہر ہی کیا ہوئی جو کسی کا غذ پر نہ لگی اور اس نے کسی کاغذ کی تصدیق نہ کی.اسی طرح نبی کریم خاتم النبین کیا ہوئے جب کسی انسان پر آپ کی نبوت کی مہر نہ لگی اور آپ کے بعد کوئی نبی نہ ہوا.اگر آپ کی امت میں کوئی نبی نہیں ہے تو آپ خَاتَمَ النَّبِین بھی نہیں ہیں اور اگر نبی ہے تب آپ خاتم النبین ہیں.باقی رہا یہ کہ آنحضرت سلیم سے کسی کو فضل ماننا، اگر کوئی شخص ایسا عقیدہ رکھتا ہے تو میں اس کے عقیدہ کولعنتی سمجھتا ہوں.کیونکہ کوئی عزت اور کوئی بڑائی آنحضرت صلی لا یہ تم کی فرمانبرداری اور اطاعت کے بجر نہیں مل سکتی.دنیا کی عزتیں اور بڑائیاں تو دنیا سے تعلق رکھتی ہیں مگر خدا تعالیٰ کے حضور عزت اس پاک انسان کی کفش برداری، اطاعت و فرمانبرداری کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہو سکتی.خواہ وہ مرزا غلام احمد ہی ہو یا اور کوئی شخص ہو.صرف آنحضرت مایا یہ تم کی غلامی میں ہی عزت ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود بھی فرماتے ہیں.ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے یہاں حضرت صاحب نے علام احمد میں نسبت اضافی رکھی ہے.پس اگر ہم مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں اور بعض پہلے نبیوں سے آپ کا رتبہ بلند یقین کرتے ہیں تو اس کے یہ معنی نہیں

Page 377

خطبات محمود جلد ۴ ۳۶۸ سال ۱۹۱۵ء کہ آپ کو ہم آنحضرت سلی اسلام سے بلند درجہ رکھنے والا سمجھتے ہیں بلکہ یہی سمجھتے ہیں کہ آپ نے جو کچھ پایا اور جو کچھ حاصل کیا وہ آنحضرت سلی لا یتیم کی غلامی میں پایا.اور آپ آنحضرت سلی یا پی ایم کے غلام ہی تھے پس جو شخص اس کے خلاف کوئی بات ہماری طرف منسوب کرتا ہے وہ اعتداء کرتا اور جھوٹ بولتا ہے.یہاں کوئی غیر مبائع نہیں.خدا تعالیٰ نے قادیان کو بھی مدینہ کی طرح بنا دیا ہے.آنحضرت صلی یک تیم فرماتے ہیں کہ مدینہ بھٹی کی طرح ہے ۲.جو خبیث اس میں پڑتا ہے اس کو نکال کر باہر پھینک دیتا ہے.قادیان میں بھی باوجود اس کے کہ ان لوگوں کے ہاتھ میں سب کچھ تھا اور سیاہ وسفید کے مالک بنے ہوئے تھے لیکن خدا تعالیٰ نے یہاں سے ان کو نکال کر باہر پھینک دیا.اب اگر کوئی ان کا ساتھی یہاں رہتا بھی ہے تو وہ منافقت کی حالت میں رہتا ہے اس کو اپنا آپ ظاہر کرنے کی جرات ہی نہیں.پس یہاں ایسے لوگوں کے سامنے جو سب کے سب میرے ہم خیال ہیں مجھے ظاہر کچھ اور پوشیدہ کچھ اور کہنے کی کیا ضرورت ہے.تم لوگوں کو قادیان آئے ہوئے کتنا عرصہ گزر گیا ہے کیا کسی کو بھی میں نے یہ کہا ہے کہ اصل خاتم النبین حضرت مسیح موعود ہی ہیں.جب تم لوگوں کو نہیں کہا تو وہ دکنی بد نصیب جو خدا جانے کس غرض سے یہاں پہنچا تھا دس دن میں ایسا مخلص کہاں ہو گیا تھا کہ اسے میں نے ایسی پوشیدہ باتیں کہہ دیں جو تم میں سے کسی کو نہ کہیں.پس کسی کی طرف وہ باتیں منسوب کرنا جو اس نے نہیں کہیں لعنتی آدمی کا کام ہے.ہمارا اس میں دخل نہیں خدا تعالیٰ چاہے تو ایسے آدمی کو سزا دے اور چاہے تو چھوڑ دے.مگر ہمارے لئے یہ خوشی کی بات ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہمارے دشمن کو اندھا کر دیا ہے اور اسے ہمارے بچے عیب نظر نہیں آتے.اگر کسی کا سچا اور درست عیب ظاہر کر دیا جائے تو وہ اس پر شرمندہ ہوتا ہے.ہم میں بھی کئی عیب ہیں کیونکہ ہم انسان ہیں اور کوئی انسان عیبوں سے خالی نہیں ہوتا مگر یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمارے دشمنوں کو ہمارے عیب نظر نہیں آتے اس لئے انہیں اب یہ ضرورت پڑی ہے کہ جھوٹ بنا کر پیش کریں، یہ ہماری فتح اور کامیابی کی علامت ہے.میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگوں پر غلط الزام لگتا ہے تو وہ کڑھتے اور رنج محسوس کرتے ہیں لیکن انہیں خوش ہونا چاہیئے کیونکہ دشمن کا ایسا کرنا خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم کی علامت ہے اور یہ اس طرح کہ جب انسان کسی گناہ میں مبتلا ہوتا ہے اور وہ گناہ بڑھتے بڑھتے

Page 378

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۵ء اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ سزا کے قابل ہوجاتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کے کسی دشمن کو کھڑا کر دیتا ہے جو اس پر جھوٹا الزام لگا تا اور بدنام کرنا چاہتا ہے.لیکن وہ چونکہ دراصل سچا ہوتا ہے اس لئے سمجھدار لوگوں کے نزدیک وہ مظلوم سمجھا جاتا ہے اور اس طرح اس کی عزت ہو جاتی ہے.اگر وہ بات جو اس پر الزام کے طور پر قائم کی گئی تھی صحیح ہوتی تو بے شک وہ بد نام اور بے عزت ہوتا لیکن دشمن کے افتراء اور جھوٹ بولنے کی وجہ سے اس کی عزت ہو جاتی ہے.کہتے ہیں کہ ایک دن رنجیت سنگھ کے لڑکے کے باورچی نے کھانے میں نمک زیادہ ڈال دیا تو اس نے ملازم کو حکم دیا کہ اسے سو کوڑے مارو.اس نے کہا حضور یہ تو اس پر بہت بڑا ظلم ہے کہ نمک کی زیادتی کی وجہ سے اتنی سخت سزا دی جائے.اس نے کہا میں نے تو اس پر احسان کیا ہے اس نے تو ہمارے کئی سو بکرے کھالئے ہیں.اب میں نے چھوٹی سی بات پر اس کو اس لئے سخت سزا دی ہے کہ لوگوں کے نزدیک اس کی عزت بنی رہے اور بدنامی نہ ہو کیونکہ وہ تو یہی سمجھیں گے کہ بے چارے کو نمک کی زیادتی کی وجہ سے مارا گیا ہے اور اصل بات ان سے پوشیدہ رہے گی.بڑے لوگ خدا تعالیٰ کے اخلاق کے مظہر ہوتے ہیں اس لئے یہ بھی لوگوں سے ایسا ہی سلوک کرتے ہیں کہ کسی کی بدنامی نہ ہو بلکہ عزت ہی قائم رہے.تو یہ خدا تعالیٰ نے فضل کیا ہے کہ ہمارے مخالفوں کو ہمارے پوشیدہ عیب نظر نہیں آتے اور انہیں اندھا کر دیا ہے اس لئے اب وہ جھوٹ بنانے پر اتر آئے ہیں.لیکن جب ہم نے خدا کی محبت کیلئے انہیں دور کر دیا ہے تو پھر ان کے حملے ہمارا کیا بگاڑ سکتے ہیں.مگر تم لوگ یاد رکھو کہ تمہارے بھی بہت دشمن ہیں لیکن تمہیں ان سے خواہ کتنا ہی خطر ناک مقابلہ کرنا پڑے تم جھوٹ ہرگز نہ بولنا.اگر کوئی تمہاری باتوں کو نہیں مانتا تو نہ مانے تم کوئی داروغہ نہیں ہو.آنحضرت سالی ایم کوخدا تعالیٰ نے داروغہ بنا کر نہیں بھیجا تو تم کون ہو.اللہ تعالی آنحضرت ملال ہی تم کو فرماتا ہے کہ تم کو ہم نے مصیطر کر کے نہیں بھیجا.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نگر ان اور داروغہ نہیں تو ہمارا تمہارا بھی اتنا ہی کام ہے کہ لوگوں تک حق کو پہنچادیں آگے جو خدا تعالیٰ مناسب سمجھے گا کرے گا.جس کو وہ آرام اور آسائش کا مستحق سمجھے گا اسے آرام و آسائش دے گا اور جسے سزا اور عتاب کے قابل پائے گا اس سے ایسا ہی سلوک کرے گا.بہت لوگ ہوتے ہیں جو حق کی بڑی مخالفت کرتے ہیں مگر مرنے سے پہلے ہدایت پا جاتے ہیں.تو کسی انسان کے اختیار میں یہ بات نہیں کہ دوسرے کو اپنی بات منوا بھی لے یہ

Page 379

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۵ء خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہی ہے.پس جو شخص ایسا چاہتا ہے گو یا وہ خدا تعالیٰ کے اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے.پس تم حق کے قبول کروانے کو خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو.ہاں خدا سے یہ کہو اے خدا ! ہم سچ بات کے مقابلہ میں دلیل دے سکتے ہیں اور اس طرح مخالف کو خاموش کرا سکتے ہیں لیکن جھوٹ کے مقابلہ میں ہم جھوٹ نہیں بول سکتے.اس لئے جھوٹ بولنے اور افتراء کرنے والے لوگوں کو آپ کے سپرد کرتے ہیں.آپ خود ان سے معاملہ کیجئے اور ہمیں اس قسم کے فریبوں اور جھوٹوں سے بچائے.آمین ثم آمین.ل البقرة: ١٩١ الفضل ۱۰ جون ۱۹۱۵ء) بخاری ابواب فضائل المدينة باب فضل المدينة وانها تنفى الناس الغاشية : ٢٣

Page 380

خطبات محمود جلد ۴ (۷۲) خدا تعالیٰ کے مقررہ راستوں پر چل کر ہی انسان فلاح پاسکتا ہے (فرموده ۱۸ - جون ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.إنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَائِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ والمنكر والبغي يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُم تذكرون.اس کے بعد فرمایا:.ہر کام کیلئے اللہ تعالیٰ نے کچھ طریق اور دروازے مقرر فرمائے ہوئے ہیں.جو انسان ان طریقوں اور دروازوں میں سے ہو کر کسی کام کو کرتے ہیں وہ کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن جو لوگ ان راستوں کو چھوڑ کر اور ان دروازوں کو اپنے اوپر بند کر کے ان کے علاوہ کسی اور طرح سے کامیابی چاہتے ہیں انہیں ہرگز کامیابی نصیب نہیں ہو سکتی.خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے رستے اور کھولے ہوئے دروازے کو چھوڑ کر کسی اور طریق اور دروازہ کی طرف جاتے ہوئے یہ یقین رکھنا کہ میں کامیاب ہو جاؤں گا بالکل عبث ہے.پس ہر ایک شخص کا فرض ہے کہ اگر وہ کامیابی دیکھنا چاہتا ہے اگر وہ با مراد ہونا چاہتا ہے اگر وہ فلاح پانا چاہتا ہے اور اگر وہ مظفر و منصور ہونا چاہتا ہے تو ہر ایک کام کے کرتے وقت اس بات پر غور کر لے کہ اس کے متعلق خدا تعالیٰ نے کون سے راستے مقررفرمائے اور کون سے دروازے کھولے.اگر وہ یہ دیکھے کہ میں ان رستوں پر قدم زن نہیں اور ان دروازوں سے نہیں گزررہا جو خدا تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں تو سمجھ لے کہ میرے لئے کامیابی

Page 381

خطبات محمود جلد ۴ ۳۷۲ سال ۱۹۱۵ء مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے.لیکن اگر ایسے رستوں پر چل رہا ہے اور ایسے دروازوں سے گزر رہا ہے جو خدا تعالیٰ نے اس کام کیلئے تجویز فرمائے ہیں تو اس کیلئے ضرور کامیابی ہے.یہ راستے خدا تعالیٰ نے ہر ایک کام کیلئے مقرر کئے ہوئے ہیں خواہ وہ کام روحانی ہو یا جسمانی.دیکھو انسان پر بیماریاں آتی ہیں اگر ان طریقوں پر ان کا علاج نہ کیا جائے جو ان کیلئے مقرر ہیں تو ہر گز شفاء نہیں ہو سکتی.مثلاً بعض علاج ایسے ہوتے ہیں جو سینہ کی بیماری کیلئے مفید ہوتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو معدہ کی بیماری کیلئے کارگر ہوتے ہیں لیکن اگر وہ علاج جو سینہ کی بیماری کیلئے ہے معدہ کی بیماری پر استعمال کیا جائے یا معدہ کا علاج سینہ کی بیماری پر برتا جائے تو ہر گز شفا نہیں ہوسکتی.اسی طرح اگر آنکھ میں ڈالے جانے والی دوا، خواہ آنکھ کیلئے کتنی ہی مفید کیوں نہ ہو لیکن کان میں ڈالنے سے کچھ فائدہ نہ دے گی کیوں؟ اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے اسے کان کیلئے نہیں بنایا بلکہ آنکھ کیلئے بنایا ہے اس لئے اس سے آنکھ کو ہی فائدہ ہو سکتا ہے.تو ہر ایک کام کیلئے رستے ہیں جو کوئی ان پر چلتا ہے فائدہ اٹھاتا ہے اور جو چھوڑتا ہے وہ نا کام اور نامرادرہنے کے علاوہ نقصان بھی اٹھاتا ہے.یہ جو آیت میں نے پڑھی ہے اس میں خدا تعالیٰ نے کامیاب ہونے کے کچھ راستے بتائے ہیں اور کچھ ایسے دروازے بھی بتائے ہیں جن سے بچنا چاہیئے.کیونکہ جب کوئی انسان ان سے گزرتا ہے تو تباہ و برباد ہو جاتا ہے.فرمایا.اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَايْتَائِ ذِي الْقُرْبى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے عدل اور احسان کرنے اور قریبیوں کو دینے کا یا ایسے رنگ میں دینے کا جو قریبیوں کا ہو اور روکتا ہے بڑی اور نا پسندیدہ باتوں سے اور سرکشی یعنی حد سے بڑھنے سے.یہاں اللہ تعالیٰ تین باتوں کے کرنے کا حکم دیتا ہے اور تین باتوں سے روکتا ہے.خدا تعالیٰ کا یہ نصیحت کرنا لغو ، بے فائدہ اور بیہودہ نہیں بلکہ اس نے لئے ہے کہ تم فائدہ اٹھاؤ.اگر تم ان کرنے والی باتوں کو مان لو گے اور منع کردہ طریقوں سے بچو گے تو کامیاب ہو جاؤ گے اور تمہیں بہت سکھ پہنچے گا.مومن کی یہی شان ہے کہ عدل ، احسان اور ایتائی ذی القربی کو مد نظر رکھے اور فحشاء ، منکر اور بغی سے بچے.بعض لوگ غصہ، طلیش اور اشتعال دلانے کے وقت انہیں بھول جاتے ہیں.کل ہی یہاں ایک معاملہ پیش ہوا کہ بحث میں کسی نے حضرت مسیح کی نسبت گندے الفاظ استعمال کئے ہیں.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اس نے کئے ہیں یات

Page 382

خطبات محمود جلد ۴ ۳۷۳ سال ۱۹۱۵ء نہیں.لیکن اگر اس نے کئے ہیں تو شاید وہ یہ عذر پیش کرے کہ بحث کرنے والے نے چونکہ آنحضرت سلیم کی شان میں گستاخی کی تھی اس لئے میں نے بھی ایسا کیا.لیکن یہ وہی بات ہے جو ینھی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ کے نیچے آتی ہے؟ کیا ایک آدمی کے حد سے بڑھنے سے دوسرے کو بھی بڑھ جانا چاہیئے ؟ کیا ایک کے فحشاء و مُنكَرُ سے باز نہ رہنے سے دوسرے کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئیے ؟ ہر گز نہیں ! کیا کسی کا یہ عذر قابل پذیرائی ہو سکتا ہے کہ فلاں نے چونکہ جھوٹ بولا تھا اس لئے میں نے بھی بولا ہے.فلاں نے چونکہ چوری کی تھی اس لئے میں نے بھی کی ہے.فلاں نے چونکہ کفر بکا تھا اس لئے میں نے بھی اس کا ارتکاب کیا ہے اس قسم کے جواب تو دوزخی لوگ دیں گے ہمارے بڑوں نے چونکہ یہ کام کئے تھے اس لئے ہم نے بھی کئے.پس یہ عذر بہت ہی نا معقول ہے اور اس طرح کی بات ہے جس طرح ایک آدمی جا رہا ہے اور اس کا ایک پاؤں کوئی زخمی کر دے تو دوسرے کو وہ خود اس لئے زخمی کرلے کہ ایک جو زخمی ہو گیا ہے ایسا کرنا کسی عقل مند آدمی کا کام نہیں ہوسکتا.اگر بحث کرتے وقت کسی نے ایسی بات کہہ دی ہو جو اس کے پیشوا کی شان کے خلاف ہو تو اس کا ایسی ہی بات دوسرے کے اس پیشوا کو جو کہ اس کا بھی پیشوا ہے کہنا بہت نا معقول حرکت ہے.ایک قصہ ہے تو گندا مگر اسی کے مناسب حال ہے.کہتے ہیں ایک شخص نے کسی سے ایک ضرورت کے وقت کوئی برتن لیا اور بہت دنوں تک اپنے گھر ہی رکھ چھوڑا.ایک دن برتن لینے والا برتن لینے گیا تو وہ شخص اس میں ساگ ڈال کر کھا رہا تھا.یہ دیکھ کر اسے بہت برا لگا اور اپنا برتن لے کر کہنے لگا کہ تم نے ہمارے برتن میں ساگ ڈال کر کھایا ہے ہم تمہارے برتن میں نجاست ڈال کر کھا ئیں گے.اس احمق نے یہ نہ سوچا کہ نجاست تم کھاؤ گے اس کے کا کیا نقصان ہوگا.مومن کو بہت احتیاط کرنی چاہئیے کیا یہ کوئی انسانیت ہے کہ دو بھائی آپس میں لڑیں تو ایک دوسرے کو باپ کی گالی دے اور دوسرا اس کو ماں کی گالی دے دے.ایک نے تو نادانی کی تھی لیکن دوسرے نے اس سے بڑھ کر نادانی کی.اسی طرح اگر ایک یہودی حضرت مسیح کو گالی دے اور یہ سن کر کوئی عیسائی حضرت موسی علیہ السلام کو گالی دے دے تو یہ بہت ہی گندہ فعل ہے.اسی طرح اگر کوئی آنحضرت سلائی یہ تم کو گالی دے تو کسی مسلمان کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اس کے معت ابلہ میں حضرت مسیح " ، حضرت موسیٰ حضرت اسحق " ، حضرت یعقوب،

Page 383

خطبات محمود جلد ۴ ۳۷۴ سال ۱۹۱۵ء حضرت ابراہیم ، وغیرہ انبیاء علیہم السلام کو گالیاں دے دے.اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ آنحضرت سائی یہ تم کو دو گالیاں دیتا ہے ایک اس بکواس کرنے والے کی معرفت اور ایک خود لیکن وہ یاد رکھے کہ یہ سخت بغاوت اور سرکشی ہے.اللہ تعالیٰ کے انبیاء کی ہتک کوئی معمولی گناہ نہیں.ایمان سلب ہو جاتا ہے اور قرآن کریم اس کا نام ہے کفر رکھتا ہے.کسی کی مجال نہیں ہوتی کہ دنیا کے حکام کے سامنے ان کو گالی دے اور پھر نقصان نہ اٹھائے.تو خدا تعالیٰ کے حکام جو ان سے بہت زیادہ اور زبردست ہوتے ہیں، ان کی نسبت ایسا کہنے والا کہاں بچ سکتا ہے؟ دنیا کے حکام کی ہتک کر کے بعض لوگ بیچ بھی جاتے ہیں مگر خدا کے انبیاء کی ہتک کر کے کوئی نہیں بچے سکتا.کیوں؟ اس لئے کہ دنیاوی حاکموں کا مجرم پکڑنے والا ہاتھ اتنا لمبا نہیں ہوتا جتنا کہ خدائی حکام کے بھیجنے والوں کا ہے.ان سے جنگلوں میں ، غاروں میں سمندروں میں، پہاڑوں کی اونچی چوٹیوں پر ، زمین دوز بحجروں میں چھپ کر بعض لوگ گرفتار ہونے سے بچ جاتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کا ہاتھ بڑے سے بڑے جنگلوں ، عمیق سے عمیق غاروں، وسیع سے وسیع سمندروں ، بلند سے بلند پہاڑوں اور تاریک سے تاریک حجروں میں پہنچ جاتا ہے.پس دنیا وی بادشاہوں سے مقابلہ کرنا اتنا سخت نہیں جتنا خدا تعالیٰ سے ہے.ایک بادشاہ مرجاتا ہے تو بعد میں اس کیلئے مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں رہتا.مثلاً سکندر مر چکا ہے آج کتنی ہی گالیاں کوئی اسے نکالے کوئی پوچھتا تک نہیں.مگر سکندر سے پہلے بھی جو کوئی نبی ہوا ہے، اس کو جو گالی دے اسے سزا دینے والا اس وقت بھی موجود ہے اور ضرور سزا دے گا.نادان انسان گالی کے مقابلہ میں گالی دے کر سمجھتا ہے کہ میں نے بدلہ لے لیا ہے.مگر وہ ایسا ہی کرتا ہے جیسا کہ کسی نے اس کی ایک گال پر طمانچہ مارا تو دوسری پر اس نے خود مار لیا.ایک ہاتھ دشمن نے کاٹا تو دوسرا خود کاٹ لیا.خدا تعالیٰ بُری اور بے حیائی اور حد سے بڑھنے والی باتوں سے روکتا ہے.ہر ایک نبی خدا تعالیٰ کے حضور بہت بڑی عزت رکھتا ہے اس لئے اس کی ہتک کرنے والا ضرور سزا پاتا ہے.اگر کسی نبی کے ماننے والا ہمارے پیشوا کی ہتک کرتا ہے تو ہمیں تو یہ بھی اجازت نہیں کہ اس کے ایسے پیشوا کی ہتک کریں جس کو صرف وہی مانتا ہے چہ جائیکہ ایسے پیشوا کی بے ادبی کریں جس کو ہم خود بھی مانتے ہیں.پنڈت دیانند یک شخص ہوا ہے ہم اس کو نہیں مانتے لیکن یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ ایک آریہ کے آنحضرت صلی ایام کو یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دینے پر ہم اس کو

Page 384

خطبات محمود جلد ۴ ۳۷۵ سال ۱۹۱۵ء گالیاں دیں.گالیاں دینے سے فائدہ ہی کیا ہے.وہ خود تو مر گیا ہے وہ سنتا نہیں اور اگر زندہ ہوتا بھی تو اس طرح کرنے سے سوائے لڑائی جھگڑے اور فساد پھیلنے کے اور کیا حاصل ہو سکتا.پس جب ایسے لوگوں کو بھی گالیاں دینا منع ہے تو جو خدا تعالیٰ کے نیک بندے اور مقترب ہیں ان کو کہاں جائز ہے.پس تم ہمیشہ احتیاط کرو اور بہت زیادہ احتیاط کرو تمہارے ایک ایک کام کے نتیجے کا اثر جماعت پر پڑتا ہے.اس بات کی بہت کوشش کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں کسی کیلئے ٹھوکر کا موجب نہ بنائے کیونکہ جو ٹھوکر کا موجب ہوتا ہے وہ ٹھوکر کھانے والے کے گناہوں کو بھی اپنے سر پر اٹھاتا ہے.خدا تعالیٰ اپنے فضل اور کرم سے تم کو اپنے سیدھے رستوں پر چلائے اور ٹیڑھے رستوں سے بچائے.آمین.ل النحل: ٩١ الفضل ۲۲ - جون ۱۹۱۵ء)

Page 385

خطبات محمود جلد ۴ (۷۳) کوشش کرو کہ تمہیں اعلیٰ درجہ کی موت نصیب ہو (فرموده ۲۵.جون ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ پھر فرمایا:.تمام انسانوں کی حالتیں مختلف تعلقات مختلف اعمال اور مختلف واقعات کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں.ایک انسان کی جو حالت ہوتی ہے وہ دوسرے کی نہیں ہوتی اور جو دوسرے کی ہوتی ہے وہ تیسرے کی نہیں ہوتی کوئی بڑا تندرست اور قوی ہوتا ہے تو کوئی نہایت ضعیف اور بیمار ہوتا ہے، کوئی بڑا عالم اور واقف کار ہوتا ہے تو کوئی بالکل جاہل اور کو دن ہوتا ہے، کوئی استنباط اور ایجاد کی بڑی قابلیت رکھتا ہے تو کوئی واضح سے واضح بات کے سمجھانے پر بھی نہیں سمجھتا، کوئی دین کی طرف بہت توجہ رکھنے والا ہوتا ہے تو کوئی دین سے بالکل بے پرواہ، کوئی دنیا میں بہت ہی منہمک ہوتا ہے تو کوئی صبح کے کھانے کے بعد شام کے کھانے کی بھی فکر نہیں رکھتا.غرض ہر ایک انسان کی حالت ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے اور مختلف حالات کے ماتحت بدلتی رہتی ہے.ایک انسان ہوتا ہے اس کے خیالات ایک اور انسان سے جو دوسرے لوگوں سے تعلقات رکھتا ہے مختلف ہوتے ہیں جس طرح انسانوں کی ہر ایک چیز میں اختلاف ہے مثلاً علم میں صحت میں عزت میں ، آبرو میں، طاقت میں کمزوری میں، دولت میں غربت

Page 386

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۵ء میں، زبان میں شکل وصورت وغیرہ وغیرہ میں ، اسی طرح ان کی موتوں میں بھی اختلاف ہے.ایک بہت بڑا فرق جو ظاہری طور پر نظر آتا ہے وہ تو یہ ہے کہ ایک بچپن میں بلکہ ماں کے پیٹ میں ہی مرجاتا ہے.ایک کچھ دن بعد مرتا ہے، پھر چلنے پھرنے کے بعد ایک جوانی میں، ایک بڑھاپے میں اور ایک ارذل عمر کو پہنچ کر مرتا ہے ہے، پھر جسمانی لحاظ سے کسی کی موت ہیضہ سے، کسی کی تپ سے، کسی کی کھانسی سے کسی کی سل سے، کسی کی دق سے، کسی کی قولنج سے، کسی کی نمونیہ سے ہوتی ہے.کوئی گولی کھا کر مرتا ہے، کسی کا رشتہ حیات تلوار کاٹتی ہے.کوئی مکان سے گر کر جان دیتا ہے کسی کا پاؤں پھسل کر دم ہوا ہو جاتا ہے، کوئی قتل کر دیا جاتا ہے.کسی کوز ہر دیا جاتا ہے.غرضیکہ بیبیوں نہیں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں اقسام ہیں جن سے انسان موت کا مزہ چکھتے ہوئے دنیا سے گزرتے ہیں.یہ تو موت کے طریق ہیں پھر موت ہی میں ایک اور بھی اختلاف ہے کوئی انسان اپنے کاموں نے سے فارغ ہو چکتا ہے تب اسے موت آتی ہے، کوئی ابھی کام شروع ہی کرتا ہے کہ جان نکل جاتی ہے، کوئی کام کرتے کرتے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ امروز فردا پر اس کی کامیابی ہوتی ہے تو مر جاتا ہے، یہ بھی ایک اختلاف ہے.ایک اختلاف تو یہ تھا کہ کس عمر میں موت آئی ، دوسرا یہ کہ کس طریق سے آئی، تیسرا یہ کہ کسی حالت میں آئی ہے پس کوئی تو خوشی کی موت مرتا ہے اور کوئی رنج کی کوئی قوم کی بہتری اور پیاروں کے فائدے کیلئے جان دیتا ہے اور کوئی ایسی موت مرتا ہے کہ اس کے سامنے ذلت کا نظارہ کھنچا ہوتا ہے.ایک اور بھی اختلاف ہوتا ہے:.(۱) ایک موت ایسی ہوتی ہے کہ وہ صرف مرنے والے کی موت ہوتی ہے.(۲) ایک موت ایسی ہوتی ہے کہ وہ مرنے والے کی موت اور دنیا کیلئے زندگی ہوتی ہے.ہوتا.(۳) ایک موت ایسی ہوتی ہے کہ مرنے والے کی موت اور دنیا کی بھی موت ہوتی ہے.(۴) ایک موت ایسی ہوتی ہے کہ مرنے والے کی زندگی ہوتی ہے اور دنیا کا اس سے کوئی تعلق نہیں وہ مرنے والا جس کی موت اس کی اپنی ہی موت ہوتی ہے وہ ایسا شخص ہوتا ہے جو اپنے نفس میں تو گندا اور نا پاک ہوتا ہے مگر دنیا کیلئے ضرر رساں نہیں ہوتا.مثلا ایک شخص ایسا ہے جو خدا اور رسول کا منکر ہے لیکن دوسرے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش نہیں کرتا.ایسا شخص جس دن مرتا ہے پھر وہ ہر طرح سے مرہی جاتا ہے.دنیا میں خدا تعالیٰ کا

Page 387

خطبات محمود جلد ۴ ۳۷۸ سال ۱۹۱۵ء جو اس سے معاملہ تھا وہ رحمانیت اور رحیمیت دونوں صفات کے ماتحت تھا مگر مرنے کے بعد صرف رحیمیت ہی ہوتی ہے.چنانچہ زندگی میں کوئی خدا کو گالیاں دے ، رسول کو برا بھلا کہے، خدا تعالیٰ اسے سامان زندگی دیتا ہی رہے گا مگر مرنے کے بعد کا وہ زمانہ جبکہ بویا ہوا کاٹا جاتا ہے.اس لئے گندے اور نا پاک انسان کی موت وہاں بھی موت ہی ہوتی ہے.(۲) وہ موت جس سے مرنے والا تو مر جاتا ہے لیکن اس سے دنیا کی زندگی ہوتی ہے، یہ وہ انسان ہوتا ہے جو اپنے نفس میں تو گندا ہوتا ہی ہے لیکن دنیا کو بھی گندا کرنا چاہتا ہے مثلاً ایک ایسا کا فرجود نیا کو فر کی تبلیغ کرتا ہے یا ایک ایسا ظالم جودنیا پر ظلم کرتا ہے یہ جب مرتا ہے تو اس پر موت آجاتی ہے مگر اس سے دنیا کی زندگی ہوتی ہے کیونکہ بہت سے لوگ جو اس کے ذریعہ گند میں مبتلا ہونے والے تھے یا ایسے لوگ جو اس کے ظلم کے نیچے دبے ہوئے تھے ان کی گردنیں آزاد ہو گئیں.(۳) وہ موت ہے جو مرنے والے کی بھی موت ہوتی ہے اور دنیا کی بھی موت ہوتی ہے.یہ ایسے شخص کی موت ہوتی ہے جو گو اپنے نفس میں کا فر ہوتا ہے مگر دنیا کو اس سے فائدہ پہنچتا ہے مثلاً ایک کافر شخص ہو اور بڑا موجد سائنسدان علم ہندسہ جغرافیہ کا جاننے والا ہو یا حکمران منصف اور عادل ہو بشر طیکہ کا فر ہو جس کی موت سے دنیا کو نقصان پہنچے.(۴) وہ موت ہے جس سے مرنے والے کی زندگی ہوتی ہے اور دنیا کا اس سے کچھ تعلق نہیں ہوتا.یہ ایک ایسے مومن کی موت ہے جو الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ ۲ کے مطابق ہوتا ہے یعنی اس کی زبان اور ہاتھ کے ضرر سے لوگ محفوظ رہتے ہیں جب ایسا شخص مرتا ہے تو وہ اپنے اعمال کے نیچے مرتا ہے.دنیا کے نفع و نقصان سے اس کا تعلق نہیں ہوتا.ان سب موتوں سے بڑھ کر ایک اور موت ہے جو بہت ترقی کرنے والے انسان کو نصیب ہوتی ہے.وہ ایسی موت ہوتی ہے کہ مرنے والے کی زندگی ہوتی ہے مگر دنیا کیلئے وہ موت ہوتی ہے.یہ ان لوگوں کی موت ہوتی ہے جو دین کے مبلغ اور خدا تعالیٰ کے پیارے اور رسول ہوتے ہے ہیں.موت ان کیلئے تو عید ہوتی ہے کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ آج ہم اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو کر اپنے پیارے کے پاس کامیاب ہو کر جارہے ہیں مگر ان کی وفات کا دن دنیا کیلئے ایسا تاریک دن ہوتا ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی دن نہیں ہوسکتا.اس کا ایک نظارہ آنحضرت سلائی یہ تم کی وفات ہے.آپ نے وفات کے وقت فرمایا :.

Page 388

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۵ء إلَى الرَّفِيق الاعلی سے یعنی اے خدا مجھے اب دنیا کی زندگی پسند نہیں آپ ہی کے پاس آنا چاہتا ہوں ادھر تو یہ حال تھا ادھر ایک صحابی آپ کی وفات کے متعلق فرماتے ہیں.كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِى فَعَمِيَ عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أَحَاذِرُى کہ تو ہماری آنکھ کا نور تھا جب تو جاتا رہا تو اب کوئی مرے ہمیں کیا ہماری طرف سے ساری دنیا مر جائے.پس آخری اور اعلیٰ درجہ کی موت یہ ہے کہ انسان کی اس سے زندگی ہو اور دنیا کی موت ہو.ایک شاعر نے کیا ہی اچھا کہا ہے کہتا ہے :.انْتَ الَّذِي وَلَدَتْكَ أَمُّكَ بَاكِيَا وَالنَّاسُ حَوْلَكَ يَضْحَكُونَ سُرُورًا فَاحْرِصْ عَلَى عَمَلٍ تَكُوْنَ إِذَا بَكَوْ في وَقْتِ مَوْتِكَ ضَاحِكًا مَسْرُورًاه کہ اے انسان کو وہی ہے کہ جب تو پیدا ہوا تھا تو تو رو تا تھا اور لوگ ہنتے تھے اب تو ایسے عمل کر کہ جب تجھے پر موت کا وقت آئے تو لوگ روئیں اور تو ہنسے.لوگ تو اس لئے روئیں کہ یہ شخص ہمارے لئے ایک مفید وجود تھا اب اس کے نہ ہونے کی وجہ سے نقصان ہوگا اور تو اس لئے ہنسے کہ اب میں خدا کے حضور پہنچ کر انعام پاؤں گا.اس طرح بات اُلٹ گئی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُفتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ الا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ.کہ مختلف موتیں دنیا میں آتی ہیں مومن کو چاہیئے کہ تقویٰ میں اس حد تک بڑھے کہ ولا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ.جب تم پر موت وارد ہو تو تم مسلم ہو.مسلم کیا ہوتے ہیں منقاد مطیع اور فرمانبردار کو کہتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم پر موت آئے تو تم اللہ کی فرمانبرداری میں لگے ہوئے ہو.غور کرنے کی بات ہے کہ جب کسی کو اللہ تعالیٰ کے کام میں لگے ہوئے ہونے کی حالت میں موت آئیگی تو اس کے لی لئے کتنی خوشی کی موت ہوگی.پھر مسلم کی تعریف آنحضرت ملا ہی تم نے یہ فرمائی ہے کہ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِه - دوسری جگہ فرمایا لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لنفسه - 1 اس وقت تک کوئی مسلمان نہیں ہوتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہی بات پسند نہ کرے جو اپنے لئے کرتا ہے.تو مسلم کی تعریف میں دو باتیں ہوئیں ایک یہ کہ اس سے کسی کو نقصان نہ پہنچے دوسری یہ کہ اپنے نفس کو جتنا فائدہ پہنچانا چاہتا ہے اتنا ہی دوسروں کو بھی پہنچائے.ایسا انسان جب مرے گا تو اس کی موت اسی اعلیٰ درجہ کی

Page 389

خطبات محمود جلد ۴ ۳۸۰ سال ۱۹۱۵ء موت ہوگی.اس آیت میں اس موت کے اختیار کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے کہ مومنو! تم اس حالت کو پہنچ جاؤ کہ جب تم پر موت آئے تو دنیا تم پر روئے اور تم ہنسو.اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسی ہی موت نصیب کرے.ہماری موتیں ہمارے لئے زندگیاں ہوں اور وہ فرائض جو خدا تعالیٰ نے ہم پر لگائے ہیں ان کے اسے ہم سبکدوش ہو کر جائیں.آمین ال عمران: ۱۰۳ (الفضل یکم جولائی ۱۹۱۵ ء ) بخاری کتاب الایمان باب المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده وي بخاری کتاب المغازی باب آخر ما تكلم به النبی سی ای ایام میں یہ الفاظ درج ہیں.اللَّهُمَّ الرفيق الأعلى ۴ شرح دیوان حسان بن ثابت صفحه ۲۲۱ کتب خانه آرام باغ کراچی ، السيرة الحلبية الجزء الثالث حاشیه صفحه ۳۹۷ مطبع محمد علی صبیح ميدان الازهر مصر ١٩٣٥ء ۵ مجانى الادب الجزء الثانی صفحه ۳۳ مطبعة الاباء اليسوعيین بیروت میں الفاظ یہ ہیں.يَاذَا الَّذِي وَلَدَتْكَ أُمُّكَ بَاكِيَا احرض على عمل تكون به منى وَالنَّاسُ حَوْلَكَ يَضْحَكُونَ سُرُورٌ يَبْكُونَ حَوْلَكَ ضَاحِكًا مَسْرُورًا د بخارى كتاب الإيمان باب من الإيمان ان يحب لاخيه ما يحب لنفسه

Page 390

خطبات محمود جلد ۴ ۳۸۱ (۷۴) تبلیغ مسلمانوں کا اہم فریضہ ہے (فرمودہ ۲.جولائی ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں مسلمانوں کو ایک عجیب سبق دیا ہے.مختلف مذاہب دنیا میں پائے جاتے ہیں لیکن انہوں نے خدا تعالیٰ کی تعلیم اور اس کلام کو تمام لوگوں تک پہنچانے کی طرف بہت کم توجہ کی ہے جس کی بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ مذاہب صرف ایک ایک قوم کیلئے ہیں.چونکہ وہ مذاہب مختص القوم ہیں اس لئے ان کے کے پیروؤں کو اپنے اپنے مذاہب کی تبلیغ کیلئے اتنا زور دینے کی ضرورت نہ تھی.اگر ان مذاہب کو دیکھا جائے تو ان کی تعلیم وقتی اور پوری کی پوری اپنی اپنی قوم کے ساتھ تعلق رکھنے والی معلوم ہوتی ہے.چنانچہ یہود کو جو حکم دیئے گئے ان میں زیادہ تر بنی اسرائیل ہی کی بھلائی اور بہتری کو مدنظر رکھا گیا ہے مثلاً سود کی ممانعت کی گئی ہے اور ساتھ یہ شرط لگا دی گئی ہے کہ بنی اسرائیل کو سود لینا دینا حرام ہے.اس تعلیم میں یہ شرط لگا کر کہ بنی اسرائیل آپس میں سود نہ لیں ظاہر کر دیا ہے کہ جو مذہب موسیٰ علیہ السلام کی معرفت آیا تھا وہ بنی اسرائیل سے ہی خصوصیت کے ساتھ تعلق رکھتا تھا.پھر حکم ہے کہ بنی اسرائیل سے کوئی غلام نہیں بنایا جا سکتا.ہاں دوسرے لوگوں سے غلام بنائے جا سکتے ہیں.اس حکم نے بھی بتا دیا ہے کہ توریت کی تعلیم صرف بنی اسرائیل سے ہی تعلق رکھتی تھی جبھی تو اس کے فوائد کو مد نظر رکھتی ہے اور دوسری قوموں سے اسے امتیاز دیتی ہے.اس کے بعد حضرت مسیح جو تعلیم لائے اس میں.

Page 391

خطبات محمود جلد ۴ ۳۸۲ سال ۱۹۱۵ء گواب نکالنے والے تو یہ نکالتے ہیں کہ تمام دنیا کیلئے ہے اور اس تعلیم کو عالمگیر قرار دیتے ہیں مگر حضرت مسیح خود ہی کہتے ہیں کبھی نہیں ہوتا کہ ایک عورت اپنے بچہ سے روٹی چھین کر غیر کو دے دے.میں اپنے موتی سؤروں کے آگے کیونکر ڈالوں اے یعنی بنی اسرائیل کے سوا باقی سب لوگ غیر ہیں، اس لئے وہ میری تبلیغ کے مستحق نہیں ہیں.یہ تو وہ مذاہب ہیں جو اسلام سے بہت قریب کے ہیں اور جو ان سے پہلے کے ہیں ان کی تعلیموں کے محدود ہونے کا اسی سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ وہ تبت سے پرے کوئی ملک ہی نہیں سمجھتے اور ان کی رو سے کابل کے پرے انسان نہیں بلکہ جنات رہتے ہیں.بھلا ایسے مذاہب کے ماننے والی قوم ساری دنیا کو تبلیغ کرسکتی ہے؟ ہر گز نہیں اور ایسا مذ ہب عالمگیر مذہب کس طرح ہو سکتا ہے.ہاں اسلام آیا اور صرف اسلام ہی ایسا مذہب آیا جس نے اپنی تعلیم کو وسیع کر کے تمام دنیا کے داخل ہونے کے لئے دروازے کھول دیئے.چونکہ اسلام کی تعلیم تمام قوموں کیلئے تھی اور پھر کسی خاص زمانہ کیلئے نہ تھی اس لئے ضروری تھا کہ اس کے ماننے والوں یعنی مسلمانوں کو اس کی تبلیغ کی طرف توجہ دلائی جاتی تاکہ وہ اس کو اپنے گھر میں ہی بند نہ رکھیں بلکہ ساری دنیا پر پھیلا دیں.اس پر قرآن شریف میں بہت زور دیا گیا ہے ایک جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلتَكُن مِّنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ) اے مسلمانو! تم میں سے ایک ایسی جماعت ہو جو امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کرے اور لوگوں کو خیر کی طرف بلائے.پھر فرما یا كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ستم ہی سب سے بہتر قوم ہو جو کہ لوگوں کے نفع کیلئے پیدا کئے گئے ہو یعنی ہر مومن کا یہ فرض ہے کہ اس تعلیم کو جو قرآن کے ذریعہ اس کو پہنچی ہے دوسروں تک پہنچائے کیونکہ اس مذہب کی غرض ہی یہ ہے کہ دنیا میں امن قائم کرے اور تمام بنی نوع کی خادم ایک جماعت پیدا کر دے.پس ہر ایک مومن کا فرض ہے کہ خواہ تاجر ہو یا کسان، خواہ پیشہ ور ہو، خواہ دکاندار ، خواہ مدرسہ کا مدرس ہو، خواہ کالج کا پروفیسر ، خواہ گورنمنٹ کا ملازم ، خواہ کوئی اور کام کرنے والا جبکہ وہ مسلمان کہلاتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ لوگوں کو وہ پاک تعلیم پہنچائے جو آنحضرت ملی یہ تم کی معرفت اس کو نصیب ہوئی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے كُنتُم خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاس کہ تمہارے پیدا کرنے کی غرض یہ ہے کہ لوگوں کو تم سے فائدہ ہو.

Page 392

خطبات محمود جلد ۴ ۳۸۳ سال ۱۹۱۵ء اس بات پر خدا تعالیٰ نے بہت زور دیا ہے.سورہ فاتحہ جو ہر ایک مسلمان نمازوں میں بار بار پڑھتا ہے اور کم از کم دن رات میں تیس دفعہ پڑھتا ہے، اس میں بھی خدا تعالیٰ نے اِهْدِنَا الصِّرَاط المُسْتَقِيمَ ۴ کی دعا سکھائی ہے اور ا دینی نہیں فرمایا.اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مومن خود غرض نہیں ہوتا.چونکہ اس کا فرض ساری دنیا میں تبلیغ کرنا ہے اور لوگوں کے دلوں پر اس کا قبضہ نہیں اس لئے یہ کسی کو زور سے تو منوا نہیں سکتا اور جب تک کسی کی ہدایت کیلئے یہ کوشش نہ کرے اس وقت تک اپنے فرض سے سبکدوش نہیں ہو سکتا اس لئے سورہ فاتحہ میں دعا کیلئے یہ الفاظ رکھ دیئے گئے کہ الہی ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا.اس دعا میں ساری دنیا کے لوگ شامل ہو گئے اور اس کو عام کر کے خدا تعالیٰ نے بتا دیا کہ ہر ایک مومن اس طرح دوسروں کی ہدایت کے لئے کوشش کرتا اور اپنے فرض سے سبکدوش ہوتا ہے غرضیکہ ہر ایک مسلمان مبلغ ہے خواہ وہ کوئی کام کرتا ہو.ہماری جماعت کے ہر فرد کو چاہیے کہ یہ نہ خیال کرے کہ یہاں سے ہی مبلغین جائیں اور لوگوں کو وعظ ونصیحت کریں بلکہ ہر ایک یہ سمجھے کہ اسلام کی تعلیم سے لوگوں کو آگاہ کرنا میرا فرض ہے اور اسلام کے جھنڈے تلے کھینچ کر لانا میرا ذمہ ہے.کیوں؟ اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے اھدنا سکھلایا ہے، اھدین نہیں سکھایا.پس جب تک اس طرح تبلیغ کیلئے کوشش نہ کی جائے اس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی.ہر ایک احمدی یہ سمجھے کہ میں مبلغ ہوں اسے کسی اور کے ذمہ اس کو نہیں ڈالنا چاہیئے اور یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ کوئی مبلغ آکر اس فرض کو انجام دے گا.ہمارے چند ایک مبلغین ہیں اس لئے یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ تمام دنیا کو یہی تبلیغ کریں.پس کامیاب تبلیغ کا یہی طریق ہے کہ ہر ایک احمدی اپنا فرض سمجھے اس طرح پانچ سات لاکھ افراد مبلغ ہو سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہماری تمام جماعت کو اس بات کی توفیق دے اور تبلیغ ہو کے راستہ میں حائل ہونے والی مشکلات کو آسان کر کے اپنے پاس سے ہی سامان مہیا فرمادے.آمین (الفضل ۸.جولائی ۱۹۱۵ء) لے اپنے موتی سوروں کے آگے نہ ڈالو متی باب ۷ آیت ۶ بائیبل سوسائٹی انار کلی لاہور ١٩٩٤ء ۲ ال عمران : ۱۰۵ ال عمران: ااا الفاتحة :

Page 393

خطبات محمود جلد ۴ ۳۸۴ (۷۵) اَحْكُمُ الْحَاكمين خدا سے تعلق قائم کرو (فرموده ۹.جولائی ۱۹۱۵ ء بمقام لاہور ) سال ۱۹۱۵ء حضور نے تشہد ،تعوّذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.دنیا کے حکام ،بادشاہ اور امراء جن کی طاقتیں محدود، حکومتیں محدود، مال و دولت محدود، علم و عقل محدود، شان و شوکت محدود اور جن کی نفع رسانی کی قدرت محدود ہے ان سے تعلق رکھنے کیلئے ہم دیکھتے ہیں کہ انسان بڑی بڑی کوششیں کرتا ہے.لیکن اگر کسی بڑی سے بڑی دنیا کی حکومت کو بھی لے لیں تو بھی کوئی ایسی حکومت نظر نہیں آتی جو ساری دنیا پر حاوی ہو یا دو ثلث پر ہی اس کا قبضہ ہو اور اگر فرض بھی کر لیں کہ کوئی ایسا : فرمانروا ہے جو ساری دنیا پر حکومت کرتا ہے تو پھر بھی چونکہ وہ انسان ہی ہے اس لئے اس کی حکومت محدود تو پھر ہے.اس سے چھپنے کے لئے کئی جگہیں ہیں غاروں اور پہاڑوں میں انسان چھپ سکتا ہے، بھیس بدل کر گرفتاری سے بچ سکتا ہے کیونکہ انسان بادشاہ کا خواہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو علم کامل نہیں ہے اور وہ عالم الغیب نہیں ہوتا.اس لئے انسان اس سے بچنے کی تدبیر کر سکتا ہے اور بسا اوقات کامیاب بھی ہو جاتا ہے مگر خدا تعالیٰ کی حکومت نہ صرف تمام دنیا پر ہے بلکہ زمین و آسمان کی کوئی چیز نہیں جو اس کی مملوک نہ ہو.چونکہ تمام چیزیں اسی کی مخلوق ہیں اس لئے اسی کی مملوک ہیں.جب دنیا کے بادشاہوں کے حضور باریابی حاصل کرنے کے لئے لوگ بڑی بڑی کوششیں کرتے ہیں اور جان و مال تک کے خرچ کرنے میں دریغ نہیں کرتے تو خدا تعالیٰ جس کی شان

Page 394

خطبات محمود جلد ۴ ۳۸۵ سال ۱۹۱۵ء سے دنیاوی حاکموں کو کچھ بھی نسبت نہیں اس کے حضور شرف پانے کیلئے کس قدر کوشش اور ہمت کرنی چاہئے.پھر جس آدمی کو ایک دفعہ بادشاہ سے ملاقات کا موقع مل جائے وہ اس خبر کو اپنی عزت کا باعث سمجھ کر اخباروں میں چھپواتا ہے لیکن کیسا خوش نصیب اور عزت والا ہے وہ انسان جس کو خدا تعالیٰ کے حضور حاضری کا موقع ملے.دنیاوی لحاظ سے ہماری گورنمنٹ حاکم ہے اور ہم محکوم ، وہ آتا ہے ہم خادم، وہ سرکا ر ہے ہم رعا یا اور ہمیں قرآن شریف یہ حکم دیتا ہے کہ اس کی فرمانبرداری کریں مگر اس سے بھی اعلیٰ ایک اور ایسی حکومت ہے جس کے حضور ہم اور یہ مساوی ہیں کیونکہ وہ ایسا زبردست بادشاہ ہے جس کے آگے دنیا کے زبر دست سے زبر دست بادشاہ ماتھا رگڑتے ہیں اور طاقتور سے طاقتور حکمران گردنیں جھکا دیتے ہیں اور ان کو سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ اس کے آگے اپنی پیشانی رکھ دیں.انگلستان کے ایک بادشاہ کا قصہ لکھا ہے کہ وہ اپنے مصاحبین کے ساتھ سمندر کے کنارے بیٹھا تھا اسے خوشامدی حاشیہ نشینوں نے کہا کہ آپ کی حکومت بحر و بر (خشکی و تری ) سب جگہ ہے آپ اتنے وسیع ممالک پر حکمران ہیں وغیرہ وغیرہ ابھی یہ باتیں ہوہی رہی تھیں کہ سمندر کا پانی کنارے پر چڑھنا شروع ہوا.انہوں نے بادشاہ سے کہا کہ آپ کرسی ہٹالیں کیونکہ پانی قریب آرہا ہے.بادشاہ نے کہا نہیں میں پانی کو حکم دیتا ہوں کہ پیچھے ہٹ جائے.انہوں نے کہا کبھی ایسا ہوسکتا ہے؟ بادشاہ نے کہا تم تو ابھی کہہ رہے تھے کہ خشکی اور سمندر پر تمہاری حکومت ہے اگر میری حکومت سمندر پر ہوتی تو پانی میرا حکم کیوں نہ مانتا.پس کوئی کتنا بڑا کیوں نہ ہو احکم الحاکمین کے آگے سجدہ کرتے ہی بنتی ہے ورنہ ای تباہ و برباد ہو جاتا ہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے بادشاہوں نے جب خدا تعالیٰ کی نافرمانی کی تو خدا نے ان کو ایسا ت جھکا یا کہ ان کا نام ونشان مٹ گیا.دیکھو فرعون جو موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں اٹھا اور اس کی کتنی بڑی طاقت تھی اس کے مقابلہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کیا حالت تھی.وہ بڑے مال و اموال کا وارث تھا، وہ بڑی ہے دولت اور حکومت قبضہ میں رکھتا تھا، وہ مصر ایسے ملک پر حکمران تھا جس میں دریائے نیل بہتا ہے اور جس کی وادیاں دنیا بھر میں زرخیز بھی جاتی ہیں، وہ شام اور افریقہ کے تمام آباد حصوں پر رعب رکھتا تھا لیکن حضرت موسیٰ “ وہ تھے جنہیں بیوی حاصل کرنے کے لئے بھی دس سال تک ایک شخص کی بکریاں چرانا پڑیں.وہ فرعون

Page 395

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۵ء کے سامنے جاتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ میرے خدا کی فرمانبرداری کرو اور میرے حکموں کو مانو.فرعون نے بجائے اس کے کہ اس کی اطاعت کرتا نافرمانی کی اور اپنے مقابلہ میں کچھ نہ سمجھا.دنیاوی لحاظ سے واقعی موسیٰ علیہ السلام کی کیا طاقت تھی کہ فرعون جیسے بادشاہ کو یہ کہتا کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دو جب وہ اس سے انکار کرتا تو یہ کہتا کہ تم نے میرا کہا نہیں مانا میرا خدا ایسا ہے جو تمہیں سزا دے گا لیکن فرعون نے جب موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کیا تو ایسی حالت میں غرق ہوا جبکہ اس نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنی آنکھوں کے سامنے اسی دریا سے صحیح و سلامت پار جاتے ہوئے دیکھا.پھر اس نے غرق ہوتے وقت کیسے دردناک الفاظ کہے.آمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِي أَمَنَتْ بِهِ بَنُوا إِسْرَائِيل اوى موسیٰ ہارون جن کو وہ گالیاں دیتا تھا اب انہیں کے متعلق کہتا ہے کہ میں ان کے رب پر ایمان لاتا ہوں.یہ کہ کر اس نے اپنے انتہائی خشوع و خضوع کا اظہار کیا ہے کہ اب میرا تکبر ایسا ٹوٹا ہے کہ یہی موسیٰ و ہارون جن کی میں ہتک کرتا اور حقارت سے دیکھتا تھا انہی کی پیروی اور غلامی کرنے کو تیار ہوں.غرض بڑے بڑے گردن کش گزرے ہیں مگر خدا تعالیٰ نے ان کو تباہ و برباد کر کے ان کا نام و نشان مٹا دیا.پس کیسا خوش قسمت ہے وہ انسان جس کو وہ بادشاہ بلائے اور ملاقات کا موقع دے جو تمام بادشاہوں کا بادشاہ ہے اور جسے یہ کہے کہ جو تم سے دشمنی کرتا ہے وہ مجھ سے کرتا ہے اور جو تجھ پر حملہ کرتا ہے وہ مجھ پر کرتا ہے اور جو تیرا انکار کرتا ہے وہ میرا انکار کرتا ہے جب یہ آواز کسی انسان کو خدا کی طرف سے آتی ہوگی تو اس کی کیا حالت ہوتی ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد میں نے آپ کی ایک ڈائری دیکھی.اس میں لکھا تھا کہ دنیا کے لوگ مجھے طرح طرح سے ڈراتے اور دھمکیاں دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں اپنے پیاروں کو چھوڑ دوں لیکن رات کے وقت جب مجھے میرے عزیز سے عزیز چھوڑ چکے ہوتے ہیں تو وہ میرے پاس آکر مجھے تسلی دیتا اور باتیں کرتا ہے ، بھلا اس کو میں کس طرح چھوڑ دوں.غرض اس حالت کا اندازہ جو خدا تعالیٰ کے ساتھ کلام کرنے سے پیدا ہوتی ہے سوائے اس کے جس پر یہ حالت وارد ہو اور کوئی نہیں لگا سکتا.ہاں جن لوگوں کا ایسے انسانوں سے تعلق ہو جائے جو خدا تعالیٰ کے ساتھ شرف مکالمہ رکھتے ہیں وہ جس طرح خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہیں دوسرے نہیں دیکھ سکتے.

Page 396

خطبات محمود جلد ۴ ۳۸۷ سال ۱۹۱۵ء پس ایسے لوگوں کا حق ہے کہ وہ اپنی عبادت کو الحَمدُ لِله رَبِّ الْعَلَمِينَ " سے شروع کریں.کیا ہی تعریفوں اور محامد والا خدا ہے جس نے اپنی مخلوق کو یہ رتبہ دیا کہ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ ۳ اے رسول! ان لوگوں کو کہہ دو کہ اگر تم اللہ کے ساتھ محبت کرنا چاہتے ہو تو میری اطاعت کرو.اس سے اللہ تمہارے ساتھ محبت کرنے لگے گا.پس کیسی خوش نصیب ہے وہ جماعت جس کو ایسا زمانہ نصیب ہوا جس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ پورا پورا تعلق رکھنے والا ، اس کی محبت اور شفقت کا کلام سننے والا ، اس کی تائید اور برکت حاصل کرنے والا انسان مل گیا.صحابہ کرام کے بعد بڑے بڑے ولی اور بزرگ گزرے ہیں مگر ان کی یہی خواہش رہی ہے کہ کاش ہم صحابہ میں سے ہوتے.ہم نے خدا کے فضل سے وہی صحابہ کا زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ پایا.ہم نے آپ کی صحبت اٹھائی اور آپ سے فیوض حاصل کئے.سب سے بڑا فضل اور انعام یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کسی سے کلام کرے لیکن اس سے دوسرے درجہ پر یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے کلام کرنے والے انسان کے ساتھ تعلق ہو.کیونکہ نبیوں کو خدا تعالیٰ کے ساتھ بلال واسطہ تعلق ہوتا ہے اور نبیوں کے ماننے والوں کا بالواسطہ.لیکن میں تو دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے بعض آدمیوں کے ساتھ خدا تعالٰی بلا واسطہ کلام کرتا ہے.یہ ایک بہت بڑا فضل ہے جس کا ہماری جماعت کے لوگوں کو شکر ادا کرنا چاہئیے.اب دنیا کی طاقتیں انہیں کیا دکھ دے سکتی ہیں جبکہ خدا تعالیٰ ان کا ہو گیا ہے.جب کوئی کسی کے گھر چلا جائے اور گھر والا اس پر مہربان ہو تو نوکر اور خدمتگار خود بخود جی جی کرتے پھرتے ہیں لیکن اگر گھر والا ناراض ہو تو نو کر بھی بات نہیں کرتے.پس جس سے خدا راضی ہوا سے کسی کی کیا پرواہ ہو سکتی ہے.لوگ اسے خواہ پہاڑ سے نیچے پھینک دیں، دریا میں ڈال دیں، آگ میں جلا دیں، اسے کوئی تکلیف نہیں ہوتی.مارٹن کلارک کے مقدمہ میں حضرت مسیح موعود نے سب کو فرمایا کہ استخارہ کرو.میں نے بھی کیا تو دیکھا کہ ایک کوٹھڑی ہے جو او پلوں سے بھری ہوئی ہے لوگ اُن پر تیل ڈال کر آگ لگا رہے ہیں.میں نے نظر اٹھا کر جو اس کے دروازے کی طرف دیکھا تو یہ لکھا تھا کہ:.خدا کے پاک بندوں کو کوئی جلا نہیں سکتا آج حضرت مسیح موعود کا یہ مصرعہ سن کر کہ :.

Page 397

خطبات محمود جلد ۴ ۳۸۸ سال ۱۹۱۵ء کہ یہ جان آگ میں پڑ کر سلامت آنے والی ہے 66 وہ بات یاد آ گئی.خدا کے پیاروں کو نہ کوئی قتل کر سکتا ہے نہ جلا سکتا ہے نہ پہاڑوں سے گرا کر مارسکتا ہے اور نہ دنیا کی کوئی اور چیز انہیں دکھ پہنچا سکتی ہے.کیوں؟ اس لئے کہ خدا ان کا ہو جاتا ہے.اسی لئے حضرت مسیح موعود کو یہ الہام ہوا کہ :.آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے۴؎ حضرت مسیح موعود نے طاعون کو دیکھا کہ ایک ہاتھی ہے جو ادھر اُدھر سونڈ مارتا پھرتا ہے لیکن آپ کے سامنے آکر اس نے عاجزی سے سونڈ کو رکھ دیا ہے.پھر آپ کو یہ الہام ہوا.خدا تعالیٰ کا یہ سلوک کسی ایک ہی شخص سے نہیں ہوتا بلکہ بہت سے ایسے لوگ گزرے ہیں جن کو یہ فضیلت حاصل ہوئی ہے.اسلام ان سب کی تی عزت کرتا ہے اور یہ فضیلت صرف اسی مذہب کو حاصل ہے کہ ہر ایک نبی کی عزت کرتا ہے خواہ وہ کسی ملک اور کسی زمانہ میں اور کسی قوم میں پید اہوا.ایران کے بادشاہ گشتاسپ کے وزیر جاماسپ کی لکھی ہوئی ایک کتاب ہے.اس میں لکھا ہے کہ ایران میں تین نبی پیدا ہوں گے.ایک کا نام میسیا ز ر بھی ہوگا (میسیا اور مسیحا ایک ہی ہے ) اس کی اور شیطان کی آخری جنگ ہوگی اور وہ شیطان کو قتل کرے گا لیکن تلوار سے نہیں بلکہ دعاؤں سے.یہی وہ پیشگوئی ہے جو حضرت مسیح کے کلام سے اور پھر آنحضرت صلی یا اسلام کے کلام سے حضرت مسیح موعود کے متعلق ثابت ہوتی ہے.اب ایسے عظیم الشان انسان کا کوئی کس طرح مقابلہ کر سکتا ہے.حضرت مسیح موعود کا الہام کہ میں کرشن، اوتار، رامچندر، آدم ، موسی ، ابراہیم ہوں.ان سب کو لوگوں نے دکھ دینے کیلئے بڑے زور مارے مگر کوئی نقصان نہ پہنچا سکے اس لئے کہ ان کا حامی خدا تعالیٰ ہو گیا تھا.پس خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھنے سے بہت بڑا انعام شرف مکالمہ کا حاصل ہوتا ہے اور جن کو یہ نعمت حاصل ہو جائے انہیں دنیا کی کوئی چیز خوف میں نہیں ڈال سکتی.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے کسی واقعہ سے گھبراتے نہیں.حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ایسے ایسے واقعات پیش آئے کہ دوست گھبرا جاتے لیکن آپ کوئی پرواہ نہ کرتے.مولوی سرور شاہ صاحب گورداسپور کا ایک واقعہ سناتے ہیں کہ مجسٹریٹ نے کہا کہ میں مرزا کو ہتھکڑی لگائے بغیر نہیں چھوڑوں گا.حضرت صاحب نے سنا تو لیٹے ہوئے

Page 398

خطبات محمود جلد ۴ ۳۸۹ سال ۱۹۱۵ء اُٹھ بیٹھے اور فرمایا کہ وہ خدا کے شیر پر ہاتھ مارتا ہے نقصان اٹھائے گا.چنانچہ اس کے دو بیٹے تھے دونوں مر گئے.حالانکہ وہ اپنے ارادہ میں کامیاب نہ ہو سکا.تو ان لوگوں کو کوئی چھیڑ نہیں سکتا.خدا تعالیٰ کی نصرت ان کے ساتھ ہوتی ہے اس لئے جو کوئی ان کا مقابلہ کرتا ہے وہ کامیاب نہیں ہوسکتا.میں حیران ہوں کہ کفر اور اسلام کے مسئلہ کو منکرین خلافت کیوں اتنا بڑھا رہے ہیں.کیا خدا تعالیٰ کی طرف سے جو لوگ آتے ہیں ان کو کوئی انسان ہونے کے لحاظ سے مانتا ہے.آنحضرت سلین سیستم بھی انسان تھے آپ کی بشریت کا تو کوئی منکر نہیں.ہر ایک مذہب وملت کے لوگ یہ جانتے ہیں کہ آپ ایک انسان تھے تو انسان ماننا تو ایسی بات نہیں جس کا انکار کیا جائے.ہاں انکار یہ ہوتا ہے کہ ایک انسان خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے لیکن نادان کہتا ہے کہ خدا کی طرف سے نہیں آیا.یہ انکار اس انسان کا انکار نہیں بلکہ اس کے بھیجنے والے یعنی خدا تعالیٰ کا انکار ہوتا ہے.اسی طرح ایک بیوقوف کہتا ہے کہ حضرت مسیح موعود آنحضرت مالی ستم کے خادم تھے اس لئے یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ان کا انکار کا فر بنا دے.ہم کہتے ہیں کہ مسیح موعود کا انکار بحیثیت آپ کے انسان ہونے اور آنحضرت صلی یہ اہم کا خادم ہونے کی وجہ سے کفر نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو بھیجا ہے اور اس کا انکار کرنے والا کا فر ہوتا ہے.پس نادان اپنی نادانی سے انسانوں میں فرق کرتے اور کہتے ہیں کہ ایک کا انکار بڑا اور ان دوسرے کا چھوٹا ہے لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ تو خدا کا انکار ہے اور وہ بہت بڑا ہے چھوٹا نہیں اس کی طرف سے کوئی آجائے اور اس کا انکار کبھی چھوٹا انکار نہیں ہوسکتا.روس کا ایک کاؤنٹ (count) ا تھا وہ پہلے بادشاہ کا دربان تھا.ایک دن بادشاہ نے اسے کہا کہ کسی کو اندر نہ آنے دینا.کچھ دیر بعد ایک ڈیوکے(DUKE) آیا اور اس نے کہا کہ میں اندر جانا چاہتا ہوں.دربان نے کہا کہ میں نہیں جانے دوں گا وہ اندرگھنے لگا تو اس نے روک لیا.ڈیوک نے اسے مارنا شروع کیا اور پھر اندر جانے لگا لیکن اس نے پھر روک لیا اسی طرح بہت دیر تک ان کی کشمکش ہوتی رہی.زار دیکھ رہا تھا.اس نے دونوں کو اندر بلایا اور ڈیوک سے پوچھا تم نے اسے کیوں مارا ہے.اس نے کہا میں ڈیوک ہوں اس نے مجھے اندر آنے سے روکا اس لئے میں نے اسے مارا.دربان سے پوچھا کہ تم نے انہیں کیوں روکا.اُس نے کہا کہ میں نے اس لئے روکا ہے کہ ان سے بڑے نے مجھے روکنے کا حکم دیا تھا.ڈیوک سے پوچھا کہ

Page 399

خطبات محمود جلد ۴ ۳۹۰ سال ۱۹۱۵ء تم کو اس نے میرا حکم سنایا تھا کہ اندر آنا بند ہے.اُس نے کہا ہاں.زار نے دربان کو کہا.ٹالسٹائے میں تمہیں فلاں عہدہ دیتا ہوں اس کو اسی طرح مارو جس طرح اس نے تمہیں مارا ہے (اُس وقت روس میں یہ قاعدہ تھا ایک ہی حیثیت کے آدمی اپنے مخالف کو سزا دے سکتے تھے ) ڈیوک نے کہا کہ میں نواب ہوں.زار نے کہا.ٹالسٹائے میں تمہیں کا ؤنٹ بناتا ہوں اسے مارو.اس طرح اُس نے اسی وقت دربان سے اسے پٹوایا.اس دربان کی تو کوئی حیثیت نہ تھی لیکن سوال یہ تھا کہ اس کو کھڑا کس نے کیا تھا.کھڑا بادشاہ نے کیا تھا اس لئے اس کی حکم عدولی اس قدر سزا کا موجب ہوئی.کفر و اسلام کے مسئلہ میں بھی نادان یہ نہیں سمجھتا کہ بحث کس بات پر ہے دیکھنا تو یہ ہے کہ معاملہ کس کا ہے.مسیح موعود تو ایک بہت بڑا انسان ہے اگر کوئی چھوٹا بھی ہو تو اس کے متعلق یہ دیکھنا چاہئیے کہ یہ کس کی طرف سے بول رہا ہے.آنحضرت سلی یا پیام فرماتے ہیں تو كَانَ عِيسَى وَمُوسَى حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتباعی ۸ کہ اگر عیسی اور موسیٰ زندہ ہوتے تو ان کیلئے ضروری تھا کہ مجھ پر ایمان لاتے اور میرا کلام مانتے ورنہ کافر بنتے.تو یہاں یہ سوال نہیں کہ مرزا صاحب کی کیا حیثیت ہے؟ ہم بدرجہ تنزل یہ بھی مان لیتے ہیں کہ مسیح موعود کی کوئی حیثیت نہ تھی مگر یہ تو منکرین خلافت بھی مانتے ہیں کہ آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے پیغام لے کر آئے تھے پس چونکہ ان کو بھیجنے والا اور آنحضرت سلام ایم کو بھیجنے والا ایک ہی ہے اس میں کچھ فرق نہیں اس لئے ہے خدا تعالیٰ کا حکم جس طرح آنحضرت سال الیتیم کے ماننے کے لئے تھا اسی طرح حضرت مسیح موعود کیلئے ہے.جو نہیں مانتا وہ خدا تعالیٰ کے احکام کا انکار کرتا ہے لیکن یہ بات وہ یاد رکھے کہ خدائی احکام کا کوئی معت ابلہ نہیں کرتے سکتا.ہمارے سلسلہ کے مقابلہ میں لوگ بڑے بڑے زور لگاتے اور کہتے ہیں کہ یہ چھوٹی سی جماعت ہے کر رہی ہے کیا سکتی ہے.لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی شکاری پانچ سو مرغابیوں میں سے دس ہیں مارلے تو اسے کامیاب کہا جائے گا نہ کہ نا کامیاب کیونکہ وہ غالب رہا ہے اور کچھ چھین کر ہی لے گیا ہے.اسی طرح ساری دنیا کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود کھڑے ہوئے اور دنیا نے مقابلہ کرنے میں بھی کوئی کمی نہ کی لیکن آپ ہی کچھ چھین کر لے پھر لوگوں کو یہ شک بھت کہ مرزا صاحب آپ تو کچھ نہیں جانتے مولوی نورالدین صاحب انہیں کت ہیں لکھ لکھ کر دیتے ہیں اور وہ شائع کرتے ہیں.لیکن خدا نے اس بات کو غلط ثابت

Page 400

خطبات محمود جلد ۴ ۳۹۱ سال ۱۹۱۵ء کرنے کیلئے حضرت صاحب کی وفات کے بعد مولوی صاحب کو آخری دم تک ایک کتاب بھی لکھنے کی تحریک نہ کی.بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کے دم کے ساتھ یہ سلسلہ کھڑا ہے ان کے بعد کچھ نہیں رہے گا.پھر جب ان کی یہ بات پوری نہ ہوئی تو کہنے لگے کہ ہم جو کہتے تھے کہ مرزا صاحب کو مولوی صاحب کتاب ہیں وغیرہ لکھ کر دیتے ہیں اب چونکہ مولوی صاحب ہیں اس لئے سلسلہ چل رہا ہے اور ہماری اس وقت کی بات کی تائید ہورہی ہے البتہ جب مولوی صاحب نہ رہے تو پھر یہ سلسلہ نہیں رہے گا.بعض یہ کہتے تھے کہ مولوی صاحب عربی دان ہیں انہیں سلسلہ کے قائم رکھنے کا کیا پتہ ہے اصل میں ایم.اے ، ڈاکٹر، پلیڈرا سے چلا رہے ہیں.خدا تعالیٰ کی کیسی غیرت ہے کہ ایک ہی وقت میں دونوں کو علیحدہ کر دیا.ایک طرف اگر مولوی صاحب کو وفات دی تو دوسری طرف ان لوگوں کو علیحدہ کر کے بتادیا کہ دیکھو ہمارا سلسلہ کسی انسانی سہارے پر نہیں چل رہا بلکہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے.پھر یہ بھی نہیں کیا کہ اب سلسلہ کی باگ کسی بڑے عالم فاضل اور تجربہ کار کے ہاتھ میں دے دی ہو بلکہ اس کے ہاتھ میں دی ہے جس کے متعلق مشہور کیا گیا تھا کہ نکما ، جوش میں آنے والا اور لڑنے جھگڑنے والا ہے.خدا تعالیٰ نے یہ بتایا کہ تمہارے خیال میں جو سب.زیادہ کمزور اور نکلتا ہے ہم اپنا کام اُسی سے لے لیں گے.اس میں کیا شک ہے کہ مجھے نہ اپنے علم پر ناز ہے نہ تجربہ کاری کا مدعی ہوں اور نہ مجھے کسی اور بات کا گھمنڈ ہے مگر خدا تعالیٰ میرے سپرد یہ کام کر کے دکھانا چاہتا ہے کہ جس کو تم نا لائق سمجھتے ہو میں اسی سے کام لوں گا.پس جب خدا تعالیٰ کا یہ منشاء تھا تو اور کسی کی کیا طاقت تھی کہ اس میں حارج ہوتا.ایک دن وہ بھی تھا کہ منکرین کی طرف سے اعلان شائع ہوا تھا کہ جماعت کا بہت بڑا حصہ ہمارے ساتھ ہے اور اس خوشی میں پھولے نہ سماتے تھے.پھر یہ بھی کہا کہ قادیان مشن کمپاؤنڈ بن جائے گا لیکن ایک دن یہ ہے کہ خدا نے جماعت کے کثیر حصہ کو پکڑ کر جھکا دیا ہے اور قادیان میں اشاعت اسلام کا ایسا کام ہو رہا ہے کہ تمام ہندوستان چھوڑ تمام دنیا میں بھی کسی جگہ نہیں ہورہا.اس سے اللہ تعالیٰ نے یہ دکھا دیا ہے کہ یہ میرا اپنا کام ہے.ایک طرف وہ انسان جو دینی علوم کے جاننے کی نظر میں سلسلہ کا سہارا سمجھا جاتا تھا اسکو اٹھا لیا.دوسری طرف دنیاوی علوم والوں کو علیحدہ کر دیا اور تیسرے اُس انسان کے ہاتھ میں جہاز کی پتوار دے دی جسے کسی قابل نہ سمجھا جاتا تھا.

Page 401

خطبات محمود جلد ۴ ۳۹۲ سال ۱۹۱۵ء پس اگر کوئی میری کمزوریوں کی طرف نظر کر کے اور اپنے علم کے گھمنڈ میں آکر مخالفت پر کھڑا ہوتا ہے تو یہ اس کی نادانی ہے.اس کی نظر مجھ پر نہیں پڑنی چاہئیے بلکہ اس پر پڑنی چاہئیے جس کا یہ سلسلہ ہے اور جس نے مجھے کھڑا کیا ہے کیونکہ اصل میں وہی کام کر رہا ہے.کیا ابھی تک کسی کو اس صداقت کے قبول کرنے میں انکار ہے کہ منکرین خلافت نے میری مخالفت میں بڑے زور لگائے مگر خدا تعالیٰ نے ان کو نا کام ہی کیا اور جماعت میں ایسا جوش پیدا کر دیا کہ گویا نئے سرے سے بنی ہے اور یہ جوش گھٹنے کا نہیں کیونکہ یہ خدا کا سلسلہ ہے انسان مر جائیں گے لیکن خدا پر کوئی تغیر نہیں آسکتا.اِنَّ اللهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ ، جب تک احمدی احمدی ہیں یہ جماعت بڑھتی ہی رہے گی.بڑی بڑی طاقتیں داخل ہوں گی اور وہ وقت عنقریب آئے گا کہ بہت سی بلند گردنیں جھک جائیں گی اور وہ لوگ جو آج اسلام پر گندے اور بیہودہ حملے کرتے ہیں اسی کے حلقہ بگوش ہوں گے.ایک دفعہ مجھے دکھایا گیا تھا کہ آسمان پرستاروں سے لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ لکھا ہوا ہے.پس اسلام ترقی کرے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہی کرے گا اور اسے کوئی روک نہ سکے گا قتل کرنے والوں نے تو حضرت عمررؓ، حضرت عثمان ، حضرت علی ، ایسے جلیل القدر انسانوں کو بھی قتل کر دیا تھا لیکن اس طرح وہ اسلام کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکے.اُس وقت اگر چالیس لاکھ کے قریب مسلمان تھے تو بعد میں کئی کروڑ تک ہو گئے کیونکہ خدا تعالیٰ جس کی طرف سے یہ مذہب ہے وہ ہمیشہ سے زندہ اور کی ہے پس اسی خدا نے ہماری جماعت کو ایک ایسے مقام پر کھڑا کیا ہے کہ جو اس کو ہٹانا چاہے گا وہ خدا سے مقابلہ کرے گا.اس لئے ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ کا بہت بہت شکر کرنا چاہیئے.لا ہور ایک سرحد ہے اور ہمارے مخالف لوگوں کا مرکز اور پنجاب کا دارالخلافہ، یہاں کے احمدیوں کو بہت چوکس رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں تاکید فرماتا ہے کہ سرحد کو مضبوط رکھنا چاہیئے.مسلمانوں کی حکومتوں کے تباہ ہونے کی ایک یہ بھی وجہ ہے کہ انہوں نے سرحدوں کو مضبوط نہ کیا.اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ رابطو انا یعنی سرحدوں پر گھوڑے باندھے رکھو.لاہور بھی سرحد ہے یہاں بھی اپنے مخالفوں کے جواب ینے کے لئے احمدیوں کو ہر وقت کمر بستہ رہنا چاہئیے.سرحدی اور پہرہ دار فوجیوں کو سونے اور آرام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ان کا کام ہر وقت چوکس رہنا ہوتا ہے اگر یہ غفلت کریں تو دوسروں کی نسبت زیادہ سزا.

