Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔
خطبات مود خلیات (جمعہ) 1958-59 فرموده سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد اصلح الموعود خلیفہ ربیع الثانی 39
KHUTBAT-I-MAHMUD by HADRAT MIRZA BASHIR-UD-DIN MAHMUD AHMAD KHALIFATUL MASIH II Published by: Printed by:
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے فضل عمر فاؤنڈیشن کو حضرت مصلح موعود کے خطبات کی انتالیسویں چلد احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِک.اس جلد میں 59-1958 ء کے 44 خطبات جمعہ شامل ہیں.حضرت فضل عمر سلطان البیان کے خطبات علوم و معارف کا انمول خزانہ ہیں اور پیشگوئی کے الہامی الفاظ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا“ پر شاہد ناطق ہیں.حضرت مصلح موعود کا دور خلافت جو کم و بیش 52 سال پر محیط ہے ایک تاریخ ساز دور تھا.اس نہایت کامیاب طویل دور میں حضور کے خطبات نے جماعت کی علمی و روحانی ترقی اور تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردارادا کیا.حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:.حضرت مصلح موعود کے خطبات آپ کے قریب بیٹھ کر سننے کا موقع ملتا تھا.تمام دنیا کے مسائل کا آپ کے خطبات میں مختلف رنگ میں ذکر آتا چلا جاتا تھا.دین کا بھی ذکر ہوتا اور دنیا کا بھی.پھر ان کے باہمی تعلقات کا ذکر ہوتا تھا.سیاست جہاں مذہب سے ملتی ہے یا جہاں مذہب سے الگ ہوتی ہے غرضیکہ ان سب مسائل کا ذکر ہوتا تھا.چنانچہ قادیان میں یہی جمعہ تھا جس کے نتیجہ میں ہر کس و ناکس ، ہر بڑے چھوٹے اور ہر تعلیم یافتہ و غیر تعلیم یافتہ کی ایک ایسی تربیت ہو رہی تھی جو بنیادی طور پر سب میں قدر مشترک تھی.یعنی پڑھا لکھا یا ان پڑھ، امیریا غریب اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں رکھتا تھا کہ بنیادی طور پر احمدیت کی تعلیم اور احمدیت کی تربیت کے علاوہ دنیا کا شعور بھی حاصل ہو جایا کرتا تھا.چنانچہ بہت
سے احمدی طلباء جب مقابلہ کے مختلف امتحانات میں اپنی تعداد کی نسبت زیادہ کامیابی حاصل کرتے تھے تو بہت سے افسر ہمیشہ تعجب سے اس بات کا اظہار کیا کرتے تھے کہ احمدی طلباء میں کیا بات ہے کہ ان کا دماغ زیادہ روشن نظر آتا ہے ان کو عام دنیا کا زیادہ علم ہے.“ ( خطباتِ طاہر جلد نمبر 7 صفحہ 10) ہمارا یہ روحانی وعلمی ورثہ سلسلہ کے لٹریچر میں بکھرا پڑا تھا اور جماعت کے دوستوں کو اس سے استفادہ کرنا مشکل تھا.فضل عمر فاؤنڈیشن اس جماعتی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ان خطبات کو کتابی شکل میں شائع کر رہی ہے.یہ جواہر پارے اب آپ کے ہاتھوں میں ہیں.ان کی زیادہ سے زیادہ اشاعت سے جہاں ادارہ کے لئے اس کام کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچا نا آسان ہوگا وہاں نئی نسل کی تربیت کے لئے بھی یہ بہت ممد و معاون ہوں گے.اس جلد کی تیاری کے سلسلہ میں جن دوستوں نے ادارہ کی عملی معاونت فرمائی ان میں مکرم عبدالرشید صاحب اٹھوال، مکرم حبیب اللہ صاحب باجوہ، مکرم فضل احمد صاحب شاہد، عبد الشکور صاحب باجوہ ، مکرم عدیل احمد صاحب گوندل ، مکرم ظہور احمد صاحب مقبول ، مربیان سلسله قابل ذکر ہیں.خاکساران سب کا دلی شکریہ ادا کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ خدا تعالیٰ ان کے علم وفضل میں برکت عطا فرمائے اور اپنے فضلوں اور رحمتوں سے نوازے.آمین
(i) فہرست مضامین خطبات محمود جلد 39 خطبات جمعہ 1958ء،1959ء) خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده 1 موضوع خطبہ 3 جنوری 1958 ء وقف زندگی کی نئی تحریک جماعت کی ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے.جماعت کے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ آگے آئیں اور اس تحریک کے تحت خدمت دین کے لیے اپنے آپ کو پیش کریں 10 جنوری 1958ء ہمت کے ساتھ آگے بڑھو اور وقف جدید کی تحریک کو کامیاب بنانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو.نوجوان اپنی زندگیاں وقف کریں، احمدی زمیندار دس دس ایکٹر زمین پیش کریں اور دیگر احباب زیادہ سے زیادہ چندہ دیں صفحہ 1 13 3 17 جنوری 1958ء وقف جدید کی تحریک بھی ایک اعلیٰ درجہ کی نیکی ہے تمہارا فرض ہے کہ اسے کامیاب بنانے کی پوری کوشش کرو 23 214 فروری 1958ء ہماری جماعت کے ہر فرد کو یہ عہد کر لینا چاہیے کہ وہ دین کی خاطر کسی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرے گا اسلام کی ترقی اور اشاعت کے لیے وقف جدید کی تحریک خاص اہمیت رکھتی ہے 29 29
صفحہ 38 38 (ii) خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه 285 فروری 1958ء آثار بتا رہے ہیں کہ تحریک وقف جدید کا مستقبل إِنْشَاءَ اللہ بہت شاندار ہوگا.دوست اس تحریک کی کامیابی کے لیے دعائیں کریں اور ایک دوسرے کو اس میں شامل ہونے کی تحریک بھی کرتے رہیں 6 7 8 9 7 مارچ 1958 ء تحریک وقف جدید لوگوں کو اسلام کی حقیقی تعلیم.روشناس کرنے اور ان میں ایک نئی زندگی اور بیداری پیدا کرنے کے لیے جاری کی گئی ہے 14 مارچ 1958 ء اپنے فرائض کو انتہائی خوش اسلوبی ، پوری توجہ اور محنت کے ساتھ ادا کرو 21 مارچ 1958 ء رمضان اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاؤ.اس مہینے میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعاؤں کو خاص طور پر سنتا اور قبول کرتا ہے 28 مارچ 1958 ء شریعت کے احکام کی پیروی اور خدا تعالیٰ پر کامل تو گل کے ذریعہ انسان اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی معیت کا مستحق بنا سکتا ہے 10 11 / اپریل 1958 ء | اگر تم صحیح معنوں میں ذکر الہی کرو گے تو یقیناً اس کے نتیجہ میں کفر کو شکست ہوگی اور اسلام کو غلبہ حاصل ہوتا چلا جائے گا 11 18 اپریل 1958 ء جماعت احمدیہ کا مقصد دنیا میں توحید حقیقی کا قیام ہے.توحید محض زبانی اقرار کا نام نہیں ہے.تمہارا ہر اور ہر عمل توحید الہی کا مظہر ہونا چاہیے 43 46 40 49 56 56 70 70 82 88
صفحہ 97 116 120 (iii) خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبہ 12 25 اپریل 1958 ء اس زمانہ میں اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کی تڑپ سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں 13 14 پیدا ہوئی 9 مئی 1958 ء جو لوگ صحیح معنوں میں رضائے الہی کے حصول کے لیے کوشش کرتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ یقیناً ہر میدان میں کامیابی بخشتا ہے 16 مئی 1958 ء اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے محبت رکھتا ہے.اسی لیے وہ ہمیشہ ان کے لیے رحمت و برکت کے سامان مہیا فرماتا ہے انسان متواتر اس کی نافرمانی اور ناشکری کا مرتکب ہوتا ہے لیکن وہ پھر بھی ہمیشہ اسے ہدایت کی راہوں کی طرف بلاتا چلا جاتا ہے 23 مئی 1958 ء حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ کا موحد بندہ وہی ہے جو شرک فی الذات اور شرک فی الصفات دونوں سے بچے 30 مئی 1958 ء اسلام نے قرب الہی کا راستہ اتنا آسان کر دیا ہے کہ اگر مومن ذرا بھی کوشش کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کو پا سکتا ہے.دیگر مذاہب نے خدا سے ملنے کی اُمید تو دلائی لیکن راستہ اتنا کٹھن بتایا کہ انسان مایوس ہو جاتا ہے 123 128 6 جون 1958 ء سچا مومن وہی ہے جو قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری اختیار کرے.تمہارا فرض ہے کہ پردہ کے متعلق خدا اور اس کے رسول کے حکم کی پابندی کرو اور مداہنت سے کام نہ لو 139 15 16 17
(iv) خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده 18 موضوع خطبہ 13 جون 1958ء اللہ تعالیٰ کے حضور گرو اور اُسی سے مدد مانگو کہ یہی ہماری کامیابی اور ترقی کا اصل ذریعہ ہے.خدائی جماعتیں اگر کثرت سے ذکر الہی کریں تو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ 19 کے فرشتے آسمان سے اتر کر ان کی مدد کرتے ہیں.27 جون 1958 ء مسئلہ کشمیر کے متعلق پاکستانی عوام کی بے چینی اور حکومت کا فرض.بے شک حکومت جتھوں کو جنگ بندی کی سرحد عبور کرنے سے روک سکتی ہے لیکن اس کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ عوام کو بتائے کہ اُس کے پاس اس مسئلہ کو حل کرنے کا کیا ذریعہ ہے 20 11 جولائی 1958ء جماعت کے نوجوانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ حضر مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد عیسائیت کا استیصال ہے.تمہارا فرض ہے کہ جدو جہد اور اپنے نیک نمونہ کے ذریعہ ہمیشہ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے کوشاں رہو 21 8 اگست 1958 ء قرآن کریم کی رو سے اسلام کی تبلیغ صرف چند افراد کا نہیں بلکہ ساری جماعت کا فرض ہے.جماعت کو تبلیغ کی طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنی چاہیں کہ وہ ہماری زبانوں میں اثر پیدا کرے صفحہ 152 160 168 174
(v) خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبہ 22 15 اگست 1958 ء اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ سچا تو کل رکھنے والوں کو ہمیشہ میری تائید ونصرت حاصل رہے گی.جو شخص اللہ تعالیٰ پر صفحہ بھروسہ رکھتا ہے نہ آسمان اُسے ضرر پہنچا سکتا ہے اور نہ زمین ، اور خدا تعالیٰ کے فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں 184 22 اگست 1958 ء دلائل کے ساتھ اسلام کو دنیا پر غالب کرنا وہ عظیم الشان کام ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں ہمارے سپرد کیا ہے.اس کام کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھو اور اس کے لیے صحیح کوشش اور جد و جہد کرتے چلے جاؤ 4 29 اگست 1958ء سینما اور گانا بجانا شیطان کے ہتھیار ہیں جن وہ لوگوں کو ورغلاتا ہے.تاریخ بتاتی ہے کہ اکثر مسلمان 25 25 حکومتیں محض گانے بجانے کے شوق کی وجہ سے ہی تباہ و برباد ہوئیں 5 ستمبر 1958 ء دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہم میں اور ہماری آئندہ نسلوں میں ہمیشہ اعمال صالحہ اور نو رایمان کو قائم رکھے.جو لوگ اپنی اولاد کی نیک تربیت سے غافل ہو جاتے ہیں اُن کی نسلیں روحانی لحاظ سے تباہ ہو جاتی ہیں 26 | 12 ستمبر 1958 ء اللہ تعالیٰ سے ہی دعائیں کرنی چاہیں کیونکہ سب طاقت خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے نہ گورنمنٹ اس بارہ میں کوئی 196 202 208 227 مدد کرسکتی ہے اور نہ کوئی انسان مدد کر سکتا ہے
صفحہ 230 241 246 252 259 273 (vi) خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبہ 27 19 ستمبر 1958 ء اس سال جلسہ سالانہ پر زیادہ سے زیادہ تعداد میں ربوہ آؤ اور یہاں آکر اپنا وقت دعاؤں اور ذکر الہی میں گزارو.اہلِ ربوہ کا فرض ہے کہ وہ مہمانوں کی رہائش کے لیے زیادہ سے زیادہ مکانات پیش کریں اور پھر تند ہی سے ان کی خدمت کریں 28 3 اکتوبر 1958ء دعاؤں میں لگے رہو کہ اللہ تعالی اسلام کی مضبوطی کے زیادہ سے زیادہ سامان پیدا کرے.عیسائیت کا مقابلہ کرنا ہمارا سب سے مقدم فرض ہے 29 31 اکتوبر 1958ء ہمیں چاہیے کہ ہم ہر وقت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف توجہ رکھیں 30 90 اور اُسی سے مدد مانگیں 7 نومبر 1958 ء ہمیشہ جائزہ لیتے رہو کہ تمہارے اعمال قرآن کریم کی بیان کردہ تعلیم کے مطابق ہیں یا نہیں.مسلمانوں کے لیے ہر معاملہ میں مقدم قرآن کریم ہے.اس کے بعد سنت اور پھر حدیث کا درجہ ہے.31 21 نومبر 1958ء توحید کامل کے بغیر کبھی انسان کو حقیقی ایمان اور اطمینان نصیب نہیں ہو سکتا.توحید کامل کا سچا نمونہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے دکھایا 2 | 28 نومبر 1958ء اذان کے الفاظ کو صحیح تلفظ کے ساتھ اور سمجھ کر ادا کرنا چاہیے.ربوہ کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ مکانات پیش کریں
(vii) خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده 33 33 34 == موضوع خطبہ 5 دسمبر 1958 ء سورہ فاتحہ اسلام کی بہترین دعاؤں میں سے ایک دعا ہے اگر ہم پورے اخلاص کے ساتھ اسے پڑھتے رہیں تو یقیناً صفحہ اللہ تعالی اسلام کو تمام دیگر ادیان پر کھلا کھلا غلبہ عطا کرے گا 281 12 دسمبر 1958 ء جلسہ سالانہ پر آنے والے دوست سردی سے بچاؤ کے لیے پورا بستر اور کپڑے ہمراہ لائیں.جلسے کے موقع پر کھانے کے سلسلے میں اگر دوستوں کو کوئی تکلیف ہو تو اُسے ثواب سمجھ کر برداشت کریں.35 26 دسمبر 1958 ء ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ خواتین کی دینی تعلیم کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ کرے.جمعہ اسلام کے نہایت اہم ارکان میں سے ہے عورتوں کو اس امر میں ضرور شریک ہونا چاہیے.236 جنوری 1959 ء اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ باوجود شدید بارشوں کے جلسہ سالانہ کے دوران موسم بہت اچھا رہا.ہماری جماعت کو اس لیے قائم کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو دنیا میں قائم کیا جائے 37 9 جنوری 1959 ء بھارتی اخبار پرتاپ“ نے میری جلسہ سالانہ والی تقریر کو نہایت بگاڑ کر پیش کیا ہے.جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت ہے وہی اس کی حفاظت کرے گا.291 297 303 307
(viii) خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبہ 38 16 جنوری 1959 ء ہمارا خدا زندہ خدا ہے وہ پہلے کی طرح اب بھی اپنے نشانات دکھا رہا ہے اور آئندہ بھی دکھاتا رہے گا.معجزات اور نشانات سماوی کے بغیر ایمان محض رسم اور قصہ کہانی بن کر رہ جاتا ہے 39 23 جنوری 1959 ء نکاح دنیوی لحاظ سے سب سے بڑا عقد ہے جو مرد اور عورت دونوں پر بعض اہم ذمہ داریاں عائد کرتا ہے.اس عقد میں خاوند اور بیوی دونوں کے والدین صفحہ 317 اور عزیزوں کے ساتھ حسن سلوک کا عہد بھی شامل ہے.325 40 30 جنوری 1959 ء اسلام دنیوی اور دینی دونوں معاملات میں زیادتی کو ناجائز قرار دیتا ہے.اپنے کاموں میں ہمیشہ عدل و انصاف کو ملحوظ رکھو اور گناہ اور بدی کے امور میں ہرگز تعاون نہ کرو.41 | 6 فروری 1959 ء ہماری جماعت کے زمینداروں کو چاہیے کہ وہ محنت اور ہمت سے کام لیتے ہوئے اپنے ملک کی زرعی پیداوار بڑھانے کی کوشش کریں.ہر جگہ ایک سیکرٹری زراعت 331 مقرر کیا جائے جو مرکز میں با قاعدہ رپورٹ بھیجا کرے کہ اُس کے علاقہ میں اِس سلسلہ میں کیا کوشش ہو رہی ہے 337 42 13 فروری 1959ء دوست تحریک جدید اور وقف جدید کے وعدے جلد سے جلد بھجوائیں.اپنے وعدوں کو بڑھا کر پیش کرنا دنیا میں اسلام کی ترقی اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کا موجب ہے 344
(ix) خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبه صفحہ 43 20 فروری 1959ء اللہ تعالیٰ کے فضل کو دائمی طور پر حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہماری جماعت ہمیشہ دعاؤں میں لگی رہے 348 44 17 اپریل 1959ء جمعہ اور مجلس شوری کے اجتماع کی برکتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ دعائیں کرو.مجلس شورای میں نمائندگی ایک بہت بڑا اعزاز ہے اس میں شمولیت خاص اہمیت رکھتی ہے 358 ☆☆☆
$ 1958 1 1 خطبات محمود جلد نمبر 39 وقف زندگی کی نئی تحریک جماعت کی ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے جماعت کے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ آگے آئیں اور اس تحریک کے تحت خدمت دین کے لیے اپنے آپ کو پیش کریں (فرموده 3 جنوری 1958ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ” میں نے پہلے بھی ایک خطبہ میں بیان کیا تھا اور پھر جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنی 27 دسمبر کی تقریر میں بیان کیا تھا کہ جماعت کے وہ دوست جنہیں سلسلہ کی تبلیغ سے لگاؤ ہو یا تعلیم و تدریس کا شوق رکھتے ہوں وہ جماعت کی ترقی کے لیے اپنے آپ کو نئے وقف کے ماتحت پیش کریں.سلسلہ ان کی مدد کرے گا اور خود بھی اُن کو کمائی کرنے کی اجازت دے گا.اس طرح اُن کا عمدگی سے گزارہ ہوتا تو رہے گا.چار پانچ سال تک امید ہے کہ مدرسہ احمدیہ جدید جو قائم ہوا ہے اس کی چار پانچ جماعتیں نکل ائیں گی اور چونکہ یہاں اردو میں پڑھائی ہے اس لیے وہ نو جوان پرائمری تک اردو میں تعلیم دے سکیں گے اور ساتھ ہی وہ واعظ اور مبلغ بھی ہوں گے لیکن اس کے درمیان جو وقفہ ہے اُس کو پُر کرنے کے
$1958 2 خطبات محمود جلد نمبر 39 لیے ہمیں واقفین کی ضرورت ہے.مجھے افسوس ہے کہ جلسہ سالانہ سے پہلے تو بعض نو جوانوں کی درخواستیں آتی رہیں کہ ہم اپنے آپ کو اس سکیم کے ماتحت وقف کرتے ہیں لیکن جب میں نے وقف کی شرائط بیان کیں تو پھر ان میں سے کسی نے بھی نہیں کہا کہ ہم اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں.پس میں جماعت کے دوستوں کو ایک بار پھر اس وقف کی طرف توجہ دلاتا ہوں.ہماری جماعت کو یا درکھنا چاہیے کہ اگر وہ ترقی کرنا چاہتی ہے تو اس کو اس قسم کے وقف جاری کرنے پڑیں گے اور چاروں طرف رُشد و اصلاح کا جال پھیلا نا پڑے گا یہاں تک کہ پنجاب کا کوئی گوشہ اور کوئی مقام ایسا نہ رہے جہاں رُشد و اصلاح کی کوئی شاخ نہ ہو.اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ ایک مربی ایک ضلع میں مقرر ہو گیا اور وہ دورہ کرتا ہوا ہر ایک جگہ گھنٹہ گھنٹہ، دود و گھنٹہ ٹھہرتا ہوا سارے ضلع میں پھر گیا.اب ایسا زمانہ آ گیا ہے کہ ہمارے مربی کو ہر گھر اور ہر جھونپڑی تک پہنچنا پڑے گا.اور یہ اُسی وقت ہو سکتا ہے جب میری اس نئی سکیم پر عمل کیا جائے اور تمام پنجاب میں بلکہ کراچی سے لے کر پشاور تک ہر جگہ ایسے آدمی مقرر کر دیئے جائیں جو اُس علاقہ کے لوگوں کے اندر رہیں اور ایسے مفید کام کریں کہ لوگ اُن سے متاثر ہوں.وہ انہیں پڑھائیں بھی اور رشد و اصلاح کا کام بھی کریں.اور یہ جال اتنا وسیع طور پر پھیلایا جائے کہ کوئی مچھلی باہر نہ رہے.کنڈی ڈالنے سے صرف ایک ہی مچھلی آتی ہے لیکن اگر مہا جال ڈالا جائے تو دریا کی ساری مچھلیاں اس کی میں آ جاتی ہیں.ہم ابھی تک کنڈیاں ڈالتے رہے ہیں.ان کی وجہ سے ایک ایک مچھلی ہی ہمارے ہاتھ میں آتی رہی ہے لیکن اب کہا جال ڈالنے کی ضرورت ہے اور اس کے ذریعہ گاؤں گاؤں اور قریہ قریہ کے لوگوں تک ہماری آواز پہنچ جائے بلکہ ہر گاؤں کے ہر گھر تک ہماری پہنچ ہو.پہلے لڑکوں اور لڑکیوں تک ہماری پہنچ ہو، پھر لڑکوں اور لڑکیوں کے ماں باپ تک ہماری پہنچ ہو اور اس کے بعد سارے گاؤں تک ہماری پہنچ ہو جائے.پھر گاؤں سے نکل کر چار چار، پانچ پانچ میل تک کے دیہات میں ہماری پہنچ ہو جائے اور پھر یہ دائرہ دس دس پندرہ پندرہ میل تک وسیع ہو جائے.اس کے بعد اور ترقی کرے اور یہ دائرہ نہیں تھیں میل تک چلا جائے.پھر اور ترقی کرے اور یہ دائرہ پینتالیس میل تک چلا جائے.پھر اور ترقی کرے اور یہ دائرہ ساٹھ میل تک چلا جائے.پھر اور ترقی کرے اور یہ دائرہ پچھتر میل تک چلان جائے.پھر اور ترقی کرے اور یہ دائرہ توے میل تک چلا جائے.پھر اور ترقی کرے اور یہ دائرہ
$ 1958 3 خطبات محمود جلد نمبر 39 ایک سو پانچ میل تک چلا جائے.پھر اور ترقی کرے اور یہ دائرہ ایک سو بیس میل تک چلا جائے.گویا اگر ہم صرف ہیں اسکول کھول دیں اور پندرہ پندرہ میل کے دائرہ میں ایک اسکول رکھیں تو تین سو میل تک ہمارا دائرہ بڑھ جاتا ہے.اور اگر ہمیں سکول ایک طرف ہوں اور میں سکول دوسری طرف ہوں تو تین سو میل ادھر اور تین سو میل اُدھر ہمارا دائرہ بڑھ جاتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ ہمارا دائرہ توے ہزار مربع میل تک وسیع ہو جاتا ہے اور سارے پنجاب کا رقبہ باسٹھ ہزار مربع میل ہے.غرض اگر ہم اس وی تجویز پر عمل کریں تو رفتہ رفتہ سارا مغربی اور مشرقی پاکستان اس کے احاطہ میں آ جاتا ہے.پس جب تک ہم اس مہاجال کو نہ پھیلائیں گے اُس وقت تک ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.تین چار سال تک جیسا کہ میں نے بتایا ہے مدرسہ احمدیہ سے فارغ ہونے پر ہمیں ایسے نو جوان مل جائیں گے جو دین کی خدمت کے لیے آگے آجائیں گے اور ان کے لیے بظاہر اور کوئی کام نہیں ہوگا کیونکہ ہم نے مولوی فاضل کی ڈگری کو اُڑا دیا ہے.پہلے لڑکے مولوی فاضل پاس کر کے گورنمنٹ سروس میں چلے جاتے تھے.اس لیے اب ہم نے مولوی فاضل کو اڑا دیا ہے.ہم انہیں اپنے ہی امتحان پاس کرائیں گے تا کہ وہ فارغ ہو کر دین کی خدمت کریں.آخر کوئی وجہ نہیں کہ ہم ہزاروں روپیہ خرچ کر کے فارغ التحصیل نوجوان گورنمنٹ کو دے دیں اور وہ انہیں اپنے سکولوں میں لگا لے.اب جونو جوان تعلیم حاصل کریں گے وہ مجبور ہوں گے کہ دین کی خدمت کریں.بیشک سلسلہ بھی مجبور ہوگا کہ اُن کے کھانے پینے کا مناسب انتظام کرے لیکن وہ بھی مجبور ہوں گے کہ اپنے کھانے پینے کا سامان سلسلہ سے آکر لیں اور اپنی خدمات سلسلہ کے لیے وقف کریں.باہر جا کر اُن کو کچھ نہیں ملے گا اور ان کو نہ رکھ کر سلسلہ کو کچھ نہیں ملے گا.گویا دونوں ایک دوسرے کے گلے میں رسی باندھے ہوئے ہوں گے.مدرسہ احمدیہ کی تعلیم سے فارغ ہونے والے نوجوانوں نے صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے گلے میں رہتی باندھی ہوئی ہوگی کہ اگر ہم سے کام نہیں لو گے تو تم کو مبلغ نہیں ملیں گے اور صدرانجمن احمد یہ اور تحریک جدید نے اُن کے گلے میں رہتی باندھی ہوئی ہوگی کہ اگر تم ہمارا کام نہیں کرو گے تو تم کو بھی روٹی نہیں ملے گی.اس طرح دونوں فریق مجبور ہوں گے کہ ایک دوسرے کا کام کریں اور ان دونوں کے ملنے سے لاکھوں میل کے رقبہ میں تبلیغ کو وسیع کیا جاسکے گا.جہاں تک چندے کا سوال ہے میں سمجھتا ہوں کہ چونکہ ہماری جماعت چندہ دینے کی عادی
$1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہے اس لیے آہستہ آہستہ رقم آنی شروع ہو جائے گی.جو رقم میں نے تجویز کی ہے وہ بہت معمولی ہے یعنی صرف چھ روپیہ سالانہ ہے.تحریک جدید میں اس وقت ہیں بائیس ہزار آدمی چندہ دے رہے ہیں.اگر زور دیا جائے تو کوئی بعید نہیں کہ اس سکیم میں ایک لاکھ آدمی چندہ دینے لگ جائیں.تحریک جدید کی رقم بہت زیادہ ہوتی ہے.اس میں بعض لوگ پچاس پچاس، ساٹھ ساٹھ بلکہ سو سو روپیہ بھی دیتے ہیں.یہ رقم چونکہ کم ہے اس لیے کوئی بعید نہیں کہ اس سکیم میں حصہ لینے والے ایک لاکھ ہو جائیں.اور اگر ایک لاکھ احمدی چھ روپیہ سالانہ کے حساب سے چندہ دے تو چھ لاکھ روپیہ آ جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ خرچ جو ایک واقف زندگی پر اس سکیم کے ماتحت کیا جائے گا وہ ساٹھ روپیہ ماہوار ہے.گویا دس واقفین زندگی پر سات ہزار دو سو روپیہ سالانہ خرچ آئے گا بلکہ اگر کم سے کم رقم دی جائے یعنی چالیس روپیہ ماہوار تو دس واقفین پر چار ہزار آٹھ سو روپے سالانہ خرچ آئے گا اور سو واقفین چار لاکھ اسی ہزار روپے میں رکھے جاسکتے ہیں.بلکہ میں سمجھتا ہوں اگر پورے طور پر اس سکیم پر توجہ دیتی جائے تو اس میں حصہ لینے والوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تک بھی پہنچ سکتی ہے.اور اگر ڈیڑھ لاکھ آدمی چھ روپیہ سالانہ کے حساب سے چندہ دے تو نو لاکھ روپیہ سالانہ آمد ہوتی ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ ماہوار پچھتر ہزار روپیہ آ جائے گا.میں نے جو سکیم پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ فی الحال صرف دس واقفین لیے جائیں اور انہیں چالیس سے ساٹھ روپیہ تک ماہوار گزارہ دیا جائے.اگر نو لاکھ روپیہ سالانہ آمد ہو جائے تو اس سے کئی گنا زیادہ واقفین رکھے جاسکتے ہیں کیونکہ ہر ایک واقف زندگی کو اگر ساٹھ روپے ماہوار دیں تو پچھتر ہزار میں بارہ سو پچاس مبلغ رکھے جا سکتے ہیں.اور جب صحیح رنگ میں کام شروع ہو جائے گا تو ڈیڑھ لاکھ تو کیا میرا خیال ہے پانچ چھ لاکھ احمدی اس سکیم میں چندہ دینے لگ جائیں گے اور پھر ممکن ہے کہ وہ چندہ بڑھا کر دینے لگ جائیں.اگر ہر ایک آدمی میرے بتائے ہوئے چندہ سے دو گنا یعنی بارہ روپیہ سالانہ دے اور جماعت کے چھ لاکھ افراد چندہ دیں تو بہتر لاکھ روپیہ سالانہ آمد ہو جاتی ہے یعنی چھ لاکھ روپیہ ماہوار.اور اس میں ہم دس ہزار مبلغ رکھ سکتے ہیں.اور دس ہزار مبلغ رکھنے سے ملک کی کوئی جہت ایسی نہیں رہتی جہاں ہماری رُشد و اصلاح کی شاخ نہ ہو.پھر یہ بھی ممکن ہے کہ مشرقی بنگال والے اپنا بوجھ خود اٹھا لیں اور وہ خود اس سکیم کے لیے رقم جمع کر لیں.ایسٹ بنگال کا رقبہ صرف چون ہزار مربع میل ہے.اگر ایک لاکھ آدمی اس سکیم میں حصہ لے تو اُن کا کام چل سکتا ہے بلکہ
خطبات محمود جلد نمبر 39 5 $1958 پچاس ہزار آدمی بھی حصہ لے تو ایسٹ پاکستان اپنے کام کو سنبھال سکتا ہے.پس میں جماعت کو اس خطبہ کے ذریعہ پھر تحریک کرتا ہوں کہ نو جوان اس وقف میں اپنے نام لکھا ئیں اور آگے آنے کی کوشش کریں تا کہ جلد سے جلد انہیں مختلف جگہوں پر بٹھا دیا جائے اور دکانیں اور مدر سے کھول دیئے جائیں اور احمدیت کا پھل نکلنا شروع ہو جائے.یہ یاد رکھو کہ مذہب کی تبلیغ پھل کی طرح ہوتی ہے اور پھل ایک دن میں نہیں نکلا کرتا.اگر تم کسی زمین میں گندم بود و تو تمہیں چھ ماہ میں پھل مل جائے گا لیکن باغ کا پھل بعض اوقات آٹھ سال میں بھی نہیں مل سکتا.اگر تم باغ لگانا شروع کر دو اور پھر ایک ایک باغ باری باری لگاؤ تو ایک باغ کا پھل تمہیں آٹھ سال بعد ملے گا، دوسرے کا سولہ سال بعد ملے گا، تیسرے کا چوبیس سال بعد ملے گا، چوتھے کا بتیس سال بعد ملے گا، پانچویں کا چالیس سال بعد ملے گا، ساتویں سال کا چھپن سال بعد ملے گا ، آٹھویں کا چونسٹھ سال بعد ملے گا، نویں کا بہتر سال بعد ملے گا، دسویں کا اسی سال بعد ملے گا، گیارھویں کا اٹھاسی سال بعد ملے گا ، بارھویں کا چھیانوے سال بعد ملے گا اور تیرھویں کا ایک سو چار سال بعد ملے گا.اور تم میں سے کون ہے جو کہہ سکے کہ وہ ایک سو چار سال تک زندہ رہے گا.پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد اس وقف کی طرف توجہ کرے اور اپنے آپ کو ثواب کا مستحق بنالے.یہ مفت کا ثواب ہے جو تمہیں مل رہا ہے.اگر تم اسے نہیں لو گے تو یہ تمہاری بجائے دوسروں کو دے دیا جائے گا.دیکھو! جب یہاں کے لوگوں نے احمدیت کی طرف توجہ نہ کی توی اللہ تعالیٰ ایسٹ اور ویسٹ افریقہ کو آگے لے آیا.اسی طرح اور کئی ملک احمدیت کی طرف توجہ کرنے کی لگے.خدا تعالیٰ نے جو کام کرنا ہوتا ہے اُس کے لیے وہ کوئی نہ کوئی ذریعہ نکال دیتا ہے.اب ایسے ایسے ملک ہیں جن میں دس دس پندرہ پندرہ ہزار احمدی ہیں.اگر باہر کے سارے احمدیوں کو ملا لیا جائے تو وہ کی پاکستان کے احمدیوں کے برابر ہو جاتے ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ جب یہاں کے لوگوں نے احمدیت کو قبول کرنے میں سستی کی تو خدا تعالیٰ نے دوسرے ملکوں کے لوگوں کو احمدیت میں داخل کرنا شروع کر دیا.چنانچہ اگر غانا، سیرالیون، نائیجیریا اور ایسٹ افریقہ کے علاقوں کینیا، ٹانگانیکا، یوگنڈا اور امریکہ کے علاقوں ٹرینیڈاڈ ، ڈچ گی آنا، برٹش گی آنا، فرنچ گی آنا، یو.ایس.اے اور دوسرے تمام یورپین اور ایشیائی ممالک کو جہاں جہاں احمدی پائے جاتے ہیں ملا لیا جائے تو پتا لگ جائے گا کہ ان
$1958 6 خطبات محمود جلد نمبر 39 کی مشترکہ احمدی آبادی مغربی پاکستان کی احمدی آبادی سے کم نہیں.خدا تعالیٰ کو اس بات سے کوئی کی غرض نہیں کہ سارے احمدی ایک ہی ملک میں پائے جائیں بلکہ وہ جہاں چاہتا ہے احمدیت کو پھیلا دیتا ہے.پہلے مغربی پاکستان نے احمدیت کی طرف توجہ دی تو خدا تعالیٰ نے مغربی پاکستان میں احمدیوں کی تعداد کو بڑھا دیا.پھر ایسٹ پاکستان نے اس طرف توجہ کی تو خدا تعالیٰ نے وہاں ایک بہت بڑی تعدا داحمدیوں کی پیدا کر دی.پھر اس نے احمدیت کو سیرالیون، غانا، نائیجیریا، ٹرینیڈاڈ ، برٹش گی آنا ، فرنچ گی آنا، ڈچ گی آنا ، یو.ایس.اے، ویسٹ اور ایسٹ افریقہ اور دوسرے علاقوں میں پھیلانا شروع کر دیا.ان سارے علاقوں کی احمدی آبادی کو ملا لیا جائے تو غالباً وہ مغربی پاکستان کی احمدی آبادی سے کم نہیں ہوگی.پھر بیرونی ممالک میں تو ہیں تمیں سال سے تبلیغ ہو رہی ہے اور یہاں ستر سال سے تبلیغ ہورہی ہے اور پھر جتنے مبلغ اس ملک کو ملے ہیں دوسرے ممالک کو نہیں ملے.مثلاً حافظ روشن علی صاحب تھے، مولوی ابوالعطاء صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب شمس ہیں اور پھر اور بہت سے مبلغ ہیں جن کے نام اس وقت ذہن میں نہیں آرہے یہ سب اسی ملک میں تبلیغ کرتے رہے.پرانے زمانہ میں قاضی امیر حسین صاحب تھے، مولوی سید سرور شاہ صاحب تھے، مولوی برہان الدین صاحب تھے اور شیخ غلام احمد صاحب تھے.یہ لوگ باہر جاتے تھے اور تبلیغ احمدیت کرتے تھے.پھر پروفیسر عبد القادر صاحب کے چا مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری تھے.ان کی تعلیم صرف مڈل تک تھی مگر انگریزی زبان میں انہیں اتنی مہارت تھی کہ ایک دفعہ مدراس میں ان کا لیکچر ہوا تو گورنر ان کا لیکچر سننے کے لیے آیا اور بعد میں اس گورنر نے کہا کہ ہم بھی اتنی اچھی انگریزی نہیں بول سکتے جتنی اچھی انگریزی مولوی صاحب نے بولی ہے.انہوں نے ایک کتاب تائید حق بھی لکھی ہے جو نہایت اعلیٰ درجہ کی کتاب ہے.میں نے ایک دفعہ اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو میں اُس وقت تک سویا نہیں جب تک کہ میں نے اس ساری کتاب کو ختم نہ کر لیا.مولوی صاحب شروع شروع میں ایمان لائے.پھر احمدیت کی تبلیغ کے لیے ملک کے مختلف علاقوں میں پھرتے رہے.ان کی تعلیم معمولی تھی مگر ذاتی مطالعہ سے انہوں نے اپنی لیاقت بڑھالی تھی.اسی طرح دوسرے لوگ بھی ذاتی مطالعہ سے اپنی قابلیت بڑھا سکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ ہمت ہو.جب ہمت گر جاتی ہے تو انسان سمجھ لیتا ہے کہ میں کچھ نہیں کر سکتا.لیکن اگر کوئی تھوڑا سا کام کرنے والا آدمی بھی ہو تو میں نے دیکھا ہے کہ وہ دوسروں
$1958 7 خطبات محمود جلد نمبر 39 سے بہت آگے نکل جاتا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ کئی بی.اے، بیٹی ہوتے ہیں مگر جب ان کے سپر د کوئی کام کیا جائے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم سے یہ نہیں ہو سکتا ، ہماری طبیعت کا اس کام سے کوئی لگا ؤ نہیں لیکن مولوی حسن علی صاحب صرف مڈل پاس تھے اور انہوں نے وہ کام کیا جو آجکل کے بی.اے، بی.ٹی بھی نہیں کر سکتے.اُن کا یہ کہنا کہ فلاں کام ہم سے نہیں ہوسکتا یا ہماری طبیعت اس طرف راغب نہیں محض دھوکا اور فریب ہوتا ہے.وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے باوجود ہم اپنی طبیعت کو اس طرف راغب کرنا نہیں چاہتے.یہ اصل فقرہ ہے جو انہیں کہنا چاہیے لیکن وہ یہ فقرہ نہیں کہتے بلکہ کہتے ہیں کہ ہماری طبیعت کا اس طرف لگاؤ ہی نہیں حالانکہ خدا تعالیٰ تو کہتا ہے کہ ہم نے ہر انسان کو اعلیٰ قوتیں دے کر بھیجا ہے اور اسے احسنِ تقویم میں پیدا کیا ہے.1 اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ ہماری طبیعت کا اس طرف لگاؤ نہیں تو یہ محض بہانہ ہوتا ہے.دراصل لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے کہہ دیا کہ ہم فلاں کام نہیں کرتے تو دوسرے ناراض ہوں گے.اس لیے وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہماری طبیعت کا اس سے لگاؤ نہیں.پس ضرورت اس بات کی ہے کہ تم اپنے اندر روحانیت پیدا کرو اور تقوی پیدا کرو.بھلا یہ تو دیکھو کہ اب تو صدر انجمن احمد یہ یا تحریک جدید کچھ نہ کچھ دیتی ہے لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوی کیا تھا تو اُن کے پاس کونسا روپیہ تھا.جب خدا تعالیٰ نے آپ کو فرمایا کہ اُٹھ اور دنیا سے کہہ کہ میں مسیح موعود ہوں تو آپ کے پاس کوئی پیسہ نہ تھا پھر بھی آپ کھڑے ہو گئے اور لوگوں کو کہنا شروع کر دیا کہ میں مسیح موعود ہوں اور اس کی پہلی جزا آپ کو یہ ملی کہ آپ کو دائیں بائیں اور آگے پیچھے سے پتھر پڑنے شروع ہوئے لیکن آپ پھر بھی کام کرتے رہے اور کبھی بھی خدا تعالیٰ سے یہ نہ کہا کہ اے اللہ! تو نے مجھے کس مصیبت میں ڈال دیا ہے.کھڑا تو تو نے مجھے مسیح موعود بنا کر کیا تھا اور یہاں یہ صورتِ حال ہے کہ چاروں طرف سے پتھر پڑ رہے ہیں.آپ ایک دفعہ لا ہور تشریف لے گئے.وہاں ایک اور شخص بھی تھا جس نے مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا ہوا تھا.اُس کا بھائی بعد میں تو بہ کر کے احمدی ہو گیا تھا.بڑا سادہ آدمی تھا ، داڑھی اُس نے سکھوں والی رکھی ہوئی تھی.وہ قادیان میں بھی آیا کرتا تھا.ایک دفعہ میں لا ہور گیا تو وہ دوا ندھے پکڑ کر لے آیا اور کہنے لگا یہ میرا شکار ہیں.وہ سارا دن اُن کی خدمت کرتا تھا، کھانا کھلاتا تھا، اُن کے کپڑے
$ 1958 8 خطبات محمود جلد نمبر 39 دھوتا اور جوئیں نکالتا تھا.یہ سلوک دیکھ کر انہوں نے احمدی تو ہونا ہی تھا.سنا ہے کہ اب وہ فوت ہو گیا کی ہے.اُس کا بھائی سخت مخالف تھا.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام انار کلی میں سے گزررہے تھے اور آپ کے ساتھ شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم اور بعض اور دوست تھے کہ اس نے پیچھے سے آکر آپ کی پیٹھ پر اچانک زور سے لات ماری جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام گر گئے.شیخ رحمت اللہ صاحب اسے مارنے پر آمادہ ہوئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا شیخ صاحب ! اسے کچھ نہ کہیں.اس نے مجھے یہ سمجھ کر مارا ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہتک کرتا ہوں.اگر اسے پتا ہوتا کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک نہیں کرتا تو یہ ایسی حرکت ہی کیوں کرتا.ہماری جماعت میں ایک پروفیسر عبداللہ صاحب ہوا کرتے تھے.وہ واقع میں پروفیسر نہیں تھے بلکہ اُن کا نام پروفیسر اس لیے پڑ گیا تھا کہ وہ شعبدہ بازی اور مداریوں کے کرتب وغیرہ جانتے تھے.ایک دفعہ خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم لاہور سے قادیان گئے تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے شکایت کی کہ پروفیسر صاحب بڑے تیز مزاج ہیں.اگر کوئی ان کے سامنے حضور کو بُرا بھلا کہے تو وہ اسے گالیاں دینے لگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں خبردار! اگر تو نے اب کے گالی نکالی تو میں تیرے منہ پر مکا ماروں گا.تو کون ہوتا ہے جو حضرت صاحب کو گالیاں دے.کچھ دنوں کے بعد پروفیسر صاحب قادیان آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں بلایا اور فرمایا پروفیسر صاحب! میں نے سنا ہے کہ آپ کے سامنے جب مجھے کوئی بُرا بھلا کہے تو آپ اُس سے لڑنے لگ جاتے ہیں.آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے اور صبر اور تحمل سے کام لینا چاہیے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں نرمی کی تعلیم دی ہے بختی کی تعلیم نہیں دی.اُن کی طبیعت بڑی تیز تھی.یہ سنتے ہی اُن کا چہرہ سرخ ہو گیا اور کہنے لگے میں یہ بات ماننے کے لیے بالکل تیار نہیں.آپ کے پیر ( یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اگر کوئی بُرا بھلا کہے تو آپ فوراً اُس سے مباہلہ کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور مجھے کہتے ہیں صبر کرو.خود توی کہتے ہیں کہ الا اے دشمن نادان و به راه بترس از تیغ برانِ محمد کرامت گرچہ بے نام و نشاں است بیا بنگر ز غلمان محمد 2 یعنی اے مخاطب ! اگر تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی کرتا ہے تو جان لے کہ
$1958 9 خطبات محمود جلد نمبر 39 محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے ایک تلوار بھی دی ہوئی ہے.تو اُس سے ڈر.اور اگر تجھے یہ خیال ہے کہ اس زمانہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی کرامت نہیں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کے پاس آ اور ان سے کرامت دیکھ لے.اُن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لیکھرام کی بدزبانیوں کے مقابلہ میں یہ شعر کہے تھے.انہیں کی طرف پروفیسر عبداللہ صاحب نے اشارہ کیا اور کہا کہ آپ کے پیر کو اگر کوئی بُرا بھلا کہتا ہے تو آپ فورا جوش میں آجاتے ہیں اور اُسے مباہلہ کا چیلنج دے دیتے ہیں لیکن اگر کوئی میرے پیر کو گالیاں دے تو آپ کہتے ہیں صبر کرو.میں ایسی کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں.صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کا بھی ایک اسی قسم کا واقعہ ہے.ایک دفعہ میاں چٹو جو قریشی محمد حسین صاحب موجد مفرح عنبری لاہور والوں کے دادا تھے اور اہلِ قرآن میں سے تھے انہوں کی نے ایک عرب کو جو ہندوستان میں آیا ہوا تھا لکھنو سے بُلایا.اُن کی غرض یہ تھی کہ اگر وہ شخص اہلِ قرآن کی ہو گیا تو عرب میں یہ مذہب پھیل جائے گا.میاں چٹو اُس عرب کو قادیان لائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کروائی.گفتگو کے دوران میں وفات مسیح کا ذکر آ گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چونکہ پنجابی تھے اور آپ مولویوں کی طرح تلفظ ادا نہیں کرتے تھے اس لیے آپ کی نے سادہ طریق پر قرآن کہہ دیا.اس پر وہ عرب کہنے لگا کہ مسیح موعود بنا پھرتا ہے اور قرآن کہنا بھی نہیں آتا.”ق“ کی بجائے ”کاف“ کہتا ہے.اُس کی زبان سے یہ لفظ نکلے ہی تھے کہ صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید نے یکدم اپنا ہاتھ اُٹھایا اور اُسے مارنا چاہا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی عبد الکریم صاحب سے کہا ان کا ہاتھ پکڑ لیں اور جب تک یہ لوگ اس مجلس سے کی اُٹھ کر چلے نہ جائیں انہیں چھوڑیں نہیں اور صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کا یہ حال تھا کہ وہ کانپتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے مجھے چھوڑو میں اسے کچل کر رکھ دوں گا اس نے حضرت صاحب کی ہتک کی ہے.پروفیسر عبداللہ صاحب جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے یو پی کے رہنے والے تھے اور سارے ہندوستان میں تماشے دکھاتے پھرتے تھے.پھر وہ قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلیم حاصل کی.اُس وقت ان کے پاس ایک پیسہ بھی نہیں تھا.وہ پہلے بڑے بڑے سرکسوں کے مالک
$1958 10 خطبات محمود جلد نمبر 39 تھے.قادیان آئے تو ان کی یہ حالت تھی کہ وہ مہمان خانہ میں بیٹھ جاتے اور کوئی لڑکا آتا تو اُسے سیر بین دکھا دیتے اور وہ آنہ یا دونی دے دیتا اور اس میں گزارہ کر لیتے.کچھ عرصہ تک وہ پھیری کا کام بھی کرتے رہے.جب وہ لوگ اس طرح گزارہ کر لیا کرتے تھے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے نوجوان اس طرح گزارہ نہ کرسکیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں لوگ اپنا وسیع کاروبار چھوڑ کر قادیان آگئے تھے اور وہاں پر کسی نہ کسی طرح اپنی روٹی کما لیتے تھے اور گزارہ کر لیتے تھے.جو مال دار لوگ اُس زمانہ میں آئے اُن کا بھی یہ حال تھا کہ انہوں نے اپنے سب مال لگا دیئے.مثلاً سیٹھ عبدالرحمان صاحب مدراسی تھے.ان کی تجارت بڑی وسیع تھی.مگر انہوں نے اپنا سارا روپیہ آہستہ آہستہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دے دیا.بعد میں جب وہ دیوالیہ ہو گئے تو ان کے ایک دوست سیٹھ لال جی وال جی تھے اور وہ بھی بہت بڑے تاجر تھے.سیٹھ صاحب نے انہیں تحریک کی کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے دعا کرایا کریں اس میں بڑی برکت ہوتی ہے.اور پھر کہا میں آپ کو ماہوار نذرانہ کے طور پر ایک بڑی رقم بھجوایا کرتا تھا آپ بھی انہیں نذرانہ بھجوایا کریں.چنانچہ انہوں نے ساڑھے تین سو روپیہ ماہوار بھجوا نا شروع کر دیا.معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کی روحانیت پائی جاتی تھی اور نہ وہ سیٹھ عبد الرحمان صاحب مدراسی کو کہہ دیتے کہ آپ نے دعا کرا کے کیا لیا؟ آپ کا تو پہلا کا روبار بھی نہ رہا.مگر معلوم ہوتا ہے کہ وہ خوب جانتے تھے کہ انہیں جو برکتیں ملی ہیں وہ روحانی ہیں اور اُن کو بھی روحانی برکتیں ہی ملیں گی.اس لیے انہوں نے سیٹھ عبدالرحمان صاحب مدراسی کی نصیحت پر عمل کرنا شروع کر دیا.پھر ہمارے ایک دوست چودھری رستم علی صاحب تھے.پہلے وہ سپاہی تھے.پھر کا نشیبل ہو گئے.پھر سب انسپکٹر بنے.پھر پراسیکیوٹنگ (PROSECUTING) انسپکٹر بنے.اُس وقت تنخواہیں بہت تھوڑی تھیں.آجکل تو ایک سپاہی کو مہنگائی الاؤنس وغیرہ ملا کر قریباً ساٹھ روپیہ ماہوارمل جاتے ہیں لیکن اُن دنوں سپاہی کو غالباً گیارہ روپے، تھانیدار کو چالیس روپے اور انسپکٹر کو پچھتر ہے سو روپے ملتے تھے اور پراسیکیوٹنگ (PROSECUTING) افسر کوسو سے کچھ زیادہ ملتے تھے.مجھے یاد ہے کہ وہ اپنی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھجوا دیا کرتے تھے.
11 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 ایک دفعہ انہیں یکدم آرڈر آ گیا کہ ان کو عہدہ میں ترقی دی جاتی ہے اور تنخواہ اتنی بڑھائی جاتی ہے.اس کے بعد ان کی تنخواہ میں جو بڑھوتی ہوئی وہ ساری کی ساری وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیج دیا کرتے تھے.ایک دفعہ انہوں نے حضرت صاحب کو جو خط لکھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے مجھے پڑھنے کے لیے دیا.میں نے پڑھ کر بتایا کہ یہ خط چودھری رستم علی صاحب کا ہے اور ان انہوں نے لکھا ہے کہ میں سو روپیہ تو پہلے ہی بھیجا کرتا تھا لیکن اب میری تنخواہ میں اسی روپے کی ترقی ہوئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ محض حضور کی دعاؤں کے طفیل ہوئی ہے اور آپ کے لیے ہوئی ہے لیے اب میں آپ کو ایک سو اسی روپے ماہوار بھیجا کروں گا.میں اس بڑھوتی کا مستحق نہیں ہوں بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ میں پہلی تنخواہ کا بھی مستحق نہیں تھا.وہ بھی اللہ تعالیٰ مجھے آپ کی خاطر ہی دے رہا ہے.اب دیکھو اللہ تعالیٰ نے سلسلہ کو جو مالدار دیئے تھے وہ بھی کیسی کیسی قربانیاں کرتے تھے اور پھر اُن قربانیوں میں بڑھتے چلے جاتے تھے.خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم کو دیکھ لو اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے.بیشک آخر میں اُن میں بگاڑ پیدا ہوا لیکن شروع شروع میں وہ پشاور میں نہایت کامیاب وکیل تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایک مقدمہ ہوا تو آپ نے خواجہ صاحب کو لکھا کہ اس اس طرح ایک مقدمہ ہے جس میں ایک احمدی وکیل کی نگرانی کی ضرورت ہے.اس پر آپ اپنی کامیاب وکالت چھوڑ کر پشاور سے گورداسپور آ گئے.گو ایک بات ضرور ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ آخر شاید گرے بھی اسی کی وجہ سے تھے اور وہ یہ کہ جب ان پر تنگی آتی تھی تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے روپیہ مانگ لیا کرتے تھے.میں سمجھتا ہوں شاید یہی کمزوری بعد میں ان کی خرابی کی وجہ ہوئی.ورنہ انہوں نے بھی بہت قربانی کی تھی.بلکہ میں سمجھتا ہوں ان کی قربانی اپنے سب ساتھیوں سے زیادہ تھی.مولوی محمد علی صاحب کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے بڑی قربانی کی.انہوں نے اسلامیہ کالج لاہور کی پروفیسری چھوڑی تھی اور اُس وقت پروفیسری کی تنخواہ اسی نوے روپے ماہوار ہوا کرتی تھی اور انہوں نے قادیان آ کر انجمن سے ہیں روپیہ ماہوار تنخواہ لی لیکن حقیقت میں ان کو بیس نہیں بلکہ ایک سو بیس روپیہ ماہوار تنخواہ ملا کرتی تھی.ہمیں روپے انجمن کی طرف سے ملتے تھے اور
خطبات محمود جلد نمبر 39 12 $ 1958 ایک سو روپے ماہوار ان کے لیے نواب صاحب انجمن کو دیا کرتے تھے.غرض مولوی محمد علی صاحب نے تو قادیان جا کر فائدہ اُٹھا لیا لیکن خواجہ صاحب نے اپنی کامیاب وکالت چھوڑ دی.انہوں نے مولوی محمد علی صاحب جیسا فائدہ نہیں اُٹھایا.ہاں! اگر کبھی ضرورت ہوتی تو حضرت صاحب سے کچھ مانگ لیا کرتے تھے.مولوی محمد علی صاحب نے قادیان آ کر تنخواہ لی اور پھر اسے بڑھاتے چلے گئے.شیخ رحمت اللہ صاحب ان کی تائید کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ان کی تنخواہ بہت تھوڑی ہے اس کی لیے ان کی تنخواہ بڑھانی چاہیے.ایک دفعہ میں نے کہا مولوی صدر دین صاحب کی تنخواہ بھی بڑھانی نی چاہیے تو مولوی محمد علی صاحب کا چہرہ سرخ ہو گیا اور کہنے لگے آپ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ میں نے کوئی ہے قربانی نہیں کی.میں نے کہا یہ بات نہیں بلکہ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مولوی صدر دین صاحب نے بھی تو قربانی کی ہے ان کی تنخواہ بھی بڑھانی چاہیے.تو یاد رکھو! آنے والے آئیں گے اور انہیں رزق بھی خدا تعالیٰ دے گا.مگر پہلے آنے والوں نی کے لیے بہت برکت ہوگی.جو پہلے آئیں گے اُن کے لیے جنت کے دروازے پہلے کھولے جائیں گے اور جو بعد میں آئیں گے ان کے لیے جنت کے دروازے بھی بعد میں کھولے جائیں گئے“.(الفضل 11 جنوری 1958ء) 1 : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (تين :5) 2 : در مشین فارسی صفحه 142
$ 1958 13 له 2 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہمت کے ساتھ آگے بڑھو اور وقف جدید کی تحریک کو کامیاب بنانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو نوجوان اپنی زندگیاں وقف کریں، احمدی زمیندار دس دس ایکڑ زمین پیش کریں اور دیگر احباب زیادہ سے زیادہ چندہ دیں (فرموده 10 جنوری 1958ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعو ذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”ہماری جماعت کی حالت کا نقشہ سورہ انفال رکوع 2 میں کھینچا گیا ہے اور اس نقشہ کو شیخ سعدی نے ایک حکایت کے رنگ میں اپنی کتاب ”گلستان میں بیان کیا ہے.ہم بچپن میں وہ شعر پڑھا کرتے تھے تو بہت مزہ آیا کرتا تھا.یوں تو جب ہم بڑے ہوئے تو حضرت خلیفہ اول نے ہمیں مثنوی مولانا روم بھی پڑھائی تھی مگر وہ زمانہ جب ہمیں مثنوی مولانا روم پڑھائی گئی 1911 ء یا 1912ء کا زمانہ تھا اور گلستان اور بوستان اس سے پہلے زمانہ میں ہمیں شروع کرائی گئی تھیں.شیخ سعدی نے گلستان میں ایک کہانی لکھی ہے کہ :.ایک بادشاہ تھا جس کے کئی بیٹے تھے.اس کے اور تو سب بیٹے نہایت خوبصورت تھے اور
14 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 بادشاہ اُن سے بہت محبت کیا کرتا تھا لیکن ایک لڑکا بہت چھوٹے قد کا تھا اور اس کی شکل بھی نہایت مکر وہ ای تھی.اُس سے وہ سخت نفرت کیا کرتا تھا.ایک دفعہ ایک بادشاہ جو اُس سے دشمنی رکھتا تھا اور جس کی کی طاقت بہت زیادہ تھی اُس پر حملہ آور ہوا.جب اُس کی فوج نے اس بادشاہ کے دائیں اور بائیں بڑے کی زور سے حملہ کیا تو اس کی ساری فوج بھاگ گئی اور میدانِ جنگ میں صرف چند آدمی بادشاہ کے ساتھ رہی گئے.جب بادشاہ نے دیکھا کہ اب دشمن مجھے بھی حملہ کر کے قید کر لے گا تو یکدم صفوں کو چیرتا ہوا ایک سوار نکلا جس نے اپنے ہاتھ میں نیزہ پکڑا ہوا تھا.وہ پوری ہمت کے ساتھ اپنے دائیں اور بائیں نیز ہی چلاتا ہوا آ رہا تھا جس کی وجہ سے دشمن کی فوج تتر بتر ہوگئی.پھر اُس نے بادشاہ کی بچی کچھی فوج کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن کی فوج بھاگ گئی.وہ شخص حملہ کرتا جا تا تھا اور کہا جاتا تھا آں نہ من باشم که روز جنگ بینی پشت من آں منم کاندر میانِ خاک و خوں بینی سرے یعنی میں وہ نہیں ہوں کہ جنگ کے دن تو میری پیٹھ دیکھے بلکہ جنگ کے دن تو صرف میرا منہ یکھے گا میری پیٹھ نہیں دیکھے گا.اور اگر کوئی شخص مجھے سے میرا کچھ حال پوچھنا چاہے تو میں اُسے یہ بتاتا ہوں کہ میں جب لڑائی میں آؤں گا تو وہ میرے سر کو خاک اور خون میں لتھڑا ہوا پائے گا یعنی میں قتل ہوتی جاؤں گا لیکن بھاگوں گا نہیں.جب فتح ہوئی تو بادشاہ نے پہچان لیا کہ وہ اُس کا وہی بیٹا ہے جس سے وہ نفرت کیا کرتا تھا.بادشاہ نے اُسے بلایا، اُس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور کہا میں نے تم پر بڑا ظلم کیا ہے اور تمہاری بڑی بے قدری کی ہے.جن کی میں قدر کیا کرتا تھا اور جن سے محبت کیا کرتا تھا وہ تو پیٹھ دکھا کر بھاگ گئے لیکن تم میدان میں رہے اور میری جان کی حفاظت کرنے کے لیے آگے آئے.اس پر اُس کی لڑکے نے کہا اے باپ! ہر چہ بقامت کہتر بقیمت بہتر جو شخص قد و قامت اور صورت کے لحاظ سے ذلیل نظر آتا تھا وہ قیمت کے لحاظ سے بہت بہتر تھا یعنی آپ تو مجھے چھوٹے قد کا آدمی سمجھ کر نفرت سے دیکھا کرتے تھے لیکن آپ کو معلوم ہو گیا کہ جو قد و قامت اور صورت میں ذلیل نظر آتا تھا قیمت کے لحاظ سے وہی بہتر تھا.1 یہ تو ایک آدمی کا قصہ ہے لیکن ہماری جماعت بھی گو تعداد کے لحاظ سے بہت تھوڑی.
$1958 15 خطبات محمود جلد نمبر 39 بقامت کہتر کی مصداق ہے لیکن بقیمت بہتر ہے.امریکہ، یورپ اور باقی ساری دنیا میں اسلام کا جھنڈا وہی گاڑ رہی ہے اور باقی مسلمان جن کو علماء نے اپنے سروں پر اُٹھا رکھا ہے انہوں نے بیرونی ممالک میں کسی مسجد کی ایک اینٹ بھی نہیں لگوائی.اس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے یورپ میں ہماری تین مسجدیں بن چکی ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہمارا منشا ہے کہ تھوڑے عرصہ میں ہی ایک اور مسجد بھی بنا دی جائے.ایک مسجد امریکہ میں بنانے کا میں نے آرڈر دے دیا ہے.ایک مسجد لندن میں بنی ہے، ایک مسجد ہیگ میں بنی ہے، ایک مسجد ہیمبرگ (جرمنی) میں بنی ہے، ایک فرینکفرٹ (جرمنی) میں بن رہی ہے.جب یہ مسجد بن گئی تو انشَاءَ اللہ ایک مسجد ہنوز ( Hanover) (جرمنی) میں بنائی جائے گی.پھر ایک زیورچ میں بنے گی.پھر ایک روم میں بنے گی.پھر ایک نیپلز (Naples) میں بنے گی.پھر ایک جنیوا میں بنے گی اور پھر ایک دیفیس (Venice) میں بنے گی اور اس طرح یہ سلسلہ ترقی کرتا چلا جائے گا.بہر حال ہماری جماعت اس وقت بقامت کہتر “ اور ”بقیمت بہتر کی مصداق ہے جو ہر جگہ مسجد میں بنا رہی ہے.مسلمان ہمارے متعلق کہتے ہیں کہ ہم اُن کے مقابلہ میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں.مولوی ظفر علی خان صاحب اب تو فوت ہو گئے اور اُن کا معاملہ اللہ تعالیٰ سے ہے.جب وہ زندہ تھے تو بڑی حقارت سے لکھا کرتے تھے کہ یہ لوگ تو مسلمانوں میں سو میں سے ایک بھی نہیں.پاکستان کی ساری آبادی جس میں ہندو اور عیسائی بھی شامل ہیں آٹھ کروڑ ہے.اگر ہندوؤں اور ان عیسائیوں کو نکال دیا جائے تو غالباً مسلمانوں کی آبادی پانچ کروڑ رہ جاتی ہے اور ہماری تعداد کا زیادہ ان سے زیادہ اندازہ دس لاکھ ہے.ہندوستان کی آبادی بتیس کروڑ ہے.اس کے ساتھ پاکستان کی آبادی کو ملا لیا جائے تو یہ چالیس کروڑ بن جاتی ہے اور دس لاکھ کی آبادی ان کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی.لیکن اب اگر اللہ تعالیٰ ہمیں طاقت بخشے اور یہ نئی تحریک جو میں نے کی ہے پھیل جائے تو پھر امید ہے کہ ہماری جماعت اس ملک میں ایک نمایاں مقام پیدا کر لے گی.میں نے جلسہ سالانہ پر اس کے متعلق تحریک کی تھی اور پھر پچھلے جمعہ کے خطبہ میں بھی اس کا ذکر کیا.اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بیسیوں خطوط جماعت کے افراد کے آئے.انہوں نے لکھا کہ ہم نے جلسہ سالانہ کے موقع پر آپ کی تقریر کا مفہوم
$1958 16 خطبات محمود جلد نمبر 39 نہیں سمجھا تھا مگر اب جو آپ کا پیغام چھپا ہے تو ہم نے اس کی حقیقت کو سمجھا ہے.اس لیے اب ہم نے وقف اور روپیہ کے لیے اپنے نام لکھوانے شروع کر دیئے ہیں.چنانچہ اس کے بعد اب تک چالیس وقف آچکے ہیں اور بارہ ہزار کے قریب آمد کا اندازہ ہے.میں نے جو شکل وقف کی جماعت کے سامنے پیش کی ہے اور جس کے ماتحت میرا ارادہ ہے کہ پشاور سے کراچی تک اصلاح وارشاد کا جال بچھا دیا جائے اس کے لیے ابھی بہت سے روپیہ کی ضرورت ہے.اس کام کے لیے کم سے کم چھ لاکھ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہے.اگر چھ لاکھ روپیہ سالا نہ آنے لگ جائے تو پھر پچاس ہزار روپیہ ماہوار بنتا ہے اور اگر ہم ایک واقف زندگی کا ماہوار خرچ پچاس روپیہ رکھیں تو ایک ہزار مراکز قائم کیے جا سکتے ہیں اور اس طرح ہم پشاور سے کراچی تک کی رُشد و اصلاح کا جال پھیلا سکتے ہیں.بلکہ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ہم نے رُشد و اصلاح کے لحاظ سے مشرقی اور مغربی پاکستان کا گھیرا کرنا ہے تو اس کے لیے ہمیں ایک کروڑ روپیہ سالانہ سے بھی زیادہ کی کی ضرورت ہے.اگر ڈیڑھ کروڑ روپیہ سالانہ آمد ہو تو بارہ لاکھ پچاس ہزار روپیہ ماہوار بنتا ہے.اگر بارہ لاکھ روپیہ بھی ماہوار آئے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ایک واقف زندگی کا پچاس روپیہ ماہوار خرچ مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے چوبیس ہزار نئی طرز کے واقف زندگی بن جاتے ہیں.اور چوبیس ہزار واقف زندگی دولاکھ چالیس ہزار میل کے اندر پھیل جاتے ہیں کیونکہ ہم نے دس دس میل پر ایک ایک آدمی رکھنا ہے اور گوا بھی تو اتنی رقم جمع نہیں ہو سکتی لیکن اگر اتنی رقم جمع ہو جائے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے چوبیس ہزار آدمی رکھے جا سکتے ہیں.ہاں! اگر یہ واقف زندگی ہمت کریں اور خوب کوشش کر کے جماعت بڑھانی شروع کر دیں تو ممکن ہے کہ اگلے سال ہی یہ صورت پیدا ہو جائے.اب تک جو آمد آئی ہے وہ ایسی نہیں کہ اُس پر زیادہ تعداد میں نو جوان رکھے جاسکیں.لیکن جب روپیہ زیادہ آنا شروع ہو گیا اور نو جوان بھی زیادہ تعداد میں آگئے اور انہوں نے ہمت کے ساتھ جماعت کو بڑھانے کی کوشش کی تو جماعت کو پتا لگ جائے گا کہ یہ سکیم کیسی مبارک اور پھیلنے والی ہے.اس سکیم میں چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے جہاں اپنی طرف سے اور اپنے خاندان کی طرف سے چندہ لکھوایا ہے وہاں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کراچی کے پاس ٹھٹھہ میں میری زمین ہے اُس میں سے میں اس سکیم کے ماتحت دس ایکڑ زمین وقف کرتا ہوں.دس ایکٹر میں خود اِنشَاءَ اللهُ
خطبات محمود جلد نمبر 39 17 $ 1958 ضلع تھر پا کر یا حیدر آباد کے ضلع میں وقف کروں گا.اور ابھی تو اور بہت سے احمدی زمیندار ہیں جو اس غرض کے لیے زمین وقف کر سکتے ہیں.پھر ایک ایک، دو دو ایکڑ دے کر کئی آدمی مل کر بھی اس میں حصہ لے سکتے ہیں.بہر حال چودھری صاحب کی زمین اور میری وقف شدہ زمین میں دو مرکز بن گی جائیں گے.تیسرا مرکز ضلع مظفر گڑھ میں بنے گا.وہاں کے ایک نوجوان نے لکھا ہے کہ میرا ایک مربع ہے جو مجھے فوجی خدمات کے صلہ میں ملا ہے وہ مربع میں آپ کی اس سکیم میں دیتا ہوں.مگر کوئی وجہ نہیں کہ ہم اُس کو اس طرح ساری زمین سے محروم کر دیں.میں نے یہ تجویز سوچی ہے کہ ہم ان سے کہیں گے کہ اس زمین میں سے دس ایکڑ ہمیں کرایہ پر دے دے اور باقی پندرہ ایکڑ وہ خود استعمال کی کرے.اور دس ایکڑ کوئی معمولی زمین نہیں.ہالینڈ میں میں نے دریافت کیا تھا وہاں تین ہزار روپیہ کی فی ایکٹر آمد ہوتی ہے.اگر تین ہزار فی ایکٹر آمد ہو تو دس ایکڑ سے تمہیں ہزار آمد ہو سکتی ہے.اگر سو مربع ہمیں اس سکیم میں مل جائے تو پچھتر لاکھ سالانہ آمد ہو جاتی ہے اور اس سے ہم سارے مشنوں کا خرچ چلا سکتے ہیں.طریق ہم بتائیں گے کام کرنا ہمارے مبلغوں کا کام ہے.اگر ان کو خدا تعالی اسلام کی خدمت کا جوش دے اور وہ شیخ سعدی کے بیان کردہ واقعہ کو یاد رکھیں تو یہ سکیم بہت اچھی طرح چلائی جاسکتی ہے.کیونکہ جن لوگوں میں کام کرنے کی روح پائی جاتی ہو وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم حقیر اور ذلیل کی ہیں وہ صرف یہ بات مانتے ہیں کہ آں نہ من باشم که روز جنگ بینی پشتِ من آں منم کاندر میانِ خاک و خوں بینی سرے میں وہ نہیں ہوں کہ جس کی پیٹھ تو جنگ میں دیکھے بلکہ تو میرے سر کو میدان میں خاک و خون کو میں لتھڑا ہوا پائے گا.ہماری جنگ تلوار کی جنگ نہیں بلکہ دلائل کی جنگ ہے اور دلائل کی جنگ میں جس شخص میں کام کرنے کی روح پائی جاتی ہو وہ یہی کہتا ہے کہ میں وہ نہیں جو دلائل کے میدان میں اپنی پیٹھ دکھاؤں بلکہ اگر مقابلہ کی صورت پیدا ہوئی تو میں سب سے آگے ہوں گا اور جب تک میری جان نہ چلی جائے میں قربانی کا عہد نہیں چھوڑوں گا.اگر اس طرز پر عمل کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ سکیم بہت شاندار طور پر کامیاب ہو گی.ابھی تو میری جلسہ سالانہ کی تقریر پر صرف چودہ دن گزرے ہیں لیکن اب آ کر لوگوں کو میری تحریک کا احساس ہوا ہے اور انہوں نے اپنے نام لکھوانے شروع کیے ہیں.
$ 1958 18 خطبات محمود جلد نمبر 39 اسی طریق پر ہر تحریک بڑھتی ہے.جب میں نے تحریک جدید کا اعلان کیا تو جماعت کے لوگوں نے مجھے لکھا تھا کہ ہم نے تو کی آپ کی تحریک کا یہ مطلب سمجھا تھا کہ سات ہزار روپیہ جمع کرنا ہے مگر اب وہ کام لاکھوں تک پہنچ گیا ہے.مجھے یاد ہے ایک دوست نے مجھے لکھا کہ میں نے آپ کی تحریک پر بہت سا چندہ لکھوا دیا تھا اور یہ سمجھا تھا کہ آپ نے صرف ایک ہی دفعہ چندہ مانگا ہے لیکن اب میں اپنا چندہ کم نہیں کروں گا بلکہ اپنے وعدہ کے مطابق دینے کی کوشش کروں گا.اس کے علاوہ اور بھی کئی لوگ تھے جنہوں نے اُس وقت سوسو ، دو دو سو روپیہ چندہ لکھوا دیا تھا مگر بعد میں انہوں نے اُس چندہ کو کم نہ کیا اور بڑھتے بڑھتے وہ سولہ سو، دو ہزار یا اڑھائی ہزار چندہ دینے لگ گئے.ی تحریک بھی آہستہ قدموں سے شروع ہوئی ہے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے امید ہے کہ جماعت میں اس قد را خلاص اور جوش پیدا ہو جائے گا کہ وہ لاکھوں اور کروڑوں روپیہ دینے لگ جائے گی.تم یہ نہ دیکھو کہ ابھی ہماری جماعت کی تعداد زیادہ نہیں.اگر یہ سکیم کامیاب ہوگئی تو تم دیکھو گے کہ دو تین کروڑ لوگ تمہارے اندر داخل ہو جائیں گے.اور جب دو کروڑ اور آدمی تمہارے ساتھ شامل ہو جائیں گے تو آمد کی کمی خود بخود دُور ہو جائے گی.دو کروڑ آدمی چھ روپیہ سالانہ دے تو بارہ کروڑ بن جاتا ہے ہے.اگر ایک کروڑ روپیہ ماہوار آمد ہو تو دولاکھ مبلغ رکھا جاسکتا ہے جو ہمیں لاکھ میل کے رقبہ میں پھیلی جاتا ہے اور اتنا رقبہ تو سارے پاکستان کا بھی نہیں.پس ہمت کر کے آگے بڑھو اور وہی نمونہ دکھلاؤ کہ آں نہ من باشم که روز جنگ بینی پشت من آں منم کاندر میانِ خاک و خوں بینی سرے دشمن تمہارے مقابلہ میں کھڑا ہے اور یہ جنگ روحانی ہے جسمانی نہیں.اس جنگ میں دلائل کی اور دعاؤں سے کام لینا اصل کام ہے.صحابہ کو دیکھ لو وہ تلواروں سے لڑتے تھے اور میدانِ جنگ میں ان کی گردنیں کٹتی تھیں مگر وہ اس سے ذرا بھی نہیں گھبراتے تھے.جنگِ اُحد کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کے متعلق ہدایت فرمائی کہ اُسے تلاش کرو وہ کہاں ہے.صحابہ نے کہا معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی لاش دوسری لاشوں کے نیچے کہیں دبی پڑی ہے اس لیے وہ کہیں ملی نہیں.آپ نے فرمایا جاؤ اور پھر تلاش
$1958 19 خطبات محمود جلد نمبر 39 کرو.چنانچہ بہت تلاش کے بعد وہ صحابی ملے.وہ زخمی تھے اور پیٹ پھٹا ہوا تھا.تلاش کرنے والے صحابی نے کہا اپنے رشتہ داروں کو کوئی پیغام پہنچانا ہے تو دے دو ہم پہنچادیں گے.وہ کہنے لگے اور تو کوئی پیغام نہیں میرے عزیزوں تک صرف اتنا پیغام پہنچا دینا کہ جب تک ہم زندہ رہے ہم نے اپنی جانیں قربان کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی.اب یہ فرض تم پر ہے.اور میری آخری خواہش یہ ہے کہ میرے خاندان کے سارے افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کر دیں.اگر تم ایسا کرو تو میری یہ موت خوشی کی موت ہوگی.2 تو دیکھو صحابہ نے تو عملی طور پر قربانیاں کی تھیں اور تمہاری مثال ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں تھوک میں بڑے پکائے“.دلیلیں دینا کونسی بڑی بات ہے.دلیلیں دے کر گھر آگئے.لیکن وہاں یہ ہوتا تھا کہ صحابہ میدانِ جنگ میں جاتے تھے اور پھر بسا اوقات انہیں اپنے بیوی بچوں کی دوبارہ شکل کی دیکھنی بھی نصیب نہیں ہوتی تھی.ایک عورت کے متعلق تاریخ میں لکھا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ لمیہ وسلم جنگ تبوک کے لیے تشریف لے گئے تو اُس کے خاوند کو آپ نے کسی کام کے لیے باہر بھیجا ہوا تھا.جب وہ صحابی مدینہ واپس آئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کی طرف تشریف لے جاچکے تھے اور اُس صحابی کو اس کا علم نہیں تھا.وہ صحابی سیدھے گھر آئے.اپنی بیوی سے انہیں بہت محبت تھی.وہ گھر میں گھسے اور بیوی انہیں نظر آئی تو انہوں نے آگے بڑھ کر اسے اپنے جسم سے چمٹا لیا لیکن اُس زمانہ کی عورتیں بھی اس زمانہ کے مردوں سے زیادہ مخلص ہوتی تھیں.اس عورت نے خاوند کو دھگا دیا اور کہنے لگی تجھے شرم نہیں آتی کہ خدا تعالیٰ کا رسول تو جان دینے کے لیے رومیوں کے مقابلہ کے لیے گیا ہوا ہے اور تجھے اپنی بیوی سے پیار کرنا سو جھتا ہے.اس بات کا اُس پر ایسا اثر ہوا کہ اُسی وقت اُس نے اپنا گھوڑا پکڑا اور سوار ہو کر تبوک کی طرف چلا گیا اور کئی منزلوں پر جا کر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر مل گیا.تو اس قسم کی ہمت اگر تم بھی اپنے اندر پیدا کر لوتو دین کی اشاعت کوئی مشکل امر نہیں.چند دنوں کی بات ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت اتر نے والی ہے.اب یہ ناممکن ہے کہ زیادہ عرصہ تک آسمان اپنی مدد کو روکے رکھے.کوئی چھپیں چھپیں سال تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دشمنوں کی گالیاں سنیں، اُن سے پتھر کھائے، اینٹیں کھائیں ، ماریں کھائیں لیکن تبلیغ جاری رکھی.اس کے بعد قریباً پچاس سال تک یہ کام ہم نے کیا.یہ سارا زمانہ مل کر چھتر سال کا ہو جاتا ہے.آخر
20 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 اللہ تعالیٰ ایسا تو نہیں کہ پچھتر سال تک ایک قوم کو گالیاں دلوائے، ماریں کھلائے ، پتھر مروائے اور پھر چُپ کر کے بیٹھا ر ہے.اب میں سمجھتا ہوں بلکہ مجھے یقین ہے کہ وہ وقت آ گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد آسمان سے اترے گی اور گو ساری دنیا میں احمدیت پھیل جانے میں ابھی دو سو سال باقی ہیں لیکن ساری کی دنیا میں پھیلنے کے تو یہ معنے ہیں کہ امریکہ میں بھی پھیل جائے ، انڈونیشیا میں بھی پھیل جائے ، کینیڈا میں بھی پھیل جائے ، چین میں بھی پھیل جائے ، اٹلی میں بھی پھیل جائے ، جرمنی اور فرانس میں بھی کی پھیل جائے.ایسا بھی ایک دن ضرور ہو گا لیکن ابھی ہمیں صرف اپنے ملک میں پھیلنے کی ضرورت کی ہے اور اتنی ترقی میں سمجھتا ہوں کہ اسی سال کے اندر اندر ہو جانی چاہیے اور اس میں اب صرف چند سال باقی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے 1882ء میں دعوی کیا اور 1908ء میں آر فوت ہوئے.یہ چھبیس سال کا عرصہ ہو گیا.چھبیس سال کے بعد پھر پچاس سال اب تک کے ملائے کی جائیں تو چھہتر سال بن جاتے ہیں.اور اگر ہم یہ عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیدائش سے لیں تو 1835ء میں آپ پیدا ہوئے اور 1935ء میں آپ پر سو سال ہو گئے.ہمارا فرض تھا کہ 1935ء میں ہم ایک بہت بڑی جو بلی مناتے لیکن ہماری جماعت نے 1939ء میں خلافت جو بلی تو منائی لیکن 1935ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صد سالہ جو بلی بُھول گئی.اب بھی وقت ہے کہ جماعت اس طرف توجہ کرے.سو سال کی جو بلی بڑی جو بلی ہوتی ہے.جب جماعت کو وہ کی دن دیکھنے کا موقع ملے تو اس کا فرض ہے کہ وہ یہ جوبلی منائے.اب تک انہوں نے چھہتر سال کا عرصہ دیکھا ہے اور چوبیس سال کے بعد سو سال کا زمانہ پورا ہو جائے گا.اُس وقت جماعت کا فرض ہوگا کہ ایک عظیم الشان جوبلی منائے.اس سو سال کے عرصہ میں سارے پاکستان کو خواہ وہ مغربی ہو یا مشرقی ہم نے احمدی بنانا ہے.اس کے بعد جو لوگ زندہ رہیں گے وہ انشَاءَ اللهُ وہ دن بھی دیکھ لیں گے جب ساری دنیا میں احمدی ہی احمدی ہوں گے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وہ لوگ جو اس جماعت سے باہر ہیں وہ رفتہ رفتہ اس قدر کم ہو جائیں گے کہ اُن کی حیثیت بالکل ادنی اقوام کی سی ہو جائے گی.پس ہمت سے آگے بڑھو، زیادہ سے زیادہ چندے لکھواؤ اور جو لوگ آنریری سیکرٹری کے طور
$ 1958 21 خطبات محمود جلد نمبر 39 پر کام کر سکتے ہوں وہ اپنے آپ کو آنریری سیکرٹری بنالیں اور شہر میں یا باہر جہاں کہیں جائیں وہاں احمدیوں سے مل کر یا غیر جو اثر قبول کریں اُن سے مل کر زیادہ سے زیادہ چندہ لینے کی کوشش کریں تا کہ ہمارا چندہ جلدی جلدی بارہ لاکھ تک پہنچ جائے.اسی طرح نو جوانوں کو وقف زندگی کی تحریک کریں.یہ ایسا چھوٹا وقف ہے کہ پرائمری تک کے آدمی کو بھی ہم لے لیتے ہیں.ہم جو مرکز بنائیں گے اور پھر اسے قائم کریں گے وہاں ہم ایک زیادہ تعلیم یافتہ شخص رکھ لیں گے اور اُس کے ساتھ پرائمری پاس شخص کو لگا دیں گے.اور تعلیم اردو میں دیں گے.اردو زبان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کئی کتا بیں ہیں.مثلاً در نشین ہے، تحفہ گولڑو یہ ہے سرمہ چشم آریہ ہے، براہین احمدیہ حصہ پنجم ہے، ازالہ اوہام ہے، فتح اسلام ہے وہ یہ کتا بیں اُن کو پڑھائیں گے.میں نے دیکھا ہے کہ جو لوگ ان کتابوں کو پڑھ لیتے ہیں وہ بڑے سے بڑے مولویوں کے اعتراضات کے ایسے جواب دے سکتے ہیں کہ وہ بول نہیں سکتے.اسی طرح ہم تفسیر صغیر پڑھائیں گے.پھر جب کچھ قابلیت بڑھ جائے تو وہ سیر روحانی پڑھیں، احمدیت ، دعوۃ الامیر، تحفتہ الملوک اور تحفہ شہزادہ ویلز پڑھیں.ان ساری کتابوں کو پڑھ لیا جائے تو عیسائیوں کا اور مسلمانوں میں سے غلط رستہ پر چلنے والے مولویوں کے اعتراضات کا بڑی عمدگی سے ازالہ کیا جاسکتا ہے.اسی طرح دیباچہ تفسیر القرآن ہے.اس کے متعلق تمام مبلغ لکھتے ہیں کہ اس کو ہم ہر وقت ساتھ رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ہم ہر علمی مجلس میں غالب آتے ہیں.ان سب کتابوں کو غور سے پڑھ لیا جائے تو بڑی علمی قابلیت پیدا ہوسکتی ہے.اب تو یہاں پادری زیادہ تعداد میں نہیں.زیادہ تر اپنے ممالک کو واپس چلے گئے ہیں.تھوڑے سے پادری موجود ہیں جن کے لیے ان کتابوں سے بہت حد تک علم سیکھا جا سکتا ہے.یا ہندوستان جانے کا موقع ملے تو وہاں پنڈت موجود ہیں اُن کے لیے سرمہ چشم آریہ اور چشمہ معرفت وغیرہ کتابیں ہیں وہ پڑھ لی جائیں تو انسان ان کا مقابلہ کر سکتا ہے.باقی لوگوں کے لیے ہندوستان اور پاکستان میں دوسری کتابیں زیادہ مفید ہیں ے ازالہ اوہام ہے، توضیح مرام ہے، فتح اسلام ہے، تحفہ گولڑویہ ہے یہ اردو میں پڑھ لی جائیں تو تمام مولویوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے.یا سرمہ چشم آریہ اور چشمہ معرفت کے ذریعہ ہندوستان میں جا کر پنڈتوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے.میں نے بعض کتابوں کا گورکھی میں ترجمہ کر دیا ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ ان کتابوں کے متعلق سکھوں اور ہندوؤں کے بڑی کثرت سے خطوط آتے ہیں کہ ہم نے ان کو
$ 1958 22 خطبات محمود جلد نمبر 39 پڑھا تو یوں معلوم ہوا کہ آسمانی نور ہمیں ملا ہے ہمیں اور کتا بیں بھجوائی جائیں کیونکہ ان کے ذریعہ سے ہماری روحانی آنکھیں کھل گئی ہیں.(الفضل 16 جنوری 1958ء) 1 : گلستان سعدی مترجم صفحہ 24 مطبوعہ کراچی 1969ء 2 سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 100 - 101 مطبوعہ مصر 1936 ء
$ 1958 23 23 3 خطبات محمود جلد نمبر 39 وقف جدید کی تحریک بھی ایک اعلیٰ درجہ کی نیکی ہے تمہارا فرض ہے کہ اسے کامیاب بنانے کی پوری کوشش کرو فرموده 17 جنوری 1958ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی: تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ - 1 اس کے بعد فرمایا: " قرآن کریم کی اس آیت میں مومنوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ نیکی کے بارہ میں سارے 6620 99 کے سارے جمع ہو جایا کریں.بڑ“ کے معنے اعلیٰ درجہ کی نیکی کے ہوتے ہیں.پس اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ اعلیٰ درجہ کی نیکیوں میں ایک دوسرے سے تعاون کیا کرو.اس کا یہ مطلب نہیں کہ چھوٹی نیکیوں میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن ہمیشہ کرتے ہی اعلیٰ درجہ کی نیکیاں ہیں اور جب بھی وہ کوئی کام کرتے ہیں مکمل طور پر کرتے ہیں ادھورا نہیں کرتے.جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے میں نے گزشتہ جلسہ سالانہ پر وقف جدید کی تحریک کی تھی.یہ تحریک بھی ایسی ہی ہے کہ اس میں حصہ لینا تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَی کے مطابق ہے اور
24 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 اس میں کسی طرح روک بننا وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ کے ماتحت آتا ہے.جلسہ سالانہ کے دنوں میں غالبا لاؤڈ سپیکر کی خرابی کی وجہ سے دوستوں کو آواز پوری طرح سنائی نہیں کی دی.بعد میں اخبار الفضل میں میرا نوٹ چھپا تو اس پر لوگوں نے اس تحریک کی طرف توجہ کی.اس کے بعد پھر میرے دو خطبے شائع ہوئے.تیسرا خطبہ آج ہو رہا ہے.جوں جوں یہ خطبات شائع ہو کر جماعت کو پہنچیں گے اُمید ہے کہ دوستوں میں بیداری پیدا ہوتی چلی جائے گی.چنانچہ جب 3 جنوری کو میں نے خطبہ پڑھا تو اُس وقت تک ایک شخص کی طرف سے بھی اس تحریک میں وقف کا وعدہ نہیں آیا تی تھا اور ایک پیسہ کی بھی آمد نہیں ہوئی تھی مگر آج کی رپورٹ یہ ہے کہ پچھتیس ہزار روپے کے وعدے آچکے ہیں اور ایک سو پینتیس اشخاص کی طرف سے وقف کی درخواستیں آچکی ہیں.لیکن ان چھتیس ہزار کے وعدوں میں بھی کچھ غلطی ہے.اصل میں وعدوں کی تعداد چالیس ہزار سے کچھ اوپر بنتی ہے.بعض رپورٹیں ناقص تھیں اور بعض وعدے ابھی اس رپورٹ میں شامل نہیں کیے گئے.ان سب وعدوں کو ملا کر میرا خیال ہے کہ شاید یہ وعدے پچاس ہزار سے بھی اوپر ہو جائیں.پھر شروع میں یہ غلطی بھی ہوئی کہ جماعت نے یہ سمجھا کہ چھ روپیہ آخری حد ہے.اس لیے جو شخص ایک ہزار روپیہ تک بھی اس تحریک میں دے سکتا تھا اُس نے چھ روپیہ کا وعدہ لکھوا دیا حالانکہ یہ ضروری نہیں تھا کہ اس تحریک میں صرف چھ روپیہ دے کر ہی حصہ لیا جائے بلکہ کم از کم چھ روپیہ کی رقم دے کر اس تحریک میں حصہ لیا جاسکتا تھا لیکن جماعت کے دوستوں نے اسے زیادہ سے زیادہ رقم قرار دے لیا اور اس کے مطابق وعدے لکھوانے شروع کر دیئے.اب بعض وعدے ایسے آ رہے ہیں جن سے پتا لگتا ہے کہ جماعت کے افراد پر یہ بات واضح ہوگئی ہے اور وہ اسے سمجھ رہے ہیں.چنانچہ اب چھ روپیہ سے زیادہ کے وعدے بھی آ رہے ہیں لیکن جب یہ بات پوری طرح واضح ہو جائے گی تو ایسے دوست بھی نکل آئیں گے جو مثلاً پانچ سو یا چھ سو روپیہ سالانہ دے دیں.اور پھر اللہ تعالیٰ اس کو اور پھیلائے گا تو ایسے مالدار بھی نکلیں گے جوا کیلے ہی اپنی طرف سے اس تحریک میں ہزار، ڈیڑھ ہزار، دو ہزار، چار ہزار روپیہ بھی دے دیں.اسی طرح امید ہے کہ اگر اس سال پوری کوشش کی جائے تو وعدوں کی تعداد اسی ہزار روپیہ تک پہنچ جائے گی اور اگلے سال تو امید ہے کہ یہ رقم بہت زیادہ بڑھ جائے گی لیکن اس وقت تک صرف چھتیس ہزار کی آمد ہوئی ہے اور ایک سو پینتیس افراد کی طرف سے وقف کی درخواستیں آچکی ہیں.گویا
$1958 25 خطبات محمود جلد نمبر 39 وقف زیادہ ہے اور روپیہ تھوڑا ہے حالانکہ پیچھے ایک دور ایسا آیا ہے کہ خیال آتا تھا کہ وقف کی درخواستیں کم آئی ہیں اور روپیہ زیادہ آیا ہے مگر اب خدا تعالیٰ کے فضل سے وقف بڑھ گئے ہیں اور روپیہ کم ہو گیا ہے.گویا ہماری مثال ایسی ہے جیسے ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب گوڑ یانی جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے بارہ حواریوں میں شامل کیا تھا سُنایا کرتے تھے کہ ایک احمدی حافظ تھے.انہیں تبلیغ کا بہت جوش تھا.وہ ایک دفعہ اُس جگہ سے گزرے جہاں میں ڈاکٹر کے طور پر کام کرتا تھا اور حافظ صاحب میرے مکان پر ہی ٹھہر گئے.کھانا تیار تھا.میں نے چاولوں کا ایک تھال حافظ صاحب کے آگے لا کر رکھ دیا.جب وہ کھا چکے تو میں نے کہا حاظ صاحب! اور چاول لاؤں؟ وہ کہنے لگے اگر چاول ہیں تو لے آویں.پھر میں نے ایک اور تھال بھر کر اُن کے سامنے رکھ دیا.انہوں نے اسے بھی ختم کر دیا.میں نے کہا حافظ صاحب! اور چاول لاؤں؟ کہنے لگے ہیں تو لے آئیں.میں ایک اور تھال چاولوں کا لے آیا.حافظ صاحب جب وہ بھی کھا چکے تو میں نے کہا حافظ صاحب ! اور چاول لاؤں؟ وہ کہنے لگے نہیں تکلیف کرنے کی کیا ضرورت ہے.میں نے کہا حافظ صاحب ! آپ کا کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ وہ کہنے لگے سُنا ہے بھیرہ میں ایک مشہور طبیب حضرت مولوی نورالدین صاحب ہیں میں اُن سے اپنے ہاضمہ کا علاج کروانے جا رہا ہوں.میں نے ہنس کر کہا حافظ صاحب ! جب آپ کی کے ہاضمہ کا علاج ہو جائے تو آپ مہربانی فرما کر واپسی کے وقت اس طرف سے نہ آئیں بلکہ کسی اور کی طرف سے جائیں.مجھ غریب کے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ ہاضمہ درست ہونے پر آپ کی مہمان نوازی کرسکوں.جب آپ خراب ہاضمہ میں چاولوں کے چار تھال کھا گئے ہیں تو جب ہاضمہ درست ہو جائے گا تو اُس وقت کیا بنے گا ؟ اسی قسم کا ایک لطیفہ پرانے زمانہ کا بھی مشہور ہے.کہتے ہیں کوئی شخص تھا جس کی بھوک بہت بڑھی ہوئی تھی.کسی نے اُس کی دعوت کی اور اُس کے سامنے بہت سے نان رکھ دیئے اور خود سالن لینے کے لیے اندر گیا.جب واپس آیا تو وہ شخص سارے نان کھا چکا تھا.پھر وہ سالن رکھ کر نان لینے کے لیے گیا تو آ کر دیکھا کہ شور باختم ہے.دو تین دفعہ اُس کے ساتھ یہی حال ہوا.وہ نان لا کر رکھ جاتا اور شور بالینے جاتا تو نان ختم ہو چکے ہوتے اور شور بارکھ کر نان لینے جاتا تو شور باختم ہو چکا ہوتا.وہی حال ہمارا ہے کہ ایک وقت روپیہ زیادہ تھا اور واقفین کم تھے اور اب روپیہ کم ہے اور واقفین زیادہ ہیں.
خطبات محمود جلد نمبر 39 26 $1958 میں نے اپنے پچھلے خطبہ میں بتایا تھا کہ چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے کہا ہے کہ ٹھٹھہ میں میری کچھ زمین ہے میں اُس زمین میں سے دس ایکڑ تبلیغ کے لیے وقف کر دوں گا مگر یہ میری غلطی تھی.چودھری صاحب نے بتایا ہے کہ ٹھٹھہ کی زمین ابھی پوری طرح اُن کے قبضہ میں نہیں آئی.دوسرے زمین ایسی جگہ ہے جو ایک طرف ہے اور وہاں آبادی کم ہے اس لیے وہاں کسی مبلغ کا رہنا مشکل ہے.انہوں نے کہا ہے کہ میرا مطلب یہ تھا کہ لا بینی (ضلع حیدر آباد ) میں جو میری زمین ہے اُس میں سے میں دس ایکڑ اس غرض کے لیے وقف کر دوں گا.میرا بھی منشا ہے کہ میں بھی اپنی زمین میں سے کسی جگہ دس ایکڑ اس غرض کے لیے وقف کروں.اس طرح یہ دو وقف ہو جاتے ہیں.ایک باندھی (سندھ) کے رئیس حاجی عبدالرحمان صاحب ہیں.انہوں نے لکھا ہے کہ میری زمین میرے غیر احمدی کی رشتہ داروں سے مشترک ہے اُس کو تو میں تقسیم نہیں کر سکتا مگر میں یہ کر دوں گا کہ دس ایکڑ زمین خود خرید تی کر دے دوں.اس طرح تین وقف ہو گئے.پھر ایک دوست نے لکھا ہے کہ میرے پاس دو مربع زمین ہے.اُس میں سے جتنی زمین کی ضرورت ہو میں دینے کے لیے تیار ہوں.ایک اور دوست نے لکھا ہے کہ مجھے فوجی خدمات کی وجہ سے ایک مربع زمین ملی ہے.میں وہ زمین اس غرض کے لیے وقف کرتا ہوں.اس کو تو میں نے لکھا ہے کہ میں اس طرح ساری زمین لینے اور تمہیں روزی سے محروم کرنے کے لیے تیار نہیں.تم اس میں سے دس ایکڑ زمین ہمیں مقاطعہ پر دے دینا.اس میں ہم اپنا مبلغ رکھیں گے.غرض اب تک پانچ زمینیں بھی آچکی ہیں.ملتان والے بھی کہہ گئے تھے کہ دو تین جگہیں ہمارے ضلع میں بھی مل جائیں گی کیونکہ بہت سے مربعوں والے ہمارے علاقہ میں ہیں اور بڑے بڑے زمیندار ہیں.اگر وہ ایک ایک ایکڑ بھی دیں تو کافی جگہیں ہو جائیں گی.لیکن بڑی چیز جو ان علاقوں میں کام دے سکتی ہے وہ دیسی طب ہے.چودھری صاحب نے بتایا کہ ان کے رشتہ کے بھائی (یعنی ماموں کے بیٹے ) جو ان کی زمینوں پر لا بینی میں کام کرتے ہیں انہوں نے سُنا یا کہ باوجود یکہ لا بنی ایک جنگل سا ہے پھر بھی امریکن عیسائی وہاں آکر رہتے ہیں اور عیسائیت کی تبلیغ کر رہے ہیں اور وہ ایسے لوگوں میں رہتے ہیں کہ گو وہ ہمارے مزارع ہیں لیکن اگر وہ ہمیں بھی بلائیں تو ہم بھی اُن کے گھروں میں نہ جائیں لیکن وہ رات دن وہیں رہتے ہیں اور تبلیغ کرتے ہیں.یہی قربانی کی روح ہمیں بھی اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے.اگر اسی قسم کی قربانی کی روح ہم میں
$1958 27 خطبات محمود جلد نمبر 39 بھی پیدا ہو جائے تو ایک سو پینتیس واقفین کیا ہماری جماعت میں سے ایک لاکھ پینتیس ہزار واقفین بھی آسانی سے نکل آئیں گے.لیکن ضرورت یہ ہے کہ ہم امریکنوں اور انگریزوں جیسی قربانی کرنے لگ جائیں.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ سُنایا ہے کہ ایک دفعہ ایک انگریز عورت چین میں پادری کے طور پر کام کر رہی تھی.چینیوں میں پادریوں کے خلاف بڑا جوش پیدا ہوا اور وہ جوش اب تک بھی ہے.ایک دن چینیوں نے اُس عورت پر حملہ کیا اور اسے قتل کرنے اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بعد کھا گئے.جب اس واقعہ کی اطلاع انگلستان میں پہنچی اور پادریوں کے اخبار نے یہ شائع کیا کہ ہماری ایک مبلغ جو چینی میں کام کر رہی تھی اُسے چینیوں نے ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھالیا ہے ہمیں اُس کے قائم مقام کی ضرورت ہے تو اُسی دن شام تک دو ہزار عورتوں کی طرف سے تار آ گئے کہ ہم اس مبلغہ کی جگہ جانے کے لیے تیار ہیں.تو جب عیسائیت جو ایک باطل مذہب ہے اُس کی تائید کے لیے لوگوں کے اندر اس قدر جوش پیدا ہو سکتا ہے تو اسلام جو ایک سچا مذہب ہے اس کی تائید کے لیے لوگوں کے اندر کیوں جوش پیدا نہیں ہو سکتا.یہ محض ہماری غفلت اور کوتاہی ہے کہ لوگوں کے اندر جوش پیدا نہیں کرتے ورنہ جب ان کے اندر جوش پیدا ہوگا تو وہ اس قدر پھیلے گا کہ زمین و آسمان ہل جائیں گے اور دنیا میں ہر جگہ اسلام ہی کی اسلام نظر آئے گا.یہ ہماری اپنی کوتاہی ہے کہ ہم لوگوں تک حقیقت حال پہنچا نہیں سکے.جب ہم ان کی تک حقیقت حال پہنچادیں گے تو انشَاءَ اللہ بڑوں اور چھوٹوں سب کے اندر یہ احساس پیدا ہو جائے گا کہ وہ دین کی خدمت کے لیے آگے بڑھیں.اور پھر جب سارے کے سارے دین کی خدمت کے لیے آگے بڑھیں گے تو لازمی بات ہے کہ اگر دس لاکھ کی جماعت آگے بڑھے گی اور ان میں سے ہر فرد دس دس افراد کو بھی صداقت پہنچا دے گا تو اگلے سال ایک کروڑ احمدی ہوگا.اُس سے اگلے سال دس کروڑ احمدی ہوگا اور اُس سے اگلے سال ایک ارب احمدی ہو جائے گا یعنی دنیا کے قریباً سارے ممالک میں احمدیت پھیل جائے گی.مگر یہ چیز جوش کا تقاضا کرتی ہے ورنہ ہماری موجودہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی تعداد میں ہے کہ اگر وہ ساری کی ساری اپنا فرض ادا کرے اور دوسروں کے اندر جوش پیدا کر دے تو تھوڑے عرصہ میں ہی دنیا میں صرف احمدی ہی احمدی ہوں.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطبات محمود جلد نمبر 39 فرماتے ہیں کہ 28 828 بکوشید اے جواناں تا بدین قوت شود پیدا $ 1958 بهار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا 2 یعنی اے مسلمان نوجوانو! کوشش کرو تا دینِ اسلام میں بھی قوت پیدا ہو جائے اور امتِ اسلامیہ کے باغ میں بھی بہار اور رونق نظر آنے لگے.اسی طرح ایک اور شعر میں فرماتے ہیں کہ ہر طرف کفرست جوشاں ہمچو افواج یزید دین حق بیمار و بیکس ہمچو زین العابدین 3 یعنی میں دیکھ رہا ہوں کہ یزید کی فوجوں کی طرح ہر طرف کفر جوش مار رہا ہے اور اسلامی امام زین العابدین کی طرح بیمار اور کمزور ہے.امام زین العابدین حضرت امام حسین علیہ السلام کے بیٹے تھے جو حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت بیمار پڑے تھے.جب اُن کی پھوپھی نے آواز دی کہ میرا بھائی خاک و خون میں تڑپ رہا ہے تو یہ اندر سے اُٹھ کر باہر آ گئے اور کہنے لگے میں باہر جا کر دشمن کا مقابلہ کرتا ہوں لیکن خاندان کے بعض افراد آگے آگئے اور انہوں نے کہا تم بیمار ہو تمہیں باہر نہیں جانا چاہیے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اسلام تو آجکل اُسی طرح بیمار ہے جس طرح امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت امام زین العابدین بیمار تھے اور کفریزید کی فوجوں کی طرح جوش مار رہا ہے.لیکن ذرا مسلمانوں میں بیداری پیدا ہو جائے تو دیکھنا کہ اِنْشَاءَ اللَّهُ تَعَالَی کفر میدان میں دم تو ڑ رہا ہوگا اور اسلام کی فوج میں اس قدر جوش ہو گا کہ اس کی مثال دنیا میں پہلی کسی قوم میں نظر نہیں آئے گی اور ہر جگہ اسلام کا جھنڈا اونچا ہو گا اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم ہوگی“.( الفضل 21 جنوری 1958ء) 1 : المائدة : 3 2 : در مشین فارسی صفحہ 118 3 : در نمین فارسی صفحه 96
$ 1958 29 29 4 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہماری جماعت کے ہر فرد کو یہ عہد کر لینا چاہیے کہ وہ دین کی خاطر کسی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرے گا اسلام کی ترقی اور اشاعت کے لیے وقف جدید کی تحریک خاص اہمیت رکھتی ہے (فرموده 21 فروری 1958ء بمقام کراچی ) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اس دفعہ 1957 ء کے آخر میں میری طبیعت خراب ہونی شروع ہوئی تھی مگر پھر جلسہ کے وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھی ہو گئی.اس کے بعد پھر خراب ہونی شروع ہو گئی.میں تو اسے گاؤٹ (Gout) کا اثر ہی سمجھتا رہا مگر ڈاکٹروں کی رائے ہے کہ یہ تکلیف گاؤٹ کی وجہ سے نہیں بلکہ تبدیلی موسم کی وجہ سے ہے.وہ کہتے ہیں کہ چونکہ جلدی جلدی موسم تبدیل ہوا ہے اور سردی زیادہ شدید پڑی ہے اس لیے آپ کو یہ تکلیف ہوئی ہے.اب یہاں کے ڈاکٹروں کا مشورہ لینے کے لیے ہم اس جگہ آئے ہیں.مجھے پچھلے دنوں یہ بھی وہم ہونا شروع ہو گیا کہ مجھ پر فالج کا حملہ بڑھ رہا ہے یا دوبارہ فالج ہو گیا ہے مگر ڈاکٹروں سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہماری طب میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ فالج کا حملہ زیادہ بھی ہو سکتا ہے اور دوبارہ حملہ کے لیے بیہوشی ہونی ضروری ہوتی ہے جیسے پہلے یکدم کچھ بیہوشی
30 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہوئی اور پھر فالج کا حملہ ہو گیا.پس انہوں نے کہا کہ آپ کو فالج کا دوبارہ دورہ نہیں ہوسکتا کیونکہ آپ کو بیہوشی نہیں ہوئی اور فالج کے حملہ میں زیادتی طبی اصول کے خلاف ہے.یہ الگ بات ہے کہ آپ کونی ضعف ہو گیا ہو یا اعصابی کمزوری کی وجہ سے کوئی شکایت پیدا ہوئی ہو مگر یہ کہ فالج کا حملہ آپ ہی آپ بڑھتا چلا جائے یہ طبی اصول کے خلاف ہے اور دوبارہ حملہ کے لیے پہلے بیہوشی ضروری ہوتی ہے.بہر حال اگر ان کی یہ رائے درست ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ یہ ایک غیر معمولی سال گزرا ہے جس میں بڑی سخت سردی آئی.پچھلے سال جب ہم جابہ سے چلے ہیں تو وہاں بہت سردی تھی.ربوہ میں آئے تو وہاں بھی سردی تھی جلسہ کے قریب کچھ سردی کم ہوئی تو بدن میں طاقت آنی شروع ہو گئی.خدا تعالیٰ کی قدرت ہے قادیان میں بھی 22، 23 دسمبر کو شاید لوگوں کے اثر دہام کی وجہ سے گرمی سی آ جاتی تھی اور ربوہ تو یوں بھی گرم مقام ہے.بہر حال اس گرمی کا فائدہ ہوا اور مجھے تقریروں کی توفیق مل گئی.آج میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا کی ہے کہ دنیا میں مختلف انبیاء گزرے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے اپنے اپنے وقت میں ہدایتیں بخشیں اور انہوں نے خدا تعالیٰ کا نام پھیلانے اور اس کے دین کی خدمت کرنے کے لیے بڑی جدو جہد کی.1 اس کے بعد اللہ تعالٰی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اُولیک الَّذِيْنَ هَدَى الله GLANKA NANGA اقْتَدِ: 2 یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے ہدایت کی دی.پس اے محمد رسول اللہ ! جس طرز پر یہ لوگ چلے ہیں اُسی طرز پر تجھے اور تیرے ساتھیوں کو بھی چلنا چاہیے.اب یہ صاف بات ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو نبی گزرے ہیں یا جن کا یہاں ذکر آتا ہے جن میں حضرت ابراہیم کا نام بھی آیا ہے، حضرت الحق کا نام بھی آیا ہے، حضرت یعقوب کا بھی نام آیا ہے، حضرت داؤد کا بھی نام آیا ہے، حضرت سلیمان کا بھی نام آیا ہے، حضرت ایوب کا بھی نام آیا ہے ، حضرت یوسف کا بھی نام آیا ہے، حضرت موسی کا بھی نام آیا ہے، حضرت ہارون کا بھی نام آیا ہے، اسی طرح زکریا یحیی عیسی ، الیاس ، اسماعیل ، یسعیاہ ، یونس اور لوط کا بھی نام آیا ہے.ان تمام کی زندگیوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی ساری زندگی خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت میں لگا دی تھی اور پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہی حکم دیا گیا کہ فَبهدلهم اقتده تو بھی ان نبیوں کے طریق پر چل.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ شروع دعوی نبوت
$1958 31 خطبات محمود جلد نمبر 39 سے لے کر تئیس سال تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ذاتی کام نہیں کیا.صرف دین کی خدمت کرتے رہے اور اسلام کے پھیلانے میں دن رات لگے رہے اور اسی حالت میں فوت ہو گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں دین کی خدمت اور اس کی اشاعت کا اس قدر شوق تھا کہ مرضُ الموت میں آپ نے ایک دن فرمایا کہ میرے اور مسجد کے درمیان جو پردہ حائل ہے اُسے ہٹا دو.میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کا کیا حال ہے.جب پردہ ہٹایا گیا اور صحابہ جو نماز کے لیے جمع تھے انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو وہ شوق کے مارے دیوانے ہو گئے اور انہوں نے بے تحاشا اپنی خوشی کا اظہار کرنا شروع کر دیا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت چونکہ زیادہ نا ساز تھی اس لیے آپ نے فرمایا اب پردے گرادو اور باہر کہلا بھیجا کہ میرا دل تو چاہتا تھا کہ آؤں مگر میں کمزوری کی وجہ سے نہیں آسکتا.میری جگہ ابوبکر نماز پڑھا دیں.3 غرض یہ ایک قرآنی ہدایت ہے جس کو ہمیشہ مدنظر رکھنا ضروری ہے اور ہمارا بھی فرض ہے کہ دنیا میں جتنے انبیاء گزرے ہیں جن میں خصوصیت سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شامل ہیں اُن کے نمونہ کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے ہم اسلام کی خدمت بجالائیں کیونکہ اس وقت سوائے اسلام کے اور کوئی سچا دین نہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ ایک دوسری جگہ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اِنَّ الدِّين عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَام 4 یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس وقت صرف اسلام ہی حقیقی دین ہے.پس قرآن کے نزول کے بعد اب سوائے اسلام کے اور کوئی دین نہیں رہا.اگر عیسی کے پیرو عیسی کے پیچھے چلتے ہیں اور موسی کے پیر وموشی کے پیچھے چلتے ہیں تو ہمارے لیے یہ حکم نہیں کہ ہم عیسائیت کی تبلیغ ک یا یہودیت کو پھیلانے کی کوشش کریں بلکہ ہمارے لیے یہی حکم ہے کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلیں اور آپ کے لائے ہوئے دین کی اشاعت کے لیے اپنی جانیں تک لڑا دیں.حقیقت یہ ہے کہ اس وقت اسلام کی ویسی ہی نازک حالت ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک فارسی قصیدہ میں فرمایا کہ ہر طرف کفرست جوشاں ہمچو افواج یزید دین حق بیمار و بیکس ہیچو زین العابدین 5 جیسے کر بلا کے وقت ہوا تھا کہ یزید کی فوجیں غالب آ رہی تھیں اور امام حسین کا لڑکا
$1958 32 32 خطبات محمود جلد نمبر 39 زین العابدین بیمار پڑا ہوا تھا اور دین کی مدد کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تھا.انہوں نے چاہا بھی کہ اپنی بیماری میں اٹھ کر کربلا کے میدان میں حضرت امام حسین کی مدد کریں مگر امام حسین نے کہا میرے بیٹے کو سنبھالو.اس کو اُٹھنے نہ دو.چنانچہ ان کی پھوپھی زینب آئیں اور انہوں نے کہا کہ صبر سے کام لے.تیرے باپ کا یہی حکم ہے کہ تجھے لٹایا جائے اُٹھنے نہ دیا جائے.اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہر طرف کفرست جوشاں ہمچو افواج یزید دین حق بیمار و بیکس ہمچو زین العابدین یعنی جس طرح کربلا کے میدان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے صرف ستر آدمی تھے اور باقی سینکڑوں ہزاروں سپاہیوں کی رجمنٹیں (REGIMENT) ایک مشہور جرنیل کے ماتحت یزید کی طرف سے اُن کو گھیرے ہوئے تھیں اُسی طرح آجکل اسلام کی حالت ہے کہ چاروں طرف سے یزیدی فوجوں کی طرح لوگ اس پر چڑھے آ رہے ہیں اور اسلام کی حالت ایسی ہی ہے جیسے زین العابدین بیماری میں تڑپ رہے تھے اور اپنے باپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے تھے.ہمارے روحانی باپ چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس لیے اس کے معنے یہ ہیں کہ مسلمانوں کے دلوں میں اگر ایمان ہوتا ہے تو وہ تڑپتے ہیں کہ اپنے حقیقی روحانی باپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کر میں لیکن وہ بیمارو بیکس ہیں یعنی ان میں طاقت نہیں کہ مقابلہ کر سکیں.نہ پیسہ ان کے پاس ہے، نہ پر لیں ان کے پاس ہے، نہ فوجیں ان کے پاس ہیں ، نہ حکومتیں ان کے پاس ہیں عیسائی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گند اچھالتے ہیں مگر ان کے پاس اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ جواب دے سکیں.اب ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ نے توفیق دی ہے کہ اس کے افراد یورپ اور امریکہ اور افریقہ اور انڈونیشیا وغیرہ میں اسلام کی اشاعت کر رہے ہیں مگر کام کی وسعت کے مقابلہ میں ہماری جدو جہد ایسی ہی ہے جیسے کوئی چڑیا سمندر میں سے چونچ بھر کر پانی پہیے.عیسائیوں کی طاقت کے مقابلہ میں نہ ہمارے پاس کوئی طاقت ہے اور نہ اُن کے مبلغوں کے مقابلے میں ہمارے مبلغوں کی تعداد کوئی حقیقت رکھتی ہے.رومن کیتھولک پادریوں کی تعداد ہی اٹھاون ہزار ہے اور ہمارے مبلغ تین سو بھی نہیں.ایک دفعہ وکالت تبشیر نے مجھے رپورٹ پیش کی تھی کہ مقامی جماعتوں کے مبلغ ملا کر ہمارے گل
خطبات محمود جلد نمبر 39 33 33 $1958 سلغ دوسوستر ہیں.اب گجا دوسوستر مبلغ اور گجا اٹھاون ہزار مبلغ.اور ابھی یہ صرف رومن کیتھولکی پادریوں کی تعداد ہے.اگر پروٹسٹنٹ فرقہ کے پادریوں کو ملا لیا جائے تو ایک لاکھ سے بھی زیادہ ان کی کے مبلغوں کی تعداد بن جاتی ہے.قرآن کریم نے ایک جگہ بتایا ہے کہ اگر مسلمانوں میں سچا ایمان پایا جائے تو ایک مومن دس کفار کا مقابلہ کر سکتا ہے.6 اس کے معنے یہ ہیں اگر اُن کے دو ہزار سات سو مبلغ ہوں تب تو انسانی طاقت کے لحاظ سے ہماری فتح کا امکان ہے لیکن ہمارے دوسوستر مبلغوں کے مقابلہ میں اُن کے ایک لاکھ سے بھی زیادہ مبلغ ہیں.اس کے معنے یہ ہیں کہ ہمارے ایک مبلغ کے مقابلہ میں اُن کے تین چار سو مبلغ کام کر رہے ہیں.پس بظاہر دنیوی نقطہ نگاہ سے ان کا مقابلہ نہیں ہوسکتا.گو صحابہ میں ہمیں عملاً اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ انہوں نے کئی کئی گنا لشکروں کا مقابلہ کیا اور دشمن پر فتح حاصل کی.کی جب رومیوں سے جنگ ہوئی تو حضرت خالد بن ولیڈ نے صرف ساٹھ آدمیوں کا ایک چھوٹا سا گروہ منتخب کیا اور اُن ساٹھ آدمیوں نے ساٹھ ہزار کے لشکر پر حملہ کر دیا.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رومیوں پر حملہ کرنے گئے تو آپ کے ساتھ صرف دس ہزار آدمی تھے اور رومی فوج کئی لاکھ تھی مگر خدا تعالیٰ نے اُن پر ایسا رعب ڈالا کہ وہ ڈر کر پیچھے ہٹ گئے اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ نہ کیا.دراصل جرہم قبیلہ کی شہہ پر رومی مسلمانوں پر حملہ کرنا چاہتے تھے.یہ قبیلہ اصل میں عرب تھا مگر رومی اثر کے نیچے عیسائی ہو گیا تھا.پہلے تو انہوں نے قیصر کو انگیخت کی اور اُسے حملہ کے لیے اکسایا مگر جب ی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے تو وہ ڈر کر پیچھے ہٹ گئے اور جب وہ پیچھے ہے تو رومی فوج بھی ڈر گئی اور اُس نے حملہ نہ کیا.غرض صحابہ کے زمانہ میں دو دو ہزار گنا لشکر کا بھی مسلمانوں نے مقابلہ کیا ہے مگر یہ مقابلہ اُس سے بھی زیادہ سخت ہے کیونکہ ہماری جماعت بہت قلیل ہے اور ساری دنیا میں ہم نے اسلام پھیلانا تی ہے.پس یہ کی اس طرح پوری ہوسکتی ہے کہ ہماری جماعت کا ہر فرد دعاؤں میں لگا رہے اور ہر شخص اس بات کا عہد کرے کہ وہ دین کے لیے کسی قسم کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرے گا اور اسلام کی اشاعت کے لیے اپنی زندگی وقف کر دے گا.میں نے اس غرض کے لیے جماعت میں وقف جدید کی تحریک کی ہے اور اس وقت تک جو اطلاع آئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تین سو چوالیس دوست اپنے آپ کو وقف کر چکے ہیں جن میں سے تیرہ معلم پہلے بھیجے جاچکے ہیں اور سترہ اور واقفین کو قابل انتخاب قرار دیا جا چکا ہے جن کے متعلق مقامی جماعتوں سے رپورٹ لی جارہی ہے اور دفتر والوں نے مجھے لکھا ہے کہ ان کی رپورٹیں
خطبات محمود جلد نمبر 39 34 $1958 انے کے بعد ان سترہ واقفین کے نام منظوری کے لیے پیش کیے جائیں گے.میں دیکھتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ ابھی اس کام کو شروع کیے چند دن ہی ہوئے ہیں جو وفد بھجوائے گئے ہیں اُن کے کام کے خوشکن نتائج نکلنے شروع ہو گئے ہیں.ابھی تک ان مراکز کو قائم ہوئے صرف چند دن ہوئے ہیں اور یہ اتنا تھوڑا عرصہ ہے جس میں کوئی نمایاں نتیجہ نہیں نکل سکتا.اصل نتیجہ اُس وقت معلوم ہو گا جب چھ سات مہینے گزرجائیں گے.پس وہ لوگ تو اپنا کام کر رہے ہیں.آپ لوگوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ ہم اُن کی مدد کے لیے کیا کر رہے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وقف جدید کے مالی مطالبہ میں جماعت احمدیہ کراچی کے اڑھائی ہزار آدمیوں نے حصہ لیا ہے اور پندرہ ہزار روپیہ سالانہ کا وعدہ کیا ہے لیکن اگلے سال امید ہے کہ یہ چندہ اور بھی ترقی کرے گا.اس سال کچھ تو فصلیں خراب ہوئی ہیں اور کچھ چندے بھی دوستوں کو زیادہ دینے پڑے ہیں.ممکن ہے اگلے سال کراچی کی جماعت اس سے بھی زیادہ توجہ کر سکے.اس سال بڑی مہنگائی رہی ہے اور فصلیں بھی خراب ہوئی ہیں جس کی وجہ سے گاؤں کی جماعتیں تو اقتصادی لحاظ سے بالکل کچلی گئی ہیں.پھر تفسیر صغیر کی وجہ سے بھی جماعت کے دوستوں کو بہت سی رقمیں دینی پڑیں اور کچھ چندوں کی کمی کی وجہ سے بجٹ کے متعلق جو خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ شاید وہ پورا نہ ہو سکے.اُس کو پورا کرنے کے لیے بھی جماعت کو کوشش کرنی پڑی.پس اس سال کی متواتر قربانیوں کی وجہ سے آپ لوگوں کا کام قابل تحسین ہے.لیکن امید ہے کہ جب پچھلے بوجھ اتر جائیں گے اور اس عرصہ میں جماعت بھی ترقی کرے گی تو دوست وقف جدید میں بھی اس سال سے زیادہ حصہ لیں گے اور تحریک جدید میں بھی زیادہ حصہ لیں گے.تحریک جدید کے اس وقت تک بہت کم وعدے آئے ہیں.جب میں چلا تھا تو میرے پاس رپورٹ آئی تھی کہ تحریک جدید کے پانچ لاکھ کے وعدے آئے ہیں اور یہ بہت کم ہیں.اُن کا خرچ بارہ تیرہ لاکھ کا ہے.صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ بھی پچھلے سال تیرہ لاکھ کا تھا.اگر ہماری جماعت کے زمینداروں کی آمد زیادہ ہو جائے اور صدرانجمن احمدیہ کا بجٹ تیرہ لاکھ سے بڑھ کر سولہ سترہ لاکھ پر آ جائے اور اس طرح تحریک جدید کا بجٹ ترقی کر جائے تو پھر امید ہے کہ ہمارے کام آسانی سے چلنے لگیں گے.مولانا عبدالماجد صاحب دریا بادی نے ایک دفعہ اپنے اخبار میں لکھا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد جماعت احمد یہ پہلے سے بھی بڑھ گئی ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جتنا بجٹ ان کا اب ہوتا ہے اتنا بجٹ ان کا پہلے کبھی نہیں ہوا اور یہ بالکل درست ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی
$1958 35 خطبات محمود جلد نمبر 39 وفات کے وقت جماعت کا سارا بجٹ تمہیں پینتیس ہزار کا تھا مگر اب صرف صدرا انجمن احمدیہ کا ہی پچھلے سال تیرہ لاکھ کا بجٹ تھا اور اگر اس کے ساتھ تحریک جدید کو بھی شامل کر لیا جائے تو ہمارا بجبت مالی پچھپیں چھبیس لاکھ تک پہنچ جاتا ہے.اس کو دیکھ کر مخالف بھی متاثر ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ جماعت پہلے سے ترقی کر رہی ہے اور جب وقف جدید مضبوط ہو گیا جس کی وجہ سے لازماً چندے بھی بڑھیں گے اور آدمی بھی بڑھیں گے تو ممکن ہے اگلے سال متینوں انجمنوں کا بجٹ چالیس پچاس لاکھ تک پہنچ جائے.پس ان قربانیوں کی طرف جماعت کے ہر فرد کو توجہ کرنی چاہیے اور ہر آدمی کو یہ دعا کرتے رہنا ہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد جلدی آئے.بیشک جہاں تک اللہ تعالیٰ کے وعدوں کا سوال ہے ہمیں یقین ہے کہ اُس کی نصرت ہمارے شامل حال ہوگی اور اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مقصد میں کامیاب فرمائے گا.لیکن اگر اس مدد کے آنے میں کچھ دیر ہو جائے تو مومن کا قلب اسے برداشت نہیں کر سکتا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب مومن کہہ اُٹھتے ہیں کہ مَتی نَصْرُ اللهِ 7 یعنی انتظار کرتے کرتے ہماری آنکھیں تھک گئیں.اب اللہ کی مدد کب آئے گی؟ فرماتا ہے أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيب 8 اللہ کی نصرت آنے ہی والی ہے.گھبراؤ نہیں.تم گھبرا جاتے ہو اور سمجھتے ہو کہ نامعلوم اس کی مدد کب آئے گی حالانکہ وہ تمہارے بالکل قریب پہنچ چکی ہے.چنانچہ ان آیتوں کے نزول کے ایک دو سال بعد ہی مکہ فتح ہو گیا اور سارے عرب پر اسلام غالب آ گیا.اب بھی ایسا ہی وقت ہے کہ ہر احمدی کے دل سے یہ آواز اُٹھنی چاہیے کہ مستی نَصْرُ اللہ اے خدا! تیری مدد کب آئے گی؟ ہم نے تیرے دین کی ترقی کے خواب اُس وقت دیکھنے شروع کیسے تھے جب یہ صدی شروع ہوئی تھی اور اب تو یہ صدی بھی ختم ہونے والی ہے مگر ابھی تک ہماری امیدیں بر نہیں آئیں اور کفر دنیا میں قائم ہے.اے خدا! تو اپنی مدد بھیج تا کہ ہم اپنی زندگیوں میں ہی وہ دن دیکھ لیں کہ اسلام دنیا پر غالب آجائے اور عیسائی اور ہندو اور دوسرے تمام غیر مذاہب کے پیرو مغلوب ہو جا ئیں.اور دنیا کے گوشہ گوشہ میں مسجدیں بن جائیں اور اللہ اکبر اللہ اکبر کی آوازوں سے سارا یورپ اور امریکہ گونج اُٹھے.اگر آپ لوگوں کے دلوں سے اس طرح آواز اُٹھے تو آپ کو یقین رکھنا چاہیے کہ آپ کے دل میں ایمان کی چنگاری پیدا ہوگئی ہے.لیکن اگر یہ آواز نہ اُٹھے تو آپ سمجھ لیں کہ آپ لوگوں نے اپنے متعلق بلا وجہ نیک ظنی کی.آپ سمجھتے رہے کہ ہم مومن
$1958 36 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہیں حالانکہ مومن نہیں تھے.اسلام تو بہت بڑی چیز ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مومن کی علامت یہ ہے کہ اگر اُس کے کسی بھائی کو کوئی تکلیف پہنچے تو وہ اسے بھی ایسا ہی محسوس کرتا ہے جیسے وہ تکلیف خود اسے پہنچی ہے.9 جب ایک مومن بھائی کی تکلیف کو بھی دوسرا شخص اپنی تکلیف سمجھتا ہے تو اگر اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراضات کیے جاتے ہیں، آپ پر غلاظت اُچھالی جاتی ہے اور تمہارے دل میں کوئی درد پیدا نہیں ہوتا تو یہ ایمان کی کمی کی علامت ہے.بیشک جس بات کی کی ہمیں طاقت حاصل نہیں اُس کے متعلق خدا تعالیٰ ہم سے کوئی سوال نہیں کرے گا لیکن ہمارے دلی جذبات کے متعلق تو وہ ہم سے سوال کر سکتا ہے.وہ کہے گا کہ اگر تمہارے دلوں میں سچا ایمان ہوتا تو تم ان مخالفتوں کو دیکھ کر کیوں نہ میری طرف جھکتے اور مجھ سے دعائیں کرتے.اور چونکہ تم میری طرف نہیں جھکے اس لیے معلوم ہوا کہ جو تمہارا فرض تھا وہ تم نے ادا نہیں کیا“ (الفضل 9 مارچ 1958ء) 1: وَتِلْكَ حُجَّتُنَا أَتَيْنَهَا إِبْرهِيمَ عَلَى قَوْمِهِ نَرْفَعُ دَرَجَتٍ مَّنْ نَّشَاءُ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيْمٌ وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَقَ وَيَعْقُوْبَ كُلَّا هَدَيْنَا ، وَنُوحًا هَدَيْنَا ۚ وَنُوْحًا هَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِ دَاوُدَ وَسُلَيْمَنَ وَأَيُّوبَ وَيُوْسُفَ وَمُوسَى وَ هُرُونَ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَى وَعِيسَى وَإِلْيَاسَ - كُلَّ مِنَ الصُّلِحِينَ وَاسْمُعِيْلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوْطًا وَكُلَّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَلَمِينَ وَمِنْ أَبَا بِهِمْ وَذُريَّتِهِمْ وَاِخْوَانِهِمْ وَاجْتَبَيْنَهُمْ وَهَدَيْنَهُمُ إِلَى صِرَاطٍ مسْتَقِيمٍ ذلِكَ هُدَى اللهِ يَهْدِى بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ أَو لَكَ الَّذِينَ آتَيْنَهُمُ الكتب وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ فَإِنْ تَكْفُرُ بِهَا هَؤُلَاءِ فَقَدْ وَكَلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيْسُوا بِهَا بِكُفِرِينَ (الانعام: 9084) 2 : الانعام: 91 3 : بخاری کتاب الاذان، باب اَهْلِ الْعِلْمِ وَالْفَضْلِ اَحَقُّ بِالْإِمَامَةِ 4 : آل عمران: 20 5 : در نمین فارسی صفحه 96 ي : إن يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صُبِرُونَ يَغْلِبُوا مِا تَتَيْنِ (الانفال : 66)
خطبات محمود جلد نمبر 39 $ 1958 37 7 : البقرة: 215 8 : البقرة: 215 9 : مسلم كتاب البر والصلة باب تراحم الْمُؤْمِنِينَ (الخ)
$ 1958 38 5 خطبات محمود جلد نمبر 39 آثار بتارہے ہیں کہ تحریک وقف جدید کا مستقبل انْشَاءَ اللهُ بہت شاندار ہوگا دوست اس تحریک کی کامیابی کے لیے دعائیں کریں اور ایک دوسرے کو اس میں شامل ہونے کی تحریک بھی کرتے رہیں (فرموده 28 فروری 1958ء بمقام کراچی) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جیسا کہ احباب کو معلوم ہے اس سال ایک وقف جدید کی تحریک کی گئی ہے جس کے ذریعہ تمام ملک میں رشد و اصلاح کے کام کو وسیع کرنے کے لیے واقفین زندگی بھجوائے جا رہے ہیں.اب تک یہ واقفین ربوہ سے پشاور ڈویژن، ملتان ڈویژن اور بہاولپور ڈویژن میں بھجوائے گئے ہیں.نیز خیر پور ڈویژن میں بھی اور حیدر آباد ڈویژن میں بھی بعض واقفین بھیجے گئے ہیں.میں نے چودھری عبداللہ خان صاحب سے جو یہاں کی جماعت کے امیر ہیں کہا ہے کہ وہ ایک ایسا انسپکٹر مقرر کریں جو اس طرز سے نواب شاہ تک کے علاقہ کا دورہ کرے اور معلمین کے کام کی نگرانی کیا کرے.آخر جو معلم جاتے ہیں اُن کے کام کی نگرانی کرنا بھی ہمارا فرض ہے.مگر بجائے اس کے کہ ربوہ سے
$1958 39 خطبات محمود جلد نمبر 39 انسپکٹر بھجوایا جائے میں جانتا ہوں کہ کراچی سے ایک انسپکٹر نواب شاہ تک کے علاقہ کو سنبھال لے اور تمام مقامات کا دورہ کرے.وہ کہتے تھے کہ اس غرض کے لیے ایک انسپکٹر وقف جدید مقرر کر دیا جائے گا.میں دوستوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو اس غرض کے لیے پیش کریں.اگر ادھر سے نواب شاہ تک کے علاقہ کی نگرانی کراچی کرے تو ربوہ سے نواب شاہ تک کے علاقہ کی ہم خود نگرانی کر لیں گے.اس کے بعد ہم ایک انسپکٹر صوبہ سرحد سے مانگ لیں گے جو مردان، نوشہرہ، راولپنڈی اور ایبٹ آباد وغیرہ کا کام سنبھال لے گا.اس طرح نگرانی کا کام دو تین ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر خرچ بہت کم ہو جائے گا.پس دوستوں کو چاہیے کہ وہ چودھری صاحب سے تعاون کریں.یہ اتنا تھوڑا علاقہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں مہینہ میں ایک دو دن کے اندر اندر تمام علاقہ کو دیکھا جا سکتا ہے اور اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ سلسلہ کا خرچ بہت سا بچ جائے گا.اگر ربوہ سے انسپکٹر چلے تو کراچی تک تھرڈ کلاس میں بھی اکیس روپے خرچ ہو جاتے ہیں اور اب تو ریل کے کرایوں پر ٹیکس بھی لگا دیا گیا ہے جس سے کرایہ میں اور بھی زیادتی ہوگئی ہے.میں سمجھتا ہوں اگر ہم وہاں سے انسپکٹر بھجوائیں تو اُس کے آنے جانے میں پچاس روپے لگ جائیں گے لیکن اگر یہاں سے کوئی آدمی چلا جائے اور وہ نواب شاہ تک کے علاقہ کی نگرانی کرے تو خرچ میں بہت سی تخفیف ہو جائے گی.دوسرے کام جلدی جلدی ہونے لگے گا.وہاں سے انسپکڑ آئے تو ہمیں انتظار رہے گا کہ نامعلوم وہ کب تک سب مقامات کا دورہ کر کے واپس آتا ہے لیکن اگر ملک کے مختلف سیکشن مقرر ہوں تو نگرانی میں بڑی آسانی ہو سکتی ہے.مثلاً پشاور والے نگرانی کا کام سنبھال لیں تو وہ مردان ایک ہی دن میں جا کر واپس آسکتے ہیں.نوشہرہ سے بھی اُسی دن واپس آسکتے ہیں.راولپنڈی بھی ایک دن میں آجا سکتے ہیں.1956ء میں جب ہم مری میں تھے تو ایک دفعہ ہم نے ایک پہاڑی مقام پر سیر کے لیے جانے کا ارادہ کیا اور چاہا کہ وہاں دُنبہ پکا کر لے چلیں.کیپٹن محمد سعید صاحب جو ان دنوں وہاں ہوتے تھے اُن کو ہم نے بھیجا کہ وہ کہیں سے اچھا سا دُنبہ تلاش کر کے لے آئیں.جب وہ دُنبہ لے کر واپس آئے تو انہوں نے بتایا کہ یہاں چونکہ اچھا دُنبہ نہیں ملتا تھا اس لیے میں پشاور چلا گیا تھا اور وہاں سے دُنبہ لے آیا.تو پشاور سے راولپنڈی تک آنا جانا بڑا آسان ہے.پس پشاور کی والے اگر ہمت کریں تو اُن کا انسپکٹر مردان، نوشہرہ، راولپنڈی، ایبٹ آباد اور مری وغیرہ کی آسانی سے
$1958 40 خطبات محمود جلد نمبر 39 نگرانی کر سکتا ہے.بلکہ اب تو ایبٹ آباد میں بھی اتنے احمدی ہیں کہ ممکن ہے وہی اپنے ارد گرد کے علاقہ کو سنبھال لیں.اسی طرح ملتان کی جماعت ایک بڑی ہوشیار جماعت ہے.اگر وہ توجہ کرے تو ممکن ہے کہ و بھی کئی ضلعے سنبھال لے مثلاً منٹگمری ہے ، اوکاڑہ ہے ، میاں چنوں ہے، چیچہ وطنی ہے.چیچہ وطنی کا نام آنے پر مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا.ایک دفعہ میں کراچی آ رہا تھا.جب گاڑی چیچہ وطنی پہنچی اور وہاں کے دوست ملاقات کے لیے آئے تو ایک عورت نے جلدی جلدی میرے کوٹ کی جیب میں جلیبیاں ڈال دیں.میری بیوی نے اُسے روکا تو وہ کہنے لگی کہ حضرت صاحب نے کچھ کھایا نہیں ہوگا اور راستہ میں ان کو بھوک لگے گی.اس لیے میں نے ان کی جیب میں جلیبیاں ڈال دی ہے ہیں تا کہ وہ راستہ میں کھاتے جائیں.میں نے یہ واقعہ خطبہ میں بیان کر دیا اور کہا کہ میرے کوٹ کا تو ستیا ناس ہو گیا اور اُس کا ناشتہ ہو گیا.چنانچہ اگلے سال جب وہاں کی جماعت آئی تو انہوں نے اس کی واقعہ پر معذرت کی اور اس عورت نے بھی معافی مانگی.پھر کبیر والا ہے، شورکوٹ ہے یہ تمام علاقہ ایساتی ہے جس کو ملتان کی جماعت سنبھال سکتی ہے.اس کے بعد دو چار مرکز جور بوہ کے ارد گر درہ جائیں گے اُن کی نگرانی خود دفتر اچھی طرح کرلے گا.بہر حال اس وقت بعض بڑی جماعتوں کی خدمات کی ہمیں نگرانی کا کام سرانجام دینے کے لیے ضرورت ہے تا کہ کم سے کم خرچ پر زیادہ سے زیادہ کام ہو سکے.اس وقت تک جور پورٹیں آ رہی ہیں وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت خوشکن ہیں.جو وفد بہاولپور ڈویژن کی طرف گیا تھا اُس کے کام کا یہ اثر ہوا ہے ایک گریجوایٹ کے متعلق وہاں کے امیر کی چٹھی آئی ہے کہ اُس نے بیعت کر لی ہے.یہ دوست سلسلہ کے لٹریچر کا دیر سے مطالعہ کر رہے تھے اور وقف جدید کے معلم نے بھی مجھے لکھا تھا کہ ایک دوست احمدیت کے قریب ہیں اور سلسلہ کے لٹریچر کا مطالعہ کر رہے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ یہ بیعت اُس شخص کی ہوگی.بہر حال اس تحریک کے نتائج خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھے نکلنے لگ گئے ہیں.سابق صوبہ سرحد کی طرف سے بھی اچھی رپورٹیں آ رہی ہیں.وہاں ہم نے ایک کمپاؤنڈر (Compounder) کو بھجوایا ہے.پہلے اس کے بھائی نے وقف کیا تھا لیکن پھر اُس نے ہمیں لکھا کہ میرے بھائی کو آپ چھوڑ دیں.وہ دوسو میں روپے لیتا ہے اور اُس کی آمد پر تمام گھر پلتا ہے.پھر وہ کچھ زیادہ پڑھا ہوا بھی نہیں.میں کمپاؤنڈری پاس ہوں اور اپنی
$1958 41 خطبات محمود جلد نمبر 39 دکان کرتا ہوں آپ مجھے لے لیں اور میرے بھائی کو چھوڑ دیں.چنانچہ ہم نے اس کو رکھ لیا اور اسے پشاور کی طرف بھیج دیا.جیسے سندھ میں ڈاکٹروں کی کمی ہے اسی طرح سرحد میں بھی ڈاکٹروں کی کمی کی ہے.اب اس کی طرف سے اطلاع آئی ہے کہ بڑی کثرت کے ساتھ پٹھان میری دکان پر آتے ہیں اور دین کی باتیں سنتے ہیں.تو خدا تعالیٰ کے فضل سے جہاں جہاں بھی وفد گئے ہیں وہاں سے خوشکن اطلاعات آنی شروع ہوگئی ہیں مگر کہتے ہیں گے آمدی وگے پیر شدی جب میں ربوہ سے چلا تھا تو ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ ان مرکزوں کو قائم کیے ہوا تھا حالانکہ اصل نتائج سال ڈیڑھ سال کے بعد نکلا کرتے ہیں.پس صحیح نتائج تو اگلے جلسہ کے بعد انشَاءَ اللہ نکلنے شروع ہوں گے لیکن اس کے خوشکن آثار ابھی سے ظاہر ہونے شروع ہو گئے ہیں.جیسے کہتے ہیں ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات خدا تعالیٰ کے فضل سے اس تحریک کے آثار بتا رہے ہیں کہ اس کا مستقبل بہت شاندار ہوگا.اس وقت یہ تحریک ایک بچہ کی صورت میں ہے اور بچہ کے پیدا ہوتے ہی اُس کے دانت نہیں دیکھے جاتے نہ اُس کی داڑھی دیکھی جاتی ہے.دو تین سال میں اس کے دانت نکلتے ہیں.پھر وہ چلنا پھرنا تی سیکھتا ہے اور کہیں اٹھارہ میں سال کے بعد اُس کی داڑھی نکلتی ہے.اگر پہلے دن ہی اُس کی داڑھی تلاش کی جائے تو یہ بیوقوفی ہوگی.اسی طرح وقف جدید کے نتائج اور اس کی خوبیوں کا ابھی سے اندازہ نہیں لگایا جاسکتا.اس وقت تک جو کیفیت ہے اس کے لحاظ سے واقفین زیادہ ہیں اور چندہ کم ہے.جب میں چلا ہوں تو وقف جدید میں ستر ہزار سالانہ کے وعدے آئے تھے لیکن واقفین تین سو پینتالیس تھے.اگر پچاس روپیہ ماہوار بھی ایک شخص کو دیئے جائیں اور پھر دورہ کرنے والوں کے اخراجات کو بھی مدنظر رکھا جائے اور اوسط خرچ ستر روپیہ ماہوار سمجھا جائے تو تین سو پینتالیس واقفین کے لیے پچپیس ہزار روپیہ ماہوار یا تین لاکھ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہوگی اور اتنا روپیہ ہمارے پاس نہیں.بلکہ ہماری اصل سکیم تو یہ ہے کہ کم سے کم ڈیڑھ ہزار سینٹر سارے ملک میں قائم کر دیے جائیں.اگر ایک ہزار سینٹر بھی کھولے جائیں اور ستر روپیہ ماہوار ایک شخص کے خرچ کا اندازہ رکھا جائے تو ستر ہزار روپیہ ماہوار
خطبات محمود جلد نمبر 39 42 $1958 ساڑھے آٹھ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ ہوگا.بظاہر یہ رقم بہت بڑی نظر آتی ہے لیکن ہمیں خدا تعالیٰ نے کبھی مایوس نہیں کیا.اس لیے ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ روپیہ ہمارے لیے مہیا فرما دے گا بلکہ ہمیں تو امید ہے کہ ایک دن اس سے بھی زیادہ روپیہ آئے گا.اگر ڈیڑھ ہزارسینٹر قائم ہو جائیں تو کراچی سے پشاور تک ہر پانچ میل پر ایک سنٹر قائم ہو جاتا ہے.بنگال سے بھی اب ایسی خبریں آ رہی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی لوگوں کو وقف جدید کی طرف توجہ پیدا ہورہی ہے.چنانچہ ایک اسکول کے مدرس نے لکھا ہے کہ میں اپنے آپ کو وقف کرنے کے لیے تیار ہوں.میں نے اُسے لکھا ہے کہ تم کام شروع کر دو ہم وہیں تمہیں اپنا معلم مقرر کر دیں گے.غرض یہ تحریک خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کر رہی ہے.دوست اس کے لیے دعائیں کرتے رہیں اور ایک دوسرے کو تحریک بھی کرتے رہیں.قرآن کریم نے مومن کا یہی کام بتایا ہے کہ وہ نیکیوں کی میں آگے بڑھتا ہے اور جب کوئی پیچھے رہ جائے تو اُس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ شامل کر لیتا ہے.پھر اور آگے بڑھتا ہے اور جو پیچھے رہ جائے اُسے پھر اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے.اس طرح وہ قدم بقدم آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور ساتھ ہی اپنے پیچھے رہ جانے والے بھائیوں کا بھی خیال رکھتا ہے اور اُن کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتا ہے.یہاں تک کہ دنیا میں نیکی ہی نیکی قائم ہو جاتی ہے.یہی فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ 1 کے معنے ہیں.پس اگر ڈیڑھ ہزار سینٹر قائم ہو جائے تو ہمارے ملک کا کوئی گوشہ اصلاح و ارشاد کے دائرہ سے باہر نہیں رہ سکتا.ویسٹ پاکستان کا رقبہ تین لاکھ مربع میل سے زائد ہے اور ایسٹ پاکستان کا پون ہزار مربع میل ہے.ہماری اسکیم (SCHEME) ایسی ہے جس کے ماتحت چار چار، پانچ پانچ مربع میل میں ایک ایک سنٹر قائم ہو جاتا ہے.پھر اور ترقی ہو تو دو دو مربع میل میں بھی ایک ایک سنٹر مقرر کیا جا سکتا ہے.بلکہ اور ترقی ہو تو ایک ایک میل کے حلقہ میں بھی سنٹر قائم ہو سکتا ہے.اور اگر ایک ایک مربع میل میں ہم سنٹر مقرر کر دیں تو پھر ہمارے ملک میں کوئی جگہ ایسی باقی نہیں رہتی جہاں خدا اور رسول کی باتیں نہ ہوتی ہوں ، جہاں قرآن کی تعلیم نہ دی جاتی ہو اور جہاں اسلام کا پیغام نہ پہنچایا جا تا ہو.( الفضل 15 مارچ 1958 ء ) 1 : البقرة: 149
$ 1958 43 6 خطبات محمود جلد نمبر 39 تحریک وقف جدید لوگوں کو اسلام کی حقیقی تعلیم سے روشناس کرنے اور ان میں ایک نئی زندگی اور بیداری پیدا کرنے کے لیے جاری کی گئی ہے (فرموده 7 مارچ 1958ء بمقام ناصر آبادسندھ ) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”یہاں ہماری اسٹیٹس کو قائم ہوئے چوبیس پچیس سال گزر چکے ہیں.ناصر آباد اسٹیٹ تو 1935ء میں قائم ہوئی تھی لیکن احمد آباد 1933 ء سے اور محمود آباد 1934 ء سے قائم ہیں.اس کی کے بعد محمد آباد 1937ء میں اور بشیر آباد 1939ء میں قائم ہوئیں.مگر باوجود اس کے کہ ان اسٹیٹیوں کو قائم ہوئے ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے اب تک یہاں جماعت کے بڑھنے کی رفتار بہت کم ہے.میرا خیال ہے کہ اگر ان ساری اسٹیٹیوں کے احمدی ملا لیے جائیں تو باوجود اس کے کہ ان میں سے بہت سے مہاجر بھی ہیں پھر بھی ہزار، ڈیڑھ ہزار سے زیادہ احمدی نہیں ہوں گے حالانکہ جس رفتار سے احمدیوں کو بڑھنا چاہیے تھا اگر اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ایک احمدی سالانہ ایک ایک آدمی بھی جماعت میں
44 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 شامل کرنے کی کوشش کرتا تو اب تک یہاں پچاس ہزار سے زیادہ احمدی ہوتے.لیکن مجھے افسوس ہے کہ اس طرف کوئی توجہ نہیں اور ہماری جماعت کے قیام کی جو اصل غرض ہے اس کی پروا نہیں کی جاتی.جس کی وجہ سے ان کی حالت ایک جیسی چلی جاتی ہے.انسان کو چاہیے کہ یا تو وہ اخلاص کے ساتھ ایک سچائی کو قبول کرے اور یا پھر اسے چھوڑ دے.خدا تعالیٰ کو کسی بندے کی احتیاج نہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کی کریم میں فرماتا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص مرتد ہو جائے تو ہم اُس کے بدلہ میں ایک نئی قوم لے آئیں گے جو خدا اور اُس کے رسول سے محبت رکھنے والی اور اُس کے دین کے لیے ہر قسم کی قربانیاں نی کرنے والی ہوگی.1 پس آپ لوگ احمدی بن کر اس وقت جماعت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچار ہے.اگر خدانخواستہ مرتد ہو کر الگ ہو جاتے تو اس کا یہ فائدہ پہنچتا کہ ایک ایک شخص کے بدلہ میں جیسا کہ قرآن کریم نے بتایا ہے ایک ایک قوم آجاتی جو بعض دفعہ کئی کئی لاکھ کی بھی ہوتی ہے.سندھ میں ہی چانڈیہ خاص کیلی ،گرگیز اور بر وغیرہ کئی تو میں ہیں اور ہر قوم کے پانچ پانچ ، سات سات، آٹھ آٹھ لاکھ افراد ہیں بلکہ چانڈیوں کی تعداد تو اس سے بھی زیادہ ہے.سو آپ لوگوں کو اپنی حالت میں تبدیلی پیدا کرنی چاہیے اور اپنے فرائض کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے.میں نے ایسے ہی لوگوں کو دیکھ کر جو اپنے فرائض کی طرف پوری توجہ نہیں کر رہے وقف جدیدی کی تحریک جاری کی ہے جس کے لیے خود میں نے بھی دس ایکڑ زمین کا وعدہ کیا ہے اور ارادہ ہے کہ یہاں بھی ایک مرکز قائم کر دیا جائے.لابینی میں جو مرکز کھولا گیا ہے اُس کے ذریعہ اب تک چار آدمی خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت قبول کر چکے ہیں اور ڈیڑھ سو آدمی احمدیت میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے.یہ لوگ ادنی اقوام میں سے ہیں جن کو امریکن لوگ عیسائی بنارہے ہیں.اگر پندرہ سولہ دن کی کے عرصہ میں ایک مرکز نے ایک سو چون آدمی تیار کر دیئے ہیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ مہینہ میں تین سو آدمی شامل ہو جائے گا مگر یہ تعداد بھی کم ہے.ہماری سکیم یہ ہے کہ ہر مرکز سال میں پانچ ہزار آدمیوں کو اسلام پر پختہ کرے اور ان کی اصلاح اور تعلیم کے کام کو مکمل کرے.اس وقت تک تین سوستر کے قریب وقف کی درخواستیں آچکی ہیں.اگر تین سوستر جگہ مراکز قائم کر دیئے جائیں اور ہر مرکز کے ذریعہ پانچ ہزار آدمی سالانہ اسلامی تعلیم پر پختگی حاصل کر کے سلسلہ میں شامل ہو تو ایک سال میں اٹھارہ لاکھ پچاس ہزار آدمی اسلام کی حقیقی تعلیم سے روشناس ہو سکتا ہے اور ان کے اندر ایک نئی زندگی اور
$1958 45 خطبات محمود جلد نمبر 39 بیداری پیدا ہوسکتی ہے.اتنے عرصہ میں امید ہے کہ یہ تحریک اور بھی ترقی کر جائے گی اور کئی نئے مقامات پر بھی مرکز کھل جائیں گے.یہ تحریک میں نے جلسہ سالانہ میں کی تھی مگر اُس وقت لوگ اسے پوری طرح سمجھے نہیں.اب آہستہ آہستہ لوگ اس کی اہمیت سے واقف ہو رہے ہیں.اگر سال ڈیڑھ سال میں تین سوستر کی بجائے آٹھ سو یا ہزار واقفین ہو جائیں اور ہر واقف کے ذریعہ پانچ ہزار آدمی سالانہ اسلامی تعلیم سے آگاہ ہو کر اس پر مضبوطی سے قائم ہونے لگے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ان کے ذریعہ پچاس لاکھ آدمی کی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر سال اسلامی تعلیم پر پختہ ہوتا چلا جائے گا اور اسلام اور قرآن کی محبت ان کے دلوں میں قائم ہو جائے گی اور دو تین سال میں تو امید ہے کہ یہ تعداد انشاء اللہ کروڑوں تک پہنچ جائے گی.(الفضل 10 راپریل 1958ء) 1 : مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُـ (المائدة : 55)
$ 1958 46 7 خطبات محمود جلد نمبر 39 اپنے فرائض کو انتہائی خوش اسلوبی ، پوری توجہ اور محنت کے ساتھ ادا کرو (فرموده 14 مارچ 1958ء بمقام محمود آبا دا سٹیٹ سندھ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَ الَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ 1 یعنی اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو متقی اور محسن ہوں.اس آیت سے ظاہر ہے کہ تقوی اور احسان کے ساتھ خدا تعالیٰ کی معیت حاصل ہوتی ہے.تقوی کے ایک معنے تو یہ ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ پر توکل کرے اور دوسرے معنے یہ ہیں کہ حرام چیزوں سے بچتا ر ہے.اور محسن کے ایک ظاہری معنے تو یہ ہیں کہ انسان لوگوں پر احسان کرے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کے یہ معنے کیسے ہیں کہ انسان خدا تعالیٰ کی ایسے رنگ میں عبادت کرے کہ اُسے یہ محسوس ہو کہ وہ گویا خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے اور اگر یہ مقام کسی کو حاصل نہ ہو تو پھر اس سے ادنیٰ مقام یہ ہے کہ وہ عبادت کرتے وقت یہ محسوس کرے کہ خدا اس کو دیکھ رہا ہے 2 یعنی نماز کا کامل ہونا احسان ہوتا ہے.اور ایک معنے لغت کے لحاظ سے یہ ہیں کہ انسان اپنے فرائض کو انتہائی خوش اسلوبی اور پوری توجہ کے ساتھ
$1958 47 خطبات محمود جلد نمبر 39 ادا کرے.گویا خالی اٹکل پچو طور پر کام نہ کرنا بلکہ ہر کام کی جو شرائط مقرر ہیں اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کرنا اور ہر پہلو کے لحاظ سے اسے مکمل کرنا احسان کہلاتا ہے.اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت یہاں کے احمدیوں کے لیے بھی اپنے اندر بہت بڑا سبق رکھتی ہے.ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ جس زمین پر وہ اس وقت آباد ہیں یہ سلسلہ کی زمین ہے اس لیے ان کو ایسی محنت سے کام کرنا چاہیے کہ وہ خدا تعالیٰ کے سامنے شرمندہ نہ ہوں اور وہ انہیں یہ نہ کہہ سکے کہ انہوں نے اپنے فرائض کو ادا نہیں کیا.بلکہ اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْاوَ الَّذِينَ هُمْ محْسِنُونَ کے مطابق پورا تقوی ان کے مد نظر ہو اور وہ زیادہ سے زیادہ آمد پیدا کریں تا کہ اسے اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لیے خرچ کیا جا سکے.پھر تقوی کے ذکر کے بعد فرماتا ہے وَالَّذِيْنَ هُمْ مُحْسِنُونَ اور احسان کے معنے اپنے فرائض کو صحیح طور پر ادا کرنے کے ہیں.اس لحاظ سے وقت پر ہل چلانا اور وقت پر فصلوں کو پانی دینا بھی احسان میں شامل ہے.پس ہر احمدی زمیندار کا فرض ہے کہ وہ وقت پر بیج ڈالے، وقت پر گوڈی کرے، وقت پر پانی کی نگرانی کرے اور وقت پر کٹائی کرے.یہ ساری چیزیں احسان میں شامل ہیں.اگر جماعت کے لوگ ایسا کرنے لگ جائیں تو یہاں کی پیدا وار اتنی بڑھ سکتی ہے کہ ہم آسانی کے ساتھ کئی مساجد غیر ممالک میں بنا سکتے ہیں.محمد آباد اور بشیر آباد کی زمین ملا کر غالباً دس ہزارایکٹر ہوگی.اور ہالینڈ میں تین ہزار روپیہ فی ایکٹر ، جاپان میں چھ ہزار روپیہ فی ایکٹر اور اٹلی میں چودہ سور و پیہ فی ایکٹر آمد حاصل کی جاتی ہے.اگر چودہ سو روپیہ فی ایکٹر ہی آمد مد نظر رکھی جائے تو دس ہزا را یکڑ سے ایک کروڑ چالیس لاکھ روپیہ آمد ہوسکتی ہے.اور اگر تین ہزار آمد مد نظر رکھیں تو تین کروڑ روپیہ بن جاتا ہے.اور اگر ہماری تین کروڑ روپیہ آمد ہو جائے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ سارے یورپ اور امریکہ میں تبلیغ کے لحاظ سے کتنا تہلکہ مچ سکتا ہے اور آپ لوگوں کی تھوڑی سی محنت سے تبلیغ کتنی آسان ہو جاتی ہے.کل میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر مختلف اسٹیٹیں اپنی آمد بڑھانے کی کوشش کریں تو ان کی آمدنوں کو بیرونی ممالک کی مساجد کے لیے وقف کر دیا جائے گا اور انہی کے نام پر ان ملکوں میں مساجد بنادی جائیں گی.مثلاً لکھ دیا جائے گا کہ یہ لطیف نگر کی بنائی ہوئی مسجد ہے، یہ نو رنگر کی بنائی ہوئی مسجد ہے، یہ محمد آباد کی بنائی ہوئی مسجد ہے.اس طرح ہر اسٹیسٹ کی آمد سے اس کے نام پر مسجد بنادی جائے
خطبات محمود جلد نمبر 39 48 $ 1958 گی اور جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکت بھی نازل ہوگی اور مسجد بنانے کا جو ثواب ہے وہ ان بھی انہیں ملے گا.اور پھر یورپ اور امریکہ میں جو مسلمان ہوں گے وہ الگ دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا بھلا کرے جنہوں نے ہمارے شہروں میں مسجد میں بنائی ہیں.کل میں نے دوستوں کو اس تی کی تحریک کی تھی.اگر اس پر عمل شروع ہو جائے تو آمد بڑھانے کا شوق لوگوں میں ترقی کر سکتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ہماری ان اسٹیٹیوں کا اتنا رقبہ ضرور ہے کہ ان کی آمد سے ایک سال میں ایک مسجد بن سکے لیکن اگر کوئی بہت ہی چھوٹی اسٹیٹیں ہوں تو وہ ایک سال میں نہ سہی تو دو سال میں بنا لیں.بہر حال جی دوستوں کو اس کی طرف توجہ کرنی چاہیے“.( الفضل 29 مارچ1958ء) 1 : النحل : 129 2 : بخارى كتاب الايمان باب سُؤال جِبْرِيلَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم عَنِ الايمان (الخ)
$ 1958 49 8 خطبات محمود جلد نمبر 39 رمضان اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاؤ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعاؤں کو خاص طور پر سنتا اور قبول کرتا ہے (فرمودہ 21 مارچ 1958ء) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: وَ إِذَا سالت عِبَادِي عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِبْوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ - 1 اس کے بعد فرمایا: یہ آیت قرآن کریم میں روزوں کے متعلق آتی ہے اور روزوں کے دن کل سے شروع کی ہونے والے ہیں.جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے گا وہ روزہ رکھیں گے اور رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھائیں گے.یہ آیت جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے اس میں بھی روزوں کی برکات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ رمضان کے ایام میں خاص طور پر دعائیں قبول ہوتی ہیں
خطبات محمود جلد نمبر 39 50 50 $1958 اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے قریب آجاتا ہے.دوسرے ایام کے متعلق تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اتنا فرمایا ہے کہ صبح اور عصر کی نمازوں میں خدا تعالیٰ کے ملائکہ اکٹھے ہوتے ہیں اور وہ بندوں کا ذکر اٹھا کے خدا تعالیٰ تک لے جاتے ہیں 2 اور تہجد کے وقت کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ اس وقت خدا تعالیٰ آسمان سے اتر آتا ہے اور وہ بندوں سے کہتا ہے کہ جو کچھ تم مانگنا چاہتے ہو مجھ سے مانگو 3 لیکن قرآن کریم بتا تا ہے کہ خصوصیت کے ساتھ یہ چیز رمضان میں حاصل ہوتی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی ایام میں سحری کے وقت اٹھنے کی وجہ سے تہجد کا موقع زیادہ ملتا ہے اور عام طور پر جو لوگ تہجد پڑھنے میں سُست ہوتے ہیں وہ بھی ان ایام میں سحری کھانے کے لیے اٹھتے ہیں اور تہجد پڑھ لیتے ہیں.پس اللہ تعالی کی فرماتا ہے کہ ان دنوں میں میں اپنے بندوں کے قریب ہو جاتا ہوں اور ہرا خلاص کے ساتھ دعا کرنے والے کی دعا کوسنتا ہوں مگر شرط یہ ہے کہ وہ بھی میری باتوں کو سنے اور ان پر عمل کرے.دوستی ایک طرف کی کی نہیں ہوتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ دوستی دونوں طرف سے ہوتی ہے.پس فرماتا ہے فَلْيَسْتَجِیو الی میں اُن کی دعا ئیں تو سنوں گا مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھی میرے احکام پر لبیک کہیں.یعنی جو احکام میں ان کو دوں وہ ان کو قبول کریں.وَلْيُؤْمِنُوا پی اور خالی لبیک نہ کہیں بلکہ یقین رکھیں کہ ہم جو دعا کر رہے ہیں وہ ضرور قبول ہوگی.وَلْيُؤْمِنُوالی میں جس ایمان کا ذکر ہے اس سے مُراد خالی ایمان نہیں کیونکہ اگر کسی دل کی میں ایمان نہیں ہوگا تو وہ روزہ کیوں رکھے گا اور دعائیں کیوں کرے گا.وَلْيُؤْمِنُوالی کے معنی ہیں کہ وہ تو کل کرے اور میرے متعلق یقین رکھے کہ میں اُس کی دعائیں ضرور سنوں گا اور اسے نا کام و نامراد نہیں رکھوں گا.اس یقین کے ساتھ جو شخص دعا کرے وہی ”الداع“ کہلانے کا مستحق ہے اور اس کی دعاسنی جاتی ہے.اور پھر جو تو کل کرتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ میری ضرور سنے گا اُس کو اللہ تعالیٰ اعلیٰ درجہ کے کمالات روحانیہ تک پہنچا دیتا ہے.جیسا کہ فرماتا ہے لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ.اور لعل “ کے متعلق لغت والے لکھتے ہیں کہ جب یہ لفظ خدا تعالیٰ کے لیے بولا جائے تو اُس وقت اس کے معنے یقین کے ہوتے ہیں.پس لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ کے یہ معنے ہیں کہ اگر ان کے دل میں یہ یقین ہو کہ خدا تعالیٰ ان کی دعائیں ضرور سنے گا تو خدا ان کی دعاؤں کو یقینی طور پر قبولیت عطا فرمائے گا.یہی وہ مقام ہے جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عبادت کرتے وقت ہر
$ 1958 51 خطبات محمود جلد نمبر 39 انسان کو یہ محسوس کرنا چاہیے کہ وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے یا کم سے کم وہ یہ سمجھے کہ خدا مجھ کو دیکھ رہا ہے.34 ب خدا تعالیٰ کے دیکھنے کے یہی معنے ہیں کہ وہ اُس کے قریب ہو جاتا ہے ورنہ دیکھ تو وہ عرش سے بھی رہا ہے.درحقیقت اس میں یہی بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندہ کے اتنے قریب آ جاتا ہے کہ انسان یہ یقین کرنے لگ جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اُسے دیکھ رہا ہے بلکہ اُس سے ترقی کر کے وہ اس مقام کو بھی حاصل کر لیتا ہے جس میں وہ خود بھی خدا تعالیٰ کو دیکھنے لگ جاتا ہے.پس یہ دن نہایت رحمتوں اور برکتوں کے ہیں.چاہیے کہ آپ لوگ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا ئیں اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں.میں نے یہ تجربہ کیا ہے کہ جن دنوں جماعت کے دوست میری صحت کے لیے خاص طور پر دعائیں کرتے ہیں میری صحت اچھی ہو جاتی ہے.جب سے ہم جابہ سے آئے ہیں میری صحت گرتی جارہی ہے.درمیان میں جلسہ کے قریب میری صحت کچھ اچھی ہو گئی تھی جس کی وجہ سے میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر تقاریر کر لیں مگر اس کے بعد میری صحت گرتی چلی گئی.اس لیے جو باتیں میں پہلے آسانی سے کر لیتا تھا وہ میں اب نہیں کر سکتا.اب کے میں علاج کے لیے کراچی گیا تو وہاں کے ڈاکٹروں نے معائنہ کے بعد جو نسخہ مجھے استعمال کے لیے بتایا اُس سے مجھے کسی قدر فائدہ ہوا مگر اس کے بعد جود وسر انسخہ انہوں نے استعمال کے لیے بتایا تھا وہ میں نے پہلی دفعہ 15 مارچ کو استعمال کیا تھا اور آج 21 تاریخ ہے مگر میری ٹانگ کی خرابی دور نہیں ہوئی.میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے یہ سبق دیا ہے کہ یہ چیز ہمارے فضل اور جماعت کی دعاؤں سے وابستہ ہے ڈاکٹروں کے علاج سے یہ کام نہیں بنے گا.پس جہاں دوست روزے رکھیں وہاں وہ اس بات کے لیے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے صرف سانس لینے والی زندگی نہ دے بلکہ ایسی زندگی دے جس میں میں اسلام کی کوئی خدمت کر سکوں.سانس لینے والی زندگی تو مجھے اس بیماری میں بھی حاصل ہے.اگر میں بیماری کی وجہ سے لیٹا ہوا ہوتا ہوں اور کوئی میرے پاس آ جاتا ہے تو میں اس سے باتیں کر لیتا ہوں لیکن یہ نہیں کہ میں کوئی کام کر سکوں.مثلاً کل مجھے تعلیم الاسلام ہائی سکول والوں نے اپنی مسجد کے افتتاح کے لیے بلایا لیکن بیماری کی وجہ سے میں وہاں نہیں جا سکا.آج مجھے ہسپتال والوں کی طرف سے بلایا گیا ہے مگر میں نہیں کہہ سکتا کہ میں وہاں جاسکوں گا یا نہیں.پس کام کرنے والی زندگی اور ہوتی ہے اور خالی سانس لینے والی اور ہوتی ہے.
خطبات محمود جلد نمبر 39 52 $1958 سلطان ٹیپو کے متعلق تاریخوں میں لکھا ہے کہ جب وہ آخری دفعہ انگریزوں سے لڑا اور لڑتے لڑتے قلعہ کی فصیل پر چڑھ گیا اور اُسے گولی لگی تو وہ خندق میں اندر کی طرف گر گیا.اُس وقت اُس کے چند جانباز سپاہی انگریزوں سے لڑتے لڑتے مارے گئے اور اُس پر گر گئے.دوسری طرف سے انگریزی فوج اندر داخل ہوگئی اور اُس نے حکم دیا کہ ٹیپو کی لاش تلاش کی جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کر دیئے کہ باہر تو جانباز سپاہی دشمن سے لڑتے رہے اور محل کے اندر عورتوں نے انگریزوں کا مقابلہ شروع کر دیا.یہاں تک کہ جب انگریزی فوج محل کے پاس پہنچی تو انہوں نے کہا محل کے اندردیکھو شاید وہ زخمی ہو کر اندر نہ پڑا ہو لیکن جب انہوں نے محل کے اندر جھانکا تو سارا صحن عورتوں کی لاشوں سے بھرا ہوا تھا.تب انہوں نے کہا تی واقع میں یہ بہت بڑا شخص تھا کہ اس کے لیے ہزاروں عورتوں نے قربانی کر کے اپنی جانیں دے دیں.اس کی خیال سے کہ شاید ٹیپو زخمی ہو کر اندر آئے تو ہم اُس کی مدد کر سکیں شہر کی عورتیں محل کے اندر جمع ہوگئی تھیں اور جب انگریز محل میں داخل ہوئے تو وہ ساری کی ساری ان سے لڑتی ہوئی ماری گئیں.پھر انگریزوں نے اپنے غصہ کو اس طرح نکالا کہ اپنے گنوں کا نام انہوں نے ٹیپو رکھنا شروع کر دیا.یہ نام کسی زمانہ میں اس قدر عام تھا کہ ہم جب بچے تھے تو سمجھتے تھے کہ شاید ٹیپو کے معنے ہی گتے کے ہوتے ہیں.مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک گتا ہمارے دروازہ پر آیا.میں وہاں کھڑا تھا.اندر کمرہ میں حضرت صاحب تھے.میں نے اُس گتے کو اشارہ کیا اور کہا ٹیپو، ٹیپو ٹیپو ! حضرت صاحب بڑے غصہ سے باہر نکلے اور فرمایا تمہیں شرم نہیں آتی کہ انگریزوں نے تو دشمنی کی وجہ سے اپنے گنوں کا نام ایک صادق مسلمان کے نام پر ٹیپو رکھ دیا ہے اور تم ان کی نقل کر کے گتے کو ٹیپو کہتے ہو! خبردار! آئندہ ان ایسی حرکت نہ کرنا.میری عمر اس وقت شاید آٹھ نو سال کی تھی.وہ پہلا دن تھا جب سے میرے دل کے اندر سلطان ٹیپو کی محبت قائم ہوگئی اور میں نے سمجھا کہ سلطان ٹیپو کی قربانی رائیگاں نہیں گئی.خدا تعالیٰ نے اُس کے نام کو اتنی برکت دی کہ آخری زمانہ کا مامور بھی اُس کی قدر کرتا تھا اور اس کے لیے غیرت کی رکھتا تھا.میں نے یہ ذکر اس لیے کیا ہے کہ کام کی زندگی ہی قابلِ ذکر ہوتی ہے.جب ٹیپو سلطان گولی کھا کر فصیل سے نیچے گرا تو اُس کے دو جانثار سپاہی اُس کے پاس دوڑے ہوئے آئے اور انہوں نے کہا حضور ! انگریزی فوج محل کی طرف آ رہی ہے اور آپ شدید طور پر زخمی ہو چکے ہیں آپ ہمارے ساتھ آئیں تا کہ ہم کسی طرح آپ کو قلعہ سے نکال دیں.اس پر
$1958 53 خطبات محمود جلد نمبر 39 ٹیپو سلطان نے بڑے جوش میں کہا کہ گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے شیر کی دو گھنٹے کی زندگی اچھی ہوتی ہے.5 میں گیدڑ کی سی زندگی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں.مجھے گیدڑ کی سو سال کی زندگی کی ضرورت نہیں مجھے شیر کی سی دو گھنٹے کی زندگی زیادہ پیاری ہے.اگر میں دو گھنٹے تک یہاں لڑ سکتا ہوں اور شیر کی مثال قائم کر سکتا ہوں تو یہ دو گھنٹے کی زندگی مجھے زیادہ پیاری ہے اور سو سال کی زندگی مجھے پیاری نہیں.میرے دل میں بھی خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے جتنی زندگی دے وہ کام والی زندگی دے جس میں میں اسلام کی خدمت کروں اور اس کی ترقی اپنی آنکھوں سے دیکھوں.خالی سوچنے والا دماغ کافی نہیں.فعال ہاتھ ہوں ، فقال ٹانگیں ہوں جن سے انسان ہر موقع پر عملاً خدمت دین کر سکے یہ اصل زندگی ہے.خالی دماغ کا چلتے رہنا اصل زندگی نہیں کیونکہ دماغ تو بعض اوقات ایسی بیماریوں میں بھی جن میں انسان بیہوش ہوتا ہے کام کرتا رہتا ہے.چنانچہ فالج کے حملہ کے بعد میری بیوی نے تی مجھے بتایا کہ جب آپ پر فالج کا حملہ ہوا ہے تو آپ جلدی جلدی بعض ہومیو پیتھک دواؤں کے نام لیتے جاتے تھے جو فالج کے لیے مفید ہوتی ہیں اور کہتے تھے کہ مجھے فلاں دوائی پلاؤ فلاں دوائی پلاؤ.اب دیکھو اس وقت اگر چہ میں بیہوش تھا مگر بیہوشی میں بھی میرا دماغ کام کر رہا تھا اور میں اُن دواؤں کے نام لے رہا تھا جن کے متعلق ہومیو پیتھک والوں کا خیال ہے کہ ان سے فالج کو فائدہ ہوتا ہے.تو خالی دماغ کا کام کرنا کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ایسی زندگی کی بھی ضرورت ہے جس میں انسان کو کی فقال طاقت حاصل ہو.اُس کے ہاتھ بھی کام کریں، پاؤں بھی کام کریں اور سارا جسم خدمت کا بوجھ اُٹھا سکے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو آپ کا دماغ کام کر رہا تھا لیکن جسم کمزور ہو چکا تھا.آپ نے حضرت ابو بکر کو مسجد میں پیغام بھیجا کہ نماز پڑھا دیں.پہلے آپ بیماری میں بھی باہر آتے رہتے تھے.اس لیے جب صحابہ نے حضرت ابو بکر کو نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھتا دیکھا تو انہوں نے خیال کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ تکلیف ہے.ایک دن آپ آہستہ آہستہ اس کھڑ کی تک آئے جو مسجد میں کھلتی تھی تا کہ آپ اپنی آنکھوں سے مسلمانوں کو دیکھ سکیں.جب آپ نے پردہ اُٹھا کر مسجد میں جھانکا تو صحابہ نے خیال کیا کہ شاید آپ نماز پڑھانے کے لیے تشریف لا رہے ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑکی کا پردہ گرا دیا اور چار پائی پر جا کر
خطبات محمود جلد نمبر 39 54 $1958 لیٹ گئے.اس کے بعد پھر آپ کو اُٹھنا نصیب نہیں ہوا یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی.6 تو دیکھو آپ کا دماغ وفات تک کام کر رہا تھا مگر آپ کی فعال زندگی اُس وقت تک ہی رہی ب آپ نے آخری حج کیا.حجتہ الوداع تک آپ کو فعال زندگی ملی مگر اس کے بعد آپ کو فعال زندگی نصیب نہیں ہوئی.ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ آپ کی وفات نمونیا (PNEUMONIA) ہوئی ہے.تو دیکھو آپ کا دماغ بیماری کی حالت میں بھی کام کر رہا تھا.اس لیے آپ کمرہ سے باہر آگئے اور کھڑکی کا پردہ اُٹھا کر مسجد کے اندر جھانکا مگر جب آپ نے دیکھا کہ لوگ آپ کے لیے بیتاب ہو رہے ہیں تو آپ نے خیال فرمایا کہ مجھے دیکھ کر ان کو اور صدمہ ہوگا اس لیے آپ اندر تشریف لے گئے اور واپس جا کر چار پائی پر لیٹ گئے.بعد میں آپ کو چار پائی سے اُٹھنے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی.آپ بیماری میں بات بھی نہیں کر سکتے تھے.ہاں ! اشاروں سے کام لے سکتے تھے.اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا دماغ اُس وقت تک کام کر رہا تھا.چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ حضرت عبد الرحمان بن ابی بکر ایک دن مسواک لیے ہوئے اندر داخل ہوئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر ایسا اشارہ کیا جس سے حضرت عائشہؓ نے سمجھا کہ آپ مسواک کرنا چاہتے ہیں.چنانچہ انہوں نے مسواک لی.پھر آپ نے اشارہ کیا کہ میرے دانت چبا نہیں سکتے تم اپنے دانتوں سے چبا کر دو.چنانچہ انہوں نے مسواک چبا کر آپ کی خدمت میں پیش کی.7 غرض وفات تک آپ کا دماغ کام کرتا رہا مگر آپ کی فعال زندگی کا ثبوت جس میں آپ کے ہاتھ اور پاؤں بھی کام کرتے رہے حجتہ الوداع تک ملتا ہے.آپ خود سب لوگوں کو ساتھ لے کر گئے اور انہیں حج کروایا.بلکہ ایک موقع پر ایسا ہوا کہ آپ کی سواری نے ٹھو کر کھائی اور آپ گر گئے اور ان مستورات بھی جو آپ کے ساتھ سوار تھیں گر گئیں.ایک انصاری نے اونٹ پر سے چھلانگ لگا دی اور وہ آپ کی طرف دوڑے اور کہا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ! خدا تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے! آپ نے فرمایا مجھے چھوڑ دو.عورتیں کمزور ہوتی ہیں اُن کی طرف جاؤ اور اُن کو اُٹھانے کی کوشش کرو.یہ فعال زندگی تھی جس میں آپ سمجھتے تھے کہ گو میں گر گیا ہوں مگر اب بھی میں طاقت رکھتا ہوں کہ کھڑا ہو جاؤں.ضرورت عورتوں کی مدد کی ہے جو آپ کھڑی نہیں ہوسکتیں.پس اگر دوستوں کی دعائیں ہوں تو میں سمجھتا ہوں کہ تھوڑے ہی دنوں میں افاقہ ہونا شروع
55 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہو جائے گا اور وہ تکلیف جو اکتوبر میں شروع ہوئی تھی وہ آپ ہی آپ مٹ جائے گی.خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں سب کچھ ہے.وہ مُردوں کو بھی زندہ کر سکتا ہے اور جو خدا مُردوں کو زندہ کر سکتا ہے وہ زندوں کو طاقت کیوں نہیں دے سکتا.ضرورت صرف یہ ہے کہ ہم اس سے مانگیں اور اُس کا دروازہ کھٹکھٹا ئیں.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مانگو تو تمہیں دیا جائے گا، ڈھونڈو تو پاؤ گے، دروازہ کی کھٹکھٹاؤ تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا.9 پس خدا تعالیٰ کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت ہے.ایک معمولی آدمی جس کے پاس تھوڑے سے پیسے ہوتے ہیں جب کوئی فقیر اُس کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو وہ بھی اُس کے پیالہ میں کچھ نہ کچھ ڈال دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ تو صاحب العرش ہے اور دنیا جہان کا پیدا کرنے والا ہے.اگر کوئی اُس کا دروازہ اخلاص کے ساتھ کھٹکھٹائے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ اُس کے پیالہ میں کچھ نہ ڈالے.وہ ضرور ڈالے گا اور ضرور اُس کو شاد و خترم واپس کرے گا تا کہ وہ اپنے رب کی طاقتوں پر پہلے سے بھی زیادہ ایمان لائے اور دوسرے انسان جن کو خدا تعالیٰ کی طاقتوں پر یقین نہیں اُن کو خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کر سکے.پس خدا تعالیٰ پر توکل رکھو اور ان ایام سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرو“.(الفضل یکم اپریل 1958ء) 1 : البقرة: 187 2 بخاری کتاب مواقيت الصلوة باب فضل صلوة العصر 3 : بخارى كتاب التهجد بَاب الدُّعَاءِ وَالصَّلَاةِ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ 4 : بخاری کتاب الايمان باب باب سُؤَالِ جِبْرِيلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : الْإِيْمَانِ وَالْإِسْلَامِ وَالْإِحْسَانِ (الخ) 5 : وکی پیڈیا آزاد دائرۃ المعارف زیر عنوان ” ٹیپو سلطان میں شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے“ کے الفاظ ہیں.بخاری کتاب الاذان باب اَهْلُ الْعِلْمِ وَالْفَضْلِ اَحَقُّ بِالْإِمَامَةِ - : بخاری کتاب المغازى باب مرض النَّبي صلى الله عليه وسلم وَوَفَاتِه - بخارى كتاب الجهاد والسير باب ما يَقُولُ إِذَا رَجَعَ مِنَ الْغَزُو 9: متى باب 7 آیت 7
$ 1958 56 56 9 خطبات محمود جلد نمبر 39 شریعت کے احکام کی پیروی اور خدا تعالیٰ پر کامل تو کل کے ذریعہ انسان اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی معیت کا مستحق بنا سکتا ہے (فرمودہ 28 مارچ 1958ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: ”اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْاوَ الَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ“ - 1 اس کے بعد فرمایا: ”اپنے دوست اور اپنے مُحِب کے ساتھ رہنے کو ہر ایک کا دل چاہتا ہے.اللہ تعالیٰ ، جس کے ساتھ محبت کرنے کا ہر مومن دعوی کرتا ہے اُس کے قریب رہنے کی بھی ہر مومن کو خواہش ہوتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ آیت رکھ دی ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو متقی ہیں اور اُن لوگوں کے بھی ساتھ ہے جو حسن ہیں.محسن“ کے معنے عربی زبان میں
$1958 57 خطبات محمود جلد نمبر 39 ایسے انسان کے ہوتے ہیں جو شریعت پر پوری طرح قائم ہو.اور تقوی کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ پر پوری طرح تو کل ہو.گویا خدا تعالیٰ نے بتایا کہ اُس کی معیت حاصل کرنے کے ذرائع یہ ہیں کہ اول انسان اُس پر تو کل کرے تو یہ سمجھے کہ جو کچھ میں کرتا ہوں اُس میں میرے لیے کوئی برکت نہیں بلکہ اس سے جو نتیجہ خدا تعالیٰ نکالے گا اُس میں میرے لیے برکت ہے.میں صرف نماز اور روزہ کے ذریعہ سے نجات نہیں پاؤں گا بلکہ میری نجات محض خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوگی.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو تمام نیک کام کرنے والوں کے سردار تھے آپ نے ایک دفعہ زیادہ شدت کیج عبادت کی تو آپ کی ایک بیوی نے پوچھا يَا رَسُول اللہ ! آپ کو اس قدر عبادت کی کیا ضرورت کی ہے.آپ کے تو سب اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیئے گئے ہیں.آپ نے فرمایا کیا میں اُس خدا کا ی شکریہ ادا نہ کروں جس نے مجھے معاف کیا ہے.اُس نے تو مجھے اپنے فضل سے معاف کر دیا لیکن میرا بھی تو یہ کام ہے کہ اُس کا شکریہ ادا کروں اور اُس کے احکام کی زیادہ سے زیادہ فرمانبرداری کروں -2 یہ گویا تو کل کی ایک تشریح تھی جو آپ نے فرمائی.اسی طرح ایک دوسرے موقع پر آپ نے فرمایا کہ میں بھی اپنے اعمال سے نہیں بخشا جاؤں گا بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بخشا جاؤں گا اس کا نام تو گل ہے.یعنی انسان یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ بھی کرنا ہے خدا نے ہی کرنا ہے اس لیے مجھے اپنا سارا کام اُسی کے سپرد کر دینا چاہیے.تو کل کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ سب کام خدا تعالیٰ کے سپر د کر دیا.وکالت کے معنے ہوتے ہیں کسی کو اپنا قائمقام بنانا.چنانچہ نکاح کے موقع پر جو وکیل بن کر آتے ہیں اُن کو اسی لیے وکیل کہتے ہیں کہ ان کو ایجاب و قبول کالڑکے یا لڑکی والوں کی طرف سے اختیار مل جاتا ہے.تو تو کل کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اپنا وکیل بنالیا، تمام کام اُس کے سپر د کر دیئے کہ جو بھی تیری طرف سے ہوگا وہ مجھے قبول ہو گا اور پسند ہوگا.پس اس آیت کے پہلے فقرہ میں اللہ تعالیٰ نے تو کل کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی ڈھال بنالے اور یہ کہے کہ جو کچھ بھی میرے ساتھ گزرے میں آپ کے پیچھے کھڑا ہوں گا.کوئی مصیبت آئے یا آرام پہنچے ، خوشی آئے یا رنج آئے میں آپ کے سوا کسی کی طرف توجہ نہیں کروں گا صرف آپ کو ہی اپنی ڈھال بناؤں گا.اور دوسرے فقرے میں یہ بتایا ہے کہ حفاظت کے سپر د کر دینے کے یہ معنے نہیں کہ وہ خود بیکار ہو کر بیٹھ جائے اور دینی کاموں سے غافل ہو جائے بلکہ
$1958 58 خطبات محمود جلد نمبر 39 فرمایا اللہ تعالیٰ جن لوگوں کے ساتھ ہے وہ نہ صرف اپنی حفاظت خدا تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں بلکہ وہ ای شریعت کے تمام احکام پر بھی پوری طرح عمل کرتے ہیں.مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ اول ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ جب کوئی مسلمان إِنْشَاءَ الله کہے تو سمجھ لو کہ اُس نے وہ کام کبھی نہیں کرنا کیونکہ مسلمان إِنشَاءَ اللہ کے یہی معنے سمجھا کرتا ہے کہ اگر کام نہ ہوسکا تو میرا کوئی قصور نہیں ہوگا بلکہ یہ خدا تعالیٰ کی مرضی کا نتیجہ ہو گا.اس لیے جب وہ کوئی کام نہیں کرتا تو کہہ دیتا ہے کہ میں نے تو پہلے ہی اِنشَاءَ اللہ کہہ دیا تھا.جس کے معنے یہ تھے کہ اگر خدا تعالیٰ کی مرضی ہوئی تو میں یہ کام کروں گا ورنہ نہیں.اگر خدا تعالیٰ کی مرضی ہوتی تو وہ مجھ سے یہ کام کرالیتا.پس اگر میں نے یہ کام نہیں کیا تو اس کے یہ معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی مرضی نہیں تھی.گویا وہ کہتا ہے کہ یہ جھوٹ میں نے نہیں بولا بلکہ نَعُوذُ بِاللہ خدا تعالیٰ نے بولا ہے.تو حضرت خلیفہ المسح الاول ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ جب کوئی مسلمان إِنشَاءَ اللہ کہے تو سمجھ لو کہ اس نے وہ کام نہیں کرنا.اسی طرح آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ مسلمانوں کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے معنے صفر کے ہوتے ہیں.چنانچہ جب کسی سے پوچھو کہ تمہارے گھر میں کیا ہے؟ تو کہتا ہے اللہ ہی اللہ ہے.اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ گھر میں کچھ نہیں ہے.گویا ایک مسلمان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی یہ حقیقت ہے کہ وہ ایک دھیلا کی تو کوئی حقیقت سمجھتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی کوئی حقیقت نہیں سمجھتا.جب اُس کے گھر میں کچھ نہیں ہوگا تو وہ کہہ دے گا کہ میرے گھر میں تو صرف اللہ ہی اللہ ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ احادیث میں حضرت ابوبکر کا بھی اس قسم کا ایک قول آتا ہے.ایک دفعہ آپ چندہ لائے.وہ چندہ اتنا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شبہ ہوا کہ یہ اپنے گھر کا سارا سامان لے آئے ہیں.حضرت عمر بھی اُس موقع پر چندہ لائے تھے اور وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس موقع پر اتنا چندہ دیا تھا کہ میں خیال کرتا تھا کہ اب حضرت ابو بکر مجھ سے چندہ میں نہیں بڑھ سکتے لیکن بعد میں جب حضرت ابو بکر سامان لائے تو اُس میں گھر کی چھوٹی چھوٹی استعمال کی تمام چیزیں بھی تھیں جو انہوں نے لا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شبہ ہوا کہ آپ گھر کی سب چیزیں اُٹھا لائے ہیں.چنانچہ آپ نے دریافت فرمایا کہ ابوبکر ! کیا تم گھر میں بھی کچھ چھوڑ آئے ہو یا نہیں ؟ حضرت ابو بکر کہنے لگے يَا رَسُولَ الله ! گھر میں میں اللہ اور اُس کے رسول کا ذکر
خطبات محمود جلد نمبر 39 چھوڑ آیا ہوں.4 59 $1958 اب بظاہر اس قول سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو بکڑ نے بھی وہی محاورہ استعمال کیا ہے جس کا ذکر حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے مگر آپ نے اسے نیک رنگ میں استعمال کیا ہے.اصل بات یہ ہے کہ جب حضرت ابو بکر نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے رسول کو بھی ملا لیا تو اس فقرہ کے معنے بدل گئے کیونکہ رسول کا وجود تو خیالی نہیں ہو سکتا.خدا تعالیٰ کے متعلق اور جنت کے متعلق تو بعض لوگو سمجھ لیتے ہیں کہ اُن کا وجود خیالی ہے لیکن رسول کے متعلق کوئی یہ خیال نہیں کرتا کہ اُس کا وجود خیالی کی ہے.پس جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ رسول کا لفظ ملا لیا تو گویا آپ نے اس امر کا اظہار کیا کہ میں اللہ کا لفظ حقیقی طور پر استعمال کر رہا ہوں، محض خیالی طور پر استعمال نہیں کر رہا.تو محسن بنا کر یعنی شریعت کے تمام احکام کی پیروی کرنے کی کوشش کر کے انسان اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی معیت کا مستحق بنالیتا ہے.احادیث میں آتا ہے حسن وہ ہے کہ جب وہ نماز پڑھے تو وہ یہ محسوس کرے کہ وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے.اور اگر وہ یہ محسوس نہ کرے کہ وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے تو کم سے کم وہ یہ سمجھے کہ خدا تعالیٰ اُسے دیکھ رہا ہے.5 تو وَ الَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ کے یہ معنے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو اپنی نمازوں میں خدا تعالیٰ کا ایسا تصور قائم کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا وجود ان کے سامنے آ جاتا ہے.جب وہ عارضی طور پر ( کیونکہ بندہ ہے ہی عارضی اور فانی ) خدا تعالیٰ کو اپنے سامنے لاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ چونکہ مستقل وجود ہے اس لیے وہ مستقل طور پر اُن کو اپنی نگاہ میں رکھتا ہے اور ہمیشہ اُن کی مدد کی کرتا ہے کیونکہ وہ ازلی ابدی ہے.انسان کے لیے اُس نے صرف یہ فرمایا ہے کہ نماز میں تم ایسا تصور کرو کہ خدا تعالیٰ کا وجود تمہارے سامنے آجائے اور اپنے لیے فرمایا کہ ہم مستقل طور پر یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم تمہاری مدد کریں گے کیونکہ ہمارا وجود مستقل ہے.اس طرح اس آیت میں گر بتا دیا گیا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی معیتِ کاملہ انسان کو حاصل ہوسکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک تحریر آپ کی ایک نوٹ بک میں درج تھی جسے بعد میں میں نے اخبار بدر 11 جنوری 1912 ء میں چھپوا دیا تھا.اُس میں آپ نے تحریر فرمایا ہوا تھا کی کہ لوگ کہتے ہیں میں خدا تعالیٰ کو چھوڑ دوں اور جو کچھ خدا تعالیٰ نے مجھے کہا ہے میں اُسے بھول
$1958 60 خطبات محمود جلد نمبر 39 جاؤں.مگر یہ کس طرح ہو سکتا ہے جبکہ میں دیکھتا ہوں کہ رات کو جب میرے عزیز ترین وجود بھی مجھے چھوڑ کر نیند میں محو ہو جاتے ہیں خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہوتا ہے.تو جو ہستی رات کی تنہائیوں میں بھی میرے ساتھ ہوتی ہے میں لوگوں کے کہنے پر اُسے کس طرح چھوڑ دوں؟ وہ تو ایسے وقت میں بھی میرے ساتھ ہوتا ہے جب دنیا میں کوئی عزیز میرے ساتھ نہیں ہوتا.ایسے وجود سے تعلق توڑنا میرے لیے ناممکن ہے.میں دنیا کو چھوڑ سکتا ہوں مگر خدا تعالیٰ کو نہیں چھوڑ سکتا.دنیا میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دوست کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں مگر بیسیوں مواقع ایسے آتے ہیں کہ وہ بھاگ جاتے ہیں.کئی دفعہ تو دوست کیا عزیز ترین رشتہ دار بھی چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں.شیخ سعدی مثالوں میں بڑی اچھی باتیں کہنے کے عادی تھے.انہوں نے ایک قصہ لکھا ہے کہ ایک عورت تھی.وہ اپنی بیٹی سے بڑا پیار کرتی تھی.اُس لڑکی کا نام مہتی تھا.ایک دفعہ اُس کی بیٹی خطرناک طور پر بیمار ہوگئی.وہ عورت دعا کرنے لگی کہ اے خدا ! میں مرجاؤں مگر میری بیٹی نہ مرے.اگر موت ہی آنی ہے تو اس کی بجائے مجھے آ جائے.اُس رات اتفاقاً اُس کی گائے رستہ تڑوا کر صحن میں آ گئی.وہاں چھان بورے والا ایک مٹکا پڑا ہوا تھا.اُس نے اپنا سر اُس میں ڈال دیا تا کہ چھان بوران کھائے.جاتی دفعہ تو اُس کا سر آسانی سے مکے میں چلا گیا کیونکہ اُسے زمین کا سہارا مل گیا.مگر آتی دفعہ سر باہر نہ نکلا کیونکہ آتی دفعہ کوئی پکڑنے والی چیز نہیں تھی.وہ گائے گھبرائی اور صحن میں ادھر اُدھر دوڑنے لگی.وہ اپنے مصلی پر بیٹھی ہوئی دعا کر رہی تھی کہ یا اللہ! مجھے موت آ جائے میری بیٹی کو نہ آئے کہ اچانک اُس نے گائے کو دیکھا اور سمجھا کہ یہ عزرائیل ہے جو اُس کی جان نکالنے آیا ہے.وہ اُسے دیکھ کر جھٹ کہنے لگی ملک الموت ! من نہ بہتی ام - مَلَكُ الموت تو نے شاید میری دعا سن لی الی ہے کہ میں مرجاؤں میری بیٹی نہ مرے.اس لیے تو میرے پاس آیا ہے کہ میری جان نکال لے.میں تجھے بتانا چاہتی ہوں کہ من نہ مبتی ام.میں مبتی نہیں ہوں.من یکے پیر زال محنتی ام.میں تو ایک بڑھیا مزدور عورت ہوں.تو میری جان نہ نکال ،مہتی کی جان نکال.وہ سامنے چار پائی پر پڑی ہوئی ہے.گویا یا تو وہ عورت یہ دعا کر رہی تھی کہ لڑکی کی موت مجھے آ جائے اور یا پھر یہ صورت ہوئی کہ گائے جو مٹکا سر پر اُٹھائے ادھر اُدھر بھاگ رہی تھی جب اُس نے اُسے ملک الموت سمجھا تو اس نے کہا میں تو مہتی نہیں ہوں میں تو ایک مزدور بڑھیا عورت ہوں.اور بیٹی کی طرف اشارہ کر کے کہا مبتنی وہ پڑی.
$1958 61 خطبات محمود جلد نمبر 39 غرض بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ قریب ترین عزیز جو بڑی بڑی قربانیوں کا دعوی کرتے ہیں وہ بھی انسان کو چھوڑ کر الگ ہو جاتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ انسان کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھ لو باوجود اس کے کہ جائیداد آپ کی تھی آپ نے صرف اپنی بھاوج کو خوش کرنے کے لیے اپنے بھائی کی وفات کے بعد اُن کی تمام جائیداد جس کے آپ وارث تھے اپنے بڑے بیٹے مرزا سلطان احمد صاحب کے نام لگوا دی تھی جسے انہوں نے اپنا مسیبی بنایا ہوا تھا.وہ اپنے خاوند کی وفات پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آئیں اور کہنے لگیں میں بے اولاد ہوں.میری تسلی کے لیے اپنے بھائی کی جائیداد سلطان احمد کے نام لگوا دو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کی یہ بات مان لی اور وہ جائیداد مرزا سلطان احمد صاحب کے نام لگوا دی.مرزا سلطان احمد صاحب تو چونکہ ملازم ہو گئے تھے پہلے نائب تحصیلدار ہوئے، پھر تحصیلدار ہوئے، پھر ای.اے سی بنے ، پھر قائم مقام ڈپٹی کمشنر رہے اور اس طرح خدا تعالیٰ کے ضل سے خود انہوں نے بڑی آمدن پیدا کر لی.اس لیے انہوں نے اپنی ساری جائیداد اپنی تائی کے سپرد کی ہوئی تھی.اور انہوں نے جائیداد آگے اپنے بھائی مرزا نظام دین صاحب کے سپر د کر دی تھی جو حضرت صاحب کے شدید دشمن تھے.مگر باوجود اس کے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جائیدا دکھا رہی تھیں، جو کھانا وہ آپ کے لیے بھجواتی تھیں وہ نہایت ہی ادنی اور ذلیل قسم کا ہوتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سارا دن مسجد میں بیٹھے رہتے تھے اور عبادت کرتے رہتے تھے.اگر کوئی مسافر آ جاتا تو اُس کو وہاں لا کے آپ دین کی باتیں سناتے اور اپنا کھانا اُسے دے دیتے ہی اور خود دو پیسہ کے چنے بھنوا کر چبالیتے اور اُس سے گزارہ کر لیتے.اس کو بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی ایک عربی نظم میں یوں ادا کیا ہے کہ لفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ كَانَ أَكُلِى وَصِرْتُ الْيَوْمَ مِطْعَامَ الْاهَالِى 6 یعنی ایک زمانہ میں دستر خوانوں کے بچے ہوئے ٹکڑے میری خوراک ہوتے تھے کیونکہ آپ کی بھاوج اگر چہ آپ کی جائیداد پر قابض تھیں مگر جو کھانا وہ آپ کے لیے بھیجتی تھیں وہ اس حیثیت کا ہوتا تھا کہ گویا بچے کھچے ٹکڑے ہوتے تھے جو آپ کو بھیجے جاتے تھے مگر فرماتے ہیں وَصِرْتُ الْيَوْمَ مِطْعَامَ الْأَهَالِي
62 $1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 آج سینکڑوں خاندان خدا تعالیٰ کے فضل سے میرے ذریعہ سے پل رہے ہیں.در حقیقت اس میں بھی وہی تو کل کام کر رہا تھا جو آپ کو خدا تعالیٰ کی ذات پر تھا.وہ جس کو آپ نے اپنی ساری جائیداد دے دی وہ تو آپ سے اتنا بغض رکھتی تھیں کہ اپنے بچے کھچے ٹکڑے آپ کو کھانے کے طور پر دیتی تھیں مگر خدا تعالیٰ نے آپ کو اتنادیا کہ سینکٹروں خاندان آپ کے ذریعہ پلنے لگ گئے.مجھے یاد ہے ہماری تائی صاحبہ کو کسی زمانہ میں اتنا بغض تھا کہ ہمارے مکان پر جو سیٹرھیاں چڑھتی تھیں وہ اُن کے مکان کی دیوار کے پاس سے گزرتی تھیں.چونکہ گھروں میں آپس کی ملاقاتیں بند تھیں اس لیے ہم سمجھتے تھے کہ یہ ہمارے دشمن ہیں.جب میں نے سیڑھیوں پر چڑھنا تو انہوں نے آواز دینی محمود! ادھر آ، گل سن میری.یعنی محمود ادھر آؤ اور میری بات سنو.میں نے بھا گنا، بچپن کی وجہ سے میں نے ڈرنا کہ خبر نہیں یہ مجھے کیا سزا دیں گی.اس پر انہوں نے پیچھے سے کہنا جیہو جیہا کاں اوہو جیہی کوکو یعنی جیسا اس کا باپ کوا ہے ویسا ہی یہ اس کا لڑکا کوکو ہے.مگر خدا کی قدرت دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام تھا کہ تائی آئی جس کے معنے یہ تھے کہ وہ ایسے زمانہ میں احمدی ہوں گی جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نائب اور قائمقام اُن کے خاوند کا بھتیجا ہوگا.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کی بیوی تھیں اور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لڑکا ہوں جو مرزا غلام قادر صاحب کے چھوٹے بھائی تھے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے ایسا تصرف کیا کہ تائی صاحبہ نے اپنی عمر کے آخری زمانہ میں ( یعنی 1921 ء میں ) میری بیعت کر لی اور بیعت کے بعد اُن میں اِس قدرا خلاص پیدا ہوا کہ جب وہ (دسمبر 1927ء میں بیمار ہوئیں اور مجھے خبر پہنچی کہ وہ تین چار دن سے بیہوش پڑی ہیں تو میں اُن کی تیمارداری کے لیے گیا.فرش پر دری بچھی ہوئی تھی.میں اُن کی چار پائی کے پاس اُس دری پر با.اُن کی آنکھ کھلی تو انہوں نے مجھے دیکھا.وہ بیماری کی وجہ سے بہت زیادہ کمزور تھیں لیکن مجھے دیکھ کر لیٹے لیٹے انہوں نے اپنی ٹانگیں چار پائی سے نیچے سرکا لیں اور پاس والی عورتوں سے کہا مجھے چار پائی سے نیچے اُتار دو.محمود نیچے زمین پر بیٹھا ہوا ہے اور میں یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ میں اوپر
خطبات محمود جلد نمبر 39 63 $1958 چار پائی پر بیٹھوں اور وہ نیچے ہو.اب گجا وہ زمانہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جن کے طفیل وہ اسی روٹی کھاتی تھیں اور جن کے طفیل ہمیں برکت ملی اُن کو تو وہ کاں کہتی تھیں اور مجھے کو کو اور گجا ایسا ہے وقت آیا کہ مجھے دیکھ کر انہوں نے اپنی ٹانگیں چار پائی سے نیچے سرکا لیں اور قریب بیٹھنے والوں کو کہا مجھے نیچے اتار دو محمود نیچے بیٹھا ہے اور مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوتا کہ وہ زمین پر بیٹھا ہو اور میں چار پائی پر لیٹی ہوں حالانکہ اُن کی حالت اُس وقت بہت نازک تھی.یہ اللہ تعالیٰ نے وَصِرُتُ الْيَوْمَ مِطْعَامَ الْاهَالِي کا ایک روحانی نظارہ دکھایا کیونکہ مطعام صرف دنیوی ہی نہیں ہوتا بلکہ روحانی بھی ہوتا ہے.جسمانی طور پر تو وہ پہلے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جائیداد کی آمد کھا رہی تھیں لیکن روحانی نقطہ نگاہ سے اس کے یہ معنے تھے کہ وہی لوگ جو مجھ کو صدقہ و خیرات کے طور پر روٹی دیتے تھے ایک دن ایسا آئے گا کہ میں ان کو روحانی غذا دینے والا بن جاؤں گا.چنانچہ وہ احمدی ہوگئیں اور بعد میں اپنی زندگی بڑے اخلاص سے گزاری.اسی طرح مرزا سلطان احمد صاحب کو بھی اللہ تعالیٰ نے احمدیت قبول کرنے کی توفیق دی.مرز اسلطان احمد صاحب کے آخری عمر میں ہاتھ پاؤں رہ گئے تھے اور وہ اتنے کمزور ہو گئے تھے کہ اُن کے پاؤں آسانی سے حرکت نہیں کر سکتے تھے.ایک دن انہوں نے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے ہاتھ مجھے پیغام بھیجا کہ میں تو چل نہیں سکتا، آپ کسی وقت آکر میری بیعت لے لیں.چنانچہ میں اُسی دن اُن کے پاس چلا گیا اور اُن کی بیعت لے لی.ڈاکٹر صاحب ساتھ تھے.میں اُن کی چار پائی کے قریب ہی ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور مرزا سلطان احمد صاحب نے اپنا ہاتھ بیعت کے لیے آگے بڑھا دیا اور اسی طرح کرسی پر بیٹھے ہوئے میں نے اُن کی بیعت لے لی.گویا ایک طرف تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بڑے بھائی کی بیوہ نے جو آپ کی مخالف تھیں آپ کے بیٹے کے ہاتھ پر بیعت کی اور دوسری طرف مرزاسلطان احمد صاحب نے جو میرے بڑے بھائی تھے، میری بیعت کی.پہلے و شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب سے کہا کرتے تھے کہ بڑے مرزا صاحب زندہ ہوتے تو میں اُن کی بیعت کر لیتا.میں نے اُن سے تو بگاڑ رکھا اب میں اپنے چھوٹے بھائی کی کس طرح بیعت کروں.شیخ صاحب نے اُن کو سمجھایا کہ یہ تو آپ کی اور زیادہ عزت بڑھائے گا.چنانچہ آخری وہ
خطبات محمود جلد نمبر 39 64 $1958 عمر میں وہ بیعت کے لیے تیار ہو گئے اور ( دسمبر 1930 ء ) انہوں نے بیعت کر لی.غرض یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان تھا کہ ہماری تائی صاحبہ نے بھی میری بیعت کر لی اور کی مرز اسلطان احمد صاحب نے بھی میری بیعت کر لی.ہماری تائی صاحبہ کے احمدی ہونے میں بڑا دخل میرزا احسن بیگ صاحب کا تھا.وہ ان کی بہن کے بیٹے تھے.ان کی ایک بہن اعظم آباد میں بیاہی ہوئی تھی اور اُس کے دو بیٹے تھے.ایک مرزا اسلم بیگ صاحب اور دوسرے مرزا احسن صاحب.مرزا احسن بیگ صاحب ہمارے ساتھ پڑھا کرتے تھے.سب سے پہلے اُن کی میرے ساتھ دوستی ہوئی اور پھر انہوں نے اُسی زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر لی.بعد میں ریاست بوندی میں ان کو بیس ہزار ایکڑ زمین ملی.چونکہ ریاست آباد نہیں ہوئی تھی اس لیے ریاست کے حکام نے بعض لوگوں کو بڑے بڑے علاقے دے دیئے تھے کہ ان کو آباد کرو.آخر میں ریاست کی نے کچھ زمین واپس بھی لے لی کیونکہ وہ اسے آباد نہ کر سکے مگر پھر بھی چار پانچ گاؤں ان کے پاس رہ گئے.اب ان کے ایک بیٹے وہاں کام کرتے ہیں.گو ادھر آ جانا اُن کے لیے مبارک ہے مگر انہیں لالچ ہے کہ پانچ گاؤں کیسے چھوڑوں.اگر میں پاکستان آ گیا تو پیچھے گورنمنٹ یہ جائیداد ضبط کرلے گی.اس لیے وہ وہیں بیٹھے ہوئے ہیں حالانکہ ان کی ماں ایک بڑی مخلص احمدی تھی اور اُن کا باپ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا تھا.غرض تائی صاحبہ کی یہ بہن اعظم آباد میں بیاہی گئی تھیں اور اعظم آباد والے اپنے آپ کو بڑا رئیس سمجھتے تھے.سارا شاہدرہ اُن کے پاس تھا.مرزا اعظم بیگ صاحب جو اُن کے بڑے ہیڈ تھے وہ سب سے پہلے ہندوستانی تھے جو سیٹلمنٹ آفیسر بنے.اس سے پہلے صرف انگریز ہی اس عہدہ پر پہنچتے تھے.پھر وہ کابل میں بھی رہے اور وہاں ایمبیسی میں ان کو بڑے عہدہ پر رکھا گیا.بعد میں وہ ہزارہ میں سیٹلمنٹ آفیسر بن گئے.وہاں انہوں نے اپنی امارت کے گھمنڈ میں بڑے بڑے ظلم بھی کیے.چنانچہ ایک دفعہ میں کشمیر سے واپس آ رہا تھا تو مولوی سید سرورشاہ صاحب نے جو ہزارہ کے ہی رہنے والے تھے مجھے سنایا کہ جب مرزا صاحب یہاں سیٹلمنٹ آفیسر بن کر آئے تو انہوں نے اپنے غرور میں فلاں رئیس کو کہا کہ تمہارا گھوڑا مجھے بہت پسند آیا ہے وہ مجھے بھیج دو اور پھر کہا کہ دیکھنا یہ گھوڑا آج شام تک میرے پاس پہنچ جائے.مولوی سرور شاہ صاحب نے بتایا کہ وہ رئیس اتنا مالدار تھا کہ سارا علاقہ اُس کے پاس تھا مگر جب انہوں نے اُس کو حکم دیا تو وہ بھی
$ 1958 65 خطبات محمود جلد نمبر 39.چونکہ نواب اور رئیس تھا اڑ گیا اور کہنے لگا مرزا صاحب! اگر آپ مجھے کسی اور کی معرفت کہلا بھیجتے کہ مجھے گھوڑا دے دو تو ایک نہیں میں دس گھوڑے بھی دے دیتا مگر آپ نے حکم دیا ہے تو اب چاہے آپ میری ساری جائیداد تباہ کر دیں اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادیں میں گھوڑا نہیں دوں گا.چنانچہ انہوں نے سیٹلمنٹ (SETTLEMENT) میں اُس کی تمام جائیداد اُس کے رشتہ داروں کے نام لکھ دی اور اُس کو تباہ کر دیا.مولوی صاحب کہنے لگے وہ اب تک غریب چلے آتے ہیں حالانکہ پہلے وہ بہت ہی صاحب رسوخ تھے.غرض ان کے خاندان میں ہماری وہ پھوپھی بیاہی گئی تھیں اور ہمارے ہانی دادا کی ناپسندیدگی کے باوجود بیاہی گئی تھیں.مرزا اعظم بیگ صاحب جو اس خاندان کے مورث اعلیٰ کی تھے انہوں نے ہمارے دادا کے پاس پیغام بھیجا کہ ہم قادیان دیکھنا چاہتے ہیں.وہ چغتائی خاندان کے مغل تھے اور ہم برلاس خاندان کے ہیں اور برلاس چغتائیوں کو ذلیل سمجھتے ہیں.پرانے زمانہ میں یہ طریق رائج تھا کہ اگر کوئی کہے کہ ہم آپ کا گاؤں دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم آپ کی لڑکی لینا چاہتے ہیں.جب مرزا اعظم بیگ صاحب نے یہ پیغام بھیجا تو ہمارے دادا جلال میں آگئے اور کہنے لگے تم چغتائیوں کو بھی یہ جرات ہو سکتی ہے کہ ہم سے لڑکیاں مانگو.جاؤ اور ان سے کہہ دو کہ ہمیں نہیں منظور.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ ہمارے باپ کے غرور کا ہی یہ نتیجہ نکلا کہ ان کی وفات کے بعد ہماری تین لڑکیاں اُن کے خاندان میں بیاہی گئیں.جن میں سے ایک تو یہی ہماری پھوپھی تھیں اور ایک اور چچا کی لڑکی تھی.اس طرح اُن کے گھر میں ہماری لڑکیوں کا اچھا خاصا اجتماع ہو گیا.پھر نہ صرف ہماری لڑکیاں ہی اُن کے ہاں گئیں بلکہ ہماری جائیدادیں بھی اُن کے قبضہ میں جانی شروع ہوئیں.یہاں تک کہ قادیان کے سوا ہماری ساری جائیداد ان لوگوں کے پاس چلی گئی.چنانچہ راجپورہ جو میں نے بعد میں ہیں ہزار روپیہ میں خریدا وہ اُنہی لوگوں کے پاس چلا گیا تھا.پھر محلہ دارالرحمت جہاں بنا ہے وہ حصہ بھی اُن لوگوں کے پاس چلا گیا تھا.یہ جائیداد ان کے پڑپوتے مرزا اکرم بیگ نے ایک سکھ کے پاس اٹھارہ ہزار روپیہ میں بیچ دی تھی جو بعد میں حق شفعہ کے ذریعہ ہم نے واپس لی.مرزا اکرم بیگ کے والد مرزا افضل بیگ صاحب ایک ریاست میں سپر نٹنڈنٹ پولیس تھے اور ناچ گانے کا انہیں شوق تھا.شراب کی بھی عادت پڑی ہوئی تھی مگر آخر میں انہوں نے ان تمام
66 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 عادتوں سے توبہ کر لی اور قادیان آگئے.بیعت کے بعد وہ ایک دفعہ بیمار ہوئے اور علاج کے لیے لاہور گئے تو ڈاکٹر نے کہا کہ اگر آپ تھوڑی سی شراب پی لیں تو آپ بچ سکتے ہیں.وہ کہنے لگے ایک دفعہ میں نے شراب سے توبہ کر لی ہے اب میں نہیں پیوں گا.چنانچہ وہ مر گئے لیکن انہوں نے شراب کو نہیں چھوا.غرض بیعت کے وقت جو انہوں نے عہد کیا تھا اُس پر وہ پورے اُترے لیکن ان کا بیٹا اچھا نہ نکلا.اُس نے دارالرحمت والی زمین ایک سکھ کے پاس بیچ دی تھی.شیخ مختار احمد صاحب ایک غیر احمدی بیرسٹر تھے جو ہم سے بہت محبت رکھتے تھے.اللہ اُن کی مغفرت فرمائے انہوں نے مجھے لکھا کہ آپ کی اتنی قیمتی جائیداد ہے جوا کرم بیگ نے فلاں سکھ کو اٹھارہ ہزار روپیہ میں دے دی ہے.یہ بڑی قیمتی جائیداد ہے.اگر آپ اٹھارہ ہزار روپیہ کا بندوبست کر لیں تو یہ جائیداد آپ واپس لے لیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ بہت ہی قیمتی جائیداد تھی.چنانچہ بعد میں ہم نے اس سے پانچ لاکھ روپیہ کمایا.مگر اُس وقت میرے پاس روپیہ نہیں تھا.میں نے کہا میرے پاس اتنار و پیہ کہاں ہے.انہوں نے لکھا کہ بارہ ہزار روپیہ کسی نے میرے پاس امانت رکھا ہوا ہے وہ میں آپ کو دے سکتا ہوں.آپ بعد میں مجھے دےدیں صرف چھ ہزار روپیہ کا آپ کسی طرح انتظام کر لیں.چنانچہ ایک دوست نبی بخش صاحب کشمیری امرتسر کے تھے.میں نے حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی کو ان کے پاس بھیجا.انہوں نے انہیں تحریک کی کہ وہ مجھے کچھ روپیہ قرض کے طور پر دے دیں.چنانچہ دوسرے دن ایک لفافہ اُن کی طرف سے آیا جس میں تین ہزار روپیہ تھا اور ساتھ لکھا تھا کہ یہ تین ہزار روپیہ میرے پاس تھا.حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی میرے پاس آئے تھے اور انہوں نے مجھے تحریک کی تھی جس پر میں یہ روپیہ آپ کو بھیج رہا ہوں.جب آپ کو تو فیق ہو مجھے واپس کر دیں.اُسی دن ڈاکٹر فضل کریم صاحب کا افریقہ سے خط آیا کہ میں سترہ سو روپیہ آپ کو بھجوا رہا ہوں.وہ غالبا کسی جنگ پر گئے تھے اور اُن کی تنخواہ جمع تھی جو بعد میں انہیں ملی اور انہوں نے مجھے بھجوا دی.اس طرح چار ہزار سات سو روپیہ ہو گیا اور بارہ ہزار روپیہ شیخ مختار احمد صاحب بیرسٹر نے دیا.اب صرف ایک ہزار تین سو کی کمی رہ گئی تھی وہ میں نے اپنی بیویوں کے زیورات بیچ کر پوری کر لی اور زمین خرید لی.اس زمین پر دار الرحمت کا محلہ آباد ہوا.اسی طرح جس زمین پر محلہ دارالفضل آباد ہے یہ زمین بھی میں نے مرزا اکرم بیگ سے لی.انہوں نے اس زمین کا ایک ہندو سے ڈیڑھ لاکھ میں سودا کیا تھا.میں نے خیال کیا کہ اٹھارہ ہزار تو
$1958 67 خطبات محمود جلد نمبر 39 کسی نہ کسی طرح جمع ہو گیا تھا.اب ڈیڑھ لاکھ کہاں سے آئے گا.اس کے لیے میں نے جماعت میں اعلان کر دیا کہ جو چاہے زمین خرید سکتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے جماعت کو اتنی ہمت دی کہ اس میں سے ایک لاکھ سے زائد کے گاہک بن گئے اور باقی روپیہ کا ہم نے خود انتظام کر لیا اور اس طرح وہ محلہ بھی خرید لیا گیا.تو اللہ تعالیٰ جب دینے پر آتا ہے تو اس طرح دیتا ہے.اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں لفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ كَانَ أُكُلِي وَصِرْتُ الْيَوْمَ مِطْعَامَ الْاهَالِـي دیکھو جب رمضان آتا ہے تو لوگ لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ‘ہی کھاتے ہیں یعنی سارا دن بھوکے رہتے ہیں.صبح کے وقت جو روٹی انہیں مل جائے کھالیتے ہیں لیکن جب عید آتی ہے تو وَ صِرتُ الْيَوْمَ مِطْعَامَ الْاَهَالِی والا نظارہ ہوتا ہے.اُس دن خدا تعالیٰ کھلانے پر آ جاتا ہے.رمضان کے دنوں میں تو کہتا ہے کہ خبردار! جس نے دن کے وقت کھانا کھایا میں اُسے سزا دوں گا اور عید کے دن کہتا ہے کہ جس نے نہ کھایا میں اُسے سزا دوں گا.گویاوہی صورت ہو جاتی ہے کہ لفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ كَانَ أَكُلِى وَصِرْتُ الْيَوْمَ مِطْعَامَ الْاهَالِي پہلے تو غریبوں کا سا کھانا دیا جاتا تھا اور عید کے دن امیروں کا سا کھانا میسر آ جاتا ہے.سحریاں بھی امیروں کی ہی ہوتی ہیں ورنہ غریبوں کا کیا ہے.انہیں تو جو معمولی چیز بھی مل جائے اُس سے روزہ رکھ لیتے ہیں.مجھے یاد ہے بچپن میں ایک عورت مجھے کھلایا کرتی تھی.وہ ایک دن مجھے ایک کمرہ میں کھلاتی جاتی تھی اور ساتھ ساتھ ایک باسی روٹی کا ٹکڑا جو اُس کے ہاتھ میں تھا وہ کھاتی جاتی تھی.مجھے یاد ہے کہ وہ باسی روٹی مجھے اس وقت اتنی بڑی نعمت معلوم ہوتی تھی کہ اگر آج دنیا کی ساری کی نعمتیں بھی مجھے مل جائیں تو مجھے اُن میں وہ مزہ نہ آئے جتنا اُس باسی روٹی کے ٹکڑے کی خوشبو میں آتا تی تھا.تو غریب کو تو باسی روٹی بھی مل جائے تو وہ سمجھتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے جو مجھے میسر آ گئی.اسی طرح شام کو روزہ کھلتا ہے تو جو لوگ آسودہ حال ہوتے ہیں وہ تو افطاری کے لیے قسم قسم کی چیزیں بناتے ہیں لیکن غریب لوگ پانی کے ایک گھونٹ سے ہی روزہ کھول لیتے ہیں.آخر یہی چیز خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہوتی ہے.خدا تعالیٰ تو کھانے والا نہیں، کھاتے تو ہم ہیں مگر ہمارے کھانے کو خدا تعالیٰ
$1958 68 خطبات محمود جلد نمبر 39 اپنا کھانا قرار دے دیتا ہے.جیسے کہ بائیل میں بھی آتا ہے اور حدیثوں میں بھی کہ قیامت کے دن کی جب لوگ خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے تو وہ کہے گا میں بیمار تھا تم نے میری عیادت کیوں نہیں کی ؟ میں نگا تھا تم نے مجھے کپڑا کیوں نہیں پہنایا ؟ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کیوں نہیں کھلایا؟ لوگ کہیں گے اے ہمارے رب ! تو بڑی شان والا ہے تو کب بھوکا تھا جو ہم نے تجھے کھانا نہیں کھلایا ؟ تو کب نگا تھا کہ ہم نے تجھے کپڑا نہیں پہنایا؟ تو کب بیمار تھا کہ ہم تیری عیادت کو نہیں آئے ؟ تو خدا تعالیٰ جواب دے گا کہ جب میرا غریب سے غریب بندہ تمہارے پاس آیا اور وہ بھوکا تھا اور اسے تم نے کھانا نہیں کھلایا تو تم نے مجھے کھانا نہیں کھلایا.اور جب میرا غریب سے غریب بندہ تمہارے پاس آیا اور وہ نگا تھا.اور تم نے اسے کپڑا نہیں پہنایا تو تم سمجھو کہ میں ہی نگا تھا جسے تم نے کپڑا نہیں پہنایا.اور جب میرا غریب سے غریب بندہ بیمار ہوا اور تم نے اس کی عیادت نہیں کی تو تم نے میری عیادت نہیں کی.8 گویا خدا تعالیٰ بندہ کا قائم مقام بن جاتا ہے.یہی چیز رمضان میں ہوتی ہے.اس میں جو کچھ کھایا جاتا ہے چاہے غریب کھائے یا امیر کھائے وہ ایک رنگ میں خدا تعالیٰ ہی کھاتا ہے کیونکہ بندہ خدا تعالیٰ کے حکم سے ہی کھاتا ہے.پس ہمارا کھانا بھی خدا تعالیٰ کا ہی کھانا ہوتا ہے.چاہے وہ معمولی کھانا ہو یا اچھا.پھر عید کے دن بھی جو ہم کھاتے ہیں وہ بھی خدا تعالیٰ ہی کا کھانا ہوتا ہے کیونکہ عید بھی ہم اس کے حکم سے مناتے ہیں.خدا نے ہی حکم دیا ہے اور ہم عید منانے لگ گئے ہیں.پس اگر ہمیں عید کے دن کھا نا ملتا ہے تو درحقیقت وہ بھی خدا تعالیٰ ہی کے گھر سے آتا ہے خدا تعالیٰ کھاتا نہیں مگر ہم کھاتے ہیں.اسی طرح اگر ہم روزہ میں فاقہ کرتے ہیں تو وہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ نے فاقہ کر لیا کیونکہ رمضان اور عید میں ہم خدا تعالیٰ کی کے قائم مقام بن جاتے ہیں.ہمارا بھوکا رہنا خدا تعالیٰ کا بھوکا رہنا ہوتا ہے اور عید کے دن ہمارا کھانا خدا تعالیٰ کا کھانا ہوتا ہے.گویا ان دنوں میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اپنا جبہ ہمیں پہنا دیتا ہے.جب خدا تعالیٰ کا کوئی بندہ روزہ رکھتا ہے تو خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ یہ میں ہی ہوں جو روزہ رکھ رہا ہوں کیونکہ میرے بندے نے جو کچھ کیا ہے میرے حکم سے کیا ہے.پھر ہم عید کے دن کھاتے ہیں تو خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میرا بندہ نہیں کھا رہا بلکہ میں کھا رہا ہوں کیونکہ وہ کھا رہا ہے تو میرے حکم سے کھا رہا ہے اور اُس کے پیٹ میں نہیں جارہا بلکہ میرے پیٹ میں جا رہا ہے.اس طرح ہمارے جتنے بھی اعمال ہیں وہ نیکی
69 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 بن جاتے ہیں اور و الَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ کے ماتحت آ جاتے ہیں.بندہ کوئی بھی حرکت کی کرے وہ اُس کے نام نیکی بن کر لکھی جاتی ہے.یہی خدا تعالیٰ کی سنت ہے.اگر خدا تعالیٰ کی یہ سنت نہ ہوتی اور انسان اپنے اعمال کی وجہ سے بخشا جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیوں فرماتے کہ اے الی عائشہ! میں بھی اپنے اعمال سے نہیں بخشا جاؤں گا بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بخشا جاؤں گا اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی بخشے جائیں گے تو ہم کون ہیں جو کہہ سکیں کہ ہم اپنے اعمال سے بخشے جائیں گے.ہم یقیناً محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اس کے فضل کی کے محتاج ہیں.ہم پر تو اور بھی خدا تعالیٰ کا فضل ہوگا تو ہم بخشے جائیں گے ورنہ ہمارے بخشے جانے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.صرف یہی خیال ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بیان کردہ اپنی صفات کو سامنے لا کر ہمیں بخش دے تو یہ اُس کا احسان ہوگا.اور اگر نہ بخشے تو ہمیں اُس پر کوئی اعتراض نہیں وہ تی ہمیں جو بھی سزادے وہ اس میں حق پر ہے.اور ہمیں جو بھی سزا ملے ہم اس کے مستحق ہیں.اور وہ جو احسان کی ہم پر کرے وہ بہر حال اُس کا احسان ہے ہمارے کسی عمل کا نتیجہ نہیں“.1 : النحل : 129 (الفضل 12 اپریل 1958ء) 2 : بخاری کتاب التفسير - تفسير سورة الفتح - باب قوله إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مبينا بخاری کتاب الرقاق باب القصد والمداومة على العمل 4 ترندی ابواب المناقب باب مناقب ابى بكر الصديق 5 : بخاری کتاب الایمان باب سؤالُ جِبْرِيلَ النَّبِيَّ الله عَنِ الْإِيْمَانِ 6 : آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 596 7 : تذکره صفحه 781 طبع چہارم 8 : مسلم كتاب البر والصلة باب فَضْلُ عِيَادَة المريض و بخارى كتاب الرِّقَاقِ بابُ الْقَصْدِ وَ الْمُدَاوَمَةِ عَلَى الْعَمَل
$ 1958 70 (10) خطبات محمود جلد نمبر 39 اگر تم صحیح معنوں میں ذکر الہی کرو گے تو یقیناً اس کے نتیجہ میں کفر کو شکست ہوگی اور اسلام کو غلبہ حاصل ہوتا چلا جائے گا (فرموده 11 را پریل 1958ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی: يَا هَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ " - 1 اس کے بعد فرمایا: رمضان کے دن خاص طور پر ذکر الہی کے دن ہوتے ہیں لیکن دنیا میں عام طور پر جب ذکر الہی کرنے والا ذکر کرتا ہے تو اُسے پتا نہیں لگتا کہ میرا ذ کر صحیح تھا یا نہیں.بلکہ بعض اوقات تو انسان یہ بھی نہیں سمجھتا کہ میں غلطی کر رہا ہوں.وہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں حالانکہ وہ نماز نہیں پڑھ رہا ہوتا.وہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میں بڑا ذ کر کر رہا ہوں حالانکہ وہ ذکر نہیں کر رہا ہوتا.اس آیت میں
$1958 71 خطبات محمود جلد نمبر 39 اللہ تعالیٰ نے ایک گر بتایا ہے جس سے پتا لگ سکتا ہے کہ انسان سچا ذکر کر رہا ہے یا نہیں.فرماتا ہے بچے ذکر کی علامت یہ ہے کہ لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ تم جب بھی ذکر کثیر کرو گے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جاؤ گے.دشمن کے مقابلہ میں تمہیں فتح ہوگی اور اُس کو ذلت اور نکست نصیب ہوگی کیونکہ اس سے پہلے اِذَا لَقِيتُم فِئَةَ میں دشمن کا ہی ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ جب دشمن کے مقابلہ میں تم کھڑے ہو تو استقلال کے ساتھ اُس کا مقابلہ کرو.اس وقت ہمارا سب سے بڑا دشمن عیسائیت ہے جس کے ساتھ دہریت بھی مل گئی ہے اور احمدی جماعت کے سوا کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر رہا.آجکل تلوار کی لڑائی نہیں بلکہ آجکل مذہب میں دجالیت اور وسوسہ اندازی کی جاتی ہے اور تبلیغی ہتھیاروں سے ہمیں اس کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے.پس فرماتا ہے اِذَا لَقِيتُمُ فِئَةً اے مومنو! جب تم کسی جماعت کے مقابلہ میں آ جاؤ جیسا کہ ہم اِس وقت ایک جماعت کے مقابلہ میں آئے ہوئے ہیں یعنی عیسائیت اور دہریت کے مقابلہ میں.تو فَاثْبُتُوا تم ثابت قدم رہو.یہ نہ ہو کہ کچھ مدت کام کرنے کے بعد تمہارے اندر کمزوری پیدا ہوتی جاۓ.وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ اور اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر کرو تا کہ تمہیں کامیابی حاصل ہو.پھر فرماتا ہے وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَ تَذْهَبَ رِيحُكُمْ 2 تم تنازع مت کر وورنہ تمہاری طاقت کمزور ہو جائے گی.دنیا میں بعض لوگ تنازعہ تو کرتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ ہم تنازعہ نہیں کرتے بلکہ ہم اپنا حق لے رہے ہیں.جیسے قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب منافقوں کو یہ کہا تھا جائے کہ تم مومنوں کی طرح ایمان کیوں نہیں لاتے ؟ تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ کیا ہم بھی سفہاء بن جائیں؟ یہ تو سفہاء ہیں جو ایمان لے آئے ہیں.3 اسی طرح بعض دفعہ جب تنازعہ کرنے والے کو کہا جاتا ہے کہ تم تنازعہ نہ کرو تو کہتا ہے میں تو پنا حق مانگتا ہوں، میں تنازعہ تو نہیں کرتا.فرماتا ہے کہ ہم تمہیں ایک ایسا ثبوت دیتے ہیں جس سے تمہیں پتا لگ جائے گا کہ کوئی حق مانگ رہا ہے یا نہیں.فرماتا ہے تنازعہ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دشمن کے مقابلہ میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے اور قوم کا رعب جاتا رہتا ہے.پس اگر تمہارے اختلاف کے نتیجہ میں تمہارے اندر بزدلی پیدا ہو اور تم دشمن کے مقابلہ میں کوتاہی کرنے لگ جاؤ تو سمجھ لو کہ تم اپنا حق نہیں
$1958 72 خطبات محمود جلد نمبر 39 مانگ رہے بلکہ تنازعہ کر رہے ہو.دیکھو! جب خلافت کے متعلق جھگڑا پیدا ہوا تو مولوی محمد علی صاحب نے یہی کہا کہ ہم تو اپنا حق پیش کرتے ہیں مگر پھر خود ہی انہوں نے لکھا کہ اگر خلافت کا سوال میاں صاحب نہ اُٹھاتے تو ہم ساری دنیا پر غالب آ جاتے.گویا انہوں نے تسلیم کر لیا کہ اس کے نتیجہ میں اُن کی طاقت کمزور ہوگئی اور یہی تنازعہ کا نتیجہ ہوتا ہے.فرماتا ہے فَتَفْشَلُوا وَ تَذْهَبَ رِيحُكُمْ تنازعہ کے نتیجہ میں بزدلی پیدا ہو جاتی ہے اور دنیا میں جوڑ عب حاصل ہوتا ہے وہ جاتا رہتا ہے.پس اگر تمہارے اختلاف کے نتیجہ میں رُعب بڑھ جائے تو پھر تو سمجھ لو کہ تم نے کوئی اختلاف نہیں کیا.لیکن اگر رعب کم ہو جائے تو سمجھ لو کہ تم نے اختلاف کیا تھا.اور یہ جو تم کہ رہے ہو کہ ہم اختلاف نہیں کر رہے بلکہ حق مانگ رہے ہیں جھوٹ ہے.دیکھو! سچے مومن کی علامت یہی ہوتی ہے کہ وہ دشمن کے مقابلہ میں اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر پوری قوت کے ساتھ اُس کے مقابلہ کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے.جب حضرت معاویہؓ حضرت علی کے خلاف لڑ رہے تھے تو انہیں پتا لگا کہ روم کا بادشاہ حملہ کر کے عرب میں داخل ہونا چاہتا ہے.چونکہ مسلمانوں نے اُس کے لشکر کو جنگ میں شکست دی تھی اس لیے اُس نے ان کی باہمی خانہ جنگی کو دیکھتے ہوئے چاہا کہ اس موقع سے فائدہ اُٹھائے.تاریخوں میں آتا ہے کہ جب اُس نے اپنے اس ارادہ کا اظہار کیا تو اُس کے دربار کا ایک پادری کھڑا ہو گیا اور اُس کی نے کہا حضور! ان مسلمانوں کے اختلاف کی طرف نہ جائیے.یہ آپ کے حملہ کی خبر سن کر ا کٹھے ہو جائیں گے.پھر کہنے لگا اچھا! میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں.کچھ گتے منگوائیے اور انہیں چند دن بھوکا رکھ کر اُن کے آگے گوشت ڈالیے.بادشاہ نے ایسا ہی کیا.جب ان کے آگے گوشت ڈالا گیا تو وہ اسی آپس میں لڑنے لگ گئے.اس پر پادری نے کہا اب ایک شیر ان پر چھوڑ دیجیے.جب شیر آیا تو وہ گئے اپنی لڑائی چھوڑ کر اُس پر جھپٹ پڑے اور اُسے بھگا دیا.وہ پادری چونکہ اسلام کا دشمن تھا اس لیے اُس کی نے مسلمانوں کو گتوں سے تشبیہہ دی مگر بہر حال اُس نے کہا کہ آپ ان کے اختلاف کی طرف نہ جائیں.بیشک یہ آپس میں لڑ رہے ہیں لیکن جب ان پر کوئی باہر سے حملہ آور ہوا تو وہ سب متحد ہو جائیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.جب حضرت معاویہ کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اُسے کہلا بھیجا کہ گو میں حضرت علیؓ سے لڑ رہا ہوں لیکن اگر تم حملہ آور ہوئے تو سب سے پہلا جرنیل جو علی کی طرف 09
$1958 73 خطبات محمود جلد نمبر 39 سے تلوار لے کر تمہارے مقابلہ میں نکلے گا وہ میں ہوں گا.4 نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ڈر گیا اور اس نے حملہ کا ارادہ ترک کر دیا.تو نزاع اور اختلاف کی یہی علامت ہوا کرتی ہے کہ اس کے نتیجہ میں قوم میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے اور اُس کا رعب جاتا رہتا ہے.لیکن اگر نزاع حقیقی نہ ہو بلکہ واقع میں کوئی انسان اپنا حق لینے کے لیے جھگڑ رہا ہو تو اس کے نتیجہ میں بزدلی پیدا نہیں ہوتی اور نہ قوم کا رُعب دنیا سے مٹتا ہے بلکہ ایسا کی انسان اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے.جس کی طرف لعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ کے الفاظ اشارہ کرتی ہے ہیں.ایسے شخص کو یہ کبھی نہیں کہنا پڑتا کہ اگر یہ خلیفہ ہمارا مقابلہ نہ کرتا تو ہم ساری دنیا پر غالب آ جاتے.گویا دوسرے الفاظ میں مولوی محمد علی صاحب نے اپنے متعلق اقرار کر لیا کہ وہ غالب نہیں آئے.اس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم کمزور ہونے کے باوجود کامیاب ہو رہے ہیں اور دنیا کے گوشہ گوشہ میں ہمارے ذریعہ سے اسلام کا نام پھیل رہا ہے.پس یہ رمضان کے دن ذکر الہی کے دن ہیں.ان دنوں سے فائدہ اُٹھاؤ اور سمجھ لو کہ اگر ذکر الہی کے نتیجہ میں تمہیں یہ دکھائی دے کہ اسلام کو غلبہ حاصل ہو رہا ہے تو تمہارا ذکر صحیح تھا کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم ذکر کثیر کرو گے تو تم ضرور کامیاب ہو گے.لیکن اگر تمہاری کوشش اور ذکر الہی کے باوجود اور تمہارے روزوں کے باوجود جن کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ قریب آجاتا ہے.5 یہ نتیجہ نکلے کہ تمہیں کامیابی حاصل نہ ہو اور دشمن بڑھتا چلا جائے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ تمہارے روزے بھی جھوٹے تھے، تمہارا ذکر بھی جھوٹا تھا اور تمہارا اتحاد بھی کی جھوٹا تھا.ورنہ اگر تقوی کے ساتھ روزہ رکھا جائے اور صحیح طور پر ذکر الہی کیا جائے اور کوشش یہ کی جائے کہ ہمارے اندرلڑائی جھگڑا نہ ہو تو یقیناً اس کے نتیجہ میں بہادری اور جرات پیدا ہوتی ہے اور ایک ایک ہزار دشمن کے مقابلہ میں ایک ایک مسلمان نکل کھڑا ہوتا ہے.دیکھ لو مسلمانوں کے مختلف ادوار میں ایسے ایسے نوجوان اسلام کی خدمت کے لیے نکلے ہیں جن کو آجکل ہم کھیل کود کے زمانہ والے کہتے ہیں لیکن انہوں نے بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کیں.جب محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کیا تو اُس کی عمر صرف اٹھارہ سال کی تھی اور پھر وہ اپنے ساتھ جو لشکر لایا وہ جلدی میں بھرتی کیا ہوا تھا کیونکہ اُس وقت مسلمان سپین اور سسلی وغیرہ میں بھی
$ 1958 74 خطبات محمود جلد نمبر 39 لڑ رہے تھے اور خزانہ بالکل خالی تھا.سب سے پہلے اُس کی اپنی ماں اور بیوی نے اپنے زیور بیچ کر سواریاں مہیا کیں اور پھر بادشاہ نے اپنے کچھ زیورات بیچ دیئے.ولید بن عبدالملک ایک بہت نیک بادشاہ تھا.اُس نے بڑی قربانی کی اور محمد بن قاسم کو سندھ کی طرف بھجوا دیا اور اُس نے دو ماہ کے اندراندر ملتان تک کا سارا علاقہ فتح کر لیا.لیکن اس کے بعد جیسا کہ پہلے زمانہ میں ایک یزید پیدا ہوا تھا مسلمانوں کی بد قسمتی سے سلیمان بن عبدالملک ایک خبیث بادشاہ تخت نشین ہوا اور اُس نے اپنی ایک ذاتی عداوت کی بناء پر محمد بن قاسم کو میدانِ جنگ سے بلا لیا.جب اس نے محمد بن قاسم کو واپس بلایا تو وہ ئو مسلم جو محمد بن قاسم کی وجہ سے اسلام لائے تھے اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے کہا وہ تمہارا خلیفہ ہوگا ہمارا نہیں.ہمارا تو بادشاہ ہے اور ہم لاکھوں آدمی لے کر اُس پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہیں.اس لیے جب ی تک وہاں سے یہ اطلاع نہ آجائے کہ بادشاہ کے ارادے بد نہیں ہیں آپ وہاں نہ جائیں.لیکن محمد بن قاسم جو ایک جوشیلا نوجوان تھا اُس نے کہا اے میرے دوستو! تم مجھے میرے ایمان سے نہ ور غلاؤ.ہمارا ای ایمان یہ ہے کہ خلیفہ کی اطاعت کی جائے اور تم کہتے ہو کہ وہاں نہ جاؤ بلکہ یہ بھی کہتے ہو کہ ہم لشکر لے کر اُس پر حملہ کر دیں گے.تمہارے لشکر چاہے مصر تک بھی فتح کر کے تیونس میں داخل ہو جائیں میں خدا تعالیٰ کے سامنے کیا جواب دوں گا؟ تمہارے لشکر مجھے دنیا کا بادشاہ بنا سکتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے سامنے میری کوئی مد نہیں کر سکتے.جس کو ہم نے خلیفہ تسلیم کر لیا اور بادشاہ مان لیا وہ لاکھ نالائق سہی مگر ہم نے تو اُسے مان لیا ہے.اُس کی لیاقت یا نالائقی اُس کی ذاتی چیز ہے.بہر حال جب وہ تسلیم شدہ قانون کے ماتحت ہمارا حاکم بن گیا تو میں اگر اسے چھوڑوں گا تو تم قیامت کے دن مجھے نہیں بچا سکتے.تمہارے پاس بیشک سات آٹھ لاکھ کا لشکر ہے اور کیا مرد اور کیا عورتیں اور کیا بچے سارے کے سارے اسی بات پر تلے ہوئے ہیں کہ ہم شام پر جا کر حملہ کریں گے اور بادشاہ کو سزا دیں گے جس نے تمہارے جیسے آدمی کو جس نے ہم تک اسلام پہنچایا اور اسلام کو سندھ میں لا کر داخل کیا عین فتح کے وقت واپس بلا لیا لیکن میں اُس کا حکم ماننے سے انکار نہیں کر سکتا.جب وہ واپس چلا تو اُس وقت سندھیوں کی زبان سے یہ الفاظ نکلے جو اپنے اندر ایک پیشگوئی کا رنگ رکھتے تھے کہ جس وقت سندھ میں اسلام کا سورج طلوع ہونے لگا تھا اُسی وقت اُس کے غروب ہونے کا وقت آ گیا.چنانچہ جب محمد بن قاسم وہاں پہنچا تو سلیمان بن عبدالملک نے اپنے ایک درباری کو حکم دیا کہ وہ محمد بن قاسم کو
$1958 75 خطبات محمود جلد نمبر 39 قتل کر دے.حضرت عمر بن عبد العزیز ایک بڑے نیک آدمی تھے.انہوں نے سلیمان بن عبد الملک کو پوچھا کیا تم نے واقعی حکم دے دیا ہے کہ محمد بن قاسم کو مار دو؟ اُس نے کہا ہاں! میں یہ حکم بھیج چکا ہوں.انہوں نے کہا اس حکم کو منسوخ کر دو اور دوبارہ حکم بھیجو کہ اس کو نہ مارا جائے.اُس نے کہا میں لکھ تو دیتا ہوں مگر یہ پیغام وہاں پہنچے گا کیسے؟ اُن کا ایک دوست تھا اُس نے کہا جس طرح ہوگا میں یہ پیغام وہاں پہنچاؤں گا.میں سندھ سے بھاگا ہوا آیا ہوں اور یہاں پہنچا ہوں اور یہاں پہنچنے سے پہلے مدینہ گیا تھا.وہاں سے دمشق آیا ہوں.رستہ میں میں نے کہیں آرام نہیں کیا.سوائے اس کے کہ کہیں سواری پر ہی بیٹھے بیٹھے میں سو گیا ہوں اور بے حد تھکا ہوا ہوں لیکن میں پھر بھی جاؤں گا اور جا کر یہ حکم اُس درباری کو پہنچاؤں گا.لیکن جب وہ وہاں پہنچا تو اُس نے دیکھا کہ ایک جنازہ پڑا ہوا ہے.جب اُس نے دریافت کیا کہ یہ کس کا جنازہ ہے؟ تو وہی فقرہ جو اللہ تعالیٰ نے پیشگوئی کے طور پر سندھیوں کے منہ سے نکلوایا تھا کہ اسلام کا سورج سندھ میں طلوع ہوتے ہی غروب ہو گیا وہی اُن لوگوں کی زبان کی سے نکلا جو جنازہ کے پاس اکٹھے تھے اور انہوں نے کہا کہ اسلامی فتوحات کا سورج عین ظہر کے وقت غروب ہو گیا.یہ محمد بن قاسم کی لاش پڑی ہے.غرض اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں ہر زمانہ میں ایسے آدمی پیدا کرتا رہا ہے جنہوں نے اسلام کے لیے کسی قسم کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا اور آئندہ بھی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس سلسلہ کو جاری رکھے گا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوئے تو ایک شخص نے جو بہت مخلص احمدی تھے اُس وقت یہ شبہ ظاہر کیا کہ ابھی تو بہت سی پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وفات پاگئے ہیں.جب مجھے اس بات کا علم ہوا تو میں نے آپ کے سرہانے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہا کہ یا اللہ ! اگر ساری دنیا بھی انہیں چھوڑ دے تو میں انہیں نہیں چھوڑوں گا اور میں اُس کی وقت تک دم نہیں لوں گا جب تک کہ ساری دنیا کو احمدیت میں داخل نہ کر لوں.یہ الفاظ اگر چہ اُس وقت محمد بن قاسم کی عمر کے ایک بچہ نے کہے تھے ( میری عمر اس وقت اٹھارہ انیس سال کی تھی لیکن پھر بھی خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے اس عہد کو عملاً پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائی.اُس وقت سے اس وقت تک ہزاروں نہیں لاکھوں آدمی میرے ذریعہ سے احمدیت میں مضبوط ہوئے اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت روز بروز بڑھتی چلی گئی اور اب تو کئی غیر ممالک میں بھی ہماری جماعتیں قائم
$1958 76 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہو چکی ہیں.ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے اور اسلام کی روشنی ساری دنیا میں پہنچتی رہے.فرد فردا تو ایسی قربانی کرنے والے لوگ ہماری جماعت میں اب بھی پائے جاتے ہیں.چنانچہ یہاں ایک مخلص عورت رہتی تھی وہ بیچاری بیمار ہوگئی تو باہر اپنے رشتہ داروں کے پاس چلی گئی اور وہاں جا کر فوت ہو گئی.اُس کے غیر احمدی رشتہ داروں نے اُسے وہیں غیر احمدیوں کے قبرستان میں دفن کر دیا.لیکن ایک احمدی کو پتا لگا تو سارے گاؤں کی مخالفت کے باوجود اُس نے قبر کھدوائی اور اُس کی لاش اپنے خرچ پر یہاں پہنچا دی.یہ بھی ایسی ہی جرأت کا کام تھا جیسے محمد بن قاسم نے کیا.اُس نے یہ پسند نہ کیا کہ ایک احمدی عورت جور بوہ میں دفن ہونا چاہتی تھی وہ کسی اور جگہ دفن ہو.اسی طرح پچھلے سال افریقہ سے ایک دوست کی لاش آئی تھی وہ پرانے احمدی تھے جو وہاں فوت ہو گئے غیر احمدیوں نے انہیں اپنے مقبرہ میں دفن نہ ہونے دیا.مخالفت بہت تھی.آخر گورنمنٹ کی نے کچھ زمین دی اور وہاں انہیں دفن کروایا.مگر اُن کی بیوی نے کہا کہ میں انہیں یہاں دفن نہیں رہنے دوں گی بلکہ ربوہ پہنچاؤں گی.چنانچہ وہ اپنے خاوند کی لاش وہاں سے ربوہ لے آئی اور یہاں دفن کیا.اس سے پتا لگتا ہے کہ ہمارے اندر بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے جوشیلے لوگ موجود ہیں جو نہ روپیہ کی پر وا کرتے ہیں، نہ سفر کی پروا کرتے ہیں، نہ جان کی پروا کرتے ہیں، نہ عزت کی پروا کرتے ہیں، نہ آبرو کی پروا کرتے ہیں بلکہ ہر طرح دین کی خدمت کرنے اور اس کا جھنڈا اونچا ر کھنے کی کوشش کرتے ہیں.یہ لوگ جب تک رہیں گے اور خدا کرے کہ قیامت تک رہیں احمدیت کا سر اونچا رکھیں گے.اور ان کے ہوتے ہوئے کوئی شخص احمدیت کی طرف بُری نگاہ سے نہیں دیکھ سکے گا.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ زمانہ آ جائے گا جب دنیا میں چاروں طرف احمدیت ہی احمدیت ہوگی.بیشک وہ زمانہ بظاہر دور نظر آتا ہے لیکن کئی کام ہوتے ہیں جو انسان کی نظر میں تو عجیب ہوتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی نظر میں عجیب نہیں ہوتے.خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ دنیا خواہ کتنی مخالفت کرے اور خواہ کتنی روکیں پیدا کرے.وہ ہر روک کے مقابلہ میں کسی بظاہر بچہ نظر آنے والے وجود کو کھڑا کر دے گا اور خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے اتر کر اس کی مدد کریں گے اور وہ غالب آ جائے گا.اس کی نالائقی اور اس کی جہالت اور اس کی ناتجربہ کاری اور اس کا بچہ ہونا سب غائب ہو جائے گا اور اس کا ایمان اور اس کی غیرت غالب آجائیں گے.نہ اس کی ناتجربہ کاری روک بنے گی نہ اس کا جاہل ہونا روک بنے گا اور نہ
$1958 77 خطبات محمود جلد نمبر 39 اس کا بچہ ہونا روک بنے گا بلکہ اُس کا ایمان اور اس کی غیرت اِن سب چیزوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گی اور فتح کا جھنڈا اُس کے ہاتھ میں دے دے گی.پس اپنے ایمانوں کو بڑھاؤ.اپنے تفرقے دور کرو اور ذکر الہی کی کثرت کرو.ذکر الہی کی کثرت کا ایک طریق قرآن کریم کا پڑھنا بھی ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ایک دفعہ ایک دوست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس سے آئے.مجھے شبہ پڑتا ہے کہ وہ مولوی فضل دین صاحب تھے یا ممکن ہے کوئی اور دوست ہوں.اور کہنے لگے حضرت صاحب نے فرمایا ہے کہ میں نے کوئی اڑھائی ہزار دفعہ قرآن کریم پڑھا ہے یہ کس طرح کی ہوسکتا ہے؟ میں نے کہا ہو تو سکتا ہے.جس کے دل میں عشق ہو وہ اتنی دفعہ قرآن کریم پڑھ سکتا ہے.کہنے لگے مجھے تو سمجھ نہیں آتا.میں نے کہا مجھے تو یہ عجیب معلوم نہیں ہوتا.اگر انسان کے اندر با قاعدگی پائی جاتی ہو اور اُسے چالیس پچاس سال کی زندگی مل جائے تو وہ ہزاروں دفعہ قرآن کریم پڑھ سکتا ؟ ہے.غالبا حضرت صاحب نے احتیاطاً ایسا کہہ دیا ہوگا تا کہ جھوٹ نہ بن جائے ورنہ اگر ایک شخص کو ہیں سال بھی کام کرنے کا موقع ملے تو ہیں سال کے معنے یہ ہیں کہ تہتر سودن ہوئے.اور ایک دن میں انسان دس پندرہ بلکہ میں سیپارے بھی اگر پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے.اور اگر کوئی شخص پندرہ سیپارے روزانہ پڑھے تو وہ بیس سال میں تین ہزار چھ سو پچاس دفعہ قرآن کریم پڑھ سکتا ہے اور حضرت صاحب نے تو اڑھائی ہزار دفعہ کہا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے بڑی احتیاط سے کام لیا ہے ورنہ حضرت صاحب نے تو اس سے بھی زیادہ پڑھا ہوگا یا مکن ہے حضرت صاحب نے پڑھنے سے مراد غور سے پڑھنا لیا ہو.قرآن کریم کے ذکر میں مجھے یاد آیا کہ "تفسیر صغیر ہم نے بڑی محنت سے لکھی تھی لیکن کئی باتیں اُس میں پھر بھی رہ گئی ہیں.مثلاً ایک بات تو یہ ہے کہ ضمیمہ میں جتنے نوٹ ہیں وہ سب سورۃ حج کے بعد کے ہیں حالانکہ پہلے بھی اور کئی نوٹوں کی ضرورت تھی.میں نے تلاوت کے وقت کئی آیات نکلوا کر دیکھی ہیں جن پر کوئی نوٹ نہیں آیا.مثلاً سورۃ کہف میں آتا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام اپنے معراج میں خدا تعالیٰ کے ایک برگزیدہ بندہ کے ساتھ جب ایک گاؤں میں گئے تو انہوں نے کھانا مانگان مگر لوگوں نے انہیں اپنا مہمان بنانے سے انکار کر دیا.پھر انہوں نے اس بستی میں ایک ایسی دیوار پائی
78 $1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 جو گر نے کو تھی.اس پر اُس برگزیدہ بندے نے اُسے درست کر دیا.اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَ واس آیت کا لفظی ترجمہ تو یہ ہے کہ ان دونوں نے اس بستی میں ایک ایسی دیوار پائی جو گر نے کا ارادہ کر رہی تھی لیکن ہم نے یہ ترجمہ کیا ہے کہ انہوں نے اُس بستی میں ایک ایسی دیوار پائی جو گر نے کو تھی کیونکہ عربی زبان میں آراد کا لفظ صرف دماغی ارادہ کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ ایسی چیز کے لیے بھی اس لفظ کا امی استعمال کر لیا جاتا ہے جس پر قریب زمانہ میں وہ حالت آنے والی ہو.لیکن سوال تو یہ ہے کہ دوسرا شخص ނ ہمارے اس ترجمہ کو کب تسلیم کر سکتا ہے.اس کے لیے تو ضرورت تھی کہ جہاں جہاں پہلی کتابوں.حوالے مل سکتے وہاں وہ حوالے دے دیئے جاتے اور اس کے متعلق ایک اعلیٰ درجہ کا حوالہ موجود تھا.چنانچہ ابو منصور لعابی جو لغت کے مشہور امام ہیں انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام فقہ اللغہ ہے.اس میں عربی زبان کی باریکیاں بیان کی گئی ہیں.اس کتاب میں مصنف نے خاص طور پر تُرِيدُ اَنْ يَّنْقَضَّ پر بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ ایک دفعہ ہم کچھ لوگ خاندانِ عباسیہ کے ایک وزیر ابوالعباس احمد بن حسین کے دربار میں بیٹھے اُس کی آمد کا انتظار کر رہے تھے کہ ابوخر اس نے جو ایک مشہور ادیب تھا اور دل سے اسلام کا منکر تھا اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ کیا کسی عرب نے کسی عقل نہ رکھنے والی چیز کے بارہ میں بھی کبھی کہا ہے کہ اُس نے ارادہ کیا ؟ میں نے کہا عرب بعض دفعہ ایک غیر ذی روح چیز کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ اس نے یوں کہا جیسے مثال مشہور ہے کہ امْتَلَا الْحَوْضُ فَقَالَ قَطْنِي7 یعنی حوض بھر گیا اور اُس نے کہا بس بس.حالانکہ حوض بولتا نہیں.اُس نے کہا میں قول کا ذکر نہیں کرتا.تم یہ بتاؤ کہ کیا عقل نہ رکھنے والی اشیاء کی نسبت بھی کبھی ارادہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے؟ اُس کی غرض یہ تھی کہ آیت تُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَ پر اعتراض کرے کہ کیا کبھی دیوار بھی گرنے کا ارادہ کیا ت کرتی ہے؟ اُس وقت اللہ تعالیٰ نے میری مدد کی اور عرب کے شاعر الراعی کا یہ شعر میرے ذہن میں آ گیا جو میں نے اُس کے سامنے پڑھا فِي مَهُمَةٍ بِهِ فُلِقَتْ بِهِ هَامَاتُهَا فَلْقَ الْفُؤُوسِ إِذَا أَرَدْنَ نُصُولًا 8 یعنی ایک جنگل میں اُس قوم کی کھوپڑیاں اس طرح توڑی گئیں جس طرح کلہاڑا جب
خطبات محمود جلد نمبر 39 79 $1958 ارادہ کرتا ہے تو ( لکڑیوں کو ) کا ٹتا چلا جاتا ہے.میں نے کہا اس جگہ کلہاڑے کی طرف چلنے کا ارادہ منسوب کیا گیا ہے.کیا اس میں ارادہ ہوتا ہے؟ یہ شعر پڑھنا تھا کہ اُس کا منہ بند ہو گیا اور وہ سخت ہے شرمندہ ہوا.اسی طرح وہ ابو محمد یزیدی کا واقعہ لکھتے ہیں کہ میں اور مشہور نحوی کسائی ، عباس بن حسن کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں اُن کا ایک نو کر آیا اور کہنے لگا کہ حضور! میں فلاں شخص کے پاس سے آیا ہوں.هُوَ يُرِيدُ اَنْ يَمُوتَ کہ وہ تو مرنے کا ارادہ کر رہا ہے.اس پر ہم سب ہنس پڑے کہ کیا کوئی کی مرنے کا بھی ارادہ کیا کرتا ہے؟ عباس بن حسن نے کہا تم کس بات پر ہنسے ہو؟ کیا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نہیں فرمایا کہ فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا تُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ.اس پر ہم سمجھ گئے کہ اَرَادَ " کا لفظ کبھی قرب وقوع پر دلالت کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے 9.لیکن میں نے جب ی اس آیت کو دیکھا تو اس پر کوئی نوٹ درج نہیں تھا.اگر وہاں اس آیت کے نیچے فقہ اللغۃ کا حوالہ د.دیا جا تا تو اعتراض کرنے والے کا منہ بند ہو جاتا اور وہ سمجھ لیتا کہ جو تر جمہ ہم نے کیا ہے وہی درست ہے اور علمائے لغت نے اس کی تصدیق کی ہے.اسی طرح میں نے چار پانچ اور آیات نکلوائیں تو اُن میں سے بھی کسی پر کوئی نوٹ نہ تھا حالانکہ میرے نوٹ موجود تھے.میں نے اپنا قرآن کریم چار حصوں میں جلد کروایا ہوا تھا اور میری توی عادت تھی کہ میں جب قرآن کریم پڑھتا تو اُس کے حاشیہ پر تشریح کر دیتا.جب ہم جابہ میں تفسیر صغیر لکھ رہے تھے تو ایک آیت کی کہیں تشریح نہیں ملتی تھی.آخر میں نے کہا کہ میرا قرآن کریم نکالو.جب نکالا گیا تو میں نے دیکھا کہ وہاں اس آیت کی تشریح موجود تھی جس سے وہ تمام آیت حل ہو گئی.پس میرے اس قرآن میں یہ سارے حوالے موجود ہیں کیونکہ میری عادت تھی کہ میں کتابیں پڑھتا تو قرآن پر نوٹ لکھ دیا کرتا.اس لیے کوئی مشکل نہیں تھی.اول تو ممکن ہے میں نے یہ بات کسی خطبہ میں بھی بیان کر دی ہو لیکن خطبوں میں تلاش کرنا تو مشکل ہوتا ہے.میرا قرآن کریم ہی دیکھ لیا جاتا تو یہ نوٹ آ جاتا.یہ قرآن کریم مولوی یعقوب صاحب کے پاس ہے اور مولوی نورالحق صاحب بھی ان کی کے ساتھ کام کرتے ہیں.اس قرآن سے یہ سب حوالے دیکھے جا سکتے تھے.بہر حال ہمیں ضرورت ہے کہ ہم قرآن کریم کی ایسے مفید طور پر اشاعت کریں کہ دشمن کو اعتراض کا موقع نہ ملے.