Page 402

خطبات محمود جلد ۴ ۳۹۳ سال ۱۹۱۵ء کے مستحق ہوتے ہیں.لاہور کے احمدیوں کو ہر وقت مستعد اور تیار رہنا چاہئیے.گالیوں کیلئے نہیں کیونکہ جو کسی کو گالیاں دیتا ہے وہ اپنی شکست اور کمزوری کا خود اقرار کرتا ہے.پس تم لوگ نرم بنومگر بے حیا نہ بنو.رسول کریم صلی یا یہ فرماتے ہیں الْحَيَاء مِنَ الإِيمَانِ لا تم لوگوں سے نیک سلوک کرو.اگر کوئی محتاج ہو خواہ کسی مذہب کا ہو، چوہڑا چمار ہو، اس سے ہمدردی کرو مگر با حیاء بن کر.بہت سے ایسے لوگ ہیں جو بے حیائی اور نرمی میں فرق نہیں سمجھتے.میں ایک طرف جہاں تمہیں پستی اور نرمی کی نصیحت کرتا ہوں ، دوسری طرف بے حیائی اور بے غیرتی سے بھی منع کرتا ہوں.میں تمہیں کھول کر بتا دیتا کہ نرمی اور بے حیائی میں کیا فرق ہے مگر وقت نہیں ہے.مولوی غلام رسول صاحب را جیکی سمجھا دیں گے مگر نرمی سے سمجھا ئیں.تم لوگوں کو نصیحت کرو.بعض لوگ ایسے ہیں جنہیں نہ ہم سے تعلق ہے اور نہ منکرین سے.وہ درمیان میں پڑے ہیں.ان سے بات چیت کرو.پھر غیر مذاہب والے ہیں انہیں سمجھا ؤ.اور سب سے زیادہ دعاؤں پر زور دو.سورہ فاتحہ میں دونوں باتوں کی تعلیم ہے.اول یہ کہ اسمائے الہی کو یا درکھو.دوئم دعائیں کرو.مجھے حدیث کے ذريعر اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ۱۲ کے بہت لطیف معنی سمجھ میں آئے.اور وہ اس طرح کہ حضرت عائشہ بڑی سخی تھیں ان کی نسبت ابن زبیر ( یہ حضرت عائشہ کے بھانجے تھے) نے کہا ان کا ہاتھ روکنا چاہئیے جب یہ بات ان تک پہنچی تو وہ سخت ناراض ہوئیں اور کہا کہ یہ میرے دین کے رستہ میں روک ہوتا ہے اور مجھے صدقہ سے روکتا ہے میں اس سے نہیں ملوں گی اگر ملوں تو مجھ پر صدقہ دینا واجب ہوگا.اس بات پر جب کچھ عرصہ گزرا تو صحابہ نے صلح کروانے کی تجویز کی.عبد الرحمن ابن عوف ایک شخص تھے جو حضرت عائشہ کے ننھیال سے تھے.انہوں نے کچھ آدمی ساتھ لئے اور ابن زبیر کو بھی لے کر حضرت عائشہ گھر گئے.دروازے پر جا کر آواز دی کہ ہم اندر آنا چاہتے ہیں.حضرت عائشہ نے کہا آجاؤ.ابن زبیر بھی ساتھ ہی پردہ اٹھا کر اندر چلے گئے اور آپ سے جا کر چمٹ گئے اور اپنا قصور معاف کروالیا.اس پر انہوں نے چالیس غلام آزاد کر دیئے ۱۳.اس سے یہ بات حل ہو گئی کہ اھدِنا جمع کا صیغہ ہے یعنی ہمیں ہدایت دیجئیے.جب یہ کہا جائے تو خدا تعالیٰ کی تو یہ شان نہیں کہ آدھے لوگوں کی تو دعا قبول کرے اور آدھے لوگوں کی نہ کرے وہ تو کہے گا کہ آجاؤ.تب سارے کے سارے خدا تعالیٰ کی رحمت میں داخل ہو جائیں گے اور اعمال صالحہ رکھنے والوں کے ساتھ کمزور بھی

Page 403

خطبات محمود جلد ۴ ۳۹۴ سال ۱۹۱۵ء 66 ہو جائیں گے.جس طرح ابن زبیر کو ہم اندر آنا چاہتے ہیں کے کہنے سے اندر جانے کا موقع مل گیا اسی طرح کمزور بھی داخل ہو جائیں گے.پس تم لوگ ایک طرف کوشش کرو اور دوسری طرف مل کر دعائیں کرو.پھر جو کوئی کمزور ہو گا اس کی دعا بھی سب کے ساتھ مل کر منظور ہو جائے گی.خدا تعالیٰ تم سب کو اس نے قابل بنائے.آمین الفضل ۱۸.جولائی ۱۹۱۵ ء ) یونس : ۹۱ الفاتحة : ٢ ال عمران : ۳۲ تذکرہ صفحہ ۳۹۷.ایڈیشن چہارم 66 وہ بھلا خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال سکتا ہے سیرت المہدی حصہ اول صفحہ ۹۶ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے _COUNT: امیر، نواب ( علمی اردو لغت صفحہ ۱۱۰۹ مطبوعہ لاہور ۱۹۹۶ء) کے ڈیوک (DUKE):شہزادے کے بعد سب سے بڑا عہد یدار، رئیس ( قومی انگریزی اردو لغت صفحه ۶۳۱ مطبوعہ دہلی ۱۹۹۳ء) اليواقيت والجواهر جلد ۲ صفحه ۲۲ مطبوعه ۱۳۱۷ھ مطبع میمنہ مصر ف الرعد : ١٢ ۱۰ ال عمران: ۲۰۱ بخاری کتاب الایمان باب الحياء من الایمان الفاتحة: بخاری کتاب الادب باب الهجرة

Page 404

خطبات محمود جلد ۴ ۳۹۵ (۷۶) رمضان کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے (فرموده ۱۶.جولائی ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ اس کے بعد فرمایا: رمضان کا مہینہ جس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.شَهرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآن است کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم نازل ہوا ہے کہ اس میں قرآن کا نزول ہوا یا قرآن کی ابتداء ہوئی.خدا کے فضل سے پھر دوبارہ بہت سے لوگوں کو میسر آیا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی عنایت ہی ہوتی ہے کہ وہ کسی کو نیکی کے کرنے کا موقع دیتا ہے.بہت سے لوگ تھے جو اس جگہ بیٹھے ہوئے لوگوں سے طاقتور اور قوی تھے.مگر گزشتہ رمضان کے بعد اور اس رمضان سے پہلے دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور اس رمضان میں انہیں نیکی کرنے کا موقع نہیں ملا.پھر بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جو با وجود یہ کہ زندہ ہیں لیکن اس مہینہ سے فائدہ اٹھانے کا انہیں موقع ہی نہیں ملا.کیوں؟ اس لئے کہ ان پر اس بات کی حقیقت ہی نہیں کھلی کہ خدا تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کرنے سے کیا فائدہ ہوتا ہے.پھر بہت سے ایسے ہیں جو قسم قسم کی بیماریوں کی وجہ سے رمضان کے مہینہ سے وہ فوائد نہیں اٹھا سکتے جو تندرست اٹھاتے ہیں.

Page 405

خطبات محمود جلد ۴ ۳۹۶ سال ۱۹۱۵ پس وہ لوگ جن پر خدا تعالیٰ نے فضل کیا ہے کہ اول تو انہیں مسلمان بنایا.دوسرے اتنی سمجھ دی کہ روزہ کی غرض کو سمجھیں.تیسرے اتنی صحت دی کہ روزہ رکھ سکیں چوتھے اتنی عمر دی کہ ایک اور رمضان کی برکات حاصل کر سکیں.ان پر اللہ تعالیٰ کا بہت ہی شکر کرنا واجب ہے.یہ مہینہ اپنے ساتھ بڑی بڑی برکتیں لایا کرتا ہے پہلی عظیم الشان برکت تو یہی ہے کہ جن لوگوں کو ستی اور کاہلی کی وجہ سے سارا سال نماز تہجد نصیب نہیں ہوتی اس مہینہ میں نصیب ہو جاتی ہے اور وہ لوگ جو صبح کی نماز سورج چڑھنے کے قریب پڑھتے ہیں ، ان کو بھی موقع مل جاتا ہے کہ رات کے وقت خدا تعالیٰ کی عبادت کریں اور تہجد پڑھیں.چونکہ سب لوگ سحری کو اُٹھتے ہیں اس لئے ست آدمی بھی اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں ، یوں اگر انہیں اٹھایا جائے تو کئی بہانے کریں.اصل بات یہ ہے کہ تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ شور وغل میں نیند پورے طور پر نہیں آتی.رمضان کے مہینہ میں چونکہ عام طور پر لوگ اٹھتے ہیں اس لئے کاہل بھی اُٹھ بیٹھتے ہیں اور تہجد پڑھنے کا انہیں موقع مل جاتا ہے.گو تہجد نوافل سے ہیں اور رمضان کے روزے فرائض سے.بہت سی طبائع ایسی ہوتی ہیں کہ فرائض تو ادا کر لیتی ہیں اور نوافل میں سستی کرتی ہیں.اور ایسا آج ہی نہیں کیا جاتا حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت سالی یتیم کے زمانہ میں بھی ایسا کرنے والے موجود تھے.چنانچہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت مسی یا یہ تم کی خدمت میں حاضر ہو کر سوال کیا.کہ یارسول اللہ! کتنی نمازیں فرض ہیں.آپ نے فرمایا ایک دن رات میں پانچ.پھر اس نے پوچھا.زکوۃ.آپ نے فرمایا.سال میں ایک دفعہ.پھر اس نے روزہ کے متعلق پوچھا.آپ نے فرمایا سال میں ایک مہینہ.پھر حج کے متعلق پوچھا.فرمایا عمر میں ایک دفعہ.یہ سن کر اس نے کہا.خدا کی قسم! میں اسی طرح کروں گا نہ اسے کچھ بڑھاؤں گا اور نہ کم کروں گا.آنحضرت سال یہ تم نے فرمایا کہ یہ بات جو اس نے کہی ہے اگر کر بھی لی تو جنت میں داخل ہو جائے گا سے تو معلوم ہوا کہ اُس وقت بھی ایسے لوگ تھے اور ایسی طبائع ہمیشہ سے چلی آتی ہیں.تہجد چونکہ فرض نہیں اس لئے اس کے پڑھنے میں سستی کی جاتی ہے.روزہ چونکہ فرض ہے اس لئے اس کیلئے سحری کو اٹھنا پڑتا ہے اور ساتھ ہی نفل پڑھنے کی توفیق مل جاتی ہے.اور یہ ثواب بھی حاصل ہو جاتا ہے.دوسری برکت روزہ کا ثواب ہے اس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ دار کا اجر میں ہی ہوں ہے.پھر اور بہت سے فوائد ہیں ، انسان بہت سی ہلاکتوں اور تکلیفوں سے بچ جاتا ہے.

Page 406

خطبات محمود جلد ۴ ۳۹۷ سال ۱۹۱۹ء پس یہ مہینہ خدا کے فضلوں کا مہینہ ہے اس سے جس قدر ہو سکے فائدہ اٹھالو.جس طرح بہت سے ایسے انسان ہیں جن کو یہ رمضان دیکھنا نصیب نہیں ہوا اسی طرح بہت ایسے ہوں گے جنہیں اگلا رمضان دیکھنا نصیب نہ ہوگا اور کون جانتا ہے کہ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جنہوں نے نہیں دیکھنا اس لئے ہر ایک کو اس رمضان میں خیر حاصل کرنے کی خوب کوشش کرنی چاہیئے.ہماری جماعت کوئی دنیاوی سوسائٹی نہیں اس لئے اس کے افراد کا فرض ہے کہ جہاں وہ اپنی اولاد، اپنی مشکلات، اپنے رشتہ داروں اور اپنی دیگر اغراض کیلئے دعائیں کریں گے اور اگر اخلاص سے کریں گے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب بھی ہو جائیں گے وہاں سلسلہ کی ترقی کیلئے بھی کریں.کیونکہ جو بچے سلسلے اور راستبازوں کی جماعتیں ہوتی ہیں ان کا پہلا فرض اپنی جان و مال کی حفاظت کرنا نہیں ہوتا بلکہ جماعت کی ترقی اور کامیابی کیلئے کوشاں رہنا اور راستی اور حق کی اشاعت کرنا ہوتا ہے پس ہمارے تمام دوستوں کو چاہیے کہ جہاں وہ اپنی ذات، اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کیلئے اس ماہ میں دُعائیں کریں، ان سب سے پہلے اس بات کو مد نظر رکھ کر ان کی دعائیں ہوں کہ سب سے زیادہ دعاؤں اور التجاؤں کا مستحق اسلام ، راستی اور حق ہے کیوں؟ اس لئے کہ کسی کو جو دعاؤں کی توفیق ملے گی تو کس ذریعہ سے.اسلام ہی سے.کیا ایسے کروڑوں انسان نہیں کہ ان پر رمضان آتا ہے اور گز ربھی جاتا ہے لیکن وہ کورے کے کورے ہی رہتے ہیں.پس دعائیں کرنے والوں کو یہ موقع اسلام اور آنحضرت صلی الہام کے ذریعہ اور اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے توسل سے حاصل ہوا ہے اس نے لئے ان کا پہلا فرض ہے کہ اسلام کی اشاعت کیلئے دعائیں کریں.میں کہنا تو بہت کچھ چاہتا تھا لیکن ریزش کی وجہ سے ڈر ہے کہ حلق کی بیماری جور و بصحت ہے بڑھ نہ جائے ، اس لئے اسی پر ختم کرتا ہوں.البقره: ۱۸۴ (الفضل ۲۵.جولائی ۱۹۱۵ء) البقرة : ۱۸۶ بخاری کتاب الصوم باب وجوب صوم رمضان کے مسلم کتاب الصوم فضل الصيام و بخاری کتاب الصوم باب هل يقول اني صائم اذا ستم

Page 407

خطبات محمود جلد ۴ ۳۹۸ (22) قرآن شریف دُنیا کیلئے ہدایت نامہ ہے (فرموده ۲۳.جولائی ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۹ء حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.الم ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ أُوْلَئِكَ عَلى هُدًى مِّنْ رَّيَّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ اس کے بعد فرمایا:.قرآن شریف خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا کیلئے ایک ہدایت نامہ ہو کر آیا ہے اور ایسے وقت میں آیا ہے جبکہ دنیا میں اور بہت سے مذاہب موجود تھے اور ان کے قدم جم چکے تھے.ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں آدمی ان کے ماننے والے موجود تھے گویا ان کی جڑیں بہت دور تک پھیل چکی تھیں.اُس وقت کی ایسے درختوں کے سائے میں اسلام ایک چھوٹا سا پودا اگا اور یہ بات ظاہر ہے کہ بڑے درخت کے نیچے چھوٹے پودے سرسبز نہیں ہوتے اور سائے میں درخت نہیں اُگا کرتا.چھت کے نیچے پودا کبھی اس طرح پھل پھول نہیں سکتا جس طرح کھلے میدان میں پھلتا پھولتا ہے.وکلاء کا لجوں سے نکل کر ہمیشہ ایسے مقام پر پریکٹس شروع کرتے ہیں جہاں زیادہ وکیل نہ ہوں کیوں؟ اس لئے کہ ابتداء میں چونکہ کافی ملکہ نہیں ہوتا لہذا دوسروں کے مقابلہ میں شہرت نہیں ہوسکتی.

Page 408

خطبات محمود جلد ۴ ۳۹۹ سال ۱۹۱۵ لا ہور جیسے مقام میں جہاں سینکڑوں وکیل ہیں کسی وکیل کا کالج سے نکل کر پریکٹس شروع کرنا اور پھر سب وکیلوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جانا بہت مشکل کام ہے اس لئے جب کوئی وکالت شروع کرتا ہے تو کسی ایسے مقام پر چلا جاتا ہے جہاں چھوٹے چھوٹے وکیل ہوں اور جب وہاں اس کی شہرت ہو جاتی ہے تو مشہور جگہ پر آجاتا ہے کیونکہ مقابلہ میں قدم جمنا بہت مشکل ہوتا ہے.تو قرآن شریف دنیا میں اس وقت بھیجا گیا جب کہ مذہبی پہلوان بہت سے موجود تھے اور ان کے بڑے بڑے دعوے تھے بڑی بڑی جماعتیں اور کی بڑی بڑی کتابیں تھیں ایسے وقت میں اسلام کا دعویٰ اور صرف دعوئی ہی نہیں بلکہ چیلنج دینا کہ آؤ مقابلہ کرو، ایسا دعوی ہے جس کی نظیر نہیں مل سکتی.اپنے اپنے مذہب کا پر چار کرنا الگ بات ہے.مثلاً عیسائیت جب آئی تو حضرت مسیح کے مقابلہ میں صرف یہود تھے اور ساری دنیا سے ان کا مقابلہ نہ تھا.چنانچہ حضرت مسیح علیہ السلام یہی کہتے رہے کہ میں سوروں کے آگے موتی نہیں ڈالتا.کوئی اپنے بچے سے روٹی چھین کر اوروں کو نہیں دیتا وغیرہ وغیرہ.غیر قوموں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو بلایا بھی لیکن انہوں نے نہ مانا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ میں صرف بنی اسرائیل کی طرف بھیجا گیا ہوں اگر میں نے کسی اور قوم کی طرف توجہ کی تو اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکوں گا.عیسائیت کی تبلیغ ساری دنیا کو کی گئی مگر اس وقت جبکہ حضرت مسیح " نہ رہے اور اصل عیسائیت میں بہت کچھ تغیر و تبدل ہو گیا.تو ایک ایسے درخت میں جو کھلے میدان میں آگے اور ترقی کر جائے اس درخت سے جسے بڑے درختوں کی جڑوں میں لگایا جائے اور جو ان کو اُکھاڑ کر پھینک دے بہت فرق ہے.یہی فرق اسلام اور عیسائیت میں ہے.اسلام اُس وقت دنیا کے سامنے پیش کیا گیا جب کہ اس نے ابتداء میں ساری دنیا کو مقابلہ کا چیلنج دے دیا.لیکن مسیحیت ایک خاص قوم تک محدود رہی.اور اگر باقی دنیا کی طرف اس نے رخ بھی کیا تو اس وقت جبکہ ایک جماعت پیدا ہو چکی تھی.غرض قرآن مجید ایسے زمانہ میں آیا جس میں سب مذاہب پھیلے ہوئے تھے.اس نے آکر سب کو چیلنج دیا کہ آؤ مقابلہ کر لو اور معت ابلہ بھی معمولی نہیں بلکہ یہ کہا کہ الم ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَهِما رَزَقْنَهُمْ يُنفِقُونَ میں ایک ایسے خدا کی طرف سے آیا ہوں جس کے علم کا معت ابلہ کوئی نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اَعْلَمُ ہے معت اللہ تو الگ رہا.لَا يُحِيطُونَ بِشَيْئ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ اس

Page 409

خطبات محمود جلد ۴ ۴۰۰ سال ۱۹۱۵ء کے علم کو تو کوئی پا ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ خود ہی اپنے فضل سے یہ نہ کہے کہ آؤ میں تمہیں سکھا دیتا ہوں.اس سے خدا تعالیٰ نے دنیا کو بتایا کہ تم جو اسلام کا مقابلہ کرو گے تو اس کی بناء تمہارے علم پر ہوگی.مثلاً کوئی کہے کہ اس مذہب کی کیا ضرورت تھی؟ اس کتاب کی کیا ضرورت تھی؟ یہ مذہب کس طرح چل سکے گا.اس کے متعلق ابتداء میں ہی خدا تعالیٰ نے فرما دیا کہ میں بڑے والا ہوں.بھلا میں کسی ایسے مذہب کو بھیج سکتا ہوں جو پھیل نہ سکے اور جس کی دنیا کوضرورت نہ ہو.تو قرآن شریف ایک کامل کتاب ہے جو دنیا کی طرف بھیجی گئی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی کتاب اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی.اس میں کتنی طاقت ہے.دیکھو سایہ دار درختوں کے نیچے سے اسلام کا پودا نکلا مگر بڑھتے بڑھتے ایسا بڑھا کہ اس نے سب کو اُکھاڑ کر پرے پھینک دیا اور خود ان کی جگہ لے لی.عرب میں مکہ مشرکوں کا مرکز تھا اور یہ پودا وہیں سے نکلا اور اس نے شرک کی جڑوں کو ایسا اُکھیڑا کہ سارے عرب میں اس کا نام ونشان بھی نہ چھوڑا.چنانچہ عرب کے مشرکوں کا جو مذہب تھا وہ اب صفحہ دنیا پر کہیں نہیں پایا جاتا.پھر ان علاقوں میں جہاں اسلام کی ابتداء ہوئی یہودی اور مجوسی رہتے تھے لیکن انہیں ایسا اکھیڑا کہ عرب سے مسیحیت اور مجوسیت کا نام ونشان مٹ گیا.حتی کہ مجوسیت کو ایران ، شام اور مصر میں بھی شکست ہوئی جو علاقے پاس پاس تھے اور جنہوں نے اسلام کا مقابلہ کیا یا یہ کہا کہ ہم اسلام کو کچل ڈالیں گے ان کا تمام علاقوں سے نام ونشان مٹ گیا.عرب سے یہودیت ، عراق سے مجوسیت اور مصر سے مسیحیت مٹی غرضیکہ وہ تمام علاقے جنہوں نے اسلام کی مخالفت کی ٹھانی ان کے مذاہب کو جڑوں سے اکھیڑ کر پھینک دیا گیا.کس طرح؟ تلوار کے ذریعہ نہیں کیونکہ تلوار سے دلوں کی فتح نہیں ہو سکتی.لیکن اسلام نے جو فتوحات کیں وہ دلوں پر تھیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ ایسی کامل کتاب ہے کہ اپنے کمال سے فتح حاصل کرتی ہے اور جو شخص اللہ کا تقویٰ رکھنے والا ہو وہ اس سے ایک دم جدا نہیں ہو سکتا.جدھر یہ لے جائے گی اُدھر ہی جائے گا یہ اس کیلئے راہنمائی اور ہدایت کا موجب ہو جائے گی مگر لفظی متقی نہیں بلکہ وہ جو خدا کی عبادت کرے اور خدا کے تمام حکم ماننے کیلئے تیار رہے اور جسے یقین ہو کہ اعمال کا بدلہ ایک دن ضرور ملے گا ان کو قرآن کے ذریعہ ضرور ہدایت ہو جاتی ہے.چنانچہ دوسری جگہ اس مضمون کی خدا تعالیٰ نے اس طرح تشریح فرما دی ہے کہ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُم

Page 410

خطبات محمود جلد ۴ ۴۰۱ سال ۱۹۱۵ء سُبُلنا - ۵ے.جو لوگ خواہ کسی مذہب کے ہوں اگر ہمارے راستہ میں کوشش کریں تو ہم انہیں راہ دکھا دیتے ہیں.تو قرآن کریم دنیا کی ہدایت کے لئے آیا اور ایسے وقت میں آیا جبکہ مخالف بڑ.زوروں پر تھے مگر باوجود اس کے خدا تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی اور وہ لوگ جنہوں نے اس سے تعلق رکھا کامیاب ہو گئے اور کوئی ان کا مقابلہ نہ کر سکا اور یہ زندہ ثبوت کے طور پر چلا آیا ہے.اس زمانہ میں بھی یہی ہدایت جس کو ملی اسے ایسے بلند مقام پر لے گئی کہ بلند سے بلند دشمن کا ہاتھ اس سے بہت نیچے رہ گیا اور جس نے اس پر تھو کا اس کے منہ پر ہی پڑا.جس نے اس کی طرف خاک اُڑائی اس نے اپنے ہی اوپر اُڑائی.پس ایسی کتاب کے ہوتے ہوئے جس کے مقابلہ میں کوئی مذہب کوئی کتاب، کوئی تعلیم نہیں ٹھہر سکتی مسلمان دوسری کتابوں کی طرف متوجہ ہوں تو کتنا تعجب ہے.اس زمانہ میں مسلمانوں کی تباہی کی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے.اول تو پڑھتے ہی نہیں اور اگر پڑھتے ہیں تو رسمی طور پر.ان کی مثال ایسی ہے کہ کنواں گھر میں ہوتے ہوئے کوئی پیاسا ہو، کپڑے ہوتے ہوئے ننگا ہو، کھانا ہوتے ہوئے بھوکا ہو، درخت کے پاس بیٹھے ہوئے دھوپ میں جل رہا ہو.چونکہ مسلمانوں نے ہے اپنے مذہب کو چھوڑ دیا اس لئے اس کے نتیجہ میں دکھ مصیبتیں اٹھانے لگے اور ایسے رسوا اور ذلیل ہو گئے کہ دنیا نے ان کی رسوائی کو ان کے مذہب کا نتیجہ قرار دے دیا لیکن اگر وہ قرآن پر غور و تدبر اور اس پر عمل کرتے تو ان پر کوئی غالب نہیں آسکتا تھا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے أُولئِكَ عَلَى هُدًى مِّن ربهم وأولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.اسلام کے اعلیٰ سے اعلیٰ مدارج تو الگ رہے قرآن کے مطابق عمل کرنے والے پر بھی کوئی غلبہ نہیں پاسکتا.ہمارے زمانہ میں خدا نے اپنا فضل کر کے ایک انسان مبعوث فرمایا جس نے ادھر ادھر سے لوگوں کو اکٹھا کر کے قرآن کی تعلیم پر عمل کرنا سکھایا پس ہماری جماعت کو اس کی قدر کرنی چاہیئے کہ یہ تعویذ جس گھر میں ہو شیطان اس میں داخل نہیں ہو سکتا اور جس کے پاس ہو اس پر حملہ نہیں کر سکتا.بھلا ممکن ہے کہ جہاں شیر ہو وہاں گیدڑ داخل ہو سکے اسی طرح ممکن نہیں کہ جہاں قرآن ہو وہاں باطل گھس سکے.جس کے دل میں قرآن کے معارف ہوں اس میں شیطان ہر گز نہیں گھسے گا اور وہ جس کے دل میں شیطان وساوس اور بد عقائد پیدا کرتا ہے، یقینا یقینا اس کے دل میں کوئی کو نہ ایسا ہے جس میں قرآن نہیں ہے اس لئے

Page 411

خطبات محمود جلد ۴ ۴۰۲ سال ۱۹۱۵ اس میں شیطان داخل ہو جاتا ہے.رمضان کے دن قرآن سے خاص تعلق رکھتے ہیں کیونکہ اس میں قرآن شریف کی ابتداء ہوئی ہے.پھر جبرائیل رمضان کے مہینے میں قرآن کا دور ختم کرواتے تھے.اس لئے یہ مہینہ خصوصا قرآن پر غور کرنے کا ہے اور قرآن ایک ایسا سمندر ہے کہ اس میں غوطہ مارنے والا کبھی موتیوں سے خالی نہیں آتا.ہماری جماعت کو چاہیے کہ اس ماہ میں قرآن کا زیادہ مطالعہ کرے تا خدا تعالیٰ ان کے دلوں کو معرفت اور روحانیت سے بھر دے.ل البقرة : ٢ تا ٦ الفضل ۳ اگست ۱۹۱۵ء) اپنے موتی سوروں کے آگے نہ پھینکو متی باب ۷ آیت ۶ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء مناسب نہیں کہ لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کو پھینک دیوئیں.متی باب ۱۵ آیت ۲۶.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۷ ۱۸۸ء البقرة: ۲۵۶ هي العنكبوت:۷۰ البقرة: ١٨٦ ک بخاری کتاب الصوم باب اجود ما كان النبي يكون في رمضان.

Page 412

خطبات محمود جلد ۴ ۴۰۳ (۷۸) رسول کی اطاعت در اصل خدا تعالیٰ کی اطاعت ہے (فرموده ۳۰.جولائی ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَحِيمًا فَلَا وَرَبَّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِم حَرَجاتِها قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تسليمات اس کے بعد فرمایا:.بدی اور گناہ کے مرتکب دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک تو ایسے ہوتے ہیں جو بدی کو بدی سمجھتے ہی نہیں اور ایک وہ جماعت ہوتی ہے جو بدی کو بدی سمجھ کر اس کی مرتکب ہوتی ہے.بدی کو بدی نہ سمجھنے والے لوگ تو غیر مذاہب والے ہیں کیونکہ بہت سی ایسی باتیں ہوتی ہیں جو خدا تعالیٰ کے سچے اور آسمانی مذہب میں گناہ اور بدیاں ہیں لیکن ان کے مذہب میں جائز اور روا ہیں.مثلاً بعض مسیحی صاحبان شراب پیتے ہیں اور یہ ان کے مذہب میں جائز ہے حتی کہ ان کی بعض عبادتوں میں اس کے پینے کا حکم ہے اس لئے یہ جب شراب کا استعمال کریں گے تو برا سمجھ کر نہیں کریں گے بلکہ جائز اور مذہبی حکم سمجھ کر کریں گے لیکن اگر کوئی مسلمان اس کا استعمال کرے گا تو بدی سمجھ کر کرے گا اسی طرح اور بعض ایسے گناہ ہیں جو ہر مذہب میں گناہ ہیں مگر بعض کو ان کا علم نہیں ہوتا ایسی حالت میں وہ اس کے مرتکب ہو جاتے ہیں.

Page 413

خطبات محمود جلد ۴ ۴۰۴ سال ۱۹۱۵ء چنانچہ بہت سی بدیاں مسلمانوں میں رائج ہیں مگر جہالت کی وجہ سے جائز اور کار ثواب سمجھتے ہیں.مثلاً گیارہویں دینا ، نیاز اور پیر کا بکرا چڑھانا.ان باتوں کو وہ پسندیدہ سمجھتے ہیں.تو ایک بدیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کو بدی سمجھ کر ارتکاب نہیں کیا جاتا اس قسم کی بدیاں بھی ضرور ضرر رساں ہیں مگر ایک حد تک قابل چشم پوشی بھی ہیں.بلحاظ اس کے کہ یہ بدیاں ہیں نقصان ضرور پہنچا ئیں گی اور بلحاظ اس کے کہ وہ جسم اور روح کیلئے مضر اور نقصان دہ ہیں انسان کیلئے ضرور تکلیف دہ ثابت ہوں گی لیکن ان کا جرم جو ہے وہ خدا کے حضور میں ایک حد تک قابل معافی ہے کیونکہ اس بات کی ان کو سزا نہیں ملے گی کہ تم نے خدا کے حکم کو جان بوجھ کر کیوں توڑا.وہ انسان بھی دیکھ پائے گا جس نے کسی بدی کو جان بوجھ کر نہ کیا کیونکہ جو زہر کی پڑیا کھائے گا مرے گا خواہ جان بوجھ کر نہ کھائے لیکن اگر وہ لوٹ پوٹ ہو کر بچ جائے تو گورنمنٹ اس کو اس لئے سزا نہیں دے گی کہ تم خودکشی کے فعل کے مرتکب ہوئے ہو کیونکہ اس نے جان کر ایسا نہیں کیا.پس خود کشی جو دنیاوی اور الہی حکومتوں کا جرم ہے اگر غلطی سے زہر کھانے کے نتیجہ میں ہو اور اگر ایسا شخص آخر میں بچ جائے گا تو دنیا وی حکومت اسے سزا نہ دے گی اور اگر مر جائے گا تو الہی حکومت اسے مجرم نہ سمجھے گی لیکن اگر کوئی جان بوجھ کر خود کشی کا ارتکاب کرے گا اور بیچ جائے گا تو یہ حکومت اُسے سزا دے گی اور اگر مر جائے گا تو اگلی حکومت اسے مجرم ٹھہرائے گی کیونکہ ایک سزا بغاوت کی سزا ہوتی ہے اور ایک فعل کے نتیجہ میں سزا ملتی ہے.اس لئے کہ اس نے جان بوجھ کر نہیں کیا ، اسے نقصان نہیں پہنچے گا مگر اس لئے کہ جو اس نے غلطی کی ہے اس کا خمیازہ اُٹھائے اسے تکلیف ہوگی اور غلطی کی وجہ سے چونکہ اس کے دل پر زنگ لگ گیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ علاج کیا جائے.یہ ایک قسم گناہوں اور گناہ کرنے والوں کی ہے دوسری قسم کے گناہ کرنے والے ایسے ہوتے ہیں جو جان بوجھ کر بدی کرتے ہیں ان لوگوں کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں.(۱) ایک وہ جو گناہ کو گناہ سمجھتے ہوئے کرتے ہیں اور جب ان سے اس کے متعلق پوچھا جائے تو اقرار کر لیتے ہیں کہ واقعی ہم اس بدی کے مرتکب ہوتے ہیں مگر مجبور ہیں کمزوریوں کی وجہ سے اس فعل بد سے بچنے کی طاقت نہیں ہے.(۲) وہ جو بدی کو بدی سمجھ کر کرتے ہیں اور پھر اس بدی کو نیکی ثابت کرنا چاہتے ہیں اور اس پر اصرار اور ضد کر کے اپنی خجالت اور شرمندگی کو مٹانا چاہتے ہیں.اس قسم کے لوگ پہلی

Page 414

خطبات محمود جلد ۴ ۴۰۵ سال ۱۹۱۵ قسم کے لوگوں سے زیادہ ضرر رساں ہوتے ہیں کیونکہ پہلی قسم کے لوگ صرف اپنے نفس کیلئے ہلاکت اور تباہی کا ہی باعث نہیں ہوتے ہیں بلکہ بہتوں کیلئے ہدایت کا موجب بھی ہو جاتے ہیں.جیسا کہ کسی نے کہا ہے کہ:.من نه کردم شما حذر بکنید یعنی میں نے تو اپنی جان کو تباہ کر لیا ہے اور کوئی احتیاط نہیں کی مگر تم میری حالت کو دیکھ کر اپنا بچاؤ کا سامان کر لو.تو ایسے لوگ گو اپنے نفس کو تباہ کر لیتے ہیں مگر دوسروں کیلئے عبرت اور نصیحت کا موجب بن جاتے ہیں.لیکن وہ جو بدی کو بدی سمجھ کر کرتے ہیں اور پھر اس پر اصرار کرتے ہیں کہ ہم نے یہ بدی نہیں کی بلکہ نیکی کی ہے ایسے لوگ خدا کے حضور بڑی پکڑ کے قابل ہوتے ہیں کیونکہ یہ نہ صرف اپنے آپ کو ہلاک کرتے ہیں بلکہ اور وں کو بھی اپنے ساتھ شامل ہونے کی ترغیب دیتے ہیں اور ان کی ہلاکت کا باعث بنتے ہیں.یہ جو میں نے آیتیں پڑھی ہیں ان میں ایسے ہی لوگوں کا ذکر ہے جو بدی کو بدی سمجھ کر کرتے ہیں اور پچھتاتے نہیں بلکہ یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ کیا ٹھیک کیا ہے.اگر ہم نے ایک ایسی بات نہیں مانی جو رسول کا اپنا خیال تھا تو کیا ہوا ، کوئی خدا کا حکم تو نہیں تھا جس کا ہم نے انکار کیا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللہ.ہم نے کوئی رسول ایسا نہیں بھیجا مگر ای لئے کہ اس کی اطاعت کی جائے.ایک احکام ایسے ہوتے ہیں جو قانون کے رنگ میں ہوتے ہیں جنہیں حکومت نافذ کرتی ہے اور چھاپ کر شائع کر دیتی ہے ان کی پابندی کرنے سے سکھ اور ان کو توڑنے سے دُکھ اُٹھانا پڑتا ہے.لیکن ایک احکام ذمہ دار حکام کی طرف سے ہوتے ہیں مثلاً ضرورت کے وقت ڈپٹی کمشنر کی طرف سے یا لیفٹینٹ گورنر کی طرف سے جاری ہوتے ہیں.جو کوئی ان کا انکار کرتا ہے وہ سزا بھی پاتا ہے کیونکہ یہ حاکم مقررہی اس لئے کئے جاتے ہیں کہ اپنے احکام جاری کریں.چونکہ حکومت نے ان کے فیصلہ کو اپنا فیصلہ اور ان کے حکم کو اپنا حکم اور ان کی اتباع کو اپنی اتباع قرار دیا ہے اس لئے ان کے حکم بھی ہر ایک کیلئے قابل قبول ہوتے ہیں اور جو ان کی تابعداری نہیں کرتا وہ سزا پاتا ہے.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب رسولوں کے بھیجنے کی غرض بھی یہی ہے اور یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ ہم نے کوئی رسول بھیجا ہی نہیں مگر اس لئے کہ اس کی اطاعت کی جائے تو پھر وہ جو بھی حکم دے اسے ماننا ہوگا اور یہ مت خیال کرو

Page 415

خطبات محمود جلد ۴ ۴۰۶ سال ۱۹۱۵ء یہ بندہ کی اطاعت ہے بلکہ یہی سمجھو کہ خدا کی اطاعت ہے کیونکہ اس بندہ کی اطاعت خدا کے حکم کے ماتحت ہے پس وَلَوْ أَنَّهُم إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولَ لَوَجَدُوا الله توا بار حیما.اگر انہوں نے غلطی کی تھی تو انہیں چاہیئے تھا کہ بجائے اس کے کہ اصرار کرتے تیرے پاس آتے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے اور تجھ سے بھی کہتے کہ اے رسول ! ہمارے لئے استغفار کر کیونکہ وہ حکم جس کا انہوں نے انکار کیا تھا وہ بھی تیرے ہی واسطہ سے دیا گیا تھا.اس آیت کے سیاق سے بھی اور خود اس آیت سے بھی پتہ لگتا ہے کہ یہ حکم رسول کا حکم تھا کیونکہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ الہام احکام جاری ہوتے ہیں ان کے توڑنے والے کو بطور خود استغفار کافی ہوتا ہے.رسول کے ذریعہ سے معافی مانگنے کی زائد شرط بتاتی ہے کہ یہ حکم دراصل رسول کا حکم تھا اس لئے براہ راست معافی کی بجائے رسول کی زندگی میں رسول کے ذریعہ معافی مانگنے کا حکم دیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر وہ ایسا کرتے تو اللہ بڑا بخشش کرنے والا اور رحیم ہے، انہیں ضرور معاف کر دیتا.مگر انہوں نے ایسا کرنے کی بجائے آگے سے کہہ دیا کہ ہم خدا کی طرف سے جو حکم آتے ہیں ان کو مانتے ہیں رسول کے اپنے حکموں کو ماننے کی ہمیں ضرورت نہیں اس لئے نہیں مانتے.فرما یافَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْهُم - تیرے رب کی قسم ! یہ ان کا غلط خیال ہے یہ اُس وقت تک مومن ہو ہی نہیں سکتے جب تک کہ جس بات میں اختلاف ہو جائے اس میں تجھ سے فیصلہ نہ کرائیں.یعنی کوئی ایسی بات جس کے متعلق خدا تعالیٰ کا کوئی صریح حکم نہ پایا جاتا ہو، اس میں اگر اختلاف ہو جائے تو انہیں چاہئے کہ تجھ سے فیصلہ کرائیں.اور اگر وہ ایسی باتوں میں تجھے حکم نہیں قرار دیتے وہ مسلمان ہی نہیں ہیں.اور پھر تجھے حکم ہی قرار نہ دیں.یعنی طوعا و کر ہا تیرے فیصلہ کو قبول کریں بلکہ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّهَا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا - اپنے دلوں میں اس فیصلہ کے متعلق ذرا بھی کسی قسم کی تنگی محسوس نہ کریں یعنی انہیں نبی کے فیصلہ پر شرح صدر ہو جائے اور پورے طور پر نبی کی اطاعت کریں.یہ حکم ہے رسولوں کی اطاعت کے متعلق جب تک کسی میں ایسی اطاعت نہ پائی جاتی ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تیرے رب کی قسم ! وہ مسلمان ہی نہیں ہے چونکہ رسول کے حکم کا انکار تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے رسول کے رب کی قسم کھائی ہے یعنی اپنی نسبت رسول

Page 416

خطبات محمود جلد ۴ ۴۰۷ سال ۱۹۱۹ء کی طرف دی ہے اور پہلے بھی فرمایا ہے کہ رسول کی وساطت سے اگر وہ گناہ معاف کرواتے تو معاف ہو سکتے تھے اور یہ اس لئے کہ رسول کے حکموں کو توڑنا کوئی معمولی بات نہیں.پس یہ سوال بہت گندہ سوال ہے کہ رسول کا یہ حکم الہام ہے یا اس کا اپنا ہے.یہی سوال کر کے ایک جماعت تباہ ہو چکی ہے اور وہ چکڑالوی جماعت ہے اور اس سے پہلے متفرق طور پر اور لوگ بھی ہوئے ہیں.مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ سوال ہماری جماعت میں بھی پایا جاتا ہے کہ حضرت صاحب نے فلاں بات الہام سے کہی ہے یا یونہی کہی ہے.ابھی پرسوں کا ذکر ہے کہ ایک آدمی نے لکھا ہے کہ ایک احمدی غیر احمدی کولڑ کی دینے لگا تھا میں نے اس کو منع کیا اور کہا کہ حضرت مسیح موعود کا حکم ہے کہ غیر احمدی کولڑ کی نہیں دینی چاہیئے تو اس نے کہا کہ حضرت صاحب نے یہ حکم الہام سے دیا ہے یا خود دے دیا ہے.اگر الہام سے ہے تب تو اس کا ماننا ضروری ہے اور اگر نہیں تو اس کے خلاف کرنے میں کوئی حرج نہیں.لیکن وہ نادان نہیں ہے جانتا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَينَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا في أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيما - اگر کوئی کہے کہ یہ تو آنحضرت سلی یا سیلم کے متعلق ہے اور خاص آپ ہی کی ذات سے تعلق رکھتا ہے.چنانچہ یہ مرض اس وقت بھی بعض لوگوں میں پھیلی ہوئی ہے اور وہ عام اصول کو خاص کر دیتے ہیں اور خاص کو عام.چنانچہ بعض لوگ لو تقول والی آیت کو خاص ہے کرتے ہیں اور بعض نادان بعض خاص باتوں کو عام کر دیتے ہیں جیسا کہ ایک شخص نے حضرت مسیح موعود کی نبوت کے خلاف یہ استدلال کیا ہے کہ چونکہ یحیی کیلئے آیا ہے لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِنْ قَبْلُ سمیا پس نبی وہ ہوتا ہے جس کا نام ایسا نام ہے کہ اس سے پہلے کسی کا وہ نام نہ ہوا اور چونکہ یہ بات حضرت مسیح موعود میں نہیں پائی جاتی اس لئے وہ نبی نہیں.حالانکہ انبیاء کی جو خصوصیات ہوتی ہیں ان کا پتہ الفاظ سے ہی لگ جاتا ہے.یہ عام نشان ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا ہر ایک نبی کی صداقت سے تعلق ہوتا ہے.مثلاً خدا تعالیٰ مخالفین آنحضرت صلی اسلم کو فرماتا ہے کہ وَلَوْ تَقَولَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَاخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ.ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِینَ ۳ کہ اگر یہ جھوٹا دعویٰ کرتا تو ہم اسے پکڑ کر ہلاک کر دیتے اور اس کی رگ جان کاٹ دیتے.اس کے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ یہ صرف نبی کریم لام کے متعلق ہے اور کسی کیلئے نہیں تو پھر نبوت کا دعویٰ کرنا ہر ایک کیلئے آسان کام

Page 417

خطبات محمود جلد ۴ ۴۰۸ سال ۱۹۱۵ء ہو جاتا ہے.مثلاً اگر کوئی کہے کہ میرے چہرے پر چونکہ داغ ہے اس لئے میں نبی ہوں.اسے کہا جائے کہ یہ کس طرح نبی ہونے کی نشانی ہے تو وہ کہے کہ یہ نشانی خاص میری صداقت کیلئے ہے.اگر میں نبی نہ ہوتا تو یہ نشان ہرگز نہ ہوتا قضیہ شخصیہ ہے اس لئے اس نشان کا میرے چہرہ پر ہونا میری نبوت کی صداقت ہے.پس اس طرح تو کوئی کا ذب بھی جھوٹا نہیں ثابت ہو سکتا.پس یہ عام جہالت اور نادانی کا بہت بڑا ثبوت ہے کہ انبیاء کے متعلق کسی خاص قاعدہ کو عام کیا جائے اور عام کو خاص.پس ممکن ہے کہ حَتَّى يُحَكِّمُوك میں بھی کوئی کہہ دے کہ یہ رسول اللہ کے احکام کے ماننے کے متعلق ہے اول تو اس کا خاص کرنا ہی نادانی ہے.دوسرے اس کے عام ہونے کے متعلق قرینہ بھی موجود ہے چنانچہ پہلے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللہ.یہ ایک عام قاعدہ خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ کوئی بھی نبی نہیں بھیجا گیا مگر اس لئے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور اس پر یہ نتیجہ نکالا ہے.فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْافِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا تِهَا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا - پس یہ قضیه شخصیہ نہیں بن سکتا.کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر ایک رسول جو خدا کی طرف سے آتا ہے وہ اپنی دعوتی قوم کا مطاع ہوتا ہے.اب جو شخص یہ کہتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے فلاں بات الہام سے کہی ہے یا خود بخود، اسے سوچنا چاہئیے کہ قرآن شریف تو اولوالامر کے حکم کو ماننے کی بھی تاکید کرتا ہے تو کیا وہ ان کے حکموں کو اس لئے مانتا ہے کہ انہیں الہام ہوتا ہے؟ کیا انگریزوں کا حکم اس لئے مانتا ہے کہ وہ الہام سے ہے.ذرا مخالفت کر کے تو دیکھئے کیا نتیجہ نکلتا ہے.پس اس سے سمجھ لینا چاہئیے کہ ہر ایک حکم کیلئے الہام کی ضرورت نہیں ہوتی.خدا تعالیٰ تو خلفاء کے منکرین کی نسبت فرماتا ہے مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الفسقُونَ ہے کہ جو ان کی اطاعت نہیں کرتا وہ فاسق ہے.پھر آنحضرت سالا ای پیتم فرماتے ہیں جو امیر کی اطاعت کرتا ہے وہ میری اطاعت کرتا ہے اور جو امیر کی نہیں کرتا وہ میری بھی نہیں کرتا ۵.پھر بیوی خاوند کا حکم مانتی ہے اور بیوی پر خاوند بغیر الہام حکومت کر سکتا ہے.پھر رعیت پر حکام بغیر الہا کے حکومت کر سکتے ہیں مگر ( نَعُوذُ بالله ) خدا تعالیٰ کے انبیاء کی ہی ایسی گندی رائے ہوتی ہے کہ وہ جو بھی حکم دیں اس کے متعلق پوچھا جائے کہ الہام سے دیتے ہو یا اپنی رائے سے.اگر وہ

Page 418

خطبات محمود جلد ۴ ۴۰۹ سال ۱۹۱۵ء الہام سے کہیں تو مانا ضروری ہے اور اگر خود کہیں تو مانے کی ضرورت نہیں.بعض نادان اس کی تائید میں بریرہ والی حدیث پیش کرتے ہیں.میں کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی یا ایتم نے کبھی کوئی حکم حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی ، وغیرہ جلیل القدر صحابہ کو بھی دیا تھا یا نہیں ؟ اگر دیا تھا تو ان کی بھی کوئی ایسی مثال پیش کرو کہ جب انہیں کوئی حکم دیا گیا ہو تو آگے سے انہوں نے کہہ دیا ہو کہ پہلے آپ یہ بتائیں کہ آپ الہام کے ذریعہ ہمیں یہ حکم دیتے ہیں یا خود فرماتے ہیں.طلحہ، زبیر، سعد ، سعید وغیرہ یہ لوگ جو بڑے بڑے درجے رکھنے والے تھے اور جن کے متعلق خدا تعالیٰ کے فعل نے بھی شہادت دے دی کبھی اس طرح کہا ہو کبھی کوئی ان کی نسبت ایسا نہیں ثابت کر سکتا.اس بات کی تائید میں ر پیش کیا جاتا ہے تو ایک لونڈی عورت کو جس کی نسبت یہ بھی دیکھنا ہے کہ آنحضرت مصلی یا یہ تم کی صحبت سے کتنی مستفید ہوئی.اس کا ایمان کیسا تھا، وہ کیسے اخلاص والی تھی.یہ تو ایک عورت کی شہادت ہے لیکن اگر رسول اللہ کے کسی صریح حکم کے خلاف سارے صحابہ بھی اس طرح کرتے تو میں سارے صحابہ کو غلطی پر یقین کرتا.پس جب سارے صحابہ کے اس قسم کے فعل کو ہم چھوڑنے کیلئے تیار ہیں تو بریرہ کا فعل کیا سند ہوسکتا ہے.ย رض پھر کہتے ہیں کہ حضرت عمر کو پوچھا گیا کہ یہ گرتا آپ نے کہاں سے پہنا ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ پوچھنے والا عثمان علی طلحہ ، زبیر، وغیرہ میں سے کوئی نہ تھا اور نہ انہوں نے اس طرح کہا.کہنے والا ایک بدوی تھا جو معمولی صحابی بھی ثابت نہیں ہو سکتا.اگر اس کا یہ کہنا کوئی نیکی اور عمدگی کا کام ہوتا تو ضر ور صحابہ کرام سے بھی کوئی کہتا اور اس کے ثواب سے بہرہ اندوز ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا.اسی طرح اگر کوئی پیش کر دے کہ عبد اللہ بن ابی ابن سلول نے رسول اللہ صلی یتیم کے گلے میں رسی ڈال کر کہا تھا کہ آپ ان کو آزادی دیں تب میں چھوڑوں گا.یہ بڑی جرأت اور دلیری کا کام تھا.وہ تو منافق تھا.اس کا ایسا کرنا ایک بہت برا فعل ہے نہ کہ قابل سند.تو اس قسم کی باتیں ادنی درجہ کے لوگوں سے ہی ظہور میں آئی ہیں.بریرہ ایک نا واقف عورت تھی اس نے اس طرح کہا.اور آنحضرت سینی پیتم نے اس کی نادانی پر ہنس دیا تو کیا ہوا کبھی کوئی کسی بڑے صحابی کو ایسے فعل کا مرتکب نہیں دکھا سکتا.پھر خلفاء کے عمل سے کوئی ثابت نہیں کر سکتا.بلکہ وہاں تو یہی دکھائی دے گا کہ کسی نے رسول اللہ کو کہا کہ آپ نے انصاف سے کام نہیں لیا تو تلوار لئے کھڑے ہیں اور اجازت چاہتے ہیں کہ

Page 419

خطبات محمود جلد ۴ ۴۱۰ سال ۱۹۱۵ء حکم ہو تو گردن اڑا دیں.یہ کبھی نہیں دیکھا جائے گا کہ انہوں نے کہا ہو کہ فلاں حکم کے متعلق آپ کو الہام ہوا ہے یا نہیں.ایسا کہنے والے تمام وہی لوگ ہوں گے جن کو آنحضرت صلی سیستم کی صحبت نصیب نہیں ہوئی یا منافقوں کے کی جماعت کا کوئی ہوگا اور بعد میں بدوی لوگ ہوں گے.تو نبی کے حکم کے متعلق الہام کا سوال کرنا ایسے ہی ہے لوگوں کا کام ہے جن کو دین کی واقفیت نہیں یا جن کے ایمان مضبوط نہیں.اگر رسول کے ہر ایک حکم کی اطاعت کرنا ضروری نہیں تو خدا تعالیٰ نے یہ کیوں فرمایا ہے کہ وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللہ.اگر رسول کے اس حکم کو ماننا تھا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعہ آئے.تو یوں کہنا چاہیئے تھا کہ ہم جو نے حکم دیتے ہیں اس لئے دیتے ہیں کہ لوگ اس کو مانیں.رسول کی اطاعت پر زور دینا ثابت کرتا ہے کہ یہ اطاعت اس اطاعت کے علاوہ ہے جو رسولوں کے الہامات میں ہوتی ہے یہاں جو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے مَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ الله - اس سے رسول کے احکام کی اطاعت مراد ہے.ہماری جماعت کے لوگوں کو اس بات سے بہت ہوشیار رہنا چاہئیے.یہ ایک سخت گستاخی کا کلمہ ہے اس لئے اس سے اجتناب کرنا چاہیئے.اور باتیں جانے دو تم لوگوں نے کم از کم یہ تو بیعت میں اقرار کیا ہوا ہے کہ امر بالمعروف کی اطاعت کریں گے اب دو ہی باتیں ہیں ایک یہ کہ حضرت مسیح موعود کا ہر ایک حکم معروف ہے دوسرے یہ کہ نہیں.اگر نہیں تو ماننا پڑے گا کہ خدا نے ایسا مسیح موعود بھیجا ہے جس کو امر بالمعروف کا بھی پتہ نہیں.اور اگر اس کے احکام امر بالمعروف ہیں تو ان کی تکمیل کرو تم نے بیعت کرتے وقت یہ شرط نہیں کی تھی کہ ہم آپ کی صرف وہ بات مانیں گے جو آپ الہام سے کہیں گے اور یہ ناممکن ہے کہ نبی امر بالمعروف کے خلاف کوئی بات کہے.یہ جو شرط ہے کہ ہم امر معروف میں اطاعت کریں گے صرف خدا کے ادب کے لئے ہے جیسا کہ حضرت شعیب نے کفار سے کہا ہے وَمَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَعُودَ فِيهَا إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللهُ ر بناتے کہ میں تمہارے مذہب کو قبول نہیں کر سکتا مگر جو اللہ چاہے ( حالانکہ نبی کیلئے غیر ممکن ہے کہ وہ کفار کا مذہب اختیار کرے ) تو یہ شرط خدا تعالیٰ کی شان اور جبروت کے لئے رکھی جاتی ہے.ورنہ نبی کوئی بات امری بالمعروف کے خلاف نہیں کرتا.پس وہ شخص جو کہتا کہ فلاں بات مسیح موعود نے الہام سے کہی ہے یا نہیں اسے یاد

Page 420

خطبات محمود جلد ۴ رکھنا ۴۱۱ سال ۱۹۱۵ چاہئیے کہ ایسا سوال اٹھانے پر فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ کا فتویٰ صادر ہوگا.آنحضرت صال سیستم فرماتے ہیں کہ مسیح موعود جگیا ہو گا یعنی مختلف فیھا مسائل میں فیصلے دے گا اور عدلا ہوگا یعنی جو فیصلہ دے گا وہ عدل و انصاف سے دے گا کے کیا اگر مسیح موعود کے وہ فیصلے جو الہام کے سوا آپ نے کئے ہیں ماننے ضروری نہیں ہیں اور ان کا ہی ماننا ضروری ہے جو الہام سے ہوں تو آنحضرت سلایا کہ تم نے کہاں خدا تعالیٰ کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ وہ عدل کے فیصلے دے گا کیا نَعُوذُ باللہ خدا مسیح موعود سے پہلے ظلم کے فیصلے دیا کرتا تھا؟ ہر گز نہیں.پس اس کا مطلب یہ ہے کہ مسیح موعود خود ایسے فیصلے دیا کرے گا جن پر بحث کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی.کیونکہ وہ حکم اور عدل ہوگا اس لئے اس کا ہر ایک فیصلہ عدل اور راستی کے مطابق ہوگا.جب آنحضرت صلی سیستم فرماتے ہیں کہ مسیح موعود حكمًا عَدُلًا ہوگا پھر تم نے یہ عہد کیا ہے کہ ہم آپ کی معروف میں اطاعت کریں گے تو اگر تم اس کے خلاف کرو گے تو سمجھ لو کہ کس قدر گناہ کے مرتکب ہو گے یہ کوئی چھوٹا سا معاملہ نہیں قرآن کا فیصلہ ہے کہ وہ انسان مومن ہی نہیں.پس کیسا افسوس ہے اس انسان پر جو کرے تو بدی لیکن اپنے نفس کیلئے اسے نیکی ظاہر کر.اس کی بجائے تو یہ بہتر ہے کہ وہ کہے کہ مسیح موعود کا یہ حکم تو قابل عمل ہے لیکن میرے اندر یہ کمزوری ہے اس لئے میں اس کی پابندی نہیں کر سکتا اگر ایسا نہیں کہتا تو اس کی وجہ سے جتنے لوگ اس فعل کے مرتکب ہوں گے ان کے گناہ کا بوجھ ان کے سر پر ہو گا.خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو سمجھ دے کہ وہ رسول کے سب حکموں کو مانیں.یہ سوال ہمیشہ انہی لوگوں کی طرف سے کیا گیا ہے جن کی فطرتیں گندی ہوتی ہیں ، نہ خلفاء میں سے کسی نے کہا ہے نہ صحابہ کبار میں سے نہ مجددین اور اولیاء کرام میں سے کسی نے کہا ہے اگر یہ سوال اُٹھا ہے تو عبد اللہ چکڑالوی اور اس کی فطرت کے لوگوں کی طرف سے اٹھا ہے مگر اس کی جو کچھ حالت ہے وہ جاننے والے خوب جانتے ہیں.خلیفہ المسیح الاول نے کبھی مسیح موعود سے اس طرح نہیں کہا.وہ لوگ جنہوں نے حضرت مولوی صاحب کو دیکھا ہے جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی خشیت ،تقویٰ اور پر ہیز گاری کس قدر آپ میں تھی.لیکن باوجود اس کے آپ ایک دفعہ سفر کو گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو فرمایا کہ فلاں شہر نہ جانا.لیکن

Page 421

خطبات محمود جلد ۴ ۴۱۲ سال ۱۹۱۹ بعض حالات ایسے پیش آئے کہ آپ نے اس حکم کی تاویل کی کہ سخت ضرورت کی صورت اس سے ہے.پس آپ کسی مجبوری کی وجہ سے چلے گئے جب واپس آئے تو سخت بیمار ہو گئے احباب علاج کرنے لگے تو فرمایا کہ یہ جو کچھ ہے مجھے معلوم ہے.حضرت صاحب کے حکم کے خلاف کرنے کی سزا ہے حضور سے دعا کرائی جائے.چنانچہ دعا کرائی گئی اور خدا تعالیٰ نے شفا دے دی.تو مسیح موعود کا یہ حکم الہام کے ذریعہ نہ تھا.مگر خدا تعالیٰ نے یہ ثابت کرنے کیلئے کہ نبی کے حکم کی ذرا بھی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیئے ، جھٹ مؤاخذہ کیا.اور اس فوری گرفت کا سبب بھی حضرت مولوی صاحب کے تقوی وخشیت کا مقام تھا تا کہ آپ فوری اصلاح فرمالیں.اور حَسَنَاتُ الْأَبْرَارِ سَيِّئَاتُ الْمُقَرَّبِين مشهور قول ہے.غرض مولوی صاحب نے کبھی یہ نہیں کہا کہ کیا آپ کو خدا نے یہ حکم وحی کے ذریعہ بتایا ہے اور نہ مولوی عبد الکریم صاحب نے کہا.پس یہ کہنے والا دیکھے کہ اس کی روحانیت اسی درجہ کی ہے جیسے نور الدین کی تھی یا نہیں.اگر نہیں تو سمجھ لے کہ اسے نفس نے دھوکا دیا ہے.خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو نبی کے تمام حکم سمجھنے کی توفیق دے.ایسے آدمی جو اس قسم کے خیالات رکھتے ہیں کبھی ایمانی اور روحانی ترقی نہیں کر سکتے بلکہ تباہ ہو جاتے ہیں.پس تم ایسے عقیدہ سے ڈرو جو اندر ہی اندر گھن کی طرح کھا جاتا ہے.اور انسان بودا ہو کر تباہ ہو جاتا ہے.(الفضل ۵ اگست ۱۹۱۵ء) ل النساء : ۶۵ ۶۶ ۶۶۶۵ مریم : ۸ الحاقة: ۴۵ تا ۴۸ النور : ۵۶ بخاری کتاب الجهاد و السير باب يقاتل من وراء الامام ويتقی به الاعراف: ۹۰ ک بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسی بن مریم

Page 422

خطبات محمود جلد ۴ ۴۱۳ (۷۹) تمام کامیابیوں کی کنجی دُعا ہے ( فرموده ۶.اگست ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء حضور نے تشہد ، تعو ذاور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَلَى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ پھر فرمایا:.دُعا کا مسئلہ بھی ایک بڑا اہم مسئلہ ہے اور جہاں تمام بڑے بڑے اہم مسائل میں مختلف مذاہب کا اختلاف ہوا ہے وہاں اس مسئلہ کے متعلق بھی کچھ اختلاف ہے اور پھر صرف مختلف مذاہب کا ہی اختلاف نہیں بلکہ ہر ایک مذہب کے مختلف فرقوں کا آپس میں بھی اختلاف ہے.ان تمام اختلافات کو تھوڑی دیر کے لئے نظر انداز کرتے ہوئے اور ایک وقت کیلئے علیحدہ رکھتے ہوئے اگر کوئی غور کرے تو ضرور اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ جس قدر لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے کے مدعی ہوئے اور انہوں نے خدا تعالی کی تائید اور مدد سے جماعتیں قائم کی ہیں تمام کے تمام دعا کے اثر اور مفید ہونے کے صرف ت ئل ہی نہیں رہے بلکہ اپنی تمام کامیابیوں کی کنجی دعا کو بتاتے رہے ہیں.خواہ وہ ہندوستان کے بزرگ ہوئے ہوں یا ایران کے، خواہ شام کے ہوئے ہوں یا عرب کے کسی ملک کے ہوں تمام اس مسئلہ پر متفق ہیں.ان کے پیروؤں میں اختلاف ہے مگر دعا کی تفصیلات میں، ان کے ماننے والوں میں اختلاف ہے مگر دعا کے اغراض میں اور ان کے ساتھ تعلق رکھنے والوں میں اختلاف ہے لیکن دعا میں کسی کا

Page 423

خطبات محمود جلد ۴ ۴۱۴ سال ۱۹۱۵ اختلاف نہیں.ویدوں کو پڑھ لو.باوجود اس کے کہ ہزاروں قسم کی باتیں اس میں ملا دی گئی ہیں اس لئے حقیقت سے بہت دور چلا گیا ہے مگر پھر بھی اس میں دعاؤں کا بہت بڑا حصہ پایا جاتا ہے.اسی طرح زند اوستا میں ہے.پھر سب سے آخری مذہب والے جو اسلام کے قریب ہیں یہودی اور عیسائی ہیں ان کی مذہبی کتب کو دیکھنے سے بھی یہی پتہ لگتا ہے کہ دعاؤں پر بڑا زور دیا گیا ہے.تو ہر ایک مذہب کے بانیوں کے حالات پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک دکھ، تکلیف اور مصیبت کے وقت خدا تعالیٰ ہی کو ہے پکارتے رہے ہیں.اگر موسیٰ علیہ السلام کوکوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ کسی دنیاوی طاقت کا سہارا ڈھونڈتے نظر نہیں آتے بلکہ خدا ہی کے حضور گرتے اور دعا کرتے ہیں.پھر حضرت مسیح پر جب مصیبت کا خطر ناک وقت آتا ہے تو اس کی کیفیت موجودہ محترف و مبدل انجیل کو پڑھ کر بھی یہی معلوم ہوتی ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ حکام کے پاس رہائی کیلئے بھاگے جاتے ، میموریل بنا کر بادشاہ کو پہنچانے کی تجویز کرتے ، یہی کرتے ہیں کہ خدا کے حضور جھکتے اور اپنی جماعت کو بھی یہی حکم دیتے ہیں کہ یہ بہت کٹھن وقت ہے، جا کر دعائیں کرو.پھر سب سے آخری کتاب لانے والا نبی جو تمام انبیاء کی خوبیوں کا جامع ، تمام کمالات ، تمام علوم اور تقویٰ وطہارت، پر ہیز گاری اور قرب الہی کے تمام مدارج رکھنے والا تھا وہ چونکہ قرب الہی میں سب انبیاء سے بڑھ کر تھا اس لئے سب سے زیادہ دعاؤں میں مشغول رہا اور جیسا بڑا آپ کا درجہ تھا اسی کے مطابق دعا ئیں بھی بڑی کثرت سے کیں.اگر کسی نبی نے اپنے پیروؤں کو ایک یا دو وقت دن میں یا ہفتہ میں ایک بار دعا کی تاکید کی ہے تو آنحضرت مسی یہ تم پر خدا تعالیٰ نے آپ کی فطرت کے مطابق پانچ وقت ہر دن رات میں دعا کرنا فرض کر دیا.اس کے علاوہ تین وقت نفل پڑھنے کے ہیں جو چاہے پڑھے.پھر آنحضرت مال یا تم نے ہر خوشی پر ، ہر رنج ، ہر راحت، ہر آرام، ہر ضرورت اور ہر حاجت کے وقت دعائیہ کلمات مقرر کر کے بتادیا کہ مسلمان کی دعا کسی خاص وقت ہی نہیں ہوتی بلکہ ہر وقت اور ہر گھڑی وہ دعا کر سکتا ہے اور اسے کرنی چاہیئے.تو جتنا آپ خدا تعالیٰ کے قریب تھے اتنا ہی آپ کا دست سوال وسیع تھا اور جتنے آپ پر خدا تعالیٰ کے فضل تھے اتنا ہی آپ کا تضرع، خشوع و خضوع سے خدا کے حضور گرنا بڑھتا گیا.حتی کہ آپ کی آخری اور ابتدائی عمر کی عبادتیں اگر ملا کر دیکھی جائیں تو بڑا فرق نظر آتا ہے وفات کے قریب اور ہی شان کے آنحضرت سلیشیا کی تم تھے

Page 424

خطبات محمود جلد ۴ ۴۱۵ سال ۱۹۱۵ بہ نسبت اس کے جو ابتداء میں تھے کیونکہ مومن کا ہر قدم آگے ہی آگے پڑتا ہے نہ کہ پیچھے اور آپ تو وہ تھے جو دنیا کو مومن بنانے کیلئے آئے تھے.چنانچہ آپ کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الأولى کہ تیری آخری گھڑی پہلی سے اچھی ہے اس بات پر غور کرنے سے صاف پتہ لگ جاتا ہے کہ واقعی دعا ایک چیز ہے اور وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ دعا میں کچھ اثر نہیں ہوتا یہ بھی ایک عبادت ہی ہے، غلط کہتے ہیں.کیوں؟ اس لئے کہ مومن کا کوئی کام فضول اور لغو نہیں ہوتا اگر دعا میں کچھ اثر اور نتیجہ نہیں ہے تو یہ کہنے کے کیا معنے کہ اے خدا! ایسا کر دے.اگر دعا عبادت ہے تو بجائے اس کے یہ کہنا چاہیئے تھا کہ اے خدا! میں تیری بڑائی کرتا ہوں.دُعا میں عاجزانہ درخواست کے کلمات رکھنے کی کیا ضرورت تھی.پھر اس بات پر اتنا تسلسل کہ ہر مصیبت ، ہر مشکل اور ہر تکلیف کے وقت دعاؤں پر زور دیا جاتا تھا.اس کی کیا وجہ تھی اور دلائل اور براہین کو چھوڑ کر اگر کوئی انبیاء کی زندگی پر ہی غور کرے تو اس نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ دعا میں واقعی بڑی بڑی خوبیاں ہیں.اور قرآن شریف تو بہت زور سے دعوی کرتا ہے کہ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ جب بھی کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعاؤں کو سنتا ہوں.پس قرآن شریف نے صاف فیصلہ کر دیا ہے کہ دعا قبول کی جاتی ہے.لیکن جہاں دعا قبول ہوتی ہے اور خدا کے نبیوں اور آسمانی کتابوں نے اس بات پر بہت زور دیا ہے وہاں اس کے متعلق بہت سی احتیاطوں کی ضرورت بھی بتائی ہے اور شرائط کی پابندی کا بھی حکم دیا ہے.جب تک کوئی شرائط کو پورا نہیں کرتا دعا کے ثمرات کے حاصل کرنے کا مستحق نہیں ہوتا.بعض لوگوں نے دعا کی قبولیت کے متعلق دھوکا کھایا ہے.کہتے ہیں ہم نے فلاں دعا کی تو تھی جو قبول نہیں ہوئی اس سے نتیجہ نکلا کہ دعا قبول ہی نہیں ہوتی.بعض لوگ ایسے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہر ایک کی دعا قبول نہیں ہوتی ہاں خاص لوگوں کی ہوتی ہے اور ایسے لوگ جو کچھ بھی اپنے منہ سے نکالیں فوراً منظور ہو جاتا ہے اس قسم کے لوگ بھی ابتلاء میں پڑتے ہیں.پہلا خیال اگر انسان کو دہریت کی طرف لے جاتا ہے تو دوسرا خیال انبیاء کی تعلیم محبت اور ایمان لانے سے محروم کر دیتا ہے کیونکہ جولوگ دعا کے قائل ہی نہیں ان کا ایمان اللہ تعالیٰ سے اُٹھ جاتا ہے اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ فلاں کے منہ سے اِدھر دعا نکلی اُدھر قبول ہو گئی وہ جب کسی انسان کو اپنے خیال کے مطابق نہیں پاتے تو ٹھو کر کھا جاتے ہیں.میں نے دیکھا.ہے؟

Page 425

خطبات محمود جلد ۴ ۴۱۶ سال ۱۹۱۵ء کہ حضرت مسیح موعود کے پاس بعض لوگ آ کر کہتے کہ ہمارے لئے آپ یہ دعا کریں.دوسرے تیسرے دن جب دیکھتے کہ ابھی کچھ نتیجہ نہیں نکلا تو کہہ دیتے کہ اگر آپ سچے ہوتے تو آپ کی دعا کیوں نہ قبول ہوتی.اسی بات پر وہ ٹھوکر کھا جاتے تھے تو دعا کے متعلق بہت احتیاط کی ضرورت ہے.ہمیشہ یاد رکھو کہ یہ غلط ہے کہ دعا قبول نہیں ہوتی اور یہ بھی غلط ہے کہ جو دعا بھی کی جائے قبول ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ کی روحانی سنتیں جسمانی سنتوں کے مطابق چلتی ہیں.تم خدا کی جسمانی سنت کو دیکھ لو.مثلاً ایک انسان ایک محنت کرتا ہے یعنی زراعت ہے کرتا ہے اور یہ کام جسم سے تعلق رکھتا ہے.اسی طرح دعا بھی ایک کام ہے جو روحانی اخلاص سے تعلق رکھتا ہے ہے.زراعت میں انسان بیچ ڈالتا ہے تو بھی بہت اعلی فصل ہوتی ہے لیکن کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ باوجود بیچ ڈالنے کے کچھ پیدا نہیں ہوتا، پھر کبھی کھیتی کوکم پانی ملتا ہے تو خشک ہو جاتی ہے اور کبھی زیادہ ملتا ہے تو گل جاتی ہے، کبھی بیج ناقص ہوتا ہے تو کبھی بے موسم بویا جاتا ہے اور کبھی ایک دفعہ بونے کے بعد گھبرا کر دوبارہ بیج ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس طرح پہلے پیج کو بھی خراب کر دیا جاتا ہے اور بعد کا ڈالا ہوا بھی کام نہیں دیتا کبھی فصل کو کیر الگ جاتا ہے، کبھی چوہے خراب کر دیتے ہیں.غرضیکہ بیسیوں اسباب ہیں جن سے کھیتی خراب ہو کر محنت کرنے والے کو محروم کر دیتی ہے.اسی طرح دعا کا حال ہے.جب انسان دعا شروع کرتا ہے تو کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ دعا ناقص ہونے کی وجہ سے قبولیت کے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتی جس طرح ناقص بیج ہوتا ہے.کبھی ایسی دعا کی جاتی ہے جو سنت اللہ میں نہیں ہوتی کہ انسان کو مل سکے.پھر کبھی دعا کرنے میں گستاخی کے کلمات نکل جاتے ہیں ایسی دعا بھی رد ہو جاتی ہے.کبھی کمال گھبراہٹ ظاہر کرنے سے انسان مشرک بن جاتا ہے اور اللہ کی محبت کی بجائے اس چیز کی محبت اس پر غالب آ جاتی ہے.کبھی بے توجہی سے دعا کی جاتی ہے.یہ باتیں دعا کی قبولیت میں مانع ہیں.ان کے علاوہ روحانی اسباب بھی ہوتے ہیں جب تک وہ مہیا نہ ہوں کا میابی نہیں ہوتی اس لئے مومن کو دعاؤں کے ساتھ ان سامانوں کی بھی احتیاط کرنی چاہئیے کیونکہ اگر کوئی دعا کرتا ہے اور دعا کے سامان مہیا نہیں کرتا اور پھر یہ امید رکھتا ہے کہ میری دعا قبول ہو جائے گی تو وہ فضول امید رکھتا ہے.ہر چیز کیلئے خدا تعالیٰ نے سنتیں اور ہر چیز کیلئے راستے مقرر کئے ہوئے ہیں.اگر کوئی ان سنتوں کے ماتحت کام نہیں کرتا اور ان سنتوں پر نہیں چلتا تو کبھی کامیاب نہیں

Page 426

سال ۱۹۱۵ ء خطبات محمود جلد ۴ ۴۱۷ ہوسکتا اس لئے دعا کے متعلق بہت احتیاط کی ضرورت ہے ورنہ ٹھوکر لگ جاتی ہے.بعض یہ سمجھتے ہیں کہ فلاں کی دعا ادھر منہ سے نکلی ادھر قبول ہو جاتی ہے لیکن جو کوئی کسی انسان کی نسبت ایسا خیال کرتا ہے اس کا خیال جھوٹا ہے اور وہ ایک شرک میں گرفتار ہے خواہ اس کا یہ خیال تمام انبیاء کے سردار آنحضرت سی ایلام کی نسبت ہی کیوں نہ ہو.اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ دُعا قبول کرتا ہے مگر یہ بھی درست ہے کہ خدا کسی کا غلام نہیں اور نہ ہی مملوک ہے کہ ادھر بندے نے دُعا کی اور اُدھر اس نے قبول کر لی.وہ خدا ہے کبھی دعا قبول کرتا ہے اور کبھی اپنی بات کو قبول کرواتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں کبھی کوئی یہ توقع نہیں رکھتا کہ گورنمنٹ اُس کی تمام باتیں قبول کرلے گی اور یہ توقع کسی چھوٹے سے چھوٹے حاکم کے متعلق بھی نہیں کی جاتی سکتی پھر خدا تعالیٰ کی نسبت ایسا خیال رکھنا کیسی نادانی ہے.خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں قبول کرتا ہے اور جن پر اس کا فضل ہوتا ہے ان کی بہت سی قبول کرتا ہے مگر پھر بھی بعض ایسی ہوتی ہیں جنہیں رد کر دیتا ہے.کیوں؟ اس لئے کہ وہ مالک ہے.ہاں دنیا وی حکومتوں کے رو کر نے اور خدا تعالیٰ کے رو کر نے میں فرق ہے اور وہ یہ کہ دنیاوی حکومتیں جو رد کرتی ہیں ان کا رد کرنا بہت حد تک ان کے اپنے مصالح پر مبنی ہوتا ہے اور بعض دفعہ وہ غلطی بھی کرتی ہیں.مثلاً کسی کی درخواست کو رد کر دیتی ہیں حالانکہ اس کا قبول کرنا مفید اور ضروری ہوتا ہے.مگر خدا تعالیٰ جس درخواست کو رد کرتا ہے وہ بندے کیلئے ہی مفید ہوتی ہے اور اگر اسے قبول کر لیتا ہے تو اس کیلئے ہلاکت کا باعث ہو جاتی.اس دعا کی قبولیت ہی یہی تھی کہ رد کر دی جاتی.یہ اسی طرح کی بات ہے کہ ایک انسان کے ہاتھ میں آگ کا انگارہ ہو اور ایسا شخص جس سے اُسے دشمنی ہو اس انگارے کو کچھ اور سمجھ کر کہے کہ میرے ہاتھ پر رکھ دو تو وہ رکھ دے گا لیکن اگر اس کا اپنا بچہ کہے کہ میرے ہاتھ پر رکھ دوتو وہ ہر گز نہ رکھے گا.کوئی نادان تو کہہ دے گا کہ دیکھو فلاں آدمی کی بات تو مانتا ہے اور اپنے بچہ کی نہیں مانتا.لیکن وہ نادان نہیں سمجھتا کہ جس کی بات کو اس نے رد کر دیا ہے دراصل اس کو قبول کیا ہے اور جس کی بات کو قبول کیا ہے اصل میں اسی کو رڈ کیا ہے.مولانا رومی نے مثنوی میں ایک بہت عمدہ قصہ لکھا ہے.لکھتے ہیں ایک سپیرا تھا اس کے پاس نرالی قسم کا سانپ تھا ایک دن وہ گم ہو گیا تو سپیرا بڑا رویا اور دعائیں کیں کہ الہی ! مجھے میرا سانپ مل جائے مجھے اس کے ذریعہ بڑی آمدنی