خطبات محمود جلد نمبر 39 80 $1958 اس میں کوئی شبہ نہیں کہ غیر احمدی اس کی بڑی تعریف کرتے ہیں مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن کو کی اعتراض نہیں سو جھتا.اعتراض ہم کو سو جھتا ہے اور جواب بھی ہم ہی دیتے ہیں.پس صرف اُن کی کی ریف پر ہمیں خوش نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اُن کی تعریف بالکل ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کسی گاؤں میں ایک ہاتھی آیا تو لوگ اُس کو دیکھنے کے لیے دوڑ پڑے.ایک اندھے نے دوسرے سے کہا کہ تم مجھے بھی ساتھ لے چلو.اُس نے کہا تمہیں کیا نظر آئے گا؟ وہ کہنے لگا چاہے مجھے کچھ نظر نہ آئے مجھے لے چلو میں ہاتھ لگا کر ہی دیکھ لوں گا.جب واپس آئے تو لوگوں نے آپس میں گفتگو شروع کر دی کہ ہاتھی کی کیسا ہوتا ہے.اُس اندھے نے اُن کی باتیں سن کر کہا یہ سب جھوٹ ہے.اُس نے ہاتھی کے سونڈ اور ٹانگوں پر ہاتھ لگایا تھا اور پھر پیٹ پر بھی ہاتھ پھیرا تھا.وہ کہنے لگا وہ تو ایک موٹی سی چیز ہوتی ہے جو چار ستونوں پر رکھی ہوئی ہوتی ہے اور ایک پانچواں ستون اور ہوتا ہے جو اُس کے آگے ہوتا ہے.یہی حال غیروں کی تعریف کا ہے.انہوں نے نہ قرآن کریم پر کبھی غور کیا اور نہ دشمن کے اعتراضات کا انہیں علم ہے.پس ہمیں اس پر خوش نہیں ہونا چاہیے.ہمیں اُن کے ہاتھ میں قرآن کریم مکمل صورت میں دینا چاہیے تا انہیں پتا لگے کہ یہ معنے صرف احمدیوں کے ہی نہیں بلکہ ہمارے گزشتہ بزرگ بھی ان معنوں کی تصدیق کرتے رہے ہیں.مثال کے طور پر دیکھ لو وفات مسیح کا مسئلہ کیسا واضح ہے لیکن غیر احمدی اب تک ہمارے معنوں کی مخالفت کرتے چلے آرہے ہیں.حالانکہ یہ ایک واضح بات ہے کہ اگر کوئی کہے کہ تَوَ فی فُلانٌ تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ شخص مر گیا ہے.گورنمنٹ کے کاغذات میں بھی لکھا ہوتا ہے کہ یہ فلاں متوفی کا بیٹا ہے اور کوئی نہیں کہتا کہ وہ آسمان پر بیٹھا ہوا ہے.پس جن لوگوں نے ساٹھ ستر سال میں بھی کی ہمارے ایک لفظ کے معنے کو تسلیم نہیں کیا وہ ایک دن میں ہمارے تمام قرآن کے معنوں کو کب تسلیم کر لیں گے.بہر حال تمام قرآن مجید دوسروں سے منوا لینا اور اُن کو سمجھا دینا بہت مشکل امر ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ قرآن کریم آسمان پر چلا جائے گا.صرف اس کا خط باقی رہ جائے گا 10 اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ میں قرآن کریم کے معنے زمین سے اُٹھ جائیں گے اور صرف تحریر باقی رہ جائے گی تو تم کس طرح خیال کرتے ہو کہ تمہارے کیے ہوئے معنے فورامان لیے جائیں گے.اس کے لیے تو خدا تعالیٰ کی نصرت اور
$1958 81 خطبات محمود جلد نمبر 39 فضل اور بڑے جہاد کی ضرورت ہے.اس جہاد کے بعد کہیں وہ معنے قائم ہوں گے.اگر ایک دن میں قائم ہو جائیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی جھوٹی نکلتی ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب قرآن کریم کے مطالب زمین سے اُٹھ جائیں گے.پس ان معانی کو قائم کرنے کے لیے بہت بڑے جہاد کی ضرورت ہے.اس سے ہزاروں گنا زیادہ جہاد کی ضرورت ہے جو لفظ توئی کے لیے کیا گیا.کیونکہ وہ ایک لفظ تھا اور یہ سارا قرآن ہے جس میں کوئی ستر ہزار الفاظ ہوں گے.اگر ایک لفظ پر اتنی لمبی مدت صرف ہوئی ہے تو سارے قرآن کریم کے لیے تو صدیاں درکار ہوں گی.لیکن اگر اللہ تعالیٰ کا فضل ہو اور وہ چاہے تو دوسروں کو جلدی بھی سمجھ دے سکتا ہے“.1 : الانفال: 46 2 : الانفال: 47 (الفضل 25 اپریل 1958ء) 3: وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَمِنُوا كَمَا أَمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا أَمَنَ السُّفَهَاءُ (البقرة:14) :4 : البداية والنهاية جلد 8 صفحہ 126 مطبوعہ بیروت 2001ء 5 : وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِبْوَالِى وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة : 187) 6 : الكهف : 78 7 تا 9 : فقه اللغة و سِرُّ العربية جزء 1 صفحه 254، 255 مطبوعه 2002ء ! 10 : مشكواة ( مترجم ) كتاب العلم الفصل الثالث جلد 1 صفحہ 73 مطبوعہ لاہور 1993ء
$ 1958 11 82 88 خطبات محمود جلد نمبر 39 جماعت احمدیہ کا مقصد دنیا میں توحید حقیقی کا قیام ہے تو حید محض زبانی اقرار کا نام نہیں ہے تمہارا ہر فعل اور ہر عمل توحید الہی کا مظہر ہونا چاہیے (فرمودہ 18 اپریل 1958ء بمقام لاہور ) تشہد ، تعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”دنیا میں ہر عقلمند انسان اپنے کاموں کا کوئی نہ کوئی مقصد قرار دیتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لِكُلِّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِيْهَا 1 بر انسان کا کوئی نہ کوئی مقصود ہوتا ہے جس کی طرف وہ توجہ کرتا ہے.کوئی انسان دنیا میں عزت کے پیچھے پڑا ہوتا ہے، کوئی عملی ترقی کے پیچھے پڑا ہوتا ہے، کوئی اپنے پیشہ کی ترقی کے پیچھے پڑا ہوتا ہے، کوئی مال اور اولاد کی زیادتی کی جستجو میں ہوتا ہے، کوئی حکومت کے پیچھے پڑتا ہے، کوئی دنیا کی خدمت میں لگا ہوتا ہے.غرض جو بھی انسان کہلانے کا مستحق ہے اُس کے سامنے کوئی نہ کوئی مقصد ایسا ضرور ہوتا ہے جس کی طرف رات دن اس کا خیال لگا رہتا ہے.پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو انبیاء دنیا میں آئیں وہ کوئی مدعالے کر نہ
83 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 ئیں.یہ مدعا جو انبیاء لے کر آتے ہیں وہ نمایاں صورت میں توحید الہی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے کیونکہ دنیا میں جتنی خرابیاں اور تباہیاں آتی ہیں وہ تو حید کے نہ سمجھنے اور اس پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے آتی ہیں.تمام گناہوں، تمام مُستیوں اور غفلتوں اور تمام مُجرموں کی جڑ شرک ہے.منہ سے بیشک لوگ خدا تعالیٰ کو ایک کہتے ہیں مگر منہ سے کہنے اور عمل کرنے میں بڑا فرق ہے.اجمالی ایمان کے لحاظ سے اس وقت بھی دنیا میں توحید کے ماننے والوں کی کثرت ہے مگر تفصیلی ایمان کے لحاظ سے اس وقت دنیا میں تو حید بہت کم ہے.عیسائی بڑے زور سے یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ توحید کے قائل ہیں بلکہ میں نے بعض عیسائی مصنفین کی کتابیں پڑھی ہیں جن میں وہ مسلمانوں پر چی اعتراض کرتے ہیں کہ اُن کے اندر تو حید نہیں اور کہ اصل اور سچی تو حید اُن کے اندر ہی پائی جاتی ہے.ہندوؤں میں سے آریہ سماجی تو عَلَى الْإِيمَان اِس بات کا اظہارا اپنی کتابوں میں کرتے ہیں کہ توحید کے صحیح حامل وہی ہیں اور دوسروں پر اعتراض کرتے ہیں کہ ان کے اندر تو حید نہیں.تو جو لوگ بظاہر مشرک نظر آتے ہیں اگر ان کے محققین کی کتابیں دیکھی جائیں تو وہ بھی تو حید کے قائل نظر آتے ہیں.بیجوں کی پوجا کرنے والے کہتے ہیں کہ ہم بیشک بُتوں کی پوجا کرتے ہیں مگر اس لیے نہیں کہ ہم ان کو خدا تعالیٰ کا شریک سمجھتے ہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ قائم رکھنے کے لیے ایسا کرتے ہیں.مکہ کے مشرک جو سر سے لے کر پیر تک شرک میں ڈوبے ہوئے تھے قرآن کریم بتاتا ہے کہ جب اُن پر یہ اعتراض کیا جاتا کہ تم مشرک ہو تو وہ جواب دیتے کہ ہم مشرک نہیں ، ہم تو ان بچوں کی پوجا اس لیے کرتے ہیں کہ لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللهِ زُلفی 2 تا کہ یہ ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب کر دیں.تو منہ کی توحید دنیا میں اکثر پائی جاتی ہے مگر باوجود اس کے قرآن کریم توحید پر زور دیتا ہی اور دوسری قوموں پر شرک کا الزام لگاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس تو حید کو قرآن کریم پیش کرتا ہی ہے وہ صرف زبانی اقرار کا نام نہیں.اگر یہی تو حید ہوتی تو چاہیے تھا کہ جب مشرک کہتے کہ ہم بتوں کو خدا نہیں مانتے بلکہ اُن کی پرستش اس وجہ سے کرتے ہیں کہ لِيُقَرِّبُوْنَا إِلَى اللهِ زُلفى تو پھر قرآن کریم ان پر شرک کا الزام لگانا چھوڑ دیتا مگر ایسا نہیں قرآن کریم ان کو بدستور مشرک قرار دیتا تای ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم نے ان کے جواب کو صحیح نہیں قرار دیا اور باوجود ان کے اد عالم کے اُن کو مشرک قرار دیا ہے.پھر باوجود اس کے کہ عیسائی تو حید کا دعوی کرتے ہیں قرآن کریم اُن پر
$1958 84 خطبات محمود جلد نمبر 39 شرک کا الزام لگاتا ہے.ان کے علاوہ یہود ہیں جو قطعی طور پر بت پرستی کے خلاف تھے بلکہ بُت پرستی کے خلاف ان کے اندر اس قدر جذبہ پایا جاتا ہے کہ جس طرح مسلمان بنوں سے سلوک کرتے ہیں اس سے بہت زیادہ یہودی کرتے ہیں.مسلمانوں میں تو اس امر کو جائز نہیں سمجھا جاتا کہ کسی کے بت خانہ کو گرا دیا جائے اور اگر اسلامی حکومت ہو تو از روئے شریعت اسے اجازت نہیں کہ کسی قوم کے معبد کو خواہ وہ بت خانہ ہی کیوں نہ ہو تو ڑ دے سوائے اس کے کہ وہ معبد اپنا ہو جیسے مکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جو بڑے پکے موحد تھے بنایا ہوا تھا اور ان کے علاوہ بعض دوسرے انبیاء کا بھی اس میں دخل تھا اس کی لیے اسے شرک سے پاک کرنا جائز تھا.گویا تو حید کے معبد کو اگر بت خانہ میں تبدیل کیا گیا ہو تو دوبارہ اسے شرک سے پاک کرنے کی اجازت ہے ورنہ نہیں لیکن یہود کے عقائد کے رُو سے بُت خانوں کا جلا دینا اور مٹادینا ضروری ہے اور ایسا نہ کرنے والوں کا ان کے نزدیک مؤاخذہ ہوگا.یہود کے مذہب پر تین ہزار سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے مگر یورپ میں رہنے کے باوجود آج تک ان کے اندر شرک نہیں کی آیا.وہ توحید کے ظاہری مفہوم کے لحاظ سے ایسے ہی سخت ہیں جیسے اہلِ حدیث سمجھے جاتے ہیں مگر قرآن کریم ان کو بھی مشرک قرار دیتا ہے حالانکہ ظاہری توحید کے لحاظ سے وہ مسلمانوں سے کسی صورت میں کم نہیں.وہ نہ حضرت موسی اور نہ کسی اور کا کوئی بُت بناتے ہیں.ان کے معابد بنوں سے ایسے ہی خالی ہوتے ہیں جیسے مساجد مگر باوجود اس کے قرآن کریم ان کو مشرک قرار دیتا ہے.پس معلوم ہوا کہ قرآن کریم تو حید کا جو مفہوم لیتا ہے وہ وہ نہیں جو عام طور پر دنیا میں سمجھا جاتا ہے.دنیا میں شرک کے معنے یہ لیے جاتے ہیں کہ بتوں کی پرستش کی جائے ، انسانوں کی طرف وہ باتیں منسوب کی جائیں جو خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتی ہیں.اس میں طلبہ نہیں کہ یہود کا ایک قلیل طبقہ ایسا تھا جو عزیر کو ابن اللہ سمجھتا تھا مگر وہ ایسا چھوٹا فرقہ تھا کہ اسے ساری قوم کی طرف منسوب ہی نہیں کیا جاتی سکتا.جیسے مسلمانوں میں بھی فقراء کے بعض ایسے گروہ ہیں جو قبروں کی پوجا کرتے ہیں مگر ان کی تعداد چند سو یا چند ہزار سے زیادہ نہ ہوگی اور وہ اس قدر قلیل تعداد میں ہیں کہ ان کی باتیں مسلمانوں کی طرف منسوب نہیں کی جاسکتیں.اسی طرح یہود میں بھی نہایت محدود طبقہ ایسا تھا جو عز بر کو ابن اللہ کہتا تھا لیکن وہ مٹ گیا اور اس زمانہ میں ایسے لوگ یہود میں بالکل نہیں ہیں.اسی لیے یہود قرآن کریم پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس نے یہ غلط بات یہودیوں کی طرف منسوب کی ہے.اسی طرح عیسائی بھی یہ
$1958 85 خطبات محمود جلد نمبر 39 اعتراض کرتے ہیں کہ کون یہودی عزیر کو ابن اللہ کہتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک چھوٹا سا صدوقی فرقہ تھا جو اس عقیدہ کا قائل تھا مگر اب یہ فرقہ دنیا سے مٹ چکا ہے اور آج یہودیوں میں ایسا عقیدہ رکھنے والا کوئی شخص نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد شاید پہلی یا دوسری صدی تک یہ لوگ رہے اور مٹ گئے.اسی طرح آج عیسائیوں کا کوئی فرقہ ایسا نہیں جو حضرت مریم کو خدا کہے اور کی اس پر بھی عیسائی اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن نے جو بات کہی ہے یہ غلط ہے.حقیقت یہی ہے کہ یہ کبھی کوئی چھوٹا سا فرقہ تھا جواب مٹ چکا ہے.عیسائیوں کو ہم یوں بھی مجرم کرتے ہیں کہ اگر جاؤں پر ان حضرت مسیح کی والدہ کی تصویر بھی لگائی جاتی ہے اور اس سے بھی وہ دعائیں کرتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ یہی شرک ہے.لیکن اصل بات یہی ہے کہ ابتدائی زمانہ میں ایسے چھوٹے چھوٹے فرقے تھے جو آب مٹ چکے ہیں.تو میں بیان کر رہا تھا کہ جو لوگ بظاہر تو حید پرست ہیں قرآن کریم نے اُن کو بھی مشرک قرار دیا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے نزدیک توحید کا جو مفہوم ہے وہ اُس سے مختلف ہے جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے.مثلاً ہم یہود کو ہی لیتے ہیں.جب اللہ تعالیٰ نے اُن کے متعلق فرمایا کہ وہ مشرک ہیں تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ قرآن کریم نے ان کو کن معنوں میں مشرک قرار دیا ہے.اس غرض کے لیے جب ہم قرآن کریم پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم یہ نہیں کہتا کہ یہ لوگ بت بناتے یا ان کی پوجا کرتے ہیں بلکہ فرماتا ہے کہ ان کے اندر یہ شرک ہے کہ اِتَّخَذُوا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ 3 جو کچھ بھی ان کے علماء کہتے ہیں اُسی کو درست مان لیتے ہیں.یہ لوگ ایک انسان کی بات پر اتنا بھروسا رکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک وہ بالکل صحیح ہو جاتی ہے اور اس کے مقابل پر الہام کو بھی رد کر دیتے ہیں اور اس طرح الہام کا دروازہ بند کرتے ہیں.اُن کے اندر یہ احساس راسخ ہو چکا ہے کہ اُن کے علماء جو بات کہیں وہی درست ہے اور ان کو وحی الہی اور کسی تعلیم کی ضرورت نہیں.اور جو یہ خیال کرلے کہ ہمیں خدائی ہدایت کی احتیاج نہیں اُس کے اندر شرک پیدا ہونا لازمی ہے.شرک کی یہ تعریف جو قرآن کریم نے یہودیوں کے متعلق کی ہے آج کی مسلمانوں میں بھی پائی جاتی ہے کیونکہ وہ بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو بات ہمارے علماء کہتے ہیں وہی ٹھیک ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیں کسی ہدایت کی ضرورت نہیں.اسی چیز کا نام قرآن کریم میں
$1958 86 خطبات محمود جلد نمبر 39 یہود کے بارہ میں شرک رکھا گیا ہے.جو قوم یہ خیال کر لیتی ہے کہ ہم اپنی ہدایت کا سامان خود کر سکتے ہیں اور ہمارے علماء ہمیں غلط رستے سے بچانے کے لیے کافی ہیں اُس کا یہ خیال أَرْبَابًا مِّنُ دُونِ اللہ قرار دینا ہے.خدا تعالیٰ نے یہ حق اپنے لیے رکھا ہے کہ جب کوئی خرابی بندوں میں پیدا ہو وہ اُن کی ہدایت کا انتظام کرے.پس جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ ہدایت کا کام بندے کر سکتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی جو کتاب ہم میں موجود ہے اُس سے ہمارے لیے ہدایت کا رستہ تلاش کر کے ہمیں بتا سکتے ہیں وہ شرک کرتا ہے.اب بتاؤ کیا کوئی قوم دنیا میں ایسی ہے جو تو حید کا یہ مفہوم مھتی ہو کہ خدا تعالیٰ کو ہادی سمجھا جائے اور اُس کی طرف سے ہر وقت ہدایت کے دروازہ کو کھلا سمجھا جائے.یہ وہ تو حید ہے جسے قائم کرنے کے لیے انبیاء دنیا میں آتے ہیں.جب کسی قوم میں یہ خرابی پیدا ہو جائے کہ وہ اپنی ہدایت کے لیے الہام الہی سے اپنے آپ کو مستغنی سمجھنے لگ جائے تو یہ اپنی ذات میں اس بات کے لیے کافی ہوتا ہے کہ نبی آ جائے.جب بندے یہ کہیں کہ ہمارے لیے پہلے سے نازل شدہ کلام ہی کافی ہے اور ہم اپنے زور سے اس میں سے ہدایت نکالیں گے تو اس غلطی کا جواب یہی ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی طرف سے کسی بندے کو بھیج کر یہ بتا دے کہ تمہارا یہ خیال غلط ہے.یہی عقیدہ انسان کو مشرک بنا دینے کے لیے کافی ہے.جب کسی قوم میں یہ عقیدہ پیدا ہو جائے تو وہ خدا تعالیٰ کی محبت سے محروم ہو جاتی ہے کیونکہ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے جو کچھ دینا تھا دے دیا اب اُس کی طرف سے مجھے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا اُسے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے.توجہ تو وہی کرے گا جو یہ سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام موجود ہونے کے باوجود مجھے اس کی طرف توجہ کی ضرورت ہے.جب کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو جائے کہ ہدایت کے لیے میں اللہ تعالیٰ کا محتاج نہیں ہوں تو اُس کی کے دل سے محبت الہی بھی مِٹ جائے گی اور اس کی توجہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہٹ جائے گی اور یہی اس کی روحانی موت کا دن ہوگی.جب یہ خیال پیدا ہو جائے کہ ہمارے علماء کافی ہیں، قرآن کریم عربی زبان میں ہے اور وہ اس کے معنے ہمیں بتا سکتے ہیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیں کسی خاص ہدایت کی حاجت نہیں.پھر خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے.جب بچہ روٹی کھانے لگ جائے تو پھر ماں کی چھاتیوں کی طرف اس کی توجہ نہیں رہتی لیکن جب تک وہ دودھ پیتا ہے اُس وقت تک ہر وقت وہ ماں کی گود میں رہتا ہے.اسی طرح جب
$1958 87 خطبات محمود جلد نمبر 39 تک کوئی بندہ یہ محسوس کرے کہ مجھے روحانی غذا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے اور ملتی رہے گی اُس وقت تک وہ کوشش کرے گا کہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکے مگر جب اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتی جائے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے جو کچھ ملنا تھامل چکا اور کچھ نہیں مل سکتا تو پھر وہ خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ نہیں ہوگا بلکہ اُس چیز کے اردگر دگھومتا رہے گا.اس نکتہ کو سمجھتے ہوئے ہماری جماعت کو دو باتوں کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے.ایک تو یہ کہ دنیا جب اس قدر خطر ناک طور پر شرک کی بلا میں مبتلا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کی کی حکومت سے دنیا باہر ہو رہی ہے ہمارے دائیں بائیں اور آگے پیچھے خدا تعالیٰ کو ماننے اور اُس سے محبت کا دعوی کرنے والے اُس کی حکومت سے باہر اور اُس سے بغاوت کر رہے ہیں تو ہمارے اندر کی کس قدر گھبراہٹ پیدا ہونی چاہیے.کوئی ملک جس میں بغاوت پیدا ہو چکی ہو اس اطمینان سے نہیں کی بیٹھ سکتا جس اطمینان سے ہماری جماعت کے لوگ بیٹھے ہیں.فرض کرو انگلستان میں بغاوت ہو جائے یا کسی اور ملک مثلاً جرمنی، اٹلی یا فرانس میں بغاوت ہو جائے تو کیا تم سمجھتے ہو کہ حکومت کے سپاہی اس اطمینان سے بیٹھے رہیں گے جس اطمینان سے ہم بیٹھے ہیں؟ یا وہ رات دن لڑائی اور مقابلہ کے لیے تیاری کریں گے؟ شرک بھی ایک روحانی بغاوت ہے.اس لیے جو لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کے نتیجہ میں دنیا سے روحانی بادشاہت مٹ جائے گی انہیں دن رات یہ گھبراہٹ ہونی چاہیے اور چین نہیں لینا چاہیے جب تک اس بغاوت کو فرو نہ کر لیں.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی طرف جو الفاظ منسوب کیے گئے ہیں بیشک اُن الفاظ پر ہم اعتراض کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اُن کی یہ دعا کہ اے ہمارے باپ ! تو جو آسمان پر ہے تیرا نام پاک مانا جائے ، تیری بادشاہت آئے ، تیری مرضی جیسی کی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو.4 بالکل صحیح ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ دنیا میں شرک قائم ہوکر اللہ تعالیٰ کی بادشاہت مٹ چکی ہے اور وہ اپنے صحابہ کو یہ بتارہے تھے کہ تم پر لازم ہے کہ دنیا میں خدا تعالیٰ کی بادشاہت قائم کرو اور وہ ان کے اندر ایک درد پیدا کرنا چاہتے تھے.آج بھی یہی حالت ہے کہ ہر شخص نے ظاہری اور باطنی معبود بنائے ہوئے ہیں اور سب خدا تعالیٰ سے دور ہورہے ہیں.کوئی تو یہ کہتا ہے کہ ہمارے فلاں فلاں آدمیوں کو خدائی طاقتیں حاصل ہو گئی ہیں اور کوئی کہتا ہے کہ یہ طاقتیں ہم کو مل گئی ہیں.عیسائیوں میں جو شرک ہے وہ
88 $1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 آٹو کریسی (AUTOCRACY) ہے یعنی انہوں نے خدا تعالیٰ کی بادشاہت ایک یا چند اشخاص تک محدود کر دی ہے مگر مسلمانوں اور یہودیوں میں جو شرک ہے وہ ڈیما کریسی (DEMOCRACY) ہے.انہوں نے خدا تعالیٰ سے خدائی صفات چھین کر آپس میں بانٹ لی ہیں لیکن خدا تعالیٰ سے بہر حال بغاوت کی گئی ہے.کسی راجہ کے خلاف بغاوت ہو جائے تو وہاں خواہ کوئی اور راجہ اپنی حکومت قائم کرے یا لوگ کوئی پارلیمنٹ بنالیں اُس کی حکومت تو بہر حال مٹ جائے گی.اس زمانہ میں سوائے اس قوم کے جو یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے اور رہے گی اس کی طرف سے ہدایت کا زمانہ کبھی ختم نہیں ہوسکتا اور نہ ہوگا.قرآن کریم ایک سر بمہر ہدایت ہے اور اس کے سمجھنے کے لیے ایک قلب مطہر کی ضرورت ہے.تمام دنیا خدا تعالیٰ کی بادشاہت سے خالی کو ہے بلکہ اس کی بادشاہت کے خلاف دنیا میں ایک عام بغاوت ہو رہی ہے اور اس کے سپاہی آرام کے ساتھ بیٹھے ہیں اور انہیں پتا ہی نہیں کہ ملک تباہ ہو چکا ہے.اگر واقع میں وہ خدا تعالیٰ کے سپاہی ہیں تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ گھروں میں بیٹھے رہیں.کسی کی پچپہ بھر زمین پر کوئی قبضہ کر لے تو زمینداروں میں خون ہو جاتے ہیں اور درجنوں آدمی قتل ہو جاتے ہیں.بلکہ کسی کے درخت کی شاخ اگر دوسرے کے کھیت میں چلی گئی ہو اور وہ اُس کو کاٹ لے تو اسی پر خون ہو جاتے ہیں.کاٹنے والا کہتا ہے یہ میرے کھیت میں تھی مگر دوسرا کہتا ہے کہ اس کی جڑ میرے کھیت میں تھی اس لیے یہ میری ہے.مگر خدا تعالی کی بادشاہت دنیا سے بالکل مٹ چکی ہے اور خدا تعالیٰ کے سپاہی کہلانے والوں میں اس کے متعلق کوئی درد نہیں ، کوئی غم نہیں اور وہ بالکل اطمینان سے بیٹھے ہوئے ہیں.پس ایک تو یہ بات ہے جس کی طرف میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں.میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت جماعت کو جس مستعدی سے کام کرنا چاہیے وہ موجود نہیں.قرآن کریم نے ایسی بغاوتوں کے مقابلہ کے لیے جو انتظام کیا ہے اس کا نام دعوت رکھا ہے جسے اس زمانہ میں تبلیغ بھی کہا جاتا ہے مگر ہماری جماعت کو اس کی طرف وہ توجہ نہیں جو ہونی چاہیے.کسی مجلس میں احمدیت کو پیش کر دینا یا کسی اعتراض کا جواب دے دینا اور بات ہے مگر قرآن کریم نے کیا لطیف بات پیش کی ہے.فرمایا اپنی اپنی جگہ پر غور کرو کہ کیا تم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے؟ اگر تمہارے دل گواہی دیں کہ نہیں تو پھر باتیں بنانے سے کیا حاصل.سو جماعت کے دوست بھی اس بات پر غور کریں کہ کیا وہ اپنا فرض ادا کر رہے ہیں.مثلاً لاہور کی جماعت ہے.لاہور چونکہ ایک
$ 1958 89 خطبات محمود جلد نمبر 39 مرکزی جگہ ہے اور یہاں کی جماعت کو خاص اہمیت حاصل ہے اس لیے یہاں کے دوستوں کو بھی اپنے کی فرائض بہت زیادہ تندہی سے ادا کرنے چاہیں مگر باجود یکہ میں ہر سفر کے موقع پر یہاں احباب کو توجہ دلاتا ہوں کہ تبلیغ کرو اور جماعت کو بڑھا ؤ جب بھی میں آتا ہوں نئی تجاویز تو بہت پیش ہوتی ہیں لیکن عملی نتیجہ بہت کم نظر آتا ہے.آپ لوگ جو یہاں موجود ہیں غور کریں کہ آپ نے تبلیغ میں کیا کوشش کی ہے اور خدا تعالیٰ کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے کیا جد و جہد عمل میں لائے ہیں.بعض لوگ یو نہی ہے کہہ دیتے ہیں کہ کیا کریں، لوگ ہماری بات سنتے ہی نہیں.مگر میں سمجھتا ہوں یہ صحیح نہیں یہ انسانی ہے فطرت کا غلط مطالعہ ہے.انسانی فطرت کو اللہ تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ وہ مجو بہ کے طور پر بھی دوسرے کی بات سنتا ہے.غلطی ہماری ہے کہ جس رنگ میں ہم بات کو پیش کرتے ہیں وہ سننے کے قابل نہیں ہوتی.ہماری جماعت میں عام طریق یہی ہے کہ کسی کو تبلیغ کرتے وقت وفات مسیح کو شروع کر دیں گے یا ضرورت نبوت کا مسئلہ پیش کر دیں گے.وہ یہ نہیں جانتے کہ بعض دماغ اتنے زنگ آلود ہوتے ہیں کہ ان میں ایسی باتوں کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں ہوتی.بھلا جو شخص خدا کا ہی قائل نہیں یا نبوت کا قائل نہیں وہ ان باتوں میں کیا دلچسپی لے سکتا ہے.مسلمانوں میں کئی لوگ ایسے ہیں جو یوں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بڑی غیرت کا اظہار کرتے ہیں لیکن اندرونی طور پر وہ خدا تعالیٰ کے بھی منکر ہوتے ہیں.یونہی ماں باپ سے سن کر وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ورنہ اسلام سے اُن کو کوئی وابستگی نہیں ہوتی.ایسے لوگوں کے دلوں میں پہلے خدا تعالیٰ کی خشیت پیدا کرنی چاہیے تاوہ دینی باتوں کو سننے لگ جائیں اور خشیت سب سے بہتر نمونہ سے پیدا کی جاسکتی ہے باتوں سے نہیں.جب کوئی دیکھے کہ اس شخص میں ایسی روحانیت ہے جو دوسروں میں نہیں تو اُس کا دل خود بخود اس کی طرف مائل ہو جاتا ہے.حضرت حمزہ کے اسلام لانے کی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے اُن تکالیف کو دیکھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی جارہی تھیں اور پھر اُس سنجیدگی کو دیکھا جس سے آپ اُن کو برداشت کرتے جارہے تھے اور اس طرف بھی اُن کو ایک غلام اور جاہل عورت نے متوجہ کیا.آپ نے کوئی دلائل نہیں سنے کہ کوئی خدا ہے یا نہیں، اور کوئی الہام نازل ہوتا ہے یا نہیں ، صرف اس بات کو دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سنجیدگی کے ساتھ اپنی بات پر قائم ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دنیا کاغم مجھ ہی کو ہے.اس چیز
90 $1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 نے اُن کا دل بدل دیا اور وہ ایمان لے آئے.احادیث میں آتا ہے کہ حضرت حمزہ ایک دن شکار کے لیے باہر گئے ہوئے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو جہل نے مارا اور گالیاں بھی دیں.آپ کی اس وقت پتھر کی ایک چٹان پر بیٹھے کچھ سوچ رہے تھے کہ ابو جہل آگے بڑھا اور اُس نے آپ کو گالیاں دینی شروع کر دیں اور پھر زور سے ایک تھپڑ آپ کے منہ پر مار دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے کچھ نہیں کہا.آپ خاموشی سے اُٹھے اور گھر تشریف لے گئے.حضرت حمزہ کی ایک لونڈی یہ نظارہ دیکھ رہی تھی.وہ عورت ذات تھی خود تو کچھ نہ کر سکتی تھی منہ میں بڑ بڑاتی ہوئی رہ گئی اور شام تک کی غصہ میں بھری رہی.شام کو حضرت حمزہ کمان اور ترکش لٹکائے ہوئے گھر آئے ، ہاتھ میں شکار پکڑا ہوا نی تھا اور اس انداز سے چلے آ رہے تھے کہ گویا کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دے کر آئے ہیں.جب گھر کے اندر داخل ہوئے تو وہ لونڈی جو مسلمان نہ تھی مگر اس قربانی کا نظارہ دیکھ چکی تھی کہ لوگ مارتے ہیں صرف اس وجہ سے کہ آپ خدا کا نام لیتے ہیں اُس نے حضرت حمزہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ بڑے سپاہی بنے پھرتے ہو کیا کام کر کے آئے ہو؟ تمہارے بھتیجے کو آج ابو جہل نے مارا صرف اس وجہ سے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا نام لیتا تھا.تم کس برتے پر بہادر بنے پھرتے ہو؟ حضرت حمزہ نے شکار کے شوق میں کبھی یہ نظارہ دیکھا ہی نہ تھا کہ مکہ میں کیا فساد برپا ہے.آپ نے لونڈی سے پوچھا کہ کیا ہوا ؟ اُس نے کہا کہ اس طرح وہ اکیلا بیٹھا ہوا تھا کہ ابو جہل نے اُسے مارا.یہ سُن کر آپ نے شکار کا سامان نہیں اتارا ان سی طرح کمان ہاتھ میں پکڑے گئے اور جا کر وہی کمان ابو جہل کے منہ پر ماری اور کہا کہ بڑے بہادر بنے پھرتے ہو! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مارتے ہو! اگر جرات ہے تو آؤ مجھے مارو.یہ دیکھ کر لوگ اُٹھے کہ ہیں ہیں یہ کیا؟ وہ تو دین میں تغیر کرتا ہے.اس پر حضرت حمزہ نے کہا کہ اچھا! اگر وہ دین میں تغیر کرتا ہے تو سُن رکھو کہ میرا بھی وہی دین ہے.آؤ! اگر لڑ نا چاہتے ہو تو مجھ سے لڑلو.5 تو یہ سنجیدگی ہی تھی جس کا یہ اثر تھا اور خشیت تھی جو لونڈی نے پیدا کر دی تھی.وہ دیکھ رہی تھی کہ آخر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا قصور کیا ہے.وہ کسی کی زمین پر قبضہ نہیں کرتے کسی کا مال نہیں چھینتے، کسی شخص کو اُس کے کسی حق سے محروم نہیں کرتے صرف خدا کا نام لیتے ہیں اور یہ لوگ محض اس غرور میں کہ یہ طاقتور ہیں آپ کو مارتے ہیں.اُن کے اس مارنے نے حضرت حمزہ کی شرافت کو گھائل کر دیا اور انہوں نے کہا کہ اگر انسانیت اس قدر گر گئی ہے تو جو شخص خدا تعالیٰ کے لیے تکلیف اُٹھار
$1958 91 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہے.یقیناً وہی سچا ہے اور میں بھی اُس کے ساتھ ہوں.انہوں نے کوئی دلیل نہیں سنی ، کوئی مسائل نہیں سمجھے.اس سے قبل وہ خدا تعالیٰ کی توحید کے دلائل بھی سنتے ہوں گے اور نبوت کے ثبوت بھی مگر ایک کی کان سے سُن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہوں گے.وہ فرشتوں کا ذکر بھی سنتے ہوں گے اور قیامت کا بھی مگر کسی کی پروا اُن کو نہ تھی اور نہ اُن میں سے کوئی چیز اُن پر اثر انداز ہوتی تھی.مگر جب اُن کو یہ خیال ہوا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تعلیم تو معلوم نہیں اچھی ہے یا بُری.مگر وہ سنجیدگی سے اس پر قائم ہیں اور دنیا کی مخالفت کی اُن کو کوئی پروانہیں تو حمزہ کی شرافت نے جوش مارا اور انہوں نے کہا کہ یہ شخص اصول کے لیے قربانی کر رہا ہے اور بے ضرر ہونے کے باوجود دنیا کی مخالفت کا شکار بنا ہوا ہے.اس کے پاس ضرور کوئی ایسی چیز ہے جس سے دنیا ڈرتی ہے اور وہ ہدایت کی طرف آ گئے.اسی طرح ہزاروں لاکھوں انسان ایسے ہوں گے جن کی شرافت طبعی اُن کو اسلام کی طرف لے آئی.انہوں نے دیکھا کہ علماء جب دلائل سے اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو پھر دُکھ دینے لگتے ہیں اور اس کے مقابلہ میں آپ کی قربانی کو دیکھ کر وہ اسلام کی صداقت کے قائل ہو گئے.تو اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی ہے کہ سنجیدگی سے وہ ضرور متاثر ہوتا ہے.اور جب کوئی شخص سنجیدگی سے کسی بات پر قائم ہو جائے تو لوگ ضرور اُس کی طرف توجہ کرتے ہیں.لیکن اگر کہا کچھ جائے اور کیا کچھ جائے تو پھر کوئی پروا نہیں کرتا.پچھلے دنوں بعض طالب علم مجھے ملے اور انہوں نے کہا کہ لوگ ہماری باتوں کو سنتے نہیں.یا کہا کہ تم پہلے اپنی شکلوں کو تو دیکھو! کیا یہ ویسی ہی ہیں جیسی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قائم کرنا چاہتے تھے؟ اگر نہیں تو پھر لوگ تمہاری منہ کی باتوں کو کس طرح توجہ سے سن سکتے ہیں.جسے تم سنانے لگو گے وہ کہے گا کہ عمل نہ اس کا ہے نہ میرا.پھر باتوں کا کیا فائدہ.یا درکھو! جب انسان کے دل میں جوش ہو تو اُس کے ساتھ اُس کے اندر ایک تغیر بھی ہوتا ہے اور یہی تغیر دراصل لوگوں پر اثر ڈالتا ہے.کئی لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ لوگوں پر سکھوں کا بہت رُعب ہے.میں ہمیشہ اُن کو یہی کہتا ہوں کہ انہوں نے اپنے ظاہری عمل سے اپنا رُعب قائم کیا ہے.وہ اپنی روایات پر اس شدت کے ساتھ عمل کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو شرم آ جانی چاہیے.تم گرمی کے موسم میں تھوڑے عرصہ کے لیے بھی بال نہیں رکھ سکتے مگر وہ رکھتے ہیں اور شوق کے ساتھ رکھتے ہیں.لوگ ہمیشہ
$1958 92 خطبات محمود جلد نمبر 39 اصول کی پابندی کو دیکھتے ہیں اور پھر وہ سمجھتے ہیں کہ ضرور کوئی نہ کوئی بات ایسی ہے جس کے لیے یہ لوگ تکالیف اُٹھاتے ہیں.پس پہلی اور ضروری چیز یہ ہے کہ اپنے نمونہ سے ثابت کرو کہ جس چیز کو تم نے اختیار کیا ہے اس کی عظمت تمہارے دل میں ہے.ایک دفعہ ایک نو جوان مجھ سے گفتگو کر رہا تھا.ایک سوال کے جواب میں وہ کہنے لگا کہ کیا اسلام کی بنیاد داڑھی پر ہے؟ وہ سمجھتا تھا کہ یہ کہیں گے نہیں تو میں کہہ دوں گا کہ پھر اگر میں نے چھوڑ دی تو کیا حرج ہے مگر میں نے کہا کہ اسلام کی بنیاد داڑھی پر تو بیشک نہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر ضرور ہے.اس کے آگے پھر وہ بات نہیں کر سکا.میں نے اُسے کہا کہ بیشک داڑھی کا سوال کی کوئی اہم نہیں مگر محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا سوال بے حد اہم ہے.جب کوئی شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنا معمولی سا حکم نہیں مان سکتا تو پھر اُس سے یہ کیونکر امید کی جاسکتی ہے کہ وہ کوئی بڑا حکم مانے گا.داڑھی نہ رکھنے والے کی تو یہی مثال ہے کہ جیسے کوئی شخص کہے کہ رسول کریم اللہ علیہ وسلم نے چونکہ مجھ سے ایک پیسہ مانگا تھا اس لیے میں نے نہیں دیا.یہ بات سننے والے سب اسے پاگل کہیں گے اور کہیں گے کہ اگر تم سے لاکھ روپیہ مانگا جاتا تو کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ تم ادا کر دیتے.تم خود اقرار کرتے ہو کہ تم سے جو مانگا گیا وہ بہت تھوڑا تھا اور جب تم اقرار کرتے ہو کہ تم نے وہ بھی پیش نہیں کیا تو پھر جب زیادہ قربانی کا موقع آئے تو تم سے کیا اُمید کی جاسکتی ہے.اسلامی تمدن اور اس کے اصول کو دنیا میں قائم کرنا بہت بڑی تبلیغ ہے.جب لوگ دیکھیں گے کہ یہ لوگ جو دنیا کے نقطہ نگاہ سے وحشی نظر آتے ہیں اپنی بات پر اس لیے قائم ہیں کہ خدا تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے اور ہمارے اثر سے باہر ہو گئے ہیں تو وہ ڈریں گے کہ اب ان کا دوسرا قدم یہ ہوگا کہ یہ ہم پر حملہ کریں گے اور دنیا میں وہ شخص یا قوم غالب نہیں ہوا کرتی جس کے گھر پر حملہ ہو بلکہ حملہ آور ہی غالب ہوا کرتا ہے.مگر حملہ سے یہ مراد نہیں کہ لٹھ مار کر کسی کا سر پھوڑ دیا جائے بلکہ حملہ کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اصول دنیا کے سامنے پیش کر کے اُن کو قائم کرنے کے لیے جدو جہد کی جائے.حملہ کے لئے ہمیشہ جرات کی ضرورت ہوتی ہے اور وہی شخص دوسرے کے گھر پر حملہ کرنے کی جرات کر سکتا ہے جس کا اپنا گھر محفوظ ہو، جس کے اپنے گھر میں بہت سے دشمن ہوں وہ کسی کے گھر پر کیا چڑھائی کرے گا.اسی کی طرح جب ہمارا اپنا تمدن اسلامی تمدن کے خلاف ہو تو دوسروں سے اس کی فضیلت کس طرح منوا سکتے
93 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہیں.جو بات ہم اپنے نفس سے بھی نہیں منوا سکتے وہ دوسروں سے کیسے منوا سکتے ہیں.پس سب.پہلے اپنے اندر سنجیدگی پیدا کرو.پھر دوسروں کی فطرت سے اپیل کرو بلکہ اپنے اندرسنجیدگی پیدا کرنا خود دوسروں سے اپیل کے مترادف ہوگا.تمہارے اردگرد بسنے والے جب دیکھیں گے کہ ہم اسلامی تعلیم پر عمل نہیں کرتے مگر یہ لوگ کرتے ہیں اور تکلیف اُٹھانے کے باوجود کرتے ہیں تو اُن پر وہی اثر ہونا لازمی ہے جو حضرت حمزہ" پر ہوا تھا.وہ غور کریں گے کہ جن باتوں میں ہمیں لذت ملتی ہے اُن کو بھی ملتی ہ ہے مگر یہ محض اسلام کی تعلیم کی وجہ سے اس سے لذت اندوز نہیں ہوتے جس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کے پاس ضرور کوئی ایسی چیز ہے جو اُن کے اندر مقابلہ کی قوت پیدا کرتی ہے اور پھر وہ نور کے ساتھ ہماری باتیں سنیں گے.پس پہلی چیز یہ ہے کہ آپ لوگ اپنے دلوں میں خشیت پیدا کریں.میں نے پہلے بھی لاہور میں دوستوں کو یہ نصیحت کی تھی کہ وہ وفات مسیح اور ضرورت نبوت پر بحث کرنے کی بجائے اگر لوگوں کے دلوں میں خشیت پیدا کریں تو تبلیغ کا دائرہ بہت وسیع ہو سکتا ہے.لوگ کیوں اسلام اور احمدیت کی طرف نہیں آتے؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ مختلف قسم کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں.اُن زنجیروں کو تو ڑو تو پھر آئیں گے.جب دل شیطان کے قبضہ میں ہوں تو اس طرف توجہ کیسے ہو سکتی ہے.پہلے دلوں میں خشیت پیدا کرو پھر خود بخو دلوگ توجہ کرنے لگیں گے.مگر مجھے افسوس ہے کہ میری ان باتوں کی تی طرف بہت کم توجہ کی گئی ہے.اگر سچائی، دیانت، نیکی ، تقوی ، احسان اور ہمدردي تخلق پر آپ لوگ وعظ کریں تو آپ کے اپنے اندر بھی یہ صفات پیدا ہوں گی اور آپ لوگوں کی اپنی اصلاح بھی ہوگی اور سننے والوں کی بھی ، آپ کے زنگ بھی دور ہوں گے اور اُن کے بھی.مگر میرے بار بار توجہ دلانے کے باوجود اس طرف توجہ نہیں کی گئی.جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سلسلہ کی ترقی اس رنگ میں نہیں ہو رہی جس رنگ میں ہونی چاہیے.کل ہی جماعت احمدیہ لاہور کے امیر صاحب کو میں نے حساب کر کے بتایا تھا کہ جس رفتار سے جماعت احمد یہ لاہور کی ترقی ہو رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ پچیس ہزار سال تک لاہور میں آپ لوگوں کی کثرت ہو جائے گی اور ظاہر ہے کہ لاہور دنیا کے مقابلہ میں کوئی چیز نہیں.اور جب اس کے لیے ہزاروں سال درکار ہیں تو پھر باقی دنیا میں احمدیت پھیلنے کے لیے کتنا عرصہ درکار ہو گا.اور یہ اس وجہ سے ہے کہ جماعت کے دوست یہ سمجھ کر کہ میرا باپ، بھائی اور رشتہ دار تو احمدی
$ 1958 94 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہو چکے ہیں چلو چھٹی ہوئی ، خاموش ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور دنیا میں خدا تعالیٰ کی بادشاہت قائم کرنے کی کا خیال بھی اُن کو نہیں آتا تو جو شخص تو خدا تعالیٰ کی بادشاہت کے قیام کے مقصد کو سامنے رکھتا ہے وہ اُس وقت تک آرام، چین سے نہیں بیٹھ سکتا جب تک ایک فرد بھی اس سے باہر ہے.لیکن جسے اپنے آرام کا خیال ہے وہ اپنے خویش و اقارب کے احمدی ہو جانے پر مطمئن ہوسکتا ہے اور خیال کر سکتا ہے کہ اب خدا تعالیٰ کا فضل ہو گیا ہے اور امن ہو گیا ہے.لیکن ہمارا اپنے لیے امن حاصل کرنا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت قائم کرنا ہے اور جب تک یہ نہ ہو جائے ہمیں آرام اور چین سے نہیں بیٹھنا چاہیے اور اپنے عملی نمونہ سے ایسا رویہ اختیار کرنا چاہیے کہ لوگوں کے دل خود بخود اس طرف کھنچے چلے آئیں.میں نے بار ہا بتایا ہے کہ یہ تعلیم کے ظلم برداشت کرو، یہ شکست کا ذریعہ نہیں بلکہ فتح کا ہے.اور ا یہ ہار کا نہیں بلکہ فتح کا موجب بنتا ہے.ظلم کو بزدلی سے برداشت کرنا پڑا ہے.اگر تم ظلم کو اس لیے برداشت کرتے ہو کہ اس کے مقابلہ کی طاقت تم میں نہیں تو بیشک تم بزدل ہو اور اس کا نتیجہ کچھ نہیں ہوگا.لیکن اگر ایسی حالت میں برداشت کرتے ہو کہ تم میں مقابلہ کی طاقت ہے، تمہارے پاس بھی ہتھیار ہے تو یہ بزدلی نہیں.اسی لیے میں نے بارہا کہا ہے کہ ہمیشہ اپنے پاس سوٹی رکھا کرو.کیونکہ اگر تم نہتے ہو کر مار کھاؤ گے تو دنیا یہی کہے گی کہ یہ نہتا تھا.اگر اس کے پاس ہتھیار ہوتا تو شاید یہ بھی مارتا لیکن جب ہتھیار ہونے اور طاقت رکھنے کے باوجود تم مار کھاؤ گے تو لوگوں کے دل محسوس کریں گے کہ خدا تعالی کے لیے تم نے قربانی کی ہے.یہاں لاہور کا ہی واقعہ ہے.یہاں کے دوستوں پر تبلیغ کرنے کا دورہ ایک دفعہ آیا تو بعض دوست تبلیغ کے لیے کسی گاؤں میں گئے.وہاں کے لوگوں نے ان کو مارا.یہ اگر چہ اچھی تعداد میں تھے مگر انہوں نے ہاتھ نہ اُٹھایا.ان میں سے کسی کی پگڑی بھی وہاں رہ گئی اور یہ سب چلے آئے.اس پر گاؤں سے کئی میل کے فاصلہ پر سے ایک شخص آکر ان سے ملا.اُس نے پگڑی واپس کی اور کہا کہ سچائی واقعی آپ کے پاس ہے.مجھے اپنی باتیں سنائیں.تو جب طاقت رکھنے اور ہتھیار موجود ہونے کے باوجود ظلم کو برداشت کیا جائے تو دوسرے پر ضرور اثر ہوتا ہے اور انسانی فطرت اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی.اب تک لاہور کے تمام محلوں میں بھی احمدیت نہیں پھیلی اور اگر کبھی ترقی بھی ہوتی ہے تو اس کی رفتار اتنی سست ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی حکومت قریب آئی ہوئی نظر نہیں آتی.جن محلوں میں
$1958 95 خطبات محمود جلد نمبر 39 افراد احمدی ہو گئے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اب ہمارے لیے گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں.انہیں کبھی خیال ہی نہیں آتا کہ اُن کا کام ساری دنیا میں خدا تعالیٰ کی بادشاہت قائم کرنا ہے.پس میں پھر دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور پوری کوشش سے تبلیغ میں لگ جاؤ.یہ ضروری نہیں کہ سارے ہی سمجھیں تو کام شروع کیا جائے.اگر ایک شخص بھی اپنی ذمہ داری کو سمجھ لے تو اُسے چاہیے کہ کام شروع کر دے اور دوسروں کے انتظار میں اپنے آپ کو خدمت سے محروم نہ رکھے.لوگ دیکھتے رہتے ہیں کہ دوسرے کریں تو ہم بھی کریں گے حالانکہ نیک کام میں دوسروں کے انتظار کی ضرورت نہیں ہوتی.اگر کوئی فرد واحد بھی اپنی ذمہ داری کو سمجھ کر کام میں لگاتی جائے تو وہی خدا تعالیٰ کے فضلوں کا وارث ہو سکتا ہے.اکیلا ہونے سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں جبکہ ہر نبی اکیلا تھا.کوئی نبی ایسا نہیں جس کے ساتھ پہلے ہی کوئی جماعت ہو اور اس مثال سے اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ کامیاب ہمیشہ اکیلے ہی ہوا کرتے ہیں.جو اس امید میں بیٹھے رہتے ہیں کہ دوسرے آئیں تو کی ہم بھی چلیں گے وہ کبھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاعْلَمُوا اَنَّ اللهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ 6 اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کے دل میں نیکی کی تحریک ہوتی ہے جس پر اگر وہ خاموش ہو جائے تو پھر دل مر جاتا ہے.پس اگر کسی ایک کے دل میں بھی یہ جوش پیدا ہو جائے کہ کام کرنا چاہیے تو وہ دوسرے کا انتظار نہ کرے اور کام شروع کر دے مگر عقلمندی کے ساتھ.جس طرح ایک قابل جرنیل صرف ایک ہی جگہ پر اپنی طاقت صرف نہیں کر دیتا بلکہ کبھی ایک جگہ حملہ کرتا ہے اور کبھی دوسری جگہ، کبھی اس طرف اور کبھی اس طرف حتی کہ وہ جگہ تلاش کر لیتا ہے جہاں سے حملہ کر کے دروازہ کو توڑا جا سکتا ہے.پس تبلیغ عقل کے ساتھ کرنی چاہیے.اگر ایک شخص بھی اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے کام شروع کر دے تو وہ اس جگہ خدا تعالیٰ کے نبی کا قائمقام ہوگا کیونکہ انبیاء کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ اکیلے ہی کام کرتے ہیں.پس جو اکیلا ہو کر کام کرے گا وہ خدا تعالیٰ کے انبیاء کا ظل ہو گا.ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہنے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ لاہور کی جماعت نے اب تک کوئی خاص ترقی نہیں کی اور اب بھی اگر کسی کے دل میں تحریک تو ہو لیکن وہ یہ خیال کرے کہ دوسرے اُٹھیں تو میں بھی اٹھوں گا تو نتیجہ وہی ہو گا جو اب تک ہوا ہے.لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ مجھے اس کی پروا نہیں ، کوئی میرا ساتھ دیتا ہے یا نہیں میں
$1958 96 خطبات محمود جلد نمبر 39 کیلے ہی کام شروع کرتا ہوں تو وہ نہ صرف یہ کہ خود کامیاب ہوگا بلکہ دوسروں کو بھی اپنے ساتھ ملالے گا کیونکہ خدا تعالیٰ مومن کو کبھی اکیلا نہیں رہنے دیتا.اگر کسی ایک کے دل میں تحریک ہو تو وہی کام شروع کر دے مگر پہلے اپنے اعمال کی اصلاح کرے اور اپنی شکل و صورت سے ثابت کرے کہ وہ اسلام کی بات کو سب سے زیادہ اہم سمجھتا ہے، اپنی شکل و صورت، تمدن، کلام، گفتگو، زبان، اخلاق کو اسلامی بناؤ.پھر لوگ خود بخود تمہارا اثر قبول کریں گے اور تمہارے اندر ایسی مقناطیسی طاقت پیدا ہو جائے گی جوتی خود بخو ددوسروں کو کھینچ لے گی.میں امید کرتا ہوں کہ یہاں کی جماعت بھی اور باہر کی جماعتیں بھی میرے اس خطبہ کے بعد اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں گی کہ گزشتہ ہستیوں کا بھی ازالہ ہو اور جماعت ترقی کرے اور ہمیں اسلامی تمدن قائم کرنے میں سہولتیں میسر آسکیں.کئی اسلامی احکام ایسے ہیں کہ جب تک جماعت کی تعداد زیادہ نہ ہوان کو قائم نہیں کیا جاسکتا.پس اول تو ہر شخص اپنے فرض کو ادا کرے.لیکن اگر کسی ایک شخص کے دل میں تحریک ہو تو وہ دوسروں کا انتظار کیے بغیر اکیلا ہی کام شروع کر دے اور پھر استقلال کے ساتھ کرتا چلا جائے تا کہ اگر دس سال کے بعد بھی کوئی پوچھے تو وہ کہہ سکے کہ میں نے اس پر عمل کیا ہے اور یقیناً ایسا شخص دوسروں کے لیے ایک نمونہ اور راہنما کا کام دے گا“.1 : البقرة: 149 2 : الزمر : 4 3 : التوبة: 31 4 : متى باب 6 آیت 9، 10 5 : سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 312،311.مطبوعہ مصر 1936ء 6 : الانفال: 25 الفضل 18 مئی 1960 ء )
$ 1958 (12) 97 40 خطبات محمود جلد نمبر 39 اس زمانہ میں اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کی تڑپ سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں پیدا ہوئی دعا کرو کہ آپ کی یہ تڑپ ہمارے ذریعہ پوری ہو تا قیامت کے روز اسلام کی فتح کا جھنڈا ہم آپ کے قدموں میں ڈال سکیں اور آپ یہ جھنڈا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈالتے ہوئے یہ کہہ سکیں کہ اے میرے آقا! دراصل یہ تیری ہی فتح کا جھنڈا ہے (فرموده 25 را پریل 1958 ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”میری بیماری کے پچھلے تین سالوں میں جو کسی قدر مجھے صحت ہوئی تھی وہ گو درمیان میں آکر رک گئی تھی اور بعض عوارض شروع ہو گئے تھے لیکن پھر بھی گزارہ ہوجاتا تھا اور خیال تھا کہ اب کے پہاڑ پر جانے کی وجہ سے شاید اور زیادہ فائدہ ہو لیکن اس سال گرمی اس غضب کی پڑی ہے کہ پچھلے سال کی جب ہم مئی کے مہینہ میں پہاڑ پر گئے تھے تو وہاں لحاف اوڑھ کر سوتے تھے لیکن اس دفعہ پہاڑ پر بھی اتنی
$ 1958 98 خطبات محمود جلد نمبر 39 گرمی پہنچی ہے کہ وہاں بھی بغیر کپڑے کے سونا پڑا ہے اس لیے پہاڑ پر جا کر جو فائدہ ہونا چاہیے تھا وہ کی نہیں ہوا.یہاں تو انتہائی گرمی ہے.کل یہاں درجہ حرارت ایک سو بارہ تھا.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی میں اخبارات پڑھا کرتا تھا تو ایک دفعہ اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی کہ جیکب آباد میں درجہ حرارت ایک سو گیارہ تک جا پہنچا ہے اور اس پر شور مچ گیا تھا کہ دوزخ کا منہ کھل گیا ہے.ایک حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ای ہے کہ دوزخ سال میں دو دفعہ سانس لیتا ہے.ایک سانس تو وہ گرمی میں لیتا ہے اور ایک سانس سردی میں لیتا ہے.1 اس دفعہ بھی گرمی اتنی شدید ہے کہ کمزور آدمی اس کی برداشت کی طاقت نہیں رکھتا.نوجوان آدمی تو اس کی پروا نہیں کرتا.آخر اس گرمی میں دوست روزے بھی رکھتے رہے ہیں اور سارای مہینہ بعض لوگ درس بھی دیتے رہے ہیں.اب تو کمزوری کی وجہ سے میں زیادہ کام نہیں کر سکتا لیکن اپنی ای جوانی کے زمانہ میں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ادھیڑ عمر میں یعنی 1922ء میں میں نے وہ درس دیا تھا جو کی تفسیر کبیر (سورۃ یونس تا کہف) کی صورت میں چھپا ہوا ہے.اُس وقت میری عمر چونتیس سال کی تھی اور قرآن کریم میں خدا تعالیٰ حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ کہل“ میں باتیں کیا کرتے تھے 2ے اور تاریخ سے پتا لگتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو تینتیس سال میں نبوت ملی تھی اور باتیں کرنے سے یہی مراد ہے کہ آپ نبوت والی باتیں کیا کرتے تھے ورنہ اڑھائی تین سال کی عمر میں سارے بچے باتیں کرنے لگ جاتے ہیں اور اس میں حضرت عیسی علیہ السلام کی کوئی فضیلت نہیں رہتی.عام طور پر نبوت چالیس سال کے بعد ملتی ہے لیکن اُس زمانہ میں لوگوں کو جلد پیغام پہنچانے کے لیے حضرت عیسی علیہ السلام کو تینتیس سال کی عمر میں ہی نبوت کا مقام عطا کر دیا گیا تھا.اور 1922ء میں میری عمر چونتیس سال کی تھی یعنی وہ کہولت کی عمر تھی.گو در حقیقت یہی عمر جوانی کی انتہائی طاقت کی ہوتی ہے ورنہ جس عمر کو عرف عام میں جوانی کہا جاتا ہے وہ ایک رنگ میں بچپن کا زمانہ ہوتا ہے.بہر حال جب میری عمر چونتیس سال کی تھی تو میری یہ حالت تھی کہ میں رمضان کے مہینہ میں روزہ رکھ کر درس دیا کرتا تھا اور یہ درس میں نو بجے صبح سے شروع کیا کرتا تھا اور شام کو ساڑھے پانچ بجے کے قریب ختم کیا کرتا تھا اور بعض دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ روزہ کھول کر میں نے درس بند کیا.مجھے یاد ہے کہ بعض دفعہ ایسا ہوا کہ درس ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ اذان ہوگئی ، ہم نے روزہ کھولا ، نماز پڑھی اور پھر دوبارہ درس کی
$1958 99 خطبات محمود جلد نمبر 39 دینا شروع کر دیا.لیکن اب یہ ہوا کہ رمضان آیا تو میں نے کہا کہ رمضان میں قرآن کریم کی زیادہ تلاوت کرنی چاہیے.چنانچہ میں نے اس مہینہ میں تلاوت قرآن کریم شروع کر دی اور بارہ سیپارہ روزانہ کی تلاوت کی.بعض دفعہ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے میں بیہوش ہو چلا ہوں لیکن پھر بھی ہمت کر کے پڑھتا چلا گیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دے دی کہ میں نے اپنا ارادہ پورا کر لیا اور آخری دم تک برابر بارہ پارے قرآن کریم کے پڑھتا رہا.یوں حافظ تو شاید اس سے بھی زیادہ پڑھ سکتے ہیں.چونکہ انہوں نے قرآن کریم حفظ کیا ہوتا ہے اس لیے وہ جلدی جلدی پڑھ سکتے ہیں لیکن جب و تلاوت کر رہے ہوتے ہیں تو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا تلاوت کر رہے ہیں.ہماری جماعت کے ایک مخلص دوست مولوی عبد القادر صاحب مرحوم تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے کی صحابی اور حکیم محمد عمر صاحب کے والد تھے.وہ بڑے نیک انسان تھے.لیکن جب قرآن کریم پڑھا تہی کرتے تو اتنی جلدی جلدی پڑھتے کہ پتا نہیں لگتا تھا کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں.لیکن اگر قرآن کریم کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا جائے تو بارہ سیپارے روزانہ پڑھ لینا بڑی ہمت کا کام ہوتا ہے سوائے اس کے کہ جوحصہ زیادہ کثرت سے پڑھا ہوتا ہے وہ نسبتاً جلدی نظر سے گزر جاتا ہے.چنانچہ قرآن کریم کی آخری سورتیں مجھے اکثر یاد تھیں.اگر چہ اب میں ان میں سے کچھ حصہ بھول گیا ہوں لیکن پھر بھی جب میں ان پر پہنچتا تھا تو میری رفتار بہت تیز ہو جاتی تھی.شروع میں رفتار کمزور ہوتی تھی کیونکہ صحت کی کمزوری کی کی وجہ سے توجہ ہٹ جاتی تھی مگر آخری حصہ باوجود بیماری کے جلدی گزر جاتا تھا.پس یہ گرمی ایک استثنائی صورت میں پڑی ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے مومن بندوں کی حفاظت کرے کیونکہ جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے یہ گرمی دوزخ کا ایک نمونہ ہے.3 میں نے بتایا ہے کہ پچھلے سال ہم مئی میں پہاڑ پر گئے اور وہاں ہم لحاف لے کر سوتے تھے لیکن اس دفعہ وہاں دروازے اور کھڑکیاں کھول کر سونا پڑتا تھا.اسی طرح پچھلے سال وہاں کا ٹمپریچر پچاس درجہ سے بھی کم تھا لیکن اس دفعہ چورانوے تھا اور یہ بہت بڑا فرق ہے.بہر حال آج شورای کا اجلاس بھی ہے اور دوستوں کو وہاں جانا پڑے گا اس لیے میں دوستوں سے کہتا ہوں کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری شوری میں برکت ڈالے اور ہمیں ایسا کام کرنے کی توفیق دے جس کے نتیجہ میں اسلام دنیا کے چاروں کونوں میں پھیل جائے اور یہ کام اس چھوٹی سی جماعت
100 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 سے نہیں ہوسکتا.یہ صرف خدا تعالیٰ کی مدد سے ہی ہو سکتا ہے.اصل میں تو چھوٹے چھوٹے کام بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی ہو سکتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر کام جس میں کچھ نہ کچھ اہمیت نظر آتی ہو اس سے پہلے استخارہ کر لیا کرو.4 اس کے معنے یہی ہیں کہ در حقیقت سب کام خدا تعالیٰ کی مدد سے ہوتے ہیں لیکن دنیا کو دلائل اور قرآن کریم کے ساتھ فتح کرنا تو بہت بڑا کام ہے.قرآن کریم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَقَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا - 5 یعنی ہمارے رسول نے ہمارے پاس فریاد کرتے ہوئے کہا کہ اے میرے رب ! میری قوم نے اس قرآن کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا ہے.اب بتاؤ کہ جس کی قرآن کو مسلمان بھی اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک رہے ہوں اُس قرآن کو اپنے ہاتھ میں لے کر ان عیسائیوں میں نکل جانا جو اُنیس سو سال سے برابر اسلام کو مٹانے کے لیے زور لگا رہے ہیں اور اسلام اور قرآن کریم کو دوبارہ قائم کرنا کیا کوئی معمولی بات ہے.اس کے لیے تو ہمیں ہمیشہ یہ دعائیں کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے مبلغوں کو کامیاب کرے اور دوسرے نو جوانوں کو بھی جن میں طاقت ہمت ہے خدا تعالیٰ توفیق دے کہ وہ اپنی زندگیاں وقف کر کے دین کی خدمت کے لیے آگے نکل آئیں.میں نے اس غرض کے لیے وقف جدید کی تحریک جاری کی تھی اور امید تھی کہ واقفین بڑا اچھا کام کریں گے اور گو اس کو جاری ہوئے ابھی تھوڑا عرصہ ہی ہوا ہے لیکن پھر بھی بعض لوگوں کو باہر گئے ہوئے دو دو ماہ یا اس سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے مگر جونتائج ابھی تک ظاہر ہوئے ہیں وہ کوئی خوشکن نہیں ہیں.چنانچہ پچھلے سال مارچ کے مہینے میں دو سو آدمیوں نے بیعت کی تھی لیکن اس سال مارچ کے مہینہ میں صرف ایک سو ایک کی بیعت ہوئی ہے.گویا وقف جدید کے اجرا کے بعد بیعت آدھی رہ گئی ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ انہوں نے صحیح معنوں میں کوشش نہیں کی ورنہ بیعت کا نہ صرف پہلا معیار قائم رہنا چاہیے تھا بلکہ اس سے بھی ترقی کرنا چاہیے تھا.اگر یہ لوگ ہماری توقع کے مطابق کام کریں اور جماعت کی کے دوست بھی اپنے فرائض کو سمجھیں اور خدا اور اُس کے رسول کا پیغام لوگوں تک پہنچانے میں کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کریں تو یہ ممکن ہی نہیں کہ لوگوں پر اثر نہ ہو.دیکھ لو اسلام پر ایک ایسا زمانہ بھی آیا تھا کی جبکہ منافق مسلمانوں سے کہتے تھے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ جاؤ، اب تمہاری خیر نہیں.احادیث میں آتا ہے کہ منافق کھلے بندوں کہتے پھرتے تھے کہ اب تو مسلمان عورتوں کو باہر
خطبات محمود جلد نمبر 39 دوسر.101 $ 1958 پاخانہ پھرنے کو بھی جگہ نہیں ملتی اور یہ لوگ مکہ فتح کرنے کے دعوے کرتے ہیں 6 مگر دیکھ لو ابھی کی چند سال بھی نہیں گزرے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار صحابہ کے ساتھ مکہ میں داخل ہو گئے.اُس وقت مکہ والے ایسے گھبرائے ہوئے تھے کہ انہوں نے فتح مکہ سے چند دن پہلے ابوسفیان کو مدینہ بھیجا تا کہ صلح حدیبیہ والے معاہدہ کی ابتدا اُس دن سے شمار کی جائے جب ابوسفیان اس کی توثیق کر دے اور وہ مسلمانوں کو مکہ پر حملہ کرنے سے باز رکھے.ان لوگوں کو یہ تشویش اس لیے پیدا ہوئی کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر یہ فیصلہ ہوا تھا کہ عرب قبائل میں سے جو چاہیں مکہ والوں سے مل جائیں اور جو چاہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل جائیں اور یہ کہ دس سال تک دونوں فریق کو ایک رے کے خلاف لڑنے کی اجازت نہیں ہوگی سوائے اس کے کہ ایک فریق دوسرے فریق پر حملہ کر کے معاہدہ کو توڑ دے.اس معاہدہ کے ماتحت عرب کا قبیلہ بنو بکر مکہ والوں کے ساتھ مل گیا تھا اور خزاعہ قبیلہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل گیا تھا.صلح حدیبیہ پر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد بنوبکر نے قریش مکہ کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے معاہد قبیلہ خزاعہ پر حملہ کر دیا اور اُن کے کئی آدمی مار ڈالے.وہ جانتے تھے کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کا علم ہوا اور آپ کو اس کا یقینا علم ہوگا تو آپ معاہدہ کی حرمت کو قائم رکھنے کی خاطر مکہ والوں پر حملہ کر دیں گے.چنانچہ انہوں نے چاہا کہ پیشتر اس کے کہ مدینہ میں اس معاہدہ شکنی کی خبر پہنچے ابوسفیان وہاں جائے اور اس بارے میں کوشش کرے.مگر پیشتر اس کے کہ قریش مکہ کی اس عہد شکنی کی مدینہ میں اطلاع پہنچتی حضرت میمونہ فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات تہجد کے وقت جب وضو کرنے کے لیے اُٹھے تو میں نے سنا کہ آپ بلند آواز سے فرمارہے ہیں لبیک لبیک لبیک اور پھر آپ نے تین دفعہ فرما یا صرت نُصِرْتَ نُصِرُتَ.میں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ نے کیا فقرات فرمائے ہیں؟ یہ تو ایسے الفاظ ہیں کی جیسے آپ کسی شخص سے گفتگوفرمارہے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے ابھی دیکھا ہے کہ خزاعہ کا ایک وفد میرے پاس آیا ہے اور اُس نے کہا ہے کہ قریش نے بنو بکر کے ساتھ مل کر اُن پر حملہ کر دیا ہے آپ معاہدہ کے مطابق ہماری مدد کریں اور میں نے کہا کہ میں تمہاری مدد کے لیے تیار ہوں.چنانچہ تیسرے دن اس قبیلہ کے نمائندے مدینہ پہنچ گئے اور انہوں نے سارا واقعہ کہہ سنایا.بعد میں ابوسفیان آیا اور اس نے کہنا شروع کر دیا کہ چونکہ صلح حدیبیہ کے وقت میں موجود نہیں تھا اس
102 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 لیے وہ کوئی معاہدہ نہیں تھا.اب میں نئے سرے سے معاہدہ کرنا چاہتا ہوں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا.آخر اس نے بیوقوفی سے خود ہی مسجد میں جا کر یہ اعلان کر دیا کہ چونکہ میں اس معاہدہ میں شامل نہیں تھا اور میں مکہ کا رئیس ہوں اس لیے وہ معاہدہ درست نہیں ہوسکتا.اب میں نئے سرے سے معاہدہ کرتا ہوں.یہ بات سن کر مسلمان اُس کی بیوقوفی پر ہنس پڑے اور وہ سخت شرمندہ ہوا.بعد میں ابوسفیان نے کہا کہ مجھ سے حضرت علیؓ نے کہا تھا کہ تم مسجد میں جا کر اس قسم کا اعلان کر دو.خدا تعالیٰ بنو ہاشم کا بُرا کرے انہوں نے مجھے ذلیل کیا ہے.چونکہ بنو ہاشم اور بنوامیہ دونوں خاندانوں میں دیر سے رقابت چلی آتی تھی اس لیے ابوسفیان نے خیال کیا کہ حضرت علی نے اس مخالفت کی وجہ سے مجھے یہاں مسلمانوں کے سامنے ذلیل کیا ہے لیکن یہ بیان صرف ابوسفیان کا ای ہے جو اُس وقت کا فر تھا.اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اس پر یقین کیا جائے.اس کے بعد ابوسفیان کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی طرف آیا.اُس کی ایک بیٹی حضرت اُم حبیبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیاہی ہوئی تھیں.وہاں ایک گدا بچھا ہوا تھا.وہ اُس پر بیٹھنے لگا تو حضرت ام حبیبہ نے وہ گڈا اُس کے نیچے سے کھینچ لیا.ابوسفیان نے کہا بیٹی ! میں اس گڈا کے قابل نہیں ہوں یا یہ گڈا میرے قابل نہیں ہے؟ اُس نے یہ خیال کیا کہ چونکہ میں بڑا آدمی ہوں اس لیے شاید میری بیٹی نے میرے اعزاز کی وجہ سے یہ گڈا اٹھا لیا ہے.حضرت اُمّ حبیبہ نے کہا اے میر.باپ! معاف کرنا تم میرے باپ ہو اور ادب کی جگہ ہومگر اس گڑ پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرتے ہیں اور تم ایک مشرک اور نا پاک شخص ہو سو میں اس گڈا پر جس پر خدا تعالیٰ کا رسول نماز پڑھا کرتا ہے خدا تعالیٰ کے دشمن کو بیٹھنے کی اجازت نہیں دے سکتی.ابوسفیان جھٹ اُٹھ کھڑا ہو اور اس کی نے کہا میری بیٹی ! تو تو میرے بعد بہت بگڑ گئی ہے.اس کے بعد ابوسفیان مکہ والوں کو اپنی ناکامی کی خبر دینے کے لیے واپس کو ٹا اور ادھر اسلامی لشکر جو دس ہزار کی تعداد میں تھا مدینہ سے روانہ ہو کر مکہ کے قریب خیمہ زن ہو گیا.مکہ والے چونکہ بہت زیادہ خوف زدہ تھے انہوں نے ابوسفیان کو پھر اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ دوبارہ مسلمانوں کے پاس جائے اور انہیں جنگ سے باز رکھے مگر مکہ سے تھوڑی دور نکلنے پر ہی ابوسفیان نے رات کے وقت جنگل کو آگ سے روشن پایا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دے دیا تھا کہ ہر خیمہ کے آگے آگ روشن کی جائے.ابوسفیان نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا یہ کون
$1958 103 خطبات محمود جلد نمبر 39 لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا یہ فلاں قبیلہ کے لوگ ہیں.ابوسفیان کہنے لگا اُس قبیلہ کے لوگ تو بہت کی تھوڑے ہیں اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہے.یہ وہ نہیں ہو سکتے.ساتھیوں نے پھر کہا یہ فلاں قبیلے کے لوگ ہوں گے.ابوسفیان نے کہا میں جانتا ہوں کہ اس قبیلہ کے لوگ بھی تھوڑے ہیں.یہ ان سے بہت زیادہ ہیں.ابھی وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ اندھیرے میں سے آواز آئی.ابو حظلہ (یہ ابوسفیان کی کنیت تھی ).ابوسفیان نے آواز پہچان کر کہا عباس ! تم یہاں کہاں؟ انہوں نے جواب دیا سامنے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر پڑا ہے.ابوسفیان گھبرایا اور اپنی سواری پر کھڑا ہو گیا.اس نے خیال کیا کہ اب میری شامت آگئی ہے کیونکہ میں نے ساری عمرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ دیا ہے.حضرت عباس جو ابوسفیان کے گہرے دوست تھے اور پہرہ پر مقرر تھے انہوں نے کہا کم بخت ! جلدی سے میرے پیچھے سواری پر بیٹھ جا.ورنہ عمر میرے پیچھے آ رہا ہے وہ تیری خبر لے گا.چنانچہ حضرت عباس نے ابوسفیان کا ہاتھ پکڑا اور کھینچ کر اپنے پیچھے بٹھا لیا اور گھوڑا دوڑاتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا پہنچے.وہاں پہنچتے پہنچتے ابوسفیان مبہوت سا ہو چکا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی یہ حالت دیکھی تو حضرت عباس سے فرمایا عباس! تم ابوسفیان کو اپنے ساتھ لے جاؤ اور رات کو اپنے پاس رکھو.صبح میرے پاس لانا.چنانچہ ابوسفیان ساری رات حضرت عباس کے پاس رہا.جب صبح اُسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تو فجر کی نماز کا وقت تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے تھے اور دس ہزار کا لشکر پیچھے صف باندھے کھڑا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب رکوع کے لیے اپنا سر جھکا یا تو دس ہزار مسلمان آپ کی اتباع کی میں نیچے جھک گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے کھڑے ہوئے تو دس ہزار مسلمان کھڑے ہو گئے.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گرے تو دس ہزار افراد سجدہ میں گر گئے.پھر سجدہ سے اُٹھے تو دس ہزار افراد سجدہ سے اٹھ بیٹھے.پھر دوبارہ سجدہ کے لیے جھکے تو دس ہزار افرا دسجدہ میں جھک گئے.پھر سجدہ سے اُٹھ کر تشہد کے لیے بیٹھے تو دس ہزار افراد تشہد میں بیٹھ گئے.ابوسفیان نے سمجھا کہ شاید میرے لیے یہ کوئی نئی قسم کا عذاب تجویز ہوا ہے.چنانچہ اس نے حضرت عباس سے جو پہرہ پر مقرر ہونے کی وجہ سے نماز میں شریک نہیں ہوئے تھے دریافت کیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ انہوں نے کہا ابوسفیان ! گھبراؤ نہیں ، یہ تمہارے مارنے کی تیاری نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے
104 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہیں اور یہ مسلمان تو ایسے ہیں کہ اگر آپ فرمائیں کہ کھانا چھوڑ دو تو وہ کھانا بھی چھوڑ دیں.ابوسفیان پر اس بات کا بہت اثر ہوا اور اُس نے کہا میں نے کسرای کا دربار بھی دیکھا ہے اور قیصر کا دربار بھی دیکھائی ہے لیکن اُن کی قوموں کو بھی میں نے ان کا ایسا فدائی نہیں دیکھا جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت اس کی فدائی ہے کہ آپ نیچے جھکے تو سب لوگ جھک گئے ،سجدہ میں گرے تو سب لوگ سجدہ میں چلے گئے ، تشہد کے لیے بیٹھے تو سب لوگ تشہد میں بیٹھ گئے.یہ بے نظیر اطاعت ہے جو میں نے کہیں اور نہیں دیکھی.8 جب نماز ختم ہو چکی تو حضرت عباس ابوسفیان کو لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ابوسفیان ! کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم مجھے اللہ تعالیٰ کا کی رسول تسلیم کر لو؟ ابوسفیان نے کچھ تردد کا اظہار کیا لیکن پھر کچھ خوف کی وجہ سے اور کچھ حضرت عباس کے زور دینے کی وجہ سے اس نے بیعت کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا.9 پھر اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! آپ تو بڑے مہربان ہیں، مکہ والے آپ کے رشتہ دار ہیں، کوئی اُن کے بچاؤ کی صورت ہو سکتی ہے یا نہیں ؟ آپ نے فرمایا ہر شخص جو اپنے گھر کے دروازے بند کر لے گا اُسے امن دیا جائے گا.حضرت عباس نے کہا یا رسول اللہ ! ابوسفیان کی عزت کا بھی کچھ سامان کر دیا جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا! جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا اُسے بھی امن دیا جائے گا.ابوسفیان نے کہا یا رسول اللہ ! میرا گھر کتنا بڑا ہے؟ اُس میں تو سب لوگ نہیں آ سکتے.بیشک جو لوگ اندر آگئے وہ تو امن میں آجائیں گے مگر باقی لوگوں کا کیا ہوگا ؟ آپ نے فرمایا جو شخص خانہ کعبہ میں گھس جائے گا اُسے بھی امن دیا جائے گا.ابوسفیان نے کہا یا رسول اللہ ! خانہ کعبہ بھی سارے مکہ والوں کو اپنے اندر نہیں سما سکتا اور نہ ہی ہر شخص اعلان سن سکتا ہے.کوئی ایسی صورت پیدا کی جائے جو ہر شخص کو نظر آ جائے.آپ نے فرمایا اچھا کچھ کپڑا لاؤ.چنانچہ کپڑا لایا گیا اور آپ نے اُس کا ایک جھنڈا بنایا اور وہ جھنڈا ابورویحہ کے ہاتھ میں دیا جن کو آپ نے حضرت بلال کا بھائی بنایا ہواتھا اور فرمایا جو شخص اس جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو گا اُسے بھی پناہ دی جائے گی.10 اس حکم میں کیا ہی لطیف حکمت تھی.مکہ والے حضرت بلال کے پیروں میں رستہ ڈال کر انہیں تپتی ریت پر گھسیٹا کرتے تھے.انہیں تپتی ریت پر لٹا کر اُن کے سینہ پر بڑے بڑے بھاری جوتوں
105 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 سمیت گودا کرتے تھے.چنانچہ اُن کی پیٹھ کا رنگ گرگٹ کی پیٹھ کا سا ہو گیا تھا اور وہ بالعموم اپنی پیٹھ دوسرے لوگوں کو دکھایا کرتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال فرمایا کہ آج بلال کا دل انتقام کی طرف بار بار مائل ہوتا ہو گا اس لیے اُس کا انتقام لینا بھی ضروری ہے لیکن میرا انتقام شاندار ہونا چاہیے.میری شان نبوت یہ ہے کہ میں سب کو معاف کر دوں لیکن بلال خیال کرے گا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بھائیوں کو معاف کر دیا اور میرا انتقام یونہی رہا.اس حکمت کے پیش نظر آپ نے ایک جھنڈا بنا کر آپ کے ایک بھائی کے ہاتھ میں دیا اور فرمایا جو شخص اس جھنڈے کی کے نیچے کھڑا ہو گا اُسے بھی امن دیا جائے گا اور بلال کو کہا کہ تم ساتھ ساتھ یہ اعلان کرتے جاؤ تا وہ سمجھ لیں کہ آج میری وجہ سے مکہ والوں کو معاف کیا گیا ہے.یہ انتظام فرما کر آپ مکہ میں داخل ہوئے.آپ نے حضرت خالد کو ایک دوسری جانب سے شہر میں داخل ہونے کا ارشاد فر مایا تھا اور انہیں سختی سے حکم دیا تھا کہ جب تک کوئی شخص تم سے لڑائی نہ کرے تم نے کسی سے لڑائی نہیں کرنی لیکن جس طرف سے حضرت خالد مکہ میں داخل ہوئے غالباً اُس طرف امن کا پیغام نہیں پہنچا تھا اس لیے اُس علاقہ کے لوگوں نے حضرت خالد کا مقابلہ کیا جس میں اُن کے 24 آدمی مارے گئے.کسی نے دوڑ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ خبر پہنچا دی.آپ نے حضرت خالد کو بلایا اور سرزنش کی.حضرت خالد نے کہا یا رسول اللہ ! آپ کی ہدایت مجھے یاد ہے لیکن ان لوگوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ ہمارا رستہ روکا اور ہم پر حملہ کیا.11 اگر یہ لوگ ہم پر حملہ نہ کرتے تو میں بھی ان لوگوں کو قتل نہ کرتا.بہر حال اس خفیف سے واقعہ کے سوا اور کوئی واقعہ نہ ہوا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہو گئے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس آ کر کھڑے ہوئے تو مکہ کے سارے رؤساء جو آپ پر چُھو کا کرتے تھے اور آپ کو مارا اور دکھ دیا کرتے تھے آپ کے سامنے کھڑے ہو گئے اور آپ نے فرمایا اے مکہ کے لوگو! تمہیں یاد ہے کہ میں نے تو حید کا نعرہ بلند کیا اور تم نے مجھے گالیاں دیں، میں نے خدائے واحد کی پرستش کے لیے تمہیں کہا اور تم نے مجھ پر جھوٹے الزامات لگائے، میں نے تم کو نیکی اور تقوی کی تعلیم دی مگر تم نے کہا کہ یہ شخص روپیہ کمانا چاہتا ہے یا شاید کسی خوبصورت عورت سے شادی کرنا چاہتا ہے لیکن خدا نے میری مدد کی.میں اکیلا تھا اور تم ہزاروں کی تی تعداد میں تھے.سارا عرب تمہارے ساتھ تھا.تم نے دیکھ لیا کہ خدا تعالیٰ کے نشانات کس طرح
106 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 لفظ بلفظ پورے ہوئے.اب بتاؤ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں ؟ مشرکین مکہ کی خوش قسمتی تھی کہ انہوں نے حضرت یوسف کا واقعہ کہیں سے سنا ہوا تھا.انہوں نے کہا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم کیا کہیں.جو سلوک یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا وہی سلوک آپ ہم.چنانچہ آپ نے فرمایا لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ - 12- آج تم پر کوئی گرفت نہیں کی جاتی.جاؤ میں نے تم سب کو معاف کر دیا ہے.چنانچہ مکہ والے خوش خوش اپنے گھروں کو واپس چلے گئے اور مسلمانوں کی کی تلوار میں اپنے میانوں کے اندر چلی گئیں.وہ تو چاہتے تھے کہ آج مشرکین مکہ کو تلواروں سے ریزہ ریزہ کر دیں.آخر وہ واقعات جو اُن کے سامنے گزرے تھے اُن کی آنکھوں کے آگے پھر رہے تھے.ایک دفعہ آپ خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ کسی نے آپ کی پیٹھ پر اونٹ کی اوجھڑی لا کر رکھ دی.وہ کافی بوجھل تھی.اُس کے بوجھ کی وجہ سے اُس وقت تک آپ اپنا سر نہ اٹھا سکے جب تک کہ حضرت فاطمہ نے جوا بھی چھوٹی عمر کی تھیں دوڑ کر آپ سے اُس اوجھڑی کو نہ ہٹایا.13 اسی طرح ایک دفعہ آپ عبادت کر رہے تھے کہ لوگوں نے آپ کے گلے میں پڑکا ڈال کر کھینچنا شروع کیا.یہاں تک کہ آپ کی آنکھیں باہر نکل آئیں.اتنے میں حضرت ابوبکر وہاں آگئے اور انہوں نے آپ کو چھڑایا اور کہا اے لوگو! کیا تم ایک شخص کو صرف اس جرم میں قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے خدا میرا آقا ہے.آخر یہ تم سے کچھ مانگتا تو نہیں.صرف یہ کہتا ہے کہ خدا ایک ہے ، اس کی عبادت کر و مگر تم اسے مارنے لگ جاتے ہو.14 یہ ان لوگوں کی حالت تھی اور تم سمجھ سکتے ہو کہ جب ان دکھی مسلمانوں کو خدا تعالیٰ نے مشرکین مکہ پر غلبہ عطا کر دیا تو ان کے دلوں کی کیا حالت ہوگی مگر اس کے باوجود جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں کو معاف کر دیا تو انہوں نے بھی انہیں معاف کر دیا.حضرت ابو بکر کے بیٹے عبدالرحمان جنگ بدر کے بعد ایمان لائے تھے.جنگ بدر کے بعد انہوں نے ایک دن حضرت ابوبکر کو سنایا کہ آپ ایک دفعہ زور سے حملہ کرتے ہوئے ہمارے لشکر تک پہنچ گئے تھے اور میں ایک پتھر کے پیچھے چھپا ہوا تھا.تلوار میرے ہاتھ میں تھی اور میں اگر چاہتا تو آپ پر حملہ کر سکتا تھا لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ آپ میرے باپ ہیں اس لیے میں نے اپنا ارادہ فتح کر دیا.حضرت ابو بکر نے فرمایا تیری قسمت اچھی تھی کہ تو مجھے نظر نہ آیا ور نہ خدا کی قسم ! اگر میں تجھے دیکھ لیتا تو میں تیری بوٹیاں اُڑا دیتا اور
$1958 107 خطبات محمود جلد نمبر 39 اس بات کی قطعاً پروا نہ کرتا کہ تو میرا بیٹا ہے.15 اب آپ لوگ دیکھ لیں کہ ایسے غیرت مند لوگوں کی کے لیے اہل مکہ کو معاف کرنا کس قدر مشکل تھا لیکن انہوں نے معاف کیا بلکہ اُن لوگوں کو بھی جنہیں ای معاف کیا گیا تھا یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوئی اور وہ حیران ہوئے کہ انہیں کیسے معاف کیا گیا ہے.ابو جہل کا بیٹا عکرمہ اُن لوگوں میں شامل تھا جن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا تھا کہ ان کے بعض ظالمانہ قتلوں اور ظلموں کی وجہ سے انہیں قتل کر دیا جائے.چنانچہ وہ ڈر کے مارے حبشہ کی طرف بھاگ گیا.اس کی بیوی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اُس نے کہا یا رسول اللہ ! کیا آپ کو یہ اچھا لگتا ہے کہ آپ کے بھائی کا بیٹا عکرمہ آپ کے ماتحت رہے یا یہ اچھا لگتا ہے کہ وہ حبشہ جا کر عیسائیوں کے ماتحت رہے؟ آپ نے فرمایا وہ بیشک یہاں رہے ہم اُسے کچھ نہیں کہیں گے، ہم اُسے معاف کرتے ہیں.اُس نے کہا وہ ساحلِ سمندر کی طرف بھاگ کر چلا گیا ہے اور اس انتظار میں ہے کہ اُسے کوئی کشتی مل جائے تو وہ اُس میں سوار ہو کر حبشہ چلا جائے.کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں وہاں جا کر اُسے واپس مکہ لے آؤں؟ آپ نے فرمایا ہاں! میں اجازت دیتا ہوں، تم بڑی خوشی سے اُسے واپس لے آؤ.عکرمہ کی بیوی نے پھر کہا یا رسول اللہ ! وہ بڑا غیرت مند ہے.شاید آپ کے دل میں یہ خیال ہو کہ وہ یہاں آ کر مسلمان ہو جائے گا وہ مسلمان نہیں کی ہوگا.کیا آپ اس امر کی بھی اجازت دیتے ہیں کہ وہ اپنے آباء واجداد کے مذہب پر قائم رہ کر یہاں رہے؟ آپ نے فرمایا وہ بیشک اپنے مذہب پر قائم رہے ہم اُسے مسلمان ہونے پر مجبور نہیں کریں گے.چنانچہ وہ مکرمہ کے پیچھے ساحل سمندر پر پہنچی.عکرمہ ابھی کشتی پر سوار نہیں ہوئے تھے.اُس نے کہا اے میرے چچا کے بیٹے! ( عرب عورتیں اپنے خاوندوں کو چا کا بیٹا کہا کرتی تھیں) کیا تجھے یہ بات اچھی لگتی ہے کہ تو اپنے بھائی کے ماتحت رہے یا یہ بات اچھی لگتی ہے کہ تو کسی غیر ملک میں جا کر کسی غیر بادشاہ کے ماتحت رہے؟ عکرمہ نے کہا کیا تجھے پتا نہیں کہ اگر میں مکہ میں رہا تو میں مارا جاؤں گا؟ بیوی نے کہا نہیں میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کر لی ہے.اگر تو مکہ میں واپس چلا جائے گا تو تجھے مارا نہیں جائے گا، تجھے پناہ دی جائے گی.عکرمہ کہنے لگے تو مجھ سے دعا تو نہیں کر رہی ؟ وہ کہنے لگی کیا میں اپنے خاوند سے دعا کروں گی؟ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارہ میں اجازت حاصل کر کے آئی ہوں.چنانچہ عکرمہ مان گئے اور وہ اپنی بیوی کے ساتھ مکہ واپس گئے.مکہ
108 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 ا کر انہوں نے اپنی بیوی سے کہا مجھے تیری باتوں پر تب یقین آئے گا جب وہ باتیں جو تو نے کہیں ہیں محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کے منہ سے بھی کہلوا دے.مجھے یقین ہے کہ وہ راستباز انسان ہیں کی جھوٹ نہیں بولتے.چنانچہ ان کی بیوی انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئی.عکرمہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میری بیوی کہتی ہے کہ آپ نے مجھے معاف کر دیا ہے اب آپ مجھے کچھ نہیں کہیں گے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ٹھیک کہتی ہے.انہوں نے کہا میری بیوی نے مجھے یہ بات بھی بتلائی ہے کہ آپ مجھے مسلمان ہونے پر مجبور نہیں کریں گے کیا یہ بات بھی سچ ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے.عکرمہ حیران ہوئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ جو شخص اتنے شدید دشمنوں کو بھی معاف کر سکتا ہے وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا.چنانچہ انہوں نے یہ بات ی سنتے ہی فوراً کہا اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبُدُهُ رَسُولُهُ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عکرمہ ! یہ کیا بات ہے؟ عکرمہ نے کہا یا رسول اللہ! میں آج تک آپ کا مخالف تھا اور مجھے یقین نہیں تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں لیکن آج آپ نے جو سلوک مجھ سے کیا ہے وہ خدا تعالیٰ کے رسولوں کے سوا اور کوئی نہیں کرتی سکتا.16 میرے باپ اور دوسرے رشتہ داروں نے آپ کو تنگ کیا، آپ کو مارا اور کئی مسلمانوں کو قتل کیا اور پھر یہیں تک بس نہیں کی بلکہ ہماری بعض عورتوں نے مسلمان شہیدوں کے کلیجے نکلوا کر کچے چبائے ، آپ کی بیٹی کو مدینہ جاتے ہوئے اونٹ سے گرایا جس کی وجہ سے اُن کا حمل ساقط ہو گیا اور وہ ی خود بھی اسی صدمہ کی وجہ سے فوت ہو گئیں.ان سب باتوں کے باوجود جب آپ کو غلبہ ملا تو آپ نے ہم سب کو معاف کر دیا.یہ کام خدا تعالیٰ کے رسولوں کے سوا اور کوئی نہیں کر سکتا.آپ کا یہ سلوک دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور اسی لیے میں نے کلمہ پڑھا ہے.پھر دیکھ لو حضرت عکرمہنگا وہ کلمہ پڑھنا کیسا سچا تھا.ایک موقع پر جب حضرت عمرؓ کے زمانہ میں رومیوں سے مسلمانوں کی جنگ ہوئی تو حضرت خالد نے کہا دشمن کی ہر اول فوج ساٹھ ہزار کی ہے.میں چاہتا ہوں کہ صرف ساٹھ مسلمان میرے ساتھ جائیں اور وہ مسلمان ایسے ہوں جو جان دینے کے لیے تیار ہوں.حضرت ابو عبیدہ نے انہیں سمجھایا کہ خالد ! یہ بہت بڑی قربانی ہے.سارے چیدہ چیدہ
$1958 109 خطبات محمود جلد نمبر 39 مسلمان مارے جائیں گے مگر حضرت خالد نے کہا اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہمارا دشمن پر رعب نہیں پڑے گا.چنانچہ حضرت ابو عبیدہ مان گئے اور جو ساٹھ آدمی منتخب کیے گئے اُن میں حضرت عکرمہ بھی شامل تھے.اس جنگ میں رومی لشکر کا کمانڈر انچیف ایک ایسا شخص تھا جس سے بادشاہ نے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں جنگ جیت گیا تو وہ اُسے اپنی آدھی سلطنت دے دے گا اور اپنی لڑکی اُس کی کے نکاح میں دے دے گا.چنانچہ ساٹھ آدمی حملہ کے لیے چلے گئے.ان میں حضرت فضل بن عباس وان بھی شامل تھے.ان لوگوں نے رومی لشکر پر اس تیزی سے حملہ کیا کہ گو دشمن ساٹھ ہزار کی تعداد میں تھا اور یہ صرف ساٹھ افراد تھے مگر دشمن گھبرا گیا اور یہ نہ سمجھ سکا کہ یہ ساٹھ آدمی انسان ہیں یا جن ہیں.یہ ای لوگ لشکر کے عین وسط میں گھس گئے اور اُس جگہ پر پہنچ گئے جہاں کمانڈر انچیف تھا اور وہاں جا کر اسے تی ٹانگ سے پکڑ کر سواری سے نیچے گھسیٹ لیا اور اُسے مارڈالا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سارا لشکر بھاگ گیا 17 مگر کمانڈر انچیف پر حملہ کرنا آسان نہیں تھا.یہ سارے لوگ یا تو زخمی ہو گئے یا وہیں ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے.چند زخمی صحابہ ایک ایک جگہ پڑے ہوئے تھے کہ ایک شخص پانی لے کر وہاں پہنچا.حضرت عکرمہ کی اسلام لانے سے پہلے بھی بڑی شان تھی اور اسلام لانے کے بعد بھی بڑی شان تھی.اس لیے وہ پہلے ان کے پاس گیا اور کہنے لگا عکرمہ ! آپ شدید پیاسے معلوم ہوتے ہیں تھوڑا سا پانی پی کی لیں.حضرت عکرمہ نے اپنے دائیں طرف دیکھا تو حضرت فضل بن عباس بھی زخمی پڑے ہوئے تھے.انہوں نے اس شخص کو کہا مجھے نظر آ رہا ہے کہ اس وقت میرا ایک اور ساتھی پانی کا سخت محتاج ہے.وہ مجھ سے پہلے اسلام لایا ہے اس لیے مجھ سے زیادہ مستحق ہے.تمہیں خدا کی قسم ! پہلے انہیں پانی پلاؤ پھر میرے پاس آنا.چنانچہ وہ شخص اُن کے پاس گیا اور اُن سے پانی پینے کے لیے کہا لیکن انہوں نے بھی پاس والے زخمی صحابی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ پہلے انہیں پانی پلاؤ پھر میرے پاس آؤ.وہ سات صحابہ تھے.پانی پلانے والا شخص پانی لے کر ساتوں کے پاس باری باری گیا لیکن ان میں سے ہر ایک نے دوسرے کی طرف اشارہ کیا.جب آخری صحابی کے پاس پہنچا تو وہ فوت ہو چکے تھے اور جب وہ واپس عکرمہ کے پاس آیا تو وہ بھی دم توڑ چکے تھے.18 تو دیکھو اتنے شدید دشمن کو بھی خدا تعالیٰ نے کس قدر مخلص بنا دیا تھا.ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے اندر ایسا تغیر پیدا کر لیں اور ایسے اعمال بجا لائیں جن سے لوگوں
110 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 کی دشمنی دور ہو جائے اور ہماری محبت اُن کے دلوں میں پیدا ہو جائے.مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ دین کے معاملہ میں مداہنت سے کام لیا جائے.یہ کام تو منافق بھی کر سکتا ہے.حقیقی ایمان کی علامت یہ ہے کہ جہاں اپنوں اور بیگانوں سے حسن سلوک کیا جائے وہاں دین کے معاملہ میں ایسی غیرت رکھی جائے کہ اگر عزیز سے عزیز وجود کو بھی خدا تعالیٰ کے لیے ترک کرنا پڑے تو انسان اسے فورا ترک کر دے.صحابہ کو دیکھ لو انہوں نے اپنے ایمان کا ایک عظیم الشان مظاہرہ کیا.عبداللہ بن ابی بن سلول نے ایک موقع پر کہا تھا اور قرآن کریم میں بھی اس کا ذکر آتا ہے کہ مجھے مدینہ میں داخل ہو لینے دو مدینہ کاسب سے زیادہ معزز شخص یعنی وہ کمبخت خود سب سے زیادہ ذلیل شخص یعنی نَعُوذُ باللہ محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں سے نکال دے گا.19 یہ بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پہنچ گئی.عبد اللہ بن اُبی بن سلول کا بیٹا جس کا پہلا نام حباب تھا مگر بعد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس و کا نام بھی عبداللہ رکھ دیا تھا بھاگتا ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اُس نے کہانی یا رسول اللہ! میرے باپ نے ایسی بات کہی ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس کی سزا سوائے قتل کے اور کوئی نہیں ہوسکتی، میں صرف یہ درخواست کرنے کے لیے آیا ہوں کہ اگر آپ نے اسے قتل کرانا ہو تو مجھ سے کرائیں تا ایسا نہ ہو کہ کوئی اور صحابی اسے قتل کرے تو بعد میں کسی وقت مجھے جوش آجائے اور میں اُسے قتل کر بیٹھوں اس لیے کہ اس نے میرے باپ کو مارا ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں.اب گورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا یہ گناہ معاف کر دیا تھا تو مگر اس کے بیٹے نے اسے معاف نہ کیا.جب لشکر مدینہ کو واپس چلا تو اُس کا بیٹا جلدی سے آگے نکل کر شہر کے دروازہ پر کھڑا ہو گیا.تلوار اُس کے ہاتھ میں تھی.جب عبد اللہ بن اُبی بن سلول مدینہ میں داخل ہونے لگا تو اُس کے بیٹے نے کہا میں تمہیں اُس وقت تک شہر میں داخل نہیں ہونے دوں گا جب تک تو یہاں کھڑا ہو کر اس بات کا اقرار نہ کرے کہ تو مدینہ کا سب سے زیادہ ذلیل انسان ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے سب سے زیادہ معزز شخص ہیں.اگر تو نے اس بات کا اقرار نہ کیا تو خدا کی قسم! میں اس تلوار سے تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا اور اس بات کی قطعاً پروا نہیں کروں گا کہ تو میرا باپ ہے.بیٹے کے منہ سے یہ بات سن کر وہ بہت گھبرایا اور جھٹ گھوڑے سے اتر آیا اور مدینہ کے دروازہ میں کھڑے ہو کر اُس نے کہا اے لوگو! سن لو اور گواہ رہو کہ میں مدینہ کا سب سے زیادہ ذلیل
$1958 111 خطبات محمود جلد نمبر 39 انسان ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے سب سے زیادہ معزز انسان ہیں.اس کے بعد اُس کے بیٹے نے کہا اب تم اندر جا سکتے ہو ورنہ خدا کی قسم ! اگر تم یہ اقرار نہ کرتے تو میں تمہیں شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیتا بلکہ یہیں تمہیں قتل کر دیتا.20 تو دیکھو ان لوگوں نے کیسی شاندار قربانیاں کی تھیں.آجکل تو کوئی اپنے دوست کے خلاف بھی بات نہیں سن سکتا لیکن وہاں بیٹا اپنے باپ کا رستہ روک کر کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ تم یہ اقرار کرو کہ میں مدینہ کا سب سے زیادہ ذلیل شخص ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے سب سے زیادہ معزز شخص ہیں ورنہ میں تمہیں شہر میں داخل نہیں ہونے دوں گا بلکہ تلوار سے اسی جگہ ٹکڑے کی ٹکڑے کر دوں گا.ہماری جماعت کو بھی دینی معاملات میں اسی قسم کی غیرت دکھانی چاہیے اور پھر انتظار کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کی کس طرح مدد کرتا ہے.یقیناً اگر وہ ایسا کریں گے تو آسمان سے خدا تعالیٰ کے فرشتے پرے 21 باندھ کر نیچے اتریں گے اور وہ لوگوں کے دل دھو دھو کر احمدیت کے لیے صاف کر دیں گے.اور جو لوگ ان سے پہلے ایمان لاتے ہیں بعد میں آنے والے ان کے قدم چومیں گے اور ان کی قدر کریں گے کیونکہ جو شخص ایمان لے آتا ہے اُس کے اندر ایمان کی قدر بھی ہوتی ہے اور وہ جانتا ہے کہ پہلے ایمان لانے والے کی غیرت اس سے بہر حال زیادہ ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایران سے عرب میں چکیاں آئیں جو نہایت بار یک آٹا پیستی تھیں.جب ان چکیوں پر پہلی دفعہ آٹا پسا تو وہ حضرت عمرؓ کے پاس لایا گیا.آپ نے فرمایا یہ آٹا ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ملا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں.اس لیے یہ آٹا سب سے پہلے حضرت ام المومنین عائشہ کے پاس لے جاؤ.چنانچہ آٹا حضرت عائشہ کے پاس لایا گیا.آپ نے اُس کی روٹی پکوائی.چونکہ آٹا میدہ کی قسم کا تھا اس لیے نہایت ملائم روٹی پکی.جب آپ نے ایک لقمہ منہ میں ڈالا تو آپ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگ گئے.وہ خادمہ جس نے روٹی پکائی تھی گھبرا کر کہنے لگی آٹا تو بہت ملائم ہے اور روٹی بھی اچھی پکی ہے پھر آپ روتی کیوں ہیں؟ حضرت عائشہؓ نے فرمایا تو نہیں جانتی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت آخری عمر میں کمزور ہو گئے تھے اور ہم دانوں کو پتھروں سے گوٹ کر روٹیاں پکا یا کرتی تھیں.چنانچہ جو روٹیاں تیار
$1958 112 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہوتی تھیں وہ بڑی سخت ہوتی تھیں اور وہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھایا کرتے تھے.آج اُن کے طفیل ہمیں یہ ملائم آٹا ملا ہے مگر مجھے یہ خیال کر کے رونا آیا کہ جن کے طفیل ہمیں یہ نعمت ملی وہ تو اس دنیا میں نہ رہے اور ہمیں یہ چیز مل گئی.حقیقتاً ہماری حالت بھی حضرت عائشہ جیسی ہی ہے.اسلام کو دنیا میں پھیلانے کے خواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھے تھے.آپ کے اشتہارات اس بات سے بھرے پڑے ہیں کہ ہم نے یورپ اور امریکہ میں اسلام پھیلانا ہے لیکن آپ ساری عمر اپنے مخالفوں سے گالیاں کھاتے رہے بلکہ آپ کی وفات پر بھی لاہور والوں نے آپ کا مصنوعی جنازہ نکالا اور خوشیاں منائیں لیکن آپ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہ دن نصیب کیا کہ ہم یورپ اور امریکہ میں تبلیغ اسلام کرتی کے آپ کی خوابوں کو پورا کر رہے ہیں حالانکہ یہ سب کچھ انہی کے طفیل ہے اور ہمارا یہ کام آپ کی ہی دعاؤں اور تعلیم کا نتیجہ ہے.آپ نے ہمیں قرآن کریم کی وہ تفسیر سکھائی جس کی وجہ سے آج سارے پادری کہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.یہ بالکل حضرت عائشہ والی مثال ہے کہ ملائم آٹا جن کے طفیل ملا وہ تو دنیا میں نہ رہے اور بعد میں آنے والوں نے اس سے فائدہ اُٹھایا.ہم کو بھی اسلام کی اشاعت کی توفیق ملی مگر اُس وقت جب ہمارے ہاتھ میں یہ ہتھیار دینے والا اور اسلام کے غلبہ کی خواہیں دیکھنے والا اس دنیا میں نہیں ہے اب بھی ہماری خواہش یہی ہے کہ ہمارے ذریعہ اسلام اس طرح پھیلے اور اس طرح اس کی اشاعت ہو کہ ہم اسلام کی فتح کا جھنڈا قیامت کے روز آپ کے قدموں میں ڈال دیں اور کہیں اے مسیح موعود! یہ تیرے خوابوں کی تعبیر ہے، یہ تیری خواہشات کا ظہور ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام پہلے بھی موجود تھا، قرآن پہلے بھی موجود تھا مگر کسی مسلمان کے دل میں کبھی یہ خیال پیدا نہ ہوا کہ اسلام دنیا پر غالب ہو.تیرے ہی دل میں یہ خیال پیدا ہوا اور تو نے ہی ہمیں وہ تفسیر سکھائی جس کی وجہ سے ہم ہر جگہ غالب ہورہے ہیں.یہ جھنڈا تیرا ہی ہے اس لیے ہم اسے تیرے ہی قدموں میں ڈالتے ہیں.اب تیرا یہ منصب ہے کہ تو یہ جھنڈا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دے کیونکہ اسلام لانے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور تیرے کی متعلق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی خبر دی تھی کہ تو دنیا میں آئے گا اور اسلام کو دنیا میں غالب کرے گا.اس لیے تیری فتح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح ہے اور محمد رسول اللہ کی فتح کی
113 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 خدائے واحد کی فتح ہے.ہم تیرے آگے جھنڈ ا ڈالتے ہیں کیونکہ تو نے ہمیں ہدایت دی.تو آگے اسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دے اور وہ آگے اسے خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر دیں اور کہیں اے خدا! تو نے مجھے توحید کی اشاعت کے لیے دنیا میں بھیجا تھا.میں نے وہ تو حید دنیا میں قائم کر دی اور پھر اس کے بعد میں نے تیری ہدایت اور تیرے دیئے ہوئے علم کے ماتحت ایک آنے والے موعود کی خبر دی جس نے اسلام کو ساری دنیا میں غالب کر دیا اب میں یہ اسلام کا جھنڈا تیری کی خدمت میں پیش کرتا ہوں.یہ توحید کا تحفہ ہے.یہ اس بات کی علامت ہے کہ جو کام تو نے ہمارے سپرد کیا تھا اُسے ہم نے پورا کر دیا ہے.پس اس خوشی میں ہم یہ جھنڈا تیری خدمت میں پیش کرتے ہیں.خدا کرے یہ مضمون ہمارے مبلغوں کے ذہن نشین ہو جائے اور وہ بھی جلدی جلدی کام کریں.ان میں سے بعض سُست ہیں اور بعض پچست ہیں.جو سُست ہیں اُن کو یاد رکھنا چاہیے کہ انہوں نے ایک دن مرنا ہے، قیامت کے دن ان کو کوئی عزت نہیں دی جائے گی لیکن جو چُست ہیں اور خدا تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں اُن کو یاد رکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ قیامت کی کے دن انہیں اپنے عرش کے دائیں طرف بٹھائے گا اور اُن سے وہی سلوک کرے گا جیسے باپ اپنے بیٹے سے کرتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کو اپنی توحید سے ویسی ہی محبت ہے جیسے باپ کو اپنے بیٹے سے ہوتی ہے.پس جب وہ خدا تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں پھیلائیں گے تو خدا تعالیٰ بھی ان سے ویسی ہی محبت کرے گا جیسے باپ اپنے بیٹے سے محبت کرتا ہے.اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فرمایا أَنتَ مِنِّى بِمَنْزِلَةِ تَوْحِيدِى وَتَفْرِيدِى 22 یعنی تو مجھے ایسا ہی پیارا ہے جیسے مجھے اپنی توحید اور تفرید پیاری ہے.آخر ساری دنیا سے عیسائیت اور شرک کا مٹانا کتنا بڑا کام ہے.وہ صحیح جسے عیسائیوں نے عرش پر بٹھا رکھا ہے اُسے زمین پر نیچے اُتار دینا معمولی آدمی کا کام نہیں تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیوں کے مصنوعی خدا کو عرش سے نیچے پھینک دیا اور اس کی اپنی قوم سے اقرار کروالیا کہ مسیح ناصری نیچے تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اونچے تھے.مجھے یاد ہے کہ جب مجھ پر بیماری کا حملہ ہوا اور میں علاج کی غرض سے لندن گیا تو ایک بہت بڑا مصنف ڈسمنڈ شامیرے پاس آیا اور اُس نے کہا شاید آپ مجھے پاگل قرار دیں گے کہ عیسائی ہوکر میں ایسی باتیں کرتا ہوں.یہ ٹھیک ہے کہ میں عیسائی ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
$1958 114 خطبات محمود جلد نمبر 39 سیح ناصرٹی سے بڑے تھے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلی تعلیم دنیا میں لائے وہ مسیح ناصرتی نہیں لائے تھے.آپ حیران ہوں گے کہ میں عیسائی ہو کر ایسی بات کر رہا ہوں لیکن میں سچی بات کا انکار کیسے کر سکتا ہوں.میں جب اُسے رُخصت کر کے اپنے کمرہ کی طرف آیا تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے پیچھے پیچھے کوئی آ رہا ہے.میں نے مُڑ کر دیکھا تو ڈسمنڈ شا آ رہا تھا.وہ کہنے لگا میرے دل میں ایک سوال پیدا ہوا تھا میں نے چاہا کہ آپ سے پوچھ لوں.میں نے کہا پوچھو کیا سوال ہے؟ وہ کہنے لگا جب میں یہ تقریر کرتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑے نبی تھے تو مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ میری زبان سے خدا بول رہا ہے مگر یہ عیسائی لوگ پھر بھی نہیں مانتے.میں نے کہا ڈسمنڈ شا! جب آپ محسوس کرتے ہیں کہ خدا آپ کے اندر بول رہا ہے تو آپ سمجھتے ہیں کہ شاید دوسرے لوگ بھی اس آواز کو سن رہے ہیں حالانکہ دوسرے لوگ صرف تمہاری آواز سنتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی آواز نہیں سنتے اس لیے وہ تمہاری بات نہیں کی مانتے.وہ ایک کان سے سنتے ہیں اور دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں.جب یہ لوگ بھی خدا تعالیٰ کی آواز سننے لگ جائیں گے اور خدا تعالیٰ ان کے دلوں میں بھی بولا تو ان پر بھی اثر ہو جائے گا.میں نے کہا ابھی اِن لوگوں کا یہ حال ہے کہ جب تم بولتے ہو تو یہ لوگ صرف تمہاری آواز سنتے ہیں.تم انتظار کرو اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگو کہ جب تم بولا کرو تو خدا صرف تمہاری زبان سے نہ بولے بلکہ لوگوں کے دلوں میں بھی بولے.اور جس دن وہ لوگوں کے دلوں میں بولنے لگے گا لمبی چوڑی تقریروں کی ضرورت نہیں کی رہے گی سارا یورپ تمہاری بات ماننے لگ جائے گا“.الفضل 20 مئی 1958 ء ) 1 بخاری کتاب بدء الخلق باب صفة النار و انها مخلوقة 2 : وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا (آل عمران : 47) 3 : بخاری کتاب بدء الخلق باب صفة النار (الخ) 4 : بخاری کتاب التهجد باب ماجاء في التطوع مثنى مثنى 5 : الفرقان : 31 6 : سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 233 مطبوعہ مصر 1936ء 7 : السيرة الحلبية جلد 3 صفحہ 83 مطبوعہ مصر 1935ء 8 : السيرة الحلبية جلد 3 صفحہ 92 مطبوعہ مصر 1935ء
$ 1958 115 خطبات محمود جلد نمبر 39 :9 سیرت ابن هشام جلد 2 صفحہ 1196 مطبوعہ دمشق 2005 ء 10 : السيرة الحلبية جلد 3 صفحہ 93 مطبوعہ مصر 1935ء 11 : السيرة الحلبية جلد 3 صفحہ 97 مطبوعہ مصر 1936ء 12 : السيرة الحلبية جلد 3 صفحہ 89 مطبوعہ مصر 1935ء 13 : بخارى كتاب الصلوة باب الْمَرْأَةِ تطرح عَنِ الْمُصَلَّى شَيْئًا (الخ) 14 : بخاری کتاب مناقب الانصار باب مَا لَقِيَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَاَصْحَابُهُ (الخ) 15 : مستدرک حاکم جلد 3 صفحه 475 مطبوعہ بیروت 1978ء 16 : السيرة الحلبية جلد 3 صفحہ 107،106 مطبوعہ مصر 1935ء 17 : تاریخ ابن اثیر جلد 2 صفحہ 413.مطبوعہ بیروت 1965ء 18 : الاستيعاب في مَعْرِفَةِ الْاَصْحَاب جلد 3 صفحہ 191 مطبوعہ بیروت 1995ء 19 : يَقُولُونَ لَبِنْ رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَ الْأَعَزُّ مِنْهَا الاذل (المنافقون: 9) 20 : سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 304 305 مطبوعہ مصر 1936ء.السيرة الحلبية جلد 2 صفحہ 306 مطبوعہ مصر 1935ء 21 پرے: قطاریں.جماعتیں 22 : تذکرہ صفحہ 66 طبع چہارم
$ 1958 116 13 خطبات محمود جلد نمبر 39 جو لوگ صحیح معنوں میں رضائے الہی کے حصول کے لیے کوشش کرتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ یقیناً ہر میدان میں کامیابی بخشتا ہے فرموده 9 مئی 1958ء بمقام مری) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے قرآن کریم کی درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: "وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ 66 1-“ اس کے بعد فرمایا: اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم یقیناً اُن کو اپنے اُن راستوں کی طرف آنے کی توفیق دے دیتے ہیں جن پر چل کر وہ ہمارے مقرب ہو جاتے ہیں.لَنَهْدِينَهُمْ سُبُلَنَا کے معنے بعض لوگ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ ہم ان کو اپنی شریعت بتا دیتے ہیں مگر یہ درست نہیں کیونکہ اگر شریعت پہلے سے نہ بتائی جاچکی ہوتو وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا
117 $1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 کے کوئی معنی ہی نہیں رہتے.جَاهَدُوا فِينَا کے معنی اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنے کے ہیں اور جہاد فی سبیل اللہ تبھی ہو سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی شریعت آئی ہوئی ہو.پس اس جگہ لَنَهْدِيَنَهُمْ سُبُلَنا کے یہ معنے نہیں کہ ہم اُن کو اپنی شریعت بتا دیتے ہیں کیونکہ شریعت ہمیشہ پہلے آتی ہے اور جہاد بعد میں ہوتا ہے.اس جگہ لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا کے یہی معنی ہیں کہ ہم ان کو اپنے قرب کی راہیں بتا کر اپنا مقرب بنا لیتے ہیں.ہماری جماعت بھی اس وقت وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا کی مصداق ہے کیونکہ وہ تمام دنیا تای میں اسلام کی اشاعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بلند کرنے کے لیے کوشش کر رہی ہے.آخر جَاهَدُوا فِينَا سے جہاد بالسیف تو مراد نہیں ہو سکتا.اگر اس سے جہاد بالسیف مراد ہوتا اور ان وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا کہنے کی بجائے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا مُطَابَقًا شَرِيعَتَنَا يَا جَاهَدُوا اَحْكامَنَا کہا جاتا تب تو بے شک یہ معنے بھی کیے جاسکتے تھے کہ شریعت کے مطابق جہاد چونکہ بعض لوگوں کے نزدیک صرف تلوار ہے اس لیے جَاهَدُوا فِینا سے وہی لوگ مراد ہیں جو جہاد بالسیفی کر رہے ہوں مگر اللہ تعالیٰ نے جَاهَدُوا فِينَا فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پاس تلوار سے کوئی نہیں پہنچ سکتا.اُس کے پاس تو انہی کاموں سے پہنچ سکتا ہے جن سے وہ خوش ہو.یعنی ایسے کاموں سے جن سے اسلام کی دنیا میں اشاعت ہو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت بڑھے.پس اس وقت ہماری جماعت ہی ہے جو یہ کام کر رہی ہے اور وہی ہے جو اِنَّ اللهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ کی مصداق ہے.محسن کے معنی عربی زبان میں اُس شخص کے ہوتے ہیں جو حکم کو اُس کی تمام شرائط کے ساتھ پورا کرے.پس اِنَّ اللهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ کہ کر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جو لوگ اس پہلی بات پر پوری طرح عمل کریں گے جو ہم نے کہی ہے یعنی وہ پوری طرح جہاد کریں گے اور ہماری رضا کے حصول کی کوشش کریں گے ہم اُن کے ساتھ ہوں گے اور ہر میدان میں اُن کو کامیابی بخشیں گے.پس جو لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش تو کریں مگر ان کی کوششوں کا کوئی تو نتیجہ نہ نکلے انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کوئی نہ کوئی غلطی کر رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ خدائی قرب اور اس کی نصرت سے محروم ہیں.گویا بجائے اس کے کہ خدا تعالیٰ پر الزام لگایا جائے اور کہا جائے کہ اس نے ی ہماری طرف توجہ نہیں کی ہمیں اپنی ذات پر الزام لگانا چاہیے اور سمجھ لینا چاہیے کہ ہم محسنوں والا کام نہیں
$1958 118 خطبات محمود جلد نمبر 39 کر رہے ورنہ خدا جھوٹا نہیں ہو سکتا.وہ اپنے وعدوں میں سچا ہے اور وہ جو بات بھی کہتا ہے اُسے پورا کر کے رہتا ہے.جھوٹے ہم ہی ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کی محبت کا تو دعوی کرتے ہیں مگر اس کے مطابق اپنے اندر کوئی تغیر پیدا نہیں کرتے.احادیث میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ ! میرے بھائی کو دست آ رہے ہیں.چونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شہد میں شفاء ہے.2 اس لیے آپ نے فرمایا کہ اپنے بھائی کو شہد پلاؤ.حالانکہ طبی طور پر شہد دست لاتا ہے انہیں بند نہیں کرتا.وہ گیا اور اُس نے جا کر شہد پلا دیا.مگر اُس کے بھائی کے دست اور بھی بڑھ گئے.وہ ان پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! میرے بھائی کے دست تو اور زیادہ ہو گئے ہیں.آپ نے فرمایا جاؤ اور اور شہد پلاؤ.وہ گیا اور پھر اُس نے شہد پلا دیا جس پر اس کے اسہال اور بھی بڑھ گئے.وہ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور اُس نے کہا یا رسول اللہ ! اُس کو تو اور زیادہ دست آنے لگ گئے ہیں.آپ نے فرمایا تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے اور خدا سچا ہے.جاؤ اور اُس کو اور شہد پلاؤ.چنانچہ اُس نے پھر شہد پلایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُس کے اندر سے ایک بڑا سائرہ نکلا اور اُس کے اسہال جاتے رہے.3 اسی طرح اگر ہماری کوششوں کا کوئی نتیجہ نہ نکلے تو ہم اپنے متعلق کہیں گے کہ ہم جھوٹے ہیں اور ہم نے وہ شرطیں پوری نہیں کیں جن کے پورا کرنے سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو سکتا تھا.ورنہ خدا سچا ہے.اگر ہم اُس کی شرائط کو پورا کرتے تو خدا بھی اپنے وعدے کو پورا کرتا.ہماری جماعت کے وہ معلم اور مربی جو اس وقت پاکستان میں یا پاکستان سے باہر یورپ اور امریکہ میں کام کر رہے ہیں اُن کو چاہیے کہ وہ اس آیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس تندہی سے دین کی خدمت بجالائیں کہ انہیں خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو جائے اور وہ ان کے کام میں زیادہ سے زیادہ برکت دے اور ان کو ہر رنگ میں کامیابی نصیب کرے.اگر وہ ایسا کریں گے تو یقیناً ان کی مساعی کی کی وجہ سے اسلام کی بھی عزت بڑھے گی.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی عزت بڑھے گی اور جو شخص اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت بڑھاتا ہے یہ ناممکن ہے کہ خدا اُس کی عزت نہ بڑھائے.جو کام خدا کر رہا ہوا گر وہی کام بندہ کرنے لگ جائے تو وہ خدا تعالیٰ کا بہت ہی عزیز ہو جاتا ہے
$1958 119 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہے.جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے کہ اِنَّ اللهَ وَمَلَبِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا 4 یعنی خدا اور اس کے فرشتے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج رہے ہیں اے مومنو! تم بھی یہی کام کرو اور اس پر درود اور سلام بھیجو.یہی وجہ ہے کہ التحیات میں درود کو بھی شامل کیا گیا ہے.پس جب ہم درود پڑھتے ہیں تو درحقیقت وہی کام کرتے ہیں جو خدا اور اس کے فرشتے کر رہے ہیں اور چونکہ ہم خدا اور اُس کے فرشتوں والا کام کرتے ہیں اس لیے ہم پر بھی خدا اور اُس کے فرشتے سلامتی بھیجنے لگ جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نصرت ہمارے شامل حال ہو جاتی ہے“.(الفضل 23 مئی 1958 ء) 1 : العنكبوت: 70 2 : فِيْهِ شِفَاءٍ لِلنَّاسِ (النحل: 70) 3 : بخاری کتاب الطب باب الدواء بالعسل 4 : الاحزاب : 57
$ 1958 120 (14) خطبات محمود جلد نمبر 39 اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے محبت رکھتا ہے اسی لیے وہ ہمیشہ ان کے لیے رحمت و برکت کے سامان مہیا فرماتا ہے انسان متواتر اس کی نافرمانی اور ناشکری کا مرتکب ہوتا ہے لیکن وہ پھر بھی ہمیشہ اسے ہدایت کی راہوں کی طرف بلاتا چلا جاتا ہے (فرمودہ 16 مئی 1958ء بمقام مری) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے قرآن کریم کی درج ذیل آیت کی تلاوت کی رمائی : "أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا أَنْ كُنْتُمْ قَوْمًا مُّسْرِفِينَ “ - 1 اس کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے جو محبت ہے اُس کا ذکر وہ اس آیت میں ان الفاظ میں فرماتا ہے کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ میں تمہیں یاد دہانی کرانے اور تمہیں نصیحت کرنے اور تمہاری طرف اپنی نبوت اور رسالت بھجوانے سے اس وجہ سے اعراض کر جاؤں گا کہ تم ایک مُسرِف قوم ہو؟ یعنی تمہارا اسراف
121 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 اور تمہارا حد سے بڑھ جانا چاہتا تھا کہ میں تمہیں سزا دوں لیکن میں رحیم خدا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ کسی طرح تم اس سزا سے بچ جاؤ.اس لیے باوجود تمہاری نافرمانیوں کے اور باوجود تمہارے اعراض کے اور باوجود تمہارے حد سے بڑھ جانے کے میں ہمیشہ تمہاری طرف اپنی وحی نازل کرتا رہتا ہوں اور کی تمہیں ہدایت کی راہوں کی طرف بلاتا رہتا ہوں تا کہ تم میں سے جو ہدایت پاسکیں وہ ہدایت پا جائیں کی اور جنہیں سزا ملے وہ یہ نہ کہیں کہ ہمارے باپ دادوں سے جو قصور ہوا تھا اُس کی ہمیں کیوں سزا دی گئی ہے.ممکن ہے اگر ہمارے پاس تیری ہدایت آتی یا تیرے احکام کی طرف توجہ دلانے والا کوئی رسول آتا جی تو ہم اُن سے زیادہ شریعت پر عمل کر کے دکھا دیتے.پس اس الزام سے بچنے کے لیے میں لوگوں کی طرف اپنی تازہ ہدایت بھیجتا ہوں تا کہ ان کو اس اعتراض کا موقع نہ ملے اور وہ اپنی اصلاح کر لیں اور خدا تعالیٰ کی نافرمانی کرنے اور اُس کے احکام سے گریز کرنے کی سزا سے بچ جائیں.یہ ایک ایسی سچائی ہے جس کا ہر زمانہ میں ہمیں ثبوت نظر آتا ہے مگر پھر یہ دیکھ کر حیرت آتی ہے کہ کس طرح انسان خدا تعالیٰ کے اس انعام کو ٹھکرا دیتا اور اس کے احکام کی نافرمانی کرنے لگ جاتا ہے.ایک انسان جو اپنے اندر کوئی طاقت نہیں رکھتا اور سخت کمزور ہوتا ہے وہ بھی جب کوئی حکم دیتا ہے اور دوسرا شخص اُسے نہیں مانتا تو وہ غصے میں آجاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے آدم کو بھیجا تو ابلیس جیسے لوگ اس کے مقابلہ کے لیے کھڑے ہو گئے ، نوح کو بھیجا تو تمام قوم نے ان کا انکار کیا یہاں تک کہ حضرت نوح خود کہتے ہیں کہ میں نے ان لوگوں کو علیحدگی میں بھی سمجھایا اور مجلس میں بھی سمجھایا، رات کو بھی سمجھایا اور دن کو بھی سمجھایا مگر انہوں نے خدا کے کلام کو قبول کرنے سے ہمیشہ اعراض کیا اور کبھی بھی اس کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے.2 پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے تو اُن کا انکار کیا گیا، لوط آئے تو ی اُن کا انکار کیا گیا، اسحاق آئے تو اُن کا انکار کیا گیا ، یعقوب اور یوست آئے تو اُن کا انکار کیا گیا، پھر حضرت موسی علیہ السلام آئے تو اُن کا انکار کیا گیا، ایلیاء آئے تو اُن کا انکار کیا گیا، حز قیل آئے تو اُن کا انکار کیا گیا، سر میاں آئے تو اُن کا انکار کیا گیا، حضرت عیسی علیہ السلام آئے تو اُن کا انکار کیا گیا ، پھر آخر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو اُن کا بھی انکار کیا گیا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی طاقت اور قوت کے باوجود اور بنی نوع انسان کی انتہا درجہ کی ناشکریوں اور اعراض کے باوجود انسانوں سے اپنا کلام نہ روکا بلکہ برابر اُن کو یہ انعام دیتا چلا گیا.چنانچہ اس امت میں بھی ہزاروں بزرگ ایسے
خطبات محمود جلد نمبر 39 122 $1958 گزرے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ ہمکلام ہوتا رہا اور جن کو اپنی مرضی بتا تا رہا.اور اب آخری زمانہ میں اُس نے پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا جن سے وہ ہمکلام ہوا.اور آپ کے بعد آپ کی جماعت میں بھی ایسے بہت سے لوگ پائے جاتے ہیں کہ خواہ انہیں رویا و کشوف ہوں یا ان پر اللہ تعالیٰ کا الہام نازل ہو بہر حال انہیں اس انعام سے حصہ ملا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی اس رحمت کو جانتے ہیں کہ وہ کس طرح اپنے بندوں پر فضل کرتا اور مشکلات میں ان کی راہنمائی کرتا ہے.یہ اُس کے فضل اور رحم کی علامت ہے ورنہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے انسان کو ذراسی بھی طاقت حاصل ہو تو دوسرے کی معمولی نافرمانی پر بھی وہ اتنا بگڑ جاتا ہے کہ اس کا تہس نہس کر کے رکھ دیتا ہے“.(الفضل 23 مئی 1958ء) 1 : الزخرف : 6 2 قَالَ رَبِّ إِنِّى دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَا عِى إِلَّا فِرَارًا وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَهُمُ فِى أَذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوا ثِيَابَهُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا ثُمَّ إِنِي دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا لا ثُمَّ إِنِّي أعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْرَارًا (نوح: 106)
$ 1958 123 15 خطبات محمود جلد نمبر 39 حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ کا موحد بندہ وہی ہے جو شرک فی الذات اور شرک فی الصفات دونوں سے بچے (فرمودہ 23 مئی 1958ء بمقام مری) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”ہم لوگ روزانہ ہر نماز میں بلکہ نمازوں کے علاوہ بھی درود پڑھتے ہیں لیکن کبھی اس امر کی طرف توجہ نہیں کرتے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے کیا مقام دیا تھا اور کس وجہ سے دیا تھا.قرآن کریم نے اس کی وجہ خود بیان کی ہے اور فرمایا ہے کہ ہم نے ابراہیم کو اس دنیا میں بھی بڑی عزت کی دی تھی اور قیامت کے دن بھی اسے بڑی عزت دیں گے اور ہم نے اُسے مناسب حال عمل کرنے والوں اور مقتضائے شریعت اور مقتضائے فطرت کو ملحوظ رکھنے والوں میں سے بنایا ہے 1 اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ثُمَّ اَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرُ هِيْمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ 2 ہم نے تجھ کو بھی ہدایت دے دی کہ تو بھی ملت ابراہیمی کی اتباع کر کیونکہ وہ مقتضائے شریعت اور مقتضائے فطرت کو ملحوظ رکھنے والا اور ان کے مطابق عمل کرنے والا تھا اور اس کے اندر کسی قسم کی کجی نہیں پائی جاتی تھی یعنی وہ پورا موجد تھا.حنیف کے معنے سیدھے کے ہوتے ہیں.
124 $1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 مگر سیدھے کے لفظ سے ہی یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ وہ موحد ہو کیونکہ جو سیدھا ہو گا وہی جنوں کی طرف نہیں جائے گا یا ایسے کاموں میں مشغول نہیں ہو گا جن میں خدا تعالیٰ کی اتباع سے منحرف ہونا پڑتا ہومگر فرما چونکہ ہر شخص حنیف کے لفظ سے یہ مفہوم سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی فر دیا کہ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسے شرک سے سخت نفرت تھی اور اس کی توجہ ہمیشہ اپنے واحد خدا کی طرف رہتی تھی.شرک کا لفظ تو ایسا ہے جسے سب لوگ سمجھتے ہیں مگر شرک کے معنے صرف بچوں کے آگے سجدہ کرنے کے نہیں.ایسا شرک تو آجکل عیسائیوں اور نو تعلیم یافتہ ہندوؤں میں بھی نہیں پایا جاتا اور وہ ان بھی جوں کے آگے سجدہ نہیں کرتے.پس مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ کے یہ معنے نہیں کہ وہ جوں کے آگے سجدہ نہیں کرتا تھا بلکہ در حقیقت شرک کئی قسم کا ہوتا ہے.ایک تو شرک فی الذات ہے یعنی کسی کو ایسا سمجھ لینا کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرح ازلی ابدی ہے.جیسے عیسائی کہتے ہیں کہ باپ بھی ازلی ہے، بیٹا بھی از لی ہے اور روح القدس بھی ازلی ہے.اور ایک شرک فی الصفات ہوتا ہے جیسے خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ میں ہی پیدا کیا کرتا ہوں.اب اگر کسی انسان کے متعلق یہ مجھ لیا جائے کہ وہ بھی خلق کیا کرتا تھا تو یہ شرک فی الصفات ہوگا.جیسے بعض مسلمان سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام پرندے پیدا کیا کرتے تھے.یا مثلاً مُردے کو زندہ کرنا خدا تعالیٰ نے اپنے اختیار میں رکھا ہے مگر بعض مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ سید عبدالقادر صاحب جیلانی بھی مر دوں کو زندہ کیا کرتے تھے.قادیان کی بات ہے وہاں غیر احمدی مولویوں نے ایک دفعہ جلسہ کیا جس میں مولوی ثناء اللہ صاحب بھی آئے اور انہوں نے ہمارے خلاف بڑی تقریریں کیں.اسی جلسہ میں ایک حنفی مولوی نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مرزائی کہا کرتے ہیں مرزا صاحب کی فلاں پیشگوئی پوری ہوئی اور انہوں نے فلاں نشان دکھایا.بھلا یہ بھی کوئی معجزے ہیں معجزہ تو یہ ہوتا ہے کہ ایک دفعہ سید عبدالقادر صاحب جیلانی کے پاس اُن کا ایک مُرید آیا اور کہنے لگا حضور ! میرا بیٹا بیمار ہے دعا کریں کہ وہ اچھا ہو جائے.انہوں نے کہا بہت اچھا.ہم دعا کریں گے وہ ٹھیک ہو جائے گا مگر وہ کی مر گیا.اس پر وہ پھر آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا حضور! میرا بیٹا تو مر گیا.کہنے لگے ہیں ! مر گیا ؟ اب عزرائیل میں بھی اتنی جرات ہو گئی ہے کہ وہ میرے حکم کی خلاف ورزی کرے؟ انہوں.
$1958 125 خطبات محمود جلد نمبر 39 اُسی وقت ڈنڈا اٹھایا اور آسمان کی طرف چڑھنا شروع کر دیا.عزرائیل آگے آگے بھاگا جا رہا تھا ؟ اور وہ ڈنڈا اٹھائے اُس کے پیچھے دوڑ رہے تھے.وہ آسمان میں داخل ہی ہونے لگا تھا کہ یہ اس و کے پاس پہنچ گئے اور زور سے اُسے ڈنڈا مارا جس سے وہ لنگڑا ہو گیا اور روحوں کی تھیلی اس کے ہاتھ سے چھین کر اُس کا منہ کھول دیا.وہ روتا رو تا خدا تعالیٰ کے پاس گیا اور کہنے لگا خدایا ! میں تو ی تیرے کام گیا تھا مگر عبد القادر جیلانی نے مجھے ڈنڈا مارا اور میرے ہاتھ سے روحوں کی تحصیلی چھین کر انہوں نے ساری روحوں کو آزاد کر دیا.اب میرا کام کیا رہ گیا.میری جگہ کسی اور کو مقرر کر دیجیے.پھر انہوں نے صرف وہی روح نہیں نکالی جو اُن کے مرید کے لڑکے کی تھی بلکہ جتنی روحیں تھیلی میں کی بند تھیں وہ سب کی سب انہوں نے کھول دی ہیں.اللہ تعالیٰ نے جب یہ بات سنی تو فرشتہ سے کہنے لگا چُپ چُپ ! اگر عبد القادر جیلانی نے یہ بات سن لی تو میرا کیا بنے گا ؟ تو خوامخواہ شور مچا رہا ہے.اگر عبد القادر جیلانی کے کان میں یہ بات پڑ گئی تو نَعُوذُ بِاللهِ میری بھی خیر نہیں.اب اس قسم کا عقیدہ بھی شرک میں ہی داخل ہے.اسی طرح خدا السَّمیع ہے.اس لیے لوگ اپنے بچوں کا نام عَبُدُ السَّمِيع رکھا کرتے ہیں اور السمیع کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ لوگوں کی دعائیں سنتا ہے اور نرالے طور پر سنتا ہے اور یہ کی کہ اس کے سوانہ زندہ آدمی دوسروں کی دعائیں سن سکتے ہیں اور نہ مُردہ.صرف خدا ہی ہے جو لوگوں کی دُعائیں سنتا اور ان کو قبول فرماتا ہے.چنانچہ دیکھ لو کوئی یورپ میں دُعا مانگ رہا ہوتا ہے، کوئی ایشیا میں مانگ رہا ہوتا ہے، کوئی چین میں مانگ رہا ہوتا ہے، کوئی جاپان میں مانگ رہا ہوتا ہے، کوئی روس میں مانگ رہا ہوتا ہے، کوئی مصر، شام اور فلسطین میں مانگ رہا ہوتا ہے مگر خدا ان سب کی دعائیں سن رہا ت ہوتا ہے لیکن بعض مسلمان خیال کرتے ہیں کہ زندہ تو الگ رہے مُردے بھی لوگوں کی دعاؤں کو سن لی لیتے ہیں.مجھے یاد ہے 1912ء میں میں لکھو گیا تو ندوہ جہاں سب سے اعلیٰ اور نئی طرز کی تعلیم دی جاتی ہے اُس کو دیکھنے کے لیے بھی ہم چلے گئے.وہاں ہمارے ساتھ یہ سلوک کیا گیا کہ حافظ روشن علی صاحب جو میرے ساتھ تھے انہوں نے لڑکوں سے ایک سوال کیا تو شبلی صاحب کے ایک خاص الخاص شاگرد نے لڑکوں کو ڈانٹ دیا کہ خبردار ! جو اس کا جواب دیا.بعد میں شبلی صاحب کو پتا
126 $1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 لگا تو انہوں نے بڑے افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ میں تو ان لوگوں کو سمجھاتے سمجھاتے تھک گیا ہوں مگر یہ مولوی سمجھتے ہی نہیں.اس کے مقابلہ میں فرنگی محل کا مدرسہ جو سب سے پرانا مدرسہ ہے اور جہاں درسِ نظامی پڑھایا جاتا تھا اور حنفیوں کا تھا وہاں ہم گئے تو باوجود اس کے کہ وہ چھٹی کا دن تھا.اساتذہ نے تمام لڑکوں کو جمع کر لیا اور ہمیں اپنا سکول دکھایا اور ہم سے مختلف امور پر گفتگو کرتے رہے.مولوی عبدالعلی صاحب ان کے مشہور عالم تھے.اسی طرح مولوی عبدالحی صاحب مرحوم بھی ان کے بڑے مشہور عالم گزرے ہیں بلکہ مولوی عبدالحی صاحب تو اتنے بڑے پایہ کے تھے کہ مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی جو بڑے مشہور بزرگ تھے وہ اپنی کتابوں پر ہمیشہ مولوی عبدالحی صاحب سے ریویو مانگا کرتے تھے اور جب وہ ریویو کر دیتے تو سمجھتے تھے کہ اب یہ کتاب مستند ہوگئی ہے.مولوی عبدالحی صاحب تو اُس وقت فوت ہو چکے تھے مگر ان کا ایک لڑکا دس گیارہ سال کی عمر کا تھا.انہوں نے کہا کہ یہ لڑ کا بڑا ذہین ہے.آپ اس سے کوئی سوال کیجیے.چنانچہ ہم نے سوالات کیے تو واقع میں اُس نے ایسے جواب دیئے جن سے اس کی اعلیٰ درجہ کی ذہانت اور دماغی قابلیت ظاہر ہوتی تھی.مگر جب ہم واپس آگئے تو چند دنوں کے بعد ہمیں پتا لگا کہ وہ لڑ کا فوت ہو گیا ہے.مولوی عبدالعلی صاحب کا ایک خاص شاگر د تھا جس کو انہوں نے سکول دکھانے کے لیے ہمارے ساتھ مقرر کیا اور اُس نے ہمیں تمام سکول دکھایا مگر جب واپس آئے تو وہ عصر کا وقت تھا.راستہ میں ایک مسجد تھی ، اُس میں ہم نماز پڑھنے کے لیے چلے گئے.نماز پڑھنے کے بعد ہم آ رہے تھے کہ ہم نے راستہ میں دیکھا کہ وہی مولوی صاحب ایک فقیر کی قبر پر سجدہ میں گرے ہوئے ہیں.اُسے دیکھ کر ہمیں حیرت ہوئی کہ یہ اتنا عالم آدمی ہے مگر پھر اتنا گر گیا ہے کہ ایک فقیر کی قبر پر سجدہ کر رہا ہے لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ابراہیم کسی قسم کا بھی مشرک نہیں تھا.الف لام جب جمع پر آئے تو اُس میں تخصیص کے معنے پیدا ہو جاتے ہیں یا الف لام اُس کو اتنا نکرہ کر دیتا ہے کہ ہر قسم اور نوع اس میں شامل ہو جاتی ہے.پس بعا كَانَ مِنَ الْمُشْرِ رکین کے یہ بھی معنے ہیں کہ وہ اپنی توحید میں ممتاز حیثیت رکھتا تھا اور یہ بھی معنے ہیں کہ اس میں کسی قسم کا بھی شرک نہیں پایا جاتا تھا.نہ وہ خدا تعالیٰ کی ذات میں شرک کرتا تھا اور نہ اُس کی صفات میں شرک کرتا تھا.یہ چیز ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ ہمیں توجہ دلاتا ہے مگر افسوس ہے
خطبات محمود جلد نمبر 39 127 $1958 کہ لوگ اس طرف توجہ نہیں کرتے.(الفضل 6 جون 1958ء) 1 وَأَتَيْنَهُ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّلِحِينَ (النحل: 123) 2 : النحل : 124
$ 1958 128 (16) خطبات محمود جلد نمبر 39 اسلام نے تقرب الہی کا راستہ اتنا آسان کر دیا ہے کہ اگر مومن ذرا بھی کوشش کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کو پاسکتا ہے دیگر مذاہب نے خدا سے ملنے کی اُمید تو دلائی لیکن راستہ اتنا کٹھن بتایا کہ انسان مایوس ہو جاتا ہے (فرموده 30 مئی 1958ء بمقام مری) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے قرآن کریم کی درج ذیل آیات کی تلا فرمائی: ” صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً 1 قُل إن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبُكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ - 2 اس کے بعد فرمایا: ” میں نے آج رویا میں دیکھا کہ ایک جگہ بہت سے لوگ بیٹھے ہیں اور میں انہیں مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ مختلف مذاہب میں جو خدا تعالیٰ کا تصور پایا جاتا ہے وہ میں تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں.چنانچہ سے پہلے میں نے بدھ مذہب میں جو خدا تعالیٰ کا تصور پایا جاتا ہے وہ اُن کے
$1958 129 خطبات محمود جلد نمبر 39 سامنے بیان کیا اور اس پر ایک تقریر کی.صبح کے وقت جب میں نے اپنی اس رویا پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کے تصور کے الفاظ اختصار ابولے گئے ہیں ورنہ اس سے مُراد خدا تعالیٰ سے ملنے کا تصورتھا.چنانچہ میں نے اُن کے سامنے جو تقریر کی وہ یہ ھی کہ دیکھو! مچھلی پانی میں رہتی ہے لیکن اس پانی پر جو سورج کی شعاعیں گرتی ہیں یا دریا میں بہنے والی ریت کے ذرات سے جو چمک پیدا ہوتی ہے وہ آہستہ آہستہ مچھلی پر ایسا اثر ڈالتی ہے کہ اس پر چانے 3 پڑ جاتے ہیں.در حقیقت یہ چانے اس لیے ہوتے ہیں کہ دیر تک اس پر ریت کی ای چمک اور سورج کی شعاعوں کا اثر ہوتا رہتا ہے اور آخر اس کے جسم پر بھی ویسی ہی چمک آ جاتی ہے.اگر سنہری ریت ہو تو یہ چانے سنہری بن جاتے ہیں.چنانچہ کئی مچھلیوں پر میں نے خود سنہری رنگ کے چانے دیکھے ہیں.بلکہ بعض دفعہ ان پر سات سات، آٹھ آٹھ رنگ کے چانے ہوتے ہیں اور بعض دفعہ تو ایسے نیلے رنگ کا چانہ ہوتا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ فیروزہ 4 ہے.پھر میں کہتا ہوں دیکھو! جسم جو ایک کثیف چیز ہے اگر اس اتصال کے نتیجہ میں دوسری چیزوں کا اثر قبول کر لیتا ہے تو روح جو ایک نہایت ہی لطیف چیز ہے وہ کیوں اثر قبول نہیں کرے گی.پھر میں دوسرے مذہب پر اسلام کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ دیکھو! بدھ مذہب نے صرف یہ بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ سے اتصال پیدا ہو سکتا ہے مگر اتصال پیدا کرنے کا طریق اُس نے نہیں بتایا اور جو بتایا ہے وہ اتنا لمبا ہے کہ انسان کے لیے اُس پر عمل ممکن نہیں.وہ کہتے ہیں کہ بدھ ساٹھ سال تک اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کی کرنے کے لیے ایک جنگل میں بانس کے درخت کے نیچے بیٹھا اور خدا تعالیٰ کی عبادت اور ذکر الہی میں اتنا محو ہوا کہ اُس کے نیچے سے ایک درخت نکلا جو اُس کے جسم کو چیرتا ہوا سر سے نکل گیا اور اُسے پتا تک نہ لگا.اب یہ ایک لایعنی سی بات ہے جسے عقل قبول نہیں کر سکتی.لیکن اسلام نے نہ صرف ی وصال الہی کا تصور بیان کیا ہے بلکہ وہ رستہ بھی بتایا ہے جس پر چل کر انسان خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے.مثلاً بدھ نے دُعا کی قبولیت پر کوئی زور نہیں دیا صرف نروانا 5 پر زور دیا ہے یعنی اس نے کہا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے نفس کی تمام خواہشات کو نکال دے حالانکہ خدا تعالیٰ کے قرب کی خواہش بھی تو ایک خواہش ہی ہے.اگر وہ سب خواہشات کو نکالے گا تو یہ خواہش کیسے باقی رہ سکتی ہے.پس بدھ نے متضاد بات کہی ہے لیکن اسلام کہتا ہے کہ خدا کے ملنے سے انسان کے اندر بھی خدائی صفات
خطبات محمود جلد نمبر 39 130 $1958 مجازی رنگ میں پیدا ہو جاتی ہیں مگر اس کے لیے کسی لیے مجاہدہ کی ضرورت نہیں.اگر کسی شخص کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جائے اور وہ اُس کے حضور دُعا کرے تو وہ فرماتا ہے اُجیب دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ 6 میں اس کی دُعا کو ضرور قبول کروں گا اور اسے اپنے قرب میں جگہ دوں گا.اب گجا یہ طریق کہ وہ بانس کے درخت کے نیچے ساٹھ سال بیٹھا رہا یہاں تک کہ اُس کے نیچے سے ایک درخت نکلا جو اُس کے سر سے پار ہو گیا اور گجا یہ آسان طریق کہ اللہ تعالیٰ سے دُعا کی اور وہ کی جھٹ مل گیا.حدیثوں میں بھی اللہ تعالیٰ کی اس محبت کی لطیف تشریح کی گئی ہے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک جنگ میں بہت سے لوگ مارے گئے اور جو باقی بچے وہ ادھر اُدھر بھاگ گئے.ایک عورت بھی کی بھاگی اور وہ ڈر کے مارے اپنے بچہ کو بھی چھوڑ گئی.جب جنگ ختم ہوئی تو وہ میدانِ جنگ میں واپسی آئی اور اپنے بچہ کو تلاش کرنے لگی.وہ ایک ایک بچہ کو دیکھتی ، اُسے اٹھاتی اور پھر رکھ دیتی.یہاں تک کہ اُسے اپنا بچہ مل گیا اور وہ اُسے اپنے سینہ سے لگا کر بڑے اطمینان سے ایک پتھر پر جا بیٹھی اور اُسے پیار کرنے لگی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے کہا کیا تم اس عورت کو دیکھ رہے ہو؟؟ انہوں نے کہا ہاں ! یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا اس عورت کو اپنے بچہ کے گم ہو جانے کی وجہ سے کتنا اضطراب تھا مگر جب اسے اپنا بچپل گیا تو پھر اسے کتنی تسلی ہوگئی اور کس اطمینان سے یہ علیحدہ جا کر بیٹھی گئی.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے دل میں اپنے گمراہ بندے کو دیکھ کر شدید تڑپ پیدا ہوتی ہے اور جب وہ اُس کی طرف واپس آتا ہے تو اس عورت سے بھی زیادہ اُس کو خوشی ہوتی ہے.7 گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی تصدیق کر دی کہ صرف بندے کے دل میں ہی خدا تعالیٰ کی محبت پیدا نہیں ہوتی بلکہ خود بھی اپنے بندے کی محبت میں بے تاب ہوتا ہے جیسے کسی شاعر نے کہا ہے کہ الفت کا تب مزہ ہے کہ دونوں ہوں بے قرار دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی بدھ نے کہا کہ بندے کے اندر خدا تعالیٰ سے ملنے کی ایک آگ ہونی چاہیے لیکن اسلام کہتا ہے کہ خدا میں بھی ایسی آگ موجود ہے اور وہ چاہتا ہے کہ بندے اُس کے پاس آجائیں اور اُس کا غرب حاصل کریں.گویا ایک نے اتصال کی اُمید تو دلائی ہے مگر جو راستہ بتایا ہے وہ اتنا کٹھن ہے کہ
$ 1958 131 خطبات محمود جلد نمبر 39 انسان مایوس ہو جاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ سے نہیں مل سکتا لیکن اسلام میں اللہ تعالیٰ نے کی وصالِ الہی کا راستہ بہت آسان کر دیا ہے اور ایسا آسان کر دیا ہے کہ اگر مومن کے دل میں ذرا بھی محبت ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کو پا سکتا ہے اور اس کی برکات اور فیوض سے حصہ لے سکتا ہے.اس بارہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات ہمارے سامنے ہیں.پھر موجودہ زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں جو نمونہ دکھایا اُس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کے دل میں خدا تعالی کی کتنی محبت تھی اور خدا تعالیٰ بھی آپ کے لیے کتنی غیرت رکھتا تھا.آپ ایک جگہ فرماتے ہیں لوگ مجھے گالیاں دیتے ہیں، مجھے بُرا بھلا کہتے ہیں، مجھے پر مختلف قسم کے حملے کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ میں اس پیغام کو چھوڑ دوں جس کو لوگوں تک پہنچانا ہے خدا تعالیٰ نے میرے سپرد کیا ہے مگر میں ایسا کس طرح کر سکتا ہوں.میں تو دیکھتا ہوں کہ جب رات کو کی میرے عزیز ترین وجود مجھے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں تو اُس وقت خدا میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے اے میرے بندے! میں تیرے ساتھ ہوں، اے میرے بندے ! میں تیرے ساتھ ہوں.پس وہ جو مجھ سے اس طرح محبت کرتا ہے اور رات کو جبکہ میرا کوئی ساتھی اور مددگار موجود نہیں ہوتا میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تیرے ساتھ ہوں.میں اس خدا کو ان انسانوں کی وجہ سے کس طرح چھوڑ دوں جن کی محبتیں عارضی اور بناوٹی ہوتی ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعہ اپنے وصال اور ب کے بڑے آسان رستے کھول دیئے ہیں.ایک بزرگ تھے جو اللہ تعالیٰ کی محبت میں ایسے محو ہوئے کہ وہ رات دن عبادت اور ذکر الہی میں لگے رہتے تھے.اُن کی بیوی کچھ دنیا داری کا رنگ رکھتی تھی.اُس نے جب دیکھا کہ گھر میں تنگی ہے اور یہ کوئی کام کاج نہیں کرتے تو اُس نے ایک اور بزرگ کے پاس ان کی شکایت کی اور انہیں کہا کہ اپنے بھائی کو سمجھاؤ وہ سارا دن باہر بیٹھا رہتا اور ذکر الہی کرتا رہتا ہے.اگر وہ گھر میں آئے تو اسے پتا لگے کہ گھر کا کیا حال ہے اور کس تنگی سے گزارہ ہورہا ہے.انہوں نے کہا بہت اچھا میں انہیں سمجھاؤں گا.چنانچہ ایک دن وہ ان کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ آپ سارا دن اللہ ہی اللہ کرتے رہتے ہیں.آخر آپ سوچیں کہ آپ کی بیوی کہاں سے خرچ لائے؟ اول تو مہمان نوازی کا بھی خرچ ہے.پھر آپ کا بھی کھانا ہے اور آپ کی بیوی اور بچوں کا بھی کھانا ہے ان اخراجات کے لیے وہ کہاں.سے روپیہ
خطبات محمود جلد نمبر 39 132 $1958 لائے؟ آپ کو چاہیے کہ آپ کوئی کمائی بھی کیا کریں تا کہ گھر کی ضروریات پوری ہوں.وہ کہنے لگے اگر آپ کسی کے گھر مہمان جائیں اور وہاں جاتے ہی کھڑی بننے لگ جائیں یا اپنے ہاتھ سے روٹی پکانے لگ جائیں تو کیا میز بان کو غصہ نہیں آئے گا کہ یہ میری ذلت کر رہا ہے؟ جب یہ میرا مہمان تھا تو پھر اس نے اپنی روٹی کا فکر کیوں کیا.اسی طرح میں بھی خدا تعالیٰ کا مہمان ہوں.اگر میں نے ی اپنے ہاتھ سے کام کرنا شروع کر دیا تو خدا تعالیٰ یہ کیوں نہیں سمجھے گا کہ میرے اس بندے نے میری ہتک کی ہے.وہ بھی تیز طبیعت رکھتے تھے.انہوں نے جب یہ بات سنی تو کہنے لگے میں مان لیتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مہمانی صرف تین دن کی ہوا کرتی ہے.8 پھر صدقہ اور مانگنے والی بات رہ جاتی ہے اور آپ نے تو اپنی عمر کا بیشتر حصہ اس کی مہمانی میں ضائع کر دیا ہے.وہ کہنے لگے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایک بات بھول گئے ہیں.اللہ تعالیٰ کی نے قرآن کریم میں یہ بھی فرمایا ہے کہ اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ و یعنی اللہ تعالیٰ کا ایک دن ہزار سال کے برابر ہوتا ہے چونکہ مہمانی تین دن کی ہوتی ہے اس لیے اگر مجھے تین ہزار سال کی عمر مل گئی تو میری مہمانی ختم ہو جائے گی لیکن اس سے پہلے پہلے میری مہمانی ختم نہیں ہوسکتی.اب دیکھو ان کے دوست نے انہیں خدا تعالیٰ کی محبت سے کھینچنا چاہا، ان کی بیوی نے بھی چاہا کہ وہ خدا تعالیٰ کا ذکر اور اُس کی عبادت چھوڑ کر دنیا کمانے کی طرف متوجہ ہوں مگر چونکہ صرف اُن کی کے دل میں ہی خدا تعالیٰ کی محبت نہیں تھی بلکہ خدا خود ان سے محبت کرتا تھا اس لیے کوشش کے باوجود ان کی کے دل سے اس کی محبت نہ نکل سکی.یہ اسلام اور دوسرے مذاہب میں نمایاں فرق ہے.دوسرے مذاہب کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ سے محبت کرو اور اسلام کہتا ہے کہ بیشک تم بھی اس سے محبت کرو لیکن وہ خود بھی تم سے محبت رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ تم اس سے مل جاؤ اور ان دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.چنانچہ جو شخص اسلام پر چلے وہ اس دنیا میں خدا تعالیٰ کو پاسکتا اور اس کی محبت کو حاصل کر سکتا ہے ہے لیکن جو شخص اسلام پر نہ چلے اور اس کی محبت کو حاصل نہ کرنا چاہے وہ اگر محروم رہتا ہے تو اس میں اس کا اپنا قصور ہے کوئی دوسرا اس کی کیا مدد کر سکتا ہے.جو شخص آپ تباہ ہونا چاہتا ہو اس کو کون بچاسکتا ہے.جن دنوں امتہ الحی مرحومہ زندہ تھیں ایک دفعہ سلسلہ پر کوئی ابتلا کی صورت پیدا ہوئی.میری اُس وقت اُنہی کے ہاں باری تھی.میرے دل پر اس کا اتنا بوجھ پڑا اور اس قد رافسوس ہوا کہ میں زمین
$ 1958 133 خطبات محمود جلد نمبر 39 پر بستر بچھا کر سو گیا اور میں نے عہد کیا کہ جب تک یہ ابتلاء کی صورت دُور نہیں ہوگی میں چار پائی پر نہیں سوؤں گا.جب میں سو گیا تو رویا میں میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ حضرت اماں جان کی شکل میں میرے پاس آیا ہے اور اُس کے ہاتھ میں درخت کی ایک تازہ سبز شاخ ہے اور جس طرح ماں بعض دفعہ اپنے بچہ پر ناراض ہوتی ہے مگر اُس کی ناراضگی کے پیچھے محبت کام کر رہی ہوتی ہے اسی طرح اُس نے و شاخ مجھے مارنے کے لیے اُٹھائی اور کہا محمود! بستر پر سوتا ہے یا نہیں؟ اور اس کے ساتھ ہی اُس نے وہ شاخ نہایت نرمی سے میرے جسم کے ساتھ چھو دی.اس کا میری طبیعت پر اتنا اثر ہوا کہ میں فورا گود کر چار پائی پر چلا گیا جو میرے پاس ہی میرے پہلو میں بچھی تھی.اور جب مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ میں زمین پر نہیں بلکہ چار پائی پر لیٹا ہوا ہوں.گویا اس غنودگی کی حالت میں ہی میں نے چھلانگ ماری اور چار پائی پر جالیٹا.تو ہمارا خدا ہمیں ماں سے بھی زیادہ چاہنے والا ہے اور وہ خود ہمیں پیار کرنے کے لیے ہمارے پاس آتا ہے.اسی طرح اس فتنہ کے وقت میں نے دیکھا کہ ایک کمرہ کی طرف سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں مگر جب میں ایک جگہ کی آگ بجھا تا ہوں تو دوسری جگہ سے شعلے نکلنے شروع ہو جاتے ہیں.دوسری جگہ کے شعلے بجھاتا ہوں تو تیسری جگہ سے نکلنے شروع ہو جاتے ہیں اور میں حیران ہوں کہ اس کی آگ کو کس طرح بجھاؤں.اتنے میں میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے ہیں.آپ چونکہ اُس وقت فوت ہو چکے تھے اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی شکل میں خدا تعالیٰ کی ہی اُس وقت آیا اور آپ نے ایک سوراخ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا محمود ! اس سوراخ کو بند کر دو تو کی ساری آگیں خود بخود بجھ جائیں گی.چنانچہ میں نے زور سے اُس سوراخ کو بند کر دیا اور میں نے دیکھا کہ جونہی وہ سوراخ بند ہوا یکدم ساری آگئیں بجھ گئیں.تو ہمارے خدا کی طرف سے صرف یہی آواز نہیں آتی کہ تم مجھے مل سکتے ہو بلکہ یہ بھی آواز آتی ہے کہ میں خود تمہیں کھینچ کر اپنے پاس بلانے کے لیے بے تاب ہوں.دوسرے مذاہب کہتے ہیں کہ کوشش کرو، تپسیا 10 کرو یا ریاضات شاقہ بجا لاؤ پھر تمہیں خدا ملے گا لیکن اسلام کہتا ہے کہ تم ایک سچی آہ بھی کھینچو تو میں تمہیں اپنے تحرب میں بٹھالوں گا.یہ اسلام اور دوسرے مذاہب میں ایک نمایاں فرق ہے اور اس سے ہر انسان سمجھ سکتا ہے کہ اسلام کو اس بارہ میں
خطبات محمود جلد نمبر 39 134 $1958 دوسرے مذاہب پر کتنی فضیلت حاصل ہے.چنانچہ دیکھ لومکہ کے لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کتنے مخالف تھے مگر باوجود اس کے کہ انہوں نے مخالفت کی تھی پکتیا نہیں کی تھی ، آنا فانا اُن کی آنکھیں کھل گئیں اور وہی لوگ جو آپ کے خون کے پیاسے تھے آپ پر جان دینے کے لیے تیار ہو گئے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسنین پر حملہ کیا تو ایک شخص جو اُس خاندان میں سے تھا جس کے پاس خانہ کعبہ کی کنجیاں تھیں اور جس کا بھائی کسی جنگ میں مارا گیا تھا اُسے خیال آیا کہ اگر میں بھی کی مسلمانوں کی طرف سے اس جنگ میں شامل ہو جاؤں تو شاید مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کا موقع مل جائے.چنانچہ وہ اس جنگ میں شامل ہو گیا.چونکہ خدا نے اُس کو جھوٹا کرنا تھا اور اُسے حملہ کا موقع دے کر بتانا تھا کہ میں خود اپنے رسول کا محافظ ہوں اس لیے جب دشمن کے تیراندازوں نے وادی کے دونوں طرف سے تیروں کی بوچھاڑ شروع کر دی اور مسلمانوں کی سواریاں نی پدک کر بھاگیں تو اُس نے سمجھا کہ حملہ کے لیے اس سے بہتر اور کوئی موقع نہیں ہوسکتا.یہ ایسا نازک کی موقع تھا کہ حضرت ابو بکر آگے بڑھے اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ! دشمن پہاڑی پر بیٹھا دونوں طرف سے پتھر برسا رہا ہے، آپ اس کی وقت آگے نہ بڑھیے بلکہ اُس وقت تک انتظار فرمائیے جب تک کہ سارے مسلمان پھر جمع نہ ہو جائیں کی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے جوش سے فرمایا کہ ابوبکر ! میرے گھوڑے کی باگ چھوڑ دو اور پھر آپ اپنی سواری کو ایڑ لگاتے ہوئے دشمن کی طرف بڑھے اور آپ نے فرمایا أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبُ 11 یعنی میں نبی ہوں جھوٹا نہیں ہوں.مجھے خدا نے خبر دی ہوئی ہے کہ دشمن تجھے ہلاک نہیں کر سکتا.اس لیے دشمن خواہ ہزاروں تیر برسا رہا ہے اور میرے ساتھی بھی مجھے چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں (یہاں تک کہ ایک وقت میں بارہ اور دوسرے وقت میں صرف سات صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہ گئے تھے ) پھر بھی میں مارا نہیں جاسکتا.لیکن چونکہ یہ نمونہ ایسا تھا جس سے شبہ پیدا ہو سکتا تھا کہ شاید آپ میں خدائی طاقتیں آگئی ہوں اس لیے ساتھ ہی آپ نے فرمایا کہ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبُ تم میری اس جرات کو دیکھ کر کہ میں دشمن کے تیر اندازوں کی بوچھاڑ میں اس کی طرف بڑھتا چلا جاتا
$1958 135 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہوں مجھے مسیح کی طرح خدائی صفات نہ دے دینا، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں اور تمہارے جیسا ایک انسان ہوں.جیسے مسیح حضرت مریم کے بیٹے تھے مگر عیسائیوں نے تو اُن کو خدا بنا لیا تم مجھے خدا نہ بنا لینا کی اور میرے انسان ہونے کو کبھی فراموش نہ کرنا.اُس وقت وہی شخص جو آپ پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا اور جس کا نام شیبہ تھا آپ کی طرف بڑھا اور اس نیت سے بڑھا کہ اس وقت آپ اکیلے ہیں اور آپ کے ساتھی بھاگ چکے ہیں میں خنجر مار کر آپ کو مار ڈالوں گا مگر جب وہ آگے بڑھا تو وہ خود کہتا ہے کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرے اور آپ کے درمیان آگ کا ایک شعلہ بھڑک رہا ہے اور اگر میں آپ کے اور قریب ہوا تو وہ شعلہ مجھے بھسم کر دے گا.اتنے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے دیکھ لیا اور فرمایا کھیہ ! ادھر آؤ.جب وہ آپ کے قریب گیا تو آپ نے اپنا ہاتھ اُس کے سینہ پر پھیرا اور فرمایا ہے اے خدا ! شیبہ کو ہر قسم کے شیطانی خیالات سے نجات دے اور اس کے دل سے ہر قسم کا بغض اور کینہ نکال دے.وہ کہتا ہے آپ کا ہاتھ ابھی میرے سینہ سے علیحدہ نہیں ہوا تھا کہ میرے دل میں آپ کی محبت کا اتنا جوش پیدا ہو گیا کہ یا تو میں آپ کو قتل کرنے کی نیت سے آیا تھا اور یا میرے دل میں اس وقت اگر کوئی خواہش تھی تو صرف یہی کہ میرا ہر ذرہ آپ پر قربان ہو جائے.پھر میں نے اپنی تلوار نکال لی اور آگے بڑھ کر دشمن کا مقابلہ کرنا شروع کر دیا اور خدا کی قسم ! اگر اُس وقت میرا باپ بھی آپ پر حملہ کرنے کے لیے آگے آتا تو میں تلوار سے اُس کی گردن اڑا دیتا.12 اس واقعہ پر غور کرو اور دیکھو کہ کس طرح یکدم اُس کے اندر محبت پیدا ہوگئی اور یا تو وہ آپ کو قتل کرنے کی نیت سے آیا تھا اور یا وہ کہتا ہے کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے ہوئے میں ٹکڑے ٹکڑے بھی ہو جاتا تو مجھے بڑی خوشی ہوتی اور اگر ایسی حالت میں میرا باپ بھی میرے سامنے آتا تو میں اپنے باپ کی گردن اڑانے سے بھی دریغ نہ کرتا.یہ عملی ثبوت ہے اس بات کا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اُسے ایک منٹ میں کھینچ کر اپنے پاس لے گیا.آخر شیبہ نے کونسی تپسیا کی تھی ؟ کب وہ ساٹھ سال تک جنگلوں میں رہا؟ کب اُس نے بدھ کی طرح اپنی خواہشیں ماریں؟ اُس نے تو اتنی گندی خواہش کی تھی کہ جس سے بڑی گندی خواہش اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی.اُس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کرنے کی خواہش کی تھی مگر وہی شخص جو گندی سے گندی خواہش لے کر آیا تھا ایک منٹ کے اندر اندر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا ، اس کی محبت کی
$1958 136 خطبات محمود جلد نمبر 39 نظیر دوسرے مذاہب میں کہیں نظر نہیں آ سکتی.بائیبل کو دیکھو تو اُس میں لکھا ہے کہ حضرت ہارون نے حضرت موسی کی بدگوئی کی اور اُن پر الزام لگایا.13 پس وہ تو نبیوں کو بھی گندہ بتاتی ہے مگر یہاں ایک کا فر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے آتا ہے اور اللہ تعالیٰ یکدم اسے کھینچ کر اپنے پاس بٹھا لیتا اور اپنے قرب میں جگہ دے دیتا ہے.اسی طرح انجیل میں حضرت مسیح کے متعلق لکھا ہے کہ گرفتاری سے ایک روز قبل جبکہ وہ تمام شاگردوں کے ساتھ مل کر کھانا کھا رہے تھے حضرت مسیح نے کہا کہ ”میں تم سے بچ کہتا ہوں کہ تم میں سے ایک مجھے پکڑوائے گا.اس پر انہوں نے پوچھا اے استاد! وہ کونسا خبیث انسان ہے جو تجھے گرفتار کروائے گا؟ اُس وقت وہی شخص جس نے پکڑوانا تھا اُس کا ہاتھ کھانا کھاتے ہوئے مسیح کے ہاتھ سے ٹکرایا اور آپ نے کہا کہ وہی جس کا ہاتھ میرے ہاتھ کو لگ رہا ہے مجھے پکڑوائے گا.14 چنانچہ ایسا ہی ہوا.تھوڑی دیر کے بعد اس شخص نے یہودیوں سے صرف تمیں درم یعنی اڑھائی روپے لے کر حضرت مسیح کو پکڑوا دیا.15 اس وقت پطرس جو آپ کا بہت محبوب شاگر د تھا اور حضرت مسیح کا خلیفہ اول کہلاتا ہے کہنے لگا کہ اور لوگ اگر ٹھوکر کھا جائیں تو یہ ممکن ہے لیکن میں کبھی ٹھو کر نہیں کھا سکتا.حضرت مسیح نے جب یہ بات سنی تو فرمایا کہ میں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ اس رات مُرغ کے بانگ دینے سے پہلے تو تین بار میرا انکار کرے گا“.16 چنانچہ جب حضرت مسیح کوگرفتار کر لیا گیا تو پطرس بھی آپ کے پیچھے پیچھے چلاتا کہ وہ دیکھے کہ حکومت آپ سے کیا معاملہ کرتی ہے.وہ وہاں صحن میں بیٹھا تھا کہ ایک لونڈی اُس کے پاس آئی اور کی اُس نے کہا کہ تو بھی مسیح کے ساتھیوں میں سے معلوم ہوتا ہے.اس پر پطرس ڈر گیا اور اُس نے کہا کہ میں تو اس کا ساتھی نہیں.پھر وہ ڈیوڑھی میں داخل ہوا تو ایک دوسری لونڈی یہودیوں سے کہنے لگی کہ یہ بھی یسوع ناصری کے ساتھ تھا.اس پر اُس نے قسم کھا کر انکار کیا اور کہا کہ میں تو اس آدمی کو جانتا تک نہیں.پھر تھوڑی دیر کے بعد چند اور آدمیوں نے کہا کہ تو بھی اس شخص کے ساتھیوں میں سے ہے کیونکہ تیری بولی سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے.اس پر وہ لعنت کرنے اور قسم کھانے لگا کہ میں اس آدمی کی کو نہیں جانتا.17 اور جب اس نے تیسری بار انکار کیا اور مسیح پر لعنت ڈالی تو اُس وقت مُرغ نے
$1958 137 خطبات محمود جلد نمبر 39 اذان دی اور پطرس کو حضرت مسیح کی یہ بات یاد آ گئی کہ آج رات تو مُرغ کے بانگ دینے سے پہلے تین بار میرا انکار کرے گا.یہ اُن لوگوں کا حال تھا جو حضرت مسیح پر ایمان لائے مگر جہاں اپنے ساتھیوں کی تربیت اور دشمنوں کی اصلاح میں بائیبل کی رُو سے حضرت مسیح بھی نا کام رہے اور حضرت موسیٰ بھی ناکام رہے وہاں اگر کوئی نبی کامیاب ہوا ہے تو صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا میاب ہوئے ہیں جنہوں نے عظ پنے دشمنوں میں بھی اتنی محبت پیدا کر دی کہ وہ آپ پر جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہو گئے.اس سے نہ صرف آپ کی زبر دست قوت قدسیہ کا ثبوت ملتا ہے بلکہ اسلام اور دوسرے مذاہب میں ایک الشان فرق بھی ظاہر ہوتا ہے.اسلام نے جو محبت الہیہ کے حصول کا طریق بتایا ہے وہ اتنا آسان ہے کہ اس پر چلنے کے نتیجہ میں خدا خود انسان کو کھینچ کر آسمان پر لے جاتا ہے.دوسرے مذاہب میں انسان زور لگاتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے ملنے کی جدو جہد کرتے ہیں لیکن اسلام یہ سکھاتا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ کے اندر تمہارے ملنے کی تڑپ پائی جاتی ہے اور وہ آپ تمہیں کھینچ کر اپنے قریب کر لیتا ہے“.1 : البقرة: 139 2 : آل عمران : 32 3 : چانے: چانا.مچھلی کے جسم کا پتلا چمڑا.( پنجابی اردو لغت) 4 : فیروزہ: ایک پتھر جو سبز زنگاری یا نیلا ہوتا ہے.: نروان : نجات، رہائی اور اواگون.6 : البقرة: 187 : بخاری کتاب الادب باب رحمة الولد وتقبيله (الخ) 8 : بخاری کتاب الادب باب اکرام الضَيْف وَخِدْمَتِهِ (الخ) 9 : الحج : 48 10 : تپتیا: مشقت کی عبادت 11 : مسلم كتاب الجهاد باب غزوة حنين (الفضل 18 جون 1958ء)
خطبات محمود جلد نمبر 39 138 12 : السيرة الحلبية جلد 3 صفحه 127 ، 128 مطبوعہ مصر 1935ء 13: گفتی باب 12 آیت 1 14 متی باب 26 آیت 21 تا23 :15 متی باب 26 آیت 14 ،15 16 متی باب 26 آیت 34،33 17 متی باب 26 آیت 69 تا 75 $ 1958
$ 1958 139 (17) خطبات محمود جلد نمبر 39 سچا مومن وہی ہے جو قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری اختیار کرے تمہارا فرض ہے کہ پردہ کے متعلق خدا اور اس کے رسول کے حکم کی پابندی کرو اور مداہنت سے کام نہ لو (فرمودہ 6 جون 1958ء بمقام مری) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے قرآن کریم کی درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: ” اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ " - 1 اس کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور وہی ایمان مقبول ہوتا ہے جس میں کامل فرمانبرداری اور اطاعت اختیار کی جائے اور اللہ تعالیٰ کے کسی حکم سے بھی انحراف نہ کیا جائے.صرف منہ سے اپنے آپ کو مسلمان کہتے رہنا یا ظاہر میں آ کر بیعت کر لینا یا کلمہ شہادت پڑھ لینا خدا تعالیٰ کے حضور کوئی حقیقت نہیں رکھتا.اس کا نام دین رکھنا، دین سے تمسخر اور استہزا کرنا اور اپنی منافقت اور بے ایمانی کا ثبوت دینا ہے.وہی آدمی خدا تعالیٰ کی نگاہ میں سچا مومن سمجھا جاسکتا ہے ہے جو
$ 1958 140 خطبات محمود جلد نمبر 39 خدا تعالیٰ کے احکام کی اطاعت بھی کرتا ہے اور اُس کی غلامی کا جو اپنی گردن پر پوری طرح رکھتا ہے.اگر وہ خدا تعالیٰ کے احکام کی اطاعت نہیں کرتا تو چاہے وہ دس ہزار دفعہ کلمہ پڑھے وہ یزید کا یزید اور ابو جہل کا ابو جہل رہتا ہے اور چاہے دس ہزار دفعہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا رہے خدا تعالیٰ کے نزدیک اس کا یہ دعوی ایک رائی کے برابر بھی قیمت نہیں رکھتا.صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی کامل اطاعت اور کامل فرمانبرداری ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو سچا مومن بناتی ہے ور نہ وہ اگر دس کروڑ دفعہ بھی کلمہ پڑھ کر اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے تو وہ کذاب اور جھوٹا ہے.ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ اسی حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ تُقْبَلَ مِنْهُ 2 یعنی کامل فرمانبرداری اور اطاعت کے سوا اگر کوئی اور طریق اختیار کرے تو اسے کسی صورت میں بھی قبول نہیں کیا جائے گا.پس صرف منہ سے مسلمان کہنایا ای احمدی کہلا لینا کسی کو فائدہ نہیں دے سکتا جب تک کامل فرمانبرداری اور اطاعت کا نمونہ نہ دکھایا جائے.میں دیکھتا ہوں کہ اکثر احمدی چندہ تو دینے لگ گئے ہیں اور ان کا ایک معتد بہ حصہ نمازیں بھی با قاعدہ پڑھتا ہے لیکن جب سے پاکستان بنا ہے بعض احمد یوں میں سے پردہ اُٹھ گیا ہے اور زیادہ تر یہ نقص مالداروں میں پایا جاتا ہے.مجھے تعجب آتا ہے کہ یہ بے غیرت اور بزدل لوگ جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہیں مانی انہوں نے اپنی قوم کی کیا خدمت کرنی ہے.قوم کی خدمت کرنے والے تو وہ لوگ تھے جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا ایسا شاندار نمونہ دکھایا کہ آج بھی تاریخ کے صفحات میں اُن کے واقعات پڑھ کر انسان کا دل محبت کے جذبات کے ساتھ لبریز ہو جاتا ہے.ہر شخص جانتا ہے کہ عربوں میں پردہ کا کوئی رواج نہیں تھا بلکہ اسلام میں بھی شروع میں پردہ کا حکم نازل نہیں ہوا.اُس زمانہ میں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بھی پردہ ام نہیں کیا کرتی تھیں مگر جب پردہ کا حکم نازل ہو گیا تو ایک نوجوان نے اپنے رشتہ کے لیے ایک گھر پسند کیا.باپ نے کہا مجھے تمہارا رشتہ منظور ہے، تم بڑے اچھے آدمی ہو، خوش شکل ہو اور اپنی روزی بھی کماتے ہو اس لیے مجھے تمہیں رشتہ دینے میں کوئی عذر نہیں.اس نے کہا اگر آپ تیار ہیں تو پھر لڑ کی دکھا دیں.بغیر دیکھنے کے میں کس طرح شادی کرلوں.باپ کہنے لگا کہ میں لڑکی دکھانے کے لیے تیار نہیں.وہ اُسی وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ !
141 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 میں نے فلاں جگہ شادی کرنے کا ارادہ کیا ہے مگر مجھے معلوم نہیں کہ لڑکی کی شکل کیسی ہے.میں چاہتا ہو ہوں کہ ایک دفعہ اُسے دیکھ لوں تا کہ میری تسلی ہو جائے.آپ نے فرمایا بیشک پردے کا حکم نازل ہوا چکا ہے مگر یہ غیر عورت کے لیے ہے.جس لڑکی کے ساتھ رشتہ طے ہو جائے اور ماں باپ بھی منظور کر لیں اگر اُسے لڑکا دیکھنا چاہے تو ایک دفعہ دیکھ سکتا ہے.تم اُس کے باپ کے پاس جاؤ اور میری طرف سے کہہ دو کہ وہ تمہیں لڑکی دکھا دے.اگر رشتہ کا سوال نہ ہو تب تو بیشک پردہ ہوگا لیکن اگر کوئی شخص کسی جگہ رشتہ کرنے پر رضامند ہو جائے اور لڑکی کے ماں باپ بھی راضی ہو جائیں تو تسلی کرنے کے لیے اُسے ایک دفعہ دیکھنا جائز ہے.وہ گیا اور اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام اُسے پہنچا دیا مگر معلوم ہوتا ہے اُس لڑکی کے باپ کے اندرا بھی اسلام پوری طرح راسخ نہیں ہوا تھا.جب اُس نے کہا کی کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ آیا ہوں اور آپ نے فرمایا ہے کہ جب تمہارا ایک جگہ رشتہ طے ہو گیا ہے تو اب وہ تمہاری منسوبہ ہے اور منسوبہ کو شادی سے پہلے تسلی کے لیے دیکھنا جائز ہے تو باپ کہنے لگا میں ایسا بے غیرت نہیں ہوں کہ تمہیں اپنی لڑکی دکھا دوں.تمہاری مرضی ہے رشتہ کر دیا نہ کرو.جس وقت اُس نے یہ بات کہی اُس کی لڑکی پردہ میں بیٹھی ہوئی سب باتیں سُن رہی تھی.وہ جھٹ اپنا منہ کھول کر سامنے آگئی اور کہنے لگی میں ایسے باپ کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں جو کہتا ہے کہ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی بھی پروا نہیں.میں اب تمہارے سامنے آ گئی ہوں تم مجھے دیکھ لو.مگر وہ نو جوان بھی بڑے ایمان والا تھا.اس نے جھٹ اپنی آنکھیں نیچی کر لیں اور گردن جھکالی اور کہنے لگا کہ میں تیرے جیسی مومن عورت کی شکل دیکھے بغیر ہی تجھ سے شادی کروں گا.کی میں نہیں چاہتا کہ جس عورت کے اندر اتنا اخلاص اور ایمان پایا جاتا ہے اُس کی شکل دیکھ کر اُس کی ہتک کروں.اب میں بغیر دیکھنے کے ہی نکاح کروں گا.چنانچہ اس نے نکاح کر لیا.یہ تھا اُن لوگوں کا اخلاص اور یقی اُن لوگوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی اطاعت.پردے کا حکم نازل ہو چکا تھا مگر لڑکی کہتی ہے کہ باپ بیشک مخالفت کرتا رہے میں ایسے باپ کا حکم ماننے کے لیے تیار نہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت کرنے والا نہیں.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ہے کہ منسوبہ کی شکل دیکھنی جائز ہے تو میرا باپ کون ہے جو اس میں روک بنے.میں اب تمہارے سامنے کھڑی ہوں تم مجھے دیکھ لو.اور اُس نوجوان کا اخلاص دیکھو کہ وہ کہتا ہے میں ایسا ایمان
142 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 رکھنے والی عورت کو دیکھ کر اُس کی ہتک کرنا نہیں چاہتا.میں اب بغیر دیکھے ہی اس سے شادی کروں گا.یہی لوگ تھے جو اسلام کے لیے اپنی جانیں بلا دریغ قربان کرتے چلے جاتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھ لیا ہے اور اب ہماری ہر چیز اُن کی ہوگئی ہے.اُحد کے موقع پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق غلط فہمی سے یہ مشہور ہو گیا کہ آپ شہید ہو گئے ہیں تو مدینہ کی عورتیں پاگل ہو کر اپنے گھروں سے نکلیں اور اُحد کی طرف دوڑ پڑیں.اُحد مدینہ سے آٹھ نومیل کے فاصلہ پر تھا.ایک عورت اسی جنون میں دوڑی چلی آ رہی تھی کہ اُسے سامنے سے اسلامی لشکر واپس کو تھا ہوا دکھائی دیا.وہ ایک صحابی کے پاس پہنچی اور کہنے لگی مجھے بتاؤ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ وہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ اور سلامت دیکھ چکا تھا اور اُس کا دل مطمئن تھا اس لیے بجائے اس کے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اُسے کوئی جواب دیتا اُس نے چاہا کہ اس عورت سے تعلق رکھنے والی جو بات ہے وہ میں اسے بتا دوں.چنانچہ وہ کہنے لگا بی بی! مجھے بڑا افسوس ہے کہ تیرا باپ اس جنگ میں مارا گیا ہے.وہ کہنے لگی میں نے تجھ سے اپنے باپ کے متعلق نہیں پوچھا، میں تو تجھ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھ رہی ہوں کہ آپ کا کیا حال ہے؟ وہ کہنے لگا بی بی! مجھے بڑا افسوس ہے کہ تیرا خاوند بھی اس جنگ میں مارا گیا ہے.اُس نے پھر کہا کہ میں نے تجھ سے اپنے خاوند کے متعلق بھی نہیں پوچھا، میں تو تجھ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دریافت کر رہی ہوں.وہ کہنے لگابی بی! مجھے بڑا افسوس ہے کہ تیرا بھائی بھی اس جنگ میں مارا گیا ہے.وہ کہنے لگی میں نے تجھ سے اپنے بھائی کا حال بھی کب دریافت کیا ہے.میں نے تو یہ پوچھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ وہ کہنے لگا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو خیریت سے ہیں.اُس نے کہا اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیریت تو سے ہیں اور آپ زندہ ہیں تو خواہ میرا باپ مارا جائے یا خاوند مارا جائے یا بھائی مارا جائے.مجھے اس کی کوئی پروا نہیں.مجھے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی ضرورت ہے.4 پھر وہ آگے دوڑ پڑی اور اُس نے کہا مجھے بتاؤ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہاں کھڑے ہیں تا کہ میں اپنی کی آنکھوں سے بھی آپ کو دیکھ لوں اور مجھے یقین ہو جائے کہ آپ زندہ اور سلامت ہیں.جب اُس کی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک جگہ تندرست کھڑے دیکھا تو وہ دوڑ کر آپ کے پاس پہنچی.
143 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 اُس نے آپ کا دامن پکڑ لیا اور اسے محبت کے ساتھ بوسہ دیتے ہوئے کہا کہ یا رسول اللہ ! آپ نے یہ کیا کیا کہ آپ کے متعلق ایسی خبر مشہور ہو گئی.گویا اس صدمہ اور جنون کی حالت میں اُسے یہ بھی ہوش نہ رہا کہ کیا کوئی آپ بھی اپنے متعلق ایسی خبر مشہور کیا کرتا ہے اور کہنے لگی یا رسول اللہ ! یہ جھوٹی خبر بھی آپ کے متعلق کیوں مشہور ہوگئی.یہ وہ بہادر عور تیں تھیں جنہیں اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں کسی اور چیز کی پروا نہیں ہوتی تھی کیونکہ ان کے اندر سچا ایمان پایا جاتا تھا وہ جانتی تھیں کہ اصل چیز محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے.اگر اس راستہ میں ہمارا باپ مارا جاتا ہے یا خاوند مارا جاتا ہے یا بھائی مارا جاتا ہے تو ہمیں خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے اس صدمہ کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کو سب سے مقدم سمجھنا چاہیے.اسی طرح جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُحد سے واپس آ رہے تھے تو ایک انصاری جن کا ایک بھائی اس جنگ میں مارا گیا تھا اس فخر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھوڑے کی باگ پکڑے چلے آ رہے تھے کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیریت سے مدینہ میں لے آئے ہیں.جب آپ مدینہ کے دروازہ پر پہنچے تو وہاں ایک عورت کھڑی تھی.وہ انصاری کہنے لگے یا رسول اللہ ! میری ماں.یا رسول اللہ ! میری ماں.ان کا منشا یہ تھا کہ یہ میری بُڑھیا ماں ہے اور اس کا بیٹا جنگ میں کو مارا گیا ہے جس کی وجہ سے اسے شدید صدمہ ہو گا، آپ اس کی دلداری فرمائیں.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریب پہنچے تو آپ نے فرمایا مائی! مجھے بڑا افسوس ہے کہ تیرا بیٹا اس جنگ میں مارا گیا ہے.اس کی بینائی کمزور تھی، اس نے بتر بتر 5 دیکھنا شروع کر دیا کہ یہ آواز مجھے کہاں سے آ رہی ہے.جب اس کی نظر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ پر ٹک گئی اور اس نے آپ کو پہچان لیا تو وہ کہنے لگی یا رسول اللہ ! آپ بھی کیسی باتیں کرتے ہیں؟ جب آپ سلامت ہیں تو پھر میرے بیٹے کی وفات کیا چیز ہے کہ اس کا ذکر کیا جائے.6 قربانی اور اخلاص اور فدائیت کے یہ عظیم الشان نمونے صحابہؓ نے اسی لیے دکھائے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سچے دل سے ایمان لائے تھے اور ہر قدم پر آپ کی اطاعت کرنا فرض سمجھتے تھے.چنانچہ سرولیم میور اپنی کتاب ”لائف آف محمد میں لکھتا ہے کہ احزاب میں کفار کا اتنا بڑ الشکر جمع ہوا مگر پھر بھی شکست کھا گیا.اس کی وجہ صرف یہی تھی کہ کفار سے ایک سیاسی غلطی ہوئی اور وہ یہ کہ
144 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 جب وہ خندق پار کر کے اُس طرف آ جاتے تھے جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ تھا تو وہ بیوقوفی سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کی طرف بڑھنا شروع کر دیتے تھے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ آپ پر اتنے فدا تھے کہ جب وہ سمجھتے تھے کہ ان لوگوں کا منشا یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیں تو مرد، عورتیں اور بچے پاگلوں کی طرح دشمن کے لشکر کے سامنے آجاتے تھے اور اُس کو شکست ہو جاتی تھی.اگر وہ یہ بیوقوفی نہ کرتے کہ محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے خیمہ کی طرف رُخ کرتے تو ممکن ہے اُن کو احزاب میں فتح ہو جاتی.یہ عشق کا جنون ، کامل ایمان اور کامل فرمانبرداری کی وجہ سے ہی تھا.ان لوگوں میں تو ایمان تھا میں تو دیکھتا ہوں کہ صحیح الفطرت غیر مسلموں میں بھی غیرت ہوتی ہے.جب میں نے 1912ء میں حج کیا تو میں ایک اٹالین جہاز میں بیٹھ کر پہلے مصر گیا تھا اور پھر مصر سے حج کے لیے گیا تھا.اُس کی اٹالین جہاز پر ایک ڈاکٹر تھا جس کی بیوی مر چکی تھی.میں نے اُس سے کہا کہ تم دوبارہ شادی کیوں نہیں کرتے ؟ کہنے لگا کہ میں اگر شادی کروں گا تو ایشیا میں کروں گا میں یورپ میں نہیں کروں گا.اس کی طبیعت کچھ مذاقیہ تھی.اُس نے نقل کر کے مجھے دکھایا اور کہا کہ یورپین عورت جب خاوند آتا ہے تو منہ بسور کے بیٹھ جاتی ہے اور جب غیروں کے سامنے جاتی ہے تو پوڈر اور لپ سٹک لگاتی ہے.میں ایسی عورت سے شادی نہیں کروں گا.اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی شرط نہیں غیرت مند انسان خواہ کسی کی مذہب کا ہوا ایسی حرکات سے پر ہیز کرنا پسند کرتا ہے.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ خطبہ پڑھ رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ کناروں پر کھڑے ہیں.معلوم ہوتا ہے مسجد میں جگہ تنگ تھی اور لوگوں نے کناروں پر کھڑے ہو کر خطبہ سننا شروع کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو فرمایا بیٹھ جاؤ.ایک صحابی اس وقت مسجد کی طرف آ رہے تھے اور ابھی گلی میں ہی تھے کہ اُن کے کانوں میں یہ آواز پہنچ گئی اور وہ اُسی وقت زمین پر بیٹھ گئے اور انہوں نے گھسٹ گھسٹ کر مسجد کی طرف بڑھنا شروع کر دیا.کوئی شخص پیچھے سے آ رہا تھا.وہ انہیں دیکھ کر کہنے لگا آپ یہ کیا کر رہے ہیں؟ اتنے بڑے آدمی ہو کر آپ نے اکڑوں بیٹھ کر پیروں کے بل چلنا شروع کر دیا ہے؟ انہوں نے کہا میرے کان میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابھی یہ آواز آئی تھی کہ بیٹھ جاؤ.اس لیے میں یہ آواز سنتے ہی بیٹھ
$1958 145 خطبات محمود جلد نمبر 39 گیا.وہ کہنے لگا یہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن لوگوں سے کہا ہو گا جو مسجد میں کھڑے ہوں گے آپ سے تو نہیں کہا.انہوں نے جواب دیا کہ کہا ہو گا لیکن میں نے سمجھا کہ اگر میں نے اس حکم کی تعمیل نہ کی اور اس وقت میری جان نکل گئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حکم ایسا رہ جائے گا جس کی میں نے اطاعت نہیں کی ہوگی.اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ خواہ آپ نے کسی کو مخاطب کیا ہو، جب میرے کانوں میں آپ کی آواز پڑگئی ہے تو میں اس کی تعمیل کروں.یہ وہ اطاعت کی روح تھی جو صحابہ میں پائی جاتی تھی.اسی طرح دیکھ لو شراب کی عادت کتنی خطرناک چیز ہے.لوگ زور لگاتے ہیں مگر یہ عادت نہیں چھٹتی.عرب میں بھی اسلام سے پہلے شراب کا بہت رواج تھا.حتی کہ امراء پانچ نمازوں کے اوقات میں پانچ دفعہ شرابیں پیا کرتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے.جب شراب حرام ہوئی تو جس مجلس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کی حرمت کا اعلان فرمایا اُس میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے تو سن لیا مگر وہ لوگ جو گھروں میں تھے اُن کے کانوں تک ابھی یہ بات نہیں پہنچی تھی.ایک جگہ شادی کی تقریب تھی اور شراب کے مٹکے بھر کر انہوں نے رکھے ہوئے تھے.ایک دو مکے ختم ہو چکے تھے اور تین چار باقی تھے اور پھر وہ سارے کے سارے شراب کے نشہ میں مخمور تھے.اتنے میں ایک شخص گلی میں سے گزرا اور اُس نے کہا کہ سنو! آج محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آج سے میں کی مسلمانوں پر شراب کی حرمت کا اعلان کرتا ہوں.اُس وقت ایک آدمی نے دوسرے کی طرف دیکھا اور ان کہا اس سے پوچھو تو سہی یہ کیا کہہ رہا ہے.دوسرے نے ڈنڈا اٹھایا اور شراب کے مٹکوں کو توڑ دیا.یہاں تک کہ وہ شراب بہتے ہوئے گلی تک پہنچ گئی.8 وہ کہنے لگا تم نے یہ کیا کیا پہلے پوچھ تو لینا تھا کہ کیا تی بات ہوئی ہے.اُس نے کہا جب ہمارے کانوں میں یہ آواز پہنچ گئی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کو حرام کر دیا ہے تو میں پہلے مشکا کو توڑوں گا اور پھر پوچھوں گا کہ کیا بات ہے.یہ وہ طریق تھا جس پر صحابہ نے قدم مارا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو کمال تک پہنچا دیا.پس میں اس خطبہ کے ذریعہ اُن لوگوں کو جو اپنی بیویوں کو بے پردہ رکھتے ہیں تنبیہ کرتا ہوں اور انہیں اپنی اصلاح کی طرف توجہ دلاتا ہوں.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ باقی احمدی بھی مجرم ہیں کیونکہ ش اس لیے کہ فلاں صاحب بڑے مالدار ہیں تم اُن کے ہاں جاتے ہو، اُن سے مل کر کھانا کھاتے
146 $1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہو اور اُن سے دوستی اور محبت کے تعلقات رکھتے ہو.تمہارا تو فرض ہے کہ تم ایسے آدمی کو سلام بھی نہ کرو.تب بیشک سمجھا جائے گا کہ تم میں غیرت پائی جاتی ہے اور تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی اطاعت کروانا چاہتے ہو.لیکن اگر تم ایسے شخص سے مصافحہ کرتے ہو، اُس کو سلام کرتے ہو اور اُس سے تعلقات رکھتے ہو تو تم بھی ویسے ہی مجرم ہو جیسے وہ ہیں.پس آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جو لوگ اپنی بیویوں کو بے پردہ باہر لے جاتے اور مکسڈ (MIXED) پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرتے ہیں اگر وہ احمدی ہیں تو تمہارا فرض ہے کہ تم اُن سے کوئی تعلق نہ رکھو، نہ اُن سے مصافحہ کرو، نہ انہیں سلام کرو، نہ اُن کی دعوتوں میں جاؤ اور نہ اُن کو بھی دعوت میں بلاؤ تا کہ انہیں محسوس ہو کہ ان کی قوم اس فعل کی وجہ سے انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے.لیکن غیر احمدیوں کے متعلق ہمارا یہ قانون نہیں کیونکہ وہ ہماری جماعت میں شامل نہیں اور ہمارے فتوی کے پابند نہیں.وہ چونکہ ہماری جماعت میں شامل نہیں اُن پر کی اُن کے مولویوں کا فتوی چلے گا اور خدا تعالیٰ کے سامنے ہم اُن کے ذمہ دار نہیں ہوں گے بلکہ وہ یا اُن کی کے مولوی ہوں گے.لیکن اگر تم ایسے لوگوں سے تعلقات رکھتے ہو جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو صرف وہی نہیں بلکہ تم بھی پکڑے جاؤ گے.خدا کہے گا کہ ان لوگوں کو تم نے اس گناہ پر دلیری اور جرات دلائی اور انہوں نے سمجھا کہ ساری قوم ہمارے اس فعل کو پسند کرتی ہے.پس آئندہ ایسے احمدیوں سے نہ تم نے مصافحہ کرنا ہے، نہ انہیں سلام کرتا ہے، نہ ان کی دعوتوں میں جانا ہے، نہ ان کو کبھی دعوت میں بلانا ہے، نہ ان کے پیچھے نماز پڑھنا ہے اور نہ ان کو جماعت میں کوئی عہدہ دینا ہے بلکہ اگر ہو سکے تو اُن کا جنازہ بھی نہیں پڑھنا.اسی طرح ہماری جماعت کی عورتوں کو چاہیے کہ ان کی عورتوں سے کسی قسم کے تعلقات نہ رکھیں.تمہیں اس سے کیا کہ کوئی کتنا مالدار ہے.تمہیں کسی مال دار کی ضرورت نہیں تمہیں خدا کی ضرورت ہے.اگر تم اللہ تعالیٰ کے لیے ان مال داروں سے قطع تعلق کر لو گے تو بیشک تمہارے گھر میں وہ مال دار نہیں آئے گا لیکن تمہارے گھر میں خدا آئے گا.اب بتاؤ کہ تمہارے گھر میں کسی مالدار آدمی کا آنا عزت کا موجب ہے یا خدا تعالیٰ کا آنا عزت کا موجب ہے؟ بڑے سے بڑا مالدار بھی ہو تو خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں اُس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی.پس میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ ایسے لوگوں سے کوئی تعلق نہ رکھا جائے.
خطبات محمود جلد نمبر 39 147 $1958 تم اس بات سے مت ڈرو کہ اگر یہ لوگ علیحدہ ہو گئے تو چندے کم ہو جائیں گے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوی کیا تھا تو اُس وقت کتنے لوگ چندہ دینے والے تھے؟ مگر پھر اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی جماعت پیدا کر دی کہ اب صدر انجمن احمدیہ کا سالانہ بجٹ سترہ لاکھ روپیہ کا ہوتا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ دو چار سال میں ہمارا بجٹ پچاس ساٹھ لاکھ روپیہ تک پہنچ جائے گا.پس اگر ایک شخص سے چل کر ہماری جماعت کو اتنی ترقی حاصل ہوئی ہے کہ لاکھوں تک ہمارا ان بجٹ جا پہنچا ہے تو اگر یہ دس پندرہ آدمی نکل جائیں گے تو کیا ہو جائے گا.ہمیں تو یقین ہے کہ اگر ایک آدمی نکلے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ ہمیں ہزار دے دے گا.پس ہمیں ان کے علیحدہ ہونے کا کوئی فکر نہیں کی ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ یہ صرف نام کے احمدی نہ ہوں بلکہ عملی طور پر بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے ہوں.مگر یاد رکھو! پردہ سے مُرادوہ پردہ نہیں جس پر پرانے زمانہ میں ہندوستان میں عمل ہوا کرتا تھا اور عورتوں کو گھر کی چاردیواری میں بند رکھا جا تا تھا اور نہ پردہ سے مُراد موجودہ برقع ہے.یہ برقع جس کا آجکل رواج ہے صحابہ کے زمانہ میں نہیں تھا.اُس وقت عورتیں چادر کے ذریعہ گھونگھٹ نکال لیا کرتی تھیں.جس طرح شریف زمیندار عورتوں میں آجکل بھی رواج ہے.چنانچہ ایک صحابی ایک دفعہ کوفہ کی مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ پردہ کا ذکر آ گیا.اُس زمانہ میں برقع کی طرز کی کوئی نئی چیز نکلی تھی.وہ اس کا ذکر کر کے کہنے لگے کہ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس کا کوئی رواج نہیں تھا.اُس زمانہ میں عورتیں چد راوڑھ کر گھونگھٹ نکالا کرتی تھیں جس میں سارے کا سارا منہ چھپ جاتا ہے صرف آنکھیں کھلی رہتی ہیں.جیسے پرانے زمیندار خاندانوں میں اب تک بھی گھونگھٹ کا ہی رواج ہے.پس شریعت نے پردہ محض چڈ راوڑھنے کا نام رکھا ہے اور اس میں بھی گھونگھٹ نکالنے پر زور دیا ہے ورنہ آنکھوں کو بند کرنا جائز نہیں.یہ عورت پر ظلم ہے.اسی طرح عورت کو اپنے ساتھ لے کر بشر طیکہ وہ پردہ میں ہو سیر کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں.میں نے خود حضرت خلیفہ اول سے سنا کہ امرتسر کے سٹیشن پر ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت اماں جان کو اپنے ساتھ لے کر ٹہل رہے تھے کہ مولوی عبدالکریم صاحب بڑے جوش کی حالت میں میرے پاس آئے اور کہنے لگے مولوی صاحب! دیکھیے حضرت صاحب یہاں ٹہل رہے ہیں اور اماں جان ساتھ ہیں.
148 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 آپ جا کر حضرت صاحب کو سمجھائیں کہ یہ مناسب نہیں.غیر لوگ سٹیشن پر جمع ہیں اور وہ اعتراض کریں گے.حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ میں نے کہا کہ جب آپ کے دل میں ایک اعتراض پیدا ہوا ہے تو آپ خود حضرت صاحب سے اس کا ذکر کریں، ہمیں تو نہیں جاتا.آخر وہ خود ہی چلے گئے.تھوڑی دیر کے بعد آئے تو انہوں نے سر نیچے ڈالا ہوا تھا.میں نے کہا مولوی صاحب! کہہ آئے ؟ کہنے لگے ہاں میں نے کہا تھا کہ یہ مناسب نہیں.کل ہی سارے اخبارات میں یہ بات چھپ جائے گی اور مخالف اعتراض کریں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ سنا تو آپ نے فرمایا مولوی صاحب! وہ کیا لکھیں گے؟ کیا یہ کھیں گے کہ مرزا قادیانی اپنی بیوی کو ساتھ لے کر ٹہل رہا تھا؟ اور اگر وہ یہ بات لکھیں تو اس میں ڈرنے کی کونسی بات ہے.غرض اُس وقت پردہ میں اتنی شدت تھی کہ اپنی بیوی کو بھی ساتھ لے کر پھر نا لوگوں کی نگاہ میں معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی کوئی پروا نہیں کرتے تھے.آپ آخری دنوں میں جب لاہور میں مقیم تھے تو باقاعدہ حضرت اماں جان کو ساتھ لے کر سیر کیا کرتے تھے.آپ چونکہ خود بھی بیمار تھے اور اعصاب کی تکلیف تھی اور حضرت اماں جان بھی بیمار رہتی تھیں اس کی لیے جب تک آپ لاہور میں رہے روزانہ فٹن میں بیٹھ کر آپ سیر کے لیے تشریف لے جاتے اور حضرت اماں جان بھی آپ کے ساتھ ہوتیں.قادیان میں بھی یہی کیفیت تھی.حضرت اماں جان ہمیشہ سیر کے لیے جاتی تھیں اور ان کے ساتھ ان کی سہیلیاں وغیرہ بھی ہوا کرتی تھیں.پس پردہ کے یہ معنے نہیں کہ عورتوں کو گھروں میں بند کر کے بٹھا دو.وہ سیر وغیرہ کے لیے جا سکتی ہیں.ہاں ! گھروں کے قہقہے سننے منع ہیں لیکن اگر دوسروں سے وہ کوئی ضروری بات کریں تو یہ جائز ہے.مثلاً اگر وہ ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیں تو بیشک کریں یا فرض کرو کوئی مقد مہ ہو گیا ہے اور عورت کسی وکیل سے بات کرنا چاہتی ہے تو بیشک کرے.اسی طرح اگر کسی جلسہ میں کوئی ایسی تقریری کرنی پڑے جو مر نہیں کر سکتا تو عورت تقریر بھی کرسکتی ہے.حضرت عائشہ کے متعلق تو یہاں تک ثابت ہے کہ آپ مردوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سنایا کرتی تھیں بلکہ خود لڑائی کی بھی ایک دفعہ آپ نے کمان کی.جنگِ جمل میں آہ نے اونٹ پر بیٹھ کر سارے لشکر کی کمان کی تھی.پس یہ تمام چیزیں جائز ہیں.جو چیز منع ہے وہ یہ ہے کہ
149 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 عورت کھلے منہ پھرے اور مردوں سے اختلاط کرے.ہاں! اگر وہ گھونگھٹ نکال لے اور آنکھ سے رستہ وغیرہ دیکھے تو یہ جائز ہے لیکن منہ سے کپڑا اٹھا دینا یا مکسڈ پارٹیوں میں جانا جبکہ ادھر بھی مرد بیٹھے ہوں اور اُدھر بھی مرد بیٹھے ہوں یہ ناجائز ہے.اسی طرح عورت کا مردوں کو شعر گا گا کر سنانا بھی ناجائز ہے کیونکہ یہ ایک لغو فعل ہے.غرض عورتوں کا مکسڈ مجالس میں جانا، مردوں کے سامنے اپنا منہ تنگا کر دینا اور اُن سے ہنس ہنس کر باتیں کرنا یہ سب ناجائز امور ہیں.لیکن ضرورت کے موقع پر شریعت نے بعض امور میں انہیں آزادی بھی دی ہے بلکہ قرآن کریم نے إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا و کے الفاظ استعمال فرما کر بتا دیا ہے کہ جو حصہ مجبور ظاہر کرنا پڑے اُس میں عورت کے لیے کوئی گناہ نہیں.اس اجازت میں وہ کی تمام مزدور عورتیں بھی شامل ہیں جنہیں کھیتوں اور میدانوں میں کام کرنا پڑتا ہے اور چونکہ اُن کے کام کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ اُن کے لیے آنکھوں اور اُس کے ارد گرد کا حصہ کھلا رہنا ضروری ہوتا ہے ورنہ ان کے کام میں دقت پیدا ہوتی ہے اس لیے إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا کے ماتحت اُن کے لیے آنکھوں سے لے کر ناک تک کا حصہ کھلا رکھنا جائز ہوگا.اور چونکہ انہیں بعض دفعہ پانی میں بھی کام کرنا پڑتا ہے اس لیے اُن کے لیے یہ بھی جائز ہوگا کہ وہ پاجامہ اُڑس لیں اور اُن کی پنڈلی تنگی ہو جائے.بلکہ ہمارے علماء کا یہ فتویٰ ہے کہ اگر کوئی عورت حاملہ ہو اور کوئی اچھی دایہ میسر نہ آ سکے اور ڈاکٹر یہ کہے کہ اگر یہ کسی مرد ڈاکٹر سے اپنا بچہ نہیں بنوائے گی تو اس کی زندگی خطرہ میں ہے تو ایسی صورت میں اگر وہ کسی مرد سے بچہ نہیں جنوائے گی تو یہ گناہ ہوگا اور پردے کی کوئی پروانہیں کی جائے گی.حالانکہ عام حالات میں منہ کے پردے سے ستر کا پردہ زیادہ ہے.لیکن اس کے لیے اعضاء نہانی کو بھی مرد کے سامنے کر دینا ضروری ہوگا.بلکہ اگر کوئی عورت مرد ڈاکٹر سے بچہ نہ جنوائے اور مرجائے تو خدا تعالیٰ کے حضور وہ ایسی ہی سمجھی جائے گی جیسے اُس نے خود کشی کی ہے.غرض کوئی وقت ایسی نہیں جس کا ہماری شریعت نے علاج نہیں رکھا مگر باوجود اتنے بڑے انعام کے کہ خدا تعالیٰ نے لوگوں کی سہولت کے لیے ہر قسم کے احکام دے دیئے ہیں اگر کوئی شخص پر دہ کو چھوڑتا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ قرآن کی ہتک کرتا ہے.ایسے انسان سے ہمارا کیا تعلق ہوسکتا ہے.وہ ہمارا دشمن ہے اور ہم اُس کے دشمن ہیں اور ہماری جماعت کے مردوں اور عورتوں کا فرض ہے کہ وہ ایسے احمدی مردوں اور ایسی احمدی عورتوں سے کوئی تعلق نہ رکھیں.یہ کوئی فخر کی بات نہیں کہ فلاں عورت بڑے مالدار آدمی کی بیوی ہے.تمہارا فخر اس میں ہے کہ تمہارے فرشتوں سے تعلقات
$1958 150 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہوں.اور فرشتوں سے وہی لوگ ملتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے کامل فرمانبردار ہوں.پس ان لوگوں کی مت پر وا کرو اور اس بات سے نہ ڈرو کہ اگر یہ لوگ الگ ہو گئے تو کیا ہو جائے گا.اگر ان میں سے کی علیحدہ ہو گا تو اُس کی جگہ ہزار آدمی تم میں شامل ہوگا بلکہ آئندہ ان کی جگہ ہزاروں بڑے بڑے مالدار تم میں شامل ہوں گے اور پھر ان کی تعداد خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑھتی چلی جائے گی.بلکہ میں سمجھتا ہوں اگر تم میں حیا پیدا ہوگئی تو تمہارے عمل کو دیکھ کر مسلمانوں کا شریف طبقہ بھی تمہاری اقتدا کرنے پر مجبور ہوگا بلکہ بعض باتوں میں تو اب بھی ہماری جماعت کے نمونہ کا لوگوں پر بڑا بھاری اثر ہے.حال ہی میں ہماری جماعت کا ایک شخص فوت ہوا ہے.وہ بالکل ان پڑھ تھا مگر احمدیت سے نہایت ہی اخلاص رکھتا تھا.ربوہ کے پاس ہی ایک گاؤں کا رہنے والا تھا اور پرانے زمانہ سے کی قادیان آیا جاتا کرتا تھا.اُس کے باپ اور بھائی وغیرہ سب چور تھے اور علاقہ کی بھینسیں نکال لایا ای کرتے تھے.اس نے خود اپنا حال سنایا کہ اس کے بھائی ایک دفعہ کسی کی بھینس پچرا کر لے آئے.جنگلی لوگ کھوج لگانے میں بڑے ماہر ہوتے ہیں.وہ نشانات دیکھتے دیکھتے ہمارے گھر پہنچ گئے اور کہنے لگے کہ ہماری بھینس دے دو.انہوں نے قسمیں کھانی شروع کر دیں کہ ہم تمہاری بھینس چرا کر نہیں لائے.لوگوں نے کہا ہمیں تمہاری قسموں کا کوئی اعتبار نہیں.ہاں ! اگر تمہارا فلاں بھائی جو مرزائی ہو چکا ہے کہہ دے کہ تم ہماری بھینس نہیں لائے تو ہم اس کی بات مان لیں گے.انہوں نے کہا کہ وہ تو کافر ہے.اس کا فرکا کیا اعتبار ہوسکتا ہے.وہ کہتے کہ وہے تو کا فرمگر ہمیں تمہاری قسموں پر اتنا اعتبار نہیں جتنا اس کا فر کی زبان پر ہے.پھر اس نے کہا کہ آخر وہ میرے پاس آئے اور مجھے خوب مارا اور کہا کہ خبردار! جو باہر جا کر یہ کہا کہ بھینس ہمارے پاس ہے.اور جب تسلی ہو گئی کہ اب یہ ہمارا راز افشاء نہیں کرے گا تو مجھے باہر لائے اور پوچھا کہ بتاؤ کیا ہم بھینس لائے ہیں؟ میں نے کہا کہ اگر میں نے کچھ کہا تو تم خفا ہو جاؤ گے.انہوں نے کہا نہیں بولو کیا ہم بھینس لائے ہیں؟ میں نے کہا ہاں لائے تو ہو، وہ اندر کھڑی ہے.انہوں نے پھر مجھے اندر لے جا کر مارا اور کہا ہم نے جو کہا تھا کہ نہ بتانا پھر تم نے کیوں بتایا ؟ میں نے کہا کہ وہ اندر جو کھڑی ہے تو میں کیا کرتا؟ غرض احمدیوں کی سچائی کا یہ اثر تھا کہ لوگ کہتے کہ یہ ہے تو کا فرمگر جو بات کہتا ہے سچ کہتا ہے.تو اچھے نمونہ کا دوسرے لوگوں پر بڑا بھاری اثر پڑتا ہے.میں جن دنوں اُمم طاہر کی بیماری کے سلسلہ میں لاہور ٹھہرا ہوا تھا ایک روز رات کے دس بجے
خطبات محمود جلد نمبر 39 151 $1958 ایک غیر احمدی مولوی مجھ سے ملنے کے لیے آیا اور کہنے لگا کہ آپ کی جماعت بڑی اچھی ہے اور اسلام کی بڑی خدمت کر رہی ہے لیکن صرف ایک خرابی ہے جو نہیں ہونی چاہیے.اور وہ یہ کہ آپ ہم سے نہیں ملتے، نہ ہمارے پیچھے نمازیں پڑھتے ہیں اور نہ ہمیں رشتے دیتے ہیں.اگر یہ خرابی دور ہو جائے تو پھر آپ کی جماعت سے بہتر اور کوئی جماعت نہیں.میں نے کہا مولوی صاحب! یہ لوگ جن کی آپ تعریف کر رہے ہیں آپ لوگوں میں سے ہی نکل کر آئے ہیں یا کہیں اور سے آئے ہیں؟ جب یہ آپ لوگوں میں نے سے ہی نکل کر آئے ہیں اور مرزا صاحب کی تعلیم نے ان میں اتنی بڑی تبدیلی پیدا کر دی ہے تو کیا آپ مانی چاہتے ہیں کہ پھر یہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل کر ویسے ہی بے عمل ہو جائیں جیسے وہ ہیں؟ وہ آدمی سمجھدار تھا کہنے لگا اب میں سمجھ گیا.آپ مسلمانوں سے بالکل نہ ملیسے اور علیحدہ ہی رہیے.اگر آپ کی کی جماعت کے لوگ پھر ان سے جا ملے تو اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو پھیلانے کی جو جد و جہد آپ کی جماعت کر رہی ہے وہ بھی جاتی رہے گی اور اسلام کی تبلیغ ختم ہو جائے گی.اب کم از کم کوئی جماعت تو ہے جو محد رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کانام پھیلا رہی ہے.تو دیکھو! نیک نمونہ کا لوگوں پر کتنا اثر ہوتا ہے.اب یہ لوگ اپنی امارت کی وجہ سے احمدیت کے رستہ میں روک بن رہے ہیں.اگر یہ لوگ روک نہ بنیں اور اسلام کے احکام کی اطاعت کریں تو احمدیت کو بڑی ترقی حاصل ہو سکتی ہے.( الفضل 27 جون 1958ء) 1 : آل عمران: 20 2 : آل عمران : 86 3 : ابن ماجه كتاب النكاح باب النظر الى المرأة اذا اراد ان يتزوجها 4 : سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 105 مطبوعہ مصر 1936ء 5 : بتر بتر دیکھنا بکٹکی لگا کر دیکھنا 6 : السيرة الحلبية جلد 2 صفحہ 268،267 مطبوعہ مصر 1935ء : ابوداؤد ابواب الجمعة باب الامام يكلم الرجل في خطبته 8 : بخاری کتاب التفسير تفسير سورة المائدة باب لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا (الخ) 9 : النور: 32
$ 1958 152 18 خطبات محمود جلد نمبر 39 اللہ تعالیٰ کے حضور گرو اور اُسی سے مدد مانگو کہ یہی ہماری کامیابی اور ترقی کا اصل ذریعہ ہے خدائی جماعتیں اگر کثرت سے ذکر الہی کریں تو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے اتر کر اُن کی مدد کرتے ہیں (فرمودہ 13 جون 1958ء بمقام مری) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے قرآن کریم کی درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا 6 لعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ “ - 1 اس کے بعد فرمایا: اسلام کی ہر بات چونکہ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور اس کا مقصد انسان کی صحیح راہنمائی کرنا اور اسے ایسے راستہ کی طرف لے جانا ہے جو ہر لحاظ سے اس کے لیے مفید اور بابرکت ہو اس لیے بسا اوقات وہ ایسی تعلیم پیش کرتا ہے جو دنیا سے نرالی ہوتی ہے.دنیا میں جب فوجیں آپس میں لڑتی ہیں تو حکومتیں اپنے سپاہیوں کو خوب شرا میں پلاتی ہیں تا کہ انہیں ہوش نہ رہے اور موت کا ڈر
$1958 153 خطبات محمود جلد نمبر 39 اُن کے دلوں سے جاتا رہے لیکن اسلام اس کے الٹ تعلیم دیتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مومنو! جب تم دشمن کے مقابلہ میں لڑائی کے لیے صف آراء ہو جاؤ تو ایک تو اپنے اندر استقلال پیدا کرو اور اس کے مقابلہ میں مضبوطی سے ڈٹے رہو اور دوسرے اللہ تعالیٰ کو ہر وقت یاد کیا کر و یعنی موت کو اپنے سامنے رکھو.گویا حکومتیں تو موت کو گھلا کر لڑواتی ہیں اور اسلام موت کو یاد دلا کر لڑوا تا ہے.یہ ایک نہایت ہی نمایاں فرق ہے جو اسلامی تعلیم اور موجودہ زمانہ کے طریق کار میں پایا ای جاتا ہے.اسلام نے تو شراب کو یوں بھی حرام کیا ہوا ہے لیکن یورپین حکومتیں جنگ کے دنوں میں اپنے سپاہیوں کی شراب دگنی کر دیتی ہیں تا کہ انہیں یہ ہوش ہی نہ رہے کہ وہ کس حالت میں ہیں مگر اسلام اس کے اُلٹ کرتا ہے اور بجائے یہ کہنے کے کہ شراب پیو، وہ کہتا ہے تم اللہ تعالیٰ کو یاد کرو کیونکہ فتح اللہ تعالیٰ کی مدد سے حاصل ہوا کرتی ہے.ظاہری سامانوں سے فتح حاصل نہیں ہوتی.اس کے بعد فرماتا ہے کہ اگر تم ایسا کرو گے تو لعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ شاید تم کامیاب ہو جاؤ.اس جگہ معترض اعتراض کیا کرتے ہیں کہ کیا اللہ تعالیٰ کو یہ پتا نہیں تھا کہ اگر لوگ ایسا کریں گے تو وہ کامیاب ہوں گے؟ اور اگر پتا تھا تو پھر اس نے "شاید" کا لفظ کیوں استعمال کیا ؟ مگر یہ اُن کی جہالت کی بات ہے.انہوں نے لغت کی کتابوں کو نہیں دیکھا.لغت میں لعل کے استعمال کے بارے میں لکھا ہے کہ بیشک اس کے معنے محبہ کے ہوتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس سے بولنے والے کے دل کا شبہ مراد ہو بلکہ کبھی اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ جن لوگوں سے خطاب کیا گیا ہے اُن کے دلوں میں کوئی محبہ ہے اور کبھی مخاطب کے علاوہ دوسرے لوگوں کے شبہ کا ذکر مراد ہوتا ہے.گویا بولنے والے کوتو یقین ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کہ رہا ہے درست ہے اور وہ قطعی اور یقینی ہے مگر جس کو مخاطب کیا جار ہا ہوتا ہے بعض دفعہ اُس کو کوئی شبہ ہوتا ہے اور بعض دفعہ اس کے علاوہ دوسروں کو کوئی شبہ ہوتا ہے.پس لعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ کے یہ معنی ہیں کہ تمہاری فتح تو یقینی ہے لیکن اگر تم ذکر الہی کرو گے تو اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے گا کہ دوسرا آدمی جو تمہاری فتح کو ناممکن سمجھتا ہے وہ بھی خیال کرنے لگ جائے گا کہ شاید تم لوگ جیت جاؤ.انسانی اندازے چونکہ ظاہر پر ہوتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم ذکر الہی کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ سے دُعائیں کرتے رہے تو وہ تمہاری کامیابی کے ایسے سامان پیدا فرما دے گا کہ تمہارا ساتھی جو پہلے تمہاری فتح کو ناممکن سمجھتا تھا وہ بھی سمجھنے لگ جائے گا کہ اب تو ایسے
154 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 سامان نظر آ رہے ہیں کہ شاید یہ لوگ جیت ہی جائیں.اللہ تعالیٰ تو پہلے ہی جانتا ہے کہ مسلمان کا میاب ہوں گے اور خود مسلمانوں کو بھی یقین ہوتا ہے کہ وہ جیتیں گے اور دشمن ہارے گا.مگر فرماتا ہے اس کے بعد ایسے سامان پیدا ہوں گے کہ جن کے نتیجہ میں دشمن بھی خیال کرنے لگ جائے گا کہ شاید یہ مسلمان جیت ہی جائیں.چنانچہ بدر کے میدان میں جب صحابہ جمع ہوئے اور کفار بھی لڑائی کے لیے آگئے تو کفار میں سے بعض نے اپنے سرداروں کو مشورہ دیا کہ مسلمانوں سے لڑائی کرنے کی بجائے صلح کر لینی چاہیے.اس پر وہ لوگ جو صلح کرنا نہیں چاہتے تھے انہوں نے ایک شخص کو جس کا کوئی بھائی کسی چھوٹی جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا اُکسایا اور اُسے کہا تم شور مچانا شروع کر دو کہ میرا بھائی ان مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا مگر آج میری قوم اس کا بدلہ لینے کے لیے تیار نہیں.عربوں میں رواج تھا کہ ایسے موقع پر وہ چادر کھول کر سر پر رکھ لیتے اور پھر رونا شروع کر دیتے.اسی طریق کے مطابق اس نے بھی چادر کھول کر سر پر رکھ لی اور پھر رونے پیٹنے لگ گیا اور اس نے شور مچانا شروع کر دیا کہ ہائے میرے بھائی! تیری قوم نے تجھے چھوڑ دیا اور وہ تیرا بدلہ لینے کے لیے تیار نہیں ہے.جب اُس نے اس طرح شور مچایا تو قوم کے اندر جوش پیدا ہو گیا اور سب کے سب مسلمانوں سے لڑنے کے لیے تیار ہو گئے.جب مقابلہ کا فیصلہ ہو گیا تو ابوجہل نے ایک سردار کو بلایا اور اسے کہا کہ تم ذرا جا کر پتا تو لو کہ مسلمان کتنے ہیں.وہ نظر تو تھوڑے آتے ہیں لیکن ممکن ہے کچھ پہاڑی کے پیچھے بھی چھپے ہوئے ہوں.جیسا کہ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاذْيُرِيكُمُوهُمْ إِذِ الْتَقَيْتُمْ فِى أعْيُنِكُمُ قَلِيلًا وَيُقَلِّلُكُمْ فِى أَعْيُنِهِم 2 یعنی اُس وقت کو یاد کرو جب کہ وہ ان کفار کو تمہاری نگاہ میں لڑائی کے وقت بالکل حقیر کر کے دکھاتا تھا اور تمہیں اُن کی نظر میں تھوڑے کر کے دکھاتا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ شاید کچھ لوگ پہاڑی کے پیچھے بھی چھپے ہوئے ہوں.وہ گیا اور اسلامی لشکر کا جائزہ لینے کے بعد واپس آ گیا.جب وہ واپس آیا تو کفار نے اُس سے پوچھا کہ بتاؤ تمہاری مسلمانوں کے متعلق کیا رائے ہے؟ اُس نے کہا میری رائے تو یہی ہے کہ مسلمانوں سے لڑنا نہیں چاہیے.انہوں نے کہا پہلے تم یہ بتاؤ کہ اُن کی تعداد کتنی ہے؟ اُس نے کہا تعداد تو تھوڑی ہے.تین سویا سوا تین سو کے قریب ہیں اور پہاڑی کے پیچھے کوئی لشکر بھی نہیں کیونکہ میں اُن کے باورچی خانہ میں گیا
155 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 تھا اور میں نے دیکھا کہ تین سویا سوا تین سو آدمیوں کے لیے جتنے اونٹ ذبح ہونے ضروری تھے اُتنے ہی اونٹ انہوں نے ذبح کیے تھے اس لیے جہاں تک اُن کی تعداد کا سوال ہے وہ تو اتنی ہی ہے مگر پھر بھی میرا مشورہ یہی ہے کہ لڑائی نہ کرو.انہوں نے کہا یہ کیسی بُزدلی کی بات ہے.جب وہ تھوڑے سے آدمی ہیں تو پھر لڑائی سے ڈرنے کے معنے ہی کیا ہوئے.وہ کہنے لگا اے میری قوم ! وہ آدمی تو تھوڑے ہی ہیں مگر خدا کی قسم ! جب میں انہیں دیکھنے گیا تو مجھے اونٹوں پر آدمی نظر نہیں آئے بلکہ مجھے موتیں نظری آئیں جوان اونٹوں پر سوار تھیں 3 یعنی ان لوگوں کے چہروں سے ایسا عزم ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر شخص اس بات کے لیے آمادہ ہے کہ اگر لڑائی ہوئی تو ہم مر جائیں گے یادشمن کو مار ڈالیں گے.پس اگر لڑائی ہوئی تو ان میں سے ہر شخص تمہارے لیے ملک الموت بن جائے گا.چنانچہ یہی ہوا لڑائی ہوئی تو مکہ کے تمام بڑے بڑے سردار مارے گئے.ابو جہل بھی میدان جنگ میں مارا گیا اور سارے مکہ میں ماتم برپا ہو گیا.یہ فتح ان کو اس لیے حاصل ہوئی کہ ان کے سامنے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم رہتا تھا کہ دیکھو جب لڑائی ہو تو وَ اذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ خدا تعالیٰ کو کثرت - یاد کیا کرو تا کہ تمہیں فتح حاصل ہو اور اس کا غضب تمہارے دشمن پر نازل ہو.سے جب روم کے ساتھ مسلمانوں کی لڑائی ہوئی تو رومی جرنیل نے ایک وفد بھیجا اور اسے کہا کہ تم مسلمانوں کے لشکر کو جا کر دیکھو اور پھر واپس آ کر بتاؤ کہ ان کی کیا کیفیت ہے.وہ وفد اسلامی لشکر کا جائزہ لے کر واپس گیا تو اُس نے کہا ہم دیکھ آئے ہیں، وہ آدمی تو بہت تھوڑے سے ہیں مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی جن ہیں کیونکہ ہم نے دیکھا کہ وہ دن کو لڑتے ہیں اور رات کو تہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں.ہمارے سپاہی جو دن بھر کے تھکے ہوئے ہوتے ہیں وہ تو رات کو شرا ہیں پیتے ہیں، ناچ گانے میں مشغول ہو جاتے ہیں اور جب ان کاموں سے فارغ ہوتے ہیں تو آرام سے سوی جاتے ہیں مگر وہ لوگ کوئی عجیب مخلوق ہیں کہ دن کو لڑتے ہیں اور راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے اور اُس کا ذکر کرتے ہیں.اس لیے ایسے لوگوں سے ہمارالٹر نا بے فائدہ ہے.4 غرض اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ خدائی جماعتوں کو ہمیشہ الہی مدد سے فتوحات حاصل ہوا کرتی ہیں.جب وہ کثرت سے خدا تعالیٰ کو یاد کرتی ہیں تو اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ بھی آسمان سے اتر تا اور ان کی مددکرتا ہے.چنانچہ دیکھ لو عرب کی ساری آبادی ایک لاکھ اسی ہزارتھی مگر انہوں نے روم
$1958 156 خطبات محمود جلد نمبر 39 جیسے ملک سے ٹکر لے لی جس کی بیس کروڑ کی آبادی تھی.پھر انہوں نے کسری کے ملک پر حملہ کر دیا اور اس کی آبادی بھی ہیں تمہیں کروڑ تھی.گویا پچاس کروڑ کی آبادی رکھنے والے ممالک پر ایک لاکھ اسی ہزار کی کی آبادی رکھنے والا ملک حملہ آور ہوا.اور پھر یہ ملک اتنے طاقتور تھے کہ ہندوستان بھی اُن کے ماتحت تھا، چین بھی ان کے ماتحت، اسی طرح ٹرکی ، آرمینیا، عراق اور عرب کے اور ممالک یعنی فلسطین اور مصر بھی ان کے ماتحت تھے.مگر باوجود اتنی کثرت کے مٹھی بھر مسلمان نکلے تو انہوں نے ان لوگوں کا صفایا کر دیا اور بارہ سال کے عرصہ میں ان کی فوجیں قسطنطنیہ کی دیواروں سے جاٹکرائیں.حضرت ایوب انصاری اُس وقت زندہ تھے اور وہ بھی ان جنگوں میں شامل تھے.قسطنطنیہ کی دیواروں کے نیچے انہیں تیر لگا اور وہ شہید ہو گئے.چنانچہ آج تک قسطنطنیہ میں اُن کی یادگار قائم ہے.یہ فتوحات جو مسلمانوں کو حاصل ہوئیں صرف ذکر الہی کا نتیجہ تھیں.لیکن جب مسلمان بگڑ گئے اور انہوں نے خدا تعالیٰ کی کو چھوڑ دیا تو اُس وقت اُن کی یہ حالت ہوئی کہ جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا تو مسلمان ایک بزرگ کے پاس گئے اور اُسے کہا کہ دُعا کریں بغداد سخت خطرہ کی حالت میں ہے.انہوں نے کہا میں رات کو دعا کروں گا تم صبح میرے پاس آنا، جو کچھ جواب ملے گا وہ بتا دوں گا.جب وہ صبح کو آئے تو انہوں نے کہا میں تمہارے لیے کیا دعا کروں؟ میں تو جب بھی ہاتھ اٹھاتا تھا مجھے اللہ تعالیٰ کے ملائکہ کی یہ آواز میں آتی تھیں کہ يَا أَيُّهَا الْكُفَّارُ اقْتُلُوا الْفُجَّارَ یعنی اے کا فرو! ان فاجر مسلمانوں کو خوب مارو کیونکہ یہ مسلمان کی ہی نہیں رہے.اب بتاؤ جب خدا کہہ رہا ہے کہ ان مسلمانوں کو مارو تو میری دعائیں کیا کریں گی.غرض جب تک مسلمانوں میں ذکر الہی رہا ان کے تھوڑے تھوڑے آدمیوں نے بڑے بڑے ملکوں کو بھگا دیا.لیکن جب مسلمانوں میں سے ذکر الہی اُٹھ گیا اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل جاتا ہے رہا تو ان کی حالت یہاں تک گر گئی کہ جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا تو اس کے دس دس آدمی دود ولاکھ کی آبادی رکھنے والے ملکوں میں جاتے تو مرد، عورتیں اور بچے سب بھاگ کھڑے ہوتے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسلمان اپنے اندر اتنی طاقت محسوس کرتے تھے کہ ایک دفعہ جب روم کے بادشاہ نے دیکھا کہ اُس کی فوج کو بار بار شکست ہو رہی ہے اور اُسے اپنی سلطنت کے متعلق خطرہ محسوس ہوا تو اُس نے اپنے ایک جرنیل کو جس کا نام ہامان تھا بلوایا اور اُسے کہا کہ تم بڑے بہادر ہو، میں تمہیں مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے بھجواتا ہوں.اگر تم جیت گئے تو میں اپنی لڑکی کی
157 $1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 تم سے شادی کر دوں گا اور آدھا ملک تم کو دے دوں گا.تمہارا کام یہ ہے کہ تم کسی طرح مسلمانوں کو کی شکست دو.وہ ساٹھ ہزار کا لشکر لے کر نکلا.اُس زمانہ کا ساٹھ ہزار آجکل کے ساٹھ لاکھ کے برابر تھا تی اور مسلمان گل بارہ ہزار تھے.وہ بڑے گھبرائے کہ ہم اتنے بڑے لشکر کا کس طرح مقابلہ کریں گے.حضرت ابوعبیدہ نے خالد بن ولید کو بلوایا اور کہا کہ ہم کل اس لشکر پر حملہ کرنا چاہتے ہیں.تم اندازہ لگاؤ کہ ہم اس کے مقابلہ میں کتنے ہزار آدمی بھجوائیں.انہوں نے کہا حضور! یہ کیا کر رہے ہیں؟ اس طرح تو دشمن دلیر ہو جائے گا اور سمجھے گا کہ میری بڑی طاقت ہے.آپ ساٹھ ہزار کے مقابلے میں صرف کی ساٹھ آدمی بھجوائیے اور مجھے اجازت دیجیے کہ میں اپنی خواہش کے مطابق اُن میں سے ساٹھ آدمی چن کی لوں.حضرت ابو عبیدہ نے اس کی اجازت دے دی اور انہوں نے ساتھ بہادر مسلمان چن لیے اور اُن کی سب کو کہہ دیا کہ دیکھو! تمہاری موت کے ساتھ اس وقت اسلام کی زندگی وابستہ ہے.تم تیر کی طرح کی دشمن کی فوجوں میں گھس جاؤ اور ہامان جس ہاتھی پر سوار ہے اُس پر حملہ کر کے ہامان کو گرا دو.جب کمانڈر انچیف مارا گیا تو باقی فوج خود بخود پیچھے ہٹ جائے گی.چنانچہ وہ تیر کی طرح فوجوں میں گھس گئے اور انہوں نے اُس ہاتھی پر حملہ کر دیا جس پر ہامان سوار تھا اور اُسے مار کر گرا دیا.بیشک اس حملہ کے نتیجہ میں مسلمانوں کے بارہ تیرہ آدمی میدانِ جنگ میں ہی مارے گئے اور قریباً بیس آدمی ایسے خطرناک زخمی ہوئے کہ جنگ کے خاتمہ پر اُن میں سے بھی اکثر شہید ہو گئے مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کفار کا لشکر بھاگا اور دوسومیل پیچھے جا کر اُس نے دم لیا.اس جنگ میں حضرت عکرمہ جو ابو جہل کے بیٹے تھے مارے گئے اور اس جنگ میں حضرت فضل جو عبد اللہ بن عباس کے بڑے بھائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چا کے بیٹے تھے مارے گئے.تاریخ میں لکھا ہے کہ جنگ کے بعد ایک مسلمان سپاہی اپنی چھا گل میں پانی بھر کر ان زخمی صحابہ کے پاس پہنچا.اس نے دیکھا کہ حضرت عکرمہ کی حالت بڑی نازک ہے اور پیاس کی شدت کی وجہ سے وہ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رہے ہیں.وہ کہتا ہے میں آگے بڑھا اور میں نے کہا آپ کو سخت پیاس محسوس ہو رہی ہے میرے پاس پانی موجود ہے آپ کچھ پانی پی لیں تا کہ آپ کو سکون محسوس ہو.انہوں نے کہا میں تو بہت بعد میں اسلام لایا ہوں.میرے ساتھ ہی ایک ایسا مسلمان زخموں سے چور پڑا ہے جو مجھ سے پہلے اسلام میں داخل کی ہوا تھا.اس لیے پہلے اسے پانی پلاؤ اور پھر میرے پاس آؤ.جب وہ پانی لے کر اُس کے پاس پہنچا تو ان
$1958 158 خطبات محمود جلد نمبر 39 وہ کہنے لگا میرے پہلو میں فلاں مخلص صحابی پڑا ہے اور اُسے بھی پیاس کی شدید تکلیف ہے.میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ میں پہلے پانی پی لوں اور وہ صحابی رہ جائیں.اس لیے پہلے ان کے پاس پانی لے جاؤ.وہ پانی لے کر اُن کے پاس پہنچا تو وہ کہنے لگے میرے پہلو میں حضرت فضل " پڑے ہوئے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چازاد بھائی ہیں پہلے انہیں پانی پلاؤ.جب تک وہ پانی نہ پی لیں میں پانی نہیں پی سکتا.وہ سات زخمی صحابہ تھے جو میدانِ جنگ میں پیاس کی شدت اور زخموں کی تکلیف سے تڑپ رہے تھے مگر اُن میں سے ہر ایک نے یہی کہا کہ جب تک میرا ساتھی پانی نہ پی لے میں پانی نہیں پی سکتا.جب وہ آخری صحابی کے پاس پہنچا تو وہ فوت ہو چکے تھے اور جب وہ لوٹ کر دوسروں کے کی پاس آیا تو وہ بھی فوت ہو چکے تھے.5 اب دیکھو یہ لوگ بیشک مارے گئے لیکن وہ اپنی موت سے مسلمانوں کو سینکڑوں سال تک حکومت پر قائم کر گئے.ایک ایسی جنگ میں جس میں دشمن کا ساٹھ ہزار لشکر سامنے تھا پندرہ ہیں مسلمانوں کا مارا جانا کوئی بڑی بات نہیں لیکن انہوں نے مرکر چار سو سال تک مسلمانوں کی حکومت قائم کر دی اور آخر حضرت عباس کے خاندان میں بھی حکومت آئی اور عباسی حکومت بڑی شان سے قائم ہوئی.مگر بعد میں جب مسلمان ناچ گانوں میں مشغول ہو گئے ، جب انہوں نے رنگ رلیاں منانی شروع کر دیں، جب وہ شرابیں پینے لگ گئے ، جب وہ عیاشی میں مبتلا ہو گئے اور انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اسحاق موسوی بڑا اچھا گانے والا ہے، فلاں کنچنی خوب ناچتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی کی تباہی کے لیے ہلاکو خان کو بغداد پر مسلط کر دیا اور اُس نے ایک دن میں اٹھارہ لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا اور شاہی خاندان کی کوئی ایک عورت بھی ایسی نہ چھوڑی جس کے ساتھ بدکاری نہ کی گئی ہو.اب گجا تو اُن کی یہ حالت تھی کہ روم جیسے بادشاہ کے لشکر کو جو ساٹھ ہزار کی تعداد میں تھا مسلمانوں کے صرف ساٹھ آدمیوں نے شکست دے دی اور گجا یہ حالت ہوئی کہ ہلاکو خان چند ہزار کا لشکر لے کر آیا اور لاکھوں مسلمان اُس کے آگے آگے بھاگتے پھرے اور اس نے اٹھارہ لاکھ آدمیوں کو قتل کر دیا.غرض جب تک اللہ تعالیٰ مددکرتا ہے فتوحات حاصل ہوتی جاتی ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کی مدد کم ہو جاتی ہے تو فتوحات بھی کم ہو جاتی ہیں.ہماری جماعت کے دوستوں کو بھی چاہیے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے رہا کریں اور پاکستان کے سپاہیوں کو بھی چاہیے کہ وہ دعاؤں اور ذکر الہی سے
$1958 159 خطبات محمود جلد نمبر 39 کام لیں اور اللہ تعالیٰ کی نصرت کو کھینچنے کی کوشش کریں.آجکل اخباروں میں میں دیکھتا ہوں کہ بڑا شور مچا ہوا ہے مگر میں مسلمانوں سے کہتا ہوں کہ نعروں سے کچھ نہیں بنتا.اگر تم نے نعرہ ہی مارنا ہے تو تم انسانوں کے سامنے نعرہ نہ مارو بلکہ خدا کے سامنے نعرہ مارو اور اُس کے حضور گریہ و زاری سے کام لو.جب تم خدا کے سامنے جھکو گے تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے تمہاری مدد کے لیے اُتریں گے.بدر کی جنگ میں گفار مسلمانوں کے مقابلہ میں بھاگ نکلے تو بعض لوگوں نے انہیں طعنہ دیا کہ تم نے کیسی بُو دلی دکھائی ہے.انہوں نے کہا تمہیں کیا پتا؟ اس جنگ میں سفید ابلق گھوڑوں پر کوئی عجیب قسم کی مخلوق سوار تھی.تلواریں اُن کے ہاتھ میں تھیں اور وہ جس پر بھی تلوار چلاتے تھے وہ فورا کٹ کر دوٹکڑے ہو جاتا.پس ہمارا مقابلہ آدمیوں سے نہیں تھا بلکہ جنات سے تھا اور ہم نے دیکھا کہ وہ ایسی سختی سے تلوار مارتے تھے کہ ان کے ایک ایک وار سے کئی کئی آدمی کٹ جاتے.غرض کامیابی اُسی صورت میں آتی ہے جب آسمان سے اللہ تعالیٰ کے فرشتے اُتریں اور وہ مدد کریں.پس اللہ تعالیٰ کے حضور گرنا چاہیے اور اُسی سے مدد مانگنی چاہیے کہ یہی ہماری کامیابی کا اصل 66 ذریعہ ہے.1 : الانفال : 46 2 : الانفال : 45 3 : سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 274 مطبوعہ مصر 1936ء ( الفضل 2 جولائی 1958ء) :4 تاريخ الطبرى المجلد الثانى صفحہ 347 مطبوعہ بیروت 1971ء 5: الاستيعاب في معرفة الاصحاب جلد 3 صفحه 191 مطبوعہ بیروت 1995ء
$ 1958 160 (19) خطبات محمود جلد نمبر 39 مسئلہ کشمیر کے متعلق پاکستانی عوام کی بے چینی اور حکومت کا فرض بے شک حکومت جتھوں کو جنگ بندی کی سرحد عبور کرنے سے روک سکتی ہے لیکن اس کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ عوام کو بتائے کہ اُس کے پاس اس مسئلہ کو حل کرنے کا کیا ذریعہ ہے (فرمودہ 27 جون 1958ء بمقام مری) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے قرآن کریم کی درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ - 1 اس کے بعد فرمایا: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مومنوں کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ وہ ہمیشہ ایک منظم جماعت کے طور پر رہا کریں اور جب کوئی اچھا کام کرے تو ساری جماعت کو چاہیے کہ وہ اُس کے ساتھ مل کر اُس کام کو تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کریں.اور اگر کوئی شخص ظلم سے کام لے یا فساد کرے تو کبھی اُس کے ساتھ شامل نہ ہوں خواہ وہ مومن ہوں یا غیر مومن کیونکہ اللہ تعالی ظلم اور فساد پسند نہیں کرتا.آج ہی یہاں کے مبلغ نے ایک ٹریکٹ چھپوایا ہے جو عیسائیوں کے ایک ٹریکٹ کے جواب
161 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 میں لکھا گیا ہے.یہ ٹریکٹ اصل میں لاہور کے عیسائیوں نے لکھا تھا جسے یہاں کے پادریوں نے مری میں تقسیم کیا.یہ ٹریکٹ نہایت گندے اور جھوٹے اعتراضات سے پر تھا اور اس میں کہا گیا تھا کہ قرآن کریم تو تورات اور انجیل کی تائید کرتا ہے لیکن مسلمان کہتے ہیں کہ تورات اور انجیل دونوں محترف و مبدل ہیں حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے.مسلمان ایسا نہیں کہتے بلکہ صرف احمدی اس بات کا دعوی کرتے ہیں ورنہ مسلمانوں کی کتابیں تو اس بات سے بھری پڑی ہیں کہ تو رات اور انجیل غیر محترف ہیں.یہاں تک کہ شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی جیسے بڑے آدمی نے بھی اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ عیسائیوں اور یہودیوں کی معنوی تحریف تو ثابت ہے لیکن لفظی تحریف ثابت نہیں.چونکہ اُس زمانہ میں عیسائیت کے خلاف مسلمانوں کی تحقیق ابھی مکمل نہیں تھی اور انگریزی اور عبرانی لٹریچر ان کی نظر سے نہیں گزرا تھا اس لیے انہوں نے لکھ دیا کہ قرآن کریم میں جو يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِه 2 آتا ہے اس سے یہ مُراد نہیں کہ وہ لفظی تحریف کرتے تھے بلکہ اس جگہ تحریف سے معنوی تحریف مُراد ہے.پس عام مسلمان تو رات اور انجیل کو محرف و مبدل نہیں کہتے بلکہ صرف ہماری جماعت یہ دعوی کرتی ہے کہ عہد نامہ قدیم اور جدید دونوں محترف و مبدل ہیں.اس زمانہ میں جب انگریزی اور عبرانی لٹریچر شائع ہوا اور احمد یہ جماعت نے اس کا مطالعہ کیا تو اسے معلوم ہوا کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے تو رات اور انجیل میں بڑی بھاری تحریف کی ہے بلکہ بڑے بڑے محقق عیسائیوں اور مشہور پادریوں نے اپنی کتابوں میں خود تسلیم کیا ہے کہ بائبل یقینی طور پر محرف ومبدل ہے اور اس میں کئی قسم کی تبدیلیاں ہو چکی ہیں.پھر اپنے طور پر بھی جب جماعت احمدیہ نے تحقیق کی تو اسے اس تحریف کے کئی ثبوت مل گئے بلکہ جب عیسائیوں پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انجیل کے بعض حوالہ جات کے رو سے اعتراضات کیے تو عیسائیوں نے ان آیتوں کو ہی انجیل میں سے اُڑا دیا یا اُن میں ایسی تبدیلی کر دی کہ جس کی وجہ سے ان پر اعتراض نہ ہو سکے.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیوں پر ایک اعتراض یہ کیا کہ انجیل سے ثابت ہے کہ یروشلم میں ایک تالاب تھا جس کا پانی خدا تعالیٰ کا ایک فرشتہ آسمان سے اتر کر ہلا دیا کرتا تھا اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ جو کوئی بیمار اُس حوض کے پانی سے غسل کر لیتا تھا وہ اچھا ہو جاتا تھا.آپ نے لکھا کہ معلوم ہوتا ہے حضرت مسیح جو بیماروں کو اچھا کیا کرتے تھے تو وہ اسی تالاب کے پانی کا اثر تھا.آپ پانی لے کر بیماروں پر چھڑک دیتے ہوں
$ 1958 162 خطبات محمود جلد نمبر 39 گے اور لوگ یہ سمجھتے ہوں گے کہ ہم مسیح کے معجزہ سے شفایاب ہوئے ہیں.جب عیسائیوں پر یہ اعتراض ہوا تو انہوں نے بعد کے ایڈیشنوں سے اس عبارت کو ہی نکال دیا.چنانچہ ہمارے پاس وہ اجھیلیں بھی موجود ہیں جن میں یہ عبارت درج ہے اور وہ انجیلیں بھی موجود ہیں جن میں سے یہ عبارت نکال دی گئی ہے.اب اگر انجیل ان کے نزدیک خدا کی کتاب تھی تو وہ اس واقعہ کو کیوں نکالتے.اور جب یہ واقعہ نکل گیا تو ثابت ہو گیا کہ انجیل محترف و مبدل ہو چکی ہے.غرض عیسائیوں کے اس ٹریکٹ کا ہمارے مبلغ نے جواب شائع کیا ہے.یہاں کی جماعت کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ اس ٹریکٹ کی تقسیم میں حصہ لیں اور تمام لوگوں تک اسے پہنچا ئیں.اگر پندرہ میں خدام مل کر یہ کام کریں تو نہایت آسانی سے ہر آدمی تک یہ ٹریکٹ پہنچایا جا سکتا ہے.لیکن ی عیسائیوں کو چونکہ امریکہ سے روپیہ ملتا ہے اور ہمارے پاس اتنا روپیہ نہیں اس لیے جس شخص کو بھی یہ ٹریکٹ دیں اُس سے یہ وعدہ لے لیں کہ وہ آگے آٹھ دس آدمیوں کو یہ ٹریکٹ ضرور پڑھائے گا تا کہ یہ سارے شہر میں پھیل جائے اور عیسائیوں کی پھیلائی ہوئی غلط بیانیوں کا ازالہ ہو جائے.دوسری چیز جس کی طرف میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آجکل ہمارا ملک ایک بڑی مصیبت میں سے گزر رہا ہے اور ملکی سیاسیات اور حالات میں ایسی الجھنیں پیدا ہوگئی ہیں جن کی وجہ سے لوگوں میں بڑی بے چینی پائی جاتی ہے.مثلاً کشمیر کے لیڈروں میں سے چودھری غلام عباس صاحب نے اعلان کیا ہے کہ ہمارے جنتے جائیں گے اور جنگ بندی کی سرحد کو عبور کر کے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو جائیں گے.اب جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ پاکستان سے جتھے جائیں اور جنگ بندی کی لائن کو عبور کر کے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو جائیں اس مصیبت کو دیکھ کر حکومت ان کی جتھوں کو روکنے اور لیڈروں کو گرفتار کرنے کی کوشش کر رہی ہے.مگر پھر بھی آج کے اخبار میں لکھا تھا کہ لوگوں میں بڑا جوش پایا جاتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اس حد کو عبور کر کے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو جائیں.ہماری حکومت کے ذمہ دار افراد کو یہ مصیبت اس لیے پیش آئی ہے کہ وہ انگریزوں اور کی امریکنوں سے ڈرتے ہیں اور پھر ابھی تک وہ جنگ کے لیے پوری طرح تیار بھی نہیں.پاکستانی فوج کے سپاہی تو بڑے بہادر اور دلیر ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ ابھی تک ان کے پاس سامانِ جنگ کافی نہیں ہے اور نہ اس سامان کو تیار کرنے والے کارخانے ابھی خاطر خواہ تعداد میں ہیں.اگر جتھے جنگ بندی
$1958 163 خطبات محمود جلد نمبر 39 کی سرحد کو عبور کر کے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو جائیں تو ہندوستان کی فوجیں لازماً اسے پاکستان کے اندر داخل ہونے کا بہانہ بنالیں گی اور وہ لوگ شور مچادیں گے کہ ہم تو محض دفاع کے لیے اندر آئے ہیں.یہ کہہ دینا کہ یہ جتھے نہتے ہوں گے اور مقابلہ نہیں کریں گے ایک بے حقیقت بات ہے.اگر نہتے آدمی بغیر پاسپورٹ لیے امریکہ یا انگلستان میں داخل ہوں تو کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ انہیں اپنے ملک میں داخل ہونے کی اجازت دے دیں گے؟ اگر پاسپورٹ کے بغیر ان کے ملک میں کوئی شخص داخل ہو تو وہ فورا اسے گرفتار کر لیں گے.اگر اکیلا آدمی ہو گا تو پولیس اسے پکڑلے گی اور اگر دو چار سو یا ہزار دو ہزار آدمی ہوں گے تو فوج ان پر گولی چلا دے گی اور کوئی غیر جانبدار یہ نہیں کہے گا کہ حکومت نے اپنے قانونی اختیارات سے تجاوز کیا ہے.ہر شخص کہے گا کہ یہ اس کے مستحق تھے کیونکہ انہوں نے خود قانون تو ڑا ہے.پس اگر ہمارے آدمی سرحد کو عبور کر کے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو جائیں تو خواہ وہ بالکل نہتے ہوں اور خواہ وہ کسی کا مقابلہ نہ کریں پھر بھی غیر قوموں کی ہمدردی ہندوستان کے ساتھ ہوگی اور پاکستان کی ایسا چھوٹا اور کمزور ملک ہے کہ وہ غیر قوموں کی آواز کا مقابلہ نہیں کر سکتا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ روس کی ایسا کر رہا ہے، امریکہ ایسا کر رہا ہے مگر وہ بڑی بھاری طاقتیں ہیں جو غیر قوموں کے اعتراضات کی کوئی پر وا نہیں کرتیں.پھر روس کے ارد گرد چھوٹے چھوٹے ملک میں مگر پاکستان جس ملک کا ہمسایہ ہے اور جس کے ساتھ لڑائی کرنے سے وہ بچنا چاہتا ہے وہ اس سے پانچ سات گنا بڑا ہے.پاکستان کی کلی آبادی آٹھ کروڑ ہے اور ہندوستان کی آبادی چالیس کروڑ ہے.گویا وہ پاکستان سے پانچ گنا زیادہ ہے.پھر سامان بھی ابھی تک ہندوستان کے پاس زیادہ ہے.اگر صرف تعداد کی کمی بیشی کا سوال ہو لیکن سامان ایک جیسا ہو تب بھی ایمان اور یقین کی طاقت ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے بڑی بڑی کی طاقتوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے.چنانچہ صحابہ کے زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ جس نوعیت کے سامان صحابہ کے پاس تھے ویسے ہی کفار مکہ کے پاس تھے اور ویسے ہی رومیوں اور ایرانیوں کے پاس تھے.یہ نہیں تھا کہ ایک طرف تیر ہو تو دوسری طرف بندوق ہو یا ایک طرف تلوار ہو تو دوسری طرف مارٹر ہو.اگر تلوار تھی تو دونوں طرف تلوار تھی ، اگر نیزے تھے تو دونوں طرف نیزے تھے ، اگر گھوڑے تھے تو دونوں طرف گھوڑے تھے ،اگر اونٹ تھے تو دونوں طرف اونٹ تھے.مسلمان صرف تعداد میں کم تھے مگر چونکہ ان کے اندر ایمان راسخ پایا جاتا تھا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ ایک مومن دس کفار کا مقابلہ
164 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 کر سکتا ہے.3 اگر پاکستان کے رہنے والوں میں بھی وہی ایمان ہوتا جو صحابہ میں پایا جاتا تھا اور اگر ی ان کے دشمن کے پاس بھی ویسے ہی سامان ہوتے جیسے ان کے پاس ہیں تو آٹھ کروڑ آدمی اسی کروڑ کا ی مقابلہ کر سکتا تھا بلکہ روم کی لڑائیوں میں تو ایک ایک آدمی نے ہزار ہزار کا بھی مقابلہ کیا ہے.اس حساب سے تو آٹھ کروڑ آدمی اسی ارب کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ مسلمانوں میں وہ ایمان کہاں ہے.اگر صحابہ جیسا ایمان ہوتا تو عید کے دن بھی ریڈیو پر کنچنوں کے گانے کیوں سنائے جاتے.میں نے پچھلی عید پر کوئی مفید پروگرام سننے کے لیے دیکھا تو معلوم ہوا کہ ریڈیو سارا دن گانے نشر کرے گا.جن لوگوں کے دلوں سے دین کی عظمت اس قدر اُٹھ گئی ہو کہ وہ دن جو خدا تعالیٰ کے ذکر کے لیے مخصوص ہے اُس میں بھی وہ اپنا کام یہی سمجھیں کہ کچنوں کا گا ناسنیں اور دوسروں کو سنوائیں ، اُن سے کسی اور نیکی کی کیا توقع ہو سکتی ہے.اور جب لوگوں کی ایمانی حالت اس حد تک کمزور ہو چکی ہو تو ہمیں اُن نتائج کی کہاں امید ہوسکتی ہے جو صحابہ نے حاصل کیے.لیکن میں سمجھتا ہوں ایک غلطی پاکستان کی بھی ہے.شیخ عبداللہ کئی سال سے قید میں ہیں اور شیخ عبداللہ ایک انسان ہیں فرشتہ نہیں کہ اُس پر کبھی موت نہیں آسکتی.اس لیے گلیہ شیخ عبداللہ پر انحصار کرنا دانشمندانہ سیاست نہیں سمجھا جاسکتا.شیخ عبداللہ نے 1931ء میں میرے ساتھ مل کر کام شروع کیا لی تھا اور اُس وقت وہ بالکل نو خیز نوجوان تھے اور پھر انہوں نے ایسی تکالیف میں اپنی زندگی گزاری ہے کہ جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا.وہ خطرناک قیدوں میں ڈالے گئے ، انہیں مارا پیٹا گیا اور انہیں فاقوں سے رکھا گیا.ایسے آدمی کی بھلا کتنی عمر ہو سکتی ہے.اس میں کوئی طبہ نہیں کہ گاندھی جی نے بھی اپنی عمر کا بیشتر حصہ جیلوں میں گزارہ ہے مگر انگریزوں میں شرافت اور انسانیت تھی اور وہ کوئی سختی نہیں کرتے تھے مگر شیخ عبداللہ کے متعلق تو خود ہندوؤں نے اعلان کیا ہے کہ ان پر بڑی سختی کی جاتی ہے اور ایسے ایسے ظلم کیے جاتے ہیں جو نا قابل برداشت ہیں.مرد ولا سارا بائی نے اس کے متعلق اعلان کیا.پھر بز از 4 نے اعلان کیا کہ ان پر بڑی سختی کی جاتی ہے، انہیں مارا پیٹا جاتا ہے، انہیں فاقے دیئے جاتے ہیں.اور ان کے بیٹے نے کہا ہے کہ ان کو ایسی جیل میں رکھا گیا ہے جس میں سانپ اور بچھو بڑی کثرت کی سے پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے نہ انہیں نیند آتی ہے اور نہ انہیں کسی اور طرح کا آرام ہوتا ہے.لیکن گاندھی جی کی تو انگریز بڑی خاطریں کیا کرتے تھے اور ان کے آرام کا ہر وقت خیال رکھتے تھے.
خطبات محمود جلد نمبر 39 165 $ 1958 مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ آپ تو بڑے مزے کے لیڈر ہیں کہ سیکنڈ کلاس میں سفر کرتے ہیں.گاندھی جی کو دیکھیے کہ وہ تھرڈ کلاس میں سفر کرتے ہیں.میں نے کہا وہ چالیس کروڑ آدمیوں کے لیڈر ہیں اور جب وہ تھرڈ کلاس کے ڈبہ میں سفر کرنے کے لیے داخل ہوتے کی ہیں تو سب لوگ اُن کے احترام میں کمرہ سے باہر نکل جاتے ہیں.تھرڈ کلاس کا کمرہ سیکنڈ کلاس کے کمرہ سے تین گنا بڑا ہوتا ہے.لوگ اُن کا بستر کمرہ میں بچھا دیتے ہیں اور وہ آرام سے اپنے بستر پر لیٹ کی جاتے ہیں.تم بھی میرے لیے کسی ایسے ہی تھرڈ کلاس کمرہ کا انتظام کرا دو تو میں بھی اُس میں سفر کرنے کی کے لیے تیار ہوں.مگر میرے لیے یہ انتظام نہیں ہو سکتا کیونکہ میں چالیس کروڑ کا لیڈر نہیں بلکہ صرف چار پانچ لاکھ کا ہوں.چنانچہ پارٹیشن سے پہلے جب میں گاندھی جی سے ملا تو وہ مجھے کہنے لگے کہ آب ہندو مسلمانوں میں سمجھوتا کرائیں کیونکہ آپ لیڈر ہیں.میں نے کہا یہ تو ٹھیک ہے کہ میں لیڈر ہوں مگر سوال یہ ہے کہ میں کتنے آدمیوں کا لیڈر ہوں.صرف چار پانچ لاکھ آدمی ایسا ہے جو مجھے اپنا لیڈر تسلیم کرتا ہے.لیکن آپ کا احترام تو چالیس کروڑ باشندے کرتے ہیں.پس آپ کی بات کا جو اثر ہوسکتا ہے وہ میری بات کا نہیں ہو سکتا.اگر پچاس لاکھ کا بھی میں لیڈر ہوتا تب بھی آپ کا اتنی گنا زیادہ اثر ہوتا.مگر اب تو آپ کا آٹھ سو گنا زیادہ اثر ہے.اس لیے ہندو مسلم سمجھوتا کے لیے جو آپ کی کوششوں کا اثر ہو سکتا ہے وہ میری کوشش کا نہیں ہوسکتا.چنانچہ آخر وہ مان گئے کہ یہ بات ٹھیک ہے.تو گاندھی جی کا ان باتوں میں مقابلہ کرنا درست نہیں.وہ اگر بیمار ہوتے تو وائسرائے کا پرائیویٹ سیکرٹری جو گورنر کے برابر ہوتا تھا وائسرائے کی طرف سے پھل اور تھے ان کے پاس لے جاتا تھا لیکن ہمیں سوائے پتھروں کے اور کیا ملتا ہے.مسلمانوں میں سے صرف مولانا محمد علی صاحب جو ہر ایسے تھے جنہیں انگریزی حکومت کی عزت کی نگاہ سے دیکھتی تھی اور ان کا بڑا احترام کرتی تھی.چنانچہ جب وہ کانگرس سے علیحدہ ہوئے اور بیمار ہو کر ہسپتال میں داخل ہوئے تو روزانہ ہسپتال میں وائسرائے کی طرف سے انہیں تحفہ کے طور پر پھل اور پھول جاتے تھے مگر باقی لوگ کال کوٹھڑیوں میں بندر کھے جاتے ہیں.خود پنڈت نہرو کی بہن کے متعلق ایک کتاب میں میں نے پڑھا کہ جب اُن کو جیل کی کال کوٹھڑی میں بند کرنے کے لیے لے گئے تو ساٹھ ستر عورتیں اُن کے ساتھ اور بھی تھیں.ان سب نے افسروں کا مقابلہ کیا اور ان سے جنگ کی اور آخر جیل خانہ کے افسروں نے انہیں کال کوٹھڑیوں میں سے نکال لیا.یہ جرات آخر انہیں اسی
$ 1958 166 خطبات محمود جلد نمبر 39 لیے ہوئی کہ وہ جانتی تھیں کہ چالیس کروڑ آدمی ہماری پشت پر ہے ورنہ اکیلے آدمی میں مقابلہ کی جرات کی ہی کہاں ہوتی ہے اور اگر وہ مقابلہ کرے تو کس اُمید پر کرے؟ پس گاندھی جی اور پنڈت نہرو کے پیچھے چالیس کروڑ آدمی ہوتا تھا.اگر انگریز ہندوستان سے بھاگا ہے تو کچھ تو اپنی شرافت کی وجہ سے بھاگا ہے اور کچھ اس وجہ سے بھاگا ہے کہ چالیس کروڑ آدمی اُس سے عدم تعاون کر رہا تھا.شروع میں جب گاندھی جی ہندوستان میں نئے نئے آئے اور رولٹ ایکٹ پر شور اُٹھا تو گاندھی جی نے اعلان کیا تھا کہ اگر سارا ملک میرا ساتھ دے تو میں سال بھر میں ہندوستان سے انگریزوں کو نکال سکتا ہوں.میں 1924ء میں جب انگلینڈ گیا تو رستہ میں اٹلی میں مسولینی 5 سے بھی ملا.وہ اُس وقت ڈکٹیٹر نہیں تھا صرف وزیر اعظم تھا.مسولینی نے مجھ سے دورانِ گفتگو میں پوچھا کہ گاندھی کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ سینٹ (SAINT) ہے یا پالیٹیشن (Politician) ہے؟ میں نے کہا مجھے تو اُن سے اختلاف ہے اور میں اس کے متعلق تفصیلاً اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا ہوں لیکن اس وقت میں اُن کی صرف ایک بات بتا دیتا ہوں.گاندھی جی نے کہا تھا کہ اگر سارا ہندوستان میرے ساتھ مل جائے تو میں ایک سال میں انگریز کو ہندوستان سے نکال سکتا ہوں.حالانکہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ چالیس کروڑ آدمی ایک سال کے اندر اندر کسی نئے لیڈر کے ساتھ نہیں مل سکتا.اس کے لیے بہر حال ایک لمبی کی جدو جہد کی ضرورت تھی.پس اگر تو یہ بات انہوں نے محض اس لیے کہی کہ لوگوں میں ایک بیداری پیدا ہوتی جائے ورنہ وہ جانتے تھے کہ ایسا ہونا ناممکن ہے تب تو ان کو پالیٹیشن کہنا پڑے گا سینٹ نہیں کہہ سکتے.اور اگر وہ سمجھتے تھے کہ سارا ہندوستان ایک سال میں میرے ساتھ مل جائے گا تو پھر وہ ایک کم عقل سینٹ تھے پالیٹیشن نہیں تھے.مسولینی نے یہ بات سن کر میری تصدیق کی اور کہا کہ میں بات سمجھ گیا ہوں.اس کے بعد میں انگلینڈ گیا تو ٹائمنز کا ایڈیٹر مجھ سے ملا.اب بھی میں بیماری کے سلسلہ میں یورپ گیا تو وہ مجھ سے ملنے کے لیے آئے تھے.اُس وقت وہ اسٹنٹ ایڈیٹر تھے مگر اب وہ ایڈیٹر بن چکے ہیں.سرفرینک ڈگلس اُن کا نام ہے.انہوں نے بھی مجھ سے یہی سوال کیا کہ گاندھی جی کے متعلق پ کا کیا خیال ہے؟ میں نے انہیں بھی مسولینی والا قصہ سنایا.وہ سن کر کہنے لگے میں سمجھ گیا وہ ہرگز سینٹ نہیں وہ ایک چالباز پالیٹیشن ہیں.اگر وہ یقین رکھتے تھے کہ ایک سال کے اندر اندر سارا ہندوستان
$1958 167 خطبات محمود جلد نمبر 39 میرے ساتھ مل سکتا ہے تو وہ ایک کم عقل سینٹ ہیں اور اگر وہ سمجھتے تھے کہ میں لوگوں کو اس ترکیب سے بیدار کرنے میں کامیاب ہو جاؤں گا تو وہ ایک چالباز پالیٹیشن ہیں.میں نے کہا اب مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں آپ نے خود ہی ان کے متعلق ایک فیصلہ کر لیا ہے.تو اصل بات یہ ہے کہ انگریز کا معاملہ بالکل اور رنگ کا تھا اور انڈیا کا معاملہ بالکل اور ہے.پس ان دونوں کا آپس میں کوئی مقابلہ ہی نہیں کیا جاسکتا.میں نے جو کہا تھا کہ اس معاملہ میں گورنمنٹ پاکستان کی بھی غلطی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بیشک یہ اُس کا حق ہے کہ وہ جتھوں کو رو کے لیکن اس کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ لوگوں کو تسلی دلانے کے لیے بتائے کہ کشمیر کے معاملہ کو ایک معقول عرصہ میں حل کرنے کا اُس کے پاس کیا ذریعہ ہے تا کہ لوگوں کو تسلی ہو جائے اور وہ جوش میں دیوانگی کی کوئی حرکت نہ کریں.شیخ عبد اللہ کئی سال سے قید ہیں اور سارا جی پاکستان کشمیر کی آزادی کے لیے شور مچا رہا ہے مگر گورنمنٹ اس معاملہ میں عملاً خاموش ہے.وہ کہتی تو ی رہتی ہے کہ ہم کشمیر کو آزاد کرائیں گے لیکن بتائی نہیں کہ اس کے پاس کونسی ترکیب ہے.صرف یہ کہتی ہے کہ ہم یو.این.او میں فیصلہ کرائیں گے حالانکہ سارا پاکستان جانتا ہے کہ یو.این.او کے بڑے ممبر یعنی امریکہ اور انگلینڈ اور روس بھارت کے ساتھ ہیں پاکستان کے ساتھ نہیں اور وہ جتنا ہو گا اس معاملہ کولٹکانے کی کوشش کریں گے.پس پاکستانی گورنمنٹ کو کوئی نہ کوئی معقول مؤقف اختیار کرنا چاہیے خالی پکڑنا نہیں کی چاہیے.اس سے لوگوں کا جوش نہیں دے گا بلکہ وہ اور زیادہ دیوانے ہوتے چلے جائیں گئے“.1 : المائدة : 3 2 : النساء : 47 الفضل 9 جولائی 1958 ء ) 3 : إِن يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صُبِرُونَ يَغْلِبُوا مَا تَتَيْنِ (الانفال : 66) 4 : بزاز: پنڈت پریم ناتھ بزاز.کشمیر کے راہنما اور اخبارنو لیں.5 مسولینی (مسولینی بنی ٹو - Mussoilni Benito)1883ء تا1945 ء اطالوی آمر.ایک لوہار کا بیٹا تھا.سوشلسٹ کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا.1919ء میں اپنی جماعت بنائی اکتوبر 1922ء میں وزیر اعظم بنا جنگ عظیم دوم میں جرمن کی طرف سے شامل ہوا.اتحادیوں نے سلی پر قبضہ کر لیا جس کے نتیجہ میں اس کی ساکھ ختم ہوگئی.1943ء میں مستعفی ہونے پر مجبور ہوا.بعد میں اس نے شمالی اٹلی میں متوازی حکومت بنالی اپریل 1945ء میں اس کو گرفتار کر کے گولی ماردی گئی.اس کی لاش کو میلان میں لے جا کر سڑکوں پر گھسیٹا گیا.
$ 1958 168 20 خطبات محمود جلد نمبر 39 جماعت کے نوجوانوں کو یا درکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد عیسائیت کا استیصال ہے تمہارا فرض ہے کہ جدو جہد اور اپنے نیک نمونہ کے ذریعہ ہمیشہ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے کوشاں رہو (فرمودہ 11 جولائی 1958ء بمقام مری) تشہد، تعوّ ذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ، جمعہ کی نماز سے عموماً چھوٹا ہوتا تھا 1 مگر اس زمانہ میں لوگوں کو زیادہ لمبے خطبے سننے کی عادت ہو گئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ عمل کم کرتے ہیں اور خطیب کو ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ وہ اپنے خطبہ کو لمبا کرے تاکہ لوگوں پر اثر ہو لیکن کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے لوگوں میں عمل کرنے کا بہت زیادہ جذ بہ پایا جاتا تھا اور وہ چھوٹی سے چھوٹی بات سنتے ہی فوراً اُس پر عمل کرنے کے لیے تیار ہو جایا کرتے تھے.اس لیے ضرورت نہیں ہوتی تھی کہ اُن کے سامنے زیادہ لمبی بات بیان کی جائے.عربی زبان میں ایک ضرب المثل بھی ہے کہ خَيْرُ الْكَلَامِ مَا قَلَّ وَ دَلَّ یعنی اچھے سے اچھا کلام وہی ہوتا ہے جو چھوٹے سے چھوٹا بھی ہو اور پھر دلیل بھی اپنے ساتھ رکھتا ہو.پس حقیقت یہی ہے کہ اگر کسی چھوٹی بات پر بھی عمل کر لیا جائے تو ی
$1958 169 خطبات محمود جلد نمبر 39 وہ کسی ایسے خطبہ سے بہت زیادہ بہتر ہوتی ہے جو لمبا تو ہومگر اُس پر عمل نہ کیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ سارا قرآن ابو جہل کی وجہ سے نازل ہوا ہے ورنہ اگر سب لوگ کی ابوبکر جیسے ہی ہوتے تو بسم اللہ کی ب ہی ان کی ہدایت کے لیے کافی تھی.2 ”ب“ کے معنے ساتھ کے ہیں اور دین کا سارا خلاصہ اسی میں آجاتا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو جائے.اب مجھے یہ یاد نہیں رہا کہ آپ یہ بات اپنی طرف سے بیان فرمایا کرتے تھے یا کسی پہلے بزرگ کی بیان فرمایا کرتے تھے.بہر حال آپ فرماتے تھے کہ اگر ابو بکر جیسے لوگ ہی پائے جاتے تو ان کے لیے اتنے بڑے قرآن کی ضرورت ہی تھی.اُن کے لیے صرف بسم اللہ کی ” ہی کافی تھی.وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو جاتے اور ہدایت پا جاتے.تو انسان اگر کوشش کرے تو چھوٹی سے چھوٹی بات سے بھی فائدہ اُٹھا سکتا ہے.مثنوی رومی میں لکھا ہے کہ محمود غزنوی نے ایک دفعہ ایک مقام پر حملہ کیا.وہ ایک دن بیٹھا ہوا کی تھا کہ اُس نے اچانک ایک پہاڑ کی طرف دیکھا.ایاز نے اُسی وقت فوج کا ایک دستہ لیا اور اُس طرف نی کو چلا گیا.چونکہ وہ ایاز سے بہت محبت کرتا تھا اور لوگ اس پر حسد کرتے تھے اس لیے جب وہ فوج کا دستہ لے کر اُدھر چلا گیا تو انہوں نے محمود سے کہا کہ حضور! دیکھیے ایاز کیسا بے وفا ہے آج ہی خطرے کا وقت تھا اور آج ہی وہ فوج کا دستہ لے کر کہیں باہر چلا گیا ہے.محمود نے کہا اُسے آنے تو دو پھر پتا لگ جائے گا کہ وہ کیوں گیا تھا.تھوڑی دیر کے بعد وہ آیا تو دشمن کے دو آدمی اُس کے ساتھ تھے جنہیں اُس کی نے گرفتار کیا ہوا تھا.محمود نے کہا تم اچانک فوج کا دستہ لے کر کدھر چلے گئے تھے ؟ اُس نے کہا حضور کی نے جواچانک اس پہاڑ کی طرف دیکھا تو میرے دل میں خیال آیا کہ میرا آقا کوئی حرکت بلا وجہ نہیں کیا کرتا.ضرور اس کی تہہ میں کوئی بات ہو گی.چنانچہ میں ایک دستہ فوج لے کر اُدھر چلا گیا.وہاں میں نے دیکھا کہ پہاڑی درہ میں دشمن کے یہ دو آدمی چھپے بیٹھے تھے اور ان کی سکیم یہ تھی کہ جب حضور نیچے سے گزریں تو اوپر سے پتھر گرا کر حضور کو ہلاک کر دیں.اب ان دونوں آدمیوں کو میں گرفتار کر کے لے آیا ہوں.محمود نے اُن لوگوں کی طرف دیکھا جنہوں نے اس کی شکایت کی تھی اور کہا بتاؤ تم وفا دار ہو یا سیہ وفادار ہے؟ میں نے اسے کچھ کہا نہیں صرف آنکھ اُٹھا کر میں نے اُس طرف دیکھا تھا مگر یہ اُسی وقت فوج کا ایک دستہ اپنے ساتھ لے کر اُس طرف کو نکل گیا اور دشمن کے آدمیوں کو گرفتار کر کے لے آ کیونکہ اس نے سمجھا کہ محمود کوئی لغو کام نہیں کیا کرتا.اس نے جو پہاڑ کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھا ہے تو
$1958 170 خطبات محمود جلد نمبر 39 اس میں ضرور کوئی بات ہوگی.تو دیکھو! اعظمند لوگ ہر زمانہ میں ہوتے ہیں جو چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی فائدہ اُٹھا لیتے ہیں.پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہم میں یہ خوبی نہ ہو اور ہم بھی چھوٹی چھوٹی باتوں سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہ کریں.اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عیسائیت کے فتنہ کے استیصال کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث فرمایا گیا ہے اور ہماری جماعت کا بھی فرض ہے کہ وہ عیسائیت کو مٹانے کے لیے ہمیشہ کوشش کرتی رہے.آخر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو قیامت تک نہیں رہنا تھا لیکن عیسائیوں کا فتنہ ایک لمبے عرصہ تک رہنا تھا.پس جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپرد یہ کام کیا گیا تو در حقیقت یہ کام آپ کی جماعت کے سپرد کیا گیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو جب تک زندہ رہے عیسائیت کی تردید فرماتے رہے لیکن اب یہ ہماری جماعت کا کام ہے کہ وہ عیسائیوں کے فتنہ کو دور کرے اور اس کام کو تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرے.میں دیکھتا ہوں کہ بعض نوجوان عیسائیوں سے ڈر کر اُن کا تمدن اختیار کر لیتے ہیں اور پھر اس پر بڑا فخر کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بڑا اچھا کام کیا ہے حالانکہ جب وہ عیسائیت کی نقل کرتے ہیں تو اپنے آپ پر لعنت کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے منہ سے اپنے دین کو جھوٹا قرار دے رہے ہوتے ہیں.ہماری جماعت کے نوجوانوں کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتابوں میں بار ہا تحریر فرمایا ہے کہ مجھے خدا نے عیسائیت کے استیصال کے لیے مبعوث فرمایا ہے 3 اور یہ کام صرف آپ کی ذات کے ساتھ مخصوص نہیں تھا بلکہ آپ کے سپرد اس عظیم الشان کام کے کرنے کے یہ معنے تھے کہ آپ کے بعد آپ کی جماعت کا یہ فرض ہوگا کہ وہ اس و کام کو سنبھالے اور عیسائیت کو مٹانے کی کوشش کرے.چنانچہ آپ لوگوں میں سے ہی کچھ نو جوان افریقہ گئے اور وہاں انہوں نے عیسائیت کے خلاف ایسی جدو جہد کی کہ یا تو ایک زمانہ ایسا تھا جب یہ سمجھا جاتا تھا کہ سارا افریقہ عیسائی ہو جائے گا اور یا آج ہی ایک اخبار میں میں نے ایک انگریز خاتون کا مضمون پڑھا جس میں اُس نے لکھا ہے کہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام افریقہ میں بڑی سرعت سے پھیل رہا ہے.حقیقت یہ ہے کہ یہ جماعت جو پہلے پہل ٹا نگانیکا میں پھیلنی شروع ہوئی تھی اب مشرقی افریقہ کے اکثر علاقوں میں پھیلتی ہوئی نظر آ رہی ہے.
خطبات محمود جلد نمبر 39 171 $ 1958 اسلام کی یہ تبلیغ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے مبلغوں کی وجہ سے ہی ہو رہی ہے.1927ء میں ہم نے وہاں مشن قائم کیے تھے جن پر اب اکتیس سال کا عرصہ گزررہا ہے.اس عرصہ میں خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کی کوششوں میں ایسی برکت ڈالی کہ اب خود اس انگریز نے تسلیم کیا ہے کہ چارسال کے عرصہ میں پہلے سے دس گنا لوگ مسلمان ہو چکے ہیں.اگر ہمارے نوجوان یورپ اور کی افریقہ کے عیسائیوں میں تہلکہ مچاسکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اگر یہاں کوشش کی جائے تو اس جگہ کے عیسائی بھی اسلام کے مقابلہ سے مایوس نہ ہو جائیں.لارڈ ہیڈلے جو کسی زمانہ میں پنجاب کے گورنر بھی رہ چکے ہیں جب واپس گئے تو افریقہ میں کی سے ہوتے ہوئے لندن گئے.وہاں پہنچ کر انہوں نے ایک تقریر کی جس میں کہا کہ میں افریقہ میں اتنا بڑا تغیر دیکھ کر آیا ہوں کہ اب میں نہیں کہہ سکتا کہ مسلمان عیسائیت کا شکار ہیں یا عیسائی اسلام کا شکار ہیں.ہمارے وہ مبلغ جنہوں نے ان علاقوں میں کام کیا کوئی بڑے تعلیم یافتہ نہیں تھے مگر جب و خدا تعالیٰ کا نام پھیلانے کے لیے نکل گئے تو خدا نے اُن کے کام میں برکت ڈالی اور کیلے اکیلے آدمی نے بڑے بڑے علاقوں پر اثر پیدا کر لیا اور انہیں اسلام کی خوبیوں کا قائل کر لیا.مگر اب وہ لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ اور آدمی بھی آئیں جو ان علاقوں میں تبلیغ اسلام کا کام سنبھالیں تا کہ اسلام سارے افریقہ میں پھیل جائے اور یہ کام اُن نوجوانوں کا ہے جو ابھی وہاں نہیں گئے.شروع شروع نی میں تو ایسے نوجوان بھجوائے گئے تھے جنہیں عربی بھی اچھی طرح نہیں آتی تھی مگر رفتہ رفتہ انہوں نے اچھی خاصی عربی سیکھ لی.مولوی نذیر احمد صاحب جنہوں نے وہیں وفات پائی ہے، نیر صاحب کے بعد بھجوائے گئے تھے اور بی.ایس سی فیل تھے اور عربی بہت کم جانتے تھے مگر پھر انہیں ایسی مشق ہوگئی کہ وہ عربی زبان میں گفتگو بھی کر لیتے تھے اور بڑی بڑی کتابوں کا بھی مطالعہ کر لیتے تھے بلکہ آخر میں تو انہوں نے عربی کی اتنی کتابیں جمع کر لی تھیں کہ جو اعتراض ہوتا اُس کا جواب وہ فوراً اُن کتابوں میں سے نکال کر پیش کر دیتے.وہاں مالکیوں کا زور ہے اور وہ لوگ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں.انہوں نے کتابوں میں سے نکال کر دکھا دیا کہ امام مالک بھی یہی کہتے ہیں کہ نماز میں ہاتھ باندھنے چاہییں جس پر وہ لوگ بڑے حیران ہوئے اور انہیں یہ بات تسلیم کرنی پڑی کہ آپ کی بات درست ہے.اب بھی وہاں سے خط آیا ہے کہ ہمارا ایک مبلغ جو مولوی فاضل ہے اُس سے وہاں کے مولویوں نے بحث کی.
172 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 وہاں کے علماء عربی زبان خوب جانتے ہیں اور ہمارا یہ مبلغ زیادہ عربی نہیں جانتا تھا مگر چونکہ دل میں ایمان تھا اس لیے مقابلہ کے لیے تیار ہو گیا اور فیصلہ یہ ہوا کہ عربی میں مباحثہ ہو.چنانچہ عربی زبان میں مباحثہ ہوا اور نتیجہ یہ ہوا کہ مخالف مولوی سب بھاگ گئے اور انہوں نے کہا ہم احمدیوں سے بحث نہیں کر سکتے.یہ لوگ تو پاگل ہیں جنہیں ہر وقت مذہبی باتیں کرنے کا ہی جنون رہتا ہے.تو یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ ہمیں کچھ آتا نہیں.جب انسان خدا تعالیٰ کے دین کی تائید کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے اور وہ کسی قسم کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ خود اُس کی مدد فرماتا ہے اور اُس کی مشکلات کو دور فرما دیتا ہے.خواجہ کمال الدین صاحب کو ہی دیکھ لو انہیں نماز پڑھانی بھی نہیں آتی تھی مگر رفتہ رفتہ انہوں نے ایسی قابلیت پیدا کر لی کہ مشہور لیکچرار بن گئے.مولوی محمد علی صاحب بھی گوایم.اے، ایل.ایل.بی تھے اور کالج کے پروفیسر تھے مگر عربی سے انہیں زیادہ مکس نہیں تھا لیکن رفتہ رفتہ انہوں نے ایسی ترقی کی کہ قرآن کی تفسیر لکھ ڈالی.تو جب انسان کو کسی کام کی دھت لگ جائے وہ اُس میں ترقی حاصل کر لیتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے بعض مولوی بھی اپنی مدد کے لیے رکھے ہوئے تھے مگر ان کی باتوں کو استعمال کرنے کے لیے بھی تو لیاقت کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ ہمارے ملک میں سینکڑوں مولوی پھرتے ہیں وہ کیوں کوئی تفسیر نہیں لکھ سکتے ؟ ڈاکٹر عبد الحکیم پٹیالوی نے بھی اسی شوق کی وجہ سے ترقی کی اور اُس نے قرآن کی تفسیر لکھ دی.اُس نے حضرت خلیفہ اول سے قرآن سیکھا اور آپ کے درسوں میں شامل ہوتا رہا.پھر خود بھی کتابوں کا مطالعہ کرتا رہا اور آخر اتنی ترقی کر لی کہ مفسر بن گیا.پس جماعت کے سب دوستوں کو چاہیے کہ وہ اپنی کوشش اور جدو جہد اور نیک نمونہ کے ذریعہ سے عیسائیت کو شکست دینے کی کوشش کریں.یہ مت سمجھو کہ عیسائیت تو ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے ہم اس کو شکست دینے میں کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں.آج ہی میں قرآن پڑھ رہا تھا کہ مجھے اس کی میں یہ پیشگوئی نظر آئی کہ عیسائیت آخر شکست کھائے گی اور وہ دنیا سے مٹا دی جائے گی.پس عیسائیت کی ظاہری ترقی کو دیکھ کر مت گھبراؤ.اللہ تعالیٰ اسلام کی ترقی کے سامان پیدا فرمائے گا اور کفر کو شکست دے گا.ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے اندر ایمان پیدا کرو.اور اُس مقصد کو پورا کرنے کے لیے کھڑے ہو جاؤ جس کے لیے خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ہے“.
$1958 173 خطبات محمود جلد نمبر 39 1 : مسلم كتاب الجمعة باب تخفيف الصّلوة وَالْخُطْبَةِ 2: ملفوظات جلد 2 صفحہ 233 (مفہوماً) 3 : کتاب البریہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 262 حاشیہ الفضل 25 جولائی 1958 ء )
$ 1958 174 21 خطبات محمود جلد نمبر 39 قرآن کریم کی رو سے اسلام کی تبلیغ صرف چند افراد کا نہیں بلکہ ساری جماعت کا فرض ہے جماعت کو تبلیغ کی طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے دُعائیں کرنی چاہیں کہ وہ ہماری زبانوں میں اثر پیدا کرے (فرمودہ 8 اگست 1958ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی کہ: وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَةً كَمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَافَةَ -1 اس کے بعد فرمایا: قرآن کریم میں بعض ایسے الفاظ پائے جاتے ہیں کہ اگر ان کی صحیح تو جیبہ مد نظر نہ رکھی جائے تو دشمنوں کے لیے اعتراض کا موقع پیدا ہو جاتا ہے.مثلاً یہی آیت جس کی میں نے تلاوت کی ہے اس میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم سب مشرکوں سے قتال کرو.جیسا کہ وہ سب کے سب تم سے قتال کر رہے ہیں.اب اس جگہ قتال کے یہ معنے نہیں لیے جا سکتے کہ تلوار لے کر دشمنوں کا مقابلہ کرو کیونکہ اول تو آجکل تلوار کی جنگ کا زمانہ ہی نہیں.اب تو ہوائی جہازوں اور ایٹم بموں کا زمانہ ہے اور پھر آجکل
$1958 175 خطبات محمود جلد نمبر 39 گفار مسلمانوں سے تلوار کی کوئی لڑائی نہیں لڑرہے کہ مسلمانوں کے لیے بھی ان سے جنگ کرنا ضروری ہو.پس اس جگہ قتال کے معنی ظاہری جنگ کے نہیں بلکہ مذہبی مقابلہ اور اسلام کی اشاعت کے ہیں.اور یہ بات ظاہر ہے کہ مخالفین اسلام ہمیشہ مذہبی وسو سے پیدا کر کے لوگوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.پس قَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَافَةً کے معنے یہ ہوئے کہ تم غیر مسلموں میں تبلیغ اسلام کرو.اور یاد رکھو کہ یہ تم میں سے صرف چند افراد کا فرض نہیں بلکہ ساری مالی جماعت کا فرض ہے کہ وہ اس کام میں حصہ لے.گاف کے یہی معنے ہیں کہ کوئی شخص بھی اس حکم کی کی تعمیل سے باہر نہ رہے.اگر دس لاکھ احمدی ہیں اور ان میں سے نو لاکھ نانوے ہزار نوسونا نوے آدمی اس فرض کو ادا کرتے ہیں اور صرف ایک شخص تبلیغ نہیں کرتا تب بھی جماعت کے لوگ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ سارے کے سارے تبلیغ اسلام کر رہے ہیں.وہ اُسی وقت اپنے فرض سے عہدہ برآ ہو سکتے ہیں جب وہ اس ایک شخص کو بھی اپنے ساتھ شامل کریں کیونکہ قرآن کریم کی ہدایت یہ ہے کہ مشرکوں کے مقابلہ میں ساری کی ساری جماعت کو کھڑا ہونا چاہیے اور ہر فردکوان میں تبلیغ کرنی چاہیے.میں نے آج سے پچیس سال پہلے ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر ساری جماعت سے یہ عہد لیا تھا کہ وہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو تبلیغ کریں گے اور ان کو احمدی بنانے کی کوشش کریں گے مگر افسوس ہے کہ ہماری جماعت نے ابھی تک اس عہد کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کی.وہ لوگ جنہوں نے اس پر عمل کیا تھا انہوں نے تو فائدہ اُٹھالیا اور وہ کامیاب ہو گئے مگر جنہوں نے عمل نہ کیا اُن کے رشته داراب تک غیر احمدی چلے آ رہے ہیں.اس میں کوئی مجبہ نہیں کہ اب ہماری جماعت اُس وقت سے بہت بڑھ چکی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر میری اس ہدایت پر عمل کیا جاتا اور ہر احمدی اپنے غیر احمدی رشتہ داروں میں تبلیغ پر زور دیتا تو اب تک ہر طرف احمدی ہی احمدی نظر آتے.مثلاً انڈونیشیا ہے وہاں تینتیس سال سے تبلیغ ہو رہی ہے.1925 ء سے وہاں تبلیغ شروع ہوئی تھی اور اب 1958ء ہے.گویا تینتیس سال وہاں تبلیغی مشن کے قائم ہونے پر گزر چکے ہیں لیکن وہاں کے احمدیوں کی تعداد کے متعلق میں نے اپنے لڑکے مرزا رفیع احمد سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ انڈونیشیا میں چندہ دینے والے تو صرف بارہ ہزار ہیں لیکن اگر اُن لوگوں کو بھی شامل کر لیا جائے جو ہماری جماعت سے ہمدردی رکھتے ہیں تو چوبیس ہزار سمجھے جا سکتے ہیں.حالانکہ اس ملک کی آبادی آٹھ کروڑ ہے اور تینتیس
$1958 176 خطبات محمود جلد نمبر 39 سے وہاں تبلیغ ہورہی ہے.اگر صحیح معنوں میں وہاں تبلیغ کی جاتی تو میں سمجھتا ہوں کہ وہاں چھ سات کروڑ احمدی ہونے چاہیں تھے مگر اب تک وہاں صرف بارہ ہزار احمدی ہوئے ہیں.پھر وہاں کی جماعت نے قطع نظر اس کے کہ میں بیمار ہوں اور میرے لیے لمبا سفر کرنا مشکل ہے یہ ریزولیوشن ، (RESOLUTION) پاس کر کے مجھے بھجوا دیا کہ آپ انڈونیشیا تشریف لائیں حالانکہ میری یہ حالت ہے کہ باوجود اس کے کہ ڈاکٹر مجھے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ پھر علاج کے لیے یورپ جائیں میں یورپ کا سفر بھی اختیار نہیں کرتا.پھر میں انڈونیشیا کس طرح جا سکتا ہوں.لیکن بعض دفعہ انسان کی موت کے منہ میں بھی اپنے آپ کو ڈالنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے بشرطیکہ وہ خوش ہو مگر میں ایسی جماعت سے کیا خوش ہو سکتا ہوں جس نے تینتیس سال کے عرصہ میں صرف بارہ ہزار احمدی بنائے ہیں.دانا انسان ہمیشہ پہلے اپنا نمونہ دکھاتے ہیں اور پھر کسی احسان کا مطالبہ کرتے ہیں مگر وہ ایسے آدمی کو جو ستر سال کا ہو چکا ہے اور جس پر سخت بیماری کا بھی حملہ ہو چکا ہے اور جس کے متعلق ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ایک دفعہ پھر یورپ جاؤ اور علاج کرواؤ مگر وہ یورپ میں بھی نہیں جاتا اُسے انڈونیشیا آنے کی دعوت دیتے ہیں جہاں علاج کی کوئی سہولتیں میسر نہیں بلکہ یورپ جیسی سہولتیں تو الگ رہیں وہاں پاکستان جیسی ڈاکٹری سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں.جب میں علاج کے لیے یورپ گیا تھا تو اُس سفر نے میری صحت پر بہت ہی اچھا اثر ڈالا تھا.چنانچہ جب میں واپس آیا تو میری صحت بہت اچھی تھی.اس کے بعد 1955ء بڑا اچھا گزرا، 1956ء بڑا اچھا گزرا اور مری میں میں قرآن کریم کے ترجمہ کا کام کرتا رہا لیکن 1957 میں پھر کچھ تکلیف شروع ہوئی جو اب تک جاری ہے.گو پچھلے دنوں ہومیو پیتھی علاج سے کچھ افاقہ ہوا ہے مگر 1955 ء اور 1956 ء والی حالت ابھی تک پیدا نہیں ہوئی.بہر حال قرآن کریم نے تبلیغ کرنا ہر شخص کا فرض قرار دیا ہے اور قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ تبلیغ دو طرح ہوتی ہے.ایک تو اس طرح کہ بعض خاص خاص لوگ اپنے آپ کو تبلیغ کے لیے وقف کر دیتے ہیں جن کے لیے قرآن کریم میں عاکفین اور مہاجرین کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور ایک تبلیغ اس رنگ میں ہوتی ہے کہ ساری جماعت جب بھی اسے موقع ملے تبلیغ میں حصہ لینے کے لیے تیار رہتی ہے.گویا ایک خاص لوگوں کی جماعت ہوتی ہے اور ایک عام لوگوں کی جماعت ہوتی ہے.گو عام جماعت کے افراد کو بھی قرآن کریم کہتا ہے کہ تم صرف واقفین پر انحصار نہ رکھو بلکہ ساری
$1958 177 خطبات محمود جلد نمبر 39 جماعت کا یہ فرض ہے کہ وہ تبلیغ اسلام کرے اور بغیر استثناء کے ان کا ہر فرد اس میں حصہ لے.اگر ی ہماری جماعت کے افراد صرف اپنے رشتہ داروں کو ہی تبلیغ کریں اور ایک ایک شخص کے ہیں ہیں رشتہ دار بھی سمجھے جائیں تب بھی تھوڑے عرصہ میں ہی ہماری جماعت کی تعداد دو کروڑ تک پہنچ سکتی ہے.بیشک لوگ تمہیں غیروں کو تبلیغ کرنے سے روک سکتے ہیں لیکن کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ اپنی بیوی کو یا اپنے خسر کو یا اپنے سالے کو تبلیغ نہ کرو.اگر تم کس غیر کو تبلیغ کرو تو ممکن ہے وہ تمہیں مارنے پیٹنے لگ جائے لیکن تمہارا اپنا باپ تمہیں نہیں مارے گا، تمہارا بیٹا تمہیں نہیں مارے گا، تمہارا خسر تمہیں نہیں مارے گا.اور اگر تم میں سے ایک ایک شخص کے پچاس پچاس رشتہ دار ہوں اور ہماری جماعت دس لاکھ ہو تو پھر تو تھوڑے عرصہ کی جدو جہد کے نتیجہ میں ہی ہماری جماعت کی تعداد خدا تعالیٰ کے فضل سے پانچ کروڑ تک پہنچ سکتی ہے.اور اگر ہم پانچ کروڑ ہو جائیں تو پھر مخالفت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا.لوگ خود بخود ہماری طاقت کو تسلیم کرنے لگ جائیں گے اور پھر دوسرے ملکوں پر اثر ڈال کر پانچ کروڑ سے دس کروڑ تک تعداد پہنچ سکتی ہے اور ملایا اور انڈونیشیا وغیرہ پر اثر ڈال کر تو یہ تعداد اور بھی بڑھ سکتی ہے.اب بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہماری جماعت کی ترقی کے سامان پیدا کر رہا ہے.چنانچہ فلپائن میں، ڈچ گی آنا میں، فرنچ گی آنا میں اور برٹش گی آنا میں ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے سرعت سے پھیل رہی ہے اور وہاں ہماری تبلیغ پر کوئی اعتراض بھی نہیں کرتا.یہ مخالفت کا جوش کی صرف پاکستان میں پایا جاتا ہے ورنہ امریکہ میں یا انگلینڈ میں یا جرمنی میں یا سوئٹزر لینڈ میں یا فرانس میں یا پین میں یا ٹرینیڈاڈ میں یا ڈچ گی آنا میں یا برٹش گی آنا میں یا فرنچ گی آنا میں جب ہم غیر مسلموں میں تبلیغ کرتے ہیں تو وہاں کے مسلمان اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ ہم اُن کے ملک میں اسلام پھیلا رہے ہیں.بلکہ انڈونیشیا کے لوگوں کی تو یہ حالت ہے کہ 1953ء میں جب ہماری جماعت کے خلاف یہاں فسادات ہوئے تو انڈونیشیا نے اس کے خلاف حکومت پاکستان کے پاس احتجاج کیا جس کے متعلق انکوائری کمیشن کے موقع پر مولویوں نے کہا کہ اصل میں وہ ایک احمدی ایمبیسیڈر تھا جس نے حکومت پاکستان کے پاس پروٹسٹ کیا تھا لیکن خواجہ ناظم الدین صاحب نے اپنی ای گواہی میں تسلیم کیا کہ وہاں کی ایک مشہور سیاسی پارٹی کے لیڈر نے اس بارہ میں ہمارے پاس احتجاج کیا تھا اور گو وہ متعصب آدمی ہے لیکن جب وہاں ان فسادات کی خبریں پہنچیں تو اُس نے
$ 1958 178 خطبات محمود جلد نمبر 39 حکومتِ پاکستان کو لکھا کہ مذہب کے معاملہ میں لوگوں کو جبر سے کام نہیں لینا چاہیے.اسی طرح ہماری جماعت کے دوست اُس سے ملنے گئے تو وہ کہنے لگا کہ میرے پاس تو آپ کی جماعت کا سارا لٹریچر موجود ہے.ڈاکٹر سکارنو نے بھی احمدیوں کی تعریف کی اور جب مولویوں نے اس پر اعتراض کیا تو اُس نے کہا کہ میں تو سمجھتا ہوں کہ میں کسی اسلامی حکومت کا پریذیڈنٹ رہنے کے قابل ہی نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں جماعت احمدیہ کا لٹریچر نہ پڑھوں.کیونکہ اسلام کی خوبیاں مجھے صرف اس جماعت کے لٹریچر سے معلوم ہوتی ہیں.اسی طرح جب اُسے قرآن دیا گیا تو اس نے شکریہ کے ساتھ لیا اور کہانی کہ اس کے ساتھ انڈیکس بھی ہونا چاہیے تا کہ اس کے مضامین کی تلاش میں آسانی ہو.غرض ہماری جماعت کے افراد کو اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی تبلیغ پر زور دینا چاہیے.اس وقت ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے دس لاکھ سے بہت اوپر نکل چکی ہے لیکن اگر دس لاکھ بھی ہو تب بھی اپنے رشتہ داروں کو تبلیغ کر کے تھوڑے عرصہ میں ہی ہماری تعداد کہیں سے کہیں پہنچ سکتی ہے.پاکستان کی آبادی اس وقت آٹھ کروڑ ہے اور دنیا میں عام اصول یہ ہے کہ اگر کسی من جماعت کا تناسب کسی ملک کی آبادی میں ایک فیصدی تک پہنچ جائے تو وہ ملک پر غالب آ جاتی ہے.جرمنی میں جب پروٹسٹنٹ فرقہ کا آغاز ہوا اور لوتھر نے کام شروع کیا تو شروع میں وہ بہت تھوڑے تھے لیکن جب وہ اپنے ملک کی آبادی کا ایک فیصدی حصہ بن گئے تو سارے ملک پر غالب آ گئے.اسی طرح اگر پاکستان میں ہماری تعداد بڑھ جائے اور ہماری منظم جماعت آبادی کا ایک فیصدی ہو جائے تو ہماری جماعت کی طاقت غیروں کو بھی تسلیم کرنی پڑے گی.پس ہماری جماعت کو تبلیغ کی طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے دُعائیں کرنی چاہیں کہ وہ ان کی زبانوں میں اثر پیدا کرے.اسی طرح مبلغوں کے لیے بھی دُعائیں کرون کیونکہ وہ ساری جماعت کا کام کر رہے ہیں اور اُن کے کارناموں کو ہماری جماعت کا ہر فرد اپنی طرف منسوب کرتا ہے.وہ بسا اوقات غیروں کے سامنے بڑے فخر کے ساتھ کہتا ہے کہ ہم غیر ممالک میں اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں ، ہم غیر ممالک میں مساجد بنارہے ہیں لیکن اُس کی اپنی حالت یہ ہوتی ہے کہ کی بعض دفعہ وہ چندوں میں بھی پورا حصہ نہیں لے رہا ہوتا یا اگر چندہ دیتا ہے تو اپنے آپ کو اسلام کی تبلیغ کے لیے وقف نہیں کرتا حالانکہ ہمارے باہر کے مبلغ اب شور مچارہے ہیں کہ اُن کی مدد کے لیے اور آدمی
179 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 بھجوائے جائیں.اس وقت سب سے زیادہ ترقی کے آثار جرمنی میں نظر آ رہے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ اگر پندرہ بیس اور مبلغ یورپ میں چلے جائیں اور دس پندرہ مسجد میں بن جائیں تو بڑی تعداد میں وہاں کے لوگ احمدی ہو سکتے ہیں.انگلینڈ کے لوگ تو اب عیاش ہو گئے ہیں لیکن جرمن سائنس کی تحقیقات پر جان دیتے ہیں اور بڑے دھڑلے سے کہتے ہیں کہ احمدیت بڑا اچھا کام کر رہی ہے.جب ہیمبرگ میں ہماری مسجد بنی اور اخبارات میں اس کی خبریں شائع ہوئیں تو عراق میں ایک جرمن انجنیئر تھا اُس نے ہمیں خط لکھا کہ ہیمبرگ میں مسجد کی تعمیر اور اس کے افتتاح کی خبریں تو ہم نے سن لی ہیں مگر آپ نے اپنے مبلغ کا پتا نہیں لکھا.آپ مجھے اُس کا پتا بھجوائیں کیونکہ میں اُسے چندہ بھجوانا چاہتا ہوں.اب یہاں تو یہ کیفیت ہے کہ بعض دفعہ پیچھے پڑ کر بھی لوگوں سے چندہ مانگا جائے تو وہ نہیں دیتے اور اُس کی یہ حالت ہے کہ وہ ان عراق سے خط لکھتا ہے کہ مجھے اپنے مبلغ کا پتا بھجوائیں میں اُسے چندہ بھجوانا چاہتا ہوں.تو ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ اسلامی ترقی کے لیے اپنا پورا زور لگا دیں.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسا وقت آ گیا ہے جیسے ڈال پر آم پک جاتے ہیں اور ہر آم آپ ہی آپ ٹوٹ کر نیچے گرنے کے لیے تیار ہوتا ہے، اب عیسائی دنیا اسلام قبول کرنے کے لیے بالکل تیار ہے صرف درختوں کی ٹہنیاں ہلانے کی ضرورت ہے.جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ی مریم سے کہا کہ کھجور کے تنا کو ہلا تجھ پر تازہ بتازہ کھجور میں گریں گی.2ے اسی طرح ہمیں بھی اب صرف تنامانی ہلانے کی ضرورت ہے ورنہ پھل پک چکا ہے اور اب وہ گرنے ہی والا ہے.لطیفہ مشہور ہے کہ ایک دہر یہ باغ میں گیا تو کہنے لگا لوگ تو خدا تعالی کو بڑا عقلمند کہتے ہیں مگر یہ کیسی عقلمندی ہے کہ اُس نے ایک پتلی سی بیل کے ساتھ تو اتنا بڑا کر ولگا دیا اور بڑے بڑے مضبوط درختوں پر چھوٹے چھوٹے آم لگا دیئے.تھوڑی دیر کے بعد اُسے نیند آئی اور وہ وہیں ایک آم کے درخت کے نیچے سو گیا.سویا ہوا تھا کہ اچانک اُس کے سر پر بڑے زور سے ایک آم آ گرا.وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھا اور کہنے لگا اللہ میاں ! میری توبہ، میں اپنی گستاخی کی تجھ سے معافی طلب کرتا ہوں.میں سمجھ گیا کہ جو کچھ تو نے کیا ہے بالکل درست ہے.اگر اتنی دور سے کرو مجھ پر گرتا تو میری تو جان نکل جاتی.اسی طرح یورپ بھی اب ٹپکنے کو تیار بیٹھا ہے.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ جماعت زبانی کرے.کچھ چندوں میں زیادتی کرے اور کچھ نوجوان اپنے آپ کو وقف کریں.بیشک
خطبات محمود جلد نمبر 39 180 $1958 وقف جدید کے ماتحت بہت سے نوجوانوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے مگر ابھی تک میں اُن کے کام سے پوری طرح خوش نہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابھی اُن کو کام شروع کیے بھی پانچ چھ مہینے ہی ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ان کے کام میں ابھی تیزی پیدا نہیں ہوئی.اگر ایک دو سال گزر جائیں تو پھر ان کے کام کا صحیح اندازہ ہو سکے گا.اس وقت تک وقف جدید کے ذریعہ ایک سو چالیس بیعتیں ہو چکی ہیں لیکن میرے نزدیک فی مبلغ ایک ہزار سالانہ بیعت ہونی چاہیے.آجکل وقف جدید میں ستر آدمی کام کر رہے ہیں.اگلے سال ممکن ہے یہ تعداد ایک سو پچاس تک پہنچ جائے اور پھر ڈیڑھ دو لاکھ سالا نہ صرف وقف جدید کے معلمین کے ذریعہ ہی بیعت ہونے لگے.اگر ایسا ہو جائے تو پانچ سال میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری تعداد کئی گنے بڑھ سکتی ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ ہی سب کام کرنے والا ہے.ہمارا کام تو صرف کوشش اور جد و جہد کرنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہا ما فر مایا تھا کہ ” میں تیری تبلیغ کو زمین کی کے کناروں تک پہنچاؤں گا.چنانچہ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ زمین کے کناروں تک پہنچ چکی ہے.مگر ہمیں صرف اس بات پر خوش نہیں ہونا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ دنیا کے کناروں تک پہنچ چکی ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری جماعت کو اس قدر ترقی عطا فرمائے گا کہ دوسرے مذاہب کے پیرو اس جماعت کے مقابلہ میں ایسے ہی بے حیثیت ہو کر رہ جائیں گے جیسے آجکل کی ادنی اقوام بے حیثیت ہیں.پس ہماری خواہش یہ ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں وہ زمانہ بھی دکھا دے جب ہماری جماعت ساری دنیا پر غالب آ جائے بلکہ اس سے بڑھ کر ہماری یہ دُعا ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو کی غلبہ بھی عطا فرمائے اور دوستوں کو اپنے ایمانوں پر بھی قائم رکھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء کے زمانہ میں جب مسلمان ایمان پر قائم تھے روم اور ایران کے بادشاہ ان کے نام سے کانپتے تھے مگر جب اُن کے اندر ایمان نہ رہا تو ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا اور انہیں تباہ کر دیا.اب بھی مسلمان کروڑوں کی تعداد میں ہیں مگر ادھر وہ امریکہ سے ڈر رہے ہیں اور ادھر روس سے خوف کھا رہے ہیں.کبھی امریکہ سے کہتے ہیں کہ ہماری جھولی میں کچھ ڈالو اور کبھی روس کی طرف اس امید سے دیکھتے ہیں کہ شاید وہ ان کی جھولی میں کچھ ڈال دے حالانکہ ایک
$1958 181 خطبات محمود جلد نمبر 39.زمانہ میں مسلمان بڑی سے بڑی لالچ کو بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تھا.روم کی جنگ پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو تین صحابہ غلطی سے پیچھے رہ گئے.آپ نے واپس آنے پر اُن تینوں کو مقاطعہ کی سزا دے دی.ان میں سے ایک صحابی کہتے ہیں کہ جب مقاطعہ لمبا ہو گیا تو میں تنگ آ گیا.میرا ایک بڑا گہرا دوست تھا اور بھائیوں کی طرح مجھے پیارا تھا.وہ اپنے باغ میں کام کر رہا تھا کہ میں اس کے پاس پہنچا اور میں نے کہا بھائی ! تم جانتے ہو کہ میں منافق نہیں، میں سچا اور مخلص مسلمان ہوں.صرف غلطی کی وجہ سے جنگ سے پیچھے رہ گیا تھا.مگر وہ بولا نہیں.اس نے آسمان کی کی طرف دیکھا اور کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں.وہ کہتے ہیں مجھے اس سے شدید صدمہ پہنچا اور میں باغ سے نکل کر شہر کی طرف چل پڑا.میں گھر کی طرف جاہی رہا تھا کہ مجھے پیچھے سے ایک شخص نے آواز دی.میں ٹھہرا تو اُس نے مجھے عرب کے ایک بادشاہ کا خط دیا.اُس میں لکھا تھا کہ ہم نے سنا ہے کہ محمد ( رسول اللہ ) نے تم پر بڑا ظلم کیا ہے.تم ہمارے پاس آجاؤ ہم تمہاری بڑی عزت کریں گے.وہ صحابی کہتے ہیں میں نے پیغامبر کو کہا کہ تم میرے ساتھ چلو.میں ابھی اس کا جواب دیتا ہوں.وہ میرے ساتھ ساتھ چلا.راستہ میں میں نے دیکھا کہ ایک جگہ تنور جل رہا ہے.میں اُس کے قریب پہنچا اور میں نے وہ خط اُس کے سامنے اس تنور میں ڈال دیا اور پھر میں نے اسے کہا کہ جاؤ اور اپنے بادشاہ سے کہہ دو کہ یہ تمہارے خط کا جواب ہے.4 تو دیکھو اسے کتنی بڑی لالچ دی گئی تھی مگر اس نے کچھ بھی پروا نہ کی اور بادشاہ کے خط کو آگ میں جھونک دیا مگر آج مسلمان ہر جگہ بھیک مانگتا پھرتا ہے.اگر اس کے اندر سچا ایمان ہوتا تو وہ نہ امریکہ کی طرف دیکھتا اور نہ روس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاتا بلکہ خود پیسہ پیسہ جمع کر کے اپنی تمام ضروریات کو خود پورا کرنے کی کوشش کرتا مگر یہ جذ بہ قوم میں اُسی وقت پیدا ہوتا ہے جب اُس کے افراد اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھیں اور موت کا ڈراپنے دل سے نکال دیں.احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ مدینہ کے قریب پہنچ کر آپ دو پہر کے وقت آرام فرمانے کے لیے ایک درخت کے نیچے لیٹ گئے اور صحابہ بھی ادھر اُدھر منتشر ہو گئے.کیونکہ انہوں نے سمجھا کہ اب تو مدینہ قریب ہی آ گیا ہے اب کسی دشمن کے حملہ کا کیا خطرہ ہوسکتا ہے.اتفاقاً ایک شخص جس کا بھائی کسی جنگ میں مسلمانوں.