Page 427

خطبات محمود جلد ۴ ۴۱۸ سال ۱۹۱۵ کی امید تھی مگر سانپ نہ ملا.صبح ہوئی تو ایک سپیرا نے اسے آکر کہا کہ فلاں سپیرا کو سانپ کاٹ گیا ہے چلو علاج سوچیں.جا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اُسی سانپ نے جو گم ہوا تھا اسے کاٹا ہے وہ اسے چرا کر لے گیا تھا.اس دن اس کے زہر کا خاص دن تھا اور اس کے کاٹے کا علاج نہ ہوسکتا تھا وہ سپیرا مر گیا.تو پہلا سپیرا جو بڑی دعائیں کر رہا تھا کہنے لگا واقعی خدا تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی ہے.تو اس طرح بھی اللہ تعالیٰ دعا قبول کرتا ہے جو کہ انسانی نظر میں رڈ کی ہوئی نظر آتی ہے.یہ خدا تعالیٰ کی حکمت ہوتی ہے لیکن نادان گھبرا جاتا ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی حالانکہ اس کا قبول ہونا ہی یہی ہوتا ہے کہ رد کی جائے.انبیاء کی دعاؤں کے ساتھ بھی یہی سلسلہ جاری رہتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے اُجیب كُلّ دُعَائِكَ إِلَّا فِي شُرَ حَائِكَ 3 اور تو تمہاری سب دعائیں سنیں گے مگر شرکاء کے متعلق نہیں سنیں گے.اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت مسی یا یہ تم کو جواب ملا کہ یہ دعا نہیں سنی جائے گی.اب یہ سوال ہوتا ہے کہ جب ہر ایک دعا نہیں سنی جاتی بلکہ کبھی قبول ہوتی ہے اور کبھی نہیں تو اس طرح ہر ایک بات کے متعلق ہوتا ہے کہ کبھی ہو جاتی ہے اور کبھی نہیں تو یہ کیوں نہ سمجھ لیا جائے کہ اتفاقیہ طور پر ہو جاتا ہے دعا وغیرہ کچھ نہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ دعاؤں کے ذریعہ ایسی خوارق عادت باتیں ظاہر ہوتی ہیں جو کہ انسانی اسباب اور طاقت سے بالا تر ہوتی ہیں اور وہ اس بات کا ثبوت ہوتی ہیں کہ یہ خدائی کام ہے نہ کہ انسانی.مثلاً یہاں ہی ایک لڑکا عبد الکریم تھا اسے ہلکا کتا کاٹ گیا تو اسے علاج کیلئے کسولی بھیجا گیا لیکن کچھ عرصہ بعد اسے ہلکا پن ہو گیا.کسولی تار دی گئی تو جواب آیا کہ اب اس کا کوئی علاج نہیں ہوتے سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے متعلق دعا کی ، وہ اچھا ہو گیا.تو اس طرح کے نشانات سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ضرور دعائیں سنتا ہے.بعض دفعہ انسانی قدرتیں اور طاقتیں ختم ہو جاتی ہیں پھر دعا کے ذریعہ وہ کام ہو جاتا ہے.بعض باتوں کیلئے سامان نہیں ہوتے لیکن دعا کرنے سے ہو جاتے ہیں.غرض ایسی بہت سی علامات ہیں جن سے بڑی آسانی سے فیصلہ ہو جاتا ہے.پس بعض دعاؤں کی نسبت یہ دیکھ کر کہ قبول نہیں ہوتیں یہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ کوئی دعا بھی قبول نہیں ہوتی.یہ بات تو دنیا میں بھی نظر آتی ہے.مثلاً ہر ایک بیماری کی دوا ہے لیکن اس دوا سے سارے ہمارا چھے نہیں ہو جاتے تو اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ اس دوا سے فائدہ ہی نہیں ہوتا.دیکھنا یہ چاہئیے فیصدی

Page 428

خطبات محمود جلد ۴ ۴۱۹ سال ۱۹۱۵ کتنا فائدہ ہوتا ہے.اگر دوا استعمال کر کے تندرست ہونے والوں کی نسبت ان سے زیادہ ہے جن کو فائدہ نہیں ہوتا تو اسے مفید سمجھا جائے گا اور اگر کم ہے تو لغو.اسی طرح دعا کے متعلق دیکھنا چاہیئے کہ خدا کے نیک بندوں کی دعائیں کتنی قبول اور کتنی رد ہوتی ہیں.اور انہیں کیسی کامیابی ہوتی ہے اور ان کے مقابلہ پر آنے والوں کو کیسی نا کامی.پس اس طرح آسانی سے فیصلہ ہو سکتا ہے.انسان کو چاہیے کہ دعا کے متعلق جو شرائط ہیں انہیں ملحوظ رکھے.دعا پر اتناز وردے جتنا مناسب ہو.گھبراہٹ نہ ہو تا شرک نہ پایا جائے.ادب کا خیال ہو کوئی دعا الہی سنت کے خلاف نہ ہو.اخلاص، جوش اور تڑپ ہو.پھر دعا کی قبولیت کے سامان مہیا کئے جائیں.مثلاً صدقہ خیرات اور عبادت پر زور ہو.ان سامانوں اور شرائط کے بعد اگر دعا کی جائے تو قبول ہو جاتی ہے لیکن خدا جسے چاہے رد بھی کر دیتا ہے.چونکہ آج کل دعاؤں کے دن ہیں اور خاص کر یہ آخری عشرہ رمضان کا دعاؤں کیلئے بہت ہی مناسب ہے اس لئے میں نے دعا کے متعلق کچھ بیان کر دیا ہے.دعائیں کرنے والے ان باتوں کو مد نظر رکھ لیں.خدا تعالیٰ ہماری جماعت پر فضل کرے تا کہ انہیں نیک دعاؤں کی توفیق ملے اور انہیں اللہ تعالیٰ کے حضور شرف قبولیت حاصل ہو.دعائیں رشتہ داروں، دوستوں اور عزیزوں کیلئے باعث ترقی ہوں.الفضل ۱۲.اگست ۱۹۱۵ء) ل البقرة: ١٨٧ الصحى: سے تذکرہ صفحہ ۲۶.ایڈیشن چہارم

Page 429

خطبات محمود جلد ۴ ۴۲۰ (A+) خلافت سے وابستہ ہونے میں بڑی برکات ہیں (فرموده ۱۳.اگست ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِنْ شَيْرٍ مَا خَلَقَ وَمِنْ شَرِ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ وَمِن شَرِ التَّفْتِ فِي الْعُقَدِ.وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ پھر فرمایا:.آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمیں دو عید میں نصیب ہوئی ہیں.ایک عید الفطر اور دوسری جمعہ کی عید.دونوں نمازوں کے ساتھ خطبے بھی ہیں.عید کے بعد خطبہ ہے اور جمعہ سے پہلے.آنحضرت مصلی یا یہ ستم کا یہی طرز عمل تھا.میری عادت ہے کہ میں تقریر کرنے آتا ہوں تو کوئی مضمون سوچ کر نہیں آتا بلکہ اس وقت جو خدا تعالیٰ دل میں ڈال دیتا ہے وہی سنا دیتا ہوں.ابھی ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ کچھ غیر مبائعین عید و جمعہ کیلئے آئے ہوئے ہیں اس لئے میں ان کے متعلق کچھ کہہ دوں.ہم تو صرف بڑے آدمیوں ہی کو نہیں بلکہ ایک ضعیف غریب اور ناکارہ انسان کو بھی جو نہایت ہی بدترین مخلوق سمجھا جاتا ہو سمجھانے کیلئے تیار ہیں بلکہ وہ غریب ایک منکر بادشاہ.بہتر ہے کیونکہ وہ خدا کی باتوں پر زیادہ غور وفکر کرتا ہے.بہر حال میں اللہ کیلئے سناتا ہوں اگر غیر مبائعین فائدہ نہ اٹھائیں تو ممکن ہے کوئی اور ہی فائدہ اٹھائے اور ہدایت پائے.حقیقت میں ہدایت دینا تو خدا ہی کا کام ہوتا ہے.آنحضرت صلی سیستم کے متعلق بھی خدا تعالیٰ

Page 430

خطبات محمود جلد ۴ ۴۲۱ سال ۱۹۱۵ء فرماتا ہے لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِر ے کہ تو ان پر داروغہ نہیں تیرا کام تو نا دینا ہے منوانا نہ منوانا خدا کا کام ہے.اس طرح خلافت کے متعلق مجھے تعجب آتا ہے کہ خلافت کیلئے کس بات کا جھگڑا ہے.کیا یہ کوئی سیاست کا نزاع ہے، کوئی ایسی چیز میری تو سمجھ میں نہیں آتی.جھگڑے یا تو عقائد پر ہوتے ہیں یا شریعت پر کہ خدا کا فلاں حکم یوں ہے اور یوں کرنا چاہئیے.پھر جھگڑے ملکوں پر ہوتے ہیں ، مال و دولت پر ہوتے ، مکانات پر اور مختلف اشیاء پر جھگڑے ہوتے ہیں.دیکھو جیسے فرانس، جرمن ، بیلجیئم ، آسٹریا یہ سب ملکوں کیلئے لڑتے جھگڑتے ہیں.لیکن خلافت کسی ملک کا نام نہیں ، خلافت کوئی مال کی تھیلی نہیں ، خلافت کوئی کھانے پینے کی چیز نہیں.خلافت کی دو ہی اغراض ہو سکتی ہیں ایک یہ کہ جماعت پراگندہ نہ ہو، جماعت کو تفرقہ سے بچایا جائے اور ان کو ایک مرکز پر جمع کیا جائے.یہی تفرقہ کو مٹانے، پرا گندگی کو دور کرنے کیلئے ایک خلیفہ کی ضرورت ہوتی ہے نیز اس سے یہ غرض ہوتی ہے کہ جماعت کی طاقت متفرق طور پر رائیگاں نہ جائے بلکہ ان کو ایک مرکز پر جمع کر کے ان کی قوت کو ایک جگہ جمع کیا جائے.اب ایک فریق کہتا ہے کہ آیت استخلاف کے ماتحت خلافت ضروری ہے اور ایک کہتا ہے کہ خلافت ضروری نہیں.فیصلہ کیلئے ایک آسان راہ یہ ہو سکتی ہے کہ ہر شخص یہی سوچ لے کہ جو کام میں کرتا ہوں جماعت کیلئے کس قدر مفید ہے اور کس قدر مضر.اگر اس کام کے کرنے سے جماعت کو فائدہ پہنچتا ہے تو کرے ورنہ اسے چھوڑ دے.اب دیکھو کہ جماعت کا کثیر حصہ خلافت کے وجود کو جماعت کیلئے رفع تفرقہ کیلئے ضروری سمجھتا ہے اور دوسرا فریق اسے غیر ضروری خیال کرتا ہے.بحثوں کا فیصلہ تو بھی ہو نہیں سکتا.دیکھو خدا کی ہستی ہے اس میں اختلاف ہے.پھر اس کی صفات میں اختلاف ہے.ملائکہ کا وجود ہے اختلاف اس میں بھی موجود ہے.اختلاف تو رہے گا.اب دونوں فریق میں سے کس کا فرض ہے کہ اپنی ضد اور ہٹ کو چھوڑ دے.اگر فریق مخالف یہ کہے کہ خلافت ثابت نہیں تو ہم یہ کہتے ہیں کہ اس کے خلاف بھی تو ثابت نہیں.خلافت کو ماننے والے اگر خلافت کو چھوڑ دیں تو خدا کے نزدیک مجرم ہیں کیونکہ وہ آیت استخلاف کے ماتحت خلافت کو مانتے ہیں.مگر خلافت کا ہونا یا نہ ہونا یکساں سمجھنے والے اگر اتفاق کیلئے خلافت کو مان لیں تو جماعت سے وہ تفرقہ مٹ سکتا ہے جس کی وجہ سے اتنا فتور پڑ رہا ہے.حضرت مولوی صاحب کی وفات کے روز مولوی محمد علی صاحب نے مجھ سے

Page 431

خطبات محمود جلد ۴ ۴۲۲ سال ۱۹۱۵ء کہا کہ میاں صاحب! آپ ایثار کریں.میں نے کہا کہ کیا خلافت کا ہونا گناہ ہے تو وہ کہنے لگے نہیں جائز ہے.میں نے کہا کہ میرے نزدیک ضروری اور واجب ہے.اب جب وہ دونوں گروہ ایک بات پر قائم ہیں ایک کے نزدیک فعل اور عدم فعل برابر ہے اور دوسرے کے نزدیک واجب ، تو اس فریق کو جو جواز کا قائل ہے چاہئیے کہ وہ اپنی ضد کو چھوڑ دے.خدا تعالیٰ ضرور اس سے پوچھے گا کہ جب ایک فعل کا کرنا اور نہ کرنا تمہارے نزدیک برابر تھا تو تم نے کیوں اپنی ضد کو نہ چھوڑا.پس اس فریق کو خدا کے حضور جواب دینا پڑے گا.پھر میں بتاتا ہوں کہ اسلام نے جتنی اس زمانہ میں ترقی کی ہے جبکہ اس کے ماننے والے ایک خلیفہ کے ماتحت تھے، اتنی پھر کسی زمانے میں نہیں کی.حضرت عثمان وعلی کے زمانے کے بعد کوئی بتا سکتا ہے کہ پھر بنی ہے عباس کے زمانہ میں بھی ترقی ہوئی.جس وقت خلافتیں پراگندہ ہو گئیں اُسی وقت سے ترقی رک گئی جو لوگ خلیفہ کے متعلق مامور غیر مامور کی بحث شروع کر دیتے ہیں اپنے گھر ہی میں غور کریں کہ کیا ایک شخص کے بغیر گھر کا انتظام قائم رہ سکتا ہے؟ یورپ کے کسی مصنف نے ایک ناول لکھا ہے جس میں اس نے ان لوگوں کا خوب خاکہ اُڑایا ہے اس کا ماحصل یہ ہے کہ دولڑکیوں نے اپنے باپ کے اس اصول کو حجت قرار دے کر کہ مرد عورتوں کے حقوق وفرائض یکساں ہیں اور گھر کا ایک واجب الاطاعت سر براہ ہونے کی ضرورت نہیں اپنے اپنے دل پسند مشاغل میں مصروف رہ کر اور انتظام خانہ داری میں اپنی خود سری سے ابتری ڈال کر باپ کو ایسا تنگ کیا کہ اسی کو معافی مانگنی پڑی.الغرض ایک مرکز اور ایک امام کے بغیر کبھی کام نہیں ہو سکتا.جنگ میں بھی ایک آفیسر کے ماتحت فرمانبرداری کرنی پڑتی ہے اور اگر کوئی ذرا نافرمانی کرے تو فورا گولی سے اڑا دیا جاتا ہے.بعض وقت آفیسر غلطی سے حکم دے دیتے ہیں تو بھی فوج کو ماننا پڑتا ہے.اسلامی شریعت نے مسلمانوں کو بتایا کہ اگر امام بھول جائے اور بجائے دو رکعت کے چار پڑھ لے تو تم بھی اس کے ساتھ چار ہی رکعت ادا کرو.اگر وہ چار کی بجائے پانچ پڑھ لے تو تم بھی اس کی اتباع کرو حالانکہ وہ کوئی نیا حکم نہیں لاتا.پھر امام کا اتنا ادب ملحوظ رکھا کہ اس کو غلطی پر ٹوکنے کی بجائے سبحان اللہ کا کلمہ سکھایا جس کے معنے یہ کہ سہو و خطا سے پاک تو اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہو سکتی ہے.پھر یہ بات کہ غیر مامور خلیفہ غلطی کر سکتا ہے لہذا اس کی یا اس کا حکم ماننے کی ضرورت ہی نہیں ، کیسا خطرناک خیال ہے.درحقیقت غلطی کرنے سے پاک کوئی انسان

Page 432

خطبات محمود جلد ۴ ۴۲۳ سال ۱۹۱۵ نہیں ہوسکتا.دیکھونبی کریم سنا یا کہ تم بھی کہتے ہیں کہ تم میں سے دو آدمی میرے پاس ایک فیصلہ لاتے ہیں لیکن ایک انسان زبان کی چالاکی سے اپنے حق میں فیصلہ کر الیتا ہے حالانکہ وہ حقدار نہیں ہوتا.پس اس نے طرح پر ایا حق لینے والا آگ کا ٹکڑا لیتا ہے سے.جب نبی کریم صلی سیستم فرماتے ہیں کہ میں غلطی کر سکتا ہوں تو دوسرا کون ہے جو یہ کہے کہ میں غلطی سے پاک ہوں.اگر ایک شخص علیحدہ نماز پڑھے اور یہ کہے کہ میں امام کے پیچھے اس لئے نماز نہیں پڑھتا کہ وہ غلطی کرتا ہے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر وہ اکیلا نماز پڑھے تو کیا وہ غلطی نہیں کر سکتا؟ جس طرح امام بتقاضائے بشریت غلطی کر سکتا ہے اسی طرح پر وہ شخص بھی جوا کیلا نماز پڑھتا ہے غلطی سے نہیں بچ سکتا.پس جماعت جماعت ہے اس کے ساتھ مل کر نماز پڑھنے والا اور اکیلا پڑھنے والا دونوں کبھی برابر نہیں ہو سکتے.جو خلیفہ کی مخالفت کرتے ہیں ان کو واضح رہے کہ حضرت عثمان کے وقت میں جب لوگ مخالفت کیلئے اُٹھے تو آپ نے فرمایا تم خوب یا درکھو تم یہ فتنہ مت پھیلاؤ اس فتنہ سے تم میں کبھی صلح نہیں ہوگی تم میں کبھی اتفاق نہیں ہوگا.چنانچہ آج تک مسلمانوں میں صلح نہیں ہوئی.عبد اللہ بن سلام کا یہ قول سن کر کہ آخری وقت میں فتنہ ہوگا ابن عباس نے کہا کہ تم جماعت کو اختیار کرنا.لوگوں نے کہا اگر چہ قاتل ہی ہو.انہوں نے کہا ہاں اگر چہ قاتل ہی ہو.(ایسے ہی تین بار کہا ) لوگ موازنہ کر کے دیکھ لیں کہ کس نے طرف زیادہ فوائد ہیں.تم کہتے ہو بیعت ضروری نہیں لیکن ہم کہتے ہیں اتفاق تو ضروری ہے.پس کیوں اس طریق کو اختیار کرتے ہو جو اتفاق سے دور کرنے والا ہے.میں کل ہی ذکر کر رہا تھا لو كَانَ الْإِيْمَانُ معلقا باللا لا له رجال من ابناء فارس.اس میں دجال کا لفظ آیا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک پیشگوئی ہے کہ اگر ایمان معلق بالثریا ہوگا تو ابنائے فارس میں سے بعض رِجال ایمان کو لائیں گے.تو اب ضروری ہے کہ ابناء فارس یعنی حضرت کے خاندان سے ہوں اور اگر کسی دوسرے خاندان سے ہوں تو وہ ابنائے فارس سے نہیں کہلا سکتے.اور پھر یہ پیشگوئی غلط ہو جاتی ہے.رَجُلٌ مِن فارس نے بتایا کہ اصل بانی سلسلہ ایک ہی ہے مگر ر جال نے بتادیا کہ اس کے مُمد و معاون اور بھی ابناء فارس سے ہوں گے.غرض میرا کام فساد کو بڑھانا نہیں.کسی انسان کے بنانے سے کچھ نہیں بن سکتا.چونکہ اس وقت دنیا میں شرک حد سے بڑھ چکا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے ایک کمزور انسان کو

Page 433

خطبات محمود جلد ۴ ۴۲۴ سال ۱۹۱۵ء کھڑا کر کے بتا دیا کہ کسی کام کا کرنا میرے ہاتھ میں ہے.جب خدا نے مجھے پکڑ کر کھڑا کر دیا تو میرا اس میں کیا دخل ہے.میرے مخالفوں کو علم میں، تجربہ میں، جذبات میں مجھ سے بڑے ہونے کا دعویٰ ہے مگر خدا نے سب سے کمزور سے کام لیا.میں تو اپنی حیثیت کو کچھ نہیں سمجھتا.خدا یہ بتانا چاہتا ہے کہ میں کمزور سے کمزور کو بڑی طاقت دے سکتا ہوں.خلافت سے پہلے میں نے رویا میں دیکھا کہ میرا ایک ہم جماعت ہے وہ مجھ سے کہتا ہے کہ میں تمہارے لیکچر کے خلاف لیکچر دوں گا.تو میں نے اس سے کہا کہ اگر تم میرے خلاف لیکچر دو گے اور مجھ پر سچا الزام بھی لگاؤ گے تو تم ہلاک ہو جاؤ گے.پس یا درکھو خدا کے کاموں کو کوئی روک نہیں سکتا.خدا تمہیں ان باتوں کی سمجھ دے.آمین الفلق : ۲ تا آخر الفضل ۳۱ اگست ۱۹۱۵ء) الغاشية : ٢٣ بخاری کتاب الاحکام باب موعظة الامام للخصوم المعجم الكبير للحافظ ابى القاسم سلمان بن احمد الطبرانی جلد ۱۸ صفحہ ۳۵۳ مكتبة ابن تيمية قاهرة ١٣٩٧هـ

Page 434

خطبات محمود جلد ۴ ۴۲۵ (۸۱) دینی عزت اسی کو حاصل ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کی خاطر عاجزی اختیار کرے (فرموده ۲۰.اگست ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ الکوثر کی تلاوت کی:.إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الأَبْتَرُات پھر فرمایا:.عزت اور بڑائی حاصل کرنے کیلئے لوگوں نے بہت سی تدبیریں اختیار کی ہیں اور بہت سی تجویزیں سوچتے رہتے ہیں.ہزاروں رستے ، ہزاروں ایجادیں اور ہزاروں تدبیریں لوگوں نے عزت حاصل کرنے کیلئے اختیار کر رکھی ہیں اور ہر روز نئے سے نئے پہلو سو چتے رہتے ہیں لیکن لوگوں نے جہاں عزت حاصل کرنے کے مختلف پہلو سوچے ہیں وہاں ایک بہت بڑا دھوکا بھی کھایا ہے جو ہمیشہ سے لگتا آیا ہے اور اس زمانہ میں لگ رہا ہے وہ یہ ہے کہ بعض ایسے لوگ جن کا دین سے تعلق ہوتا ہے یا یوں کہنا چاہئیے کہ جن کا دین کے ساتھ کمزور تعلق ہوتا ہے وہ دین اور دنیا کی عزت کو ایک سا سمجھ کر دین کی عزت حاصل کرنے کیلئے انہی تدبیروں سے کام لیتے ہیں جن سے دنیا کی عزت کا حصول سمجھتے ہیں لیکن جہاں نے مادی عالم کا روحانی عالم سے اختلاف ہے وہاں دنیاوی اور دینی عزتوں میں بھی بڑا فرق ہے.دنیا کی عزتیں محنت، کوشش اور تدبیروں سے ملتی ہیں اور جتنا کوئی زیادہ کوشش کرے اتنی ہی زیادہ ملتی ہیں.لیکن دینی عزت حاصل کرنے کا طریق اس کے خلاف ہے اس کیلئے جتنی کوئی کوشش اور تدبیر کرتا

Page 435

خطبات محمود جلد ۴ ۴۲۶ سال ۱۹۱۵ ہے اتنا ہی ذلیل ہوتا ہے اور جتنا دنیا سے علیحدہ ہوتا اور اپنے نفس کو دنیاوی خواہشات سے مارتا ہے اتنا ہی خدا اسے اونچا کرتا ہے.یہی بہت بڑا فرق ہے جس کے نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگوں نے ٹھوکر کھائی ہے.دین کی وجہ سے جو عزت ملی وہ آنحضرت سلی کی تم سے زیادہ کسی کو نہیں ملی اور نہ مل سکتی ہے.اللہ تعالی قرآن شریف میں آپ کی نسبت فرماتا ہے انا اعطینكَ الْكَوثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الابتر.ہم نے تجھے کوثر عنایت فرمائی ہے یعنی ہر ایک چیز کی کثرت اور ہر ایک چیز میں وسعت دی ہے.چنانچہ کوئی چیز بھی لے لو نہریں ہی جاری نظر آتی ہیں.جنت میں جو حوض کوثر ہوگا وہ تو علیحدہ رہا یہاں بھی نہریں جاری ہیں اور ہر چیز کی کثرت ہے.آپ کو خدا تعالیٰ نے وہ عزت دی جو دنیا میں کسی کو حاصل نہ ہوئی.پہلی بڑی عزت تو آپ کو وہ دی جس میں دیگر انبیاء بھی آپ کے شریک نہیں اور وہ یہ کہ سب انبیاء ایک ایک قوم کی طرف بھیجے جاتے تھے مگر آنحضرت سائیں پیہم کو ساری دنیا کی طرف مبعوث کیا گیا ور آپ کو ساری دنیا کا بادشاہ کر دیا گیا.کرشن اور رامچندر کی تعلیم ہندوستان کیلئے تھی.زرتشت کی تعلیم ایران کیلئے تھی.حضرت موسیٰ سے لے کر حضرت مسیح تک کل انبیاء کی تعلیم بنی اسرائیل کیلئے تھی لیکن آنحضرت سی پیتم پر خدا تعالیٰ نے یہ فضل کیا کہ ساری دنیا کا بادشاہ بنادیا.اور کوئی علاقہ آپ کی حکومت سے باہر نہ رکھا خواہ ایشیاء ہو یا افریقہ، خواہ یورپ ہو یا امریکہ، خواہ جزائر کے رہنے والے ہوں یا پہاڑوں کے ، خواہ میدانوں میں رہنے والے ہوں یا جنگلوں میں ، خواہ گاؤں بستیوں میں رہنے والے ہوں یا شہروں میں تمام کے اوپر آپ کی اطاعت فرض کر کے یہ قرار دے دیا کہ آپ کی اطاعت کا جوا اٹھائے بغیر کسی کیلئے نجات کا دروازہ نہیں کھلا.تو اتنی بڑی حکومت آپ کو عطا ہوئی.پھر آپ کے کلام کو وہ اثر بخشا کہ آپ کی باتوں کو سن کر جنہوں نے ہدایت پائی تھی ان کی شان کو اللہ تعالیٰ نے ایسا بڑھایا کہ کسی نبی کی صحبت یافتہ جماعت ان سے مقابلہ نہیں کر سکتی.قرآن شریف میں جن نبیوں کا ذکر ہے ان میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام بڑے ہیں.ان سے پہلے نبیوں کی امتوں کا حال تو ہمیں معلوم نہیں اور نہ ہی کوئی مفصل تاریخ ہے جس سے یہ پتہ لگ سکے کہ حضرت نوح “ حضرت ابراہیم وغیرہ انبیاء کی امتیں کیسی تھیں.مگر موسیٰ علیہ السلام کی امت کا حال معلوم ہوتا ہے جو تاریخوں میں بھی پایا جاتا ہے اور

Page 436

خطبات محمود جلد ۴ ۴۲۷ سال ۱۹۱۵ ء قرآن کریم نے بھی کھول کر بتا دیا ہے.قرآن کریم نے تو اس لئے بتایا ہے کہ آنحضرت سائی یتم ان کے مثیل تھے.ان دونوں انبیاء کی امتوں کا حال دیکھیں تو بہت بڑا فرق نظر آتا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت تو وہ ہے جو ایک اتنے بڑے نبی کے عظیم الشان نشان دیکھ چکی ہے.انہوں نے فرعون کو غرق ہوتے دیکھا، جنگلوں اور بیابانوں میں خدا تعالیٰ کی نصرت اور مددکو شامل حال پایا لیکن پھر بھی یہ حال ہے کہ ایک جگہ لڑائی کیلئے حکم ہوا تو قَالُوا یموسی اِنَّا لَن تَدْخُلَهَا أَبَدًا مَّا دَامُوا فِيهَا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا اِنَّاهُهُنَا قَاعِدُونَ ٢ کہتے ہیں اے موسیٰ ! آپ اور آپ کا رب ہے جا کر ان سے لڑیں ہم تو یہاں بیٹھے ہیں جب وہ وہاں سے چلے جائیں گے تب ہم داخل ہوں گے.یہ اُس قوم کا حال ہے جس نے بڑے بڑے معجزے دیکھے.بہت مدت نبی کی صحبت میں رہی لیکن آنحضرت ملا یہ تم کی جماعت کا حال سنئیے.جب آپ مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگوں سے آپ نے یہ معاہدہ کیا کہ اگر مدینہ سے باہر جنگ ہو تو تم اس میں لڑنے کے پابند نہیں لیکن اگر مدینہ کے اندر ہو تو اس کے روکنے میں مدد دینا تمہارا فرض ہوگا.اس معاہدہ میں عیسائی اور یہودی بھی شامل تھے لیکن جب ایک دفعہ جنگ کا موقع آیا اور یہود نے بد عہدی کر کے اندر فساد مچا دیا تو مسلمانوں نے کہا کہ ہم تو آپ کے دائیں بائیں آگے پیچھے لڑیں گے اور دشمن پہلے ہم کو قتل کرے گا پھر کہیں آپ تک پہنچنے پائے گا ۳.یہ اس قوم کا حال ہے جو بہت قلیل عرصہ یعنی صرف ڈیڑھ دو سال تک آپ کی صحبت میں رہی مگر باوجود اس کے اس کا ایمان اتنا ترقی کر گیا.لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جماعت جو قریبا ہمیں سال ان کی صحبت میں رہی اور جس نے بڑے بڑے نشانات دیکھے انہیں جب لڑنے کیلئے کہا گیا اور شمن کی تعداد بھی کچھ زیادہ نہ تھی تو اس نے جواب دیا کہ آپ اور آپ کا خدا جا کر لڑیئے.آنحضرت مہ کی صحبت میں ایک قلیل عرصہ رہنے والی جماعت کا یہ حال ہے کہ اس کا معت ابلہ ایک خطرناک گروہ سے ہو جاتا ہے جو یوں تو ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں تھا لیکن مقابلہ کیلئے جو آئے وہ بھی بہت زیادہ تھے باوجود اس کے وہ آنحضرت صلی ا یہ تم کو کہتے ہیں کہ ہم آپ کا ساتھ نہ چھوڑیں گے.آپ تک اس وقت تک کوئی دشمن نہیں پہنچ سکتا جب تک ہم سب کو مار نہ لے.پھر مردوں ہی میں یہ جوش نہیں بلکہ لڑکوں اور بچوں میں بھی یہی جوش ہے.چودہ پندرہ سال کے لڑکوں میں وہ جرات اور دلیری پائی جاتی تھی جو اس زمانہ میں بڑے بڑے جوانوں میں نہیں.اب اگر اس عمر کے

Page 437

خطبات محمود جلد ۴ ۴۲۸ سال ۱۹۱۵ء لڑکوں کو نماز کیلئے کہا جائے تو والدین کہہ دیتے ہیں ابھی بچے ہیں.مگر آنحضرت سی ایم کی زبان میں وہ اثر تھا کہ دنیا کی وہ قوم جو بچے کہلاتی ہے ان میں وہ روحانیت اور جوش تھا کہ آج کل کے بڑے سے بڑے بہادروں میں نہیں ہے.بدر کی جنگ کا واقعہ ہے.عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں اس لڑائی میں میرے پہلو بہ پہلو دولڑ کے تھے.میں نے خیال کیا کہ آج کی لڑائی بے مزا ہی رہے گی.( کیونکہ لڑنے میں اسی وقت مزا آتا ہے جبکہ دونوں پہلوؤں میں بھی بہادر لڑ رہے ہوں) میرے دل میں یہ خیال پیدا ہی ہوا تھا کہ ایک نے مجھ سے پوچھا.چا! ابو جہل جو رسول اللہ کو گالیاں دیتا اور بڑی بھاری مخالفت کرتا ہے کہاں ہے؟ مجھے بتاؤ تا میں اسے قتل کروں.یہ بڑے بہادر تھے کہتے ہیں میرے دل میں یہ خیال بھی نہیں تھا جو اس لڑکے نے ظاہر کیا.پھر دوسرے لڑکے نے یہی سوال کیا.میں حیران رہ گیا.ابو جہل فوج کا کمانڈر اور قلب لشکر میں کھڑا تھا.اس کے ارد گرد بڑے بہادر اور زور آور آدمی لڑ رہے تھے.میں نے اشارہ کر کے بتایا.اور اشارہ کیا ہی تھا کہ دونوں لڑکے بجلی کی طرح کوند کر اس پر جا پڑے اور راستے کے لوگوں کو چیرتے ہوئے اس تک پہنچ گئے.گو ایک کا ہاتھ ہے کٹ گیا مگر دونوں نے جا کر ابو جہل کو گرا لیا.۴.یہ بچوں کا حال تھا.عورتوں کا تو اس سے بھی عجیب تھا.دنیا میں ماتم عورتوں سے ہی چلا ہے کیونکہ یہ کمزور اور ضعیف دل ہوتی ہیں اور کسی صدمہ اور غم سے جلد ہی گھبرا جاتی ہیں.مگر آنحضرت سالا ای یتیم کی صحبت میں اور ہی نظارہ دیکھنے میں آتا ہے.اُحد کی جنگ میں یہ مشہور ہو گیا تھا کہ آپ مشہید ہو گئے ہیں.جب اس لڑائی سے لشکر واپس آ رہا تھا تو مدینہ کی عورتیں مدینہ سے باہر دیکھنے کے لئے نکل آئیں.ایک عورت نے ایک سپاہی سے پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ چونکہ آپ سب خیریت واپس تشریف لا رہے تھے اور سپاہی اس طرف سے مطمئن تھا اس لئے اس نے اس بات کا تو کوئی جواب نہ دیا اور اس عورت سے کہا کہ تیرا خاوند ما را گیا ہے.اس نے کہا کہ میں نے تم سے یہ پوچھا ہے کہ آنحضر صلی لا الہ اہم کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا تیرا باپ بھی مارا گیا ہے ( چونکہ اس سپاہی کا دل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بے فکر تھا اس لئے وہ وہی جواب دیتا جو اس کے نزدیک اس عورت کیلئے ضروری تھا ) عورت نے کہا میں نے تو یہ پوچھا ہے کہ آنحضرت مسی یا یہ تم کا کیا حال ہے؟ اُس نے کہا تیرا بھائی بھی مارا گیا ہے.اس نے کہا میں تم سے یہ نہیں پوچھتی، مجھے یہ بتاؤ کہ آنحضرت کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا آپ تو خیریت سے ہیں.عورت نے کہا کہ اگر ہے

Page 438

خطبات محمود جلد ۴ ۴۲۹ سال ۱۹۱۵ رسول اللہ زندہ ہیں تو ار کسی کی کیا پرواہ ہے.۵ جب ایک اعلی درجہ کی چیز محفوظ ہے تو اس پر ادنی درجہ کی چیزوں کے قربان ہو جانے کا کیا رنج ؟ یہ ایک عورت کا گردہ ہے.اس کے مقابلہ میں آج کل کے لوگ جو بڑے صوفی بنتے ہیں اور بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں ان کی عورتوں کا یہ حال ہے کہ اگر کوئی چھوٹا بچہ مرجائے تو شور مچا دیتی ہیں.مگر اس کا خاوند باپ بھائی مارا جاتا ہے اور وہ کہتی ہے کہ اگر رسول اللہ زندہ ہیں تو کوئی پرواہ نہیں.تو آنحضرت سلی یہ تم کی ایسی تاثیر تھی کہ جس نے دلوں کو بدل دیا تھا اور ایسا کر دیا تھا کہ جس کی نظیر نہیں مل سکتی.موت ان لوگوں کے لئے کوئی حقیقت نہ رکھتی تھی.اسی طرح ان کے اخلاق کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں ان کی بھی کوئی نظیر نہیں.تعلیم ایسی اعلیٰ کہ بے مثل.غرضیکہ کوئی ایسی چیز نہیں کہ جو عزت سے تعلق رکھتی ہو اور آنحضرت مال شما یہ تم کو نہ ملی ہو.اور پھر ایسی کوئی چیز بھی نہیں کہ کوئی نبی بھی اس کا مقابلہ کر سکے.تو آنحضرت ﷺ اس قدر عزت والے انسان ہیں.اس کے متعلق تم نے کبھی اپنے نفس میں غور کیا ہے کہ آپ کو کس طرح یہ عزت ملی.کیا اس کیلئے آپ نے بڑی بڑی کوششیں کیں.منصوبے باندھے ، تدبیریں کیں یا اس کیلئے لوگوں سے لڑائی جھگڑا کرتے تھے.آپ کے بڑے بڑے دشمن گزرے ہیں جنہوں نے آپ کے سارے کام کو فریب اور منصوبہ قرار دینے میں بڑاز در مارا ہے.کیونکہ اس کی بجائے وہ یہی اقرار کرتے ہیں کہ یہ شخص سب سے زیادہ دنیا کی عزت سے بھاگنے والا نظر آتا ہے.لیکن باوجود اس کے آپ اوپر ہی اوپر بڑھتے جاتے تھے.تو آپ کی تمام عزت کا راز تدبیروں ، کوششوں اور منصوبوں میں نہ تھا بلکہ اس میں تھا کہ آپ جس قدر دنیا سے دور بھاگتے تھے، اتنے ہی بڑھائے جاتے تھے.آپ جس طرح دینی عزت میں تمام انسانوں سے ممتاز ہیں اسی طرح دنیوی عزت میں کی بھی ہیں.لیکن چونکہ اس میں جھگڑا ہے اس لئے میں اسے نظر انداز کر دیتا ہوں.ورنہ دنیاوی لحاظ سے بھی آپ کی وہ شان وشوکت ہے کہ اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.لیکن جس قدر آپ بڑے تھے آپ کی عبادات ، افعال اور معاملات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اسی قدر دنیا سے نفرت کرنے والے تھے.اس زمانہ میں بہت بڑی عزت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملی حتی کہ آپ کی عزت کی بلندی کے اظہار کیلئے قرآن شریف میں آپ کی نسبت یہ قرار دیا کہ آخَرِيْنَ مِنْهُم -1-

Page 439

خطبات محمود جلد ۴ ۴۳۰ سال ۱۹۱۵ء کا سردار بنا دیا.میں نے آپ سے بار ہا سنا آپ مخالفوں کو مخاطب کر کے فرمایا کرتے تھے کہ لوگ کہتے ہیں کہ میں مسیح بن گیا ہوں میں تو کبھی نہیں چاہتا تھا کہ مسیح بنوں.مجھے تو گمنامی کے گوشہ میں رہنا ہی پسند تھا لیکن میں کیا کروں مجھے تو خدا نے بنا دیا ہے اس میں میرا کیا قصور ہے مجھ سے کیوں لڑتے ہو ا گر لڑنا ہے تو خدا سے لڑو.تو اس انسان کے منہ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی دینی عزت حاصل کرنی چاہے تو کوشش سے نہیں ہوسکتی بلکہ اس کیلئے جتنا کوئی نیچے گرے، خدا اتنا ہی اُسے بلند کرتا ہے، بہت لوگ اس بات کو نہیں سمجھے.چونکہ ہمارا سلسلہ دینی سلسلہ ہے اس میں وہی بڑا ہو سکتا ہے جو بڑائی نہ چاہے اور وہی اونچا ہو سکتا ہے جو اپنے کو نیچے گرائے.اور وہی معزز ہو سکتا ہے جو دین کیلئے دنیا کی ہر ذلت کو برداشت کرنے کیلئے تیار ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں اختلاف پیدا ہو جاتے ہیں.چھوٹی چھوٹی انجمنیں ہیں جن کا بہت قلیل چندہ آتا ہے مگر ان میں اس امر پر بحث شروع ہو جاتی ہے کہ انجمن کا سیکرٹری کون ہو، پریذیڈنٹ کون بنے.جس کے دل میں یہ خیال ہو کہ میں پریذیڈنٹ بنایا جاؤں اگر وہ نہ بنایا جائے تو علیحدہ ہو جاتا ہے.حالانکہ اگر دنیاوی عزت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو کوئی ایک چھوٹی سی انجمن کا پریذیڈنٹ بن گیا تو کیا اور اگر نہ بنا تو کیا.اسے دنیا داروں کے مقابلہ میں کیا عزت حاصل ہوئی.باقی رہا دین کا معاملہ اس کے متعلق یا درکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے حضور وہی عزت پاتا ہے جو عزت کا خیال بھی نہ کرے اور جو کوشش کرتا ہے وہ ضرور ذلیل کیا جاتا ہے.اس وقت ہماری جماعت کیلئے نمونہ موجود ہے.کچھ لوگ تھے جو عہدوں کا حاصل کرنا عزت کا ذریعہ سمجھے ہوئے تھے اور کوششوں سے چاہتے تھے کہ معزز بن جائیں.لیکن جس طرح لکھی کو دودھ سے نکال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ نے ان کو سلسلہ سے نکال کر باہر پھینک دیا.ایک مشہور شعر ہے.قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند دو چار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا یہی مثال ان لوگوں کی ہوئی وہ سمجھے بیٹھے تھے کہ سب کچھ ہمارے قبضہ میں آگیا ہے اور یقین رکھتے تھے کہ ہم اپنے منصوبوں میں کامیاب ہو گئے ہیں مگر اُس وقت جا کر کمند ٹوٹ گئی جبکہ دو چار ہاتھ لب بام رہ گیا.یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ مہلت دیتا ہے لیکن نادان انسان سمجھتا ہے کہ میں کامیاب ہو گیا ہوں لیکن جو نہی اس کے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ اب ہاتھ رکھا تو کامیاب ہو جاؤں گا اسی وقت رتی بھنچتی ہے اور دھڑام سے نیچے آ گرتا ہے.پس ہماری

Page 440

خطبات محمود جلد ۴ ۴۳۱ سال ۱۹۱۵ء جماعت کیلئے نمونہ موجود ہے اگر پہلے غیروں کے نمونے تھے تو اس وقت ان لوگوں کا نمونہ ہے جو جماعت پر بڑا اثر رکھنے والے تھے.انہوں نے اپنی تدبیروں سے بڑا بننا چاہا لیکن خدا نے نہ چاہا.اس لئے جس وقت انہوں نے سمجھا کہ اب پھل تیار ہو گیا ہے منہ میں ڈال لیں، اُسی وقت خدا نے ان سے چھین لیا.پس تم خوب یاد رکھو کہ دین کی عزت کوشش سے نہیں ملتی بلکہ اسی کیلئے ہوتی ہے جو اللہ کیلئے اپنے آپ کو ذلیل کرے اور اللہ کیلئے رسوائی کو قبول کرے جو ایسا نہیں کرتا وہ کبھی عزت نہیں پاسکتا.ہمیں کام کرنے والے انسان چاہئیں اگر کسی کام کرنے والے میں کوئی نقص ہے تو بجائے اس کے کہ اسے توڑنے کی کوشش کی جائے خود اس کی مدد کیلئے کھڑا ہونا چاہیئے.اگر کسی گھر کی دیوار گرنے لگے تو جب تک بالکل ہی مایوسی نہ ہو جائے اس کے نیچے ستون رکھے جاتے ہیں لیکن کس قدر افسوس ہے کہ دین کے کاموں میں یہ کوشش کی جائے کہ جس میں کوئی نقص ہو اُسے توڑ دیا جائے.توڑنے کی اُس وقت ضرورت پڑتی ہے جبکہ اس کے کام آنے کی کوئی امید نہ رہے.اگر کسی میں کمزوری ہے تو اس کی مدد کرو.اگر کوئی تھوڑا کام کر سکتا ہے تو اس کے ساتھ مل کر کام پورا کر دو لیکن جو یہ چاہتا ہے کہ دوسروں کو ذلیل کر کے آپ عزت حاصل کرے وہ ذلیل ہو جائے گا.پہلوں کیلئے یہی بات ٹھوکر کا موجب ہوئی ہے اب بھی اگر کوئی اس طرح کرے گا تو خدا اس کو بھی نکال دے گا.خدا کو نہ ان کی پرواہ تھی اور نہ اب کسی کی ہے.ہمارا سلسلہ نہ پہلے بندوں کے سہارے چلا ہے اور نہ اب چلے گا.پہلے بھی خدا ہی چلاتا تھا اور اب بھی خدا ہی چلائے گا.وہ جو خیال رکھتے ہیں کہ ہم پریذیڈنٹ یا سیکرٹری بنائے جائیں یا صرف اعتراضوں میں لگے رہتے ہیں وہ یا درکھیں کہ خدا نے ایک عبرت کا نمونہ دکھا دیا ہے.اب بھی اس کا کوئی ہاتھ نہیں پکڑ سکتا، وہ اب بھی وہی نمونہ دکھا سکتا ہے.یہ دین کا معاملہ ہے اس میں تمہیں بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہئیے.جب خدائی غیرت بھڑکتی ہے تو پھر یہ نہیں دیکھتی کہ فلاں بڑا ہے اور فلاں چھوٹا.جو کوئی بھی اس کے دین کے رستے میں روک ہوتا ہے اس کو نکال پھینکتی ہے.پس ایسے خیال اپنے دلوں سے نکال دو اور خدا کیلئے ذلت اور رسوائی برداشت کرنے کو تیار رہو.اس بات کیلئے تیار رہو کہ لوگ تم سے بدسلوکی کریں.تم حقیر سمجھے جاؤ کیونکہ جو خدا کیلئے ذلیل ہوتا ہے وہ عزت پاتا ہے اور جو خدا تعالیٰ کے کاموں کی پرواہ نہیں کرتا وہ ذلیل ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ ہماری جماعت.

Page 441

خطبات محمود جلد ۴ ۴۳۲ سال ۱۹۱۵ء اس مرض کو دور کر کے اس قابل بنا دے کہ وہ دین کے کام کر کے کبھی اپنی عزت کا خیال نہ کریں.الفضل ۲۹.اگست ۱۹۱۵ء ) ل الكوثر : ۲ تا آخر ل المائدة : ٢٥ سے بخاری کتاب المغازی باب قول الله تعالى إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمُ الخَ بخاری کتاب المغازى باب فضل من شَهِدَ بدرًا - ۵، سیرت ابن هشام عربی جلد ۳ صفحه ۱۰۵ مطبع مصطفے البابی الحلبی مصر ١٩٣٦ء الجمعة :

Page 442

خطبات محمود جلد ۴ ۴۳۳ (۸۲) اسلام وقتی جوش کیلئے نہیں بلکہ موت تک قربانی کیلئے بلاتا ہے (فرموده ۳.ستمبر ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی :: الم - ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَ يُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْهُمْ يُنْفِقُونَ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ.أُوْلَئِكَ عَلَى هُدًى مِّنْ رَّبّهِمْ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ اس کے بعد فرمایا:.انسانوں میں سے بہت سے انسان ست بھی ہوتے ہیں، سکتے بھی ہوتے ہیں، بے استقلال بھی ہوتے ہیں اور بے ہمت بھی ہوتے ہیں اور ان کے بڑے خصائل کے خلاف واعظ لوگ لوگوں کو بہت کچھ کہتے سنتے بھی رہتے ہیں اور ان سے بچنے کی طرف متوجہ بھی کرتے رہتے ہیں لیکن اصل ہوشیاری، اصل ہمت اور کام کرنے کی طاقت وقوت کسے کہتے ہیں اور اس سے کیا مراد ہے؟ اس سے بہت کم لوگ آشنا ہوتے ہیں اس لئے بعض لوگ غلطی سے بعض باتوں کا نام ہمت ، ہوشیاری اور کام کرنے کی عملی طاقت رکھ لیتے ہیں.لیکن درحقیقت وہ عملی طاقت ہمت اور ہوشیاری نہیں ہوتی.بلکہ ہمت، ہوشیاری اور عملی طاقت وقوت تو بہت بڑی چیزیں ہیں اور ان کا حاصل کرنا یا اپنے اندر پیدا کرنا کوئی چھوٹی سی بات نہیں کیونکہ یہ بڑے صبر اور بڑی محنت کو چاہتی ہیں.

Page 443

خطبات محمود جلد ۴ ۴۳۴ سال ۱۹۱۵ء بہت سے لوگ دنیا میں بعض وقتوں میں بڑے چوکس اور ہوشیار بھی ہوتے ہیں مگر باوجود اس کے وہ چوکس اور ہوشیار نہیں ہوتے.بعض لوگ بعض وقتوں میں بڑے جوش سے کام کرتے ہیں لیکن باوجود اس کے ان کا وہ فعل اس امر پر دلالت نہیں کرتا کہ وہ بڑے ہمت والے اور اولو العزم ہیں اور نہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے اندر عملی طور پر کام کرنے کی طاقت اعلی حد تک پہنچی ہوئی ہے کیونکہ ان کے تمام کام ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے ہانڈی کا اُبال.ہانڈی جب چولہے پر چڑھی ہو تو اس میں ابال آتا ہے مگر وہ اُبال قائم رہنے والی چیز نہیں ہوتی ذرا ڈھکنا اُتارو و ہیں بیٹھ جاتا ہے.تو وہ اعمال جو ان کی ہمت چیستی ، اور ہوشیاری پر یا ان کے اندر عملی طاقت کے موجود ہونے پر بظاہر دلالت کرتے ہیں در حقیقت ہنڈیا کے ابال سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے.میرے خیال میں تو دنیا میں کوئی بھی ایسا انسان نہیں جس پر کسی نہ کسی وقت جوش اور چستی کی حالت نہ گزرتی ہو.جس طرح ہر وہ ہنڈیا جو آگ پر رکھی جاتی ہے اُبلتی ہے اسی طرح ہر وہ انسان جو دنیا میں کام کرتا ہے کبھی نہ کبھی جوش دکھاتا ہے لیکن باوجود اس کے نہیں کہہ سکتے کہ وہ بڑا کام کرنے والا ہے.کیوں؟ اس لئے کہ اُس کا جوش وقتی ہے.وقتی جوش بے شک ایک حد تک مفید ہوتا ہے اور اکثر کام دے جاتا ہے لیکن اس سے وہ نتائج نہیں نکل سکتے جو استقلال کے ساتھ کام کرنے سے نکلتے ہیں کیونکہ اس طرح جو نتائج نکلتے ہیں وہ وقتی جوش کی نسبت بہت بڑے ہوتے ہیں.اگر کوئی ایسا وقت آئے کہ ہندوؤں مسلمانوں کا یا مسلمانوں عیسائیوں کا یا ہندوؤں عیسائیوں کا مباحثہ ہو تو ہر قوم کے آدمی یہی ظاہر کریں گے کہ اپنے مذہب کی محبت میں ایسے چور ہیں کہ ایک بات بھی اس کے خلاف نہیں سن سکتے لیکن جب پنڈت اور مولوی یا پادری مباحثہ سے اُٹھ کھڑے ہوں تو انہیں کبھی خیال بھی نہیں آتا کہ ہمارے مذہب میں بھی کوئی خوبی ہے یا نہیں، اس کیلئے غیرت چاہئیے یا ہیں.مباحثات میں جاہلوں کو زیادہ جوش آیا کرتا ہے مگر جب گھر جاتے ہیں تو سب کچھ بھول جاتے ہیں.اب اس جوش کو دیکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہی لوگ صحابہ کا نمونہ ہیں اور واقعہ میں ان کی اس حالت کو دیکھ کر ایک نبی کی تربیت یافتہ جماعت کے ساتھ انہیں تشبیہ دی جاسکتی ہے کیونکہ یہ لوگ اس وقت اپنے مذہب کے خلاف سن کر کرب ظاہر کرتے ہیں ، دین کی محبت میں چور نظر آتے ہیں، اپنے مذہب کی کامیابی پر اتنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ انہیں بادشاہت بھی ملتی تو بھی اتنی خوشی نہ

Page 444

خطبات محمود جلد ۴ ۴۳۵ سال ۱۹۱۵ء کرتے یہی حال سچی معرفت رکھنے والوں کا ہوتا ہے.وہ چونکہ خدا تعالیٰ سے خاص تعلق رکھتے ہیں اس لئے کوئی مشکل ان کے راستہ میں حائل نہیں ہو سکتی، کوئی تکلیف انہیں رنجیدہ نہیں کر سکتی ان کیلئے دین کی کامیابی سب سے بڑھ کر خوشی ہوتی ہے.یہی حالت مباحثہ میں ان لوگوں کی نظر آتی ہے.مگر ان دونوں جماعتوں میں بہت بڑا فرق ہے اور وہ یہ کہ انبیاء کی تربیت یافتہ جماعت کے لوگ گھروں میں جاتے ہیں ہوتے ہیں، جاگتے ہیں، چلتے پھرتے ہیں، اپنے تمام کاروبار کرتے ہیں لیکن ان کی ہر حالت اور ہر وقت میں جوش اور چستی نمایاں ہوتی ہے اور جو دوسرے ہیں ان کا جوش صرف مباحثہ کے وقت تک ہی محدود ہوتا ہے ہے.گھر جا کر وہ دنیا کے کاموں میں لگ جاتے ہیں اور دین کا خیال بھی نہیں رہتا.اسی طرح بہت سے بخیل جن کے ہاتھوں سے ایک پیسہ بھی نہیں نکلتا بڑی بڑی رقمیں دے ڈالتے ہیں مگر سخی نہیں کہلا سکتے.کیوں؟ اس لئے کہ کسی خاص وجہ یا خاص منظر یا خاص بات سے متاثر ہو کر ان کا بخل دب جاتا ہے اس لئے وہ کچھ دے دیتے ہیں.اور یہ بات بیرونی اثرات سے ان میں پید اہوتی ہے نہ کہ ان کی طبیعت سے نکلتی ہے لیکن ایک سخی کو مجلس کے اثرات یا کسی منظر کی کیفیات یا واعظ کا وعظ یا کسی کی شان و شوکت دینے کیلئے مجبور نہیں کرتی بلکہ اس کی فطرت اسے مجبور کرتی ہے کہ کسی غریب کی مدد کی جائے.پھر کسی خاص وقت نہیں بلکہ تنگی و فراخی ، عسر یسر ہر حال میں اس کی سخاوت ظاہر ہوتی رہتی ہے.پس اصل بات جو دنیا میں کسی کو کامیاب کرتی ہے وہ ایک صفت کا اپنے اندر ہمیشہ کیلئے قائم کر لینا ہوتا ہے نہ کہ ایک وقت کیلئے اس کا حاصل کر لینا.کیونکہ وقتی جوش تو شریر سے شریر انسان کو بھی اپنے مذہب کی حمایت میں آجاتا ہے.چنانچہ اخباروں میں ایسے واقعات پڑھے جاتے ہیں.مثلاً دیا نند کالج اور اسلامیہ کالج کے لڑکوں میں میچ ہوا تو موچی دروازہ کے غنڈے لٹھ لے کر آگئے کہ مسلمان اور آریوں کا مقابلہ ہے ہمیں مسلمانوں کی ہمدردی کرنی چاہئیے.اس نظارہ کو دیکھ کر نہیں کہہ سکتے کہ ان میں اسلامی جوش ہے.کیونکہ ایک نظارہ کی وجہ سے ان میں وقتی جوش نظر آتا ہے اور حقیقت میں کچھ بھی نہیں.اصل ہمت اور جوش سے کام کرنے والا وہ انسان ہوتا ہے جو بھی تھکتا نہیں خواہ کتنا ہی مشکل کام اسے پیش آئے ، اور کتنا ہی لمبا عرصہ اس کے کرنے میں لگے.لیکن وہ جو ایک وقت خواہ کتنا ہی جوش دکھائے اس کا جوش جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے اس لئے کبھی اس قسم کا انسان کامیاب نہیں ہو سکتا.جتنے

Page 445

خطبات محمود جلد ۴ ۴۳۶ سال ۱۹۱۵ انسان کامیاب ہوتے ہیں اور جتنی قو میں ترقی کرتی ہیں وہ وہی ہوتی ہیں جن کی ہمت اور جوش نے وقت کو نہیں دیکھا.خواہ دس برس لگیں یا ہمیں تیس یا چالیس پچاس، جب تک ان کا مدعا حاصل نہ ہو چھوڑتی نہیں.یہ نہیں کہ ان میں وقتی جوش پیدا ہو گیا ہو.بعض لوگ وقتی جوش سے کوئی اچھا کام کر لیتے ہیں لیکن گھر آ کر پچھتاتے ہیں.مثلاً بعض لوگ کسی جلسہ میں دوسروں کو دیکھ کر خود بھی دے دیتے ہیں مگر گھر آ کر پچھتاتے ہیں اور کہتے ہیں چندہ نہ دیتے یا جتنا دیا اس سے کم دیتے تو اچھا ہوتا.اس طرح جو ثواب انہیں ہونا ہوتا ہے وہ بھی ضائع ہو جاتا ہے.اسلام جس طرف بلاتا ہے وہ وقتی جوش کا کام نہیں بلکہ موت تک انسان کو قربانی کرنے کیلئے بلاتا ہے اس لئے مومن پر کوئی وقت ایسا نہیں آتا کہ اسے قربانی کیلئے نہ بلایا جائے ہر حالت اور ہر وقت میں آسمانی آواز سے پکار پکار کر کہتی ہے کہ ابھی بڑا کام ہے خوب جوش سے لگے رہو.ہماری جماعت نے جو کام شروع کئے ہیں ان کے کرنے میں بعض آدمی گھبرا جاتے ہیں کہ کیا ہم ہمیشہ ہی یہ کام کرتے رہیں گے.ایسے نادان نہیں جانتے کہ انہیں نفس دھوکا دے رہا ہے.یہ کام کچھ حقیقت نہیں رکھتے اور خدا تعالیٰ کو یہ مد نظر نہیں کہ کسی کا روپیہ خرچ کرا دے اور نہ یہ منظر ہے کہ کسی کا وطن چھڑا کر دوسرے ممالک کی سیر و تفریح کرا دے اور نہ اسے یہ منظور ہے کہ وقت خرچ کر کے اٹھیں بیٹھیں بلکہ وہ تو تم میں ایک ایسی طاقت پیدا کرنا چاہتا ہے کہ انسان کسی روک اور کسی مشکل کو خدا تعالیٰ کیلئے برداشت کرنے میں ہچکچائے نہیں اور اس کیلئے کسی وقت دشمن کے مقابلہ سے نہ ہٹے بلکہ ہر وقت ہتھیار تیز رکھے.کیوں؟ اس لئے کہ ایک دشمن سے اس کا مقابلہ ہے وہ دشمن خواہ اپنا ہی نفس ہو یا دوسرے انسان یا شیطان ہو، ہر وقت اس کے سر پر موجود ہے.ہمارے لئے جو کام ہے یعنی صداقت اسلام کو پھیلانا یہ کوئی آسان کام نہیں.نہ کوئی مٹھائی ہے کہ اُٹھائی اور کھالی ، نہ کوئی کپڑا ہے کہ پہن لیا.اس لئے یہ وقتی جوش کا کام نہیں بلکہ حقیقی جوش رکھنے والی جماعت کا کام ہے.کیونکہ تمام دنیا کی اصلاح کا ایسا فرض ہے جس کے خلاف ساری دنیا زور لگا رہی ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ پندرہ ہیں مست ہاتھی چھوڑ کر ایک بچہ کو کہا جائے کہ ان کو پکڑو.جانتے ہو اس بچہ کو کس قدر احتیاط کی ضرورت ہو گی.پس وہ مست ہاتھی جنہیں بڑے بڑے تجربہ کار مہاوت رام نہیں کر سکے ان کے درمیان ہماری

Page 446

خطبات محمود جلد ۴ ۴۳۷ سال ۱۹۱۵ جماعت کو چھوڑ دیا گیا ہے.جو بچہ کی طرح ہے اور مخالف لوگ مست ہاتھیوں کی طرح جو جھوٹی آزادی کو آزادی سمجھ کر خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری سے بھاگے جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو انہیں اصل آزادی کی طرف لانا چاہتا ہے اسے کچل دیں.آپ لوگ جانتے ہیں کہ جہاں مریض کو یہ خیال ہو کہ مجھے زہر پلایا جا رہا ہے وہاں ڈاکٹر کو کیسی دقت پیش آتی ہے.بہت ہی زور ہو تو دوائی پلائی جاسکے.ایک تو وہ مریض ہے جو سمجھے کہ میرا اعلاج ہورہا ہے وہ بھی دوائی پینے سے منہ بناتا، ناک بھوں چڑھا تا اور کہتا ہے دوائی بے مزہ ہے پینے کو جی نہیں چاہتا لیکن ایک ایسا مریض ہے جس کو یہ یقین ہو کہ وہ درد جو آگے میرے لئے مصیبت کا موجب ہو رہا ہے دوائی پینے سے دگنا ہو جائے گا یا اس دوائی کے حلق سے اُترتے ہی جان نکل جائے گی تو بتاؤ وہ مریض کس شدت سے ڈاکٹر کا مقابلہ کرے گا.ایسے موقع کیلئے بڑا باہمت اور استقلال والا اور مد بر ڈاکٹر چاہیئے جو طرح طرح سے اسے پہلا کر اور نرم کر کے دوائی پلائے.پس ہمارے سپر دبھی جو مریض ہیں وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ہمیں زہر دیا جائے گا.وہ مسیح موعود جو دنیا کو ہدایت کی طرف بلانے آیا تھا اس کا ذکر ان کے سامنے کرو تو فورا پتھر مارنے لگ جائیں گے.وہ مسیح موعود جو دنیا کے آرام کا باعث تھا اسے دکھ کا باعث سمجھ رہے ہیں، وہ مسیح موعود جو سچائی کی طرف بلانے آیا تھا دنیا کو یقین ہے کہ وہ جھوٹ کی تعلیم دیتا ہے.وہ مسیح جو شیطان کے پنجہ سے آزاد کرنے کیلئے آیا تھا دنیا سمجھ رہی ہے کہ اپنی غلامی میں جکڑنے کے لئے آیا اور دنیاوی عزت کیلئے لوگوں کو غلام بناتا ہے.وہ مسیح “ جو خدا سے تعلق قائم کرانے کیلئے آیا تھا دنیا کو یقین ہے کہ وہ خدا سے دور کرنے آیا ہے پس ایسی صورت میں اگر ان کو سمجھایا جائے تو وہ مخالفت میں سارا زور لگاتے ہیں اور برداشت نہیں کرتے کہ ہمار انسخہ استعمال کریں.ایسے موقع پر ہمیں کسی معمولی نہیں بلکہ بڑے بھاری استقلال کی ضرورت ہے.پھر اگر کسی ڈاکٹر کے پاس ایک دو مریض ہوں تو وہ خیال کر سکتا ہے کہ دو گھنٹہ : چار گھنٹہ میں کام کر کے فرصت ہو جائے گی.لیکن جہاں کروڑوں مریض ہوں ایسے موقع پر یہ خیال کرنا نادانی ہوگی کہ ہمارا کام ایک یا دو دن کا ہے کیونکہ یہ اصل میں صدیوں کا کام ہے اور اس کیلئے نسلیں در نسلیں آئیں گی اور ان کے ہاتھ خالی نہ ہوں گے کام زیادہ ہوگا اور آدمی تھوڑے، کیونکہ دینی کام تو کبھی ختم ہی نہیں ہوتا.میں نے دیکھا ہے کہ جب کوئی قوم

Page 447

خطبات محمود جلد ۴ ۴۳۸ سال ۱۹۱۵ یہ سمجھ لے کہ اب میرا کام ختم ہو گیا ہے اس وقت اس کے افراد جو بمنزلہ ڈاکٹر کے ہوتے ہیں مریض ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ ایسا مرض ہے کہ جب ڈاکٹر یہ سمجھ لیں کہ اب کوئی مریض نہیں تو وہی مرض ڈاکٹروں کو لگ جاتا ہے.پھر آسمان سے ڈاکٹر آکر ایک مدرسہ قائم کرتا ہے اور اس میں ایسے ڈاکٹر تیار کرتا ہے جو دنیا میں مریضوں کے علاج میں لگ جاتے ہیں.اس پر صدیوں کی صدیاں گزر جاتی ہیں اور وہ فارغ نہیں ہوتے حتی کہ بعض لوگ علم ڈاکٹری کو بھول جاتے ہیں اس لئے وہی مریض بن جاتے ہیں اور ایسے مریض کہ لوگ ان پر ہنستے ہیں جیسے آج کل یورپ کے لوگ مسلمانوں پر ہنس رہے ہیں.غرض یہ مقابلہ کوئی چھوٹا سا مقابلہ نہیں بلکہ بہت بڑی قربانی چاہتا ہے.جب کوئی انسان اس کو ہاتھ میں لے تو سمجھ لے کہ مرتے دم تک ایسا کوئی وقت نہیں آئے گا کہ میں اس سے فارغ ہو سکوں.پس ہماری جماعت کیلئے جس نے یہ کام اپنے ہاتھ میں لیا ہے بہت بڑی ہمت عملی طاقت اور استقلال کی ضرورت ہے اور جب تک ہم خاص جوش اور استقلال سے کام نہ کریں گے کامیابی کہاں ہوسکتی ہے.ہم سے پہلی جماعتوں نے یہ کام کیا اور ایسا کیا کہ دن رات ایک کر دیا تب جا کر انہیں کامیابی ہوئی.یہ آیتیں جو میں نے پڑھی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے کچھ کام بیان فرمائے ہیں.ایک طرف تو یہ فرمایا کہ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں یعنی جو باتیں لوگوں کی نظروں سے غائب اور دنیا سے پوشیدہ ہوتی ہیں ان پر ان کو ایمان اور یقین ہو جاتا ہے.جس طرح کوئی ڈاکٹر خوردبین سے بار یک چیزوں کو دیکھ لیتا ہے اسی طرح وہ چیزیں جو لوگوں سے پوشیدہ ہوتی ہیں مثلاً ہستی باری تعالی ، ملائکہ متقی لوگ ان سے اچھی طرح آگاہ ہو جاتے ہیں اور انہیں ان کے متعلق تسلی حاصل ہو جاتی ہے.نیز وہ باتیں جو لوگوں پر پوشیدہ ہوتی ہیں ان پر اللہ تعالیٰ ظاہر کر دیتا ہے جن پر انہیں ایمان حاصل ہو جاتا ہے.کامل ایمان کا حاصل ہونا بڑی خوبی کی بات ہے.یہ ہر ایک کو کہاں نصیب ہوتا ہے.مثلاً خدا کو ماننے والے لاکھوں اور کروڑوں ہیں لیکن اگر خدا کی ہستی کے متعلق ہے کریدا جائے تو اکثر دہریے نکلیں گے اور بہت سے ایسے ہوں گے جن میں ایمان ہی نہیں.پھر فرماتا ب وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وہ ایک دو وقت کی نمازیں نہیں پڑھتے بلکہ ہر وقت اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں.جب ان کی نظر اتنی وسیع ہو جاتی ہے کہ غیب پر انہیں ایمان حاصل ہو جاتا ہے تو نماز میں قائم کرتے ہیں اور ان پر دوام اختیار کرتے ہیں.”اقامت کسی چیز کو قائم کرنا اور اس پر دائم رہنا ہے

Page 448

خطبات محمود جلد ۴ ۴۳۹ سال ۱۹۱۵ء يُقِيمُونَ الصَّلوةَ نماز کو ہمیشہ قائم رکھتے ہیں.اس کے معنے نماز کے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھنا اور کوئی ہے نقص اور کمزوری نہ کرنا بھی ہیں.یعنی وہ نمازوں کو اس طرح پر ادا کرتے ہیں کہ کوئی کمزوری نہیں رہنے یتے یعنی نماز کے کل ظاہری اور باطنی شرائط کو پورا کرتے ہیں.وَمِمَّا رَزَقْهُمْ يُنْفِقُونَ اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں.پہلے ان کا ایمان کامل ہوتا ہے پھر وہ خدا کی عبادتوں میں مشغول ہوتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے بندوں سے نیک سلوک کرنے لگتے ہیں.کیوں؟ اس لئے کہ جس چیز سے انسان کو محبت ہوتی ہے اس سے اور جتنی چیزیں تعلق رکھنے والی ہوتی ہیں ان سے بھی اس کو محبت ہو جاتی ہے.کہتے ہیں مجنوں کسی گلی سے گزر رہا تھا کہ اسے لیلیٰ کا کتا نظر آیا وہ اس سے پیار کرنے لگ گیا.تو یہ ایک پختہ بات ہے کہ جس چیز کی عزت انسان کے دل میں ہوتی ہے اس سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کی وہ عزت کرتا ہے.دیکھ لوجس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت تھی تو لوگ جبہ پہنتے اور عربی و فارسی پڑھتے تھے.لیکن اب اگر کوئی جبہ پہنے تو لوگ ہنسیں کہ یہ بھی کوئی لباس ہے اور عربی و فارسی کو تو لغو ہی کہتے ہیں ان کی بجائے انگریزی پڑھنے پر زور ہے.پس جب اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہو جاتا ہے تو ساتھ ہی اس کی مخلوق کے ساتھ بھی تعلق ہو جاتا ہے اس لئے وہ خدا کے دیئے ہوئے سے خرچ کرتے ہیں اور محتاج اور غریب لوگوں سے حسن سلوک کرتے ہیں.پھر وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ آنحضرت سلیم پر جو کلام نازل ہوا اس پر ایمان لاتے ہیں.پہلے اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں سے تعلق رکھنے کا ذکر تھا.اس پر یہ سوال ہو سکتا تھا کہ کس طرح عمل کیا جائے؟ اس سوال کا جواب سوائے اس کے اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ آنحضرت سمالانی ای سالم لائے اس پر عمل کرو اس لئے يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ اور مِمَّا رَزَقْنَهُم يُنفِقُونَ کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ اِلَيْكَ کیونکہ جب کوئی سچے دل سے ہستی باری تعالیٰ پر ایمان لے آئے گا اور اس کی عبادت کو اپنی عادت میں داخل کر لے گا اور خدا کی مخلوق سے نیک سلوک کرے گا تو فورا اس بات کا بھی اقرار کرے گا کہ میری عقل ایسی نہیں جو ہر بات کے نفع وضرر تک پہنچ جائے اس لئے کسی رستہ بتانے والے کی ضرورت ہے اور وہ آنحضرت سالی ایم کے سوا کوئی ہو نہیں سکتا.پھر وَمَا أُنْزِلَ مِن قَبْلِكَ آنحضرت سلی اسلم کو مان کر ضرور ہے کہ اور نبیوں کو بھی مانا جائے

Page 449

خطبات محمود جلد ۴ ۴۴۰ سال ۱۹۱۵ء کیونکہ ایک سچائی دوسری سچائی کو قبول کرنے کیلئے رستہ صاف کرتی ہے.چنانچہ آپ پر جو کلام اترا، اس کو مان کر اور نبیوں کا ماننا بھی ضروری ہوتا ہے.مثلاً ایک ہندو جو حضرت موسی عیسی ، ابراہیم (علیہ السلام ) کو جھوٹا سمجھتا ہے جب آنحضرت سینی سیتم کی سچائی پر ایمان لاتا ہے تو ساتھ ہی یہ بھی مان لیتا ہے کہ یہ سب خدا کے سچے رسول تھے.پھر وَبِالآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ جب پہلے کلاموں پر یقین ہو جائے تو یقینا اس بات کو بھی مانا پڑتا ہے کہ خدا کی کوئی صفت معطل نہیں ہوتی.جس طرح وہ پہلے کلام کرتا تھا ویسے ہی اب بھی کرتا ہے اسی طرح آنے والے کلام پر یقین حاصل ہو جاتا ہے قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ جو قوم نبی کی تعلیم کو بھول کر تباہ و برباد ہوگئی وہ وہی ہے جس نے یہ کہا کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا.لیکن پہلی کتابوں پر ایمان لانے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آنے والے کلام پر بھی ایمان لایا جائے.یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ نے پہلے ہی کہہ دیا کہ قُولُوا اِنَّهُ خَاتَمُ الأَنْبِيَاءِ وَلَا تَقُولُوا لَا نَبِي بَعْدَد.یہ تو کہو کہ رسول اللہ انبیاء کے خاتم ہیں لیکن یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.کیونکہ آپ پر ایمان لانے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ خدا جو ہمیشہ سے اپنی مخلوق کی ہدایت کیلئے نبی بھیجتا آیا ہے، کیا ممکن ہے کہ کسی کو نبوت کے قابل سمجھ کر اس پر فائز نہ کرے.اور آئندہ کیلئے کلام کرنا بند کر دے.پس اگر پچھلی کلام پر یقین آجائے تو آئندہ پر ضرور ایمان حاصل ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ یہی وہ لوگ ہیں جو سچی ہدایت پر ہیں ان کے کے سوا اور کوئی نہیں.اور صرف یہی وہ ہدایت ہے جو انسان کو کامیاب کر دیتی ہے کیونکہ جب یہ یقین ہو جائے کہ خدا کی طرف سے کلام نازل ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ یہ انعام دے سکتا ہے تو انسان محنت بھی کرے گا.میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے هُدًى لِلْمُتَّقِينَ کے آپ یہ معنے فرماتے کہ متقی وہ ہوتا ہے جو ایک حد تک اعمال کرے اور مدار شریعت احکام کو پورا کرے.ھدی للْمُتَّقِينَ سے یہ مطلب ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ متقی سے بڑھا کر اوپر کے درجہ پر لے جاتا ہے اور متقی کے بعد یہ درجہ ہوتا ہے کہ خدا اس سے کلام کرتا ہے یعنی وحی کا دروازہ اس پر کھولا جاتا ہے.پس جب انسان کو یہ یقین ہو جائے کہ وحی کا دروازہ کھولا جائے گا تو وہ کوشش بھی کرے گا.اور جس کو یہ امید ہی نہ ہو وہ نہیں کرے گا.مثلاً ایک آدمی کو یقین ہو کہ فلاں مکان پر فلاں چیز ہوگی تو وہ وہاں جائے گا

Page 450

خطبات محمود جلد ۴ ۴۴۱ سال ۱۹۱۵ء لیکن اگر اسے معلوم ہو کہ نہیں ہوگی تو نہیں جائے گا.متقی کے واسطے یہ باتیں ہیں اور ایسی ہیں کہ ایک دم کیلئے اگر ان کو چھوڑ دے تو جھٹ اس کا ایمان گر جاتا ہے.کوئی کہے کہ اب ان کی ضرورت نہیں تو خدا تعالیٰ سے دور کیا جائے گا.نماز اور صدقہ کو چھوڑنے سے پہلی حالت قائم نہ رہے گی، قرآن پر ایمان نہ لانے سے ذلیل ہو جائے گا کیونکہ شریعت کے جتنے احکام ہیں وہ ایسے ہیں جو سب انسانوں سے ہر وقت تعلق رکھتے ہیں اور بار بار کئے جاتے ہیں.اس سے اللہ تعالیٰ نے اس طرف متوجہ کیا ہے کہ کامیاب وہ انسان ہو سکتا ہے جو ہر وقت لگا رہے مسلمانوں کی نمازیں ایسی نہیں کہ کچھ پڑھ کر چھوڑ دیں.صدقہ و خیرات ایسا نہیں کہ ایک دو دفعہ کیا اور پھر چھوڑ دیا بلکہ جس دن سے کوئی مسلمان ہوتا ہے اس سے لے کر مرنے کے دن تک یہ باتیں ساتھ ہی رہتی ہیں.اس سے خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ جتنے کام خدا کیلئے ہوتے ہیں وہ اس طرح کے ہوتے ہیں.پس ہمارے کاموں پر سال پر سال گزریں تو ہمیں پہلے سے زیادہ جوش اور استقلال دکھانا چاہیئے کیونکہ ہم تو اس انسان کی امت ہیں جس کی نسبت خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِن الأولى سے تیری ہر آنے والی گھڑی پچھلی سے اچھی ہے.پس پچھلے سال اگر کسی کو کسی نیک کام کرنے کی تو فیق ملی تھی تو اب اسے یہ خیال ہونا چاہئیے کہ اگلے سال اس سے زیادہ توفیق ملے اور اگر کوئی پچھلے سال کی نسبت سست ہو جاتا ہے تو گویا آنحضرت سلام کے اتباع سے ہٹتا ہے کیونکہ خدا تو فرماتا ہے وَلَلْآخِرَةُ خَيْرُ لكَ مِنَ الأولى اور دوسری جگہ فرماتا ہے لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ کہ اگر تمہیں کوئی کام کرنا ہو تو رسول کی پیروی سے کرو.پس ہماری ہر گھڑی پہلی سے اچھی اور ہر سال پہلے سال سے اچھا ہونا چاہیئے.اور جو کچھ پچھلے سال کیا اس پر یہ خیال نہ کرنا چاہیے کہ بہت خدمت کر لی ہے بلکہ یہ خیال ہونا چاہئیے کہ پچھلے سال ہم ایک سیڑھی چڑھے تھے اور ایک اب چڑھیں گے.اس لئے ہے بڑھ کر کام کرنا چاہیئے ہمیں اور نہیں تو جواری سے ہی سبق لینا چاہیئے.جواری جس قدر مال ضائع کرتا ہے اتنی ہی کھیلنے کی اور تڑپ اس کو پیدا ہوتی ہے.مگر ہم تو مال ضائع نہیں کرتے بلکہ بیج بوتے ہیں.جواری تمام مال کے خرچ ہو جانے تک ہمت نہیں ہارتا.ہندوؤں میں تو بعض اپنی بیویاں بھی ہار دیتے ہیں کہ شاید اب کچھ آجائے.ایک مومن کی ہمت کم از کم جواری سے تو بڑھ کر ہونی چاہئیے.کیونکہ جواری جس کو کوئی آسمانی

Page 451

خطبات محمود جلد ۴ ۴۴۲ سال ۱۹۱۵ طاقت نہیں کہتی کہ بڑھے چلو، وہ ہمت نہیں ہارتا اور روپیہ لگاتا رہتا ہے.مومن کو تو ہر وقت آواز آتی ہے کہ ابھی تمہارے ذمہ بہت کچھ کام ہے کام میں لگے رہو.پس مومن کو ہر وقت یہ خیال ہونا چاہئیے کہ میں ہر روز زیادہ مال خرچ کروں اور اُس وقت تک کرتا رہوں کہ موت آجائے اور خدا کے حضور اپنے اعمال کا بدلہ لینے چلا جاؤں.پس اس قسم کے استقلال اور جوش کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک یہ نہ ہوگا کامیابی نہیں ہو سکے گی.ہماری جماعت کے بعض لوگ گھبرا جاتے ہیں لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ ہمارا ہر کام پہلے سے اعلیٰ ہونا چاہئے کیونکہ ہم اس نبی کی امت ہیں جس کی ہر گھڑی پہلی سے اعلیٰ تھی.اللہ تعالیٰ ہم پر اپنا فضل کرے اور ہماری ستی ، بے ہمتی اور بے استقلالی کو دور کر کے اس راستہ پر چلائے کہ جس پر چل کر ہم کامیاب ہو جائیں اور اس راستہ سے بچائے جس پر چل کر ٹھو کر کھا ئیں.(الفضل و ستمبر ۱۹۱۵ء) البقرة : ٢ تا ٦ تكمله مجمع البحار جلد ۴ صفحه ۸۵ مطبوعه نولکشور الضحى: ۵ الاحزاب : ٢٢ کی

Page 452

خطبات محمود جلد ۴ ۴۴۳ (۸۳) خواجہ صاحب کے مطالبہ حلف کا جواب (فرموده ۱۰ ستمبر ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵؛ تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.وَقُل رَّبِّ ادْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِى مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِي مِن لَّدُنْكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا وَنُنَزِلُ مِن الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّلِمِينَ إِلَّا خَسَارًا.وَإِذَا انْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَا بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ اللهُ كَانَ يَمُوسًا قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلى شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ مَنْ هُوَ أَهْدَى سَبِيلًا - اس کے بعد فرمایا:.جب تک کسی انسان کو کوئی انعام نہیں ملا ہوتا اس وقت تک تو وہ بڑی نا امیدی کا اظہار کرتا ہے اور اس کا دل بیٹھا جاتا ہے اور وہ ہمت ہارے ہوئے ہوتا ہے لیکن جونہی خدا تعالیٰ کی طرف سے اس پر.انعام اور فضل نازل ہوتا ہے بہت سے انسان ایسے ہوتے ہیں جو بڑا غرور اور تکبر کرتے اور یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ جو کچھ ہیں ہم ہی ہیں اور ہم نے خود ہی اپنی سمجھے، اپنی عقل ، اپنی کوشش اور اپنے فہم سے یہ انعام حاصل کر لئے ہیں ، خدا کے فضل کا اس میں کچھ دخل نہیں.ایسے کسی انسان پر ذرا خدا کا فضل اور احسان ہوا اور اس نے خدا تعالیٰ کی طرف سے منہ موڑ لیا.اور جب ذرا سزا ، غضب اور دکھ ہوا تو جھٹ کمر توڑ کر بیٹھ رہا.کمزور طبائع کا ہمیشہ یہی حال رہا ہے.اور جب سے یہ انسان پیدا ہوا اور جب سے اس

Page 453

خطبات محمود جلد ۴ ۴۴۴ سال ۱۹۱۵ء زمین پر آدم کی اولاد نے قدم رکھا ہے جبھی سے کمزور اور نا شکر گزار طبائع اس مرض میں گرفتار پائی گئی ہیں.اور آج تک کوئی زمانہ ایسا نہیں آیا کہ اکثر انسان اس کمزوری اور غلطی سے بری نظر آئے ہوں.جب کبھی بھی خدا تعالیٰ کا ان پر رحم اور فضل ہوا تو انہوں نے منہ موڑ لیا اور یہی دعویٰ کیا کہ ہمیں اپنی ہمت اپنی کوشش اور اپنی عقل سے یہ کچھ ملا ہے خدا کا اس میں کیا دخل ہے لیکن جب تک انہیں کچھ نہیں ملا ہوتا تو ہمت توڑ کر اور بالکل نا امید ہو کر بیٹھ رہتے ہیں.یہ زمانہ بھی اس قسم کے لوگوں سے مستثنیٰ نہیں.جیسا کہ پہلے زمانہ میں اس قسم کے لوگ ہوئے ہیں کہ انعام ملنے کے وقت ناشکر گزار اور نہ ملنے پر نا امید ہو جاتے تھے ، یہی فطری کمزوری آج بھی بہتوں میں پائی جاتی ہے.یہی وجہ ہے کہ جس طرح وہ لوگ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی طاقتوں سے کام نہ لیتے تھے، اس کے دیئے ہوئے علم پر عمل نہ کرتے تھے ، اس کی بتائی ہوئی تدبیروں پر کار بند نہ ہوتے تھے ، اس کے احکام کے مطابق کام کرنے میں کمزوری دکھاتے تھے اور اس کے کے فضل اور انعام کے وقت ناشکر گزار بن جاتے تھے ، آج بھی بہت سے ایسے ہیں کہ جب تک خدا نے ان پر اپنا فضل نہ کیا تھا نا امید ہو گئے تھے اور جب فضل نازل کیا تو کہہ دیا کہ ہم نے کسی سے کچھ نہیں لیا، ہم خود بڑے آدمی ہیں ہم ہی سب کچھ کرتے ہیں ، ہمارے ہی ذریعہ سارا کام ہو رہا ہے.ایک زمانہ مسلمانوں پر ایسا آیا ہے جبکہ ان میں سے کسی پر وحی نازل نہیں ہوتی تھی، کوئی ماموران کی طرف نہیں آیا تھا، کوئی نبی انہیں ہدایت دینے کیلئے مبعوث نہیں ہوا تھا اور کوئی ایک آواز انہیں ایک جگہ پر ا کٹھے کرنے کے لئے بلند نہیں ہوئی تھی اُس وقت بہت سے لوگ ایسے تھے جو خدا کے فضل سے نا امید ہو چکے تھے انہیں اسلام پر شکوک اور شبہات پیدا ہو گئے تھے اور اس بات کا یقین ہو چلا تھا کہ اسلام ایک جھوٹا مذہب ہے، اسلام کو ترک کرنے کی تیاری کر چکے تھے، کوئی آریہ ، کوئی عیسائی اور کوئی دہر یہ ہونے کو تیار تھا لیکن جب خدا تعالیٰ نے اپنا فضل کیا ، ان میں اپنا ایک نبی بھیجا جس نے انہیں اسلام پر قائم کیا اور گمراہ ہونے سے بچایا تو افسوس ان میں سے بعض نے کہہ دیا کہ ہمیں مرزا نے کیا سکھایا، ہم آپ ہی سب کچھ جانتے تھے.وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَتَأْجَانِبِہ.اور جب ہم انسان پر انعام کرتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے کسی کی کیا پرواہ ہے میں خود سب کچھ ہوں لیکن وَإِذَا مَسَّهُ الشَّمرُ كان يَمُوسًا.اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچے تو نا امید ہو کر بیٹھ رہتا ہے کہ اب میں کہیں کا نہ رہا.