$1958 182 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہاتھوں مارا گیا تھا اپنے بھائی کا انتقام لینے کے لیے اسلامی لشکر کے پیچھے پیچھے چلا آ رہا تھا اور حملہ کے لیے کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھا.اُس نے جب دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سور ہے جی ہیں اور صحابہ بھی ادھر ادھر چلے گئے ہیں تو اُس نے آپ کے پاس پہنچ کر آپ کی ہی تلوار اُٹھالی جو درخت کے ساتھ لٹکی ہوئی تھی اور پھر اُس نے آپ کو جگایا اور کہا کہ بتائیں اب آپ کو مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسی طرح لیٹے لیٹے نہایت اطمینان اور سکوت کے ساتھ فرمایا کہ اللہ.آپ کا یہ فرمانا تھا کہ اُس کا جسم کانپا اور تلوار اُس کے ہاتھ سے گر گئی.آپ نے کی فوراً وہی تلوار اُٹھالی اور پھر اُس سے پوچھا کہ اب تجھے میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟ اُس نے کہا آپ ہی مہربانی کریں اور مجھے معاف فرما دیں، آپ بڑے رحیم و کریم ہیں.آپ نے فرمایا کمبخت ! تجھے اب بھی عقل نہ آئی تو نے کم از کم میری زبان سے ہی اللہ کا لفظ سن کر کہہ دینا تھا کہ اللہ مجھے بچا سکتا ہے مگر میری زبان سے بھی اللہ کا نام سن کر تجھے سمجھ نہ آئی اور تو نے خدا کا نام نہ لیا.5 میں سمجھتا ہوں کہ اس زمانہ میں بھی سب سے بڑی ضرورت یہی ہے کہ مسلمانوں میں اللہ تعالیٰ کے نام کی عظمت قائم کی جائے اور ان کے دلوں میں اس پر سچا ایمان پیدا کیا جائے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان اب بھی اللہ اللہ کہتے پھرتے ہیں مگر حضرت خلیفہ اول ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ آجکل مسلمانوں کے نزدیک اللہ کے معنے صفر کے ہیں.چنانچہ جب کسی شخص کے گھر میں کچھ بھی نہیں رہتا تو وہ کہتا ہے کہ میرے گھر میں تو اللہ ہی اللہ ہے اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میرے گھر میں کچھ نہیں.گویا اللہ کے معنے ان کے نزدیک ایک صفر کے ہیں حالانکہ پہلے زمانہ میں جب مسلمان کہتے تھے کہ ہمارے پاس اللہ ہی اللہ ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے تھے کہ آسمان بھی ہمارے ساتھ ہے اور زمین کی بھی ہمارے ساتھ ہے، پہاڑ بھی ہمارے ساتھ ہیں اور دریا بھی ہمارے ساتھ ہیں اور کسی کی مجال نہیں کہ ہمارے مقابلہ میں ٹھہر سکے.مگر آجکل یہ کیفیت ہے کہ بھیک مانگنے والے فقیر ہر جگہ یہ کہتے سنائی دیں گے کہ اللہ ہی اللہ اللہ ہی اللہ.اور ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارے پاس کچھ نہیں.خدا کے لیے ہمیں کچھ کھانے کے لیے دو.پس مسلمان اگر ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے اندر سچا ایمان پیدا کریں اور خدا تعالیٰ پر توکل رکھیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ امریکہ اور روس نے ایٹم بم اور ہائیڈ روجن بم بنا لیے ہیں جن کی وجہ
183 $1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 سے دنیا ان سے مرعوب ہے لیکن اگر خدا تعالیٰ سے دُعائیں کی جائیں اور اپنے اندر سچا ایمان پیدا کیا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کا بھی کوئی نہ کوئی تو ڑ پیدا فرمادے گا.پہلے میرا خیال تھا کہ امریکہ یا روس ایٹم بم کا کوئی توڑ پیدا کرلیں گے مگر اب قرآن کریم پر غور کرنے سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ روس اور امریکہ اس کا توڑ پیدا نہیں کریں گے بلکہ آسمان سے ایسے شہاب ثاقب گریں گے جن سے ان کے تمام بم بریکاری ہو جائیں گے اور وہ دنیا کی تباہی کے ارادوں میں ناکام رہیں گے.پس مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کریں اور اُس سے سچا تعلق پیدا کریں اور اگر وہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر لیں تو ان کی تلوار میں تو پوں سے بھی زیادہ کام کریں گی اور ان کے تھوڑے سے روپے کروڑوں ڈالروں اور پونڈوں سے بھی زیادہ نتیجہ خیز ہوں گے کیونکہ مومن کے روپیہ میں اللہ تعالیٰ بڑی برکت پیدا فرما دیتا ہے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ایک اشرفی دی اور فرمایا کہ میرے لیے قربانی کا ایک اچھا سا دُنبہ خرید لاؤ.جب وہ واپس آیا تو اُس نے آپ کی خدمت میں دنبہ بھی پیش کر دیا اور اشرفی بھی واپس دے دی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اشرفی کیوں واپس کر رہے ہو؟ اُس نے کہا یا رسول اللہ ! میں باہر دیہات میں نکل گیا تھا.یہاں تو ایک اشرفی کا ایک ہی دُنبہ آتا ہے مگر باہر گاؤں میں جا کر ایک اشرفی کے دو ڈ نے مل گئے.جب میں واپس آیا تو میں نے شہر میں ایک دنبہ ایک اشرفی میں فروخت کر دیا.اب دُنبہ بھی حاضر ہے اور اشرفی بھی آپ کی خدمت میں پیش ہے.تو اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندہ کے روپیہ میں بڑی برکت پیدا فرما دیتا ہے اور اس کا تھوڑ اسا روپیہ بھی اس کی ضروریات کو پورا کر دیتا ہے.1 : التوبة: 36 ( الفضل 27 /اگست 1958 ء) 2 وَهُزِئَ إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسْقِط عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا (مريم: 26) 3 : تذکرہ صفحہ 312 طبع چہارم 4 بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک 5 : السيرة النبوية في فتح البارى جزء ثانی صفحہ 361 مطبوعہ کو یت 2001ء 6 : ابوداؤد كتاب البيوع باب في المضارب
$ 1958 184 22 خطبات محمود جلد نمبر 39 اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ سچا تو گل رکھنے والوں کو ہمیشہ میری تائید و نصرت حاصل رہے گی جو شخص اللہ تعالی پر بھروسہ رکھتا ہے نہ آسمان اُسے ضرور پہنچا سکتا ہے اور نہ زمین ، اور خدا تعالیٰ کے فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں فرمودہ 15 راگست 1958ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے قرآن کریم کی درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: ” وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ بِأَنَّ لَهُمْ مِنَ اللهِ فَضْلًا كَبِيرًا - وَلَا تُطِع الْكَفِرِينَ وَالْمُنْفِقِينَ وَدَعْ أَنْهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ وَكَفَى بِاللهِ وَكِيلًا -1 اس کے بعد فرمایا: یہ آیت جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ مومنوں کو بشارت دے دو کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا فضل ملے گا.بشارت کے معنے عربی زبان میں ایسی خبر کے ہوتے ہیں جس کے سننے سے چہرہ متغیر ہو جائے.اور چہرہ خوشی کی خبر سے بھی متغیر ہو جاتا ہے اور رنج کی
185 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 کی خبر سے بھی افسردہ اور غمناک ہو جاتا ہے.دراصل بشرہ جلد کے اوپر کے حصہ کو کہتے ہیں اور بشارت ایسی خبر کو کہتے ہیں جس سے چہرہ کا رنگ بدل جائے.پس بَشَّرَ کے دونوں معنے ہو سکتے ہیں.یہ بھی کہ انہیں ایسی خوشی کی خبر دے جس سے ان کے چہروں پر سرخی کی لہر دوڑ جائے اور یہ بھی کہ انہیں ایسی خبر دے جس سے ان کے چہرے زرد پڑ جائیں.یہاں چونکہ خوشی کی خبر دی گئی ہے اس لیے یہاں بشارت کا لفظ خوشخبری کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومنوں کو یہ خوشخبری پہنچا ہو دو کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل نازل ہوگا اور یہ ظاہر ہے کہ بہت بڑے فضل کے نازل ہونے کی خبر سے چہرہ زرد نہیں ہوتا بلکہ خوشی سے تمتما اٹھتا ہے.پس اس آیت میں یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ مومن کبھی ذلیل نہیں ہو سکتا بلکہ وہ ہمیشہ اپنے دشمنوں پر غالب رہتا ہے.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اسی مضمون کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ فَاِنَّ حِزْبَ الله هم الغالبون : یعنی جو لوگ اعلان اللہ تعالیٰ کی جماعت میں شامل ہوتے ہیں وہ یقیناً غالب رہتے ہیں اور جس نے غالب رہنا ہو وہ دشمنوں سے ڈرے گا کیوں؟ 1953ء میں جب فسادات ہوئے تو سیفٹی ایکٹ کے ماتحت گورنر پنجاب نے مجھے نوٹس بھجوایا کہ آپ کی طرف سے یا آپ کے اخبار کی طرف سے احرار کے خلاف کوئی بات شائع نہیں ہوئی چاہیے ورنہ فساد بڑھ جائے گا.یہ نوٹس ضلع جھنگ کا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس میرے پاس لے کر آیا.میں نے یہ نوٹس تو لے لیا مگر میں نے ڈی.ایس.پی سے کہا کہ آپ اس وقت اکیلے مجھ سے ملنے آئے ہیں اور کوئی خطرہ محسوس کیے بغیر میرے پاس پہنچ گئے ہیں.اسی لیے کہ آپ کو یقین ہے کہ گورنمنٹ آپ کی پشت پر ہے.پھر اگر آپ کو یہ یقین ہے کہ گورنمنٹ کا نمائندہ ہونے کی وجہ سے حکومت آپ کی مدد کرے گی تو کیا میں جو خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ خلیفہ ہوں مجھے یقین نہیں ہونا چاہیے کہ خدا میری مدد کرے گا.بیشک میری گردن آپ کے گورنر کے ہاتھ میں ہے لیکن آپ کے گورنر کی گردن میرے خدا کے ہاتھ میں ہے.آپ کے گورنر نے میرے ساتھ جو کچھ کرنا تھا وہ کر لیا.اب میرا خدا اپنا ہاتھ دکھائے گا.چنانچہ چند دنوں کے اندر اندر مرکزی حکومت کے حکم سے مسٹر چندریگر کو جو اُس وقت گورنر پنجاب تھے رُخصت کر دیا گیا اور ان کی جگہ میاں امین الدین صاحب گورنر پنجاب مقرر ہوئے اور میاں ممتاز صاحب دولتانہ کی جگہ ملک فیروز خاں صاحب نوں آ گئے.
186 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 پھر انہی ایام میں جبکہ ابھی فتنہ کے آثار باقی تھے سپرنٹنڈنٹ پولیس ضلع جھنگ ڈی.ایس.پی کو ساتھ لے کر میرے مکان کی تلاشی کے لیے آئے.چونکہ سپرنٹنڈنٹ پولیس ڈی.ایس.پی سے گورنر پنجاب کے نوٹس والا واقعہ سن چکے تھے اور وہ دیکھ چکے تھے کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے چند دنوں کے اندر اندر میری بات کو پورا کر دیا اور مسٹر چندریگر کو پنجاب سے رخصت کر دیا گیا اور پھر اس سے پہلے میری طرف سے یہ بھی شائع ہو چکا تھا کہ میرا خدا میری مدد کے لیے دوڑا چلاتی آ رہا ہے اس لیے وہ اتنے متاثر تھے کہ مجھے کہنے لگے ہمیں حکم تو یہ ہے کہ عورتوں والے حصہ کی بھی تلاشی کی لی جائے مگر مجھے کسی تلاشی کی ضرورت نہیں.میں گورنمنٹ کو لکھ دوں گا کہ میں نے تلاشی لے لی ہے.میں نے کہا اگر آپ ایسا لکھیں گے تو میں اخبار میں اعلان کر دوں گا کہ یہ بالکل غلط ہے، انہوں نے کوئی کی تلاشی نہیں لی.آپ اندر چلیں اور ایک ایک چیز کو دیکھیں تا کہ آپ کے دل میں کوئی شبہ نہ رہے.چنانچہ وہ اندر گئے اور انہوں نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس سے کہا کہ وہ کاغذات کو دیکھ لیں.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومنوں کو خبر دے دو کہ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے اور کوئی شخص ان کے خلاف اپنی شرارتوں میں کامیاب نہیں ہوسکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اس کی تائید کے ایسے کئی واقعات نظر آتے ہیں.آپ پر ایک دفعہ ایک عیسائی پادری ڈاکٹر مارٹن کلارک نے یہ مقدمہ دائر کر دیا کہ آپ نے اسے قتل کروانے کے لیے ایک آدمی بھجوایا تھا.مارٹن کلارک کو ایک انگریز سپر نٹنڈنٹ پولیس نے اپنا لے پالک بنایا ہوا تھا اور اس وجہ سے گورنمنٹ اُس کا اُسی طرح لحاظ کرتی تھی جس طرح وہ انگریزوں کا لحاظ کیا کرتی تھی.ڈاکٹر مارٹن کلارک اور اُس کے ساتھیوں نے آپ کے خلاف یہ نالش ڈپٹی کمشنر ضلع امرتسر کی عدالت میں دائر کی اور اس نے آپ کے نام وارنٹ جاری کر دیا لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ وارنٹ کسی کاپی میں پڑا رہا اور گورداسپور بھجوایا ہی نہ گیا.کچھ عرصہ کے بعد جب ان لوگوں نے پھر ڈپٹی کمشنر کو توجہ دلائی تو اُس نے ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر کولکھا کہ میں نے اتنا عرصہ ہوا افلاں شخص کے نام وارنٹ جاری کیا تھا لیکن مجھے اس کا کوئی جواب نہیں آیا.مسٹر ڈگلس اُس وقت گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر تھے.انہوں نے جواب دیا کہ اول تو میرے پاس آپ کی طرف سے کوئی وارنٹ آیا ہی نہیں.دوسرے ملزم چونکہ میرے علاقہ میں رہتا ہے اس لیے اُس کے نام وارنٹ جاری کرنے کا آپ کو کوئی اختیار نہیں.
خطبات محمود جلد نمبر 39 187 $1958 اس پر امرتسر کے ڈپٹی کمشنر نے مقدمہ کی تمام مسل مسٹر ڈگلس کو بھجوا دی.مسٹر ڈگلس پہلے اتنے متعصب ہوا کرتے تھے کہ جب وہ گورداسپور میں آئے تو انہوں نے آتے ہی کہا کہ میں نے سنا ہے قادیان میں ایک شخص نے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور وہ ہمارے خدا کی ہتک کر رہا ہے، اُسے اب تک گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟ مگر جب مقدمہ کی مسل اُن کے سامنے پیش ہوئی تو مسل خواں نے کہا کہ یہ وارنٹ کا نہیں بلکہ سمن کا کیس ہے.راولپنڈی کے ایک دوست غلام حیدر صاحب تھے جو مسٹر ڈگلس کے ہیڈ کلرک تھے.انہوں نے بھی اس کی تائید کی.چنانچہ وارنٹ کی بجائے آپ کے نام سمن جاری کیا گیا اور آپ گورداسپور تشریف لے گئے.جب آپ عدالت میں پہنچے تو مسٹر ڈگلس پر آپ کی شکل دیکھتے ہیں ہی کچھ ایسا اثر ہوا کہ وہی شخص جس نے یہ کہا تھا کہ ایسے آدمی کو ابھی تک گرفتار کر کے جیل خانہ میں کیوں نہیں بھیجا گیا جو ہمارے یسوع مسیح کی ہتک کرتا ہے، اُس نے نہایت اعزاز کے ساتھ آپ کو کرسی پیش کی اور کہا کہ آپ بیٹھے بیٹھے میری باتوں کا جواب دیں.اس مقدمہ میں مولوی محمد حسین ماحب بٹالوی بھی عیسائیوں کی طرف سے بطور گواہ پیش ہوئے تھے.انہوں نے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عدالت میں نہایت عزت کے ساتھ کرسی پر بیٹھے ہوئے دیکھا تو انہیں آگ لگ گئی اور انہوں نے آگے بڑھ کر ڈپٹی کمشنر سے کہا کہ مجھے بھی کرسی ملنی چاہیے.میں گورنر کے پاس جاتا ہوں تو وہ بھی مجھے کرسی دیتے ہیں.ڈپٹی کمشنر کہنے لگا کہ گھر ہو تو اگر ایک چوڑھا بھی ہم سے ملنے آئے تو ہم اُسے کرسی دیں گے مگر یہ عدالت کا کمرہ ہے، یہاں تمہیں کرسی نہیں مل سکتی.مگر مولوی محمد حسین صاحب کی اس جواب سے تسلی نہ ہوئی اور انہوں نے پھر اصرار کیا.ڈپٹی کمشنر کو غصہ آ گیا اور وہ کہنے لگا ” بک بک مت کر ، پیچھے ہٹ اور جوتیوں میں کھڑا ہو جا.مولوی محمد حسین صاحب کمرہ عدالت سے باہر نکلے تو برآمدہ میں ایک کرسی پڑی ہوئی تھی.انہوں نے چاہا کہ اُس پر تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ جائیں تا کہ باہر کے لوگ یہ سمجھ لیں کہ اندر بھی انہیں کرسی ملی ہو گی مگر چپڑاسی دیکھ چکا تھا کہ اندر ڈپٹی کمشنر نے اُن سے کیا سلوک کیا ہے.وہ دوڑا ہوا آیا اور کہنے لگا فوراً کرسی خالی کرو اور یہاں سے اُٹھ جاؤ.وہ وہاں سے اٹھے تو صحن میں آگئے.وہاں ایک چادر زمین پر بچھی ہوئی تھی.یہ جاتے ہی اُس چادر پر بیٹھ گئے.اتفاقاً وہ چادر ایک احمدی دوست کی تھی.اُس نے انہیں اپنی چادر پر بیٹھے دیکھا تو کہنے لگا میری چادر پلید نہ کر، تو مولوی ہو کر عیسائیوں کی تائید میں گواہی دینے آیا ہے.چنانچہ اُس چادر سے بھی انہیں
188 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 اُٹھنا پڑا.اور آخر اللہ تعالیٰ نے انہیں اتنا ذلیل کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد میں ایک دفعہ بٹالہ کے ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرا ہوا تھا کہ شیخ یعقوب علی صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی آپ سے ملنا چاہتے ہیں.میں نے کہا لے آؤ.چنانچہ وہ انہیں لے آئے مگر میں نے دیکھا کہ وہ ایک دروازہ سے داخل ہوئے اور دوسرے دروازہ سے نکل گئے.میں نے بعد میں شیخ یعقوب علی صاحب سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ مولوی صاحب نے ملاقات کیوں نہیں کی؟ وہ کہنے لگے میں نے ان سے پوچھا تھا انہوں نے جواب دیا کہ مجھے ان سے ملتے ہوئے شرم آتی ہے.بڑے مرزا صاحب سے مل لیتا تو اور بات تھی مگر اب میں ان سے کیسے ملوں؟ یہ دل میں کہیں گے کہ میرے باپ کی تو ساری عمر مخالفت کرتا رہا اور اب مجھ سے ملنے آ گیا ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر اس طرح حجت تمام کی کہ ان کا ایک بیٹا چوری کے الزام میں پکڑا گیا جسے ہم نے چھڑوایا.پھر وہ قادیان میں پڑھنے کے لیے بھی آیا.یہ غالباً 1914 ء یا 1915ء کی بات ہے.پھر اُن کا دوسرا بیٹا قادیان میں پڑھنے کے لیے آیا.دو سال ہوئے وہ زندہ تھا اور میسور میں مقیم تھا.وہ شروع میں عیسائی ہو گیا تھا جس پر مولوی محمد حسین صاحب نے کہلا بھیجا کہ بیشک اسے قادیان میں رکھیں اور تعلیم دلائیں.میری سمجھ میں اب اتنی بات ضرور آ گئی ہے کہ احمدیت عیسائیت سے اچھی ہے.ایک دفعہ میسور کی جماعت نے مجھے لکھا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا ایک لڑکا ہے جس نے کی ایک عیسائی نرس سے شادی کی ہوئی ہے.وہ کہتا ہے کہ میں قادیان میں بھی پڑھتا رہا ہوں.میں نے لکھا کہ وہ سچ کہتا ہے وہ میری خلافت کے ابتدائی ایام میں قادیان آیا تھا.پہلے اس کا بھائی آیا تھا جو چوری کے الزام میں پکڑا گیا تھا مگر ہماری کوشش سے وہ رہا ہوا.پھر یہ خود آیا.یہ بھی عیسائی ہو چکا تھا جسے ہم نے عیسائیت سے بچایا.اس پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے ہمیں بڑے شکریہ کا خط لکھا پرم کہ آپ نے میرے ایک بیٹے کو قید سے بچایا ہے اور دوسرے کو عیسائیت سے.میں آپ کا بڑا ممنون ہوں.غرض اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کی ہمیشہ مدد کرتا ہے اور اُن کو اپنے دشمنوں پر غلبہ عطا کیا کرتا ہے.دشمن چاہتا ہے کہ وہ ہلاک ہو جائیں اور وہ ان کی تباہی کے بڑے بڑے منصوبے سوچتا ہے مگر اللہ تعالیٰ ان کی تمام تدبیروں کو خاک میں ملا دیتا ہے.میں 1912ء میں جب حج کے لیے گیا تو حضرت خلیفہ اول نے جن کو نادر کتابیں جمع
$ 1958 189 خطبات محمود جلد نمبر 39 کرنے کا بڑا شوق تھا ، مجھے ایک کتاب تلاش کرنے کے لیے کہا تھا.میں نے بہت کوشش کی مگر مجھے وہ ای کتاب نہ ملی.آخر بعض دوستوں نے بتایا کہ مولانا عبدالستار صاحب کہتی جو شریف مکہ کے بیٹوں کے استاد ہیں ممکن ہے اُن سے یہ کتاب آپ کو مل جائے چنانچہ میں اُن کے پاس گیا.مولوی صاحب تھے تو وہابی مگر اپنے آپ کو ضیلی ظاہر کرتے تھے کیونکہ وہاں اُن دنوں وہابیوں کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا.مولوی صاحب کو ملاقات کے درمیان میں میں تبلیغ بھی کرتا رہا.وہ اطمینان کے ساتھ میری باتیں سنتے رہے.جب میں خاموش ہوا تو وہ مجھے کہنے لگے کہ آپ نے مجھ سے تو یہ باتیں کہہ دی ہیں کہیں کسی اور کو تبلیغ نہ کریں کیونکہ اگر آپ نے تبلیغ کی تو ممکن ہے لوگ جوش میں آ کر آپ پر حملہ کری دیں.میں نے کہا آپ کس شخص کو تبلیغ کرنا سب سے زیادہ خطر ناک سمجھتے ہیں؟ انہوں نے ایک عالم کا نام لیا.میں نے کہا میں تو اُسے ایک گھنٹہ تبلیغ کر کے آیا ہوں.کہنے لگے پھر وہ کیا کہتا تھا؟ میں نے کہانی تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ بڑے غصہ اور جوش میں کہتا تھا آہ نہ ہوئی تلوار آہ نہ ہوئی تلوار.اُس کے شاگرد جوش میں آتے تو وہ انہیں خاموش کرا دیتا اور کہتا کہ تم نہ بولو میں خود ہی جواب دوں گا.پھر انہوں نے کہا کہ میں نے یہ نصیحت آپ کو اس لیے کی ہے کہ آپ کے خلاف ایک اشتہار چھپا ہے اور اُس میں لکھا ہے کہ اگر انہیں حضرت مرزا صاحب کی صداقت پر یقین ہے تو خانہ کعبہ میں مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی سے مباحثہ کر لیں.اُن کا اس سے منشا یہ ہے کہ اگر بحث ہوئی تو عربوں میں کی چونکہ تعلیم کم ہے وہ جوش میں آکر آپ پر حملہ کر دیں گے اور آپ کو قتل کر دیں گے.میں نے کہا اس اشتہار پر دستخط کس کس کے ہیں؟ انہوں نے کہا دو آدمیوں کے دستخط ہیں.ایک تو بھوپال کے کوئی مولوی محمد احمد صاحب ہیں جن کے دستخط ہیں.میں نے کہا وہ تو میرے ماموں ہیں.وہ ہمارے نانا جان مرحوم کی ہمشیرہ کے بیٹے تھے اور اس لحاظ سے ہمارے ماموں تھے ).دوسرے دستخط بھوپال کے ایک رئیس کے ہیں جن کا نام خالد ہے.پھر انہوں نے کہا کہ مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کو تو میں نے بلوا کر کہہ دیا ہے کہ تم کہیں جوش میں آ کر مباحثہ نہ کر بیٹھنا کیونکہ یہاں احمدیوں کی اتنی مخالفت نہیں جتنی اہلِ حدیثوں کی ہے.میں خود اہلِ حدیث ہوں مگر اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرتا اور شریف مکہ کے بیٹوں کو بھی مفت پڑھاتا ہوں تا کہ اُس کے خاندان کی امداد حاصل رہے.پس تم خواہ مخواہ لوگوں کو اپنے خلاف کیوں اشتعال دلاتے ہو.اگر تم اپنی جان کی سلامتی چاہتے ہو تو فوراً
190 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 یہاں سے چلے جاؤ.چنانچہ پہلا جہاز جو حاجیوں کو واپس لے جا رہا ہے اُس میں مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی بھی واپس جارہے ہیں.غرض تین آدمیوں میں سے ایک کو تو خدا تعالیٰ نے اس طرح دور کیا.باقی دورہ گئے تھے.جب حج ختم ہوا تو مکہ میں ہیضہ پھوٹ پڑا جو اتنا شدید تھا کہ مردوں کو دفن کرنے کا موقع بھی نہیں ملتا تھا.لوگ گلیوں میں اپنے مُردے پھینک کر چلے جاتے تھے.اس وبا کو دیکھ کر ہم نے بھی واپسی کی تیاری شروع کر دی.چلنے سے پہلے نانا جان اپنی بہن اور بھانجے سے ملنے کے لیے اُن کے مکان پر گئے.میں بھی اُن کے ساتھ تھا.جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک جنازہ پڑا ہے.نانا جان نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کس کا جنازہ ہے؟ انہوں نے ہمارے ماموں مولوی محمد احمد صاحب کا نام لیا کہ یہ اُن کا جنازہ ہے اور پھر بتایا کہ منی سے واپسی پر انہیں ہیضہ ہو گیا اور تھوڑی دیر میں ہی فوت ہو گئے.اس کے بعد جب ہم جدہ پہنچے تو جدہ کے انگریزی قونصل خانہ میں بھی ہمارے ننھیال کی کے ایک رشتہ دار یعنی ہماری نانی اماں صاحبہ کی بہن کے ایک لڑکے جن کا نام سید نصیر تھا سپر نٹنڈنٹ تھے اور تمام جہازران کمپنیاں اُن کے تابع تھیں.چونکہ جہاز کم تھے اور لوگ جلدی واپس جانا چاہتے تھے اس لیے جہاز کے ٹکٹ ملنے میں سخت دشواری تھی ہم نے اُن سے کہا کہ آپ ٹکٹوں کا جلدی انتظام کر دیں تاکہ ہم واپس جاسکیں.انہوں نے مجھے دفتر میں ایک کھڑکی کے قریب بٹھا دیا جو بہت اونچی تھی اور جہاں ہاتھ بھی بمشکل پہنچ سکتا تھا اور خود ٹکٹ لینے چلے گئے.ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ایک کی دُبلا پتلا سفید رنگ کا نو جوان آیا اور کھڑکی کے نیچے کھڑے ہو کر اُس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ میں نے کہا آپ کا اس سے کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ کمپنی میں کام کرتے ہیں؟ میں نے کہا میں تو کام نہیں کرتا.کہنے لگے پھر یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ میں نے کہا میرے ایک عزیز مجھے یہاں بٹھا گئے ہیں اور وہ خود ٹکٹ خرید نے اندر گئے ہیں.اس کی پر انہوں نے کہا کہ ہمارا قافلہ آٹھ عورتوں اور چودہ مردوں پر مشتمل ہے اور ہمیں ٹکٹ نہیں مل رہے.مرد تو پھر بھی گزارہ کر سکتے ہیں لیکن ہمیں عورتوں کا سخت فکر ہے.وہ لاشوں کود یکھ دیکھ کر پاگل ہورہی ہیں.اگر آپ آٹھ ٹکٹ خرید دیں تو ہم عورتوں کو یہاں سے روانہ کر دیں.میں نے کہا عورتیں اکیلی کس طرح کی جائیں گی؟ اس پر وہ کہنے لگے کہ اگر آپ چند ٹکٹ مردوں کے لیے بھی خرید سکیں تو یہ آپ کی بڑی مہربانی ہوگی اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے روپوں کی ایک تحصیلی مجھے پکڑا دی.تھوڑی دیر کے بعد جب
$1958 191 خطبات محمود جلد نمبر 39 وہ عزیز میرے کمرہ میں آئے تو میں نے انہیں کہا کہ ان لوگوں کی حالت سخت قابلِ رحم ہے آپ مہربانی کریں اور ان کو بھی ٹکٹ لا دیں.وہ بڑے غصہ سے کہنے لگے کہ میں کوئی ٹکٹوں کا ٹھیکیدار ہوں کہ ہر ایک کے لیے خرید تا پھروں.میں نے کہا ماموں ! آپ کوشش کریں، یہ تو ثواب کا کام ہے اور چند ٹکٹ لا دیں تاکہ ان کی پریشانی دور ہو.وہ گئے اور آٹھ کی بجائے غالباً بائیس ٹکٹ ہی لے آئے.میں نے انہیں ٹکٹ اور باقی رو پے کھڑکی سے دے دیئے.انہوں نے میرا بڑا شکر یہ ادا کیا اور کہا کہ میں آپ کا بہت ممنون ہوں آپ نے ہمارے ساتھ بڑی نیکی کی ہے.دوسرے دن جہاز نے روانہ ہونا تھا.میں بعض چیزیں خریدنے کے لیے بازار چلا گیا اور وہاں مجھے کچھ دیر ہو گئی.جب میں واپس پہنچا تو جہاز چلنے ہی والا تھا.میں نے دیکھا کہ وہی نوجوان سیڑھی پر کھڑا ہے اور میرا انتظار کر رہا ہے.مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا کہ آپ نے بڑی دیر لگا دی، جلدی کریں اور سامان رکھوائیں.چنانچہ اس نے مزدوروں پر زور دے کر جلدی جلدی میرا سامان جہاز میں رکھوایا اور پھر بڑی ممنونیت کا اظہار کیا کہ آپ نے ہمیں ٹکٹ لے دیئے ورنہ ہمارا سوار ہونا تو بالکل ناممکن تھا.جب ہم جہاز میں سوار ہو گئے تو میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے؟ کہنے لگے میرا نام خالد ہے اور میں نواب جمال الدین خاں صاحب آف بھوپال کا نواسا ہوں.غرض خدا تعالیٰ کی قدرت دیکھو کہ اُس نے ایک کو ہیضہ سے مارا اور دوسرے کو احسان سے مارا.یہ خالد صاحب اب بھی زندہ ہیں اور بھوپال کے دوستوں کے خط آتے جاتے رہتے ہیں کہ ہمیشہ ہم سے ملتے اور اچھے تعلقات رکھتے ہیں.اس کے بعد سارے سفر میں و میرے ممنونِ احسان رہے اور اصرار کرتے رہے کہ میں اُن کے ساتھ کھانا کھاؤں یا چائے وغیرہ پیوں مگر میں انکار کرتا رہا.آخر ایک دن انہوں نے بہت ہی اصرار کیا تو میں نے چائے کی ایک پیالی پی لی.اس کے بعد بھی وہ بمبئی تک برابر شکر گزاری اور ممنونیت کے جذبات کا اظہار کرتے رہے.اس جہاز میں بمبئی کے ایک سیٹھ کا لڑکا بھی سوار تھا جو حج کے لیے گیا ہوا تھا.اُس کا ایک لطیفہ بھی مجھے یا د رہتا ہے.میں نے مٹی میں دیکھا کہ ذکر الہی کرنے کی بجائے وہ اردو کے عشقیہ اشعار پڑھتا جا رہا تھا.مجھے تعجب ہوا کہ یہ حج کے لیے آیا ہے مگر اس کی حالت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کی بجائے عشقیہ اشعار پڑھتا جا رہا ہے.واپسی پر جب ہم جہاز میں اکٹھے ہوئے اور اسے معلوم ہوا کہ میں احمدی ہوں تو وہ بار بار کہتا کہ خدایا ! یہ جہاز بھی غرق نہیں ہوتا جس میں ایسا شخص سوار ہے.میں اُس وہ
192 و $1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 کی یہ بات سن کر ہنس پڑتا کہ یہ اتنا بھی نہیں سمجھتا کہ اگر جہاز غرق ہوا تو میں بھی ساتھ ہی غرق ہو جاؤں گا.ایک دن میں نے اُس سے پوچھا کہ میں نے مٹی میں آپ کو عشقیہ اشعار پڑھتے دیکھا تھا.اگر آپ نے وہاں بھی ذکر الہی نہیں کرنا تھا تو آپ حج کے لیے کیوں گئے تھے؟ کہنے لگا ہم لوگ تاجر ہیں اور ہماری دکان خوب چلتی تھی مگر پچھلے سال ہمارے ساتھ کی دکان والا حج کر آیا اور اُس نے اپنے نام کے ساتھ حاجی لکھ کر دکان پر بورڈ لٹکا دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی بکری بڑھ گئی اور ہماری کم ہو گئی.میرے باپ نے مجھے کہا کہ تو بھی حج کر آتا کہ ہم بھی ایک ایسا ہی بورڈ لکھوا کر لٹکا دیں اور لوگ ہماری دکان پر بھی کثرت سے آنا شروع کر دیں.غرض اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اُس کی تائید حاصل کرنے کا یہی طریق ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی پر توکل رکھے اور اُس سے دُعائیں کرتا رہے.چنانچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَا تُطِعِ الْكَفِرِينَ وَالْمُنْفِقِينَ وَدَعْ اَذْبهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ وَكَفَى بِاللهِ وَكِيلاً یعنی کافروں اور منافقون کے پیچھے مت چلو اور ان کی اذیتوں کی پروا مت کرو بلکہ خالص اللہ تعالیٰ پر توکل رکھو اور یہ بھی نہ سمجھو کہ مخالف حالات میں ہم کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں.اگر تم اللہ تعالیٰ پر سچا تو کل رکھو گے تو وہ خود تمہارے غلبہ اور کامیابی کے سامان پیدا فرمادے گا کیونکہ تمام طاقتیں خدا تعالیٰ کو ہی حاصل ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ ذات الرقاع سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ ایک شخص جس کا بھائی کسی جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا اور جس نے قسم کھائی تھی کہ میں اپنے بھائی کا ضرور بدلہ لوں گا وہ اسلامی لشکر کے پیچھے پیچھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کے ارادہ سے چل پڑا.اُس نے بڑی کوشش کی مگر اسے حملہ کا کوئی موقع نہ ملا کیونکہ صحابہ آپ کی بڑی حفاظت کرتے تھے.جب مدینہ صرف چند میل رہ گیا تو صحابہ مطمئن ہو گئے اور ایک جگہ وہ کھانا پکانے کے لیے ادھر ادھر منتشر ہو گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حفاظت کے لیے کوئی شخص نہ رہا.آپ ایک درخت کے نیچے آرام فرمانے کے لیے لیٹ گئے اور آپ کو نیند آ گئی.وہ شخص جو آپ کے تعاقب میں آ رہا تھا اُس نے اِس موقع کو غنیمت سمجھا اور آپ کے قریب آ کر اُس نے آپ کی تلوار اُٹھائی اور پھر آپ کو جگا کر کہنے لگا کہ بتا ئیں اب آپ کو کون بچا سکتا ہے؟
$1958 193 خطبات محمود جلد نمبر 39 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسی طرح لیٹے لیٹے نہایت اطمینان اور سکون کے ساتھ فرمایا اللہ.آپ کی زبان سے یہ لفظ نکلا ہی تھا کہ اس کے ہاتھ کانپ گئے اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراوہ تلوار اپنے ہاتھ میں پکڑ لی اور پھر اُس سے فرمایا کہ بتا اب تجھے میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟ اُس نے کہا آپ ہی مہربانی کریں اور معاف فرما دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور آپ نے فرمایا تم میرے منہ سے اللہ کا لفظ سن کر ہی اس کی نقل کر لیتے اور کہہ دیتے کہ اللہ بچائے گا مگر تم سے اتنا بھی نہ ہو سکا اور تم نے پھر بھی یہی کہا کہ آپ ہی مہربانی کریں.3 غرض اللہ تعالیٰ جب بچانے پر آتا ہے تو بغیر سامانوں کے بھی بچالیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جب کرم دین بھیں والا مقدمہ ہوا تو چونکہ مجسٹریٹ ہندو تھا آریوں نے اُسے ورغلایا کہ وہ اس مقدمہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سزا دینے کی کوشش کرے اور مجسٹریٹ نے بھی اُن سے وعدہ کر لیا.خواجہ کمال الدین صاحب کو یہ خبر ملی تو وہ سخت کی گھبرائے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آ کر کہا کہ حضور! ایک بڑی وحشت ناک خبر ملی ہے.ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آریوں نے ایک میٹنگ کی ہے جس میں انہوں نے مجسٹریٹ کو بھی بلوایا اور کہا کہ تمہارے پاس مرزا صاحب کا مقدمہ ہے تم انہیں کچھ نہ کچھ سزا ضرور دے دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ساری قوم تمہارا بائیکاٹ کر دے گی.چنانچہ مجسٹریٹ نے وعدہ کر لیا ہے کہ وہ کی اس مقدمہ میں کوئی نہ کوئی سزا ضرور دے دے گا.اس لیے ہمیں ابھی سے اس کا فکر کرنا چا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُس وقت لیٹے ہوئے تھے.جب انہوں نے یہ بات کہی تو آپ جوش سے اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا خواجہ صاحب ! خدا تعالیٰ کے شیر پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے؟ میں خدا تعالیٰ کا شیر ہوں.وہ مجھ پر ہاتھ ڈال کر تو دیکھے.آخر اس نے جرمانہ کیا جو نواب محمد علی خان صاحب نے اُسی وقت ادا کر دیا اور بعد میں اپیل کرنے پر واپس ہو گیا.مگر اس کی سزا خدا تعالیٰ نے اُسے یہ دی کہ اُس کا بیٹا جو گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتا تھا راوی میں تیرتا ہوا ڈوب گیا اور وہ اس غم میں نیم پاگل ہو گیا.میں ایک دفعہ دہلی جارہا تھا کہ لدھیانہ کے اسٹیشن پر وہ مجھے ملا اور بڑے الحاح سے کہنے لگا کہ دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے صبر کی توفیق دے مجھ سے بڑی غلطیاں ہوئی ہیں اور میری حالت ایسی ہے کہ میں ڈرتا ہوں کہ میں کہیں پاگل ہی نہ ہو جاؤں.اب یا تو اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کی
$ 1958 194 خطبات محمود جلد نمبر 39 جرمانہ کیا تھا اور یا آپ کے بیٹے کے پاس وہ آیا اور اُس نے کہا کہ میرے لیے دُعا کریں ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گا.غرض اللہ تعالیٰ جب مدد کرنے پر آتا ہے تو کوئی طاقت اس کی مدد کو روک نہیں سکتی.پس مومن کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنی چاہیے اور اس سے دُعائیں کرنی چاہیں.جو شخص اللہ تعالیٰ پر سچا تو کل رکھتا ہے اسے نہ کوئی آسمان میں ضرر پہنچا سکتا ہے اور نہ زمین میں بلکہ خدا تعالیٰ کے فرشتے اُس کی حفاظت کرتے ہیں.مجھے یاد ہے جب پادری مارٹن کلارک نے مقدمہ کیا تو میں نے بھی دُعا کی.ایک رات میں نے رویا میں دیکھا کہ میں باہر سے آ رہا ہوں اور اُس گلی میں سے جو مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکانات کے نیچے ہے اپنے مکان میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہوں.وہاں مجھے بہت سے سپاہی کھڑے دکھائی دیئے جنہوں نے مجھے اندر جانے سے روکا مگر پھر کسی نے کہا کہ یہ گھر کا ہی آدمی ہے اسے اندر جانے دو.چنانچہ میں اندر چلا گیا.جب میں ڈیوڑھی میں داخل ہو کر اندر جانے لگا تو وہاں کی ایک تہ خانہ ہوا کرتا تھا.میں نے دیکھا کہ پولیس والوں نے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کھڑا کیا ہوا ہے اور انہوں نے آپ کے ارد گر دا و پلوں کا ڈھیر لگا رکھا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان او پلوں کو آگ لگادیں.میں یہ نظارہ دیکھ کر سخت گھبرایا مگر اسی دوران میں اچانک میری نظر او پر اٹھی تو میں نے دیکھا کہ دروازہ کے اوپر نہایت موٹے اور خوبصورت حروف میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ” جو خدا کے پیارے بندے ہوتے ہیں اُن کو کون جلا سکتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب انہیں آگ میں ڈالا گیا تو ہم نے کہا ینارُ كُوْنِى بَرْدًا وَ سَلَمَّا عَلَى ابراهیم 4 یعنی اے آگ ! ابراہیم ہمارا بندہ ہے تو اس کے لیے ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی کا موجب بن جا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ اُس وقت بارش برسی اور آگ بجھ گئی اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بچا لیا.اور پھر یہ آگ اُن کے لیے اِس طرح بھی ٹھنڈک اور سلامتی کا موجب بنی کہ اس نشان کو دیکھ کر آپ پر کئی لوگ ایمان لے آئے اور مخالفوں کو بھی ہدایت نصیب ہو گئی.پس مخالفتوں کی پروا نہ کرو اللہ تعالیٰ پر ہمیشہ تو گل رکھو اور اُس سے اپنی کامیابی کے لیے دُعائیں مانگتے رہو.اگر تم ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ کا فضل تمہارے شاملِ حال رہے گا اور وہ تمہیں ہر میدان میں کامیابی عطا فرمائے گا“.(الفضل 5 ستمبر 1958ء)
خطبات محمود جلد نمبر 39 1 : الاحزاب : 49،48 2 : المائدة : 57 $ 1958 195 3 : بخاری کتاب الجهاد باب مَنْ عَلَّقَ سَيْفَهُ بِالشَّجَرِ (الخ) 4 : الانبياء : 70
$ 1958 196 23 خطبات محمود جلد نمبر 39 دلائل کے ساتھ اسلام کو دنیا پر غالب کرنا وہ عظیم الشان کام ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں ہمارے سپر د کیا ہے اس کام کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھو اور اس کے لیے صحیح کوشش اور جد و جہد کرتے چلے جاؤ فرمودہ 22 اگست 1958ء) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں مومنوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے فَاِنْ تَكُنُ مِنْكُمْ قائَةٌ صَابِرَةٌ تَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ وَاِنْ يَّكُن مِّنْكُمْ اَلْفَ يَغْلِبُوا اَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللهِ وَالله مَعَ الصَّبِرِينَ 1 یعنی ابھی تمہاری کمزوری کو دیکھ کر خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ اگر تم میں سو ثابت قدم رہنے والے مومن ہوں تو وہ دو سو کافروں پر غالب آجائیں گے.اور اگر ایک ہزار ثابت قدم رہنے والے مومن ہوں تو وہ دو ہزار کا فروں پر غالب آجائیں گے.جب کمزوری دور ہو جائے گی تو پھر کیا ہو گا اور کس نسبت سے مسلمانوں کو یہ غلبہ میسر آئے گا؟ اس کا علم ہمیں صحابہ کے عمل سے ہوتا ہے.صحابہ نے بعض دفعہ سو سو گنا دشمن سے بھی مقابلہ کیا
197 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہے.بلکہ بعض دفعہ تو ایک ایک ہزار گنادشمن سے بھی ان کا مقابلہ ہوا ہے اور وہ غالب آئے ہیں.اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو ہماری جماعت اس وقت دس لاکھ ہے.اگر ہمارا ایک آدمی دوسروں کے سو آدمیوں پر بھاری ہو تو موجودہ تعداد کے لحاظ سے دس کروڑ پر ہم دلائل کی جنگ میں فتحی حاصل کر سکتے ہیں حالانکہ پاکستان کی کل آبادی آٹھ کروڑ ہے.اور اگر ایک اور ہزار کی نسبت ملحوظ رکھی جائے تو ہمارا دس لاکھ ایک ارب پر غالب آ سکتا ہے.دنیا میں عام اصول یہ ہے کہ اگر کسی منظم جماعت کی تعداد ملک میں ایک فیصدی تک پہنچ جائے تو وہ دوسروں پر غالب آ جاتی ہے.لیکن میں سمجھتا ہوں اگر ہم اس سے نصف بھی ہو جائیں اور ہمارے اندر سچا ایمان ہوتب بھی ہم دنیا پر اپنے دلائل کے زور سے غالب آ سکتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارا مقابلہ چونکہ تلوار سے نہیں بلکہ دلائل سے ہے اس لیے ہمارا کام نسبتاً مشکل ہے کیونکہ دل کا صاف کرنا گردن اُڑانے سے مشکل ہوتا ہے لیکن اگر خدا تعالیٰ چاہے اور کسی وقت ہم ایک کروڑ ہو جائیں تو پھر ہمارے ایک آدمی کا صرف دوسو سے مقابلہ رہ جائے گا حالانکہ صحابہ نے ہزار ہزار کا بھی مقابلہ کیا ہے.پس ہماری جماعت کو ہمیشہ اپنا روحانی مقصد اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور اس کے لیے صحیح کوشش اور جدو جہد کرتے رہنا چاہیے.بیشک اس راستہ میں مشکلات بھی آتی ہیں لیکن مومن مشکلات سے گھبرا تا نہیں بلکہ اُن کو دیکھ کر وہ اللہ تعالیٰ کے حضور پہلے سے بھی زیادہ جھک جاتا ہے.قرآن کریم میں ذکر آتا ہے کہ غزوہ احزاب کے موقع پر جب سارا عرب متحد ہو کر اسلام پر حملہ آور ہوا تو منافقوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ خدا اور اس کے رسول نے مسلمانوں کی کامیابی کے بالکل جھوٹے وعدے کیے تھے 2 لیکن مومنوں نے جب ان لشکروں کو دیکھا تو اُن کے ایمان اور بھی بڑھ گئے اور انہوں نے کہا ان ابتلاؤں کی تو ہمیں خدا تعالیٰ نے پہلے سے خبریں دی ہوئی تھیں.3 پس ہمارے لیے ان میں گھبراہٹ کی کونسی بات ہے؟ تو مومن مشکلات سے گھبراتا نہیں بلکہ مشکلات کو دیکھ کر اُس کا ایمان اور بھی بڑھ جاتا ہے.جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے متعلق قرآن کریم میں یہ خبریں دی گئی تھیں کہ اس میں مومنوں پر بڑے بڑے ابتلا آئیں گے.4 اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ يَأْتِي عَلَيْكَ زَمَنُ كَمَثَلِ زَمَنِ مُؤسى 5 یعنی جس طرح موسی کی قوم کو فرعون کے لشکر نے گھیر لیا تھا اُسی طرح تیری کی
198 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 جماعت پر بھی موسی کے زمانہ کی طرح ایک دور آنے والا ہے.پس دشمن اگر کسی وقت اپنے حملہ سے خوش بھی ہو تو مومن کا ایمان پھر بھی بڑھ جاتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ ان ابتلاؤں کی خدا تعالیٰ نے پہلے سے خبر دی ہوئی تھی.1953ء میں جب فسادات ہوئے تو ایک گاؤں کا محاصرہ کر کے احمدیوں کا پانی بند کر دیا گیا.اُس وقت ایک عورت نے بڑی ہمت دکھائی اور اس نے کہا کہ میں ربوہ جاتی ہوں اور وہاں جا کر یہ خبر پہنچاتی ہوں.چنانچہ وہ ربوہ آئی اور اس نے ہمیں حالات سے اطلاع دی.اتفاقاً اُن دنوں کچھ دوست باہر سے ربوہ آئے ہوئے تھے.میں نے اُن کو کار میں اُس کے گاؤں بھجوایا اور وہ پانی کھول کر آئے.اب دیکھو اس عورت کے اندر کتنا ایمان پایا جاتا تھا کہ جہاں مرد ڈر گئے وہاں وہ اکیلی عورت تمام خطرات میں سے گزرتے ہوئے ربوہ پہنچی اور اُس نے ہمیں حالات سے اطلاع دی.تو بعض دفعہ یہ کمزور جنس بھی ایسا اعلیٰ نمونہ دکھاتی ہے کہ مردوں کو شرمانا پڑتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک میراشن تھی جس کے لڑکے کو سل ہوگئی اور وہ جی علاج کے لیے اُسے قادیان لے آئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس لڑکے کو علاج کے لیے حضرت خلیفہ اول کے سپرد کر دیا.وہ لڑکا عیسائی ہو چکا تھا جس کا اُس کی ماں کو بڑا صدمہ تھا.وہ بار بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آتی اور کہتی کہ خدا نے آپ کو مسیح موعود بنایا ہے آپ میرے بیٹے کے سر سے جادو اُتار دیں اور اُسے مسلمان بنا ئیں.یہ میرا اکلوتا بیٹا ہے مگر مجھے اس کی زندگی کی اتنی خوشی نہیں.میرا دل چاہتا ہے کہ یہ کلمہ پڑھ کر مرے.وہ لڑکا بڑا پکا عیسائی تھا.ایک رات جب اُس نے دیکھا کہ پہرہ کمزور ہے تو بیماری کے باوجود وہ اُٹھ بھاگا اور بٹالہ کی طرف چل پڑا جہاں عیسائیوں کا مشن تھا.کچھ دیر کی کے بعد اُس کی ماں کی آنکھ کھلی اور اُس نے دیکھا کہ چار پائی خالی پڑی ہے تو وہ سمجھ گئی کہ میرا لڑکا بھاگ گیا ہے.وہ بھی اُس کے پیچھے دوڑ پڑی اور دس میل پر جا کر اس نے اپنے بیٹے کو پکڑ لیا اور پھر وہ اُسے قادیان واپس لائی.جب صبح ہوئی تو مجھے یاد ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں گر گئی اور روتے ہوئے کہنے لگی کہ خدا کے لیے آپ اسے ایک دفعہ کلمہ پڑھا دیں.پھر بیشک وہ مر جائے مجھے اس کی پروا نہیں.میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ وہ کلمہ پڑھ کر مرے.آخر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور وہ عیسائیت سے تائب ہو کر مسلمان ہو گیا اور پھر چند دنوں کے بعد مر گیا تو عورتوں میں بھی بعض دفعہ اتنا اخلاص ہوتا ہے کہ
$1958 199 خطبات محمود جلد نمبر 39 مردوں میں بھی نہیں ہوتا.کل ہی ایک شخص کے متعلق جو سندھ میں میری زمینوں پر کام کرتا ہے ایک شخص نے اطلاع کی کہ 1953 ء کے فسادات میں اُس نے احمدیت سے توبہ کر لی تھی اور وہ سلسلہ کو گالیاں دینے لگ گیا تھا.حالانکہ یہ شخص بھی ضلع سیالکوٹ کا رہنے والا ہے اور وہ عورت بھی ضلع سیالکوٹ کی ہی تھی جو خطر ناک مخالفت کی پروانہ کرتے ہوئے ربوہ پہنچی اور اُس نے مجھے حالات سے اطلاع دی.جیسا کہ میں نے بتایا ہے اُس وقت کچھ دوست باہر سے آئے ہوئے تھے جن کو کار دے کر میں نے اُس کے گاؤں بھجوایا اور گاؤں والوں نے پانی وغیرہ دینا شروع کر دیا.حافظ آباد میں بھی ایک احمدی کے گھر پر لوگ حملہ کرنے کے لیے جمع ہوئے تو ایک بارہ برس کی کے لڑکے نے اپنے باپ کی بندوق پکڑ لی اور ہوا میں فائر کر دیا.اس پر وہ سارے کے سارے بھاگی گئے اور انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ یہ تو بارہ سال کا لڑکا ہے جسے ہم مار بھی سکتے ہیں.اس سے ڈرنے کے کیا معنے ہیں.لیکن صحابہ کو دیکھو تو ہمیں معلوم ہوگا کہ وہ مرتے جاتے تھے مگر ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹتے تھے بلکہ جوں جوں مشکلات آتیں اُن کا اخلاص اور بھی ترقی کرتا چلا جاتا تھا.اور یہی کیفیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے صحابہ میں بھی پائی جاتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی زندگی میں جو آخری جلسہ سالانہ ہوا اُس میں سات سو آدمی شامل ہوا تھا.اب تو ربوہ کی آبادی بھی بارہ ہزار ہے مگر اُن سات سو افراد کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمانے لگے کہ معلوم ہوتا ہے جس کام کے لیے خدا تعالیٰ نے ہمیں بھیجا تھا وہ پورا ہو گیا ہے.اُس جلسہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کے لیے باہر تشریف لے گئے تو ہجوم کی وجہ سے آپ کو بار بار ٹھوکر لگتی اور چھڑی آپ کے ہاتھ سے گر جاتی.پھر آپ اُٹھاتے تو تھوڑی دیر کے بعد کسی اور کی ٹھوکر سے چھڑی گر جاتی.اس ہجوم میں ایک شخص آگے بڑھا اور اُس نے چاہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریب پہنچ جائے مگر دوسروں نے دھگا دے کر اُسے پیچھے ہٹا دیا.اُسے دیکھ کر ایک پرانا احمدی بڑے جوش سے کہنے لگا تجھے دھکوں کی کوئی پروانہیں کرنی چاہیے تھی چاہے تیرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے پھر بھی تیرا کام یہی تھا کہ تو آگے بڑھتا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مصافحہ کر کے آتا.یہ مبارک وقت پھر کب نصیب ہونا ہے.تو اللہ تعالیٰ کے لیے قربانی کرنا ایک بڑا انعام ہوتا ہے ڈرنے اور گھبرانے کی بات
خطبات محمود جلد نمبر 39 نہیں ہوتی.200 $1958 پس ہماری جماعت کو اس عظیم الشان کام کی تکمیل کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے سپرد کیا گیا ہے ہمیشہ کوشش کرتے رہنا چاہیے.اس وقت دنیا کی آبادی سوا دوا رب ہے لیکن ممکن ہے اس کام کی تکمیل تک یہ آبادی تین چار ارب ہو جائے اور ہمارا کام اور بھی بڑھ جائے.بہر حال جماعت کی تعداد کو ترقی دینے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ ہماری نسبت مقابلہ کم ہوتی چلی جائے.اگر ہم جلدی ہی دس کروڑ تک پہنچ جائیں تو پھر بھی دس ارب تک ہمارے ایک ایک آدمی کو سو سو کا مقابلہ کرنا پڑے گا.پس ہمیں بہت جلد ساری دنیا کو مسلمان بنانے کی کوشش کرنی چاہیے.آخر جتنے لوگ اس وقت اسلام سے باہر ہیں یہ سب کے سب ہمارے اپنے بچے یا بھائی ہیں.اگر وہ ہم سے عمر میں چھوٹے ہیں تو ہمارے بچے ہیں اور اگر برا بر ہیں تو ہمارے بھائی ہیں.پس اُن کو نیکی کی تلقین کرنا اور انہیں اسلام سے روشناس کرنا ہمارے فرائض میں شامل ہے کیونکہ یہ کام اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کیا تھا اور ہم نے یہ دعوی کیا ہے کہ ہم آپ کے کام کو پورا کریں گے.پس جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا کے کونے کونے میں نہیں پہنچ جاتا اور ایک ایک شخص کو ہم اسلام میں داخل نہیں کر لیتے ہم اپنے فرض سے عہدہ برا نہیں ہو سکتے.اس کے لیے ہمیں اپنی جان ، عزت ، آبروسب کچھ لگا دینی چاہیے.لیکن اگر ہم ایسا کر لیں تب بھی یہ کام ایک نسل سے پورا نہیں ہو سکتا.اسی لیے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے کہ گان يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلوةِ وَالزَّكوة 6 وہ اپنے بیوی بچوں اور رشتہ داروں کو بھی نماز اور زکوة کی تاکید کیا کرتے تھے تا ہمیشہ کے لیے خدائے واحد کی عبادت قائم رہے اور ہمیشہ کے لیے زکوۃ کا سلسلہ جاری رہے اور ایک نسل میں ہی یہ کام محدود ہو کر نہ رہ جائے.اسی طرح ہر احمدی کو یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ میں خود بھی تبلیغ اسلام کروں گا اور اپنے بیوی بچوں اور رشتہ داروں کو بھی تبلیغ اسلام کی تلقین کرتا چلا جاؤں گا تا کہ قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے.اور اگر قیامت تک اس سلسلہ کو جاری رکھا جائے تو صاف بات ہے کہ پھر دنیا میں مسلمان ہی مسلمان رہ جاتے ہیں.(الفضل 10 ستمبر 1958ء) 1 : الانفال: 67
$1958 201 خطبات محمود جلد نمبر 39 2 : وَإِذْ يَقُولُ الْمُنْفِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللهُ.وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا (الاحزاب: (21) وَلَمَّارَاَ الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيْمَانًا وَتَسْلِيمًا (الاحزاب: 23) 4 وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْاَنْفَس وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ ) (البقرة:156 ) 5 : تذکرہ صفحہ 446.ایڈیشن چہارم 6 : مریم : 56
$ 1958 202 (24) خطبات محمود جلد نمبر 39 سینما اور گانا بجانا شیطان کے ہتھیار ہیں جن سے وہ لوگوں کو ورغلاتا ہے تاریخ بتاتی ہے کہ اکثر مسلمان حکومتیں محض گانے بجانے کے شوق کی وجہ سے ہی تباہ و برباد ہوئیں فرموده 29 راگست 1958ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے قرآن کریم کی درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوتِ الشَّيْطَنِ -1- اس کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں مومنوں کو ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ اے مومنو! تم شیطان کے قدموں کے پیچھے مت چلو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ گانا بجانا اور باجے وغیرہ یہ سب شیطان کے ذرائع ہیں جن سے وہ لوگوں کو بہکاتا ہے.2 پس عیاشی کے تمام سامان اور باجے اور کی گانا بجانا شیطان کے ہتھیار ہیں جن سے وہ لوگوں کو ورغلایا کرتا ہے.اسی لیے میں نے جماعت کو ہدایت کی تھی کہ سینما نہ دیکھا کرو کیونکہ اس میں بھی گانا بجانا ہوتا ہے.پہلے یہ چیز تھیٹر میں ہوا کرتی
$1958 203 خطبات محمود جلد نمبر 39 تھیں لیکن جب سے ٹا کی نکل آئی ہے سینما میں بھی یہ چیزیں آگئی ہیں بلکہ اس سے زیادہ بڑے پیمانہ پر آئی ہیں کیونکہ تھیٹر کا صرف ایک شو ہوتا تھا جس میں بڑے بڑے ماہرین کو بلا نا بہت بڑے اخراجات کا متقاضی ہوتا تھا جس کو وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے.اور پھر ایک شوصرف ایک ہی جگہ دکھایا جاسکتا تھا مگر اب ایک شو سے ہزاروں فلمیں تیار کر کے سارے ملک میں پھیلا دی جاتی ہیں اور بڑے بڑے ما ہرفن گویوں کو بلایا جاتا ہے.اس لیے تھیٹر سے سینما کا ضرر بہت زیادہ ہوتا ہے.چند دن ہوئے مجھے ملتان سے ایک دوست کا خط آیا ہے کہ احمدی نو جوانوں میں سینما دیکھنے کا رواج پھر بڑھتا چلا جاتا ہے اس لیے ضرورت ہے کہ اس کی روک تھام کی جائے.مجھے تعجب آتا ہے کہ یہ نوجوان اتنے جاہل کیوں ہو گئے کہ انہیں اپنی تاریخ کا بھی پتا نہیں.اگر وہ پڑھے لکھے ہوتے اور انہیں تاریخ سے ذرا بھی واقفیت ہوتی تو انہیں معلوم ہوتا کہ بغداد بھی گانے بجانے سے تباہ ہوا ہے.جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا تو بادشاہ کی اُس وقت یہی آواز آتی تھی کہ گانے والیوں کو بلاؤ ، گانے والیوں کو بلا ؤ، بغداد پر کوئی حملہ نہیں کر سکتا.جو حملہ کرے گا وہ خود تباہ ہو جائے گا.لیکن جب اُس سے کچھ نہ ہوسکا تو ہلاکو نے اپنا ایک آدمی اُس کے پاس بھجوایا اور کہا کہ مجھے آ کر ملو مستعصم باللہ جو بغداد کا آخری بادشاہ تھا وہ ہلاکو کے اس پیغام پر اسے ملنے کے لیے گیا.ہلاکو خان نے اُس کے پہنچتے ہی حکم دے دیا کہ اسے قتل کر دیا جائے.پھر اُس نے اس کے ولی عہد کو مار ڈالا اور اس کے بعد بغداد پر حملہ کر کے اٹھارہ لاکھ آدمی ایک دن میں قتل کر دئیے اور شاہی خاندان کے جو افراد وہاں تھے اُس میں سے کوئی ایک فرد بھی نہ چھوڑا سب کو ہلاک کر دیا تا کہ آئندہ تخت کا کوئی دعویدار کھڑا نہ ہو.غرض خلافت عباسیہ تباہ ہوئی تو گانے بجانے کی وجہ سے.اسی طرح مغل تباہ ہوئے تو گانے بجانے کی وجہ سے، محمد شاہ رنگیلے کو رنگیلا کیوں کہا جاتا ہے؟ اسی لیے کہ وہ گانے بجانے کا بہت شوقین تھا.بہادرشاہ جو ہندوستان کا آخری مغل بادشاہ تھا وہ بھی اسی گانے بجانے کی وجہ سے تباہ ہوا.انگریزوں کی فوجیں کلکتہ سے بڑھ رہی تھیں، الہ آباد سے بڑھ رہی تھیں، کان پور سے بڑھ رہی تھیں، میرٹھ سے بڑھ رہی تھیں،سہارنپور سے بڑھ رہی تھیں اور بادشاہ کے حضور گانا بجانا ہورہا تھا.آخر انہوں نے اس کے بارہ جی بیٹوں کے سرکاٹ کر اور خوان میں لگا کر اُس کی طرف بھیجے کہ یہ آپ کا تحفہ ہے.کسی کا ایک بیٹا مر جاتا ہے تو وہ رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے مگر بہادر شاہ کے بارہ بیٹوں کے سرکاٹ کر اُس کی طرف بھیجے
$1958 204 خطبات محمود جلد نمبر 39 گئے.اُس نے درخواست دی تھی کہ میر اوظیفہ بڑھایا جائے.انگریزوں نے اس کے بارہ بیٹوں کے سر کاٹ کر اور خوان میں لگا کر اس کی طرف بھیج دیئے اور ساتھ ہی کہلا بھیجا کہ یہ آپ کا بڑھا ہوا وظیفہ ہے.غرض تمام تباہی جو مسلمانوں پر آئی زیادہ تر گانے بجانے کی وجہ سے ہی آئی ہے.اندلس کی حکومت گانے بجانے کی وجہ سے تباہ ہوئی ، مصر کی حکومت گانے بجانے کی وجہ سے تباہ ہوئی.مصر پر صلاح الدین ایوبی نے حملہ کیا تو فاطمی بادشاہ اُس وقت گانے بجانے میں ہی مشغول تھا.خدا نے مسلمانوں کو معزز بنایا تھا مگر نہ معلوم وہ میراثی کب سے بن گئے؟ ہر ایک کو شوق ہے کہ میراثی بن جاؤں حالانکہ ان میں سے کوئی مغل ہے، کوئی پٹھان ہے، کوئی سید ہے اور کوئی کسی اور معز زقوم سے تعلق رکھتا ہے.اگر تمہیں میراثی بننے کا ہی شوق تھا تو تمہیں چاہیے تھا کہ تم میراثیوں کے گھروں میں پیدا ہو جاتے مگر ایک طرف تو یہ کیفیت ہے کہ ہر شخص کو میراثی بننے کا شوق ہے اور دوسری طرف یہ حالت ہے کہ ذرا کسی سے کہہ دو کہ فلاں میراثی کی لڑکی سے شادی کر لوتو وہ لڑنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے کہ کیا تم مجھے میراثی سمجھتے ہو؟ مگر بازار میں سے گزرتے ہوئے وہ وہی سر میں لگاتا ہے جو میراثی لگایا کرتے ہیں اُس کا بیٹا بھی وہی سر میں لگاتا ہے جو میراثی لگایا کرتے ہیں.اور اس کی وہ کوئی پر وانہیں کرتا.غرض وہ آپ میراثی بنتا ہے، اس کے بچے میراثی بنتے ہیں، اس کی بیوی میراثن بنتی ہے لیکن اگر کہا جائے کہ فلاں میراثی کا رشتہ لے لو تو وہ بُرا مناتا ہے.گویا اپنی بیوی کو میراشن بنانے میں تو وہ کوئی حرج نہیں سمجھتا، اپنے بچوں کو میراثی بنانے میں وہ کوئی حرج نہیں سمجھتا، اسی طرح آپ میراثی بننے میں وہ کوئی حرج نہیں سمجھتا لیکن میراثی کولڑ کی دینے یا اُس کی لڑکی لے لینے میں بڑی ذلت محسوس کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس کے متعلق بڑا بھاری سبق دیا تھا مگر افسوس ہے کہ انہوں نے پھر بھی نصیحت حاصل نہ کی.دتی کی تباہی اس کی وجہ سے ہوئی، بغداد کی تباہی اس کی وجہ سے ہوئی ، مصر کی تباہی اس کی وجہ سے ہوئی ، اندلس کی تباہی اس کی وجہ سے ہوئی اور یا تو وہ سارا ملک مسلمانوں کا تھا اور یا آج ایک ہی مسجد جو وہاں باقی ہے عیسائی اُس کو بھی گرانے کی فکر میں ہیں.غرض مسلمانوں پر انتہا درجہ کا ظلم ہوا مگر اب بھی انہیں یہی شوق ہے کہ سینما دیکھیں اور گانا بجا ناسینیں.وہ ایک دوسرے سے کہیں گے
$1958 205 خطبات محمود جلد نمبر 39 کہ بڑا اچھا سینما آ گیا ہے.جس کے دوسرے لفظوں میں یہ معنے ہوتے ہیں کہ بڑا اچھا میراثی آ گیا ہے.غرض مسلمان برابر عیش و طرب میں بڑھتے چلے جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی خدا تعالیٰ نے اس بات سے ڈرایا تھا اورفرمایا تھا که يَأْتِي عَلَيْكَ زَمَنْ كَمَثَلِ زَمَنِ مُوسَی 3 یعنی تجھ پر بھی ویسا ہی زمانہ آنے والا ہے جیسے موسیقی پر آیا تھا.عام طور پر اس کے یہ معنے سمجھے جاتے ہیں کہ جس طرح موسوی قوم کو فرعونی مظالم کا مقابلہ کرنا پڑا اُسی طرح جماعت احمدیہ کو بھی مختلف ابتلاؤں میں سے گزرنا پڑے گا.لیکن ایک اور بات جس کی کی طرف اس الہام میں اشارہ کیا گیا ہے یہ ہے کہ یہودی مرد اور یہودی عورتیں ناچنے گانے میں بڑی مشہور ہیں.پس اس الہام میں اِس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تیری قوم پر بھی ایک ایسا ہی زمانہ آنے والا ہے یعنی وہ بھی اپنے اصل فرض کو بھول کر گانے بجانے کی طرف توجہ کر لیں گی.میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر تاریخ کی گواہی سے بھی کسی قوم کو ہوش نہیں آتا اور وہ اسی راستہ پر قدم مارتی جاتی ہے جس پر چل کر پہلے لوگ ہلاک ہوئے تو اس قوم کا مرجانا اس کی زندگی سے بہتر ہوتا ہے.میرے نز د یک ملتان کے سیکرٹری کو جس نے یہ چٹھی لکھی ہے مجھے کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں تھی.اُسے چاہیے تھا کہ ساری جماعت کے سامنے مسجد میں اس نوجوان کو کھڑا کرتا اور اُسے کہتا کہ وہ سب لوگوں کے سامنے یہ الفاظ کہے کہ میں اپنے اس فعل سے ساری جماعت کو تباہ کر دوں گا، میں احمدیت کو مٹا دوں گا کیونکہ جو کام میں کر رہا ہوں اس سے میں بھی مٹوں گا اور احمدیت بھی مٹے گی.میں سمجھتا ہوں کہ ایک یث سے خبیث منافق بھی یہ الفاظ کہنے کی جرات نہیں کرے گا.صرف یہی ہو سکتا ہے کہ وہ جماعت سے اپنی علیحدگی کا اعلان کر دے.لیکن ایسا شخص جماعت سے جتنی جلدی نکل جائے اُتنا ہی اچھا ہے اور اُس کے نکلنے سے ہمیں کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ ہماری ترقی ہی ہوگی.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اسی غلطی میں مبتلا رہے کہ میں اپنے ہاتھ سے مسلمانوں کو کس طرح سزا دوں حالانکہ سوال یہ ہے کہ جب مسلمان دوسرے مسلمانوں کو مارنے کے لیے کھڑے ہو جائیں تو وہ مسلمان ہی کب رہتے ہیں کہ اُن کو سزا دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کی جائے.میں تو سمجھتا ہوں اگر حضرت عثمان کے زمانہ میں مروان کو مروا دیا جاتا اور عبداللہ بن سبا کو مروا دیا جاتا تو یہ فتنہ ہی دب جاتا.مروان یوں خبیث الفطرت آدمی نہیں تھا لیکن جب اُس کی وجہ سے دوسرے مسلمان مارے جا رہے
206 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 تھے تو اگر اُس کی گردن اُڑا دی جاتی تو اس میں کیا حرج تھا.اسی طرح عبد اللہ بن سبا سارے کو فہ اور کی مصر اور بصرہ میں فساد برپا کر رہا تھا مگر اُس کی گردن نہیں اُڑائی گئی.گردن اُڑائی گئی تو حضرت عثمان کی اُڑائی گئی جو خدا تعالیٰ کے خلیفہ تھے.اگر مروان اور عبداللہ بن سبا کی گردنیں اُڑا دی جاتیں تو نہ حضرت کی علی کا واقعہ ہوتا اور نہ امام حسین کی شہادت ہوتی.پس ایسے لوگ اگر الگ ہو جائیں گے تو ہمارے لیے اس میں کوئی حرج نہیں.پہلے لوگوں نے اس وجہ سے نقصان اٹھایا کہ انہوں نے مجرموں کو سزائیں نہ دیں اور یہ خیال کر لیا کہ مسلمانوں میں فساد نہ ہو.حالانکہ سزا دینا فساد پیدا کرنا نہیں بلکہ فساد کو مٹانے کا ایک ذریعہ ہے.پھر باقی جماعت کا بھی کام ہے کہ وہ ایسے مواقع پر متحد ہو جایا کرے اور کسی کو فساد پھیلا نے نہ دے.اصل میں سارے کام جماعت کے ہوتے ہیں اکیلا آدمی کوئی کام نہیں کر سکتا.اگر حضرت عثمان کے زمانہ میں تمام مدینہ والے فتنہ پھیلانے والوں کے مقابلہ میں کھڑے ہو جاتے تو کسی کی جرات نہیں تھی کہ وہ حضرت عثمان پر حملہ کر سکتا.انہیں یہ جرات اسی لیے ہوئی کہ انہوں نے دیکھا کہ حضرت عثمان اُس وقت اکیلے ہیں اور کوئی اُن کی مدد نہیں کر رہا.لوگ یہ تو بخشیں کرتے ہیں کہ حضرت عثمان کا کیا قصور تھا کہ اُن کے زمانہ میں یہ فسادات ہوئے ؟ مگر یہ کبھی بحث نہیں کرتے کہ مصر کے مسلمانوں کا کیا قصور تھا، کوفہ کے مسلمانوں کا کیا قصور تھا، بصرہ کے مسلمانوں کا کیا قصور تھا، مدینہ کے مسلمانوں کا کیا قصور تھا؟ حالانکہ اصل سوال ی جس پر بحث ہونی چاہیے وہ یہی ہے.اگر اُس وقت سارے کے سارے مسلمان فتنہ پردازوں کے مقابلہ میں کھڑے ہو جاتے تو کیا مروان یا عبداللہ بن سبا کی مجال تھی کہ وہ فتنہ پھیلا سکتے ؟ پس اس کی جھگڑے کا اصل حل یہی ہے کہ یہ ساروں کا قصور تھا.اگر وہ سب کے سب مل جاتے تو کسی کو جرات نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ کوئی فتنہ پیدا کر سکتا.دیکھ لو حضرت خلیفہ اول کی وفات پر مولوی محمد علی صاحب نے ایک بڑا فتنہ کھڑا کیا.وہ ان جماعت میں بڑا اثر اور رسوخ رکھنے والے تھے مگر ہماری جماعت نے اُن کے مقابلہ میں ایسا اتحاد رکھا کہ وہ کچھ بھی نہ کر سکے.اور پھر تو ایسی حالت ہوگئی کہ یا تو ایک زمانہ میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ اٹھانوے فیصدی جماعت ہمارے ساتھ ہے اور دو فیصدی ان کے ساتھ اور یا پھر انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ تو صرف دو فیصدی جماعت ہے اٹھانوے فیصدی جماعت مرزا محمود احمد کے ساتھ
$1958 207 خطبات محمود جلد نمبر 39 بلکہ واقع یہ ہے کہ اگر غیر مبائعین کی تعداد صحیح طور پر معلوم کی جائے تو وہ دو فیصدی بھی نہیں بنیں گے اس سے کم ہی ہوں گے.ایک دفعہ ایک غیر احمدی رئیس جو راولپنڈی کے رہنے والے ہیں مجھ سے ملنے کے لیے آئے.انہیں لوگ عام طور پر احمدی کہتے تھے.میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ کو لوگ احمدی کہتے ہیں کیا یہ بات ٹھیک ہے؟ وہ کہنے لگے ایک لحاظ سے تو یہ بات ٹھیک ہے لیکن ایک لحاظ سے غلط ہے.غلط اس لحاظ سے ہے کہ میں نے بیعت نہیں کی اور صحیح اس لحاظ سے ہے کہ میری بیوی غیر مبائعین میں سے ہے اور اُس کی وجہ سے لوگ مجھے بھی احمدی کہہ دیتے ہیں.پھر کہنے لگے میں ایک دفعہ مولوی محمد علی صاحب کی بیعت کرنے کے لیے لاہور گیا مگر جب میں ان کے مرکز میں پہنچا ہے تو وہ مجھے بالکل اُجاڑ نظر آیا.میں نے کہا ایسی اُجاڑ جگہ میں میں نے بیعت کیا کرنی ہے.چنانچہ بغیر بیعت کیے میں واپس آ گیا.پس اس لحاظ سے کہ میں نے بیعت نہیں کی میں احمدی نہیں لیکن اس لحاظ سے کہ میری بیوی احمدی ہے اور اس کا مجھ پر اثر ہے میں بھی احمدی ہوں اور احمدی دوستوں کی خدمت کا مجھے ہمیشہ خیال رہتا ہے.(الفضل 14 ستمبر 1958ء) 1 : النور:22 2 : ابوداؤد کتاب الجھاد ـ باب في تعليق الاجراس 3 : تذکرہ صفحہ 446.ایڈیشن چہارم
$ 1958 208 25) خطبات محمود جلد نمبر 39 دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہم میں اور ہماری آئندہ نسلوں میں ہمیشہ اعمالِ صالحہ اور نورِ ایمان کو قائم رکھے جولوگ اپنی اولاد کی نیک تربیت سے غافل ہو جاتے ہیں اُن کی نسلیں روحانی لحاظ سے تباہ ہو جاتی ہیں (فرمودہ 5 ستمبر 1958ء) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: پچھلے سے پچھلے جمعہ بھی گرمی کی شدت تھی اور میں نے شکایت کی تھی کہ گرمی کی وجہ سے طبیعت خراب رہتی ہے مگر پھر اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ بارش ہو گئی اور ایسی ٹھنڈک ہوگئی کہ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ہم کسی اونچے پہاڑ پر رہتے ہیں مگر آج پھر گرمی کی شدت ہے.معلوم نہیں کیا وجہ ہے کہ گرمی کم ہونے میں ہی نہیں آتی حالانکہ ستمبر کا وسط آ گیا ہے.بہر حال میں آج یہ بات کہنی چاہتا ہوں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے اسماء الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُ بھی آتے ہیں جیسا کہ وہ فرماتا ہے هُوَ الْاَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ - 1 اول بھی ہے اور آخر بھی اور ظاہر بھی ہے اور باطن بھی.اس جگہ خدا تعالیٰ کو الظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وہ
209 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 قرار دینے کا وہی مفہوم ہے جو اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْاَرْضِ 2 میں بیان کیا گیا ہے.یعنی ظاہری طور پر جو خوبیاں اور نیکیاں کسی انسان میں پائی جائیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی آتی ہیں اور باطنی طور پر جو صفائی دل میں پیدا ہوتی ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی پیدا ہوتی ہے.ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ اسی مضمون کو ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے کہ وَاعْلَمُوا اَنَّ اللهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ 3 یعنی جان لو کہ اللہ تعالیٰ انسان اور اُس کے دل کے درمیان چکر لگاتا رہتا ہے.یعنی انسانی قلب میں کوئی بھی ایسا خیال پیدا نہیں ہوتا جو اللہ تعالیٰ کی نظر سے نہ گزرتا ہو.اگر اللہ تعالیٰ انسان کی تائید میں ہو تو شیطانی وساوس اور شبہات اُس کے ایمان کو متذبذب نہیں کر سکتے.لیکن اگر خدائی تائید شاملِ حال نہ ہو تو شیطانی وساوس اُس پر اثر ڈال لیتے ہیں.گویا بتا یا کہ ظاہر میں جس قدر خوبیاں پائی جانی چاہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی پیدا ہوتی ہیں اور باطنی صفائی بھی اُسی کے فضل سے میسر آتی ہے یہ انسان کے بس کی بات نہیں ہوتی.لوگ عموماً سمجھ لیتے ہیں کہ جب ہم اچھے ہیں تو لازماً ہماری اولا د بھی قیامت تک اچھی ہی رہے گی اور اس وجہ سے وہ اُن کی نیک تربیت اور دینی تعلیم سے غافل ہو جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُن کی آئندہ نسلیں بالکل تباہ ہو جاتی ہیں.دنیا میں تمام تباہیاں اور بربادیاں اسی وجہ سے ہوئی ہیں کہ لوگوں نے یہ خیال کر لیا کہ جب ہم اچھے ہیں تو لازماً ہماری اولا د بھی اچھی رہے گی حالانکہ نہ قومی نیکیاں خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل ہوتی ہیں اور نہ آئندہ نسلوں کی درستی اُس کے فضل کے بغیر ہوتی ہے.اور اگر کسی وقت ہماری جماعت نے بھی اس نکتہ کو فراموش کر دیا تو اسے بھی اُنہی روحانی خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا جو پہلی قوموں کو پیش آئے.ہماری موجودہ حالت تو ابھی ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں ” کیا پڑی اور کیا پڑی کا شور با.ابھی تو ہم نے کوئی کام ہی نہیں کیا صرف چند آدمی زندگیاں وقف کر کے غیر ممالک میں گئے ہیں مگر ان کی قربانی صحابہ اور حواریوں کی قربانیاں تو الگ رہیں امت محمدیہ میں جو بلند مرتبہ صوفیاء گزرے ہیں ان کی قربانیوں کے مقابلہ میں بھی پیش نہیں کی جاسکتیں.حضرت معین الدین صاحب چشتی ایران کے علاقہ چشت سے ہندوستان آئے اور اجمیر چلے گئے جہاں کئی سو میل تک ایک مسلمان بھی نہیں تھا اور پھر کسی سے ایک پیسہ لیے بغیر وہیں اپنی ساری عمر گزار دی لیکن ہمارے مبلغوں کی طرف سے کئی دفعہ چٹھیاں آ جاتی ہیں کہ ہمیں خرچ کم ملتا ہے اسے کی
210 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 بڑھایا جائے.بعض لکھتے ہیں کہ اس کم خرچ میں لوگوں پر ہماری شان ظاہر نہیں ہوتی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف انہی کو اپنی شان دکھانے کی ضرورت ہے؟ حضرت معین الدین چشتی اور دوسرے اولیاء کی کوئی شان نہیں تھی ؟ انہوں نے تو غربت اور مسکنت میں ہی اپنی عمر گزار دی مگر ہمارا مبلغ لکھتا ہے کہ ہمیں خرچ کم ملتا ہے اسے بڑھایا جائے.حالانکہ اگر غور کیا جائے تو جہاں تک غیر ممالک میں جانے کا سوال ہے ایمبیسی میں کام کرنے والے جتنے آدمی ہیں سب غیر ممالک میں رہتے ہیں صرف اتنا فرق ہے کہ ان کو زیادہ تنخواہ ملتی ہے اور ہمارے مبلغ کو کم ملتی ہے.ورنہ جہاں تک وطن سے باہر رہنے کا سوال ہے اس میں ہمارا مبلغ اور ایمبیسی میں ملازمت اختیار کرنے والا نو جوان برابر ہوتے ہیں بلکہ ہمارے مبلغوں کو جو گزارہ ملتا ہے اس میں تو کئی غیر احمدی بھی احمدیت کی تبلیغ کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں.چنانچہ ہر سال مجھے بعض غیر احمدیوں کے ایسے خطوط آ جاتے ہیں کہ ہم اس بات کے لیے تیار ہیں کہ غیر ممالک میں احمدیت کی تبلیغ کریں.آپ ہمیں اپنے روپیہ پر باہر بھجوا دیں.غرض غیر ممالک میں جانے کے لیے تو لوگ ترستے رہتے ہیں اور ہمارا مبلغ مفت میں یورپ اور امریکہ پہنچ جاتا ہے.مجھے یاد ہے کہ جب میں پہلی دفعہ یورپ گیا تو میرے بہنوئی نواب محمد علی خان صاحب کا ایک لڑکا بھی اُن دنوں وہاں گیا ہوا تھا.میں نے سنا کہ وہ سلسلہ کے خلاف باتیں کرتا ہے.میں نے ایک دوست سے جواب بیرسٹر ہیں اور سرگودھا میں کام کرتے ہیں اور اُن دنوں تعلیم کے لیے وہاں گئے ہوئے تھے پوچھا کہ بات کیا ہے اور وہ سلسلہ کے خلاف کیوں باتیں کرتا ہے؟ اُس نے کہا کہ اُسے اس بات پر غصہ ہے کہ سلسلہ نے نوابوں کو ذلیل کر دیا ہے.چنانچہ اس نے ایک مبلغ کا نام لے کر کہا کہ انہوں نے جب اس جیسے ذلیل آدمی کو مبلغ بنا کر بھیج دیا تو اب بتاؤ کہ ہماری کیا عزت رہی ؟ وہ اس مبلغ کے متعلق سمجھتا تھا کہ وہ بہت ہی ذلیل آدمی ہے اور خیال کرتا تھا کہ جب انہوں نے فلاں شخص کو جو صرف انٹرنس پاس سے مبلغ بنا کر بھیج دیا ہے تو اب نواب تو ذلیل ہو گئے ان کی بھلا کیا عزت رہی ؟ گویا اسے یہ غصہ تھا کہ اتنے کم تعلیم یافتہ اور معمولی آدمی کولندن کیوں بھجوا دیا اور یہاں اس ملک میں کسی تی آدمی کا تبلیغ کے لیے جانا بڑی بھاری قربانی سمجھا جاتا ہے.وہاں ایک شخص کو اس لیے ابتلا آ گیا کہ فلاں کو مبلغ بنا کر کیوں بھیجا گیا ہے اور ہمارا مبلغ اس غلط فہمی کا شکار ہوتا ہے کہ وہ سلسلہ کی خدمت کر کے کوئی قربانی کر رہا ہے حالانکہ بیرونی ممالک میں ہمارے جس قدر مبلغ کام کر رہے ہیں ان سب کو
$1958 211 خطبات محمود جلد نمبر 39 صرف سلسلہ کی وجہ سے ہی عزت اور شہرت نصیب ہوئی ہے.فلسطین میں جو ہمارے مبلغ رہے ہیں ان کو بھی سلسلہ نے ہی تعلیم دلائی تھی اور پھر وہاں جا کر بھی ان کی بڑی عزت ہوئی.جس دن انہوں نے وہاں سے روانہ ہونا تھا اسرائیل کے پریذیڈنٹ نے اپنے سیکرٹری کے ذریعہ انہیں پیغام بھجوایا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ واپس جا رہے ہیں.آپ جانے سے پہلے ایک دفعہ مجھ سے ضرور مل لیں.چنانچہ وہ ملنے کے لیے گئے اور جب باتیں ہو چکیں تو وہ اپنے کمرہ سے باہر انہیں چھوڑنے کے لیے آیا اور جب انہوں نے مصافحہ کیا تو سرکاری فوٹو گرافر جو اس نے کی سے مقرر کیا ہوا تھا اُس نے فوراً دونوں کا فوٹو لے لیا اور پھر سارے شام اور مصر اور امریکہ کے اخباروں میں اسے شائع کرایا گیا اور لکھا گیا کہ اسلامی مبلغ اسرائیل کے پریذیڈنٹ سے مصافحہ کرر ہے.چودھری ظفر اللہ خان صاحب شام گئے تو وہاں لوگوں نے اُن سے پوچھا کہ کیا آپ اسرائیل سے مل گئے ہیں؟ انہوں نے کہا نہیں.وہ کہنے لگے اخباروں میں تو تصویر میں چھپی ہیں کہ آپ کا مبلغ کی اسرائیل کے پریذیڈنٹ سے مصافحہ کر رہا ہے.دراصل اس نے چالا کی کی تھی.بظاہر تو اس نے ہمارے مبلغ کو ملنے کے لیے بلوایا.مگر در پردہ اُس کا مقصد یہ تھا کہ ہم مصافحہ کے وقت ان کا فوٹو لے لیں گے اور تمام ممالک میں یہ پروپیگنڈا کریں گے کہ اسلامی مبلغ اور اسرائیل میں دوستی ہے.چنانچہ جب وہ انہیں باہر چھوڑنے آیا اور انہوں نے مصافحہ کیا تو سرکاری فوٹوگرافر نے فوٹو لے لیا اور اسے ہندوستان اور مصر اور شام اور امریکہ میں پھیلایا گیا.تو دیکھو ہمارے مبلغ کا کتنا بڑا اعزاز ہوا کہ اسرائیل کا پریذیڈنٹ جو بادشاہ کے طور پر تھا اُس نے خود ملاقات کی خواہش کی اور پھر مصافحہ کے فوٹو اُس نے تمام اخبارات میں شائع کروائے.اسی طرح ایران کا بادشاہ لندن گیا تو اس نے ایک اعلیٰ درجہ کا کمپاس مسجد کے لیے تحفہ کے طور پر بھجوایا.ڈاکٹر سکارنو انڈونیشیا کا پریذیڈنٹ ہے مگر اس نے ہمارے مبلغ کا اتنا اعزاز کیا کہ جب اس نے قرآن کریم کا ترجمہ تحفہ کے طور پر پیش کیا تو ڈاکٹر سکا رنو کھڑا ہو گیا.اس نے قرآن کریم کو چھو ما، اُسے اپنی آنکھوں سے لگایا اور پھر اسے دیکھ کر کہا کہ آپ لوگوں نے اسلام کی بڑی بھاری خدمت کی ہے.پھر جب وہ لاہور میں آیا اور گورنر پنجاب کی طرف سے اُس کی دعوت ہوئی تو اس نے اپنے سیکرٹری سے پوچھا کہ کیا احمدی مبلغ کو بھی بلایا گیا ہے یا نہیں؟ اُس نے کہا نہیں.وہ کہنے لگا منتظمین کو
خطبات محمود جلد نمبر 39 212 $1958 کہہ دیا جائے کہ اُن کو بھی بلایا جائے.چنانچہ گورنر کی طرف سے ان کو بھی شمولیت کی دعوت آ گئی.اب دیکھو انڈونیشیا کے پریذیڈنٹ نے ہمارے مبلغ کا کتنا اعزاز کیا کہ ہمارے اپنے گورنر نے تو اسے نظر انداز کر دیا مگر اس نے کہا کہ جب مجھے بلایا ہے تو پھر انکو بھی بلایا جائے.اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہمارے مبلغ نے دین کی خدمت کر کے کوئی قربانی کی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس نے کوئی قربانی نہیں کی بلکہ خدا نے اس پر یہ احسان کیا کہ اُس نے اسے خدمت دین کی توفیق عطا فرمائی.جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اعراب کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تم نے اسلام قبول کر کے ہم پر کوئی ای احسان نہیں کیا بلکہ خدا نے تم پر یہ احسان کیا ہے کہ اس نے تمہیں اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.4 اسی طرح انہیں غیر ممالک میں احمدیت کا مبلغ بنا کر سلسلہ نے ان پر احسان کیا ہے ورنہ ان کی حیثیتیں ہی کیا تھیں کہ وہ کسی غیر ملک میں جا سکتے.ان کو تو شاید پاسپورٹ بھی نہ ملتا.انہیں اگر پاسپورٹ ملا تو سلسلہ کے طفیل ملا اور اگر وہ غیر ممالک میں گئے تو سلسلہ کے طفیل گئے حالانکہ دوسرے لوگوں کو پاسپورٹ ملنے میں بھی ہزاروں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.امریکن قونصل جنرل جس کی حیثیت ایک وزیر کی ہوتی ہے وہ ایک دفعہ لاہور میں مجھے ملنے کے لیے آیا اور کہنے لگا کہ اگر کوئی ایسی خدمت ہو جس کا میرے ساتھ تعلق ہو تو مجھے بتایا جائے میں اس کے متعلق اپنی پوری کوشش کروں گا.میں نے کہا صرف ایک بات ہے اور وہ یہ کہ ہمارے مبلغوں کو امریکہ کا ویزا (Visa) ملنے میں وقتیں ہوتی ہیں.کہنے لگا اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں یہاں جتنے لوگ جاتے ہیں سب منگتے یا ہاتھ دیکھنے والے ہوتے ہیں اور اُن کو ہمارا ملک پسند نہیں کرتا.ہم مبلغ صرف عیسائیوں کو سمجھتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ گر جا اُن کی مدد کر رہا ہے باقی جس قدر لوگ ہیں اُن کو ہم فقیر اور ارڈ پوپو 5 سمجھتے ہیں.میں نے کہا ہم تو اپنی جماعت کے مبلغین کو با قاعدہ خرچ کی بھجواتے ہیں.اس لیے ہمارے متعلق اس قسم کا کوئی خیال نہیں کیا جاسکتا.چنانچہ اس نے اپنی حکومت کو اس بارہ میں چٹھی لکھی اور چند دنوں کے بعد اُس کی طرف سے جواب آ گیا جس کی ایک نقل اُس کی نے مجھے بھی بھجوادی.اُس میں حکومت امریکہ نے لکھا تھا کہ ہم نے حکم دے دیا ہے کہ احمدی مبلغوں کے راستہ میں کسی قسم کی روک نہ ڈالی جائے کیونکہ ہمیں اس بات کا علم ہو چکا ہے کہ جیسے پادریوں کو با قاعدہ گزارے ملتے ہیں اسی طرح احمدی مبلغین کو بھی ان کا سلسلہ خرچ دیتا ہے.چنانچہ اس کے بعد
$1958 213 خطبات محمود جلد نمبر 39 روک دور ہو گئی اور اب ہر مبلغ کو بڑی آسانی سے پاسپورٹ مل جاتا ہے حالانکہ دوسرے لوگوں کو پاسپورٹ لینے کے لیے بھی بڑی بڑی رقمیں خرچ کرنی پڑتی ہیں.چودھری رستم علی صاحب کا ایک بھتیجا یا بھانجا ایک دفعہ ( تقسیم سے قبل ) بمبئی میں اس جرم میں پکڑا گیا کہ وہ پاسپورٹ بنوانے کے لیے لوگوں سے پانچ پانچ ، چھ چھ سو روپیہ لیتا تھا.تو دوسرے لوگوں میں سے بڑی بڑی حیثیتوں والوں کو بھی پاسپورٹ کے ملنے میں کئی قسم کی وقتیں پیش آ جاتی ہیں لیکن ہمارا مبلغ جو ان سے بہت کم حیثیت ہوتا ہے اسے صرف جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے آسانی سے پاسپورٹ مل جاتا ہے.پاکستان کے ایک سابق وزیر تھے جو اپنی بیوی کے ساتھ یورپ کی سیاحت کے لیے گئے.زیورک میں وہ شیخ ناصر احمد صاحب سے بھی ملے اور کہنے لگے کہ اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو تو میں اس کے لیے حاضر ہوں.انہوں نے کہا کہ ہمیں ایچینج کی دقتوں کی وجہ سے بہت دیر بعد خرچ ملتا ہے.اگر آپ اس وقت کو رفع کراسکیں تو ہمیں آسانی ہو جائے گی.اُس کی بیوی نے یہ بات سنی تو وہ اپنے خاوند سے کہنے لگی کہ ان کے متعلق ضرور کوشش کرو.اب تو تم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہو کہ کام صرف یہی لوگ کر رہے ہیں.تمہارے ایمبیسیڈر تو صرف گھروں میں بیٹھے رہتے یا سیر میں کرتے رہتے ہیں.اس نے وعدہ کیا کہ میں پونڈوں کی کمی دور کروانے کی کوشش کروں گا مگر اس کے آتے ہی وزارت بدل گئی اور وہ اپنے وعدہ کو پورا نہ کر سکا.مگر خدا تعالیٰ نے بعض اور آدمی پیدا کر دیئے جنہوں نے پونڈوں کی کمی کے باوجود ہمارے ساتھ نیک سلوک کیا.اس کی وجہ سے ہمارے مبلغوں کو کچھ نہ کچھ خرچ پہنچتا ہی رہتا ہے.بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ ہمیں قربانی کی توفیق دے رہا ہے مگر سوال یہ ہے کہ صرف اتنی قربانی کرنے پر ہم یہ کس طرح امید کر سکتے ہیں کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں سال تک خدا تعالیٰ کا سایہ ہماری جماعت کے سر پر رہے گا.صحابہ نے جو قربانیاں کیں وہ اپنی ذات میں اتنی بے مثال ہیں کہ آج بھی ان کا تصور کر کے ونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.بلال کے نمونہ کو ہی دیکھ لو.کیا آج کوئی ایک بھی احمدی ہے جو بلال جیسا نمونہ دکھا سکے؟ سخت گرمیوں کے موسم میں جب دھوپ خوب چمک رہی ہوتی تھی لوہے کی میخوں والے جوتے پہن کر مکہ کے لوگ بلال کے سینہ پر چڑھ جاتے ،.اُس پر ناچتے اور گو دتے اور پھر کہتے کہ کہو خدا کے سوا اور بھی معبود ہیں مگر وہ یہی کہتے کہ اللهُ اَحَدٌ اَللهُ اَحَدُ اللہ ایک ہے.اللہ ایک
$1958 214 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہے.پھر وہ ان کے پیروں میں رسیاں باندھ کر کھنگھر وں والی گلیوں میں گھسیٹتے جس سے اُن کا تمام بدن پھولئیاں ہو جاتا مگر اس کے باوجود اُن کی زبان سے یہی الفاظ نکلتے کہ اللهُ اَحَدٌ اللَّهُ اَحَدٌ الله اکیلا ہے.اللہ اکیلا ہے.6 ان کی یہ قربانی اللہ تعالیٰ کو ایسی پسند آئی کہ ایک دفعہ جبکہ وہ مدینہ میں اذان دے رہے تھے کچھ نوجوانوں نے ہنسنا شروع کر دیا.بلال چونکہ حبشی تھے اس لیے وہ اَشْهَدُ کہنے کی بجائے اَسْهَدُ کہا کرتے تھے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لے آئے تو آپ نے حضرت بلال کو مو ون مقر رفرما دیا مگر وہ ہمیشہ اَشْهَدُ کی بجائے اَسهَدُ کہا کرتے کیونکہ وہ ش کا لفظ ادا نہیں کر سکتے تھے.مدینہ کے بچے اور حدیث العہد نو جوان ان کی اذان سنتے تو اسهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا الله کہنے پر وہ ہنس پڑتے.ایک دفعہ وہ اسی طرح ہنسے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم تو بلال کے اَسْهَدُ لله اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا الله کہنے پر ہنستے ہومگر میں نے کشفی حالت میں دیکھا ہے کہ خدا عرش پر بلال کے اَسهَدُ کہنے پر خوش ہو رہا ہے.Z گویا جس چیز کو تم ہنسی اور تحقیر کا موجب سمجھ رہے ہو وہی اس کی شان کو بڑھانے والی اور اس کی عزت کو دوبالا کرنے والی ہے کیونکہ اس نے اُس وقت اسلام قبول کیا تھا جب تمام لوگ دشمن تھے اور اسلام کے قبول کرنے پر اسے بڑی بڑی اذیتیں دیا کرتے تھے.حضرت عثمان کے خلاف جب فتنہ اُٹھا اور لوگوں نے آپ کو شہید کرنا چاہا تو اس وقت حضرت بلال نے ان لوگوں کو سمجھایا اور کہا کہ اے لوگو! تم ایسا نہ کرو ورنہ خدا تعالیٰ کا تم پر عذاب نازل ہوگا لیکن لوگوں نے ان کی بات کی کوئی پروانہ کی اور حضرت ابوبکر کے ایک بیٹے نے آگے بڑھ کر حضرت عثمان کی کی داڑھی پکڑ لی.حضرت عثمان نے اُسے کچھ نہیں کہا.صرف نظر اٹھا کر آپ نے اُس کی طرف دیکھا اور فرمایا اے میرے بھائی کے بیٹے ! اگر تیرا باپ اس جگہ ہوتا تو وہ یہ حرکت نہ کرتا.معلوم ہوتا ہے اُس کی کے دل میں ابھی کچھ ایمان باقی تھا.اُس کا ہاتھ کانپ گیا اور وہ پیچھے ہٹ گیا 8 مگر پھر ایک اور منافق آگے بڑھا اور اُس نے آپ کو شہید کر دیا.9 غور کرو کہ صحابہ کتنی بڑی قربانیاں کرنے والے انسان تھے.کس طرح اسلام کی حفاظت کے لیے انہوں نے دیوانہ وار اپنی جانیں قربان کیں مگر دوسری تیسری نسل میں ہی لوگوں کے اندر ایسا بگاڑ پیدا ہو گیا کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسوں کی کو میدان کربلا میں شہید کر دیا.
خطبات محمود جلد نمبر 39 215 $ 1958 حضرت معین الدین صاحب چشتی جنہوں نے اسلام کے لیے اتنی بڑی قربانی کی تھی کہ وہ ان ایران سے ہندوستان آئے اور بغیر ایک پیسہ لیے اسلام کی خدمت کرتے رہے.ان کی اولاد آج بھیک مانگ مانگ کر گزارہ کر رہی ہے.امراء حضرت معین الدین صاحب چشتی کے ادب کی وجہ سے ان کی اولا د کو روپیہ دے دیتے ہیں جس سے وہ گزارہ کرتی ہے ورنہ اپنی ذات میں ان کے اندر کوئی روحانیت باقی نہیں رہی.یہی حال حضرت نظام الدین صاحب اولیاء اور حضرت فرید الدین صاحب شکر گنج سے تعلق رکھنے والوں کا ہوا.انہوں نے ایک بہشتی دروازہ بنایا ہوا ہے اور جو لوگ وہاں عقیدت اور اخلاص کے ساتھ جمع ہوتے ہیں اُن سے کہا جاتا ہے کہ اس دروازہ میں سے گزرو اور آگے چل کر نذر پیش کرو.اب کی بھلا وہ بھی کیا نذر ہوئی جو زبردستی لی جاتی ہے.اس سے پتا لگتا ہے کہ ظاہر اور باطن اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے انسان خواہ کس قدر تدبیریں کرے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی نصرت کے بغیر وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا.مسیحیوں کو دیکھ لو وہ تین سوسال تک غاروں میں رہتے رہے لیکن انہوں نے حضرت مسیح کو نہیں چھوڑا.رومی بادشاہ اُس وقت بُت پرست تھا اور اس نے حکم دے دیا تھا کہ جہاں کوئی عیسائی ملے اُسے مار ڈالو.چنانچہ وہ اپنی جانیں بچانے کے لیے غاروں میں رہنے لگے.میں نے اٹلی میں خود وہ کی جگہیں دیکھی ہیں جہاں عیسائیوں نے پناہ لی.ان غاروں کو کیٹا کو مبز (Catacombs) کہتے ہیں.قرآن کریم میں ان کا نام کہف رکھا گیا ہے.10 وہاں جگہ جگہ کتبے لگے ہوئے ہیں اور اُن پر شہید ہونے والوں کے حالات درج ہیں.ایک جگہ ایک لڑکے نے لکھا ہوا تھا کہ یہاں میری ماں ، میرا باپ اور اتنے بھائی اور بہنیں مار دیئے گئے تھے اور وہ اسی جگہ دفن ہیں.اے آنے والے ! تو خدا تعالیٰ کی راہ میں ان جان دینے والوں کے لیے دُعا کر کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند کرے اور انہیں کی اپنی رضا کا وارث کرے.غرض تین سو سال تک عیسائیوں کو ماریں پڑتی رہیں اور بعد میں وہ اُس وقت غاروں سے نکلے جب روم کا بادشاہ عیسائی ہو گیا.اُس نے ایک خواب کی بناء پر عیسائیت کو قبول کیا اور کی تمام ملک میں اعلان کر دیا کہ اب عیسائیوں کے لیے امن ہے.پھر یہ لوگ باہر نکلے مگر اتنی بڑی قربانی کرنے والے عیسائیوں کی اولادوں کا آج کیا حال ہے.انہوں نے مسیح کو جو خدا تعالیٰ کا ایک
216 $1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 بندہ تھا خدا بنایا ہوا ہے حالانکہ ان کے آباء و اجداد محض توحید کو قائم رکھنے کے لیے تین سو سال تک غاروں میں رہے.تم ایک دن بھی غار میں نہیں رہ سکتے مگر وہ برابر تین سو سال تک غاروں میں اپنی زندگی بسر کرتے رہے.وہ چوروں کی طرح رات کو باہر نکلتے اور لوگوں سے چھپ چھپ کر کھانے پینے کی چیزیں اپنے لیے مہیا کرتے ، اندر ہی اُن کے گرجے تھے ، اندر ہی اُن کی شادیاں ہوتی تھیں اور اندر ہی اُن کے بچے پیدا ہوتے تھے.نا معلوم کتنی عورتیں وضع حمل کے وقت دایوں کے نہ ملنے کی وجہ سے مرگئی ہوں گی اور کتنے بچے تلف ہوئے ہوں گے.مگر انہوں نے سالہا سال ان تکلیفوں کو برداشت کیا اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو چھوڑنے کا انہوں نے خیال تک نہ کیا.مگر یہاں یہ حالت ہے کہ 1953ء میں چند مولویوں نے اپنے مخالفانہ وعظوں سے لوگوں کو ہمارے خلاف بھڑکا دیا تو اس مخالفت کی وجہ سے کئی احمدی گھبرا گئے اور وہ شکایتیں کرنے لگے کہ ہمارا پانی بند کر دیا گیا ہے یا ہمیں فلاں فلاں تکلیف پہنچائی جارہی ہے.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بیان کیا ہے کہ اُن دنوں سیالکوٹ کے ضلع سے ایک عورت اکیلی ربوہ پہنچی اور اُس نے کہا کہ ہمارے گاؤں میں ایک ہی کنواں ہے جس سے احمدیوں کو پانی لینے سے روک دیا گیا ہے اور اس وجہ سے جماعت کے لوگ سخت تکلیف میں ہیں.میں نے مردوں سے کہا کہ جاؤ اور ربوہ خبر دو مگر انہوں نے کہا کہ کون کی جائے رستہ بڑا خطرناک ہے.اس پر میں اکیلی آگئی تا کہ میں آپ کو حالات سے باخبر کروں.اُن کے دنوں اتفا ق چار پانچ دوست باہر سے آئے ہوئے تھے.میں نے اُن کو کار دے کر کہا کہ فوراً جاؤ اور پانی کھلوا کر آؤ.چنانچہ وہ گئے اور انہوں نے پانی کھلوایا بلکہ ان کے جانے سے اُس گاؤں کے لوگ اتنے ڈر گئے کہ انہوں نے کہا کہ احمدیوں کو پانی لینے سے کون روکتا ہے.کسی نادان لڑکے نے انہیں روکا ہوگا ہم نے تو نہیں روکا.ان کا حق ہے کہ آئیں اور پانی لے جائیں.مگر اتنی معمولی تکلیف پر ہی بعض لوگ مرتد ہو گئے.ایک پرانے احمدی تھے جو 70، 75 سال کی عمر کے تھے اُن کے پاس بھی گاؤں کے لوگ پہنچے اور کہنے لگے کہ چلو اور مسجد میں چل کر تو بہ کرو.اُس نے کہا ہم تو ہر روز تو بہ کرتے ہیں.آج مجھ سے نئی تو بہ کونسی کروانے لگے ہو؟ وہ کہنے لگے ہماری مراد اس تو بہ سے نہیں بلکہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ تم احمدیت سے تو بہ کرو.وہ کہنے لگا میں اپنے سارے گناہوں سے تمہارے سامنے تو بہ کرتا ہوں.لوگ
$ 1958 217 خطبات محمود جلد نمبر 39 خوش خوش واپس چلے گئے اور انہوں نے اپنے مولوی سے جا کر کہا کہ ہم تو اس سے تو بہ کروا آئے ہیں.اُس نے کہا کس طرح؟ وہ کہنے لگے اس نے سب کے سامنے کہہ دیا ہے کہ میں اپنے سارے گناہوں سے تو بہ کرتا ہوں.وہ کہنے لگا اس قسم کی تو بہ تو وہ تم سے بھی زیادہ کرتے ہیں.اگر اس نے کی واقع میں احمدیت سے توبہ کر لی ہے تو پھر اسے مسجد میں لاؤ اور میرے پیچھے نماز پڑھاؤ.چنانچہ وہ پھر اُس کے پاس گئے.وہ انہیں دیکھ کر کہنے لگا کہ اب پھر تم کیوں آگئے ہو؟ انہوں نے کہا ہم اس لیے آئے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ مسجد میں چل کر نماز پڑھیں تا کہ ہمیں یقین ہو کہ آپ نے احمدیت سے توبہ کر لی ہے.وہ کہنے لگا میں نے تو اس لیے تو بہ کی تھی کہ مرزا صاحب کہتے تھے نمازیں پڑھو، روزے رکھو، زکوۃ دو، حج کرو، جھوٹ نہ بولو، شراب نہ پیو، جوانہ کھیلو، کنچنیاں نہ نچواؤ.اب تم نے جب ی تو بہ کروائی تو میں خوش ہو گیا کہ چلونمازیں بھی چھوٹیں، روزے بھی گئے ، زکوۃ بھی معاف ہوئی ، حج بھی کی گیا، اب دن رات شرا میں پئیں گے، جو اکھیلیں گے، کنچنوں کے ناچ دیکھیں گے مگر تم تو پھر نمازیں پڑھانے کے لیے آگئے ہو.اگر نمازیں ہی پڑھانی تھیں تو یہ نمازیں تو مرزا صاحب بھی پڑھایا کرتے تھے.پھر تو بہ کرنے کا فائدہ کیا ہوا.وہ شرمندہ ہو کر اپنے مولوی کے پاس آئے اور انہوں نے یہ سارانی واقعہ اُسے سنایا.وہ کہنے لگا میں نے تم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اُس نے ضرور کوئی چالا کی کی ہے ورنہ اگر اُس نے تو بہ کی ہوتی تو یہاں آ کر ہمارے پیچھے نماز کیوں نہ پڑھتا.اُس شخص کے بیٹے کے دل میں ایمان زیادہ تھا.اُسے جب اپنے باپ کا یہ واقعہ معلوم ہوا تو وہ بہت ناراض ہوا اور اُس نے اپنے باپ کو کہا کہ تو نے اتنی کمزوری بھی کیوں دکھائی ؟ کئی بیٹے مخلص ہوتے ہیں اور ماں باپ کمزور ہوتے ہیں اور کئی ماں باپ مخلص ہوتے ہیں اور بیٹے کمزور ہوتے ہیں.لیکن بہر حال اصل خوبی یہی ہے کہ قوم کو ہزاروں بلکہ لاکھوں سالوں تک تو کل اور ایمان کی زندگی نصیب ہو اور اُس کے افراد خدا تعالیٰ کے دامن کو ایسی مضبوطی سے پکڑے رکھیں کہ ایک لمحہ کے لیے بھی اُس سے جُدا ہونا انہیں گوارا نہ ہو اور جماعت میں کبھی ایسے لوگ پیدا نہ ہوں جو عبداللہ بن سبا کی طرح فتنہ برپا کرنے والے ہوں یا یزید کی طرح اسلام کو نقصان پہنچانے والے ہوں.یہ لوگ اس لیے پیدا ہوئے کہ مسلمانوں کے ایک طبقہ کے اندر نہ خلافت پر سچا ایمان باقی رہا اور نہ اس کے مطابق انہوں نے قربانیاں کیں.اگر وہ لاکھوں سال تک ایمان اور عمل صالح پر قائم
$1958 218 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہتے تو لاکھوں سال تک خدا تعالیٰ کی حفاظت بھی اُن کے شاملِ حال رہتی.لیکن چونکہ تمہیں سال کے بعد ہی خلافت راشدہ ان میں باقی نہ رہی اور حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے زمانہ میں ہی فتنے پیدا نے شروع ہو گئے اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ اُس وقت مسلمانوں کے ایک طبقہ کے اندر نور ایمان باقی نہیں رہا تھا اور جب نور ایمان باقی نہ رہا تو خدا تعالیٰ نے بھی اپنی نصرت کا ہاتھ اُن سے کھینچ لیا.آخر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کسی جگہ نور ہو اور وہاں خدا نہ ہو؟ جہاں بھی ایمان اور عمل صالح کا نور ہو گا وہاں خدا ضرور ہوگا.اور جہاں ایمان اور عمل صالح نہیں رہے گا وہاں خدا تعالیٰ بھی پیچھے ہٹ جائے گا.دیکھ لوا گر آج مسلمانوں کے اندر وہی ایمان پایا جاتا جو امام حسین کے اندر پایا جاتا تھا یا حضرت عثمان اور کی حضرت علی کے اندر پایا جاتا تھا تو کیا وہ دنیا میں ذلیل ہوتے ؟ وہ ہر جگہ غالب ہوتے اور دنیا کی کوئی قوم ان کا مقابلہ نہ کر سکتی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج بھی مسلمانوں کے پاس بادشاہت ہے مگر بادشاہت اصل چیز نہیں بلکہ دل کی پاکیزگی اصل چیز ہے.یوں تو عیسائیوں کو بھی بادشاہت ملی ہوئی ہے مگر اس بادشاہت کے باوجود خدا تعالیٰ کی لعنتیں اُن پر برس رہی ہیں.اسی طرح اسرائیل کے پاس بھی بادشاہت ہے مگر قرآن کہتا ہے کہ داؤد اور مسیح کی بددعا کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے ان پر لعنت ڈالی ہوئی ہے.11 پس بادشاہت کے ملنے پر خوش نہیں ہو جانا چاہیے اور نہ خدا تعالیٰ سے بادشاہت مانگنی چاہیے بلکہ خدا تعالی سے یہ دعائیں کرنی چاہیں کہ خدایا! تو ہمیشہ ہمارا اور ہماری اولادوں کا ساتھ دے اور ہم میں نورِ ایمان کو قائم رکھ اور ہمیں ایسے اعمال کے بجالانے کی توفیق عطا فرما جودنیا و آخرت میں تیری رضا کا موجب ہوں.اس کے بعد خدا تعالیٰ جو کچھ چاہے گا تمہیں عطا فرما دے گا.چنانچہ قرآن کریم نے مومنوں کو جو دعا سکھلائی ہے وہ یہی ہے کہ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ 12 یعنی اے خدا! تو ہمیں دنیا میں بھی حسنہ دے اور آخرت میں بھی حسنہ دے.اگر خالی دنیوی عزت ملے جس کے ساتھ اخروی عزت نہ ہو تو وہ ایک لعنت ہوتی ہے.جیسے یہود کو آجکل خالی دنیوی عزت ملی ہوئی ہے یا عیسائیوں کو صرف دنیوی عزت ملی ہوئی ہے مگر اُخروی عزت سے انہیں کوئی حصہ نہیں ملا لیکن خالی اُخروی عزت بھی ایک بے ثبوت چیز ہوتی ہے.ثبوت والی چیز وہی ہوتی ہے جس میں دین اور دنیا دونوں اکٹھے ملیں.پس رَبَّنَا أُتِنَا فِي الدُّنْيَا
$1958 219 خطبات محمود جلد نمبر 39 حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةٌ میں ہمیں یہ دعا سکھلائی گئی ہے کہ الہی ! ہمیں دنیا میں بھی عزت بخش اور آخرت میں بھی ہمارے مقام کو بلند کر.اگر ہمیں دنیا ملے تو ہم اسے اپنی ذات کے لیے استعمال نہ کریں بلکہ تیرے دین کی شوکت قائم کرنے کے لیے استعمال کریں اور تیری رضا اور خوشنودی کے لیے اسے صرف کریں.اگر ایسا ہو تو پھر انسان کو دنیا میں بھی عزت ملتی ہے اور خدا تعالیٰ کے حضور بھی اس کا رتبہ بڑھتا ہے.پس ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہماری اولادوں کے ساتھ قیامت تک رہے تا کہ اُس کا نام ہماری نسلیں ہمیشہ بلند کرتی رہیں.وہ دنیا کے لیے ایک دوسرے کا گلا نہ کاٹیں، وہ دنیا کے لیے ایک دوسرے سے لڑیں نہیں بلکہ دنیا کے ملنے پر دین کی اور زیادہ خدمت کریں اور ہر قسم کی عزت ملنے کے باوجود دین کی خدمت کرنے میں فخر محسوس کریں.اور اگر کوئی بادشاہ بھی ہو جائے تو وہ فقیر سے کی زیادہ متواضع ہو.اب جو دنیا میں سید کہلاتے ہیں نا معلوم وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل میں سے ہیں یا نہیں ممکن ہے ان میں سے بعض کسی فقیر کی نسل سے ہوں اور کہلاتے سید ہوں لیکن ان میں کتنا کبر پایا جاتا ہے.ہماری والدہ خواجہ میر درد کی اولاد میں سے تھیں جو مسلمہ سید تھے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ ہمارے ہاں ایک سیدانی مانگتی ہوئی آگئی اور کہنے لگی کہ مجھے پیاس لگی ہے پانی پلاؤ.ہماری والدہ صاحبہ نے ایک خادمہ سے کہا کہ اسے پانی پلا دو.اُس نے گھڑے میں سے گلاس بھر کر دیا تو اس و نے بڑے زور سے گلاس کو پرے پھینک دیا اور کہا ”سیدانی نوں تو امتی دے گلاس وچ پانی پلاندی ہیں، یعنی میں تو سیدانی ہوں مجھے امتی کے گلاس میں کیوں پانی دیتی ہو.ہماری والدہ صاحبہ نے ہنس کر کہا کہ میں بھی سیدانی ہوں.اب اُس کے سیدانی ہونے میں تو ھبہ ہی تھا نا معلوم وہ بچی تھی یا جھوٹی مگر ہماری والدہ تو حقیقتا سیدانی تھیں.خواجہ میر درد کی اولاد میں سے تھیں اور ان کے والد نے یہ پیشگوئی کی ہوئی تھی کہ ہمارا سلسلہ نسب ایک دن مہدی آخر الزمان کے ساتھ جا ملے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.مخالف حالات میں ان کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور اماں جان کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے شادی ہوگئی اور ان کا شجرہ نسب مہدی موعود سے آکر مل گیا.تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ ان لوگوں کو برکتیں ملتی ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بچی اولاد ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت امام حسن اور حسین بھی سید تھے مگر ابو بکر اور عمران سے کم
220 $1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 سید نہ تھے.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولاد تھے اور ایسے مخلص تھے کہ انہوں نے آپ کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے سے ذرا بھی دریغ نہیں کیا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوای فرمایا تو مکہ والوں نے آپ کی سخت مخالفت کی.ایک دفعہ آپ خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے.جب آپ سجدہ میں گئے تو بعض شریروں نے آپ کی پیٹھ پر اونٹ کی اوجھڑی لا کر رکھ دی اور چونکہ وہ بڑی بھاری تھی آپ سجدہ سے سر نہ اُٹھا سکے.حضرت فاطمہ کو اس بات کا علم ہوا تو وہ روتی ہوئی آئیں اور انہوں نے آپ کی پیٹھ پر سے اوجھڑی ہٹائی.13 اسی طرح ایک دفعہ کفار نے آپ کے گلے میں پڑکا ڈال کر زور سے کھینچنا شروع کیا.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اس بات کا علم ہوا تو وہ دوڑے ہوئے آئے اور آپ نے اُن کفار کو ہٹایا اور کی فرمایا اے لوگو ! تمہیں خدا کا خوف نہیں آتا کہ تم ایک شخص کو محض اس لیے مارتے پیٹتے ہو کہ وہ کہتا ہے اللہ میرا رب ہے.14 وہ تم سے کوئی جائیداد تو نہیں مانگتا.پھر تم اُسے کیوں مارتے ہو؟ صحابہ کہتے ہیں ہم اپنے زمانہ میں سب سے بہادر حضرت ابوبکر کو سمجھتے تھے کیونکہ دشمن جانتا تھا کہ اگر میں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مارلیا تو اسلام ختم ہو جائے گا اور ہم نے دیکھا کہ ہمیشہ ابوبکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہوتے تھے تا کہ جو کوئی آپ پر حملہ کرے اُس کے سامنے اپنا سینہ کر دیں.چنانچہ جب بدر کے موقع پر کفار سے مڈھ بھیڑ ہوئی تو صحابہ نے آپس میں مشورہ کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک عرشہ تیار کر دیا اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رَسُولَ اللہ ! آپ اس عرشہ پر تشریف رکھیں اور ہماری کامیابی کے لیے دعا کریں دشمنوں سے ہم خود لڑیں گے.پھر انہوں نے کہايَا رَسُولَ اللہ ! ہم آپ کو یقینی دلاتے ہیں کہ گو ہمارے اندر بھی اخلاص پایا جاتا ہے مگر وہ لوگ جو مدینہ میں بیٹھے ہیں وہ ہم سے بھی زیادہ مخلص اور ایماندار ہیں.انہیں پتا نہیں تھا کہ کفار سے جنگ ہونے والی ہے ورنہ وہ لوگ بھی اس کی لڑائی میں ضرور شامل ہوتے.يَا رَسُولَ الله! اگر خدانخواستہ اس جنگ میں ہمیں شکست ہو تو ہم نے ایک تیز رفتار اونٹنی آپ کے پاس باندھ دی ہے اور ابو بکر کو آپ کے پاس کھڑا کر دیا ہے.ان سے زیادہ بہادر اور دلیر آدمی ہمیں اپنے اندر اور کوئی نظر نہیں آیا.يَا رَسُولَ الله ! آپ فوراً ابوبکر کے ساتھ اس اونٹنی پر بیٹھ کر مدینہ تشریف لے جائیں اور وہاں سے ایک نیا لشکر کفار کے مقابلہ کے لیے لے
$1958 221 خطبات محمود جلد نمبر 39 ئیں جو ہم سے بھی زیادہ مخلص اور وفادار ہو گا.15 اس واقعہ سے اندازہ لگالو کہ ابو بکر کتنی قربانی کرنے والا انسان تھا.مگر پھر ابو بکر کے ایک بیٹے نے ہی حضرت عثمان پر حملہ کیا.گو ابو بکر کی نیکی کی وجہ سے وہ بچ گیا اور اُس نے اپنا قدم پیچھے ہٹا لیا.چنا نچہ جب حضرت عثمان نے اسے کہا کہ اے میرے بھائی کے بیٹے ! اگر تیرا باپ اس جگہ موجود ہوتا تو وہ ایسی حرکت نہ کرتا تو اُس کا ہاتھ کانپ گیا اور وہ نادم ہو کر پیچھے ہٹ گیا.مگر پھر وہ لوگ جو حملہ کرنے کے لیے مصر سے آئے ہوئے تھے اور جو درحقیقت عبداللہ بن سبا یہودی کے مُرید تھے اُن میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور اس نے حضرت عثمان پر حملہ کر دیا.یہ لوگ ایسے ظالم تھے کہ حضرت عثمان کی بیوی آپ کو بچانے کے لیے آگے آئیں تو اُس نے اُن پر بھی تلوار چلا دی جس سے اُن کی تین انگلیاں گٹ گئیں 16.اُس وقت حضرت عثمان کی بیوی نے اُن سے کہا کہ اے لوگو! تمہاری شرافت کو کیا ہوا ؟ عرب لوگ تو عورتوں کا بڑا لحاظ کیا کرتے تھے.اس پر وہ خبیث کہنے لگا کہ آگے سے ہٹ جاور نہ ہم تیری گردن بھی اُڑا دیں گے.اب دیکھو یہ انہیں لوگوں کی اولاد میں سے تھے جنہوں نے اسلام کے لیے بڑی بھاری قربانیاں کی تھیں مگر جب ان کی انگلی نسل میں نو رایمان باقی نہ رہا تو خدا تعالیٰ کی نصرتہ بھی جاتی رہی اور وہ لوگ تباہ ہو گئے.اس نظارہ کو دیکھتے ہوئے ہم کیا اُمید کر سکتے ہیں کہ قیامت تک ہماری نسلیں خدا تعالی کی کی فرمانبردار رہیں گی اور کبھی ان میں دنیا داری نہیں آئے گی ؟ دنیا داری تو اتنی جلدی آ جاتی ہے کہ ایک دفعہ ہماری مجلس شوری کا اجلاس ہورہا تھا کہ ایک احمدی دوست کھڑے ہو گئے.وہ اُن دنوں حصار میں تھے.اُن کے بھائی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے اور اب اُن کے بیٹے ڑے بڑے عہدوں پر ہیں اور کہنے لگے کہ خلافت کا کیا فائدہ ہوا؟ میرے متعلق ایک کیس کے سلسلہ میں انکوائری ہو رہی ہے.خلیفہ صاحب کو چاہیے کہ وہ جائیں اور گورنر کے پاس میری سفارش کریں.میں نے اُن کے جواب میں کھڑے ہو کر کہا کہ میں ایسی خلافت پر لعنت بھیجتا ہوں.اگر خلافت کے یہی معنے ہیں کہ میں ان کے لیے گورنر کے پاس جا کر بھیک مانگوں تو میں اس کے لیے تیار نہیں.وہ آدمی نیک تھے.میرے اس جواب پر انہوں نے کھڑے ہو کر معافی مانگ لی اور کہا کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے.