Page 454

خطبات محمود جلد ۴ ۴۴۵ سال ۱۹۱۵ء چنانچہ یہ لوگ جب دُکھ میں تھے تو عیسائی ہونے کو تیار تھے اور اقرار کرتے تھے کہ اسلام سچا مذ ہب نہیں ہے لیکن جب ان پر آسمانی بارش نازل ہوئی اور ان کے گند دھوئے گئے اور ان کی ظلمت دور کی گئی تو انہوں نے دعوی کر دیا کہ مرزا صاحب نے کیا کیا.وہ تو معمولی مجد دتھے، اس طرح کے مجد دکئی گزرچکے اور کئی آئیں گے.کہنے والے نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ جو کام مرزا صاحب کرتے تھے وہی کام میں بھی کر رہا ہوں لیکن یہ اپنی حالت کو بھلانے کے ساتھ ہی اپنے محسن کو بھی بھول گیا اور خدا کے فضل اور انعام کو اپنی ہمت اور اپنی کوشش کا نتیجہ خیال کر کے تکبر میں آگیا ہے.لیکن وہ سن لے اور کان کھول کر سن لے کہ ایک دن وہ تھا کہ تو اسلام کی صداقت سے بے بہرہ تھا اور اسلام کو چھوڑ کر عیسائیت کے قبول کرنے پر تیار ہو چکا تھا، تیرے اندر ایمان نکل چکا تھا، تیری آنکھیں اندھی اور تیرا دل سیاہ ہو گیا تھا، اور تیری یہ حالت ہوگئی تھی کہ تو خدا تعالیٰ سے ایسا دور ہو چکا تھا کہ اس کی ہستی کے متعلق کوئی دلیل تجھ پر اثر نہ کرتی تھی لیکن جب مرزا کے ذریعہ تو نے ہدایت پائی، تجھے کھویا ہوا ایمان تجھے واپس ملا اور تجھ پر اسلام کی صداقت ظاہر ہوئی تو تو نے دعویٰ کر دیا کہ میں بھی وہی کام کر رہا ہوں جو مرزا نے آ کر کیا.گویا تیرے خیال میں جس طرح کے مجدد مرزا صاحب ہیں اسی طرح کا تو بھی ہے لیکن کیا تجھے یاد نہیں کہ جب تک حضرت مرزا صاحب نے آکر صداقتِ اسلام کو ظاہر نہ کیا اور ایمان کی حفاظت نہ کی تھی اُس وقت تک تو یہاں تک مایوس ہو چکا تھا کہ اسلام کے چھوڑنے پر تیار ہو گیا تھا لیکن جب مرزا خدا کے فضل سے آیا تو نے و نے تکبر کیا اور کہا کہ ہم نے جو کچھ حاصل کیا ہے اپنی کوشش سے کیا ہے اور ہم وہی کام کر رہے ہیں جو مرزا صاحب نے کیا.اے نادان! کیا تو نہیں سمجھتا کہ تو نے نہ پہلے کچھ کیا اور نہ اب کچھ کر سکتا ہے.تیرا دل اور ایمان تو وہی ہے جسے عیسائیت کھینچے لئے جارہی تھی اور جو گمراہی کی طرف دوڑا جا تا تھا.کیا تو بھول گیا کہ وہ کون سی آواز تھی جس نے تجھے اسلام کی طرف کھینچا، تیرے ایمان کو بچایا ، تجھے گمراہی سے روکا وہ حضرت مسیح موعود کی آواز تھی.کیا اس آواز سے پہلے تو مایوس نہ تھا اور ضرور تھا.اس تکبر، انانیت اور انکار کے زمانہ میں بھی تو اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ میں ہلاکت کے گڑھے میں گرنے ہی لگا تھا کہ ایک آواز آئی جس نے مجھے بچالیا.یہ آواز وہ تھی جو حضرت مرزا صاحب کے ہونٹوں سے نکلی جس نے گمراہی سے تجھے روکا لیکن آج تو نے کہہ دیا کہ وہ ایک ایسا ہی ملہم تھا جیسے اور ہوئے ہیں.

Page 455

خطبات محمود جلد ۴ ۴۴۶ سال ۱۹۱۵ء اس قسم کے لوگ ہمارے اندر سے پیدا ہو گئے ہیں اور یہ حسن کشوں کی جماعت ایسے رنگ میں ظاہر ہوئی ہے کہ اس نے خود ہی محسن کشی نہیں کی اور اپنے محسن کے کام کو خود ہی ترک نہیں کیا بلکہ یہ بھی کوشش کی ہے کہ اس کی تعلیم کو دنیا کے پردہ سے مٹادیں.چنانچہ آج ہی ایک خط ماریشس سے آیا ہے جو ایک احمدی نے بھیجا ہے مسٹر نورد یا ان کا نام ہے.ان کو مولوی محمد علی صاحب نے ایک خط بھیجا جس میں لکھا ہے کہ مجھے مولوی غلام محمد کے ماریشس جانے کی خوشی ہے لیکن آپ ان کو یہ سمجھا دیں کہ وہاں یہ عقائد نہ پھیلائیں کہ مسیح موعود مجد دنہیں بلکہ نبی تھے اور اسی لئے ان کے منکر تمام مسلمانانِ عالم کا فر ہیں.یہاں ہندوستان میں ان دو عقیدوں سے سلسلہ کو نقصان عظیم پہنچا ہے پس وہاں ان کو شروع ہی میں ملیا میٹ کرنا چاہیئے.اس انسان سے کوئی کہے کہ تم جو لوگوں کو قسمیں دیتے ہو تم خود ہی قسم کھا کر بتلاؤ کہ حضرت مسیح موعود کی نبوت کا ذکر کرنے سے یہاں کیا نقصان پہنچا ہے.ایک وہ جماعت ہے جو حضرت مرزا صاحب کو نبی مانتی ہے اور ایک وہ جو نبی نہیں مانتی.اب سوال یہ ہے کہ جو نبی مانتی ہے اس نے سلسلہ کی ترقی میں کیا کام کیا اور جونہیں مانتی اس نے کیا کیا.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کا اقرار کرنا اور غیر احمدیوں کو یہ ملامت کرنا کہ تم ایک نبی کا انکار نہ کرو ورنہ نبی کے انکار سے کا فر ہو جاؤ گے، سلسلہ میں رکاوٹ پیدا کرنے والی باتیں ہیں تو میرا سوال ہے کہ پھر ترقی اس جماعت کی ہونی چاہئیے جو ان دونوں باتوں کی قائل نہیں ، نہ کہ اُس جماعت کی جس کے راستے میں یہ دورو کیں حائل ہیں لیکن زمانہ اختلاف سے لے کر اس وقت تک میرے پاس بہت سے ایسے لوگوں کے خطوط آچکے ہیں جو لکھتے ہیں کہ ہم حضرت مسیح موعود کو خدا کا نبی مان کر بیعت کرتے ہیں.پھر اگر یہ باتیں روک ہیں تو ہم نے جو کتابیں نبوت کے متعلق لکھی ہیں ان کے پڑھنے سے ایسی آوازیں کیوں آئیں کہ ان کی وجہ سے ہمیں حضرت مسیح موعود کی اصل شان سے آگاہی ہوئی ہے، اس لئے ہم بیعت کرتے ہیں اور مسیح موعود کو نبی مانتے ہیں.اس قسم کے خطوط صرف غیر مبائعین کی طرف سے ہی نہیں آئے بلکہ غیر احمدیوں کی طرف سے بھی آئے ہیں.لیکن کیا مولوی محمد علی صاحب نے جو کتابیں نبوت کے خلاف لکھی ہیں ان کے پڑھنے والوں میں سے بھی کسی نے ان کے موافق خیالات کا اظہار کیا ہے.پس اگر نبوت مسیح موعود کا پیش کرنا احمدیت سے لوگوں کو دور کرنے کا باعث ہے تو

Page 456

خطبات محمود جلد ۴ ۴۴۷ سال ۱۹۱۵ ء چاہئیے تھا کہ حقیقۃ النبوت اور القول الفصل 3 کو پڑھ کر لوگ دور ہو جاتے لیکن بہت سے قریب آگئے اور بیعت میں داخل ہو گئے ہیں حالانکہ یہ ایسی کتابیں ہیں جن میں صرف حضرت مسیح موعود کی نبوت کا ذکر ہے اور آپ کے مسیح و مہدی ہونے کے متعلق دلائل نہیں دیئے گئے.برخلاف ان کے ایک غلطی کا اظہار اور جزئی نبوت“ جو نبوت مسیح موعود کے خلاف لکھی گئی ہیں پڑھ کر کوئی ایسا قابل ذکر شخص نہیں جس نے مولوی محمد علی صاحب کی بیعت کی ہو.کہا جاتا ہے کہ چونکہ تمہاری جماعت زیادہ ہے اس لئے کامیابی بھی تم کو ہی زیادہ ہو رہی ہے کیونکہ آدمیوں کی زیادتی پر کامیابی ہوتی ہے.ہم چونکہ تھوڑے ہیں اس لئے کم ترقی کر رہے ہیں اور تم زیادہ ہو اس لئے بڑھ رہے ہو.یہ سوال بے شک قابل غور ہوتا اگر انہی لوگوں کی تحریروں اور تقریروں میں ہم یہ دعوی نہ دیکھتے کہ جماعت کے انہیں حصے ہمارے ساتھ ہیں اور ایک حصہ ان کے ساتھ.اگر ان لوگوں کی طرف سے جو لائف ممبر کہلاتے اور جو پاک ممبر ہونے کا دعوی کرتے ہیں یہ تحریر نہ ہوتی اور مولوی محمد علی صاحب جو امیر قوم کے لقب کے دعویدار ہیں اس کا اقرار نہ کرتے تو اور بات تھی لیکن اب جبکہ یہ کہا جاتا ہے کہ تم زیادہ ہو اس لئے زیادہ ترقی کر رہے ہو ان دو باتوں میں سے ایک کا اقرار کرنا پڑے گا.یا تو یہ کہ جماعت کا بیسواں حصہ حضرت مسیح موعود کی نبوت کو نہیں مانتا بلکہ اکثر حصہ جماعت کا یہ عقیدہ رکھتا ہے یا یہ کہ مبائعین کی تعداد تو تھوڑی ہے لیکن کامیابی انہیں کو زیادہ ہو رہی ہے لیکن ان دونوں باتوں میں سے کسی ایک کا اقرار کرنے سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ وہ بڑی بڑی جسامتوں والے جن کی ظاہری شکلوں نے بعضوں کو بھلا رکھا ہے دراصل ان کی ہے وجاہت کے پردے میں اسلام اور احمدیت سے نفرت چھپی ہوئی ہے اور انہوں نے یہ جھوٹ بولا ہے کہ نبوت مسیح موعود کا اقرار کرنا سلسلہ کی ترقی میں روک ہے یا جب انہوں نے کہا تھا کہ اُنیس حصے جماعت کے ہمارے ساتھ ہیں اور ایک حصہ ان کی طرف تو دنیا کو دھوکا دیا تھا.کوئی کہہ سکتا ہے کہ اُنہیں حصہ جماعت کا ان کی طرف ہونا جھوٹ ہے تو ہونے دو.اس سے تو یہ ثابت ہو گیا کہ وہ جھوٹے ہیں، فریبی ہیں، دھوکا باز ہیں لیکن یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کثیر حصہ جماعت کی زیادہ ترقی کا باعث نہیں ہوا کرتا.انہوں نے بے شک جھوٹ بولا، فریب دیا لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نبوت کا مسئلہ سلسلہ کی ترقی کی راہ میں واقعہ میں کوئی روک ہے اور یہ اعتراض ابھی قائم ہے کہ وہ کم ہیں اس لئے تھوڑی ترقی

Page 457

خطبات محمود جلد ۴ ۴۴۸ سال ۱۹۱۵ کر رہے ہیں اور تم زیادہ ہو اس لئے زیادہ بڑھ رہے ہو.مگر یہ بھی خیال غلط ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کو غلط ثابت کرنے کیلئے یہ بات رکھ دی ہے کہ بعض ایسے علاقے ہیں جن میں مبائعین ہیں ہی نہیں اور اگر ہیں تو ایسے کہ آٹے میں نمک کے برابر لیکن وہاں بھی ہمیں ہی ترقی ہو رہی ہے.ہم مان لیتے ہیں کہ ان کے آدمی تھوڑے اور ہمارے زیادہ ہیں تو بھی ہماری ترقی زیادہ آدمیوں کی وجہ سے نہیں ہے اور نہ ہی نبوت مسیح موعود کا مسئلہ کوئی روک ہے.وہ علاقے جن میں ہمارے آدمی کم اور ان کے زیادہ ہیں وہاں بھی ان کے حق میں کوئی نتیجہ مترتب نہیں ہوا.سارے ہزارے میں ہمارے پندرہ بیس آدمی ہوں گے.مگر ان کے بہت سے ہیں.ایبٹ آباد میں وہ خود ڈیرے لگائے بیٹھے ہیں لیکن جس دن سے اختلاف ہوا ہے اس نے علاقہ سے بھی دو تین ہماری بیعت میں داخل ہو چکے ہیں مگر اس نسبت سے انہیں وہاں بھی کوئی کامیابی نہیں ہوئی.بے شک جہاں ہماری جماعت زیادہ ہے وہاں کے متعلق یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ہمارے مبلغ بہت ہیں اس لئے ہماری جماعت زیادہ پھیل رہی ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ ان علاقوں پر غور کرو جہاں تم زیادہ ہو، وہاں کون ترقی کر رہا ہے.یہ تو میں نے مبلغین کے زیادہ ہونے کے اعتراض کو تسلیم کر کے کہا ہے ورنہ کیا یہ ماننے کی بات ہے کہ ایک شخص ہے جو ایک بیج بورہا ہے اور مناسب موقع پر بورہا ہے لیکن ایک اور ہے جو بہت سے بیج بو رہا ہے مگر بے موقع تو کیا اس کا ایک پیج زیادہ پھل لائے گا جو موقع مناسب پر بونے والا ہے یا اس کا جو بے موقع بہت سے بیج بو رہا ہے.بے شک اس کا ایک دانہ پھل لے آئے گا اور دوسرے کے ہزاروں دانے بے فائدہ ثابت ہوں گے.ہمارے مبلغوں کا کثرت سے ہونا اور اس وجہ سے زیادہ پھیلنا ہماری صداقت کی بہت بڑی دلیل ہے.ورنہ پھڑی آواز میں جتنی زیادہ نکلیں اتنا ہی زیادہ ان سے لوگوں کو دور بھاگنا چاہیئے.جہاں ایک بدصورت ہو وہاں تو کوئی ایک طرف منہ کر کے بیٹھ سکتا ہے لیکن اگر بہت بد صورت آنکھیں نکالے ڈرا رہے ہوں تو وہاں سے بھاگنا ہی پڑے گا.پس اگر ہم ایسے ہی ہیں تو چاہئیے تھا کہ جس قدر ہم زیادہ تھے لوگ اسی قدر اور زیادہ ہم سے نفرت کرتے.ہمارے مبلغوں کا کم ہونا تو ہماری ترقی کا ذریعہ ہو سکتا تھا کیونکہ کوئی کہہ سکتا تھا کہ بیعت کرنے والوں کو معلوم نہیں کہ ان کے کیا عقائد ہیں اور نہ ان کے مبلغ ہر

Page 458

خطبات محمود جلد ۴ ۴۴۹ سال ۱۹۱۵ جگہ ہیں کہ ان سے زبانی طور پر لوگ باتیں سن کر صحیح نتیجہ نکال سکتے اس لئے ان کی جماعت میں صرف کتابوں کے ذریعہ لوگ شامل ہو رہے ہیں.لیکن جب ہمارے زیادہ ہونے کی وجہ سے لوگ ہم میں آپ رہے ہیں تو یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ نبوت کا مسئلہ ذریعہ ہے ہماری ترقی کا اور باوجود ہر جگہ پر نبوت مسیح موعود " کا اقرار نہ کرنے والے لوگوں کے موجود ہونے کے لوگ ہمارے سلسلہ کو قبول کرتے ہیں.مجھے سے ایک شخص نے مسئلہ نبوت کے متعلق پوچھا ہے اور لکھا ہے کہ خواجہ صاحب نے لَمْ يَبْقَ مِن النبوة إلا المبشرات آے کو لے کر حضرت مسیح موعود کی نبوت پر جو اعتراض کئے ہیں ان کا جواب دیا جائے خواجہ صاحب نے لکھا ہے کہ لَم يَبْقَ مِنَ النَّبوَةِ إِلَّا الْمُبَيِّرَاتِ اس کے لفظی معنوں پر غور کرو.جو یہ ہیں کہ آنحضرت سالی ایم کے بعد مبشرات کے سوا باقی کوئی چیز نبوت کی نہیں رہی.یعنی نبوت میں مبشرات کے علاوہ دیگر امور بھی داخل ہیں.نبوت کے ایک سے زیادہ اجزاء ہوتے ہیں اور ان میں ایک جزو مبشرات ہے.نبی وہ ہوتا ہے جس میں مبشرات بھی ہوں اور دیگر اجزائے نبوت بھی جو بالفاظ آنحضرت سلی یا تم آپ کے بعد باقی نہیں رہے.پھر ان کی طرف سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر مبشرات کوئی نبوت ہے تو اس حدیث کو اس طرح پڑھنا چاہیے کہ لَمْ يَبْقَ مِنَ النَّبُوَّةِ إِلَّا عَيْن النبوة نبوت سے کچھ باقی نہیں رہا مگر عین نبوت لیکن یہ ایک بیہودہ فقرہ بن جاتا ہے اس لئے اس حدیث کے یہی معنے ہیں کہ نبوت سے کوئی چیز باقی نہیں رہی مگر مبشرات.ایک اور شخص نے بتایا ہے کہ خواجہ صاحب نے وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشّرِينَ وَمُنْذِرِين ه پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اس آیت سے میاں صاحب یہ استدلال کرتے ہیں کہ چونکہ مرزا صاحب مبشر تھے اس لئے وہ رسول بھی ہیں حالانکہ اس کا عکس لینا جائز نہیں کیونکہ ہر ایک قضیئے کا عکس درست نہیں ہوتا.سنا ہے کہ خواجہ صاحب نے اپنی علمیت کے بڑے بڑے دعوے کئے ہیں اور یہ بھی لکھا ہے کہ میاں صاحب نے اپنی تصنیفوں میں علمی غلطیاں کی ہیں.چونکہ خواجہ صاحب سے میں واقف ہوں اس لئے خوب جانتا ہوں کہ انہیں کتنا علم ہے اور کتنا فلسفہ اور منطق جانتے ہیں.خیر منطق اور فلسفہ نہیں جانتے تو نہ سہی لیکن کسی کی عربی دانی پر کس منہ سے اعتراض کرتے ہیں.حالانکہ خواجہ صاحب علم عربی سے ایسے ہی دور ہیں جیسا کہ گدھے کے سر سے سینگ.علم عربی کا جاننا تو الگ رہا خواجہ صاحب تو قرآن بھی نہیں جانتے.اگر جانتے ہیں تو ہم

Page 459

خطبات محمود جلد ۴ ۴۵۰ سال ۱۹۱۵ء قرآن کا ایک رکوع رکھ دیتے ہیں ، اس کا صحیح ترجمہ کر دیں.ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ عربی عبارت لکھیں یا کوئی منطقی مسئلہ حل کریں بلکہ یہ کہ وہ قرآن کے ایک رکوع کا صحیح ترجمہ کر دیں.اس سے ہی ان کا علم ظاہر ہو جائے گا اور پتہ لگ جائے گا کہ وہ کیسے عالم ہیں لیکن وہ اس طرف نہیں آئیں گے.اب میں بتاتا ہوں کہ انہیں لم يبق مِنَ النّبوة إلا المبشرات کے معنے کرنے میں کیا دھوکا لگا ہے.انہیں وہی دھوکا لگا ہے جو حضرت ابراھیم کے پرندوں کو زندہ کرنے والی آیت کے متعلق غیر احمدیوں کو لگا ہے.وہاں آتا ہے کہ چار پرندے لے اور ہر ایک پہاڑ پر ان کا ایک جزور کھ دے.غیر احمدی اس سے یہ سمجھتے ہیں کہ جز و ٹکڑا ہوتا ہے.اس لئے حضرت ی ابراہیم نے ان جانوروں کا قیمہ کیا اور پھر تھوڑا تھوڑا ہر ایک پہاڑ پر رکھ دیا.لیکن انہیں معلوم نہیں کہ جماعت کا جزو اس کے افراد ہوتے ہیں نہ کچھ حصہ.استثناء دو قسم کا ہوتا ہے.اگر شے واحد سے استثناء ہو تو اس کے حصے اور ٹکڑے مراد ہوتے ہیں اور جب مجموعہ سے اور جماعت سے استثناء ہو تو اس کے معنی افراد کے ہوتے ہیں.مثلاً ہم یہ کہیں کہ سو آدمی بیمار تھے ان میں سے نہیں بچا مگر ایک حصہ.تو اس کے یہ معنے نہیں کہ سو آدمیوں میں سے ایک کی ٹانگ ، ایک کی آنکھ، ایک کا کان بچ رہے ہیں بلکہ یہ کہ دس ہیں یا تیں یا چالیس آدمی بچ گئے ہیں.لیکن لر یہ کہیں کہ ایک لاش کو جانور کھا گئے ہیں مگر اس کا ایک حصہ بیچ رہا ہے تو اس سے مراد اس کا ہاتھ یا پاؤں یاران بچ گئی ہے.پس جب استثناء شے واحد سے ہو تو اس سے مراد اس کا جزو ہوتا ہے اور جب استثناء جنس سے ہو تو اس کا ایک حصہ ہوتا ہے اس بات کے نہ سمجھنے سے خواجہ صاحب نے ڈینگ ماری ہے اور کہا کہ میاں صاحب نے علمی غلطیاں کی ہیں.دراصل یہ فقره که لَمْ يَبْقَ مِنَ النّبُوَّةِ اِلَّا المُبشرات اسی طرح کا ہے جس طرح کہا جائے کہ پانی میں سے نہیں بچا مگر جو لوٹے میں ہے.اس سے مراد جنس ماء سے ہے.اور اس کے یہ معنے نہیں کہ لوٹے میں جو ہے وہ پانی نہیں.ایک چیز کی مختلف اقسام ہوتی ہیں اور ان سب کے مجموعے کا ایک نام ہوتا ہے اور کبھی درجے کے لحاظ سے اقسام ہوتی ہیں.اور ایک کے اوپر دوسرا اور تیسرا درجہ ہوتا جاتا ہے لیکن ہر ایک درجہ کا نام ایک ہی ہوتا ہے.اس کی مثال علم طب کی ہے اس کی ایک قسم سرجری ہے اور ایک قسم علاج ابدان.دوائیوں سے اور ایک بیطرہ ہے.سرجری علم جرحی سے علاج کرنے کو کہتے ہیں اور بیطرہ چوپایوں کے علاج کا نام ہے.اب کہیں

Page 460

خطبات محمود جلد ۴ ۴۵۱ سال ۱۹۱۵ء یہ ذکر ہو کہ لَمْ يَبْقَ مِنَ الطَّبِ الْيُوْنَانِيَّةِ إِلَّا بِيْطَرَةِ تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ طب یونانی سے نہیں رہا مگر طب کی قسم بیطرہ.اور اس سے یہ کبھی مراد نہیں لی جائے گی کہ طب کی جو بیطرہ قسم ہے وہ بھی نہیں رہی یا وہ طلب ہی نہیں یا یہ کہ حیوانوں کا جو ڈاکٹر ہوتا ہے وہ ناقص ڈاکٹر ہے.پھر اسی طرح کی ایک اور مثال ہے اور وہ یہ ہے کہ سول سروس کی نوکری میں سب سے چھوٹا درجہ اسسٹنٹ کمشنر کا ہے.اس سے بڑھ کر ڈ پٹی کمشنر اس سے بڑھ کر کمشنر.اس سے بڑھ کر فنانشل کمشنر اور اس سے بڑھ کر لنفنٹ گورنر کا درجہ ہے.اب کوئی کہے کہ سول سروس میں سے کوئی پوسٹ باقی نہیں رہی مگر اسٹنٹ کمشنری.تو اس کے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ یہ سول سروس ہی نہیں بلکہ یہ کہ سب سے چھوٹا درجہ جو سول سروس کا ہے وہ باقی رہ گیا ہے اور بڑے درجے نہیں رہے یا کوئی کہے کہ سول سروس میں سے نہیں باقی رہا مگر کمشنری کا درجہ تو اس کے یہ معنی نہ ہوں گے کہ ایک کمشنر سول سروس کا ممبر نہیں ہوتا.تو نبوت کے بارے میں ان لوگوں کو یہ دھوکا لگا ہے کہ انہوں نے فرض کر لیا کہ جو شریعت لائے وہی نبی ہوسکتا ہے ورنہ نہیں.پس جبکہ نبوت کو صرف ایک قسم پر محدود کر دیا تو لم يبق سے یہ نتیجہ لا ز ما نکالنا پڑا کہ جب نبوت صرف ایک قسم کی ہے تو اب جو کچھ باقی ہے وہ کوئی جز وہی ہونا چاہئیے نہ کہ گل.حالانکہ بنائے دعوئی ہی فاسد ہے.اگر نبوت صرف شریعت لانے کا نام ثابت ہو تب تو یہ دعوی ہو سکتا ہے لیکن جبکہ یہی ثابت نہیں تو اس حدیث کے وہ معنے درست ہی نہیں جو خواجہ صاحب کرتے ہیں.ہما را دعوی ہے کہ نبوت کئی ھے قسم کی ہے جن میں سے دو موٹی قسمیں تشریعی نبوت اور غیر تشریعی نبوت ہیں جن کا ثبوت قرآن کریم اور تاریخ سے کافی طور پر ملتا ہے.پس لَمْ يَبْقَ مِنَ النَّبوة کے یہ معنی ہوں گے یہ اقسام نبوت میں سے مبشرات والی نبوت یعنی بلا شریعت نبوت باقی رہ گئی ہے نہ یہ کہ نبوت باقی ہی نہیں رہی.مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِینَ کی آیت میں خدا تعالیٰ نے بتادیا ہے مرسلوں کا کام ہی یہ ہے کہ وہ مبشر اور مندر ہوتے ہیں.یعنی المبشرات ہی نبوت ہیں.ہاں نبوت کی دو بڑی قسمیں ہیں ایک تشریعی اور ایک غیر تشریعی یعنی ایک وہ جس میں مبشرات اور شریعت ہو اور ایک وہ جس میں صرف مبشرات ہوں.اور رسول اللہ نے فرمایا کہ لَمْ يَبْقَ مِن النّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَيِّرَاتِ نبوت کے اقسام میں سے باقی نہیں رہا مگر مبشرات.یعنی

Page 461

خطبات محمود جلد ۴ ۴۵۲ سال ۱۹۱۵ء مبشرات والی نبوت باقی ہے.اور مبشرات کو خدا تعالیٰ نے مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَ منذِرِین میں نبوت قرار دیا ہے.اور بتایا ہے کہ نبی وہ ہوتا ہے جس کی خبروں میں انذار اور تبشیر ہو.نیز قرآن شریف میں نبی کی یہ پہچان بتائی ہے کہ لا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبة أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَطَى مِنْ رسول نے یعنی غلبہ علی الغیب کی شرط جس میں پائی جائے وہ رسول ہوتا ہے مبشرین ومنذرین والی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی نبی کا کام ہوتا کہ اخبار انذار اور تبشیر سنائے اور دنیا کی اصلاح کا کام اسی آیت سے نکل آتا ہے کیونکہ جولوگ انبیاء کو مانتے ہیں وہ مبشرات سنتے ہیں اور جو نہیں مانتے وہ عذاب پاتے ہیں اور اسی کا نام اصلاح ہے.پس لَمْ يَبْقَ مِنَ النّبُوَّةِ إِلَّا الْمُرَات کے یہ معنے ہوئے کہ نبوت جو حاوی ہے تشریعی اور غیر تشریعی نبوت پر، اس میں سے نہیں باقی رہی مگر مبشرات والی یعنی غیر تشریعی نبوت.اور یہ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشّرِينَ وَمُنْذِرِينَ میں بتا دیا کہ نبیوں کا کام تبشیر و انذار ہی ہے.پس لَمْ يَبْقَ مِنَ النَّبوَةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتِ کے متعلق یہ کہنا کہ اگر تمہارے معنی درست ہیں تو لَمْ يَبْقَ مِنَ النَّبُوَّةِ إِلَّا عَيْنُ النَّبوة چاہیے تھا باطل ہے ورنہ لَمْ يَبْقَ مِنَ الْمَاءِ إِلَّا مَا فِي هذَا الْإِبْرِيقِ اور لَمْ يَبْقَ مِنَ اللبِ الْيُوْنَانِيَّةِ إِلَّا الْبِيْطَرَةِ کے یہ معنے کرنے پڑیں گے کہ لوٹے کا پانی پانی نہیں.اور بیطرہ طلب نہیں ناقص طب ہے.ان کے دعوئی کی تمام بناء نبوت کو تشریعی نبوت میں محدود کرنے پر ہے لیکن یہ بات ثابت نہیں.حضرت یحیی ایک ایسے نبی تھے جو حضرت مسیح کی زندگی میں موجود تھے تو کیا ایک گاؤں میں ایک خاندان میں اور ایک قوم میں یہ دونوں نبی علیحدہ علیحدہ شریعت لے کر آئے تھے.اگر یہ مان لیا جائے کہ حضرت مسیح کوئی شریعت لائے تھے گو میرا یہ مذہب نہیں تو ماننا پڑے گا کہ حضرت یحی کوئی شریعت نہیں لائے تھے اور اگر حضرت موسی شریعت لائے تھے تو حضرت ہارون نے نہیں لائے تھے.ہم دعوی کرتے ہیں کہ غیر تشریعی نبی ہوئے ہیں.اور ایسے نبی آنحضرت مسلہ یہ تم کی وساطت سے اب بھی ہو سکتے ہیں.ہاں اگر یہ ثابت کر دیا جائے کہ تشریعی نبوت کے سوا اور کوئی نبوت نہیں تو ہم مان لیں گے کہ مبشرات سے مراد جز ونبوت ہے نہ کہ نبوت.لیکن اس طرح مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِین کی آیت کا انکار کرنا پڑے گا اور ماننا پڑے گا کہ اب کوئی ایسا انسان نہیں آسکتا جو بشیر اور نذیر ہو حالانکہ مسیح موعود آیا اور اس نے ہزاروں اور لاکھوں ایسے نشان دکھلائے جو آپ کے ماننے

Page 462

خطبات محمود جلد ۴ ۴۵۳ سال ۱۹۱۹ء والوں کیلئے بشارت اور نہ ماننے والوں کیلئے انذار کا باعث ہوئے.پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ کوئی مصلح بھی نہیں آسکتا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے سوائے تبشیر کے اور کچھ نہیں آسکتا نہ مخلوق کی اصلاح کیلئے نہ علم کے بڑھانے کیلئے کیونکہ مبشرات کے سوا کچھ باقی نہیں رہا.پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ انبیاء کا جو یہ کام ہوتا ہے کہ لوگوں کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کراتے ہیں جیسا کہ آنحضرت میان یا پیلم کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے قُل اِن كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله کے یہ بھی بند ہو جائے گا.اور کوئی شخص ایسا نہیں آئے گا جو لوگوں کا تعلق اللہ تعالیٰ سے قائم کرے.پھر قرآن شریف میں نبی کے کاموں کی یہ تشریح آئی ہے کہ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايَتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ وَيُزكيهم شاہ بھی سب کام بند سمجھنے چاہئیں یعنی کتاب اور حکمت کو سکھانے والا اور لوگوں کو پاک کرنے والا کوئی بھی نہیں آسکتا.صرف یہ کہنے والا آ سکتا ہے کہ فلاں کے گھر بیٹا ہوگا فلاں کو یہ خوشی ہوگی فلاں کو وہ ہو گی.پس اگر مبشرات کو نبوت کا کوئی جز ٹھہراؤ گے تو یہ سب کچھ ماننا پڑے گا.پس سوائے اس کے اور کوئی صورت نہیں کہ مبشرات کو نبوت کا ایک درجہ اور ایک قسم قرار دیا جائے.ہمارا دعوئی ہے اور ہم خدا کے فضل سے قرآن اور تاریخ سے ثابت کر سکتے ہیں کہ ایسے نبی آئے ہیں جو شریعت نہیں لائے.اب جب تک کوئی یہ ثابت نہ کر دے کہ تشریعی نبوت کے سوا اور کسی قسم کی نبوت نہیں اس وقت تک مبشرات کو نبوت کا جزو نہیں قرار دیا جاسکتا.خواجہ صاحب کی علمی نادانی دیکھئے لکھتے ہیں لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوة الدنیات کے ماتحت ہم میں سے جو خدا کی نگاہ میں مومن ہوگا وہ مبشر ہو سکتا ہے اور اس لئے وہ آیت بالا کے ماتحت حسب استدلال میاں صاحب رسول ہے“ لیکن یہ بات خواجہ صاحب کے جاہل مطلق ہونے پر دال ہے اس آیت کے تو یہ معنے ہیں کہ مومنوں کو بشارت دی جاتی ہے یعنی خدا کی طرف سے ان کو بشارت ملتی ہے لیکن جس آیت سے میں نے حضرت مسیح موعود کی نبوت کا استدلال کیا ہے وہ یہ ہے مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَيِّرِينَ وَمُنْذِرِين جس کے معنی یہ ہیں کہ نبی کو یہ درجہ دیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو بشارت دیتا ہے پس پہلی آیت تو یہ بتاتی ہے کہ ہم نبیوں کو نہیں بھیجتے مگر لوگوں کو بشارت دینے اور ڈرانے کیلئے.اور دوسری آیت یہ بتاتی ہے کہ مومنوں کو خدا تعالیٰ سے بشارت ملتی

Page 463

خطبات محمود جلد ۴ ۴۵۴ سال ۱۹۱۵ء ہے اور ان مضمونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے نبی بشارت دینے والا ہے اور مومن بشارت لینے والا.کیا دونوں باتیں ایک ہی ہیں لیکن خواجہ صاحب کی علمیت ان کو ایک ہی سمجھ رہی ہے حالانکہ رسولوں کو مبشر یکسر ”ش“ اور مومنوں کو مُبشر ( آیت لَهُمُ البُشریٰ کے معنوں کے مطابق بفتح "ش" کہا گیا ہے.اب باقی رہا معاملہ قسم کا ہو ہم نے ان کی قسم کے جواب میں اس لئے خاموشی اختیار نہیں کی تھی کہ ہم بھاگتے ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ اپنی بات پر پکے ہو جائیں.ہم قسم کھا ئیں گے اور ضرور کھائیں گے کیونکہ ہم وہ ہیں جن کا قدم خدا کے فضل سے کسی مقابلہ میں پیچھے نہیں ہلتا لیکن وہ یا درکھیں کہ جب ہم انہیں قسمیں دیں گے اور حق بات کیلئے دیں گے تو وہ نہیں کھائیں گے اور اگر کھا ئیں گے تو جس طرح یہ سورج نظر آرہا ہے اور اس میں کسی کو شک نہیں اور جس طرح ہم یہاں بیٹھے ہیں اور اس میں کچھ کلام نہیں ، اسی طرح صاف طور پر وہ تباہ ہو جائیں گے.انہوں نے ایسی تلوار تیار کی ہے جو ہماری گردنوں پر نہیں بلکہ ان کی گردنوں پر چلے گی.انہوں نے ایسا گڑھا کھودا ہے جو ہمارے لئے نہیں بلکہ وہ اُن کے گرنے کیلئے ہے.ہم قسمیں کھا ئیں گے اور بتائیں گے کہ ہم اس وقت بھی جبکہ حضرت مسیح موعود زندہ تھے آپ کو نبی مانتے تھے.لیکن وہ قسمیں نہیں کھائیں گے.چنانچہ ابھی سے انہوں نے یہ شرطیں لگانی شروع کر دی ہیں کہ تمہاری قسمیں بیہودہ اور لغو باتوں کے متعلق ہیں یہ قسم نہ کھانے کے سامان ہیں لیکن میں قسم کھاتا ہوں.وہ خدا جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ خدا جو عذاب کی طاقت رکھتا ہے، وہ خدا جس نے میری جان کو قبض کرنا ہے ، وہ خدا جو زندہ ، قادر اور سزاو جزاء دینے والا ہے، وہ خدا جس نے آنحضرت ﷺ کو دنیا کی ہدایت کیلئے مبعوث فرمایا اور وہ خدا جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث کیا، میں اس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں حضرت مرزا صاحب کو اُس وقت بھی جبکہ حضرت مسیح موعود زندہ تھے اُسی طرح کا نبی مانتا تھا جس طرح کا اب مانتا ہوں.میں اس بات کیلئے بھی قسم کھاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے رویا میں مجھے منہ در منہ کھڑے ہو کر کہا ہے کہ مسیح موعود نبی تھے.میں یہ نہیں کہتا کہ غیر مبائعین سب کے سب عملی لحاظ سے بڑے ہیں اور ہماری جماعت کے سارے کے سارے عمل میں اچھے ہیں مگر میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جن عقائد پر ہم ہیں وہ سچے ہیں.خدا تعالیٰ اس بات کا گواہ ہے کہ اس کی طرف سے حضرت مسیح موعود نبی ہو کر آئے.ہم نے اس کی زبان ہے.

Page 464

خطبات محمود جلد ۴ ۴۵۵ سال ۱۹۱۵ء سے اپنے کانوں سنا اور اس کی تحریروں میں پڑھا اس سے ہمیں ہرگز ہرگز انکار نہیں.میں نے تو قسم کھالی ہے اور باقی ہماری جماعت کے لوگ قسم کھانے کیلئے تیار ہیں لیکن وہ یا درکھیں کہ یہ تلوار ان ہی کی گردنوں پر چلے گی.میں نے رویا میں دو آدمیوں کی نسبت کہا ہے لَعْنَتُ اللهِ عَلَی الْكَاذِبِینَ.تو انہوں نے کہا ہے.آمین.وہ دونوں تو تباہ ہور ہے ہیں.میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے جس سے مجھے بہت سرور ہوا.رات کو میں نے اٹھ کر سب گھر والوں کو جگا دیا کہ نفل پڑھو اور اس کے بعد میں بھی نہیں سویا.وہ خواب یہ ہے کہ مجھ سے حضرت مسیح موعود نے پوچھا کہ تم نے نبوت کے متعلق کیا دلائل دیئے اور لوگ سن کر کیا کہتے ہیں چڑتے تو نہیں.میں نے کہا کہ لوگ اچھی طرح سنتے ہیں اور دلائل بھی بتائے جو آپ نے بہت پسند کئے اور خوش ہوئے.پھر میں نے ان لوگوں کی نسبت بتایا کہ کس طرح مخالفت کرتے ہیں.یہی باتیں کرتے ہوئے شیخ رحمت اللہ صاحب آئے اور انہوں نے آکر مجھ سے مصافحہ کیا.میں نے ان کو کہا آپ بھی آج ہی حضرت مسیح موعود کو دیکھ کر ملنے آئے ہیں انہوں نے کہا کہ آپ بھی تو آج ہی ملے ہیں.اس گفتگو پر حضرت صاحب نے اس کی طرف دیکھا اور ہاتھ مصافحہ کیلئے بڑھایا اور کہا کہ شیخ صاحب ہیں لیکن شیخ رحمت اللہ صاحب نے اپنا ہاتھ پیچھے کو ہٹالیا اور مصافحہ نہیں کیا اس پر منہ موڑ لیا.اور پھر حضرت صاحب نے اشارہ فرمایا کہ اس کو نکال دو.یہ دیکھ کر مرزا خدا بخش صاحب نے شیخ صاحب کو کہا کہ تم پر بڑا ظلم ہوا ہے اور ان سے لپٹ گئے اس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ ہیں تم بھی میرے مریدوں میں ہو.پھر دونوں کو نکالنے کا اشارہ فرمایا.جس پر دونوں کو پکڑ کر نکال دیا گیا.پھر میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود ایک مکان میں ہیں اور اس جگہ فوجی پہرہ ہے اور بینڈ باجہ بج رہا ہے.بڑی شان و شوکت اور رونق ہے.میں نے آپ سے کہا حضور شروع میں تو مجھے بڑا فکر تھا کہ یہ بڑے بڑے آدمی نکل گئے ہیں اب کیا ہوگا.لیکن خدا تعالیٰ نے خود ہی سب کام کر دیا.اور میری کیا حیثیت ہے میرے سب کام خدا تعالیٰ ہی کرتا ہے اور اس پر سخت رقت طاری ہوئی اور آنکھ کھل گئی.میں یہ نہیں کہتا کہ ہم میں کوئی کمزوری نہیں اور ہم ملائکہ کی طرح ہیں.مگر میں یہ کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود کی نبوت کے متعلق ہمارا عقیدہ حق ہے اور حضرت صاحب نبی تھے اور ایسے نبی تھے جیسے پہلے ہوئے ہیں ہاں آپ براہ راست

Page 465

خطبات محمود جلد ۴ ۴۵۶ سال ۱۹۱۵ نبی نہیں اور آپ کوئی نئی شریعت نہیں لائے.آپ امتی نبی ہیں یعنی نبی تو ہیں لیکن آپ کو نبوت ایک نبی کی اتباع میں ملی ہے اس نبوت سے ہم کسی وقت بھی منکر نہیں نہ پہلے تھے اور نہ اب ہیں.خواب میں میں نے نبوت کے متعلق جو دلائل حضرت مسیح موعود کو سنائے ان میں سے ایک آیت سے میں نے یہ استنباط کیا وہ آیت یاد نہیں رہی ) کہ ہم نبی بھیجتے رہتے ہیں.لوگ ان کا مقابلہ کریں یا نہ کریں، انہیں مانیں یا نہ مانیں.اب بھی نبی ضرور آئیں گے پس من جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ البَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا صداقت آ گئی اور باطل نی بھاگ گیا.باطل ہمیشہ ہلاک اور تباہ ہی ہوا کرتا ہے.میں تو اس لئے بھی تیار ہوں کہ آؤ وہی کریں جو نجران کے ی سیحیوں کے ساتھ کیا گیا تھا.پیغام میں کفر کا فتویٰ تو وہ ہماری نسبت دے ہی چکے ہیں اگر انہیں جرات ہے تو آئیں فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَ كُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ تبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ 1 بڑی آسان بات ہے.قسم ہی نہیں بلکہ مباہلہ کر لیں.جب کفر کا فتوی دے چکے ہیں تو انہیں کوئی عذر بھی نہیں ہوسکتا.اور جب وہ مجھے کافر سمجھتے ہیں تو میر.لئے کیا روک ہے کہ میں ان سے مباہلہ نہ کروں مجھے جو کا فرقرار دیتے ہیں مجھے ان سے مباہلہ جائز ہے.وہ کہتے ہے ہیں کہ ہم قسم سے بھاگتے ہیں.میں قسم سے نہیں بھاگتا بلکہ مباہلہ کیلئے تیار ہوں.کیونکہ یہاں اس بات پر جھگڑا نہیں کہ میں ولی ہوں یا نہیں، میں نیک ہوں یا نہیں بلکہ یہ کہ مسیح موعود خدا کا سچا نبی ہے یا نہیں.میں باوجود اپنی کمزوریوں کے جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھے ہی کامیاب کرے گا اور میں ان کی بزدلیوں سے واقف ہوں اور ہے خوب جانتا ہوں کہ وہ مقابلہ پر کبھی نہیں آئیں گے.بلکہ خرگوشوں کی طرح میرے مقابلہ سے بھاگ جائیں گے اور بہانہ بنا کر اس موت کے پیالہ کو ٹالنا چاہیں گے.ل بنی اسرآئیل: ۸۱ تا ۸۵ تصانیف سید نا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدخلیفہ المسح الثانی بخاری کتاب التعبير باب المبشّرات الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۱۵ء) هي الكهف:۵۷ الجن: ۲۸،۲۷ ال عمران: ۳۲ البقرة : ١٣٠ و یونس: ۶۵ ال عمران: ۲۶

Page 466

خطبات محمود جلد ۴ ۴۵۷ (۸۴) اجتماع جمعہ کی برکات (فرموده ۲۴ - ستمبر ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء حضور نے تشہد ، تعو ذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.خطبہ جمعہ بہت سی قومی ضروریات کی طرف جماعت کو متوجہ کرنے کیلئے ایک مفید اور بابرکت موقع پر ہوتا ہے.لوگوں کو جمع کر کے کچھ سنانے میں بڑی بڑی دقتیں پیش آتی ہیں.کہیں سیکرٹری درخواست کرتے ہیں کہ ہم کو ایک ضروری بات پیش کرنی ہے، سب لوگ اکٹھے ہو جائیں.کہیں سیکرٹری لوگوں نے کے گھروں پر بلانے کیلئے جاتے ہیں کہ پچھلے اجلاس میں بہت سے ممبر نہیں آئے تھے اس لئے کورم پورا نہ ہو سکا تھا چونکہ ایک بہت ضروری بات ہے اس لئے اب کے آپ ضرور آئیں.اس طرح کرنے سے بھی کوئی آتا ہے اور کوئی نہیں آتا.لہذا ممبروں کو اکٹھا کرنے کی پھر کوشش کی جاتی ہے اور اس طرح مہینوں کے انتظار اور بہت سی لجاجتوں اور منتوں سے کہیں جا کر لوگ جمع ہوتے ہیں اور بات سنائی جاتی ہے لیکن پھر مجلس میں وہ شور مچتا ہے کہ الامان! ایک ادھر سے بولتا ہے ایک اُدھر سے پوچھتا ہے چاروں طرف سے آوازیں آنی شروع ہو جاتی ہیں اور ہر ایک یہی سمجھتا ہے کہ اگر میری بات نہ سنی گئی تو اندھیر ہی آ جائے گا.سب کا یہی خیال ہوتا ہے کہ اگر کوئی ایسی بات ہے جو لوگوں کے لئے مفید اور نفع رساں ہو سکتی ہے تو وہ میری ہی بات ہے.چونکہ ہر شخص اپنی رائے کی بڑی عزت اور قدر کرتا ہے اس لئے اس کا دل اسے ملامت کرتا ہے کہ مجلس میں چپ نہ بیٹھنا.اگر چپ رہا تو لوگ اس بات سے فائدہ نہیں الف

Page 467

خطبات محمود جلد ۴ ۴۵۸ سال ۱۹۱۵ء سکیں گے جو تمہارے دل میں ہے اس لئے تم خدا کے حضور گنہ گار شہر و گے اور اخلاقی رنگ میں بھی مجرم ہو گے.تو چونکہ ہر ایک کا یہی خیال ہوتا ہے اس لئے سارے کے سارے شور مچاتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کسی کی بھی نہیں سنی جاتی اور یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں کہ اگلی میٹنگ میں یہی بات پھر پیش ہو.تمام انجمنوں اور کمیٹیوں میں اسی طرح ہوتا ہے حتی کہ تمام حکومتوں کی پارلیمنٹوں کا بھی عموما یہی حال ہے کہ لوگ چیختے چلاتے اور شور مچاتے رہتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ بعض دفعہ وزراء کو تنگ آکر بحث کا وقت مقرر کرنا پڑتا ہے.اور ایک مقررہ وقت کے بعد لوگوں کے شور کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ووٹ لے لئے جاتے ہیں لیکن باوجود اس کے جب وزراء اٹھ کر کوئی بات سناتے ہیں تو شور پڑ جاتا ہے.کوئی کہتا ہے تم جھوٹ کہہ رہے ہو، کوئی کہتا ہے کہ چپ ہو جاؤ، کوئی کہتا ہے بیٹھ جاؤ.غرض دنیا کی انجمنوں اور کمیٹیوں کا برا حال ہوتا ہے.اول تو ان میں کوئی بات سنانے کا موقع ہی کم ملتا ہے اور اگر ملے تو اتنے سنانے والے ہوتے ہیں کہ سننے والا کوئی نہیں ہوتا.اور اگر کوئی سنانے والا کھڑا ہو جائے تو اس پر راؤں اور اعتراضوں کی وہ بوچھاڑ ہوتی ہے کہ بیچارہ آدھی تقریر بھی نہیں کر سکتا.مسلمانوں پر خدا تعالیٰ کا کتنا بڑا فضل ہے کہ ہر ہفتہ میں ایک ایسی نماز رکھ دی ہے جس میں شہر اور اس کے ارد گرد کے لوگوں کا شامل ہونا فرض ہے.اس کیلئے کوئی ضرورت نہیں کہ سیکرٹری لوگوں کے آگے لجاجت اور منت سماجت کریں.ایجنڈے نکلیں اور کلرک قلمیں گھسائیں اور پھر بھی مجلس ملتوی ہو جایا کرے.بس ایک آدمی خواہ مسافر ہی ہو جب پکار کر کہتا ہے حَى عَلَى الصَّلوة تو چاروں طرف سے جن لوگوں کے کانوں میں یہ آواز پڑتی ہے بھاگتے چلے آتے ہیں اور ایک جگہ اکٹھے ہو جاتے ہیں.پھر سب اکٹھے ہو کر اس انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کچھ سنیں اور ایک آدمی آتا ہے اور سنانا شروع کر دیتا ہے اب یہ کمیٹی شروع ہوئی.دوسری کمیٹیوں میں یہ فرق ہوتا ہے کہ ایک آدمی سنانا شروع کر دیتا ہے اور دوسرے شور مچاتے رہتے ہیں.لیکن اس کمیٹی میں وہی لوگ جو دوسری کمیٹیوں میں شور مچاتے تھے، ان میں سے کوئی بھی نہیں بول سکتا.کیوں؟ اس لئے کہ شریعت کا حکم ہے کہ خطبہ میں بولٹ نہیں چاہیئے.دنیا میں سلطنتوں کے وزیر جو لاکھوں کروڑوں انسانوں کی ہمدردی اپنے ساتھ رکھتے ہیں جب تقریر کرنے کیلئے کھڑے ہوتے ہیں تو ایسی آواز میں آنی شروع ہو جاتی ہیں کہ

Page 468

خطبات محمود جلد ۴ ۴۵۹ سال ۱۹۱۵ء ٹھہر ٹھہر و اسنوسنو تم غلطی کرتے ہو وغیرہ وغیرہ لیکن اگر ایک بے علم اور بے کس خطیب بھی ہو تو اس کے سامنے ایک عالم فاضل چپ سنتا رہے گا کیوں؟ اس لئے کہ آنحضرت سلی لا یہ تم نے منع فرمایا ہے اور خطبہ میں کسی کو بولنے کی اجازت نہیں ہے! اور چونکہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت مصلی یہ تم کیلئے فرمایا ہے کہ جو کچھ یہ کہیں ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرو ۲.اس لئے یہ خدا ہی کا حکم ہے.غرض یہ ایک بڑی لطیف مجلس ہے اس سے بہتر اور عمدہ اور کونسی مجلس ہو سکتی ہے.تمام وہ ضروریات قومی جن کا لوگوں کے کانوں تک پہنچانا اور جن میں جماعت کی مدد اور مشورہ کی ضرورت ہوتی ہے اس میں بتائی جاسکتی ہیں.اس کیلئے نہ ایجنڈا تیار کرنا پڑتا ہے نہ ٹکٹ لگانے کی ضرورت ہوتی ہے نہ کلرک ملازم رکھنے پڑتے ہیں.ایک مقررہ وقت پر سب لوگ خود بخو دا کٹھے ہو جاتے ہیں اور انہیں وہ بات پہنچادی جاتی ہے اور پھر اس مجلس میں جو بات شروع ہوتی ہے کسی کی مجال نہیں کہ ایک لفظ بھی زبان سے نکال سکے.دوسری مجلسوں میں ایک اور بات بھی ہوا کرتی ہے اور وہ یہ کہ اگر کوئی ایک کھڑا ہو جائے تو پندرہ ہیں بولنے لگ جاتے ہیں کہ بیٹھ جاؤ! بیٹھ جاؤ! پھر جب ان کی آوازیں نکلتی ہیں تو پچاس ساٹھ انہیں چپ کرانے کیلئے بول پڑتے ہیں.اس طرح سارے ہی بولنے لگ جاتے ہیں اور ایک شور قیامت برپا ہو جاتا ہے لیکن اس مجلس کیلئے آنحضرت سلایا یہی تم نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی بولے بھی تو اسے چپ کرانے کیلئے بولو نہیں بلکہ اشارہ سے منع کر دو ۳ یعنی اگر کوئی غلطی کرتا ہے تو بھی کوئی اس بات کا مجاز نہیں کہ اپنی زبان سے لفظ نکالے تا کہ اس طرح شور پیدا نہ ہو.تو یہ کیسی با امن مجلس ہے اور پھر اس مجلس کی یہ خوبی ہے کہ ناغوں کے ساتھ نہیں ہوتی بلکہ بلا ناغہ ہوتی ہے اور ہر جمعہ کو ہوتی ہے اور سب مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس میں شامل ہوں.غرض جمعہ کا خطبہ ایک بہترین موقع ہے.جماعت کو اس کی ضروریات سے مطلع کرنے اور اہم اور قابل مشورہ امور سے آگاہ کرنے کا.مسلمانوں پر یہ اسلام کا بہت بڑا احسان ہے اور کون سے احسان کم ہیں.مگر جماعت بندی اور جماعت کے کاموں کو احسن طور پر چلانے کیلئے یہ بہت بڑا احسان ہے.دنیا کے اور کسی مذہب نے جماعت کو جماعت بنانے کیلئے اور قومی کاموں کو اس خوش اسلوبی سے انجام دینے کیلئے ایسی کوئی تجویز نہیں کی.صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے یہ ایک ایسا طریق بتایا ہے کہ اگر مسلمان اس پر چلیں تو ان کی تمام ضروریات حل ہوسکتی ہیں.غرض جمعہ کا خطبہ

Page 469

خطبات محمود جلد ۴ ۴۶۰ سال ۱۹۱۵ بہت سی ضروریات کو حل کرنے کیلئے مفید اور بابرکت اجتماع ہے جس میں بغیر کسی قسم کے جھگڑے اور فساد کے قوم کے سامنے ضروریات پیش کر دی جاتی ہیں.چونکہ آج ایک ضروری سوال در پیش ہے جس کے متعلق جماعت کی رائے دریافت کرنا ضروری ہے اس لئے میں اس اجتماع سے فائدہ اٹھاتا ہوں.گو پہلے بھی ایک دفعہ یہ سوال پیش ہو چکا ہے مگر چونکہ اس وقت اس کا موقع نہیں تھا اس لئے فیصلہ نہ کیا گیا.اب میں دوبارہ اس کو یہاں لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہوں اور اخباروں والے اخباروں کے ذریعہ باہر کے لوگوں تک پہنچادیں تا کہ سب لوگ اس پر غور کر کے مجھے جواب دیں.امید ہے کہ اس بات سے سب واقف ہوں گے کہ ایک بڑی رقم پر مولوی محمد علی صاحب نے صدر انجمن احمدیہ کا ملازم رہ کر ترجمۃ القرآن کا کام کیا ہے اور ان کی وہ چٹھیاں اور کاغذات جن میں وہ لکھتے رہے ہیں کہ ترجمۃ القرآن کیلئے مجھے فراغت چاہئیے ، الگ مکان چاہیئے ، پہاڑ پر جانے کی ضرورت ہے ، ٹائپ رائٹر درکار ہے، مددگار مولوی کی ضرورت ہے، ٹائپسٹ چاہئیے وغیر ہا اس وقت تک موجود ہیں.پھر مولوی محمد علی صاحب کی یہ تحریر بھی موجود ہے کہ مولوی شیر علی صاحب کو ایڈیٹر بنا دیا جائے اور مجھے ترجمۃ القرآن کیلئے خاص طور پر فارغ کر دیا جائے.پانچ چھ سال میں قریبا اڑھائی تین ہزار سالانہ خرچ کے حساب سے پندرہ ہزار روپیہ اس کام پر خرچ ہوا ہے.اور اس کے علاوہ اس کے متعلق دیگر اشیاء پر جو روپیہ خرچ ہوا ہے وہ بھی دو تین ہزار کے قریب ہے.یعنی مددگار مولویوں اور کلرکوں اور کتابوں وغیرہ کا خرچ مل ملا کر کوئی پانچ ہزار کے قریب بنتا ہے.گل ہیں ہزار انداز اسمجھ لو.یہ روپیہ جو ایک خاص کام کیلئے مولوی محمد علی صاحب ہے خرچ ہوا ہے انہوں نے جو کام کیا تھا وہ تمام کا تمام ساتھ لے گئے ہیں.یہ بات آپ سب لوگ جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کو وہ اپنی ملکیت قرار دے رہے ہیں.کیوں؟ اس لئے کہ ان کا دماغ خرچ ہوا ہے پھر اور کیوں؟ اس لئے کہ انہیں ایک ایسا قانون مل گیا ہے کہ وہ اس کی رُو سے اس پر قبضہ کر سکتے ہیں جس طرح آج تک بہت سے مسلمان کہلانے والوں کو یہ قانون ملا ہوا ہے کہ بیٹیوں اور بہنوں کو وراثت سے حصہ نہیں مل سکتا اس لئے وہ نہیں دیتے.بے شک قرآن شریف میں آیا ہے کہ ان کو حصہ دو اور ضرور دو.بے شک آنحضرت سی ایسی تم نے تاکید کی ہے کہ ان کو حصہ دو اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی عقل اور اخلاق حسنہ مجبور کرتے ہیں کہ بیٹیوں اور بہنوں کو حصہ

Page 470

خطبات محمود جلد ۴ ۴۶۱ سال ۱۹۱۵ء دیا جائے مگر باوجود اس کے مسلمانوں کو قانون جومل گیا ہے اگر نہ دیا جائے تو حرج نہیں اس لئے ہے کریں.اسی طرح مولوی محمد علی صاحب کو کسی وکیل نے قانون بتادیا ہے کہ باوجود اس کے کہ تم نے ہیں ہزار روپیہ انجمن کا کھایا ہے لیکن پھر بھی تم انجمن کا ترجمہ ہضم کر سکتے ہو اس لئے وہ کہتے ہیں کہ ہم ترجمہ نہیں دیتے.اب سوال یہ ہے کہ ان کو تو قانون ملا ہے اور ہمارے بھی خدا کے فضل سے قانون دان ہیں وہ کہتے ہیں کہ مولوی صاحب بڑی آسانی سے پکڑے جاسکتے ہیں.یہ تو قانون دیکھیں گے یا گورنمنٹ فیصلہ کرے گی کہ ان کا چودھری زیادہ قانون دان ہے یا ہمارا لیکن پہلا سوال یہ ہے کہ ہمیں کوئی قانونی کارروائی کرنی بھی چاہیے یا نہیں.پیچھے تو یہ معاملہ اس لئے رہ گیا تھا کہ کسی اور طریق سے فیصلہ کر لیا جائے پھر یہ بھی خیال تھا کہ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ ابھی ترجمہ کا کام کر رہا ہوں شاید کچھ عرصہ کے بعد مان جائیں.لیکن اب مسلم انڈیا میں اشتہار چھپا ہے کہ جلدی قرآن کا ترجمہ شائع کیا جائے گا اس لئے اب اس بات کا جلدی فیصلہ کرنا چاہیئے کہ آیا وہ میں ہزار روپیہ جو اس کام پر خرچ ہوا ہے اور مولوی صاحب اسی کیلئے ملازم رکھے گئے تھے اس کا کیا کیا جائے؟ یہ تو ہے نہیں کہ انہوں نے ٹھیکہ پر کام کیا ہے اس لئے اب کہہ دیں کہ اپنا روپیہ لے لو ہم کام نہیں دیتے.انہیں تو ملازم رکھا گیا تھا اور ملازم کی اور حیثیت ہوتی ہے ٹھیکہ دار کی اور.مثلاً ایک آدمی کو روپیہ دیا جائے کہ فلاں چیز بناؤ.گو اس کی ایمانداری اسی میں ہے کہ بنادے لیکن وہ ایسا بھی کر سکتا ہے کہ چیز بنا کرکسی اور کو دے دے اور روپیہ واپس کر دے.شریعت کے تو یہ خلاف ہے.لیکن وہ بہانہ وغیرہ کر سکتا ہے.لیکن ایک ملازم جو ہر صبح و شام اسی روپیہ سے کھانا حلق سے اُتارتا ہے جو اسے تنخواہ میں دیا جاتا ہے وہی کپڑا پہنتا ہے جو تنخواہ کے ذریعہ حاصل کرتا ہے وہ کوئی بہانہ نہیں بنا سکتا کہ جو کام میں کر رہا ہوں وہ میرا اپنا ہے.لیکن سوال یہ ہے کہ ان سے یہ ترجمہ لیں یا نہ لیں؟ لینے کیلئے تو ہم بظاہر اس لئے مجبور ہیں کہ اس پر سلسلہ کا روپیہ خرچ ہوا ہے اگر ترک کیا جائے تو یہ سلسلہ کی خیانت نہ ہو لیکن اور پہلو بھی ہے وہ یہ کہ اسلام کی تاریخ سے بہت سے ایسے واقعات معلوم ہوتے ہیں کہ بعض لوگوں نے خیانتیں کیں ، فساد اور شرارت پھیلائی ، عداوت اور بغض میں بڑھ گئے مگر انبیاء کے سلسلہ نے یہی طریق اختیار کیا ہے کہ چشم پوشی کی ہے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھا ہے.ان سے جہاں تک ہو سکا خیانت کو وصول کرنے اور شر و فساد کے دور کرنے کی کوشش کی ہے لیکن سزا دہی کیلئے

Page 471

خطبات محمود جلد ۴ ۴۶۲ سال ۱۹۱۵ء خدا تعالی پر ہی نظر رکھی ہے.پس ہمیں بھی چاہئیے کہ اسی عمل کی اتباع کریں.پس اس سوال کا جواب کہ مولوی صاحب کی اس کارروائی کے متعلق کیا کیا جائے؟ ایک تو یہ ہے کہ عدالت تک معاملہ پہنچایا جائے.دوسرا یہ کہ خدا کے سپر د کیا جائے.ان دونوں پہلوؤں کے متعلق جماعت کو چاہیے کہ غور کرے اور مجھے مشورہ دے کہ آیا خاموشی اختیار کی جائے یا عدالت میں یہ معاملہ لے جایا جائے.ہم یہ تو جانتے ہیں کہ حرام چیز کسی کو معضم نہیں ہوا کرتی اور کسی نہ کسی رستہ ضرور باہر آ جاتی ہے چونکہ انہوں نے خیانت سے کام لیا ہے اس لئے وہ فائدہ تو کبھی نہیں اٹھا سکتے.ہم نے کوشش کر دی ہے.بار بار کہلا بھیجا ہے حتی کہ ایک وفد خاص بھیجا لیکن انہوں نے ترجمہ نہیں دیا بلکہ اشارہ یہ بھی کہا ہے کہ ترجمہ ہمارا ہی ہے اس معاملہ کے متعلق جو میری رائے ہے وہ بھی میں بتا دیتا ہوں.میری اپنی رائے میں زیادہ مفید اور مناسب یہ بات ہے کہ ان کو چھوڑ ہی دیا جائے اور اللہ کے حوالہ کر دیا جائے.کیوں؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو فیصلہ ہوگا وہ انسانوں کے فیصلہ سے زیادہ صاف ہوگا کیونکہ وہ خالق و مالک ہے اور انسانوں سے زیادہ زبر دست اور طاقتور ہے.میرے خیال میں ان کا ترجمہ لے جانا ہمارے لئے بڑی بھاری فتح ہے.انسان جوش اور عداوت میں مجرم کر تو لیتا ہے لیکن بعد میں خود ہی شرمندہ ہوتا ہے یہ ہمیشہ ان کے گلے میں پھانسی کی طرح لٹکتا رہے گا.ہماری اور ان کی بخشیں تو ہوتی ہی رہیں گی.پس ہمیشہ ان کو اس سوال کے آگے نادم ہونا پڑے گا کہ ان کے فرقہ کا بانی سلسلہ احمدیہ کے روپیہ کو کس طرح قانون کا غذر کر کے خرد برد کر گیا.یہ چونکہ قومی اور جماعت کی خیانت ہے شخصی نہیں اس لئے جماعت کے اختلاف میں اسے ہم پیش کر سکتے ہیں.کیونکہ قومی جرائم کا پیش کرنا بر خلاف ذاتی جرائم اچھا اور چھپا نا جرم ہے اس لئے یہ ان کے نام پر ہمیشہ کیلئے دھبہ رہے گا اور اگر ہم لے لیں گے تو اور ہمیں مل بھی جائے گا.تو اس خوبی سے ہم انہیں ملزم قرار نہیں دے سکیں گے.پھر یہ کہ جس ترجمہ نے ترجمہ کرنے والے کو کچھ فائدہ نہیں دیا وہ ہمیں کیا دے سکتا ہے.وہ شخص جو چھ سال قرآن پر غور کر کے یہ معنی کرتا ہے کہ قُلِ اللهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ اللہ منوا کر چھوڑ دو.اس کا کیا ہوا ترجمہ ہمارے لئے کیا مفید ہوسکتا ہے؟ اگر ہم مقدمہ کر کے اس ترجمہ کو لے لیں گے تو ہزار دو ہزار روپیہ جو خرچ ہوگا وہ بھی ضائع

Page 472

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۵ ہی جائے گا کیونکہ ایسا ترجمہ جس کے کرنے والا کہتا ہے قُلِ اللهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ - اللہ منوا کر چھوڑ دو.ہم چھاپ نہیں سکتے.اور اگر اس کی اصلاح کر کے چھوائیں تو جو محنت اس پر کریں گے اس سے کم میں نیا کیوں نہ تیار کر لیں.حضرت خلیفتہ امسیح الاول ایک مثال بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک عورت کے زیورات ایک چور لے گیا.اس نے چور کی شکل رات دیکھ لی تھی.ایک دن جو وہ گلی میں بیٹھی چرخہ کات رہی تھی تو وہی چور گزرا.عورت نے اس کو کہا کہ ذرا میری بات تو سن جاؤ.وہ ڈر کے مارے بھا گا تو اس نے نے کہا میں تمہیں پکڑ والی نہیں صرف بات سن جاؤ.جب وہ ٹھہرا تو اس نے کہا کہ دیکھو تم سب زیورات لوٹ کر لے گئے تھے لیکن میرے ہاتھ میں پہلے سے بھی زیادہ موٹے کڑے ہیں اور تمہاری ٹانگوں میں وہی پہلی لنگوٹی ہے.تو بیشک وہ اپنی طرف سے صفایا کر گئے ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ ان کی لنگوٹی ہی رہے گی اور ہمیں خدا تعالیٰ اور کڑے دے دے گا.پس چاہیئے کہ ہم بھی اسی طرح کریں اور کہیں کہ اگر ترجمہ لے گئے ہیں تو لے جائیں انہیں کیلئے وبال جان ہو گا ہمیں خدا تعالیٰ اس سے بہتر اور بہت بہتر دے گا اور انشاء اللہ مبارک دے گا.مفید تو وہی شے ہوتی ہے جو مبارک ہو.بہت لیکچرار ایسے ہوتے ہیں جو بڑی لمبی لمبی اور فصیح تقریریں کرتے ہیں لیکن ان کا اثر نہیں ہوتا اور کسی اور کے دو کلمے اثر کر جاتے ہیں اور اصل کلام بھی اسی کا ہے جسے خدا تعالیٰ سے اثر ملا ہو.پس جبکہ ہمیں یقین ہے کہ خدا تعالیٰ ہم کو اس ترجمہ سے بہتر تر جمہ ہی نہ دے گا بلکہ با برکت بھی دے گا تو پھر اس کے لینے کیلئے کوشش کرنے کی کیا ضرورت ہے.دنیا میں صرف عمدہ تحریر کوئی شے نہیں بلکہ اس قابل التفات تحریر کا اثر ہوتا ہے جو صدق و اخلاص سے لکھی جائے.اس وقت دنیا میں ایسے لوگ ہیں جن کی تحریریں علم ادب کا اعلیٰ نمونہ مجھی گئی ہیں لیکن انہیں وہ کمال کہاں حاصل ہوا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا.حالانکہ آپ اردو کے اشعار میں ” جندا بھی استعمال کر گئے ہیں.لیکن ان اشعار کو پڑھ کر مخالف بھی ایسا متاثر ہوتا ہے کہ کھنچا چلا آتا ہے اور وہ شعر جو گھوٹ گھوٹ کر لکھے جاتے ہیں کچھ اثر نہیں کرتے.پس ہمیں کسی کی لفاظی پر لٹو نہیں ہونا چاہیئے اور مفید اور بابرکت کی تلاش کرنی چاہئے جو خدا تعالیٰ ہمیں انشاء اللہ ضرور دے گا.ہمارے کڑے پھر بھی بن جائیں گے.مگر ان کا یہ فعل ان کیلئے ہمیشہ ذلت کا موجب رہے گا.پس میری اپنی رائے یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ

Page 473

خطبات محمود جلد ۴ ۴۶۴ سال ۱۹۱۵ء ہم دو ہزار روپیہ خرچ کر کے ردی کاغذ جلانے کیلئے لاڈالیں انہیں کہیں کہ یہ ترجمہ آپ ہی رکھیں.اس طرح جو روپیہ بچ جائے گا وہ کسی اور مفید کام میں کام آ جائے گالیکن چونکہ یہ جماعت کا معاملہ ہے اور غرباء اور امراء سب کا پیسہ پیسہ جمع کر کے اس پر خرچ کیا گیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم بغیر تمام جماعت کی رائے کے معلوم کرنے کے کچھ نہ کریں اسی لئے میں نے خطبہ میں اس بات کو بیان کر دیا ہے.یہاں کی انجمن اس پر غور کرے اور مجھے اطلاع دے اور باہر کی انجمنیں بھی غور کر کے اطلاع دیں.میرا خیال ہے کہ یہ جماعت کے مال کی خیانت ہے اس لئے ان کے وہ تمام کاغذات اور درخواستیں جو ترجمۃ القرآن کے متعلق ہیں سب تفصیل وار ایک ٹریکٹ میں چھاپ دی جائیں اور نہایت کثرت سے یورپ و امریکہ اور ہندوستان میں شائع کی جائیں اور تمام اخباروں میں بھی شائع کرا دی جائیں تا کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ ان کی طرف سے جو ترجمہ شائع ہونے لگا ہے اس کی حقیقت کیا ہے.اور بجائے اس کے کہ عدالت میں روپیہ خرچ کیا جائے اس طرح خرچ ہو جس سے ان کی نیت اور ایمانداری کا لوگوں کو پتہ لگ جائے.تو یہ بہتر ہو گا تمام انجمنیں غور کر کے مجھے اطلاع دیں اور فیصلہ کرنے سے پہلے دعا بھی کر لیں تا کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء معلوم ہو اگر خدا تعالیٰ کے منشاء میں یہی ہے کہ مقدمہ کیا جائے تو پھر ہمیں کیا عذر ہے.پس بہت دعائیں کرو اور پھر جو فیصلہ ہو اس سے مجھے اطلاع دو.یہ ایک بڑا کام ہے سب کو جمع کر کے آرام سہولت اور اطمینان سے واقعات پر فیصلہ کرو اور استخارہ کرو گو اس میں یہ بھی ضروری نہیں کہ بذریعہ رویا یا الہام پستہ بھی لگے لیکن اگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کسی کو بتا دے تو اس سے بھی مجھے اطلاع دی جائے.اللہ تعالیٰ ہم کو سیدھے رستہ پر چلنے اور اپنی رضاء حاصل کرنے کی توفیق دے.الفضل ۳۰ ستمبر ۱۹۱۵ء) بخاری کتاب الجمعة باب الانصات يوم الجمعة والامام يخطب الحشر : بخاری کتاب الجمعة باب الانصات يوم الجمعة والامام يخطب

Page 474

خطبات محمود جلد ۴ ۴۶۵ (۸۵) قرآن شریف کے حکم کے مطابق لڑکیوں کو جائیداد سے حصہ ملنا چاہئیے (فرموده یکم اکتوبر ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.الم ذَلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْتُهُمْ يُنْفِقُونَ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ.أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ پھر فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے قرآن شریف ایک ایسی کتاب بنی نوع انسان کی ہدایت اور راہ نمائی کیلئے بھیج دی ہے کہ جس میں انسان کی ان تمام ضروریات کو جن سے دین میں ترقی کرنے اور دنیا میں آرام پانے کی راہ ملتی ہے بیان کر دیا ہے اور جس قدر وہ باتیں ہیں جس کا انسان کی روح اور اخلاق سے تعلق ہے یا جو بنی نوع کے آپس کے تعلقات کے متعلق ہیں سب بیان کر دی ہیں اور تمام مضر اور تکلیف دہ چیزیں بھی جن سے بیچ کر انسان حقیقی خوشی اور سچی راحت حاصل کر سکتا ہے بتادی ہیں کہ فلاں شے سے بچو تو آرام پاؤ گے اور فلاں کو اختیار کرو گے تو سکھ نصیب ہوگا.

Page 475

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۵ء لیکن نادانی سے جب لوگ مختلف معاملات میں پڑتے اور خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستہ پر غور نہیں کرتے اور اپنی کوتاہ نظری سے اور طرف نکل جاتے ہیں اور اس حقیقت سے بے خبر ہو جاتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے احکام میں ہوتی ہے.چنانچہ مسلمانوں نے اسی راہ پر چل کر ان راستوں کو چھوڑ دیا جو خدا تعالیٰ نے ان کیلئے مقرر کئے تھے.اس کی ایک مثال یہ ہے کہ گورنمنٹ انگریزی نے جب مسلمانوں سے دریافت کیا کہ تم لوگ تقسیم وراثت میں کیا طریق اختیار کرنا چاہتے ہو تو بہت سے مسلمانوں نے حکام سے کہ دیا کہ ہم شریعت کے رُو سے تقسیم وراثت نہیں چاہتے بلکہ رواج کے مطابق چاہتے ہیں جب گورنمنٹ کے اہلکاروں نے پوچھا تو بہت سے مولویوں ، جاہلوں ، امیروں، غریبوں نے یہی جواب دیا کہ ہمیں شریعت کی تقسیم منظور نہیں ہم رواج پر چلنا چاہتے ہیں اور یہی بات انہوں نے سرکار میں لکھوا دی.ان کے اس فعل کا جو کچھ نتیجہ نکلا اور جس غرض کو اپنے دل میں رکھ کر انہوں نے یہ لکھوایا تھا وہ کہاں تک پوری ہوئی اس کے بیان کرنے کیلئے نہ اتنا وقت ہے اور نہ خطبہ سے اس کا تعلق.مگر ہر ایک مسلمان اس بات کو خوب جانتا ہے کہ جس دن سے انہوں نے یہ لکھوایا ہے کہ ہم شریعت کے مطابق نہیں بلکہ رواج کے رُو سے تقسیم وراثت کریں گے اسی دن سے ان کی جائیداد میں غیر مذاہب والوں کے پاس جانی شروع ہوگئی ہیں.اور اس وقت پچیس تیس یا پچاس فیصدی تک پک چکی ہیں اور وہ غرض جو ان کے کے دلوں میں تھی وہ پوری نہ ہوئی.انہوں نے سمجھا تھا کہ اس طرح ہماری جائدادیں محفوظ رہیں گی کیونکہ اگر لڑکی کو بھی حصہ دیا جائے تو وہ چونکہ دوسری جگہ بیاہی جاتی ہے اس لئے وہ جائداد دوسروں کے پاس چلی جائے گی اور اگر لڑکوں میں ہی جائدادر ہے تو اپنے گھر میں ہی رہے گی اور دوسرے کے پاس جانے سے محفوظ ہو جائے گی حالانکہ یہ خیال بالکل لغو اور بیہودہ تھا مثلاً ایک شخص کے چار بیٹے ہوں اور ایک بیٹی تو اگر ایک بیٹی اپنا حصہ لے جائے گی تو چار بہوئیں لے بھی تو آئیں گی.سود نیاوی لحاظ سے بھی لڑکیوں کو حصہ دینا موجب نقصان نہیں اور نہ جائدادوں کو اس طرح کچھ ضرر پہنچتا ہے لیکن اس پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے سخت نقصان اٹھانا پڑا.خدا تعالیٰ کا حکم توڑنے کی وجہ سے گناہ گار ہوئے وہ الگ ، اور دنیا میں جو ذلت اور رسوائی حاصل ہوئی وہ جُدا رہی.کسی نے کہا ہے.ینہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

Page 476

خطبات محمود جلد ۴ ۴۶۷ سال ۱۹۱۵ء نہ انہوں نے خدا کی فرمانبرداری کی اور نہ عزت مال اور دولت حاصل ہوئی پس ان کا نہ دین رہا اور نہ دنیا.اب بعض جگہ ہماری جماعت کو یہ مشکلات پیش آ رہی ہیں کہ ہمارے لوگ چاہتے ہیں کہ لڑکیوں کو حصہ دیں اور رسم و رواج کو چھوڑ کر شریعت پر عمل کریں تو غیر احمدی انہیں روکتے ہیں اور قانون کی رو سے مجبور کرتے ہیں کہ وہ ایسا نہ کریں.اس کی وجہ سے احمدی جماعت کا کثیر حصہ پوری آزادی سے شریعت پر عمل نہیں کر سکتا.اس وقت ایک موقع ہے.گورنمنٹ نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ پنجاب میں جس قدر رواج ہیں وہ سب قوموں سے پوچھ کرلکھ لئے جاویں.پھر قانون سرکاری کے علاوہ دیگر امور میں ان ہی کے ماتحت تمام فیصلے کئے جایا کریں اور یہ قانون کی طرح ہوں اس کے متعلق کارروائی شروع ہے.شملہ میں ایک کانفرنس اسی غرض کیلئے مقرر ہوئی ہے کہ وہ اس بات کا فیصلہ کرے کہ کیا کیا رواج ہیں ، وائسرائے کی خدمت میں رپورٹ کرے.اس موقع پر ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہیے کہ ان مشکلات کو جو ان کے رستہ میں حائل ہیں دور کروانے کی کوشش کریں اور وہ اس طرح کہ تمام جماعت ایک میموریل تیار کرے.اس میں لکھا جائے کہ ہمارا رواج وہی ہے جو شریعت اسلام ہے اور اسی کا فیصلہ ہمیں منظور ہے.ہمارے تمام فیصلے اسی کے ماتحت ہوں اور مختلف فيها مسائل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فیصلہ یا اپنی جماعت کے علماء کا فیصلہ منظور ہو گا اس طرح یہ دقت دور ہو جائے گی.بہت سے لوگ ہمیں لکھتے ہیں کہ ہم لڑکیوں کو حصہ دینا چاہتے ہیں لیکن مجبور ہیں کچھ کرنہیں سکتے کیونکہ دیگر رشتہ دار جوغیر احمدی ہیں وہ روکتے ہیں اس لئے رواج کے مطابق ہی کرنا پڑتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک موقع دیا ہے اس کے متعلق تمام جماعت کے لوگ اپنے طور پر دستخط کر کے یا انگوٹھے لگا کر ہمارے پاس بھیج دیں اور یہ کا غذات ہمارے پاس تیار رہیں جس وقت مناسب موقع ہوگا پیش کر دیئے جائیں گے.اگر ہماری جماعت اس پر عمل درآمد کرنا شروع کر دے گی تو یہ لوگوں کیلئے ایک نمونہ ہوگا اور جو شخص اپنے عمل سے کسی کو ہدایت دیتا ہے اسے اپنے متبع کا بھی ثواب ملت ہے اس کا ثواب کم نہیں ہوتا مگر جس کے ذریعہ ہدایت ہوتی ہے اسے بھی ثواب ملتا ہے.اگر ہماری جماعت میں یہ بات شروع ہو جائے کہ تقسیم وراثت شریعت کے مطابق ہو اور دوسرے لوگ یہ بات دیکھ لیں کہ شریعت پر عمل کرنے سے کوئی تباہ نہیں ہوتا بلکہ ترقی کرتا ہے تو انہیں

Page 477

خطبات محمود جلد ۴ ۴۶۸ سال ۱۹۱۵ء بھی ہدایت نصیب ہو جائے اور اس طرح ہماری جماعت اس گناہ کو دور کرنے کا ذریعہ ٹھہرے.اخباروں کے ذریعے اس بات سے اطلاع دے دی جائے کہ تمام احمدی دستخط کر کے اور انگوٹھے لگا کر میموریل تیار کریں اور کوئی احمدی خواہ کسی قوم کا ہو، کسی ضلع کا ہو، کسی علاقہ کا ہو، سب یہ لکھ دیں کہ ہمارے فیصلے شریعت پر ہوں کسی علاقہ یا ضلع کے رواج پر نہ ہوں.اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر پھر وہ دن لائے کہ وہ خدا کے حکموں پر عمل کر کے دین و دنیا میں کامیاب ہو جاویں.آمین البقرة: تا (الفضل ۱۹.اکتوبر ۱۹۱۵ء)

Page 478

خطبات محمود جلد ۴ ۴۶۹ (AY) ہر صادق نبی پر ایک ہی قسم کے اعتراضات کئے جاتے ہیں (فرموده ۱۵ اکتوبر ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللهُ اَوْ تَأْتِينَا ايَةٌ كَذلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ مِثْلَ قَوْلِهِمْ تَشَابَهَتْ قُلُوْبُهُمْ قَدْ بَيَّنَا الْأَيْتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ اس کے بعد فرمایا:.ہر زمانہ میں حق کے مخالف ایک ہی رنگ کے ہوتے ہیں.اور یہ قدیم سے سنت چلی آئی ہے کہ جس قسم کے اعتراضات ایک صادق نبی پر کئے جاتے ہیں اسی قسم کے دوسرے صادق پر بھی کئے جاتے ہیں.جس قسم کے اعتراضات حضرت نبی کریم سالی یا یہ تم پر ہوئے اسی قسم کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی ہوئے ہیں.مخالفین کو جب ہم یہ کہتے ہیں کہ تم پہلے صادقوں اور نبیوں کی طرح حضرت صاحب پر اعتراض کرتے ہو تو وہ کہتے ہیں کہ تم ان کو نبیوں سے مشابہت دیتے ہو، حالانکہ صادق کے مقابلہ میں صادق کی مثال دی جاتی ہے اور شریر اور بدمعاش کے مقابلہ میں اس قسم کے آدمی کی مثال دی جاتی ہے.پس صادقوں کی مثالیں صادقوں کے ساتھ ہی دی جائیں گی اس وقت کوئی صداقت نبی کریم ﷺ کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتی.ہر صداقت کو ثابت کرنے کیلئے آپ کے معیار صداقت سے باہر نہیں جا سکتے.ہماری جماعت کا ایک حصہ جو ان عقائد کو ترک کر رہا ہے جن پر ہم قائم ہیں اور جن کے بارے میں ہم نے خود حضرت مسیح موعود سے بار ہا تقریریں سنی ہیں

Page 479

خطبات محمود جلد ۴ ۴۷۰ سال ۱۹۱۵ء اس کی طرف سے ہم سے بھی یہی سلوک کیا جا رہا ہے.اگر کوئی ایسی دلیل ان کے سامنے بیان کی جائے جو حضرت مسیح موعود کی صداقت ثابت کرنے والی ہو تو کہتے ہیں کیا تمہاری بھی کوئی حیثیت ہے تم اپنے تئیں مامور اور نبی کی پوزیشن میں ظاہر کرتے ہو.تھوڑی مدت ہوئی میں نے بیان کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے رویا میں مجھے مسئلہ نبوت سمجھایا اور کی آنحضرت صلی اسلم اور مسیح موعود کو بطور مثال نمونہ نبی بتایا.میں نے اس رؤیا کو اس رنگ میں نہیں پیش کیا کہ چونکہ میں نے یہ رویا دیکھا ہے اس لئے تمام دنیا مان لے بلکہ میں نے یہ بھی نہیں کہا کہ میرے مرید ہی مان لیں.میں نے تو اس رنگ میں بیان کیا کہ قرآن مجید، احادیث صحیحہ تعلیم مسیح موعود کے بعد یہ رویا بھی میری ذاتی تسلی اور اطمینان قلبی کیلئے کافی ہے اور چونکہ مجھے کا فرتو قرار دیاہی گیا ہے اس لئے میں ملب قلب اور اطمینان کی بناء پر جو مجھے خدائے تعالیٰ سے حاصل ہے مباہلہ کرنے کو تیار ہوں.اس کا مجھے جواب دیا جاتا ہے کہ کیا تم مامور ہو جو اپنی رؤیا پیش کرتے ہو؟ انہوں نے نادانی سے سمجھا نہیں.ہر انسان کی تسلی کیلئے خدا کی طرف سے ہدایت ملتی ہے جس پر فضل کرے اسے کسی حقیقت حال کا علم دے دیتا ہے پس اگر کسی کو ہدایت ملے تو وہ اسے ترک نہیں کر سکتا محض اس لئے کہ وہ مامور نہیں.آنحضرت صلی ایم کو تو رؤیا کا ادب یہاں تک ملحوظ تھا کہ ایک شخص نے رویا میں دیکھا کہ میں آپ پر چڑھتا ہوں تو فرمایا کہ تم اپنی خواب پوری کر لوں کیا وہ مامور تھا ؟ کیا وہ نبی تھا جو اس کی رؤیا کو اتنی اہمیت دی گئی.پھر اذان بھی ایک غیر مامور کی رویا پر مقرر ہوئی ۳ جس پر تیرہ سو سال سے تمام فرقہ ہائے اسلام کا عمل ہے.اس میں شک نہیں کہ غیر مامور کی رؤیا کو تمام کیلئے حجت قرار دینا موجب فتنہ ہو سکتا ہے کیونکہ ممکن ہے ایک شخص پاگل ہو اور اس کا دماغ ہی خراب ہو یا دیدہ و دانستہ وہ لوگوں کوگمراہ کرنا چاہتا ہو اس لئے کثرت کمیت و کیفیت کی شرط لگا دی مگر اپنی ذات کیلئے تو ہر شخص کی رؤیا حجت ہے.رویا پر اعتبار کیوں نہ ہو جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مومن تو در کنار ، فرعون کی رؤیا پوری ہوئی، یوسف کے اصحاب الشجن کی رؤیا پوری ہوئی.پھر سنو کہ لَهُمُ البشری ۴ سے پتہ لگتا ہے کہ مومن کو الہام ہوتے ہیں اور یہ لوگ خود اس آیت کو میرے معت ابلہ میں پیش کرتے ہیں کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ الہام تو ہوں گے مگر ان پر یقین نہ کرنا.یونہی فضول ، لغو اور بیہودہ ہیں.اگر یہی بات ہے تو الہام نازل

Page 480

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۵ء کیوں ہوا.ہاں مامور اور غیر مامور کی رؤیا میں ایک فرق تو ضرور ہے.مامور اور نبی کی رؤیا تمام دنیا پر حجت ہے اور غیر مامور کی رؤیا اس کے نفس کے یقین دلانے کیلئے ہے اور دوسروں پر حجت نہیں ہوتی جب تک واقعات تصدیق نہ کریں.جب عملاً تصدیق ہو جائے تو پھر تو ایک غیر مامور مومن کی بلکہ ایک کافر کی رؤیا کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا.خدا نے فرعون اور یوسف کے ساتھیوں کی رؤیا کی تصدیق کی ہے.ایک مامور کی رؤیا اور اس کے الہامات اس کے دعوی کی صداقت پر اور اس کے منجانب اللہ ہونے پر دنیا تے کیلئے ثبوت ہوتے ہیں تا وہ اس کی بات کو، اس کی ہدایت کو ر ڈ نہ کریں.اور دوسرے ہر انسان کی رؤیا اس واقعہ میں جو پورا ہو جائے اس کی صداقت کی دلیل ہوتی ہے.مثلاً ایک شخص کو خواب آیا کہ اس کے گھر میں بیٹا ہوگا یا خطر ناک مصیبت سے رہائی کی بشارت ہو تو پھر جب اس کے گھر میں بیٹا ہو یا وہ حسب رؤیا ر ہائی پا جائے تو اس واقعہ خاص میں اس کی تصدیق کرنی پڑے گی اور نہیں کہہ سکتے کہ وہ جھوٹا ہے.اسی طرح ایک مومن کو اگر خدا کی طرف سے کوئی مسئلہ سمجھایا جائے تو اس کے نفس کی تسلی کیلئے ایک حجت ہے.پس میں نے جب کبھی رو یا بیان کی تو یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ میرے دل کو تسلی ہے.مثلاً جلسہ سالانہ پر اور بعض اوقات میں ، میں نے اپنے خواب خلافت کے متعلق بیان کئے کہ دیکھو یہ خواب پورے ہوئے.اس وجہ سے میں اس جھگڑے میں نہیں گھبرایا کیونکہ میرے مولیٰ کی دی ہوئی تسلی میرے ساتھ تھی.میں نے یہ نہیں کہا کہ لوگو! تم مجھے خلیفہ مان لو کیونکہ میں نے خواب دیکھا ہے لیکن جب وہ خواب پورا ہو گیا اور عملاً اس کی تصدیق ہوئی تو پھر لوگوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ مانیں جبکہ اس کے ساتھ قرآن و حدیث و کتب حضرت مسیح موعود کے دلائل بھی ہیں.حضرت صاحب نے خوابوں کے تین اقسام لکھے ہیں مگر یہ بھی نہیں فرمایا کہ جب رؤیا میں تسلی دی جائے غیر مامور کو، تو وہ نہ مانے لَهُمُ البشری تو بتاتا ہے کہ تسلی کی باتیں مؤمن پر نازل ہوں گی اگر جس پر نازل ہوئی ہیں وہی یقین نہ کرے گا پھر ان کا نزول فضول ہے یہ رویا اولاً میری تسلی و اطمینان و استقامت کیلئے ہیں اور پورا ہو جانے پر دوسروں پر بھی مجت ہیں.میں نے رؤیا دیکھنے کے ساتھ ہی کبھی نہیں کہا کہ اسے مان لو.کیونکہ ایسا کہنا ما موروں کی شان ہے.

Page 481

خطبات محمود جلد ۴ ۴۷۲ سال ۱۹۱۹ ہاں ایسی باتوں پر جو ٹھٹھے کئے گئے ہیں مجھے ان سے بہت خوشی ہوئی ہے کیونکہ جیسا میں نے آیات قرآنی ابتدائے خطبہ میں پڑھی ہیں یہ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ کا نظارہ میرے سامنے ہے.ایک ایک اعتراض جو اس بارے میں مجھ پر کیا گیا ہے میں خدا کے فضل سے ثابت کر سکتا ہوں کہ یہی اعتراض تقریبا انہی الفاظ میں اسی نے مفہوم کے ساتھ غیر احمدیوں نے حضرت اقدس پر کئے.حضرت صاحب کو ایک رؤیا ہوئی کہ قرآن مجید میں نصف کے قریب دائیں طرف قادیان کا نام لکھا ہے.اب غیر احمدی اس پر ہنسی اُڑاتے ہیں اور حافظان قرآن سے شہادتیں دلوا دلوا کر اپنی مجلسوں میں کہتے ہیں کیوں بھئی ! قرآن کریم میں کہیں قادیان کا نام لکھا تم نے دیکھا ہے.نادان اتنا نہیں سوچتے کہ خوا میں انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتیں.جو خدا تعالی دکھائے انسان دیکھتا ہے اور جتنا خدا دکھائے اتنا ہی انسان دیکھ سکتا ہے.پس حضرت اقدس کے بارے میں ان لوگوں کا یہ کہنا کہ فلاں بات بھی خدا سے پوچھ لینی تھی ایک بے ادبی اور گستاخی ہے.ایسا ہی جماعت احمدیہ میں وہ شخص جو اپنے آپ کو راہ صداقت کا سب سے بڑا حامی سمجھتا ہے لکھتا ہے کہ مونہ در مونہہ بھی خدا نے آخر بات کی تو امر متنازعہ پر کوئی روشنی نہ ڈالی کہ نبوت کاملہ ہے یا جزوی حقیقی ہے یا مجازی اور آپ نے بھی اس جھگڑے کا علم ہونے کے باوجود دریافت نہ کر لیا اور ایسا عجیب موقع یونہی گنوا دیا.۵ یہ وہی اعتراض ہے جو غیر احمدی حضرت اقدس پر کیا کرتے تھے.میں جواب میں کہتا ہوں کہ جب میرا آقا، میرا سر دار نہ پوچھ سکا تو میں کیا ہوں اور کیا حیثیت رکھتا ہوں جو اس ذوالجلال کے دربار میں بڑھ کر بات کر سکتا.وہ قدسی نفس جس کی حضرت نوع سے لے کر ختم الرسل میک تمام انبیاء علیہم السلام نے خبر دی وہ تو یہ نہ کر سکا کہ جو چاہتا پوچھ لیتا تو میں اس کے غلاموں میں سے ادنی غلام ہوں.میں کیا حیثیت رکھتا ہے ہوں کہ وہاں بات کرتا.خدائے ذوالجلال کے دربار میں تو آنحضرت صلی سیستم جیسے خاتم کمالات انسانیت ایک مخلوق کی ہی حیثیت رکھتے ہیں وہ بے شک ہمارے آقا ہیں ، ہمارے سردار ہیں، ہمارے ہادی ہیں، ہمارے پیشوا ہیں ، ہمارے مولیٰ ہیں مگر اس بادشاہ کے حضور تو وہ بھی بڑھ کر بات کرنے کی مجال نہیں ہے رکھتے.تو میں جو غلاموں میں سے ادنی ترین غلام ہوں بھلا میں کیا کر سکتا تھا کہ یہ بات بھی مجھے بتاؤ اور یہ بھی کرو.دل بدل گئے ہیں ان میں خوف الہی کم ہو گیا ہے اور ایسے ایسے اعتراض

Page 482

خطبات محمود جلد ۴ ۴۷۳ سال ۱۹۱۵ ء پیدا ہو رہے ہیں جو اگلے راستبازوں کے مقابل میں ان کے منکرین کیا کرتے تھے.ایک طالب حق کیلئے سوچنے کی بات ہے کہ کیوں اس فریق کے دل میں جو چند روز ہوئے ہم ہی میں سے تھا ایسے اعتراض پیدا ہوتے ہیں جو حضرت اقدس کے مقابل میں ثناء اللہ اور غلام دستگیر اور چراغ الدین کو سوجھتے تھے.کیا یہ بھاری ثبوت نہیں اس کا کہ ان کے دل ان کے دلوں کے ساتھ مشابہ ہو گئے.مجھ پر اعتراض کرتے ہیں کہ خدا سے پوچھ لینا تھا اور یہ موقع ہاتھ سے گنوا دیا.کیا خدائے تعالیٰ میرا خادم ہے کہ جو میں چاہتا اُس سے پوچھ لیتا وہ تو میرا خالق و مالک ہے.اس نے اپنے فضل سے جو مجھے دکھا یا دیکھ لیا.میں تو کیا ہوں میں کہتا ہوں خاتم النبین، سید المرسلین ہوتے تو وہ بھی خود بڑھ کر نہ پوچھ سکتے.جس دربار عالی شان میں تمام انبیاء کے سردار کی ہمت نہ پڑے اس میں میں کیا جرات کر سکتا ہوں.قرآن شریف میں حکم ہوتا ہے کہ خبردار! وحی نازل ہو چکنے سے پہلے اس کیلئے کوئی جلدی نہ کر.وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُقْطَى إِلَيْكَ وَحْيُه : لَا تُحَرِّكَ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِه ، پس محمود بچارے کی کیا طاقت تھی کہ دم بھی مار سکے.اس کو تو ہوش ہی نہ تھاوہ ہے کیا.وہ تو بے جان کی مثال تھا اس بچارے نے کیا پوچھنا تھا.مولیٰ نے جو بتایا وہ سن لیا جو نہ بتایا اس کی مرضی پھر اس اعتراض کا کیا مطلب.لیکن خیر اس سے یہ تو سب کو معلوم ہو گیا کہ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ.دوسری بات یہ لکھی.دو آدمیوں کو آپ نے کہہ دیا تھا لَعْنَتُ اللهِ عَلَى الكَاذِبِينَ.وہ وه دونوں تو تباہ ہو رہے ہیں مگر خدا تو سارے دشمنان حق پر لَعْنَتُ الله عَلَى الْكَاذِبِین کہتا ہے وہ تو تباہ نہیں ہوتے اور معلوم نہیں تبا ہی آپ کے نزدیک کیا معنے رکھتی ہے...اگر مال یا جان کا نقصان آپ کی مراد ہے تو اللہ تعالیٰ تو مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ ہے وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ یہ بھی وہی بات ہے جو غیر احمدیوں کے منہ سے بار ہاسن چکے ہیں جب کسی کی نسبت حضرت اقدس نے لکھا کہ وہ طاعون سے مرے گا تو اس نے جھٹ شائع کیا کہ طاعون سے مرنا تو شہادت ہے پس یہ تباہی کیا ہوئی.اور جب یہ کہا گیا کہ ہیضہ سے مرے گا تو غیر احمد یوں

Page 483

خطبات محمود جلد ۴ ۴۷۴ سال ۱۹۱۵ سے جواب ملا المَبْطُونُ شَھید اور جب پیشگوئی کی زد میں آکر کسی کے مال و جان کا نقصان ہوا تو اس نے جھٹ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوع پڑھ دیا.الغرض معترض کا یہ اعتراض تو ثبوت ہے كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِثْلَ قَوْلِهِمْ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ کیونکہ حضرت صاحب نے جب لکھا جو میرے مقابلہ میں اٹھا وہ تباہ ہوگا یا ذلیل ہو گا تو ان کا مخالف بھی یہی پکار اٹھا تھا کہ اس کی خبر تو پہلے ہی سے قرآن مجید میں ہے جو جواب اُس وقت دیا گیا تھا وہی میری طرف سے سمجھ لیا جائے.باقی یہ کہنا کہ خدا نے لَعْنَتُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِین کہا اور تباہ نہیں ہوئے یہ تو خدا پر اعتراض ہے میرا ایمان تو یہ ہے کہ خدا نے جن پر لعنت کی وہ ضرور تباہ ہوئے مگر اس تباہی کے دیکھنے کیلئے آنکھیں چاہئیں دیکھنے والی آنکھیں تو ان کی تباہی دیکھ رہی ہیں.آنحضرت صلی ا ستم کے مخالف کہتے ہیں کہ ہم تو زندہ ہیں مگر چشم بینا انہیں تباہ دیکھتی ہے.حضرت صاحب کے مخالف بھی کہتے ہیں ہم ابھی تک قائم ہیں مگر ایک احمدی کی نظر میں وہ تباہ ہو چکے ہیں.تیسری بات یہ کھی ہے کہ ہمارے مقابلہ میں الہام ہوتے ہیں خواب آتے ہیں مگر آریوں اور عیسائیوں کیلئے ایسا نہیں ہوتا.یہ بھی وہی اعتراض ہے جو حضرت اقدس پر غیر احمدیوں کی طرف سے بار ہا ہوا کہ ہماری تباہی کی خبریں دیتے ہو جو کلمہ پڑھتے ہیں، نمازیں ادا کرتے ہیں، روزے رکھتے ہیں اور دنیا میں ہزاروں رسول اللہ صلی یا یہ تم کو گالیاں دینے والے اور توحید کے نہ ماننے والے موجود ہیں.پس یہ بھی ثبوت ہے گكَذلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِثْلَ قَوْلِهِمْ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ کا.مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا تم مامور ہو جو ایسی تحر یاں کرتے ہو اور اپنے رویا شائع کرتے ہو.میں کہتا ہوں میں مامور نہیں مگر ہر مومن کی حیثیت کے مطابق اس کی صداقت کیلئے نشان دکھایا جاتا ہے.مجھے بڑائی کا کوئی دعویٰ نہیں میں تو خدا کی ایک ادنی مخلوق ہوں اب بھی میرا مولی جو فضل مجھ پر نازل کرے اسے میں کیوں چھپاؤں (آما بِنِعْمَتِ رَبِّكَ فَحَيّت) و میں وہی محمود ہوں جو آج سے دو سال پہلے تھا کیا اُس وقت اس تحدی و اعلان سے میں نے کبھی شائع کیا تھا کہ میرے لئے خدا نے یہ نشان دکھایا اور میں نے یہ خواب دیکھا جو یوں پورا ہوا.اور کیا اُس وقت میری ایسی تائید ہوئی جواب ہو رہی ہے.پس اب جو میں ایسا کرتا ہوں تو اس لئے نہیں کہ میری بڑائی ظاہر ہو بلکہ سلسلہ کی صداقت کے اظہار کیلئے.جب ان باتوں سے مسیح موعود کی صداقت ظاہر ہوتی ہے اور خدا میری تائید پر

Page 484

خطبات محمود جلد ۴ ۴۷۵ سال ۱۹۱۵ء تائید کر رہا ہے تو اس پر جس قدر خوشی میں مناؤں میرا حق ہے، کیونکہ اس سے میری نہیں بلکہ مسیح موعود کی بلکہ آنحضرت سلایا یتیم بلکہ خدا کے کلام کی صداقت ظاہر ہوتی ہے.خدا جو کچھ دکھا رہا ہے وہ سلسلہ کے بڑھانے کیلئے دکھا رہا ہے.پس میں کا فرنعمت ہوں گا اگر اس نعمت کو دنیا پر ظاہر نہ کروں اور اسے لوگوں سے چھپاؤں.میں بیشک مامور نہیں مگر مامور کا خادم، مامور کا غلام ضرور ہوں.میرا مولیٰ میرے لئے نہیں بلکہ اس نبی کیلئے کر رہا ہے جو کچھ کر رہا ہے.وہ تو میرے ذریعے سے کسی نشان کے ظاہر ہونے پر اظہار تعجب کرتے ہیں.میں نے تو دیکھا ہے کہ ایک غریب سے غریب احمدی ہے جو قرآن شریف بھی نہیں پڑھ سکتا جب لوگوں نے اسے دکھ دیا اور بے حد ستایا تو وہ خدا کے حضور چلایا تو خدا نے اس کے دشمنوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے.اب کیا وہ مامور تھا ؟ مامور تو نہیں تھا مگر خدا کو اپنے سلسلہ کی صداقت کا پاس تھا اس نے نشان دکھایا.وہ ماموروں کے ساتھ ماموروں کی حیثیت کے مطابق سلوک کرتا ہے اور میرے ساتھ میری حیثیت کے مطابق.غیر مامور ہونے کے یہ معنے نہیں کہ خدا تعالیٰ حق کے مؤید کی کبھی تائید نہ کرے.ان ماموروں کی تائید بڑے پیمانہ پر ہوتی ہے، پھر اس کے بعد خدا ہر مومن کی تائید کرتا ہے.میرے ہاتھ میں خدا نے سلسلہ کی باگ دی تو میری تائید کیوں نہ کرے.میری صداقت میں جو درحقیقت سلسلہ کے بانی کی صداقت ہے ) نشان کیوں نہ دکھائے.میں اگر یہ دعوی کروں کہ میری ایسی تائید ہوتی ہے جیسی نبیوں کی تب کچھ اعتراض ہو سکتا ہے.میرا دعویٰ تو یہ ہے کہ خدا میری تائید میں وہ نشانات دکھاتا ہے جو ایک مومن کیلئے اس کی برگزیدہ جماعت کے منتظم و امیر کیلئے دکھایا کرتا ہے.پس اس زمانے میں اس جماعت کی ضروریات کے پورا کرنے کیلئے جس قدر تائید کی ضرورت ہے وہ میری ضرور فرمائے گا تا ثابت ہو کہ یہ جماعت ایک مامور کی جماعت ہے.خیران اعتراضوں سے ہمیں یہ خوشی ہے کہ یہ وہی اعتراض ہیں جو پہلے منکروں نے آنحضرت ملا کہ تم پر پھر حضرت مسیح موعود پر کئے.ہمیں ان راستبازوں سے مشابہت ہوگئی اور ہمارے مخالفوں کو ان راستبازوں کے مخالفوں سے.یہ کہنا کہ خدا نے لَعْنَتُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ کہا اور مخالفین تباہ نہ ہوئے نہایت نادانی ہے کیونکہ رسول اللہ صل اسلام کے ذریعے فَنَجْعَل لَّعْنَتُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ کا اعلا بتا تا ہے کہ اس نشان کے ذریعہ خدا تعالیٰ آپ کی وجاہت ثابت کرنا چاہتا ہے، جبھی آر سے یہ فقرہ نکلوایا.خدا کی سنت ہے جب مقابلہ کیلئے حق و باطل کے دو فریق باہم متقابل ہوں تو

Page 485

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۵؛ حق کی تائید میں فوری نشان دکھاتا ہے.پس فرق ہے اس عام لَعْنَتُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ اور اس خاص موقع پر لَعْنَتُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِ بین کہلانے میں.کیونکہ اس عام وعید کے مطابق جو نشان ظاہر ہو وہ مخالفین پر مجتت ملزمہ ہو کر اس خاص بندے کی صداقت کو ایسا ثابت نہیں کرتا کہ وہ اس کے قائل ہی ہو جائیں اور اس طرح پر جب پہلے اپنے بندے کے منہ سے یہ فقرہ نکلواتا ہے اور پھر اس کا دشمن تباہ ہوتا ہے تو اس بندے کی صداقت خاص طور پر ثابت ہوتی ہے.اگر جھوٹے کی تباہی خود بخود ہو جاتی ہے اور اس کیلئے کسی مباہلہ کی ضرورت نہیں تو پھر انسان دعا بھی نہ کرے محض اس لئے کہ کیا خداد یکھتا نہیں.پھر نماز کی بھی ضرورت نہ ہوگی محض اس لئے کہ وہ دلوں کی عاجزی کو خوب دیکھتا ہے.دیکھوخدا نے فرمایا لعنت الله عَلَى الكَاذِبِينَ پھر باوجود اس کے آنحضرت سلیم کی زبان سے یہ فقرہ نکلوایا.پھر مسیح موعود سے یہ فقرہ کہلوایا یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ بندوں کا کہنا بھی ایک اثر رکھتا ہے.جب ظلم رسیدہ پکارتا ہے تو وہ اس کی سنتا ہے اور اس کے دشمنوں کو فوری تباہی کا شکار بنا تا ہے.غرض یہ بات جو کہی گئی ہے تو مباہلہ سے بھاگنے کا ایک بہانہ ہے.ان کا دل خوب جانتا ہے کہ اگر مقابلہ میں آئے تو وہ ضرور ہلاک ہوں گے.پس وہ عذر تراشتے ہیں اور اب کہتے ہیں کہ یہ پیر کا بیٹا ہے اس لئے ہم مباہلہ نہیں کرتے ہیں.کیا خواجہ کمال الدین نے مجھے کافر اور یزید بنایا تو اس وقت میں پیر کا بیٹا نہیں تھا.پھر پیغام میں لکھا گیا ہے کہ کیا مسلمانوں کو کافر کہہ کر کافر بن جانے والے کی بیعت جائز ہے.یوں مجھے کفر کا مرکز ٹھہرایا.پھر مجھے جھوٹا اور شرک کا بانی کہا گیا.کا ذب تو بہت سے کافروں اور مشرکوں سے ادنیٰ ہوتا ہے.جب کفر و شرک کی لعنت میرے سر پر ڈالنے کیلئے تیار ہوتے ہیں اس وقت تو یہ تعلق ان کو بھول جاتا ہے مگر مباہلہ کے وقت یہ تعلق یاد آجاتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ اس نے حق کا رعب ان کے دلوں میں ڈال دیا ہے ان کے دل خوب سمجھتے ہیں کہ سامنے آئے اور ہمارے جھوٹے دعوؤں کی سزا ہم کو ملی.پانچویں بات یہ لکھی ہے کہ ہم نے ابھی مخالفت نہیں کی تھی اور ہمارے لئے ليُمَةِ قَتَهُمْ کا الہام پورا ہو گیا.میں کہتا ہوں جس طرح حضرت صاحب کو ابتداء ہی میں یہ الہام ہو گیا ” بڑے زور آور حملوں سے اسی طرح مجھے بھی خدا نے خبر دی.جیسا حضرت کے الہام کے بعد غیر احمدی کم ہوتے گئے اور احمدی بڑھتے گئے اسی طرح میرے الہام کے کی

Page 486

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۵ بعد غیر مبائعین کم ہوتے گئے اور مبائعین بڑھتے گئے.ليُمَةِ قَنَّهُمْ کے یہی معنے ہیں کہ ان کی جماعت کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے اور وہ کٹ کر ہم میں شامل ہو جائیں گے.جو الہام پورا ہو چکا ہے اس کی تصدیق کی بجائے اس پر اعتراض تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ کی تصدیق ہے.یہ اعتراض تو وہ کرتے ہی رہیں گے.ہماری جماعت کیلئے ضرورت ہے کہ وہ اپنے تبلیغی کاموں میں جو اصل مقصد ہے اس سلسلہ کا لگ جائے اور مصروف رہے اور اس میں جو روک ڈالتے ہیں ان کیلئے خدا کی جناب میں فریاد کریں.ایک قصہ لکھا ہے.کسی بزرگ نے اپنے شاگرد سے پوچھا.تمہارے علاقہ میں شیطان ہوتا ہے اس نے کہا ہوتا ہے.پوچھا اس سے پیچھا چھڑانے کیلئے کیا کرو گے.عرض کیا اس کو دھتکاروں گا.فرمایا اگر پھر بھی وہ پیچھا نہ چھوڑے.عرض کیا کہ پھر ایسا ہی کروں گا.فرمایا اگر پھر بھی وہ ایسا ہی کرے.اس پر وہ شاگرد خاموش ہو گیا.اس بزرگ نے تمثیل میں سمجھایا کہ دیکھو تم کسی دوست کو ملنے جاؤ اور اس کا کتا تمہیں کاٹنے کیلئے حملہ کرے تو کیا کرو گے اس نے کہا اسے دھتکار دوں گا.فرمایا اگر پھر بھی وہ حملہ سے باز نہ آئے عرض کیا کہ پھر میں اسے ماروں گا.فرمایا اگر پھر بھی تمہاری ایڑی نہ چھوڑے.عرض کیا کہ پھر میں گھر کے مالک کو پکاروں گا اور وہ مجھے اس سے چھڑائے گا.اس بزرگ نے کہا کہ بس یہی شیطان سے پیچھا چھڑانے کا گر ہے.جب تم اپنی کوشش سے کچھ نہ کر سکو تو اس دنیا کے مالک الله جَشَانُهُ) کو پکارو کہ وہ تمہیں شیطان سے بچالے.پس ہم بھی جب تبلیغ کی طرف توجہ کرتے ہیں اور اپنے کام میں لگتے ہیں تو پیچھے سے ہماری ایڑیاں پکڑنے والے ( ایسا کہنے میں.میں اس لئے حرج نہیں دیکھتا کہ ان کے بڑے نے میرے مخلصین کو اِن تَحْمِلُ عَلَيْهِ يَلْهَت' کہہ کر صاف الفاظ میں کہتے کہا ہے ) آجاتے ہیں اور ہمیں اپنی طرف متوجہ کر کے اصل مقصد میں روک ڈالتے ہیں.اس کا علاج یہی ہے کہ گھر کے مالک سے سلسلہ کے خالق سے فریاد کی جائے اور اسے آواز دی جائے کہ تو آپ ان کیلئے کافی ہوا اور ہمیں اپنے دین کی خدمت کیلئے فارغ کر دے.تمہارے لئے بہت بڑا کام ہے ساری دنیا کو توحید کے مرکز پر لانا ہے اور دین اسلام سمجھانا ہے.پس تم ہمہ تن اس اہم کام میں لگ جاؤ اور دعائیں کرتے رہو.ہماری جماعت میں اب تک یہ بات پیدا نہیں ہوئی کہ وہ جس کام میں لگیں اس پر جم جائیں.میں دیکھتا ہوں کہ

Page 487

خطبات محمود جلد ۴ ۴۷۸ سال ۱۹۱۵ء پھر غفلت آجاتی ہے حالانکہ چاہیئے یوں کہ غفلت قریب پھٹکنے نہ پائے.پس احمدیت کا ایک جنون ہو.اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے اسی کا خیال اسی کی دُھن ہو.تم خالی اپنے مخالف سے نمٹ نہیں سکتے.اس کے لئے اپنے مولیٰ کے حضور فریاد کرو.خدا تعالیٰ ساری دنیا کو صراط مستقیم پر قائم کرے اور لوگوں کی بد اعتقادیوں اور بدعملیوں کو دور کر دے.قرآن شریف کی اطاعت کے ماتحت چلائے.اور وہ صداقت جو مسیح موعود لائے ہمارے ذریعے سے پھیلے.ہم پھیلانے والے ہوں اور ایک جہان قبول کرنے والا.اور ہم کبھی اس بات پر نہ چلیں جو حق سے دور ہو اور منشائے الہی کے خلاف ہو.(الفضل ۲۱.اکتوبر ۱۹۱۵ء) ل البقرة : ١١٩ سنن ابن ماجه کتاب الاذان باب بدء الاذان ک یونس: ۶۵ پیغام صلح لاہور ۵.اکتوبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۷ کالما ظه: ۱۱۵ ك القيمة: 1 پیغام ۵ اکتوبر ۱۹۱۵ء صفحه ۸ کالم ( آیت کا حوالہ: البقرۃ:۱۵۶) الضُّحى: ١٢ ا الاعراف: ۱۷۸

Page 488

خطبات محمود جلد ۴ ۴۷۹ (۸۷) ترجمۃ القرآن انگریزی کی اشاعت کیلئے تحریک (فرموده ۲۲ اکتوبر ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء تشهد تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولى الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ الله بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فَضَّلَ اللهُ الْمُجْهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَعِدِينَ دَرَجَةً وَكُلًّا وَعَدَ اللهُ الحُسْنَى وَفَضَّلَ اللهُ الْمُجْهِدِينَ عَلَى الْقَعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا خدا تعالیٰ نے انسان کو دو قسم کی نعمتیں دی ہیں.ایک وہ جو اس کے نفس سے تعلق رکھتی ہے اور اس کے جسم میں موجود ہیں.ان کا مورد خود انسان کی جان اور نفس ہوتا ہے.اور ایک وہ ہیں جو انسان کے اردگرد اس کے آرام کیلئے پیدا کی ہیں.مثلاً چاند، سورج، پانی ہوا وغیرہ اور اندرونی نعماء میں سے ہاتھ چیز کو پکڑتا ہے اور منہ میں رکھتا ہے اور منہ اندر لے جاتا ہے پھر معدہ اسے ہضم کرتا ہے اور جو حصہ مفید جسم ہوتا ہے پھیل جاتا ہے پس یہ دو قسم کی نعمتیں ہوئیں.غرض دونوں نعمتوں کے سلسلے انسان کے ساتھ جاری ہیں ایک اس کے نفس میں اور ایک باہر.جو نعمت بیرونی طور پر پائی جاتی ہے اس کے مقابلہ میں انسان کے اندر بھی اللہ تعالیٰ نے ایک چیز رکھ دی ہے.مثلاً پھلوں ، ترکاریوں اور کھانے وغیرہ کی چیزوں میں ایک مزہ رکھا ہے تو اس کے مقابل انسان کو جو زبان دی ہے اس میں قوت ذائقہ رکھ دی ہے.اگر یہ چیزیں پیدا کر دی جاتیں

Page 489

خطبات محمود جلد ۴ ۴۸۰ سال ۱۹۱۵ اور زبان میں قوت ذائقہ نہ رکھی ہوتی تو یہ چیزیں بالکل بے فائدہ ہوتیں.ایسے ہی اگر زبان میں قوت ذائقہ نہ رکھی ہوتی اور ان چیزوں میں لذت رکھی جاتی تو یہ لذت بالکل بے فائدہ ہوتی.اسی طرح ناک میں سونگھنے کی قوت رکھ دی اور اس کے مقابل میں سونگھنے والی اشیاء کو پیدا کر دیا.اگر سونگھنے کی قوت رکھ کر یہ چیزیں نہ پیدا کی جاتیں تو ناک میں اس قوت کا رکھنا بالکل بے فائدہ ہوتا.اور اگر ناک کے اندر یہ قوت نہ رکھی جاتی اور ان چیزوں کو پیدا کر دیا جاتا تو بھی اس کا پیدا کرنا بے فائدہ ہوتا.پس اندرونی نعمت کے زائل ہونے کے ساتھ بیرونی اور بیرونی کے زائل ہونے کے ساتھ اندرونی بھی زائل ہو جاتی.اس انتظام کی مثال ریل کی دولائنوں کی طرح ہے جو بالمقابل جاتی ہوں.الغرض کوئی قوت نہیں جس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ نے اس کے استعمال کیلئے اسباب پیدا نہ کئے ہوں.بیرونی نعمتیں مختلف صورتوں کی ہیں.کبھی دولت کی صورت میں کبھی زمینوں کی صورت میں کبھی حکومت کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے انعام دو قسم کے ہیں لہذا ان کا شکر یہ بھی دو ہی طرح ہو سکتا ہے.جو نعمتیں انسان کے نفس کیلئے پیدا کی گئی ہیں ان کا شکریہ انہی نعمتوں کے خرچ کرنے سے ادا ہو سکتا ہے جو انسان کے اندر پیدا کی گئی ہیں اور بیرونی نعمتوں کا شکر یہ اسی طرح ادا ہو سکتا ہے کہ وہ نعمتیں جو انسان کے آرام کیلئے اس کے نفس کے باہر پیدا کی گئی ہیں ان کو خرچ کیا جائے لیکن بہت سے لوگ اس نکتہ کو نہ سمجھ کر اگر خدا تعالیٰ کے راستہ میں مال خرچ کرتے ہیں تو جان نہیں خرچ کرتے اور بعض جان خرچ کرتے ہیں مگر مال خرچ نہیں کرتے لیکن مومن دونوں قسم کے انعاموں کے شکریے ادا کرتا ہے.مسلمانوں کی عبادتیں بھی ایسی ہی ہیں.مثلاً نماز ہے اس میں انسان کا جسم مشغول ہوتا ہے.پس یہ اندرونی نعمتوں کے شکریہ کا ایک ذریعہ ہے.اور اسکے برخلاف زکوۃ بیرونی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے کا ایک ذریعہ ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو تمام قسم کی نعمتوں کے خرچ کرنے کا حکم فرمایا ہے حتی کہ مذہب حق کی نعمت کے بدلہ میں حکم فرمایا ہے کہ چونکہ ہدایت کی نعمت تمہیں ملی ہے تم اور وں کو ہدایت دو جیسا کہ فرمایا وَلتَكُن مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.غرض ہر ایک نعمت کا شکر یہ اسی رنگ کے انفاق سے ہو سکتا ہے.چنانچہ جو آیت میں نے.ابھی پڑھی ہے اس میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ جو خدا کے

Page 490

خطبات محمود جلد ۴ ۴۸۱ سال ۱۹۱۵ مقرب بندے ہوتے ہیں وہ اپنے اموال اور اپنی جانوں دونوں نعمتوں کو خدا تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کرتے ہیں.پس انسان میں جب تک یہ دونوں باتیں جمع نہ ہوں وہ کامل مجاہد نہیں بنتا.صحابہ کرام کو جب ہم دیکھتے ہیں تو ان کی زندگی میں یہ نمونہ پاتے ہیں.ہماری جماعت کے لوگ اموال خرج کرنے میں تو خدا کے فضل سے بہت حصہ لیتے ہیں لیکن اَنفُسِهِمْ کی طرف بہت کم توجہ ہے.صحابہ کی یہ حالت تھی کہ وہ اپنا مال و جان خدا تعالیٰ کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لا کر رکھ دیتے تھے اور جنگوں کے وقت بھی وہ سب سے آگے دکھائی دیتے تھے.حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم اسی کوسب سے بہادر سمجھتے تھے جو نبی کریم صلی ایم کے پاس اور آپ کے اردگر در ہا کرتا تھا اور ہمیشہ آپ کے کے پاس حضرت ابوبکر رہتے تھے بات یہ ہے کہ دشمن ہمیشہ یہی چاہتا ہے کہ پہلے جرنیل کو مارا جائے اور اسی جگہ دشمن کے زیادہ حملے ہوتے ہیں اور وہیں اس کا زیادہ زور ہوتا ہے.ان زبر دست حملوں کو روکنے کیلئے بڑی بہادری کی ضرورت ہوتی ہے اور جرنیل کی حفاظت کرنے والا اور اس کے اردگر درہنے والا ہی ہمیشہ بہادر سمجھا جاتا ہے ہے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت عمر نے چاہا کہ ابوبکر سے بڑھ جائیں اور جس قدر مال ان کے پاس آیا تھا اس کا نصف حضرت نبی کریم صلی یتیم کے سامنے لا کر رکھ دیا اور انہوں نے یہ خیال کیا کہ بس اب میں ابوبکر سے بڑھ گیا ہوں.لیکن جس وقت حضرت ابوبکر بھی جو کچھ گھر میں موجود تھا لے آئے تو نبی کریم نے عمرہ سے پوچھا.عمر تو نے اپنے گھر میں اپنے اہل وعیال کیلئے کیا چھوڑا ہے؟ انہوں نے جواب میں کہا.یا رسول اللہ ! نصف گھر چھوڑ آیا ہوں اور نصف حضور کے پاس لے آیا ہوں.ابوبکر سے پوچھا کہ تم کیا لائے ہو؟ اور گھر والوں کیلئے کیا چھوڑا ہے.تو آپ نے جواب دیا یا رسول اللہ ! جو کچھ گھر میں موجود تھا سب کچھ حضور کی خدمت میں حاضر ہے ۳.ان دونوں روایتوں کو ملا کر معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص اپنے مال کے انفاق میں دوسرے لوگوں پر فوقیت رکھتا تھا اپنی جان کے انفاق میں بھی سب سے آگے تھا.الغرض ان لوگوں نے خدا کیلئے جان بھی خرچ کی ، مال بھی خرچ کیا، خدا کے راستے میں لڑے بھی.وہ صرف اس بات کو کافی نہ سمجھتے تھے کہ ہم نے روپیہ خرچ کر دیا یا صرف لڑائی کو ہی کافی سمجھتے نہیں بلکہ وہ دونوں چیزوں کو خدا کیلئے خرچ کرنا ضروری سمجھتے تھے.اسی لئے تو خدا تعالیٰ نے ان کو کامل مجاہد کہا اور اس آیت کے مصداق بنایا ہے.یہی وہ بات تھی جس کے معت ابلہ میں

Page 491

خطبات محمود جلد ۴ ۴۸۲ سال ۱۹۱۵ء خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کو رحمت اور نعمت کے درجات ملے.پس ہماری جماعت کو بھی ان دونوں باتوں کی طرف توجہ کرنی چاہئیے.احمد یہ جماعتوں میں سے ایک جماعت ایسی ہے جو چندہ دینے میں سب سے آگے ہے لیکن تبلیغ کرنے میں سست ہے.میں نے ایک دفعہ اسی جماعت کے ایک دوست کو لکھا کہ آپ کی جماعت ذمیوں کی جماعت ہے کیونکہ ذمی ٹیکس ادا کر کے جہاد کی خدمت سے آزاد ہو جاتے تھے لیکن مسلمانوں کو زکوۃ اور چندوں کے علاوہ جانیں بھی خرچ کرنی پڑتی تھیں.پس اس جماعت میں اسلامی رنگ پیدا کرنے کی کوشش کریں.یہ نقص ہماری جماعت کے ایک خاص حصہ میں پایا جاتا ہے.لیکن خوب یادرکھنا چاہیئے کہ اگر ہم ایک نعمت کا شکر یہ ادا کرتے ہیں اور ایک دوسری نعمت کا شکریہ ادا نہیں کرتے تو ہمارا شکر یہ نامکمل اور ناقص ہے.ایسے شخص کی مثال اس شخص کی طرح ہوگی جو آدھا گر تہ پہنتا ہے.آدھا گر تہ پہنے والا انسان اپنے سارے جسم کو کیونکر ڈھانپ سکتا ہے.اس کا بدن تو ننگا ہی رہے گا.الغرض میرے اس خطبہ سے یہ مراد ہے کہ اگر تم مال خرچ کرتے ہو تو اسی کو کافی نہ سمجھو بلکہ جان کو بھی خرچ کرو.مال دینے والے یہ خیال نہ کریں کہ بس ہم نے مال دے دیا ، جان دینے کی ضرورت نہیں.وہ اپنے آپ کو ذقی نہ بنائیں بلکہ اپنی جان کو خدا کیلئے لڑا ئیں.جو مال دیں گے ان کے ویسے ہی ہے گناہ جھڑ جائیں گے اور جان دیں گے ان کے اسی قسم کے گناہ جھڑیں گے.جو انعام خدا تعالیٰ نے انسان کے اندر رکھے ہیں ان کا شکریہ ادا کریں اور خدمت دین کریں.غرباء یہ نہ خیال کریں کہ ہم نے جان دے دی ہے، مال دینے کی ضرورت نہیں وہ مال دینے کی طرف متوجہ ہوں.اگر ایک غریب کو خدا تعالیٰ ایک سیر دانے دیتا ہے تو اسے چاہیئے کہ اسی میں سے تھوڑا سا دے دے اس کا تھوڑا سا دینا بھی خدا تعالیٰ کے نزدیک ہزار روپیہ کے برابر ہے.ایک دفعہ حضرت مولوی صاحب مغفور درس فرما رہے تھے تو اس قسم کی ایک آیت تھی.میں نے اُسی وقت انصار اللہ کو لکھا کہ جب تم نے جان کو خدمت دین کے لئے دے دیا ہے تو مال کو بھی خدا تعالیٰ کیلئے خرچ کرو.اس میں کیا شک ہے کہ جو احمدیت میں داخل ہوتا ہے وہ انصار اللہ میں شامل ہوتا ہے.پس ہر ایک کو چاہئیے کہ اس وقت اپنی جان اور مال خرچ کرے.اس وقت جان خرچ کرنے کے یہ معنے نہیں کہ ظاہری جنگیں کی جائیں تلوار کی جنگ دین کیلئے کرنی اب قطعا حرام ہے.لہذا جو شخص اس زمانہ میں خدمت دین کیلئے جوش میں کفار پر تلوار اُٹھاتا ہے اس کی مثال اس شخص کی ہے جو خدمت دین کے جوش میں

Page 492

خطبات محمود جلد ۴ ۴۸۳ سال ۱۹۱۵ء اپنے آپ کو آگ میں ڈال دے.پس اس وقت جہاد تلوار سے جائز نہیں بلکہ امن کے ذرائع سے جہاد کرنا چاہئیے.خدمت دین کا تمہارے دلوں میں جوش ہو تو لوگوں کی ہدایت کیلئے کوشش کرو.صحابہ نے جب تک لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحمد رسُولُ الله کو چاروں کونوں تک نہیں پہنچادیا آرام نہیں لیا.اسی طرح آخرین منهم کہنے والے کھڑے ہو جائیں اور حضرت مرزا صاحب (علیہ الصلوۃ والسلام) کی صداقت کو دنیا دوو.کے سامنے ثابت کر دکھا ئیں اور دلائل سے تمام دنیا کو مغلوب کر لیں اور ان کو نیچا دکھا ئیں.اس وقت اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا موقع نکالا ہے کہ ہماری جماعت کے مخلصین جانی جہاد میں بھی حصہ لے سکتے ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے قرآن شریف کا انگریزی ترجمہ بہت جلد چھپ کر شائع ہونے والا ہے.عربی ٹیکسٹ کا ایک حصہ تو تیار ہو چکا ہے اور انگریزی پروف بھی تیار ہورہے ہیں.خدا تعالیٰ نے پہلے سیپارہ کیلئے روپیہ کا سامان اپنے فضل سے اپنے پاس سے ہی کر دیا ہے اور اس کیلئے کسی چندہ کی تحریک کی ضرورت ہمیں پیش نہیں آئی.میرا خیال ہے کہ ایک سیپارہ جب فروخت ہو جائے تو اسی کی آمد سے دوسراسیپارہ چھاپ دیا جائے.اس طرح جماعت پر بوجھ نہ پڑے گا.جس کے سامنے ابھی اور بہت سے کام ہیں اور ترجمہ قرآن کریم پر جس قدر روپیہ خرچ ہوگا اس کا برداشت کرنا ان تمام تبلیغی اخراجات کے ہوتے ہوئے جو اس وقت ہماری جماعت کر رہی ہے مشکل معلوم ہوتا ہے.اندازاً اڑھائی لاکھ روپیہ اس قرآن پر خرچ ہوگا صرف چھپوائی کا خرچ سوالاکھ روپیہ ہے.پس یہی طریق بہتر ہے کہ ایک ایک سیپارہ کر کے اسے شائع کیا جائے اور اسی کی اشاعت میں ہمارے دوست جانی جہاد کا ثواب حاصل کر سکتے ہیں.اب تک جو کتب ہماری طرف سے شائع ہوئی ہیں وہ ہماری ہی جماعت کے لوگ خریدتے رہے ہیں.لیکن اس طریق سے اس قدر فائدہ نہیں ہوتا جو اس طرح ہو سکتا ہے کہ لوگ ان کتب کو خریدیں.کیونکہ جو کتاب ان لوگوں تک پہنچی ہی نہیں جن کیلئے لکھی گئی تھی تو ان کو نفع کیا ہے پہنچائے گی.پس دنیا کو نفع پہنچانے کا یہی طریقہ ہے کہ اس تک صداقت پہنچائی جاوے.اس کا ایک طریق تو مفت اشاعت ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ جن لوگوں کو مفت کتاب دی جائے پڑھتے نہیں.پس یہ طریق درست نہیں.دوسرا طریق یہ ہے کہ غیروں کے پاس کتا بیں قیمتا فروخت کی جائیں اس طرح یہ فائدہ ہوگا کہ جو لوگ قیمت دے کر کتاب لیں گے ان میں سے اکثر اسے پڑھیں گے

Page 493

خطبات محمود جلد ۴ ۴۸۴ سال ۱۹۱۵ء بھی.پس ایک تو تبلیغ ہو جائے گی دوسرے یہ بھی فائدہ ہوگا کہ جماعت پر ترجمہ کے اخراجات کا بوجھ نہ پڑے گا.اگر ہماری جماعت ہی ترجمہ کو خرید لے تو یہ ایسی ہی بات ہوگی جیسے کوئی شخص رو پیا اپنی ایک جیب سے نکال کر دوسری میں ڈال دے.تو اس کی ایک جیب میں روپیہ تو پڑ جائے گا لیکن وہ شخص زیادہ مال دار نہیں ہو جائے گا.میں جانتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اگر اپنی جماعت کے لوگوں کو میں کہوں تو فوراً خواہ اپنی جائیدادیں ہی بیچ کر ان کو ایسا کرنا پڑے سب سیپاروں کو خرید لیں گے لیکن اس کا لازمی نتیجہ دوسرے چندوں پر پڑے گا.بے شک چندہ غیروں سے بھی لیا جا سکتا ہے لیکن میں اسے پسند نہیں کرتا.اوپر کا ہاتھ نچلے ہاتھ سے اچھا ہوتا ہے یوں تو بعض دفعہ ہندو بھی چندہ دے دیتے ہیں لیکن وہ اور رنگ ہے خود مانگنا مجھے نہایت نا پسند ہے.جو لوگ مانگنے جاتے ہیں وہ دوسروں سے دبتے بھی ہیں.لیکن ہم اپنا ایمان قرآن کریم کی چھپوائی کیلئے بیچ نہیں سکتے.اس ترجمہ نے لوگوں کو کیا ایمان کی طرف لانا ہے جس کیلئے چھپوانے والے نے اپنا ایمان فروخت کر دیا.پس غیروں سے چندہ ہم مانگ نہیں سکتے.ہاں اپنا مال فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں.آخر فرداً فرداً احمدی تاجر اپنے اسباب دوسروں کے پاس فروخت کرتے ہی ہیں.پس سب سے بہتر طریق یہی ہے کہ انگریزی ترجمہ جہاں تک ہو سکے ہندوستان میں ہر ایک مذہب وملت کے لوگوں کے پاس فروخت کیا جائے تاکہ ایسا نہ ہو کہ دوا طبیب کے ہی گھر میں پڑی رہے اور تا جماعت پر بھی بوجھ نہ پڑے.اگر پانچ ہزار سیپارہ ہندوستان میں فروخت ہو جائے تو ہم ہزاروں کی تعداد میں یورپ میں لائبریریوں کو مفت بھیج سکتے ہیں جس کے ذریعہ سے کروڑوں انسانوں کو ہدایت ہو سکتی ہے اور اگلے سیپارہ کے چھپوانے کا خرچ بھی نکل سکتا ہے.اس مدعا کو پورا کرنے کیلئے میرا خیال ہے کہ پچاس یا سومخلص احمدی فرداً فرداً اور اسی قدر جماعتیں اپنے آپ کو پیش کریں جو اپنے اپنے شہر میں سو یا پچاس نسخہ ہر ایک مذہب وملت کے لوگوں میں کوشش کر کے فروخت کریں.بعض شہروں کے لوگ اگر چاہیں تو سینکڑوں کی تعداد میں فروخت کر سکتے ہیں.مثلاً لا ہور ہی ہے وہاں ہزار ہا تعلیم یافتہ لوگ موجود ہیں جو حق کے جو یاں ہیں اور ان کے دلوں میں تعصب نہیں.جو شخص اس معاملہ میں کوشش کرے گا اسے قرآن کریم کی اشاعت کا ایک بہت بڑا ثواب ملے گا اور اس نے کے ذریعہ سے جو لوگ ہدایت پائیں گے یا جن لوگوں کے دل سے تعصب دور ہوگا اور ان کے دلوں

Page 494

خطبات محمود جلد ۴ ۴۸۵ سال ۱۹۱۵ء میں اسلام کی عظمت پیدا ہوگی اس کا پورا ثواب ان کو بھی ملے گا اور مالوں کے ساتھ جانی جہاد کر کے وہ بہت سے انعامات کے وارث ہوں گے.امراء کیلئے یہ مجاہدہ دوسروں کی نسبت اور بھی زیادہ ہے.لیکن ان کو یا درکھنا چاہیئے کہ دین اسلام کے خادم امیر و غریب سب ہیں یورپ کے لوگ اپنی دنیاوی ترقی کیلئے یہ سب کام کرتے ہیں.غرباء کی ہمدردی کیلئے وہاں بعض دفعہ پھول فروخت کرنے کے میلے مقرر ہوتے ہیں اور خود شاہی خاندان کی لیڈ یاں تک اس فروخت میں حصہ لیتی ہیں.پس اسلام کو گھر گھر پہنچانے کیلئے جو خدمت کرنی پڑے اس میں شرم کی کوئی بات نہیں.بعض لوگ زبانی تبلیغ نہیں کر سکتے ، وہ اس طرح تبلیغ کر سکیں گے کیونکہ جس قدر لوگوں کے گھروں میں ترجمہ قرآن اُن کی معرفت پہنچے گا گویا سب کو انہوں نے اسلام کی تبلیغ کر دی.پس ہر جگہ کی جماعتیں اور جماعتوں کے افراد جن کو اللہ تعالیٰ اس ثواب میں حصہ لینے کی توفیق دے بہت جلد اطلاع دیں کہ کس قدر سیپاروں کے فروخت کرنے کی وہ اپنے علاقہ میں امید کرتے ہیں تاکہ ان کے نام نمونہ بھجوادیا جائے جو تیار ہے اور امید ہے کہ پہلا سیپارہ پندرہ ہیں دن تک تیار ہو جائے گا اور ایک ماہ تک قادیان پہنچ جائے گا.مگر اس بات کو خوب یا درکھنا چاہئے کہ زیادہ تر کوشش اس کی اشاعت کی غیر احمد یوں ، ہندوؤں سکھوں اور عیسائیوں میں ہونی چاہئیے یہ نہ ہو کہ اپنی ہی جماعت کے لوگ اسے خرید لیں کیونکہ اس طرح اشاعت کا مقصد پورا نہیں ہوسکتا.اگر سب ترجمہ بھی ختم ہو جائے تب بھی جماعت کیلئے پھر اور چھپوایا جا سکتا ہے.پہلے صرف دوسرے لوگوں میں اس کی اشاعت ہونی چاہئیے إِلَّا مَا شَاءَ اللہ.ایک سیپارہ کی قیمت دو روپے ہوگی اور غالبا بڑے سائز کے ڈیڑھ سو صفحہ پر ہو گا.ایک اعلیٰ کاغذ پر بھی چھپوایا جائے گا جو مجلد بھی ہوگا اور اس کی قیمت دس روپیہ فی سیپارہ ہے.خدا تعالیٰ ہماری جماعت کے مخلصین کو ہر طرح کی دینی خدمات کی توفیق دے اور اس کام میں میرا ہاتھ بٹانے والوں کی اپنے خاص فضلوں کے ساتھ مددفرماوے آمین.ل النساء : ٩٦ الفضل ۲۸ اکتوبر ۱۹۱۵ء) ال عمران: ۱۰۵ ترمذی کتاب المناقب باب مناقب ابی بکر

Page 495

خطبات محمود جلد ۴ ۴۸۶ (۸۸) خدا تعالیٰ کے کلام کا ہر لفظ اپنے اندر حکمت رکھتا ہے (فرموده ۲۹ - اکتوبر ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی دعا کے بعد غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ سے بھی فرما دیا ہے لیکن ایسا کیوں کیا گیا.کیا صرف اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کہنا کافی نہ تھا؟ پس جبکہ صرف یہی رکھا جاتا تب بھی یہ مفہوم ادا ہو سکتا تھا کہ جو انسان خدا سے یہ دعا مانگے اسے سیدھا راستہ دکھا یا جائے اور گمراہی اور بد افعال سے بچایا جائے یعنی نیکیوں کی توفیق دی جائے اور بدیوں سے بچایا جائے.کیونکہ جب مومن ہر روز یہی دعا مانگتا ہے کہ مجھے سیدھا راستہ دکھایا جائے اور وہ رستہ بتایا جائے جو مُنْعَمُ عَلَيْهِ لوگوں کو بتایا گیا تھا تو اس کے اس کہنے سے ہی تمام بدیوں اور ہر قسم کے گندوں اور گناہوں کے رستہ کی ساتھ ہی نفی ہو جاتی ہے اور وہ اس طرح کہ جب کوئی نیک شخص بد ہونے کے بعد ہی بدوں میں شامل ہو جاتا اور سیدھے راستہ سے بھٹک جاتا ہے اور نیک اسی وقت تک نیک رہتا ہے جب تک کہ یہ سیدھے راستہ پر ہوتا ہے اور سیدھے راستہ کیلئے خدا تعالیٰ نے یہ دعا سکھا دی ہے تو پھر غیر الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ کی کیا ضرورت تھی.پس بظاہر اتنا ہی کہنا کافی معلوم ہوتا ہے کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ اور اس پر دُعا ختم ہو جاتی.