خطبات محمود جلد نمبر 39 222 $1958 حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھڑے کیے جاتے ہیں.انہیں یہ ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ دوسرے کے پاس جائیں بلکہ دوسرے لوگ خود چل کر اُن کے پاس آتے ہیں.دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک گوشہ تنہائی میں رہنے والے تھے مگر فنانشل کمشنر لاہور سے آپ سے ملنے کے لیے آیا.اسی طرح 1925ء میں گورنر پنجاب خود مجھ سے ملنے کے لیے منالی آیا.اس ملاقات کی تقریب اس طرح پیدا ہوئی کہ میں نے اپنی ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ سے ایک دفعہ منالی کے پہاڑوں کا ذکر کیا کہ وہ بہت اچھے ہیں.انہوں نے کہا کہ مجھے بھی دکھا ئیں.اُن دنوں وہاں مسٹر برک اسٹنٹ کمشنر لگے ہوئے تھے اور چونکہ منالی میں رہائش کی جگہ کم ملتی ہے اس لیے میں نے انہیں لکھا کہ آپ ہمارے لیے ڈاک بنگلہ کا انتظام کر دیں.انہوں نے جواب دیا کہ آپ بڑی خوشی سے آ جائیں.آپ کے لیے ڈاک بنگلہ میں رات دن ٹھہرنے کا انتظام کر دیا گیا ہے.جب ہم کو پہنچے تو میں نے چودھری مظفرالدین صاحب کو جو اُس وقت میرے پرائیویٹ سیکرٹری تھے تحصیلدار کے پاس تی بھیجا اور میں نے کہا ان سے پوچھو کہ ڈاک بنگلہ رُکا ہوا تو نہیں؟ اگر رکا ہوا نہ ہو تو ہم مقررہ وقت سے ایک دو دن پہلے ہی آجائیں؟ جب وہ گئے تو میں نے اپنی ہمشیرہ سے کہا کہ مجھے کوئی الہام تو نہیں ہوا لیکن میرے دل میں بڑے زور سے یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ وہاں گورنر پنجاب مجھ سے ملنے کے لیے آئے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.چودھری مظفرالدین صاحب واپس آئے تو کہنے لگے کہ تحصیلدار کہتا تھا تی کہ اب پہلے اور پچھلے کا کوئی سوال نہیں آپ کو اپنی پہلی اجازت بھی منسوخ سمجھنی چاہیے کیونکہ ہمیں حکم آ گیا ہے کہ اب یہ بنگلہ کسی اور کونہ دیا جائے.میں نے کہا اُس سے وجہ بھی تو پوچھنی چاہیے تھی.وہ کہنے لگے میں نے پوچھا تھا مگر انہوں نے کہا کہ میں بتا نہیں سکتا.میں نے چودھری صاحب سے کہا آپ پھر جائیں اور اُس سے کہیں کہ تم تو نہیں بتاتے لیکن ہم تمہیں بتا دیتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ گورنر صاحب آ رہے ہیں.اب ہمارے بتا دینے پر تو آپ کو اقرار کر لینے میں کوئی حرج نہیں.چودھری صاحب نے جب اُس سے یہ بات کہی تو وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا آپ کو کس طرح پتا چلا کہ گورنر آ رہا ہے؟ یہ امر تو بہت ہی مخفی رکھا گیا تھا.خیر جب مجھے معلوم ہوا کہ پہلا انتظام بریکار ہو گیا ہے تو میں نے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کو بھیج دیا کہ وہاں جا کر کوئی مکان تلاش کریں.چنانچہ ایک ہندو جو سیشن حج تھا اُس کا مکان ہمیں مل گیا اور ہم وہاں چلے گئے.دوسرے دن صبح کے وقت ہم سیر کے لیے گئے اور
$1958 223 خطبات محمود جلد نمبر 39 چار پانچ گھنٹے باہر رہے.نماز پڑھ کر ہم واپس آ رہے تھے کہ تحصیلدار صاحب میرے پاس دوڑتے ہوئے آئے اور کہنے لگے میں نے جو خط آپ کو بھیجا تھا وہ آپ کو مل گیا ہے یا نہیں ؟ میں نے کہا نہیں میں تو ابھی باہر سے آرہا ہوں.انہوں نے کہا کہ گورنر صاحب نے مجھے ایک خط دیا تھا اور کہا تھا کہ آپ کی کو پہنچا دیا جائے اور آپ کے گھر سے کسی فلاں آدمی نے دستخط کیے ہیں.میں نے کہا اس نام کا تو ہمارے ساتھ کوئی آدمی نہیں.وہ کہنے لگے آپ گھر جا کر مجھے اطلاع بھجوائیں، ایسا نہ ہو کہ وہ خط ضائع ہو جائے اور گورنر صاحب مجھ پر ناراض ہوں.راستہ میں میں نے اپنی ہمشیرہ اور اُمم طاہر مرحومہ سے کہا کہ یہ وہی بات ہے جو میں نے کہی تھی اور گو وہ خط میں نے ابھی تک نہیں دیکھا مگر اُس میں یہی مضمون کی ہوگا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں.چنانچہ گھر پہنچنے پر خط کھولا تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ اگر کل عصر کے وقت آپ میرے ساتھ چائے پیئیں تو آپ کا مجھ پر بڑا احسان ہوگا.پھر ہم نے تحقیق کی کہ اس چٹھی کو وصول کس نے کیا تھا تو معلوم ہوا کہ ہمارے ہاں کوئی مہمان آئے ہوئے تھے انہوں نے اُس وقت دستخط کر دیئے تھے کیونکہ گھر میں اور کوئی آدمی نہیں تھا.چونکہ میرے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے ہی یہ خیال ڈالا گیا تھا کہ گورنر پنجاب مجھ سے کانگڑہ کے ضلع میں ملیں گے اس لیے میں نے ان سے ملنا منظور کر لیا.دوسرے دن مقررہ وقت پر میں ان سے ملا اور ان کا بیٹا جو کانگڑہ کے ضلع میں ڈی سی تھا اور اُن کی بہو بھی وہاں موجود تھیں انہوں نے اپنے بیٹے اور بہو کو میرے سامنے اس طرح پیش کیا جیسے میں نواب ہوں اور وہ میرے نوکر ہیں.اور پھر پانچ بجے سے لے کر نو بجے تک پورے چار گھنٹے وہ مجھ سے باتیں کرتے رہے.چونکہ رات زیادہ ہوگئی تھی اور پہاڑوں پر سردی ہوتی ہے اس لیے وہ اندر سے کمبل لے آئے.انہوں نے میرے پیروں پر ڈال دیا.میں نے اُن سے ایک دفعہ کہا کہ اب وقت کی زیادہ ہو گیا ہے اور پہاڑی علاقہ ہے.وہ کہنے لگے آپ کچھ فکر نہ کریں میری ڈانڈی 17 آپ کو لے جائے گی اور پولیس آپ کے ساتھ جائے گی.چنانچہ رات کے نو بجے ہم اُٹھے اور سرکاری ڈانڈی جس کے ساتھ حفاظت کے لیے پولیس مقررتھی مجھے اپنے مکان پر پہنچانے کے لیے بھجوائی گئی.اب بتاؤ کہ جس سے ملنے کے لیے خود گورنر آئے اور اُس کے سامنے اپنے بیٹے اور بہو کو پیش کرے اُسے کیا ضرورت ہے کہ وہ کسی کی سفارش کے لیے گورنر کے پاس جائے.اگر ہماری آئندہ اولادیں بھی ایسی ہی با غیرت ہوں تو ہمارے لیے خوشی کا مقام ہے.لیکن اگر خدانخواستہ وہ چھوٹی چھوٹی
$ 1958 224 خطبات محمود جلد نمبر 39 باتوں کے لیے مارے مارے پھرنے لگیں اور دنیا طلبی کی خواہش ان میں پیدا ہوگئی تو پھر ان کا وجود نہ دین کے لیے مفید ہوگا اور نہ دنیا میں وہ کوئی عزت حاصل کر سکیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تو دنیا طلبی سے اتنی نفرت تھی کہ ہمارے بڑے بھائی مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم نے تحصیلداری کا امتحان دیا تو حضرت صاحب کو بھی انہوں نے دُعا کے لیے لکھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اُن کا رقعہ پڑھ کر سخت غصہ آیا اور کی آپ نے اسے پھاڑ دیا مگر ادھر آپ نے رقعہ پھاڑا اور اُدھر آپ کو الہام ہوا کہ ” پاس ہو جائے ‘.18 چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ وہ پاس ہو گئے اور پھر قائمقام ڈپٹی کمشنر ہو کر ریٹائر ہوئے.تو اللہ تعالیٰ جن کو روحانی مراتب عطا فرماتا ہے اُن کو ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ دنیا کے لوگوں کے پاس جائیں بلکہ دنیا کے لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے کہ وہ ان کے پاس آئیں اور ان کی سے فیض اٹھا ئیں.ایک دفعہ کشمیر کے فسادات کے سلسلہ میں میں شملہ گیا اور لارڈ ولنگڈن سے ملا.ملاقات کے بعد لارڈ ولنگڈن کا سیکرٹری میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میرا اسٹنٹ جو مسٹر گریفن کا پوتا ہے وہ آپ سے ملنا چاہتا ہے.میں نے اُس سے کہیں ذکر کیا تھا کہ مسٹر گریفن کا میرے دادا سے بڑا تعلق ہے اور اس کی کئی چٹھیاں ہمارے دادا کے نام موجود ہیں.اُس نے اس بات کا اپنے اسٹنٹ سے ذکر کر دیا کیونکہ وہ مسٹر گریفن کا پوتا تھا اور اس نے مجھ سے ملنے کی خواہش کی.چنانچہ وہ مجھ سے ملا اور کہنے لگا کہ میں اپنے دادا کی وہ چٹھیاں دیکھنا چاہتا ہوں جو انہوں نے آپ کے دادا کولکھی تھیں.میں نے کہا کہ وہ کتاب البریہ میں چھپی ہوئی ہیں.آپ جب چاہیں وہاں سے دیکھ سکتے ہیں.مسٹر گریفن امرتسر کا کمشنر تھا اور اُس زمانہ میں کمشنر کے اختیارات گورنر کے برابر ہوا کرتے تھے اور کمشنری بھی صرف کی امرتسر کی ہی ہوا کرتی تھی.جب ہم وہاں سے فارغ ہو کر باہر نکلے تو سامنے سے وائسرائے اپنی موٹر میں آ رہا تھا.اُس کا کوئی دانت خراب تھا وہ ڈاکٹر کو دکھانے کے لیے جا رہا تھا.اُس نے جب مجھے دیکھا تو دور سے ہی مجھے سلام کرنا شروع کر دیا مگر میں نے نہ پہنچانا کہ یہ کون شخص ہے.چنانچہ میں نے درد صاحب سے پوچھا کہ یہ کون ہے جس نے سلام کیا ہے؟ وہ کہنے لگے ابھی تو آپ ان سے مل کر آئے ہیں.یہ لارڈ ولنگڈن تھے اور انہوں نے تو آپ کو دیکھ کر دور سے ہی سلام کرنا شروع کر دیا تھا.
خطبات محمود جلد نمبر 39 225 $1958 میں نے کہا میں نے تو نہیں پہچانا.شاید وہ اپنے دل میں خیال کرتے ہوں گے کہ بڑے گھر درے آدمی ہیں.میں نے سلام بھی کیا مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا حالانکہ میں نے یہ سمجھا تھا کہ کوئی اجنبی آدمی ہے جو کسی اور کو سلام کر رہا ہے.تو اللہ تعالیٰ خود ہی اپنے بندوں کا دوسرے لوگوں پر رعب ڈال دیتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک مہینہ کی مسافت پر بھی میرا دشمن ہو تو اللہ تعالیٰ اُس پر میرا رعب ڈال دیتا ہے.19 یہ رعب اپنے اپنے درجہ اور مقام کے مطابق ہوتا ہے.کسی کا مہینہ بھر کی مسافت تک رُعب جاتا ہے، کسی کا چند دنوں کے فاصلہ تک رُعب جاتا ہے، کسی کا چند گھنٹوں کے فاصلہ تک رُعب جاتا ہے مگر ہوتا یہی ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کا ہو جاتا ہے“.( الفضل 3 اکتوبر 1958ء) 1 : الحديد: 4 2 : النور: 36 3 : الانفال : 25 :4 يَمُنُونَ عَلَيْكَ اَنْ اَسْلَمُوا قُل لَّا تَمُنُوا عَلَى اِسْلَامَكُم بَلِ اللهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدِيكُمْ لِلْإِيْمَانِ إِنْ كُنْتُمْ صَدِقِينَ (الحجرات: 18) 5: ارڈ پوپو نجومی - احمق - ضدی پنجابی اردو لغت صفحہ 112 مطبوعہ لا ہور 1989ء 6 : سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 340،399 مطبوعہ مصر 1936ء 7: المغني لابن قدامة كتاب الصلاة باب الاذان فصل يكره اللحن في الاذان.جلد 1صفحه 430دار المنار 1367ھ میں اَنَّ بلالا كَانَ يَقولُ اَسْهَدُ “ کے الفاظ ملتے ہیں.8 تاریخ طبری جلد 2 صفحه 677 مطبوعه بيروت 2012ء 9 تاریخ طبری جلد 2 صفحه 677 ثم دخلت سنة خمس وثلاثين مطبوعه بيروت 2012ء
خطبات محمود جلد نمبر 39 10 : الكهف : 17 226 $1958 :11 لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَاءِ يْلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ (المائدة:79) 12 : البقرة : 202 13 : بخارى كتاب الصلوة باب المرأة تطرح عنِ الْمُصَلَّى شَيْئًا (الخ) 14 : بخاری کتاب فضائل اصحاب النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ باب قول النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً 15 : سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 272 273 مطبوعہ مصر 1936ء 16 : تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 677 مطبوعہ بیروت 2012ء.17 : ڈانڈی: ایک قسم کی پہاڑی سواری 18 : تذکرہ صفحہ 120.ایڈیشن چہارم 19 : بخاری کتاب الصلوة باب قول النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا
$ 1958 227 26 خطبات محمود جلد نمبر 39 اللہ تعالیٰ سے ہی دعائیں کرنی چاہیں کیونکہ سب طاقت خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے نہ گورنمنٹ اس بارہ میں کوئی مدد کرسکتی ہے اور نہ کوئی انسان مددکر سکتا ہے (فرمودہ 12 ستمبر 1958ء بمقام نخله ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دوزخ دو دفعہ سانس لیتی ہے.ایک دفعہ سانس کی باہر نکالتی ہے تو گرمیاں آ جاتی ہیں اور دوسری دفعہ سانس اندر کھینچتی ہے تو سردیاں آ جاتی ہیں.1 یوں تو یہ ایک تعبیر طلب بات ہے مگر اس دفعہ عملی طور پر ایسا ہی ہوا ہے اور اتنی شدید گرمی پڑی ہے کہ برابر اخبارات میں یہ چھپتا رہا ہے کہ فلاں جگہ سو آدمی مر گیا اور فلاں جگہ دوسومر گیا.ہمارے ملک میں ایک سوتیں بلکہ ایک سو پینتیس درجہ تک بھی گرمی پہنچی ہے.یورپ کے لوگ چونکہ ٹھنڈے ملکوں میں رہنے کے عادی ہیں اُن کے ہاں تو اگر معمول سے ذرا بھی زیادہ گرمی پڑنے لگے تو وہ مرنے لگتے ہیں.چنانچہ بعض دفعہ اخبارات میں چھپتا ہے کہ نیویارک میں اٹھانوے درجہ تک پارہ پہنچ گیا اور دو ہزار آدمی مر گئے.اس لحاظ سے ہمارے ملک میں تو ایک سو بیس یا ایک سو چھپیں درجہ حرارت تک دو کروڑ آدمی مرنا نی چاہیے.مگر اللہ تعالیٰ نے ہمارے ملک کے لوگوں کو برداشت کی طاقت دی ہوئی ہے مگر جو بیمار ہیں ان کی
$1958 228 خطبات محمود جلد نمبر 39 کے لیے تو گرمی اور سردی دونوں کی شدت بڑی بھاری مصیبت بن جاتی ہے.فالج کی بیماری میں بھی بعض دفعہ گرمی کا احساس بڑھ جاتا ہے اور بعض دفعہ سردی کا احساس بڑھ جاتا ہے.میں نے 5 ستمبر کو جمعہ کے روز گرمی کی شکایت کی تو اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ اس کے بعد بارش ہوگئی اور گرمی کی شدت جاتی رہی.پھر پچھلے جمعہ میں میں نے شکایت کی کہ گرمی زیادہ ہوگئی ہے تو پھر بارش ہوگئی.آج پھر شدت کی گرمی پڑ رہی ہے.اگر پھر کوئی بارش ہو جائے تو امید ہے کہ آٹھ دس کی دن تک ربوہ کا موسم بدل جائے گا یا کم سے کم یہاں کا تو ضرور بدل جانا چاہیے.جولوگ یہاں آئے ہیں وہ تو کہتے ہیں کہ یہاں ٹھنڈک ہے مگر ہمیں محسوس نہیں ہوتی.پچھلے دنوں میرے نواسے یہاں آئے تو میں نے کہا ہمیں تو آج یہاں گرمی محسوس ہو رہی ہے.وہ کہنے لگے آپ کو گرمی محسوس ہوتی ہو گی ہمیں تو سردی معلوم ہوتی ہے.پرسوں ہی راولپنڈی کا درجہ حرارت 94 تھا اور یہاں کا درجہ حرارت 83 تھا.گویا 11 ڈگری کم تھا حالانکہ راولپنڈی ہمارے ملک میں ٹھنڈا سمجھا جاتا ہے.اسی طرح ایبٹ آباد بھی ٹھنڈا سمجھا جاتا ہے مگر وہاں 84 تھا.گویا ایبٹ آباد اور نخلہ کا درجہ حرارت قریباً برابر تھا.مگر پچھلے سال تو یہاں بعض دفعہ 50 تک بھی درجہ حرارت گر جاتا تھا.آجکل یہاں صرف 71 تک درجہ حرارت گرا ہے.اترسوں یہاں کا درجہ حرارت 73 تھا اور اس سے پہلے جب بارش نہیں ہوئی تھی درجہ حرارت 77 تک پہنچ گیا تھا مگر پچھلے سالوں میں صبح کے وقت 50 تک درجہ حرارت رہا ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ ساڑھے تین بجے تک قریباً 64 یا 65 تک پہنچ جاتا تھا مگر آج صبح کے وقت بھی 74 تھا ، کل 71 تھا اور پرسوں 72 تھا.بہر حال اللہ تعالیٰ ہی فضل کرنے والا ہے.سورج چاند سب خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہیں.ہمارا تو ان پر کوئی زور نہیں چلتا.یہی وجہ ہے کہ اس سال ہماری کپاس کی فصلیں بالکل تباہ ہوگئی ہیں بلکہ اتنی ماری گئی ہیں کہ پچھلے پندرہ سال میں بھی ہماری کپاس کی فصل اتنی کم نہیں ہوئی جتنی اس سال ہوئی ہے بلکہ اس سال تو اتنی فصل بھی نہیں ہوئی کہ مالیہ بھی ادا کیا جاسکے.گورنمنٹ بڑی مہربانی کرتی ہے تو کہتی ہے کہ اگلے دو سال میں قسط وار مالیہ ادا کر دینا.مگر سوال یہ ہے کہ قسط دینے کے لیے روپیہ کہاں سے آئے گا؟ اسلامی اصول تو یہ ہے کہ اگر کسی سال فصل نہ ہو تو مالیہ بھی معاف کر دیا جاتا ہے مگر یہاں اگر فصل نہیں ہوتی تو کہا جاتا ہے کہ اسے قرض کے طور پر سمجھ لو اگلے سال میں ادا کر دینا.اس کے معنے
$1958 229 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہیں کہ اگلے سال کا مالیہ سوایا ، یا ڈیوڑھا ہو جائے گا اور دو سال تک یہ مصیبت چلے گی.یہ تو ایسی ہی بات کی ہے جیسے کوئی مر رہا ہو تو اُسے کہا جائے کہ ابھی تمہاری روح قبض نہیں کی جاتی پندرہ منٹ بعد قبض کر لیا جائے گی.اس سے اُسے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے.یہ وقت تو اس کے لیے اور اس کے رشتہ داروں کے لیے بڑی مصیبت میں گزرے گا.پس اللہ تعالیٰ سے ہی دُعائیں کرنی چاہیں کیونکہ سب طاقت خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے نہ گورنمنٹ اس بارہ میں کوئی مدد کرسکتی ہے اور نہ کوئی انسان مدد کر سکتا ہے صرف اللہ تعالیٰ ہی مدد کر سکتا ہے.غیر مطبوعہ مواد از خلافت لائبریری ربوہ) 1 : بخاری کتاب بدء الخلق باب صفة النَّارِ وَإِنَّهَا مَخْلُوقَةٌ
$ 1958 230 27) خطبات محمود جلد نمبر 39 اس سال جلسہ سالانہ پر زیادہ سے زیادہ تعداد میں ربوہ آؤ اور یہاں آ کر اپنا وقت دُعاؤں اور ذکر الہی میں گزارو اہلِ ربوہ کا فرض ہے کہ وہ مہمانوں کی رہائش کے لیے زیادہ سے زیادہ مکانات پیش کریں اور پھر تند ہی سے ان کی خدمت کریں (فرمودہ 19 ستمبر 1958ء) تشهد ، تعو ذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اکٹھا رکھنے اور ان کے اندر اتحاد پیدا کرنے کے لیے حج جیسی عظیم الشان نعمت اسلام میں جاری کی ہے.اس کی ابتدا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ ہوئی تھی مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ماننے والے بہت تھوڑے لوگ تھے.جس شخص کی اُمت ساری دنیا کی میں پھیل گئی اور جس نے خانہ کعبہ کو ساری دنیا کا مرجع بنادیا وہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی وجود ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ خانہ کعبہ کی بنیا دا ٹھائی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ حج بیت اللہ کا اعلان کروایا تو اُس وقت اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ يَأْتُوكَ رِجَالاً وَ عَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَّاتِينَ مِنْ
$1958 231 خطبات محمود جلد نمبر 39 كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ 1 یعنی تیرے پاس دور دراز سے پیدل چل کر بھی لوگ آئیں گے اور ایسی اونٹنیوں پر بھی سوار ہو کر آئیں گے جو لمبے سفر کی وجہ سے دبلی ہوگئی ہوں گی اور وہ ایسے راستوں پر سے گزرتی ہوئی آئیں گی جن میں کثرت سفر سے گڑھے پڑے ہوئے ہوں گے.اس زمانہ میں چونکہ ریلیں اور ہوائی جہاز نکل آئے ہیں اس لیے لوگوں کو اس مثال سے غلطی نہیں کھانی چاہیے.میں نے خود اُس زمانہ میں حج کیا ہے جب ابھی ہوائی جہاز نہیں نکلے تھے اور جدہ کی سے مکہ تک کا سفر میں نے اونٹوں پر ہی کیا ہے اور میں نے دیکھا کہ واقع میں رستوں میں گڑھے پڑے ہوئے تھے اور گرد اڑتی رہتی تھی.اگر کوئی آسودہ حال ہوتا تو وہ اونٹ کی بجائے گدھا لے لیتا.گدھا عربوں کی مرغوب ترین سواری ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ گدھا مصر میں زیادہ ہوتا ہے اور چونکہ عربی میں دولت زیادہ تر مصر سے ہی آئی تھی اِس لیے مصری رواج اور دستور کو بھی انہوں نے اپنا لیا.میں نے ایک دفعہ غار ثور جانے کا ارادہ کیا تو سیٹھ ابوبکر یوسف صاحب مرحوم اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے اور کہنے لگے کہ میرا ایک دوست ہے.میں اُس کا اصطبل آپ کو دکھاتا ہوں.آپ اپنی سواری کے لیے کوئی چیز پسند کر لیں.چنانچہ ہم وہاں گئے.میں نے دیکھا کہ وہاں کی اُس کا ایک گدھا تھا.اُسے دیکھ کر تو وہ خود ہی کہنے لگے کہ یہ آپ کے لیے مناسب نہیں.پھر ہم نے ایک گھوڑا دیکھا مگر اُسے بھی چھوڑا.آخر کہنے لگے کہ خچر لے لیں کیونکہ خچر کی زیادہ قیمت ہوتی ہے اور بڑے بڑے امراء اس پر سوار ہوتے ہیں.چنانچہ ہم نے خچر لے لی.جب ہم غار ثور کی طرف جانے لگے تو میرے ساتھ ایک تو نا نا جان مرحوم تھے اور ایک عبدالمحی عرب تھے.عبد المحی عرب کو میں نے گدھا لے دیا تھا اور خود خچر پر سوار ہوا مگر جب ہم جا رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ عبد المحي صاحب عرب کا گدھا ہم سے کوئی دو میل آگے نکل گیا ہے.خچر کو ہم بہتیر امار میں مگر وہ کی چلے ہی نہ.آخر میں نے بھی گدھا لے لیا.اس پر سوار ہو گیا حالانکہ وہ خچر تین ہزار روپیہ کی تھی گدھا وہاں نو سویا ہزار کومل جاتا ہے.بعض گدھے پندرہ پندرہ سو تک بھی ملتے ہیں اور گھوڑ استرہ اٹھارہ سو میں مل جاتا ہے.بہر حال عمدہ خچر تین ہزار روپیہ میں ملتی ہے مگر باوجود اچھی خچر ہونے کے گدھا اُس سے تیز چلتا تھا.اُس زمانہ میں امراء زیادہ تر خچروں پر سواری کرتے تھے اور باقی اونٹوں یا گدھوں پر سواری کرتے.اونٹ عرب کی جان ہے اور اسی کا حوالہ دے کر قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے
232 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر قسم کی اونٹنیوں پر سوار ہو کر جو کثرت سفر کی وجہ سے دبلی ہو جائیں گی تیرے پاس لوگ آئیں گے یعنی عرب کے کناروں سے چل کر لوگ آئیں گے.مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مار تو صرف عرب کے کناروں تک تھی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مارد نیا کے کناروں تک ہے.پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مار صرف اونٹوں تک تھی مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مارریلوں، جہازوں بلکہ ہوائی جہازوں تک ہے.چنانچہ مغربی افریقہ سے اس کی سال ہماری جماعت کے دو آدمیوں نے ہوائی جہاز میں سفر کر کے حج کیا ہے.اسی طرح مشرقی افریقہ سے ہر سال کئی آدمی ہوائی جہازوں میں سوار ہو کر حج بیت اللہ کے لیے آتے ہیں.مغربی افریقہ سے جور ئیں اس سال حج کے لیے گئے اُن کے ساتھ ایک مقامی افریقن مبلغ بھی تھا.اسی طرح ربوہ سے جو مبلغ گئے ہوئے ہیں اُن کو بھی انہوں نے اپنے ساتھ لیا اور وہ سب کے سب حج کر آئے.بہر حال مکہ کی برکات مکہ کے ساتھ ہی وابستہ ہیں جن سے اپنے اپنے ظرف کے مطابق ہر شخص جو وہاں جائے فائدہ اُٹھا سکتا ہے مگر افسوس ہے کہ مسلمان مکہ مکرمہ سے صحیح رنگ میں فائدہ نہیں اٹھاتے اور حج سے جو برکات وابستہ ہیں اُن کو حاصل کرنے کی پوری کوشش نہیں کرتے.حج سے بڑی غرض تو یہ ہے کہ لوگ وہاں کثرت سے عبادت کریں، اپنے اوقات ذکر الہی میں بسر کریں، روزے رکھیں ، اعتکاف بیٹھیں اور اپنے دلوں کو خدا تعالیٰ کے نور سے منور کرنے کی کوشش کریں مگر کئی لوگ ہنسی مذاق اور ادھر ادھر کی باتوں میں ہی اپنا وقت ضائع کر دیتے ہیں.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ سنایا ہے کہ ہم منی سے عرفات کو جا رہے تھے کہ میں نے ایک نوجوان کو دیکھا کہ وہ اُس وقت اردو کے نہایت گندے عشقیہ اشعار پڑھتا جا رہا تھا.وہ بمبئی کے ایک سیٹھ کا لڑکا تھا.جب ہم واپس آنے لگے تو اتفاقاً جس جہاز میں میں سوار ہوا اُسی میں وہ نو جوان بھی سوار تھا.اُسے کسی طرح پتا لگ گیا کہ میں احمدی ہوں.اب یا تو اُس کی یہ کیفیت تھی کہ عرفات کو جاتے ہوئے عین ذکر الہی کے وقت وہ اردو کے نہایت گندے عشقیہ اشعار پڑھتا جا رہا تھا اور یا جب میں جہاز میں ٹہلتا تو وہ مجھے دیکھ کر کہتا کہ خدایا! وہ جہاز بھی فرق نہیں ہوتا جس میں ایسا شخص سوار ہے.میں اس کی یہ بات سن کر دل میں ہنستا کہ اسے اتنی بھی سمجھ نہیں کہ اگر یہ جہاز غرق ہوا تو ساتھ ہی وہ بھی غرق ہو جائے گا.ایک دن میں نے اُس سے کہا کہ میں نے آپ کو عرفات کی طرف جاتے ہوئے نہایت
$1958 233 خطبات محمود جلد نمبر 39 گندے عشقیہ اشعار پڑھتے دیکھا تھا حالانکہ وہ ذکر الہی اور دُعاؤں کا وقت تھا.اگر مکہ مکرمہ میں جا کر بھی آپ نے ذکر الہی نہیں کرنا تھا تو حج پر آنے سے آپ کی غرض کیا تھی؟ وہ کہنے لگا مجھے تو حج سے کوئی دلچسپی نہیں تھی.بات دراصل یہ ہے کہ میرا باپ تاجر ہے اور ہم نے ایک دکان کھولی ہوئی ہے.ہماری یہ دکان پہلے خوب چلتی تھی اور سوات تک سے لوگ ہم سے سودا خرید نے آتے تھے.مگر پچھلے سال ہمارے ساتھ والا دکاندار حج کر آیا اور اُس نے اپنے نام کے ساتھ حاجی لکھوا کر دکان پر بورڈ لٹکا دیا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری بکری کم ہوگئی اور اُس کی دکان خوب چلنے لگی.میرے باپ نے مجھے کہا کہ تو بھی حج کر آتا کہ ہم بھی حاجی کا بور ڈلگوا سکیں اور لوگ یہاں دکان پر بھی کثرت سے آنے لگیں.چنانچہ میں اپنے باپ کے کہنے پر حج کرنے کے لیے آ گیا ورنہ مجھے کیا پتا کہ حج کیا ہوتا ہے اور اس کے کی آداب کیا ہیں.غرض حج پر تو لوگ جاتے ہیں مگر ان میں اس قسم کے بھی لوگ ہوتے ہیں جنہیں یہ پتا ہی نہیں ہوتا کہ حج کیا چیز ہے اور یہ عبادت کیوں قائم کی گئی ہے.ہمارے ساتھ ایک اور بوڑھا شخص بھی تھا جس کا نام عبدالوہاب تھا اور غیر احمدی تھا.میں تو مصر کے راستہ سے حج کے لیے گیا تھا مگر ہمارے نانا جان بمبئی کے راستہ سے حج کے لیے آئے تھے.انہیں عبدالوہاب بمبئی میں مل گیا اور چونکہ وہ غریب شخص تھا انہیں رحم آ گیا اور اُسے بھی انہوں نے اپنے ساتھ شامل کر لیا.مکہ مکرمہ تک وہ ہمارے ساتھ ہی رہا.اس سفر میں ہم سیٹھ ابوبکر یوسف جمالی صاحب کے ہاں ہی ٹھہرے تھے اور پھر مکہ مکرمہ میں بھی انہوں نے ہی اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ تمام انتظامات کروائے.عبد الوہاب بھی ان تمام انتظامات میں ہمارے ساتھ شریک رہا مگر جب حج ختم ہوا تو مکہ میں سخت ہیضہ پھوٹ پڑا.نانا جان کی طبیعت کمزور تھی.انہوں نے کہا کہ ہمیں فوراً واپس چلنا چاہیے مگر عبدالوہاب نے کہا کہ میں مدینہ جاؤں گا کیونکہ میرے بیٹوں نے مجھے کہا ہے کہ جب تک تو مدینے نہیں جائے گا تیرا حج مکمل نہیں ہوگا.ہم نے اسے منع بھی کیا کہ نہ جاؤ کہیں راستہ میں ہی مرجاؤ گے مگر وہ نہ مانا اور چلا گیا.معلوم نہیں پھر اُس کا کیا حال ہوا.مگر اس شخص کی مذہب سے واقفیت کا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ ہم نے اُس سے پوچھا کہ میاں ! تمہارا مذہب کیا ہے؟ وہ کچھ دیر خاموش رہا.ہم نے کہا بتاتے کیوں نہیں؟ کہنے لگا گھبراتے کیوں ہو؟ سوچنے تو دو تم تو دوسرے کو سوال کر کے پریشان کی کر دیتے ہو.وہ بیچارہ کوئی ستر اسی سال کا تھا اور میری عمر اس وقت کوئی چوبیس سال کی تھی.تھوڑی دیر
$1958 234 خطبات محمود جلد نمبر 39 کے بعد میں نے پھر پوچھا کہ بتائیے آپ کا کیا مذہب ہے؟ کہنے لگا میری عقل کیوں مارلی ہے؟ میں سوچ تو لوں.آخر اسی طرح پندرہ بیس منٹ گزر گئے اور پھر کہنے لگا میرا مذ ہب علیہ علیہ ہے.میں دل میں سمجھ گیا کہ یہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہنا چاہتا ہے مگر میں نے کہا میاں عبدالوہاب ! یہ علیہ علیہ علیہ کیا ہے؟ اس طرح تو لعنتہ اللہ علیہ بھی ہوتا ہے.کہنے لگا سوچ تو لینے دو گھبراتے کیوں ہو؟ میں نے کہا سوچ لو.آخر کچھ دیر کے بعد کہنے لگا علیہ رحمہ اللہ.میں پھر ہنسا تو کہنے لگا مجھے ایک کارڈ لے دو میں اپنے گاؤں کے ملاں سے پوچھ کر تمہیں لکھوا دوں گا کہ میرا کیا مذہب ہے؟ میں نے کہا مجھے ملاں کے مذہب کی ضرورت نہیں مجھے تو آپ کے مذہب کی ضرورت ہے.کہنے لگا میر امذ ہب اعظم علیہ ہے.اُس کی مذہب سے واقفیت تھی مگر وہ حج کے لیے چلا گیا.حج کے بعد کہنے لگا مجھے بیٹوں نے کہا تھا کہ تم نے مدینے ضرور جانا ہے.اس لیے اب میں مدینہ جاؤں گا.چنانچہ پھر وہ مدینہ چلا گیا.ہمیں معلوم نہیں کہ پھر اُس کا کیا حال ہوا.غرض اللہ تعالیٰ نے حج بیت اللہ کا قیام ذکر الہی کے لیے کیا تھا مگر مسلمانوں نے اس سے وہ فائدہ اُٹھانا ترک کر دیا جس کے لیے یہ عبادت مقرر کی گئی تھی.اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی اس بے رغبتی اور عدم توجہی کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ قادیان میں جلسہ سالانہ کی بنیاد رکھی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حج کے لیے لوگوں کو ہمیشہ مکہ مکرمہ میں ہی جانا پڑے گا مگر وعظ ونصیحت کے لیے اللہ تعالیٰ نے قادیان کو مرکز مقرر فرمایا.اب اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت ہم قادیان سے ربوہ آ گئے ہیں جہاں ہر سال ہمارا سالانہ جلسہ منعقد ہوتا ہے جس میں شامل ہونے کے لیے دور دور سے لوگ آتے ہیں، وعظ و نصیحت کی باتیں سنتے ہیں، تہجد میں پڑھتے ہیں، ذکر الہی اور دُعاؤں میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں اور نو جوان بھی جہاں مہمانوں کی خدمت کرتے ہیں وہاں اپنے اوقات کو زیادہ تر ذکر الہی میں بسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اور اس جلسہ کی بڑی غرض بھی یہی ہے کہ جولوگ اس میں شامل ہونے کے لیے ربوہ آئیں وہ دن کے اوقات میں علماء سلسلہ کی تقریریں سنیں اور رات کو مساجد میں تہجد میں پڑھیں ، ذکر الہی کریں، قرآن کریم کی تلاوت کریں اور دُعاؤں میں اپنے اوقات بسر کریں تا کہ اگر سارا سال انہوں نے تہجد نہیں پڑھی تو کم از کم ان تین دنوں میں ہی وہ تہجد اور نوافل پڑھ کر اور ذکر الہی اور دعاؤں میں حصہ لے کر اپنے دلوں کو منور کر لیں.
خطبات محمود جلد نمبر 39 235 $1958 جلسہ سالانہ پر آنے والے دوستوں کو ہدایات تو میں ربوہ میں دیا کرتا ہوں مگر اس دفعہ گرمی کی شدت کی وجہ سے میں نہیں کہہ سکتا کہ ہم کب ربوہ پہنچیں.پہلے کئی دفعہ یہاں 69، 70 تک درجہ حرارت رہتا تھا مگر آج 86 سے اوپر تھا.اور ابھی پتا نہیں کہ پونے چار بجے تک کتنا درجہ حرارت بڑھ جائے.ہم 5 مئی کو مری گئے تھے اور اُس وقت یہاں درجہ حرارت 90 تھا مگر آج صبح کے وقت ہی 86 تک درجہ حرارت پہنچا ہوا تھا جس سے ڈر آتا ہے کہ کہیں آج 90 سے بھی ٹمپریچر بڑھ نہ جائے.پس چونکہ گرمی زیادہ ہے میں نے مناسب سمجھا کہ یہیں خطبہ پڑھ دوں.اخبار میں چھپ کر تمام جماعتوں کو پہنچ جائے گا.پھر جو کچھ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوگی وہی ہوگا.اس دفعہ گرمی کی شدت اور صحت کی کمزوری مالی دیکھ کر خیال آیا کہ معلوم نہیں کتنی زندگی باقی ہے اس لیے جو فرض بھی ادا کیا جا سکے اس کو جلد سے جلدا دانی کردوں اور جماعتوں کو اُن کی ذمہ داری کی طرف توجہ دلا دوں.پس میں دوستوں سے کہتا ہوں کہ وہ جلسہ سالانہ پر زیادہ سے زیادہ آنے کی کوشش کریں.اس سال گرمی بھی زیادہ پڑی ہے اور بارشیں بھی زیادہ ہوئی ہیں جس کی وجہ سے فصلیں بالکل ماری گئی ہیں.مجھے اطلاع ملی ہے کہ اس سال چندوں میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے.گو پچھلے سال جتنا چندہ تو آ چکا ہے مگر ہمیں زیادہ آمد کی ضرورت ہے کیونکہ اس سال سترہ لاکھ کا بجٹ بنایا گیا ہے اور پچھے سال بارہ انچ لاکھ کا بجٹ تھا.پس پچھلے سال کا جو بجٹ تھا اُس کے برابر تو چندہ کی وصولی ہورہی ہے مگر اس سال جتنی آمد ہونی چاہیے تھی اتنی آمد نہیں ہو رہی.اسی وجہ سے ہر صیغہ کے بجٹ میں تین فیصدی کی مزید کمی کی گئی ہے تا کہ آخر سال تک اخراجات پورے ہو سکیں.گویا اس سال کے لیے صدر انجمن احمدیہ نے جو بجٹ تجویز کیا تھا اور جسے مجلس شوری کے موقع پر منظور کر لیا گیا تھا اُس میں سے بھی تین فیصدی کی کمی کر دی گئی ہے.یہ کمی بھی اسی لیے کرنی پڑی کہ اس سال فصلیں بہت کچھ ماری گئی ہیں.اس کی وجہ یہ ہوئی کی کہ اول تو دھوپ اور گرمی بہت پڑی ، دوسرے متواتر بارشیں ہوئیں اور انہوں نے اتنی تباہی مچائی کہ ابھی تک کراچی کی طرف سڑکیں ٹوٹی پڑی ہیں اور موٹر آ جا نہیں سکتی اور قریباً ایک مہینہ سے یہی حالت ہے.اس وجہ سے جلسہ سالانہ پر آنے جانے کے اخراجات پورے کرنے کے لیے دوستوں کو وقتیں تو پیش آئیں گی لیکن ان کو چاہیے کہ اس موقع کے لیے انہیں کچھ قرض لے کر بھی آنا پڑے تو وہ قرض لے کر آجائیں.
خطبات محمود جلد نمبر 39 236 $ 1958 غریب لوگ تھرڈ کلاس میں سفر کرتے ہیں اور اس وجہ سے اُن کے کرایہ پر بہت تھوڑا روپیہ خرچ ہوتا ہے.بالعموم چار پانچ روپیہ میں وہ ربوہ پہنچ سکتے ہیں اور چار پانچ روپے اگر قرض لے لیے جائیں تو غریب سے غریب آدمی بھی محنت مزدوری کر کے آسانی سے اتنا قرض ادا کر سکتا ہے.اسی کی طرح عورتوں کو چاہیے کہ وہ کفایت سے اپنے گھروں کے اخراجات پورے کریں تا کہ کم از کم اتنا روپیہ ان کے پاس بچ جائے جس سے وہ جلسہ سالانہ پر آ سکیں.لوگوں میں عموماً یہ شوق پایا جاتا ہے کہ وہ جلسہ سالانہ پر آپ بھی آتے ہیں اور اپنے بیوی بچوں کو بھی ساتھ لاتے ہیں.اسی طرح وہ اپنے ہمسایوں اور دوستوں کو بھی ساتھ لانے کی کوشش کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں جو آخری جلسہ سالانہ ہوا اُس میں سات سو آدمی شامل ہوئے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُن کو دیکھ کر اتنے خوش ہوئے تھے کہ جب آپ سیر کے لیے باہر نکلے اور چلتے ہوئے لوگوں کی ٹھوکروں کی کی وجہ سے آپ کے پاؤں سے جوتی بار بار نکل جاتی تو آپ نے فرمایا اب تو ہماری جماعت اتنی بڑھی گئی ہے کہ میں سمجھتا ہوں میرے آنے کی غرض پوری ہوگئی ہے.ہمارے آنے کی یہی غرض تھی کہ ہم دین کی اشاعت کریں اور اس کے لیے ایک جماعت تیار کر دیں.سو اب وہ جماعت تیار ہوگئی ہے.چنانچہ اسی سال آپ وفات پا گئے.پھر حضرت خلیفہ اول کے عہدِ خلافت میں جو آخری جلسہ ہوا اُس میں اٹھارہ انیس سو آدمی شریک ہوئے.اور اس کے بعد قادیان میں جو جلسے ہوتے رہے ان میں کی خدا تعالیٰ کے فضل سے شامل ہونے والوں کی تعداد ہر سال بڑھتی چلی گئی.مجھے یاد ہے ایک دفعہ خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب بڑے خوش خوش میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میں نے پوری طرح حساب لگا کر معلوم کیا ہے کہ اس سال ہمارے جلسہ میں تئیس ہزار آدمی شریک ہوئے ہیں مگر اب یہ کیفیت ہے کہ پچھلے سال ربوہ میں ستر ہزار آدمی جمع ہوا اور اس سال ہم اُمید رکھتے ہیں کہ اگر جماعت پوری توجہ سے کام لے اور اپنی ذمہ داری کو سمجھے تو ایک لاکھ تک آنے والوں کی تعداد پہنچ جائے گی.بلکہ ممکن ہے اس سے بھی بڑھ جائے.پس اول تو میں جماعت کو یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ جلسہ سالانہ پر پچھلے سالوں سے بھی زیادہ آنے کی کوشش کرے اور پھر زیادہ سے زیادہ غیر احمد یوں کو اپنے ہمراہ لانے کی کوشش کرے.اسی طرح جو غیر احمدی دوست تشریف لائیں اُن کا خاص طور پر خیال رکھا جائے اور انہیں مرکز سے ނ
$1958 237 خطبات محمود جلد نمبر 39 زیادہ سے زیادہ مستفید کرنے کی کوشش کی جائے.قرآن کریم نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایک بڑی خوبی یہ بیان فرمائی ہے کہ كَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلوةِ وَالزَّكوة 2 یعنی وہ ایسا نیک تھا کہ اپنے بیوی بچوں کو بھی نیکی کی تلقین کرتا رہتا تھا.اسی طرح جو دوست غیر احمدی معززین کو اپنے ہمراہ لائیں انہیں اس امر کی طرف توجہ دلائیں کہ وہ بیشک ہمارے پیچھے نمازیں نہ پڑھیں مگر مسجد میں آکر پنجوقتہ نماز پڑھنے کی ضرور کوشش کریں اور دُعاؤں اور ذکر الہی میں اپنے ایام بسر کریں.آخر نماز کی پابندی جس طرح ہمارے لیے ضروری ہے اُسی طرح اُن کے لیے بھی ضروری ہے.بیشک ہم انہیں یہ نہیں کہتے کہ وہ ہمارے پیچھے نمازیں پڑھیں مگر ہم یہ ضرور چاہتے ہیں کہ وہ اپنے طریق پر جس طرح بھی نماز پڑھنا چاہیں پڑھیں اور اللہ تعالیٰ کو یاد کریں.مجھے یاد ہے پارٹیشن کے بعد جہلم میں میں نے ایک جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں پاکستان دے دیا ہے.اب ان کا فرض ہے کہ وہ اسلامی احکام پر بھی عمل کریں کیونکہ پاکستان کا مطالبہ اسی بناء پر کیا گیا تھا کہ مسلمانوں کو ایک الگ مقام اس لیے ملنا چاہیے کہ وہ اسلامی تمدن اور معاشرت کو قائم کرسکیں.پس اب جبکہ پاکستان ملی چکا ہے انہیں چاہیے کہ وہ اسلامی احکام پر عمل کرنے کی کوشش کریں تا کہ یہ ثابت ہو جائے کہ انہوں نے جو مطالبہ کیا تھا وہ دیانتداری پر مبنی تھا.اور اس غرض کے لیے انہیں چاہیے کہ وہ نمازیں پڑھیں ، روزے رکھیں، زکوۃ دیں، حج کریں.پھر مجھے خیال آیا کہ ایسا نہ ہو یہ لوگ غلطی سے یہ سمجھ لیں کہ میں کی انہیں اپنے پیچھے نماز پڑھنے کی تلقین کر رہا ہوں.چنانچہ میں نے انہیں کہا کہ ہمارا اور آپ لوگوں کا قبلہ بھی ایک ہے، قرآن بھی ایک ہے اور نماز بھی ایک جیسی ہی ہے لیکن پھر بھی میں یہ نہیں کہتا کہ آپ کی میرے پیچھے نماز پڑھیں میں یہ کہتا ہوں کہ آپ غیر احمدی امام کے پیچھے پڑھیں اور غیر احمدیوں کی مسجد میں پڑھیں مگر پڑھیں ضرور.میں یہ بھی نہیں کہتا کہ اگر کوئی حنفی ہو تو وہ شافعیوں کے پیچھے نماز پڑھے یا شافعی حنفیوں کے پیچھے پڑھے بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ اگر کوئی حنفی ہے تو وہ حنفیوں کے پیچھے نماز پڑھے، شافعی ہے تو وہ شافعیوں کے پیچھے پڑے، شیعہ ہو تو شیعوں کے پیچھے پڑھے مگر بہر حال وہ خدا تعالیٰ کا نام ضرور لے اور اس کی عبادت کرے تا کہ اُس کا خدا اُس پر خوش ہو جائے.جب میں تقریر کر کے بیٹھو گیا تو ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میں ایک بات کہنی چاہتا ہوں.میں اُس کے دھوکا میں آ گیا اور
$1958 238 خطبات محمود جلد نمبر 39 میں نے سمجھا کہ شاید وہ لیکچر کی تعریف کرنا چاہتا ہے مگر جب اسے صدر نے اجازت دی تو وہ کھڑے ہو کر کہنے لگا کہ مرزا صاحب نے جو بات کہی ہے وہ منافقت سے کہی ہے ورنہ اگر وہ اپنی بات میں بچے کے ہیں تو چلیں اور ہمارے امام کے پیچھے نماز پڑھیں.اُس وقت اُس جلسہ کا صدر ایک غیر احمدی تھا.وہ ہماری جماعت کا شدید مخالف ہے اور اُس نے ہمارے خلاف بعض ٹریکٹ بھی لکھے ہیں مگر جب اس نے یہ بات کہی تو وہ فوراً کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا مجھے پتا نہیں تھا کہ اس شخص نے اعتراض کر کے فتنہ پھیلانا ہے ورنہ میں اسے کبھی بولنے کی اجازت نہ دیتا.مرزا صاحب نے تو اپنے پیچھے نماز پڑھنے کا نام بھی نہیں لیا.انہوں نے تو یہ کہا ہے کہ تم نمازیں پڑھو.اور یہ بھی نہیں کہا کہ ہماری مسجد میں پڑھو بلکہ کہا ہے کہ تم اپنی اپنی مسجدوں میں نمازیں پڑھو اور یہ بھی نہیں کہا کہ ہمارے امام کے پیچھے پڑھو بلکہ انہوں نے کہا ہے کہ اگر تم شیعہ ہو تو شیعہ امام کے پیچھے پڑھو، اگر خارجی ہو تو خارجی امام کے پیچھے پڑھو، اگر خفی کی یا شافعی ہو تو حنفی یا شافعی امام کے پیچھے پڑھو.اور جب انہوں نے اپنی جماعت کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کو اُن کے فرائض کی طرف توجہ دلائی ہے اور کہا ہے کہ تم اپنے اپنے طریق پر جس طرح خدا تعالیٰ کی عبادت کرنا پسند کرتے ہو اس طرح عبادت کرو تو پھر اعتراض کرنے کی کیا وجہ ہے.اگر تو وہ یہ کہتے کہ میرے پیچھے نماز پڑھو یا ہماری جماعت کے امام کے پیچھے نماز پڑھو تب تو اعتراض ہوسکتا تھا لیکن انہوں نے تو اشارہ بھی کوئی بات ایسی نہیں کہی.پس یہ اعتراض محض فتنہ اور فساد پھیلانے کی کوشش کرنا ہے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے اُن ہی کے ایک آدمی کے ذریعہ مخالف کو جواب دے دیا اور وہ شرمندہ ہو کر بیٹھ گیا.بہر حال ہمارا طریق یہی ہے کہ ہم ہر مذہب اور عقیدہ رکھنے والے کو کہتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے طریق کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے.ہم کسی کو مجبور نہیں کرتے کہ وہ ہمارے پیچھے نماز پڑھے.مجھے یاد ہے جب شملہ میں پہلی مرتبہ کشمیر کمیٹی کا جلسہ ہوا تو نواب صاحب آف گنج پورہ بھی جو ہمارے رشتہ دار تھے اس میں شامل ہوئے.میں نے یہ دیکھ کر کہ وہ احمدیت کے مخالف ہیں اور بعض کی دوسرے غیر احمدی معززین بھی شامل ہیں میں نے درد صاحب کو کہا کہ ایک الگ کمرہ میں نماز کے لیے دریاں بچھا دیں اور پانی کا بھی انتظام کر دیں.جب کمیٹی ہو چکی تو میں نے دوستوں سے کہا کہ اب چونکہ نماز کا وقت ہے اس لیے ہم تو یہیں نماز پڑھیں گے لیکن آپ لوگوں کے لیے ایک الگ کمرہ میں
239 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 انتظام کر دیا گیا ہے اور لوٹے بھی رکھوا دیئے گئے ہیں تا کہ وضو کر سکیں.اس پر نواب صاحب بڑ.غصہ سے اُٹھے اور ناراض ہو کر چلے گئے.تھوڑی دیر کے بعد نواب ذوالفقار علی خاں صاحب جو ہمارے بہنوئی نواب محمد علی خاں صاحب کے چھوٹے بھائی تھے اُن کا مجھے فون آیا کہ نواب صاحب آف گنج پورہ کی آپ نے کیوں بنک کر دی، وہ تو بڑے ناراض ہیں.میں نے کہا کہ میں نے تو کوئی ہتک نہیں کی.میں نے تو اُن کی سہولت کے لیے الگ جائے نماز بچھوادی تھی اور پانی کا بھی انتظام کرا دیا تھا تا کہ وہ علیحدہ نماز پڑھ لیں.آخر انہوں نے ہمارے پیچھے تو نماز نہیں پڑھنی تھی.وہ کہنے لگے کہ انہوں نے آپ کی بات کو سمجھا نہیں.وہ بڑے غصہ سے اُٹھ کر آگئے اور کہنے لگے کہ انہوں نے ہم کو کافر قراردے دیا ہے اور کہا ہے کہ تم الگ نماز پڑھو.غرض ہم تو خود کہتے ہیں کہ جو لوگ اعتقادات میں ہم سے اختلاف رکھتے ہیں وہ علیحدہ نماز پڑھیں.آخر نماز بندے اور خدا تعالیٰ کے تعلق کی ایک علامت ہے.اگر وہ اپنے عقائد میں بچے ہیں تو اُن کی نماز اسی صورت میں قبول ہو سکتی ہے جب وہ ہم سے علیحدہ نماز پڑھیں.اور اگر وہ ہم کو جھوٹا سمجھتے ہیں تو اپنے پیچھے نماز پڑھوا کر ہم اُن کی نماز کو کیوں خراب کریں.اگر ایک شخص ہم کو کافر سمجھتا ہے اور پھر ہم اُسے کہتے ہیں کہ تو ہمارے پیچھے نماز پڑھ تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ہم اسے بے دین بناتے ہیں.اگر وہ خود اپنے شوق سے ہمارے پیچھے نماز پڑھنا چاہے تو ہم اسے نہیں روکتے لیکن جو شخص ہمارے پیچھے نماز نہ پڑھنا چاہے اُسے ہم اپنے پیچھے نماز پڑھنے پر مجبور نہیں کر سکتے.پس جو لوگ باہر سے آئیں اُن کو نصیحت کرتے رہیں کہ وہ مسجدوں میں بیٹھیں، ذکر الہی کریں، دُعا اور استغفار سے کام لیں اور جب نماز کا وقت آئے تو بیشک علیحدہ نماز پڑھ لیں ، ہمارے امام کے پیچھے نہ پڑھیں.مگر بہر حال پڑھیں ضرور کیونکہ نماز پڑھنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور اس کی حکم کی بجا آوری جس طرح ہمارے لیے ضروری ہے اُسی طرح اُن کے لیے بھی ضروری ہے.غرض جماعت کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ جلسہ سالانہ پر آنے کی کوشش کریں اور پھر یہاں آ کر دُعاؤں اور ذکر الہی اور عبادت میں اپنا وقت گزاریں اور جن غیر احمدی دوستوں کو اپنے ہمراہ لائیں اُن کی بھی نگرانی رکھیں تا کہ وہ اپنا وقت ضائع نہ کریں اور دُعا اور استغفار میں مشغول رہیں.
خطبات محمود جلد نمبر 39 240 $1958 اسی طرح میں ربوہ والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جلسہ سالانہ پر آنے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان ہیں اور چونکہ وہ خدا تعالیٰ کی آواز پر جمع ہوتے ہیں اس لیے وہ ان کے بھی مہمان ہیں.اگر وہ ان کی مہمان نوازی نہیں کریں گے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بنیں گے.ان کے کھانے پر جس قدر خرچ ہوتا ہے وہ تو خود اپنے چندہ کے ذریعہ بھجوا دیتے ہیں.ربوہ والوں کا کام صرف اتنا رہ جاتا ہے کہ وہ ان کی خدمت کریں اور ان کی رہائش کے لیے زیادہ سے زیادہ مکانات پیش پس میں ربوہ والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ابھی سے اپنے مکانات کا ایک حصہ مہمانوں کو پیش کرنے کا تہیہ کر لیں اور کوشش کریں کہ وہ زیادہ سے زیادہ مکانات مہمانوں کو دیں.اسی طرح ای مہمانوں کی خدمت کے لیے وہ والنٹیئرز کے طور پر اپنے آپ کو بھی پیش کریں تا کہ باہر سے آنے والوں کو زیادہ سے زیادہ آرام پہنچایا جا سکے.اگر اس دفعہ باہر سے ایک لاکھ آدمی آ جائے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ان کی خدمت کے لیے ہمیں ہزار والنٹیر ز کی ضرورت ہوگی مگر ابھی ربوہ کی آبادی اتنی نہیں کہ تمام والنٹیئر ز صرف ربوہ سے ہی میسر آ سکیں.اس لیے تمام جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی جماعت کے افراد میں سے پچیس فیصدی افراد کو والنٹیئرز کے طور پر پیش کریں اور جلسہ سالانہ سے پہلے ہی انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے دفاتر میں اُن کے نام بھجوا دیں اور جب جلسہ سالانہ پر وہ لوگ پہنچیں تو آتے ہی ان لوگوں کو انصار اور خدام کے منتظمین کے سپرد کر دیں تا کہ وہ ربوہ والوں کے ساتھ مل کر آنے والے مہمانوں کی خدمت کر سکیں“.(الفضل 9 /اکتوبر 1958ء) 1 : الحج : 28 2: مريم: 56
$ 1958 241 28 خطبات محمود جلد نمبر 39 دُعاؤں میں لگے رہو کہ اللہ تعالیٰ اسلام کی مضبوطی کے زیادہ سے زیادہ سامان پیدا کرے عیسائیت کا مقابلہ کرنا ہمارا سب سے مقدم فرض ہے (فرموده 3 را کتوبر 1958ء بمقام نخله ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ الناس کی تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا: تینوں قُل جو قرآن شریف کے آخر میں آئے ہیں یہ در حقیقت سورۃ فاتحہ کی تشریح کے طور پر ہیں.یوں تو سارا قرآن ہی سورہ فاتحہ کی تفسیر ہے لیکن خصوصیت سے وہ تینوں قل جو قرآن کریم کے آخر میں آئے ہیں ان میں آخری زمانہ میں پیدا ہونے والے مفاسد اور خرابیوں کی خبر دی گی ہے.چنانچہ انہی سورتوں میں سے ایک یہ سورۃ الناس بھی ہے جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے.اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ آخری زمانہ میں کئی قسم کے فتنے پیدا ہوں گے.ایک فتنہ تو اللہ تعالیٰ کے رب العالمین ہونے کے مقابلہ میں اُٹھے گا یعنی لوگ رو پے د.دے کر ایمان خرید نا شروع کر دیں گے.چنانچہ دیکھ لو عیسائیوں نے ہمارے ملک میں لوگوں کو روپے دے دے کر ہی ادنی اقوام کو خرید ناشروع کیا تھا.انہوں نے ان کے بچوں کو تعلیم دلائی ، ان کی عورتوں کی
$1958 242 خطبات محمود جلد نمبر 39 کو نرسنگ سکھائی اور اس طرح انہیں عیسائی بنالیا.دوسرا فتنہ اِلهِ الناس 1 کے مقابلہ میں پیدا ہوگا اور پادری وغیرہ جو خرابیاں پیدا کریں جی گے اور دلوں میں شبہات ڈالیں گے اس میں بعض مسلمان اُن کی مدد کریں گے.چنانچہ عیسائیوں نے اگر حضرت مسیح کو خدا قرار دیا تھا تو مسلمانوں نے بھی اسے آسمان پر چڑھا دیا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ فوت نہیں ہوئے.تیسرا فتنہ جس کی اس سورۃ میں خبر دی گئی تھی وہ فلسفیوں کا فتنہ تھا اور بتایا گیا تھا کہ وہ آپ تو ہٹ کر رہیں گے مگر کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے والے لڑکوں کے لیے وہ ایسی کتابیں لکھیں گے جو اُن کے دلوں میں زہر یلے خیالات پیدا کر دیں گی.ان کے لیے تو عیسائیت بھی باطل مذہب ہوگا اور اسلام بھی.مگر وہ در پردہ اسلام پر اعتراض کریں گے اور کتابیں لکھ لکھ کر سکولوں اور کالجوں کے لڑکوں کو خراب کرنے کی کوشش کریں گے.غلام حسین ہدایت اللہ جو سندھ کے گورنر تھے انہوں نے ایک دفعہ بیان کیا کہ میرے سامنے ایک دفعہ حضرت مرزا صاحب کا ذکر ہوا تو کسی نے آپ پر اعتراض کر دیا.میں نے اُسے کہا کہ میاں ! تم جوان ہو اور پرانے حالات کا تمہیں علم نہیں.میری اپنی یہ حالت تھی کہ میں عیسائی ہونے لگا تھا کہ اچانک میں نے مرزا صاحب کی کتابیں پڑھیں اور میں عیسائی ہونے سے بچ گیا.غرض عیسائیوں نے کالج بنا بنا کر نو جوانوں کو عیسائیت کی طرف مائل کیا.پس ہمارا سب سے مقدم فرض یہ ہے کہ ہم عیسائیت کا مقابلہ کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے عیسائیت کا مقابلہ کرنے کے لیے مبعوث کیا ہے جو مذہبی عقائد اور مذہبی خیالات میں ابتری اور فساد پیدا کرنے کا موجب بنتی ہے 2 اور اس فتنہ کا وہ حصہ جو سیاسی حالات اور سیاسی امن کو برباد کرنے کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اس کو بھڑ کانے والوں کا نام یا جوج ماجوج رکھا گیا ہے جو برطانیہ، امریکہ اور روس ہیں.حدیثوں میں آتا ہے کہ دجال آسمان سے پانی برسائے گا جس کے معنے تھے کہ وہ لوگوں کو رزق دے گا.3 چنانچہ اب بھی جو لوگ عیسائی ہو جائیں اُن کو مالی امداد دی جاتی ہے اور ان کا کھانے پینے کا معیار نسبتاً بلند ہو جاتا ہے.ان لوگوں میں ایک باطل مذہب کا پیر وہونے کے باوجود قربانی پائی جاتی ہے.
خطبات محمود جلد نمبر 39 243 $ 1958 1911 ء میں میں ڈلہوزی گیا تو وہاں اُن دنوں عیسائیوں کا مشہور پادری ینگسن آیا ہوا تھا.یہ وہی ینگسن تھا جس کے ذریعہ سیالکوٹ میں عیسائیت مضبوط ہوئی اور سینکڑوں ادنی اقوام کے لوگ عیسائی بن گئے.یہ شخص اسلام کے خلاف روزانہ بازار میں ٹریکٹ تقسیم کیا کرتا تھا.جب متواتر اسلام کے خلاف ٹریکٹ تقسیم ہونے لگے تو مسلمانوں میں ایک شور مچ گیا اور انہوں نے چاہا کہ اس پادری کے ساتھ کسی مسلمان عالم کی بحث کروائی جائے.اُن دنوں بیلون چھاؤنی میں ایک بڑے جو شیلے مولوی صاحب رہتے تھے.اُن کو پتا تھا کہ میں آیا ہوا ہوں.جب لوگ اُن کے پاس پہنچے کہ آپ چل کر پادری صاحب کا مقابلہ کریں تو وہ کہنے لگے مرزائیوں کو عیسائیوں کا مقابلہ کرنا خوب آتا ہے اس لیے اگر کسی کو لے جانا ہی ہے تو مرزا صاحب کا بیٹا ہے یہاں آیا ہوا ہے اُسے اپنے ساتھ لے جاؤ.چنانچہ ان کا ایک وفد میرے پاس آیا اور میں اُن کے ساتھ چل پڑا.پہلے اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں اور وہ کہنے لگے مجھے سیالکوٹ سے پونا 4 تبدیل کر دیا گیا تھا.مجھے خیال آیا کہ ڈلہوزی میں لوگ عموماً موسم گرما گزارنے کے لیے آیا کرتے ہیں اس سال وہاں چلیں اور لوگوں کو تبلیغ کریں.یہاں پادریوں کے ٹھہرنے کے لیے دو کوٹھیاں بنی ہوئی ہیں.چنانچہ میں نے یہاں آ کر تبلیغ شروع کر دی ہے.اس کے بعد وہ کہنے لگے آپ کا کیا مذہب ہے؟ میں نے کہا میں تو ایک محقق ہوں.کہنے لگے آپ مسلمان ہیں یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں؟ میں نے کہا آپ صرف مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لیے آئے ہیں یا سب کو؟ کہنے لگے سب کو.میں نے کہا تو پھر میرا کوئی بھی مذہب ہو آپ کو اس سے کیا ؟ آپ مجھے تبلیغ کیجیے اور اپنا شکار بنا لیجیے.کہنے لگے عیسائیت کی تثلیث پر بنیاد ہے اور ہم تین اقنوم تسلیم کرتے ہیں خدا باپ، خدا بیٹا اور خدا روح القدس.میں نے کہا کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ دنیا جو پیدا ہوئی ہے یہ خدا باپ نے پیدا کی ہے یا خدا بیٹے نے پیدا کی ہے یا خدا روح القدس نے پیدا کی ہے؟ کہنے لگا تینوں نے الگ الگ پیدا کی ہے.میں نے کہا کیا تینوں الگ الگ بھی پیدا کر سکتے تھے؟ کہنے لگا ہاں.اُس وقت اُن کے میز پر ایک پنسل پڑی تھی.میں نے کہا اگر اس وقت آپ کو پنسل اُٹھانے کی ضرورت ہو اور آپ آوازیں دینی شروع کر دیں کہ بیرے ! ادھر آؤ، باورچی ادھر آؤ، نو کر ادھر آؤ اور جب وہ آجائیں تو آپ کہیں کہ سب مل کر یہ پنسل اُٹھا دو تو و
$1958 244 خطبات محمود جلد نمبر 39 آپ کے متعلق کیا خیال کریں گے؟ کہنے لگا یہی کہ میں پاگل ہو گیا ہوں.میں نے کہا جب خدا باپ بھی زمین و آسمان پیدا کر سکتا ہے اور خدا بیٹا بھی پیدا کر سکتا ہے اور خدا روح القدس بھی پیدا کر سکتا ہے مگر باوجود اس کے کہ وہ تینوں الگ الگ پیدا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں پھر بھی ان تینوں نے مل کر یہ دنیا بنائی.تو بتائیے یہ تینوں خدا پاگل ہوئے یا نہیں ؟ اور آیا پاگل بھی خدا ہوسکتا ہے؟ کہنے لگے اصل بات یہ ہے کہ تثلیث کا مسئلہ کفارہ پر مبنی ہے.جب تک کفارہ کا مسئلہ سمجھ میں نہ آئے تثلیث کا مسئلہ نہیں سمجھا جاسکتا.چنانچہ دوسرے دن کفارہ پر بحث ہوئی.میں نے کہا آپ یہ بتائیں کہ حضرت ابراہیم اور حضرت داؤ دوغیرہ کیوں کفارہ نہیں ہوئے صرف مسیح کیوں کفارہ ہوئے؟ کہنے لگے اس لیے کہ وہ گنہ گار تھے.میں نے کہا کیوں؟ کہنے لگے آدم کا گناہ ورثہ میں ملا تھا جس کی وجہ سے وہ بھی گنہگار ہو گئے.میں کی نے کہا شیطان ورغلانے کے لیے حوا کے پاس گیا تھا یا آدم کے پاس؟ کہنے لگے حوا کے پاس.میں نے کہا حوا کے پاس کیوں گیا تھا؟ کہنے لگے اس لیے کہ حوا اُسے کمزور نظر آئی اور اُس نے سمجھا کہ وہ جلدی میری بات مان لے گی.میں نے کہا تو پھر اس سے معلوم ہوا کہ حوا کی بیٹیاں زیادہ کمزور ہیں اور آدم طاقتور تھا.پھر میں نے کہا اب آپ یہ بتائیے کہ اگر گرم اور سرد پانی ملا دیا جائے تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ کہنے لگے یہی کہ گرم پانی کی گرمی کم ہو جائے گی اور سرد پانی کی سردی کم ہو جائے گی اور پانی آپس میں سمویا جائے گا.میں نے کہا اس مثال سے واضح ہوتا ہے کہ حوا اور آدم دونوں سے جو نسل چلی وہ تو سموئی گئی.اس میں کچھ حوا کی کمزوری آئی اور کچھ آدم کی طاقت آئی.مگر آپ کے مسیح تو صرف ایک عورت کے بطن سے پیدا ہوئے تھے.پس مسیح جو حوا سے پیدا ہوا وہ دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ گنہگار تھا.پھر جو دوسروں سے زیادہ گنہ گار تھا وہ کفارہ کس طرح ہو گیا؟ کہنے لگا وہ تو خدا کا بیٹا تھا.میں نے کہا آپ کے پاس اُس کے خدا کا بیٹا ہونے کا کوئی ثبوت نہیں.آپ کی کتابوں میں تو لکھا ہے کہ جتنے نیکو کار ہیں سب خدا کے بیٹے ہیں.5 پھر آپ اوروں کو بھی خدا تعالیٰ کا بیٹا کیوں نہیں مانتے ؟ غرض وہ بہت ہی لاجواب اور شرمندہ ہوا.آجکل پاکستان میں پھر عیسائیت نے سر اُٹھانا شروع کیا ہے.چنانچہ مری میں بھی وہ اشتہار غیرہ بانٹتے رہے ہیں اور لاہور میں بھی اُن کی سرگرمیاں جاری ہیں.اس لیے دوستوں کو چاہیے کہ وہ
$1958 245 خطبات محمود جلد نمبر 39 عیسائیت کا مقابلہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے دُعائیں بھی کرتے رہیں کہ وہ اسلام کو غلبہ دے اور اس کی مضبوطی کے زیادہ سے زیادہ سامان پیدا کرے.1 : الناس : 4 2 : ضرورة الامام روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 495 مسلم کتاب الفتن باب ذكر الدجّال (الفضل 6 ستمبر 1961 ء ) 4 : پونا: ( پونے پونا Pune) ہندوستان کے صوبہ مہاراشٹر کا ایک شہر ( وکی پیڈیا - آزاد دائرہ معارف زیر لفظ یونا) 5 : متى باب 5 آیت 9
$ 1958 246 (29 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہمیں چاہیے کہ ہم ہر وقت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف توجہ رکھیں اور اُسی سے مدد مانگیں (فرموده 31 /اکتوبر 1958ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی راہنمائی کے لیے اسلام میں اتنا سامان پیدا کر دیا ہے کہ اگر مسلمان تھوڑا سا بھی غور کریں تو انہیں معلوم ہو کہ اُن کا رستہ اتنا واضح اور نمایاں ہے کہ نصف النہار میں بھی کوئی بڑی سے بڑی سڑک اتنی نمایاں نہیں ہوتی.مثلاً ابھی اذان ہوئی ہے.یہ ہر روز پانچ وقت نمازوں میں ہوتی ہے اور پھر پانچوں وقت اُن لوگوں کے لیے جو مسجد میں نمازیں پڑھتے ہیں امام کی آواز ہوتی ہے یامگبر کی آواز ہوتی ہے اور ان میں قدرے مشترک اور اہم چیز اللہ اکبر ہی ہے یعنی اللہ سب سے بڑا ہے.اللہ تعالیٰ کے متعلق جو یہ الفاظ آئے ہیں اگر مسلمان ان پر غور کرتے تو ان کی تمام مشکلات حل ہو جاتیں.ساری خرابی اسی بات سے پیدا ہوتی ہے کہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے لیکن عملی طور پر اور بہت سے لوگ ان کے ذہن میں ہوتے ہیں.اور بعض دفعہ تو اپنے آپ کو ہی وہ سب سے بڑا سمجھنے لگ جاتے ہیں.کہیں کوئی بات ہو تو بجائے اللہ تعالیٰ پر
$1958 247 خطبات محمود جلد نمبر 39 تو کل کرنے کے وہ بڑے جوش سے کہنا شروع کر دیتے ہیں میں ایسا کر دوں گا، میں ایسا کر دوں گا حالانکہ اس میں کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہوتی.ایک دم میں ہارٹ فیل ہو جائے تو میں وہیں ختم ہو جاتی ہے.مگر نہ وہ مسجد کی پانچ وقت کی نمازوں میں اللهُ اَكْبَرُ کہنے کی کوئی قدر کرتے ہیں ، نہ جمعہ کی نماز جو سارے شہر کے لیے ہوتی ہے اس کی الله اکبر کی کوئی قدر کرتے ہیں اور نہ امام کے الله اكبر کہنے کی کوئی پروا کرتے ہیں.حالانکہ امام فرائض کی سترہ رکعتوں میں نماز شروع کرتے ہوئے اللہ اکبر کہتا ہے اور پھر سترہ رکعتوں میں وہ ہر رکوع میں جاتے ہوئے اللہ اکبر کہتا ہے.پھر ہر سجدہ میں جاتے اور اس سے اُٹھتے ہوئے اللہ اکبر کہتا ہے.پھر اذان میں روزانہ میں دفعہ اللهُ اکبر کی آواز سنتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ عملی طور پر دوسرے انسانوں کو اس سے بڑا سمجھتا ہے.ایک دفعہ قاضی المل صاحب کے والد مولوی امام الدین صاحب مرحوم جو صوفی مزاج انسان تھے اور احمدیت سے پہلے بعض اور پیروں کی بیعت کر چکے تھے انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ ہمارے پیر صاحب یہ کہا کرتے تھے کہ مجھے خدا تعالیٰ کا اتنا قرب حاصل ہے کہ میں عرش پر سجدہ کرتا ہوں مگر احمدیت میں مجھے یہ نظارہ نظر نہیں آیا.میں نے اُن کو کئی جواب دیئے مگر اُن کی تسلی نہ ہوئی.آخر ایک دن میں نے ان سے کہا کہ دیکھیے ! اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بڑائی انسان پر ظاہر ہو جائے اور وہ اس کو اپنا حقیقی کارساز سمجھنے لگ جائے.کہنے لگے ہاں.میں نے کہا آپ جانتے ہیں حضرت صاحب کو خدا تعالیٰ پر کتنا تو کل تھا؟ بغیر اس کے کہ کوئی ظاہری سامان آپ کے پاس ہوتا سینکڑوں مہمان روزانہ آپ کے پاس آتے اور اُن تمام کے اخراجات اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی رنگ میں پورے کر دیتا کیونکہ اُس کا وعدہ تھا کہ يَنصُرُكَ رِجَالٌ نُّوْحِيَ إِلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاءِ - 1 تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کو ہم آسمان سے وحی کریں گے.گویا صرف اُنہی کو وحی نہیں ہوتی تھی بلکہ ہر شخص جو آپ کو روپیہ دیتا تھا اس کو بھی وحی ہوتی تھی.اب آپ یہ بتائیے کہ جن پیر صاحب کی آپ نے بیعت کی تھی کیا اُن کی بھی یہی حالت تھی؟ کیا اُن کے اندر بھی خدا تعالیٰ پر اس قسم کا تو گل پایا جاتا تھا جیسے حضرت مرزا صاحب میں پایا جاتا تھا ؟ وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے آج یہ بات میری سمجھ میں آگئی ہے کیونکہ میرا جو پیر تھاوہ کہا کرتا تھا کہ میں عرش پر سجدہ کرتا ہوں.اُس کی یہ حالت تھی کہ جب نکلنے کا وقت آتا تو مریدوں کے کھیت میں جابیٹھتا کہ میرا حصہ مجھے دو.میں نے کہا بتائیے کہ کبھی
$1958 248 خطبات محمود جلد نمبر 39 مرزا صاحب بھی کسی مُرید کے کھیت پر گئے تھے؟ کہنے لگے نہیں.میں نے کہا منہ سے کہہ دینا کہ میں عرش پر جا کر سجدہ کرتا ہوں کوئی معنی نہیں رکھتا.کہنے کو تو وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھتا ہوں لیکن اصل سوال عمل کا ہے.مرزا صاحب سارا دن اندر بیٹھے رہتے تھے اور مقررہ اوقات پر باہر تشریف لاتے تھے.ملاقات کرنے والے جن میں بعض دفعہ بڑے بڑے امراء بھی ہوتے تھے دو دو دن تک دروازہ پر بیٹھے رہتے تھے.کیا آپ کے پیر کی بھی یہی حالت تھی؟ اگر یہی حالت تھی تب تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ واقع میں انہوں نے خدا تعالیٰ کی بڑائی دیکھ لی تھی واقع میں وہ کی عرش پر سجدہ کیا کرتے تھے لیکن اگر ان میں زمین پر سجدہ کرنے والوں کے برابر بھی تو کل نہیں تھا تو عرش پر سجدہ کرنے والے کیسے بن گئے؟ پھر میں نے کہا دیکھیے ! حضرت صاحب کے پہلے خلیفہ حضرت مولوی نورالدین صاحب تھے اور اب میں خلیفہ ثانی ہوں لیکن حضرت خلیفہ المسیح الاول نے کبھی کسی سے کچھ نہ مانگا اور نہ میں کسی سے سوال کرتا ہوں.کئی لوگ میرے پاس آ آ کر اصرار بھی کرتے ہیں کہ آپ ہم کو اپنی ضرورت بتا دیں ہم اُس کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے لیکن میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ میں ایسا نہیں کر سکتا.تم جو کچھ دے جاؤ اپنی خوشی سے دے جاؤ.مگر میرا یہ کہنا کہ میری فلاں ضرورت ہے اُس کو پورا کر دو تو چاہے تمہارے کہنے پر ہی میں ایسا کہوں بہر حال یہ سوال ہی ہوگا اور میں سائل نہیں بننا چاہتا.کلکتہ کے ایک دوست تھے وہ اب بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ ہیں اور خوب چندہ دیتے ہیں.اُن کی بیوی بھی مخلص ہے.اُن کا موٹروں کا کارخانہ تھا.ایک دفعہ کہنے لگے جب کسی موٹر کے پرزہ کی ضرورت پیش آجائے تو آپ ہمیں حکم دے دیا کریں.میں نے کہا یہ کبھی نہیں ہو سکتا.آپ کوئی چیز بھیج دیں تو بھیج دیں اگر ہمارے کام کی ہوگی تو استعمال کرلیں گے ور نہ پھینک دیں گے لیکن میں خود نہیں بتاؤں گا کہ مجھے فلاں چیز کی ضرورت ہے.ایک دفعہ وہ اس بات پر کچھ خفا بھی ہو گئے لیکن میں نے اُن کے اصرار کے باوجود کبھی اپنی ضرورت نہیں بتائی.اب تو وہ کوئی اور کام کرتے ہیں مگر چندہ دینے میں وہ بہت مخلص ہیں.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جن لوگوں کو ذرا بھی خدا تعالیٰ کا جلوہ نظر آتا ہے وہ ایسے متوکل ہو جاتے ہیں کہ ان کو کسی چیز کی پرواہی نہیں رہتی.وہ دنیا کے لوگوں کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ دنیا کے لوگ اُن کے محتاج ہوتے ہیں.
خطبات محمود جلد نمبر 39 249 $1958 تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اللہ اکبر کا رستہ دکھایا ہے.افسوس ہے کہ مسلمان اس سے فائدہ نہیں اُٹھاتے.ورنہ اگر خدا سب سے بڑا ہے تو دنیا کی حکومتیں بھی تو اس سے نیچے ہوئیں.آخر سب سے بڑے کے یہ معنے تو نہیں کہ وہ فلاں جولا ہے سے بڑا ہے، سب سے بڑے کے یہ معنے بھی نہیں ہو سکتے کہ وہ فلاں نانبائی سے بڑا ہے، سب سے بڑے کے یہ معنے بھی نہیں ہو سکتے کہ وہ فلاں نائی سے بڑا ہے ، سب سے بڑے کے یہ معنے بھی نہیں ہو سکتے کہ وہ فلاں زمیندار سے بڑا ہے، سب سے بڑے کے یہ معنے بھی نہیں ہو سکتے کہ وہ فلاں تحصیلدار سے بڑا ہے،سب سے بڑے کے یہ معنے بھی نہیں ہو سکتے کہ وہ فلاں ڈپٹی کمشنر سے بڑا ہے، سب سے بڑے کے یہ معنے بھی نہیں ہو سکتے کہ وہ فلاں گورنر سے بڑا ہے،سب سے بڑے کے یہ معنے بھی نہیں ہو سکتے کہ وہ فلاں گورنر جنرل سے بڑا ہے.سب سے بڑے کے معنوں میں ساری دنیا کی حکومتیں بھی شامل ہیں اور جب انسان اللہ اکبر کہتا ہے تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ وہ ساری دنیا کی حکومتوں سے بڑا ہے.لوگ کس طرح منتیں کرتے ہیں کہ ہماری سفارش کر دو لیکن اگر وہ خدا کو بڑا سمجھیں تو یہ بات کیوں پیدا ہو؟ مجھے یاد ہے ہمارے ایک بہت مخلص دوست تھے جو ڈاکٹر تھے.اُن پر قیام پاکستان سے پہلے ایک دفعہ کوئی کیس چل پڑا.وہ شوری میں کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے میں تو سمجھتا ہوں کہ خلیفہ اسیح کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ وہ فوراً گورنر کے پاس جائیں اور اُن کے سامنے میرے حالات بیان کریں.میں نے کہا میں ایسی خلافت پر لعنت بھیجتا ہوں جس کا کام یہ ہو کہ تمہارے لیے گورنر کے دروازہ پر جاؤں.خیر لوگوں میں جوش پیدا ہو گیا اور انہوں نے اُٹھ کر معافی مانگ لی کہ مجھے کی سے غلطی ہوگئی ہے.وہ پاکستان کے قیام تک زندہ تھے.پاکستان کے قیام کے بعد فوت ہوئے ہیں.تو یہ چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں عطا ہوئی ہے.خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ دیکھو! میں سب سے بڑا ہوں.اگر تمہیں کوئی ضرورت پیش آئے یا تم کسی مشکل میں گرفتار ہو جاؤ تو تم میری طرف آؤ میں تمہاری ہر ضرورت پوری کر سکتا ہوں اور تمہاری ہر مصیبت کو دور کرنے کی طاقت رکھتا ہوں.احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ ایک جنگ کے لیے باہر تشریف لے گئے.جب آپ واپس آئے تو ایک شخص جس کا بھائی مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا آپ کے پیچھے پیچھے آیا تا کہ اسے کوئی موقع ملے تو آپ کو قتل کر دے لیکن مدینہ تک اُسے کوئی موقع
$1958 250 خطبات محمود جلد نمبر 39 نہ ملا.جب مدینہ کے قریب آکر فوج مطمئن ہو گئی اور صحابہ آرام کرنے یا کھانا پکانے کے لیے ادھر اُدھر پھیل گئے تو آپ بھی ایک درخت کے نیچے لیٹ گئے اور تلوار درخت سے لٹکا دی لیٹ گئے تو وہی شخص آیا اور اس نے آپ کی تلوار اُٹھالی اور آپ کو جگا کر کہا کہ بتا ئیں اب آپ کو مجھے سے کون بچا سکتا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسی طرح لیٹے لیے نہایت اطمینان اور سکون کے ساتھ فرمایا اللہ.اُس پر اس قدر رُعب طاری ہوا کہ اس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فور وہی تلوار پکڑ لی اور کھڑے ہو گئے اور فرمایا اب تم بتاؤ تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟ کہنے لگا آپ ہی رحم کریں تو کریں.آپ نے فرمایا کمبخت ! میرے منہ سے اللہ کا نام سن کر بھی تیرے منہ سے اللہ کا لفظ نہ نکلا.میں نے "اللہ" کہا تھا تو بھی اللہ کہ کہہ دیتا.وہ کہنے لگا یہ طاقت آپ ہی کی تھی.میرے منہ سے تو اللہ کا لفظ نہیں نکلتا.میں تو سمجھتا ہوں کہ آپ ہی اگر مجھے چھوڑ دیں تو چھوڑ دیں.چنانچہ آپ نے اُسے چھوڑ دیا.2 تو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی انسان کی کوئی طاقت نہیں.سب سے بڑا وہی ہے اور ہمیں ہمیشہ اُسی کے سامنے گرنا چاہیے اور اُس سے درخواست کرنی چاہیے کہ وہ ہماری مدد کرے.تمام حکومتیں، تمام بادشاہتیں ، تمام کارخانے ، تمام تجارتیں ، تمام حرفتیں ، تمام بڑے بڑے پیشے سب اُس کی کے قبضہ و تصرف میں ہیں، ہر ایک جاندار کی جان اُس کے ہاتھ میں ہے.جس کو چاہے زندہ رکھے اور جس کو چاہے ماردے.کسی انسان کی طاقت میں نہیں کہ اُس کا مقابلہ کر سکے.گزشتہ فسادات کے دنوں میں ہی اللہ تعالیٰ نے ہمارے سلسلہ کی جس رنگ میں تائید فرمائی (جس کی تفصیل بعض پہلے خطبات میں بیان کی جاچکی ہے ) اُس کو دیکھتے ہوئے کون شخص اس امر سے انکار کر سکتا ہے کہ تمام طاقتیں اور قدرتیں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہی ہیں اور وہ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہی ہے ذلت دیتا ہے.لیکن اگر باوجود اس کے کہ میں دفعہ اذانوں میں اور قریباً ایک سو دو دفعہ نمازوں میں کہا جاتا ہے کہ اللہ سب سے بڑا ہے پھر بھی ہم اُس کا دروازہ چھوڑ کر کسی اور کے دروازہ پر جائیں تو یہ ہماری کتنی بڑی بدقسمتی ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ ہم اتنے احمق ہیں کہ باوجود اس کے کہ بڑے بڑے معتبر آدمی ہمیں بتا دیتے ہیں کہ اس کھانے میں زہر ہے پھر بھی ہم اُس کھانے کو کھا لیتے ہیں.یسے آدمی پر کوئی بھی رحم نہیں کرے گا.جس آدمی کو بڑے بڑے معتبر آدمی کہیں کہ ہم نے فلاں آدمی کو
$1958 251 خطبات محمود جلد نمبر 39 اپنی آنکھوں سے اس کھانے میں زہر ملاتے دیکھا ہے اور پھر وہ کھانا کھا لے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ کی بڑا ہی احمق ہے.وہ اگر مر جائے گا تو کوئی بھی اُس پر رحم نہیں کرے گا.سارے لوگ یہی کہیں گے کہ اس شخص کا علاج یہی تھا.یہی حال ہمارا ہو گا کہ ہم اللهُ اَكْبَرُ اللَّهُ اَكْبَرُ سنتے ہیں اور پھر بھی دوسروں کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں.ہمیں چاہیے کہ ہم ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف ہی توجہ رکھیں اور اُس ہی سے مدد مانگیں“.الفضل 21 نومبر 1958 ء ) 1 : تذکرہ صفحہ 50 طبع چہارم 2 : بخاری کتاب المغازى باب غزوة ذات الرقاع
$ 1958 252 30 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہمیشہ جائزہ لیتے رہو کہ تمہارے اعمال قرآن کریم کی بیان کردہ تعلیم کے مطابق ہیں یا نہیں مسلمانوں کے لیے ہر معاملہ میں مقدم قرآن کریم ہے اس کے بعد سنت اور پھر حدیث کا درجہ ہے فرموده 7 نومبر 1958ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی: وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللهُ فَأُولَبِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ - 1 اس کے بعد فرمایا: مسلمانوں میں عام طور پر یہ عادت پائی جاتی ہے کہ اگر وہ قرآن کریم میں کسی خاص قوم کے عیب کا ذکر پڑھ لیں تو وہ اپنے آپ کو اس سے مستفی خیال کر لیتے ہیں حالانکہ اصل میں اصول کا سوال ہوتا ہے.جو چیز ایک یہودی کے لیے بری ہے حالانکہ اُس کی کتاب ہماری کتاب سے ادنی ہے، جو چیز ایک عیسائی کے لیے بری ہے حالانکہ اُس کی کتاب میں کوئی شریعت ہے ہی نہیں وہ ہمارے لیے یقیناً اُس سے زیادہ بری ہے.اگر ایک یہودی کے متعلق یہ کہا جائے کہ
$1958 253 خطبات محمود جلد نمبر 39 وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمُ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولَبِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا وہ ظالم ہوتا ہے تو یقیناً ایک مسلمان اگر قرآن کریم یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ طریق کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا تو وہ اُس سے زیادہ ظالم ہے کیونکہ قرآن کریم گلی طور پر محفوظ کتاب ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسی علیہ السلام سے بڑے نبی تھے اور قرآن کریم خود فرماتا ہے کہ آپ کی اتباع لازمی اور ضروری ہے 2ے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کہ قرآن شریف سے ثابت ہے اپنے پاس سے کوئی بات نہیں کہتے تھے بلکہ جو بات بھی کرتے تھے وہ ایک قسم کی وحی ہوتی تھی 3 چاہے وہ وحی خفی ہو یا حی جلی.وحی جلی قرآن کریم ہے جسے وحی متلو بھی کہتے ہیں اور ایک وحی غیر متلو ہے جو وحی خفی کہلاتی ہے جس کو حدیث بھی کہتے ہیں.اس کا درجہ قرآن کریم کے بعد ہے لیکن بہر حال دوسرے علماء کے اقوال پر مقدم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک دفعہ پوچھا گیا تو آپ نے یہی فرمایا کہ ہمارا کی طریق یہ ہے کہ سب سے پہلے قرآن کریم کے مطابق فیصلہ کیا جائے.اور جب قرآن کریم میں کوئی بات نہ ملے تو پھر اسے حدیث سے تلاش کیا جائے.اور جب حدیث سے بھی کوئی بات نہ ملے تو پھر ستدلال اُمت کے مطابق فیصلہ کیا جائے 4 یہی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا طریق تھا.اس لیے آپ کی نے فرمایا کہ ہمارا مسلک حنفی ہے.حضرت امام ابوحنیفہ کے ایک شاگرد کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص شافعی ہے تو حنفی حج کا فرض ہے کہ اُس کے مقدمہ کا فیصلہ شافعی فقہ کے مطابق کرے اور اگر کسی اور فرقہ سے تعلق رکھتا ہے تو اُس کے مطابق فیصلہ کرے سوائے اس کے کہ مدعی اور مدعا علیہ کے عقیدوں میں اختلاف ہو.ایسی صورت میں اگر ان کا معاملہ اپنی جماعت کے سامنے آئے گا تو ان کے بارہ میں جماعتی فیصلہ مانا جائے گا.اور اگر ان کا معاملہ سرکاری عدالت میں جائے گا تو جو سر کاری قانون ہے وہ مانا جائے گا کیونکہ جب فریقین مختلف العقیدہ ہوں تو یہ سمجھا جائے گا کہ اُن کے مابین جو تصفیہ ہوا تھا وہ قانون کے مطابق ہوا تھا.پس مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن اور پھر حدیث کے مطابق اپنے جھگڑوں کے فیصلے کریں.حدیث پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سنت کو مقدم رکھا ہے 5 کیونکہ حدیث
$1958 254 خطبات محمود جلد نمبر 39 میں یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ نا معلوم وہ بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے یا نہیں مگر سنت تو وہ ہے جو تمام امت میں چلی آتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے سیکھا اور صحابہ سے تابعین نے سیکھا اور تابعین سے تبع تابعین نے سیکھا.اسی طرح آج تک برابر اس پر امت محمدیہ عمل کرتی چلی آ رہی ہے.مثلاً نکاح ہے.نکاح کی تفاصیل قرآن کریم میں درج نہیں.لیکن نکاح سارے مسلمانوں میں پایا جاتا ہے.چاہے وہ خارجی ہوں حنفی ہوں ، شیعہ ہوں یا کسی اور فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں.یعنی نکاح کے بغیر چاہے وہ کسی قسم کا ہو، چاہے اُس کا نام منعہ ہی رکھ لو کوئی عورت رکھنی ناجائز سمجھی جاتی ہے.گویا قدر مشترک سنت کو کہتے ہیں.روایت کے متعلق اختلاف ہو سکتا ہے کہ اُس کا راوی قوی تھا یا ضعیف مگر سنت کے متعلق کوئی اختلاف نہیں کر سکتا کیونکہ یہ سب لوگوں کے درمیان بطور قدر مشترک کے پائی جاتی ہے.مثلا لا إِلهُ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ہے.شیعہ بھی یہی کہتے ہیں ك لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله کے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا ہستی بھی یہی کہتے ہیں کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله کے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا ، خارجی بھی یہی کہتے ہیں کہ لا إله إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا.یہ قدر مشترک ہے اور سنت ہے اور یہ قرآن کریم کے بعد درجہ رکھتی ہے کیونکہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے جو ثابت شدہ ہے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ثابت شدہ عمل بہر حال امت کے اقوال اور فتووں سے بڑھ کر ہے کیونکہ امت کے علماء خواہ کتنے بڑے ہو جائیں وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں.اور ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ فلاں بات میں علماء نے غلط کہا ہے مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلطی کی ہے.اور اگر کوئی شخص ایسا کہے تو اس کی مثال ایسی ہی ہوگی جیسے ایک پٹھان کے متعلق مشہور ہے کہ اُس نے کنز پڑھی ہوئی تھی.ایک دفعہ اس نے حدیث پڑھی لکی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امام حسن گو گودی میں اُٹھا لیا اور جب سجدہ میں تشریف لے گئے تو انہیں نیچے رکھ دیا.6 وہ یہ حدیث پڑھ کر کہنے لگا جو محمد صاحب کی نماز ٹوٹ گئی کیونکہ انہوں نے حرکت کبیرہ کی ہے اور حرکت کبیرہ فقہ حنفیہ کے مطابق نماز توڑ دیتی ہے.ایک شخص نے یہ بات سنی تو اُس نے کہا کم بخت ! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہمیں بتایا ہے کہ نماز اس اس طرح پڑھا کرو ور نہ ہمیں نماز کا کیا پتا تھا اور انہی کے متعلق تم کہتے ہو کہ اُن کی نماز ٹوٹ گئی.وہ کہنے لگا کنز میں یہی لکھا
$1958 255 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہے حالانکہ کنز “ آپ کی وفات کے کئی سو سال کے بعد لکھی گئی ہے.تو حقیقت یہی ہے کہ بعد میں آنے والے علماء چاہے کتنے بڑے ہوں سب محمد رسول اللہ کے تابع ہیں.آج ایک عورت ہمارے ہاں آئی.وہ قادیان کی پرانی عورت ہے.اُس کے دماغ میں کچھ نقص ہے.کہنے لگی میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے ہیں اور آپ نے فرمایا ہے کہ اگر تم چھ مہینے متواتر روزے رکھو تو خلیفۃ المسیح کو صحت ہو جائے گی.مگر میں نے جن علماء سے پوچھا انہوں نے یہی کہا ہے کہ چھ ماہ کے متواتر روزے رکھنا ناجائز ہے.اُس نے کہا میاں بشیر احمد صاحب نے کہا ہے کہ تو جمعرات اور پیر کے روزے رکھ لیا کر لیکن اس کے بعد میں نے پھر خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے ہیں اور انہوں نے مجھ سے کہا میں نے تو کہا تھا کہ تو چھ ماہ کے متواتر روزے رکھ تو متواتر روزے کیوں نہیں رکھتی ؟ میں نے کہا تیری خواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے الہاموں کے متعلق یہ فرماتے ہیں کہ اگر میرا کوئی الہام قرآن اور سنت کے خلاف ہو تو میں اُسے بلغم کی طرح پھینک دوں گا.7 جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی وحی کو قرآن کریم اور سنت کے اتنا مطابق کرتے ہیں تو ہمیں بھی اپنی خواب آپ کے احکام کے مطابق رکھنی پڑے گی.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے متواتر اور لمبے عرصہ کے روزوں سے منع کیا ہے 8 تو اگر تمہیں کوئی خواب اس حکم کے خلاف آئی ہے تو وہ شیطانی سمجھی جائے گی خدائی نہیں سمجھی جائے گی.اگر خدائی خواب ہوتی تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرتی آپ کی تردید نہ کرتی.پس جو خواب ایسی ہو جو قرآن کریم یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فتویٰ اور سنت کے خلاف ہو وہ بہر حال رڈ کرنے کے قابل سمجھی جائے گی کیونکہ نہ تو قرآن کریم کے خلاف کوئی خواب بچی ہو سکتی ہے اور نہ سنت کے خلاف کوئی خواب سچی ہو سکتی ہے اور نہ صحیح حدیث کے خلاف کوئی خواب سچی ہوسکتی ہے.حدیث کے متعلق زیادہ سے زیادہ کوئی کہہ دے گا مشتبہ ہے لیکن قرآن کریم اور سنت کو کیا کہے گا اور پھر عقل کو کہاں لے جاوے گا.اکثر عقل بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے ساتھ مل جاتی ہے تو پھر حدیث کو دو طاقتیں مل جاتی ہیں.ایک تو احتمال ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہو اور دوسرے عقلِ سلیم نے کہہ دیا کہ وہ قول صحیح ہے ایسی صورت میں بہر حال وہ حدیث قابل عمل
$ 1958 256 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہوگی کیونکہ وہ قرآن کریم کے تابع ہوگی.بہر حال جب بھی کوئی بات قابل دریافت ہو تم یہ نہ پوچھا کرو کہ امام ابوحنیفہ کیا کہتے ہیں یا ت امام شافعی کیا کہتے ہیں تم یہ پوچھا کرو کہ قرآن کریم کیا کہتا ہے.لیکن اگر قرآن کریم اُس کے متعلق خاموش ہو تو تمہیں سنت پر نظر ڈالنی چاہیے.اگر کوئی سنت مل جائے تو وہ قدر مشترک ہوگی اور وہ بہر حال کسی ایک فقہ کے امام سے زیادہ قابل قبول ہوگی کیونکہ اس میں شیعہ سنی ، خارجی حنفی ، شافعی ، حنبلی اور مالکی وغیرہ سارے متفق ہوں گے اور چونکہ قدر مشترک میں سارے امام اکٹھے ہو جائیں گے اس لیے ان کی بات زیادہ ہی سمجھی جائے گی اور وہی قابل عمل قرار پائے گی.اور جو شخص اس کو چھوڑے گا وہ گویا ایک قسم کے اجماع کو چھوڑے گا.حقیقی اجماع تو ایک ناممکن چیز ہے.درحقیقت سارے مسلمان سوائے قدر مشترک کے کسی ایک بات پر ا کٹھے ہوتے نظر نہیں آئے اور قدر مشترک کے خلاف کوئی جاتا ہی نہیں.مثلاً آج کوئی کہہ دے کہ لَا اِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کہے بغیر بھی انسان مسلمان ہو جاتا ہے تو سارے مسلمان کہیں گے کہ یہ شخص جھوٹ بولتا ہے کیونکہ یہ بات قد رمشترک کے خلاف ہے.سنی بھی یہی کہتا ہے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کہنے سے انسان مسلمان ہوتا ہے، خارجی بھی یہی کہتا ہے، حنفی بھی یہی کہتا ہے، شافعی بھی یہی کہتا ہے، مالکی بھی یہی کہتا ہے جبلی بھی کی یہی کہتا ہے بلکہ حق تو یہ ہے کہ اہلِ قرآن بھی یہی کہتا ہے.گو وہ محمد کے معنے قرآن کریم کے لے لیتا نی ہے مگر کہتا ہی ہے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کہے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا.گویاوہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے مُراد تو قرآن کریم لیتا ہے لیکن قدرِ مشترک میں فرق نہیں کرتا.پس عمل کرتے وقت ہمیشہ یہ سوچا کرو کہ قرآن کریم کیا کہتا ہے، یہ نہ پوچھا کرو کہ فلاں امام کیا کہتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ لَمْ يَحْكُمُ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولَيكَ هُمُ الظَّلِمُونَ خدائی کتاب کے خلاف جو کوئی کام کرتا ہے وہ ظالم ہوتا ہے.قیامت کے دن کوئی امام خدا تعالیٰ کے سامنے تمہاری طرف سے جواب نہیں دے گا تم آپ جواب دو گے کیونکہ خدا نے ایک قرآن تو اس کتاب میں رکھا ہے جو ہمارے پاس ہے اور ایک قرآن اُس نے ہمارے دماغوں میں رکھا ئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّهُ لَقُرْآنُ كَرِيمُ فِي كِتُبِ مَّكْنُون و قرآن کریم کی ایک و ورژن (VERSION) ایسی ہے جو مخفی طور پر فطرت انسانی میں رکھ دی گئی ہے.گویا ایک قرآن وہ ہانی
$1958 257 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا ہے اور ایک قرآن وہ ہے جو خدا تعالیٰ نے فطرت انسانی میں مخفی طور پر رکھ دیا ہے.یہ دونوں جب آپس میں مل جاتے ہیں تو وہ پکا قرآن ہو جاتا ہے ہے کیونکہ قرآن کریم کی بھی لوگ تاویلیں کرتے رہتے ہیں.مگر جب اس کی کوئی تفسیر فطرت صحیحہ کے مطابق ہو تو وہ صحیح سمجھی جائے گی.لوگ کہا کرتے ہیں کہ فلاں تفسیر بالرائے ہے.حالانکہ اگر تفسیر بالرائے قرآن کریم کے لفظوں کے ساتھ مل جاتی ہے تو وہ تفسیر بالرائے کس طرح ہوئی ؟ رائے کے متعلق بھی تو انسان سمجھ سکتا ہے کہ وہ قرآن کریم کے مطابق ہے یا نہیں.اگر وہ قرآن کریم کے مطابق ہے تو اُس کو غلط کہنے والا خود غلطی خوردہ ہوگا.ایک احمدی عورت نے جس کا خاوند بڑے عہدہ پر ہے مجھے بتایا کہ میرا خاوند ایک دفعہ ریلوے کے ایک بڑے افسر کو میرے پاس لے آیا اور کہنے لگا کہ یہ تمہیں سمجھائے گا.افسر باتیں کرنے لگا تو میں نے کہا آپ تو ایک عالم آدمی ہیں اور میں زیادہ پڑھی لکھی نہیں.آپ مجھے بتائیں کہ قرآن کریم صرف آپ کے لیے نازل ہوا ہے یا میرے لیے بھی نازل ہوا ہے؟ کہنے لگا ہر ایک کے لیے نازل ہوا ہے.میں نے کہا اگر قرآن کریم میرے لیے بھی نازل ہوا ہے تو پھر میرا بھی حق ہے کہ میں اس کے معنے کروں.کہنے لگی وہ شخص شرمندہ ہو کر کہنے لگا.ہاں ! آپ کا بھی حق ہے کہ اس کے معنے کریں.اس عورت نے بتایا کہ پھر جب اس نے معنے کیے تو میں نے اُس پر اعتراض کیا.اس پر وہ شرمندہ ہو کر چلا گیا.بعد میں میرا خاوند کہنے لگا میں اتنے بڑے آدمی کو تمہارے پاس لایا تھا مگر تم نے اُس کی ذلت کر دی.میں نے کہا اُس نے تو آپ ہی کہہ دیا تھا کہ تمہارا بھی حق ہے کہ قرآن کریم کے معنے کرو.اور جب اُس نے مجھے حق دیا تھا تو میں کیوں اپنا حق استعمال نہ کرتی.اب دیکھو ایک عورت بھی بجھتی ہے کہ تفسیر بالرائے کیا چیز ہوتی ہے.وہ یہ جانتی ہے کہ اگر ہم قرآن کریم کے اُلٹ معنے کرتے ہیں تو دوسرا آدمی آپ ہی اُس کی تردید کر دے گا.اور اگر وہ ان معنوں پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا اور مان لیتا ہے تو وہ تفسیر بالرائے کیسے ہو گئی ؟ آخر جو شخص تفسیر بالرائے کرتا ہے وہ بھی تو کوئی تفسیر کرتا ہے یا نہیں ؟ اگر اس تفسیر کو ر ڈ کر دیا جاتا ہے تو ی معلوم ہوا کہ وہ تفسیر غلط تھی اور وہ تفسیر جو دلائل کے ساتھ غالب آ گئی وہ صحیح تھی.ایسی تفسیر کو
$1958 258 خطبات محمود جلد نمبر 39 تفسیر بالرائے کہنا حماقت اور قرآن کریم کی تردید ہے.1 : المائدة: 46 الفضل 5 2 نومبر 1958ء 2: قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران: 32) : وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى - إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (النجم : 5،4) 4 : ملفوظات جلد 5 صفحہ 134 5 کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحه 62 6 : بخارى كتاب الصلوة باب إِذَا حَمَلَ جَارِيَةً صَغِيرَةً عَلَى عَاتِقِهِ فِى الصَّلوة میں امامہ بنت زینب کا ذکر ہے.: آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 21 8 : بخاری کتاب الصوم باب الوصال 9 : الواقعة : 79،78
$ 1958 259 (31 خطبات محمود جلد نمبر 39 توحید کامل کے بغیر کبھی انسان کو حقیقی ایمان اور اطمینان نصیب نہیں ہوسکتا توحید کامل کا سچانمونہ رسو کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے دکھایا (فرموده 21 نومبر 1958ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ وَجَاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِهِ - 1 اس کے بعد فرمایا: اس آیت میں مومنوں کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا يُّهَا الَّذِينَ امَنُوا ارْكَعُوا اے مومنو! رکوع کرو.رکوع سے ایک تو وہ رکوع مُراد ہوتا ہے جو نماز میں ادا کیا جاتا ہے لیکن رکوع کے ایک معنے تو حید کے بھی ہوتے ہیں.چنانچہ عرب لوگ اسلام سے پہلے اللہ پر ایمان لانے والے شخص کو ہمیشہ راکع کہا کرتے تھے کیونکہ وہ بچوں کی پرستش کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی توجہ رکھتا اور اس کے سامنے بجز اور تذلیل کا اظہار کرتا تھا.یہاں بھی رکوع کے معنے توحید
$1958 260 خطبات محمود جلد نمبر 39 کے ہی ہیں کیونکہ آگے عبادت کا ذکر آتا ہے جس میں رکوع بھی شامل ہوتا ہے.پس اس جگہ ارْكَعُوا سے یہی مُراد ہے کہ اے مومنو! تم توحید کامل اختیار کرو.حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے سوا اور دوسری کسی قوم میں توحید کامل نہیں.دوسرے مذاہب والے بالعموم اپنے ارباب کو اتنی عظمت دیتے ہیں کہ انہیں خدا کا قائمقام بنا دیتے ہیں.اُن کے مذہبی پیشوا جو بھی فتویٰ دے دیں وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے باہر جانا نا جائز ہے.صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو یہ کہتا ہے کہ اِسْتَفْتِ قَلْبَكَ وَ لَوْ اَفْتَاكَ الْمُفْتُونَ.2 ایک مفتی تو الگ رہا اگر سارے مفتی مل کر بھی کسی بات کے متعلق فتوی دیں لیکن تمہارا دل اور دماغ گواہی دے رہا ہو کہ یہ فتویٰ غلط ہے اور خدا تعالیٰ کی شریعت کچھ اور کہتی ہے تو جو خدا کی بات ہوا سے مانو اُن کے فتووں کو نہ مانو.غرض توحید کامل کے بغیر انسان کو کبھی حقیقی ایمان نصیب نہیں ہوتا.یہی ایمان تھا جس کا نمونہ صحابہؓ نے دکھایا اور انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ اللہ تعالی سے بڑھ کر انہیں اور کوئی چیز عزیز نہیں.احادیث سے پتا لگتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو صحابہ اس غم میں پاگلوں کی طرح ہو گئے.حتی کہ حضرت عمر جیسے مومن نے بھی کہنا شروع کر دیا کہ اگر کسی نے یہ بات کہی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں تو میں اُس کی گردن اڑا دوں گا.3 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسی علیہ السلام کی طرح احکام لینے آسمان پر گئے ہیں.وہاں سے وہ واپس آئیں گے اور منافقوں کو ماریں گے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ بات سنی تو آپ مسجد میں تشریف لائے اور منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا أَلَا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَلٌّ لَّا يَمُوتُ 4 اے لوگو! تم میں سے جو شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کیا کرتا تھا اُسے یاد رکھنا چاہیے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے وہ بھی نہیں مرے گا.اب دیکھو باوجود اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا صحابہ کو شدید صدمہ تھا اتنا صدمہ کہ آپ کے ایک صحابی نے یہ شعر کہے کہ ه كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِى فَعَمِيَ عَلَيَّ عَلَيَّ النَّاظِرُ
261 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 مَنْ شَاء بَعُدَكَ فَلْيَمُ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أُحَاذِرُ 5 یعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تو تو میری آنکھ کی پتلی تھا تیرے مرنے کے بعد آج میری آنکھ اندھی ہوگئی ہے.اب تیرے مرنے کے بعد کوئی شخص مرے مجھے اس کی موت کی پروا نہیں.مجھے تو صرف تیری موت کا ڈر تھا.اب تیری موت کے بعد زید مرے، بکر مرے یا کوئی اور مرے مجھے اس کی کوئی فکر نہیں.پھر بھی ان کی محبت حضرت ابوبکر کی محبت سے زیادہ نہ تھی.حضرت ابو بکر کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی انسان کو خلیل بنانا جائز ہوتا تو میں ان ابوبکر کوخلیل بناتا.6 پھر انہوں نے اسلام کی خاطر اتنی عظیم الشان قربانیاں کی تھیں کہ ان کے مقابلہ میں دوسرے صحابہ کی قربانیاں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتیں.ایک جنگ کے موقع پر جبکہ سخت تنگی کا زمانہ تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چندہ کے لیے اعلان کیا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے سمجھا آج میں چندہ میں سب سے بڑھ جاؤں گا.میں نے اپنی دولت کے دو حصے کر دیے.ایک حصہ اپنے گھر میں رکھا اور ایک حصہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا اور میں نے سمجھا کہ آج میرا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.لیکن میرے پہنچنے سے پہلے ہی حضرت ابو بکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ چکے تھے اور جو کچھ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا تھا اُس کو دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے ابوبکر ! تم نے اپنا سب مال چندہ میں دے دیا؟ تم نے اپنے گھر میں کیا رکھا ہے؟ حضرت ابو بکر نے عرض کیا یارسول اللہ ! گھر میں خدا اور اس کے رسول کے سوا اور کچھ نہیں.تب حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں شرمندہ ہو گیا اور میں نے سمجھ لیا کہ یہ بڑھا جو ہر میدان میں مجھ سے بازی لے جاتا ہے آج بھی بڑھ گیا ہے.7 میں نے اپنی طرف سے بہت زیادہ قربانی کی تھی لیکن اس نے مجھ سے بھی زیادہ قربانی کی ہے.ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ایسی قربانی کرنے والے انسان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو محبت ہوگی وہ اور کسی کو نہیں ہو سکتی.مگر باوجود اس کے اس نے اس موقع پر ایسا صبر دکھایا کہ جن لوگوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ قرار دیا تھا ان پر خوش ہونے کی بجائے کہ وہ آپ کے محبوب کو زندہ قرار دیتے تھے اس نے ان پر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا زندہ رہنے والا صرف خدا ہی ہے جو شخص خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور کو زندہ قرار دیتا ہے وہ یقیناً مشرک ہے اور میں مشرک نہیں ہوں.
خطبات محمود جلد نمبر 39 262 $1958 پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب آپ کا تیار کردہ لشکر حضرت اسامہ کی کمان میں شام جانے لگا تو صحابہ کے مشورہ سے خود حضرت عمرؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا اس وقت سارا عرب مرتد ہو گیا ہے.یہ مناسب نہیں کہ مدینہ کے سب لڑنے والے سپاہی باہر بھیج دیئے جائیں.آپ اس وقت لشکر کو روک لیں تا کہ پہلے منافقوں کا مقابلہ کر لیا جائے.جب وہ تباہ ہو جائیں گے اور اسلام پھر نئے سرے سے قائم ہو جائے گا تو شام کو فتح کر لیں گے.حضرت ابوبکر جو بظاہر بڑے نرم دل تھے اور لڑائی کرنے والے نہیں سمجھے جاتے تھے کہنے لگے عمر ا تم یہ کی کہتے ہو کہ میں اسامہ کے لشکر کو روک لوں حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں خود اس لشکر کو تیار کیا تھا اور آپ نے فرمایا تھا کہ یہ لشکر شام کو بھجوایا جائے.کیا میں آپ کا خلیفہ بن کر سب سے پہلا کام یہی کروں گا کہ آپ نے جو لشکر تیار کیا تھا اس کو روک لوں؟ یہ کبھی نہیں ہو سکتا.حضرت عمر نے کہا مدینہ کے اردگرد کے تمام قبائل مرتد ہو گئے ہیں وہ مدینہ پر حملہ کریں گے اور تھوڑے ہی دنوں کی میں مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے.حضرت ابو بکر نے کہا عمر ! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری کے لحاظ سے مجھے اس کی کوئی پروا نہیں کہ کیا ہوگا.میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو بہر حال پورا کروں گا.اگر مدینہ میں سارے منافق آجائیں اور تم مجھے سب چھوڑ کر چلے جاؤ تب بھی میں اکیلا ان سب کا مقابلہ کروں گا اور خدا کی قسم ! اگر مدینہ کی گلیوں میں عورتوں کی نعشوں کو گتے گھسٹتے پھریں تب بھی میں اس لشکر کو نہیں روکوں گا جس لشکر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھجوانے کے لیے تیار کیا تھا 8 مگر باوجود اس عشق اور محبت کے آپ کو اللہ تعالیٰ کی توحید اتنی پیاری تھی کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے موقع پر حضرت عمرؓ نے کہا کہ آپ زندہ ہیں تو آپ نے کہا یہ شرک ہے میں اسے تسلیم نہیں کر سکتا.شرک اسلام میں جائز نہیں.میں تو وہی بات کہوں گا جو خدا تعالیٰ سے ثابت ہے.چنانچہ آپ نے تو حید کو قائم رکھا اور حضرت اسامہ کے لشکر کو بھجوا دیا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ایسی تائید فرمائی کہ منافق بھی شکست کھا گئے اور شام میں بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت اسامہ کو فتح اور غلبہ دیا.بیشک شام کی فتح کی تکمیل حضرت عمر کے زمانہ میں جا کر ہوئی لیکن حضرت ابوبکر کے زمانہ میں اس کی ابتدا ہو گئی تھی.اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کے ایمان کا بھی انہیں بدلہ دے دیا اور اُن کے ذریعہ اسلام کو بڑی بھاری فتوحات ہوئیں.مگر حضرت ابوبکر کا ایمان اس
263 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 سے ثابت ہو گیا کہ انہوں نے اپنے محبوب ترین وجود کے متعلق بھی کوئی ایسی بات برداشت نہ کی جو خدا تعالیٰ کی توحید کے منافی تھی.اور جب کسی نے کہا کہ وہ زندہ ہیں تو آپ نے فرمایا ہر گز نہیں صرف اللہ تعالی ہی دائی طور پر زندہ ہے اور وہ بھی نہیں مرے گا.میں موجود ہوں اور یہی تعلیم مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ آپ کی وفات کے بعد ہی میں اس تعلیم کو بھول جاؤں.چنانچہ لکھا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سن کر آپ تشریف لائے تو آپ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر بوسہ دیا اور فرمایاخدا کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا.یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ پر جسمانی موت بھی آئے اور روحانی موت بھی آئے.یعنی آپ کی موت کے ساتھ آپ کا مذہب بھی ضائع ہو جائے.آپ کا مذہب بہر حال قائم رہے گا.جسمانی موت آئی ہے لیکن آپ پر روحانی موت نہیں آ سکتی.ایسی ہی توحید کی طرف اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں توجہ دلائی ہے کہ یا يُّهَا الَّذِينَ امَنُوا ارْكَعُوا اے مومنو! کامل توحید اختیار کرو اور ہر طرف سے ہٹ کر صرف خدا تعالیٰ کی طرف توجہ رکھا کرو.تمہارا کتنا ہی کوئی عزیز ہوا گر وہ تم سے علیحدہ ہوتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی محبت تمہیں حاصل ہے تو تمہیں خدا تعالیٰ پر اتنا یقین ہونا چاہیے اور اتنا تو کل ہونا چاہیے کہ تمہیں سمجھنا چاہیے کہ کوئی شخص تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا.پھر فرماتا ہے وَاسْجُدُوا تم سجدہ کرو.یہاں بھی سجدہ سے مُراد نماز والا سجدہ نہیں کیونکہ آگے فرمایا ہے وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ تم اپنے رب کی عبادت کرو اور عبادت میں سجدہ خود شامل ہوتا ہے.پس یہاں سجدہ سے مُراد اطاعت اور فرمانبرداری ہے اور اسجدوا کے معنے یہ ہیں کہ تم اپنے ماں باپ اور بزرگوں اور حکومت کی اطاعت کرو.یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ اپنے اندر نظم پیدا کرو، بھی اپنے اندر بغاوت کی روح نہ آنے دو.نہ اپنے خاندانی بزرگوں سے بغاوت کرو اور نہ اپنے مذہبی بزرگوں سے بغاوت کرو اور نہ حکومت کے عمال سے بغاوت کرو بلکہ ہمیشہ اطاعت اور فرمانبرداری کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرو وَاعْبُدُوا رَبَّكُم اور اپنے رب کی عبادت کرو وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ اور ہمیشہ سب سے اچھا کام کرنے کی کوشش کرو.خیر کے معنے عربی زبان کی میں صرف نیکی کے نہیں ہوتے بلکہ اس کے معنے ایسے فعل کے ہوتے ہیں جن میں وہ تمام کمالات اور
$1958 264 خطبات محمود جلد نمبر 39 خصائص پائے جائیں جو اُس کام کے مناسب حال ہوں.پس وَافْعَلُوا الْخَيْرَ کے یہ معنے نہیں کہ نیکی کرو بلکہ وَافْعَلُوا الخَيْرَ کے یہ معنی ہیں کہ تم سب سے اچھے اعمال بجالا وَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ.فلاح کے معنے عربی زبان میں اپنی مراد کو پالینے کے ہوتے ہیں.س لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ کے یہ معنے ہیں کہ اگر تم سب سے اچھی نیکیاں بجالا ؤ گے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہاری تمام نیک مرادیں پوری ہو جائیں گی اور اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعہ دنیا میں اپنے وجود کو قائم کر دے گا.مومن کی سب سے بڑی مُراد یہی ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں قائم ہو جائے.حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی یہی کہا تھا کہ اے خدا! جس طرح تیری بادشاہت آسمان پر ہے اُسی کی طرح زمین پر بھی آ جائے.10- در حقیقت مومن کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ دنیا میں کی اللہ تعالیٰ ہر ایک کو نظر آنے لگ جائے.وہ یہ نہیں چاہتا کہ صرف مجھے خدا نظر آ جائے بلکہ مومن یہ چاہتا ہے ہے کہ ہر ایک کو خدا نظر آ جائے اور یہی اس کی مراد ہوتی ہے.جب وہ نیکیوں میں ترقی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی اس خواہش کو بھی پورا کر دیتا ہے اور اس کے ذریعہ دنیا میں اپنا وجود ظاہر کرنا شروع کر دیتا ہے.جیسے موجودہ زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے ہم نے خدا تعالیٰ کو دیکھا.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا میں نہ آتے تو خدا تعالیٰ کا وجود ہمارے لیے بالکل مخفی ہوتا.عرش پر بیٹھا ہوا وجود کس کو نظر آتا ہے؟ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ خدا ہمارے.زمین پر آ گیا اور ہم نے اپنی آنکھوں سے اُس کے وجود کو دیکھ لیا اور جب تک احمدی احمدیت پر سچے طور پر قائم رہیں گے خدا تعالیٰ اپنے وجود کو ہمیشہ ان کے ذریعہ ظاہر کرتا رہے گا.(الفضل 26 دسمبر 1958ء) مجھے تعجب ہوا کرتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسی سے بڑے تھے مگر حضرت موسی علیہ السلام کی جماعت کو خدا تعالیٰ نے آج تک بادشاہت دی ہوئی ہے اور نظام اور اتحا دان میں پایا جاتا ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت میں آپ کی وفات کے چند سال بعد ہی تفرقہ پیدا ہو گیا.میں نے اس پر غور کیا کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہر حال حضرت موسی علیہ السلام سے بڑے تھے.چاہیے تھا کہ آپ کی روحانی زندگی لمبی ہوتی اور
$1958 265 خطبات محمود جلد نمبر 39 حضرت موسی علیہ السلام کی چھوٹی ہوتی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت موسی علیہ السلام کے زمانہ پر تین ہزار سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات پائے صرف چودہ سو سال ہوئے ہیں مگر حضرت موسی علیہ السلام کی جماعت میں اب تک ظاہری ایمان بھی پایا جاتا ہے اور ان کی قوم اب پھر فلسطین پر حاکم ہوگئی ہے جس کی سورۃ بنی اسرائیل میں خبر دی گئی تھی.میں نے جب اس پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اصل بات یہ ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کی قوم مظلوم تھی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم ظالم تھی یعنی حضرت موسی علیہ السلام پر فرعون نے ظلم کیا تھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم پر کسی اور نے ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم کیا.اور اللہ تعالیٰ کو ظالم سے اتنی ہمدردی نہیں ہوتی جتنی مظلوم سے ہوتی ہے.چونکہ حضرت موسی علیہ السلام کی قوم مظلوم تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی عمر لمبی کر دی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم چونکہ خود ظالم تھی اور آخر وہی قوم مسلمان ہوئی تھی اور وہ وہی لوگ تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی جماعت کو گھروں سے نکالتے تھے، انہیں مارتے اور ان پر ظلم کرتے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے وہ سلوک نہ کیا جو حضرت موسی علیہ السلام کی قوم سے اس نے کیا تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ مکہ والے بعد میں ایمان لائے لیکن شروع میں انہوں نے بڑے بڑے ظلم کیے تھے.چنانچہ تاریخ میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ صبح کے بعد مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ لوگ عید کی مبارکباد دینے کے لیے آنا شروع ہوئے.مکہ کے بعض رؤساء جو اسلام کے سخت دشمن تھے اُن کی اولادیں بھی جو اب مسلمان ہو گئی تھیں آئیں.حضرت عمرؓ کا خاندان چونکہ نسب یا د رکھا کرتا تھا اور اسے مکہ کے لوگوں میں سے سب سے زیادہ خاندانوں کا نسب نامہ یاد تھا اس لیے حضرت عمرؓ اُن کے خاندانوں سے خوب واقف تھے.آپ نے انہیں محبت سے اپنے قریب جگہ دی.جب وہ بیٹھ گئے اور خوش ہوئے کہ خلیفہ وقت نے ہماری بڑی عزت کی ہے، تو اتنے میں کوئی صحابی آگئے.آپ نے اُنہیں فرمایا ذرا پیچھے ہٹ جاؤ اور اس صحابی کو جگہ دے دو.وہ پیچھے ہٹ گئے اور اس صحابی کو جگہ دے دی.پھر کوئی اور صحابی آ گیا تو آپ نے کہا ذرا اور پیچھے ہٹ جاؤ اور اس کو جگہ دو.پھر ایک مسلمان غلام آگئے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا ذرا اور پیچھے ہٹ جاؤ اور اس کو جگہ دے دو.حتی کہ وہ لوگ ہٹتے ہٹتے جو تیوں میں پہنچ گئے.انہیں یہ دیکھ کر کہ وہ رؤساء کے بیٹے ہیں اور ان پر غلام صحابہ کو
266 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 فضیلت دی گئی ہے سخت صدمہ ہوا اور وہ وہاں سے نکل کر باہر آ گئے.وہ بارہ تیرہ نوجوان تھے.باہر آ کر انہوں نے آپس میں باتیں شروع کر دیں کہ دیکھو! آج ہماری کتنی ذلت ہوئی ہے.وہ غلام جن کو ہم کل جو تیاں مارا کرتے تھے آج ان کو آگے بٹھایا گیا ہے اور ہمیں پیچھے دھکیلا گیا ہے.ان میں سے ایک نوجوان عقلمند تھا.اُس نے کہا تمہیں پتا ہے کہ جب تمہارے باپ دادا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مارنے اور آپ کو قتل کرنے کی فکر میں تھے اُس وقت یہ غلام اپنی جانیں دے کر آپ کو بچاتے تھے.حضرت عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہیں تمہارے خلیفہ نہیں.اگر حضرت عمرؓ نے ان کی قربانیوں کی وجہ سے جو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کی تھیں ان کا احترام کیا ہے تو یہ بات ضروری تھی.انہوں نے کہا کہ یہ تو درست ہے مگر اس ذلت کا کوئی علاج بھی ہے؟ وہ کہنے لگا اس کا کی علاج بھی حضرت عمرؓ سے ہی پوچھنا چاہیے.چنانچہ وہ دوبارہ حضرت عمر کے پاس گئے.آپ نے فرمایا تم تو چلے گئے تھے.پھر دوبارہ کیوں آئے ؟ انہوں نے کہا ہم نے آپ سے مشورہ لینا ہے.اے امیر المومنین ! ہمیں پتا ہے کہ ہمارے باپ دادوں نے بڑی مخالفتیں کی تھیں اور انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں پر بڑے بڑے ظلم کیے تھے لیکن وہ تو مر گئے.اب ہم اُن کی اولادیں اِس کی سزا بھگت رہی ہیں.کیا کوئی ایسا ذریعہ بھی ہے جس سے ہم اس داغ کو مٹا سکیں.چونکہ وہ مکہ کے رؤساء کے بیٹے تھے حضرت عمرؓ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور آپ کے منہ سے بات کی تک نہ نکل سکی.آپ نے رقت کے جوش میں صرف ہاتھ اٹھا کر شام کی طرف اشارہ کر دیا.جس کا مطلب یہ تھا کہ تمہارے سوالوں کا جواب اس طرف ہے.یعنی تم شام میں چلے جاؤ.وہاں روم کے بادشاہ سے لڑائی ہو رہی ہے، وہاں جا کر اسلام کی خدمت کرو.اس سے تمہارے سب داغ دھلی جائیں گے.تاریخ میں لکھا ہے کہ وہ لڑکے اُسی وقت گھوڑوں پر سوار ہو کر شام کی طرف چلے گئے اور پھر ان میں سے کوئی بھی زندہ واپس نہیں آیا سارے کے سارے وہیں شہید ہو گئے.11 تو اس میں کوئی شبہ نہیں بعد میں انہوں نے قربانیاں کیں لیکن آخر ابتدائی چیز کیسے دور ہوسکتی ہے.وہ تو بہر حال قائم رہے گی.ابو جہل کو دیکھو چونکہ اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑے بھاری ظلم کیے تھے اس لیے باوجود اس کے کہ اُس کے بیٹے عکرمہ نے بڑی قربانیاں کیں پھر بھی اُس کی اولا د اس کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی.چنانچہ ابوجہل کی اولا داب بھی
$1958 267 خطبات محمود جلد نمبر 39 سرگودھا کے اردگرد موجود ہے لیکن وہ اپنے آپ کو ابو جہل کی اولاد نہیں کہتے بلکہ کسی اور کی طرف منسوب کرتے ہیں.اس کی یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی وجہ سے ابو جہل بدنام ہو چکا ہے اور لوگ اپنے آپ کو اس کی طرف منسوب کرنا بر اخیال کرتے ہیں حالانکہ اس کے بیٹے نے بعد میں اسلام کی بڑی خدمت کی تھی.ابو جہل کے مظالم یہاں تک پہنچ چکے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن گھر سے نکل کرصفا پہاڑی کے ایک پتھر پر بیٹھے ہوئے تھے اور آپ اس بات پر غور کر رہے تھے کہ میں نے اپنی قوم کو اتنی تبلیغ کی ہے لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہو رہا.اتنے میں ابو جہل آپ کے پاس سے گزرا اور اُس کے نے آپ کو زور سے تھپڑ مارا اور پھر اُس نے گندی گالیاں دینی شروع کر دیں.مگر رسول کریمی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے کوئی جواب نہ دیا اور خاموشی سے اٹھ کر اپنے گھر چلے گئے.آپ کا آبائی کی مکان صفا پہاڑی کے سامنے ہی تھا.آپ کے مکان کا دروازہ کھلا تھا صرف پردہ لٹکا ہوا تھا جس کی میں سے گھر کی ایک پرانی لونڈی جس نے اپنی ساری عمر اُس گھر میں ہی گزار دی تھی یہ واقعہ دیکھ رہی تھی.بوڑھی لونڈیاں بھی گھر کے افراد کی طرح ہی ہو جاتی ہیں.اس لونڈی نے گھر کے سب بچوں کو پالا تھا جو اب بڑی عمر کے ہو چکے تھے.اس نے یہ سارا واقعہ دیکھا مگر وہ ایک عورت تھی کر ہی کیا کی سکتی تھی.غصہ میں اندر ہی اندر گڑھتی رہی.یہ واقعہ نو دس بجے صبح کے قریب ہوا.شام کے وقت کی حضرت امیر حمزہ جنہیں شکار کا بہت شوق تھا تیر کمان کندھے پر ڈالے ہوئے اندر داخل ہوئے.انہیں دیکھتے ہی وہ لونڈی غصہ سے آگے بڑھی اور کہنے لگی تم بڑے بہادر بنے پھرتے ہو! تمہیں پتا نہیں کہ آج تمہارے بھیجے کے ساتھ کیا ہوا؟ میں اندر کھڑی دروازہ سے دیکھ رہی تھی.محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) باہر پتھر پر بیٹھا تھا کہ ابو جہل آیا اور اُس نے اُسے زور سے تھپڑ مارا اور پھر اُسے گالیاں دینی شروع کر دیں.خدا کی قسم! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے اُسے کچھ بھی نہیں کہا تھا.وہ اُس کی گالیاں خاموشی سے سنتا رہا اور تکلیف برداشت کرتا رہا.تم اتنے بہادر بنے پھرتے ہو اور ہر وقت جانوروں کا شکار کرتے رہتے ہو، تم ابو جہل کو جا کر کیوں نہیں مارتے ؟ لونڈی کے منہ سے نکلی ہوئی بات حضرت حمزہ کے دل پر اثر کر گئی.وہ ابھی مسلمان تو نہیں ہوئے تھے لیکن پھر بھی اپنے بھتیجے پر زیادتی کی وجہ سے انہیں غیرت آئی.وہ وہیں سے اُلٹے واپس لوٹے اور سیدھے خانہ کعبہ میں گئے.رؤسائے مکہ خانہ کعبہ میں بیٹھے
$1958 268 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہوئے تھے اور ابو جہل بڑا فخر کر رہا تھا کہ میں نے آج محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مارا اور اُسے گالیاں دیں اور وہ بالکل ڈر گیا اور آگے سے بول بھی نہ سکا.اتنے میں حضرت حمزہ وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے کی زور سے اپنی کمان ابو جہل کے سر پر مارتے ہوئے کہا کمبخت! اگر تجھے بہادری کا دعوی ہے تو آ اور میرے ساتھ لڑ ، ورنہ شرم کر، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تو تجھے کچھ بھی نہیں کہا تھا مگر پھر بھی تو نے اُسے گالیاں دیں اور بُرا بھلا کہا.میں نے اب سارے مکہ والوں کے سامنے تجھے مارا ہے ، اگر تجھ میں ہمت ہے تو میرا مقابلہ کر.ابو جہل اُس وقت رؤسائے مکہ میں بڑی قدر و منزلت رکھتا تھا.حضرت حمزہ کی اس کی حرکت پر انہیں غصہ آیا اور وہ جوش میں اٹھے اور حضرت حمزہ کا مقابلہ کرنا چاہامگر ابوجہل ایسا گھبرایا کہ وہ کہنے لگا تم حمزہ کو کچھ نہ کہو، مجھ سے ہی آج زیادتی ہو گئی تھی.میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو صفا پہاڑی پر بیٹھے ہوئے دیکھا تو مجھے غصہ آگیا کہ کیا اس کو اتنی جرات ہوگئی ہے کہ یہ بھی پہاڑی پر بیٹھے، یہ تو ہمیں گھلا چیلنج ہے.اس لیے میں نے اُسے گالیاں بھی دیں اور مارا بھی.پس حمزہ کا غصہ حق بجانب ہے.12 یہ وہ مظالم تھے جو ابوجہل نے کیے.انہی مظالم کا یہ نتیجہ ہے کہ باوجود ابو جہل کے بیٹے کی عظیم الشان قربانیوں کے اُس کی نسل اپنے آپ کو اُس کی طرف منسوب نہیں کرتی.تو جو قوم ظلم کرتی ہے اس کے ظلم کا اثر نسلاً بعد نسل چلتا چلا جاتا ہے.اور اگر کوئی مظلوم بنتا ہے تو اُس کی مظلومیت کا اثر بھی نسلاً بعد نسل چلتا ہے.حضرت موسی علیہ السلام کی قوم مظلوم بنی اور فرعون ظالم بنا.فرعون کی نسل کبھی بادشاہ نہیں بنی امی وہ ہمیشہ ذلیل رہی اور ہمیشہ بنی اسرائیل سے شکست کھاتی رہی.ایک دفعہ حضرت موسی کے بعد بھی فرعونیوں نے بنی اسرائیل پر حملہ کیا مگر اس میں بھی شکست کھائی اور ذلیل ہوئے اور آج فرعون کی نسل کا تو نام تک بھی نہیں مگر موسی علیہ السلام کی قوم پھر اسرائیل پر حکومت کر رہی ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے ظلم سہے اور خدا تعالیٰ نے مظلوم کی مدد کی.اگر مکہ والے بھی ظلم نہ کرتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شروع میں ہی اطاعت قبول کر لیتے تو آج مسلمانوں پر بھی یہ ادبار نہ آتا.اگر حضرت موسی علیہ السلام کی قوم تین ہزار سال چلی تھی تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم تمہیں ہزار سال چلتی کیونکہ مظلوم کی مدد کی جاتی ہے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے وہ لوگ تھے جنہوں نے شروع شروع میں آپ پر بڑے بھاری ظلم کیے تھے اس لیے وہ ادبار کا شکار ہو گئے.مگر
$1958 269 خطبات محمود جلد نمبر 39 قرآن کریم ہمیں مایوس نہیں کرتا وہ کہتا ہے وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ تم نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو.پھر تمہاری سب مراد میں پوری ہو جائیں گی اور خدا تعالیٰ دینی اور دنیوی برکات تم پر نازل کرے گا.مکہ والوں کے مظالم کا ازالہ ہو جائے گا.تو خدا تعالی دوبارہ اپنی توجہ مسلمانوں کی طرف پھیرے گا اور وہ توجہ قیامت تک ممتد ہوگی.مسلمان دنیا پر غالب آجائیں گے اور دنیا کی کوئی قوم ان کا مقابلہ نہیں کر سکے گی.اس کے علاوہ ہم پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ ہم قادیان کو آباد کریں.فرض کرو اگر خدا تعالیٰ کے نزدیک ہمیں قادیان پچپیس یا پچاس یا سو سال تک نہیں ملنا تو کیا تمہارا یہ فرض نہیں کہ تم اُسے آباد رکھو؟ لیکن تم نے اُسے آباد کرنے کی کیا کوشش کی ہے؟ تم نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ جو آدمی وہاں رہتے ہیں وہ کھائیں گے کہاں سے اور اُن کے اخراجات کس طرح پورے ہوں گے؟ چونکہ قادیان سے ہجرت کے وقت سب کام کرنے والے پاکستان آگئے تھے اور جو لوگ قادیان میں رہ گئے تھے وہ نا تجربہ کار تھے اس لیے شروع شروع میں وہ اس کی آبادی کی طرف زیادہ توجہ نہ دے سکے.میں نے اس مقصد کے لیے اپنے ایک بچہ کو وہاں رکھا تھا لیکن وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوا.اگر ہندوستان میں بھی پانچ سات لاکھ کی جماعت ہو جاتی تو وہاں کی جماعت کا بجٹ کئی لاکھ کا ہو جاتا اور جوں جوں جماعت بڑھتی جاتی بجٹ بھی بڑھتا جاتا لیکن یہ ساری ذمہ داری قادیان والوں پر ہی نہیں کی آپ لوگوں پر بھی ایک حد تک یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے.اس لیے یہاں کے بجٹ میں بھی قادیان کا حصہ ہونا چاہیے.اگر خدا تعالیٰ ہماری جماعت کی تعداد کو بڑھا دے اور اس کی آمد میں اس قدر زیادتی ہو جائے کہ جماعت کا بجٹ پچھپیں تھیں لاکھ ہو جائے تو چار پانچ لاکھ روپیہ کی رقم قادیان کے لیے آسانی کے سے نکل سکتی ہے بشرطیکہ پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات زیادہ ٹھیک ہو جائیں اور پاکستانی حکومت نانی اُدھر رہ جانے والے مسلمانوں کی مدد کی اجازت دے دے یا اس کے ایکھینچ کی حالت اچھی ہو جائے اور وہ ہندوستان روپیہ بھجوانے پر سے پابندی ہٹا دے.اور اگر کسی وقت یہاں کے رہنے والوں کو مشکلات ہوں تو باہر کی جماعتوں یعنی امریکہ، افریقہ اور یورپین ممالک کی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ قادیان کو آباد رکھیں اور اس غرض کے لیے اپنے بجٹ کا کچھ حصہ قادیان کے لوگوں کی امداد کے لیے بھجوائیں کیونکہ وہ پاکستان سے باہر کے ہیں اور اُن پر پاکستان کا قانون عائد نہیں ہوتا.بیشک اس کے
270 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 نتیجہ میں ربوہ کے مرکز کو کسی قدر مشکلات پیش آ سکتی ہیں لیکن اگر ہماری جماعت کی تعداد بڑھ جائے اور چندوں میں بھی اضافہ ہو جائے تو باوجود اس کے کہ ہماری بیرونی آمدنوں کا ایک حصہ قادیان میں منتقل ہو جائے گار بوہ پھر بھی آبادر ہے گا.انشاء اللہ.ادھر ہماری جماعت کے دوستوں کا فرض ہے کہ وہ ربوہ میں مختلف قسم کی صنعتیں اور چھوٹی چھوٹی دستکاریاں جاری کریں تا کہ جس طرح دوسرے شہر اپنے طبعی سامانوں کی وجہ سے آباد ہیں وہی طبعی سامان ربوہ کو بھی میسر آجائیں اور اس کی آبادی ترقی کرتی چلی جائے.تمام جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ یہ روح اپنے افراد میں پیدا کریں، خصوصیت کے ساتھ پاکستان کی جماعتیں ربوہ کو آباد کرنے کی طرف توجہ کریں.لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ قادیان کو آباد کرنا بھول جائیں بلکہ یہ طریق اختیار کیا جائے کہ امریکہ، افریقہ، یورپ اور دوسرے بیرونی ممالک کی جماعتیں زیادہ زور قادیان کو آباد کرنے پر لگا ئیں اور اس سے اتر کر ربوہ کی آبادی کی کی طرف توجہ دیں اور پاکستان کی جماعتیں زیادہ زور ربوہ کو آباد کرنے پر دیں اور جہاں تک قانون اجازت دیتا ہو قادیان کی آبادی کی طرف توجہ کریں.اگر ذمہ داری کو تقسیم کر لیا جائے تو کام زیادہ سہولت سے ہوسکتا ہے.پھر اگر تم خدا تعالیٰ سے بھی دُعائیں کرو تو وہ تمہیں اس کام کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما دے گا اور ان دونوں شہروں کی آبادی کے سامان پیدا کر دے گا.تم اپنے ایمانوں کو مضبوط کرو اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے ہاتھوں میں دے دو اور اُس سے ہر وقت دُعائیں کرتے رہو کہ وہ خود ایسے سامان پیدا کرے کہ یہ دونوں شہر جلد سے جلد آباد ہو جائیں.وہ خدا جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک اپنی قائم کردہ جماعتوں کے لیے غیر معمولی سامان پیدا کرتا چلا آیا ہے وہ اب بھی اس بات پر قادر ہے کہ وہ ہمارے لیے غیر معمولی سامان پیدا کر دے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ تم ان تمام صلحاء کے نقش قدم.غیر مطبوعہ مواد از خلافت لائبریری ربوہ) پھر فرماتا ہے وَجَاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِم اللہ تعالیٰ کے راستہ میں ایسا جہاد کرو جو جہاد کا حق ہے.”جہاد کا حق ہے کہ کر بتادیا کہ جہاد کی جتنی قسمیں ہیں تم ان تمام قسموں کو پورا کر وصرف تلوار کا جہاد ہی جہاد نہیں بلکہ اسلام کی اشاعت کے لیے ہر قسم کی قربانیاں کرنا می اور دلائل اور براہین سے دشمنوں کا مقابلہ کرنا بھی جہاد میں ہی شامل ہے.اور یہ وہ جہاد ہے جو.