Page 496

خطبات محمود جلد ۴ ۴۸۷ سال ۱۹۱۵ء لیکن قرآن شریف خدا تعالیٰ کا کلام ہے اس لئے اس میں کوئی فقرہ تو الگ رہا کوئی لفظ بھی زائد نہیں ہوسکتا اور لفظ تو بڑی بات ہے کوئی زبر زیر اور پیش بھی زائد نہیں ہو سکتی.بلکہ ہر ایک لفظ ان ہی حرکات سے استعمال ہوتا ہے جو اس کیلئے ضروری اور لازمی ہیں اور انہیں کا ہونا حکمت الہی پر مبنی ہے کیونکہ جیسے خدا تعالیٰ کی بنائی ہوئی تمام چیزوں میں سے کوئی چیز بھی لغو نہیں خواہ وہ کسی کو کیسی ہی رڈی سے رڈی اور زائد معلوم کیوں نہ دے.ایسی چیز پر بھی جب غور اور فکر کیا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ لغو اور فضول نہیں بلکہ نہایت ہی کار آمد اور مفید ہے اور اس کے کلام کا کوئی فقرہ یا کوئی حرکت کیونکر زائد اور بلا ضرورت ہو سکتی ہے.بہت سی چیزیں اس وقت ایسی موجود ہیں جن کو آج سے کچھ عرصہ پہلے رڈی اور فضول سمجھا گیا تھا مگر اس زمانہ میں علوم کی ترقی سے ثابت ہو گیا ہے کہ وہ رڈی اور فضول نہیں بلکہ بڑے بڑے فوائد اور منافع اپنے اندر رکھتی ہیں.بڑی سے بڑی نجس اور رڈی چیز تو انسان کا پاخانہ اور پیشاب خیال کیا جا تا تھا لیکن اسی کو اگر دیکھو تو معلوم ہو جاتا ہے کہ انسان غلہ کو کھا کر جب اس سے جو کچھ اس کیلئے مفید ہوتا ہے حاصل کر لیتا ہے اور فضلہ کو ڈی بنا کر نکال دیتا ہے تو یہی ردی چیز آئندہ سال جو اس کو کھانا ہوتا ہے اس کی پرورش میں محمد اور معاون بن جاتی ہے اور کھاد بن کر ایک مفید چیز ثابت ہوتی ہے جو ہزاروں بلکہ لاکھوں روپوں کی فروخت ہوتی ہے.تو وہی چیز جس کو انسان نے ردی کر کے پھینک دیا تھا خدا تعالیٰ نے اسی کو اس کیلئے غلہ پیدا کرنے کا سامان بنادیا.اس کے علاوہ اور چھوٹی چھوٹی چیزوں مثلاً کاغذوں کے ٹکڑوں اور گھاس پھونس کے تنکوں کو ہی دیکھ لو.ان چیزوں کو کسی مصرف کا خیال نہیں کیا جاتا تھا.لیکن علوم سے واقف کار لوگوں نے ان سے بھی بڑے بڑے کام لئے ہیں.مثلاً مختلف قسم کی گھاس جو جانوروں کے کھانے کے کام بھی نہیں آتی اور جس سے جنگل کے جنگل بھرے پڑے رہتے تھے اور جسے لوگ لغوا اور فضول چیز سمجھا کرتے تھے، اس کو آج علوم نے بہت فائدہ مند ثابت کر دیا اور بتادیا ہے کہ یہ لغو نہیں بلکہ نہایت کارآمد ہے کیونکہ اس سے کاغذ جیسی مفید چیز بنے لگی ہے.کیونکہ پہلے اس سے انسانوں کو کام لینے کا موقع نہ ملا تھا اس لئے انہوں نے لغو سمجھا ہوا تھا لیکن علوم نے آخر ترقی کرتے کرتے بتا دیا کہ یہ بہت مفید چیز ہے.پس یہی گھاس اس زمانہ میں علوم کے بڑھانے کا بہت بڑا ذریعہ ہو رہی ہے.پہلے زمانہ میں چونکہ کاغذ کی کثرت نہ تھی

Page 497

خطبات محمود جلد ۴ ۴۸۸ سال ۱۹۱۵ اس لئے اس وقت کے علوم و فنون مٹ گئے کیونکہ وہ باتیں لکھی نہ گئیں.آج ہم مصر میں ایسے مردوں کی لاشیں دیکھتے ہیں جن کو کسی مصالحہ سے رکھا گیا ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ وہ کیا مصالحہ ہے اور اس کے متعلق کوئی تحریر نہیں ملتی.لیکن اس زمانہ میں علوم کی ترقی نے رڈی چیزوں سے بھی بڑے بڑے فائدے نکال دیئے ہیں.اسی طرح اور بہت سی چیزیں ہیں جن کو انسان نے لغو سمجھا تھا مثلاً انسان کے جسم میں ہی بعض ایسے اجزاء ہیں جن کو بیکار اور فضول قرار دیا گیا تھا.ایک زمانہ تھا کہ تلی کوالغوسمجھا جاتا تھا اور اسی طرح بار یک انتڑیوں کے نیچے ایک چھوٹا سا ٹکڑا انتری کا علیحدہ ہوتا ہے اس کو بریکار اور فضول سمجھا جاتا تھا.اور ابھی کوئی لمبا عرصہ نہیں گزرا کہ ڈاکٹروں نے فتویٰ دیا تھا کہ اگر اس میں ورم پیدا ہو جائے تو بجائے اس کا علاج کرنے کے اس کو کاٹ کر نکال دینا انسب ہے لیکن تحقیقات جدیدہ نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ خیال غلط تھا اور یہ حصہ نہایت مفید اور ضروری حصہ جسم ہے.چنانچہ فرانس کے ایک ڈاکٹر نے اس کے متعلق تجربہ کر کے اسکی ضرورت کو ثابت کر دیا ہے کہ اس رودہ سے میں وہ سیال مادہ جمع رہتا ہے جس سے امعاء کے پردوں میں ہیجان پید اہوتا ہے اور اگر یہ سیال مادہ اس رودہ میں موجود نہ ہو تو یہ رودہ اپنے فعل کو سر انجام نہیں دے سکتا.اس ڈاکٹر نے اس بات کا اس طرح تجربہ کیا ہے کہ دو درجن جوان اور تندرست بند ر منگوا کر ان میں سے نصف بندروں کے اندر سے یہ حصہ کاٹ کر نکال دیا اور باقی بندروں کو بحال رکھ کر سب کو الگ الگ پنجروں میں بند کر وا دیا.اور سب کو برابر مقدار میں ایک ہی غذا دینے کا انتظام کیا.دو دن کے بعد معائنہ کرنے پر معلوم ہوا کہ رودہ بریدہ بندروں کی انتڑیوں کی حرکت میں کمی آ گئی ہے اور ایک ہفتہ کے بعد تو نمایاں فرق پایا گیا اور ان کے قومی مضمحل ہونے لگے اور ان میں حسب عادت دوڑنے کی سکت نہ رہی.بال گرنے لگے، آنکھوں کی رنگت بدل گئی اور زبانوں پر جھلتی چھا گئی اور اس امر میں شبہ کی کچھ گنجائش باقی نہ رہی کہ ان بندروں کی قوت ہاضمہ باطل ہوگئی ہے.باقی بند ر جن کا یہ رودہ نہیں کاٹا گیا تھا بالکل تندرست اور چست رہے.تو اب یہ رودہ بھی لغو نہیں سمجھا جاتا بلکہ صحت کے قائم رکھنے کیلئے ضروری خیال کیا جاتا ہے.غرضیکہ ہر ایک ایسی چیز جس کو انسان نے لغو اور فضول سمجھا ہوا تھت اسے بھی تجربوں اور علوم نے مفید اور فائدہ مند ثابت کر کے بتا دیا کہ خدا تعالیٰ کی بنائی ہوئی کوئی چیز لغو نہیں

Page 498

خطبات محمود جلد ۴ ۴۸۹ سال ۱۹۱۵ء ہے.جن قوموں نے یہ سمجھا ہے کہ خدا کی بنائی ہوئی چیزیں بھی لغو اور فضول ہوتی ہیں انہوں نے کبھی ترقی نہیں کی.ترقی ہمیشہ ان ہی قوموں نے کی ہے جنہوں نے یہ سمجھا کہ خدا تعالیٰ کی مخلوق میں سے کوئی چیز بھی لغو نہیں.پس جس طرح خدا کی پیدا کی ہوئی ہر ایک چیز خواہ بظاہر کیسی ہی ردی اور فضول کیوں نہ معلوم دے، درحقیقت بنی نوع انسان کیلئے فائدہ بخش اور نفع رساں ہے اور جس طرح خدا کی مخلوق کا کوئی حصہ لغو اور ردی نہیں اسی طرح خدا تعالیٰ کے کلام کا حال ہے.اس کا نہ کوئی حکم لغو ہے اور نہ اس کا کوئی لفظ اور حرکت بلکہ ہر ایک اپنے اندر کوئی نہ کوئی حکمت رکھتا ہے.جرمن کے ایک ڈاکٹر نے ہلکے کتے کے کاٹے کا علاج کرنے کے متعلق تحقیقات کی ہے وہ لکھتا ہے کہ اس تحقیقات کی طرف مجھے اس طرح توجہ ہوئی کہ میں نے مسلمانوں کی بعض کتابوں میں لکھا ہوا دیکھا کہ انہیں ان کے رسول ( صالی ایم ) کا حکم ہے کہ اگر کتا کسی برتن میں منہ ڈال جائے تو اسے پہلے مٹی سے مانجو اور پھر پانی سے دھوؤ ہے.میں نے سوچا ایک اتنا بڑا آدمی جس کو لاکھوں اور کروڑوں انسان مانتے ہیں اس کا یہ کہنا لغو نہیں ہوسکتا بلکہ ضرور اپنے اندر کوئی حکمت رکھتا ہے ( معلوم ہوتا ہے کہ اس ڈاکٹر میں ان مسلمانوں سے حسن ظنی کا مادہ زیادہ تھا جو خدا کی بعض چیزوں اور رسول اللہ کے بعض احکام کو لغو سمجھتے ہیں ) میں نے اس بات کیلئے کوشش کرنی شروع کی کہ معلوم کروں کہ آیا تمام ملکوں کی مٹیوں میں کوئی ایسا جزو بھی ہے جو سب میں یکساں ہو تو معلوم ہوا کہ ایک جزو ایسا ہے جو سب ملکوں کی میٹیوں میں مشترک پایا جاتا ہے.اس جزو کا میں نے جب ہلکے گتے کے زہر پر استعمال کیا تو مفید ثابت ہوا.اسی طرح اس ڈاکٹر نے آنحضرت سالی ایم کی اور احادیث سے بھی فائدہ اٹھایا ہے یہ تو رسول کریم کے اقوال کا حال ہے.اللہ تعالیٰ کی کتاب میں کوئی بات لغو اور زائد ہے نہیں ہوسکتی.یہاں خدا تعالیٰ یہ دعا سکھاتا ہے کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ.صِرَاطَ الَّذِينَ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالّتين.ہمیں سیدھا راستہ دکھائیے.اور ان لوگوں کا راستہ جن پر آپ نے انعام کیا نہ کہ ان کا جن پر تو نے غضب کیا یا جو گمراہ ہو گئے.غیرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ کے الفاظ کیوں رکھے جو بظاہر زائد معلوم ہوتے ہیں ان کے کھنے میں بہت بڑی حکمت ہے اور وہ یہ کہ یہ الفاظ اس طرف متوجہ کرنے کیلئے رکھے ہیں کہ جب کوئی انسان ترقی کرنے لگتا ہے خواہ وہ ترقی روحانی ہو یا جسمانی، دینی ہو یا دنیوی تو اس کے رستہ میں ایسی

Page 499

خطبات محمود جلد ۴ ۴۹۰ سال ۱۹۱۵ء روکیں اور اس کے مقابلہ میں ایسے لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جو اسے ترقیوں سے محروم کرنا چاہتے ہیں اور اپنے تمام زور سے اسے نیچے کھینچتے ہیں تا کہ وہ اپنے مقام سے ہٹ جائے.آج تک کوئی ترقی کرنے والا ایسا نہیں ہوا جس کا کوئی نہ کوئی حاسد نہ ہو بلکہ جس کسی نے بھی ترقی کی ہے اسی کے حاسد پیدا ہو گئے ہیں.چنانچہ اسی دعا کی تشریح میں ہی دیکھ لو.اگلے رکوع میں خدا تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کا واقعہ بیان فرما کر بتا دیا ہے کہ شیطان حسد اور عداوت کی وجہ سے اس کے مقابلہ میں کھڑا ہو گیا تھا.پس خواہ کسی کی روحانی ترقی ہو یا جسمانی شریر اور نا پاک روحیں اس کے مقابلہ کیلئے ضرور اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں جو اس کو اس کے اصلی مقام سے ہٹا کر مغضوب اور گمراہ بنانے کی کوشش کرتی ہیں اس لئے گو دعا کیلئے صرف اِهْدِنَا القِيرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ علیم ہی کافی تھا لیکن مومنوں کی اس طرف توجہ پھیر نے کیلئے کہ تمہارے گمراہ کرنے کیلئے تمہارے دشمن کھڑے ہو جائیں گے ان سے بچتے رہنا خدا نے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ بھی فرما دیا تا کہ مومن کی ہر وقت اس طرف توجہ رہے.اور وہ خیال کرے کہ میں اپنے دشمنوں اور حاسدوں سے مامون نہیں ہوں.یہ جو مجھے نعمت ملی ہے اور مل رہی ہے اس کے ساتھ ہی دشمن بھی کھڑے ہو گئے ہیں ان سے مجھے ہوشیار رہنا چاہیئے.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نیک کام تو کرتے ہیں اور اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاط الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ کی دعا مانگتے ہیں.لیکن غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ كى طرف توجہ نہیں کرتے.اور یہ خیال نہیں کرتے کہ اگر ہمیں نعمت ملی ہے تو ساتھ ہی حاسد بھی پیدا ہو گئے ہیں اس لئے وہ بہت دور جا گرتے ہیں کیونکہ جو شخص زیادہ بلندی سے گرتا ہے وہ زیادہ دور ہی گرتا ہے.ہماری جماعت دنیا میں اس وقت سب سے آخر آنے والی جماعت ہے اس نے بہت تجربے اور مشاہدے کئے ہیں.اور بہت سی قوموں کے ترقی اور تنزل کے واقعات سنے ہیں اس لئے اس کے فائدہ اٹھانے کا آسان رستہ ہے.ہماری جماعت کے لوگ جب یہ دعا کریں کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ تو ساتھ ہی غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ کی طرف بھی خیال رکھنا چاہیئے اور سمجھنا چاہئیے کہ کوئی مُنْعَم نہیں ہوا اور کسی نے ترقی نہیں کی کہ شیطان اور شیطان کے چیلے اس کے بگاڑنے اور

Page 500

خطبات محمود جلد ۴ ۴۹۱ سال ۱۹۱۵ء گمراہ کرنے کے لئے کھڑے نہ ہو گئے ہوں.پس ہماری جماعت کو جہاں ایک طرف اس بات سے خوش ہونا چاہئیے کہ ہم مُنْعَم علیہ گروہ میں ہیں ، وہاں اس طرف بھی توجہ رکھنی چاہئیے کہ ہمارے ساتھ دشمن بھی لگے ہوئے ہیں جو ہمیں سیدھے راستہ سے ہٹا کر کہیں کا کہیں لے جانا چاہتے ہیں.پس ہمیں بہت ہوشیاری سے اپنے دشمن کے مقابلہ کیلئے تیار رہنا چاہیئے.روحانی دشمنوں کیلئے بھی اور جسمانی شیطانوں کیلئے تیار رہنا چاہئے جو انسانی شکل وصورت بن کر ہمیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں.شیطان کے حملے کرنے کے کئی ایک طریق ہیں.کبھی تو وہ دوست بن کر حملہ آور ہوتا ہے جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ اس نے کیا اور آکر کہا کہ میں تمہیں نصیحت کرنے آیا ہوں.خدا کے حکم کو توڑ دو تو ہمیشہ جیتے رہو گے.انہوں نے سمجھا یہ کوئی بڑا مخلص دوست ہے اس لئے اس کے دھوکا میں آگئے.کبھی شیطان انسان کو غافل کر کے ہلاک کرنا چاہتا ہے.چنانچہ بہت سے لوگ ایسے ہوئے ہیں جود شمن کی دشمنی سے اس طرح تباہ و برباد نہ ہوتے جس طرح کسی بد باطن دوست کی دوستی سے ہلاک ہوئے ہیں.مثلاً کسی نے ان کو کہہ دیا کہ ہم تمہارے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں تم بھی ہماری خاطر ہمارے پیچھے نماز پڑھ لو.تو انہوں نے اس کی خاطر نماز پڑھ لی پھر اسی طرح خاطر ہوتے ہوتے بالکل تباہ ہو گئے یعنی انہی کی طرح ہو گئے.لیکن یہ سب شیطان کے قریب ہیں جو وہ کئی طرح سے کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ مومنوں کو اپنے فرائض بھلا دے یا کسی اور طرف لگادے تا کہ اس طرح وہ خدا کو بھول جائیں.ہماری جماعت کے لوگوں کو اپنی توجہ اس بات کی طرف بہت رکھنی چاہئیے اور وہ ہمیشہ یادرکھیں کہ دشمن سے کبھی غافل نہ ہوں پھر شیطان جیسے دشمن جس کا منشاء ہی یہی ہے کہ انسان کو بھلا کر ہلاکت کی طرف لے کر جائے پس جب تک اس کا مقابلہ پورے زور اور قوت سے نہ کیا جائے کامیابی نہیں ہو سکتی.زور آور اور طاقت ور لوگ اس سے مقابلہ کرتے ہی رہے لیکن یہ بھی ان کی تاک میں ہی بیٹھا رہا ہے اور ان کی نسلوں درنسلوں میں جبکہ وہ غافل اور بے پرواہ ہو گئے تو یہ دھوکا دینے میں کامیاب ہو گیا ہے.حضرت مسیح موعود کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود سے شیطان کی آخری جنگ ہوگی.خدا تعالیٰ کے کلام کو سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ اس آخری جنگ کے کچھ اور ہی معنے ہیں لیکن پھر بھی نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کس رنگ میں پورے ہوں گے.پس ہر ایک وہ شخص جو

Page 501

خطبات محمود جلد ۴ ۴۹۲ سال ۱۹۱۵ احمدی ہوتا ہے یہ نہ سمجھے کہ اب مجھے بے فکر ہو کر پیٹی کھول دینی چاہئے بلکہ یہ سمجھے کہ پیٹی باندھنے کا تو اب ہی ہے وقت آیا ہے کیونکہ جس دن سے وہ احمدی ہوتا ہے اسی دن سے اس کا نام فوج میں لکھا جاتا ہے اور اسی دن سے اس کی جنگ شیطان سے شروع ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ کے جو سلسلے ہوتے ہیں ان کے حقیقی مبلغ افراد سلسلہ ہی ہوتے ہیں اور اصلی تبلیغ بھی انہی کے ذریعہ ہو سکتی ہے کیونکہ اس طرح ہر ایک فرد تبلیغ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے.ہمارے لئے اس وقت تبلیغ کر کے کامیابی حاصل کرنے کا موقع ہے.پس ہر ایک احمدی سمجھ لے کہ میں مبلغ ہوں اور میرا فرض ہے کہ شیطان کا مقابلہ کروں.پس خواہ کوئی احمدی امیر ہو یا غریب، تاجر ہو یا نوکر ہر حالت اور ہر حیثیت میں تبلیغ کا کام کرتا رہے.بعض لوگوں کو اپنی بڑائی تبلیغ میں روک ہو جاتی ہے اور بعض کو اپنی غریبی اور ناداری سد راہ بن جاتی ہے.لیکن یہ سب شیطانی دھوکا ہے جو اس طرح غافل کرنا چاہتا ہے.اصل بات یہی ہے کہ جو کوئی بچے دین میں داخل ہوتا ہے اس کا اخلاقی اور روحانی فرض ہے کہ اس دین کو پھیلائے اور دوسروں تک بھی پہنچائے.کیونکہ کفر زہر کی طرح ہے اور انسان کو ہلاک اور تباہ کر دیتا ہے.جس طرح ڈاکٹر کا اخلاقی اور انسانی فرض ہے کہ اگر کسی کو زہر خوردہ دیکھے تو اس کی جان بچانے کی کوشش کرے، اسی طرح ہر ایک مسلمان جو یہ دیکھے کہ دوسرے روحانی زہر کھا کر مرنے کے قریب ہو رہے ہیں اس کا فرض ہے کہ ان کی جان بچانے کی کوشش کرے اور ان کو تبلیغ کرے.ہماری جماعت کا ہر ایک شخص خواہ بڑا ہو یا چھوٹا، خواہ امیر ہو یا غریب، خواہ عالم ہو یا بے علم اس کا فرض ہے کہ صداقت کو پھیلائے اور باطل کو مٹائے.کسی کو یہ خیال ہر گز نہیں کرنا چاہئے کہ کوئی تنخواہ دار مبلغ آکر تبلیغ کریں گے یا قادیان سے کوئی مولوی اور عالم ہی آکر انہیں وعظ و نصیحت کرے گا.اس میں شک نہیں کہ بعض جگہیں ایسی ہیں جہاں کیلئے اس بات کی ضرورت ہے کوئی ایسا آدمی رکھا جائے جو اپنا سارا وقت تبلیغ میں صرف کرے ایسے آدمیوں کو کھانے پینے اور اخراجات کیلئے دینا پڑتا ہے تا کہ وہ ذریعہ معاش سے بے فکر ہو کر بکلی تبلیغ میں لگ جائیں.ایسے آدمیوں کے اخراجات کیلئے کچھ دینا معیوب بھی نہیں.رسول اللہ کے زمانہ میں بھی ایسے صحابی جو سرحدوں کی حفاظت کیلئے رہتے تھے انہیں بھی احبات دیئے جاتے تھے لیکن ایسے لوگوں کی تعداد کافی نہیں ہوسکتی اس لئے ہر ایک فرد

Page 502

خطبات محمود جلد ۴ ۴۹۳ سال ۱۹۱۵ کو مبلغ ہونا چاہیئے اور ان لوگوں کو دیکھ کر جنہوں نے اپنی ساری عمریں اسی کام کیلئے صرف کر دیں شست نہیں ہونا چاہئیے بلکہ چست ہونا چاہئیے کہ فلاں نے تو اپنی ساری عمر ہی اسی کام میں لگا دی مجھے جتنا وقت مل سکتا ہے اتنا ہی اس خدمت میں لگا دوں.پس ہر ایک احمدی اپنے اپنے رنگ میں اور اپنے حلقہ اثر میں ضرور تبلیغ کرے اور اس کام میں لگ جائے تب جا کر کامیابی ہوگی ورنہ مشکل ہے.اگر ہماری ترقی کی رفتار وہی رہی جو موجودہ صورت میں ہے تو ہزار ہا سال کے بعد جا کر کامیابی ہوگی لیکن کسی قوم کی عمر اس قدر کہاں ہو سکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے متعلق تو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمام دینوں پر ان کا غلبہ ہوگا پھر اس وقت کیوں کو تا ہی اور کمی ہو رہی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم میں نقص اور قصور ہے.ہمیں اپنی حالت میں تبدیلی کرنی چاہئے اور وہ یہی تبدیلی ہے کہ ہر ایک فرد تبلیغ کرنا اپنا فرض سمجھے.ہم جب کسی کو بھوکا اور نگا دیکھ کر اس پر رحم کھاتے اور حتی الوسع اس کی مدد کرتے ہیں تو جو لوگ دین سے بھوکے اور روحانیت سے ننگے ہیں ان کو دیکھ کر کیوں ان کی مدد نہ کریں اور یہ خیال کر لیں کہ قادیان سے ہی واعظ آکر انہیں تبلیغ کریں گے.ہر ایک انسان ہر ہفتے اپنے دل میں غور کر لیا کرے کہ میں نے اتنے دنوں میں تبلیغ کیلئے کیا کوشش کی ہے.اگر کوئی اخلاص اور سچے دل سے خدا تعالیٰ کے دین کے پھیلانے میں کوشش کرے گا تو خدا تعالیٰ کبھی اس کی کوشش کو ضائع نہیں کرے گا.کیونکہ وہ تو رحیم ہے کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا بلکہ ہر ایک کو اس کے کام کا بدلہ دیتا ہے.میں نے بہت دفعہ پہلے بھی آپ لوگوں کو اس طرف متوجہ کیا ہے اور اب بھی کرتا ہوں جن کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ اس کام میں لگ جائیں تاکہ لوگوں کو بدیوں سے پاک کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظلت عاطفت میں ان کو لائیں.خدا تعالیٰ ہماری جماعت کے سب لوگوں کو اس بات کی توفیق ے کہ جو انعام ان کو ملا ہے اس سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائیں اور تبلیغ سلسلہ میں ہر وقت کوشاں رہیں.آمین ٢٠١ الفاتحة : ٧،٦ آنت - انتری ♫ مسلم كتاب الطهارة باب حكم ولوغ الكلب الفضل ۴.نومبر ۱۹۱۵ء)

Page 503

خطبات محمود جلد ۴ ۴۹۴ (۸۹) اپنے اندر زندگی کی علامات پید ا کرو (فرموده ۵- نومبر ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.اَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهُ فِي الظُّلُمتِ لَيْسَ بِخَارِجِ مِنْهَا كَذلِكَ زُيِّنَ لِلْكَفِرِيْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ اس کے بعد فرمایا:.ایک لطیفہ ہے.کہتے ہیں کسی بادشاہ نے اپنے وزیر سے پوچھا دنیا میں اندھے زیادہ ہیں یا سوجا کھے؟ وزیر نے کہا اندھے زیادہ ہیں.بادشاہ نے کہا ہم تو سو جا کھے زیادہ دیکھتے ہیں اچھا فہرست بناؤ.وزیر ایک جگہ شارع عام پر بیٹھ گیا اور کچھ ایسا کام کرنے لگا جو اس کی شان کے شایاں نہ تھا اب جو گذرتا اس سے پوچھتا کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ اور وہ اس کا نام اندھوں میں لکھ لیتا کیونکہ جو کچھ وہ کر رہا تھا وہ تو نظر آ رہا تھا.عوام تو خیر خود بادشاہ نے بھی یہی سوال کیا اس لئے وزیر نے فہرست میں بادشاہ کا نام سب سے اوپر لکھ لیا.یہ قصہ سچ ہے یا سبق دینے کیلئے لطیفہ ہے بہر حال ہے نتیجہ خیز.اس آیت میں ایمان سے خالی کا نام مُردہ رکھا ہے اور اس رنگ میں دیکھیں تو اکثر ایمان رکھنے کے مدعی مُردہ نظر آتے ہیں.کیونکہ در حقیقت زندگی وہی ہے جس میں فہم و فراست ہو.زندگی کے جو منافع ہیں جب تک وہ حاصل نہ ہوں زندگی کیسی اور کیونکر

Page 504

خطبات محمود جلد ۴ ۴۹۵ سال ۱۹۱۵ء کہلا سکتی ہے.اگر ایک سو جا کھا آنکھیں رکھتے ہوئے آنکھوں سے فائدہ نہ اٹھائے تو گووہ دنیا کو سوجا کھات ہی نظر آتا ہو مگر ہے وہ اندھا بلکہ اس اندھے سے جو فی الواقعہ بینا نہیں اس کی حالت زیادہ قابل رحم ہے کیونکہ وہ آنکھیں رکھتے ہوئے آنکھوں کے فوائد سے محروم ہے اور یہ بیچارہ تو سرے سے آنکھیں رکھتا ہی نہیں اس لئے اگر یہ فوائد سے محروم ہے تو تعجب یا حیرت کی بات نہیں.ایک انسان جسے یقین ہو کہ میں حق پر نہیں اس سے وہ زیادہ قابل رحم ہے جو نا حق پر ہے اور سمجھتا ہے کہ میں حق پر ہوں.ایسا بیمار جسے یقین ہو کہ میں بیمار ہوں اس کا علاج آسان ہے لیکن جو یہ بھی تسلیم نہ کرتا ہو کہ میں بیمار ہوں بلکہ باوجود بیماری کے اپنے آپ کو تندرست سمجھتا ہو اس کا علاج زیادہ مشکل ہے.اسی طرح جو لوگ جانتے ہیں کہ ہماری روحانیت مرچکی ہے پھر جان کر مُردہ کی حالت میں رہتے ہیں ان سے ان لوگوں کی حالت زیادہ خطر ناک ہے جو سمجھتے ہیں کہ ہم زندہ ہیں حالانکہ وہ مردہ ہیں.اس آیت میں مومن اور کافر کو زندہ اور مردہ قرار دیا ہے.پھر دوسرا فرق مومن اور کافر میں یہ بتایا کہ مومن نور میں ہے اور کافر اندھیرے میں.آوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا تیمش به.مُردہ اور زندہ اور نور اور اندھیرے والے شخص میں جو نسبت ہے وہی نسبت کا فراور مسلم میں ہے ، مردہ انسان ہر ایک دنیاوی ضرر سے محفوظ ہے.زندہ تکلیف اٹھاتا ہے اگر اس کا کوئی عضو ٹوٹ جائے تو اسے دکھ پہنچتا ہے.مُردہ اس قسم کی تکلیف سے بچا ہوا ہے لیکن زندہ اپنے دوستوں کی مدد کر سکتا ہے.مُردہ اپنے پیاروں کی مدد نہیں کر سکتا.اسی طرح نور میں بیٹھنے والا خود سمجھ سکتا ہے کہ مجھے یہ ضرر پہنچنے لگا ہے تاریکی میں بیٹھا ہوا یہ نہیں سمجھ سکتا.انسان کے دو تعلق ہیں ایک اپنی ذات سے اور ایک دوسروں سے.آوَمَنْ كَانَ مَيْتًا میں بتایا ہے کہ مومن کے دونوں تعلقات درست ہوتے ہیں وہ ایک زندہ کی طرح اپنی ذات کو بھی ضرروں سے بچاتا ہے اور دوسروں کو بھی نفع پہنچاتا ہے اور کا فر مردہ کی طرح نہ خود ضرر سے بچ سکتا ہے نہ اپنے عزیزوں کو نفع پہنچا سکتا؟ اپنے اور کافر ہے.اب ہر ایک شخص جو ایمان کا دعویدار ہے وہ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھے کہ آیا یہ دونوں باتیں اس میں پائی جاتی ہیں یا نہیں.اگر پائی جاتی ہیں تو وہ ایک زندہ اور نور میں بیٹھنے والے کی طرح ہے ورنہ مردہ اور تاریکی میں گھرے ہوئے کی مانند ہے.اگر اس کے احساسات تیز ہیں کہ اپنے اور دنیا کیلئے نفع رساں ہو اور اچھی اور بُری بات کو سمجھ سکے، حق و باطل ، نیکی و بدی میں تمیز

Page 505

خطبات محمود جلد ۴ ۴۹۶ سال ۱۹۱۵ کر سکے.اور اسے بدیاں ایسی نظر آتی ہوں جیسے روشنی میں مختلف رنگوں خصوصا سفید وسیاہ کے درمیان تمیز ہوسکتی ہے تو بے شک وہ اپنے دعوے میں سچا ہے.اور اگر وہ ایک مردہ یا اندھیرے میں بیٹھنے والے کی طرح ایسی حالت میں ہے کہ نہ وہ اپنی ذات کو نفع پہنچا سکتا ہے نہ لوگوں کو تو اس کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیئے کہ جس بات کا وہ دعویٰ کرتا ہے وہ اس میں نہیں.وہ سوچے کہ لوگ تو مجھے زندہ اور نور میں سمجھتے ہیں مگر میں مردہ اور اندھیرے میں ہوں.بصارت اور بصیرت کی غرض تو نفع و نقصان میں فرق ہے اور انسان کو جو یہ حیوۃ ملی ہے تو اس کی غرض یہی ہے کہ وہ اپنے نفس کیلئے فائدہ حاصل کر کے پھر دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائے.اگر امتیاز کی طاقت اور نفع رسانی کی خواہش نہیں تو وہ انسان نہیں بلکہ حیوان محض ہے.ہماری جماعت کے لوگوں کو جو مؤمن اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک مامور کے ماننے والے ہیں اس پر بہت زیادہ غور کرنا چاہیئے کہ واقعہ میں وہ زندہ ہیں اور نور میں ہیں یا صرف زبانی دعوی ہی دعویٰ ہے کیا جیسے وہ خدا کے کلام سے زندہ ہوئے فی الواقعہ تاریکی سے نور میں آگئے ہیں یا ابھی ان کی روحوں میں ظلمات کے اثرات باقی ہیں اور بعض اعضاء میں ابھی ایسی ہی مُردنی ہے جیسی پہلے تھی.فرداً فرداً تو میں نہیں کہتا مگر جماعت کی حیثیت سے میں دیکھتا ہوں کہ ان میں بہت کو تا ہی ہے.ایک زندہ میں جو احساسات ہونے چاہئیں وہ پورے طور پر ہماری جماعت میں ابھی نظر نہیں آتے.ان میں ابھی وہ روح پیدا نہیں ہوئی کہ ایک سرے سے دوسرے تک فرد واحد کا حکم رکھیں.ان کیلئے ضروری ہے کہ جس طرح زندہ اپنے ایک عضو کی تکلیف محسوس کرتا ہے اسی طرح وہ اپنے ایک ایک فرد کی تکلیف کا احساس کریں.کسی جسم کا ایک حصہ مرجائے تو اس کو پتہ نہیں لگتا ، پھکیاں لو تو بھی وہاں خبر نہیں ہوتی.لیکن زندہ اعضاء کا یہ نشان ہے کہ ایک حصہ پر کوئی تکلیف ہو تو تمام حصص جسم میں برقی رو کی طرح وہ تکلیف دوڑ جاتی ہے.پس میں جماعت میں بھی یہی روح دیکھنا چاہتا ہوں کہ اگر کسی جگہ ایک کو تکلیف ہو تو اس سے اسے اُس سرے تک تمام جماعت اس تکلیف اس دُکھ کو محسوس کرے.گویا جماعت بمنزلہ ایک جسم کے ہو جس میں کئی روحیں داخل ہیں یا ایک روح ہے جو مختلف جسموں میں ہے.دیکھو جسم پر ایک جگہ پھوڑا ہو تو تمام بدن اس تکلیف کو محسوس کر کے تپ میں گرفتار ہو جا تا ہے ، یہ زندگی اور اتحاد کا نشان ہے.پاؤں میں کھجلی ہو تو ہاتھ مدد کو دوڑتا ہے.سر پر مار ہے.کی

Page 506

خطبات محمود جلد ۴ ۴۹۷ سال ۱۹۱۵؛ پڑنے لگے اور مقابلہ نہ ہو تو پاؤں لے کر دوڑتے ہیں.یہ زندگی کی علامت ہے کہ دل ، کان، آنکھ غرض تمام اعضاء ایک دوسرے کی مدد کو پہنچتے ہیں.پس جماعت کی زندگی کی علامت بھی یہی ہے کہ تمام افراد ایک دوسرے کی تکلیف کو محسوس کریں.اگر ہندوستان کے اس سرے پر تکلیف ہو تو چاہیئے کہ تمام اطراف عالم میں بجلی کی سی رو دوڑ جائے.اور ایک احمدی کے درد کی ٹیس پانچ لاکھ سے زیادہ قلوب پر اثر کرے.اگر ایک کو خوشی ہے تو تمام کے تمام خوشی سے بھر جائیں یہ بات ہو تو پھر ہماری جماعت زندہ جماعت ہے نہیں تو جماعت زندہ نہیں اور اگر زندہ ہے تو بیمار ضرور ہے.زندگی تو نام ہے حرکت کا احساس کا.جس جماعت میں حرکت نہیں ، احساس نہیں ، وہ کب حقیقی طور پر زندہ کہلا سکتی ہے.میں ایک مجموعی حالت میں یک رنگی اور یکساں جوش ان کے کاموں میں نہیں دیکھتا یہ تو ایسی حالت معلوم ہوتی ہے جیسے بیمار جان کندن حالت میں ہو.حلق میں پانی یا کوئی دوائی ڈالی گئی اور ہے وہ اُٹھ بیٹھا تھوڑی دیر بعد پھر اسی بستر پر گر پڑا.کوئی تحریر نکل جائے کوئی لیکچر ہو جائے تو ایک جوش ایک حرکت ایک احساس ایک زندگی ظاہر ہوتی ہے مگر چند روز بعد پھر ویسے کے ویسے.سیکرٹری اور محاسب بھی یہی شکایت کرتے ہیں کہ خط لکھتے ہیں تو چندہ بھیج دیتے ہیں ورنہ بعض پھر خاموش.یہ حالت قابل اطمینان نہیں بلکہ خطرے کی حالت ہے کیونکہ بیمار کی ایسی حالت بجائے صحت کے موت کی طرف لے جانے والی ہوتی ہے.پس تم میں سے جن کی روحانی زندگی موت کے قریب ہے وہ جلد جلد اپنی حالت بدلیں.کام کرنے والے اپنے اندر مستقل طاقت پیدا کریں تا کہ انہیں کسی محرک کی ضرورت نہ رہے.تم کو ایسا بنا چاہیئے کہ دشمن بھی بول اُٹھے کہ یہ جماعت ایک زندہ جماعت ہے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت میں زندگی کی روح پھونکے.اس نے پانی تو اپنے فضل سے نازل کر دیا جس سے ہم زندہ ہوئے اب اس زندگی کو برقرار رکھنا بھی اسی کے فضل پر موقوف ہے.ہم میں سے بہت سے ہیں جن کے حو صلے کمزور ہیں.الہی ! ان میں اتنی طاقت پیدا ہو کہ وہ اس پانی کو جذب کر کے سرسبز و شاداب ہوں.میں خدا کے حضور عرض کرتا ہوں تم بھی کرو کہ وہ آپ ہمیں زندہ کر کے ہم سے وہ کام لے جو اس نے ہمارے سپرد کیا ہے اور اس کام کو جو اسی کا کام ہے پورا کرنے اور نباہنے کی توفیق عطا فرما دے.آمین.ل الانعام : ۱۲۳ الفضل ۱۴ نومبر ۱۹۱۵ء)

Page 507

خطبات محمود جلد ۴ ۴۹۸ (9+) اصل مقصد اور مدعا کے حصول کی خاطر مصائب کی پرواہ نہ کرو (فرمودہ.۱۲ نومبر ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.يُبَنِي اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ يُوسُفَ وَآخِيْهِ وَلَا تَايْنَسُوا مِن روح الله « إِنَّهُ لَا يَايُنَسُ مِن روح اللهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَفِرُونَ پھر فرمایا:.بہت سی باتیں اور بہت سے مطالب و مدعا ایسے ہیں جن کے حاصل کرنے سے انسان کو بعض راحتیں ، آرام اور خوشیاں پہنچتی ہیں.پھر اس کام کو کرتے کرتے درمیان میں ایک اور خوشی حاصل ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے انسان اس خوشی کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور اسی کی طرف لگ جاتا ہے اور اپنے اصل مدعا کو بھول جاتا ہے.اور بعض وقت ایک کام کو پورا کرنے میں اس قدر ابتلاء اور روکیں آجاتی ہیں.جن کے پیش آنے سے انسان ہمت ہار کر بیٹھ جاتا ہے اور اس مدعا کو حاصل کرنے سے نا امید ہو جاتا ہے وہ مصائب و ابتلاء جو انسان کے راستہ میں آتے ہیں انسان کو چاہیے کہ ان کی طرف متوجہ نہ ہو اور ان کی پرواہ نہ کرے.بعض انسان اس قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ ان مصائب کی پرواہ نہیں کرتے اور اپنے مطلب و مدعا کے حاصل کرنے میں لگے رہتے ہیں اور کسی ابتلاء اور مصیبت کو کچھ نہیں سمجھتے.لوگ ایسے ہوتے ہیں ان کو لوگ پاگل کہتے ہیں، مجنون اور دیوانہ کہتے ہیں لیکن وہ کبھی اپنے مقصود و مد دو مدعائی کو حاصل کرنے سے نہیں رکھتے اور نہ کسی کی ملامت کی کچھ پرواہ کرتے ہیں.

Page 508

خطبات محمود جلد ۴ ۴۹۹ سال ۱۹۱۵ء لوگ انہیں پاگل کہے جاتے ہیں لیکن انہیں اپنے کام سے کام ہوتا ہے.درحقیقت پاگل کہنے والے خود پاگل اور مجنون ہوتے ہیں.قدیم سے جماعتیں اور سلسلے بنانے والوں کو لوگ پاگل کہتے آئے ہیں.اور تمام انبیاء اور مرسلین اور اولیاء واقطاب اور مجددین کو لوگوں نے پاگل و مجنون کہا ہے اور جن کاموں سے لوگ ڈرتے ہیں وہ ان کو کر گزرتے ہیں.اور جن کو پاگل کہا گیا ہے آخر وہی اپنے مطالب میں کامیاب ہوئے.حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر حضرت نبی کریم صلی یہی تم تک اور پھر نبی کریم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تک جس قدر بھی راستباز خواہ وہ نبی یا رسول ہوں خواہ وہ مجد دغوث قطب ہوں سب کو لوگوں نے پاگل اور دیوانہ کہا ہے.مکہ جیسی بستی میں جو شرک اور بیدینی میں اس قدر حد سے گزرگئی ہے تھی گویا شرک میں ڈوبی ہوئی تھی اور جن کی زندگی کا انحصار ہی بت پرستی پر تھا اور ایسی خونخوار و بت پرست قوم جس کی نظیر آج ہندوؤں میں بھی نہیں پائی جاتی کیونکہ وہ لوگ سفر کو بھی جاتے تو آٹے کا بت بنا کر پنے ساتھ رکھتے تھے پھر ایسی ظلمت کے وقت میں نبی کریم کا ظہور ہونا کیسے خطرے کا مقام تھا اور پھر باوجود اس کے آپ کے پاس نہ کوئی سپاہ تھی اور نہ کوئی لشکر تھا تو آپ نے ایسے وقت میں کھڑے ہو کر کہا کہ میں تمہارے بتوں کو باطل کر دوں گا اور شرک کو جزیرہ عرب سے نکال دوں گا.جو میرے مقابلہ میں اٹھے گا وہ تباہ و ہلاک ہو جائے گا وہ رسوائی اور نامرادی کامنہ دیکھے گا.ایسی حالت کو دیکھ کر ایک دنیا دار انسان مجنون اور دیوانہ ہی کہے گا اور لوگوں نے کہا اور اس وقت بھی خدا کی طرف سے ایک آواز آئی لیکن لوگوں نے اسے بھی مجنون اور دیوانہ ہی کہا.پیچھے آنے والے لوگ یہی کہا کرتے ہیں کہ لوگوں نے انبیاء سابقین مرسلین اور مجددین کو کیونکر پاگل کہا.حالانکہ جس طرح پہلے لوگوں نے صادقین کو پاگل کہا اسی طرح یہ لوگ بھی حضرت مسیح موعود کو پاگل ہی کہتے ہیں.اور جو اعتراض پہلے لوگ کرتے تھے وہی اب یہ لوگ کرتے ہیں.الغرض یہ سلسلہ ہمیشہ سے ایسا ہی چلا آیا ہے اور صداقتوں کے راستہ میں روکیں آتی ہی رہی ہیں.لیکن بے استقلال اور بے ہمت انسان ایسے وقت میں اپنے آپ کو علیحدہ کر لیتے ہیں اور کام کرنے کے وقت بے استقلالی سے کام کرتے ہیں.ہاں ناممکن کاموں میں پڑنے والے پاگل ہوتے ہیں لیکن ایسے کاموں میں پڑنے والا جو انسانی تدابیر کے ماتحت ہوں اور جن کے کرنے سے بظاہر امید بھی نظر آتی ہو تو ایسے امور میں پڑنے والے کو لوگ

Page 509

خطبات محمود جلد ۴ ۵۰۰ سال ۱۹۱۵ء پاگل نہیں کہا کرتے.جس قدر ایجاد یں ہیں اگر ان کے موجد ان کے پیچھے نہ پڑتے اور مصائب اور مشکلات کو برداشت کر کے ان کو حاصل نہ کرتے اور پیچھے ہٹ جاتے تو آج دنیا کے لوگ کیونکر یہ آرام اور آسائش کے سامان حاصل کرتے اور وہ خود کیونکر چین سے اپنی زندگی بسر کرتے.ان لوگوں نے بڑے استقلال اور ہمت سے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے تمام ابتلاؤں اور مشکلات اور مصائب کا مقابلہ کیا اور ہمت نہیں ہارے اور کسی کی پرواہ نہیں کی کہ کوئی ان کے متعلق کیا کہتا ہے.کولمبس نے جس وقت امریکہ کی طرف سفر کرنے کا ارادہ کیا تو اس وقت اسے بھی لوگ پاگل کہتے تھے اور کہتے تھے کہ دیکھو یہ پاگل کہتا ہے کہ اس سمندر کے دوسری طرف بھی کوئی اور خشکی ہے چنانچہ جب اس نے ملکہ سپین سے مدد طلب کی اور یہ معاملہ مجلس امراء کے سامنے پیش ہوا تو سپین کے کارڈ نیل نے کارڈ نیل وہ پادری ہوتا ہے جو پوپ کی طرف سے کسی ملک کے مذہبی معاملات کے تصفیہ کیلئے سب سے بڑا حا کم ہوتا ہے ) اس پر مجنون یا کافر ہونے کا فتویٰ دیا اور کہا کہ دیکھو یہ شخص زمین کے گول ہونے کا قائل ہے.گویا اس کا خیال ہے کہ ہماری زمین کے نیچے اور ملک ہے اور وہاں جو لوگ رہتے ہیں ان کی ٹانگیں اوپر اور سر نیچے اور درختوں کی جڑیں اوپر کی طرف ہیں تو شاخیں نیچے کی طرف.ان مشکلات کے ہوتے ہوئے اگر کولمبس اپنی تحقیقات کو چھوڑ دیتا تو وہ عزت و شہرت جو اس نے حاصل کی اس کو کیسے ملتی.جس زمانہ میں سپین کی حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی اس وقت کے ایک عالم گزرے ہیں روحانی اور جسمانی علوم کے واقف تھے جن کا نام محی الدین ابن عربی ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے کشف میں دکھایا گیا ہے کہ اس سمندر کے پرے ایک بہت بڑا وسیع ملک ہے اور بیان کیا گیا ہے کہ کولمبس نے آپ کے سلسلہ کے کسی آدمی سے ہی پہلے پہل سنا تھا کہ زمین گول ہے اور چین کے پرے سمندر کے ختم ہونے پر ایک بہت بڑا ملک ہے لیکن لوگوں نے اس وقت اسے پاگل قرار دیا اور اس کو کا فر کبھی کہا.ایک بات اس کے ذہن میں آگئی جس پر اس نے بڑے استقلال اور ہمت سے کام کیا اور کسی کی ہے پرواہ نہ کی.غرض دنیا کے کاموں میں جن میں یہ خیال ہو سکتا ہے کہ شاید آخر میں کامیابی نہ ہو ، ہمت والے لوگ راستہ کی مشکلات سے نہیں گھبراتے تو پھر انبیاء علیہم السلام کو دنیا کی ہدایت کیلئے خدا تعالیٰ بھیجتان ہے.ان کے سلسلہ کی اشاعت میں مایوس ہو کر بیٹھ جانا کیسی نادانی کی بات ہے.اگر دنیا اس قابل نہ

Page 510

خطبات محمود جلد ۴ ۵۰۱ سال ۱۹۱۵ء ہو کہ خدا کی اس آواز کو سنیں تو نَعُوذُ باللہ خدا تعالیٰ کا اپنے پاک بندوں کو ایسے وقت میں بھیجنا ایک لغو کام سمجھا جائے گا.ایسا کہنے والا خدا تعالیٰ پر الزام دیتا ہے.نادان لوگ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کا ذکر کرنا ٹھیک نہیں یا یہ کہ ان کے ذکر سے اسلام کی ترقی نہیں ہو سکتی یا یہ کہ ان کے ذکر کرنے کی ضرورت ہے نہیں.میں کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جب وہ عالم الغیب ہے تو اس نے کیوں بلا وجہ مرزا صاحب کو بھیج دیا.کیا وہ نہیں جانتا کہ اس وقت دنیا کو کسی بادی کی ضرورت ہے یا نہیں.موجودہ زمانے کی خطرناک حالت یہ پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ اس وقت خدا تعالیٰ کے کسی پاک انسان کی ضرورت ہے جو دنیا کو ان کے گناہوں سے پاک اور مطہر کرے.لوگ ان کی مخالفت کرتے ہیں لیکن جو شخص مشکلات اور روکوں کو دیکھ کر ہمت و استقلال سے کام نہیں لیتا ہے اور پیچھے ہٹتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی رحمت سے نا امید ہے.نبی کریم سای ایام کو دیکھ کرکون کہہ سکتا تھا کہ یہ دین تمام ادیان باطلہ پر غالب آجائے گا.اور کون کہ سکتا تھا کہ یہ لوگ تمام دنیا کے فاتح بن جائیں گے اور دنیا کے چاروں کونوں تک لا إلهَ إِلَّا اللہ کا نعرہ بلند کریں گے.لیکن خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ اس وقت لوگوں کے دل خواہش مند ہیں کہ خدا کی طرف سے کوئی آواز آئے جو ان کو خواب غفلت سے جگائے.اور یہ خواہش ایسی پوشیدہ تھی کہ خود وہ لوگ بھی اس کے سے واقف نہ تھے جن کے دلوں میں وہ خواہش موجود تھی.چنانچہ آپ کی بعثت پر سوائے چند سعید روحوں کے باقی سب لوگ آپ کی مخالفت پر تل گئے لیکن آہستہ آہستہ وہ فطرتی تڑپ جو بجھتی تھی کہ اس آب حیات کے بعد میری زندگی محال ہے غالب آتی گئی اور فوج در فوج لوگ اسلام میں داخل ہونے لگے.اسی طرح آج کل کے لوگوں کا حال ہے کہ گو وہ حضرت مسیح موعود کی مخالفت کرتے ہیں لیکن در حقیقت ان کے دلوں کے اندر سے ایک آواز اٹھ رہی ہے کہ اس شخص کے قبول کرنے کے بغیر ہماری نجات نہیں.بعض کے دلوں میں ابھی یہ آواز بہت کمزور ہے بعض لوگوں کے دلوں میں زیادہ زور سے ہے.لیکن آہستہ آہستہ وہ بھی بلند ہوتی جائے گی اور جو لوگ کہ آج نہیں سنتے وہ پھر سنیں گے.پس یہ کم ہمتی ہے جو بعض لوگ کہہ یتے ہیں کہ لوگ ہماری بات نہیں سنتے.تم ہمت نہ ہار و وہ آج نہیں تو پھر سنیں گے.میرا اس آیت کے پڑھنے سے مدعا اپنی جماعت کو اس بات کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ وہ بے استقلالی سے کام.یوسف علیہ السلام کو جب اہل قافلہ نکال کر لے گئے تو ان کے بھائیوں نے خیال کیا کہ اب

Page 511

خطبات محمود جلد ۴ ۵۰۲ سال ۱۹۱۵ء یوسف نہیں مل سکتے تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے انہیں کہا کہ خدا کی نصرت سے نا امید نہ ہو کیونکہ جب خدا تعالیٰ نے میرے دل میں یہ تحریک پیدا کی ہے تو وہ ضرور مل جائے گا ، اس لئے تم اس کی تلاش میں مایوس ہو کر مت بیٹھ جاؤ.یوسف جو ایک حسین انسان تھے اور جن سے ایک جسمانی رشتہ تھا اس کی تلاش سے حضرت یعقوب نہیں تھکے اور نا امید نہیں ہوئے تو اسلام جو سب حسینوں سے زیادہ حسین ، سب خوبصورتوں سے زیادہ خوبصورت ہے بلکہ ہمارے مُردہ دلوں کیلئے آب حیات ہے، اس کے کھوئے جانے پر اس کی تلاش کرنے کیلئے ہمیں کتنی محنت اور کوشش کی ضرورت ہے.لیکن افسوس کوئی اس کی تلاش نہیں کرتا.اس کی تلاش کرنے والے نا امید ہو کر بیٹھ گئے ہیں.سنو اور کان کھول کر سنو کہ موت کا کوئی اعتبار نہیں کہ کس وقت آجائے یہ وقت ضائع کرنے کا وقت نہیں.خواہ دنیا ہمیں پاگل ہی کہے خواہ تمہارے نفس بھی تم کو مجنون کہیں اور ملامت کریں لیکن تم اپنے کام میں لگے رہو اور کسی طرف توجہ نہ کرو.جب خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ یہ اسلام کی ترقی اور عروج کا وقت ہے اور خدا تعالیٰ کے وعدے ہمارے سامنے ہیں کہ اسلام تمام مذاہب پر غالب رہے گا تو شیطان اگر لاکھوں مصیبتوں اور ابتلاؤں اور مشکلات کے پہاڑ تمہارے سامنے کھڑے کر دے تو بھی تم ان کو کاٹ ڈالو.اگر وہ طرح طرح کی روکیں پیدا کرے تو ان کی پرواہ نہ کرو.کیونکہ اس وقت شیطان تمہارے مقابلہ میں اپنی ساری طاقت اور تدابیر خرچ کرے گا.پس تم اپنے مدعا کو حاصل کرنے کیلئے غافل اور نان امید نہ ہو جاؤ کیونکہ خدا کے وعدے ہمیں تسلی دے رہے ہیں.وہ شخص جو خدا تعالیٰ کی تائید سے نا امید ہو کر بیٹھتا ہے وہ اس کے انعاموں کا وارث نہیں ہوسکتا.پس تم تبلیغ کیلئے کوشش کرو اور غافل اور نا امید ہو کر مت بیٹھو.جو لوگ اس پیغام کو سنیں وہ عمل کریں اور لوگوں تک اس پیغام کو پہنچا ئیں.نبی ﷺ کریم ﷺ فرماتے ہیں الْحِكْمَةُ ضَالَّهُ الْمُؤْمِن ہے کہ کلمہ حکمت مؤمن کی گم شدہ چیز ہے اس کی تلاش میں رہے اور جہاں مل جائے اسے لے لے.یہاں کلمہ حکمت کا نام مؤمن کی گمشدہ شے رکھ کر مسلمان کو ہے بتلایا کہ جس طرح گم شدہ اشیاء کو انسان تلاش کرتا رہتا ہے، اسی طرح کلمہ حکمت کی تلاش مسلمان کو لگی رہنی چاہئیے.پس جب کہ کلمہ حکمت مومن کا یوسف ہے جس کی تلاش کرنی اس کیلئے ضروری ہے تو وہ سعید روحیں جو بہت سے کلمات حکمت کی حامل ہو سکیں اس انتظار میں ہیں کہ کوئی ان کو حق بتائے تو وہ اسے قبول الله

Page 512

خطبات محمود جلد ۴ ۵۰۳ سال ۱۹۱۵ کریں ، وہ بدرجہ اولیٰ یوسف ہیں اور ان کی تلاش ہر ایک مومن کا فرض ہے.پس اُٹھو اور ان یوسفوں کو تلاش کرو کہ یعقوب علیہ السلام کا ایک یوسف گم ہو گیا تھا اور تمہارے کروڑوں یوسف گمشدہ ہیں.آنحضرت صلی اینم کی غلامی کا دم بھرنے والے لوگوں کی تعداد کتنی ہے کم سے کم اٹھارہ کروڑ ہے لیکن اس وقت وہ دین سے دور اور اللہ تعالیٰ سے غافل ہے اور آب حیات کی پیاسی ہے.کیا وہ ہمارے یوسف نہیں.پھر ان کے علاوہ کروڑوں کروڑ ایسی مخلوق موجود ہے جو اسلام کی صداقت کو قبول کرنے کیلئے تیار ہے کیا وہ ہمارے یوسف نہیں ہیں، ضرور ہیں.پس اس قدر یوسفوں کے کھوئے جانے پر بھی کیا تم مستی سے کام لو گے اور ہمت ہار کر بیٹھ جاؤ گے.اٹھو اور ان کی تلاش کرو کہ ان کے مل جانے پر وہ حقیقی یوسف یعنی اسلام بھی مل جائے گا.اور کبھی مت خیال کرو کہ لوگ سنتے نہیں ، لوگ سنتے ہیں اور ضرور سنتے ہیں.دشمنوں کی ملامتوں کی پرواہ نہ کرو اور اس کی ملامت سے تم اپنے ے کاموں کو نہ چھوڑو.کسی کو کیا معلوم ہے کہ موت کس وقت آجائے گی خدا کے حضور تم نے جواب دینا ہے.اگر تم نے غفلت میں اپنا وقت ضائع کر دیا تو خدا کے حضور کیا جواب دو گے اور کون سا منہ لے کر خدا کے سامنے جاؤ گے.میں تمہیں یعقوب کی طرح کہتا ہوں لَا تَايْنَسُوا مِنْ روح الله تم خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت سے ناامید ہو کر نہ بیٹھ جاؤ.اگر کوئی چیز مقابلہ کیلئے تمہارے سامنے آئے تو اس کی مت پر واہ کرو.ایک وہ قومیں ہیں جو اپنے بچوں عورتوں کو قوم کی خدمت کیلئے لگا رہی ہیں.موجودہ وقت میں جس قدر سامان جنگ سلطنت برطانیہ کے پاس ہیں اس کے مقابلہ میں جرمنی اور آسٹریا کے پاس بہت ہی تھوڑا ہے لیکن باوجود اسباب کے اس وقت کے مدبرین نے ان کی ہمت اور استقلال کو مانا ہے وہ ذرا ہمت نہیں ہارتے.اور باوجود کل سامانوں کی مخالفت کے مقابلہ سے ہاتھ نہیں روکتے.اس دنیاوی دشمن سے نصیحت حاصل کرو کہ اس کیلئے خدا نے کوئی وعدہ نہیں کیا کہ میں تم کو غالب کروں گا اور اس کی شکست دنیاوی سامانوں کے لحاظ سے یقینی معلوم ہوتی ہے بلکہ خدا کا ہاتھ بھی اس کے خلاف معلوم ہوتا ہے کہ جہاں اس کو کامیابی کی امید ہوتی ہے وہیں ایسی کوئی نئی بات پیدا ہو جاتی کہ فتح کو شکست میں بدل دیتی ہے مگر پھر بھی وہ اس قدر ہمت اور استقلال سے کام کرتا ہے.تمہارے لئے تو خدا نے یہ وعدہ کیا ہے کہ تم فتح پاؤ گے.پھر تم کیوں ہمت ہارتے ہو کیا ہے کی

Page 513

خطبات محمود جلد ۴ ۵۰۴ سال ۱۹۱۵ صرف اس لئے نا امید ہوتے ہو کہ لوگ نہیں سنتے نہیں یہ خیال مت کرو، جو آج نہیں سنتا وہ کل سنے گا جو اس مہینے میں نہیں سنتا وہ اگلے مہینے میں سنے گا.جو آج تم سے نفرت کرتا ہے وہ کل تم سے محبت اور اُلفت کرے گا.اگر آج دور رہتا ہے تو کل قریب آئے گا.کیا یہ سچ نہیں کہ ہم میں بہت سے ایسے احمدی موجود ہیں جو پہلے سخت مخالف تھے.لیکن آج دین پر جان قربان کرتے ہیں.پھر کیا وہ ہمارے لئے سبق نہیں کہ ہر ایک کام اپنے وقت پر ہوتا ہے اور جو لوگ ہمارے سخت مخالف ہیں ان سے ہمیں بالکل نہیں ڈرنا چاہئیے نا امید نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ نہیں معلوم کہ جب ہم مایوس ہو کر بیٹھ گئے وہی وقت ان کی ہدایت کا ہو.پس ہمیں چاہئیے کہ ہم اس وقت تک اپنے کام کو نہ چھوڑیں جب تک کہ موت ہمارے ہونٹوں کو بند نہ کر دے.اس میں شک نہیں کہ اس وقت بھی ہماری جماعت ترقی کر رہی ہے لیکن ترقی کی جو رفتار ہے وہ بہت آہستہ اور سست ہے.در حقیقت اگر سوچو تو یہ ہماری غفلتوں اور سستیوں کا نتیجہ ہے.اسلام بھی اس وقت یوسف کی طرح غلام ہوکر پک رہا ہے تم اس کوشش میں لگ جاؤ کہ خدا کا چہرہ نظر آئے کیا تمہاری آنکھیں اس بات کو دیکھنے کی خواہش نہیں رکھتیں کہ لا إله إلا اللہ کہنے والے چاروں طرف نظر آئیں.کیا تمہارا دل نہیں چاہتا کہ مسیح موعود کو دجال کہنے کی بجائے انہیں نبی کہا جائے.مبارک ہیں وہ جن کے ذریعہ یہ کام ہوتا ہے وہ وقت آئے گا اور ضرور آئے گا جب یہ کام ہو کر رہیں گے کیونکہ یہ خدا کے وعدے ہیں جو ضرور پورے ہوں گے.لیکن کاش وہ دن ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور ہمارے ذریعہ ہوں تاہم برکت پائیں اور ہم ہی ان درجات کو حاصل کرنے والے ہوں.اسلام کو لانے والے اور اسی طرح شریا سے ایمان لانے والے کا نام دنیا میں بلند دیکھیں خدا تعالیٰ ہماری محنتوں کو ضائع نہیں کرے گا.پس تم ہوشیار ہو جاؤ یہی تمہارے کام کرنے کے دن ہیں تم تھک کر مت کی بیٹھو.میں پھر کہتا ہوں يُبَنِى اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ يُوسُفَ وَآخِيهِ وَلَا تَايُنَسُوا مِن رَّوح اللہ.اے میرے بیٹو! تم اسلام کی خبر لو اور اس سے غافل اور نا امید نہ ہو.روح کے معنے نصرت اور فضل اور آرام کے ہیں پس تم خدا تعالیٰ کی نصرت اور مدد سے نا امید نہ ہو.خدا تعالی تمہیں تو فیق دے کہ تم ان انعامات کے وارث بنو.آمین الفضل ۲۱ نومبر ۱۹۱۵ء) یوسف: ۸۸ ۲ ترمذی کتاب العلم باب ما جاء في فضل الفقه على العبادة

Page 514

خطبات محمود جلد ۴ (91) خدا اور اس کے رسولوں کے ساتھ استہزاء بہت بڑا جرم ہے (فرموده ۱۹.نومبر ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۵ء حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد مندرجہ ذیل آیات پڑھ کر فرمایا:.يَحْذَرُ الْمُنْفِقُونَ أَنْ تُنَزَّلَ عَلَيْهِمُ سُوْرَةٌ تُنَبّههم بما في قُلُوعِهم « قُلِ اسْتَهْزِءُوا اِنَّ اللهَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُونَ وَلَئِن سَأَلْعَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللهِ وَايْتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُونَ.لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إيْمَانِكُمْ ، اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ گناہ دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ ہیں جو اصول کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور ایک فروعات سے تعلق رکھتے ہیں.بعض گناہ اس قسم کے ہیں جو اپنے اندر ایک اہمیت تو رکھتے ہیں لیکن ان کا مرتکب جب تک انہی کے دائرہ اور حلقہ میں رہتا ہے سلب ایمان اور دل کو سیاہ کرنے کا باعث نہیں ہوتا اور اس کا ضرر اور نقصان محدود ہی رہتا ہے.لیکن بعض گناہ اس قسم کے ہوتے ہیں جو بظاہر بہت ہی چھوٹے اور حقیر معلوم ہوتے ہیں مگر ان کا انجام اور نتیجہ نہایت ہی خطرناک ہوتا ہے.وہ انسان کے دل کو سیاہ کر دیتے ہیں حتی کہ سلب ایمان کا باعث ہو جاتے ہیں.ایسے گناہ کو جب تک جڑ سے ہی نہ کاٹ دیا جائے اس کی اصلاح بہت دشوار ہو جاتی ہے.اور پھر انسان سے اس کا نکلنا بہت مشکل ہو جاتا ہے.اس لئے مومن کو چاہئیے کہ ایسے گناہوں کی اصلاح ابتداء ہی سے کرے ورنہ بڑھ جائیں گے اور دل کو سیاہ

Page 515

خطبات محمود جلد ۴ سال ۱۹۱۵ء کر دیں گے اور غفلت دن بدن ترقی کرتی چلی جائے گی.دیکھو بعض درخت اس قسم کے ہیں جن کے بیج اور گٹھلیاں تو بڑی ہوتی ہیں مگر ان کا درخت چھوٹا ہوتا ہے.اور بعض درخت ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا بیج تو بہت چھوٹا ہوتا ہے مگر ان کا درخت بہت ہی بڑا ہوتا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ بعض چیزیں جنہیں انسان حقیر اور ضعیف سمجھتا ہے نتیجہ میں بہت بڑی ہوتی ہے ہیں.اس لئے ایسے گناہ کی اصلاح جس قدر جلدی ہو سکے کرنی چاہئیے اور غفلت سے کام نہیں لینا چاہیئے.اور اگر ایسے گناہ کی اصلاح ابتداء ہی نہ کی جائے تو رفتہ رفتہ وہ غالب آجائے گا.اور اس کے غالب آنے کے بعد اس کو مغلوب کرنا مشکل ہو جائے گا.پس مومن کو ایسے گناہوں سے بہت ڈرنا اور ہوشیاری سے کام لینا چاہئے.اور اس کی اصلاح کیلئے ہر وقت کوشاں رہنا چاہیئے.ورنہ جب اس کا درخت مضبوط ہو جائے گا پھر اس کا اکھیڑ نا بہت دشوار ہوگا.ان گناہوں میں سے جو بظاہر خفیف اور ہلکے معلوم ہوتے ہیں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور اس کی آیات کے ساتھ استہزاء اور ہنسی ٹھٹھا کیا جائے.بعض آدمیوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ اس بات کی چنداں پرواہ نہیں کرتے اور اس گستاخی اور بے ادبی سے انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ ایسے انسان کو بے ایمان اور رسوا کر کے تباہ کر دیتا ہے.ایک دفعہ حضرت خلیفہ اسیح الاول عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ " پر کچھ سنا رہے تھے تو فرمانے لگے کوئی استاد تھا اس نے اپنے شاگردوں کو کہا کہ فلاں جگہ قرآن مجید رکھا ہے وہاں سے اتار لاؤ.جب اس نے پکڑ کر اُتارا تو اس قرآن پر کچھ مٹی وغیرہ پڑ گئی تھی وہ مٹی اس استاد پر گر گئی.اس وقت اس کے استاد نے آیت لَيْتَنِي كُنْتُ تُرَاباً پڑھ دی.اس کا شاگر د بھی بڑا ہوشیار تھا اس نے جھٹ پڑھ دیا وَ يَقُولُ الْكَافِرُ يُلَيْتَنِي كُنْتُ تُرَاباس ایسے موقعہ پر استاد کا اس آیت کریمہ کو پڑھنا بالکل بے عمل تھا.وہ وقت جب کہ انسان خدائے ذوالجلال کے پاس کھڑا تھر تھرائے گا اور اسے بات کرنے کی بھی جرأت نہ ہوگی اور تمام اعمال حبط نظر آئیں گے اور خوف کے مارے انسان کا دل کا نپتا ہوگا.اور عذاب الہی سے بچنے کی کوئی راہ نظر نہ آئے گی اور جس وقت کہ تمام خوشامد میں اور راحتیں اس کی نظر میں بیچ ہو جائیں گی اور جس وقت کہ انسان اپنی بدیوں کو دیکھ کر اندر ہی اندر گھلتا جائے گا اور شرم کے مارے آنکھ نہیں اٹھا سکے گا، اس وقت تو لَيْتَنِي كُنتُ تُرَابًا کہنا موزون اور برمحل ہو سکتا ہے لیکن اس مٹی کے گرنے پر اس آیت کو پڑھنا قرآن کریم کی آیات کے

Page 516

خطبات محمود جلد ۴ ۵۰۷ سال ۱۹۱۵؛..ساتھ کس قدر استہزاء اور ہنسی ہے.ایک چور تو چوری کر کے ایمان میں رہ سکتا ہے لیکن ایک ایسا انسان جو خدا اور اس کے رسولوں کے ساتھ استہزاء اور ہنسی سے کام لیتا ہے خدا تعالیٰ کے نزدیک بہت مُجرم ہے.خدا تعالیٰ کے انبیاء کے ساتھ استہزاء کرنے والا در حقیقت خدا تعالیٰ سے استہزاء کرتا ہے.گو بظاہر یہ گناہ بہت چھوٹا سا معلوم ہوتا ہے.لیکن در حقیقت بہت بڑا گناہ ہے.اس آیت کریمہ میں خدا تعالیٰ نے استہزاء کے متعلق بڑی تنبیہ فرمائی ہے دراصل یہ آیات تو منافقوں کے متعلق ہیں لیکن ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے اس مضمون کو بھی بیان فرمایا ہے کہ وہ دل جو یقین اور نور معرفت سے معمور ہے اور پھر باوجود مومن ہونے کے قدم کافرانہ رکھتا ہے اور استہزاء کا طریق اختیار کرتا ہے، درحقیقت وہ خدا تعالیٰ سے دور ہے.بہت سے ہیں جو خدا تعالیٰ کا نام ہنسی سے لیتے اور فضول فضول سی باتوں پر خدا تعالیٰ کی آیات کو چسپاں کرتے ہیں.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ڈاکٹر عبد الحکیم مرتد قادیان میں تھا اور ان دنوں میاں شریف صاحب کو ایک بیماری تھی اور ناک سے بہت پانی بہتا تھا.اس وقت اس نے آیت جَنَّتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ سے پڑھی.گو میں اس وقت ہے چھوٹا تھا لیکن اس کا ایسے موقع پر اس آیت کو پڑھنا مجھے سخت ناگوار گزرا جس کی وجہ اس سے مجھے سخت نفرت ہو گئی.اس نے خدا تعالیٰ کی آیت سے استہزاء کیا جس کی وجہ سے دیکھو اسے خدا تعالیٰ نے کیسا ذلیل کیا.اسے ایسی خفیف اور چھوٹی چھوٹی باتوں کی پرواہ نہ کرنے کی وجہ سے کس قدر صداقتوں کا انکار کرنا پڑا.میں دیکھتا ہوں ہمارے بعض دوست اب بھی اس مرض میں مبتلا ہیں.ان کو چاہیے کہ اس سے پر ہیز کریں.حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ ہمیشہ اس بدی کی مذمت کرتے رہتے اور اس کے چھوڑنے کیلئے بہت زور سے تاکید فرمایا کرتے.جیسا کہ میں نے کہا ہے.میں نے اب بھی دیکھا ہے کہ بعض دوست با وجود حق کو سمجھنے کیلئے محض روانی زبان اور مشق کیلئے ایسے اہم مسائل پر بحث و مباحثہ کرتے ہیں جن کے وہ اہل نہیں.اور پھر باوجود دلائل جاننے کے دوسروں سے دلائل مانگتے اور ان پر عجیب عجیب جرحیں کرتے ہیں.مثلاً بعض تو خدا تعالیٰ کی ہستی پر گفتگو کرتے ہیں.ایک خدا کی ہستی کا منکر بن جاتا ہے اور وہ اپنے دلائل دینے شروع کرتا ہے اور بڑے زور سے یہ ثابت کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نہیں ہے ادھر سے دوسرا اس کے دلائل کو تو ڑتا اور اپنی تائید میں بڑے بڑے دلائل دیتا اور آیات قرآنی پیش کرتا ہے پھر ایک

Page 517

خطبات محمود جلد ۴ ۵۰۸ سال ۱۹۱۵ رسالت کا انکار کرتا ہے تو دوسرا اس کا اثبات کرتا ہے.پھر اگر کوئی شخص لغو سا سوال بھی پیش کرتا ہے تو دوسرا اس کا جواب دینے کے درپے ہوتا ہے.گویا ایسے اہم مسائل میں پڑ کر وہ اللہ تعالیٰ اور اسکی آیات اور رسولوں کے انکار کے بڑے بڑے دلائل دیں گے اور استہزاء کریں گے.لیکن استہزاء کے طور پر کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس بات کو بدلائل ثابت کرو کہ تم حرام زادے ہو یا تمہاری بہن بدکار اور حرام کا رتھی یا تمہاری ماں ایسی تھی یا تمہارا فلاں رشتہ دار ایسا بد کار ہے.جب تم اپنے متعلق استہزاء کے طور پر اس قسم کے مباحثات اور مناظرات کو روانی زبان اور مشق کیلئے نہیں کرتے تو کیا خدا تعالیٰ اور اس کے رسول اور اس کے آیات ہی تمہاری مشق اور استہزاء کیلئے رہ گئے ہیں.کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے آقا رب کے متعلق ایسی لغو اور بیہودہ مسائل کو بدلائل ثابت کرے؟ جب تم اپنے نفسوں کیلئے استہزاء کے طور پر یہ پسند نہیں کرتے.اور اگر ایسا کرو بھی تو ایک منٹ میں تم خون خون ہو جاؤ تو پھر بتلاؤ کیا خدا اور اس کے رسول اور آیات اور قرآن کریم اور مسیح موعود کے دعاوی کا انکار اور اثبات ہی تمہاری استہزاء کیلئے رہ گئے ہیں.ایسے عظیم الشان مسائل میں جو لوگ اپنے آپ کو اس کا اہل سمجھتے ہیں اور اس کے متعلق مباحثات اور باتیں کرتے ہیں وہ کبھی نور معرفت اور روحانیت کو نہیں پاسکتے ، روحانیت کی ترقی اس سے قطعا رک جاتی ہے.دیکھو! جب سے مسلمانوں نے یہ رنگ اختیار کیا ہے اس کی ترقی بالکل مسدود ہو گئی ان کا ہمیشہ یہی دستور رہا اور اب بھی یہی ہے کہ جہاں کسی نے بات کی اس پر اعتراض شروع کر دیئے اور جہاں کسی نے خدا تعالیٰ کی ہستی یا رسالت یا کسی اور مسئلہ پر تقریر کی اعتراض اور جرح شروع کر دی.اور اگر ان کو کہا جائے کہ تم خدا تعالیٰ کی ہستی کے دلائل دو یا قرآن کریم کی صداقت کے دلائل بتلاؤ تو جواب کے وقت مبہوت ہو جائیں گے، اعتراض تو ہزاروں کر دیں گے مگر جواب نہ دے سکیں گے.میں جب خلیفتہ امسیح الاول کے پاس پڑھا کرتا تھا تو پہلے پہلے مجھے بھی اعتراض کرنے کا بڑا شوق رہتا تھا.چنانچہ میں نے ایک دو بار جب اعتراض کئے تو حضرت خلیفہ لمسیح الاول نے مجھے اعتراض کرنے سے روک دیا.پھر جب میں نے مثنوی ۵ پڑھی تو بعض وقت مجھے بہت ہی مشکلات پیش آتیں مگر میں اعتراض نہ کیا کرتا.پھر خدا تعالیٰ مجھے خود ہی سمجھا دیا کرتا تھا.انسان جب خدا تعالیٰ کیلئے کوئی کام کرتا ہے تو خدا تعالیٰ خود اس کی تائید فرما دیتا ہے.اس کی کیا وجہ تھی کہ

Page 518

خطبات محمود جلد ۴ ۵۰۹ سال ۱۹۱۵ ء حضرت مولوی صاحب! مجھے روک دیا کرتے تھے؟ وجہ یہی ہے کہ انسان جب اعتراض کرتا ہے تو اپنی بات کو منوانے کیلئے خواہ مخواہ ادھر ادھر سے دلائل دینے شروع کر دیتا ہے خواہ ناحق پر ہی ہو.پھر وہ انسان ہمیشہ اپنی بات منوانا چاہتا ہے.ایسے ہی جب کفار سے پوچھا جاتا کہ تم ایسی باتیں کیوں کرتے ہو تو کہ دیتے كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ نہیں جی ! ہم تو یونہی مشق کے طور پر ذرا باتیں کر رہے تھے تو خدا تعالیٰ نے اس پر ان کو سخت ڈانٹ دی اور کہا قُلْ أَبِاللهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُونَ.کیا خدا اور اس کے آیات اور اس کا رسول ہی استہزاء ہنسی کیلئے رہ گئے ہیں تم اپنے والدین ، دوستوں، پیاروں سے کیوں تمسخر اور استہزاء نہیں کرتے؟ صرف اس لئے کہ وہ قابل عزت اور کسی قدر ظاہری دباؤ رکھتے ہیں.کیا کوئی شخص ڈپٹی کمشنر یا گورنر یا کسی بڑے آفیسر کے سامنے استہزاء کرتا ہے کیوں نہیں؟ صرف اس لئے کہ اس کا ظاہری ادبی ملحوظ رکھنا پڑتا ہے یا ان کا ڈر ہوتا ہے.جب ان کے سامنے کسی کی مجال نہیں تو پھر وہ خدا جو تمہارا مالک ہے اس سے اور اس کی آیات اور اس کے رسول سے تمسخر کرتے ہو اور اس سے نہیں ڈرتے.لا تَعْتَذِرُوا سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس فعل کا نتیجہ ہے اور اسی وجہ سے ان لوگوں کے متعلق ایسا خطرناک فتویٰ دیا گیا ہے.در حقیقت یہ فتویٰ انتہائی درجہ کا ہے اور یہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ لوگ ابتداء اس نے کی جڑھ کو نہیں کاٹتے.جب انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو پھر اس کو چھوڑنا بہت مشکل ہو جاتا ہے.جن لوگوں کو ہنسی اور استہزاء کی عادت ہو جاتی ہے ان کی روحانی ترقی نہیں ہو سکتی.خشیت اللہ بالکل جاتی رہتی ہے استہزاء کرنے والا شخص خواہ کیسی ہی مضبوط چٹان پر کیوں نہ ہو وہ پھسل جاتا ہے.ایک دفعہ ہمارے کچھ مبلغ ایسی جگہ گئے تو وہاں پر وہ بطور مشق احمد بیگ والی پیشگوئی کے متعلق مباحثہ کرنے لگے.ایک کہنے لگا کہ حضرت صاحب اس آیت کے مصداق تھے.دوسرا کہنے لگا نہیں آپ تو اس کے مصداق نہیں تھے وہ جن کی اصلاح کیلئے گئے تھے ان میں سے دو شخصوں نے خیال کیا کہ یہ تو یونہی بات بنی ہوئی ہے اس میں تو کچھ حقیقت نہیں آخر وہ دونوں مرتد ہو گئے اور انہیں اس سے ابتلاء آ گیا.اب جن کی وجہ سے ان کو ابتلاء آیا یہ گناہ ان کے سر پر پڑے گا کہ ان کی وجہ سے وہ پھر گئے اور پھر جو ان کو دیکھ کر مرتد ہوں گے ان کی سزا بھی ان کو ملے گی.