271 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ساری عمر کرتے رہے اور آج آپ کی جماعت بھی جہاد کر رہی ہے.چنانچہ یورپ، امریکہ، افریقہ، انڈونیشیا، سیلون، ماریشس، ہندوستان اور دیگر کئی ممالک میں احمدیوں نے جہاد شروع کیا ہوا ہے.وہ تبلیغ اسلام کرتے ہیں اور لوگوں تک خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل ہوں.اب تک بعض ایسے ہندوؤں کے خط میرے نام آتے رہتے ہیں جنہوں نے قادیان کی چھپی ہوئی بعض کتابیں پڑھی ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم پر اسلام کی حقیقت کھل گئی ہے.ہماری درخواست ہے کہ آپ ہمارے لیے دُعا کریں.اس سال جب ہم جابہ میں تھے تو میاں بشیر احمد صاحب نے آموں کی ایک ٹوکری مجھے بھجوائی.یہ اُس ہندو نے قادیان سے بھجوائے تھے جس کے پاس ہمارا دار الانوار والا باغ ہے.اُس کی نے لکھا کہ ایک دن خواب میں حضرت مرزا صاحب تشریف لائے تھے اور انہوں نے کہا تھا آپ نے ہمیں آم کیوں نہیں بھجوائے؟ چنانچہ میں یہ آم بھجواتا ہوں تا کہ خواب پوری ہو جائے.غرض ہمارا جہاد آج بھی لوگوں کے دلوں میں اسلام کی محبت پیدا کر رہا ہے.ہندوستان میں بھی، امریکہ میں بھی یورپ میں بھی اس کے ذریعہ سینکڑوں لوگوں کو اسلام کی طرف توجہ پیدا ہورہی ہے اور یہ توجہ پیدا ہوتی چلی جائے گی یہاں تک کہ تمام دنیا میں اسلام پھیل جائے گا.آج اسلام کی حیثیت بیشک ظاہری طور پر کم نظر آتی ہے لیکن ایک وقت آئے گا کہ اس کے مقابلہ میں غیر مذاہب کی حیثیت بہت ہی کم ہو جائے گی کیونکہ اسلام کے لیے فتح مقدر ہے اور اس کے دشمنوں کے لیے شکست مقدر ہے“.1 : الحج : 79،78 الفضل 26 دسمبر 1958ء) 2: كنز العمال جلد 10 صفحہ 250 مطبوعہ حلب 1971 ء حدیث نمبر 29339 میں اِستَفْتِ نَفْسَكَ وَإِنْ اَفْتَاكَ الْمَفْتُونَ کے الفاظ ہیں.3 : اسد الغابة جلد 3 صفحہ 221.مطبوعہ ریاض 1286ھ 4 : بخاری کتاب فضائل اصحاب النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم باب لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذَاً خَلِيلاً
272 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 5 دیوان حسان بن ثابت مترجم صفحہ 230 حاشیہ مطبوعہ لاہور 2009ء ، السيرة الحلبية جلد 3 صفحہ 397 مطبوعہ مصر 1935ء 6: بخاری کتاب فضائل اصحاب النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم باب لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذَاً خَلِيلاً.ترمذی ابواب المناقب باب مناقب ابی ابكر الصديق (الخ) 8 : تاريخ الخلفاء للسيوطى صفحہ 51 مطبوعہ لاہور 1892ء 9 : بخاری کتاب فضائل النبي صلى الله عليه وسلم باب لَوْ كُنتُ مُتَّخِذَاً خَلِيلاً.....10 : متی باب 6 آیت 9 تا 11 11 : اسد الغابة جلد 2 صفحہ 372.مطبوعہ ریاض 1285ھ 12 : سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 312،311 مطبوعہ مصر 1936ء
$ 1958 273 32) خطبات محمود جلد نمبر 39 اذان کے الفاظ کو صحیح تلفظ کے ساتھ اور سمجھ کر ادا کرنا چاہیے ربوہ کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ مکانات پیش کریں (فرمودہ 28 نومبر 1958ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج میں دو باتیں کہنی چاہتا ہوں.ایک بات تو مسجدوں کے متعلق ہے اور ایک جلسہ سالانہ کے متعلق ہے.آج صبح مجھے اذان کی آواز آئی تو مجھے معلوم ہوا کہ باوجود اس کے کہ میں نے قادیان میں ہی تاکید کرنی شروع کر دی تھی کہ محلہ والے موذنوں کو صحیح طور پر اذان کہنا سکھائیں میری اس کی ہدایت پر عمل نہیں کیا گیا.قادیان میں یہ نقص تھا کہ مؤذن اَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا اللہ کہتے ہوئے ان کے ساتھ ”ن“ کی آواز بھی نکالتے تھے حالانکہ میں نے بتایا تھا کہ عربی زبان میں دن ساکن کے بعد ل آ جائے تو نون ”ل میں مدغم ہو جاتا ہے اور لام کی شکل اختیار کر لیتا ہے.گویا اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلهُ إِلَّا اللہ میں ان لا کی بجائے الا کہا جائے گا.آج صبح جو اذان میں نے سنی وہ اس مسجد (مبارک) کی تو نہیں تھی کسی اور مسجد کی تھی میں نے سنا کہ مؤذن نے اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللہ میں ان کو بالکل ہی اُڑا دیا یعنی وہ اَشْهَدُ لَا إِلهُ إِلَّا اللهُ
$1958 274 خطبات محمود جلد نمبر 39 کہہ رہا تھا.معلوم ہوتا ہے کہ یہاں محلوں کے جو پریذیڈنٹ ہیں وہ اذانیں سن کر موذنوں کی اصلاح نہیں کرتے.مؤذن کے متعلق عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ اُس کی آواز اچھی ہو یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ عربی بھی جانتا ہے یا نہیں.آج صبح جس مؤذن کی آواز میں نے سنی ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اُس کی کی آواز اچھی تھی لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ عربی سے بھی واقفیت رکھتا ہو.یہ محلہ جات کے صدر صاحبان کا کام ہے یا پھر علماء کا کام ہے کہ وہ محلوں میں پھر پھر کر موذنوں کی اذانیں درست کریں.بیشک اذان کی اصل غرض نمازوں کی طرف لوگوں کو توجہ دلانا ہے لیکن توجہ تو کسی ڈھول کے ذریعہ بھی دلائی جاسکتی تھی.اگر اس غرض کے لیے کچھ الفاظ رکھے گئے ہیں تو آخر اس کے کچھ معنے ہیں.اگر مو زن ان الفاظ کو صیح طور پر بولے گا تو ان کے صحیح معنے بھی سمجھے جائیں گے اور اگر وہ غلط طور پر بولے گا تو ان کے معنے بھی سمجھ میں نہیں آئیں گے.در حقیقت اذان کو عربی میں اس لیے رکھا گیا ہے کہ لوگوں کو عربی زبان سیکھنے کی طرف کچھ نہ کچھ توجہ پیدا ہوتی رہے.اگر ڈھول بجتا تو لوگوں کو عربی زبان سیکھنے کی طرف کوئی توجہ پیدا نہ ہوتی لیکن ہماری شریعت نے اذان عربی میں رکھ دی ہے.نماز میں بھی عربی عبارتیں رکھ دی ہیں.اسی طرح قرآن مجید کی سورتیں اور کچھ آیات نماز میں ضروری قرار دے دی ہیں.اس طرح یہ تدبیر کی گئی ہے کہ لوگوں کو عربی زبان سے کچھ نہ کچھ واقفیت پیدا ہو جائے اور لوگ مجبور ہوں کہ وہ عربی سیکھیں.اس کی حکمت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پنجاب کے ایک بڑے افسر نے ایک دفعہ یہ تحریک شروع کر دی تھی کہ نمازی پنجابی زبان میں پڑھانی چاہیے تاکہ لوگ سمجھ سکیں کہ نماز میں کیا کہا جارہا ہے.چنانچہ ایک عید کے موقع پرلوگوں نے اسے نماز پڑھانے کے لیے کھڑا کر دیا.پہلے تو اُس نے کہا میں مولوی نہیں، کسی مولوی کو نماز پڑھانے کے لیے کھڑا کرو لیکن جب لوگوں نے مجبور کیا تو وہ کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا اللہ بڑا وڈا ہے.پھر کہنے لگا ”ساریاں تعریفاں ہیں اللہ دیاں جیہڑ، اپالنہار ہے ساری دنیا دا.اس طرح اُس نے ساری سورۃ فاتحہ کا پنجابی زبان میں ترجمہ کر دیا.بعد میں لوگوں نے شور مچا دیا کہ تم نے ہماری نماز خراب کر دی ہے.اُس نے کہا میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ کسی مولوی کو نماز پڑھانے کے لیے کھڑا کر دو.اگر تم نے مجھے کھڑا کیا ہے تو میں نے تو اُسی زبان میں نماز پڑھانی تھی جسے تم سمجھتے تھے.اگر میں سورہ فاتحہ عربی میں پڑھ دیتا تو اسے کون سمجھتا.پھر سنا کہ وہ لندن گیا تو وہاں بھی اُس نے یہی کام کیا اور
$1958 275 خطبات محمود جلد نمبر 39 اس پر اخبارات میں بہت شور اُٹھا لیکن اُس نے یہی جواب دیا کہ میں تو اسی زبان میں نماز پڑھاؤں گا جسے مقتدی سمجھتے ہوں.یہ تو اس کی غلطی تھی لیکن اس میں کوئی مبہ نہیں کہ اذان اور نماز کے عربی الفاظ کو اکثر لوگ نہیں سمجھتے.لیکن ان کو عربی زبان میں رکھنے میں یہی حکمت ہے کہ لوگ عربی زبان سیکھنے کی طرف توجہ کریں اور اس کی کچھ کھد بد حاصل کر لیں.چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیوں میں ایک خاصی تعدا دا ایسے افراد کی ہے جو اذان ، سورۃ فاتحہ اور قرآن کریم کی بعض دوسری چھوٹی چھوٹی سورتوں کے معنے جانتے ہیں اور بعض لکھے پڑھے لوگ اگر چه عربی زبان نہیں جانتے مگر تفسیریں پڑھ پڑھ کے انہوں نے قریباً سارے قرآن کے معنے سیکھ لیے ہیں.وہ یہ بحث تو نہیں کر سکتے کہ کسی لفظ کے کسی خاص مقام پر رکھنے میں کیا حکمت ہے مگر وہ اس کا مطلب سمجھنے لگ گئے ہیں.مگر یہ حکمت اسی صورت میں قائم رہ سکتی ہے جب اذانوں کو درست کیا جائے اور نمازوں کو درست کیا جائے.نماز پڑھانے پر تو کسی عالم کو مقرر کیا جاتا ہے لیکن محلہ کا ای پریذیڈنٹ بھی ایسے شخص کو ہی مقرر کرنا چاہیے جسے عربی زبان سے کچھ نہ کچھ واقفیت ہو یا وہ کم از کم نماز اور قرآن کریم کا ترجمہ جانتا ہو کیونکہ تلاوت کرتے وقت دل میں تبھی جوش پیدا ہو سکتا ہے جب انسان کو پتا ہو کہ جو آیت میں پڑھ رہا ہوں اُس کے یہ معنے ہیں.اگر وہ آیت کے معنے نہ جانتا ہو اور صرف یہی سمجھتا ہو کہ میں کوئی منتر پڑھ رہا ہوں تو اُس کے دل میں جوش پیدا نہیں ہوگا.مثلاً ایک شخص اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ 1 کہتا ہے تو وہ اس آیت کو اُسی وقت جوش اور اخلاص سے پڑھے گا جب اُسے معلوم ہوگا کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ " اے خدا! میں تیری ہی مدد مانگتا ہوں.اور جب وہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ : 2 کہے گا تو اُس کے دل میں اُسی وقت جوش پیدا ہو گا جب وہ اس آیت کے معنے جانتا ہوگا اور وہ سمجھتا ہو گا کہ اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ اے اللہ! تو مجھے سیدھا رستہ دکھا.اگر وہ صرف یہی سمجھتا ہو کہ اهدنا عربی کا ایک لفظ ہے، صِرَاط عربی کا ایک لفظ ہے ، مستقیم “ عربی کا ایک لفظ ہے تو اُس میں جوش پیدا نہیں ہوگا.پس میری پہلی نصیحت تو یہ ہے کہ اذانوں اور نمازوں کو صحیح طور پر سمجھنے کی عادت ڈالو اور موذنوں کو اذان کے الفاظ کا صحیح تلفظ بتاؤ تا کہ اُن کے اندر بھی یہ احساس پیدا ہو کہ ہمیں کچھ نہ کچھ عربی کی زبان سے مس پیدا کرنا چاہیے.مؤذن کا کام اذان دینا ہے اس لیے اُسے کم از کم اذان کے معنے تو
276 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 انے چاہیں اور اذان کے الفاظ کا صحیح تلفظ بھی آنا چاہیے.جب وہ اذان کا صحیح تلفظ سیکھ لے گا تو پھر اُسے جرات پیدا ہوگی اور وہ نماز اور اذان کے الفاظ کے صحیح معنے بھی سیکھنے کی کوشش کرے گا اور پھر قرآن کریم کی بعض سورتوں کا بھی ترجمہ سیکھ لے گا.یہاں تک کہ وہ اچھا خاصا مؤذن بلکہ امام بن جائے گا.پھر وہ آہستہ آہستہ باقی قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے کی کوشش کرے گا اور اس طرح وہ ایک واعظ اور ناصح بن جائے گا اور پھر ترقی کرتے کرتے جماعت کا ایک سچا لیڈر بن جائے گا.جن لوگوں میں جوش ہوتا ہے وہ اس غرض کے لیے قسم قسم کی تدبیریں کرتے ہیں کہ کسی طرح صداقت لوگوں تک پہنچ جائے.ہمارے ایک احمدی دوست میاں شیر محمد صاحب ہوا کرتے تھے جو پھگواڑا ضلع جالندھر کے رہنے والے تھے.وہ انکا چلایا کرتے تھے اور بالکل ان پڑھ تھے لیکن باقاعدہ الحکم منگوایا کرتے تھے اور بیسیوں افراد ان کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہوئے.ان کا طریق تھا کہ اخبار جیب میں ڈال لیا اور اگا چلا کر روانہ ہو گئے.تھوڑی دیر کے بعد اخبار جیب میں سے نکالا اور سواریوں میں سے کسی پڑھے لکھے آدمی سے کہا آپ پڑھے ہوئے ہیں میں ان پڑھ ہوں ، آپ مجھے سنائیں کہ اس میں کیا لکھا ہے.چنانچہ اُس شخص نے اخبار پڑھتے جانا اور انہوں نے سنتے جانا.اسی طرح اخبار پڑھا پڑھا کر انہوں نے کئی افراد احمدیت میں داخل کر لیے.جب سواریوں نے اڈہ پر اُترنے لگنا تو انہوں نے کہنا بابا جی! آپ ہمیں پھر بھی ملیں.اس اخبار میں تو بڑی اچھی باتیں لکھی ہوئی ہیں.چنانچہ میاں شیر محمد صاحب نے اُن سے ملنے کے لیے جانا اور جو جو باتیں وہ پوچھتے اُن کے وہ جوابات دیتے اور سلسلہ کا لٹریچر بھی منگوا کر دیتے.اسی طرح کئی لوگ اُن کے ذریعہ احمدیت میں داخل کی ہوئے.اگر ایک ان پڑھ آدمی یہ کام کر سکتا ہے تو ایک شد بد رکھنے والا آدمی کیوں ترقی نہیں کر سکتا.پس اپنے اندر اذان اور نماز کی رغبت پیدا کرو اور ان کی عظمت دلوں میں قائم کرو.بعض لوگ کہتے ہیں کہ اذان معمولی چیز ہے حالانکہ تاریخ میں حضرت عمرہ کا ایک قول آتا ہے کہ اگر خلافت کا کام میرے سپرد نہ ہوتا تو میں مؤذن کا کام کرتا.تو دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ثانی اذان کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں اگر خلافت کا کام میرے سپرد نہ ہوتا تو میں اذان دینے کا کام پنے ذمہ لیتا.گویا انہوں نے اذان کو دوسری خلافت قرار دیا ہے.تو اذان کوئی معمولی چیز نہیں.
$1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 277 جماعت کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے اور موذنوں کی اذانوں کی اصلاح کرنی چاہیے تا کہ اس کے ذریعہ نماز اور قرآن کی طرف توجہ ہو اور لوگوں میں عربی زبان سیکھنے کا شوق پیدا ہو.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو حضرت عباس جو آپ کے چچا تھے پیچھے مکہ میں ہی رہ گئے.مکہ میں حضرت عباس کی ہمنی کا کام سقَايَة الحاج یعنی حاجیوں کو پانی پلانا تھا.ایک دفعہ ان کی حضرت علیؓ سے بحث ہو گئی تو حضرت علیؓ نے فرمایا ہم نے ہجرت کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کیا مگر آپ تو تو رہے.حضرت عباس نے کہا یہ کونسی بڑی بات ہے ہم مکہ میں رہے اور ہم نے حاجیوں کو پانی پلایا.3 وہ یہ سمجھتے تھے کہ حاجیوں کو پانی پلانا بھی جہاد سے کم نیکی نہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کی حضرت علی کے قول کو ترجیح دی ہے اور فرمایا ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ، حاجیوں کو پانی پلانے سے زیادہ اہم ہے.4 حضرت عباس نے پرانے خیالات کے ماتحت یہ بات بیان کر دی تھی حالانکہ اصل بات یہ تھی کہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مکہ میں رہنے کا حکم دیا تھا.سقاية الحآج تو ایک میم بات تھی.اگر وہ کہتے کہ مجھے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں رہنے کا حکم دیا تھا اس لیے میں مکہ میں ٹھہر گیا تو اُن کا جواب بہت وزنی ہوتا.مگر عربوں میں چونکہ سقَايَةُ الحَآج کا کام بڑا اہم سمجھا جاتا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ اس کام کی وجہ سے وہ مکہ کے رئیس ہیں.اور ملکہ کی ریاست سارے عرب کی تی ریاست سمجھی جاتی تھی اس لیے حضرت عباس نے یہ جواب دے دیا.حضرت عباس کو مکہ میں ٹھہرانے کی ضرورت یہ تھی کہ مکہ میں کئی صحابہ کے بیوی بچے رہتے تھے اور حضرت عباس چونکہ مکہ کے سرداروں میں سے تھے اس لیے اُن کے اثر کی وجہ سے اُن کی حفاظت ہوتی رہتی تھی اور کفار زیادہ شرارتیں نہیں کر سکتے تھے.دوسرے حضرت عباس کی ابوسفیان سے بڑی دوستی تھی جو مکہ کے مانے ہوئے سردار تھے.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس کو یہ حکم دیا کہ وہ مکہ میں ہی رہیں.فتح مکہ کے قریب حضرت عباس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اب تو مکہ میں میری ضرورت باقی نہیں رہی اب تو مجھے ہجرت کی اجازت دے دیں.اس پر آپ نے اجازت دے دی اور فرمایا یہ آخری ہجرت ہے اس کے بعد اور کوئی ہجرت نہیں ہوگی.5 پس سقَايَةُ الحاج بڑی اعلیٰ درجہ کی چیز ہے مگر اس کا درجہ جہاد کے بعد رکھا گیا ہے کیونکہ اُس زمانہ میں سقَايَةُ الحاج اور جہاد دونوں اکٹھے
278 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 نہیں ہو سکتے تھے.اُس زمانہ میں جہاد بالسیف تھا اور مکہ میں رہ کر انسان مکہ والوں سے لڑ نہیں سکتا تھا تو لیکن اب جہاد بالسیف کی بجائے جہاد باللسان ہے یعنی لوگوں کو ہدایت اور صداقت پہنچانا اور انہیں کی اسلام کی تبلیغ کرنا.اس لیے اب سقَايَةُ الحاج اور جہاد دونوں چیزیں اکٹھی ہو سکتی ہیں بلکہ ہمارے جلسہ سالانہ کے دنوں میں سقایہ تو الگ رہا کھانا کھلانے کا فرض بھی آجاتا ہے.چنانچہ ربوہ کے رہنے والے باہر سے آنے والوں کو ان دنوں پانی بھی پلاتے ہیں اور کھانا بھی کھلاتے ہیں.اور پھر وہ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ اردگرد کے علاقہ میں جا کر دوسرے لوگوں کو سلسلہ سے روشناس کریں، انہیں سمجھائیں اور بتائیں کہ احمدیت کے متعلق لوگوں کو جو یہ غلط فہمیاں ہیں وہ کیوں ہیں.حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ احمدیت کے مخالف ہیں وہ صرف اس لیے مخالفت کرتے ہیں کہ انہیں بعض لوگوں نے احمدیت کے متعلق غلط باتیں پہنچا دی ہیں ورنہ جو لوگ ہمارا لٹریچر پڑھ لیتے ہیں اُن کی تمام غلط فہمیاں دور ہو جاتی ہیں.مجھے یاد ہے پچھلے سال کچھ وکلا ءلائکپور سے مجھے ملنے کے لیے آئے.اُن میں سے کسی شخص نے ایک سوال کیا تو انہی میں سے ایک دوسرا شخص کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا تم غلطی کر رہے ہو تم نے مرزا صاحب کی کتابیں نہیں پڑھیں.اگر تم پڑھتے تو تمہیں معلوم ہوتا کہ مرزا صاحب نے جہاد کو ضروری قرار دیا ہے.آپ نے صرف یہ کہا ہے کہ میں اسے عارضی طور پر ملتوی کرتا ہوں کیونکہ اس کی زمانہ میں اسلام کے خلاف تلوار نہیں چل رہی.گویا مرزا صاحب نے جہاد کو منسوخ نہیں کیا بلکہ ایک وقت تک اسے ملتوی قرار دیا ہے.اگر اب پھر کفار اسلام قبول کرنے سے تلوار کے زور سے رو کنے لگ جائیں اور جہاد کی شرائط پوری ہو جائیں تو پھر جہاد بالسیف شروع ہو جائے گا.تو دیکھو ایک غیر احمدی دوست نے خود اس سوال کا جواب دے دیا کہ جہاد کو منسوخ کرنے کا اعتراض درست نہیں.مرزا صاحب کی کتب موجود ہیں، اُن کے مطالعہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جہاد ایک وقت تک کے لیے ملتوی ہے منسوخ نہیں کیا گیا.تو ہمارے لیے خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں دونوں رستے کھول دیئے ہیں.ہم باہر سے آنے والے مہمانوں کی خدمت بھی کر سکتے ہیں اور جہاد باللسان بھی کر سکتے ہیں.پس جلسہ سالانہ پر آنے والے کسی ذاتی غرض اور منفعت کی بناء پر یہ سفر نہیں کرتے بلکہ محض خدا تعالیٰ کی خاطر کرتے ہیں اور ایک نیک مقصود ان کے ذہن میں ہوتا.
279 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کوئی شخص خدا اور اس کے رسول کے لیے ہجرت کرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں خدا اور اُس کا رسول اسے مل جاتا ہے.اور کوئی شخص بیوی کے لیے ہجرت کرتا ہے اور اُسے بیوی مل جاتی ہے مگر یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے.جس قسم کی کسی کی نیت ہوگی ویسی ہی اُس کی ہجرت ہوگی.6 جولوگ یہاں جلسہ سالانہ پر اس لیے آتے ہیں کہ وہ خدا اور اُس کے رسول کی باتیں سنیں، قرآن کریم کی باتیں سنیں اور اسلام کی باتیں سنیں انہیں ایک ایسے شخص کا ثواب ملتا ہے جو اپنے وطن اور بیوی بچوں کو محض اس لیے چھوڑتا ہے کہ وہ خدا کی باتیں سنے.اور جو شخص انہیں پانی پلاتا ہے، کھانا کھلاتا ہے اور اُن کے آرام کے لیے اپنا مکان دیتا ہے وہ بھی بڑے بھاری ثواب کا مستحق ہوتا ہے.پچھلے سال یہ شکایت پیدا ہوئی تھی کہ یہاں کے رہنے والوں نے مہمانوں کے لیے بہت کم مکانات دیے تھے جس کی وجہ سے مہمانوں کو تکلیف ہوئی.میں اُمید کرتا ہوں کہ اس سال دوست اس بات کا خاص خیال رکھیں گے.چند دن کے لیے تکلیف اُٹھانا بڑی بات نہیں.اگر کسی گھر میں دس پندرہ افراد کا بھی کنبہ رہتا ہو تو وہ زمین پر سو کر چند دن کے لیے ایک کمرہ میں گزارہ کر سکتے ہیں باقی کمرے وہ مہمانوں کو دے سکتے ہیں.جلسہ سالانہ کے افسروں کا کام ہے کہ ان گھروں میں قناتیں لگا کر پردہ کا انتظام کر دیں تا کہ گھر والوں کو تکلیف نہ ہو.پہلے مجھے ہر سال جلسہ سے پہلے یہ رپورٹ آ جاتی تھی کہ کتنے مکان جلسہ کے لیے ملے ہیں اور کتنے معاون اور خدمتگار میسر آئے ہیں.یہ رپورٹ مجھے جلسہ سالانہ کا نائب افسر دیا کرتا تھا لیکن اس سال اُس نے مجھے کوئی رپورٹ نہیں دی حالانکہ اصل نگران خدا تعالیٰ نے مجھے مقرر کیا ہے.چاہیے تھا کہ نائب افسر مجھے یہ رپورٹ دیتا کہ اس وقت تک مہمانوں کے لیے کتنے مکانات ملے ہیں اور کتنے والنٹیئرز (Volunteers ) مل گئے ہیں.بلکہ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ چونکہ اب مہمان زیادہ تعداد میں آتے ہیں اور ربوہ کی آبادی کم ہے اس لیے باہر کی جماعتوں کو والنٹیئرز مہیا کرنے کی تحریک کی جائے.بہر حال جلسہ سے کافی دیر پہلے میرے پاس یہ رپورٹ آنی چاہیے تھی کہ جلسہ کے مہمانوں کے لیے کس قدر مکانات مل گئے ہیں اور کس قدر والنٹیئرز ملے ہیں تا کہ اگر کوئی کمی ہوتو میں اُس کے پورا کرنے کے لیے لوگوں کو تحریک کروں.یہاں کے رہنے والے ایماندار اور مخلص ہیں.اگر انہیں یہ بتایا جائے کہ خدا تعالیٰ کے مہمانوں کے لیے جگہ نہیں تو وہ اس بات کے لیے بھی تیار
خطبات محمود جلد نمبر 39 280 $1958 ہو جائیں گے کہ وہ خود درختوں کے نیچے سو جائیں اور مکان مہمانوں کے لیے خالی کر دیں.ان کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ وہ قربانی نہیں کریں گے بڑھتی ہے.وہ اُس وقت تک قربانی میں سستی کرتے ہیں جب تک کہ حقیقت اُن پر ظاہر نہیں ہو جاتی.جب ان پر حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے تو وہ بڑی سے بڑی قربانی کرنے کے لیے بھی تیار ہو جاتے ہیں.پس افسر جلسہ سالانہ کا کام ہے کہ مجھے مفصل رپورٹ دے تا کہ میں وقت پر اُس کی مدد کر سکوں اور وقت سے پہلے لوگوں کو متنبہ کر سکوں.الفضل 9 دسمبر 1958ء) 1 : الفاتحة: 5 2 : الفاتحة : 6 3 : تفسير الرازي زير آيت سورة التوبة آيت 19 أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ.:4 أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ مَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجْهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَوْنَ عِنْدَ اللهِ (التوبة: 19) 5 : اسد الغابه في معرفة الصحابة - زير عنوان عباس بن عبدالمطلب جلد2 صفحه 530 بيروت لبنان 2006ء 6 : بخاری کتاب بدء الوحى - باب كَيْفَ كَانَ بدء الوحى إلى رَسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
$ 1958 281 33 خطبات محمود جلد نمبر 39 سورہ فاتحہ اسلام کی بہترین دُعاؤں میں سے ایک دُعا ہے اگر ہم پورے اخلاص کے ساتھ اسے پڑھتے رہیں تو یقینا اللہ تعالیٰ اسلام کو تمام دیگر ادیان پر کھلکھلا غلبہ عطا کرے گا (فرموده 5 دسمبر 1958ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ” سورہ فاتحہ اسلام کی بہترین دُعاؤں میں سے ایک دُعا ہے جس کی قرآن کریم میں خاص طور پر تعریف آئی ہے.چنانچہ اس کا ایک نام سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي 1 بھی رکھا گیا ہے کیونکہ اس کی سات آیتیں ہیں جو بار بار دہرائی جاتی ہیں.مثانی کے معنے اعلیٰ کے بھی ہوتے ہیں اور مثانی کے معنے وادی کے موڑ کے بھی ہوتے ہیں.گویا یہ سورۃ انسان کو خدا کی طرف موڑ کر لے جانے والی ہے اور پھر بار بارڈ ہرائی بھی جاتی ہے.چنانچہ تہجد کو لا کر روزانہ چھ نمازوں میں سورۃ فاتحہ پڑھی جاتی ہے.اگر نوافل کو شامل نہ کیا جائے تو صرف ظہر کی نماز میں آٹھ بارسورۃ فاتحہ پڑھی جاتی ہے کیونکہ دوسنتیں پہلے پڑھی جاتی ہیں، پھر چار فرض پڑھے جاتے ہیں اور پھر دو سنتیں پڑھی جاتی ہیں.گو فرض نماز سے پہلے چار سنتیں بھی پڑھ لی جاتی ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیشہ دوسنتیں ہی پڑھا کرتے تھے.پس آٹھ رکعتیں ظہر کی ہوئیں، اس کے بعد عصر کی چار رکعتیں ہیں، مغرب کی پانچ رکعتیں ،
$1958 282 خطبات محمود جلد نمبر 39 عشاء کی چھ رکعتیں اور تین وتر ہیں اور آٹھ رکعتیں نماز تہجد کی ہیں.یہ کل چونتیس رکعات بنتی ہیں جن کی میں سورۃ فاتحہ روزانہ پڑھی جاتی ہے.گویا اس سورۃ کی عظمت اس بات سے ظاہر ہے کہ مسلمان اسے روزانہ چونتیس بار پڑھتا ہے.اس سورۃ کی پہلی آیت اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ 2 میں ہمیں یہ سبق دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کامل اور ہر قسم کی تعریف کا مستحق ہے.وہ کیوں کامل اور ہر قسم کی تعریف کا مستحق ہے؟ اس لیے کہ وہ رب العالمین ہے یعنی سارے جہانوں کا رب ہے.اگر وہ صرف مسلمانوں کا رب ہو تو ایک عیسائی اُس کی کیوں تعریف کرے گا؟ ایک یہودی اُس کی کیوں تعریف کرے گا ؟ ایک ہندو اور سکھ اس کی کیوں تعریف کرے گا؟ خدا تعالیٰ کامل اور ہر قسم کی تعریفوں کا اسی صورت میں مستحق ہوگا جب وہ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، یہودی، بدھ ، بہائی اور دوسرے سب مذاہب کے لوگوں پر احسان کرے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے كُلًّا تُمِدُّ هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاء مِنْ عَطَاءِ رَبَّكَ ، وَمَا كَانَ عَطَاءِ رَبَّكَ مَحْظُورًا 3 یعنی هم خاص فریق کی مدد نہیں کرتے بلکہ دنیا میں جتنے مذاہب اور اقوام ہیں اُن سب کی مدد کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی مدد کسی صورت میں بھی رو کی نہیں جاتی.چنانچہ کون شخص ہے جو خدا تعالیٰ کی مدد کو روکتی سکے؟ ایک مسلمان با وجود اس کے کہ وہ خدا تعالیٰ کا مقرب ہے یہ جرات نہیں کر سکتا کہ یہ دُعا کرے کہ اے اللہ ! تو ہندوؤں کی مدد نہ کر.اور اگر وہ کہے بھی تو خدا تعالیٰ اس کی کیوں سنے گا؟ وہ عیسائیوں کو بھی رزق دیتا ہے، وہ ہندوؤں کو بھی رزق دیتا ہے ، وہ سکھوں کو بھی رزق دیتا ہے بلکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے والوں یعنی مکہ اور خیبر کے رہنے والوں کو بھی رزق دیا کی کرتا تھا ، مدینہ کے یہودی بھی آپ کی مخالفت کیا کرتے تھے لیکن وہ اُن کی بھی دنیوی مددکرتا تھا اور اس کی امر کی پروا نہیں کرتا تھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہیں.وہ یہی سمجھتا تھا کہ یہ بیشک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہوں لیکن میرے بندے ہیں، اگر میں ان کی مدد نہ کروں تو میں رب العالمین نہیں ہوسکتا.غرض خدا تعالیٰ ہر ایک کی مدد کرتا رہا ہے، کرتا ہے اور قیامت تک کرتا رہے گا جی کیونکہ وہ رب العالمین تھا، رب العالمین ہے، اور قیامت تک رب العالمین رہے گا.اور جب وہ قیامت تک رب العالمین رہے گا تو قیامت تک جتنے بھی فرقے نکلیں گے وہ اُن کی مدد کرے گا بلکہ وہ
283 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 بندوں کے مرنے کے بعد بھی رب العالمین رہے گا کیونکہ وہ موت کے بعد بھی مسلمانوں ، یہودیوں اور عیسائیوں میں سے جو نیک لوگ ہوں گے اُن کو جنت میں لے جائے گا اور اُن کی ربوبیت کرے گا.پھر فرماتا ہے الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ 4- خدا ساری تعریفوں کا کیوں مستحق ہے؟ اس لیے کہ وہ رحمان ہے.رحمان کے معنی ہیں ایسی وسیع مدد کرنے والا جس میں کسی فرقہ بندی کا خیال تک نہ ہو.گو یہ لفظ بھی رب العالمین کی تشریح کرتا ہے لیکن الرَّحِيمِ کا لفظ بتاتا ہے کہ یہ مدد ہمیشہ جاری رہے گی کیونکہ رحیم میں لمبائی پائی جاتی ہے اور رحمان میں چوڑائی پائی جاتی ہے.گویا رحمانی سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمُ کا قائم مقام ہے اور رحیم سُبحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى کا قائم مقام ہے.یعنی رحیمیت اگلے جہاں تک بھی ممتد ہے.پھر فرماتا ہے مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ 5 یعنی انجام خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے تا کہ انسان کسی دوسرے پر نا جائز بختی نہ کرے.اگر انجام بندہ کے ہاتھ میں ہوتا تو وہ دشمن کو مار ہی کی ڈالتا اور اُس پر بالکل رحم نہ کرتا.چنانچہ دیکھ لو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو خدا تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ اپنے دشمنوں کو معاف کر دو.اگر اُس وقت انسانوں کی بات مانی جاتی تو صحابہ کہتے سب مکہ والوں کو قتل کر دو مگر خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہم نے تم کو سخت دل نہیں بنایا تم انہیں لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کہہ کر معاف کر دو.جنگ حسین میں جو مال غنیمت ہاتھ آیا وہ آپ نے مکہ والوں میں تقسیم کر دیا.اس پر ایک منافق نے کہا کہ آپ نے تقسیم میں انصاف سے کام نہیں لیا.حضرت عمر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے يَا رَسُولَ اللہ ! اگر اجازت ہو تو اس کا سرکاٹ دوں؟ آپ نے فرمایا نہیں.مجھے خدا تعالیٰ نے اس کی اجازت نہیں دی 7 اور پھر خدا تعالیٰ کے علاوہ دنیا کا بھی تو خیال کرو اگر میں نے اس کو قتل کرا دیا تو لوگ کہیں گے یہ اچھا رسول ہے جو اپنے ساتھیوں کو مارتا پھرتا ہے.غرض اگر انجام لوگوں کے اختیار میں ہوتا تو وہ اپنے مخالفین کو مارڈالتے.حضرت ابوبکر کا ایک بیٹا جو بعد میں مسلمان ہوا تھا ابتدا میں وہ مسلمانوں کے خلاف لڑتا رہا.جنگ بدر میں وہ کفار کی طرف سے جنگ میں شامل ہوا تھا.اس نے ایک دفعہ حضرت ابو بکر سے کی کہا کہ آپ ایک دفعہ لڑائی کرتے کرتے میرے پاس سے گزرے تھے.اُس وقت میں ایک پتھر کی اوٹ میں تھا، اگر میں چاہتا تو آپ کو مارسکتا تھا لیکن مجھے خیال آیا کہ اپنے باپ پر وار نہیں کرنا چاہیے.
284 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 پ نے فرمایا تیری قسمت اچھی تھی کہ تو مجھے دکھائی نہ دیا ورنہ خدا کی قسم ! اگر میں تجھے دیکھ لیتا تو میں نے تجھے ضرور مار ڈالنا تھا کیونکہ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے والا کبھی پسند نہیں آیا.تو دیکھو حضرت ابو بکر جو نہایت رحیم و کریم انسان تھے انہوں نے بھی اپنے بیٹے کے متعلق کسی رحم کے جذبہ کا اظہار نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ اگر میں تجھے دیکھ لیتا تو ضر ورقتل کر دیتا.پس اگر مسلمانوں پر چھوڑا جا تا تو وہ مکہ والوں کو کبھی زندہ نہ رہنے دیتے لیکن رب العالمین ، رحمان و رحیم خدا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان لوگوں کو زندہ رکھو.اس لی وقت یہ بات مسلمانوں کو بُری لگی.چنانچہ حضرت خالد بن ولید جس دروازہ سے مکہ میں داخل ہوئے اُس طرف بعض مشرک اُن کے سامنے آگئے اور آپ نے انہیں قتل کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ہوئی تو آپ نے سخت بُرا منایا اور فرمایا میں نے تو حکم دیا تھا کہ شہر میں گھستے ہوئے کسی کو قتل نہیں کرنا چاہیے.خالد بن ولید نے کہايَا رَسُولَ اللہ ! یہ لوگ ہمارا راستہ روک کر کھڑے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کس نے حکم دیا تھا کہ راستہ روکنے والوں کو مار ڈالو؟ جب میں نے حکم دیا تھا کہ کسی کو نہیں مارنا تو تم نے انہیں کیوں مارا؟ 8 پھر آخری فیصلہ جب خدا تعالیٰ نے آپ سے کرایا تو یہی کرایا کہ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ یعنی تمہیں کوئی سزا نہیں ملے گی.جاؤ تمہیں معاف کیا جاتا ہے.ابوسفیان جس نے ساری عمر آپ کی مخالفت کی اس کی بیٹی حضرت اُمّ حبیبہ سے آپ نے شادی کر لی تھی.ایک دفعہ آپ گھر پر تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ حضرت اُم حبیبہ نے کی اپنے چھوٹے بھائی معاویہؓ کا سر اپنی ران پر رکھا ہوا ہے اور اُن سے پیار کر رہی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھ کر وہ شرما گئیں اور خیال کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہیں بُرا نہ منائیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معاویہ تمہیں پیارا لگتا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں يَا رَسُولَ الله ! آپ نے فرمایا میں بھی اس سے پیار کرتا ہوں حالانکہ وہ آپ کے شدید ترین دشمن ابوسفیان کا بیٹا تھا جس نے اُحد کے موقع پر آپ کو زخمی کر دیا تھا.خود کا کیل آپ کے سر میں گڑ گیا تھا اور آپ کے بعض دانت بھی ٹوٹ گئے تھے.10 پھر ابو جہل آپ کا کتنا شدید دشمن تھا؟ ابو جہل کے خلاف مسلمانوں میں اس قدر جوش تھا کہ
$1958 285 خطبات محمود جلد نمبر 39 حضرت عبدالرحمان بن عوف فرماتے ہیں کہ جنگ بدر کے موقع پر دو پندرہ پندرہ سالہ انصاری لڑکے میرے دائیں بائیں کھڑے تھے.میں لڑائی کے متعلق سوچ ہی رہا تھا کہ ایک لڑکے نے مجھے کہنی ماری اور کہا چا! مجھے بتاؤ ابو جہل کون ہے؟ میں نے سنا ہے وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑا دکھ دیا کرتا ہی تھا، میں چاہتا ہوں کہ آج اُسے قتل کروں.حضرت عبدالرحمان بن عوف فرماتے ہیں میں نے ابھی اُسے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ مجھے دوسرے لڑکے نے گہنی ماری اور کہا چا! ابو جہل کون ہے؟ میں نے سنا ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت دکھ دیا کرتا تھا، آج میں اُسے قتل کرنا چاہتا ہوں.حضرت عبدالرحمان بن عوف مفر ماتے ہیں یہ دونوں لڑکے پندرہ پندرہ سال کے تھے اور میں بڑا تجربہ کار جرنیل تھا لیکن میرے وہم میں بھی نہیں آتا تھا کہ میں ابو جہل کو قتل کروں گا.میں نے انگلی سے اشارہ کیا اور کہا وہ ابوجہل ہے جس کے سامنے دو جرنیل سنگی تلواروں سے پہرہ دے رہے ہیں.میرا اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ وہ دونوں لڑکے باز کی طرح جھپٹا مار کر گئے اور ابو جہل تک جا پہنچے.ابو جہل کے آگے دو جرنیل تھے جن میں سے ایک اُس کا اپنا بیٹا عکرمہ تھا انہوں نے اُن لڑکوں پر حملہ کیا جس کی وجہ سے ایک لڑکے کا بازو کٹ کر جسم کے ساتھ لٹک گیا.اس پر اُس لڑکے نے کٹے ہوئے باز و پر گھٹا رکھ کر زور سے اُسے جھٹکا دے کر جسم سے علیحدہ کر دیا اور خود ابو جہل پر جا گودا اور اُسے زخمی کر کے نیچے گرا دیا.11 تو دیکھو مسلمانوں میں ابو جہل کے متعلق کتنا جوش تھا مگر رب العالمین خدا کا یہ حال تھا کہ اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دکھایا کہ آپ کے لیے جنت سے انگوروں کا ایک خوشہ آیا ہے،اس کے بعد ایک اور خوشہ لایا گیا.آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ خوشہ کس کے لیے ہے؟ فرشتہ نے کہا ابو جہل کے لیے ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں یہ سن کر کانپ گیا کہ کیا خدا تعالیٰ کا رسول بھی جنت میں جائے گا اور اس کا شدید ترین دشمن ابو جہل بھی جنت میں جائے گا ؟ یہ کس طرح کی ہوسکتا ہے؟ لیکن جب عکرمہ مسلمان ہوئے تو آپ نے فرمایا اب میں سمجھا کہ اس خواب کی یہی تعبیر تھی.12 گویا اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تو ابو جہل کو سزا دی اور دوسری طرف اُس پر یہ احسان کیا کہ اُس کے بیٹے عکرمہ کو مسلمان بنا دیا جس نے اسلام کی خاطر بڑی بھاری قربانیاں کیں.اس کی قربانیوں کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے تھے لیکن وہ مسلمانوں میں بہت مقبول او
$1958 286 خطبات محمود جلد نمبر 39 و معزز ہوا اور روم کے مقابلہ میں ایک جنگ میں اُس نے ایسا نمونہ دکھایا کہ وہ دوسر.صحابہ کو پانی پلانے کی خاطر خود پیاسا مر گیا.13 تو دیکھو یہ خدا تعالیٰ کا احسان ہے.خواب بھی خدا تعالیٰ ہی دکھاتا ہے انسان خود بخود تو نہیں دیکھ سکتا.مجھے یاد ہے لالہ شرمیت رائے ایک آریہ تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے دوستوں میں سے تھے.انہیں ایک زخم آ گیا.قادیان میں ایک نو مسلم ڈاکٹر محمد عبد اللہ صاحب تھے جو علاج معالجہ کرتے تھے.لالہ شرمیت بھی اُنہی سے علاج کرواتے رہے جس کی وجہ سے انہیں افاقہ بھی ہوا مگر بعد میں انہوں نے علاج کرانا ترک کر دیا.اس پر ڈاکٹر صاحب کو خدا تعالیٰ نے خواب دکھائی کہ لالہ شرمیت کے پاس فیس کے لیے روپیہ نہیں اس لیے وہ آتے ہوئے شرماتا ہے.چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے لالہ شرمیت کو بلایا اور کہا آپ مجھ سے باقاعدہ علاج کرائیں.میں آپ سے کوئی فیس نہیں لوں گا.چنانچہ انہوں نے پھر علاج کرانا شروع کر دیا اور اس کے نتیجہ میں وہ زخم بالکل درست ہو گیا.تو دیکھو یہ خواب خدا تعالیٰ نے ہی دکھائی تھی.لالہ شرمپت آریہ تھا لیکن را العالمین خدا کے نزدیک ایک آریہ بھی ویسا ہی اُس کا بندہ ہے جیسے ایک مسلمان.اُس نے خواب میں ڈاکٹر عبداللہ صاحب کو بتادیا کہ لالہ شرمیت سے فیس نہ لینا.پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے ساتھیوں کو تنگ کرنے کے لیے مرز انظام الدین اور مرزا امام الدین نے مسجد مبارک کے دروازہ کے سامنے دیوار کھنچوائی تو عدالت میں کئی سال تک مقدمہ چلتا رہا.آخر اس مقدمہ کا فیصلہ ہوا اور مقد مہ کے اخراجات جو چار پانچ سو روپیہ کے قریب تھے مرزا نظام الدین اور مرزا امام الدین وغیرہ پر ڈالے گئے.جب ان کے خلاف جج نے ڈگری دی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام گورداسپور میں تھے.آپ کو رویا میں دکھایا گیا کہ مرزا نظام الدین اور مرزا امام الدین مالی لحاظ سے بہت تنگ حالت میں ہیں.آپ نے فوراً ایک آدمی گورداسپور سے قادیان بھجوایا اور اُن سے کہا کہ میں تم سے روپیہ نہیں لوں گا.اب دیکھو! یہ سب کچھ رب العالمین خدا نے ہی کیا تھا.ان لوگوں نے ساری عمر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ظلم کیسے اور ان میں سے ایک تو اتنا کٹر دہر یہ تھا کہ حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ مرزا امام الدین کے پیٹ میں درد ہوئی تو انہوں نے مجھے بلوایا.میں جب
$1958 287 خطبات محمود جلد نمبر 39 گیا تو وہ کمرے میں لوٹ پوٹ رہے تھے اور کہہ رہے تھے ہائے اماں! ہائے اماں! میں نے کہا مرزا صاحب! آپ بوڑھے ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک آپ اماں اماں ہی کہتے ہیں خدا کو نہیں کی پکارتے ؟ کہنے لگا ماں کو تو میں نے دیکھا ہے اور اُس کی مہر بانیوں کو بھی دیکھا ہے لیکن خدا تعالیٰ کو میں نے نہیں دیکھا.پھر اُس نے کہا مولوی صاحب! میں بچپن سے ہی بڑا سلیم الفطرت تھا.جب مسلمان کی لوگ مسجد میں جاتے اور چوتڑ اوپر کر کے اور سر نیچے کر کے سجدہ کرتے تو میں اُن پر ہنسا کرتا تھا کہ یہ کیسے بیوقوف لوگ ہیں کہ اتنی عمر کے ہو کر بھی ایسے خدا کے سامنے سجدہ کر رہے ہیں جو انہیں نظر نہیں آ رہا.غرض ان لوگوں کی یہ حالت تھی مگر رب العالمین خدا نے ان کا بھی خیال رکھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دکھایا کہ ان کی حالت خراب ہے انہیں معاف کر دو.تو ہمارا خدا ای رب العالمین خدا ہے.وہ ہر ایک کے لیے اپنی ربوبیت کا نمونہ دکھاتا ہے.پرانے زمانہ میں بھی وہ ان رب العالمین تھا اور اس زمانہ میں بھی وہ رب العالمین ہے اور آئندہ زمانہ میں بھی وہ رب العالمین رہے گا.پرانے زمانہ میں ایک بزرگ تھے.بغداد کا بادشاہ کہیں سفر پر گیا ہوا تھا.وہاں سے اُس نے ایک ہرکارہ بھجوایا کہ انہیں میرے پاس بلالا ؤ.وہ بیچارے بہت گھبرائے اور اُسی وقت خچر یا گھوڑے پر سوار ہو کر بادشاہ کی ملاقات کے لیے روانہ ہو گئے.شہر سے کچھ دور گئے تو بارش آگئی.اردگرد کوئی مکان نہیں تھا اچانک انہیں ایک جھونپڑی نظر آئی.وہ اُس کی طرف چل پڑے اور وہاں پہنچ کر مکین سے اجازت لے کر اندر چلے گئے.جھونپڑی کے مالک نے اُن سے پوچھا آپ کون ہیں؟ اس بزرگ نے جواب دیا کہ میں فلاں ہوں.اُس شخص نے دریافت کیا کہ آپ اس وقت کدھر جا رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس اس طرح بادشاہ کی طرف سے پیغام آیا ہے اور میں اُس کی ملاقات کے لیے جارہا ہوں.ویسے میں نے کوئی قصور نہیں کیا.جھونپڑی کا مالک ایک اپاہج تھا اور چل پھر نہیں سکتا تھا.وہ اُس بزرگ کا جواب سن کر ہنس پڑا اور کہنے لگا آپ بیشک واپس تشریف لے جائیے آپ کو خدا تعالیٰ بغداد سے یہاں صرف میرے لیے لایا ہے.میں کئی سال سے دُعا کر رہا تھا کہ اے خدا! میں تو اپاہج ہوں اور بغداد جا کر اس بزرگ کی زیارت نہیں کر سکتا، تو مجھے ان کی یہیں زیارت کرا دے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے میری دُعا سن لی اور میری اِس دُعا کے نتیجہ میں ہی وہ آپ کو یہاں لے آیا.چنانچہ واقع میں ایسا ہی ہوا.کچھ دیر کے بعد بادشاہ کا ایک دوسرا ہر کارہ آیا اور اُس نے کہا کہ نام میں غلطی ہوگئی.
$ 1958 288 خطبات محمود جلد نمبر 39 بادشاہ نے کسی اور شخص کو طلب کیا تھا مر غلطی سے آپ کے نام پیغام بھیج دیا گیا.آپ بیشک تشریف نہ لائیں.تو دیکھو ہمارا خدا رب العالمین ہے.اس نے اس اپاہج کے لیے بھی اس بزرگ کی زیارت کا کی سامان کر دیا اور اس بزرگ کو اس کے پاس لیے گیا.پھر اس کے بعد فرماتا ہے اللہ ساری تعریفوں کا اس لیے مستحق ہے کہ وہ مُلِكِ يَوْمِ الدین بھی ہے اور اس کی تعریف کی یہ علامت ہے کہ جب مومن اس کے عظیم الشان احسانات کی دیکھتا ہے تو بے اختیار کہہ اٹھتا ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ 14 یعنی اے خدا! تیرے تنے بڑے احسانوں کے ہوتے ہوئے میں کسی اور کی عبادت نہیں کر سکتا.اس کو یہ بات نظر آ جاتی ہے کہ اس احسان کرنے والے خدا کو چھوڑ کر میں بچوں کے سامنے کیوں جھکوں ؟ انہوں نے مجھ پر کونسا احسان کیا ہے؟ خدا تعالیٰ کے تو مجھ پر بے شمار احسانات ہیں، میرے بیوی بچوں پر احسانات ہیں، میرے ہمسایوں پر احسانات ہیں بلکہ میرے دشمنوں پر بھی اُس کے احسانات ہیں ، وہ مجھے اور میرے عزیزوں کو بھی رزق دیتا ہے، میرے دشمنوں کو بھی رزق دیتا ہے اس لیے وہ اس قابل ہے کہ میں اُسی کے آگے جھکوں.چنانچہ وہ بے اختیار ہو کر کہہ اٹھتا ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ یعنی اے خدا! جب تو مجھے بن مانگے دے رہا ہے تو میں کسی اور سے کیوں مانگوں؟ میں تجھ سے ہی مانگوں گا.دوسرا کوئی میری ضرورت کو کیا پورا کرے گا.وہ تو مانگوں بھی تو کچھ نہیں دے سکتا اور تو مجھے بن مانگے دے رہا ہے.اور پھر مجھے ہی نہیں دے رہا بلکہ ان کو بھی دے رہا ہے جو تیرے نبیوں کے دشمن ہیں اور تجھ کو بھی گالیاں دیتے ہیں.مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ اوّل فرمایا کرتے تھے دیکھو! اللہ تعالیٰ نے انسان کو زبان عطا فرمائی ہے جس سے وہ اُسے گالیاں بھی دے لیتا ہے مگر وہ اس قانون کو کہ زبان کڑوے کو کڑوا اور میٹھے کو میٹھا کی چکھے کبھی تبدیل نہیں کر سکتا.گویا خدا تعالیٰ نے ایک طرف تو انسان کو اپنے قانون کا ایسا پابند بنایا ہے کہ وہ اُس کے خلاف نہیں کر سکتا اور دوسری طرف اسے ایسا با اختیار بنایا ہے کہ وہ چاہے تو اس زبان کے ساتھ خدا تعالیٰ کو بھی گالیاں دے لے یا چاہے تو اُس کی تسبیح و تحمید کرے.پھر وہ کہتا ہے.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ 15 اے خدا! تو مجھے صراط مستقیم دکھا دے.اب سوال یہ ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ سے صراط مستقیم مانگتے ہیں وہ صراط مستقیم کے لیے کوئی
خطبات محمود جلد نمبر 39 289 $1958 کوشش بھی کرتے ہیں یا نہیں؟ یہ کتنے ظلم کی بات ہے کہ ہم خدا تعالیٰ سے صراط مستقیم تو مانگتے ہیں لیکن صراط مستقیم کے لیے کوشش نہیں کرتے.یہ تو منافقت کی علامت ہے کہ ہم چونتیس دفعہ خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں صراط مستقیم دکھا لیکن ہمارا طریق یہ ہے کہ اگر ہمارا کوئی دوست ذراسی بات بھی خدا اور اُس کے رسول کے خلاف ہمارے کان میں ڈالے تو ہم اُسے تسلیم کر لیتے ہیں اور خدا اور اُس کے رسول کے مخالف ہو جاتے ہیں.اس کے معنے یہ ہیں کہ ہم روزانہ نمازی میں کھڑے ہو کر میں سے زیادہ دفعہ جھوٹ بولتے ہیں اور کہتے تو یہ ہیں کہ اے اللہ! تو ہمیں صراط مستقیم بخش! لیکن عملاً ہم ٹیڑھا رستہ اختیار کر لیتے ہیں حالانکہ ہم خالی رستہ بھی نہیں مانگتے بلکہ کہتے ہیں صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ 16 ہمیں نبیوں والی صراط مستقیم دکھا یعنی ما نگتے تو یہ کی ہیں کہ ہمیں وہ طریق بتا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا، وہ رستہ بتا جو حضرت موسی علیہ - السلام نے اختیار کیا، وہ رستہ بتا جو حضرت عیسی علیہ السلام کا تھا، جو حضرت زکریا علیہ السلام کا تھا، جو حضرت یحییٰ علیہ السلام کا تھا، جو حضرت حزقیل علیہ السلام کا تھا، جو حضرت یرمیاہ علیہ السلام کا تھا، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تھا، جو حضرت نوح علیہ السلام کا تھا، جو حضرت آدم علیہ السلام کا تھا.گویا ہم کوئی چھوٹی بات نہیں مانگتے بلکہ سارے نبیوں کے کمالات مانگتے ہیں لیکن خود ایک منافق جتنا کام بھی نہیں کرتے.اس کے معنے یہ ہیں کہ ہم اپنے منہ سے اپنے جھوٹا ہونے کا اقرار کرتے ہیں.اور جب ہم اپنے جھوٹا ہونے کا خود اقرار کرتے ہیں تو ہماری دُعا کیوں قبول ہو؟ پھر انسان کہتا ہے کہ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ 17 که البى ! ہمیں یہودیوں جیسا نہ بنائیں ہمیں عیسائیوں جیسا نہ بنائیو بلکہ ہمیشہ اُن لوگوں میں شامل رکھیو جو تیری رضا کی حاصل کر چکے ہیں.اگر ہم اخلاص سے یہ دعا مانگیں تو یقینا ہمیں خدا تعالیٰ قیامت تک عیسائیوں اور یہودیوں کے نقش قدم پر چلنے سے بچائے گا اور اسلام کی فتح کے نقارے دنیا میں بجنے لگ جائیں گے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اب احمدیوں کے ہاتھ سے کوئی اکا دُکا مسلمان ہوتا ہے اور غیر احمدی اس سے بہت متاثر ہوتے ہیں.مگر سوال یہ ہے کہ اس سے اسلام کا غلبہ نہیں ہوتا.غلبہ کے تو یہ معنے ہیں کہ اسلام اتنا پھیل جائے کہ دوسرے تمام مذاہب دب جائیں لیکن ابھی وہ بات پیدا نہیں ہوئی اور یہ نقص صرف اس لیے ہے کہ ہم سورۃ فاتحہ پورے اخلاص سے نہیں پڑھتے.اگر ہم سورۃ فاتحہ پور.
$1958 290 خطبات محمود جلد نمبر 39 اخلاص سے پڑھیں تو یقیناً اللہ تعالیٰ اسلام کو ایسا غلبہ عطا کر دے گا کہ دوسرے ادیان اس کے مقابلہ میں بالکل بے حقیقت ہو جائیں گے اور جس طرح خدا تعالیٰ کی بادشاہت آسمان پر ہے ویسے ہی زمین پر بھی اُس کی بادشاہت آ جائے گی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نشانات کے لحاظ سے ہمارے لیے زمین پر بھی خدا تعالیٰ کی بادشاہت ہے مگر ہم تو چاہتے ہیں کہ ظاہری بادشاہت بھی خدا تعالی کی ہو اور ظاہری بادشاہت اُسی وقت نظر آسکتی ہے جب روس بھی مسلمان ہو جائے، امریکہ بھی مسلمان ہو جائے، برطانیہ بھی مسلمان ہو جائے ، جرمنی بھی مسلمان ہو جائے ، ہندوستان بھی مسلمان ہو جائے اور اس طرح ظاہری اور باطنی دونوں بادشاہتیں مل کر کفر کو دنیا سے مٹا ڈالیں“.(الفضل 11 جنوری 1959ء) 1 : الحجر : 88 2: الفاتحة : 2 3 : بنی اسرائیل: 21 4 : الفاتحة : 3 :5 الفاتحة : 4 6: يوسف : 93 7 : بخاری کتاب المناقب باب علامات النُّبُوَّةِ فِي الْإِسْلَامِ 8 : السيرة الحلبية جلد 3 صفحہ 97 مطبوعہ مصر 1936ء 9 : السيرة الحلبية جلد 3 صفحہ 89 مطبوعہ مصر 1936ء 10 : سیرت ابن هشام جلد 3 صفحه 858 ، 859 مطبوعه دمشق 2005 ء 11 : بخاری کتاب المغازى باب فَضُلُ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا 12 : السيرة الحلبية جلد 3 صفحه 107،106 مطبوعہ مصر 1935ء 13 : الاستيعاب في معرفة الاصحاب جلد 3 صفحه 191 مطبوعہ بیروت 1995ء 14 : الفاتحة : 5 15: الفاتحة : 6 :16 الفاتحة : 7 :17: الفاتحة : 7
$ 1958 291 (34) خطبات محمود جلد نمبر 39 جلسہ سالانہ پر آنے والے دوست سردی سے بچاؤ کے لیے پورا بستر اور کپڑے ہمراہ لائیں جلسے کے موقع پر کھانے کے سلسلے میں اگر دوستوں کو کوئی تکلیف ہو تو اُسے ثواب سمجھ کر برداشت کریں (فرمودہ 12 دسمبر 1958ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اس سال موسم بہت خراب رہا ہے اور اب تک بھی خراب ہی چل رہا ہے اور جلسہ سالانہ کے دن بہت قریب آگئے ہیں.پہلے جلسہ کے دنوں میں ربوہ میں کچھ گرمی ہو جاتی تھی مگر اس سال جس طرح گرمی زیادہ پڑی تھی خشک سردی بھی زیادہ پڑ رہی ہے.اس لیے قرآن شریف کے اس حکم کے ماتحت کے لَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ 1 اور اس حکم کے ماتحت کہ خُذُوا حِذْرَكُمْ 2 ہمیں بہت زیادہ احتیاط سے کام لینا چاہیے.نماز ایک بڑا اہم فریضہ ہے مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر جنگ کے موقع پر تم نماز پڑھنے لگوتو ہتھیار ساتھ رکھ لیا کرو تا کہ وہ وقت پر کام آ سکیں.اب چونکہ جنگ کا زمانہ نہیں بلکہ ارشاد و اصلاح کا زمانہ ہے اس لیے اب حذر “.
292 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 را د تلوار نہیں بلکہ اس موسم کو مد نظر رکھتے ہوئے خُذُوا حِذْرَكُمْ سے مُراد یہ ہے کہ تم اپنے کپڑے تیار رکھا کرو.سو میں دوستوں کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ جب وہ جلسہ سالانہ کے موقع پر ربوہ آئیں تو اپنا بستر اور پورے کپڑے ساتھ لائیں کیونکہ کئی جلسوں پر دیکھا گیا ہے کہ کمزور آدمی جلسہ کے دنوں میں سردی کی برداشت نہ کرنے کی وجہ سے واپس جاتے ہی نمونیا یا کسی اور مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور آپ لوگ جانتے ہیں کہ ایک ایک آدمی کا احمدی بنانا کتنا مشکل ہوتا ہے.سالہا سال کے بعد کہیں جا کر ایک آدمی تیار ہوتا ہے.پس اس کے ضائع ہونے پر اتنا ہی افسوس ہوتا ہے.سو ہماری جماعت کو اپنی جانوں کی حفاظت اور بچاؤ کے لیے پوری کوشش کرنی چاہیے.جنگ کے ماہرین کہتے ہیں کہ اسلامی جنگوں میں اسلامی لشکر اور غیر اسلامی لشکر میں یہی فرق ہوتا تھا کہ غیر اسلامی لشکر تہور سے کام لیتا تھا اور اسلامی لشکر جرات سے کام لیتا تھا.جاپانیوں میں بھی یہی ہے کہ جو مر جائے اُس کی بڑی قدر کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص کی بڑا بہادر ہے کیونکہ وہ قوم اور ملک کی خاطر مر گیا.مگر اسلامی جنگوں میں مرنے والے سے مارنے والے کی زیادہ قدر کی جاتی ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس نے کتنے آدمی مارے ہیں.اسی طرح جلسہ کے دنوں میں قربان ہو جانا زیادہ قابل قدر چیز نہیں بلکہ جلسہ کے بعد لوگوں کو ہدایت کی طرف لا نا قابل قدر چیز ہے تا کہ جماعت جتنی زیادہ پھیل سکے پھیل جائے.پس ہماری جماعت کو کی تہو رنہیں دکھانا چاہیے بلکہ شجاعت دکھانی چاہیے.عربی زبان میں تہو ر اس بات کو کہتے ہیں کہ جان کی پروانہ کی جائے اور اندھا دھند قربانی کی جائے اور شجاعت اس کو کہتے ہیں کہ ایسی دلیری سے کام کیا جائے کہ کام کرنے والا اپنی جان بھی بچائے اور دشمن کو بھی زیر کرنے کی کوشش کرے.غیر قوموں میں بے شک تہور کو بڑی قابلِ قدر چیز سمجھا جاتا ہے لیکن عرب قوموں کی اور اسلام میں شجاعت کو بڑا سمجھا جاتا ہے.پس ہمارا صرف یہ کام نہیں کہ ہم اسلام کے لیے اپنی جان قربان کر دیں بلکہ یہ کام بھی ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ ایسے آدمی کھینچ کر لائیں جو اسلام کے لیے قربانیاں کرنے والے ہوں.غرض جلسہ میں شمولیت بڑے ثواب کا کام ہے لیکن ساتھ ہی دوستوں کو یہ خیال بھی رکھنا اہیے کہ جماعت کو بڑھانا اور حق کی اشاعت کرنا اس سے بھی بڑا کام ہے.اپنی جان کی حفاظت کرنا
$1958 293 خطبات محمود جلد نمبر 39 بز دلی نہیں بلکہ بہادری ہے.پس ہماری جماعت کو جلسہ کے دنوں میں اچھی طرح تیاری کر کے آنا چاہیے.میں نے دیکھا ہے کہ جب جلسہ لمبا ہو جاتا ہے تو شام کے وقت سردی میں بھی دوست بیٹھے رہتے ہیں.میرے بہنوئی عبداللہ خان صاحب دو دفعہ جلسہ پر ربوہ آئے اور دونوں دفعہ ہی انہیں دل کا دورہ ہو گیا کیونکہ وہ شوق میں جلسہ سننے چلے جاتے تھے اور جلسہ میں سردی لگ جاتی تھی.میں نے پچھلے سال جلسہ سالانہ کے دنوں میں اپنے پہرہ داروں کو کہہ دیا کہ وہ دوپہر تک تو بیشک وہاں رہیں لیکن ذرا دھوپ کم ہو تو انہیں واپس بھیج دیا کریں کیونکہ وہ بیمار ہیں.ان کے لیے اور حکم ہے اور تندرستوں کے لیے اور حکم ہے.تندرستوں کے لیے تو یہ حکم ہے کہ وہ جلسہ سے پوری طرح فائدہ اٹھا ئیں اور ساری تقریریں سنیں.مجھے یاد ہے جب میں تندرست تھا تو بڑی لمبی لمبی تقریریں کرتا تھا.ایک دفعہ مولوی محمد اسماعیل صاحب و شٹھی مسیح والے آئے اور کہنے لگے کہ آپ غریبوں کا بھی خیال رکھا کریں.وہ بہت بوڑھے ہو گئے تھے اور ان کے پراسٹیٹ گلینڈ ز بڑھ گئے تھے جس کی وجہ سے انہیں بار بار پیشاب آتا تھا.کہنے لگے آپ ہمارا بھی خیال رکھا کریں.میں نے کہا آپ ضرورت پر چلے جایا ئی کریں.کہنے لگے مصیبت تو یہی ہے کہ جب میں اٹھنے لگتا ہوں تو آپ کوئی نیا نکتہ بیان کرنا شروع کی کر دیتے ہیں اور میں کہتا ہوں یہ سن لوں.اس کے بعد جب پھر اٹھنا چاہتا ہوں تو آپ کوئی اور نکتہ شروع کر دیتے ہیں پھر میں بیٹھ جاتا ہوں کہ یہ سن لوں.اسی طرح ہوتے ہوتے یہ کیفیت ہو جاتی ہے کہ مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ پیشاب کی وجہ سے میرا مثانہ پھٹ جائے گا.بہر حال جو دوست بیمار ہیں انہیں اپنی صحت کا خیال رکھنا چاہیے اور جو بیمار نہیں وہ بھی احتیاط رکھیں.دیکھو میں تندرستی میں ڈیڑھ ڈیڑھ، دو دو گھنٹہ بھی خطبہ کہہ لیتا تھا لیکن اب بعض دفعہ پانچ چھ منٹ ہی بول سکتا ہوں کیونکہ بیماری کی وجہ سے مجبوری ہوتی ہے.مجھے یاد ہے جب قادیان میں احرار کا جلسہ ہوا تو کئی دفعہ ایسا ہوا کہ میں خطبہ دینے کے لیے کھڑا ہوا تو عصر کا وقت آ گیا اور لوگوں نے کہا کہ جمعہ کے ساتھ عصر کی نماز بھی پڑھا دیں.تو یہ چیز تندرستی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.دوستوں کو چاہیے کہ سردی سے بچاؤ کے لیے اپنے پورے بستر ساتھ لائیں اور کپڑوں کا بھی خیال رکھیں.پھر دوستوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس دفعہ حکومت کی طرف سے بعض ایسی
294 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 پابندیاں عائد ہیں جن کی وجہ سے ممکن ہے ہمیں کھانے میں کچھ رد و بدل کرنا پڑے.مثلاً کچھ دن گوشت کے ناغہ کے مقرر ہیں.افسران جلسہ سالانہ حکومت کے افسروں سے مل کر کوشش تو کرتی رہے ہیں کہ ناغہ کے دنوں میں گوشت کی اجازت مل جائے لیکن اگر اجازت نہ ملی تو دال اور اجی آلوؤں پر گزارہ کرنا پڑے گا.یہ بھی ممکن ہے کہ وہ مچھلی کا انتظام کر لیں لیکن اتنی مچھلی بھی نہیں مل سکتی جو جلسہ سالانہ پر آنے والوں کے لیے کافی ہو سکے.آٹے کے متعلق حکومت نے وعدہ کیا ت ہے کہ اگر ہم ثابت کر دیں کہ ہمارا خرچ زیادہ ہے تو وہ گندم کی مقدار بڑھا دیں گے مگر سر دست جو اجازت انہوں نے دی ہے ہمارا خرچ اُس سے زیادہ ہوتا ہے.غرض کھانے میں اگر دوستوں کو کوئی تکلیف ہو تو اُسے برداشت کرنا چاہیے اور اس کو ثواب سمجھنا چاہیے.یہ بھی ایک رنگ کی قربانی ہی ہے.اگر گورنمنٹ گوشت کی اجازت نہ دے تو دال اور آلوؤں پر گزارہ کرنا چاہیے.اور اگر گندم کی اجازت نہ دے تو دو روٹیوں کی بجائے ایک روٹی پر ہی گزارہ کر لینا چاہیے.قادیان میں بھی بعض اوقات گندم کے حصول میں ہمیں مشکلات پیش آ جاتی تھیں باہر سے گندم لانے کی اجازت ہوتی تھی تو میں اعلان کر دیا کرتا تھا کہ باہر سے جو احمدی آئیں وہ آٹا یا غلہ وغیرہ ساتھ لائیں.مجھے یاد ہے ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر جب مہمان اُ رہے تھے تو ایک احمدی دوست بوری اٹھائے ہوئے آئے.وہ امیر آدمی تھے اور ڈاکٹر تھے.میں نے کہا ڈاکٹر صاحب! آپ نے یہ بوری کیسی اٹھائی ہوئی ہے؟ انہوں نے کہا آپ نے جو کہا تھا کہ غلہ لے آؤ میں آٹا لے آیا ہوں تاکہ جلسہ کے کام آ جائے.چنانچہ انہوں نے میرے سامنے ہی آٹا ایک طرف اُتار کر رکھ دیا.اب تو وہ فوت ہو چکے ہیں.بہر حال بڑے اخلاص سے لوگ آٹا ساتھ لے آتے تھے.لیکن اب تو باہر سے گندم لانا بھی منع ہے کیونکہ ہمارے ملک میں غلہ کی بہت کمی ہے.حکومت کوشش تو کر رہی ہے کہ پیداوار زیادہ ہو جائے لیکن وہ تو اگلے سال ہی ہوسکتی ہے اس سال کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا.اگلے سال کے حالات بھی اس وقت تک تو خراب ہی نظر آتے ہیں کیونکہ ابھی تک بارش نہیں ہوئی.بارش کا یہ اصول ہے کہ اگر دس فروری سے پہلے پہلے ہو جائے تو غلہ زیادہ ہوتا ہے اور اگر بعد میں ہو تو نئی شاخ نہیں نکلتی اور دانہ موٹا ہو جاتا ہے.حالانکہ دانے کی زیادتی شاخ کے پیدا ہونے سے ہوتی ہے.اگر اللہ تعالیٰ فضل کر دے اور دس
$1958 295 خطبات محمود جلد نمبر 39 فروری سے پہلے پہلے بارش ہو جائے تو پھر دانہ بھی موٹا ہوگا اور سٹے بھی زیادہ لگ جائیں گے اور کی اس طرح پیداوار میں زیادتی ہو جائے گی.ہو مگر یہ حال صرف ہمارے ملک کا ہی نہیں بلکہ بعض کی دوسرے ممالک کا بھی یہی حال ہے.چنانچہ شام کے مبلغ کا خط آیا ہے کہ میں یہاں کے سابق پریذیڈنٹ سے ملا اور اُس سے کہا کہ تم احمدیوں سے دُعا کراؤ کہ بارش ہو جائے.اُس نے مجھے لکھا کہ جنرل ناصر کو بھی تحریک کی جائے کہ ہم سے دُعا کرائیں کہ بارش ہو جائے کیونکہ اگر دُعائی قبول ہو گئی تو انہیں ہم سے عقیدت ہو جائے گی.میں نے اُسے لکھا کہ اگر جنرل ناصر کو معجزہ کی دیکھنے کی خواہش ہوتی تو وہ آپ لکھتے ہمیں لکھنے کی کیا ضرورت ہے.جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت دینا چاہتا ہے اُس کے دل میں وہ آپ تحریک کرتا ہے کہ دُعا کی درخواست کرے.اگر جنرل ناصر خود کی لکھتے کہ دُعا کریں مصر اور شام میں بارش ہو جائے تو پھر ہم دُعا بھی کرتے اور خدا کے فضل سے فائدہ بھی ہو جاتا لیکن اگر اُن کے دل میں خود یہ خواہش پیدا نہیں ہوئی تو ہمارا اُنہیں یہ بات لکھنا اپنے آپ کو ذلیل کرنا ہے.پھر سوال یہ ہے کہ جو معجزات پہلے ظاہر ہو چکے ہیں اُن سے اُنہوں نے کیا فائدہ اٹھایا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا اور اُس کے نے کہا حضور ! میں نے معجزہ دیکھنا ہے.میں بچہ ہی تھا اور آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمانے لگے پہلے یہ بتائیے کہ خدا تعالیٰ جو ہزاروں معجزات دکھا چکا ہے اُن سے آپ نے کیا فائدہ اٹھایا ہے؟ اگر آپ نے اُن معجزات سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا تو خدا تعالیٰ آپ کے لیے نیا معجزہ کیوں دکھائے ؟ اللہ تعالیٰ تو اپنے معجزات اُسے دکھاتا تو ہے جو اُن سے فائدہ اٹھائے.خدا تعالیٰ ہزاروں معجزات دکھا چکا ہے مگر آپ نے اُن سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور اب آپ نیا معجزہ مانگنے آگئے ہیں، یہ تو اللہ تعالیٰ کا امتحان لینے والی بات ہے.اور خدا تعالیٰ طالب علم نہیں کہ اُس کا امتحان لیا جائے.آپ خدا تعالیٰ کے بندے ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس خطبہ کے بعد کچھ بارش ہو گئی اور گوز یادہ بارش نہیں ہوئی مگر بہر حال کچھ نہ کچھ بارش ہو گئی ہے.
$1958 296 خطبات محمود جلد نمبر 39 اُس نے آپ کے لیے پہلے ہزاروں معجزات دکھائے ہیں مگر آپ نے اُن سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا پھر وہ آپ کو نیا معجزہ کیوں دکھائے ؟“ 1 : البقرة: 196 2 : النساء : 103 (الفضل 19 دسمبر 1958ء)
$ 1958 297 35 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ خواتین کی دینی تعلیم کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ کرے جمعہ اسلام کے نہایت اہم ارکان میں سے ہے عورتوں کو اس امر میں ضرور شریک ہونا چاہیے (فرمودہ 26 دسمبر 1958ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوّ ذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: یوں تو عام طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ مختصر کیا کرتے تھے اور نماز لبی پڑھاتے تھے 1 اور اس کا آپ کے صحابہ پر اس قدر اثر تھا کہ جب حضرت عثمان خلیفہ ہوئے تو آپ خطبہ کے لیے ممبر پر کھڑے ہوئے اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد عربی کا خطبہ پڑھا اور نیچے اُتر آئے لیکن آج تو ضرورت کی وجہ سے بھی خطبہ مختصر پڑھنا چاہیے اور پھر میری صحت بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ خطبہ مختصر ہو کیونکہ اگر خطبہ یا نماز لمبی ہو جائے تو بعد کی تقریروں میں نقص پیدا ہو جاتا ہے اس لیے مجبوری کے طور پر بھی جلسہ کے دنوں میں خطبہ کو مختصر کرنا پڑتا ہے.چنانچہ آج میں اختصار کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جمعہ، اسلام کے نہایت اہم ارکان میں سے ہے.قرآن کریم اس کے متعلق فرماتا ہے کہ اِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلى ذِكْرِ اللهِ 2 یعنی
$1958 298 خطبات محمود جلد نمبر 39 جب جمعہ کی اذان ہو تو تم جلدی جلدی باقی تمام کام چھوڑ کر جمعہ کی نماز کے لیے چلے جایا کرو.حقیقت یہ ہے کہ نماز جمعہ مسلمانوں کے لیے مدرسہ کے طور پر ہے.اس میں لوگ امام سے مختلف باتیں سنتے ہیں جن میں انہیں دین کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جماعت کا مرکزی حصہ مدینہ میں رہتا تھا.اور ان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جماعت کا مرکزی حصہ قادیان میں رہتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کبھی کبھی عورتوں میں بھی تقریر فرمایا کرتے تھے جس طرح رسول ا کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی کبھی کبھی عورتوں میں تقریر فرمایا کرتے تھے.حضرت خلیفہ اول بھی عورتوں میں ہر تیسرے دن درس دیا کرتے تھے.اب ہماری باہر کی جماعتیں درس القرآن سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتیں کیونکہ ہمارے پاس نہ تو زیادہ عالم ہیں اور نہ مبلغ ہیں اس لیے عورتوں کو اسلام نے ہدایت دی ہے کہ وہ نماز جمعہ میں شامل ہوا کریں.مجھے یہ بات سن کر نہایت افسوس ہوا کہ ہزارہ کے مبلغ نے مجھ سے ذکر کیا کہ صوبہ سرحد میں عورتیں جمعہ میں نہیں جاتیں کیونکہ اُن کے مرد کہتے ہیں کہ ہم خان ہیں ہماری اس میں ہتک ہوتی ہے.لیکن اسلام کا رتبہ خانوں اور پٹھانوں سے بھی بڑا ہے.اول تو ہمیں یہ ان فیصلہ کرنا چاہیے کہ مسلمان بڑا ہوتا ہے یا خان بڑا ہوتا ہے.نیک محمد خان صاحب پہلے پہلے قادیان آئے تو وہ چھوٹے بچے تھے، اُن کا باپ قندھار کا گورنر تھا.حضرت خلیفہ اول کا جب آپریشن ہونے لگا تو اس خیال سے کہ لوگ ہجوم کریں گے اور اس سے کہیں آپریشن خراب نہ ہو جائے نیک محمد خان کو کمرہ سے باہر پہرہ پر کھڑا کر دیا گیا.اکبر شاہ نجیب آبادی کا یہ دعوی ہوا کرتا تھا کہ میں حضرت خلیفہ اول کا بہت پیارا ہوں اس لیے وہ یہ کی سنتے ہی کہ حضرت خلیفہ اول کا آپریشن ہونے لگا ہے دوڑتے ہوئے آئے لیکن جب وہ کمرہ میں داخل ہونے لگے تو نیک محمد خاں نے روک لیا.اس پر وہ کہنے لگے تم نہیں جانتے میں کون ہوں؟؟ نیک محمد خاں کہنے لگے آپ کون ہیں؟ انہوں نے کہا میں پٹھان ہوں.اکبر شاہ خان یو.پی کے رہنے والے تھے اور نسلاً پٹھان تھے لیکن نیک محمد خان افغانستان سے تھوڑا ہی عرصہ پہلے آئے تھے.اس خطبہ کے بعد پشاور کے جو موجودہ امیر ہیں اُنہوں نے کہا کہ یہ کسی خاص شہر کی بات ہوگی ورنہ ہمارے ہاں تو پشاور میں عورتیں جمعہ کے لیے باقاعدگی سے جاتی ہیں.
$1958 299 خطبات محمود جلد نمبر 39 نیک محمد خان نے کہا تم نہیں جانتے میں کون ہوں.اکبر شاہ نے کہا ہاں ! بتاؤ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا میں احمدی ہوں.اس پر وہ شرمندہ ہو کر الگ ہو گئے.تو در حقیقت اسلام اور احمدیت کا رتبہ پٹھان اور خان سے بڑا ہے ورنہ ہمیں ماننا پڑے گا کہ ایک پٹھان نَعُوذُ بِاللهِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑا ہوتا ہے.ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک پٹھان فقہ پڑھا کرتا تھا.اس نے فقہ کی کتاب کنز پڑھی ہوئی تھی اور اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ مذہب حنفی یہ ہے کہ حرکت کبیرہ سے نماز ٹوٹ جاتی ہے.اس کے بعد ایک دن اُس پٹھان نے حدیث میں پڑھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض دفعہ نماز پڑھتے اور حضرت حسن اور حسین رو پڑتے تو آپ انہیں اُٹھا لیتے.جب سجدہ میں جاتے تو انہیں زمین پر بٹھا دیتے اور جب سجدہ سے اٹھتے تو دوبارہ اُٹھا لیتے.اس پر اُس پٹھان نے کہا خو ! محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا.کوئی سنے والا بھی پاس موجود تھا.اُس نے کہا کمبخت ! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہمیں نماز سکھائی ہے اور تم کہتے ہو محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا.اس پر وہ کہنے لگا کنز میں اسی طرح لکھا ہے.تو جن قوموں میں دین سے غفلت پیدا ہو جاتی ہے اُن میں ایسی باتیں آ جاتی ہیں.پس اگر یہ بات ٹھیک ہے کہ مردان، پشاور اور ہزارہ کی عورتیں جمعہ میں نہیں جاتیں اور وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے ہیں اور خان ہیں تو انہیں یا درکھنا چاہیے کہ احمدی اور مسلمان اس سے بڑا ہوتا ہے.کوئی خان ہو یا تی پٹھان ہو بلکہ پٹھانوں کا بادشاہ بھی ہو تب بھی وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہے.کیونکہ اگر چہ وہ پٹھانوں کا بادشاہ ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سب کے بادشاہ ہیں.پس پٹھان یا خان ہونے سے کسی کی بڑائی نہیں ہوتی.بڑائی اسلام اور احمدیت سے ہوتی ہے.اور اسلام اور احمدیت کے سیکھنے کا ذریعہ چونکہ جمعہ ہے اس لیے جلسہ کے موقع پر جبکہ پشاور، مردان اور ہزارہ وغیرہ کے علاقہ کے لوگ آئے ہوئے ہیں میں اُن سب کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی بیویوں اور لڑکیوں کو جمعہ میں ضرور بھیجا کرو تا کہ وہ دین سیکھیں اور اس سے واقف ہو جائیں.ورنہ اگر وہ دین سے واقف نہیں ہوں گی تو جماعت میں بہت سی خرابیاں پیدا ہو جائیں گی.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فیصلہ کیا کہ آپ عورتوں میں تقریر فرمایا کریں گے.جس عورت نے تقریر کی تحریک کی تھی وہ ان پڑھ تھی لیکن اس کا خاوند بڑا مخلص تھا.اب اُس
300 $ 1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 کا داماد ہ بہت مخلص ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عام طور پر وفات مسیح پر تقریر فرمایا کرتے تھے.چنانچہ آپ نے عورتوں میں چند تقریریں کیں.ایک دن آپ نے اُس عورت سے پوچھا کہ بتاؤ میں نے اپنی تقریروں میں کیا کچھ بتایا ہے؟ اُس نے کہا آپ نے خدا اور اُس کے رسول کی باتیں ہی بیان کی ہوں گی اور کیا بیان کیا ہوگا.اس کا آپ کو ایسا صدمہ ہوا کہ آپ نے عورتوں میں تقریریں کرنا ہی بند کر دیا..تو عورتوں میں تعلیم بہت کم ہوتی ہے.اول تو وہ تقریر اور خطبہ سن کر بھی یہی کہتی ہیں کہ خدا کی اور رسول کی ہی باتیں ہوں گی.کوئی معین مضمون ان کی سمجھ میں نہیں آتا.لیکن اگر وہ بار بار دین کی باتیں سنتی رہیں تو جب ایک جانور بھی بار بار سن کر ایک بات سمجھ لیتا ہے تو عورت تو آخر انسان ہے اور خدا تعالیٰ نے اُسے بڑا روشن دماغ دیا ہوا ہے.اگر وہ خدا اور اس کے رسول کی باتیں بار بار سنے گی تو وہ کی باتیں اُسے یاد ہو جائیں گی اور وہ پکی مسلمان ہو جائے گی لیکن اگر وہ دین کی باتیں بار بار نہیں سنے گی تو می اس کا اسلام پختہ نہیں ہو گا وہ کچا رہے گا اور وہ موقع پر پوری طاقت نہیں دکھا سکے گی لیکن جو عور تیں اسلام کو سمجھ جاتی ہیں وہ بعض دفعہ اپنے ایمان میں اتنی پختہ ثابت ہوتی ہیں کہ انہیں دیکھ کر حیرت آتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تو اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں مگر میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی ایک ان پڑھ عورت آئی اور کہنے لگی حضور ! میرا بیٹا عیسائی ہو گیا ہے.آپ دعا کریں وہ پھر مسلمان ہو جائے.آپ نے فرمایا تم اُسے میرے پاس بھیجا کرو کہ وہ خدا کی باتیں سنا کرے.اُس لڑکے کو سل کی بیماری تھی اور اُس کی والدہ اُسے قادیان میں حضرت خلیفہ اول کے پاس علاج کروانے لائی ہوئی تھی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُسے نصیحت کرتے رہے اور اسلام کی باتیں سمجھاتے رہے لیکن عیسائیت اُس کے اندر اتنی راسخ ہو چکی تھی کہ جب آپ کی باتوں کا اُس کے دل پر اثر ہونے لگا تو اُس نے خیال کیا کہ میں کہیں مسلمان ہی نہ ہو جاؤں.چنانچہ ایک رات وہ ماں کو غافل پا کر بٹالہ کی طرف بھاگ گیا جہاں عیسائیوں کا مشن تھا.جب اُس کی ماں کو پتا لگا تو وہ راتوں رات پیدل بٹالہ گئی اور اُسے کی پکڑ کر قادیان واپس لائی.مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ عورت ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری
301 $1958 خطبات محمود جلد نمبر 39 قدموں پر گر جاتی تھی اور کہتی تھی مجھے اپنا بیٹا پیارا نہیں مجھے اسلام پیارا ہے.میرا یہ اکلوتا بیٹا ہے مگر میری خواہش یہ ہے کہ یہ ایک دفعہ مسلمان ہو جائے ، پھر بیشک مر جائے مجھے کوئی افسوس نہیں ہو گا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے اُس کی یہ التجا قبول کی اور وہ لڑکا مسلمان ہو گیا اور اسلام لانے کے چند دن بعد مر گیا.تو بعض عورتیں بعض مردوں سے بھی زیادہ اسلام میں پکی ہوتی ہیں.مرد بعض اوقات کمزوری دکھا جاتے ہیں مگر عورتوں میں بڑی ہمت ہوتی ہے.افریقہ سے ایک عورت آئی.وہ پینتیس سال کے بعد وطن واپس آئی تھی.وہیں اُس کا خاوند فوت ہو گیا تھا.واپس آئی تو اس نے مجھے بتایا کہ میری یہاں ایک بہن ہے.اُس نے کہا ہے کہ میری لڑکیاں ہیں اُن سے اپنے بیٹوں کی شادی کر دو.میں نے کہا ان کو لٹریچر دو تا کہ وہ اس کا مطالعہ کریں اور انہیں احمدیت سے واقفیت ہو جائے تو پھر بیشک شادی کر دینا.اس پر اُس نے کہا اگر غیر احمدی لڑکی سے شادی کرنا درست نہیں تو میں انہیں چھوڑ دیتی ہوں.مجھے ان کو چھوڑ دینا منظور ہے حالانکہ وہ پینتیس سال کے بعد واپس آئی تھی اور اپنی بہن سے ملی تھی.میں نے کہا تم جواب نہ دو انہیں لٹریچر دو اور کہو وہ اس کا مطالعہ کریں.اگر تمہاری اور تمہاری کی بیٹیوں کی سمجھ میں آجائے اور وہ احمدی ہو جائیں تو میں اپنے لڑکوں کی شادی تمہاری بیٹیوں سے کر دوں گی اور نہ نہیں کروں گی.اس پر اُس نے کہا میں اسی طرح کر لیتی ہوں.لیکن کئی مرد بڑی ضد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہاں شادی کر لیں تو یہ فائدہ ہوگا کہ ایک اور خاندان احمدیت میں داخل ہو جائے گا.اور وہ اتنا مغز کھاتے ہیں کہ انسان کے سر میں درد شروع ہو جاتی ہے.لیکن وہ عورت سنتے ہی کہنے لگی بس میں اپنی بہن سے کہہ دیتی ہوں کہ میں اس کی لڑکیاں نہیں لے سکتی.تو عورتیں بعض دفعہ خدا تعالیٰ کے فضل سے مردوں سے بھی اخلاص میں بڑھی ہوئی ہوتی ہیں.کئی مرد کمزوری دکھا جاتے ہیں اور عورتیں اپنے اخلاص کی وجہ سے اُن سے آگے بڑھ جاتی ہیں اور اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ بعض مردا اپنی عورتوں کو دین کی باتیں سکھاتے رہتے ہیں.کراچی میں ایک احمدی دوست تھے.اُن کی بیوی غیر احمدی تھی.وہ جب کبھی جلسہ پر آتے تو لٹریچر ساتھ لے جاتے.ایک دن اُن کی بیوی نے کہا آپ اردو میں لٹریچر لایا کریں تا میں بھی پڑھائی کروں.چنانچہ وہ اردو کا لٹریچر گھر لے جانے لگے.وہ عورت لٹریچر مطالعہ کرتی رہی اور کچھ عرصہ کے بعد احمدی ہوگئی اور اب تو وہ بہت مخلص ہے.اس نے اسی سال میری ایک بیوی کو لکھا تھا کہ میں جلسہ
خطبات محمود جلد نمبر 39 302 $ 1958 09 آ رہی ہوں لیکن وہ بعض وجوہات کی بناء پر نہیں آسکی.مجھے یاد ہے میں پچھلی دفعہ کراچی گیا تو وہ ای میرے پاس آکر روتی تھی کہ میری بیٹی کا لج میں پڑھتی ہے، کوئی ایسی کتاب دیں جو میں اُسے دوں اور وہ اُسے پڑھتی رہے.ایسا نہ ہو کہ وہ کالج کے اثر کے نیچے دین سے دور چلی جائے.تو یہ چیز اللہ تعالیٰ کی ہی دین ہے اور چونکہ کئی عورتوں نے نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا ہے اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ دوسری عورتوں کو دین کی باتیں سیکھنے سے محروم رکھا جائے.یہاں ربوہ میں عورتوں نے اپنا ایک ہال بنایا ہوا ہے.پھر انہوں نے ایک K.G.SCHOOL اور ایک سلائی کا سکول کھولا ہوا ہے.K.G.SCHOOL میں لڑکے بھی پڑھتے ہیں لیکن لڑکے اکثر فیل ہو جاتے ہیں اور لڑکیاں پاس ہو جاتی ہیں.تو جس طرح عورتیں دنیا کے علوم حاصل کر سکتی ہیں اسی طرح وہ دین کے علوم بھی حاصل کر سکتی ہیں.ہمیں چاہیے کہ انہیں دین سیکھنے کے مواقع بہم پہنچائیں.اگر ہم انہیں دین سیکھنے کے مواقع ہم نہیں پہنچائیں گے تو ہم مجرم ہوں گے، وہ مجرم نہیں ہوں گی.خدا ہمیں کہے گا تم گنہگار ہو.ان عورتوں میں دین سیکھنے کی طاقت موجود تھی لیکن تم نے انہیں دین سیکھنے کے مواقع ہم نہیں پہنچائے.پس آپ لوگوں کا فرض ہے کہ آپ عورتوں کی دینی تعلیم کی طرف توجہ کریں.میں نے جب تفسیر صغیر لکھی تو اگر چہ میرا حق تھا کہ میں کچھ کا پیاں مفت حاصل کروں مگر میں نے بہت سی کا پیاں خرید کر اپنی بیویوں کی اور بیٹیوں کو دیں اور کہا اسے پڑھو اور اس سے فائدہ اٹھاؤ تا کہ میری محنت غیروں کے ہی کام نہ آئے بلکہ میرے اپنے خاندان کے بھی کام آجائے.(الفضل 10 فروری 1959ء) 1 مسلم كتاب الجمعة باب تخفيف الصلوة والخُطْبَة 2 : الجمعة : 10 3 : بخارى كتاب الصلوة باب إِذَا حَمَلَ جَارِيَةً صَغِيرَةً عَلَى عَاتِقِهِ فِى الصَّلوة میں امامہ بنت زینب کا ذکر ہے.
$1959 303 (36) خطبات محمود جلد نمبر 39 اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ باوجو د شدید بارشوں کے جلسہ سالانہ کے دوران موسم بہت اچھا رہا ہماری جماعت کو اس لیے قائم کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو دنیا میں قائم کیا جائے (فرمودہ 2 جنوری 1959ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جلسہ سالانہ کے موقع پر موسم کا سوال ایسا ہوتا ہے جو انسانی اختیار میں نہیں ہوتا اور نہ اس کے متعلق کوئی تدبیر کارگر ہوسکتی ہے.اس دفعہ جلسہ سالانہ سے قبل اتنی بارش ہوئی کہ منتظمین گھبرا گئے اور انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ تمام تنور خراب ہو گئے ہیں اب ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کریں.صرف یہی ہو سکتا ہے کہ لنگر خانہ کے تنوروں پر گزارہ کیا جائے اور مہمانوں کو تلقین کی جائے کہ وہ تھوڑے کھانا پر اکتفا کر لیں.لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے عاجز بندوں کی دُعاؤں کو قبول کیا اور بارش کے بعد جلسہ سالانہ کے ایام بڑے آرام سے گزر گئے اور منتظمین نے مہمانوں کو کھانا بھی سہولت سے کھلا لیا.مجھے یاد ہے جب سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے الہام الہی سے جلسہ سالانہ
$1959 304 خطبات محمود جلد نمبر 39 کی بنیا درکھی ہے صرف 1928ء میں 28 دسمبر کو جلسہ کے موقع پر بارش ہوئی.جب بارش قریباً سارا دن جاری رہی تو میں نے ایک اعلان لکھا جس میں یہ ذکر کیا کہ چونکہ بارش کی وجہ سے سب دوستوں کا ایک جگہ جمع ہو کر دعا کرنا مشکل ہے اس لیے سوا پانچ بجے میں دُعا کروں گا سب دوست اپنے اپنے کمروں میں اُس وقت دُعا میں شامل ہو جائیں.اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ ابھی اُس اعلان کی نقلیں ہی ہو رہی تھیں کہ بارش بند ہو گئی اور اُس نے مجھے قریباً دو گھنٹہ تک اس امر پر تقریر کرنے کی توفیق عطا فرما دی کہ قرآن کریم پڑھنے پڑھانے اور اُس کے مطالب کے سمجھنے کے لیے کن امور پر غور کرنا ای ضروری ہے.اگر چہ اس تقریر کے دوران میں بھی تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد بارش ہوتی رہی مگر لوگ شوق سے بیٹھے رہے اور اس طرح ہمارا جلسہ بخیر و خوبی گزر گیا.اسی طرح 1946ء کے جلسہ سالانہ میں بھی آخری روز شدید بارش ہوئی مگر پھر بھی اللہ تعالی لالی نے مجھے تقریر کرنے کی توفیق عطا فرما دی.غرض اللہ تعالیٰ نے ہر جلسہ پر فضل کیا اور بارش کی وجہ سے اس میں کوئی روک پیدا نہیں ہوئی.جلسہ سالانہ کے بعد بالعموم سردی زیادہ ہو جاتی ہے.چنانچہ اس دفعہ بھی سردی زیادہ ہو گئی ہے اس لیے جلسہ کی تقریروں اور ملاقاتوں کی وجہ سے جو کوفت مجھے ہوئی اُسے دور کرنے کا بہت کم موقع ملا.اس کے علاوہ مجھے ٹانگ میں درد کی تکلیف تھی اور زبان پر زخم تھے.میرا خیال تھا کہ غالبا میں جلسہ سالانہ کے موقع پر تقریریں نہیں کر سکوں گا لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے میں نے جلسہ پر پچھلے سال سے بھی لمبی تقریریں کی ہیں اور اس کے باوجود گوا بھی تکلیف موجود ہے لیکن خراش اور زخم زیادہ نہیں ہوئے اور جو تکلیف باقی ہے وہ بھی خدا تعالیٰ نے فضل کیا تو دور ہو جائے گی.گھبراہٹ اس وجہ سے ہے کہ ٹانگ کی تکلیف پر دسواں مہینہ جا رہا ہے اور ابھی تک یہ تکلیف دور نہیں ہوئی.ایسا نہ ہو کہ یہ تکلیف مُزمن 1 ہو جائے لیکن اگر خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور سردی کم ہوگئی تو جہاں عام کمزوری دور ہو جائے گی وہاں ٹانگ کی درد میں بھی کمی آجائے گی اور جسم میں بھی طاقت پیدا ہو جائے گی.موجودہ بیماری کی وجہ سے میں زیادہ چل پھر نہیں سکتا لیکن اس سے پہلے میں جب مری میں تھا تو دو دو میل تک سیر کے لیے چلا جاتا.جاہ آیا تو وہاں ایک میل تک چلنا بھی دوبھر معلوم ہوتا تھا بلکہ بعض دفعہ دو تین فرلانگ چلنے سے تکلیف محسوس ہوتی تھی.گرمی کے آنے پر جسم میں طاقت آگئی تو میں پھر انشَاءَ اللہ چلنے پھرنے لگوں گا جس سے صحت میں فرق پڑ جائے گا.سارا دن بیٹھے..
$1959 305 خطبات محمود جلد نمبر 39 سے صحت پر کوئی اچھا اثر نہیں پڑتا.جو شخص ہر وقت بیٹھا رہتا ہے اس کی صحت بگڑ جاتی ہے.اس لیے جب تک مجھے چلنے پھرنے کی توفیق تھی میری طبیعت بحال رہتی تھی.اب بھی جب میں چلنے پھرنے کی لگوں گا تو طبیعت سنبھلنی شروع ہو جائے گی.بہر حال اللہ تعالیٰ نے اس جلسہ کے موقع پر ہمیں سمجھایا ہے کہ سارے کام خدا تعالیٰ ہی کرتا ہے اور جب ہمارے سب کام اللہ تعالیٰ نے ہی کرنے ہیں تو ہماری جماعت کو ہمیشہ اپنی نظر خدا تعالیٰ پر رکھنی چاہیے.وہی جماعت کی ترقی اور اسلام کو دوبارہ غالب کرنے کے سامان کرے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت سب سے زیادہ مظلوم اسلام ہے اور باوجود اس کے کہ اسلام نے سارے ادیان کی تعریف کی ہے اور تمام پچھلے انبیاء کی عزت کی ہے ان انبیاء کی امتوں کے لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں.یہ چیز اللہ تعالیٰ کی غیرت کو جوش میں لائی اور اس امینی نے آپ لوگوں کو اس لیے کھڑا کیا کہ اسلام کی خوبیاں بتا کر اور اس بات کو روشن کر کے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیاء کی امتوں پر مہربان تھے آپ کی عزت کو دوبارہ دنیا میں قائم کریں.یہ بات یا درکھیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت قائم ہونے سے ہی خدا تعالیٰ کی عزت دنیا میں قائم ہوگی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ ایک بالا ہستی ہے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کی عظمت کو دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی قائم کیا تھا.جنگ بدر کے موقع پر جب مسلمانوں پر کفار کا زور بڑھ گیا تو اُس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دُعا کی وہ یہی کی تھی کہ اے اللہ ! اگر یہ مختصر سا گروہ جو تیرے نام کو دنیا میں بلند کر رہا ہے ہلاک ہو گیا تو قیامت تک دنیا کی میں تیرا نام لینے والا کوئی نہیں رہے گا.2 بیشک خدا، خدا ہی ہے اور بندہ، بندہ ہی ہے لیکن اس میں بھی کوئی طبہ نہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کی عزت کو دنیا میں قائم کیا تھا اور اگر دنیا میں خدا تعالیٰ کا نام باقی رہ سکتا ہے تو اسی صورت میں رہ سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلام باقی رہے.پس اپنی جانوں کی خاطر ہی نہیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا تعالیٰ کی خاطر ہمیں یہ دعائیں کرتے رہنا چاہیے کہ اے اللہ ! جو کچھ ہم کر رہے ہیں اس سے صرف ہمیں عزت حاصل نہیں
$1959 306 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہوتی بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تیری ذات کو بھی عزت حاصل ہوتی ہے.اس لیے تو ہماری مدد فرما اور ہماری تائید میں اپنے فرشتوں کو نازل فرما، تا تیرا نام بھی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی دنیا میں روشن ہو اور قرآن کریم کی صداقت دنیا پر ظاہر ہو.الفضل یکم فروری 1959ء 1 : مزمن : پرانا ، دیرینه، کهنه ( خصوصا مرض ) ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 17 صفحہ 940 کراچی 2000ء) 2 : صحیح مسلم كتاب الجهاد باب الامداد بالملائكة في غزوة بدر و اباحة الغنائم
$1959 307 37 خطبات محمود جلد نمبر 39 بھارتی اخبار پرتاپ“ نے میری جلسہ سالانہ والی تقریر کو نہایت بگاڑ کر پیش کیا ہے جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت ہے وہی اس کی حفاظت کرے گا (فرموده 9 جنوری 1959ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج صبح دفتر حفاظت مرکز قادیان نے بھارتی اخبار پرتاپ“ کا ایک کٹنگ میرے پاس بھجوایا ہے جس میں اُس نے میری جلسہ سالانہ والی تقریر کو نہایت بگاڑ کر پیش کیا ہے.آج میں اس کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.میں نے جلسہ کے موقع پر کہا تھا کہ ہمارے ہاتھ میں تلوار تو ہے نہیں کہ ہم اس کے زور پر قادیان فتح کرلیں.قادیان کے دروازے اگر کھلے تو وہ اللہ تعالیٰ ہی کھولے گا.اور اگر خدا تعالیٰ پاکستان پر رحم کرے گا اور اس کی مدد کرنا چاہے گا تو وہ علاقے جہاں سے ہم ہجرت کر کے آئے ہیں وہ پاکستان کو پھر دلا دے گا.اتنی بات تو اُس نے ٹھیک لکھی ہے.باقی میں نے کہا تھا کہ ہندوستان کے احمدی بھارتی حکومت کے وفادار ہیں.
$1959 308 خطبات محمود جلد نمبر 39 حکومت پاکستان نے سکھوں کو جو جماعت احمدیہ سے بہت زیادہ طاقتور ہیں سینکڑوں کی تعداد میں ننکانہ صاحب آنے کی اجازت دی ہے.پھر کوئی وجہ نہیں کہ بھارتی حکومت احمدیوں کو جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان جانے کی اجازت نہ دے حالانکہ وہ بہت کمزور ہیں اور ان میں اتنی طاقت نہیں کہ حکومتِ ہندوستان ان سے کوئی خطرہ محسوس کرے.اس کی بجائے پرتاپ“ نے یہ لکھا ہے کہ گویا میں نے کہا ہے کہ بھارت قادیان اور اس کے ارد گرد کا علاقہ پاکستان کو واپس کر دے.اول تو یہ بات غلط ہے.میں نے اپنی تقریر میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا.لیکن اگر یہ مسیح بھی ہوتی تب بھی میں پاکستانی ہوں اور پاکستانی ہونے کی صورت میں میں اگر یہ مشورہ حکومت ہندوستان کو دوں کہ وہ ایک علاقہ جس میں مسلمان بستے تھے پاکستان کو دے دے تو اس میں کیا حرج ہے جی جبکہ خود بعض ہندوستانی بھی انہیں یہ مشورہ دے رہے ہیں.ہندوستان کی مشہور سوشل لیڈر مس مرد ولا سارا بائی (MRIDULA SARABHAI)1 نے بھی یہ مشورہ دیا ہے کہ بھارتی کشمیر کو آزاد کر دے.جس کے معنے یہ ہیں کہ کشمیر پاکستان کو دے دیا جائے.مس مرد ولا سارا بائی ہندوستان کی مشہور لیڈر ہے اور گاندھی جی کی بہت دوست ہے تقسیم ملک کے بعد گاندھی جی نے اس عورت کو اپنا نمائندہ بنا کر میرے پاس بھیجا تھا اور وہ مجھے رتن باغ لاہور میں ملی تھیں.اس کے ساتھ مسٹر پنجابی انڈین ڈپٹی ہائی کمشنر بھی تھے.اس نے مجھے کہا کہ سنا ہے کہ احمدی کشمیر میں لڑ رہے ہیں؟ میں نے کہا اس میں کیا حرج ہے؟ پاکستانی احمدی اگر پاکستان کی طرف سے لڑ رہے ہیں تو بھارت کو اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے.جب ہندوستانی احمدی ہندوستان کی مدد کرتے ہیں تو پاکستانی احمدی اگر پاکستان کی مدد کریں تو اس میں کیا حرج ہے؟ میں نے اُسے یہ بھی بتایا کہ نہ صرف پاکستانی احمدی کشمیر کے لیے لڑ رہے ہیں بلکہ احمدی رضا کاروں کا افسر میرا اپنا بیٹا ہے جو میرے حکم سے وہاں گیا ہوا ہے.بعد میں وہ مسٹر پنجابی کو لے کر باہر چلی گئی اور مجھ سے اُس نے کہا میں نے آپ سے ایک پرائیویٹ بات کرنی ہے.چنانچہ واپس آکر اُس نے مجھ سے کہا کہ گاندھی جی نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے اور دریافت کیا ہے کہ کیا آپ اپنے آپ کو ہندوستانی سمجھتے ہیں یا پاکستانی ؟ میں نے اُن - کہا آپ میری طرف سے گاندھی جی کو کہہ دیں کہ اس میں شبہ نہیں کہ ہم پہلے ہندوستانی تھے لیکن آ.لوگوں نے پولیس اور عوام سے ہم پر حملہ کروایا اور قادیان سے نکالا.اب ہم ہندوستان سے نکل آ.
$1959 309 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہیں اور پاکستان نے ہمیں پناہ دی ہے.اب کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم پاکستان کی مخالفت کریں اور اس کی حمایت اور مدد نہ کریں؟ اس صورت میں کیا ہم سمندر میں جا کر ڈوب مریں ؟ مس مرد ولا سارا بائی نے مجھ سے کہا گاندھی جی چاہتے ہیں کہ آپ بیشک ہندوستان آجائیں حکومت کچھ نہیں کہے گی.میں نے اُن سے کہا میں قیدی بن کر ہندوستان میں نہیں رہنا چاہتا میں ایک تبلیغی جماعت کا خلیفہ ہوں جو دنیا کے ہر حصہ میں پھیلی ہوئی ہے.اگر میں اکیلا قادیان آ جاؤں تو میں اسے برداشت نہیں کر سکتا.ہاں اگر گاندھی جی یہ اعلان کر دیں کہ قادیان اور اُس کے اردگرد کے علاقہ کے سب مسلمان ہندوستان واپس آجائیں اور اُن کی جائیداد میں انہیں واپس دے دی جائیں گی اور انہیں کی امن سے وہاں زندگی گزارنے کی اجازت دی جائے گی تو پھر میں بیشک واپس آسکتا ہوں.پھر ہمارا ایک وفد دہلی گیا تو مس مرد ولا سارا بائی نے کہا میں چاہتی تھی احمد یوں کی مددکروں لیکن جب میں نے دیکھا کہ احمدی کشمیر میں لڑ رہے ہیں تو میں نے اس خیال کو ترک کر دیا.اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اسی عورت نے جس نے ہمارے کشمیر میں لڑنے پر خفگی کا اظہار کیا تھا خود لکھا ہے کہ بھارت کو چاہیے کہ کشمیر پاکستان کو واپس کر دے اور پنڈت نہرو نے اس کے متعلق تقریر میں کہا ہے کہ اتنی ضدی عورت میں نے کوئی نہیں دیکھی.ہم نے اسے سمجھایا ہے اور پھر دھمکی بھی دی ہے کہ تمہیں نظر بند کر دیا جائے گا مگر وہ باز نہیں آتی.لیکن وہ عورت باز بھی کیسے آسکتی ہے ، وہ گاندھی جی کی چیلی ہے اور ہر وقت اُن کے پاس رہتی تھی.جب میں 1946ء میں گاندھی جی کو ملنے دہلی گیا تو ملاقات کے دوران میں دو عورتیں گاندھی جی کے پاس بیٹھی تھیں جن کا چہرہ میری باتوں پر غصہ سے سرخ ہورہا تھا.جب وہ میرے پاس رتن باغ میں آئی تو میں نے اُس سے پوچھا کہ میری ملاقات کے وقت گاندھی جی کے پاس کونسی دو عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں ؟ اس نے کہا ایک تو میں تھی اور ایک ڈاکٹر عورت تھی.میں نے کہا پھر تم مجھ پر غصہ کیوں ہورہی تھیں ؟ انہوں نے کہا غصہ کیوں نہ ہوتی آپ میرے گو رُوح سے بحث کر رہے تھے.میں نے کہا گاندھی جی نے تو میری بات مان لی تھی پھر تمہارے غصہ ہونے کی کیا وجہ تھی ؟ اُس نے کہا گاندھی جی نے بیشک آپ کی بات مان لی تھی لیکن ہم نے تو نہیں مانی تھی.بہر حال وہ عورت گاندھی جی کی دوست اور چیلی تھی اور ہندوستان میں بہت مقبول تھی لیکن اس کے باوجود اس نے یہ لکھا ہے کہ
$1959 310 خطبات محمود جلد نمبر 39 بخشی حکومت کو توڑ دیا جائے اور عبداللہ کی گورنمنٹ قائم کی جائے اور کشمیر کو آزاد کر دیا جائے.اب اگر ی ہندوستان کی ایک باشندہ اور گاندھی جی کی دوست اس قسم کا مشورہ دے سکتی ہے کہ کشمیر کو آزاد کر دیا تو جائے جس کے معنے یہ ہیں کہ اسے پاکستان کو واپس کر دیا جائے تو ایک پاکستانی اگر یہ مشورہ دے کہ قادیان اور اُس کے نواحی علاقے پاکستان کو دے دیئے جائیں تو اس میں کیا حرج ہے؟ زیادہ سے زیادہ اس کے یہی معنے ہو سکتے ہیں کہ پنڈت نہرو اور اُن کی پارلیمنٹ اس بارہ میں اپنا اختیار استعمال کرے.اور اگر وہ اپنا اختیار استعمال نہیں کرتے تو وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ غلط مشورہ ہے ہم اسے ماننے کے لیے تیار نہیں.بہر حال اس بات پر غصہ ہونا اور یہ طعنہ دینا کہ ہم نے احمدیوں کو قتل نہیں کیا اور انہیں مارا نہیں درست نہیں.اس موقع پر مجھے وہ واقعہ یاد آتا ہے کہ جب حضرت موسی علیہ السلام فرعون کے پاس خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچانے گئے تو اس نے کہا کہ کیا تجھے یاد نہیں کہ تو بچہ تھا اور ہم نے تیری پرورش کی؟ انہوں نے کہا اگر تو نے مجھے بچپن میں پالا ہے تو کونسا احسان کیا ہے.تم نے میری قوم کو سینکڑوں سال سے غلام بنایا ہوا ہے.3 یہاں بھی یہی صورت ہے.بھارت کے سارے احمدی جو ہزاروں کی تعداد میں ہیں بھارتی حکومت کی خدمت کر رہے ہیں، اُسے ٹیکس ادا کر رہے ہیں اور مختلف ملازمتوں میں خدمت کر رہے ہیں.اگر اس کے بدلہ میں ہندوستان کی حکومت نے قادیان کے چند احمد یوں کو قتل نہیں کروایا یا مارا نہیں تو کیا احسان کیا ہے؟ فرعون کی طرح وہ یہ بات بھول گئے کہ وہاں بھارتی احمدیوں کی ہزاروں کی وفادار جماعت موجود ہے لیکن اپنی بات یاد رکھی کہ ہم نے قادیان کی جائیداد واگزار کر دی ہے اور احمد یوں کو قتل نہیں کیا.کیا بھارتی احمدیوں کی خدمات کا یہ بدلہ دیا گیا ہے کہ اُن میں سے چند آدمیوں کی جانیں نہیں لی گئیں؟ کیا کوئی مہذب حکومت اس بات کو برداشت کر سکتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کو قتل کر دے؟ اس سے تو وہ ساری دنیا میں بدنام ہو جائے گی.ہاں اُن کا یہ احسان ہے کہ انہوں نے میری کوٹھی دارالحمد جس کے ایک سو چھوٹے بڑے کمرے ہیں اور کئی لاکھ کی جائیداد ہے ایک پناہ گزیں کو پندرہ روپیہ ماہوار کرایہ پر دے دی تھی.اگر وہ کوٹھی لاہور میں ہوتی بلکہ میں کہتا ہوں کہ وہ چنیوٹ میں بھی ہوتی تو پانچ چھ سو روپیہ کرایہ پر چڑھ جاتی.پھر انہوں نے چودھری ظفر اللہ خان صاحبہ
$1959 311 خطبات محمود جلد نمبر 39 کی کوٹھی پانچ روپے کرایہ پر دے دی تھی.بعد میں انہوں نے کوٹھی تو خالی کرالی مگر یہ کہہ دیا کہ ہم نے سے گورنمنٹ کے مہمانوں کے لیے وقف کر دیا ہے.یہ کونسا احسان ہے جو اس وقت جتایا جا رہا ہے؟ ہندوستانی گورنمنٹ نے ہم پر کوئی احسان نہیں کیا.ہاں ! ہم نے اُس کے موجودہ لیڈروں پر کئی احسان کی کیسے ہیں.پھر اپنے ابتدائی دور میں خود کانگرس بھی ہم سے مدد حاصل کرتی رہی ہے.اگر وہ اس بات کا ج انکار کرے تو میں اب بھی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے تیار ہوں.ڈاکٹر بھار گوا 4 جو مشرقی پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں ایک دفعہ میرے پاس آئے اور انہوں نے کانگرس کے انگریزی اخبار کے لیے مجھ سے مدد مانگی اور میں نے اُن کو مدددی اور گو وہ اخبار جاری نہ ہو یا جاری ہوا تو بعد میں بند ہو گیا مگر ہم نے اُن کو مدددے دی.بہر حال ہم ہمیشہ کانگرس پر احسان کرتے رہے ہیں اور گاندھی جی اس بات کی کو خوب جانتے تھے اور سمجھتے تھے کہ احمدیوں کے تعاون کے بغیر کام نہیں چلے گا.جب میں 1924ء میں ولایت گیا تو لوگوں نے مجھ سے کہا کہ آپ گاندھی جی سے کیوں نہیں ملے؟ آپ اُن سے مل لیں.اس پر میں نے انہیں تار دی کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں.وہ شریف آدمی تھے.انہوں نے جواب دیا کہ میں اس وقت دہلی میں ہوں اس لیے آپ یہیں آ کر مجھ سے مل لیں.مجھے اطلاع مل چکی تھی کہ میری بیوی امتہ الحی مرحومہ بہت بیمار ہیں اس لیے میں دہلی نہیں جاسکتا تھا.میں نے انہیں لکھا کہ میں دہلی بعض وجوہات کی بناء پر نہیں ٹھہر سکتا.ہاں میرا جہاز بمبئی ٹھہرے گا.اگر بمبئی میں ملاقات کی صورت پیدا ہو جائے تو بہتر ہوگا.گاندھی جی نے میرا اتنا لحاظ کیا تو کہ بمبئی آگئے اور وہاں ہماری پہلی ملاقات ہوئی.بعد میں شملہ میں ملاقاتیں ہوتی رہیں.مولا نا محد علی صاحب جو ہرا بھی کانگرس میں ہی شامل تھے اُن کے بھائی مولانا شوکت علی صاحب مرحوم بہت جو شیلے تھے.جب گاندھی جی نے مجھ سے کہا کہ آپ کا نگرس میں شامل کیوں نہیں ہوتے؟ تو میں نے انہیں جواب دیا کہ ہم تو مذہبی جماعت ہیں.لیکن اگر سیاست کا سوال ہو تو میں کانگرس میں کیسے شامل ہوسکتا ہوں ؟ مسٹر محمد علی صاحب جناح کو آپ نے کانگرس سے صرف اس لیے نکال دیا ہے کہ انہوں نے کہہ دیا کہ میں کھدر نہیں پہنتا.وہ آپ سے اس بارہ میں متفق نہیں تھے.اُن کا خیال تھا کہ ملک مشینوں کی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا.جب آپ اس قدر جبر کرتے ہیں تو میں کانگرس میں کس طرح شامل ہوسکتا ہ ہوں؟ ہاں !! ہم آپ کی مدد کر سکتے ہیں بشرطیکہ آپ اس بات کے لیے رستہ کھلا رکھیں کہ گو ہم
$1959 312 خطبات محمود جلد نمبر 39 سیاسی جماعت نہیں مگر جب کبھی ہمیں کثرت حاصل ہو تو ہم کانگرس پر قبضہ حاصل کر سکیں.اس پر مولانا نان شوکت علی صاحب جو پاس ہی تھے مجھ سے جھگڑ پڑے.گاندھی جی نے انہیں چپ کرایا اور کہا انہوں نے جو کچھ کہا ہے درست کہا ہے.پھر گاندھی جی نے مجھ سے کہا آپ کانگرس کی اصلاح کا مشورہ دیں.میں نے کہا میرے پاس کانگرس کی کانسٹی ٹیوشن نہیں میں اس کی اصلاح کا مشورہ کیسے دے سکتا ہوں؟ انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا کہ میں کانسٹی ٹیوشن آپ کو بھیج دوں گا.لیکن بعد میں شاید وہ بھول گئے یا اُن کے سیکرٹری سے فروگزاشت ہوئی اور انہوں نے کانسٹی ٹیوشن مجھے نہ بھیجی.بہر حال انہوں ن نے اُس وقت مولانا شوکت علی سے کہا کہ آپ ناراض نہ ہوں یہ درست کہتے ہیں.جب تک انہیں یہ آزادی نہ ہو کہ وہ کسی وقت کثرت حاصل ہونے پر کانگرس پر قبضہ کر سکیں وہ کانگرس میں کیسے شامل ہو سکتے ہیں.میں نے انہیں یہی کہا تھا کہ جب تک یہ آزادی حاصل نہ ہو کانگرس آل انڈیا کانگرس کی نہیں کہلا سکتی.وہ ہندوستان کی اکثریت کی نمائندہ تو کہلا سکتی ہے مگر ہندوستان کی نمائندہ نہیں کہلا سکتی.ہندوستان کی نمائندہ کہلانے کی وہ تبھی مستحق ہو سکتی ہے جب ہندوستان کے تمام افراد کو اس میں برابر کا حصہ لینے کا اختیار ہو.پھر یہی اخبار جس نے میری تقریر کو بگاڑ کر شائع کیا ہے اس کے بانی مہاشہ کرشن کے کیریکٹر اور ان کی لڑکی کے کیریکٹر پر ایک آریہ اخبار نے حملہ کیا تو اگر چہ یہ اخبار میں سال سے ہمارا مخالف رہا تھا میں نے آریوں کی اس حرکت پر احتجاج کیا اور لکھا کہ کسی شریف اور معز ز آدمی کے گھر کے حالات شائع کرنا اور اُس پر گندا چھالنا اخلاق کے صریح خلاف ہے.میرے اس احتجاج پر خود مہاشہ کرشن نے اس مضمون کو اپنے اخبار میں شائع کیا اور ہمارے اس نیک سلوک کی تعریف کی.اگر مہاشہ کرشن زندہ ہوں ( اور میں نے سنا ہے کہ وہ زندہ ہیں ) تو میں اُن سے پوچھتا ہوں کہ اُس زمانہ میں تو آپ نے ہماری تعریف کی تھی کہ ہم نے باوجود شدید مخالفت کے آپ کی تائید میں مضامین لکھے لیکن آج آپ اس واقعہ کو بھول گئے اور آپ کا اخبار بجائے اس کے کہ ہمارے لیے غیرت دکھائے ہم پر حملہ کرتا ہے.ہم نے تو ہندوستان کی حکومت سے صرف یہ کہا تھا کہ ہمیں ہر سال جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان جانے کی اجازت دے دیا کرو اور ہمارے جانے میں روک نہ ڈالا کرو اور میں نے ذکر کیا تھا کہ کئی ہی سال سے ہندوستان کی حکومت نے ہمیں قادیان جانے کے لیے ویزا نہیں دیا.اس سال جب
خطبات محمود جلد نمبر 39 313 $1959 جلسہ سالانہ گزر گیا تو ہندوستان کی حکومت نے پاکستان کی گورنمنٹ کی معرفت ہمیں یہ اطلاع دی کہ اب ہم آپ لوگوں کو ویزا دینے کے لیے تیار ہیں لیکن اُس وقت قادیان کا جلسہ سالانہ گزر چکا تھا اور اس سہولت سے ہم کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے تھے.میں نے یہ کہا تھا کہ جب پاکستان کی گورنمنٹ سینکڑوں سکھوں کو جو احمدیوں سے طاقتور ہیں ننکانہ صاحب آنے کی اجازت دے دیتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہندوستانی حکومت احمدیوں کو جو سکھوں سے کمزور ہیں اور ان سے اُسے کوئی خطرہ نہیں اپنے ملک میں جانے کے لیے ویز انہیں دیتی ؟ جبکہ ہماری پالیسی یہ ہے کہ ہم کسی غیر حکومت کے خلاف اپنی حکومت کے پاس بھی کوئی رپورٹ نہیں کرتے.بہر حال ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں خدا تعالیٰ ہی قادیان کا رستہ کھول دے تو کھول دے.اب اگر خدا تعالیٰ نے قادیان کا رستہ کھول دیا تو پنڈت نہرو اور اُن کی حکومت کیا کر سکتی ہے.لیکن اگر وہ ان خوشی سے ایک کمزور اور امن پسند جماعت کے افراد کو اُن کے مذہبی مرکز میں جانے کی اجازت دے دیا کی کرے تو اُس کی یہ حرکت دنیا میں اُس کی عزت کا موجب ہوگی.اور اگر وہ ایسا نہیں کرے گی تو وہ دنیا کی نظروں میں ذلیل ہوگی.بہر حال مظلوم اور کمزور کی مدد نیا کیا ہی کرتی ہے.میں جب علاج کے لیے انگلستان گیا تو رستہ میں شام میں کچھ دیر کے لیے ٹھہرا.وہاں کی یک عورت مجھے ملنے کے لیے آئی.اُس نے بتایا کہ حکومتِ اسرائیل میرے خاوند کو یہاں آنے نہیں دیتی.اس کے بعد جب میں انگلستان گیا تو ایک اخبار کا نمائندہ مجھے ملنے کے لیے آیا.اُس کی اخبار کی اشاعت دس لاکھ تھی اور اب دس لاکھ سے بھی زیادہ ہے.اُس سے میں نے سرسری ذکر کیا تو اُس نے کہا یو.این.او میں میرے تعلقات ہیں، اگر آپ کوائف مہیا کر دیں تو میں کی اسرائیل گورنمنٹ سے جواب طلب کرواؤں گا.میں نے کہا میں کوائف تو مہیا کر سکتا ہوں مگر میں نے سیاسی آدمی نہیں ہوں اور کسی قوم سے میں ٹکر لینا نہیں چاہتا.ہمارا خدا موجود ہے اگر وہ مدددینا چاہے تو اسرائیل کی حکومت کو ہی نرم کر سکتا ہے اور اس طرح ناجائز قسم کی پابندیاں اٹھائی جاسکتی ہیں.اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ پنڈت نہرو اور ان کی حکومت کو نرم کر دے اور ان کے دلوں پر اثر ڈالا دے اور وہ احمدیوں سے نیک سلوک کرنے لگ جائیں تو پرتاپ کیا کر سکتا ہے.لیکن اگر پرتاپ کے ایڈیٹر کو اس بات کا خیال ہے کہ وہ حکومت کو ہمارے خلاف اُکسا کر ہمارے لیے مشکلات پیدا کر
$1959 314 خطبات محمود جلد نمبر 39 میں کامیاب ہو جائے گا تو اُسے یادرکھنا چاہیے کہ جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت ہے.پرتاپ جس حکومت کے کھونٹے پر ناچ رہا ہے اُس کی گردن بھی اُسی طرح خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جس طرح ایک کمزور سے کمزور انسان کی گردن.وہ اپنے ملک سے غداری کر رہا ہے اور اُسے خدا تعالیٰ سے لڑا رہا ہے اور اُس کا ملک یقیناً خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں شکست کھائے گا جیتے گا نہیں.فرعون حضرت موسی علیہ السلام سے لڑنے کے لیے تیار ہو گیا تھا تو کیا وہ جیت گیا تھا ؟ جیتے حضرت موسی علیہ السلام ہی تھے اور شکست فرعون کو ہی نصیب ہوئی تھی.اسی طرح اگر بھارت پرتاپ کے کہنے پر خدا تعالیٰ سے لڑائی کرنے کے لیے تیار ہو گیا تو اُسے اس کے مقابلہ میں حقیر چوہے کی طرح گرنے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے.بہر حال پر تاپ اپنے ملک سے غداری کر رہا ہے اور ہندوستان کی حکومت کو خدا تعالیٰ سے لڑانا چاہتا ہے.اور اگر ہندوستان کی حکومت پر تاپ کی بات مان لے گی تو وہ یا درکھے خدا تعالیٰ کی غیرت بھڑ کے گی اور اُس کی فوجیں میدان میں اُتر آئیں گی.ہندوستان کی آبادی گو پینتالیس کروڑ کی ہے لیکن خدا تعالیٰ کا ایک فرشتہ بھی اِس ساری آبادی پر غالب آ سکتا ہے.پس اگر خدا تعالیٰ فرشتوں کی فوجیں نازل نہ کرے صرف ایک فرشتہ ہی اُتار دے تو وہ بھارت کو غارت کر دے گا.عاد اور ثمود کی عظیم تو میں خدا تعالیٰ کی جماعتوں سے ٹکرائیں تو کیا وہ قائم رہیں؟ خدا تعالیٰ نے انہیں تباہ کر کے رکھ دیا.پھر بھارت کی خدا تعالیٰ کے سامنے حیثیت ہی کیا ہے.اگر اس نے سراٹھایا تو اس کا کی حشر بھی عاد اور ثمود کا سا ہوگا.بہار میں جب زلزلہ آیا تو اُس وقت کانگرس موجود تھی.پھر کیا اُس نے بہار کو بچالیا تھا؟ پنجاب میں زلزلہ آیا تو کیا اس وقت کانگرس نے پنجاب کو بچا لیا تھا ؟ اب بھی اگر خدا تعالیٰ کوئی زلزلہ بھیج دے تو بھارت کو کون بچا سکتا ہے؟ خدا تعالیٰ کے غضب سے صرف ایک ہی چیز بچا سکتی ہے اور وہ استغفار اور ظلم سے اجتناب کرنا ہے.اگر ہندوستان کو یہ خیال ہے کہ اُس کے ساتھ بڑی طاقتیں ہیں تو یہ بات اُسے فائدہ نہیں دے سکتی.اگر ساری دنیا بھی اُس کے ساتھ ہو تب بھی وہ بیچ نہیں سکتا.خدا تعالی بڑی سے بڑی طاقت کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کر سکتا ہے.مثلاً روس اگر چاند پر راکٹ پھینکنے میں کامیاب بھی ہو جائے تو کیا ہوا.جس خدا نے چاند اور دوسرے سیاروں کو پیدا کیا ہے وہ روس کو بھی تباہ کر سکتا ہے.بہر حال خدا تعالیٰ کا مقابلہ اچھا نتیجہ نہیں پیدا کیا کرتا.اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب ہے، زمین اور آسمان اُس کی مٹھی میں ہیں اور روس تو دنیا کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے.وہ تو چاند پر
$1959 315 خطبات محمود جلد نمبر 39 راکٹ پھینکنے پر فخر کر رہا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی مٹھی میں سب چیزیں ہیں.وہ چاند اور دوسرے سیاروں کو بھی پیس سکتا ہے اور جب وہ چاند اور دوسرے سیاروں کو بھی پیس سکتا ہے تو وہ کسی ملک کو بھی ، چاہے وہ روس ہی ہو پیس سکتا ہے.پس کسی طاقت کی مدد پر ہندوستان کا غرور اور فخر کرنا لغو بات ہے.اگر مشرق اور مغرب کی تمام طاقتیں بھی بھارت کی مدد کریں تو وہ خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں جیت نہیں سکتا.وہ اس کے مقابلہ میں بہر حال تباہ ہو گا.اُس کے لیے تباہی سے بچنے کا صرف ایک ہی رستہ ہے کہ وہ کمزوروں پر ظلم نہ کرے اور اُن کے مذہبی معاملات میں دخل نہ دے.بہر حال خدا کے مقابلہ میں اپنے ملک کی حکومت کو کھڑا کرنا اُس سے غداری کرنے کے مترادف ہے.پرتاپ ہم پر اعتراض کر رہا ہے لیکن دراصل وہ اپنی حکومت کو خدا کے مقابلہ میں کھڑا کر رہا ہے.ہم ہندوستان کے دشمن نہیں پرتاپ ہندوستان کا دشمن ہے جو اسے ایسے مقام پر کھڑا کرنا چاہتا ہے جہاں وہ خدا تعالیٰ کے عذاب سے بچ نہیں سکتا.میں پرتاپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ میرے احسان کو یادر کھے اور جماعت کے خلاف غلط پرو پیگنڈا کرنے سے باز آئے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے جب آریوں نے اس پر رکیک حملے کیے تھے تو میں نے اُن کے خلاف احتجاج کیا تھا.اب پرتاپ اس بات کو تو بھول گیا اور اسے صرف یہ بات یادرہ گئی کہ ہم نے قادیان میں احمدیوں کو قتل نہیں کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ کسی کے ہاں کوئی مہمان آیا.میزبان نے مہمان کی بہت خاطر مدارات کی اور کہا آپ کا یہ احسان تھا کہ آپ میرے گھر آئے اور مجھے خدمت کا موقع دیا لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کی پوری خدمت نہیں کر سکا.مہمان کہنے لگا آپ مجھ پر اتنا احسان نہ جتائیں آپ نے مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا.میں نے آپ پر احسان کیا ہے.جب آپ میرے لیے کھانا لینے جاتے تھے تو اُس وقت اگر میں آپ کے گھر کو آگ لگا دیتا تو آپ کیا کر سکتے تھے؟ اسی طرح پر تاپ ہمارے احسانات کو تو بھول گیا اور اسے صرف یہ بات یاد رہی کہ ہم نے قادیان والوں کو قتل نہیں کیا“.(الفضل 17 جنوری 1959ء) 1 مس مرد ولا سارا بائی: Mirda sarabi 1911 ء-1974 ء.ہندوستان کی Sarabhai): آزادی کی سرگرم رکن اور سیاستدان.ان کا تعلق احمد آباد ہندوستان کی سارا بائی انڈسٹریلسٹ فیملی سے تھا.وکی پیڈیا.زیر لفظ 'Mirdula Sarabhai)
316 $1959 خطبات محمود جلد نمبر 39 :2 گورو: گرو: (ہندو) پنڈت ، استاد، مہاتما محترم، معزز، مذہبی پیشوا، گھر کا بزرگ ارد ولغت تاریخی اصول پر جلد 15 صفحہ 18 کراچی 1994ء) : فَأْتِيَا فِرْعَوْنَ فَقُوْلَا إِنَّا رَسُولُ رَبِّ الْعَلَمِينَ ) أَنْ أَرْسِلُ مَعَنَا بَنِي إِسْرَاءِ يْلَ 6 قَالَ أَلَمْ نُرَبِّكَ فِيْنَا وَلِيْدًا وَلَبِثْتَ فِينَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ وَفَعَلْتَ فَعُلَتَكَ الَّتِي فَعَلْتَ وَأَنْتَ مِنَ الْكَفِرِينَ قَالَ فَعَلْتُهَا إِذَا وَ أَنَا مِنَ الصَّالِينَ ﴿ فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ فَوَهَبَ لِي رَبِّ حُكْمًا وَ جَعَلَنِى مِنَ الْمُرْسَلِينَ وَتِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنْهَا عَلَى اَنْ عَبْدُتَ بَنِي إِسْرَاءِيلَ (الشعراء: 17 تا 23) 4 ڈاکٹر بھارگو: ( گوپی چند بھار گوا.Gopi Chand Bhargava) پیدائش 1889 وفات 1966 ء.بھارتی پنجاب کا پہلا وزیر اعلیٰ جو 15 اگست 1947 ء سے 13 اپریل 1949 ء تک وزیر اعلیٰ رہے.بعد ازاں 18 / اکتوبر 1949 ء سے 20 جون 1951 ء تک دوسری مرتبہ اور پھر 21 جون 1964ء سے 6 جولائی 1964 ء تک تیسری مرتبہ وزیر اعلی رہے.وہ کانگرس کے ممبر تھے.(وکی پیڈیاز یر لفظ Gopi Chand Bhargava)
$1959 317 (38 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہمارا خدا زندہ خدا ہے وہ پہلے کی طرح اب بھی اپنے نشانات دکھا رہا ہے اور آئندہ بھی دکھاتارہے گا معجزات اور نشانات سماوی کے بغیر ایمان محض رسم اور قصہ کہانی بن کر رہ جاتا ہے (فرموده 16 جنوری 1959ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی : قُلْنَا يْنَارُ كُوْنِى بَرْدًا وَ سَلَمَّا عَلَى إِبْرَهِيْمَ - 1 اس کے بعد فرمایا: قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ واقعہ آتا ہے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ بنوں کے پجاری شرک سے باز نہیں آتے اور ان کی ہر نصیحت بریکار جا رہی ہے تو انہوں نے ایک دن موقع پاکر سوائے بڑے بت کے باقی تمام بیٹوں کو توڑ پھوڑ دیا.2 جب لوگوں کو اپنے بچوں کی تباہی کا علم ہوا تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ یہ کس شخص کا کام ہوسکتا ہے.بعض لوگوں نے بتایا کہ ایک نوجوان ہے جس کا نام ابراہیم ہے.وہ ہمارے بہنوں کے خلاف باتیں کیا کرتا ہے.یہ کام اُسی کا ہو سکتا ہے.اس پر لوگوں نے فیصلہ کیا کہ آگ جلا کر حضرت ابراہیم کو اس میں ڈال دیا جائے
318 $1959 خطبات محمود جلد نمبر 39 اور اس طرح اپنے بیجوں کی مدد کی جائے.چنانچہ انہوں نے آگ جلائی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اُس میں ڈال دیا.اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ینارُ كُوْنِى بَرْدًا وَ سَلَمَّا عَلَى ابراهیم اے آگ ! تو ابراہیم کے لیے ٹھنڈی بھی ہو جا اور اس کے لیے سلامتی کا باعث بھی بن جا.حضرت خلیفہ اول اس آیت کے یہ معنی کیا کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے اُن کی مخالفت کی آگ کو ٹھنڈا کر دیا تھا.4 مجھے یاد ہے 1903ء میں جب ایک شخص عبدالغفور نے جو اسلام سے مرتد ہو کر آریہ ہو گیا تھا اور اُس نے اپنا نام دھرم پال رکھ لیا تھا " ترک اسلام “ نامی کتاب لکھی تو حضرت کی خلیفہ اول نے اُس کا جواب لکھا جو نورالدین کے نام سے شائع ہوا.یہ کتاب غالبا سیر میں روزانہ ای حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سنائی جاتی تھی.میری عمر اس وقت کوئی پندرہ سال کی تھی لیکن میں بھی سیر میں ساتھ جایا کرتا تھا.مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ اول زیادہ تیز نہیں چل سکتے تھے.یوں تو کی آپ کی صحت بہت اچھی تھی اور آپ کے قوالی بڑے مضبوط تھے مگر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی خلقی نقص تھا جس کی وجہ سے آپ چلنے میں کمزور تھے.سیر میں آپ بعض دفعہ پیچھے رہ جاتے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے مولوی نورالدین صاحب کہاں ہیں؟ اس پر آپ دوڑتے ہوئے آتے.جلدی میں آپ کی پگڑی گر جاتی اور آپ دوڑتے ہوئے پگڑی باندھتے جاتے اور جوتی گھسیٹتے چلے جاتے.پس گو مجھے پوری طرح یاد نہیں مگر میرا خیال ہے کہ یہ کتاب کوئی اور شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سنایا کرتا تھا غالباً شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی یا مفتی محمد صادق صاحب یہ کتاب سنایا کرتے تھے ( مفتی محمد صادق صاحب نے اپنی روایات میں لکھا ہے کہ وہ یہ کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ی شام کی مجلس میں سنایا کرتے تھے مگر مجھے یہی یاد ہے کہ یہ کتاب سیر میں آپ کو سنائی جاتی تھی).جب دھرم پال کا یہ اعتراض آیا کہ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے آگ ٹھنڈی ہوئی تھی تو دوسروں کی کے لیے کیوں نہ ہوئی اور اس پر حضرت خلیفہ اول کا یہ جواب سنایا گیا کہ اس جگہ ”نار“ سے ظاہری آگ مُراد نہیں بلکہ مخالفت کی آگ مُراد ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اس می تاویل کی کیا ضرورت ہے؟ مجھے بھی خدا تعالیٰ نے ابراہیم کہا ہے.اگر لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے آگ کس طرح ٹھنڈی ہوئی تو وہ مجھے آگ میں ڈال کر دیکھو
خطبات محمود جلد نمبر 39 319 $1959 لیں کہ آیا میں اس آگ میں سے سلامتی کے ساتھ نکل آتا ہوں یا نہیں؟5 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس جرح کی وجہ سے میں نے جہاں کہیں قرآن کریم کی اس آیت کی تفسیر کی ہے میں نے یہ نہیں لکھا کہ خدا تعالیٰ نے مخالفت کی آگ کو ٹھنڈا کر دیا تھا بلکہ میں نے بھی لکھا ہے کہ مخالفوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا تھا لیکن وہ آگ ٹھنڈی ہوگئی.اور چونکہ اللہ تعالیٰ دنیا میں اسباب سے بھی کام لیا کرتا ہے اس لیے ممکن ہے اُس وقت بادل آ گیا ہو اور بارش ہو گئی ہو جس کی وجہ سے آگ بجھ گئی ہو.بہر حال ہمارا ایمان یہی ہے کہ دشمنوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے واقع میں آگ جلائی لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کیے کہ جن کی و وجہ سے اُن کی تدبیر کارگر نہ ہوئی اور آپ آگ سے محفوظ رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ جب سلسلہ پر کوئی مشکل وقت آتا آپ بچوں کو بھی کہہ دیتے کہ دُعائیں کرو اور استخارہ کرو.غالباً لیکھرام کے متعلق جب آریوں نے شور مچایا اور تلاش کے لیے لیمار چنڈ سپر نٹنڈنٹ پولیس آیا تو اُس سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو محبہ پیدا ہو گیا تھا کہ چونکہ آریوں نے شور مچایا ہے اس لیے کوئی نہ کوئی فتنہ پیدا ہونے کا احتمال ہے.چنانچہ اُس وقت مجھے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ استخارہ کرو.اُس وقت میری عمر بہت چھوٹی تھی.چونکہ لیکھرام کا قتل 1897ء میں ہوا ہے اس لیے میں قریباً آٹھ کو سال کا تھا.بہر حال مجھے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہا کہ استخارہ کرو.چنانچہ میں نے دُعا کی تو میں نے رویا میں دیکھا کہ میں باہر سے گھر میں آیا ہوں.ہمارے مکان کی جو ڈیوڑھی تھی وہ اُس وقت وہاں نہیں ہوتی تھی جہاں قادیان سے آتے وقت تھی بلکہ وہ اُس وقت مرزا سلطان احمد صاحب کے گھر کے زیادہ قریب تھی.میں اُس میں سے داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ آگے تمام پولیس کے سپاہی کھڑے ہیں.پولیس والے مجھے اندر جانے سے روکتے ہیں مگر میں اُن کے روکنے کے باوجود اندر چلا گیا.ہمارے مکان میں ایک تہہ خانہ ہوا کرتا تھا جو ہمارے دادا صاحب مرحوم نے گرمیوں میں آرام کرنے کے لیے بنوایا تھا اور اس میں سیڑھیاں اترا کرتی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس خیال سے کہ بچے اندر جا کر کھیلتے ہیں اور اندھیری جگہ ہونے کی وجہ سے سانپ بچھو کا خطرہ ہوسکتا ہے اُس کی سیڑھیاں نصف تک بند کر دی تھیں اور باقی حصہ میں عام طور پر گھر کی رڈی اشیاء رکھی
خطبات محمود جلد نمبر 39 320 $1959 جاتی تھیں.میں نے دیکھا کہ پولیس والوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کھڑا کیا ہوا ہے اور آپ کے سامنے اوپلوں کا ڈھیر لگا دیا گیا ہے.پولیس والے آتے ہیں اور اوپلوں کو آگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں.میں یہ دیکھ کر خواب میں بہت گھبرایا کہ اب کیا ہو گا.اتنے میں کسی شخص نے اشارہ کیا کہ اوپر دیکھو.میں نے اوپر دیکھا تو دہلیز کے اوپر لکھا ہوا تھا کہ جو خدا کے بندے ہوتے ہیں آگ اُن پر کوئی اثر نہیں کر سکتی.پھر میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے زور سے اپنا ہاتھ مارا اور تمام او پلے گر گئے اور آپ اُس میں سے باہر نکل آئے.66 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی ایک الہام ہے کہ آگ سے ہمیں مت ڈرا آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.6 آج جب میں نے حضرت خلیفہ اول کی کتاب ”نورالدین منگوائی اور اُس میں سے دھرمیال کے اس اعتراض کا جواب سنا اور حضرت خلیفہ اول کے الفاظ دیکھے کہ تم ہمارے امام کو آگ میں ڈال کر دیکھ لو یقیناً خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق اُسے اس آگ سے اُسی طرح محفوظ رکھے گا جس طرح اُس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو محفوظ رکھا تو مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے یہ الفاظ یاد آ گئے کہ ہمیں بھی خدا تعالیٰ نے ابراہیم کہا ہے.اگر لوگوں کو اس آگ کے ٹھنڈا ہونے میں کوئی محبہ ہے تو وہ مجھے آگ میں ڈال کر دیکھ لیں کہ کی آگ ٹھنڈی ہوتی ہے یا نہیں.چنانچہ جیسے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں بارش برسا کر یا ہوا چلا کر اُس آگ کو ٹھنڈا کر دیا تھا اُسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے ج انگریزوں کو بھیج کر اس آگ کو ٹھنڈا کیا ہوا تھا.بیشک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ چیلنج دیا ای تھا کہ یہ لوگ مجھے آگ میں ڈال کر دیکھ لیں مگر مخالف اس بات سے ڈرتے تھے کہ اگر ہم نے ایسا کیا تو گورنمنٹ ہمیں پھانسی پر لٹکا دے گی.ہاں ! ان لوگوں نے گورنمنٹ کے ذریعہ آپ کے مکان کی تلاشی کا انتظام کیا کہ شاید کوئی قابلِ اعتراض خط مل جائے جس کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف چارہ جوئی کی جا سکے.مجھے یاد ہے سپرنٹنڈنٹ پولیس لیمار چنڈ جب کمرہ سے باہر نکلا تو چونکہ اُس کا قد بہت لمبا تھا اور پھر اس نے سولا ہیٹ 8 پہنی ہوئی تھی جو بہت اونچی ہوتی ہے اس لیے اُس کا سر بڑے زور سے دہلیز سے ٹکرایا اور وہ لڑکھڑا کر گرنے لگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
$1959 321 خطبات محمود جلد نمبر 39 نے فرمایا آپ کچھ دیر آرام کرلیں میں آپ کے لیے دودھ منگواتا ہوں.اُس نے کہا نہیں نہیں ، میں ڈیوٹی پر آیا ہوں اس لیے میں ایسا نہیں کر سکتا.مجھے یاد ہے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے چھوٹی مسجد میں یہ واقعہ سنایا اور فرمایا دیکھو! انگریزوں میں اپنی ڈیوٹی کا کیسا احساس پایا جاتا ہے.اگر کوئی ہندوستانی ہوتا تو فورآمان جاتا بلکہ وہ خود کہتا کہ مجھے کچھ دودھ وغیرہ منگوا دیں لیکن لیمار چنڈ انگریز تھا اُس نے کہا میں آپ کی تلاشی کے لیے آیا ہوں اور گورنمنٹ کی طرف سے ڈیوٹی پر ہوں اس لیے میرے لیے جائز نہیں کہ آپ کی کے گھر سے کوئی چیز لے کر کھاؤں.حکیم محمد عمر صاحب بھی اُس مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اور چونکہ وہ بڑ بولے واقع ہوئے ہیں جب مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ لیمار چنڈ کا سر د ہلیز سے ٹکرایا ای تو حکیم صاحب فوراً بول پڑے کہ حضور ! اُس کے سر سے خون بھی نکلا تھا یا نہیں ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہنس پڑے اور فرمایا حکیم صاحب! میں نے اُس کی ٹوپی اٹھا کر نہیں دیکھا تھا کہ اُس کے سر میں سے خون بھی نکلا ہے یا نہیں؟ اب دیکھ لو! حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ تک حضرت ابراہیم علیہ السلام کو گزرے چار ہزار سال ہو چکے تھے مگر چونکہ آپ کا بھی ابراہیم ہونے کا دعوی تھا اس لیے گودشمنوں نے آپ کے لیے ہر قسم کی آگ بھڑکائی ، آپ کے مکان کی تلاشی لی اور پوری کوشش کی کہ کسی طرح کی آپ پر کوئی الزام لگے اور آپ گرفتار ہو جائیں لیکن اُن کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہو سکی.لاہور میں ایک ڈپٹی برکت علی خان صاحب تھے جو شاہ جہان پور کے رہنے والے تھے اور مسلمانوں کے بہت خیر خواہ تھے.آریوں نے مشہور کر دیا تھا کہ ڈپٹی صاحب کے گھر میں لیکھرام کا قاتل چھپا ہوا ہے.اس زمانہ کے ایک دوست اب بھی موجود ہیں اُن کی عمر اسی سال کے قریب ہے اور وہ انڈیا میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس بھی رہ چکے ہیں.وہ مری میں مجھ سے ملنے آئے تھے.انہوں نے بتایا کہ میں اُن دنوں سب انسپکٹر پولیس تھا اور لاہور میں تھا.میں نے سنا کہ سپر نٹنڈنٹ پولیس نے ڈپٹی صاحب کی کوٹھی کے ارد گرد گھیرا ڈالا ہوا ہے.میں بھی وہاں گیا اور دیکھا کہ ہزاروں مسلمان جوش میں وہاں کھڑے ہیں.وہ سمجھتے تھے کہ جس شخص نے بھی لیکھرام کو قتل کیا ہے اس نے اسلام کی خدمت کی ہے اس لیے وہ جوش میں وہاں کھڑے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ہم سب قتل ہو جائیں گے لیکن ڈپٹی صاحب کے
$1959 322 خطبات محمود جلد نمبر 39 گھر میں پولیس کو گھنے نہیں دیں گے.ڈپٹی صاحب بڑے نرم دل تھے.وہ باہر نکلے اور انہوں نے کہا نہیں صاحب! قاتل میرے گھر میں نہیں گھسا.پھر انہوں نے قسم کھائی تب جا کر لوگ ٹھنڈے ہوئے.پھر پولیس اندر داخل ہوئی اور اُس نے تلاشی لی تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا.دراصل لیکھرام کو کسی تی آدمی نے نہیں مارا تھا کہ وہ ڈپٹی برکت علی خان صاحب کے گھر میں گھستا بلکہ اُسے فرشتے نے مارا تھا اور وہ کہاں پکڑا جا سکتا تھا.پہلے میں سمجھتا تھا کہ ” برکت علی محمدن ہال اُن ملک برکت علی صاحب کے نام پر ہے جو مسلم لیگ کے سیکرٹری تھے لیکن ان ریٹائر ڈ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس نے مجھے مری میں بتایا کہ یہ ہال ان برکت علی خان صاحب کے نام پر ہے جن کے زمانہ میں لیکھر ام کا واقعہ ہوا تھا.تو اللہ تعالیٰ ہر زمانہ میں اپنے نشانات دکھاتا ہے.پہلے زمانہ میں بھی وہ نشانات دکھاتا رہا ہے، اب بھی دکھا رہا ہے اور آئندہ بھی دکھاتا رہے گا.ہمارا خدا زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا.اُس پر نہ کبھی اونگھ آتی ہے، نہ نیند آتی ہے، نہ موت آتی ہے اور نہ کمزوری آتی ہے.اس خدا کے نشانات نہ کبھی کم ہوئے ہیں اور نہ کم ہوں گے.بیوقوف سمجھتے ہیں کہ وہ نشانات حضرت آدم علیہ السلام یا حضرت نوح علیہ السلام یا حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ختم ہو گئے حالانکہ وہ نشانات نہ حضرت آدم علیہ السلام پر ختم ہوئے ہیں، نہ حضرت نوح علیہ السلام پر ختم ہوئے ہیں، نہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ختم ہوئے کی ہیں، نہ حضرت موسی علیہ السلام پر ختم ہوئے ہیں، نہ حضرت عیسی علیہ السلام پر ختم ہوئے ہیں اور نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوئے ہیں وہ نشانات قیامت تک چلتے چلے جائیں گے اور لوگوں کے ایمانوں کو تازہ کرتے رہیں گے.اگر خدا تعالیٰ کے معجزات، نشانات اور تائیدات سماوی مٹا دی جائیں تو ایمان صرف رسمی اور قصہ کہانی بن کر رہ جائے اور قصہ کہانیوں کا ایمان انسان کو کوئی فائدہ نہیں کی دیتا.ایمان اُسی وقت فائدہ دیتا ہے جب وہ یقین کی حد تک پہنچ جائے اور اُسے یقین کی حد تک پہنچانا خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے بندہ کے اختیار میں نہیں.اللہ تعالیٰ جس پر مہربانی کرے اُس کو یقین کامل حاصل ہو جاتا ہے اور جس کو اللہ تعالیٰ کی نصرت نہ ملے اُس کو باوجود قرآن کریم کے پڑھنے اور ظاہری ایمان حاصل ہونے کے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا سا ایمان حاصل نہیں ہوتا.وہ اس دنیا میں اندھا ہی آتا ہے اور اندھا ہی اس دنیا سے رُخصت ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ رحم کرے تو اس کی بخشش ہو سکتی ہے ور نہ وہ اپنے زور سے کسی بخشش کا مستحق نہیں ہو سکتا.پس اللہ تعالیٰ سے دُعائیں کرتے رہنا چاہیے کہ و
$1959 323 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہمیں صرف اپنے نشانات ہی نہ دکھائے بلکہ اپنے نشانات پر علم یقین بھی پیدا کرے.خالی نشان دیکھنا کوئی چیز نہیں.دیکھو! حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ کسی قدر نشانات دکھائے گئے.آپ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کہ میں اُس کی طرف سے ہوں اس قدر نشان دکھلائے ہیں کہ اگر وہ ہزار نبی پر بھی تقسیم کیے جائیں تو اُن کی بھی اِن سے نبوت ثابت ہوسکتی ہی ہے.مگر اتنے بڑے نشانات کے باوجود آپ کے بعض ماننے والے ہی آپ سے منحرف ہو گئے.اس لیے کہ انہوں نے نشانات تو دیکھے مگر حق الیقین تک اُن کی نوبت نہیں پہنچی تھی.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا اور پھر ڈگمگا گئے.پس اللہ تعالیٰ سے دُعائیں کرتے رہنا چاہیے کہ وہ ہمیں یقین کامل عطا فرمائے اور ہمیں موت دے تو صالحین والی موت دے.حضرت یوسف علیہ السلام سے بڑھ کر کون ایماندار ہو گا ؟ آپ نے اللہ تعالیٰ کے بڑے نشانات دیکھے تھے مگر پھر بھی آپ فرماتے ہیں فَاطِرَ السَّمواتِ وَالْاَرْضِ اَنْتَ وَلِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَ اَلْحِقْنِي بِالصّلِحِينَ 10 یعنی اے زمین و آسمان کو پیدا کرنے والے خدا! تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا دوست اور مددگار ہے.اس لیے میری تجھ سے التجا ہے کہ تو مجھے اپنی کامل فرمانبرداری کی حالت میں وفات دیجیو اور پھر ایسی حالت میں موت دیجیو کہ میں صالحین کے طبقہ میں شامل ہو جاؤں.انسان کو ہمیشہ یہ دعا مانگتے رہنا چاہیے تا کہ اللہ تعالیٰ اُس کا انجام بخیر کرے اور اس دنیا میں بھی خدا تعالیٰ کی تائید اُسے حاصل ہو اور آخرت میں بھی وہ اس کے (الفضل 4 فروری 1959ء) ساتھ ہو.1 : الانبياء: 70 2 : فَجَعَلَهُمْ جُذْذَا إِلَّا كَبِيرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ (الانبياء : 59) 3: قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا الهَتَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ فَعِلِينَ (الانبياء: 69) 4 : نورالدین مؤلفہ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب صفحہ 146 سوال نمبر 65 - 27 فروری 1904 ءمطبع ضیاءالاسلام قادیان.