Page 519

خطبات محمود جلد ۴ ۵۱۰ سال ۱۹۱۵ء قادیان میں ایک دفعہ وفات مسیح اور حیات مسیح پرمشق کے طور پر مباحثہ ہوا اس پر ایک شخص نے یہ کہہ دیا کہ مجھے تو اس مسئلہ میں شبہ پڑ گیا ہے.اسی وجہ سے میں ڈبیٹ (مباحثہ ) کو نا پسند کرتا ہوں کیونکہ اس میں بھی یہی طریق ہوتا ہے.حضرت خلیفہ المسیح الا ول بھی اس طریق کو بہت ناپسند فرماتے تھے.کیا کوئی شخص اس بات پر ڈبیٹ کرتا دیکھا ہے کہ ایک کہے جارج پنجم بادشاہ ہے اور دوسرا کہے نہیں.اس کی کیا وجہ ہے کہ لوگ ڈرتے ہیں.یہی وجہ ہے اس جرم کی سزا تو اخباروں میں شائع کی جاتی ہے اور لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ اگر ہم نے ایسا کام کیا تو ضرور گورنمنٹ پکڑے گی اور سزا دے گی.جب ایسی استہزاء کی باتوں پر گورنمنٹ نہیں چھوڑتی تو وہ خدا جس کی سلطنت نہایت زبردست ہے اور جس کی پولیس مخفی در مخفی ہے وہ کیونکر ایسے مجرم کو چھوڑ سکتا ہے.ایک مبائع تو میرے سامنے بیٹھ کر یہ جرأت نہیں کر سکتا کہ وہ خلافت کے متعلق یہ بحث شروع کر دے کہ میں خلیفہ ہوں یا نہیں یا خلافت کی ضرورت ہے یا نہیں کیوں وہ میرے سامنے ایسی بات نہیں کرتا صرف اس لئے کہ مجھے وہ اپنا امام سمجھتا ہے میرا ادب کرتا ہے ہے.تو وہ خدا جس کی حکومت وسیع ہے اس کے سامنے کیوں ایسے استہزاء اور تمسخر کے کلمات بولتے ہو.کیا تم اس خدا سے نہیں ڈرتے.کیا خدا کا ڈر معمولی آفیسر کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا؟ میں دیکھتا ہوں کہ اس معاملہ میں ابھی اصلاح کی بہت ضرورت ہے اور ہمارے دوستوں کو اس طرف بہت توجہ کرنی چاہیئے.کیا بحث و مباحثہ اور استہزاء کرنے کیلئے دوسری قومیں تھوڑی ہیں جو تم اس پر اپنے اوقات صرف کرتے ہو؟ بحث و مباحثہ سے بہت کم ہدایت اور معرفت حاصل ہوتی ہے.یہ مولویانہ طریق ہے یہ ایمان کو جڑ سے اکھیڑ دیتا ہے کیا خدا تعالیٰ کی ہستی ، انبیاء کی نبوت مسیح موعود کی صداقت اور قرآن کریم کے انکار کرنے والے پہلے دنیا میں تھوڑے ہیں؟ انکار کرنے والی تو ساری دنیا ہے مگر اقرار کرنے والے تھوڑے ہیں.زیادہ لوگوں میں قدر نہیں ہوتی بلکہ تھوڑے لوگوں میں قدر ہوتی ہے جاہل تو دنیا میں کروڑہا ہوں گے مگر ایم اے اور بی اے دنیا میں تھوڑے ہیں.پھر دیکھو کن کی قدر ہوتی ہے.ایسے ہی حقیقی اسلام یعنی احمدیت کے نام لیوا تو تھوڑے بلکہ بہت ہی قلیل ہیں لیکن اس کے منکر ساری دنیا میں پائے جاتے ہیں.پس تم کو چاہئے کہ اپنی طبیعتوں میں وہ رنگ پیدا کرو جو صحابہ رضی اللہ عنہم میں تھا.وہ کبھی اس قسم کے مباحثات میں نہ پڑتے تھے بلکہ جب کبھی اکٹھے ہوتے تو جو جو نکات معرفت یا کسی

Page 520

خطبات محمود جلد ۴ ۵۱۱ سال ۱۹۱۵ء آیت کے عجیب معنے سو جھتے وہ ایک دوسرے کو سنایا کرتے.وہ کبھی خدا کی ہستی اور انبیاء کی نبوت کا انکار کر کے اس قسم کی لغو باتوں میں نہ پڑتے.تم کو بھی چاہئیے کہ جب مسجد میں آؤ بجائے اس کے کہ تم ایسی باتوں میں پڑو اور امام کے آنے تک مباحثات میں لگے رہو یہ باتیں کرو کہ مجھے آج قرآن میں تدبر کرتے کرتے یہ نکتہ سوجھا ہے اور فلاں آیت کے یہ نئے معنے سمجھ آئے ہیں.اس سے تمہاری روحانی ترقی بھی ہوگی نور ایمان بھی دن بدن بڑھے گا اور تم اپنے اندر ایک بین تبدیلی پاؤگے.جنگ تبوک میں بھی بعض منافقوں نے مسلمانوں کو یہ کہنا شروع کیا کہ تم بڑے بزدل اور ڈرپوک ہو بڑے کمزور ہو جب حضرت نبی کریم کے پاس یہ معاملہ پہنچا اور آپ نے پوچھا تو جواب میں کہا گیا کہ حضور ہم تو اس لئے کہتے کہ سفر جلدی کٹ جائے گا اور ہم باتوں ہی باتوں میں منزل مقصود تک پہنچ جائیں گے تو خدا تعالیٰ نے اس پر بڑی ڈانٹ دی اور کہا قُلْ أَبِاللهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُم تَسْتَهْزِءُونَ.کیا خدا اور اس کی آیات اور اس کے رسول سے استہزاء کرتے ہو کیا وہی استہزاء کیلئے رد گئے ہیں.یہ مرض تلوار کی دھار سے بڑھ کر تیز ہے تم کو اس سے بچنا چاہئیے.نبی کریم صلی می ایستم فرماتے ہیں کہ میں بھی ہنسی کرتا ہوں مگر میری ہنسی میں جھوٹ نہیں ہوتا تم بے شک مذاق کرو مگر اس حد تک کہ اس میں جھوٹ نہ ہوا اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسول اور اس کی آیات سے بھی استہزاء اور ہنسی نہ کرو.خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو اس مرض سے محفوظ رکھے اور شیطان سے اپنی پناہ میں رکھے.آمین الفضل ۲۸.جولائی ۱۹۶۵ء) ل التوبة : ۶۴ تا ۶۶ ل سورة النباء: البقرة: ٢٦ ه مثنوی مولا نا روم مراد ہے.حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ المسیح الاول النباء : ام

Page 521

خطبات محمود جلد ۴ ۵۱۲ (۹۲) سال ۱۹۱۵ ء کامل ایمان کا پتہ مصیبت کے وقت ہی لگتا ہے (فرمودہ ۱۰.دسمبر ۱۹۱۵ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی :.وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللهَ عَلَى حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرُنِ احْمَانَ بِهِ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةُ انْقَلَبَ عَلَى وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ اس کے بعد فرمایا.ایمان جو انسان کو خدا تعالیٰ کے انعامات کا وارث کرتا ہے اور اس کا مقرب پیارا اور نعمتوں کا جاذب بنا تا ہے، وہ ایمان ہر قسم کے شکوک اور شبہات اور ماسوا اللہ کی محبت سے خالی ہوتا ہے.وہی انسان کو کامیاب کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کی رضامندی کا باعث ہوتا ہے لیکن وہ ایمان جس میں ماسوا اللہ کی محبت کی ملاوٹ ہو وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا.کیونکہ دونوں محبتوں کا یکجا ہونا غیر ممکن ہے.ہمارے ہاں لوگ کہا کرتے ہیں کہ دو کشتیوں میں پاؤں رکھنے والا انسان کبھی نہیں بیچ سکتا.اگر دونوں کشتیاں کچھ وقت تک اکٹھی بھی چلی جائیں تو پانی کی روضرور ایک نہ ایک وقت ان کو علیحدہ کر دے گی اور دونوں کشتیوں میں پاؤں رکھنے والے انسان کی ٹانگیں چر جائیں گی اور وہ غرق وتباہ ہو جائے گا.اسی طرح خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والا اور دنیا سے محبت رکھنے والا کیونکر کا میاب ہو سکتا ہے؟ جب تک انسان کامل طور پر خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا نہ کرے اور دنیا کی محبت کو نہ چھوڑے کا میاب نہیں ہو سکتا.اکثر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ ایسے

Page 522

خطبات محمود جلد ۴ ۵۱۳ سال ۱۹۱۵ء ایمان کو لے کر خدا تعالیٰ سے ملنا چاہتے ہیں لیکن ایسے کمزور ایمان والوں کو جب خدا تعالی کی طرف سے انعام یا اکرام ملتا ہے تو بس ان کا ایمان پھوٹ پھوٹ کر نکلتا ہے اور جس جگہ بیٹھتے ہیں وہیں خدا تعالیٰ کے فضلوں اور کرموں کا ذکر شروع کر دیتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی محبت میں ایسے سرشار معلوم ہوتے ہیں کہ گویا ساری دنیا کے انعام انہی پر ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ کی محبت کا ان کو اس قدر اعتبار ہو جاتا ہے جس کی کوئی حد نہیں.اور کسی وقت ان کو کوئی تکلیف پہنچ جائے تو جھٹ شکایت شروع کر دیتے ہیں کہ خدا نے آگے ہم پر کون سا انعام کیا تھا جو اب تکلیف بھیج دی ہے.ایسے لوگوں کا ایمان اس ملمع شدہ چیز کی طرح ہوتا ہے جس کا ملمع کچھ دنوں بعد اُتر جائے اور اس چیز کی اصلی حقیقت کھل جائے.اسی طرح جب ایسے لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو ان کا ایمان جو دنیا کی محبت میں ملوث ہوتا ہے اس ملمع کی طرح کھل جاتا ہے اور ان کا کامل ایمان اور خدا تعالیٰ پر یقین کی جو حالت ہوتی ہے کچھ دنوں بعد کھل جاتی ہے بعض لوگوں کا ایمان کامل بھی ہوتا ہے مگر جب ابتلاء پیش آتا ہے تو ان کا ایمان بھی ڈگمگا جاتا ہے.در حقیقت وہ اپنے آپ کو بڑا کامل الایمان خیال کرتے ہیں مگر ابتلاء کے وقت وہ ایسے بودے نکلتے ہیں جس کی کوئی حد نہیں.ایسے ہی سکول کے بعض طلباء کی حالت ہوتی ہے وہ بھی اپنے آپ کو بڑا ہوشیار اور بڑا لائق سمجھتے ہیں مگر جب امتحان آتا ہے تو وہ ان کی کمزوری کو بتا دیتا ہے.اور آئندہ کیلئے اس لڑکے کو ہوشیار کر دیتا ہے جس کمزوری کو دیکھ کر اسے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے.اسی طرح بہت سے ابتلاء انسان کو فائدہ دے جاتے اور اس کی ترقی کا باعث ہوتے ہیں.اس ابتلاء کے بعد ہی انسان ترقی کرتا اور کوشش میں لگتا ہے جس طرح طلباء کے ماہواری امتحان ان کو بتلا دیتے ہیں کہ تم نے اس ماہ میں کس قدر محنت کی اور اس کا کیا ثمرہ پایا.اسی طرح ابتلاء انسان کو بتا دیتے ہیں کہ اس کے ایمان کی کیا حالت ہے اور وہ اپنے ایمان کو ملونی سے صاف کرنے کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں لیکن وہ لوگ جو ابتلاؤں سے فائدہ نہیں اٹھاتے وہ کبھی ترقی اور کامیابی حاصل نہیں کر سکتے.اس قسم کے لوگ نہ تو دنیا میں کامیاب ہوتے ہیں اور نہ آخرت میں پس ایسے لوگ جو ابتلاء کے وقت خدا تعالیٰ سے قطع تعلق کر لیتے ہیں پھر انہیں ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے.ایسے لوگ دین میں ہو کر دین سے خارج ہی ہوتے ہیں، بظاہر وہ خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتے ، کامل ایمان اور یقین ظاہر کرتے ہیں مگر

Page 523

خطبات محمود جلد ۴ ۵۱۴ سال ۱۹۱۵ء در حقیقت ان کو خدا تعالیٰ سے ذرا بھی تعلق نہیں ہوتا.پھر خدا تعالیٰ ایسے دو طرفہ تعلق رکھنے والے انسانوں کو کبھی پسند نہیں کرتا اور باوجود دین سے تعلق رکھنے کے وہ کسی کا میابی کا منہ نہیں دیکھ سکتے.ان کے مقابلہ میں کفار جو یکطرفہ تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں خدا تعالیٰ ان کو ترقی دیتا اور کامیاب کرتا چلا جاتا ہے.حضرت اقدس علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ جب ترکوں نے بغداد پر حملہ کیا تو اٹھارہ لاکھ آدمی انہوں نے قتل کئے اور ایسی تباہی مچائی جس کا کوئی ٹھکانہ نہیں.پھر فرماتے تھے کہ ایک شخص ایک ولی اللہ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ دعا کریں کیونکہ مسلمان تباہ اور ہلاک ہورہے ہیں اور کفار نے تمام بڑے بڑے آدمیوں کو قتل کر دیا ہے تو اس وقت اس نے کہا کہ میں جب آسمان کی طرف دعا کیلئے ہاتھ اٹھا تا ہوں تو ملائکہ کی طرف سے یہ آواز آتی ہے.أَيُّهَا الْكُفَّارُ : اقْتُلُوا الْفُجّار اے کا فرو.ان فاجروں کو مارو.حالانکہ ان دونوں فریقوں میں بڑا فرق تھا.ایک خدا کو ماننے والے تو دوسرے اس کے منکر.ایک رسولوں اور اس کی کتابوں کو ماننے والے مگر دوسرے اس سے متنفر.ایک دین کو ماننے والے اور دوسرے اس سے بیزار.ایک قرآن کو ماننے والے اور دوسرے اس کو مٹانے والے.اس میں کیا بھید ہے.یہی تو ہے کہ کفار گو ایسے ظاہر دشمن ہیں کہ جن کے دل میں ذرا بھی ایمان نہیں وہ تو خدا کا انکار کرتے ہیں مگر یہ بات وجود ماننے کے پھر نہیں مانتے اور دین سے خارج ہیں مسلمان کہتے تو تھے کہ ہم میں ایمان ہے مگر دراصل ان کے میں ایمان نہ تھا.لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کہتے تھے مگر پھر ناکام و نا مراد تھے یہی بات تو تھی کہ ان کے ایمانوں میں دنیا کی محبت مل گئی تھی اور خدا تعالیٰ سے پورا تعلق نہیں رہا تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خالص ایمان رکھ کر خدا تعالیٰ کو نہیں پکارتے تھے بلکہ ان کا آہ وزاری کرنا کسی خاص مدعا اور مقصد کیلئے تھا وہ خدا کی عبادت کرتے تھے لیکن در حقیقت ان کی عبادت کسی خاص غرض کیلئے ہوتی تھی.پس مومن کو چاہئیے کہ یکطرفہ تعلق رکھے.اور ہر رنج، دکھ، تکلیف اور آرام میں غرض بہر حال خدا تعالیٰ سے راضی ہو.بہت مسلمان جب کہ ان سے کہا جاتا ہے کہ تم نماز روزہ ادا کرو تو کہہ دیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہم دیا کیا ہے جو اتنی مشقت میں پڑیں.حالانکہ وہ احمق نہیں جانتے کہ جس منہ سے وہ یہ جواب دیتے ہیں اور جس دماغ سے سوچتے ہیں وہ بھی تو خدا ہی کا دیا ہوا تو ہے جب اس کے اس قدر احسان اور انعامات ہم پر ہیں تو کیا وجہ

Page 524

خطبات محمود جلد ۴ ۵۱۵ سال ۱۹۱۵ ہے کہ ہم اس کی شکر گزاری میں نہ لگ جائیں.مولانا رومی نے خاص ایمان والے انسان کے متعلق ایک عجیب قصہ لکھا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ایک شخص کے پاس لقمان بطرز غلام رہتے تھے ان کو ان سے بڑی محبت تھی اور ان سے بڑا تعلق تھا اور جو کچھ وہ کھا تا انہیں ساتھ شامل کرتا.ایک دفعہ بے فصل خربوزہ ان کے پاس آیا تو اس نے اس کی قاشیں کاٹ کر حضرت لقمان کو دیں تو انہوں نے اسے بڑے شوق سے کھایا پھر ایک اور دی اور اسے بھی بڑے شوق سے کھا یا آخر اس شخص کو بھی یہ خیال آیا کہ بڑے ہی مزے کی یہ چیز ہوگی جسے لقمان اتنے مزے اور شوق سے کھاتا ہے.جب اس نے خود ایک قاش لے کر منہ میں ڈالی تو وہ نہایت تلخ تھی اس نے کہا لقمان یہ تو بڑی تلخ اور کڑوی ہے تم اسے اس مزے اور شوق سے کھا رہے ہو تو حضرت لقمان نے جواب میں کہا کہ جس کے ہاتھ سے ہزاروں میٹھی چیز میں کھائی ہیں اگر ایک دفعہ کڑوی اور تلخ کھالی تو کون سا حرج ہو گیا سے.اس شخص کے احسانات حضرت لقمان پر اتنے کیا ہوں گے لیکن انہوں نے اس کی ایسی قدر کی کہ اس کی دی ہوئی تلخ شے کو بھی میٹھا سمجھ کر کھا لیا.پھر خدا تعالیٰ کے اس قدر احسانات کے ہوتے ہوئے بھی جن کا کوئی حساب نہیں مومن کو کس ایمان کا نمونہ دکھانا چاہئے اور اگر کبھی اس کیلئے تکلیف برداشت کرنی پڑے تو کس خوشی سے اس کو قبول کرنا چاہئیے.پس ہر ایک انسان پر فرض ہے کہ وہ سوچتا ر ہے کہ مجھ میں لقمان کی روح ہے یا شیطان کی.اگر اس کے اندر لقمان کی روح ہے اور خدا تعالیٰ کی باتوں کو مانے کیلئے ہر وقت تیار ہے اور کسی وقت اس کے احکام میں اپنے آپ کو سرکش نہیں پاتا بلکہ ہر وقت ہر رنج و راحت پر صبر کرنے والا ہے تو وہی کامیاب اور مظفر و منصور ہو سکتا ہے والا وہ اپنے ایمان پر بھروسہ نہ کرے اس کا ایمان اسی وقت کام آ سکتا ہے جبکہ وہ ہر حالت میں خدا تعالیٰ کی مرضی پر راضی ہو اور اگر وہ اپنے ایمان پر بھروسہ کرے گا تو وہ ایمان ضرور اسے نامرادی کا منہ دکھائے گا.اس وقت تو ایمان لانے کیلئے خدا تعالیٰ نے بڑی آسانیاں کر دی ہے ہیں اور جو دقتیں صحابہ کے وقت میں تھیں اب وہ نہیں اُس وقت تو ایمان لانے کے واسطے بڑی بڑی وقتوں اور مصیبتوں کو برداشت کرنا پڑتا تھا اور ایمان لانے پر تلوار چلتی تھی.اس وقت نہ تو تلوار ہے اور نہ جانوں کی قربانی کرنی پڑتی ہے.صحابہ با وجود ان سب مشکلات اور مصائب کے ابتلاء کا نام نہیں لیتے تھے اور ایسے مصائب اور مشکلات کے ہوتے ہوئے بھی انہوں نے کبھی

Page 525

خطبات محمود جلد ۴ ۵۱۶ سال ۱۹۱۵ء خدا تعالیٰ کی شکایت نہیں کی.اور ان کو کبھی ایسی ایسی لغو باتوں پر ابتلاء نہیں آیا جیسا کہ اس وقت بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ فلاں بات پر ہمیں ابتلاء آ گیا.چنانچہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص قادیان میں آیا کوئی شخص اس کے پاس دوڑتا ہوا گزرا تو اسے گہنی لگ گئی اس بات پر اس کو ابتلاء آگیا اور کہنے لگا.کیا حضرت مسیح موعود کے ایسے ہی مرید ہیں.پھر بعض ایسے بھی ہوتے ہیں اگر ایک وقت روٹی نہ ملے تے یا جلی ہوئی مل جائے یا چار پائی ہی نہ ملے تو جھٹ ان کو ابتلاء آ جاتا ہے.ایسے لوگ ہر زمانہ میں ہوتے ہیں آنحضرت صالی ایم کے وقت بھی ایسے انسان موجود تھے لیکن بہت ہی کم.چنانچہ ایک دفعہ ایک جنگلی نے آنحضرت سالی سایتم کیبیعت کی.کچھ دنوں بعد اسے بخار ہو گیا تو وہ نبی کریم صلی یا ایم کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! میری بیعت واپس کر دیں کیونکہ مجھے تپ آ گیا ہے ہے.مگر بر خلاف اس کے ایسے ایسے بھی لوگ تھے جن کے قصے سن کر انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.ایک شخص کا ذکر احادیث میں آتا ہے.قرآن کریم میں بغیر نام ۵ کے اس کا ذکر آیا ہے حضرت نبی کریم صلی ای ام جب تبوک کو تشریف لے گئے تو تمام صحابہ نے جانے واسطے تیاری کی اور گھوڑے اونٹ تیار کئے لیکن اس شخص نے یہ خیال کیا کہ میں مالدار ہوں جب جانے کا وقت ہو گا تو جھٹ پٹ تمام تیاری کر لی جائے گی اور گھوڑے اونٹ وغیر خرید لئے جائیں گے اسی تیاری میں وہ دن آگیا کہ آپ تبوک کو رخصت ہوئے تب اسے خیال آیا کہ جلدی کوئی انتظام کرنا چاہیئے کیونکہ آپ رخصت ہو گئے ہیں.مگر انتظام کرتے کرتے معلوم ہوا کہ آپ کے دور نکل گئے ہیں.پس جب اس نے دیکھا کہ اب آپ سے ملنا مشکل ہے تو ارادہ کر لیا کہ جب آپ واپس تشریف لائیں گے تو ایسی مشکلات بیان کروں گا جن کے سبب سے آپ مجھ کو معذور خیال فرما دیں گے.جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں واپس تشریف لائے تو وہ سب لوگ جو مدینہ میں پیچھے رہ گئے تھے معذرت کیلئے آئے اور ہر ایک نے کوئی نہ کوئی معذوری اپنے متعلق بیان کر دی.آنحضرت صالی یہ تم نے ان سب کیلئے دعا کی لیکن وہ شخص کہتا ہے کہ جس وقت میں آنحضرت سلی کا الیتیم کے سامنے گیا تو وہ تمام غذر جو میں نے دل میں گھڑے تھے دل کے دل ہی میں رہے اور کچھ بھی بیان نہ کر سکا.آخر مجھے کہنا پڑا یا رسول اللہ! مجھے میرے نفس نے دھوکا دیا تھا تو آپ نے اس کے واسطے دعانہ کی.وہ کہتا ہے کہ جب میں آپ کے پاس سے اٹھا تو بعض لوگوں نے کہا کہ تو نے غذر کیوں نہ کیا، دیکھا آپ تجھ سے ناراض ہو گئے.اس پر کہتا

Page 526

خطبات محمود جلد ۴ ۵۱۷ سال ۱۹۱۵ء ہے کہ مجھے خیال آیا کہ میں اب بھی جا کر عذر کروں لیکن میرے دل میں آیا کہ پوچھوں تو سہی کہ میرے سوا کسی اور نے بھی اپنی غلطی کا اقرار کیا ہے.جب پوچھا تو دو اور شخص معلوم ہوئے وہ کہتا ہے کہ صرف وہ دو ہی شخص مسلمان تھے باقی کو ہم جانتے تھے کہ منافق ہیں.پس میں نے منافقوں میں شامل ہونا نہ چاہا.ان تینوں کے متعلق رسول کریم مان لیا کہ تم نے حکم دیا کہ کوئی ان سے کلام نہ کرے.پھر کچھ دنوں بعد بیویوں سے جُدا رہنے کا بھی حکم دے دیا.وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ میرا ایک چا کا بیٹا تھا.ایک دن تنگ ہوکر میں اس کے پاس گیا اور کہا کہ تم خوب جانتے ہو کہ میرا کوئی قصور نہیں ، صرف سستی کا یہ نتیجہ ہے.اس پر اس نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا اللہ اور اس کا رسول اچھی طرح جانتے ہیں اور اس کے سوا کوئی ہے جواب نہ دیا.اس پر میں وہاں سے چلا آیا.راستہ میں ایک عیسائی بادشاہ کا خط کسی نے مجھے دیا جس میں لکھا تھا کہ سنا ہے کہ تیرے ساتھ محمد سلایا کہ ہم نے بہت بُرا سلوک کیا ہے.ہمیں سن کر بہت افسوس ہوا ہے تو بہت بڑا آدمی ہے تو ہمارے پاس آجا ہم تیری عزت کریں گے.میں نے سمجھا کہ یہ شیطان کا حربہ ہے جو اپیچی خط لے کر آیا تھا اس کے سامنے ہی خط کو پھاڑ کر آگ میں ڈال دیا اور اس کو کہا میری طرف سے یہی جواب ہے اس شخص اور اس کے ساتھیوں کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے وَضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بما رحبت کہ زمین با وجود فراخ ہونے کے ان پر تنگ ہو گئی.لیکن باوجود اس ابتلاء اور اتنی بڑی مصیبت کے اس شخص کو بھی کس قدر عشق تھا کہ اسکے دل پر ذرہ بھی میل نہیں آئی بلکہ اس کی محبت کا حال اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بیان کرتا ہے انہی ناراضگی کے ایام میں میں آنحضرت سلام کے پاس جاتا السّلامُ عَلَيْكُمْ کہ کر بیٹھ جاتا اور پھر آپ کے منہ کی طرف دیکھتا کہ کیا آپ سلام کا جواب دیتے ہیں یا نہیں جب آپ کا دہن مبارک ہلتا نہ دیکھتا تو خیال کرتا کہ شاید میں دیکھ نہیں سکا آپ نے اپنے منہ میں جواب دے دیا ہوگا اور اپنے دل کی تسلی کیلئے پھر اٹھ کر مجلس سے چلا جاتا اور پھر واپس آکر سلام کہتا اور اسی طرح بار بار کرتا رہاہے.یہ تو ایک مثال ہے صحابہ میں اس کی بہت نظیریں موجود ہیں.اگر وہ لوگ بھی ہماری طرح ہی ذرہ ذرہ سی باتوں کو ابتلاء خیال کرتے تو کیسے کامیاب ہوتے.غرض ان لوگوں نے اپنے وطن، دوست ، بال بچے ، عزیز و اقارب کو چھوڑا اور خدا کے قریب ہوئے.سچی دوستی اور محبت اور کامل ایمان کا پتہ مصیبت کے وقت ہی لگتا ہے.مصیبت کے وقت ساتھ دینے

Page 527

خطبات محمود جلد ۴ ۵۱۸ سال ۱۹۱۵ء والے ہی سچے دوست ہوتے ہیں.آرام کے وقت میں تو ہر ایک دوست بن جاتا ہے.پس تمہیں بھی چاہئیے کہ ہر ابتلاء کے وقت تم دیکھو کہ آیا ہمارے ایمان تو ڈگمگا نہیں گئے اگر تمہارے ایمانوں کو ذرہ ذرہ مصیبتوں اور ابتلاؤں کے وقت میں پھسل جانے کا ڈر ہے تو تم خدا تعالیٰ سے تعلق بڑھاؤ اور اپنے ایمانوں کو کامل کرنے کی کوشش کرو.کامل ایمان اسی شخص کا ہے جو ابتلاءاور مصیبت کے وقت اپنے ایمان میں ذرا جنبش نہیں دیکھتا.بچے تعلق اور رشتہ کا پتہ تو اس وقت لگتا ہے جب کہ مصیبت آئے ورنہ آرام اور آسائش میں تو بد معاش اور شریر بھی خدا تعالیٰ سے بڑی عقیدت اور تعلق ظاہر کرتے ہیں مگر ان کے تعلق اور محبت اور کامل ایمان کا تو اسی وقت پتہ لگتا ہے جبکہ مصیبت اور ابتلاء آئے.اس آیت میں فرمایا کہ جس کا تعلق خدا تعالیٰ سے تی ایسا کمزور ہے وہ تو کھلے گھاٹے میں ہے.وہ کبھی کامیاب اور مظفر و منصور نہیں ہوسکتا.پس ہماری جماعت کو چاہیے کہ اپنے اندر ایسا ایمان پیدا کریں اور ذرہ ذرہ سی باتوں پر ابتلاء کا لفظ استعمال نہ کیا کریں.اگر روٹی نہ ملی تو کہ دیا کہ ابتلاء آ گیا یا کوئی اور چھوٹی سی تکلیف آگئی تو کہ دیا ابتلاء آیا.صحابہ رضی اللہ عنہم کے وقت میں تو تلوار چلتی تھی اور ابتلاء کا لفظ بھی زبان پر نہ لاتے تھے تم اپنے حوصلوں کو وسیع کرو.ایسے کامل ایمان کے لوگ بھی خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہماری جماعت میں موجود ہیں جن سے بیویاں چھن گئیں ، مکانات چھن گئے ،عزتیں جاتی رہیں، بچوں کو سکولوں سے روک دیا گیا اور طرح طرح کی اذیتیں ان کو دی گئیں مگر انہوں نے کبھی ابتلاء کا لفظ استعمال نہیں کیا.دیکھو شاہزادہ عبد اللطیف صاحب کو کیسی تکالیف دی گئیں مگر انہوں نے کبھی اس بات کا اظہار نہیں کیا کہ مجھے ابتلاء پیش آیا ہے.جو شخص شہزادہ عبداللطیف کے واقعات کو پیش نظر رکھے گا وہ ضرور فائدہ اٹھائے گا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کے متعلق ابتلاء کا لفظ استعمال کیا ہے لیکن جانتے ہو؟ وہ کیا ابتلاء تھا.آپ کے ابتلاؤں میں سے ایک تو ظاہر ہے یہ تھا کہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اپنے بچہ کو اپنے ہاتھ سے قتل کر دیں لیکن وہ بلا کسی غذر کے ایسا کرنے پر تیار ہو گئے آخر اللہ تعالیٰ کے بڑے بڑے انعامات کے وارث ہوئے.پس ذراذراسی باتوں پر ابتلاء کا لفظ بولنا ایمان کی کمزوری کا ثبوت ہے.بہت کم ہیں جنہیں ابتلاء آئے ہیں.ابتلاء کوئی چھوٹا سا لفظ نہیں.ابتلاء تو ایمان کی آزمائش کیلئے ہوتا ہے.گورنمنٹ بھی اپنے خادموں کی لیاقت ظاہر کرنے کیلئے ان کا امتحان لیتی ہے.ان ابتلاؤں سے

Page 528

خطبات محمود جلد ۴ ۵۱۹ سال ۱۹۱۵ء تو جن کو لوگ آج کل ابتلاء قرار دیتے ہیں ان امتحانوں کی سختی ہی زیادہ ہوتی ہے.پھر سمجھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کا امتحان کیسا ہونا چاہئیے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو وہ ایمان دے جو بڑے سے بڑے ابتلاء میں بھی قائم رہنے والا ہو لیکن ساتھ ہی ہم کو ابتلاء سے محفوظ بھی رکھے کہ ہم کمزور انسان ہیں.جو لوگ جلسہ کے منتظم ہیں ان کی یہ خواہش ہے کہ میں پھر لوگوں کو جلسہ کے کام کیلئے توجہ دلاؤں اور مہمانوں سے اچھا سلوک کرنے کی ترغیب دوں.بعض لوگ اس بات کی چنداں پرواہ نہیں کرتے اور مہمانوں سے جیسا سلوک کرنا چاہیئے وہ نہیں کرتے.حضرت مسیح موعود کے وقت میں بعض مہمانوں کو کھانے کی تکلیف ہوئی اور بعض لوگ میز بانوں کی بے توجہی سے بھوکے رہے.تو حضرت کو یہ الہام ہوا يأَيُّهَا النَّبِيُّ أطْعِمُوا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَرَت.پس تمہیں مہمانوں کی خاطر و تواضع اس طرح کرنی چاہیئے جیسا کہ تم چاہتے ہو کہ کوئی تمہاری خاطر کرے.کیا تم چاہتے ہو کہ تم کسی کے ہاں مہمان ہو جاؤ اور وہ تمہاری طرف توجہ بھی نہ کریں اور جب تمہارا سالن یا روٹی ختم ہو جائے تو وہ تمہیں کہہ دیں کہ اب سالن ختم ہو گیا ہے.پس ایسا نہ ہو کہ کوئی بات دریافت کریں تو ان کو خشک جواب دے دیا جائے.مثلاً اگر کوئی ناواقف شہر میں آجائے اور اس کی جگہ باہر ہو تو اسے کہہ دیا جائے کہ آپ کی جگہ یہاں نہیں آپ وہاں جائیں اور وہاں جائے تو باہر والے کہہ دیں کہ فلاں جگہ چلے جائیں وہ بیچارہ حیران ہو کر ادھر ادھر چکر لگا تار ہے.پس ہر ایک کو چاہیے خواہ وہ اس کا کام ہو یا نہ ہو اس کو واقف کرا دیں اگر خود نہ ساتھ جاتے سکیں تو کسی دوسرے کو اس کے ساتھ کر دیں جو ان کو جگہ بتلا دے.اگر کوئی غلطی ان سے ہو جائے تو بھی اپنی طرف ہی اسے منسوب کریں کیونکہ مہمانوں کا کام نہیں ہوتا کہ وہ تمہارے قواعد کو یاد کریں یہ قواعد صرف کارکنوں کی ہدایت کیلئے ہیں.بعض دفعہ دونوں جگہ مختلف کھانے پکنے سے بڑی ابتری پھیلتی ہے جو چیز یہاں پکے وہی چیز وہاں پکے ہر ایک تکلیف برداشت کر کے بھی انتظام کی عمدگی کی کوشش کرو.رو.بہت دفعہ کام سے کلام اچھا ہوتا ہے اگر تم اچھے اخلاق اور سلوک سے پیش آؤ گے تو وہ تمہاری محبت اور اخلاق ان اعلیٰ اعلیٰ کھانوں سے بہتر ہے جن کے ساتھ ترش روئی اور بدسلوکی کا برتاؤ ہو.پس تم کام بھی اچھا کرو اور کلام بھی اور اپنا ظاہر و باطن دونوں یکساں رکھو.بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ جب ہم دل سے خدا کا نام لیتے ہیں تو منہ اور جسم ہلانے کی کیا

Page 529

خطبات محمود جلد ۴ ۵۲۰ سال ۱۹۱۹ء ضرورت ہے مگر یہ ان کی جہالت ہے.روح کو جسم سے تعلق ہوتا ہے.پس یہ مت خیال کرو کہ ہمارے دل میں ان مہمانوں کی عزت اور محبت ہے جو کچھ دل میں ہے اس کو ظاہر بھی کرو اور صحابہ کی طرح مہمانوں کی خاطر و تواضع کرو.ایک دفعہ حضرت نبی کریم ملا لیا پی ایم کے پاس کچھ مہمان آگئے تو ایک صحابی نے کہا یا رسول اللہ ! ایک مہمان مجھے دے دیں میں اسے روٹی کھلاؤں گا.دوسرے نے کہا یا رسول اللہ ! دو مہمان مجھے دے دیں.جس کے دو مہمان تھے اس کے گھر میں صرف دو ہی آدمیوں کا کھانا تھا اس نے ی بیوی سے کہا کہ بچوں کو سلا دو اور کہہ دو کہ کھانا کھانے کے وقت تم کو جگا دیں گے بچے سو گئے بیوی سے کہا کہ میں تم سے کہوں گا کہ ذرا چراغ کی بتی کو اور اونچا کر دو.تو تم نے اس طرز سے اونچا کرنا ہے کہ وہ بجھ جائے.خیر اس نے ایسا ہی کیا.چراغ بجھنے کے بعد انہوں نے مہمانوں کو کہا کہ آپ اندھیرے میں ہی کھالیں.دیا تو اب بجھ گیا ہے.مہمانوں نے کھانا شروع کیا تو یہ بھی اس طرز سے منہ ہلاتے رہے کہ گویا خود بھی کھا رہے ہیں.جب صبح ہوئی تو وہ شخص نبی کریم صلی یتیم کے پاس آیا.آپ مسکرائے اور ساتھ ہی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے اس فعل پر ہنسا اور خوش ہوا.اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو بتلادیا کہ میں اس شخص پر خوش ہوں 2.پس تم کو بھی چاہئیے کہ تم مہمانوں کی خدمت میں لگ جاؤ اور کسی قسم کی غفلت نہ کرو کیونکہ مہمان نوازی خدا تعالیٰ کی خوشی کا باعث ہوتی ہے بیشک مہمانداری ایک دوسری چیز ہے.اور اصل غرض تو دین ہے کی اشاعت اور اتحاد جماعت ہے جس کیلئے جلسہ ہوتا ہے لیکن اگر مہمانوں کو تکلیف ہو تو وہ بے فکر ہو کر اس کام میں کیونکر شریک ہو سکتے ہیں جس کیلئے وہ یہاں آتے ہیں.پس گو وہ اس لئے یہاں نہیں آتے کہ ی ان کی خاطر کی جائے لیکن آپ لوگوں کی خدمت اصل غرض کے پورا کرنے میں بہت کچھ مدد دے سکتی ہے.الحج : ١٢ مہر منیر احمد فیض جامعه خوشیه گولر و صفحه ۳۴.الفضل ۱۸.دسمبر ۱۹۱۵ء) سے مثنوی مولوی معنوی مولانا جلال الدین رومی دفتر دوم صفحه ۱۵۱ تا ۱۵۳ ناشران اردو باز ارلاہور مترجم قاضی سجاد حسین

Page 530

خطبات محمود جلد ۴ ۵۲۱ بخاری کتاب الاحكام باب من بايع ثم استقال البيعة هي حضرت کعب بن مالک (مرتب) ت التوبة : ١١٨ بخاری کتاب المغازی باب حديث كعب بن مالك تذکرہ صفحہ ۷۴۶.ایڈیشن چہارم سال ۱۹۱۵ء و بخارى كتاب التفسير - تفسير سورة الحشر باب قوله ويؤثرون على انفسهم و مسلم کتاب الاشربة باب اکرام ضيف

Page 531

خطبات محمود جلد ۴ ۵۲۲ (۹۳) اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں بڑی بڑی حکمتیں مخفی ہیں (فرمودہ ۱۷.دسمبر ۱۹۱۵ء) سال ۱۹۱۹ء تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائیں:.مَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا، ذلِكَ ظَنُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَوَيْلٌ للَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَم نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَارِ كِتَب أَنْزَلْنَهُ مُبرَكَ لِيَدَّبَّرُوا ايْتِهِ وَلِيَتَذَكَرَ أولُوا الْأَلْبَابِ اور پھر فرمایا:.کوئی عقل مند انسان یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ ایسا کام کرے جس کی کوئی غرض اور مدعا نہ ہو.اور نہ یہ پسند کرتا ہے کہ کوئی ایسا فعل جس کی کوئی غرض اور غایت نہ ہو اس کی طرف منسوب کیا جائے.انسان جس قدر عقل میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے اسی قدر ہر فعل میں زیادہ غور و فکر کرتا ہے.اور اس میں کوئی ایک غرض مد نظر رکھ کر اپنی منشاء اور ارادے سے غور کرتا ہے.خواہ تعلیم کو حاصل کرے، خواہ ملازمت یا کوئی اور پیشہ کرے.خواہ دوست بنائے خواہ دشمن ، شادی کرے یا کوئی اور کام ایسا انسان جس کے دل میں کوئی غرض نہ ہو اور اس کا ہر ایک کام بلا غرض ہوا سے پاگل کہا کرتے ہیں.وہ شخص جو دن اور رات ہلا غرض و مدعا پھرتا رہے، اسے سب پاگل کہتے ہیں.مگر چوکیدار جو کہ تنخواہ بھی لیتا اور لوگوں کی حفاظت کیلئے پھرتا بھی ہے اسے کوئی پاگل نہیں کہتا.پھرنے میں تو دونوں برابر ہیں.مگر

Page 532

خطبات محمود جلد ۴ ۵۲۳ سال ۱۹۱۹ء چوکیدار ملازم ہو کر تنخواہ کیلئے پھرتا ہے، اس کا نام تو دیانتدار رکھا جاتا ہے مگر بلا غرض و مدعا پھرنے والا مجنون سمجھا جاتا ہے.اور اسی کام کے کرنے سے وہ پاگل کہلا تا ہے.ایک کاپی نویس جو اپنے کام کی اُجرت لے کر دن بھر لکھتا رہتا ہے اور ایک مزدور جو صبح سے شام تک مزدوری لے کر ادھر سے ادھر مٹی پھینکتا رہتا ہے اسے پاگل نہیں کہتے.مگر وہ جو بلا مزدوری لئے مٹی کو ادھر سے ادھر اٹھا اٹھا کر پھینکتا ہے اسے سب پاگل کہتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ مزدور کے کام کرنے میں ایک فائدہ اور غرض مد نظر ہے مگر اس کے بالمقابل پاگل شخص کے کام کرنے میں کوئی فائدہ اور غرض نہیں.ایک محزر کو اس کی تحریر کی وجہ سے محنتی اور ہوشیار کہیں گے.مگر سارا دن بلا غرض و بلا فائدہ لکھنے والے کوسب پاگل ہی کہیں گے.ایسے ہی بلا وجہ زیادہ با تیں کرنے والے کو بھی پاگل ہی کہتے ہیں.مگر وہ لیکچرار جو صبح سے شام تک ایک پر مطالب اور پر مقصد اور پر مغز لیکچر دیتا ہے اسے کوئی پاگل نہیں کہتا.میں نے ایک جگہ پڑھا ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ میں بعض لوگ ۲۴ گھنٹے تک تقریر کرتے رہتے ہیں.پھر ان دونوں تقریر کرنے والوں میں کتنا بڑا فرق ہے.ایک شخص کی پر مقاصد تقریر تو سینکڑوں اخباروں میں شائع کی جاتی ہے.اور اس سے ہزاروں فائدے مرتب ہوتے ہیں مگر بلا فائدہ اور بلا غرض سارا دن تقریر کرنے والے کو پاگل ہی کہا جاتا ہے.غرض اگر کوئی کسی مدعا اور مقصد کو مدنظر رکھ کر کسی دینی یا دنیاوی خدمت کو سر انجام دے گا تو اسی کو خادم اور محنت کرنے والا خیال کیا جائے گا.اور اس کے مقابل اگر کوئی شخص بغیر کسی غرض کے کوئی کام کرتا ہے تو وہ پاگل کہلاتا ہے.جب ایک فہیم انسان کسی ایسے کام کو جو بلا غرض ہو نہ خود کرتا ہے اور نہ اس کی طرف منسوب کئے جانے کو پسند کرتا ہے تو پھر وہ خدا جو حکیم اور خبیر ہے.اس نے یہ سورج چاند ستارے پلا کسی غرض اور مدعا کے پیدا کر دیئے ہیں؟ یہ چیزیں اس نے کیوں پیدا کیں.انسان کو آنکھ ، کان ، زبان ، دل اور دماغ کیوں دیئے؟ یہ قوتیں کیوں دیں؟ لوگ اسے سمجھتے نہیں بلکہ اس طرف توجہ بھی نہیں کرتے.پس وہ اپنا کام یہی سمجھتے ہیں کہ دنیا میں آئے کھایا پیا اور چل دیئے اپنے افعال پر تو غور کرتے ہیں.مگر خدا کے افعال پر غور و تد بر بلکہ توجہ بھی نہیں کرتے جب تم خود ایسا لغو کام اپنی ذات کیلئے پسند نہیں کرتے تو خدا کی ذات کیلئے کیوں ایسی بات پسند کرتے ہو.اس آیت کریمہ میں جو میں نے تلاوت کی ہے خدا تعالیٰ نے اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ

Page 533

خطبات محمود جلد ۴ ۵۲۴ سال ۱۹۱۵ء کیا ہم نے زمین و آسمان یونہی پیدا کر دیئے تھے اور ان کی غرض و غایت نہ تھی نہیں بلکہ اس کے ہر کام میں بڑی بڑی حکمتیں مخفی ہیں جنہیں ہر ایک نہیں سمجھ سکتا.اس کی حکمت کو نہ سمجھنے سے ہی دنیا میں بہت سے مذاہب قائم ہوتے ہیں جو خدا کے دین کے بہت دور جا پڑتے ہیں.اور یہ کفار کا گمان ہے.کیونکہ وہ بھی ان کا موں کو یو نہی لغو سمجھتے ہیں وہ ان پر غور نہیں کرتے.فرمایا اگر وہ غور نہیں کریں گے تو ہم ان کو ہلاک اور تباہ کر دیں گے.اور ان کا نام دنیا سے مٹادیں گے.پھر یہ کہنا کیوکر صحیح ہوسکتا ہے کہ ہمارا عقیدہ اور ان کا عقیدہ برابر ہے.وہ لوگ تو بڑی سزا کے مستحق ہیں.کیا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خدا کے احکام کو ماننے والے اور نہ ماننے والے برابر ہوں ؟ اگر یہ دونوں مساوی ہی ہوئے تو پھر ان اشیاء کا پیدا کرنا بالکل لغو اور فضول ٹھہرتا.یہ بھی ممکن ہی نہیں کہ ایک مومن اور ایک کا فر دونوں برابر ہوسکیں.ایک تو خدا سے تعلق رکھنے والے ہیں اور ایک اس سے تعلق کو کاٹنے والے.پس ی جو لوگ اس غرض و غایت کو نہیں سمجھتے اور امتیاز نہیں کر سکتے وہی تو کافر ہیں لیکن بعض کا فر اس بات کے مدعی ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کے کاموں پر غور و تدبر کرتے ہیں مگر در حقیقت وہ اپنے اعمال سے ثابت کرتے ہیں کہ ہم غور و تدبر نہیں کرتے.پس جب انہوں نے اپنے حال سے اس بات کا ثبوت دے دیا تو گویا انہوں نے خدا کی ان پیدا کردہ اشیاء کو ایک فضول اور لغو کام خیال کیا.مسلمانوں میں بھی اس قسم کے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ خدا تعالی کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت ہے اور ہر ایک چیز کی کوئی غرض اور فائدہ ہے مگر جب جھوٹی بولتے ، زنا کرتے ،شراب پیتے اور قتل کرتے ہیں تو وہ اپنے اعمال اور افعال سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ خدا کا ہر کام لغو اور فضول ہے.ایسے ہی احمد یوں میں بھی بعض ایسے لوگ ہیں جو صداقتوں کے مدعی تو ہیں اپنے آپ کو ایک امام کا متبع سمجھتے ہیں مگر انہیں جھوٹ بولنے اور افتراء باندھنے سے ذرا دریغ نہیں ہوتا.اور نہ وہ خدا کا خوف کرتے ہیں.چنانچہ ابھی چند دنوں کا ذکر ہے کہ ان میں سے ایک شخص نے یہ لکھ دیا کہ فلاں شخص نے مباہلہ کیلئے کہا تھت اور چیلنج دیا تھا مگر تم نے قبول نہیں کیا.حالانکہ نہ کسی نے ہمیں کوئی چیلنج دیا اور نہ کسی نے مباہلہ کیلئے کہا اور جن کی نسبت لکھا ہے کہ انہوں نے مباہلہ کیلئے چیلنج دیا ، ان کے خطوط ہمارے پاس آگئے ہیں کہ ہم نے کوئی مباہلہ کا چیلنج نہیں دیا.پھر عبد الحئی کی کی وفات پر ایسے ایسے جھوٹ لکھے ہیں کہ حیرت اور تعجب ہوتا ہے ان لوگوں کو خدا تعالیٰ پر ایمان

Page 534

خطبات محمود جلد ۴ ۵۲۵ سال ۱۹۱۵ء اور یقین بھی ہے یا نہیں.ذرا بھی خدا تعالیٰ سے خوف نہیں کرتے.کیا غیور خدا ان کے سر پر نہیں ؟ اور ضرور ہے.وہ دن آتے ہیں کہ خدا کی غیرت اپنا نمونہ دکھائے گی اور انہیں ان کے جھوٹوں اور بہتانوں کی سزا چکھائے گی.پھر ہر دوست اور دشمن دیکھ لے گا کہ خدا کا ہاتھ کن کے ساتھ ہے.یہ لوگ اپنی غرض کو پورا کرنے کیلئے ایسے ایسے جھوٹ بولتے ہیں کہ تعجب ہوتا ہے.قادیان میں بھی بعض منافق طبع لوگ ہیں جو بظاہر بڑا اخلاص اور محبت ظاہر کرتے ہیں مگر ان کے تعلقات اور خط و کتابت ان لوگوں سے اب تک جاری ہے وہ بھی اپنے آپ کو احمدی ہی کہتے ہیں.ایسے لوگ خدا تعالیٰ کو لغو اور فضول سمجھتے ہیں اس لئے وہ خدا تعالیٰ سے کسی فائدہ کی امید نہ رکھیں.خدا تعالیٰ نے مجھے بعض منافقوں کی شکلیں اندھیرے میں دکھائی ہیں.وہ منافق طبع لوگ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے اگر ہم حق پر ہیں اور یقینا حق پر ہیں تو خود کیا، اگر ان کے ساتھ بادشاہ بھی مل جائیں اور ہمارا کچھ بگاڑ نا چاہیں تو کچھ نہیں بگاڑ سکتے.بھلا منافق ڈرپوک ہمارا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟؟ در حقیقت ایسے لوگ اپنی تباہی کیلئے خود ہی سامان مہیا کر رہے ہیں اور وہ خود اپنے اور آپ کو تباہ اور بر باد کرتے ہیں اور اس کے مقابل خدا تعالیٰ کے ملائکہ کی مدد ہمارے ساتھ ہے.ان کو منافق بننے کی کیا ضرورت ہے اب وہ کس سے ڈرتے ہیں وہ اپنی دنیا کیلئے دین کو کیوں تباہ کر رہے ہیں کیا ان کو قادیان سے باہر دنیاوی مفاد نہیں مل سکتے جب گورنمنٹ نے اس قدر آزادی دے رکھی ہے ہر جگہ امن و آرام کے ساتھ وہ ملازمت کر سکتے ہیں.ایسے لوگوں کو با ہر ہر طرح کی ملازمت مل سکتی ہے.پھر وہ تھوڑے سے فائدہ کیلئے اپنے ایمان کو کیوں ضائع کرتے ہیں.عبداللہ بن ابی ابن سلول منافق سے یہ لوگ منافقت میں یہ لوگ بڑھ کر ہیں کیونکہ وہ تو اس بات سے ڈرتا تھا کہ اگر میں نے مسلمانوں کے خلاف کیا تو مجھ پر تلوار چل جائے گی مگر اب ان منافقوں پر کون سی تلوار ہے جو ان کو ایسے کاموں پر مجبور کر رہی ہے.پس ایسے لوگ دین کو بھی ضائع کرتے ہیں اور دنیا کو بھی.ایسے لوگ در حقیقت خدا کے کاموں کو لغو سمجھتے ہیں ہم انسان ہیں ہم سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں مگر ہماری غلطیوں کو چھپانے کیلئے خدا تعالیٰ ہم پر ایسے الزام لگواتا ہے جن کو ہم نے کیا نہیں.پس ہم اس بات سے خوش ہوتے ہیں کہ ہماری غلطیوں کے بدلے میں ہمارا دشمن ہمیں وہ الزام دیتا

Page 535

خطبات محمود جلد ۴ ۵۲۶ سال ۱۹۱۵ ہے جن کے ہم مرتکب نہیں.لیکن وہ شخص جو بلا وجہ اور بغیر دیکھنے غلطی کے اور ہی اعتراض کرتا اور الزام دیتا ہے خدا تعالیٰ اسے ضرور پکڑے گا کیونکہ وہ ہمیں ایسا الزام دیتا ہے جن کے ہم مرتکب نہیں.پس یہ لوگ ایسے الزام دے کر اور بُرے اعتراض کر کے در حقیقت اپنی ہلاکت کا سامان مہیا کر رہے ہیں.وہ شخص جو چوری نہیں کرتا اور کسی ایسے فعل کی وجہ سے جیل خانہ میں بھیج دیا جاتا ہے جو اس نے کیا نہیں اور اس کے دوست بھی جانتے ہیں کہ اس نے یہ جرم تو نہیں کیا وہ اس پر بدظنی نہیں کرتے ایسا شخص جیل خانہ میں جانے سے خوش ہوتا ہے کہ جس جُرم کی وجہ سے میں جیل خانہ میں آیا ہوں وہ میں نے نہیں کیا.اور در پردہ جس غلطی کی سزا اسے مل رہی ہے وہ دشمن پر مخفی کر دی گئی ہے اور ایسے فعل کو اس کی طرف منسوب کر دیا ہے جو اس نے کیا نہیں مگر اس پر الزام دینے والا تو خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑا مجرم ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا ایسے مفسد اور مصلح کبھی برابر ہو سکتے ہیں؟ ایسا ہونا ناممکن ہے کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اَفَنَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ الفجار کیا ہم متقیوں اور فاجروں کو برابر کر دیں گے؟ یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ دونوں برابر ہوں ایسے لوگ کبھی خدا تعالیٰ کی پکڑ سے چھوٹ نہیں سکتے وہ ضرور ایسے لوگوں کو سزا دے گا.خدا تعالیٰ دونوں فریقوں کے ساتھ ایک ہی قسم کا معاملہ نہیں کرتا فریق مخالف تو اپنی تباہی کے بواعث خود ہی پیدا کر رہا ہے.ہر ایک وہ چیز جس کے ذریعہ سے انسان خدا تعالیٰ کے راستے سے دور ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے ہمیں بچاوے.آمین ا ص: ۲۸ تا ۳۰ الفضل ۱۸.اگست ۱۹۶۵ء)

Page 536

خطبات محمود جلد ۴ ۵۲۷ (۹۴) سال ۱۹۱۵ء عرات اور کامیابی محنت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی (فرموده ۲۴.دسمبر ۱۹۱۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِي انْقَضَ ظَهْرَكَ.وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَإِلَى رَبِّكَ فَارُ غَبْ اس کے بعد فرمایا:.دنیا کی کوئی ترقی اور کوئی کامیابی کوئی عزت اور کوئی رتبہ کوئی درجہ اور کوئی امتیاز ایسا نہیں ہے جو بغیر محنت اور کوشش کے انسان کو حاصل ہو سکے.جس قدر کوئی چھوٹی کامیابی ہوگی اس کے لحاظ سے انسان کو بھی تھوڑی ہی محنت اور مشقت برداشت کرنی پڑے گی اور جس قدر بڑی کامیابی اور بڑا مدعا ہو گا اسی قدر اس کے حصول کیلئے بہت کوشش اور محنت کرنی پڑے گی.تو چھوٹے سے چھوٹے کام میں بھی انسان کو کچھ نہ کچھ محنت اور مشکل ضرور پیش آتی ہے ہے سوائے ان چیزوں کے حصول کے جن کی انسان کو ہر وقت اور ہرلمحہ ضرورت رہتی ہے اور جن کے بغیر وہ ایک دم بھی زندہ نہیں رہ سکتا.باقی جس قدر بھی چیزیں ہیں وہ اسی قسم کی ہیں کہ ان کے لئے انسان کو ضرور تھوڑی بہت محنت مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے.وہ چیز میں جو بغیر محنت کے حاصل ہوتی ہیں اور جن پر انسان کی بقا منحصر ہے اور جن کا ہر وقت وہ محتاج

Page 537

خطبات محمود جلد ۴ ۵۲۸ سال ۱۹۱۵ء ہے ان میں سے ایک ہوا ہے.اس کی انسان کو سوتے بھی جاگتے بھی چلتے بھی پھرتے بھی بیٹھتے بھی کھاتے بھی پیتے بھی پہنتے بھی اتارتے بھی غرضیکہ ہر وقت اور ہر گھڑی ضرورت ہے اور ہر ایک انسان ہر حالت میں ہوا کا محتاج ہے اور کوئی ایسا وقت انسان پر ایسا نہیں آتا کہ وہ ہوا سے مستغنی ہو.کبھی ایسا نہیں ہوگا کہ کوئی سوئے اور سانس نہ لے اور پھر زندہ اٹھ کھڑا ہوں.کبھی ایسا نہیں ہوگا کہ کوئی بنے اور سانس نہ لے.بلکہ ہر آن اور ہر حالت میں ہر انسان اس کو استعمال کرتا ہے لیکن خدا نے اس کیلئے کوئی قیمت اور کوئی محنت نہیں رکھی.تم کبھی کسی انسان کو نہ دیکھو گے کہ وہ ہوا کے حصول کیلئے کوشش کر رہا ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی چلائی ہوئی ہوا خود بخود اس کے پھیپھڑوں میں چلی جاتی اور اس کو زندہ رکھتی ہے لیکن وہ دوسری چیزیں جن کا انسان محتاج ہے لیکن ہوا سے کم درجہ پر محتاج ہے ان کے حصول کیلئے ضرور محنت کرنی پڑتی ہے.تم نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ پانی جیسی ضروری چیز جس کے بغیر انسان دو یا تین دن کے اندر مرجاتا ہے یا کھانے جیسی ضروری چیز جس کے بغیر پانچ دس دن تک زندہ رہ سکتا ہے کسی کے منہ میں پانی یا کھانا خود بخود چلا گیا ہو.پانی کبھی خود بخود منہ میں نہیں جاتا.اس طرح روٹی کبھی اپنے آپ منہ میں نہیں چلی جاتی لیکن ہوا خود بخود جاتی اور ہر وقت جاتی ہے کیوں؟ اس لئے کہ اس کے بغیر تو انسان ایک سیکنڈ بھی زندہ نہیں رہ سکتا.لیکن کھانے پینے کے بغیر کچھ عرصہ رہ سکتا ہے.اور ہر وقت ان کی ضرورت نہیں رہتی.تو چونکہ ان کے بغیر انسان کچھ وقت تک زندہ رہ سکتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے ان کے حصول کیلئے کچھ نہ کچھ محنت رکھ دی ہے.اور وہ ہر ایک امیر سے لے کر غریب تک کو کرنی کی پڑتی ہے.دیکھو پانی کیلئے اول تو یہ محنت کرنی پڑی ہے کہ کنواں کھودا جاتا ہے.لیکن اگر کنواں گھر اہوا بھی ہو تو پھر اس سے پانی نکالنا پڑتا ہے اور اگر گھڑوں میں بھی سقہ ڈال جائے تو گھڑے سے نکالنا پڑتا ہے اور اگر کوئی گھڑے سے بھی ڈال دے تو منہ میں ڈال کر حلق سے نیچے کرنا پڑتا ہے.لیکن اگر کوئی پانی کے پینے کیلئے یہ کہے کہ خود بخود ہی منہ میں چلا جائے اور پھر خود بخود ہی پیٹ میں چلا جائے تو یہ کبھی نہیں ہوسکتا.اسی طرح کھانے کیلئے ہے.انسان کو ضرور کچھ نہ کچھ محنت کرنی پڑتی ہے اگر سب کچھ تیار بھی مل جائے تو بھی لقمہ توڑ کر منہ میں ڈالنے، دانتوں سے چبانے اور حلق سے نگنے کی محنت ضرور گوارا کرنی پڑے گی.پس ہم دنیا میں

Page 538

خطبات محمود جلد ۴ ۵۲۹ سال ۱۹۱۵ء دیکھتے ہیں کہ وہ چیزیں جن کا انسان ہر وقت محتاج ہے مگر کچھ عرصہ کیلئے صبر بھی کر سکتا ہے.ان کیلئے یہ شرط خدا تعالیٰ نے لگا دی ہے کہ وہ بغیر محنت کے حاصل نہیں ہوسکتیں، دوسری چیزوں کا تو ٹھکانہ ہی نہیں.یہی دیکھ لو کہ لڑکے جب باہر بیر کھانے کیلئے جاتے ہیں تو کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بیروں کی خاطر جھاڑیوں کے کانٹوں سے ان کے ہاتھ لہولہان ہو جاتے ہیں اور ایک بیر کی خاطر کانٹوں میں ہاتھ ڈالتے اور چن کر نکالتے ہیں.خون بہہ رہا ہے مگر وہ بڑے خوش ہوتے اور کہتے ہیں کیا مزے کا بیر ہے اور کیسا میٹھا ہے.یہ تو بچوں کی مثال ہے اگر اس سے آگے چلو تو جتنا بڑا کسی کا مدعا پاؤ گے اتنی ہی بڑی اسے محنت اور مشقت کرتے بھی دیکھو گے.طالب علموں کی پڑھائی کو ہی لے لو.لڑکے پڑھائی میں محنت کرنا بہت ضروری اور لابدی سمجھتے ہیں اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ اس کے حاصل کر لینے سے زندگی آرام اور آسائش سے گذرے گی.تو طالب علم علم کے حصول کیلئے بہت ہی محنتیں کرتے ہیں.بلکہ بعض تو مسلول ہو کر مر بھی جاتے ہیں ان کو اپنا مدعا ابھی حاصل بھی نہیں ہوتا کہ وہ اس کے حصول میں اپنی جان بھی دے دیتے.ہیں.پھر جو اپنے مدعا کو پہنچتے ہیں وہ بہت نفس کشی اور محنت کے بعد پہنچتے ہیں.گویا ہر روز مر کر علم حاصل کرتے ہیں یہ کبھی نہیں ہوگا کہ کوئی انسان علم کے سیکھنے کیلئے نہ محنت کرے اور نہ کوشش لیکن سوتا ہوا اٹھے تو سب علموں سے واقف ہو جائے یا گھر بیٹھا رہے اور مدرسہ میں نہ جائے تو عالم بن جائے اور اسے سارے علوم آجائیں.پھر اس موجودہ جنگ کو ہی دیکھ لو کہ اس میں کس قدر خونریزی ہو رہی ہے.ہزار ہانی انسان فنا ہو رہا ہے اور کروڑوں کا گولہ بارود خرچ ہو رہا ہے.اور دیگر اخراجات اس قدر ہیں کہ ایک دن میں ایک ایک سلطنت کا اتنا خرچ اُٹھ جاتا ہے جتنی بڑی بڑی ریاستوں بلکہ حکومتوں کی سالانہ آمدنی ہوتی ہے.فقط ایک سلطنت برطانیہ نے اعلان کیا تھا کہ چار گھنٹے کی جنگ میں جو صرف پچاس گز زمین حاصل کرنے کیلئے تھی اس قدر گولہ بارود خرچ ہوا ہے کہ جتنا ٹرانسوال ۲ کی اڑھائی سال کی لڑائی میں خرچ ہوا تھا.تو اس جنگ میں جو گولہ بارود استعمال ہو رہا ہے اس کے ایک ایک گولے کی قیمت پندرہ پندرہ سو روپیہ ہوتی ہے.پھر ایسے گولے برسات کی طرح دشمن کی فوج پر پڑتے ہیں اس سے حساب کرلو کہ کس قدر روزانہ خرچ صرف گولہ بارود پر ہوتا ہے لیکن جانتے ہو اس قدر خرچ کرنے کی کیا وجہ ہے؟ وجہ یہ ہے کہ ہر ایک سلطنت یہ کہتی ہے کہ ہماری قوم کی آزادی نہ چھن جائے.اس غرض کیلئے خون کے دریا بہائے جار ہے

Page 539

خطبات محمود جلد ۴ ۵۳۰ سال ۱۹۱۵ء ہیں ، روپیہ بے انتہا خرچ کیا جا رہا ہے، وقت خرچ کیا جا رہا ہے.پھر فتح جس کی قسمت میں ہوگی اس کو حاصل ہوگی.مگر دیکھتے ہو محنت کس قدر ہو رہی ہے کتنے ہی ایسے گھر ہیں جنہوں نے اس آزادی کیلئے تلوار اٹھائی لیکن سب مارے گئے اور اب ان گھروں میں کوئی مرد نہیں.اخبارات میں اس قسم کے حالات چھپتے رہتے ہیں کہ فلاں کے گھر میں سات مرد تھے ساتوں جنگ میں مارے گئے.لیکن اس طرح مرنے سے کمی نہیں آتی بلکہ ان کی جگہ اور کھڑے ہو جاتے ہیں.ایک مر کر گرتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ کھڑا ہو جاتا ہے اور یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ اپنی قوم کی عزت اور آزادی برقرار رہے.غرض کوئی چیز ایسی نہیں جو بغیر محنت کے حاصل ہو.پانی اور کھانے سے لے کر بڑی سے بڑی حکومت تک کے تمام کے تمام مقاصد ایسے ہیں جو محنت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے پھر کون نادان ہے جو یہ کہے یا سمجھے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق گھر بیٹھے بغیر محنت اور کوشش کے ہو جائے جبکہ علم ، دولت ، عہدہ ، رتبہ، روٹی ، پانی خود بخود حاصل نہیں ہوتے.بلکہ ان کیلئے محنت کرنی پڑتی ہے تو پھر خدا تعالیٰ سے تعلق کس طرح بغیر کوشش کے ہو سکتا ہے اس کیلئے تو بڑی بڑی قربانیاں اور منتیں کرنی پڑتی ہیں تب انسان کامیاب ہوتا ہے لیکن یہ محنتیں اور کوششیں اس کامیابی کے سامنے جو خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے حاصل ہوتی ہیں کچھ بھی مقابلہ نہیں کر سکتیں مجھے اخباروں میں اس قسم کی باتیں دیکھ کر حیرت ہوا کرتی ہے کہ فلاں مقام پر اتنے سو گز زمین حاصل کرنے کیلئے اتنے آدمی مارے گئے ہیں اور پھر ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ اس قربانی کے مقابلہ میں ہمیں فائدہ بہت زیادہ ہوا ہے.بات اصل میں یہ ہے کہ جب انعام بڑا ہو تو اس کے کے حصول کیلئے خواہ کتنی ہی محنت اور مشقت کیوں نہ برداشت کرنی پڑے، اس کی پرواہ نہیں کی جاتی.دیکھو علم کے پڑھنے میں کتنا روپیہ اور وقت صرف کیا جاتا ہے.اور کس قدر محنت کرنی پڑتی ہے لیکن کیا کبھی کسی نے علم پڑھنا اس لئے بھی چھوڑ دیا ہے کہ اس کیلئے روپیہ خرچ کرنا پڑتا ہے یا محنت کرنی پڑتی ہے ہر گز نہیں کیوں اس لئے کہ اس روپیہ اور محنت کے بعد جو چیز ملتی ہے وہ بہت بیش قیمت ہے اور جہاں انعام بڑا ہوتا ہے وہاں قربانی بھی بڑی کرنی پڑتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ جہاں انعام بڑا ہو اس کیلئے جو قربانی کی جاتی ہے اس کو بے حقیقت سمجھا جاتا ہے.لیکن کوئی یہ خیال نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ جو خالق ہے مالک ہے رازق ہے وہ مل جائے کی

Page 540

خطبات محمود جلد ۴ ۵۳۱ سال ۱۹۱۵ء تو اس کیلئے محنتیں اور تکلیفیں اٹھانا کیا چیز ہیں.اس وقت میں نے جو سورہ پڑھی ہے اس میں خدا تعالیٰ نے اسی طرف متوجہ کیا ہے.خدا تعالیٰ نے یہ سورہ آنحضرت صلی ایتم کو مخاطب کر کے فرمائی ہے لیکن میرے نزدیک قرآن شریف کی کوئی آیت ایسی نہیں جو آنحضرت سالی ستم کو مخاطب کر کے فرمائی گئی ہو اور دوسرے لوگ بھی اس کے مخاطب نہ ہوں.اس میں شک نہیں کہ بعض آیات ایسی ہیں کہ اگر آنحضرت سلیم مخاطب ہوں تو ان کے اور معنی ہوں گے اور اگر ہم مخاطب ہوں تو اور لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ قرآن شریف کی آیتوں کے کئی کئی معنے ہوتے ہیں.اس وقت میری غرض اس سورہ کے وہ معنی بیان کرنا نہیں جو آنحضرت صلی ی ی یتیم کے مخاطب ہونے کی صورت میں ہیں بلکہ وہ معنے بیان کرنے کی ہیں جو ہمارے متعلق ہیں.یہ ایک صاف بات ہے کہ وہ انسان جس کو اپنے کام اور کوشش کا نتیجہ معلوم ہو جس شوق اور محنت سے کام کرتا ہے، اس شوق اور محنت سے وہ شخص نہیں کرتا جسے کوئی امید نہ ہو.اسی بات کو مد نظر رکھ کر خدا تعالیٰ فرماتا ہے الخ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ.اے انسان! کیا ہم نے تیرا سینہ نہیں کھول دیا.اب دیکھنا یہ ہے کہ سینہ کھولنے سے کیا مراد ہے.آیا سینہ چاک کیا گیا یا کچھ اور ؟ اس کے متعلق خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں دوسری جگہ بیان فرما دیا ہے فَمَن يُرِدِ اللهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ سے پس جس کو خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہدایت دے اس کا سینہ اسلام کیلئے کھول دیتا ہے.اس آیت سے معلوم ہوا کہ اسلام کو قبول کرنے کی توفیق کے معنے سینہ کھولنے کے ہیں.تو اسلام کیلئے سینہ کا کھلنا شرح صدر ہے اب سوال ہوتا ہے کہ اسلام کو قبول کرنے کا نام کیوں شرح صدر رکھا گیا ہے.اور دوسرے مذاہب بھی یہی کہتے ہیں کہ ہمارا دین طمانیت دینے والا مذہب ہے.اور ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اپنے اپنے مذہب پر پورا اطمینان رکھتے ہیں اس لئے ان مذاہب کے متعلق بھی کیوں نہ یہی کہا جائے.لیکن یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ صرف اسلام کیلئے استعمال ہو سکتا ہے اور اسلام نے ہی کیا ہے اور اس میں بہت بڑی حکمت ہے کہ گوی عرفا ہم دوسرے مذاہب کیلئے بھی شرح صدر کا لفظ بول سکتے ہیں لیکن اصل میں صرف اسلام ہی اس کا مصداق ہے کیونکہ دوسرے مذاہب والے لوگ اپنے مذہب کے سچا ہونے کے متعلق دلیل کوئی نہیں رکھتے بلکہ وراثنا اس پر شرح صدر رکھتے ہیں اور اسلام اپنے ساتھ دلائل رکھتا ہے، کوئی بات رسمی طور

Page 541

خطبات محمود جلد ۴ ۵۳۲ سال ۱۹۱۵ پر یاور امیٹا نہیں منواتا.اس لئے اصل میں شرح صدر اسی کا ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ نے فرمایا.اے انسان! کیا ہم نے تجھے ایسی جگہ پر کھڑا نہیں کر دیا کہ تو ضد اور ہٹ کی وجہ سے یا بہ تقلید آبائی مسلمان بنا رہے بلکہ ہم نے تجھے ایسے دلائل اور براہین دیئے ہیں اور ایسی مضبوط جگہ پر کھڑا کیا ہے کہ تجھے بھی وہم بھی نہیں آ سکتا کہ اسلام جھوٹا ہے یا اس کی کوئی بات غلط ہے.اب بتاؤ کہ کیا یہ ایک بہت بڑا انعام نہیں؟ کہ انسان کو خدا تعالیٰ ایسے مذہب کا پیرو بنائے جس کی نسبت کبھی و ہم بھی نہ آسکتا ہو کہ جھوٹا ہے اور پھر اس مذہب پر چل کر انسان خدا تعالی کو اسی دنیا میں دیکھ لے اس سے بڑھ کر اور کیا انعام ہوسکتا ہے.دوسرے مذاہب والے گو ماں باپ کی وجہ سے یا قومی لحاظ سے اپنے اپنے مذاہب پر شرح صدر رکھیں.لیکن جب بھی عقل کی روشنی ان کو پہنچے گی اور وہ اپنے مذہب کے اصولوں پر غور کریں گے تو سمجھ لیں گے کہ ہمارے پاس کوئی دلائل اور براہین نہیں ہیں.ا یک دفعہ ایک پادری سے میری گفتگو ہوئی.پہلے روز مسئلہ وحدانیت پر بات چیت ہوئی تو کہنے لگا کہ یہ ایک بار یک مسئلہ ہے ایشیائی دماغ اس کو نہیں سمجھ سکتے.میں نے کہا.مسیح بھی تو ایشیائی ہی تھے کیا ان کو بھی اس کی سمجھ آئی تھی یا نہیں.اس پر خاموش ہو گیا اور کہنے لگا.اچھا گفتگو کریں گے.دوسرے دن پھر میں اس کے پاس گیا وہ مجھے جانتا نہ تھا.اس دن کے مسئلہ کفارہ پر بحث ہوئی.آخر کار بہت گھبرایا.کبھی عینک اُتارتا.کبھی ادھر جھانکتا کبھی اُدھر.اور آخر کہنے لگا کہ میں اس مسئلہ کو اس لئے مانتا ہوں کہ عیسائیوں کے گھر میں پیدا ہوا ہوں.ورنہ میرے پاس اس کے متعلق کوئی دلائل نہیں ہیں.تو اس میں کچھ شک نہیں کہ اسلام کے سوا جس قدر بھی دوسرے مذاہب ہیں وہ ایسی باتوں کے متعلق تو کچھ نہ کچھ دلائل رکھتے ہیں جو اسلام کے مطابق ہیں.اور وہ بھی اسلام ہی کے سنے سنائے.لیکن وہ جو اسلام کے خلاف ہیں.ان کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے یونہی ان کے معتقد ہیں اور اسی وقت تک ان پر شرح صدر رکھتے ہیں جب تک کہ ان کے متعلق انہوں نے سوچانہیں یا غور نہیں کیا.جس طرح ایک پاگل اپنے آپ کو بادشاہ کہتا ہے اور اس پر شرح صدر بھی رکھتا ہے کیوں اس لئے کہ وہ اس حقیقت کو سوچ نہیں سکتا.کہ میں کیا ہوں اسی طرح ایک کافر کا کفر پر شرح صدر ہوتا ہے.لیکن اس لئے نہیں کہ وہ اپنے پاس اسکی تائید میں کوئی معقول دلائل اور براھین رکھتا ہے بلکہ اس لئے کہ اس کو کفر ور انجمنا ملا ہوتا ہے اور وہ اس کے متعلق سوچتا

Page 542

خطبات محمود جلد ۴ ۵۳۳ سال ۱۹۱۵ نہیں اور غور نہیں کرتا.لیکن اسلام ایک ایسا مذہب ہے کہ اس کی باتوں پر جتنا بھی کوئی غور کرے اور سوچے اتنا ہی اس کے دل پر اس کی سچائی اور صداقت نقش ہوتی جاتی ہے اور شرح صدر ہوتا جاتا ہے اور بار یک در بار یک باتیں کھلتی جاتی ہیں.یہی اسلام اور دیگر مذاہب میں ایک بہت بڑا فرق ہے کہ ان پر غور وفکر کرنے سے انسان کشیدہ خاطر ہوتا اور جس قدر زیادہ غور کرے اتناہی زیادہ بدظن ہوتا جاتا ہے.لیکن اسلام کے مسائل پر جتنا بھی زیادہ غور کیا جائے اتنا ہی زیادہ گرویدہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی اسلام کے متعلق شک میں ہوتا ہے یا کسی بات کو غلط سمجھتا ہے تو اسی لئے کہ اس نے اسلام کے متعلق غور نہیں کیا ہوتا اور اچھی طرح سوچانہیں ہوتا.تو اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ اے مسلمان! کیا ہم نے تجھے اسلام جیسے مذہب پر کھڑا نہیں کیا.اور براہین اور دلائل سے تیرا شرح صدر نہیں کیا.ضرور کیا ہے تو جب تجھ کو ہم سے یہ نعمت حاصل ہوئی ہے تو تجھے معلوم ہے کہ تیرا فرض کیا ہے تو دیکھ ایک کافر جس کو ورثہ میں اپنا مذہب ملا ہوتا ہے اور وہ اس کے بچے ہونے کی کوئی دلیل اپنے پاس نہیں رکھتا وہ اپنے مذہب کے پھیلانے کے متعلق کیا کیا کوششیں کر رہا ہے تو پھر تو جو اسلام کو سچا سمجھتا ہے اور ورثہ کے طور پر نہیں بلکہ دلائل اور براہین کے ساتھ، تو تجھے اس کے پھیلانے کیلئے کس محنت اور ہمت سے کام کرنا چاہیئے.خدا تعالیٰ نے پہلی حجت ہر ایک مسلمان پر اس طرح فرمائی کہ آلَهُ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ كيا اسلام کی وجہ سے ہم نے تیرا سینہ نہیں کھول دیا.یعنی اسلام کے متعلق سب باتوں کے تجھے براہین اور دلائل دے دیئے ہیں.اب تو سمجھ کہ تجھے کس محنت اور کوشش سے کام لینا چاہیئے.پھر فرما یا : وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِى اَنْقَضَ ظَهْرَكَ.جب انسان کو کوئی کام بتایا جائے تو اس کو یہ مشکل پیش آتی ہے کہ اب میں اسے کروں تو کیونکر کروں.اس وقت اس کی کے سامنے دو باتیں ہوتی ہیں ایک یہ کہ جس طرح میں کام کرنا چاہتا ہوں یہ درست اور ٹھیک ہے یا نادرست اور غلط.دوسری یہ کہ کونسا طریق ایسا ہے کہ میں اس آسانی سے کر سکوں اور نا واقعی کا جو بوجھ مجھ پر پڑا ہوا ہے اس کو اتار دوں.واقعہ میں جب تک کسی کام کے کرنے کا طرز اور طریق معلوم نہ ہو انسان پر ایک بہت بڑا بوجھ ہوتا ہے لیکن جب اس کے کرنے کا

Page 543

خطبات محمود جلد ۴ ۵۳۴ سال ۱۹۱۵ کوئی راستہ معلوم ہو جائے تو وہ بوجھ اُتر جاتا ہے.اسی لئے گورنمنٹ برطانیہ نے جو ایک بہت دانا گورنمنٹ ہے ہر ایک محکمہ کے کاروبار کے فارم اور نقشے بنا دیئے ہیں تا جو کوئی بھی کام کرے وہ آسانی سے کر سکے.اس طرح ہر ایک انسان سہولت سے کام کر سکتا ہے لیکن اگر ایسا نہ ہو تو ہزار ہا ملازم بھی اس قدر کام نہ کر سکیں جس قدر موجودہ صورت میں چند آدمی کر لیتے ہیں تو کام کرنے والے کو کام کے طریق بتاتے دینا ایک بڑی مدد اور تائید ہوتی ہے اور اگر ایسانہ کیا جائے تو ہر ایک انسان کام کے بوجھ کو نہیں اٹھا سکتا تو خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ یہی نہیں کہ جس راستہ کی طرف تم لوگوں کو بلاتے ہو اس کیلئے ہم نے تمہیں بڑے بڑے دلائل اور براہین دے دیئے ہیں بلکہ یہ بھی کہ وہ بوجھ جس کو انسان آپ اٹھانا چاہتا تھا اور اس نے اس کی کمر توڑ دی تھی ، ہم نے اس کو بھی دور کر دیا.یعنی خدا نے اپنے تک پہنچنے کا طریق اور رستہ بھی خود ہی بتا دیا.دیکھو جتنی قوموں نے خدا تعالیٰ کے پاس اپنی عقل سے پہنچنا چاہا ان کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور وہ ہرگز کامیاب نہیں ہوسکیں.اس زمانہ میں ایسی قوم کی تازہ مثال برہمو سماج کی ہے تو خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک ایسا بوجھ جس نے تیری کمر کوتوڑ دینا تھا اس کو ہم نے اٹھا دیا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ وہ سب باتیں بتادی ہیں کہ جن کی ہدایت انسانی کیلئے ضرورت تھی اب انسان کا اتنا ہی کام ہے کہ قرآن شریف کو کھول کر پڑھ لے اور ان پر عمل کرنا شروع کر دے.اب بوجھ ہلکا ہو گیا اور کمر سیدھی ہو گئی تو فرمایا وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ.پھر انسان کو خیال آتا ہے کہ جو کام میں کر رہا ہوں یہ اچھا ہے اور اس کے کرنے کا طریق بھی مجھے معلوم ہو گیا ہے لیکن اس کا کوئی نتیجہ بھی ہوگا یا نہیں.اس کیلئے فرمایا وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ.اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ تمہارا درجہ اتنا بلند ہوگا اتنا بلند ہوگا کہ تم کیا تمہارا ذکر بھی بلند کر دیا جائے گا.یہ بہت بڑا درجہ ہے کیوں؟ اس لئے بہتیرے انسان ایسے ہوتے ہیں جو آپس میں درجہ کے لحاظ سے تو برابر ہوتے ہیں لیکن ذکر میں برابر نہیں ہوتے.مثلا کسی سلطنت کے وزراء کو ہی لے لو ، بعض کو گو بہت عرصہ گزر چکا ہے لیکن ان کے نام تک مشہور ہیں اور بعض کو کوئی جانتا بھی نہیں.انگریزوں کی سلطنت کے بھی بہت سے وزیر ہیں لیکن ذکر بلند چند کا ہی ہے تو ذکر کا بلند ہونا خاص خاص لوگوں کے حصہ میں آتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے تیرا ذ کر بہت بلند کر دیا ہے.یعنی اگر کوئی میرے اس بتائے ہوئے راستہ پر چلے گا تو کوئی

Page 544

خطبات محمود جلد ۴ ۵۳۵ سال ۱۹۱۵ء اس کا نام مٹا نہیں سکے گا.دیکھ لو آنحضرت ملائی کہ ہم تو خاتَمَ النَّبِین تھے.آپ کا کیا ذکر ہے دوسرے لوگوں کو دیکھو جو قرآن کریم پر چلے کہ کتنا ان کا ذکر بلند ہوا.آج اگر کوئی سکندر جیسے عظیم الشان بادشاہ کوعلی الاعلان گالیاں نکالے تو نکال سکتا ہے یا گشتاسپ اور طهماسپ کو برا بھلا کہنا چاہے تو کہہ سکتا ہے.فراعنہ مصر اور قیاصرہ قسطنطنیہ کو گالیاں دے سکتا ہے اور کوئی بہتھکڑی اس کے ہاتھوں میں نہیں پڑتی مگر اسلام کے بزرگوں کو کوئی گالیاں دے تو اسے معلوم ہو جائے کہ مسلمانوں کو کس طرح جوش آتا ہے اور ایک ایسی حکومت بھی جس کا اور مذہب ہے اس کے گرفتار کرنے کیلئے تیار ہو جاتی ہے.حالانکہ اگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی ایم کی اتباع نہ کرتے تو ان کی کیا حیثیت تھی ایک معمولی تاجر تھے لیکن جب وہ قرآن کریم کی تعلیم پر چلے تو لاکھوں آدمی ان کیلئے جانیں قربان کرنے کیلئے تیار ہیں.تو یہ ذکر بلند ہوا جو اور کسی کو حاصل نہ ہوا.اس سے زیادہ حضرت مسیح موعود کو دیکھ لو.قادیان کی کیا ہستی تھی اور کون اسے جانتا تھا لیکن خدا تعالیٰ کی ایسی تائید اور نصرت ہوئی کہ جو کسی اور شہر کو حاصل نہ ہوئی.جانتے ہو یہ کس طرح ہوئی.اس طرح کہ ایک شخص نے ایسے وقت میں اس کے مشہور عام ہونے کے متعلق کہا جبکہ اس شخص کو گاؤں کے لوگ بھی نہ جانتے تھے اور پاس پاس کے گاؤں والے بھی نا واقف تھے.آپ ایک مجرے میں بیٹھنے والے تھے لیکن دیکھتے ہو اب وہی انسان ہے جو تمام دنیا میں بلند ہو گیا ہے.انگلستان کے عوام لوگ جو نشہ حکومت میں ہندوستانیوں کو کالے لوگ کہتے ہیں ان میں سے بیجوں نے آپ کی غلامی کو اپنے لئے فخر سمجھا ہے.انہی میں سے ایک نے مجھے لکھا ہے کہ میں کبھی نہیں سوتا جب تک کہ احمد مسیح موعود پر درود نہ بھیج لوں.تو چونکہ اس انسان نے قرآن کریم کا عملی نمونہ پورے طور پر دکھایا.اس لئے وہ لوگ جو اپنے آپ کو ذی وجاہت اور صاحب عزت سمجھتے تھے اور بڑے بڑے ہندوستانیوں کو کالا آدمی کہتے تھے ، وہ نہیں سوتے مگر آپ پر درود بھیج کر تھوڑا ہی عرصہ ہوا ولایت سے ایک عورت نے لکھا تھا کہ ایک رات میں نے ٹیچنگز آف اسلام Teachings of Islam) کو پڑھا.اور پڑھ کر میری نیند اُڑ گئی اور میں ساری رات جاگتی رہی میں تھوڑا سا پڑھتی اور پھر غور کرتی کہ کیا ایسا لکھنے والا کوئی انسان دنیا میں ہو سکتا ہے.پھر وہ لکھتی ہے کہ کاش ! وہ پاک انسان زندہ ہوتا تو میں اس کو ہاتھ ہی لگا لیتی.اور مجھے پورا یقین ہے اگر ہاتھ لگاتی تو روحانیت بجلی کی طرح میرے جسم میں داخل