324 $1959 خطبات محمود جلد نمبر 39 5 : تفسیر بیان فرموده حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود سورۃ الانبیاء آیت 70 قُلْنَا يَنَارُ كُوْنِي بَرْدًا....جلد 3 صفحہ 261،260 6 : تذكرة صفحہ 324 ایڈیشن چہارم 2004 ء 7 : نورالدین سوال نمبر 5 صفحہ 146 - 27 فروری 1904 ء مطبع ضیاء الاسلام قادیان : سولا ہیٹ: ایک خاص طرز کا انگریزی ٹوپ جو سولا کی لکڑی کے گدے سے بنایا جاتا ہے.اس میں کنارے چھجے کی طرح باہر کو نکلے ہوتے ہیں تا کہ دھوپ سے محفوظ رہا جا سکے.(اردو لغت تاریخی اصول پر.جلد 12 صفحہ 184 کراچی 1991ء) و چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 332 کمپیوٹرائز ڈایڈیشن 2008ء 10 : يوسف : 102
$1959 325 39 خطبات محمود جلد نمبر 39 نکاح دنیوی لحاظ سے سب سے بڑا عقد ہے جو مرد اور عورت دونوں پر بعض اہم ذمہ داریاں عائد کرتا ہے اس عقد میں خاوند اور بیوی دونوں کے والدین اور عزیزوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کا عہد بھی شامل ہے (فرمودہ 23 جنوری 1959ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ - 1 اس کے بعد فرمایا: سورۃ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک نہایت ضروری امر کی طرف توجہ دلائی ہے.وہ فرماتا ہے اے مومنو! تم اپنے عقود کو پورا کرو.یوں تو ہر مومن اپنے وعدہ کا پابند ہوتا ہے مگر عقد میں وعدہ سے زیادہ پختگی ہوتی ہے اور پھر وہ بعض شرائط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے.یہ عقود دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک دینی اور دوسرے دنیوی.دینی عقد تو یہ ہے کہ ہر شخص مسلمان ہوتے وقت یہ کہتا ہے که اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ -
$1959 326 خطبات محمود جلد نمبر 39 یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں.گویا ایک مسلمان اسلام قبول کرتے وقت ساری دنیا کو بتادیتا ہے کہ میرا یہ عقیدہ ہے.پس اس کے بعد جو شخص بھی اُس کے ساتھ بہ معاملہ کرتا ہے وہ یہ یقین رکھ کر کرتا ہے کہ وہ خدا کو ایک سمجھتا ہے.پھر خدا تعالیٰ کو ایک سمجھنے کے علاوہ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ کا بندہ اور اُس کا رسول سمجھتا ہوں.گویا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تعلیم دی ہے اُسے میں پوری طرح مانتا ہوں.اس کے بعد ہر شخص کو اُس کے ساتھ معاملہ کرتے وقت یہ پتا ہوتا ہے کہ وہ کیا رویہ اختیار کرے گا.کیونکہ اس نے اپنے عقیدہ کا اعلان کیا ہوا ہوتا ہے.اگر وہ شخص اس اقرار سے پھرے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم سے انکار کرے تو وہ دنیا کو دھوکا دینے والا سمجھا جائے گا.مجھے ایک دوست نے ایک بڑے افسر کے متعلق سنایا کہ میں اُس کے پاس ایک دفعہ کسی کام کے لیے گیا تو میں نے ایک اور افسر کا نام لے کر کہا کہ اُس نے فلاں معاملہ میں انصاف سے کام نہیں لیا.اس پر وہ ہنس کر کہنے لگا کہ وہ خدا تعالیٰ کو رازق نہیں سمجھتا ہوگا میں تو خدا تعالیٰ کو ہی رازق سمجھتا کی ہوں.اُس کا مطلب یہ تھا کہ میں اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ میرا عہدہ باقی رہے گا یا نہیں ، میں خدا تعالیٰ کو رازق سمجھتا ہوں اور خدا کو رازق سمجھنے کی وجہ سے میں اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ کوئی شخص مجھ پر خفا ہو جائے گا.گویا دوسرے لفظوں میں اُس نے اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا الله کی تشریح کی یعنی میں خدا کو ایک سمجھتا ہوں اور اس کی صفات کو کسی بندے کی طرف منسوب نہیں کرتا.میں خدا تعالی کو ہی ای رازق سمجھتا ہوں.یا مثلاً جس کا رخانہ میں میں ملازم ہوں اُس کے مالک کو میں رازق نہیں سمجھتا.میں یہ نہیں سمجھتا کہ میرے ماں باپ میرے رازق ہیں بلکہ میرا رازق خدا تعالیٰ ہی ہے.اسی طرح میں سمجھتا ہی ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تعلیم دی ہے وہ خدا تعالیٰ نے ہی آپ کو دی ہے.انہوں کی نے اپنے پاس سے کچھ نہیں کہا.میں انہیں اللہ تعالیٰ کا عبد مانتا ہوں مگر میں ساتھ ہی یہ بھی سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے ہی انہیں بھیجا تھا.پس جو کچھ انہوں نے کہا وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کہا ہے اپنی طرف سے کچھ نہیں کہا.پھر ” میں خدا کو ایک سمجھتا ہوں“ کے یہ معنی بھی ہیں کہ اگر میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے احکام کے مخالف چلوں گا تو کوئی طاقت مجھے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا نہیں سکتی.دنیوی عقود میں سے سب سے بڑا عقد بیوی کے ساتھ ہوتا ہے.نکاح کے وقت انسان اقرار
$1959 327 خطبات محمود جلد نمبر 39 کرتا ہے کہ وہ اُس کے ساتھ حسن سلوک کرے گا اور محبت سے پیش آئے گا.پھر اُس کے رشتہ داروں سے عقد ہوتا ہے.مگر مجھے افسوس ہے کہ کئی احمدی اس معاملے میں پورے نہیں اُترتے.نکاح تو وہ کرتی لیتے ہیں مگر بعد میں بیویوں سے اُن کا سلوک اچھا نہیں ہوتا.بعض عورتیں میرے پاس آتی ہیں اور کہتی ہیں ہمارے خاوند ہم سے حسنِ سلوک نہیں کرتے اور اگر ہم خلع کرانا چاہتی ہیں تو وہ ہمیں چھوڑتے بھی نہیں.حالانکہ اگر کوئی شخص واقع میں اپنے عہد کو پورا نہیں کرتا تو اُس کا فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کو چھوڑ دے.پھر بعض خاوند ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمیں اتنے ہزار روپے دیئے جائیں تو ہم چھوڑی دیں گے ورنہ نہیں ، یہ سب بے ایمانیاں ہیں اور نفس کی خرابی کی علامتیں ہیں.مومن کا فرض ہے کہ اگر اُس کی عورت ذرا بھی انقباض ظاہر کرے تو وہ اُسے فوراً چھوڑ دے.احادیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واقعہ آتا ہے کہ آپ نے ایک عورت سے شادی کی.جب آپ اُس کے پاس گئے تو ی اُس نے کہا اَعُوذُ بِاللهِ مِنگ.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے مجھ سے بڑی طاقت کی پناہ مانگی ہے اس لیے تمہیں میری طرف سے طلاق ہے.2 بعد میں وہ عورت شکایت کرتی رہی کہ مجھے دھوکا دیا گیا ہے، مجھے کسی عورت نے سکھا دیا تھا کہ تو اس طرح کہ یو ، اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دل تیری طرف خاص طور پر مائل ہو جائے گا.لیکن بہر حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اُس نے اَعُوذُ بِاللهِ کہا اور آپ نے اُسے فور اطلاق دے دی.تو مومن کا یہ کام ہے کہ اگر اس مالی کی عورت اُس کو نا پسند کرتی ہو تو فوراً اُسے چھوڑنے پر تیار ہو جائے.اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ تو حید کے بھی خلاف کرتا ہے کیونکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ سمجھتا ہے کہ اُس عورت کے بغیر اس کا گزارہ نہیں ہو سکتا.حالانکہ توحید کامل یہ کہتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے سوا ہمارا کوئی گزارہ نہیں.اگر ہم کسی مرد یا عورت کی کے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ اُس کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں تو ہم مشرک ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور یقین سے دور چلے جاتے ہیں.اسی طرح عقود میں بیوی کے ماں باپ اور عزیزوں اور اسی طرح خاوند کے ماں باپ اور عزیزوں کے ساتھ حسن سلوک کا عہد بھی شامل ہے لیکن کئی مرد ہیں جو شادیاں تو کر لیتے ہیں لیکن اپنی ساس اور خسر کے ساتھ حسنِ سلوک نہیں کرتے.بلکہ ہمارے ملک میں تو سر کو گالی سمجھا جاتا ہے.چنانچہ جب کسی کو بُرا بھلا کہنا ہو تو کہتے ہیں سہورا ہووے.حالانکہ قرآن کریم سے پتا لگتا ہے کہ
$1959 328 خطبات محمود جلد نمبر 39 حضرت شعیب علیہ السلام نے حضرت موسی علیہ السلام کو اپنی لڑکی دینے کا وعدہ کیا تو کہا تم دس سال کی میری خدمت کرو.جب تم یہ مدت پوری کر لو گے تو میں اپنی لڑکی کا تم سے نکاح کر دوں گا.گوی حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی طرف سے کم کر کے کہا کہ اگر میں آٹھ سال بھی پورے کر دوں تو مجھے پر اعتراض نہیں ہو گا لیکن بہر حال انہوں نے حضرت موسی علیہ السلام سے شرط کی تھی اور حضرت موسی علیہ السلام نے یہ نہیں کہا کہ میں اس شرط کو قبول نہیں کرتا بلکہ کہا کہ اگر میں دس سال کی مدت پوری نہ کرسکوں آٹھ سال بھی پورے کر دوں تو مجھ پر کوئی الزام نہیں ہوگا.4 گویا حضرت موسی علیہ السلام کا تو یہ حال تھا کہ وہ شادی کی خاطر اپنے خسر کی دس سال تک خدمت کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور اب کی یہ ہے کہ تھوڑی سی بات پر لڑائی اور فساد ہو جاتا ہے.آخر بیوی پر اُس کے ماں باپ کا بھی حق ہے اور یہ ای ظاہر ہے کہ وہ کماتی نہیں، کما تا مرد ہی ہے اور وہ اُس کے گھر کا کام کرتی ہے اور بچوں کو پالتی ہے.اس لیے اُس کے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ذمہ داری مرد پر ہے.اگر وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے تو اُس کا فرض ہے کہ اپنی ساس اور خسر کی ضرورتوں کو پورا کرے.بیشک قرآن کریم یہ فرماتا ہے کہ ہر شخص پر اتنی ہی ذمہ داری ہوتی ہے جتنی اُس کی طاقت ہوتی ہے 5 لیکن اگر وہ مقدور برابر بھی خدمت نہیں کرتا تو وہ عقود کا توڑنے والا ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے سامنے مجرم ہوتا ہے.اسی کی طرح اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے ماں باپ کی عزت نہیں کرتی تو وہ بھی عقو دکو توڑ تی ہے کیونکہ جب اُس نے ایک مرد کے ساتھ شادی کی تھی تو اُس نے یہ بھی اقرار کیا تھا کہ میں مرد کی ذمہ داریوں کو بھی پورا کروں گی اور مرد پر ذمہ داریاں اُس کی ماں کی بھی ہیں اور اُس کے باپ کی بھی ہیں.پس اُس عورت پر بھی اپنے خاوند کے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.اگر وہ کی اُن کی خدمت نہیں کرتی تو مجرم بن جاتی ہے.احادیث میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک دفعہ دور سے سفر کر کے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ملنے گئے.حضرت اسماعیل علیہ السلام کو شکار کا شوق تھا.وہ شکار کو گئے ہوئے تھے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے باہر سے آواز دی کہ اسماعیل ہے؟ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بیوی کسی عرب قوم سے تھی اس لیے وہ حیران ہوئی کہ یہ کون شخص ہے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کا نام اس بے تکلفی سے لے رہا ہے.اُس نے دریافت کیا کہ تم کون ہو؟ آپ نے فرمایا میں ابراہیم
$1959 329 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہوں لیکن اُس نے یہ بے وقوفی کی کہ اُس نے یہ خیال نہ کیا کہ یہ دُور سے آئے ہیں، میں انہیں پانی پلاؤں اور ان کی خاطر تواضع کروں.اُس نے صرف اتنا پوچھا کہ آپ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو کیا پیغام دینا ہے؟ آپ نے فرمایا اُسے کہنا کہ تیری دہلیز بہت چھوٹی ہے اس کو بدل دو.جب حضرت اسماعیل علیہ السلام واپس آئے تو اُن کی بیوی نے بتایا کہ ایک شخص آیا تھا جو ابراہیم نام بتا تا تھا.جاتے ہوئے وہ یہ پیغام دے گیا تھا کہ تیری دہلیز بہت نیچی ہے اس کو بدل دو.آپ نے فرمایا وہ میرے باپ تھے اور اُن کے پیغام کا یہ مطلب ہے کہ تو نے اُن کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا.اس کی لیے میں تمہیں رکھنے کے لیے تیار نہیں.میں تجھے طلاق دیتا ہوں.6 تو عورت پر اپنے خاوند کے ماں باپ کی خدمت کرنا اور اُن کی نگہداشت کرنا ویسا ہی فرض ہے جیسے مرد پر فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ماں باپ کی خدمت کرے.اگر وہ دونوں اپنے فرائض کو ادا نہیں کرتے تو وہ عقود کو توڑتے ہیں اور عقود کے توڑنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے مجرم بن جاتے ہیں.کی قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کے ہر قسم کے گناہ معاف کر دیتا ہے 7 لیکن اگر کسی بندے کا قصور کیا گیا ہو تو خدا تعالیٰ اُس وقت تک اُسے معاف نہیں کرتا جب تک بندے سے بھی معافی نہ لی جائے.پس اگر انسان کامل توحید پر چلنے کی کوشش کرے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت بھی کرے لیکن وہ بندوں کے عقو دکو مثلاً ماں باپ کے عقودکو ، دوستوں کے عقود کو یا بیوی ای یا خاوند کے عقود کو پورا نہ کرے تو وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مجرم بننے سے بچ نہیں سکتا کیونکہ ان کا پورا کرنا ( الفضل 12 فروری 1959 ء ) بھی ضروری ہے.1 : المائدة : 2 2 : بخارى كتاب الطلاق باب من طَلَّقَ وَ هَلْ يُوَاجِهُ الرَّجُلُ امرأَتَهُ بالطَّلاق :3 قَالَ إِنّى أُرِيدُ أَنْ أُنْكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَى هُتَيْنِ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَنى حِجَجٍ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَ (القصص: 28) 4 : قَالَ ذَلِكَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَى “ (القصص: 29) 5 : لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة: 287) 6 : بخارى كتاب الانبياء باب يَزِفُونَ النَّسَلَانُ فِي الْمَشْى
$1959 330 خطبات محمود جلد نمبر 39 ما ح : اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا (الزمر : 54)
$1959 331 (40) خطبات محمود جلد نمبر 39 اسلام دنیوی اور دینی دونوں معاملات میں زیادتی کوناجائز قرار دیتا ہے اپنے کاموں میں ہمیشہ عدل وانصاف کوملحوظ رکھو اور گناہ اور بدی کے امور میں ہرگز تعاون نہ کرو (فرموده 30 جنوری 1959 ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: ولا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوا وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ - 1 اس کے بعد فرمایا: پچھلے جمعہ ایک دوست نے بتایا کہ آپ کی حلاوت بالکل اسی طرح تھی جس طرح صحت کی حالت میں قادیان میں ہوا کرتی تھی صرف اتنی بات تھی کہ آپ جلدی جلدی تلاوت کرتے تھے.اگر اس جلدی تلاوت کرنے کی عادت کو آپ روک لیں تو پھر وہی حالت ہو جائے گی جو قادیان میں تھی.لیکن
$1959 332 خطبات محمود جلد نمبر 39 شاید اُس دوست کو پتا نہیں کہ یہی تو مجھے بیماری ہے.جس قسم کی بیماری کا حملہ مجھے ہوا تھا اُس کا خاصہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں انسان ہر کام جلدی جلدی کرتا ہے.چلتا ہے تو اُس میں بھی جلدی کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کے نتیجہ میں بعض دفعہ دروازہ سے مڑنے لگتا ہے تو اسے ٹھوکر لگ جاتی ہے.بعض ڈاکٹروں نے اس کا علاج یہ بتایا ہے کہ جیپ پر چڑھ کر ایسی سڑکوں پر سفر کیا جائے جو خراب ہوں اور ان اس سے خوب جھٹکے لگیں.اس سے اس مرض کو آرام آ جائے گا.لیکن تجربہ کے بعد معلوم ہوا کہ یہ علاج غلط ہے اور اس سے کوئی فائدہ نہ ہوا.تو اصل میں اس بیماری کا یہی خاصہ ہے کہ اس میں ہر کام جلدی جلدی کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے.دوسرے یہ بات بھی ہے کہ بیماری کی وجہ سے ڈر آتا ہے کہ کہیں میں بھول نہ جاؤں.اس وجہ سے بھی جلدی کرنی پڑتی ہے.میری بیماری کے متعلق ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ شاید سردی کم ہو تو اس میں افاقہ ہو جائے.جب جلسہ سالانہ کے موقع پر میری زبان پر چھالے پڑے تھے تو ڈاکٹروں کی یہ رائے تھی کہ اندرونی حصہ جسم میں کسی جگہ زہر پیدا ہوا ہے جس کی وجہ سے زبان پر چھالے پڑ گئے ہیں.اس وقت تو پتا نہیں لگا لیکن بعد میں میں نے عزیزم ڈاکٹر اعجاز الحق کو اپنا دانت دکھانے کے لیے لاہور سے بلایا تو اُن کے معائنہ سے معلوم ہوا کہ دانت میں ایک پرانی مرض ہوا کرتی تھی کہ بجائے او پر سوراخ ہونے کے پہلو میں سوراخ ہو کر عصبہ کا سر باہر نکل آتا تھا.انہوں نے کہا کہ اس دانت میں عصبہ کا وہی سر انگا ہو گیا ہے مگر کہا کہ اس دانت کو نکالنے کا فیصلہ ہم تبھی کر سکتے ہیں جب آپ لاہور آئیں اور وہاں دانت کا ایکسرے کرائیں.انہوں نے کہا میں کچھ علاج تو کر دیتا ہوں مگر پورا علاج ابھی نہیں کیا جا سکتا.اگر یکسرے میں بھی یہی نکلا کہ دانت کو نکالنا چاہیے تو اسے نکالنا ہی پڑے گا کیونکہ اس کی وجہ سے ہر وقت بے چینی رہتی ہے.میں ہونٹوں کو ہلا بھی نہیں سکتا کیونکہ جس جگہ پر دانت آتا ہے وہاں درد ہوتی ہے.دوسرے کھانے کی بھی بڑی دقت ہے.وہ کہتے ہیں دانت بڑی دیر میں بن سکیں گے اور چونکہ یہی دانت ڈنچر 2 کے لیے سہارے کا کام دیتا ہے اس لیے اگر یہ سہارا نہ رہا تو دانتوں سے چبانا بالکل ناممکن ہو جائے گا.میں نے احتیاطاً ابھی سے حریرہ 3 وغیرہ کھانا شروع کر دیا ہے تا کہ دانتوں سے چبانے کا سوال ہی پیدا نہ ہو اور ارادہ ہے کہ کچھ دنوں تک طبیعت اچھی ہوئی تو ایک دن لاہور جاکر ایکسرے کراؤں گا.اور اگر دانت نکلوانے کا فیصلہ ہوا تو اسے نکلوا دوں گا تا کہ روز روز کی تکلیف
$1959 333 خطبات محمود جلد نمبر 39 دور ہو جائے.جو میں نے ابھی جو آیات پڑھی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ ہمیں ایک بہت بڑا اخلاقی سبق دیتا کی ہے.دنیا میں کئی قسم کی مخالفتیں ہوتی ہیں.بعض مخالفتیں دنیا وی ہوتی ہیں اور بعض دینی ہوتی ہیں.دنیوی مخالفتوں کو تو انسان معاف بھی کر سکتا ہے لیکن دینی مخالفتوں میں بعض اوقات ضد آ جاتی ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ ہم انہیں کیسے معاف کریں.مجھے یاد ہے کہ جب حضرت خلیفہ اول کی خلافت کا جھگڑا شروع ہوا اور میں ابھی خلیفہ نہیں ہوا کی تھا تو خواجہ کمال الدین صاحب نے شیخ یعقوب علی صاحب کو میرے پاس بھیجا کہ آپس میں صلح کر لی جائے.شیخ صاحب ! جذباتی قسم کے آدمی تھے، جلدی متاثر ہو گئے اور آ کر کہنے لگے میں بڑی خوشخبری لایا ہوں.خواجہ کمال الدین صاحب کہتے ہیں صلح کر لی جائے.میں نے کہا شیخ صاحب اُن سے کی پوچھنا تھا کہ میرا اُن سے جھگڑا کیا ہے؟ میری کوئی جائیداد تو انہوں نے نہیں دبائی ہوئی.اگر جائیداد کا کی سوال ہوتو میں ابھی ساری جائیداد چھوڑتا ہوں لیکن اگر دین کا سوال ہے تو میرا اُسے چھوڑنے کا کیا حق ہے.یہ صرف خدا تعالیٰ کا حق ہے اور وہی اسے چھوڑ سکتا ہے میں نہیں چھوڑ سکتا.یہ بات اُن کی سمجھ میں آگئی اور انہوں نے خواجہ صاحب کو بتا دیا.تو بعض دفعہ دنیا میں قوموں کے ساتھ دنیوی جھگڑے ہوتے ہیں اور بعض دفعہ دینی جھگڑے ہوتے ہیں.دینی جھگڑوں میں انسان بعض دفعہ ضد کر کے اڑ جاتا ہے کہ میں صلح نہیں کرتا.جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ وہ صلح نہ کرے اور اپنے عقیدہ پر قائم رہے تو یہ بڑی اعلیٰ درجہ کی بات ہے لیکن بعض دفعہ لوگ دینی باتوں کی وجہ سے غصہ میں آکر لڑ پڑتے ہیں.چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ایک دفعہ کسی یہودی سے کوئی معاملہ کر رہے تھے کہ اس نے باتوں باتوں میں کہہ دیا میں موسی کی قسم کھا کر کہتا بعد میں ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب نے ایک اور احمدی دوست کے ساتھ جو ایکسرے کے ایکسپرٹ ہیں معائنہ کیا اور فیصلہ کیا کہ یہاں مسوڑھے میں ایک دنبل 4 پیدا ہو گیا ہے.چنانچہ چیر دے کر اس میں سے پیپ نکال دی گئی.اس کے بعد گوزخم مندمل ہو چکا ہے اور دماغ میں جو ہتھوڑے لگتے تھے اس میں بھی کمی واقع ہو گئی ہے لیکن ابھی ہاتھ لگانے سے درد ہوتی ہے.ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ کچھ دنوں کی تک آرام آجائے گا.
$1959 334 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہوں جسے خدا تعالیٰ نے سب نبیوں کا سردار بنایا ہے کہ یہ بات اس طرح ہے.حضرت ابو بکر کو غصہ آ گیا کہ یہ شخص حضرت موسی علیہ السلام کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فضیلت دیتا ہے اور آپ نے اُسے تھپڑ مار دیا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتالگا تو آپ خفا ہوئے اور فرمایا کہ اس یہودی نے اگر اپنے عقیدہ کی وجہ سے یہ بات کہی تھی تو آپ کو اُسے تھپڑ مارنے کا کوئی حق نہیں تھا.5 تو دینی معاملات میں بھی اسلام نے زیادتی کو ناجائز قرار دیا ہے.اسی بات کی طرف اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں توجہ دلائی ہے.فرماتا ہے لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ.کسی قوم کی اِس وجہ سے دشمنی کہ اُس نے تمہیں حج سے روکا ن ہے تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم اُس پر زیادتی کرنے لگ جاؤ.چاہے کوئی دینی جھگڑا ہوا دوسرے پر زیادتی کرنا بالکل نا جائز ہے.تم حق کا قانونی مطالبہ کرو لیکن تمہیں یہ اختیار نہیں کہ قانون کو کی ہاتھ میں لے لو اور حد سے بڑھ جاؤ.پھر باقی مسلمانوں کو کہتا ہے کہ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى - کئی دفعہ دنی معاملات میں ایسا ہوتا ہے کہ ساری قوم اکٹھی ہو جاتی ہے.چنانچہ بغداد کی تباہی کا موجب بھی یہی ہوا کہ وہاں کا وزیر جس فرقہ کا تھا اُس کی شہ پر اُس فرقہ کے لوگوں نے دوسرے فرقہ کو تنگ کیا.اس پر پہلے فرقہ کے لوگ بھی اکٹھے ہو گئے اور دوسرے فرقے والے بھی اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے ایک دوسرے کا مقابلہ کیا.ایک فرقہ کو یہ خیال گزرا کہ دوسرے فرقہ والے ہمارے مذہب کی ہتک کرتے ہیں اور دوسروں کو یہ خیال ہوا کہ پہلے فرقہ والے ہمارے مذہب کی ہتک کرتے ہیں.نتیجہ یہ ہوا کہ اس وزیر نے ہلاکو خاں سے ساز باز کی اور اُس نے حملہ کر کے بادشاہ اور ولی عہد کو قتل کر دیا اور اٹھارہ لاکھ مسلمان ایک دن میں مار ڈالے.اُس وقت لوگ کسی بزرگ کے پاس گئے اور اُن سے عرض کیا کہ دُعائی کریں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تباہی سے بچائے.اُس بزرگ نے جواب دیا میں تو پہلے بھی دُعا کرتا تای ہوں لیکن ہر دفعہ جب دُعا کرتا ہوں خدا تعالیٰ کے فرشتے مجھے آسمان پر یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ اٹھا الْكُفَّارُ اقْتُلُوا الْفُجَّار.اے کا فروا یہ لوگ فاجر ہو گئے ہیں انہیں خوب مارو.اور جب خدا تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ فاجر مسلمانوں کو قتل کیا جائے تو میں دُعا کیا کر سکتا ہوں.تو اٹھارہ لاکھ مسلمان اس موقع پر قتل کیے گئے بلکہ اس قتل عام کی بعض ایسی تفصیلات بیان
$1959 335 خطبات محمود جلد نمبر 39 کی جاتی ہیں کہ انہیں پڑھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.بہر حال ہلاکو خان کو بغداد پر فتح کی ایک وزیر کے ساتھ مل جانے کی وجہ سے ہوئی تھی.گو بعد میں ہلاکو خان نے اُس وزیر کو بھی قتل کروا دیا کی اور کہا جب تم نے اپنے بادشاہ سے غداری کی ہے تو تم میرے ساتھ کیوں نہیں کرو گے اور اس طرح اُس وزیر کو سزا تو مل گئی لیکن اسلامی سلطنت تباہ ہو گئی اور سات آٹھ سوسال تک اس کا نشان مٹا رہا.اب آ کر بغداد میں دوبارہ اسلامی حکومت قائم ہوئی تھی مگر دو تین سال کے اندر اندر جنرل قاسم کے ذریعہ سے تباہ ہوگئی.تو دیکھو بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ مذہبی جوش میں آکر قوم کی قوم کھڑی ہو جاتی ہے اور کہتی ہے ہمارے مذہب کی ہتک ہو گئی.قرآن شریف فرماتا ہے کہ اگر وہ جوش نیکی پر ہے تو تعاون کرو.اور اگر وہ محض کسی ضد کی وجہ سے پیدا ہوا ہے تو اُس سے عدم تعاون کرو.گویا با تقوی اور نیکی کی باتوں پر تعاون کیا کرو، گناہ اور بدی کی باتوں پر تعاون نہ کیا کرو.اگر دنیا اس پر عمل کرنے لگے تو تم خود ہی کی اندازہ لگا لو کہ کتنا امن ہو جائے.پہلی جنگ عظیم اس بات پر ہوئی تھی کہ آسٹریا کا ولی عہد جا رہا تھا، اُس سر بیا ( SERBIA) کے لوگوں نے بم پھینک دیا اور وہ مر گیا.اس پر جنگ شروع ہوگئی جس میں انگریز بھی شامل ہو گئے ، جرمن بھی شامل ہو گئے.حالانکہ جس علاقہ میں سے وہ گزر رہا تھا اور جن لوگوں کی نے اُسے مارا تھا حکومت اُن پر بڑا ظلم کر رہی تھی.تو یہ تعاون بظاہر تو عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَی تھا لیکن باطن عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ تھا کیونکہ لوگوں نے اُس ولی عہد کو حکومت کے ظلم کی وجہ سے مارا تھا.یہی دوسری جنگِ عظیم میں ہوا کہ ساری اتحادی قو میں ہٹلر پر پل پڑیں.بہانہ یہ بنایا کہ ہم پولینڈ کی مدد کرنے لگے ہیں.وہ پولینڈ کی گئی مددتو نہ کر سکے لیکن پولینڈ کی مدد کرتے کرتے انہوں نے جرمنی پر حملہ کر دیا اور اب اُس کا یہ خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے کہ اس کے بعد روس سے ایسا جھگڑا چھڑا ہے کہ وہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتا اور روس دنیا کے ہر ملک میں فساد ڈلوا رہا ہے.امریکہ کو پہلے طاقت کا بڑا دعوای تھا لیکن وہ بھی اب کمزور ہو گیا ہے.ظاہر میں تو وہ یہ کہتا ہے کہ میں ہر مخالف کا مقابلہ کروں گا لیکن عملی طور پر اُس میں کمزوری پائی جاتی ہے.دراصل روس نے جو راکٹ پھینکے ہیں اُن کا اتنا رعب پڑ گیا
$1959 336 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہے کہ امریکہ جو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت سمجھتا تھا اپنے آپ کو سیکنڈ گریڈ سمجھنے لگ گیا ہے.مگر اصل طاقت خدا تعالیٰ ہی کی ہے.چاہے روس ہو یا امریکہ اس کے مقابلہ میں جو طاقت بھی آئے گی تباہ ہو جائے گی.ہاں! کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی لاٹھی میں آواز نہیں وہ آہستہ آہستہ کام کرتا ہے.دیکھو! بچہ بھی ایک دن میں پیدا نہیں ہو جاتا وہ بھی 9 ماہ میں پیدا ہوتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے فیصلے آہستہ آہستہ ظاہر ہوتے ہیں لیکن جب بھی وہ ظاہر ہوں گے حق ہی ظاہر ہوگا.اور جب تک وہ ظاہر نہیں ہوتے اُس وقت تک انسان کو انتظار کرنا پڑے گا اور سمجھنا ہوگا کہ اللہ کا جو فیصلہ ہو گا وہی اچھا ہوگا.پس ہم کو اپنے کاموں میں ہمیشہ عدل و انصاف سے کام لینا چاہیے.چاہے دینی معاملہ ہی ہو ہمیں اپنے مخالف سے سختی نہیں کرنی چاہیے اور ایسا جوش ظاہر نہیں کرنا چاہیے کہ وہ طیش میں آکر اور گمراہ ہو جائے.اگر کوئی شخص ہماری غلطی کی وجہ سے طیش میں آتا ہے اور گمراہ ہو جاتا ہے تو اُس کا گناہ ہمیں بھی ہوگا.حضرت مسیح ناصرٹی نے کہا ہے کہ وہ شخص جس کی وجہ سے کسی انسان کو ھو کرلگتی ہے وہ بھی بد قسمت ہے.6 پس تم صرف یہ نہ دیکھو کہ تم کوئی نا جائز کام نہیں کر رہے بلکہ یہ بھی دیکھو کہ تمہاری وجہ سے کسی کو ٹھوکر نہ لگے کیونکہ اگر تمہارے کسی فعل کی وجہ سے کسی کو ٹھو کر لگتی ہے تو تم خدا تعالیٰ کے سامنے الفضل 21 مارچ 1959 ء ) جوابدہ ہو گئے.1 : المائدة : 3 2 : ڈپچر :(ڈھچر ) ڈھانچا، انجر، پنجر ( اردو لغت تاریخی اصول پر.جلد 10 صفحہ 225.کراچی ) 3 : حریرہ: ایک پتیلی غذا جو بالعموم آئے یا سوجی کو گھی میں بھون کر اور شکر اور پانی ڈال کر بنائی جاتی ہے.( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 8 صفحہ 134 کراچی 1987ء) 4 : دنبل : پھوڑا، دل دار پھوڑا، دمل ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 9 صفحہ 537 کراچی 1988ء) 5 : صحيح البخارى كتاب الانبياء باب وفاة موسى و ذکرہ بعد میں حضرت ابو بکر کی بجائے ایک صحابی کا ذکر ہے ) : متى باب 18 آیات 7،6
$1959 337 41 خطبات محمود جلد نمبر 39 ہماری جماعت کے زمینداروں کو چاہیے کہ وہ محنت اور ہمت سے کام لیتے ہوئے اپنے ملک کی زرعی پیداوار بڑھانے کی کوشش کریں ہر جگہ ایک سیکرٹری زراعت مقرر کیا جائے جو مرکز میں با قاعدہ رپورٹ بھیجا کرے کہ اُس کے علاقہ میں اس سلسلہ میں کیا کوشش ہو رہی ہے (فرموده 6 فروری 1959ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ” میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت کو نصیحت کی تھی کہ وہ اپنے اور اپنے ملک کے فائدہ کے لیے زراعت کی طرف توجہ کریں.اُس وقت بڑی خوشکن خبریں آ رہی تھیں اور کہا جار ہا تھا کہ اس دفعہ غلہ بہت پیدا ہوگا اور گورنمنٹ نے بھی غلہ کا سٹاک کافی کر لیا ہے، اس لیے باہر سے غلہ منگوانا نہیں پڑے گا.لیکن یہ علم نہیں تھا کہ گندم کی قلت کی مصیبت بہت جلد آ جائے گی.چنانچہ چند دن ہوئے میری ایک بیوی نے مجھ سے کہا کہ گھر میں گندم کا ایک دانہ بھی نہیں اور بازار سے ایک پاؤ آٹا بھی نہیں
$1959 338 خطبات محمود جلد نمبر 39 ملتا.میں نے اُس وقت خیال کیا کہ عورتیں یونہی گھبرا جاتی ہیں لیکن بعد میں مجھے صدر عمومی ربوہ کی طرف سے پٹھی آئی کہ ربوہ میں گندم با لکل نہیں مل رہی.اس لیے مجھے افسران بالا سے ملنے کے لیے بھیجا جا رہا ہے تا کہ ربوہ میں راشنگ (RATIONING) کا انتظام کیا جائے.پھر مجھے پتا لگا کہ اتنی جلدی گندم کی قلت ہمارے ملک میں ہو گئی ہے اور اس علاقہ میں جس کے قریب ہی سرگودھا اور لائکپور ہے جہاں بڑی مقدار میں گندم پیدا ہوتی ہے گندم کی قلت ہو گئی ہے.تحقیقات کرنے سے معلوم ہوا کہ سرگودھا میں اور بھی حالت بُری ہے.وہاں گاؤں کے لوگوں کو بڑی مصیبت پیش ہے اور وہ جوار بڑے مہنگے بھاؤ خرید کر کھا رہے ہیں، گندم کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پھر ایک عورت شکایت لے کر آئی کہ ہمیں بیسن کی ضرورت تھی اور بازار سے بہت مہنگا بیسن ملا، جوار بھی چار روپے اور زیادہ سے زیادہ چھ روپے فی من مل جاتی تھی.اب کہتے ہیں کہ سرگودھا میں بارہ روپے فی من کے حساب سے زمیندار جوار خرید کر کھا رہے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ بڑے بڑے آدمی آپس میں مل کر فیصلہ کر لیتے ہیں چھوٹے زمینداروں کی سے مشورہ نہیں لیتے جس کی وجہ سے اس قسم کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں.مثلاً احمد نگر کی زمین میں میری گندم ہی کوئی دو من فی ایکڑ کے حساب سے پیدا ہوئی تھی لیکن افسروں نے ساری زمین پر دو من اوسط کا ٹیکس لگا یا حالانکہ اس علاقہ میں زمین کو گل پندرہ فیصدی پانی ملتا ہے اس لیے ساری زمین کا پندرھواں حصہ ہی ہماری زمین کاشت کی جاسکتی تھی.نتیجہ یہ ہوا کہ گو ہم زمیندار ہیں لیکن ہمارے گھر غلہ کا ایک دانہ بھی نہیں.ایم.این سنڈیکیٹ (M.N.SYNDICATE) جو میری طرف سے اور میرے بیٹوں کی طرف سے ہماری زمین پر نگران مقرر ہے اُس نے وہی گندم جو گھروں میں خوراک کے لیے رکھی گئی تھی اُٹھا کر گورنمنٹ کو دے دی لیکن افسروں نے پھر نوٹس دے دیا کہ پانچ سو من گندم اور دو.ہم نے فوج کے پاس اپروچ (Approach) کی تو جھنگ میں جو اسسٹنٹ ایڈمنسٹریٹر تھے انہوں نے کی حمد اس عرصہ میں صدر عمومی افسران بالا سے ملے ہیں جس کے نتیجہ میں فوڈ ڈیپارٹمنٹ نے ربوہ کے متعلق بھی راشتنگ کا حکم دے دیا ہے اور گندم کا انتظام کر دیا ہے.چنانچہ بڑوں کو چار چھٹانک اور بچوں کو دو چھٹا تک روزانہ کے حساب سے گندم دی جا رہی ہے اور سنا ہے کہ یہ مقدار آب زیادہ کرنے والے ہیں.
339 $1959 خطبات محمود جلد نمبر 39 کہا ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں.آپ رسول کے افسروں کی طرف رجوع کریں.چنانچہ ہم لاہور میں فوڈ کے افسروں کے پاس گئے تو انہوں نے تحقیقات کر کے چنیوٹ کے افسر کو فون کر دیا کہ یہ گندم دے چکے ہیں ان سے مزید گندم کا مطالبہ نہ کیا جائے.اصل غلطی اس لیے لگی کہ ایم.این سنڈیکیٹ ہماری زمینوں کا یہاں بھی انتظام کرتی ہے اور سندھ میں بھی انتظام کرتی ہے.سندھ میں جو ڈلیوری ہوئی تھی وہ غالبا ایم.این سنڈیکیٹ کے نام پر ہوئی تھی میرے نام پر نہیں ہوئی تھی.اس لیے نوٹس مجھے دے دیا گیا کہ تم نے گندم جمع نہیں کروائی حالانکہ ایم.این سنڈیکیٹ ان کے حق سے بھی دو ہزار پانچ سومنا گندم زیادہ دے چکی تھی اور ایم.این سنڈیکیٹ کی ایک انچ زمین بھی نہیں، وہ صرف میرے اور میرے بچوں اور میری بیویوں کی طرف سے انتظامیہ کمیٹی ہے.اُس پر کوئی گندم دینی واجب ہی نہیں تھی.جو گندم دی گئی وہ ہماری طرف سے دی گئی تھی.غرض صرف نام کی غلطی کی وجہ سے مجھے نوٹس دیا گیا.بہر حال ہمارے ملک کی حالت غلہ کے لحاظ سے تسلی بخش نہیں.فوج کے افسران کام تو بڑی عقلمندی سے کر رہے ہیں.انہیں چاہیے کہ وہ غلہ کے بارے میں چھوٹے زمینداروں سے بھی مشورہ کر لیا کریں.صرف بڑے بڑے افسروں اور زمینداروں سے مشورہ کرنا صحیح نتیجہ پیدا نہیں کرتا.میں جماعت کے دوستوں سے بھی کہتا ہوں کہ قرآن کریم سے پتا لگتا ہے کہ فی ایکڑ پانچ سو پچپیس من بلکہ اس سے بھی زیادہ گندم پیدا ہوسکتی ہے 1 لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ قواعد کی پابندی کی جائے اور دین کی خدمت کی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللهِ رِزْقُهَاے یعنی دنیا میں کوئی بھی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ نہ ہو.پس اصل طریق تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہی دُعا کی جائے کہ اے اللہ ! تو نے رزق اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اس لیے ہم پر جو تنگی آئی ہے اسے تو ہی دور کر.اگر خدانخواستہ پیداوار کم ہو تو اس کا چندہ پر بھی اثر پڑے گا.پس اللہ تعالیٰ کی طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہیے اور اُس سے دُعا کرنی چاہیے اور ساتھ ہی محنت بھی کرنی چاہیے.ہمارے ملک میں زمیندار اتناہل نہیں چلا تا جتنے بک چلانے ضروری ہیں.گندم کے لیے چھ بل ضروری ہیں اور ہر دوہکوں کے درمیان ایک ہفتہ کا وقفہ ضروری ہوتا ہے.یہ نہیں کہ ایک دن ہل چلا یا اور پھر دوسرے دن بھی ہل چلانے چلے گئے اس سے فائدہ نہیں ہوتا.سات دن سورج کی دھوپ زمین پر پڑتی رہے اور اس کے بعد دوسراہل دیا جائے تب فائدہ ہوتا ہے.
$1959 340 خطبات محمود جلد نمبر 39 اسی طرح کھاد سے بڑا فائدہ ہوتا ہے مگر اب چونکہ مصنوعی کھاد کا رواج زیادہ ہو گیا ہے اس لیے گورنمنٹ بھی اور زمیندار بھی اس کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں حالانکہ امریکہ نے لمبے تجربات کے عد معلوم کیا ہے کہ مصنوعی کھاد میں اگر جانور کی کھاد یا نباتاتی کھا د نہ ملائی جائے تو وہ بہت نقصان پہنچاتی ہے.میں نے جلسہ سالانہ پر بتایا تھا کہ نباتاتی کھاد کے لحاظ سے امریکہ کے تجربہ کے مطابق سورج مکھی بہترین خیال کی گئی ہے مگر سورج مکھی جون یا جولائی میں ہوئی جاتی ہے اور اس کا فائدہ اگلے سال ہی ہوتی سکتا ہے کیونکہ اس سال تو لوگوں نے بوئی نہیں.اس لیے ان کو برسیم یا کسی اور چیز سے جسے انہوں نے بویا ہوفائدہ اٹھانا چاہیے یا جانوروں کی کھاد سے فائدہ اٹھانا چاہیے.ہمارے ہاں سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ کھادا و پلوں کی صورت میں عورتیں جلا دیتی ہیں حالانکہ روایتوں میں آتا ہے کہ اوپلے جلانا قوم کی ذلت کی علامت ہے 3 تو او پلے جلانا درست نہیں کی لکڑی کا استعمال کرنا چاہیے.اصل میں جب گھر میں او پہلے جلانے کے لیے میسر آ جاتے ہیں تو لوگ درخت اُگانے کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیتے اور اس طرح ملک کو نقصان پہنچتا ہے.اس سال شروع میں قیاس کر لیا گیا تھا کہ فصل بڑی اچھی ہوگی کیونکہ شروع میں بڑی اچھی بارش ہوگئی تھی لیکن یہ پتا نہیں تھا کہ بارش اس قدر زیادہ ہوگی کہ فصل خراب ہو جائے گی.چنانچہ پہلے تو فصل کے متعلق بڑی خوشکن خبریں آتی رہیں لیکن اب پھر یہ کہا جا رہا ہے کہ بارش زیادہ ہونے کی وجہ سے بعض علاقوں کی فصل خراب ہو گئی ہے اور چنا تو بالکل مارا گیا ہے مگر خدا تعالیٰ نے کل اور آج دھوپ لگا دی ہے.اگر دس بارہ دن اور متواتر دھوپ لگ گئی تو خیال ہے کہ فصلیں دوبارہ کھڑی ہو جائیں گی لیکن یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.دھوپ نہ میں نکالتا ہوں، نہ تم نکالتے ہو، نہ گورنمنٹ کی نکال سکتی ہے، دھوپ خدا تعالیٰ نکالتا ہے.اس لیے خدا تعالیٰ سے ہی دُعا کرو اور اُس وقت تک اپنی آمدنی کے اندازے نہ لگایا کرو جب تک وہ واقع میں پیدا نہ ہو جائے.انگریزوں میں ایک مثل مشہور ہے که There is many a slip between the cup and the lip“.کہتے ہیں کوئی امیر آدمی چائے پینے بیٹھا تو چائے کی پیالی ابھی رکھی ہی تھی کہ اُس کی زمینوں کا منیجر آ گیا اور اس نے کہا صاحب! ایک جنگلی سور آ گیا ہے.وہ چائے چھوڑ کر اُس سؤر کو مارنے چلا گیا اور بجائے اس کے کہ وہ سو رکو مار لیتا جنگلی سور نے اُسے ماردیا اور لوگ اُس کی نعش اُٹھا کر لائے.اس لیے یہ مثل مشہور ہوگئی
$1959 341 خطبات محمود جلد نمبر 39 کہ ہونٹ اور چائے کی پیالی کے درمیان بھی ایک فاصلہ ہوتا ہے.بظاہر تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پیالی بھری پڑی ہے اور ہونٹ کے بالکل قریب ہے لیکن اگر بیچ میں موت آجائے تو پھر چائے اور ہونٹ کا فاصلہ اتنا بڑھ جاتا ہے جو کسی طرح پر نہیں کیا جاسکتا.بہر حال جب نئی فصل نکل آئے گی تب پورا پتا لگے گا کہ فصل اچھی ہوئی ہے یا نہیں.سولین افسروں کا قاعدہ تھا کہ وہ شہریوں کو اپنا بچہ سمجھتے تھے اور دیہاتیوں سے وہ سوتیلا پن کا سلوک کرتے تھے.اب بھی یہی ہے کہ لاہور، ملتان، لائکیپور اور چنیوٹ میں تو راشن مقرر ہے اور ربوہ میں نہیں.یہاں لوگوں کی یہ حالت ہے کہ ایک دانہ گندم کا بھی انہیں نہیں ملتا.اگر گورنمنٹ نے راھنگ کا انتظام نہ کیا تو نا معلوم کیا حال ہو.مگر یہ مصیبت تبھی دور ہوگی جب اگلی فصل کٹ جائے گی اور وہ مئی جون میں جا کر کٹے گی اور ابھی مئی جون میں چار پانچ ماہ باقی ہیں اور پانچ ماہ تک لوگ زندہ کیسے رہ سکتے ہیں سوائے اِس کے کہ گورنمنٹ جیسے اپنے ذخیروں سے بڑے شہروں کو خوراک مہیا کر رہی ہے اُسی طرح وہ ربوہ کے لیے بھی ایک حصہ مقرر کرے.جب پچھلی بارشیں ابھی نہیں ہوئی تھیں تو میں نے بہاولپور کے متعلق پڑھا تھا کہ وہاں ایسی فصل ہوئی ہے کہ پچھلے ساٹھ سال میں بھی اتنی اچھی فصل پیدا نہیں ہوئی لیکن بعد کی بارشوں نے ساری فصلیں تباہ کر دیں.پس تمام جماعت کو چاہیے کہ زرعی پیداوار بڑھانے کی کوشش کرے.اس کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ وہ ہر جگہ ایک سیکرٹری زراعت مقرر کرے جو مرکز میں با قاعدہ رپورٹ بھیجا کرے کہ اس کے علاقہ میں کیا کوشش ہورہی ہے، کھاد کیسے ڈالی جارہی ہے اور کتنے بل دیئے جارہے ہیں.اگر محنت اور دیانتداری کے ساتھ کام کیا جائے تو ایک سال کے اندر اندر ہمارے ملک کی حالت درست ہو جائے گی اور ہمارے چندے بھی کئی گنا بڑھ سکتے ہیں.اگر قرآن کریم کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق ہی ہماری فصل پیدا ہو تو گواللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اس اندازہ سے بھی فصل بڑھا دیتے ہیں مگر نہ بڑھے تب بھی تحریک اور انجمن کی کئی ارب روپیہ کی آمد ہو جاتی ہے اور ہماری گورنمنٹ کی آمد تو کئی کھرب ہو جاتی ہے مگر ضرورت یہ ہے کہ لوگ تقوی سے کام لیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں.اگر وہ ان اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور جو تجربات سائنس نے کیے ہیں یا جو تجربات ان کے باپ دادوں کے ہیں اوپر بتایا جا چکا ہے کہ اب افسروں نے حکم دے دیا ہے کہ ربوہ میں بھی راشننگ ہو جائے.
342 $1959 خطبات محمود جلد نمبر 39 اُن سے وہ فائدہ اٹھائیں تو ان کی اپنی حالت بھی درست ہو جائے گی اور گورنمنٹ کی اقتصادی بدحالی بھی دور ہو جائے گی.اگر قرآنی اندازہ کے مطابق فصل پیدا ہونے لگ جائے تو سات ایکٹر والا زمیندار بھی اتنا اچھا گزارہ کر سکتا ہے جتنا ایک ڈپٹی کمشنر کرتا ہے.لیکن سوال تو یہ ہے کہ عملاً ایسا ہو جائے.عملاً جب تک ایسا نہیں ہو تا سات ایکٹر کا مالک چپڑاسی جیسا گزارہ بھی نہیں کر سکتا.چنانچہ جن ملکوں میں زراعت کی طرف توجہ نہیں کی جاتی وہاں چپڑاسی کی حیثیت ایک زمیندار سے زیادہ ہے.ایک دفعہ مغربی افریقہ کے ایک احمدی نے جو چپڑاسی کا کام کرتا تھا مجھے لکھا کہ میں ریاست کی نوابی کے لیے کھڑا ہورہا ہوں میرے لیے دُعا کریں.میں نے لکھا تم تو چپڑاسی ہو اور نوابی کے لیے کھڑے ہورہے ہو؟ اُس نے لکھا کہ یوں تو میرا باپ یہاں کا نواب تھا لیکن چپڑاسی کو یہاں اتنی تنخواہی مل جاتی ہے کہ زمیندارہ میں اتنی آمد نہیں ہوتی لیکن پھر بھی میری خواہش یہ ہے کہ میں نواب بن جاؤں.نواب بن جانے پر مجھے خود زمیندارہ نہیں کرنا پڑے گا.ہاں! ٹیکس وغیرہ کی آمدنی ہوگی.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اب تک دو احمدی مغربی افریقہ میں نواب ہو چکے ہیں.اب ایک بادشاہ کی جگہ خالی ہوئی ہے اور ایک لڑکے کا خط آیا ہے کہ میرے لیے دُعا کریں میں بادشاہ ہو جاؤں.ہمیں اس کے بادشاہ ہونے سے اتنی دلچسپی نہیں جتنی دلچسپی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس الہام سے ہے کہ ”بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈمیں گئے 4 ہم چاہتے ہیں کہ بعض جگہوں کے بادشاہ ہماری زندگی میں ہی احمدی ہو جائیں اور وہ برکت ڈھونڈ نے لگ جائیں تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام ہم اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھیں.حمید بہر حال میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ فوراً زراعت کے سیکرٹری مقرر کرے جو مرکز کو اس کے بعد ایک خط امریکہ سے ایک نو مسلمہ کا آیا جس میں اس نے ذکر کیا ہے کہ شاہ فاروق کی والدہ ملکہ نازلی نے میرے خاوند کا جو وہاں مبلغ ہے ایک عیسائی رسالہ کی تردید میں ایک مضمون پڑھا تو انہوں نے کہا کہ اسلام کی خدمت احمدیوں کے سوا اور کوئی نہیں کر رہا.جب ایک ملکہ کو اس طرف توجہ پیدا ہوئی ہے تو بادشاہ کو بھی ہوسکتی ہے.
$1959 343 خطبات محمود جلد نمبر 39 با قاعدہ رپورٹ بھیجا کریں اور گورنمنٹ کے مقرر کردہ قواعد اور پھر اپنے باپ دادا کے تجربہ کے مطابق ہل چلائیں اور کھاد ڈالیں.یہ نہ ہو کہ اپنی سستی کی وجہ سے وہ خود بھی مصیبت میں پڑیں اور ہم بھی مصیبت میں پڑیں.ان کو اس بارہ میں زیادہ پستی دکھانی چاہیے تاکہ ان کی مصیبت بھی دور ہو، سلسلہ کی مصیبت بھی دور ہو اور ملک کی مصیبت بھی دور ہو.الفضل 8 مارچ 1959ء) 1: مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِ سنْبُلَةٍ مِائَة حَبَّةٍ وَاللهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (البقرة : 262) 2 : هود : 7 3 حزقی ایل باب 4 آیت 12 تا 15 - (مفہوما ) 4 : تذکرہ صفحہ 8 طبع چہارم
$1959 344 42 خطبات محمود جلد نمبر 39 دوست تحریک جدید اور وقف جدید کے وعدے جلد سے جلد بھجوائیں اپنے وعدوں کو بڑھا کر پیش کرنا دنیا میں اسلام کی ترقی اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کا موجب ہے (فرموده 13 فروری 1959ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعو ذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں کہا تھا کہ بارش زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمارے ملک میں غلہ کی حالت بہت خراب ہو گئی ہے.اب اخباروں میں بھی چھپا ہے کہ گورنمنٹ کے محکمہ زراعت کا خیال تھا کہ چونکہ اس سال بارش وقت پر ہو گئی ہے اس لیے اس سال غلہ باہر سے نہیں منگوانا پڑے گا لیکن اب چونکہ بارش زیادہ ہوگئی ہے اس لیے اس کا اثر فصلوں پر بہت زیادہ پڑے گا اور خطرہ ہے کہ کہیں غلہ کی پیداوار اس سال بھی اُمید سے کم نہ ہو.مجھے ان بارشوں کی وجہ سے جو نقصان پہنچا ہے وہ یہ ہے کہ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ فروری اور مارچ کے مہینہ میں میری بیماری میں افاقہ ہو جائے گا لیکن ٹھنڈک کی وجہ سے میری ٹانگ کے درد میں
$1959 خطبات محمود جلد نمبر 39 345 افاقہ ہونے کی بجائے زیادتی ہوگئی ہے اس لیے اس ہفتہ جن صحابیوں اور موصی عورتوں اور مردوں کے جنازے آئے اُن کی نماز جنازہ میں نہیں پڑھا سکا اور آج بھی مجھے تکلیف زیادہ ہے اس لیے اُن کی نماز جنازہ غائب نہیں پڑھا سکتا.چونکہ میں نے اگلے ہفتہ سندھ جانا ہے اس لیے میں کوشش کروں گا کہ اگلے جمعہ ان سب کی نماز جنازہ غائب پڑھا دوں.دوست تمام مرحومین کے لیے چاہے وہ صحابی تھے یا غیر صحابی ،موصی تھے یا غیر موصی نماز جمعہ میں دُعا کر دیں کہ خدا تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اور ان ان کے درجات کو بلند کرے، ان کے رشتہ داروں پر اپنا فضل نازل کرے اور انہیں اپنی پناہ میں رکھے.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دفتر تحریک جدید والوں نے مجھے اطلاع دی ہے کہ وعدوں کی آخری تاریخ اس دفعہ 28 فروری مقرر ہے مگر اس وقت تک وعدے بہت کم آئے ہیں.دوستوں کو چاہیے کہ وہ جلد سے جلد تحریک جدید کے وعدے بھجوائیں اور 28 فروری سے پہلے پہلے ان وعدوں کی مقدار کو پچھلے سالوں سے بڑھانے کی کوشش کریں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تحریک جدید کا کام زیادہ تر پاکستان سے باہر ہے اور چونکہ اس کے لیے گورنمنٹ کی طرف سے ایکسچینج ملنے میں وقتیں ہیں اس لیے شاید دوستوں کا یہ خیال ہو کہ ابھی وعدے بھیجنے کی ضرورت نہیں مگر ان کا یہ خیال درست نہیں.گورنمنٹ کے حالات بدلتے رہتے ہیں.اگر کل کو گورنمنٹ کے حالات سدھر جائیں اور وہ اون ایکسچینج دینے کے لیے تیار ہو جائے تو اگر تحریک جدید کے پاس روپیہ ہی نہ ہوا تو وہ ایکسچینج حاصل کر کے باہر روپیہ کس طرح بھیجے گی؟ اس لیے وعدے بہر حال آنے چاہیں اور چندہ کی وصولی بھی باقاعدہ ہونی چاہیے تا کہ جب بھی گورنمنٹ ایچینچ دے تحریک جدید روپیہ باہر بھیج سکے.اگر گورنمنٹ نے ایکسچینج منظور کر لیا اور تحریک جدید رو پیہ باہر نہ بھیج سکی تو گورنمنٹ کی نظروں میں بھی ہماری سبکی ہوگی اور مبلغ بھی روپیہ نہ ملنے کی وجہ سے تکلیف اٹھا ئیں گے.یہی مبلغ ہیں جن کے کام پر ہماری جماعت فخر کرتی ہے.کل کسی نے اخبار ” صدق جدید کا ایک کٹنگ مجھے بھجوایا تھا کہ احمدی جماعت میں لاکھ برائیاں ہوں لیکن گزشتہ جلسہ پر انہوں نے 51 زبانوں میں جو تقریریں کروائی ہیں اور غیر ممالک میں وہ اشاعت اسلام کے لیے جو جدوجہد کر رہے ہیں ان کا یہی کام اگر ترازو کے ایک پلڑے میں رکھائی جائے اور ان کی برائیوں کو جو لوگ بیان کرتے ہیں دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو ان کے اچھے کام
346 $ 1959 خطبات محمود جلد نمبر 39 والا پلڑا بوجھل ہوگا اور ان کی برائیوں کا پلڑا کمزور ثابت ہو کر اوپر اٹھ جائے گا.اب دیکھو! یہ ہماری تبلیغ کالج ہی اثر ہے.پاکستان کے وزراء اور سفراء باہر جاتے ہیں تو وہ بھی واپس آکر ہمارے مبلغین کے کام کی تعریف کرتے ہیں.پچھلے دنوں ایک ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس ربوہ آئے تو انہوں نے بتایا کہ وہ ایک دفعہ ٹرینیڈاڈ گئے تھے.انہوں نے دیکھا کہ احمدیت کے مبلغ کی وجہ سے وہاں پاکستان کی لوگوں میں زیادہ شہرت ہے.اسی طرح پرسوں ایک خط آیا کہ کسی عیسائی نے اسلام کے خلاف اعتراضات کیے تو ہمارے مبلغ شکر الہی صاحب نے اُس کا جواب شائع کیا.اُسے پڑھ کر شاہ فاروق کی والدہ ملکہ نازلی نے کہا کہ اشاعت اسلام کا کام صرف احمدی مبلغین ہی کر رہے ہیں ان کے سوا اور کوئی یہ کام نہیں کر رہا.ان لوگوں نے ہی اس ملک میں اسلام کی عزت کو قائم رکھا ہوا ہے.حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مبلغین کے ذریعہ غیر ممالک میں اسلام کو عظمت حاصل ہوتی ہے.غیر ملکوں مثلاً مشرقی افریقہ، مغربی افریقہ، جرمنی ، سیکنڈے نیویا، سوئٹزر لینڈ، ہالینڈ، امریکہ اور انگلینڈ میں ہمارے مبلغ اسلام کی اشاعت کرتے ہیں اور جب ان کے ذریعہ سے غیر ممالک میں اسلام کی عزت بڑھتی ہے تو ان کے کام پر جہاں احمدی فخر کر سکتے ہیں وہاں غیر احمدی بھی فخر کر سکتے ہیں.پچھلے دنوں انڈونیشیا سے ایک چینی لڑکا آیا تھا (انڈونیشیا میں چینی لوگ بھی آباد ہیں).اس لڑکے نے بتایا کہ مجھے احمدی مبلغوں کے ذریعہ ہی تبلیغ ہوئی تھی اور اسی کے نتیجہ میں میں مسلمان ہوا.وہ لڑکا بڑا اخلص تھا.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیرونی ممالک میں ہر جگہ اسلام احمدی مبلغین کے ذریعہ سے تقویت پا رہا ہے کی اور ان کے لیے چندہ کے وعدے بھیجوانا چاہیں وہ فوری طور پر ادا کیے جائیں.یہ ایک بڑی دینی خدمت ہے اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی کا موجب ہے.اگر گورنمنٹ کی مالی حالت اچھی ہو گئی اور اس کے پاس ایکسچینج جمع ہو گیا تو وہ اس نے بہر حال تقسیم کرنا ہے.اگر انہوں نے کسی وقت ایکھینچ دے دیا لیکن تحریک جدید روپیہ باہر نہ بھیج سکی تو گورنمنٹ کے نزدیک بھی محکمہ کی سبکی ہوگی اور مبلغ بھی الگ تکلیف اٹھائیں گے.وقف جدید کے چندہ میں بھی ابھی دس بارہ ہزار روپیہ کی کمی ہے.دوستوں کو اس کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے.پچھلے سال انہوں نے نسبتاً بہت اچھا کام کیا تھا.اگر اس سال بھی انہیں رو پیل
$1959 347 خطبات محمود جلد نمبر 39 جائے تو اُمید ہے اگلے سال وہ اور بھی اچھا کام کر سکیں گے.پس میں دونوں محکموں کے متعلق چندہ کی تحریک کرتا ہوں اور دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ان کی دونوں تحریکات میں چندہ دے کر خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کریں.میں نے تحریک جدید کے متعلق اس کی غلط فہمی کا ازالہ کر دیا ہے کہ چونکہ ایکسچینج نہیں ملتا اس لیے تحریک جدید کے وعدے کرنے اور پھر اُن کی وصولی میں کچھ دیر ہو جائے تو کوئی حرج نہیں.میں نے بتایا ہے کہ اس میں بڑا سخت حرج ہے.علاوہ اس کے کہ ہماری گورنمنٹ میں سبکی ہوگی ، ہمارے مبلغ بھی بے بس ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے کہ آج دھوپ نکل آئی ہے.اگر یہ دھوپ کچھ دن اور بھی نکلی رہی تو اُمید ہے فصلیں اچھی ہو جائیں گی.دوست خدا تعالیٰ کے اس فضل کا شکر یہ بھی ادا کریں اور دُعا ئیں بھی کریں کہ خدا تعالیٰ اپنے اس فضل کو جاری رکھے اور اسلام کی اشاعت کے لیے مالی امداد کے وعدے کر کے اس فضل کو جذب کرنے کی کوشش کریں تا کہ اللہ تعالیٰ ان کے اس سال کو پچھلے سال سے ہزاروں گنا اچھا کر دے.امید ہے کہ دوست ان باتوں کا خیال رکھیں گے اور اپنے وعدوں کو بڑھا کر اسلام کی ترقی اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کی کوشش کریں گئے.(الفضل 19 فروری 1959ء)
$1959 348 43 خطبات محمود جلد نمبر 39 اللہ تعالیٰ کے فضل کو دائمی طور پر حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہماری جماعت ہمیشہ دُعاؤں میں لگی رہے (فرموده 20 فروری 1959ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعو ذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”میری بائیں ٹانگ میں جو وجع المفاصل کی تکلیف تھی وہ ابھی تک بڑھتی چلی جارہی ہے.پچھلے دنوں تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد بارش ہوتی رہی ہے جس کی وجہ سے موسم زیادہ ٹھنڈا رہا اس لیے درد میں کوئی کمی نہیں ہوئی.کل اِنشَاءَ اللہ میں سندھ جاؤں گا.وہاں سردی کم ہے اس لیے ممکن ہے ہے گرمی کی وجہ سے میری اس تکلیف میں کمی ہو جائے لیکن اس کا انحصار زیادہ تر خدا تعالیٰ کے فضل پر ہے.اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو تو ساری تکلیفیں دور ہو جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ کل سے دھوپ نکل آئی ہے ورنہ خطرہ تھا کہ متواتر بارش کی وجہ سے فصلوں کو نقصان پہنچے گا اور اس کی وجہ سے ملک میں غلہ کی اور کمی واقع ہو جائے گی.اگر اللہ تعالیٰ نے چند دن متواتر دھوپ نکال دی تو ملک میں فصل کی حالت اچھی ہو جائے گی.میں نے چند دن پہلے خطبہ جمعہ میں اس خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ متواتر بارش سے فصلوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے اور اگر چند دن متواتر دھوپ نہ کی تو غلہ کی زیادتی کے 0
$1959 349 خطبات محمود جلد نمبر 39 متعلق جو اندازے لگائے گئے ہیں ان میں کمی آجائے گی.چنانچہ یہی ہوا.بارشیں تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد ہوتی رہیں اور دھوپ نہیں نکلی جس کی وجہ سے اخباروں میں بھی یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ اگر یہی حال رہا تو غلہ میں کمی واقع ہو جائے گی.اب دھوپ نکل آئے تو شاید یہ خطرہ دور ہو جائے لیکن ابھی تک اس قسم کی خبریں نہیں آئیں.بہر حال غلہ کی کمی اور زیادتی کا انحصار خدا تعالیٰ کے فضل پر ہے.جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے بیان کیا تھا کہ غلہ زیادہ اُگاؤ کا تعلق اتنا سیاست سے نہیں جتنا جی مذہب سے ہے اور زراعت میں ترقی کا انحصار خدا تعالیٰ کے فضل پر ہے اور بعد کے واقعات نے اس کی تصدیق کر دی ہے.پہلے جب وقت پر بارشیں ہو گئیں تو اخبارات میں اس قسم کی خبریں شائع ہوئی تھیں کہ بہاولپور کے علاقہ میں اس قسم کی عمدہ فصل ہے کہ ایسی عمدہ فصل پچھلے ساٹھ سال میں بھی نہیں ہوئی لیکن اب پھر گھبراہٹ پیدا ہو رہی ہے اور غلہ میں کمی واقع ہو جانے کا خطرہ پیدا ہورہا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ بادل کا پتا نہیں کہ کب ہے اور مطلع صاف ہوتا کہ فصل کو فائدہ پہنچے.بادل نہ تو حکومت کے اختیار میں ہے اور نہ آپ میں سے کسی کے اختیار میں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.اگر بارش ہو جائے اور بعد میں دھوپ نکل آئے تو اس کا فائدہ ہوتا ہے لیکن یہاں یہ حالت ہے کہ روز بادل آتے ہیں اور دھوپ نہیں نکلتی جس کی وجہ سے فصل زرد پڑ جائے گی اور بالیوں میں دانے پورے نہیں بنیں گے.پس ہمیں دُعا کرنی چاہیے کہ وہ اپنے فضل سے ہمارے ان خدشات کو دور کر دے تا جہاں افراد اور ملک کی مالی حالت درست ہو وہاں صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کی مالی حالت بھی مضبوط ہو.ہمارے ملک میں اسی فیصدی زمیندار ہیں.اسی طرح ہماری جماعت میں بھی اسی فیصدی زمیندار کی ہیں اس لیے اگر فصل اچھی ہوئی تو جماعت کے چندے بھی بڑھیں گے، اس کے سارے کام اچھی طرح چلتے رہیں گے اور اگر فصل خراب ہوگی تو لازمی طور پر اس کا اثر چندوں پر بھی پڑے گا اور اس سے صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کو نقصان پہنچے گا.پھر بیرونی ممالک کے مبلغوں کو بھی نقصان پہنچے گا کہ انہیں وقت پر اخراجات مہیا نہیں ہوسکیں گے.اس لیے دوست دُعا کرتے رہیں کہ خدا تعالیٰ سلسلہ کی حفاظت کرے اور اسے ہر قسم کے خطرات سے محفوظ رکھے.جب سے جماعت احمدیہ قائم ہوئی ہے خدا تعالیٰ ہی اس کی حفاظت کرتا رہا ہے.اس وقت کی تحریک جدید اور صدرانجمن احمد یہ دونوں کا ماہوار چندہ پچاسی ہزار روپیہ کے لگ بھگ ہے لیکن شروع
$1959 350 خطبات محمود جلد نمبر 39 میں اتنا چندہ سال میں بھی جمع نہیں ہوتا تھا.مجھے یاد ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس بات کا علم ہوا کہ لنگر خانہ کا خرچ ڈیڑھ سوروپیہ ماہوار تک پہنچ گیا ہے تو آپ بہت گھبرائے کہ یہ رقم کہاں سے آئے گی.پھر اللہ تعالیٰ جماعت کی آمد میں دن بدن ترقی عطاء کرتا چلا گیا.صرف میری خلافت کے شروع زمانہ میں سلسلہ پر مالی لحاظ سے ایک نازک دور آیا.جب میں خلیفہ ہوا تو خزانہ میں صرف چند آنے تھے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کے چندوں میں ترقی ہوتی چلی گئی اور ہر سال پہلے سال سے زیادہ چندہ جمع ہوتا رہا اور اب بینکوں اور جماعت کے اپنے خزانہ میں جو روپیہ اس وقت جمع ہے وہ دس لاکھ سے اوپر ہے اور یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.خدا تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ وعدہ تھا کہ يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ 1 یعنی تیری مدد ایسے لوگ کریں گے جنہیں ہم آسمان سے وحی کریں گے.سوخدا تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہورہا ہے ورنہ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہیں چلے گا، یہ چند دن کا کھیل ہے جو ختم ہو جائے گا.کل ہی ایک شخص مجھے ملنے کے لیے آیا.جب اُس نے اپنا وطن بتایا تو مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا.ضلع گجرات کے ایک گاؤں چک سکندر کے بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں قادیان آیا کرتے تھے.اُن کے بڑے بڑے قد تھے.اُس زمانہ میں ابھی بہشتی مقبرہ نہیں بنا تھا اور لوگ تبرک کے طور پر باغ اور مساجد دیکھنے چلے جایا کرتے تھے.وہ بھی باغ دیکھنے کے لیے اُس سڑک پر جارہے تھے جو بہشتی مقبرہ کو جاتی ہے.اُس زمانہ میں اس سڑک پر پختہ پل نہیں بنا تھا.حضرت نانا جان نے لوہے کی ریلیں ڈال کر اُس جگہ پار گزرنے کے لیے راستہ بنایا ہوا تھا.اس پل کے قریب ہماری سوتیلی والدہ کے بھائی مرزا علی شیر صاحب باغی لگایا کرتے تھے.وہ مذہبی قسم کے آدمی تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے شدید مخالف کی تھے.ممکن ہے اُن کی مخالفت کا یہ سبب ہو کہ آپ ان کی بہن پر سوکن لے آئے تھے لیکن بہر حال وہی آپ کے بڑے سخت مخالف تھے.انہوں نے چک سکندر کے ان لوگوں کو باغ کی طرف جاتے دیکھا تو انہیں آواز دے کر اپنے پاس بلایا.اُن کے آواز دینے پر ان میں سے ایک آدمی جو باقی ساتھیوں سے کچھ فاصلہ پر تھا یہ مجھ کہ یہ بڑے بزرگ ہیں ان کی بات سن لی جائے ان کے پاس گیا.مرزا علی شیر صاحب نے اس سے کہا میاں! تم کہاں سے آئے ہو اور کس لیے آئے ہو؟ اس شخص نے جواب دیا ہم
$1959 351 خطبات محمود جلد نمبر 39 گجرات سے آئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کرنے آئے ہیں.اس پر مرزا علی شیر صاحب نے کہا میاں! مرزا غلام احمد میرا بھائی ہے اور اس کا واقف جتنا میں ہوں تم نہیں ہو.اور میں جانتا ہوں کہ اس نے محض دکان بنائی ہوئی ہے.تم کیوں یہاں اپنا دین خراب کرنے آگئے ہو؟ اِس پر اُس شخص نے مرزا علی شیر صاحب کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا اور مرزا صاحب نے یہ سمجھ کر کہ یہ شخص ان کی باتوں سے متاثر ہو گیا ہے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیا.اُس شخص نے ان کا ہاتھ بڑی مضبوطی سے پکڑ لیا اور اپنے دوسرے ساتھیوں کو آواز دی کہ جلدی آؤ جلدی آؤ.جب وہ آ گئے تو اس نے کہا میں نے آپ لوگوں کو اس لیے بلایا ہے کہ ہم قرآن کریم میں پڑھا کرتے تھے کہ کوئی شیطان کی ہے جو لوگوں کو گمراہ کرتا ہے لیکن ہم نے وہ دیکھا نہیں تھا ، اب وہ شیطان مجھے مل گیا ہے اور اسے میں نے پکڑ رکھا ہے، اسے اچھی طرح دیکھ لو.مرزا علی شیر صاحب بہت گھبرائے لیکن اس شخص نے ان کا ای ہاتھ مضبوطی سے پکڑے رکھا اور کہا ہمیں شیطان دیکھنے کی مدت سے آرزو تھی سوالحَمدُ لِلهِ کہ آج ان ہم نے شیطان دیکھ لیا.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق غیر تو کیا اپنے قریبی رشتہ دار بھی یہی کہتے تھے کہ انہوں نے ایک دکان کھولی ہوئی ہے اور وہ آپ کی سخت مخالفت کرتے تھے.مجھے یاد ہے ہماری سوتیلی والدہ ہم سے بہت محبت کیا کرتی تھیں اور باوجود اس کے کہ ہم اُن کی سوکن کی اولاد تھے وہ ہمارے ساتھ بڑی محبت کا سلوک کرتی تھیں.ان کی والدہ بھی جو ہماری دادی صاحبہ کے علاقہ کی تھیں ہم سے بہت پیار کرتی تھیں.جب ہمارے رشتہ دار مرزا امام دین صاحب اور ان کے لڑکے اور لڑکیاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دیتے تھے تو چونکہ وہ بہت اونچا سنتی تھیں اس لیے دریافت کرتی تھیں کہ یہ لوگ کس کو گالیاں دے رہے ہیں؟ اس پر جب انہیں بتایا جاتا کہ یہ مرزا غلام احمد کو گالیاں دے رہے ہیں تو وہ رو پڑتیں اور کہتیں ہائے ! یہ لوگ میری چراغ بی بی کے بیٹے کو گالیاں دیتے ہیں.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے رشتہ دار بھی سمجھتے تھے کہ ایک کھیل ہے جو کھیلا جا رہا ہے اور لوگ انہیں چھوڑ کر چلے جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں لدھیانہ کے ایک نور محمد صاحب تھے جنہیں یہ خیال تھا کہ وہ مصلح موعود ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق کہتے تھے کہ
$1959 352 خطبات محمود جلد نمبر 39 چونکہ وہ میرے روحانی باپ ہیں اس لیے جب میں اپنے روحانی باپ کے پاس جاؤں گا تو پونڈ اُن کی خدمت میں بطور نذرانہ پیش کروں گا.اس غرض سے وہ روپیہ جمع کرتے رہتے تھے.جب ان کے مریدان سے سوال کرتے کہ وہ اپنے روحانی باپ کے پاس کب جائیں گے؟ تو انہیں کہتے جب میں جاؤں گا تو تمہیں بتادوں گا.جب انہوں نے اس میں زیادہ دیر لگا دی تو ان کے مُریدوں نے کہا کہ آپ اگر نہیں جاتے تو ہمیں جانے کی اجازت دے دیں.اس پر انہوں نے بعض مُریدوں کو اس شرط سے قادیان آنے کی اجازت دی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں سونا پیش کی کریں گے.چنانچہ وہ قادیان آئے.مرزا امام دین صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چازاد بھائی تھے چو ہڑوں کے پیر بنے ہوئے تھے.اور اپنے آپ کو ان کے بزرگوں کا اوتار قرار دیتے اور کہتے کہ چوہڑوں کا لال بیگ میں ہوں.انہوں نے جب دیکھا کہ ادنی اقوام کے بعض لوگ آئے ہیں تو انہوں نے انہیں بلایا اور ان کے آگے حقہ رکھ دیا اور پوچھا کہ تم یہاں کیا لینے آئے ہو؟؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم حضرت مرزا صاحب کو ملنے کے لیے آئے ہیں.اس پر مرزا امام دین صاحب نے کہا چو ہڑوں کا لال بیگ تو میں ہوں تم مرزا غلام احمد کے پاس کیوں چلے گئے؟ وہ تو ٹھگ ہے اور اُس نے یونہی دکان بنائی ہوئی ہے.تمہیں وہاں سے کیا ملا ہے؟ وہ لوگ ان پڑھ تھے لیکن تھے حاضر جواب.انہوں نے جواب دیا مرزا صاحب! ہم ادنی اقوام سے تعلق رکھتے تھے مرزا غلام احمد صاحب پر ایمان لائے تو لوگ ہمیں مرزائی مرزائی کہنے لگ گئے.آپ مغل تھے اور ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے انکار کی وجہ سے آپ چوہڑے کہلانے لگ گئے.اس پر وہ گھبرا کر خاموش ہو گئے.غرض غیر تو غیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے قریبی رشتہ دار بھی یہ سمجھتے تھے کہ سلسلہ احمدیہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں بلکہ یہ محض دکانداری ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو بڑھایا اور دنیا کے کونہ کونہ میں اس کے پودے لگا دیئے.میں نے بتایا ہے کہ مرزا امام دین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سخت مخالفت تھے لیکن جیسے اللہ تعالیٰ نے ابو جہل کے ہاں عکرمہ جیسا بزرگ بیٹا پیدا کر دیا تھا اُسی طرح مرزا امام دین صاحب کی لڑکی خورشید بیگم جو ہمارے بڑے بھائی مرزا سلطان احمد صاء سے بیاہی ہوئی تھیں بڑی نیک اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور سلسلہ احمدیہ کی سچی عاشق تھیں انہوں
$1959 353 خطبات محمود جلد نمبر 39 نے اپنی وفات تک ایسا اخلاص دکھایا کہ حیرت آتی ہے.ٹائن بی نے جو انگلستان کا ایک بہت بڑا مؤرخ گزرا ہے اسلام پر ایک کتاب لکھی ہے.اس کتاب میں وہ جماعت احمدیہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ لوگ تھوڑے ہیں اور دوسرے لوگ زیادہ ہیں لیکن جیسے گھوڑ دوڑ میں بعض دفعہ ایک گھوڑا پیچھے سے آ کر آگے نکل جاتا ہے اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ ممکن ہے یہ بعد میں آنے والے لوگ عیسائیوں کو مات کر دیں اور ان سے آگے نکلی جائیں.اسی طرح میں نے ایک خطبہ جمعہ میں بتایا تھا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی نے افریقہ میں اپنے بعض طالبعلم اس لیے بھیجے ہیں کہ وہ وہاں احمدیت کا مطالعہ کریں کیونکہ افریقہ میں ہماری جماعت جلد جلد پھیل رہی ہے.اسی طرح ایک پادری نے ایک کتاب میں لکھا ہے کہ پہلے ہمارا خیال تھا کہ افریقہ میں عیسائیت بہت جلد پھیل جائے گی اور باقی سب مذاہب کو کھا جائے گی لیکن اب حالت اس مالی کے برعکس ہے.افریقہ میں اسلام اس کثرت سے پھیل رہا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ عیسائیت کو کھا جائے گا.غرض احمدیت جسے اپنے اور بیگانے ابتدا میں محض کھیل سمجھتے تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس کو اتنی ترقی عطا کی کہ اس کے ذریعہ دنیا کے کونہ کونہ میں اسلام پھیل گیا.ایک دفعہ ایک نومسلم انگریز نے مجھے لکھا ایک وقت تھا کہ میں عیسائیوں کی کتابیں پڑھ کر یہ خیال کرتا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نَعُوذُ بِاللهِ مذہب کو سخت نقصان پہنچایا ہے اس لیے میں سوتے وقت بھی آپ کو گالیاں دیا کرتا تھا لیکن اب خدا تعالیٰ نے مجھ پر فضل کیا ہے اور مجھے احمدیت کی نعمت سے نوازا ہے جس کی وجہ سے میں اُس وقت تک سوتا نہیں جب تک آپ پر درود نہ بھیج لوں.جب میں بیماری کے علاج کے سلسلہ میں انگلینڈ گیا تو وہاں مجھے ایک بہت بڑے ادیب ڈسمنڈ شا ملنے کے لیے آئے.ملاقات کے بعد جب میں اپنے کمرہ میں جانے لگا تو میں نے کسی کے پاؤں کی آہٹ سنی.میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ڈسمنڈ شا میرے پیچھے آرہے تھے.میں نے کہا میں نے تو آپ کو رخصت کر دیا تھا پھر آپ میرے پیچھے کیسے آ رہے ہیں؟ انہوں نے کہا میں نے ایک بات دریافت کرنی ہے.میں نے کہا کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا اگر چہ میں عیسائی ہوں اور ابھی تک
$1959 354 خطبات محمود جلد نمبر 39 اسلام نہیں لایا لیکن جب میں اسلام کے متعلق تقریر کرتا ہوں تو میرے دل سے آواز آتی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے سب سے بڑے محسن ہیں لیکن جو لوگ عیسائی ہیں وہ یہ بات نہیں مانتے.میں نے کہا خدا تعالیٰ آپ کے دل پر نازل ہوتا ہے اُن لوگوں کے دلوں پر نازل نہیں ہوتا.جب اُن لوگوں کے دلوں پر بھی خدا تعالیٰ نازل ہونے لگ جائے گا تو وہ بھی یہ بات مان جائیں گے.اُس نے کہا اب میں یہ بات سمجھ گیا ہوں.یہ شخص بہت بڑا مصنف ہے.اس نے مجھے بتایا تھا کہ گو ایچ.جی ویلیز زیادہ مشہور ہے لیکن میری کتابیں اُس سے زیادہ پکتی ہیں اس لیے کہ میں مذہب کا مو ب ہوں اور وہ مذہب کا مخالف ہے.غرض وہ سلسلہ جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کے لوگ خیال کرتے تھے کہ یہ چند دن کا مہمان ہے اُس کے پودے دنیا کے کونہ کونہ میں لگ گئے ہیں اور اب غیر بھی ای اس کی تعریف کرتے ہیں.میرے زمانہ خلافت میں جب پیغامی مولوی محمد احسن صاحب کو ورغلا کر لاہور لے گئے اور انہوں نے کہا میں نے ہی انہیں خلیفہ بنایا تھا اور اب میں ہی انہیں معزول کرتا ہوں تو اس کی وجہ سے جماعت میں ایک جوش پیدا ہو گیا.جلسہ سالانہ کے موقع پر ان کے متعلق ایک ریزولیوشن پاس ہوا تو میں نے انہیں جماعت سے خارج کر دیا.اس موقع پر ایک دوست جو مخلص تھے مگر بات جلدی نہیں سمجھتے تھے کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے یہ بڑے بزرگ صحابی ہیں انہیں جماعت سے نہ نکالیں.اس پر میں کھڑا ہو گیا اور میں نے کہا مولوی صاحب! پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ مجھے جو خلیفہ ہوں معزول کر دیں اور مولوی محمد احسن صاحب کو جماعت میں رکھ لیں.اس پر وہ دوست کہنے لگے اچھا! اگر یہ بات ہے تو پھر نکال دیں.مولوی محمد احسن صاحب کی طبیعت بھی ایسی ہی تھی.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بسراواں کی طرف سیر کے لیے تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ کے کلام میں اور بندہ کے کلام میں بڑا فرق ہوتا ہے.آپ نے اپنا ایک الہام سنایا اور فرمایا دیکھ لو یہ بھی ایک کلام ہے اور اس کے مقابل پر حریری کا بھی کلام موجود ہے.مولوی محمد احسن صاحب نے بات کا آخری حصہ غور سے نہ سنا اور الہام کے متعلق خیال کر لیا کہ یہ تحریری کا کلام ہے اور کہنے لگے بالکل لغو ہے بالکل لغو ہے لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ تو خدا تعالیٰ کا الہام ہے تو مولوی محمد احسن صاحب
$1959 355 خطبات محمود جلد نمبر 39 کہنے لگے سُبحَانَ اللہ ! یہ کیا ہی عمدہ کلام ہے.اسی قسم کی طبیعت اس دوست کی بھی تھی.جب ریزولیوشن پاس ہوا تو وہ دوست کہنے لگے یہ پرانے صحابی ہیں انہیں جماعت سے نہ نکالا جائے.مگر جب میں نے کہا کہ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ مجھے جو خلیفہ ہوں معزول کر دیا جائے اور انہیں جماعت میں رکھ لیا جائے تو وہ کہنے لگے اچھا! پھر انہیں جماعت سے نکال دیں.تو یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جنہیں قادیان کے رہنے والے بھی نہیں جانتے تھے آپ کا نام دنیا کے ہر ملک میں پھیلا اور آج آپ کو ماننے والے دنیا کے کونہ کونہ میں پائے جاتے ہیں.قادیان میں ایک سکھ میرے پاس آیا اور کہنے لگا آپ کے تایا مرزا غلام قادر صاحب تو بہت مشہور تھے اور ایک بڑے عہدہ پر فائز تھے لیکن مرزا غلام احمد صاحب غیر معروف تھے.انہیں کوئی جانتا نہیں تھا.میرے والد ایک دفعہ مرزا غلام مرتضی صاحب کے پاس گئے اور کہنے لگے سنا ہے آپ کا ایک اور بیٹا بھی ہے وہ کہاں ہے؟ انہوں نے کہا وہ تو سارا دن مسجد میں پڑا رہتا ہے اور قرآن پڑھتا رہتا ہے.مجھے اس کا بڑا فکر ہے کہ وہ کھائے گا کہاں سے؟ تم اُس کے پاس جاؤ اور اُسے سمجھاؤ کہ دنیا کا بھی کچھ فکر کرو.میں چاہتا ہوں کہ وہ کوئی نوکری کرلے لیکن جب بھی میں اُس کے لیے کسی نوکری کا انتظام کرتا ہوں وہ انکار کر دیتا ہے.چنانچہ میرے والد گئے اور بڑے مرزا صاحب کی بات ان کو پہنچائی.وہ کہنے لگے والد صاحب کو تو یو نہی فکر گی ہوئی ہے میں نے دنیا کی نوکریوں کو کیا کرنا ہے، آپ ان کے پاس جائیں اور انہیں کہہ دیں کہ میں نے جس کا نوکر ہونا تھا ہو گیا تو میں نے جس کا ہوں.مجھے آدمیوں کی نوکریوں کی ضرورت نہیں.اس سکھ پر اس بات کا اس قدر اثر تھا کہ جب بھی وہ آپ کا ذکر کیا کرتا تو اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگ جاتے.ایک دفعہ وہ چھوٹی مسجد میں آیا اور میرے پاس آ کر چیچنیں مار کر رونے لگی گیا.میں نے کہا کیا بات ہوئی؟ وہ کہنے لگا آج مجھ پر بڑا ظلم ہوا ہے.میں آج بہشتی مقبرہ گیا تھا.جب میں مرزا صاحب کے مزار پر جا کر سجدہ کرنے لگا تو ایک احمدی نے مجھے اس سے منع کر دیا حالانکہ اُس کا مذہب اور ہے اور میرا مذہب اور ہے.اگر احمدی قبروں کو سجدہ نہیں کرتے تو نہ کریں لیکن میں تو سکھ ہوں اور ہم سجدہ کر لیتے ہیں.پھر اُس نے مجھے منع کیوں کیا ؟ غرض آپ بالکل خلوت نشیں تھے اور جولوگ آپ کے واقف تھے اُن پر آپ کی عبادت اور زہد کا اتنا اثر تھا کہ وہ باوجود غیر مسلم ہونے کے
خطبات محمود جلد نمبر 39 وفات کے بعد بھی آپ کے مزار پر آتے رہے.356 $1959 جس طرح مولوی محمد احسن صاحب نے لاہور جا کر میرے متعلق کہا تھا کہ میں نے ہی انہیں کی خلیفہ بنایا ہے اور اب میں ہی انہیں معزول کرتا ہوں اسی قسم کی بات مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق کہی تھی.دعو ی سے پہلے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے بڑے مداح تھے لیکن جب آپ نے دعوی کیا تو مخالف ہو گئے اور کہنے لگے میں نے ہی مرزا صاحب کو بڑھایا تھا اور اب میں ہی انہیں نیچے گراؤں گا.چنانچہ وہ تمام عمر آپ کے خلاف پروپیگنڈا کرنے اور لوگوں کو آپ کے پاس آنے سے روکنے کی کوشش کرتے رہے مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں نا کام رکھا.پیرا نامی ایک پہاڑ یہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بطور خدمت گار رہتا تھا.اُسے گنٹھیا کی بیماری تھی، اُس کے رشتہ داروں کو علم ہوا کہ قادیان میں مفت علاج ہوتا ہے تو وہ اُسے اُٹھاتی کر قادیان لے آئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس کا علاج کیا اور جب وہ تندرست ہوا تو آپ کی خدمت میں ہی رہنے لگ گیا اور اپنے وطن واپس نہ گیا.وہ شخص اتنا اُجڑ تھا کہ دو چار آنے لے کر دال میں مٹی کا تیل ملا کر پی لیا کرتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسے کبھی کبھی بٹالہ پلٹی چھڑانے کے لیے بھیج دیا کرتے تھے اور بٹالہ سٹیشن پر روزانہ مولوی محمد حسین صاحب اس لیے جایا کرتے تھے کہ جو لوگ قادیان جارہے ہوں انہیں ورغلانے کی کوشش کریں.ایک دن اتفاق ایسا ہوا که مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی کو قادیان جانے والا کوئی شخص نہ ملا.انہوں نے پیرے کو ہی پکڑ لیا اور کہنے لگے پیرے! کیا تیری عقل ماری گئی ہے؟ تو مرزا صاحب کے پاس کیوں بیٹھا ہے؟ وہ تو جھوٹا ہی آدمی ہے.پیرا کہنے لگا مولوی صاحب! میں تو جاہل ہوں اور پڑھا لکھا نہیں لیکن ایک بات جانتا ہوں اور وہ یہ کہ مرزا صاحب اپنے گھر میں بیٹھے رہتے ہیں اور لوگ آپ سے ملنے کے لیے دور دور سے آتے ہیں.بعض دفعہ وہ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں یا مجھے ابھی فرصت نہیں اور لوگ پھر بھی آپ کے دروازہ کو نہیں چھوڑتے.دوسری طرف میں دیکھتا ہوں کہ آپ روزانہ یہاں آ کر لوگوں کو قادیان جانے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور شاید اس کوشش میں آپ کی جوتیاں بھی گھس کی گئی ہوں گی مگر لوگ پھر بھی قادیان جاتے ہیں.اس سے میں سمجھتا ہوں کہ مرزا صاحب ضرور سچے
$1959 357 خطبات محمود جلد نمبر 39 اور راستباز ہیں.تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو خود بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دوست تھے اور ان کے والد بھی آپ کے دوست تھے انہوں نے بھی کہا تھا کہ میں نے اس تی شخص کو بڑھایا ہے اور اب میں ہی اس کو نیچے گراؤں گا لیکن خدا تعالیٰ نے اُس کے نام کوتو مٹا دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام کو دنیا میں پھیلا دیا.بعد میں اُس کا ایک بیٹا آریہ ہو گیا تھا.میں نے اُسے قادیان بلایا اور اُسے دوبارہ مسلمان کیا.مولوی محمد حسین صاحب نے شکریہ کا خط بھی مجھے لکھا.تو جماعت کانٹوں پر سے گزرتی ہوئی اپنی اس حیثیت کو پہنچی ہے اور یہ چیز بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اس کے شامل حال ہے لیکن اس فضل کو دائمی طور پر حاصل کرنے کے لیے جماعت کو ہمیشہ دعاؤں میں لگے رہنا چاہیے.بیشک دنیا کی نظروں میں ہم نے عظیم الشان کام کیا ہے لیکن ہمارا کام ابھی بہت باقی ہے.ہم نے ساری دنیا کو مسلمان بنانا ہے اور یہ کام بہت کٹھن ہے.اللہ تعالیٰ ہے ہے جو ہماری زندگی میں ہمیں وہ دن دکھائے جب یہ کام پورا ہو جائے اور ساری دنیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے.اور اسلام امریکہ میں بھی پھیل جائے ، یورپ میں بھی پھیل جائے ، روس میں بھی پھیل جائے ، چین میں بھی پھیل جائے ، ہندوستان میں بھی پھیل جائے.دلوں کا پھیر نا اُسی کا کام ہے کسی انسان کا کام نہیں.اس لیے ہمیں خدا تعالیٰ کے حضور ہی جھکنا چاہیے اور اُس سے مددطلب کرنی چاہیے کیونکہ مشکلات کو آسان کرنا اُسی کا کام ہے“.1 : تذکرہ صفحہ 39 ایڈیشن چہارم 2004 ء 66 (الفضل 30 مئی 1959ء)
$1959 358 44) خطبات محمود جلد نمبر 39 جمعہ اور مجلس شورای کے اجتماع کی برکتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ دُعائیں کرو مجلس شوری میں نمائندگی ایک بہت بڑا اعزاز ہے اس میں شمولیت خاص اہمیت رکھتی ہے (فرموده 17 اپریل 1959 ء بمقام ربوہ ) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: کراچی جانے سے پہلے تو میں خود سیڑھیوں سے اتر کر نماز کے لیے آ جاتا تھا لیکن سفر میں جو موٹر کا حادثہ پیش آیا تو اس کے نتیجہ میں وجع المفاصل کی ایسی تکلیف شروع ہوئی جس کی وجہ سے میں ابھی چل پھر نہیں سکتا مگر پھر بھی میں کرسی پر بیٹھ کر آ گیا ہوں اور آج چونکہ شوری ہے اس لیے نماز جمع ہوگی.کوشش کروں گا کہ جتنی دیر بیٹھا جاسکے وہاں بیٹھوں.گو جسم کا ضعف ہے اس کی وجہ سے میرے لیے زیادہ دیر بیٹھنا مشکل ہے.وجع المفاصل کے سلسلہ میں جو دوائیاں کھائی جاتی ہیں مثلاً اے.پی سی وغیرہ وہ چونکہ ضعف پیدا کرنے والی ہوتی ہیں اس لیے مجھ سے زیادہ دیر تک بیٹھا نہیں جاسکتا.جمعہ کے لیے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جب اس کی اذان سنو تو اپنے تمام کاموں کو بند کرتے ہوئے ذکر الہی کے لیے مسجد کی طرف چل پڑو.1 اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ جمعہ
$1959 359 خطبات محمود جلد نمبر 39 کی اسلام میں کتنی بڑی اہمیت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جمعہ میں تمام محلہ یا گاؤں کے لوگ جمع ہوتے ہیں مگر ہماری شورای تو ایسی ہے جس میں سارے ملک کے لوگ جمع ہوتے ہیں.اس لیے ان دنوں میں اور بھی زیادہ ذکر الہی کی ضرورت ہے.ہم نے ان دنوں سارے سال کے لیے پروگرام بنانا ہوتا.تا ہے اور یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ آئندہ سال ہم نے کس طرح اسلام کی خدمت کرنی ہے اور غیر ممالک میں کس طرح ذکر الہی بلند کرنے کے لیے مساجد تعمیر کرنی ہیں اور کس طرح اسلام کے دوسرے اداروں کو ترقی دینی ہے.پس دوستوں کو چاہیے کہ جمعہ اور شورای کے اجتماع کی برکتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ دُعاؤں پر زور دیں، جمعہ کے موقع پر بھی اور جمعہ کے بعد بھی ، شوری کے موقع پر بھی اور شورای کے بعد بھی.پچھلے سال بعض دوستوں سے غلطی سرزد ہوئی تھی اور وہ شوری سے بغیر اجازت حاصل کیے ادھر اُدھر چلے گئے تھے.امید ہے کہ اس سال اُن سے یہ غلطی نہیں ہوگی.پچھلے سال مجھے رائے لیتے وقت معلوم ہوا کہ جتنے نمائندوں کو دفتر کی طرف سے ٹکٹ جاری ہوئے تھے اجتماع میں اُس تعداد سے چھ نمائندے کم ہیں حالانکہ پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا بلکہ قادیان میں جب سے میں نے شورای شروع کی ہے کئی دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ شوری شروع ہونے سے قبل جتنے نمائندوں کو ٹکٹ جاری کیے جاتے تھے رائے لیتے وقت تعداد اُس تعداد سے بڑھ جاتی تھی.اور اس کی وجہ یہ ہوتی تھی کہ کچھ لوگ بعد میں آکر ٹکٹ لے لیتے تھے.مگر پچھلے سال دوستوں نے غفلت سے کام لیا اور مختلف عذرات کی وجہ سے اٹھ کر چلے گئے.جب رائے شماری کی گئی تو جتنے لوگوں کو ٹکٹ جاری کیا گیا تھا چھ نمائندے اُن سے کم نکلے.دوستوں کو آئندہ اس قسم کی غلطی کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے.مجلس شوری میں شمولیت تو ایسی چیز ہے کہ دوست اس پر جتنا بھی فخر کر سکیں کم ہے.ہم تو دیکھتے ہیں کہ دنیوی پارلیمنٹوں کے ممبر بھی اجلاس میں سے باہر نہیں جا سکتے.چنانچہ انگلستان کی پارلیمنٹ کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر کوئی ممبر کسی ضروری کام کی وجہ سے اجلاس سے باہر جانا چاہے تو وہ اس وقت تک باہر نہیں جا سکتا جب تک کہ وہ حزب مخالف کا ایک آدمی بھی اپنے ساتھ نہ لے جائے.ہمارے ہاں تو چونکہ کوئی فریق مخالف ہوتا ہی نہیں اس لیے اس قانون کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارا کوئی ممبر اجلاس سے باہر جاہی نہیں سکتا.بہر حال جب دنیا کی انجمنوں میں اتنی سختی کی جاتی ہے تو جو انجمنیں
$1959 360 خطبات محمود جلد نمبر 39 دین کی خدمت کے لیے بنائی جاتی ہیں ان میں تو بہت زیادہ قواعد کا احترام ہونا چاہیے اور ان میں شمولیت کو بہت زیادہ اہم سمجھنا چاہیے.در حقیقت اس شوری کی ممبری دنیا کی کئی بادشاہتوں سے بھی بڑی ہے اور جس کو شوری کی ممبری نصیب ہو جاتی ہے وہ دنیا کے کئی بادشاہوں سے بھی زیادہ عزت حاصل کر لیتا ہے کیونکہ شوری کے ممبروں کو یہ بھی اختیار دیا گیا ہے کہ وہ آئندہ خلیفہ کا انتخاب کریں.گو اس کی نمائندگی کے قواعد مختلف ہیں.دیکھ لو حضرت مسیح ناصرتی اگر چہ مسیح محمدی سے چھوٹے تھے مگر عیسائیوں میں پوپ کا اتنا احترام پایا جاتا ہے کہ نپولین جیسا بادشاہ جس نے دنیا کا ایک بڑا حصہ فتح کر لیا تھا اور جس نے روس جیسے ملک کے اکثر حصہ کو بھی فتح کر لیا تھا ، جس سے بعد میں ہٹلر ہار گیا، ایک دفعہ اُس کو لوگوں نے مشورہ دیا کہ پوپ کو بلواؤ.جب پوپ آیا تو قاعدہ کے لحاظ سے چاہیے تھا کہ پوپ بادشاہ سے مقدم ہوتا مگر نپولین کو اپنی عزت بڑھانے کا بڑا خیال رہتا تھا اُس نے ہدایت دے دی کہ موٹر عین درمیان میں کھڑا کر دینا.جب موٹر آیا تو نپولین نے چاہا کہ اس میں پہلے بیٹھ جائے لیکن پوپ نے بھی ہوشیاری کی اور وہ دوڑ کر دوسری طرف چلا گیا اور جب نپولین نے بیٹھنے کے لیے دروازہ کھولا تو دوسری طرف سے پوپ اس میں داخل ہو رہا تھا.اس طرح نپولین پوپ سے پہلے تو نہ بیٹھ سکا مگر اُس نے اسی کو غنیمت سمجھا کہ وہ کم از کم پوپ کے برابر تو رہا ہے.غرض شورای کی ممبری بادشاہوں سے ہی نہیں بلکہ شہنشاہوں کی عزت اور مرتبہ سے بھی بڑھ کر ہے اس لیے دوستوں کو یہ فخر ضائع نہیں کرنا چاہیے.اور چاہے جان چلی جائے انہیں اجلاس میں حاضر ہونے اور اس سے فائدہ حاصل کرنے میں کو تا ہی نہیں کرنی چاہیے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس عظیم الشان نعمت سے جو اُس نے تیرہ سو سال کے بعد دوبارہ مسلمانوں کو عطا فرمائی ہے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کا زیادہ سے زیادہ شکر یہ ادا کریں تا کہ وہ دنیا میں بھی عزت حاصل کریں اور آخرت میں بھی انہیں عزت حاصل ہو.( الفضل 10 مئی 1959ء) 1: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلى ذِكْرِ اللهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ) ( الجمعة : 10)
3 6 7 8 15 20 1 انڈیکس مرتبہ : مکرم فضل احمد شاہد صاحب 1- آیات قرآنیہ 2.احادیث نبویہ 3.الہامات حضرت مسیح موعود 4.اسماء 5.مقامات 6.کتابیات
140 161 الفاتحة الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (2) آیات قرآنیہ فَاسْتَبِقُو الْخَيْرَاتِ وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ (149) 282 وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي 42 دينا (86) النساء الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (187) 49 يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ (3) 283 يُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ (47) ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ (187) خُذُوا حِدْرَكُمْ 130 (103) (4) إِيَّاكَ نَعْبُدُ (5) 283 لَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى 288 إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (5) 275 اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ (6) 288.275 التَّهْلُكَةِ (196) 291 | المائدة رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ (202) مَتَى نَصْرُ اللَّهِ (215) (3) 218 تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ (3) 35 291 331 160.23 325 252 عَلَيْهِمْ (7) 289 آل عمران البقرة يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا إنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ بِالْعُقُودِ صِبْغَةَ اللهِ (137) 128 (20) وَلِكُلِّ وَجْهَةٌ (2) 139.31 قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ الله وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَا (46) 128 (32) 82 (149)
282 78 فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ بنی اسرائیل كُلًّا تُمِدُ هَؤُلَاءِ الْغَالِبُونَ (57) (36) 185 174 (21) الانعام الكهف أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْأَرْضِ فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا (78) 339 (7) 30 (91) الانفال وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ يوسف لا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ كَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَوةِ 237.200 317.194 (56) 283 209.95 (93) فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ الانبياء ينَارُ كُونِي بَرُدًا (70) 323 154 (102) الحجر (25) وَإِذْ يُرِيكُمُوهُمُ (45) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لقِيتُمُ (46) 152.70 فَإِنْ يَّكُنُ مِنْكُمْ مِائَةٌ وَلَا تَنَازَعُوا (47) 71 سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي (88) الحج 281 يَأْتُوكَ رِجَالًا (28) 230 (67) 196 النحل إِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ ثُمَّ اَوْحَيْنَا إِلَيْكَ 132 259 (48) 123 (124) التوبة اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا (79.78) 56.46 (129) 85 وَرُهْبَانَهُمْ (31)
5 النور الاحزاب الحديد وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ بِأَنَّ لَهُمُ هُوَ الْاَوَّلُ وَالْآخِرُ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّبِعُوا (22) إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا (49.48) 202 إِنَّ اللَّهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ (4) 184 208 297 242 الجمعة (57) 149 119 إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ الزمر (10) لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ الناس اله النَّاسِ (4) 83 83 120 256 209 (4) (32) اللهُ نُورُ السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ (36) الفرقان الزخرف وَ قَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ افَنَضْرِبُ عَنْكُمْ (6) 100 (31) العنكبوت الواقعة وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ (79.78) 116 (70)
6 احادیث کیا میں اس کا شکریہ بیٹھ جاؤ ادانہ کروں 57 تجھے میرے ہاتھ سے کون 144 اسْتَفْتِ قَلْبَكَ 260 میں خدا کے فضل سے بچا سکتا ہے 250،193،182 أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ 134 بخشا جاؤں گا 69،57 | اشرفی کیوں واپس ل کر رہے ہو 183 تم نے میری عیادت نہیں کی 68 گانا بجانا شیطان کے قرآن آسمان پر چلا جائے گا 80 لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ 106 ذرائع ہیں دوزخ سال میں دو دفعہ لَبَّيْكَ نُصِرْتَ 101 سانس لیتا ہے خدا بلال کے 227.98 100 اسهد کہنے پر خوش دجال پانی برسائے گا احادیث المعنی استفادہ کر لیا کرو ابوبکر نماز پڑھا دیں 31 202 214 242 خزاعہ کا وفد میرے پاس آیا 101 اگر کسی کو خلیل بنانا جائز ہوتا 261 جو اپنے گھر کے دروازے اگر کسی مومن کے بھائی کو تکلیف پہنچے انسان خدا کی عبادت ایسے 36 رنگ میں کرے 59،51،46 بند کرے گا یہ آخری ہجرت ہے 104 جیسی کسی کی نیت ہوگی ابو سفیان کیا وقت نہیں آیا 104 مجھے خدا نے اس کی اجازت اے مکہ کے لوگو تمھیں یاد ہے 105 نہیں دی صبح اور عصر کی نماز میں ملائکہ تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے 118 میں یہ سن کر کانپ گیا اکٹھے ہوتے ہیں خدا آسمان سے اترتا ہے 277 279 283 285 50 اللہ تعالیٰ کے دل میں تڑپ 130 اگر یہ مختصر گروہ ہلاک ہو گیا 305 50 مہمانی تین دن 132 میری طرف سے طلاق عورتوں کی طرف جاؤ 57 | شیبہ ادھر آؤ 327 135 | آپ کو تھپڑ مارنے کا حق نہیں 334
7 عربی الہامات الہامات حضرت مسیح موعود ی يَأْتِي عَلَيْكَ زَمَنٌ أنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ تَوْحِيْدِى يَنْصُرُكَ رِجَالٌ اردو الہامات بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت 197، 205 | ڈھونڈیں گے پاس ہو جائے گا 247 ،350 | میں تیری تبلیغ کو...113 نُوحِي إِلَيْهِمُ 342 224 180
آدم علیہ السلام - حضرت 322-289.244.121 ابور ویچہ اسماء 104 امام الدین مولوی 247 ابوسفیان.حضرت 101 تا 104 امتہ الحی ( حرم حضرت مصلح موعود ) 284.277 311.132 ابو عبیدہ - حضرت 108 ، 157 | ام حبیبہ - حضرت 284،102 ابراہیم علیہ السلام.حضرت ابو محمد یزیدی ابو العباس احمد بن حسین 126 123.121.84.30 244 232 230 <194 320 318 317.289 329.328.322 78 79 ام طاہر.حضرت سیدہ احسن بیگ مرزا 64 امیرحسین قاضی اسامہ.حضرت 262 | امین الدین میاں اسحاق علیہ السلام.حضرت ایاز 121،30 ایلیا ابوالعطاء حضرت مولانا 6 اسحاق موسوی 158 ایوب علیہ السلام حضرت 223 6 185 169 121 30 156 ابو المنصور تقلبی 78 اسلم بیگ مرزا 64 ایوب انصاری حضرت ابوبکر حضرت 53، 58 ، اسماعیل علیہ السلام - حضرت $214.169.134.106.59 262260 221-219.237،230،200،30، برک.مسٹر 222 328 329 برکت علی خان ڈپٹی 321 322 333،283 334 اعجاز الحق ڈاکٹر 332 333 برہان الدین.مولوی 334،333،283، ابوبکر.یوسف سیٹھ 231 ، 233 اعظم بیگ مرزا 64 65 | بزاز 107،90 ، 154 ، افضل بیگ مرزا 65 بشیر احمد حضرت مرزا ابو جہل 155، 157 ، 169، 266 تا اکبر شاہ نجیب آبادی 298 299 268، 284، 285، 352 اکرم بیگ مرزا 65 66 بلال - حضرت ابو حنیفہ.حضرت امام 234 الیاس علیہ السلام - حضرت 30 ابوخراس 253 256 امام الدین مرزا |78 286، بہادرشاہ 352،351 | بھار گوا.ڈاکٹر 6 164 271.255.105.104 214-213 203 311
, 9 حباب 110 داؤد علیہ السلام.حضرت حز قیل علیہ السلام.حضرت 244.218.30 121 ، 289 دھرم پال 320.318 حسن.حضرت امام $219 353.113.186 239 299.254 137.136 308 356 62 حسن علی بھاگلپوری مولوی 7،6 ڈسمنڈشا حسین.حضرت امام 28 31 ڈگلس 187 299.219 218.206.32 حشمت اللہ.حضرت ڈاکٹر ز ذوالفقار علی خاں نواب 222.63.91089 268.267.93 244 حمزہ.حضرت 352 53.52 پطرس پنجابی.مسٹر پیرا تائی ٹائن بی ٹیپوسلطان ثناء اللہ مولوی 124 で جلال الدین شمس.حضرت مولانا جمال الدین خان نواب 191 چٹو میاں چراغ بی بی چندریگر چ حوا خ رحمت الله شیخ 12.8 رستم علی چودھری 10، 213،11 رفیع احمد.مرزا صاحب زادہ 175 خالد بن ولید.حضرت 33 روشن علی.حضرت حافظ 6 125 156.109.108.105 284 خالد رئیس بھوپال 189، 191 روم مولانا ز.خورشید بیگم اہلیہ مرزا سلطان احمد زکریا علیہ السلام - حضرت 9 351 | حضرت 186-185 352 زین العابدین 13 289.30 32.28
10 زینب حضرت س 32 32 ظ ظفر علی خان مولوی سرورشاہ حضرت مولوی سعدی شیخ سکارنو.ڈاکٹر 64.6 60.17.13 211.178 سلطان احمد (حضرت مرزا) عبدالقادر پروفیسر 6 عبدالقادر جیلانی سید 124، 125 15 عبد القادر مولوی عبدالکریم سیالکوٹی.حضرت 99 مولانا 147.9 ع عبد اللطیف.شہید حضرت سید 9 224،194،64،63،61، عائشہ حضرت 54، 111،69 عبد الله 352.319 148.112 عبداللہ پروفیسر سلطان محمود غزنوی 169 عباس - حضرت 103 104 ، عبد اللہ بن ابی سلیمان علیہ السلام.حضرت 30 عبد اللہ بن سبا سلیمان بن عبد الملک 74 ، 75 عباس بن حسن 277.158 79 110 9.8 110 $205 221.217.206 ش عبدالحکیم پٹیالوی 172 عبد الله بن عباس حضرت 157 عبداللہ شافعی.امام شیلی 256 125 شرمیت.لالہ 286 شعیب علیہ السلام - حضرت 328 شکر الہی مبلغ شوکت علی مولانا شیبه شیر محمد میاں 346 312.311 135 276 عبدالحی مولوی (فرنگی محل) 126 عبد اللہ خان چودھری عبدالرحمان حاجی 26 عبداللہ خان نواب عبدالرحمان بن ابی بکر 106،54 عبد الماجد دریا آبادی عبد الرحمان بن عوف 285 | عبدالمطلب.حضرت عبدالرحیم درد.حضرت مولانا عبد الرحمان سیٹھ مدراسی 10 عبداحی - عرب عبدالوہاب 231 234.233 238.224 عثمان - حضرت 205 206 ، عبدالرحیم نیر.حضرت مولوی عبدالستار کیتی صدر الدین مولوی 12 | عبدالستار مولوی صلاح الدین ایوبی 204 | عبدالغفور 171 189 126 318 عزی عکرمہ حضرت 107 تا 109، 297-221.218.214 85.84 38 293 34 135 352-285-266.157
11 علی.حضرت 148 147.133.131 102.72 277،218،206 151، 161 ، 169 ، 170 ، فرزند علی مولوی 350 351 172 ، 180 ، 186 تا 189، فرید الدین شکر گنج " علی شیر مرزا 193، 194 ، 197 تا 199 ، فرینک ڈگلس 205، 217، 219، 221، فضل بن عباس عمر حضرت 236 234 224 222 103.58 260 219 111 108 276 266 265.262 283 6 عمر بن عبد العزیز - حضرت 75 عیسی علیہ السلام.حضرت 240، 242 ، 247، 248، فضل دین مولوی 253، 255، 264، 271، فضل کریم ڈاکٹر 286،281،278، 287، فیروز خان نون 318 تا 321، 323، 342، قاسم جنرل ق 314.310 236 215 166 $109 158.157 77 66 185 335 350 تا 352 ، 354 تا 357، قدرت اللہ سنوری مولوی 300 315.303.300 298 360 6 242 187 85.55.31 30 121 114 113.98.87 161.137135.124 218 215.187.162 $289.264.244.242 360.336-322 غلام احمد شیخ غلام حسین ہدایت اللہ کرشن مهاشه غلام حیدر غ غلام رسول حافظ وزیر آبادی 66 کرم دین تھیں کسرای غلام احمد قادیانی.غلام عباس.چودھری غلام قادر مرزا 162 355.62 حضرت مرزا مسیح موعود علیہ السلام کسائی کمال الدین خواجہ 21 19.11 07 104.33 312 193 156.104 79.11.8 333.193.172 ⚫166164 312308 346.342 25، 27، 28، 34،31 ، 50 ، فاروق شاہ 106، 220 | گاندھی 52، 61،59 تا 65، 75 ، 77، فاطمہ حضرت $268.265-197 98، 99، 112 ، 113 ، 122 ، فرعون
12 129 ،135 131 ،134، 135 تا 137 ، محمد حسین قریشی گوتم بدھ گریفن مسٹر ل لال جی دال جی لوتھر لوط علیہ السلام.حضرت 224 140 تا 148، 151، 156، (موجد مفرح عنبری) 10 178 121.30 لیکھرام 322،321،319 لیمار چنڈ 321319 157، 168، 180 تا 183، محمد سعید کیپٹن 192 ، 193، 197، 200، محمد شاہ رنگیلا 202، 214، 219، 220 ، محمد صادق حضرت مفتی 225 ، 227، 230 ، 232 محمد ظفر اللہ خان - حضرت سر 9 39 203 318 249، 250، 253 تا 257، چودھری 310،211،26،16 260 تا 264، 266 تا 268، محمد ظہور الدین اکمل قاضی 247 282 279 277 276 300297289.285 326 322306.305 357.354.334.329 محمد عبد اللہ ڈاکٹر محمد عبد اللہ شیخ (شیر کشمیر) 286 310.167.164 محمد علی جو ہر مولانا 311،165 مارٹن کلارک مالک.حضرت امام 194-186 171 مبارکہ بیگم حضرت سیدہ 223.222 محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (حضرت خاتم الانبیاء) 8، 9، محمد ابراہیم.سیالکوٹی مولوی محمد احسن مولوی 190-189 356.354 محمد احمد مولوی بھوپال والے 190-189 محمد محمد علی جناح.قائد اعظم 311 محمد علی خان.حضرت نواب 239.210.193 محمد علی.مولوی ( پیغامی لیڈر ).172.73.72.12.11 207.206 321.99 126 محمد اسماعیل ڈاکٹر گوریانی 25 محمدعمر حکیم محمد اسماعیل مولوی چٹھی مسیح والے محمد قاسم نانوتوی مولانا 36.33 30.28.19.18 58.57.54.53.50.46 92 89.85.81.80.69 293 محمد یعقوب مولوی (زود نویس) 79 محمد بن قاسم 73 تا 76 محمود احمد.حضرت مرزا بشیر الدین.مصلح موعود 98 تا 108 ، 110 تا 114 ، محمد حسین بٹالوی.مولوی 187 ء.18.11 63.62.5351.44.40|357.356.188 130 121 119-117
171 13 67، 75 ، 77، 79 ، 98، 99 ، معین الدین چشتی " حضرت خواجہ نذیر احمد علی مولوی نصرت جہاں بیگم (حضرت اماں جان) 215.210.209 126 125 114.113 133.132.129.128 165 151 150 144 189.188.176-166 206.198.194.193 ممتاز دولتانه 185 موسی علیہ السلام - حضرت 30 سید 31، 84،77، 121 ، 136، نظام الدین اولیاء 222 219.215.210 137، 197 ، 198 ، 205، نظام الدین.مرزا 219 148 147.133 190 215 286.61 234 231 228.224 314 310 289 268 244 243 238.237 295 293 249.248 311308.3040302 351 321 318.313 66 مختار احمد شیخ 253، 260، 264، 265، نوح علیہ السلام حضرت 121 ، 333،328،322، نورالحق ابوالمنیر 322.289 79 متی میر درد.حضرت خواجہ میمونہ.حضرت مرد ولا سارا بائی 308،164، ن مروان مریم علیہا السلام - حضرت مستعصم باللہ مسولینی 309 206.205 نازلی.ملکہ ناصر.جنرل ناصر احمد شیخ نور محمد 135.85 203 166 ناصر نواب.حضرت میر (نانا نہرو جان) 190، 231، 233 ، 350 نیک محمد خان 60 219 59.58.25.13 101 182.172.148.147 236 206.198.188 298.288286.248 346.342 333320318.300 295 351 213 309.166 165 313.310 299.298 نورالدین.حضرت مولوی خلیفہ اول 224 177 66 360 | ولنگڈن مظفر الدین چودھری 222 ناظم الدین.خواجہ معاویہؓ.حضرت 284،72 نبی بخش نپولین
ولید بن عبد الملک ولی اللہ شاہ محدث ولیم میور ویلز.ایچ.جی 14 74 ہلاکو خان 156 ،158، یعقوب علیہ السلام - حضرت 161 335.334.203.180 121.30 143 | ہیڈ لے.لارڈ 171 یعقوب علی شیخ.حضرت عرفانی 354 ی یحیی علیہ السلام.حضرت 136،30 در میاه 289.30 289.121 217.74.32.31.28 157.156 يسعياه 1360.335 333-318.188.63 243 علیہ السلام.حضرت 30 323.121.106 30 یونس علیہ السلام.حضرت 30 ہارون علیہ السلام.حضرت هامان ہٹلر
15 مقامات 177.6.5 354 47.43 206.158.156 335.334.287.180.213.191 311.233.232 42.4 64 314.40.38 349.341 191.189 25 20 ،32، بمبئی 346،271 بنگال 27 ، 87 ، بوندی 167 163 162 118 برٹش گی آنا 177 ، 180 تا 183، 210 تا بسراواں آرمینیا آسٹریا آکسفورڈ 156 335 353 212، 242، 269 تا 271، بشیر آباد 290، 335 336 ، 340، بصره 357،346،342 | بغداد اٹلی 87،47،20، اندلس 204 انڈونیشیا 215.166 209 212 211.177175 43 انگلستان 338 211 163 ، 166، 167، 177، بہار 179، 242، 290، 313، بہاولپور 64 66.32.6.5 اجمیر احمد آباد احمد نگر اسرائیل اعظم آباد افریقہ 359.353.346 232 171 170.76 15.6.5.3 پاکستان 180.111 215.211.209 144.125 اوکاڑہ 40 بھوپال 228،40،39 | بھیرہ ایبٹ آباد ایران 342.301.2710269 353.346 298 203 ایشیا 118.42.34.20.18.16 164162 158.140 197 178 176.167 26 $147.66 224.187.186 5 ، 6 ، 15 ، باندھی افغانستان اللہ آباد امرتسر امریکہ 249.244.237.213 356.300.198 20، 35،32، 47، 48، 112، بٹالہ
75 $204.193 311.309 177.6.5 243 16 269، 307 تا 310، 313، جرمنی $87.20.15 177 تا 335،290،179 ، مشق دہلی ڈچ گی آنا ڈلہوزی 346 237 338.186 185 98 15 65 $187.39 را جپوره راولپنڈی 40 40 209 350 228.207 341.339.310 56.4138.23.1 ربوه 125.27.20 198 150 97.76.70 357.156 232 228.216.199 240 236 235.234 270 259.252.246 199 281 279 278 273 107 302 297 293 291 221 331 317 307 303 38.26.17 344 341 338.337 358.346 282 167.163.125 روس 38 290.242.183180 جھنگ جیکب آباد جينوا 346.345 38 16.11.2 پشاور 299.298.42.41.39 185.171.3.2 پنجاب 223 222 211‹186 314 311.274 335 پولینڈ ہونا 243 | چیچہ وطنی پھگواڑا 276 چک سکندر ترکی 156 چنیوٹ تھر پارکر 17 چین تونس 74 ٹانگانیکا ٹرینیڈاڈ 170.5 346.177.5 26.16 حافظ آباد جبشه حصار ج جابه حیدر آباد $79.51.30 خ 304،271 | خیبر جاپان 125،47 | خیر پور جده 231.190
177 $156.125 265-211 17 فلپائن ش فلسطين $211.125.74 شام 336 335 315 314 360.357.155.72.15 روم 313.295 266 262 180.164.158.156 321 286 266 215.181 ز زیورچ.زیورک 213.15 شاہ جہانپور شاہدرہ شملہ سپین 73 ، 177 شورکوٹ.30.127 ق 64 | قادیان 150 148 124.66.65 $238.224 234 198 188 187 311 271269.255.236 40 294 293 286.273 سربیا سرحد گودھا 335 298.4139 338.267.210 ع عراق سلی 73 | عرب سکنڈے نیویا 181.156.155.111 346 310307 300.298 319 315 313.312 179.156 355 352 350.331 105.72.35.9 359.357 سندھ 277-262232.231 43.41.26 44، 46، 73 تا 75، 199، عرفات 348 345 339.242 قططنیه 232 | قندھار غ 6.5 غانا 156 298 سوئٹزرلینڈ سوات سہارنپور 346.177 233 203 کامل کانپور 177،87،20 | کانگڑہ سیالکوٹ 199، 243،216 فرانس 177،6،5 | كبير والا 6،5 فرنچ گی آنا سیرالیون سیلون 271 | فرنگی محل فرینکفورٹ 126 15 64 203 223 40 کراچی 34،29،16،2، 235.51.42.40038
211.206 204.156 351 295 233 231.221 47 18 17.90.84.83.35 301 358،302 الدھیانہ 214،32،31 لطیف نگر 163.162.64 الکھنو 9، 125 مظفر گڑھ 171،113،15، مکہ 308،224،167 تا 310 | لنڈن کربلا 107104 102 101 274.211.210 189.163.155.134 231 220 213.190 271 277.269 265.234 47.43 284282.278 46.43 177 <40.38.26 ملایا ملتان 6 $75.19 ماریشس محمد آباد محمود آباد مدراس مدینہ منورہ 248.203 222 239.238 206.147 5 20 341.205.203.74 351.350 110 108 102 101 کلکتہ کلو گنج پوره کوفه کیفیا کینیڈا گجرات 222 40 232 192190 203 40 188 منالی اختگری منی میرٹھ میاں چنوں میسور 181.143.142.111 گورداسپور 286،186،11 220.214.206.192 250 249.234.233 341.338.278 298 282 277 ‹262 44.26 299.39 $116.39 ل لائل پور لابني لاہور 7، 8، 9، مردان 88،82،66،11، 93 تا 95، مری 6.5 43 241.228.227 125 139 128 123.120.161.150.148.112 207، 212،211 ، 222، 152، 160 ، 161، 168، نائیجیریا 244، 308، 321، 332، 176 ، 235، 244، 304، ناصر آباد 321 322 | نخله 144،125،74، | ندوه 356 354 341 339
19 299.298.64 ی 313،308 ہزارہ ننکانہ صاحب $15.9 ہندوستان (بھارت) 39.38 161 298.9 یرو یوپی 47 166.163.156.147.21 39 211 209 203.167.35.32.15 15 $290 271 269.215 114.112.84.48.47 227 ‹145 144.125.118 315312.310307 15 نواب شاہ نور نگر نوشہرہ نیپلز نیویارک وینس 179.176.171.166 357 270.227.213.210 15 357.271 15 5 ہنوور بیگ ہیمبرگ 15 ، 179 یوگنڈا 346.47.17 D ہالینڈ
345 21 79.78 224 ص 299.255.254 13 143 169.13 320.318 20 کتابیات تخفه شهزاده ویلیز الف تحفہ گولڑویہ احمدیت حقیقی اسلام 21 ترک اسلام 21 21 318 صدق جدید 21 ازالہ اوہام تفسیر صغیر 79،77،34،21 | الحكم 276 تفسیر کبیر 98 فتح اسلام الفضل 24 161 | فقه اللغة تورات انجیل 162.161.136 توضیح مرام 21 کتاب البريه گلستان ل لائف آف محمد م مثنوی مولانا روم 161 21 21 21 21 21 21 نورالدین بائیل 137،136،68، 161 | ملا تمر چ چشمه معرفت 59 21 13 بدر براہین احمدیہ حصہ پنجم بوستان در ثمین پرتاپ (اخبار) 307، دعوة الامير 313،308 تا 315 دیباچہ تفسیر القرآن س تائید حق 6 سرمه چشم آریہ تحفة الملوک 21 | سیر روحانی