Page 545

خطبات محمود جلد ۴ ۵۳۶ سال ۱۹۱۵ ہو جاتی.اچھا اگر میں نے اس کو نہیں دیکھا تو یہی شکر ہے کہ اس کے دیکھنے والے کو ہی دیکھ لیا ہے.( یعنی چوہدری فتح محمد صاحب کو ) تو یہ ذکر بلند ہوتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ - ا - مسلم ! تیرا ذکر بہت ہی بلند کیا جائے گا.یہ کتنا بڑا انعام ہے پھر فرمایا.فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ العُسْرِ يُسْرًا.بعض آدمی ایسے ہوتے ہیں جن کا ذکر تو بلند ہو جاتا ہے لیکن ان کی ذات کو اس سے کچھ فائدہ نہیں پہنچتا.جیسے ایک فوجی آدمی اپنی بہادری اور جانثاری سے بہت بڑی فتح حاصل کر لے لیکن ساتھ ہی مارا بھی جائے تو گو اس کا نام مشہور ہو جائے گا لیکن اس کو کچھ فائدہ نہ ہوگا.اسی طرح یہاں بھی کسی کو خیال ہوسکتا تھا کہ ممکن ہے کہ میرا نام تو بلند ہو جائے لیکن مجھے کوئی فائدہ نہ پہنچے.اس لئے فرمایا اے مسلم ! تو یہ خیال مت کر کہ اس رستہ میں تجھے کوئی غم ، تکلیف اور دکھ اس قسم کا بھی آئے گا جس کا تجھے فائدہ نہ پہنچے گا.دنیا کے لوگ سکھ حاصل کرنے کیلئے بڑی بڑی محنتیں کرتے اور تکلیفیں اٹھاتے ہیں اور پھر بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ وہ کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے.لیکن ہمارے راستہ میں اگر ایک دکھ اور تکلیف برداشت کرنی پڑے تو ہم اس کے بدلہ میں دو سکھ دیں گے اور کوئی ذراسی محنت اور کوشش بھی رائیگاں نہیں ہے جانیں دیں گے.دیکھو اس لڑائی میں بہت بڑی تعداد انسانوں کی ماری جا چکی ہے لیکن طرفین سے ابھی تک کوئی نہیں تھکتا.کیوں؟ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ دنیاوی کامیابی حاصل ہو لیکن دیکھو خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہم ایک دکھ کے بدلہ تجھے دو سکھ دیں گے.یعنی ایک سکھ اس دنیا میں اور ایک آخرت میں.پس اے مسلم ! تو سوچ کہ تجھے دین اسلام کے پھیلانے میں کس قدر محنت اور کوشش کرنی چاہئیے.فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ.لیکن ہم یہ نہیں کہتے کہ تو دنیا کے کاروبار کو چھوڑ کر بیٹھ جا اور کوئی کام نہ کر بلکہ جب تو ان کاموں سے فارغ ہوئے تو تجھے چاہیے کہ خدا کے ملنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کیلئے کوشش کرے.خدا تعالیٰ انسان کو فرماتا ہے کہ ہم تجھ سے اتنی قربانی نہیں چاہتے کہ سب کچھ چھڑا دیں بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ بھی کرو اور ہمارے ملنے کی کوشش بھی کرتے رہو.یہ خدا تعالیٰ نے انسان کیلئے آسانی کر دی ہے.دنیا کے کام اس طرح نہیں ہوتے کہ دو کاموں میں انسان مصروف رہے.مثلاً اس طرح کہ فوجی سپاہی لڑے بھی اور کوئی دوسرا کام بھی کرے.یا طالب علم پڑھے بھی اور محنت مزدوری بھی کرے.لیکن خدا تعالیٰ

Page 546

خطبات محمود جلد ۴ ۵۳۷ سال ۱۹۱۵ء فرماتا ہے.کہ فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَب ہم ایسا نہیں چاہتے بلکہ اس طرح وَ إِلى رَبَّكَ فَارْغَب فرصت کے وقت اپنے رب کی طرف رغبت کیا کر.پس اس محنت کو دیکھا جائے اور پھر اس انعام کو دیکھا جائے اگر انعام سے اس کا مقابلہ کیا جائے تو اس کے مقابلہ میں محنت کچھ بھی نہیں.پس ہر ایک مومن کو یہ محنت کر کے اس بڑے انعام کو ضرور حاصل کرنا چاہیئے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلام پر شرح صدر عطا فرمائے اور ہمارے رستہ کو صاف کر دے.ہماری کوششوں کو کامیاب اور با مراد کر دے قرآن شریف کی سمجھ عطا فرمائے اور اس طریق پر چلنے کی توفیق دے جس پر چل کر اس کی رضامندی حاصل ہو جائے.آمین ل الانشراح: تا آخر (الفضل ۴.جنوری ۱۹۱۶ء) ٹرانسوال (TRANSVAAL) جمہوریہ جنوبی افریقہ کا شمالی صوبہ.۱۸۳۶ء میں آباد کیا گیا.۱۸۵۲ء میں اسے برطانیہ نے آزاد مملکت کی حیثیت سے تسلیم کیا.زولو حکمرانوں سے مخاصمت کی بناء پر برطانیہ نے ۱۸۷۷ء پر اس پر قبضہ کر لیا لیکن ۱۸۸۰ء میں ٹرانسوال کے باغیوں نے مجو با کی پہاڑیوں کے قریب برطانوی فوجوں کو شدید ضرب لگائی جو بالآخرٹرانسوال میں جمہوریت کی بحالی پر منتج ہوئی.جنوبی افریقہ کی جنگ (۱۸۹۹ء.۱۹۰۲ء) کے بعد اسے بر طانوی نو آبادی قرار گیا.۱۹۱۰ء میں اسے جنوبی افریقہ کی یونین میں بطور صوبہ شامل کر لیا گیا.(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اول صفحہ ۴۱۵ مطبوعہ ۱۹۸۷ ء لا ہور ) الانعام : ۱۲۶

Page 547

خطبات محمود جلد ۴ ۵۳۸ (۹۵) سال ۱۹۱۵ ء جلسہ سالانہ صداقت مسیح موعود کا عظیم نشان ہے (فرموده ۳۱.دسمبر ۱۹۱۵ء) حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.پچھلے دنوں میں قدیم طریق کے ماتحت جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سنت قائم فرمائی تھی ہماری جماعت کے لوگ قادیان میں آئے اور پھر ان میں سے بہت سے چلے بھی گئے.یہ اجتماع بھی خدا تعالیٰ کی قدرت ، طاقت اور حکمتوں کا نمونہ ہوتا ہے اور ہوا.بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جو شاید دل میں یہ کہہ دیں کہ یہ اجتماع تو ہر سال ہی ہوا کرتا ہے.یہاں لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں ، اس لئے یہ کوئی خاص بات نہیں.اور ممکن ہے کہ اسی وجہ سے ایسے لوگوں نے بہت سی باتوں پر توجہ نہ کی ہومگر میں کہتا ہوں یہ سچ ہے کہ یہ اجتماع ہر سال ہوتا ہے.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح جسم کو ہر دن بلکہ دن میں دو دفعہ غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روح کو بھی ہر روز اور ہر وقت غذا کی ضرورت رہتی ہے.اور جس طرح وہ انسان جو دنیا کے پھندوں میں پھنسے ہوتے ہیں ہر وقت کھانے پینے کی فکر رکھتے ہیں تا کہ اپنے جسم کو قائم رکھیں اسی طرح ان لوگوں کیلئے جو اپنی روح کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں ضروری ہے کہ وہ روحانی غذا کے حاصل کرنے کی فکر میں لگے رہیں اور ہر بات اور ہر واقعہ سے روحانی غذا حاصل کریں کیونکہ جس طرح ای جس کو غذا نہ ملے تو سوکھ جاتا ہے اسی طرح جب روح کو بھی غذا نہیں ملتی تو وہ بھی سوکھ جاتی ہے.یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جو اپنی روح کو ہمیشہ غذا نہیں دیتے بلکہ ایک دفعہ دے کر سمجھ لیتے ہیں کہ بس

Page 548

خطبات محمود جلد ۴ ۵۳۹ سال ۱۹۱۵ء یہی کافی ہے ان کی روح مردہ ہو جاتی ہے اور وہ آخر میں ضائع ہو جاتے ہیں.آپ لوگوں نے یہ کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ ایک شخص درخت لگائے اور اس کو ایک دفعہ پانی دے کر چھوڑ دے.بلکہ جب بھی ضرورت دیکھتا ہے پانی دیتا ہے اگر پانی دینا چھوڑ دے تو درخت سوکھ جاتا ہے اور کارآمد نہیں رہتا.اسی طرح وہ شخص جو اپنے دل میں ایمان کا درخت لگاتا ہے، اس کیلئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو حکمت اور معرفت کا پانی آتا ہے اسے دیتا ر ہے اور اگر ایسا نہیں کرے گا تو ایک دن اس کے ایمان کا درخت سوکھ جائے گا.پس یہ بات بہت ضروری ہے کہ ہر ایک وہ چیز جو خدا تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کا نشان ہو اس پر انسان کو غور و فکر کرنا چاہئیے کہ مجھے اس سے کیا روحانی غذاملتی ہے.دنیا میں کئی قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جو اندھے ہوتے ہیں اور ایک وہ جو سو جاکھے.اندھے وہ ہوتے ہیں جو اپنے رستہ کی اور اردگرد چیزوں کو دیکھ نہیں سکتے اور سوجا کھے وہ جو دیکھ سکتے ہیں.اسی طرح روحانیت میں بھی اندھے اور سو جا کھے ہوتے ہیں یعنی اندھے وہ جو روحانیت کے سامان اور نشانات ہوتے ہے ہوئے نہیں دیکھتے اور ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے.دنیا میں بھی انہیں لوگوں کو اندھا کہا جاتا ہے جو چیزوں کے موجود ہونے کے باوجود نہ دیکھیں.اور اگر کوئی چیز ہی نہ ہو تو اس کے نہ دیکھنے والے کو اندھا نہیں کہا جاتا.اسی طرح جب خدا تعالیٰ کی طرف سے انسان کی روحانی ترقی کے سامان آتے ہیں تو جو لوگ انہیں نہیں دیکھتے اور ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے وہ اندھے ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے منکروں کو اندھوں سے مشابہ قرار دیا گیا ہے اور ان پر کفر کا فتویٰ لگایا جاتا ہے.جب تک دنیا میں نبی کے ذریعہ روحانیت کے سامان مہیا نہیں کئے جاتے اس وقت تک باوجود ہزاروں بدیوں اور برائیوں کے کسی پر کفر کا فتویٰ نہیں لگتا.لیکن جب نبی آ جاتا ہے تو اس کے نہ ماننے والے خواہ اپنے خیال میں کتنے ہی اچھے کام کرتے ہوں ، کافر بن جاتے ہیں.چنانچہ آنحضرت سلی کا یہ تم جب آئے تو مسیحی جو کچھ پہلے کرتے تھے وہی آپ کے آنے کے وقت بھی کرتے رہے.لیکن جب تک آپ نہیں آئے تھے یہی مسیحی دنیا کے مصلح تھے لیکن آپ کے آنے کے بعد ان پر کفر کا فتویٰ لگ گیا کیوں؟ اسی لئے کہ پہلے ان کیلئے روشنی نہ تھی.خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے اور اس کی معرفت حاصل کرنے کے ذرائع ان کی آنکھوں سے مستور تھے اس لئے اگر وہ خدا کی معرفت حاصل نہیں کر سکے تو کافر نہ ہوئے کیونکہ خدا تعالیٰ کی معرفت کے نشان

Page 549

خطبات محمود جلد ۴ ۵۴۰ سال ۱۹۱۵ مٹ گئے تھے اور ان پر پردہ پڑ چکا تھا.لیکن جو نہیں آنحضرت سال ایم آئے کچھ لوگ اندھے ہو گئے اور کچھ سو جاکھے یعنی جنہوں نے خدا تعالیٰ کے نشانات دیکھ کر آپ کو قبول کر لیا وہ سو جاکھے ہو گئے اور جنہوں نے ان نشانات سے کچھ فائدہ نہ اٹھایا اور ان کی طرف توجہ نہ کی وہ اندھے ہو گئے اور ایسا آپ کی آمد کے ساتھ ہوا.یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا بہتوں کو گمراہ بھی کرتا ہے اور بہتوں کو ہدایت بھی دیتا ہے کیونکہ جب تک قرآن شریف نہ آیا تھا کوئی گمراہ کس طرح کہلا سکتا تھے گمراہ تو وہ ہوتا ہے جو راستہ سے بھٹکا ہوا ہو لیکن جب راستہ ہی نہ ہوتو گمراہ کیسا؟؟ لوگوں نے اس آیت سے دھوکا کھایا ہے لیکن اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ نَعُوذُ بِاللهِ قرآن شریف میں ایسی باتیں بھی ہیں جو لوگوں کو گمراہ کرتی ہیں بلکہ یہ ہیں کہ قرآن شریف سے پہلے خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا راستہ مٹ چکا تھا اس لئے کوئی گمراہ کیسے کہلا سکتا تھا لیکن جب قرآن نے آکر راستہ دکھلایا تو پھر جو اس پر نہ چلا وہ گمراہ ہو گیا.پہلے تو ہدایت تھی ہی نہیں لوگ جانوروں کی طرح تھے اس لئے وہ گمراہ نہ کہلا سکتے ہے تھے ، ہاں جب قرآن شریف کے ذریعہ ہدایت آئی تو اس وقت وہ گمراہ قرار دیئے گئے.تو اندھے وہ ہوتے ہیں جو باوجود کسی چیز کے موجود ہونے کے نہ دیکھیں اور سو جا کے وہ جو خدا تعالیٰ کی معرفت کی باتوں کو دیکھ لیں.ہمارے سامنے بھی خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے نظارے اور نشان موجود ہیں.جلسہ سالانہ بھی ایک بہت بڑا نشان ہے جو ہر سال ہمیں یہ بتاتا ہے کہ دیکھو خدا کی راستباز جماعت کس طرح اٹھتی اور کامیاب ہوتی ہے اور اس کے مخالف کس طرح ناکام اور نا مراد رہتے ہیں.اس میں شک نہیں کہ قادیان میں ہر وقت ہی جلسہ ہوتا ہے اور ہر وقت ہی لوگ آتے جاتے رہتے ہیں.پھر یہاں کچھ ہندوستان کے ، کچھ پنجاب کے، کچھ افغانستان کے، کچھ بنگال کے، کچھ یورپ کے، کچھ عرب وغیرہ کے لوگ رہتے ہیں جو ہماری صداقت کی دلیل ہیں لیکن سالانہ اجتماع سے اس کے علاوہ اور بھی بہت سے نتائج حاصل ہوتے ہیں اور وہ یہ کہ جو کوئی خدا کیلئے کھڑا ہوتا ہے خدا اسے ضائع نہیں ہونے دیتا.اور انسان اور خدا تعالیٰ کے کاموں میں یہی فرق ہے کہ ایک انسان کوئی کام کرتا ہے اور بعض دفعہ اس میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے.مگر اس کی کامیابی اس کی زندگی تک ہی محدود ہوتی ہے.لیکن خدا جو کام کرتا ہے

Page 550

خطبات محمود جلد ۴ ۵۴۱ سال ۱۹۱۵ء وہ اس انسان کے مرنے کے بعد بھی جس کے ذریعہ اس کی بنیاد رکھی جاتی ہے زندہ رہتا ہے، وہ انسان مر جاتا ہے لیکن وہ کام نہیں مرتا.تمہیں یاد ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر بہت سے لوگ تھے جنہوں نے کہہ دیا تھا کہ اب یہ سلسلہ مٹ جائے گا.کیونکہ جس کے سہارے چل رہا تھا وہ مر گیا ہے لیکن ہم نے انہیں کہا تھا کہ تم جھوٹ کہتے ہو کہ جس کے سہارے یہ سلسلہ چل رہا تھاوہ مر گیا ہے ، وہ نہیں مرا اور نہ مرسکتا ہے.چنانچہ ان کو پتہ لگ گیا کہ واقعی ہم نے جو کچھ کہا تھا غلط کہا تھا لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ مولوی نورالدین کے ذریعہ چل رہا ہے یہ بڑے عالم اور فاضل ہیں ، مرزا صاحب کو بھی یہی ہے کتا ہیں لکھ کر دیا کرتے تھے، اس لئے اب ان کے سہارے یہ کھڑا ہے.لیکن ایک وقت آیا جبکہ مولوی صاحب بھی دنیا سے رخصت ہو گئے تو مخالفوں نے سمجھ لیا کہ اب احمدی مر گئے.چنانچہ بہت سی جگہوں سے اس قسم کے خط آئے خدا تعالیٰ کبھی حق کے مخالفین کو تھوڑے عرصہ کیلئے خوش بھی ہونے دیتا ہے جیسا کہ جنگ احد کے وقت مسلمانوں کی بظاہر شکست دیکھ کر کفار خوش ہوئے تھے یا جس طرح حدیبیہ کا واقعہ ہوا تھا.تو مولوی صاحب کی وفات بھی جنگ احد اور صلح حدیبیہ کی طرح سمجھ لو اس لئے مخالفین نے سمجھا کہ اب یہ گئے.پھر یہ بھی ہوا کہ ہم میں سے کچھ آدمی مرتد بھی ہو گئے جن کا ارتداد یہ نہ تھا کہ انہوں نے سلسلہ کا انکار کر دیا بلکہ یہ کہ سلسلہ کی طاقت کو توڑناچاہا اور عملاً ان باتوں کو روکنا چاہا جو حضرت مسیح موعود نے اپنے متبعین کیلئے فرض قرار دی تھیں.دشمن ان کی برگشتگی سے خوش ہو گئے کیونکہ وہ سمجھے بیٹھے تھے کہ مولوی نور الدین صاحب اس سلسلہ کی دیوار میں ہیں اور یہ لوگ تھمیاں.لیکن وہ جس کو دیوار میں سمجھتے تھے وہ گر گئیں اور جن کو ستون سمجھتے تھے وہ ٹوٹ گئے لیکن چھت ایک انچ بھی نیچے نہ آئی بلکہ اور اونچی اٹھی جو اس بات کا زبردست ثبوت ہے کہ یہ سلسلہ کوئی نظر آنے والے اسباب کے ذریعہ نہیں چل رہا بلکہ ایسے اسباب پر چل رہا ہے جو نظر نہیں آتے.کیونکہ نظر آنے والے ہٹتے جاتے ہیں مگر سلسلہ کو ذرا بھی جنبش نہیں ہوتی بلکہ اور مضبوط ہوتا ہے.جس کا ایک ثبوت جلسہ سالانہ سے مل سکتا ہے تو ہر ایک جلسہ ایمانوں کو تازہ کرنے اور خدا تعالیٰ کی قدرت کو ملاحظہ کرنے کا ایک ذریعہ ہے ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم میں بڑی کمزوریاں ہیں، ہم محسوس کرتے ہیں کہ جو تبلیغ پہلوں نے کی تھی وہ ابھی ہم نے نہیں کی اور یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ جو قربانیاں پہلوں نے کی

Page 551

خطبات محمود جلد ۴ ۵۴۲ سال ۱۹۱۵ء تھیں وہ ہم نے نہیں کیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایک غیبی طاقت کے ذریعہ لوگ ہماری طرف کھنچے چلے آتے ہیں.مخالفانِ اسلام کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا لیکن ہم کہتے ہیں کہ آج گورنمنٹ انگریزی کے ماتحت کون کسی کو مجبور کر رہا ہے.پھر کیا وجہ ہے کہ وہ آزاد اور متکبر لوگ جو کسی کے آگے اپنی گردنیں نہیں جھکاتے جب ان کی اصلاح کا وقت آتا ہے تو بے اختیار قادیان کی طرف بھاگے چلے آتے ہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب خدا تعالیٰ نے ایک نظارہ دکھایا تو انہوں نے کہا کہ الہی ! میری تسلی کیلئے یہ فرمائیے کہ مردہ قومیں کیونکر زندہ ہوتی ہیں.خدا تعالیٰ نے فرمایا.یہ تو آسان بات ہے.چار جانور لو اور ان کو سدھا لو.پھر انہیں الگ الگ پہاڑ پر رکھ دو پھر آواز دو.وہ تمہارے پاس دوڑتے آئیں گے ۲.یہی طریق قوموں کے زندہ کرنے کا ہمارا ہے.جب تم نے جن جانوروں کو تھوڑے دن دانے ڈالے وہ تمہارے بلانے پر دوڑتے آتے ہیں تو پھر وہ انسان جس کو ہم نے پیدا کیا ہے اس کو جب ہم آواز دیں گے تو کیوں نہ آئے گا تو اس طرح قلوب کا ایک طرف جھک جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسی کی طرف سے تحریک ہے جس نے انسان کو پیدا کیا ہے.یہ بھی ممکن ہے کہ بعض لوگ دھو کے میں آکر کسی کی طرف جھک جائیں.جس طرح جانور بھی دھوکا کی وجہ سے شکاری کے جال میں جانتے پھنستا ہے.لیکن ان دونوں صورتوں میں صاف اور بین فرق ہوتا ہے اور وہ یہ کہ دھو کہ خوردہ انسان دھوکہ خوردہ پرندہ کی طرح حیران اور سرگردان نظر آتا ہے.لیکن جس نے دھوکہ نہ کھایا ہو وہ مطمئن اور تسکین یافتہ ہوتا ہے تو لوگوں کے دلوں میں یہ کشش ہونا صاف ظاہر کر رہا ہے کہ یہ ان کے پیدا کرنے اور پالنے والے کی طرف سے ہے.کیونکہ وہ اس سے اطمینان اور سکینت پاتے ہیں.غرض یا تو وہ دن تھا کہ مولویوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ مرزا کو ( نَعُوذُ بِاللهِ) نابود کر دینا چاہیئے اور ایک یں نے تو یہاں تک لکھ دیا تھا کہ میں نے ہی مرزا صاحب کو بڑھایا ہے اور میں ہی گھٹاؤں گا.مگر جس کو خدا نے بڑھائے اسے کون گھٹا سکتا ہے.حضرت مسیح موعود کوخدا تعالیٰ نے بڑھا یا اور بڑھا رہا ہے ان کے مخالفین کے دلوں پر ہر سال ایک زخم لگتا ہے، یوں تو ہر روز ہی زخم کھاتے ہیں مگر ہر سال جلسہ کی وجہ سے تو بڑا کاری زخم لگتا ہے.اسی سال دیکھ لو پچھلے سالوں کی نسبت بہت لوگ آئے ہیں جن کے اخلاص پہلے کی نسبت بہت زیادہ بڑھے ہوئے ہیں اور بہت سوں نے بیعت کی ہے.ہمارے مخالفین اس حیرت اور حیرانی

Page 552

خطبات محمود جلد ۴ ۵۴۳ سال ۱۹۱۵ء میں ہیں کہ اتنے لوگ کہاں سے آ جاتے ہیں مگر یہ سب خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور ہمارے لئے ایک آنے والا انسان سبق.مگر دانا وہی ہے جو اس سے فائدہ اٹھائے بہت ہوتے ہیں جو کچھ فائدہ نہیں اٹھاتے.مومن کو چاہئیے کہ کبھی اندھا ہو کر نہ بیٹھے بلکہ ہر ایک بات سے نتیجہ نکالتا رہے.اور بجائے اس کے کہ واقعات کو بطور تماشہ دیکھے اپنی روح کیلئے غذا مہیا کرے کیونکہ اگر روح کو غذا نہ دی جائے تو وہ سوکھ جاتی اور مردہ ہو جاتی ہے.غرض جلسہ سالانہ میں بہت سی روحانی غذا ہے.خدا تعالیٰ جن کو موقع دے گا وہ دیکھیں گے اور پھر دیکھیں گے اور نسلاً بعد نسل دیکھیں گے کیونکہ خدا تعالیٰ کے سلسلوں کو کوئی مٹانہیں سکتا.اور اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہم ایسی مضبوط چٹان پر کھڑے ہیں کہ ہمیں کوئی مغلوب نہیں کر سکتا.ہمارے دشمنوں کے پاس مال و دولت ہمت و طاقت کیا ہم سے زیادہ نہیں تھی ؟ ضرور تھی لیکن خدا تعالیٰ کا ہم پر بہت ہی فضل ہوا کہ اس نے ہمیں اس بات کی توفیق دی ہے.بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو احسان جتلاتے ہیں کہ ہم نے خدا کے فرستادہ کو قبول کر لیا لیکن وہ غلطی کرتے ہیں کیونکہ ان کا کسی پر احسان نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کا ان پر احسان ہوتا ہے کہ انہیں حق کے قبول کرنے کی توفیق ملتی ہے.تو بہت سے لوگ ایسے تھے جو ہم سے مال و دولت عزت و رتبہ میں بہت ہی زیادہ تھے لیکن انہیں حضرت مسیح موعود کے قبول کرنے کی توفیق نہ ملی.پس ہمیں اپنی کسی کوشش اور محنت پر ناز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہماری کیا کوششیں ہیں.ہم تو اپنی کوششوں کو جب خدا تعالیٰ کے احسانوں اور فضلوں کے مقابلہ میں لاتے ہیں تو شرمندہ ہو جاتے ہیں اور یہی منہ سے نکلتا ہے کہ الْحَمْدُ لِلهِ رَبّ العلمین سے تمام تعریفیں خدا ہی کیلئے ہیں.لوگ کہتے احمدی بڑی دین کی خدمت کر رہے ہیں لیکن اصل میں احمدی نہیں بلکہ خدا ہی کر رہا ہے.غیر احمدی کہتے ہیں کہ ان میں بڑا جوش ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ ہم میں یہ جوش کہاں سے آیا.وہیں سے کہ ہمارے پیچھے پیٹھ بھرنے والا موجود ہے جو کہ بھر رہا ہے اور یہ سب فضل ہی فضل ہے.میں نے کسی بات پر کہا تھا کہ خدا کے فضل اور کرم سے ہمیں اس قدر کامیابی ہوئی ہے.اس پر ایک شخص نے کہا ہے کہ خدا کا فضل کیا ہوتا ہے.دیکھو ئیں نے بازو کے زور سے تیس ہزار روپیہ چند دنوں میں جمع کر لیا ہے.لیکن میں پھر یہی کہتا ہوں کہ ہمیں جو کچھ بھی کامیابی ہوئی ہے خدا کے فضل سے ہوئی ہے.اس کہنے والے کا بازو فانی ہے جو ایک دن فنا ہوکر رہے گا.اور ہم دیکھیں گے کہ اس

Page 553

خطبات محمود جلد ۴ ۵۴۴ سال ۱۹۱۵ دعوی کے بعد وہ کس قدر کماتا اور روپے جمع کرتا ہے اور کس قدر سے کامیابی ہوتی ہے.اس نے تو آج سے پہلے جو کچھ دیکھا ہے وہی اس کے سبق کیلئے کافی تھا کیونکہ ایک وہ وقت تھا جبکہ یہ لوگ جماعت میں نے بڑے معز ز سمجھے جاتے تھے، لوگ ان کیلئے جانیں قربان کرنے کیلئے تیار تھے.لیکن جب انہوں نے گھمنڈ کیا اور کہا کہ ہم نے یہ خدمتیں کی ہیں، ہمارا سلسلہ پر یہ احسان ہے تو خدا تعالیٰ نے ان کو نکال کر باہر کر دیا اور کہا کہ احسان تو ہمارا تم پر تھا لیکن تم نے گھمنڈ کیا اور الٹا ہم پر احسان جتلا یا اس لئے جاؤ دور ہو جاؤ.اس خود سری اور گھمنڈ کی وجہ سے وہ جماعت سے نکلے تھے لیکن وہ پھر بھی نہیں سمجھتے.نادان انسان کہتا ہے کہ میں ہی سب کچھ کرتا ہوں حالانکہ وہ کچھ بھی نہیں کرتا.اور انسان کر ہی کیا سکتا ہے.اس میں کچھ شک نہیں کہ تمام کامیابیاں اور نفرتیں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوتی ہیں.آنحضرت سینی یا یہ تم سے بھی جب پوچھا گیا کہ آپ کی نجات اعمال سے ہوگی.تو آپ نے فرمایا نہیں خدا کے فضل سے ہوگی ھے.پس جب آنحضرت مصلای یتیم کی نجات فضل سے ہوگی تو اور کون ہے جو اپنے اعمال پر بھروسہ رکھ سکے.اگر کوئی اعمال کرتا ہے تو وہ بھی خدا کے فضل اور توفیق سے کرتا ہے.پس تم اس بات کو خوب یا درکھو کہ اس سالانہ جلسہ کے نظارہ کو دیکھ کر گھمنڈ میں نہ آجانا کہ یہ ہماری کوششوں کا نتیجہ ہے.یہ کسی کی کوشش کا نتیجہ نہیں نہ میری کا نہ تمہاری کا.پس کوئی گھمنڈ نہ کرنا بلکہ یہی کہنا کہ الحمدُ للهِ رَبّ العلمين تمام تعریفیں اور بڑائیاں خدا ہی کیلئے ہیں کہ جس نے ہمیں توفیق دی اور اتنا بڑا افضل کیا.باوجود یہ کہ ہم کمزور تھے مگر اس نے ہماری مدد کی.کیونکہ وہ الر حمن ہے.اپنے فضل سے آپ ہی سامان دیتا ہے اور جب انسان ان کو استعمال کرتا ہے اور اس کے آگے سر جھکاتا ہے تو چونکہ و رحیم ہے اس لئے اس کی رحیمیت جوش میں آتی ہے اور کہتی ہے کہ آؤ میں تمہیں بدلہ دوں.پس کام کا بدلہ مل جاتا ہے تو چونکہ ہر ایک کوشش اور محنت کا نتیجہ مرتب کرنا خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اس لئے کسی انسان کو اپنی کوشش پر ذرا بھی تکبر نہ کرنا چاہیئے.پھر یہ کہنا چاہیے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ :.ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں.انسانوں کے جمع ہونے کے دنیا میں بڑے بڑے نظارے دیکھنے میں آتے ہیں لیکن ان نظاروں اور ہمارے جلسہ کے نظارے میں ایک بہت بڑا فرق ہے اور وہ یہ کہ وہ بندوں

Page 554

خطبات محمود جلد ۴ ۵۴۵ سال ۱۹۱۵ کیلئے جمع ہوتے ہیں اور بندوں ہی کی خدمت کرنا اپنا مقصد قرار دیتے ہیں لیکن ہم خدا کیلئے جمع ہوتے ہیں اور خدا ہی کی عبادت کرنا اپنا مقصد رکھتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ کرتے نہیں لیکن ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے بھی ہیں.حضرت خلیفہ امسیح الاول فرماتے تھے کہ ایک شخص نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ آؤ پیری مریدی کا سلسلہ چلائیں.وہ ایک جگہ پیر بن کر بیٹھ گیا اور اس کے ساتھی لوگوں کو بلا بلا کر لاتے.اس نے طرح اسے اچھی آمدنی شروع ہوگئی لیکن ایک دن اسے خود ہی شرم آئی کہ میں نے خدا کا جھوٹا نام لے کر اس نے قدر کامیابی حاصل کر لی ہے تو اگر سچے طور پر نام لیتا تو کس قدر کامیابی ہوتی.یہ خیال کر کے وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چلا گیا لوگ اسے پکڑ پکڑ لائیں لیکن وہ بھاگتا پھرے تو جب خدا تعالیٰ کا جھوٹے طور پر نام لینے والے بھی کبھی کبھی کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر بچے کیوں نہ کامیاب ہوں.دیکھو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہوئے چار ہزار سال گزر گئے ہیں لیکن آج بھی آپ کا اسی طرح نام لوگوں کے دلوں پر نقش ہے جیسا کہ آپ کی زندگی کے وقت تھا مگر اس وقت کا کوئی بڑے سے بڑا بادشاہ ایسا نہیں ہے جس کا کوئی نام بھی جانتا ہو.غرض آپ لوگوں نے دیکھا کہ ایک خدا کے عبد کے مقرر کردہ اجتماع کیلئے کس کس طرح پروانہ وار لوگ آئے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہو.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کے ہمیں سیدھا راستہ دکھا تا کہ ہم تجھے تک پہنچ سکیں.صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا اور وہ تیرے مقرب بن گئے.غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ A اور ایسا نہ ہو کہ ہم اپنے شامت اعمال سے سیدھا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستہ پر جائیں یا آپ ہی ہمیں چھوڑ دیں.غرض جلسہ کے ایام ہمارے لئے بڑے سبق کے دن ہیں.مبارک ہے وہ جس نے سبق حاصل کیا.اور افسوس ہے اس پر جس نے کچھ حاصل نہ کیا.خدا تعالیٰ ہم پر اور ہمارے سب بھائیوں پر فضل کرے اور دوسرے لوگوں کی آنکھیں کھولے تا کہ ان عظیم الشان نشانات کو دیکھ سکیں اور ہمیں تکبر اور خود پسندی سے بچائے.اور اس بات کی سمجھ دے کہ انسان جو کچھ کرتا ہے خدا ہی کی توفیق سے کرتا ہے اور خود کچھ نہیں کر سکتا.الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۱۶ء) ل البقرة : ٢ البقرة : ٢٦١

Page 555

خطبات محمود جلد ۴ ۵۴۶ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی الفاتحة : ٢ ه بخاری کتاب الرقاق باب القصد والمداومة على العمل الفاتحة: ٥ ك الفاتحة: الفاتحة: سال ۱۹۱۵ء

Page 556

۷ 11 ۱۲ ۱۶ ۱۸ انڈیکس آیات قرآنیہ ۲- احادیث - الہامات حضرت مسیح موعود ۴- اسماء -۵- مقامات - کتابیا

Page 557

Page 558

الفاتحة الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (۲) ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ (w) آیات قرآنیه وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَئِكَةِ لكُم...(٤٦) تَكْتُبُونَ (۳۱تا۳۴) 21 وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا.۲۶۱ ٢٤۰۲۶۲ يبني اسرائيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِي وَمَا يُعْلِنُونَ (۱۸۷) ۵۴۳،۳۸۷،۳۰۸ ۲۶۲ ايَّاكَ نَعْبُدُ (۵) ۵۴۴،۲۶۲،۱۴۱ اهْدِنَا الصِّرَاطَ المُسْتَقِيمَ (1) ۵۴۵،۴۸۶،۳۹۳،۳۸۳ ،۲۶۲ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ (4) ۵۴۵،۲۶۲ ،۳ البقرة الم ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (۲تا۶) ۴۶۵،۴۳۳،۳۹۸ وَإِذَا خَلَو الى شَيَطِينِهِمْ (10) ۳۶ بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ وَمِنْهُمْ أُمِيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ (۲۱تا۵۰) ۹۵،۹۱،۸۶،۸۱ وَاذْفَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ..الكتب (۹) فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (اه تاهه) ۱۰۲ الْكِتَبَ بِأَيْدِيهِمْ...(۸۰) (٥١ وَإِذْ قُلْتُمْ يَمُوسى...(٥٦) ١٠٤ وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ.بمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (۱۸ تا ۲۰) ۱۱۱ وَإِذِ اسْتَسْقَى مُوسى لِقَوْمِهِ --- (۲۱) ۱۱۸ وَاذْ قُلْتُمْ يَمُوسى...(۲۲) ۱۲۲ وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ (۶۵،۶۴) وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ ۱۳۹ وَإِذْ أَخَذْنَا مِيقَاقَ بَنِي إِسْرَاوِيلٌ (۸۴) وَإِذْ اَخَذْنَا مِيقَا قَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ (۸۶،۸۵) 16.169 ۱۸۴ ۱۸۹ ۲۰۰ ۲۶۵ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ...(۱۱۹) ۳۲۹ وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللهُ (۱۱۹) ۴۶۹ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا (۱۳۱) ۱۹۲ وَلَيَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّن الخوف والجوع (١٥٦) اعْتَدَوْا مِنْكُمْ (٦٤،٦٦) ١٣٩،١٢٤ وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ اللهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِم (۱۱) وَاذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِة..حيوة (١٨٠) مَعْلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي وَمَا كَادُوا يَفْعَلُونَ على كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۱۸ تا ۲۱) ۳۸ (۶۸تا۷۲) لأيهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمْ...وَاذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا يَأَيُّهَا ۵۵ ،۴۳...تَعْقِلُونَ (۷۲۷۳) ۱۵۵ ١٦٣ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصّيَامُ (۱۸۳) شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ (۱۸۶) لِلْكَفِرِينَ (۲۲تا۲۵ ) وَبَيرِ الَّذِينَ آمَنُوا..بِكُلِّ ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ (٥) ۱۲ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَلَى شَيْءٍ عَلِيمٌ (۲۶تا۳۰) ۵۲۰۶۶,۶۰ أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا فَإِنِّي قَرِيبٌ ۴۷۳ ۱۶۴ ۳۹۵ ۳۹۵

Page 559

۴۱۳ ،۲۷۴ ،۱۴۶ ،۴۵ (۱۸۷) قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا يَحْذَرُ الْمُنْفِقُونَ أَنْ تُنَزِّلَ الْحَج أَشْهُرٌ مَّعْلُومَت قَلِيلٌ (۷۸) (19A) ۸۸ عَلَيْهِمْ (۲۴ تا ۶) ۲۵۵،۲۵۰ لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ (٩١) ٩، الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَوَعِيْنَ فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ لَا تَهِنُوا فِي ابْتِغَاءِ (۲۰۱) الله لا إله إلَّا هُوَ ۲۵۶ الحَيُّ الْقَيُومُ (۲۵۱) ۳۹۹۴۷ خُذُ ارْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصْرُهُنَّ (۲۶۱) ال عمران قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي (۳۲) فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ ۵۴۲ ۴۵۳،۳۸۷ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَ كُمْ (۱۳) ۴۵۶ الْقَوْمِ (۱۰۵) بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ (۱۵۹) المائدة فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلا (۲۵) الانعام أَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَهُ (۱۲۳) ۳۱۳ ۱۹۱ ۴۲۷،۱۲۲ الاعراف يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَمَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَعُوْدَ (۱۰۳) وَلْتَكُن مِنْكُمْ أُمَّةٌ ۳۷۶،۳۵۵ يدعُونَ (۱۰۵) ۱۴۴، ۴۸۰،۳۸۲ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (۱۱۱) النساء أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا ۳۸۲ نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَبِ (٥٢) ٣٣٦ مَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ الَّا لِيُطَاع (١٥) ۳۴۶ ۴۴۰۳ فيها ) إِنْ تَحْمِلُ عَلَيْهِ يَلْهَثْ (۱۷۸) الانفال يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا انْ تَتَّقُوا (۳۰) ۴۹۴ ۴۱۰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ...فَسِقُونَ (۷۹ تا ۸۴) ۳۳۰ ۵۰۵ اِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ انْفُسَهُمْ - - - - (۱۱۱ تا ۱۱۳) ۱۳۲ یونس لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوة الدُّنْيَا (٦٥) یوسف ۴۷۰ ،۴۵۳ يُبَنِي اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا من يُوسُفَ...(۸۸) ۲۹۸،۱۷۷ الرعد اِنَّ اللهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حتی (۱۲) ۳۹۲ ،۲۰۷ ،۹۳،۴ ابراهيم لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (v) ۲۶۱،۲۳۲،۳۱ أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللهُ وَمَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً (۲٥) فيهم (۳۴) التوبة ۲۱۶ النحل إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ LA

Page 560

۳۷۱،۲۳۹,۱ امِنَّا تُجبى إِلَيْهِ (۵۸) وَالْإِحْسَانِ (۱۱) ٣٧١،٢٣٦،١ بنی اسراءیل العنكبوت وَقَطَى رَبُّكَ الَّا تَعْبُدُوا وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا الا اياه (۲۴) الكهف وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا ۳۳۳ ۴۴۹ لنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا (•) ۲۲۶ ۴۰۱،۴۰۰،۳۳۹ السجدة مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ (۵) إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِايْتِنَا الَّذِينَ ظة الْمَضَاجِع (۱۸۱۷) إِنَّا نَسُوقُ الْمَاءَ إِلَى مریم لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِن قَبْلُ إِذَا ذُكِّرُوا (۱۲) تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ سميا (ه) وَلَا تَعْجَلُ بِالْقُرْآنِ (۱۱٥) الحج ۴۷۳ LL ۳۵۹ الْأَرْضِ الْجُرُز (۲۸) ۲۲۷ الاحزاب إِنَّ اللهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ زُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا (۱۳) ۵۳ لِلْعَبِيدِ (۱۱) ۲۰۸ قر الثريت فَمَا وَجَدُنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِينَ (۳) الرحمن الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنِ (۳،۲) الحشر ۵۹ ۱۵ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْى (۲٥) ۳۰۸ الجمعة وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (۲) ۴۲۹،۳۳۴ التحريم وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ () ۷۳ القلم وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ الله ما خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ إِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ (۱۲) النور ۵۱۲...أولى الْأَلْبَابِ (۲۸ تا ۳۰) ۵۲۲ الزمر مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ اتَّقُوا رَبَّكُمْ (۱۱) هُمُ الْفُسِقُونَ (٥٦) القصص ۴۰۸ الحجرات يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوالا أَوَلَمْ تُمَكِّن لَّهُمْ حَرَمًا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ (۱۲) ۲۳۶ (A) الحاقة وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ....حَاجِزِينَ (۴۵ تا ۴۸) الجن ٣٣٦

Page 561

لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ..----- رسُول (۲۸،۲۷) القيمة لا تحرك به لِسانك ۴۵۲ يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ...فارغب (۲تا۹) وَأُمِّهِ شَأْنْ يُغْنِيهِ (۳۸۳۵) ۲۱۷ الكوثر إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ...إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ۵۲۷ لِتَعْجَلَ به (۱۷) النبا عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ (۲) يَقُولُ الْكَافِرُ يُلَيْتَنِي كُنتُ تُرَابًا (۳۱) التزعت انَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى (٢٥) عبس ۴۷۳ ۵۰۶ ۵۰۶ المطفّفين كَلَّا انَ كِتَابَ الفُجّارِ (۲تا۴) ۴۲۵ لفى سجين --- الاخلاص كَانُوا يَكْسِبُونَ (۸ تا ۱۵) ۲۸۲ قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ (۲) ۱۳:۱۲ الضُّحى وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِن الفلق الأولى (٥) ۴۴ ۱۴ ۱۵ الَمْ نَشْرَحْ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدُرَك..قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ...إِذَا حَسَد (۲تا۶) ۴۲۰

Page 562

۳۹۳ 1 الْحَيَاءُ مِنَ الْإِيمَانِ اللهم الرفيق الأعلى ع عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَانْبِيَاءِ ك كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنُ ۳۷۹، ۳۷۸ ل لَا عَيْن رَأَتْ وَلَا أُذُن سمعت Δ ۳۰۳ Ꭺ احادیث ويدة ایک ۳۸۷ غزوہ خندق کے موقع پر چٹان توڑنے کیلئے گدال مارنے احادیث بالمعنى پر اللہ اکبر فرماتے.پوچھنے پر ب شخص کے سوال پر کہ فرمایا قیصر و کسرای کے ملک آنحضرت صلی لا الہ الم کی سیرت کیا تھی حضرت عائشہؓ نے دکھائے گئے وہ فتح ہو گئے ہیں ۵۲ ہم کامیاب ہوں گے دشمن ہم فرمایا کہ نبی کریم صلی یا ایم کی پر حملہ نہ کرے گا ہم دشمن پر سیرت قرآن ہے ابوبکر کو جو تم پر فضیلت ہے وہ نماز روزہ کے باعث نہیں بلکہ اس چیز سے ہے جواس کے دل میں ہے قیامت کے دن خدا تعالیٰ ۱۸۰۸ Λ حملہ کریں گے ایک صحابی جو بڑے جوش کے ساتھ جنگ کر رہا تھا کے متعلق فرمایا یہ جہنمی ہے جو شخص جماعت سے ایک بالشت دور ہوا وہ ہم میں سے نہیں ۵۳ ۶۹ لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى ۳۷۹ فرمائے گا میں بنگا تھا تم نے لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَيِّرَاتِ ۴۴۹ مجھے کپڑا نہ پہنایا میں بھوکا تھا ۹۲ حضرت نبی کریم سی سی کی تم نے تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا میں حضرت عباس کو مال دینے کا لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا پیاسا تھا تم نے مجھے پانی نہ وعدہ کیا تھا جب تقسیم اموال بالقريا ۴۲۳ ،۹۷ لَوْ كَانَ عِيسَى وَمُوسَى حَيين ۳۹۰ پلایا...مہدی کی نشانی کے سلسلہ میں فرمایا کہ اس کے زمانہ میں ۲۷ کے موقع پر مال لے رہے تھے لَوْ كَانَ مُوسى وَعِيسَى اکٹھے ہوں گے ۸۳ حَيَيْنِ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ تو وہ بہت زیادہ سمیٹ رہے تھے.دریافت کرنے پر بتایا کہ کسوف و خسوف رمضان میں جب حضور نے مجھے اجازت دی ہے تو میں کیوں نہ سورج اور چاند اگر میرے زیادہ لوں دائیں اور بائیں ہاتھ میں رکھ حضرت نبی کریم صلی یا کہ ہم نے دیں تب بھی لا اله الا اللہ کی مرنے کے بعد کا حال بتا یا کہ 1+11++ الْمُسْلِمُونَ مِن لَّسَانِهِ تعلیم سے نہیں رک سکتا ۳۵ بڑے خطرناک اور تلوار کی

Page 563

دھار سے تیز رستہ سے گذر کر خیال تھا کہ مدینہ کے اندرہی جنت میں جاتا ہوگا جو پل صراط دفاع کریں گے جب بظاہر ہے ٣٠١،١١٩ شکست کا سامنا ہوا تو حضور حضرت نبی کریم سال شایانی کند و نے فرمایا نبی ہتھیار باندھ کر پسند فرماتے تھے اور کھانے کے نہیں رکھا کرتے ۱۵۷ کہ میں آپ پر چڑھتا ہوں تو فرمایا تم اپنی خواب پوری کر لو ۴۷۰ ایک دفعہ جنگ کے موقع پر ایک صحابی نے اپنے رشتہ داروں کو بچانے کیلئے اپنی بیوی کو خفیہ وقت پیالہ میں سے کذ و تلاش اگر انسان گناہ کرتا ہے تو اس طور پر خط لکھ دیا حضرت نبی کرتے ۱۲۳ کے دل پر سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے.کریم کو الہاما علم دیا گیا.تلاش اگر کوئی مومن بُری بات دیکھے اگر نیکی کرتا ہے تو نور آ جاتا کیلئے صحابہ کو بھجوایا مگر اس نے انکار کر دیا آخر حضرت علی کو بھیجوایا جنہوں نے سختی سے اس ۱۸۳ ،۱۸۲ ۱۹۰ ۲۳۱ ۲۳۳ ۱۷۳ تو چاہئیے کہ اسے ہاتھ سے ہے آخر کار دونوں میں سے ہٹائے....ورنہ دل میں بُرا کوئی غالب آجاتا ہے منائے.یہ ایمان کی سب سے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو زیادہ کمزور حالت ہے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن ۱۳۷ کہ ہمیشہ رات کو نہیں اُٹھ سکتے چنانچه بعض مزدور پیشه العاص بیان کرتے ہیں کہ میں لوگ ہوتے ہیں جو کہ دن کو عورت سے دریافت کیا تو وہ خط اُس نے دے دیا مسلمان بھی ایک وقت میں یہود کی طرح ہو جائیں گے محنت کرتے ہیں اس لئے رات حدیثوں میں ایک خبر آئی ہے کو نہیں اُٹھ سکتے.چنانچہ بعض کہ مسیح ایک منارہ پر منازل دن کو روزہ رکھتا تھا اور رات کو قیام کرتا تھا.حضور نے فرما یا ایک دن روزہ رکھا کرو مزدور پیشہ لوگ ہوتے ہیں ہوگا اور ایک دن افطار.میں نے کہ دن کو محنت کرتے ہیں حضرت عائشہ فرماتی ہیں میں حضور کا مشورہ نہ مانا.آخر رات کو ان کا تہجد کیلئے اٹھنا نے ایک دفعہ حضرت نبی کریم بڑھاپے میں کمزوری غالب مشکل ہوتا ہے.آنحضرت صلعم سے پوچھا کہ حضور وفات کے بعد کہاں جائیں گے اجازت دی تھی کہ ہمیشہ تہجد تو آپ نے فرما یا اگر اللہ تعالیٰ آگئی اور میں پچھتایا کہ میں صلی یہ وہم نے ایسے لوگوں کو نے حضور کے مشورہ پر عمل کیوں نہ کیا ۱۵۶ نہ پڑھا کریں ۱۴۵ کا فضل ہوا تو جنت میں جاؤں جنگ احد کے موقع پر صحابہ کی آنحضرت مسیل یا پیام کوتور و یا کا اکثریت نے مدینہ سے باہر جا کر ادب یہاں تک ملحوظا تھا کہ ایک صحابی کو بلا کر فرمایا کیا مقابلہ کی رائے دی.حضور کا ایک شخص نے رویا میں دیکھا تمہیں کچھ بتاؤں اس نے

Page 564

۴۰۸ ۴۱۱ ۴۲۳ ۹ عرض کیا فرما ئیں آپ نے فرمایا ہاتھ رکھ دیا حضور نے سمجھا مجھے خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ وہ میری اطاعت نہیں کرتا اس نے آپ کو پہچان لیا ہے.آنحضرت سلی یا اینم نے فرمایا تجھے سورة البينة (لَمْ يَكُنِ فرما یا کوئی ہے جو اس کو مول الَّذِينَ كَفَرُوا الخ ) بتاؤں کہ تو پڑھا کرے وہ امت جس کے پہلے میں ہوں اور آخر میں مسیح موعود ۲۳۴ لے لے اس نے کہا مجھے کون مسیح موعود حکمنا عدلاً ہوگا تم میں سے دو آدمی میرے مول لے سکتا ہے نبی کریم پاس جھگڑا لے کر آتے ہیں.سلی می اکیا تم نے فرما یا خدا تعالی اور ایک اپنی چرب زبانی سے اپنے اس کے رسول کے نزدیک ہو وہ ہلاک نہیں ہو سکتی ۲۸۸،۲۸۷ تمہاری بے شمار قدر و قیمت حضرت نبی کر یم سالی یا یہ نام کے ہے زمانہ میں ایک خادم مسجد فوت مدینہ بھٹی کی طرح ہے ہو گیا صحابہ نے اس کو حضور کی ایک شخص نے رسول کریم اطلاع کے بغیر ہی دفن کر دیا صلی للہ الیہ الم سے دریافت کیا کہ آپ کو علم ہوا تو فرمایا مجھے خبر کتنی نماز میں فرض ہیں.اس کیوں نہ دی ایک دفعہ آنحضرت سلیسیا می بینم ۳۳۷ نے عرض کیا کہ میں اس سے حق میں فیصلہ کروا کے دوسرے بھائی کا حق مارتا ہے اس طرح ۲۴۸ پر ایا حق لینے والا آگ کا ٹکٹ الیتا ہے ۳۶۸ آنحضرت صلی یا میکنم مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگوں نے یہ معاہدہ کیا کہ اگر مد بینہ سے باہر جنگ ہو تو اس میں لڑنے کے زیادہ نہیں پڑھ سکتا فرما یا جو پابند ہوں گے لیکن اگر مدینہ بیٹھے ہوئے تھے ایک بڑھیا آئی بات اس نے کہی ہے کر بھی لی کے اندر ہو تو دشمن کے روکنے اس نے کہا یا رسول اللہ ! کیا تو جنت میں داخل ہو گا میں جنت میں جاؤں گی فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ بڑھیا تو کوئی جنت میں نہیں جائے گی حدیث میں آتا ہے اے خدا! تو میرا بندہ میں تیرا خدا ہوں ایک دفعہ ایک صحابی کھڑا تھا ۲۴۸ ۱۷۴ کا اجر میں ہوں ۳۹۶ ۳۹۶ میں مددد بنا فرض نہ ہوگا.یہود نے بدعہدی کی.صحابہ نے فرمایا ہم آپ کے دائیں بھی جبریل رمضان کے مہینہ میں لڑیں گے بائیں بھی لڑیں گے قرآن مجید کا دور کرواتے کیونکہ اس میں رمضان کی ابتداء ہوئی تھی ۴۰۲ آگے بھی اور پیچھے بھی دشمن ہماری لاشوں پر سے ہوکر ہی آپ تک پہنچے گا....۴۲۷ جو میرے امیر کی اطاعت کرتا آنحضرت صل اللہ السلام نے جمعہ کے آنحضرت سیل نیا اینم نے پیچھے ہے وہ میری اطاعت کرتا ہے دن خطبہ کے درمیان بولنا منع سے آکر اس کی آنکھوں پر جو امیر کی اطاعت نہیں کرتا فرما یا کسی کو خطبہ کے دوران

Page 565

۵۲۰ ۵۴۴ بولنے کی اجازت نہیں ۴۵۹ رہے اور جہاں ملے اذان بھی ایک غیر مامور کی رؤیا اسے لے لے پر مقرر ہوئی صحابہ نے اپنا مال اور جان ۴۷۰ ایک دفعہ ایک جنگلی نے ۵۰۲ دے دیں میں ان کو کھانا کھلاؤں گا.اس کے گھر میں دو ہی آدمیوں کا کھانا تھا اس نے آنحضرت سلیم اینم کی بیعت کی.بیوی سے کہا کہ بچوں کو کھانے آنحضرت کی خدمت میں پیش کچھ روز بعدا سے بخار ہو گیا تو کے وقت سلا دینا....چراغ گل کر دیئے.....حضرت ابوبکر سے وہ نبی کریم کے پاس آیا اور حضور نے دریافت فرمایا تو جواب دیا کہ جو کچھ گھر میں تھا سب حاضر کر دیا ہے کہنے لگا یا رسول اللہ ! میری کرا دیا اور مہمانوں کو کھانے پر بٹھا یا اور آپ میاں بیوی خالی منہ کھانے کی آوازیں نکالتے رسول اللہ سا شیما کریم کا حکم ہے اگر یا کسی برتن میں منہ ڈال دے تو پہلے اسے مٹی سے ۴۸۱ ما نمجھو اور پھر پانی سے دھولو.۴۸۹ کلمہ حکمت مومن کی گمشدہ چیز ہے جس کی تلاش میں بیعت واپس کردیں مجھے پ آ گیا ہے...۵۱۶ رہے.حضور نے اس کی ایک دفعہ آنحضرت صل للہ الیہ نام کے روئید ادسن کر فرمایا اللہ تعالیٰ ہاں کچھ مہمان آئے ایک صحابی تیرے اس فعل پر خوش ہوا آنحضرت صلی لا الہ تم سے پوچھا گیا مہمان مجھے دے دیں میں اسے کہ آپ کی نجات اعمال سے نے کہا یا رسول اللہ ! ایک کھانا کھلاؤں گا.ایک اور صحابی ہوگی فرمایا.نہیں خدا کے فضل سے ہوگی نے عرض کیا مجھے دو مہمان

Page 566

11 الہامات حضرت مسیح موعود جاعل الذين اتبعوك عربی الہامات فوق الذين كفروا اجيب كل دعائك الا في شركائك انت منى بمنزلة توحیدی و تفریدی انى احافظ كل من في الدار انى مهين من اراداهانتك ۴۱۸ ۴۷ ۶۷ ۲۸۹ يأيها النبي اطعم الجائع والمعتر ياشمس يا قمر ۸۴،۷۸ ۵۱۹ ۶۷ اردو الہامات آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے ۳۸۸،۱۱۲،۳۴ ترکوں کی حالت کے متعلق : بدکاری میں مبتلاء ہیں ۲۱۴ وہ خدا کے شیر پر ہاتھ مارتا ہے ۳۸۹ پنجابی الہامات جے توں میر اہور ہیں سب جگ تیرا ہو ۱۱۳ ،۱۱۱

Page 567

۱۷۳ ۱۲ اسماء ،۲۴۷ ۲۴۶،۲۴۴ ،۲۴۲ ،۲۳۹ ۲۵۱،۲۴۹ تا ۲۵۶،۲۵۴، آدم ۷۶،۷۳،۷۲،۳۰،۲۹ تا ۷۹ ۴۹۱،۴۴۴ ،۳۸۸ ،۳۴۷ ،۳۴۶ ۱۹۵ ۴۰۹ ۱۰۲ ۱۱۲ ،۱۰۵ ،۱۰۴ ،۱۰۲ ۳۸۱،۱۲۲،۱۱۶،۱۱۳ ۲۶۷ ۴۲۲ ۲۶۷ ۲۶۷ ۵۰۰ ۳۹۰ ۱۸۹ ) +) ۷۳،۵۸،۴۵ ۲۷۰،۲۶۷ ،۲۶۴ ،۲۶۳ ،۲۵۹ ۲۷۸،۲۷۷،۲۷۵ ،۲۷۳ ،۲۷۲ ۵۱۸،۳۷۴ ،۱۹۶ ،۳۲۰،۳۱۸،۳۰۹،۳۰۲،۲۷۹ ۳۵۱ ۳۳۹،۳۲۸،۳۲۷،۳۲۶،۳۲۵، بدھ حضرت ۳۴۲ تا ۳۵۵،۳۴۹٬۳۴۸،۳۴۶ بریده ۳۵۹،۳۵۷،۳۵۶ تا ۳۶۵،۳۶۲ بنو اسحاق بنی اسرائیل بنو خزاعہ بنی عباس ابراہیم حضرت ابن تیمیه ابن زبیر ۳۹۳،۳۹۲ ابن عمر ۹۲ ابوبکر حضرت ۷۲ تا ۷۴ ۲۰۳۷۶، ۴۸۱ ابوذر 1+1 ابولولو احمد بیگ ۵۰۹ احمدیت ۴۴۷ ۳۷۴ ،۳۷۱،۳۶۹،۳۶۸،۳۶۷ ۳۹۱،۳۹۰،۳۸۸،۳۸۴ ،۳۸۱،۳۷۵ ،۴۱۷ ،۴۱۵،۴۰۳ ،۳۹۶۳۳۹۳ ۱۸۳ ۴۴۱،۴۳۷ ، ۴۲۵،۴۲۱،۴۲۰ بنو قینقاع ام ۴ ۴ ، ۴۵ ۴۴۸۰۴، ۴۵۵،۴۵۲ بنو نضیر پوپ اسحاق حضرت اسلام ۲۰۵،۲۰۲،۱۹۲،۹۰،۲۴،۲۳، ۴۶۶،۴۶۵،۴۶۳ ،۴۵۸،۴۵۶ ۳۷۳ ۴۸۲،۴۸۰،۴۷۹ ،۴۷۶۴۷۵ ۴۹۶،۴۹۳ ،۴۸۸،۴۸۷۰۴۸۶ ،۵۰۴،۵۰۳،۵۰۱،۵۰۰ ۳۳۵،۳۲۵،۲۸۰،۲۵۲،۲۵۱،۲۴۵ ۴۴۵،۴۴۴ ،۴۳۳ ،۴۰۰،۳۹۹ ۵۳۷،۵۳۳،۵۳ ۱٬۴۵۹،۴۴۷ ۵۱۰ تا ۵۲۷،۵۱۵، ۵۳۲،۵۳۰ تا ۵۳۴ ۵۳۹٬۵۳۸۰۵۳۶ تا ۵۴۵۰۵۴۳ اللہ تعالی ۶۶،۶۵،۶۱،۵۸،۵۷،۵۶، ۷۶،۷۵، ۷۸ ، ۱۹۰ ، ۲۱۸،۲۱۷ | انشاء اللہ خان ،۲۳۶،۲۳۱،۲۳۰،۲۲۸،۲۲۱،۲۲۰ آ ۱۰۸ ٹالسٹائے ٹائٹس(TITUS)

Page 568

۴۰۹ ۴۰۹ ۹۷ ۱۲ ۴۱۰ ۲۷۹ ۴۶۰ ۱۲۰ ۳۱۸ ۴۰۹ ،۱۸۰۸،۴ سعد ۱۳ ۴۷۳ ۵۱۰ داؤد وام مارگی ۳۸۸ دیانند سرسوتی ۱۹۶،۱۵۶،۱۲ Δ سعید سکندر ۹، ۳۷۴ سلیمان حضرت شعیب حضر شیر علی مولوی ، حضرت ص صالح حضرت ضرار، حضرت b ع عائشہ حضرت ۴۴۰،۳۹۳ ،۱۵۸ 1016100 ۵۰۷ ۳۸۹ ۴۵۵ ۳۱۵ ۳۶۹،۱۰۵ ۱۹۱ ۳۹۰ ۴۰۹ ۹ عباس حضرت ۱۹۵ ڈ ڈیوک (Duke) ۴۰۲ ۴۶۳ ثناء اللہ مولوی ج جارج پنجم جاماسپ جبریل جندا چراغ دین رحمت اللہ شیخ ۴۷۳ چکڑالوی عبد الله ، مولوی ۴۰۷ رستم رنجیت سنگھ حج روشن علی حافظ ، حضرت زار ز زبیر زرتشت سرسوتی ۲۶۶،۲۵۴ ،۲۵۰ i ۷۳ خالد بن ولید ، حضرت خالق خدا بخش مرزا ۴۵۵ خلیفتہ المسیح الاول حضرت مولوی ، A ، ۱۹۱،۱۸۸،۱۰۷ ، ۱۰۴ ،۶۷ ،۶۴ ،۶۱ ،۴۶۳ ،۴۱۱،۲۶۸،۲۶۱،۲۶۰،۱۹۷ ۴۸۲، ۵۴۵،۵۱۰،۵۰۸،۵۰۷ | سلمان فارسی ،حضرت ۵۲ عبد الحکیم ڈاکٹر خواجہ صاحب ۴۴۹

Page 569

۱۲ ۵۱۵ لاجپت رائے لقمان حضرت لوط حضرت ۷۳،۵۹،۵۸ ۱۷۳ ۴۳۹ ۳۸۷ ۶۱ 금한 لیکھرام لیلی مارٹن کلارک مبارک احمد مرزا صاحبزاده ۳۵،۲۶،۱۹،۱۸ ،۱۲ ،۹ ،۸ ،۷ ۸۷،۷۸،۷۶۰۶۶۰۵۹،۵۵،۳۹ ۴۴۶ ۱۴ غلام محمد ، مولوی ف ۴۲۸،۲۱ عبدالرحمن بن عوف حضرت عبدالقادر جیلانی ۱۹۷، ۳۴۳ فتح محمد ، چوہدری عبدالکریم مولوی، حضرت ۳۳۷ عبداللہ چکڑالوی عثمان حضرت ۴۱۱ ،۹۲ ،۷۸،۷۳ ۴۲۲،۴۰۹،۱۱۰ حضرت فرعون ۵۳۶،۲۵۲،۲۵۱ ۴۷۰،۲۸۵،۱۲۲ ،۱۱۲ ، ۱۰۰،۹۹ ،۱۱ فضل احمد ۳۳۷،۳۳۶ ۱۸۰،۵۲ 11 = ۱۸۱،۱۴۱،۱۳۰،۱۱۲ ،۱۰۱ ، ۱۰۰،۹۲ ۲۱۱،۲۰۵،۲۰۴ ، ۱۹۰ ، ۱۸۳ ،۱۸۲ ۲۵۶،۲۴۹،۲۴۸،۲۴۳ ،۲۳۹،۲۲۸ ۲۸۷،۲۸۵،۲۷۹،۲۷۵ ،۲۷۱ ،۲۶۰ ۳۴۸،۳۴۵ ،۳۴۴ ،۳۴۳ ،۳۰۳ ،۳۰۱ ۳۷۴ ،۳۷۳ ،۳۶۹،۳۶۸،۳۶۷،۳۴۹ ۴۲۸،۴۲۰ ،۴۱۷ ، ۴۱۴ ،۳۸۹،۳۸۲ ،۴۶۰،۴۵۹،۴۵۴ ،۴۵۳ ،۴۴۹،۴۲۹ ۳۸۹ ۳۸۸،۱۱ ۵۲ ،۵۰۳ ،۴۸۹،۴۷۵ ، ۴۷۴ ،۴۷۰ ، ۴۶۹ ۵۴۴،۵۴۰،۵۳۵،۵۳۱،۵۱۶،۵۱۱ محمد حسین بٹالوی ۱۹۱ ، ۲۲۹،۲۲۷ محمد علی مولوی ۴۲۱،۲۸۹،۲۸۴ ،۲۷۱ ۴۶۱،۴۶۰،۴۴۷۴۴۶ ۵۰۰ ۲۲۶ محی الدین ابن عربی مریم حضرت ق علی حضرت ۴۲۲ ،۴۰۹،۱۸۳ ،۱۸۲،۱۱۰ عمر حضرت ۶۳، ۱۱۰۰۷۸،۷۳ ۴۸۱،۴۰۹،۲۰۳ ،۱۸۱،۱۸۰ عیسی علیہ السلام حضرت ابن مریم کاٹ لی ۱۲۱،۱۱۸ | کارڈ نیل کاؤنٹ کرشن“ اوتار کسرای کور یوبیکن ۲۵۲ (CORIO BECON) ۳۸۸ ل کولمبس 1+1 غ غاوی بن السلمی غلام احمد حضرت مرزا مسیح موعود ۳۶۱،۲۸۵،۲۶۰ ۵۱۴ ،۴۸۳ ،۳۶۷ ۴۷۳ ۳۹۳ نیز دیکھیں حضرت مسیح موعود “ غلام دستگیر غلام رسول را جیکی مولانا، حضرت

Page 570

نورالدین حضرت ۵۴۱،۵۰۸،۳۹۰ ۱۹۶ ۱۲ لد 7 ۵۰۳،۵۰۲ مولوی ہارون حضرت هنده ۱۵ ،۳۳۸ ،۳۳۷ ،۳۳۶،۳۳۵،۳۱۲ ،۳۶۸،۳۶۷ ،۳۶۶،۳۴۷ ، ۳۴۴ ،۳۴۰ ،۴۰۷ ،۳۹۹،۳۹۷ ،۳۹۰،۳۸۸ ،۳۸۷ مسیح حضرت لد له ولد له ولد الله فالدالله 7 ولد الله لداا ۴۶۳،۴۵۶،۴۵۵،۴۵۴ ،۴۵۲ ،۴۴۹ لد 7 لد 07 ولد 17 ولد 7.له bh له 7h ۵۱۴،۵۱۰،۵۰۴،۵۰۱ ،۴۹۹ ،۴۹۳ ،۴۹۱ ۵۴۳،۵۴۲،۵۴۱،۵۳۸،۵۳۵،۵۱۹ ۱۹۰،۱۸۹ ،۹۷ ،۸۶،۵۰،۱۲،۱۱ ۳۷۳ ،۳۷۲،۲۱۱،۲۱۰،۲۰۰ ۴۱۴ ،۳۹۹،۳۹۳ ،۳۸۲،۳۸۱ ۵۳۲،۴۹۱،۴۵۲ مسیح موعود علیہ السلام، حضرت ۶۹،۶۷ ،۶۴ ،۵۹،۵۴،۵۳ ،۵۰ ۷۷، ۸۲، ۱۰۵، ۱۱۲، ۱۱۳، ۱۲۳تا معین الدین چشتی ۳۴۳ بی حضرت موسیٰ علیہ اسلام ۱۱، ۸۶،۷۳،۳۰،۱۲ ۱۰۳۷۹۹،۸۸، ۱۰۹،۱۰۵،۱۰۴ یعقوب حضرت ۴۵۲،۴۱۴ ،۳۸۵،۳۸۱،۲۱۱،۱۲۰ ،۱۶۸،۱۶۱،۱۶۰،۱۴۷ ، ۱۳۰،۱۲۶ ، ۱۹۳ ،۱۹۱،۱۸۷ ، ۱۷۸ ، ۱۷۶ ، ۱۷۳ ۲۵۴ ،۲۵۲،۲۵۱،۲۴۱،۲۳۹،۲۳۸ ،۲۳۲ ۲۱۱،۲۱۰، ۲۱۲ ، ۲۲۸،۲۱۹،۲۱۷تا یوسف، حضرت ۵۰۴،۵۰۳،۵۰۲،۴۷۰ ۴۹۹،۴۷۲ ۴۴۶ نوعح حضرت نورد یا مسٹر ۲۷۳ ،۲۷۱،۲۶۴ ،۲۶۱،۲۶۰،۲۵۷ ۳۰۱،۲۸۹،۲۸۸،۲۸۵ ،۲۸۴ ،۲۷۹

Page 571

۵۲۴ ۵۰۰ ٣١٦ ۲۳۱،۲۳۰ ۹۵،۹۲ ۴۶۰ ۱۸۶ ۴۰۰ ز زمین سپین سرویه سیلون ۵۲۹ ۸۳ ۱۶ ۲۱۲ ،۱۸۶ で ۴۲۱ ،۱۷۶۱۷۱ ۹۷ ۳۱۶،۸۳ شام ۵۲ ص صدر انجمن احمدیہ طرابلس عراق ع ۴۰۰،۲۱۲،۱۸۶،۱۱۴ ۴۲۱،۱۸۲ ف فرانس فرنگی محل ۵۴۱،۱۲۵ ۴۳۵ ۳۸۸ ۱۸۰ چ خ مقاما ترکستان ٹرانسوال ٹیونس جرمن چین خندق دیانند کالج رام مندر روم ۲۱۲ 를 JAY ۵۴۱،۴۲۸،۳۹ ۳۰۹،۸۳ ۸۳ ۱۱۳ ۵۰۰،۴۶۴،۳۰۹ ۵۳۵،۱۸۷ الجزائر الجيريا أحد افریقہ افغانستان امرتسر امریکہ انگلستان ایران ۴۰۰،۳۸۸،۲۱۲،۸۳ ۳۱۶،۱۸۰ ۴۳۵ ۱۱۳ ۴۲۸ ایشیا اسلامیہ کالج بٹالہ بدر برطانیه ۵۳۴،۵۲۹،۲۱۲ ۵۱۴ ۳۱۶ ۱۳۵ ۴۲۱ بغداد بلغاریہ بمبئی

Page 572

0 ۲۶۰،۲۰۱،۱۶۰،۹۹ ،۹۲ 71 ل لاہور ۲۸۴،۲۷۱،۲۵۰، ۳۳۷ لکھنو ہندوستان لد 76 ولد ٧لد ولد ولد ولد الله الله الله له Oh ۵۲ الد 7 ۱۸۹،۱۱۲ یثرب یرموک ی ۳۰۹،۲۱۳ ،۱۱۷ ،۹۹ ،۸۳ شد پرومم یورپ لد ٥٧ لد له ولد اله له له له ۲۳۰ ۲۶۷ ،۲۱۲ ۲۱۲،۱۸۶ ۴۶۱ ماریشس مد پینه مراکش مسلم انڈیا مصر ۴۸۸،۴۰۰،۳۰۹،۲۱۲،۱۲۰،۱۱۳ ۴۹۹،۴۰۰،۲۱۲،۲۰۵ ، ۷۱ ۴۳۵ مکه قادیان ۴۲،۳۸،۲۹،۲۶ ،۱۷ ،۱۰ ،۶،۱ ،۱۳۶،۷۵،۶۰۰۵۵،۴۹،۴۵ ۰۲۶۳۲۵۷،۲۵۴۲۳۴۲۱۹ ،۱۶۲ ،۳۶۸،۳۶۶،۲۸۸،۲۷۱،۲۶۴ ۵۴۲،۵۴۰ ، ۴۹۳ ،۴۹۲ ،۴۷۲ ،۳۹۱ ۵۳۵،۲۱۰ ٣١٦ قسطنطنیہ کابل کا کیشیا گورداسپور ۱۶۲ موچی دروازه

Page 573

۱۸ کتابیار انجیل متی ۳۹۹،۳۸۳ ،۲۱۵ ،۱۱۴ ،۹ تحفہ قیصریہ تذکرہ مجموعہ الہامات ۲۴۱،۲۴۰ ایڈیشن ۴ ۱۱۶،۸۵،۷۰، ۲۱۴ انسائیکلو پیڈیا (جلداول) ۳۱۰ اردو انسائیکلو پیڈیا ۵۳۷ الاصابة في معرفة الصحابه (جلد۳) ۵۲۱ با کیبل پیدائش زبور ۵۹ ۹۳ ۵۲۱،۴۱۸،۳۶۸،۲۸۹ چ چشمه معرفت ۲۸۶ لد لد 7 ۵۴ ۹ ۴۷۸ ۳۲ 2 حقيقة النبوة زرقانی ز س ستیارتھ پرکاش سنن ابن ماجه سنن دار قطنی سيرة ابن هشام (عربی جلد اول) سيرة ابن هشام ( عربی جلدوم) ۳۷ ۱۵۸،۱۵۷،۵۴ ،۴۱ سيرة ابن هشام (جلد چہارم) V7 ۸۳ سلاطین بخاری ۲۶۲ الفضل ۱۰۱ ،۹۶،۹۴ ،۷۰ ،۵۴ ،۴۱،۳۹ ۲۳۳ ،۲۲۳ ،۱۸۳ ، ۱۷۴ ، ۱۵۸،۱۵۶ ۳۶۸،۳۳۷،۳۰۳ ،۳۰۱،۲۳۴ ۴۰۲،۳۹۶،۳۹۳ ،۳۷۹،۳۷۸ ،۴۲۸،۴۲۷ ، ۴۲۳ ،۴۱۱،۴۰۸ ۵۴۶،۵۲۱،۵۲۷ ،۴۶۴ ،۴۴۹ ،۳۷ ،۳۲ ،۲۸،۲۵ ،۲۱ ، ۱۳ ،۹ ،۷۴ ،۶۹،۶۵،۵۹،۵۴ ،۴۴ ،۴۱ ۱۱۴ ،۱۱۰،۱۰۶،۱۰۱ ،۹۴ ، ۸۹ ،۸۵ ، ۷۹ ،۱۴۲،۱۳۸،۱۳۱،۱۲۶،۱۲۱،۱۱۷، ،۱۶۹،۱۶۶،۱۶۲ ،۱۵۸،۱۵۴ ، ۱۴۸ ۵،۲ ۱۹۱ 1.4 ،۲۰۶ ،۲۰۳ ،۱۹۴ ،۱۸۸،۱۸۳ ، ۱۷۸ بدر ۲۴۱،۲۳۵،۲۲۸٬۲۲۱٬۲۱۵ ۲۴۹ ، براہین احمدیه براہین احمدیہ پنجم ،۲۹۰،۲۸۱،۲۷۳ ،۲۶۸،۲۶۲ ،۲۵۸ ۳۲۹،۳۲۴ ،۳۱۲ ،۳۰۶،۲۹۹ ۳۵۸،۳۵۴ ،۳۴۵،۳۴۱،۳۳۸ ۳۸۳ ،۳۸۰،۳۷۵،۳۷۰،۳۶۲ ولد الد ولد ولد لد له ولد الله له له له له ولد امالہ اللہ ولد ٠ ل 76 له خالد ،۴۹۷ ، ۴۹۳ ،۴۸۵ ، ۴۷۸ ،۴۶۸ ۵۴۵،۵۳۷،۵۲۶،۵۲۰، ۵۱۱،۵۰۴ پیغام صلح تاريخ الخلفاء للسيوطى تاریخ طبری اردو ترجمہ ۴۷۸،۳۶۶ ۲۱۳ ،۸۰ ۳۱۵،۱۴۸،۱۰۵

Page 574

۸۵ ۲۰۷ 1+4 ۲۱۴ ،۲۱۰ مکتوبات امام ربانی ملفوظات حضرت مسیح موعود (جلد ۲) ملفوظات حضرت مسیح موعود (جلدم) مہر منیر ۱۹۶ 1+1 19 السيرة الحلبيه ( الجزء الاول والثالث ) سيرة المهدی (حصہ اول) ۳۸۹ ۳۷۸ گلدسته کرامات ل ش لسان العرب شرح دیوان حسان بن ثابت ۳۷۸ مثنوی ، مولاناروم ۵۱۵،۵۰۸ مؤلف فیض احمد فیض b طبقات ابن سعد ۳۷۹،۳۷۸ مجاني الادب في ق حدائق العرب (جلد ۲) ۳۷۹ نزول المسیح قرآن کریم مجمع بحارالانوار (جلداول) ۸۵ حضرت مسیح موعود ۲۸۵ ۱۸۵،۸۹،۸۷،۸۶،۶۰ تا مجموعه اشتہارات نزهة المجالس و ،۲۸۲،۲۵۲،۲۴۶،۲۴۵ ، ۱۹۳ ، ۱۹۱ ،۳۲۶،۳۱۲،۳۱۱،۳۱۰،۳۰۷،۲۸۳ حضرت مسیح موعود (حصہ سوم) ۱۶۱ ی ۳۳۵ تا ۳۴۰،۳۳۸، ۳۴۸،۳۴۳ مسلم ۳۳۷،۲۳۱،۱۳۸،۱۲۱،۲۸ الیواقیت والجواهر ۳۵۹،۳۵۶، ۳۹۵،۳۶۵، ۱۳۹۸ تا۴۰۲، مسند احمد بن حنبل ۴۸۷ ،۴۸۳،۴۷۲،۴۶۵ ، ۴۵۲ ،۴۴۱ ۵۴۰،۵۳۵،۵۳۱،۵۱۸،۵۱۱،۵۱۰،۵۰۶ القول الفصل ۴۴۷ قومی انگریزی اردو لغت ۳۸۹ ۹ مشکوۃ المصابیح ۲۸۸،۲۸۷ المعجم الكبير طبرانی (جلد ۱۸) ۴۲۴ ۳۹۰،۸۵

Page 574